Jo Tu Mera Hamdard Hai By Filza Arshad Episode 5 to 6 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 12 February 2023

Jo Tu Mera Hamdard Hai By Filza Arshad Episode 5 to 6

Jo Tu Mera Hamdard Hai By Filza Arshad Episode 5 to 6

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Jo Tu Mera Hamdard Hai By Filza Arshad Episode 5'6

Novel Name: Jo Tu Mera Hamdard Hai 

Writer Name: Miral Shah

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


شجیہ صرف سات سال کی تھی جب بدر اور الماس کسی شادی سے واپسی سے آرہے تھے۔۔ ہائی وے پر ان کا بہت برا ایکسیڈینٹ ہوا اور وہ دونوں اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی زندگی سے ہار گئے۔۔

مگر قدرت نے اتفاقی طور پر شجیہ کو محفوظ رکھا۔۔

شجیہ بھی ہر جگہ ان کے ساتھ ہوتی مگر آج قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔۔

شجیہ کو ذکیہ بیگم نے آج اپنے پاس رکھ لیا کہ وہ ان کے ساتھ آئے گی۔۔

اصل میں شجیہ کی زندگی تھی۔۔۔

سات سال کی بچی کو اتنی عقل تو نہیں تھی کہ اس کے ماں باپ اچانک ہی اس سے بچھڑ کر کہاں چلے گئے۔۔۔

وہ راتوں کو ڈرتی اپنی ماں کو پکارتی مگر ذکیہ بیگم نے اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

شروع میں مہوش نے شجیہ کی دیکھ بھال کی مگر وہ جلد اکتا گئیں۔۔

ظفر صاحب کا اتنا رعب تھا کہ وہ سامنے میں کچھ نہیں کرسکتی تھیں۔۔۔

مگر انہوں نے اپنے بچوں کو اپنے انداز میں تربیت کی اور شجیہ سے دور رکھنے کی کوشش کی۔۔۔

"ارے شجیہ یہ تو بہت مہنگے ٹوائز ہیں۔۔ آپ اسے توڑ دوگی۔۔ چھوڑو اسے۔۔" 

مہوش نے رباب کے کھلونے اس کے ہاتھ سے لے لئیے۔۔

شجیہ کو چھوٹے سے ہی انہوں نے اپنے رعب میں رکھا۔۔

"یہ کیا ہے؟ یہ بچوں کی جگہ ہے کھیلنے کی؟ خبردار اگر آئیندہ آپ مجھے یہاں نظر آئیں۔۔" 

وہ اس کا ہاتھ اتنی سختی سے دباتیں کہ اس کی چیخ نکل جاتی۔۔ 

اور اس دن کےبعد سے وہ کبھی لان کے پاس نظر نہیں آتی۔۔

ذکیہ اور ظفر صاحب کو لگتا کہ مہوش شجیہ کا خیال رکھتی ہے اسی لئیے وہ دونوں۔اطمینان سے رہتے مگر مہوش نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی اولاد کی محبت میں کوئی حصّے دار بنے اسی لئیے وہ شجیہ کو ظفر صاحب کی آنکھوں سے اوجھل رکھتیں۔۔

اور ان کے پیچھے وہ شجیہ سے بہت بری طرح پیش آتیں۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

مہوش کا بھائی کسی کام کے سلسلے میں دبئی سے پاکستان آیا تو مہوش نے اپنے بھائی کو اپنے گھر میں جگہ دی۔۔

کیونکہ نوید کا پاکستان میں اس کے سوا کوئی نہیں تھا۔۔۔

نوید کو آئے ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا اس کے آنے سے رباب ارسل اور فاضل جہاں بہت خوش تھے وہیں شجیہ بہت خاموش اور ڈری ڈری سی رہنے لگی تھی۔۔۔

شجیہ اب آٹھ سال کی ہوچکی تھی اسے روّیوں کی سمجھ آنے لگی تھی۔۔

مہوش کا ظفر اور ذکیہ کے سامنے میٹھا بننا اور بعد میں اپنی جلن نکالنا اسے بخوبی سمجھ آگیا تھا۔۔

حالات نے اسے اپنی عمر سے زیادہ بڑا کردیا تھا۔۔

"ارے شجیہ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ چلو آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔۔

وہ لان کی کرسی میں بیٹھی ڈرائینگ کی کاپی میں پینسل سے نشانات بنارہی تھی جب نوید کے مکار بھرے لہجے پر وہ اسے دیکھ کر وہ خوف سے کانپنے لگی۔۔۔

"ارے تم تو ایسے ڈر رہی ہو جیسے میں تمہیں کھا جاؤنگا۔۔"

سامنے والی کرسی میں بیٹھا وہ اس کے ہاتھوں پر ہاتھ پھیرتا اپنی حوس مٹارہا تھا۔۔۔

"انکل مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔ آپ رباب کو لے جائیں۔۔۔" 

وہ جلدی سے کرسی سے اتر گئی۔۔ 

"ارے مجھے تو آپ کو ہی لے کر جانا ہے۔۔"

وہ اس کے سرخ اور پھولے ہوئے گال پر چٹکی کاٹتا اپنی حوس بھری نظریں اس پر جمائے کہہ رہا تھا۔۔۔

شجیہ کو اس لمس کی سمجھ نہیں تھی مگر اسے لگتا جو ہورہا ہے وہ بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔

"ارے نوید تم یہاں کیا کر رہے ہو رباب وغیرہ تمہارا انتظار کر رہی ہیں کہ تم آئس کریم کھلانے لے کے جارہے ہو۔۔"

اس وقت مہوش کی آمد سے نوید گڑبڑاگیا جب کہ شجیہ نے سکون کا سانس لیا۔۔۔

"جی آپی میں تو جارہا تھا میں نے سوچا شجیہ اکیلے بور ہوگی تو اسے بھی لے جاؤں۔۔" 

اپنے مکار لہجے میں کہتا واقعی  شجیہ کا سب سے بڑا ہمدرد لگا۔۔۔

"اسے کیا بور ہونا ہے اسے تو بس اکیلے ہی رہنا پسند ہے تم اس سے زیادہ اپنی ہمدردی مت دکھایا کرو۔۔"

مہوش کو نوید کا اس طرح ہمایت کرنا بلکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔

"اچھا آپی جارہا ہوں آپ تو پیچھے پڑ جاتی ہیں۔۔" اپنے دل کا چور پکڑے جانے کے خوف سے وہ جان چھڑاتا جلدی سے بھاگا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

 ذکیہ بیگم ان دنوں اپنی بہن کی عیادت کرنے حیدر آ باد گئی ہوئی تھیں۔۔

نوید کو اپنی درندگی دکھانے کا کھل کر موقع مل رہا تھا۔۔۔

وہ بہت خوش تھا کہ شاید اب اسے آسانی ہو۔۔۔

شام میں مہوش اپنی کسی دوست کے گھر گئی ہوئی تھی۔۔ 

اور رباب وغیرہ اپنا ہوم ورک کر رہے تھے جب نوید لان میں بیٹھی خاموش شجیہ کے منہ پر ہاتھ رکھ کر زبردستی اوپر بنے سٹور روم میں لے آیا۔۔۔

"ششش آواز نہیں نکالنی ورنہ میں آپ کو بہت مارونگا بلکہ یہ دیکھو۔۔ اس کی طرح جلادونگا۔۔"

وہ اسے اندھیرے میں سٹور روم میں لے آیا تھا اور موبائل پر ایک بچی کی جلنے کی ویڈیو دکھا کر اسے ڈرا رہا تھا تا کہ اس کے کسی عمل پر وہ چیخ نہ سکے۔۔۔

وہ ویڈیو ایسے ہی ایف بی سے آئی وائرل ویڈیو تھی۔۔

مگر شجیہ کو ڈرانے میں کافی کار آمد ہوئی۔۔۔

وہ خاموشی سے خوف سے کانپ رہی تھی اس میں اتنی بھی ہمّت نہ تھی کہ وہ منہ سے کوئی بھی آواز نکال سکے۔۔۔

اس سے پہلے وہ درندہ اس کے قریب آتا اور اپنی حوس پوری کرتا کہ شجیہ خوف سے بے ہوش ہوگئی۔۔۔

اسے زمین پر گرتا دیکھ کر نوید کے ہوش ٹھکانے آگئے ساری درندگی دو منٹ میں دور ہوئی اب وہ اپنے پکڑے جانے کے خوف سے آگے کا لائحمل سوچ رہا تھا۔۔۔

وہ اسے اسی طرح گرا ہوا چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گیا۔۔۔

"شجیہ کہاں ہے؟ " رات ہوگئی تھی ظفر صاحب آفس سے آئے تو سب سے پہلے شجیہ کی غیر موجودگی محسوس کی۔۔۔

"یہی ہوگی اپنے روم میں پتا نہیں اتنا اکیلے اکیلے کیوں رہتی ہے۔۔" 

مہوش نے اپنے لہجے میں اس کی فکر گھولنے کی کوشش کی۔۔۔

"نوری شجیہ کو کھانے کے لئیے بلا کر لاؤ" انہوں نے ملازمہ کو۔ حکم دیا تو وہ چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد ہی وہ اس کی غیر موجودگی کی خبر لارہی تھی۔۔۔

"ایسے کیسے نہیں ہے کہاں جاسکتی ہے وہ؟" 

ظفر غصّے میں آگئے تھے۔۔

"ارے آپ کیوں پریشان ہورہے ہیں بچی ہے یہی کہیں ہوگی" 

مہوش ان کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔

آدھے گھنٹے سے زیادہ ہوچکا تھا تمام ملازم اور ظفر خود پورے گھر میں تلاش کر چکے تھے مگر اس کا کہیں بھی پتا نہیں چل رہا تھا۔۔۔

ظفر صاحب بہت زیادہ پریشان تھے جب کہ خوف زدہ تو مہوش بھی ہوگئی تھیں اور انہیں شجیہ پر ہی غصّہ آرہا تھا جو بلاوجہ ان کی لائف ڈسٹرب کرنے کی وجہ بنی ہوئی تھی۔۔۔

نوید اس وقت سے ہی غائب تھا۔۔۔

جب سب جگہ سے ہار مان کر  ظفر صاحب تھک کر بیٹھ گئے تو نوری کی دی گئی اطلاع ان کے اوپر بجلی بن کے گری۔۔۔

"صاحب جی میں نے بےبی کو نوید صاحب کے ساتھ سٹور روم کی جانب جاتے دیکھا تھا۔۔

بغیر کچھ سنے وہ سٹور روم کی جانب بھاگے۔۔

مہوش بھی ان کے پیچھے پیچھے گئی۔۔۔

"سٹور روم کا دروازہ کھولتے ہی ظفر صاحب کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئی۔۔۔

شجیہ کا وجود زمین پر اوندھا پڑا تھا۔۔

"انہوں نے اسے اٹھایا تو مدھم سی سانسیں چل رہی تھی۔۔

"گاڑی نکالو" ملازم سے گاڑی نکالنے کا کہہ کر وہ اسے گود میں لے کر ہاسپیٹل کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔

مہوش نے ان کے پیچھے آنے کی کوشش کی تو انہوں نے غصّے سے سرخ آنکھوں سے دیکھا کہ مہوش کے اندر خوف سے سنسنی پھیل گئی اتنے غصّے میں انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔

مہوش نے فوراً نوید کو کال کر کے اس واقعے کو جاننے کی کوشش کی تو وہ سن کر ہی ڈر گیا کہ اس کا نام آچکا ہے اس نے جھوٹی سچی کہانی سنادی کہ وہ یہاں پر تھا ہی نہیں وہ تو کافی دیر سے گھر کے باہر ہے۔۔۔

مہوش نے بھی اس بات پر یقین کر لیا۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ہاسپیٹل جا کر ظفر کو پتا چلا کہ شدید خوف کے زیر اثر شجیہ بے ہوش تھی۔۔

وہ نوید کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے تا کہ پتا چلے۔اس نے ایسا کیا کیا ہے اور اسٹور روم میں وہ کس طرح اور کیوں گئی مگر نوید کا فون بھی آف جارہا تھا۔۔۔

بعد میں خبر آئی کہ وہ دبئی واپس جا چکا ہے۔۔

اس خبر سے ظفر صاحب کو یقین ہوگیا کہ ضرور اس نے کچھ غلط کرنے کی کوشش کی ہے۔۔

 انہیں شدید غصّہ تھا مگر شجیہ کے ہوش میں آنے سے پہلے وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔۔۔

ذکیہ بیگم بھی دو گھنٹے میں ہی خبر ملتے ہاسپیٹل آچکی تھی۔۔۔

"کسی نے بچی کو ذہنی اذیت دینے کی کوشش کی ان کو ہراسمنٹ میں رکھا گیا ہے۔۔" 

ڈاکٹر کے الفاظ ان دونوں پر بجلی بن کر گزری۔۔۔

"کیونکہ بچی بے ہوشی کے حالت میں مسلسل چیخ رہی ہے کسی کو ہاتھ لگانے سے منع کر رہی ہے۔۔"

اور ایسا صرف ہراسمنٹ کے کیس میں ہی ہوتا ہے۔۔۔"

وہ بے ہوشی کی حالت سے باہر آچکی ہے مگر ایسا لگتا ہے جیسے وہ خود ہوش میں آنا ہی نہیں چاہتی"

ڈاکٹر کہہ رہا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔

ظفر صاحب شرمندہ سے ذکیہ بیگم  سے نظریں چرا رہے تھے۔۔

"آپ بچی کے کون ہیں؟" اور بچی کو کس کے پاس چھوڑا تھا آپ لوگوں نے؟"

ڈاکٹر کے سوالات انہیں مزید شرمندگی میں دھکیل رہے تھے۔۔۔

ہماری سب سے بڑی غلطی ہی یہی ہوتی ہے کہ بچی ہے انکل ہیں کھیل رہے بچی کے ساتھ کوئی بات نہیں۔۔

لیکن کچھ درندوں کے لئیے وہ بچی نہیں ہوتی وہ عورت کا جسم ہوتا ہے جس سے وہ مرد اپنی حوس پوری کرنا چاہتا ہے۔۔۔

ہم اسی خوش فہمی میں رہ کر اپنے بچے اور بچیوں کو انکل آنٹی نما درندوں کے حوالے کر کے پر سکون ہوتے ہیں۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

اس واقعے کو ہفتہ ہوچکا تھا۔۔۔ شجیہ کو ہوش آچکا تھا۔۔

مگر اسے بخار رہنے لگا تھا۔۔۔ راتوں کو چیخ کر اٹھنا اندھیرے میں ڈرنا اس کو سائکو بنارہا تھا۔۔۔

ہاسپیٹل سے ڈسچارج ہونے کے بعد ذکیہ بیگم اسے لے کر بدر صاحب کے پورشن میں آگئیں۔۔

ظفر صاحب نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ نہ جائیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔۔۔

گھر تو ایک ہی تھا مگر پورشن الگ تھا۔۔

ظفر صاحب اس کی پڑھائی سے لے کر ہر چیز کی ضرورت پوری کر رہے تھے۔۔۔

روز وہ دونوں کا حال بھی پوچھتے۔۔۔

مگر مہوش نے خود بھی اور بچوں کو بھی ان سے دور کر لیا۔۔۔

ظفر صاحب نے کافی دن تک مہوش سء بات چیت بند رکھی مگر کب تک وہ ان کی بیوی تھی اسی لئیے کچھ دن بعد پھر سب پہلے جیسا ہوگیا۔۔

مگر مہوش کے دل میں شجیہ کے لئیے نفرت مزید بڑھ چکی تھی۔۔۔ 

وہ اپنے بھائی کو قصوار سمجھنے کے بجائے بھائی سے دوری کا سبب اسے سمجھتی تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

وقت بڑھتاچلا گیا مگر شجیہ وہیں بچپن کے خوف کے زیر اثر بڑھی اور اس کی زندگی وہیں ٹہر گئی۔۔۔

لوگوں سے دور رہنا خاموش رہنا اور خوابوں میں ڈرنا اس کی عادت میں شامل ہوچکا تھا۔۔۔

پھر وقت نے اسے فاضل کی صورت میں ایک اور نوید لا کھڑا کیا تھا۔۔۔

جس کی نظریں بلکل نوید کی طرح اسے آر پار محسوس ہوتیں۔۔۔

اس کا خوف کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا چلا گیا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ماضی کے باب سے نکل کر ذکیہ بیگم حال میں آئیں تو سامنے بیٹھے راہب کی آنکھیں بھی نم تھی۔۔۔

تو یہ وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ لڑکی نارمل بی ہیو نہیں کرتی۔۔۔

اسے بہت دکھ ہوا اس عمر میں لڑکیاں نئے خواب دیکھتی ہیں شوخ اور چنچل ہوتی ہیں مگر ظالم دنیا نے اسے کیا بنادیا تھا۔۔۔

آج راہب شجیہ کے فارم لے کر آیا تھا مگر شجیہ کا رد عمل اس کے لئیے بہت حیرت زدہ تھا۔۔۔

وہ یونی ورسٹی جانے سے خوف زدہ تھی۔۔۔

پھر ذکیہ بیگم سے بہت استفسار کرنے پر انہوں نے اس کے سامنے اس کی ماضی کی کتاب کھول دی۔۔۔

شجیہ اس وقت شاید سوچکی تھی وہ کمرے میں موجود نہیں تھی۔۔۔

پھر راہب نے اسے کالج سے سمپل بی اے کرانے کا فیصلہ کیا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

"آج ظفر صاحب آئے تو راہب بھی ان کے ساتھ تھا وہ ذکیہ بیگم سے ملنے آیا تھا۔۔ ان کی طبیعت مزید بگڑ چکی تھی۔۔ شجیہ بھی وہہیں ان کے برابر میں بیٹھی تھی۔۔۔

شجیہ کے ذہن نے اس دن راہب کے متعلق جو بات سوچی وہ اس پر شرمندہ تھی۔۔۔ آج وہ۔اس بات کو فراموش کر چکی تھی۔۔

دوسری طرف راہب نے شجیہ کو دیکھا تو اس کے دل میں اس دن والی کیفیت یاد آئی شاید شجیہ سے ہمدردی اس کے دل کو بدل رہی ہے اس نے اپنے دل کو ڈپٹا اور ذکیہ بیگم کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔

"بیٹا جاؤ راہب کے لئیے چائے لے کر آؤ۔۔"

ذکیہ بیگم نے شاید شجیہ کو منظر سے غائب کرنا چاہا۔۔

وہ خاموشی سے چلی گئی۔۔۔

"بیٹا  مجھے لگتا ہے اتنے دنوں میں جتنا شجیہ کو تم نے سمجھا اور اس نے اب تک جتنا امپروو کیا ہے وہ سب تمہاری بدولت ہے۔۔

بیٹا اس کا میرے سوا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔ 

ذکیہ بیگم نے تمہید باندھی اور وہ خاموشی سے ان کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

میری صرف اتنی سی خواہش ہے کہ یہ پڑھ لکھ کر پر اعتماد بن جائے اور اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل ہو۔۔

میری آخری۔خواہش سمجھ لو میں چاہتی ہوں اگر مجھے کچھ ہو بھی جائے تو اسے پڑھائی میں آگے بڑھنے میں تم مدد کرنا۔۔۔

"آپ فکر نہ کریں شجیہ کو پڑھائی میں جو بھی ہیلپ ہوگی میں ضرور مدد کرونگا۔۔

راہب تھوڑی دیر بعد وہاں سے چلا گیا لیکن ظفر صاحب کا فی دیر تک ان کے پاس بیٹھے رہے۔۔ پھر ان کے جانے کے بعد ذکیہ بیگم سو گئیں۔۔

آج شجیہ کو عجیب سی گھبراہٹ ہورہی تھی جیسے کچھ ہونے والا ہو مگر اس نے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک دیا۔۔

صبح شجیہ کی آنکھ کھلی تو ذکیہ بیگم کو اب تک سوتا دیکھ کر اس کو تعجب ہوا۔۔۔

"دادو۔۔دادو۔۔ وہ انہیں مسلسل پکار رہی تھی۔۔

مگر دوسری طرف جواب نہ پا کر اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار آگئے۔۔

اس کا دل کسی انہونی کے ڈر سے بری طرح کانپ رہا تھا۔۔۔

"دادو۔۔۔۔ بری طرح چیخ کر وہ انہیں جھنجوڑ رہی تھی۔۔۔

 ان کی سانسیں چیک کی تو وہ بلکل نہیں چل رہی تھی۔۔

"نن۔۔۔ننہیں۔۔۔۔ وہ دور ہٹ گئی۔۔ دیوار سے لگ کر آنکھیں بند کئیے کانپ رہی تھی۔۔۔

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے جلدی میں وہ ظفر صاحب کے پورشن کی طرف دوڑی۔۔۔۔

وہاں سب بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے جب وہ گھبرائی سی وہاں پہنچی۔۔۔

"کیا ہوا بیٹا؟ "سب ٹھیک ہے؟" 

ظفر صاحب کی نظر سب سے پہلے اس پر پڑی۔۔۔ اس کی اجڑی ہوئی حالت دیکھ کر وہ گھبرا گئے۔۔۔

"وہ۔۔وہ۔۔۔ داد۔۔دادو۔۔۔" اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی الفاظ بھی ادا نہیں ہورہے تھے۔۔۔

ظفر صاحب ذکیہ بیگم کا سنتے ہی فوراً اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور بغیر کسی۔سے کچھ کہے تیزی۔سے شجیہ کے ساتھ باہر کی جانب بھاگے۔۔۔

"صبح۔صبح کون سا ڈرامہ۔سٹارٹ ہوگیا؟" رباب نے اپنے پرمنگ کئیے ہوئے بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتے ہوئے مزاق اڑاتے ہوئے کہا۔۔۔

"بیٹے کو اپنے پاس بلانے کا بہانہ ہوگا آج کل ایسے بھی ان کا دل وہیں زیادہ لگ رہا ہے۔۔" 

مہوش نے بھی نخوت سے کہہ کر اپنے گلاس میں جوس انڈیلا۔۔۔

"مام رباب پلیز سٹاپ اٹ۔۔ بیمار ہیں وہ نجانے کیا ہوا ہے آپ لوگوں کو صرف اپنی فکر رہتی ہے۔۔" ارسل ان دونوں کو کہتا تیزی۔سے اٹھا اور وہ بھی ذکیہ بیگم کے پورشن کی طرف بڑھا۔۔۔

"دیکھا مام یہ نیا ہمدرد تیار ہوگیا ہے۔۔" رباب نے بائل ایگ لیتے ہوئے تمسخرانہ لہجے میں کہا۔۔۔

جب کہ مہوش اب تک اپنے بڑے بیٹے کے لہجے کے غم میں تھیں۔۔ کہ ان کا لاڈلا بیٹا ان کو کس طرح بول کر گیا۔۔۔

ان سب معاملے سے الگ فاضل مزے سے ناشتہ کرتا ساتھ ساتھ موبائل میں طھی مصروف تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

"کیا ہوا ہے دادو کو تایا آپ بتا کیوں نہیں رہے۔؟ شاید زندگی میں پہلی بار اس کی آواز اتنی بلند ہوئی تھی۔۔

وہ سب ہاسپیٹل میں تھے۔۔ ڈاکٹر نے دیکھتے ساتھ ہی۔ایکسپائیر قرار دے دیا تھا۔۔

شجیہ کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کی زندگی کا آخری سہارا بھی اب اس دنیا میں نہیں رہا۔۔۔

وہ دھاڑے مار کر رونا چاہتی تھی مگر وہ نہیں روسکی اور پھر جنازہ بھی اٹھ گیا لوگ اسے تسلّی دیتے رہے۔۔ مگر وہ ایک طرف کونے میں بیٹھی خاموش تماشائی بنی تھی۔۔ اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہیں ٹپکا۔۔۔

"بیٹا وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تمہاری۔دادو ہم۔سب کو اکیلا چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔۔" 

ظفر صاحب کو اس کی حالت دیکھ کر خوف آیا۔۔۔

اس نے ان کی بات پر اپنی خالی نظریں ان کی طرف اٹھائی۔۔۔

ظفر صاحب کا کلیجہ پھٹنے لگا اس کی حالت دیکھ کر۔۔۔

وہ۔شدید صدمے کے زیر اثر تھی جہاں۔رونا بہت ضروری تھا ورنہ یاداشت چلے جانے یا پاگل ہونے کے اثرات تھے۔۔۔

"انکل اس کا رونا بہت ضروری ہے۔۔" تین دن گزرنے کے بعد راہب نے اس کہ حالت دیکھتے ہوئے ان سے کہا۔ 

وہ اسے اپنے پاس لے آئے تھے اس وقت وہ لاؤنج میں سب کے ساتھ بیٹھی بھی الگ ہی لگ رہی تھی۔۔

راہب بھی آج وہیں تھا تو اسے اس طرح دیکھ کر اسے بہت دکھ ہوا۔۔

"بیٹا ہم نے ہر ممکن کوشش کر لی مگر اس کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آتا۔۔" 

ظفر صاحب پریشانی سے گویا ہوئے۔۔۔

"اگر آپ کہیں تو میں کوشش کروں؟ " راہب نے ان سے اجازت مانگی۔۔۔

"بلکل بیٹا تم بھی اپنی کوشش کرلو ہوسکتا ہے تمہیں کامیابی ملے۔۔۔" ظفر صاحب نے بخوشی کہا۔۔

مگر سامنے بیٹھی موبائل میں مصروف رباب کے منہ کے زاویے بگڑ گئے۔ 

مگر اس وقت ظفر صاحب کے سامنے شجیہ کے خلاف وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی اسی لئیے خاموش رہنا پڑا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

"دوسرے دن راہب پھر آیا تھا اور آج وہ شجیہ کے لئیے ہی خاص طور پر یہاں تھا۔۔۔

لان میں اکیلا بیٹھا دیکھ کر وہ وہیں آگیا۔۔

"گرینی بہت اچھی تھیں۔۔ تمہیں پتا ہے انہیں صرف تمہاری فکر رہتی تھی۔۔

لاسٹ ٹائم بھی انہوں نے مجھ سے صرف تمہارے بارے میں بات کی۔۔"

وہ جو خاموشی سے لاتعلق بیٹھی تھی اس کی بات پر سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔

"وہ صرف یہی چاہتی تھیں تم اس معاشرے میں سر اٹھا کر جیو لوگوں کا مقابلہ کرنا سیکھو پڑھو اتنا کہ خود کی پہچان بنا سکو۔۔"

راہب کو اس کے سر اٹھانے سے تقویت ملی تو وہ بات مکمل کر گیا۔۔۔

"میں اکیلے نہیں رہ سکتی میں دادو کے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔ مجھے راتوں میں ڈر لگتا ہے۔۔۔" 

ان۔تین دن میں اس نے پہلی بار کوئی بات کی تھی۔۔

ظفر صاحب بھی اسے دیکھ کر وہیں آگئے تھے اور اب شجیہ کے اس طرح بولنے پر وہ پر سکون ہوئے چلو اس کی خاموشی تو ٹوٹی۔۔۔

تھوڑی دیر میں وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی اور پھر دھاڑے مار کر رونے لگی شاید زندگی میں کبھی نہ روئی ہو۔۔۔

راہب کو اس وقت اس چھوٹی سی لڑکی پر بڑا ترس آیا۔۔۔

اسے رونے کے لئیے کسی کا کندھا بھی میسر نہیں تھا۔۔

ظفر صاحب ہی تھے وہ بھی ہر وقت آفس میں رہتے کون تھا جو اس کی سنتا۔۔۔

تھوڑی دیر میں وہ رو کر ہلکان ہوگئی تو ظفر صاحب نے اسے میڈیسن دے کر کمرے میں بھیج دیا۔۔ تھوڑی دیر میں وہ نیند کی وادی میں چلی گئی۔۔۔

آج راہب واپسی پر صرف شجیہ کو سوچ رہا تھا۔۔ وہ ایک رحم دل انسان تھا اس کے لئیے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کو تڑپتا اور سسکتا دیکھنا بہت مشکل تھا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

"تم شجیہ کو کچھ زیادہ سیریس نہیں لے رہے۔۔"

آج راہب اسے کچھ کتابیں دینے آیا تو رباب نے اس پر طنز کے نشتر چلائے۔۔۔

"ہاں ویسے یہ کام تم لوگوں کا تھا وہ تمہاری کزن ہے مگر جب اپنے رشتے بے حس ہوجائیں تو دوسروں کو آگے بڑھنا ہوتا ہے اللّہ جس کو مدد کے قابل سمجھے۔۔۔"

راہب نے لاپروائی سے کہتے ہوئے واپسی کی راہ لی۔۔۔

رباب کو یہ بات مرچی کی طرح لگی وہ جی جان سے جل گئی۔۔۔

"تم یہ جتانا چاہتے ہو کہ ہم۔اس کا خیال نہیں رکھتے تم بہت بڑے ہمدرد ہو اس کے۔۔۔"

وہ اس کے راستے میں آئی۔۔۔

"یہ تم خود کہہ رہی ہو میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔۔۔

اور پلیز میرا ٹائم ویسٹ مت کرو مجھے اور بھی بہت کام ہے۔۔۔" ماتھے سے آگے آئے بال کو وہ جھٹکتا دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے لاپروائی سے آگے بڑھ گیا۔۔۔

رباب جل کر خاک ہوگئی شجیہ کی نفرت اس کے دل میں کئی گناہ اضافہ کر گئی۔۔۔

راہب اب ظفر صاحب کے کہنے پر اسے ٹیوشن دینے آرہا تھا کیونکہ ایک وہی تھا جس کی بات وہ سمجھ بھی جاتی تھی۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

ذکیہ بیگم کی وفات کو ایک مہینہ ہوچکا تھا۔۔۔

شجیہ کی زندگی مزید اس پر تنگ ہوگئی تھی۔۔

راہب کے بڑھتی ہوئی ہمدردی اس کے لئیے مصیبت بن رہی تھی۔۔

رباب اور مہوش اس کے اوپر طنز کے نشتر چلاتے پھر پڑھائی کے وقت اسے مختلف کاموں میں لگا کر وہ ایک طرح سے اپنی جلن کا بدلہ نکال رہی تھیں۔۔ 

اور یہ سب ظفر صاحب کی غیر موجودگی میں ہوتا۔۔۔

دوسری طرف فاضل نے اس کی زندگی کو عذاب بنادیا تھا۔۔

ویسے وہ دیر سے رات کو گھر آتا شجیہ کی کوشش ہوتی وہ بہت کم اس کے سامنے آئے۔۔

اور اگر شجیہ نظر آجاتی تو وہ اپنی کمینگی دکھانا نہیں بھولتا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

آج راہب کے گھر والوں کو ڈیٹ فکس کے لئیے گھر آنا تھا۔۔

مہوش نے صبح سے ہی۔شجیہ کو مختلف کاموں میں لگایا ہوا تھا اور وہ خاموشی سے کام میں جتی تھی۔۔

صبح کالج کی بھی چھٹی ہوگئی تھی۔۔۔

ان لوگوں کا خیال تھا کہ راہب آج اسے پڑھانے نہیں آئے گا۔۔ وہ رات میں ہی سب کے ساتھ ڈنر کے لئیے آئے گا۔۔

بلکہ رباب نے اسے کال کر کے منع بھی کردیا تھا۔اس کے باوجود وہ شام میں حاضر تھا۔۔

جسے دیکھ کر مہوش اور رباب گڑبڑا گئیں۔۔

"ارے تمہیں تو منع کیا تھا آج۔۔ کیا ضرورت ہے بیٹا اس لڑکی کے لئیے خود کو تھکانے کی۔۔

وہ تو کالج بھی نہیں گئی کب سے سورہی ہے۔۔" 

مہوش نے راہب سے جھوٹ کہا۔۔

"کیا کالج نہیں گئی؟" مگر آج تو اس کا اہم ٹیسٹ تھا۔۔۔" راہب پریشان ہوا اور غصّہ بھی آیا۔۔

مہوش دل میں گھبرائیں اگر اسے سچ پتا چل گیا تو۔۔

ہاں۔دیکھو سب اس کا خیال رکھ رہے مگر اسے ہی اپنا کوئی خیال نہیں۔۔"

مہوش نے بات بنائی جب کہ رباب پارلر گئ ہوئی تھی تا کہ مزید فریش نظر آسکے۔۔۔

وہ ابھی جانے کا سوچ ہی رہا تھا اہک فلگ شگاف چیخ سے دونوں ہل گئے۔۔

راہب چونکا یہ تو شجیہ کی آواز ہے۔۔

"بی بی جی وہ۔شجیہ بی بی کا ہاتھ جل گیا ہے۔۔"

اس سے پہلے راہب کچھ سمجھتا نوری نے آکر اطلاع۔دی۔۔

راہب بغیر کچھ سنے کچن کی طرف گیا جہاں شجیہ اپنا ہاتھ لئیے تکلیف سے تڑپ رہی تھی۔۔

راہب کا دماغ گھوم گیا۔

"آپ لوگوں

 اس سے پین الٹ گیا تھا اور اس کے ہاتھ پر گرم آئل گر گیا تھا۔۔ 

ہاتھ بری طرح جھلس گیا تھا وہ اسے بر وقت ہاسپیٹل لے کر گیا۔۔۔

جب کہ مہوش کا سوچ سوچ کر ہی برا حال تھا کہ ظفر کو پتا چلے گا تو کیا ہوگا۔۔۔

❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

وہ ہاسپیٹل سے واپس پہنچا تو ظفر صاحب بھی اس کے ساتھ تھے راہب نے ان کو کال پر اطلاع دی تو وہ وہیں چلے گئے۔۔۔ 

وہ لوگ پہنچے تو احمد اور لائبہ بھی یہاں موجود تھیں۔۔

"ڈیڈ میں ایسی جگہ  رشتہ نہیں جوڑ سکتا جہاں انسانیت کی اہمیت نہ ہو۔۔"

اس کے دو ٹوک فیصلے سے سب حیران اور پریشان ہوگئے۔۔۔

تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو بر خوردار۔۔" احمد لاشاری غصّے سے کھڑے ہوگئے۔۔۔

"ڈیڈ میں جانتا ہوں میں کیا کہہ رہا ہوں اور یہ مجھے بہت پہلے کر لینا چاہئیے تھا۔۔۔

"یہ کوئی وجہ نہیں ہے راہب وہ لڑکی ان کا پرسنل میٹر ہے تمہیں خدمت خلق کرنے کا شوق ہے کرو مگر میرے فیصلے سے انکار کا حق تمہیں نہیں ہے۔۔"

احمد صاحب شدید غصّے کے عالم میں بول رہے تھے۔۔۔ 

ظفر صاحب خاموش بیٹھے تھے وہ جو شجیہ کا حال دیکھ کر آئے تھے۔ان کے اندر ہمت باقی نہیں تھی کہ وہ کچھ بھی بول سکیں۔۔

ایک طرف بیٹی تو ایک طرف بھتیجی تھی۔۔۔

راہب ابھی کچھ تماشہ نہیں چاہتا تھا اسی لئیے خاموشی سے وہاں سے نکل گیا۔۔۔

لائبہ اور احمد بھی زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکے تھوڑی دیر میں وہ بھی چلے گئے۔۔ اس کی تاریخ پکی ہونی تھی کچھ بھی نہیں ہوسکا۔۔۔

وہ اپنے کمرے میں جا کر بند ہوگئی۔۔

ظفر صاحب لائبریری میں چلے گئے انہوں نے مہوش سے کوئی بات نہیں کی جب کہ مہوش سر پکڑ کر رہ گئیں۔۔۔

شجیہ ان کی بیٹی کی خوشیوں کے پیچھے پڑی تھی

جاری ہے                           

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Pagal  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Pagal  written by Miral Shah  . Ishq Mian Pagal  by Miral Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages