Mera Dil Pukare Tujay Novel By Farwa Khalid Urdu Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 26 October 2022

Mera Dil Pukare Tujay Novel By Farwa Khalid Urdu Complete Novel

Mera Dil Pukare Tujay Novel By Farwa Khalid Urdu Complete Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Mera dil pukare tujay by farwa khalid



یہ شخص سمجھتا کیا ہے خود کو. گھٹیا , لوفر , ایڈیٹ...

اِشمل غصے سے سٹاف روم سے اپنا پرس اُٹھاتی بڑبڑاتے ہوئے بولی.

جب اُسی وقت اُس کا فون بجا تھا.

غصے میں بنا انجان نمبر پر غور کیے اِشمل نے فون اٹینڈ کرتے کان سے لگایا تھا.

ہائے سویٹ ہارٹ کیسی ہو. کیسے لگے میرے فلاورز.

فون سپیکرز سے اُُبھرتی آواز سنتے اِشمل نے غصے سے دانت بھینچے تھے.

تمہارے پاس میرا نمبر کیسے آیا. اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے اتنے فضول لفظوں سے پکارنے کی.

اِشمل سٹاف روم سے نکلتی غصے سے بولی.

نمبر کیا میں تو تمہارا سارا بائیو ڈیٹا معلوم کروا چکا ہوں ڈاکٹر. گلشن کالونی میں رہتی ہو. والد صاحب ایک سرکاری ملازم ہیں. دو چھوٹے بہن بھائی ہیں. ہما اور احد. اور سچ اپنی ہونے والی ساسو ماں کا ذکر کرنا تو بھول ہی گیا میں. وہ ایک گھریلو سادہ سی خاتون ہیں.

اور رہی بات ایسے پکارنے کی تو اب بندہ اپنی ہونے والی بیوی کو اور کیسے پُکارے کوئی اچھا طریقہ ہے تمہارے پاس تو وہ ٹرائی کر لیتا ہوں میں.

آہان تفصیل سے اُس کی بات کا جواب دیتا اُسے مزید تپا گیا تھا.

یہ کیا بکواس ہے. جیسا تم سوچ رہے ہو ویسا کچھ نہیں ہوسکتا.

اِشمل اُس سے اِس طرح سب گھروالوں کی بارے میں سن کر گھبراتے ہوئے بولی. وہ اُس کی سوچ سے بھی بڑھ کر شاطر ثابت ہوا تھا. شاید وہ اُسے کچھ زیادہ ہی ہلکے میں لے رہی تھی.

لیٹس سی پھر کس کی سوچ پوری ہوتی ہے. اور ہاں آئندہ یہ ریڈ کلر پہنے نظر نہ آؤ تم مجھے. اِس کلر میں تمہیں دیکھنے کا حق صرف میرا ہے.

اِشمل چلتی ہوئی باہر آچکی تھی جب آہان کی بات پر اُس نے جلدی سے اِدھر اُدھر دیکھا تھا. جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر کھڑی بلیک شیشوں والی مرسڈیز پر پڑی تھی.

اِس طرح مجھے ڈھونڈنے کی کوشش مت کروں. اگر میں سامنے آگیا توتمہارے لیے ہی مشکل ہوگی. ویسے بھی اِس کلر میں جتنی خوبصورت تم لگ رہی ہو مجھ پر خود پر کنٹرول کرنا کافی مشکل ہوجائے گا.

آہان اُس کے اِردگرد دیکھنے والی حرکت پر چوٹ کرتے بولا.

تم ایک انتہائی پاگل اور بےشرم انسان ہو. ایسی بے ہودہ باتیں اپنی گرل فرینڈز سے کرو جاکر تاکہ کوئی فائدہ بھی ہو. اور آئندہ مجھے فون کرنے کی کوشش مت کرنا.

اِشمل اُس کی باتوں پر غصے سے سُرخ ہوتی فون بند کرکے پرس میں رکھتی وہاں سے ہٹ گئی تھی. کیونکہ واقعی اِس شخص کا کوئی بھروسہ نہیں تھا ابھی گاڑی سے نکل کر سامنے ہی نہ آجائے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


وہ گھر آکر بغیر کھانا کھائے سیدھی اپنے روم میں آگئی تھی. اور تب سے مسلسل کمرے میں پریشانی سے اِدھر سے اُدھر چکر لگارہی تھی. لیکن اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے.

تبھی موبائل وائبریٹ ہوا تھا سدرہ کا نمبر دیکھ کر اُس نے کال ریسیو کی تھی.

اِشمل کیا ہوا تم ہاسپٹل سے اِس طرح کیوں آگئی. یار اُس نے بکے ہی تو بھیجا ہے اِس میں اتنی پریشان ہونے والی کیا بات ہے. کب تک وہ ایسے کرے گا جب تمہاری طرف سے کوئی رسپونس نہیں آئے گا تو وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا.

سدرہ اُسے سمجھاتے ہوئے بولی.

سدرہ یہ شخص ایسے ٹلنے والا نہیں ہے. تم نہیں جانتی وہ میرے بارے میں ایک ایک بات معلوم کروا چکا ہے مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے. وہ اِتنی آسانی سے میرا پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے. میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا بابا ہارٹ پیشنٹ ہیں اُنہیں میں کسی صورت کوئی ٹینشن نہیں دے سکتی اور ماما وہ تو ویسے ہی ہر بات کی اتنی ٹینشن لیتی ہیں. اور ابھی تو ویسے بھی گھر میں میرے رشتے کی بات چل رہی ہے.تم جانتی تو ہونا.

اِشمل شدید پریشانی سے بولی.

ہمہ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو. بات تو واقعی پریشانی والی ہے. ویسے ایک آئیڈیا ہے میرے پاس کیا پتا کام کر جائے.

سدرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی.

ہاں تو بتاؤ جلدی.

اِشمل جلدی سے بولی

اب اگر اگلی بار اُس نے تم سے کانٹیکٹ کیا تو تم اُسے صاف لفظوں میں بتا دینا کہ تم انگیجڈ ہو اور بہت جلد تمہاری شادی ہونے والی ہے.

سدرہ کی بات پر اِشمل ایک پل کے لیے خاموش ہوئی تھی.

تمہیں کیا لگتا میرے ایسا کہنے سے وہ پیچھے ہٹ جائے گا.

اِشمل کچھ دیر کے بعد بولی.

اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتی پر ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے. کیا پتہ پیچھے ہٹ جائے.

اوکے دیکھتی ہوں پھر میں. بس اُس فضول شخص سے جان چھوٹ جائے میری.

اِشمل ناگواری سے بولی.

ویسے تم بھی ایک عجیب ہی لڑکی ہو باقی لڑکیاں جس بندے کا پیچھا کرتی ہیں. جس کے خواب دیکھتی ہیں. تم اُسی سے پیچھا چھوڑوانا چاہتی ہو.

سدرہ اُسے چھیڑتے ہوئے بولی.

تو یہ بندہ اُنہیں لڑکیوں کو مبارک ہو مجھے نہیں چاہئے ایسا فضول شخص.

اِشمل اُس کی بات پر چڑتے ہوئے بولی.


Sanso Me Basa Tere Naam By Farwa Khalid 

"مجھے جانا ہے یہاں سے۔۔۔۔"

انشاء اُسے خفگی بھری نگاہوں سے گھورتے دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ مگر اُس کے دروازے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی وھبان اُسے کلائی سے پکڑ کر کھینچتا دیوار کے ساتھ لگا گیا تھا۔۔۔۔

انشاء نے ہٹنا چاہا تھا مگر وھبان کو دونوں ہاتھ دائیں بائیں ٹکا کر پوری طرح خود پر حاوی ہوتا دیکھ وہ گھبرا کر مزید دیوار کے ساتھ جا چپکی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ اُس کے کافی قریب کھڑا تھا۔۔۔۔

"جب تک تم وہ ثبوت میرے حوالے نہیں کرو گی۔۔۔ یہاں سے ہلنے کے بارے میں سوچنا بھی مت۔۔۔۔"

وھبان اب کی بار سرد و سپاٹ لہجے میں وارن کرتے بولتا اُسے خوفزدہ کر گیا تھا۔۔۔

"مم۔۔۔۔ میں نے بتایا نا آپ کو۔۔۔ میرے پاس نہیں ہے کچھ بھی۔۔۔۔"

انشاء ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔۔۔

"اور اگر مجھے کچھ مل گیا تو۔۔۔۔۔"

وھبان نے سوالیہ کھوجتی نگاہیں اُس پر مرکوز کی تھیں۔۔۔

"آپ میری تلاشی لیں گے؟؟؟؟"

انشاء بے یقینی سے بولی۔۔۔

"آف کورس لینی پڑے گی۔۔۔۔ میرے پاس اِس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔۔۔۔ ہاں مگر وہ سارے ثبوت خود ہی میرے حوالے کرکے مجھے ایسا کرنے سے روک سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔"

وھبان یوں بنا اجازت کسی لڑکی کو چھونے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔ اِسی وجہ سے نہ ہی اُس کا انشاء کی تلاشی لینے کا کوئی ارادہ تھا۔۔۔

وہ صرف اُسے اِس حوالے سے خوفزدہ کرکے اُس سے ثبوت لینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

"آپ ایسا نہیں کرسکتے یہ غلط ہے۔۔۔۔۔"

انشاء نے اُسے اپنی جانب ہاتھ بڑھاتے دیکھ روکنا چاہا تھا۔۔۔

"میرے کام میں اکثر ٹھیک نتائج لانے کے لیے غلط طریقوں کو اپنانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔"

وھبان چاہتا تھا کہ وہ خود اُسے سارے ثبوت دے دے۔۔۔۔

انشاء کا چہرا بالکل ریڈ ہوچکا تھا۔۔۔۔

"ایک منٹ۔۔۔۔ رکیں۔۔۔۔"

خفگی بھری سخت نگاہوں سے اُسے گھورتی آخر کار ہار مان گئی تھی۔۔۔۔

"دیتی ہوں میں۔۔۔۔ آپ پلیز اُدھر دیکھیں۔۔۔"

انشاء حامی بھرتے بولی۔۔۔۔ اُس نے بیک سائیڈ پر شرٹ کے نیچے بیگ کے اندر وہ سب پیپرز اور باقی چیزیں ڈال رکھی تھیں۔۔۔۔

وھبان اُس کی بات سمجھتا رُخ موڑ گیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ انشاء ہی کیا جو اتنی آسانی سے ہار مان جائے۔۔۔۔

انشاء نے نگاہیں گھما کر اردگرد ہتھیار کے طور پر کوئی شے تلاشنی چاہی تھی۔۔۔ جب اُس کی نظر اپنے پیر کے بالکل ساتھ ہی پڑی اینٹ کی جانب گئی تھی۔۔۔۔

انشاء کا چہرا کھل اُٹھا تھا۔۔۔

اِس وقت وہ یہ بھول چکی تھی کہ مقابل شخص کون تھا۔۔۔۔ اور وہ اپنے دل میں اِس انسان کے لیے کیسے جذبے محسوس کرتی تھی۔۔۔ اُس کے لیے اِس وقت سب سے اہم کام یہ تمام ثبوت سہی سلامت اپنے ساتھی تک پہنچانا تھا ۔۔۔۔ جس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوگئی تھی۔۔۔۔۔

اُس نے جلدی سے جھک کر اینٹ اُٹھاتے کچھ فاصلے پر ہی رُخ موڑے کھڑے وھبان پر حملہ کردیا تھا۔۔۔۔ شاید وہ اِس وقت یہ بات فراموش کر چکی تھی کہ ایک ایجنٹ صرف آگے ہی نہیں بلکہ ہر طرف نگاہ رکھتا تھا۔۔۔

اپنے اردگرد ہوتی معمولی ترین موومنٹ جو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سمجھ جاتا تھا۔۔۔ وہ بھلا خود پر ہونے والے حملے سے کیسے بے خبر رہتا۔۔۔

انشاء وھبان کے سر پر اینٹ مار کر وار کرنے ہی والی تھی۔۔۔ جب وھبان نے اُسی لمحے پلٹتے انشاء کی کلائی دبوچ کر کمر کے پیچھے موڑتے اُسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔ وھبان کے خطرناک تیور بتا رہے تھے کہ اُسے انشاء کی اِس غلطی نے کس قدر غصہ دلا دیا تھا۔۔۔

جبکہ انشاء کا چہرا خوف کے مارے بالکل زرد ہوچکا تھا۔۔۔

...........


ہناد محتشم اور باقی تمام ارکان کی میٹنگ جاری تھی۔۔۔۔ اردگرد سٹائلش لباس پہنے کھڑی اُن سب کی پی ایز دوسرے مالکان کو لجھانے کے لیے تیار کھڑی تھیں۔۔۔۔

کوٹھے پر ناچنے والی طوائفوں کو سب سے ذلت آمیز مخلوق سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔

اور وہاں جانے والوں کو ہوس کا پجاری۔۔۔۔

مگر معاشرے کی اِس پستی سے بہت کم لوگ کی آگاہ تھے جو اِن پڑھے لکھے معزز لوگوں کی محفلوں میں عورت کو نمائش کی طرح سجا کر معاشرے کا ناسور بنتی جارہی تھی۔۔۔۔۔

ہمیشہ اِن محفلوں کا حصہ رہنے والا اور عورتوں کو ایسے ہی ٹشو پیپرز کی طرح استعمال کرنے والا ہناد محتشم کا دل آج کیوں اِس محفل سے اچاٹ ہورہا تھا۔۔۔ وہ بالکل بھی سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔۔۔۔

اُس کا یہ رویہ میٹنگ میں موجود تمام افراد ہی نوٹ کررہے تھے۔۔۔۔ مگر بولنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔۔۔۔

ہناد کے غصے سے وہاں بیٹھا ہر شخص بہت اچھے سے واقف تھا۔۔۔۔۔

جب کافی دیر بعد چوہدری ہاشم نے یہ گستاخی کرنے کی جرأت کر ہی لی تھی۔۔۔

"کیا ہوا ہناد صاحب آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔۔۔۔ سب خیریت ہے نا۔۔۔۔ میٹنگ اتنی رنگین ہے۔۔۔۔ جس تتلی پر ہاتھ رکھیں گے آپ کے سپرد کردی جائے گی۔۔۔۔۔ زرا تھوڑی خوش مزاجی تو دیکھائیں ہمیں۔۔۔۔۔ خاص طور پر آپ سے ملنے آئے ہیں ہم سب۔۔۔۔۔"

چوہدری ہاشم نے ہناد کی جانب مُڑتے انتہائی خوشدلی سے اُسے مخاطب کیا تھا۔۔۔۔۔

جس کے جواب میں اُسے ہناد کے سرد تاثرات کے سوا کچھ نہیں ملا تھا۔۔۔۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں چوہدری صاحب۔۔۔۔ آپ اپنا دھیان دیں۔۔۔۔ دن بدن مارکیٹ میں آپ کے شیئرز گرتے جارہے ہیں۔۔۔ ایسے نہ ہو۔۔۔۔ اِن رنگین تتلیوں پر دھیان دیتے دیتے بہت جلد روڈ پر آنا پڑ جائے۔۔۔۔"

ہناد نے جوابی وار کرتے چوہدری ہاشم کو شرمندہ کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔ باقی سب کے چہرے کی استہزایہ مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ ہناد کی بات اچھے سے سن چکے ہیں۔۔۔۔

لیکن چوہدری ہاشم کو تو اب جیسے ہناد محتشم سے منہ کی کھانے کی عادت ہوچکی تھی۔۔۔۔

اپنی بے عزتی کروانے کے بعد بھی باز نہیں آیا تھا۔۔۔۔

"ویسے ہناد صاحب آپ کی وہ سیکرٹری نظر نہیں آرہی۔۔۔۔ اگر وہ بھی یہاں میٹنگ روم میں آجاتی تو یہاں کا ماحول اور بھی خوشگوار ہوجانا تھا اور ساتھ ہی آنکھوں کو بھی کافی حد تک ٹھنڈک مل جانی تھی۔۔۔۔۔ ویسے بھی یہ سیکرٹری نما شے ہوتی بھی تو اِسی خاطر ہیں۔۔۔۔"

چوہدری ہاشم کی زبان میں ایک بار سے کھجلی ہوئی تھی۔۔۔۔ مگر اِس بار اُس نے ہناد کے بارے میں نہیں بلکہ آزفہ کے بارے میں غلط لفظ استعمال کیا تھا۔۔۔۔ وہ کیسے سن پاتا۔۔۔۔۔

"بکواس بند کرو اپنی گھٹیا شخص۔۔۔۔ میری سیکرٹری اِن سب کے جیسی نہیں ہے۔۔۔۔ اُس کے بارے میں دوبارہ کوئی بکواس کی تو جان سے مار دوں گا۔۔۔۔۔"

ہناد آگ بھگولا ہوتا ہاشم کو زور دار مکہ رسید کرتا کرسی کے ساتھ ہی سر کے بل پیچھے گر گیا تھا۔۔۔۔

"ہناد سر پلیز کام ڈاؤن۔۔۔۔۔"

ہناد کا خاص آدمی سجاول بھاگ کر قریب آتا ہناد کو دوبارہ چوہدری ہاشم پر ہاتھ اُٹھانے سے روک گیا تھا۔۔۔

چوہدری ہاشم سمیت کوئی بھی اِس صورتِ حال کے لیے قطعی تیار نہیں تھا۔۔۔۔

ایک معمولی سی سیکرٹری کے بارے میں کہی بات پر ایسا ری ایکشن۔۔۔۔۔ کوئی بھی ہناد محتشم سے اِس بات کی توقع نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔

"نکال باہر پھینکو اِسے یہاں سے۔۔۔۔۔ آئندہ یہ میری نگاہوں کے سامنے نہیں آنا چاہئے۔۔۔۔۔"

ہناد محتشم بمشکل باقی لوگوں کے سارے نیچے گری کرسی سے اُٹھتے چوہدری ہاشم کو خون آشام نگاہوں سے دیکھتا راہ میں آئی ہر شے کو ٹھوکر سے اُڑاتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔


Sanso Me Basa Tere Naam By Farwa Khalid


تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آزفہ منہ کے بل زمین پر جاگری تھی۔۔۔

"دیکھو میرے قریب مت آنا۔۔۔۔"

فرش پر ہی پیچھے کی جانب سرکتی وہ بے بسی بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔ مگر ہاشم کی ہوس اب مزید بڑھ چکی تھی۔۔۔ وہ اِس لڑکی کو کسی صورت چھوڑنے والا نہیں تھا اب۔۔۔۔

وہ آزفہ کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے جھکا تھا۔۔۔۔

آزفہ نے آنکھیں سختی سے میچتے اپنے اللہ کو پکارتے اُس سے مدد مانگی تھی۔۔۔۔ اُس کی اب ساری اُمیدیں اپنے رب سے وابستہ تھیں۔۔۔ جو ہمیشہ ہر جگہ اُس کی مدد کرتا آیا تھا۔۔۔۔

جب اُسی لمحے دروازے پر باہر سے زور دار ضرب رسید کی گئی تھی۔۔۔ ہاشم نے گھبرا کے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔چند سیکنڈز کی لگاتار ضربوں کے بعد دروازے کا لاک ٹوٹا تھا۔۔۔۔

اندر داخل ہونے والے شخص کو دیکھ آزفہ کے کئی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر لڑھک آئے تھے۔۔۔۔۔

چوہدری ہاشم کو ہناد محتشم موت کی صورت اپنے قریب آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔

ہناد نے ایک خون آشام نگاہ فرش پر گری آزفہ پر ڈالی تھی۔۔۔ جس کو صحیح سلامت دیکھ اُس کے جلتے دل میں سکون اُتر گیا تھا۔۔۔ اُسے آنے میں دیر نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔

مگر اُس کی وحشت ناک غصے بھری نگاہیں دیکھ آزفہ اندر تک لرز اُٹھی تھی۔۔۔ ہناد نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر آزفہ کو اُٹھایا تھا۔۔۔۔ اپنے بازو پر موجود سخت گرفت سے آزفہ اُس کے غصے کا اندازہ اچھے سے لگا پارہی تھی۔۔۔ اُسے اپنے بازو کی ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔

وہیں اُس کے نازک گال پر پڑے اُنگلیوں کے نشان دیکھ ہناد تو جیسے پاگل ہو اُٹھا تھا۔۔۔۔

اُسے انسان سے حیوان بننے میں ایک پل نہیں لگا تھا۔۔۔۔

وہ واپس پلٹا تھا اور موبائل نکال کر اپنے گارڈز کو کال ملاتے ہاشم پر بُری طرح اپنا قہر توڑتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔

ہناد کے بھاری ہاتھ کے پڑنے والے مکے ہاشم کو کچھ ہی لمحوں میں ہاتھ موا کر گئے تھے۔۔۔۔

اُس کا پورا چہرا لہولہان ہوچکا تھا۔۔۔۔ ہناد اندر صرف اکیلا ہی آیا تھا۔۔۔ باقی سب لوگ باہر موجود تھے۔۔۔ اِس لیے ہناد کو کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا۔۔۔

آزفہ تو ہناد کو اتنے غصے میں دیکھ سہم کر دیوار سے لگی چوہدری ہاشم کی حالت دیکھ خوف کے عالم میں چہرے پر ہاتھ رکھ گئی تھی۔


Diltang Tawam Jana By Farwa Khalid


تجھ سے بڑی بے وقوف لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ اتنی بڑی اینکر بنی پھرتی ہے۔ میں نے ایک بار کہہ دیا تو اُس التمش غیدان کے خلاف رپورٹ لکھوانے چل پڑی۔ تجھے اغوا اُس نے نہیں ۔۔۔۔"
وہ بولتے بولتے ماہ رو کے قریب جارہا تھا۔ اِس سے پہلے کے ہاتھ بڑھا کر وہ ماہِ رو کو چھوتا جب دائیں جانب سے چہرے پر ایک زوردار ٹھوکر رسید کی گئی تھی۔ وہ اتنے شدید حملے پر بلبلاتا دور جاگرا تھا۔ بھاری بوٹ کا وار اتنا سخت تھا کہ اُسے اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
ماہ رو نے بھیگی پلکیں اُٹھا کر اچانک نازل ہونے والے اُس فرشتے کو دیکھا تھا۔ مگر مقابل پر نظر پڑتے اُس کی نگاہوں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں ساکت ہوئی تھیں۔ وہ سانس روکے اُس پتھریلی زمین پر جوں کی توں بیٹھی رہ گئی تھی۔
آف وائٹ قمیض شلوار پر براؤن شال اوڑھے وہ کسی بپھرے زخمی شیر کی طرح اُس نقاب پوش کو بُری طرح پیٹنا شروع کرچکاتھا۔ جسے ایک دو بار ہی زمین پر پٹخنے پر اُس شخص کی جان حلق تک آچکی تھی۔
اُسے پاگلوں کی طرح پیٹتے دیکھ ماہِ رو کا سکتہ ٹوٹا تھا۔ وہ بہت مشکل سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔ جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر سرجھکائے فیروز پر پڑی تھی۔
"روکو اُنہیں وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو فیروز کی جانب دیکھ چلائی تھی۔ مگر فیروز نے اپنا جھکا سر اُٹھانے کی گستاخی نہیں کی تھی۔ وہ ہنوز سر جھکائے ساکت و جامد اپنے باس کے نئے حکم کا منتظر تھا۔
"ایڈیٹ۔۔۔۔"
ماہِ رو اُس التمش غیدان کے روبوٹ پر ایک غصے بھری نظر ڈالتی خود ہی التمش کی جانب بڑھی تھی۔ جسے دوبارہ زندگی میں کبھی مخاطب نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اُس نے۔
"چھوڑیں اُسے۔۔۔۔وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو التمش کے قریب آتی چلائی تھی۔ مگر وہ غضبناکی کی حدود کو چھوتا کچھ بھی سننے سمجھنے سے قاصر بس اُس شخص کو پیٹی جارہا تھا۔ جس نے ماہِ رو آبنوس پر بُری نظر ڈال کر التمش غیدان کے قہر کو آواز دی تھی۔
"التمش میں نے کہا چھوڑیں اُسے۔۔۔۔ وہ مر جائے گا۔"
اُس شخص کے لہولہان وجود کی جانب ایک نظر ڈال کر ہی ماہِ رو خوف سے کانپ اُٹھی تھی۔
جبکہ دوسری جانب اتنے سال بعد اپنے نام کی پکار اُن نازک ہونٹوں سے سنتے التمش غیدان کے ہاتھ وہیں ساکت ہوئے تھے۔ اتنے سالوں سے ساکت پڑے دل میں ہلچل سی پیدا ہوئی تھی۔
"جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔"
التمش اُس پر نگاہِ غلط ڈالے بغیر اُس کی جانب سے رُخ موڑکر کھڑے ہوتے بولا تھا۔
"اُسے اُس کی غلطی کی سزا مل چکی ہے۔ اب مزید اپنے اندر کا گلٹ ختم کرنے کے لیے ایک اور قتل مت لکھوا لیجیئے گا اپنے سر۔"
ماہِ رو اُس پر گہرا طنز کرتے پلٹی تھی۔ جبکہ اُس کا جملہ التمش غیدان کے پہلے سے جلتے سینے میں مزید آگ بھڑکا گیا تھا۔
اُس نے ایک جھٹکے سے مڑتے واپس پلٹتی ماہِ رو کا بازو اپنے آہنی شکنجے میں لیتے اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ اِس جارحانہ عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ سیدھی التمش کے سینے سے ٹکراتے اُس کے ہونٹوں سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی تھی۔
اُس نے فوراً التمش کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جماتے بیچ میں فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر التمش کی لال انگارہ خود پر جمی آنکھیں دیکھ ماہِ رو کا خون رگوں میں منجمد ہوا تھا۔
اُس کے دھکتے لمس اور چہرے پر پڑتی گرم سانسوں کی تپیش پر ماہِ رو کو اپنا وجود کپکپاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ جس کے خلاف وہ سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر نجانے کیا کیا پروپیگنڈے کرتی پھر رہی تھی۔ اُس کے سامنے آتے ہیں سانسیں حلق میں اٹک چکی تھیں۔
وہ بنا ہلے اُس کے حصار میں ساکت کھڑی تھی۔ جب کان کی لوح پر دھکتی گرم سانسوں کی تپیش محسوس کرتے اُس سے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا محال ہوا تھا۔ اگر التمش نے اُسے تھام نہ رکھا ہوتا تو وہ کب کا زمین بوس ہوچکی ہوتی۔
"میں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوں۔ جس سے اُلجھ کر تم جل کر راکھ ہوجاؤ گی۔ مگر پھر بھی مجھے بجھا نہیں پاؤ گی۔ اور نہ میرے اندر دھکتے شعلوں کی شدت کم کرپاؤ گی۔ اِس لیے تمہارے لیے یہی بہتر ہے میری دنیا میں گھسنے کی کوشش نہ کرو۔ ورنہ تمہارا انجام بہت عبرت ناک بنا دوں گا میں۔"
اُس کے کان میں سفاکیت بھرے لہجے میں سرگوشی کرتا وہ ماہِ رو کے کب سے رُکے آنسوؤں کو باہر کا راستہ دیکھا گیا تھا۔
ماہِ رو نے ایک اذیت بھری نگاہ اُس بے رحم انسان پر ڈالتے اُسے خود سے دور دھکیلنا چاہا تھا۔ مگر التمش کی مضبوط گرفت نے اُسے زرا سا ہلنے بھی نہیں دیا تھا۔
"التمش غیدان اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں۔ میرا سب کچھ چھین لیا تم نے مجھے سے۔ میں بھی تم سے تمہارا سب کچھ چیھن لینا چاہتی ہوں۔ تمہیں بھی ویسی اذیت کا شکار کرنا چاہتی ہوں جیسا تم نے میرا حال کیا تھا۔ تم مجھے اپنی طاقت سے روکنے کی چاہے جتنی مرضی کوشش کر لو۔
میں اپنی آخری سانس تک تم سے نفرت کرتی رہوں گی. اور اپنا انتقام پورا کروں گی۔"
ماہِ رو بہتی آنکھوں کے ساتھ اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتے بولی تھی۔
اُس کے ہر بہتے آنسو کے ساتھ التمش کی گرفت اُس کے بازو پر مزید مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ التمش کا بس نہیں چل رہا تھا۔ ہر چیز تہس نہس کردے۔ کیوں ہر بار یہ لڑکی اُس کے سینے میں آگ دہکا دیتی تھی۔ کیوں اُسے سکون سے جینے نہیں دیتی تھی۔ ۔اتنی نفرت کے باوجود اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو التمش غیدان کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہورہے تھے۔
اِس سے پہلے کے وہ کمزور پڑتا اُس نے ماہِ رو کو اپنے شکنجے سے آزاد کرتے اپنا رُخ موڑ لیا تھا۔
"جاؤ۔۔۔۔۔جو کرنا چاہتی ہو میرے خلاف کرو۔۔مگر میری ایک بات یاد رکھنا التمش غیدان ایک ایسی چٹان ہے جسے تم چاہ کر بھی توڑ نہیں پاؤ گی۔ اور جب مجھے لگا تم اِس چٹان سے ٹکراتی ہار رہی ہو تو پھر جواباً میرا وار سہنے کے لیے تیار ہوجانا۔ جس سے بچنا تمہاری نازک جان کے لیے ناممکن ہوگا۔ اِس لیے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ۔ ورنہ مجھے ہرانے میں ناکامی پر جو سزا میں تمہیں دوں گا، وہ تمہیں شاید پسند نہ آئے۔"

التمش کی بات میں چھپا معنی خیز مفہوم وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔ اتنی سنگین سچویشن کے باوجود ماہِ رو کا چہرا سُرخ ہوا تھا اور کانوں کی لوحیں دہک اُٹھی تھیں۔


 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Jaan E Bewafa Novel 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel   Jaan E Bewafa   written Rimsha Hayat . D Jaan E Bewafa   by  Rimsha  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support... 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages