Wahshat E Ishq Novel By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Second Last Episode - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 21 February 2023

Wahshat E Ishq Novel By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Second Last Episode

 Wahshat E Ishq  Novel By Rimsha Mehnaz  Urdu Novel Second Last Episode 

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Second Last Episode 

Novel Name: Wahshat E Ishq 

Writer Name: Rimsha Mehnaz 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اگلے ہی پل کوئی کچن کے دروازے میں آکے ایستادہ ہوا تھا شزرا نے گردن موڑ کے دیکھا سامنے آزر کھڑے تھے سرخ آنکھوں اور بکھرے ہوئے حلیے میں۔

"شزرا کیا تم نے اپنی پوری زندگی میں کبھی مجھ سے ایک لمحے کے لئے بھی محبت کی ہے" آزر اس پہ نظریں جمائے پوچھ رہے تھے شزرا کو اس لمحے ان کا لہجہ ٹوٹا بکھرا سا لگا اس نے گلاس لبوں سے ہٹا کر واپس کاونٹر پہ رکھ دیا مگر کچھ نہ بولی۔

اس انسان کو کچھ کہنا فضول تھا جسے یہ بھی نہیں پتا کہ شزرا نے اس سے کبھی محبت کی تھی یا نہیں۔

اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر آزر دوبارہ بولے۔

"جانتی ہو جب تم نے مجھے انکار کیا تھا میں بہت ٹوٹ گیا تھا بہت رویا تھا مگر تم نے مجھے انکار کردیا۔۔۔۔میں خود کو یقین دلاتا رہا تم مجھ سے محبت نہیں کرتیں اس لئے مجھے انکار کردیا مگر میرا دل چینخ چینخ کے یہی کہتا رہا رہا کہ میں نے خود تمہاری آنکھوں میں اپنے لئے محبت دیکھی ہے۔۔۔۔۔کیا وہ محبت جھوٹی تھی یا وہ نفرت؟" وہ الجھے الجھے اس سے پوچھ رہے تھے۔

"تمہارے جواب دینے سے پہلے میں مجھے ہزاروں بار لگا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو پھر تم نے کیوں انکار کیا" شزرا کو اپنی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرتی محسوس ہوئیں آزر نے آج اس سے وہ سوال کیا تھا جس سے وہ خود بھی اتنے سال نظریں چرائے ہوئے تھی۔

"اگر تمہیں مجھ سے محبت نہیں تھی تو کیوں میرے دل کے ساتھ کھیلیں؟" آزر کے لہجے میں ایسا کچھ تھا جس نے شزرا کو رونے پہ مجبور کردیا۔

شزرا نے بولنا چاہا مگر آزر کے اگلے جملے نے اس کی زبان تالو سے لگا دی۔

" جب تک زندہ رہوں گا صرف تم سے نفرت کروں گا" مگر لہجہ دل کے حالات کی چغلی کھا رہا تھا مگر شزرا صرف ان مغے لفظوں پہ غور کر سکی لفظ کیسے گھائل کرتے ہیں یہ کوئی شزرا سے پوچھے۔

"تم نے میری زندگی برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی میرے ساتھ محبت کا جھوٹا کھیل کھیلتی رہیں میرے جذبات کے ساتھ کھیلا ہے تم نے جب مجھ سے محبت ہی نہیں تھی تو کیوں مجھے آس دلائی تھی کیوں مجھے بیچ منجدھار میں چھوڑا؟" اس وقت صرف آزر بول رہے تھے اور شزرا سن رہی تھی۔

جانتی ہو منال کے ساتھ گزارے یہ پانچ سال میری زندگی کی ساری خوشیاں چھین کے لے گئے میری زندگی پتا ہے کیا تھی صرف گھر اور ہاسپٹل۔۔۔۔میں نے اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ چلی گئی۔۔۔۔وہ بھی تو تمہاری ہی بہن تھی محبت کر کے چھوڑ دینے والی" آزر نے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کے خود کو کمپوز کرنا چاہا اور شزرا نے اس پل خود کو شدت سے آزر کی گناہگار محسوس کیا۔

ہاں وہ گناہگار ہی تو تھی آزر کی، منال کی محبت کے لئے اس نے آزر کو چھوڑ دیا تھا اور آزر۔۔۔۔۔کی اس نے ایک بار بھی آزر کا سوچا تھا۔وہ اپنے ضمیر کے کٹہرے میں کھڑی تھی۔

"بہت مشکل ہوتا ہے ایسے انسان کے ساتھ رہنا جس سے آپ پیار نہ کرتے ہوں شاید اب تمہی میرا دکھ محسوس ہوگا" آزر کی آنکھوں میں پھیلتی نمی شزرا کی نگاہوں سے چھپی نہ رہ سکی۔

شزرا کو لگا شاید اسے اب اپنے کئے کی سزا ملنے جا رہی تھی۔

"لیکن تم جانتی ہو میں نے کبھی تمہیں بد دعا نہیں دی ہمیشہ تمہارے لئے دعا کی ہے" وہ سر جھکائے بول رہے تھے۔

"اس دن میں نے بہت تلخ لہجے میں بہت گھٹیا باتیں کی تھیں اس کے لئے مجھے معاف کردو" آزر نے شرمندگی سے کہا۔

"میں جانتا ہوں وہ باتیں معافی کے قابل نہیں ہیں میری آخری خطا سمجھ کے مجھے معاف کردو۔۔۔۔۔۔غصے میں،میں آپے سے باہر ہوگیا تھا جو منہ میں آیا بول دیا مگر میرے دل میں ایسا کچھ نہیں تھا۔۔۔۔تمہاری پاکدامنی کی گواہی تو میرا دل دیتا ہے۔۔۔۔۔۔میں نے بھی عام مردوں والی ہی حرکت کی محبت نہ ملی تو اس کے کردار پہ کیچڑ اچھالی۔۔۔اس بات کے لئے میں خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گا" آزر نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔

آزر نے اپنا دل کھول کے اس کے سامنے رکھ دیا مگر وہ۔۔۔۔۔وہ تو بہت دور آچکی تھی جہاں سے پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

"میں تمہاری خوشیوں کے لئے دعا کروں گا" وہ پلٹ کے جا چکے تھے اور وہ ان دیکھی زنجیروں میں بندھی وہیں کھڑی تھی۔

وہ خود کا احتساب کر رہی تھی۔

ہر موڑ پہ اس نے آزر کے ساتھ غلط کیا تھا۔

ان کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے شزرا سے سچی محبت کی تھی جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہے تھے۔

__________________________

آزر ایک بزنس میٹنگ کے سلسلے میں اس ہوٹل آئے میٹنگ سے فارغ ہو کر وہ وہاں سے جانے لگے تو ان کی نظر تیمور پہ پڑی جو وہاں کسی لڑکی کے ساتھ موجود تھا آزر کے قدم جمے تھے۔

"بے بی کیا آڈر کروں؟" تیمور نے بھی آزر کو دیکھ لیا اور اب وہ سامنے بیٹھی لڑکی سے مخاطب تھا۔

"جی سر۔۔۔۔۔؟" تیمور کی سیکریٹری نے آنکھیں پھاڑے حیرت سے تیمور کو دیکھا اسے لگا اس کے باس کا دماغ چل گیا ہے۔وہ دونوں وہاں کسی میٹنگ کے سلسلے میں آئے تھے اور اب بیٹھے کلائنٹ کا انتظار کر رہے تھے۔

"تم آڈر کرو آج میں تمہاری پسند سے آڈر ہوگا" تیمور نے مینیو کارڈ سامنے بیٹھی لڑکی طرف بڑھا کے لگاوٹ سے کہا اور سامنے بیٹھی تیمور کو سیکریٹری کو غش پہ غش آرہے تھے۔

"لیکن سر" سیکریٹری نے ہکلا کے کہا۔

"چپ بیٹھو بیوقوف لڑکی" تیمور نے آہستہ آواز میں اسے چپ رہنے کو کہا۔

آزر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا وہ تیزی سے ان کی ٹیبل کی طرف بڑھے۔

"کون ہے یہ؟" آزر نے طیش سے ٹیبل پہ ہاتھ مارتے ہوئے پوچھا۔

"اوہہ آزر تم۔۔۔" تیمور نے آنکھیں پھیلا کے کہا تیمور نے بھی اوور ایکٹنگ کی حد کردی تھی۔

"میں نے پوچھا کون ہے یہ؟" آزر دوبارہ غرائے۔

"یہ میری گرل فرینڈ ہے" تیمور نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔

آزر نے بے یقینی سے تیمور کو دیکھا اور غصے میں لمبے لمبے ڈنگ بھرتے باہر نکل گئے۔

وہ غصے میں بھرے گھر پہنچے تو دادو،تائی امی اور شزرا ہال میں ہی بیٹھی تھیں۔

کل نکاح کہ تقریب تھی اسی سلسلے میں تیاریاں ہو رہی تھیں۔

گھر میں مہمانوں کا آنا جانا لگا تھا۔

آزر گھر پہنچے تو سب کو ہال میں بیٹھے دیکھ کے وہیں آگئے۔

شزرا کے خالہ خالو نکاح میں شرکت کے لئے آسٹریلیا سے آچکے تھے۔آزر کے ماموں مامی سویرا اور برہان کی وائف بھی اس وقت گھر میں موجود تھے۔ازر بھی سامنے صوفے پہ بیٹھ گئے۔

شاید ٹیلر کے پاس سے شزرا کا نکاح کا ڈریس آیا تھا اب سب اسی پہ بیٹھے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔

شزرا کے ہاتھوں پیروں پہ مہندی رچی تھی۔

آزر کی نگاہیں اس کی مہندی کے رنگوں میں الجھی تھیں گورے ہاتھوں پہ لال مہندی اپنی بہار دکھلا رہی تھی۔

"شزرا آپی آپ کی مہندی کا رنگ کتنا گہرا آیا ہے" سویرا اب شزرا کا ڈریس چھوڑ کے اس کی مہندی کی طرف متوجہ تھی۔اس کی بات سن کے شزرا مسکرائی تھی۔

ملازمہ نے ہال میں آکے سب کو ڈنر لگنے کی اطلاع دی سب ایک ایک کر کے اٹھ کے جا چکے تھے شزرا اپنے ڈریس کو ہینگ کر رہی تھی۔

"آج تیمور ایک ہوٹل میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ تھا" آزر کی سپاٹ آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی اس نے سر اٹھا کے دیکھا وہ اب تک ان کی وہاں موجودگی سے بے خبر تھی۔

اس نے کوئی جواب نہ دیا اور اٹھ کے جانے لگی۔

"تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیا؟" آزر نے اسے جاتے دیکھ کے غصے سے پوچھا۔

"آپ کو لگتا ہے کہ مجھے اب ان سب باتوں سے فرق کرے گا" شزرا نے ایک تلخ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

"کیا تم یہ سب سننے کے بعد بھی اس سے شادی کرنا چاہتی ہو" آزر کو حیرانی ہوئی تھی۔

"کل میرا نکاح ہے آزر اور ویسے بھی آپ بھی تو یہی چاہتے تھے میں تیمور سے شادی کرلوں اب میری قسمت ہے اچھی یا بری" اس نے نرم لہجے میں کہا ۔

 وہ جا چکی تھی اور آزر لاجواب ہو چکے تھے۔وہ اپنے پرسکون لہجے سے ان کا سکون لے گئی تھی۔

وہ کھانا کھائے بغیر اٹھ کے اپنے روم میں آگئے تھے اس وقت وہ اپنا بھی سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

کل شزرا کا نکاح تھا ان کے دل میں ایک بے چینی سی تھی۔

شزرا نے ان کی وجہ سے ہی اس رشتے کے لئے ہامی بھری تھی اور اب ان کے سامنے تیمور کا یہ چہرہ آیا وہ وہ ہوٹلوں میں ایک لڑکی کو لے کے پھر رہا تھا اگر شزرا کے ساتھ کچھ بھی غلط ہوتا تو وہ زندگی بھر خود کو معاف نہیں کر سکیں گے۔

وہ پوری رات بستر پہ کروٹیں بدلتے رہے۔

اب وہ سب کو جا کے کس منہ سے تیمور کے بارے میں آگاہ کریں اب ان کی بات پہ کوئی یقین نہیں کرے گا۔

سوچتے سوچتے ان کا دماغ ماؤف ہونے لگا۔

ان کا دل کیا اسے اس پورے جہان سے چھپا لے اسے سب سے دور لے جائے مگر درمیان میں انا حائل تھی مگر وہ یہ انا کی دیوار توڑنا چاہتے تھے لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔

______________

شزرا کہ آنکھ کھلی تو اس وقت فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں وہ اٹھ کے وضو کرنے چلی گئی۔

نماز پڑھنے کے بعد بہت دیر تک جائے نماز پہ بیٹھی رہی آج اس نے دعا نہیں مانگی تھی ایسا نہیں تھا کہ اس نے دعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھائے اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے مگر زہن خالی تھا اس سے کچھ مانگا ہی نہیں گیا وہ جائے نماز تہہ کر کے اٹھی تو کسی کے کھانسنے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی وہ سر پہ سے دوپٹہ کھولتے ہوئے باہر آئی بالوں جوڑے کی صورت میں بندھے تھے جو ڈھیلے ہو کے کھل کر پشت پہ بکھرے گئے وہ آواز کہ سمت بڑھی آواز آزر کے کمرے سے آرہی تھی۔

وہ اندر جانے یا نا جانے کا فیصلہ کرتی رہی مگر قدم اٹھ ہی نہیں رہے تھے۔

آزر بری طرح سے کھانس رہے تھے آخرکار اس سے رہا نہیں گیا اور دروازہ کھولا دروازہ بناء آواز کے کھلتا چلا گیا وہ اندر داخل ہوئی تو کمرے میں صبح کی ملگجی سی روشنی پھیلی تھی اس نے آزر کی تلاش میں ارد گرد نگاہیں دوڑائیں آزر کھڑکی کے پاس دیوار سے ٹیک لگائے زمین پہ بیٹھے بری طرح کھانس رہے تھے آزر کے وجود سے ہوتی ہوئی شزرا کی نظریں زمین پہ گرے سگریٹ کے لاتعداد ٹکڑوں پہ پڑیں جو آزر کے ارد گرد پھیلے تھے۔

شزرا پل بھر کو ساکت ہوئی تھی آزر کے لبوں میں ابھی بھی سگریٹ دبا اور کچھ جلتے ٹکڑے آس پاس پھیلے تھے شزرا ٹرانس کی کیفیت میں ان کی طرف بڑھی ان کے پاس پہنچ کر شزرا کا۔ پاؤں سگریٹ کے جلتے ہوئے ٹکڑوں پہ پڑا تھا مگر اسے جلن محسوس نہیں ہوئی وہ جا کے ان کے سامنے بیٹھ گئی۔

کھڑکی کے پار سورج طلوع ہو رہا تھا کمرے میں صبح کی ہلکی ہلکی خنکی پھیلی تھی۔

"کیا کر رہے ہیں آپ یہ؟" شزرا نے ایک حالت دیکھتے ہوئے پوچھا ان کی یہ حالت دیکھ کے شزرا کا دل کٹ رہا تھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔۔۔تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" آزر نے سگریٹ کا کش لے کے کہا اور دھواں فضا میں پھیلا تھا۔

"یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟" شزرا نے سختی سے پوچھا اس کی بات سن کے آزر کے لبوں پہ ایک تلخ مسکراہٹ ابھری تھی۔

"یہ تو روز کا معمول ہے" آزر نے ہلکے سے مسکرا کے کہا وہ سگریٹ ختم ہو چکا تھا آزر اب لائٹر کی مدد سے دوسرا سگریٹ جلا رہے تھے مگر وہ سگریٹ ہونٹوں میں دبانے سے ایک بار پھر کھانسی کا دوری پڑا شزرا فورا وہاں سے اٹھی اور ان کے لئے گلاس میں پانی لے آئی وہ ابھی بھی بیٹھے کھانس رہے تھے شزرا نے ہاتھ بڑھا کر ان کے ہونٹوں سے سگریٹ نکالا اور گلاس لبوں سے لگا دیا۔

"آپ اٹھیں یہاں سے" اس نے جلتا سگریٹ دور پھینکتے ہوئے کہا اور انہیں زبردستی اٹھا کے بیڈ تک لائی رات بھر جاگنے اور سگریٹ نوشی کی کثرت کی وجہ سے ان کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔

شزرا کے سامنے وہ شخص تھا جس سے اس نے سب سے زیادہ پیار کیا تھا اور آج وہ اس ٹوٹیں بکھری حالت میں اس کے سامنے تھا۔

اس تھکن سے کھڑکی کے پار ابھرتے سورج کو دیکھا جس کی نارنجی شعائیں دونوں کے اردگرد پھیلی تھیں۔

"مجھے چھوڑ کے مت جاؤ" یہ آخری بات آزر نے غنودگی میں جانے سے پہلے اس کا ہاتھ پکڑ کے منت بھرے لہجے میں کہی تھی۔

اور اس کا دل دھک سے رہ گیا۔

___________________________

آزر کی آنکھ کھلی تو پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا انہیں لگا آج وہ معمول سے زیادہ سوتے رہے ہیں ان کے زہن کے پردے پہ صبح کا منظر لہرایا وہ کچھ دیر تک خالی خالی نظروں سے چھت کو تکتے رہے پھر ادھر اُدھر ہاتھ مار کے موبائل تلاش کیا موبائل میں ٹائم۔دیکھا تو شام کے سات بج رہے تھے وہ خود میں ہلنے کی ہمت بھی نہیں پا رہے تھے بخار کی شدت کے باعث ان کی پلکیں بار بار گر رہی تھیں وہ خود کو سنبھالتے ہوئے اٹھے اور کمرے کی لائٹ جلائی۔

پورا کمرہ صاف ستھرا اپنی پہلی والی حالت میں تھا کمرے میں کہیں بھی سگریٹ کے ٹکڑے نہیں تھے آزر کا دل دکھ سے بھرا تھا۔

وہ باہر آئے تو گھر میں رونق لگی تھی گھر مہمانوں سے بھرا تھا باہر ہال میں نکاح کے تمام انتظامات کئے گئے تھے۔

سویرا شزرا کو لے کے پارلر جا چکی تھی۔

آزر واپس اندر آئے اور الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگے مگر ان کی مطلوبہ شرٹ انہیں نہیں مل رہی تھی انہوں نے دوسرے خانے میں ہاتھ مارا الماری سے کچھ نکل کر زمین پہ گرا تھا آزر جھنجھلا کے نیچے جھکے اور وہ واپس الماری کے خانے میں رکھ دیا۔

آزر نے دوبارہ شرٹ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ چیز دوبارہ ان کے قدموں میں گری تھی۔

تائی امی نے گو کے منال کی تمام چیزیں ان کے کمرے سے ہٹا لی تھیں مگر کپڑوں میں دبی یہ ڈائری نجانے وہاں کیسے رہ گئی تھی۔

آزر نے وہ ڈائری اٹھائی اور بلا ارادہ ہی اسے کھول لیا پہلے ہی صفحے پہ وہ اپنا نام دیکھ کے ٹھٹکے تھے۔

انہوں نے ایسے ہی ڈائری کے صفحے الٹے ایک تحریر پہ جا کے ان کی نظریں ٹک گئیں۔

یہ وہی تحریر تھی جسے پڑھ کے شزرا کی پرسکون زندگی میں مشکلوں کا طوفان اور غم کے بادل آئے تھے آزر تجسس کے مارے وہ تحریر پڑھنے لگے۔

"میں نہیں جانتی مجھے آپ سے کب محبت ہوئی مگر جب سے یہ احساس دل میں جاگا ہے نہ مجھے دنیا خوبصورت لگنے لگی میں خوش رہنے لگی مجھے جینے کی وجہ سمجھ آنے لگی،یہ احساس بہت خوبصوربت ہے کسی کو چاہنا اور چاہتے ہی چلے جانا میں نہیں جانتی آپ کو مجھ سے محبت ہے یا نہیں،آپ کے دل میں میرے لئے کوئی جگہ ہے بھی یا نہیں مگر میں صرف یہ جانتی ہوں میری کل کائنات آپ ہیں اور یہ احساس ہر احساس پہ بھاری ہے میں لفظوں میں شاید بیاں نہ کر سکوں اپنی محبت مگر جو محبت میں نے آپ سے کی ہے وہ کبھی عیاں نہ کر سکوں۔جب پہلی بار آپ سے محبت ہوئی جب میں نے جانا تھا کہ ایک انسان کی محبت ہمیں کتنا بدل دیتی ہے مجھے ہر وہ چیز اچھی لگنے لگی جو آپ کو پسند ہے میں نے پہلی بار جانا کہ موسم بھی خوبصورت ہوا کرتے ہیں ٹھنڈی ہوا دلوں کو کیسے چھیڑتی ہے پورے چاند میں محبوب کا عکس کیسے دیکھتا ہے چاندنی رات میں چاند کو دل کا حال سنانا کیا ہوتا ہے یہ زندگی کے بھید مجھ پہ آپ کی محبت کی وجہ سے آشکار ہوئے شاید آپ کی محبت ہی میرے جینے کا سہارا ہے اگر یہ محبت مجھ سے چھین لی گئی تو میں زندہ تو رہوں گی مگر شاید مردوں سے بدتر زندگی گزاروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تحریر پہ آزر اور منال کی شادی سے پہلے کی تاریخ درج تھی انہوں نے حیرت سے اگلا صفحہ پلٹا۔

جب شزرا نے یہ تحریر پڑھی تھی تو اس ڈائری کے اگلے تمام صفحے کورے تھے مگر اب آگے کے کچھ صفحات بھر چکے تھے۔

اگلے صفحے پہ اس سے اگلے دن کی تاریخ درج تھی۔

"میں جانتی ہوں شزرا نے کل رات میری ڈائری پڑھ لی ہے"۔

پہلی ہی لائن پڑھ کے آزر کے ہاتھوں سے ڈائری گرتے گرتے بچی تھی۔منال شادی سے پہلے آزر سے پیار کرتی تھی اور یہ بات شزرا جان چکی تھی آزر کے ماتھے پہ پسینے نمودار ہوئے۔

"میں یہ بھی جانتی ہوں شزرا اور آزر ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں مگر شاید میں اپنی محبت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہوں کہ مجھے اپنی بہن مے وہ آنسو بھی نہ دیکھے جو اس نے کل پوری رات ٹھنڈے فرش پہ بیٹھ کے بہائے ہیں میں محبت میں خود غرض ہو چکی ہوں اس محبت مجھے میری سگی بہن سے آنکھیں پھیرنے پہ مجبور کردیا مگر میں اپنی محبت سے دستبردار نہیں ہو سکتی"۔

آزر پھٹی پھٹی نگاہوں سے ڈائری کو دیکھ رہے تھے آج ان پہ آگہی کا ایک الگ ہی دروازہ کھلا تھا انہوں نے کاپرے ہاتھوں سے صفحہ پلٹا۔

"میں جانتی ہوں میری بہن مجھ سے بہت پیار کرتی ہے آج اس نے میری محبت کے لئے آزر کو چھوڑ دیا ہے۔آخر میں کیسے نہ جان سکوں کی اس کے دل کی بات اس کا ہر درد ہر غم اس کے چہرے پہ رقم ہے آج جب آزر اور شزرا گھر آئے تو دونوں کے بجھے ہوئے چہرے دیکھ کے مجھے ایک عجیب سے احساس ندامت نے آگھیرا مجھے لگا میں غلط کر رہی ہوں مگر ہر بار دل دماغ کی بات سننے سے انکاری ہوا"۔

آزر دم سادھے بیٹھے تھے انہیں کمرے کی ہر چیز خود پہ گرتی محسوس ہوئی وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے شزرا نے منال کی وجہ سے انہیں انکار کیا۔

"اگلے صفحے پہ آزر اور منال کی شادی کے دو دن بعد کی تاریخ درج تھی آزر کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ نمایاں تھی۔

"شزرا جا چکی ہے اس کے جانے پہ مجھے بہت دکھ ہوا مگر شاید اسی میں سب کی بہتری تھی اب شاید مجھے آزر کا پیار نصیب ہو جو میں نے خود غرض ہو کے اپنی بہن سے چھین لیا ہے".

یہ مختصر سی تحریر بہت کچھ چلا چلا کے بیان کر رہی تھی آزر کو اپنے حلق میں کانٹے پڑتے محسوس ہوئے انہوں نے اگلا صفحہ پلٹا یہ آخری صفحہ تھا جس پہ کچھ لکھا ہوا تھا اس کے بعد تمام صفحے کورے تھے اس صفحے پہ پانچ سال پہلے کی تاریخ درج تھی یہ وہ تاریخ تھی جس دن منال کی بیماری کی خبر ہوئی تھی

آزر کو اپنے ہر جانب سکوت سا بکھرا محسوس ہوا کھڑکی کا باہر رات اگر آئی تھی اور نیچے لان میں روشنیاں جگمگا رہی تھیں آزر کی آنکھوں کے سامنے دھند بڑھتی جا رہی تھی۔

مجھے برین ٹیومر ہے۔میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے کبھی کوئی جان لیوا بیماری بھی ہو سکتی ہے بظاہر تو ڈاکٹر نے کہا ہے کہ یہ بیماری قابل علاج ہے مگر میرا دل جانتا ہے کے میں اندر سے کیسے گھل رہی ہوں میں جانتی ہوں اب میرا زندہ رہنا ناممکن ہے اور اب میں زندہ رہنا بھی نہیں چاہتی ہر روز ندامت کا ناگ مجھے ڈستا ہے اور اس کا زیر مجھے اپنے جسم میں پھیلتا محسوس ہوتا ہے۔میں روز جیتی ہوں روز مرتی ہوں شاید خدا کو مجھ پہ ترس آگیا اور مجھے پاس بلا رہا ہے۔شزرا جب یہاں سے جا رہی تھی تو اس کی رو رو کے سوجی ہوئی آنکھیں آج تک میرے دل پہ نقش ہیں میں چاہ کے بھی یہ نقش نہیں کھرچ پا رہی شزرا میری وجہ سے سب سے دور ہوئی ہے وہ میری خوشیوں کہ خاطر یہاں سے چلی گئی اور میں۔۔۔۔میں نے کہا کیا اپنی ہی بہن کی ساری خوشیاں چھین لیں وہ تو معصوم تھی اس نے صرف میرا سوچا کاش وہ ایک بار اپنا سوچ لیتی مجھے روز ایسے جلنا نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسر آزر وہ میرا ہر طرح خیال رکھتے ہیں مگر جس انسان کا دل کی مر چکا ہو وہ کسی دوسرے کو کیا خو،ی دے سکتا ہے جب گھنٹوں آزر کسی غیر مرئی نقطے پہ نگاہیں ٹکائے سوچتے رہتے ہیں تب میرا دل کیسے کرچی کرچی ہوتا ہے یہ میں ہی جانتی ہوں۔اب مجھے زندگی کی کوئی آرزو نہیں ہے شاید میں ہی دونوں کے بیچ آئی تھی اور اب میں ایسے کی خاموشی سے چلی جاؤں گی۔میں آزر کی آنکھوں میں شزرا کے لئے بیزاری اور نفرت دیکھتی ہوں تو میں مزید احساس جرم میں مبتلا ہو جاتی ہوں کیا قصور ہے اس بیچارہ کا جو اس کو آزر کی نفرت سہنی پڑی اور سب سر دور بھی ہونا پڑا سارا قصور تو میرا ہے اور میں یہاں آزر کے پاس بھی ہوں اور سب کے ساتھ بھی۔۔۔۔۔۔میں نے اسی لئے اپنی بیماری کا شزرا کو نہیں بتایا اب مجھ میں اس کا سامنا کرنے کی سکت نہیں ہے اور میرے سامنے آئی تو وقت سے پہلے ہی دکھ سے میرا دل بند ہو جائے گا میں اس کی اجڑی حالت نہیں دیکھ سکتی۔میں شاید آج کے بعد ڈائری سے بھی اپنا دکھ بیان نہ کر سکوں کیونکہ اب میری اذیت کو لفظوں کے پیراہن پہنانا مشکل ہے".

آگے ڈائری خاموشی تھی۔صفحات کورے تھے آزر کے ہاتھ سے ڈائری چھوٹ کے زمین پہ جا گری انہیں لگا کسی نے انہیں جلتے صحرا میں کھڑا کردیا ہے تپتا سورج ان کے سر پہ آگ برسا رہا ہے انہیں آپ جلتا محسوس ہوا آنسوؤں نے ان کے چہرے کو تر کردیا۔

وہ اتنے سال شزرا کو کس بات کی سزا دیتے رہے۔اس سے پیار کرنے کا دعویٰ کرتے کرتے ہوئے بھی اس کا پیار نہ سمجھے۔

وہ اٹھ کے کھڑکی میں آ رہے ہوئے حبس اور گھٹن لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔

انہوں نے کھڑکی سے باہر خوبصورتی سے سجایا گیا لان دیکھا وہاں مہمان آنا شروع ہو چکے تھے اور شاید شزرا کے سسرال والے بھی آچکے تھے وہ سمجھ نہیں سکے کے انہیں کرنے گھنٹے اسی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے ہوگئے تھے۔

وہ اپنے روم سے باہر نکلے تو دلاور صاحب اور امین صاحب شزرا کے روم کی طرف جا رہے تھے ان کے ساتھ مولوی صاحب بھی اپنا رجسٹر تھامے اندر داخل ہوئے آزر نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

آزر شزرا کے روم میں ان مے پیچھے داخل ہوئے تو شزرا صوفے پہ دلہن کے روپ میں پوری شان سے براجمان تھی سرخ اور سنہرے لہنگے میں اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ حسن کے اعلیٰ مرتبے پہ فائز تھی آزر کو لگا وہ یہ حسن پہلی بار دیکھ رہے ہیں ان کے دل کی دھڑکنیں تھمی تھیں۔

مولوی صاحب شزرا کے برابر میں بیٹھ چکے تھے دلاور صاحب اور امین صاحب بھی وہیں تھے دادو اور تائی امی بھی روم میں آچکی تھیں۔

آزر چینخ چینخ مے یہ سب روکنا چاہتے تھے مگر اب بہت دیر کو چکی تھی سب کچھ ہاتھوں سے نکل گیا تھا اور وہ تہہی دامن کھڑے رہ گئے تھے۔

____________

اسی اثناء میں برہان نے باہر سے آکے دلاور صاحب کے کان میں کچھ کہا تھا۔دلاور صاحب نے ہاتھ اٹھا کے مولوی صاحب کو روک دیا اور امین صاحب اور دلاور صاحب برہان کے ساتھ باہر کی طرف بڑھے آزر نا سمجھی سے یہ سب دیکھ رہے تھے ملک خاقان اور ان کی وائف ڈرائنگ روم میں پریشان بیٹھے تھے اور اب سب لوگ وہاں ڈرائنگ روم میں جمع تھے شزرا پریشانی سے سب کو ایسے جاتا دیکھ رہی تھی اب وہاں صرف آزر اور شزرا رہ گئے دونوں نے سر اٹھا کے ایک دوسرے کو دیکھا تو دونوں کی نگاہیں ملی تھیں مگر اگلے ہی پل شزرا نے سر جھکا لیا مگر آزر اس پہ سے نگاہیں نہ ہٹا سکے۔

وہ انہیں کسی شاعر کا ،کسی دیوانے کا  ایک سنہرا خواب لگ رہی تھی۔انہوں نے بے اختیار ہوتی نظروں کو قابو کیا۔ 

آزر کی جیب میں پڑا ان کا موبائل کافی دیر سے وائبریٹ ہو رہا مگر موبائل سائلنٹ پہ لگا تھا آزر کو احساس ہوا تو انہوں نے جیب سے موبائل نکال کے دیکھا تیمور کی کافی ساری مسڈ کالز تھیں اب بھی دوبارہ ان کا موبائل رنگ کرنے لگا انہوں نے فون اٹھا کر کان سے لگایا تو دوسری طرف تیمور ملک کی آواز ابھری۔

"جی تو جناب کی عقل ٹھکانے آگئی یا ابھی بھی کوئی کسر باقی ہے؟" تیمور نے دوسری طرف مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔

"کیا مطلب ہے؟ مجھے فون کیوں کیا؟ کہاں ہو تم؟" آزر نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات کئے شزرا اب سر اٹھا کر انہیں ہی دیکھ تھی جبکہ شزرا کا چہرہ مستقل آزر کی نظروں کے حصار میں تھا۔

"شزرا سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے یا میں آجاؤں؟" تیمور اس وقت ان کے گھر سے کچھ فاصلے پہ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا کھانے سے انصاف کر رہا تھا اس نے چاول کا ایک چمچ منہ میں بھرتے ہوئے پوچھا تھا۔

"کہاں ہو تم؟" آزر اب بھی نا سمجھ سے اس سے پوچھ رہے تھے۔وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلے شزرا نے انہیں ایسے جلدی میں جاتے دیکھ کے رہ گئی۔

میں آج کسی اور کی ہونے جا رہی ہوں مگر انہیں آج بھی کوئی فرق نہیں پڑ رہا شزرا دکھی دل سے سوچا تھا نین کٹورے بھرنے لگے تھے۔

"یار میں اس وقت شیروانی پہنے دلہا بنا بیٹھا ایک ریسٹورنٹ میں کھانے سے انصاف کر رہا ہوں" تیمور نے بے چارگی سے بتایا۔

"تمہیں شزرا سے نکاح کرنا ہے تو جلدی بتاؤ میں گھنٹے بھر سے اپنے باپ کی گالیاں سن رہا ہوں" تیمور نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے دہائی دی۔

"تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ آزر نے مشکوک لہجے میں پوچھا۔

"کیوں کہ میں جانتا ہوں تم اور شزرا ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو" تیمور نے اصل وجہ بتائی۔

"اور ویسے بھی میری گرل فرینڈ مجھے آنے ہی نہیں دے رہی" تیمور نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا۔

"تم نہ آؤ یہی بہتر ہے" آزر نے غصے سے فون کاٹ دیا اور ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے۔

وہ وہاں پہنچے تو دادو اور تائی امی بیٹھی رو رہی تھیں دلاور صاحب سر پکڑے صوفے پہ بیٹھے تھے جبکہ امین صاحب خاقان صاحب پہ غصہ ہو رہے تھے۔

ایک سیکنڈ پہلے تیمور کی خاقان ملک سے فون پہ بات ہوئی تھی اور تیمور نے یہ نکاح کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔

"کیا غلطی ہے میری بیٹی کی کیوں ہمیشہ اسے سزا ملتی ہے" دلاور صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

آزر کو دیکھ کے وہ اپنی جگہ سے غصے سے اٹھے اور ان کا گریبان پکڑ لیا۔

"تم نے ہاں کروائی تھی نہ اس رشتے کے لئے" انہوں نے آزر کو بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آزر کو شوٹ کردیں انہیں اس وقت تیمور سے زیادہ آزر پہ غصہ تھا۔

کوئی انہیں کچھ بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔

"تمہارا کیا دھرا ہے یہ سب" امین صاحب بھی اب آزر پہ برس رہے تھے اور آزر سر جھکائے کھڑے تھے۔

"کیوں میری بچی ایسے سب کے سامنے رسوا ہو رہی ہے" دلاور صاحب امین صاحب کے گلے لگ گئے امین صاحب انہیں گلے سے لگائے تسلیاں دے رہے تھے۔

"شزرا کا نکاح آج ہی ہوگا" امین صاحب نے دلاور صاحب کو الگ کرتے ہوئے کہا اور آزر کی طرف بڑھے۔

"تیار ہو کے آؤ ابھی نکاح ہے تمہارا شزرا سے" امین صاحب نے دلاور کے کندھے پہ ہاتھ رکھے سنجیدہ اور حتمی لہجے میں کہا۔

آزر نے اثبات میں گردن ہلادی۔

سب کے منہ حیرت سے کھلے رہ گئے کسی کو بھی آزر سے اس قدر تابعداری کی توقع نہیں تھی۔

سب سکتے کہ سی کیفیت میں بیٹھے رہ گئے۔

"جاؤ تیار ہو کے آؤ" انہوں نے آزر کے کندھے پہ تھپکی دیتے ہوئے کہا اس لمحے ان کا سر فخر سے بلند ہوا تھا وہ اس بات اپنے بھائی کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ گئے تھے۔

آزر خاموشی سے کمرے سے نکل گئے۔

"میں آزر کے کپڑے نکال دوں" تائی امی اپنے انسو صاف کرتے ہوئے اٹھیں اور آزر نے کمرے کی طرف چلی گئیں۔

"بھائی کہیں آزر میری بچی کو دکھ۔۔۔۔" دلاور صاحب بولتے بولتے خاموش ہوئے تھے۔

"کچھ نہیں ہوگا اپنے بھائی پہ یقین رکھو" امین صاحب نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا وہ کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔

مسسز خاقان دادو کی طرف بڑھیں۔

"ہم بہت شرمندہ ہیں ہو سکے تو ہمیں معاف کردیں" مسسز خاقان نے دادو کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے۔

"ارے نہیں یہ کیا کر رہی ہو بیٹا جو ہوا وہ بہتری کے لئے ہی ہوا ہے" دادو نے مسکراتے ہوئے کہا اور ان کے ہاتھ پکڑے۔

"ہم چلتے ہیں" مسسز خاقان جانے کے لئے اٹھیں۔

"ایسے کیسے جا رہے ہیں آپ لوگ کیا ہماری خوشیوں میں شریک نہیں ہوں گے" دادو نے انہیں واپس بٹھاتے ہوئے کہا۔

"جو ہوا اسے بھول جائیں اگر آپ لوگ ہماری خوشی میں شریک ہوں گے تو ہمیں بہت اچھا لگے گا آپ لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے شاید قسمت میں ہی یہی تھا" امین صاحب نے آسودہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

"سویرا کیا ہوا ہے سب لوگ کہاں چلے گئے؟" شزرا نے اپنے روم میں سویرا کو آتے دیکھ کر پوچھا جو اپنے دو سالہ بیٹے کو لے کے پریشانی سے ادھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔

"پتہ نہیں آپی" وہ ابھی تک ڈرائنگ روم میں ہونے والی باتوں سے بے خبر تھی۔

کچھ دیر بعد گھر کے سب لوگ شزرا کے روم میں مولوی صاحب کو لے کے داخل ہوئے شزرا کا دل عجب ہی حالت میں دھڑک رہا تھا وہ تیمور سے نکاح نہیں کرنا چاہتی تھی مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی اس نے اس دشمن جان کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں مگر آزر کہیں نہیں تھے اس کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا۔

پہلو میں جو سنگ تھا اس نے اسے سنگ ہی رہنے دیا اگر پھر سے دھڑکنے لگا تو قیامت  لائے گا اس نے اپنا سر جھکا لیا۔

مولوی صاحب نکاح کے کاغذات تھامے اس کے برابر میں بیٹھ چکے تھے۔

"مولوی صاحب نکاح شروع کریں" تایا ابو نے مولوی صاحب کو مخاطب کر کے کہا۔

شزرا کی پلکوں سے ایک موتی ٹوٹ کے گرا اس وقت کی اذیت صرف وہی محسوس کر سکتی تھی۔

 جسم پہ لرزاہٹ طاری ہو گئی تھی۔

پھر مولوی صاحب کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔

"کیا آپ کو آزر امین ولد امین ظفر بہ عوض پانچ لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت یہ نکاح قبول ہے؟" ۔

اس نے بے ساختہ گردن گھما کے مولوی صاحب کی طرف دیکھا اسے لگا اس کے کانوں نے کچھ غلط سنا ہے آنکھوں میں بے یقینی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔

"بولو بیٹا" دلاور صاحب نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے اسے ایجاب و قبول کرنے کو کہا مگر وہ تو جیسے پتھر کی مورت ہو چکی تھی۔

اگر یہ مذاق تھا تو یہ مذاق اس کی جان لے رہا تھا۔

"شزرا بولو بیٹا" ایک بات پھر دلاور صاحب نے اسے مخاطب کر کے کہا۔

"قبول ہے" دل پسلیاں توڑ کے باہر آنے کو بے تاب تھا۔اسے اپنی آواز ہی انجانی محسوس ہوئی کیا دعائیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں۔

مولوی صاحب نے دوسری بار پوچھا۔

کیا آپ کو قبول ہے؟

"قبول ہے" آنسو ٹوٹ کے اس کے ہاتھوں پہ گر رہے تھے آزر کو پانے کے لئے جن راستوں سے وہ ہو کے آئی تھی یہ وہی جانتی تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی اتنے بھیانک راستوں کی منزل اتنی خوبصورت ہوگی۔

مولوی صاحب نے تیسری بار پوچھا۔

کیا آپ کو قبول ہے؟

"قبول ہے" وہ شدت سے رو پڑی تھی اس کا وجود کانپ رہا تھا اور دل بارگاہ الہٰی میں سجدہ ریز تھا۔

نکاح کے کاغذات پہ سائن کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں کی لرزش وہاں موجود ہر شخص دیکھ سکتا تھا۔

نکاح ہو چکا تھا وہ آزر کے نام ہو چکی تھی۔

نکاح کے بعد جانے کتنی دیر تک دلاور صاحب اسے سینے سے لگائے بیٹھے رہے اور وہ اس انہونی کے بعد بلکل چپ تھی جیسے گونگی ہو گئی ہو۔

دادو تائی امی تایا ابو سب اسے ڈھیروں پیار کر رہے تھے اور وہ محو حیرت تھی۔

کچھ دیر بعد سویرا اور منہل اسے لے کے باہر آگئیں وہ سہج سہج قدم اٹھاتی اسٹیج کی طرف بڑھی جہاں آزر کھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے۔

اسٹیج کے قریب جا کے آزر نے اپنا ہاتھ آگے کیا تھا اس نے ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ تھما دیا پلکیں جھکی تھیں ہاتھوں میں لرزش آزر واضح محسوس کر سکتے تھے۔

اب وہ دونوں اسٹیج پہ بیٹھ چکے تھے۔

رسمیں شروع ہو چکی تھیں رسموں کے بعد فوٹو سیشن تھا مگر شزرا کی نیچی نگاہیں نہ اٹھ سکیں وہ بہت خاموش تھی۔

وہ قسمت کے اس موڑ پہ گنگ تھی۔

آزر تو اس سے نفرت کرتے تھے اور اب یہ سب۔۔۔۔۔!!!

ہزاروں سوچیں اس کے سامنے تھیں۔

امین صاحب نے دلاور صاحب سے اسی وقت رخصتی کی بات کی تھی ان کی بات پہ دلاور صاحب نے سر تسلیم خم کردیا تھا۔

اس طرح اچانک رخصتی کا سن کے شزرا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے یہ نکاح کا دھچکا کیا کم تھا کہ اب اس طرح اچانک رخصتی۔

قدرت نے شاید دونوں کا بندھن ایسے ہی لکھا تھا جو اپنے وقت پہ پورا ہوا تھا۔

رخصتی کے بعد شزرا کو آزر کے روم میں پہنچا دیا گیا تھا۔اس نے حیرت سے اس سجے ہوئے کمرے کو دیکھا کرب اس کی آنکھوں میں نمایاں تھا وہ جانتی تھی کہ آزر آئیں گے اور اسے کمرے سے دھکے دے کے نکال دیں گے آنے والے وقت کا سوچ کر اس کی آنکھیں بار بار بھرا رہی تھیں مگر اس نے خود کو وقت کے دھارے پہ چھوڑ دیا تھا۔

سویرا نے اسے بتایا تھا کے تیمور نکاح کے وقت نہیں پہنچا اور اس نے انکار کردیا تھا تو تایا ابو نے آزر بھائی کو نکاح کرنے کو کہا تھا۔

کچھ دیر بعد اس نے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی پھر دروازہ بند ہوا تھا اس کا دل اچھل کے حلق میں آگیا قدموں کی چاپ قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی۔

آزر اس کے سامنے بیڈ پہ بیٹھے تھے مگر شزرا میں ان کو پلکیں اٹھا کر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں تھی آزر نے ہاتھ بڑھا کر آہستگی سے اس کا ہاتھ تھام لیا اس نے ڈر کے مارے گھبرا کے انہیں دیکھا اسے لگا اب وہ اسے صرف کمرے سے ہی نہیں بلکہ اپنی زندگی سے بھی باہر نکال دیں گے مگر مقابل کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی شزرا کی آنکھوں سے آنسو قطار در قطار بہنے لگے۔

آزر نے ہاتھ بڑھا کے نرمی سے اس کے گالوں پہ بہتے آنسو صاف کئے وہ ڈر کے پیچھے ہٹی تھی آزر کے لبوں پہ پھیکی سی مسکان آئی۔

"معاف کر سکتی ہو مجھے؟" وہ اس کا ہاتھ تھامے سر جھکائے اس کی مہندی کے رنگوں میں الجھے بول رہے تھے شزرا کی دھڑکنیں ساکن ہوئی تھیں۔اس بار آزر کے ہاتھوں کی گرفت مضبوط نہیں تھی مگر وہ پھر بھی اپنا ہاتھ ان سے نہیں چھڑا سکی بس یک ٹک ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

آزر ایک ہاتھ سے اس کے ہاتھوں میں پہنی کانچ کی چوڑیوں سے کھیل رہے تھے شزرا کے آنسو ٹوٹ کے آزر کے ہاتھ کی پشت پہ گرے وہ کئی لمحوں تک ان آنسوؤں پہ نظریں جمائے بیٹھے رہے۔

شزرا کے وجود میں گڑی سوئیاں ایک ایک کر کے نکل رہی تھیں وہ عالم بے یقینی میں آزر کا یہ روپ دیکھ رہی تھی۔

"شزرا۔۔۔۔۔۔!!!"  آزر نے ہولے سے اسے پکارا تھا شزرا نے آزر کی طرف دیکھا ان آنکھوں میں محبت کا ایک سمندر تھا آج کتنے سالوں بعد اس نے آزر کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت دیکھی تھی۔اسے تو ماہ و سال کا حساب بھی یاد نہیں تھا۔

"آپ تو مجھ سے نفرت۔۔۔۔۔۔۔۔" شزرا جملہ مکمل نہیں کر سکی آنسوؤں نے اسے اجازت ہی نہیں دی۔

"میں نے تم سے کبھی بھی نفرت نہیں کی۔۔۔۔۔ہمیشہ تم سے محبت کی ہے بس میری محبت کی شکل بدل گئی تھی" آزر اس کے سامنے سر جھکائے بول رہے تھے۔

"ہاں میں چلا چلا کے بولتا رہا کے میں تم سے نفرت کرتا ہوں خود کو یقین دلاتا رہا مگر میرا دل جانتا تھا میں نے تم سے ہمیشہ محبت کی ہے خود پہ زبردستی کا خول چڑھایا شاید کبھی مجھے تم سے نفرت ہو جائے مگر یہ ناممکن تھا یہ میں بھی جانتا تھا" آزر کی آنکھوں سے ایک موتی ٹوٹ کے شزرا کے مہندی سے رنگے ہاتھوں پہ گرا تھا۔

"تیمور نے نکاح سے انکار کردیا تھا تو کیا تایا ابو نے آپ سے زبردستی نکاح کروایا" شزرا دل و دماغ اب تک کچھ قبول نہیں کر پا رہا تھا۔

"تیمور جانتا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں" آزر نے مسکرا کے بتایا۔

اس وقت بھی تیمور کا فون آیا تھا کہ میں نکاح کے لئے راضی ہوں یا وہ آجائے۔۔۔" آزر بول کے خاموش ہوگئے۔

"پھر۔۔۔۔" آزر کو خاموش ہوتے دیکھ کر شزرا سے صبر نہ ہوا۔

"پھر۔۔۔۔۔میں تو راضی تھا" آزر نے اس کے آنسو اپنی پوروں پہ چنتے ہوئے کہا۔

"آپ راضی تھے" شزرا نے بے یقینی سے پوچھا۔

"ہاں" اب آزر سنجیدہ ہوئے تھے۔

"کیوں؟" شزرا نے انہیں سنجیدہ دیکھ کے سوال کیا۔

"میں جانتا ہوں تم نے منال کی وجہ سے مجھ سے شادی سے انکار کیا تھا" آزر نے اصل وجہ بتائی شزرا ششدر رہ گئی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آزر کو حقیقت کا علم ہوگا۔

"آپ کو کیسے پتا یہ سب؟" شزرا نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوال کیا ۔

____جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages