Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 1 to 2 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 17 July 2023

Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 1 to 2

Rakhail By  Riaz Aqib New Novel Episode 1 to 2

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rakhail By Raiz Aqib Episode 1 to 2 

Novel Name: Rakhail 

Writer Name: Riaz Aqib  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

”ہائے ہائے ........“بشریٰ خاتون اپنی چھاتی پیٹتے ہوئے بیٹے کی لاش سے لپٹ گئی۔”آگ لگے تیری صورت کو ....تو پیدا ہوتے ہی کیوں نہ مر گئی ڈائن۔کھا گئی ہے اپنے اکلوتے بھائی کو،ہائے او ربّا! مجھے پتا ہوتا تو پیدا ہوتے ہی تمھارا گلاگھونٹ دیتی۔تمھیں زندہ درگور کر دیتی ۔ہائے میرا بھولا بھولا شہزادہ ....ہائے ہائے ....“اس کی سینہ کوبی اور آہ وزاری جاری رہی ۔

وہ بھی گھر کے ایک کونے میں گھٹنوں میں سر دئےے بیٹھی خاموشی سے روتی رہی ۔ماں تو اسے کوس کر ،برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال رہی تھی ۔وہ کسے کوستی کس کو برا بھلا کہتی ۔اگر ماں کا اکلوتا بیٹاقتل ہوا تھا تووہ اس کابھی تو اکلوتا بھائی تھا۔اور اس نے کون سا کسی سے محبت کی پینگیں بڑھائی تھیں یا کسی سے ناجائز تعلقات رکھے تھے جو وہ شرمندہ ہوتی ۔وہ تو خود ایک عذاب میں پھنسی ہوئی تھی ۔اس دور میں بھی کراچی جیسے شہر میں جنگل کا قانون رائج تھا ۔ایک غنڈے کو پورا حق حاصل تھا کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر کسی لڑکی کی زندگی اجیرن کر دے ،اسے ہر وقت چھیڑتا رہے اور احتجاج کرنے پر اس کے بھائی کو بھی قتل کر دے ۔دلاور شیخ نے یہی تو کیا ہوا تھا ان کے ساتھ ۔سربازار اسے روک کروہ ببانگ دہل کہتا تھا ۔

” بی اے کر لے بے بی پھر تمھیں میری بیوی بننا ہے ۔اور اگر اس سے پہلے کوئی رشتا لے کر تمھارے گھر آگیا تو خود تو جان سے جائے گا ہی تمھارے بی اے کرنے میں بھی رکاوٹ ڈال دے گا ۔“

وہ اس کا کچھ بھی تو نہیں بگاڑ سکتی تھی ۔بس خوف سے لرزتی کانپتی ماں کی گود میں پناہ لینے گھر کودوڑ پڑتی ۔بارہویں کلاس کی لڑکی کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے ،پھر باپ کا سایا سر پر نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود کو اور بھی غیر محفوظ محسوس کرتی ۔دلاور شیخ کا تو نام ہی خوف کی علامت تھا ۔دکان دار باقاعدگی سے اسے بھتّا دیا کرتے ۔چوں چراں کرنے واے کی بوری میں بند لاش سڑک کے کنارے پڑی ملتی ،کسی گندے نالے میںڈوبی ملتی یا ساحل سمندر پر اپنی تقدیر پر نوحہ خواں نظر آتی۔ پولیس والوں کو بھی اپنے گھر والے اور نوکری عزیز تھی ۔اسی لیے تو جب وہ ماں کو لے کر تھانیدار کے پاس گئی تو اس نے پوری توجہ سے اس کی بات سن کر کہا تھا ۔”فکر نہ کرو مائی ہم اس سے بات کر لیتے ہیں ۔مگر بہتر یہی ہو گا کہ تم لوگ یہ علاقہ چھوڑ کر کہیں چلے جاﺅ، وہ ایک طاقت ور شخص ہے اور اس کی پشت پرایک بااثر شخص موجود ہے جس کا وہ کافی لاڈلا ہے ۔“

قانون کا محافظ انھیں ایسا مشورہ دے کر گویا باور کرا رہا تھا کہ وہ اس معاملے میں بے بس تھا ۔ورنہ پولیس والے مجرموں سے بات چیت نہیں کیا کرتے ان کی سرکوبی کرتے ہیں ۔ یہاں تھانے دار کہہ رہا تھا کہ وہ اس سے بات کر لے گا ،گویا اس کی منت سماجت کرے گا ۔اور ایسے لوگ منت سماجت سے نرم نہیں پڑا کرتے ۔جس کے ہاتھ میں اختیار آجائے وہ خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے ۔اسی اختیار نے فرعون و نمرود سے خدائی کا دعویٰ کروایا ،اسی اختیار نے شداد کو اللہ پاک کے مقابل لا کھڑا کیا ،اسی اختیار نے ابوجہل کو اپنی جہالت پر ثابت قدم رکھا اور یہی وہ اختیار ہے جس کی وجہ سے آج امریکہ نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔جس درجے کا اختیا ر ہو اس درجے کی من مانی کی جاتی ہے ۔کہاوت ہے کہ موچی کو اختیار ملا اور اس نے چمڑے کا سکہ جاری کر دیاتھا ۔دلاور شیخ کے پاس بھی ایک بااثر شخصیت کی چمچہ گیری کے باعث اتنا اختیا ر آگیا تھا وہ ایک غریب لڑکی کی زندگی اجیرن کرسکتا۔جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ خوب صورت تھی ....یہی خوب صورتی اگر صاحب اختیار اور امراءکے گھر جنم لے تو باعث ِ رعب بن جاتی ہے اور اگر غریب کے گھر جنم لے تو تماشا اور دیکھنے کی چیز ۔بہ قول شاعر ....

اچھی صورت بھی کیا بری شیے ہے

جس نے ڈالی بری نظر ڈالی 

اگر وہ معمولی شکل یا قبول صورت ہوتی تو اسے ان حالات کا سامنا تو نہ کرنا پڑتا ۔محلے کے آوارہ لڑکوں کو اس سے عشق کا شوق چرایا تو اسکول کے لڑکے بھی آہیں بھرتے نظر آئے اور جب دلاور شیخ جیسے غنڈے کی نظر پڑی تو تمام اپنا سا منھ لے کر رہ گئے ۔وہ ایک با حیا ،باعزت اورخودارلڑکی تھی ۔اسے نہ تو محلے کے آوارہ لڑکوں کی پروا تھی اور نہ اسکول میں موجود عشّاق کی ۔

 بے نیازی ، بے دھیانی اور خاموشی سے کام لے کر ایک شریف لڑکی ایسے بے غیرتوں کو اپنے کام سے کام رکھنے پر مجبور کر سکتی ہے ....یوں بھی بھونکنے والا کاٹا نہیں کرتے ۔اور شریف لڑکیوں کو چھیڑنے والے آوارہ سگ ہی کی طرح تو ہوتے ہیں جن کاکام ہی بھونکنا ہوتا ہے ۔لیکن اس کی بد قسمتی کہ اسے کاٹنے والا کتا ٹکرا گیا تھا ....دلاور شیخ اس محلے ،بلکہ آس پاس کے دو تین محلّوں کا بے تاج بادشاہ تھا ۔وہاں کے لوگ اس کے منھ لگنے سے گریز کیا کرتے۔کیوں کہ ایسے غنڈوں کے خلاف نہ تو پولیس میں کوئی شنوائی ہوتی ہے اور نہ کوئی عدالت ہی انصاف مہیا کر سکتی ہے ۔ کرائے کے وکیل ،کرائے کے گواہ اور خریدے ہوئے جج بھلا غریبوں کی کیا مدد کریں گے ۔

اس کی ماں بھی یہ بات اچھی طرح جانتی تھی وہ دلاور شیخ کے اختیار سے بھی واقف تھی۔ رہی سہی کسر تھانے دار کی باتوں نے پوری کر دی تھی ۔اس لیے اس نے حتی الوسع یہ بات اپنے جوان بیٹے سے چھپائے رکھی ....مگر کب تک ایک دن جب وہ روتی لرزتی کانپتی گھر میں داخل ہوئی تو بڑا بھائی مزدوری نہ ملنے کے باعث پہلے سے گھر میں موجود نظر آیا ۔وہ گھروں میں رنگ و روغن کاکام کرتا تھا ۔چھوٹی اور لاڈلی بہن کی حالت دیکھتے ہی وہ تڑپ اٹھا ۔

وہ بھی ایک غیر مرد کی بے ہودہ گفتگو سن کر غصے اور خوف سے کھولتی ہوئی گھر پہنچی تھی ۔ ماں کی آنکھوں کے اشارے سمجھے بغیر اس نے روتے ہوئے ساری بات بھائی کے سامنے اگل دی ....

”بھیا!.... وہ کمینہ مجھے روزانہ تنگ کرتا ہے ۔کبھی کالج کے دروازے پر روک لیتا ہے ،کبھی گلی کی نکڑ پر اور کبھی بازار میں ....بے ہودہ اور گندی گندی باتیں کرتا ہے ....فلمی ہیرو کی طرح بڑھکیں مار کر محبت کا اظہار کرتا ہے ۔کہتا ہے میرے بی اے کرتے ہی زبردستی مجھ سے شادی کرلے گا ،اور اگر اس سے پہلے میرا رشتا لے کر کوئی آیا تو اسے جان سے مار کر اسی وقت مجھے بیوی بنا لے گا ۔“

”کون ہے وہ بدبخت ۔“اس کا بھائی شاہ نواز غصے میں کانپتا ہوا چارپائی سے کھڑا ہو ا اور آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے بولا ....”جب تک میں زندہ ہوں میری گڑیا کی طرف کسی نے میلی آنکھ سے بھی دیکھا تو وہ آنکھ جسم کا حصہ نہیں رہے گی ۔“

”دلاور شیخ ....“اس نے سسکیاں لیتے ہوئے اس غنڈے کا نام لیا ۔

شاہ نواز فوراََ گھر سے باہر نکل گیا ۔ماں نے اسے روکنے کی بڑی کوشش کی مگر بیٹیوں کی طرح لاڈلی بہن کی آنکھوں میں نظر آنے والے آنسو دیکھ کر وہ اپنے حواس کھو بیٹھا تھا ۔ وہاں سے وہ بھاگتے ہوئے دلاور شیخ کے اڈے پر پہنچا تھا ۔مگر واپسی پر اسے ایک ہمدرد رکشے والا لے کر آیا تھا ۔دلاور شیخ کے اڈے کے سامنے اس کی بے یارو مددگار پڑی لاش کو اس ڈرائیور نے اس لیے رکشے میں ڈالنے کی ہمت کی تھی وہ ان کا دور پار کا رشتا دار تھا ۔

دو تین گھنٹے پہلے بہن کو چھیڑنے والے عبرت کا نمونہ بنانے کا دعوے دار ۔دلاور شیخ کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا البتہ اپنی جان دے کر کم از کم بے غیرتی کی زندگی جینے سے بچ گیا تھا ۔

اکلوتے بیٹے کی لاش دیکھ کر اس کی ماں پاگلوں کی طرح بس اسے ہی کوستی رہی ۔ اس کے علاوہ اس بے چاری کے بس میں تھا ہی کیا ....”تناوش تو پیدا ہی کیوں ہوئی ....میں نے تیرے منھ پر تیزاب کیوں نہ پھینکا ....ارے تیرے چہرے پر چیچک ہی نکل آتی تو میرا گبھرو بیٹا تو مجھے چھوڑ کر نہ جاتا ....“اس کی ماں کا مجذوبانہ واویلا جاری رہا ۔محلّے کی دو تین بوڑھی عورتیں اسے سنبھالنے کی کوشش کرنے لگیں ،مگر جوان بیٹے کی موت کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا کہ وہ کسی کی بات سمجھنے کے قابل ہوتی ،روتی سینہ کوبی کرتی وہ کسی بات نہیں سن رہی تھی ۔

تناوش کے اندر نفرت کا ایسا آلاﺅ روشن تھا جو ہر چیز کو بھسم کردینے پر تلا تھا ۔باپ جیسے بھائی کی موت اسے بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی ۔گھٹنوں میں سر دیئے بس اپنے پروردگار سے شکوہ کناں رہی ۔کبھی کبھی وہ خود کشی کا سوچنے لگتی کہ اس کے مرنے کے بعد کم از کم اس کی ماں کو تو سکون آجائے گا ۔مگر خود کو حرام موت کے حوالے کرکے اور اپنی آخرت برباد کر کے اسے کیا ملتا ۔ دلاور شیخ تو اسی طرح دندناتا پھرتا ۔اس کے بعد کسی اور غریب لڑکی کی عزت کے درپے ہو جاتا ، جبکہ وہ اسے عبرت ناک موت مارنا چاہتی تھی ۔کوئی ایسا طریقہ ہوتا کہ وہ اسے اپنے سامنے ایڑیاں رگڑتے دیکھ سکتی ،مگر یہ ناممکن تھا ۔نہ تو قانون کے پاس اتنی طاقت تھی کہ دلاور شیخ پر ہاتھ ڈال سکتی اور نہ کوئی اور ایسا تھا جو دلاور شیخ کو ہلاک تو کیا صرف انھیں ہی دلاور کے شر سے بچا سکتا۔

جنازہ اٹھا اور ماں بیٹیاں تڑپ تڑپ کر غش کھا کر گر پڑیں ۔محلے کی عورتوں نے بڑی مشکل سے انھیں سنبھالا تھا ۔ہوش میں آکر بشریٰ خاتون کا واویلا پھر شروع ہو گیا اور تناوش نے گھٹنوں میں سر دے کر دوبارہ اللہ پاک سے شکوہ شکایت کرنے لگی ۔اس کے علاوہ ان کے بس میں بھی تو کچھ نہیں تھا ۔رات کے گہرا ہوتے ہی محلے والیاں آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگیں ۔ ایک ہمدرد ان کے لیے کھانا لے آیا مگر ماں بیٹی نے کھانے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ مجبوراََ کھانا وہیں رکھ کر وہ بھی تسلی کے چند بول ضائع کر کے رخصت ہو گئے تھے ۔

رات گئے ماں کی ممتا نے جوش مارا اور بشریٰ خاتون نے گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تناوش کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ۔اسے بے تحاشا چومتے ہوئے وہ روتی گئی ۔

”میری گڑیا ،میری لاڈلی شہزادی ،میری چندا ....بس کرو نہ رو ،تمھاری ماں زندہ ہے اب تک ....“

ماں کی شفقت پا کر وہ بلک بلک کر رو پڑی تھی ۔بشریٰ خاتون اسے مناتی رہی دلاسے دیتی رہی ۔وہ ماں کی لاڈلی ہی تو تھی ۔اور بھائی کی موت میں اس کا کوئی قصور بھی تونہیں تھا ۔ نہ تو اس نے اپنی صورت خود بنائی تھی اور نہ کسی کے ساتھ کوئی ایسا تعلق رکھا تھا کہ اسے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ۔

ماں بیٹی ایک دوسرے لپٹے روتی رہیں اور مالک ارض و سماءیہ سب کچھ تحمل سے دیکھتا رہا ۔کیوں کہ عزت و جلال کے مالک نے دنیا کو دارالعمل بنایا ہے درالجزا نہیں بنایا ۔اگر دنیا کو بدلے کی جگہ بنا دیتا تو اب تک دلاور شیخ کی بوٹیاں چیل کووں نے کھالی ہوتیں ۔اس کے پاس کس چیز کی دیر تھی ۔وہ تو بس” کن “کہتا ہے اور سب کچھ ہو جاتا ہے ۔اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ذات بابرکات نے ہر کام کاایک وقت مقرر کیا ہے اور اس سے پہلے وہ کام نہیں ہو سکتا ۔برے کام کا نتیجہ برا ہوا کرتا ہے مگر اس نتیجے نے ظاہرکب ہونا ہے یہ اس مالک ہی کو معلوم ہے ۔

٭٭٭

اگلے دن تعزیت کے لیے آنے والی عورتوں کا تانتا بندھا رہا ۔پڑوسیوں کی بیٹھک میں مردوں کے بیٹھنے کی جگہ بھی بنائی گئی تھی ۔چونکہ وہاں بیٹھنے کے لیے گھر کا کوئی مرد موجود نہیں تھا اس لیے جاننے والے خود بشریٰ خاتون کے پاس آکر تعزیتی کلمات کہتے رہے ۔

محلے کی مسجد کا امام مولوی محبوب الٰہی بھی تعزیت کرنے آیا تھا ۔تناوش کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس نے تسلی بھرے کلمات کہے ،اللہ پاک کی رضا میں راضی رہنے کے فوائد پر روشنی ڈالی اور آخر میں بشریٰ خاتون کو مخاطب کر کے مشورہ دینے لگا۔

”بشریٰ بہن !....یہ موقع ایسی بات کرنے کا تو نہیں ہے ،لیکن بہتر ہوگا اگر کسی میڈیا کے نمائندے سے مل کراسے اپنے مسئلے آگاہ کرو تو شاید اس بدبخت سے تناوش بیٹی کی جان چھوٹ جائے۔اگر میڈیا پر یہ خبر چل پڑی تو یقیناکوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا ۔میں بھی کوشش تو کروں گا اگر محلے والوں نے ساتھ دیا تو ہم باقاعدہ احتجاج کریں گے تاکہ کسی طرح صاحبانِ اقتدار تک یہ بات پہنچ جائے ۔“

مولوی صاحب کا مشورہ رد کرنے کے قابل نہیں تھا ۔انتقام میں جلی بھنی بشریٰ اگلے ہی دن ایک میڈیا آفس پہنچ گئی تھی ۔آفس سے باہر ہی اسے ایک بند ویگن مل گئی۔وہ خبروں کی تلاش میں کہیں جارہے تھے ۔اس کی بات سن کر میڈیا کا نمائندہ بڑے جوش سے اس کے ہمراہ ہو لیا تھا۔مگر گھر پہنچنے پر ایک حیرت ان کی منتظر تھی ۔دلاور شیخ اپنے گرگوں کے ساتھ وہاں پہلے سے کھڑا تھا۔اسے کسی نے یہ خبر پہنچا دی تھی کہ مولوی صاحب کے کہنے پر بشریٰ خاتون میڈیا سے رابطہ کرنے نکل پڑی ہے ۔

اسے کسی نے یہ خبر پہنچا دی تھی کہ مولوی صاحب کے کہنے پر بشریٰ خاتون میڈیا سے رابطہ کرنے نکل پڑی ہے ۔

بشریٰ کو دو تین ننگی گالیاں بکنے کے بعد دلاور شیخ اپنے گرگوں کے ساتھ میڈیا والوں پر پل پڑا ۔وہ تین آدمی تھے ،ڈرائیور ،کیمرہ مین اور رپورٹر۔ان تینوں کو کھینچ کر دلاور کے غنڈے ساتھی ویگن سے باہر لے آئے ....

”تو تم میں سے کتنوں کی باجیاں کالج اسکول جاتی ہیں ۔“انھیں ایک قطار میں کھڑا کر کے دلاور کی زبان غلاظت اگلنے لگی ۔

رپورٹر تھوک نگلتے ہوئے بولا ۔”دیکھیں جناب !....آپ اچھا نہیں کر رہے ہم عوام کے خدمت گار ہیں اور ....“

”ایسی کی تیسی تمھاری خدمت کی ۔“دلاور نے اس کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کرتے ہوئے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی تھی ۔

دلاور کا بھاری تھپڑ کھا کر اس نے ایک جانب منہ کر کے خون تھوکااور سرجھکا لیا ۔

یہ پہلی بار ہے کہ میں فقط تنبیہ کر رہا ہوں ،اگر اس کے بعد مجھے تم میں سے کوئی اس گھر یا گھر والوں کے قریب پھٹکتا نظر آیا اس کی شلوار اتار اس کے سر پر باندھ دوں گا ....اور اس کے گھر کی خواتین کے جسم پر شلوار تو کیا قمیص بھی نہیں چھوڑوں گا ۔“

”غلطی ہو گئی مائی باپ!“ڈرائیور نے تھر تھر کانپتے ہوئے ہاتھ باندھ دیے ۔

دلاورشیخ نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا ،جنھوں نے ان کی گاڑی کے شیشے توڑ کر ان کا کیمرہ بھی توڑ دیا۔

اس وقت کراچی کے حالات واقعی جنگل جیسے تھے ۔رینجر ز وغیرہ کا آپریشن ابھی تک شروع نہیں ہوا تھا ۔ایک دو سیاسی جماعت کے غنڈوں نے پورے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔لوگ اتنے ڈرے سہمے ہوئے تھے کہ ایک حواس باختہ شخص کی بکواس کو کئی کئی گھنٹے تک سر جھکا کر سنتے رہتے ۔وہ احمق جسے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا بکواس کر رہا ہے لیکن لوگوں کے پاس احتجاج کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔

میڈیا والوں کا بس بھی انھی کمزوروں پر چلتا ہے جو اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ بڑی مچھلیوں کے خلاف وہ بھی زبان نہیں کھول سکتے ۔کراچی میں ملنے والی ہر بوری بند لاش کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ،بھتّا وصول کرنے والے کون ہیں ،ٹارگٹ کلرز کا تعلق کس لابی سے ہے یہ اور ان جیسے بہت سارے سوالوں کے جوابات معلوم ہوتے ہوئے بھی وہ ان سب کو نامعلوم افراد کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔یوں بھی میڈیا کا اصل مقصد پاکستان میں انتشار پھیلانا ، بد انتظامی اور بد نظمی ظاہر کرنا ،اسلام کو بدنام کرنااور لبرل ازم کی تشہیر و تعریف کرنا ہی تو ہے ۔

میڈیا والوں کے بھاگتے ہی دلاور شیخ ان کے گھر گھس گیا ۔بدقسمتی سے مولوی محبوب الٰہی وہاں موجود تھا ۔

”بزرگو !....سنا ہے میرے خلاف کوئی محاذ کھول رہے ہو ۔“باریش عمر رسیدہ مولوی کے سامنے کھڑے ہو کر دلاور شیخ نے گھٹیا لہجے میں کہا ۔تناوش اس وقت زمین پر بچھی دری پر بیٹھی نفرت بھری نگاہوں سے اس کریہہ الشکل شخص کو گھور رہی تھی ۔جو اس کے لیے مبغوض ترین شخص تھا ۔دن میں جانے وہ کتنی بار اس پر لعنت بھیجا کرتی ۔اسے دردناک موت کے حوالے کرنا تناوش کی ایسی خواہش تھی کہ جس کے بعد ہی اس کی زندگی میں کسی دوسری خواہش کا نمبر آتا تھا ۔

”دلاور !....اللہ کے غضب سے ڈرو ،کیوں اس یتیم بے سہارا بچی کے پیچھے پڑا ہے۔“

”تو ان کا ماما لگتا ہے سالے !“اس کی سفید داڑھی سے پکڑ کے دلاور نے کھینچ کر زمین پر پٹخا۔

تناوش سے برداشت نہیں ہوا تھا ۔وہ بھاگ کر مولوی صاحب کے قریب پہنچی ۔ 

”تم جیسے بہادر بس کمزوروں ہی پر ہاتھ اٹھا سکتے ہیں ۔“غصے بھرے لہجے میں کہتے ہوئے وہ مولوی صاحب کو سہارا دے کر اٹھانے لگی ۔

”ہاہاہا....“دلاور نے مکرہ انداز میں قہقہہ لایا۔”تو کوئی طاقت ور ڈھونڈ کر لے آﺅ بے بی !....یہاں تو سب ہی دلاور شیخ سے کمزور ہیں ۔“

”اللہ پاک تو کمزور نہیں ہے دلاور !“مولوی محبوب الٰہی نے غم و غصے سے کانپتے ہوئے اسے سب سے طاقت ور ذات کا حوالہ دیا ۔

”تو میں کون سا اللہ پاک کے ساتھ لڑ رہا ہوں ۔میں بھی تو تم جیسے کیڑے مکوڑوں سے مخاطب ہوں ۔“

”اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے دلاور ۔“مولوی محبوب الٰہی نے اسے اللہ پاک کے غضب سے ڈرایا۔

”سن بے مولوی !....یہ وعظ مسجد میں بیٹھ کر سنانا میں یہاں تیرا وعظ سننے نہیں آیا ۔ اور یاد رکھنا اگر اس کے بعد میرے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے کالے برقعے والی کو گھر بٹھا لینا ....شاید نہم کلاس میں ہے ۔شکل کا تو پتا نہیں مگر چال دیکھ کر لگتا ہے وہ بھی میرے ہونے والی بیگم کی طرح ہی ہوگی ۔“دلاور شیخ نے غلیظ انداز میں مولوی صاحب کو اس کی بیٹی کا حوالہ دے کر دھمکی دی ۔

”تجھے اللہ پوچھے گا دلاور !....تم پر ضرور اللہ پاک کا غضب ہو گا ۔“آنسو بہاتے ہوئے محبوب الٰہی وہاں سے سرجھکا کر چل پڑا ۔اپنی معصوم بیٹی کا نام ایک غلیظ غنڈے کے ہونٹوں سے سن کر اس کی ہمت جواب دے گئی تھی ۔گاﺅں والوں نے پہلے ہی دلاور شیخ کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔بھرے پرے محلے میں سیکڑوں کی تعداد میں جوان مرد موجود تھے اور ان پر دلاور شیخ چند غنڈوں کی مدد سے حکومت کر رہا تھا ،کیوں کہ وہ اکٹھے نہیں تھے ،سب کے اپنے اپنے غم اور اپنی اپنی ترجیحات تھیں ۔مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ ایک مسلمان کا دکھ درد سب کا دکھ درد ہوتاہے ۔مگر یہاں ایسی کوئی بات نہیں تھی ۔ہر ایک اپنی پڑی تھی۔ بشریٰ خاتون کے گھر پر آنے والی مصیبت کو اسی نے جھیلنا تھا ۔اگر اس ایک کی مصیبت کے خلاف تمام محلہ ایکا کر کے دلاور شیخ کے سامنے آجاتا تو وہ ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا تھا ۔لیکن بشریٰ کے لیے دوسرا کوئی بھی اپنی پرسکون زندگی میں زہر نہیں گھولنا چاہتا تھا ۔ایک غریب مولوی نے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی جرّات کی اور اسے سب لوگوں کے سامنے تماشا بنا دیا گیا ۔مولوی صاحب کی بیٹی کو پڑنے والی دھمکی محلے بھر کے والدین کی جوان بیٹیوں کو دھمکی تھی ۔جو شخص مولوی محبوب الٰہی جیسے سفید ریش اور باعزت شخص کے ساتھ اتنے گھٹیا انداز سے پیش آسکتا تھااس کا سلوک عام لوگوں کے ساتھ کیسا ہوتا ۔

”ابے مولوی !....آخری بات سنتا جا ....میں جانتا ہوں کہ تم کیوں ماں بیٹی کی مدد کرنے پر ادھار کھائے ہوئے ہو ،بشرٰی خاتون ابھی تک خوب صورت ہے اور تمھاری کافی عرصے سے بے چاری بیوہ پر نظر ہے ،تم بھی کچھ خدا کا خوف کھاﺅ۔تمھیں ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں ۔اگر زیادہ جوانی چڑھی ہے تو اس سے شادی کر لو جیسے میں اس کی بیٹی سے شادی کرنے والا ہوں۔“دلاور شیخ اپنے غلیظ ہونٹوں سے غلاظت ہی اگل سکتا تھا ۔مولوی محبوب الٰہی کے پاس اس کی گندی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا ۔وہ غم و غصے اوردلاور کے توہین آمیز سلوک سے لرزتا کانپتا ان کے گھر سے نکل گیا ۔

”یہ باقی لوگ یہاں کھڑے کیا تماشادیکھ رہے ہیں ،دفع ہو جاﺅ یہاں سے ۔“وہ وہاں موجود باقی لوگوں پر برس پڑا ۔تمام کان دبائے ہوئے ان کے گھر سے نکل گئے تھے۔

”سن لے بڑھیا !....تیرے عاشق کو تو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے ،آئندہ تم بھی ذرا ہوش میں رہنا یہ نہ ہو مجھے شادی سے پہلے ہی تمھاری بیٹی سے سہاگ رات منانا پڑے۔“اس کی بات سن کر اس کے آدمیوں نے گھٹیا انداز میں قہقہہ لگایا تھا ۔

بشریٰ خاتون وہ ذلت آمیز باتیں سن کر بس دل ہی دل میں اللہ پاک کو پکار کر رہ گئی ۔ اس کی نم آلود آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ گئی تھیں۔

٭٭٭

اس کے لیے بھائی کا غم اتنا چھوٹا نہیں تھا کہ جلدی زائل ہو جاتا مگر زندگی کسی کے غم اور دکھ کی وجہ سے رکا نہیں کرتی ۔یہ تو بہتے دریا کی صورت ہر دم رواں دواں رہتی ہے ۔نہ تو خوشی کے انبار اس کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں اور نہ غم کے پہاڑ اس کا رستا رو ک سکتے ہیں ۔زندگی اسی ڈگر پر چلتی رہی ۔اس نے دوبارہ کالج جانا شروع کر دیا تھا ۔کالج ان کے گھر سے ڈیڑھ دو کلومیٹر دور تھا اور وہ یہ سارا رستا پیدل ہی طے کیا کرتی تھی ۔نہ تو اس کے پاس رکشے کا کرایہ ہوتا اور نہ بس کا ۔پہلے تو بھائی کی وجہ سے ان کی گزر بسر ہو جایا کرتی اب تو وہ بھی نہیں رہا تھا ۔

اس کا باپ ایک سرکاری محکمے سے ریٹائرڈ ہوا تھا اس کی محدود پنشن سے گھر کا گزارا نہیں چل سکتا تھا ۔بیٹے کی ناگہانی وفات کے بعد بشریٰ خاتون نے محلے کے متموّل افراد کے ہاں کام کرنا شروع کر دیا تھا ۔دوتین گھروں کے برتن بھانڈے دھو کر اور گھر کی جھاڑ پونچھ کر کے اسے اتنا کچھ مل جاتا تھا کہ وہ زندگی کی گاڑی کو آگے دھکیل سکیں ۔

تناوش کو تعلیم جاری رکھنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا ،وہ بھی ماں کا ہاتھ بٹانا چاہتی تھی لیکن ماں بیٹی کو دلاور شیخ کی دھمکی کھائے جا رہی تھی ۔اس نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر اس نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا تو وہ اسے اٹھا کر لے جائے گا ۔ورنہ وہ اپنی بیوی کو بی اے پاس دیکھنے کا متمنی تھا اور بی اے کرنے تک وہ اس مصیبت سے جان چھڑائے رکھنا چاہتی تھی ۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی کہ اس کی ماں بھی اس حق میں نہیں تھی کہ وہ لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پونچھا کرے ۔ یوں بھی اس کی شکل و صورت ایسی تھی کہ گھر میں موجود مردوں کی نیت خراب ہوتے دیر نہ لگتی۔

کبھی کبھی وہ سوچتی کہ گھر سے کہیں بھاگ جائے ،مگر اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت اس کی آنکھیں کھول دیتی کہ آخر کو وہ جائے گی کہاں ۔اور پھر ایک دلاور شیخ سے جان چھڑا کر شاید اسے کتنے دلاوروں کو بھگتانا پڑے۔اس کی ماں نے بھی یہی سوچا تھا لیکن تھوڑے مختلف انداز میں ۔اس نے گھر بیچ کر اپنی بیٹی کے ساتھ بھاگ جانے کا سوچا ۔جن گھروں میں وہ کام کرتی تھی ان میں سے ایک ہمدرد شخص حاجی منظور کو اعتماد میں لے کر اس نے یہ درخواست کر دی کہ ان کے گھر کے لیے کوئی گاہک ڈھونڈ لائے ۔

حاجی منظور بھی دلاور شیخ سے خوفزدہ تھا ،لیکن یہ کام کوئی اتنا خطرے والا نہیں تھا کہ وہ صاف انکار کر دیتا ۔

”ٹھیک ہے بشریٰ بہن !....میں کوشش کروں گا ۔“اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے حامی بھر لی ۔

تین دنوں بعد اس نے بشریٰ کو بتایا کہ اس نے ایک پراپرٹی ڈیلر سے بات کر لی تھی اور وہ کسی بھی وقت ان کے گھر چکر لگا سکتا تھا ۔

بُشریٰ نے حاجی منظور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ۔”حاجی صاحب !.... اگر ہو سکے تو پراپرٹی ڈیلر کو یہ بتا دیں کہ وہ سہ پہر کے وقت تشریف لائے کہ اسی وقت میں گھر میں موجود ہوتی ہوں ۔

”ٹھیک ہے بہن !“حاجی منظور اسی وقت موبائل فون نکال کر پراپرٹی ڈیلر کو یہ بات بتانے لگا ۔

پراپرٹی ڈیلر اسی دن ان کے گھر آگیا تھا ۔گھر کو اچھی طرح دیکھ کر اس نے جو قیمت لگائی وہ ان کی امیدوں سے کہیں کم تھی ۔

”میں اس گھر کے دس لاکھ روپے سے زیادہ نہیں دے سکتا ۔“نامعلوم اسے ان کی مجبوری کے بارے معلوم ہو گیا تھا یا یونھی ماں بیٹی کو بے وقوف جان کر وہ کوڑیوں کے مول ان کا گھر ہتھیانا چاہتا تھا ۔

بشریٰ خاتون لجاجت سے بولی ۔”بھائی جان !....ہم غریب ماں بیٹی کا یہی ایک ٹھکانہ ہے اور اسے بیچ کر ہم اپنے سر چھپانے کے لیے کوئی اور جگہ دیکھیں گے ،خدارا اتنی کم قیمت نہ لگائیں کہ ہم ایک کمرے کا کوارٹر بھی نہ خرید سکیں ۔“

وہ کاروباری لہجے میں بولا ۔”بہن جی !....چھے مرلے کے مکان کی کیا قیمت لگاﺅں؟“

”بھائی یہ قیمت تو اس زمین کی بھی نہیں ہے ،جبکہ اس پر دو پختہ کمرے برآمدہ ،باورچی خانہ وغیرہ بھی بنا ہوا ہے ۔“

”دیکھیں بہن جی !....آخری اور حتمی بات کروں گا اگر پسند نہ آئے تو کسی اور کو بلوا لینا ....بارہ لاکھ روپے دوں گا ۔“

”بھائی جان !....ہم غریبوں کا کوئی نہیں ہے ۔اگر آپ نے اونے پونے میں یہ گھر خرید بھی لیا تو ایک دن اللہ پاک کو جان دینی ہے ۔“بشریٰ خاتون کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ محبوب شوہر کا آبائی گھر بیچتے ہوئے اس کا کلیجہ حلق کو آرہا تھا اور پھر خریدار اس کے دام ایسے لگا رہا تھا جیسے وہ کوئی جھونپڑی ہی تو ہو ۔

”بہن جی !....یہ میرا کاروبار ہے ،چند ٹکے میں نے بھی کمانا ہوتے ہیں ،اگر آپ کو پسند نہیں ہے تو آپ نہ بیچیں یوں مجھے آخرت کی دھمکیاں تو نہ دیں ،میں آپ سے چھین تھوڑی رہا ہوں ۔“

”میں نے ایسا تو نہیں کہا بھائی جان !“بشریٰ خفیف سی ہو گئی تھی ۔

اس نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے کہا ۔”اچھا ٹھیک ہے بہن جی !.... پندرہ لاکھ دے دوں گا ۔“

”بھائی جان !....ہم ماں بیٹی کو کوئی اندازہ نہیں ہے ،میں کل حاجی صاحب سے معلوم کر کے آپ کو بتا دوں گی ۔“بشریٰ خاتون اتنی بچی تو نہیں تھی کہ فوراََ ہاں کر دیتی ۔دس لاکھ سے بات شروع کرنے والا اگر پندرہ لاکھ تک کی آفر کر سکتا تھا تو یقینا حاجی صاحب کے درمیان میں آنے کی وجہ سے کچھ مزید رقم بڑھا دیتا ۔

”ٹھیک ہے بہن جی !....آپ حاجی صاحب سے پوچھ لیں اور پھر جو فیصلہ ہو مجھے اس نمبر پر بتا دینا ۔“اس نے اپنا تعارفی کارڈ اس کی طرف بڑھا دیا ۔

کارڈ لے کر بشریٰ نے کہا ۔”بھائی جان !....آپ چاے تو پی کر جائیں نا ؟“

”نہیں بہن پھر کبھی سہی ۔“کہہ کر وہ ان کے گھر سے نکل گیا ۔

٭٭٭

اگلے دن بشری خاتون نے حاجی منظور سے گھر کی بابت مشورہ لیا ۔

حاجی منظر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔”بہن !....مجھے کوئی خاص اندازہ تو نہیں ہے ،لیکن پندرہ لاکھ مناسب رقم ہی ہے ۔ اور یوں بھی آپ کے جو حالات ہیں ان کے مطابق اس رقم کو غنیمت سمجھو ....جان اور عزت سے بڑھ کر نہ مال و دولت ہوتا ہے اور نہ زمین جائیداد ۔“

”ٹھیک کہہ رہیں بھائی جان !“بشری نے اس کی بات پر اثبات میں سر ہلادیا۔ 

گھر واپسی پر اس نے تناوش کو پراپرٹی ڈیلر سے بات کرنے کو کہا ....وہ اپنے موبائل سے پراپرٹی ڈیلر کا نمبر ڈائل کرنے لگی ۔چند گھنٹیوں کے بعد ہی اس کی سہمی ہوئی ہیلو ابھری ۔

”ہیلو انکل !....میں بشری بی بی کی بیٹی بات کر رہی ہوں ،کل آپ ہمارا مکان دیکھنے آئے تھے نا ....“تناوش کا تعارف بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ اس نے رابطہ منقطع کر دیا ۔

اس نے حیرانی بھرے انداز میں موبائل کو کان سے ہٹا کر دیکھا اور دوبارہ کال ملانے لگی ۔گھنٹی کے جاتے ہی نمبر مصروف کر دیا گیا تھا ۔

تناوش نے کارڈ پر اس نمبر کو بہ غور پڑھا کہ کہیں وہ غلط نمبر تو نہیں ملا رہی تھی ۔مگر نمبر میں کوئی غلطی نہیں تھی ،وہ دوبارہ نمبر ڈائل کرنے لگی ۔اس مرتبہ پہلی ہی گھنٹی پر کال اٹنیڈ کر لی گئی اور اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی رسیور سے ڈری سہمی ہوئی آواز برآمد ہوئی ....

”مس آپ کیوں مجھے باربار کال کر رہی ہیں ....خدا کے واسطے مجھ سے رابطہ نہ کرو ، میری توبہ ،میں نے آپ کا گھر نہیں خریدنا ....“

”چا جان !....کیا ہوا ہے ؟“

”آپ کو معلوم نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے ....“وہ غم و غصے سے پھٹ پڑا تھا ۔ 

”شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔“اس نے بے ربط ہوتی دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے دامن امید دراز کیا ۔

”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ہے بی بی جی !....دلاور شیخ نامی غنڈے کے آدمیوں نے مجھے مارنے پیٹنے کے ساتھ دھمکیاں بھی دی ہیں کہ اگر میں نے آپ کا گھر خریدا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا ۔میں معذرت خواہ ہوں محترمہ !....اور امید ہے اب آپ مجھے کال نہیں کریں گی ۔“یہ کہتے ہی اس نے رابطہ منقطع کر دیا تھا ۔

”کیا ہوا بیٹی !“بات چیت ختم ہوتے ہی اس کی ماں نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا ۔

”امی جان !....اس خبیث تک ہمارے گھر بیچنے کی بات پہنچ گئی ہے ،اس لعنتی کے گرگوں نے پراپرٹی ڈیلر بے چارے کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور ہمارا گھر خریدنے سے منع کر دیا ہے ۔“

”پتا نہیں اس موذی سے کب جان چھوٹے گی ،یا اللہ پاک !....اس بد بخت کے شر سے ہمیں پناہ دے ۔“بشریٰ دونوں ہاتھ اٹھا کر گڑگڑانے لگی ۔ان کی نظریں سارے دنیاوی سہاروں سے ہٹ کر آخری اور یقینی سہارے کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں ۔

  جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rakhail Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rakhail written by  Riaz aqib Kohlar  .Rakhail  by Raiz Aqib Kohlar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages