Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode118 Part 1 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode118 Part 1 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 118 Part 1 

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 118

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 118 ( پارٹ 1 )  

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ بابا سائیں ۔۔۔۔ آپ لوگ یہاں میرپور چلیں آئیں، 

فحال برہان کا کوئی ارادہ نہیں ساہیوال آنے کا ۔ سرحان فون پر بات کرتے ساتھ ہی جنت باغ کا جائزہ لینا شروع ہوا ؛۔

آج وہ گاوں آیا ہوا تھا ۔ حور کو وہ آیت کے پاس بھیج چکا تھا ۔،

وہ کچھ پل اکیلا نتہا سکون سے بیٹھنا چاہتا تھا ۔ ابھی وہ درختوں کو دیکھتے مڑا کہ سلطان شاہ کے فون کو اٹھاتے کان سے لگایا 

انہوں نے برہان کا پوچھا تھا ۔ جس پر ابھی سرحان نے وضاحت پیش کی ۔ 

ٹھیک ہے ۔۔۔۔ پھر ہم ہی آتے ہیں ۔ غفار چوہدری کا بھی فون آیا تھا ۔ 

اگلے ماہ برہان کی سالگرہ پر اُسکو مراد کی ساری جائیداد اور فیکڑیوں کے پیپرز سونپ دئیے جائیں گئے ۔ 

ہم ایک بار اپنے اس جگری کو سینے سے لگاتے سب کچھ بھول جانا چاہتے ہیں ۔ صفدر کو بولو ۔۔۔۔ 

داتا بخش کا پتا کرے ۔ ضرور وقار شیزاری لوگوں نے ہی داتا بخش کو اٹھایا ہے ۔ 

سلطان شاہ دو ٹوک حکم دیتے فون رکھ گئے ۔ 

“ بابا ۔۔۔۔۔ داتا بخش کہاں ہے ۔۔؟ زر جو انار کی باتیں سن غصے سے آیا تھا ۔ 

اپنے باپ کو سامنے کھڑے دیکھ سخت مگر دھمی آواز میں پوچھا ؛۔

تمہیں کیا لینا دینا ہے ۔۔۔؟ زر شاہ ۔۔۔۔ اپنی پڑھائی پر دھیان دو ۔ 

ان کاموں کو دیکھنے کے لیے ابھی میں زندہ ہوں۔ سلطان شاہ اُسکو ایسے نظریں جھکائے دیکھ رعب دار انداز میں بولے 

“ بابا سائیں۔۔۔۔۔ معاف کیجیے گا  ۔۔۔۔ لیکن اُسکی بیٹی کو اپنے باپ کی ضرورت ہے ۔ پریشہ کو اپنے باپ سے ملنا ہے ۔ 

آپ پرانی باتیں کیوں نہیں بھول جاتے ۔۔۔؟ 

آپ کو پتا ہے ، اُسکی بیٹی بیمار ہے ۔ دونوں بہنوں کو اپنے باپ کا ساتھ چاہیے ۔ 

میں ان کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔ مجھے بتائیں کہاں ہے ۔ داتا بخش ۔۔۔۔ ایک بار ان کو اپنے باپ سے ملنے دیں ۔ 

زر بے چین سا اپنے باپ کے قریب ہوا تو سلطان شاہ اُسکا ایسا بےہیو دیکھ ٹھٹکے ۔۔۔۔۔۔

“ زر شاہ ۔۔۔۔ سلطان شاہ نے اپنے بیٹے کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ دھرا 

“ بیٹا ۔۔۔۔ داتا بخش ہمارے پاس نہئں ۔ اور ہمیں یہ بتاؤ ، تم داتا بخش اور اُسکی بیٹوں کے بارے میں کیسے جانتے ہو ۔۔؟ 

سلطان شاہ زر کی آنکھوں میں دیکھ بہت کچھ سمجھے تھے ۔ 

“ بابا ۔۔۔۔۔ پریشہ اور انار ہماری یونی فرینڈز ہیں ۔ انار تو حور بھابھی کی دوست بھی ہیں ۔ 

پریشہ کی کل یونی میں اچانک سے طبیعت خراب ہو گئی تھی ۔ ڈاکٹر بول رہے وہ بہت سرئیس ہے ۔ اُسکو کچھ بھی ہونا نہیں چاہیے ۔ وہ بہت معصوم ہے ۔ 

بچوں کی طرح ۔۔۔۔ زر کی آنکھیں جیسے بھیگنے کو ہوئی ۔ 

ٹھیک ہے ہم دیکھتے ہیں ۔ سلطان شاہ اتنا کہتے آگے بڑھے تو زر سوچ میں پڑا وہ ابھی ایسا کیا کرے کہ انار اُسکو پریشہ سے ملنے دیں ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ آہ ۔۔۔۔۔۔۔!! 

مراد جو گاڑی چلا رہا تھا اچانک سے ٹکر لگنے سے گاڑی کا کنٹرول کھو گیا ۔ 

گاڑی جاتے ایک خائی میں گری ۔ جنت کا سر گھوم اٹھا تھا ۔

حور اور زر جو گاڑی میں پیچھے والی سیٹ پر براجمان تھے۔ رونا شروع ہوئے 

مراد نے مشکل سے آنکھیں کھولتے بچوں کو دیکھا تھا ۔ 

جبکے وہ تیزی سے گاڑی سے نکلا ۔ بچوں کو گاڑی سے نکالتے جنت والی سائیڈ پر آیا ۔ جنت ۔۔۔۔ وہ بے قرار ہوتے اُسکا چہرہ تھپکانا شروع ہوا ۔ 

اُسکے ماتھے سے خون بہتا مراد کا دل بند کر رہا تھا ۔ ابھی وہ ویسے ہی اُسکو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا 

کہ اک دم سے وہاں گاڑیوں کی آمد ہوئی ۔ مراد نے بھنویں اچکاتے سامنے دیکھا ؛۔

وہ اپنا پسٹل جو گاڑی میں پڑا ہوا تھا ، اٹھا گیا ۔ لیکن شاید وہ کسی بھی کام آج آنے والا نہیں تھا ۔ 

گاڑیاں رکی تو چند غنڈے بھاگتے زر اور حور کو اپنی گود میں اٹھا چکے تھے ؛۔

آہ ۔۔۔۔۔ جنت تبھی ہوش میں آئی تھی ۔ مراد نے اسُکو سہارا دیتے گاڑی سے نکالا ۔۔۔۔

“ کمال ہو گیا ۔۔۔ آج تو ایسے لگتا ہے جیسے دنیا فتح ہو گئی ہو ۔ وقار شیزاری غیص مسکراہٹ چہرے پر سجائے مراد کی حالت پر ہنستے بولا 

“ میرے بچے ۔۔۔۔۔ جنت جو آہستہ آہستہ پوری طرح ہوش میں آ چکی تھی ۔ سامنے حور کو وقار شیزاری کے پاس  اور زر کو ایک اور آدمی کے پاس دیکھ چیخی ۔ 

“ کوشش بھی مت کرنا مراد شاہ ۔۔۔۔!! اس سے پہلے مراد ان آدمیوں سے بچے چھنیتا وقار شیزاری نے گن حور پر ٹکاتے مراد شاہ کی جان پر جیسے انگلی رکھی ؛۔

“ وقار شیزاری ۔۔۔۔ اگر میری بیٹی کو کچھ بھی ہوا ۔ تو میں تمہیں یہی زندہ گھٹا دوں گا ۔ تمہاری دشمنی مجھ سے ہے ۔ 

مجھ سے مقابلہ کرو ۔ بچوں کو درمیان میں مت لاؤ ۔ مراد دھارتے بولا 

تو اُسکی بات سن وہ قہقہہ لگا گیا ۔مراد شاہ ۔۔۔ یہ میں ہوں۔۔۔۔ وقار شیزاری ۔۔۔۔ میرے اصول میں سب بچے بڑے ایک مقام پر ہی آتے ہیں ۔

اور ویسے بھی میں نہیں چاہتا تمہارا بیٹا آگے جا کر ہمارے لیے کوئی مسلۂ بنے ۔ 

آج تمہاری اور تمہارے بچوں کی کہانی یہی ختم ہو گئی ۔ وقار شیزاری قہر بھری نگاہ ڈالتے غرایا ؛۔

توں ایک بار میرے بچے پر ہاتھ ڈال تو سہی ۔ تیرے خاندان کو آج ہی گہری نیند سُولا دوں گا ۔۔۔ 

مراد بھی پھنکارتے دھاڑا ۔ 

اتنا آسان نہیں ہوگا تمہارے لیے ۔۔۔ مراد شاہ ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وقار شیزاری کوئی جواب دیتا فیصل شاہ جو اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا ۔ 

ڈور کھول باہر آتے ہی مراد سے بولا ۔ 

مراد نے چوٹکی سی نگاہ فیصل شاہ پر ڈالی تھی ۔ جبکے وہ پل میں سب کچھ سمجھا تھا ۔ 

تجھے تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ مراد بنا دیکھے فیصل شاہ کی طرف لپکا تھا ۔ 

اور اُسکو گریبان سے پکڑتے اندھا دھند مارنا شروع کیا ۔ 

جنت وقار شیزاری کی طرف لپکی تھی ۔ حور کو اُس سے چھنینے کی کوشش میں وہ ہلکان ہو گئی تھی ؛۔

حور مسلسل گلا پھاڑ رونے میں مشکوک ہوئی ۔ تو جنت کی مزید جان پر بنی ؛۔

اے ۔۔۔۔ لڑکی ۔۔۔ وقار شیزاری چیخا تو ساتھ ہی جنت کو گھورتے زور سے دھکا دیا ۔،

وہ لڑکھڑاتے نیچے زمین بوس ہوئی تھی ۔ تبھی مراد کی نظر اٹھی تھی 

وہ ان کے ہی آدمی سے گن چھنیتے وقار شیزاری باوز پر چڑھا گیا ۔ 

وہ کراہ اٹھا تھا ، حور نیچے زمین پر گر چکی تھی ، اس سے پہلے وہ مزید نشانہ باندھتا وہ تیزی سے گاڑی کے پیچھے ہوا ؛۔

فیصل جنت کو زر کی طرف لپکتے دیکھ تیزی سے اُسکو بالوں سے جکڑ گیا ؛۔

  “ جنت شاہ ۔۔۔۔ فیصل نے غیص ہاتھوں سے اُسکا چہرہ دبوچا تھا ۔ 

درد سے اُسکی نیلی آنکھوں میں سیلاب جمع ہوا ۔ وہ تڑپ رہی تھی اور وہ اُسکا سراپا اپنی نظروں میں رکھتے اُسکو کھنچتے لے جا رہا تھا ۔۔۔۔ 

“ جنت میری بات سنو ۔۔۔۔ فیصل شاہ کے دل میں آج بھی محبت تھی ۔ 

مراد کو چھوڑ دو ۔ میں وعدہ کرتا ہوں میں تمہارا بہت اچھے سے خیال رکھوں گا ۔ ہم اپنا نیا گھر بسائے گئے ۔ 

جنت اچانک سے فیصل شاہ روایہ اپنے ساتھ دیکھ ٹھٹکی ۔ وہ ڈر اٹھی تھی وہ جنت کو وہاں سے کھنچتے سڑک سے نیچے جاتے راستے پر حائل ہوا تھا ۔ 

“ تم میری منگ تھی ۔ میں نے ہمشیہ تمہیں اپنے دل میں بسایا تھا۔ تم نہیں جانتی تمہاری ان آنکھوں اور ڈمپل نے مجھے تمہارا دیوانہ بنا رکھا تھا ۔ 

ابھی مجھے ایسے لگتا ہے میں تمہیں حاصل کر لوں گا ، وہ خود سے ہی بولتے خوشی سے قہہقہ لگا گیا۔ 

“ یہ کیا بکواس کر رہے ہیں ۔۔۔؟ فیصل بھائی آپ کیوں ان لوگوں کے ساتھ مل گئے ہیں ۔۔۔۔ 

پلیز۔۔۔۔ مجھے جانے دیں وہ اُسکو خود کی طرف لپکتے دیکھ ڈرتے منت کرنے والے انداز میں بولی :۔

ایسے کیسے جانے دوں ۔۔۔۔؟ تم میری ہو ۔۔۔ اس مراد شاہ کو مرنا ہوگا ۔ وہ اُسکی ایسے التجا سن دھاڑا اٹھا تھا ۔ 

تبھی جنت دو قدم اٹھاتے غصے سے فیصل شاہ کے چہرے پر تھپڑ رسیدہ کر گئی ۔

وہ اچانک سے اُسکے ایسے وار سے چونکا ۔ جبکے اتنا زور دار تھپڑ کھاتے ہی وہ بوکھکھلایا ۔۔۔۔

اُسکا غصے سے برا حال ہوا تھا ۔ جبکے کھا جانے والے انداز میں جنت کو گھورا ۔ 

“ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ۔ میرے شوہر کو مارنے کی بات میرے سامنے کرنے کی  ۔۔؟ وہ اُسکا گریبان پکڑتے غرائی ۔ 

آہ ۔۔۔۔۔

تبھی فیصل شاہ نے جنت کے منہ پر زور سے تھپڑ مارتے اُسکو بالوں سے جکڑا ۔ 

تیری اتنی ہمت ۔۔۔۔ مجھ پر ہاتھ اٹھایا ۔ وہ بھی اسُ کتے کے لیے۔۔۔ وہ غصے سے گرجتا ایک اور تھپڑ جنت کے چہرے پر مارتے نشان چھوڑ گیا ۔ 

وہ تڑپی تھی ۔ مجھے لگا تھا ، توں موت کو سامنے دیکھ کر میرے آگے جھک جائے گئی ۔۔۔۔

اب کہ وہ غیص قہر بھری نگاہ ڈالتے چیخا ۔ 

مگر میں غلط تھا ۔ توں میری محبت کے قابل نہیں ۔ وہ بولتے ساتھ ہی بے دردی سے گال دبوچ گیا ؛۔

جنت کی چیخی نکلی تھی ، خون اُسکے ہونٹوں سے نکلتے گلے پر بہنا شروع ہوا :۔ 

 مراد جو سبھی غنڈوں سے اکیلا لڑ رہا تھا ۔ زر کو روتے دیکھ ایک نظر اپنے آس دوڑائی ۔ 

جنت ۔۔۔۔۔؟ وہ بے چین ہوا تھا ۔ جبکے حور کو دیکھتے وقار شیزاری کو اور فیصل شاہ کو ڈھونڈنا چاہا ۔ 

جنت ۔۔۔۔۔۔!!وہ گرج دار آواز میں چیخا تھا غصہ حد سے بڑھا تھا ۔ 

وہ گن اٹھاتے اندھا دھند سب کو مارنا شروع ہوا ۔ وہ جنوانی سا ہوتا ہر طرف جنت کو ڈھونڈ رہا تھا ؛۔

فیصل شاہ ۔۔۔۔ تم کیا اس کے ساتھ کر رہے ہو ۔ مارو اُسکو اور کام ختم کرو ۔ 

وقار شیزاری جو فیصل شاہ کے قریب آیا تھا ۔ جنت پر غیص نظر ڈالتے دھاڑا ۔ 

تبھی فیصل شاہ نے جنت کی چیخیں سن چاقو وقار شیزاری سے پکڑتے جنت کے گلے پر چلایا ۔ 

جیسے ہی چاقو اُسکے گلے پر پھیرا ، خون ندی کی طرح گلے سے بہنا شروع ہوا ۔

 جنت کی نیلی آنکھیں بےیقینی سے پھیلی تھی ۔ آنکھوں سے آنسووں گرتے مراد کو یاد کر گئے تھے ؛۔

 تم سے ٹھیک سے کام نہیں ہوگا ۔ وقار شیزاری آگے ہوا تھا ۔ اور پسٹل لوڈ کرتے جنت کے سینے پر اندھا دھند گولیاں چلائی ۔۔۔۔

جنت۔۔۔۔۔۔ مراد جو اُسی طرف لپکا تھا ۔ سامنے ہی فیصل شاہ کو چاقو اُسکے پیٹ میں بے دردی سے مارتے دیکھ چیخا ۔ 

جنت کے منہ سے خون الٹی کی طرح نکلنا شروع ہوا ۔ 

مراد بے جان سا محسوس کرتا اُسکی طرف لپکا ۔ وقار شیزاری اُسکے سامنے  حائل ہوا تو مراد اُسکے منہ پر اندھا دھند مکے برساتا آگے بڑھا ۔۔۔ 

وقار شیزاری نے اپنے ہونٹ سے خون صاف کیا تھا ۔ اور گن لوڈ کرتے مراد کی گردن سے پار گزرا ۔ 

تبھی فیصل شاہ نے جنت کو دھکا دیتے اُسکی طرف چھوڑا ۔ جنت گرنے والے انداز میں مراد کی بانہوں میں جھولی ۔

وہ دونوں زمین پر گر چکے تھے ۔ فیصل شاہ اور وقار شیزاری کی جیت کا قہقہہ سنسان فضا میں گونجی :۔

جنت کی سانس ٹوٹ رہی تھی ، مراد کا سب کچھ ختم ہو چکا تھا ؛۔

رک مراد شاہ ۔۔۔۔ ابھی تجھے تیرے بچوں کو بھی ختم ہوتے ہوئے دیکھنا ہوگا ۔ 

فیصل شاہ نے غیص نظروں سے دیکھتے مراد کے منہ پر مکے برساتے بالوں کو نوچا ۔ 

جنت جو مراد کی گود میں گر چکی تھی ، نیلی آنکھیں اُسکا چہرہ دیکھ جیسے دم توڑ گئی ۔ 

مراد کی گردن میں گولی لگنے سے وہ بول نہیں پا رہا تھا ۔ فیصل شاہ نے پسٹل سے گولی نکالتے اُسکے سینے پر چلائی ۔ 

چل اب اُسکے بچوں کی باری ۔ وقار شیزاری فیصل شاہ کو لیتے آگے بڑھا ۔ 

داتا بخش جو وہاں پہنچا تھا ، ٹوٹی گاڑی دیکھ وہاں خون اور گرے پڑے آدمیوں کو دیکھتے داتا بخش کی جان پر بنی ۔ 

وہ تیزی سے بھاگا تھا ۔ ابھی اُسکے ساتھی پھیلے تھے ، کہ داتا بخش جو اُسی جگہ پہنچا تھا ۔ جہاں مراد اور جنت پڑے تھے ۔

لرزتے قدموں سے بھاگا ۔ 

“ بابا ۔۔۔۔۔ وہ مراد کی حالت دیکھ چیخا اٹھا تھا ۔ یہ کیا ہو گیا ۔۔۔؟ وہ جنت کی حالت دیکھ لرز اٹھا تھا اُسکی نیلی بھیگی لال آنکھیں مراد پر ٹکی اپنی آخری سانسیں توڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔

د۔۔۔۔ا۔۔۔۔مراد نے اُسکو انگلی مشکل سے اٹھاتے ایک راگیری کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔ 

ب۔۔۔۔ چے۔۔۔۔۔ کی۔۔۔۔۔میرہ۔۔۔کیمرہ ۔۔۔۔مراد نے داتا بخش کو گریبان سے پکڑتے خود کے قریب کیا ۔ 

داتا بخش ۔۔۔۔، وہ جان لگائے چیخا تھا ، وہ ۔۔۔۔۔ کیمرہ ۔۔۔ میرے بیٹے ۔۔۔۔ برہ۔۔۔۔برہان شاہ ۔۔۔۔ کو سہی ٹائم پر ۔۔۔ دے دینا ۔ 

جب ۔۔۔۔ وہ بڑا ۔۔۔۔ ہو جائے ۔ تبھی اُسکو ملنا ۔۔۔۔ اور اُسکی زندگی کا سچ اُسکو بیان کرنا ۔۔۔۔

بھا۔۔گ ۔۔۔۔ جاؤ ۔۔۔۔۔ پریشے۔۔۔ کو ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ زر۔۔۔ کو سل۔۔۔۔باب۔۔۔سلطان ۔۔۔ بھائی کے۔۔۔۔ در۔۔۔۔ پر چھوڑو ۔۔ 

اور کیمرے کو ۔۔۔۔ لیتے ۔۔۔ غا۔۔ہب۔۔۔۔ ہو ۔۔۔ جاؤ ۔۔۔۔

جا۔۔۔و۔۔۔۔ اس سے پہلے داتا بخش روتے کچھ بولتا مراد کی جان نکلنے کو ہوئی تھی 

وہ روتے مراد کو دیکھ ویسے ہی چھوڑ بچوں کے لیے بھاگا تھا ۔ 

مراد نے بھیگی مسکراتی آنکھوں سے اپنی “ مرجان سائیں کو دیکھا ، وہ اُسکی سانسیوں کو توڑ گئی ۔ 

داتا بخش جیسے ہی بھاگ فیصل شاہ لوگوں نے اُسکو دیکھتے گولیاں چلانا شروع کی ؛۔ 

وہ حور لیتے بھاگا تھا زر اُسکو مل نہیں رہا تھا ، وہ بھاگ نکلا تھا۔ 

اور فیصل شاہ اور وقار شیزاری اپنی زخمی بازو لیے اُسکے پیچھے لپکے ؛۔

ابھی وہ لوگ وہاں سے بھاگے تھے ۔ سلطان شاہ جو میرپور اچانک سے آئے تھے 

صفدر سے خبر ملی کہ داتا بخش نے دشمنوں کے ساتھ ہاتھ ملاتے مراد پر جان لیوا حملہ کیا ہے ۔ 

وہ سب اپنے فاقلے لیتے اُسی سمت آئے تھے کہ سامنے مراد شاہ کی آخری چلتی سانسیں دیکھ وہ سب اُسکی طرف لپکے 

صفدر شاہ اپنی بہن کو دیکھ آنکھ بھر چیخ اٹھے تھے ۔ ہر طرف خون ہی خون تھا ۔ 

مراد کی سانس چل رہی تھی اُسکو اٹھاتے ہسپتال لے جانے کا سوچا جا رہا تھا ۔ 

“ ب۔۔۔۔ وہ اپنی بند ہوتی آنکھوں کو مسلسل کھولنے کی کوشش کرتے سلطان شاہ سے کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ 

مگر وہ چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ سکا ۔ وہ ان کو بتانا چاہتا تھا کہ اسُکا بیٹا برہان شاہ ہے ۔ اُسکی حفاظت کریں ۔ 

مگر موت نے اتنا موقعہ نہ دیا تھا اور وہ آنکھیں برف کی مانند اکڑ گیا ۔ 

“ شاہ ۔۔۔۔۔ سلطان شاہ چیخے تھے اچانک سے ان سب کی خوشیاں زندگیاں ختم ہوئی تھی ۔۔۔

داتا بخش بھاگتے بھاگتے تھک چکا تھا ، وہ کافی دیر سے بھاگ رہا تھا ۔ پریشے کو خاموش کروانا اُسکے لیے مشکل ہو رہا تھا ۔ 

وہ بچی تھی اُسکو اپنی ماں کی ضرورت تھی ۔ داتا بخش جان چکا تھا ۔کہ فیصل شاہ لوگ اُسکے ہاتھ میں کیمرہ دیکھ چکے ہیں ۔ 

اب کو کسی بھی طرح اُسکو چھپانا تھا ۔ وہ دبے پاؤں راستے پر بڑھنا شروع ہوا ؛۔

اور ایک درخت کے نیچے جاتے اُسکو کودنا شروع ہوا ۔ اُس میں داتا بخش نے کیمرہ چھپاتے درخت پر نشانی لگائی تاکہ وہ اُسکو یاد رہ سکے ؛۔

داتا بخش کیمرہ چھپاتے واپس سے بھاگنا شروع ہوا تھا ۔ تبھی فیصل شاہ نے داتا بخش پر وار کیا ؛۔

وہ اندوھے منہ نیچے گرا تھا ۔ حور کا سر ایک پتھر پر لگا ۔ داتا بخش کو جیسے ہی وقار شیزاری نے مارا وہ کھلائی سے نیچے گرا ۔ 

فیصل شاہ اور وقار شیزاری نے کافی اُسکو دھونڈ مگر وہ ان کو نہ مل سکا ۔ 

اس کو مت مارنا ۔۔۔۔ یہ کام کی ہے ، فیصل شاہ کے دماغ جو بھی کہانی تھی وہ اُسکی وجہ سے پریشے کو زندہ چھوڑ گیا ۔ 

برہان جو کیمرے کی ویڈیو میں یہ سب کچھ دیکھ گیا تھا ۔ نیلی بھیگی آنکھوں میں خون اتار ۔ 

وہ مٹھیاں بھنچے بار بار جنت اور مراد کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔ اُسکے بدن میں جیسے آگ کی چنگاریاں بھڑکنے لگی تھی ؛۔

فیصل شاہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو غصے کو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ ٹیبل کو لات مارتے پوری قوت سے چیخا اٹھا ؛۔

وہ کمرے کی ہر چیز کو تہس نہس کرنا شروع ہوا ، اُسکا بس نہیں چلا تھا کہ اُسکے سامنے فیصل شاہ اور وقار شیزاری ہوتے انکا خون کر دیتا ؛۔

“ ہمیں اندر دیکھنا چاہیے ۔ کاشف ، خادم جو باہر ہی کھڑے تھے ۔ ڈرتے سوچ میں پڑے ۔

اُسکا دل خوف سے لرزا ۔ اندر سے مسلسل چیخنے چیزیں ٹوٹنے کی آواز آ رہی تھی ؛۔

وہ اک دم سے نکلا تھا ۔ اور گھر میں داخل ہوا ، اُسکے ماں باپ کو اتنی بے رحمی سے مارا گیا تھا ۔ 

اُسکا جیسے سب کچھ بکھر گیا ۔ وہ لال آگ بھگولہ ہوتا روم میں داخل ہوا تھا :۔ 

اپنی پسٹل کو لوڈ کرتے گولیاں اٹھائی تھی ۔ جنت کا چہرہ مسلسل اُسکی آنکھوں کے سامنے آتے اُسکی آنکھیں بھیگا رہا تھا ؛۔

وہ لمبے لمبے ڈگ بڑھتے روم سے نکل سیدھا پورچ میں آتے گاڑی میں سوار ہوا ۔

کوئی بھی میرے پیچھے نہیں آئے گا ۔ اس سے پہلے سبھی گاڈرز گاڑیوں میں سوار ہوتے وہ انگلی اٹھاتے بلند آواز میں گرجا اور گاڑی میں سوار ہوتے زن سے نکلا ۔ 

خادم بھی پریشان ہوا تھا ۔ وہ تیزی سے سلطان شاہ کو کال ملا گیا ؛۔ 

ابھی کاشف نے عماد کو کال ملائی تھی کہ سرحان کی گاڑی گھر میں داخل ہوئی 

وہ دونوں اُسکی طرف لپکے؛۔ اچھا ہوا سر آپ آ گئے ۔ کاشف نے کانپتی آواز میں کہا اور تیزی سے سرحان کو سارا واقعہ سنایا ۔

وہ لان سے ہوتا پیچھے والے حصے میں گیا ، اور روم میں داخل ہوتے ہی وہ روم کا حال دیکھ حیران ہوا ؛۔ 

یہ کیا ۔۔۔؟ وہ کیمرہ اور دیوار پر ایل سی ڈی لگی دیکھ ٹھٹھکا ۔ 

چونکہ وہ جانتا تھا کہ روم معمولی سا ہے ۔ لیکن یہاں تو بہت ہی اعلی قسم کا ماحول بنایا گیا تھا ۔ 

وہ کیمرہ ہاتھ میں لیتے گھر میں ہوا ۔ اور لاوئج میں جاتے ہی اُسکو ایل سی ڈی سے لگاتے اون کیا ؛۔

تبھی سلطان شاہ لوگ گھر میں داخل ہوئے ۔ سرحان ان سب کو دیکھ اٹھ ان کو کیمرے کی طرف اشارہ کر گیا ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تجھے پتا ہے ۔ حور میں نے زندگی میں پہلی باد اتنی شاپنگ کی ہے ۔ آیت حور کے ساتھ چلتی مال سے نکل اب پارکنگ ایدیا میں داخل ہوئی تھی ؛۔

“ ماشااللّہ ۔۔۔۔۔ چلو میرے بھائی کی محبت کا کچھ تو تم پر اثر ہوا کہ تم اُسکے لیے تیار ہونے کا سوچ بیٹھی ہو ؛۔

حور نے کان کھجاتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا تو آیت نے تیکی سی گھوری سے نواز ۔۔۔۔ 

ویسے ۔۔۔۔ برہان خوش تو ہو جائے گا نا ۔۔۔؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا ، وہ میرے ایسے کرنے پر غصہ کر جائے ۔ 

آیت نے دل میں اٹھتا سوال پوچھا ۔ 

یار تم اتنا سوچتی کیوں ہو ۔۔؟ ویسے بھی میری ایک بات اچھے سے لکھ لو ، جب بھی تم کچھ ایسا بھائی کے لیے پلان کروں گئی تو وہ صرف خوش ہونگیں ۔ 

ابھی یہ بکواس باتیں اپنے ذہین میں مت لاؤ ۔ حور نے اُسکو اچھا سوچنے کا جیسے گویا ؛۔

یار ۔۔۔۔ وہ اتنا پریشان ہے ۔ غصہ کر سکتا ہے ۔ آیت نے منہ ٹکایا ۔ 

تبھی اک دم سے چند غنڈے نما آدمیوں نے ان دونوں کو پکڑتے رومال سے بہوش کیا اور گاڑی میں ڈالتے وہاں سے نکلے ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 

اگلا پارٹ انشااللہ بہت زبردست ہوگا ۔ باقی لائکس اپنے زیادہ کر دو نہئں تو 🥸😏

اچھے بچے سمجھ گئے ہونگیں😍🙈




This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


Previous Post Next Post