Ain Ishq Jinhan Nu Lag Janda By Suhaira Awais Complete Short Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 14 May 2024

Ain Ishq Jinhan Nu Lag Janda By Suhaira Awais Complete Short Story Novel

Ain Ishq Jinhan Nu Lag Janda By Suhaira Awais Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ain Ishq Jinhan Nu Lag Janda By Suhaira Awais Complete Short Novel 


Novel Name: Ain Ishq Jinhan Nu Lag Janda 

Writer Name:  Suhaira

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"جنت۔۔!! میری جان۔۔!! 

کیا ہوا تمہیں۔۔۔؟؟؟ کیوں اس طرح رو رہی ہو۔۔!!

کچھ بتاؤ تو۔۔

اور یہ تم نے اپنا حلیہ کیوں بگاڑا ہے۔۔؟؟

یہ اپنے ہاتھ دکھاؤ مجھے ۔۔!! 

تمہیں چوڑیاں نہیں پہننی تھی تو اتار دیتیں۔۔!! 

انہیں توڑ کر اپنا ہاتھ زخمی کیوں۔۔ کیا بولو۔۔؟؟"

زوبیہ کے لہجے سے اپنی پیاری دوست کے لیے فکرمندی صاف ظاہر تھی۔

زوبیہ کب سے اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔

پر جنت فرزان پر تو اس کی کسی بات کا اثر ہی نہیں ہو رہا تھا۔

وہ بڑے انہماک سے اپنا رونے کا شغل پورا کر رہی تھی۔

اب تو اس نے اپنی لپ اسٹک بھی رگڑ کر خراب کر لی تھی۔۔ 

اور ساتھ میں اپنے خوبصورت سے جوڑے میں بند بالوں کو اپنے ایک ہاتھ سے بے دردی سے کھول کر اپنے کندھوں پر  گرنے کے لیے چھوڑ دیا ۔

اس کا دوسرا ہاتھ زوبیہ نے نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا تھا۔

زوبیہ بہیت پریشانی سے اپنی دوست کی یہ خبطیوں والی حرکتیں ملاحظہ کر رہی تھی۔

وہ کب سے.. اس سے۔۔اس کا مسئلہ پوچھ رہی تھی۔۔۔

اس کی تکلیف جاننا چاہ رہی تھی۔۔

پر جنت صاحبہ نے تو ہر چیز ایک طرف رکھ کر۔۔ بس رونے پر زور دیا ہوا تھا۔

میک اپ واٹر پروف نہ ہونے کی وجہ سے۔۔

اس کا آئی لائنر، مسکارا اور کاجل بھی بہہ کر۔۔ اس کے چٹے سفید۔۔ بھرے بھرے گالوں پر عجیب و غریب نقشے بنا چکا تھا۔

زوبیہ اس کے۔۔ اس قدر مستقل مزاجی سے سبکیاں لینے سے اب اچھی خاصی تنگ آ چکی تھی۔

"جنت کی بچی۔۔!! 

اب اگر تم نے اپنے منہ سے کچھ پھوٹے بغیر، ایک بھی آنسو باہر نکالا تو۔۔!! 

میں نے ایک چماٹ لگانا ہے تمہیں ۔۔!! سمجیں۔۔؟؟" زوبیہ نے قدرے غصے سے کہا۔

"زوبی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔۔!!" جنت شدت سے سسکتے ہوئے بولی۔۔

زوبیہ ایک بار پھر تشویش میں مبتلا ہوئی۔۔

اب وہ پہلے سے زیادہ سنجیدہ اور پریشان دکھائی دے رہی تھی۔

"بتاؤ تو۔۔ کہ کیا برداشت نہیں ہو رہا؟؟"

"درد..! درد برداشت  نہیں ہو رہا۔۔ مجھ سے۔۔ زوبی بتاؤ میں کیا کروں۔۔ کہاں جاؤں۔۔؟؟" جنت  اب مزید تڑپتی دکھائی دے رہی تھی۔

"اوہ۔۔ تمہیں درد ہو رہا ہے؟؟ پر کہاں۔۔؟؟ چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔" زوبیہ کی پریشانی ابھی بھی قائم تھی۔

جنت کا دل کیا کہ وہ اس کا سر پھوڑ دے۔۔

وہ اپنا رونا بھول کر ذرا غصے میں زوبیہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔

" کیا ہوا۔۔ ؟؟ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟؟" زوبیہ نے معصومیت سے پوچھا کیوں کہ اسے جنت کا یہ ری ایکشن بالکل سمجھ میں نہیں آیا۔

"بھلا میں ڈاکٹر کے پاس جا کر کیا کروں گی۔۔؟؟" جنت نے جل کر کہا۔

"تم نے ہی تو کہا کہ تمہیں درد ہو رہا ہے۔۔"زوبی کی معصومیت انتہا پر تھی۔

"بس تمہاری یہی عادت سب سے بری لگتی ہے۔۔!!

باقی ہر چیز کا پتہ ہوتا ہے تمہیں۔۔ بس میرے معاملے میں بدھو بن جایا کرو! 

تمہیں اپنی بات بتانے سے اچھا ہے کہ میں اپنا سر دیوار میں مار لوں۔۔!!" جنت نے ہنوز روتے ہوئے زوبیہ کو لتاڑا۔

"دیکھو۔۔!!! جنت ۔۔ یہ بہت بری بات ہے۔۔ 

ایک تو میں نے اتنی دیر سے تمہارا یہ رونا دھونا برداشت کیا ہوا ہے اور۔۔

 کب سے۔۔۔ میں تمہیں بہلانے کی کوششیں کر رہی ہوں۔۔

 اور اوپر سے تم مجھے ہی بدھو ہونے کے طعنے دے رہی ہو۔۔" زوبیہ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔

"زوبی میں کیا کروں؟؟؟ 

مجھ سے اپنی فیلنگز نہیں سنبھالی جا رہیں۔۔!! 

تم پوچھ رہی ہو نا۔۔ کہ کہاں درد ہو رہا ہے۔۔؟؟

میرے دل میں درد ہو رہا ہے۔۔

میں نے ہمت کر کے اپنے دل پر پتھر رکھ کر احسن سے منگنی کر تو لی۔۔

لیکن اب مجھ سے۔۔ اس پتھر کا بوجھ نہیں برداشت ہو رہا۔۔" وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔

"اوہ ہ ہ۔۔ تو تم کس اور کو پسند کر تی ہو۔۔!!" زوبیہ نے حیرت کے مارے اپنے ہونٹ گول کر کے لمباسا 'اوہ' کیا۔

"پسند تو بہت۔۔ بہت چھوٹا سا لفظ ہے۔۔ زوبی۔۔!! مجھے ان سے عشق ہے۔۔" وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"یار۔۔ پھر تمہیں اس رشتے کے لیے "ہاں" نہیں کرنی تھی۔۔ 

پھوپھو اور انکل نے تم سے تمہاری خواہش۔۔ تمہاری مرضی پوچھی تو تھی۔۔

ابھی ابھی تو تمہاری منگنی ہوئی ہے۔۔

 اور ابھی سے تمہارا یہ حال ہے۔۔۔

 تم اپنی ساری زندگی کیسے گزارو گی۔۔!!" زوبیہ پریشانی کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔

"یار۔۔ میں کس base  پر انکار کرتی۔۔؟؟

 جس سے میں بے پناہ محبت کرتی ہوں وہ تو شاید مجھے اپنی نفرت کے لائق بھی نہیں سمجھتے۔۔

اور مجھے منگنی سے کوئی مسئلہ نہیں۔۔ 

انفیکٹ شادی تو کسی نہ کسی کے ساتھ بھی ہونی ہی ہے۔۔

پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ احسن ہو یا کوئی اور۔۔

اور مجھے مما بابا کے فیصلے پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔۔ 

کیوں کہ میں جانتی ہوں انہوں نے میرے لیے بہترین بندہ سلیکٹ کیا ہے۔۔

میں تو بس یہ کہ کہہ رہی ہوں کہ۔۔

کہ۔۔ مجھ سے۔۔ میرا دل۔۔!! نہیں سنبھل رہا۔" اپنی بے بسی پر جنت کا معصوم دل۔۔ کٹ کر رہ گیا۔

"اچھا یہ بتاؤ کہ وہ ہیں کون؟؟ 

کیا انہیں ان کے بارے میں۔۔ تمہارے احساسات کا علم ہے۔۔؟؟" زوبی نے انویسٹیگیشن آگے بڑھائی۔

"زوبی۔۔۔ !! آئم رئیلٹی ویری سوری ٹو یو۔۔!!

میں۔۔ تمہیں۔۔ ان کا نام نہیں بتا سکتی۔۔!!

دیکھو!! بے شک تم میری سب سے زیادہ کلوز فرینڈ ہو۔۔

لیکن میں تمہیں ان کا نام نہیں بتانا چاہتی۔۔

وہ میرا راز ہیں۔۔ میں نے بہت سنبھال کر انہیں اپنے دل کے پردوں میں چھپا کے رکھا ہے۔۔

انہیں میرا راز ہی رہنے دو۔۔

اور اب بتانے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔

میں انہیں بھلانا چاہتی ہوں۔۔

میں بھول جانا چاہتی ہوں۔۔

میں جانتی ہوں کہ میں اب کسی اور کی امانت ہوں۔۔!!

اور مجھے خود کو اس امانت میں خیانت کرنے سے روکنا ہے۔۔

اور مجھے نہیں علم کہ انہیں میری فیلنگز کا پتہ ہے یا نہیں۔۔

بس میں اتنا جانتی ہوں کہ مجھے اب ان سے  نفرت کرنی ہے۔۔ اتنی نفرت کہ ان سے محبت کا خیال بھی میرے وہم و گمان میں نہ رہے۔۔ " جنت کی تکلیف انتہا پر تھی۔

"یار پھر بھی۔۔!!

 تم ایک دفع پھر سوچ لو۔۔

 ابھی تمہاری شادی میں۔۔پورا مہینہ باقی ہے۔۔

تم کہو تو میں زریاب بھائی سے بات کر لیتی ہوں۔۔

وہی لائے تھے نا۔۔ 

اپنے دوست کا پروپوزل تمہارے لیے۔۔

میں ان سے کہتی ہوں کہ وہ کسی طرح احسن بھائی کو اس رشتے سے انکار کے لیے راضی کر لیں۔۔" زوبیہ نے بڑے خلوص سے اپنی خدمات پیش کیں۔

زریاب کے نام پر تو جنت کو مزید پتنگے لگ گئے۔

"نام مت لو تم اپنے۔۔ رشتہ کرانے والی ماسی جیسے بھائی کا۔۔

پتہ نہیں خود کو سمجھتے کیا ہیں۔۔

اپنے دوست کو لے کر پہنچ گئے۔۔

میں ہی ملی تھی انہیں اپنے دوست کے لیے۔۔

پتہ ہے تمہارے "زریاب بھائی۔۔" ایک نمبر کے سڑیل۔۔

کھڑوس ۔۔ بدلحاظ اور بہت مغرور انسان ہیں۔۔

زہر لگتے ہیں مجھے وہ۔۔" زریاب کے نام پر جنت مزید بھڑک اٹھی۔

"جنت..!!

میرے بھائی کے لیے زبان سنبھال کر بات کرو۔۔

مانا کہ تم اس وقت ٹینشن میں ہو۔۔

مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ تم اپنے ہواس ہی کھو دو۔۔

اور مت بھولو۔۔ وہ تمہارے بھی بھائی ہیں۔۔"" زوبیہ اپنے بھائی کی شان میں گستاخی سن کر خوب خفا ہوئی۔

"کوئی بھائی وائی نہیں ہے میرے۔۔

میں نے کبھی انہیں اپنا بھائی نہیں مانا۔۔

وہ صرف اور صرف ایک آنا پرست۔۔ضدی۔۔ مغرور اور بد تمیز انسان ہیں۔۔

اور میرا رشتہ کروانے کے بعد تو رشتے کرانے والی مائی بھی بن گئے۔۔

اللّٰه جانے کس بات کی اکڑ ہے ان میں۔۔"" جنت پر زوبیہ کی خفگی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔۔ وہ تو بس مگن تھی۔۔ اپنی بھڑاس نکالنے میں۔

زوبیہ اپنے بھائی کی اس قدر ذلالت سننے کے بعد جنت کا منہ توڑنے والی تھی۔۔

کہ اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا!! 

☘️☘️☘️☘️☘️

کہ اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا!! 

"اوئے۔۔۔۔!! 

جنت کی بچی۔۔!! 

کہیں تم نے میرے پیارے سے زریاب بھائی پر تو نظر نہیں رکھی ہوئی۔۔۔؟؟؟"

 زوبی نے کڑے تیوروں کے ساتھ جنت کو گھورا۔

زوبی کی بات پر جنت اچھل کر رہ گئی۔

'"یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟؟..

تو بہ استعفار۔۔ تمہارے اندازے تو بالکل ہی گئے گزرے ہیں۔۔" جنت اب رونا بند کر چکی تھی۔۔خشک آنکھیں لیے۔۔ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی کہنے لگی۔

"اچھا۔۔ اگر ایسی بات نہیں ہے۔۔ تو پھر تم نے کس خوشی میں میرے بھائی کی شان میں اس قدر  گستاخیاں کی ہیں؟؟"

 زوبی سے اپنے پیارے بھائی کی برائیاں ہضم نہیں ہوئیں ۔

کیونکہ وہ برائیاں اس میں موجود ہی نہیں تھیں۔

"اف اللّٰه!! اگر میں نے تمہارے بھائی کی شان میں گستاخی کر دی تو۔۔ 

اس کا مطلب تم نے یہ نکالا کہ مجھے ان سے محبت ہے۔۔

بھلا۔۔ کسی سے۔۔کسی کی محبت جاننے کا یہ کونسا فارمولا ہے۔۔ بدھو۔۔!!!!!!

او۔۔ بہن میری۔۔ زریاب بھائی، میرے لیے بالکل میرے بھائی جیسے ہیں۔۔

میں نے تو ایویں کہہ دیا کہ میں نے انہیں کبھی بھائی نہیں مانا۔۔

شرم کرو۔۔ اور کوئی عقل بڑھانے والی پھکی لو۔۔"جنت اب سیدھی ہو کر بیٹھی تھی۔۔ اور اپنی سہیلی کے خراب اندازوں پر خوب بھڑک اٹھی تھی۔

"یار!! تمہارا نا دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔!!

جو منہ میں آرہا ہے۔۔ بغیر سوچے سمجھے۔۔۔الٹا پھلٹا بولی جا رہی ہو۔۔۔ 

کبھی تم مجھے بدھو بول رہی ہو۔۔ 

اور کبھی میرے بھائی کی ایسی ایسی برائیاں گنوا رہی ہو۔۔ جو ان میں موجود ہی نہیں۔۔

تم تو ہم دونوں بہن بھائیوں کے پیچھے پڑ گئی ہو۔۔!!"زوبی منہ پھلا کر۔۔ خفا خفا سی ہو کر بول رہی تھی۔

"اچھا۔۔ بہن۔۔ آئم سوری۔۔!!

میں نے غصے میں یہ سب بول دیا۔۔

میں بھی کتنی اسٹوپڈ ہوں۔۔!!

کسی اور کا غصہ تم پر نکال رہی تھی۔۔

اور کسی اور کے لیے کہے جانے والے  الفاظ۔۔زریاب بھائی کے سر تھوپ دیے۔۔۔ 

تم بالکل صحیح کہہ رہی ہو۔۔

میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔

لیکن۔۔! پلیز تم اب مجھ سے خفا مت ہو۔۔"

جنت نے زوبی کے دونوں ہاتھ پکڑ کر منت کی۔

"اوکے۔۔ نہیں ہوتی میں تم سے خفا۔۔!! پر میری ایک شرط ہے۔۔" زوبی نے نروٹھے پن سے کہا۔

"چلو جی۔۔!! اب یہ تمہاری شرط صاحبہ بیچ میں آگئیں۔۔  زوبی۔۔ مجھے کوئی ایک جھگڑا ایسا بتا دو کہ جس میں تم۔۔ کسی شرط کے بغیر راضی ہوئی ہو۔۔؟؟؟" جنت نے تپ کر کہا۔

"ڈونٹ ٹرائی ٹو چینج دا ٹاپک۔۔!!" زوبی نے اپنی آنکھیں سکیڑ کر جنت کو تنبیہ کی۔

"اچھا بابا۔۔!! تم جیتیں، میں ہاری۔۔ اب بتاؤ اپنی شرط۔" جنت نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔

"میری شرط یہ ہے کہ۔۔۔!!

پہلے تم وعدہ کرو کہ انکار نہیں کرو گی۔۔!!" زوبی نے اپنا خدشہ سامنے رکھا۔

"ارے بابا۔۔!!

 نہیں کرتی انکار۔۔!!

 تم بس مجھ سے راضی ہونے کی شرط بتاؤ۔۔!! 

کیوں کہ میں۔۔ کم سے کم آج کل تمہاری ناراضگی افورڈ نہیں کر سکتی۔" 

جنت نے زوبی کے گال پر ہلکی سی چٹکی کاٹی۔۔

"تم مجھے اس شخص کا نام بتاؤ۔۔ 

جسے تمہارے جذبات کی ذرا سی بھی پرواہ نہیں!!" 

زوبی نے ضدی سے لہجے می می می می می میں ۔۔۔ اس کا راز اگلوانا چاہا۔

جنت منہ کھولے حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"زوبی میں نے تم سے کہا ہے نا۔۔ کہ وہ میرا راز ہیں۔۔ انہیں راز رہنے دو۔" جنت نے کمزور سے لہجے میں اسے اپنی شرط سے باز رہنے کی تاکید کی۔

"جنت۔۔!! Listen

میں جانتی ہوں کہ تم مجھے نہیں بتانا چاہتی۔۔

اور اب تک میرا تم سے اس شخص کا نام اگلوانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا۔۔ لیکن۔۔"

"لیکن کیا۔۔زوبی؟؟ ارادہ نہیں تھا تو۔۔

 اب بھی رہنے دو۔۔ مت پوچھو مجھ سے۔۔

تم جانتی ہو کہ تمہارے زیادہ اصرار پر مجھ سے اپنا سیکرٹ۔۔ تم سے نہیں چھپایا جاتا۔۔" 

جنت نے اس کی بات۔۔۔ بیچ میں ہی ٹوک کر ایک بار پھر request کی۔

"جنت۔۔!! تم میری پوری بات تو سنو۔۔!!

دیکھو۔۔!! تم جانتی ہو نا۔۔ کہ تم میرے لیے بالکل میری بہنوں جیسی ہو؟؟"

جنت نے زوبیہ کی بات پر ہاں میں سر ہلایا۔

"تو یار۔۔ تم یہ کیسے سوچ سکتی ہو کہ میں تمہیں۔۔

تمہاری زندگی بھر کی خوشیوں اور دلی آسودگی سے اتنی آسانی سے دستبردار ہونے دوں گی۔۔؟؟

یار۔۔!! تم بس ایک بار اس بندے کا نام بولو۔۔ 

مجھ سے۔۔ تمہارے لیے جو بن پڑا۔۔ میں کروں گی۔۔

اگر میں اپنی کوشش میں ناکام رہی تو پھر بے شک تم احسن بھائی سے خوشی خوشی شادی کر لینا۔۔۔

 اور یقین رکھو مجھ پر۔۔

 میں کسی تیسرے کو تمہارا یہ راز نہیں سونپوں گی۔۔"

 زوبی نے بہت مان، محبت اور پیار سے کہا۔

"یار جس شخص سے مجھے عشق ہے نا۔۔!!

وہ سچ میں بہت انا پرست۔۔۔ کھڑوس۔۔ غصیلے۔ سخت مزاج بلکہ بد مزاج ہی کہہ لو۔۔ اور بہت مغرور بھی ہیں۔۔

اور مجھے پورا یقین ہے کہ ان کو مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں۔۔ مجھ سے کوئی لگاؤ نہیں۔۔

اور یہ سمجھ لو۔۔ کہ وہ تو رشتہ کروانے والی ماسی نہیں۔۔ بلکہ پورے کے پورے شادیاں کرانے والے دفتر کے owner ہیں ۔۔۔ بڑا مزہ آتا ہے انہیں۔۔ فیملیز کو ایک دوسرے سے رشتوں پر آمادہ کرنے میں۔۔

 بلکہ ابھی ابھی جو میں نے تمہیں۔۔ غلطی سے۔۔۔زریاب بھائی کا نام لگا کر برائیاں گنوائی تھی نا۔۔

ان سب کی سب کی برائیوں کا ایک ہائر version ہیں وہ۔۔" جنت نے سلگ کر کہا۔

اب اس کا دماغ اپنی جگہ پر آگیا تھا۔۔

اس لیے اب اس نے اپنے پورے ہوش و ہواس میں۔۔ بالکل صحیح الفاظ۔۔ صحیح شخص کے لیے بولے۔

زوبی نے اپنا سر پیٹ لیا۔

"جنت!!!!

کہہ دو کہ یہ سب تم نے زراز بھائی کے لیے نہیں کہا۔۔!!" زوبی نے شدید حیرت اور تعجب سے جنت کی طرف دیکھا۔

"زوبی۔۔!! یہ سب میں نے انہی کے لیے بولا ہے۔۔

 اب تم مجھ سے مزید کوئی سوال نہیں پوچھو گی۔۔ 

اور مجھے کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دو" جنت نے سرد لہجے میں۔۔زوبیہ سے آنکھیں چراتے ہوئے تکلیف سے کہا۔

اس کی آنکھوں میں پھر سے نمکین پانی امڈ آیا۔

زوبی اس کی بات سمجھ سکتی تھی۔۔

اس لیے ایک لمبا سانس اندر کی طرف کھینچتے ہوئے۔۔اس نے جنت کی بات پر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے "اوکے" کہا اور وہاں سے  جانے ہی لگی۔

اور جانے سے پہلے اس نے اپنی سہیلی کو زور سے ہگ کیا۔۔ 

اس کے بہتے آنسو اپنی انگلیوں کے  پوروں سے صاف کیے اور بہت خلوص اور فخر سے کہا۔۔

" جنت۔۔ یقین مانو۔۔!! تم بہت اچھی لڑکی ہو۔۔۔!!

 مجھے تم پر فخر ہے کہ تم نے اپنا دل مار کر۔۔

اپنے والدین کے فیصلے کو مقدم رکھا۔۔ 

اور تم نے اپنی محبت کو اپنے دل میں دبا کر اپنا وقار بلند کیا ہے۔۔ اپنا عورت ہونے کا بھرم قائم رکھا ہے۔۔ 

تم نے کسی مرد کی محبت میں مجبور ہو کر اپنی ذات کا تماشہ نہیں بنایا۔۔۔ آئم سو پراؤڈ  آف یو ۔۔۔!!

میری دعا ہے کہ تمہیں تمہاری زندگی کی ہر خوشی ملے۔۔" زوبی نے اسے خود میں بھینچتے ہوئے۔۔ کہا۔

اب زوبی کے لیے وہاں کھڑا ہونا مشکل تھا۔

اس سے اپنی دوست کی ہر لمحہ بے بس ہوتی حالت نہیں دیکھی جا رہی تھی۔

×××××××××××××××

فرمان احمد اور نائلہ بتول کے دو ہی بچے تھے۔۔

بڑا بیٹا۔۔ جنید فرمان اور چھوٹی بیٹی۔۔ راحیلہ۔

جنید کی شادی فرمان احمد کی زندگی میں ہی زینب امین سے ہوئی تھی۔

 جبکہ جنید نے اپنے والد کی وفات کے بعد۔۔ اپنی بہن راحیلہ کی شادی اپنے بہت ہی قریبی دوست فرزان علی سے کی۔

جنید احمد کی تین اولادیں تھیں ۔۔۔ بڑا بیٹا زرار، چھوٹا زریاب اور سب سے چھوٹی بیٹی زوبیہ جو کہ راحیلہ فرزان کی اکلوتی بیٹی "جنت فرزان" کی ہم عمر یعنی بیس سال کی تھی۔ 

زوبیہ اور جنت کی پیدائش میں چند دنوں کا ہی فرق تھا۔

باقی زرار جنید اٹھائیس برس کے ہوچکے تھے جبکہ زریاب کی ہفتہ پہلے ہی چوبیسویں سالگرہ تھی۔

جنید صاحب کا۔۔ شہر میں ہی اپنا گرلز اور بوائز کالج تھا،، 

جہاں وہ تمام زندگی اپنی تدریسی خدمات پیش کرتے رہے اور ساتھ میں کالج کے پرنسپل بھی تھے۔

زرار اور زریاب نے بھی اپنے والد کی طرح اپنی دلچسپی تدریس سے منسلک رہنے میں ہی ظاہر کی۔

یہی وجہ تھی کہ زرار گریجویٹ ہونے کے فوراً بعد سے اپنے ہی کالج میں لیکچرار ہونے کے فرائض انجام دے رہا تھا اور سال پہلے ہی اپنے بابا کی خواہش پر اس نے کالج کی adminstration  بھی اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔

کالج کے ہائی اسٹینڈرڈ اور اچھی تعلیم کی وجہ سے شہر بھر میں اچھی ساکھ تھی۔

اس کے اعلیٰ معیار، یونیورسٹی جیسے ماحول اور بے تحاشا شہرت کی وجہ سے شہر کے تمام امیر خاندانوں کے بچے یہاں زیر تعلیم تھے۔

کالج مہنگا ترین ہونے کی وجہ جنید صاحب کی منتھلی انکم لاکھوں میں ہوتی تھی جو کہ زرار کے آنے کے بعد کڑوڑ سے بھی اوپر چلی گئی۔

جنید صاحب ہمیشہ سے ہی اپنی انکم کا ففٹی پرسینٹ فلاحی کاموں میں اور فی سبیل اللّٰه خرچ کرتے تھے۔

ان کی دن بدن بڑھتی امارت دیکھنے والوں کو رشک و حسد میں مبتلا کر دیتی۔۔

اور ان کی دولت میں اس قدر اضافہ کیوں نہ ہوتا؟؟

کیونکہ اللّٰه نے خود ہی تو کہا ہے:

"کون ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض ( ف۳۰ ) تو وہ اس کے لیے دونے کرے اور اللہ کو عزت کا ثواب دے ، " (سورۃ الحدید، آیت 11)

زریاب نے بھی اپنے بھائی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے۔۔دو ہفتے پہلے ہی ایز اے ٹیچر۔۔ اپنی زمہ داریاں سنبھالی تھیں۔

×××××××

زرار فطرتاً سنجیدہ مزاج، اکھڑ، کم گو، غصے کا تیز، اسٹریٹ فارورڈ اور مغرور انسان تھا۔ 

پھر بھی اس کی ایک عادت تھی جو کہ سب کو پسند تھی۔۔ کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور اپنی ہر ذمہ داری کو پوری ایمانداری اور سنجیدگی سے نبھانا جانتا تھا۔

وہ صرف اور صرف اپنے سے بڑوں کا احترام اور ادب کرتا تھا۔۔

باقی اس کے بہن اور بھائی کے علاؤہ کوئی شخص ایسا نہیں تھا کہ جسے اس کا پیار ملا ہو۔

اس کی ان بلیوایبل بیوٹی اور چارمنگ پرسنیلٹی کی وجہ سے اسے دیکھنے والی ہر لڑکی،

 اس طرف آسانی سے اٹریکٹ ہو جاتی تھی،

وہ لڑکیاں اس قدر مرعوب ہوتی تھیں کہ اپنی انا، وقار، عزت۔۔ ہر چیز بھاڑ میں بھیج کر۔۔ خود ہی زرار دوستی کی آفر کرتیں۔۔ جسے زرار اس طرح ریجکٹ کرتا کہ مارے شرمندگی کے وہ لڑکیاں پھر کبھی ایسی حرکتیں دوبارا کرنے کا سوچتی بھی نہیں تھیں۔

اسے لڑکیوں کا اپنے سامنے ایسے بچھتے چلے جانا بہت زہر لگتا تھا۔

اور اسے اپنے بے حد حسین ہونے کا اتنا غرور تھا کہ آج تک اسے کوئی لڑکی۔۔اپنی ہم پلہ نہیں لگی سوائے جنت کے۔۔۔ اور اس بات کا اعتراف کرنا۔۔زرار کی مغرور طبیعت کے خلاف تھا۔

اس لیے اس نے جنت کو ہمیشہ بہت اگنور کیا۔

وہ جنت کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیے رکھتا تھا کہ جیسے وہ اس کی کوئی مجرم ہو۔

جنت کی قسمت بھی ایسی گئی گزری تھی کہ اسے محبت ہوئی بھی تو ایسے شخص سے۔۔ جو نہ جانے اس سے کس قدر دشمنی رکھتا تھا۔

زرار کی شخصیت اور فطرت ایسی تھی کہ اگر وہ بالفرض کسی سے محبت کر بھی لیتا۔۔۔

تو اس کے محبوب کی خیر نہیں ہونی تھی۔۔

وہ بے حد پوزیسسو انسان تھا۔۔اور جس کسی سے جذباتی وابستگی رکھتا تو اس کی حد سے زیادہ کئیر بھی کرتا۔

وہ بھی شاید اپنے دل کے کسی نہاں خانے میں جنت کے لیے  محبت کا جذبہ رکھتا تھا۔

لیکن اس کے اعتراف نہ کرنے والی عادت۔۔ بے وجہ کی انا اور غرور نے اس کی بہت نقصان پہنچایا تھا۔

وہ اپنے کھڑوس پن کی وجہ سے اپنی واحد محبت۔۔ اپنی پہلی محبت کھونے والا تھا۔

اور اگر وہ یہ محبت واقعی کھو دیتا تو اس کی ساری زندگی اس کے لیے عذاب بن جانی تھی۔

کیونکہ اکثر۔۔ چیزوں کو کھو دینے کے بعد ان کی قدر محسوس ہوتی ہے۔

اور یہ احساس پچھتاوے میں تبدیل ہو کر۔۔ دل کا سارا سکون برباد کر دیتا ہے۔

کچھ ایسا ہی زرار کے ساتھ بھی ہونے جا رہا تھا۔

💔💔💔

کچھ ایسا ہی زرار کے ساتھ بھی ہونے جا رہا تھا۔

×××××

زوبی کے جانے کے بعد، جنت تھوڑی دیر تو اپنی جگہ پر ساکت بیٹھی ، روتی رہی۔۔

پھر اپنے حلیے کی خرابی کا خیال آتے ہی ، اسے درست کرنے کے لیے اٹھی۔

اس نے اچھی طرح سے منہ ہاتھ دھو کر۔۔ تولیے سے نرمی سے خشک کیے اور سافٹ ملٹی کلرز والی پرنٹڈ قمیض، سفید ٹراؤزرز کے ساتھ پہن کر اپنے بھاری، کامدار سوٹ  سے جان چھڑائی۔

اب وہ کافی فریش فیل کر رہی تھی۔

وہ آئینے کے سامنے       کھڑی، برش ہاتھ میں اٹھائے۔۔ آرام آرام سے اپنے، خوبصورت سے سلکی، ڈارک براؤن کلر کے لہروں جیسے بالوں میں پھیر رہی تھی۔

اس نے آئینے میں غور سے اپنا عکس دیکھا تو آنکھیں، کچھ دیر پہلے رونے کے باعث، ہلکی ہلکی سی سوجھ گئیں تھیں، اور نسبتاً چھوٹی لگ رہی تھیں،

اس کی ناک کی نوک ابھی تک سرخ تھی،

ایک خاص تبدیلی جو اس نے اپنے حسن سے معمور چہرے پر نوٹ کی ، وہ یہ تھی کہ اس کے چہرے پر اطمینان اور خوشی نہیں تھیں۔

ایک دھیمی سی مسکراہٹ جو ہر وقت اس کے نازک لبوں کو اپنے گھیرے میں رکھتی تھی، آج وہ غائب تھی۔

اس کا دل تھا کہ اپنے اندر ایک آگ لگائے بیٹھا تھا۔۔

اور وہ اپنے دل کی ، اس ہر لمحہ پہلے سے زیادہ بھڑکتی اور سلگتی آگ میں خود کو جلتا اور جھلستا محسوس کر رہی تھی۔

اس کے چہرے پر آنسو کی لڑی کی ماند بہنے لگے۔۔

اس نے جارحانہ انداز میں اپنے آنسو ہتھیلی کی پشت سے رگڑے اور ایک گہری سانس اندر کی طرف کھینچ کر خود کو نارمل کیا۔

اور اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے پہلے دراز سے اپنا فیورٹ، سفید ، گول موتیوں والا ہیڈ بینڈ نکالا اور بالوں پر سیٹ کر کے،

 اپنا دھیان بٹانے کے لیے لان کی طرف چلی گئی۔۔۔

 جہاں اس کے مما پاپا، اب مہمانوں کے جانے کے بعد ،

 ریلیکس ہو کر شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

وہ میز کے گرد لگی کرسیوں میں سے، اپنے پاپا کے ساتھ والی ایک کرسی کھینچ کر وہاں بیٹھ گئی۔۔

 اور ٹرے میں پڑے کپوں سے ایک کپ میں چائے انڈیل کر ، گھونٹ گھونٹ کر کے  پینے لگی۔۔

 اور ساتھ  میں اپنے مما پاپا کی گفتگو میں اپنا حصہ ملاتے ہوئے۔۔ اپنے اندر پلتی تکلیف دہ سوچوں کو جھٹکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

×××××××××

زوبی نے بھی گھر آ کر کپڑے چینج کیے،، 

فریش ہوئی اور اپنے روم  میں ہی بیٹھی رہی 

اس کے ذہن کو کسی طرح بھی آرام نہیں مل رہا تھا،

کچھ دیر بعد وہ چھت پر چلی گئی، 

وہاں اندھیرے میں گم ہوتا دن، اسے بالکل جنت جیسا لگ رہا تھا۔

جنت کی زندگی اسے بالکل۔۔ اسی ڈھلتے سورج کی ماند محسوس ہوئی۔۔ جو اپنی تمام تر روشنی ، اپنی ساری رمق کھو کر ، تاریکی میں، اندھیرے میں پناہ لینے والی تھی۔

وہ مسلسل وہیں چھت پر  یہاں سے وہاں، وہاں سے یہاں ٹہلتے ہوئے،، اپنی پیاری دوست کے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں مشغول تھی۔

وہ مضطرب سی یہاں ، وہاں پھر رہی تھی، پر کوئی ترکیب، کوئی راستہ، کوئی آئیڈیا اس کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔

وہ آخر اپنی سہیلی کو عمر بھر خوش رہنے کی دعا دے کر آئی تھی۔

اور یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کی دوست کی، اپنے من کے ماہی کے بغیر گزرنے والی زندگی، خوشیوں سے بھرپور ہوتی،

سو اسے کوئی ترکیب، کوئی نسخہ ڈھونڈنا تھا کہ جسے استمعال میں لا کر وہ اپنی پیاری "جنت" کے لیے،، اس کی زندگی کی تمام تر خوشیاں، سکون اور اطمینان، اس کے نام محفوظ کروا سکتی۔

اسے اپنے اکڑو بھائی پر بھی شدید غصہ آرہا تھا،

کیا جاتا کہ آگر وہ جنت کے لیے اپنے دل میں وہی جذبات پیدا کر لیتے، جو جنت کے دل میں ان کے لیے تھے۔

ایک تو اتنے سخت مزاج ہیں کہ بندہ ان سے کچھ کہ بھی نہیں سکتا۔۔ ورنہ میں ابھی جا کر انہیں جنت کے لیے منانا شروع کر دیتی۔

زوبی کی تان بھی اپنے بھائی کے کے کھڑوس پن پر آ کر ٹوٹی تھی۔

وہ بھی اپنے خیالات میں اپنے بھائی کی اچھی خاصی برائیوں میں مگن تھی۔

🤔🤔🤔💭💭💭💭

زرار اپنے روم میں بیٹھا سگریٹ نوشی سے لطف اندوز ہو رہا تھا،،

رات کا وقت تھا،

اسے ایک عجیب سی بے چینی تھی،

وہ آج جنت کی منگنی کے فنکشن  میں بھی نہیں گیا،،

اسے اپنے آپ سے عجیب سی بیزاری اور الجھن محسوس ہو رہی تھی۔

وہ تقریباً دوپہر سے ہی یوں ہی اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، 

اب یوں بیٹھے بیٹھے اسے اکتاہٹ ہو رہی تھی،

وہ سگریٹ کی راکھ سے بھری ایش ٹرے، ڈسٹ بن میں خالی کرنے کے لیے اٹھا تھا کہ اس کے روم کا دروازہ ناک ہوا، 

اسنے ایش ٹرے خالی کرتے ہوئے "یس۔۔ کم ان" کہا۔

زوبی اندر داخل ہوئی،، وہ بڑے غور سے زرار کا چہرہ دیکھ رہی تھی، نجانے وہ، وہاں کیا ڈھونڈنا چاہ رہی تھی۔

اس کے اس طرح خاموش رہنے اور گھورنے پر زرار نے اسے سخت نظروں سے دیکھا، اور اپنے ازلی ، سنجیدہ لہجے میں پوچھا، " کوئی کام تھا، زوبی؟؟"

زوبی تھوڑا سا گڑبڑا گئی،

"نہیں نہیں۔۔۔ کام تو کوئی نہیں تھا۔۔۔ وہ میں کہنے آئی تھی کہ مما بلا رہی ہیں۔۔ کھانا لگا دیا ہے،، آکر ڈنر کر لیں،" زوبی نے توڑ ٹوڑ کر لفظ ادا کئے۔

اب بھلا زرار جیسے  بندے کے سامنے ہمت بھی کس کی ہو سکتی تھی کہ وہ روانی سے اپنی پوری بات کہ سکے۔

"اچھا! میں آتا ہوں." زرار نے اپنی بھاری آواز میں اب نسبتاً نرم لہجے میں جواب دیا۔

زرار کا جواب سن کر زوبی واپس جانے کے لیے اپنی جگہ سے نہیں ہلی تو زرار نے اس کے چہرے کے گڑبڑاتے تاثرات پڑھ کر سوال کیا کہ" کیا کوئی مسئلہ ہے؟؟" اس نے حتی المقدور ، اپنا لہجہ نرم رکھنے کی کوشش کی تھی۔

زوبی کو اس کے نرم رویے سے ذرا سہارا ملا تو اس نے اپنے ذہن میں آنے والا سوال پوچھنے میں بالکل بھی دیر نہیں کی۔

"وہ۔۔۔!! بھائی میں پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ آج جنت کی منگنی میں کیوں نہیں شامل ہوئے؟؟

آئی مین۔۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک تھی نا؟؟

کیونکہ آپ نے اتنی کوشش کرکے تو احسن بھائی کے لیے پھوپھو اور انکل کو راضی کیا تھا ۔۔۔" زوبی تفصیلاً اپنا مسئلہ بتایا۔

"بس میرا موڈ نہیں تھا آنے کا،، مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟؟ بھلا تمہارا کیا لینا دینا، میرے آنے یا نہ آنے سے" زرار نے ہنوز لہجے میں نرمی برقرار رکھی۔

ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ وہ کسی سے ، اس طرح ہلکے پھلکے انداز بات کرے،

 آج ، شاید وہ ذہنی طور پر الجھن اور تھکن کا شکار تھا سو اپنے لہجے میں سختی نہیں لا پا رہا تھا،

 کیوں کہ اپنی ذات کے اردگرد سختی اور سنجیدگی کا خول چڑھانے اور اس کو قائم رکھنے کے لیے ذہن کی صحت بہت اہمیت رکھتی ہے،، 

جو کہ چھوٹی چھوٹی الجھنوں ، بے قراریوں سے برباد ہو کر رہ جاتی ہے،

اور پھر انسان اپنی تمام تر بناوٹی شخصیت کو قائم نہیں رکھ پاتا، بالآخر اسے اپنی حقیقت میں، اپنے اصلی اور سچے روپ میں لوٹنا پڑتا ہے۔

"نہیں بھائی!! میرا تو کوئی لینا دینا نہیں،،

میں نے تو بس ایسے ہی پوچھ لیا،،

ویسے بھائی۔۔ منگنی میں مزہ بہت آیا تھا،

اور جنت کا تو نہ ہی پوچھیں۔۔ !!!

اتنی حسین لگ رہی تھی کہ بس، میں بیان نہیں کر سکتی،

یہ دیکھیں پکچر"۔ زوبی اپنے دونوں پاؤں چڑھا کر مزے سے زرار کر بیڈ پر بیٹھ گئی، اور جلدی سے اپنے فون کی گیلری کھول کر، جنت کی تصویر دکھانے لگی۔

زرار جیسے ہی تصویر دیکھنے کے لیے آگے بڑھا تو اس نے فوراً سے فون بند کردیا،،

"ارے یہ کیا!! میں تو آپ کو کھانے کا کہنے آئی تھی، اور فضول باتیں کرنے بیٹھ کرنے بیٹھ گئی،،

اف!! میں بھی نا!!

جنت صحیح، مجھے بدھو کہتی ہے،" زوبی ایک ہی سانس میں، اپنے ماتھے پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے۔۔ ساری بات کہ کر، تصویر دکھائے بغیر ہی بھاگنے لگی،

"رکو!!" زرار نے اسے سختی سے روکا۔

"جی بھائی..؟" زوبی نے سعادت مندی کے سارے ریکارڈ توڑے۔

"جی بھائی کی بچی،، تم مجھے کوئی تصویر دکھا رہی تھیں،، 

تمہیں پتہ ہے نا، کہ مجھے زہر لگتے ہیں آدھی گفتگو بیچ میں ہی چھوڑ کر جانے والے لوگ،

دکھاؤ مجھے۔۔ کیا دکھا رہی تھی تم؟؟" زرار نے ماتھے پر بل لاتے ہوئے پوچھا،

جیسے کافی دیر سے اس کی الجھن کی وجہ وہ چہرہ ہی تھا،، 

جسے دیکھنے کی طلب، اس کے شعور میں نہ ہونے کے باوجود بھی،

 اسے بہت شدت سے محسوس ہو رہی تھی،

اور یہ بات ابھی بھی زرار پر عیاں نہیں ہوئی تھی،

زرار کا یہ راز کہ وہ جنت کے لیے کیا کچھ محسوس کرتا ہے، ابھی اس پر بھی نہیں عیاں ہوا تھا،

لیکن ایسے راز بھلا ، زیادہ دیر راز کیسے رہ سکتے ہیں،

"وہ بھائی۔۔ ابھی تو کھانے کا وقت ہے نا۔۔ پہلے کھانا کھا لیں ، میں آپ کو آج کی ساری پکچرز واٹس ایپ کر دوں گی، اور یہ دیکھیں۔۔ میرے فون کی بیٹری بھی ڈیڈ ہونے والی ہے۔۔ میں ذرا اسے چارجنگ پر بھی لگا دوں نا۔۔" یہ کہتی،، وہ جلدی سے زرار کے روم سے اڑن چھو ہوگئی،

مبادا وہ کہیں اسے پکڑ، ابھی ہی ساری فون گیلری نہ کھنگالنے لگ جائے،

زوبی کو اب بڑی خوشی محسوس ہو رہی تھی،،

آخر اس کا پلین کام کر گیا تھا،

اس نے تجسس کی جو تیلی لگائی تھی،

وہ اسے ، زرار کے چہرے پر بھڑکتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔

اسے یقین نہیں تھا کہ اس کا آئیڈیا کام کر جائے گا۔

ڈائنگ ٹیبل کے گرد بیٹھے، جہاں سب کھانے میں اور خوش گپیوں میں مشغول تھے۔۔ 

وہیں زرار کا الجھا الجھا سا انداز، زوبی کی نظروں سے نہ چھپ سکا۔

اس نے کچھ دیر کے لیے، مما، پاپا اور پٹر پٹر بولتے زریاب کی باتوں سے اپنا دھیان ہٹا کر،

جنت کے معاملے کے اور اس کی باتوں کے سیاق و سباق پر غور و فکر کیا تو،

اسے تمام کڑیاں ملتی گئیں، اور انہیں جوڑ کر، زوبی نے جو نتیجہ نکالا۔۔ وہ یہ تھا کہ،

زرار بھائی کو شاید جنت کی پسندیدگی کے متعلق کچھ نہ کچھ اندازہ تھا، 

اس لیے اپنی پرانی عادت کے پیشِ نظر ،خود کو اس کی دسترس سے بہت دور لے جانے کے لیے،

موصوف نے اپنی خالہ کو پٹیاں پڑھا کر، ان کے بیٹے احسن کا پروپوزل زریاب کے ہاتھ جنت کے گھر بھیجا، جس کا رشتہ خالہ، پہلے سے ہی زرار کی کزن یعنی جنت سے کروانا چاہتی تھیں، 

احسن ، زریاب کا کزن ہونے کے ساتھ ساتھ، اس کا بیسٹ فرینڈ بھی تھا، اس لیے خالہ جانی کے شدید اصرار پر اسے، احسن کے رشتے کے لیے اپنی خالہ کے ساتھ جانا پڑا، اسی بات پر تو جنت اسے رشتے کرانے والی ماسی کہ رہی تھی،

پھر جب جنت کے پیرنٹس نے اس رشتے میں کچھ خاص انٹرسٹ شو نہ کیا تو زرار کھڑوس نے بیچ میں کود کر انہیں اپنے بی ہاف پر انہیں کنونس  کیا۔

اور خیر خیریت سے منگنی ہوگئی۔

لیکن منگنی کے بعد جو ہوا۔۔ اس میں تو زوبی کو جنت کے لیے نہ کوئی خیر نظر آ رہی تھی، اور نہ ہی کوئی خیریت۔

اسے تو اب جنت پر بھی غصہ آرہا تھا کہ اسے بھی دنیا جہاں کے سب سے زیادہ گھمنڈی انسان سے پیار ہونا تھا،

بندہ کسی سویٹ سے بندے سے محبت کرے تو کوئی بات بھی ہے۔۔

 مگر عشق نے جب ہونا ہوتا ہے، تب ہو کر رہتا ہے اور ہوتے ہوئے رنگ، نسل، ذات، خوبیوں اور خامیوں سے بے نیاز ہوتا ہے،

عشق انسان کو اپنے بس میں کر کے ، اس کی ساری شخصیت بدل کر، اپنے رنگ میں، اپنے ڈھنگ سے رنگ دیتا ہے۔

پر زوبی کو اپنے بھائی کے بدلتے انداز دیکھ کر ذرا تسلی ہوئی تھی، 

امید کا ایک مدھم سا سرا اس کے ہاتھ آیا تھا کہ جس کے تحت وہ اپنے مشن پر کام جاری رکھ سکتی تھی،

وہ جنت کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھ سکتی تھی۔

×××××××

بالکل اسی وقت کے جب زرار وغیرہ کی فیملی اپنے گھر میں ڈنر میں مصروف تھی،

جنت اپنے کمرے میں بیٹھی، اپنا سر ہاتھوں میں گرائے،

نجانے کب سے اپنی سوچوں میں گم تھی،

اسے رہ رہ کر ہر وہ لمحہ یاد آرہا تھا کہ جب وہ اپنے جذبات کی تمام تر شدتوں اور سچائی کے زیر اثر زرار کو دیکھنے کی کوششیں کرتی تھی،

اور پھر شاید اپنے دل کا راز اپنی آنکھوں سے ظاہر ہو جانے کے خوف سے وہ براہ راست اسے دیکھ بھی نہیں پاتی تھی،

اسے شدت سے اپنی بے بس ہوتی حالت پر رونا آ رہا تھا،

اسکی، بالوں کی ہم رنگ، ڈارک براؤن لینز والی، بے مثال آنکھیں، آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔

اس کا دل تھا کہ ڈوبتا ہی جا رہا تھا،

اسے اپنے آس پاس کی دنیا تنگ ہوتی محسوس ہورہی تھی،

پر جو بھی تھا۔۔ اسے اپنے آپ کو سنبھالنا تھا،

اسے اپنے آپ کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرنا تھا،

اب وہ سوچ چکی تھی کہ وہ کیسے اپنے اندر عشق کی اس سلگتی آگ سے پیچھا چھڑائے گی،

اسے ہر حال میں اس بے پرواہ شخص کی محبت، اس کے احساس، اس کے خیالات سے خود کو آزاد کرانا تھا۔

اسے ہر حال میں اس بے پرواہ شخص کی محبت، اس کے احساس، اس کے خیالات سے خود کو آزاد کرانا تھا۔

😨😌😣

 یہ حقیقت ہے کہ کسی چیز سے جس قدر پیچھا چھڑانے کی کوشش کی جائے،

 وہ اتنا ہی آپ کے ساتھ چمٹتی ہے،

 اور یوں انسان کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے اپنی تکلیف بھلانا،

 اپنا درد فراموش کرنا،

زیادہ تر تکلیف دہ خیالات ہی ہوتے ہیں، جن سے انسان دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں،

یہ تکلیف دہ خیالات اچھے، برے دونوں طرح کے ہو سکتے ہیں،

پر مسئلہ سارا یہ ہے کہ انسان ان سب سے خود کو کیسے آزاد کرے؟؟

جنت ، اس مسئلے کا حل جانتی تھی،

جب ہم کہتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں تو پھر یقیناً، کسی بے مروت انسان کی یادوں کے حصار سے ، خود کو باہر نکالنا بھی ناممکن نہیں۔

ہم لوگ، عام طور پر، تصویر کے صرف ایک پہلو پر غور کرنے کے عادی ہیں،

ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ جس خیال سے جتنا پیچھا چھڑایا جائے وہ اتنا ہی ہمارے ذہنوں پر مسلط ہو جاتا ہے۔

پر جنت ہماری طرح نہیں تھی، 

وہ ہر مایوس کن صورتحال میں بھی کوئی نہ کوئی طریقہ، کوئی تدبیر ڈھونڈلیا کرتی تھی،

اگر یہ حقیقت ہے کہ کسی بات کو بھلانا چاہو تو وہ اپنے نقش، ہم پر مزید گہرے کر دیتی ہے۔۔

تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کسی بات کو خود پر ، اگر زبردستی طاری کرنے کی کوشش کی جائے، یا کوئی بات زبردستی ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی جائے تو وہ ہمارے وہم و گماں سے دور بھاگنے لگتی ہے۔

ہر معاملے میں نہیں پر بہت سے معاملات میں، اس trick کا سہارا لے کر ہم اپنی ذہنی الجھنوں کو خود سے دور پھینک سکتے ہیں۔

جنت بھی یہی کرنے والی تھی،

اسے زرار کو بھولنے کے لیے، اپنا عشق بھلانے کے لیے، 

درحقیقت اس کے خیالات سے دور نہیں بھاگنا تھا،

اسے ایک آخری رات اپنے عشق کے نام کرنی تھی،

اسے اپنی تمام تر شدتوں سے ، آج کی رات اسے یاد کرنا تھا،

وہ جس قدر ، اس کے لیے تڑپ سکتی تھی، اسے بس آج ہی تڑپنا تھا،

وہ آنے والے کل تک، زرار کے لیے، اپنے دل خلیے خلیے سے، زرار کی محبت کو الوداع کہنے والی تھی،

اسے رہ رہ کر ہر وہ لمحے یاد آئے کہ جب اس نے زرار کی حسین، پر محدود سی مسکراہٹوں کو بہت عقیدت سے اپنے ذہن کے پردوں پر نقش کیے،

پر اب وہ، یہ پردے چاک کرنے لگی تھی،

وہ بار بار زیر لب یہ الفاظ دہرائی جا رہی تھی،

 "زرار ایک وقت تھا کہ آپ میرا سب کچھ تھے،

پر میں غلط تھی، آپ میرا کچھ نہیں تھے، اور نہ ہی میرے کچھ لگتے تھے، 

اور نہ ہی آپ میرے کچھ ہو سکتے تھے، 

مجھے ایک وہم سا تھا، 

شاید کوئی امید تھی کہ آپ میرے ہو جائیں گے،

 پر وہ وہم اور امید، سب کچھ مٹ گیا ہے،

 زرار آپ نے مجھے جتنا ستانا ہے آج ہی ستا لیں، 

جتنا تڑپانا ہے، بس آج تڑپالیں،

 آج کے بعد تو میں آپ کو اپنے جذبوں کے پاس تو کیا، بہت دور بھی پھٹکنے نہیں دوں گی،"

وہ پہلی دفع اس طرح، اپنے تصور میں زرار سے مخاطب تھی،

وہ جو جو کچھ آج تک اس کے لیے محسوس کرتی آئی تھی، وہ سب اپنے تخیل میں، اسے سنا رہی تھی، اسے جو شکایتیں تھیں وہ سب کہ رہی تھی،

وہ مسلسل بہتی آنکھوں، تڑپتے دل، مچلتے احساسات، لیے جتنا اس کی یاد میں خود کو ہلکان کر سکتی تھی،

اس نے کیا۔۔

××××××××××

 زرار اپنے روم میں آیا تو،

اس کا ذہن بھی، جنت کی تصویر کی ہلکی سی جھلک پر اٹک گیا، جو اس کی ڈریکولا بہن نے اسے دکھائی ہی نہیں۔

وہ مضطرب سا یہاں وہاں ٹہل رہا تھا،

بار بار اس کا دھیان اپنے فون کی طرف جا رہا تھا،

جہاں وہ بالکل جان بوجھ کر، جنت کی تصویروں کا انتظار کر رہا تھا، 

جو اس کی ، خرانٹ بہن نے ابھی تک سینڈ ہی نہیں کی تھیں،

اسے ایک تجسّس سا تھا کہ نجانے احسن کے پہلو میں بیٹھی، وہ کیسی لگ رہی ہو گی،

وہ تصویر میں capture ہوئے اس کے حسین چہرے پر رقم تاثرات پڑھ کر، اس کی ، اس رشتے کے لیے، دلی رضامندی اور خوشی کا اندازہ کرنا چاہتا تھا،

پتہ نہیں کیوں؟؟۔

لیکن وہ بس آج اسی کے متعلق سوچ رہا تھا،

جنت، اپنی پوری آب و تاب سے اس کے حواسوں پر حاوی تھی،

بہت انتظار کے بعد بھی جب جنت کی تصویریں اسے موصول نہیں ہوئیں تو وہ غصے میں کھولتا، اپنے کمرے سے باہر نکالا۔

××××××××××

زوبی مزے سے اپنے نرم بستر میں پڑی خراٹوں پر خراٹے لے رہی تھی کہ اچانک ایک دم اس کے خراٹے بند ہوئے۔

وہ ایک دم اپنی گہری نیند سے جاگی تھی،

اس نے بڑی محنت سے اپنی آنکھیں کھولیں،

ارے یہ کیا؟؟

وہ اپنے بلینکٹ اور بستر سمیت،، خود بھی پوری طرح سے بھیگی ہوئی تھی،

اور سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اس کے رہی سہی غنودگی بھی ختم ہو گئی،

اب معاملہ اس کی سمجھ میں آرہا تھا،

اس لیے وہ مکمل طور پر ایکٹیو ہو کر بیٹھی تھی۔

زرار غصے سے کھولتا ہوا ، ہاتھ میں خالی جگ لیے اسے ہی گھور رہا تھا، 

جگ خالی اس لیے تھا کیونکہ اس کا سارا پانی تو وہ زوبی پر پھینک چکا تھا۔

زوبی بھی ، زرار کے کڑے تیوروں کے جواب میں، اپنی چھوٹی سی ناک پھلائے، غصے میں اسے گھور رہی تھی۔

"کیا آفت آ گئی تھی، بھائی؟؟

مجھے اتنے گندے طریقے سے کیوں جگایا،" زوبی بہت غصے میں، باقاعدہ بدتمیزی کرتے ہوئے کہا۔

زوبی زندگی میں پہلی مرتبہ، کسی سے اتنی روڈ ہو کر بات کر رہی تھی،

آخر،  اس کی تازی تازی نیند سے، پہلی مرتبہ کسی نے اتنی گندے طریقے سے، جگایا تھا،

"یہ تم مجھ سے کس ٹون میں بات کر رہی ہو؟؟؟" زرار مزید بھڑک اٹھا۔

"اسی ٹون میں، جس میں آپ میری پیاری سہیلی سمیت اور بھی بہت سے لوگوں سے، ہر وقت بات کرتے ہیں،" زوبی ذرا بھی اس کی بھڑک کو خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔

آخر اتنے وحشیانہ انداز میں، نیند سے بیدار ہوا بندہ ، بھلا بات کرتے ہوئے، تمیز کو کیسے ملحوظ خاطر رکھ سکتا ہے۔

"یہ تم کچھ زیادہ ہی اپنی سہیلی کی ہمدرد نہیں بن رہی؟؟؟ اور میرے سامنے بھی تمہاری زبان کچھ زیادہ ہی چل رہی ہے۔۔" زرار نے غصیلے لہجے میں کہا۔

"میں نہ کسی کی ہمدرد بن رہی ہوں اور نہ ہی زیادہ زبان چلا رہی ہوں!!

ایک تو انسان بڑوں کے سامنے کوئی سچی بات کردے،

تو بس پھر، زبان چلانے والا طعنہ تو تیار ہی کر کے رکھا ہوتا ہے، لوگوں نے۔۔ ہنہ"  زوبیہ نے ڈھٹائی سے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔

"بکواس بند کرو اپنی۔۔ ورنہ ایک تھپڑ لگاؤں گا۔۔" زرار نے ہوا میں ہاتھ بلند کر کے، غصے میں تھپڑ کا ڈراوا دیا۔

زوبی اس کے ایسے ڈانٹنے پر تھوڑا خوفزدہ ہوئی،

پر پھر فوراً سے اپنی سابقہ ٹون میں واپس آگئی ،

کیونکہ اسے ابھی تک اپنے اوپر اتنا سارا پانی پھینکے جانے اور نیند خراب ہونے کا غصہ تھا۔

" نہیں کرتی میں اپنی بکواس بند ۔۔۔ کر لیں ، جو کرنا ہے،،

اور وہ بات کہیں۔۔۔!!! جس کی وجہ سے آپ نے، ایک سوئی ہوئی لڑکی کو جگا کر اس قدر بد تہذیبی کا ثبوت دیا ہے۔۔۔!!" زوبی، ابھی بالکل بھی تمیز سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی، 

سو اس لیے ، فل ڈھٹائی سے، دانت بھینچ بھینچ کر، اپنے بھائی کو دوبدو جواب دے رہی تھی۔

زرار کو احساس ہوا کہ زیادہ بحث کا کوئی فایدہ نہیں،

کیونکہ اسے، ابھی اس کی بہن کا دماغ ، شاید اپنی جگہ سے، ذرا سا کھسکا ہوا لگ رہا تھا،

سو زرار نے ساری فضول باتیں جھٹک کر اپنے موقف یعنی زوبی کو اس بے رحمی سے جگانے کی وجہ کی طرف توجہ دی۔

"تم نے، کوئی پکچرز مجھے ، واٹس ایپ کرنی تھیں۔۔" اس نے جگ ، بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر، زوبی کی طرف دیکھے بغیر اپنی بات کی۔

 " 'کوئی پکچرز' نہیں بلکہ وہ جنت کی منگنی کی پکچرز تھیں۔۔!! اور بھائی صرف پکچرز کے لیے آپ نے مجھے ایسے برے طریقے سے جگایا؟؟" زوبی نے تڑک کر جواب دیا۔

زوبی آج اپنے بھائی کو کسی صورت بخشنے والی نہیں تھی۔

زوبیہ کی بات پر زرار تھوڑا پزل ہوا کہ جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو،

اور ویسے بھی اس کے دل کی چوریاں اور عجیب عجیب سی فرمائشیں۔۔ یہ سب ویسے بھی کہاں زوبی کی آنکھوں سے چپھا ہوا تھا۔

 زوبی کو اپنے بھائی کی ثابت قدمی یا مزاج پر کوئی بھروسہ نہیں تھا،

کہیں ایسا نہ ہو کے وہ ضد میں آ کر پکچرز دیکھنے سے بھی انکار کر دیتا اور غصے میں آ کر زوبی کے سیل فون کی بھی تباہی پھیرتا،

 اس خوف سے زوبی نے جلدی سے اٹھ کر،

 ایک ہاتھ اپنے کپڑوں سے پانی جھاڑتے ہوئے، 

جنت کی ساری ، بہترین تصویریں،

 جو خصوصاً احسن کے ساتھ تھیں، وہ سب دھڑا دھڑ ، اپنے بھائی کے نمبر پر سینڈ کیں۔

اسے اپنی بھائی کی حالت دیکھ کر بڑا مزہ آ رہا تھا،

اور اسے اب جنت کے حوالے سے ذرا تسلی بھی ہوئی تھی،

بس اب اس نے، جنت کی لائف میں،کسی طرح جلدی سے،  احسن کا پتہ کاٹ کر، زرار کی اینٹری کروانی تھی۔

جب زرار اس کے روم سے چلا گیا تو اس نے واشروم جا کر اپنے گیلے کپڑے بدلے، اور اپنے روم کے ساتھ والے ، خالی روم میں، جو فلی فرنیشڈ تھا، وہاں جا کر سوگئی۔

××××××××××××

  جنت ابھی تک بیٹھی، گھٹی گھٹی آواز میں، سسکیاں لے رہی تھی،

آخر وہ آج ایسی رات کا حصہ تھی کہ جس میں اس نے اپنے عشق سے دستبردار ہونا تھا۔

وہ کچھ سوچتے ہوئے، اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنی الماری کی طرف گئی،

وہاں الماری کھول کر، اس نے ایک خانے میں،  سلیقے اور حفاظت سے پڑے سامان کو اٹھایا اور اپنے بیڈ پر پھینک دیا۔

پھر کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد اسے، اس کے مطلوبہ سائز کا پیپر بیگ (شاپنگ بیگ) ملا تو اس نے، وہ سارا سامان بہت تکلیف اور نفرت سے اس بیگ میں بھرا، 

اور وہ بیگ ، اس نے اپنے آپ سے دور، 

اپنے کمرے کے دروازے کے ساتھ، نیچے زمین پر ہی رکھ دیا۔

وہ سارے دراصل پچھلے چھ سالوں کے جمع شدہ، مختلف گفٹس تھے، جو زرار کی طرف سے اپنی سالگرہ اور دوسرے موقعوں پر، اسے موصول ہوئے تھے۔

کتنا سنبھال کر رکھا تھا اس نے، ان تحفوں کو اب تک۔

لیکن اب اسے زرار کی دی کوئی چیز نہیں سنبھالنی تھی۔

×××××××× 

زرار جب اپنے روم میں واپس آیا تو جلدی سے ڈور لاک کر کے، اے سی ، ہائی سپیڈ میں آن کر کے، وہ اپنے بیڈ پر اچھل کر بیٹھا،

اور تیزی سے دھڑکتے دل پر اپنے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی رکھ کر، اپنی تیز ہوتی سانسوں کو نارمل کرنے لگا۔

پھر اس نے فون کا ڈیٹا آن کر کے، گیلری کھولی، تو یکا یک وہ جنت کی تصویروں سے بھر گئی۔

وہ ایک ایک کرکے جنت کی ہر تصویر، ایک عجیب سے احساس کے اثر میں کھو کر دیکھ رہا تھا،

وہ اس کے چہرے کے ہر نقش کا بغور معائنہ کر رہا تھا،

پتہ نہیں کیوں۔۔ پر اسے جنت کے چہرے پر ہر رنگ نظر آ رہا تھا سوائے خوشی کے۔

"تو کیا وہ اس رشتے سے خوش نہیں تھی اس رشتے سے؟؟" زرار نے سوچا لیکن پھر اپنا وہم سمجھ کر جھٹک دیا ، کیونکہ پھوپھو اور انکل نے، زرار کی موجودگی میں ہی تو اس سے، اس کی رائے مانگی تھی،

اور جنت نے ادھر اُدھر دیکھے بغیر ہی دھڑلے سے "ہاں" کی اور جلدی سے وہاں سے غائب ہو گئی۔

بس زرار اتنا ہی سوچ سکا،

وہ اس وقت کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا، 

وہ بس سحر زدہ سا ہو کر ، جنت کو دیکھے جا رہا تھا،

اس کی ایک ایک تصویر کو ، وہ عجیب دیوانگی سے دیکھتے جا رہا تھا،

وہ اپنے دل کے ہاتھوں بے حد مجبور ہوگیا تھا۔

ایک عجیب سے، خوشنما سے احساس نے ، اس وقت اس کے حواس سلب کیے ہوئے تھے۔

ایک عجیب سے، خوشنما سے احساس نے ، اس وقت اس کے حواس سلب کیے ہوئے تھے۔

ابھی تک جو اس نے پکچرز دیکھیں تھیں وہ صرف جنت کی تھیں یا پھر کہیں کہیں صرف زوبی ہی، اس کے ساتھ، سیلفیز میں دکھائی دے رہی تھی۔

اس لیے وہ بہت اطمینان اور چاہت سے،، اس کے خوشی سے عاری چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

لیکن ایک دم، جب ایک تصویر میں ، اسے احسن، جنت کے ساتھ بیٹھا نظر آیا تو وہ اچھا خاصہ بدمزہ ہوا۔

نجانے کیوں،مگر اسے اس وقت احسن پر بہت غصہ آرہا تھا، اسے وہ ، جنت کے بالکل قریب، بیٹھا، بہت زہر لگنے لگا۔

اور پھر ،اس تصویر نے تو زرار کا سارا قرار ہی چھین لیا، جس میں ، احسن اپنے ہاتھ میں، اس کا نازک ہاتھ لیے، اسے منگنی کی انگوٹھی پہنا رہا تھا۔

اس نے غور سے ان دونوں کے چہروں کے تاثرات دیکھے،

اور پھر ،  اضطراب کی حالت میں اپنا فون، غصے سے پٹخا۔

وہ ایک غیر شناسا احساس کے تحت اپنے بال ، اپنی مٹھیوں میں بھینچ کر، لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔

کنپٹیوں کی طرف کی پھولی ہوئی رگیں ، بہت زور زور سے پھڑک رہی تھیں۔

ایک آگ تھی، جو اچانک اسے خود میں بھڑکتی اور دہکتی محسوس ہو رہی تھی۔

"تو کیا وہ لڑکی۔۔ جو شاید میرے قابل تھی۔۔ میری لائف پارٹنر بن سکتی تھی۔۔میری ہمسری کے لائق تھی یا جس لڑکی کی تلاش مجھے برسوں سے ہے۔۔ وہ۔۔وہ۔۔ جنت ہے؟؟" اس نے، حد درجہ حیران ہو کر خود سے سوال کیا۔

اس کا سر، اپنے سوال کے جواب میں مسلسل نفی میں ہل رہا تھا ، 

پر دل تھا کہ دماغ کے اس انکار کو خاطر میں لائے بغیر،

 اسے بہت واضح انداز میں یہ باور کروا چکا تھا کہ اگر دنیا میں کوئی لڑکی ، "زرار جنید" کی شریک حیات بننے کے لائق ہے، تو وہ جنت ہے۔۔!! صرف اور جنت!!

اور بالفرض اگر کسی اور لڑکی کو اس نے ، اس لائق سمجھا تو اس کا دل ہر گز ، اسے قبول نہیں کرے گا۔

کیسی قیامت ٹوٹی تھی اس پر،

اسے یہ احساس چین نہیں لینے دے رہا تھا کہ،

وہ اپنی پوری رضامندی سے وہ اپنی محبت کسی اور کو سونپ چکا تھا،

لیکن اس نے ایک کوشش کی، ایک آخری کوشش۔۔!!

اپنے آپ کو یہ احساس دلانے کی کہ وہ جنت کے لیے کوئی ایسے ویسے جذبات نہیں رکھتا۔۔

یہ کوشش، در حقیقت، خود کو دھوکا دینے کی کوشش تھی،

اور خود کو دیا گیا دھوکا۔۔ بھلا کتنی دیر قائم رہ سکتا ہے!! 

×××××××

  اُن تحفوں کو ٹھکانے لگانے کے بعد جنت روتے ہوئے ہی اپنے بیڈ پر آ کر بیٹھی،،

وہیں  ، قریب پڑا، اپنا فون اٹھایا، اور ایک تکلیف دہ ، آہ بھرتے ہوئے، اپنی فون گیلری کھولی۔

اور زرار کی تمام فوٹوز ، جو اس نے مختلف موقعوں پر، چھپ چھپ کر لیں تھیں، ایک ایک کر کے سب ڈیلیٹ کر دیں۔

جس وقت زرار ، اس کے حسین چہرے کے ایک ایک نقش کو ، ایک طلسماتی کیفیت کے زیر اثر، بہت چاہت سے، خود میں گہرا کر رہا تھا،

عین اسی لمحے،،

جنت۔۔ خود پر موجود اس کے عشق کے رنگوں کو دھندلانے میں مصروف تھی،

 جس وقت، جنت، زرار کے لیے، اپنے دل میں موجود ہر ایک نازک جذبے کو، بے دردی سے کھرچ کھرچ کر مٹا رہی تھی،

اسی وقت زرار، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ، جنت کے لیے، اپنے کھٹور دل کو ، محبت کے نازک جذبات سے ، نرم کرنے میں مشغول تھا۔

جہاں جنت، اپنے دل پر آرے چلا چلا کر، اپنے عشق کا قتل کرنے کے در پر تھی،

وہیں زرار اس کے لیے اپنی ذات کی اکڑ، غرور اور انا کو قربان کرنے لگا تھا، 

جتنی شدت سے زرار ، اپنی محبت کے ہر احساس کو بڑے اہتمام سے ، اپنے دل و دماغ میں محفوظ کر رہا تھا،

اتنی ہی شدت سے، جنت، اپنے سالوں پرانے عشق کے سایوں کو بھی اپنے وجود سے مٹانے میں سرگرداں تھی۔

×××××××××××

صبح ، جب زرار کالج جانے کے تیار ہو کر، اپنے کمرے سے باہر نکلا اور لاونج تک آیا تو وہاں ، نیچے صوفے کے پاس پڑے بیگ کو دیکھ کر ٹھٹکا،

دراصل، بیگ کا منہ کھلا ہونے کی وجہ سے ، اندر موجود چیزیں بالکل واضح نظر آ رہی تھیں،

اس نے بغیر کسی تمہید کے، ٹیبل کی ڈسٹنگ کرتی ہوئی ملازمہ کو پکار کر پوچھا "    یہ چیزیں کون لایا ہے یہاں؟؟" اس وقت ، اس ماتھے پر گہرے بل نمودار ہوئے۔

"وہ جی، جنت بی بی نے میری بیٹی کے لیے دی ہیں مجھے،" یہ زرار کے ازلی رعب کا نتیجہ تھا کہ بتیس سالہ سکینہ نے ذرا سا ڈرتے ہوئے کہا۔

سکینہ ان دونوں گھروں کی مشترکہ ملازمہ تھی جوپہلے جنت کے گھر کی صاف صفائی کرتی تھی اور بعد میں یہاں آتی تھی۔

زرار نے بیگ اٹھایا اور ساری چیزیں باری باری کر کے نکال کر غور سے دیکھیں، ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ ان چیزوں کو کبھی کسی نے ہاتھ بھی لگایا ہو۔

یعنی وہ چیزیں جنت نے اب تک بہت سنبھال کر رکھی تھیں۔۔

پر کیوں؟؟

یہ سوچ کر،

زرار کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑی،

"اچھا تم ایسا کرو، یہ پیسے رکھو، تم اپنی بیٹی کے لیے کچھ اور لے لینا، یہ چیزیں مجھے دے دو،" زرار نے اپنے والٹ سے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھا، اور اپنی مسکراہٹ غائب کرتے ہوئے حکم صادر کیا۔

"اور سنو!! جنت بی بی کو نہ بتانا کہ یہ چیزیں میں نے لی ہیں تم سے۔۔" اس نے سخت لہجے میں تاکید کی۔

سکینہ نے بھلا کسی کو کیا بتانا تھا، اسے تو بس پیسے مل گئے ، اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا، 

اس لیے اب وہ بہت خوش ہوتے ہوئے واپس اپنے کام میں مشغول ہوئی تھی۔

زرار نے جلدی سے واپس روم میں آکر وہ بیگ، اپنی واڈروب کے لاکر میں رکھا ، اور کالج کے لیے نکل گیا،

وہ بہت خوش تھا، عجیب سی سرشاری کی کیفیت میں تھا۔

اس لیے آج وہ بڑے مزے مزے سے کچھ گنگنا رہا تھا،

بس ایک ٹینشن تھی کہ وہ احسن کو اپنے اور جنت کے درمیان سے کیسے غائب کرے۔۔

 پر اسے خود پر یقین تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا۔

ساتھ میں ہی اس کے ذہن میں ایک ہلکا سا تجسس، جاگا کہ کیا جنت بھی اس سے محبت کرتی ہوگی؟؟

پر اپنے اس تجسس کے جواب میں اس نے خود کو ہی "کم عقل" ہونے کا طعنہ دیا، 

"بھلا یہ بھی کوئی سوچنے کی بات ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہوگی یا نہیں!! وہ تو ہمیشہ سے مجھے چاہتی ہے، اس ہر ایک انداز آج تک اس کی محبت کی گواہی دیتا آیا ہے،"

" اور اس کی محبت ہی تو تھی، جسے توڑنے کے لیے ، میں نے خود ، آگے بڑھ کے، اسے "اس گدھے" کے حوالے کر دیا."

ایسی اول فول باتیں سوچتے سوچتے وہ کالج پہنچ گیا۔

 ×××××××××

زوبی اور جنت بھی اسی کالج میں بی ایس انگلش کے تھرڈ ائیر میں تھیں،

جنت آج کالج پہنچی تو، اس کی ساری کلاس فیلوز نے بڑھ چڑھ کر ، اسے منگنی کی مبارکباد دی، ان سب نے شہد کی مکھیوں کی طرح اسے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا ، جیسے وہ کوئی چھتہ ہو۔۔!!

ویسے تو وہ ساری لڑکیاں اس کے بے تحاشہ خوبصورت ہونے اور زرار کی کزن ہونے کے جرم میں کبھی گھاس بھی نہیں ڈالتی تھیں،

  وہ سب کی سب، اس سے حد درجہ جیلس تھیں،

اور وہی لڑکیاں ہر وقت زوبی کی چاپلوسیوں میں بھی اپنا بہت سا وقت برباد کرتی تھیں،

لیکن ان سب کی ایک ٹینشن تو سر سے اتری تھی،

جنت کی منگنی سے ان سب کے کلیجوں میں جیسے ٹھنڈ ہی پڑ گئی تھی،

پر جنت۔۔۔ اس کا تو دل ہی مر گیا تھا،

وہ چاہتے ہوئے بھی کوئی مبارکباد وصول نہیں کر پائی،

وہ خوش ہونا چاہتی تھی پر نہیں ہو پائی،

پر وہ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ وہ اپنی حقیقت۔۔ اپنی تقدیر سے راضی رہے۔۔۔

××××××××××

آج زرار سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو رہا تھا،

وہ بہت غائب دماغی کے مظاہرے کر رہا تھا،

اس کی بولائی بولائی سی حالت،

شب بیداری کی وجہ سے سوجی ہوئی آنکھیں، کوئی نئی کہانی ہی سنا رہی تھیں،

کچھ اسٹاف میمبرز نے اور اسٹوڈننٹس نے بھی ، اس کا عجیب طرح سے، بدلا ہوا، رنگ ڈھنگ محسوس کیا پر کوئی اس کے دبدبے کی وجہ سے ،

 اس سے   استفسار نہیں کر پایا،

زرار کو عجیب سی بے چینی لگی ہوئی  تھی، 

وہ بے صبری جنت سے کی کلاس میں اپنے لیکچر کا  انتظار کر رہا تھا،

اللّٰه اللّٰه کر کے لیکچر کا ٹائم ہوا تو وہ بھاگا بھاگا کلاس میں پہنچا،

اس کا دل بہت بڑی طرح دھڑکنے لگا تھا،

وہ سینکڈ رو کی تھرڈ سیٹ پر بیٹھی جنت کو، دیکھتے ہی ، ایسا محسوس کر رہا تھا، جیسے اب وہ اگلی سانس نہیں لے پائے گا۔۔ لیکن سانسوں کا کام ہی آنا جانا ہے۔۔ 

سو وہ زرار کے محسوسات کی پرواہ کئے بغیر،

اپنی روانی بہے جا رہی تھیں ، 

اس کا رویا رویا، تکلیف زدہ چہرہ ، زرار کو بھی بے چین کر گیا،

زرار سے آج ڈھنگ سے لیکچر بھی ڈیلیور نہیں کیا جا رہا تھا،

آج جنت بار بار لیکچر کے دوران ، بہت بےحس سی ہو کر بغیر گھبرائے، باقی لڑکیوں کی طرح، زرار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی بات سن رہی تھی، 

ورنہ تو جتنا مرضی کوئی زور لگالے لیکن وہ زرار سے کبھی آئی کانٹیکٹ نہیں کرتی تھی،

کیونکہ محبت انسان کو بہت خوفزدہ کر دیتی ہے، ہر کسی کو اپنی محبت کے حوالے سے کوئی نہ کوئی خوف لاحق ہوتا ہے، جنت کو بھی خوف تھا کہیں وہ اس کی نظروں سے اس کے دل کا حال نہ جان لے۔۔!!

پر اب وہ اس کی محبت، اس کے عشق کو بھلانے کے مراحل میں تھی، وہ اس کے نفرت کے علاوہ کسی جذبے کو اپنے دل میں جگہ نہیں دینا چاہتی تھی،

پر جن سے محبت ہو، ان سے نفرت کیسے کی جا سکتی ہے۔۔ 

لیکن جو بھی تھا، اسے خود کو مضبوط رکھنے کے لیے، اس مغرور انسان سے نفرت کرنی تھی۔

زرار ، جنت کے ایسے دیکھنے سے، جہاں بہت کنفیوز اور پزل ہو رہا تھا، وہیں جنت کے بے تاثر چہرے سے اس کے دل کو عجیب دھڑکا لگا،

عجیب سا خوف اس کے دل و دماغ میں سمایا تھا، وہ خوف۔۔!! کچھ کھو دینے کا خوف تھا، کسی کے دور جانے کا خوف تھا۔۔!!

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

عجیب سا خوف اس کے دل و دماغ میں سمایا تھا، وہ خوف۔۔!! کچھ کھو دینے کا خوف تھا، کسی کے دور جانے کا خوف تھا۔۔!!

زرار کے محسوسات عجیب سے عجیب تر ہو رہے تھے،

اسے وہاں، جنت کے سامنے، بولنا ۔۔ کھڑے ہونا۔۔۔ لیکچر دینا بہت مشکل لگ رہا تھا، اسے جنت کے بے تاثر انداز سے خوف آرہا تھا،

لیکن اس کی نظر جنت کے چہرے سے ہٹ کر گردن تک گئی تو اس کا سارا خوف، سارا ڈر۔۔ اڑن چھو ہوگیا،

اب وہ بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا،

جنت نے اس کے دیے سارے گفٹس واپس کر دیے تھے،

لیکن اس کا دیا، وہ باریک باریک سے، انتہائی چھوٹے موتیوں والا نفیس سا pendant ، ابھی بھی اس کے گلے میں تھا۔

وہ ،  قیمتی، کالے پرلز سے بنا پینڈنٹ۔۔ جنت کو بہت عزیز تھا۔۔ جب سے زرار نے اسے وہ دیا تھی ، تب سے اس نے وہ اپنے گلے سے اتارا ہی نہیں۔۔

اور کل بھی شاید اسے یہ یاد ہی نہیں آیا کہ وہ ہار،  وہ پینڈینٹ۔۔ جو ہر دم اپنے گلے سے چپکا کر رکھتی ہے۔۔ وہ بھی زرار کا دیا تحفہ ہے۔۔

اور اس کی اس بھول کی وجہ سے وہ قیمتی تحفہ اپنی ناقدری سے محفوظ رہ گیا۔

بہر حال، جو بھی تھا ، لیکن زرار کے لیے آج کا دن بہت بھاری تھا، 

اس سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پا رہا تھا ، اور نہ ہی ہونا تھا،

رات تک وہ یوں ہی پاگل بنا پھرتا رہا،

اس کے مزاج  میں عجیب سی سرشاری در آئی تھی،

وہ بیک وقت بہت خوش بھی تھا اور خدشات کا شکار بھی،

خوشی تو اسے اس بات پر تھی کہ آخر کار اس کی تلاش ختم ہوگئی تھی، 

وہ ہمیشہ سے جسے ڈھونڈنا چاہتا تھا، اس کی ہم جوڑ، اس کی ہم پلّہ یا یوں کہہ لیں کہ اس کے معیار پر پورا اترنے والی دنیا کی واحد لڑکی ، اسے مل گئی تھی،

پر اسے خدشات تھے، کہ ابھی اس نے، اپنی چاہت کو حاصل نہیں کیا تھا، اس نے بس اسے تلاشہ تھا،

ابھی پانے کی منزل طے کرنا باقی تھا،

وہ ایک حقیقت پسند انسان تھا،

اسے حقیقت اور سچائی کے تناظر میں سب معاملات پرکھنے تھے،

اسے اپنے راستے میں کھڑی مشکلات بالکل واضح نظر آ رہی تھیں،

بھلا آسان تھوڑی تھا کہ وہ اس کی منگنی تڑوا کر مزے سے اس سے شادی کر لیتا،،

سب سے بڑی مصیبت تو یہ تھی کہ یہ رشتہ ، زرار کے بی ہاف پر ہوا تھا،

اب اسے توڑنا اتنا آسان نہیں تھا،

اور دوسرا، اسے جنت کے منہ سے بھی تو اپنے لیے پسندیدگی کا اظہار سننا تھا،

وہ محظ اپنے اندازوں کی بنیاد پر تو کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا تھا نا، 

جنت کی رضامندی بھی تو جاننا لازمی تھا،

××××××××

جنت کے لیے بھی موجودہ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھا،

اس نے آج زرار کی آنکھوں میں اپنے لیے وہ کچھ دیکھا،

جو وہ ہمیشہ سے دیکھنے کی خواہاں تھی،

لیکن اس کی قسمت تھی کہ وہ اپنی اس دیرینہ خواہش کے پورا ہونے پر خوش بھی نہیں ہو سکی،

ابھی ، کل ہی تو اس نے، اپنی محبت کا گلہ گھونٹا تھا،

اس نے کل ہی تو ، زرار کے لیے اپنے دل میں موجود جذبوں کو بے دردی سے مارا تھا،

اب بھلا وہ کیسے خوش ہوسکتی تھی؟؟

اب تو ، اس کے عشق کے ساتھ ساتھ اس کی ساری خواہشیں بھی دم توڑتی جارہی تھیں،

اب تو اسے ، زرار کے لب و لہجے اور اس کی آنکھوں، میں اپنے لیے دیوانگی دیکھنے کی کوئی چاہ باقی نہیں رہی تھی،

قیامت ہی تو ٹوٹی تھی اس پر،

کالج میں تو جیسے تیسے زوبی نے اس کا دل بہلا لیا تھا،

پر گھر آ کر، تنہائی میں، اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھے ، وہ خود پر ضبط نہیں کر پارہی تھی،

اس لیے، بالآخر وہ ، اپنے آپ کو ہارتا محسوس کر رہی تھی،

وہ اپنے دل کے آگے ہار گئی تھی،

وہ خود اپنے دل کی بڑھتی تکلیف کے سامنے نہیں ہرانا نہیں چاہتی تھی، وہ رونا نہیں چاہتی تھی،

پر وہ بھی تو انسان تھی، ایک معصوم سی لڑکی تھی،

بھلا کتنی دیر تک وہ خود پر جبر کرتی۔۔!!

جو آنسو گھنٹوں سے۔۔ اس کی آنکھوں سے نکلنے کو بے تاب تھے، وہ آخر کار، اس کے چہرے پر بہہ نکلے۔

اور وہ اپنا تمام ضبط کھو کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

×××××××××

رات کا وقت تھا،

زرار ، عجیب بے چینی سے سارے گھر کے چکر لگا رہا تھا،

 کبھی اپنے روم میں جاتا تو کبھی لان میں، کبھی لاونج میں آتا تو کھبی واپس اپنے روم میں،

ایک دو چکر تو اس نے کچن کے بھی لگالیے تھے،

اس کی مما نے ، بے چینی نوٹ کرتے ہوئے پوچھا بھی کہ کوئی مسئلہ تو نہیں؟؟

پر وہ بہت مہارت سے جواب گول کر گیا،

لیکن زینب بیگم بھی اس کی ماں تھیں،

بھلا وہ کیسے اپنے اچھے خاصے سنجیدہ بیٹے کو باؤلا بنا دیکھتے ہوئے بھی اس کے جواب پر مطمئن ہو سکتی تھیں؟؟

کچھ کچھ معاملہ تو ان کی بھی سمجھ میں آرہا تھا،

لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو مزید نہیں کریدا،

وہ جانتی تھیں کہ موزوں وقت پر وہ سب سے پہلے انہی سے ڈسکس کرے گا۔

زوبی کو ، اپنے بھائی کا باؤلا پن دیکھ کر الگ ہنسی آ رہی تھی،

اسے جب بھی کہیں زرار نظر آتا تو اس کی شکل دیکھ کر ہی وہ بھاگی بھاگی اپنے روم میں جاتی اور پیٹ پکڑ کر ہنستی چلی جاتی۔

ابھی بھی وہ اپنا یہی ہنسنے والا شغل پورا کر رہی تھی کہ کھٹاک کی آواز سے اس کے روم کا دروازہ کھلا،

اور سامنے کھڑے اس مجنوں کو دیکھ کر پھر سے اسے   ہنسی کا جھٹکا لگا،

اسے زرار کا وہ گردن ہلا ہلا کر ، بے چینوں کی طرح ٹہلنا یاد آگیا۔

زرار اپنے چہرے پر دنیا جہاں کی مسکینی سجا کر آیا تھا،

لیکن اپنی بہن کو یوں ہی فضول میں ہنستا دیکھ کر ساری مسکینی بھاپ کی طرح اڑ گئی،

کیونکہ اس کی چھٹی حس کہ رہی تھی کہ وہ اس پر ہی ہنس رہی ہے۔

"یہ تمہارے دانت کس خوشی میں باہر آ رہے ہیں؟"

زرار نے ماتھے پر بل گہرے کر کے ، بھنویں سکیڑ کر  اپنی فیورٹ ، غصیلے لہجے میں کہا۔

زرار کو اپنی اصلی حالت میں واپس آتا دیکھر کر زوبی کے باہر نکلتے دانت ایک دم اندر گئے۔

"ن۔ن۔نہیں بھائی۔۔ ک ک کسی خوشی میں نہیں نکل رہے۔۔ وہ وہ ایک جوک یاد آگیا تھا ،بس!" زوبیہ کہلاتے ہوئے بولی،

زرار کو اس کے ایسے ہکلانے پر ہنسی آئی جسے اس نے بروقت روک کر مدھم سی مسکراہٹ میں convert  کیا، 

اور دھپ سے وہیں اس کے بستر پر بیٹھ گیا،

وہ زوبی کی طرف دیکھے بغیر، اپنے بالوں میں انگلیاں پھرتے ہوئے۔۔گویا ہوا، "آئس کریم کھانے چلو گی؟؟"

زوبیہ کو لگا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔۔!!

اس کا بھائی، زرار ، جس نے کبھی اسے آٹھ آنے کی ٹافی کی بھی پیشکش نہیں کی تھی وہ اسے زندگی میں پہلی بار، اسے آئس کریم کی آفر کر رہا تھا،

زوبی کو ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا، معاملے کی تہ تک پہنچنے میں۔۔!

اس نے بڑے عزت و احترام سے، اپنے پلکیں اوپر نیچے کرتے اور اپنے گلا کھنکارتے ہوئے۔۔ سوال کیا، " بھائی ! جنت کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے؟؟" 

زرار کے بے سوچے سمجھے، فوراً "ہاں" کہنے پر زوبی کے منہ سے پھر ہنسی کا فوارہ چھوٹا، 

زرار ایک دم سٹپٹا گیا،

پر اگلے ہی لمحے وہ بھی زوبی کے ساتھ ہی ہنسنے لگا،

اس نے سوچا کہ کیوں نہ اپنی اس ڈریکولا جیسی بہن کو پارٹنر بنا لیا جائے، تاکہ اسے اپنی دال گلانے میں زیادہ مشکل نہ ہو!! 

پر اس نے ابھی صرف سوچا ہی تھا، کیونکہ اس نے منہ سے کچھ پھوٹ کر اپنی شامت نہیں لانی تھی،

زوبی آج کل ویسے بھی ، اس کے ہتھے نہیں چڑھتی تھی،

زوبی اب بھی وہیں کھڑی اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ہنسنے کا شغل پورا کر رہی تھی،

"اب کب تک اپنے دانتوں کی نمائش کرنے کا ارادہ ہے؟؟ جا کر جلدی سے تیار ہو!!" زرار کی ہنسی تھم چکی تھی، اب وہ پھر سے بے چین ہوتا، جلدی مچانے لگا،

دیدارِ یار کی طلب نے اسے بیتاب کیا ہوا تھا،

زوبیہ تیار ہونے کے لیے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی،

وہ بالوں کو سیٹ کرتے ہوئے اونچی آواز میں گنگنائے جا رہی تھی۔۔

ہوتا ہے کیا..!

عشق ہوتا ہے کیا۔۔!

دیوانوں سے پوچھ لے۔۔!

یہ مچلتے ہیں کیوں؟

ہنس کے جلتے ہیں کیوں؟

پروانوں سے پوچھ لے۔۔!

عشق کے دن چار پیارے۔۔

عشق ہو اک بار پیارے۔۔

عشق کی پرچھائیوں کو چو۔۔۔۔م!!

دھوم مچالے، دھوم مچالے، دھوم دھوم دھوم!

زرار کا صبر جواب دے رہا تھا۔۔

اور زوبیہ تھی کہ چپ ہو نے میں نہیں آرہی تھی،

زرار مجبوراً اٹھا اور زوبی کے پاس جاکر ، اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا گلہ دبوچ لیا، اس کی گرفت بالکل بھی سخت نہیں تھی،

"یہ دیکھ رہی ہو نا میرے ہاتھ؟؟

اب تم نے ایک بھی اور بکواس کی تو میں نے بالکل بھی دیر نہیں لگانی۔۔ سمجھیں؟؟" زرار نے کھاجانے والے تیوروں سے کہا، اور پھر اس کے گلے سے ہاتھ ہٹا لیے۔

" مجھ پر کسی بھی کا ظلم کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ میرے بغیر آپ جنت تک نہیں پہنچ سکتے،" زوبی نے بھرپور تڑی دی،

"اپنی بکواس بند کرو، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔

اور ریڈی ہوکر جلدی باہر آؤ، میں کار اسٹارٹ کرتا ہوں" وہ جلدی جلدی کہتا باہر نکلنے گیا،

زوبی کو رہ رہ کر اپنے "پھنے خاں" بنے رہنے والے بھائی پر ترس آیا، 

کہ بچارا کیسے ایک آدھے دن میں بھیگی بلی بن گیا تھا،

صرف جنت کی ان تصویروں نے بچارے کو مجنوں بنا دیا تھا،

"اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں کسی طرح بھی، پہلے ہی جنت کی جھوٹی موٹی ہی کوئی منگنی کرا دیتی، کم سے کم میرا اکڑو بھائی آج تک کنوارا تو نہ ہوتا،" اس نے اپنے  آپ سے ہی،جھوٹ موٹ کا افسوس کرتے ہوئے، شرارت سے کہا،

پھر آئینے کے ذریعے خود پر ایک فائینل نظر ڈال باہر نکلی،

اس کے گاڑی میں بیٹھتے ہی، زرار نے فوراً ہی جنت کے گھر کی طرف گاڑی دوڑائی،

زرار کی جلدبازی، زوبی کو پھر سے قہقہے لگانے پر اکسا رہی تھی پر اس نے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے،

صرف مسکرانے پر اکتفا کیا،

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

زرار کی جلدبازی، زوبی کو پھر سے قہقہے لگانے پر اکسا رہی تھی پر اس نے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے،

صرف مسکرانے پر اکتفا کیا،

زرار نےجنت کے گھر کا فاصلہ جو تقریباً ان کے گھر سے پندرہ منٹ کی واک اور چھ منٹ کی ڈرائیو پر تھا، وہ اس نے صرف تین منٹ میں طے کیا۔

"جاؤ ، جا کر جنت کو لے کر آؤ،" اس نے کار کے فرنٹ مرر میں دیکھتے، اپنے بالوں کو ہاتھ کی انگلیوں سے سیٹ کرتے ہوئے کہا۔

"اچھا بھائی،" کہتے ہوئے زوبی کار سے باہر نکلی، لیکن وہ واپس زرار کی طرف مڑی،

"اگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا تو؟؟ میرا مطلب ہے بھائی، اسے جب پتہ چلے گا کہ آپ لے کر جا رہے ہیں تو وہ شاید نہ آئے،" زوبیہ نے اسے مسئلے سے آگاہ کیا،

"کیوں؟؟ میرے ہونے نہ ہونے سے اسے کیا مسئلہ؟" اس نے ایک شوق بھرے تجسس سے پوچھا،

"وہی, جو آپ کو اس کے آنے یا نہ آنے سے ہے۔۔" زوبیہ نے اپنی طرف سے واضح جواب دیا۔

"مطلب کیا ہے تمہارا،" اسے ماتھے پر بل لاتے ہوئے ، ناسمجھی سے پوچھا،

"وہ میرا مطلب تھا کہ جیسے آپ چاہ رہے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ لازمی جائے، اور آئی تھنک، آپ نے یہ پلین بھی اسی کے لیے سیٹ کیا ہے، اسی طرح وہ یہ بات لازمی چاہے گی کہ آپ ساتھ نہ ہوں،" زوبی نے بات گول مول کرنے کی بجائے، صاف لفظوں میں کہا،

کیوں کہ پہلے ہی وقت اتنا کم تھا، اور اوپر سے جنت اس کے بھائی سے الگ بدظن ہوگئی تھی،

اب یہ تو شکر تھا کہ زرار کو ذرا جلدی احساس ہوگیا تھا، 

ورنہ پتہ نہیں، زوبی کو اور کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے!

"وہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ سے میری موجودگی سے کیا غرض۔۔" زرار نے الجھتے ہوئے سخت لہجے میں کہا،

اسے اپنے متعلق جنت کا ایسے متوقع رویے کا سن کر غصہ آیا تھا،

 کہ آخر اسے زرار کی پریزینس ناگوار گزرے گی۔۔!!

 کیونکہ ایک دنیا تھی، 

جو اس کی ذرا سی توجہ، ایک جملے کی بات یا بس اسے ایک نظر اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ترستی تھی،،

اور جنت کو اس کی موجودگی سے مسئلہ تھا،

یعنی زرار ، جو جنت کی ایک جھلک کے لیے ، خود کو پاگل کر کے یہاں وہاں پھر رہا تھا،

اس جنت کو ، اس کا ہونا ہی کھٹک رہا تھا،

یعنی اس کی نظر میں، اس زرار کی اتنی سی بھی وقعت نہیں کہ جس کے لیے لڑکیاں اپنا سب کچھ گنوانے کے لیے تیار بیٹھی رہتی ہیں،

اسے اپنی ایسی ناقدری پر بہت غصہ آرہا تھا،

وہ وجہ جاننا چاہتا تھا،

"بھائی۔۔ وہ دراصل اسے آپ پر غصہ ہے۔۔" زوبی نے نظریں چراتے ہوئے اصل بات بتائی،

اب زرار کو ایک اور حیرت کا جھٹکا لگا،

"اب بھلا وہ مجھ پر کیوں غصہ ہے؟" 

" جنت۔۔ دراصل، احسن بھائی سے شادی کے لیے دل سے رضامند نہیں تھی اور اوپر یہ رشتہ جوڑنے میں آپ کی جو محنت تھی، اس کا تو سبھی کو پتہ ہے۔۔

اس لیے آپ پر وہ غصہ ہے،" زوبی نے پھر سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا،

"لیکن میں نے اسے فورس تو نہیں کیا تھا۔۔ اس نے تو خود ہی ایک سیکنڈ لگائے بغیر ہاں کردی تھی کہ جیسے وہ برسوں سے اسی کے انتظار میں بیٹھی ہو۔" زرار نے ناگواری سے تڑخ کر کہا،

"ایسی بات نہیں ہے بھائی،، اسے احسن بھائی میں رتی برابر بھی کوئی انرسٹ نہیں ہے، " زوبی نے اپنی سہیلی کی بھرپور طرف داری کی۔

"اچھا تو پھر کس میں انٹرسٹ ہے اسے،" زرار کی دلچسپی ان سوالات و جوابات میں بڑھتی جارہی تھی،

اب زوبی بے وقوف تھوڑا تھی،

جو ساری باتیں ایک ہی بار میں بتا دیتی، 

اس لیے اس نے بات ہی گھما دی،

"اوفوہ۔۔! بھائی۔۔! آپ نے بھی کن باتوں میں الجھا دیا، 

میں آپ سے سولیوشن مانگ رہی تھی کہ اگر جنت آنے پر راضی نہ ہوئی تو میں کیا کروں۔۔؟؟ کیوں کہ مجھے پورا یقین ہے کہ آگر آپ نے اسے نہ دیکھا نہ تو صبح تک آپ نے مجنوں کی وہ مثال قائم کرنی ہے کہ دنیا کے سارے عاشق پیچھے رہ جائیں گے،" زوبی نے زرار کے چہرے پر آتے جلال کی پرواہ کئے بغیر اپنی بات پوری کی،

"یہ تم کیا عجیب و غریب باتیں کر رہی ہو؟؟ میں نے سوچا تھا کہ بس اس نے تو اپنی منگنی کی ٹریٹ دی ہی تو سوچا خود ہی ٹریٹ دے دوں، 

اور تم پتہ نہیں کیا بکواس کرے جارہی ہو۔۔!!" زرار نے نظریں چراتے ہوئے بھرپور سخت لہجے میں زوبی کو لتاڑا،

"رہنے دیں بھائی، میں کوئی اندھی نہیں ہوں جو آپ کی بے قراری نہیں نوٹ کر سکتی، مجھے سب پتہ چل رہا ہے، آپ خود کو بھی جلد از یقین دلا لیں کہ جنت کے بغیر آپ کا گزارا مشکل ہے،

اور میرے ذہن میں آئیڈیا ہے کہ آپ ایسا کریں کہ فی الحال بیک سیٹ پر جا کر چھپ کر بیٹھ جائیں،

میں جنت کو بولوں گی کہ ہم دونوں ہی چل رہے ہیں ، پھر مین روڈ تک آنے کے بعد آپ نکل آئیے گا۔۔ اوکے؟؟ "

زوبی نے جلدی جلدی اپنا پلین بتایا اور وہاں سے چلی گئی،

زرار پیچھے حیران سا ہو کر اپنی بہن کی باتیں سوچ رہا تھا،

وہ جلدی سے اس کے پلین پر بھی عمل کر چکا تھا ،

لیکن وہ پریشان تھا کہ اپنے دل کی حالت جسے وہ خود سے بھی چھپانے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا،

وہ سب کتنی اچھی طرح سے اس کی بہن کو معلوم ہیں،

اور کیا واقعی اس کی حرکات و سکنات سے اس کے اندر چھڑی جنگ کا پتہ ہر کسی کو چل رہا ہے،

اور کیا جنت میرے لیے واقعی بہت ضروری ہے؟

اس کی سوچیں، اس کے اپنے آپ سے ہی کیے جانے والے سوالات ، اسے پریشان کر رہے تھے،

××××××××

زوبی اندر گئی تو پھوپھو اور پھوپھا اسے لاونج میں ہی مل گئے تھے، 

وہ انہیں سلام کرتی اور جنت کو ساتھ لے جانے کی اجازت لے کر فوراً جنت کے روم کی طرف بھاگی۔

زوبی کی توقع کے عین مطابق ، جنت صاحبہ اپنے رونے کا شغل پورا فرما رہی تھیں،

"اوئے جنت کی بچی،، کیا ہوا ہے یار ، اب کیوں رو رہی ہو؟؟؟ یار جو ہو گیا، سو ہوگیا، 

بی بریو۔۔!!"

زوبی نے کمرے میں گھستے ہی دادی اماں بن کر، روتی ہوئی جنت پر نصیحتوں کی بوچھاڑ ہی کردی،

جنت اسکے ایسے اچانک آنے پر بری طرح چونکی تھی،

لیکن اس نے زوبی کو دیکھ کر پھر سے بھاں بھاں والے راگ الاپنے شروع کر دیے،

"جنت پلیز۔۔ رونا بند کرو۔۔ میں یہاں تمہارے موڈ بہلانے کی کوششوں میں خوار ہوتی رہتی ہوں اور تم ہو کہ میری ہر کوشش پر پانی پھیر کر پھر سے بھاں بھاں کرنا شروع کر دیتی ہو۔۔!!" زوبی نے اسے خوب جھڑکا،

"شٹ اپ زوبی!! تمہیں کیا پتہ !! دل ٹوٹنے کا درد کیا ہوتا ہے۔۔ اپنا عشق مارنے کا درد کیا ہوتا ہے، تم بس چپ کرو، مجھے اپنے آپ سے خود ہی ڈیل کرنے دو،" جنت نے اپنی تکلیف اسے بتائی۔

"ہاں بہن ! مجھے نہیں پتہ یہ سب! اور انشاء اللّٰه تمہارا بھی ٹوٹا دل جلد ہی جڑ جائے گا،(زوبی نے اسے آنکھ ماری)لیکن تم پہلے یہاں سے اٹھو اور ہاتھ منہ دھو کر آؤ، ہم آئس کریم کھانے چل رہے ہیں۔" 

 زوبیہ اس کا بازو کھینچ کر اسے بیڈ سے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی،

"اف اللّٰه!! زوبی۔۔!! یہ تم جنگلیوں کی طرح مجھے کیوں کھینچ رہی ہو؟؟" جنت نے رونا بند کر کے کھا جانے والے تیوروں سے اسے دیکھا،

"یہ تم ۔۔ مجھے بعد میں کچا چبا لینا،

اتنی مشکل سے مجھے میری مما سے پرمیشن ملی ہے اس ٹائم آئسکریم کے لیے باہر جانے کی، بلکہ میرے خیال سے ہم لوگ ڈنر بھی باہر ہی کر لیں گے،" 

زوبی اکیلے اکیلے ہی سارا خیالی پلاؤ بنا رہی تھی، جیسے جنت تو اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہی بیٹھی ہو!!

"اوہ میڈم مجھے کہیں نہیں جانا۔۔!!" جنت کا لہجہ رونے کی وجہ سے ابھی تک بھاری تھا،

"میں تم سے پوچھنے نہیں آئی، بتا رہی ہوں کہ اٹھو اور چلو میرے ساتھ،" زوبی نے اس پر اپنا حکم چلایا،

"زوبی تنگ نہیں کرو، میں نے کہا ناں کہ نہیں جانا کہیں مجھے،" جنت ابھی بھی ضد پر اڑی ہوئی تھی،

زوبی کو تو رہ رہ کر اپنے بھائی کا خیال آرہا تھا کہ وہ بچارا کب سے بیٹھا انتظار کر رہا تھا،

" جنت۔۔ اتنی بحث بھی  اچھی نہیں ہوتی، 

اب تم دیکھو جلدی سے  شادی کر کے جانے والی ہو،

اور پیچھے پھر میں نے اکیلے ہی رہ جانا ہے،

میں زیادہ سے زیادہ تمہارے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا چاہتی ہوں،

اور دیکھو اب تم نے ساتھ چلنے سے انکار کیا ناں،

تو میرے دل نے ٹوٹ جانا ہے،

اب مجھ معصوم کا دل دکھاؤ گی تم؟؟؟" زوبیہ نے بہت مہارت سے بچاری جنت کو ایموشنل بلیک میل کیا،

وہ بچاری پہلے ہی اتنی حساس ہوئی وی تھی اور اوپر سے زوبی کی جاندار ایکٹنگ!!

جنت کو آخر اپنی جگہ سے اٹھنا ہی پڑا،

اس نے ہاتھ منہ دھوئے، اپنا حلیہ درست کیا اور زوبی کے ساتھ چل پڑی،

××××××××

زوبی نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اگنیشن میں چابی گھما کر کار اسٹارٹ کی، اور جنت وہیں اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی،

زرار کار کی بیک سیٹ پر جھک کر بیٹھا تھا اور رات ہونے کی وجہ سے اندھیرا بھی تھا،

اوپر سے جنت کا دھیان بھی نہیں تھا سو اس لیے وہ زرار کی موجودگی نوٹ نہیں کر پائی،

جنت تھوڑی حیران تھی اور اسی حیرت کے مارے اپنے منہ میں مچلتا طنز ، منہ سے باہر نکالا, "زوبی خیر ہے۔۔؟؟ آج تم اپنے اس اکڑو اور مغرور بھائی کی شاہی سواری لے کر آئی ہو؟؟ دے کیسے دی انہوں نے تمہیں؟؟" جنت کا اشارہ زرار کی کار کی طرف تھا،

"جنت بے بی ذرا سنھبل کے منہ سے لفظ نکالو ۔۔۔ یہ نہ ہو۔۔ تمہیں لینے کے دینے پڑ جائیں۔۔" زوبی نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی،

"وہ سب چھوڑو۔۔ تم بتاؤ ناں۔۔ تمہارے اس غصے کے پہاڑ جیسے بھائی نے اپنی پیاری کار تمہارے حوالے کیسے کردی؟؟ کہیں تم چوری چھپے تو نہیں لائیں؟؟

یہ نہ وہ تمہارے ساتھ ساتھ ایک آدھی کلاس میری بھی لگا دیں،، نہ بابا نہ، مجھے کوئی شوق نہیں ہے فضول میں اپنی بےعزتی کرانے کا، اور تمہارے اس چنگیز خان سے تو ویسے ہی میری جان جاتی ہے،" جنت ایک ہی سانس میں ، زرار کی تعریف میں ، زمین آسمان کے قلابے ملا رہی تھی کہ اسے اپنی پیچھے کسی مرد کے گلا کھنکارنے کی آواز آئی،

زوبی کا اب ہنس ہنس کر برا حال تھا،

جنت نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے چودہ طبق روشن ہو کر رہ گئے،

اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا،

اور ڈر کے مارے اس کی تیز گام کی طرح دوڑتی  زبان الگ ہی تالو سے چپک کر رہ گئی،

😂😂😂😂😂

اور ڈر کے مارے اس کی تیز گام کی طرح دوڑتی  زبان الگ ہی تالو سے چپک کر رہ گئی،

 "زرار بھائی آپ۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے؟؟" ڈر کے مارے بس اتنی سی ہی آواز وہ اپنے حلق سے باہر نکال پائی تھی۔

" یہ کیسا سوال ہے ؟؟ میری گاڑی ہے تو میں نے تو یہاں ہونا ہی تھا۔۔ تم کیا احسن کو ایکسپیکٹ کر رہی تھیں؟؟" زرار نے سلگانے والے انداز میں کہا،

" اب میں نے ایسا تو نہیں کہا...!" جنت نے گردن جھکا کر دھیمی سی آواز میں کہا کہ جیسے اسے احسن کا ذکر کچھ خاص پسند نہیں آیا،

وہ اچھی خاصی ڈری بھی ہوئی تھی کیونکہ اس کی زرار کے خلاف کی گئی تمام تر لفظی فائرنگ زرار نے اپنے کانوں سے سنی تھی،

"صحیح ہے۔۔ پر محترمہ بتا سکتی ہو کہ میں نے تمہارا ایسا کیا بگاڑا ہے جو تم نے مجھے اتنی عزت سے نوازا ہے؟؟"زرار کو اپنے متعلق اس کے نادر خیالات سن کر جہاں بے تحاشا ہنسی آرہی تھی وہیں اس نے اپنی ہنسی کو تھوڑا دبا کر ، اپنے جھوٹے غضب ناک لہجے کے ذریعے،  جنت کی ڈری سہمی حالت کا مزہ لیا۔

جنت دانتوں تلے دبا کر شرمندہ پلس خوفزدہ سی ہو کر رہ گئی تھی،

زوبی کو اپنے بھائی کی حرکات اور جنت کی وہ کنفیوزڈ سی حالت دیکھ کر بری طرح ہنسی آرہی تھی،

"بھائی پلیز چپ کریں، مجھ سے ڈرائورنگ پر concentrate نہیں ہو پا رہا، یا تو پھر آپ آ کر خود ہی ڈرائیو کر لیں،" زوبی نے اپنے ابلتے قہقہے روکنے کی کوشش کی،

"ہاں تو تمہیں کہا بھی کس نے تھا؟؟ خود ہی چڑھ کر بیٹھ گئی تھیں، ڈھنگ سے چلاتی تو آتی ہی نہیں، روکو کار، میں ڈرائیو کرتا ہوں،" زرار نے بھی زوبی کا سارا احسان بھول کر، الٹا اسے ہی دو چار سنا دیں،

زوبی اب ہنسنا بند کر کے ، دانت پیس رہی تھی،

اور جنت کو تو زوبی پر بے تحاشا غصہ آرہا تھا،

کتنی گھنی نکلی تھی زوبی کی بچی،

"ہے تو یہ اپنے بھائی کی بہن، اللّٰه جانے اس نے کیا کچھ کہ دیا ہوگا اس اکڑو سے جو یہ اتنا عجیب بی ہیو کر رہا ہے، توبہ توبہ، کہیں اس نے اس چنگیز خان کو سب بتا تو نہیں دیا،" اب جنت اپنی سارا غم بھلا 

کر ، ایک تو زوبی پر غصہ بھی تھی اور دوسرا اسے خوف بھی آرہا تھا،

جنت نے اس وقت کو کوسا کہ جب اس نے اپنے منہ سے اقرار کیا، اس اکڑو سے محبت کا اقرار کیا،

اسے اب صحیح معنوں میں پچھتاوا ہو رہا تھا،

وہ اپنی سوچوں میں ہی مگن تھی کہ زوبی نے کار روک کر زرار کے ساتھ سیٹ ایکسچینج بھی کر لی تھی اور اس کو پتہ بھی نہیں چلا،

جنت کو ہوش تب آیا جب زرار ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر ڈرائیونگ سٹارٹ کر چکا تھا،

"تمہارا موڈ نہیں ہے اپنی دوست کے ساتھ بیٹھنے کا، چلو کوئی نہیں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے تمہیں اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بٹھانے میں،" زرار نے ذو معنی لہجے میں کہا،

لیکن جنت کو اس کی ذو معنی بات کا ایک معنی  بھی سمجھ نہیں آیا،

"نہیں بھائی، وہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا آپ دونوں سے سیٹس ایکسچینج بھی کر لیں، آپ کار روکیں، مجھے پیچھے بیٹھنا ہے ، زوبی کے ساتھ، پلیز آپ۔۔۔آپ کار روک دیں،" جنت ایک دم ہڑبڑا گئی تھی، اور اب خجل بھی ہو رہی تھی، اس نے گھبراتے ہوئے بمشکل اپنی بات مکمل کی،

زرار کو تو اس کے بھائی کہنے پر ہی پتنگا لگ گیا تھا۔

"میں تمہارا غلام ہوں کہ تمہارا حکم مانوں گا۔۔ آرام سے یہیں بیٹھی رہو، میں نے تم سے تمہاری مرضی نہیں پوچھی، " اس نے غصے کا پہاڑ بننے کا عملی نمونہ دیا،

اس کے ایسے لہجے پر، جنت تو دور کی بات ، زوبی بھی کانپ گئی تھی،

"میں نے کب کہا ہے کہ آپ میرے غلام ہیں۔۔اور مجھے پتہ ہے آپ کا غرور، آپ کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ آپ کسی کی مرضی کا لحاظ کریں،" جنت نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا تھا،

زرار نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی، وہ اس وقت ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا تھا،

اور اسے آج اس بات کی وجہ معلوم ہوئی تھی کہ وہ کیوں ہمیشہ، جنت سے اتنا چڑتا تھا؟؟

جنت ہمیشہ اسے بھائی کہتی تھی اور یہ بات وہ غیر ارادی طور پر ہضم نہیں کر پاتا تھا کیونکہ شاید وہ ہمیشہ سے ہی، جنت کے لیے اپنے دل میں کچھ مختلف جذبات رکھتا تھا،

"اچھا اب رو مت۔۔ ساری آؤٹنگ کا مزہ خراب ہو جائے گا۔۔موڈ صحیح کرو اپنا،" زرار نے نرمی سے، ایک نظر جنت کی طرف دیکھتے ہوئے، کہا۔

"ہاں جی،، موڈ تو صحیح کرنا پڑے گا، ورنہ بادشاہ سلامت کو لگے گا کہ انکی حکم عدولی کر کے، انکی شان میں گستاخی کی گئی ہے،" جنت نے اب زرار کے غصہ ہونے کی پرواہ کئے بغیر، اسے کھری کھری سنائی،

زرار اور زوبیہ کو ایک ساتھ، اس کے "بادشاہ سلامت" کہنے پر ہنسی آئی اور کار کے اندر کا ماحول پھر سے ہلکا پھلکا ہوگیا،

جبکہ جنت اندر سے اور جل بھن گئی،

اسے ان دونوں بھائیوں کا یہ فضول قہقہہ جو صرف جنت کو فضول لگا، بالکل پسند نہیں آیا تھا۔

"یار، تم مجھے بغیر ان الٹے سیدھے لفظوں کے اور میرے نام کے ساتھ کوئی سابقہ، لاحقہ لگائے بغیر، صرف زرار کہ کر نہیں پکار سکتیں" زرار نے مسکراتے ہوئے اپنی دلی خواہش اس کے سامنے رکھی،

زوبی کو بھی اب جا کر، اس کے ایک دم ہائپر ہونے کی وجہ سمجھ میں آئی تھی، اس لیے اس کے ہونٹ بھی، ایک بھرپور مسکراہٹ کے اثر سے ، اچھے خاصے پھیل گئے تھے،

"آپ کی حرکتیں ہیں اس لائق کہ آپ کو ، آپ کے سیدھے نام سے پکارا جائے، آپ نے تو ویسے بھی کسی حال میں کسی سے خوش نہیں ہونا، پتہ نہیں سمجھتے کیا ہیں خود کو،" جنت ابھی تک سسکیاں لے رہی تھی،

یہ اس کی پرانی عادت تھی کہ وہ روتے ہوئے سارے لحاظ بھول کر ، اپنے سارے گلے ، بغیر گھبرائے بول دیتی تھی،

"دیکھو جنت۔۔! میں تم نے آرام سے بات کر رہا ہوں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ تم مجھے کچھ بھی بول دو گی، اور دوسرا یہ کہ اب مجھے اپنے آپ کو کچھ سمجھنے کی ضرورت نہیں۔۔کیونکہ مجھے آج ہی پتہ چلا ہے کہ میں چنگیز خان ہوں۔۔ اور تیسرا یہ کہ تم مجھے بتاؤ ، وہ "کسی" ہے کون؟؟ جس سے مجھے خوش ہونا ہے؟؟" زرار نے اپنے سخت ہوتے لہجے میں شرارت گھول کر ، بات ہی گھما دی۔۔ کہ کہیں محترمہ جنت ، جنہوں نے ابھی تک سسکیوں پر گزارا کیا ہوا تھا وہ بھاں بھاں ہی نہ شروع کر دیں،

اسے پتہ تھا جنت کی عادت کا، وہ اکثر گلا پھاڑ کر ہی روتی تھی،

جنت۔۔ رونا بند کر کے اس کے سوالات پر غور کرنے لگی، پھر سمجھ میں آنے پر خوب پزل ہوئی،

"آج آپ بھی، پتہ نہیں کوے کھا کر آئیں ہیں۔۔ کب سے بولے جارہے ہیں، ورنہ تو ہر وقت، شاید منہ پر چیپی لگا کر رکھتے ہیں تبھی ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکلتا،"  جنت نے اپنی خجالت چھپانے کے لیے الٹا اسی کے ہاتھوں ، اسی کی تعریفوں کی لسٹ تھما دی،

زرار کا پارہ اس کے ہر لفظ  پر ہائی ہوتا جا رہا تھا،

اسے عادت نہیں تھی اپنے خلاف کوئی بھی فضول گفتگو سننے کی۔

"اچھا۔۔ اس کا مطلب ہے کہ احسن کی فیوچر مسز کو میرے کچھ بھی بولنے کا انتظار رہتا ہے۔۔ ہیں ناں؟؟"

اس نے ہر لفظ پر زور دیتے، جنت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا، 

جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ جنت احسن کے ساتھ رشتے پر دل سے راضی نہیں ہے، تب سے وہ جنت کو اس حوالے سے ستانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا،

اس نے جھٹکے سے کار روکی،

جنت کا ماتھا، ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا،

"اٹھو ۔۔ پیچھے جا کر بیٹھو !! اور اب ایک لفظ نہ نکلے تمہارے منہ سے،" زرار نے دانت چباتے ہوئے غصے سے کہا۔

زوبی کو اپنے بھائی کی اس حرکت پر بڑا افسوس ہوا،

جنت بھی ضد اور غصے میں زرار سے مقابلے پر اتر آئی تھی،

"نہیں جاؤں گی میں پیچھے اور نہ ہی چپ بیٹھوں گی، کر لیں جو کرنا ہے آپ کو!!!" جنت نے غصے سے زرار کو گھورتے ہوئے کہا،

اس سے اب اپنی مزید تحقیر برداشت نہیں ہو رہی تھی،

🔥🔥🔥🔥💥🔥🔥🔥

اس سے اب اپنی مزید تحقیر برداشت نہیں ہو رہی تھی،

🔥🔥🔥🔥💥🔥🔥🔥

  اس کی اس دیدہ دلیری پر زرار حیران، زوبی پریشان!

"اوہو۔۔ چیونٹی کو تو دیکھو ۔۔ کیسے پر پرزے نکال رہی ہے۔۔!!" زرار نے جل کر کہا،

"اب دیکھ لیں اپنے کام،، مجھے چیونٹی کہ رہے ہیں۔۔!! 

اور خود اپنے متعلق ایک لفظ برداشت نہیں ہوتا،،

لگتا ہے زوبی اور آپ کا میری انسلٹ کا مشترکہ پلین تھا، 

تبھی یہ زوبی کی بچی ۔۔!! مجھے دھوکہ سے اپنے ساتھ لائی ہے۔۔ 

مجھے جانا ہی نہیں آپ لوگوں کے ساتھ،

بھاڑ میں جائیں آپ لوگ۔۔!!" جنت بہت ہرٹ ہوئی تھی، زرار کے رویے سے، بہت زیادہ ہرٹ ہوئی تھی،

تبھی وہ اپنی بات مکمل کر کے، جلدی سے کار سے باہر نکلی جو اب تک روڈ کی ایک سائیڈ پر رکی ہوئی تھی،

وہ اپنے ایک تسلسل سے بہتے آنسو ، بار بار اپنی ہتھیلی سے رگڑ رہی تھی،

وہ تیز تیز قدم اٹھاتی فٹ پاتھ پر چل رہی تھی،

زرار اور زوبی بھی اسے دیکھ کر باہر نکلے تھے،

وہ دونوں اسے آوازیں دے رہے تھے،

پر وہ کسی کی بھی سنے بغیر، بس چلتی جا رہی تھیں،

اس کی آنکھیں بار بار آنسوؤں کی وجہ سے دھندلا رہی تھیں،

وہ صرف دو منٹ ہی چلی تھی کہ رونے اور تیز قدم چلانے کی وجہ سے اس کا سانس پھول گیا تھا،

وہ وہیں، سڑک سے تھوڑا اونچا بنے فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی تھی،

وہ اپنا منہ، دونوں ہاتھوں میں چھپا کر، پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی،

آج کل وہ ایسے ہی اتنی بڑی تکلیف سے گزر رہی تھی اور اوپر سے زرار کی یہ بے وجہ کی rudeness ۔۔!! وہ تو تڑپ کر رہ گئی تھی،

"جنت!!" 

اسے اپنے بائیں طرف ، اچانک سے آکر بیٹھنے والے شخص کی آواز آئی،

اس نے اپنے ہاتھ چہرے سے ہٹائے اور ویسے ہی روتے ہوئے ، پر شکوہ نظروں سے زرار کو دیکھا،

زرار نے زوبی کو کار میں واپس بھیج دیا تھا،

اب وہ وہاں جنت کے ساتھ اکیلا ہی، فٹ پاتھ پر، اسی کے انداز میں بیٹھا تھا،

جنت کا ایسے ایک دم ، اس کی پکار پر پلٹ کر دیکھنا۔۔!! اف۔۔ اس کی یک دم ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی،

زرار نے اپنے متعلق یہ کب سوچا تھا کہ وہ زرار، جس کے پیچھے پیچھے ساری دنیا بھاگتی ہے۔۔ وہ بھی کبھی کسی کو اپنے دل میں ایسی جگہ دے بیٹھے گا کہ اسے خود اس لڑکی کو منانے، راضی کرنے کے لیے پیچھے پیچھے بھاگنا پڑے گا،

پر اب تو وہ اپنے دل کی ساری ریاستوں کی حکمرانی ، اس چار فٹ نو انچ کی جنت کے نام کر چکا تھا،

پر برا ہو اس کی پرانی عادتوں کا، اس کے مزاج کا، اس کی انا کا ، اس کے غرور کا۔۔ جو اسے کھل کے عشق بھی نہیں کرنے دیتے،

جو اسے جنت کو زرار کے دل کی حکمرانی سونپنے نہیں دے رہے تھے، 

بے شک وہ یہ سب جنت کے نام کر چکا تھا،

پر صرف نام کرنا تو کافی نہیں ہوتا۔۔!! 

دل جس کے نام کیا جائے۔۔ اسے اپنے تمام اختیارات، اپنے احساسات اور اپنے جذبات سونپنا بھی تو لازمی ہے۔

وہ اپنی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے۔۔

اس حوروں جیسا رنگ روپ رکھنے والی جنت کو بہت شوق اور جذب سے دیکھ رہا تھا،

ایک طلسم تھا، جو اس کے ایسے یک دم مڑ کر دیکھنے سے، زرار کے حواسوں پر طاری ہوا تھا،

وہ چند لمحے یوں ہی، اس کے ناقابل یقین حد تک حسین چہرے کو سحر زدہ سا ہوکر دیکھتا رہا،

پر وہ سحر لمحوں پر محیط تھا، سو زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتا تھا ،،

اسے ٹوٹنا تھا،

سو وہ ٹوٹ گیا،

"کیا مسئلہ ہے آپ کو؟؟ کیوں گھور رہے ہیں مجھے۔۔" جنت نے لفظ چلاتے ہوئے غصے سے کہا،

اسے اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کی وجہ سے ٹھہرے دھندلے پن کے باعث۔۔

زرار کی نظروں میں اپنے لیے دیوانگی اور وارفتگی دکھائی ہی نہیں دی،

" مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں۔۔ میں بس سوری بولنے آیا تھا،" زرار نے اپنے لہجے کو نرم اور میٹھا رکھا،

"سوری۔۔ اور آپ۔۔؟؟ ایسا تو میں اپنے خیال میں بھی نہیں سوچ سکتی،،،،،

 ضرور۔۔!! میرے لیے کوئی تذلیلی جملہ یا پھر کوئی جلی کٹی بات ، آپ کے منہ سے نکلنے سے رہ گئی ہوگی۔۔ چلیں کر لیں اپنا دل ٹھنڈا، کر لیں۔۔جتنی انسلٹ کرنی ہے آپ کو۔۔ آپ کو ایسے خوشی ملتی ہے تو ایسا ہی صحیح۔۔!!" جنت نے زرار کو شرمندہ کرنے کی خوب کوشش کی،

اور وہ اچھی طرح شرمندہ ہو بھی رہا تھا،

جنت ابھی اور بھی بہت بولنے والی تھی کہ زرار نے اپنے سیدھے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اس کے ہونٹوں پر رکھی،،

سو مجبوراً جنت کو خاموش ہونا پڑا،

زرار کی اس اچانک حرکت پر جنت گڑبڑا کر رہ گئی،

اس کا دل تھا۔۔کہ عجب لے میں دھڑکنے لگا تھا،

زرار کا لمس۔۔!! 

اس کے اندر تک ایک سنسناہٹ دوڑی تھی،

"سنو۔۔ میں سچ میں  اپنے کہے لفظوں کے لیے برا محسوس کررہا ہوں، پلیز معاف کر دو۔۔ دیکھو مجھے اچھے سے معافی مانگنی نہیں آتی، پر میں جانتا ہوں، تم بہت اچھی ہو اور تم مجھے معاف کرو گی نہ؟؟" زرار بچوں کی طرح، اپنے دونوں کان پکڑے۔۔۔ اپنی آنکھوں میں عجیب چمک لیے۔۔مسکراتے ہوئے بول رہا تھا،

وہاں آتی جاتی گاڑیاں رک رک کر انہیں دیکھتے ہوئے، گزر رہی تھیں۔

جنت کو یہ سب awkward لگ رہا تھا،

اور اوپر سے زرار کا ایسے معافی مانگنا۔۔

اسے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر، 

آخر ماننا ہی پڑا،

پر وہ زوبی سے ابھی تک خفا تھی،

اور اس کی کسی بھی بات کا ڈھنگ سے جواب نہیں دے رہی تھی،

اگلے پانچ منٹ میں وہ لوگ آئس کریم پارلر میں موجود تھے،

زرار نے ڈنر کی آفر کی تھی پر جنت کا موڈ نہیں تھا سو اس لیے وہ سیدھا یہیں آئے تھے،

زرار زوبی اور جنت کے سامنے مینیو کارڈ رکھے فلیور کا پوچھ رہا تھا کہ "کونسا کھانا ہے؟"

زوبی نے تو یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ "کوئی بھی آرڈر کر لیں۔۔" کیوں کہ اس کے نزدیک۔۔آئس کریم تو آئس ہوتی ہے، چاہے کوئی بھی فلیور ہو اس کا،

جبکہ جنت نے پورے تین منٹ تک مینیو کارڈ کو گھورنے کے بعد، بڑے بڑے حروف میں لکھے "پائن ایپل آئسکریم" پر انگلی رکھی،

زرار نے ویٹر کو بلا کر تین پائن ایپل آئسکریمز آرڈر کیں۔

"پر بھائی آپ تو ہمیشہ چاکلیٹ فلیور ہی لیتے ہیں۔۔" زوبی نے ویٹر کے جانے کے بعد، تھوڑی حیرانی سے کہا۔

"میں نے سوچا کہ آج میں کیوں نا "کسی" کو خوش کرنے کے لیے اس کا فیورٹ فلیور ٹرائی کروں،" زرار نے شرارت سے "کسی" لفظ پر خاصا دباؤ ڈال کر شرارت سے کہا،

جنت سر جھکائے اس کی اس شرارت سے محظوظ ہورہی تھی،

لیکن وہ اب تک زوبی کو کوئی لفٹ نہیں کرا رہی تھی،

ابھی بھی زوبی نے اسے کوئی بات کہی تھی جس کا جنت  نے کوئی رسپانس نہیں دیا،

زرار بہت شوق سے اس کے چہرے پر روٹھے روٹھے تاثرات دیکھ رہا تھا،

راضی تو وہ زرار سے بھی اچھی طرح نہیں ہوئی تھی لیکن زوبی کے ساتھ اس کا معاملہ زیادہ گڑبڑ تھا،

اب بھلا ۔۔ اتنی انسلٹ اور برسوں کی بے رخی کا درد وہ صرف ایک دفع اس کے کان پکڑنے پر تھوڑی بھلا سکتی تھی،

اور اوپر سے زرار نے۔۔ جو بار بار، کسی نہ کسی بات پر احسن کا نام لے کر جلایا تھا، وہ بھی جنت کو کہاں بھولا تھا،

اس نے تو سوچ لیا تھا کہ اب وہ بالکل بھی احسن کے نام پر نہیں گھبرائے گی، اسے مضبوط بن کر اپنے اور اس کے رشتے کو ساری دنیا کے سامنے پورے اعتماد سے قبول کرنا ہے،

زرار نے ابھی تک کوئی واضح اظہار بھی تو نہیں کیا تھا ناں کہ جس کی بنیاد پر جنت اس کو اپنے دل سے نکالنے والے فیصلے پر دوبارا سے غور کرتی۔

اسے ہر حال میں زرار سے نفرت کرنی تھی،

کیونکہ وہ کسی اور کی امانت تھی،

اور وہ اس امانت میں کسی بھی قسم کی خیانت کر کے اپنے والدین کا سر نیچا نہیں کر سکتی تھی،

وہ زرار جیسے اکڑو کے لیے، صرف ایک دفع کان پکڑنے پر، اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی،

وہ آئس کریم سے انصاف کرنے کے بعد اپنی کار تک واپس آئے،

تو زرار ان دونوں کو وہیں کھڑا کر کے ، کار کی چابی لینے کے بہانے واپس اندر گیا،

جو وہ جان بوجھ کر ٹیبل پر چھوڑ کر آیا تھا،

اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی ہے۔۔

اس نے ان دونوں کی ایک پکچر ثبوت کے طور پر اپنے موبائل میں capture کی اور باہر نکل آیا،

اب کی بار جنت۔۔ بیک سیٹ پر زوبی کے ساتھ ہی بیٹھی تھی،

آدھے راستے تک ، زوبی نے اسے اپنی باتوں میں لگا کر منا ہی لیا تھا،

___×××××___

اب زرار کی ساری بے چینی ختم ہو گئی تھی،

جنت کو دیکھنے کے بعد تو ویسے ہی اس کا دل پر سکون ہوگیا تھا،

اب وہ اپنے بیڈ پر لیٹے۔۔ کچھ دیر پہلے والے واقعات کو پھر سے یاد کرنے لگا،

وہ جنت کی ساری باتیں سوچ سوچ کر مسکرائے جا رہا تھا،

اور یوں ہی مسکراتے مسکراتے جلدی سے سو بھی گیا۔۔

_____×××____

وہاں جنت کچھ پریشان سی تھی،

زرار کا رویہ ۔۔ اس کے تاثرات، اسے آج، معمول سے ہٹ کر محسوس ہوئے،

وہ اپنے ساتھ اس کے عجیب طرزِ عمل کے متعلق کوئی واضح اندازہ نہیں لگا پائی،

اور اسے ، زرار کے behavior  سے جو تھوڑے بہت، مبہم سے اشارے ملے تھے،

ان پر تو وہ چاہ کر بھی یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

اور اسے ، زرار کے behavior  سے جو تھوڑے بہت، مبہم سے اشارے ملے تھے،

ان پر تو وہ چاہ کر بھی یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔

وہ یوں ہی کچھ دیر تک۔۔ اپنی سوچوں سے الجھتی رہی،

اور بالآخر نیند کے اثر سے مغلوب ہو کر وہ پر سکون سی سو گئی،

پتہ نہیں اس کی بے چینی ، اس کی تکلیف ۔۔ اس کا غم ، اپنے عشق کو مارنے کا درد ، سب غائب ہوگیا تھا،

زرار کی اتنی سی دیر کی کمپنی نے ۔۔ اس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا تھا،

اور جنت بی بی کو پتہ بھی نہیں چلا،

اب اسے ایک بار پھر سے اس تکلیف سے گزرنا تھا،

اسے پھر سے اپنی محبت مارنی تھی، جو پتہ کہاں سے اتنی طاقتور ہو کر، پھر سے اس کے دل میں ڈیرا ڈال چکی تھی،

وہ بری لڑکی نہیں بننا چاہتی تھی،

وہ اپنے دل و دماغ کی تمام تر رضامندیوں سے احسن کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتی تھی،

پر دل تھا کہ بغاوت پر تلا ہوا تھا،

اور وہ اپنے دل کی اس بغاوت سے بے خبر، بہت سکون سے محوِ خواب تھی،

××××××××

تین چار دن بالکل معمول کے مطابق گزرے،

ان دنوں میں جنت نے ایک دفع تو زوبی کی کلاس بھی لی تھی۔۔ کہ وہ اپنی اوٹپٹانگ حرکتیں چھوڑ دے اور اس کی کہی باتیں، کسی سے بھی ہر گز ، شیئر نہ کرے۔۔ اور زرار سے تو بالکل بھی، اس کے متعلق کوئی بات نہ کرے،

اسے زوبیہ اور زرار کا دھوکے سے آئسکریم کے لیے لے کے جانے والا منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھایا،

اس نے صاف الفاظ میں زوبی کو اپنے معاملے سے دور رہنے کی تلقین کی،

وہ اپنے دل سے زرار کی لائف پارٹنر بننے کے سارے وہم نکال چکی تھی،

اور خود کو بہت مشکل سے ، زرار کی محبت سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا تھا،

اس نے ہاتھ جوڑ کر زوبی سے درخواست کی کہ وہ مزید اس کے لیے مشکلات نہ کھڑی کرے،

×××××

زرار بھی تین چار دنوں تک بہت بزی رہا تھا،

کالج میں ایڈمیشنز بھیجنے کا سلسلہ اور پھر چند ایک ضروری کام۔۔!!

ان کی وجہ سے وہ اپنا کوئی لیکچر بھی نہیں لے پایا،

اور اتنے کام اور مصروفیات کے باوجود بھی مزاج میں تبدیلی، اضطراب، دیوانگی۔۔۔ اب تک قائم تھی،

ظاہر ہے ، اسے تسکین، صرف جنت کی صورت میں ہی مل سکتی تھی۔۔۔

اور وہ اسے وہ اسکی لاکھ کوشش کے باوجود بھی کہیں نہیں دکھائی دی،

کیونکہ کچھ احتیاط تو وہ خود بھی برت رہی تھی،

اسے زرار کا آخری رویہ اب تک نہیں بھولا تھا،

××××××××

اب فائنلی ویک اینڈ تھا،

زرار اپنے سارے کام نبٹا چکا تھا،

اب وہ بالکل فارغ تھا،

وہ گھر سے باہر جانے کے ارادے سے اپنے روم سے نکلا تھا کہ لاونج میں بیٹھے زریاب اور زوبیہ کو لڈو کھیلتا دیکھ کر ، انہی کے پاس آ کر بیٹھ گیا،

"السلام علیکم بھائی" زریاب نے خوشدلی سے سلام کیا ،

زرار نے بھی جواباً اتنی ہی خوشدلی سے "وعلیکم السلام" کہا،

جبکہ زوبیہ خاموش ہی رہی ، اس نے ایک نظر اپنے اس کھڑوس بھائی کو دیکھا،

جس نے اس دن کے بعد سے اپنے اور جنت کے معاملے میں کوئی پراگریس ہی نہیں دکھائی تھی،

"بس ایک دن کا عشق تھا۔۔ان کا" زوبی نے جل کر سوچا،

اب وہ اپنی طرف سے تو وہ کوئی خاص کوششیں جاری نہیں رکھ سکتی تھی،

کیونکہ جنت نے جو اسے منع کیا تھا،

"اور سناؤ کیا حال چال ہیں؟؟" زرار نے ایسے پوچھا کہ جیسے وہ کافی عرصے بعد مل رہے ہوں،

"میں تو ٹھیک ہوں بھائی پر آپ کو شاید کچھ ہوا ہے۔۔

دو تین دن سے میں نے خود بھی نوٹ کیا ہے اور کچھ اسٹوڈنٹس کو بھی آپس میں بات کرتے سنا تھا کہ زرار سر آج کل کچھ بدلے بدلے لگتے ہیں،" زریاب نے زوبی کی پکی گوٹی مارتے ہوئے مزے سے کہا،

"نہیں۔۔ ایسی تو کوئی بات نہیں، وہم ہے تمہارا بس،" زرار صاف مکر گیا،

اس پر تو جنت کو پتنگا لگ گیا،

اب بندے میں ایسا بھی ڈھیٹ پن نا ہو۔۔ کہ بندہ اپنی محبت کا اقرار اور اظہار کرنے سے ہی مکر جائے،

"کچھ تو ہے بھائی۔۔!! کچھ تو ہے۔۔!! وہ مجھ سے دو تین ٹیچرز نے بھی پوچھا تھا کہ زرار سر کو کچھ ہوا ہے۔۔آج کل عجیب اجڑے شہزادے بن کر گھومتے ہیں،"  زریاب نے زرار کے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھ کر شرارت سے کہا،

"کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ ہے۔۔!! پر آپ بھائی کے ساتھ مغزماری نہ کریں، یہ نہیں اگلنے والے، جب اپنی محبت کو کسی اور کے ساتھ رخصت ہوتا دیکھیں گے ناں تو پھر انہیں عقل آئے گی،" زوبی تو اپنے دل میں آئی بات، بغیر کوئی لحاظ کئے، زریاب کے سامنے بول کر ہی وہاں سے اٹھ گئی،

اور ایک ہاتھ مار کر ، لڈو کی ساری گوٹیاں تہس نہس  کر کے غصے میں وہاں سے اٹھی تھی،

اس سے جنت کی کی ہر پل مرتی ''زندہ دلی" کا تماشہ نہیں دیکھا جاتا تھا،،

اس سے ، اپنی سہیلی کا تنہائی میں بیٹھ کر، اس لاپرواہ اور کھڑوس انسان کے لیے آنسو بہانا برداشت نہیں ہوتا تھا،

اسے تکلیف ہوتی تھی، جنت کو اس کے دل کے ہاتھوں مجبور دیکھ کر،

وہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی، زرار سے نفرت کرنے میں ناکام رہی تھی،

اور یہ بات اس نے کسی کو بتائی نہیں تھی،

لیکن زوبی کی چھٹی حس آج کل ایسی تیز ہوگئی تھی کہ زرار اور جنت کے اندر مچلتے طوفانوں کو بخوبی دیکھ سکتی تھی،

×××××××

"بھائی یہ زوبی کیا کہ کر گئی ہے۔۔؟" زریاب نے حیرانی سے پوچھا،

"کچھ نہیں۔۔ تم چھوڑو اسے۔۔ مجھے یہ بتاؤ کہ احسن اپنے رشتے پر دل سے رضامند تھا یا خالہ کے دباؤ میں آکر۔۔۔ وہ یہ شادی کر رہا ہے۔۔ تم سے اس لیے پوچھ رہا ہوں کیونکہ تم اس کے دوست ہو۔۔ جانتے ہوگے یہ سب۔۔" زرار نے اس کی بات کو اگنور کرتے ہوئے، اپنے دل میں آتا سوال پوچھا،

اسے فی الحال زوبی کی بدتمیزی پر  بھی غصہ نہیں آیا ،

زریاب کو کچھ کچھ بات سمجھ آ رہی تھی،

وہ چھوٹا بچہ تو تھا نہیں کہ زوبی کی بات ، زرار کے رویے اور سوال سے مطلب نہ اخذکر پاتا،

سو اس لیے اس نے اپنے بھائی کو تمام حقیقت بتانے میں ہی بھلائی سمجھی،

"جی بھائی وہ خالہ کی ضد اور اصرار پر ہی یہ شادی کر رہا ہے، خالہ نے پتہ نہیں کیسے کیسے ایموشنل بلیک میل کر کے، اسے زبردستی راضی کیا تھا،" زریاب نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا،

زرار کے چہرے پر نرم سی، ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی،

"ہاں جانتا ہوں، خالہ کو ہمیشہ سے ہی جنت کی دولت اور اس کا اکلوتا ہونا، بہت اٹریکٹ کرتا تھا، " اس نے طنز بھرے لہجے میں کہا،

"وہ تو صحیح ہے۔۔ لیکن مجھے یہ بتائیں کہ آپ کو کوئی لڑکی کب سے اٹریکٹ کرنے لگی،" زریاب نے ایک آنکھ مارتے ہوئے شرارت سے کہا

"بکواس نہیں کرو۔۔ اور خاموش بیٹھو، میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی،" زرار نے سخت لہجے میں کہا،

"واہ جی واہ، ساری پابندیاں، بس مجھ پر ہی۔۔ ایک تو آپ نے اس زوبی چڑیل کو کیوں کچھ نہیں کہا؟؟ جو میری جیتی جتائی گیم الٹ کر چلی گئی،" زریاب نے ، زرار کے ٹوکنے پر جل کر کہا،

"میں نے کہا ناں بکواس نہیں کرو۔۔ مجھے یہ بتاؤ کہ وہ کسی اور میں تو انوالو نہیں ہے۔۔؟؟" اس نے ماتھے پر بل لاتے ہوئے پوچھا،

"جی بھائی۔۔ وہ اپنی کسی کلاس فیلو کو بہت پسند کرتا ہے، پر اسٹیٹس کے فرق کی وجہ سے ، خالہ کو وہ لڑکی بالکل نہیں، اب اس میں اس لڑکی کا تو کوئی قصور نہیں ناں کہ وہ مڈل کلاس فیملی سے ہے،" زریاب نے اپنے دوست کے لیے افسوس محسوس کرتے ہوئے کہا،

زرار کی تو لاٹری ہی نکل آئی تھی،

بے شک وہ اوپر سے جنت کے لیے اپنی بے تابی کا اظہار کرنے سے ہچکچاتا تھا،

لیکن اندر سے اسے بھی ، اس کی شادی کی اتنی ہی ٹینشن تھی،

اس نے سیکنڈز میں ہی اپنا پلین ترتیب دیا،

زریاب ابھی تک کسی اور سوال کے انتظار میں، خاموشی سے زرار کے چہرے کی طرف ہی دیکھ رہا تھا کہ زوبی وہاں آ ٹپکی،

"زریاب بھائی جلدی اٹھیں، خالہ کا فون آیا ہے، وہ کہہ رہی تھیں کہ جنت  کو لے کر مارکیٹ آجاؤ ، انہوں نے اس کے ولیمے کا ڈریس سلیکٹ کرنا ہے ناں، اس لیے، آپ جلدی سے کار نکالیں، ہم جنت کو اس کے گھر سے پک کر لیتے ہیں،" زوبی نے زرار کو فل اگنور کیے، جلدی جلدی ساری بات کی،

زریاب ابھی فارغ نہیں، اسے کہیں اور جانا ہے۔۔

میں لے چلتا ہوں،

زرار نے اپنی گھمبیر آواز میں ، اپنا حکم سنایا،

زریاب پریشان۔۔!! کہ اسے بھلا کہاں جانا ہے۔۔

پھر اپنے بھائی کی چالاکی سمجھتے ہوئے اس نے اپنی ہنسی دبائی،

"نہیں بھائی۔۔ مجھے تو کوئی کام نہیں، اور اگر ہوتا بھی تو میں اپنا کام بعد میں کر لیتا، کوئی نہیں، میں لے جاتا ہوں، مجھے بھی ذرا تجرںہ ہو جائے گا،" زریاب نے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے زرار کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی، 

زرار تلملا کر رہ گیا تھا،

ایک تو بچارے کو محبت کیا ہوئی کہ اس کے دونوں بہن بھائی ہی اس کے ہاتھ سے نکل گئے تھے،

دونوں پر اس کے رعب دبدبے کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا،

زرار نے ایک غصے بھری گھوری اپنے بھائی پر ڈالی،

جس کا اس نے کوئی اثر نہیں لیا، 

الٹا وہ ہنستے ہوئے، اس نے، سامنے ہی ٹیبل پر، لڈو کے ساتھ پڑی کار کی چابی اٹھائی، اور زوبی کو چلنے کا کہ کر، خود بھی اپنی جگہ سے اٹھا،

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

الٹا ہنستے ہوئے، اس نے، سامنے ہی ٹیبل پر، لڈو کے ساتھ پڑی کار کی چابی اٹھائی، اور زوبی کو چلنے کا کہ کر، خود بھی اپنی جگہ سے اٹھا،

زرار کو زریاب پر بہت غصہ آیا،

پر اس وقت وہ کوئی بدمزگی نہیں چاہتا تھا،

زوبیہ، زریاب کے ساتھ ہی، کار میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی،

زریاب کار اسٹارٹ کرنے ہی لگا تھا،

کہ زرار نے کار کا بیک ڈور کھولا اور ڈھیٹوں کی طرح آکر بیٹھ گیا،

زراز فرنٹ مرر میں نظر آتے، زریاب کے مسکراتے چہرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا،

زوبیہ نے بھی پیچھے مڑ کر زرار کی طرف دیکھا

تو بمشکل اپنے منہ سے برآمد ہونے والے قہقہے کو اندر ہی رکھا،

اور زرار مسلسل، اپنے بہن اور بھائی کے مذاق اڑانے والے تاثرات دیکھ کر جل رہا تھا،

ظاہر ہے۔۔یہاں مذاق اس کا اڑایا جا رہا تھا،

اور زرار سے ، اپنے متعلق کوئی بات کب برداشت ہوتی ہے!!

پر اب تو وہ برداشت کر رہا تھا،

اور بہت تحمل سے برداشت کر رہا تھا،

زریاب نے کار جنت کے گھر کے باہر روکی تو وہ وہاں پہلے سے ہی گیٹ کے سامنے کھڑی تھی،کیونکہ زوبی پہلے ہی اسے بھی فون پر ریڈی رہنے کا بول دیا تھا،

زرار  ذرا نیچے کو، اپنے سنیکر کا تسمہ سیٹ کرنے کا بہانا کرتے ہوئے نیچے کو جھکا تھا،

اس لیے جنت اسے باہر سے دیکھ نہیں پائی اور وہ وہیں بیک سیٹ کا ڈور کھول کر بیٹھنے لگی تو زرار کو وہاں پہلے سے بیٹھا دیکھ کر، ایک دم بوکھلا گئی،

مصیبت ہی تھی اس کے لیے تو،

زرار اسے منتظر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ وہ آئے اور اس کے پہلو میں بیٹھے،

جنت بچاری۔۔!!

کنفیوز سی وہیں پر کھڑی تھی،

"احسن کی فیوچر مسز، بیٹھنے کے ارادے نہیں ہیں کیا، وہاں تمہاری ساس پلس ہونے والا ہزبینڈ انتظار کر رہے ہوں گے۔۔!!" زرار کو بھی پتہ نہیں کیا مسئلہ تھا،

وہ ایسی فضول جلی کٹی سنانے سے خود کو روک نہیں سکا،

شاید اپنے بہن بھائی کا غصہ تھا، جسے اس نے جنت پر طنز کر کے نکالا، اب وہ اپنی زبان کے اس طرح پھسلنے پر تھوڑا شرمندہ ہوا لیکن اس نے اپنی مغرورانہ عادت کے باعث ، اپنی ساری شرمندگی بھلا دی،

زرار کے سلگتے جملے پر، جنت نے تڑپ کر اسے دیکھا،

اور پھر اپنے تاثرات میں سختی لاتے، غصے میں بالکل ڈور کے ساتھ ہی چپک کر بیٹھ گئی،

وہ مسلسل ونڈو سے باہر دیکھ رہی تھی اور ساتھ میں ہی زوبی اور زریاب کی گفتگو میں بھی حصہ ملاتی رہی،

شکر تھا کہ زرار چپ بیٹھا تھا،

پر چپ رہ کر بھی اس نے جنت کی جان سلگائی ہوئی تھی،

اس نے جنت کا ناراض چہرہ مسلسل اپنی نگاہوں کے فوکس میں رکھا ہوا تھا،

جنت اس کی اس مسلسل حرکت سے کوفت کا شکار ہو رہی تھی، کیونکہ زریاب نے فرنٹ مرر سے زرار کا یہ عمل نوٹ کر لیا تھا اور دو دفع اپنے بڑے بھائی کو ٹوک بھی چکا تھا،

پر زرار نے تو ڈھیٹ بننے کی قسم کھائی ہوئی تھی،

اس لیے وہ اپنی حرکت سے قطعاً باز نہیں آیا،

××××××

مارکیٹ پہنچتے ہی زریاب اور زوبی جنت کو بوتیک لے گئے جہاں احسن اور خالہ پہلے ہی سے موجود تھے،

احسن کی نظروں میں جنت کے لیے کوئی خوش آمدیدی تاثر نہیں تھا جبکہ خالہ بہت اپنائیت بھرے انداز میں جنت سے ملیں،

احسن جنت کی ڈریس سلیکشن میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہا تھا،

زرار اس کا ہر ایک عمل بہت گہرائی سے نوٹ کر رہا تھا،

پھر وہ احسن کی واضح اکتاہٹ کو بھانپتے ہوئے،

اسے بوتیک کے عین سامنے موجود کیفے میں کافی پلانے لے گیا، یہاں وہ آرام سے اس سے بات کر سکتا تھا،

احسن نے اس کی پیشکش آرام سے قبول کر لی تھی،

لیکن وہ زرار سے بات کرتے ہوئے کسی قسم کی گرمجوشی کا تبادلہ نہ کر سکا،

کیونکہ اسے بھی زرار کا زبردستی جنت کے والدین کو رشتے کے لیے راضی کرنے والا کارنامہ بالکل پسند نہیں آیا تھا،

"میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے رشتے سے شاید خوش نہیں ہو،" زرار نے دو کپ کافی اور سینڈوچز آرڈر کرنے کے بعد، گہری نظروں سے احسن کے تاثرات جانچتے ہوئے، گفتگو کا آغاز کیا،

"آپ کو ایسا کیوں لگا، اور کیا فرق پڑتا ہے آپ کو،میرے خوش ہونے نہ ہونے سے،" احسن نے اکھڑے لہجے میں کہا،

"تمہاری شکل پر لکھا ہے کہ تم خوش نہیں،

تمہارے خوش ہونے یا نہ ہونے سے ، یقیناً مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا،

لیکن یہاں معاملہ دو زندگیوں کا ہے،

بھلا اس طرح تم جنت کو کیسے خوش رکھ سکو ہے،" زرار نے تحمل سے بات آگے بڑھائی،

"بھائی یہ بات۔۔ویسے آپ کو ذرا پہلے پوچھنی چاہیے تھی، اب پانی سر سے گزر چکا ہے، ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں، ویسے بھی میں اس رشتے کو قبول کر چکا ہوں اور میں نے سعدیہ کو بھی انکار کردیا ہے،" احسن نے بے دھیانی میں سعدیہ ، بھی نام بول دیا،

"یہ سعدیہ کون ہے۔۔؟؟" زرار نے فوراً اس کی بات پکڑی،

"کک کوئی نہیں بھائی،" احسن بوکھلا گیا تھا،

"دیکھو۔۔ جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں،

میں نے دیکھا تھا تمہیں کچھ دنوں پہلے اس کے ساتھ،

وہ کالے عبایا میں موجود لڑکی اچھی تھی،

اگر تم ساری بات سچ سچ بتادو گے تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں، مجھے تم اپنا بڑا بھائی سمجھ کر سب کچھ شئیر کر سکتے ہو،"   

زرار کا رویہ بے حد پولائیٹ اور میٹھا تھا،

احسن کو کچھ کھٹکا سا ہوا،

کیونکہ اس نے زرار کو اس قدر شائستگی سے بات کرتے، آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا،

پر پھر بھی، اسے اپنا کام بنتا نظر آیا تو اس نے ساری کہانی بتادی۔۔۔

 کہ وہ سعدیہ کو گزشتہ چار سالوں سے بے حد چاہتا ہے پر اس کی امی کسی طرح اس کی شادی سعدیہ سے کرانے پر رضامند نہیں،

اس لیے پھر اس دن اس نے سعدیہ کو ملنے کے لیے بلایا تھا، 

اور وہ پہلی بار ، اس طرح اس کے کہنے پر ملنے آئی تھی،

 وہ احسن کی شادی کا سن کر بہت ہرٹ ہوئی تھی،

اور وہ احسن سے بہت خفا ہو کر، روتے  ہوئے اپنے گھر واپس گئی تھی،

احسن نے بہت افسوس سے سارا ماجرا بتایا،

"اب تم واقعی سعدیہ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو۔۔ میرے پاس ایک پلین ہے۔۔

اور ہاں وہ جو تمہیں اپنے بزنس کے لیے لون چاہیے تھا ناں، اس کے لیے اب تمہیں بینک جانے کی کوئی ضرورت نہیں، اس کی کی ٹینشن مت لینا،"

زرار نے اسے اچھی طرح ٹریپ کرلیا تھا،

اس نے گزشتہ دنوں میں احسن کے متعلق ساری معلومات حاصل کر لیں تھیں، اس لیے اب اس کو اپنے جال میں پھنسانے میں، زرار کو زیادہ مشکل نہیں ہوئی،

اور وہ بھی بھولا کہیں کا، بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کی باتوں پر ہاں ہاں میں سر ہلایا جا رہا تھا،

زرار نے احسن کے پوچنے پر، اپنا مکمل پلین، اسے بتایا،

احسن کو اس کا سارا منصوبہ پسند آیا پر اس سب میں بھی اسے ایک بات پریشان کر رہ تھی کہ جنت کا کیا ہوگا!

زرار نے اسے تسلی دی کہ وہ جنت کی فکر نہ کرے،

پر پھر بھی، احسن تھوڑا ہچکچاہٹ کا شکار تھا،

کیونکہ جو بھی تھا، لیکن وہ اپنے دل کی نرمی کے باعث ایسے کسی کو ہرٹ کرنے کی وجہ نہیں بننا چاہتا تھا،

پہلے ہی، اس سے ، سعدیہ کو انکار کرنے کا گلٹ برداشت نہیں ہو رہا تھا،

جنت لڑکی تھی، اور وہ جانتا تھا کہ لڑکیوں کی عزت کتنی نازک ہوتی ہے، پر وہ تھا تو انسان ہی، "مطلب پرست انسان!!"

اس لیے اس نے تھوڑے تردد کے بعد زرار کے پلین پر عمل کرنے کی حامی بھر لی تھی،

×××××××

ایک خوشی تھی،

جو احسن کے، اتنی آسانی سے راستے سے ہٹنے پر،

زرار کے ہر انداز سے چھلک رہی تھی،

اس نے جلدی جلدی اپنی کافی ختم کی،

اور جلدی سے احسن کو ساتھ لیے، واپس اسی برائیڈل بوتیک میں گھس گیا،

"چلو بچے۔۔ تم بھی اپنی دلہن کے لیے کچھ پسند کرلو۔۔!" زرار نے شرارت سے احسن کے کان میں سرگوشی کی،

"اور آپ اپنی دلہن کے لیے۔۔" احسن نے جواباً، تھوڑی کمینگی والے لہجے میں کہا، وہ بھی منا کاکا تو تھا نہیں، جو زرار کے سارے پلین کے پیچھے چھپی وجہ نہ سمجھ سکتا،

"مطلب کیا ہے تمہارا،؟؟" زرار نے ذرا غصے سے ، دھیمی آواز میں ، اپنے جبڑے بھینچتے ہوئے کہا،

"مجھے سمجھ آگئی ہے بھائی، آپ کس کے لیے اتنے پاپڑ بیل رہے ہیں،" احسن ابھی بھی۔ دل جلے لہجے میں، ہلکی پھلکی کمینگی کا تاثر دیتا،اپنی بات مکمل کر گیا،

عجیب معاملہ تھا،

کہ جس کسی کو بھی زرار کے دل کا راز پتہ چلتا،

اس کے دل سے زرار کا رعب و دبدبہ ہی ختم ہوجاتا،

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

عجیب معاملہ تھا،

کہ جس کسی کو بھی زرار کے دل کا راز پتہ چلتا،

اس کے دل سے زرار کا رعب و دبدبہ ہی ختم ہوجاتا،

بہرحال، زرار نے احسن کو اکیلا چھوڑا اور خود بڑی دلچسپی سے جنت اور خالہ کو مشورے دینے لگا،

جس جوڑے پر زرار انگلی رکھتا،

جنت اس جوڑے کو آنکھ بھر کر دیکھنے سے بھی پرہیز کرتی،

 چار گھنٹے کی مغزماری کے بعد، جنت کو آخر ایک ڈریس پسند آہی گیا،

وہ ہاٹ پنک اور سلور کمبینیشن والا ، انتہائی خوبصورت اور نفیس، جوڑا، زرار کو پہلی نظر میں ہی، وہاں موجود باقی جوڑوں میں سے سب سے زیادہ اچھا اور منفرد لگا تھا،

اور مسئلہ یہ تھا کہ وہ جس بھی ڈریس پر ہاتھ رکھتا،

جنت اسے فوراً ریجکیٹ کردیتی،

اس لیے زرار نے ایک ایک کر کے ہرڈریس میں اپنی اچھی رائے دی، 

اور اس ڈریس میں، جو اسے سب سے زیادہ پسند آیا تھا، تین چار نقص نکال کر یہ جتانے کی کوشش کی کہ یہ جوڑا تو اسے بالکل نہیں اچھا لگا،

جنت بھولی، اس کی چالاکی کا شکار ہوگئی،

اور اس نے ضد میں وہی والا پیس پیک کروا لیا،

زرار کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی،

جسے چھپانے کے لیے، وہ جلدی سے وہاں سے غائب ہوا،

وہ بہت خوش تھا کہ احسن نے جلدی سے ، بغیر کسی پس و پیش کے، اس کی بات مان لی تھی،

اب جنت کو حاصل کرنے کے لیے اس کا راستہ صاف تھا،

لیکن ایک کام تو ابھی بھی باقی تھا،

اسے جنت کی مرضی بھی تو جاننی تھی،

لیکن اسے ، اس کی مرضی صرف جاننی تھی،

اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر وہ انکار بھی کرے، تو بھی وہ اسی سے شادی کرے گا،

اور وہ جتنا resist کرے گی، یہ اتنی ہی ہٹ دھرمی اور زبردستی سے کام لے گا،

اب کی بار، یعنی واپسی میں، زرار نے زوبی کو پھر سے تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا، اس لیے وہ بغیر کوئی پنگا لیے، شرافت سے، زریاب کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا،

××××××××

زوبی کو اپنے بھائی کا اطمینان بہت کھل رہا تھا،

وہ حیران تھی، کہ زوبی کی شادی کو صرف سترہ دن باقی تھے، اور زرار صاحب نے ابھی تک کوئی ہاتھ پاؤں مارنے کی ہی زحمت نہیں کی،

اسے جنت کی حالت پر بہت افسوس ہوتا تھا،

وہ بے چاری، اپنے جذبات سے سمجھوتا کرنے کے چکر میں، اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ رہی تھی،

زوبی کو بار بار، یہ بات چین ہی نہیں لینے دیتی تھی،

پر جنت۔۔ جنت اپنے فیصلے پر بے شک بہت تکلیف میں تھی لیکن وہ مطمئن تھی،

اسے اطمینان تھا کہ اس نے اس مغرور آدمی  کی محبت کی خاطر ، خود کو گرایا نہیں تھا،

اس نے زرار کے سامنے اپنے عشق کا اظہار ، نہ کر کے، خود کو ناقدری سے بچا لیا تھا،

اس نے اپنے والدین کی عزت اور تکریم کی حفاظت کے لیے، ان کا فیصلہ بہت احترام سے تسلیم کیا تھا،

اس لیے وہ ناخوش ہونے کے باوجود بہت مطمئن تھی،

×××××××××

زرار نے اپنی محنت اور قائل کرنے کی زبردست صلاحیت  سے جلد ہی سعدیہ کی والدہ جو کہ اس کی واحد سرپرست تھیں، انہیں سعدیہ اور احسن کے نکاح کے لیے منا لیا تھا،

اب وہ خود بطور گواہ وہاں سعدیہ کے گھر، اس کے اور احسن کے نکاح میں شامل تھا،

اس کی خوشی تھی کہ سنبھلنے میں ہی نہیں آ رہی تھی،

چلو کم سے کم ایک ٹینشن تو سر سے اتری تھی،

اب اسے اپنی ساری فیملی کے سامنے، جنت کے ساتھ اپنی شادی کی خواہش کا بم پھاڑنا تھا،

اور اسے یہ سب اب بہت جلدی کرنا تھا،

کیونکہ شادی میں صرف تیرہ دن باقی تھے،

××××××××××

وہ رات دس بجے کے بعد گھر آیا تھا،

اسے جنت کو وہاں، اس کے گھر میں ہی ، زوبی کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھا دیکھ کر، خوش گوار حیرت ہوئی،

دراصل جنت کے پیرینٹس ، اس کے ددھیالی خاندان کو، شادی میں بذات خود، انوائیٹ کرنے کی غرض سے، آؤٹ آف سٹی گئے تھے،

اس لیے جنت نے آج رات زوبی کے ساتھ رہنا تھا،

زرار کو یہ بات معلوم نہیں تھی،

لیکن پھر بھی اسے جنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے بیٹھا دیکھ کر کافی اچھا لگ رہا تھا،

اب وہ خوشدلی سے اس سے سلام دعا کرتا اپنے روم میں چلا گیا،

وہ فریش ہوا، اپنی جینز اور ڈریس شرٹ چینج کر کے، 

اس نے ہاف سلیوز والی کھلی سی شرٹ پہنی اور ٹخنوں سے پانچ انچ اونچا ٹراؤزرز پہنے وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا،

اس نے اپنے بیڈ پر سے، تکیے کے پاس پڑا، اپنا فون اٹھایا، اور دو کالز ملائیں، اس نے ٹائم چیک کیا،

تھوڑی دیر وہ وہیں اپنے بیڈ پر بیٹھے ٹانگیں ہلاتا رہا،

اور پھر سے ٹائم چیک کر کے، روم سے باہر نکلا،

اس کے قدم اپنے مما پاپا کے روم کی جانب بڑھے ، 

روم کا دروازہ کھلا ہونے کی وجہ سے اسے ناک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی،

اس لیے وہ ایسے ہی روم میں داخل ہوگیا،

اس کی مما کو اس وقت اسے یہاں دیکھ کر حیرت ہوئی تھی،

"بیٹا، اس وقت یہاں آئے ہو ،کچھ کہنا تھا کیا؟؟ خیریت تو ہے؟؟" زینب بیگم نے پوچھا۔

"خیریت کا تو پتہ نہیں۔۔ لیکن بات ضرور ہے،" زرار نے اپنی بھاری آواز میں ہلکی سی دہشت شامل کرتے ہوئے کہا،

اس کی مما کو اس کا رویہ غیر معمولی لگا، وہ بہت پریشان اور متجسس نظروں سے اپنے بیٹے کو گھور رہی تھیں،

انہیں اپنی اولاد کی عادتوں کا پتہ تھا، اس لیے کسی انہونی کی بو، انہوں نے زرار کے اس عجیب انداز میں ، بخوبی محسوس کر لی تھی،

جنید صاحب، جو ابھی ابھی واشروم سے نکلے تھے اور زرار کی آخری بات سن کر وہ بھی اپنی جگہ ٹھٹک کر رہ گئے،

"مجھے شادی کرنی ہے؟؟" اس نے بالکل سنجیدہ لہجے میں کہا،

زینب بیگم اور جنید صاحب تو چونک کر رہ گئے،

"اوہ۔۔ تو بیٹا اس میں کونسا کوئی ایسی ویسی بات ہے۔۔!! تم نے تو میرا دل ہی دہلا دیا تھا، " زینب بیگم نے مسکراتے ہوئے اپنے اس عجیب بیٹے کو دیکھا، اور وہیں بیڈ کے سامنے پڑے صوفے پر زرار کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں، 

جنید صاحب بھی مسکراتے ہوئے، اپنے صاحبزادے کو دیکھ رہے تھے اور ساتھ ہی ، بیڈ پر، اپنی ٹانگیں چڑھا کر، سکون سے بیٹھ گئے،

زرار کی بات پر ان دونوں میاں بیوی کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی،

"بیٹا یہ کیا کہ کہہ رہے ہو؟؟" زینب بیگم کو اس کی اس بے تکی بات پر شک سا ہوا،

"مما۔۔!! میں نے کونسا کوئی اتنی مشکل بات کہہ دی؟؟ یہی کہہ رہا ہوں ناں کہ مجھے جنت سے شادی کرنی ہے۔۔ اب اس میں اتنا حیران و پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے،" زرار نے تھوڑی ناگواری سے کہا،،

اسے اپنے مما پاپا کا ری ایکشن کچھ خاص اچھا نہیں لگا تھا، حالانکہ ان کا حیران ہونا تو بنتا تھا،

"بیٹا، عقل سے کام لو، تم بچے نہیں ہو جو اپنی بات کی سنگینی کی نوعیت کو نہ سمجھ سکو، شادی کرنی ہے تو سو بسم اللّٰه، لیکن اس معصوم کے پیچھے کیوں پڑ گئے، جس پہلے سے ہی کسی اور سے شادی ہونے جا رہی ہے۔۔" جنید صاحب نے تحمل سے، اپنے اس اڑیل بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی،

"پاپا، مجھے نہیں پتہ۔۔ بس میں اسی سے شادی کروں گا،

مجھے نہیں، پتہ بس آپ پھوپھو، پھوپھا سے بات کریں،" زرار بالکل سنجیدہ ہوکر اپنی بات پر بضد رہا،

"بس زرار بہت ہوگیا۔۔!! بچپن سے ہر ضد پوری کراتے آئے ہو تو۔۔۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس معاملے میں بھی تمہاری ضد مانی جائے گی، کچھ تو لحاظ کر لو، اس بچی کی کسی اور سے شادی ہونے والی ہے۔۔" زرار کی مما کو بھی اب، اپنے بیٹے کی اس بے تکی فرمائش پر غصہ آرہا تھا،

"مما۔۔!! میں لحاظ ہی کر رہا ہوں،،

 جس کسی سے اس کی شادی ہونے جا رہی ہے، وہ کسی اور سے نکاح کر چکا ہے،

یہ دیکھیں ویڈیو۔۔" اس نے اپنے موبائل میں اس کے نکاح ویڈیو لگا کر، اپنی مما کی طرف بڑھایا،

وہ ویڈیو اس نے ثبوت کے طور پر، وہاں پر مہمانوں میں موجود ، اپنے ایک بندے سے بنوالی تھی،

ویڈیو دیکھ کر تو،

اس مما کا حلق خشک اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں،

آخر جنت انہیں زوبیہ کی طرح ہی عزیز تھی،

"اوہ خدایا۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔اب کیاہوگا؟؟"انہوں نے حیران ہوکر، پریشانی سے زرار کے چہرے کی طرف دیکھ کر سوال کیا،

جنید صاحب نے اٹھ کر،

زینب بیگم کے ہاتھ سے موبائل لیا اور ویڈیو دیکھ کر،

انتہائی غصے سے زرار کی طرف دیکھا،

"تم اس ویڈیو میں کیا کر رہے ہو۔۔؟؟" جنید صاحب نے دانت بھینچتے ہوئے پر طیش لہجے میں کہا،

"پاپا پلیز، آپ ریلیکسڈ رہیں، میں گواہ کے طور پر اس نکاح میں شامل تھا، وہ احسن جنت سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا، وہ اسے ساری زندگی کیسے سکھ دے سکتا تھا؟؟ اب اچھی بات ہے کہ اس نے اپنی من پسند لڑکی سے نکاح کر لیا اور جنت کی زندگی تباہ ہونے سے رہ گئی، اب بجائے اس کے کہ آپ لوگ معاملہ ہینڈل کرنے میں میری مدد کریں،، آپ الٹا مجھ پر ہی غصہ ہورہے ہیں،" زرار نے رسانیت سے اپنا موقف بیان کیا،

ڈھیٹ اور اڑیل تو وہ ویسے ہی تھا۔۔

اس لیے اس پر، جنید صاحب کہ سخت لہجے اور شدید غصیلے تاثرات کا کوئی اثر نہیں ہوا،

"میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔ اللّٰه اب بھابھی لوگوں کی کتنی بدنامی ہوگی،" زینب بیگم نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے، اپنی نند اور نندوئی کی داؤ پر لگی عزت کے متعلق سوچ کر کہا،

"مما بدنامی کیسی۔۔؟؟ میں کہہ تو رہا ہوں کہ میں کروں گا اس سے شادی، آپ ٹینشن کیوں لے رہی ہیں؟؟" زرار نے ماتھے پر بل لاتے ہوئے پوچھا،

جنید صاحب ابھی بھی بہت غصے سے ، اپنے اس ضدی اور ڈھیٹ بیٹے کو دیکھ رہے تھے،

جسے معاملے کے نازک ہونے کا کوئی احساس ہی نہیں تھا،

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

ع

جنید صاحب ابھی بھی بہت غصے سے ، اپنے اس ضدی اور ڈھیٹ بیٹے کو دیکھ رہے تھے،

جسے معاملے کے نازک ہونے کا کوئی احساس ہی نہیں تھا۔

"بابا۔۔!! 

اب جو ہونا تھا۔۔

وہ تو ہوگیا، 

اب ایسے مجھے گھورنے کا بھلا کیا فائدہ،

 میں جارہا ہوں،

 بہتر ہوگا کہ آپ لوگ خود کو ذہنی طور پر تیار کرلیں اور جلد از جلد پھوپھو اور پھوپھا سے بات کرلیں،

 گڈ نائٹ، 

اللّٰه حافظ،"

 زرار نے اپنے ازلی مغرورانہ انداز میں اپنی بات کی، اور اپنے والدین کو مشکل میں جھونک کر، مزے سے کمرے سے نکل آیا،

  جنت اور زوبی لاؤنج میں نہیں تھے، اس لیے، وہ ڈائریکٹ زوبی کے روم کی جانب بڑھا،

"زوبی مجھے چائے چاہیے، جاؤ بنا کر لاؤ،"

 زرار نے آج سیریس ہونے کی انتہا کر رکھی تھی، 

جو تھوڑی دیر پہلے جنت کے ساتھ سلام دعا کرتے وقت لہجے میں پولائٹنس تھی،

 اب وہ بالکل ہی غائب ہو چکی تھی،

جنت تو جنت۔۔ زوبی کا بھی دل دہل گیا، 

"جی اچھا، ابھی لاتی ہوں،"زوبی یہ کہہ کر وہاں سے کھسکنے لگی تو جنت بھی اس کے پیچھے چل دی،

"تم کدھر جا رہی ہو؟؟ میں نے صرف زوبیہ کو جانے کا بولا ہے تمہیں نہیں،" اس کی گھمبیر آواز اور اوپر سے اتنا دہشتناک لہجہ۔۔!! جنت اچھی خاصی سہم گئی۔۔

"تم ابھی تک یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو؟؟ کوئی کام کہا ہے تمہیں میں نے، اور سنو۔۔ میرے روم سے نکلنے سے پہلے۔۔ تم نے اندر نہیں آنا، میں نے بات کرنی ہے جنت سے،"  اس نے زوبی کو جھڑکا،

زوبی تو بجلی کی تیزی سے وہاں سے غائب ہوئی،

اس پیچھے رہ گئی جنت۔۔!! جس کا خوف کے مارے برا حال تھا،

"ادھر آؤ بیٹھو۔۔ مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے،"  زرار نے اب ذرا ہلکے لہجے میں، جنت کا ہاتھ پکڑ کر، اپنے ساتھ بیڈ کے کنارے پر بٹھاتے ہوئے کہا،

جنت، اس کے بے انتہا خوف کے مارے مزاحمت ہی نہیں کر سکی، اس لیے خاموشی سے اس کی بات مان گئی،

"اب جو میں تم سے سوال کروں گا، تم نے بالکل سچے جواب دینے ہیں! اوکے؟ بالکل سچ۔۔ کیونکہ مجھے بلاوجہ کے جھوٹ سے اور جھوٹوں سے نفرت ہے،" زرار نے آواز ہلکی اور لہجہ تھوڑا سنجیدہ ہی رکھا،

اس نے جنت کا ہاتھ ابھی تک اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور جنت کی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اپنا ہاتھ چھڑا سکتی،

"اوکے۔۔ پوچھیں کیا، پوچھنا ہے..!" اس نے ڈرتے ڈرتے منہ سے ہلکی سی آواز نکالی،

"تم مجھے یہ بتاؤ کہ احسن میں تمہیں ایسا کیا نظر آیا تھا کہ لمحے کی بھی دیر کئے بغیر تم نے اس کے لیے ہاں بولی،" زرار کی تیز نظریں، بخوبی جنت کے فیس ایکپسریشنز کو جانچ رہی تھیں،

زرار کی اس بات پر جنت کا ڈر کچھ کم ہوا، اور وہ ایک دم تلملا کر رہ گئی، اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ بندہ بار بار، اسے احسن کا حوالہ دیکھ کر، آخر جتانا کیا چاہتا ہے،

وہ اذیت سے، زرار کے سوال پر، لب بھینچے، اسے دیکھ رہی تھی،

"جنت میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے۔۔" انداز نرم پر دو ٹوک تھا،

"زرار بھائی۔۔میں نے اس میں وہ ہی دیکھ کر فوراً ہاں کی تھی، جو آپ نے اس میں دیکھا تھا، جو دیکھ کر آپ نے میرے پیرینٹس کو اس کے لیے کنونس کیا،" جنت نے خود کو مضبوط کرتے ہوئے، بنا ڈرے، تڑخ کر جواب دیا،

زرار کو اس کے انداز پر ہنسی آئی لیکن اس نے فقط مسکرانے پر اکتفا کیا،

اس کے مسکرانے سے جنت تو اور سلگ کر رہ گئی،

"اچھا، مطلب تم نے مجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے ہاں کی، 

I liked it..!

لیکن اب میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ احسن سے شادی مت کرو، وہ تمہارے لائق نہیں ہے، مجھ سے غلطی ہوگئی کہ میں نے اسے تمہارے لیے refer کیا،" زرار نے حتی المقدور، اپنے لہجے کو شائستہ رکھا، 

لیکن اس مغرور شخص کے انداز سے جنت کے لیے تحکم صاف واضح تھا،

جنت کو اس کا ایسے حکم دینا بالکل پسند نہیں آیا،

"اوہ۔۔ آپ کن خوش فہمیوں میں رہتے ہیں؟؟ میں نے آپ پر کوئی بھروسہ نہیں کیا،، نہ ہی آپ کا کہا میرے لیے کوئی معنی رکھتا ہے، اور نہ ہی آپ میرے لیے کوئی معنی رکھتے ہیں۔۔ سمجھے آپ؟؟ " جنت نے باقاعدہ اس کی حکم عدولی کی، 

وہ جتانے کی کوشش کر رہی تھی کہ زرار جنید، جنت کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا،، 

اس کا زرار کے سارے سابقہ رویوں سے بہت دل دکھا تھا،

اس لیے وہ اس کی کوئی بات نہیں ماننا چاہتی تھی،

اور ویسے بھی دو ہفتوں میں اس کی شادی ہونے جا رہی تھی۔۔ وہ اپنی شادی کسی کے بھی ایسے کہنے پر بھلا ایک دم سے انکار تھوڑی کر سکتی تھی،

دنیا کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔۔جنہیں فالو کرنا سب پر لازم ہوتا ہے، پر زرار کو اس سب کی پرواہ کہاں تھی۔۔؟؟

اس نے ضد باندھ لی تھی، اور اب بس اسے ایک ہی بات معلوم تھی کہ اسے ہر صورت، ہر حال اپنی ضد پوری کرنی ہے،

اسے جلد از جلد جنت کو اپنانا ہے۔۔

جنت کا بلا خوف، اس طرح ، اس کے حکم کے خلاف جانا، اور یہ جتانا کہ زرار جنید اس کے لیے بالکل غیر اہم ہے، زرار کو اندر تک جلاگیا،

اس کی ساری شائستگی۔۔ ساری نرمی بھاپ بن کر اُڑ گئی،

"جو بھی ہے۔۔ لیکن تم یہ شادی نہیں کرو گی۔۔!!" زرار اچھا خاصا مشتعل ہوا تھا،

"میں یہ شادی کروں گی، اور احسن سے ہی کروں گی۔۔ میں دیکھتی ہوں کہ مجھے کون روکتا ہے۔۔اور بھلا میں کیوں اس شادی سے انکار کروں۔۔؟؟ کوئی وجہ؟ کوئی ریزن۔۔؟" جنت نے بھی اسی کا انداز اپنایا،

"میں نے کہا ناں کہ تم یہ شادی ہر گز نہیں کر سکتی۔۔!!!

اور تمہیں وجہ جاننی ہے تو سنو۔۔ زرار جنید تمہیں اپنانے کی خواہش رکھتا ہے۔۔" زرار نے گردن اکڑا کر، جنت پر ایک اور بم پھوڑا۔۔

جنت بالکل ساکت ہو کر زرار کو تک رہی تھی،

اس کی بات جنت کے دائیں بائیں سے گزر گئی،

اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ زرار ، اپنے منہ سے خود کہہ رہا ہے،

اف۔۔!! ان لفظوں کا تو اس نے برسوں انتظار کیا تھا، 

پر اب زرار نے یہ لفظ کہے بھی تو کب۔۔ !!

اب تو وہ اپنے جذبات کا، زرار سے منسلک ہر سلسہ توڑ چکی تھی،

اور زرار کا لہجہ۔۔ وہ بھی تو اس لائق نہ تھا کہ جنت اس خواہش کو بخوشی پورا کرنے کی حامی بھر لیتی،

جنت نے بہت مشکل سے خود کو ، زرار کے کہے لفظوں کے سحر سے نکالا،

زرار اس کے جواب کا منتظر تھا۔۔

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے۔۔ اس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا،

"آپ مجھ پر زور زبردستی کا کوئی حق نہیں رکھتے۔۔ میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔احسن میرے لائق ہو یا نہ ہو۔۔!! میں شادی۔۔اسی سے کروں گی،" جنت نے بہت ہمت سے۔۔ زرار کے پروپوزل کا انکار کیا، 

یہ انکار زرار کی توقع کے عین مطابق تھا، 

پر اسے یہ امید نہیں تھی کہ جنت اس قدر ڈی گریڈ کرنے والے انداز میں انکار کرے گی،،

بے شک وہ کچھ ایسا ہی جواب ایکسپیکٹ کر رہا تھا مگر پھر بھی،

جنت کا اس طرح ریجکیٹ کرنا، اسے اندر تک سلگا گیا،،

"وجہ جان سکتا ہوں؟؟؟" زرار کی آواز غصے کی شدت سے سخت ہوگئی تھی،

"مجھے آپ سے نفرت ہے۔۔ آپ کے ہر انداز سے نفرت ہے،

آپ کو کسی کی عزت کرنا نہیں آتی، آپ کسی کا لحاظ کرنا نہیں جانتے تو آپ بتائیں کہ کوئی کیسے آپ سے سے شادی کرنا چاہے گا،" جنت کا ضبط ٹوٹا تھا،

جنت کو ، اس کی جو عادتیں تکلیف پہنچاتی تھیں، 

اس نے بغیر ڈرے ، اس کے سامنے کہہ دیں ، کیونکہ اس وقت وہ رو رہی تھی، اور روتے ہوئے جنت اپنا ہر گلہ ۔۔ ہر شکایت،، نہ چاہتے ہوئے بھی، بول دیا کرتی تھی،

گلے اپنی جگہ پر اپنی محبت سے مکرنے کا دکھ،

اپنی چاہت سے انکار کی اذیت نے اسے رونے پر مجبور کیا،

وہ نظریں جھکائے۔۔ بلک بلک کر رونے لگی،

"ادھر دیکھو۔۔ میری طرف۔۔ کیا کہا تم نے؟؟ تمہیں مجھ سے نفرت ہے۔۔؟؟ مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو یا خود سے؟؟" زرار نے ہاتھ بڑھا کر، اپنی شہادت کی انگلی سے اس کی ٹھوڑی اونچی کی، اور اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف کیا،

"مطلب کیا ہے آپ کا؟؟ میں کوئی جھوٹ نہیں بول رہی۔۔ مجھے۔۔ مجھے سچ میں۔۔ آپ سے نفرت ہے۔۔ سنا آپ نے؟؟" اس نے سسکیاں بھرتے ہوئے  ، توڑ توڑ کر جملہ مکمل کیا،

زرار کو اس کے بے وجہ رونے سے کوفت ہورہی تھی،

"جنت۔۔میں نے تمہیں کہا تھا کہ مجھے صرف سچ سننا ہے۔۔ اور تم ہو کہ جھوٹ پہ جھوٹ بولی جارہی ہے، اور یہ بتاؤ فضول میں رو کیوں رہی ہو۔۔ میں نے ابھی تک تمہیں کچھ ایسا تو نہیں کہا، کہ تم اپنی آنکھوں کے دریا بہانے لگ پڑو۔۔" زرار نے کچھ تنبیہ کرتے ہوئے اس سے اس کے بے وجہ رونے کا بھی سبب معلوم کیا،

اب جنت کیا بتاتی۔۔ کہ کس بات پر اسے اتنا رونا آرہا ہے۔۔۔

اپنی چاہت سے مکرنے کی تکلیف بھلا کیسے وہ اس سے شئیر کر سکتی تھی؟؟

"زرار یہ دیکھیں میرے جڑے ہوئے ہاتھ، پلیز میرے لیے کوئی آزمائش کھڑی نہ کریں، میں اگر آپ کو ہاں کہہ بھی دوں تو اب کچھ نہیں ہو سکتا، اگر میں ہاں کہوں گی تو میری عزت۔۔ میرے ماں باپ کی عزت دو کوڑی کی ہو جائے گی۔۔!!" اسے زرار کے تیور اچھے معلوم نہیں ہورہے تھے، وہ بے بس تو تھی ہی، اس لیے اب منتوں پر اتر آئی تھی،

"میں آزمائش میں ڈال نہیں رہا بلکہ نکال رہا تھا، 

میں نے عزت بچانی چاہی تھا، 

اب اپنا انکار یاد رکھنا، 

شادی تو تمہاری مجھ سے ہی ہوگی۔۔!!

 یہ بات اپنے ذہن میں رکھنا، اپنے لفظ بھی یاد رکھنا۔۔ تمہیں مجھ سے نفرت ہے ناں۔۔؟؟

 تو نفرت ہی سہی،" زرار نے دل دہلانے والے لہجے میں ، جنت کو دھمکایا،

"مطلب کیا ہے آپ کی اس بکواس کا؟؟ 

میں نے کہا ناں کہ آپ مجھ پر کوئی زور زبردستی نہیں کر سکتے تو پھر آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں آپ سے شادی کروں گی،!!!" جنت نے دانت بھینچتے ہوئے اس دھمکی کا اثر زائل کیا،

اور اپنی تحقیر آمیز ریجیکشن سے، زرار کو مزید مشتعل کیا،

"میں کوئی زور زبردستی نہیں کرنے والا،،

وہ کیا ہے ناں کہ احسن کسی اور سے نکاح کر چکا ہے،

اور "کسی" کو اپنی اور اپنے ماں باپ کی عزت اور شہرت بچانے کے لیے، کسی سے شادی کرنا پڑے گی۔۔"

زرار نے اسی کے انداز میں جواب دیا،

اس کی نظر ، جنت کے چہرے سے بھٹکتی ہوئی اس کی گردن تک گئی،

وہاں اسے، اسکے گلے میں بے ڈھنگے طریقے سے لپٹے سکارف کے نیچے سے اپنا دیا پینڈینٹ دکھائی دیا،

"کیا کہ رہی تھیں تم؟؟ تمہیں مجھ سے نفرت ہے۔۔!! محترمہ تم بہت برا جھوٹ بولتی ہو۔۔" یہ کہتے ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا اسکارف گلے سے ہٹایا،

اس کا حملے اتنا Quick تھا کہ جنت اسے روک نہیں پائی، پر وہ اس کی حرکت پر بری طرح اچھلی تھی،

"یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔!" جنت نے غصے سے کہا،

زرار اس کے قریب ہوا،

جنت کو اب اس سے خوف محسوس ہورہا تھا،

"زرار پلیز دور ہوں مجھ سے۔۔" جنت نے اسے مزید قریب آتا دیکھ کر، اس کے سینے پر د

اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر دھکیلنے کی کوشش کی،

اس کی سانسوں کی بے ترتیبی اور تیزی بڑھتی جا رہی تھی،

اس کے لاکھ دھکیلنے اور منع کرنے کے باوجود، 

زرار نے اس کی ایک نہیں سنی،

 اور اس کے انتہائی قریب آکر، وہ اس پر جھکا، 

اور اپنے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے پیچھے لے جا کر، 

پینڈینٹ کا ہک کھولا اور اس سے دور ہوا،،

اس کے دور ہونے پر جنت کی سانسیں بحال ہوئیں،

زرار کی اس حرکت پر وہ بہت نروس ہوگئی تھی، اور غصہ بھی۔۔!!

"میں جانتا ہوں جنت بی بی کہ تم کس کو اور کتنا چاہتی ہو۔۔!!  فی الحال اس پینڈینٹ پر تمہارا کوئی حق نہیں۔۔ بالکل میرے باقی  تحفوں کی طرح۔۔" زرار نے پل بھر میں اس کے جھوٹ پر اپنی بے اعتباری، اس پر جتا دی، 

جیسے وہ سب جانتا ہو کہ جنت اس کے متعلق کیا محسوس کرتی آئی ہے،

جنت حیران و پریشاں ہو کر اسے دیکھ رہی تھی کہ اسے باقی تحفوں والی بات کیسے پتہ چلی،

وہ ایسے ری ایکٹ کر رہی تھی جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔۔!!

اف۔۔ اتنی شرمندگی ہو رہی تھی اسے زرار کے سامنے، 

زرار اس کی شرمندگی سے بہت محظوظ ہورہا تھا،

" یہ پینڈینٹ، اب تمہیں تب ملے گا۔۔ جب تم یہ اس گدھے کی پہنائی ہوئی اس رنگ کو اسے واپس کردو گی،" زرار کے لہجے میں تھوڑی جیلسی در آئی تھی،

پر جنت تو اس کی کوئی بات سن ہی نہیں رہی تھی،

اس کے دماغ میں تو زرار کی یہی بات گھوم رہی تھی،"میں جانتا ہوں جنت بی بی کہ تم کس کو اور کتنا چاہتی ہو۔۔!!"

احساس شرمندگی سے اس کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے،

غیرت مند اور باعزت لڑکیوں کے لیے ایسے moments     بہت مشکل اور ندامت کا باعث ہوتے ہیں،

زرار جانتا تھا کہ وہ اسی سے محبت کرتی ہے۔۔ اور وہ سمجھتی تھی کہ اسے شاید اس کی فیلینگز کا کوئی ادراک نہیں۔

زرار اپنی بات مکمل کر کے وہاں سے اٹھا،

جنت نے یہاں وہاں نظریں گھمائیں ، اپنا ہینڈبیگ نظر آنے پر اس نے وہ فوراً اٹھایا، اور بھاگتی ہوئی زوبی کے روم سے نکل کر باہر کے دروازے کی طرف بڑھی،

زوبی چائے کا کپ لیکر زرار کے پاس کھڑی تھی،

جو سب کا سکون برباد کر کے، خود مزے سے اپنی ٹانگیں لمبی کر کے، لاونج میں ، couch پر بیٹھا تھا،

زوبی نے جنت کو باہر کی طرف جاتا دیکھ کر، چائے جلدی سے زرار کو پکڑائی، اور لپک کر جنت کی طرف،اسے آوازیں دیتی بڑھنے لگی،

"رکو۔۔مت جاؤ اس کے پیچھے، جانے دو اسے" زرار کے حکمیہ الفاظ نے اس کے قدم روکے،

"پر کیوں بھائی؟؟ آپ نے کیا کہا ہے اس کو؟؟" زوبی نے  اپنے بھائی کے بگڑتے تیوروں کو مزید بگڑ کر دیکھا،

"مجھ سے فضول بحث نہیں کرو، میں نے اسے کچھ نہیں کہا،

اپنی مرضی سے نکل کر جا رہی ہے وہ۔۔ تو اس لیے تم اسے جانے دو۔۔" زرار نے بے تاثر ہو کر کہا،

وہ سمجھ گیا تھا کہ جنت اپنے دل کا راز کھلنے پر شرمندہ ہو کر وہاں سے گئی ہے، 

وہ اس لیے اسے وہاں زبردستی نہیں روکنا چاہتا تھا،

"پر بھائی، آپ کو شاید نہیں پتہ کہ اسے اکیلے گھر میں بہت ڈر لگتا ہے۔۔ا

ور اوپر سے ابھی رات کا وقت ہے۔۔ وہ تو ڈر ڈر کر مر جائے گی، 

بھائی آپ بھی ناں۔۔ بہت ہی کھڑوس انسان ہیں۔۔

میں جا رہی ہوں۔۔ اسے واپس لانے۔۔" زوبی غصے میں کہتی لاونج کے دروازے کی طرف بڑھنے لگی، جہاں سے جنت کب کی باہر نکل چکی تھی،

"رکو۔۔!" زرار نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر،

 لپک کے اسے، اس کا بازو پکڑ کر روکا،

"تمہارا 'اکیلے گھر' سے کیا مطلب تھا،؟؟" زرار نے چونک کر پوچھا،

"وہ پھوپھو اور پھوپھا ، جنت کے تایا ، چچا وغیرہ کی طرف گئے ہوئے ہیں، انہیں جنت کی شادی کا انویٹیشن دینے، اس لیے وہ گھر پر اکیلی تھی، 

اور پھوپھو رات کے لیے، اسے ہمارے گھر چھوڑ کر گئی تھیں،، اور۔۔ آپ ۔۔آپ اتنے بدتمیز ہیں کہ اسے لے کر گھر سے بھگادیا،" زوبیہ حد درجہ پریشان ہو گئی تھی، اور اسی پریشانی میں وہ زرار پر چڑھ دوڑی،

"اوہ۔۔ اچھا۔۔ تم رکو پھر۔۔میں لے کر آتا ہوں،" زرار بھی تھوڑا پریشان ہوا تھا، 

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

"اوہ۔۔ اچھا۔۔ تم رکو پھر۔۔میں لے کر آتا ہوں،" زرار بھی تھوڑا پریشان ہوا تھا، 

اور اپنی بات کہتا، گھر سے باہر نکلا،

جنت اسے باہر نہیں نظر آئی تھی،

شاید وہ اس اسٹریٹ سے نکل چکی تھی،

زرار تیز تیز قدم بڑھاتا ، جنت کے گھر کی جانب چل رہا تھا،

ابھی وہ دوسری اسٹریٹ تک ہی آیا تھا کہ سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا خون کھول گیا، غصے سے۔۔ ایک دم اس کا چہرہ ۔۔ سرخ ہونے لگا،

رات کی تاریکی اور مدھم اسٹریٹ لائٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔۔ چار آورہ لڑکے جنت کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے،

ان میں سے دو بائیکس پر سوار لڑکے۔۔ مسلسل کمینگی سے ہنس رہے تھے اور باقی دو جنت کے ارد گرد منڈلاتے ہوئے اسے چھیڑنے میں مصروف تھے،

جنت کا خوف کے مارے برا حال تھا، 

آنسو تو ویسے ہی اس کی پلکوں پر ٹھہرے رہتے ہیں ۔۔ جنہیں بس موقع چاہیے ہوتا ہے باہر نکلنے کا،

سو وہ روتے ہوئے اپنی خوف سے لرزتی آواز میں انہیں دور رہنے کا بول رہی تھی،

یہ تو شکر تھا کہ ان خبیثوں نے ابھی تک اسے چھوا نہیں تھا، 

وہ صرف زبانی کلامی چھیڑ چھاڑ سے کام لے رہے تھے،

 ان چاروں لڑکوں کی پوزیشن کچھ ایسی تھی کہ وہ زرار کو دیکھ نہیں پائے،

زرار نے بھی تیزی سے آگے آ کر ۔۔ ان میں سے ایک لڑکے کے پیچھے آکر، اسے اسکی شرٹ سے پکڑ کر کھینچا اور ہاتھ گھما کر۔۔ایک مضبوط مکا، اس لڑکے کے جبڑے پر مارا،

 زرار کے اچانک حملے پر وہ اپنا بچاؤ نہیں کر پایا اور نتیجتاً۔۔ اس کا سامنے کا ایک دانت بھی ٹوٹ کر باہر آ گیا،

بائیکس پر سوار لڑکوں نے زرار کے بگڑے تیور دیکھ کر فوراً سے پہلے بائیک اسٹارٹ کی، اور جنت کو زرار کی طرف دھکا دے کر، اپنے ساتھی کو کھینچا اور چاروں کے چاروں، سیکنڈوں میں میں وہاں سے غائب ہوئے،

اس لڑکے کے اچانک دھکا دینے پر جنت کا توازن بری طرح بگڑا تھا، 

اگر وہ بروقت ۔۔ زرار کی شرٹ نہ جکڑتی تو یقیناً گر جاتی،

زرار نے بھی اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے کر سہارا دیا،

تحفظ کا احساس ملنے پر جنت بھی ، اس کے سینے سے لگی مسلسل سسکیاں بھر رہی تھی،

زرار نے اپنی غصے سے جلتی نظروں سے ان اوباشوں کو اوجھل ہونے تک دیکھا، اور پھر جنت کی طرف متوجہ ہوا،

اس نے آہستگی سے اسے خود سے علیحدہ کیا،

"جنت۔۔!! کچھ بھی نہیں ہوا۔۔ چلے گئے وہ لڑکے۔۔ پلیز رونا بند کرو اور چلو میرے ساتھ،" زرار نے بہت پیار اور لحاظ سے اسے مخاطب کیا،

جنت۔۔ اس کے بولنے پر ہوش میں آئی۔۔ اسے تھوڑی دیر پہلے ۔۔۔زرار سے ہوئی تمام گفتگو یاد آئی۔۔

اور اب یوں۔۔ ان بدتمیز لڑکوں کی وجہ سے اسے زرار کے اتنے قریب آنا پڑا۔۔

اب تو اس کا شرم اور ندامت سے مزید برا حال تھا،

اس کی ہمت نہیں ہورہی کہ وہ اب زرار سے نظریں ملا سکے۔۔

زرار اس کی حالت سمجھ سکتا تھا،

اس نے دونوں کندھوں سے اسے تھاما،

"لسن۔۔ جنت۔۔!! کچھ نہیں ہوا، 

Don't be ashamed,

تمہاری غلطی نہیں تھی، 

I know..

کہ تم جان بوجھ کر میرے سینے سے نہیں لگی۔۔

اب خوامخواہ شرمندہ مت ہو۔۔

اور چلو میرے ساتھ گھر۔۔" زرار اسے اب بہت احترام سے ڈیل کر رہا تھا،

وہ کہیں سے بھی پہلے والا ۔۔ بدتمیز آدمی نہیں لگ رہا تھا،

جنت کو اس کا یہ میٹھا لہجہ چبھ رہا تھا،،

اسے، اس پر غصہ آیا۔۔ کہ اس کی وجہ سے یہ سب ہوا تھا،

اگر وہ آج نہ آتا۔۔ تو نجانے کیا ہوجاتا۔۔

جنت نے سلگ کر، اس کے دونوں ہاتھ، ایک جھٹکے سے، اپنے کندھوں سے ہٹائے،

"کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو اتنا میٹھا بننے کی۔۔!!

یہ آپ کی ہی کوئی چال ہوگی۔۔!!

جان بوجھ کر آپ نے مجھے نادم کیا۔۔اور گھر سے نکلنے پر مجبور کیا۔۔

اور اب ، عین وقت پر یہاں۔۔۔ ہیرو بن کر پہنچ گئے۔۔

ضرور۔۔!! یہ کمینے بھی آپ نے ہی کرائے پر منگوائے ہوں گے۔۔

بہت بہت بدتمیز ہیں آپ۔۔

پر سن لیں۔۔ کہ آپ ضدی ہیں ناں تو میں آپ سے بھی زیادہ ضدی بن کر دکھاؤں گی۔۔!!

Jannat is rejecting Zarar,

Jannat has rejected you,

And Jannat will never marry you...!!!

جو مرضی کر لیں۔۔ میں کسی صورت آپ سے شادی نہیں کروں گی،" جنت کے منہ میں جو آرہا تھا۔۔ وہ بغیر سوچے سمجھے بولے جا رہی تھی، حسب عادت۔۔ اس نے روتے ہوئے ہی اپنی زبان کے جوہر دکھائے۔۔

اب یہ بچاری کے تازہ ترین پڑھے گئے ناول کا اثر تھا کہ اس نے، اس حادثے نما واقعے کو، زرار کی سوچی سمجھی سکیم قرار دے دی،

زرار پہلے تو حیران ہو کر، اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات، بڑے انہماک سے سن رہا تھا، 

اسے اندر ہی اندر ہنسی بھی آنے لگی تھی کہ یہ شیخ چلی کی مرید ۔۔۔ پتہ نہیں کیا کیا۔۔ اول فول بول رہی ہے۔۔!! لیکن بعد میں جنت کی ریجیکشن والی بات۔۔ 

اس نے تو زرار کی ساری خوش اخلاقی کہیں غائب کر دی،

"جنت۔۔۔ تم اپنی ۔۔ ان فضول دھمکیوں پر پچھتاؤ گی۔۔!! اب زیادہ بکواس نہیں کرو۔۔ اور گھر چلو۔۔" زرار نے غصے سے، دھونس جمایا،

اور کہتا ۔۔ آگے کی طرف چلنے لگا،

 جنت نے اس کی باتوں کو ایک کان سے سنا، دوسرے سے نکالا، اور ضدی بنتے ہوئے، اپنے ہی گھر کی طرف چل دی،

زرار نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے، جنت صاحبہ۔۔ بڑی شان سے ، opposite ڈائریکشن میں چلتی ہوئی نظر آئیں،

زرار نے غصے سے دانت بھینچ لیے، اور تلملاتا ہوا۔۔اس تک پہنچا،،

"تمہیں ایک بار میں کہی ہوئی بات سمجھ میں نہیں آتی؟؟؟ وہاں کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟؟ میں نے اپنے گھر چلنے کو بولا تھا،" زرار کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا،

اور اوپر سے جنت کی ignorance...!!

وہ تو اندر تک جل کر رہ گیا، جنت اس کی بات کا جواب تک دینے کے موڈ میں نہیں تھی،

"جنت۔۔!! بہت آزما لیا تم نے میرا صبر۔۔!! اب مجھے بلیم مت کرنا۔۔!!" زرار نے، جنت پر اپنی دہشت بٹھائی،

اور یہ کہتے ہی اسے اپنی گود میں اٹھا لیا،،

جنت تو بری طرح مچل گئی، 

اسے زرار سے قطعاً۔۔ایسی کوئی بھی توقع نہیں تھی،

جنت، زرار کے کندھے کے پچھلی طرف موجود اپنے ایک ہاتھ میں اپنا ہینڈ بیگ مضبوطی سے پکڑے۔۔دوسرے ہاتھ سے زرار کے سینے پر مکے مارتی ۔۔ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی،

"زرار بھائی چھوڑیں مجھے۔۔ نیچے اتاریں،، میں نے کہا نیچے اتاریں مجھے۔۔۔ آپ۔۔آپ بہت بدتمیز ہیں۔۔۔اگر ابھی زوبی میری جگہ ہوتی تو تب بھی آپ ایسا کرتے۔۔!!!" جنت کی آنکھیں پھر سے بھرنے لگیں تھیں،، 

"ہاں۔۔ بالکل ۔۔!! مجھے ڈھیٹ لڑکیوں کا علاج کرنا آتا ہے۔۔اب تم خاموش رہو۔۔ اور اپنے یہ ہاتھ چلانا بند کرو،" زرار نے اپنے ازلی۔۔جلانے بھلانے والے لہجے میں کہا،

"اف اللّٰه۔۔اب میں کیا کروں۔۔!!" جنت نے دل میں سوچا،

"زرار بھائی۔۔۔آئم سوری۔۔۔!! پلیز مجھے نیچے اتاریں۔۔ اب میں آپ کی کسی بات پر ضد نہیں کروں گی،، آئم سوری۔۔پلیز نیچے اتاریں۔۔" جنت اب منتوں پر اتر آئی تھی،

اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس ڈھیٹ سے ضد لگانا، اس کی صحت کے لیے بالکل ٹھیک نہیں،

زرار نے اسے ایک دم نیچے اتارا۔۔

پر اس نے جنت کی منتوں پر نیچے نہیں اتارا تھا،

اس کی دائیں جانب۔۔۔ ایک کار، دو سیکنڈز کے لیے آکر رکی تھی، اور پھر آگے کی طرف۔۔۔ زن سے بڑھ گئی،

وہ کار کسی اور کی نہیں بلکہ احسن کی تھی،

احسن اور خالہ نے جنت کو اس کی گود میں دیکھ لیا تھا۔۔

جنت کا رخ بھی ایسا تھا کہ وہ ان دونوں کو اچھی طرح دیکھ چکی تھی،

اب صحیح معنوں میں اس کے اوسان خطا ہوئے تھے۔۔

پیروں تلے زمین نکلنا کیا ہوتا ہے۔۔ یہ اسے اب پتہ چلا تھا، 

دراصل زرار نے احسن کو اپنے گھر ۔۔ خالہ کو لے کر پہنچنے کا بولا تھا، اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا، وہ جلد از جلد، جنت کے ساتھ انگیج ہونا چاہتا تھا،

اس نے سوچا تھا کہ یہاں تینوں گھروں کے بڑوں کے سامنے وہ اور احسن مل کر اس کا نکاح ڈیکلیئر کریں گے،

اور معاملہ جہاں بگڑے گا۔۔ وہ وہیں سنبھال لیں گے۔۔

 پر اسے بعد میں پتہ چلا تھا کہ اس کے پھوپھا اور پھوپھو تو ہیں ہی نہیں گھر پر۔۔!!

اور اب خالہ نے جس حالت میں جنت کو اس کے ساتھ دیکھا تھا۔۔ اس سے زرار کا تو فائدہ ہی ہونا تھا۔۔ پر جنت۔۔ وہ بے چاری تو گئی اپنی عزت سے۔۔۔

زرار اپنی خالہ کو اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کس قدر شکی خاتون ہیں۔۔

اس پل اسے شدت سے جنت کی فکر ہو رہی تھی۔۔

وہ بھلا کیسے ۔۔ اس کی عزت پر اٹھتا حرف برداشت کرسکتا تھا،

بے شک وہ جنت کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔ پر اس حصول کے دوران۔۔ اس کا۔۔ جنت کے کردار پر کوئی کیچڑ اچھالنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا،،

وہ جانتا تھا کہ وہ لڑکی۔۔ اپنے کریکٹر کو لے کر کتنی sensitive ہے۔۔!!

جنت وہیں پر ساکت کھڑی ۔۔ زرار کو پر شکوہ نگاہوں سے گھور رہی تھی،

زرار کی۔۔ "سوری" کہنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔۔ وہ خاموشی سے گھر کی طرف بڑھا،

اور جنت ڈرتے۔۔ کانپتے۔۔ اس کی پیروی کرنے لگی،۔۔

××××××

وہ دونوں گھر پہنچے تو ایک قیامت ان کی منتظر تھی،،

اتنی سی دیر میں خالہ نے سب اہل خانہ کو لاونج میں جمع کر کے۔۔ قیامت کا سا ماحول بنا دیا تھا۔۔

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

اتنی سی دیر میں خالہ نے سب اہل خانہ کو لاونج میں جمع کر کے۔۔ قیامت کا سا ماحول بنا دیا تھا۔۔

خالہ کی نظر ان دونوں پر پڑی تو۔۔ ان کی الزام تراشیوں میں مزید تیزی آگئی،

"یہ دیکھو۔۔ زینب۔۔ دیکھ لو اپنے لاڈلے کو۔۔!!

کیسے میری ہونے والی بہو کو گودوں میں اٹھائے پھر رہا تھا،

اور بہو۔۔ تم ہی کچھ لحاظ کر لیتیں۔۔ 

تمہیں شرم نہیں آئی۔۔ پرائے مرد کی گود میں چڑھتے ہوئے۔۔" خالہ زبان کو لگام لگائے بغیر بولتی چلی جا رہی تھیں،

جنت کی تو حالت بری ہو رہی تھی،

وہ بے چاری سر جھکائے،، مجرموں کی طرح۔۔ سہمی ہوئی کھڑی تھی،

زوبی اس کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی۔۔اور کندھا تھپتھپا کر۔۔دلاسہ دے رہی تھی کہ گھبراؤ مت۔۔ ریلیکسڈ رہو۔۔!!

پر وہ بھلا کیسے ریلیکس رہ سکتی تھی،

زرار کے والد،والدہ کچا چپا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہے تھے۔۔

زریاب ناسمجھی سے کبھی پھوپھو کی شکل دیکھتا اور کبھی زرار اور جنت کی،

"میں تو اتنے شوق سے آئی تھی یہاں۔۔ احسن نے بتایا تھا کہ بہو ادھر آئی ہوئی ہے۔۔ اور یہ ملنے کی ضد کر رہا تھا تو میں چلی آئی۔۔ پر یہاں تو عیاشیاں کی جارہی ہیں۔۔ وہ بھی کھلے عام روڈوں پر۔۔اس کے والدین کدھر ہیں۔۔ میں ابھی کے ابھی یہ رشتہ ختم کرتی ہوں۔۔ بھاڑ میں جائے یہ لڑکی۔۔ ایسی بے حیا کو مجھے اپنی بہو نہیں بنانا،" خالہ جی تو آؤٹ آف کنٹرول ہی ہو گئیں،

"بس خالہ بس!! بہت ہوگیا۔۔ آپ اپنی بزرگی کا لحاظ ہی کرلیں۔۔ کیسی فضول باتیں کررہی ہیں۔۔ جنت کی کوئی غلطی نہیں تھی۔۔" زرار غصے سے دھاڑا،

اس سے، جنت کی مزید ، انسلٹ برداشت نہیں ہوئی،

اور اپنے لیے کوئی بکواس سننے کا ظرف تو ویسے ہی اس میں نہیں تھا،

"زرار بکواس بند کرو تم اپنی۔۔ اتنے بدتمیز کیسے ہو سکتے ہو تم؟؟" جنید صاحب نے اپنی کراری آواز میں زرار کو لتاڑا،

"پاپا۔۔ آپ خالہ کو بھی تو دیکھیں۔۔ کیا کچھ کہ رہی ہیں۔۔۔" زرار نے تلملاتے ہوئے کہا،

"اور خالہ جانی۔۔ آپ اتنے الٹے سیدھے جو فتوے جھاڑ رہی ہیں ۔۔۔ اپنے صاحبزادے سے تو پوچھیں کہ کس مقصد کے تحت آپ کو یہاں لایا ہے۔۔!!!

آپ کے علم میں لائے بغیر اپنی پسند سے نکاح کر چکا ہے۔۔آپ سے پہلے ہی یہ آپ کی پسند کی ہوئی لڑکی کو ریجکیٹ کر چکا ہے۔۔۔

 اب اپنے بچے پر کونسا فتوا لگائیں گی!!!

 اور جنت کی دولت ہڑپنے کی آڑ میں جو آپ نے یہ رشتہ کیا تھا ناں۔۔

 اچھا ہوا کہ توڑ دیا۔۔

ورنہ ہماری جنت اتنی گری ہوئی نہیں ہے کہ ہم آپ جیسے شکی اور لالچی لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتے۔۔۔!!" مشہور زمانہ، بدتمیز۔۔ زرار نے بڑی مشکل سے ادب کے دائرے میں رہ کر بات کرنی چاہیے تھی ۔۔۔ پر آخر کو وہ پیدائشی بد لحاظ تھا، کب تک ادب کے دائرے میں رہتا۔۔ لہذا وہ اس دائرے سے نکل کر بدتمیزی پر اتر آیا،

خالہ کو تو۔۔ ایک زور دار جھٹکا لگا،،

"احسن۔۔۔!! زرار یہ کیا کہ رہا ہے۔۔؟؟" خالہ باقی باتیں ایک طرف رکھ کر، احسن کے نکاح والی بات پر، تلملائی تھیں،

"جی ماما۔۔ صحیح بول رہے ہیں زرار بھائی۔۔ میں سعدیہ سے نکاح کر چکا ہوں۔۔ جنت بہت اچھی ہے پر میں سعدیہ کو پسند کرتا ہوں۔۔ اور اگر آپ نے یا کسی نے بھی۔۔ اب مجھے pressurize کیا ناں۔۔ تو پھر مجھ سے کسی اچھائی کی توقع مت رکھیے گا۔۔ میں جارہا ہوں۔۔ کار میں آپ کا ویٹ کر رہا ہوں۔۔آپ بات فائنل کر لیں۔۔معاملہ طے کر لیں۔۔ اور ان لوگوں سے معزرت کرکے باہر آجائیے گا،" احسن نے اپنی ماما کو اچھا خاصہ ہلکا کردیا تھا،

ابھی جو وہ بڑھ چڑھ کر زرار اور جنت کی کرداری کشی کر رہی تھیں۔۔ وہی اپنے بیٹے کے ہاتھوں بےعزت ہوکر رہ گئی تھیں،

اب کہنے سننے کو بچا کیا تھا۔۔

ہر بات کلئیر تھی۔۔ سو وہ بھی پیچ و تاب اور غصے سے بل کھاتی ہوتی ہوئی باہر کی طرف ہی چل دیں۔۔،،

اب احسن کی کلاس جو لگنی تھی۔۔ اس کا علیحدہ حساب تھا،

×××××××

جنید صاحب تھک کر وہیں صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھے اور فرزان صاحب کو فون لگا کر ساری بات بتائی،

فرزان صاحب کا تو وہیں بی پی شوٹ کر گیا،

پر اللّٰه کا لاکھ شکر تھا کہ ان کو کوئی نقصان نہیں ہوا،

ابھی تک وہ جنت کے ددھیالی گھر تک نہیں پہنچے تھے کیونکہ انہیں اپنے گھر سے نکلے ہوئے ابھی چار گھنٹے ہی ہوئے تھے جبکہ وہاں تک کا راستہ چھ گھنٹوں کی ڈرائیو پر تھا۔۔ 

انہوں نے وہیں سے کار ریورس کی، اپنے ساتھ بیٹھی راحیلہ بیگم کو ساری کہانی بتائی۔۔ ان کا پریشانی سے علیحدہ برا حال تھا،

فرزان صاحب کی فاسٹ ڈرائیونگ کی بدولت وہ اگلے ساڑھے تین گھنٹوں میں زرار کے گھر پر تھے،

وہاں سب لوگ ابھی تک جاگ رہے تھے،

زوبی۔۔ جنت کو اپنے ساتھ اپنے روم میں لے جا کر تسلیاں دے رہی تھی۔۔ زریاب بھی اسی کے ساتھ بیٹھا روتی ہوئی جنت کو چپ کرانے کی کوشش کر رہا تھا،

جبکہ لاونج میں گھر کے سارے بڑے اور زرار بیٹھے مشاورت میں مصروف تھے،،

وہاں بیٹھے سب لوگوں کو زرار پر بہت غصہ تھا،

پر کیا کرتے۔۔ آخری آپشن زرار ہی تھا۔۔

سو اس کے حق میں فیصلہ ہوا،،

پتہ نہیں جنید صاحب کو کیا insecurity تھی کہ انہوں نے نکاح۔۔ تیرہ دن بعد  کی بجائے آج دوپہر میں کرنے کو بولا، بارہ بج چکے تھے۔۔ نیا دن شروع ہو چکا تھا۔۔ جنید صاحب کو تو جلد سے جلد نکاح کرانے کی جلدی تھی، اسی لیے انہوں نے آج ہی کے دن نکاح کرانے کی تجویز پیش کی،

انہیں اپنے اس عجیب بیٹے پر بھروسہ نہیں تھا۔۔ یہ نہ ہو کہ وہ بعد میں انکار ہی کردے۔۔اور جنت اکیلی رہ جائے۔۔ اسی خدشے کے پیش نظر، جنید صاحب آج ہی نکاح کرانے پر بضد رہے۔۔

کچھ دیر بحث کے بعد ۔۔۔۔ باہمی مشاورت سے۔۔ دوپہر دو بجے نکاح طے پایا تھا،

زرار کو بھلا کیا مسئلہ ہونا تھا۔۔ اس کی تو الٹا لاٹری نکل آئی تھی،

جنت بھی جس شاک سے اس وقت گزر رہی تھی وہ۔۔ بے چاری بھی انکار نہیں کر سکی۔۔ زرار کی خالہ کے الزامات پر وہ اندر ہی اندر خود کو مجرم محسوس کر رہی تھی۔

وہ اپنے مما پاپا کے ساتھ ہی گھر واپس آئی تھی،،

اس نے ساری رات روتے تڑپتے گزری۔۔

تقدیر کے یہ عجیب کھیل۔۔اسے بالکل اچھے نہیں لگے۔۔

وہ غصہ کرنا چاہتی تھی۔۔ انکار کرنا چاہتی تھی۔۔

پر اسے یاد آیا کہ اس نے تو اپنا دل مار دیا تھا،

اب جو ہورہا ہے۔۔ جیسا ہو رہا ہے۔۔ اسے وقت اور حالات پر چھوڑ دینا چاہیے۔۔

×××××××

دوپہر میں بخیر و عافیت نکاح ہوگیا۔۔

فرزان صاحب کے سینے سے ایک بہت بڑا بوجھ ٹل گیا تھا،

جنت تو ان پر قطعاً کوئی بوجھ نہیں تھی پر اس کی اچانک شادی ٹوٹنے پر۔۔ بدنامی کا خوف۔۔ رسوائی کا ڈر۔۔ ان پر بوجھ بن کر رہ گیا تھا، 

آخر کو باپ تھے۔۔ 

بچیوں کی طرح باپ کی عزت بھی بہت نازک ہی تو ہوتی ہے۔۔

 اس لیے اچھی لڑکیوں کو اپنے سے زیادہ اپنے والد کی عزت اور مرتبے کا لحاظ ہوتا ہے۔

×××××××

زرار کی تو خوشی ہی نہیں سمٹ رہی تھی،

اتنی جلدی اسے جنت کے ہر چیلنج اور ریجیکشن کا منہ توڑ جواب دینے کا موقع جو مل گیا تھا،

گزری رات کے تمام واقعات کا اثر، اس پر سے زائل ہو چکا تھا،

شام پانچ بجے تک سب مہمان جا چکے تھے،

جنت اپنے روم میں تھی،

زوبی کی خدمات لیتے ہوئے۔۔ زرار کے روم میں گیا،

وہاں وہ محترمہ اپنے نکاح کا ڈریس تبدیل کیے۔۔ کاٹن کے ایمبرائیڈڈ کرتے اور کیپری پہنے، تولیے سے ہاتھ رگڑتے ہوئے واشروم سے نکل رہی تھی،

جیسے اسے سب سے پہلے خود  سے اس جوڑے کا بوجھ اتارنے کی جلدی تھی،،

زرار کو اس کی یہ حرکت بری تو لگی۔۔ پر وہ اسے ایسے بھی اچھی لگ رہی تھی،

زرار  اس کے بیڈ پر بیٹھا۔۔ ایک جلانے والی مسکراہٹ۔۔ اس کی طرف اچھال گیا۔۔

جنت۔۔ اس کو یہاں دیکھ کر surprise ہوئی تھی۔۔

اسے کچھ اچھا نہیں محسوس ہوا۔۔زرار کو ایسے اپنے سامنے دیکھ کر۔۔ اور اوپر سے زرار جل ککڑے کی مسکراہٹ۔۔!! جنت تو پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔

ایک تو اس نے دوپٹہ تک نہیں اوڑھا تھا اور نہ ہی کوئی اسٹولر لیا ہوا تھا۔۔ سو زرار کا ایسے گھورنا۔۔۔!!

"کیا مسئلہ ہے آپ کو۔۔ کیوں میرے روم میں بغیر اجازت داخل ہوئے ہیں۔۔" جنت نے ایک بار پھر زبان چلانے کی غلطی کر دی۔۔

اب تو وہ زرار کے under آ چکی تھی۔۔ اب زرار اسے۔۔ کسی بھی قسم کی زبان درازی کی اجازت نہیں دینے والا تھا۔۔

سو وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔۔ روم اندر سے لاک کیا اور جنت تک پہنچا۔۔!!

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

سو وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔۔ روم اندر سے لاک کیا اور جنت تک پہنچا۔۔!!

"محترمہ۔۔!! میں نے تمہاری زبان درازی بہت برداشت کرلی۔۔اب اور نہیں کروں گا۔۔تم یہ یقین کرلو کہ اب تم زرار جنید کی بیوی ہو۔۔اور زرار کی بیوی وہی کرے گی۔۔ جو زرار کہے گا۔۔ سمجیں۔۔!!" زرار نے اپنے ازلی گھمبیر لہجے میں۔۔جنت کی ٹھوڑی کو اپنی شہادت کی انگلی سے اونچا کر کے، وارن کیا،

جنت کو اس کا اتنا قریب ہونا ۔۔ بری  طرح کھل رہا تھا،،

"زرار بہتر ہوگا کہ آپ کچھ فاصلہ رکھ کر بات کریں۔۔" جنت اب اس کے اتنے قریب آنے پر سہم گئی تھی۔۔اس نے اپنی ساری دیدہ دلیری کو ایک طرف رکھ کر عاجزی سے ریکوئسٹ کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔

"کیوں فاصلہ رکھوں۔۔ جب کہ اب میرا تم پر مکمل حق ہے۔۔"زرار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر، اسے اپنی طرف کھینچا۔۔اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں سنجیدگی سے پوچھا۔۔

اس حق والی بات پر تو جنت کو پتنگا لگا،

کل کا دن اتنی آسانی سے بھولنے والا تھوڑی تھا،

جنت کے اندر سے غصہ ابل کر باہر آیا۔۔

"یہ کیا حق حق کی رٹ لگا رہے ہیں۔۔

کل جب آپ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے بات کر رہے تھے ۔۔۔

میرے ۔۔ بےے تحاشا قریب آ کر۔۔ میری گردن پر سے پینڈینٹ اتارا۔۔ اگر آپ کو وہ چاہیئے تھا تو بول دیتے۔۔میں نے کونسا انکار کرنا تھا۔۔!!

اور پھر بدتمیزوں کی طرح گود میں اٹھانا۔۔

زرار۔۔ تب آپ کا کون سا حق تھا۔۔بولیں۔۔" جنت تڑخ کر بولی۔۔

اسے زرار کی ان باتوں پر بہت غصہ تھا۔۔

"تو اس میں کونسا اتنی بڑی بات ہے۔۔ جو تم اتنا بپھر رہی ہو۔۔ کبھی کبھی ہوجاتا ہے ایسا۔۔!! اور میں نے تو تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میری بات نہ مان کر مجھے غصہ دلاؤ۔۔آرام سے اگر میری بات مان لیتیں تو ایسا نہ ہوتا.." زرار نے اپنا کیا کرایا۔۔الٹا اسی کے سر تھوپ دیا۔۔ اسے جنت کا اس طرح غصہ ہونا بالکل اچھا نہیں لگا۔۔

اور موڈ کا الگ ستیاناس ہوگیا۔۔۔

"زرار۔۔!! کتنے ڈھیٹ ہیں آپ۔۔!! آپ کےلئے یہ بڑی بات ہے ہی نہیں۔۔؟؟ مجھ سے پوچھیں کہ مجھے کتنا گلٹ فیل ہورہا ہے۔۔!! میں کل سے پہلے بہت فخر سے کہ سکتی تھی کہ میرے کردار پر کسی غیر مرد کی قربت  کا داغ نہیں ہے۔۔ پر آپ نے مجھے میرے سامنے ہی مجرم بنا دیا۔۔ آپ کو اپنی خالہ کے الفاظ بھول گئے۔۔ کیا کچھ کہہ کر گئیں تھیں وہ۔۔؟؟ زرار آپ کو یہ بڑی بات نہیں لگ رہی پر مجھے بہت شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔۔" جنت حد سے زیادہ سیریس ہوگئی تھی۔۔

اسے بری طرح رونا آرہا تھا۔۔ اور کل سے جو بات اس کے دل پر بوجھ بنی ہوئی تھی۔۔جنت نے اسے زرار کے سامنے کہہ کر۔۔ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا۔

"ریلیکس جنت ریلیکس۔۔!! تم کیوں گلٹی فیل کر رہی ہو۔۔؟؟ تمہاری غلطی نہیں تھی۔۔ ادھر میری طرف دیکھو۔۔ اب میں تمہیں ایسی فضول باتوں کی ٹینشن لیتا ہوا نہ دیکھوں،سمجیں۔۔!!"زرار نے اپنے لہجے کو حتی المقدور سافٹ رکھا۔۔وہ اب اتنا بھی بدلحاظ نہیں تھا کہ اس وقت بھی جنت کی ٹانگ کھینچنے میں لگا رہتا۔۔

اسے جنت کا۔۔ اپنے کریکٹر کے معاملے میں اتنا حسساس ہونا بہت اچھا لگا تھا،

پر جنت کو ابھی بھی کوئی تسلی نہیں ہوئی۔۔ ایسی چیزوں کا احساس ختم ہونے میں وقت لگتا ہے۔۔

اس کا یہ بے تکا گلٹ وقت کے ساتھ ہی ختم ہونا تھا۔۔

"اچھا ویسے۔۔ تم نے کل کچھ کہا تھا مجھے۔۔"زرار نے شرارت سے کہا۔۔

اس کا ہلکا پھلکا اور دوستانہ انداز دیکھ کر جنت بھی ذرا پر سکون ہوکر اور  اطمینان سے اس کی بات سننے لگی۔۔

"کیا کہا تھا۔۔۔؟" اسنے ناسمجھی سے پوچھا۔۔

"یہی کہ تم نے مجھ سے کسی بھی صورت شادی نہیں کرنی تھی۔۔اب کیا ہوا۔۔؟؟ ارادہ کیسے بدلا تمہارا۔۔۔" زرار نے مسکراتے ہوئے اپنے ایک ہاتھ کی پر لپٹا، جنت کا فیورٹ ، وہی پینڈینٹ۔۔اس کے گلے میں پورے استحقاق سے پہناتے ہوئے جلانے والے لہجے میں کہا۔۔

جنت ویسے تو اسے ریزیسٹ نہیں کر رہی تھی۔۔ لیکن اس بات پر اسے ایک الگ قسم کا پتنگا لگا۔۔۔۔

اس نے زرار کو ہاتھ سے پکڑ کر کھینچا۔۔ دروازے تک لائی۔۔ اس کا لاک کھولا اور باہر کی طرف دھکا دے کر۔۔اپنی شکست کو cover کرنے والے انداز میں بولی۔۔

زرار کو اس کے انداز پر ہنسی آرہی تھی۔۔

"ارے بھئی۔۔مجھے کیوں نکالا؟؟" زرار نے مسکراتی آنکھوں سے شکوہ کیا۔۔

"آپ ہیں ہی اسی لائق۔۔ اور سن لیں میں نے ابھی آپ سے شادی نہیں کی۔۔ صرف نکاح کیا ہے۔۔ میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں۔۔اور اب آپ مجھے تنگ مت کیجئے گا۔۔!!" جنت نے انگلی اٹھا کر وارن کرنے والے انداز میں تڑی لگائی۔۔

وہ دروازہ دھپ سے بند کرنے لگی تھی کہ زرار کا دھیان اس کے ہاتھ کی رنگ کی طرف گیا۔۔

اس کی ساری خوش مزاجی بھک سے اڑ گئی۔۔

اس نے اپنے  بازو کے زور سے دروازہ بند ہونے سے روکا۔۔

اس کے ایک دم کے بدلتے تیوروں پر جنت بھی سہم گئی تھی۔۔

اس نے جنت کا ہاتھ لے کر سختی سے پکڑا۔۔

"تم نے اب تک اس گدھے کی پہنائی ہوئی رنگ نہیں اتاری۔۔" زرار کا غصہ سوا نیزے پر تھا۔۔

اس نے وحشیانہ انداز میں۔۔ جھپٹ کر اس کی انگلی سے رنگ نکالی۔۔

"چلو۔۔اب میں خود ہی واپس کردوں گا اسے یہ۔۔" زرار اپنی بات کہتا۔۔ تنتناتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔

جنت اپنے بیڈ پر آکر بیٹھی۔۔ اور ہولے سے کراہتے ہوئے اپنی انگلی سہلانے لگی۔۔ کیوں وہ سائڈ سے تھوڑی چھل چکی تھی۔۔!!

اسے رہ رہ زرار پر غصہ آرہا تھا۔۔

"اف۔۔خدایا۔۔!! مجھے بھی اسی نمونے سے محبت ہونی تھی۔۔!!" اس نے اپنے آپ سے شکوہ کیا۔

×××××××××

صبح وہ کالج گئی۔۔تو ایسے ہی کلاس فیلوز کے ساتھ کالج کے لان میں بیٹھی تھی۔۔ اس کے پاس بیٹھی رافعہ جسے اس کی منگنی کی سب سے زیادہ خوشی تھی۔۔ 

اسے جنت کے ہاتھ سے اس کی انگیجمنٹ رنگ غائب دیکھ کر حیرت ہوئی۔۔"ارے جنت۔۔ یار تمہاری رنگ کدھر گئی۔۔ارے لڑکیاں اپنی یہ اسپیشل رنگ اتارتی تھوڑا ہی ہیں۔۔ کہیں تم نے گم تو نہیں کردی۔۔؟؟" اس نے نان اسٹاپ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہا۔

اس سے پہلے کہ جنت کوئی بہانہ بناتی۔۔زوبی منہ پھٹ نے اس سے پہلے ہی حقیقت کا اعلان کر دیا،

"وہ کیا ہے ناں۔۔ رافعہ۔۔ جنت کا نکاح ہو گیا ہے۔۔ زرار بھائی کے ساتھ۔۔ اس لیے اس نے وہ رنگ اتاردی۔۔" زوبی کا لہجہ اچھا خاصا سلگانے والا تھا۔۔

رافعہ کو تو جھٹکا لگا۔۔

وہ بے چاری دل پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔۔

پھر چند منٹوں میں یہ خبر سارے کالج میں پھیل گئی،

اور پھر زوبی کو جگہ جگہ لڑکیوں کی ٹولیاں اظہار افسوس کرتی ہوئی نظر آئیں۔۔ کچھ لڑکیاں جنت کو کوس رہی تھیں۔۔ اور کچھ کا ، زرار سے جذبات کی وابستگی یہ حال تھا کہ بے چاریاں۔۔ زرار کے نکاح کے غم میں آنسو بہانے لگیں۔۔

جو بھی تھا ۔۔۔ زوبی بڑی ہی خوش تھی۔۔

×××××

نکاح کے بعد زرار نے جنت سے کوئی بات نہیں کی۔۔

تیرہ دن پر لگا کر ختم ہوئے۔۔

آج شام جنت اور زرار کی مہندی ہونی تھی۔۔

پر جنت نے ایک ادھم مچا رکھا تھا۔۔

وہ ضدی بن کر ۔۔۔ بس ایک ہی رٹ لگائے جارہی تھی۔۔کہ "میں نے زرار سے شادی نہیں کرنی۔۔میں نے زرار سے شادی نہیں کرنی۔۔" وہ صبح آٹھ بجے سے لے کر اب تک  یہی راگ الاپے جا  رہی تھی۔۔ 

اس کی مما کو تو اب پریشانی ہونے لگی تھی۔۔

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

اس کی مما کو تو اب پریشانی ہونے لگی تھی۔۔

زوبی شام چھ بجے۔۔اسے پارلر لے جانے کے لیے لینے آئی تو۔۔

اس کی پھپھو نے جنت کے تماشوں کے متعلق بتایا۔۔ جو اس نے صبح سے لگائے ہوئے تھے۔۔

زوبی کو ایک نئے سرے سے غصہ آیا۔۔

وہ پیر پٹختی ہوئی۔۔جنت کے روم تک گئی۔۔۔

"اٹھو۔۔جلدی سے ریڈی ہو۔۔ تمہیں پارلر لے کر جانا ہے۔۔" زوبی نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔۔ جو پتہ کس بات منہ نیچے کیے روئے جا رہی تھی۔۔

شاید اس کو شوق تھا۔۔ فضول میں  ہر وقت رونے کا۔۔

"کیا مسئلہ ہے تمہیں زوبی ۔۔ اس ٹون میں کیوں بات کر رہی ہو۔۔؟؟ اور میں نے نہیں جانا پارلر۔۔ مجھے نہیں کرنی کوئی مہندی اور کوئی شادی۔۔" جنت نے منہ بسورا۔

"اب تمہیں کیا مسئلہ ہے جنت۔۔!! کیوں تماشے لگا رہی ہو۔۔ شکر کرو اللّٰه نے تمہیں خالہ جیسی خرانٹ ساس سے بچا لیا۔۔ من پسند آدمی سے نکاح ہوگیا۔۔ اب تمہیں اور کیا چاہیے۔۔؟؟ ناشکری لڑکی۔۔" زوبی نے جنت کو جھنجھوڑ کر کہا۔۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ایک تھپڑ لگائے اپنی اس بے وقوف سہیلی پلس بھابھی کو۔۔!!

"زوبی۔۔!! میں نے انہیں چیلنج کیا تھا کہ میں ان سے کبھی شادی نہیں کروں گی۔۔ اور دوسرا یہ کہ تمہارے اس اکڑو بھائی کو ذرا تمیز نہیں ہے کہ بیوی کو کیسے ٹریٹ کرتے ہیں۔۔ ایک نمبر کے جاہل ہیں وہ۔۔اور تو اور۔۔ وہ مجھے تھوڑا سا بھی پسند نہیں کرتے۔۔" زوبی اپنی لال ہوتی ناک کو رگڑ کر بتایا۔

"یار۔۔ابھی تو ان کا تمہارے ساتھ ایسا کوئی انٹرایکشن  ہی نہیں ہوا کہ تم ان پر الزام لگاؤ کہ وہ تمہیں اپنی بیوی کے طور پر صحیح سے ٹریٹ نہیں کرتے۔۔۔" زوبی نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا۔۔

"اچھا۔۔ اور تم ہماری وہ ملاقات بھول گئیں جو تم نے ہی زرار کو میرے کمرے میں بھیج کر کرائی تھی۔۔ بولو؟؟" جنت نے اپنی آنکھیں سکیڑ کر۔۔اور کڑوے کسیلے منہ بنا کر کہا۔۔

"تت تمہیں کس نے کہا کہ میں نے بھیجا تھا۔۔ میں نے تو نہیں بھیجا تھا،" زوبی ایک دم بوکھلا لا گئی۔۔

"جھوٹ مت بولو۔۔ اچھی طرح معلوم ہے مجھے کہ تم اپنے بھائی کی کتنی بڑی چمچی ہو۔۔!! اور چلی جاؤ یہاں سے۔۔ میں نے کوئی پارلر وارلر نہیں جانا" جنت نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا۔

زوبیہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔۔

لیکن اسے پریشانی ہورہی تھی۔۔ کہ اب اس محترمہ کو کیسے راضی کیا جائے کہ یہ اپنے ان تماشوں سے باز آجائے۔۔

اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا۔۔

"اچھا اچھا۔۔ اب مجھے سمجھ آئی۔۔ تم یہ تماشے اس لیے لگارہی ہو ناں تاکہ بھائی تمہیں خود آکر، منا کر لے کے جائیں۔۔ کوئی نہیں میں مدد کر دیتی ہوں۔۔ تم بھی کیا یاد رکھو گی۔۔زرار بھائی۔۔ ویسے بھی باہر کار میں ویٹ کر رہے ہیں۔۔ میں ابھی بلا کر لاتی ہوں انہیں۔۔"زوبی اپنی طرف سے جھوٹی سچی کہانی بنا کر ، اچھلتی ہوئی اس کے کمرے سے باہر نکلی۔۔

اسے پتہ تھا کہ اس وقت صرف زرار ہی اس کا علاج کرسکتا ہے۔۔

زوبی کے جانے کے بعد جنت نے اٹھ کر فوراً ڈور لاک کیا،

دو منٹ بعد زرار باہر کھڑا دروازہ ناک کررہا تھا۔۔

اور جنت ڈھیٹ بنی ۔۔۔ دروازہ ہی نہیں کھول کر دے رہی تھی۔۔

زرار کو اب اس پر غصہ آرہا تھا۔۔

پھپھو۔۔اس کے بگڑتے تیوروں کو دیکھ کر پریشان ہو رہی تھیں۔۔ 

انہوں نے جلدی سے اس کے روم کی ایک اضافی چابی۔۔ گھر کی تمام چابیوں والے بنچ میں سے نکال کر دی۔۔

زرار نے چابی کی ہول میں گھمائی۔۔ اور باقی سب کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔۔ کٹک کی آواز سے لاک کھلا۔۔

اور وہیں جنت کی ساری اڑی بازیاں بھی دم توڑ گئیں۔۔

زرار کی قہر برساتی نظریں۔۔

خون پی جانے والا تاثر۔۔

جنت کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔۔

وہ معصوموں کی طرح ایسے ری ایکٹ کرنے لگی کہ جیسے محترمہ نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔۔!!

"کیا مسئلہ ہے تمہارا ہاں..؟؟ کیوں ڈرامے کر رہی ہو۔۔ زیادہ شوق ہے تمہیں میرا اور اپنا تماشا بنانے کا۔۔بولو؟؟" زرار نے جھٹکے سے اس کا بازو کھینچ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔

اور کچا چبا ڈالنے والا تاثر لیے۔۔غرا رہا تھا۔۔

"وہ۔۔وہ۔۔زرار۔۔ممم۔۔۔میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔۔ سچی۔۔وہ بس۔۔!!

دیکھیں آپ ایسے غصہ نہ کریں۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے آپ سے۔۔

مم۔۔میں دو منٹ میں ریڈی ہو کر آتی ہوں۔۔"جنت کا تو سارا ڈھیٹ پن۔۔ ساری ضد۔۔ سارا غصہ۔۔ سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔۔

زرار کی اس قدر سنجیدہ پرسنیلٹی کے سامنے بھلا۔۔وہ کتنی دیر اپنی ضد پر اڑی رہ سکتی تھی،

"ریڈی ہوکر آؤ گی نہیں بلکہ ابھی میرے ساتھ چلو گی۔۔

اور سنو۔۔ میں نے تمہیں ایک موقع دینا چاہا تھا۔۔لیکن تم نے اب ایک اور مرتبہ انکار کر کے وہ موقع ضائع کردیا۔۔ اب اپنے لیے کسی نرمی اور اچھائی کی امید نہ رکھنا مجھ سے۔۔" زرار کی سنجیدگی ہنوز قائم تھی۔۔

وہ جنت کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ ہی اسے باہر لے گیا۔۔

راحیلہ بیگم کو جنت کی شکل دیکھ کر بری طرح ہنسی آئی۔۔ آخر اس نے صبح سے ان کی ناک میں دم کیا ہوا تھا۔۔اور اب کیسے۔۔زرار کے قابو آئی تھی وہ۔۔

لاونج سے گزرتے وقت ایک شور تھا۔۔ جسے سن کر جنت کو اور زیادہ شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔۔ کیوں کہ اس کی پھوپھو۔۔چاچیاں۔۔اور ان کے بچے۔۔اسے زرار کے ساتھ دیکھ کر ۔۔۔ زبردست قسم کی ہوٹنگ کرنے لگے تھے۔۔

جنت منہ نیچے کیے ۔۔۔تیز قدم بڑھاتی وہاں سے نکلی تھی۔۔

××××××

جنت ۔۔۔ مہندی کی دلہن بنی۔۔ پھولوں اور LED lights سے سجے جھولے میں ،، سمٹ کر بیٹھی تھی۔۔

زرار نے اس کے دل و دماغ پر اپنا ایسا رعب جمایا تھا اور ایسی دھاک بٹھائی تھی۔۔کہ بچاری کی بولتی بند ہو کر رہ گئی تھی۔۔

پھر زرار کی وہ آخری وارنگ۔۔ اب وہ اسے مزید تنگ کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔۔اس مغرور شخص سے تو کسی بھی برائی اور سختی کی توقع کی جا سکتی تھی۔۔

اب وہ اس سے پنگے لے کر۔۔اپنے لیے کوئی مشکل نہیں کھڑی کرنا چاہتی تھی۔۔

وہ زرار کو ہی سوچے جارہی تھی کہ ایک شور سا مچا۔۔

مہندی ہال میں ارینج کی گئی تھی،

اس کی نظر entrance پر پڑی تو وہاں زرار اپنی فیملی کے ساتھ اندر داخل ہو رہا تھا۔۔

جنت کی کزنز ان لوگوں کا گلاب کی پتیوں سے خیر مقدم کررہی تھیں۔۔

ان پھولوں کی بارش میں ۔۔۔ ایک شان سے چلتا ہوا زرار اسے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہا تھا۔۔

وہ منظر اتنا خوبصورت تھا۔۔۔  اتنا  magical🔮 تھا ۔۔۔ کہ جنت کے لیے اپنی پلکیں جھپکانا مشکل ہوگیا۔۔۔

وہ شہزادہ بھی تو ساری دنیا سے بے نیاز۔۔ صرف اور صرف جنت کو اپنی دلفریب آنکھوں سے۔۔۔ اپنی نظروں کے حصار میں رکھے ہوئے تھا۔۔

چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی۔۔ پر خوشی کے بکھرے رنگ اس سے چھپانے پر بھی نہیں چھپ رہے تھے۔۔

اسے جنت کے بالکل ساتھ بٹھایا گیا۔۔

جنت کی دھڑکنیں بے ترتیبی کا شکار ہورہی تھیں۔۔

سانسیں تھیں کہ بے ہنگم ہوتی چلی جارہی تھیں۔۔

اور تو اور اسے اپنے پیٹ میں تتلیاں سی منڈلاتی محسوس ہورہی تھیں۔۔

"اف اللّٰه۔۔ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔۔" اس نے گھبراتے ہوئے دل میں سوچا۔۔

لیکن یہ بالکل نارمل بات تھی کیونکہ سبھی لوگوں میں اپنے کرش کو اتنے قریب سے دیکھنے پر ایسا ہی فیل ہوتا ہے۔۔

ساری فیلینگز ایک طرف۔۔

لیکن جنت کو اب زرار پر غصہ آرہا تھا۔۔

وہ سب لوگوں سے ہنستے مسکراتے بات کر رہا تھا۔۔ پر ابھی تک اس نے جنت کی طرف کو توجہ نہیں برتی تھی۔۔

پندرہ منٹ ہونے کو آئے تھے۔۔لیکن اس نے ابھی تک کوئی بات ہی نہیں کی۔۔ نہ کوئی تعریف کی۔۔ جنت کا تو دل جل کر رہ گیا۔۔

اب اس کا اس ساری تقریب اور اس کی رنگینیوں سے دل اٹھ گیا تھا۔۔۔

اسے وہاں موجود کسی بھی چیز یا ایکٹیویٹی میں اب کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہورہی تھی۔۔

اور اسے ایک عجیب سی الجھن ہونے لگی تھی۔۔

زرار اچھی طرح اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے اس کی الجھن سمجھ رہا تھا۔۔

مگر پھر بھی اس نے خود پر جبر کرتے ہوئے۔۔نہ ہی اس سے کوئی بات کی اور نہ ہی اسے یہ بتایا کہ آج وہ اسے اس طرح ۔۔اس کے ساتھ بیٹھی۔۔ دنیا کی حسین ترین لڑکی لگ رہی ہے۔۔

جسکے ایک اشارے پر وہ کچھ بھی کر جائے۔۔۔

پر اس نے اپنے امڈتے جذبات اندر دبائے۔۔

اور جی بھر کر جنت کو اگنور کیا۔۔ جیسے اسے اس معصوم لڑکی کی۔۔ اسے کوئی پرواہ ہی نہ ہو۔۔

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

اور جی بھر کر جنت کو اگنور کیا۔۔ جیسے اسے اس معصوم لڑکی کی۔۔ کوئی پرواہ ہی نہ ہو۔۔

جنت تو بری طرح کلس کر رہ گئی تھی۔۔

زوبی نے اس کا رویہ نوٹ کیا اور پوچھا بھی کہ کیا وجہ ہے؟؟ 

پر جنت بی بی نے تو منہ میں دہی جما لیا تھا۔۔ کچھ بولی ہی نہیں وہ،،

وہ یوں ہی بیٹھی اپنی انگلیاں مروڑ مروڑ کر اپناغصہ بےچاری انگلیوں پر نکال رہی تھی ۔۔۔

کہ اچانک اس کے سامنے سیلفی کیمرہ آیا اور اک انتہائی خوبصورت تصویر کلک ہوئی ۔۔۔

زرار کافی دیر سے بیٹھا اس کی حرکات کو اچھے نوٹ کررہا تھا۔۔ پھر اس نے کسی خیال کے تحت اپنا فون پاکٹ سے نکالا،

اور جنت کو بتائے بغیر۔۔ ایک زبردست سی پکچر لے لی،

اس پکچر میں جنت کے ایکسپریشنز اتنے کیوٹ تھے کہ زرار کو اس پر بے تحاشہ پیار آیا،

دراصل اچانک موبائل کے کیمرے کے سامنے آنے پر جنت کچھ چونک سی گئی تھی، اور وہ موبائل اوپر سے زرار کے ہاتھ میں تھا۔۔اور زرار پکچر لینے کے لیے۔۔ اس کے کچھ زیادہ ہی قریب ہوگیا تھا۔۔ اب اس سارے عمل کے نتیجے میں جنت معصوم کے جو تاثرات نکلے۔۔وہ انتہائی مزیدار تھے،

زرار نے اسے مزید تڑپانے کا فیصلہ ترک کیا۔۔

لیکن اسے اپنی ایگو بھی بڑی پیاری تھی اور اوپر سے اس کی ہمیشہ کی عادت۔۔ اس لیے۔۔ اس نے اپنے اسی ٹھہرے ہوئے سنجیدہ لہجے میں جنت کے کان میں سرگوشی کی۔۔"یار کمفرٹیبل رہو ۔۔۔!! یقین کرو نازنین نے بہت اچھا تیار کیا ہے تمہیں۔۔" اس نے جنت کو تیار کرنے والی بیوٹیشن کا نام لیتے ہوئے۔۔بڑی کنجوسی سے تعریف کی۔۔

اس نے اپنی حقیقی تعریف خود سے ہی اخذکرلی۔۔

یعنی اسے زرار کے اتنے سے جملے میں اپنی تعریف کے وہ سارے الفاظ سنائی دے گئے جو وہ خود سننا چاہتی تھی۔۔ 😂😂

جنت ٹھہری مشرقی لڑکی۔۔

اب بے چاری کی الجھن اور غصہ تو دور ہوگیا تھا لیکن اس کی جگہ شرمیلی مسکان نے لے لی تھی ۔۔۔

اسے ایسے مسکراتا دیکھ کر، زوبی فوراً اس کے پاس آئی،

وہ اس کی اور زرار کی کارروائی دیکھ چکی تھی،

"خیر ہے۔۔؟؟ ابھی تو منہ پر بارہ بجے تھے،اور اب اچانک سیلفی لینے پر محترمہ کی مسکراہٹ ہی دب کے دے رہی۔۔ بتاؤ تو بھائی نے ایسا کیا کہا ہے تمہارے کان میں؟؟ بتاؤ بتاؤ" زوبی نے پوری طاقت سے ہونٹ کھینچ کر دانت پھاڑے ہوئے تھے۔۔اور وہ ہنس ہنس کر جنت کا اچھا خاصہ ریکارڈ لگا رہی تھی۔۔

"کچھ بھی نہیں کہا انہوں نے۔۔ اور تم اپنی بکواس بند رکھو۔۔ سمجھ آئی۔۔۔" جنت نے اسے غضب ناک نظروں سے گھورا۔

خیر اللّٰه کر کے، آج کا دن ٹلا،

×××××

بارات والے دن وہ زرار کے پسند کیے اس انتہائی خوبصورت برائیڈل ڈریس میں ، ساری Disney  پرینسسز کو پیچھے چھوڑ چکی تھی،

ایک تو وہ ایسے ہی اتنی نازک سی اور بے انتہا خوبصورت تھی اوپر سے میک اپ آرٹسٹ نے اس پر اپنے آرٹ کے ایسے مظاہرے کیے تھے کہ وہ قاتلانہ حسن لیے ہر دیکھنے والی آنکھ کا مرکز بنی ہوئی تھی،

لیکن اس کی نظریں، اس کی آنکھیں تو۔۔ کسی اور کو ہی تلاش رہی تھیں۔۔

کچھ دیر کے بعد اس کا شہزادہ بارات سمیت ہال میں داخل ہوا۔۔

جنت کی دھڑکنیں پھر سے اچھل کود کرنے لگی تھیں۔۔

زرار کا پھر سے کل والا رویہ دیکھ کر تو جنت کی ساری خوشی کا ستیاناس ہوگیا تھا۔۔

اس کے اس طرح اگنور کرنے ہر بچاری جل کر رہ گئی تھی ۔۔۔

پر وہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی۔۔

اپنے دماغ میں زرار کی اس حرکت پر بدلہ لینے کی طرح طرح کی  سکیمیں بنانے لگی۔۔یہ سوچے بنا کہ اس کے نتائج سنگین بھی ہو سکتے ہیں۔۔

اسے پتہ تھا کہ زرار کو اپنی اہمیت جتانے کا کتنا شوق ہے۔۔!! 

اب ایسے میں وہ اسے اگنور کر کے اپنا بدلہ اچھے سے لے سکتی تھی۔۔

×××××××

زرار رات کو ، روم میں ایک بجے کے بعد داخل ہوا۔۔

اس نے سوچا تھا کہ جنت سامنے بیٹھی، بیڈ پر اپنا لہنگا پھیلائے، اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔۔

اور پھر وہ اس کی طرف بغیر دیکھے اس کو بولے گا کہ جاؤ جا کر بدل کر آؤ اپنا یہ فضول لباس۔۔

دراصل وہ جنت سے اس کے بار بار انکار کرنے اور ریجکیٹ کرنے والی بات کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔

کیونکہ اس کے نزدیک، اس کی انا ۔۔ اس کی خودی۔۔ بھی اتنی ہی اہم تھی کہ جتنی اس کی محبت۔

پر جنت صاحبہ تو اس کی ساری پلیئنگ پر پانی پھیرے۔۔ اپنے بلیک نائٹ سوٹ یعنی سلک کے ٹراؤزرز اور کالر والی شرٹ میں مزے سے۔۔ زرار کا سارا بلینکٹ گلے تک اوڑھے۔۔ اپنے بازو سے آنکھیں ڈھانپے۔۔ سونے کی بھرپور ایکٹنگ کررہی تھیں۔

جنت نے بھی سوچ چکی تھی کہ اس مغرور انسان کو اب وہ کوئی رسپانس نہیں دینے والی۔۔!!

اور دوسری طرف بات۔۔ زرار کی انا کی تھی۔۔

وہ جنت کا اس طرح نظر انداز کرنا بالکل برداشت نہیں کر پارہا تھا۔

اس نے خود کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے اور کچھ دن بھر کی تھکان اتارنے کے لئے، شاور لیا،

اور وہ بھی آرام دہ سا نائٹ سوٹ پہنے واشروم سے نکلا۔۔

""جنت۔۔۔!! اٹھو۔۔!!" وہ جنت پر جھکا۔۔ اس کا کندھا زور زور سے ہلاتے ہوئے اسے جگا رہا تھا،

جاگی تو پہلے کی تھی ۔۔۔ لیکن فی الحال وہ سختی سے اپنی ایکٹنگ پر جمی رہی۔۔

زرار نے اس کا بازو۔۔اس کی آنکھوں سے ہٹا کر اپنے گیلے بالوں کا رخ ۔۔جنت کے چہرے کی طرف کر کے، ان میں انگلیاں پھیر کر، پانی کی چھینٹیںں جنت کے منہ پر ماریں۔۔

ایک بوند آکر اس کی آنکھ کے کونے پر لگی۔۔ جسکی وجہ سے اس کی ساری ایکٹنگ کی دھجیاں اڑ گئیں۔۔

وہ اب آنکھیں کھولے۔۔زرار کو بے زاری سے دیکھ رہی تھی۔۔"کیا مسئلہ ہے آپ کو۔۔؟؟ ہاں ؟؟ کوئی اخلاقیات نام کی چیز نہیں ہے آپ میں۔۔فضول میں لے کر اٹھا دیا۔۔" جنت نے اپن زبان کے جوہر دکھائے۔۔

"خاموش۔۔!! ایک لفظ بھی اب منہ سے مت نکالنا۔۔!!" زرار نے اپنی انگلی اس کے ہونٹوں پر سختی سے رکھتے ہوئے۔۔اسے غصے سے چپ کرایا۔

"آئی بڑی اخلاقیات کا درس دینے والی۔۔تمہیں خود تو کوئی تمیز ، کوئی عقل کوئی شعور نہیں کہ ایسے موقع پر شوہر کا انتظار کرتے ہوتے ہیں۔۔اب جاؤ جا کر اپنا لہنگا پہن کر آؤ اور میک اپ بھی کرنا۔۔ اور پھر مجھے اچھے سے ریسیو کرنا۔۔" زرار نے اپنا تسلط جماتے ہوئے، پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا۔

"میں کوئی۔۔لہنگا وہنگا نہیں پہن رہی ، میں سو رہی ہوں۔۔ سمجھے آپ۔۔؟؟ مجھے نیند آرہی ہے۔۔"اس نے بلینکٹ میں اپنا منہ چھپا کر کہا۔۔

زرار تو اس کی ہٹ دھرمی پر تلملا کر رہ گیا،

"ہاں ہاں۔۔میرے لیے بھلا تم نے یہ سب کیوں کرنا ہے۔۔میری جگہ آج اگر احسن ہوتا تو تم خوشی خوشی۔۔"زرار نے ابھی اتنا ہی بولا تھا کہ جنت اچھل کر بستر سے باہر نکلی اور زرار کے  منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر، اس کی چلتی زبان کو بریک دی۔

"زرار ۔۔۔کچھ تو خدا کا خوف کریں۔۔میں۔۔میں بیوی ہوں آپ کی۔۔آپ میرے متعلق ایسا کیسے کہ سکتے ہیں۔۔؟؟ بہت ہی غلط بات کی ہے آپ نے۔۔" اس نے اذیت سے کہا،

اسے واقعی بہت تکلیف پہنچی تھی زرار کی اس بات سے۔۔

آنسو تھے کہ روانی سے بہنے لگے۔۔

اسے واقعی بہت تکلیف ہوتی تھی۔۔ جب زرار اپنے علاؤہ کسی اور مرد سے اسے منسوب کرتا تھا۔۔

وہ بھاگی بھاگی اپنی واڈروب کی طرف گئی۔۔ اپنا عروسی لباس نکالا۔۔

وہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ اس کے لیے جو اہمیت وہ رکھتا ہے۔۔ وہ تو کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی۔۔

وہ آدھے گھنٹے بعد لباس تبدیل کیے۔۔اور ہلکے میک اپ کے ساتھ بالکل تیار ہو کر اس کے سامنے تھی۔۔

زرار بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے۔۔ سگریٹ ہونٹوں میں دبائے۔۔اسی کا منتظر بیٹھا تھا۔۔

حالانکہ وہ اس کا انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔

اسے تو جنت والی حرکت دہرانی تھی۔۔

مگر نجانے کس احساس نے اسے اسکی جگہ پر باندھ دیا تھا۔۔

وہ اسے اپنے سامنے کھڑی۔۔جنت نہیں بلکہ جنت کی حور لگ رہی تھی۔۔

وہ پلکیں جھپکائے بغیر ۔۔ اس کے حسین سراپے کو ستائش اور محبت بھری نظروں سے سراہ رہا تھا کہ جنت کی آواز نے اس کا سحر توڑا۔۔

"دیکھ لیا آپ نے۔۔؟؟ میں آپ کے لیے تیار ہوئی ہوں۔۔ میرے لیے آپ کا جو مقام و مرتبہ ہے۔۔ وہ کسی کا ہو ہی نہیں سکتا۔۔ لیکن زرار آپ بہت برے ہیں۔۔ ہمیشہ میرا دل دکھاتے ہیں۔۔" وہ روتی ہوئی واپس واشروم بھاگی،

زرار کو اب اپنے لفظوں کی سنگینی کا تھوڑا بہت احساس ہورہا تھا۔۔ 

جنت اس سے بری طرح خفا ہوئی تھی۔۔

پر اس کا یہ احساس لمحوں میں ختم ہوا،

جنت۔۔جب واپس اپنا نائٹ سوٹ پہنے اور میک اپ صاف کئے، واشروم سے نکلی۔۔

اور بیڈ پر ایک طرف کو بالکل کنارے پر ہو کر سونے کے لیے لیٹی۔۔۔

 تو زرار کی یہ حرکت دیکھ کر وہ اندر تک کھول گئی۔۔ 

ایک تو وہ ناراض تھی اور اوپر سے اس کھڑوس کی ایسی اوچھی حرکتیں۔۔

🖤🖤💜💜💜🖤🖤

ایک تو وہ ناراض تھی اور اوپر سے اس کھڑوس کی ایسی اوچھی حرکتیں۔۔

زرار نے اس پر سے سارا بلینکٹ اپنی طرف کھینچ لیا تھا،

اس نے بلینکٹ کا بس اتنا سرا خالی چھوڑا تھا کہ اسے اوڑھنے کے لیے جنت کو بالکل اس کے پاس آنا پڑتا۔

جنت کو بری طرح غصہ آیا۔

پر وہ خفا تھی ، اس لیے اس نے زرار کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا اور وہ کچھ بولی ہی نہیں،

بس غصے سے زرار کی مخالف سمت میں منہ کیے۔۔

اے سی کی ٹھنڈک برداشت کررہی تھی، 

جب وہ کافی دیر ایسے ہی بغیر کچھ بولے سردی سے ٹھٹھرتی رہی تو زرار کو اس کا خیال آیا،

"بہت ڈھیٹ ہو تم…!" کہتے ہوئے اس نے جنت کے قریب آکر ، اسے بلینکٹ اوڑھایا، اور اپنا ایک بازو اس پر سے گزارتے ہوئے، اسے اپنے حصار میں لیا،

جنت کو اس کی یہ حرکت بھی پسند نہیں آئی۔۔ وہ ابھی بھی اس کی مخالف سمت میں چہرہ کیے، ناراض سی۔۔ آنسو بہا رہی تھی،

"زرار دور ہٹیں۔۔میرے پاس سے۔۔" اس نے اپنی رندھی ہوئی آواز میں کہا،

"اگر نہ ہٹوں تو۔۔؟؟" زرار کا لہجہ چیلنجنگ تھا۔۔

"تو کچھ نہیں۔۔ میں یہاں سے اٹھ کر کہیں اور چلی جاؤں گی۔۔" اس نے دھمکی دی،

"اچھا۔۔کدھر جاؤ گی۔۔؟؟" زرار کو اس کے ساتھ بحث کرنے میں مزہ آیا،

"باہر لاونج میں یا زوبی کے کمرے میں۔۔" جنت نے تفصیلاً بتایا۔۔

"اچھا۔۔ پھر جا کر دکھاؤ۔۔" اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور ساتھ ہی اس نے اپنی گرفت مزید مضبوط کردی۔۔ جنت زور لگانے کے باوجود بھی اس کا بازو ہٹا کر اس سے علیحدہ نہ ہو سکی۔۔

"زرار آپ بہت بے مروت اور بدتمیز ہیں۔۔ آپ کو تھوڑی سی بھی پرواہ نہیں کہ میں آپ سے ناراض ہوں۔۔" جنت نے روٹھے لہجے میں تکلیف سے کہا،

"کیوں ناراض ہو۔۔؟؟ بھلا میں نے تمہیں کیا کہا ہے۔۔؟؟" زرار نے اسے جلایا،

"اچھا جی۔۔ بھول گئے اپنے الفاظ۔۔؟؟" وہ ابھی بھی بغیر اس کی طرف دیکھے ، اس کے ساتھ بحث میں مصروف تھی،

"اور تمہیں اپنے الفاظ یاد ہیں۔۔؟؟" زرار نے اس کو، اس کا سوال لوٹایا،

"کونسے الفاظ؟؟" جنت نے بھولپن کے ریکارڈ توڑ دیے۔۔

"Jannat is rejecting Zarar,

Jannat has rejected you,

And Jannat will never marry you...!!!"

زرار نے اس کے کہے الفاظ دہرائے۔۔

"جانتی ہو کتنا غصہ آیا تھا مجھے۔۔؟؟ کتنی تکلیف ہوئی تھی مجھے۔۔ اب میں نے تمہیں کچھ کہہ دیا تو تم ناراض ہو کر بیٹھ گئیں۔۔" زرار نے ایسے پریٹینڈ کیا کہ جیسے نجانے پر کیا ظلم ڈھایا گیا ہے۔۔!!

"پر زرار ۔۔۔ آپ اپنا کیا کرایا بھول گئے۔۔؟؟ اور اب تو میں نے شادی کرلی ہے ناں۔۔ اب بھلا کیا مسئلہ ہے آپ کو۔۔؟؟ اب کیوں اپنی ایگو بیچ میں لا رہے ہیں۔۔؟؟ آپ جانتے نہیں کیا؟؟۔۔ مجھے کتنی محبت ہے۔۔!! آپ کو نہیں پتا ناں۔۔کہ جب آپ احسن کے پروپوزل کے لیے مما پاپا کو کنونس کررہے تھے۔۔تو میرے دل پر کیا گزری۔۔!! زرار میں آپ کو لفظوں میں بتا ہی نہیں سکتی کہ آپ کتنے برے ہیں۔۔!! آپ کے نزدیک آپ کی ایگو سے بڑا کچھ نہیں۔۔'' جنت بات گول مول کرنے کی بجائے، سیدھا سیدھا اپنے دل کیے بتائی۔۔وہ بھی بغیر سوچے سمجھے۔۔😁😁

زرار حیران تھا کہ اتنے آرام سے سب کہہ دیا ورنہ وہ تو سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں کتنی مشکل سے اسے یہ سب، جنت سے اگلوانا پڑے گا،

ایک مسکراہٹ تھی جو اس کے چہرے پر آ کر بکھری تھی۔۔

"ہاں۔۔تو تمہیں کس نے بولا تھا کہ اس برے آدمی سے محبت کرو۔۔" زرار بات کو طول دیے جا رہا تھا کیونکہ کے وہ جانتا تھا کہ ڈسکشن سے ہی مسئلے سلجھتے ہیں۔۔غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔۔

"اگر میرے بس میں ہوتا ناں۔۔تو میں نے کبھی آپ سے محبت نہیں کرنی تھی۔۔" جنت ابھی بھی دکھ سے کہ رہی تھی،

"مطلب اب تم پچھتا رہی ہو محبت کرکے؟؟" زرار کو پتہ نہیں کیا مزہ آ رہا تھا، اس سے فضول سوال و جواب کرکے۔

"میں نے ایسا کچھ نہیں کہا،  اور آپ کیا کوے کھا کر آئیں ہیں۔۔ کب سے چپ ہی نہیں ہورہے۔۔مجھے بہت سخت نیند آرہی ہے۔۔اب پلیز سونے دیں مجھے۔۔اور اب میں نے آپ کی کسی بات کا جواب نہیں دینا کیوں کہ میں آپ سے ناراض ہوں۔۔۔۔سنا آپ نے۔۔؟؟ اور اپنا یہ بازو مجھ پر سے ہٹائیں۔۔" جنت کو اب اچھی خاصی تھی تپ چڑھی تھی، 

وہ اسے منانے کی بجائے، فصول باتیں کر کر کے اس کا دماغ چاٹ رہا تھا،

زرار کو اس کی بات پر ہنسی آئی۔۔

"اچھا۔۔ میری ناراض بیوی۔۔" کہتے ہوئے وہ اس سے دور ہوا اور دوسری طرف منہ کر کے سونے لگا،

 کیا قسمت تھی بے چاری کی۔۔اسے خود ہی اپنے ناراض ہونے کا بتانا پڑ رہا تھا۔۔اور زرار بدتمیز اسے منانے کی بجائے، الٹا اسی کا دماغ کھائے جارہا تھا،

جنت کا تو ذہن کھول رہا تھا۔۔ زرار کی اس قدر بے مروت ہونے پر۔۔!!

×××××××

صبح اٹھنے کے بعد بھی جنت کا منہ پھولا ہوا تھا۔۔

زرار نے نوٹ تو کیا پر منانے کی کوئی کوشش نہیں کی،

جنت دل میں، اسے اچھی خاصی صلواتیں سنا چکی تھی، 

وہ تو شکر تھا کہ اللّٰه اللّٰه کر کے وقت گزرا اور زرار نے اپنی شکل اس کی آنکھوں کے سامنے سے گم کی،

آج اس کا ولیمہ تھا۔۔تقریب رات کی ہی تھی، حسب توقع ، وہ آج بھی تقریب کی جان بنی ہوئی، اور مزے کی بات یہ کہ آج تو وہ زرار کے بھی چودہ طبق روشن کیے ہوئے تھی،

زرار سوچ چکا تھا کہ اس کا جنت کے ساتھ روڈ رویہ بالکل بے وجہ اور بے تکا ہے۔۔ ٹھیک ہے کہ یہ اکھڑپن اس عادت کا خاصہ ہے۔۔

پر جنت کا کیا قصور۔۔آخر وہ کیوں اس کے طنز سنے۔۔اسکا غصہ سہے۔۔ اسی خیال کے تحت اس نے سوچا کہ کیوں نہ جنت کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہموار کیا جائے۔۔

پر سامنے محترمہ نے نو لفٹ کا بورڈ دکھا کر۔۔ زرار کی سارے نیک منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔۔

آج زرار اس کے پیچھے پیچھے تھا۔۔تو وہ کوئی خاطر خواہ رسپانس نہیں دے رہی تھی۔

پر زرار کو اس پر کوئی غصہ نہیں آیا کیونکہ یہ ناراضگی اس کا حق تھی۔۔

×××××××

گھر واپس آنے کے بعد بھی۔۔ زرار بہانے بہانے سے اس سے کوئی بات کرتا۔۔تو آگے سے وہ بالکل ہی نظر انداز کر دیتی۔۔

"دیکھو جنت۔۔تم مجھے اس طرح اگنور کر کے اچھا نہیں کررہیں۔۔ ایسا نہ ہو کہ تمہیں پچھتانا پڑے۔۔"زرار نے عجیب پراسرار لہجے میں کہا،

"لسن۔۔میں آپ کو اگنور نہیں کررہی۔۔بلکہ میں آپ سے ناراض ہوں۔۔اور ناراض لوگوں کو منایا جاتا ہے۔۔انہیں دھمکایا نہیں جاتا۔۔" جنت نے تڑخ کر جواب دیا۔

"اب تم میری کوئی بات ہی سن رہیں۔۔ تو میں بھلا کیسے مناؤں؟؟؟" زرار نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں پر گرا کر۔۔آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے، معصومیت سے کہا۔

"ضرورت نہیں ہے آپ کو یہ ڈرامے کرنے کی۔۔آپ بھلا مجھے کیوں منائیں گے۔۔؟؟ میں کونسا آپ کے لیے کوئی اہمیت رکھتی ہوں۔۔ میری بھلا آپ کو کیا پرواہ۔۔" جنت تو  اپنی بھڑاس نکالنے پر تلی ہوئی تھی،

وہ اچھی خاصی بدگمان ہوئی تھی زرار سے۔۔

وہ یہ ساری کی ساری لفظی فائرنگ۔۔ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھے۔۔اپنی جیولری اتارتے ہوئے کہ رہی تھی۔

وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہی ہوئی تھی، تاکہ وہ جا کر اپنا لباس تبدیل کرسکے۔۔

لیکن اتنے میں زرار چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا۔۔

اور اسے روکا۔۔

وہ اس کے مقابل کھڑی تھی۔۔

اور وہ ایک دیوانگی کے عالم میں اپنی نظروں سے اس کے چہرے کا طواف کررہا تھا۔۔

جنت اس کے ایسے گھورنے پر پزل ہوئی۔۔۔

"ایسے۔۔کیا دیکھ رہے ہیں" جنت نے گھبرا کر پوچھا۔۔

وہ سمجھی تھی کہ وہ اس کی زبان درازی پر اس کی کلاس لینے آیا ہے۔

زرار اس کے قریب آیا۔۔

جنت تو خوف کے مارے اپنی جگہ پر تھم ہی گئی تھی۔۔ 

زرار کے چہرے کے ایکسپریشنز بہت unusual اور strange تھے۔۔

وہ محویت سے اس کے تمام تر نقوش تک رہا تھا ۔۔۔

"کیوں اتنی بدگمان ہو مجھ سے۔۔؟؟ تمہیں اپنی اہمیت کا اندازہ اس بات سے نہیں ہوا کہ۔۔زرار جنید نے تمہارا ساتھ حاصل کرنے کے لیے چالیں چلیں۔۔ مجھے پرواہ ہے تمہاری۔۔ پر جانتی ہو میری کچھ بری سی عادتیں ہیں۔۔میری پرسنیلٹی کچھ ایسی ہے کہ میں اپنی فیلینگز show کرنے سے پرہیز کرتا آیا ہوں۔۔ پر آج نہیں کروں گا۔۔تم سن لو کہ۔۔زرار جنید کے دل پر راج کرتی ہو تم۔۔ اب تک کی دی گئی ہر تکلیف کے لیے میں تم سے apologize کرتا ہوں۔۔میں اپنا آم تمہارے حوالے کرتا ہوں۔۔تم مجھے بتاؤ کہ اب میں تمہیں قبول ہوں۔۔؟؟"زرار اپنے اور جنت کے درمیان کا سارا فاصلہ ختم کر کے۔۔ اس کے چہرے پر نظریں گاڑھے۔۔کسی طلسماتی کیفیت کا شکار ہوکر۔۔اپنے دل کا تمام حال اسے سنا گیا۔

جنت کو تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔

وہ ہونقوں کی طرح آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتی جارہی تھی۔۔

اس کے من کی مراد ایسے پوری ہوگی۔۔!! اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔

وہ جس عشق کو مارنے کے در پر تھی۔۔

آج وہ مکمل اسی کا ہو گیا تھا۔۔

آج تو وہ جتنا شکر کرتی کم تھا۔۔!!

وہ بہت بے یقین تھی۔۔

زرار اسے ایسے بے یقین ہوتا دیکھ رہا تھا۔۔

"کیا ہوا۔۔؟؟ یقین نہیں آرہا۔۔؟"زرار نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

جنت نے نفی میں سر ہلایا۔

"کر لو یقین۔۔یقین کر لو کہ یہ اکڑو، کھڑوس اور برا آدمی تم نے محبت کرنے لگا ہے۔۔" زرار مسکراتے ہوئے ، اسے حیرت میں ڈال رہا تھا۔

جنت منہ پر ہاتھ رکھے آنکھیں پھاڑے۔۔ان لمحوں کے سحر سے ہی نکل پا رہی تھی۔۔

زرار نے اس کے ماتھے پر جھک کر بوسہ دیتے ہوئے اس کی اس بے یقینی کو اپنی محبت کا اعتبار بخشا۔۔

جنت کے تو خوشی کے مارے تشکر کے آنسو بہنے لگے۔۔۔

زرار نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو صاف کیے۔۔

"اب تو کوئی ناراضگی نہیں۔۔" زرار نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔۔

جنت نفی میں سر ہلاتی۔۔اس کے سینے سے لگ گئی۔

زرار نے بھی اس کے گرد۔۔اپنے بازوؤں کا حصار باندھ کر اسے اپنی محبت کا مان دیا۔

اب  بہت سی مسکراہٹوں بھری زندگی ان کی منتظر تھیں۔

ختم شُد۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ain Ishq Jinhan Nu Lag Janda  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ain Ishq Jinhan Nu Lag Janda   written by  Suhaira Awais. Ain Ishq Jinhan Nu Lag Janda   by Suhaira Awais is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages