Janoon E Ulfat Novel Famous episode 2 By Mehwish Ali - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 26 October 2022

Janoon E Ulfat Novel Famous episode 2 By Mehwish Ali

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel Janoon E Ulfat Novel Famous episode 2 Mehwish Ali 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Janoon E Ulfat By Mehwish Ali



"دریاب! ہمارے جو بےجا آزاد خیال ہیں نا اسنے ہمیں برباد کردیا ہے۔ تمہارے ڈیڈ کا رویہ مجھ سے بدل گیا۔ وہ جب اپنی بہن کے بچے دیکھتے پھر اپنے بچوں کو پر نظر ثانی کرتے ہیں تو انکی سوالیہ نظریں مجھ پر آکر رکتی ہیں کہ یہ میں نے پرورش کی ہے انکی اولاد کی۔ ہماری اپنی اولاد کی وجہ سے ہماری نظریں جھکی ہوتی ہیں۔

اور میں جانتی ہوں بلکہ قصوروار ہی میں ہوں اس سب کی کیونکہ نا میں ایک اچھی بیٹی تھی نا بیوی نا ہی ماں۔" وہ تڑپ کر اٹھا اور انکا سر سینے سے لگائے سر پہ بوسے دیتا انہیں خاموش کروانے لگا جوکہ ہچکیاں بھر رہی تھیں۔


"نہیں مام اس میں آپکا قصور نہیں مام آپ تو ورلڈ بیسٹ مام ہیں ڈیڈ نے ہر طرح سے آپکو غلط قرار دیا ہے پھر چاہے آپ کتنا اچھا کیوں نا کرلیں انکے لئے پر وہ ہمیشہ آپ کے ہرکام میں نقص عیب نکالتا ہے۔" وہ افسوس سے اپنے ڈیڈ کا سخت رویہ اپنی پیاری سے مام کے ساتھ یاد کرتے بولا۔۔


"نہیں دریاب وہ نقص نہیں نکالتے میرے کام میں۔ وہ جو کہتے ہیں حق پر ہیں، میں آج تک ان سے چھیننے کے سواء انہیں دیا کیا ہے؟ کوئی سکھ نہیں دے سکی میں انہیں اپنی زندگی میں ہمیشہ مشکلات ہی مشکلات انکی راہ میں حائل کیئے۔" وہ اپنے بیٹے کی سوچ کو غلط ثابت کرنے لگیں۔


"مام پلیز! ڈیڈ ہر بات کا آپکو قصوروار ٹھہراتے ہیں میں اندھا نہیں ہوں مجھے دکھتا ہے۔ کیا آپ نے خود کیا تھا وہ سب؟؟ ڈیڈ کس بات پر غصہ ہیں آپ سے؟ جتنی اولاد کی پرورش میں حق ماں کا ہوتا ہے اتنا ہی باپ کا بھی تو ڈیڈ اپنا کیوں نہیں دیکھتے۔۔

آپ انکے غلط رویے پر پردے ڈالنا بند کریں مام میں سب جانتا ہوں۔۔"


"انف دریاب! بہت ہوگیا تمہیں ہوا کیا ہے سب سے بدگمان ہوکر چلے ہو؟ کبھی صمصام کبھی اپنے ڈیڈ۔۔ کبھی کسی سے تو کبھی کسی سے۔۔۔" وہ اسے غصے میں بیچ میں ٹوک کر اسے خاموش کروا گئیں۔


دریاب نے سختی سے اپنا نچلہ لب دانتوں تلے دبا لیا۔ شہد رنگ آنکھوں میں سرخی کو امڈنے سے اسنے بمشکل روکا۔۔


"اوکے کچھ نہیں کہتا سوری! اب آپ پریشان مت ہوں میں ابھی ہوا کے گھوڑے پر گیا اور اسے لیکر یوں آیا۔" خود کو ریلیکس کرتے اپنے اعصاب پرسکون کیے، اپنی ماں کی آنکھیں صاف کرتا وہ بولا۔


"نہیں رک جاؤ!" اسکے ایک قدم بڑھانے سے پہلے ہی انہوں نے پیچھے سے روک لیا۔

"کیوں؟؟ اسے لانا نہیں کیا؟" وہ حیرت سے پلٹا۔ ابھی تو اتنی پریشان رو رہی تھیں اور اب سے روک رہی ہیں۔

"تم ناشتہ کرو میں نے تم سے پہلے صمصام کو کہہ دیا ہے وہ آتے ہوئے ساتھ اسے بھی لائے گا۔" سپاٹ آواز میں کہتی اٹھیں اور سنک کی طرف ہاتھ دھونے چلی گئیں۔


جس تیز قدموں سے وہ دہلیز پار کرنے کیلئے بڑھا تھا انہیں قدموں سے شاکڈ پلٹا۔۔

"واٹ۔ٹ!!!!" خاموش فضا میں اسکی حیرت بےیقین سی آواز گونجی۔

"آپ نے عرشیہ کیلئے صمصام کو کیوں لانے کا کہا ہے؟؟؟ کیا اسکا بھائی مرگیا تھا مام؟" اسے سن کر جتنا غصہ آیا تھا ابھی جانے کیا کردیتا۔

"شٹ اپ دریاب کیا فضول ہانک رہے ہو؟ کیا خباط ہے اگر میں نے اسے کہہ دیا؟؟" عائشہ غصے سے پلٹ کر بولیں۔

"برا نہیں بہت برا ناگوار ہے کہ وہ شخص میری بہن کو لینے جائے۔ آپ ہوش میں ہیں مام کہ عرشیہ کے بھائی کے زندہ ہوتے آپ ایک غیر کو کیوں کہہ رہی ہیں اسے لینے جائے؟؟" وہ اپنا غصہ بہت مشکل سے دبائے واپس اندر آگیا۔


"مہربانی ہوگی دریاب کوئی تماشا مت بنانا۔ تمہاری بہن الریڈی غیروں میں ہے جسکی اجازت تم اسے دے چکے ہو۔ صمصام وہیں ہے دبئی میں ایک میٹنگ کے سلسلے میں گیا ہوا ہے کل رات سے تو میں نے اسے کہہ دیا کہ آتے ہوئے وہاں سے ساتھ عرشیہ کو لانا اور اسکی خیرخبر لو کہ کیوں کال اٹینڈ نہیں کر رہی۔" انہوں نے بغیر اسکے غصے کو نظرانداز کرتے کہا جسے سن کر دریاب کچھ کہہ تو نا پایا البتہ اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر لبوں پر رکھ دی۔


وہ مغرور انسان جو ان سے ٹھیک منہ بات تک نہیں کرتا تھا انہیں کوئی نیچ ذات سمجھتا تھا اس انسان کو کہہ دیا تھا کہ اسکی بہن کو ساتھ لائے تاکہ اس انسان کو مزید لگے کہ اسکی بہن کوئی ایسے ویسی لڑکی ہے یا اسکا بھائی کوئی آوارہ لوفر ہے جسکی غیرموجودگی میں اسکی بیچاری ماں کو مجبوراً اسے یہ ذمہ داری سونپنی پڑی ہے۔

وہ اپنی بہن کو زیادہ عرشیہ سے گھلنے ملنے نہیں دیتا تھا۔ اس سے ہمیشہ دور رکھتا تھا وہ کیا اسکی بہن کی رکھوالی کرے گا۔ الٹا وہ کوئی ایسی اذیت دیگا اسکی بہن کو جس سے وہ مزید ٹوٹ جائے گی۔

"کیا کر رہے ہو؟" دریاب کو موبائل پر مصروف دیکھتے عائشہ اسکے پاس آگئیں

"میں اسے کال کرکے انکار کر رہا ہوں کہ میں خود آرہا ہوں اپنی بہن کو لینے اسکی ضرورت نہیں۔" وہ کہہ کر موبائل کان سے لگانے ہی والا تھا کہ بات کے اختتام ہوتے ہی عائشہ نے جھپٹ کر اس سے موبائل لیتے کال ڈسکنیکٹ کردی۔


"خبردار دریاب ایسی کوئی حرکت کی تمنے۔ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا میں بتا رہی ہوں۔۔ بس کرو تم سب میرے لئے اذیت بڑھانا قصور کیا ہے میرا؟؟" انگلی اٹھا کر وارن کرتی وہ ہذیانی انداز میں چیخ اٹھیں۔

"مام!!" دریاب سکتے میں بولا۔

"بس کہا نا میں نے تو بس!!! اتنا اوور ری ایکٹ کر رہے ہو تم۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی آخرکار تم لوگوں کو چڑ کیا ہے اس سے؟ یہی تم سب سے ہضم نہیں ہوتا کہ وہ تم سب سے آگے کیوں ہے؟ اتنا اچھا پرفیکٹ کیوں ہے وہ۔۔۔

تمہیں میں بس اتنا بتانا چاہوں گی نا کہ تم جس طرح اپنی بہن کو سیکیور رکھتے ہو۔ رکھو ایسے ہی رکھو جس طرح تمہاری بہن کے لچھن ہیں نا بیٹھی ہوگی یہیں۔" انکے انداز لہجے الفاظ پر دریاب شاکڈ انہیں بےیقینی سے دیکھتا رہا۔


"اور مجھے ایک بات بتاؤ جس طرح تم صمصام سے چڑتے اسے ناپسند کرتے ہو کس منہ سے ہم تمہارے لیے توقیع کے رشتے کی بات کرنے جائیں گے؟

کیا صائم بھائی راضی ہوں گے اسکے باوجود کے انکا ہونے والا داماد انکی لاڈلی بیٹی کا شوہر اپنے بڑے سالے سے بےانتہا نفرت کرے یا اسے ناپسند کرتا ہے۔۔" وہ اسے گنگ کرگئی۔

کیا اسکی ماں جانتی تھی اسکی پسندگی توقیع کیلئے۔

ابھی وہ کچھ کہتا اس سے پہلے عائشہ کے ہاتھ میں موجود دریاب کا موبائل بج اٹھا۔ جسے انہوں نے دیکھا تو صمصام کا نمبر تھا۔

"اتنی بھی کیا ناپسندگی کہ دریاب نے صمصام کا نمبر بھی اپنی موبائل میں سیو نہیں کیا تھا۔" عائشہ تاسف سے اسے چہرے کو دیکھتی رہ گئیں۔

"لو اگر اتنا ہی مغرور انا پرست ہوتا تو کبھی تمہاری کال پر بیک کال نا کرتا۔" وہ اسے موبائل تھما کر خود ملازمہ کو صفائی کی ہدایات دینے چلی گئیں۔

پیچھے انکی پشت کو دیکھتے دریاب نے موبائل کو دیکھا۔ دل کیا ابھی دیوار میں لگا کر موبائل کے چودہ ٹکڑے کر دے پر۔۔۔۔

"ہیلو!" بیزاریت سے اسنے اوکے کرتے موبائل کان سے لگایا۔۔۔

"صمصام زیدی اسپیکنگ!" دوسری طرف اسکی بھاری مگر سپاٹ آواز گونجی۔

ساتھ تعارف بھی کروا چکا تھا کہ اب بولو کام کیا ہے۔

"عرشیہ سے ملے؟" بغیر حال احوال کے بددلی سے وہ چیئر کھسکا کر بیٹھتا ہوا ڈاریک پوانٹ پر آیا۔

دوسری طرف لمحے کیلئے خاموشی چھائی۔

"نہیں!" اسکا سرد لہجے میں انکار دریاب کو کسی طمانچے سے کم نا لگا۔ وہ سختی سے مٹھی میں موبائل بھینچ گیا۔

"میرے پاس اسکا نمبر نہیں، اگر تکلیف نا ہو تو سینڈ کردو میں کوشش کرتا ہوں میٹنگ کے بعد اسکی لوکیشن ٹریک کرنے کی۔" وہ مزید بولا اور ساتھ ہی کال ڈسکنیکٹ کرگیا۔۔

دریاب نے اس قدر انسلٹ پر اپنے موبائل کی اسکرین ٹھا کے ساتھ ٹیبل پر ماری۔ اسکا بس نہیں تھا کہ وہ کچھ کردے۔ وہ خان کی اولاد تھا۔ رگوں میں جوش مارتا خون تھا۔ اسکا غصہ قہر اسکے کنٹرول سے باہر تھا۔ اسکی انا کہاں گوارہ کرتی تھی کسی کے سامنے جھکنے یا کسی کو اپنا کام نام یاد کروانے کی۔

"اسے اپنی بہن کا نمبر دوں!"

"اوہ تو اس نواب کے پاس اپنی کزن تک کا نمبر نہیں۔ واہ اور میری بھولی ماں دا پرفیکٹ مین کو ذمہ داری دے چکی ہیں۔"

"اگر میری بہن کا مسئلہ نا ہوتا تو آج مام آپکو دیکھا دیتا اس لاپرواہ مغرور انسان کی پرفیکٹگری"

سرجھٹک کر نمبر دینے کیلئے جیسے موبائل کو سیدھا کیا اسکی اسکرین ڈیمج دیکھ کر وہ لب آپس میں پیوست کرگیا۔


"تم نے ابھی ناشتہ نہیں کیا دریاب جلدی کرو خان کی دوسری کال آچکی ہے اہم مینٹنگ میں جانا ہے انہیں تمہیں بلا رہے ہیں آفس۔" عائشہ وہاں داخل ہوتی اسے خاموش بیٹھا دیکھ کر بولیں۔

"بہانے ہیں آپکے خان صاحب کے، ہر دومنٹ میں آپکی آواز سننے کیلئے کال کر رہے ہیں۔" وہ ہنستا ہوا اٹھا۔

"دریاب!" عائشہ اسکی بات پر جھینپ کر غصے سے جھڑک گئیں


"جارہا ہوں! آپ مہربانی کرکے اپنے دا پرفیکٹ مین کو عرشیہ کا نمبر یا لوکیشن سینڈ کردیں اسکے پاس نمبر نہیں ہم نیچ ذات کے افراد کا۔" کڑوے کسیلے لہجے میں گویا ہوتا وہ بغیر ناشتے کے وہاں سے نکلا۔


"اور ہاں مجھے پسند توقیع ہے اسکا بھائی نہیں اسلئے شادی بھی میں توقیع سے کروں گا اسکے بھائی سے نہیں۔ اسلئے میرا اسے پسند کرنا نا کرنا اہم نہیں۔ اہم تو یہ ہے کہ میں اسکی بہن کو کتنا پسند کرتا ہوں۔۔

اور آپ بس اب جلدی سے بہو لانے کی تیاری کریں۔ رہی بات میری بہن کی تو یہ آپکی غلط فہمی ہے مام کہ میری بہن کیلئے کوئی رشتہ نہیں ملے گا۔

یہ آپکو وقت ثابت کرکے دکھائے گا کہ میں اپنی بہن کیلئے اس مسٹر پرفیکٹ سے بھی پرفیکٹ اچھا انسان لاؤں گا۔"

کچن کی دہلیز پر وہ رک کر سنجیدگی سے گویا ہوتا عائشہ کو حیرت میں دیکھ کر پاس آیا۔۔

"پریشان مت ہوں اللہ سب اچھا کرے گا۔" انکے بائیں رخسار پر الوداعی کس کرتے وہ مڑا اور وہاں سے نکل گیا۔۔


اسکے جاتے ہی عائشہ نے گہرا سانس بھر کر آنسوؤں کا گولا حلق سے نیچے اتارا اور سامنے ٹوٹی ہوئی موبائل کو دیکھتیں اپنے بائیں ویران گال پر ہاتھ پھیر کر رہ گئیں۔۔


"بیگم صاحبہ عرشیہ بےبی کا روم کلین کردوں؟" ملازمہ ہاتھ میں صفائی کا کپڑا تھامے کچن میں آئی جسکی آواز پر عائشہ ہوش کی دنیا میں لوٹی اور نا محسوس طریقے سے اپنی آنکھوں کے کنارے صاف کیے۔

"نہیں رہنے دو میں کرلوں گی، اسکی ذرا سی چیز یہاں وہاں ہوتی ہے تو سارا گھر سر پر اٹھا لیتی ہے۔"اس نے انکار کے ساتھ وجوہات پیش کیئے جس پر ملازمہ "جی بہتر" کہہ کر صفائی کی نیت سے دوسرے روم کی طرف مڑ گئی۔۔

وہ جس کام کیلئے آئی تھیں وہ تو اسے بھول ہی گیا تھا البتہ تھکے تھکے قدموں سے اب عرشیہ کے روم کی طرف جار رہی تھیں تاکہ خود کو مصروف رکھ کر "اسکی" یاد سے چھٹکارا پالے۔

جوکہ بہت مشکل تھا۔ ہربار کی طرح اسے پھر سے آج خود کو مارنا پڑ رہا تھا۔ آنسوں جانے کب آنکھوں کی دہلیز پار کرکے رخساروں کو بھگونے لگے اسے ہوش نہیں تھا۔ قدم جانے کیسے پلٹ کر عرشیہ کے روم کے بجائے اس شاندار روم کے سامنے آکر رک گئے

جس کے دروازے پر لگا قفل بھی اب زنگ آلود ہورہا تھا۔ نا اس میں طاقت تھی اس قفل کو توڑنے کی نا ہی اسکا "خان" اسے یہ اجازت دے رہا تھا کہ وہ اسکے لئے آنسو بہائے۔

اسلئے ہی تو وہ اپنے مجازی خدا کے حکم کی پیروی کرتی بےحس ہوجاتی تھیں۔ کہ اسے احساس محسوس نہیں ہوتے اسکے آنسوں گر رہے ہیں یا برس۔


"بیگم صاحبہ صاحب کی کال ہے آپکے لئے۔" نیچے سے ریسور تھامے ملازمہ نے پکار لگائی۔

بند دروازے کے سامنے کھڑی عائشہ چونک گئیں۔۔

"خخ۔خان!" وہ بڑبڑا کر پلٹیں۔۔

"آرہی ہوں۔۔" الٹے قدموں سے وہ واپس نیچے کی طرف بھاگ آئیں۔

"تم جاؤ!" ملازمہ جو حیرت سے انکے بھیگے سپید گال دیکھ رہی تھی عائشہ نے سختی سے کہا وہ ہڑبڑا کر جی جی کہتی وہاں سے چلی گئی۔۔

"ج۔جی خان! دریاب یہاں سے نکل چکا ہے۔" رسیور کان سے لگائے اسنے ہچکاتے بتایا۔

"شکر تمہارے سپوت کو ہوش آیا۔ خیر میں میٹنگ کے بعد لنچ گھر پر کروں گا یہی بتانے کیلئے کال کی ہے۔" انکے لہجے میں جو طنز تھا عائشہ اسی پر ہی لب دبائے خاموش کھڑی تھیں۔


"دوائی لی؟" کال ڈسکنیکٹ کرنے سے پہلے انہوں نے پوچھا۔

"جی لے لی!" اسنے مدہم آواز میں جواب دیا۔

"ٹھیک ہے میں آکر دیکھ لوں گا۔" انہوں نے کہنے کے ساتھ کال ڈسکنیکٹ کردی۔

عائشہ کچھ دیر رسیور کو دیکھتی رہیں اسکے بعد رکھ کر اپنے روم میں آگئیں اور جلدی سے سائیڈ ٹیبل دراز سے اپنی دوائی نکال کر آج کے ایک وزن کے حساب سے نکالتی ہتھیلی میں لیکر باتھ روم میں آئیں اور سنک میں ڈال کر اوپر سے پانی ڈال دیا۔


اس کاروائی کے دوران چہرہ بالکل سپاٹ تھا، نا کیفیت عیاں نا ہی احساسات زندہ۔

وہ دوائی واپس اپنی جگہ رکھ کر عرشیہ کے روم کی طرف چل پڑیں۔ ساتھ موبائل سے صمصام کو اسکا نمبر بھی سینڈ کردیا۔


☆☆☆☆☆☆☆


ملازمہ سے اسے معلوم ہوا کہ بڑی بیگم کی طبیعت ٹھیک نہیں اسلئے انکے باپ کا کہنا ہے ناشتہ خود بنا لے اپنے اور توقیع کیلئے بلکہ اپنے ماں باپ پر بھی ترس کھا لے۔

جسے سن کر وہ ابھی نائیٹ ڈیوٹی سے آیا، فریش ہوکر بیلو شرٹ اور بلیک ٹراؤزر میں ملبوس ایپرن باندھے کچھ یوٹیوب تو کچھ ملازمہ سے پوچھ گچھ کرکے ناشتہ تیار کرچکا تھا۔ جس میں آملیٹ اور پراٹھے سب سے آگے تھے اپنی اعلیٰ شکلوں کی وجہ سے۔

ملازمہ نے جب دیکھا تو اسکا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا جسے دیکھتے صارم خجل سا ہوگیا۔۔

اسنے ابھی اپنی ہاؤس جاب کمپلیٹ کی تھی اور اب اپنے ہاسپٹل میں جاب کرتا تھا۔

صرف وہ نہیں بلکہ اسکے مام ڈیڈ بھی وہیں جاب کرتے تھے۔ وہ ہاسپٹل چھوٹا نہیں تھا شہر کا سب سے بڑا ہاسپٹل تھا۔ جس میں غریبوں کیلئے فری علاج تھا۔

یہ "توقیع" نام سے مشہور ہاسپٹل کو اس مقام پر لانے میں صرف اسکے ماں باپ کی جان توڑ کوششیں تھیں۔

اسکے باپ کا بزنس صمصام سنبھال رہا تھا جبکہ صارم کو ڈاکٹری کی فیلڈ میں انٹرسٹ تھا تو وہ ڈاکٹر ہی بنا۔

جہاں ملازم صمصام کے سامنے افف تک نہیں کرتے خاموش مؤدب، سنجیدہ پرفیکٹ ہونے کی کوشش میں ہلکان ہوتے تھے وہیں صارم کی فرینڈلی نیچر کے سامنے ہنستے مذاق مستی کرلیتے تھے۔

صارم نرم گو، ملنسار تھا۔ وہیں صمصام خاموش، سخت مزاج، لیے دیئے انداز کا مالک تھا۔ اسکی شخصیت میں ایک روعب تھا جو مقابل کو اسکے سامنے افف کرنے سے باز رکھتا تھا۔


اسکی اپنے باپ جیسی اوشن نیلی آنکھیں کی ایک سخت گھوری ہی مقابل کی رنگت اڑانے کیلئے کافی تھی۔ وہ زیادہ بحث و مباحثے کرنے کا عادی نہیں تھا۔ نا ہی اپنے فیصلوں میں کسی کی رائے لیتا تھا۔ وہ اپنی زندگی اپنے فیصلوں اپنے رولز پر جیتا تھا جبکہ صارم کے ہر کام میں اپنے ماں باپ بہن کی رضا اول ہوتی تھی

ایک جگہ ایسی تھی جہاں صمصام بھی صارم کی طرح مجبور ہوتا تھا تو وہ تھی انکی لاڈلی بہن انکی دلوں کی اکلوتی مالک "توقیع"

نا صرف ان دونوں بھائیوں کی اس میں جان تھی بلکہ حویلی والوں، ہارون شاہ کے گھر کے افراد، دانیال خان کے گھر کے افراد کی بھی اس نیلی آنکھوں والی گڑیا میں جان بستی تھی۔

ایک انجانی سی کشش تھی اس میں خوبصورتی کے ساتھ کہ مقابل کو خود بخود اپنی طرف کھینچتی تھی۔

کم تو عرشیہ بھی نہیں تھی وہ بھی نازک سی سنہری آنکھوں کی مالک اپنی ماں کی کاپی تھی کافی حسین پر سب کی لاڈلی توقیع کے سامنے وہ بھی دوسرے نمبر پر تھی۔

اسکی نیلی آنکھیں لہجے کی معصومیت شرارت نرمی سب کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔نا صرف اپنے بھائیوں بلکہ صائم زیدی کی بھی اپنی اکلوتی بیٹی میں سانسیں تھیں

اور یہ تقویٰ کی پرورش تھی کہ خاندان کی اس قدر محبت چاہ کے باوجود بھی وہ نہیں بگڑی تھی بلکہ بہت سلجھی ہوئی تھی۔

صمصام کی محبت کے ساتھ اپنی بہن پر کافی توجہ بھی تھی، کہ کچھ اسکی وجہ سے بھی اس میں زیادہ بڑھنے کی ہمت نہیں تھی نا ہی وہ اسکی حدود پھلانگنے کی جرات کرسکتی تھی۔ البتہ صارم کے ساتھ ملکر ہلکی پھلکی شرارتیں انجام دے دیتی تھی۔


جیسے کہ صمصام کی فائل گم کرنا اسکی چیزیں ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کردینا۔۔ جوکہ کسی جرات سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اور وہ دونوں بہن بھائی اسے غصہ دلا کر اسکی سرخ سپید دہکتی رنگت پر چھپ کر قہقہ لگاتے تھے۔ پر جلد ہی توقیع پارٹی بدل لیتی تھی کیونکہ۔کچھ بھی تھا وہ صمصام کی بلی تھی اسکی پاس ہی جا پہنچتی تھی۔


"شرمندہ نا ہوں بہت اچھا بنایا ہے ناشتہ۔" ملازمہ نے اسکی حوصلہ افزائی کی جس پر وہ ہنس پڑا۔۔

"آپ ہمیشہ ایسے ہی کہتی ہیں۔" وہ منہ بنا گیا۔


"اندازہ ہوجائے گا کچھ دیر میں جب ڈیڈ کے طنز برسیں گے۔" انکی بڑھتی تعریف پر وہ جتاتا ہوا توقیع کیلئے بیڈ ٹی تیار کرنے لگا۔

ملازمہ بڑے صاحب کے طنز یاد کرتی صارم کی بےبسی پر کھلکھلا اٹھی۔ جو پر صارم گھورتا ہوا بعد میں خود بھی ہنس پڑا۔


"اچھا آپ یہ ڈائننگ ٹیبل پر سیٹ کریں ناشتہ میں توقیع کو جگ کر آتا ہوں وہ نماز کے بعد ہمیشہ سو جاتی ہے۔" اسنے ناشتے کی طرف اشارہ دیا اور خود ٹرے میں کپ رکھ کر کچن سے باہر نکل گیا۔

ملازمہ نے مسکراتے ہوئے اس سانولے سے پرکشش نوجوان کو دیکھا۔ لمبا چوڑا دراز قد کا مالک وہ اپنی ماں کی کاپی تھا۔ البتہ باقی کی بچے اپنے باپ پر گئے تھے انتہا کے حسین۔

صرف صارم ہی ان میں سانولا تھا، اسے کبھی احساس کمتری میں گھرا نہیں دیکھا تھا۔ وہ خوش تھا جیسا بھی تھا کیونکہ اسکی ماں بھی کم نہءں تھی اسکی نظر میں۔ سیرت اچھی ہونی چاہیے رنگت کا کیا ہے سیاہ تو غلاف بھی ہے پر حسن کتنا ہے لوگ دیوانے ہیں اس کے۔

اسے اپنی سیاہ سانولی سی رنگت سے کوئی شکوہ نہیں تھا کیونکہ اسے پسند تھی اپنی رنگت۔ وہ خوش ہوتا تھا جب قرآن کے الفاظ کا رنگ، غلاف کا مبارک رنگ سیاہ دیکھا تھا۔

سب سے بڑھ کر وہ اپنی آئیڈل ماں کے جیسا تھا، وہی بھوری آنکھیں وہی سانولی رنگت، کھڑی ناک بھرے بھرے ہونٹ اور انکے اوپر پرکشش بناتی اسکی مونچھیں۔

بےشک صمصام حسین ترین مرد تھا پر صارم زیدی بھی کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا اپنی جسامت اور پرکشش نقوش کی وجہ سے۔ ہمہ وقت متبسم اسکی بھوری آنکھیں کافی کشش رکھتی تھیں اگلے بندے کو مسمرائز کرنے کیلئے۔

اسکی فرنڈلی نیچر کی وجہ سے وہ ناصرف توقیع کا دوست تھا بلکہ عرشیہ کا بھی ویسا ہی دوست تھا جیسا اپنی بہن کا۔


"توقیع!!" ڈور ناک کرتا وہ کچھ منٹ ٹھہر کر آہستہ سے اندر دھکیلتا ہوا داخل ہوا۔ سامنے ہی وہ کمبل میں دبکی ہوئی میٹھی نیند کے ابھی بھی مزے لوٹ رہی تھی۔ "توقیع اٹھو بیٹا کافی دیر ہوچکی ہے۔ یونی بھی جانا ہے شاباش" ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسنے پردے برابر کیے۔

سورج کی سنہری روشنی گلاس ونڈو سے چھناک کر اندر داخل ہوتی روم کا کونا کونا روشن کرگئی تھی۔ "توقیع اٹھو اب بہت ہوا یار بہت دیر ہوچکی ہے آج مام منتیں کرکے تمہیں نہیں اٹھائیں گی نا ہی صبح صبح تم ڈیڈ بھائی تمہارے آج لاڈ اٹھا سکتے ہیں۔۔"


تمام ونڈو اوپن کرکے پرے گلاس وال سے ہٹائے وہ اسکے سر پر آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ پر وہ ٹس سے مس نا ہوئی۔


"نہیں۔۔ ماما مجھے ابھی سونا ہے۔۔" وہ منہ پھیر کر انکار میں سر ہلاتی پھر سے سونے لگی۔ صارم کے لبوں پر گہری مسکراہٹ بکھر گئی۔

"بھائی کی جان ماما نہیں میں ہوں تمہارا بھورا بلا اٹھو شاباش جلدی تمہاری پہلی کلاس تو مس ہو جائے گی" وہ اپنا تعارف کرواتا اسکے پاس بیٹھ کر اسکے سر کے بال سنوارنے لگا۔


پر ابھی جواب دینے یا اٹھنے کے موڈ میں وہ بالکل بھی نہیں تھی الٹا اسکا ہاتھ پکڑ کر گال کے نیچے رکھتی وہ پھر سے سوگئی۔ اسکی اس معصومانہ حرکت پر صارم کو ٹوٹ کر اپنی بلی پر پیار آیا۔

"میاؤں!!" وہ اسکا گال اسی ہاتھ سے ہلاتا ہوا اسے جگانے کی اپنی سی کوشش کرنے لگا پر وہ اسکے بلے کے انداز والے خلل کو محسوس کرتی گال سے ہاتھ پرے جھٹک گئی۔

صارم ابکی بار اسکی چالاکی پر ہنسا۔ "توقیع!!" ایک اور کوشش کرتے محبت سے پکارا۔

"نہیں جانا مجھے آج عشی بھی نہیں ہے آج میں کل چلی جاؤں گی پکا آج نہیں آج مجھے سونا ہے۔" صارم اسکے ارادے مضبوط دیکھ کر پریشان ہوا۔


"پر توقی بیٹا رات تم اسائمنٹ بناتی رہی اور آج تمہیں جمع کروانی ہے اگر نہیں گئی تو ساری محنت ضائع ہوجائے گی۔" وہ اسکی چادر چہرے سے ہٹانے لگا جس پر غصہ ہوتی توقیع پوری چادر مضبوطی سے سر کے نیچے دبا کر اسکی کوشش ناکام کرگئی۔


"ہوجائے صام بھائی بات کرلیں گے سر سے میں نے نہیں جانا آج۔۔" وہ ضدی لہجے میں بولی۔ کرتی بھی کیوں نا ضد، دو جوان مضبوط دراز قامت بھائیوں کی لاڈلی چھوٹی سی بہن تھی جوکہ ماں باپ کے پالنے سے زیادہ اسکی پرورش ان بھائیوں نے کی تھی۔


اسکی چھوٹی بڑی خواہش کو پوری کرنا صمصام صارم کا اولین فرض تھا۔ وہ دو چٹانوں کی طرح مضبوط بھائیوں کی بہن تھی۔ ضدی ہوتی بھی کیون نا ان سے۔ انہوں نے پالا ہی ایسے نازو سے تھا کہ کسی پھول کی طرح سب سے چھپا کر ہتھیلی پر رکھ کر سینے سے لگاتے تھے اسے۔


وہ اور عرشیہ بی اے کے سیکنڈ سمسٹر میں سائیکالوجی سبجیکٹ پڑھ رہی تھیں۔ عرشیہ تو یونی کی دوست ماہین کی برتھ ڈے پر دبئی چلی گئی تھی البتہ صمصام نے اسے اتنی دور جانے کی اجازت نہیں دی جس وجہ سے وہ یہیں ہی تھی۔

پر عرشیہ کے بغیر یونی جانے کا اسکا دل بالکل نہیں تھا۔ تبھی بہانے تراش رہی تھی پر سامنے بھی اسکے بھائی تھی۔۔


"لو دیکھو صام بھائی کی کال بھی آگئی۔۔" اسنے موبائل کی سکرین دیکھتے اس سے کہا۔

توقیع پور پور سماعت بن گئی۔ پر چہرے سے چادر نہیں ہٹائی۔دوسری طرف صارم موبائل کان سے لگائے اپنے بڑے بھائی پر سنجیدہ ہوکر سلامتی بھیج رہا تھا۔


"گڑیا ابھی تک گھر میں ہے؟ یونی نہیں گئی اسکی لوکیشن کیوں گھر میں شو ہورہی ہے؟"

اسکی بات سنتے صارم نے مسکراہٹ ضبط کی۔ دیار غیر میں ہوتے بھی وہ سب سے پہلا اپنا یہی کام انجام دے رہا تھا۔


"جی بھائی ابھی تک نہیں اٹھ رہی، مام کو سر میں درد ہے اور ڈیڈ انکے پاس ہیں تو باقی بچا میں مجھ سے یہ نیلی بلی نہیں اٹھ رہی۔۔" اسنے شکایتی انداز میں کہا جسے سنتے صمصام کا حکم صادر ہوا۔


اور صارم نے اسپیکر موبائل کا آن کیا۔


"توقی میرا بچہ اٹھو شاباش میں پرنسل سے بات کرتا ہوں تب تک تمہارے پاس بیٹا دس منٹ ہیں جلدی فریش ہوکر تیار ہو، پانچ منٹ تمہارے ناشتہ کیلئے کافی ہیں پانچ منٹ کی ڈرائیونگ پورے بیس منٹ کے بعد مجھے تمہاری لوکیشن یونی میں شو ہونی چاہیے شاباش!" لاڈ محبت سے پچکارنے کے ساتھ وہ خوبصورتی سے بغیر محسوس کیے اسے حکم بھی دے چکا تھا۔ بات ختم ہونے کے ساتھ کال ڈسکنیکٹ کردی گئی۔

اور جہاں صارم کے لبوں پر گہری مسکراہٹ تھی وہیں توقیع صمصام کی سننے کے بعد بےدم ہوکر گر گئی۔۔۔


"میاؤں! ہوش ٹھکانے آئے میرا تپر؟" وہ اسے چھیڑنے لگا جس پر توقیع دانت بھینچ گئی۔۔۔


"تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں تیار ہونے کے نیلی بلی اگر تم نے ایک منٹ سے پہلے بیڈ نہیں چھوڑا تو میں پانی کی بالٹی اٹھا کر تمہارے اوپر ڈالوں گا۔۔" وہ اسے دھمکی دیتا اسکے بکھری ہوئی کتابیں سمیٹنے لگا۔


" مسئلہ کیا ہے بھورے بلے سونے نہیں دیتے ابھی تو آنکھ لگی تھی اور ابھی ہی اپنی خوفناک آواز سے جگا دیا۔" وہ جھلا کر اپنی نیلی بڑی بڑی سی خوبصورت آنکھوں سے پنک کلر کی چادر ہٹا کر پھولے منہ کے ساتھ غصے سے بولی۔

یہ سچ تھا کہ اسے مردوں کی بھاری آواز سے کبھی خوف بھی آتا تھا اور کچھ نا پسند بھی تھی۔ بھاری سرگوشیوں سے تو اسکی جان جاتی تھی۔ یوں لگتا جیسے کسی ہارر مووی کا سین ہو۔۔

وہ اسکے بارے میں بھول کر بھی نہیں سوچتی تھی کہ کبھی اسکے ساتھ ایسا ہوگا۔۔


"ہاہاہا ویسے کافی کیوٹ لگ رہی ہو شاباش اٹھو ساری رات دل نہیں بھرا سوتے نماز پڑھ کر سونے والی بچیاں اللہ کو اچھی نہیں لگتیں بےوقوف اسلئے نماز کے بعد مت سویا کرو۔۔" اسنے اسکا پھولے منہ والا ری ایکشن دیکھتے قہقہ لگایا ساتھ ہی آگے بڑھتے اسکی خوبصورت آنکھوں پر شفقت بھرا بوسہ دیا۔


"یہ رہی تمہاری ٹی۔ جلدی سے فریش ہوکر باہر آؤ میں نے ناشتہ ٹیبل پر لگا دیا ہے ہری اپ! لیٹ ہوگی تو پہلی سائیکالوجی کی کلاس مس ہوجائے گی میری جان اٹھو۔۔" وہ پیار کرتا ساتھ اسرار بھی کر رہا تھا۔۔

پر توقیع پر سستی سوار تھی وہ اسکی باتوں کو جہاز کی طرح اڑاتی ہوئی کروٹ بدل گئی۔۔ وہیں کانوں میں صمصام کی باتیں بھی گردش کر رہی تھیں جو اسے بےبس کرگئیں۔


"نہیں بھورے بلے آج جانے کیلئے دل نہیں کرتا۔" اسنے کسمساتے ہوئے کہا۔

"اٹھو ابھی اٹھو بڑی آئی دل کی سننے والی ابھی بھائی کو پھر سے کال ملاؤں گا پھر کوستی ہوئی روتی رہو گی۔" اسکی جھڑک پر توقیع

حیرت سے اسکی سمیت مڑی۔۔


"کچھ زیادہ نہیں بول رہے بھائی کی غیر موجودگی میں؟" وہ اٹھ کر بیٹھتی ابرو اچکا گئی۔ صارم نے مسکراہٹ چھپائی۔ "کیوں میں کون سا تمہارے بھائی سے ڈرتا ہوں نیلی بلی؟"


اب وہ اسکی سٹڈی ٹیبل پر بک سنوار رہا تھا اور توقیع نے دیکھ کر مسکراہٹ ضبط کی۔ اسکی عادت تھی وہ کوئی بھی بکھیرا پسند نہیں کرتے تھے۔ اپنے روم یا کہیں کھڑا ہو تو وہاں گند بکھیرا دیکھا فی الفور خود ہی ہرچیز سنوارنے لگتا تھا اور اسکی اس حرکت پر توقیع کافی اسے چھیڑتی تھی کہ آپکی بیوی کے تو مزے ہوں گے انکا شوہر ہی ایسا صفائی پسند ہے کہ بکھیرا دیکھ کر خود ہی صفائی کرنے لگ جاتا ہے۔


صارم اسکی چھیڑ چھاڑ پر قہقہہ لگا اٹھتا تھا اور بڑے فخر سے کہتا کہ اسکی بیوی بھی اسکے جیسے نفیس صفائی پسند ہوگی بالکل نرم گو صوبر طبیعت کی مالک اپنوں سے بےتحاشہ محبت کرنے والی۔

تب توقیع کا اشارہ اسکے لئے گاؤں کی طرف ہی ہوتا تھا۔


"میں باہر ناشتے کی ٹیبل پر انتظار کر رہا ہوں جلد آنا۔" اسنے زمین سے دوپٹہ اٹھا کر توقیع کے سر پر ڈالتے ماتھا چوم کر کہا۔


"کیوں مام کہاں ہیں؟ ڈیڈ؟؟" ٹی کے سپ لیتی ہوئی وہ بولی۔

"مام کی طبیعت ٹھیک نہیں ڈیڈ انکے پاس ہی ہیں مجبوراً مجھے ناشتہ بنانا۔۔۔۔


"اوہ مائی گاڈ پلیز بھائی نہیں مجھے فوت نہیں ہونا آپکے جرمن اٹالین پراٹھے آملیٹ کو دیکھ کر مجھے ہارٹ اٹیک آنے لگتا ہے۔۔ نو نو۔۔۔" وہ بوکھلائی گھبرا کر جلدی سے بولی۔۔


اسکی اچانک چیخ کر احتجاج پر صارم کے بڑھتے ہوئے قدم تھم گئے اسنے حیرت سے پلٹ کر اسے دیکھا۔ گولڈن دراز بالوں کے ہالے میں اسکا گلابی معصوم چہرہ دمک رہا تھا۔

اس گلابی چہرے پر راج کرتی وہ نیلی بڑی سی خوبصورت آنکھیں کسی کو بھی ایک نظر پر گھائل کر سکتی تھیں۔ اسکے معصوم نین ونقوش مقابل کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے تھے۔

وہ اس قدر پیاری سپید گلابی گڑیا تھی کہ ان دونوں بھائیوں کو ڈر تھا کہ چھونے سے وہ میلی نا ہوجائے۔ وہ بہت سینٹ سینٹ کر رکھتے آئے تھے۔ اور وہ تھی بھی کسی پاک مہکتے پھول کی طرح۔۔


"مانا کہ بھائی جیسا پرفیکٹ نہیں بنا سکتا پر بلی تمہارا یہ ری ایکٹ کافی اوور تھا ایک دنیا مرتی ہے میرے ہاتھوں کے کھانے کیلئے۔۔ اگر میں یہ نقشے حکومت کو دیتا تو آج میں ایک بڑا انجینئر ہوتا یا کوئی سیکرٹ ایجنٹ یا سائنسدان تو ضرور پر اس گھر میں میری کوئی ویلیو نہیں ہے۔۔" وہ جتاتا کڑھتا ہوا بولا

دفعتاً توقیع کی کھلکھلاہٹ پورے روم گونج اٹھی۔۔

"گستاخی معاف ڈاکٹر صاحب پر دنیا آپکے کھانے کی نہیں دوا کی دیوانی ہے۔ ہاں البتہ کوئی دعا آئی تو وہ آپکے ان حکومتی نقشوں کی دیوانی ہوسکتی ہے پر مجھے ابھی اتنی سی عمر میں پاگل نہیں ہونا۔۔" اسنے ہنستے ہوئے تصحیح کی۔


صارم اپنی بےقدری پر اسے خفگی سے گھورنے لگا۔ "تمہیں میری قدر نہیں نیلی بلی دیکھنا جب میری بیوی آئے گی تو ترسو گی میرے ہاتھ کے کھانے کیلئے۔"


"دیکھا دیکھا مجھے پہلے ہی آپ سے غداری کی بو آتی تھی بھائی کو آنے دیں میں انہیں بتاؤں گی کہ آپ کیا سوچ کر بیٹھے ہیں فار کائنڈ یور انفارمیشن میرے پاس صمصام بھائی موجود ہیں جوکہ دنیا کے پرفیکٹ مین ہیں۔۔

ایک سیکنڈ میں ڈیڈ سے کہہ کر آپکو گاؤں میں پھینکوا دوں گی وہیں رہیے گا اور وہاں سے ہی کوئی بی بی نوراں سے شادی کرلیجئے گا۔" وہ جھپاک کر بیڈ سے اتری۔۔


"واہ میری جان میری شہزادی میری بلی دل کی بات کردی۔ ویسے میں بھی یہی سوچ رہا تھا کیا رکھا ہے ان شہری لڑکیوں میں۔۔ میک اپ کی دکان غصیلی، نک چڑھی، پاپا کی پری، اماں کی نکمی۔

مجھے امن سکون چاہیے اسلئے میں تو شادی کسی گاؤں والی سے ہی کروں گا جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔" اسنے چٹکی بجا کر فوراً سے اپنے ارادوں سے آگاہ کیا۔


"آں۔ں۔۔۔" توقیع اسکے ارادے سن کر منہ کھولے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ "تو کیا میری چھوٹی بھابھی گاؤں سے ہوگی؟؟" اسے شاکڈ لگا

"ان شاءاللہ!" صارم نے کالر جھٹکے سامنے آئینے میں اپنے سیاہ گھنے بالوں میں انگلیاں پھیریں۔۔


"میں ماما کو بتاتی ہوں وہ آپکے لئے چاچو کی بیٹی کا رشتہ لے آئیں حویلی سے۔۔" اسنے فوراً سے دروازے کی سمیت دوڑ لگائی صارم اسکی پھرتی پر قہقہہ لگا اٹھا۔


"میرا بیٹا اتنی جلدی کیا ہے ابھی اپنے بھائی کو سیٹل تو ہونے دو۔" اسنے ہنستے ہوئے اسے پکڑ کر سینے سے لگایا۔

" نہیں میں مام کو بتاتی ہوں آپ یہ سب سوچتے رہتے ہیں۔۔ آپکے خیالات یہ ہیں اسلئے آپ کسی پیشنٹ کا ٹھیک سے علاج نہیں کرسکتے میں صام بھائی کو بتاؤں گی عرشیہ کو بتائوں گی" اسکی بلیوں جیسی مزاحمت دیکھتے اسکے ارادے بھانپ کر صارم کے قہقہے زوردار تھے۔


"تم ساری دنیا کو بتانا پر پہلے ہم دونوں اپنی بلی کے گلابی ہاتھوں کو مہندی سے لال کریں گے اسکے سر پر سرخ دوپٹہ ڈالیں گے اور اسے ایک شہزادے کے ساتھ رخصت کریں گے پھر تمہاری بھابھی کو لائیں گے۔۔۔۔" وہ اسے آئینے کے سامنے لاتے اسکے سر پر دوپٹہ پہناتے اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھتا دل میں ہی اسکے صدقے اتارنے لگا۔


وہ کسی طرح سے گلابی گڑیا نیلی آنکھوں والی پری کا بھائی نہیں لگ رہا تھا بلکہ اسکے ساتھ کھڑا ہمیشہ صمصام ہی اسکا بھائی لگتا تھا۔

پر اس پل اسکی متغیر ہوتی رنگت دیکھتا صارم چونکنا ہوگیا۔


"آپ دونوں مجھے نکال کر پیچھے اپنی بیوی کے ساتھ اس گھر پر راج کرنا چاہتے ہیں۔۔" اچانک وہ چیختی بلی جیسے پنجے بنا کر اسکی طرف لپکی۔۔

صارم بوکھلا کر قہقہہ لگاتا ہوا الٹے قدموں سے اسکے روم سے بھاگا۔۔۔

اب تو صمصام کا حکم آچکا تھا جسکی نفی کرنے کی اس میں جرات ہرگز نہیں تھی۔ اسکی بعد میں خبر لینے کا سوچتی وہ منہ بسورے غصے سے ناراض کپڑے نکالنے لگی۔


صمصام کی موبائل سے کنیکٹ اسکی موبائل ٹائم گزرنے پر وہاں سے سیٹ کیئے ہوئے الرٹ سے ٹون بجاتی اسے اچانک بوکھلا گئی۔۔

جسکے ساتھ ہی توقیع نے باتھ روم کی طرف دوڑ لگائی۔


★☆☆☆☆☆★


"مجھے دیں مجھے کھانا ہے۔۔" وہ روتی ہوئی ٹیبل پر چمچ مارنے لگی جس سے ماحول میں ٹک ٹک کی آواز زوروشور سے گونج اٹھی تھی۔

"میں ہرگز نہیں دوں گی ثمن ضد چھوڑو چپ چاپ یہ کھاؤ!" زریش نے اسے غصے سے ڈانٹا اور اسکا پرے کھسکایا ہوا ویجیٹبل سوپ پھر سے اسکے قریب کردیا۔

جس پر ثمن کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسوں تیر گئے۔

"آپکو تکلیف کیا ہے ماما اگر میں موٹی ہوں تو یہ میری پرابلم ہے مجھے کھانا چاہیے۔ میں مر کر بھی یہ زہریلا ہرا پانی نہیں پیوں گی۔۔" وہ چیختی پھر سے سوپ کا پیالہ دور کر چکی تھی۔

زریش نے اسکی بےجا ضد پر غصے سے دیکھا۔


"ارے کیا ہوا بھئی اتنا شور کیوں ہے ڈائننگ ٹیبل پر؟" ڈنر کیلئے ڈائننگ حال میں داخل ہوتے وہاں اپنی بیٹی کی چیخیں گونجتے دیکھ کر ہارون شاہ نے فکرمند ہوکر استفسار کیا


زریش ثمن نے بیک وقت انکی طرف دیکھا۔

"شاہ آپ بات کریں اس نالائق لڑکی سے ڈاکٹر نے ڈائٹنگ کا کہا ہے پر مجال ہے یہ لڑکی میری سنے۔ میں اتنی محنت سے یہ سوپ بنا کر لائی ہوں پر اسے وہی کھانا ہے جس سے ڈاکٹر کی منع ہے میں ہرگز نہیں دوں گی اسے۔ آپ اسے سمجھائیں یا میں یہ گھر چھوڑ کر جاؤں۔۔

نہیں رہا جاتا مجھ سے یہاں جہاں میری بےقدری ہو۔۔" وہ ہارون شاہ کو دیکھتی آؤٹ آف کنٹرول ہوتیں غصے سے بولیں۔


ثمن انکی بلیک میلنگ پر گلاسز کے پیچھے پانیوں سے لبالب آنکھیں اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔

سرخ و سپید رنگت والی، موٹی موٹی سیاہ آنکھوں پر گلاسس لگائے منہ پھولائے بیٹھی انکی اکلوتی بیٹی جسامت کے لحاظ سے کچھ ہیلتھی تھی جس وجہ سے زریش کا سارا سر درد ہی یہی تھا کہ ابھی تو انکی نظر میں چھوٹی تھی ابھی سے اسکی ہیلتھ ماشاءاللہ سے کافی صحتمند تھی اگر ایج بڑھے گی تو اسکے مستقبل کیلئے مسئلہ ہوجائے گا۔

ظاہر ہے بڑھتی ایج کے ساتھ جسامت بھی تو بڑھے گی۔ کیا آجکل موٹی لڑکیوں کے رشتے آتے ہیں؟ یا انہیں کوئی قبولنے کیلئے تیار ہوتا ہے؟

لوگ تو یہی کہتے ہیں کہ یہ خود کو سنبھال لے وہی کافی ہے ہمارا گھر خاک سنبھالے گی؟ یا یہ کیا ہمارے بیٹے کی زندگی سنوارے گی جسے کھانے یا پھیلنے سے فرصت ملے۔ لوگوں کی زبان نہیں نظر بھی سانپ کی ہوگئی تھی پر اسکی بیٹی پاگل ایسی بیوقوفی کرکے اپنے مستقبل پر کلہاڑی مار رہی تھی۔

اسکول کالج تک وہ جلتی کڑھتی رہیں تھیں کیونکہ سب اسے "ڈبل بیٹری" کہتے تھے، ایک صحت کی وجہ سے دوسرا آنکھوں پر لگے گلاسسز کی وجہ سے۔


آس پاس کی سوسائٹی میں انہوں نے کتنے ایسے واقعات دیکھے تھے جن میں لڑکی موٹی یا زیادہ صحتمند ہونے سے رشتہ تو ٹوٹ جاتا تھا، وہ ویسی ہی بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہوجایا کرتیں تھیں۔

اور زریش اپنی بیٹی کا ایسا مستقبل تو ہرگز نہیں چاہتی تھیں اسلئے انہوں نے پرسوں ہی ڈاکٹر سے رجوع کیا تھا اور کل وہ ثمن کو لیکر بھی گئیں تھیں۔

ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد اسے امید دلائی تھی کہ چند ایک ایکسرسائز، اور اوئلی ہیوی کھانوں سے مکمل پرہیز کے ساتھ اسے ویجیٹبل سوپ بغیر اوئل والا سالن دیا جائے تاکہ اسکا مستقبل سیکیور ہوسکے۔

پر ہمیشہ کی ہیوی کھانو کی شوقین ثمن یہ تشدد کہاں خود پر برداشت کر سکتی تھی۔

وہ پیزا چاکلیٹ سموسے پکوڑے چٹ پٹے کھانوں کی شوقین انہیں ہی اپنی زندگی سمجھتی تھی۔ ابھی اسے ایسی ہوا کہاں لگی تھی کہ وہ آنکھوں میں خواب سجائے یا محبت کی تتلی اسکی دھڑکنوں کو چھو کر ان میں ہلچل مچا دے۔


کل سے اسکی ماں اسے جانے کون سے بدذائقہ کھانے کھلانا چاہتی تھیں جو اسنے بھی ایک دو نوالوں کے بعد چیخنا چلانا ان پر شروع کردیا تھا۔

تب تو اسکی چیخوں آہوں نے اثر دکھایا کہ اسے اسکا روزمرہ کا کھانا مل گیا تھا۔ پر اب کافی سخت موڈ میں پیاری ماں سے ظالم اسکے کھانوں کی دشمن بن کر آگئی تھیں۔ جو کسی طرح بھی ثمن کو سوپ پلانا چاہتی تھیں جوکہ ناممکن میں سے تھا کیونکہ آگے بھی اپنے بھیو کی لاڈلی ثمن تھی جو اپنا حلق تو پھاڑ دے گی پر یہ ہرا سانپوں کا جمع ہوا زہر ہرگز حلق سے نیچے نہیں اتارے گی۔


"یار ایک تو تم گھر کے معمولی مسئلے میں بھی مجھے ٹارچر کرکے گھر چھوڑنے کی دھمکی دیتی ہو یہ کہاں کا انصاف ہے۔" ہارون شاہ نے اسکی دھمکی کو سنتے باقی سب نظرانداز کیا اور فوراً سے احتجاج کیا۔

ثمن کی انکی صورت پر ہنسی نکل آئی، مسکراہٹ تو زریش کو بھی آئی تھی پر وہ خوبصورتی سے ضبط کرگئیں۔


"تو آپ بتائیں شاہ میں کیا کروں آپکی بیٹی کا حال دیکھیں یہ میری اولاد ہوکر میری ایک بھی بات ماننے پر راضی نہیں کیا اتنی توہین پر مجھے یہاں رہنا چاہیے؟" انہوں نے ثمن کی طرف اشارہ دیتے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔


ہارون شاہ نے حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھا جو کہ آنکھیں پٹپٹاتی ہوئی انہیں دیکھتی کندھے اچکا گئی کہ دکھائیں اور بتائیں کہاں میں نے انکی توہین کی ہے؟

"زر یار کچھ عقل سے کام لو ہماری ایک ہی بیٹی ہے ابھی اسکی عمر کیا ہے محض ننھی سی بچی ہے میری اٹھارہ سال! اٹھارہ سال بھی کوئی ایج ہوتی ہے؟ یہی تو ومر ہے اسکی کھانے پینے کی۔" وہ انگلیوں کا ذرا سا فاصلہ بنا کر انکے سامنے کرتے بتانے لگے کہ اتنی سی تو ہے۔


"معاف کیجئے گا شاہ صاحب پر اس دن جو پارٹی دی تھی آپ دونوں باپ بیٹے نے وہ میرے برتھڈے کی نہیں آپکی لاڈلی کے برتھ ڈے کی تھی جوکہ شادی کی الحمدللہ سے ہوگئی ہے۔"


شادی کا سنتے ثمن کا منہ پھول گیا۔ اسکا ابھی کوئی ارادہ نہیں تھا شادی کا۔ نا ہی وہ اسکے بارے میں سوچنا چاہتی تھی۔ کم از کم تیس یا ستائیس سے پہلے وہ شادی کے بارے میں سوچنا تک نہیں چاہتی تھی۔

اب اسکا کیا قصور تھا کہ توقیع عشی اس سے آگے نکل گئیں تھیں۔ اسکی جب ایڈمشن ہوا اسنے بھی تو اپنی طرف سے بیسٹ دیا تھا۔

"اگر آپ لوگ اسکا وقت پر اسکول میں ایڈمشن کروا دیتے تو یہ آج سب سے آگے ہوتی۔ پر نا آپ دونوں باپ بیٹے کو اسکے نخرے اٹھانے سے فرصت ملتی تھی، نا ہی اسے کھانے سے۔ اس سے چھوٹی لڑکیاں آگے نکل چکی ہیں یہ ابھی ننھی کاکی بنی ہوئی ہے۔۔" انکا دبا دبا غصہ عورج پر تھا۔

ہارون شاہ کہنا چاہتے تھے کہ ایک ہی تو بیٹی بیٹا ہے۔ وہ تو لاڈ اٹھانے نہیں دیتا کیا وہ بیٹی کے لاڈ بھی نا اٹھائیں پڑھائی کا کیا ہے وہ تو ہوتی رہے گی ساری زندگی۔۔۔

چاہنے کے باوجود وہ کچھ کہہ نہیں پائے۔ کیونکہ اپنی بیگم کو بھڑکانا سراسر بیوقوفی اور اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کی مثال تھی۔ وہ لب پیوست ہوگئے۔

ثمن پر پہلے کبھی فرق پڑا تھا جو آج پڑتا۔۔


بیچ میں ہی ٹوک کر معذرت کے ساتھ وہ چبا کر بولیں۔ بس نہیں تھا کہ کچھ کردے وہ آکر بھی اپنی بیٹی کی سائیڈ لینے لگ گئے تھے۔

اس گھر میں وہ ہی پاگل ہوجائے گی کبھی اسکے لئے پریشان تو کبھی کسکے لئے۔


"او ہو میری پٹھانی کیوں اپنا خون جلا رہی ہو یہاں آؤ میں تمہیں ہوا کروں کچھ شانت ہو بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں نا آؤ یہاں شاباش۔" وہ نا محسوس طریقے سے اپنی رونی صورت لیے بیٹھی بیٹی کے سامنے اسکے من چاہے کھانے کرتے زریش کو محبت سے پاس بلانے لگے۔


زریش جوان بیٹی کے سامنے انکے پیار بھرے لہجے پر سٹپٹا کر متغیر ہوتیں انہیں آنکھیں دکھانے لگی۔ پر شاہ صاحب کو تو جیسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔


وہ چپکے سے اسے ساتھ والی چیئر پر بیٹھنے کا اشارہ دے رہے تھے جس سے زریش کا چہرہ لال ہوگیا۔ یہ بھی رب کی غنیمت تھی کہ اسکی بیٹی کا سر کھانے پر جھکا ہوا تھا۔


"مم۔۔میں ساحل کو بلا کر لاتی ہوں۔۔" وہ ایک غصے بھری نظر ثمن کے جھکے سر پر ڈالتی وہاں سے غائب ہوئیں۔۔

انکے منظر سے غائب ہوتے ہی ثمن اور ہارون شاہ کے قہقہے جاندار تھے۔

"چھا گئے آپ شاہ صاحب ہاہاہا۔۔" وہ مزے سے کھانا کھاتی بھرے منہ کے ساتھ انہیں سراہنے لگی پر خود کو ڈیڈ کے بجائے شاہ صاحب مخاطب ہوتے دیکھ کر ہارون شاہ نے اسے آنکھیں دکھائیں وہ اثر لیے بغیر پھر سے کھلکھلائی۔


"مجھے لگتا ہے ماما روحا جیسا بنانا چاہتی ہیں کہ میں سانسیں بھی گن گن کر کھینچ کھینچ کرلوں۔" اسنے منہ بناتے ہوئے کہا۔


"نہیں بیٹا ایسے نہیں کہتے روحا اپنی جگہ اچھی ہے تم اپنی جگہ۔ اسے سانس کی پرابلم ہے۔۔۔۔

"سوری ڈیڈ میں مذاق نہیں بنا رہی اسکا میں تو بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ مجھ سے بڑی ہے پر اتنی سی نازک چڑیا جیسی ہے کیا ماما مجھے بھی ویسا بنانا چاہتی ہیں۔" اسنے شرمندہ ہوتے صفائی دی۔۔


"آں میرا ببر شیر مجھے معلوم ہے میرا شہزادہ بیٹا کبھی کسی کو غلط نہیں کہتا۔۔" ہارون شاہ کو ٹوٹ کر اپنی بیٹی پر پیار آیا جوکہ زریش سے اسکے پیار کا پہلا ثبوت تھا۔۔


انکے بانہیں پھیلانے پر وہ اپنی چیئر چھوڑ کر بھاگتی ہوئی انکی بانہوں میں سما گئی۔


"خوامخواہ تمہاری ماں کو پریشانیاں ہوتی رہتی ہیں کبھی تمہاری تو کبھی ساحل کی حالاں کہ انہیں تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ انکا جگر کھاتے پیتے گھر کا شیر ہے سوکھا سڑا ہوا تو نہیں ہوگا۔۔۔" وہ اپنی بیٹی کا سر تھپکتے ہوئے بولے ثمن دل سیکوڑ کر رہ گئی کہ انکی ماں کو گھلنے سوچنے کے علاوہ اتنی عقل کہاں۔۔۔


"ڈیڈ میں تو یہ شکر کرتی ہوں کہ ماما نے آپ سے شادی کرکے ایک تو عقل والا کام کیا۔" وہ منہ بسورے بولی اور اسکا پھولا منہ بسورتا ہوا دیکھ کر ہارون شاہ قہقہہ لگا اٹھے۔


"بیٹا آپ نہیں جانتے کتنی ظالم ہیں بہت پاپر بیلنے پڑے مجھے انہیں صرف منانے کیلئے۔ یہ بھی شکر تمہارے بھیو کا جسنے آدھا کام تو خود کردیا تھا ورنہ اگر وہ نا ہوتا تو شاید ہی تمہاری ماں یہ پٹھانی ہوتی۔" انہوں نے اہنا گزرا ہوا دکھ رویا۔۔

"جہاں ساحل شاہ ہوں وہاں ٹینشن کیسی؟؟"


"آہ کاش بھیو کے ساتھ میں بھی ہوتی تو ایک دن میں' میں آپکی شادی کروادیتی۔۔" اسنے افسردہ لہجے میں کہتے چٹکی بجائی۔


"پھر تو میری شادی ہوتی سو ہوتی۔" ہارون شاہ اسکے گلابی پھولے ہاتھوں کی چھوٹی انگلیاں دیکھتے تھام کے ہاتھ کی پشت پر بوسے دیتے سر ہلاگئے


پر انکی بات پر کا پس مطلب سمجھتے ثمن نے سخت گھوری ڈالی ان پر، ہارون شاہ قہقہہ لگا اٹھے۔۔

ساتھ ہی گلاسز اتار کر اسکی کچھ دیر پہلے کی بھیگی آنکھوں صاف کیں۔۔

"رویا نا کرو میرا ببر شیر تم یہاں کی بادشاہ ہو۔۔" وہ اسے حوصلہ دلاتے ہوئے بولے۔۔


"اتنا تو مجھے پہلے شک تھا کہ یہ گھر نہیں پورا جنگل ہے پر اب آپکی بات نے تصدیق بھی کردی۔" ہارون شاہ اسکی ہنس مزاجی سے قہقہہ لگا اٹھے


جانے کیوں زریش پریشان ہورہی تھیں اتنی پیاری تو بیٹی تھی انکی کیوٹ سی گولو مولو سی۔ سپید گلابی موٹی سی آنکھوں پر چشمہ لگائے مزے سے کھانا کھاتی کتنی خوش لگ رہی تھی۔

اسے خوش دیکھ کر ہارون شاہ خوش ہوگئے۔ "ڈیڈ! ماما بھیو کو نہیں کہتیں وہ تو اتنے بڑے بڑے پھولے بازو والے اتنے موٹے ہیں؟"

ہارون شاہ ان دونوں ماں بیٹے کا انتظار کرتے اب اسے کھاتے دیکھتے ساتھ اسکے بچکانہ سوالات کے جوابات بھی دے رہے تھے تو کبھی اسکی بسوری صورت پر قہقہہ لگا اٹھتے۔


★☆☆☆☆☆★


"وائنڈ اپ"

اسنے ٹھہر کر لفظ دہرایا

"یس سر ایسا ہی ہے۔ حیدر شاہ کا اپنی بڑی بیٹی کو بزنس ڈگری دلوانے کا ارادہ ہے۔ اور چھوٹی پر بھی اسرار کر رہے ہیں پر وہ نہیں مان رہی۔ انہوں نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینے نہیں دیا اپنی بیٹیوں کو۔ شاید وہ پاکستان واپس لوٹ رہے ہیں۔" اسکے آدمی نے اسے ساری بات سے آگاہ کیا جسے سنتے ہی ساحل شاہ کے لبوں پر خود بخود گہری مسکراہٹ آگئی۔


وہ سامنے لیپ ٹاپ کی ٹچ اسکرین پر تصوریں اسکرول کر رہا تھا جہاں ایسی کوئی تصویر اسکی اکیلی نہیں تھی جوکہ اسکے کام آسکے۔

اسکے آدمی نے یہ تصویریں لیتے معذرت کرتے بتایا تھا کہ وہ ایک پل بھی اپنی "مام" سے الگ نہیں ہوتی۔ اسکا کھانا پینا رہنا ہنسا سب اس عورت کے ساتھ تھا۔

جیسے جڑی ہوئی ہے اسکے ساتھ یہ سنتے صرف کوئی ساحل شاہ کے تاثرات ہی دیکھ لیتا تو کانپ جاتا کہ کتنی نفرت بڑھی تھی اس سب کو سنتے۔ مزید اسنے سننے سے انکار کردیا تھا پر جو بنائی گئی تصویریں تھیں انہیں ضرور دیکھنا چاہا تھا۔


سامنے ہی سکرین پر وہ نازک سی تتلی جیسی زندگی سے کچھ تھکی، کھلکھلاتی ہوئی لڑکی تھی۔ وہ بغور اسے دیکھنے لگا۔۔ اسکے سراپے کے خدوخال کو، اتنی نازک لگی کہ انگلی لگانے سے ہی ٹوٹنے کا خدشہ ہو۔

کال ڈسکنیکٹ کرتے ساحل شاہ فرصت سے اسے دیکھتا، جو سوچ رہا تھا آئندہ کے بابت اس لڑکی کو دیکھتے شاید ہی کوئی سوچے یا سوچنے سے پہلے ایک مرڈر کیلئے ضرور خود کو تیار کرلے۔

وہ تو شاید ہی "شاہو" کا نام سنتے زندہ رہے کجاکہ اسکے ساتھ۔۔

اس نام سے جڑی وحشت آج بھی اسکے ننھے دل میں زندہ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اسکی سانسوں کا اسکی زندگی کا پیاسا ہے۔ اسکے بعد بھی وہ چاہ کر اپنی مام سے الگ نہیں ہورہی تھی البتہ "شاہو" کو ضرور بھول بیٹھی تھی۔


پر اسکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہی اسکی "بھول" تھی۔


نادان تھی دماغ میں یہ سوچ تھی کہ کبھی اس کی راہ میں نہیں آئے گی۔ پر وہ کیا جانے کہ ساحل شاہ کی راہ ہی وہی تھی۔ وہی راہ بن بیٹھی تھی اسکے انتقام کی۔


جو اسکے بارے میں سوچ رہا تھا اسے سوچتے کسی قسم کا بھی اسے ترس نہیں آرہا تھا۔ اس نام "روحا شاہ" سے جوڑے سارے احساسات کو وہ کب کا ختم کرچکا تھا۔۔

صرف ایک احساس اسکے ساتھ چلتا آرہا تھا اور وہ تھا "نفرت" کا۔۔ محبت میں لوگ سب جائز کرچکے تھے۔ پر ساحل شاہ کی ڈکشنری میں "نفرت" میں سب جائز ہوچکا تھا۔


شام کے سنہری سورج کی روشنی میں پارک کے سرسبز زمین پر بیٹھی وہ کسی بات پر کھلکھلا رہی تھی آس پاس بچوں کے ساتھ وہ عورت بھی بیٹھی اسے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

وہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ کافی دلچسپی سے یہ منظر دیکھنے لگا۔

اسکا بس نہیں تھا اس پیار کو نوچ کر نکال دے دونوں کی آنکھوں سے اور بیچ میں ایسا زہر گھول دے کہ انکی زندگی سیاہ پڑجائے۔


معاً خوشیوں کی مدت دیکھتے اسکی گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر گہری مسکراہٹ آگئی۔۔

انگلی میں دبا سگریٹ اسنے لبوں میں دبایا اور گہرا کش لیتے دھواں سیدھا اسکرین پر چھوڑا جسنے لیپ ٹاپ کی سکرین کو پورا دھندلا کردیا۔

منظر صاف ہوتے وہ پھر سے زیرک نگاہوں سے دیکھتا اسکرین کو زوم کرکے اس چہرے کو فوکس کرنے لگا جو نہایت معصوم اور نوخیز سی کلی تھی۔ اسکی زرد رنگت بتا رہی تھی کہ کافی کمزور تھی۔


وہ تو ابھی نکھر کر گلاب بھی نہیں بنی تھی ابھی تو شاید کلی کا روپ اختیار کیا تھا اسنے۔

کم سن سی تھی بیچاری۔ پر افسوس دیو کی آنکھوں میں سالوں سے چبھ رہی تھی۔ یہ چبھن اب کی نہیں یہ انتظار تو کتنے سالوں کا تھا کہ وہ کب کلی کا روپ لے گی اور وہ کب مٹھی میں دبوچ کر اسے کچلے گا۔

کب وہ اس تتلی کو پکڑ کر سیاہ کوٹھڑی میں قید کرے گا جوکہ کب کا اسکے انتظار میں ویران پڑی تھی۔ کب کی کوٹھڑی سجا کر اسنے رکھی تھی تاکہ وہ آئے اور اسکی ویرانی ختم کرسکے۔


اسکا طویل انتظار ختم تھا انقریب۔

"بہت وقت لیا ہے میرا روحا شاہ"

"حساب بھی ویسے ہی دوگی۔۔ اپنے شاہو کو۔۔" اس پر سرخ کلر سے کراس کا نشان بناتا وہ دوسری تصویر پر آگیا تھا۔


جہاں وہ نازک سے پتلے لبوں میں انہیلر دبائے ایک گہرا سانس کھینچ رہی تھی اور یہی منظر سکرین میں قید تھا۔


وہ بغور اسکی گردن کو دیکھنے لگا جہاں سے سانسیں کھینچی گئیں تھیں، اسکی سیاہ مڑی ہوئی پلکیں جھکی ہوئی تھیں جبکہ تپلی چھوٹی سی ناک میں چمکتا وہ چھوٹا سا ہیرا اس بات کی گواہی تھا کہ مغربی ملک میں اس عورت نے اسے مشرقی بنا کر رکھا ہوا تھا۔


"کتنے جتن کرتی ہو سانسوں لینے کیلئے تب کیا ہوگا جب تمہارے ہاتھ پاؤں میرے قید میں ہوں گے۔"

وہ زوم اسکے سراپے کو فوکس میں لیتا دیکھنے لگا جوکہ اسکی ذرا سی پکڑ میں بھی شاید ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی۔

پر اسکی پرواہ کس کو تھی؟؟

یہاں تو انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی سینے میں۔

جہاں ایک گہرا سیاہ جال تیار ہونے والا تھا اس معصوم سی پری کیلئے اس دیو کا۔۔


"کس سے مخاطب ہو؟؟؟"

دفعتاً زریش اسکی آواز پر حیرت سے اندر داخل ہوئیں کیونکہ اسکے کان میں نا بلوٹوتھ نا ہی موبائل جس سے اندازہ لگا پاتیں وہ کسی سے مخاطب ہے


ساحل نے آواز پر سکرین نیچے کی جب سامنے ہی اپنی ماں کو کھڑا پایا۔ انکی مشکوک آنکھیں دیکھتے اسکے لبوں کی مسکراہٹ معنی خیز ہوئی۔۔


"آپکی بہو سے۔" لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کرتے اسنے سائیڈ رکھا اور بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا

"کاش ایسا ہوئی جائے کہ تم کبھی کسی لڑکی سے بات کرلو خدا کی رحمت ہوگی مجھ پر۔" اسکی بات سنتے زریش نے ناک سے مکھی کی طرح اڑائی اور ایک سرد آہ بھری۔


ساحل انہیں دیکھتا رہ گیا۔

"غالباً یہ کیا میں آپکو پوسٹ مین دکھتا ہوں جو ہر ہفتے ماہ میری ٹیبل پر لفافہ سجا دیتی ہیں؟" اسنے پھر آج سائیڈ ٹیبل پر لفافہ دیکھتے اکتا کر کہا۔


"ساحل دماغ خراب مت کرنا میرا اب جلد سے آج رات ہی ڈنر کے بعد ان میں کوئی لڑکی پسند کرو تاکہ میں بات فائنل کروں بہت مشکل سے چن چن کر سات آٹھ سلیکٹ کی ہیں تمہاری نیچر کے حساب سے۔ تم سے بعد کے تمہارے قد کے ہوگئے ہیں بلکہ تقویٰ عائشہ تو اب اپنے بیٹوں کیلئے دلہن دیکھ رہی ہیں ایک میں ہوں بےبس اور میرے پاس تم! جسے اتنے سالوں میں نا کوئی لڑکی پسند آئی ہے نا ہی تمہارا انتظار۔

پتا نہیں کس دوشیزہ کیلئے ختم نہیں ہوا۔" اسکی غصے بھری ڈانٹ سنتا وہ مسکراتا ہوا ایش ٹرے میں سگریٹ مسلنے لگا جوکہ زریش کو بہت ناگوار گزرتا تھا اسکا سگریٹ پینا۔۔


"میں تو اسے تھوڑا وقت اور دینا چاہتا تھا پر اب جب آپکو اتنی جلدی ہے تو ٹھیک ہے کرلیتے ہیں انتظار ختم۔" وہ سنجیدہ بولتا واش روم کی طرف بڑھ گیا۔


پیچھے کھڑی زریش ٹھٹھک گئیں

"یہ کس کا انتظار تھا تمہیں ساحل شاہ جوکہ سالوں بعد آج ختم ہوا ہے؟" انہوں نے حیرت سے دیکھتے فوراً سے پیچھے کہا پر جواب ندارد۔۔

مزید دل انکا تب سکڑا جب انہوں نے وہ خاکی لفافہ اسکے پاؤں تلے روندا ہوا پایا۔

پر وہ جلدی خود کو سنبھال چکی تھیں کیونکہ انہیں بہت ہمت حوصلے سے کام لینا تھا اور مہکار شاہ کے پاکستان شفٹ ہونے سے پہلے ہارون زریش شاہ ساحل شاہ کو اپنی زندگی میں مصروف کرنا چاہتے تھے۔

مصروف تو وہ بھی ہونا چاہتا تھا پر بہت کچھ تباہ کرکے کسی کا سکون تو کسی کی روح کے بعد۔۔۔

جاری ہے   






" آپ کو کیا لگتا ہے یوں اغوا کرکے رکھیں گے تو میں ڈر جاؤں گی؟ پیچھے ہٹ جاؤں گی۔۔۔ ۔۔۔۔ مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی مت کیجیے گا وڈیرا سائیں۔۔۔ اپنے صبر اور حوصلے سے آپ اور آپ کے خاندان کے سب انا پرست ظالم وڈیروں کو منہ کے بل گرنے پر مجبور نہ کردیا تو میرا نام بھی سمائرہ کاظمی نہیں۔۔۔۔۔۔"

اردشیر کا گریبان مُٹھی میں سختی سے دبوچے سوکھے لبوں سے بامشکل لفظ ادا کرتی وہ اُسے اِس وقت کسی زخمی شیرنی سے کم نہیں لگی تھی۔۔۔۔

"مجھے چیلنج مت کرو۔۔۔۔ ہار جاؤ گی۔۔۔۔۔ مجھے پانچ سال پہلے والا اردشیر نواز مگسی سمجھنے کی غلطی مت کرو۔۔۔۔۔ اِن گزرے دو دنوں میں میری بے رحمی دیکھ اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا تمہیں۔۔۔۔"

اردشیر کی دیوانہ وار نگاہیں اُس کے ایک ایک نقوش کا جائزہ لیتیں۔۔۔۔ اُسے بُری طرح پزل کررہی تھیں۔۔

سمائرہ نے گھبرا کر اُس کا گریبان آزاد کرتے نگاہیں اس کی جانب سے پھیر لی تھیں۔۔۔۔ اُس کے یوں نظریں چرانے پر اردشیر ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ سجائے اُس کا چہرا اپنی گرفت میں لیتا اُس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ گیا تھا۔۔۔۔

"نگاہیں چرانے اور دھوکا دہی کے سوا کچھ نہیں آتا نا تمہیں۔۔۔۔۔ پانچ سال پہلے بھی ایسے ہی نگاہیں چرائی تھیں تم نے۔۔۔۔۔ "

اردشیر کی گرم سانسیں سمائرہ کی سانسوں سے ٹکراتیں اُس کے اوسان خطا کررہی تھیں۔۔۔ اُس نے دو دن سے پانی کا گھونٹ تک اپنے حلق سے نہیں اُتارا تھا۔۔۔ اُس میں لڑنے کی مزید سکت نہیں تھی۔۔۔۔

"پانی۔۔۔۔۔"

وہ اس شخص سے کوئی مدد نہیں مانگنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اِس وقت اُس لگا تھا پانی کے چند گھونٹ اُس کے اندر نہ گئے تو وہ مزید کچھ سیکنڈز ہی زندہ رہ پائے گی۔۔۔۔

اُس کی بند ہوتی آنکھیں دیکھ اردشیر نے جلدی سے پانی گلاس میں اُنڈلیتے اُس کے گرد بازو کا حصار قائم کرتے اُسے سیدھے بیٹھایا تھا۔۔۔ سمائرہ پوری طرح اُس کے سہارے پر تھی۔۔۔۔

اُسے پانی پلاتے وہ یک ٹک اُسے دیکھے گیا تھا۔۔۔ یہ معصوم چہرا اُسے دھوکا دینے کا قصوروار تھا۔۔۔۔۔ مگر کہیں نہ کہیں یہ بھی سچ تھا کہ اِسی چہرے کو کبھی اُس نے ٹوٹ کر چاہا تھا۔۔۔۔

"مجھے جانے دیں۔۔۔۔"

سمائرہ پانی پینے کے بعد کچھ بولنے کے قابل ہوئی تھی۔۔۔

جبکہ اُس کی بات سن کر اردشیر کا طلسم ٹوٹا تھا۔۔۔ وہ فوراً اُس کے گرد سے بازو ہٹاتا دور ہوا تھا۔۔۔۔

"میرے گاؤں سے چلی جاؤ۔۔۔۔ اور دوبارہ کبھی مُڑ کر اِس طرف مت دیکھنا۔۔۔۔ "

اردشیر نے اُسی کی بات واپس اُسی پر لوٹائی تھی۔۔۔۔

"میں جو مقصد لے کر آئی ہوں۔۔۔ وہ پورا کیے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گی۔۔۔۔"

سمائرہ نے بنا اُس سے خوف کھائے اُس کی چوڑی پشت کو گھورتے جواب دیا تھا۔۔۔۔

وہ پہلے سے کہیں زیادہ وجیہہ اور بارعب پرسنیلٹی کا مالک بن چکا تھا۔۔۔۔ جس سے بات کرنے سے پہلے مقابل کو لمحہ بھر کو ضرور سوچنا پڑتا تھا۔۔۔۔

"تو پھر یہیں رہو۔۔۔۔ کیونکہ تمہارا مقصد تو میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"

اردشیر نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو اپنے چکراتے سر کی پرواہ کیے بغیر بیڈ سے اُٹھتی لڑکھڑائی تھی۔۔۔۔

مگر اِس بار اردشیر نے اُسے سنبھالنے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔ وہ اپنا سر پکڑ کر بے بسی سے وہیں بیڈ پر ڈھے گئی تھی۔۔۔۔

"تمہاری یہ ڈرامے بازیاں اب نہیں چلیں گی میرے آگے۔۔۔ خاموشی سے یہ کھانا کھاؤ۔۔۔۔ اگر دوبارہ بے ہوش ہوئی تو میں اُٹھانے نہیں آؤں گا۔۔۔ اپنی زمہ دار تم خود ہوگی۔۔۔۔"

اردشیر اُس کے سامنے بیڈ پر سکینہ کی لائی کھانے کی ٹرے رکھتا دھمکی آمیز لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔ مگر اُس کے ایک ایک انداز سے سمائرہ کی فکر کی جھلک نمایاں تھی۔۔۔ جو سمائرہ تو شدید غصے میں نوٹ نہیں کرپائی تھی۔۔۔ لیکن ٹیبل پر پانی کا جگ رکھ کر مُڑتی سکینہ اپنے وڈیرے کو کسی کے آگے کھانا پیش کرتا دیکھ بے ہوش ہونے کے قریب ہوئی تھی۔۔۔۔

اُسے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لگا تھا یہ جاننے میں کہ یہ لڑکی اُن کے وڈیرے کو کس قدر عزیز تھی۔۔۔۔

"میں اچھے سے جانتی ہوں کہ آپ مجھے اذیت دے کر مارنا چاہتے ہو۔۔۔۔ کیونکہ آپ جیسے کم ظرف اور انا پرست مرد کو یہ گوارہ نہیں ہے کہ کوئی عورت سر اُٹھا کر آپ کے مقابل کھڑی ہو۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے کمزور سمجھنا آپ کی زندگی کی سب سے بڑی بھول ہوگی۔۔۔۔۔"

سمائرہ نے دو بدو جواب دیتے اُس پر ثابت کردیا تھا کہ وہ اُس سے ڈرنے والی نہیں ہے۔۔۔۔

"میں کیا چاہتا ہوں تم یہ کبھی جان پائی ہی نہیں اور نہ کبھی آگے جان پاؤ گی۔۔۔۔ رہی بات ہار جیت کی تو اب ہارنا صرف اور صرف تمہارے مقدر میں ہی لکھا ہے۔۔۔۔ اِسی لیے کہہ رہا ہوں۔۔۔۔ بہتری اِسی میں ہے کہ خاموشی سے یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔ ہار کا بوجھ نہیں سہہ پاؤ گی۔۔۔۔۔"

اردشیر اُس کے مقابل آن کھڑے ہوتے طنزیا مسکراہٹ سے اُسے دیکھتا سمائرہ کا دل زور سے دھڑکا گیا تھا۔۔۔۔ یہ ساحر پھر سے اُس پر اپنا سحر پھونکنا شروع ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔

"مجھے جس طرح یہاں سے بھیجنے پر تُلے ہوئے ہیں وڈیرا سائیں آپ۔۔۔ اُس سے تو صاف ظاہر ہے کہ کون ہارنے سے ڈر رہا ہے۔۔۔۔"

سمائرہ نے اُس کے وجیہہ سراپے سے نگاہیں ہٹالی تھیں۔۔۔ اردشیر کو یہاں ہر کوئی وڈیرا سائیں کہہ کر ہی بلاتا تھا۔۔۔ اُسے اپنے لیے یہ طرزِ تخاطب کچھ خاص پسند نہیں تھا۔۔۔ مگر اِس وقت سمائرہ کے منہ سے بار بار اِسی نام کی پکار اُسے بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔

"ٹھیک ہے مت جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ مگر تمہاری اصلیت جان کر یہ لوگ تمہارا جو حال کریں گے۔۔۔ اُس کے بعد مدد مانگنے کے لیے میرے پاس مت آنا۔۔۔۔"

اردشیر بکھرے بکھرے رف حلیے میں بیٹھی سمائرہ کو گھورتے بولا تھا۔۔۔۔ سیاہ بالوں کی لٹیں چٹیا سے نکل کر اُس کے گندمی پرکشش چہرے کے گرد بکھری ہوئی اِس حال میں بھی مقابل کے ہوش اُڑانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جو نہیں جانتی تھی کہ وہ خود کو کتنی بڑی مصیبت میں ڈالنے والی تھی۔۔۔۔


Muhabbat Ky Moti By Rimsha Hayat



” تمہیں کیا لگتا ہے؟ میں تمھاری محبت میں پاگل تھا اس لیے تم سے نکاح کیا؟

تمھارے ساتھ نکاح میں نے صرف تمھارے باپ کی وجہ سے کیا ہے ورنہ میں جس لڑکی کو پسند کرتا ہوں بہت سال پہلے میرا نکاح اُس سے ہو چکا ہے۔

اور یہ بچہ؟ یہ بچہ کس کا ہے؟ صنان نے سختی سے زائشہ کو کندھوں سے پکڑتے غرا کر پوچھا۔“


یہ آپ کا بچہ ہے زائشہ نے آنکھیں بند کیے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔


جھوٹ!!! جھوٹ بول رہی ہو تم اور کیا بکواس کی تم نے میری فیملی کے سامنے کہ یہ میرا بچہ ہے جبکہ تم بھی اچھی طرح جانتی ہو نکاح سے پہلے تو کیا نکاح کے بعد بھی میں نے تمہیں ہاتھ تک نہیں لگایا تو یہ بچہ میرا کیسے ہو سکتا ہے؟


جواب دو؟ میرے نکاح میں ہوتے ہوئے تمہیں یہ سب کرتے زرا بھی شرم نہیں آئی آج تمھارے جھوٹ کی وجہ سے میری بیوی کی آنکھوں میں میں نے پہلی بار بے اعتباری دیکھی تمھاری وجہ سے پورے خاندان کے سامنے مجھے جھوٹا بننا پڑا۔کیوں کیا تم نے ایسا جواب دو؟ صنان نے زائشہ کو مزید اپنے قریب کرتے کہا۔


زائشہ کو لگ رہا تھا صنان کے ہاتھ کی انگلیاں اس کے بازو میں دھنستی جارہی ہیں۔


میں آپ سے محبت کرنے لگی ہوں صنان !!! زائشہ نے آنکھیں بند کیے بےبسی سے کہا جبکہ آنسو نا چاہتے ہوئے بھی اس کے گال بھگو گئے تھے۔

کیا؟؟ محبت صنان نے منہ میں بڑبڑایا

تھوڑی دیر تک زائشہ صنان کے ردعمل کا انتظار کرتی رہی پھر آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی جو بے یقینی سے سنایہ کو دیکھ رہا تھا۔


میں جانتی ہو صنان مجھ سے غلطی ہوئی ہے میں معافی مانگتی ہوں آپ سے میں خود نہیں جانتی میں کیسے آپ کی محبت میں گرفتار ہو گئی پلیز مجھے معاف کر دیں۔پلیز مجھے اپنا لیں ذائشہ نے گڑگڑاتے ہوئے صنان کو دیکھتے کہا۔


غلطی؟ غلطی نہیں زائشہ تم نے گناہ کیا ہے۔اور جانتی ہو ہمارے مزہب میں اس کی کیا سزا ہے؟ میں غلط تھا میں نے سوچا تھا کہ جس طرح بھی تم میری زندگی میں آئی لیکن تمہیں اللہ نے میرے نصیب میں لکھا ہے اور میں تمھارے سارے حقوق پورے کرنے کی کوشش کروں گا لیکن تم نے کیا کیا؟

صنان نے زائشہ کے بازوں سے ہاتھ پیچھے کرتے سر نفی میں ہلاتے کہا۔

آنکھیں اس کی سرخ ہو رہی تھیں۔آج اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا دل دکھا تھا۔

کوشش کرنا کہ میری نظروں کے سامنے مت آؤ ورنہ اپنے ہاتھوں سے تمھارا گلہ دبا دوں گا۔

صنان نے زائشہ کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا اور پھر ایک سیکنڈ بھی وہاں نہیں رکا تھا۔


پیچھے زائشہ وہی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔پورا چہرا آنسو سے تر ہو چکا تھا۔

” میں آپ سے محبت کرتی ہوں صنان میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی زائشہ نے بےبسی سے اپنے بالوں کو دبوچتے کہا۔

صنان کا اس سے دور جانے کا سوچ کر ہی اسے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔

کیا چاہتے ہو تم؟ دادا جان نے صنان کو دیکھتے پوچھا۔

رخصتی اور وہ بھی کل صنان نے اپنا فیصلہ سنایا۔

کیا میں وجہ جان سکتا ہوں؟ دادا جان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

نوال میری بیوی ہے اور ہمارے نکاح کو اتنے اسال ہو گئے ہیں تو اب بھی آپ رخصتی نہیں کرنا چاہتے؟ صنان نے الٹا سوال کرتے کہا۔


بیٹا جی عید کے دوسرے دن تمھارا اور نوال کا ولیمہ ہے کچھ دنوں کی بات ہے تھوڑا صبر کر لو اتنی جلدی رخصتی نہیں ہو سکتی تم بھی سمجھنے کی کوشش کرو اور اچانک تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم نے رخصتی کی رٹ لگا لی ہے؟

دادا جان نے نے نا سمجھی سے صنان کو دیکھتے پوچھا۔جس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔


دادا جان آپ کی نواسی کا دماغ خراب ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر الگ ہونے کی بات کرتی ہے۔

اور جتنا میرا صبر یہ لڑکی آزماتی ہے اتنا کسی نے نہیں آزمایا اور اب میری بس ہو چکی ہے۔

آپ ہماری رخصتی کر وا دیں کم از کم اُسکے چھوٹے سے دماغ سے یہ خیال تو نکل جائے کہ وہ مجھ سے الگ ہو سکتی ہے۔صنان نے غصے سے کہا۔جس پر دادا جان مسکرا پڑے تھے۔


Sitam Ki Janjeer By Rimsha Hayat



" سردار شجاعت آپ خون بہا کے بدلے ہم سے کچھ اور مانگ لیں۔ہم آپ کو نا تو اپنی بیٹی دے سکتے ہیں اور ناہی کسی کی جان

Sitam Ki Zanjeer By Rimsha Hayat Urdu Complete Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Sitam Ki Janjeer By Rimsha Hayat



" سردار شجاعت آپ خون بہا کے بدلے ہم سے کچھ اور مانگ لیں۔ہم آپ کو نا تو اپنی بیٹی دے سکتے ہیں اور ناہی کسی کی جان

جرگے میں۔۔۔۔ " دوسرے قبیلے کے سردار زارون کی کرخت آواز گونجی تھی۔۔۔


آج جرگہ دو قبیلوں کے درمیان لگا تھا اور دونوں ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور دونوں طرف کے لوگ یہاں پر بیٹھے تھے۔آج پھر ایک معصوم قربان ہونے جا رہی تھی۔


حیرت ہے ایک قبیلے کے سردار کی زبان سے ایسی باتیں زیب نہیں دیتی جو اپنی روایات کو اپنے خاندان کی خاطر بھول گیا ہے۔۔۔۔


" تھو ایسے سردار پر تمھارے بیٹے نے ہمارے بیٹے کی جان لی ہے اور خون کا بدلے خون ہوتا ہے اور یہ ہی روایات چلتی آرہی ہیں۔اگر تم خون کے بدلے خون نہیں دے سکتے تو سوچ لو کہ تمہارے پاس اور دوسرا کون سا راستہ ہے؟؟؟؟ اگر تمہیں اپنا بیٹا اتنا ہی عزیز ہے تو تمہیں اپنی بیٹی ہمیں ونی کرنی ہو گی۔۔۔ " سردار شجاعت نے اپنا فیصلہ سناتے اپنی مونچھوں کو بل دیا۔۔۔۔

یہ سب سنتے ہی کچھ پل کے لیے وہاں سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔۔


" ٹھیک ہے میں اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ " زارون نے شجاعت کے دائیں جانب بیٹھے شخص کو دیکھتے ہامی بڑھی۔


" تو ٹھیک ہے مولوی صاحب میرے بھائی کا نکاح شروع کروایا جائے۔۔۔۔۔ " اس کی بھی سنی گئی شجاعت نے اپنے بائیں جانب بیٹھے اپنے بھائی کو دیکھتے کہا جو خوشی سے اٹھ کر بھنگڑے ڈالنے لگا تھا۔


" واہ جی واہ میری شادی ہونے والی ہے میرا بھائی بہت اچھا ہے میرے لیے ایک خوبصورت دلہن لائے گا۔۔۔۔۔ " شجاعت کے بھائی نے اونچی آواز میں کہا اور ساتھ ہنستا بھی جا رہا تھا اس کا دماضی توازن کچھ ٹھیک نہیں تھا اور یہ بات گاؤں میں ہر ایک کو معلوم تھی۔


شجاعت کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی لیکن زارون سمیت سب کو سانپ سونگ گیا تھا۔وہ تو کچھ اور سوچ کر بیٹھا تھا۔۔۔۔۔

وہ جو پردے کے پار کھڑی اپنی زندگی کا فیصلہ ہوتے سن رہی تھی۔سامنے اچھل کود کرتے انسان کو دیکھتے اسے اپنے قدموں میں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔سامنے اچھل کود کرتا انسان لگ بھگ اس کے باپ کی عمر کا تھا۔


اسے کس بات کی سزا مل رہی تھی؟؟ شاید لڑکی ہونے کی؟؟ یہی سوال اس کے دماغ میں چل رہے تھے کہ اچانک اسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہوا اور وہ وہی دھڑام سے گر گئی۔۔۔۔


اس کے گرنے کی آواز پر وہاں بیٹھے سردار شجاعت کے دائیں جانب شخص نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں پیوست کیے اپنے اندر کھولتے لاوے کو برداشت کیا تھا۔۔۔۔اسکی آنکھیں خون کی مانند سرخ ہو رہی تھی۔۔۔۔ اور چہرے پر سرد تاثرات تھے۔۔۔۔۔

"آپ کون ہیں؟" زارا نے سامنے کھڑے زوحان کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

"جس سے تھوڑی دیر پہلے تمھارا نکاح ہوا ہے۔"

زوحان نے اپنے قدم زارا کی طرف بڑھاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

یہ چھوٹا سا کمرہ اسے سونے کے لیے ملا تھا لیکن زوحان یہاں کیا لینے آیا تھا وہ اس بات سے انجان تھی۔

زوحان نے زارا کی اُسی کلائی کو پکڑتے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا جہاں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔تکلیف سے زارا کراہ اُٹھی تھی لیکن زوحان نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور اسے خود کے سامنے کھڑا کیا۔


"چاہے تم ونی ہو کر آئی ہو لیکن نکاح تو میرا تمھارا ساتھ ہی ہوا ہے"۔


زوحان نے ذومعنی الفاظ میں زارا کے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھتے مزید کہا۔

"اتنا گھبرا کیوں رہی ہو؟ شوہر ہوں تمھارا پورا حق رکھتا ہوں تم پر اور وہی لینے تو آیا ہوں۔"زوحان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے زارا کے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے گہرے لہجے میں کہا۔

جو بت بنی زوحان کو دیکھ رہی تھی۔اس نے تو نکاح کے وقت نام پر دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ اس کا نکاح کس کے ساتھ ہو رہا ہے۔

"تمہیں ایک حقیقت بتا دیتا ہوں"۔

زوحان نے زارا کے دونوں ہاتھوں کو کمر کے پیچھے لے جا کر اپنی گرفت میں لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا اس وقت وہ پوری طرح زوحان کی قید میں تھی۔


"جس سے تمھارا نکاح ہوا ہے وہ میں نہیں ہوں

زارا نے نفی میں سر ہلا کر زوحان کو روکنے کی ناکام کوشش کی تھی۔

آنسو تو شاید پہلے ہی باہر نکلنے کو تیار تھے۔


اس سے اچھا تو تھا کہ وہ مر جاتی کم از کم اس کی عزت تو محفوظ ہوتی۔

💜💜💜💜

” میں بہت جلد آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤ گی کیونکہ میں ایسے انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی جس نے مجھ جیسی ناجانے کتنی لڑکیوں کی زندگی خراب کی ہے زبور کہتے ہی وہاں سے جانے لگی جب عماد نے اس بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔


فکر مت کرو جس لڑکی کی زندگی عماد خراب کرے گا وہ صرف ایک ہی اور وہ ہو تم عماد نے سرد لہجے میں زبور کی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتے مزید کہا۔زبور کو عماد کی انگلیاں اپنی کمر میں دھنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

سب سے پہلے تو میں تمھارا مجھ سے دور جانے کا بھوت اتارا ہوں۔اُس کے بعد

تمھارے باپ کو بھی دیکھ لوں گا“۔چلو میرے ساتھ عماد کہتے ہی اسے بازو سے پکڑا اور کھنچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا۔

عماد آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے زبور نے چیختے ہوئے کہا۔

بلکل کرسکتا ہوں مسز عماد نے مڑ کر زبور کو دیکھتے طنزیہ لہجے میں کہا۔



Sanso Me Basa Tere Naam By Farwa Khalid


تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آزفہ منہ کے بل زمین پر جاگری تھی۔۔۔

"دیکھو میرے قریب مت آنا۔۔۔۔"

فرش پر ہی پیچھے کی جانب سرکتی وہ بے بسی بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔ مگر ہاشم کی ہوس اب مزید بڑھ چکی تھی۔۔۔ وہ اِس لڑکی کو کسی صورت چھوڑنے والا نہیں تھا اب۔۔۔۔

وہ آزفہ کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے جھکا تھا۔۔۔۔

آزفہ نے آنکھیں سختی سے میچتے اپنے اللہ کو پکارتے اُس سے مدد مانگی تھی۔۔۔۔ اُس کی اب ساری اُمیدیں اپنے رب سے وابستہ تھیں۔۔۔ جو ہمیشہ ہر جگہ اُس کی مدد کرتا آیا تھا۔۔۔۔

جب اُسی لمحے دروازے پر باہر سے زور دار ضرب رسید کی گئی تھی۔۔۔ ہاشم نے گھبرا کے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔چند سیکنڈز کی لگاتار ضربوں کے بعد دروازے کا لاک ٹوٹا تھا۔۔۔۔

اندر داخل ہونے والے شخص کو دیکھ آزفہ کے کئی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر لڑھک آئے تھے۔۔۔۔۔

چوہدری ہاشم کو ہناد محتشم موت کی صورت اپنے قریب آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔

ہناد نے ایک خون آشام نگاہ فرش پر گری آزفہ پر ڈالی تھی۔۔۔ جس کو صحیح سلامت دیکھ اُس کے جلتے دل میں سکون اُتر گیا تھا۔۔۔ اُسے آنے میں دیر نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔

مگر اُس کی وحشت ناک غصے بھری نگاہیں دیکھ آزفہ اندر تک لرز اُٹھی تھی۔۔۔ ہناد نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر آزفہ کو اُٹھایا تھا۔۔۔۔ اپنے بازو پر موجود سخت گرفت سے آزفہ اُس کے غصے کا اندازہ اچھے سے لگا پارہی تھی۔۔۔ اُسے اپنے بازو کی ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔

وہیں اُس کے نازک گال پر پڑے اُنگلیوں کے نشان دیکھ ہناد تو جیسے پاگل ہو اُٹھا تھا۔۔۔۔

اُسے انسان سے حیوان بننے میں ایک پل نہیں لگا تھا۔۔۔۔

وہ واپس پلٹا تھا اور موبائل نکال کر اپنے گارڈز کو کال ملاتے ہاشم پر بُری طرح اپنا قہر توڑتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔

ہناد کے بھاری ہاتھ کے پڑنے والے مکے ہاشم کو کچھ ہی لمحوں میں ہاتھ موا کر گئے تھے۔۔۔۔

اُس کا پورا چہرا لہولہان ہوچکا تھا۔۔۔۔ ہناد اندر صرف اکیلا ہی آیا تھا۔۔۔ باقی سب لوگ باہر موجود تھے۔۔۔ اِس لیے ہناد کو کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا۔۔۔

آزفہ تو ہناد کو اتنے غصے میں دیکھ سہم کر دیوار سے لگی چوہدری ہاشم کی حالت دیکھ خوف کے عالم میں چہرے پر ہاتھ رکھ گئی تھی۔


Diltang Tawam Jana By Farwa Khalid



تجھ سے بڑی بے وقوف لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ اتنی بڑی اینکر بنی پھرتی ہے۔ میں نے ایک بار کہہ دیا تو اُس التمش غیدان کے خلاف رپورٹ لکھوانے چل پڑی۔ تجھے اغوا اُس نے نہیں ۔۔۔۔"
وہ بولتے بولتے ماہ رو کے قریب جارہا تھا۔ اِس سے پہلے کے ہاتھ بڑھا کر وہ ماہِ رو کو چھوتا جب دائیں جانب سے چہرے پر ایک زوردار ٹھوکر رسید کی گئی تھی۔ وہ اتنے شدید حملے پر بلبلاتا دور جاگرا تھا۔ بھاری بوٹ کا وار اتنا سخت تھا کہ اُسے اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
ماہ رو نے بھیگی پلکیں اُٹھا کر اچانک نازل ہونے والے اُس فرشتے کو دیکھا تھا۔ مگر مقابل پر نظر پڑتے اُس کی نگاہوں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں ساکت ہوئی تھیں۔ وہ سانس روکے اُس پتھریلی زمین پر جوں کی توں بیٹھی رہ گئی تھی۔
آف وائٹ قمیض شلوار پر براؤن شال اوڑھے وہ کسی بپھرے زخمی شیر کی طرح اُس نقاب پوش کو بُری طرح پیٹنا شروع کرچکاتھا۔ جسے ایک دو بار ہی زمین پر پٹخنے پر اُس شخص کی جان حلق تک آچکی تھی۔
اُسے پاگلوں کی طرح پیٹتے دیکھ ماہِ رو کا سکتہ ٹوٹا تھا۔ وہ بہت مشکل سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔ جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر سرجھکائے فیروز پر پڑی تھی۔
"روکو اُنہیں وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو فیروز کی جانب دیکھ چلائی تھی۔ مگر فیروز نے اپنا جھکا سر اُٹھانے کی گستاخی نہیں کی تھی۔ وہ ہنوز سر جھکائے ساکت و جامد اپنے باس کے نئے حکم کا منتظر تھا۔
"ایڈیٹ۔۔۔۔"
ماہِ رو اُس التمش غیدان کے روبوٹ پر ایک غصے بھری نظر ڈالتی خود ہی التمش کی جانب بڑھی تھی۔ جسے دوبارہ زندگی میں کبھی مخاطب نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اُس نے۔
"چھوڑیں اُسے۔۔۔۔وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو التمش کے قریب آتی چلائی تھی۔ مگر وہ غضبناکی کی حدود کو چھوتا کچھ بھی سننے سمجھنے سے قاصر بس اُس شخص کو پیٹی جارہا تھا۔ جس نے ماہِ رو آبنوس پر بُری نظر ڈال کر التمش غیدان کے قہر کو آواز دی تھی۔
"التمش میں نے کہا چھوڑیں اُسے۔۔۔۔ وہ مر جائے گا۔"
اُس شخص کے لہولہان وجود کی جانب ایک نظر ڈال کر ہی ماہِ رو خوف سے کانپ اُٹھی تھی۔
جبکہ دوسری جانب اتنے سال بعد اپنے نام کی پکار اُن نازک ہونٹوں سے سنتے التمش غیدان کے ہاتھ وہیں ساکت ہوئے تھے۔ اتنے سالوں سے ساکت پڑے دل میں ہلچل سی پیدا ہوئی تھی۔
"جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔"
التمش اُس پر نگاہِ غلط ڈالے بغیر اُس کی جانب سے رُخ موڑکر کھڑے ہوتے بولا تھا۔
"اُسے اُس کی غلطی کی سزا مل چکی ہے۔ اب مزید اپنے اندر کا گلٹ ختم کرنے کے لیے ایک اور قتل مت لکھوا لیجیئے گا اپنے سر۔"
ماہِ رو اُس پر گہرا طنز کرتے پلٹی تھی۔ جبکہ اُس کا جملہ التمش غیدان کے پہلے سے جلتے سینے میں مزید آگ بھڑکا گیا تھا۔
اُس نے ایک جھٹکے سے مڑتے واپس پلٹتی ماہِ رو کا بازو اپنے آہنی شکنجے میں لیتے اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ اِس جارحانہ عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ سیدھی التمش کے سینے سے ٹکراتے اُس کے ہونٹوں سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی تھی۔
اُس نے فوراً التمش کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جماتے بیچ میں فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر التمش کی لال انگارہ خود پر جمی آنکھیں دیکھ ماہِ رو کا خون رگوں میں منجمد ہوا تھا۔
اُس کے دھکتے لمس اور چہرے پر پڑتی گرم سانسوں کی تپیش پر ماہِ رو کو اپنا وجود کپکپاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ جس کے خلاف وہ سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر نجانے کیا کیا پروپیگنڈے کرتی پھر رہی تھی۔ اُس کے سامنے آتے ہیں سانسیں حلق میں اٹک چکی تھیں۔
وہ بنا ہلے اُس کے حصار میں ساکت کھڑی تھی۔ جب کان کی لوح پر دھکتی گرم سانسوں کی تپیش محسوس کرتے اُس سے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا محال ہوا تھا۔ اگر التمش نے اُسے تھام نہ رکھا ہوتا تو وہ کب کا زمین بوس ہوچکی ہوتی۔
"میں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوں۔ جس سے اُلجھ کر تم جل کر راکھ ہوجاؤ گی۔ مگر پھر بھی مجھے بجھا نہیں پاؤ گی۔ اور نہ میرے اندر دھکتے شعلوں کی شدت کم کرپاؤ گی۔ اِس لیے تمہارے لیے یہی بہتر ہے میری دنیا میں گھسنے کی کوشش نہ کرو۔ ورنہ تمہارا انجام بہت عبرت ناک بنا دوں گا میں۔"
اُس کے کان میں سفاکیت بھرے لہجے میں سرگوشی کرتا وہ ماہِ رو کے کب سے رُکے آنسوؤں کو باہر کا راستہ دیکھا گیا تھا۔
ماہِ رو نے ایک اذیت بھری نگاہ اُس بے رحم انسان پر ڈالتے اُسے خود سے دور دھکیلنا چاہا تھا۔ مگر التمش کی مضبوط گرفت نے اُسے زرا سا ہلنے بھی نہیں دیا تھا۔
"التمش غیدان اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں۔ میرا سب کچھ چھین لیا تم نے مجھے سے۔ میں بھی تم سے تمہارا سب کچھ چیھن لینا چاہتی ہوں۔ تمہیں بھی ویسی اذیت کا شکار کرنا چاہتی ہوں جیسا تم نے میرا حال کیا تھا۔ تم مجھے اپنی طاقت سے روکنے کی چاہے جتنی مرضی کوشش کر لو۔
میں اپنی آخری سانس تک تم سے نفرت کرتی رہوں گی. اور اپنا انتقام پورا کروں گی۔"
ماہِ رو بہتی آنکھوں کے ساتھ اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتے بولی تھی۔
اُس کے ہر بہتے آنسو کے ساتھ التمش کی گرفت اُس کے بازو پر مزید مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ التمش کا بس نہیں چل رہا تھا۔ ہر چیز تہس نہس کردے۔ کیوں ہر بار یہ لڑکی اُس کے سینے میں آگ دہکا دیتی تھی۔ کیوں اُسے سکون سے جینے نہیں دیتی تھی۔ ۔اتنی نفرت کے باوجود اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو التمش غیدان کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہورہے تھے۔
اِس سے پہلے کے وہ کمزور پڑتا اُس نے ماہِ رو کو اپنے شکنجے سے آزاد کرتے اپنا رُخ موڑ لیا تھا۔
"جاؤ۔۔۔۔۔جو کرنا چاہتی ہو میرے خلاف کرو۔۔مگر میری ایک بات یاد رکھنا التمش غیدان ایک ایسی چٹان ہے جسے تم چاہ کر بھی توڑ نہیں پاؤ گی۔ اور جب مجھے لگا تم اِس چٹان سے ٹکراتی ہار رہی ہو تو پھر جواباً میرا وار سہنے کے لیے تیار ہوجانا۔ جس سے بچنا تمہاری نازک جان کے لیے ناممکن ہوگا۔ اِس لیے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ۔ ورنہ مجھے ہرانے میں ناکامی پر جو سزا میں تمہیں دوں گا، وہ تمہیں شاید پسند نہ آئے۔"

التمش کی بات میں چھپا معنی خیز مفہوم وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔ اتنی سنگین سچویشن کے باوجود ماہِ رو کا چہرا سُرخ ہوا تھا اور کانوں کی لوحیں دہک اُٹھی تھیں۔


Jaan E Bewafa By Rimsha Hayat


پلیز میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔جو بھی میں نے تمھارے ساتھ بدتمیزی کی اُس کے لیے مجھے معاف کر دو سیرت نے شفیق کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔


تجھے کیا لگتا ہے اب میں تجھے یہاں سے جانے دوں گا؟

شیر کے سامنے شکار ہو اور وہ اُسے نا کھائے تو ایسا تو نہیں ہو سکتا نا اور تمھارے جیسی حسین لڑکی کو میں جانے دوں ایسا تو بلکل بھی نہیں ہو سکتا شفیق نے خباثت سے کہتے اپنے قدم سیرت کی طرف بڑھائے۔


سیرت وہاں سے اُٹھ کر دروازے کی طرف بھاگنے لگی شفیق نے اس کو بازو سے پکڑنا چاہا تو وہاں سے کچھ کپڑے کا ٹکرا پھٹ کر شفیق کے ہاتھ میں آگیا۔

شفیق نے اسے دوبارہ بازو سے پکڑ کر اس کے منہ پر زور دار تھپڑ دے مارا جو دیوار کے ساتھ لگنی کی وجہ سے زمین پر جا گری اور ماتھے سے بھی اسکے خون نکلنے لگا تھا۔


سیرت نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے سامنے سے آتے درندے کو دیکھا اس نے ارد گرد نظریں دوڑائی اس سے پہلے شفیق سیرت کی طرف آتا اس نے پاس پڑا گلدان پکڑا اور زور سے کھڑے ہوتے شفیق کے سر پر دے مارا۔

ابھی وہ اسی حملے سے سنبھلا نہیں تھا کہ سیرت نے دوبارہ گلدان اس کے سر پر دے مارا جو وہی اپنے سر پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھ گیا تھا خون زیادہ نکل رہا تھا۔


تجھے میں چھوڑوں گا نہیں شفیق نے گالی دیتے دروازہ کھولتی سیرت کو دیکھتے کہا۔

جس نے شفیق کی بات کو اگنور کیا اور باہر بھاگ گئی اس وقت اس کا مقصد یہاں سے باہر نکلنا تھا۔

باہر چوھدری کے آدمی کھڑے تھے۔

سیرت ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ کیسے یہاں سے باہر جائے ایک آدمی نے آکر کہا کہ چوھدری صاحب سب کو اندر بلا رہے ہیں چھوٹے چودھری بےہوش ہو گئے ہیں یہ کہتے ہی سب لوگ اندر چلے گئے اور سیرت کو یہی موقع بہتر لگا اور چوھدری کے گھر سے باہر نکل گئی۔


اس وقت وہ جس حلیے میں تھی کوئی بھی دیکھتا تو غلط ہی سمجھتا ایک بازو پھٹا ہوا تھا بکھرے بال چہرہ سوچا ہوا اور ڈوپٹہ تو شاید کہی گر گیا تھا بس وہ یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔

Dildaar Masiahye Dil By Faiza Sheikh


ماہا دروازہ کھولو یار۔۔۔۔" صنم اور صالح کے جانے کے بعد وہ کب سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا مگر ماہا ناں تو دروازہ کھول رہی تھی ناں ہی کچھ بول رہی تھی۔۔ جسکی وجہ سے ابتہاج زیادہ پریشان تھا۔۔
ماہا اگر ابکی بار دروازہ ناں کھولا تو میں پھر سے چلا جاؤں گا اور تم چاہے جو مرضی کر لو میں واپس نہیں آؤں گا۔۔۔
ابتہاج نے آخری پینترا آزمایا اسے یقین تھا کہ ابکی بار وہ دروازہ کھول دے گی ۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔
ابتہاج نے لب بھینجتے ماہا کے چہرے پر مٹے مٹے آنسوں کے نشانات دیکھے۔۔
روئی کیوں تم۔۔۔۔۔" اپنے بھاری قدم اٹھائے وہ گھبیر بھاری لہجے میں بولتا ماہا کے قریب ہوا تو ماہا نے قدم پیچھے لیتے اسے دیکھا۔۔۔
کیوں بتاؤں ویسے ہی دل چاہ رہا تھا رونے کو اسی وجہ سے روئی ۔۔۔۔۔ وہ ناک چڑھائے بولی تو اسکے انداز اور یوں روٹھنے پر ابتہاج کے چہرے پر مسکان آئی، وہ قدم بڑھائے اسکے قریب ہونے لگا۔ کہ ماہا نے اسکی کوشش بھانپتے قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔۔ ابتہاج نے ایک دم سے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے اسے تھامنا چاہا مگر ماہا اسکی کوشش کو بھانپتے تیزی سے الٹے قدم چلتی پیچھے کو ہونے لگی کہ معا اسکے پاؤں بری طرح سے مُڑا تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتی ابتہاج کا بھاری ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل ہوتے اسے گرنے سے بچا گیا۔۔۔
ابببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔" وہ ڈرتے ابتہاج کے کندھوں کو تھامے حراساں سی بولی تو ابتہاج نے اسکی کمر کو سہلاتے اسے پرسکون کیا، جو اس وقت بالکل ڈری ہوئی تھی۔۔
اشششش کچھ بھی نہیں تم ٹھیک ہو ماہا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔" اسکا ڈر بھانپتے ابتہاج نے نرمی اسکے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے کہا تھا جبکہ ماہا نے فورا سے کپکپاتے ہوئے سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔
نننن نہیں اگر میں گر جاتی تو میرا ببب بچہ ۔۔۔۔۔ابب ابتہاج ممم مجھے کک نن نہیں یہ ہوتا مم مگر ممم میرا بب بے بی۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پہلے بھی اپنے بچے کو کھو چکی تھی ۔۔۔ اسکا دماغ بالکل سن سا پڑ گیا تھا اسکے دل و دماغ میں صرف ایک بات گھوم رہی تھی کہ وہ پھر سے اپنے بچے کو کھو دیتی۔۔۔۔ "
ماہا میری جان کچھ بھی نہیں ہوا ریلیکس رہو میری جان میری زندگی۔۔۔۔" اس وقت ماہا کو سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا تھا ابتہاج کیلئے وہ جانتا تھا کہ وہ کس خوف ڈر کے تحت یہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔۔ جبھی تو وہ اسے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
ماہا اپنے سینے میں اترتی ابتہاج کی دہکا دینے والی سانسوں کو محسوس کرتے پل بھر میں آسکی قربت میں ی۔۔۔۔ ابتہاج کے لمس میں نرمی تھی وہ اسے محبت سے چھوتے اسکا سارا ڈر خوف نکالنا چاہتا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا۔۔

ماہا ابتہاج کی قربت میں سب کچھ بھلائے اسکی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ابتہاج اسے پرسکون ہوتا دیکھ نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے پیچھے ہوا اور ماہا کے سرخ پڑتے چہرے پر آنسوں کے نشانات دیکھتے ابتہاج نے اپنے ہاتھ کی پشت سے ماہا کے رخسار کو سہلایا۔۔۔ ماہا ابتہاج کے ہاتھ کے سخت لمس کو محسوس کرتے بےچین سی ہوتے اسے دیکھنے لگی جو اسکی آنکھوں میں دیکھتا اپنے ہونٹ ماہا کے رخسار پر رکھتے اسکے انسںوں کے نشانات کو چھونے لگا۔

Shiddat E Lams By Faiza Sheikh


ہنیزہ فریش ہو کر باہر نکلی اور اپنے گیلے بال تولیے سے آزاد کیے پنک فراک وائٹ چوڑی دار پاجامے میں اس وقت وہ مہکتا گلاب لگ رہی تھی اس کے وجود کی دلفریب مہک ،نم بالوں سے گرتی پانی کی بوندیں ایک الگ ہی سما باندھ رہیں تھیں

ہنیزہ نے کوفت سے برش ہاتھ میں پکڑے اپنے بالوں کو دیکھا جو اس سے سلجھتے ہی نہیں تھے اسے رونا آنے لگا


"گنننندےےےے ہو ۔۔۔ ککککیوں نیییی ٹھیکک ہوتے ۔۔۔۔ میںنن عاشو ووو ککو بووولنگی ۔۔۔۔ وہ کٹ کرینگے تمممہیں "

وہ بڑے مصروف انداز میں بالوں کو سلجھاتی رازدارانہ گفتگو کر رہی تھی ۔۔۔۔ جہاں اس کی گفتگو پر کسی کے پتھریلے تعصرات ۔۔۔۔ میں نرمی آئی تھی ۔۔۔ وہیں عاشو کا نام سن کر ماتھے پر لاتعداد بلو ں کا اضافہ ہواتھا اسے محسوس ہوا تھا کہ کسی نے کھولتا ہوا پانی اس کے وجود پر ڈال دیاہو وہ سرخ نظروں۔سے بلیک روم میں بیٹھا اسکرین کو گھور رہا تھا

اور پھر ایک ہی جھٹکے سے اس نے لیپ ٹاپ دیوار پر دے مارا

"ہنیزہ میکال ایک بار پھر اس کی انا پر کاری وار کر چکی تھی جسکا اسے اندازہ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔


ہنیزہ کی جدو جہد بالوں سے جاری تھی جب اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرکے وہ پیچھے مڑی

اور اپنے بلکل سامنے کھڑے ''عابس سلطان"کو دیکھ اس کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں ۔۔۔۔ جسم کھڑے کھڑے کانپنے لگا تھا


وہ پلکیں بار بار جھپکتی اپنی اوشن نیلی آنکھوں سے اس کی سرد ہیزل گرین آنکھوں میں دیکھ رہی تھی پر ایک لمحےسے زیادہ نہ دیکھ پائی ۔۔۔۔ اس تعصر کو جس نے اس کا معصوم سا وجود لرزا دیا تھا ۔۔۔

عابس قدم قدم بڑھتا اس کے قریب آنے لگا ۔۔۔۔. جبکہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ ہنیزہ کا سانس اوپر کا اوپر ہی رہ گیا وہ ہونٹوں پر اپنی مخروطی انگلیاں جمائے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔

عابس نے اسے دور جاتا دیکھ تمسخرانہ انداز میں لبوں کو مسکراہٹ میں۔ڈھالا

"کیاہوا 'ہنیزہ میکال 'میرے بھائی کی باہوں میں بڑے آرام سے نیند کے مزے لوٹ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ اور مجھ سے اس قدر دوری ۔۔۔ یہ تو نا انصافی ہے نا ۔۔۔۔ بابا کی ہنییییییی "

عابس کا لہجہ مکمل بہکا ہوا تھا ۔۔۔۔ ایک جنون بے معنی سا تھا جس کی رو میں بہکتا وہ سب فراموش کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ اس کی نفرت اس کا پاگل۔پن سب کچھ صرف ہنیزہ میکال۔سے منسوب تھا ۔۔۔۔


اس کے جواب نا دینے پر عابس نے آنکھیں سکیڑیں ۔۔۔.

اور ایک ہی جست میں اسے خود کے قریب کرتا بیڈ پر بٹھا گیا یہ سب ایک پل میں ہوا تھا ہنیزہ پلک جھپکتے بیڈ پر تھی

اسے محسوس ہوا کہ ہوا کا کوئی جھونکا اسے چھو کر گزرا ہے عابس سلطان نے اسے ایسے چھوا تھا کہ وہ محسو س تک نہ کر سکی ۔۔۔۔۔


بس آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھرتی اپنی موت کی دعاِئیں مانگنے لگی


Shanasay E Yaar By Zainab Faiza


ععع عععاللللمم_____" اصلال عالم کی آنکھوں میں چھائی خمار کی سرخی عبادت کو لرزنے پر مجبور کر گئی وہ سہمی حراساں سے اسکے کشادہ سینے پر اپنے نازک ہاتھوں سے دباؤ ڈالتی اسے خود سے دور کرنے لگی جو کسی سائے کی طرح عبادت پر جھکا اسکی سہمی نظروں میں دیکھ اسے مزید خوفزدہ کر گیا۔۔۔

اب بولو میں کیا ہوں۔۔۔۔۔" وہ اطمینان سے اپنے دونوں ہاتھ عبادت کے دائیں بائیں تکیے پر ٹکائے انہماک سے اسے دیکھ استفار کرنے لگا ۔۔۔ عبادت نے تھوک نگلتے خود کو بچانے کا کوئی بہانہ ڈھونڈنا چاہا مگر برا ہو قسمت کا جو عین وقت پر اسے کوئی بھی بہانہ نہیں ملتا تھا۔۔

آپ ایک اچھے شریف بہت سمجھدار انسان ہیں۔۔۔۔۔!" اپنی سنہری آنکھیں اصلال عالم کی سیاہ آنکھوں میں گاڑھتے وہ معصومیت سے اسکی تعریف کرتی اصلال کو کوئی چالاک لومڑی لگی تھی۔۔۔

اچھا تو میں شریف ہوں۔۔۔"اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی عبادت کے دائیں گال پر پھیرتے وہ اسکے رونگٹے کھڑے کر گیا۔۔۔ بولیں مسزز عالم کیا میں شریف ہوں۔۔۔وہ لفظوں پر زور دیتا تیز لہجے میں تصدیق کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔ وہ سنتی اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔

اہا سمجھدار بھی ہوں۔۔۔۔۔۔" وہ ائبرو اچکاتے انگلی اسکی ناک پر لے جاتے پوچھنے لگا۔۔۔وہ سرخ چہرے سے لرزتے وجود سے اصلال کے بھاری وجود کے نیچے دبی سی پڑی تھی۔۔۔۔ دھڑکنوں کا شور الگ سے طوفان مچا رہا تھا رہی سہی کسر اصلال عالم کی قربت نے نکال دی تھی۔۔

عبادت  مرتی کیا ناں کرتی کی مصداق کے تحت سنتی سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔تو پھر میں جو بھی کہوں گا وہ بھی ٹھیک ہو گا۔۔۔" وہ گہرے لہجے میں معنی خیز سا پوچھ رہا تھا۔ عبادت تو اسکے خوف سے اسکے لہجے کی وارننگ کو سمجھ تک ناں سکی۔۔ وہ پھر سے تابعداری کا مظاہرہ کرتی گردن ہاں میں ہلا گئی۔۔

دھین کس می ناؤ_____" وہ مخمور نگاہوں سے انگلی سرکاتے عبادت کے سرخ ہونٹوں پر رکھتے گھبیر لہجے میں سرگوشی کرتے بولا عبادت سنتی دہل سی گئی۔۔۔وجود جیسے جھٹکوں کی ضد میں تھا۔۔۔اسے لگا کہ شاید اسے سننے میںں غلطی ہوئی تھی کیونکہ وہ ہر طرح کی حرکت کا سوچ سکتی تھی مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اصلال عالم اسے ایسا ویسا کچھ بھی کہے گا۔۔۔

وہ تھوک نگلتے اپنی آنکھوں  میں ڈھیروں آنسوں لائے اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔اشششش روؤ مت یہ۔صرف مجھے تڑپانے کی سزا ہے۔۔۔۔!" عبادت کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کیے اپنے دہکتے ہونٹوں سے اسکی گردن کو چومتا مدہوش سا ہو گیا۔۔۔۔

عبادت کا پورا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔۔۔۔ اسے شدید افسوس ہوا کاش کہ وہ چلی جاتی تو اس وقت اسے اس مگرمچھ کے اس قدر بھیانک روپ کا سامنا ناں کرنا پڑتا۔۔۔۔۔

پپپ پلیز ععععع عععاللممم۔۔۔۔۔۔وہ آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لائے منت کرتی سوں سوں کرنے لگی۔۔۔ اصلال نے ناک سکیڑتے اسے گھورا۔۔۔ اچھا تمہارے پاس دو آپشن ہیں اگر منظور ہے تو بتاؤں۔۔۔۔۔"

وہ انگلی پر اسکے سنہری لٹوں کو لپیٹتا بہکی نگاہوں سے اسکے سراپے کو دیکھے پوچھنے لگا۔۔۔۔ ہہہ۔ہاں۔۔۔۔۔ عبادت بنا سنے فورا سے حامی بھر گئی۔۔۔۔ خود سے کس کرنے سے بہتر تھا کہ وہ اسکی کوئی بھی شرط مان۔لیتی۔۔۔۔ ویری گڈ بہت سمجھدار ہو۔۔۔۔۔؛ "میں ابھی تمہیں فورس نہیں کروں گا مگر شادی کے بعد تم خود مجھے کس کرو گی منظور ہے۔۔۔۔"

عبادت کی گردن پر جابجا اپنا۔لمس چھوڑتے وہ لب دبائے پوچھنے لگا۔۔۔۔

عبادت نے آنکھیں میچتے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔اصلال عالم کا شدت بھرا لمس اپنی گردن پر سرکتا محسوس کرتی وہ لرزتی کپکپاتی بھاری سانس لیتے خود کو مضبوط بنا رہی تھی۔۔ اور دوسری یہ کہ تم ابھی اپنی بانہیں میری گردن میں ڈالے مجھے خود سے نزدیک کرو گی کہ میں تمہیں تمہاری غلطی کی سزا دے سکوں۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کی تھوڑی کو چومتے بولا۔۔

عبادت نے جھٹکے سے اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کرنا چاہا مگر اصلال نے جھٹ سے اسکے بازوؤں تھامے اپنی گردن میں حائل کیے ، اور ایک دم سے اسکے ہونٹوں پر جھکتا وہ شدت سے اسکی دہکتی سانسوں اسکے نرم و ملائم ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتا مدہوش سا ہو گیا۔۔

************

وہ کب سے گیٹ کے پاس کھڑی اصلال کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔ اب تو کھڑے ہو کر بھی اسکی ٹانگوں میں درد سا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ کل رات کو اصلال کی شدتوں کی وجہ سے وہ کافی خفا تھی اس سے۔۔۔۔۔ جو اچھے طریقے سے اسکا دماغ ٹھکانے لگائے اسے جاتے وقت یہ بتا گیا تھا کہ کل وہ کسی میٹنگ کیلئے لاہور جا رہا ہے اور اسے جلدی نکلنا تھا جبھی اسے حکم دیا تھا کہ جاتے وقت آنش کے ساتھ جائے مگر واپسی پر وہ خود اسے پک کرے گا۔۔۔

عبادت ساری رات اسے بدعائیں دیتے سوئی تھی اور پھر صبح اسنے انش کو بھی لینے آنے سے منع کر دیا تھا اور اب لاڈ صاحب خود ہی غائب تھے۔۔۔سارا کالج حالی تھا مگر کالج کی۔پرنسپل اور ٹیچرز ابھی تک یہیں تھے کسی میٹنگ کے سلسلے میں ۔۔۔۔ عبادت نے سوچ لیا تھا کہ اگر تو وہ میٹنگ ختم ہونے تک آ گیا تو ٹھیک نہیں تو وہ پرنسپل سے سیل لیتے وہ آنش یا پھر پاپا کو کال کرے گی اور اصلال عالم کو خوب ڈانٹ بھی پڑوائے گی۔۔۔۔

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب چوکیدار چلتا اسکے قریب آتے اسے مخاطب کرنے لگا۔۔۔ عبادت جھٹکے سے ہوش میں آتی اسے دیکھنے لگی۔۔ جج جی۔۔۔۔۔!" وہ سہمی سی پوچھنے لگی۔۔۔ بیٹا باہر کوئی آیا ہے آپ کو بلا رہے ہیں___!"

عبادت کے چہرے پر سنتے ہی خوشی کی۔لہر دوڑی تھی وہ خجاب ٹھیک کرتے بیگ اٹھائے کندھے پر ڈالے باہر نکلی مگر سامنے ہی کسی اور مرد کی پشت کو دیکھ وہ پہچان چکی تھی کہ وہ اصلال نہیں تھا۔۔۔۔

اپپ کک کون۔۔۔۔؟" وہ چونکتے حیرانگی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔ السلام علیکم عبادت میں تمہارا کزن قاسم بیگ۔۔۔۔۔۔" عبادت کی دھیمی باریک آواز سنتے قاسم کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑی تھی وہ رخ موڑتے سنجیدہ سا ہوتے اسے آگاہ کرنے لگا۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔۔!"بھائی میں پہچان گئی ہوں آپ کو،مگر آپ یہاں۔۔۔۔۔"ہمیشہ کی طرح اپنے سخت لہجے میں کہتے وہ اسے دیکھتے پوچھنے لگی___ عبادت کے بھائی کہنے پر وہ لب بھنجتے اپنے اشتعال کو دبائے عبادت کے حسین چہرے کو دیکھتا خود کو ریلکس کرنے لگا۔۔۔

ہاں یہاں سے گزرا تو مجھے ایسا لگا کہ تم یہیں کالج میں ہو پھر واچ مین سے پوچھا تو اسنے میرے شک کی تصدیق کر دی آؤ گھر چھوڑ دوں۔۔۔" وہ مسکراتا۔ہلکے پھلکے انداز میں بتاتا مسکرا رہا تھا۔۔

عبادت کو اسکا بہانہ بے تکا لگا بھلا اسے کیسے شک پڑا کہ وہ اندر ہے۔۔۔۔

نہیں آپ زخمت مت کریں عالم آتے ہوں گے میں انکے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔" قاسم کی نظروں سے حائف وہ دانت پیستے ہوئے بولی تو قاسم نے سنتے گہرا سانس بھرا۔۔۔

میں لاہور سے ہی آ رہا ہوں عبادت میٹنگ کب کی ختم ہو چکی ہے عبادت کسی دوست کی پارٹی میں انجوائے کر رہا ہے میں نے کہا بھی کہ چلو ایک ساتھ چلتے ہیں مگر وہ نہیں مانا مجھے ماما کو ہاسپٹل لے کر جانا تھا تو میں جلدی سے واپس آ گیا ویسے بھی مجھے ایسی پارٹیز پسند نہیں۔۔۔۔"

عبادت کے جھکے چہرے اسکے پھیلی آنکھوں میں بے یقینی غصہ دیکھ وہ مسکراہٹ روکنے لگا۔۔۔اگر تمہیں انتظار کرنا ہے تو کر لو۔۔۔میں نے اس لئے کہا تھا کیونکہ میں گھر ہی جا رہا ہوں۔۔۔۔" وہ کہتا دوبارہ سے گاڑی کی جانب بڑھا ۔۔۔

جبکہ عبادت کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے کسی نے سلگتے سیسے لگا دیے ہوں ۔۔۔ اصلال عالم کی نظروں میں اپنی اہمیت جان کر اسکا روم روم دکھی تھا۔۔۔ رکیں بھائی مجھے ڈراپ کر دیں۔۔۔۔"

وہ فورا سے فیصلہ لیتے مضبوط لہجے میں بولی قاسم نے مسکراتے اپنی چال کامیاب ہونے پر خود کو داد دی۔۔۔اور پھر مسکراتے اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولا۔۔۔۔ میرے سوا کسی کے ساتھ فرنٹ سیٹ شئیر مت کرنا کبھی۔۔" اصلال عالم کی رات کو کی مدہوش سی مگر سخت سرگوشی اسکے دماغ میں گھومی مگر غصہ اس وقت اس قدر تھا کہ وہ بنا سوچے سمجھے جھٹ سے بیٹھی تھی۔۔۔

اپنی کامیابی پر سامنے ہی دوسری گاڑی میں بیٹھی امل نے مسکراتے ساتھ موجود پروفیشنل فوٹو گرافر کو اشارہ کیا جس نے بہت اچھے سے قاسم اور عبادت کا مسکراتا ایک دوسرے کا دیکھتا چہرہ قید کیا تھا۔۔۔۔

آئسکریم کھاؤ گی۔۔۔۔" اسنے جان بوجھ کر گاڑی آئسکریم پارلر کے سامنے روکے مسکراتے پوچھا۔۔۔ ننن نہیں گے گھر لے چلیں۔۔۔۔ اصلال عالم کو اگر بھنک بھی پڑی تو اسکا کیا حال ہو گا یہ سوچ سوچ کر ہی اسکا چہرہ پسینے سے تر تھا۔۔

وہ جلدی سے اس گھٹن سے نکلتے اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔۔۔۔ ارے یار پہلی بار آئی ہو ایسے تو نہیں جانے دوں گا۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھتا سٹاربری فلیور منگوا گیا۔۔۔۔

عبادت بری طرح سے ڈری انگلیاں چٹخاتے گھر جانے کو بےچین تھی مگر وہ قاسم سے بدتمیزی بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔

قاسم نے ائیسکریم لیتے اسے خیال میں کھویا دیکھ سامنے امل کی گاڑی کو دیکھا اور پھر جان بوجھ کر اسکے ناک پر مسکراتے ائیسکریم لگا دی۔۔۔۔ییی یہ کیا آپ نے۔۔۔۔.!" وہ جو اصلال عالم کو سوچ رہی تھی اچانک سے قاسم کی اس حرکت پر حیرت زدہ سی اسے دیکھتے سخت لہجے میں پوچھنے لگی۔۔۔

سوری یار پتہ نہیں کیسے ہو گیا۔۔۔۔؟" وہ شرمندگی چہرے پر سجائے مظلومیت طاری کرتے بولا تو عبادت جل بھن کر رہ گئی۔۔۔ مجھے گھر لے چلیں پلیز مجھے نہیں کھانی۔۔۔۔۔" وہ کھردرے لہجے میں کہتے رخ موڑتے بیٹھ گئی۔۔۔

تو قاسم نے کندھے اچکاتے اسکی پشت کو اور پھر آئسکریم کو دیکھا وہ مسکراتا ائیسکریم کے اس حصے سے بائٹ لینے لگا جسے عبادت کی ناک سے مس کیا تھا۔۔

آنکھیں موندے وہ ٹیسٹ کرتا باقی کی ائیسکریم باہر پھینک گیا۔۔۔۔ شکریہ بھائی آپ کا ۔۔۔۔۔" گیٹ پر پہنچتے ہی وہ تشکر بھرا سانس لیتے باہر نکلی۔۔ قاسم بھی اسکے ساتھ ہی نکلا تھا ۔۔۔۔

عبادت اسے شکریہ ادا کرتے تیزی سے اندر جانے لگی کہ معا قاسم نے پاؤں اسکے سامنے کیا۔۔۔جس سے وہ بیلنس کھوتے چیختے نیچے گرنے لگی کہ قاسم نے آگے ہوتے اسے بانہوں میں بھرتے اسکی کمر کو مضبوطی سے تھاما۔۔۔۔۔

عبادت کا پورا وجود قاسم کے لمس پر سن سا۔پڑ گیا وہ حواس بافتہ سے اسے دھکہ دیے ایک دم سے سرخ چہرے سے پیچھے ہوتی اندر بھاگی تھی۔۔۔ جبکہ اسکے جانے کے بعد وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا سیٹی کی دھن پر امل کی گاڑی کو آنکھ دبا گیا۔۔۔۔

فضا میں امل کا معنی خیز قہہقہ بلند ہوا تھا۔۔۔

***********

Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya By Yusra 

” اسکا دم گھٹنے لگا وہ چیخنا چاہتی تھی۔۔۔۔ لیکن اسکے ہونٹوں پے مضبوط ہاتھ کی گرفت تھی کوئی اسے اپنی باہوں میں اٹھا رہا تھا۔۔۔۔ بہت احتیاط سے اسے بیڈ پے لٹایا۔۔۔۔ نور نے سختی سے بیڈ شیٹ کو مٹھی میں جکڑا وہ پرفیوم اور سیگریٹ کی بھینی بھینی خوشبو اپنی سانسوں میں اُترتی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔ ازلان اسکی آنکھوں کی جنبش اور پھڑپھڑاتے ہونٹوں سے جان چکا تھا وہ جاگ گئی ہے۔۔۔۔۔ آنکھیں کھولتے ہی نور کا چہرہ یکدم فق ہوگیا وہ اس پے جھکا تھا اسکی گرم سانسیں نور کا چہرہ جلسا رہی تھی۔۔۔۔ رات کی تنہائی میں وہ اسکے بہت قریب تھا۔۔۔۔ نور کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔۔ اسے وہ درد ناک راتیں یاد آنے لگیں وہ خوفزدہ آنکھوں سے اسے تک رہی تھی۔۔۔۔۔
” کیوں کیا تم نے؟؟ “
وہ تیز چلتی سانسوں کے ساتھ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔ اسکا گلہ پیاس کی شدت سے خشک ہوچکا تھا۔۔۔۔ وہ کہتے ہی مزید اس پے جھکا تھا نور کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ طاری ہونے لگی۔۔۔ وہ اسکی گردن پے انگلی پھیرنے لگا۔۔۔۔
” جانتی ہو جب سے تم نے خود کشی۔۔۔۔۔“
ازلان سے بولا نہ گیا سوچتے ہی اسکے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ اگر اسے کچھ ہوجاتا کیا کرتا وہ۔۔۔؟؟؟  
” تمہیں اندازہ ہے کتنا بڑا گناہ کرنے جارہی تھی تم۔۔۔۔؟؟؟ جانتی ہو کل پوری رات میں سو نہ سکا۔۔۔۔ تمھاری باتیں مجھے یاد آنے لگیں۔۔۔۔ کل پہلے دفعہ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر دوبارہ لہرایا۔۔۔۔ وہی منظر فرق صرف اتنا تھا عمر کی جگہ تم۔۔۔۔۔ آ۔۔۔۔۔ نور میں عمر کا غم برداشت کر گیا لیکن تم۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ تم میں اور اس میں فرق ہے تم میری روح کا حصہ ہو۔۔۔۔۔ تمہارے بغیر میں کیسا جیتا “
نور کا دل چاہ رہا تھا اپنے کان بند کرلے اس کی روز کی تقریر سے وہ اُکتا چکی تھی۔۔۔۔ ازلان کی ساری باتیں جھوٹی لگتیں اب کیا فائدہ تھا ان بے مقصد باتوں کا۔۔۔۔ ایک آنسو اسکی آنکھ سے بہہ کے تکیے میں جذب ہوگیا نور نے ازلان کا بڑھتا ہوا ہاتھ دیکر اسکے سامنے ہاتھ جوڑدیے۔۔۔۔۔
” مجھے معاف کردیں پلیز مجھ سے دور رہا کریں۔۔۔۔ مجھے اپنے حال پے چھوڑ دیں مت بات کیا کریں مجھ سے اب تو مجھے بخش دیں ازلان۔۔۔۔ میں نفرت کرتی ہوں آپ سے شدید نفرت۔۔۔۔ جب ہنستے مسکراتے ہوئے میں آپکو دیکھتی ہوں تو میرے خوشی غائب ہوجاتی ہے۔۔۔۔ میرے ہنسی کہیں کھو جاتی ہے۔۔۔۔ میں آپکو اپنے آس پاس برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اب یہ ناٹک کیوں۔۔۔۔؟؟ اچانک سے میرے لیے محبت کیوں کبھی رحم نہیں آیا ہمدردی نہیں ہوئی اب محبت۔۔۔۔؟؟؟ 
میں نے آپکا وہ روپ دیکھا ہے جسے شاید آپ خود بھی واقف نہیں۔۔۔ وہ سب لوگ جو آپ کی محبت کے قصیدے پڑھتے تھے۔۔۔۔ وہ اس وقت نہیں تھے جب دن رات میں آگ میں جلتی تھی۔۔۔۔ وہ آکر پوچھیں مجھ سے کون ہے ازلان شاہ۔۔۔۔؟؟؟ تو میں انہیں بتاؤں ایک بے رحم انسان جو دوسروں سے رحم کی امید رکھتا ہے۔۔۔۔ آگر آپ نہیں چاہتے میں یہاں سے جاؤں تو دوبارہ یہ حرکت مت کیجیئے گا۔۔۔۔۔“ 
وہ جو اس پے جھکا تھا اسکے زہرخند الفاظ سن کے پیچھے ہوا۔۔۔۔ یہی موقع تھا جب وہ بیڈ سے اپنا دوپٹا اٹھا کے وہاں سے بھاگ آئی۔۔۔۔  
                         ☆.............☆.............☆
ایک ہفتے سے وہ یونی جا رہی تھی۔۔۔۔ اور اب تو اسکا اپنا گروپ بھی بن چکا تھا۔۔۔۔ لیکن عمر سے وہ سخت پریشان تھی جو روز اسکی یونی آدھمکتا۔۔۔۔ اس لیے آج وہ اسے اکیلا پاکر اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔
” بھائی ایک بات تو بتائیں “
” جی پوچھیں مسز شاہ زَر “
وہ ہنستے ہوئے بولا حیا گھور کے رہ گئی۔۔۔۔ اب یہ روز کا معمول بن چکا تھا۔۔۔۔ عمر نکاح کے بعد ہاتھ دھو کر اِس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔۔۔۔ اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔۔۔۔
” اس دن آپ میری یونیورسٹی میں پیزا لیکر آئے تھے۔۔۔۔ اور اتنے پیار سے اپنی ہاتھوں سے کھلا رہے تھے۔۔۔۔ جان سکتی ہوں بہن سے اتنی محبت کب سے ہوگئی۔۔۔۔؟؟؟؟ “ 
عمر اک لمحے کے لیے چُپ ہو گیا۔۔۔۔ وہ ٹی وی دیکھتا ساتھ پوپ کارن سے انصاف کر رہا تھا کے حیا اسکے پاس آدھمکی۔۔۔۔
” وہ ایکچولی۔۔۔۔میں “
” اور ہاں یہ چھٹی میں آج کل آپ کیوں لینے آتے ہیں میں پوائنٹ سے آسکتی ہوں “
وہ اسکے ہاتھ سے پاپ کارن چھین کر کھانے لگی۔۔۔۔
" میرے بہن اب پوائنٹ میں آئیگی؟؟؟ “ 
وہ اسے گھور کے بولا اور پاپ کورن واپس چھینے۔۔۔۔
" اچھا اور جب میر بھائی نے آپکو کہا تھا۔۔۔۔ مجھے پک اینڈ ڈراپ دیں تو کیسے کہا تھا پوائنٹ میں آجانا آسمان سے اُتری پری نہیں ہو جسے لینے پہنچ جاؤں۔۔۔۔!!! اور اب جب میر بھائی کے ساتھ آنے لگی ہوں تو اچانک سے آپکو بہن کا خیال آگیا۔۔۔۔؟؟؟ شرافت سے بتائے روز کیوں آجاتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟ ورنہ مما کو بتائونگی۔۔۔۔۔“ 
وہ بوکھلاتا ہوا خود پے قابو کرتے کہنے لگا۔۔۔۔۔
” اوہ میرے پیاری بہن وہ بس ایسے ہی مجھے خیال آیا ایک ہی تو بہن ہے۔۔۔۔ اب اس کی بھی زمیداری نہیں لوں اور یار بھائی بھی تو کتنے بزی رہتے ہیں بس تبھی “
” یہ میرے سوال کا جواب نہیں “
وہ مسلسل اسے گھورے جا رہی تھی۔۔۔۔
عمر کو لگا آج وہ اسے بلوا کے چھوڑے گی۔۔۔۔ اب وہ اسے کیسے بتاتا کے میر بھائی کے کہنے پے ایک دن جب وہ اسے لینے گیا۔۔۔۔ تو  وہاں اسکی دوست کو دیکھ کر وہ اپنا دل ہار بیٹھا۔۔۔۔ اس سے پہلے کے عمر کی شامت آتی علی کی آواز نے دونوں کو اس طرف متوجہ کیا۔۔۔۔
” اسلام و علیکم “
” ارے وعلیکم اسلام میرے بھائی کیسے ہو۔۔۔۔؟؟اور ٹیسٹ کیسا ہوا۔۔۔۔؟؟ “ عمر کی جان میں جان آئی۔۔۔۔
” اچھا ہوا تم سناؤ۔۔۔۔؟؟ “ وہ حیا کو مکمل طور پے نظر انداز کر رہا تھا۔۔۔۔
” بس یار نہ پوچھو زندگی میں کتنے غم ہیں ابھی مڈز ختم ہونے کی خوشی نہیں منائی تھی کے تھڑڈ سمسٹر کے پیپرز اسٹارٹ ہوگئے “ وہ افسوس سے بولا۔۔۔۔
” علی تم آئے کب اور بتایا کیوں نہیں؟؟؟ “ 
حیا اسے دیکھ کے اتنی خوش تھی کے علی کا نظر انداز کرنا محسوس ہی نا کیا۔۔۔۔
” یار میرا بھی یہی حال ہے بابا پیچھے پڑگئے ہے۔۔۔۔ تقربیاً سب یونیورسٹیز کے ٹیسٹ دے چکا ہوں۔۔۔۔ اللہ‎ کرے کسی اچھی میڈیکل یونی میں ایڈمیشن ہوجائے “ 
علی نے اسکے سوال کا جواب نہیں دیا وہ اس سے ناراض تھا۔۔۔۔ جو خود اس کے بغیر نکاح کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔ علی کا بس نہیں چل رہا تھا شاہ زَر کا بُرا حال کردے۔۔۔۔ جس نے اسکے آنے کا انتظار تک نا کیا۔۔۔۔ وہ ممی اور پاپا سے بھی ناراض تھا۔۔۔۔ لیکن سب کی زبان پے صرف ایک ہی جملہ تھا ”
 شاہ زر نے جلد بازی کی “ 
اور یہاں اکر وہ بھی چُپ ہوگیا۔۔۔۔ آخر کیا کرتا چھوٹا جو تھا اور شاہ زر کے غصّے سے بھی ڈرتا تھا۔۔۔۔ شاہ زَر کے سخت مزاج کو سب گھر والے جانتے تھے۔۔۔۔ علی حمزہ عمر شاہ زَر کے غصّے سے خود کو بچا لیتے لیکن حیا کا تو خدا ہی حافظ تھا۔۔۔۔ اور علی حیران تو اس بات پرتھا آخر حیا راضی کیسے ہوئی۔۔۔۔
” اوہ علی تو آپ مسز شاہ زَر سے ناراض ہیں؟؟ “
وہ ہنستا ہوا حیا کو دیکھ کے بولا۔۔۔۔
حیا کو غصہ ہی آگیا اِس کا مسز شاہ زَر کہنا کشن اٹھا کے اسے مارا۔۔۔ علی ہنسی روکے انکی نوک جھوک دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
” ہائے! مار ڈالا “
علی کی ہنسی نکل گئی اِس کے انداز پے۔۔۔۔۔
” میں ماما کو بتاتی ہوں آپ رکیں “ 
” ہاں جاؤ مما کی چمچی۔۔۔۔ اور سنو چائے کے ساتھ کچھ کھانے کے لیے بھیج دینا “
” زہر نہ بھیجوا دوں “ 
” نہیں وہ میرے طرف سے تم کھا لینا “
” بتمیز جاہل انسان “ 
وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن میں آگئی۔۔۔۔ ثانیہ بھابی کو چائے کا کہہ کر کمرے میں چلی گئی اسے علی کا رویہ پریشان کر رہا تھا۔۔۔۔ 
نور علی کی آواز سن کے لاؤنج میں آگئی۔۔۔۔ ثانی بھی چائے کے ساتھ کباب تل کے لے آئی۔۔۔۔ ساتھ اسنیکس اور سموسے بھی۔۔۔۔ نور نے علی سے ٹیسٹ کے بابت پوچھا۔۔۔۔ علی ڈاکٹر بنا چاہتا تھا لیکن اسکے انٹرمیڈیٹ مارکس کم تھے۔۔۔۔ اسلیے وہ مختلف یونیز میں ٹیسٹ دےکر آیا ہے کے شاید کہیں ہوجاۓ گورنمنٹ کے ساتھ پرائیویٹ کالجز میں بھی اسنے اپلائے کیا ہے۔۔۔۔ 
                   
 

Baab Ik Aur Muhabbat Ka By Afshan Kanwal


"بہنام صاحب! یہ شریفوں کے طور طریقے نہیں ہوتے جو آپ نے اپناۓ ہیں ۔ رات کے اس پہر کسی لڑکی سے اس کی مرضی جاننا یقیناً غیر اخلاقی حرکت کے زمرے میں آتا ہے۔۔“ وہ غصے اور طنز کے ملے جلے انداز میں بولی ۔ کچی نیند کے باعث اس کی آنکھوں میں تیرتی سرخی بہنام سومرو کے دل میں قیامت برپا کررہی تھی لیکن ایمل کے لہجے سے چھلکتا غصہ اسے کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔

”پہلی بات یہ کہ میں شریف بلکل نہیں ہوں ۔دوسری بات جب میں نے کہا تھا کہ گاٶں سے آنے کے بعد میں تمہارا جواب چاہوں گا تو تمہیں کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی؟ تیسری اور اہم بات۔۔۔ میری اور اخلاق کی بہت کم بنتی ہے تو وہ زیادہ تر میرے پاس رکتا نہیں ہے ۔ ہاں! تمہارے زندگی میں آنے کے بعد ہوسکتا ہے وہ حضرت بھی مستقل میرے ہاں مکیں ہوجاٸیں ۔۔“ ٹھہر ٹھہر کر وہ اپنے بھاری گھمبیر لہجے میں بولتا اسے گھبراہٹ میں مبتلا کرگیا تھا۔

”بہنام۔۔“ کسی میٹھے جھرنے کی صورت یہ نام اس کے لبوں سے نکلا تو بہنام عالم مدہوشی سے باہر آتا اپنے نام کو جھک کر معتبر کرگیا۔ وہ تو پہلے ہی اپنی بےباک باتوں سے اسے بوکھلاٸے رکھتا تھا اور اب تو اسے اختیارات بھی حاصل ہوچکے تھے۔ وہ پل پل اپنی جان لیوا نزدیکیوں سے اس کا دم خشک کٸے جارہا تھا۔


”میں آپ سے ناراض ہوں۔۔“ اس کی بڑھتی جسارتوں پر ایمل نے باندھ باندھے کی سعی کی تھی۔ وہ اس کی بات سن کر یوں مسکرایا جیسے کوٸ نادان بچے کی بات سن کر مسکراتا ہے۔


”میں آپ کو راضی کرنے کی ہی کوشش کررہا ہوں۔ اب تو مکمل اختیارات حاصل ہے نا دلبرا۔۔۔“ مدہوش کن لہجے میں کہتے اس نے ایمل کی نتھ کو دھیرے سے اس کی ناک سے احتیاط کے ساتھ الگ کیا۔ وہ اس کی دسترس میں دم سادھے پڑی رہی۔ یوں لگ رہا تھا کہ سارا وجود گویا منجمد ہوگیا ہے۔

Ye Ishq Hai Pera Kara By Afshan Khan 

"میں نے تمہیں رشتہ لانے سے منع کیا تھا لیکن تم بہت ہی ڈھیٹ نکلے۔“


"اسے ڈھیٹ پن نہیں مستقل مزاجی کہتے ہیں خیر ایک دفعہ میری دسترس میں آجاؤ میں سارے مطلب سیاہ و سباق کے ساتھ تمہیں سیکھادوں گا۔“ اس کے کڑوے لہجے کا اثر لئے بغیر وہ شریں لہجے میں گویا ہوا۔


"میں لعنت بھیجتی ہوں تم پر اور تمہاری محبت پر۔“ وہ ایک دم پھنکاری تھی۔


"اریکہ خانزادہ! میرا ضبط مت آزماؤ۔۔ پہلے بھی کہا ہے کہ میری محبت کو محبت رہنے دو ضد نا بناؤ۔ ورنہ تم چودھری کی ضد سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاؤں گی۔ محبت میں میں انا کا قائل نہیں ہوں۔ ورنہ چودھریوں کی انا خانوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔

 میرے سارا معاملہ بڑوں کے سپرد کرچکا ہوں تو بہتر ہوگا تم بھی اپنے اختیارات انہی کے تابع کرلو۔“ وہ چاہ کر بھی اس سے سخت رویہ نہیں اپناسکا تھا۔ ورنہ اس کی محبت کو گالی دینے والے کو وہ زمین میں گاڑ دیتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ محبت کو گالی دینے والی ہی اس کی محبت تھی۔ اسے تو وہ پھولوں سے بھی چھونے سے ڈرتا تھا تو پھر غصے سے کیسے چھوسکتا تھا۔

.


Naseeb E Nasheman


صبح صادق کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس پر کسی بھی قسم کا خوشگوار تاثر چھوڑنے پر ناکام ہو رہیتھی۔ بڑے اور گھنے درختوں کے بیچ میں بنی اس سڑک پر چلتے ہوئے اسے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقتہونے کو آیا تھا لیکن آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہیں مل رہا تھا۔ ایسے میں اس سنسان راستے اورخوف میں مبتلا کر دینے والی خاموشی میں ایک سال کی بچی کو سینے سے لگائے ، کندھے پر بلیک بیگڈالے مسلسل چلنے کی وجہ سے اب اس کے پاؤں شدید درد کرنے لگے تھے۔ کالے عبایہ اور نقاب میں ڈر وخوف سے بہتا ہوا پسینہ اسے اب نڈھال کر دینے کو تھا۔ رات تین بجے سے شروع ہوا یہ سفر اسے منزلتک پہنچاتا یا نہیں اسے اندازہ نہیں تھا۔ 

درختوں کے بعد فصلوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس نے رک کر اس جگہ کو ٹھیک سے دیکھنے کی کوششکی مگر سر میں اٹھتے شدید درد اور گم ہوتے حواسوں نے اس کا اس کوشش میں ساتھ نہ دیا۔ بمشکلچکراتے سر کو قابو کر کے آنکھیں جھپکیں تو دور دور تک پھیلی فصلیں اور دائیں طرف موجود ویرانٹیوب ویل نظر آیا جسے دیکھ کر اسے اپنے گلے میں شدید پیاس سے خشکی اترتی محسوس ہوئی۔ اسسے نظر ہٹا کر سامنے سیدھ میں نظر ڈالی دور کوئی دس منٹ کے فاصلے پر موجود عمارت کی دیواروںکا رنگ اس کے گورنمنٹ اسکول ہونے کی نشان دہی کر رہا تھا جس کا مطلب تھا آبادی والا علاقہ زیادہدور نہیں تھا۔ اسے یک گونہ سکون ملا۔ 

اس جگہ کے نام کے سوا وہ ہر ایک چیز سے نا آشنا تھی۔ ابھی اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آگے کوئیاپنا موجود بھی تھا یا وہ سیراب کے پیچھے اتنا سفر طے کر کے آئی تھی۔ 

” یا اللّٰهرحم فرما۔“ مسجد میں نماز کے بعد ہونے والی قرآن مجید کی آیات کی تلاوت شروع ہوئی تو اسکے خشک لبوں نے جنبش کی اور اس کے ساتھ ہی ایک شفاف موتی آنکھ سے نکل کر نقاب میں جذب ہوگیا۔ 

اس نے آج سے تین ماہ پہلے ان حالات کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا مگر زندگی کا تغیر انسان کو کہاںسے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ ڈر و خوف کے سائے تلے وہ آگے قدم بڑھانے لگی۔ بوائز گورنمنٹ اسکول کے آگےنہر تھی جس پر بنے پل کی دوسری جانب کچھ فاصلے پر ایک گاؤں نظر آ رہا تھا۔ 

دو تین گھر عبور کرنے کے بعد اسے کچھ لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر غالباً اپنے کام پر جاتے نظر آئے۔اس سے آگے ایک گھر کے ساتھ کچرے کا بڑا سا ڈھیر لگا ہوا تھا اس کے علاوہ بھی کئی گھروں کے باہرگندگی پھیلی ہوئی تھی۔ لکڑی کے کھلے دروازوں سے عورتیں کام کرتی نظر آ رہی تھیں۔ دائیں جانب ایکآدمی اس جگہ پر موجود واحد دکان کا دروازہ کھول کر اپنے کام کا آغاز کر رہا تھا۔ 

سامنے گیارہ بارہ سال کے دو لڑکے سینے سے قرآن مجید کو لگائے گزرے تو انگیزہ نے لبوں پر زبان پھیرتےہوئے انہیں پکارا۔  

” سنو۔

” جی۔“ وہ دونوں اس کے قریب آئے۔ 

” آپ کو زین آفریدی صاحب کے گھر کا پتا ہے ؟“ انگیزہ نے پوچھا۔ 

” آپ کون ہیں ؟“ ان دونوں نے ایک ساتھ سوال کیا۔ 

” میں ان کی رشتے دار ہوں کیا آپ مجھے ان کے گھر کا بتا دیں گے ؟“ اس کے کندھے سے لگی عنایہ ابکسمسانے لگی تھی۔ 

” ان کا گھر تو ساتھ والے علاقے میں ہے ، میں آپ کو لے جاؤں وہاں ؟“ ان میں سے ایک لڑکا بولا۔

” ہوں۔“ انگیزہ نے سر کو ہلایا۔ 

” نمیر ، تم میرا قرآن پاک گھر لے جاؤ اور اماں کو بتا دینا میں تھوڑی دیر میں گ

Wo Ishq Masoom Sa By Zainab Noor

پورے ہوتے نہیں پھر بھی دیکھے بہت خواب آنکھوں پے حیران ہیں "

نور اس انسان کو چاہنے لگ گئی تھی بہت بغیر یہ سوچے سمجھے کہ وہ اس کا ھو گا یا نہیں اور محبت میں سوچ سمجھ کہاں ہوتی ہے ۔یہی تو ایک جذبہ ہے جو سب سے زیادہ شفا ف ہوتا ہے اور انسان خود کو کسی ذات سے منسلک کر لیتا ہے نور کا بھی کچھ یہی حال تھا یہ جانتے ہوے بھی کے وہ شخص اس طرح کے ہر جذبے سے عاری ہے نور اس سے محبت کی جنگ لڑنے کے لئے تیار ھو گئی ۔اور اگر دل سے کسی کو چاہو تو انسان کبھی ہار نہیں سکتا کبھی بھی نہیں ۔اور نور نے فیصلہ کر لیا تھا جو بھی ھو وہ علیم سے بات کرے گی

آج نور کو یونی سے اوف تھا اس لئے وہ زیادہ تر گھر کے کاموں میں مصروف رہی ۔نور بیٹا سمن نے نور کو آواز دی جی ماما نور بولی بیٹا فارغ ھو کر آ جاؤ میں مارکیٹ جا رہی ہوں تھوڑا کام ہے تم بھی آ جاؤ اپنے لئے پارٹی کا ڈریس لے لینا ۔نور کی نیکسٹ ویک پارٹی تھی اور نور نے مما کو پہلے ہی بتا دیا تھا ۔

نور جلدی سے تیار ہوئی اور مارکیٹ کے لئے نکل گئی ۔نور بیٹا یہ بلیو فراک دیکھو تو کافی دلکش لگ رہا ہے سمن نور سے مخاطب ہوئی ۔

نور نے کندھے اوچکا ئے اور بولی ٹھیک ہے لیکن کچھ سوچتے ہی اسکی آنکھوں میں خوشی کی چمک اٹھی اور اس نے وہ بلیو ڈریس لینے کا فیصلہ کیا ۔اس نے علیم کو زیادہ تر بلیو شرٹ میں دیکھا تھا اور وہ اس میں خاصا ہینڈ سم لگتا تھا ویسے تو نور کو وہ ہر انداز میں ہی اچھا لگتا تھا ۔اور مشی کا بھی ڈریس کلر سیم تھا تو اس نے بلیو ڈریس لے لیا ۔

"وہ آ ئے ہیں محفل میں کچھ تو خاص ہونا چاہئے بتائے؟؟؟؟

جان پیش کریں یا کچھ اور ہونا چاہیے "

آج نور کی پارٹی تھی اور وہ بلیو ڈریس میں کافی دلکش لگ رہی تھی ۔وہ حجاب ہی کرتی تھی ہمیشہ اس لئے آج بھی حجاب میں تھی ۔تیار ھو کر وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر مشی کا انتظار کرنے لگی ۔ارے واہ آج تو میڈم پہچانی نہیں جا رہی مشی اس سے آتے ہی مخاطب ہوئی کسے مارنے کا ارادہ ہے مشی یہ پوچتھے ہی زور زور سے ہنسنے لگ گئی اور نور بھی ساتھ میں ہی ہنسنے لگ گئی ۔

انکے ڈیپارٹمنٹ کی ویلکم تھی لیکن پھر بھی یونی میں کافی رش تھا ۔venue پہنچ کر وہ پارٹی ہا ل کی جانب بڑھنے لگی ۔نور کی نظر ساتھ گزرنے والے شخص پر پڑی جو کے نیوی بلیو تھری پیس ڈریس میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا اس نے نور کی جانب نہیں دیکھا اور نور اس شخص سے اپنی نظریں ہی نا ہٹا سکی نور ابھی گم تھی خیال میں کے مشی نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی نور میڈم کہاں کھو گئی ۔کچھ نہیں بس ایسے ہی نور ُبڑ ُبڑ ا ئی چلو اندر ہا ل میں چلتے ہیں نور اسے اندر لے آئی ہال بہت خوبصورت انداز میں سجا یا ہوا تھا اور کافی اچھا لگ رہا تھا ۔

فنکشن کا آغاز ھو چکا تھا سپیچ اور باقی سب بھی قابل تعریف تھا ۔نور کی نظریں ہر لمحہ کسی کو تلاش کر رہی تھی ۔۔لیکن اس نے فنکشن کو بھی خوب انجوائے کیا ۔فنکشن ختم ہوتے ہی سب لوگ اسٹاپ کی جانب بڑھنے لگے ۔نور اور مشی نے بھی اسٹاپ کا رخ اختیار کر لیا ۔

مشی اپنے پاپا کے ساتھ چلی گئی لیکن نور ابھی انتظار کر رہی تھی روحیل بھائی کو شاید کوئی کام تھا اس لئے وہ لیٹ ھو گئے ۔نور نظریں جما ئے انکا انتظار کر رہی تھی ۔اچانک اس نے اپنی جانب ایک شخص کو بڑھتے دیکھا پتہ نہیں وہ کون تھا لیکن نور کو یہ اندازہ ھو گیا کے وہ اسکی جانب آ رہا ہے ۔کیا بات ہے میڈم بہت حسین لگ رہی ہیں ۔

نور یہ بات سن کر حواس کھو بیٹھی اور غصے سے لال پیلی ہونے لگی ۔کون ھو تم اور کیا بکواس کر رہے ھو تمہیں تمیز نہیں ہے کے کسی لڑکی سے کیسے بات کی جاتی ہے نور ۔ہاں نہیں ہے تمیز اس لئے تو آپ کے پاس آیا ہوں آپ سیکھا دو ۔اسکی یہ بات سنتے ہی نور طیش میں آ گئی آؤ دیکھا نا تاؤ ایک تھپڑ اسکی گال پر رسید کر دیا اور مسکراتے ہوئے کہا کے اب تمہیں ہمیشہ یاد رہے گا کے کیسے کسی عورت سے بات کی جاتی ہے ۔وہ آدمی غصے میں آ گیا اور نور کی جانب بڑھنے لگا نور کی دھڑکنوں کی رفتار تیز ھو رہی تھی ۔اسے کوئی ارد گرد نظر بھی نہیں آیا وہ پریشان ھو گئی ۔۔


-------------#######------------


ہر وقت وہ شخص اندھیرے میں بیٹھا رہتا ۔جیسے دنیا سے اسے کوئی لگاؤ ہی نہیں رہا تھا ۔ہر چیز اسکے لئے تکلیف کا با عث تھی ۔اب اسے احساس ہوتا تھا کے اپنی محبت کو کھو دینا کس قدر تکلیف دیتا ہے زندگی میں کسی کا ساتھ پا کر بھی دل میں ایک خلا ہمیشہ رہتا ہے اور وہ محبت کو پا کر ہی پورا ھو سکتا ہے


------------######--------------


نور خوف کے مارے قدم پیچھے ہٹا رہی تھی اور اسے اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ھو رہی تھی ۔وہ آدمی آگے بڑھ کر اسے غصے سے پکڑنے لگا نور خود کو چھڑا نے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ناکام رہی ۔اتنے میں اسے زنا ٹ سے تھپڑ کی آواز آئ اس نے فورا آنکھیں کھولی تو وہ دنگ رہ گئی تھی ۔اس شخص نے اسسے تھپڑ مار کر زمین بوس کر دیا اور بولا کے آج کے بعد تجھے یاد رہے گا کے عورت کی عزت کیسے کرتے ہیں ۔وہ آدمی اٹھا اور بھاگ گیا وہاں سے نور اس سب کو بہت زیادہ حیران پریشان ھو کر دیکھ رہی تھی ۔۔

اب علیم اسے سبق سیکھا کر نور کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ہمیشہ کی طرح نور اسے بنا پلک جھپکے دیکھتی رہی ۔۔اور اس شخص کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا ۔نور آپ کہاں گم رہتی ھو کچھ ہوش بھی ہوتا ہے کے نہیں وہ غصے میں اسے بول رہا تھا لیکن نور کو اسکا یوں غصہ کرنا برا نا لگتا کیوں کے وہ ہر مشکل میں اس کا محسن بن کر سامنے آ جاتا اور نور کے حواس اڑا دیتا ۔نور نے سر جھٹکا اور بولی جی میں سمجھی نہیں ؟؟؟میڈم ہوش میں رہا کرے اسکو غصے سے دیکھا اور اسکا ہاتھ کھینچ کر آگے کیا یہ رہا آپکا کارڈ نیکسٹ ٹائم خیال کرئے گا ۔

یہ کہ کے وہ ساتھ کھڑا ھو گیا نور کو اچھا لگا لیکن وہ خاموش ہی رہی ۔اتنی دیر میں نور کے بھائی بھی آ گئے نور انکی طرف بڑھی اور وہ شخص واپس چلا گیا نور نے اسے پلٹ کر دیکھا لیکن اس نے نہیں دیکھا اور وہ چلی گئی ۔کیا بھائی اتنی دیر کب سے انتظار کر رہی ہوں نور بولی ۔ہاں بس تھوڑا بزی تھا سوری ۔کوئی بات نہیں بھائی نور ہلکا سا مسکرائی ۔نور نے گھر آتے ہی چینج کیا اور ماما سے حال چال پوچھا اور نماز پڑھ کر رب کا شکر ادا کیا کے اسکی وجہ سے وہ بچ گئی آج اس کے لبوں پے انجانی سی دعا آئ

"یارب جسے میرے محسن بنا کر بھیجا ہے اس کو ساری زندگی کے لئے میرا کر دے "

اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئ اور وہ سونے کے لئے چلی گئی ۔موبائل فون پر میسج رنگ ہوئی ۔وہ دیکھ کر مسکرائی ۔۔اور میسج پڑھنے لگ گئی ۔آپکا ہاتھ کیسا ہے؟؟؟؟ نور کو یہ میسج پڑھ کر یقین نہیں آیا کے اسے کیسے پتہ چلا کہ اس کے ہاتھ پے چوٹ لگی ہے ۔نور کو کارڈ دیتے وقت علیم نے اس کا ہاتھ دیکھ لیا تھا شاید چوڑی ٹوٹ جانے کی وجہ سے کٹ لگ گیا تھا ۔جی اب بہتر ہے نور نے رپلائے کیا ۔سوری نور میں کچھ زیادہ ہی غصہ کر گیا لیکن میں کیا کروں میں اسا ہی ہوں روڈ ٹائپ انسان ۔جی کوئی بات نہیں نور نے جواب دیا اس سے پہلے کے وہ مزید بات کرتی اسکا میسج آ گیا اپنا خیال رکھیے گا خدا حافظ ۔نور مسکرائی اور سونے کے لئے لیٹ گئی ۔۔۔۔دماغ میں وہی منظر اور چہرہ بار بار گردش کر رہا تھا



سویرا اس کا غصہ دیکھ کر چپ چاپ ہو گئی اب شہریار نے اس کا پیر تھام کر جوتا اتارا  اس کا پیر سوج رہا تھا اس نے تاسف سے اس کے سوجے ہوئے پیر کو دیکھا اور فرسٹ ایڈ باکس سے مرہم نکلا۔

وہ غور سے سلپ کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی جب اس کا پیر غلط طریقے سے سیڑھی پر پڑا اس سے پہلے وہ لڑھک کر نیچے گرتی جب سامنے سے ایک ینگ گڈ لکنگ سا بمشکل بیس سال کا بندہ تیزی سے تین تین سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور اس کا بازو تھام کر اسے گرنے سے روکا ۔۔۔ 

سویرا گھبرا گئی تھی اس کے ہاتھ سے کتابیں چھوٹ کر نیچے جا گری تھیں ۔۔

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Sitam Ki Zanjeer Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Sitam Ki Zanjeer  written Rimsha Hayat . Sitam Ki Zanjeer   by  Rimsha  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 


  


آج جرگہ دو قبیلوں کے درمیان لگا تھا اور دونوں ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور دونوں طرف کے لوگ یہاں پر بیٹھے تھے۔آج پھر ایک معصوم قربان ہونے جا رہی تھی۔


حیرت ہے ایک قبیلے کے سردار کی زبان سے ایسی باتیں زیب نہیں دیتی جو اپنی روایات کو اپنے خاندان کی خاطر بھول گیا ہے۔۔۔۔


" تھو ایسے سردار پر تمھارے بیٹے نے ہمارے بیٹے کی جان لی ہے اور خون کا بدلے خون ہوتا ہے اور یہ ہی روایات چلتی آرہی ہیں۔اگر تم خون کے بدلے خون نہیں دے سکتے تو سوچ لو کہ تمہارے پاس اور دوسرا کون سا راستہ ہے؟؟؟؟ اگر تمہیں اپنا بیٹا اتنا ہی عزیز ہے تو تمہیں اپنی بیٹی ہمیں ونی کرنی ہو گی۔۔۔ " سردار شجاعت نے اپنا فیصلہ سناتے اپنی مونچھوں کو بل دیا۔۔۔۔

یہ سب سنتے ہی کچھ پل کے لیے وہاں سناٹا چھا گیا تھا۔۔۔۔


" ٹھیک ہے میں اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ " زارون نے شجاعت کے دائیں جانب بیٹھے شخص کو دیکھتے ہامی بڑھی۔


" تو ٹھیک ہے مولوی صاحب میرے بھائی کا نکاح شروع کروایا جائے۔۔۔۔۔ " اس کی بھی سنی گئی شجاعت نے اپنے بائیں جانب بیٹھے اپنے بھائی کو دیکھتے کہا جو خوشی سے اٹھ کر بھنگڑے ڈالنے لگا تھا۔


" واہ جی واہ میری شادی ہونے والی ہے میرا بھائی بہت اچھا ہے میرے لیے ایک خوبصورت دلہن لائے گا۔۔۔۔۔ " شجاعت کے بھائی نے اونچی آواز میں کہا اور ساتھ ہنستا بھی جا رہا تھا اس کا دماضی توازن کچھ ٹھیک نہیں تھا اور یہ بات گاؤں میں ہر ایک کو معلوم تھی۔


شجاعت کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی لیکن زارون سمیت سب کو سانپ سونگ گیا تھا۔وہ تو کچھ اور سوچ کر بیٹھا تھا۔۔۔۔۔

وہ جو پردے کے پار کھڑی اپنی زندگی کا فیصلہ ہوتے سن رہی تھی۔سامنے اچھل کود کرتے انسان کو دیکھتے اسے اپنے قدموں میں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔سامنے اچھل کود کرتا انسان لگ بھگ اس کے باپ کی عمر کا تھا۔


اسے کس بات کی سزا مل رہی تھی؟؟ شاید لڑکی ہونے کی؟؟ یہی سوال اس کے دماغ میں چل رہے تھے کہ اچانک اسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہوا اور وہ وہی دھڑام سے گر گئی۔۔۔۔


اس کے گرنے کی آواز پر وہاں بیٹھے سردار شجاعت کے دائیں جانب شخص نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں پیوست کیے اپنے اندر کھولتے لاوے کو برداشت کیا تھا۔۔۔۔اسکی آنکھیں خون کی مانند سرخ ہو رہی تھی۔۔۔۔ اور چہرے پر سرد تاثرات تھے۔۔۔۔۔

"آپ کون ہیں؟" زارا نے سامنے کھڑے زوحان کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

"جس سے تھوڑی دیر پہلے تمھارا نکاح ہوا ہے۔"

زوحان نے اپنے قدم زارا کی طرف بڑھاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

یہ چھوٹا سا کمرہ اسے سونے کے لیے ملا تھا لیکن زوحان یہاں کیا لینے آیا تھا وہ اس بات سے انجان تھی۔

زوحان نے زارا کی اُسی کلائی کو پکڑتے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا جہاں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔تکلیف سے زارا کراہ اُٹھی تھی لیکن زوحان نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور اسے خود کے سامنے کھڑا کیا۔


"چاہے تم ونی ہو کر آئی ہو لیکن نکاح تو میرا تمھارا ساتھ ہی ہوا ہے"۔


زوحان نے ذومعنی الفاظ میں زارا کے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھتے مزید کہا۔

"اتنا گھبرا کیوں رہی ہو؟ شوہر ہوں تمھارا پورا حق رکھتا ہوں تم پر اور وہی لینے تو آیا ہوں۔"زوحان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے زارا کے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے گہرے لہجے میں کہا۔

جو بت بنی زوحان کو دیکھ رہی تھی۔اس نے تو نکاح کے وقت نام پر دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ اس کا نکاح کس کے ساتھ ہو رہا ہے۔

"تمہیں ایک حقیقت بتا دیتا ہوں"۔

زوحان نے زارا کے دونوں ہاتھوں کو کمر کے پیچھے لے جا کر اپنی گرفت میں لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا اس وقت وہ پوری طرح زوحان کی قید میں تھی۔


"جس سے تمھارا نکاح ہوا ہے وہ میں نہیں ہوں

زارا نے نفی میں سر ہلا کر زوحان کو روکنے کی ناکام کوشش کی تھی۔

آنسو تو شاید پہلے ہی باہر نکلنے کو تیار تھے۔


اس سے اچھا تو تھا کہ وہ مر جاتی کم از کم اس کی عزت تو محفوظ ہوتی۔

💜💜💜💜

” میں بہت جلد آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤ گی کیونکہ میں ایسے انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی جس نے مجھ جیسی ناجانے کتنی لڑکیوں کی زندگی خراب کی ہے زبور کہتے ہی وہاں سے جانے لگی جب عماد نے اس بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔


فکر مت کرو جس لڑکی کی زندگی عماد خراب کرے گا وہ صرف ایک ہی اور وہ ہو تم عماد نے سرد لہجے میں زبور کی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتے مزید کہا۔زبور کو عماد کی انگلیاں اپنی کمر میں دھنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

سب سے پہلے تو میں تمھارا مجھ سے دور جانے کا بھوت اتارا ہوں۔اُس کے بعد

تمھارے باپ کو بھی دیکھ لوں گا“۔چلو میرے ساتھ عماد کہتے ہی اسے بازو سے پکڑا اور کھنچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا۔

عماد آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے زبور نے چیختے ہوئے کہا۔

بلکل کرسکتا ہوں مسز عماد نے مڑ کر زبور کو دیکھتے طنزیہ لہجے میں کہا۔



Sanso Me Basa Tere Naam By Farwa Khalid


تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ آزفہ منہ کے بل زمین پر جاگری تھی۔۔۔

"دیکھو میرے قریب مت آنا۔۔۔۔"

فرش پر ہی پیچھے کی جانب سرکتی وہ بے بسی بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔ مگر ہاشم کی ہوس اب مزید بڑھ چکی تھی۔۔۔ وہ اِس لڑکی کو کسی صورت چھوڑنے والا نہیں تھا اب۔۔۔۔

وہ آزفہ کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے جھکا تھا۔۔۔۔

آزفہ نے آنکھیں سختی سے میچتے اپنے اللہ کو پکارتے اُس سے مدد مانگی تھی۔۔۔۔ اُس کی اب ساری اُمیدیں اپنے رب سے وابستہ تھیں۔۔۔ جو ہمیشہ ہر جگہ اُس کی مدد کرتا آیا تھا۔۔۔۔

جب اُسی لمحے دروازے پر باہر سے زور دار ضرب رسید کی گئی تھی۔۔۔ ہاشم نے گھبرا کے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔چند سیکنڈز کی لگاتار ضربوں کے بعد دروازے کا لاک ٹوٹا تھا۔۔۔۔

اندر داخل ہونے والے شخص کو دیکھ آزفہ کے کئی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر لڑھک آئے تھے۔۔۔۔۔

چوہدری ہاشم کو ہناد محتشم موت کی صورت اپنے قریب آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔

ہناد نے ایک خون آشام نگاہ فرش پر گری آزفہ پر ڈالی تھی۔۔۔ جس کو صحیح سلامت دیکھ اُس کے جلتے دل میں سکون اُتر گیا تھا۔۔۔ اُسے آنے میں دیر نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔

مگر اُس کی وحشت ناک غصے بھری نگاہیں دیکھ آزفہ اندر تک لرز اُٹھی تھی۔۔۔ ہناد نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر آزفہ کو اُٹھایا تھا۔۔۔۔ اپنے بازو پر موجود سخت گرفت سے آزفہ اُس کے غصے کا اندازہ اچھے سے لگا پارہی تھی۔۔۔ اُسے اپنے بازو کی ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔

وہیں اُس کے نازک گال پر پڑے اُنگلیوں کے نشان دیکھ ہناد تو جیسے پاگل ہو اُٹھا تھا۔۔۔۔

اُسے انسان سے حیوان بننے میں ایک پل نہیں لگا تھا۔۔۔۔

وہ واپس پلٹا تھا اور موبائل نکال کر اپنے گارڈز کو کال ملاتے ہاشم پر بُری طرح اپنا قہر توڑتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔

ہناد کے بھاری ہاتھ کے پڑنے والے مکے ہاشم کو کچھ ہی لمحوں میں ہاتھ موا کر گئے تھے۔۔۔۔

اُس کا پورا چہرا لہولہان ہوچکا تھا۔۔۔۔ ہناد اندر صرف اکیلا ہی آیا تھا۔۔۔ باقی سب لوگ باہر موجود تھے۔۔۔ اِس لیے ہناد کو کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا۔۔۔

آزفہ تو ہناد کو اتنے غصے میں دیکھ سہم کر دیوار سے لگی چوہدری ہاشم کی حالت دیکھ خوف کے عالم میں چہرے پر ہاتھ رکھ گئی تھی۔


Diltang Tawam Jana By Farwa Khalid



تجھ سے بڑی بے وقوف لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ اتنی بڑی اینکر بنی پھرتی ہے۔ میں نے ایک بار کہہ دیا تو اُس التمش غیدان کے خلاف رپورٹ لکھوانے چل پڑی۔ تجھے اغوا اُس نے نہیں ۔۔۔۔"
وہ بولتے بولتے ماہ رو کے قریب جارہا تھا۔ اِس سے پہلے کے ہاتھ بڑھا کر وہ ماہِ رو کو چھوتا جب دائیں جانب سے چہرے پر ایک زوردار ٹھوکر رسید کی گئی تھی۔ وہ اتنے شدید حملے پر بلبلاتا دور جاگرا تھا۔ بھاری بوٹ کا وار اتنا سخت تھا کہ اُسے اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
ماہ رو نے بھیگی پلکیں اُٹھا کر اچانک نازل ہونے والے اُس فرشتے کو دیکھا تھا۔ مگر مقابل پر نظر پڑتے اُس کی نگاہوں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں ساکت ہوئی تھیں۔ وہ سانس روکے اُس پتھریلی زمین پر جوں کی توں بیٹھی رہ گئی تھی۔
آف وائٹ قمیض شلوار پر براؤن شال اوڑھے وہ کسی بپھرے زخمی شیر کی طرح اُس نقاب پوش کو بُری طرح پیٹنا شروع کرچکاتھا۔ جسے ایک دو بار ہی زمین پر پٹخنے پر اُس شخص کی جان حلق تک آچکی تھی۔
اُسے پاگلوں کی طرح پیٹتے دیکھ ماہِ رو کا سکتہ ٹوٹا تھا۔ وہ بہت مشکل سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔ جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر سرجھکائے فیروز پر پڑی تھی۔
"روکو اُنہیں وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو فیروز کی جانب دیکھ چلائی تھی۔ مگر فیروز نے اپنا جھکا سر اُٹھانے کی گستاخی نہیں کی تھی۔ وہ ہنوز سر جھکائے ساکت و جامد اپنے باس کے نئے حکم کا منتظر تھا۔
"ایڈیٹ۔۔۔۔"
ماہِ رو اُس التمش غیدان کے روبوٹ پر ایک غصے بھری نظر ڈالتی خود ہی التمش کی جانب بڑھی تھی۔ جسے دوبارہ زندگی میں کبھی مخاطب نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اُس نے۔
"چھوڑیں اُسے۔۔۔۔وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو التمش کے قریب آتی چلائی تھی۔ مگر وہ غضبناکی کی حدود کو چھوتا کچھ بھی سننے سمجھنے سے قاصر بس اُس شخص کو پیٹی جارہا تھا۔ جس نے ماہِ رو آبنوس پر بُری نظر ڈال کر التمش غیدان کے قہر کو آواز دی تھی۔
"التمش میں نے کہا چھوڑیں اُسے۔۔۔۔ وہ مر جائے گا۔"
اُس شخص کے لہولہان وجود کی جانب ایک نظر ڈال کر ہی ماہِ رو خوف سے کانپ اُٹھی تھی۔
جبکہ دوسری جانب اتنے سال بعد اپنے نام کی پکار اُن نازک ہونٹوں سے سنتے التمش غیدان کے ہاتھ وہیں ساکت ہوئے تھے۔ اتنے سالوں سے ساکت پڑے دل میں ہلچل سی پیدا ہوئی تھی۔
"جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔"
التمش اُس پر نگاہِ غلط ڈالے بغیر اُس کی جانب سے رُخ موڑکر کھڑے ہوتے بولا تھا۔
"اُسے اُس کی غلطی کی سزا مل چکی ہے۔ اب مزید اپنے اندر کا گلٹ ختم کرنے کے لیے ایک اور قتل مت لکھوا لیجیئے گا اپنے سر۔"
ماہِ رو اُس پر گہرا طنز کرتے پلٹی تھی۔ جبکہ اُس کا جملہ التمش غیدان کے پہلے سے جلتے سینے میں مزید آگ بھڑکا گیا تھا۔
اُس نے ایک جھٹکے سے مڑتے واپس پلٹتی ماہِ رو کا بازو اپنے آہنی شکنجے میں لیتے اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ اِس جارحانہ عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ سیدھی التمش کے سینے سے ٹکراتے اُس کے ہونٹوں سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی تھی۔
اُس نے فوراً التمش کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جماتے بیچ میں فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر التمش کی لال انگارہ خود پر جمی آنکھیں دیکھ ماہِ رو کا خون رگوں میں منجمد ہوا تھا۔
اُس کے دھکتے لمس اور چہرے پر پڑتی گرم سانسوں کی تپیش پر ماہِ رو کو اپنا وجود کپکپاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ جس کے خلاف وہ سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر نجانے کیا کیا پروپیگنڈے کرتی پھر رہی تھی۔ اُس کے سامنے آتے ہیں سانسیں حلق میں اٹک چکی تھیں۔
وہ بنا ہلے اُس کے حصار میں ساکت کھڑی تھی۔ جب کان کی لوح پر دھکتی گرم سانسوں کی تپیش محسوس کرتے اُس سے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا محال ہوا تھا۔ اگر التمش نے اُسے تھام نہ رکھا ہوتا تو وہ کب کا زمین بوس ہوچکی ہوتی۔
"میں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوں۔ جس سے اُلجھ کر تم جل کر راکھ ہوجاؤ گی۔ مگر پھر بھی مجھے بجھا نہیں پاؤ گی۔ اور نہ میرے اندر دھکتے شعلوں کی شدت کم کرپاؤ گی۔ اِس لیے تمہارے لیے یہی بہتر ہے میری دنیا میں گھسنے کی کوشش نہ کرو۔ ورنہ تمہارا انجام بہت عبرت ناک بنا دوں گا میں۔"
اُس کے کان میں سفاکیت بھرے لہجے میں سرگوشی کرتا وہ ماہِ رو کے کب سے رُکے آنسوؤں کو باہر کا راستہ دیکھا گیا تھا۔
ماہِ رو نے ایک اذیت بھری نگاہ اُس بے رحم انسان پر ڈالتے اُسے خود سے دور دھکیلنا چاہا تھا۔ مگر التمش کی مضبوط گرفت نے اُسے زرا سا ہلنے بھی نہیں دیا تھا۔
"التمش غیدان اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں۔ میرا سب کچھ چھین لیا تم نے مجھے سے۔ میں بھی تم سے تمہارا سب کچھ چیھن لینا چاہتی ہوں۔ تمہیں بھی ویسی اذیت کا شکار کرنا چاہتی ہوں جیسا تم نے میرا حال کیا تھا۔ تم مجھے اپنی طاقت سے روکنے کی چاہے جتنی مرضی کوشش کر لو۔
میں اپنی آخری سانس تک تم سے نفرت کرتی رہوں گی. اور اپنا انتقام پورا کروں گی۔"
ماہِ رو بہتی آنکھوں کے ساتھ اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتے بولی تھی۔
اُس کے ہر بہتے آنسو کے ساتھ التمش کی گرفت اُس کے بازو پر مزید مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ التمش کا بس نہیں چل رہا تھا۔ ہر چیز تہس نہس کردے۔ کیوں ہر بار یہ لڑکی اُس کے سینے میں آگ دہکا دیتی تھی۔ کیوں اُسے سکون سے جینے نہیں دیتی تھی۔ ۔اتنی نفرت کے باوجود اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو التمش غیدان کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہورہے تھے۔
اِس سے پہلے کے وہ کمزور پڑتا اُس نے ماہِ رو کو اپنے شکنجے سے آزاد کرتے اپنا رُخ موڑ لیا تھا۔
"جاؤ۔۔۔۔۔جو کرنا چاہتی ہو میرے خلاف کرو۔۔مگر میری ایک بات یاد رکھنا التمش غیدان ایک ایسی چٹان ہے جسے تم چاہ کر بھی توڑ نہیں پاؤ گی۔ اور جب مجھے لگا تم اِس چٹان سے ٹکراتی ہار رہی ہو تو پھر جواباً میرا وار سہنے کے لیے تیار ہوجانا۔ جس سے بچنا تمہاری نازک جان کے لیے ناممکن ہوگا۔ اِس لیے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ۔ ورنہ مجھے ہرانے میں ناکامی پر جو سزا میں تمہیں دوں گا، وہ تمہیں شاید پسند نہ آئے۔"

التمش کی بات میں چھپا معنی خیز مفہوم وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔ اتنی سنگین سچویشن کے باوجود ماہِ رو کا چہرا سُرخ ہوا تھا اور کانوں کی لوحیں دہک اُٹھی تھیں۔


Jaan E Bewafa By Rimsha Hayat


پلیز میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔جو بھی میں نے تمھارے ساتھ بدتمیزی کی اُس کے لیے مجھے معاف کر دو سیرت نے شفیق کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔


تجھے کیا لگتا ہے اب میں تجھے یہاں سے جانے دوں گا؟

شیر کے سامنے شکار ہو اور وہ اُسے نا کھائے تو ایسا تو نہیں ہو سکتا نا اور تمھارے جیسی حسین لڑکی کو میں جانے دوں ایسا تو بلکل بھی نہیں ہو سکتا شفیق نے خباثت سے کہتے اپنے قدم سیرت کی طرف بڑھائے۔


سیرت وہاں سے اُٹھ کر دروازے کی طرف بھاگنے لگی شفیق نے اس کو بازو سے پکڑنا چاہا تو وہاں سے کچھ کپڑے کا ٹکرا پھٹ کر شفیق کے ہاتھ میں آگیا۔

شفیق نے اسے دوبارہ بازو سے پکڑ کر اس کے منہ پر زور دار تھپڑ دے مارا جو دیوار کے ساتھ لگنی کی وجہ سے زمین پر جا گری اور ماتھے سے بھی اسکے خون نکلنے لگا تھا۔


سیرت نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے سامنے سے آتے درندے کو دیکھا اس نے ارد گرد نظریں دوڑائی اس سے پہلے شفیق سیرت کی طرف آتا اس نے پاس پڑا گلدان پکڑا اور زور سے کھڑے ہوتے شفیق کے سر پر دے مارا۔

ابھی وہ اسی حملے سے سنبھلا نہیں تھا کہ سیرت نے دوبارہ گلدان اس کے سر پر دے مارا جو وہی اپنے سر پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھ گیا تھا خون زیادہ نکل رہا تھا۔


تجھے میں چھوڑوں گا نہیں شفیق نے گالی دیتے دروازہ کھولتی سیرت کو دیکھتے کہا۔

جس نے شفیق کی بات کو اگنور کیا اور باہر بھاگ گئی اس وقت اس کا مقصد یہاں سے باہر نکلنا تھا۔

باہر چوھدری کے آدمی کھڑے تھے۔

سیرت ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ کیسے یہاں سے باہر جائے ایک آدمی نے آکر کہا کہ چوھدری صاحب سب کو اندر بلا رہے ہیں چھوٹے چودھری بےہوش ہو گئے ہیں یہ کہتے ہی سب لوگ اندر چلے گئے اور سیرت کو یہی موقع بہتر لگا اور چوھدری کے گھر سے باہر نکل گئی۔


اس وقت وہ جس حلیے میں تھی کوئی بھی دیکھتا تو غلط ہی سمجھتا ایک بازو پھٹا ہوا تھا بکھرے بال چہرہ سوچا ہوا اور ڈوپٹہ تو شاید کہی گر گیا تھا بس وہ یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔

Dildaar Masiahye Dil By Faiza Sheikh


ماہا دروازہ کھولو یار۔۔۔۔" صنم اور صالح کے جانے کے بعد وہ کب سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا مگر ماہا ناں تو دروازہ کھول رہی تھی ناں ہی کچھ بول رہی تھی۔۔ جسکی وجہ سے ابتہاج زیادہ پریشان تھا۔۔
ماہا اگر ابکی بار دروازہ ناں کھولا تو میں پھر سے چلا جاؤں گا اور تم چاہے جو مرضی کر لو میں واپس نہیں آؤں گا۔۔۔
ابتہاج نے آخری پینترا آزمایا اسے یقین تھا کہ ابکی بار وہ دروازہ کھول دے گی ۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔
ابتہاج نے لب بھینجتے ماہا کے چہرے پر مٹے مٹے آنسوں کے نشانات دیکھے۔۔
روئی کیوں تم۔۔۔۔۔" اپنے بھاری قدم اٹھائے وہ گھبیر بھاری لہجے میں بولتا ماہا کے قریب ہوا تو ماہا نے قدم پیچھے لیتے اسے دیکھا۔۔۔
کیوں بتاؤں ویسے ہی دل چاہ رہا تھا رونے کو اسی وجہ سے روئی ۔۔۔۔۔ وہ ناک چڑھائے بولی تو اسکے انداز اور یوں روٹھنے پر ابتہاج کے چہرے پر مسکان آئی، وہ قدم بڑھائے اسکے قریب ہونے لگا۔ کہ ماہا نے اسکی کوشش بھانپتے قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔۔ ابتہاج نے ایک دم سے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے اسے تھامنا چاہا مگر ماہا اسکی کوشش کو بھانپتے تیزی سے الٹے قدم چلتی پیچھے کو ہونے لگی کہ معا اسکے پاؤں بری طرح سے مُڑا تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتی ابتہاج کا بھاری ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل ہوتے اسے گرنے سے بچا گیا۔۔۔
ابببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔" وہ ڈرتے ابتہاج کے کندھوں کو تھامے حراساں سی بولی تو ابتہاج نے اسکی کمر کو سہلاتے اسے پرسکون کیا، جو اس وقت بالکل ڈری ہوئی تھی۔۔
اشششش کچھ بھی نہیں تم ٹھیک ہو ماہا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔" اسکا ڈر بھانپتے ابتہاج نے نرمی اسکے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے کہا تھا جبکہ ماہا نے فورا سے کپکپاتے ہوئے سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔
نننن نہیں اگر میں گر جاتی تو میرا ببب بچہ ۔۔۔۔۔ابب ابتہاج ممم مجھے کک نن نہیں یہ ہوتا مم مگر ممم میرا بب بے بی۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پہلے بھی اپنے بچے کو کھو چکی تھی ۔۔۔ اسکا دماغ بالکل سن سا پڑ گیا تھا اسکے دل و دماغ میں صرف ایک بات گھوم رہی تھی کہ وہ پھر سے اپنے بچے کو کھو دیتی۔۔۔۔ "
ماہا میری جان کچھ بھی نہیں ہوا ریلیکس رہو میری جان میری زندگی۔۔۔۔" اس وقت ماہا کو سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا تھا ابتہاج کیلئے وہ جانتا تھا کہ وہ کس خوف ڈر کے تحت یہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔۔ جبھی تو وہ اسے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
ماہا اپنے سینے میں اترتی ابتہاج کی دہکا دینے والی سانسوں کو محسوس کرتے پل بھر میں آسکی قربت میں ی۔۔۔۔ ابتہاج کے لمس میں نرمی تھی وہ اسے محبت سے چھوتے اسکا سارا ڈر خوف نکالنا چاہتا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا۔۔

ماہا ابتہاج کی قربت میں سب کچھ بھلائے اسکی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ابتہاج اسے پرسکون ہوتا دیکھ نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے پیچھے ہوا اور ماہا کے سرخ پڑتے چہرے پر آنسوں کے نشانات دیکھتے ابتہاج نے اپنے ہاتھ کی پشت سے ماہا کے رخسار کو سہلایا۔۔۔ ماہا ابتہاج کے ہاتھ کے سخت لمس کو محسوس کرتے بےچین سی ہوتے اسے دیکھنے لگی جو اسکی آنکھوں میں دیکھتا اپنے ہونٹ ماہا کے رخسار پر رکھتے اسکے انسںوں کے نشانات کو چھونے لگا۔

Shiddat E Lams By Faiza Sheikh


ہنیزہ فریش ہو کر باہر نکلی اور اپنے گیلے بال تولیے سے آزاد کیے پنک فراک وائٹ چوڑی دار پاجامے میں اس وقت وہ مہکتا گلاب لگ رہی تھی اس کے وجود کی دلفریب مہک ،نم بالوں سے گرتی پانی کی بوندیں ایک الگ ہی سما باندھ رہیں تھیں

ہنیزہ نے کوفت سے برش ہاتھ میں پکڑے اپنے بالوں کو دیکھا جو اس سے سلجھتے ہی نہیں تھے اسے رونا آنے لگا


"گنننندےےےے ہو ۔۔۔ ککککیوں نیییی ٹھیکک ہوتے ۔۔۔۔ میںنن عاشو ووو ککو بووولنگی ۔۔۔۔ وہ کٹ کرینگے تمممہیں "

وہ بڑے مصروف انداز میں بالوں کو سلجھاتی رازدارانہ گفتگو کر رہی تھی ۔۔۔۔ جہاں اس کی گفتگو پر کسی کے پتھریلے تعصرات ۔۔۔۔ میں نرمی آئی تھی ۔۔۔ وہیں عاشو کا نام سن کر ماتھے پر لاتعداد بلو ں کا اضافہ ہواتھا اسے محسوس ہوا تھا کہ کسی نے کھولتا ہوا پانی اس کے وجود پر ڈال دیاہو وہ سرخ نظروں۔سے بلیک روم میں بیٹھا اسکرین کو گھور رہا تھا

اور پھر ایک ہی جھٹکے سے اس نے لیپ ٹاپ دیوار پر دے مارا

"ہنیزہ میکال ایک بار پھر اس کی انا پر کاری وار کر چکی تھی جسکا اسے اندازہ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔


ہنیزہ کی جدو جہد بالوں سے جاری تھی جب اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرکے وہ پیچھے مڑی

اور اپنے بلکل سامنے کھڑے ''عابس سلطان"کو دیکھ اس کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں ۔۔۔۔ جسم کھڑے کھڑے کانپنے لگا تھا


وہ پلکیں بار بار جھپکتی اپنی اوشن نیلی آنکھوں سے اس کی سرد ہیزل گرین آنکھوں میں دیکھ رہی تھی پر ایک لمحےسے زیادہ نہ دیکھ پائی ۔۔۔۔ اس تعصر کو جس نے اس کا معصوم سا وجود لرزا دیا تھا ۔۔۔

عابس قدم قدم بڑھتا اس کے قریب آنے لگا ۔۔۔۔. جبکہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ ہنیزہ کا سانس اوپر کا اوپر ہی رہ گیا وہ ہونٹوں پر اپنی مخروطی انگلیاں جمائے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔

عابس نے اسے دور جاتا دیکھ تمسخرانہ انداز میں لبوں کو مسکراہٹ میں۔ڈھالا

"کیاہوا 'ہنیزہ میکال 'میرے بھائی کی باہوں میں بڑے آرام سے نیند کے مزے لوٹ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ اور مجھ سے اس قدر دوری ۔۔۔ یہ تو نا انصافی ہے نا ۔۔۔۔ بابا کی ہنییییییی "

عابس کا لہجہ مکمل بہکا ہوا تھا ۔۔۔۔ ایک جنون بے معنی سا تھا جس کی رو میں بہکتا وہ سب فراموش کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ اس کی نفرت اس کا پاگل۔پن سب کچھ صرف ہنیزہ میکال۔سے منسوب تھا ۔۔۔۔


اس کے جواب نا دینے پر عابس نے آنکھیں سکیڑیں ۔۔۔.

اور ایک ہی جست میں اسے خود کے قریب کرتا بیڈ پر بٹھا گیا یہ سب ایک پل میں ہوا تھا ہنیزہ پلک جھپکتے بیڈ پر تھی

اسے محسوس ہوا کہ ہوا کا کوئی جھونکا اسے چھو کر گزرا ہے عابس سلطان نے اسے ایسے چھوا تھا کہ وہ محسو س تک نہ کر سکی ۔۔۔۔۔


بس آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھرتی اپنی موت کی دعاِئیں مانگنے لگی


Shanasay E Yaar By Zainab Faiza


ععع عععاللللمم_____" اصلال عالم کی آنکھوں میں چھائی خمار کی سرخی عبادت کو لرزنے پر مجبور کر گئی وہ سہمی حراساں سے اسکے کشادہ سینے پر اپنے نازک ہاتھوں سے دباؤ ڈالتی اسے خود سے دور کرنے لگی جو کسی سائے کی طرح عبادت پر جھکا اسکی سہمی نظروں میں دیکھ اسے مزید خوفزدہ کر گیا۔۔۔

اب بولو میں کیا ہوں۔۔۔۔۔" وہ اطمینان سے اپنے دونوں ہاتھ عبادت کے دائیں بائیں تکیے پر ٹکائے انہماک سے اسے دیکھ استفار کرنے لگا ۔۔۔ عبادت نے تھوک نگلتے خود کو بچانے کا کوئی بہانہ ڈھونڈنا چاہا مگر برا ہو قسمت کا جو عین وقت پر اسے کوئی بھی بہانہ نہیں ملتا تھا۔۔

آپ ایک اچھے شریف بہت سمجھدار انسان ہیں۔۔۔۔۔!" اپنی سنہری آنکھیں اصلال عالم کی سیاہ آنکھوں میں گاڑھتے وہ معصومیت سے اسکی تعریف کرتی اصلال کو کوئی چالاک لومڑی لگی تھی۔۔۔

اچھا تو میں شریف ہوں۔۔۔"اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی عبادت کے دائیں گال پر پھیرتے وہ اسکے رونگٹے کھڑے کر گیا۔۔۔ بولیں مسزز عالم کیا میں شریف ہوں۔۔۔وہ لفظوں پر زور دیتا تیز لہجے میں تصدیق کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔ وہ سنتی اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔

اہا سمجھدار بھی ہوں۔۔۔۔۔۔" وہ ائبرو اچکاتے انگلی اسکی ناک پر لے جاتے پوچھنے لگا۔۔۔وہ سرخ چہرے سے لرزتے وجود سے اصلال کے بھاری وجود کے نیچے دبی سی پڑی تھی۔۔۔۔ دھڑکنوں کا شور الگ سے طوفان مچا رہا تھا رہی سہی کسر اصلال عالم کی قربت نے نکال دی تھی۔۔

عبادت  مرتی کیا ناں کرتی کی مصداق کے تحت سنتی سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔تو پھر میں جو بھی کہوں گا وہ بھی ٹھیک ہو گا۔۔۔" وہ گہرے لہجے میں معنی خیز سا پوچھ رہا تھا۔ عبادت تو اسکے خوف سے اسکے لہجے کی وارننگ کو سمجھ تک ناں سکی۔۔ وہ پھر سے تابعداری کا مظاہرہ کرتی گردن ہاں میں ہلا گئی۔۔

دھین کس می ناؤ_____" وہ مخمور نگاہوں سے انگلی سرکاتے عبادت کے سرخ ہونٹوں پر رکھتے گھبیر لہجے میں سرگوشی کرتے بولا عبادت سنتی دہل سی گئی۔۔۔وجود جیسے جھٹکوں کی ضد میں تھا۔۔۔اسے لگا کہ شاید اسے سننے میںں غلطی ہوئی تھی کیونکہ وہ ہر طرح کی حرکت کا سوچ سکتی تھی مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اصلال عالم اسے ایسا ویسا کچھ بھی کہے گا۔۔۔

وہ تھوک نگلتے اپنی آنکھوں  میں ڈھیروں آنسوں لائے اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔اشششش روؤ مت یہ۔صرف مجھے تڑپانے کی سزا ہے۔۔۔۔!" عبادت کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کیے اپنے دہکتے ہونٹوں سے اسکی گردن کو چومتا مدہوش سا ہو گیا۔۔۔۔

عبادت کا پورا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔۔۔۔ اسے شدید افسوس ہوا کاش کہ وہ چلی جاتی تو اس وقت اسے اس مگرمچھ کے اس قدر بھیانک روپ کا سامنا ناں کرنا پڑتا۔۔۔۔۔

پپپ پلیز ععععع عععاللممم۔۔۔۔۔۔وہ آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لائے منت کرتی سوں سوں کرنے لگی۔۔۔ اصلال نے ناک سکیڑتے اسے گھورا۔۔۔ اچھا تمہارے پاس دو آپشن ہیں اگر منظور ہے تو بتاؤں۔۔۔۔۔"

وہ انگلی پر اسکے سنہری لٹوں کو لپیٹتا بہکی نگاہوں سے اسکے سراپے کو دیکھے پوچھنے لگا۔۔۔۔ ہہہ۔ہاں۔۔۔۔۔ عبادت بنا سنے فورا سے حامی بھر گئی۔۔۔۔ خود سے کس کرنے سے بہتر تھا کہ وہ اسکی کوئی بھی شرط مان۔لیتی۔۔۔۔ ویری گڈ بہت سمجھدار ہو۔۔۔۔۔؛ "میں ابھی تمہیں فورس نہیں کروں گا مگر شادی کے بعد تم خود مجھے کس کرو گی منظور ہے۔۔۔۔"

عبادت کی گردن پر جابجا اپنا۔لمس چھوڑتے وہ لب دبائے پوچھنے لگا۔۔۔۔

عبادت نے آنکھیں میچتے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔اصلال عالم کا شدت بھرا لمس اپنی گردن پر سرکتا محسوس کرتی وہ لرزتی کپکپاتی بھاری سانس لیتے خود کو مضبوط بنا رہی تھی۔۔ اور دوسری یہ کہ تم ابھی اپنی بانہیں میری گردن میں ڈالے مجھے خود سے نزدیک کرو گی کہ میں تمہیں تمہاری غلطی کی سزا دے سکوں۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کی تھوڑی کو چومتے بولا۔۔

عبادت نے جھٹکے سے اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کرنا چاہا مگر اصلال نے جھٹ سے اسکے بازوؤں تھامے اپنی گردن میں حائل کیے ، اور ایک دم سے اسکے ہونٹوں پر جھکتا وہ شدت سے اسکی دہکتی سانسوں اسکے نرم و ملائم ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتا مدہوش سا ہو گیا۔۔

************

وہ کب سے گیٹ کے پاس کھڑی اصلال کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔ اب تو کھڑے ہو کر بھی اسکی ٹانگوں میں درد سا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ کل رات کو اصلال کی شدتوں کی وجہ سے وہ کافی خفا تھی اس سے۔۔۔۔۔ جو اچھے طریقے سے اسکا دماغ ٹھکانے لگائے اسے جاتے وقت یہ بتا گیا تھا کہ کل وہ کسی میٹنگ کیلئے لاہور جا رہا ہے اور اسے جلدی نکلنا تھا جبھی اسے حکم دیا تھا کہ جاتے وقت آنش کے ساتھ جائے مگر واپسی پر وہ خود اسے پک کرے گا۔۔۔

عبادت ساری رات اسے بدعائیں دیتے سوئی تھی اور پھر صبح اسنے انش کو بھی لینے آنے سے منع کر دیا تھا اور اب لاڈ صاحب خود ہی غائب تھے۔۔۔سارا کالج حالی تھا مگر کالج کی۔پرنسپل اور ٹیچرز ابھی تک یہیں تھے کسی میٹنگ کے سلسلے میں ۔۔۔۔ عبادت نے سوچ لیا تھا کہ اگر تو وہ میٹنگ ختم ہونے تک آ گیا تو ٹھیک نہیں تو وہ پرنسپل سے سیل لیتے وہ آنش یا پھر پاپا کو کال کرے گی اور اصلال عالم کو خوب ڈانٹ بھی پڑوائے گی۔۔۔۔

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب چوکیدار چلتا اسکے قریب آتے اسے مخاطب کرنے لگا۔۔۔ عبادت جھٹکے سے ہوش میں آتی اسے دیکھنے لگی۔۔ جج جی۔۔۔۔۔!" وہ سہمی سی پوچھنے لگی۔۔۔ بیٹا باہر کوئی آیا ہے آپ کو بلا رہے ہیں___!"

عبادت کے چہرے پر سنتے ہی خوشی کی۔لہر دوڑی تھی وہ خجاب ٹھیک کرتے بیگ اٹھائے کندھے پر ڈالے باہر نکلی مگر سامنے ہی کسی اور مرد کی پشت کو دیکھ وہ پہچان چکی تھی کہ وہ اصلال نہیں تھا۔۔۔۔

اپپ کک کون۔۔۔۔؟" وہ چونکتے حیرانگی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔ السلام علیکم عبادت میں تمہارا کزن قاسم بیگ۔۔۔۔۔۔" عبادت کی دھیمی باریک آواز سنتے قاسم کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑی تھی وہ رخ موڑتے سنجیدہ سا ہوتے اسے آگاہ کرنے لگا۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔۔!"بھائی میں پہچان گئی ہوں آپ کو،مگر آپ یہاں۔۔۔۔۔"ہمیشہ کی طرح اپنے سخت لہجے میں کہتے وہ اسے دیکھتے پوچھنے لگی___ عبادت کے بھائی کہنے پر وہ لب بھنجتے اپنے اشتعال کو دبائے عبادت کے حسین چہرے کو دیکھتا خود کو ریلکس کرنے لگا۔۔۔

ہاں یہاں سے گزرا تو مجھے ایسا لگا کہ تم یہیں کالج میں ہو پھر واچ مین سے پوچھا تو اسنے میرے شک کی تصدیق کر دی آؤ گھر چھوڑ دوں۔۔۔" وہ مسکراتا۔ہلکے پھلکے انداز میں بتاتا مسکرا رہا تھا۔۔

عبادت کو اسکا بہانہ بے تکا لگا بھلا اسے کیسے شک پڑا کہ وہ اندر ہے۔۔۔۔

نہیں آپ زخمت مت کریں عالم آتے ہوں گے میں انکے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔" قاسم کی نظروں سے حائف وہ دانت پیستے ہوئے بولی تو قاسم نے سنتے گہرا سانس بھرا۔۔۔

میں لاہور سے ہی آ رہا ہوں عبادت میٹنگ کب کی ختم ہو چکی ہے عبادت کسی دوست کی پارٹی میں انجوائے کر رہا ہے میں نے کہا بھی کہ چلو ایک ساتھ چلتے ہیں مگر وہ نہیں مانا مجھے ماما کو ہاسپٹل لے کر جانا تھا تو میں جلدی سے واپس آ گیا ویسے بھی مجھے ایسی پارٹیز پسند نہیں۔۔۔۔"

عبادت کے جھکے چہرے اسکے پھیلی آنکھوں میں بے یقینی غصہ دیکھ وہ مسکراہٹ روکنے لگا۔۔۔اگر تمہیں انتظار کرنا ہے تو کر لو۔۔۔میں نے اس لئے کہا تھا کیونکہ میں گھر ہی جا رہا ہوں۔۔۔۔" وہ کہتا دوبارہ سے گاڑی کی جانب بڑھا ۔۔۔

جبکہ عبادت کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے کسی نے سلگتے سیسے لگا دیے ہوں ۔۔۔ اصلال عالم کی نظروں میں اپنی اہمیت جان کر اسکا روم روم دکھی تھا۔۔۔ رکیں بھائی مجھے ڈراپ کر دیں۔۔۔۔"

وہ فورا سے فیصلہ لیتے مضبوط لہجے میں بولی قاسم نے مسکراتے اپنی چال کامیاب ہونے پر خود کو داد دی۔۔۔اور پھر مسکراتے اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولا۔۔۔۔ میرے سوا کسی کے ساتھ فرنٹ سیٹ شئیر مت کرنا کبھی۔۔" اصلال عالم کی رات کو کی مدہوش سی مگر سخت سرگوشی اسکے دماغ میں گھومی مگر غصہ اس وقت اس قدر تھا کہ وہ بنا سوچے سمجھے جھٹ سے بیٹھی تھی۔۔۔

اپنی کامیابی پر سامنے ہی دوسری گاڑی میں بیٹھی امل نے مسکراتے ساتھ موجود پروفیشنل فوٹو گرافر کو اشارہ کیا جس نے بہت اچھے سے قاسم اور عبادت کا مسکراتا ایک دوسرے کا دیکھتا چہرہ قید کیا تھا۔۔۔۔

آئسکریم کھاؤ گی۔۔۔۔" اسنے جان بوجھ کر گاڑی آئسکریم پارلر کے سامنے روکے مسکراتے پوچھا۔۔۔ ننن نہیں گے گھر لے چلیں۔۔۔۔ اصلال عالم کو اگر بھنک بھی پڑی تو اسکا کیا حال ہو گا یہ سوچ سوچ کر ہی اسکا چہرہ پسینے سے تر تھا۔۔

وہ جلدی سے اس گھٹن سے نکلتے اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔۔۔۔ ارے یار پہلی بار آئی ہو ایسے تو نہیں جانے دوں گا۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھتا سٹاربری فلیور منگوا گیا۔۔۔۔

عبادت بری طرح سے ڈری انگلیاں چٹخاتے گھر جانے کو بےچین تھی مگر وہ قاسم سے بدتمیزی بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔

قاسم نے ائیسکریم لیتے اسے خیال میں کھویا دیکھ سامنے امل کی گاڑی کو دیکھا اور پھر جان بوجھ کر اسکے ناک پر مسکراتے ائیسکریم لگا دی۔۔۔۔ییی یہ کیا آپ نے۔۔۔۔.!" وہ جو اصلال عالم کو سوچ رہی تھی اچانک سے قاسم کی اس حرکت پر حیرت زدہ سی اسے دیکھتے سخت لہجے میں پوچھنے لگی۔۔۔

سوری یار پتہ نہیں کیسے ہو گیا۔۔۔۔؟" وہ شرمندگی چہرے پر سجائے مظلومیت طاری کرتے بولا تو عبادت جل بھن کر رہ گئی۔۔۔ مجھے گھر لے چلیں پلیز مجھے نہیں کھانی۔۔۔۔۔" وہ کھردرے لہجے میں کہتے رخ موڑتے بیٹھ گئی۔۔۔

تو قاسم نے کندھے اچکاتے اسکی پشت کو اور پھر آئسکریم کو دیکھا وہ مسکراتا ائیسکریم کے اس حصے سے بائٹ لینے لگا جسے عبادت کی ناک سے مس کیا تھا۔۔

آنکھیں موندے وہ ٹیسٹ کرتا باقی کی ائیسکریم باہر پھینک گیا۔۔۔۔ شکریہ بھائی آپ کا ۔۔۔۔۔" گیٹ پر پہنچتے ہی وہ تشکر بھرا سانس لیتے باہر نکلی۔۔ قاسم بھی اسکے ساتھ ہی نکلا تھا ۔۔۔۔

عبادت اسے شکریہ ادا کرتے تیزی سے اندر جانے لگی کہ معا قاسم نے پاؤں اسکے سامنے کیا۔۔۔جس سے وہ بیلنس کھوتے چیختے نیچے گرنے لگی کہ قاسم نے آگے ہوتے اسے بانہوں میں بھرتے اسکی کمر کو مضبوطی سے تھاما۔۔۔۔۔

عبادت کا پورا وجود قاسم کے لمس پر سن سا۔پڑ گیا وہ حواس بافتہ سے اسے دھکہ دیے ایک دم سے سرخ چہرے سے پیچھے ہوتی اندر بھاگی تھی۔۔۔ جبکہ اسکے جانے کے بعد وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا سیٹی کی دھن پر امل کی گاڑی کو آنکھ دبا گیا۔۔۔۔

فضا میں امل کا معنی خیز قہہقہ بلند ہوا تھا۔۔۔

***********

Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya By Yusra 

” اسکا دم گھٹنے لگا وہ چیخنا چاہتی تھی۔۔۔۔ لیکن اسکے ہونٹوں پے مضبوط ہاتھ کی گرفت تھی کوئی اسے اپنی باہوں میں اٹھا رہا تھا۔۔۔۔ بہت احتیاط سے اسے بیڈ پے لٹایا۔۔۔۔ نور نے سختی سے بیڈ شیٹ کو مٹھی میں جکڑا وہ پرفیوم اور سیگریٹ کی بھینی بھینی خوشبو اپنی سانسوں میں اُترتی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔ ازلان اسکی آنکھوں کی جنبش اور پھڑپھڑاتے ہونٹوں سے جان چکا تھا وہ جاگ گئی ہے۔۔۔۔۔ آنکھیں کھولتے ہی نور کا چہرہ یکدم فق ہوگیا وہ اس پے جھکا تھا اسکی گرم سانسیں نور کا چہرہ جلسا رہی تھی۔۔۔۔ رات کی تنہائی میں وہ اسکے بہت قریب تھا۔۔۔۔ نور کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔۔ اسے وہ درد ناک راتیں یاد آنے لگیں وہ خوفزدہ آنکھوں سے اسے تک رہی تھی۔۔۔۔۔
” کیوں کیا تم نے؟؟ “
وہ تیز چلتی سانسوں کے ساتھ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔ اسکا گلہ پیاس کی شدت سے خشک ہوچکا تھا۔۔۔۔ وہ کہتے ہی مزید اس پے جھکا تھا نور کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ طاری ہونے لگی۔۔۔ وہ اسکی گردن پے انگلی پھیرنے لگا۔۔۔۔
” جانتی ہو جب سے تم نے خود کشی۔۔۔۔۔“
ازلان سے بولا نہ گیا سوچتے ہی اسکے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ اگر اسے کچھ ہوجاتا کیا کرتا وہ۔۔۔؟؟؟  
” تمہیں اندازہ ہے کتنا بڑا گناہ کرنے جارہی تھی تم۔۔۔۔؟؟؟ جانتی ہو کل پوری رات میں سو نہ سکا۔۔۔۔ تمھاری باتیں مجھے یاد آنے لگیں۔۔۔۔ کل پہلے دفعہ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر دوبارہ لہرایا۔۔۔۔ وہی منظر فرق صرف اتنا تھا عمر کی جگہ تم۔۔۔۔۔ آ۔۔۔۔۔ نور میں عمر کا غم برداشت کر گیا لیکن تم۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ تم میں اور اس میں فرق ہے تم میری روح کا حصہ ہو۔۔۔۔۔ تمہارے بغیر میں کیسا جیتا “
نور کا دل چاہ رہا تھا اپنے کان بند کرلے اس کی روز کی تقریر سے وہ اُکتا چکی تھی۔۔۔۔ ازلان کی ساری باتیں جھوٹی لگتیں اب کیا فائدہ تھا ان بے مقصد باتوں کا۔۔۔۔ ایک آنسو اسکی آنکھ سے بہہ کے تکیے میں جذب ہوگیا نور نے ازلان کا بڑھتا ہوا ہاتھ دیکر اسکے سامنے ہاتھ جوڑدیے۔۔۔۔۔
” مجھے معاف کردیں پلیز مجھ سے دور رہا کریں۔۔۔۔ مجھے اپنے حال پے چھوڑ دیں مت بات کیا کریں مجھ سے اب تو مجھے بخش دیں ازلان۔۔۔۔ میں نفرت کرتی ہوں آپ سے شدید نفرت۔۔۔۔ جب ہنستے مسکراتے ہوئے میں آپکو دیکھتی ہوں تو میرے خوشی غائب ہوجاتی ہے۔۔۔۔ میرے ہنسی کہیں کھو جاتی ہے۔۔۔۔ میں آپکو اپنے آس پاس برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اب یہ ناٹک کیوں۔۔۔۔؟؟ اچانک سے میرے لیے محبت کیوں کبھی رحم نہیں آیا ہمدردی نہیں ہوئی اب محبت۔۔۔۔؟؟؟ 
میں نے آپکا وہ روپ دیکھا ہے جسے شاید آپ خود بھی واقف نہیں۔۔۔ وہ سب لوگ جو آپ کی محبت کے قصیدے پڑھتے تھے۔۔۔۔ وہ اس وقت نہیں تھے جب دن رات میں آگ میں جلتی تھی۔۔۔۔ وہ آکر پوچھیں مجھ سے کون ہے ازلان شاہ۔۔۔۔؟؟؟ تو میں انہیں بتاؤں ایک بے رحم انسان جو دوسروں سے رحم کی امید رکھتا ہے۔۔۔۔ آگر آپ نہیں چاہتے میں یہاں سے جاؤں تو دوبارہ یہ حرکت مت کیجیئے گا۔۔۔۔۔“ 
وہ جو اس پے جھکا تھا اسکے زہرخند الفاظ سن کے پیچھے ہوا۔۔۔۔ یہی موقع تھا جب وہ بیڈ سے اپنا دوپٹا اٹھا کے وہاں سے بھاگ آئی۔۔۔۔  
                         ☆.............☆.............☆
ایک ہفتے سے وہ یونی جا رہی تھی۔۔۔۔ اور اب تو اسکا اپنا گروپ بھی بن چکا تھا۔۔۔۔ لیکن عمر سے وہ سخت پریشان تھی جو روز اسکی یونی آدھمکتا۔۔۔۔ اس لیے آج وہ اسے اکیلا پاکر اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔
” بھائی ایک بات تو بتائیں “
” جی پوچھیں مسز شاہ زَر “
وہ ہنستے ہوئے بولا حیا گھور کے رہ گئی۔۔۔۔ اب یہ روز کا معمول بن چکا تھا۔۔۔۔ عمر نکاح کے بعد ہاتھ دھو کر اِس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔۔۔۔ اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔۔۔۔
” اس دن آپ میری یونیورسٹی میں پیزا لیکر آئے تھے۔۔۔۔ اور اتنے پیار سے اپنی ہاتھوں سے کھلا رہے تھے۔۔۔۔ جان سکتی ہوں بہن سے اتنی محبت کب سے ہوگئی۔۔۔۔؟؟؟؟ “ 
عمر اک لمحے کے لیے چُپ ہو گیا۔۔۔۔ وہ ٹی وی دیکھتا ساتھ پوپ کارن سے انصاف کر رہا تھا کے حیا اسکے پاس آدھمکی۔۔۔۔
” وہ ایکچولی۔۔۔۔میں “
” اور ہاں یہ چھٹی میں آج کل آپ کیوں لینے آتے ہیں میں پوائنٹ سے آسکتی ہوں “
وہ اسکے ہاتھ سے پاپ کارن چھین کر کھانے لگی۔۔۔۔
" میرے بہن اب پوائنٹ میں آئیگی؟؟؟ “ 
وہ اسے گھور کے بولا اور پاپ کورن واپس چھینے۔۔۔۔
" اچھا اور جب میر بھائی نے آپکو کہا تھا۔۔۔۔ مجھے پک اینڈ ڈراپ دیں تو کیسے کہا تھا پوائنٹ میں آجانا آسمان سے اُتری پری نہیں ہو جسے لینے پہنچ جاؤں۔۔۔۔!!! اور اب جب میر بھائی کے ساتھ آنے لگی ہوں تو اچانک سے آپکو بہن کا خیال آگیا۔۔۔۔؟؟؟ شرافت سے بتائے روز کیوں آجاتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟ ورنہ مما کو بتائونگی۔۔۔۔۔“ 
وہ بوکھلاتا ہوا خود پے قابو کرتے کہنے لگا۔۔۔۔۔
” اوہ میرے پیاری بہن وہ بس ایسے ہی مجھے خیال آیا ایک ہی تو بہن ہے۔۔۔۔ اب اس کی بھی زمیداری نہیں لوں اور یار بھائی بھی تو کتنے بزی رہتے ہیں بس تبھی “
” یہ میرے سوال کا جواب نہیں “
وہ مسلسل اسے گھورے جا رہی تھی۔۔۔۔
عمر کو لگا آج وہ اسے بلوا کے چھوڑے گی۔۔۔۔ اب وہ اسے کیسے بتاتا کے میر بھائی کے کہنے پے ایک دن جب وہ اسے لینے گیا۔۔۔۔ تو  وہاں اسکی دوست کو دیکھ کر وہ اپنا دل ہار بیٹھا۔۔۔۔ اس سے پہلے کے عمر کی شامت آتی علی کی آواز نے دونوں کو اس طرف متوجہ کیا۔۔۔۔
” اسلام و علیکم “
” ارے وعلیکم اسلام میرے بھائی کیسے ہو۔۔۔۔؟؟اور ٹیسٹ کیسا ہوا۔۔۔۔؟؟ “ عمر کی جان میں جان آئی۔۔۔۔
” اچھا ہوا تم سناؤ۔۔۔۔؟؟ “ وہ حیا کو مکمل طور پے نظر انداز کر رہا تھا۔۔۔۔
” بس یار نہ پوچھو زندگی میں کتنے غم ہیں ابھی مڈز ختم ہونے کی خوشی نہیں منائی تھی کے تھڑڈ سمسٹر کے پیپرز اسٹارٹ ہوگئے “ وہ افسوس سے بولا۔۔۔۔
” علی تم آئے کب اور بتایا کیوں نہیں؟؟؟ “ 
حیا اسے دیکھ کے اتنی خوش تھی کے علی کا نظر انداز کرنا محسوس ہی نا کیا۔۔۔۔
” یار میرا بھی یہی حال ہے بابا پیچھے پڑگئے ہے۔۔۔۔ تقربیاً سب یونیورسٹیز کے ٹیسٹ دے چکا ہوں۔۔۔۔ اللہ‎ کرے کسی اچھی میڈیکل یونی میں ایڈمیشن ہوجائے “ 
علی نے اسکے سوال کا جواب نہیں دیا وہ اس سے ناراض تھا۔۔۔۔ جو خود اس کے بغیر نکاح کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔ علی کا بس نہیں چل رہا تھا شاہ زَر کا بُرا حال کردے۔۔۔۔ جس نے اسکے آنے کا انتظار تک نا کیا۔۔۔۔ وہ ممی اور پاپا سے بھی ناراض تھا۔۔۔۔ لیکن سب کی زبان پے صرف ایک ہی جملہ تھا ”
 شاہ زر نے جلد بازی کی “ 
اور یہاں اکر وہ بھی چُپ ہوگیا۔۔۔۔ آخر کیا کرتا چھوٹا جو تھا اور شاہ زر کے غصّے سے بھی ڈرتا تھا۔۔۔۔ شاہ زَر کے سخت مزاج کو سب گھر والے جانتے تھے۔۔۔۔ علی حمزہ عمر شاہ زَر کے غصّے سے خود کو بچا لیتے لیکن حیا کا تو خدا ہی حافظ تھا۔۔۔۔ اور علی حیران تو اس بات پرتھا آخر حیا راضی کیسے ہوئی۔۔۔۔
” اوہ علی تو آپ مسز شاہ زَر سے ناراض ہیں؟؟ “
وہ ہنستا ہوا حیا کو دیکھ کے بولا۔۔۔۔
حیا کو غصہ ہی آگیا اِس کا مسز شاہ زَر کہنا کشن اٹھا کے اسے مارا۔۔۔ علی ہنسی روکے انکی نوک جھوک دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
” ہائے! مار ڈالا “
علی کی ہنسی نکل گئی اِس کے انداز پے۔۔۔۔۔
” میں ماما کو بتاتی ہوں آپ رکیں “ 
” ہاں جاؤ مما کی چمچی۔۔۔۔ اور سنو چائے کے ساتھ کچھ کھانے کے لیے بھیج دینا “
” زہر نہ بھیجوا دوں “ 
” نہیں وہ میرے طرف سے تم کھا لینا “
” بتمیز جاہل انسان “ 
وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن میں آگئی۔۔۔۔ ثانیہ بھابی کو چائے کا کہہ کر کمرے میں چلی گئی اسے علی کا رویہ پریشان کر رہا تھا۔۔۔۔ 
نور علی کی آواز سن کے لاؤنج میں آگئی۔۔۔۔ ثانی بھی چائے کے ساتھ کباب تل کے لے آئی۔۔۔۔ ساتھ اسنیکس اور سموسے بھی۔۔۔۔ نور نے علی سے ٹیسٹ کے بابت پوچھا۔۔۔۔ علی ڈاکٹر بنا چاہتا تھا لیکن اسکے انٹرمیڈیٹ مارکس کم تھے۔۔۔۔ اسلیے وہ مختلف یونیز میں ٹیسٹ دےکر آیا ہے کے شاید کہیں ہوجاۓ گورنمنٹ کے ساتھ پرائیویٹ کالجز میں بھی اسنے اپلائے کیا ہے۔۔۔۔ 
                   
 

Baab Ik Aur Muhabbat Ka By Afshan Kanwal


"بہنام صاحب! یہ شریفوں کے طور طریقے نہیں ہوتے جو آپ نے اپناۓ ہیں ۔ رات کے اس پہر کسی لڑکی سے اس کی مرضی جاننا یقیناً غیر اخلاقی حرکت کے زمرے میں آتا ہے۔۔“ وہ غصے اور طنز کے ملے جلے انداز میں بولی ۔ کچی نیند کے باعث اس کی آنکھوں میں تیرتی سرخی بہنام سومرو کے دل میں قیامت برپا کررہی تھی لیکن ایمل کے لہجے سے چھلکتا غصہ اسے کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔

”پہلی بات یہ کہ میں شریف بلکل نہیں ہوں ۔دوسری بات جب میں نے کہا تھا کہ گاٶں سے آنے کے بعد میں تمہارا جواب چاہوں گا تو تمہیں کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی؟ تیسری اور اہم بات۔۔۔ میری اور اخلاق کی بہت کم بنتی ہے تو وہ زیادہ تر میرے پاس رکتا نہیں ہے ۔ ہاں! تمہارے زندگی میں آنے کے بعد ہوسکتا ہے وہ حضرت بھی مستقل میرے ہاں مکیں ہوجاٸیں ۔۔“ ٹھہر ٹھہر کر وہ اپنے بھاری گھمبیر لہجے میں بولتا اسے گھبراہٹ میں مبتلا کرگیا تھا۔

”بہنام۔۔“ کسی میٹھے جھرنے کی صورت یہ نام اس کے لبوں سے نکلا تو بہنام عالم مدہوشی سے باہر آتا اپنے نام کو جھک کر معتبر کرگیا۔ وہ تو پہلے ہی اپنی بےباک باتوں سے اسے بوکھلاٸے رکھتا تھا اور اب تو اسے اختیارات بھی حاصل ہوچکے تھے۔ وہ پل پل اپنی جان لیوا نزدیکیوں سے اس کا دم خشک کٸے جارہا تھا۔


”میں آپ سے ناراض ہوں۔۔“ اس کی بڑھتی جسارتوں پر ایمل نے باندھ باندھے کی سعی کی تھی۔ وہ اس کی بات سن کر یوں مسکرایا جیسے کوٸ نادان بچے کی بات سن کر مسکراتا ہے۔


”میں آپ کو راضی کرنے کی ہی کوشش کررہا ہوں۔ اب تو مکمل اختیارات حاصل ہے نا دلبرا۔۔۔“ مدہوش کن لہجے میں کہتے اس نے ایمل کی نتھ کو دھیرے سے اس کی ناک سے احتیاط کے ساتھ الگ کیا۔ وہ اس کی دسترس میں دم سادھے پڑی رہی۔ یوں لگ رہا تھا کہ سارا وجود گویا منجمد ہوگیا ہے۔

Ye Ishq Hai Pera Kara By Afshan Khan 

"میں نے تمہیں رشتہ لانے سے منع کیا تھا لیکن تم بہت ہی ڈھیٹ نکلے۔“


"اسے ڈھیٹ پن نہیں مستقل مزاجی کہتے ہیں خیر ایک دفعہ میری دسترس میں آجاؤ میں سارے مطلب سیاہ و سباق کے ساتھ تمہیں سیکھادوں گا۔“ اس کے کڑوے لہجے کا اثر لئے بغیر وہ شریں لہجے میں گویا ہوا۔


"میں لعنت بھیجتی ہوں تم پر اور تمہاری محبت پر۔“ وہ ایک دم پھنکاری تھی۔


"اریکہ خانزادہ! میرا ضبط مت آزماؤ۔۔ پہلے بھی کہا ہے کہ میری محبت کو محبت رہنے دو ضد نا بناؤ۔ ورنہ تم چودھری کی ضد سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاؤں گی۔ محبت میں میں انا کا قائل نہیں ہوں۔ ورنہ چودھریوں کی انا خانوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔

 میرے سارا معاملہ بڑوں کے سپرد کرچکا ہوں تو بہتر ہوگا تم بھی اپنے اختیارات انہی کے تابع کرلو۔“ وہ چاہ کر بھی اس سے سخت رویہ نہیں اپناسکا تھا۔ ورنہ اس کی محبت کو گالی دینے والے کو وہ زمین میں گاڑ دیتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ محبت کو گالی دینے والی ہی اس کی محبت تھی۔ اسے تو وہ پھولوں سے بھی چھونے سے ڈرتا تھا تو پھر غصے سے کیسے چھوسکتا تھا۔

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

 Janoon E Ulfat Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel     Janoon E Ulfat   written Mehwish Ali .  Janoon E Ulfat    by  Mehwish Ali  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 


  


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages