Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 7 to 8 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 17 August 2023

Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 7 to 8

Rakhail By  Riaz Aqib New Novel Episode 7 to 8

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rakhail By Raiz Aqib Episode 7 to 8

Novel Name: Rakhail 

Writer Name: Riaz Aqib  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

”مگر بیٹی ....“مولوی صاحب نے کچھ کہنے کے لیے لب ہلانے چاہے ۔اسی وقت دلاور شیخ اس کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے دھاڑا ۔

”بکواس بند کرو بڈھے ،شاید تجھے اپنی زندگی کی پروا نہیں ہے ۔“

تناوش بلکتے ہوئے بولی ۔”دلاور شیخ ،شرم آنی چاہیے تمھیں ایک کمزور نہتے بزرگ پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے ۔“

”اس بڈھے کو بھی تو فتنے سے باز آ جانا چاہیے ،جب ایک لڑکی شادی کے لیے تیار ہے تو اسے کیا مسئلہ ہے ۔اس کی بیٹی سے تو نکاح نہیں کر رہا جو اسے تکلف ہو رہی ہے ۔“

”بیٹی نہیں ،بیٹی جیسی تو ہے ۔“مولوی صاحب نے حوصلہ کر کے زبان کھولی ۔

”ایسی کی تیسی تیری بیٹی اور تیری بیٹی جیسی کی ....چل نکاح پڑھانا شروع کر ۔“

محلے والوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا ۔تمام خوفزدہ انداز میں یہ ڈراما دیکھ رہے تھے۔ اگر وہ مولوی صاحب کا ساتھ دینے پر تیار ہو جاتے تو دلاور شیخ میں اتنی جرّات نہیں تھی کہ اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کر پاتا ۔مگر مقابلہ تو کجا وہ شادی میں شرکت کے فیصلے پر پچھتا رہے تھے ۔انھیں تو یہ خوف کھائے جا رہا تھا کہ کہیں مولوی صاحب کے بعد دلاور شیخ انھیں زدوکوب کرنا نہ شروع کر دے ۔

”اب بھی سوچ لے بیٹی !....میں اپنی زندگی گزار چکا ہوں ،میری موت سے اگر تمھاری زندگی بچ سکتی ہے تو انکار کر دے ۔“دلاور شیخ کی بکواس کے باوجود مولوی محبو ب الٰہی ہمت نہیں ہارا تھا ۔

”فکر نہ کر بڈھے ،تیرے مرنے کی خواہش کو میں جلد ہی پورا کردوں گا ۔“یہ بے ہودہ الفاظ دلاور شیخ کے ہونٹوں پر تھے کہ تناوش کے ہاتھ میں پکڑے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔اس نے مایوسی بھری نگاہ سکرین پر ڈالی ،یہ دیکھ کر اس کا دل خوش گوار انداز میں دھڑکنے لگا تھا کہ وہ کال کبیر دادا کے نمبر سے آرہی تھی ۔اس نے بے صبری سے بٹن دبا کر رابطہ جوڑا۔

”اسلام علیکم !“اس کی آواز سے حد درجے کی شکر گزاری ابل رہی تھی ۔

وہ سلام کا جواب دیے بغیر گویا ہوا ۔”معذرت خواہ ہوں میرا موبائل فون ملازم کے ہاتھ میں تھا اور میں ورزش میں مشغول تھا ۔اس نے ابھی آکراطلاع دی ہے ۔میں بس تمھاری جانب نکل پڑا ہوں ۔“

”مم....میں منتظر ہوں ۔“خوشی کے مارے اسے بولنا مشکل ہو گیا تھا ۔

کبیر دادا نے مزید کوئی بات کیے بغیررابطہ منقطع کر دیا تھا۔

”دلاور شیخ !....برات میرے گھر تک آنے کے لیے چل پڑی ہے ۔“ایک بار پھر اس کے لہجے میں اعتماد در آیا تھا ۔

”شاید تم مزید مہلت حاصل کرنا چاہتی ہو ....لیکن یاد رکھنا آج دلاور تمھیں ساتھ لے کر ہی جائے گا ۔تمھیں اپنی مردانگی کا ثبوت بھی تو دینا ہے ۔“

وہ بے باکی سے بولی ۔”ضرور دینا ....بس بیس پچیس منٹ ٹھہر جاﺅ ۔“

اسی وقت دلاور کا چمچہ کرم دین سر پر مٹھائی کا ٹوکرا لادے دروازے سے نمودار ہوا ۔

”ہونہہ!.... مٹھائی تقسیم ہونے تک تمھارے یار کا بھی انتظار کر لیتے ہیں ....تمھیں اگر اس کی موت کے بعد ہی میری بیوی بننا ہے تو مجھے کیا اعتراض ۔“زہر خند لہجے میں کہتے ہوئے وہ اپنے آدمیوں سے بولا ۔”چلو بھئی حاضرین میں مٹھائی تقسیم کرو ....کیا یاد کریں گے یہ لوگ دلاور شیخ کی شادی میں شرکت کے لیے آئے ہیں اور اب تک پھیکا منھ لیے بیٹھے ہیں ۔“

”جی باس ۔“کہہ کر وہ سب سے پہلے مٹھائی کا ٹوکرا دلاور شیخ کے قریب لائے ۔

وہ ایک گلاب جامن اٹھا کر منھ میں رکھتے ہوئے بولا ۔”اس کھڑوس مولوی کا منھ بھی میٹھا کراﺅ۔“

انھوں نے مٹھائی کا ٹوکرا مولوی صاحب کے سامنے پکڑا۔ مولوی محبو ب الٰہی کا جی بالکل بھی نہیں چاہ رہا تھا کہ مٹھائی کو ہاتھ لگائے ۔اسے متذبذب دیکھ کر تناوش بولی ۔

”چچا جان !....بے فکر ہو کر مٹھائی لیں،تمھاری بیٹی کا دولھا چند منٹ میں پہنچے والا ہے ۔“

”ہا....ہا....ہا۔“دلاور شیخ نے زبردستی کا قہقہہ لگایا۔”دولھا نہیں قربانی کا بکرا کہو جس نے آج دلاور کے ہاتھوں ذبح ہو نا ہے ۔“

 مولوی محبو ب الٰہی نے بے دلی سے مٹھائی کا ایک دانہ اٹھا لیا تھا ۔مگر اس نے وہ دانہ منھ میں نہیں ڈالا تھا ۔دلاور شیخ کی حرام کی مٹھائی کھانے کا اس کاکوئی ارادہ نہیں تھا ۔اس کے مٹھائی نہ کھانے پر دلاور شیخ نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا وہ تو بس خباثت بھری نگاہوں سے تناوش کو گھور رہا تھا جو دلھن کے روپ میں قیامت ڈھا رہی تھی ۔البتہ اس کے چہرے پر نظر آنے والا اطمینان اسے ضرور اچنبھے میں ڈالے ہوئے تھا ۔اس کے وہم و گمان میں بھی آنے والے ہولناک وقت کا تصور موجود نہیں تھا ورنہ وہ وہاں سے بھاگنے میں ایک منٹ بھی نہ لگاتا ۔

اس کے کارندے بہ مشکل لوگوں میں مٹھائی تقسیم کر پائے تھے کہ بریکوں کی زوردار چرچراہٹ کی آواز ان کے کانوں میں پڑی ۔تناوش کے ہونٹوں پر خوب صورت تبسم نمودار ہوا ۔ اس کا دولھا ،اس کے خوابوں کا شہزادہ پہنچ گیا تھا ۔تمام لوگ دروازے کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ۔ 

ایک جھٹکے سے دروازہ کھلااس کے ساتھ ہی کبیر دادا کے قدآور وجود نے تناوش کی نظروں کو ٹھنڈک بخشی۔ اس نے سپورٹس پاجامے کے اوپر ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس سے اس کے بازوﺅں کی مچھلیاں تڑپتی ہوئی نظر آرہی تھیں ۔یقینا وہ اپنی ورزش ادھوری چھوڑ کر تناوش سے کیا وعدہ نبھانے آن پہنچا تھا ۔اس کے عقب میں اسی کی طرح چارقدآور محافظ موجود تھے ۔ان میں سے دو تو دروازے پر رک گئے تھے جبکہ دوکبیردادا کے عقب میں چلتے رہے ۔ان کے ہاتھوں میں جدید رائفلیں نظر آرہی تھیں ۔کبیرداداحاضرین پر نظر ڈالنے کی زحمت کیے بغیر سیدھا تناوش کے قریب پہنچا۔

”میں آگیا ہوں ۔“اس کی دھیمی آواز بھی ایسی تھی جیسے بادل گرج رہا ہو۔تناوش کو لگا سچ مچ اس کا محبوب پہنچ گیا ہو ۔کبیردادا کا چہرہ ایک لمحہ اس کی چاہت بھری نگاہوں کے حصار میں مقید رہا اس کے بعدتناوش نے اپنی نگاہیں دلاور شیخ کی طرف موڑیں ۔اس کی ٹانگوں کی لرزش واضح طور پر نظر آرہی تھی ۔

”آپ بیٹھیں نا ۔“اس نے چاہت بھرے لہجے میں کبیر دادا کو بیٹھنے کی دعوت دی ۔

اثبات میں سرہلاتے ہوئے اس نے چارپائی پر جگہ سنبھال لی ۔دونوں محافظ اس کے عقب میں کھڑے ہو گئے تھے ۔

”دلاور شیخ !....میرا دولھا پہنچ گیا ہے ۔“تناوش اس کے قریب پہنچتے ہوئے اطمینان بھرے لہجے میں بولی ۔

”مم....میں ....کک....کبیر دادا ....وہ میں ....“تناوش سے نظریں چراتے ہوئے وہ کبیردادا کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا ۔

کبیر دادا کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”سنا ہے تم نے میری ہونے والی بیوی کو کہا ہوا ہے کہ اس کے شوہر کو تم اپنے ہاتھوں سے ختم کرو گے ....چلو میں آگیاہوں اپنی قسم پوری کر لو۔“

”مم....مجھے ....معاف کر دو دادا ....مم ....میں نہیں جانتا تھا کہ ....یی....یہ آپ کی منظور نظر ہے ۔“

”معاف کیا ۔“کبیردادا نے بے پروائی سے ہاتھ لہرایا ۔”اب جا کر میری بیوی سے معافی مانگو ۔“

”مم....مجھے معاف کر دو ۔“دلاور شیخ نے فوراََتناوش کے سامنے ہاتھ باندھ دیے تھے ۔

”ہا........“تناوش کے منھ سے اطمینان بھرا سانس خارج ہوا ۔”دلاور شیخ اس پل کے خواب میں جانے کب سے دیکھ رہی ہوں ۔تم سے بہت حساب کتاب رہتا ہے اور معافی بھیا سے مانگنا جنھیں تم نے بے گناہ قتل کیا تھا ۔اور اس کے لیے یقینا تمھیں ان کے پاس ہی جانا پڑے گا ۔“

یہ کہتے ہی وہ ماں کی جانب مڑی۔”چلیں ماں جی !....ہمارا انتظار تو اختتام پذیر ہوا۔“

”ہاں بیٹی !“بشریٰ نے باورچی خانے کی دیوارکے سہارے کھڑی دو لاٹھیاں اٹھائیں، ایک تناوش کو دے کر دوسری اس نے خود تھام لی ۔ان مضبوط لاٹھیوں کا بندوبست انھوں صبح ہی سے کر کے رکھا ہوا تھا ۔ 

”مم ....معاف کر دو خالہ ....“ان کے تیور دیکھ کر دلاور شیخ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں ۔

”کر دیں گی ،پہلے کفارہ تو ادا کر لو ۔“بشریٰ کو خود اپنی آواز بے گانی لگ رہی تھی ۔ اس کے جوان بیٹے کو دردناک موت کے حوالے کرنے والا اس کے سامنے موجود تھا ۔شاہ نواز کا کٹا پھٹا خوں چکاں جسم ہمیشہ اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا ۔نہ جانے مرنے سے پہلے اس کا بے گناہ بیٹا کن اذیتوں سے گزرا تھا ۔اور اس سب کا ذمہ دار دلاور شیخ اب بے بسی کی حالت میں اس کے سامنے موجود تھا ۔

دوسری طرف تناوش تھی ،جس کی زندگی اس نے اجیرن کر دی تھی ۔جس کی آنکھوں کے سپنے اس نے چھین لیے تھے ۔جس کا گبھرو بھائی اس نے اس وجہ سے قتل کر دیا تھا کہ اس نے اپنی بہن کی عزت کی حفاظت کی کوشش کی تھی ۔آج اس بہن کو اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینے کا موقع مل گیا تھا ۔بھائیوں پر تو بہنیں تو یوں بھی قربان ،صدقے واری جاتی ہیں ۔وہ کیسے اپنے بھائی کے قاتل کو معاف کر دیتی ۔

ماں بیٹی نے ہاتھ میں پکڑی لاٹھیاں بلند کیں ۔

”پلیز.... پلیز ....خدا کے لیے ....“دلاور شیخ گڑگڑایا۔مگر اس کی منت زاری کی پرواکیے بغیر ان کی لاٹھیاں ایک جھٹکے سے نیچے آئیں اور دلاور شیخ کے دفاعی انداز میں اٹھے ہوئے ہاتھوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔اس کے منھ سے بلند بانگ چیخ نمودار ہوئی ....

”ہائے ....مر گیا ۔“

تناوش اور اس کی ماں کے کلیجوں تک ٹھنڈک کی لہر اتر گئی تھی ۔اس کے بعد ان کی لاٹھیاں ایک تواتر سے دلاور شیخ کے جسم پر برسنے لگیں ۔وہ اس کے نچلے دھڑ کو نشانہ بنائے ہوئے تھیں ۔دلاور شیخ کی چیخ و پکار اور اس کے تڑپنے کا منظر اتنا خوش کن تھا کہ وہ جلدی جلدی اس کھیل کو ختم نہیں کرنا چاہتی تھیں ۔مضبوط لاٹھیوں کی ضربوں نے چند لمحوں میں دلاور شیخ کو زمین بوس کر دیا تھا ۔ماں بیٹی دل جمعی سے اس پر لاٹھیا ںبرساتی رہیں ۔یہاں تک کہ دلاور شیخ کے منھ سے آوازیں نکلنا موقوف ہو گیا تھا ۔چھاتی پر پڑنے والی لاٹھی کی زور دار ضربوں نے اس کی پسلیوں کو توڑ کر دل کو ناکارہ کر دیا تھا ۔اس کے باوجود ماں بیٹی کے ہاتھ مسلسل چلتے رہے ۔

کبیر دادا بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔حاضرین محفل کے دل بھی خوف سے دھڑک رہے تھے ۔ایک طرف تو انھیں دلاور شیخ کے انجام سے خوشی ہو رہی تھی تو اس کے ساتھ وہ کبیر دادا کی پر رعب شخصیت سے بھی خوف محسوس کر رہے تھے ۔نہ جانے وہ اپنی ہونے والی بیوی کو دکھ پہنچانے کے گناہ میں کس کس کو تشدد کا نشانہ بناتا ۔دروازے پر کھڑے اس کے قوی ہیکل محافظوں کی موجودی میں کوئی گھر سے باہر بھی تو نہیں نکل سکتا تھا ۔دلاور شیخ کے کارندوں کے چہروں پر موت کی زردی کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا ۔

دلاور شیخ کی بھیانک موت کے بعد بھی جب ماں بیٹی کا لاٹھیاں برسانا جاری رہا تو مولوی محبو ب الٰہی ہمت کر کے آگے بڑھا اور تناوش کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا ۔

”بس کرو بیٹی !....یہ موذی اپنے کرتوتوں کے ساتھ اللہ پاک کی عدالت میں پہنچ گیا ہے ۔“اس کے ساتھ ہی اس نے بشریٰ کی لاٹھی بھی تھام لی تھی ۔

دونوں ماں بیٹی چونکتے ہوئے جیسے کسی گہرے سپنے سے بیدار ہوئی تھیں ۔مسلسل لاٹھیاں برسانے سے ان کا سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا ۔

ان کے رکتے ہی کبیر دادا کی پر رعب آواز ابھری ۔”دلاور شیخ کے کارندے سامنے آئیں ۔“

وہ چاروں سورما لرزتی ٹانگوں سے سامنے ہوئے اور بھاگ کر کبیر دادا کے قدموں سے لپٹ گئے ۔

”اللہ پاک کا واسطہ ہمیں معاف کر دو،ہمارے باپ کی توبہ جو آئندہ غلط کام کیا۔“ چاروں یک زبان ہو کر واویلا کرنے لگے ۔

”پیچھے ہٹ کر بات کرو ۔“کبیر دادا نے انھیں دور جھٹکنے کی کوشش کی ۔

”جب تک آپ ہمیں معاف نہیں کر دیتے ہم قدموں سے سر نہیں اٹھائیں گے ۔“ چاروں معافی لیے بغیر اٹھنے پر تیار نہیں تھے ۔

کبیر دادا عقب میں موجود اپنے محافظوں کو مخاطب ہو ا۔”میرے تین گننے تک ان میں سے جو کھڑا نہ ہو پائے اسے گولی مار دینا ۔“مگر اس کے گنتی شروع کرنے سے پہلے وہ چاروں ہاتھ باندھتے ہوئے کھڑے ہو گئے تھے ۔

”ان کے ساتھ کوئی حساب کتاب کرنا ہے ؟“اس مرتبہ اس کا مخاطب تناوش تھی جو عقیدت بھری نظروں سے اسے گھور رہی تھی ۔

 تناوش نے نفی میں سرہلادیا۔

”اپنے سرغنہ کی لاش کو ٹھکانے لگانا تم چاروں کی ذمہ داری ہے ۔اگر یہ لاش پولیس کو مل گئی توشاید انھیں مزید چار لاشوں کی تفتیش بھی کرنا پڑ جائے ۔“

”کک ....کسی کو بھی نہیں ملے گی دادا !“ان میں سے ایک نے جرّات کر کے زبان کھولی تھی ۔

”اب دفع ہو جاﺅ اور اس کے بعد تم یا تمھارا کوئی ساتھی بھی اس محلے میں نظر آیا تو وہ ہمیشہ کے لیے نظر آنا بند ہو جائے گا ۔“

”کبھی بھی نہیں آئیں گے ....یہاں سے گزریں گے بھی نہیں ۔“چاروں پر ابھی تک لرزہ طاری تھا ۔جرم کی دنیا میں کبیردادا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا ۔زیرزمین حلقوں میں وہ ایک افسانوی کردار جیسی شہرت رکھتا تھا ۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس عام سے محلے کے سب سے غریب گھر میں وہ ایک دم یوں آکر بیٹھ جائے گا ۔اور وہ لڑکی جسے پچھلے ڈیڑھ سال سے وہ تنگ کر تے آرہے تھے اسے اپنی بیوی کا خطاب دے دے گا ۔

کبیر دادا نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں دفع ہونے کاکہا اور تناوش کی طرف متوجہ ہوا ۔

”میرا خیال ہے میرا کام ختم ہوگیا ۔“

”جی ہاں ....بس ایک چھوٹی سی رسم باقی ہے ۔“اطمینان بھرے لہجے میں کہتی ہوئی اس نے سر پر دوپٹا درست کیا اور مولوی محبو ب الٰہی کی طرف متوجہ ہوئی ۔”چچا جان !.... ہمارا نکاح پڑھا دیں ۔“

 مولوی محبو ب الٰہی کی آنکھوں میں شدید حیرانی کی لہریں اٹھیں مگر اس نے کوئی سوال پوچھنے کے بجائے وہ ۔”بسم اللہ ۔“پڑھ کر نکاح کا خطبہ پڑھنے لگا ۔خطبہ پڑھتے ہی اس نے کبیر خان سے نام مع ولدیت پوچھا ۔

اس نے دھیمے لہجے میں جواب دیا ۔”کبیر علی ولد عمر علی ۔“

”حق مہر ....؟“اس مرتبہ وہ بشریٰ خاتون سے مستفسر ہوا تھا ۔

ماں کے کچھ کہنے سے پہلے تناوش بولی ....”حق مہر دلاور شیخ کی موت ہی تھا ۔“

”مگر بیٹی ....“

وہ اصرار کرتے ہوئے بولی ۔”چچا جان !جو عرض کر رہی ہوں اسے مان جائیں ۔“

اور مولوی محبوب الٰہی تکرار کیے بغیر ایجاب و قبول کرانے لگا ۔کبیردادا نے اس ضمن میں زبان نہیں کھولی تھی ۔وہ بس دلچسپی سے تناوش کی باتیں سنتا رہا ۔اس چھوٹی سی لڑکی میں خوب صورتی کے علاوہ بھی کوئی تو خاص بات تھی جو وہ اس کی باتوں پر یوں محظوظ ہو رہا تھا ۔

نکاح کی رسم پوری ہوتے ہی وہ کھڑا ہو کر تناوش سے پوچھنے لگا ۔

”تمھیں لینے کے لیے کس وقت گاڑی بھیجوں ؟“

”میں آپ کے ساتھ ہی چل رہی ہوں ۔“وہ پختہ لہجے میں بولی ۔

”نہیں ۔“کبیردادا نے نفی میں سرہلایا۔”رات کے دس بجے تمھیں لینے کے لیے کار پہنچ جائے گی ۔اپنے گھر والوں کے ساتھ چند گھنٹے مزید بھی گزار لو ۔اور کوئی رسم وغیرہ رہتی ہو تو وہ بھی پوری کر لو ۔“آخری فقرہ اس نے متبسم ہو کرکہا تھا ۔تناوش کو محسوس ہوا کہ وہ مسکراتے ہوئے مزید اچھا لگنے لگتا ہے۔مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی کہ تبسم اس کے چہرے پر خال خال ہی نمودار ہوتا تھا ۔

اس کے رخصت ہوتے ہی مولوی صاحب نے بھی جانے کی اجازت مانگی ۔

مولوی محبوب الٰہی کے سامنے سر جھکا تے ہوئے وہ ممنونیت سے بولی ۔”چچا جان!.... آپ کے احسانات ہمیشہ قرض رہیں گے ۔“

”چچا بھی کہتی ہو اور احسانا ت کا ذکر بھی کرتی ہو ۔پگلی بیٹیوں پر احسان نہیں کیے جاتے ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔“مولوی محبوب الٰہی اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرنے لگے۔

”اللہ پاک ہر لڑکی کو ایسا ہی سرپرست عطا کرے ۔“گلو گیر لہجے میں کہہ کر وہ ماں طرف مڑی اور اس کے گلے لگ کر روپڑی ۔

محلے والے بھی نادم اور خفیف انداز میں ماں بیٹی کے قریب ہو کر انھیں مبارک باد دینے لگے ۔گو وہ ساری کہانی ان کے سروں سے کافی اونچی گزری تھی ۔کبیردادا جیسی شخصیت کی آمد ،دلاور شیخ کی بھیانک موت ،ماں بیٹی کی کارروائی ،تناوش کا نکاح ۔سب کچھ نہایت عجیب تھا مگر وہ سوال کرنے کی جرّات نہیں کرپارہے تھے ۔ان کے لیے بس یہ بات باعث اطمینان تھی کہ کبیر دادا نے دلاور شیخ کے کارندوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے محلے سے دفع ہو جانے کا حکم دے دیا تھا ۔

ان کے لیے بس یہ بات باعث اطمینان تھی کہ کبیر دادا نے دلاور شیخ کے کارندوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے ان کے محلے سے دفع ہو جانے کا حکم دے دیا تھا ۔

محلے کی عورتوں میں بھی ہل چل مچی ہوئی تھی ۔کئی ایک نے تو دلاور شیخ کا انجام صحن میں آکر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔تناوش کے شوہر کو دیکھ کر تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئی تھیں ۔گو وہ تناوش سے عمر میں کافی بڑا تھا مگر اس کا رکھ رکھاﺅ ،رعب و دبدبہ ایسا تھا کہ عمر کا فرق بالکل ہی پسِ منظر میں چلا گیا تھا ۔سب سے بڑھ کر تناوش کا رویہ انھیں حیرت میں ڈالے ہوئے تھا ۔کوئی دلھن نکاح کے وقت یوں باتیں نہیں کیا کرتی ۔ نہ وہ اپنے حق مہر کے متعلق منھ کھولتی ہے اور نہ شوہر کو یوں مشورے دیا کرتی ہے ۔مگر وہاں اتنے عجیب حالات ظہور پذیر ہو ئے تھے کہ کسی کے گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے ۔وہ کس کس بات پر حیرت ظاہر کرتے۔

مولوی صاحب کے جانے کے بعد مرد حضرات بھی وہاں سے کھسک لیے تھے ۔ان کے جانے کے بعد عورتوں کو کھلی آازدی مل گئی تھی ۔تمام نے تناوش اور اس کی ماں کو گھیر لیا تھا ۔ یوں بھی شادی کے دن دلھن مرکز نگاہ ہوتی ہے مگر وہ تو ایسی دلھن تھی جس نے تمام کے دماغ کو چکرا کر رکھ دیا تھا ۔گھر میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔کوئی ماں بیٹی کو مبارک دے رہی تھی توکوئی دلاور شیخ جیسے موذی کی موت پراظہارتشکر کر رہی تھی اور کوئی اس حیران کن واقعے پر تبصرے میں مشغول تھی ۔غرض جتنے منھ اتنی باتیں ۔یوں بھی عورت ذات باتیں کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے ،سننا اس نے کسی کی نہیں ہوتی ۔اپنی کہے جانا اور دوسرے کی سنے بغیر سر ہلاتے جانا عورتوں کی عادت ثانیہ ہوتی ہے اور اس وقت وہاں اسی عادت کا بھرپور طریقے سے اظہار ہو رہا تھا ۔

عورتوں کے سوالا ت سے بچنے کے لیے تناوش روایتی دلھن کی طرح خاموشی سے گھونگٹ میں چھپ گئی تھی ۔جوں جوں وقت گزر رہا تھا اس کا دل اندیشوں سے بھرتا جا رہا تھا ۔ کبیر دادا جیسی شخصیت کے بارے سوچ کر اس کی رہی سہی ہمت جواب دیتی جا رہی تھی ۔دلاور شیخ کا انجام تو اس کی تمنا کے مطابق ہوگیا تھا مگر اپنی زندگی اسے اندھیروں میں گم نظر آرہی تھی ۔ نہ جانے کبیر دادا نے اسے کتنا عرصہ اپنے پاس رکھنا تھا ۔یہ بھی ممکن تھا کہ اگلے دن کا سورج طلوع ہونے تک وہ طلاق کے تین الفاظ کا تحفہ لیے گھر کی دہلیز پار کر چکی ہوتی ۔ایسا ہونے کی صورت میں ماں بیٹی لوگوں کا سامنا کیسے کرتے ۔تمام نے یہی کہنا تھا کہ۔” بڑے غنڈے سے اپنی عزت کا سودا کر کے چھوٹے غنڈے سے عزت بچانے کا کیا فائدہ ۔“

”کیوں نہیں ہے فائدہ ۔“اس نے زور و شور سے اپنی سوچ کی مخالفت کی تھی ۔”میں نے اپنے باپ جیسے بھائی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے ، پھر کبیر دادا سے میرا نکاح ہوا ہے اور نکاح کے بعد ہر مرد اپنی بیوی کے جسم کا حق دار بن جاتا ہے تو کبیرا دادا کو یہ حق کیوں نہیں مل سکتا ۔اور ہمارے ملاپ کو عزت فروشی کیسے کہا جا سکتا ہے ۔باقی رہی طلاق کی بات تو وہ تو پہلی رات کی دلھن کو بھی مل جایا کرتی ہے ۔“وہ دل ہی دل میں خود کو تسلی دیتی رہی ۔

اس ماں عورتوں کے سوالات پر ۔”یہ سب میرے مولا کا کرم ہے ۔“کے علاوہ کوئی جواب نہیں دے پا رہی تھی ۔وہ خود خاموش بیٹھی آنے والے ہول ناک وقت کو سوچتی رہی ۔ کبھی خود کو تسلیاں دینے لگتی اور کبھی اپنے اللہ پاک سے خیر و عافیت مانگنے لگتی ۔کبیردادا کے بارے بھی اس کا دل متضاد قسم کے احساسات کا شکا رتھا ۔ایک طرف وہ سوچتی کہ اچھا ہے جتنی جلدی طلاق دے دے اتنی جلدی ہی میں نارمل زندگی گزارناشروع کر دوں گی ۔اس کے ساتھ ہی اس کی نگاہوں میں کبیر دادا کاپر رعب اورمردانہ وجاہت سے بھرپور چہرہ گھومنے لگا ۔اس نے کسی ایسے ہی کے تو سپنے دیکھے تھے ۔کوئی ایسا جو اسے زمانے کے ہر سرد وگرم سے بچا سکے ،کوئی ایسا جو اس کی طرف بری نظر دالنے والے کی آنکھیں نکال سکے ،کوئی ایسا جس کا سہارا پا کر دنیا کا ہر خوف اور اندیشہ اس کے دل سے زائل ہو جائے ۔اور وہ ایسا ہی تو تھا ۔دلاور شیخ جسے غنڈے نے اسے دیکھتے اپنی شلوار گیلی کر لی تھی ۔پولیس کے پانچ چھے محافظ ساتھ پھرانے والے جسٹس کی ٹانگیں اسے دیکھتے ہی کانپنے لگ گئی تھیں ۔تو کوئی اور کیسے اس کا سامنا کرتا ۔

گھنٹے ڈیڑھ تک زیادہ تر عورتیں رخصت ہو گئی تھیں ۔بس دوتین پڑوسنیں اور تناوش کی چند قریبی سہیلیوں کے علاوہ وہاں کوئی باقی نہیں رہا تھا ۔باقی عورتوں کی طرح اس کی سہیلیاں بھی اصل بات جاننے کے لیے بے چین تھیں ۔عورتوں کے جاتے ہی وہ اسے کمرے میں لے آئیں اس کے ساتھ ہی سلمیٰ نے تمام کے ذہنوں میں مچلتے سوال کو الفاظ کی شکل دے دی ۔

”اری!.... کبیر خان کے متعلق تم نے جتنا بتایا تھا وہ اس سے کچھ زیادہ ہی شاندار شخصیت کے مالک نکلے ہیں ۔سچ بتاﺅ ایسا دولھا کہاں سے ڈھونڈا۔“

تناوش ہنسی ۔”کیوں ،تمھیں بھی کسی ایسے ہی کی تلاش تھی ۔“

سلمیٰ حسرت ناک لہجے میں بولی ۔”اللہ پاک کی قسم ،کوئی ایسا ملے تو خوشی سے مر نہ جاﺅں ۔“

تناوش اس پر چوٹ کرتے ہوئے بولی۔”مطلب،جسے تمھاری موت مطلوب ہو وہ تمھارے لیے ایسے ہی دولھا کی دعا کرے ۔“

”وہ تو میں نے بہ طور محاورہ بولا ہے ۔“سلمیٰ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ۔” اب اصل بات پھوٹو ۔“

”کون سی اصل بات ۔“

سلمیٰ نے کہا ۔”یہی کہ کبیر صاحب آپ کو کہاں ملے ،کیسے پسند کیا اور تم نے اتنا عرصہ ہم سے کیوں یہ بات چھپائے رکھی اور اس سے پہلے تم نے کبیر کو دلاور شیخ کے بارے کیوں خبر نہ دی ۔وغیرہ وغیرہ ۔“شازیہ ،نازیہ ،اقراءاور صالحہ بھی پر شوق انداز میں اس کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں ۔

تناوش نے دھیمے لہجے میں کہا ۔”سچ تو یہ ہے ان سے میری کل ہی ملاقات ہوئی ہے۔“

”بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ،سمجھیں ۔“اقراءنے اس کی پیٹھ پر دھپا لگایا۔

”بکواس نہیں کر رہی حقیقت بتا رہی ہوں ۔“

شازیہ نے کہا۔”مگر ایسا کیسے ممکن ہے ۔“

”ہاں بالکل ۔“باقیوں نے بھی شازیہ کی تائید میں سر ہلادیے تھے ۔

”جب اللہ پاک چاہے تو سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے ۔“

سلمیٰ جل کر بولی ۔”کوئی واسطہ،کوئی تعارف ،کوئی میل ملاپ بھی ہوا یا کبیر خان صاحب براہ راست آسمان سے ٹپکے جنھیں محترمہ تناوش نے جھولی پھیلا کر سنبھال لیا ۔“

”یاد ہے نا کل میں کالج نہیں آئی تھی ۔“

سلمیٰ نے مزاحیہ انداز میں کہا ۔”ہاں اچھی طر ح یاد ہے ۔اور اگرکالج سے چھٹی کرنے پر کبیر خان جیسا دولھا مل سکتا ہے تومیں ہمیشہ کے لیے کالج جانے سے رک جاﺅں گی ۔“

تناوش نے فلسفیانہ انداز میں کہا ۔”ہر اندھے کے پاﺅں تلے بٹیرہ نہیں آیا کرتا ۔نہ ہما ہر شخص کے سر پر بیٹھا کرتا ہے ۔“

اقراءنے بے صبری سے کہا ۔”یار فلسفے کو چھوڑو اور اصل بات بتاﺅ۔“

نازیہ بولی ۔”ہاں ہاں ،جلدی جلدی اصل واقعہ سناﺅ ،یہ نہ ہو کبیر خان صاحب محترمہ کو لینے پہنچ جائیں ۔آخر اتنی پیاری دلھن کے بغیر وہ بھی تو اداس ہو ں گئے ۔“

”کاش ایسا ہوتا ۔“حسرت ناک انداز میں سوچتے ہوئے اس کے منھ سے ٹھنڈا سانس خارج ہوا اور وہ انھیں تفصیل بتلانے لگی ۔

”کل میرا دل کالج جانے کو نہیں کر رہا تھا ،میں یونھی کسی سمت کا تعین کیے بغیر شہر میں پھرتی رہی ۔ایک بڑے ہوٹل کے سامنے سے گزرتے ہوئے میری نظر پولیس کے سپاہیوں کے جھرمٹ میں ہوٹل سے باہر آتی ایک شخصیت پر پڑی ۔میرے دل میں ایک دم اسے اپنے حالات بتانے کا داعیہ پیدا ہوا ۔وہ اپنی قیمتی کار میں بیٹھ کر ہوٹل سے باہر آنے والی روش پر آرہا تھا، میں اسے روکنے کے لیے آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ سڑک پر ایک مرسڈیز نے نمودار ہو کر اس شخص کا رستا روک دیا ۔اور جانتی ہو مرسڈیز میں وہ سوار تھے ۔“

”وہ کون ؟“شازیہ نے مزاحیہ انداز میں کہتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو بھی سوالیہ انداز حرکت دی تھی ۔

”ان کے ہونے والے وہ یا ر....اب خاموشی سے بات سنو ۔“سلمیٰ نے بیزاری بھرے انداز میں شازیہ کو جھڑکا ۔باقی بھی شازیہ کو خشمگین نظروں سے گھورنے لگی تھیں ۔

”اچھا سوری یار ،اب نہیں بولتی ۔“شازیہ نے فوراََ اپنے ہاتھ بلند کر لیے ۔

تناوش دوبارہ بولنے لگی ۔”ہوٹل سے نکلنے والی شخصیت ایک جج کی تھی ۔اور یقین مانو پولیس کے محافظوں میں گھرے اس جج نے جب انھیں دیکھا تو وہ تھرتھر کانپنے لگ گیا تھا ۔غالباََ ان کے کسی آدمی کا مقدمہ اس جج کی عدالت میں پھنسا تھا ۔انھوں نے جج کو کل تک اپنے آدمی کے حق میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا ،جسے جج نے بغیر کسی حجت کے مان لیا تھا ۔مجھے معلوم ہو گیا کہ مجھے کس کے سامنے فریاد کرنا چاہیے ۔پس موقع ملتے ہی میں نے اپنی پریشانی ان کے سامنے دہرا دی انھوں نے مجھ سے شادی کرنے کی شرط پر میری مدد کرنے کی حامی بھر لی ۔بس اتنی سی بات ہے۔باقی کا سارا واقعہ تو تم لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ۔“تناوش نے گول مول انداز میں انھیں سارا واقعہ سنا دیا ۔

”ارے کہیں وہ دالاور شیخ سے بھی بڑا....میرا مطلب ہے کوئی ایسا ویسا آدمی تو نہیں ہے ....“شازیہ نے محتاط انداز میں جو کہا وہی تمام کے دماغ میں گونج رہا تھا ۔

”اگر اس کے بعد انھیں ایسا ویسا کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ....“تناوش سچ مچ ناراض ہونے لگی ،حالانکہ یہ بات تو اسے اچھی طرح پتا تھی کہ کبیر داداکیا تھا ۔باقی تمام سہلیاں بھی خشمگین نظروں سے شازیہ کو گھورنے لگی تھیں ۔گو اندازہ تو انھیں بھی ہو گیا تھا کہ کبیر خان کی اصلیت کیا تھی مگر ایسے سچ پیٹھ پیچھے بولے جاتے ہیں منھ پر نہیں ۔

”مم....مم....میں نے تو بس یونھی ....“شازیہ منمنا کر رہ گئی تھی ۔

”بیٹی کھانا لاﺅں ۔“بشریٰ نے اندر آکر پوچھا ۔

”ماں جی !....دل نہیں چاہ رہا ۔“اس نے انکار میں سرہلایا۔

”تھوڑا سا کھا لواور تمھاری سہیلیاں بھی تو کھائیں گی نا ۔“بشریٰ مصر ہوتے ہوئے کھانا لینے چلی گئی ۔

 سہیلیوں کی وجہ سے اس نے بھی تھوڑا سا کھانا زہر مار کر لیاتھا ۔اور پھر وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا کار کے ہارن پر اس نے پاس بیٹھی سلمیٰ سے وقت پوچھا ۔

وہ گھڑی پر نظریں دوڑاتے ہوئے بولی ۔”پونے نو ۔“

وہ سرسراتے ہوئے ہوئے لہجے میں بولی ۔”ان کی کاروقت سے گھنٹابھرپہلے ہی پہنچ گئی ہے۔“

سلمیٰ نے معنی خیز لہجے میں کہا ۔”ہاں جی ،صبر ہی کہاں ہو رہا ہوگا بے چارے سے ۔“

تناوش سرخ پڑتے ہوئے بولی ۔”بکواس نہ کرو ۔“

”اس میں بکواس کی کیا بات ہے ،خود ہی تو بتارہی تھیں آپ کے ،وہ دس بجے کار بھیجیں گے۔“

تناوش منھ بناتے ہوئے بولی ۔”تو تمھیں کوئی تکلیف ....“

سلمیٰ کھل کھلا کر ہنسی ۔”تکلیف تو خیر جس کو ہونی ہے اسے معلوم ہے ۔باقی میں نے آپ کے ان کا ارادہ ہی بتایا تھا ۔“

اسی وقت دروازے پر دستک ہونے لگی تھی ۔بشریٰ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ دروازہ کھولنے پر اسے دو عورتیں اور ایک مرد کھڑے دکھائی دیے ۔گلی میں ایک چمکتی دمکتی کار بھی کھڑی تھی ۔

”آئیں جی ۔“اس نے ایک طرف ہوکر انھیں اندر آنے کا رستا دیا ۔

”میں کار میں بیٹھاہوں آپ لڑکی کو لے آئیں ۔“مرد نے اندر گھسنے سے احتراز برتا تھا ۔بشریٰ کو اس کا تناوش کے لیے دلھن کے بجائے لڑکی کا لفظ استعمال کرنا نہایت عجیب اور برا لگا تھا ،مگر اس نے کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور عورتوں کو ساتھ لے کرتناوش کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔اسے دونوں عورتیں ملازمہ نظر آرہی تھیں ،اسی وجہ سے وہ ان کا تعارف چاہے بغیر کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔

”بیٹھیں میں کھانا لاتی ہوں ۔“بشریٰ نے انھیں بیٹھنے کی دعوت دی ۔

”نہیں شکریہ ،ہمارے پاس وقت کم ہے ۔“وہ عجلت میں دکھائی دے رہی تھیں ۔

تناوش کی سہیلیاں اسے سہارا دے کر اٹھانے لگیں ،باری باری تمام سے گلے مل کر وہ ماں سے مل کر رو پڑی تھی ۔

بشریٰ اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے اس کی تسلی دینے لگی مگر خود اپنے آنسو وہ نہیں روک پا رہی تھی ۔

”پلیز چلیں وقت کم ہے ۔“دونوں عورتیں نے ایک بار پھر عجلت ظاہر کی ۔

تناوش ان کے ہمراہ چل پڑی تھی ۔تمام سہیلیاں اور بشریٰ ان کے پیچھے تھیں ۔ دروازے سے نکلتے وقت وہ ایک بات پھر ماں سے لپٹ گئی تھی ۔اسے زیادہ جذباتی ہوتے دیکھ کر عورتوں نے ایک مرتبہ پھر وقت کی کمی کا رونا رو کر اسے چلنے کوکہا ۔

بشریٰ نے اس کی پیشانی چوم کر اسے خود سے علاحدہ کیا اور وہ دونوں عورتوں کے درمیان میں کار کی عقبی نشست پر بیٹھ گئی ۔اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ وہی مرد براجمان تھا جس نے دروازے پر دستک دی تھی ۔

تناوش کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کار آگے بڑھا دی ۔بشریٰ ،حسرت بھری نظروں سے کار کو دور ہوتے جاتا دیکھتی رہی ۔

٭٭٭

تناوش سر جھکائے ان دونوں عورتوں کے درمیان بیٹھی گئی ۔نہ تو کسی نے اسے مخاطب کیا اور نہ اس نے خود کسی سے بات کرنے کی کوشش کی تھی ۔جوں جوں کار گھر سے دور ہوتی جا رہی تھی اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔

وہ سر جھکائے بیٹھی رہی ۔شرم و حیا ایک دلھن کی فطرت ثانیہ ہوتی ہے اور وہ تو ایسی دلھن تھی جس کے ساتھ اس کی کوئی واقف کار خاتون بھی موجود نہیں تھی ۔کار کافی دیر چلتی رہی، سر جھکا ہونے کی وجہ سے اسے نہ تو دائیں بائیں کے مناظر نظر آ رہے تھے اور نہ وہ دیکھنا چاہ رہی تھی ۔ 

کار رکتے ہی وہ باہر نکلی ۔دونوں عورتیں اسے ایک پر تعیش کمرے میں لے آئیں ۔اور بیڈ پر بٹھا کر باہر نکل گئیں ۔ان کے کمرے سے نکلتے ہی وہ سر اٹھا کر کمرے کا جائزہ لینے لگی ۔آرام دہ ڈبل بیڈ جس پرخوب صورت بیڈ شیٹ بچھی تھی۔ کھڑکیوں سے لٹکے قیمتی پردے ،فرش پر بچھا دبیز قالین جس میں پاﺅں دھنسے جا رہے تھے ،عمدہ صوفہ سیٹ اور بھی بہت کچھ ایسا جو اس نے صرف ٹی وی ڈراموں میں دیکھا تھا ،یا اپنی امیر سہیلیو ں سے اس کا ذکر سنا تھا ۔اوراب وہ بھی ایسی ہی خوب گاہ کی مالک بن گئی تھی ۔

”مالک....“اس کے دماغ میں طنزیہ سوچ ابھری اور تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر چھا گئی ۔نا معلوم کبیرا دادا نے اسے کتنا عرصہ اپنے پاس رکھنا تھا ،یہ بھی ممکن تھا کہ آج اس خواب گاہ میں اس کی پہلی اور آخری رات ہوتی ۔

جانے کتنی دیر تک وہ سر جھکائے تلخ و شیریں خیالات میں گم رہی یہاں تک کہ دروازے پر کھٹکا ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ گھونگٹ میں چہرہ گم کرتی تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک قبول صورت جوان اندر داخل ہوا ۔

”شاید یہ کبیر دادا کا سیکریٹری وغیرہ ہو گا ۔“اس کے دماغ میں ایک امکانی سوچ گونجی۔ لیکن جونھی کمرے میں داخل ہو کر اس نے دروازے کی کنڈی لگائی وہ ایک دم چونک پڑی تھی ۔

”کک....کون ہیں آپ ....کنڈی کیوں لگا دی ۔“وہ بے اختیار کھڑی ہو گئی تھی ۔

اس کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”بے بی !....خادم کو خاور کہتے ہیں، آج کی رات تم مجھے اپنا خدمت گار سمجھ سکتی ہو اورکنڈی اس لیے لگائی ہے کہ کوئی ہمیں ہماری تنہائی میں مخل نہ ہو سکے ۔“

”وہ ....وہ ....کہاں ہیں ۔“تناوش ہکلائی ۔

”وہ کون ....“اس نے چہرے پر مصنوعی حیرانی طاری کی اور پھر سر ہلاتے ہوئے بولا۔ ”اچھا ....اچھا ،تمھارا مطلب ہے کبیر دادا کہاں ہے ۔“ ایک لمحہ سوچنے کا انداز بناکر وہ کہنے لگا ۔”میرا خیال ہے اپنی کسی منظور نظر کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہوگا ....اور فکر نہ کرو تم نے کون سا روزانہ میرے ساتھ ہی ہو نا ہے ۔آج میں کل کوئی اور ہوگا ۔امید ہے کبھی نہ کبھی کبیردادا بھی تمھیں شرف ملاقات بخش دے گا۔“

”دیکھو ،میرے قریب آنے کی کوشش نہ کرنا ۔“وہ لڑکھڑاتے قدموں سے پیچھے ہٹی ۔ اس کے دماغ میں سائیں سائیں ہو رہی تھی ۔اتنی زیادہ توہین اور بے توقیری کا تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا ۔وہ جسے دل و جان سے اپنے سر کا سائیں سمجھے بیٹھی تھی اس نے تو اسے اس قابل بھی نہیں سمجھا تھا کہ پہلی رات ہی اس کے پاس آجاتا ۔اس کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کے خواب شیشے کے برتن کی طرح کرچی کرچی ہو گئے تھے ۔کہاں تو وہ اسے جرم کی دنیا سے دور لے جانے کے منصوبے سوچ رہی تھی ،اسے اپنی وفا اور خدمت گزاری سے متاثر کرنے کا سوچے بیٹھی تھی اور کہاں وہ رکھیل اور داشتہ کے درجے سے بھی گر گئی تھی ۔

”ویسے یہ تو زیادتی ہے بے بی کہ مجھے اپنے قریب آنے سے منع کر رہی ہو آخر میرا قصور تو بتلاﺅ نا ۔“اس نے مکروہ لہجے میں کہا۔

”دیکھیں خدا کے لیے آپ کبیر دادا کو بلوائیں مجھے اس سے بات کرنا ہے ۔“

اس نے بھونڈے انداز میں کہا ۔”آئے ہائے ،کبیر دادا کو بلواﺅں یا انھیں ....“یہ کہتے ہوئے وہ دیوار میں بنی شیشے کی خوبصورت الماری کی طرف بڑھا۔پٹ کھول اس نے ترتیب سے رکھی ہوئی بوتلوں سے ایک بوتل باہر نکالی ۔بوتل کا لیبل تو تناوش کو نظر نہ آیا مگر اتنا اندازہ اسے ہو گیا تھا کہ وہ شراب کی بوتل تھی ۔ تپائی پر پڑانفیس گلاس اٹھا کر اس نے اپنے لیے شراب انڈیلی ۔

”تم پینا پسند کرو گی ۔“

خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے تناوش منمنائی ۔”پلیز مجھے کبیرا دادا سے ملوا دیں ۔“

”صبح مل لینا یار !....فی الحال تو موڈ خراب نہ کرو ۔“صوفے پر بیٹھ کر وہ گلاس خالی کرنے لگا ۔

”میں خودمل لیتی ہوں ۔“ ہمت مجتمع کرتے ہوئے وہ دروازے کی طرف بڑھی ۔ 

وہ دروازے سے دوتین قد م دور ہی تھی کہ وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولا ۔ ”دروازے پر میرے چار محافظ کھڑے ہیں اور انھیں میں بتا کر آیا ہوں کہ تمھارے کمرے سے باہر جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ میری طرف سے تم فارغ ہو اور اب وہ اپنا حصہ وصول کر سکتے ہیں ۔ اگر اکٹھے چار کو بھگتانے کا شوق ہے تو تم شوق سے باہر جا سکتی ہو ۔“

تناوش کے قدم جیسے زمین میں گڑ گئے تھے ۔وہ ہاتھ باندھتے ہوئے گڑگڑائی ۔ ”خخ....خدا کے لیے ،مجھے ایک بار کبیر دادا سے ملوا دو ۔“

اس نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔”تمھیں میرا قد کبیر دادا سے چھوٹا نظر آرہا ہے یا مجھ میں ہمت کی کمی نظر آرہی ہے جو تم بار بار کبیر دادا....کبیرا دادا کا نام الاپ رہی ہو ۔“

”وہ میرے شوہر ہیں ....ان سے نکاح ہوا ہے میرا ۔“تناوش جیسے پھٹ پڑی تھی ۔

اس نے چند لمحے سوچنے کی اداکاری کی اور پھر گھٹیا لہجے میں بولا ۔”ویسے شوہر بننے کے لیے جن لوازم کی ضرورت ہوتی ہے کیا مجھ میں وہ موجود نہیں ہیں ۔“

تناوش کو خاموش پا کر وہ دوبارہ بولا۔”چلو ٹھیک ہے ،آج کی رات مجھے موقع دے دو اگر تمھیں شکایت ہوئی تو کل کبیر دادا کے پاس چلی جانا ۔“یہ کہتے ہوئے اس نے خالی گلاس تپائی پر رکھا اور تناوش کی طرف قدم بڑھا دئیے ۔“

”اگر مجھے ہاتھ لگایا تو میں چیخنا شروع کر دوں گی ۔“تناوش نے یوں دھمکی دی جیسے وہ کسی عوامی مقام پر کھڑی ہو۔

”میرے کانوں کے لیے پسندیدہ آواز عورتوں کی چیخیں ہی ہیں ۔“وہ قدم روکے بغیر اس کی طرف بڑھتا رہا ۔ الٹ قدموں پیچھے ہٹتے ہوئے تناوش کی پیٹھ دیوار کے ساتھ جا لگی تھی ۔ اب مزید پیچھے ہونے کی گنجائش نہیں رہی تھی ۔

وہ گڑگڑائی ۔”خخ....خدا کے واسطے ....سوہنے نبی پاک ﷺ کے واسطے مجھے کچھ نہ کہو۔“اس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا ۔ایک دلاور شیخ سے اپنی عزت بچانے کے لیے وہ کئی دلاوروں کے ہتھے چڑھ گئی تھی ۔

”بے بی !....موڈ خراب نہ کرو ۔“اس کے گڑگڑانے اور واسطے دینے کو کسی خاطر نہ لاتے ہوئے وہ اس کی طرف بڑھتا رہا ۔تناوش کی حالت بلی کے منہ میں آئی اس چوہیا کی سی تھی جس کے پاس فرار کا کوئی رستا نہ بچا ہو ۔

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rakhail Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rakhail written by  Riaz aqib Kohlar  .Rakhail  by Raiz Aqib Kohlar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages