Jalte Khawab Novel By Ana Ilyas New Novel Sneak - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 10 November 2022

Jalte Khawab Novel By Ana Ilyas New Novel Sneak

Jalte Khawab Novel By Ana Ilyas New Novel Sneak  

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Jaltay Khawab By Ana Ilyas New Novel Sneak

Novel Name: Jalte Khawab

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

شادی کا لفظ تو ہمارے رشتے ميں ہے ہی نہيں۔ تم نے بہت غلط سمجھا۔۔۔ تمہاری غلطی تھی۔" ايک اور آواز نے پہلی آوازوں کو بڑی بری طرح دبا ديا تھا۔ اور يہ آواز پچھلی سب آوازوں پر بھاری پڑی تھی۔

يکدم اس نے انگليوں ميں جلتا سگريٹ سامنے موجود ايش ٹرے ميں رکھ کر زور سے مسلا۔۔ گويا سگريٹ نہيں اپنے اندر بھڑکتی آگ کو مسل رہی ہو۔

"بس بھی کردو يار۔۔ چلو وہاں فلور پر چلتے ہيں"يکدم کوئ آواز اسے حال ميں واپس لے آئ۔

خالی خالی نظريں اٹھا کر اس نے سامنے کھڑے جيم کو ديکھا۔

"تم اس دن کسی سنگنگ کامپٹيشن کی بات کررہے تھے۔ ايشيا کا ہے شايد" جيم جو اسے بازو سے پکڑ کر اٹھا رہا تھا اسکی بات پر لمحہ بھر کو تھما۔ 


ائير پورٹ سے ڈرائيور نے اسے پک کيا تھا۔ وہ جو يہ سمجھی تھی کہ اسکی ماں ائير پورٹ پر بے چينی سے اسکا انتظار کررہی ہوں گی۔ وہاں ايسا کچھ بھی نہ تھا۔ پہلی خوش فہمی تو اسکی وہيں دم توڑ گئ۔

بجھے دل سے وہ اس بڑے سے گھر ميں آئ جہاں اسکی ماں اپنے دوسرے شوہر اور اسکے بچوں کے ساتھ رہتی تھيں۔

گلناز کو انکے دوسرے شوہر منير نے صرف اپنے بچوں کی آيا کے طور پر اپنايا تھا۔ منير کے پہلے سے دو بيٹے تھے۔ بيوی کی وفات کے بعد ماں کے کہنے پر انہوں نے گلناز سے شادی کی تھی جو انکی ماں کے کسی رشتہ دار کی بيٹی تھيں۔ يہ شادی بس ايک رشتہ تھا۔ جس ميں انہيں کبھی کوئ دلچسپی نہيں رہی تھی۔ وہ ايک سے ايک نئ عورت کے چکروں ميں رہنے والا شخص تھا۔ نت نئے افئير گلناز انکے لئے بس گھر اور انکے بچوں کی ديکھ بھال کرنے کی حيثيت رکھتی تھيں۔ گلناز کی ماں کی وفات پر انہوں نے مائشہ کو پہلی بار ديکھا تھا۔

انہيں اپنے بيٹے کے لئے وہ بے حد پسند آئ تھی۔ گلناز کو انہوں نے يہی کہہ کر مائشہ کو بلانے کا کہا تھا کہ وہ اسکی شادی اپنے بيٹے سے کرنا چاہتے ہيں۔ جو گريجويشن ميں تھا۔ ماں کی وفات اور باپ کی بے راہ روی کی وجہ سے وہ بے حد خاموش طبع اور خود ميں رہنے والا ہوگيا تھا۔

دنيا سے کٹ کر رہتا تھا۔ انہوں نے يہی سوچا کہ اسکی شادی کردی جائے شايد پھر وہ بہتر ہوجائے۔ گلناز سے بھی اسکا تعلق بہت سرسری تھا۔

جنيد کے لئے انہيں وہ بھولی بھالی چھوٹی سی لڑکی بہتر لگی۔

مگر گلناز نے مائشہ کو يہاں بلواتے وقت يہ بات رمشا کو ہرگز نہيں بتائ۔ وہ جانتی تھيں وہ کبھی اسے آنے نہيں دے گی۔ گلناز کو ايسا لگا شايد مائشہ کے آنے سے انکا بھی مقام اس گھر ميں مضبوط ہوجائے۔ ورنہ مائشہ سے انہيں کوئ خاص لگاؤ نہ تھا۔ وہ آزاد رہنے والی عورت تھيں۔ انہيں بچے کوئ خاص پسند نہ تھے۔ نہ ہی انہوں نے

منير کے بچوں کو اپنے ساتھ لگانے کی کوشش کی تھی۔ انکے لئے يہی بہت تھا کہ وہ مغرب کی آزاد فضاؤں مين اپنی مرضی کی زندگی جيتی تھيں۔ مگر منير کی خود سے بے گانگی انہيں کھولاتی تھی۔ وہ يہی سمجھيں کہ شايد اسی بہانے انہيں اپنے شوہر کی توجہ مل جائے۔

اسی خودغرضی کی وجہ سے انہوں نے مائشہ کو بلوا ليا۔

"کيسی ہو؟" جيسے ہی وہ گاڑی سے اتری گلناز لان سے نکل کر اسکی جانب بڑھيں۔

مائشہ انکی اتنی مہربانی پر بھی سب بھلا کر انکے گلے لگی۔ مگر جس جوش سے وہ ماں کی جانب بڑھی۔

انکی جانب سے وہ جوش مفقود تھا۔

مگر اپنے جذبات مين وہ انکا سرد انداز محسوس نہ کرسکی۔

"آپ کيسی ہيں ممی؟" آنکھوں ميں نمی لئے وہ ان سے الگ ہوئ۔ انہوں نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائ۔

جيسی کسی مہمان کے لئے ہو۔

"ميں بھی ٹھيک۔ کوئ مسئلہ تو نہيں ہوا جہاز ميں۔ سفر ٹھيک گزرا" ڈرائيور کو سوٹ کيسز اندر رکھنے کا اشارہ کرتے وہ اسے لئے اندر کی جانب بڑھيں۔

اس قدر خوبصورت بڑا سا گھر ديکھ کر مائشہ بے حد ايکسائيٹڈ ہوئ۔ اس نے ہالی ووڈ کی فلموں ميں باہر کے ايسے ہی گھر ديکھے تھے اور آج وہ ويسے ہی ايک شاندار گھر ميں موجود تھی۔

گھر ميں داخل ہوتے ہی شو ريک رکھا تھا۔ اس نے ديکھا کہ گلناز نے اندر داخل ہوتے ہی جوتے بدلے۔ کوٹ الٹے ہاتھ بنے سٹور روم ميں لٹکايا اور اب وہ ٹخنوں تک آتی لانگ اسکرٹ ميں اپنے برہنہ کندھوں کو جالی کے شارٹ شرگ ميں ڈھکے اسکی کی جانب مڑيں۔ مائشہ نے گھبرا کر نظريں جھکائيں۔

"تم يہ شوز يہاں رکھ کر يہ سلپرز پہن لو" اسے دھيرے سے کہتيں وہ راہداری کی جانب مڑيں۔ اس نے بھی فورا انکی تقليد کی۔ شوز اتار کر ان سلپرز کی جانب بڑھی جس کے متعلق انہوں نے حکم ديا تھا۔ اپنا لانگ کوٹ اتار کر اسی سٹور روم ميں رکھا۔ شال کو اپنے گرد اچھے سے لپيٹ کر وہ آہستہ روی سے اندر کی جانب بڑھی۔

کاريڈور کے ختم ہوتے ہی بڑا سا سٹنگ روم تھا۔ جس کے دائين جانب ايل ای ڈی نسب تھی اسکے نيچے خوبصورت سا لکڑی کا بک ريک تھا۔ جہاں بہت سے ميگزين اور بکس رکھين تھیں۔ اسی ديوار کے بائين جانب جديد طرز کی انگيٹھی بنی تھی جس ميں مصنوعی کوئلے جل رہے تھے۔ مائشہ کو اسے ديکھ کر سمجھ ميں آيا کہ گھر اتنا گرم کيسے ہے۔ ويسے بھی وہاں انڈور ہيٹنگ موجود تھی۔ انگيٹھی کے سامنے ايل کی شکل ميں گيارہ سيٹر صوفہ رکھا تھا بيچ ميں رگ اور اس پر سينٹر ٹيبل موجود تھی۔ سيٹنگ روم کے ساتھ ہی دائين جانب اوپن بڑا سا کچن موجود تھا۔ جہاں کوئ جرمن خاتون کام کررہی تھيں۔ مائشہ کو ديکھتے ہی انہوں نے خير مقدمی مسکراہٹ سے اس کا استقبال کيا۔ کچن ميں بھی درميان ميں ڈائيننگ ٹيبل موجود تھی جہاں کوئ بيٹھا بڑے انہماک سے ناشتہ کرنے ميں مصروف تھا۔ مائشہ کو بس ايک نظر اٹھا کر اس نے ديکھا تھا اور پھر سے اپنے سامنے موجود ناشتے کی جانب مصروف ہوگيا۔

"بيٹھو مائشہ" گلناز ايک کمرے سے نکلتے اسے کھڑا ديکھ کر بوليں۔

وہ ہولے سے مسکرا کر ايک صوفے پر بيٹھ گئ۔

"جنيد يہ مائشہ ہے ميری بيٹی" کچن کی جانب مڑتے انہوں نے سامنے بيٹھے جنيد سے اسکا تعارف کروايا۔ جس نے پھر سے ايک سرسری نگاہ سے اسے ديکھا جو اسے ہی ديکھ رہی تھی۔ لمبے بالوں کو پونی مين باندھے۔ گلے اور ہاتھوں ميں ڈھيروں چينز پہنے ۔۔ بليک ٹراؤذر اور گرے ٹی شرٹ ميں وہ بيس اکيس سال کا لڑکا مائشہ کو عجيت سا لگا۔ کھڑے نقوش اور بے حد سفيد رنگت والا وہ لڑکا يقينا خوبصورت لگتا اگر اپنے بال کٹوا کر انسانوں والے حليے مين ہوتا۔

جندي نے محض 'ہوں' کرنے پر اکتفا کيا۔

"مائشہ يہ منير کے بڑے بيٹے ہيں جنيد" جنيد کے سرد رويے کو مائشہ نے کافی محسوس کيا تھا مگر گلناز کو فرق نہيں پڑا تھا وہ جانتی تھيں وہ ايسا ہی ہے۔

"ہيلو جنيد بھائ" مائشہ سے تو وہ عمر ميں پانچ سال بڑا ہی تھا اسی حساب سے اس نے اسے بھائ کہا۔

"آئم ناٹ يور برادر" اسکے بھائ کہنے پر جنيد نے بھنويں سکيڑ کر نہايت نخوت سے کہا۔ غصے سے وہاں سے اٹھ کر دھپ دھپ کرتا لاؤنج ميں موجود گول سيڑھيوں سے اوپر کی جانب بڑھ گيا۔

وہ حيرت سے اسے آگ بگولہ ہوتے ديکھتی رہ گئ۔

"تمہيں کيا ضرورت تھی اسے بھائ کہنے کی" گلناز نے خفگی سے مائشہ کو ديکھا۔

"اتنے بڑے ہيں وہ۔۔ پھوپھو تو کہتيں ہين جو بڑے لڑکے ہوں انہيں بھائ کہتے ہيں" وہ معصوميت سے بولی۔

گلناز اسے محض ديکھ کر رہ گئيں۔

"بيٹے يہاں پاکستان والی ويليوز نہيں ہوتيں" وہ اسے رسان سے سمجھانے لگيں۔

"چھوڑو۔۔ آؤ تم ناشتہ کرو" ٹيبل پر اسکے لئے ناشتہ لگا کر اسے بلايا۔

"آئندہ تم اسے بھائ مت کہنا۔ بلکہ جو بھی بڑی عمر کا ملے اسے صرف نام سے بلانا" انہوں نے رسانيت سے اسے سمجھايا۔

"ميں نے آج اپنی جاب سے چھٹی کی ہے۔ کل سے مين اس وقت جاب پر ہوا کروں گی۔ اور تمہارے ايڈميشن کا بھی سب کام کروا ليا ہے۔ نيکسٹ ويک سے تم سکول جاؤ گی۔ ميں شام چار بجے تک آتی ہون تب تک جنيد يا جواد گھر ميں ہوں۔ تم کسی سے زيادہ بے تکلف مت ہونا۔ جواد۔۔ جنيد سے چھوٹا ہے۔۔ وہ تھوڑا ڈفرنٹ ہے۔ اگر وہ تم سے دوستی کرے تب اس سے بات کرنا ورنہ مت کرنا۔ يہاں لوگ پاکستان کی طرح نہيں ہيں۔ سب اپنے کاموں ميں مصروف اور تھوڑے اپنی دنيا ميں رہنے والے ہيں۔ تم بھی بس اپنے کام سے کام رکھنا۔" وہ اسے ايسے يہ سب بتا رہی تھيں جيسے کسی بھی مہمان کو ضروری باتيں بتائ جاتی ہيں۔

وہ اسے کہيں سے ماں نہيں لگ رہيں تھيں جن کی چاہ ميں وہ آئ تھی۔ اسے پھوپھو کا انداز ياد آيا وہ کيسے محبت سے اسے پريشانی سے نکالتی تھيں۔ محبت سے اسکے پاس بيٹھ کر اسکے چہرے پر مسلسل پيار سے ہاتھ پھيرتے اسکی پريیشانی رفع کرتی تھيں۔

اور اسکی اپنی ماں دور کھڑيں اسے محض سمجھا رہی تھيں۔ اس نے چند آنسو اپنے اندر اتارے۔

"آپ واپس کب آتی ہيں؟" کسی آس کے تحت اس نے پوچھا۔

"ميں پانچ بجے آتی ہوں۔" انہوں نے مصروف سے انداز ميں کہا۔

"تمہارا اسکول بھی چار بجے آف ہوا کرے گا۔ آتے آتے تمہيں پانچ بج جائيں گے۔" انکے بتانے پر منہ ميں موجود سلائس کا پيس گويا اسکے حلق ميں پھنسا۔

____________________________

چھ ماہ گزر چکے تھے اس نے رشنا سے کوئ رابطہ نہيں کيا تھا۔

انہی دنوں دو تين پروڈکشن کمپنيز کو اس نے اپنی دھنيں سنائيں جنہيں اسکا کام بے حد پسند آيا۔ يا شايد قسمت نے يہی مناسب وقت اسکے لئے لکھا تھا۔

اسے ايک نئے ڈرامے کے ساؤںڈ ٹريک کا ميوزک دينا تھا۔ آج اسی سلسلے ميں اسکی پروڈيوسر سے ميٹنگ تھی۔

ايک بہن کی ان چھ ماہ ميں وہ شادی کرچکا تھا۔ اور دوسری کی بھی بات پکی کر لی تھی۔ قسمت اسکے ساتھ يا شايد اب اسکے ہاتھ ميں تھی۔

لياری سے نکل کر اس نے ايک بہتر علاقے ميں گھر خريد ليا تھا۔

ان چھ ماہ ميں زندگی ويسی ہی ہوگئ تھی جيسی وہ چاہتا تھا۔

ابھی وہ گھر سے نکل ہی رہا تھا کہ موبائل بجا۔ اس نے ايک سيکنڈ ہينڈ گاڑی لے لی تھی۔ وہ گاڑی کی ڈرائيونگ سيٹ پر بيٹھا تھا۔ ابھی گاڑی سٹارٹ نہيں کی تھی۔ موبائل سيدھا کرکے جيسے ہی اسکرين پر نمبر ديکھا۔ رشنا کا نام جگمگا رہا تھا۔

کچھ لمحے وہ خاموش نگاہوں سے اس نام کو ديکھتا رہا۔

"ہيلو۔۔ کيسے ہو" چند بيليں بجتے رہنے کے بعد دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے کال ريسيو کرکے فون کان سے لگايا۔

"ميں ٹھيک۔۔ تم کيسی ہو" بے تاثر نگاہوں سے ونڈ اسکرين کے پار سڑک کو ديکھا۔

"تم نے تو رابطہ ہی ختم کرديا۔۔ کہاں ہوتے ہو۔۔ چھ ماہ سے کوئ خير خبر ہی نہين" اس نے ناز سے شکوہ کيا۔ لہجے ميں وہی محبت تھی جو کبھی پہلے اس کے لہجے کا حصہ رہی تھی۔ مگر فاذی کو شايد اب اس سے کوئ فرق نہيں پڑنے والا تھا۔

"کوئ کام تھا؟" اس کا اجنبی لہجہ رشنا کو کھٹکا۔

"کيا ہم ميں ہميشہ کام کے حوالے سے بات چيت رہی ہے؟" اس نے الٹا سوال کيا۔

"ميرا خيال ہے ہم ميں اب کسی حوالے سے بھی بات چيت نہ رہے تو بہتر ہے" اس نے گاڑی سٹارٹ کی۔

"تم اتنے اکھڑ اور اجنبی سے لہجے ميں کيوں بول رہے ہو" وہ اسکے انداز پر حيران تھی جو ہر لمحہ اسکی منتيں کرتا تھا۔ اسکی محبت کے دم بھرتا تھا اب ايسا کيا ہوا تھا۔ اس نے تو سنا تھا اب اسکی زندگی سنورنے لگ گئ ہے۔ اسکے باپ اور بھائ بھی اسکے نام سے آشنا ہوگئے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ مشہور ہورہا تھا۔ اب تو انکی شادی آسانی سے ہو سکتی تھی۔

"ہمارا اجنبی بن جانا ہی بہتر ہے" ايک ہاتھ سے گئير لگاتے اس نے موبائل کو دوسرے ہاتھ ميں تھاما۔

"ميں نے سنا ہے تم۔۔ تمہيں کافی پراجيکٹس ملنے لگ گئے ہيں۔ تم نے تو ايسا ناطہ توڑا۔ اپنی کاميابی بھی مجھ سے شئير نہيں کی" اس نے پھر سے اسکے لہجے کو نظر انداز کرکے شکوہ کيا۔

"خوشياں ان سے شئير کی جاتی ہے جو غم ميں بھی بھرپور ساتھ ديں۔ مگر تمہارا اور ميرا ساتھ صرف خوشيوں کا تھا۔ اسی لئے آج ميں پھر سے تمہيں ياد آگيا" اس نے گويا اسے آئينہ دکھايا۔

"ميں نے تو ہماری آخری ملاقات ميں بھی يہی کہا تھا کہ جب تم کسی قابل ہوجاؤ گے تو ڈيڈی کو ہمارے رشتے پر اعتراض نہيں ہوگا۔ آج تمہارے حالات بہتر ہوگئے ہيں۔ ميں۔۔ ميں ڈيڈی سے اب آسانی سے"اس نے جس مقصد کے لئے فون کيا تھا اب وہ اسی پر آچکی تھی۔

"ميری روزی ابھی بھی ميرے جنون کی مرہون منت ہے۔ کيا تمہارے والد کو ايک دھنيں بنانے والا داماد کی حيثيت سے قبول ہوگا؟ ميرے پاس آج بھی کوئ 'ڈھنگ کی جاب' نہيں کيا وہ اتنے بڑے مل اونر ميرے اس پروفيشن پر شرمندہ نہيں ہوں گے۔ کيا تم انہيں يہ کہہ کر قائل کرلوگی کہ تم ايک ايسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہو جس کا کام صرف دھنيں بنانا اور بيچنا ہے۔ کيا تمہيں مجھے انکے سامنے متعارف کرواتے شرمندگی نہيں ہوگی؟ دل کو ايک جانب رکھ کر صرف اپنی زندگی کے بارے ميں سوچو۔ اور وہ فيصلہ کرو جو تمہارے خاندان کے شايان شان ہو۔ محبت ملنا ضروری نہيں ہوتی۔ اور جسے تم محبت کہہ رہی ہو وہ محبت نہيں تھی وقتی احساس تھا۔ ميں نہيں چاہتا اس وقتی احساس کے لئے تم اپنی زندگی خراب کرو۔ تم مجھ جيسے کے ساتھ نہيں چل سکو گی۔ اپنی زندگی کے لئے بہتر فيصلہ کرو۔ اور تمہارا جو کزن امريکہ سے آيا ہے۔ بہتر ہے کہ اسی سے شادی کرو۔ کيونکہ جب تم اسکا اور ميرا موازنہ کروگی تب ميں ہر طرح اس سے کم پڑوں گا۔ اپنی زندگی کو پچھتاوا مت بناؤ۔ مجھے تمہاری خوشی عزيز ہے۔ اپنا خيال رکھنا" بڑے سبھاؤ سے اس نے اپنی حقيقت اور ان کے درميان موجود رشتے کی حقيقت اسکے سامنے پوری طرح کھول کر رکھ دی تھی۔ زندگی نے اور محبت نے اسے حقيقت پسند بنا ديا تھا۔ اور کبھی کبھی ٹھوکريں لگنا ضروری ہوتا ہے۔ اصل زندگی کا سبق انہی ٹھوکروں ميں پنہاں ہوتا ہے۔

اس ٹھوکر کے بعد انسان کو خود کو آگے کے ناہموار رستے پر بچ بچ کر چلنا آجاتا ہے۔ پھر آنے والوں کے لئے اگلے راستے آسان کرديتا ہے۔ زندگی آسان نہين ہوتی۔ آسانی ڈھوںڈنا آجاتا ہے۔

____________________________

دروازے کے باہر اس لمحے ايک سو چواليس نمبر جگمگا رہا تھا۔

"بيسٹ آف لک" جيم نے اسے اندر جانے سے پہلے خود سے بھينچ کر کہا۔ وہ اسے بہت عزيز تھی۔ اتنی تکليفوں سے گزر کر بھی وہ کس قدر مضبوط تھی۔ اور وہ بھی فقط تئيس سال کی عمر ميں اس نے کيا کيا نہ سہ ليا تھا۔

وہ جھجھکتے ہوئے ججز کے سامنے کھڑی تھی۔ اپنا تعارف کروايا۔

فرزاد نے اچٹتی نگاہ سے اسکا جائزہ ليا۔ اس ماحول ميں مسلمان لڑکياں بھی امريکی طرز اوڑھ ليتی تھيں۔ وہ بھی ويسی ہی نام نہاد مسلمان لگ رہی تھی۔

پونی ميں جکڑے بال لمبے تھے۔ آگے کے بالوں کو فلکس کی صورت کاٹ کر ماتھے پر بکھرايا ہوا تھا دائين آنکھ ان بالون ميں تقريبا ڈھکی ہوئ تھی۔ بليک ليدر کی جيکٹ اور ويسا ہی چست شارٹ سکرٹ پہن رکھا تھا۔ ہاتھوں ميں بے تحاشا بينڈز تھے۔ ٹانگوں پر کالی رنگ کی اسٹاکنگز پہن رکھيں تھيں۔ لانگ بليک بوٹ۔ کالی نيل پالش ناخنوں پر موجود تھی۔ ڈارک ميیرون لپ اسٹک اور آنکھوں پر سموکی ميک اپ کئے وہ وہاں کی کوئ ہپ ہاپ گرل لگ رہی تھی۔

"آپ کس کو گانا پسند کريں گی؟" جانيتا نے مسکراتے پوچھا۔ وہ ان تينوں کو تھوڑی نروس لگی۔

"ميں ريشماں ميڈم کو گانا چاہوں گی" اسکی بات پر فرزاد نے چونک کر۔ اسکی جانب ديکھا۔

"ان کا کون سا گانا؟" اب کے اس نے سوال کيا۔ حليے سے وہ کہيں سے نہيں لگ رہی تھی کہ اسے ريشماں ميڈم کا معلوم بھی ہوگا۔

"لمبی جدائ" اسکے جواب پر فرزاد نے ہولے سے بھنويں اچکا کر حيرت کا اظہار کيا۔

"شروع کريں" اس نے اشارے سے اسے گانے کا آغاز کرنے کے لئے۔

ايک کان پر ہاتھ رکھے آنکھيں بند کئے اسے نے گانے کے لئے لب کھولے۔

بچھڑے ابھی ہم بس کل پرسوں

جئيوں گی ميں کيسے اس حال ميں برسوں

موت نہ آئ تيری ياد کيوں آئ

ہائے لمبی جدائ

چار دناں دا پيار او ربا

بڑی لمبی جدائ

ہونٹوں پہ آئ ميری جان دہائ

لمبی جدائ

اک تو سجن ميرے پاس نہيں رے

دوجے ملن دی کوئ آس نہيں رے

اس پہ يہ ساون آيا

آگ لگائ ہاۓ لمبی جدائ

وہ تينوں مبہوت اسکی آواز سن رہے تھے۔ انہيں خیال ہی نہيں گزرا کہ انہوں نے چند لائنيں سننی تھيں۔

وہ آنکھيں بند کئے گا رہی تھی۔

ٹوٹے زمانے تيرے ہاتھ نگوڑے

جن سے دلوں کے تو نے شيشے توڑے

ہجر کی اونچی ديوار بنائ

ہاۓ لمبی جدائ

چار دناں دا پيار او ربا

بڑی لمبی جدائ

اس نے آنکھيں کھول کر گانا ختم کيا۔

"واؤ" سب سے پہلے جيک کی جانب سے آواز آئ۔

"کيا کمال آواز ہے بھئ۔۔ مجھے تو گوز بمپس ہوئے ہيں۔۔ ديکھيں فرزاد" جانيتا نے بھی چونک کر اپنا بازو فرزاد کی جانب کيا۔

"سپرب۔۔ کہاں سے سيکھا ہے آپ نے" فرزاد نے بھی اسکی تعريف کرتے سوال کيا۔

"کہيں سے نہيں سر۔۔ بس ايسے ہی شوق ہے" اس نے کندھے اچکا کر ماتھے پر آئے بالوں کو ہلکے سے جھٹکے سے پيچھے کيا۔

"آئ کانٹ بليو کے آپ نے کہين سے نہيں سيکھا۔ اتنی پختہ آواز اتنے پختہ سر" جانيتا کو بالکل بھی اسکی بات پر يقين نہيں ہوا۔

"ميں بس کاپی کر ليتی ہوں" اس نے کندھے اچکا کر بتايا۔

"کمال کرتی ہيں پھر تو آپ" جيک نے اسے پھر سے سراہا۔

"ميرا خيال ہے اب ہم اپنا اپنا فيصلہ بتائيں" فرزاد نے مزيد اسکی تعريف ميں کچھ نہ کہا۔ وہ ايسا ہی تھا اپنے جذبات پر بہت جلد بندھ باندھنے والا۔

"ميری طرف سے تو آپ نيکسٹ راؤنڈ کے لئے آرہی ہيں" جيک نے فورا اپنا فيصلہ سنايا۔

جانيتا نے بھی۔

"ادھر آئيں" فرزاد نے کچھ کہنے کی بجائے اسے اپنے ڈيسک کے قريب بلايا۔

وہ کچھ جھجھک کر اسکے پاس آئ۔

"کانگريجوليشنز آپ نيکسٹ راؤنڈ کے لئے کوليفائ کر گئ ہيں" اسکے ہاتھ ميں يس کا کارڈ تھماتے اس نے چہرے پر نرم تاثر رکھتے کہا۔

"تھينک يو سر" اسے سمجھ نہين آئ کيسے اظہار کرے بس بے يقينی سے وہ کارڈ تھام کر ان سب سے ہاتھ ملا کر وہ باہر نکل آئ۔

"کيا ہوا؟" جيم پريشان صورت لئے کھڑا تھا۔

اس نے خاموشی سے کارڈ اسکی جانب بڑھايا۔ جس پر تمام ججز کی جانب سے يس لکھا تھا۔ اور مبارک بھی۔

"واؤ تم تو کواليفائ کرگئ ہو" جيم اسکی نسبت بے حد پرجوش ہوا۔ اسے ساتھ لگاتے خوشی سے نعرے لگائے۔ جبکہ وہ جامد تھی بالکل ۔۔۔ اتنی تکليفيں سہہ چکی تھی کہ سمجھ نہيں آئ اس خوشی کو کيسے سيليبريٹ کرے۔

"تھينکس جيم" محبت سے اپنے ساتھ لگے جيم کے گرد بازو پھيلائے۔ ايک بس اب وہی مخلص تھا۔

"يو سلی گرل۔ دوستی ميں تھينکس نہيں چلتا۔

_____________________________

"مجھے تم سے ملنا ہے" آج پھر اسے رشنا کی کال آئ۔

"ميں ابھی ايک پراجيکٹ کے لئے دوبئ جارہا ہوں۔ ايک دو دن ميں واپسی سے پھر ملتا ہوں"۔ نجانے يہ کيسی محبت تھی جو اسے رشنا کے ساتھ برا سلوک کرنے سے روک رہی تھی۔

"پکا وعدہ" اسکی بات پر اپنا سامان پيک کرتا وہ گہری سانس خارج کرتے سيدھا ہوا۔ بيڈ پر چند شرٹس بکھری ہوئيں تھيں۔ جنہيں ابھی سميٹنا تھا۔

"ہاں" کہہ کر اس نے فون بند کيا۔

دو تين دن کی جگہ اسے پورا ہفتہ گزر چکا تھا۔

وہيں سے ايک بھارتی ڈائريکٹر نے بھی اسے اپنی اگلی فلم کے ميوزک کے لئے سائن کرليا۔

بہت سے کام نپٹا کر وہ ايک ہفتے بعد واپس آيا۔

اگلے دن ہی رشنا کو فون کرکے ايک ہوٹل ميں اسے ملنے کے لئے بلايا۔

"کيسی ہو" اس وقت وہ دونوں تقريبا سال بعد ايک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔

بلو جيںز پر اسکن کلرکی ٹی شرٹ پہنے وہ اپنی بھرپور وجاہت لئے اسکے سامنے بيٹھا تھا۔

"ٹھيک ہوں۔۔ تم سناؤ۔۔ اب تو تم سے ملنے کے لئے اپائنٹمنٹ لينی پڑتی ہے" اسکے طنز پر وہ دھيمے سے مسکرايا۔

"نہيں تمہيں ايسی کوئ ضرورت نہيں ہے" وہی دھيما لہجہ۔

"تم بتاؤ۔ تمہيں کيا خاص بات کرنی تھی" کافی منگوا کر وہ اسکی جانب متوجہ ہوا۔

"ڈيڈی ميری شادی کرنا چاہتے ہيں۔ انکے دوست کا بيٹا ہے۔ ويسے تو اپنا بزنس ہے مگر ايکٹنگ بھی کرتا ہے۔ تم تو جانتے ہوگے اسے کامران لغاری" اسکی بات پر وہ بنا کوئ تاثر دئيے اسے سنتا رہا۔

"ہاں۔ پھر" وہ ايسے بات کررہا تھا جيسے اسے اس دھماکے دار خبر سے کوئ لينا دينا نہ ہو۔

"کيا مطلب پھر۔۔ تمہيں کوئ فرق نہيں پڑتا" رشنا نے حيرت سے اسکا نارمل چرہ ديکھا۔

"مجھے کس بات کا فرق پڑنا چاہئے" وہ الٹا اس سے مخاطب ہوا۔

"ميرے ڈيڈی ميری کہيں اور شادی کررہے ہيں" وہ پھر سے اپنی بات پرزور ديتے غصے سے اسے ديکھنے لگی۔

"اچھی بات ہے ميں نے تو تمہيں پہلے بھی کہا تھا کہ تم اپنی زندگی کے بارے مين سوچو" وہ اسی نارمل انداز ميں بولا۔

"فاذی مگر مجھے تم سے محبت ہے" وہ اسے باور کروانے لگی۔

"ميں نے اس دن بھی تم سے کہا تھا محبت نہيں يہ احساس ہے۔ جسے کچھ سالوں مين تم بھلا بھی دوگی۔ بہتر ہے اپنے ڈيڈی کے فيصلے پہ ہاں کہو" وہ اسے سمجھانے والے انداز ميں بولا۔

"تم اگر اب رشتہ لاؤ گے تو ڈيڈی کو اعتراض نہيں ہوگا۔ وہ بھی تو ايکٹر ہے اور تم بھی ايک آرٹ کی فيلڈ سے ہو" اسکی بات پر اس نے مسکرا کر نفی ميں سر ہلايا۔

"تمہارے ڈيڈی کو اب بھی ميرے رشتے پر اعتراض ہوگا۔ کيونکہ کامران لغاری صرف ايکٹر نہيں بزنس مين بھی ہے۔ ان کا خاندان ميرے خاندان کی نسبت کچھ بھی نہيں ہے۔ اسی لئے تمہارے ڈيڈی کو اسکے اس شوق پہ بھی کوئ اعتراض نہيں ہے" اس نے ايک بار پھر اسکے سامنے حقيقت رکھی۔

"تم ۔۔ تم مجھے ريجکٹ کررہے ہو؟" وہ غصے سے تلملائ۔

"نہيں ميں تمہيں حقيقت سے آگاہ کررہا ہوں۔ بہتر ہے کہ تم اسی شخص کو اپناؤ جو تمہيں وہی زندگی دے جس کی تم عادی ہو۔ ميں تمہيں ويسی زندگی نہيں دے پاؤں گا۔ تمہيں ميرے ساتھ بہت کچھ سفر کرنا پڑے گا۔ سب سے بڑھ کر وقت۔ ميں کئ کئ راتيں جاگتا ہوں۔ مجھے اپنے کام ميں ذرا سا خلل بھی برداشت نہيں۔ جبکہ تمہيں وقت چاہئے ہوگا اور وہ ميں نہيں دے پاؤں گا۔ جب اتنی سب محرومياں تمہارے سامنے آئيں گی۔ تب تم اس رشتے کو نبھا نہيں پاؤ گی۔ ميں تمہيں تکليف نہيں دينا چاہتا۔ اپنا خيال رکھنا۔"اسکے اطمينان ميں رتی برابر فرق نہيں پڑا تھا۔

وہ شايد ہر پہلو کو بہت پہلے ۔۔ ہر طرح سے ديکھ اور سمجھ چکا تھا۔ وہ مطمئن تھا کہ کم از کم محبت رسوا نہيں ہوئ ت


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Jalte Khawab Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Jalte Khawab   written by Ana Ilyas . Jalte Khawab  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages