Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 3 to 4 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 19 December 2022

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 3 to 4

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 3 to 4

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories  

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Itni Muhabbat Karo Na By Zeenia Sharjeel Episode 3'4 

Novel Name:Itni Muhabbat Karo Na 

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

 خضر گاڑی لے کر آفس نکل ہی رہا تھا کہ گیٹ سے باہر اس کو حور کھڑی نظر آئیں 

"حور یہاں کیوں کھڑی ہو کالج نہیں گئی ابھی تک؟ ؟خضر نے اس کو دیکھتے ہوئے پوچھا پوچھا

"لگ رہا ہے ڈرائیور نہیں آیا وین کا شاید حور نے پریشانی سے بتایا"

لو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے ؟ آؤ میں چھوڑ دیتا ہوں"

 گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے خضر بولا 

حور گاڑی کا ڈور کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی 

"پیپر کی تیاری کیسی جارہی ہے؟خضر نے گاڑی اسٹاٹ کرتے ہوئے پوچھا"

"تیاری تو کافی اچھی ہے"

خضر کا موبائل بجا

"میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں"

"کیا ہوا خیریت ہے خضر بھائی؟

حور نے پوچھا

"کچھ نہیں آج میٹنگ تھی تو اس لیے ابو کی کال تھی!۔۔۔

خضر نے جواب دیا"

"آپ ایسا کریں یہی اتار دیں۔ میں یہاں سے چلی جاو گی یہاں سےتھوڑی دور تو ہے" حور بولی

ایسی کوئی دیر نہیں ہو رہی میں چھوڑ دہتا ہوں" 

خضر بولا

"مشکل سے پانچ منٹ لگے گے میں یہاں سے چلی جاؤنگی"

حور کو اپنی وجہ سے اسے لیٹ کروانا اچھا نہیں لگا جبھی دوبارہ بولی

"واقعی پرابلم تو نہیں ہوگی "خضر نے حور کو دیکھتے ہوئے پوچھا

"بالکل نہیں۔ بس یہ گلی پار کر کے کالج ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں"حور کے جواب پر خضر نے گاڑی روک دی

حور کے گاڑی سے اترتے ہیں خضر نے گاڑی آگے بڑھای۔ وہ گلی میں پہنچی یہ گلی کالج کے پیچھے تھی۔ صبح کا وقت تھا گلی سنسان تھی حور چلتی جا رہی تھی۔

جب اچانک ایک بائیک حور کے قریب آکر رکی اور کوئی ایک دم بائیک سے اتر کر حور کا بازو کھینچتا ہوا foot path پر لے آیا اور ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا وہ گرتے گرتے بچی۔ یہ سب ایک سیکنڈ میں ہوا حور کو کچھ سمجھ نہیں آیا

"کون تھا وہ جس کے ساتھ گاڑی میں آئی ہو"؟

وہ شخص آنکھوں میں غصہ لیے اس سے پوچھ رہا تھا 

جبکہ تھوڑی دور بائیک پر دوسرا شخص بیٹھا ہوا اس کا ساتھی انہیں دیکھ رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ سامنے کھڑے انسان کو اس نے پہلے کہیں دیکھا ہے مگر گھبراہٹ میں اس کو یاد نہیں آرہا تھا کہاں دیکھا ہے؟

"جواب دو کون تھا وہ"

اس نے کو غرا کر کہا اور اور پسٹل اس کے اوپر تانی" 

"میرا کزن تھا" خوف کے مارے گھٹی اواز میں حور نے بولا اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگی 

دنیا گول ہے یہ اس نے سنا تھا لیکن دنیا چھوٹی بھی ہے آج اسے اندازہ ہوا وہ اپنا معصوم حسن لئے اس کے سامنے کھڑی تھی وہ اب بھی ویسے ہی تھی خوبصورت یا پہلے سے زیادہ خوبصورت۔ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پایا پہلے دن کی طرح  آنکھوں میں آنسو لیے خوفزدہ نظروں سے وہ اسے دیکھ رہی تھی اس نے پسٹل نیچے کی اور اس کا دل چاہا وہ خود کو اس کے سامنے سلنڈر کردے۔۔

"آئندہ تم مجھے اسکے ساتھ نظر نہ آؤ"

زین کا آج دوسری بار حور سے ٹکراو ہوا۔ آج بھی وہ اسی لڑکے کے ساتھ تھی یہ بات زین کو اچھی نہیں لگی

حور نے گردن ہلانے پر ہی اکتفاد کیا" 

پسٹل اب زین کے ہاتھوں میں نہیں تھی مگر پھر بھی حور کو اس سے خوف آراہا تھا

"کہاں جا رہی تھی"  لہجے میں نرمی لیے وہ اس سے ایسے پوچھ رہا تھا جیسے ان دونوں کا دوستانہ بہت پرانا ہو

کککک ۔۔۔کالج ۔۔۔! وہ ہکلاتے ہوئے لہجے میں بولی

"آؤ میں چھوڑ آتا ہوں" زین نے کہا

"نہیں میں چلی جاؤں گی" یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے جانے لگی اور وہ  اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگا ۔

"کون تھی یہ"

 بلال نے نزدیک آکر پوچھا؟

"پری"

زین کی نظریں اب بھی حور پر تھی جو کہ کالج کی طرف مڑ گئی تھی ۔۔❤❤❤❤

***

 وہ اور بلال بائیک پر جا رہے تھے کہ اچانک زین کی نظر ایک گاڑی پر پڑی جس میں وہ حود کو lسی ہسپتال والے لڑکے کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر چونک گیا۔ جہاں حور کے دوبارہ ملنے پر خوشی ہوئی وہی اسے اس لڑکے کے ساتھ دیکھ کر زین کے ماتھے پر بل بھی پڑھ گئے

"بلال اس گرے کلر کی گاڑی کا پیچھا کرو جلدی"

زین نے تیز آواز میں بلال سے بولا

"مگر یہ ہے کون" "بلال نے پوچھا

"سب بتاؤنگا پہلے فالو کرو اس کار کو یہ مس نہیں ہونی چاہیے"

زین کے دماغ میں ہوسپٹل والا ٹکراؤ یاد آگیا حور کا سر اس کے سینے سے ٹکرایا تھا۔ ایک دم وہ بھی گھبرا گیا تھا مگر حور پر نظر پڑتے ہی وہ ٹرانس میں چلا گیا تھا ۔۔۔۔اتنے سالوں بعد وہ حور کو دیکھ رہا تھا جسے وہ آج تک نہیں بھولا تھا۔ مگر عجیب کشمکش میں تھا اس کا دل کہتا تھا۔"تھی تو وہ حور ہی مگر خضر کا اسکو ۔۔۔چلو حور چلتے ہیں"۔۔۔کہنا مزید کنفرم کر گیا۔۔۔وہ حور ہی تھی"اسکی پری"  

کسی لڑکے کا یوں حور کا ہاتھ پکڑ کر لےجانا اسے ایک بے نام سی بے چینی میں مبتلا کر گیا تھا 

اس وقت وہ ان دونوں کے پیچھے نہیں جا سکا تھا مگر آج اسے یہ موقع نہیں گوانا تھا کیوکہ زندگی بھی بار بار موقع نہیں دیتی یہ بات اس کو پتہ تھی !!! 

زین یہ تو سمجھ گیا تھا کہ وہ اسی کالج میں گئی ہے مگر اب اس کو وہی اس کا انتظار کر کے گھر کا پتہ کرنا تھا آج حور کی آنکھوں میں اپنے لیے اجنبیت دیکھ کر ایک لمحے زین نے سوچا کہ وہ اسے بتا دے کہ میں شاہ زین ہو۔ تمہارا دوست شاہ مگر پھر  خود ہی اپنی سوچ کو جھٹک دیا اور اپنے تعرف کو کسی اور وقت کے لئے چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔😪😒**،*،،،********آآج بلال گھر کا راشن لے کر گھر پہنچا ہی تھا کہ کوئی زور سے بڑی طرح اس سے ٹکرایا 

"لڑکی کیا یہاں اتے ہوئے اپنی آنکھیں گھر پر ہی چھوڑ کر آتی ہوں"

بلال نے سرخ ہوتی ہوئی ناک پہ ہاتھ رکھ کے فضا کو دیکھ کر کہا

"ہاں گھر چھوڑ کر آئی ہوں مگر تمہاری آنکھیں کہاں چلی گئی کتنی زور سے میری ناک پر لگی ہے"

وہ ابھی بھی اپنی ناک پکڑے کھڑی تھی

"ہاں موم کی ناک تھی تمہاری جو ٹوٹ گئی"

بلال کہتا ہوا شاپرز لیے اندر آگیا 

"ارے بلال بھائی آگئے آپ فریش ہو جائے میں کھانا لاتی ہوں"

ثانیہ جوکہ ٹیوشن کے بچوں کو پڑھا رہی تھیں اٹھتے ہوئے بولی

"کھانا ابو کے کمرے میں لے آنا"

یہ کہہ کر وہ فریش ہونے چلا گیا

فضا جو کہ تانیہ کے پاس چھت پر آئی تھی تانیہ اسے دیکھ کر بولی

"ارے یہ تمہاری ناک کو کیا ہوا اتنی سرخ کیوں ہو رہی ہے ۔"

"ہونا کیا ہیں تم سے ملنے تمہارے گھر آ رہی تھی کہ تمھارا بھائی کےٹو کا پہاڑ بن کر سامنے آگیا اور اس سے ٹکرا گئی" فضا نے انکھیں گھما کر بولا

"ہاہاہا چلو کوئی بات نہیں چھوٹے موٹے ٹکراؤ تو محبت کے لئے اچھے ہوتے ہیں"

تانیہ نے معنی خیزی سے کہا تو فضا منہ نیچے کرکے مسکرانے لگی۔ تانیہ کو اچھی طرح اندازہ تھا فضا اس کے بھائی کو بچپن سے پسند کرتی ہے اس لئے وہ اپنی اس کزن کو اور بھی عزیز رکھتی تھی 

"میری صحت کےلئے تو اچھے ہیں مگر تمہاری بھائی کی ماتھے پے تو ہر وقت بل ہی پڑے رہتے ہیں"

فضا نے خفگی سے کہا

"یار حالات انسان کو وقت سے پہلے بہت بڑا اور سنجیدہ کردیتے ہیں۔ تم  سے تو کچھ چھپا ہوا نہیں ہے"

تانیہ نے بلال کے رویے کی وضاحت دی

****

 "ارے بھائی کون ہے کیا دروازہ توڑنا ہے؟۔

کوئی بہت زور زور سے دروازہ بچا رہا تھا تانیہ دروازہ نے کھولا سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر زبان پر بریک لگ گئی ۔۔۔۔!

"جی فرمائیں" تانیہ نے کہا

"سوری دراصل بلال کال رسیو نہیں کررہا تھا اس لیے ۔۔۔۔آپ بلال کو بتا دیا اشعر آیا ہے" اشعر نے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو کہ شاید بلال کی بہن تھی تو وضاحت دینے لگا 

اتنی دیر میں بلال آگیا 

"ارے یار یہاں کیوں کھڑے ہوں اندر آؤ "۔۔۔بلال نے کہا

"نہیں چلو زین کی طرف چلتے ہیں"۔۔۔۔اشعر بولا 

"چلو ٹھیک ہے"

بلال نے دروازہ بند کیا اشعر نے بند دروازے کو دیکھا اور دونوں زین کے گھر کی طرف نکل گئے ۔۔۔۔

___

وہ گھبرائی ہوئی کالج میں آئی اسکی ٹانگیں ابھی بھی کانپ رہی تھیں دل بہت زوروں سے  دھڑک رہا تھا 

"آخر کون تھا وہ کیا چاہتا ہے مجھ سے۔ یہ بات مجھے کسی کو بتانی چاہیے ۔۔۔۔۔۔نہیں کہیں میرا کالج جانا بند نہ ہو جائے"

حور سارا دن کالج میں غائب دماغ رہیں۔ راستے میں بھی نوٹ کیا کوئی اس کی وین کا پیچھا کررہا ہے"

۔******"*****"*

"کیا میں اندر آ جاؤ "۔۔۔ظفر صاحب اور فاطمہ بیگم اپنے بیڈ روم میں تھے جب خضر نے  دروازے پر ناک کیا

"ہاں بیٹا آجاؤ کیا کوئی کام تھا"؟فاطمہ بیگم بولی

"جی آپ دونوں سے ضروری بات کرنی تھی"

وہ  ہچکچاتے ہوئے بولا 

"ارے بیٹا بولو کیا بات ہے ؟۔۔۔ظفر فائل بند کرتے ہوئے بولے ۔

"مجھے سمجھ نہیں آرہا کیسے کہوں؟۔۔۔خضر عجیب کشمکش میں پڑگیا

"ارے بھئی ابولو بھی ایسی کیا بات ہے"؟

آپکے ظفر صاحب نے زور دے کر بولا

"میں حور سے شادی کرنا چاہتا ہوں"۔۔۔اس نے ہمت کرکے ایک ہی سانس میں بول دیا

جہاں اس نے لمبی سانس خارج کی وہاں دونوں ماں باپ کی سانس رک گئی اور دونوں ہی خاموش نظروں سے اسے دیکھنے لگے 

"تم ہوش میں تو ہو کیا کہہ رہے ہو تم نے یہ  بات سوچی بھی کیسے؟۔

سب سے پہلے فاطمہ کو ہوش آیا

"ایسی کونسی بڑی بات کہہ دی میں نے؟ اپنی جائز خواہش کا اظہار کیا ہے"

خضر نے جواب دیا

ظفر صاحب خاموش تھے انہیں فاطمہ بیگم جیسا شاک تو نہیں لگا تھا مگر حیران ضرور تھے 

"خضر ایسا سوچنا بھی مت میں نے ہمیشہ تمہاری نسبت  سے نائمہ کو سوچا ہے آئندہ یہ بات منہ سے مت نکالنا"۔۔۔۔فاطمہ بیگم تیز لہجے میں تنبی کی انہیں اپنی اولاد  پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا

"معاف کیجئے گا امی مگر آپ بھی میرے لیے نائمہ یا کسی اور کا نہ سوچئے گا۔ میں شادی حور سے ہی کروں گا"

خضر نے بھی ہمت نہیں ہاری 

"آپ دونوں ہی بولتے رہیں گے یا میں بھی کچھ بولو؟؟

ظفر صاحب نے مداخلت کرنا ضروری سمجھیں

وہ دونوں ماں بیٹے خاموش ہوگئے 

"ٹھیک ہے پھر تم اب اپنے روم میں جاؤ بیٹا بعد میں بات کرتے ہیں اس ٹوپک پر!

یہ کہہ کر ظفر صاحب نے بات ختم کر دی۔

خضر گڈنائٹ کہ کر چلا گیا مگر وہ نائٹ فاطمہ بیگم کے لئے کوڈ کیسے ہوسکتی تھی۔ انہیں ر ہ رہ کر اپنے بیٹے پر اور ان ماں بیٹی پر غصہ آ رہا تھا  ۔۔۔۔

**********

وہ تینوں کیفیٹیریا میں بیٹھے واردات کی پلاننگ کررہے تھے۔ جب اشعر نے ظفر کے بارے میں معلومات زین کو دیں اور زین ایک دم گھر کا ایڈریس پر چونکا"

اس کے لئے یہ کسی شاک سے کم نہیں تھا کیونکہ جس گھر کا پتہ اشعر نے بتایا تھا وہ تو حور کے گھر کا ایڈرس ہے 

"آخر کیا  کنکشن ہوسکتا ہے حور اور ظفر مراد میں"

وہ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے سوچ میں پڑھ گیا

۔******

صبح حور کالج جانے کے لئے تیار تھی خضر آفس کے لیے نکلنے لگا

"آجاؤ حور کار میں  کالج میں دروپ کر دیتا ہوں"

خضر کار کا لوک کھولتے ہوئے بولا 

"نہیں نہیں پلیز میں چلی جاؤں گی"

حور ایسے اچھلی جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ہوں۔۔۔۔

"کیا ہوگیا ہو تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے تمہیں کرنٹ لگا ہوں؟؟"۔خضر نے حیرت سے حور کو دیکھتے ہوئے کہا

کرنٹ تو واقعی اسے لگا تھا وہ اجنبی شخص اسے یاد آگیا تھا جو اسے بری طرح ڈرآ چکا تھا اس نے دوبارہ سوچتے ہوئے جھرجھری لی

"میرا مطلب تھا کالج کی وین آنے والی ہے میں چلی جاؤں گی خفر بھائی پلیز آپ لیٹ ہورہے ہونگے"

حور نے ٹالنا چاہا

"میں کہہ رہا ہو بیٹھو کار میں سنائی نہیں دے رہا؟خضر نے روعب سے کہا حور کو ناچار بیٹھنا پڑا

ْْ

"کب تک اسٹارٹ ہو رہے ہیں پیپر اس نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا؟

"دو ہفتے بعد پہلا پیپر ہے" حور نے باہر دیکھتے ہوئے جواب دیا

"آگے کیا سوچا ہے؟"خضر نے پوچھا 

"تایا جان اور چچا جان نے اجازت دے تو اگے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لونگی" حور نے جواب دیا

"اور اپنی زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے"

خضر پتا نہیں کیا جاننا چاہ رہا تھا؟

"زندگی کے بارے میں کیا سوچتا کیا مطلب میں سمجھی نہیں آپکی بات" ناسمجھی سے حور نے خضر کی طرف دیکھا

"خضر نے بھی ایک لمحے کے لیے حور کی طرف دیکھا پھر بولا 

"کچھ نہیں ۔۔کالج آگیا ہے"

حور کالج کے سامنے گاڑی سے اتری تو خضر گاڑی آگے لے گیا۔ ابھی چند قدم آگے بڑھی تھی کہ کسی نے بری طرح اس کا ہاتھ پکڑا اور تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں موجود بڑے سے درخت کی آڑ میں لے گیا

"منع کیا تھا نہ میں نے تمہیں کے اس شخص کے ساتھ نظر نہ آؤں سمجھ نہیں آتی تمہیں؟؟زین دبی ہوئی آواز میں غرا کے بولا

اس نے ابھی بھی حور کو بازو سے پکڑا ہوا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے حور کا منہ اس طرح پکڑا کے اس کے جبڑے دکھ گئے۔ دونوں ہاتھوں میں اتنی سختی تھی کہ حور کی آنکھوں سے پانی نکل آیا

"مجھے درد ہو رہا ہے"

وہ آنسو بہاتے ہوئے خوف سے بولی تو زین کے ہاتھوں کی گرفت میں نرمی آئی اس نے حور کے منہ پر سے ہاتھ ہٹا لیا۔ تھوڑی دیر چہرہ دیکھنے کے بعد زین کی نظر اسکے ہونٹوں کے نیچے تل پر پڑی۔ جو آج بھی پہلے دن کی طرح اس کے حسن اور معصومیت کو بڑھا رہا تھا زین کے دل میں خواہش ابھری کہ وہ ہاتھ لگا کے اس کے تل کو چھو لے دل میں ابھری خواہش وہ دبا گیا 

"ظفر مراد سے تمہارا کیا تعلق ہے" سنجیدہ لہجے میں وہ حور سے پوچھنے لگا

"وہ میرے تایا ہیں" حور نے ڈرتے ہوئے بولا 

زین کے مسلسل گھورنے پر کبھی اس کو دیکھتی تو کبھی آتے جاتے لوگوں کو 

اس کی بات سن کے استہزاہ ہنسا

"اب میری باری ہے  سود سمیت سب واپس لونگا لینے کی" 

گہری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا اور حور کے سر پر سے سب گزر رہا تھا۔ وہ مسلسل اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی زین نے اس کا بازو چھوڑ کر جانے کا اشارے کیا۔ حور وہاں سے تقریبا بھاگنے کے انداز میں کالج پہنچی حور کی حالت غیر ہورہی تھی!اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کےاچانک یہ کون بندہ اس کے پیچھے پڑ گیا ہے اور اس کے تایا کا کیوں پوچھ رہا ہے

______

ظفر مراد اپنے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے ان کے پئ۔اے نے آکے بتایا کوئی

"شاہ زین صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں"

"انہیں اندر بھیج دو"

ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کے کون ہوسکتا ہے دروازہ کھولا ایک ستائیس اٹھائیس سالہ خوبرو نوجوان اندر داخل ہوا۔ انہیں لگا جیسے اس نوجوان کو کہیں دیکھا ہے مگر کہا یہ یاد نہیں آیا 

"تشریف رکھیں کس سلسلے میں آنا ہوا آپ کا"؟

ظفر مراد نے بات کا آغاز کیا

"کافی جلدی ترقی کی منازل طے کرلی ہیں ظفر تم۔ آج سے بارہ سال پہلے تک تو بقول تمہارے تمہارا دیوالیہ نکل گیا تھا سڑک پر آگئے تھے تم"

زین نے پھنکار کر کہا 

"کون ہو تم یہ کس لہجے میں بات کر رہے ہو اور کس مقصد سے میرے آفس آئے ہو؟"

ظفر مراد کو اس اجنبی کا لہجہ پسند نہیں آیا انہوں نے بھی اسے اسی کے لہجے میں جواب دیا ۔۔۔۔

"یہ صرف تمہارا آفس نہیں ہے اس میں میرے باپ کی بھی محنت اور حق حلال پیسہ لگا ہوا ہے جوکہ اب میں واپس لینے آیا ہوں" زین نے ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر آگے جھگ کر سنجیدہ لہجے میں کہا

"کیا بکواس کررہے ہو۔ کون ہو تم"

ظفر مراد دھاڑتے مگر سمجھ تو انہیں آگیا تھا مقابل کون بھیٹا ہے

"اتنی جلدی بھول گئے مسٹر ظفر مراد اپنے بھائی جیسے دوست  ساجد شاہ کو"۔۔۔۔۔جس کے مرتے ہیں تم نے دھوکے سے سارے بزنس پر قبضہ جما لیا اور اس کی بیوی اور بیٹے کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا اسی کا بیٹا ہوں میں شاہ زین۔۔۔۔مجھے اپنے باپ کا حصہ واپس چاہیے ۔۔۔۔اگر تم شرافت سے دے دیتے ہو تو ٹھیک ہے نہیں تو میں کہاں تک جا سکتا ہوں یہ تمہاری سوچ ہے"۔۔۔زین اپنی بات ختم کرتے ہی اٹھ گیا 

"شٹ اپ تم میرے ہی آفس میں کھڑے مجھ کو کی دھمکا رہے ہو۔۔ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملنے والی تمہیں جو کرنا ہے کرلو جانے کہاں کہاں سے اٹھ کر آ جاتے ہیں" 

ساتھ ہی انھوں نے فون کرکے گارڈز کو بلوایا گارڈز اندر آگئے 

"یہ بندہ دوبارہ مجھے اپنے آفس میں نظر نہیں آنا چاہیے نکالو اس کو اسی وقت" 

"ہاتھ نہیں لگانا ہٹو پیچھے"

زین گارڈ کے قریب آنے پر دھاڑا  

"ظفر مراد یاد رکھنا بہت جلد دوبارہ آؤں گا اور اپنا سب کچھ جو تم سے سود سمیت واپس لونگا"

زین نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ 

وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا تو خضر اندر ہی آ رہا تھا دونوں کا سامنا ہوا ذین نے اس کو بھی گھورتے  ہوئے وہاں سے چلا گیا 

خضر کو یاد آیا یہ تو وہی ہے اسپتال والا شخص تھا

"ابو کیا ہوا کون تھا یہ اور کیا کہہ رہا تھا؟"

آتے ہی خضر نے ظفر مراد سے پوچھا 

"کوئی خاص نہیں یہ بتاؤ میٹنگ کے لئے ریڈی ہو"

جیسے انہوں نے اس بات کو خاص اہمیت نہ دی ہو

"جی بس نکلتے ہیں"

یہ کہہ کر خضر اپنے روم میں چلا گیا

"ظفر مراد کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ بارہ سال بعد اچانک ساجد شاہ  کا بیٹا یوں اپنے حصے کا دعویدار بن کر آجائے گا

"سوچنا پڑے گا کچھ اس لڑکے کا"

وہ کرسی ٹیک لگائے سوچنے لگے 

 ****

 ظفر مراد آفس سے گھر پہنچے اپنے بیڈ روم میں گئے پیچھے ہی فاطمہ آئی

"میں بتا رہی ہوں ظفر خضر کو اپنے طور پر سمجھا لیں جو وہ چاہ رہا ہے وہ میں بالکل نہیں ہونے دونگی"

فاطمہ ظفر مراد کے آتے ہی شروع ہوگی 

"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ یہ کوئی وقت ہے بندہ آفس سے تھکا ہارا ہے اور آپ آتے ہی شروع ہوگی وہاں آفس کے جھمیلے ختم نہیں ہوتے یہاں آؤ تو یہاں کے مسلے شروع ہو جاتے ہیں" ظفر مراد آج کافی غصے میں تھے ۔۔آفس والے واقعے سے کافی بیزار تھے اس لیے فاطمہ کا آن کے آتے ہی شروع ہو جانا ظفر مراد کو ناگوار گزرا ۔۔۔

فاطمہ کی بات پر وہ انہی پر گرج پڑے اس لیے فاطمہ تھوڑا دب گئی۔

وہ فاطمہ سے ایسے بات نہیں کرتے تھے یعنی کوئی سیور سی بات ہوگی آفس میں جس کی وجہ سے پریشان تھے 

"میرے کہنے کا مطلب یہ تھا ظفر اب تو جانتے ہیں خضر ایک ہی بیٹا ہے میں نے شروع سے ہی خضر کے متعلق اپنی بھانجی کا سوچا ہے۔ آپ پلیز اسے سمجھائیں انہوں نے اب کہ دھیمہ لہجہ اختیار کر کے بات مکمل کی 

"یہاں سمجھنے کی آپ کو ضرورت ہے فاطمہ خضر ہمارا ایک ہی بیٹا ہے اور اگر وہ ضد پر اترا یا ہم سے بد دل ہوگیا تو آگے آپ سوچ لے"

انہوں نے بھی نرمی اختیار کرکے بیوی کو سمجھانا چاہا

"آپ کہنا کیا چاہتے ہیں میں اپنی بہن کی بیٹی کو چھوڑکر حور کو خضر کی زندگی میں شامل ہونے دو؟"

فاطمہ غصہ ضبط کرتے ہوئے بولی

"اس میں برائی کیا ہے؟ حور ہمارے سامنے پلی بڑھی ہے آنکھوں دیکھی بچی ہے اور سب سے بڑھ کر میرے مرحوم بھائی کی نشانی ہے"

آخر میں جیسے ظفر نے بھی انہیں جتانا ضروری سمجھا جس پہ فاطمہ چپ کرکے روم سے نکل گئی "۔

****

 وہ اشعر اور بلال تینوں اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے جب زین نے آج کی آفس والی ساری روداد ان دونوں کو سنائیں

"مجھے نہیں لگتا یہ ظفر مراد تمہیں اتنی آسانی سے تمھارا حق دے گا؟'

اشعر ساری بات سننے کے بعد بولا 

"ہاں! آج اس کو سامنے دیکھ کر  مجھے بھی یہی لگ رہا ہے اس کے تیور دیکھ کر نہیں لگ رہا اتنی آسانی سے تو میرا حق مجھے لوٹائے گا۔۔۔۔ مجھے قانون کا ہی سہارا لینا پڑے گا"

زین سگریٹ سلگاتے ہوئے بولا

"اور کس طرح قانون کے ذریعے تم اپنا خاص سے واپس لو گے"

بلال نے پوچھا 

"ظاہری بات ہے اس پر دھوکے کا مقدمہ کرکے"

زین نے دھواں اڑاتے ہوئے جواب دیا 

"کس دنیا میں ہوں تم کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کے اس نے دھوکہ دیا ہے۔ وہ آرام سے تم پر ہی کیس بنادے گا الزام تراشی کا اور بلیک میلنگ کا"

اشعر بولا ۔

وہ سب کچھ میرے ذہن میں ہے اس کے آفس کے بندے سے میری اچھی دوستی ہے شاید وہ میرے کام آجائے۔ کچھ ایسے ڈاکومنٹس اس کے ہاتھ لگ جائے جو میرے کام آسکے۔ کسی بھی طرح  کوئی بھی کرونگا لیکن اپنے بابا کا پیسہ تو میں اس سے لے کر ہی رہوگا ہر صورت میں"۔۔۔زین اٹل لہجے میں بولا۔

****

"چلو یار تم دونوں کتنی دیر ہے"

بلال جی بھر کے بیزار ہوا

"جی بھائی بس آ رہے ہیں"

تانیہ نے جواب دیا اور جلدی سے اسکارف اوڑھنے لگی

"ارے واہ بھئی کہاں کی تیاریاں ہو رہی ہیں"؟

فضا نے ان تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

"بس تمہاری ہی کمی تھی کبھی اپنے گھر پر بھی ٹک کر بیٹھ جایا کرو" 

بلال جل کر بولا

"اچھا ہوا فضا تم آگئ ہمارے ساتھ چلو۔ بھائی ہمیں شاپنگ کروانے لے کر جارہے ہیں"

تانیہ نے جلدی سے فضا بولا کہیں وہ بھائی کی بات کا برا ہی نہ مان جائیں 

"نہیں رہنے دو تمہارے بھائی کو تو میرا یہاں آنا پسند نہیں ہے مزید باہر بھی اسے مجھے برداشت کرنا پڑے گا"

فضا ناراضگی سے بولی"

"کیسی بات کررہی ہوں فضا بھائی نے ویسے ہی بول دیا ان کا تو مذاق چلتا ہے تم سے۔ اب کے ثانیہ نے بھی بولا 

"نہیں تم لوگ جاؤ میرا دل نہیں چاہ رہا ویسے بھی ماموں اکیلے ہوں گے میں ان کے پاس ہو جب تک"

"اب یہ احسان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی ابو سو رہے ہیں وہ 2 یا 3 گھینٹے سے پہلے نہیں اٹھے گے۔ تو اسلیئے زیادہ نخرے دکھانے کی ضرورت  نہیں ہے پانچ منٹ کے اندر اندر تم تینوں باہر آ جاؤ" آپ کے بلال بولا اور دروازے سے باہر چلا گیا

"پورا کا ہیٹلر ہے تمہارا بھائی" فضا نے باہر نکلتے ہوئے بلال کو گھورتے ہوئے بولا 

"سوچ لو اس ہٹلر کو ساری زندگی  تمہں ہی برداشت کرنا پڑے گا"

تانیہ نے قریب آکر فضا سے کہا فضا نے تانیہ کو گھوری سے نوازا اور وہ تینوں باہر کی طرف چل دی 

_______

رات کے کھانے کے بعد جب سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تب اسماء کو ظفر مراد نے اپنے روم میں ضروری بات کیلئے بلوایا وہاں پہ فاطمہ کے علاوہ ان کے چھوٹے دیور اور بھاوج بھی موجود تھے

"آو اسماء! تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے بیٹھوں۔"

ظفر صاحب نے کہا جبکہ فاطمہ کا منہ بنا ہوا تھا 

"سب خیریت تو ہے" اسماء سب کو دیکھتے ہوئے صوفے پر بیٹھی 

"ہاں سب خیریت ہے تم بتاؤ حور کی پڑھائی کیسی چل رہی ہے کوئی مسئلہ تو نہیں اسے"

ظفر صاحب نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

"نہیں بھائی صاحب اللہ کی شکر ہے کوئی مسلہ نہیں اپنے گھر میں کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے بھلا۔ حور کے پیپرز چل رہے ہیں اسی میں بزی ہے وہ"

اسماء نے جواب دیا 

اس کے بعد کمرے میں خاموشی ہوگئی جسے ظفر صاحب کی آواز نے ختم کیا

"دراصل ہم نے تمہیں حور کے سلسلے میں ہی بلایا ہے ہم چاہتے ہیں کہ حور کے ایکزیمس  کے بعد گھر میں چھوٹی سی تقریب رکھی جائے حور اور خضر کی منگی کردی جائے" 

ان کی بات پر فاطمہ کے علاوہ باقی تینوں کو ایک جھٹکا لگا

"بھائی صاحب خضر اور حور  میرا مطلب ہے"

آسماء نے پہلے بے یقینی سے فاطمہ کو دیکھا جو بڑی چبھتی ہوئی نگاہوں سے اسکو گھور رہی تھیں۔۔۔  سارہ کو بھی ظفر صاحب کی بات سن کر اچھی طرح پتنگے  لگ چکے تھے مگر وہ کچھ بولی نہیں 

"کیوں آسماء تمہں کوئی اعتراض ہے؟ظفر صاحب نے آسماء سے پوچھا

"نہیں بھائی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اب وہ دور نہیں رہا آپ بچوں سے پوچھ لیں ان کو کوئی اعتراض نہ ہو"

اسماء ٹھہر ٹھہر کر بولی۔ 

"اس رشتے میں خضر کی خوشی اور رضامندی شامل ہیں میرے خیال میں اب کسی کے بھی اعتراض کی گنجائش نہیں نکلتی

 انہوں نے اسماء کی بات کاٹتے ہوئے اپنی بات مکمل کی"

*****

"بلو والا ڈریس اچھا لگ رہا ہے یا پرپل والا"

ثانیہ اور تانیہ بھی ڈریسنگ دیکھ رہی تھی جب فضا نے بلال کے پاس آکر پوچھا

"دونوں ہی فارغ لگ رہے ہیں"

بلال نے ایک نظر ڈریس پر ڈال کر جواب دیا۔

"تمہیں تو میری چوائس کبھی زندگی میں پسند نہیں آئے گی"۔۔فضا نے منہ بناتے ہوئے کہا

"پسند بھی تو دیکھو سبحان اللہ ہے"

بلال نے ایک بلیک کلر کا ڈریس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا 

"اور اپنے بارے میں کیا خیال ہے"

بلال نے چونک کر اس کو دیکھا اور وہ بلیک ڈریس بلال کے ہاتھ سے لے کر اپنے لئے پیک کروانے لگی بلال کچھ دیر تک وہیں کھڑا رہا پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا

"دنیا میں اور بھی غم ہیں محبت کے سوا"

ابھی وہ لوگ شاپنگ کر کے فارغ ہوئے تھے جب بلال  کے نظر وہاں اشعر پر پڑھی "

ارے تم یہاں کیا کر رہے ہو"بلال نے پوچھا 

"جو سب کر رہے ہیں وہی کرنے آیا ہوں ظاہر سی بات ہے شاپنگ کی کرنے آیا ہوں"

اس نے بلال کی پیچھے فیملی دیکھی تو بولا چلو بعد میں ملاقات ہوتی میں چلتا ہوں" 

"ارے کہاں چلے چپ کر کے بیٹھو ان لوگوں نے میرا دماغ خراب کردیا ہے شاپنگ کرکے۔ "فوڈ کورٹ میں ہمیں جوائن کرو" بلال کے کہنے پر اسے بھی جانا پڑا ہے تعارف  کا سلسلہ شروع ہوا یہ میرا بہت خاص دوست اشعر ہے۔

"اور اشعر یہ دونوں میری بہنیں ثانیہ اور تانیہ اور یہ میری کزن فضا ہے"۔

اشعرکی نظریں تانیہ پر پڑھیں تو وہ اشعر کو ہی دیکھ رہی تھی اشعر کے دیکھنے پر تانیہ نے اپنی نظروں کا رخ دوسری طرف موڑ لیا شاید وہ بھی اس کو پہچان گئی تھی۔ اسکارف لیئے ہوئے مےکپ سے عاری چہرہ اشعر کو دوسری لڑکیوں سے مختلف اور دلکش لگا

*****

 حور کے پیپر کی وجہ اسماء نے اس کو خود سے خضر کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا "خضر ہر لحاظ سے بہت اچھا تھا آسماء کی عزت کرتا تھا خیال رکھنے والا بچہ تھا ۔مگر اسماء کو فاطمہ بیگم کا رویہ کچھ تشویش میں مبتلا کر رہا تھا

مگر فی الحال انھوں نے ذہن سے اس کو بھی جھٹک دیا

*******

آج وہ آخری پیپر دے کر آئی تھی پیپر کے دوران وہ اپنے کمرے تک ہی محدود ہوگئ تھی۔ کوئی بھی کام کے لیے اس کو نہیں بلاتا تھا شاید پیپر کا خیال کرکے نہ بلاتے ہو مگر اس سے پہلے تو اتنی پروا کسی نے نہیں کی

چلو اچھا ہی ہے۔  حور مگن انداز میں اپنے آپ سے باتیں کرتے کچن میں آئی اپنے لیئے چائے کا پانی رکھا تو فاطمہ تائی اس کے سامنے آئی اور چبھتے ہوئے لہجے میں گویا ہوئیں 

"جو تم نے اور تمہاری ماں نے کھیل کھیلنا شروع  کیا ہے نا ۔۔یاد رکھو میں اس میں تمہیں  کبھی کامیاب ہونے نہیں دیں گی"

۔حور نے ناسمجھی سے تائی کی طرف دیکھا اور بولی 

"میں سمجھی نہیں تائی؟۔۔آپ کیا کہہ رہی ہیں"؟

"بہت بھولی اور معصوم ہونا تم اس طرح ادائیں دکھا کر میرے بیٹے کو اپنا دیوانہ بنا سکتی ہو پر میں بے وقوف نہیں اور یاد رکھنا تم میرے جیتے جی کبھی خضر کی زندگی میں نہیں آ سکتی"

وہ یہ کہہ کر رکی نہیں چلیں گی لیکن اس کو وہی سکتے کی کیفیت میں چھوڑ گئی 

"یہ کیا کہہ رہی ہیں تائی میں اور خضر بھائی"

منہ پر ہاتھ رکھے وہ بنا آواز رو رہی تھی اچانک خضر کچن میں داخل ہوا 

"حور ایسے کیوں کھڑی ہو، تم رو رہی ہوں اس نے حور کا رخ اپنی طرف موڑا، مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے 

حور بس خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی پھر بنا کچھ کہے کچن سے اپنے روم میں آگئی۔ اسے بہت رونا آ رہا تھا تائی کی باتوں پر، کمرے میں اسما آئی ۔

"حور کیا ہوا ہے بیٹا کیوں رو رہی ہو آسماء نے پریشانی سے پوچھا 

تائی نے بہت غلط باتیں کی ہیں ماما"

حور نے ساری بات اسماء کو بتائی

"تمہارے تایا نے خضر  کے لئے تمہارا ہاتھ مانگا ہے"

حور نے بے یقینی سے آسماء کو دیکھا۔

"میں نے تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ تمہارے پیپر ہو رہے میں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی"

"مگر امی میں نے تو خضر  بھائی کو ہمیشہ اپنا بھائی ہی سمجھا ہے اور خضر  بھائی بھی

"بیٹا اس رشتے میں خضر کی مرضی شامل ہے اور پھر ویسے بھی  وہ بہت ا چھا فرمابردار لڑکا ہے، تمہیں بہت خوش رکھے گا"

وہ حود کو سمجھانے والے انداز میں کہنے لگی۔

"وہ بس خاموشی سے ماں کو دیکھتی رہی

****

زین نے ظفر مراد پر قابل اعتبار بندے سے ظفر مراد پر  نظر رکھو آئی۔ افس کے تمام معاملات، آنے جانے کا روٹین، زین کو ہر چیز کی خبر ملتی رہتی۔ لیکن کسی پرانے ڈاکومنٹس یا فائل میں زین کو ایسے خاطرخواہ ثبوت نہیں ملے  جو اس کے لیے فائدے مند ہو یا اس کے کام آسکے۔

******

اس دوران یہ اچھی بات ہوئی کہ سارہ کی بیٹی ماہم کو بھی کچھ لوگ پسند کرگئے منگنی کی تاریخ 1 ہفتے کے بعد رکھ دی گئی جب خضر اور حور کی منگنی کی تاریخ  مقرر ہوئی

حور کا اور خضر کا اس دن کے بعد سے آمنا سامنا نہیں ہوا حور زیادہ تر اپنے کمرے میں رہتی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ خوش نہیں تھی مگر وہ شاک ضرور تھی اس نے کبھی بھی خضر کے متعلق اس طرح نہیں سوچا تھا۔ یہ سب اس کے لئے تھوڑا عجیب اور نیا تھا زہن اتنی جلدی اس رشتے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور دوسری بات دماغ میں کہیں اس اجنبی کا خوف بھی تھا جس نے اسے خضر سے دور رہنے کے لیے کہا تھا غیر ارادی طور پر وہ اس اجنبی کے بارے میں سوچتی لگی  

*****

 تانیہ اور فضا  چھت پر باتیں کر رہی تھی ثانیہ کی آواز دینے پر تانیہ چھت سے نیچے اتری جب بلال چھت پر ایا تو فضا کو سوچ میں ڈوبے ہوئے دیکھا 

"کیا سوچا جا رہا ہے"

بلال نے قریب آتے ہوئے پوچھا 

"تمہیں"

فضا نے بلال کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا

"ہر وقت فضول نہیں ہانکا کرو"

بلال نے ڈپٹنے کے انداز میں کہا 

"میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو تم نے پوچھا اس کا سچی سچی  جواب دیا ہے"  

فضا نے اس کو دیکھتے ہوئے جواب دیا 

"اور میرے بارے میں کیا سوچا جا رہا ہے؟

بلال اس پر سے نظریں ہٹا کر میدان میں دیکھتے ہوئے بولا جہاں بچے کرکٹ کھیل رہے تھے"

"یہی کے نوکری تمہاری لگی نہیں مگر کوئی لوٹری ضرور نکل آئی ہے" اس نے چند دنوں میں ہونے والی تبدیلیاں محسوس کی تو شرارت بولا 

"ھاھاھا لاٹری نکل ہی نہ جائے میری۔۔۔ میں تو اب گن پوائنٹ پر لوگوں کو لوٹتا ہوں"

بلال نے ہاتھ انگلیوں سے  نکلی گن بناکر فضا کے سر کا نشانہ لیا اور پھر انگلیوں میں اپنے ہونٹوں پر لے جا کر پھونک ماری

پہلے فضا چپ کر کے دیکھتی رہی پھر ایک زور سے ہنسی 

"تم سے تو چڑیا کا بچہ نہیں مارا جائے اور چلے ہو لوگوں کو لوٹنے اور وہ بھی گن پوانٹ پر" 

فضا نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا 

"تو تمہیں یقین نہیں ہے میری بات کا؟

بلال نے فضا کو دیکھتے ہوئے پوچھا 

"ون پرسن بھی نہیں" 

فضا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا جیسے وہ اس کے مذاق کو انجوائے کر رہی ہو

 اتنے میں بلال نے اپنی پاکٹ سے منی پسٹل نکالی اور فضا کے ماتھے پر رکھ کر کہا 

"اب کیا خیال ہے؟

_______

سردیوں کا آغاز ہوچکا تھا اور آج چھٹی کا بھی دن تھا سب لوگ لان میں بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ماہم چائے کا کپ تھامتے ہوئے بے زار انداز میں بولی 

"پڑھ پڑھ کر میں پک چکی ہوں پلیز کہیں اوٹنگ کا پروگرام بنائے" 

"چلو تو پھر آج رات کا ڈنر باہر سب کو میری طرف سے"

خضر نے حور کو دیکھتے ہوئے کہا جو کے ابھی سب کے درمیان آکر بیٹھی تھی۔ جب سے ان دونوں کی رشتے کی بات گھر میں چلی تھی حور کم ہی خضر کے سامنے آتی تھی ایک بے نام سے ججھک ان دونوں کے رشتے میں آ گئی تھی 

"کیا خضر بھائی میں ڈنر کی بات تھوڑی کر رہی ہوں، وہ تو آپ اپنی منگنی کی خوشی میں ویسے ہی کرادیں گے۔۔۔۔ کہیں  پکنک کا پروگرام بنائے پلیز"

"ہاں یار ویسے پکنک تو ہونی چاہیے آئیڈیا برا نہیں"

ردا نے بھی ماہم کی ہاں میں ہاں ملائی

"گھر میں تھوڑے ہی دنوں بعد تقریب ہے اور تم لوگوں کو پکنک کی لگی ہوئی ہے کوئی کہیں نہیں جا رہا چپ کر کے بیٹھو گھر میں"

سارہ نے ڈپٹنے والے انداز میں کہا

"نہیں ماہم صحیح کہہ رہی ہے کافی عرصہ ہو گیا کہیں گئے ہوئے ایسا کرتے ہیں پرسوں اپنے فارم ہاؤس پر چلتے ہیں۔ تھوڑا ہم بوڑھے لوگ بھی فریش ہو جائیں گے"

ضفر مراد بولے 

"تھینکیو تایا "

ماہم چہک کر بولی

سب ہی خوش تھے سوائے فاطمہ کے 

****

فضا پھٹی پھٹی آنکھوں سے بلال کو دیکھ رہی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ بلال کے ہاتھوں میں پسٹل ہے اور  وہ اس پر تانے کھڑا ہے 

"بلال یہ تم"

اگے وہ بول نہیں پائی قدموں کی آواز سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کوئی چھت پر آ رہا ہے۔ بلال نے پھرتی سے پسٹل واپس پاکٹ میں رکھ لی 

"یہ لو بھئی گرما گرم چائے پکوڑوں کے ساتھ حاضر ہے"

تانیہ ہاتھ میں چائے کی ٹرے لے کر چھت پر نمودار ہوئی اس کے پیچھے ثانیہ بھی تھی

"ارے رکو کہاں جا رہی ہو چائے لائی ہوں تمہارے لئے"

فضا کو جاتا ہوا دیکھ کر تانیہ نے کہا 

"نہیں مجھے گھر جانا ہے"

فضا یہ کہہ کر رکی نہیں 

"اسے کیا ہوا" ثانیہ نے بولا

بلال نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کندھے اچکائے

وہ فضا کے لیے اپنے آنکھوں میں محبت اور پہلے ہی دیکھ چکا تھا پسند وہ خود بھی کرتا تھا مگر اپنے مسئلے مسائل اور ذمہ داریاں۔۔۔۔ ان سب کا سوچ کر اس نے کبھی بھی فضا کے جذبوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور اب جو راہ وہ اختیار کر گیا تھا اسے خود نہیں پتہ تھا کل کو اس کا مستقبل کیا ہے۔ پہلے فضا کی محبت صرف آنکھوں سے عیاں ہوتی تھی مگر اب وہ لفظوں کا سہارا لینے لگی تھی

بلال کا مقصد فضا کو اس طرح کرکے ڈرانا یا ناراض کرنا نہیں تھا وہ صرف اسے آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ وہ جن راستوں پر چل نکلی ہے اس کے لئے یہ راستے خطرناک ہے  

****

"تو ظفر مراد کے خلاف تمہیں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا، کافی شاطر انسان نکلا تمہارا یہ ہونے والا تایا سسر"

بلال نے آخری بات شوخ انداز میں کہی  جس پر اسے زین نے گھور کر دیکھا 

"یہ کیا سین ہے باس یہ سٹوری کب سٹارٹ ہوئی"

اشعر نے ناسمجھی سے ان دونوں کو دیکھا اور حیرت میں مبتلا ہو کر پوچھا 

اس کے بعد بلال نے پوری رواداد اشعر کو سنائی 

"بس ہو گیا تمہارا"

 زین سیگریٹ منہ میں رکھتے ہوئے بولا

"اے میرے ہیرو تم تو چھپے رستم نکلے یار"

ابھی زین کچھ بولتا اس سے پہلے زین کا موبائل بجا

"ہاں فیصل بولو۔۔۔ چلو ٹھیک ہے"

 زین دوبارہ سگریٹ پینے میں مصروف ہو گیا 

"خیریت کیا خبر ہے" بلال نے پوچھا

"ظفر مراد اپنی فیملی کے ساتھ اپنے فارم ہاؤس جارہا ہے"

 زین کچھ سوچتے ہوئے بولا  

"تو پھر آگے کیا سوچا ھے تم نے" 

اشعر نے سنجیدگی سے پوچھا 

"سوچ رہا ہوں کیسے یہ پکنک ظفر مراد کے لیئے یادگار بناو"

زین سگریٹ کا دھواں اڑاتے ہوئے بولا  

*****

"اپنا سامان لڑکی ہم دو دن کے لیے جا رہے ہیں دو مہینوں کے لئے نہیں"

خضر نے ما ہم کو 3 بیکس لاتے ہوئے دیکھ کر کہا 

"یہ بس دیکھ کر تو ایسا ہی لگ رہا ہے جیسے دو مہینے کے لئے جا رہے ہیں"

ماہم بولی 

"تمارا سامان دیکھتے ہوئے ارینج کرائی ہے" 

"یہ آپ نے بہت اچھا کیا ابھی دو بیگز اور لے کر آتی ہوں جب تک آپ انہیں رکھوائے"

ماہم اس کو بیگز تھماتے ہوئے اندر چلی گئی 

"کچھ نہیں ہوسکتا اس لڑکی کا"

خضر نے ماہم کو جاتے ہوئے دیکھ کر بولا 

****

یہ فارم ہاؤس ظفر مراد کا اپنا ذاتی تھا آبادی سے کافی دور تھا بڑی سی بس جب فارم ہاؤس کے اندر داخل ہوئی تو مین ڈور بن کر دیا گیا سب لوگ اپنے اپنے بیکز لے کر اندر جا رہے تھے اور بہت خوش تھے سوائے فاطمہ کے۔ انہیں یہ ٹینشن تھی کہ اب گھر جانے کے بعد منگنی کر شور مچ جائے گا اور وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی

شام کا وقت تھا اسب لوگ لان میں کرسیوں پر برجمان ہوئے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے سب کی موجودگی میں خضر کو حور کہیں نظر نہیں آئی اس کو ڈھونڈتا ہوا پول کی سائیڈ پر آ گیا وہ وہی موجود کسی گہری سوچ میں گم تھی

"کیا ہوا حور کیا سوچ رہی ہوں"

خضر کی آواز پر حور نے چونک کر اسے دیکھا

"آپ"حور نے ادھر ادھر دیکھا اگر تائی نے دیکھ لیا تو سب کے سامنے اس کی عزت افزائی ہی نہ ہو جائے۔ یہ سوچ کر وہ وہاں سے جانے لگی 

"رکو حور یہاں بیٹھو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے"

خضر نے اس کو جاتے ہوئے دیکھ کر بولا

"حور کیا تم اس رشتے سے خوش ہوں؟ آئی مین تمہارا یہ گریز کہی تم کسی اور کو تو پسند"

"یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں۔۔۔میں کسی اور میں involve آپ مجھے ایسی لڑکی سمجھتے ہیں"

حور نے خفگی سے خضر کو دیکھتے ہوئے کہاں

"ائی ایم سوری میرا وہ مطلب نہیں تھا دراصل تمھارا اس طرح مجھ سے گریز"

خضر نے بات ادھوری چھوڑی

"خضر بھائی میں نے آپ کو ہمیشہ بھائی سمجھا ہے کبھی دوسری نظر سے نہیں دیکھا یہ سب اتنا اچانک ابھی تو مجھے بہت سارا پڑنا تھا اور پھر تائی وہ خوش نہیں ہیں آپ کو ان کی خوشی میں مدنظر رکھنی چاہیے"

"دیکھو حور مجھے اندازہ ہے کہ امی اس رشتے سے خوش نہیں۔ ان کا رویہ بھی تمہارے اور اسماء چچی کے ساتھ زیادہ اچھا نہیں۔۔۔۔۔ لیکن وہ اپنے بیٹے سے بھی بہت پیار کرتی ہے اور جب انہیں معلوم ہو گا ان کے بیٹے کی خوشی اسی میں ہے تو آہستہ آہستہ اس رشتے کو قبول کرلیں گیں، رہی بات تمہارے پڑھنے کی تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے ابھی صرف منگنی ہو رہی ہے شادی تمہاری اسٹیڈیز کمپلیٹ کرنے کے بعد رکھیں گے اور آخری بات تم نے ہمیشہ مجھے بھائی سمجھا ہے دوسری نظر سے نہیں دیکھا تو اب دیکھ لو" 

اس سے پہلے خضر کچھ اور کہتا عجیب شور کی آواز لان سے آئی۔۔۔۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو نا سمجھی سے دیکھا پھر دونوں ہی لان کی طرف جانے لگے

****

لان میں ساری ہی فیملی بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھی ہلکا ہلکا اندھیرا ہو رہا تھا جبھی دیواروں پر سے کسی کے کودنے کی آواز آئی تین نقاب پوش ہاتھوں میں پسٹل لیے ہوئے ان لوگوں کی طرف بڑھ رہے تھے ۔۔۔۔

ماہم اور سارہ کی پسٹل دیکھ کر خوف سے چیخیں نکل گئی 

"آواز نہیں نکلنی چاہیے اب کسی کی اگر اب کسی کی آواز آئی تو یہی مار ڈالوں گا"

ایک نقاب پوش بولا..

جاری ہے 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Itni Muhabbat Karo Na   Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Itni Muhabbat Karo Na    written by Zeenia Sharjeel .   Itni Muhabbat Karo Na   by Zeenia Sharjeel   is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages