Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Episode 11 to Last Episode Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 13 May 2024

Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Episode 11 to Last Episode Novel

Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Episode  11 to Last Episode Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Bewafa By Sidra Sheikh Complete Short Story Novel

Novel Name: Bewafa  

Writer Name:  Sidra Sheikh

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"داد جی وہ لڑکی میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔۔بریرہ شاہ مر چکی ہے میرے لیے۔۔۔"

اس نے وہ چاۓ کی رکھی ٹرے کو ٹیبل سے نیچے پھینک دیا تھا

جب سے پشمینہ ڈبر سے گئی تھی تب سے داد جی اور باقی بڑے گھر کے مردوں کے درمیان بلاج کھڑا تھا

"تم جس طرح سے نیچے بیٹھی اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے ایسا لگ تو نہیں رہا تھا"

"چاچو اب آپ بھی یہ سوچ رہے ہیں۔۔؟ وہ پشمینہ شیخ اس رات کلب میں وکی کی گرل فرینڈ بن کر آئی تھی میں اٹریکٹ ہوا تھا۔۔۔

ون نائٹ سٹینڈ سے آگے میں نے اس لڑکی کے بارے میں تب نہیں سوچا تو اب کیا سوچوں گا۔۔؟"

بلاج کی بولڈ گفتگو نے داد جی کا منہ بھی کھول دیا تھا جنہوں نے غصے سے اپنی چھڑی زمین پر دے ماری تھی

"بلاج حمدانی۔۔۔ایک اور لفظ نے اٹریکشن تھی جو بھی تھا تم مجھے اب پشمینہ اور مہتاب کے رشتے کے آس پاس بھی دیکھائی نا دو سنا تم نے۔۔۔"

بابا سائیں۔۔۔"

داد جی کے سینے میں درد ہوئی تھی بلاج پر اونچی آواز کرکے انکے بیٹوں نے انکا ہاتھ پکڑ کر انہیں واپس بٹھا دیا تھا صوفے پہ

"داد جی۔۔۔"

"بس بلاج۔۔۔تم اب شادی شدہ ہو۔۔۔باپ بننے والے ہو تم مدیحہ کے ساتھ تمہاری اٹریکشن تمہاری محبت تمہاری خوشیاں ہونی چاہیے سنا تم نے۔۔۔

اگر تم نے اپنے داد جی سے زرا سی محبت کی ہے بلاج تو تم مجھے پشمینہ کے پاس بھی دیکھائی نا دینا۔۔۔"

بلاج ساکن کھڑا رہ گیا تھا اپنی جگہ پہ

"اگر وہ بریرہ شاہ ہوئی تو داد جی۔۔۔۔؟؟؟"

اور خاموشی چھا گئی تھی بلاج کی بات پر

"اگر وہ بریرہ شاہ ہوئی تب کیا وہ مر چکی ہے قبر پر نام نہیں پڑھا تھا۔۔؟ یا تمہارا دل مان نہیں رہا بلاج۔۔؟ آج بتا ہج دو معاملہ دشمنی سے آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔؟؟؟"

داد جی نے آخری بات بہت آہستہ سے پوچھی تھی گھر کے بڑے بزرگوں کو بلاج کی خاموشی نے پریشانی میں ڈال دیا تھا

"معاملہ ہمیشہ دشمنی سے شروع ہوا اور وہیں ختم بھی ہوگیا تھا داد جی اس سے زیادہ بریرہ شاہ کچھ نہیں تھی۔۔۔"

وہ آج بھی ویسے ہی للکار کر چلا گیا تھا وہاں سے اس سٹڈی روم سے اپنے بیڈروم کی طرف۔۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"تمہیں نہیں لگتا کہ یہ کچھ زیادہ ہو رہا ہے بریرہ۔۔۔؟؟"

بہرام نے اسکا راستہ روک لیا تھا جب وہ اپنے کمرے میں داخل ہونے لگی تھی

"آپ کو میری کسی بھی میٹر میں عمل دخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بہرام۔۔۔۔"

"ضرورت ہے بریرہ۔۔۔ضرورت ہے۔۔۔تم ان دو بھائیوں میں آکر اپنا معیار گرا رہی ہو۔۔۔۔بلاج کے پاس  جا کر کونسی دشمنی نبھا لو گی تم۔۔؟؟"

بہرام نے جس طرح سے غصے کا اظہار کیا تھا بریرہ کو یقین نہیں آرہا تھا

"آپ میرا راستہ چھوڑ دیجئے۔۔جائیے یہاں سے۔۔آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ۔۔۔"

بہرام نے جیسے ہی اسکا نازو پکڑا تھا وہ چپ ہوئی تھی

"میں نے راستہ چھوڑنے یا بلاج حمدانی کا تم تک پہنچنے کے لیے یہاں تک کا سفر نہیں کیا بریرہ شاہ۔۔۔تم پر حق ہے میرا اور ایک بات یاد رکھنا تمہیں ایک بار کھو چکا ہوں میں۔۔۔اب کھونے جتنی ہمت نہیں رہی بس اب مجھے تمہیں واپس لے کر جانا ہے جہاں سے تم بھاگ کر آگئی تھی۔۔۔اس عذاب کے لیے۔۔۔۔"

بریرہ کو اتنا شاکڈ کردیا تھا بہرام کی باتوں نے جب بہرام نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے دھکیل دیا تھا اور غصے سے اپنے ہاتھ اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈال لیئے تھے

۔

"پچھلے تین گھنٹے سے انتظار کررہا تھا بریرہ یہاں اس لیے نہیں کہ تمہارے وجود سے اس بے وفا کی مہک محسوس کر سکو۔۔۔

میں انتظار کر رہا تھا اور کروں گا کہ کب تم ان سب سے سائیڈ پر ہوگی اور مجھے دو گی حق تمہاری جنگ لڑنے کا۔۔۔۔

میں انتظار کر رہے تھا۔۔۔۔ تمہیں سہی سلامت دیکھنے کا۔۔۔

اب میرا انتظار کتنا طویل کرتی ہو تم مجھے اسکا بھی انتظار کرنا ہوگا۔۔۔

گھر میں میرا پورا خاندان میری اور تمہاری راہ تک رہا ہے۔۔۔

میری بیٹی انتظار کر رہی ہے مجھ سے زیادہ تمہارا بریرہ۔۔۔۔

تمہاری اولاد کو میں واپس نہیں لا سکتا پر میری اولاد مجھ سے ذیادہ تمہاری ہوگی اسکا وعدہ ضرور کرتا ہوں تم سے۔۔۔مجھے اس بار موقع دینا دھوکہ نہیں بریرہ۔۔۔۔۔"

بہرام اس اپارٹمنٹ سے تیز قدموں سے چلا گیا تھا۔۔۔

اسکے جانے کے بعد بریرہ کی آنکھوں سے آنسو گرنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

کچھ دن بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"آفیسر وی فاؤنڈ مسٹر وجیح شاہ بٹ ہی از ان کریٹیکل کنڈیشن

ویٹنگ فور یور نیکسٹ کمانڈ آفیسر 'بی_اے_ایچ"

۔

اس میسج نے جیسے اسے گہری نیند سے جگایا تھا وہ حیران تھا وجیح شاہ کے زندہ ہونے پہ

"تو کیا پھر بریرہ بھی زندہ ہے۔۔۔؟؟"

اس نے اپنا وہی موبائل پکڑا تھا جو اس کا سیکریٹ ڈیوٹی سیل فون تھا جو وہ سیکریٹ میشن کے لیے استعمال کرتا تھا

آج کتنے مہینوں کے بعد اسکا موبائل بجا تھا ایک نوٹیفکیشن نے اسے یقین دلا دیا تھا کہ وہ میشن میں اسکی ٹیم اسکے ساتھ کھری تھی اتنے تضادات کے بعد۔۔۔

اس نے گہرا سانس لے کر ایک کوڈ میسج ٹائپ کیا تھا

"ٹیک ہم ٹو 'سی _بی آئی' گیسٹ ہاؤس ٹریٹ ہم ود ریسپیکٹ اینڈ کیئر "

(B_A_H)

۔

ایک کوڈ کو آخر میں ٹائپ کرکے بھیج دیا گیا تھا

"اوکے سر۔۔۔"

کچھ ہی سیکنڈز میں جواب آگیا تھا

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"مہتاب میں نے ابھی شاپنگ کا سوچا نہیں تھا تم"

"میں کچھ نہیں جانتا پشمینہ میڈم دونوں بھابھی باہر گاڑی میں انتظار کر رہی ہیں تمہارا کم آن۔۔۔"

"پر میں نے ڈینیل کے ساتھ ایک میٹنگ میں جانا تھا وکی کی فلائٹ ہے آج کی اور۔۔۔۔"

"بلا بلا بلا بلا۔۔۔۔چلیں اب۔۔۔؟؟؟"

مہتاب اسکا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے آیا تھا

"مہتاب۔۔۔۔"

بریرہ نے نے سونم کی طرف دیکھا تھا جو ہنس دی تھی بریرہ کا بچوں جیسا چہرہ بنتے دیکھ

"آپ بھی چلیں گی ساتھ ہماری شادی کی شاپنگ پر سونم جی۔۔؟؟"

"ہاہاہاہا اس طرح کا منہ بناؤ گے تو سچ میں چل پڑوں گی مہتاب اور پھر تم ایک دن میں کنگال ہوجاؤ گے"

"ہاہاہاہا۔۔۔۔"

بریرہ نے ہنستے ہوئے اپنا پرس اور سیل فون اٹھا لیا تھا۔۔۔

۔

۔

"بریرہ گاڑی کی بیک سیٹ پر مہتاب کی دونوں بھابھیوں کو دیکھ کر بہت حیران ہوئی تھی وہ دونوں اتنی سمپل اور سادہ تھیں

"اسلام علیکم پشمینہ بھابھی۔۔۔"

چھوٹی بھابھی نے بڑی عزت احترام سے سلام کیا تھا جبکہ ربیل کی بیوی نے بہت ہلکی آواز میں سلام کیا تھا

"ماشااللہ آپ ربیل کی وائف ہیں۔۔؟ اتنی خوبصورت بیوی اس پلئیر کے لیے۔۔؟؟"

پشمینہ نے مذاق کیا تھا پر مہتاب بھی چپ ہوگیا تھا اسکی نظریں پچھلی سیٹ پر گئی تھی 

"رامین بھابھی اور ربیل بھائی کی لو میرج تھی"

"وٹ۔۔۔؟؟سیریسلی۔۔۔؟؟"

بریرہ نے حیرانگی سے پوچھا تھا وہ اتنا تو جان گئی تھی حمدانی خاندان میں گھر کی عورتوں کو عزت نہیں دی جاتی پر وہ حیران تھی اب دیکھ کر۔۔۔

۔

ہنستے مسکراتے شاپنگ مال تک کا وہ سفر جلدی ہی ختم ہوگیا تھا۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج پلیز نا ہم ساتھ شاپنگ کرتے ہیں میچنگ ڈریس ہوگا کتنا اچھا لگے گا نا۔۔؟"

مدیحہ نے بلاج کے آفس میں داخل ہوتے ہی کہا تھا۔۔

"مدیحہ میری میٹنگ ہے تم جاؤ نا سب کے ساتھ۔۔"

"کیسے جاؤں سب کے ساتھ مہتاب تو رامین اور روحی کو پشمینہ کے ساتھ شاپنگ پر لے گیا میں اب اکیلی کیسے جاؤں۔۔۔؟؟"

مدیحہ بلاج کے ڈیسک پر اسکے سامنے بیٹھ گئی تھی جیسے ہی بلاج کے ہاتھ لیپ ٹاپ کی کئیز پر رکے تھے

"وہ پشمینہ کو ساتھ لے گئے ہیں۔۔؟"

"ہاں۔۔۔ہم بھی چلے۔۔؟"

بلاج سوچ میں پڑ گیا تھا اس نے کتنے دن سے وہ ایک چہرہ دیکھا نہیں تھا جس چہرے نے اسے راتوں کو سونے نہیں دیا تھا۔۔

داد جی کی باتوں میں وہ اس قدر قید ہوگیا تھا اس نے عہد کرلیا تھا پر اب پشمینہ کا نام سن کر اس کے دل ودماغ میں بےچینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔۔۔۔

"روہن میرے کیبن میں آؤ۔۔"

"بلاج میں گھر جاؤں پھر۔۔؟"

بلاج نے اپنے پی اے فون کرکے کیبن میں بلایا تھا

"جی سر۔۔۔"

"روہن میری ساری میٹنگ کینسل کردو میں اپنی وائف کے ساتھ جا رہا ہوں تم ہینڈل کر لو گے۔۔؟"

"جی بلکل سر۔۔۔ہیو آ گڈ ڈے میم۔۔۔"

مدیحہ نے بلاج کے گال پر بوسہ دیا تھا روہن کے سامنے

"آئی لوو یو سوو مچھ۔۔۔۔"

بلاج اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھے اسے کیبن سے باہر لے آیا تھا دیکھنے والے اس نیولی ویڈڈ جوڑے کو ساتھ ساتھ خوش دیکھ کر خوش ہورہے تھے پر بلاج کے چہرے پر ایکسٹرا خوشی تو کسی اور سے ملنے کی ہی تھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"آپ دونوں بھی شاپنگ کیجیے پلیز۔۔کیا یہ بھی آپ گھر کے مردوں سے اجازت لے کر کریں گی۔۔؟؟"

پشمینہ نے جیسے ہی یہ بات کہی تھی مہتاب نے اسے اشارہ کرکے چپ کروانے کی کوشش کی تھی۔۔۔

"مہتاب تم بھی تو گھر کے مرد ہو تم ہی کہو کے کچھ خرید لیں داد جی سے اجازت لینی پڑے گی۔۔؟ ہاہاہاہا۔۔۔

ویسے میں شادی کے بعد ایسا کچھ نہیں کرنے والی مہتاب۔۔

داد جی کی اجازت سے۔۔۔"

اس نے کہہ کر کاؤنٹر پر اس سرخ جورے پر پھر سے نظر ڈالی تھی اسکے چہرے کی ہنسی اور زیادہ ہوگئی تھی جب اسے پیچھے سے بلاج حمدانی کی آواز سنائی دی تھی

۔

"داد جی اجازت ہر کسی کو لینی ہوگی اگر رہنا ہے حمدانی خاندان میں مس پشمینہ شیخ۔۔۔"

وہ بریرہ کے سامنے کھڑا تھا

"رئیلی۔۔؟ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں مسٹر بلاج کیا شادی سے پہلے آپ کی بیوی کی پریگننسی بھی داد جی کی اجازت سے ہوئی تھی۔۔؟؟"

بریرہ نے جس طرح بلاج کے قریب اپنا منہ کرکے کی تھی بلاج کا چہرہ سخت ہوگیا تھا ایک دم سے

"پشمینہ۔۔۔"

"جی جیٹھ جی۔۔۔میری بات۔۔"

"ایم سوری بھائی پشمینہ تو مذاق کر رہی تھی پلیز پشمینہ۔۔۔"

مہتاب نے جیسے ہی بریرہ کا ہاتھ پکڑا تھا بلاج کے ہاتھ کی مٹھی بند ہوگئی تھی اور بریرہ نے دیکھ لیا تھا۔۔۔ 

"اوکے ہنی ایم کوول۔۔۔۔میں یہ ڈریس پہن کر دیکھنا چاہوں گی کیا تم ہیلپ کر دو گے۔۔۔؟؟"

مہتاب کے کان کے پاس بریرہ نے اتنی اونچی ضرور کہا تھا کہ بلاج حمدانی نے سن لیا تھا 

وہ بلاج حمدانی کو جیلس کرنا چاہتی تھی اور اسکے پاس موقع بھی تھا

"وہ پشمینہ۔۔۔"

"داد جی سے فون پر اجازت لے لو جان۔۔۔"

وہ مہتاب کے گال پر اپنی انگلیاں بہت آہستہ سے لگا کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھی تھی

"ہاہاہاہا۔۔۔ مہتاب بھائی منہ بند کر لیجئے۔۔۔"

مہتاب کا منہ اب بند ہوا تھا اسکا چہرہ پوری طرح لال ہوگیا تھا

"وہ مذاق کر رہی تھی آپ لوگ بیٹھے میں کچھ ڈرنکس جوس لے کر آتا ہوں۔۔۔"

مہتاب وہاں سے بھاگ گیا تھا

"میں ایک ضروری کال کر کے آیا مدیحہ تم دیکھو ڈریس"

وہ اپنی بھابھی کو ہمیشہ کی طرح اگنور کرکے اسی رخ گیا تھا جہاں پشمینہ شیخ گئی تھی۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"پشمینہ شیخ تمہیں نہیں لگتا تم آگ کے ساتھ کھیل رہی ہو۔۔۔۔"

اسکی بیک دروازے کی طرف تھی جب بلاج ڈریسنگ روم میں داخل ہوا تھا تمام شیشوں میں وہی وہ نظر آرہا تھا بریرہ کو اپنے ساتھ

"آگ کے ساتھ کھیلنا کونسا مشکل کام ہے بلاج حمدانی مجھے شوق ہے آگ سے کھیلنے کا"

بریرہ نے ڈریس کے زیپ پر جیسے ہی انگلیاں رکھی تھی بلاج نے گہرا سانس بھرا تھا

"کبھی کبھی یہ شوق بہت مہنگے پڑ جاتے ہیں مس شیخ آگ کے ساتھ اس طرح کھیلو گی توو جل جاؤ گی۔۔۔۔"

بلاج نے سرگوشی کی تھی وہ جیسے جیسے قدم بڑھا رہا تھا بریرہ کی بیک اس بڑے سے شیشے کے ساتھ لگ گئی تھی

"میں جلنے والوں میں سے نہیں ہوں بلاج حمدانی۔۔۔۔میں جلانے والوں میں سے ہوں۔۔۔"

بلاج کی ٹائی سے کھینچ کر اس نے اسی شیشے کے ساتھ بلاج کو پن کردیا تھا جس کی آنکھوں میں کوئی غصہ نہیں ایک جنون تھا

"تم آلریڈی جلا رہی ہو تمہاری اس خوبصورتی کے نشے میں مجھے کہ میں دور جا کر بھی دور نہیں جا پارہا تم سے۔۔۔"

اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر اس نے بریرہ کو جیسے ہی اپنی طرف کھینچا تھا بریرہ کے دونوں ہاتھ بلاج کے سینے پر تھے

"تمہیں دور جانے کو کس نے کہا تھا بلاج۔۔؟"

اس نے بلاج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جیسے ہی یہ سوال پوچھا تھا ایک ناک ہوئی تھی

بلاج ابھی بھی گم تھا اسکی آنکھوں میں اسکے سوال نے بلاج کو کہیں کسی اور دنیا میں گم کردیا تھا۔۔۔۔

"پشمینہ اتنی دیر۔۔۔ابھی مدد کو آجاؤں اب سب کھانا کھا رہے ہیں۔۔۔"

مہتاب نے شرارتی لہجے میں پوچھا تھا

"نہیں ہنی اب ضرورت نہیں رہی اب تو یہ ڈریس ہماری شادی والے دن ہی پہنوں گی تو دیکھنا تم۔۔۔"

اس نے بلاج کو آنکھ مار کر کہا تھا جو غصے سے آگ بگولا ہوگیا تھا

"اس سب کا مقصد کیا ہے میرے اتنے قریب ہوکر میرے بھائی سے شادی۔۔تم کیا چال چل رہی ہو۔۔۔؟؟"

بلاج نے جیسے ہی اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا بریرہ کی آنکھوں میں ایک الگ جنون دیکھا تھا اس نے

"چال تو تم چل رہے ہو۔۔۔اندر تو تم آۓ ہو میرے اتنے قریب کھڑے ہو یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری شادی ہونے والی ہے۔۔۔"

اسکی آواز اتنی ہلکی تھی۔۔وہ پوری طرح سے سیڈیوس کرنا چاہتی تھی بلاج حمدانی کو جو ہو بھی رہا تھا

"مس شیخ کیا پتا شادی ہو ہی نا۔۔؟ کیا پتا میں سب کو سب کچھ پہلے ہی بتا دوں۔۔کیا پتا تمہاری سکیم سب کے سامنے لے۔۔۔"

وہ بات کرتے کرتے رکا تھا جب بریرہ نے پاؤں اوپر کرکے بلاج کے گال پر اپنے ہونٹ رکھے تھے اسکے ہونٹوں کے بلکل پاس۔۔۔"

"بیسٹ آف لک مسٹر بلاج۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر اس کمرے سے باہر چلی گئی تھی بلاج حمدانی کو اپنے جادو میں چھوڑ کر۔۔۔

"شٹ شٹ۔۔۔ڈیم اِٹ۔۔۔۔"

اسی شیشے کو توڑ دیق تھا مکا مار کر بلاج نے جسکی کرچیاں بکھری تھی اور کچھ سٹاف ممبرز بھاگتے ہوئے اندر آۓ تھے

"وٹ دا ہیل۔۔"

"شٹ اپ۔۔۔۔ٹیک اٹ۔۔۔۔"

اپنی جیب سے پیسے نکال کر اس نے ان نیچے پپھینکے تھے اور وہاں سے باہر چلا گیا تھا

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"آپ شک سہی نکلا تھا میم۔۔یہ ہیں وہ ثبوت

بلاج حمدانی کی وائف نے ایک نہیں بہت جھوٹ بولے ہوئے ہیں اور بلاج حمدانی کے پرانے دشمن کے کے بیٹۓ کے ساتھ انکے تعلقات بلاج حمدانی سے پہلے کے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ۔۔"

"بس مس سمیرا آپ جا سکتی ہیں اس فائل کو یہاں چھوڑ کر"

بریرہ کے کیبن سے پی اے باہر چلی گئی تھی اس وقت بریرہ نے اس فائل کو اٹھا کر ہاتھ میں پکڑا تھا۔۔

"بےوفائی کا درد کیا ہوتا ہے بلاج تمہیں اب پتا چلے گا۔۔۔میں دیکھنا چاہوں گی جسے تم نے چاہا اس کی چاہت کون ہے۔۔"

اس نے کچھ فون کالز ملائیں تھیں اور اسے پتا چلا تھا بلاج حمدانی کی بیوی کی آج کے دن کی ملاقاتوں کا۔۔

کچھ ہی دیر میں بریرہ کی گاڑی ایک خوبصورت ہوٹل کے سامنے کھڑی تھی۔۔ جس روم کے بارے میں اسے بتایا گیا تھا وہ اس روم کے باہر کھڑی تھی کچھ پیسے دے کر اسے کے گارڈز نے یہ انفارمیشن وہاں سے حاصل کی تھی

۔

۔

"وٹ۔۔۔؟ تم چاہتے ہو میں سب کے سامنے یہ بتاؤں تم پاگل ہوگئے ہو ریان وہ مجھے مار دے گا بلاج کیسے برداشت کرے گا یہ سب کچھ۔؟"

۔

"تمہاری پریگننسی کی جھوٹی خبر یا میرے ساتھ تمہاری سچی محبت بےبی۔۔۔"

مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھا لیا تھا ریان نے۔۔

"دونوں بلاج نے مجھ سے بہت محبت کی تھی ریان۔۔۔"

"اس لیے وہ اس لڑکی کے پیچھے پاگل تھا کیا نام تھا اسکا ہاں 'بریرہ شاہ'"

 اس نے قہقہ لگایا تھا۔۔

"وہ بلاج کی محبت نہیں تھی بلاج کی محبت میں تھی۔۔جسے اس نے سب کے سامنے اپنایا۔۔

اگر وہ بلاج کی محبت ہوتی تو وہ کبھی اس لڑکی کو رکھیل نا کہتا سب کے سامنے ریان۔۔

بلاج نے اعتراف کیا تھا وہ لڑکی صرف اسکی رکھیل تھی۔۔وہ بدلہ لینا چاہتا تھا جو اس نے لیا۔۔"

بریرہ نے سپورٹ لینے کے لیے دیوار کا سہارا لیا تھا۔۔۔ اس ایک لفظ نے بریرہ شاہ کو سات زمینوں کے نیچے دھکیل دیا تھا

۔

"بلاج حمدانی۔۔۔"

اسکے منہ سے ایک آہ نکلی ضرور تھی۔۔۔

۔

"تو پھر تو اور مزہ آئے گا مجھے مدیحہ بلاج حمدانی نے اسے ٹھکرایا تمہیں اپنایا اب اسے تم سے ایسی چوٹ ملے گی کہ۔۔۔"

"میں نہیں دینا چاہتی اسے کوئی چوٹ۔۔اس لیے میں یہ سب ختم کردوں گی ریان۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔سب ختم کردو گی۔۔؟ میرے ساتھ تمہارے گہرے تعلقات اتنے کمزور بھی نہیں کہ تم ختم کردو۔۔۔"

ریان غصے سے اٹھ گیا تھا۔۔۔

۔

۔

بریرہ وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔۔

۔

"رکھیل۔۔۔"

۔

"بیٹیاں غرور ہوتی ہیں ماں باپ کا بریرہ تمہارے بابا سائیں نے تمہیں اپنے بیٹوں سے زیادہ لاڈ پیار دیا ہے کبھی توڑنا مت۔۔۔"

۔

وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی پر اس گاڑی کو سٹارٹ کرتے وقت اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔

بریرہ شاہ ایک لمحے میں کمزور پڑ گئی تھی

"میں نے عشق کیا تجھے سوہنیا،،،تو نے دی ہے جدائی وے

میں دی ہے تجھے دنیا وے،،،تو نے دی ہے تنہائی وے،،،"

۔

"وائے بلاج۔۔۔؟؟"

اس کی اپنی آواز اس بند گاڑی میں اسے سنائی دے گئی تھی

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج حمدانی آئی ہیٹ یو۔۔۔سنا تم نے نفرت ہے مجھے تم سے نفرت بھی لفظ چھوٹا ہوگیا ہے بلاج۔۔۔"

۔

وہ اس اپارٹمنٹ کے سینٹر میں بیٹھ گئی تھی آج کا دن اور یہ ڈھلتی رات نے اس بیوی کو نڈھال کردیا تھا اس ایک لفظ نے اسکا مرا ہوا دل اس کی روح کو اور چھلنی کردیا تھا۔۔۔

۔

"میں نے عشق کیا تجھے سوہنیا،،،تو نے دی ہے جُدائی وے،،

میں نے دی ہے تجھے  دنیا وے،،، تو نے دی ہے تنہائی وے،،،"

۔

"بلاج وائے۔۔؟؟ کیوں کیا۔۔۔"

۔

"تو نے درد دئیے ہیں اتنے،،،امبر پہ ستارے جتنے۔۔۔

جگ جگ کے راتوں میں،،،میری طرح آنکھوں میں

ماہی،،،،آنسوؤں کے دھاگے تو پیروئے گا،،،

تو بھی روئے گا ماہی تو بھی روئے گا۔۔۔

میری طرح تو بھی اک دن کسی کو کھوئے گا۔۔۔

۔

"اس اپارٹمنٹ میں کچھ باقی نہیں رہنے دوں گی بلاج کچھ بھی نہیں۔۔"

اس نے اپنا چہرہ اتنی بےرخی سے صاف کیا تھا۔۔۔اور اس نے شروعات کچن سے کی تھی ہر چیز توڑ دی تھی نیچے زمین پر مارنا شروع کردیں تھیں ساری چیزیں سارے برتن۔۔۔

ہر کمرے کے پردے ہر وہ چیز اس نے اٹھا کر بلکل سینٹر میں لاکر  پھینک دی تھی۔۔۔

اور کچھ دیر میں ہر کمرے سے وہ ان یادوں کو ان کپڑوں کو ان تصاویر کو سٹور روم سے اٹھا کر لے آئی تھی اور آگ لگا دی تھی  وہ جلتی آگ دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گئی تھی چار سوو

وہ وہیں کھڑی تھیاور جب وہ چاہتیں اپنی محبتیں اس نےاس آگ میں راکھ بنتے دیکھیں تو اپنا چہرہ صاف کر کے وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

پر جانے سے پہلے وہ ایک ریڈ کلر کے ڈریس نے اس کی نظروں میں ایک درد چھوڑ دیا تھا اسکی شادی کا ڈریس۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ آفس سے واپس گھر نہیں آئی آپ دونوں مجھ پہ کیوں چلا رہے ہیں فون کریں اسے۔۔"

سونم پریشان اور کر چلائی تھی وہاں کھڑے تینوں مردوں پہ جو پچھلے دو گھنٹے سے یہاں سے وہاں جگہ جگہ چکر لگا رہے تھے

" وہ مینٹلی ٹھیک نہیں ہے ارسل بھائی۔۔۔اسکی میڈیکل رپورٹ ٹھیک نہیں ہے۔۔یہ بدلے اسے نا زنداں میں چھوڑے گا نا مردوں میں۔۔پلیز اسے روک لیجئیے۔۔۔"

ارسل بھی وہیں بیٹھ گیا تھا سب میں چپ صرف بہرام تھا جو اپنا کوٹ اتار کر وہاں سے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر چلا گیا تھا

۔

۔

"بریرہ دروازہ کھولو نا پلیز آج کا ڈنر میں بنا رہا ہو بس یہ میری معافی قبول کرلو نا میری جان۔۔"

بلاج نے پھر سے بیڈروم کا دروازہ ناک کیا تھا اور اندر کی جانب سے پھر سے ایک زور دار چیز دروازے پہ لگی تھی

"اتنابھڑکی ہوئی کیوں ہو یار سوری نا داد جی کے ساتھ میٹنگ پر جانا پڑ گیا تھا۔۔"

"تو آج داد جی کے ساتھ جا کر سو بھی جاؤ نا۔۔۔گو ٹو ہیل۔۔۔"

۔

ایک اور چیز لگنے سے بلاج پیچھے ہوگیا تھا

"اوے چشمش۔۔۔"

"بلاج حمدانی۔۔۔"

اسکی چیخ سے بلاج ہنستے ہوئے پیچھے ہوگیا تھا

"اچھا یہ سرپرائز تو دیکھ لو نا کچھ لایا ہوں تمہیں بہت پسند آئے گا۔۔میں یہاں رکھ کہ جا رہا ہوں۔۔"

بلاج نے وہ گفٹ پیک وہاں رکھ کر وہیں دوسرے کمرے میں چھپ گیا تھا۔۔ٹھیک کچھ منٹ بعد روم کا دروازہ کھلا تھا اس بریرہ نے نیچے بیٹھ کے اپنا منہ باہر نکالا اور جب باہر کوئی نہیں تھا اس نے جلدی سے گفٹ اٹھا کر دروازہ بند کر لیا تھا

"ہاہاہاہا پاگل۔۔۔۔"

بلاج واپس کچن میں چلا گیا تھا

۔

کچھ ہی دیر میں اس نے آملیٹ بنا لیا تھا کہ دھرم سے روم کا دروازہ کھولا تھا 

"بلاج حمدانی ہاؤ ڈیرھ یو۔۔میری پرائیوسی میں جانے کی ہمت کیسے ہوئی۔۔۔"

وہ چیختے ہوئے آئی تھی کے بلاج کے ہاتھوں سے سپون نیچے گر گیا تھا

"وٹ دا ہیل بریرہ۔۔"

۔

"یہ کیا ہے۔۔؟؟"بریرہ نے وہ ریڈ سلک ڈریس بلاج کے سامنے کیا تھا۔۔

"ہوٹ رومینٹک ڈریس ہے وائفی۔۔۔"

"بتاتی ہوں۔۔۔"

بریرہ نے کاؤنٹر سے چمٹا اٹھا لیا تھا

"بریرہ،،،ارے بھڑک کیوں رہی ہو یار تمہیں تو خوش کرنے کے لیے لیا یہ۔۔"

وہ کہتے ہوئے ٹیبل کی دوسرے طرف بھاگ گیا تھا

"سرپرائزز۔۔؟؟ جھوٹے کہیں کے میرے لیپ ٹاپ میں گھس کر میری پرائیویٹ سرچنگ دیکھی ہے۔۔۔ یہ میرا سرپرائززز تھا ہماری ویڈنگ اینیورسری کے لیے۔۔"

بلاج کا منہ کھل گیا تھا

"اتنا بولڈ ڈریس ہماری ویڈنگ اینیورسری میں پہن کر باہر جانا تھا تمہیں بریرہ بلاج حمدانی "

اس نے غصے سے پوچھا تھا 

"ہاں تو۔۔۔؟؟ پاس مت آنا اسی چمٹے سے تمہاری ناک پکڑ لوں گی۔۔۔"

"ابھی بتاتا ہوں۔۔چشمش۔۔۔"

"ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔"

بریرہ بھاگ گئی تھی وہ ڈریس لیکر وہاں سے

"بریرہ تمہاری قسم میں نے خود سلیکٹ کیا تھا یہ ڈریس۔۔۔"

بریرہ رک گئی تھی حیرانگی میں یہی ڈریس اس نے بھی آن لائن آرڈر کرنے کا سوچا تھا کچھ دن پہلے۔۔

"اور یہ ڈریس ہی کیوں۔۔؟"

"کیونکہ میں چاہتا تھا آج ہماری ڈنر ڈیٹ جو ہم ہمارے ٹیرس پر سیلیبریٹ کریں گے تم یہ ڈریس پہن کر میرے سامنے آؤ۔۔"

بلاج نے اس کی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا تھا

"بلاج حمدانی خیریت تو ہے۔۔؟ ڈنر ڈیٹ۔۔؟ کچن میں کھانا بنا رہے ہیں اور اب یہ ڈریس۔۔؟"

"ہاہاہاہاہا بس مس بریرہ آپ کی محبت نےمجنوں بنا دیا ہے۔۔۔"

بلاج نے سر جھکا کر مسکراتے ہوئے کہا تھا

"ویسے مسٹر بلاج۔۔منانا مجھے تھا یہ ڈریس تو آپکے  ارادے کچھ اور ہی بتا رہا۔۔"

بریرہ نے بلاج کی ٹائی پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا جو کھل کر ہنسا تھا

"میرے ارادے ویسے ابھی تک اچھے ہی ہیں وائفی"

"اور بعد میں۔۔۔؟؟"

"ہاہاہاہا اسکی گارنٹی نہیں دے سکتا۔۔۔"

"اچھا جاؤ نا چینج کرکے آؤ اور یہ بڑا سا چشمہ اتار کر آنا اور کوئی میک اپ نا کرناتم بناوٹ کے بغیر چاہیے مجھے بریرہ شاہ۔۔۔"

"بلاج بناوٹ کے بغیر بھی کچھ اچھا لگتا ہے بھلا۔۔؟؟"

بریرہ نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا تھا

"بناوٹ کے بغیر چھا لگتا ہے نا تم۔۔۔میں۔۔ہمارا یہ رشتہ اور ہماری جنت "

بریرہ نے اسکے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلی تھی۔۔۔

"بلاج کبھی کبھی حیران ہوجاتی ہوں تمہاری محبت پر۔۔۔جب میرے پاس ہوتے ہو تمہارے لفظوں پر یقین رہتا ہے۔۔پر باہر کی دنیا میں گم ہونے پر لگتا ہے تم وہ نہیں ہو جو یہاں ہو میرے لیے۔۔۔"

۔

"کیونکہ میں وہ نہیں ہوں جو یہاں ہوں بریرہ۔۔۔میں تو۔۔۔"

۔

"ہیے بےبی گرل۔۔۔آر یو لوسٹ بےبی گرل۔۔؟؟"

۔

بریرہ جو اس سمندر کنارے اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی اس ٹھنڈی ریت پر دو اجنبی آواز سے اسکی آنکھیں کھلی تھی سامنے دو لوگ شراب کے نشے میں گرتے پڑتے اسکے سامنے کھڑے تھے۔۔

۔

"گو ٹو ہیل۔۔۔"

اس نے ڈرنک کی بوتل پکڑ کر اپنے کپڑے جھاڑے تھے ابھی اپنی گاڑی کا دروزہ کھولا ہی تھا کہ ایک گورے نے اسکا بازو پکڑ لیا تھا۔۔۔

"ہیے لیٹس ہیو سم فن ڈارلنگ یو۔۔"

وہ شیشے کی بوتل اس نے اس کے سر پر مار کر توڑ دی تھی 

"یو بچ۔۔"

اپنے ساتھی دوست کو خون میں گرتے جیسے ہی اس نے دوسرے آدمی نے دیکھا تھا وہ غصے سے بریرہ کی طرف بڑھا تھا۔۔اور اس ٹوٹی ہوئی بوتل بریرہ نے اس کے ہاتھ پر مار دی تھی۔۔

وہ جیسے ہی نیچے گرا تھا اس نے ان دونوں کو بہت سی کک ماری تھی وہ تب تک ان دونوں کو تھپڑ مکے مار رہی تھی جب تک اسے پیچھے سے کسی نے پکڑ نہیں لیا تھا

"بس بس میری شیرنی۔۔۔اتنا زخمی تو کردیا ہے تم نے۔۔۔"

"بلاج۔۔۔۔؟؟"

بریرہ کو بلاج نظر آرہا تھا۔۔۔

"بہرام۔۔۔بہرام شاہ۔۔۔"

بہرام کا چہرہ سخت پڑ گیا تھا

"ہممم۔۔۔۔"اور وہ بےہوش ہوگئی تھی۔۔۔

"تم نے کب سے ایسی ڈرنکس پینا شروع کردی بریرہ۔۔؟؟"

بہرام نے اسے اٹھا کر اپنی گاڑی میں لٹا دیا تھا۔۔۔

۔

"جب سے کسی بے وفا نے محبت کا زہر پلایا ہے تب سے۔۔۔۔"

ونڈو کی طرف سر رکھ کر آنکھیں بند کرلی تھی اس نے۔۔۔۔

 ۔

۔

بریرہ ہم گھر آگئے۔۔۔۔

"یا اللہ بریرہ۔۔۔۔"

سونم نے اس سہارا دے کر سنبھالا تھا۔۔۔

۔

"یہ بدلہ لے گی سونم۔۔؟ یہ اپنی ناکام محبت کا سوگ تو منا لے پہلے۔۔"

ارسل نے بریرہ کی حالت دیکھ کر برہمی سے کہا تھا اسکی بات نے بریرہ کی بند آنکھیں کھول دی تھی اچانک سے

۔

"آپ کو کیا لگتا ہے ارسل بھائی۔۔؟ آپ کی دشمنی میں آپ کی چھوٹی بہن اجڑ گئی اور شرمندہ ہونے کے بجائے طنز کر رہے ہیں۔۔۔۔

میں اپنا بدلہ لوں گی سنا آپ نے اپنے آخری سانس تک لوں گی۔۔۔

ایک بیٹی کا بدلہ ایک بہن کا بدلہ لوں گی۔۔۔کاشان بھائی کی موت کا بدلہ لوں گی بابا سائیں کی موت کا بدلہ لوں گی۔۔۔۔"

وہ کہتے کہتے اپنے گھٹنوں کے بل گر گئی تھی سونم نے ارسل کو غصے سے دیکھ کر بریرہ کو پکڑنے کی کوشش کی تھی۔۔۔

۔

"سونم میں سب کا بدلہ لوں گی۔۔۔پر وہ بیوی کا بدلہ کون لے گا۔۔؟ 

اس ماں کا بدلہ کون لے گا سونم۔۔؟ اس محبت کا بدلہ کون لے گا۔۔؟؟

تم جانتی نہیں ہو اس بے وفا کو کسی اور کے ساتھ وفائیں نبھاتے دیکھ کیا گزرتی ہے میرے اس دل پر جس نے اس بے وفا کو بے لوث محبت دی۔۔۔

تم نہیں جانتی اسکے نکاح پر اس بیوی پر کیا گزری تھی جس نے حق مہر پہ اپنے شوہر سے صرف وفا مانگی تھی۔۔۔

جس بچے کے لیے اپنی زندگی کی فکر نہیں کی سونم آج زندگی ہے پر وہ بچہ نہیں تم سوچ نہیں سکتی کیا گزر رہی ہے۔۔۔۔

دم گھٹ رہا ہے۔۔۔دل کرتا کے اس بدلے سے پہلے اسکا گریبان پکڑوں اور خوب تھپڑ ماروں اسے اور پھر پوچھوں اسکو۔۔۔

اگر اتنا سب ہونے کے بعد بھی ضبط کئیے بیٹھی ہوں نا ارسل بھائی تو سمجھ جائیے کہ بدلہ لینے جلدی آپ سے زیادہ ہے مجھے۔۔۔

میں اسے وہیں لاکھڑا کروں گی جہاں تک میں گئی تھی آنکھیں بند کرکے محبت کی راہوں میں۔۔۔۔

فرق صرف اتنا ہوگا تب بریرہ بلاج کی محبت میں لٹ گئی تھی

اب بلاج کی محبت کھا جاۓ گی پشمینہ شیخ۔۔۔

اب میں بےوفائی کی ہر حدوں کو توڑوں گی۔۔۔۔۔

اور پھر میں وہیں چلی جاؤں گی اپنے بچے کے پاس۔۔۔

سونم تم کہتی تھی اپنے بچے کے لیے رو لو دل کا بوجھ کم ہوگا۔۔۔

پر سونم میں اس بچے کے لیے روئی نہیں۔۔۔آج کے بعد میں محبت اور وفا کے لیے بھی نہیں رؤں گی۔۔۔۔"

"تمہیں لگتا ہے مجھے تم سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کسی کنسیپٹ کی ضرورت ہے بلاج۔۔؟

یہ میرے الفاظ میرے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں تمہیں سمجھ نہیں آتی۔۔؟ آئی لوو یو۔۔کوئی گیم نہیں ہے۔۔کوئی خاندانی بدلہ نہیں ہے مجھے تم سے محبت کرنے کے لیے زندگی کم لگنے لگی ہے اور تم نفرت کی بات کر رہے دشمنی کی بات کر رہے ہو۔۔؟"

اس نے بلاج کے سینے پر ہاتھ رکھ کہ اسے پیچھے دھکیل دیاتھا غصے سے۔۔

بارش کے گرتے پانی سے وہ دونو بھیگ چکے تھے پوری طرح پر بریرہ کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اس ٹھنڈے پانی میں۔۔

"بریرہ گھر چلو ابھی میں یہ بات نہیں کرنا چاہتا ابھی۔۔"

بلاج نے کچھ قدم آگے بڑھائے تھے

بلاج کی اس ریجیکشن پر بریرہ کی آنکھیں پھر سے بھر گئی تھی بریرہ نے منہ موڑ لیا تھا 

"بریرہ۔۔۔"

"بس بلاج۔۔۔تم نے چھوڑنا ہے مجھے چھوڑ دو۔۔پر میں بابا سائیں کو ہماری شادی کا ابھی نہیں بتاؤں گی۔۔وہ نہیں اپنائیں گے اس رشتے کو۔۔

بار بار مجھے یسی راستے پر لاکر کھڑا مت کرو کہ میں اپنی فیملی کو چھوڑ نا سکوں اور تمہارے بغیر جی نا سکوں۔۔۔"

بریرہ کی سسکیاں بلاج کے کانوں تک پہنچی تو اس نے بھی منہ پھیر لیا تھا وہ بھی غصے میں تھا۔۔۔

"تم ہر بات پہ چھوڑنے کی بات کیوں کرتی ہو بریرہ۔۔؟ اتنا آسان ہے تمہارے لیے مجھے چھوڑنا"

"میرے لیے تمہیں اپنا بھی آسان نہیں تھا بلاج۔۔چھوڑنا تمہارے لیے آسان ہے

کیونکہ تم مرد ہو وہ بھی ایک مافیا لیڈر۔۔۔تم مجھے چھوڑ بھی دو گے تو زندہ رہ لو گے اور خوش بھی پر میں۔۔؟؟

میں شاید نا رہ سکوں۔۔۔"

بریرہ نے اپنی گلاسیز اتار کر اپنا چہرہ صاف کیا تھا اور اس سنسان سڑک پر چلنا شروع کردیا تھا

۔

"پہلے کبھی نہ تو نے مجھے غم دیا۔۔۔پھر مجھے کیوں تنہا کردیا،،،

گزارے تھے جو لمحے پیار کے،،،،، ہمیشہ تجھے اپنا مان کہ،،،"

۔

بلاج اور اسکی وہاں کھڑی ہوئی گاڑی سے وہ کچھ قدم دور آئی ہی تھی کہ بلاج نے اسی تیزی سے اسے واپس اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔

تیز بارش میں اسکی بیک جیسے ہی گاڑی کے ساتھ ٹکرائی تھی اسکی کمر میں درد ہوا تھا پر بلاج کو اس بات کی بھی کوئی فکر نہیں تھی اسکی آنکھوں میں اس قدر غصہ تھا

"بریرہ بلاج حمدانی تم سمجھتی کیا ہو خود کو۔۔؟ تمہاری محبت محبت ہے اور میری محبت کچھ بھی نہیں۔۔؟ تمہیں کیا میں یوں بارشوں میں کھڑا ہونا والا شخص لگتا ہوں۔۔؟

تن نے مجھے کسی قابل نہیں چھوڑا اور تم یہ سمجھتی ہو میں تمہیں چھوڑ کر زندہ رہ لوں گا،،۔؟؟"

بلاج نے بریرہ کا چشمہ اتار کر نیچے پھینک دیا تھا بریرہ کے گرتے آنسو بارش کے بہتے پانی میں بھی بلاج محسوس کر رہا تھا

"آئی لو یو بریرہ۔۔۔میں بھی انسیکیور ہوجاتا ہوں پر اسکا یہ مطلب نہیں ہمارا رشتہ توڑ دوں گا میں۔۔اور کبھی تمہیں خود سے دور بھی نہیں جانے دوں گا۔۔۔

یہ دیکھو تمہارا نام میرے دل پر لکھوایا ہے میں نے۔۔۔"

بلاج نے اسکی آنکھوں میں درد دیکھ کر اپنا لہجہ نرم کرلیا تھا

بریرہ نے جیسے ہی نظریں اٹھا کر دیکھا تھا بلاج نے اپنی شرٹ کو ایک دم سے کھینچا تھا جس کے بٹن ٹوٹ کر نیچے گر گئے تھے

"بلاج یہ۔۔؟؟ تم پاگل ہوکیا۔۔۔درد ہوا ہوگا۔۔"

بریرہ نے آہستہ سے اسکے دل پر اپنی انگلیاں رکھی تھی جہاں اس نے بریرہ کا نام لکھوایا تھا ابھی بھی زخم تھا اس جگہ پہ۔۔۔

۔

"تمہاری محبت کے آگے کچھ نہیں۔۔۔۔بریرہ بلاج حمدانی۔۔۔"

۔

"یہ پل ہے اپنا تو اس پل کو جی لے،،،شعلوں کی طرح زرا جل کہ جی لے۔۔۔

پل جھپکتے کھو نا جانا،،چھو کے کرلوں یقین۔۔۔ناجانے پل یہ آئے کہاں۔۔۔"

۔

بریرہ نے بلاج کے دل پر اپنے لکھے نام پر جیسے ہی اپنے ہونٹ رکھے تھے بلاج نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی اسکے اس بولڈ موو پہ۔۔۔

"بریرہ ڈونٹ ٹیسٹ مائی پئیشنس وائفی۔۔۔"

بلاج نے اسکے بالوں سے پکڑ کر بریرہ کا چہرہ اپنی طرف کیا تھا

"ہم لڑتے کیوں ہیں جب ہماری لڑائی نے ایسے ہی ختم ہونا ہوتا ہے بلاج۔۔؟"

بریرہ نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لئیے بہت پیار سے پوچھا تھا

"ہمارے پیار میں اضافہ شاید ہماری لڑائیاں ہی کرتیں ہیں۔۔۔"

"ہاہاہاہاہا۔۔۔"

وہ دونوں ہنس دئیے تھے 

"مجھے ایسا لگا تمہاری آنکھوں میں آنسو آئے تھے ۔۔"

بریرہ نے سنجیدہ ہوکر پوچھا تھا۔۔۔

"میں اور روؤں گا۔۔؟؟ کبھی بھی نہیں۔۔۔"

"نہیں مجھے لگا تھا ایسا جب میں نے مجھے چھوڑنے کی بات کی بلاج۔۔ایسا لگا جیسے تمہاری آنکھوں سے ایک آنسو کا قطرہ نکلا اور اس بارش کے پانی میں مل گیا۔۔۔"

اسکی نظریں بلاج کی آنکھوں میں تھی جس نے نظریں پھیر لی تھی

"ہاہاہاہا۔۔۔بہت بولتی ہو تم۔۔اور پتا نہیں ایسا کیوں سوچا تم نے میں کبھی نہیں رویا بریرہ۔۔"

"پر بلاج۔۔"

۔

بلاج کے ہونٹوں نے اسے چپ کروا دیا تھا۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ۔۔۔۔وہ لوگ آج کے فنکشن میں ہمیں انوائیٹ کرچکے ہیں مہتاب کے داد جی چاہتے ہیں مہندی کا فنکشن انکے مینشن میں ہو۔۔۔اور۔۔۔میں انکار نہیں کر پائی۔۔۔"

۔

"ہممم۔۔۔۔۔"

بریرہ نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کر لئیے تھے اور ونڈو بند کردی تھی۔۔۔

۔

"بریرہ ایک بار پھر سوچ لو۔۔۔کچھ بتا بھی نہیں رہی ہو۔۔کیا پلاننگ ہے تمہاری۔۔؟"

سونم نے بریرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھا دیا تھا۔۔

۔

" تم جانتی ہو میں کن لوگوں میں سے ہوں۔۔؟؟"

بریرہ نے سونم کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تھا

"بریرہ"

"میں ان لوگوں میں سے ہوں جو واپسی کی تمام کشتیاں جلا چکی ہے۔۔۔

آگے جانے کے لیے پیچھے کے تمام راستے بند کردئیے تھے میں نے سونم۔۔

اس دن کا انتظار جتنا مجھے تھا اتنا تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔

ہم جائیں گے۔۔میرے ہونے والے سسرال میں۔۔۔کل نکاح والے دن جو ہوگا وہ دنیا دیکھے گی۔۔۔"

وہ اٹھ گئی تھی اسکی آنکھوں میں ایک آگ تھی جو سونم دیکھ کر ڈر گئی تھی۔۔

"اور بہرا کا کیا ہوگا ان سب میں بریرہ۔۔؟ وہ دو دن سے گھر نہیں آیا ۔۔اسکی محبت کو بھی جلا دو گی اپنے بدلے میں ایک بار پھر۔۔؟؟"

بریرہ کے چہرے کی ہنسی چلی گئی تھی سونم کی بات پر۔۔۔وہ ہی جانتی تھی وہ کتنے دن سے اگنور کر رہی تھی بہرام شاہ کو۔۔

اور آخر کار وہ چلا گیا تھا یہاں سے۔۔کہاں گیا کسی کو نہیں پتا تھا کچھ بھی۔۔۔

۔

"بہرام کے اور میرے راستے الگ ہیں سونم۔۔تمہیں کیا لگتا ہے میں اسے ڈیزرو کرتی ہوں۔۔

جتنی برباد میں ہوگئی ہوں نا میں کسی کو بھی ڈیزرو نہیں کرتی۔۔

جس دن میرا بدلہ پورا ہوجائے گا اس دن میری روح میرا جسم بھی چھوڑ دے گی۔۔"

"بریرہ۔۔۔"

سونم نے اونچی آواز میں کہا تھا۔۔اور کچھ ہی لمحوں میں اس نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا بریرہ کو۔۔۔وہ رونا شروع ہوگئی تھی پر بریرہ کی آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہیں تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے جلدی سے کپڑے پہن لو داد جی انتظار کر رہے نیچے گیسٹ آنا شروع ہوگئے ہیں۔۔۔"

بلاج نے مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا تھا۔۔

"ڈاکٹر کے ساتھ اپاؤنٹمنٹ تھی تمہاری کیا کہا ۔۔؟؟"

"وہ۔۔ہمم۔۔سب ٹھیک ہے بلاج۔۔"

مدیحہ نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تھی پر بلاج نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا تھ 

"آئی لووو یو مدیحہ۔۔۔اگر میرے کسی بھی کام سے تمہیں تکلیف ہو تو مجھے معاف کردو گی۔۔؟"

۔

"بےوفا۔۔۔۔۔"

۔

بلاج کو وہی آواز سنائی دی تھی پر اس نے اگنور کردیا تھا آج کے دن سب کچھ۔۔۔

آج وہ ایک مشن پر تھا۔۔اسے پتا تھا اسکا ایک غلط قدم سب کچھ ختم کردے گا اسکی بیوی کا اس پر یقین۔۔اسکی فیملی کا اونر سب کچھ۔۔

پر وہ بریرہ شاہ کو کسی کی ہونے نہیں دے گا یہ اس نے وعدہ کیا تھا خود سے۔۔

"ایسے کیوں کہہ رہے ہو بلاج۔۔؟؟ میں نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا ہے۔۔ورنہ تمہیں اس لڑکی کو تمہاری رکھین کبھی نا بننے دیتی۔۔۔"

اس رکھیل لفظ سے اسکی گرفت مدیحہ کی ویسٹ پر مظبوط ہوئی تھی۔۔

اس نے آنکھیں بند کر لی تھی مدیحہ نے جیسے ہی اسکے سینے پر سر رکھا تھا۔۔

بلکونی پہ آتی ٹھنڈی ہوا سکون دے رہی تھی اسے پر تب تک جب تک یادوں کے جھڑونکے نے اسکے دن و دماغ پہ دستک نہیں دی تھی۔۔

۔

"تمہیں یہ ریڈ ساری پہننی ہی ہوگی میری چشمش میں بلاج حمدانی خود آج شاپنگ کرنے گیا تھا اور اب بیگم آپ کو اسکو پہن کر میری ڈیٹ بن کر میرے ساتھ ایک پارٹی پہ جانا ہی ہوگا ۔۔"

بلاج نے گفٹ پیک بریرہ کے سامنے رکھ دیا تھا جو بڑی سی گلاسیز پہن کر اپنی اسائنمنٹ مکمل کر رہی تھی۔۔

"سوچنا بھی مت۔۔۔میرے فائنلز ہیں کیسے ہسبنڈ ہیں آپ مسٹر،،میں فیل ہوگئی تو کیا منہ دیکھائیں گے۔۔؟ اور دوسری بات مجھے ساری پہننی نہیں آتی۔۔"

بریرہ نے منہ نیچے کرلیا تھا شرمندگی سے۔۔

" تو یہ بندہ ناچیز کس لیے ہے۔۔؟؟ میں سیکھاتا ہوں نا مجھے بہت تجربہ۔۔۔"

بلاج کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی بریرہ نے کشن لیکر اسے مارنا شروع کردیا تھا جو ہنستے ہوئے روم سے باہر بھاگا تھا۔۔

"تمہیں شرم نہیں آتی نا۔۔؟ بدتمیز۔۔جان لے لوں گی تمہاری۔۔"

"ہاہاہاہاہا ارے۔۔ہاہاہاہا میں تو کسی اور سینس میں کہہ رہا تھا گٹر مائینڈ وہ والے تجربے نہیں۔۔"

"بنو مت ۔۔ار کیا کسی شاپ پر کام کر کے تمہیں تجربے حاصل ہوئے ہیں۔۔؟"

اس نے پاس پڑے انٹیک پیس کو اٹھا کر بلاج کی طرف پھینکا تھا۔۔

"ہاہاہاہا نہیں لگا۔۔۔"

"یہ لگے گا۔۔۔"

اس نے ایک ایک چیز ماری تھی 

"ہاہاہا بریرہ۔۔۔اچھا بابا مذاق کر رہا تھا میں تمہیں ساری میں دیکھنا چاہتا ہوں۔۔میری یہ خواہش صرف تمہیں دیکھنے کی ہے ساری زندگی کسی اور کی طلب نہیں رہی بلاج حمدانی کو۔۔۔"

بریرہ کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔۔۔

۔

۔

"بلاج۔۔۔کیسی لگ رہی ہوں میں اس ساری میں۔۔تم نے کوئی تعریف نہیں کی۔۔؟؟"

بلاج کی آنکھیں کھل گئی تھی۔۔

"اچھی لگ رہی ہو۔۔۔ایکسکئیوزمئی۔۔۔"

بلاج اپنے کپڑے لیکر جلدی سے باتھروم میں چلا گیا تھا۔۔۔

۔

"اب کیا ہوا بلاج۔۔۔کیوں مجھے ایسے اگنور کر کے ہرٹ کر رہے ہو۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ۔۔۔"

بہرام نے پیچھے سے آواز دی تھی بریرہ کے قدم رک گئے تھے۔۔اس نے گاڑی سے پہلا قدم بھی باہر نکال لیا تھا۔۔۔

بہرام کے چہرے پر وہ رونق نہیں تھی جو پہلے تھی بڑھی ہوئی داڑھی کے بالوں نے اسکے چہرے کو اور ڈیشنگ بنا دیا تھا پر آنکھوں کے نیچے ہلکوں نے بریرہ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ وہ قصوروار ہے بہرام کی اس حالت کی۔۔۔

۔

"بہرام۔۔۔"

"بریرہ آج میں کہنا چاہتا ہوں۔۔کیا سنو گی آج میری۔۔؟؟"

بریرہ نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔۔۔اسکے گلے میں اسکا دوپٹہ جیسے ہی سرکا تھا بہرام نے اسکے سر پر اوڑھا دیا تھا

"بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔ تمہیں جی بھر کے دیکھنا چاہتا ہوں پر اجازت نہیں دے رہا میرا دل بریرہ۔۔۔

میں معافی مانگنا چاہتا ہوں میں نے جو اس دن کہا تم سے۔۔۔میں مطلبی نہیں بننا چاہتا بریرہ۔۔

میں تمہیں مجبور نہیں کرنا چاہتا اپنا یا اپنی بیٹی کا کہہ کر۔۔تم جو کرنا چاہتی ہو وہ تم کرو۔۔

میں نہیں روکوں گا تمہیں"

بہرام نے اپنے کوٹ سے کچھ پیپرز نکال کر بریرہ کے سامنے کئیے تھے

۔

"تیری وفا  جو تھی سرہانے،،تو آرام ملا مجھے۔۔۔

تیرا دیا تو نے مانگا واپس،،، تو کیا غلط اس میں۔۔۔"

۔

"بہرام۔۔۔یہ پیپرز۔۔۔"

"بلاج نے ان کاغذات پر تم سے سائن لئیے تھے۔۔اور۔۔"

وہ چپ ہوا تھا

"آپ بتا سکتے ہیں مجھے سچ جان کر اب تکلیف نہیں ہوتی۔۔"

"ہمم۔۔۔بلاج نے یہ پراپرٹی اپنی منگیتر کو تحفے میں دے دی تھی جس پر وہ اپنا ڈریم پراجیکٹ بنانا چاہتی تھی اپنا ڈئزائننگ بوتیک ۔۔۔"

"میں سمجھ گئی ہوں آپ یہ کاغذ واپس کردیجئیے گا بلاج حمدانی کو۔۔۔یہ جنگ میری ہے جو میں نے ناسمجھی میں سونپا تھا اس بےوفا کو۔۔۔اب اپنی سمجھ سے واپس بھی لے لوں گی۔۔۔" 

اسکے لہجے میں ایک غصہ تھا ایک شدت تھی نفرت 

"بریرہ۔۔۔"

اس بار بہرام نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا پیچھے سے۔۔۔۔

"بریرہ شاہ۔۔۔میں یہیں ہوں۔۔رہوں گا پر سامنے نہیں آؤں گا تمہارے۔۔۔اس راستے میں تم جب ٹوٹ کر بکھر جاؤ گی تو میں سمیٹوں گا تمہیں۔۔۔پر میں خود غرض نہیں بنوں گا بریرہ۔۔

انتظار کروں گا تمہارا۔۔۔"

۔

۔

بہرام وہاں سے چلا  گیا تھا پر بریرہ کی نگاہوں نے دور تک اسکا تعاقب کیا تھا۔۔۔

"بریرہ۔۔کیا کہا بہرام نے۔۔؟"

"وہ میرا انتظار کرے گا۔۔۔"

"اور تم نے۔۔؟؟"

سونم نے آہستہ سے پوچھا تھا اسے پتا تھا بریرہ نے انکار میں جواب دیا ہوگا۔۔۔

"میں کچھ نہیں کہا میری آنکھوں نے اسے جواب دے دیا تھا سونم۔۔۔"

بریرہ کا لہجہ بہت نرم ہوگیا تھا۔۔۔

"یا اللہ سچ میں بریرہ۔۔۔؟؟ فائننلی تم اپنے بدلے کے بعد آگے بڑھو گی۔۔؟؟"

"اگر زندہ رہی تو سوچوں گی۔۔۔"وہ یہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"تو نیل سمندر ہے۔۔۔میں ریت کا ساحل ہوں۔۔

آغوش میں لے لے مجھے،، میں دیر سے پیاسی ہوں۔۔۔"

۔

رقص جیسے ہی شروع ہوا تھا ایک شور اٹھایا تھا گھر کے مردوں نے۔۔جو خود بھی ان رقص کرنے والیوں کےساتھ شروع ہوگئے تھے ڈانس کرنا۔۔۔

مہتاب کو بھی کھینچ لیا تھا سب نے سینٹر میں۔۔

"واااووووو۔۔۔۔بیوٹیفل ڈانس۔۔۔"

مدیحہ نے بلاج کے بازو میں بازور ڈالے سیڑھیاں اترنا شروع کردی تھیں۔۔

"دلہن والے آگئے ہیں داد جی۔۔"

داد جی باقی بڑوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے گھر کی بہو کو دروازے تک لینے گئے تھے۔۔

"بلاج پلیز بیہیو کرنا پشمینہ کے پاس بھی مت جانا داد جی نے منع کیا ہے۔۔"

مدیحہ نے جیسے ہی کہا تھا بلاج نے غصے سے دروازے کی طرف دیکھا تھا 

بریرہ کی نظریں اس پر تھیں پر آج بریرہ کی نظروں نے اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے انکار کردیا تھا۔۔اور مہتاب کی طرف دیکھنا شروع ہوئی تھی جو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا

"واہ وووووو مہتاب پشمینہ بھابھی تو بہت خوبصورت ہیں۔۔۔"

"اور ہوٹ بھی۔۔۔"

"ہاہاہا شٹ اپ گائیز۔۔۔بھابھی ہے تم لوگوں کی۔۔۔۔"

مہتاب نے شرماتے ہوئے پھر سے نظریں اٹھا کر بریرہ کی طرف دیکھا تھا۔۔

"کتناسوچتی تھی اس لمحے کو بلاج کے تم میرا ہاتھ پکڑ کر یہاں لاؤ گے سب کے سامنے مجھے اپناؤ گے۔۔

اپنے خاندان کے سامنے عزت دو گے ہماری شادی کو۔۔۔پر دیکھو بلاج آج سب میری چاہت کے مطابق ہے۔۔۔پر مجھے عزت دینے والے تم نہیں تمہارا بھائی ہے۔۔"

بریرہ جیسے ہی سب کے ساتھ بیٹھ گئی تھی کبھی گھر کی خواتین اسکی نظر اتار رہیں تھیں تو کبھی کوئی چاہت سے اسے گلے سے لگا رہا تھا۔۔اس نے نظر اٹھا کر بلاج کی طرف دیکھا تھا اسکی آنکھیں بھری ہوئی تھی پر اس نے اپنی آنکھوں کو چھلکنے کی اجازت نہیں دی تھی

۔

"یہی تو رازِ الفت ہے۔۔جو ہر آنسو کا رُخ موڑا۔۔۔

بہت خوش ہیں تیرے بارے میں جب سے سوچنا چھوڑا۔۔۔"

۔

۔

"موسٹ ویلکم مس پشمینہ۔۔۔"

بلاج نے ہاتھ میں ایک گلاب کا پھول پکڑا ہوا تھا جو اس نے بریرہ کے سامنے کیا تھا۔۔۔بہت سی نظریں شاکڈ ہوگئی تھیں پر ری ایکٹ کسی نے نہیں کیا تھا۔۔

"مسز مہتاب کہہ دیں بلاج بھائی۔۔۔کیوں مہتاب۔۔؟؟"

ربیل نے طنزیہ کہا تھا جس پر سب ہسن دئیے تھے سوائے بلاج کے۔۔۔

۔

۔

"وہ رپورٹس مل گئی ہیں۔۔؟ بس تم مجھے کل نکاح سے وہ سب ثبوت دے جاؤ ایک منٹ کی دیر ہوئی تو تمہاری زندگی کی گارنٹی میں نہیں دوں گا تمہیں۔۔۔"

۔

بلاج نے فون بند کردیا تھا اور سٹیج کی طرف دیکھا تھا جہاں وہ لڑکی ہنس ہنس کے اسکے رشتے داروں سے باتیں کر رہی تھی۔۔مہتاب نے جس طرح سے اسکا ہاتھ پکڑا ہوا تھا بلاج کو آج سب کچھ برا لگ رہا تھا۔۔

"بریرہ بلاج حمدانی۔۔۔صرف آج کی رات ہے تمہارے پاس۔۔۔کل تم میری ہوگی دیکھ لینا۔۔

مہتاب نفرت کرے گا تم سے۔۔کوئی شادی نہیں ہوگی۔۔۔تمہیں میں کسی کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا،،،،تم صرف میری ہوگی۔۔۔"

۔

بلاج جیسے ہی وہاں سے گیا تھا پیچھے پلر سے کوئی چھپا ہوا شخص باہر آیا تھا۔۔۔اپنا موبائل فون کان کو لگا کر وہ بھی حمدانی مینشن سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔۔۔

۔

۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

۔

۔

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔؟"

"ایک لفظ ادا کرو بریرہ شاہ اور پھر دیکھنا تمہاری آنکھوں کے سامنے جلا کر راکھ کردوں گا یہاں موجود ہر ایک گواہ کو۔۔۔

میرے نکاح میں ہونے کے باوجود تمہاری جرآت کیسے ہوئی یہاں میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ بیٹھنے کی۔۔۔۔؟"

ایک طیش سے بھری آواز نے سب کی نظروں کا رخ دروازے کی جانب کردیا تھا جہاں بلاج حمدانی شدید غصے میں کھڑا تھا

اس کے غصے کی انتہا اس قدر تھی کہ ہال میں موجود لوگ ڈر کے پیچھے ہوگئے تھے

"اور اس راکھ سے سلگنی والی چنگاریاں تمہیں بھی خاک بنا کر بھجیں گی بلاج حمدانی یہ پشمینہ شیخ کا وعدہ ہے۔"

وہ جو لوگ بلاج کے غصے پر خوفزدہ ہورہے تھے بریرہ کی للکار پر حیرانگی اور لطف اندوز ہوکر اسکی طرف دیکھنا شروع ہوگئے تھے۔۔

"پشمینہ شیخ۔۔؟ بریرہ شاہ اب تم اور بیوقوف نہیں بنا سکتی مجھے۔۔"

بلاج نے اس پردے کو ایک دم سے ہٹا دیا تھا جہاں خواتین موجود تھی اور بریرہ کا ہاتھ پکڑ کر سامنے لے آیا تھا

"بلاج بھیا اننف۔۔۔وہ پشمینہ ہے۔۔ہاتھ چھوڑئیے میری منگیتر کا آپ"

مہتاب نے بلاج کے ہاتھ سے بریرہ کا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو اسکی چوڑیاں ٹوٹ کر ہاتھ میں چبھ گئی تھی

"بلاج ہم نے تمہیں سمجھایا بھی تھا وہ پشمینہ ہے۔۔"

داد جی نے بھی وہی بات دہرائی تھی۔۔۔

نا چوڑیاں ٹوٹ کر لگنے میں بریرہ کے منہ سے آہ نکلی تھی

نا مہتاب کے ہاتھ چھڑانے سے بلاج کو فرق پڑ رہا تھا

"یہ میری بیوی ہے داد جی۔۔۔میرے نکاح میں ہے۔۔۔یہ بریرہ شاہ ہے

پوچھیں اس سے۔۔۔"

"پشمینہ یہ کیا کہہ رہے ہیں بھیا۔۔۔؟؟؟"

مہتاب کی آنکھوں میں بے یقینی واضح نظر آرہی تھی بریرہ کو

"تمہارے بھیا کے پاس ثبوت کیا ہے کہ وہ میرے شوہر ہیں۔۔؟؟ کیوں ایک ہی نام سے پکارا جا رہا ہے مجھے مہتاب میں نہیں جانتی۔۔

پر اس انسان کی بیوی اور وہ بھی میں۔۔؟؟ کوئی پاگل ہی ایسا فیصلہ لے سکتا بلاج حمدانی سے شادی کا۔۔۔"

"آپ نے جواب سن لیا بلاج بھائی۔۔۔؟؟"

مہتاب ایک چٹان کی طرح بریرہ کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا

"بلاج بھیا کونسی بریرہ شاہ۔۔؟ بھول گئے آپ نے اس دن کیا کہا تھا۔؟

دشمن کی بیٹی آپ کی رکھیل تو بن سکتی پر بیوی نہیں۔۔"

ربیل کی بات پر بریرہ کی وہ پتھر ہوئی آنکھیں اٹھی تھیں اور بلاج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھا تھا اس نے جو نفرت سے اپنے کزن اور اپنی فیملی کو دیکھ رہا تھا

"بکواس بند کرو ربیل۔۔ایک لفظ نہیں ورنہ چھوڑوں گا نہیں۔۔۔"

"بس بلاج بس بہت تماشہ ہوگیا یہ تو اچھا ہوا کے میڈیا والے گھر سے باہر ہیں۔۔۔ مہتاب کی شادی سکون سے ہونے دو۔۔۔"

وہ اپنا غصہ ضبط کئیے بلاج کو بازو سے پکڑ کر اوپر سیڑھیوں تک گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کر رہے تھے

"وٹ دا ہیل۔۔۔؟ میں کہہ رہا ہوں وہ میری بیوی ہے۔۔۔ نکاح میں ہے میرے اور آپ کہہ رہے ہیں میں اسکا نکاح پر نکاح ہونے دوں۔۔۔؟

بریرہ۔۔۔۔"

اپنے باپ کا ہاتھ جھٹک کر وہ بریرہ کےسامنے آ کھڑا ہوا تھا

"بریرہ سچ بتاؤ انہیں۔۔۔تم میرے نکاح میں ہو ڈیم اٹ شادی کی تھی ہم نے بھول گئی ہو تم۔۔۔؟ وہ جو وعدے کئیے تھے وہ جو قسمیں کھائی تھی"

"وہ جو قسمیں آپ کو دی تھیں وہ شاید بریرہ شاہ تھی۔۔۔میں نے سنا ہے وہ مر گئی اپنے بچے کے ساتھ۔۔۔؟؟"

بلاج نے اسکے کندھوں سے پکڑا تھا اسے

"بریرہ بس کر جاؤ۔۔بتاؤ سب کو ہوئی ہماری شادی کب اور کہاں ہوا تھا ہمارا نکاح"

 "کونسا نکاح ہونے والے جیٹھ جی۔۔۔؟ کونسی شادی۔۔؟ آپ کی کیوں مجھ سے شادی ہو گی بھلا جب کہ میں تو ریسینٹلی نیو یارک آئی ہوں۔۔

میں کیوں آپ جیسے شخص سے شادی کروں گی جو بنا شادی کے یہاں وہاں منہ مارتا ہو۔۔؟ مجھے مہتاب جیسے لائف پارٹنر کی خواہش تھی اب آپ اس میں رکاوٹ بن رہے۔۔۔"

بریرہ نے مہتاب کا ہاتھ پکڑا تھا بلاج کے سامنے۔۔۔

اور اسکی آنکھوں میں ایک درد ابھر آیا تھا جو آج سے پہلے کبھی نہیں تھا۔۔

"بریرہ۔۔۔۔"

بلاج غرایا تھا

"پشمینہ شیخ۔۔۔بلاج حمدانی۔۔۔مہتاب میں نا کہتی تھی تمہارے بھیا کو کوئی پرابلم ہے اس رشتے سے۔۔۔مجھے نہیں پتا تھا اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے یہ اس طرح اپنے بھائی کی ہونے والی بیوی پر نظریں لگاۓ بیٹھے ہیں۔۔۔ میں ان حالات میں شادی نہیں کرسکتی خاص کر ایسے خاندان میں مہتاب۔۔۔ایم سوری پر آج کے اس تماشے نے بہت زیادہ ڈسٹرب کردیا ہے مجھے۔۔۔""

بریرہ اپنے ساتھ اپنے فیملی ممبرز بھی ساتھ لے گئی تھی۔۔۔

اور اپنی باتوں سے ایک زور دار طمانچہ مار گئی تھی ان متکبر خاندان کے مغرور مردوں کی آنا کو۔۔۔

۔

وہ جیسے ہی باہر قدم رکھنے لگی تھی ایک شور شرابہ برپا ہوگیا تھا اندر بلاج حمدانی کو ایسے گھیر لیا تھا سب لوگوں نے اس قدر اسکی بےعزتی کرنے کی کوشش کت رہے تھے سب۔۔۔

"بریرہ۔۔میرا مطلب ہے پشمینہ نکاح پر نکاح لائک سیریسلی۔۔۔؟ تم کتنا بڑا گناہ کرنے جا رہی تھی۔۔۔"

"آپ کو لگتا ہے میں نکاح پر نکاح کرلیتی۔۔۔؟ میں نے ہمیشہ نا فرمانی کی اپنے رب کی ہر وقت گناہ کئیے۔۔۔پر ایسا گناہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی میں۔۔۔"

بریرہ گاڑی کے پاس کھڑی تھی اندر سے چیخ و پکار کی آوازیں باہر تک آرہی تھیں اسے۔۔۔

"پھر جو اندر سب ہوا۔۔۔۔"

"وہ سب ایک ٹریپ تھا ایک ڈرامہ بلاج حمدانی کو اسکے بل سے باہر نکالنے کا۔۔

وہ جس نے ہمارے نکاح کے ہر ثبوت کو مٹا دیا مجھے بیوی نہیں ایک رکھیل کا ٹائٹل تھما دیا

آج وہ بلاج حمدانی ایک زخمی شیر کی طرح باہر نکلا ہے۔۔۔

آپ بدلتے وقت کو دیکھیں زرا۔۔۔کیسے آج وہ چلا رہا ہے یقین دلا رہا ہے سب کو ہمارے نکاح کا۔۔کل میں یہ یقین دلا رہی تھی سونم۔۔۔کل میں ایسے ہی چیخی تھی۔۔۔

آج وہ چیخ رہا ہے۔۔۔

ابھی وہ اور چیخے گا لوگوں کو بتاۓ گا کہ وجیح شاہ کی بیٹی اسکی رکھیل نہیں تھی۔۔۔

آج وہ مجھ سے گواہی مانگ رہا تھا جس سے میں نے گزرے ہوۓ کل میں صفائی دینے کا کہا تھا بابا سائیں کے سامنے۔۔۔"

وہ بات کر رہی تھی کہ بلاج کو اپنی طرف آتے دیکھ وہ رک گئی تھی

"تم نے جھوٹ بولا۔۔۔بیوی ہو تم میری ابھی سب کے سامنے کہو گی تم۔۔

میں کہہ رہا ہو داد جی مہتاب کو بتاؤ سچ۔۔۔"

"کیسا سچ۔۔۔؟ میں نہیں ہوں آپ کی بیوی۔۔ بلاج حمدانی۔۔۔"

"تم نے یہ سارا ڈرامہ اس لیے کیاکہ میں مان جاؤں سب کے سامنے تمہیں اپنی بیوی اب اس ڈرامے کو ختم ہوجانا چاہیے۔۔۔"

""یہ ڈرامہ میرے خاندان کی موت سے شروع ضرور ہوا تھا ختم تم پر تمہارے خاندان پر ہوگا اور۔

اس نے غصے میں وہ کہہ دیا تھا جو اسے نہیں کہنا چاہیے تھا پر شور شرابے میں بلاج اسکی بات سن نہیں پایا تھا

ایک گولی چلنے کی آواز آئی تھی اور بلاج کی شرٹ خون سے بھر گئی تھی دیکھتے ہی دیکھتے بریرہ ساکن کھڑی تھی بلاج نیچے گرنے کے بجائے بریرہ کے کندھے پر سر رکھ چکا تھا

"تم۔۔۔تم میری بیوی ہو بریرہ۔۔۔بلاج حمدانی کی۔۔۔۔"

اور وہ پیچھے گرگیا تھا۔۔۔

"شٹ شٹ۔۔۔ہم پر اٹیک ہوا ہے مہتاب تم پشمینہ بھابھی کو لیکر جاؤ۔۔داد جی بلاج بھیا کے گولی لگی ہے۔۔۔"

یہ آوازیں اسے سنائی تو دے رہیں تھیں پر بریرہ کی نظریں نیچے گرے بلاج حمدانی پر تھیں۔۔۔۔

  ۔

۔

"بلاج۔۔۔۔"

بلاج نے جیسے ہی اپنا ہاتھ اٹھایا تھا اسکا ہاتھ خون سے بھرا ہوا تھابریرہ نے جیسے ہی آگے ہاتھ بڑھایا تھا بلاج کا ہاتھ نیچے گرگیا تھا۔۔

میشن کے اندر سے خواتین روتے ہوئے باہر آئی تھی 

"داد جی بےہوش ہوگئے ہیں تم لوگ تماشہ کیا دیکھ رہے ہو۔۔جلدی سے بلاج کو ہسپتال لے کے چلو۔۔"

کون چلا رہا  تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا

"بریرہ۔۔چلو یہاں سے۔۔"

سونم نے بریرہ کو گاڑی کی طرف لےجانے کی کوشش کی تھی

"بلاج بھیا پلیز اٹھ جائیں بھائی پلیز۔۔۔میں پشمینہ سے شادی نہیں کروں گا۔۔آپ بس اٹھ جائیں۔۔"

مہتاب نے بلاج کے گرے ہوئے وجود کو اپنے سینے سے لگالیا تھا وہ رونا شروع ہوگیا تھا۔۔۔

"پیچھے ہٹو۔۔۔ہمت رکھو میرا بیٹا بہت بہادر ہے۔۔"

"ربیل جس نے یہ کیا ہے وہ بچنا نہیں چاہیے۔۔"

۔

وہ لوگ بلاج کو اٹھا کر لے گئے تھے پندرہ بیس گاڑیاں بلاج کی گاڑی کے پیچھے تھی۔۔۔جہاں اتنی رونق تھی اتنی شہنائی بج رہی تھی وہاں اب سوگ کا سما تھا۔۔۔جو رشتے دار رہ گئے تھے وہ بھی پیچھے جانا شروع ہوگئے تھے ہسپتال۔۔۔

۔

"بریرہ۔۔۔گھر چلو۔۔۔"

۔

۔

سونم اور ڈینیل اسکے کندھے سے پکڑ کر وہاں سے لے گئے تھے۔۔۔

۔

"بریرہ۔۔۔سب کینسل ہوگیا۔۔۔سب پلاننگ سب کچھ۔۔ تمہیں ابھی انڈرگراؤنڈ ہوجانا چاہیے۔۔۔"

ڈینیل نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی پر وہ کوئی جواب نہیں دے پا رہی تھی۔۔

"سونم تم بریرہ کے پاس رہنا میں ہسپتال جاتا ہوں۔۔۔"

۔

ڈینیل گھر کے سامنے اتار کر گاڑی کو واپس موڑ چکا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے آپ دعا کیجئیے۔۔۔"

بلاج کی والدی دونوں بہو کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھی روو رہی تھی انکی آواز اتنی ہلکی تھی کہ وہ وہ اپنے بیٹے کے لیے کھل کر روو بھی نہیں سکتی تھی

۔

"زمرد۔۔۔ڈھونڈو اسے جس نے یہ کیا ہے۔۔۔بلاج کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔"

داد جی کی آواز میں اتھی بےبسی تھی۔۔۔

۔

اندر تمام شیشوں کے آگے پردے کردئیے تھے۔۔۔

ڈاکٹر جیسے ہی بلاج کو انجیکٹ کرنے لگے تھے بلاج نے ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔

"اتنا ڈرامہ ڈاکٹرز۔۔؟؟ گولی کندھے کو چھو کر گزری تھی۔۔سٹئیچز کردئیے ہیں تو میری فیملی کو بلاؤ،،،ابھی میری جان سے ضروری وہ بات ہے۔۔ان لوگوں کا کیا پتا میری بےہوشی میں نکاح ہی نا کروادیں۔۔"

بلاج اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔اسے ابھی بھی تکلیف ہورہی تھی

"میرا موبائل کہاں ہے۔۔؟؟"

ڈاکٹر نے ڈرتے ہوئے اشارہ کیا تھا دوسری طرف ٹیبل کی۔۔بلاج نے فون اٹھا کر ایک نمبر ملایا تھا۔۔

"یو باسٹرڈ۔۔میں نے ہوئی فائرنگ کا کہا تھا۔۔نشانہ جتنا خراب تھا تیرا گولی میرے آر پار بھی ہوسکتی تھی۔۔"

"ہاہاہاہا تو نے کہا تھا سب کچھ اوریجنل ہونا چاہے۔۔پڑا رہا کچھ دن بستر پر۔۔۔"

دوسری طرف سے فون بند ہوا تھا اسی وقت دروازہ کھل گیا تھا۔۔

"داد جی۔۔"

"بس بلاج ابھی آرام کرو بیٹا۔۔۔"

"نہیں داد جی۔۔۔مہتاب۔۔۔بابا۔۔آپ سب کو یقین کرنا ہوگا وہ لڑکی میری بیوی ہے۔۔

بریرہ شاہ ہے وہ۔۔"

"بھیا۔۔۔"

"بلاج میرا ہاتھ اٹھ جائے گا۔۔۔"

زمرد صاحب اور مہتاب ایک ساتھ بولے تھے۔۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں وہ بدلہ لینے آئی ہے۔۔۔"

"بلاج تم کیسے پشمینہ کو ایسے الزام دے سکتے ہو۔۔؟؟"

ڈینیل جو گھبرا گیا تھا جلدی سے اس نے بول دیا تھا۔۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں وہ بدلہ لینے آئی ہے۔۔وہ پشمینہ نہیں بریرہ۔۔۔"

"بس بلاج۔۔۔بہت بکواس سن لی۔۔"

داد جی اٹھ کر کمرے سے جانے لگے تھے اسی وقت اس کمرے میں ایک شخص آیا تھا۔۔

"بلاج بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔وہ پشمینہ شیخ نہیں بریرہ شاہ ہے۔۔"

"وٹ۔۔۔"

مہتاب ایک دیوار کے ساتھ لگا تھا یہ سن کر۔۔

"وکی میں تجھے جان سے مار دوں گا کیا بکواس کر رہا ہے۔۔"

ڈینیل کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے تھے۔۔وہ شروع سے بریرہ کو کہتا آیا تھا وکی کو سچ بتانے سے روکتا آیا تھا۔۔پر آج وکی نے دھوکہ دے ہی دیا۔۔۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔وہ بریرہ شاہ ہے۔۔۔"

"دیکھا میں نا کہتا تھا داد جی۔۔اب بھی آپ دونوں کی شادی کروائیں گے۔۔؟"

بلاج جو آج یہ سچ سن کر ایک سکون میں آگیا تھا ایک دم سے۔۔

"پر۔۔۔"

وکی کی بات پوری نہیں ہوئی تھی جب ڈینیل نے اسے ایک زور دار مکا مارا تھا۔۔۔

"ڈینیل بھائی آپ بھی سچ نہیں جانت بریرہ کا۔۔۔بریرہ خود نہیں جانتی کہ وہ ہی بریرہ ہے۔۔"

وکی کی اگلی بات سے بلاج کے چہرے کی مسکان چلی گئی تھی۔۔

"کیا مطلب وہ نہیں جانتی۔۔؟"

داد جی اونچی آواز میں پوچھا تھا۔۔

"وہ جس حالت میں ہسپتال لائی گئی تھی۔۔اس پر یہاں حملہ ہوا تھا۔۔اور وہ حملہ بلاج بھائی کے گارڈز نے کیا تھا۔۔۔

کسی طرح سے وہ یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔۔۔

پر۔۔۔"

۔

وکی کہتے کہتے رکا تھا۔۔۔

"پر کیا۔۔۔؟؟"

"میرے گارڈز۔۔؟ میں نے کسی کو بھی حملہ کرنے کا نہیں کہا تھا۔۔"

"بکواس بند کرو بلاج۔۔ایک لفظ نہیں۔۔۔"

داد جی نے طیش میں آکر بلاج کو ڈانٹا تھا۔۔۔

"پر کیا وکی۔۔؟؟"

مہتاب کی بند ہوتی دھڑکن پھر سے ویسے ہی چلنا شروع ہوئی تھی۔۔۔

۔

"ایک آخری حملہ ہوا تھا اس پر۔۔۔بھاگتے بھاگتے جب وہ اپنے گھر کی طرف جانا چاہتی تھی اسی وقت ایک تیز رفتار گاڑی سے اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔۔۔

مجھے یاد ہے وہ رات جب وہ کسی لاوارث لاش کی طرح ایک روڈ پر پڑی ہوئی تھی۔۔

میں مافیا ورلڈ میں ہوں داد جی۔۔پر اس لڑکی کی اس حالت نے مجھ جیسے ظالم انسان کو دہلا دیا تھا۔۔

ڈاکٹر نے تو جواب دے دیا تھا۔۔۔پر کسی طرح انہوں نے ایڈمٹ کیا۔۔۔

بریرہ پوری طرح سے اپنی یاداشت کھو چکی تھی داد جی۔۔۔"

۔

بلاج کی آنکھیں ایک دم سے بند ہوئی تھی۔۔پر وہ اپنی زرا سی بھی کمزوری کسی کو بھی نہیں دیکھانا چاہتا تھا۔۔۔

مہتاب اپنا سر پکڑ کر ایک صوٖفے پر بیٹھ گیا تھا۔۔جیسے باقی سب اس خبر کو سن کر حیران ہوئے تھے ویسے ہی وہ بھی ہوا تھا۔۔۔

"بلاج نے ٹھیک کہا وہ پشمینہ نہیں بلاج کی بیوی بریرہ ہے۔۔۔مجھے خوشی ہوئی ہے بلاج تم نے جسے اپنی رکھیل ثابت کیا تھا اسکی فیملی کے سامنے آج اپنی فیملی کے سامنے اسے اپنی بیوی مان لیا ہے۔۔"

وکی نے بلاج کے کندھے پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی تھی پر بلاج نے جھٹک دیا تھا اسکا ہاتھ اسکی نظریں داد جی پر تھیں جو گہری چوش میں جا چکے تھے

"بریرہ تمہارے ساتھ کیوں تھی اب تک۔۔؟ کیوں تم نے جھوٹ بولا سب سے۔۔؟"

زمرد صاحب آگے بڑھے تھے۔۔۔

"بریرہ کو میں پہچان گیا تھا۔۔پر اسکی حالت ٹھیک نہیں تھی اور جب مجھے پتا چلا کہ سب کے لیے اس دنیا کے لیے وہ مرگئی ہے تو میں سب کو بتانا چاہتا تھا۔۔پر میں جانتا تھا بلاج جب تک بریرہ کو نہیں مار دے گا وہ چین سے نہیں بیٹھے گا۔۔۔"

"یو باسٹرڈ میں اسے کیوں ماروں گا جسے میں پیا۔۔۔" 

بلاج کہتے کہتے چپ ہوگیا تھا اسکے الفاظ دم توڑ گئے تھے جب داد جی نے وکی کو باہر جانے کا کہہ دیا تھا

۔

"میں چلا جاتا ہوں داد جی۔۔۔پر بریرہ کو کچھ نہیں یاد وہ پشمینہ شیخ ہے ۔۔اسے کچھ بھی بتانے یا یاد دلانے سے منع کیا ہے ڈاکٹرز نے۔۔جو جیسے چل رہا ہے اسے چلنے دیں۔۔۔

مہتاب ایک اچھا انسان ہے۔۔آپ بلاج کے ساتھ ڈائیورس کروا کر مہتاب کی شادی بریرہ۔۔میرا مطلب پشمینہ سے کروا سکتے ہیں۔۔"

۔

وکی آنکھوں میں ترس اور ہمدردی ظاہر کروائے وہاں سے چلا گیا تھ۔۔۔

ایک قیامت گرا کر سب پر۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"وکی تو نے تو بریرہ کے یقین کی دھجیاں اڑا دی باسٹرڈ۔۔"

ڈینیل نے پارکنگ میں لے جاکر اسے ایک اور مکا مارا تھا۔۔۔

"ڈینیل میری بات۔۔"

"تونے کیوں سب بتایا اور کونسی کہان گھڑ آیا تو اندر تجھے کس نے کہا تھا۔۔۔"

"میں نے کہا تھا۔۔۔"

پیچھے سے ایک آواز آئی تھی۔۔اور جینز وائٹ شرٹ پر ایک لیتھر کی جیکٹ اور لونگ بوٹ پہنے وہ اندھیرے اسے اس روشنی میں ان دونوں کے سامنے آئی تھی

"بریرہ تم نے۔۔۔"

ڈینیل نے شاکڈ ہوکر پوچھا تھا۔۔۔

"ہاہاہاہا وکی شکل دیکھو زرا۔۔۔"

"ہاہاہاہاہا وکی اور بریرہ کی ہنسی اس بند ایریا میں گونج اٹھی تھی

"بریرہ۔۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔۔کہا تھا جب میں چال چلوں گی تو وہاں زخم دوں گی جہاں لگے گی اور درد بھی ہوگا ڈینیل۔۔۔ اب میں بریرہ شاہ کا ہی نہیں پشمینہ شیک کا ذہن لیکر بھی چلتی ہوں۔۔

اندر حمدانی خاندان پر ایک قیامت سی گری ہے۔۔۔بلاج حمدانی نے سوچا کہ وہ میرا سچ سامنے لاکر مجھے ذلیل و رسوا کروا دے گا۔۔؟

جاؤ اور اندر جاکر دیکھو ڈینیل۔۔۔میرا خود کا سچ سامنے آیا بھی تو کیسے۔۔۔

وہ جو مجھے بریرہ شاہ ثابت کرنا چاہتا تھا۔۔۔آج میں ثابت ہوبھی گئی ہوں تو کیسے۔۔؟؟

ہاہاہاہاہاہا۔۔۔"

"ہاہاہاہاہا بریرہ ماننا پڑے گا کیا پلاننگ تھی۔۔"

وکی نے بھی قہقہ لگایا تھا۔۔۔ڈینیل کا شاکڈ منہ دیکھ کر۔۔۔

"ویسے تمہاری ایکٹنگ اچھی تھی۔۔پر کچھ زیادہ ہی اوور ایکٹنگ تھی ایڈیٹ۔۔۔"

اس نے ایک زور کا منچ مارا تھا وکی کو۔۔۔

"سیریسلی۔۔۔؟؟"

"اب انڈرگراؤنڈ ہوجاؤ وکی۔۔بلاج حمدانی اس بستر سے اٹھ کر تمہیں ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا۔۔جب تک میں نا کہوں واپس مت آنا۔۔۔

تمہارا انعام تمہیں تمہاری ڈیمانڈ سے زیادہ ملے گا۔۔۔"

"اوکے باس۔۔۔ٹیک کئیر۔۔۔"

وکی وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

"بریرہ تم کب سے اتنی ماسٹر مائینڈ بن گئی۔۔۔ایم سرپرائزڈ۔۔۔۔"

"ابھی تمہیں اور چونکا دینے والے راز ملیں گے میری طرف سے ڈینیل۔۔۔

ابھی تو شروعات ہے۔۔۔

جس طرح سے میڈیا نے بلاج حمدانی کا کنفیشن آن ائیر کیا ہے۔۔تم دیکھنا کہ یہ لوگ کس طرح آئے گے رشتہ لیکر۔۔۔

پر اس بار مہتاب حمدانی کا نہیں 

بلاج حمدانی کا۔۔۔۔ وہ خود آئے گا۔۔۔۔۔"

"آپ لوگ بیٹھے میں پشمینہ کو بُلاکر لاتی ہوں۔۔دراصل جو بھی ہوا مہتاب کا اس سے بات نا کرنا وہ پریشانی پشمینہ کو بہت پریشان کر رہی ہے۔۔اس لیے کل بھی وہ لیٹ نائٹ تک کلب میں رہی اور اب دو بج رہے اور جاگی نہیں نیند سے۔۔"

سونم کی بات پر گھر کی خواتین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا اور پھر بلاج کی طرف جس کے چہرے پر بھی غصہ عیاں تھا مہتاب اور کلب کا نام سُن کر

۔

"داد جی آپ ہمیں لے تو آئے ہیں یہاں پر بڑی بہو اور یہ ماڈرن قسم کی ماڈل۔۔؟"

ربیل نے مذاق اُڑاتے ہوئے پوچھا تھا۔۔

"ربیل۔۔"

"افف داد جی مذاق کر رہا ہوں۔۔۔"

۔

۔

"بریرہ۔۔۔تمہیں نہیں لگتا کہ کچھ زیادہ ہی انتظار کروا رہی ہو۔۔؟"

بریرہ نے گلاسیز اتار کر وہ فائل پیچھے کی تھی چہرے سے۔۔

"اتنا انتظار نہیں کروا رہی جتنا پچھلے کچھ دنوں سے میں کر رہی ہوں۔۔آج یہ فائل ہاتھ آئی اور بلاج حمدانی گھٹنوں کے بل آگیا ہاتھ پھیلائے میرے لیے۔۔؟"

اس نے جوس کا گلاس اٹھا کر پینا شروع کیا تھا

"بریرہ حیرانگی مجھے بھی بہت ہوتی ہے۔۔ایک وقت تھا جب ان لوگوں نے دشمنی کے لیے تمہاری فیملی کو برباد کردیا تھا تب وجیح شاہ کی بیٹی دشمن کی بیٹی تھی اور اب۔۔؟

ان کا پورا خاندان ہیپی فیملی کی طرح نیچے بیٹھا ہوا ہے۔"

سونم کی آواز میں بھی غصہ تھا تلخی تھی۔۔

"سونم اسے کہتے ہیں بدلہ۔۔۔اسے کہتے ہیں کرما۔۔۔تم چلو میں آتی ہوں۔۔۔"

۔

اور ٹھیک پانچ منٹ میں وہ اپنے نائٹ ڈریس میں ہی نیچے چلی گئی تھی۔۔۔

"شئ از سووو ہوٹ بلاج بھائی۔۔"

ربیل نے سیڑھیوں سے اترتی ہوئی بریرہ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔

"افف بریرہ۔۔۔"

سونم نے ایک سکارف جلدی سے بریرہ کے گلے میں ڈال دیا تھا اور سر پر بھی۔۔۔

"ہاہاہاہا۔۔۔"

بریرہ ہنستے ہوئے داد جی کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔۔

"ربیل حمدانی اگر تمہاری نظریں زرا سی اور نیچے گئیں تو تمہارے جسم میں تمہاری آنکھیں نہیں رہیں گی یاد رکھنا۔۔۔"

اور ربیل جو ڈرنک پیتے ہوئے بےشرمی سے بریرہ کو اوپر سے نیچے تک دیکھ رہا تھا۔۔۔اسے کھانسی آنا شروع ہوگئی تھی بریرہ کی اوپنلی دھمکی پر۔۔

"ایکسکئیوزمئ میں ابھی آیا ضروری کال۔۔۔"

"تمہیں واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے ربیل آفس کے کام دیکھو جاکر۔۔"

بلاج نے نفرت بھرے لہجے میں اسے ڈس مس کردیا تھا۔۔

۔

"مہتاب نہیں آیا۔۔؟ مجھے لگا تھا آپ کو میرا جواب ڈینیل نے دیا نہیں۔۔میں مہتاب سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔"

"تم یہ فیصلہ کرنے والی کون ہوتی ہو۔۔؟"

بلاج جیسے اٹھا تھا شیشے کا گلاس نیچے گرگیا تھا

"میری زندگی کے فیصلے میں ہی کروں گی مسٹر۔۔۔جیٹھ جی۔۔۔"

"اننف بریرہ۔۔۔سب سچ سامنے ہے۔۔بیوی ہو تم میری۔۔۔"

"کونسا سچ۔۔؟ یہی راگ ڈینیل آلاپ رہا ہے اور سونم بھی تم کون ہو۔۔؟ ہسبنڈ۔۔؟

جسکی ابھی ابھی شادی ہوئی ہے۔۔چلو میں تو کومہ میں تھی یاداشت نہیں تھی۔۔

تم نے کیا بھنگ پی ہوئی تھے سب وقتوں میں جو چپ تھے۔؟ عین میرے اور مہتاب والے دن بلاج حمدانی کی غیرت جاگ گئی۔۔۔

غیرت زندہ ہے بلاج۔۔؟؟"

بریرہ کی بات پر سب اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوگئے تھے۔۔بلاج نے ان دو قدموں کا فاصلہ تہہ کیا تھا اور بریرہ کے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا

"میری غیرت کا تمہیں ابھی اندازہ نہیں ہے بریرہ شاہ۔۔۔ہم لوگ عزت دے رہے ہیں۔۔"

"نہیں چاہیے۔۔۔"

"تم۔۔۔"

بلاج بیٹا۔۔۔"

بلاج کی والدہ جیسے ہی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھنے لگی تھی بلاج نے پیچھے جھٹک دیا تھا

"آپ کو کس نے کہا درمیان میں بولنے کو۔۔؟ بات کررہا ہوں میں"

"تمہاری بات کی کیا ویلیو ہے میری نظروں میں۔۔؟ آنٹی آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔۔"

بلاج کی والدہ کا ہاتھ پکڑ کر بریرہ نے اپنے ساتھ صوفے پر بٹھا لیا تھا۔۔۔

"بری۔۔۔"

"بس بلاج۔۔۔تم نے بہت کام خراب کردیا۔۔اگر آج یہ لڑکی جانے سے انکار کرے گی تو سوچ لینا میڈیا اور دنیا میں کتنی جگ ہنسائی ہوگی فیملی کی۔۔۔"

داد جی کی بات پر بلاج ایک دم سے ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔۔۔سونم کی نظریں حیرانگی سے بھری ہوئی تھی۔۔وہ اپنی دوست کو دیکھ رہی تھی جس نے ایسی کی تیسی کر کے رکھ دی تھی مافیا لیڈر کی۔۔۔

۔

"بریرہ۔۔۔میرا مطلب ہے پشمینہ بیٹا۔۔۔تمہیں کچھ یاد نہیں ہے۔۔یہ تمہاری رپورٹس ہیں۔ اور یہ شادی کا سرٹیفیکیٹ۔۔تمہاری بلاج کے ساتھ شادی ہوچکی ہے۔۔اور نکاح پر نکاح نہیں ہوتا تم جانتی تو ہوگی نا۔۔؟

میری بچی۔۔اگر تم مہتاب سے پیار کرتی ہو تو وہ بھی تم سے بہت محبت کرتا ہے۔۔پر اس پارٹی کے بعد بات میڈیا تک جا چکی ہے۔۔

تمہاری ہماری سب کی عزت برباد ہوجائے گی۔۔"

۔

"میں آپکے جذبات کی قدر کرتی ہوں پر اس شخص سے شادی۔۔؟ ایسا فیصلہ میں نے ماضی میں کیسے کیا ہوگا۔۔؟ یہ تو میری زندگی کی سب سے بڑا غلطی ثابت ہوئی ہوگی نا بلاج۔۔؟؟"

وہ پشمینہ کا لہجہ استعمال کر رہی تھی۔۔پر اسکی زبان سے نکلی اس بات نے بلاج حمدانی کی آنکھوں میں ایک تکلیف چھوڑ دی تھی۔۔

یہ بات کہہ کر بریرہ خود بھی چپ ہوگئی تھی۔۔

"غلطی۔۔؟؟ تم نے یہ غلطی اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے کی تھی۔۔۔بریرہ شاہ۔۔

مجھے یاد ہیں ہماری شادی کی وہ راتیں اسی غلطی کو دہراتی تھی تم جب ہمارے اپارٹمنٹ میں چھپ چھپا کر آتی تھی اپنی فیملی سے۔۔۔اور میری بانہوں میں ۔۔۔"

"بسس بلاج۔۔۔۔جاؤ یہاں سے۔۔۔"

بلاج غصے سے اٹھ گیا تھا وہاں سے۔۔

"بلاج حمدانی غلطیاں کرکے پردہ ڈالنا بریرہ کی عادت ہوگی۔۔۔پر میں پشمینہ شیخ ہوں۔۔

تم دیکھو تو سہی تمہاری جیسی  غلطی کو کیسے ٹھیک کرتی ہوں میں۔۔۔تمہارے جیسی غلطیاں صرف کاغذوں تک رہنی چاہیے۔۔۔بریرہ نے نکاح کرکے کی یہ غلطی۔۔۔

میں ڈائیورس پر سائن کرکے سدھاروں گی۔۔۔"

۔

وہ یہ کہہ کر واپس اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔بلاج کے دونوں ہاتھ بند ہوگئے تھے۔۔۔

اسکی آنکھوں میں غصہ۔۔۔اور دل میں ایک درد اٹھنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔بھری محفل میں اس پیار کو وہ غلطی کہہ گئی تھی جو اسے کبھی بہت پیار کرتی تھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔۔

۔

"YOU ARE THE Best Thing That Ever Happened To Me Pashmena"

۔

یہ کہتے ہی مہتاب نے منہ موڑ لیا تھا۔۔۔

۔

"مہتاب پلیز میری طرف دیکھو پلیز۔۔میں صرف تم سے محبت کرتی ہوں میں تمہارے بھائی کو جانتی بھی نہیں۔۔میں کسی بریرہ کو نہیں جانتی میں پشمینہ ہوں صرف تمہاری پشمینہ مہتاب مجھ سے نظریں نا چُراو میں مرجاؤں گی مہتاب۔۔"

ان دو سالوں میں پہلی بار مہتاب نے پشمینہ کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت اور اسکی آنکھوں میں آنسو نظر آئے تھے

"پشمینہ میں ہمیشہ سے حیران ہوتا تھا ان سیکیور رہتا تھا تمہیں لیکر ،،کیونکہ کہیں نا کہیں جانتا تھا میرے نصیب کہاں اتنے اچھے کہ تم جیسی لڑکی میری بیوی کے روپ میں آئے گی میری زندگی میں،،،دیکھو نا میرے خطرات سچ ثابت ہوگئے۔۔۔ہوا کا ایک جھونکا آیا اور تمہیں لے گیا"

"وٹ ربیش۔۔میں نہیں مانتی میں پشمینہ شیخ ہوں۔۔میں وقت اور حالات کے آگے جھکنے والی نہیں ہوں آئی لوو یو مہتاب۔۔۔میں صرف تمہاری ہوں۔۔تم کیسے مجھے کسی اور کا ہوتے دیکھ سکتے ہو۔۔؟ میرے لیے لڑو مہتاب ہمارے رشتے کے لیے لڑو۔۔"

۔

"نیچے سب انتظار کر رہے ہیں جلدی کیجئیے۔۔"

مہتاب نے بریرہ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"ایم سوری۔۔۔"

مہتاب کا چہرہ بھر آیا تھا جب اس نے نظریں چرا کر اپنے داد جی اور اپنے بڑے بھائی بلاج حمدانی کی طرف نفرت کی نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔

"نیچے تک تو چھوڑ سکتا ہوں نا داد جی۔۔؟"

اس نے سر جھکا لیا تھا

"مہتاب۔۔۔"

بلاج آگے بڑھنا چاہتا تھا پر داد جی نے اسے روک دیا تھا اور مہتاب جانے کی اجازت دے دی تھی جو بریرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے مین ہال میں لے گیا تھا آہستہ سے

"وہ صرف  میری ہے داد جی۔۔"

بلاج کے ہاتھ میں پکڑا وہ شیشے کا گلاس ٹوٹ گیا تھا۔۔۔ بریرہ کی مہتاب کے لیے محبت دیکھ کر۔۔۔

۔

۔

"مہتاب ایک بار پھر سوچ لو۔۔"

"تمہیں ایک آخری بار کچھ ڈیڈیکیٹ کرنا چاہتا ہوں بری۔۔۔پشمینہ۔۔۔"

۔

مہمانوں سے بھرے اس ہال میں اسے سٹیج پر چھوڑ کر مہتاب اپنا گیٹار لینے چلا گیا تھا۔۔

۔

"تم نے کیا کہا تھا مجھے مہتاب تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا مس پشمینہ۔۔وہ میرا بھائی ہے دیکھو میرے لیے تمہاری محبت کو ٹھوکر مار دی اس نے،،،"

بلاج اسکے اتنا قریب تھا وہ سمجھ رہا تھا بریرہ کو اس نے شکست دے دی۔۔پر وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا بریرہ شاہ کی اس چال کو۔۔

وہ تو خوش ہو رہا تھا جب مہتاب کی آواز اسکے کانوں میں پڑی تھی

"وہ مہتاب ہے میری محبت۔۔۔اگر اس نے ٹھوکر مار دی ہوتی تو آج اسکی آنکھوں میں خون نا اترا ہوتا نا اسکی آواز میں اتنا درد۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر تھوڑا دور ہوئی تھی۔۔

۔

"اب نہ دل کو کسی کی عادت ہو،،،

اب نہ پھر سے کبھی محبت ہو،،،"

بلاج کی مسکراہٹ تو چلی گئی تھی۔۔پر بریرہ شاہ کے چہرے پر بھی وہ جیت نہیں رہی تھی مہتاب کی آواز سن کر

"اتنی بھی خواہش نہ رہی کسی سے چاہت ہو،،،

تیری مجھ کو نہ اب ضرورت ہو۔۔۔

اب نہ پھر سے کبھی محبت ہو۔۔۔"

۔

"واااووووووو مہتاب جیووو شہزادے۔۔۔"

۔

ہال میں ایک کزن نے اونچی آواز میں کہا تھا۔۔پر ان تین لوگو کی نظریں ایک دوسرے پر تھی۔۔

مہتاب کے جھکے سر نے حمدانی خاندان کو مجبور کردیا تھا اسکا درد سمجھنے میں۔۔۔

۔

"دردوں کے سائے میں ملتی اب راحت ہے۔۔۔تیری تمنا نہیں

تجھ سے جدا ہوکے سیکھا اب جینا ہے۔۔۔اک تو ضروری نہیں"

۔

"اتنی بھی خواہش نہ رہی کسی کی حسرت ہو،،،

دل پہ تیری نا حکومت ہو،،،،

اب نہ پھر سے کبھی محبت ہو۔۔۔"

۔

"تم مجھے کبھی اس سے جدا نہیں کر سکو گے بلاج۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر واپس کمرے میں جانے کے لیے مڑی تھی پر بلاج نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"تھینکس ٹو ایوری ون۔۔۔اینجوائے کیجئیے بلاج حمدانی کو انکی کھوئی ہوئی بیوی فائننلی مل گئیں ہیں۔۔"

مہتاب وہا ں سے چلا گیا تھا

"کیا میں مہتاب کے ساتھ وہ سب کرنے میں کامیاب ہوگئی ہوں جو بلاج نے میرے ساتھ کیا تھا۔۔؟ کیا میں نے مہتاب کے ساتھ بھی وہی بےوفائی نہیں کر دی جس کا شکار میں ہوئی تھی۔۔۔"

وہ اپنی سوچ میں گم ہوگئی تھی جب بلاج نے اسے پکارا تھا۔۔اور اس نے غصے سے بلاج کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

۔

"بریرہ۔۔۔"

بریرہ نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تھی

"پشمینہ۔۔۔شیخ۔۔۔"

"شٹ اپ۔۔بریرہ ہو تم سنا تم نے۔۔۔"

"ہاتھ چھوڑیں میرا مسٹر حمدانی۔۔۔"

"تماشہ نا لگاؤ بریرہ سب ہماری طرف دیکھ رہے تھ۔۔۔"

بریرہ نے اپنا ہاتھ چھڑا کر ایک زور درا تھپڑ مارا تھا بلاج حمدانی کو۔۔

"جب میں نے کہا ہاتھ چھوڑو تو ہاتھ پکڑنے کی جرات مت کیجئیے مسٹر بلاج حمدانی۔۔۔

نہیں ہوں میں بریرہ۔۔۔پشمینہ شیخ ہوں۔۔۔"

۔

۔

وہ پورے ہال کو شاکڈ چھوڑ گئی تھی پہلی بار خاندان میں بزنس میں کسی نے بلاج حمدانی کو اس طرح سے انسلٹ ہوتے دیکھا تھا۔۔۔

۔

۔

"بلاج۔۔۔"

۔

داد جی کی آواز کو ان سنا کر کے وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"یہ ہے بلاج بھیا کا بیڈروم۔۔۔اور آپ۔۔۔"

"یہ میرے بیڈروم میں نہیں رہے گی۔۔مدیحہ میری بیوی اسکی جگہ ہے میرے دل میں میرے بیڈروم میں۔۔۔اینڈ یو مس پشمینہ شیخ آج جو تھپڑ تم نے مجھے مارا ہے وہ میں بھولنے والا نہیں ہوں تمہیں تمہاری اوقات میں دیکھاؤں گا۔۔۔"

بلاج نے اسکا ہاتھ پکڑ کے گیسٹ روم کے باہرایک جھٹکے سے اسے پیچھے دھکیل دیا تھا۔۔۔

گھر والے اسکے غصے پر شاکڈ تھے پر پشمینہ کی خاموشی پر بھی حیران تھے

"ہممم اچھی بات ہے۔۔میں تمہارے ساتھ ویسے بھی کوئی کمرہ شئیر نہیں کرنے والی تھی مسٹر بلاج۔۔"

بلاج کے منہ پر دروازہ بند کر گئی تھی۔۔۔پر وہ وہی جانتی تھی کہ اسکے دل میں کس قدر تکلیف ہوئی تھی۔۔جس طرح بلاج نے مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیدروم کی طرف لے جانے کا کہا تھا۔۔

"بلاج کچھ اور وقت بس۔۔۔وقت اوقات بتا دے گا۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بلاج۔۔۔کہاں جا رہے سو جاؤ نا۔۔"

"میں بس ابھی آیا۔۔۔"

مدیحہ نے دوسری طرف کروٹ بدل کے آنکھیں بند کرلی تھی۔۔۔

وہ سویا کب تھا۔۔؟ مدیحہ کو منا کر اپنی محبت کا یقین دلا کر اسکے ساتھ چند پیار بھرے لمحوں کے بعد بھی اسے نیند نہیں آئی تھی۔۔

اسے وہ عینک پہنی معصوم لڑکی کی آنکھیں نہیں بھول رہی تھیں۔۔وہ جو اسے بار بار یاد دلاتی تھی بلاج بےوفائی مت کر۔۔۔مجھے چھوڑ دینا پر مجھے توڑنا نہیں۔۔۔"

۔

بلاج اپنے کپڑے پہن کے کھڑکی کی طرف چلا گیا تھا

۔

"کی ملیا میں رواں کے۔۔۔کی ملیا مینوں گنوا کے۔۔۔

پچھتاؤنی اے تینوں چاہ کے،،،تیرے نال محبتاں پا کے،،،"

۔

"بلاج جُدائی برداشت ہوجاتی ہے پر بےوفائی نہیں۔۔۔"

بلاج نے پیچھے مڑ کر اپنے بیڈروم کی حالت دیکھی تھی اور پھر مدیحہ کی طرف دیکھا تھا جو اسکی محبت تھی۔۔۔تو پھر بریرہ کیا تھی۔۔؟ اسے خود سمجھ نہیں ابھی تک۔۔۔

۔

"تو مینوں ورت کے سٹیا ،،،او دل بیکار کتھے آ۔۔۔؟؟

جتھے جا کے تو ویکیا،،،اور بازار کتھے آ،،،،

میرے جذباتاں دا ہویا دس وے۔۔۔بیپار کتھے آ۔۔۔"

۔

"بریرہ۔۔۔"

اسکی آنکھیں جھکی تھی تو چھلکی تھیں چند قطرے جو نیچے گرے تھے اسکے ہاتھ پر

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"دنیا دیکھے دیکھے روپ میرا،،،،

کوئی نا جانے بیچاری میں۔۔۔

ہائے ٹوٹی ،،،ساری کی ساری میں۔۔۔"

اس نے سر اٹھا کر جب چاند کی طرف دیکھا تھا اسکی بھری آنکھیں چھلک گئیں تھی۔۔

وہ ابھی اس گیسٹ روم سے جیسے ہی نکلی تھی اسکی نظریں اس بئوفا کے بیڈروم کی طرف گئی تھی جو شاید اس نے جان کر دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ اور گہرے زخم دے سکے اسے۔۔۔

۔

"میں بریرہ شاہ۔۔سوچتی تھی تم ایک نعمت جیسے ہو بلاج جو مجھے ملی۔۔۔سوچتی تھی گھر والوں سے بغاوت کرکے مجھے خوشیاں ملیں گی تمہارے روپ میں۔۔پر کیا ملا۔۔؟ تمہاری بےوفائی۔۔۔"

اسکے رخصار پر جیسے ہی اسے محسوس ہوا کسی کی انگلیاں اسکے آنسو صاف کررہی تھیں بریرہ نے جیسے ہی مڑ کر دیکھا مہتاب کی آنکھوں میں بھی وہی درد تھا۔۔۔

"مہتاب۔۔۔"

"شش۔۔۔کچھ مت کہنا آج خاموشی کو حاوی ہونے دو پشمینہ۔۔

الفاظ نکلیں گے تو ہم دونوں کو توڑ دیں گے۔۔۔"

مہتاب کی باتوں نے اسے اور رنج میں مبتلا کردیا تھا۔۔

"تمہیں نہیں پتا مہتاب یہ آنسو تمہارے لیے نہیں ہیں۔۔"

وہ خود سے کہہ رہی تھی جب مہتاب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی پر بٹھا دیا تھا

"ہم دونوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوا مہتاب۔۔؟؟ مجھے آزاد کروا لو تمہارا بھائی خود تو اپنی محبت اپنی بیوی کے ساتھ اپنے بیڈروم میں ہے اور میں۔۔؟"

اس نے مہتاب کی آنکھوں میں ایک دم سے غصہ دیکھا تھا۔۔۔بس اور کچھ وقت لگنا تھا۔۔۔اسکی ساری چال کامیاب ہوجانے والی تھی۔۔۔

اسکا مقصد یہی تھا اس گھر میں آنے کا۔۔۔

"پشمینہ سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔۔۔بلاج بھائی کی عزت تمہاری عزت اس فیملی کی عزت۔۔

سب کچھ۔۔۔"

"اور تم مہتاب۔۔؟ بہت آسان ہے مجھے چھوڑنا تمہارے لیے۔۔"

مہتاب نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا بریرہ کا ہاتھ جیسے ہی اس نے اپنی قریب کیا تھا اسکے آنسوؤں نے بریرہ کے ہاتھ بھگو دئیے تھے

"تمہیں لیکر کچھ بھی آسان نہیں رہا میرے لیے۔۔پہلے تمہیں ڈیٹ پر لےجانا۔۔

پھر تمہارے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا۔۔۔پھر تمہیں منگنی کے لیے راضی کرنا 

اور پھر شادی۔۔۔پشمینہ تمہیں لیکر کچھ آسان نہیں تھا" 

سر جھکا لیا تھا۔۔۔اسکے کندھے جس طرح سے کانپ رہے تھے بریرہ کو پتا چل گیا تھا۔۔

وہ آج کامیاب ہوگئی دشمن کے بیٹے کو توڑنے میں

"مہتاب۔۔۔"

"تم یہیں رہنا میں کچھ لاتا ہوں۔۔مجھے پتا ہے جب تم پریشان ہوتی ہو تمہارا دل وہی کھانے کا کرتا ہے۔۔میں بس آیا۔۔۔"

وہ اپنے آنسو صاف کرکے وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

"مہتاب۔۔۔"

اور اس بار اسکی آنکھوں میں آنسو مہتاب کی حالت کو دیکھ کر آئے تھے

۔

کب تک وہ چاند کی طرف دیکھتی رہی اور اسکی آنکھیں بند ہوگئیں تھیں وہ گہری نیند میں چلی گئی تھی۔۔

اس وقت وہاں ہلکے قدموں سے بلاج آیا تھا۔۔۔

"اچھا ہوا تمہیں کچھ یاد نہیں بریرہ۔۔ورنہ میری چشمش تم تو میری بےوفائی دیکھ کر مر ہی جاتی۔۔۔"

پر بریرہ کو اس حالت میں کھلے آسمان کے نیچے اس طرح دیکھ کر اسکے دل میں بھی ایک ٹھیس اٹھی تھی۔۔

وہ جانتا تھا اس نے غلط کیا آج۔۔پر وہ غلط کیوں سمجھ رہا تھا وہ خود نہیں جانتا تھا۔۔

اس تھپڑ نے ایک نفرت پیدا کردی تھی ایک ایسی آگ جس میں وہ جلانا چاہتا تھا پشمینہ شیخ کو۔۔۔

۔

بریرہ کو آہستہ سے اٹھا کر وہ وہاں سے لے گیا تھا۔۔۔اور جب اس گیسٹ روم میں وہ داخل ہوا تو وہ گیسٹ روم کسی سٹور روم سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ 

بلاج نے بیڈ پر جیسے ہی اسے لٹایا تھا بریرہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔بلاج حمدانی کی دھڑکنے تیز ہوگئیں تھیں ایک دم سے۔۔۔

۔

"مت جاؤ پلیز۔۔۔مہتاب۔۔۔"

وہ جو نرمی بلاج کی نظروں میں تھی مہتاب کے نام سے چلی گئی تھیں۔۔۔وہ اپنا ہاتھ طیش میں چھڑا کر وہاں سے باہر آگیا تھا اور مہتاب کے ساتھ ٹکڑ ہوئی تھی اسکی۔۔

۔

"اووو۔۔۔بھیا۔۔۔"

"تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو۔۔؟؟ اور یہ ۔۔؟"

بلاج گیسٹ روم کے آگے کھڑا ہوا تھا

"وہ۔۔۔یہ۔۔۔پشمینہ کے لیے۔۔اوپر ٹیریس میں ہی تھی ابھی اب نہیں ہے۔۔"

"وہ تمہارے ساتھ تھی۔۔؟؟"

اس نے سختی سے پوچھا تھا۔۔۔

"جی بھیا وہ۔۔۔"

"اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔"

"پر۔۔۔"

"مہتاب جاؤ کمرے میں۔۔۔"

"اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔میں پشمینہ کو یہ دہ دوں۔۔جب وہ اپسیٹ ہو تو وہ آئس کریم کی ڈیمانڈ ضرور کرتی ہے۔۔"

وہ کہہ کر اندر جانے لگا تھا کہ بلاج نے مہتاب کو کندھے سے پکڑ کر واپس کھینچ لیا تھا۔۔۔

"وہ میری بیوی ہے۔۔۔"

"ہممم۔۔۔اسی لیے آپ نے اسے اس روم میں دھکیلا تھا۔۔؟ بلاج بھائی  مدیحہ بھابھی جتنی عزت پشمینہ کو بھی اس رشتے میں دیجئیے۔۔۔اگر آپ کی طرف سے ایک غلطی ہوئی پشمینہ کو کوئی تکلیف ملی تو میری طرف سے۔۔۔ خاندان جائے بھاڑ میں۔۔۔میں پشمینہ کا ہاتھ پکڑ کر لے جاؤں گا یہاں سے۔۔۔"

۔

مہتاب نے پہلی بار بلاج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا اور وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

بریرہ کی بند آنکھیں ایک مسکراہٹ کے ساتھ کھل گئی تھی۔۔۔

۔

بلاج حمدانی بس کچھ اور وقت۔۔۔تمہیں سمجھ آجائے گی فیملی ٹوٹنا درد سہنا کیسا ہوتا ہے۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ بیٹا۔۔۔"

داد جی کی آواز پر وہ رک گئی تھی جو ٹریک سوٹ پر باہر جا رہی تھی

"داد جی پلیز پشمینہ کہیں مجھے۔۔۔"

"ہمم پشمینہ بیٹا آؤ ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کریں تم گھر کی بڑی بہو۔۔۔"

"وہ تو یہ بیٹھی ہوئی ہے نا گھر کے  بڑے بیٹے کے ساتھ مدیحہ بلاج حمدانی۔۔۔ پرفیکٹ فیملی نہیں بلاج۔۔۔۔۔"

اس نے بلاج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا

۔

"تمہارا مسئلہ کیا ہے لڑکی۔۔۔؟؟ تمہیں تو شکر کرنا چاہیے جو عزت تمہیں بریرہ کے نام سے نہیں ملی وہ اب مل رہی۔۔۔تب تم رک۔۔۔"

"ایک لفظ نہیں ورنہ رکھیل لفظ تم استعمال کر رہی ہو۔۔؟ جو بنا شادی کے پریگننٹ ہوئی۔۔؟

تم سے اچھی تو بریرہ تھی شادی کے بعد اس شخص کے ساتھ تعلقات قائم کئیے اس نے۔۔۔"

بلاج نے کچھ نہیں کہا تھا وہ خاموش تھا بریرہ کی باتوں نے ایک تمانچہ مار دیا تھا ان کے چہروں پر۔۔۔

۔

بنا کچھ کہے وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

۔

"داد جی کسی عزت دار لڑکی کو گھر لے آئیں ہیں تو گھر کے افراد کو تمیز اور تہذیب بھی سیکھا دیں۔۔

مدیحہ بھابھی۔۔رکھیل لفظ استعمال کرنے سے پہلے وہ نکاح کی تاریخ بھی پڑھ لیں جس میں بلاج بھائی نے شادی کی تھی بریرہ شاہ سے۔۔

اپنی بیوی کو نکاح کے بعد سب کے سامنے رکھیل کہنا بلاج بھائی دشمنی تھی انکا بدلہ تھا جو انہوں نے پورا کردیا چاہے اس سب میں انکا بچہ مرگیا۔۔چاہے دو لوگ مرگئے۔۔۔

آپ اسے رکھیل کہنے کے بجائے اپنے شوہر سے پوچھیں انکی بےوفائی کی وجوہات۔۔۔"

"اننف۔۔۔"

بلاج نے ٹیبل پر ہاتھ مار کر مہتاب کو چپ کروانے کی کوشش کی تھی۔۔۔

"تم مہتاب حمدانی دور رہو میری زاتی زندگی سے۔۔۔"

وہ اپنے چھوٹے بھائی کو انگلی دکھا کر وارننگ دے رہا تھا۔۔۔

جو آج تک کبھی نہیں ہوا تھا۔۔۔

مہتاب تو بلاج کی جان رہا تھا ہمیشہ سے۔۔۔داد جی نے اپنے بیٹے زمرد کودیکھا تھا جن کی نظر انکی بیوی پر تھیں۔۔۔

۔

۔

"بی کئیر فل بریرہ رمشا بھابھی کے ساتھ انکا تین سال کا بیٹا بھی ہے جسے ان لوگوں نے کڈنیپ کیا ہے۔۔"

"تم نے بہت دیر سے بتایا مجھے ڈینیل،، وہ صرف رپورٹر نہیں تھا ایک فیملی تھا ہماری اسکی اچانک موت نے ہمیں سنبھلنے   کا موقع نہ نہیں دیا تھا اور اب اسکی فیملی کو کڈنیپ کرلیا گیا۔۔"

۔

"بریرہ ایک کنفرم کال آنے دو مجھے لگ رہا ہے اس میں بلاج شامل نہیں ہے۔۔اگر ایسا ہوا تو وہ جگہ کسی خطرے سے کم نہیں باقی گارڈز کو آنے دو۔۔"

بریرہ نے ڈینیل کے ہاتھ کو جھٹک دیا تھا اور اپنا ہیلمٹ پہن کر کک ماری تھی اپنی ہیوی بائیک کو

"تم کرو انتظار ڈینیل۔۔۔وہ جگہ مجھ سے زیادہ خطرناک نہیں ہوسکتی۔۔اب مجھے بریرہ سمجھ کر کمزور جاننا چھوڑ دو میں اب پشمینہ ہوں۔۔۔"

۔

اور اس نے فُل سپیڈمیں بائیک چلا دی تھی۔۔ بلیک ہیلمٹ میں لیدر کی بلیک جیکٹ اور بلیک جینز کے نیچے بلیک لونگ بوٹ۔۔۔جس غصے میں وہ وہاں سے گئی تھی ڈینیل سمجھ گیا تھا آج ان لوگوں کی خیر نہیں ہے۔۔

۔

"جب تک مجھ میں آگ ہے باقی۔۔سورج تو بجھنا  نہ جلتے رہنا۔۔

جب تک مجھ میں جان ہے باقی۔۔ دھڑکن تو رُکنا نہ،،،چلتی رہنا۔۔"

۔

"بلاج حمدانی اگر ان سب میں تم بھی شامل ہوئے تو وقت سے پہلے تمہیں سزا دے کر اختتام کردوں گی اس بےوفائی اور میرے بدلے کا۔۔۔۔"

۔

کچھ دیر میں وہ اس ایڈریس پر پہنچ گئی تھی۔۔ تین گاڑیاں وہاں پارک تھی اور کچھ گارڈ وہاں پہرا دے رہے تھے۔۔

وہ اپنی گن نکال کر نشانہ لگانے کے لیے ایک جگہ پر چھپنے کے لیے مڑی تھی پر اندر کھنڈر نما گھر سے اسے ایک عورت کی چیخنے کی آواز آئی تھی اور پھر رونے کی۔۔

۔

بریرہ نے اپنی دونوں گنز نکال لی تھی اور اسی طرف بڑھی تھی۔۔جو اسکے راستے میں آرہا تھا اسے وہ زخمی کرتی جارہی تھی

۔

"گارڈ ہیں یا کتوں کی ٹیم بنائی ہوئی ہے باسٹرڈ نے۔۔"

۔

بریرہ جلدی سے اندر گئی تھی جب چیخوں کی آواز تھمنے لگی تھی۔۔

۔

"رمشا۔۔۔؟؟اووو شٹ۔۔۔"

اس کمرے میں بندھی رمشا اور نیچے بےہوش اسکے بیٹے کو دیکھ کر بریرہ جلدی سے بیٹھ گئی تھی

وہ ابھی اس بچے کو ہوش میں لا رہی تھی کہ پیچھے سے کسی نے بریرہ کے سر پر گن رکھ دی تھی۔۔۔

"ہینڈزاپ بچ۔۔۔"

بریرہ نے آنکھیں بند کر کے پیچھے دیکھا تھا۔۔

"ماسک اتارو۔۔۔رمیز سر کو بُلاؤ۔۔۔"

وہ گارڈ چلایا تھا۔۔

"باس اوپر اینجوائے کر رہے کیوں نا ہم یہاں کچھ۔۔۔"

دو اور گارڈز آگئے تھے

"ویل اسکے لیے تمہیں زندہ رہنا ضروری ہوگا نہ۔۔؟"

اس گارڈ نے دوسرے کو حیرانگی سے دیکھا اور پھر ہنسنا شروع کردیا تھا۔۔

اتنے میں دونوں ک ہنسی بند ہوگئی تھی جب اپنی بیک سے ایک چھپی گن نکالی تھی بریرہ نے۔۔

"باسٹرڈ۔۔۔"بریرہ نے انہیں زخمی چھوڑ دیا تھا وہاں اور رمشا کی پٹی کھولی تھی اسکے منہ سے جیسے ہی پٹی نکالی تھی رمشا نے کھانسی کرتے ہوئے گہرے سانس بھرے تھے۔۔

"پلیز۔۔۔اسے بچا لو۔۔۔پلیز وہ شیطان اسے برباد کردے گا۔۔وہ اوپر ہے پلیز۔۔۔"

"ریلیکس تم دونوں کو باہر۔۔"

"نہیں۔۔۔اسے بچا لو پلیز۔۔۔ہمیں بچاتے ہوئے وہ مشکل میں پھنس گئی ۔۔"

اور بریرہ اپنی گن اٹھائے اوپر بھاگی تھی۔۔

۔

"تمہارے بھائی کو فون کرنا پسند کرو گی مس ردا۔۔؟؟ تمہارا وہ حال کروں گا کہ تمہارا بھائی یاد رکھے گا۔۔"

۔

اور پچھے سے دروازہ جھٹ سے کھلا تھا۔۔۔

اندر کمرے کی حالت اور وہ ڈری سہمی لڑکی کو اس شیطان نما آدمی کی گرفت میں دیکھ کر بریرہ نے اسکے بازو پر شوٹ کیا تھا۔۔۔"

"وٹ۔۔۔"

۔

بریرہ نے اسے بالوں سے پکڑا تھا اور گن کی بیک پھر سے اسکے سر پر ماری تھی۔۔۔ اور اسے اور مارنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔

جب بریرہ نے اسکے سر پر گن رکھی تھی اسے پیچھے سے کسی نے فائر کردیا تھا۔۔۔

۔

"یہاں سے نکلیں۔۔وہ لوگو یہیں آرہے ہیں۔۔۔"

رمشا نے سٹک اس گارڈ کے سر پر دے ماری تھی جس نے بریرہ پر ابھی فائر کیا تھا۔۔۔

"ردا۔۔۔ردا۔۔۔"

بریرہ نے اپنا زخمی بازو دیکھا تو خون نکلنا شروع ہوگیا تھا بنا اپنے زخم کی پروا کئیے اس نے اپنی جیکٹ اس لڑکی پر ڈال دی تھی جو رمشا کے گلے لگ کر رو رہی تھی

"یہاں سے چلنا ہوگا رمشا۔۔۔"

"ردا۔۔۔"

"مجھے مار دو۔۔۔مجھے واپس اس جہنم میں نہیں جانا رمشا۔۔وہ لوگوں نے اس جانور کو میری زندگی پر مسلط کیا۔۔شوٹ مئ۔۔۔"

"ردا۔۔۔پلیز۔۔۔یہاں سے چلو۔۔۔"

"نو۔۔۔مجھے مار دو۔۔نہیں زندہ رہنا مجھے۔۔"

ردا کہتے کہتے بےہوش ہوگئی تھی۔۔۔

۔

بریرہ نے رمشا کی مدد سے ردا کو باہر تک لے گئی تھی اور ان تین گاڑیوں میں سے ایک گاڑی میں ڈال دیا تھا ردا کو اور بیک سیٹ پر رمشا اور اسکا بیٹا بھی بیٹھ گئے تھے۔۔۔

"ڈینیل۔۔۔اگر تمہارے گارڈز پہنچ گئے ہیں لوکیشن پر تو پہلے میری بائیک کور کریں۔۔اور پھر رمیز کو۔۔وہ آدمی زندہ چاہیے اسے آسان موت نہیں ملنے چاہیے۔۔"

بریرہ نے ردا کی حالت دیکھ کر کہا تھا اور گاڑی گہما دی تھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"داد جی وہ ابھی بچی ہے آپ کو کسی انجان پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔۔۔"

"بابا سائیں آپ کب سے داد جی کے فیصلوں کی مخالفت کرنے لگے۔۔؟"

بلاج نے داد جی کے سامنے کرسی میں بیٹھ کر زمرد صاحب سے کہا تھا۔۔

"بلاج نے ٹھیک کہا زمرد ویسے بھی یہی عمر ہوتی ہے شادی کی وہ ہمارے دوست ہیں ساتھی ہیں

رمیز ایک اچھا لڑکا ہے۔۔بلاج کا اچھا دوست ہے۔۔کیوں بلاج تم اپنی چھوٹی بہن کو لیکر رمیز پر یقین کر ہی سکتے ہو نا۔۔؟؟"

"ہاں داد جی وہ اچھا لڑکا ہے۔۔ہماری فیملی بزنس کو فرانس میں وہی سنبھال رہا پوری ایمانداری کے ساتھ اور بابا سائیں آپ کے بھی تو دوست رہ چکےہیں نا صفدر صاحب رمیز کے والد۔۔۔"

"اسی لیے مجھے یقین نہیں۔۔۔میں نے اپنی بیٹی کو سب کے سامنے چاہے اتنا پیار نہیں دیا جتنا میرے دونوں بیٹو ں کو۔۔پر اس کا یہ مطلب نہیں میں اسکی فکر نہیں کرتا بابا سائیں۔۔اجازت چاہتا ہوں۔۔"

زمرد صاحب آفس سے چلے گئے تھے۔۔۔

"بابا سائیں آپ زمرد کی فکر نا کریں وہ لوگ اچھے ہیں دونوں بچے ساتھ پڑھے ہیں ایک کالج میں آپ بات چلائیں رشتے کی۔۔"

حمدانی صاحب کے دوسرے بیٹے نے آگے بڑھ کر اپنی رضا مندی ظاہر کی تھی

"ہمم اسی ہفتے بلاتا ہوں۔۔"

"چھوٹی کو ہوسٹل سے اب گھر بلالینا چاہیے۔۔بہت پڑھائی کرلی اس نے۔۔۔"

بلاج یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا پر جانے سے پہلے داد جی کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر اپنے ماتھے سے لگا کر اٹھا تھا وہاں سے۔۔۔

۔

۔

"بلاج میں مجھے اپنا آپ نظر آتا ہے میری چھوی ہے بلاج حمدانی۔۔۔"

داد جی نے جس غرور اور فخر سے بلاج کی تعریف کی تھی باقی کزنز نے نفرت سے داد جی کی طرف دیکھا تھا پر کسی میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"اب وہ کیسی ہے۔۔؟ تمہاری دوست کیا نام تھا اسکا ۔۔ردا۔۔؟؟"

بریرہ نے ماسک اتار دیا تھا جب وہ ہسپتال کے ویٹنگ روم میں داخل ہوئی تھی

"وہ ٹھیک نہیں ہے۔۔ڈاکٹرز نے کہا تھا پولیس رپورٹ کا۔۔اسے دو بار ہوش آیا اس نے دونوں بار خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے"

رمشا روتے ہوئے نیچے بیٹھ گئی تھی اور بریرہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کرے۔۔اسکی آنکھیں بھی نم تھی پر وہ اپنی کمزوری نہیں دیکھانا چاہتی تھی کسی کو بھی۔۔

اندر بستر پر لیٹی ہوئی لڑکی نے بریرہ شاہ کو بہت کمزور بنا دیا تھا کچھ گھنٹوں میں۔۔

"اس جانور کو زندہ مت چھوڑئیے گا بریرہ باجی۔۔"

"وہ۔۔۔ہم۔۔وہ بھاگ گیا۔۔اسکے لوگ اسے وہاں سے لے گئے ہیں۔۔"

بریرہ کا سر جھک گیا تھا شرم سے،،،

"ردا کو کیا انصاف نہیں ملے گا۔۔؟"

"تمہاری دوست کو انصاف ضرور ملے گا تم تھوڑا وقت دو مجھے۔۔۔رمشا میں رات میں پھر چکر لگاؤں گی۔۔۔"

۔

بریرہ کا موبائل جیسے ہی بجنا شروع ہوا تھا وہ آخری بار اس بےہوش لڑکی کو دیکھ کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔

اس ہسپتال سے گھر تک اسکا دھیان صرف اس لڑکی پر تھا۔۔۔ایک ہفتہ ہوگیا تھا وہ ایسے ہی روز اس لڑکی کو دیکھنے آتی تھی۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔۔"

۔

"میں بہت خوش ہوں صفدر۔۔ زمرد کو بھی اس رشتے سے کوئی انکار  نہیں۔۔۔"

داد جی نے ہنستے ہوئے کہا تھا سب لوگ موجود تھے۔۔۔

"رمیز بیٹا تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔"

"نہیں داد جی وہ میری پسند ہے۔۔میں اس سے شادی کا خواہشمند کب سے تھا۔۔

ڈیڈ نے بات کی آپ سے۔۔۔مجھ میں تو ہمت نہیں تھی کہ کہیں بلاج اور میری دوستی میں کوئی خلش نا آجائے۔۔۔"

"نونسس۔۔۔ویلکم ٹو مائی فیملی رمیز۔۔۔"

بلاج نے اٹھ کر رمیز کو گلے لگا لیا تھا۔۔۔

"بیگم جائیں لیکر آئیں ۔۔۔بھابھی آپ چائے پانی لیکر آئیں میٹھا لیکر آئیں۔۔۔"

سب ہی بہت خوش تھے۔۔۔بلاج کی نظریں بار بار دروازے پر جا رہیں تھی وہ بریرہ کا انتظار کررہا تھا جو صبح سے سونم سے ملنے گئی ہوئی تھی۔۔۔

"بلاج تمہاری دوسری بیوی نظر نہیں آرہی۔۔؟ کیا نام تھا اسکا ہاں بریرہ شاہ۔۔"

رمیز نے طنزیہ بات کی تھی۔۔۔

"وہ دراصل اپنی فیملی سے ملنے گئی ہے۔۔۔"

"پر وجیح شاہ کی فیملی تو ختم کر دی تھی بلاج نے۔۔۔؟؟"

صفدر صاحب نے جس طرح کہا تھا بلاج کی نظریں اٹھی تھی۔۔وہ آج حیران ہوا تھا۔۔

اس نے یہ جملہ بہت بار سنا تھا جو اسے ہر دفعہ سکون دیتا تھا پر آج نہیں۔۔۔

۔

"ردا آگئی ہے۔۔۔"

بلاج کی چچی اور والدہ اسکی چھوٹی بہن کو  لا رہیں تھیں۔۔۔آج وہ کتنے پورے دو سال بعد اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا۔۔

پر وہ حیران تھا اپنی بہن کے کانپتے ہوئے وجود کو دیکھ کر۔۔۔

۔

"ردا بیٹا تمہاری بات ہم نے رمیز کے ساتھ پکی کردی ہے تمہیں منظور ہے نا۔۔؟"

"نہ۔۔۔نہیں داد جی ایم سوری۔۔۔"

رمیز کے چہرے کے رنگ اڑ گئے تھے وہ اپنی آنکھوں سے وارننگ دے رہا تھا اور وہ اور کانپ رہی تھی۔۔۔وہ جیسے ہی اٹھی تھی ملازمہ کے ساتھ ٹکڑ سے وہ گرم چائے اس کے ہاتھ اور پاؤں میں گر گئی تھی پر اسے فکر نہیں تھی وہ باہر کی طرف بھاگی تھی

"ردا۔۔؟؟"

سب اسکی اس حرکت پر حیران تھی۔۔

"ردا۔۔۔"

رمیز نے غصے سے کہا تھا۔۔۔

"واوو۔۔۔لڑکی آرام سے۔۔۔"

بریرہ کا موبائل نیچے گر گیا تھا ردا کے ٹکرا جانے سے۔۔۔

"آپ آگئی۔۔۔"

ردا بریرہ کے گلے سے لگ گئی تھی۔۔۔بریرہ نے جیسے ہی اسکے چہرے کو دیکھا اسے اب سمجھ آئی تھی اور جب اسکی نظر اس شیطان پر پڑی تھی۔۔۔

بریرہ نے ردا کو اپنے پیچھے کردیا تھا۔۔۔اور رمیز کی طرف بڑھی تھی۔۔۔

"تم زندہ کیسے بچ گئے باسٹرڈ ۔۔۔"

وہ چلائی تھی اور اس نے ایک زور دار تھپڑ مارا تھا۔۔۔

"بریرہ۔۔۔"

پر اس نے بلاج کا ہاتھ جھٹک دیا تھا اور اور پھر سے رمیز کو مارنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔

"اننف بریرہ۔۔۔میرا ہاتھ اٹھ جائے گا چھوڑو اسے۔۔۔پاگل ہوگئی ہو۔۔؟؟"

"ہاں ہوگئی ہوں پاگل۔۔۔"

پھر سے بلاج کا بازوو جھٹک کر اس نے رمیز کو تھپڑ مارا تھا جو گھبرا گیا تھا پوری طرح سے وہ چاہ کر بھی اپنا دفاع نہیں کر پا رہا تھا

"بلاج کیا ہوگیا ہے تمہاری بیوی کو میری غلطی۔۔۔"

"تجھے شرم نہیں آئی گھٹیا انسان اس گھر میں قدم رکھنے کی ہمت۔۔۔"

بریرہ کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی جب بلاج نے اس پر ہاتھ اٹھا دیا تھا۔۔۔

"گھر کی عورت ہو تم۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی بریرہ اس طرح سے ذلیل کرنے کی رمیز کو۔۔ہونے والا داماد ہے۔۔۔"

وہ تو غصے میں چلا اٹھا تھا۔۔۔اسکی آواز سے ہر ایک فرد کانپ گیا تھا۔۔۔آج بلاج حمدانی کا غصہ آسمان چھو رہا تھا۔۔۔

جب بریرہ نے اپنی گال پر ہاتھ رکھ کر سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو اسکا دماغ گھوم گیا تھا اس زور دار تھپڑ سے ۔۔۔ہر چیز نظروں کے سامنے گھوم رہی تھی۔۔۔

۔

یہ دوسرا تھپڑ تھا۔۔۔اس شخص سے جسے اس نے ٹوٹ کرپیار کیا تھا۔۔۔

ہونٹ سے خون نکل رہا تھا۔۔۔بال پیچھے کرنے کی طاقت نہیں تھے اسکی جسم میں جب اسے یہ سمجھ آئی تھی اس پر ہاتھ کس نے اٹھایا تھا۔۔۔

وہ شیرنی کی طرح بلاج کی طرف لپکی تھی اور بلاج کا گریبان پکڑ لیا تھا اس نے۔۔۔

"بریرہ۔۔۔ایم سو۔۔۔"

"یہ آخری بار تھا جب نے نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا بلاج حمدانی۔۔۔"

اسکی آنکھوں میں آگ تھی۔۔۔پر اس آگ کے پیچھے بلاج کو وہ چشمش نظر آرہی تھی۔۔

جس کی حفاظت کی کبھی اس نے قسمیں کھائیں تھی۔۔۔اسکی آنکھوں میں درد اتر آیا تھا

بریرہ کے ہونٹوں سے خون نکلتا دیکھ کر 

آج بلاج حمدانی ایک لمحے میں وہ بلاج بن گیا تھا۔۔۔جو وہ کبھی بریرہ شاہ کے ساتھ تھا۔۔۔

"بریرہ۔۔۔"

"شوٹ مئ شوٹ مئ رائٹ ناؤ۔۔۔پر میں اس شیطان کے ساتھ نہیں جاؤں گی جس نے میری عزت کی دھجیاں اڑا دی۔۔۔آپ ڈیزرو نہیں کرتے نا مجھے نا ہی انہیں۔۔۔"

ردا نے روتے ہوئے بریرہ کو بلاج کی گرفت سے چھڑا لیا تھا۔۔۔اور وہ روتے ہوئے اسکے گلے لگ گئی تھی۔۔

"مجھے اس شیطان کی ساتھ نہیں جانا۔۔۔"

"تم نہیں جاؤ گی۔۔۔"

بریرہ نے اپنی بیک سے گن نکالی تھی۔۔۔

"داد جی میرا بیٹا۔۔۔"

داد جی کا ہاتھ اٹھ گیا تھا رمیز کے والد پر۔۔۔

اس سب شور شرابے میں بریرہ کی گن سے ایک گولی چلی تھی۔۔۔

"میں اسے ماروں گی نہیں اسے زندہ رکھوں گی پر اسکے اونر کے بغیر۔۔۔"

۔

اس نے ایک اور گولی چلائی تھی۔۔۔

۔

۔

وہاں بےہوشی کی حالت میں جیسے ہی ردا نیچے گری تھی۔۔۔

اسی طرح بلاج حمدانی۔۔۔اور زمرد حمدانی ایک زندہ لاش کی طرح کھڑے رہ گئے تھے وہاں۔۔۔

۔

رمیز کے ساتھ آئے ہوئے گارڈز بھی وہیں گرے پڑے تھے۔۔۔

۔

ردا کو اٹھا کر وہ لوگ اندر لے گئے تھے۔۔۔

اور اسی وقت مہتاب آنسوؤں سے بھرے چہرے کے ساتھ بلاج کے سامنے آکر کھڑا ہوا تھا

"بلاج بھائی آج آپ نے بریرہ پر ہاتھ اٹھا کر اپنی مردانگی ظاہر کردی ہے۔۔۔اور موقع دہ دیا ہے مجھے کہ اب میں بھی مرد بنوں بس اب اور رسوا نہیں ہونے دوں گا میں اس یہاں۔۔۔

بھائی کے رشتے میں تو آپ پہلے ہی ناکام ہوگئے تھے۔۔۔

آپ لوگوں کے گناہوں نے ردا کو بےردا کردیا۔۔۔۔۔"

"آپ لوگوں کے گناہوں نے ردا کو بےردا کردیا۔۔"

۔

"زمرد بھائی۔۔"

"ایک لفظ نہیں ایک لفظ نہیں۔۔۔"

زمرد صاحب اپنے چھوٹے بھائی کو پیچھے دھکا دے کر وہاں سے چلے گئے تھے۔۔

نا بلاج اپنی جگہ سے ہلا تھا نا داد جی

۔

"میں نے کہا نا مجھے مار دو نہیں رہنا زندہ مجھے۔۔سمجھ نہیں آتی۔۔۔"

اوپر کمرے سے ردا کی چیخ و پکار کی آوازیں پورے مینشن میں گونجنا شروع ہوگئیں تھیں۔

"بلاج۔۔۔"

پر بلاج کی نظریں رمیز کی زخمی حالت پر تھیں۔۔۔

وہ گریبان سے گھسیٹے ہوئے رمیز کو وہاں سے لے گیا تھا اور اپنی گاڑی کی ڈکی میں ڈال کر اس نے فل سپیڈ میں گاڑی چلا دی تھی

"داد جی۔۔۔"داد جی اپنے سینے پر ہاتھ رکھے وہیں گر گئے تھے

ربیل نے جلدی سے انہیں اٹھایا تھا انکے دونوں بیٹےانکو کمرے میں اٹھا کر لے گئے تھے

"یہ سب کیا ہوگیا ہے صفدر کے پورے خاندان کو تباہ کر دوں گا میں۔۔۔"

ربیل اپنے والد کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔وہ خود ہمیشہ سے مظبوط رہا تھا آج اپنی کزن کی اپنے گھر کی حالت نے اسکی آنکھوں میں پانی لادیا تھا۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"تم مر جاؤ گی تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔؟ردا "

"آپ نہیں سمجھ رہیں میری حالت کو۔۔کوئی نہیں سمجھ سکتا۔۔ مجھے اپنا وجود غلیظ لگ رہا ہے گندا لگ رہا ہے۔۔مجھے نہیں جینا اب۔۔"

روتے ہوئے گھٹنوں میں سر چھپا لیا تھا اس نے وہاں گھر کی عورتوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کوئی ردا کے پاس جائے وہ کسی کو اپنے پاس آنے نہیں دے رہی تھی

"آپ سب لوگ جائیں میں ردا کو سنبھال لوں گی۔۔۔"

"پر۔۔۔"

پلیز چچی۔۔جائیں رابیعہ آنٹی آپ بھی پلیز۔۔۔"

بریرہ نے سختی سے کہا تھا وہ جاتے ہوئے دروازہ بند کرگئیں تھیں۔۔۔

"آپ بھی جائیں یہاں سے پلیز۔۔۔"

"تاکہ تم خودکشی کرلو۔۔؟ گناہ گار ہوجاؤ۔۔"

بریرہ نے زبردستی اسکے ہاتھ اسکے منہ اٹھا لئیے تھے۔۔۔

چہرے اسکے آنسوؤں سے بھرا ہوا تھا آنکھوں میں درد تھا جو اب کبھی ختم ہونے والا نہیں تھا

۔

"تیرے سوا،،،جانے کوئی دل کی حالت ربا

سامنے تیری گزری مجھ پر کیسی قیامت ربا۔۔۔"

۔

"تم کمزور نہیں ہو ردا۔۔۔تم مظبوط ہو۔۔۔تم نے ابھی اس ظالم کا انجام دیکھنا ہے۔۔

اسے سزا ملتے دیکھنی ہے۔۔تم نے خود کو ختم نہیں کرنا ان ہاتھوں سے اسے سزا دینی ہے۔۔"

اسکے سر پر بریرہ نے اپنا سر رکھ دیا تھا اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیکر

"پشمینہ بھابھی۔۔۔"

"بریرہ۔۔۔بریرہ شاہ۔۔۔"

ردا حیران ہوئی تھی

"آپ کو یاد ہے۔۔۔؟؟"

"ہممم ردا اس معاملے میں ہم دونوں ایک ہی مقام پر ہیں۔۔کچھ لٹیرے عزتیں لوٹ کر خود کو مرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ لٹیرے جذبات لوٹ کر۔۔محبتیں لوٹ کر۔۔

پر ان میں سے مرد کوئی نہیں ہوتا۔۔ہم عورتوں کو مظبوط ہونے کی ضرورت ہے

جو ٹوٹ جائے بکھر جائے وہ کیسی عورت ہے جو ہار جائے۔۔؟"

۔

کب ان دونوں کو وہاں ایسے ہی بیٹھے رات ہوگئی تھی انہیں نہیں پتا چلا تھا۔۔روم کا دروازہ جیسے ہی کھلا تھا بلاج اندر داخل ہوا تھا۔۔پر اس نے جتنا آہستہ دروازہ بند کیا تھا ردا ڈر گئی تھی اور بریرہ کے پیچھے چھپ گئی تھی

"ردا۔۔۔"

"وہیں رک جائیں۔۔آپ چاہتے تھے میں اس سے ملنے جاؤں داد جی چاہتے تھے۔۔۔"

اس نے طیش سے کہا تھا

"گڑیا۔۔۔تمہارے مجرم کو سزا دے کر آیا ہوں۔۔اب وہ اپنے گندے ہاتھوں سے کسی لڑکی ہاتھ لگانے کے قابل نہیں رہا"

بلاج نے اپنے ہاتھوں پر لگا وہ سرخ رنگ دیکھایا تھا اسے۔۔۔

"میں اسے موت نہیں دوں گا۔۔میں اسے موت سے زیادہ بری سزا دوں گا۔۔"

وہ جیسے جیسے چل کر اسکے پاس آرہا تھا ردا اٹھ گئی تھی

"آپ لوگوں نے مجھے اس شیطان کے پاس بھیجا تھا۔۔ کیوں عزت نہیں ہے عورت کی اسکی مرضی کی ہمارے گھر میں بھیا۔۔"

وہ بلاج کے گلے سے لگی تھی روتے ہوئے۔۔بلاج حمدانی نے سر جھکا لیا تھا اسکا جسم بھی کانپ رہا تھا اسکی روح کی طرح وہ بھی رو رہا تھا۔۔

"وہ میرا دوست تھا۔۔۔مجھے نہیں پتا تھا اسکا خون اتنا گندا نکلے گا ردا۔۔ورنہ کونسا بھائی اپنی عزت کو کسی کے پاس بھیجے گا۔۔"

اتنا رونے کے بعد وہ پھر سے بےہوش ہوگئی تھی۔۔۔

"بابا۔۔۔بریرہ ڈاکٹر۔۔۔"

بلاج کے کندھے پر  بریرہ نے ہاتھ رکھ کر اسے اونچی بولنے سے روکا تھا

"اسے یہیں لٹا دو وہ ہوش میں آجائے گی۔۔ہمم کچھ وقت تک ایسے رہےگا بلاج۔۔ابھی شوک میں ہے وہ بھی اور اسکا جسم بھی۔۔۔ایک ٹراما میں ہے وہ۔۔"

بریرہ ردا پر کمفرٹ ڈال کر اٹھ گئی تھی۔۔۔

"پلیز سٹے۔۔۔۔"

بلاج کی ٹوٹی ہوئی آواز میں ایک التجا تھی جسے بریرہ چاہ کر بھی اگنور نہیں کر پائی تھی اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پر وہ بیٹھ گئی تھی۔۔۔

"سب ٹھیک کردوں گا میں ردا۔۔۔سب کچھ۔۔۔بلاج حم۔۔۔"

"بس کرو بلاج۔۔اب تو بس کرو۔۔۔تم ٹھیک کردو گے تو غلط ہونے ہی کیوں دیا تھا۔؟

کیا کرو گے۔۔؟ نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ گے۔؟ کیا کرو گے۔۔۔؟ کچھ نہیں کر سکتے تم تمہارا خاندان۔۔۔بڑی بڑی باتوں کے علاوہ۔۔۔ردا کو بڑے بڑے دعووں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے اعتماد کی ضرورت ہے۔۔جو اس خاندان کے پاس سے بھی نہیں گزرا۔۔۔"

"بریرہ۔۔۔"

حیرانگی میں بس ایک ہی لفظ نکلا تھا۔۔

"پشمینہ شیخ۔۔۔میں یہاں ردا کی وجہ سے رکی ہوں اس لیے پلیز اب ڈسٹرب مت کرنا مجھے صبح سے جاگ رہی ہوں۔۔۔"

وہ کڑوٹ لیکر دوسری طرف منہ کرچکی تھی۔۔۔

۔

"کم سے کم اس موقع پر اپنی آنا کو سائیڈ پر رکھ دو پشمینہ۔۔میں اور میری فیملی ابھی ان حالات میں نہیں کہ تمہاری کڑوی باتیں برداشت کرسکیں۔۔۔"

بلاج نے بہت آہستہ آواز میں کہا تھا۔۔۔ردا کا سر جیسے ہی اسکے کندھے پر گرا تھا وہ چپ ہوگیا تھا۔۔بہن کا ہاتھ پکڑے وہ اس رات وہیں اسکے سرہانے بیٹھا رہا تھا جیسے اسکی حفاظت کر رہا ہو۔۔

پر اس نے واقع بہت دیر کردی تھی۔۔۔

۔

۔

"خود پر آئی ہے تو تم تڑپ اٹھے ہو بلاج۔۔کاش میرا خاندان برباد کرتے ہوئے تم نے بھی سوچا ہوتا۔۔۔"

۔

آنسو اسکی آنکھوں میں بھی تھے

وہ دشمن کی بیٹی بریرہ شاہ آج اپنے دشمن کی بہن کا دُکھ دیکھ کر ویسے ہی روئی تھی جیسے اپنی حالت پر۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"پاپا کی پری باقی کہانی کل میں دودھ کا گلاس لیکر آیا۔۔۔"

بہرام پری کو بیڈ پر لٹا کر روم سے باہر آگیا تھا۔۔

وہ جیسے ہی کچن میں آیا اسکی بھابھی اور امی پہلے سے وہاں موجود تھیں 

"آپ کو اس طرح سے نہیں آنا چاہیے تھا امی۔۔پری کو بھی ساتھ لے آئیں ہیں آپ لوگ۔۔"

اپنی ناراضگی کا اظہار اس نے بہت آہستہ لہجے میں کیا تھا سر جھکائے وہ اپمے ماں باپ اپنی فیملی کے سامنے ایسا ہی تھا نرم مزاج۔۔۔

"پری ہر وقت روتی رہتی تھی بہرام اسفند بھی آنا تھا میٹنگ کے لیے۔۔تو تمہارے ابو نے کہا کہ ہمیں بھی آنا چاہیے۔۔تمہارا کوئی بھی نمبر نہیں مل رہا تھا"

ممتا کی شفقت سے بھرا ہاتھ جب انہوں نے بہرام کے چہرے پر رکھا تھا بہرام سمجھ گیا تھا کوئی بڑی وجہ ہے ان لوگوں کے آنے کے پیچھے

"امی سب خیریت ہے۔۔؟؟"

"بیٹا میں کچھ بتانا چاہتی ہوں تمہیں۔۔"

وہ دودھ کا گلاس اس نے کاؤنٹر پر رکھ کر اپنی امی کا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"امی میں بھی ایک ضروری بات بتانا چاہتا ہوں آپ بہت خوش ہوں گی۔۔"

"اور جو میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں تم بہت خوش ہوگے۔۔۔"

پیچھے کھڑی بھابھی ہنس رہیں تھیں۔۔۔

"میں پری کو دودھ دے آؤں۔۔"

بھابھی گلاس پکڑ کر کچن کے دروازے تک ہی گئیں تھیں کہ پیچھے سے بہرام کی بات سن کر وہ شیشے کا گلاس انکے ہاتھ سے نیچے گر گیا تھا۔۔۔

۔

"امی بریرہ زندہ ہے۔۔۔"

"بیٹا وجیح بھائی صاحب زندہ ہیں۔۔۔"

۔

ان دونوں نے ایک ساتھ اپنی اپنی بات کہہ دی تھی۔۔پر بہرام کے چہرے پر خوشی نہیں تھی جبکہ بہرام کی امی نے آگے بڑھ کر خوشی سے بہرام کو اپنے  گلے سے لگا لیا تھا

"بہرام سچ میں۔۔؟؟ پر آج صبح اسفند انکی قبر پر گیا تھا۔۔"

"یہی بات میں وجیح تایا جان کے لیے بھی تو کہہ سکتا ہوں نا امی۔؟ انکی بھی قبر وہیں ہے۔۔۔"

وہ دونوں خاموش ہوگئے تھے۔۔

"آپ چلیں میرے ساتھ۔۔۔"

انکا ہاتھ پکڑ کر بہرام انہیں باہر لیونگ روم میں لے گیا تھا۔۔۔ یہ چھوٹا سا اپارٹمنٹ اس نے دو ہفتے پہلے رینٹ پر لیا تھا۔۔اور وہ یہیں سے بہت سے معاملات سنبھال رہا تھا۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"پورے دن کا سب سے خوبصورت لمحہ یہ ہے بلاج جب تمہاری بانہوں میں میری آنکھیں کھلتی ہیں۔۔"

بلاج کی آنکھوں پر بوسہ دیتے ہوئے بریرہ نے نے سرگوشی کی تھی

"اور میرے لیے تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے چشمش۔۔۔کیونکہ تم نے اٹھ کر چلے جانا ہوتا ہے

دنیا کی بھیڑ میں کھو جانا ہوتا ہے۔۔"

"دنیا کی بھیڑ چاہے جتنا بھی دور رکھے مجھے۔۔۔تم مجھے ڈھوند نکالتے ہو  تمہاری آنکھیں مجھے کھوج نکالتی ہیں بلاج۔۔۔"

بلاج کی لفٹ آئی پر پھر سے اس نے بوسہ دیا تھا۔۔

۔

۔

اور اسکی آنکھیں کھل گئی تھی جب اپنی گال پر اسکے کسی کا ہاتھ محسوس ہوا تھا۔۔

بریرہ نے جیسے ہی آنکھیں کھولی تھی بلاج نے اپنا ہاتھ جلدی سے پیچھے ہٹا لیا تھا۔۔

"وہ۔۔میں۔۔تم یہاں کیسے آئے۔۔؟؟"

وہ غصے سے چلائی تھی۔۔۔

"شش۔۔ردا نماز پڑھ رہی ہے۔۔"

"صبح ہوگئی۔۔۔اینڈ یو گیٹ لوسٹ۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے اتنا قریب آنے کی۔۔؟"

"سیریسلی۔۔؟؟ یہ میری سائیڈ ہے میڈم۔۔۔یو گیٹ لوسسٹ۔۔۔"

"اوکے۔۔۔"

وہ جیسے ہی جانے کے لیے بیڈ سے اٹھی تھی بلاج نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔۔۔

بلاج پر گرنے سے خود کو بچانے کے لیے اپنے ہاتھ بلاج کے سینے پر رکھنے کی کوشش کی تھی پر ناکام رہی تھی جب بلاج نے اسکی ویسٹ پر اپنا بازو رکھا تھا۔۔۔

"وٹ دا۔۔۔"

"ششش۔۔۔۔میں بس تمہیں تھینکس کہنا چاہتا ہوں۔۔جو بھی تم نے میری بہن کے لیے کیا۔۔"

بریرہ کچھ پل کو ساکن ہوگئی تھی۔۔۔

"اور سوری بھی کہنا چاہتا ہوں۔۔۔"

بلاج کی سوفٹ سائیڈ دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی

"سوری۔۔؟؟"

"وہ جو میں اب کرنے جا رہا ہوں۔۔۔"

یہ کہتے ہی اس نے بریرہ کےہونٹوں کے قریب اپنا چہرہ کیا تھا۔۔۔

اسے جیسے ہی اپنے ہونٹوں پر وہ بوسہ محسوس ہوا بریرہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوگئی تھی۔۔۔

"شرم نہیں آتی بہن کے سامنے۔۔۔"

"ہاہاہا اچھا اکیلے میں کرسکتا ہوں۔۔؟؟"

گو ٹو ہیل۔۔۔"

۔

وہ پاؤں پٹک کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

۔

بلاج کی نظریں جیسے ہی سجدے میں پڑی روتی ہوئی ردا کے وجود پر پڑی تھی ایک ہلکی سی مسکان بھی اسکے چہرے سے جا چکی تھی اور وہ بھی غصے سے کمرے میں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ارسل بھائی۔۔۔"

وہ اپنے اس ویران اجڑۓ ے ہوئے گھر میں داخل ہوئی تھی جہاں اسے پتا تھا ارسل ملے گا۔۔

"تم آگئی ہو۔۔؟ دشمن کے گھر میں عاشی کرتے کرتے تھکی تو نہیں ہوہوگی نا "

ارسل اپنا لیپ ٹاپ پیچھے کردیا تھا

"آپ یہاں کیوں ہیں۔؟ یا تو پاکستان واپس جائیں یا اس ملک سے۔۔۔"

"اور وہاں جا کر چوڑیاں خرید کر پہنوں کے وہ بھی پہنا کر بھیجو گی بڑے بھائی کو۔۔؟"

وہ غصے سے غرائے تھے

"آپ سمجھ کیوں نہیں فار گوڈ سیک ایک بار میری سن لیجئیے۔۔یہ لڑائی میری ہے بھائی۔۔ آپ پاکستان جائیں آپ کا انتظار کر رہی ہوں گی آپ کی ماں۔۔"

"میری ماں۔۔؟؟ سہی کہا باپ کو تو تم نے مار دیا۔۔اپنے جذبات پر قابو رکھ لیتی اپنی محبتوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیتی تو آج ہم لوگ کتنا خوش ہوتے پر نہیں تمہیں دشمن کے بیٹے کے ساتھ عشق پروان چڑھانا تھا۔۔"

زہر اگلتی زبان سے نفرت بھری باتوں نے بریرہ کے دل کو اور پتھر کردیا تھا

"آپ کو جو سمجھنا ہے سمجھیں۔یہ جنگ میری ہے اور اسے میں ہی لڑوں گی۔۔"

"ہاں کیسے لڑو گی۔۔؟ تمہیں دیکھاتا ہوں جنگ کیسے لڑتے ہیں بدلہ کیسے لیتے ہیں۔۔

اسکی بہن کا تماشہ جب پورے میڈیا میں لگے گا پھر ان کو پتا چلے گا کسی کی بہن کو رکھیل کہنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔۔ابھی یہ سب میڈیا کو سینڈ کرنے ہی والا تھا۔۔۔"

بریرہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی ارسل کی بات سن کر ارسل نے جیسے ہی اینٹر کے بٹن پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی بریرہ نے وہ لیپ ٹاپ اٹھا کر زمین پر دے مارا تھا اور اتنی بُری طرح سے کے اسکے ٹکڑے ہر کونے میں جاکر پھیلے تھے۔۔۔

"بریرہ۔۔۔" ارسل نے جیسے ہی غصے سے ہاتھ اٹھایا اس پر اسکا ہاتھ کسی نے پکڑ لیا تھا۔۔۔

"میں نے بریرہ کو اس لیے یہاں نہیں بھیجا تھا کہ تم اس پر ہاتھ اٹھاؤ اسکی تذلیل کرو۔۔۔

میری نظر میں ارسل بھائی اب آپ بھائی نہیں رہے ہو۔۔چلو بریرہ۔۔۔"

ڈینیل نے طیش سے کہا تھا۔۔۔

"ارسل بھائی بیٹیاں سانجھی ہوتی ہے۔۔۔وہ لوگ خاندانی نہیں تھے۔۔میں اس محبت میں معصوم تھی۔۔۔میں نے اسے پاکیزہ عشق کیا تھا نکاح کیا تھا۔۔اس نے تماشا بنا دیا سب کی باتیں تیروں کی طرح میرا کلیجہ چھننی کرتی ہیں۔۔

میں اس محبت میں معصوم تھی اس بدلے میں نہیں۔۔۔

میں کبھی انکی طرح نیچے نہیں گروں گی۔۔اس گھر کے مرد ہی کافی ہے میری سزا کے لیے۔۔۔"

۔

وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

۔

"بریرہ۔۔۔۔بابا سائیں۔۔۔"

ارسل اپنے گھٹنوں پر گر گیا تھا وہاں اسکی سسکیاں اسے ہی سنائی دے رہیں تھیں 

"بریرہ بدلہ تو میں لیکر چھوڑوں گا۔۔۔مرد ہی سہی بریرہ بدلہ تو پورا ہوگا ہمارا۔۔۔

کاشان کا۔۔بابا سائیں کا ،، تمہارا۔۔۔بدلہ ضرور پورا ہوگا۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔۔"

۔

"صبح صبح کہاں جا رہی ہو۔۔؟"

بلاج ایک ہاتھ میں تکیہ پکڑے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔

"فرصت مل گئی آپ کو بہن کے کمرے سے آنے کی۔۔؟"

مدیحہ نے لپسٹک لگا کر بلاج کی طرف دیکھا تھا۔۔۔ جو مدیحہ کو اس طرح سجے سنورے دیکھ کر حیران تھا۔۔گھر میں سوگ کا سما تھا اور اسکی بیوی اس طرح کمرے سے باہر جانا چاہتی تھی۔۔

"میں نے کچھ پوچھا ہے مدیحہ۔۔؟ کہاں جا رہی ہو۔۔؟ میں نے تمہیں ایک بار بھی ردا کے کمرے میں نہیں دیکھ تم اسکی طبیعت کا ایک بار بھی پوچھنے گئی ہو کیا۔۔؟"

تکیہ بیڈ پر پھینک کر وہ اسکی طرف بڑھا تھا

"وہ۔۔اہم۔۔۔بلاج دراصل میں ۔۔۔ردا ۔۔میری خود کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔"

"اچھا اب تو سہی لگ رہی چلو اب چلیں ردا کے پاس بیٹھو اسکی طبیعت کا پوچھو اسے اچھا لگے گا۔۔"

وہ مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے دروازے تک لے گیا تھا۔۔

"اننف بلاج۔۔۔نہیں جانا مجھے اسکے پاس۔۔نہیں دل کرتا میرا۔۔"

"کیوں۔۔"

اسکی آواز میں ایک درد ابھر آیا تھا اپنی بیوی اپنی محبت کے لیجے میں اپنی بہن اور اسکی حالت کے لیے اتنی حقارت دیکھ کر

"کیوں۔۔؟ تمہیں نہیں پتا۔؟ کیا ہوا اسکے ساتھ۔۔وہ یہاں کیوں ہے۔۔۔ اسے کسی پاگل خانے بھجوا دو۔۔جہاں ایسے وکٹم رہتے ہیں۔۔"

"مدیحہ۔۔۔" بلاج نے ہاتھ اٹھا دیا تھا۔۔۔پر اسے مارا نہیں تھا اسکا ہاتھ رک گیا تھا یہ وہی ہاتھ تھا جو کچھ دن پہلے بریرہ پر بےساختہ اٹھا تھا بنا کسی لحاظ کے۔۔۔

"میں بریرہ یا پشمینہ نہیں ہوں بلاج مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی بھی نا کرنا۔۔۔"

وہ بلاج کے ساتھ ٹکراتے ہوئے باہر چلی گئی تھی 

"مدیحہ۔۔۔۔"

بلاج بیڈروم کے دروازے تک گیا تھا جن سیڑھیوں سے مدیحہ نیچے جا رہی تھی انہیں سیڑھیوں سے ناشتے کی پلیٹ پکڑے بریرہ اوپر آرہی تھی۔۔۔مدیحہ نے اسکا راستہ روک لیا تھ۔۔

"اب نمبر بنانا چاہتی ہو بلاج کے لیے ناشتہ بنا کر لے جارہی۔۔۔"

"کیوں تمہارے ہاتھ ٹوٹ گئے ہیں جو تمہارے شوہر کے لیے میں ناشتہ بناؤں گی۔۔۔؟؟

ردا کے لیے لے جا رہی ہوں۔۔۔راستہ چھوڑو ورنہ گرم چائے تمہارے مینیکئیور ہاتھوں میں ڈال دوں گی مدیحہ بلاج حمدانی۔۔۔"

وہ جنگلی بلی کی طرح جھپکی تھی مدیحہ کی طرف اسے پتا تھا گھر والے متوجہ ہوگئے ہیں اور وہ ڈر کر پیچھے ہونے والی نہیں تھی۔۔۔

مدیحہ جیسے ہی پیچھے ہوئی تھی بریرہ اوپر چلی گئی تھی۔۔

"اپنی پالتو بلی کو کہنا آیندہ میرا راستہ کاٹنے کی کوشش کی تو میں اسے الٹا کاٹ لوں گی۔۔۔"

وہ کہہ کر ردا کے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔۔۔اور بلاج نے اسے ردا کے کمرے تک فالو کیا تھا۔۔۔

جو ناشتے کی ٹرے بیڈ پر رکھ کر ردا کو ٹیڑھی میڑھی شکلیں بنا کر مدیحہ کی باتیں بتا رہی تھی۔۔

اور ردا ہنس رہی تھی۔۔۔

بریرہ نے جیسے ہیں ردا کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانا شروع کیا بلاج حمدانی پیچھے مڑ گیا تھا۔۔۔

اس میں ہمت نہیں تھی اور برداشت کی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ہمم میں ابھی حمدانی مینشن میں نہیں ہوں سونم۔۔"

بریرہ چلتے چلتے پارک کے سامنے رُکی تھی جہاں وہ اکثر بلاج کے ساتھ آتی تھی یونیورسٹی سے واپسی پر۔۔

ایک ہاتھ میں لیپ ٹاپ اور دوسرے میں موبائل لئیے وہ پارک کے اندر داخل ہوئی تھی جہاں بچوں ہر طرف کھیل کود رہے تھے۔۔ایک پل کو وہ اپنا اردہ بدل دینا چاہتی تھی اور کسی کیفے میں بیٹھ کر اپنا باقی کا ورک کرنا چاہتی تھی

پر اسکے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔۔

جو ڈیٹا اسکے ہاتھ لگا تھا وہ ایک پل کی بھی تاخیر نہیں کرنا چاہتی تھی

بچوں کو انکے پیرنٹس کے ساتھ ہنستے کھیلتے ہوئے دیکھ کر اس ایک درد محسوس ہوا تھا۔۔

جو وہ محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی کبھی نہیں۔۔

"بریرہ۔۔۔بریرہ۔۔"

فون سے آتی سونم کی آواز نے اسے متوجہ کیا تھا

"تمہیں وہاں ہونا چاہیے بریرہ۔۔جو بھی ہوا وہ "

"اک منٹ۔۔؟ ڈونٹ ٹل مئ تمہیں ہمدردی ہو رہی دشمن کی بیٹی سے۔۔"

اس نے ہنسنے کی کوشش کی تھی جو ہنسی اسکے ہونٹوں پر آئی ہی نہیں تھی

"کیا تمہیں نہیں ہو رہی ہمدردی۔۔؟ وہ دشمن کی بیٹی سے پہلے ایک لڑکی ہے بریرہ۔۔

میں تمہیں جانتی ہوں۔تم بلاج جتنی نیچے نہیں گر سکتی۔۔

میں بس اتنا کہنا چاہتی تھی تمہیں کچھ دنوں کے لیے سب روک دیتے ہیں چندا۔۔"

سونم کی ہلکی آواز میں کہی گئی بات نے کسی چیخ کا کام کیا تھا بریرہ کے لیے جو ایک دم سے غصے سے لال ہوگئی تھی۔۔

سامنے خالی بینچ پر اس نے اپنا لیپ ٹاپ رکھا تھا غصے سے

"یہی تو دن ہیں۔۔کمزوری میں ایک اور وار کرنے والی ہوں میں سونم۔۔

بلاج کی کمر ٹوٹ جائے گی اسکی غیرت کے ساتھ جب بیوی کی بےوفائی سامنے آئے گی۔۔

"بریرہ۔۔نہیں کرو۔۔۔اسے اب اس طرح سے تکلیف مت دینا۔۔۔"

"ہاہاہا ٹرائی مئ چندا۔۔۔"

سونم کو بہت میٹھی آواز میں طنز کیا تھا بریرہ نے اور فون بند کردیا تھا۔۔

"بلاج حمدانی مدیحہ وہ لڑکی تھی جو تمہاری محبت تھی۔۔جیسے تم میری محبت تھے۔۔

تم نے مجھے دھوکہ دیا اور اس نے تمہیں۔۔

بےوفا کے ساتھ بےوفائی ہوگئی محبتیں دونوں طرف سے نیلام ہوگئیں

زخم نا یہاں بھرے،،،نا وہاں بھرے گے۔۔

سکون نا ملا تھا نا وہاں ملے گا۔۔

بےوفائی کی سزا اِسے بھی ملے گی اور اسے بھی۔۔۔"

۔

"سنوووی۔۔۔سنوووی۔۔۔۔"

ایک وائٹ ریبیٹ بھاگتے ہوئے اسی طرف آیا تھا اور بریرہ کے بینچ کے نیچے کہیں چھپ گیا تھا اور اسکے پیچھے دو چھوٹے چھوٹۓ قدم بھاگتے ہوئے آئے تھے۔۔

"سنووی باہر آؤ نا۔۔۔بابا سے ملواؤں تمہیں۔۔"

"بریرہ نے لیپ ٹاپ بند کیا تھا جب اسکے گھٹنے پر اسے چھوٹا سا ہاتھ رکھا محسوس ہوا تھا۔۔

وہ چھوٹی سی بچی پوری طرح سے بینچ کے نیچے سر کرکے اس خرگوش کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی

"وہ ایسے نہیں آئے گا باہر۔۔"

"تو کیسے باہر آئے گا۔۔؟؟"

اس بچی نے دونوں بازو بریرہ کے گھٹنوں پر رکھ کر بہت معصومیت سے پوچھا تھا اور بریرہ کے چہرے پر مسکان آگئی تھی اس بچی کی معصوم شکل دیکھ کر

"پری۔۔۔پری بیٹا وہ ڈر گیا ہے میری جان وہ ایسے باہر نہیں۔۔"

ایک جان پہچانی آواز کہتے کہتے رکی تھی۔۔۔

"بہرام۔۔۔"

اور پھر بریرہ کی نظریں اس بچی پر گئی تھیں جو ابھی اپنی جگہ سے اٹھ کر بہرام کی طرف بھاگی تھی۔۔۔

"شئ۔۔از۔۔؟؟ یور ۔۔؟؟"

"یس۔۔میری بیٹی پری۔۔۔پری سئے ہیلو۔۔۔"

"اسلام علیکم۔۔۔۔"

بہرام کی بات کاٹ کر پری نے سلام کیا تھا بریہ کو جو اور شاکڈ ہوئی تھی۔۔۔

"و۔۔وعلیکم سلام۔۔شئ از بیوٹیفل۔۔۔"

بریرہ کا لہجہ بہت نرم ہوگیا تھا۔۔

"وہ بھی بہت بیوٹیفل ہے۔۔پلیز ہیلپ مئ۔۔سنووی کو پکڑنے میں۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔۔اوکے۔۔۔"

وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔۔۔اپنے ساتھ ساتھ بہرام شاہ کو بھی حیران کردیا تھا

اسکی پری کے ساتھ اٹریکشن نے

"پر وہ باہر نہیں آرہا نا۔۔"

"ابھی دیکھتے ہیں۔۔۔"

وہ بھی پری کی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی۔۔۔

"آپ اب ایسے منہ دیکھیں گے یا ہمار مدد کریں گے مسٹر بہرام۔۔۔"

اور بہرام نے اپنا کھلا ہوا منہ بند کرلیا تھا۔۔۔

"یس بابا آپ دوسری طرف سے پکڑیں اسے۔۔۔"

اور وہ تینوں گھٹنوں کے بل بیٹھے توجہ کا مرکز بن گئے تھے باقی سب کی۔۔۔

جب اور کچھ منٹوں کی تاخیرکے بعد وہ لوگ اس خرگوش کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے تھے

بہرام نے اسے پکڑ کر بریرہ کے ہاتھوں میں پکڑایا تھا۔۔۔اسکی نظریں بہرام پر تھیں۔۔۔

اس نے وہ ریبٹ جھک کر پری کو پکڑایا تھا جو ڈر رہا تھا پر پری اسے بہٹ پیار سے سنبھال رہی تھی۔۔

"بیوٹیفل فیملی۔۔۔لیو لونگ۔۔۔"

"نائس کپل۔۔۔"

ان سب کمنٹس سے بریرہ کے چہرے کی مسکان چلی گئی تھی۔۔

"ایکسکئیوزمئ۔۔۔"

وہ لیپ ٹاپ پکڑے وہاں سے جانے لگی تھی جب پری نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔

"ہمارے ساتھ بریک فاسٹ کرکے چلی جائیے گا پلیز۔۔۔بابا نے پرومس کیا ہے سب میری پسند کا ہوگا۔۔۔"

اور بریرہ رک گئی تھی اسکی نظریں پہلے پری پر پڑی تھی اور جب اس نے بہرام کے چہرے کی طرف نظریں ڈالی تو اس نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔۔۔

"اوکے۔۔۔پر اسکے بعد مجھے جلدی جانا ہے۔۔"

"یےے۔۔۔چلیں بابا۔۔۔چلو سنووی۔۔۔۔"

وہ اس ریبٹ کو لئیے آگے چلنا شروع ہوئی تھی۔۔۔

"شئ از کریزی۔۔۔ہاہاہاہا سنووی نام بھی رکھ لیا۔۔۔"

بہرام اور بریرہ ساتھ ساتھ چلنا شروع ہوئے تو بہرام نے ہنستے ہوئے کہا تھا

"ہاہاہاہا آپ پر گئی ہے مسٹر جب میں نے کہا تھا یہاں سے چلے جائیں تو آپ کے بھی ایسے ہی کرتب دیکھے تھے

"ہاہاہاہا۔۔۔"

بہرام اور کھل کر ہنسا تھا ۔۔۔

نا وہ سخت مزاج بہرام شاہ لگ رہا تھا۔۔نا وہ بریرہ شاہ آنکھوں میں بدلے کی آگ لئیے نکلی ہوئی زخمی شیرنی لگ رہی تھی

"سنووی۔۔۔۔جاؤ تم اپنی ماما کے پاس۔۔۔"

یہ کہتے ہی پری نے اس ریبٹ کو وہیں چھوڑ دیا تھا

"وٹ دا۔۔۔پری۔۔اتنی مشکل سے پکڑا تھا بیٹا۔۔۔"

بہرام ایک دم سے اس چھوٹے ریبٹ کے پیچھے بھاگا تھا جو دور چلا گیا تھا

"بابا اسکی ماما وہاں بیٹھ کر اسے دیکھ رہی اگر یہ اپنی ماما سے دور ہوگیا تو میری طرح رویا کر ے گا۔۔۔"

اسکی باتیں بہرام کے لیے نئی نہیں تھی پر اسکا اس طرح سے سوچنا اور ری ایکٹ کرنا بریرہ کو اندر تک جھنجھوڑ گیا تھا۔۔۔وہ پری کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔۔

بریرہ کی یہ نرم سائیڈ بہرام پہلی بار دیکھ رہا تھا 

"پری۔۔۔بی۔۔۔بیٹاآپ اداس کیوں ہوگئیں ہیں آپ نے تو بہت اچھا کام کیا ہے ابھی۔۔اس خر۔۔میرا مطلب سنووی کو اسکی ماما کے پاس چھوڑ دیا۔۔میں آپ کو ایسا ہی ایک سنووی لیکر دوں گی آئی پرومس۔۔۔"

"تو اسکا مطلب ہم دوبارہ ملیں گے۔۔؟؟"

پری نے اپنے آنسو صاف کرنے کی کوشش کی تھی،،پر بریرہ نے اسکا ہاتھ پیچھے کرکے خود اسکی آنکھیں صاف کی تھیں۔۔۔

"اگر آپ اب نہیں روئیں گی تو پھر ضرور۔۔۔اب چلیں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔"

وہ دونوں جیسے ہی اٹھے تھے بریرہ نے لیپ ٹاپ بہرام کےہاتھ میں پکڑا دیا تھا۔۔

اور پری کا ہاتھ پکڑ کر پارک سے باہر جانے کے لیے قدم بڑھائے تھے۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"آفیسر مجھے بہت افسوس ہوا ہے محبت کو بچانے نکلے تھے عزت داؤ پر۔۔"

"ایک اور لفظ نہیں زبان وہیں تک نکالنا جہاں تک جا کر واپس آجائے حد سے باہر جاؤ گی تو کاٹ دی جائے گی۔۔۔"

"آفیسرز۔۔۔"

وہ دونوں سٹریٹ کھڑے ہوئے تھے 

"تم جاؤ رئیس۔۔اور آفیسر بی-اے-ایچ " نے جو وارننگ دی ہے اسے بھولنا مت "

"سر۔۔۔"آفیسر رئیس جیسے ہی وہاں سے گیا تھا سینئر آفسر نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے قابل ترین آفسر کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا،،

"یہ بات صرف رمیز تک نہیں جاتی اس سے آگے بھی اسکا تعلق ہے۔۔مجھے گہرا افسوس ہے اس خوفناک سانحہ پر۔۔۔اس لیے تمہیں میں آج اجازت دیتا ہوں جو ہوسکتا ہے کرو۔۔ان مافیا میں ایسے شیطانوں کو سبق سیکھا دو۔۔۔َ"

"تھینک یو سوو مچھ سر۔۔۔مجھے امید تھی آپ میرے لیے اس آرڈر کو پاس کردیں گے۔۔۔"

"گو آ ہیڈ۔۔۔تمہیں میری سپورٹ ہے ہر طرف سے۔۔۔"

ابھی وہ دونوں بات ہی کررہے ہوتے ہیں کہ فون بجنا شروع ہوگیا تھا

"ایک منٹ سر۔۔۔مجھے ارجنٹ جانا ہوگا۔۔۔"

"اپنا خیال رکھنا یہ مشن بہت مشکل ہے۔۔"

"جی شکریہ۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

""آپ نے بلایا بابا سائیں۔۔؟؟"

وہ سب داد جی کے کیبن میں اکٹھے ہوئے تھے داد جی کے سب بیٹے اور بیٹوں کے بیٹے موجود تھے وہاں۔۔

"بلاج نہیں آیا ابھی۔۔اسے فون کیا کسی نے۔۔؟؟"

۔

"داد جی۔۔۔"

بلاج بھی کیبن میں داخل ہوا تھا۔۔۔

"میں نے تم سب کو اس لیے بلایا ہے یہاں۔۔کہ صفدر نے اپنے بیٹے رمیز کی واپسی کے لیے ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔۔

مجھے کسی چیز کا ڈر نہیں ہے میرے بچوں۔۔۔

پر میرے گھر کی عورتیں اور انکی عزتیں  میری کمزوری بن گئیں ہیں۔۔

میں چاہتا ہوں گھر کے فرد انڈر گراؤنڈ ہوجائیں کچھ عرصے کے لیے۔۔۔"

"کبھی نہیں۔۔۔"

بلاج نے اپنے دونوں ہاتھ ٹیبل پر مارے تھے اور وہ کھڑا ہوگیا تھا

"کبھی نہیں داد جی۔۔۔اچھا ہے وہ لوگ اور لوگوں کو لائیں گے اچھا ہے یرے اندر کی تڑپ انکے خون پر ختم ہوگئی میری بہن کے ساتھ جو ہوا میں کسی اور کی بہن کے ساتھ نہیں ہونے دوں گا۔۔

گھر کی عورتوں  کی عزت اور انکی حفاظت کے لیے گھر کے مرد زندہ ہیںَ۔۔"

۔

"بلاج بھائی نے ٹھیک کہا ہے داد جی۔۔خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔۔"

ربیل بھی کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔

"میں بھی بلاج بھیا کی بات سے متفق ہوں میں حفاظت کروں گا۔۔"

باقی سب کزنز بلاج کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔۔

"زمرد ۔۔۔؟؟؟"

حمدانی مردوں کا قہر دیکھیں گے یہ لوگ اب بابا سائیں۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"پری کھڑے ہوکر نہیں بیٹھ کر کھائیں نا۔۔"

بہرام نے کرسی پیچھے کرکے پری کو بیٹھانا چاہا تھا پر وہ بریرہ کی گود میں جا کر بیٹھ گئی تھی۔۔

"میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں نا۔۔؟"

پری نے بریرہ کے کھلے منہ کو دیکھ کر پوچھا تھا

"آپ تو بیٹھ چکی ہیں۔۔"

"اچھا میں پوچھ کر بیٹھتی ہوں ون منٹ۔۔"

وہ انیچے اترنے لگی تھی بریرہ کی گود سے پر بریرہ کی گرفت مظبوط ہوگئی تھی اس نے پری کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا

"بس بچہ تھک جاؤ گی۔۔۔"

"اوکے تھینک یو۔۔۔بابا اب کھانا کھلائیں۔۔۔"

بہرام ابھی بھی ان دونوں کی بونڈنگ دیکھ کر شوکڈ تھا۔۔۔

۔

"میں نے آپ کو جانے کا کہا تھا آپ نے اس چھوٹی بچی کو بھی بلالیا۔۔۔"

بریرہ نے خود پری کو کھلانا شروع کیا تھا بریک فاسٹ جو انہوں نے ابھی آرڈر کیا تھا

"یہ لوگ بن بتائے آئیں ہیں۔۔۔"

"یہ لوگ۔۔؟؟ اور کون کون آیا ہے۔۔؟؟"

"وہ۔۔۔امی رشنا بھابھی اسفند بھائی۔۔۔"

"اور میں۔۔۔"

پری نے بتاتے ہوئے بریرہ کے گال پر بوسہ دیا تھا

"بیوٹیفل تو آپ  مجھ سے زیادہ ہیں۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔اگر پری کی باتیں نا ہوتی تو آپ کی اچھی خاصی کلاس ہونی تھی مسٹر بہرام۔۔"

اس نے آخری بات آہستہ آواز میں کہی تھی

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بھابھی میں اب ٹھیک ہوں۔۔"

ردا نے جائے نماز بچھا لیا تھا۔۔

"پر ردا۔۔۔"

بھابھی آپ بھی اپنے کمرے میں جاکر آرام کیجئیے۔۔۔"

"نہیں میں یہیں رہتی ہوں۔۔چندا۔۔"

"جب آپ چندا کہتی ہیں ممتا جھلکتی ہے۔۔۔آپ کیسے دشمن کی بہن کے ساتھ محبت کرسکتی ہیں بےلوث۔۔؟؟"

"ردا دشمن کے ساتھ بھی میری محبت بےلوث تھی۔۔"

بریرہ بیڈ پر اس جگہ پر بیٹھ گئی تھی سامنے ردا کھڑی تھی

"پھر تو یہی کہوں گی دشمن قسمت اور نصیب کے معاملے میں بہت بدنصیب ثابت ہوا نہیں۔۔؟"

"ہممم ۔۔۔پر بدنصیب میں زیادہ ٹھہری ہوں ردا۔۔۔جو مجھے اس شخص سے محبت ہوئی کہ پچھتاوے کے لیے یہ زندگی بھی کم ہے۔۔۔

تم نماز ادا کرو میں آتی ہوں۔۔"

آنکھوں کو جلدی سے صاف کرکے وہ اٹھی تھی۔۔۔

"آپ کب ادا کریں گی۔۔؟؟"

ردا نے بریرہ کا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔

"کیا ادا کرنا ہے میں نے۔۔۔؟؟"

"آپ کب نماز ادا کریں گی۔۔؟ کب سجدہ ادا کریں گی۔۔؟

آپ کب قضا ادا کریں گی بریرہ بھابھی۔۔؟؟

سجدے میں سر جھکائیں گی تو سکون ملے گا روح کو۔۔بےچین دل کو۔۔۔"

۔

بریرہ آہستہ سے ہاتھ چھڑا کر وہاں سے چلی گئی تھی بنا کسی بات کے جواب دئیے۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔۔۔۔"

۔

۔

"آج پھر تکیہ اٹھائے جا رہے ہو۔۔پھر بہن۔۔"

"آج بہن نہیں آج میں اپنی بیوی کے کمرے میں جا رہا ہوں تمہیں اعتراض ہے۔۔۔"

بلاج کی شرٹ پیچھے سے جس بدتمیزی کے انداز میں مدیحہ نے پکڑی تھی دو بٹن ٹوٹ گئے تھے۔۔

"وٹ تم اس رکھیل۔۔"

"اننف۔۔۔آج ہاتھ اٹھایا تو میں رکوں گا نہیں۔۔۔بیوی ہے رکھیل نہیں زبان کو لگام دو اور راستہ چھوڑو۔۔۔"

"تم اگر اس کمرے سے باہر گئے تو میں گھر چھوڑ جاؤں گی بلاج۔۔۔"

"جاؤ شوق سے۔۔۔پر میں لینے نہیں آؤں گا۔۔۔"

۔

بلاج کمرے کا دروازہ زور سے بند کرکے چلا گیا تھا۔۔۔اسی روم میں جو کچھ دن پہلے سٹور رروم تھا۔۔پر اس نے ملازموں سے کہہ کر اس کمرے کو اس مینشن کا سب سے خوبصورت کمرا بنوا دیا تھا۔۔۔

۔

۔

وہ بہت آہستہ سے دروازہ بند کر کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔کمرے میں روشنی صرف کھڑکی سے آرہی تھی۔۔اس روشنی میں وہ معصوم چمکتا ہوا چہرہ بلاج کی سانسیں بہت آہستہ کرچکا تھا۔۔

۔

"چشمش۔۔۔"

بلاج بیڈ پر بہت آہستہ سے لیٹا تھا۔۔۔چہرے پر بکھری زلفوں کو پیچھے کرنے میں کتنا وقت لگا تھا اسے خبر نہیں تھی۔۔۔

جب آنکھیں تھک بند ہونا شروع ہوگئی تھی اسی وقت بریرہ کا موبائل بجنے پر بلاج نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی۔۔

"بلاج حمدانی تمہاری بیوی تمہیں کیا کمرے سے نکال دیتی ہے کبھی ردا کے کمرے تو کبھی میرے۔۔۔"

۔

بریرہ نے بلاج کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے بہت آہستی سے چھڑا کر بیڈ پر رکھا تھا۔۔

اسکی بات سے بلاج کی ہنسی چھوٹ گئی تھی اندھیرا ہونے کی وجہ سے بریرہ کو محسوس نہیں ہوا تھا۔۔

بلاج نے چہرہ پھر سے سخت کرلیا تھا سونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے۔۔فون دوبارہ بجا تھا اسکا۔۔

"بریرہ۔۔پری کو بہت تیز بخار ہورہا اور بار بار تمہیں بلا رہی رو رہی ہے۔۔۔کیا تم۔۔؟؟ کیا میں لینے آؤں۔۔؟؟"

۔

بہرام کی آواز آواز میں بہت ہچکچاہٹ تھی۔۔۔

"میں آتی ہوں آدھے گھنٹے میں۔۔۔"

۔

بریرہ کی بات پر بلاج کی ہنسی تو غائب ہوئی تھی پر ایک ڈر سا بیٹھ گیا تھا بریرہ جس طرح گھبرا گئی تھی اور اپنے کپڑے لیکر باتھروم میں چلی گئی تھی۔۔۔

۔

بلاج کی نظریں بار بار بریرہ کے موبائل پر جارہی تھی۔۔۔پر اسکے ہاتھوں میں ہمت نہیں تھی بریرہ کا موبائل چیک کرنے کی۔۔۔

بریرہ جیسے ہی کپڑے چینج کرکے باہر آئی تھی۔۔۔بلاج نے آنکھیں بند کرلی تھی۔۔۔

بریرہ گاڑی کی چابی اور موبائل پکڑ کر روم سے چلی گئی تھی۔۔۔

جب مین گیٹ بند ہوا تھا۔۔۔

بلاج بھی اس کمرے سے باہر چلا گیا تھا۔۔

اسکے قدم بھی بریرہ کو فالو کررہے تھے۔۔

جب بریرہ کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی تب بلاج نے اپنی گاڑی سٹارٹ کی۔۔

بریرہ کی گاڑی کی سپیڈ دیکھ کر اسے اندازہ ہورہا تھا۔۔۔

۔

۔

"آپ آگئی۔۔۔۔"

بریرہ جیسے ہی گاڑی سے اتری تھی پری بھاگتے ہوئے آئی تھی اور پیچھے بہرام۔۔۔

۔

بریرہ نے اس روتی ہوئی بچی کو اپنی گود میں اٹھا لیا تھا اور اپنے سینے سے لگایا تھا

"شش میری فائٹر روتے نہیں"

"اندر چلتے ہیں۔۔"

بریرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہ لوگ جیسے ہی اندر کی طرف بڑھے تھے بلاج اپنی گاڑی سے اترا تھا۔۔۔

"بریرہ۔۔۔"

۔

"جئے لوڑ نہیں ہن میری منہ تے میرے بول وے۔۔۔

منگ نا سلاہواں جا کے ،،، پر لوکاں کول وے۔۔۔۔

جئے دینا اے تے دل نال ساتھ دیویں میرا توں۔۔۔

جئے رولناں وی اے تے چنگی طراں رول وے۔۔۔"

۔

۔

"بےوفا۔۔۔"

۔

گھر کا دروازہ جیسے ہی بند ہوا تھا بلاج پلٹ گیا تھا۔۔

گاڑی پر سر رکھ کر آنکھ سے آنسو نکلا تھا سکی اور لبوں سے ایک لفظ بھی۔۔۔

۔

"تمہیں آج سے بےوفائی کے وہ روپ دیکھاؤں گی بلاج کہ تم برداشت نہیں کرپاؤ گے۔۔۔"

بلاج کے پلٹ جانے پر بریرہ نے وہ دروازہ پھر سے کھولا تھا۔۔۔

اسے پتا تھا بلاج آج وہ والا بلاج تھا۔۔۔چشمش کا بلاج۔۔۔وہ جانتی تھی آج وہ کامیاب ہوئی تھی اس بےوفا کی آنکھوں میں آنسو لانے میں۔۔۔

پر اسکی آنکھیں کیوں بھیگ گئیں تھیں۔۔؟؟

"تمہیں آج سے بےوفائی کے وہ روپ دیکھاؤں گی بلاج کہ تم برداشت نہیں کرپاؤ گے۔۔۔"

بلاج کے پلٹ جانے پر بریرہ نے وہ دروازہ پھر سے کھولا تھا۔۔۔

اسے پتا تھا بلاج آج وہ والا بلاج تھا۔۔۔چشمش کا بلاج۔۔۔وہ جانتی تھی آج وہ کامیاب ہوئی تھی اس بےوفا کی آنکھوں میں آنسو لانے میں۔۔۔

پر اسکی آنکھیں کیوں بھیگ گئیں تھیں۔۔؟؟

۔

دروازہ جیسے ہی بریرہ نے بند کیا تھا بلاج نے مُڑ کر پھر سے دیکھا تھا

موبائل بار بار جیب میں بج رہا تھا پر وہ وہیں پتھر جیسے کھڑا رہ گیا تھا۔۔

بریرہ کی گود میں وہ بچی اور بہرام کے ہاتھ بریرہ کے کندھے پر وہ منظر بار بار اسکی آنکھوں سے گزر رہے تھے۔۔۔

۔

جب دوبارہ بجا تو اس نے غصے سے اٹھایا تھا۔۔

"میں نے کہا تھا میرے پرسنل نمبر پر مجھے کوئی کال نا۔۔"

"وجیح شاہ کو کسی نے کڈنیپ کرلیا ہے۔۔۔"

۔

اور پھر فون بند ہوگیا تھا۔۔۔

"محبت ہو یا نفرت پوری ہو تو ہی اچھی لگتی ہے۔۔

نفرت ہو تو پوری طرح سے ہو

محبت ہو تو پوری طرح سے ہو یہ دو لفظ ایک وقت میں ایک انسان سے نہیں ہو سکتے ایک ساتھ"

۔

وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا تھا

"تمہاری منزل وہ نہیں میں ہوں بریرہ بلاج حمدانی۔۔۔"

وہ اسی سپیڈ سے گاڑی لے گیا تھا وہاں سے۔۔۔

۔

۔

"پری آپ کیوں رو رہی تھیں میں نے صبح آ ہی جانا تھا بچے۔۔"

بریرہ گود میں اٹھائے پری کو جیسے ہی اندر لائی تھی 

کنزہ بیگم اپنی بہو کے ساتھ ایک کونے میں چھپ گئی تھیں۔۔

"اس وقت گاڑی رکنے کی آواز۔۔"

"شش اسفند چپ کیجئیے بریرہ آئی ہے۔۔"

رشنا کی آنکھیں بھر گئیں تھی کنزہ بیگم کی طرح جب بریرہ اندر داخل ہوئی تھی۔۔

"یہ تو سچ میں بدل گئی ہے رشنا۔۔اور ۔۔"

آنسوؤں کی ایک اور لہر نکلی تھی آنکھوں سے

"اور چشمہ بھی نہیں لگایا نا۔۔؟؟"

اسفند نے بہت آہستہ سے کہا تھا۔۔۔

"آپ کی یاد آرہی تھی۔۔آپ میرے پاس رہیں۔۔"

بریرہ جیسے ہی پری کو لیکر صوفے پر بیٹھی تھی پری نے بریرہ کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلی تھیں

۔

"کچھ کھایا ہے پری نے۔۔؟؟"

"نہیں۔۔۔وہ امی نے۔۔"

"اففو اسفند کتنا ہلتے ہیں۔۔"

ایک آواز آئی تھی اندھیرے سے بہرام بات کرتے کرتے رک گیا تھا

"اچھا تو میرے پاؤں پر ہیل رکھنا ضروری تھا۔۔اب درد ہورہا ہلوں بھی نا۔۔؟"

اسفند چھیپی ہوئی جگی سے باہر آگیا تھا۔۔۔

"اب چچی آپ اور رشنا بھابھی بھی سامنے آجائیں چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔"

بریرہ نے بہت آہستہ آواز سے کہا تھا۔۔ چچی منہ صاف کرکے سامنے آگئی تھی اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنا شروع ہوئی تھیں۔۔

"مجھے پتا ہوتا بہرام سے تمہیں اتنی  نفرت ہے بریرہ میں کبھی بہرام اور تمہارے رشتے کی بات نا کرتی۔۔نا تم ناراض ہوکر واپس یہاں آتی نا یہ سب ہوتا۔۔۔"

بہرام اٹھ گیا تھا۔۔پر وہ نفرت لفظ بریرہ کو بہت اذیت دے چکا تھا جب بہرام کے چہرے پر ایک درد بھری مسکان آئی تھی

"امی اگر آج کے حالات مجھے پتا ہوتے تو میں کبھی بریرہ سے شادی کی خواہش ظاہر نہیں کرتا

آج کہیں نا کہیں میں بھی زمہدار ہوں۔۔"

بہرام سوئی ہوئی پری کو اٹھا کر اسکے روم میں لے گیا تھا۔۔

"تم بہت بُری ہو بریرہ اتنے سال ساتھ گزارے اور تم ایسے آگئی۔۔۔"

رشنا بھابھی نے روتے ہوئے بریرہ کو اپنے گلے سے لگا لیا تھا

"آپ کی بریرہ مر چکی ہے بھابھی۔۔اب میں وہ نہیں رہی نا میرے جذبات۔۔"

۔

اس نے تو بھابھی کو گلے بھی نہیں لگایا تھا اور چچی کی طرف تو دیکھنے کی ہمت بھی نہیں تھی اس میں۔۔

۔

"بریرہ۔۔۔"

"پشمینہ چچی مجھے اب بریرہ مت کہیں۔۔میں اب وہ نہیں رہی۔۔"

"ہاں وہ تو دیکھ رہی چشمہ کہاں گیا۔۔؟ بال بھی ڈائی کروائے ہوئے۔۔ بہت چینج ہوگئی ہو بیٹا۔۔

اب تو تیل لگا کر مساج بھی کرسکوں گی تمہارے سر کی۔۔"

بریرہ کے بال انہوں نے جیسے ہی اپنی انگلیوں میں لیتے ہوئے کہا تھا بریرہ کی آنکھ بھر گئی تھی۔۔اور وہ اٹھ گئی تھی۔۔

"میں چلتی ہوں پری سے کہیے گا میں صبح آؤں گی۔۔"

"بریرہ۔۔اس بچی نے اتنی سی عمر میں ماں کی جدائی برداشت کی ہے اس اپنی عادت ڈال کر اسے دور مت کردینا جیسے تم نے ہم سب کو خود سے دور کرلیا۔۔

وجیح تایا جان کا خون بھی تو ایسا ہے نا۔۔؟؟ بےوفا۔۔۔مطلب پرست۔۔خود غرض۔۔؟؟"

اسفند بھائی نے جیسے ہی یہ باتیں کی تھیں بہرام اوپر سے بھاگتے ہوئے آیا تھا

"آپ لوگوں کو کام بگاڑنے کے لیے نہیں روکا میں نے۔۔۔امی سمجھائیں انہیں۔۔"

بہرام چلایا تھا  اور بریرہ کے پیچھے بھاگا تھا۔۔

"بریرہ۔۔۔بریرہ۔۔۔"

وہ گاڑی کا دروازہ جیسے ہی کھول چکی تھی بہرام نے بند کردیا تھا بریرہ دروازے کے ساتھ جیسے ہی لگی تھی بہرام نے دونوں کے درمیاں تھوڑا سا فاصلہ بڑھا دیا تھا۔۔

"بریرہ۔۔۔چاہے کچھ دن ہوئے ہوں بہت لمبا سفر تہہ کیا ہے۔۔ایک دم سے اسفند بھائی کی باتوں کو آنا کا مسئلہ بنا کر مجھے میلوں دور نا کردینا خود سے پلیز۔۔۔"

اس نے ایک سانس میں بات کی تھی وہ جیسے ہی چپ ہوا تھا بریرہ نے آنکھیں اٹھا کر بہرام کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"میں نے کبھی بھی آپ سے نفرت نہیں کی تھی بہرام۔۔"

"مطلب نفرت کے قابل بھی نہیں تھا بہرام شاہ۔۔۔؟؟"

وہ مسکرا اٹھا تھا یہ وہی جانتا تھا کس دل سے مسکان لایا تھا دلا کا درد چھپا کر۔۔

"میں نے کبھی نفرت نہیں کی تھی آپ سے بہرام۔۔ میں نہیں جانتی کس طرح میں نے اس طرح کی زندگی اپنا لی وہ جنت جیسے زندگی ٹھکرا کر۔۔

شاید یہی لکھا تھا بہرام میں نے ٹھوکر ماری تو مجھے ٹھوکریں بھی کھانی پڑی۔۔

شاید اس مچھلی نے پتھر چاٹ کر واپس آنا تھا۔۔میرے غرور میں میں نے آپ کو ٹھکرایا اور میرا غرور ہی چکنا چور ہوکر رہ گیا۔۔

پر میں نے آپ سے کبھی نفرت نہیں کی تھی۔۔۔"

ہلکی آواز میں کہہ کر اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔۔پر بہرام نے پھر سے ہاتھ پکڑ لیا تھا اس کا۔۔

"میں اور میرا دل یہی سمجھتے آئے کہ تم نفرت کرتی آئی ہو۔۔آج تم نے بہت بڑا بوجھ اتار دیا بریرہ۔۔۔

میں تمہیں ڈراپ کردیتا ہوں۔۔۔انکار مت کرنا۔۔"

بہرام بنا کچھ کہے اندر چلا گیا تھا اور اپنی گاڑی کی چابی لے آیا تھا

"آپ پھر سے واپس آئے گے رہنے دیں میں چلی جاؤں گی۔۔"

"وقت دیکھ رہی ہو تم۔۔؟؟ کیا ہوگیا ہے میں کبھی ایسے نہیں جانے دوں گا۔۔گاڑی سٹارٹ کرو۔۔۔"

بہرام اپنی گاڑی سٹارٹ کرچکا تھا۔۔بریرہ کچھ لمحوں کو وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔۔۔ایک گہری سوچ میں تھی۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"صفدر تم تو دشمن کی بیٹی کو لینے گئے تھے تاکہ اپنے اگلے پچھلے بدلے لے سکو۔۔

دیکھو کیا حال بنا دیا تمہارا بلاج نے۔۔۔"

وہ اپنا سگار ایک ہاتھ میں لئیے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا تھا

"تمہیں لگتا ہے میں تمہاری بکواس سننے آیا ہوں۔؟"

صفدر صاحب پر بہت سی گن تان دی گئیں تھیں۔۔

"ارے لڑکوں نیچے کرو۔۔ صفدر صاحب میرے ہی پارٹنر ہیں۔۔

پر صفدر ہم ایگلز یہ بدتمیزی دوبارہ برداشت نہیں کریں گے۔۔

ایک اور آواز سنائی دی تھی اور اس آواز سے صفدر صاحب ڈر گئے تھے

"میں یہاں مدد لینے آیا ہوں۔۔میں جانتا ہوں میرا بیٹا آپ لوگ مجھے دے سکتے ہو"

"بدلے میں ہمیں کیا ملے گا۔۔؟"

"آپ کا پرانا دشمن وجیح شاہ میرے قبضے میں ہے سلمان بھائی۔۔۔"

اور جو شخص اندھیرے میں کھڑا تھا وہ سامنے آگیا تھا اسکے ہاتھ نے مظبوطی سے صفدر کا گلہ پکڑ لیا تھا

"وہ مر چکا ہے۔۔میرا دشمن۔۔ وجیح شاہ صفدر جھوٹ بول کر تو اپنی موت۔۔"

"وہ۔۔زندہ۔۔۔ہے میرے پاس۔۔۔"

صفدر نے جیسے ہی فون دیکھایا تھا اسکا کا گلہ چھوڑ دیا تھا اور موبائل پر وجیح شاہ کو بستر پر بندھے زخمی حالت میں دیکھ سلمان صاحب کے چہرے پر ایک ہنسی آئی تھی

"ہاہاہاہاہا تیرا بیٹا تجھے مل جائے گا وجیح کو ہمارے پاس لے کر آ۔۔۔"

۔

"میں فون کرتا ہوں میرے لوگ اسے صبح تک یہاں لے آئیں گے۔۔پر تمہیں زبان دینی ہوگی"

"میں وجیح شاہ کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتا ہوں صفدر تجھے تیرا بیٹا بھی مل جائے گا اور دشمن سے بدلہ لینے میں میں تیری مدد بھی کروں گا یہ میرا وعدہ ہے۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

تیز رفتا میں گاڑی کا شیشہ کھول دیا تھا اسکی لہراتی زلفیں بہرام شاہ کا دھیان اس روڈ سے بار بار ہٹا رہیں تھیں۔۔

اور بریرہ وہ اپنی دنیا میں گم تھی اسے پتا تھا بلاج حمدانی کے دل و دماغ میں اس نے ایک طوفان برپا کردیا تھا۔۔۔

"ہم نے آج رات ہی گھر جانا ہے ناں۔۔؟؟"

بہرام کی گاڑی بلکل ساتھ ساتھ تھی اسکی آواز سے وہ باہر آئی تھی۔۔پر بہرام کے مذاق پر بھی بریرہ کے چہرے پر کوئی ہنسی نہیں آئی تھی اس نے سپیڈ تیز کردی تھی اور جب دونوں گاڑیاں حمدانی مینشن کے سامنے رکی تھی بہرام بھی اپنی گاڑی سے باہر آگیا تھا۔۔

۔

"باسٹرڈ۔۔۔" بلاج جو اس وقت سے اسی کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا بریرہ کے کمرے میں موجود تھا۔۔بہرام کو بریرہ کی جانب قدم بڑھاتے دیکھ اس نے غصے سے کہا تھا۔۔

"ہمم تھینک یو۔۔۔"

بریرہ جیسے ہی کچھ قدم بہرام کی طرف بڑھی تھی بلاج نے غصے سے پردہ آگے کردیا تھا اور واپس بیڈ پر لیٹ گیا تھا

"وہ اس کھڑکی سے پیچھے جا چکا ہے بریرہ۔۔اب تمہیں ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں۔"

بہرام کی بات پر وہ شرمندہ سی ہوئی تھی

"اب سمجھ آیا تم نے کیوں اس وقت کہا تھا کہ میں تمہارے کندھے پر ہاتھ رکھوں۔۔

اٹس اوکے۔۔۔ٹیک کئیر۔۔"

"بہرام۔۔۔"

"اٹس اوکے۔۔۔"

۔

بہرام وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

۔

وہ اسی طرح دبے پاؤں اپنے کمرے میں داخل ہوگئی تھی۔۔۔کپڑے چینج کرکے وہ جیسے ہی بیڈ پر لیٹی تھی بلاج نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں جو بند کئیے ہوئے لیٹا تھا وہ۔۔

۔

"تمہارے چہرے پر اتنا سکون کیسے ہوسکتا ہے بریرہ بےوفائی کے بعد۔۔؟"

اس نے سرگوشی کی تھی پر بریرہ کی بند آنکھوں سے اسے پتا تھا وہ سو چکی ہے۔۔

"تم صرف میری ہو۔۔بس میری۔۔جو ہمارے درمیان آئے گا میں اسے چھوڑوں گا نہیں"

۔

وہ کروٹ لے چکا تھا ایک غصہ تھا۔۔وہ اپنے تمام سوالوں کے جوابات لینا چاہتا تھا پر ہمت نہیں تھی اس میں کچھ بھی پوچھنے کی۔۔۔

۔

"بلاج تمہاری بےسکونی ہی تو میرے چہرے کا سکون بنی ہے۔۔اب دیکھنا میری بےوفائی تمہارا سکون کیسے برباد کرے گی۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ہمیں اسکو ایک ایسے نہیں لے جانا چاہیے اسے ایک انجیکشن نشے کا لگا دیتے ہیں۔"

"ہاہاہا بس کر یار زندہ لاش ہے اتنے دن سے اتنی مظبوط رسیوں میں جکڑا ہوا تھا اسکے تو ہاتھ پاؤں نے چلے گے۔۔"

۔

وجیح شاہ کی تمام رسیاں کھول کر وہ اٹھ گیا تھا۔۔

"پر دیکھ رسک نہیں لینا چاہیے یہ مافیا کا ڈون رہ چکا ہے۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔ چھوڑ بے میں دو اور لوگوں کو بلاتا ہوں اسے لے کر چلتے ہیں ۔۔"

وہ دروازے تک بڑھا ہی تھا کے پیچھے سے ایک گولی کی آوزا آئی تھی اور چیختے ہوئے اسکا ساتھی اپنی ٹانگ پکڑے نیچے گر گیا تھا اور ایک گن اسکے ماتھے پر تھی۔۔

"وجیح شاہ جب تک بےہوش تھا زندہ لاش تھا۔۔۔اب ہوش میں ہوں تو مافیا کا ڈون ہوں۔۔۔"

اس گن کے بعد اور بہت سی گولیاں چلیں تھیں وہاں

"اب تو مجھے بتائے گا کس کا کتا ہے تو۔۔؟؟"

وہ جو اپنے گھٹنوں کے بل وجیح شاہ کے سامنے زمین پر بیٹھے ہوئے کانپ رہا تھا پر اپنے باس کا نام بتانے کی ہمت نہیں تھی۔۔

"صفدر۔۔"

"ہاہاہا اس میں اتنی ہمت آگئی۔۔؟ چل لیکر مجھے۔۔۔"

"وہ۔۔ایگل آئی کے ساتھ ہاتھ ملا چکا ہے ۔۔ باس کا بیٹا حمدانی کے قبضے میں ہے۔۔"

وجیح صاحب  کی آنکھوں میں اس دن کا وہ منظر گھوم اٹھا تھا

"بابا سائیں ایم ہز لیگلی ویڈڈ وائف۔۔۔"

"مجھے لیکر چل سلمان سائمن کے پاس۔۔۔"

"پر وہاں موت آپ۔۔"

"جتنا کہا اتنا کر۔۔اور تم لوگ۔۔ایک غلطی ہونے پر موت سے بدتر موت دوں گا۔۔"

ان سب زخمی گنڈوں نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا تھا۔۔۔

۔

۔

"داد جی اب وقت آگیا ہے میں اپنے باپ کی قسم کو توڑ کر آپ کے خاندان کے خون سے اپنے حساب چکتا کروں۔۔"

۔

۔

--------------------------

۔

۔

سورج کی کرنیں کھڑکی سے جیسے ہی اندر داخل ہوکر بلاج کے چہرے پر پڑ رہیں تھی وہ کروٹ بدلنا شروع ہوا تھا۔۔پر جب پانی کے ہلکے ہلکے قطرے اسکے منہ پر پڑے تو اس نے غصے سے آنکھیں کھولیں تھی۔۔

سامنے ٹاؤل میں ملبوس اسکی بیوی نے اسکی آنکھیوں تو اور کھول دی تھی اور اسکی بولتی بھی بند کر دی تھی

"صبح صبح میرا قتل کرنے کا ارادہ ہے بریرہ ۔۔۔؟؟"

"پشمینہ شیخ۔۔۔"

اپنے بالوں کو ڈرائی کرتے ہوئے اس نے بےرخی سے جواب دیا تھا۔۔

"ہمم۔۔کل رات کہیں گئی تھی کیا تم۔۔؟؟"

"نہیں تو۔۔یہیں تھی۔۔۔"

نظریں چراتے ہوئے وہ بالوں کو پھر سے ڈرائی کرنا شروع ہوئی تھی پر جب بلاج کی طرف سے کوئی جواب نے نہیں آیا تو اس شیشے پر اس نے بلاج کے چہرے کو گہری سوچ میں پڑے دیکھا تھا

"ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔؟؟"

بریرہ نے سرگوشی کی تھی

"ایسے کیسے۔۔؟؟"

"ایسے جیسے میں کوئی بےوفائی کردی ہو۔۔"

اور اسکی اس بات پر بلاج اٹھ کر اسکی طرف بڑھا تھا

"کیا نہیں کی بےوفائی۔۔؟؟"

بریرہ کی تھوڑی پر انگلی رکھ اپنی طرف کیا تھا اسکا چہرہ

"بےوفائی تو وہ کرتے ہیں نا بلاج کہ جنہوں نے کبھی وفا کی ہو۔؟؟

مجھ سے میری زات سے تمہیں وفائیں نہیں صرف جفائیں ملیں گی اور کچھ نہیں۔۔۔"

وہ بیڈ سے کپڑے اٹھا کر واپس باتھروم میں چلی گئی تھی

۔

۔ 

"مہتاب کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔۔۔"

داد جی نے ناشتے کی میز پر بیٹھے سب فیملی ممبرز کو مخاطب کیا تھا۔۔

بلاج کی نظر بےساختہ بریرہ پر گئیں تھیں جس کے ہاتھ وہیں ساکن ہوگئے تھے

"آپ نے کہیں پتا نہیں کروایا۔۔؟؟ ویسے مافیا بنے پھرتے ہیں گھر کے بیٹے کی فکر نہیں آپ لوگوں کو۔۔؟؟ میں پتا کرلیتی ہوں۔۔۔"

وہ میز سے اٹھ کر چلی گئی تھی اس طرح سے ظاہر کروا کر کے بس اسے ہی مہتاب کی پرواہ ہے۔۔

۔

"بلاج بھائی جب آپ کی بیوی کی محبت ابھی بھی مہتاب ہے تو جانے دیجئیے نا مہتاب کے پاس۔۔؟؟

مہتاب کو کس بات کی سزا ہے۔۔؟ آپ کی فیملی تو مکمل ہے مدیحہ اور آنے والے بچے کے ساتھ۔۔"

وہاج نے آہستہ سے کہا تھا۔۔۔

"بس وہاج وہ بلاج کا زاتی مسئلہ ہے۔۔"

"ایکسکئیوزمئ۔۔"

بلاج داد جی کی بات سن کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"وجیح شاہ۔۔۔ہاہاہا اتنی بری حالت کردی میرے یار کی۔۔۔؟؟"

سلمان صاحب ہی ہنسنا شروع ہوئے تھے انہوں نے وجیح شاہ کی ٹانگ پر ایک کک ماری تھی جس سے وجیح شاہ نیچے گر گئے تھے اور وہاں قہقے بلند ہوئے تھے

"اب میرا وعدہ پورا کرو۔۔تم چاہے وجیح کو مار دو۔۔پر۔۔"

اتنی جرات ہے وجیح شاہ کو مارنے کی کسی نا مرد میں۔۔"

ایک آواز گونجی تھی اور وجیح شاہ نے اپنی دونوں گنز نکالی تھی۔۔

اس زخمی شیر کو پانچ منٹ لگے تھے ان لوگوں کو زخمی کرنے میں۔۔

"سلمان میں تجھے نہیں ماروں گا۔۔مجھے بھی تیری طرح بدلہ چاہیے،،"

"مجھے بخش دو۔۔بس میرے بیٹے رمیز کو۔۔۔"

"کیا کیا تھا تیرے بیٹے نے صفدر،،،؟؟ تو تو بہت قریبی تھا ان لوگوں کے۔۔۔"

سلمان صاحب کی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر وجیح شاہ جیسے ہی بیٹھا تھا ان تمام لوگوں میں ایک لہر ڈور اٹھی تھی ڈر کی۔۔۔

"رمیز نے۔۔۔ زمرد کی بیٹی ردا کے ساتھ۔۔"

اور وجیح شاہ کی گن سے ایک فائر نکلی تھی۔۔۔

"

وجیح ردا کی شادی ارسل سے کرواں گا میں تو۔۔۔"

"دیکھ لے زمرد میں بہت سخت سسر بنوں گا۔۔سارے بدلے تجھ سے لوں گا۔۔"

"ہاہاہاہا تو ردا کو مجھ سے زیادہ لاڈ کرتا ہے جا تجھے اجازت ہے جتنے بدلے لینے ہوئے لے لینا۔۔"

۔

"وجیح۔۔۔"

"ایک لفظ نہیں سلمان۔۔۔یہ بے غیرت لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ عزتیں سانجھی ہوتی ہیں سب کی۔۔؟ تیرا بیٹا میرے سامنے ہوتا صفدر تو تو دیکھتا میرا قہر۔۔۔اپنی شکل گم کرلے یہاں سے۔۔"

۔

۔

ایک گہری خاموشی چھا گئی تھی وہاں۔۔

"سلمان مجھے بس میرا بدلہ چاہیے ان لوگوں سے۔۔۔تجھے ختم کرنا میرے لیے مشکل نہیں۔۔

پر میں تجھے موقع دے رہا ہوں میرے ساتھ وفا نبھا اور تجھے میں زمرد حمدانی کی سیٹ دوں گا یہ میرا وعدہ ہے۔۔۔"

۔

۔

اور وجیح شاہ وہاں سے چلے گئے تھے 

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

کچھ دن بعد۔۔۔۔

۔

"ایم سوری پری بیٹا میں ابھی بیزی ہوں۔۔"

"آپ نے کل بھی یہ کہا تھا اور اس سے پہلے بھی۔۔"

پری شکایت کرنا جیسے ہی شروع ہوئی تھی بریرہ کی نظر ہوٹل کی اینٹرنس پر پڑی تھی جہاں سے مہتاب اندر داخل ہوا تھا اور اوپر اپنے روم کی جان بڑھنے والا تھا

"پری میں بعد میں بات کرتی ہوں۔۔۔"

مہتاب۔۔۔۔۔۔"

بریرہ کی آواز سے اسکے قد رک گئے تھے

"مہتاب۔۔۔۔"

"بر۔۔۔پشمینہ تم یہاں۔۔؟ تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔"

پیچھے سے جیسے ہی گانے اور شور شرابے کی آوازیں آنا شروع ہوئی تھیں مہتاب نے فکرمندی سے کہا تھا

"اس طرح کتنے کلب میں ہم جا چکے ہیں مہتاب۔۔۔"

"تب بات اور تھی بریرہ۔۔۔"

۔

مہتاب بیٹھو یہاں پر۔۔۔"

بار سٹول پر مہتاب کا ہاتھ پکڑ کر اس نے بیٹھنے کا کہا تھا جو چپ چاپ بیٹھ گیا تھا۔۔

۔

۔

"اب یہ دوئی نشے کی اس جوس میں ڈال کر ان دونوں کو دو۔۔ میں نے آگے سارا کام تمہارا ہے ربیل۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔بلاج بھائی تو ایک ہفتے سے یہاں نہیں ہیں۔۔انہیں کیسے پتا چلے گا۔۔۔"

"وہ یہاں خود آئے گا صبح ہوتے ہی کمرہ نمبر 102 وہ خود کھولے گا۔۔"

اور وہ ایک پرچی دے کر وہاں سے ڈانس فلور کی طرف چلی گئی تھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"اس گلاس میں کیا تھا میرا سر گھوم رہا ہے۔۔۔"

بریرہ نے اپنا سر بار کاؤنٹر پر رکھ دیا تھا

"ہاہاہا میرا بھی۔۔۔پر اچھا لگ رہا ہے پشمینہ۔۔۔"

"میں پشمینہ نہیں ہوں مہتاب۔۔۔"

بریرہ نے سر اٹھا کر مہتاب کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"میں بریرہ ہوں۔۔میں جانتی ہوں سب بدلہ لینے آئی ہوں تمہارے بلاج بھائی سے۔۔

تم سے محبت۔۔"

"مجھ سے محبت بھی اس بدلے میں شامل تھی۔۔۔ جانتا ہوں بریرہ۔۔سب جان گیا ہوں میں"

۔

مہتاب کی آنکھیں بھر آئیں تھی۔۔۔

"مہتاب میں۔۔" مہتاب کی آنکھیں جیسے ہی بریرہ نے اپنے ہاتھوں سے صاف کرنا شروع کی تھی مہتاب نے اسکا چہرہ اپنےہاتھوں میں لیا تھا۔۔

"سٹے آوے مہتاب۔۔۔"

پیچھے سے ایک مکا پڑا تھااسکے منہ پر جو وہیں گر گیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"مسز بلاج بہت جلدی ہے میری بانہوں کے حصار سے چھوٹ کر جانے کی۔۔؟؟"

اسکا جسم ساکن ہوگیا تھا بلاج کی آواز سے اس انجان کمرے میں اس حالت میں اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا سوائے اس ایک جوس کے گلاس کے جو اس نے اس پارٹی میں پیا تھا

"یہ سب کیا ہوگیا مجھ سے۔۔۔؟؟"بریرہ کی آنکھیں بھر آئیں تھیں 

"بہت جلدی ہے بھاگنے کی ۔۔۔؟؟"

بلاج کی سب باتوں کو اگنور کرکے وہ باتھروم کی طرف تیز قدموں سے چلی گئی تھی۔۔

۔

"راستہ چھوڑو میرا بلاج جانا ہے مجھے۔۔"

غصے سے بھری آنکھیں اس نے نیچی کرلی تھی آج اسے خود پر غصہ تھا۔۔

"رات کو تو یہ نہیں کہہ رہی تھی مسز بلاج حمدانی۔۔۔

میری بانہوں میں بکھری ہوئی بریرہ کہاں گئی وائفی۔۔؟؟

کل رات تو کچھ اور ہی تھی تم۔۔

اس کمرے کی ہر چیز ہماری محبت بھری رات کا ثبوت ہے۔۔۔"

"مر گئی رات کے اندھیرے میں

کل میں سچ میں نشے میں ہوں گی بلاج۔۔۔ورنہ اتنی بڑی غلطی میں اپنے ہوش و ہواس میں کبھی نہیں کرتی۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔"

اس نے بلاج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہا تھا۔۔اسکی بات بلاج حمدانی کو اندر تک زخمی کر گزری تھیں۔۔۔

بلاج نے اسے غصے سے دروازے کے ساتھ پن کردیا تھا

"غلطی۔۔؟ کل رات کو تم ایک غلطی کا نام دی رہی ہو۔۔؟؟

کل تو ٹوٹ کر محبت کر رہی تھی تم۔۔۔"

بلاج کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا تھا اس نے۔۔

"کہا نا نشے میں تھے ہم ہوگئی غلطی۔۔۔"

"ہم نشے میں نہیں تھے۔۔۔تم نشے میں تھی۔۔۔میں اپنے ہوش میں تھا بریرہ۔۔۔

میاں بیوی کی محبت کوئی غلطی۔۔"

بلاج کے منہ پر ایک اور تھپڑ مارا تھا اس نے۔۔۔

جس کی آنکھیں بھیگ چکی تھی

"میں کل ہوش میں نہیں تھی تم نے ۔۔۔تم نے فائدہ اٹھایا بلاج۔۔

کیا سے کیا بن گئے ہو تم۔۔۔یو ڈسگسٹ مئ بلاج حمدانی۔۔۔

کل رات میرے لیے ایک غلطی ہے۔۔۔اور غلطی ہی رہے گی یاد رکھنا۔۔

میں بریرہ جتنی کمزور نہیں ہوں۔۔۔ڈونٹ انڈرایسٹیمیٹ مئ۔۔۔"

اپنا چہرہ طیش سے صاف کر کے وہ  وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

۔

"غلطی۔۔۔۔مائی فٹ ۔۔تم میری تھی اور رہوں گی۔۔۔"

بلاج نے غصے سے دیوار پر مکا مارا تھا۔۔

۔

۔

"اب تو ہاتھوں کی لکیریں بھی مِٹی جاتی ہیں۔۔۔

اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں۔۔۔"

۔

۔

"میں نے وہ ڈرنک بر۔۔میرا مطلب پشمینہ کو ہی دیا تھا۔۔۔ مدیحہ۔۔۔"

"یو فول۔۔۔مہتاب اگر یہاں ہے تو اوپر روم میں کون ہے بریرہ کے ساتھ۔۔۔؟؟

سب پلان خراب کردیا ۔۔۔اب بلاج کو کیا ثبوت دیکھاؤں گی اسکی بیوی کے بےوفائی کا۔۔۔"

۔

وہ غصے سے اس کمرے کی طرف بڑھی تھی جو بلکل خالی تھا۔۔۔

"یہاں کوئی بھی نہیں آیا ۔۔کہاں ہے بریرہ۔۔؟ کہاں مہتاب۔۔"

"بلاج بھائی کیا کر رہے یہاں،،؟؟"

بلاج ایک روم سے اپنا کوٹ پہنتے ہوئے غصے سے باہر آیا تھا اور اس ہوٹل سے چلا گیا تھا بریرہ کے پیچھے پیچھے

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بابا سائیں اسی گھر میں ہیں۔۔۔بابا سائیں۔۔"

ارسل کی آواز پر بہرام اپنی امی کو حٰرانگی سے دیکھ رہا تھا۔۔جن کی نظروں میں آنسو تھے گھر میں لگی تصاویر کو دیکھ کر۔۔۔

"بابا سائیں۔۔"

ارسل۔۔۔۔

۔

۔

وجیح شاہ اپنے کمرے سے باہر آئے تھے جسم پر ابھی بھی زخموں کے بےتحاشہ نشان تھے۔۔

ارسل نے بھاگتے ہوئے اپنے باپ کو اپنے گلے سے لگا لیا تھا

"بابا سائیں مجھے کیسے پتا نہیں چلا میں تو یہیں رہتا تھا۔۔۔"

"میں کل واپس آیا ہوں۔۔۔"

وجیح شاہ کی نظر پہلے بہرام اور اور کنزہ بھابھی پر پڑی تھیں۔۔

"کبیر نے بھیجا ہوگا میری بربادی دیکھنے کے لیے آپ کو۔۔۔"

وجیح شاہ طیش میں بولے تھے،،

"بابا سائیں ۔۔۔بریرہ۔۔۔زندہ ہے۔۔"

وجیح شاہ کی آنکھوں میں ایک خوشی سی آئی تھی پر کچھ سیکنڈ میں انکی آنکھیں لال ہوگئیں تھیں

"وہ زندہ ہے۔؟ ارسل اسے مارا کیوں نہیں تم نے۔۔؟ مار دیتے کہاں ہے وہ میں اسے مار۔۔۔"

بہرام سامنے کھڑا تھا ان کے۔۔۔

"آگے کم لوٹا ہے آپ نے آپ کے دشمنوں نے اسے۔۔؟ ایک انگلی لگا کر دیکھائیں آپ اسے تایا جان۔۔"

"بہرام شاہ دفعہ ہوجاؤ میرے گھر سے۔۔۔اسے تو میں میں مار کر رہوں گا۔۔"

بہران کا گریبان پکڑ لیا تھا انہوں نے

"آپ اسے نہیں مار سکتے بابا سائیں۔۔۔وہ مر چکی ہے۔۔شاید اسی رات مر گئ تھی۔۔۔جب آپ نے پہلی بار اس پر گولی ماری تھی۔۔

یا اس رات مر گئی تھی جب اس بےوفا نے اسے رکھیل کہا تھا۔۔۔

یا اس دن مر گئی تھی جب اسے برباد کرنے والے نےکسی اور سے شادی کر لی تھی۔۔

یا پھر اس وقت جب میں نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔۔

وہ تو مر چکی ہے بابا سائیں بریرہ شاہ مرچکی ہے۔۔۔"

۔

ارسل شاہ کا چہرہ بھر گیا تھا اور اسکی باتوں سے وجیح شاہ کی آنکھوں میں بدلے کی آگ اور بھڑک اٹھی تھی

"وہ اسی قابل تھی۔۔ایسی لڑکیاں جو ماں باپ کی عزت کو رؤند جائیں جو  محبوب کے ہاتھوں بہک جاتی ہیں انکا انجام ایسا ہی ہوتا ہے وہ اسی قابل تھی۔۔۔"

۔

"تایا جان آپ اور کتنی زیادتی کریں گے۔۔؟؟ وہ معصوم تھی کس کی دشمنی کی بھینٹ چڑھی وہ۔۔؟

آپ کی دشمنیاں تھی۔۔۔بلاج حمدانی نا سہی کوئی اور سہی۔۔کبھی سوچا کون ہے گناہ گار،،؟"

اسفند بھائی کو پیچھے جھٹک کر وہ پھر سے وجیح شاہ کے سامنے بنا ڈرے کھڑا ہوا تھا

"آپ نے نہیں دیکھا۔۔۔یا اللہ آپ بریرہ کو دیکھتے تو مر جاتے جب اسکی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔۔

اور وہ اس سڑک پر گری تھی۔۔۔وہ بدلے کے لیے گئی تھی وہاں۔۔۔

اب تو کتنے نشان ہوں گے۔۔۔

سب بھر جائیں گے پر وہ نہیں بھرے گے جو آپ دونوں نے دئیے اسے۔۔

ایک وہ جو باپ بن کر آپ نے دیا اور ایک وہ جو شوہر بن کر بلاج نے دیا۔۔

وہ پاگل ہوگئی ہے اسے بدلہ چاہیےوہ آپ کا کاشان بھائی کا بدلہ لینے نکلی ہے

وہ بیچاری۔۔۔وہ معصوم بڑا سا چشمہ لگا کر کتابیں پڑھنے والی لڑکی۔۔

وہ خود بھی جانتی ہے اس نے نے ماں باپ کو دھوکہ دیا اسے خود بھی دھوکا ملا

تایا جان وہ روتی رہی آپ کی قبر پر جا جا کر

وہ تو اب کچھ بھی نہیں رہی نا بہن نا بیٹی نا بیوی۔۔۔وہ پشمینہ شیخ بن چکی ہے۔۔۔۔"

وجیح شاہ کی گن انکے ہاتھ سے گر گئی تھی جب وہ اس صوفے پر بیٹھے تھے۔۔

۔

"وہ میری لاڈلی تھی۔۔۔میرے وجود کو کاٹ دیا تھا اسکے دھوکے نے۔۔"

انکی آواز بھاری ہوگئی تھی۔۔۔

۔

۔

"بریرہ۔۔۔"

اس میں اور ہمت نہیں تھی اپنے زندہ باپ کی روتی ہوئی آواز سننے کی

"سونم مجھے ابھی جانا ہے۔۔۔"

وہ وہاں سے بھاگ گئی تھی روتے ہوئے۔۔۔یہاں وہ دونوں ڈینیل کی فون کال پر آئیں تھیں۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ ہفتے بعد۔۔۔"

۔

۔

"پشمینہ دروازہ کھولو۔۔۔"

بلاج رات کے دو بجے اسکے روم کا دروازہ بجا رہا تھا۔۔۔یہ اب روز کا معمول تھا نا وہ اس سے بات کرتی تھی نا ہی وہ رات کو دروازہ کھولتی تھی۔۔۔

۔

"بریرہ۔۔۔میں اس دروازے کو توڑ دوں گا۔۔"

پر اندر سے کوئی آواز نہیں آئی تھی۔۔

۔

"بلاج۔۔۔"پیچھے سے داد جی کی آواز سے بلاج کے ہاتھ مٹھی میں تبدیل ہوگئے تھے۔۔

۔

"بلاج بیٹا۔۔"

"داد جی مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔"

"دیکھو بلاج بیٹا ابھی ربیل کو اس کرسی پر بیٹھنے دو۔۔"

"ہاں اس کرسی کو اس کمپنی کو میں نے یہاں تک پہنچایا تھا۔۔۔اگر کچھ ڈیلز چلی گئی ہاتھ سے تو بلاج حمدانی لوزر ثابت ہوگیا۔۔؟؟"

"بلاج۔۔۔"

"بس جائیں داد جی یہاں سے۔۔۔بورڈ آف ڈائیرکٹرز کی میٹنگ میں نے بلا لینی ہے اسی ہفتے۔۔"

"تو تم ہینڈ آوور نہیں کرو گے سب کے سامنے تماشہ بناؤ گے۔۔؟"

"آپ کو جو سمجھنا ہے سمجھیں۔۔۔"

اور بلاج نے غصے سے دروازہ توڑنے کے ارادے سے اپنا کندھا مارنے کی کوشش کی تھی پر بریرہ دروازہ پہلے ہی کھول چکی تھی۔۔۔اور بلاج بریرہ کے ساتھ بیڈ پر جا گرا تھا۔۔۔

۔

"وٹ دا۔۔۔سیریسلی۔۔؟ گھر چھوڑ جاؤں۔۔؟؟ اپنے کمرے میں سکون نہیں ہے مجھے۔۔۔"

اس نے غصے سے کہا تھا۔۔۔

"تمہیں شرم نہیں آتی بریرہ دروازہ کا لاک کرکے سونے کو کس نے کہا تھا شوہر کو کمرے سے باہر نکال کر۔۔۔"

اور بریرہ نے اسے خود سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔۔

"پہلی بار میں ہماری فیملی میں کپل فائٹ دیکھ رہی ہوں۔۔۔"

ردا کی آواز جیسے ہی آئی تھی بلاج سیدھا کھڑا ہوگیا تھا۔۔

"سیریسلی۔۔؟/ یہ یہاں سو سکتی ہے اور مجھے اجازت نہیں ہے۔۔؟؟

تمہیں تو میں دیکھ لوں گا بریرہ۔۔۔دو میرا تکیہ۔۔۔"

وہ واپس کمرے سے باہر آیا تھا اندر ردا کے قہقے کی آواز گونج رہی تھی تو باہر داد جی کے

"ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔بلاج حمدانی۔۔۔"

"داد جی۔۔۔"

"ہاہاہاہا میرے کمرے میں کسی بھی وقت آجانا اگر دوسری بیوی بھی کمرے سے نکال دے تو بیٹا۔۔"

وہ ہنستے ہوئے وہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔

"اگر اب دروازہ بجایا نا بلاج تو تمہیں اس گھر سے ہی باہر بھیج دوں گی میں۔۔۔"

وہ شدید غصے میں بلاج کے منہ پر دروازہ بند کرچکی تھی۔۔

"بریرہ بھابھی۔۔۔ہاہاہاہا کیا پاور فل پرفورمنس تھی۔۔۔"

۔

۔

"مجھے تمہارے بھائی کی شکل دیکھ کر غصہ آتا ہے ردا۔۔۔وہ انسان پوری طرح سے گر چکا ہے اس رات کے بعد۔۔۔"

اب ردا نے بریرہ کا چہرہ ٹھیک سے دیکھا تھا جہاں سنجیدگی کے سوا کچھ نہیں تھا۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"سونم مجھے سمجھ نہیں آرہی تم مجھےیہاں کیوں لائی ہو ہم کچھ دن پہلے ہی یہاں سے گئے ہیں۔۔"

"اس دن ٹیسٹ کروانا تھا۔۔۔اور آج رپورٹ لینی ہیں۔۔"

سونم اسکے ساتھ ڈاکٹر کے کیبن میں داخل ہوئی تھی

"پر تم نے کہا تھا وہ ٹیسٹ نارمل ہیں۔۔اور۔۔۔"

"وہ پریگننسی ٹیسٹ تھے بریرہ۔۔۔"

بریرہ کی سانسیں رک گئیں تھیں۔۔

"پلیز بریرہ بریتھ ان بریتھ آؤٹ کرو،،،پانی پئیو۔۔گہرا سانس لو۔۔۔"

سونم ہائیپر ہوگئی تھی۔۔۔جیسے ہی پانی کا گھونٹ حلق سے نیچے گیا بریرہ نے گہرا سانس لیا تھا

"یہ سب بکواس ہے۔۔۔سونم۔۔ایسا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔"

"مجھے شک تھا۔۔تم نے اس رات کے بارے میں بتایا۔۔۔بریرہ۔۔ڈاکٹر کی کنفرمیشن ضروری ہے۔۔"

"ایم سو سوری آپ کو انتظار کرنا پڑا۔۔اینڈ مسز بلاج حمدانی بہت بہت مبارک ہو آپ پریگننٹ ہیں۔۔۔"

۔

۔

اور اسکی آنکھوں میں آج اپنے ہی خون کے لیے نفرت بھر آئی تھی جسے دیکھ سونم نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں۔۔۔

۔

"مجھے نہیں چاہیے ڈاکٹر۔۔۔۔"

"بریرہ وہ۔۔بابا سائیں"

"مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔۔یہ وہ فائل ہے اگر یہ ڈیل حمدانی کے ہاتھوں سے چلی گئی تو بلاج حمدانی کو ووٹ کوئی نہیں دے گا بورڈ آف ڈائیریکٹر کی میٹنگ میں۔۔"

اپنی بلیک گلاسیز پہن کر گاڑی کا شیشہ اس نے پھر سے اوپر کرلیا تھا

۔

"بہرام جس میٹنگ کے لیے تمہارے دوست کی کمپنی نے ٹینڈر دیا تھا بلاج کی ڈیل کی کچھ انفارمیشن دی ہے۔۔مجھے  نئے والے اپارٹمنٹ میں ملو بابا سائیں بھی وہیں ہی ہیں۔۔"

ارسل نے جیسے ہی فون بند کیا تھا اس پر پیچھے سے کسی نے وار کردیا تھا۔۔۔

۔

"بلاج سر اسے کہاں لیکر جانا ہے۔۔؟؟"

دو لوگوں نے ارسل کو گاڑی کی بیک سیٹ پر لٹا دیا تھا۔۔

"وہیں لے جاؤ جہاں اسکے باپ کو رکھا تھا۔۔بہت محنت کرلی ان لوگوں نے۔۔"

۔

"ہاہاہاہاہاہا بلاج حمدانی کو یہ سب سمجھ کیا رہے ہیں۔۔؟ بیوقوف ناسمجھ۔۔؟

یا بےوفا۔۔؟؟؟

ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔بریرہ شاہ۔۔۔۔۔۔۔"

۔

وہ ایک شیطانی ہنسی ہنسا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ شاہ ابھی کے ابھی واپس آؤ چشمش ایک تو گاڑی نہیں چل رہی اوپر سے مستی سوجھ رہی۔۔"

"بریرہ بلاج حمدانی۔۔۔مسٹر بلاج۔۔۔زیادہ شوخے نا بنا کرو۔۔۔"

بلاج اپنی ہنسی چھپا کر گاڑی کی ڈکی کھول چکا تھا۔۔

۔

"تمہیں یاد ہے ہماری سیکنڈ ڈیٹ ایسی ہی تیز بارش میں اینجوائے کی تھی۔۔"

۔

"چاند سے بچھڑی راتوں کی،،،

آدھی سی ملاقاتوں کی،،،

کچھ باتیں دردوں کی تجھے سنانی ہے۔۔۔"

۔

"ڈانس ود مئ مسٹر ہبی رومینٹک سے موسم میں اکیلے روڈ پر۔۔"

بریرہ نے جمپ کرتے ہوئے اچھلتے ہوئے ریکوسٹ کی تھی

"ہاہاہا جھلی کہیں کیآگے ہی بھیگ چکے ہیں۔۔"

"کم آن مسٹر بورنگ۔۔۔"

بریرہ نے ہاتھ پکڑ کر اسے روڈ کے درمیان میں کھینچ لیا تھا

"بریرہ۔۔۔سیریسلی۔۔۔؟؟"

"یس مسٹر۔۔یو نو میری تو ہر فینٹیسی پوری ہو رہی تم سے شادی کے بعد۔۔"

بریرہ نے بلاج کے سینے پر بوسی دیتے ہوئے کہا تھا

"جس سے محبت ہو اور وہ آپ کے ساتھ ان بارشوں میں ہو تو ان بارشوں میں اس محبت کو چار چاند لگ جاتے ہیں 

بارش کے گرتے ٹھنڈے ٹھنڈے قطرے محبوب کی بانہوں میں رقص کرتی محبوبہ اور یہ گنگناتی ہوئی بارش۔۔۔"

بریرہ نے بلاج کے کان میں سرگوشی کی تھی اور جیسے ہی بوسہ لیا تھا بلاج حمدانی کو پھر سے دیوانہ بنا دیا تھا عینک پہنی اس لڑکی نے۔۔۔

"گوش۔۔۔تم بریرہ شاہ۔۔۔۔"

بلاج کی دھڑکن رکی تھی جب بریرہ نے پھر سے اسکے دل پر بوسہ دیاتھا

"اک یاد پرانی ہے تیری میری کہانی ہے۔۔۔

بارش نا سمجھی تو،،،، اکھیاں دا پانی ہے"

۔

اور کیا فینٹیسی ہیں۔۔؟ وائفی۔۔۔؟؟"

بلاج نے اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر جیسے ہی اسے گھمایا تھا بریرہ کی بیک بلاج کی طرف تھی۔۔

"آج بھی اس دیوانے کی ایک دیوانی ہے۔۔۔

اک یاد پرانی ہے،،،تیری میری کہانی ہے،،،"

۔

بلاج نے اسکی گردن سے بال ہٹا کر جیسے ہی اسکے کندھے پر بوسہ دیا تھا بریرہ کے پوری وجود میں اک بجلی ڈوری تھی۔۔۔

"بلاج۔۔۔"

اس نے جیسے ہی بلاج کے ہونٹ اپنے گلے پر محسوس کئیے تھے ایک سرگوشی کی تھی

"ششش۔۔۔۔میری بھی ایک فینٹیسی ہے وائفی۔۔۔"

"کیا۔۔۔مسٹر ہبی۔۔۔"

"تمہیں بھیگتی بارش میں ۔۔۔"

"کیا۔۔۔؟؟"

۔

۔

"اینی پرابلم مس۔۔؟؟"

بریرہ کی رکی ہوئی گاڑی کے پاس ایک پولیس آفیسر نے شیشے پر ناک کرکے پوچھا تھا۔۔

"نو۔۔۔نتھنگ۔۔۔۔"

پاتھے سے پسینہ آنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔جب سے وہ ہسپتال سے آئی تھی اسے کیوں ماضی یاد آرہا تھا۔۔پولیس آفیسر کی گاڑی جیسے ہی وہاں سے گئی تھی بریرہ نے  بھی اپنی گاڑی سٹارٹ کی تھی

پر گاڑی سٹارٹ نہیں ہوئی تھی۔۔

آج اسے یہ بارش پسند نہیں آرہی تھی ایک لمحہ بھی۔۔پر وہ یہاں اس جگہ موبائل میں بنا سگنل ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتی تھی

وہ جیسے ہی گاڑی میں مسئلہ دیکھنے کے لیے باہر نکلی تھی۔۔

اسکی ہیل پانی میں زرا سی پھسلی تو وہ ڈر گئی تھی اپنا ہاتھ اس نے اپنے پیٹ پر جیسے ہی رکھا تھا جیسے وہ بچا رہی تھی خود کو گرنے سے 

وہ خود تو بچ گئی تھی پر آنکھیں بھر آئیں تھی اس میں ہمت نہیں تھی اپنے پیٹ سے ہاتھ ہٹانے کی

"تو،،،تو نہیں ہے ساتھ میرے،،،تیری نشانی ہے۔۔۔

بارش نا سمجھی تو،،،اکھیاں دا پانی ہے۔۔۔"

۔

"بدلے لینے والے لوگ خود کو جب جذبات اور کھوئی ہوئی محبتوں میں کھو دیتے ہیں تو ایسے ہی پچھتاتے ہیں بریرہ شاہ جیسے آج تم۔۔۔

کیا کرنے آئی تھی واپس۔۔؟ بدلہ لینے یا خاندان کا خون بہانے والے کے خون کو پھر سے دنیا میں لانے کے لیے۔۔؟ یہ اولاد بھی دشمن کی اولاد ہے بریرہ۔۔۔"

بریرہ کو اپنی ہی پرچھائی اسے کوستے ہوئے دیکھائی دے رہی تھی

"بریرہ یہ اولاد ہے نعمت ہے ساری زندگی تو تم اپنےرب سے دور بھاگتی رہی ہو یہ بچہ تمہیں ایک نئی زندگی ایک موقع دے رہا ہے بریرہ۔۔۔"

بریرہ کا ہاتھ پھر سے اسکے پیٹ پر تھا۔۔۔

"بریرہ یہ بچہ ایک دشمن کی اولاد سے زیادہ کچھ نہیں۔۔بھول گئی جس اولاد کی خواہش تم نے کی تھی کس طرح اس ظالم نے تمہارے خاندان کے ساتھ اس اولاد کا بھی نام و نشان مٹا دیا تھا۔۔

بریرہ یہ غلطی مت کرنا۔۔۔"

"بریرہ وہ معصوم ہے وہ بچہ۔۔"

"میں بھی معصوم تھی۔۔۔یہ بچہ صرف بلاج حمدانی کا خون ہے۔۔۔"

"ہاہاہاہا بریرہ اسے ختم کردو گی نا تم تو تمہیں لگے گا تم نے دشمن کو ہرا دیا۔۔"

اس کی اپنی پرچھائیاں اسے زہر لگنا شروع ہوگئیں تھیں

"بریرہ کیا تم سچ میں اسے نقصان پہنچاؤ گی جس کی زندگی میں تم ماں کا درجہ رکھو گی۔۔؟

کیا آسان ہوگا اسے مار دینا بریرہ۔۔؟؟"

بریرہ نے اپنے سر پکڑ لیا تھا۔۔

"بس کر جاؤ تم دونوں چپ ہوجاؤ بس۔۔۔"

۔

اسے چکر آنا شروع ہوئے تھے ٹھنڈی بارش میں بھی اسکے اپنا سر گرمائش سے پھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔

۔

اسے بےہوش ہونے سے پہلے اتنا یاد تھا دو ہاتھوں نے اسے باحفاظت تھام لیا تھا گرنے سے۔۔

"آفیسر 'بی-اے-ایچ' انہیں بھی انکے بھائی کے ساتھ انڈر گراؤنڈ۔۔"

"میں دیکھ لوں گا۔۔۔جائیں یہاں سے۔۔۔"

۔

"چشمش۔۔۔"

پر بریرہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"مدیحہ بیٹا رک جاؤ  دیکھو بلاج تم سے ہی بہت محبت کرتا ہے۔۔"

داد جی کے راستہ روکنے پرمدیحہ نے اپنا بیگ بھی وہیں رکھ دیا تھا

"جی اسی لیے وہ اس  دشمن کی بیٹی کے ساتھ باہر ہوٹل میں راتیں گزارتا پھرتا ہے۔۔؟"

"یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔؟ بلاج یہاں نہیں ہے بیٹا اور۔۔"

"زمرد صاحب نے سخت لہجے میں مدیحہ کو کہا تھا

"وہ نہیں ہے جھوٹ بولتا ہے آپ کا بیٹا انکل۔۔ وہ آپ لوگوں کو بھی دھوکا دے رہا ہے۔۔"

"تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے مدیحہ۔۔"

رابیعہ بیگم نے بہت پیار سے مدیحہ کے سر پر ہاتھ رکھا تھا

"اگر وہ راتیں گزارتیں بھی ہیں تو کونسا گناہ کرتے ہیں۔۔؟ بریرہ میرا مطلب پشمینہ بھی تو بیوی ہے نا۔۔؟ اور وہ تو پہلی بیوی ہیں بلاج بھائی کی۔۔"

ردا سیڑھیوں پر کھڑی تھی جب اس نے اونچی آواز میں کہا۔۔اور کتنے ہفتوں کے بعد وہ پہلے والی ردا نظر آئی تھی جس طرح وہ مدیحہ کو دیکھ رہی تھی

"سیریسلی۔۔؟؟ ردا میڈم۔۔؟ زخموں پر مرہم لگانے والی کی چمچی بن گئی ہو۔۔؟؟"

"چمچی تو میں آپ کی بھی تھی مدیحہ بھابھی۔۔بھائی کے ساتھ پہلی ملاقات میں نے تو کروائی تھی۔۔

وہ الگ بات ہے میں اب آپ جیسے لوگوں کا اصل چہرہ دیکھ چکی ہوں۔۔۔"

"ردا تم۔۔۔"

"بلاج بھائی آگئے ہیں۔۔"

"میں کرتا ہوں بلاج سے بات بیٹا وہ تمہارا۔۔۔"

داد جی کی بات ادھوری رہ گئی تھی جب انہوں نے بلاج کو دیکھا تھا اندر داخل ہوتے ہوئے 

بریرہ کو بہت پیار ے سے اپنی بانہوں میں اٹھائے جلدی سے اندر آرہا تھا۔۔وہ تو سب اگنور کرکے جا رہا تھا جب رابیعہ بیگم فکرمندی سے آگے آگئیں تھیں۔۔

"بہو ٹھیک تو ہے بیٹا۔۔؟"

"جی بس بےہوش۔۔۔"

"تم تو ملک سے باہر تھے نا۔۔؟ داد جی میں نے کہا تھا یہ جھوٹ بولنا بھی شروع ہوگئے ہیں اب میں جا رہی ہوں یہاں سے۔۔۔"

مدیحہ نے اپنا بیگ اٹھا لیا تھا۔۔

"تمہیں جو کرنا ہے کرو۔۔مدیحہ۔۔اور جانے سے پہلے یاد رکھنا میں لینے نہیں آؤں گا۔۔

اب راستہ چھوڑیں میرا سب۔۔تماشہ لگا ہوا ہے کیا۔۔؟؟"

وہ جیسے ہی چلایا تھا سب پیچھے ہوگئے تھے

"داد جی۔۔۔بلاج بھیا کی بدتمیزی برداشت سے باہر ہے اب۔۔"

ربیل نے سب کی توجہ حاصل کرلی تھی جو خاموشی سے بلاج کو اوپر جاتا دیکھ رہے تھے

"اور تمہاری باتیں بھی ربیل۔۔"

"کیوں زمرد بھائی صاحب میرے بیٹے نے کیا غلط کہہ دیا۔۔؟"

اب تم مجھ سے بحث کرو گے وہاج اپنے بیٹے کے لیے۔۔؟؟"

زمرد صاحب اپنے چھوٹے بھائی کے آگے کھڑے ہوگئے تھے

"اگر آپ اپنے بیٹے کی غلطیاں جان کر بھی اسکا ساتھ دے سکتے تو۔۔"

"میرے سامنے اگر دوبارہ آواز اونچی کی وہاج تو انجام برا ہوگا مجھے پسند نہیں ہے ایسی گستاخیاں۔۔۔"

اپنے بھائی کو کندھے سے پیچھے جھٹک کر وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔۔

داد جی وہیں چپ کے چپ کھڑے تھے۔۔اپنے بیٹوں کو وہ آج آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔۔

۔

۔

"تم سہی کہتے ہو ربیل۔۔۔دشمن کی بیٹی کو اب اس گھر سے جانا ہی ہوگا۔۔۔"

۔

داد جی اپنی بات کر کے بہت سے لوگوں کو شوکڈ چھوڑ گئے تھے وہاں۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ہاہاہاہا ریان میں اب بلاج کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔۔میں اسے چھوڑ آئی ہوں۔۔"

مدیحہ ریان کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہو بول پڑی تھی

"ہاہاہا اس بیچاری کو کیا پتا تم آج ہی اسے چھوڑ دینے والے ہو۔۔۔" ریان کے بھائی نے آہستہ آواز میں کہا تو ریان بھی ہنستے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا

"مدیحہ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔"

"میں بھی ریان۔۔۔یہ بیجڈ مجھے بلاج کی کے کوٹ سے ملا آج صبح۔۔۔"

"بیج۔۔؟ دیکھاؤ۔۔۔"

ریان کو دے کر مدیحہ ریان کے بھائی کو ہیلو کرکے وہیں صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔۔

"او مائی گاڈ سیریسلی۔۔؟؟ 'سی-بی-آئی' ۔۔؟؟ سلمان انکل کو انفارم کرنا ہوگا۔۔"

ریان کا بھائی اٹھ کر وہ بیج کھینچ کر لے گیا تھا ریان ابھی بھی شوکڈ تھا

"بی-اے-ایچ۔۔؟؟"

اس نے خود سے بات کی تھی پر مدیحہ نے سن لیا تھا

"کیا ہوا۔۔؟ تم دونوں بھائی اتنے شوکڈ کیوں ہوگئے۔۔؟ اس بیج کا جب بلاج سے پوچھا تھا وہ بھی ایسے ہی شوکڈ ہوا تھا۔۔

"مطلب یہ بلاج کا نہیں ہے۔۔؟" ریان نے حیرانگی سے پوچھا تھا

"وٹ بلاج کا۔۔؟ وہ مافیا مین ہے 'سی-بی-آئی' سے کیا تعلق اسکا۔۔؟

ضرور کسی آفیسر کا مڈر کردیا ہوگا اس نے۔۔"

مدیحہ نے جیسے ہی غصے سے کہا تھا ریان نے سکون کا سانس لیا تھا

"تم اس کے پاس نہیں رہنا چاہتی۔۔؟ پہلے تو بہت  محبتیں نچھاور کرتی تھی اس پر۔۔"

ریان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔۔

"جب سے اسے اس پشمینہ کے ساتھ دیکھا ہے مجھے نہیں اچھا لگتا کچھ بھی ریان۔۔

تنگ آگئی ہوں بلاج کی بےرخی سے۔۔۔"

"میں بھی تنگ آگیا ہوں تم سے دور رہ کر۔۔پر ابھی تمہارا حمدانی مینشن رہنا بہت ضروری ہے میری جان۔۔۔"

۔

"پر ریان ہمارا بچہ۔۔"

"کچھ نہیں ہوگا مدیحہ۔۔بس کچھ دن اور۔۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"تمہیں پاکستان جانا ہے نا دفعہ ہوجاؤ۔۔یا میں خود تمہیں ائیرپورٹ تک چھوڑ کر آتا ہوں۔۔"

"ربیل میری بات سن لو۔۔"

"بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری بات۔۔"

وہ اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے گیا تھا سامنے سے بلاج آرہا تھا جو اسے دیکھ کر رکا تھا وہاں

"اس وقت اس طرح کہاں لے جا رہے ہو اپنی بیوی کو۔۔؟"

"آپ اپنی بیوی کو سنبھال لیں پہلے پھر میری زاتی زندگی میں دخل دیجئے گا۔۔۔"

"ربیل۔۔۔"

"باےئ جان رامین میڈم کا بہت دل ہے اپنے ماں باپ کے پاس جانے کا اسے ائیر پورٹ چھوڑ کر آتا ہوں۔۔"

۔

داد جی وہاں موجود نہیں تھے اور بلاج نے آگے کوئی سوال جواب نہیں کیا تھا وہ سیدھا کچن میں گیا تھا ملازمہ سے بریرہ کے لیے کھانے کا کہہ کر وہ واپس اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔۔

۔

پورے دن کے معاملات نمٹا کر وہ تھک گیا تھا ۔۔

۔

"تائی جان انہیں روکیں۔۔"

"ربیل ایک بار۔۔۔"

"امی پلیز تائی جان سے کہیں پیچھے ہی رہیں۔۔"

ربیل کی بات س کر اسکی امی گھبرا گئی تھیں رابیعہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر وہ انہیں وہاں سے لے گئی تھیں۔۔

ربیل بری طرح سے رامیں کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھر سے ائیر پورٹ لے گیا تھا۔۔

۔

"جاؤ ائیر پورٹ۔۔"

سرخ پر سامان پھینک کر وہ واپس اپنی گاری کے لیے مڑا تھا

"ربیل تم چاہے اس بچے کی موت کے منتظر ہو گے۔۔پر میں اسے زندگی ضرور دوں گی۔۔

اور اسکے برتھ سرٹیفیکیٹ پر باپ کے نام کی جگہ تمہارا ہی نام لکھواؤں گی۔۔۔"

ربیل کے قدم رکے ضرور تھے پر وہ واپس مڑا نہیں تھا۔۔

۔

۔

وہ اس جگہ اپنی بیوی کو چھوڑ تو آیا تھا پر کچھ ہی دیر میں اسکی گاڑی کے ساتھ ایک ٹرک آ ٹکڑایا تھا اور اسکی گاڑی کا بری طرح سے ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔۔۔

۔

۔

وہاں رامین پاکستان جانے والی فلائٹ پر بیٹھ چکی تھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"پر بریرہ میڈم۔۔"

"پشمینہ۔۔۔لے جاؤ اسے یہاں سے۔۔"

"پر بلاج سر نے سختی سے کہا تھا آپ کو ڈنر۔۔"

بریرہ نے وہ ٹرے بیڈ سے نیچے پھینک دی تھی۔۔

وہ کچھ نہیں کھانا چاہتی تھی وہ سزا دینا چاہتی تھی خود کو بھی اور اس معصوم کو بھی۔۔۔کیا آسان تھا اتنا۔۔؟؟"

۔

"ایک وقت تھا بلاج جب ہمارے پیار کی تمہاری نشانی ہماری اولاد کے لیے میں نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی تھی۔۔پر آج میں وہ نہیں رہی آج میں ختم کردینا چاہتی تمہیں بھی تمہاری اس نشانی کو بھی خود کو بھی۔۔۔"

وہ زہر اگل رہی تھی۔۔۔وہ نفرت بول رہی تھی وہ کیا اتنی آگے نکل آئی تھی اس نفرت اور بدلے کی جنگ میں۔۔؟"

۔

۔

اس کا اتنے میں فون بجا تھا۔۔۔مہتاب کا نام سکرین پر وہ دیکھ کر تھوڑی حیران ہوئی تھی

"ہائے۔۔۔مہتاب۔۔۔"

"بر،،،پشمینہ۔۔۔مجھے کچھ بتانا تھا تمہیں۔۔اس سے پہلے کوئی اور بتائے۔۔"

مہتاب کی آواز میں گھبراہٹ ہچکچاہٹ درد صاف محسوس ہورہا تھا بریرہ کو

"کیا ہوا ہے مہتاب۔۔؟؟"

"بلاج بھیا نے مجھے اپنے آفس میں بلایا تھا۔۔۔اور وہاں۔۔۔ثانیہ بھی موجود تھی۔۔۔"

"ثانیہ۔۔۔نام سنا ہوا لگ رہا۔۔۔"

"بھیا چاہتے ہیں میری اور ثانیہ کی شادی ہوجائے۔۔۔"

بریرہ نے گہرا سانس لیا تھا۔۔۔

"اور تم۔۔۔؟؟ کیا تم نے ہاں کردی۔۔؟ بہت آسان ہے تم حمدانیز کے لیے موو آن کرنا۔۔؟؟"

"بلاج بھیا نے پہلی بار کچھ مانگا مجھ سے پشمینہ۔۔"

"گو ٹو ہیل۔۔۔"

۔

بریرہ نے اپنا فون دیوار پر مار دیا تھا۔۔۔

"بلڈڈی باسٹرڈ۔۔۔بلاج حمدانی تمہیں کیا لگتا ہے تم ایسی حرکتیں کرکے جیت جاؤ گے۔۔؟

اب میں تمہیں اپنے انداز میں یہ گیم کھیل کر بتاتی ہوں۔۔۔تمہارے اگلے پچھلے یاد رکھیں گے۔۔"

وہ کپبرڈ سے اپنے لونگ بوٹ اور بلیک جیکٹ نکال کر روم سے باہر چلی گئی تھی۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"تایا جان ہم سب ساتھ جائیں گے پاکستان کاشان بھائی بریرہ۔۔۔ارسل۔۔"

"مرچکا ہے کاشان مار دیا ہوا ہے اسے ان لوگوں نے۔۔۔نہیں ہے وہ زندہ۔۔۔

بریرہ میرے لیے مر چکی ہے۔۔۔ارسل کے کندھوں پر ابھی کچھ ذمی داریاں باقی ہیں۔۔"

انہوں نے یہ کہہ کر بیگ کی زپ بند کردی تھی

"پرتایا جان پاکستان کیوں۔۔"

"میری فیملی کو لینے جا رہا ہوں۔۔۔میری بیوی کو لینے جا رہا ہوں۔۔ارسل کی بیوی بچوں کو لینے جا رہا ہوں ۔۔۔کاشان کی بیوہ کو اسکے یتیم بچوں کو لینے جا رہا ہوں۔۔۔"

انکی آواز بہت آہستہ ہوگئی تھی۔۔۔

۔

"کنزہ بھابھی رشنا آپ لوگوں نے چلنا ہے پاکستان۔۔؟ پری پر بریرہ کا سایا نا پڑنے دیں بریرہ کا منحوس سایا سب ختم کردے گا۔۔۔"

۔

اور وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔

۔

"یہ وجیح تایاکیسے ہو سکتے ہیں۔۔ وہ اپنی بیٹی کے لیے ایسے الفاظ۔۔؟؟ بریرہ سے اتنی نفرت۔۔پر اسکی حالت نے مجھے اندر تک جھنجوڑ کر رکھ دیا تو تایا جانکیسے انتے پتھر دل ہوگئے۔۔؟؟"

بہرام کی بات پر رشنا نے اپنی بہتی ہوئی آنکھیں جلدی سے صاف کی تھیں۔۔

۔

"سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔میں ارسل کو فون کر کے پتا کرتا ہوں یہ ڈیل ہمیں ملنا ضروری ہے۔۔۔ وجیح تایا جان کی آدھی پراپرٹی آج انکے دشمنوں کو مل جائے گی۔۔۔"

۔ 

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ اگر جگہ تباہ ہوگئی تو یہی لوگ نہیں سب مافیا ایکسپوز ہوں گے۔۔۔دنیا کے سامنے بھی میڈیا کے سامنے بھی۔۔"

بریرہ کے ہاتھ میں وہ لیٹر جلتے جلتے بجھا تھا

"کیا مطلب۔۔؟ میں سمجھی نہیں۔۔"

"یہ لوگ مافیا ہیں یہ ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا بریرہ یہ انکا کوڈ ہے۔۔کوئی میڈیا کوئی باہر کا پرسن نہیں انکے تو خاندان والوں کو بھی شاید انکی اصلیت نا پتا ہو بریرہ۔۔۔

اس جگہ کی تباہی سے جو ایکسپلوئژن ہوگا وہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔"

بریرہ نے وہ لیٹر پیچھے کردیا تھا۔۔

"میں نے ابھی تک کچھ سوچ کرکیا تھا جو اب کروں گی وکی۔۔؟؟ 30 سیکنڈ ہیں تمہارے پاس اپنے گاڑی کو جتنی دور لے جا سکتے ہو لے جاؤ۔۔ میں چاہتی ہوں جل جائے بلاج حمدانی کی ساری محنت۔۔ اس نے مجھے مات نہیں دی اپنی کمبختی کو دعوت دی ہے۔۔۔ناؤ آؤٹ ہوجاؤ۔۔۔؟"

"وٹ دا ہیل۔۔۔بریرہ تم پاگل ہوگئی ہو۔۔۔"

20 سیکنڈ۔۔۔"

اور وہ اس جگہ کے پاس چلنا شروع ہوگئی تھی جہاں اسکی بائیک تھی

"بلاج حمدانی۔۔۔ایک اور تحفہ تمہارے اور تمہارے خاندان کے لیے۔۔۔"

۔

۔

اپنی بائیک پر بیٹھ کر اس نے بائیک کو اور اس جگہ لے جا کر وہ لیٹر جلا کر اس گھاس پر پھینک دیا تھا۔۔۔

جلتے جلتے جب آگ بہت پھیل گئی تھی اسکی آنکھوں کے سامنے وہی آگ تھی جو اسکے اندر تھی۔۔۔

او ایک ایکسپلوثزن جیسے ہی ہونا شروع ہوا تھا اس نے بائیک سٹارٹ کردی تھی۔۔۔اسکی بائیک وکی کی گاڑی کے پاس سے گزری تھی۔۔۔اور  دھماکے اس طرح ہوئے تھے کے وکی کی گاڑی ایک درخت کے ساتھ جا ٹکرائی تھی۔۔۔

۔

"ہاہاہاہا وکی صاحب۔۔۔سزا کے حقدار تو آپ بھی بہت تھے۔۔۔ استعمال کرنا تھا اس لیے درگزر کر رہی تھی۔۔۔باسٹرڈ۔۔۔۔"

اس نے بنا پیچھے دیکھے بائیک اور تیز کردی تھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ اس بلاسٹ میں لوگ قصوروار ہیں انکا نام میڈیاکے سامنے لایا جائے آفیسر ـ 'بی-اے -ایچ" آپ کو ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا ہے آپ کا پہلا آرڈر اس کرسی پر۔۔"

"کس نے کہا یہ کرسی انصاف کے لیے لی ہے میں نے۔۔؟؟ مجھے پاور چاہیے۔۔۔ہر ایک پر۔۔چاہے وہ مافیا ہو یا سی-بی-آئی۔۔۔

اس جگہ سے ہتھیار تو پہلے ہی کور کرلئیے تھے ہم نے کیوں۔۔؟ مجھے پتا تھا وجیح شاہ نے بلاج حمدانی کے گودام میں حملہ کرنا تھا۔۔

اب تم کل کا دھماکہ دیکھنا جو ہماری طرف سے ہوگا۔۔۔

"پر آفیسر۔۔۔"

سب لوگ پیچھے ہوگئے تھے جب سینئر آفیسر اپنی کرسی سے اٹھ گیا تھا۔۔۔

"میں یہاں تک ایک گہرے اور خاص مقصد کے لیے آیا ہوں۔۔

ارسل شاہ کو اب یہاں سے ڈی پورٹ کروا دو پاکستان۔۔۔۔

باقی اس بہرام شاہ کو یہیں رہنے دو۔۔۔مجھے اسے ہرا کر واپس بھیجنا ہے۔۔ناکام عاشق۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔"

اسکی شیطانی ہنسی دیکھ کر جونئیر آفیسرز حیران ہوگئے تھے اور پریشان بھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ دنوں بعد۔۔۔۔۔۔۔۔"

۔

پاکستان۔۔۔۔

۔

"عروج بھابھی کنزہ اور بچوں کی فلائٹ آج کی ہے ہم چلیں گے ائیرپورٹ آپ فکر نا کریں۔۔"

"امی اب تو کھانا کھا لیں۔۔۔"

۔

"مجھے نہیں پتا تھا میری بیوی میرے بعد اتنی کمزور اتنی بیمار پڑ جائے گی۔۔"

وجیح شاہ کی آواز نے سب کے ہاتھ ساکن کردئیے تھے۔۔۔

"وجیح۔۔۔"

وہ بھاگتے ہوئے اپنے شوہر کی جانب بھاگی تھیں۔۔۔

"آپ آگئے۔۔۔وجیح۔۔ارسل کہاں ہے کاشان۔۔بری۔۔۔۔"

۔

"ارسل بھی آجائے گا۔۔۔کاشان۔۔۔وہ ہم میں نہیں رہا عروج۔۔۔"

وہ وجیح شاہ کے کندھے پر سر رکھ کر رونا شروع ہوگئیں تھیں۔۔

۔

"وجیح کل  کی بات تھی جب اسی طرح سب بچوں کو ناشتہ بنا کر دیا تھا۔۔۔ کاشان اور بریرہ کیسے لڑ رہے تھے کہ میں اپنے ہاتھوں سے پہلے کسے کھلاؤں گی۔۔"

روتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا لئے تھے۔۔۔کاشان کی بیوی روتے ہوئے اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی

۔

"ہمارے دو بیٹے ہی ٹھیک تھے نا عروج ہم نے بیٹی کی خواہش ہی کیوں کی تھی۔۔۔؟؟"

"خدا کے لیے وجیح بھائی بس کیجئیے۔۔۔بریرہ زندہ ہے آپ اسے جیتے جی کیوں مار رہے ہیں۔۔؟؟"

"کیونکہ اس نے مجھے جیتے جی مار دیا ہے۔۔۔میرا نام عزت پہچان میری شان و شوکت کبیر۔۔۔

میری اولاد سب تو چھین لیا اس نے۔۔۔"

وہ چلائیے بھی تھے تو آنکھوں سے آتے آنسوؤں سے چہرہ بھیگ گیا تھا انکا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

کچھ دن بعد۔۔۔۔

۔

"جن  کی منگنی ہوئی ہے ان کپز کو ڈانس فلور پر آکر ڈانس تو کرنا چاہیے۔۔۔کیوں مہتاب ثانیہ۔۔؟؟"

بلاج اناؤنسمنٹ کرکے مہتاب اور ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر انکو سٹیج پر لے گیا تھا۔۔

"اور میری وائف مئے آئی۔۔؟؟"

"ہاہاہاہ۔۔۔۔"

بلاج نے جیسے ہی مائک میں کہا تھا سب مہمانوں نے قہقہ لگایا تھا۔۔۔

۔

"ارے کہاں بھاگ رہی۔۔؟؟ہاہاہا۔۔۔ تمہارا چہرہ تو لال ہوگیا ہے غصے سے۔۔۔ تمہاری اس لال ساڑھی کی طرح وائفی۔۔۔"

بلاج نے اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔

۔

"ہاتھ چھوڑو بلاج مجھے ابھی کوئی بکواس نہیں سننی تمہاری۔۔"

"مہتاب کو کسی اور کا ہوتے دیکھ دکھ ہو رہا ہے پشمینہ جان۔۔؟ تم نے تو کہا تھا وہ تمہارا ہے بلا بلا۔۔۔

کہاں گئی وفائیں ۔۔۔؟؟"

بلاج نے طنز کیا تھا اسکی گرفت بریرہ کی ویسٹ پر اور مظبوط ہوگئی تھی

"تمہیں شاید نا یاد ہو۔۔میری بیوی۔۔۔ بریرہ جب بھی ایسے ساڑھی پہنتی تھی صرف مجھے منانے کے لیے پہنتی تھی۔۔۔ کہتی تھی میں ناراض ہوتا ہوں تو اسے سانس ٹھیک سے نہیں آتا۔۔

پر وہ میرے سامنے تو سانس بھرتی تھی۔۔۔جھوٹ کہتی تھی نا۔۔؟؟"

بلاج نے بریرہ کی آنکھوں میں دیکھا تھا اسکی اپنی آنکھوں میں بھی ایک درد تھا

"تمہارے لیے تو تمہاری بیوی بریرہ ایک مذاق ایک تماشہ بن کر ہی رہی تھی ایک رکھیل،،

پر تم جیسے انسان کے منہ سے اسکے خلاف کوئی بھی بات مجھے سچ نہیں لگتی بلاج۔۔

دنیا کہتی ہے وہ وفائیں کرتی مر گئی تم سے۔۔۔"

"اسکے ساتھ میں نے بھی بہت وفائیں کی تھی پشمینہ۔۔محبت کی تھی میں نے۔۔"

۔

اس نے سرگوشی کی تھی۔۔۔

۔

"کسی بےوفا کے منہ سے محبت لفظ ایسا ہے جیسے ٹھنڈے پانی میں جلتی آگ بلاج حمدانی"

"اب تم بھی مان جاؤ کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔۔۔تمہیں سب یاد ہے۔۔"

"ہاہاہاہا میں اور محبت۔۔؟؟ بےوفا سے۔۔۔؟؟ تم جیسے شخص سے۔۔؟ نفرت کرتی ہوں میں تم سے۔۔۔

"اسی بےوفا سے تم محبت کرتی آئی ہو ہمیشہ سے۔۔اب نفرت لفظ تمہارے منہ سے ایسےلگ رہا جیسے جلتی آگ میں پانی کے چند قطرے۔۔۔"

۔

ڈانس فلور پر ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں رہا تھا سب کی اٹینشن بس ان پر تھی

"کیسے کہوں عشق میں تیرے کتنا ہو بےتاب میں۔۔

آنکھوں سے آنکھیں ملا کے چُرا لوں تیرے خواب میں۔۔۔"

"میں تم سے ڈائیورس لیکر تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہیں ٹھکرا کر چلی جاؤں گی

اور تم دیکھتے رہ جاؤ گے۔۔"

اب کے بلاج نے جس طرح سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے گھمایا تھا اسکی بیک بلاج کی طرف تھی۔۔بلاج نے اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر پھر سے اپنی طرف کھینچا تھا

"بلاج حمدانی اپنی آخری سانس تک لڑے گا تمہیں لیے۔۔۔تم سے تو لڑائی میری ازل سے رہی بریرہ شاہ۔۔۔اب تمہارے اس لوور بوائے سے سہی۔۔بہرام شاہ۔۔۔"

۔

"ہے یہ نشہ یا ہے زہر،،،اس پیار کو ہم کیا نام دیں۔۔۔

کب سے ادھوری ہے اک داستان،،،،آجا اسے آج انجام دیں۔۔۔"

۔

"تم کبھی مجھے پا نہیں سکتے بلاج۔۔کبھی نہیں۔۔۔میں تمہیں کبھی میسر نہیں آؤں گی آزما لو مجھے۔۔۔"

اس کی آنکھوں میں آگ تھی جب اس نے یہ لفظ نفرت بھرے لہجے میں کہے تھے

"میں تمہیں بہت پہلے پا چکا تھا بریرہ شاہ۔۔۔اب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔۔بیوی ہو تم میری۔۔۔میں تمہیں آزما چکا ہوں۔۔ تم نے کتنی نفرت کی مجھ سے پر ایک بار بھی مجھے مار سکی ہو تم۔۔؟ تم کچھ نہیں کر سکتی۔۔تمہاری محبت میرے لیے کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔۔"

۔

۔

"ایکسکئیوزمئ مئ آئی۔۔؟؟"

مہتاب نے سب کے سامنے جیسے ہی ہاتھ بریرہ کے لیے بڑھایا تھا بلاج کے انکار کرنے سے پہلے ہی بریرہ نے بلاج کے کندھے سے ہاتھ ہٹا کر مہتاب کے ہاتھ ہر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا

۔

۔

"پلیز مجھ سے بات کرو پشمینہ۔۔۔تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے نفرت برداشت نہیں ہو رہی مجھے۔۔"

"تو تم میری آنکھوں میں کیا دیکھا چاہتے ہو مہتاب۔۔؟؟"

بریرہ نے غصے سے پوچھا تھا۔۔۔ بلاج کی باتوں نے اس پاگل کردیا تھا جنون سوار ہوگیا  تھا اس پر۔۔۔

۔

"میرے ساتھ چلو۔۔۔"

۔

مہتاب اس سٹیج سے سب کے سامنے بریرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے ٹیرس پر لے گیا تھا

"اسکی ہمت۔۔"

"بلاج بیٹا پلیز۔۔۔ تم جاؤ گے تو سب کی توجہ بڑھے گی۔۔"

زمرد صاحب بلاج کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دوست کے پاس اس سے ملانے لے گئے تھے۔۔

۔

۔

"داد جی یہ لڑکی میں ہے تو دشمن کا خون چاہے یاداشت ہو یا نا ہو۔۔۔دیکھیں کیا ہورہا ہے۔۔۔"

"سب دیکھ رہا ہوں وہاج۔۔اس لیے میں نے اپنے دوست اور اسکی نواسی کو انوائٹ کیا ہے یہاں۔۔

زمرد بلاج کو جن سے ملوانے گیا ہے۔۔۔اگر مدیحہ بلاج کو بریرہ شاہ کے پاس جانے سے نہیں روک پائی تو وہ لڑخی روکے گی۔۔"

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"ہاں ڈینیل۔۔۔"

بریرہ۔۔کاشان بھیا ہم میں نہیں  رہے۔۔وہ۔۔۔۔وہ تو بہت پہلے جا چکے ہیں۔۔۔بریرہ ان لوگوں کی قید میں ان لوگوں نے دشمنوں نے مار دیا کاشان بھیا کو۔۔"

ڈینیل کی سونم کی روتی ہوئیں آوازوں میں اتنی شدت تھی کی اس ٹیرس پر رئیلنگ پر ہاتھ رکھی بریرہ کے ہاتھ سے وہ موبائل نیچے گر گیا تھا۔۔مہتاب نے جیسے ہی بریرہ کو پیچھے سے اپنے حصار میں لیا تھا اسکا جسم پتھر بن گیا تھا۔۔

"ہم دونوں یہاں سے بھاگ جاتے ہیں پشمینہ۔۔"

پر بریرہ تو وہ باپ کی شفقت باپ جیسی محبت دینے والے بھائی کی یادوں میں کھو گئی تھی

"امی زیادہ پیار مجھ سے کرتی ہیں جل کُکڑی۔۔۔"

"اور بابا سائیں زیادہ پیار مجھ سے کرتے ہیں جل کُکڑے۔۔۔"

"بریرہ کی بچی۔۔۔"

"میں خود بچی ہوں بدمانس کہیں کے۔۔۔"

"ابھی بتاتا ہوں۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔۔بدمانس بندر۔۔۔جل ککڑے۔۔۔"

"پشمینہ۔۔میں جانتا ہوں تم بھی مجھ سے بےحد محبت کرتی ہو۔۔"

"محبت۔۔؟؟ اور وہ بھی دشمن کے بیٹے سے۔۔؟؟" بریرہ نے خود کو مہتاب کے حصار سے پیچھے کرلیا تھا 

"پشمینہ۔۔۔"

"بریرہ شاہ ہوں میں۔۔بدلہ لینے آئی تھی محبت نہیں مہتاب تم تو میرے لیے ایک سیڑھی تھے اس خاندان کی جڑے کمزور کرنے کے لیے استعمان کیا تمہیں۔۔"

"بریرہ نے جتنی نفرت سے کہا تھا مہتاب کے قدم ڈگمگا گئے تھے۔۔۔

"تم پشمینہ۔۔۔ہو میری محبت۔۔"

"ہاہاہا تمہاری اتنی اوقات ہے مہتاب میں تم سے محبت کروں۔۔؟؟

صرف نفرت کرتی آئی ہوں تم سے تمہارے خاندان سے تمہارے اس بھائی سے۔۔

تم لوگ محبت کے قابل بھی ہو۔۔؟؟ اپنے گریبان میں جھانکو۔۔"

"تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔پشمینہ میرا دل برداشت نہیں کر پائے گا پلیز میں ہاتھ جوڑتا ہوں پاؤں پکڑتا ہوں۔۔"

مہتاب اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا تھا

"مہتاب تمہارے نا ماننے سے سچ بدل تھوڑی نا جائے گا ہماری پہلی ملاقات سے لیکر آج یہاں تک سب کچھ پلاننگ کے تحت ہوا تھا میں تھی ماسٹر مائنڈ مہتاب۔۔۔آج تم دشمن کے بیٹے دشمن کے بھائی ہو میری نظر میں۔۔۔

سکون مل رہا ہے تمہیں اس طرح یہاں گھٹنے پر بیٹھے دیکھ کر۔۔"

۔

"میرا کیا قصور تھا بریرہ۔۔۔؟؟ میں تو سچا پیار کرتا آیا بریرہ۔۔

دیوانوں کی طرح۔۔"

"اس بدلے میں قصور تو میرا بھی نہیں تھا مہتاب۔۔کیا ملا مجھے۔۔؟ تمہیں میرے جتنی تکلیف ملتی تو مر جاتے تم۔۔۔"

۔

وہ جیسے ہی وہاں سے گئی تھی مہتاب اپنے گھٹنوں پر سر رکھ کر رونا شروع ہوگیا تھا

"ہاہاہاہا بریرہ شاہ۔۔؟؟ بلاج حمدانی کو یہ ویڈیو دیکھانی ہی پڑے گی۔۔"

کوئی اندھیرے میں چھپا ہوا شخص وہاں سے اپنا موبائل لئیے چلا گیا تھا۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

مہتاب کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے بلاج۔۔۔"

۔

"وہ تو ابھی اوپر تھا بریرہ کے ساتھ۔۔۔وہ۔۔بریرہ کہاں ہے۔۔؟؟"

"پشمینہ بھابھی تو کچھ دیر پہلے ہی باہر گئیں ۔۔۔"

۔

کسی نے جیسے ہی کہا تھا بلاج نے اپنا موبائل اٹھایا تھا اور زمرد صاحب کے پیچھے ہسپتال بھاگ گیا تھا۔۔

۔

۔

"پئشنٹ کی حالت بہت نازک ہے۔۔۔وہ بار بار بلاج نام لے رہے ہیں۔۔"

بلاج جلدی سے آئی سی یو میں داخل ہوا تھا۔۔۔مہتاب نے اسپنے چہرے سے آکسیجن ماسک اتارنے کی کوشش کی تھی جس پر نرس نے اسے منع کیا تھا۔۔

"بھ۔۔۔بھیا۔۔۔بلاج۔۔بھائی۔۔آپ کی دشمنی نے سب چھین لیا مجھ سے۔۔

وہ۔۔بریرہ۔۔ہے میری پشمینہ نہیں ہے۔۔سب بدلہ تھا۔۔۔"

۔

"آپ باہر جائیں ڈاکٹر۔۔۔"

نرس نے مانیٹر کی بیپ سن کر بلاج کو باہر جانے کا کہہ دیا تھا

۔

۔

"ڈاکٹر میرا بھائی۔۔۔"

۔

"ایم سوری۔۔۔۔"

۔

۔

اور بلاج حمدانی ایک جھٹکے سے اس بنچ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔"

۔

"بےجان دل کو بےجان دل کو،،،

بےجان دل کو تیرے عشق نے زندہ کیا۔۔۔

پھر تیرے عشق نے ہی اس دل کو تباہ کیا۔۔۔"

۔

"کاشان بھیا میں تو دوسری قبر پر گلے شکوے کرتی رہی آپ نے تو اپنا گھر یہاں بنایا ہوا تھا۔۔۔

آپ جانتے ہیں صرف امی ہی نہیں بابا سائیں ہی نہیں یہ آپ کی بریرہ بھی آپ سے بہت زیادہ پیار کرتی آئی ہے سب سے زیادہ کاشان بھائی۔۔۔

۔

یااللہ کیوں محبت ہوگئی مجھے۔۔ مجھے تو پتا تھا محبت تباہی کے سوا کچھ نہیں کیوں اپنے ہاتھوں سے تباہ ہوگئی میں اور برباد کردی خاندان کی عزت میں نے

کاشان بھائی میرے بدلے سے سب واپس آجائے گا کیا۔۔؟ کاشان بھائی۔۔۔"

۔

۔

بریرہ کے دن ایسے ہی گزر رہے تھے۔۔۔پر آج کا دن کچھ الگ تھا۔۔اپنے ہڈ کی کیپ سے منہ چھپائے وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی اسی وقت اسکے سامنے ایک بلیک گاڑی آکر کھڑی ہوگئی تھی

"سیریسلی۔۔؟؟" بریرہ نے اپنی گن نکال کر اس گارڈ کے پاؤں پر شوٹ کیا تھا جو اسکو زبردستی پکڑنے کی کوشش کررہا تھا۔۔

"باسٹرڈ۔۔۔"

لاسٹ گارڈ کو کک مار کر وہ جیسے ہی آگے بڑھنے لگی تھی اسے اپنے گلے پر کچھ چھبن محسوس ہوئی تھی اور وہ بےہوش ہوگئی تھی۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"کچھ ہفتے بعد۔۔۔"

۔

۔

"یو باسٹرڈ۔۔ایک قدم آگے بڑھایا تو شوٹ کردوں گی۔۔"

"یو بچ۔۔"

وہ گارڈ جیسے ہی آگے آیا تھا بریرہ نے اسکی ٹانگ پر گولی چلا دی تھی۔۔

"باسٹرڈ۔۔۔"

وہ اس کمرے کا دروازہ بند کر کے باہر آگئی تھی۔۔۔

میں گیٹ کا دروازہ کھول کر جیسے ہی باہر بھاگی تھی اس لگا تھا اب وہ اس جہنم سے باہر نکل جائے گی جہاں اسے ایک ہفتے سے انجیکشن لگا کر رکھا جا رہا تھا اب وہ فائننلی یہاں سے نکل جائے گی۔۔۔پر باہر نکلتے ہی اسکے سامنے ویران خالی میدان سامنے بڑا سا سمندر تھا

"وٹ دا ہیل۔۔۔"

"ہیے یو بچ۔۔۔پکڑو اسے۔۔۔"

پیچھے سے گارڈز اسکی طرف بھاگے تھے۔۔۔

اس نےگن لوڈ کی تھی پر سامنے آتے شخص کو دیکھ کر جیسے اسکی جان میں جان آگئی تھی۔۔

"بلاج۔۔۔تم آگئے ہو۔۔۔میں جانتی تھی تم آؤ گے۔۔"

بکھری حالت کھلے بال۔۔ننگے پاؤں سے وہ بلاج کی طرف بھاگی تھی۔۔۔جیسے ہی اس نے بلاج کے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کی تھی سکون کا سانس لیا تھا ایک دم سے وہی گارڈز انکی طرف آئے تھے۔۔

"ایک کام دیا تھا تم لوگوں کو وہ بھی نا کرسکے۔۔۔"

"باس آج انجیکشن دینے میں دیر ہوئی اور یہ کامیاب ہوگئی بھاگنے میں۔۔۔سب نیند کی گولیاں ختم ہوگئیں تھیں۔۔"

بریرہ کی سانسیں رک گئی تھیں اس نے منہ اٹھا کر بلاج کی آنکھوں میں دیکھا تھا

۔

"بےوفا کوئی ایک کمی چھوڑ دیتے کیا کوئی اتنا بےوفا بھی ہوسکتا ہے بلاج۔۔؟"

اسکے درد نے شدت اختیار کر لی تھی۔۔۔سامنے کھڑا شخص بےوفائی کی جیتی جاگتی مثال بن چکا تھا آج

"بریرہ۔۔

وہ وہیں اسکی بانہوں میں بےہوش ہوگئی تھی۔۔۔۔

۔

۔

"ہسپتال لیکر جانا ہوگا بلاج۔۔۔"

"یہ یہاں سے کہیں نہیں جائے گی م ڈاکٹر ہو کراسے پچھے 3 گھنٹوں سے ہوش میں نہیں لاپا رہی۔۔"

وہ اپنے گارڈز کو کبھی غصے سے دیکھ رہا تھا تو کبھی اس لیڈی ڈاکٹر کو۔۔

"مجھے مکمل چیک اپ کرنا ہوگا۔۔۔کیا یہ پریگننٹ تھی۔۔؟؟"

ڈاکٹر کے سوال پر بلاج  رک گیا تھا اور۔۔۔اسکی دھڑکنے بھی۔۔

"وہ۔۔۔"

"کیا انہیں ڈرگز دی گئیں ہیں۔۔؟؟"

ڈاکٹر نے جیسے ہی یہ سوال پوچھا تھا۔۔۔

"وہ سر ہم نے دیا تھا۔۔۔"

ایک لیڈی گارڈ نے جواب دیا تھا اور بلاج نے اپنے ہیڈ گارڈ کا گریبان پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔۔

"اوو۔۔۔نووو۔۔۔اگر انہیں ڈرگز دئیے گئے ہیں تو انکا اب تک ابورش۔۔۔۔"

"ایک لفظ نہیں ڈاکٹر۔۔۔وہ پریگننٹ نہیں ہو سکتی۔۔چیک اپ کریں اسکا۔۔"

۔

بلاج اس گارڈ کا کالر پکڑ کر باہر لے گیا تھا۔۔

"کس کی اجازت سے اسے ڈرگز دئیے تھے۔۔۔"

"میں نے انکو منع بھی کیا تھا سر۔۔۔جب اس نے ڈرگ دینے کی بات کی تھی مس بریرہ کا ہاتھ انکے پیٹ پر تھا جیسے وہ حفاظت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔"۔

۔

اور اس لیڈی گارڈ نے سر شرم سے جھکا لیا تھا۔۔۔

۔

۔

"مس بریرہ۔۔"

"ڈاکٹر میرا بچہ ۔۔۔؟؟"

"ایم سوری۔۔۔"

بریرہ نے جیسے ہی آنکھیں بند کی تھی اسکے آنسو چھلک گئے تھے

۔

"ہممم اچھا ہے نا وہ اپنے ظالم باپ کے بجائے اپنے مامو کے پاس رہے گا۔۔۔"

اس نے خالی جگہ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جیسے وہ اس دنیا میں تھی ہی نہیں۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"سر آپ کو  واپس جانا چاہیے میڈم کو بھی ساتھ لے جائیں۔۔"

"وہ تو چاہتی ہے یہاں سے جائے اور وہ شیرنی ایک بار پھر سے اپنے مشن پر نکل جائے۔۔"

بلاج نے اپنا سگار نیچے پھینک دیا تھا

"یہاں یہ ہیں تو وہاں ارسل شاہ۔۔آپ کے خاندان کو ہار پر ہار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وجیح شاہ کے آگے۔۔۔"

۔

"وجیح شاہ کی جیت اس لیے ہو رہی ہے بلاج حمدانی اسے جیتنے دے رہا ہے۔۔

بریرہ شاہ کی اکڑ جس دن مر گئی میں کیا کرتا ہوں سب دیکھیں گے

وہ میری ملکیت ہے میری بیوی اب تو دشمن جان بن گئی ہے وہ۔۔۔

اب تو بےوفا بن گئی ہے میری۔۔۔میرے بھائی کی۔۔۔"

کہتے کہتے بلاج رک گیا تھا۔۔۔

۔

"سر بریرہ میڈم بھاگ گئی ہیں اور وہ اسے چوٹی کے پاس گئیں ہیں۔۔۔"

۔

بلاج جس طرح گھبرا کر بھاگا تھا شیشے کا ٹیبل ٹانگ کے ساتھ لگنے سے گرگیا تھا۔۔۔

اسکی ٹانگ پر خراز آگئی تھی خون بہنے پر بھی وہ نہیں رکا تھا۔۔۔

۔

"یہ لڑکی چاہتی کیا ہے۔۔۔سب کچھ تو کردیا اس نے۔۔۔۔"

۔

وہ اور غصے میں بھاگا تھا۔۔۔۔اسی طرف جو راستہ ملازمہ نے بتایا تھا اسے۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

"بریرہ۔۔۔"

بلاج بھی اسی انچائی کی طرف بھاگا تھا۔۔۔"

"بلاج حمدانی۔۔۔تمہیں کیا لگا تھا اس اسلینڈ پر لاکر تم مجھے غلام بنا لو گے اپنا۔۔۔؟؟"

"بریرہ۔۔۔کیا بچپنا ہے نیچے گر جاؤ گی۔۔۔"

۔

"وہ تو بہت پہلے گر چکی تھی نا وہ بھی منہ کے بل بلاج۔۔۔"

وہ بلاج کی جانب دیکھتے ہوئے پیچھے قدم بڑھا رہی تھی بلاج حمدانی کی دحرکن رک رہی تھی

"نیچے گر جاؤ گی بریرہ اپنا ہاتھ دو مجھے"

"ایک بار تمہیں ہاتھ دیا تھا بلاج ایک بار تمہارا ہاتھ تھاما تھا۔۔"بس تجربہ اک ہی کافی تھا وہ اس زندگی کے لیے۔"

بریرہ نے اس چوٹی سے ایک قدم اور پیچھے بڑھایاتھا بھاگتے بھاتے کب وہ اس جگہ آگئی اسے خبر ہی نا ہوئی تھی اس پہاڑ سے نیچے گرتے پانی کی چھینٹے ہر طرف اتنی تیزی سے پڑ رہیں تھیں وہ دونوں ہی بھیگ چکے تھے

"بریرہ وہاں موت ہے ڈیم اِٹ مر جاؤ گی مر جاؤ گی تم بریرہ واپس آجاؤ۔۔"

بلاج کی آواز میں بےبسی صاف جھلک رہی تھی گرتے پانی سے اٹھے شور میں بھی اسکی ہلکی آواز بریرہ کو سنائی دے رہی تھی

"میں زندہ کہاں ہوں بلاج۔۔؟ تم مار چکے ہو مجھے بہت پہلے۔۔

میرے شوہر کی بےوفائی نے مجھے بہت پہلے ماردیا تھا۔۔میں تو تمہاری اس بےوفائی کا بوجھ اٹھائے جی رہی تھی کہ سود سمیت واپس کروں گی تمہیں۔۔اب بس بلاج۔۔"

اسکا لہجہ جہاں اتنا دکھ سے بھرا ہوا تھا وہاں اتنا ہی سخت اتنا ہی تلخ ہوگیا تھا جب اس نے اپنی آنکھیں صاف کرکے ایک قدم پیچھے کیا تھا۔۔۔

"بریرہ یہاں آجاؤ میری بات سن لو پلیز۔۔"

"تاکہ تم مجھے پھر سے قید کرلو۔؟ کبھی نہیں بلاج حمدانی"

"بریرہ۔۔پلیز۔۔تم جو چاہتی ہو میں کروں گا بس یہاں آجاؤ۔۔تمہیں بہرام کے ساتھ پاکستان جانا ہے میں تمہیں جانے دوں گا۔۔"

بریرہ کی نظروں میں جیسے ہی حیرانگی عیاں ہوئی تھی بلاج نے اسی وقت بریرہ کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا تھاجو اتنا ڈر گیا تھا اب اسے سکون ملا تھا۔۔

ان دونوں کی وہ جگہ کب بدل گئی تھی بریرہ کو پتا نہیں چلا تھا۔۔

"بہت مرضی کرلی تم نے بریرہ۔۔میں تمہیں اب چوبیس گھنٹے اپنی نظروں کے سامنے رکھوں گا۔۔بہرام کیا تم خود بھی خود کو مجھ سے جدا نہیں کرسکتی۔۔نہیں دوں گا تمہیں کبھی طلاق میں سن لو تم میں نے جو بھی غلط کیا میں اس پر شرمندہ ہوں میری جان تم۔۔۔"

بلاج کے یہ لفظ سن کر بریرہ کا وجود پتھر بن گیا تھا۔۔۔"

بلاج کو جیسے ہی اپنے جسم پر کچھ درد محسوس ہوا تھا اس نے ایک قدم پیچھے کیا تھا نیچے جو پانی اس چوٹی سے نیچے جا رہا تھا اس میں بہتے خون کو دیکھ کر اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ لیا تھا اس نے جیسے ہی بریرہ کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سے بلیڈ دیکھی جو اس نے اپنی حفاظت کے لیے چھپائی ہوئی تھی وہ اب بلاج کے جسم پر تھی بےساختہ اسکی نظریں بریرہ پر گئیں جو خود اتنی ہی شاکڈ تھی اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھ کر۔۔۔بلاج ایک قدم اور پیچھے ہوگیا تھا۔۔۔

۔

"میں تو سب بھلا کر تمہیں اپنانا چاہتا تھا بریرہ۔۔۔"

"بلاج۔۔۔"

بریرہ نے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا بلاج نے پیچھے جھٹک دیا تھا اسکا ہاتھ اور اسکے منہ سے ایک لفظ نکلا تھا بریرہ کے لیے۔۔۔

۔

"بےوفا۔۔۔"

اور وہ اونچائی سے نیچے جا گرا تھا اس گرتے ہوئے پانی میں۔۔۔۔

۔

۔

۔

"چشمش تم میری زندگی ہو تم سے جدائی میری موت ہوگی۔۔۔"

"بلاج حمدانی یا تو میری زندگی میں آتے نا اگر آگئے ہو تو جدائی کا نام نا لینا مجھے مار دینا۔۔۔"

۔

۔

دو خاندانوں کی دشمنیاں جانے کب سے چلتی آرہی تھی۔۔۔دشمنی کے لیے زندگیاں بہت تھیں

پر محبتوں کے لیے زندگیاں نہیں ہوتی چند لمحے ہوتے ہیں پھر جدائیاں ہی مقدر ہوتی ہیں ان محبتوں کی۔۔۔

نفرتوں کے لیے زندگیاں بہت ہیں پر محبتوں کے لیے چند لمحات بھی غنیمت ہوتے ہیں۔۔

پر یاد رہے یہ محبتیں محبتیں ہی ہوں محبتوں کا لبادہ اوڑھے بدلے اور نفرت کی بھیانک شکلیں نہیں۔۔۔۔"

ختم شُد۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Bewafa Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Bewafa  written by  Sidra Sheikh. Bewafa  by Sidra  Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages