Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 18 to 19 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 18 January 2023

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 18 to 19

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 18 to 19 

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories 

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Itni Muhabbat Karo Na By Zeenia Sharjeel Episode 18'19

Novel Name:Itni Muhabbat Karo Na 

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

بلال اور فضا اپنے ماموں کے گھر پہنچے آج رات وہ لوگ وہاں کھانے پر مدعو تھے۔۔۔ سب ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے مگر فضا نے نوٹ کیا سلوا (ماموں کی بیٹی) بلال سے ہی باتوں میں لگی ہوئی تھی اور کافی چہک چہک کر باتیں کر رہی تھی فضا کو آج سلوا پہلے سے زیادہ زہر لگی، وہ ہمیشہ سے ہی بلال سے ایسے فری ہونے کی کوشش کرتی تھی۔۔۔۔ یہ الگ بات تھی کہ بلال اس کو لفٹ نہیں کرواتا تھا مگر آج فضا کو جس بات پر غصہ آرہا تھا وہ یہ کہ بلال نا صرف سلوا کی باتوں کا جواب دے رہا تھا بلکہ مسکرا مسکرا کر خود بھی باتیں کر رہا تھا 

"کس بات پر تھوبڑا بنا ہوا ہے تمہارا کسی کے گھر آئی ہو تو اپنے چہرے کے زاویے تو ٹھیک رکھو کم سے کم اسمائیل ہی دے دو "

بلال نے فضا کا پھولا ہوا منہ  دیکھتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں کہا

"کس بات پر اسمائل دو میں۔۔۔ کوئی کامیڈی شو چل رہا ہے یہاں پر۔۔۔اور تمہارے چہرے پر کیوں بار بار مسکراہٹ آ رہی ہے کون سی خوشیاں ملی ہیں تمہیں یہاں آکر۔ ۔۔۔  اپنی یہ بتی سی اندر رکھو"

فضا جو کافی دیر سے بھری بیٹھی تھی بلال کے بولنے پر آئستہ آواز میں پھٹ پڑی اور بلال فضا کو گھورتا رہ گیا 

کھانے کا دور چلا تب بھی سلوا ایک ایک ڈش اٹھا کر بلال کو دینے لگی، پھر فضا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا 

"سلوا تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ بلال کو جو بھی کچھ چائیے ہوگا اسے وہ میں دے دوں گی اور اس کی پسند ناپسند کو میں اچھی طرح جانتی ہوں تم آرام سے اپنا کھانا کھاؤ" 

فضا مسکراتے ہوئے مگر جتانے والے انداز میں سلوا کو دیکھتے ہوئے بولی اور سلوا کی بڑھائی ہوئی شامی کباب کی پلیٹ دوسری سائیڈ پر رکھ کر بلال کی پلیٹ دوسری چیزوں سے بھرنے لگی 

"مگر مجھے تو شامی کباب کھانے تھے" 

بلال ہلکی سے آواز میں منمنایا

"چپ کر کے جو پلیٹ میں بھرا ہے وہ کھاؤ"

وہ ٹیبل کے نیچے اپنا سینڈل والا پاؤں بلال کے پاؤں پر زور سے مارتے ہوئے بولی 

بلال نے نظر اٹھا کر سلوا کی دیکھا جس کے تاثرات ایسے تھے کہ وہ ابھی فضا کو کچا چبا جائے گی مگر مجبوری میں صرف مسکرا رہی تھی۔ ۔۔۔  بلال اپنی پلیٹ کی طرف جھگ گیا 

****

"کیا ہوا آج کھانے میں ممانی نے اتنی بھی مرچے نہیں ڈالی تھی جتنی تمہیں لگ گئی تھی"

بیڈروم میں آتے ہی بلال اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے فضا سے بولا  

"کیا کہا تم نے مجھے مرچے لگی تھی۔۔۔۔ بلال مسعود فضا مرچیں لگانے والوں میں سے ہے"

فضا نے بلال کو گھور کر دیکھا

"بجلیاں گرانا، مرچیں لگانا ماشاءاللہ سے ساری کوالٹیز ہیں میری بیگم میں" 

بلال نے پر شوخ نظروں سے فضا کو دیکھتے ہوئے کہا

"فی الحال تو میرا آگ لگانے کو دل چاہ رہا تھا اس سلوا کی بچی کو۔۔۔۔ کس خوشی میں تم ایسے مسکرا مسکرا کر اس چڑیل سے باتیں کیے جا رہے تھے"

فضا باقاعدہ کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑنے والے انداز میں بلال سے پوچھنے لگی

"کسی کے گھر گئے تھے یار اب تمہاری طرح منہ بنا کر تو بیٹھنے سے رہا اور سلوا بیچاری وہ تو اداب میزبانی نبھا رہی تھی"

بلال کو فضا کا اس طرح جلنا، بہت مزہ دے رہا تھا

"سلوا اور بیچاری، ایک نمبر کی چھچوری ہے وہ اس کا تو بس نہیں چل رہا تھا وہ کھانے کے ڈش بڑھانے کی بجائے تمہیں اپنے ہاتھوں سے کھلانا شروع کر دے" 

فضا نے جل کر کہا 

"اچھا تو اتنی دیر سے تم یہ سوچ سوچ کر جل رہی ہوں"

بلال نے فضا کو اپنے قریب کرتے ہوئے کہا

"میں تو اپنی جوتی کو بھی نہ جلنے دو اس چڑیل سے اور تمہیں بھی زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے دور ہٹو"

فضا بری طرح تپ چکی تھی اس نے بلال کو خود سے دور کرتے ہوئےکہا اور اپنی چادر اور تکیہ لے کر صوفے کے چلے گی

****

 "شاہ"

حور نے حیرت سے پوری آنکھیں کھول کر زین کو پکارا اور زین وہی اپنی آنکھوں میں مخصوص چمک لئے ہوئے مسکرا کر حور کے حیرت زدہ فیس ایکسپریشن انجوائے کررہا تھا 

"پری کا شاہ"

حور کو نرمی سے بانہوں میں لیتے ہوئے کہنے لگا

"تم شاہ ہوں شازین۔۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا میں کیوں نہیں پہچانی تمہیں اف۔۔۔۔۔ تم پہچانتے تھے نا مجھے پہلے سے جانتے تھے نا؟؟ پھر تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔۔   میں تمہیں آج تک کتنا فضول انسان سمجھتی رہی لیکن تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ فضول نکلے"

حور زین کی بانہوں میں نان اسٹاپ بولنا شروع ہوچکی تھی مگر آخری بات پر الگ ہوتے اس نے ہلکا سا مکہ زین کے سینے پر مارا۔۔۔۔ جس پر کمرہ، زین کی قہقے سے گونج اٹھا 

"میں نے تو آج یہ بات تمہاری برتھ ڈے  پر یہ سوچ کر بتائی تھی تم بدلے میں مجھے ڈھیر سارا پیار کروں گی مگر تم تو تشدد پر اتر آئی ہوں میری ظالم پری"

زین اپنا سینہ سہلاتے ہوئے بولا 

"پیار چاہیے تمہیں۔۔۔ میں تمہیں ڈھیر سارا پیار کروں گی تم یہ سوچ رہے تھے۔۔۔اب تک مجھے اتنا ڈھیر سارا پریشان کیا۔۔۔ مجھ پر ڈھیر سارا غصہ کیا اور تمہیں مجھ سے پیار چاہیے یہ توقع کر رہے تھے تم"

حور بیڈ پر پڑا ہوا تکیہ اٹھا کر زین کو مارنے لگی، جسے  زین نے پکڑ لیا اور واپس تکیہ بیڈ پر رکھتے ہوئے حور کو اس پر لیٹایا اور اس پر جھکتے ہوئے کہنے لگا 

"اور جو ڈھیر سارا پیار کیا ہے اس کا کیا"

زین کے سنجیدگی سے پوچھنے پر حور کی پلکیں ایک دم جھکی اور لب مسکرائے۔۔۔ یہ چہرہ زین کی نظر میں اس دنیا کا سب سے حسین چہرہ تھا 

"مجھے ایک بات ہمیشہ کنفیوز کرتی ہے تم واقعی حسین ہو یا صرف شاہ زین کو ہی اتنی حسین لگتی ہو"

وہ حور کی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے حور سے پوچھ رہا تھا

"مجھے پتا ہی نہیں چلا تم کب سے میرے لئے اور اس دل کے لئے اتنی ضروری ہوگی۔۔ جب تم سے جدا ہوا تو ایسا کوئی بھی دن نہیں گزرا جب میں نے تمہیں یاد نہ کیا ہو۔۔۔ بابا کی ڈیتھ کے بعد میرا اور اماں کا آزمائش کا دور شروع ہو گیا، ہم دونوں نے بہت مشکل وقت دیکھا۔۔۔  مگر اپنی پریشانیوں میں الجھ کر بھی ایسا کوئی دن نہیں گزرا جب میں نے تمہیں یاد نہ کیا ہو اور جب اسپتال میں تمہیں اپنے سامنے دیکھا تو ایک لمحے کو تو مجھے یقین نہیں آیا کہ تم میرے سامنے کھڑی ہو میں اس وقت بری طرح شاک کی کیفیت میں تھا مجھے یقین نہیں آیا کی دعائیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں۔ ۔۔ مگر پھر خضر تمہارا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے لے گیا، تو میرے اندر بہت کچھ ٹوٹ سا گیا۔۔۔ تم نے مجھے کیوں نہیں پہچانا میرا انتظار کیوں نہیں کیا میں نے کہا تھا نا میرا انتظار کرنا"

زین حور کے ہونٹ کے نیچے تل کو انگوٹھی سے سہلاتے ہوئے اس سے شکوہ کر رہا تھا 

اور حور کیا بولتی وہ تو یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی  اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا زین اس کا شوہر شاہ ہوسکتا ہے اس کے بچپن کا دوست اور اس سے آج اس طرح اپنے محبت کا اقرار کرے گا یہ احساس ہی اسکے لیے نیا اور بہت خوشگوار تھا 

"اور فائنلی اس دیو نے اپنی پری کو قید کر لیا کبھی نہ آزاد کرنے کیلئے" سنجیدگی سے بات کرتے ہوئے آخر میں زین نے شوخ لہجے میں کہاں جس پر حور بھی مسکرا دی

"اور اب اس پری کو بھی اس دیو سے اور اس کے قید خانے دے محبت ہوگئی ہے وہ خود بھی کبھی آزاد نہیں ہونا چاہے گی"

حور نے بہت آہستہ سے کہا۔۔۔ جس پر زین نے سرشاری سے مسکراتے ہوئے ہلکے سے اس کے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکرایا

"آئی لو یو پری" 

وہ حور کی گردن پر جھگتا ہوا بول رہا تھا 

حور زین کی پناہوں میں اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کر رہی تھی اس رات کافی دیر تک انہوں نے ڈھیر ساری اپنے بچپن کی باتیں کی اور اس طرح ایک خوبصورت رات کا اختتام ہوا 

*****

"اٹھ جاو سویٹ ہارٹ صبح ہو گئی ہے کب کی" 

زین نے حور کے اوپر سے بلینکیٹ کھینچتے ہوئے کہا 

"شاہ سونے دو پلیز بلکہ ایسا کرو تم بھی سو جاؤ"

حور ابھی تک نیند میں تھی اور نیند میں ہی اس کو بھی مشورہ دیا۔۔۔ زین سے شاہ تک کا سفر اس نے کل رات کو ہی طے کر لیا تھا

"میں آفس جانے کے لئے تیار ہو چکا ہو تم یہ بتاؤ تم اٹھ کر ناشتہ کر رہی ہوں یا نہیں"

زین کا لہجہ نرم تھا لیکن انداز وان کرنے والا تھا حور نے آنکھیں کھولیں 

"شاہ تم اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہو مجھے نیند آ رہی ہے"

حور نے بیچارگی سے دیکھتے ہوئے کہا 

"یہ ڈائیلاگز بعد میں بولنا، جلدی سے ناشتے کے لیے ٹیبل پر آؤ پھر میڈیسن بھی لینی ہے تمہیں"

وہ ہاتھ میں گھڑی پہنتے ہوئے مصروف انداز میں کہہ رہا تھا 

کیئرنگ تو وہ اس کے لئے پہلے بھی تھا مگر پریگنینسی کا سن کر وہ مزید بچوں کی طرح اس کی کئیر کرنے لگا تھا۔۔ ناچار حور کو منہ بناتے ہوئے اٹھنا پڑا 

"میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ ہم بلال اور فضا وہ اپنے گھر پر ڈنر کے لئے انوائٹ کرلیں کھانہ باہر سے ارڈر کر لیں گے کیا خیال ہے تمہارا"

زین نے چائے کا سپ لیتے ہوئے حور سے مشورہ لینا چاہا۔۔ ۔۔

 حور ناشتہ کرتے ہوئے مسلسل یہی سوچے جارہی تھی خضر کو کیسے منع کرے یا پھر زین کو بتانا ٹھیک رہے گا خضر کے بارے میں۔۔۔۔ مگر پھر وہی مسئلہ زین کیا ری ایکٹ کرے جو بھی تھا وہ اب بھی زین کے غصے سے ڈرتی تھی

"شاہ کو بتانے سے بہتر ہے کہ میں خضر بھائی کو خود ہی فون کرکے منع کر دوں"

"Knock knock

کہاں گم ہو سویٹ ہارٹ"

زین نے حور کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا

"ہاں۔۔۔۔ ہاں صحیح کہہ رہے ہو ایسے ہی کر لیتے ہیں"

حور نے غائب دماغی میں جواب دیا 

"ٹھیک ہے پھر میں نکلتا ہوں آفس، لیٹ ہو گیا ہوں آج، تم میڈیسن لے لینا یاد سے۔ ۔۔ خیال رکھنا اپنا" 

وہ چائے کا کپ رکھ کر اٹھ کر جانے لگا

"شاہ" 

حور نے زین کو پکارا 

"ہاں بولو"

زین واپس پلٹا

"تم مجھ سے پیار کرتے ہو"

 حور کو خود سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے زین سے پوچھا ہے یا اسے بتایا ہے

"کیا بالکل ابھی ابھی ثبوت چاہیے" وہ شرارت سے بولا

"نہیں آفس جاؤ تم لیٹ ہو رہے ہو"

حور اس کی آنکھوں سے چھلکتی شرارت دیکھ کر بولی 

"اوکے خیال رکھنا اپنا بھی اور اس کا بھی"

حور کے ماتھے پر وہ اپنے لب پر رکھ کر 

______

وہ تینوں آفس کے کیفیٹیریا میں بیٹھے ہوئے کافی پی رہے تھے بلال نے اس دن کے بعد سے اس موضوع پر زین یا اشعر سے کوئی بات نہیں کی تھی بلکہ آفس کے کام کے علاوہ وہ ان دونوں سے کوئی خاص بات نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔  ابھی بھی ان تینوں کے درمیان خاموشی تھی جسے اشعر کی آواز نے توڑا 

"اس دن جو بھی کچھ میں نے اور زین نے کیا وہ تمہارا سوچ کر کیا تھا، تمہیں خوش دیکھنے  کے لئے۔۔۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کہ تم فضا بھابھی سے اتنی محبت تو کرتے ہو کہ اگر کبھی تمہیں اس حقیقت کا پتہ بھی چلا کہ ذیشان کو ہمارے کہنے پر فیصل نے اٹھایا ہے, تم اس بات کو realize  کرو گے ہم نے تمہاری خوشی کی خاطر اپنی دوستی نبھائی مگر اب مجھے لگتا ہے کہ ہم نے واقعی غلط کیا"

اعشر نے سنجیدگی سے بلال سے کہا 

"کر لی تم نے بکواس یا اور بھی کچھ کہنا ہے ابھی"

بلال نے بھی اسی کی طرح سنجیدگی سے اشعر سے پوچھا

"ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے وہ، اب مجھے بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے نہیں اٹھانا چاہیے تو اس بیچارے ذیشان کو"

زین نے بھی اشعر کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا

"مجھے لگ رہا ہے کہ آج تم دونوں کا میرے ہاتھوں سے پٹنے کا دل چاہ رہا ہے جو فضول میں بکواس کیے جارہے ہو"

بلال نے اب زین کو دیکھتے ہوئے کہا 

"او بھائی تو پھر صاف بتا کب تک یہ روٹھی ہوئی حسیناؤں کی طرح منہ لٹکا کر رہنے کا ارادہ ہے۔۔۔۔۔ یہاں کوئی منانے ونانے والا چکر نہیں ہے خود ہی انسان بن جا"

اشعر نے ساری اخلاقیات ایک طرف کرتے ہوئے بلال کو اصلیت دکھانے میں دیر نہیں کی جس پر بلال اشعر کو گھورتا رہ گیا جبکہ زین کی باقاعدہ ہنسی چھوٹ گئی

"قسم سے دو دن سے یہ جتنے نخرے دکھا رہا ہے اتنے نخرے تو میں اپنی بیوی کے برداشت نہ کرو"

غلط وقت پر اشعر کی زبان پھسلی جسے وہ دانتوں تلے دبا گیا

"فضول میں نہ ہانکہ کرو اپنی، کوئی ناراض وراض نہیں ہوں میں تم دونوں سے اور نہ ہی کبھی ہو سکتا ہوں۔۔۔ بائے داوے یہ بیوی تمہیں آج کیسے یاد آ گئی جو ابھی تک تمہاری زندگی میں میری اطلاع کے مطابق آئی تو نہیں ہے"

بلال نے اشعر کو دیکھتے ہوئے کہا

"بالکل بلال میں بھی یہی بات پوچھنے والا تھا اچھا سوال کیا ہے۔۔۔۔ بیوی کا یہاں کیا ذکر؟؟ بے سبب تو ایسے کوئی ذکر بھی نہیں کرتا یقینا دال میں کچھ کالا ہے" 

زین نے بھرپور اداکاری کرتے ہوئے بلال سے کہا

جس پر اشعر کا دل چاہا کہ ایک زوردار مکہ وہ زین کے منہ سے جڑ دے 

"ارے یار غلطی ہوگئی معاف کر دو ایسی کوئی بات نہیں چھوڑو اس ٹاپک کو چلو واپس۔۔۔ کچھ  ضروری پوائنٹ ڈسکس کرنے ہیں کل کے پروجیکٹ کے لئے"

اشعر نے جلدی سے بات گمانی چاہی

"ہاں مگر تمہاری زندگی سے امپورٹنٹ تو پروجیکٹ نہیں ہے ہمارا۔۔۔۔ اس کو چھوڑو مجھے اور بلال کو یہ بتاؤ کہ اکیلے میں کسے خیالوں میں سوچ کر مسکریا جاتا ہے" 

زین اسے آج کہاں ایسے بخشنے والا تھا۔۔۔ اس نے بھرپور خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشعر کی ٹانگ کھینچی

"یار یہ دیکھ رہا ہے آج دوسری بار تیرے آگے ہاتھ جوڑے ہیں میرے بھائی، مجھ سے آج تک جو غلطیاں ہوئی ہیں مجھے معاف کر دے پلیز"

اشعر نے دونوں ہاتھ زین کے آگے جوڑتے ہوئے بیچارگی سے کہا

"چلو ابھی نہ سہی پھر کبھی سہی، معاف کیا آج تو"

زین نے مسکراتے ہوئے کہا 

اشعر لمبا سانس کھینچ کر ریلیکس ہوا اور گھور کر اپنے سامنے بیٹھے ہوئے اس خطرناک آدمی کو دیکھا جو ابھی بھی اشعر کو دیکھتے ہوئے مسکرائے جا رہا تھا۔۔۔ جبکہ بلال ان دونوں کی گفتگو کو مذاق سمجھتے ہوئے کافی پینے میں مصروف تھا۔ ۔۔ میسج ٹون بجنے پر زین نے ٹیبل پر پڑا ہوا سیل فون اٹھایا اور میسج دیکھنے لگا  

****

حور نے بہت سوچتے ہوئے خضر سے نہ ملنے کا فیصلہ کیا اور خضر کو فون کر کے منع کرنے کا سوچا 

"ہیلو خضر بھائی"

کال ریسیو ہوتے ہی حور نے کہا

"ہاں بولو حور پھر تم نہیں آ رہی ہو کیا"

خضر نے چھوٹتے ہی  حور سے سوال کیا 

"مطلب"

حور گڑبڑا گئی کہ خضر کو کیسے پتہ چلا اس نے پروگرام کینسل کرنے کے لیے کال کی ہے

"مطلب صاف ہے حور تمہارے اس کنزرویٹیو شوہر نے منع کردیا ہوگا۔۔۔ میں خوب جانتا ہوں ایسے انسانوں کی منٹیلٹی کو" 

"نہیں میں نے یہ بتانے کے لئے آپ کو کال کی تھی کہ میں سہی پانچ بجے آپ کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ جاؤ گی" 

حور نے خضر کی بات سن کر اس کو جواب دیا

"ٹھیک ہے پھر میں پانچ بجے تمہارا ویٹ کرونگا"

خضر کال ڈسکنیکٹ کر کے مسکرانے لگا

حور خضر کے بتائے ہوئے ریسٹورینٹ میں صحیح وقت پر پہنچ گئی مگر اب گھر سے نکلنے کے بعد اس کو گلٹ فیل ہو رہا تھا شاید اس نے ٹھیک نہیں کیا مگر اس نے سوچا آج وہ خضر بھائی سے دو ٹوک بات کریں گی۔۔۔۔ کہ وہ اپنی زندگی میں خوش ہے اور اسے اپنی زندگی جینے دیں

"حور میں یہاں ہوں"

وہ اپنی سوچوں میں مگن تھی، خضر کی آواز پر مڑی

"کیسے ہیں آپ"

حور نے سنجیدگی سے پوچھا مسکراہٹ یا خوشی کی اس کے چہرے پر رمق بھی نہیں تھی۔۔۔۔ یہ چیز خضر نے نوٹ کی

"میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو آؤ بیٹھو"

خضر نے خیریت پوچھنے کے ساتھ ہی چیئر پر بیٹھنے کا اشارہ بھی کیا 

"میں یہاں پر بیٹھنے نہیں آئی ہوں خضر بھائی میں صرف آپ کو یہ بتانے آئی ہو"

"حور پلیز بیٹھو آرام سے بات کرتے ہیں نا" 

حور کی بات مکمل ہونے سے پہلے خضر نے حور کو اپنی مخصوص نرم لہجے میں کہا جیسے وہ ہمیشہ حور سے بات کیا کرتا تھا ناچار ہی سہی حور کو بیٹھنا پڑا 

"ویک لگ رہی ہو طبیعت ٹھیک ہے تمہاری"

خضر نے حور کو دیکھتے ہوئے پوچھا

"ایسے ہی نظر کا دھوکا ہوا ہوگا آپ کو، میں بالکل ٹھیک ہو۔۔۔ طبیعت بھی ٹھیک ہے میری" 

حور بس وہاں سے جلدی جانا چاہتی تھی اس کو گھبراہٹ شروع ہوگئی

"میری نظر تمہارے معاملے میں کبھی دھوکا نہیں کھا سکتی۔۔۔ خیر تم کہہ رہی ہو تو ٹھیک کہہ رہی ہو گی"

خضر نے اس کو جتایا 

"آپ نے مجھے اس طرح کیوں بلایا ہے خضر بھائی"

حور جلدی سے کام کی بات کرکے وہاں سے نکلنا چاہتی تھی

خضر نے اس کو جواب دینے کے بجائے ویٹر کو اشارہ کیا جو کہ ریڈ فلور کا ایک خوبصورت بوکے اور ایک کیک لے کر آیا 

"ہیپی برتھ ڈے حور"

خضر مسکرا کر بولا تو حور کو اپنے ایٹی ٹیوڈ پر افسوس ہونے لگا۔۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے چھائی ہوئی بیزاری کہیں غائب ہو گئی وہ اس کا کزن تھا جو ہر سال اس کا برتھ ڈے یاد رکھتا تھا،ہمیشہ اس کے کام آتا تھا اور اس کا خیال رکھتا تھا۔۔۔۔ آج وہ کیسے اپنی زندگی میں مگن ہو کر اس سے بے رخی برت رہی تھی اسے مزید شرمندگی نے آ گھیرا

"آپ کو آج میرا برتھ ڈے یاد تھا" اس نے مسکرا کر خضر سے پوچھا 

"اس سے پہلے کیا کبھی بھولا ہوں" 

خضر نے نائف حور کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔  حور نے کیک کاٹا خضر نے ایک چھوٹا سا ٹکڑا حور کو کھلانے کے لئے آگے بڑھایا، حور نے جھجکتے ہوئے منہ کھولا ہی تھا۔۔۔ آنے والے نے زور سے خضر کا ہاتھ جھٹکا کیک کا ٹکڑا اچھلتا ہوا دور جا گرا۔۔۔۔۔اس سے پہلے حور دیکھتی ایک زوردار چانٹا حور کے منہ پر پڑا، جس سے حور کا دماغ گھوم گیا دھندلاہٹ آنکھوں سے کم ہوئی۔۔۔ تو سامنے والے کا چہرہ واضح ہوا جسے دیکھ کر اس کو سانپ سونگھ گیا۔۔۔۔ زین آنکھوں میں  بےیقینی لیے حور کو غصہ میں گھور رہا تھا 

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس پر ہاتھ اٹھانے کی" 

اس سے پہلے خضر زین کی طرف بڑھتا۔۔۔۔ زین نے خضر کا گریبان پکڑ کر زور دار مکہ خضر کے منہ پر جڑدیا

سارے لوگ تماشا دیکھنے میں مصروف تھے ویٹرز قریب آئے مگر زین کے تیور دیکھ کر وہی رک گئے

"یہ تمہارے لئے میری آخری وارننگ ہے میری بیوی سے دور رہنا تم"

زین شہادت کی انگلی اٹھائے خضر کو وان کرتا ہوا حور کی طرف مڑا غصے سے اس کو دیکھا اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے تیز قدم آگے بڑھانے لگا اور حور کسی پتھر کے مجسمے کی طرح اس کے ساتھ چلنے لگی..

زین نے گاڑی کا دروازہ کھول کر حور کو پٹخنے کے انداز میں اندر پھینکا اور ڈرائیونگ سیٹ پر آکر کار ڈرائیو کرنے لگا ۔۔۔۔ پندرہ منٹ کا راستہ پانچ منٹ میں طے کر کے وہ اپارٹمنٹ میں پہنچا، دوبارہ حور کا ہاتھ کھینچ کر اسے گاڑی سے باہر نکالا، ہاتھ کی گرفت میں سختی اس قدر تھی کہ حور کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے ہاتھ کی ہڈی ہی نہ ٹوٹ جائے مگر وہ بناء اف کیے ہوئے اس کے ساتھ چلتی چلی جا رہی تھی، خوف کے مارے اس کی زبان تالو سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔۔ بیڈ روم میں لاکر بےدردی سے حور کو بیڈ پر پھینکنے کے انداز میں بٹھایا،، حور کا چہرہ لٹھے کی ماند سفید ہو چکا تھا سارے جسم کا خون خشک ہوچکا تھا 

"کیا بکواس کی تھی میں نے اس دن تم سے۔۔۔ کہ مجھے جھوٹ اور دھوکہ پسند نہیں ہے بولا تھا کہ نہیں"

زین اس پر جھگتا ہوا اس کا منہ پکڑے ہوئے حور سے پوچھ رہا تھا زین کی انگلیاں حور کے گالوں میں بری طرح گھڑ رہی تھی

"جواب دو"

زین بری طرح دھاڑا اس کی آواز پورے فلیٹ میں گھونجی حور وہ کو اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے 

"بولا تھا"

حور نے کانپتی ہوئی آواز نے جواب دیا 

"تو کیسے دیا تم نے مجھے دھوکا۔۔۔ کیوں گئیں اس سے ملنے"

زین نے حور کا منہ جھٹکے سے چھوڑا تو وہ بیڈ پر لیٹنے کے انداز میں گری۔۔۔ درد اور خوف سے حور کی آنکھیں ایک لمحے کے لیے بند ہوئی، مگر جو آنکھیں کھلیں تو حیرت سے وہی ساکت رہ گئیں۔۔۔ زین کے ہاتھ میں اسکا بیلٹ تھا، آگے کی سوچ سے حور بری طرح کانپ گئی جیسے ہی زین نے بیلٹ والا ہاتھ اٹھایا 

"شاہ پلیز نہیں"

حور آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے زور زور سے رونے لگی

زین کا بیلٹ والا ہاتھ وہی ہوا میں رک گیا۔ ۔۔وہ ابھی بھی لب بیچے ہوئے حور وہ زور زور سے روتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔ زین نے غصے میں بیلٹ کھینچ کر دیوار پر دے ماری،، حور اس سے بھی بری طرح ڈر گئی۔۔۔ وہ لال انگارہ ہوتی آنکھوں سے حور کو گھورتے ہوئے کمرے سے باہر دروازہ بند کر کے چلا گیا، دروازہ بند کرنے کی آواز سے پورے گھر کے در و دیوار کانپ گئے اور حور بھی۔۔۔۔ حور اوندھے منہ ہو کر زور زور سے رونے لگی

****

 "آآآآآ"

جب تک تانیہ بھاگتے ہوئے کہ کچن میں پہنچی فضا زمین بوس ہو چکی تھی

"یہ کیا کر رہی تھی تم اوپر چڑھ کے بے وقوف خاتون یہ اسٹول تو پہلے ہی سے ماشاءاللہ ہے اوپر سے تم اس پر چڑھ گئی"

تانیہ نے فضا کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا 

"تانیہ میں گری ہوئی ہو تم مجھے اٹھانے کے بجائے باتیں سنا رہی ہو۔۔۔ اللہ جی درد ہو رہا ہے مجھے"

تکلیف کے آثار اسکے چہرے پر نمایاں تھے  تانیہ نے اسے سہارا دیتے ہوئے اٹھانا چاہا

"آہ" 

پاوں پر زور پڑتے ہی فضا کی دوبارہ چیخ نکل گئی 

"شاید پاؤں میں موچ آ گئی ہے بہت درد ہو رہا ہے"

جیسے تیسے تانیہ فضا کو کمرے میں لے کر آئی اور خود بھی ہانپ گئی

تھوڑی دیر بعد بلال آفس سے گھر آیا ڈرائنگ روم میں فضا کو صوفے پر لیٹے ہوئے دیکھا

"کیا ہوا سب خیریت ہے"

بلال کو تشویش ہوئی

"آپ کی بیگم اپنے پاوں پر ظلم ڈھا کر بیٹھی ہوئی ہیں اور تو باقی سب خیریت ہے" 

تانیہ نے جواب دیا

"کیا ہوا تم ٹھیک ہو"

اب بلال فضا کے قریب بیٹھتے ہوئے فضا سے پوچھ رہا تھا 

"اسٹول پر چڑھی ہوئی تھی بیلنس نہیں رہا تو گر گئی پاؤں میں موچ آ گئی ہے شاید بہت درد ہو رہا ہے"

فضا نے رونی شکل بناکر بلال کو بتایا 

"کیا ضرورت تھی بیچارے اسٹول پر چڑھنے کی نازک سا اسٹول۔۔ کہا اس کی اتنی برداشت کہ وہ تمہارا وزن برداشت کرے"

بلال بات کو مذاق کا رنگ دے کر اس کا پاؤں دیکھنے لگا

"ہاتھ ہٹاو اپنا میرے پاؤں پر سے۔۔۔۔  کیا بول رہے ہو تم، کیا مجھے کوئی پہلوان سمجھ رکھا ہے تم نے، جو اس طرح بول رہے ہو"

فضا نے اچھا خاصا برا مانتے ہوئے کہا

"اچھا یار sorry دکھاؤ تو اپنا پاؤں ذرا"

بلال نے پاؤں چیک کیا تو واقعی ہلکی سوجن تھی

رات کے کھانے کے بعد جب روم میں جانے کا وقت آیا 

"میرے خیال میں بھائی فضا کو یہیں چھوڑ دیں یہ سیڑھیاں کیسے چلے گی"

تانیہ نے فضا کے خیال سے کہا 

"کوئی ضرورت نہیں ہے اس کی تم ابو کا  خیال رکھو یہی کافی ہے۔۔۔۔ اپنی بیگم کو میں خود اٹھا کر لے جاؤ گا۔۔۔ ویسے بھی اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہیے"

وہ الگ بات تھی اتنے دنوں میں فضا کے کمرے میں موجودگی کا وہ عادی ہو گیا تھا۔۔۔ بے شک وہ ابھی تک اس سے ناراض تھی، صوفے پر سوتی تھی۔۔۔ مگر بلال کے لیے احساس ہی کافی تھا کہ وہ اس کے پاس ہے

"ٹھیک ہے پھر"

 تانیہ نے ہنسی دبائی جبکہ فضا نے بلال کو گھور کر دیکھا

جیسے ہی بلال نے فضا کو سہارا دے کر اٹھانا چاہا، جان بوجھ کر آنکھیں باہر نکال کر ایسی شکل بنائی جیسے بہت وزنی چیز اٹھا لی ہو۔۔۔۔ جس پر تانیہ زور سے ہنسنے لگی

"بلال اگر اب تم نے بدتمیزی کی نہ تو میں سچ مچ ناراض ہو جاؤں گی تم سے اور تم اپنے دانت اندر رکھو"

فضا نے دونوں بہن بھائی کو گھرکا

"میں کیا کہہ رہا ہوں، کچھ کہہ رہا ہوں تمہیں۔۔۔ بس مجھے تو اسٹول سے ہمدردی محسوس ہو رہی ہے"

بلال نے فضا کو اٹھا کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہا 

"اتارو! ابھی کے ابھی اتارو کہیں نہیں جانا مجھے تمہارے ساتھ"

فضا نے برا مانتے ہوئے کہا 

"سوچ لو ابھی اتار دوں" 

جیسے ہی بلال نے اپنی گرفت ہلکی سی ڈیلی چھوڑی۔۔۔ ویسے ہی فضا نے مضبوطی سے بلال کے گلے میں ہاتھ ڈال کر بلال کو پکڑ لیا 

"تم دنیا کے بدتمیز انسانوں ہو۔۔۔ جس کا ثبوت آج تم مجھے بار بار دے رہے ہو۔۔۔ شاید تم چاہ رہے ہو کہ میرا دوسرا پاؤں بھی ٹوٹ جائے"

بلال پر فضا کو سچ مچ غصہ آنے لگا بلال نے فضا کو بیڈ پر آکر لٹایا

"جبکہ بدتمیزی تو ابھی تک میں نے شروع بھی نہیں ہے تم سے"

وہ فضا کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا اور خود بھی بیڈ کی دوسرے سائیڈ پر آکے لیٹ گیا

"دماغ پر چوٹ تو نہیں لگی ہوئی ہے، میں صوفے پر لیٹتی ہوں روزانہ"

فضا نے بیڈ سے اٹھنا چاہا

"خالا خالو نے جب اتنا بڑا بیڈ دیا ہے، جس پر ہم دونوں آسانی سے آسکتے ہیں تو پھر کیا ضرورت ہے صوفے پہ لیٹنے کی

بلال نے پاکٹ سے موبائل اور والٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا

"تم کچھ زیادہ ہی فری نہیں ہو رہے ہو بلال"

فضا نے گھورتے ہوئے اس سے کہا 

"تو اپنی بیوی سے ہو رہا ہوں نہ۔ ۔۔۔ پڑوسی کی بیوی سے تو نہیں"

بلال نے ذرا سا ہاتھ کھینچ کر فضا کو برابر میں لیٹایا        

"مجھے یہاں نہیں لیٹنا بلال"

فضا نے سنجیدگی سے کہا 

"کیوں بھروسہ نہیں ہے خود پر "

بلال معصومیت سے بولا

"کیا فضول بول رہے ہو تم۔۔۔ ایک نمبر کے  وہیات انسان ہو تم" 

فضا نے دانت پیس کر کہا

"نخرے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے چپ کر کے لیٹ جاؤ   اور اتنا بھی وہیات انسان نہیں ہوں جو تمہاری مجبوری کا فائدہ اٹھاو۔۔۔۔ اس لیے آب اپنی چونچ بند کرو اور چپ کر کے سو جاؤ"

بلال نے سائڈ پر رکھا ہوا موبائل اٹھا کر کہا جبکہ فضا اس کو گھور کر رہ گئی

*****

شام سے رات ہو گئی حور ایک ہی پوزیشن میں بیڈ پر لیٹی رہی۔۔۔ جب تھک گئی تو خود ہی اٹھ کر بیٹھ گئی

آج اس کی برتھ ڈے کا دن اتنا بھیانک بھی ہوسکتا ہے یہ تو اس میں تصور میں بھی نہیں سوچا تھا کل رات 12 بجے وہ کتنی خوش تھی زین کی پیار نے اور اظہار نے اسے عرش پر بیٹھا دیا تھا اور آج۔ ۔۔۔

حور اٹھ کر ڈریسر کے پاس گئی اور آئینے میں خود کو دیکھنے لگی اپنے دائیں گال پر انگلیاں پھیر کر اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آگئے۔۔۔۔ زین کی انگلیوں کے نشان کافی ہلکے ہو چکے تھے مگر تکلیف اسے پہلے سے بڑھ کر ہو رہی تھی

"‏اف کیا ہو گیا میرے ساتھ۔۔۔ کیوں چلے گی میں خضر بھائی کے بلانے پر"

وہ دوبارہ اس گھڑی کو کوسنے لگی جب اس نے خضر سے ملنے کا فیصلہ کیا تھا 

"اور شاہ غصہ کے ساتھ ساتھ کتنی ناعتباری تھی اس کی آنکھوں میں میرے لیے" 

شام والا منظر یاد کر کے اسے ایک بار پھر رونا آنے لگا۔۔۔ زین سے وہ اچھی خاصی ڈر گئی تھی

"جو بھی ہو غلطی میں نے کی ہے مجھے خود اس کے پاس جانا چاہیے اس سے معافی مانگنا چاہیے۔۔۔۔ اس نے مجھے ماما سے تو ملوا دیا تھا اور میں نے بھی تو بس یہی چاہا تھا اس سے۔۔۔مجھے خضر بھائی کو فون پر ہی منع کر دینا چاہیے تھا بھلے ہی وہ کچھ بھی سوچتے رہتے مگر آج مجھے یوں بیٹھ کر رونا تو نہیں پڑتا"

حور آنسو صاف کرتے ہوئے روم سے نکلی

"شاہ کہاں ہوگا مجھے اسے منانا چاہیے اور وہ مان جائے گا بہت پیار کرتا ہے مجھ سے۔۔۔ میں معافی مانگو گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا، بالکل پہلے کی طرح"

کبھی کبھی ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا نہیں ہوتا ہے یا حور نے غلط وقت کا انتخاب کیا یا پھر واقعی آج حور کی برتھ ڈے کا دن اس کے لئے بہت برا ثابت ہونے والا تھا

وہ دوسرے روم کی طرف بڑھی جہاں کا دروازہ بند تھا اس روم میں اس کا شاہ موجود تھا

_______

شام میں زین آفس کے کیفیٹیریا میں اشعر اور بلال کے ساتھ بیٹھا کافی پی رہا تھا جب اسے موبائل پر اننون  نمبر سے میسج آیا جس میں ریسٹورنٹ کا ایڈریس تھا 

"یہاں تمہارے لئے ایک سرپرائز منتظر ہے"

وہ اجنبی نمبر دے کر اگنور کردیتا لیکن اس کے نیچے حور نام دیکھ کر وہ چونک گیا 

زین نے فورا اس نمبر پر کال ملائی مگر نمبر بند تھا۔۔۔

"یہ نمبر حور نے کب لیا اور کیسا سرپرائز"

وہ سوچ میں پڑ گیا اس نے حور کے نمبر پر کال ملائی بیلز جارہی تھی مگر وہ کال ریسیو نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ گاڑی کی کیز اٹھا کر بلال اور اشعر کو ضروری کام کا کہہ کر باہر نکل گیا 

ریسٹورنٹ پہنچا تو دور سے ہی اسے خضر دکھائی دیا جسے دیکھ کر اس کی ماتھے پر شکنے ابھری، وہ کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا جس کی پشت زین کی طرف تھی جس کی وجہ سے زین اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔۔۔ زین نے قدم آگے بڑھائیں تو ٹیبل پر پھول اور کیک نظر آئے، مزید قدم بڑھا کر ان لوگوں کی طرف آیا دل میں آیا ہوا وہم جھٹک دیا مگر وہ حور کو دیکھ کر بے یقینی سی اس کی آنکھوں میں ٹھہر گئی جسے غصے میں بدلنے میں زیادہ ٹائم نہیں لگا۔۔۔۔ وہ مسکرا کر خضر کے ہاتھ سے شاید کیک کھانے والی تھی یہ دیکھ کر زین کا دل چاہا پورے ریسٹورینٹ میں آگ لگا دے، اس نے پاس آکر خضر کو ہاتھ زور سے جھٹکا، اس سے پہلے حور اس کی طرف دیکھتی۔۔۔۔ اس نے ضبط کھوتے ہوئے حور کے گال چانٹا مارا۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا حور اس کے ساتھ ایسا کرے گی۔ ۔۔۔۔ اس کے منع کرنے کے باوجود وہ چھپ کر خضر سے ملنے گئی،، اس شخص جس سے زین کو سب سے زیادہ خار تھی،،، اس نے خضر پر بھی اپنا غصہ نکالا۔۔۔۔ مگر خضر سے زیادہ غصہ اسے حور پر تھا غصے میں ہی وہ سے کھینچتا ہوا کار تک لایا اور ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا گھر تک پہنچا

اس وقت وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ اس کی کنڈیشن کیا ہے اسے یاد تھا تو صرف یہ کہ وہ خضر کے ساتھ اس کو بتائے بغیر ریستوران میں بیٹھے ہوئے مسکرا کر اس کے ہاتھ سے کیک کھا رہی تھی یہ سوچ کر اس کے دماغ کی نسیں پھٹنے لگی۔۔۔۔ جب اس نے بیلٹ اٹھا کر مارنے کی نیت سے اوپر ہاتھ کیا تو،، حور اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر رونے لگی حور کو روتا ہوا دیکھ کر اس کا ہاتھ تو وہی تھم گیا مگر غصہ ابھی بھی کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا وہ بیلٹ کو زور سے دیوار پر مار کر باقی کا غصہ دروازے پر نکال کر بیڈ روم سے باہر چلا گیا

یہ نہیں تھا کہ وہ خضر کو لے کر حور پر شک کر رہا تھا،، وہ جانتا تھا حور اس کو بہت پیار کرتی ہے۔۔۔۔ کسی اننون نمبر سے اس کو میسج آنا اس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ جان بوجھ کر اس کو یہ منظر دکھایا گیا ہے مگر اصل غصہ اس کو وہاں حور کی موجودگی پر تھا

****

حور نے آگے قدم بڑھا کر روم کا دروازہ کھولا تو بےاختیار اس کا ہاتھ اپنی ناک پر گیا۔۔۔پورا روم سگریٹ کی اسمیل اور دھوئیں سے بھرا ہوا تھا،،، زین سامنے چیئر پر آنکھیں بند کئے ہوئے سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔۔۔۔ سامنے رکھا ہوا ہے ایش ٹرے سگریٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے تقریبا بھر چکا تھا حور کو دکھ ہونے لگا

"شاہ" 

حور نے ہمت کرتے ہوئے زین کو پکارا 

"کیوں آئی ہو یہاں پر جاؤ یہاں سے"

حور کے پکارنے پر زین نے آنکھیں کھول کر حور کو دیکھا اور غرا کر کہا

"شاہ میری بات سن لو پلیز"

حور نے ڈرتے ہوئے قدم آگے بڑھائے اور ہمت کرکے دوبارہ کہا

"سنائی نہیں دے رہا تمہیں،، جاو یہاں سے اس وقت"

چیخ کر کہتے ہوئے زین نے پاس پڑا ہوا ہے آیش ٹرے کھینچ کر زمین پر مارا جو چھوٹی چھوٹی کرچیوں میں پورے کمرے میں بکھر گیا ساتھ ہی حور کے قدم بھی وہی رک گئے 

حور اس کے کہنے پر کمرے سے گئی تو نہیں مگر بے بسی سے وہ بس اس کو دیکھے جا رہی تھی اور زین بھی آنکھوں میں غصہ لیے ہوئے اسی کو دیکھ رہا تھا 

"میں سوری کہنے آئی ہو غلطی ہو گئی مجھ سے مجھے معاف کر دو"

حور نے آگے قدم بڑھاتے ہوئے زین کے سامنے آکر کہا

"میری بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے تمہیں۔۔۔ کہ میں کیا بکواس کر رہا ہوں"

زین ایک دم کرسی سے اٹھتا ہوا اس کے قریب آ کر بولا 

"شاہ پلیز میں سوری کر تو رہی ہوں نہ تم سے۔۔۔ اس طرح نہیں کرو میرے ساتھ"

حور نے روتے ہوئے زین کے سینے پر سر رکھتے ہوئے کہا

"تمہاری یہ معصوم شکل اور آنسوؤں کی برسات میرے غصے کو کم نہیں کررہی ہے مزید بڑھا رہی ہے اس لئے آخری بار کہہ رہا ہوں چلی جاؤ یہاں سے"

زین نے حور کے دونوں بازو پکڑ کر خود سے الگ کرتے ہوئے ایک جھٹکے سے حور کو خود سے دور کیا۔۔ 

حور اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ سکی،، اس سے پہلے زین بڑھ کر اس کو دوبارہ تھامتا وہ دور جا کر گری

"حور"

*****

اسماء کی اچانک آنکھ کھلی تو سے سردی میں بھی ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے اس نے اٹھ کر کھڑکی کے دونوں پٹ کھولے اور سانس لینے لگی پتہ نہیں کیوں اس کے دل بیٹھا جا رہا تھا وہ پانی پینے کی نیت سے کچن میں گئی پانی پی کر پلٹی تو۔۔۔  خضر کے روم کی لائٹ آن تھی ناک کر کے ہینڈل گھمایا تو لاک نہیں تھا دروازہ کھل گیا

"ارے چچی آپ خیریت ہے"

خضر نے آسماء کو دیکھتے ہوئے پوچھا 

"ہاں خیریت ہے ایسے ہی گھبراہٹ ہو رہی تھیں تو پانی پینے آئی تمہارے روم کی لائٹ جلتی دیکھی ۔۔۔۔۔ کیا ہوا سوئے نہیں ہے ابھی تک"

آسماء نے خضر سے سوال کیا 

"بس ویسے ہی نیند نہیں آ رہی تھی"  خضر نے بیٹھ کے کراون سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا 

"نیند نہ آنے کی کوئی وجہ تو ہوگی نہ"

آسماء نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

"کبھی کبھی ہم کسی چیز کی خواہش کریں اسے پانے کی مسلسل کوشش کریں۔۔۔ مگر پھر بھی اس کی طلب کے باوجود ہمیں وہ نہ مل سکے تو کیا کرنا چاہیے پھر"

خضر غیر ارادی طور پر آسماء سے اپنا آپ شیئر کرنے لگا

"بیٹا کوئی بھی چیز پسند آجانا ایک فطری جذبہ ہے اور پسند آئی ہوئی چیز انسان چاہتا ہے اسکی دسترس میں ہو۔۔۔۔ لیکن پھر بھی وہ چیز اگر انسان حاصل نہ کر سکے بیٹا تو کبھی بھی ضد نہیں لگانی چاہیے،، ضد لگانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔ اگر وہ چیز اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھی ہے تو وہ تمہیں مل جائے گی نہیں تو صبر کرنا چاہیے۔۔۔۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے"

اسماء نے اپنی طرف سے اس کو سمجھانا چاہا 

"رات ہوگئی ہے لائٹ بند کرو گے تو نیند آئے گی اب سو جاؤ"

اسماء لائٹ بند کرکے خضر کے روم سے چلے گئی اور خضر آسماء کی باتوں پر غور کرتا رہا

خضر کو حور شروع سے ہی پسند تھی۔ پسند کب محبت میں بدلی اسے پتہ نہیں چلا جب فاطمہ نے حور کے رشتے کے لئے کہیں اور بات کی۔۔۔۔ تو خضر نے حور کی خواہش  ظفر مراد کے سامنے کی۔۔۔ حور کو حاصل کرنا اسے آسان لگنے لگا مگر زین کی شکل میں ایک طوفان اس کی زندگی میں آیا جو اسے حور سے چھین کر لے گیا۔۔۔۔ مگر اس نے ہمت پھر بھی نہیں ہاری اس نے حور کا پتہ لگا لیا،، اس نے کبھی بھی حور کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا تھا مگر کہیں نہ کہیں اسے گمان تھا کہ اپنی محبت سے وہ حور کو حاصل کرلے گا آج اس نے حور کو پانے کی خواہش میں چھوٹی سی بےایمانی زین کو میسج کرکے کی مگر ریسٹورنٹ میں جو تماشہ ہوا اس کے بعد اس کا دل مزید خراب ہو رہا تھا 

****

شازیہ بیٹھی ہوئی تھی اشعر اس کے پاس آ کر بیٹھا 

"اور بھئی کیا سوچا جارہا ہے اکیلے اکیلے" 

اشعر ماں کے پاس بیٹھتا ہوا بولا

"ظاہری بات ہے اکیلے اکیلے ہی سوچوں گی تمہارے پاس ٹائم کا

ہی کہاں ہے ماں کے لئے"

شازیہ نے بیٹے کو دیکھتے ہی شکوہ کیا

"اب ایسی بات تو نہ کریں آپ آپ خود ہی تو کہتی تھی کہ میںچور ہو جاؤں۔۔  کب تک بھائی کما کر بھیجتا رہے گا بلا بلا"

"اوہو دل پر ہی لے لیا کرو اپنی ماں کی باتیں۔۔۔۔ ویسے میں سوچ رہی تھی کہ تانیہ کیسی لگتی ہے تمہیں"

شازیہ کا ایک دم تانیہ کا نام لینے پر اشعر کو جھٹکا لگا

"تانیہ۔۔۔۔۔ کون تانیہ"

اشعر نے ماں کے سامنے انجان بننے کی بھرپور اداکاری کی

"ارے وہی لڑکی جو تمہارے دوست بلال کی بہن ہے اس کا پوچھ رہی ہوں۔۔۔ اس دن ملاقات ہوئی تھی نا فضا کی شادی میں" 

شازیہ نے اشعر کو یاد دلاتے ہوئے کہا

"اووو اچھا وہ تانیہ۔ ۔۔۔ اچھی لڑکی ہے کافی ڈیسنٹ سی پرسنیلٹی ہے اور کافی پریٹی بھی" 

اشعر کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے اور ساتھ ہی وہ شکر ادا کرنے لگا اسے ممی کو خود سے بتانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی

"ہاں مجھے بھی اس دن کافی پیاری لگی تھی وہ بچی۔۔۔ سلجھی ہوئی سی لگ رہی تھی۔ آج کل کی لڑکیوں سے بالکل مختلف،، میں سوچ رہی ہوں کیوں نہ اس کے گھر پر رشتہ لے کر جایا جائے۔۔۔۔ یعشر کے ساتھ کافی پیاری لگے گی،، میرے فرمابردار بیٹے کے لئے ایسے ہی کوئی لڑکی ہونا چاہیے"

شازیہ نے اشعر سے رائے لینے چاہیے

"کیا یعشر بھائی کے ساتھ تانیہ" دوسرا جھٹکا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک تھا.

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Itni Muhabbat Karo Na   Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Itni Muhabbat Karo Na    written by Zeenia Sharjeel .   Itni Muhabbat Karo Na   by Zeenia Sharjeel   is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages