Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 5 to 6 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 8 August 2023

Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 5 to 6

Rakhail By  Riaz Aqib New Novel Episode 5 to 6

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rakhail By Raiz Aqib Episode 5 to 6

Novel Name: Rakhail 

Writer Name: Riaz Aqib  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

”میں اٹھارہ سال کی ہوں اور ان بازاری آبرو باختہ عورتوں سے کئی گنا بہتر ہو ں جو ہر بستر کی زینت بننے پر تلی رہتی ہیں ۔مجھے جب تک پاس رکھو گے صرف آپ کی خدمت کرتی رہوں گی ،جب دل بھر جائے طلاق دے کر واپس بھیج دینا ۔کوئی حق مہر کوئی روپیا پیسہ نہیں ، بس دلاور شیخ کا خون ہی میرا مہر ہوگا۔اور یقین مانو آپ کے ارد گرد جو وفاداروں کی فوج ہے ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو آپ سے نفرت کرتے ہیں ،بس ڈر نے انھیں چاپلوسی اور خدمت کرنا سکھا دیا ہے ۔“

وہ اس کی باتوں پر لطف اندوز ہوتے ہوئے بولا۔”تمھاری خوب صورتی اور دوشیزگی کے حصول کے لیے مجھے کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔تم یوں بھی میری کوٹھی میں خود چل کر آئی ہوئی ہواور اتنا موقع میرے لیے کافی ہے۔بلکہ میں چاہوں تو تمھیں دنیا کے کسی بھی کونے سے اٹھا کر لا سکتا ہوں ۔“

”یقینا اپنی فطرت کے مطابق آپ کا یہی سوچنا بنتا ہے ،لیکن سچ بتائیں کبھی کسی لڑکی کی پر خلوص محبت محسوس کی ہے ،کوئی ایسی لڑکی جس کی سوچیں آپ سے شروع ہو کر آپ ہی پر ختم ہوں ۔کوئی ایسی جس کی اولین ترجیح آپ کو سکون اور آرام پہنچاناہو ۔“

”میرا خیال ہے اس مکالمہ بازی کو رہنے دو ۔باقی اس میں شک نہیں کہ تم جیسی لڑکی کو ہر مرد اپنے بستر کی زینت بنانا چاہے گا اور میں ایک مرد ہی ہوں ،تمھارے حصول کے لیے گھنٹے ڈیڑھ کی قربانی دے دوں گا ،لیکن یاد رکھنا اپنے وعدے سے پھرو گی نہیں ۔“

وہ اعتمادبھرے لہجے میں بولی ۔”اپنی بات سے ایک انچ بھی نہیں ہٹوں گی ۔“

”پھر کب؟“

”کل ،میں دلہن بن کر اپنے گھر میں منتظر رہوں گی اور کل نکاح پڑھاتے ہی آپ مجھے اپنے ساتھ لیتے آنا ۔“

”نکا ح پڑھانا ضروری ہے کیا ؟“کبیر دادا نے ہلکی سی مسکراہٹ سے پوچھا ۔ اسے خود معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کم سن لڑکی کی ہر بات کیسے مانتا جا رہا تھا ۔ورنہ اسے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی ۔

”ہاں ....بس یہ ناپائیدار گرہ میرا نصیب کر دینا ،اس کے علاوہ کچھ نہیں مانگوں گی ۔“ تناوش کی آواز گلو گیر ہونے لگی تھی ۔

”میرا موبائل فون نمبر نوٹ کرو ،جب ضرورت پڑے مجھے بلا لینا ۔“یہ کہتے ہی اس نے اپنا ذاتی موبائل فون نمبر دہرا دیا ۔

اس کا نمبر اپنے موبائل فون میں نوٹ کرکے وہ کھڑی ہوتے ہوئے بولی ۔ ”ویسے کل سہ پہر کو میں منتظر ہوں گی اور یاد رکھنا دلاور شیخ کو میں اپنے ہاتھ سے قتل کروں گی ۔“

”کبھی مرغی بھی ذبح کی ہے ؟“طنزیہ لہجے میں کہتے ہوئے وہ بھی اپنی نشست سے اٹھ گیا تھا ۔

”نہیں ۔“اس نے نفی میںسرہلایا۔”دلاور شیخ سے ابتداءکر وں گی ....اور یوں بھی آپ جیسے بڑے دادا کی بیوی کو کم ازکم ایک قتل توکرنا چاہیے ۔“

پتا نہیں تناوش کے لہجے میں ایسی کون سی بات تھی کہ وہ بے ساختہ مسکرا پڑا تھا ۔تناوش کو محسوس ہوا کہ وہ مسکراتے ہوئے بہت اچھا لگنے لگتا تھا ۔

”کل ملیں گے ۔“وہ اپنی خواب کی طرف بڑھ گیا ۔تناوش اس کی پشت کو گھورتی رہ گئی تھی ۔اس کے کمرے میں غائب ہوتے ہی وہ باہر کی طرف چل دی۔ڈرائینگ سے باہر ہی اسے وہی خدمت گار چہرے پر غیض و غضب کے تاثرات سجائے کھڑ انظر آیا۔اس کی شکل پر نظر پڑتے ہوئے تناوش کو اپنی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا ۔

وہ اسے متبسم دیکھ کر دانت پیستے ہوئے بولا ۔”دیکھ لیا اپنے جھوٹ کا انجام ۔“

وہ ہنسی ۔”کون سا جھوٹ ،ابھی اتنی دیر میں کبیرکے ساتھ گپ شپ ہی کر رہی تھی نا۔“

”پھر انھوں نے مجھے تھپڑ کیوں مارا ۔“

تناوش نے چہکتے ہوئے کہا ۔”اس وجہ سے کہ آپ نے مجھے اتنی دیر کیو ںروکے رکھا۔“

”اچھا اب دماغ نہ کھاﺅ اور جاﺅ ۔“یقینا وہ کبیردادا کے تناوش کے ساتھ اتنی دیر بات چیت کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا ۔

”مجھے گھر تک جانے کے لیے گاڑی چاہیے ۔“تناوش کو ایک دم گھر تک پیدل چلنے کا خیال آیا اور اس نے فوراََ اس کا حل سوچ لیا ۔

وہ منھ بناتے ہوئے بولا ۔”اس بارے مجھے کوئی حکم نہیں ملا ۔“

”ٹھیک ہے میں کبیر دادا کو کہہ دیتی ہوں ۔“وہ پیچھے مڑی ۔

”بات سنو ....“اس نے اتنی جلدی تناوش کو آواز دی کہ وہ پوری مڑ بھی نہیں پائی تھی ۔

اس نے رکتے ہوئے شوخی بھرے لہجے میں کہا ۔”سنائیں ۔“

وہ دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے بولا ۔”میں تمھارے ساتھ ڈرائیور کو بھیج دیتا ہوں ، اب تشریف لے جاﺅ میری ماں ۔“یہ کہتے ہی اس نے موبائل فون نکال کر کسی الٰہی بخش نامی ڈرائیور کو کال کر کے بتایا کہ بتایا کہ کبیر دادا کی مہمان کو گھر تک چھوڑ آئے ۔

تناوش وہیں ڈرائیور کا انتظار کرنے لگی ۔تھوڑی دیر بعد ایک ادھیڑ عمر ڈرائیور سفید رنگ کی ٹویوٹا لے کر وہیں پہنچ گیا ۔تناوش کے قریب کار روک کر اس نے عقبی نشست کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا ۔

وہ اعتماد ظاہر کرتے ہوئے بیٹھ گئی ۔دروازہ بند کر کے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور کار کبیر دادا کی وسیع و عریض کوٹھی سے باہر آگئی ۔وہ ڈرائیور کو گھر کا پتا بتا کر دائیں بائیں کا جائزہ لینے لگی ۔اس قیمتی کار میں بیٹھے ہوئے راستے کے مناظر بھی خوش کن اور قابل دید ہو گئے تھے ۔زندگی میں پہلی بار وہ اتنی قیمتی کار میں بیٹھی تھی ۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بقیہ زندگی اس کا سفر ختم نہ ہو اور وہ یونھی آرام دہ سیٹ پر بیٹھی محو سفر رہے ۔مگر اسے پتا بھی نہ چلا کہ وہ طویل فاصلہ لمحوں میں طے ہو گیا۔یقینا پیدل جاتے ہوئے اسے گھر تک پہنچتے ہوئے شام ہو جانی تھی ۔

وہ کار کو سڑک ہی پر رکوا کر اتر گئی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ دلاور شیخ کا کوئی چمچہ اسے کار سے اترتے دیکھ کر ڈرائیور کو چھیڑنے کی کوشش کرے ۔اور ایسا ہونے کی صورت میں دلاور شیخ تک کبیر دادا کا نام پہنچ جاتا ۔اور اس نے بزدل نے بھاگنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگانا تھا ۔جبکہ وہ اسے قتل کرنے کے لیے اتنی بے تاب اور بے صبر ہوتی جا رہی تھی کہ اس سے کل تک کا انتظار مشکل ہو رہا تھا ۔

سڑک سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر اس کا گھر تھا ۔گھر میں داخل ہوتے ہی اسے ماں بے چینی کے عالم میں اپنی منتظر نظر آئی ۔

”اتنی دیر لگا دی بیٹی !“تناوش کو دیکھتے ہی اس نے پریشانی بھرے لہجے میں پوچھا ۔

وہ سکون بھرے انداز میں بولی ۔”ہاں ماں !....آج بہت دور نکل گئی تھی ۔اتنا دور کہ اب واپسی بھی ناممکن ہو گئی ہے ۔“

’دماغ تو ٹھیک ہے کیا اول فول بک رہی ہے ۔“بشریٰ نے پیاربھرے انداز میں اسے ڈانٹا ۔

”امی جان !....آپ چاہتی تھیں نہ کہ میری شادی ہو جائے اور ہم شاہ نواز بھائی کے قاتل کو بھی اس کے انجام تک پہنچا دیں ۔“اس نے خواب ناک لہجے میں پوچھا ۔

”ہاں بیٹی !....مگر یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ وہ خواہش ہے جو ہمیشہ تمنا کا روپ ہی دھارے رکھے گی ۔“

”امی جان !.... سناہے مقصد کی تکمیل قربانی مانگا کرتی ہے ۔“

وہ حسرت ناک لہجے میں بولی ۔”ٹھیک سنا ہے بیٹی!....،مگر ہم کس چیز کی قربانی دے کر اس خبیث کو جہنم واصل کر یں ۔“

وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولی ۔”اس کا بندوبست ہو گیا ہے ۔“

”میں کچھ سمجھی نہیں ۔“تناوش کے لہجے میں کوئی ایسی بات ضرور موجود تھی جو اس کا دل دھڑکا رہی تھی ۔

”ماں آج میں اپنا رشتا طے کر آئی ہوں ،گو مجھے آپ سے اجازت مانگ لینا چاہیے تھا،مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا اور ایسا موقع دوبارہ نہ ملتا ۔“

بشریٰ نے قریب ہو کر اسے بازوﺅں سے تھامتے ہوئے پوچھا ۔”ہوش میں تو ہو نا ۔“

”پتا نہیں ماں جی !....بس وہ مجھے اچھا لگا ،اپنا لگا ،با اختیار لگا اور میں نے بغیر سوچے سمجھے اسے شادی کی آفر کر دی ۔“

بشریٰ متوحش ہوتے ہوئے بولی۔”کہیں کسی اور غریب کو جان سے نہ مروا دینا ۔“

تناوش کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔’امی جان !....آپ نے ہمیشہ دلاور شیخ کو با اختیار درندے کے روپ میں دیکھا ہے ،کل ان شاءاللہ آپ اس کا وہ روپ دیکھیں گی جس کی تمنا میں ہم دونوں پچھلے کئی ماہ سے دست بدعا ہیں ۔“

”ایسا کیسے ممکن ہے ؟“بشریٰ کے لہجے میں بے یقینی تھی ۔

”ممکن اور ناممکن کے درمیان بس رب کی مرضی کی رکاوٹ ہے ماں جی !....جب وہ بے نیاز کن فرماتا ہے تو پھر ہر ناممکن ثابت قدمی بھول جاتا ہے ۔“

”ایسا با اختیار اور صاحبِ حیثیت تمھیں کہاں سے مل گیا بیٹی !....اور پھر وہ تم جیسی غریب لڑکی کے ساتھ شادی پر کیسے راضی ہو گیا ؟مجھے تو لگ رہا ہے تم نے جاگتے میں خواب دیکھنا شروع کر دیے ہیں ۔“بشریٰ کو بیٹی کی باتوں پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔

”خود تو کہتی ہیں کہ آپ کی بیٹی شہزادی ہے ،پھر شہزادیوں کو تو شہزادے ہی ملا کرتے ہیں نا ماں جی !“اس کی آنکھوں میں کبیر دادا کی صورت لہرائی اور اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں خواہش جاگی ۔”کاش جیسا وہ ماں کو کہہ رہی ہے ویسا ہی ہوتا ۔“

”اچھا مجھے ساری بات تفصیل سے بتاﺅ ؟“

”آج میں اسکول نہیں گئی تھی ،بس یونھی دائیں بائیں گھومتی رہی اور پھروہ مجھے ایک ہوٹل کے باہر نظر آیا اس حالت میں کہ ایک جج اس کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے گڑ گڑا رہا تھا ۔ میں جان گئی کہ وہی ایسا ہے جو مجھے دلاور شیخ کے چنگل سے نجات دلا سکتا ہے ۔مجھے اللہ پاک نے اس سے بات کرنے کا موقع دیا اور میں نے فوراََ اپنی مجبوری اس کے سامنے بیان کر دی ۔ لیکن یہ تو آپ جانتی ہیں نا ماں جی کہ اس دنیامیں لے دے کا اصول ہی کارفرما ہے ۔بس میں نے دلاور شیخ کی موت کے بدلے خود کو اس کے سامنے پیش کردیا ۔البتہ پریشان نہ ہوں وہ مجھے نکاح پڑھا کر ہی ساتھ لے جائے گا ۔“اس نے بہت ساری باتیں حذف کرتے ہوئے اجمالاََ سارا واقعہ دہرا دیا ۔

”مجھے تو یہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنے والا معاملہ لگتا ہے ۔تم نے دلاور شیخ سے جان چھڑانے کے لیے اس سے بھی بڑے غنڈے کا ساتھ اپنا لیا ہے ۔“

”ماں جی !میں بس ایک بات جانتی ہوں کہ مجھے دلاور شیخ سے بھیا کی موت کا بدلہ لینا ہے ۔اس کے لیے میں ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں ۔اگر دلاور شیخ نے بھیا کے خون سے ہاتھ نہ رنگے ہوتے تو شاید میں اتنا بڑا قدم نہ اٹھاتی ۔“

”اب کیا ہو گا ؟....میرا تو دل ہول رہا ہے ۔“بشریٰ خاتون کی پریشانی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا ۔دلاور شیخ والے معاملے میں کچھ مہلت تو ان کے پاس موجود تھی ،اس کی بیٹی تو ایک دم ہی طوفان سر پر لے آئی تھی ۔

”اطمینان رکھیں ،سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ماں جی !“اس نے اعتماد بھرے انداز میں ماں کو تسلی دی ۔

”تم نہیں جانتی میری جان !....ایسے با اختیار اور صاحبِ حیثیت لوگوں کے لیے ہم غریب مخمل میں ٹاٹ کے پیوند جتنی اہمیت رکھتے ہیں ۔اس نے بس تمھاری صورت دیکھ کر شادی کی حامی بھری ہے ۔تمھیں چنددن استعمال کرنے کے بعد وہ طلاق کے تین لفظ بول کر تمھیں واپس پھینک دے گا ۔“

وہ مسکرائی ۔”تو کیا میں پہلی مطلقہ ہوں گی ،نہ جانے حوا کی کتنی بیٹیاں روزانہ طلاق کا داغ اپنی پیشانی پر سجا کر ماں باپ کے دروازے پرآبیٹھتی ہیں ۔ان میں ایک کا اضافہ سہی۔اور امید ہے مجھے دوسری شادی کے لیے بھی اتنی تگ و دو نہیں کرنا پڑے گی ۔سب سے بڑھ کر دلاور شیخ جیسی نحوست سے ہماری جان چھوٹ جائے گی ۔“

” تمھیں اکیلے اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا ۔کم از کم مجھ سے مشورہ تو کر لیتیں۔“ بیٹی کی باتوں سے اتفاق کرنے کے باوجود اسے اطمینان محسوس نہیں ہورہا تھا ۔

”امی جان !....کہا تو ہے مشورے یا اجازت لینے کا وقت میرے پاس نہیں تھا ۔اگر میں وہ موقع گنوا دیتی تو پھر وہی کڑھنا ،سلگنا ہی مقدر ٹھہرتا۔“

”اگر اس سودے سے پیچھے ہٹنا ممکن ہے تو بہتر ہو گا اس شخص کو منع کر دو ،بلکہ معافی مانگ کر اپنی جان چھڑا لو ۔“ماں نے اس کی حوصلہ شکنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا ۔

ایک بار تناوش کے دل میں بھی خیال آیا کہ ماں کی بات مان لینا چاہیے ۔مگر اس کے ساتھ ہی کبیر دادا کی قد آور اور پر رعب شبیہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائی اور وہ اپنے فیصلے پر ڈٹ گئی ۔”ماں جی !....اگر وہ مجھے خود بھی منع کر دے تب بھی میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔آپ نہیں جانتیں میرے دل میں دلاور شیخ سے بدلہ لینے کے لیے کیسی آگ بھڑک رہی ہے ۔ اس آلاﺅ کو دلاور شیخ کا خون ہی بجھا سکتا ہے ۔“

اگر تناوش کو بھائی کے قاتل سے اس درجہ نفرت تھی تو وہ اس کے بیٹے کا بھی تو قاتل تھا۔وہ فرماں بردار اور خدمت کرنے والے بیٹے کی اذیت ناک موت کو کیسے بھلا سکتی تھی ۔ بیٹی سے کئی گنا زیادہ وہ خود دلاور شیخ کو کیفر کردار تک پہنچانے کی خواہاں تھی ۔تناوش کے طریقہ کار سے اختلاف رکھنے کے باوجو دآخر اسے متفق ہونا پڑا ۔وہ ہار مانتے ہوئے بولی ۔

”ٹھیک ہے بیٹی !....بس یہی دعا کرتی ہوں اللہ پاک تمھارا نصیب اچھا کرے ۔ “

”آمین ۔“کہہ کر تناوش نے اطمینان کا گہرا سانس لیا تھا ۔

 رات کو تناوش ماں کے ساتھ مل کر اگلے دن کا منصوبہ طے کرتی رہی ۔نہ چاہتے ہوئے بھی بشریٰ کو بیٹی کا ساتھ دینا پڑ گیا تھا ۔

٭٭٭

تناوش صبح اسکول جانے کے بہ بجائے ماں کو ساتھ لے کرمولوی محبوب الٰہی کے گھر کی جانب چل دی تھی ۔اس وقت مولوی صاحب گھر ہی میں موجود تھے ۔کافی مضمحل اور تھکے تھکے لگ رہے تھے ۔ماں ،بیٹی کو دیکھ کر مولوی کی بیوی نے تو ناک بھوں چڑھائی تھی مگرمولوی محبوب الٰہی خندہ پیشانی سے پیش آیا تھا ۔

”بیٹھو بہن !“تناوش کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے بشریٰ کو بیٹھنے کی دعوت دی ۔اس کے ساتھ ہی وہ اپنی بیوی کو مخاطب ہوا ۔”صغریٰ کی ماں !....چاے تو پلوا دو ۔“

”چاے ہم پی کر آئے ہیں بھائی جان !“بشریٰ نے رسمی سا انکار کیا ۔

مولوی محبوب الٰہی نے مسکراتے ہوئے کہا۔”آپ کے بہانے میں بھی پی لوں گا بہن جی!“اس کی بیوی البتہ بشریٰ کے انکار سے پہلے ہی باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔ 

”تو آپ نے یہاں سے جانے کا پکا ارادہ کر لیا ہے؟“بشریٰ دکھی دل سے پوچھنے لگی۔

”مجبوری ہے بہن !....جو لوگ آج ایک بیٹی کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے نہیں ہوسکتے ان سے مزید کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔“

”بھیا !....آپ بالکل ٹھیک فرما رہے ہیں ،مگر آپ جس جگہ بھی تشریف لے جائیں گے وہاں بھی تو ایسے ہی لوگ ہوں گے ،یہ تو ہمارا قومی مزاج بن چکاہے ہم ظلم کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھاتے ۔اگر ہم متحد ہوتے تو کیا کراچی کی یہ حالت ہوتی ۔نہ پینے کا پانی میسرہے ،نہ سڑکوں کی حالت کسی قابل ہے ، لوڈ شیڈنگ کی صورت حال ملاحظہ فرمالیں ،غنڈہ گردی کا راج ہے یہ سب اور اس کے علاوہ بھی ہزاروں مسائل کا کیا ایک ہی حل نہیں ہے کہ ہم متحد ہوجائیں ۔ مگر ہماری حالت چند بھیڑیوں کے سامنے بھاگتے ہوئے اس ریوڑ کی سی ہے جس میں ہر بھیڑ بکری کے دل میں اپنی جان بچانے کی دھن سمائی ہوتی ہے ۔“

”مگر ہم بھیڑ بکریاں نہیں ہیں بہن!....ہم انسان ہیں ۔اللہ پاک نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔بھیڑ بکریاں اگر چاہیں بھی تو بھیڑیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں ۔ہماری ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہماری ہی جنس کے چند غنڈے کیوں ہم پر حکمرانی کریں ۔“

”بھائی جان !....چھوڑیں اس دل خراش موضوع کو ۔یقینا اکیلے آپ کے چاہنے سے تبدیلی نہیں آ سکتی ۔آپ بس اپنے متعلق سوچیں ۔یہاں سے جانا آپ کے لیے قطعناََ مفید نہیں ہے ۔“

مولوی محبوب الٰہی دکھی لہجے میں بولا ۔”اب تو فیصلہ ہو گیاہے۔اور سچ بات کہوں تومیں یہاں سے جانے پر مجبور ہوں ۔“

”ایسی بھی کیا مجبوری ہے ۔آپ کا مسئلہ ہمیں پریشانی سے نکالنا تھا اس کا حل ہم نے ڈھونڈ لیا ہے ۔“

”کیسا حل ؟“مولوی محبوب الٰہی کے لہجے میں اشتیاق بھرا تھا ۔

بشریٰ اطمینان سے بولی ۔”آج سہ پہر کو تناوش بیٹی کا نکاح اور رخصتی ہے ۔“

”کس کے ساتھ اور یوں ایک دم کیسے ؟....اس موذی کے بارے کیا سوچا ۔“

”سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا چچا جان !....بس ایک خواہش ہے کہ میرا نکاح آپ خود پڑھائیں ۔“خاموش بیٹھی تناوش نے زبان کھولی ۔

”میں بہت کمزور اور بے بس آدمی ہوں بیٹی !....یقین مانو یہ بہت بڑی سعادت اور خوش قسمتی ہوتی کہ مجھے اپنی بیٹی کا نکاح پڑھانے کا موقع ملتا ،مگر اس بدبخت کی دھمکی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے ۔اور سچ کہوں تو یہ محلہ چھوڑ دینے کا حکم بھی مجھے اسی خبیث نے دیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری بے بسی کا مذاق اڑیا جائے یا پیٹھ پیچھے یہ کہا جائے کہ دیکھ لو کسی اور کے کام میں دخل اندازی کا یہ انجام ہوتا ہے۔بس اسی وجہ سے میں نے محلہ چھوڑنے کی اصل وجہ سے پردہ نہیں اٹھایا ۔“

تناوش اعتماد سے بولی ۔”چچا جان !....میں وعدہ کرتی ہوں کوئی آپ کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا ۔اور اگر آپ مجبور ہو کر یہ محلہ چھوڑ رہے ہیں تو ان شاءاللہ آج اس مجبوری کا خاتمہ ہو جائے گا ۔“

مولوی محبوب الٰہی بے یقینی سے بولا ۔”یہ بھلا کیسے ممکن ہے ؟“

تناوش نے کہا ۔”اس بات کو راز ہی رہنے دیں چچا جان !....باقی آپ کو دلاور شیخ نے ہماری مدد کرنے سے منع کیا ہے ،نکاح پڑھانے سے تونہیں روکا ۔“

اسی وقت مولوی محبوب الٰہی کی بیوی چاے کے برتنوں کے ساتھ وہاں پہنچ گئی ۔ اس نے باورچی خانے میں ان کی ساری گفتگو سنی تھی ۔پیالیوں میں چائے انڈیلتے ہوئے وہ تیکھے لہجے میں بولی ۔

اسی وقت مولوی محبوب الٰہی کی بیوی چاے کے برتنوں کے ساتھ وہاں پہنچ گئی ۔ اس نے باورچی خانے میں ان کی ساری گفتگو سنی تھی ۔پیالیوں میں چائے انڈیلتے ہوئے وہ تیکھے لہجے میں بولی ۔

”بشریٰ بہن !....بہتر ہو گا کہ اب ہمیں اپنے ساتھ گھسیٹنا بند کردیں، پہلے بھی آپ کی مدد کرنے کا صلہ ہم بھگت رہے ہیں ،یہ نہ ہو کوئی اور مسئلہ کھڑا ہو جائے ۔“

”یقینا آپ لوگوں نے اپنوں سے بڑھ کر ہمارا ساتھ دیا ہے اور ہماری وجہ سے آپ کو بہت زیادہ تکلیفیں بھی برداشت کرنا پڑیں ،مگر یقین مانیں بہن، اب خطرے والی کوئی بات نہیں ہے ۔بھائی جان پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ۔“

”نہیں بہن!....آپ نکاح پڑھانے کے لیے کوئی اور مولوی بلوا لیں ۔“مولوی کی بیوی حامدہ دو ٹوک لہجے میں بولی ۔

”ایسا نہیں کہتے نیک بخت۔“مولوی ان کی گفتگو میں مخل ہوا ۔”زندگی اور موت اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے ۔“

”آپ خاموش رہیں جی !“حامدہ شوہر پر برس پڑی ۔”پہلے بھی آپ کے نیکی کمانے کے شوق میں ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ گھر کے ساتھ ہمیں عزت کے بھی لالے پڑ جائیں ۔“

’ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا چچی جان !“تناوش اسے تسلی دینے لگی ۔”ہم تو بس اس لیے آئے ہیں کہ چچا جان اپنی آنکھوں سے اس منحوس کا انجام دیکھ لے ۔“

”سپنے دیکھنے بند کرو لڑکی !....ایسا کچھ ڈراموں فلموں میں تو ہو سکتا ہے حقیقت میں نہیں ۔دلاور شیخ جیسے درندوںکی رسی کو مالک بھی ڈھیلا چھوڑے رکھتا ہے ۔ایسے موذی کا ہم جیسے کمزور لوگ کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔“

”بہن جی !....ہم مولوی صاحب کو دلاور شیخ سے لڑائی کرنے کی دعوت دینے نہیں آئے ۔اور خطرہ تو لڑکے والوں کو ہونا چاہیے نا ؟مولوی صاحب تو نکاح پڑھانے تشریف لائیں گے ،اور اس بات پر اس منحوس دلاور کو کیا اعتراض ہو گا۔“

”وہ تو ٹھیک ہے ....“حامدہ نے کچھ کہنے کے لیے پر تولے مگر مولوی محبوب الٰہی قطع کلامی کرتا ہوا بولا۔”ٹھیک ہے بہن جی !....اگر آپ کی خوشی اسی میں ہے تو میں بعد از نمازعصر حاضر ہو جاﺅں گا ۔“

”اللہ پاک آپ کو عزت دے بھائی جان !“بشریٰ نے ممنونیت سے کہا ۔مولوی صاحب کا حوصلہ دیکھ کر تناوش کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں تھیں ۔وہ بے صبری سے اس وقت کا انتظار کرنے لگی جب دلاور شیخ جیسا ظالم اپنے انجام سے دو چارہوتا۔

مولوی محبوب الٰہی کاحتمی جواب سن کر حامدہ نے بھی خاموش رہنا مناسب سمجھا تھا۔

چاے پی کر ماں بیٹی واپس گھر کی طرف چل پڑیں ۔مولوی صاحب کے گھر سے نکلتے ہی انھیں دلاور شیخ کا منحوس کارندہ نظر آ گیا تھا ۔گلی کی نکڑ پر کھڑا وہ مولوی صاحب کے گھر ہی کی جانب متوجہ تھا ۔وہ ماں بیٹی کے اکٹھے کہیں جانے پر ضرور ان کا پیچھا کرتے ۔اسکول جانے کے علاوہ تناوش اگر اکیلی کہیں جاتی، تب بھی وہ اس کا تعاقب کرتے ۔البتہ تناوش کے اسکول جاتے وقت وہ کبھی اس کے پیچھے چل پڑتے اور کبھی جانے دیتے ۔گزشتا کل بھی انھوں نے تناوش کا پیچھا نہیں کیا تھا ورنہ دلاور شیخ تک کبیر دادا اور تناوش کی ملاقات کی خبرضرور پہنچ جاتی ۔

اس منحوش شکل کے کارندے کے پاس سے گزرتے ہوئے نہ جانے تناوش کو کیا سوجھا کہ وہ اسے مخاطب کرتے ہوئے بولی ۔”دلاور شیخ کو بتا دینا ،آج بعد از نماز عصر میرا نکاح اور رخصتی ہے ۔اپنے چمچوں کے ساتھ ضرور شرکت کرئے ۔“

تناوش کی جرّات اور بے باکی پر دلاور شیخ کے آدمی کی آنکھوں میں حیرانی نمودار ہوئی ، مگر پھر حیرانی پر استہزاءکا عنصر غالب آگیا ۔وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔

”ضرور بھابی !“

تناوش اس کا جواب سننے کے لیے رکی نہیں تھی ۔یوں بھی دلاور شیخ کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی اسے چھیڑتا نہیں تھا ۔

٭٭٭

تناوش کو گھر پہنچا کربشریٰ خاتون نے محلے میں گھوم پھرکر تما م کو بیٹی کی شادی میں شرکت کی دعوت دی تھی ۔جس جس تک یہ بات پہنچتی گئی وہ ششدر ہوتا گیا ۔ہر ایک تفصیل جاننے کا خواہاں تھا مگر سب کے سوال کے جواب میں مسکرا کر بشریٰ خاتون یہ کہتی رہی ....

”اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے ۔“

گھر پہنچنے پر اسے تناوش افسردہ انداز میں بیٹھی نظر آئی ۔یقینا شادی کر کے گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہونا کسی بھی لڑکی کے لیے بہت اذیت ناک اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ پسند کی شادی کرنے والی لڑکی بھی اس موقع پر آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتی ،یہاں تو مسئلہ ہی اور تھا ۔اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے اس نے اندھا جواءکھیلا تھا ۔نہ معلوم کبیر دادا اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ۔

ایک عجیب بات یہ تھی کہ اسے کبیر دادا سے کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں ہورہا تھا ۔ بلوغت کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی ہر لڑکی کی طرح اس نے بھی ایک ان دیکھے شہزادے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے تھے جس نے اس کا دولھا بننا تھا ۔اس کے سپنوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دلاو شیخ کی صورت میں نمودار ہوئی، جس نے خوب صورت سپنوں کو چھین کر اس کی آنکھوں میں آگ و خون کے خواب سجا دیے تھے ۔اب کبیردادا سے ملنے کے بعد نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہمیشہ سے اسی کے خواب ہی تو دیکھتی رہی تھی ۔

بشریٰ بیٹی کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی ۔”اب پریشان ہونے کا کیا فائدہ ....تیر کمان سے نکل چکا ہے ، بس نتیجے کا انتظار کرو ۔“ 

وہ ماں کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے بولی ۔”ماں جی !....میںاپنے فیصلے پر نہیں آپ سے جدائی کا سوچ کر دکھی ہوں ۔“

وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولی ۔”جدائی کون سی ،ایک ہی تو شہر میں ہوں گے ۔ میں روزانہ اپنی بیٹی کو ملنے جایا کروں گی ۔“

”نہیں ماں جی !“تناوش نے نفی میں سر ہلایا۔”آپ وہاں کبھی بھی نہیں آئیں گی ۔ جب بھی موقع ملا میں خود ملنے آ جایا کروں گی ۔“

”کیوں ؟“وہ حیران ہی تو رہ گئی تھی ۔”کیا یہ تمھارے ہونے والے شوہر کا حکم ہے۔“

”نہیں ۔“ایک مرتبہ پھر اس نے نفی میں سرہلایا۔”یہ بھی میرا اپنا فیصلہ ہے ۔ اور فکر نہ کریں ،جب بھی آپ کا دل چاہے گا میں ملنے آجایا کروں گی ۔“

بشریٰ مسکرائی ۔”تو کیا ، مجھ سے ملنے کو تمھارا دل نہیں چاہے گا۔“

”آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں ۔“تناوش شکوہ کناں ہوئی ۔

”مذاق کر رہی تھی چندا !“بشریٰ نے جھک کر بیٹی کا ماتھا چوم لیا ۔

اسی وقت دروازہ کھٹکھٹا کر تناوش کی دوسہلیاں گھر میں داخل ہوئیں ۔یقینا اسکول سے واپسی پر انھیں تناوش کی شادی کی بابت معلوم ہوا تھا اور وہ وہاں بھاگتی ہوئی وہاں پہنچی تھیں ۔ وہ دونوں سگی بہنیں تھیں ۔اسکول کے کپڑے تک وہ تبدیل نہیں کر سکی تھیں ۔بشریٰ انھیں خوش آمدید کہہ کر وہاں سے ہٹ گئی تھی ۔شازیہ اور نازیہ نے آتے ساتھ سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تھی ۔ انھیں بھی دلاور شیخ کے بارے مکمل معلوم تھا ۔بلکہ وہ کیا پورا محلہ اس بات کواچھی طرح جانتا تھا اور اب وہ حیران اس بات پر تھے کہ آخر دلاور شیخ کی مصیبت سے ان کی جان کیسے چھوٹی تھی ۔

وہ فخریہ لہجے میں بولی ۔”میرے ہونے والے شوہر کے سامنے دلاور شیخ کی حیثیت ایک کیڑے جتنی بھی نہیں ہے ۔“

شازیہ نے پوچھا ۔”ایک دم ایسا رشتا تم نے کہاں سے ڈھونڈ لیا ؟“

تناوش کے جواب دینے سے پہلے داخلی درواے پر ایک بار پھر حرکت ہوئی اور اس کی ایک اور سہیلی سلمیٰ گھر میں داخل ہوئی ۔ان دونوں بہنوں کی طرح وہ بھی آتے ساتھ حیرانی کا اظہار کرنے لگی ۔تناوش ان کی حیرانی سے محظوظ ہوتے ہوئے مسکرائی ۔

”وہ کیا کہتے ہیںجوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور یہ کہ اللہ پاک جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کے دیتا ہے ۔“

”بس محاورے ہی سناتی رہنا اصل بات سے پردہ نہ اٹھانا ۔“نازیہ نے تنگ آ کر دہائی دی ۔

وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولی ۔ ”کبیر خان نام ہے ،چھے فٹ سے اونچا قد ،کسرتی جسم ، چوڑی چھاتی ،گندمی رنگت ،کشادہ پیشانی ،موٹی ساحرانہ آنکھیں، مضبوط ہاتھ پاﺅں بہت بڑے کاروبار ،بنگلے اور کئی کاروں کا مالک ۔ساس سسر ،نند دیور کی آلودگی سے پاک....اتنا کافی ہے یا کچھ اور بتاﺅں۔“

سلمیٰ نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔”بولتی رہو جھوٹ ،تم سے تو اللہ میاں ضرور پوچھے گا۔“

اس دوران اس کی دو تین اور سہلیاں بھی پہنچ گئی تھیں ۔تھوڑی دیر کبیردادا کی شخصیت کو موضوع گفتگو بنائے رکھنے کے بعد وہ تناوش کو دلھن بنانے کے درپے ہو گئیں ۔پہلے پہل تو تناوش نے سختی سے انکار کر دیا مگر پھر اسے اپنا رویہ مصنوعی لگا ۔شادی کے دن لڑکی کا بناﺅ سنگھار کرنا رسم و رواج کا حصہ تھا ۔بلکہ اس بارے تو شریعت کا حکم بھی موجود تھا ۔سب سے بڑھ کر وہ کبیر دادا کو خصوصی انعام سے نوازنا چاہتی تھی ۔جب اس سے معاہدہ ہو ہی گیا تھا تو اپنے الفاظ کا پاس رکھنے ہی میں اسے بھلائی نظر آئی ۔

اس کے پاس میک اپ کا کوئی سامان موجود نہیں تھا نہ وہ اس قسم کی عیاشیوں کی متحمل ہو سکتی تھی ۔زیادہ سے زیادہ سر پر تیل لگا کر کنگھی کردینا ہی اس کی تیاری میں شامل ہوتا تھا ۔ یوں بھی حسن کو سجاوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔مگر اب اس کی شادی ہونے جا رہی تھی ۔اور دلھن کی سجاوٹ تیل کنگھی تک محدود نہیں ہوتی ۔اس کی سہلیوں کی نظر سے بھی اس کی غربت اوجھل نہیں تھی ۔اس کی ماں کے ہاتھوں بازار سے میک اپ کا سامان منگوانے کے بجائے سلمیٰ اپنا میک اپ بکس اٹھا لائی تھی ۔وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔آج کل یوں بھی ایک صاحبِ حیثیت لڑکی کے پاس میک اپ کا اتنا سامان موجود ہوتا ہے کہ جس سے چھوٹے موٹے بیوٹی پارلر کی ضروریا ت پوری سکیں۔

ایک غریب عورت جو بیٹی کی ماں ہو وہ بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے جہیز کی فکر میں مصروف ہو جاتی ہے ۔شادی کی خریداری کے لیے امراءاور غریبوں کا طریقہ کار بالکل مختلف ہے ۔امیروں کی خریداری شادی سے چند دن پہلے شروع ہوتی ہے جبکہ غریب کی ساری زندگی بیٹی کا جہیز تیار کرتے گزر جاتی ہے ۔تناوش کی ماں نے بھی اس کے لیے تھوڑی بہت جیولری اور چند لباس خرید رکھے تھے ۔انھی میں سے ایک سرخ رنگ کا جوڑا تناوش کو پہنا کر انھوں نے دلھن کا روپ دے دیاتھا ۔شادی کی تقریب گھر کے اندر ہی ہونا قرار پائی تھی ۔ان کا گھر بارہ مرلے پر مشتمل تھا ۔دو کمرے ایک برآمدہ اور پھر اس کے سامنے کافی کھلا صحن بچ جاتا تھا ۔بشریٰ خاتون کے پاس اتنی استطاعت نہیں تھی ورنہ وہ اس گھر کو بہتر انداز میں تعمیر کرا کر کرائے پر بھی چڑھا سکتی تھی ۔وہ دو کمرے بھی اس کے شوہررفیق نے اپنی زندگی ہی میں بنا چھوڑے تھے ۔اب تو بشریٰ مشکل سے اپنا اور بیٹی کا پیٹ ہی پال رہی تھی تعمیر کی مد میں کہاں سے رقم لاتی ۔

بشریٰ نے شازیہ کے بھائی کو کہہ کر ایک قنات کرائے پر منگوا کر برآمدے کے سامنے لگا دی تھی تاکہ عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ قائم ہو سکے ۔کمروں میں موجود تین چار چارپائیاں انھوں نے مردوں کے بیٹھنے کے لیے صحن میں بچھا دی تھیں۔چند چارپائیاں وہ پڑوسیوں کے گھروں سے بھی مانگ کر لے آئے تھے ۔شادی کی تمام تیاریاں مکمل تھیں ۔محلے کے چند مرد صحن میں آکر بیٹھ گئے تھے ۔شادی میں شرکت کے لیے تو وہ ہمت کر کے آگئے تھے مگر انھیں رہ رہ کر دلاور شیخ کا خوف گھیرنے لگتا ۔وہ بہت پہلے سے تناوش سے شادی کا دعوے دار تھا اب اس کی شادی پر اس نے کہاں خاموش رہنا تھا ۔مگر اب تک وہ وہاں نہیں پہنچا تھا شاید وہ برات کی آمد کا منتظر تھا ۔اس کے ایک دو چمچے پڑوسیوں کوبشریٰ کے گھر کے گرد گھومتے نظر آئے تھے ۔

عصر کی آذان سن کر دو تین آدمی نماز کے لیے مسجد کی طرف بڑھ گئے جبکہ کچھ ازلی بے حسی سے مالک کائنات کی دعوت کو نظر انداز کیے وہیں بیٹھے رہے ۔یقینا انھیں فلاح کی ضرورت نہیں تھی ۔ورنہ فلاح کی ضمانت یعنی نماز سے غافل نہ رہتے ۔

نماز کے بعد مولوی محبوب الٰہی بھی پہنچ گیا تھا ۔محلہ داری میں لوگ آپس میں پردے کا اہتمام کم ہی کرتے ہیں اس کے باوجود مولوی محبوب الٰہی نے پردے کے قریب جا کر اندرجانے کی اجازت طلب کرنا ضروری سمجھا تاکہ کوئی عورت پردہ کرنا چاہے تو اسے اطلاع مل جائے ۔ بشریٰ نے اسے خوش آمدید کہتے ہوئے اندر بلالیا ۔وہ سیدھا تناوش کے قریب پہنچا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔

”میں آگیا ہوں بیٹی ۔“

”اللہ پاک آپ کو دنیا اور آخرت کی عزت عطا فرمائے مولوی صاحب !“تناوش نے ممنونیت بھرے انداز میں کہا ۔

”آمین ۔اللہ پاک ہم سب کو عزت سے نوازے ۔“دعائیہ انداز میں کہتے ہوئے مولوی محبوب الٰہی باہر نکل گئے ۔اسی وقت تناوش نے موبائل فون نکالا تاکہ کبیر دادا کا نمبر ڈائل کرسکے ۔اس سے پہلے کہ وہ نمبر ملاتی اس کے کانوں میں دلاور شیخ کی منحوس آواز پڑی۔

”ارے یہاں تو سچ مچ شادی کا ماحول بنا ہے ۔انھیں شاید دلاور شیخ کی طاقت کے بارے کوئی شبہ ہو گیا ہے ۔“

”لگتا تو یہی ہے باس ۔“اس کے ایک چمچے کی آواز ابھری ۔

”اور تم سب کو میرا کوئی خوف نہیں رہا کہ یہاں اکٹھے ہو گئے ہو ....یقینا یہ اس بڈھے عاشق مولوی کی کارستانی ہے ۔“ بے ہودہ انداز میں کہتے ہوئے وہ مولوی محبوب الٰہی کی طرف بڑھا ۔”کیوں بے مولوی تجھے کون سا کیڑا سدھرنے نہیں دے رہا ۔“

اس کے انداز سے تناوش سمجھ گئی تھی کہ وہ مولوی محبوب الٰہی کی طرف جا رہا ہے ۔سر پر دوپٹا جماتے ہوئے وہ سرعت سے باہر نکلی ۔اس وقت تک دلاور شیخ ،مولوی محبوب الٰہی کو گریبان سے تھام چکا تھا ۔

اس نے کڑک کر کہا ۔”ایک منٹ دلاور شیخ!“

وہ حیرانی سے اس کی طرف متوجہ ہوا ۔اسے دیکھتے ہی دلاور شیخ کے منحوس چہرے پر خباثت نمودار ہوئی ۔”ارے واہ ....یہاں تو میری دلھن کسی اور کے لیے سجی ہوئی ہے ۔“

”مولوی صاحب کو چھوڑ دو دلاور شیخ ۔“تناوش نے اپنی بات دہرائی ۔

”اگر کسی میں اتنی جرّات ہے کہ دلاور شیخ سے اس کا گریبان چھڑا لے تو آگے آجائے۔

”تو مرد ہے کہ ہیجڑا ۔“تناوش کے الفاظ ایسے نہیں تھے کہ دلاور شیخ آپے سے باہر نہ ہوتا ۔وہ کمینگی سے بولا۔

”بے فکر رہو،میری مردانگی کا ثبوت تمھیں آج رات مل جائے گابے بی ۔“

”وہ بعد کا مسئلہ ہے ،فی الحال مولوی صاحب کا گریبان چھوڑو ....کیاتم نے خودنہیں کہا تھا کہ جب کوئی میری برات لے کر آئے گا تو وہ خود بھی جان سے جائے گا اور تم میرے بی اے کرنے سے پہلے ہی مجھ سے شادی کر لو گے ۔“

”بالکل کہا تھا ۔“دلاور شیخ نے چھاتی چوڑی کی ۔

”تم نے نکاح پڑھانے والے کے بارے تو کوئی ایسی بات نہیں کی تھی پھر مولوی صاحب کی توہین کا مطلب ؟....میرے ہونے والے شوہر سے نبٹ لو ،شاید اس کے بعد مجھ سے نکاح پڑھانے کے لیے تمھیں بھی مولوی صاحب کی ضرورت پیش آجائے ۔“

”ہونہہ!....یہ تم نے کام کی بات کی ہے ۔“مولوی صاحب کا گریبان چھوڑ کر وہ اپنے چمچوں کی طرف متوجہ ہوا ۔

”کرمے !....جا ذرا پہلوان کی دکان سے ایک ٹوکرا مٹھائی کا تو اٹھا لا ....آج اس ٹنٹنے کو ختم ہی کرتے ہیں ۔“

”ٹھیک ہے باس ۔“کرمے نامی چمچے نے اثبات میں سر ہلا کر باہر کا رخ کیا ۔

”تو نکاح کی کارروائی شروع کریں ۔“دونوں ہاتھوں سے ہلکی سی تالی بجاتے ہوئے اس نے ہاتھ دھونے کے انداز میں ملے ۔

تناوش بے باکی سے بولی ۔”پہلے میرے شوہر سے تو نبٹ لو ۔“

”تو بلاﺅ اسے ....میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ کسی ٹٹ پونجیے کا انتظار کرتا رہوں ۔

تناوش نے ہاتھ میں پکڑے موبائل فون پر کبیر دادا کا نمبر ڈائل کیا اور موبائل فون کان سے لگا لیا ۔دو تین گھنٹیوں کے بعد کسی نے کال کاٹ دی تھی ۔اس کا دل انجانے خوف سے دھڑکا۔اور وہ دوبارہ نمبر ملانے لگی ۔مگر آگے سے ایک بار پھر نمبر مصروف کر دیا گیا ۔اس نے تیسری کوشش کی جس کا حال پہلی والی کوششوں سے مختلف نہیں تھا ۔ایک دم اس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا ۔ اس کی بے باکی اور بہادری کے غبارے سے فوراََ ہوا نکل گئی تھی ۔یقینا کبیردادا کو اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔وقتی طور پر اسے ٹالنے کے لیے اس نے حامی بھری تھی ورنہ نہ تو اس کی زندگی میں خوب صورت لڑکیوں کی کمی تھی اور نہ اسے تناوش سے نکاح پڑھانے کا کوئی شوق تھا ۔ وہ اپنا قیمتی وقت کسی بے سہارا یتیم لڑکی پر ضائع نہیں کر سکتا تھا ۔تناوش کا دل ڈوبنے لگا ۔

وہاں موجود تمام مردوں کی نظریں اس کے چہرے پر گڑی تھیں ۔بغیر کوئی بات رابطہ منقطع ہونے پر دلاور شیخ چہکا ....

”بے بی !....یقینا تمھارے ہونے والے سورما شوہر کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ تم پر دلاور شیخ کی نظر ہے ۔ دلاور شیخ تو موت کا دوسرا نام اور موت کا سامنااس مولوی جیسا بے قوف ہی کر سکتا ہے ۔بہ ہرحال مولوی صاحب نکاح پڑھانا شروع کرو ۔“اس نے شاید زندگی میں پہلی بار مولوی محبوب الٰہی کو تمیز سے مخاطب کیا تھا۔

زمین اور آسمان تناوش کی نگاہوں میں چکرانے لگے تھے ۔بے اختیار وہ قریب پڑی چارپائی پر بیٹھ گئی ۔اس کی ماں فوراََ دہائی دیتے ہوئے کمرے سے باہرنکلی ۔

”نہیں دلاور شیخ !....تم نے خود چودہ جماعت کرنے تک کی مہلت دی ہوئی ہے اور میری بیٹی ابھی بارہویں کلاس میں ہے ۔“

”سن مائی !....میں نے کہا تھا کہ تم لوگ کوئی ایسی حرکت نہیں کرو گے جیسی اب کر چکے ہو ۔اور اب تمھاری مہلت ختم ۔میں خود ہی تمھاری بیٹی کو بی اے کروا لوں گا ۔بلکہ اس کی بہت اچھی ٹیوشن بھی رکھوں گا ۔“بشریٰ کو یہ کہتے ہی وہ مولوی محبوب الٰہی کو مخاطب ہوا ۔” ابے مولوی کی اولاد !....کیا کہا ہے نکاح پڑھانا شروع کر ۔“

”مم.... مگر لڑکی تیار نہیں ہے ۔“مولوی محبوب الٰہی ہکلاتے معترض ہوا ۔

”کیسے تیار نہیں ہے ....اپنے کسی یار کے لیے تو اس نے اتنا سنگھار کر لیا ہے عاشق کو بھی مایوس نہیں کرے گی ۔“

”مم....مگر جناب لڑکی رضامندی تو لازمی ہوتی ہے نا ۔“

”تم فکر نہ کرو ....وہ بالکل رضامند ہو گی ....یقینا اسے تمھاری لاش دیکھناپسند نہیں ہوگا ۔“یہ کہتے ہی اس نے جیب سے پستول نکال کر مولوی محبوب الٰہی کی کنپٹی پر رکھ دیا تھا 

حیران و پریشان بیٹھی تناوش کے سر پو اور قیامت ٹوٹ پڑی ۔مولوی صاحب کو وہ بڑے اعتماد سے بلا کر لائی تھی ۔اس نے تو دعوا کیا تھا کہ دلاور شیخ اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گا اور اب مولوی صاحب کو جان کے لالے پڑ گئے تھے ۔

”خدا کے لیے یہ ظلم نہ کرو ۔“وہ دلاور شیخ کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے گڑگڑائی ۔

وہ اطمینان سے بولا ۔”ٹھیک ہے ،تم میرے ساتھ نکاح پڑھوا لو ....مولوی کو کچھ بھی نہیں کہوں گا ۔“

تناوش کے پورے وجود کے اندر بے بسی بھر گئی تھی ۔اس کے دماغ میں مولوی کی بیوی حامدہ کی آواز ابھری ۔

”سپنے دیکھنے بند کرو لڑکی !....ایسا کچھ ڈراموں، فلموں میں تو ہو سکتا ہے حقیقت میں نہیں ۔دلاور شیخ جیسے درندوںکی رسی کو مالک بھی ڈھیلا چھوڑے رکھتا ہے ۔ایسے موذی کا ہم جیسے کمزور لوگ کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔“

اس کی بات بالکل سچ تھی ۔اب دلاور شیخ کی بات نہ مان کر وہ بس مولوی صاحب کی زندگی کی دشمن ہی بن سکتی تھی ۔ایک لمحہ سوچنے کے بعد وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی ....

”ٹھیک ہے ۔مولوی صاحب!....آپ نکاح پڑھانا شروع کریں ۔“

  جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rakhail Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rakhail written by  Riaz aqib Kohlar  .Rakhail  by Raiz Aqib Kohlar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages