Dar e Yaar By Sara Shah Urdu Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 23 October 2022

Dar e Yaar By Sara Shah Urdu Complete Novel

Dar e Yaar By Sara Shah Urdu Complete Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Dar E Yaar By Sara Shah


"چٹاخ۔۔"

پورے کمرے میں تھپڑ کی آواز گونجی تھی۔۔۔وہ گال پر ہاتھ رکھ کر چیختی پیچھے جا گرتی کہ اسکے مضبوط بازوئوں نے اسے تھام لیا۔۔۔


" تم جانتی ہو اگر مجھے زرا سی بھی دیر ہو جاتی تو کیا ہوتا؟؟۔۔"


اسکے گال پر چھپے اپنی انگلیوں کے نشان دیکھتا وہ آپے سے باہر ہوتا چلایا تھا۔۔۔بیتے وقت میں وہ اذیت کی جس بھٹی میں سلگا تھا یہ صرف وہ جانتا تھا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ دنیا کو تہس نہس کردے۔۔۔انکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اسنے زندگی کو اپنے ہاتھ کی پوروں تک جا کر لوٹتے محسوس کیا تھا۔۔زرا سی تاخیر ہو جاتی تو ؟؟۔۔۔ یہ سوچ ہی اسکی دھڑکن روک رہی تھی۔۔۔

" یہ کیا کیا کمبخت ۔۔یہ شرٹ میری عین نے اتنی محبت سے مخجے پریس کر کے دی تھی کمینے انسان۔۔۔۔۔"


وہ بھڑک کر چیختا براق کو سکون دے گیا ۔۔وہ دل جلانے والی مسکراہٹ لبوں پر سجائے گویا ہوا۔۔۔


" بیٹھ جا نوٹنکی باز۔۔اور شرافت سے بول میں کیا کروں۔۔ "


ادکی بات پر آہل بھی خون کے گھونٹ پیتا اسے گھورتے سامنے کرسی پر بیٹھا۔کہ بدلہ ادھار رہا اسکا بھی وقت ائے گا۔۔۔۔


" ہاں تو تجھے کای ضرورت پڑی تھی مہان بننے کی زیادہ اچھا بن کر کیاملا تجھے۔۔۔بس دور دور سے دیکھ کر اہیں بھریو۔۔اسے بتا تو کیا ہے اور ویسے بھی تو اسکاشوہر ہے کچھ حق جتا ۔۔سمجھ تو گیاہو گا نا میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔"

وہ ہوش میں اتی جلدی سے بی جان کا نمبر مالا گئی۔۔۔سانس بند ہونے کہ در پر اگئی تھی۔۔بی جان کا اقرار یا انکار اسے توڑ بھی سکتا تھا ور جوڑ بھی۔۔اسلیے وہ رکتی سانسوں سے انتظار کرنے لگی۔۔جبکہ بھیگی سیاہ انکھوں میں بیتے پل گزر رہے تھے۔۔۔۔


" میں صرف ایک سوار پوچھوں گی بی جان۔۔جس کاجواب مجھے سچ سننا ہے اپ کو ابران کی قسم۔۔۔مجھے بتائیں کہ مجھے خویلی سے کس کے کہنے پر نکالا گیا تھا۔۔۔"

وہ ضبط کیے سرد لہجے میں بولتی بی جان کو دہلا گئی۔۔۔

روحا کیا بول رہی ہو بیٹا۔۔" وہ حیرت کی زیادتی سے جھٹکے سے کھڑیں ہوتیں بولیں تھیں۔۔

" مجھے صرف بتائیں کا کے کہنے پر نکالا گیا مجھے۔۔"


وہ ضبط کھو کر چلاتی بی جان کو ساکت کر گئی۔۔۔ساکن سی سوچ میں پڑ گئیں کہ بتائیں یا نا بتائیں

" جواب دیں بتول شاہ۔۔"

" ابران۔۔۔"

وہ گستاخ ہو کر چیخی جس پر وہ انکھیں موند کر گہرا سانس لیتیں ابران کہتیں تھکن زدہ سے ڈھے گئیں۔۔جبکہ ڈھے تو روحا کی زات بھی گئئ تھی اتنا بڑادھوکہ ۔۔کیا وہ اتنی ازران تھی۔۔۔جو ہر کوئی اکر اس سے کھیل کر چلا جاتا۔۔۔فون ہاتھ سے چھوٹتا ٹوٹ گیا۔۔


وہ گہرے سانس لیتی بیٹھتی چلی گئی اور سیاہ انکھوں میں سمندر سے ابلتا گالوں پر بہنے لگا۔۔۔

" کیوں کیا ایسے کیوں مجھے تباہ کر دیا اپ نے ابر۔۔۔"

وہ چیخ چیخ کر روتی اذیت کی انتہائوں پر تھی۔۔۔جبکہ دوسری طرف بی جان کی نات سنتا ابران بھی اذیت کی انتہا پر پہنچتا ساکت تھا۔۔۔یہ سب یوں نہیں ہونا چاہیے تھا ۔۔وہ دھڑکتے دل سے فون کان سے لگائے میٹنگ ادھوری چھوڑ کر لفٹ کی طرف بھاگا۔۔زندگی ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی تھی۔۔۔۔اسکی روح کیسی یو گی یہ سوچ ہی ابران کا دل بند کر دینے کو کافی تھی۔۔۔


Diltang Tawam Jana By Farwa Khalid

تجھ سے بڑی بے وقوف لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ اتنی بڑی اینکر بنی پھرتی ہے۔ میں نے ایک بار کہہ دیا تو اُس التمش غیدان کے خلاف رپورٹ لکھوانے چل پڑی۔ تجھے اغوا اُس نے نہیں ۔۔۔۔"
وہ بولتے بولتے ماہ رو کے قریب جارہا تھا۔ اِس سے پہلے کے ہاتھ بڑھا کر وہ ماہِ رو کو چھوتا جب دائیں جانب سے چہرے پر ایک زوردار ٹھوکر رسید کی گئی تھی۔ وہ اتنے شدید حملے پر بلبلاتا دور جاگرا تھا۔ بھاری بوٹ کا وار اتنا سخت تھا کہ اُسے اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
ماہ رو نے بھیگی پلکیں اُٹھا کر اچانک نازل ہونے والے اُس فرشتے کو دیکھا تھا۔ مگر مقابل پر نظر پڑتے اُس کی نگاہوں کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں ساکت ہوئی تھیں۔ وہ سانس روکے اُس پتھریلی زمین پر جوں کی توں بیٹھی رہ گئی تھی۔
آف وائٹ قمیض شلوار پر براؤن شال اوڑھے وہ کسی بپھرے زخمی شیر کی طرح اُس نقاب پوش کو بُری طرح پیٹنا شروع کرچکاتھا۔ جسے ایک دو بار ہی زمین پر پٹخنے پر اُس شخص کی جان حلق تک آچکی تھی۔
اُسے پاگلوں کی طرح پیٹتے دیکھ ماہِ رو کا سکتہ ٹوٹا تھا۔ وہ بہت مشکل سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔ جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر سرجھکائے فیروز پر پڑی تھی۔
"روکو اُنہیں وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو فیروز کی جانب دیکھ چلائی تھی۔ مگر فیروز نے اپنا جھکا سر اُٹھانے کی گستاخی نہیں کی تھی۔ وہ ہنوز سر جھکائے ساکت و جامد اپنے باس کے نئے حکم کا منتظر تھا۔
"ایڈیٹ۔۔۔۔"
ماہِ رو اُس التمش غیدان کے روبوٹ پر ایک غصے بھری نظر ڈالتی خود ہی التمش کی جانب بڑھی تھی۔ جسے دوبارہ زندگی میں کبھی مخاطب نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اُس نے۔
"چھوڑیں اُسے۔۔۔۔وہ مرجائے گا۔"
ماہِ رو التمش کے قریب آتی چلائی تھی۔ مگر وہ غضبناکی کی حدود کو چھوتا کچھ بھی سننے سمجھنے سے قاصر بس اُس شخص کو پیٹی جارہا تھا۔ جس نے ماہِ رو آبنوس پر بُری نظر ڈال کر التمش غیدان کے قہر کو آواز دی تھی۔
"التمش میں نے کہا چھوڑیں اُسے۔۔۔۔ وہ مر جائے گا۔"
اُس شخص کے لہولہان وجود کی جانب ایک نظر ڈال کر ہی ماہِ رو خوف سے کانپ اُٹھی تھی۔
جبکہ دوسری جانب اتنے سال بعد اپنے نام کی پکار اُن نازک ہونٹوں سے سنتے التمش غیدان کے ہاتھ وہیں ساکت ہوئے تھے۔ اتنے سالوں سے ساکت پڑے دل میں ہلچل سی پیدا ہوئی تھی۔
"جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔"
التمش اُس پر نگاہِ غلط ڈالے بغیر اُس کی جانب سے رُخ موڑکر کھڑے ہوتے بولا تھا۔
"اُسے اُس کی غلطی کی سزا مل چکی ہے۔ اب مزید اپنے اندر کا گلٹ ختم کرنے کے لیے ایک اور قتل مت لکھوا لیجیئے گا اپنے سر۔"
ماہِ رو اُس پر گہرا طنز کرتے پلٹی تھی۔ جبکہ اُس کا جملہ التمش غیدان کے پہلے سے جلتے سینے میں مزید آگ بھڑکا گیا تھا۔
اُس نے ایک جھٹکے سے مڑتے واپس پلٹتی ماہِ رو کا بازو اپنے آہنی شکنجے میں لیتے اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ اِس جارحانہ عمل کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔ سیدھی التمش کے سینے سے ٹکراتے اُس کے ہونٹوں سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی تھی۔
اُس نے فوراً التمش کے سینے پر دونوں ہتھیلیاں جماتے بیچ میں فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر التمش کی لال انگارہ خود پر جمی آنکھیں دیکھ ماہِ رو کا خون رگوں میں منجمد ہوا تھا۔
اُس کے دھکتے لمس اور چہرے پر پڑتی گرم سانسوں کی تپیش پر ماہِ رو کو اپنا وجود کپکپاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ جس کے خلاف وہ سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر نجانے کیا کیا پروپیگنڈے کرتی پھر رہی تھی۔ اُس کے سامنے آتے ہیں سانسیں حلق میں اٹک چکی تھیں۔
وہ بنا ہلے اُس کے حصار میں ساکت کھڑی تھی۔ جب کان کی لوح پر دھکتی گرم سانسوں کی تپیش محسوس کرتے اُس سے اپنے قدموں پر کھڑا رہنا محال ہوا تھا۔ اگر التمش نے اُسے تھام نہ رکھا ہوتا تو وہ کب کا زمین بوس ہوچکی ہوتی۔
"میں وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوں۔ جس سے اُلجھ کر تم جل کر راکھ ہوجاؤ گی۔ مگر پھر بھی مجھے بجھا نہیں پاؤ گی۔ اور نہ میرے اندر دھکتے شعلوں کی شدت کم کرپاؤ گی۔ اِس لیے تمہارے لیے یہی بہتر ہے میری دنیا میں گھسنے کی کوشش نہ کرو۔ ورنہ تمہارا انجام بہت عبرت ناک بنا دوں گا میں۔"
اُس کے کان میں سفاکیت بھرے لہجے میں سرگوشی کرتا وہ ماہِ رو کے کب سے رُکے آنسوؤں کو باہر کا راستہ دیکھا گیا تھا۔
ماہِ رو نے ایک اذیت بھری نگاہ اُس بے رحم انسان پر ڈالتے اُسے خود سے دور دھکیلنا چاہا تھا۔ مگر التمش کی مضبوط گرفت نے اُسے زرا سا ہلنے بھی نہیں دیا تھا۔
"التمش غیدان اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں۔ میرا سب کچھ چھین لیا تم نے مجھے سے۔ میں بھی تم سے تمہارا سب کچھ چیھن لینا چاہتی ہوں۔ تمہیں بھی ویسی اذیت کا شکار کرنا چاہتی ہوں جیسا تم نے میرا حال کیا تھا۔ تم مجھے اپنی طاقت سے روکنے کی چاہے جتنی مرضی کوشش کر لو۔
میں اپنی آخری سانس تک تم سے نفرت کرتی رہوں گی. اور اپنا انتقام پورا کروں گی۔"
ماہِ رو بہتی آنکھوں کے ساتھ اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتے بولی تھی۔
اُس کے ہر بہتے آنسو کے ساتھ التمش کی گرفت اُس کے بازو پر مزید مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ التمش کا بس نہیں چل رہا تھا۔ ہر چیز تہس نہس کردے۔ کیوں ہر بار یہ لڑکی اُس کے سینے میں آگ دہکا دیتی تھی۔ کیوں اُسے سکون سے جینے نہیں دیتی تھی۔ ۔اتنی نفرت کے باوجود اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو التمش غیدان کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہورہے تھے۔
اِس سے پہلے کے وہ کمزور پڑتا اُس نے ماہِ رو کو اپنے شکنجے سے آزاد کرتے اپنا رُخ موڑ لیا تھا۔
"جاؤ۔۔۔۔۔جو کرنا چاہتی ہو میرے خلاف کرو۔۔مگر میری ایک بات یاد رکھنا التمش غیدان ایک ایسی چٹان ہے جسے تم چاہ کر بھی توڑ نہیں پاؤ گی۔ اور جب مجھے لگا تم اِس چٹان سے ٹکراتی ہار رہی ہو تو پھر جواباً میرا وار سہنے کے لیے تیار ہوجانا۔ جس سے بچنا تمہاری نازک جان کے لیے ناممکن ہوگا۔ اِس لیے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ۔ ورنہ مجھے ہرانے میں ناکامی پر جو سزا میں تمہیں دوں گا، وہ تمہیں شاید پسند نہ آئے۔"

التمش کی بات میں چھپا معنی خیز مفہوم وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔ اتنی سنگین سچویشن کے باوجود ماہِ رو کا چہرا سُرخ ہوا تھا اور کانوں کی لوحیں دہک اُٹھی تھیں۔


Jaan E Bewafa By Rimsha Hayat


پلیز میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔جو بھی میں نے تمھارے ساتھ بدتمیزی کی اُس کے لیے مجھے معاف کر دو سیرت نے شفیق کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔


تجھے کیا لگتا ہے اب میں تجھے یہاں سے جانے دوں گا؟

شیر کے سامنے شکار ہو اور وہ اُسے نا کھائے تو ایسا تو نہیں ہو سکتا نا اور تمھارے جیسی حسین لڑکی کو میں جانے دوں ایسا تو بلکل بھی نہیں ہو سکتا شفیق نے خباثت سے کہتے اپنے قدم سیرت کی طرف بڑھائے۔


سیرت وہاں سے اُٹھ کر دروازے کی طرف بھاگنے لگی شفیق نے اس کو بازو سے پکڑنا چاہا تو وہاں سے کچھ کپڑے کا ٹکرا پھٹ کر شفیق کے ہاتھ میں آگیا۔

شفیق نے اسے دوبارہ بازو سے پکڑ کر اس کے منہ پر زور دار تھپڑ دے مارا جو دیوار کے ساتھ لگنی کی وجہ سے زمین پر جا گری اور ماتھے سے بھی اسکے خون نکلنے لگا تھا۔


سیرت نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے سامنے سے آتے درندے کو دیکھا اس نے ارد گرد نظریں دوڑائی اس سے پہلے شفیق سیرت کی طرف آتا اس نے پاس پڑا گلدان پکڑا اور زور سے کھڑے ہوتے شفیق کے سر پر دے مارا۔

ابھی وہ اسی حملے سے سنبھلا نہیں تھا کہ سیرت نے دوبارہ گلدان اس کے سر پر دے مارا جو وہی اپنے سر پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھ گیا تھا خون زیادہ نکل رہا تھا۔


تجھے میں چھوڑوں گا نہیں شفیق نے گالی دیتے دروازہ کھولتی سیرت کو دیکھتے کہا۔

جس نے شفیق کی بات کو اگنور کیا اور باہر بھاگ گئی اس وقت اس کا مقصد یہاں سے باہر نکلنا تھا۔

باہر چوھدری کے آدمی کھڑے تھے۔

سیرت ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ کیسے یہاں سے باہر جائے ایک آدمی نے آکر کہا کہ چوھدری صاحب سب کو اندر بلا رہے ہیں چھوٹے چودھری بےہوش ہو گئے ہیں یہ کہتے ہی سب لوگ اندر چلے گئے اور سیرت کو یہی موقع بہتر لگا اور چوھدری کے گھر سے باہر نکل گئی۔


اس وقت وہ جس حلیے میں تھی کوئی بھی دیکھتا تو غلط ہی سمجھتا ایک بازو پھٹا ہوا تھا بکھرے بال چہرہ سوچا ہوا اور ڈوپٹہ تو شاید کہی گر گیا تھا بس وہ یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔

Dildaar Masiahye Dil By Faiza Sheikh

ماہا دروازہ کھولو یار۔۔۔۔" صنم اور صالح کے جانے کے بعد وہ کب سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا مگر ماہا ناں تو دروازہ کھول رہی تھی ناں ہی کچھ بول رہی تھی۔۔ جسکی وجہ سے ابتہاج زیادہ پریشان تھا۔۔
ماہا اگر ابکی بار دروازہ ناں کھولا تو میں پھر سے چلا جاؤں گا اور تم چاہے جو مرضی کر لو میں واپس نہیں آؤں گا۔۔۔
ابتہاج نے آخری پینترا آزمایا اسے یقین تھا کہ ابکی بار وہ دروازہ کھول دے گی ۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔
ابتہاج نے لب بھینجتے ماہا کے چہرے پر مٹے مٹے آنسوں کے نشانات دیکھے۔۔
روئی کیوں تم۔۔۔۔۔" اپنے بھاری قدم اٹھائے وہ گھبیر بھاری لہجے میں بولتا ماہا کے قریب ہوا تو ماہا نے قدم پیچھے لیتے اسے دیکھا۔۔۔
کیوں بتاؤں ویسے ہی دل چاہ رہا تھا رونے کو اسی وجہ سے روئی ۔۔۔۔۔ وہ ناک چڑھائے بولی تو اسکے انداز اور یوں روٹھنے پر ابتہاج کے چہرے پر مسکان آئی، وہ قدم بڑھائے اسکے قریب ہونے لگا۔ کہ ماہا نے اسکی کوشش بھانپتے قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔۔ ابتہاج نے ایک دم سے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے اسے تھامنا چاہا مگر ماہا اسکی کوشش کو بھانپتے تیزی سے الٹے قدم چلتی پیچھے کو ہونے لگی کہ معا اسکے پاؤں بری طرح سے مُڑا تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتی ابتہاج کا بھاری ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل ہوتے اسے گرنے سے بچا گیا۔۔۔
ابببب ابتہاج۔۔۔۔۔۔" وہ ڈرتے ابتہاج کے کندھوں کو تھامے حراساں سی بولی تو ابتہاج نے اسکی کمر کو سہلاتے اسے پرسکون کیا، جو اس وقت بالکل ڈری ہوئی تھی۔۔
اشششش کچھ بھی نہیں تم ٹھیک ہو ماہا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔" اسکا ڈر بھانپتے ابتہاج نے نرمی اسکے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے کہا تھا جبکہ ماہا نے فورا سے کپکپاتے ہوئے سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔
نننن نہیں اگر میں گر جاتی تو میرا ببب بچہ ۔۔۔۔۔ابب ابتہاج ممم مجھے کک نن نہیں یہ ہوتا مم مگر ممم میرا بب بے بی۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پہلے بھی اپنے بچے کو کھو چکی تھی ۔۔۔ اسکا دماغ بالکل سن سا پڑ گیا تھا اسکے دل و دماغ میں صرف ایک بات گھوم رہی تھی کہ وہ پھر سے اپنے بچے کو کھو دیتی۔۔۔۔ "
ماہا میری جان کچھ بھی نہیں ہوا ریلیکس رہو میری جان میری زندگی۔۔۔۔" اس وقت ماہا کو سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا تھا ابتہاج کیلئے وہ جانتا تھا کہ وہ کس خوف ڈر کے تحت یہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔۔ جبھی تو وہ اسے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
ماہا اپنے سینے میں اترتی ابتہاج کی دہکا دینے والی سانسوں کو محسوس کرتے پل بھر میں آسکی قربت میں ی۔۔۔۔ ابتہاج کے لمس میں نرمی تھی وہ اسے محبت سے چھوتے اسکا سارا ڈر خوف نکالنا چاہتا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا۔۔

ماہا ابتہاج کی قربت میں سب کچھ بھلائے اسکی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ابتہاج اسے پرسکون ہوتا دیکھ نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے پیچھے ہوا اور ماہا کے سرخ پڑتے چہرے پر آنسوں کے نشانات دیکھتے ابتہاج نے اپنے ہاتھ کی پشت سے ماہا کے رخسار کو سہلایا۔۔۔ ماہا ابتہاج کے ہاتھ کے سخت لمس کو محسوس کرتے بےچین سی ہوتے اسے دیکھنے لگی جو اسکی آنکھوں میں دیکھتا اپنے ہونٹ ماہا کے رخسار پر رکھتے اسکے انسںوں کے نشانات کو چھونے لگا۔

Shiddat E Lams By Faiza Sheikh

ہنیزہ فریش ہو کر باہر نکلی اور اپنے گیلے بال تولیے سے آزاد کیے پنک فراک وائٹ چوڑی دار پاجامے میں اس وقت وہ مہکتا گلاب لگ رہی تھی اس کے وجود کی دلفریب مہک ،نم بالوں سے گرتی پانی کی بوندیں ایک الگ ہی سما باندھ رہیں تھیں

ہنیزہ نے کوفت سے برش ہاتھ میں پکڑے اپنے بالوں کو دیکھا جو اس سے سلجھتے ہی نہیں تھے اسے رونا آنے لگا


"گنننندےےےے ہو ۔۔۔ ککککیوں نیییی ٹھیکک ہوتے ۔۔۔۔ میںنن عاشو ووو ککو بووولنگی ۔۔۔۔ وہ کٹ کرینگے تمممہیں "

وہ بڑے مصروف انداز میں بالوں کو سلجھاتی رازدارانہ گفتگو کر رہی تھی ۔۔۔۔ جہاں اس کی گفتگو پر کسی کے پتھریلے تعصرات ۔۔۔۔ میں نرمی آئی تھی ۔۔۔ وہیں عاشو کا نام سن کر ماتھے پر لاتعداد بلو ں کا اضافہ ہواتھا اسے محسوس ہوا تھا کہ کسی نے کھولتا ہوا پانی اس کے وجود پر ڈال دیاہو وہ سرخ نظروں۔سے بلیک روم میں بیٹھا اسکرین کو گھور رہا تھا

اور پھر ایک ہی جھٹکے سے اس نے لیپ ٹاپ دیوار پر دے مارا

"ہنیزہ میکال ایک بار پھر اس کی انا پر کاری وار کر چکی تھی جسکا اسے اندازہ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔


ہنیزہ کی جدو جہد بالوں سے جاری تھی جب اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرکے وہ پیچھے مڑی

اور اپنے بلکل سامنے کھڑے ''عابس سلطان"کو دیکھ اس کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں ۔۔۔۔ جسم کھڑے کھڑے کانپنے لگا تھا


وہ پلکیں بار بار جھپکتی اپنی اوشن نیلی آنکھوں سے اس کی سرد ہیزل گرین آنکھوں میں دیکھ رہی تھی پر ایک لمحےسے زیادہ نہ دیکھ پائی ۔۔۔۔ اس تعصر کو جس نے اس کا معصوم سا وجود لرزا دیا تھا ۔۔۔

عابس قدم قدم بڑھتا اس کے قریب آنے لگا ۔۔۔۔. جبکہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ ہنیزہ کا سانس اوپر کا اوپر ہی رہ گیا وہ ہونٹوں پر اپنی مخروطی انگلیاں جمائے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔

عابس نے اسے دور جاتا دیکھ تمسخرانہ انداز میں لبوں کو مسکراہٹ میں۔ڈھالا

"کیاہوا 'ہنیزہ میکال 'میرے بھائی کی باہوں میں بڑے آرام سے نیند کے مزے لوٹ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ اور مجھ سے اس قدر دوری ۔۔۔ یہ تو نا انصافی ہے نا ۔۔۔۔ بابا کی ہنییییییی "

عابس کا لہجہ مکمل بہکا ہوا تھا ۔۔۔۔ ایک جنون بے معنی سا تھا جس کی رو میں بہکتا وہ سب فراموش کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ اس کی نفرت اس کا پاگل۔پن سب کچھ صرف ہنیزہ میکال۔سے منسوب تھا ۔۔۔۔


اس کے جواب نا دینے پر عابس نے آنکھیں سکیڑیں ۔۔۔.

اور ایک ہی جست میں اسے خود کے قریب کرتا بیڈ پر بٹھا گیا یہ سب ایک پل میں ہوا تھا ہنیزہ پلک جھپکتے بیڈ پر تھی

اسے محسوس ہوا کہ ہوا کا کوئی جھونکا اسے چھو کر گزرا ہے عابس سلطان نے اسے ایسے چھوا تھا کہ وہ محسو س تک نہ کر سکی ۔۔۔۔۔


بس آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھرتی اپنی موت کی دعاِئیں مانگنے لگی


Shanasay E Yaar By Zainab Faiza

ععع عععاللللمم_____" اصلال عالم کی آنکھوں میں چھائی خمار کی سرخی عبادت کو لرزنے پر مجبور کر گئی وہ سہمی حراساں سے اسکے کشادہ سینے پر اپنے نازک ہاتھوں سے دباؤ ڈالتی اسے خود سے دور کرنے لگی جو کسی سائے کی طرح عبادت پر جھکا اسکی سہمی نظروں میں دیکھ اسے مزید خوفزدہ کر گیا۔۔۔

اب بولو میں کیا ہوں۔۔۔۔۔" وہ اطمینان سے اپنے دونوں ہاتھ عبادت کے دائیں بائیں تکیے پر ٹکائے انہماک سے اسے دیکھ استفار کرنے لگا ۔۔۔ عبادت نے تھوک نگلتے خود کو بچانے کا کوئی بہانہ ڈھونڈنا چاہا مگر برا ہو قسمت کا جو عین وقت پر اسے کوئی بھی بہانہ نہیں ملتا تھا۔۔

آپ ایک اچھے شریف بہت سمجھدار انسان ہیں۔۔۔۔۔!" اپنی سنہری آنکھیں اصلال عالم کی سیاہ آنکھوں میں گاڑھتے وہ معصومیت سے اسکی تعریف کرتی اصلال کو کوئی چالاک لومڑی لگی تھی۔۔۔

اچھا تو میں شریف ہوں۔۔۔"اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی عبادت کے دائیں گال پر پھیرتے وہ اسکے رونگٹے کھڑے کر گیا۔۔۔ بولیں مسزز عالم کیا میں شریف ہوں۔۔۔وہ لفظوں پر زور دیتا تیز لہجے میں تصدیق کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔ وہ سنتی اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔

اہا سمجھدار بھی ہوں۔۔۔۔۔۔" وہ ائبرو اچکاتے انگلی اسکی ناک پر لے جاتے پوچھنے لگا۔۔۔وہ سرخ چہرے سے لرزتے وجود سے اصلال کے بھاری وجود کے نیچے دبی سی پڑی تھی۔۔۔۔ دھڑکنوں کا شور الگ سے طوفان مچا رہا تھا رہی سہی کسر اصلال عالم کی قربت نے نکال دی تھی۔۔

عبادت  مرتی کیا ناں کرتی کی مصداق کے تحت سنتی سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔تو پھر میں جو بھی کہوں گا وہ بھی ٹھیک ہو گا۔۔۔" وہ گہرے لہجے میں معنی خیز سا پوچھ رہا تھا۔ عبادت تو اسکے خوف سے اسکے لہجے کی وارننگ کو سمجھ تک ناں سکی۔۔ وہ پھر سے تابعداری کا مظاہرہ کرتی گردن ہاں میں ہلا گئی۔۔

دھین کس می ناؤ_____" وہ مخمور نگاہوں سے انگلی سرکاتے عبادت کے سرخ ہونٹوں پر رکھتے گھبیر لہجے میں سرگوشی کرتے بولا عبادت سنتی دہل سی گئی۔۔۔وجود جیسے جھٹکوں کی ضد میں تھا۔۔۔اسے لگا کہ شاید اسے سننے میںں غلطی ہوئی تھی کیونکہ وہ ہر طرح کی حرکت کا سوچ سکتی تھی مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اصلال عالم اسے ایسا ویسا کچھ بھی کہے گا۔۔۔

وہ تھوک نگلتے اپنی آنکھوں  میں ڈھیروں آنسوں لائے اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔اشششش روؤ مت یہ۔صرف مجھے تڑپانے کی سزا ہے۔۔۔۔!" عبادت کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کیے اپنے دہکتے ہونٹوں سے اسکی گردن کو چومتا مدہوش سا ہو گیا۔۔۔۔

عبادت کا پورا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔۔۔۔ اسے شدید افسوس ہوا کاش کہ وہ چلی جاتی تو اس وقت اسے اس مگرمچھ کے اس قدر بھیانک روپ کا سامنا ناں کرنا پڑتا۔۔۔۔۔

پپپ پلیز ععععع عععاللممم۔۔۔۔۔۔وہ آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لائے منت کرتی سوں سوں کرنے لگی۔۔۔ اصلال نے ناک سکیڑتے اسے گھورا۔۔۔ اچھا تمہارے پاس دو آپشن ہیں اگر منظور ہے تو بتاؤں۔۔۔۔۔"

وہ انگلی پر اسکے سنہری لٹوں کو لپیٹتا بہکی نگاہوں سے اسکے سراپے کو دیکھے پوچھنے لگا۔۔۔۔ ہہہ۔ہاں۔۔۔۔۔ عبادت بنا سنے فورا سے حامی بھر گئی۔۔۔۔ خود سے کس کرنے سے بہتر تھا کہ وہ اسکی کوئی بھی شرط مان۔لیتی۔۔۔۔ ویری گڈ بہت سمجھدار ہو۔۔۔۔۔؛ "میں ابھی تمہیں فورس نہیں کروں گا مگر شادی کے بعد تم خود مجھے کس کرو گی منظور ہے۔۔۔۔"

عبادت کی گردن پر جابجا اپنا۔لمس چھوڑتے وہ لب دبائے پوچھنے لگا۔۔۔۔

عبادت نے آنکھیں میچتے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔اصلال عالم کا شدت بھرا لمس اپنی گردن پر سرکتا محسوس کرتی وہ لرزتی کپکپاتی بھاری سانس لیتے خود کو مضبوط بنا رہی تھی۔۔ اور دوسری یہ کہ تم ابھی اپنی بانہیں میری گردن میں ڈالے مجھے خود سے نزدیک کرو گی کہ میں تمہیں تمہاری غلطی کی سزا دے سکوں۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کی تھوڑی کو چومتے بولا۔۔

عبادت نے جھٹکے سے اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کرنا چاہا مگر اصلال نے جھٹ سے اسکے بازوؤں تھامے اپنی گردن میں حائل کیے ، اور ایک دم سے اسکے ہونٹوں پر جھکتا وہ شدت سے اسکی دہکتی سانسوں اسکے نرم و ملائم ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتا مدہوش سا ہو گیا۔۔

************

وہ کب سے گیٹ کے پاس کھڑی اصلال کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔ اب تو کھڑے ہو کر بھی اسکی ٹانگوں میں درد سا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ کل رات کو اصلال کی شدتوں کی وجہ سے وہ کافی خفا تھی اس سے۔۔۔۔۔ جو اچھے طریقے سے اسکا دماغ ٹھکانے لگائے اسے جاتے وقت یہ بتا گیا تھا کہ کل وہ کسی میٹنگ کیلئے لاہور جا رہا ہے اور اسے جلدی نکلنا تھا جبھی اسے حکم دیا تھا کہ جاتے وقت آنش کے ساتھ جائے مگر واپسی پر وہ خود اسے پک کرے گا۔۔۔

عبادت ساری رات اسے بدعائیں دیتے سوئی تھی اور پھر صبح اسنے انش کو بھی لینے آنے سے منع کر دیا تھا اور اب لاڈ صاحب خود ہی غائب تھے۔۔۔سارا کالج حالی تھا مگر کالج کی۔پرنسپل اور ٹیچرز ابھی تک یہیں تھے کسی میٹنگ کے سلسلے میں ۔۔۔۔ عبادت نے سوچ لیا تھا کہ اگر تو وہ میٹنگ ختم ہونے تک آ گیا تو ٹھیک نہیں تو وہ پرنسپل سے سیل لیتے وہ آنش یا پھر پاپا کو کال کرے گی اور اصلال عالم کو خوب ڈانٹ بھی پڑوائے گی۔۔۔۔

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب چوکیدار چلتا اسکے قریب آتے اسے مخاطب کرنے لگا۔۔۔ عبادت جھٹکے سے ہوش میں آتی اسے دیکھنے لگی۔۔ جج جی۔۔۔۔۔!" وہ سہمی سی پوچھنے لگی۔۔۔ بیٹا باہر کوئی آیا ہے آپ کو بلا رہے ہیں___!"

عبادت کے چہرے پر سنتے ہی خوشی کی۔لہر دوڑی تھی وہ خجاب ٹھیک کرتے بیگ اٹھائے کندھے پر ڈالے باہر نکلی مگر سامنے ہی کسی اور مرد کی پشت کو دیکھ وہ پہچان چکی تھی کہ وہ اصلال نہیں تھا۔۔۔۔

اپپ کک کون۔۔۔۔؟" وہ چونکتے حیرانگی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔ السلام علیکم عبادت میں تمہارا کزن قاسم بیگ۔۔۔۔۔۔" عبادت کی دھیمی باریک آواز سنتے قاسم کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑی تھی وہ رخ موڑتے سنجیدہ سا ہوتے اسے آگاہ کرنے لگا۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔۔!"بھائی میں پہچان گئی ہوں آپ کو،مگر آپ یہاں۔۔۔۔۔"ہمیشہ کی طرح اپنے سخت لہجے میں کہتے وہ اسے دیکھتے پوچھنے لگی___ عبادت کے بھائی کہنے پر وہ لب بھنجتے اپنے اشتعال کو دبائے عبادت کے حسین چہرے کو دیکھتا خود کو ریلکس کرنے لگا۔۔۔

ہاں یہاں سے گزرا تو مجھے ایسا لگا کہ تم یہیں کالج میں ہو پھر واچ مین سے پوچھا تو اسنے میرے شک کی تصدیق کر دی آؤ گھر چھوڑ دوں۔۔۔" وہ مسکراتا۔ہلکے پھلکے انداز میں بتاتا مسکرا رہا تھا۔۔

عبادت کو اسکا بہانہ بے تکا لگا بھلا اسے کیسے شک پڑا کہ وہ اندر ہے۔۔۔۔

نہیں آپ زخمت مت کریں عالم آتے ہوں گے میں انکے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔" قاسم کی نظروں سے حائف وہ دانت پیستے ہوئے بولی تو قاسم نے سنتے گہرا سانس بھرا۔۔۔

میں لاہور سے ہی آ رہا ہوں عبادت میٹنگ کب کی ختم ہو چکی ہے عبادت کسی دوست کی پارٹی میں انجوائے کر رہا ہے میں نے کہا بھی کہ چلو ایک ساتھ چلتے ہیں مگر وہ نہیں مانا مجھے ماما کو ہاسپٹل لے کر جانا تھا تو میں جلدی سے واپس آ گیا ویسے بھی مجھے ایسی پارٹیز پسند نہیں۔۔۔۔"

عبادت کے جھکے چہرے اسکے پھیلی آنکھوں میں بے یقینی غصہ دیکھ وہ مسکراہٹ روکنے لگا۔۔۔اگر تمہیں انتظار کرنا ہے تو کر لو۔۔۔میں نے اس لئے کہا تھا کیونکہ میں گھر ہی جا رہا ہوں۔۔۔۔" وہ کہتا دوبارہ سے گاڑی کی جانب بڑھا ۔۔۔

جبکہ عبادت کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے کسی نے سلگتے سیسے لگا دیے ہوں ۔۔۔ اصلال عالم کی نظروں میں اپنی اہمیت جان کر اسکا روم روم دکھی تھا۔۔۔ رکیں بھائی مجھے ڈراپ کر دیں۔۔۔۔"

وہ فورا سے فیصلہ لیتے مضبوط لہجے میں بولی قاسم نے مسکراتے اپنی چال کامیاب ہونے پر خود کو داد دی۔۔۔اور پھر مسکراتے اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولا۔۔۔۔ میرے سوا کسی کے ساتھ فرنٹ سیٹ شئیر مت کرنا کبھی۔۔" اصلال عالم کی رات کو کی مدہوش سی مگر سخت سرگوشی اسکے دماغ میں گھومی مگر غصہ اس وقت اس قدر تھا کہ وہ بنا سوچے سمجھے جھٹ سے بیٹھی تھی۔۔۔

اپنی کامیابی پر سامنے ہی دوسری گاڑی میں بیٹھی امل نے مسکراتے ساتھ موجود پروفیشنل فوٹو گرافر کو اشارہ کیا جس نے بہت اچھے سے قاسم اور عبادت کا مسکراتا ایک دوسرے کا دیکھتا چہرہ قید کیا تھا۔۔۔۔

آئسکریم کھاؤ گی۔۔۔۔" اسنے جان بوجھ کر گاڑی آئسکریم پارلر کے سامنے روکے مسکراتے پوچھا۔۔۔ ننن نہیں گے گھر لے چلیں۔۔۔۔ اصلال عالم کو اگر بھنک بھی پڑی تو اسکا کیا حال ہو گا یہ سوچ سوچ کر ہی اسکا چہرہ پسینے سے تر تھا۔۔

وہ جلدی سے اس گھٹن سے نکلتے اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔۔۔۔ ارے یار پہلی بار آئی ہو ایسے تو نہیں جانے دوں گا۔۔۔۔" وہ مسکراتا عبادت کے سراپے کو گہری نظروں سے دیکھتا سٹاربری فلیور منگوا گیا۔۔۔۔

عبادت بری طرح سے ڈری انگلیاں چٹخاتے گھر جانے کو بےچین تھی مگر وہ قاسم سے بدتمیزی بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔

قاسم نے ائیسکریم لیتے اسے خیال میں کھویا دیکھ سامنے امل کی گاڑی کو دیکھا اور پھر جان بوجھ کر اسکے ناک پر مسکراتے ائیسکریم لگا دی۔۔۔۔ییی یہ کیا آپ نے۔۔۔۔.!" وہ جو اصلال عالم کو سوچ رہی تھی اچانک سے قاسم کی اس حرکت پر حیرت زدہ سی اسے دیکھتے سخت لہجے میں پوچھنے لگی۔۔۔

سوری یار پتہ نہیں کیسے ہو گیا۔۔۔۔؟" وہ شرمندگی چہرے پر سجائے مظلومیت طاری کرتے بولا تو عبادت جل بھن کر رہ گئی۔۔۔ مجھے گھر لے چلیں پلیز مجھے نہیں کھانی۔۔۔۔۔" وہ کھردرے لہجے میں کہتے رخ موڑتے بیٹھ گئی۔۔۔

تو قاسم نے کندھے اچکاتے اسکی پشت کو اور پھر آئسکریم کو دیکھا وہ مسکراتا ائیسکریم کے اس حصے سے بائٹ لینے لگا جسے عبادت کی ناک سے مس کیا تھا۔۔

آنکھیں موندے وہ ٹیسٹ کرتا باقی کی ائیسکریم باہر پھینک گیا۔۔۔۔ شکریہ بھائی آپ کا ۔۔۔۔۔" گیٹ پر پہنچتے ہی وہ تشکر بھرا سانس لیتے باہر نکلی۔۔ قاسم بھی اسکے ساتھ ہی نکلا تھا ۔۔۔۔

عبادت اسے شکریہ ادا کرتے تیزی سے اندر جانے لگی کہ معا قاسم نے پاؤں اسکے سامنے کیا۔۔۔جس سے وہ بیلنس کھوتے چیختے نیچے گرنے لگی کہ قاسم نے آگے ہوتے اسے بانہوں میں بھرتے اسکی کمر کو مضبوطی سے تھاما۔۔۔۔۔

عبادت کا پورا وجود قاسم کے لمس پر سن سا۔پڑ گیا وہ حواس بافتہ سے اسے دھکہ دیے ایک دم سے سرخ چہرے سے پیچھے ہوتی اندر بھاگی تھی۔۔۔ جبکہ اسکے جانے کے بعد وہ بالوں میں ہاتھ چلاتا سیٹی کی دھن پر امل کی گاڑی کو آنکھ دبا گیا۔۔۔۔

فضا میں امل کا معنی خیز قہہقہ بلند ہوا تھا۔۔۔

***********

Wo Ishq Jo Humse Rooth Gaya By Yusra 

” اسکا دم گھٹنے لگا وہ چیخنا چاہتی تھی۔۔۔۔ لیکن اسکے ہونٹوں پے مضبوط ہاتھ کی گرفت تھی کوئی اسے اپنی باہوں میں اٹھا رہا تھا۔۔۔۔ بہت احتیاط سے اسے بیڈ پے لٹایا۔۔۔۔ نور نے سختی سے بیڈ شیٹ کو مٹھی میں جکڑا وہ پرفیوم اور سیگریٹ کی بھینی بھینی خوشبو اپنی سانسوں میں اُترتی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔ ازلان اسکی آنکھوں کی جنبش اور پھڑپھڑاتے ہونٹوں سے جان چکا تھا وہ جاگ گئی ہے۔۔۔۔۔ آنکھیں کھولتے ہی نور کا چہرہ یکدم فق ہوگیا وہ اس پے جھکا تھا اسکی گرم سانسیں نور کا چہرہ جلسا رہی تھی۔۔۔۔ رات کی تنہائی میں وہ اسکے بہت قریب تھا۔۔۔۔ نور کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔۔ اسے وہ درد ناک راتیں یاد آنے لگیں وہ خوفزدہ آنکھوں سے اسے تک رہی تھی۔۔۔۔۔
” کیوں کیا تم نے؟؟ “
وہ تیز چلتی سانسوں کے ساتھ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔ اسکا گلہ پیاس کی شدت سے خشک ہوچکا تھا۔۔۔۔ وہ کہتے ہی مزید اس پے جھکا تھا نور کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ طاری ہونے لگی۔۔۔ وہ اسکی گردن پے انگلی پھیرنے لگا۔۔۔۔
” جانتی ہو جب سے تم نے خود کشی۔۔۔۔۔“
ازلان سے بولا نہ گیا سوچتے ہی اسکے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ اگر اسے کچھ ہوجاتا کیا کرتا وہ۔۔۔؟؟؟  
” تمہیں اندازہ ہے کتنا بڑا گناہ کرنے جارہی تھی تم۔۔۔۔؟؟؟ جانتی ہو کل پوری رات میں سو نہ سکا۔۔۔۔ تمھاری باتیں مجھے یاد آنے لگیں۔۔۔۔ کل پہلے دفعہ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر دوبارہ لہرایا۔۔۔۔ وہی منظر فرق صرف اتنا تھا عمر کی جگہ تم۔۔۔۔۔ آ۔۔۔۔۔ نور میں عمر کا غم برداشت کر گیا لیکن تم۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ تم میں اور اس میں فرق ہے تم میری روح کا حصہ ہو۔۔۔۔۔ تمہارے بغیر میں کیسا جیتا “
نور کا دل چاہ رہا تھا اپنے کان بند کرلے اس کی روز کی تقریر سے وہ اُکتا چکی تھی۔۔۔۔ ازلان کی ساری باتیں جھوٹی لگتیں اب کیا فائدہ تھا ان بے مقصد باتوں کا۔۔۔۔ ایک آنسو اسکی آنکھ سے بہہ کے تکیے میں جذب ہوگیا نور نے ازلان کا بڑھتا ہوا ہاتھ دیکر اسکے سامنے ہاتھ جوڑدیے۔۔۔۔۔
” مجھے معاف کردیں پلیز مجھ سے دور رہا کریں۔۔۔۔ مجھے اپنے حال پے چھوڑ دیں مت بات کیا کریں مجھ سے اب تو مجھے بخش دیں ازلان۔۔۔۔ میں نفرت کرتی ہوں آپ سے شدید نفرت۔۔۔۔ جب ہنستے مسکراتے ہوئے میں آپکو دیکھتی ہوں تو میرے خوشی غائب ہوجاتی ہے۔۔۔۔ میرے ہنسی کہیں کھو جاتی ہے۔۔۔۔ میں آپکو اپنے آس پاس برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اب یہ ناٹک کیوں۔۔۔۔؟؟ اچانک سے میرے لیے محبت کیوں کبھی رحم نہیں آیا ہمدردی نہیں ہوئی اب محبت۔۔۔۔؟؟؟ 
میں نے آپکا وہ روپ دیکھا ہے جسے شاید آپ خود بھی واقف نہیں۔۔۔ وہ سب لوگ جو آپ کی محبت کے قصیدے پڑھتے تھے۔۔۔۔ وہ اس وقت نہیں تھے جب دن رات میں آگ میں جلتی تھی۔۔۔۔ وہ آکر پوچھیں مجھ سے کون ہے ازلان شاہ۔۔۔۔؟؟؟ تو میں انہیں بتاؤں ایک بے رحم انسان جو دوسروں سے رحم کی امید رکھتا ہے۔۔۔۔ آگر آپ نہیں چاہتے میں یہاں سے جاؤں تو دوبارہ یہ حرکت مت کیجیئے گا۔۔۔۔۔“ 
وہ جو اس پے جھکا تھا اسکے زہرخند الفاظ سن کے پیچھے ہوا۔۔۔۔ یہی موقع تھا جب وہ بیڈ سے اپنا دوپٹا اٹھا کے وہاں سے بھاگ آئی۔۔۔۔  
                         ☆.............☆.............☆
ایک ہفتے سے وہ یونی جا رہی تھی۔۔۔۔ اور اب تو اسکا اپنا گروپ بھی بن چکا تھا۔۔۔۔ لیکن عمر سے وہ سخت پریشان تھی جو روز اسکی یونی آدھمکتا۔۔۔۔ اس لیے آج وہ اسے اکیلا پاکر اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔
” بھائی ایک بات تو بتائیں “
” جی پوچھیں مسز شاہ زَر “
وہ ہنستے ہوئے بولا حیا گھور کے رہ گئی۔۔۔۔ اب یہ روز کا معمول بن چکا تھا۔۔۔۔ عمر نکاح کے بعد ہاتھ دھو کر اِس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔۔۔۔ اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔۔۔۔
” اس دن آپ میری یونیورسٹی میں پیزا لیکر آئے تھے۔۔۔۔ اور اتنے پیار سے اپنی ہاتھوں سے کھلا رہے تھے۔۔۔۔ جان سکتی ہوں بہن سے اتنی محبت کب سے ہوگئی۔۔۔۔؟؟؟؟ “ 
عمر اک لمحے کے لیے چُپ ہو گیا۔۔۔۔ وہ ٹی وی دیکھتا ساتھ پوپ کارن سے انصاف کر رہا تھا کے حیا اسکے پاس آدھمکی۔۔۔۔
” وہ ایکچولی۔۔۔۔میں “
” اور ہاں یہ چھٹی میں آج کل آپ کیوں لینے آتے ہیں میں پوائنٹ سے آسکتی ہوں “
وہ اسکے ہاتھ سے پاپ کارن چھین کر کھانے لگی۔۔۔۔
" میرے بہن اب پوائنٹ میں آئیگی؟؟؟ “ 
وہ اسے گھور کے بولا اور پاپ کورن واپس چھینے۔۔۔۔
" اچھا اور جب میر بھائی نے آپکو کہا تھا۔۔۔۔ مجھے پک اینڈ ڈراپ دیں تو کیسے کہا تھا پوائنٹ میں آجانا آسمان سے اُتری پری نہیں ہو جسے لینے پہنچ جاؤں۔۔۔۔!!! اور اب جب میر بھائی کے ساتھ آنے لگی ہوں تو اچانک سے آپکو بہن کا خیال آگیا۔۔۔۔؟؟؟ شرافت سے بتائے روز کیوں آجاتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟ ورنہ مما کو بتائونگی۔۔۔۔۔“ 
وہ بوکھلاتا ہوا خود پے قابو کرتے کہنے لگا۔۔۔۔۔
” اوہ میرے پیاری بہن وہ بس ایسے ہی مجھے خیال آیا ایک ہی تو بہن ہے۔۔۔۔ اب اس کی بھی زمیداری نہیں لوں اور یار بھائی بھی تو کتنے بزی رہتے ہیں بس تبھی “
” یہ میرے سوال کا جواب نہیں “
وہ مسلسل اسے گھورے جا رہی تھی۔۔۔۔
عمر کو لگا آج وہ اسے بلوا کے چھوڑے گی۔۔۔۔ اب وہ اسے کیسے بتاتا کے میر بھائی کے کہنے پے ایک دن جب وہ اسے لینے گیا۔۔۔۔ تو  وہاں اسکی دوست کو دیکھ کر وہ اپنا دل ہار بیٹھا۔۔۔۔ اس سے پہلے کے عمر کی شامت آتی علی کی آواز نے دونوں کو اس طرف متوجہ کیا۔۔۔۔
” اسلام و علیکم “
” ارے وعلیکم اسلام میرے بھائی کیسے ہو۔۔۔۔؟؟اور ٹیسٹ کیسا ہوا۔۔۔۔؟؟ “ عمر کی جان میں جان آئی۔۔۔۔
” اچھا ہوا تم سناؤ۔۔۔۔؟؟ “ وہ حیا کو مکمل طور پے نظر انداز کر رہا تھا۔۔۔۔
” بس یار نہ پوچھو زندگی میں کتنے غم ہیں ابھی مڈز ختم ہونے کی خوشی نہیں منائی تھی کے تھڑڈ سمسٹر کے پیپرز اسٹارٹ ہوگئے “ وہ افسوس سے بولا۔۔۔۔
” علی تم آئے کب اور بتایا کیوں نہیں؟؟؟ “ 
حیا اسے دیکھ کے اتنی خوش تھی کے علی کا نظر انداز کرنا محسوس ہی نا کیا۔۔۔۔
” یار میرا بھی یہی حال ہے بابا پیچھے پڑگئے ہے۔۔۔۔ تقربیاً سب یونیورسٹیز کے ٹیسٹ دے چکا ہوں۔۔۔۔ اللہ‎ کرے کسی اچھی میڈیکل یونی میں ایڈمیشن ہوجائے “ 
علی نے اسکے سوال کا جواب نہیں دیا وہ اس سے ناراض تھا۔۔۔۔ جو خود اس کے بغیر نکاح کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔ علی کا بس نہیں چل رہا تھا شاہ زَر کا بُرا حال کردے۔۔۔۔ جس نے اسکے آنے کا انتظار تک نا کیا۔۔۔۔ وہ ممی اور پاپا سے بھی ناراض تھا۔۔۔۔ لیکن سب کی زبان پے صرف ایک ہی جملہ تھا ”
 شاہ زر نے جلد بازی کی “ 
اور یہاں اکر وہ بھی چُپ ہوگیا۔۔۔۔ آخر کیا کرتا چھوٹا جو تھا اور شاہ زر کے غصّے سے بھی ڈرتا تھا۔۔۔۔ شاہ زَر کے سخت مزاج کو سب گھر والے جانتے تھے۔۔۔۔ علی حمزہ عمر شاہ زَر کے غصّے سے خود کو بچا لیتے لیکن حیا کا تو خدا ہی حافظ تھا۔۔۔۔ اور علی حیران تو اس بات پرتھا آخر حیا راضی کیسے ہوئی۔۔۔۔
” اوہ علی تو آپ مسز شاہ زَر سے ناراض ہیں؟؟ “
وہ ہنستا ہوا حیا کو دیکھ کے بولا۔۔۔۔
حیا کو غصہ ہی آگیا اِس کا مسز شاہ زَر کہنا کشن اٹھا کے اسے مارا۔۔۔ علی ہنسی روکے انکی نوک جھوک دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
” ہائے! مار ڈالا “
علی کی ہنسی نکل گئی اِس کے انداز پے۔۔۔۔۔
” میں ماما کو بتاتی ہوں آپ رکیں “ 
” ہاں جاؤ مما کی چمچی۔۔۔۔ اور سنو چائے کے ساتھ کچھ کھانے کے لیے بھیج دینا “
” زہر نہ بھیجوا دوں “ 
” نہیں وہ میرے طرف سے تم کھا لینا “
” بتمیز جاہل انسان “ 
وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن میں آگئی۔۔۔۔ ثانیہ بھابی کو چائے کا کہہ کر کمرے میں چلی گئی اسے علی کا رویہ پریشان کر رہا تھا۔۔۔۔ 
نور علی کی آواز سن کے لاؤنج میں آگئی۔۔۔۔ ثانی بھی چائے کے ساتھ کباب تل کے لے آئی۔۔۔۔ ساتھ اسنیکس اور سموسے بھی۔۔۔۔ نور نے علی سے ٹیسٹ کے بابت پوچھا۔۔۔۔ علی ڈاکٹر بنا چاہتا تھا لیکن اسکے انٹرمیڈیٹ مارکس کم تھے۔۔۔۔ اسلیے وہ مختلف یونیز میں ٹیسٹ دےکر آیا ہے کے شاید کہیں ہوجاۓ گورنمنٹ کے ساتھ پرائیویٹ کالجز میں بھی اسنے اپلائے کیا ہے۔۔۔۔ 
                   
 

Baab Ik Aur Muhabbat Ka By Afshan Kanwal

"بہنام صاحب! یہ شریفوں کے طور طریقے نہیں ہوتے جو آپ نے اپناۓ ہیں ۔ رات کے اس پہر کسی لڑکی سے اس کی مرضی جاننا یقیناً غیر اخلاقی حرکت کے زمرے میں آتا ہے۔۔“ وہ غصے اور طنز کے ملے جلے انداز میں بولی ۔ کچی نیند کے باعث اس کی آنکھوں میں تیرتی سرخی بہنام سومرو کے دل میں قیامت برپا کررہی تھی لیکن ایمل کے لہجے سے چھلکتا غصہ اسے کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔

”پہلی بات یہ کہ میں شریف بلکل نہیں ہوں ۔دوسری بات جب میں نے کہا تھا کہ گاٶں سے آنے کے بعد میں تمہارا جواب چاہوں گا تو تمہیں کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی؟ تیسری اور اہم بات۔۔۔ میری اور اخلاق کی بہت کم بنتی ہے تو وہ زیادہ تر میرے پاس رکتا نہیں ہے ۔ ہاں! تمہارے زندگی میں آنے کے بعد ہوسکتا ہے وہ حضرت بھی مستقل میرے ہاں مکیں ہوجاٸیں ۔۔“ ٹھہر ٹھہر کر وہ اپنے بھاری گھمبیر لہجے میں بولتا اسے گھبراہٹ میں مبتلا کرگیا تھا۔

”بہنام۔۔“ کسی میٹھے جھرنے کی صورت یہ نام اس کے لبوں سے نکلا تو بہنام عالم مدہوشی سے باہر آتا اپنے نام کو جھک کر معتبر کرگیا۔ وہ تو پہلے ہی اپنی بےباک باتوں سے اسے بوکھلاٸے رکھتا تھا اور اب تو اسے اختیارات بھی حاصل ہوچکے تھے۔ وہ پل پل اپنی جان لیوا نزدیکیوں سے اس کا دم خشک کٸے جارہا تھا۔


”میں آپ سے ناراض ہوں۔۔“ اس کی بڑھتی جسارتوں پر ایمل نے باندھ باندھے کی سعی کی تھی۔ وہ اس کی بات سن کر یوں مسکرایا جیسے کوٸ نادان بچے کی بات سن کر مسکراتا ہے۔


”میں آپ کو راضی کرنے کی ہی کوشش کررہا ہوں۔ اب تو مکمل اختیارات حاصل ہے نا دلبرا۔۔۔“ مدہوش کن لہجے میں کہتے اس نے ایمل کی نتھ کو دھیرے سے اس کی ناک سے احتیاط کے ساتھ الگ کیا۔ وہ اس کی دسترس میں دم سادھے پڑی رہی۔ یوں لگ رہا تھا کہ سارا وجود گویا منجمد ہوگیا ہے۔

Ye Ishq Hai Pera Kara By Afshan Khan 

"میں نے تمہیں رشتہ لانے سے منع کیا تھا لیکن تم بہت ہی ڈھیٹ نکلے۔“


"اسے ڈھیٹ پن نہیں مستقل مزاجی کہتے ہیں خیر ایک دفعہ میری دسترس میں آجاؤ میں سارے مطلب سیاہ و سباق کے ساتھ تمہیں سیکھادوں گا۔“ اس کے کڑوے لہجے کا اثر لئے بغیر وہ شریں لہجے میں گویا ہوا۔


"میں لعنت بھیجتی ہوں تم پر اور تمہاری محبت پر۔“ وہ ایک دم پھنکاری تھی۔


"اریکہ خانزادہ! میرا ضبط مت آزماؤ۔۔ پہلے بھی کہا ہے کہ میری محبت کو محبت رہنے دو ضد نا بناؤ۔ ورنہ تم چودھری کی ضد سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاؤں گی۔ محبت میں میں انا کا قائل نہیں ہوں۔ ورنہ چودھریوں کی انا خانوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔

 میرے سارا معاملہ بڑوں کے سپرد کرچکا ہوں تو بہتر ہوگا تم بھی اپنے اختیارات انہی کے تابع کرلو۔“ وہ چاہ کر بھی اس سے سخت رویہ نہیں اپناسکا تھا۔ ورنہ اس کی محبت کو گالی دینے والے کو وہ زمین میں گاڑ دیتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ محبت کو گالی دینے والی ہی اس کی محبت تھی۔ اسے تو وہ پھولوں سے بھی چھونے سے ڈرتا تھا تو پھر غصے سے کیسے چھوسکتا تھا۔

.


Naseeb E Nasheman

صبح صادق کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس پر کسی بھی قسم کا خوشگوار تاثر چھوڑنے پر ناکام ہو رہیتھی۔ بڑے اور گھنے درختوں کے بیچ میں بنی اس سڑک پر چلتے ہوئے اسے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقتہونے کو آیا تھا لیکن آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہیں مل رہا تھا۔ ایسے میں اس سنسان راستے اورخوف میں مبتلا کر دینے والی خاموشی میں ایک سال کی بچی کو سینے سے لگائے ، کندھے پر بلیک بیگڈالے مسلسل چلنے کی وجہ سے اب اس کے پاؤں شدید درد کرنے لگے تھے۔ کالے عبایہ اور نقاب میں ڈر وخوف سے بہتا ہوا پسینہ اسے اب نڈھال کر دینے کو تھا۔ رات تین بجے سے شروع ہوا یہ سفر اسے منزلتک پہنچاتا یا نہیں اسے اندازہ نہیں تھا۔ 

درختوں کے بعد فصلوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس نے رک کر اس جگہ کو ٹھیک سے دیکھنے کی کوششکی مگر سر میں اٹھتے شدید درد اور گم ہوتے حواسوں نے اس کا اس کوشش میں ساتھ نہ دیا۔ بمشکلچکراتے سر کو قابو کر کے آنکھیں جھپکیں تو دور دور تک پھیلی فصلیں اور دائیں طرف موجود ویرانٹیوب ویل نظر آیا جسے دیکھ کر اسے اپنے گلے میں شدید پیاس سے خشکی اترتی محسوس ہوئی۔ اسسے نظر ہٹا کر سامنے سیدھ میں نظر ڈالی دور کوئی دس منٹ کے فاصلے پر موجود عمارت کی دیواروںکا رنگ اس کے گورنمنٹ اسکول ہونے کی نشان دہی کر رہا تھا جس کا مطلب تھا آبادی والا علاقہ زیادہدور نہیں تھا۔ اسے یک گونہ سکون ملا۔ 

اس جگہ کے نام کے سوا وہ ہر ایک چیز سے نا آشنا تھی۔ ابھی اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آگے کوئیاپنا موجود بھی تھا یا وہ سیراب کے پیچھے اتنا سفر طے کر کے آئی تھی۔ 

” یا اللّٰهرحم فرما۔“ مسجد میں نماز کے بعد ہونے والی قرآن مجید کی آیات کی تلاوت شروع ہوئی تو اسکے خشک لبوں نے جنبش کی اور اس کے ساتھ ہی ایک شفاف موتی آنکھ سے نکل کر نقاب میں جذب ہوگیا۔ 

اس نے آج سے تین ماہ پہلے ان حالات کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا مگر زندگی کا تغیر انسان کو کہاںسے کہاں پہنچا دیتا ہے۔ ڈر و خوف کے سائے تلے وہ آگے قدم بڑھانے لگی۔ بوائز گورنمنٹ اسکول کے آگےنہر تھی جس پر بنے پل کی دوسری جانب کچھ فاصلے پر ایک گاؤں نظر آ رہا تھا۔ 

دو تین گھر عبور کرنے کے بعد اسے کچھ لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر غالباً اپنے کام پر جاتے نظر آئے۔اس سے آگے ایک گھر کے ساتھ کچرے کا بڑا سا ڈھیر لگا ہوا تھا اس کے علاوہ بھی کئی گھروں کے باہرگندگی پھیلی ہوئی تھی۔ لکڑی کے کھلے دروازوں سے عورتیں کام کرتی نظر آ رہی تھیں۔ دائیں جانب ایکآدمی اس جگہ پر موجود واحد دکان کا دروازہ کھول کر اپنے کام کا آغاز کر رہا تھا۔ 

سامنے گیارہ بارہ سال کے دو لڑکے سینے سے قرآن مجید کو لگائے گزرے تو انگیزہ نے لبوں پر زبان پھیرتےہوئے انہیں پکارا۔  

” سنو۔

” جی۔“ وہ دونوں اس کے قریب آئے۔ 

” آپ کو زین آفریدی صاحب کے گھر کا پتا ہے ؟“ انگیزہ نے پوچھا۔ 

” آپ کون ہیں ؟“ ان دونوں نے ایک ساتھ سوال کیا۔ 

” میں ان کی رشتے دار ہوں کیا آپ مجھے ان کے گھر کا بتا دیں گے ؟“ اس کے کندھے سے لگی عنایہ ابکسمسانے لگی تھی۔ 

” ان کا گھر تو ساتھ والے علاقے میں ہے ، میں آپ کو لے جاؤں وہاں ؟“ ان میں سے ایک لڑکا بولا۔

” ہوں۔“ انگیزہ نے سر کو ہلایا۔ 


 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Jaan E Bewafa Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel   Jaan E Bewafa   written Rimsha Hayat . D Jaan E Bewafa   by  Rimsha  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 


  

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages