Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 116 to 117 Online - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 10 July 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 116 to 117 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 116 to 117 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 116 TO 117

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 116 to 117

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ  

116 ، 117  قسط نمبر ؛۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

زر ۔۔۔۔ مجھے بتاؤ ۔۔۔ اس لڑکی کے گھر والوں کو کیسے بتا سکتے ہیں ۔۔؟ 

جمال اُسکی حالت دیکھ سمجھ چکا تھا کہ اُسکے دل کا معاملہ ہے ۔ 

اسی لیے فون نکالتے پریشہ کے گھر والوں کا پوچھا ، وہ نے ترتیب سا ہوتا ایک نظر جمال کو دیکھ انار کا نمبر ملاتے جمال کو فون پکڑا گیا ۔۔۔۔

کیا ہوا میری بہن کو ۔۔۔۔۔؟ انار جو ہسپتال پہنچ چکی تھی ، نرس کو بازو سے پکڑتے روتے چہرے سے پوچھا 

دیکھیں آپ ۔۔۔ 

انار ۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوا پریشہ کو ۔۔۔۔چلو وہاں ۔۔۔ وہ دیکھو زر لوگ ۔۔۔۔۔ حیا جو انار کے ساتھ ہی آئی تھی 

اُسکو سامنے ۔۔۔زر کا چہرہ جھکائے دیکھ بولی ۔ 

انار تیزی سے اُسکی طرف لپکی ،  

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میرپور 

میرے خیال سے شاہ تمہیں آیت سے بات نہیں کرنی چاہیے ؛۔ 

میں خود آیت سے پوچھ لوں گا ، تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمہاری ملاقات برہان سے ہو گئی ہے ۔۔۔۔؟ 

اکرام سرحان کو داتا بخش کی کہی باتیں چھوڑنے کو ساتھ ہی برہان کا پوچھ گیا ۔۔۔۔!!!

نہیں ۔۔۔۔ ابھی تو میری کوئی بات نہیں ہوئی ، وہ گھر پر آیا ہی نہیں ۔ 

ویسے بھی چاچو ۔۔۔۔ میں حور کو لے کر سیدھا بڑی حویلی گاوں آیا ہوں ، 

ابھی آیت لوگوں کی طرف نہیں گئے ، سرحان نے تفیصل سے آگاہ کیا ۔ 

ٹھیک ہے ، شاہ پہلے تم برہان کو دیکھ لو ۔ اُسکا دماغ کیا کہہ رہا ہے جاننا بہت ضروری ہے ۔۔۔ 

اور ایک بات ۔۔۔۔۔ برہان کی سکیورٹی مزید بڑھا دو ۔ مراد کا بیٹا ہے یہ بات پورے میرپور میں پھیل جائے گئی ؛۔

اکرام نے لگے ہاتھ یہ بات بھی کرتے سرحان کو چاروں اطراف نظریں کھول الرٹ ہونے کا بول کہہ دیا تھا ؛۔

چلیں ۔۔۔۔ پھر میں دیکھتا ہوں ۔۔۔ سرحان اتنا کہتے فون رکھ گیا ۔

“ کیسی ہو شہزادی ۔۔۔۔۔؟؟ سرحان جو کافی دیر سے برہان کو کال کر رہا تھا ، مایوس ہوتے اب کہ کال آیت کو کی ۔ 

چونکہ وہ فون پک نہیں کر رہا تھا ۔ 

میں ٹھیک ۔۔۔۔ سرحان تم لوگ یہاں کیوں نہیں آئے ۔۔؟ آیت جو کیچن میں آٹا گوند رہی تھی ۔ 

فون اسپیکر پر ڈالے ہی سرحان سے سوال پوچھ گئی ؛۔

آئیں گئے ، پہلے سوچا کہ کچھ دن حور کو یہاں کا موسم انجوائے کرنے دوں ، گاوں کے ماحول میں اک الگ ہی مزا ہے ۔ 

سرحان جو لان میں ٹہل رہا تھا فضا کو دیکھ لمبا سانس بھرتے گویا ۔ 

ہممم۔۔۔۔۔وہ ہنوز لب جوڑے ہی ہنکارہ بھرا گئی ؛۔

“ شہزادی ۔۔۔۔ مجھے تم سے کچھ پوچھنا تھا ۔ سمجھ نہیں آ رہا بات کہاں سے شروع کروں ۔۔؟ 

سرحان جو پوچھنا چاہتا تھا ، اُسنے اکرام کی بات پر توجہ دینے کی بجائے آیت سے کہنا چاہا ۔۔

جیسے ابھی بے فکر ہو کر باقی باتیں کر رہے ہو ، جو دل میں چل رہا ہے وہ بھی پوچھ لو ۔۔۔!! 

آیت جو آٹا گوند چکی تھی ، آٹے کو مناسب ڈبے میں ڈالتے فریج میں رکھنے گئی ؛۔

“ شیزاری ماضی میں آٹھ سال پہلے اُس رات ۔۔۔ وہ بولتے بولتے ٹھہرا ۔ 

جبکےاُسکے الفاظ سن آیت بھی ٹھٹکی ۔ وہی وہ جم سی گئی۔ 

“ آئی می ۔۔۔۔ داتا بخش ۔۔۔ اُس رات کے بارے میں کیا جانتا ہے ۔۔۔؟ اُسنے خود سب کے سامنے کہا ۔ 

چاچو کو کہ تم اُسکے بارے میں کچھ جانتی ہو ۔ سرحان سمجھ نہیں پا رہا تھا کہاں سے بات شروع کرے 

اس لیے جیسے بھی الفاظ زبان پر آئے کہتا چلا گیا ۔ 

داتا بخش ۔۔۔۔ آیت کی سانس جیسے تھمی تھی ، انہوں نے کیا کہا ۔۔؟ آیت کی آواز یکدم گھبرائی ۔ 

سرحان نے اچھے سے اُسکی آواز سے اندازہ لگاتے سمجھا ۔ 

کچھ نہیں کہا ، صرف اتنا کہا کہ تم جانتی تھی ۔ آیت کیا جانتی ہو تم ۔۔۔؟ اور وہ کیا جانتا ہے ۔۔۔؟ 

سرحان جو پہلے الجھا ہوا تھا اب کہ بہت سینجدگی سے پوچھا ؛۔

وہ اس رات کے بارے میں کیا جانتا ہے ۔۔؟ سرحان نے تیزی سے اگلا سوال پوچھا ۔ 

آیت کے ماتھے پر چند پسینے کی بوندیں ابھری تھی وہ مشکل سے توک نگلتے ماتھے کو ہاتھ کی مدد سے صاف کر گئی ؛۔ 

تبھی کسی کی نظروں نے اُسکو غور سے دیکھا تھا ، وہ انجان تھی ان نظروں سے ۔۔۔ مگر برہان سب کچھ سن واپس مڑا ؛۔

مجھ۔۔۔۔ مجھے نہیں ۔۔۔ پتا ۔۔۔۔ وہ دو ٹوک بولتی کال کاٹ گئی ۔ 

“ شہزادی ۔۔۔ سرحان فون پر پکارتا رہ گیا وہ جا چکی تھی ۔ اس کا مطلب وہ کچھ بہت گہرا جانتا ہے ۔ 

سرحان کو آیت کی آواز سے سب کچھ سمجھ آ گیا تھا ۔ وہ سوچ میں پڑ چکا تھا ؛۔

داتا بخش پکڑا گیا ۔۔؟ آیت نے جلدی سے ہاتھ دھوئے تھے اور فون اٹھاتے کیچن سے نکلی ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رات گہری ہو رہی چکی تھی وہ کھانا بنا چکی تھی ، مگر دھیان ابھی بھی سرحان کی باتوں میں الجھا ہوا تھا ؛۔ 

وہ پوری طرح گھبرائی پڑی تھی ، کتنی ہی بار آیت نے داتا بخش کے نمبر پر کال ملائی تھی ۔ 

لیکن نمبر مسلسل بند جا رہا تھا ۔ وہ انار کو بھی کئی کال کر چکی تھی ، اُسکا نمبر بھی آف ہی جا رہا تھا ؛۔

آیت جانتی تھی ، کہ انا داتا بخش کی بیٹی ہے ۔ 

اس سے پہلے وہ پھر سے کال ملاتی گاڑیوں کی آواز سن کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ 

برہان ۔۔۔۔۔ وہ اُسکو گاڑی سے نکلتے دیکھ خوش ہوئی ، تبھی فون رنگ کیا ۔ 

آیت نے فورا سے کال پک کی ، انار کہاں ہو تم ۔۔۔؟ 

میں کب سے کال کر رہی تھی ۔ جیسے ہی کال پک ہوئی آیت نے تیزی سے پوچھا ۔ 

آیت ۔۔۔۔ انار جو رو رہی تھی ، اُسکی آواز سن پریشان ہوئی ؛۔

انار تم رو رہی ہو ۔۔۔؟ کیا ہوا ۔۔۔ سب ٹھیک ہے ۔۔؟ آیت کا دل بھی جیسے پریشان ہوا تھا ؛،

وہ گھبرائی آواز میں ہانپتے بولی ، جیسے وہ ابھی کہیں سے بھاگ کر آئی ہو ؛۔

پریشہ کو پتا نہیں کیا ہو گیا ۔ ابا بھی لاپتا ہیں ، انار روتے مشکل سے بول پائی تھی 

کیا ہوا پریشہ کو ۔۔۔؟ آیت پریشہ کا سن فکر سے استفسار کر گئی 

مجھے کچھ نہیں پتا ۔ آیت ۔۔۔۔ میری بات سنو ۔۔۔ 

میرے ابا ۔۔۔۔۔ کو کسی اغواء کیا ہے ۔ پہلے سلطان شاہ نے ان کو اپنی قید میں رکھا ابھی کہہ رہے ہیں 

کہ کسی اور نے ان کو باندھی بنا لیا ہے ۔ جب یہ ملی ہے کہ میرپور میں ہی ہیں ۔ توں کسی طرح پتا لگا میرے ابا کا ۔۔۔ 

انار اپنے آنسو صاف کرتی بولی تو آیت اتنا کچھ سن پریشانی میں گھیری ۔ 

ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ توں اپنا اور پریشہ کا خیال رکھ ۔۔۔ میں کچھ کرتی ہوں ۔ آیت جو اپنے دھیان میں فون پر مصروف تھی ۔ 

اچانک سے مڑتے دیکھا تو برہان آرام سے ڈور کے ساتھ لگے سینے پر ہاتھ باندھے اُسکو ہی غور سے دیکھ اور سن رہا تھا ؛۔

آیت انار کو کہتے ساتھ ہی فون کاٹ گئی ۔ وہ ہلکی سی مسکان چہرے پر سجاتے فون ٹیبل پر رکھتے برہان کی طرف گئی ؛۔

جو ہنوز اُسکو اپنی نظروں میں رکھے ہوئے تھا ۔ تم کب آئے ۔۔۔؟ وہ اُسکی نظروں کو خود پر گاڑھے دیکھ تھوڑا نروس سی ہوئی 

جب تم مجھے چھوڑ کسی اور پر توجہ دے رہی تھی ، وہ معنی خیز ہوتا ویسے ہی اُسی پوز میں گویا ؛۔

مجھے تو پتا ہی نہیں چلا ، نہیں ۔۔۔۔ تو جناب ۔۔۔ ہم میں اتنی ہمت کہاں کہ آپ کو اگنور کرتے کسی اور کو توجہ دے پاتے۔۔۔ 

آیت اُسکے بالکل سامنے ہوتے شرارت سے مسکراتے بولی ۔ 

یہ کیا ۔۔۔۔۔ 

شش۔۔۔۔۔ اس سے پہلے آیت آگے کچھ کہتی برہان نے اُسکو خاموش رہنے کا بولتے ساتھ ہی ویسے ہی لیتے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جاتے کھڑا کیا ؛۔

مقابل نے بہت آرام سے اُسکے دوپٹے پر لگی پن نکالی ۔ آیت خاموشی سے اُسکے عمل کو دیکھنا شروع ہوئی ؛۔

وہ جانتی تھی ، برہان کافی پریشان ہے ۔ اتنا بڑا سچ اُسکو ہضم کرنا آسان نہیں تھا ؛۔

ابھی صرف تمہں ایسے دیکھنا چاہتا ہوں، وہ اُسکا دوپٹہ ہلکے سے سر سے سلکتے ساتھ اُسکے جوڑے میں قید گنے بالوں کو آزاد کرتے کمر پر بکھرے گیا ؛۔

ریشمی گنے لمبے کالے سیاہ بال اُسکی پشت پر مور کے پرروں کی طرح پھیلے ؛۔

آیت نے دھڑکتے دل سے اپنے شوہر کو دیکھا جو بہت محبت سے اُسکے شانوں پر اپنا چہرہ رکھے اُسکو حصار میں قید کر گیا ؛۔

اُسکی سانسیں اُسکے اتنے سے عمل اور قریب آنے پر اُتل پتل ہوئی تھی ؛۔

“ آیت تمہاری ان کالی زلفیوں میں کھو جانا چاہتا ہوں ، اس دنیا کو بھول جانا چاہتا ہوں ، برہان اُسکے بالوں میں سے آتے خوشبو کو اپنی سانسیوں میں بھرتے خمار آمیز انداز میں بولا ۔ 

ایک نظر اٹھا کر تو دیکھو ، میرے اس دل کی “ برجان سائیں ۔۔۔۔ برہان اُسکی جھکی پلکیں دیکھ گھمبیر لہجے میں سرگوشی کرتے اُسکو آئینے میں دیکھنے کئلیے اکسا گیا ؛۔

آیت نے کالی سیاہ آنکھوں کی پلکیں اٹھاتے خود کو برہان کے حصار میں قید دیکھ دھڑکتے دل کو مشکل سے کنٹرول کیا 

اُسکو لگ رہا تھا دل ابھی پسلیاں توڑ باہر نکل آئے گا ۔ 

کھانا ۔۔۔۔۔۔ لگاؤں ۔۔۔۔؟ وہ مشکل سے اتنا ہی ادا کر پائی تھی ؛۔

تبھی مقابل نے اپنا حصار توڑا تھا ۔ “ ایم سوری ۔۔۔۔ شاید تمہیں میرا ایسے قریب آنا اچھا نہیں لگا ۔ 

وہ پوری طرح جیسے بدمزا ہوا تھا ، سپاٹ سا اتنا کہتے وہ تیزی سے وڈرواب کی طرف لپکا ۔۔۔ 

آیت اُسکے ایسے اچانک سے ناراض ہونے پر حیران ہوئی ، جبکے صدمے سے پلٹتے برہان کو دیکھا ؛۔

“ میں نے ایسا بھی کچھ ۔۔۔۔ وہ بولتے بولتے خاموش ہوئی ، وہ واش روم میں گھس چکا تھا ؛۔

“ ایسا بھی کیا پوچھ لیا تھا ۔۔۔؟ وہ اُسکا انتظار کرنے کے لیے ٹہلنا شروع ہوئی ۔ جبکے ساتھ ہی مسلسل حیرانگی سے سوچ رہی تھی ؛۔ 

کھانے کا ہی تو پوچھا تھا ۔ اس میں ناراض ہونے والی کیا بات تھی ۔۔؟

شاید وہ تمہارے احساس میں ہی جکڑے رہنا چاہتا ہو ۔ دل سے خود ہی خیال اٹھا تھا ۔ 

“ ابھی کیا کروں ۔۔؟ وہ ٹینشن میں پڑی جبکے ساتھ ہی ہاتھ کی مدر سے اپنے لمبے کالے موٹے بالوں کو اٹھایا تاکہ جوڑا بنا سکے ؛۔

“ رہنے دے ۔۔۔۔۔کہیں پھر سے غصہ بڑھ ہی نہ جائے ، وہ خود سے ہی بولتی دوپٹہ گلے سے نکال بالوں کو کھولا چھوڑ گئی 

جبکے تبھی اپنا دوپٹہ اٹھاتے گلے میں ڈالا ۔ اُسی پل برہان بالوں کو ٹاول سے رگڑھتے واش روم سے نکلا ؛۔

وہ آستین سے بغیر بینان پہنے بالوں کو ٹاول میں رگڑھتے سیدھا کھڑکی کے قریب جاتے کھڑا ہوا ۔۔۔۔ 

کیا ہوا کھانا نہیں لگایا ۔۔۔۔؟ وہ ویسے ہی نظریں کھڑکی سے باہر کالے آسمان کو تکتے بھنویں اچکائے پوچھا گیا  ؛۔

آیت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی برہان کے مقابل آئی تھی ۔ 

“ برجان سائیں کے ضدی شاہ ۔۔۔ ناراض ہو گئے ۔۔؟ میں نے تو ایسے ہی تمہاری بھوک کر سوچتے کھانے کا پوچھا تھا 

“ اگر ابھی تمہیں بھوک نہیں تو میں ابھی کیوں کھانا لگاؤں ۔ وہ محبت سے اُسکے سخت بازو پر سر ٹکا گئی “ 

“ تم کھانا لگا لو ۔ میں آتا ہوں ، وہ ٹاول ویسے ہی سائیڈ والے سنگل صوفے پر پھینک پاکٹ سے سگریٹ کی ڈبی نکال ایک عدد سگریٹ منہ میں دباتے اُسکو جلا گیا “ 

جبکے ساتھ ہی گہرا کش بھرا ، آیت جو مقابل کے کندھے پر سر ٹکا گئی تھی 

بدبو سے ناک سکڑتے ایک نظر برہان کو دیکھا جو بہت آرام سے اپنے کام میں مگن ہوا کھڑا تھا ۔۔۔ 

چھوڑو اس کو ۔۔۔۔ آیت اپنی چھوٹی سی ناک پر جہاں بھر کا غصہ لاتے مقابل کے بالکل سامنے ہوتے سگریٹ لبوں سے نکال کھڑکی سے باہر پھینک گئی :۔

برہان جو نظریں باہر ٹکائے ہوئے تھا ، اُسکے ایسے اچانک سے سگریٹ لبوں سے نکال پھینکنے پر نیلی آنکھوں میں آگ لیے غور گیا ۔ 

“ دیکھو ۔۔۔۔ میں ڈرنے والی نہیں ۔ آیت جس کو برہان کی نظروں سے خوف آیا تھا ڈرتے ڈرتے بولا 

ویسے بھی یہ وقت میرا ہے ، اس میں تم ایسے سگریٹ نہیں پیے سکتے ۔ 

“ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ، تمہارا عشق میں نہیں تمہاری یہ سگریٹ ہے ، مجھ سے زیادہ تو تم اس کو پیتے ۔۔۔۔

آیت جو اپنے دھیان میں نو اسٹاپ بولنا شروع ہوئی تھی ، پیتے پر زبان کو بریک لگاتے دائنی آنکھ بند کرتے ساتھ ہی نیچا ہونٹ دانت تلے دبایا ؛۔

“ تم خود کو کہاں پینے دیتی ہو ، برہان فٹ سے جیسے فام میں آیا تھا ، جبکے بولتے ساتھ ہی اُسکی نازک سی کمر میں ہاتھ ڈالتے اُسکے گرد حصار بنایا :۔

آیت شرمندہ سی ہوتی مقابل کے سینے پر بازو لگائے ہاتھ اُسکے کندھوں پر ٹکا گئی 

“ میں نے کون سا ۔۔۔۔ تمہیں۔۔۔۔ قریب ۔۔۔ آنے سے ۔۔۔ روکا ہے ۔ آیت کی سانسیں تیز رفتا پکڑ چکی تھی 

لرزتے دل سے کانپتے ہونٹوں سے مشکل سے برہان کو جھکی نظروں سے بولی 

وہ اُسکے ایسے پورے حق دینے پر ہلکے سے مسکرایا ۔ وہ جانتا تھا وہ کوشش کر رہی ہے ماضی کا وقت بھول نئی زندگی شروع کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔ 

“ آیت ۔۔۔۔۔ مجھے کچھ پوچھنا ہے ۔ کیا جواب دو گئی ۔۔۔؟ برہان اُسکو ویسے ہی حصار میں جکڑے محبت سے ماتھے پر لب لگاتے گھبمیر بھاری ہوتی آواز میں پوچھ گیا ۔۔۔۔۔

پوچھو ۔۔۔۔ وہ اُسکی بانہوں میں جیسے سکون محسوس کر رہی تھی ۔ 

جب میں پہلے گھر آیا تھا ، تب تم فون پر سرحان سے بات کر رہی تھی ۔ 

آٹھ سال پہلے اُس رات ۔۔۔۔۔ وہ کون شخص تھا ۔۔؟ داتا بخش کیا جانتا ہے ۔۔۔؟ برہان جانتا تھا وہ یہ سوال کر کہ اُسکو تکلیف دے گا ۔ 

وہ اکرام سے فون پر بات کر آیا تھا ، انہوں نے بھی داتا بخش کی کہی باتیں برہان کے آغوش اتاری تھی 

“ آیت جو پہلے بہت خوشی سے اُسکی بانہوں میں سکون محسوس کر رہی تھی ، اُسکے اچانک سے ایسے ماضی کی کتاب پر سوال کرنے پر کالی سیاہ آنکھوں کی بھاڑ اٹھاتے مقابل کی نیلی آنکھوں میں جھانکا ۔ 

دونوں کی نظریں ملی تھی ، وہ بھی درد میں تھا تو آیت کی آنکھیں بھی پانی کی چمک سے بھری ۔۔۔۔

“ چھوڑو ۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔ وہ ایک بھی سکینڈ ضائع کیے بنا اُسکے حصار کو توڑنے کی کوشش کرنے میں لگی :۔

مجھے میرے سوال کا جواب چاہیے ، وہ اپنی گرفت مزید سخت کر گیا ۔ 

میرے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہے ، میں کچھ نہیں جانتی ۔۔ وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح پھڑپھڑائی 

“ آیت ۔۔۔۔ وہ بھی سپاٹ ہوا تھا ، جبکے ساتھ ہی سختی سے اُسکا نام پکارتے اُسکو خود کو دینے پر اُکسایا ۔

کیوں تم سمجھ نہیں رہی ہو ، مجھے جاننا ہے اُس رات وہاں کیا کیا ہوا تھا ۔ 

جانتا ہوں تمہیں تکلیف دے رہا ہوں۔ مگر مجھے اس جانور کا نام جاننا ہے ، کیا تم اسُ انسان کو جانتی ہو ۔۔۔؟ 

برہان کی آنکھیں سرخ لال ہوئی تھی ، آیت کو اُسکی نیلی سرخ پڑتی آنکھوں سے خوف آیا ۔۔۔۔

“ میں۔۔۔ کسی ۔۔۔ کو نہیں ۔۔۔۔ جانتی ۔۔۔ چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔ میرا دم گھٹ رہا ہے ۔۔۔۔” 

 آیت جس کا سانس اٹکنا شروع ہوا تھا ، برہان کی گرفت کو توڑنے کی کوشش کرتے وہ گھبرائی بولی 

تبھی مقابل نے اپنی گرفت کی سختی کم کرتے اُسکو حصار سے آزاد کیا 

وہ تیزی سے کھڑکی کی طرف منہ کرتے کھڑی ہوئی جبکے ساتھ ہی اپنا دوپٹہ گلے سے نکال برہان کے ٹاول پر پھینکا ؛۔

“ ریلکس ۔۔۔۔۔ برہان اُسکی حالت  دیکھ محبت سے کندھوں پہ ہاتھ رکھ گیا ؛۔

“ برہان تم کیوں ماضی کو واپس سے شروع کر رہے ہو ۔۔۔۔؟ آیت جو پوری طرح گھبرا اٹھی تھی 

مقابل کے ہاتھوں کو کندھوں سے جھٹکتے چیخی ۔ جبکے ساتھ ہی وہ چلتی بیڈ پر جاتے بیٹھی ۔۔۔۔

“ ہاو ۔۔۔ ڈے ۔۔۔۔ یو ۔۔۔۔ ابھی آیت جاتے بیڈ پر بیٹھی تھی کہ وہ اُسکو بازو سے جکڑتے دھاڑا اٹھا ؛۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی ، ایسے مجھ سے فاصلے بنانے کی ۔۔۔؟ وہ تو آگ بھگولہ ہوتے چیخا اٹھا کہ آیت نے اُسکا ہاتھ کیسے جھٹکا ؛۔

“ برہان ۔۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔ درد ہو رہا ہے ۔ آیت اُسکی سختی پر درد سے کراہ اٹھی 

جو درد تم مجھے دے رہی ہو ، اُس پر روشنی ڈالنا پسند کرو گئی ۔۔۔! وہ ماتھے پر بل ڈالتے چباتے بولا 

تو آیت کی کالی سیاہ آنکھوں سے آنسو گرنے شروع ہوئے ؛۔

وہ بے دردی سے آیت کو چھوڑ گیا تو آیت بیڈ پر گرنے والے انداز میں گری 

“ ایم سوری ۔۔۔۔ وہ خود کی بازو کو دیکھتے سوں سوں کرتی بولی تھی 

وہ جانتی تھی اُسکو ایسے خود سے دور کرنے پر غصہ آتا ہے وہ بے دھیانی میں یہ کر گئی تھی ۔۔

آیت ۔۔۔۔ وہ محبت سے اُسکے قدموں میں بیٹھا ۔ جبکے بہت چاہت سے اُسکے ہاتھوں کو اپنے گرم ہاتھوں میں دبایا ۔ 

“ آیت میں تھک چکا ہوں ، ماضی کی یادیں سب کچھ تمہارے ذہین سے نکال دینا چاہتا ہوں 

ہر طرف سے زندگی مشکلوں میں گھیر رہی ہے ۔ 

جانتا ہوں تم ماضی کو یاد کرنا نہیں چاہتی ۔ لیکن میں اُس رات کے بارے میں سننا چاہتا ہوں۔ 

چاہتا ہوں کہ جو تم سب سے چھپا رہی ہو مجھے پتا ہو ۔ کیا میرا یہ حق نہیں بنتا ۔۔۔؟ وہ اُسکو سمجھا رہا تھا اور ساتھ میں اُسکی آنکھوں کو صاف کرنا شروع ہوا ؛۔

میں کچھ نہیں بتا سکتی ۔ کیوں تم مجھے اذیت دے رہے ہو ۔۔۔؟ 

آخر تم سب لوگ مجھے میرے ماضی کو یاد کروانے پر کیوں ۔۔۔۔۔ 

ایسا کیا ہے ۔۔۔۔ جو تم ایسے چھپا رہی ہو ۔۔؟ اس سے پہلے آیت مزید آگے کچھ بولتی وہ ایک بار پھر سے اُسکے حصار میں جکڑی 

وہ اُسکی نازک سی کمر پر ہاتھوں سے دبوچ گیا ۔ آیت کی درد سے آنکھیں بھری تھی 

“ آیت تم میری ہو ۔۔۔،تم پر صرف میرا حق ہی نہیں ہے :، تم میرے عشق کا جنون ہو۔۔۔۔ “ 

میں چاہتا ہوں مجھے تمہارے بارے میں سب کچھ پتا ہو ، چھوٹی سے چھوٹی بات بھی میرے علم میں ہونی چاہیے ؛۔

وہ جنوانی سا اُسکو ساکت کر رہا تھا ۔ وہ درد میں تھی اُسکے جکڑنے پر وہ تکلیف محسوس کر رہی تھی ؛۔

“ لاہور “ 

تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی ۔۔۔؟ انار جو پریشہ کو بہوشی کی حالت میں دیکھ روم سے نکلی تھی ؛۔

سامنے ہی زر کو آتے دیکھ اُسکی طرف لپکی ۔ جمال جو ایک طرف چئیر پر براجمان تھا ۔ تیزی سے اٹھتے کھڑا ہوا ؛۔

حیا بھی قریب آئی تھی ، عالیہ نے نا سمجھی سے انار کو تو پھر حیا کو دیکھا ۔۔۔۔

دیکھیں ۔۔۔۔۔آپ ایسے اتنا خفا کیوں ہیں ۔۔؟ میں پریشہ ۔۔۔۔ 

ایک لفظ بھی میری بہن کے بارے میں نہ بولنا ۔ میں تمہاری زبان سے اپنی بہن کا نام بھی سننا نہیں چاہتی 

جا کر اپنے باپ سلطان شاہ سے کہہ دینا ، اگر میرے باپ کو کچھ ہوا تو میں اُسکی زندگی چھین لوں گئی ۔ 

اپنی زبان کو لگام ڈالو ۔ زر جو ضبط کیے ہوئے تھا اپنے باپ کا سن اُسکے ہاتھ جو گریبان پر تھے جھٹکا گیا ۔ 

برا لگا ۔۔۔۔۔؟ تیرے باپ کو کچھ بولا تو آگ لگ گئی ۔ 

اور جو تیرے باپ نے میرے باپ کے ساتھ کیا ۔ ایک بار سوچ ہمیں کیسا لگا ہوگا ۔۔؟ 

داتا بخش کی بیٹی ہوں، نا کبھی میرا باپ کسی کے سامنے جھکا تھا اور نہ ہی اُسکی بیٹیاں جھکیں گئیں:۔

بول اپنے باپ کو ۔۔۔۔ کہ بہت جلد میں اپنے باپ کو ڈھونڈوں لوں گئی ۔ 

انار اُسکو انگلی اٹھاتے بولی تو داتا بخش نام سن زر کے ساتھ ساتھ جمال بھی حیران ہوا ۔۔۔ 

مجھے جلد سے جلد میرپور کے لیے نکلنا ہوگا ، جمال کو یاد آیا تھا کہ وہ فیصل شاہ کے آدمیوں کو لاہور سے کسی کو لے جاتے دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔ 

اُسکو یقین آیا تھا کہ ضرور وہ داتا بخش ہی ہوگا ، زر بھی ہسپتال سے نکلا ؛۔

“ میرپور “ 

“ پری ۔۔۔۔۔ دودھ ۔۔۔۔ سرحان اُسکو فیصل شاہ اور اسماء بیگم کی تصویر دیکھتے دیکھ قریب ہی بیٹھا 

حور نے سرسری سا سرحان کو دیکھتے ساتھ ہی ایلبم بند کیا ۔ 

کیا سوچا جا رہا تھا ۔۔؟؟وہ گلاس اُسکے ہاتھ میں دیتے ساتھ ہی پوچھ گیا ؛۔

“ کچھ نہیں ۔۔۔ بس تھوڑی سی الجھی ہوئی تھی ، کہ تم سے یہ بات شئیر کروں تو تمہارا ری ایکشن کیا ہوگا۔۔۔؟ 

وہ دودھ کو پیتے ساتھ ہی جواب دے گئی ۔ سرحان چونکا ۔ 

کس بارے میں بات کر رہی ہو ۔۔۔؟؟ سرحان نے الجھے انداز میں پوچھا :۔

شام ٹائم تم آیت سے آٹھ سال پرانی کس بات کا پوچھ رہے تھے ۔۔؟ 

تمہیں کیا لگتا ہے ؟ میں اُس رات کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔؟ حور جو گلاس خالی کر چکی تھی 

اُسکو جھکتے ٹیبل پر رکھتے سرحان کو شاک کیا ۔ وہ بروان آنکھیں حیرانگی سے بڑی کر چکا تھا ۔۔۔۔ 

میں اسُ رات کا ایک ایسا حصہ ہوں جس کو کسی نے اُس رات نہیں دیکھا ۔ 

مگر ہاں ۔۔۔۔ اُس رات جو کچھ بھی شاہ ہاؤس میں ہوا وہ سب اپنی آنکھوں سے ضرور دیکھتے ان میں قید کیا ؛۔

وہ کرب سے کہتے ساتھ ہی درد سے آنکھیں بھنچ گئی۔ 

ک۔۔۔ کیا دیکھا ۔۔۔؟ وہ پوری طرح گھبرایا جبکے اپنی حیرانگی چھپانے کے لیے ماتھے پر چند لائن شکن کی ڈالی ؛۔

جانتی ہوں ۔۔۔۔ بچپن میں آیت کے ساتھ کیا ہوا ۔ جیسے ہی حور نے یہ کہا سرحان بیٹھے سے اٹھ کھڑا ہوا 

“ بتاؤ ۔۔۔۔۔ کیا میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں ۔۔؟ جانتی ہو ۔۔۔ جب سرحان تم سے سوال کر رہا تھا ۔ 

میرے بدن میں آگ کی چنگاریاں بھڑک رہی تھی ، وہ کیوں تم سے سوال کرتا ہے ۔۔؟ میں برادشت نہیں کر سکتا ۔ 

میں تمہارا ہم راز بننا چاہتا ہوں ، وہ نیلی آنکھوں میں لال سرخی مائل لیے گویا 

تو آیت کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے ہی اٹکا ۔ وہ برہان کا جب بھی کوئی نیا جنوانی روپ دیکھتی ایسے ہی ہو جاتی ؛۔

“ برہان ۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔ خوف ۔۔۔۔آ رہا ۔۔۔۔ ہے ۔ آیت نے درد سے آنکھیں بند کرتے مشکل سے یہ چند الفاظ ادا کیے تھے ۔۔۔ 

وہ اک دم سے اُسکو آزاد کر گیا ۔ جبکے طنزیہ ہنستے کھڑکی کی طرف گیا ؛۔

“ میں پاگل ہو جاؤں گا ۔ وہ خود کے بالوں کو نوچنے دھاڑا تو آیت نے ڈرتے منہ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ 

میں اذیت میں مبتلا ہو رہا ہوں ۔ یا تو میں حد سے زیادہ تمہارے لیے جنوانی ہوں یا پھر ۔۔۔ تم مجھے کبھی خود سے قریب ہونے نہیں دو گئی 

وہ آیت کی طرف دیکھتے کرب سے گویا تو آیت کی جھیل سی بھری آنکھیں اُسکا درد دیکھ برسی ۔۔۔۔

“ آیت مجھے ان اذیتوں سے آزاد کرو ، کیوں تم ۔۔۔ مجھ پہ رحم نہیں کھاتی ۔۔۔؟ وہ درد سے چیخا تھا ساتھ ہی زور سے ہاتھ دیوار میں رسیدہ کرتا کھڑکی پر دھر گیا ؛۔

آیت جو بیڈ پر بیٹھ چکی تھی ، ڈرتے خود کے آنسو صاف کرتی نیچے اتاری ۔ 

وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتے مقابل کے عین پیچھے آتے کھڑی ہوئی ؛۔

کالی سیاہ آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ پڑ چکی تھی وہ ننگے پاؤں اُسکے پیچھے کھڑی ہوتی ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں کو اُسکے گرد سے گزارتے پیچھے سے ہی اُسکے گرد حصار بنا گئی ۔۔۔ 

یوں کہ وہ کھڑکی پر ہاتھ رکھے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا ، اور وہ اُسکے پیچھے ساتھ لگتے مقابل کے سینےپر دونوں ہاتھوں کو آپس میں باندھتے حصار بنا گئی :۔

“ زیادہ غصہ مت کرو ، میں جانتی ہوں تم مجھے بہت چاہتے ہو ۔ 

 تمہاری چاہت ہی آج مجھے یہاں تمہارے قریب کیے ہوئے ہے ، برہان میں نہیں چاہتی کہ کسی بھی اذیت سے گزرو ۔ 

تمہیں دیکھ کر دل ہنسنے کو کرتا ہے ، تمہارے ساتھ زندگی کے خوبصورت پلوں کو جینا چاہتی تھی ۔ 

زندگی میں سبھی خوشیاں تمہارے سنگ محسوس کرنا چاہتی تھی ۔ 

“ اگر تمہیں خوشی اس میں ملتی ہے کہ تم ۔۔۔ میرے ہم زار بنتے سب درد خود کی جھولی میں ڈال لینا چاہتے ہو ۔ 

تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ وعدہ کرتی ہوں ، آج کہ بعد چھوٹی سے چھوٹی بات بھی تم سے شئیر کروں گئی ۔ 

وہ بھیگی پلکوں سے گرتے شبنم کی بوندوں سے مقابل کے دل میں لگی آگ پر مرہم رکھ گئی ؛۔

برہان جو غصے کی لہر میں تڑپ رہا تھا ، اُسکے ایسے بولنے پر سب کچھ بھول خود کے عصاب نارمل کر گیا ؛۔

“ میں جانتی تھی داتا بخش کہاں ہے ۔ داتا بخش نے مراد چاچو کو مارا ہے یا نہیں ۔۔۔ میں یہ سب کچھ تو نہئں جانتی ۔ 

مگر ہاں ۔۔۔۔۔ اتنا کہہ سکتی ہوں ، کہ وہ انسان اچھا ہے ، آٹھ سال پہلے ۔۔۔ اُس رات جو کچھ بھی ہوا 

کسی نہ کسی طرح اُس سے داتا بخش بھی جڑ گیا ۔ آیت مقابل کے ویسے ہی ساتھ لگے بولنا شروع ہوئی 

برہان خاموشی سے بہت غور سے اُسکی باتیں سننا شروع ہوا ؛۔

“ اسُ رات جب تم نے مجھے روم میں لاک کیا ، تب میں ۔۔۔ اُس خوف سے بھرے روم میں بہت ڈری ۔ 

میں نے کتنی ہی دیر وہاں ڈور بجایا تھا ۔ لیکن کوئی نہیں آیا ۔ میں تھک کر نیچے بیٹھ گئی تبھی اک دم سے ڈور کھولا ۔ 

لیکن میں حیران ہوئی ، چونکہ جو ڈور میں بجا رہی تھی وہ تو نہیں کھولا لیکن اُسی روم کا ایک اور ڈور تھا یہ مجھے اُس وقت پتا چلا جب لان کے پیچھے حصے کوئی ڈور کھول اندر داخل ہوا ۔۔۔ 

آیت جو کانپتی آواز میں بول رہی تھی ، اتنا بولتے اپنی ہاتھوں کی گرفت تھوڑی سی ٹائٹ کی ۔۔۔۔۔ 

جیسے وہ پھر سے ان منظروں میں خود کو اذیت پاتے محسوس کر رہی ہو ۔ 

میں بہت خوش ہوئی ، کہ کوئی مجھے نکالنے کے لیے آ گیا ۔ آیت کی آنکھیں درد سے ساتھ ہی بہی ۔۔۔۔” 

مگر میں انجان تھی ، وہ شخص میری طرف لپکا تو میں خوشی سے چہک اٹھی چونکہ ۔۔۔ آیت کی زبان چلتے چلتے رکی 

برہان جو دوسری طرف بہت غور سے سن رہا تھا ، ماتھے پر بل پڑے وہ کیا کہنے جا رہی تھی ۔۔۔۔

“ میں اُس شخص کو جانتی تھی ، لیکن اُس شخص میں ایک جانور رہتا ہے یہ میں نہیں جانتی تھی ۔ 

اس سے پہلے میں۔۔۔ کچھ کہتی یا ۔۔۔ بولتی ۔۔۔۔ 

وہ ۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔ ڈرانا شروع ہوا ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ؛۔

“ جانتے ہو ۔۔۔ اُس پل ۔۔۔ آیت کی آواز بھاری ہو چکی تھی رونے سے ہچکیاں باندھنا شروع ہو گئی 

“ اُس پل میں نے شدت سے چاہا تھا ، کہ تم واپس آ جاؤ ، کہیں نا کہیں دل میں امید تھی تم واپس آو گئے ۔ 

“ جیسے ہی آیت نے یہ کہا مقابل نے کرب سے نیلی آنکھیں بند کی ، تبھی آنکھوں سے بنا روئے آنسو گرے تھے ۔ 

“ لیکن اُس پل تم نہیں آئے ، آیت کے الفاظ سن مقابل نے مٹھیاں بھنچی :۔

وہ شخص ۔۔۔۔ بے دردی ۔۔۔۔ سے میرے ۔۔۔ کپڑے ۔۔۔ آگے چاہ کر بھی آیت بول نہیں پائی تھی ۔ 

اُسکے رونے میں تیزی بڑھی تو برہان کا دل جیسے ڈوبنے کو ہوا وہ بھی شائد اُس پل آگے بالکل سن نہیں سکتا تھا ؛۔

“ اس سے پہلے وہ ۔۔۔ شخص ۔۔۔ میرے ساتھ کچھ کرتا ۔۔ کسی کی آہٹ سن وہ میرے منہ پر ہاتھ رکھتے خاموش کروا گیا ۔۔۔ 

تبھی کسی نے وہ ڈور کھولا جس ڈور سے میں اندر آئی تھی ، برہان سمجھ چکا تھا کہ اُس پل وہی وہاں آیا تھا ۔ 

میں نے بہت کوشش کی ۔۔ کہ کسی طرح آنے والے کو خود کا حال بیاں کر سکوں۔ مگر شاید وہ بہت جلدی میں تھا ؛۔

وہ شخص ۔۔۔ دیکھنے کے لیے کہ جو روم کے باہر آیا تھا چلا گیا ۔ 

مجھے چھوڑ اُس ڈور سے باہر نکلا ، تبھی میں نے کوشش کی ۔۔۔ کہ میں ۔۔۔۔ وہاں سے بھاگ نکلوں۔ 

مگر افسوس میں چاہ کر بھی بھاگ نہیں پائی ۔ روم میں اتنا اندھیرہ ہو چکا تھا کہ مجھے ٹھیک سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا :۔

میں اندھیرے میں دیواروں پر ہاتھ مار رہی تھی کہ جس ڈور سے وہ شخص آیا تھا میں وہاں سے نکل جاؤں۔ 

اس سے پہلے میں مزید کوئی کوشش کرتی ۔ وہ شخص اک دم سے روم میں داخل ہوا ۔

آیت نے اپنی گرفت مزید برہان کے سینے پر سخت کی تبھی میں ڈر کر اپنی آواز بند کرتے وہاں پڑے سامان کے پیچھے ہوئی ۔ 

مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ، لیکن ہاں  میں نے ایک اور بچی کی آواز سنی ۔،

جس کو شاید وہ تھپڑ مار رہا تھا ۔ شاید اُسکو لگ رہا تھا میں بھاگ گئی ۔ 

وہ واپس سے مجھے سمجھ کسی کو پکڑ لے آیا ، میں پوری طرح خوف میں طاری تھی ۔ 

میرا سانس بند ہونے کو تھا ، وہ بچی چیخی رہی تھی ، اور میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔۔ 

برہان جس نے آنکھیں بند کی ہوئی تھی ، آیت کے الفاظ سن نیلی لال ہوتی آنکھیں کھول گیا ۔

جبکے ساتھ ہی اُسکے ہاتھوں میں کھولتے اُسکو خود کے سامنے کیا ، 

اُسکا چہرہ پورا بھیگا ہوا تھا ۔ آنسووں کے نشان گالوں پر پڑے ہوئے تھے پلکیں ابھی بھی بھیگی مزید بوندوں میں شرابو ہونے کو تیار تھی ۔ 

“ کوئی اور بچی ۔۔۔۔؟ برہان الجھا ۔ اس کا مطلب ۔۔۔ 

برہان پل میں ہی سب کچھ سمجھا ۔ 

جبکے آیت اُسکے گلے لگتے زور سے اُسکو بھنچ گئی ۔ 

میرے ساتھ کچھ نہئں ہوا ۔ میں بچ گئی تھی ۔ آیت اُسکے ساتھ لگتے دھمیے سے بولی تو برہان کے دل میں جسے سکون اتار وہ دل ہی میں اپنے رب کا شکر ادا کر گیا ۔ 

جبکے ساتھ ہی اُسکے گرد مظبوط حصار بنایا ۔ جیسے اُسکو خود میں چھپانے کی کوشش کی ہو ۔۔۔۔

“ میں بچ تو گئی ۔ لیکن ۔۔۔۔ آیت ویسے ہی اُسکے حصار میں کانپتی آواز میں لرزی ۔ 

میں چاہ کر بھی اُس بچی کو بچا نہیں سکی ۔ میں نے اُس کالی رات میں جو اُسکی چیخیں سنی وہ آج بھی میرے اندر خوف بڑھ دیتی ہیں ۔ 

میں چاہ کر بھی اُسکو بچا نہئں سکی ۔ اُس جانور میرے سامنے ۔۔۔ اُس بچی کو نوچ ڈالا ۔۔۔۔ 

میں ڈر خوف سے وہ رات آج بھی ذہین سے نکال نہیں سکتی ۔ 

اُس آدمی کا چھونا ۔۔۔ آیت کی سانس جیسے رکنا شروع ہوئی تھی ؛۔

کون تھا وہ ۔۔۔؟؟؟برہان ۔۔۔۔ آیت کو شانوں سے پکڑے خود کے سامنے کر گیا ۔۔۔

“ جانتے ہو ۔۔۔ برہان ۔۔ وہ بچی ۔۔۔۔ کون ۔۔۔ تھی ۔۔۔؟ آیت کی حالت پوری طرح خراب ہو چکی تھی 

چاہے وہ اُس رات فیصل شاہ کے نشانے سے بچ گئی لیکن وہ جو کچھ اپنی کم عمری میں دیکھ گئی تھی 

وہ چاہا کر بھی کبھی بھی ذہین سے نکال نہیں سکی تھی ۔ وہ رات اُس پر اس قدر حاوی ہو چکی تھی ، کہ جب بھی آیت یاد کرتی خود کو ختم ہوتا پاتی ۔۔۔۔

“ وہ لڑکی ۔۔۔۔ پ۔۔۔۔ پریشہ ۔۔۔۔ داتا بخش ۔۔۔ کی چھوٹی بیٹی ۔۔۔ تھی وہ عمر ۔۔۔میں مجھ سے چھوٹی ہے ۔ 

اُسکی حالت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ۔ وہ زور قطار روتے برہان کے سینے سے لگی ۔ 

جبکے برہان داتا بخش کی بیٹی کا نام سن شاکڈ ہوا ۔ جبکے آیت کو خود میں زوروں سے بھنچا ۔۔۔

“ جان لوگ واپس جا رہے تھے ۔ بڑی امی کے ساتھ ان سب کو خدا حافظہ کرتی گھر میں داخل ہو گئی تھی 

بڑی امی کیچن میں مصروف ہوئی تو میں گیند لیتے خود سے کھیلنا شروع ہوئی 

میں کھیلتے کھیلتے لان میں چلی گئی ، تبھی ۔۔۔ وہاں میں نے کسی لڑکی کے رونے کی آواز سنی ۔

مجھے لگا تھا جیسے میں نے ملازموں کے کمروں کی طرف کسی آدمی کو جاتے دیکھا ۔ 

میں گیند وہی چھوڑ اُس طرف چل پڑی ۔ حور سرحان کے سامنے بیٹھتے بتانا شروع ہوئی 

 وہ اُس بچی کو لیتے ایک روم میں گھسا ، میں نے صرف چیخنے کی آوازیں سنی تھی :۔

 “ میں نے بہت بار کوشش کی ۔ پاپا کو سچ بتا سکوں ۔ لیکن کبھی خود میں ہمت نہیں اکٹھی کر پائی ۔ 

میری آنکھوں کے سامنے پریشہ کی عزت تار تار ہو چکی تھی ۔ میں خوف سے سہمی کانپ اٹھی تھی :۔

میں نے وہ سب کچھ صرف دیکھا تھا ، لیکن وہ میرے ذہن پر ایسے نقش ہوا کہ میں کبھی بھی ان سب کو بھولا نہیں سکی :۔

جیسے ہی وہ آدمی وہاں سے نکالتے گیا ، میں خوف سے سہمی وہی جوڑی بیٹھی رہی ۔ تبھی وہاں داتا بخش کو دکھا تھا 

جو پریشہ کو اٹھاتے روتے ہوئے وہاں سے بھاگا تھا ۔ میں نے بھی ان کے پیچھے ہی ڈور لگائی تھی 

لیکن میں اس  قدر ڈر گئی تھی ، کہ لان کے باہر ہی وہی گندے پانی میں گر گئی ۔ 

 وہ ہچکیاں باندھے زور قطار رونا شروع ہوئی ۔ برہان کی رگیں تنی تھی ۔ 

کون تھا ۔۔۔۔؟؟ وہ سپاٹ دھاڑنے والے انداز میں بہت دھیمے سے آیت کا چہرہ ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتے گویا 

“ آیت کے ہونٹ مسلسل کانپ رہے تھے ۔ وہ جیسے مشکل سے سانس لے پا رہی تھی ۔ 

آیت مجھے بتاؤ ۔۔۔۔ برہان نے اُسکی آنکھوں سے آنسو چنے تو وہ کرب سے آنکھیں بند کر گئی ۔۔۔

فی۔۔۔ فیص۔۔۔ل۔۔۔فیصل ۔۔۔۔۔ آیت اُسکے کان کے قریب ہوتے سرگوشی کرتے وہی بے جان ہوئی 

“ آیت ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ گرتی مقابل نے اُسکو بانہوں میں بھرا تھا 

جانتے ہو ۔۔۔۔ وہ شخص کون تھا ۔۔۔؟ حور کی آنکھیں بھیگی ۔،فیصل شاہ ۔۔۔۔ فیصل شاہ وہ جانور تھا جس نے ۔۔۔ 

سرحان شاکڈ ہوتا بے یقینی سے کھڑا ہوا ۔ جبکے مٹھیاں بھنچتے ضبط کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ 

فیصل شاہ ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے لال ہوتا چیخا جبکے ساتھ ہی روم سے باہر نکلا ۔ 

حور اچانک سے اُسکا اتنا غصہ دیکھ اُسکے پیچھے لپکی ۔ 

“ آیت نے فیصل نام لیا ۔۔۔؟ اس کا مطلب ۔۔۔۔ وہ آیت پر کمبل ڈالتے خود کے بال نوچنا شروع ہوا 

اس کا مطلب۔۔۔۔ برہان کی رگیں تنی تھی ۔ دماغ اور دل ایک ہی سپیڈ پر رفتا پکڑ چکے تھے ۔ 

فیصل شاہ ۔۔۔ وہ آگ بھگولہ ہوتے مٹھیاں بھنچتے کبرڈ سے پسٹل نکال گیا ۔۔۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ سرحان ۔۔۔۔۔ کہاں جا رہے ہو ۔۔؟ اس سے پہلے سرحان گھر سے نکلتا حور ڈرتے اُسکے راستے میں حائل ہوئی 

میں اُس فیصل شاہ کو زندہ نہیں چھوڑوں گا ، اُس کی جان اپنے ہاتھوں سے لوں گا :۔

میں نے اس جانور کو بہت ڈھونڈا ، اگر مجھے علم ہوتا تو ۔۔۔ میں بہت پہلے ہی اس فیصل شاہ کی کہانی ختم کر دیتا ۔ 

وہ لال آگ کی سلگتی چنگاریوں جیسی آنکھوں سے بھڑک تو حور نے مشکل سے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے کنٹرول کرنا چاہا ۔ 

“ ریلکس ۔۔۔۔۔ تمہیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں خود اُسکو سزا دوں گئی ۔

یقین کرو میرا ۔۔۔۔ تمہیں اس قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ، اُسنے صرف ایک یہی گناہ نہیں کیا :۔

اگر تمہیں میں اُسکے بارے میں سب کچھ بتاؤں گئی تو۔۔۔۔ تم تو وہ برادشت نہیں کر سکو گئے ۔۔۔ 

کیسے چھوڑ دوں اُسکو ۔۔۔؟ اُسکی اتنی جرات کیسے ہوئی ۔۔۔۔؟؟ ماضی میں کیے اُسکے سبھی گناہوں کی سزا میں خود دوں گا ۔ 

وہ حور کا ہاتھ جھٹکتے اُسکو پیچھے کرتے تیزی سے گھر کے ڈور سے نکلتے ساتھ ہی باہر سے اُسکو بند کر گیا ۔ 

“ سرحان ۔۔۔۔۔۔ حور چیخی تھی جبکے ساتھ ہی زور سے دروازہ پیٹھا ۔۔۔۔

“ برہان ۔۔۔۔۔ آیت جو بہوش ہو چکی تھی ، اک دم سے ہوش میں آتے برہان کو پکارا ۔۔۔

وہ بیڈ سے اٹھتے ڈریسنگ روم کی طرف لپکی ۔ جہاں سے آوازیں آ رہی تھی ۔

“ برہان ۔۔۔۔۔ وہ اُسکو پسٹل لوڈ کرتے دیکھ ڈر سے گھبرائی ۔ 

میں فیصل شاہ کو وہ موت دوں گا ، کہ وہ مرنے کے بعد بھی سکون نہیں پائے گا ۔ وہ جو واپس پلٹا تھا

آیت کو سامنے ساکت کھڑے دیکھ غصے سے لال ہوتے کہتا آگے بڑھا ۔

“ نہ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ وہ مرے قدموں سے اُسکے پیچھے لپکی تھی ۔

 جبکے تیزی سے بھاگتے وہ روم کے ڈور کے  ساتھ چیکی ، تاکہ اُسکو جانے سے روک سکے ۔ 

“تم ایسے کچھ نہیں کرو گئے ، میری بات سنو ۔ آیت گھبرائی آواز میں بولی تو برہان نے وحشت سے بھری نگاہیں اُس پر گاڑھی “ 

آیت پیچھے ہٹو ۔ اُسکو میں سزا دئیے بنا نہیں رہ سکتا ۔ اس کا مطلب اسی شخص نے تمہیں تین سال پہلے کوٹھے ۔۔۔ 

وہ چباتے جیسے سب کچھ یاد کرنا شروع ہوا تھا ۔ اُسکا بس نہیں چلا تھا کہ وہ ابھی اُسکے سامنے ہوتا اور وہ اُسکا برا حشر کر دیتا ۔ 

“ برہان ۔۔۔۔ تمہارے ایسے اُسکو مارنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔ جو آٹھ سال پہلے ہوا وہ واپس سے ٹھیک نہیں ہو جائے ۔ 

“ خدا کا واسطہ ہے ۔ مت مارنے کی باتیں کرو ، میں نہیں چاہتی تم اُس کے قاتل بنو ۔ میں مزید کوئی تکلیف برادشت نہیں کر سکتی ۔۔۔ 

تو تم چاہتی ہو ۔ میں اُسکو ایسے زندہ مزید لوگوں کی زندگیاں تباد کرنے دوں ۔ وہ قہر بھری نظریں آیت پر ڈالتے ساتھ ہی اُسکو بازو سے جھٹک گیا ۔ 

“ مجھے کچھ لینا دینا نہیں ہے اس جانور سے ۔ وہ بھی منہ کے بل چیخی تھی ۔ 

جبکے ساتھ ہی مقابل کو پوری طاقت لگائے دھکا دیا وہ ہلکا سا پیچھے ہوا تھا ۔ 

کیوں تم میری تکلیف سمجھ نہیں رہے ، کیوں تم مجھے زندہ ہی ختم کر دینا چاہتے ہو 

وہ خود کے بالوں کو نوچتے روتے اُسکے سامنے ہوئی برہان نے بے یقینی سے اُسکو دیکھا تھا ۔۔۔ 

“ ٹھیک ہے ۔ تم مارو اُسکو ۔۔۔ پھر کیا ہوگا ۔۔۔؟ سب کچھ ٹھیک ہو جائے ۔۔۔؟ کیا میرا برا وقت میں بھول جاؤں گئی ۔۔؟ 

کیا پریشہ کی زندگی نارمل ہو جائے گئی ۔۔؟ بتاؤ مجھے برہان۔۔۔۔؟؟ 

آیت اسکے قریب ہوئی تھی ، کیا بتاؤ گئے اس دنیا کو ۔۔۔ کہ تم نے اُس جانور کو کیوں مارا ۔۔؟ 

کیا دنیا کے سامنے اپنی عزت کا تماشہ بناؤ گئے ۔۔۔؟ وہ ٹھنڈے برف کی مانند پڑتے ہاتھوں سے اُسکا گرم تپش سی آگ جیسا چہرہ اپنے پیالوں میں بھر گئی 

جانتی ہوں ، جو کچھ میں نے تمہں بتایا ہے وہ برادشت کرنا مشکل ہی نہیں بہت بڑا امتحان ہے ۔۔۔ 

“ تمہیں کیا لگتا ہے ، کیا وجہ تھی کہ یہ سب کچھ اپنے دل میں چھپا کے بیٹھ گئی میں۔۔؟ 

میں چاہتی تو اپنے باپ کو بتا سکتی تھی ، سرحان ۔۔۔ جانتے ہو مجھے سرحان سے اتنا لگاؤ کیوں تھا۔۔۔؟ 

کیونکہ اس نے میرا درد محسوس کیا ، وہ تکلیف سمجھ خاموشی لبوں پر پھیلا گیا ۔ وہ میرا محافظ بنے ہوئے تھا :۔

میرے ایک بار بتانے پر سب کچھ خاندان میں ختم ہو سکتا تھا ۔ 

 پاپا نے اُس رات مجھے اپنی آغوش میں بھرتے دنیا کی نظروں سے چھپا لیا ۔ داتا بخش اپنی بیٹی کو لیتے بنا کچھ کہے غائب ہو گیا ۔ 

برہان ۔۔۔۔ لڑکی کی عزت کانچ کی طرح بہت نازک سی ہوتی ہے ۔ 

پاپا چاہتے تو شاہ ہاؤس میں تماشہ لگا سکتے تھے ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ میری ماں میرے ساتھ ہوئی ہر چیز سے بے خبر ہے ۔کیوں تم سب کو اس اذیت سے گزارنا چاہتے ہو ۔۔۔ 

میں کچھ برادشت نہیں کر سکتی ، آیت کی آنکھیں بھیگتی اپنا درد بیاں کر گئی تو برہان نے کرب سے آنکھیں بند کی :۔

تمہارے پریشہ کا نام لینے سے اُسکی زندگی جو بچی ہے وہ ختم ہو جائے ۔ 

ایک بار۔۔۔۔ صرف ایک بار اُس بچی سے ملو ۔ تم خود اندر سے جکڑ جاؤ گئے ۔ 

جانتی ہوں اتنا بڑا راز دل میں چھپائے رکھنا تمہارے لئے بہت بڑی اذیت بنے والا ہے ۔ لیکن ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ ایسے اُسکو اُس وجہ سے ختم مت کرو 

کہ میں زندگی بھر سر اٹھا کر جی نا سکوں ۔ چاہیے میرے ساتھ کچھ نہیں ہوا ۔ مگر اُس رات کا پہلا حصہ میں ہی تھی ۔

میں وہ اذیت بھول نہیں پاتی ، میں اگلے اٹھنے والے طوفانوں کا سامنا نہیں کر سکتی ۔ 

“ مت کرو دنیا کے سامنے اس باتوں کا ذکر ۔ مت مجھے سوا ہونے دو ۔ میں مر جاؤں گئی ۔۔۔۔ 

وہ اُسکا چہرہ چھوڑ نیچے گرتے اُسکے پیروں میں بیٹھی تو کتنے ہی درد ، بے بسی کرب کے آنسو برہان کی نیلی جھیل جیسی آنکھوں سے بہے ۔۔۔۔۔ 

وعدہ کرتا ہوں، کبھی بھی یہ راز کسی کے سامنے آنے نہیں دوں گا ۔ وہ محبت سے چور لہجا لیے اُسکو اپنی بانہوں میں بھرتے خود میں بھنچ گیا ۔ 

وہ آدھی رات کے پہر اندھا دھند باکسنگ بیگ پر باکسنگ کر رہا تھا :۔

“ تین سال پہلے آیت کو کوٹھے پر پہنچانے والا بھی فیصل شاہ تھا ۔۔ 

برہان جو اندھا دھند پسینے سے شرابور ہوتے اپنا غصہ نکال رہا تھا ، 

تبھی اُسکو ساہیوال کا واقعہ یاد آیا تھا ، جب آیت نے کہا تھا کوئی روم میں آیا ۔ اسکی رگیں تنی تھی 

ماتھے سے پسینا بہاتے اُسکی بینان میں جذب ہو رہا تھا ، کسرتی سخت بازوں پر اُسکے ڈولے پھولتے اُسکی اندر چلتی جنگ کا جیسے پتا دینا شروع ہوئے 

وہ پورا لال ہو چکا تھا ، وہ یہ کبھی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا ۔

اُسکو آیت کی باتیں اندر تک جکڑ چکی تھی ، وہ بھی تو اپنی عزت پر کوئی آنچ آنے نہیں دے سکتا تھا 

وہ سب کچھ جان کر بھی بے خبر بنے والا تھا ، اُسکا پارہ بڑھتا ہی جا رہا تھا ؛۔۔

ایسی اذیت ایسا درد کیوں اوپر والے نے لکھا تھا وہ چاہ کر بھی یہ شکوہ نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ 

فیصل شاہ کو تو وہ ویسے بھی نہیں چھوڑے گا ، وہ یہ تہ کر گیا تھا ؛۔

اُسکی احاطے برہان کا فون بجا تھا ، خادم ، ہاشم لوگ پریشان کھڑے صرف برہان کو دیکھ رہے تھے :۔

“ سرحان سر ۔۔۔۔ کی کال آ رہی ہے ۔ کاشف جو سب کے ساتھ ہی کھڑا برہان کو دیکھ رہا تھا :۔

اپنے فون پر نمبر جگمگاتے دیکھ ہاشم اور خادم سے بولا ۔ 

پک کر ۔۔۔ ہاشم نے جیسے ہی کہا ، کاشف نے فون کان سے لگایا ۔ 

کیا کہے رہے تھے ۔۔۔؟ جیسے ہی کاشف نے فون بند کیا ۔ 

ہاشم نے فورا سے پوچھا 

“ برہان سر کا پوچھ رہے تھے ۔ میں نے بتا دیا گھر پر ہی ہیں ۔ کاشف نے بتاتے ساتھ ہی سامنے دیکھا ؛۔

تم ایسے غصے میں کیوں ہو ۔۔۔؟ برہان جو ٹاول سے منہ صاف کرتے لان میں آیا تھا ۔ سرحان کو ٹہلتے دیکھ پوچھا ۔

وہ کافی حد تک خود پر ضبط کر گیا تھا ، وہ جانتا تھا اُسکو غصے سے نہیں ہوش سے اور دماغ سے کام لینا ہوگا :۔

آٹھ سال پہلے ۔۔۔۔ فیصل شاہ ۔۔۔ 

میرے خیال سے ہمیں اندر چلنا چاہیے ۔ برہان جو اُسکے پاس ہی چلتے آیا تھا ۔ آٹھ سال پہلے سن سپاٹ بولتے آگے بڑھا ۔

سرحان بھی ضبط کرتے اُسکے پیچھے ہی لپکا ۔ 

بولو ۔۔۔ برہان اُسکے چہرے سے سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا بات کرنے والا ہے ۔ 

مجھے لگتا ہے ، فیصل شاہ نے ۔۔۔ 

سرحان ۔۔۔۔ آج تو یہ بات کی آگے سے مت کرنا ۔ برہان نے بہت آرام سے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا

تم جانتے ہو ۔۔۔؟ سرحان بھی اُسکی آنکھوں سے سب کچھ سمجھا ۔ 

تم خاموش کیسے ہو ۔۔؟؟؟ مجھے یقین نہئں آ رہا ۔۔۔ سرحان نے بے یقینی سے برہان کو دیکھا ۔ 

کبھی کبھی خاموشی سے کام ختم کرنے پڑتے ہیں ، میں نہیں چاہتا ماضی کی باتیں میرے آج پر اثر ڈالے ۔ 

“ میں سبھی حساب برابر کروں گا ، لیکن ۔۔۔۔ بہت ہی لاجواب طریقے سے ۔۔ جا سے سانپ بھی مر جائے اور لانڈھی بھی نہ ٹوٹے ۔۔۔۔ 

برہان اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے آنکھوں سے ہی بہت کچھ سمجھ گیا تو سرحان نے خاموش ہوتے لب بھنچے ، 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ساہیوال 

کیا ہوا نادیہ ۔۔۔۔؟ مان جو ابھی نادیہ کے گھر پہنچا تھا، اُسکو تکلیف سے بلکتے دیکھ اُسکی طرف لپکا ؛۔

مجھے بہت درد ہو رہا ہے، وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے چیخی تو مان اُسکی حالت خراب ہوتے دیکھ اُسکو صوفے پر بٹھا گیا ۔

خالہ لوگ کہاں ہیں۔۔۔؟ وہ پانی کا گلاس لاتے اُسکو دے گیا 

امی ۔۔۔۔ حمیدہ خالہ لوگوں کی طرف گئی ہیں وہ مشکل سے بولتے ساتھ ہی چیخی ۔ 

ہمیں ہسپتال چلنا ہوگا ، وہ اُسکی حالت دیکھ اُسکو آہستہ سے بازو سے پکڑتے اپنے ساتھ باہر کی طرف لے گیا ؛۔

مان ۔۔۔۔ کہاں ہے میری بچی ۔۔۔؟ نادیہ کی ماں خبر ملتے ہی سیدھی ہسپتال پہنچی تھی ۔ 

جبکے ان کے ساتھ شبانہ بیگم اور حمیدہ بیگم بھی آئی ۔ 

آپشن چل رہا ہے ۔ وہ اتنا بولتے پریشانی سے ٹہلنا شروع ہوا ۔ جبکے وہ سب بھی وہی بیٹھی ۔ 

“ مبارک ۔۔۔۔ ابھی وہ سب انتظار کر رہے تھے جب ڈاکٹر نے آتے ہی بولا اور ساتھ ہی بچے کو آگے کیا ۔ 

“ بیٹا ہوا ۔ وہ خوشی سے بتاتی ساتھ ہی بچہ مان کی طرف بڑھا گئی تو سب مسکراتے جلدی سے کھڑے ہوئے ۔ 

مان چھوٹے سے بچے کو دیکھ مسکراتے اپنی ماں کو دیکھ گیا جو مسکراتی بچے کو مان کی گود سے لے گئی تھی ۔ 

یہ مٹھائی کہاں سے آئی ہے ۔۔۔۔؟ ارم جو یونی سے پڑھتے آئی تھی ادیان کے ساتھ ۔۔۔ نمرین آپی کو دیکھتے پوچھ گئی 

نادیہ کو بیٹا پیدا ہوا ہے ۔ اُسی کی خوشی میں مٹھائی بانٹی گئی ۔ ابھی نمرین ویسے ہی کھڑی تھی کہ ایمان محمد کو گود میں لیتے مسکراتے ارم کو بتا گئی ؛۔

ارم جو برفی منہ میں ڈالنے لگی تھی ، ویسے ہی آگے بڑھی ۔ 

ارے ۔۔۔۔ اس کو کیا ہوا ۔۔۔؟ ایمان جو دیکھ گئی تھی اُسکو اوپر جاتے دیکھ نمرین آپی سے بولی 

“ اللہ ہی جاننے ۔۔۔۔ نمرین اتنا کہتی ادیان کو کھانا دینا شروع ہوئی ۔ 

اس کا مطلب ۔۔۔ مان ہسپتال میں مصروف تھا اسی لیے ادیان مجھے لے کر آیا ۔ وہ روم میں داخل ہوتے ہی غصے سے بیگ پھینکتے بڑبڑائی ؛۔

جیسے ہی چھٹیاں ہوئی میں گاوں چلی جاؤں گئی ،وہ غصے سے بھری واش روم میں گھسی :۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور 

ایان تم یہاں ۔۔۔؟ نعمان جو ابھی اپنی ایک میٹینگ سے فارغ ہوتے کیبن کی طرف بڑھا تھا ۔ 

ایان کو باہر ویٹ کرتے دیکھ حیران ہوتا اُسکے پاس رکا ۔ 

جبکے گلے ملتے دریافت کیا ۔ 

مجھے آپ سے ضروری بات کرنی تھی ۔ سوچا آفس میں ہی کر لوں ، وہ بھی ہلکے پھلکے انداز میں بولا ۔ 

چلو ۔۔۔ نعمان اُسکو لیتے کیبن میں داخل ہوا ، ساتھ ہی چائے لانے  کا حکم سعا کیا ۔ 

ہاں بولو ۔۔۔ خیریت ۔۔۔؟؟ نعمان پوری طرح ایان کی طرف متوجہ ہوتے بیٹھا ۔ 

دراصل ۔۔۔ مجھے آپ کو کچھ بتانا تھا ، وہ ایک لمبا سانس بھرتے خاموش ہوا 

کہو ۔۔۔ نعمان کو وہ کچھ الجھا ہوا نظر آیا ۔  

میں آپ اپنی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ ایک لڑکی تھی 

جو مجھ سے بے انتہا محبت تھی ، اُسنے پہلی بار ایسے ماڈل زمانے میں خط لکھے ۔ ایان کے لب پہ ہنسی پھیلی ۔ 

نعمان بہت غور سے اُسکی کہانی سن رہا تھا ۔ وہ لڑکی مجھے ہر جگہ تنگ کرتی ۔پہلے تو اُس لڑکی کا مجھے تنگ کرنا بہت غصہ دلاتا ۔ لیکن آہستہ آہستہ مجھے اچھا لگنے لگا  وہ اکثر ۔۔۔ مجھے خط کے ساتھ کبھی پھول تو کبھی کوئی گفٹ بھجتی ۔۔۔ 

پھر بات فون تک پہنچ گئی ، ایک دن میں نے اُس لڑکی کو ملنے کا بولا لیکن کسی مصیبت کی وجہ سے وہ ملنے نا آئی ۔ 

مگر ایک دن ۔۔۔ ایان جو پہلے خوشی سے بول رہا تھا اب کہ ہنسی کی جگہ اداسی نے لی ۔۔۔

ایک لڑکی میرے پاس آئی اور اُسنے بولا وہ ۔۔۔ وہی لڑکی ہے جو مجھے تنگ کرتی خط لکھتی تھی ؛۔

میں نے اُسکی بات پر یقین کر لیا ، چونکہ میں نے پہلے کبھی اُس لڑکی کو دیکھا بھی نہیں تھا ۔ مجھے لگا اگر وہ بول رہی ہے تو سچ ہی ہوگا ۔۔۔ 

آہستہ آہستہ میں اُس لڑکی کے ساتھ ٹائم گزرانے لگا ۔ جب بھی میں اُس لڑکی کے ساتھ ہوتا مجھے وہ فیلنگ نہیں آتی جو فون پر بات کرنے سے آتی تھی ۔ 

میں نے بہت سوچا ۔۔۔ ابھی میں تہ تک پہنچتا کہ اس لڑکی نے مجھے شادی کے لیے پرپزوس کر دیا ۔ 

میں انکار نہ کر سکا ، چونکہ اُسنے مجھے پوری یونی کے سامنے پوچھا ۔

نعمان چونکا تھا ۔ جبکے اُسکو یاد آیا تھا کہ عابش نے ہی ایان کو ایسے اظہار کیا تھا ۔ 

میرا دل مجھے الجھا رہا تھا ، میں نے اُس لڑکی کا پتا کرنا چاہا کہ کیا پتا میں غلط ثابت ہو جاؤں لیکن جو شک ہے مجھے ۔۔ وہ تو دور ہو جائے گئی 

میں نے کسی دوست سے مدر لی ، جانتے ہیں ۔ مجھے کیا پتا چلا ۔۔۔؟ ایان نے اب کہ نعمان کو دیکھا ۔ 

جو بہت حیرانگی اور حیرت سے کہانی سن رہا تھا ۔ 

مجھے پتا چلا کہ جس لڑکی کے ساتھ میں ہوں ، وہ لڑکی تو وہ ہے ہی نہیں ۔ 

بلکے وہ کوئی اور لڑکی ہے ۔ اور وہ ۔۔۔ ایان خاموش ہوا تھا ۔ 

نعمان الجھا اُسکو دیکھ رہا تھا ۔ وہ لڑکی جس نے مجھے خط لکھے وہ حیا تھی ۔ آپ کی بہن ۔۔ 

ایان نے بہت آرام سے بولتے نعمان کی زمین ہلائی ۔ جانتا ہوں آپ کو شاید یقین نا آئے۔ 

لیکن یہی سچ ہے ۔ حیا مجھ سے محبت کرتی ہے ۔ میں بھی اُسکو چاہتا ہوں۔ 

مگر ابھی الجھا پڑا ہوں ، عابش ۔۔۔ میرے اور حیا کے درمیان میں آ گئی ہے :۔ 

حیا مجھ سے بھاگ رہی ہے ، چونکہ اُسکو لگتا ہے عابش مجھے چاہتی ہے۔ 

میں کیا کروں ۔۔۔ اگر وہ چاہتی ہے ۔۔۔؟ جو میں اُسکو چاہتا ہوں اُسکا کیا کروں ۔۔؟ ایان سپاٹ ہوتے پوری طرح نعمان کو حیران کن کر گیا ؛۔

“ حیا ۔۔۔۔ تمہیں چاہتی ہے ۔۔۔؟ نعمان کو تو جیسے یقین ہی نہئں آ رہا تھا ۔ 

ہاں ۔۔۔ مجھے چاہتی ہے ۔ وہ ابھی چاہنے نہیں لگی ، وہ مجھے تب سے چاہتی ہے جب آپ کی اور نمرین آپی کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ 

تین سال سے حیا مجھے فالو کر رہی تھی، جانتا ہوں نعمان بھائی آپ کو یہ سب باتیں بہت عجیب لگ رہی ہونگی 

لیکن یہی سچ ہے ۔ ابھی میں صرف آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ آپ کسی طرح میری اور عابش کی شادی توڑ دیں ۔ 

ایان نے درخواست کرتے نعمان کو دیکھا ۔ 

میرے خیال سے تمہیں جانا چاہیے ، میری میٹنگ کا ٹائم ہو گیا ہے 

نعمان اُسکے کسی بھی سوال کا جواب دئیے بنا ہی اٹھا تو ایان نے صدمے سے اُسکو جاتے دیکھا ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میرپور

وہ۔۔۔۔۔ برہان شاہ ۔۔۔۔؟؟ مراد شاہ کا بیٹا ہے ۔۔۔؟ سرشار تو اپنے باپ سے سن حیران ہوتے ساتھ ہی شاک ہو گیا 

بہروز جو قریب ہی بیٹھا تھا ۔ آرام سے ثُگار پیتے کش بھرا :۔

یہی سچ ہے ۔ جب سے پتا چلا ہے فیصل شاہ تو گھوما پھیر رہا ہے ۔ اوپر سے اُس نے ایک بار فیصل شاہ کو دھمکی بھی لگا دی ہے ۔ 

وقار شیزاری نے تفیصل سے گویا ۔ 

لیکن یہ ہوا کیسے ۔۔۔؟ سرشار تو ابھی بھی بےیقینی کے عالم میں تھا ۔ 

وقار شیزاری ۔۔۔ پانی سر سے اوپر گزرنے والا ہے ، ابھی وقار اپنے بیٹے کو بتاتا کہ داتا بخش نے بتایا ؛۔

 فیصل شاہ اک دم سے ناز ہوتا گھبرایا سا بولا ۔

ہوا کیا ہے ۔۔۔۔؟ وقار شیزاری بھی جلدی سے اٹھتے کھڑا ہوا :۔

ہونا کیا ہے ۔ میرے لاہور اور ساہیوال والے سارے کاروبار پر چھاپ پڑ چکا ہے ۔ اور میرے آدمی کے مطابق یہ سب کچھ برہان نے کیا ہے ۔

“ خدا جاننے وہ کیوں میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے ، مجھے تو لگتا ہے اُسکو وہ کیمرہ مل گیا جو داتا بخش نے چھپایا تھا ؛۔

اس سے پہلے وہ میرے گریبان تک پہنچے ہمیں اُسکو ختم کرنا ہوگا ۔ 

اگر اُسکو ختم نہ کیا تو وہ ہم سب کو تباد کر ڈالے گا ، اب تو اسُکو بھی پتا چل گیا ہے کہ وہ مراد شاہ کا بیٹا ہے ۔ 

فیصل شاہ کے ہاتھ پاؤں پھولے تو وقار شیزاری کی سانس بھی تھمی ۔ 

“ ریلکس ۔۔۔۔۔۔ !! اگر تم سب چاہتے ہو کہ ہم برہان کو اندر سے ماریں تو جیسا میں کہتا ہوں ویسا ہی کرنا ہوگا ؛۔

بہروز جو سُگار پی رہا تھا ۔ دھواں چھوڑتے سبھی کو دیکھا ۔ 

کیسے ختم کر سکتے ہیں ۔۔۔؟ فیصل شاہ جلدی سے بیٹھا تو وقار شیزاری نے بھی تیکی سی نگاہ ڈالتے بہروز کو دیکھا 

اُسکو مارنے سے بہتر ہے ، اُسکی کمزوری پر حملہ کیا جائے ۔ اب یہ تم لوگ بتاؤ کہ اُسکی کمزروی کون ہے ۔ 

ماں ۔۔۔۔۔بہن ۔۔۔۔۔بیوی ۔۔۔۔باپ ۔۔۔۔۔؟ کون ہے اُسکی کمزروی ۔۔۔؟ بہروز نے بہت آرام سے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھاتے دریافت کیا 

ان لوگوں کو مار کر کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ، کیا فالتو میں ٹائم ضائع کر رہے ہو ۔۔۔ 

فیصل شاہ جتنی جلدی سے بیٹھا تھا سن کر اتنی ہی جلدی سے تپتے اٹھا ۔ 

ایک بار پہلے بھی برہان شاہ پر ہم نے حملہ کیا تھا ، اور نتیجہ تم سب کے سامنے ہے ۔

اگر خود مرنا نہیں چاہتے تو پہلے اُسکی کمزروی پر وار کرنا ہوگا ۔ جب کمزروی ٹوٹ جائے گئی تو برہان شاہ کو خود اپنے ہاتھوں سے مارنے کا موقعہ ملے گا ۔ 

ابھی سوچ لو کیا کرنا ہے ۔۔۔۔؟؟ میں تو اُسکو تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ بہروز نے غیص پل سے بولا 

میں بھی اُسکو تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ چاہتا ہوں وہ زندگی کی بھیگ مانگے ۔ سرشار کی آنکھوں میں بھی خون سوار ہوا ۔۔۔۔۔۔

میرے خیال سے اُسکی کمزروی ۔۔۔۔۔ اُسکی بہن ہے ۔ وقار شیزاری نے سوچتے بہروز سے گویا 

نہیں ۔۔۔۔۔ بیوی ہے اُسکی کمزروی ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں وہ کس قدر اُسکا جنوانی ہے ۔ 

بیوی پر کوئی بھی آنچ آنے نہیں دیتا ، فیصل شاہ اچھے سے جانتا تھا کہ برہان کس قدر آیت پر مرتا ہے ۔ 

ٹھیک ہے ۔۔۔ پھر بیوی کو اٹھا لاؤ ۔ برہان شاہ خود ہمارے قدموں میں گر جائے گا ۔ بہروز اتنا کہتے وہاں سے گیا 

تو وقار شیزاری نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا ۔ تاکہ جلد سے جلد عمل کیا جا سکے ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

“ آیت ۔۔۔۔ جان نے کب آنا ہے ۔۔۔؟ حور جو صبح ہوتے ہی سرحان کے بھجے ڈرائیو کے ساتھ فام ہاؤس پہنچی تھی 

آیت سے ملتے وہ برہان کا پوچھ گئی تھی ۔ حور سرحان سے خفا تھی ۔ 

سرحان بھی کہیں نکلا ہوا تھا ، جب حور نے سرحان کا آیت سے پوچھا تو آیت نے بتایا کہ اُسنے تو ابھی تک سرحان کو دیکھا بھی نہیں ۔۔۔۔

“ مجھے کیا پتا ۔۔۔۔۔ جب کام ختم ہوگا تو آ جائے گا ۔ آیت جو سوچ رہی تھی کہ داتا بخش کہاں ہوگا ۔ 

حور کو بھی ساتھ ہی جواب دے گئی ۔ 

تم کیا سوچ رہی ہو ۔۔۔؟ حور ٹہلنا بند کرتی صوفے پر آتے آیت کے ساتھ دھر سے براجمان ہوئی ؛۔

“ کچھ نہیں ۔۔۔۔ حور ۔۔۔۔ تبھی آیت کا چہرہ مسکرایا ؛۔

مجھے برہان کے لیے کچھ خاص کرنا ہے ۔ توں میرے ساتھ مال چلے گئی ۔۔۔؟ 

ہم وہاں سے کوئی اچھا سا ڈریس خریدیں گئے اور ہوٹل جاتے ٹیبل بک کروا کر آئیں گئے ۔ 

میں آج رات برہان کے ساتھ ڈنر باہر کرنا چاہتی ہوں ، میں چاہتی ہوں، وہ اس پریشانی والے ماحول سے کچھ باہر نکلے ؛۔

کیسا آکیڈیا ہے ۔۔۔؟ وہ اپنا خیال بتاتے ساتھ ہی حور کا جواب مانگ گئی 

“ سُپر۔۔۔۔ کمال ۔۔۔۔ ویسے آج میرے بھائی پر اتنی مہربانی کیسے ۔۔۔؟ حور چہکتے اُسکے کندھے پر دباو دیتے شوخ ہوئی ۔ 

“ اب ایسی بھی بات نہئں ۔۔۔۔۔ میرا بھی دل کرتا ہے میں اُس کے ساتھ زندگی کے سبھی رنگ جیوں۔۔۔۔ 

توں بتا اگر اس کے علاوہ کوئی اور اچھا طریقہ ہے تو ۔۔۔۔؟ آیت مسکراتے حور سے مدر مانگ گئی ؛۔

ہممم۔۔۔۔۔ وہ سوچنے والے انداز میں گال پر انگلی رکھ گئی ؛۔

ایک طریقہ اور ہے ، اگر توں وہ کر دے تو بھائی تو تیری ان زلفیوں سے ہی باہر نا نکل پائیں گئیں۔۔۔

حور راز داری سے چہکتے پھر جوش ہوتی سپپٹا آیت کے قریب ہوئی ۔ 

“ وہ کیا ۔۔۔۔؟ آیت اُسکا چہرہ دیکھ ہلکے سے مسکراتے استفسار کر گئی ۔ 

“ توں آج کی رات بھائی کی ۔۔۔سمجھ جا نہ ۔۔۔ حور شرمانے کی ایکٹنگ کرتے آیت کی سانس اٹکا گئی 

جبکے جیسے ہی مطلب سمجھ آیا ، وہ کان کی لو تک سرخ ہوئی ، جبکے شرمانے کے ثرارت چہرے پر بھی پھیلے ۔ 

“ حور توں بہت خراب ہو گئی ہے۔ آیت نے ہلکے سے اُسکے سر پر چت لگائی ۔

ویسے توں مجھے پھوپھی کب بنا رہی ہے ۔۔۔؟ حور شرارت سے بھرے آیت کے مزے لینا شروع ہوئی 

“ جب اللہ نے چاہا نا ۔۔۔ تجھے پھوپھی بنا دیں گئیں ، ابھی توں میرا سر نا کھا جا کر تیار ہو جا ہم باہر چلتے ہیں، 

آیت اُسکے بازو جھٹکتے اٹھی تو حور بھی قہہقہ لگاتی اُسکے پیچھے ہی گئی ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ ماضی “ 

کیا ہوا کاکا ۔۔۔۔۔؟؟ جنت ان کو روتے دیکھ قریب آتے بیٹھی 

داتا بخش جو رو رہا تھا ، اپنے آنسو صاف کرتے نا میں سر ہلایا :۔

“ کاکا کچھ تو بات ہے ، آپ ایسے اتنے پریشان کیوں ہیں ۔۔۔؟ جنت کو ان کا ایسے رونا بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ؛۔

“ چھوٹی بی بی ۔۔۔۔۔ بابا مراد شاہ کب آنے والے ہیں ۔۔۔؟ مجھے ان سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔ 

داتا بخش نے تہ کر لیا تھا کہ وہ مراد کو سچ بتا دے گا کہ اُسکا بیٹا زر نہیں برہان ہے ۔ 

وہ تہ کر گیا تھا کہ فیصل شاہ کی سچائی مراد کو بتا دے گا ۔۔

اور جو بھی ہوگا وہ اسُکا مقابلہ کر لے گا ۔ داتا بخش تیزی سے اٹھا تھا ؛۔

تبھی مراد کی گاڑی حویلی کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے پورچ میں رکی :۔

داتا بخش تیزی سے مراد کی طرف لپکا ، جنت نے بھی نیلی آنکھوں کو چھوٹا کرتے داتا بخش کو دیکھا ۔

“ بابا ۔۔۔۔۔ مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے ، داتا بخش نے جاتے ہی پہلی فرصت میں کہا 

ٹھیک ہے ۔ کاکا ۔۔۔۔ اتنا پریشان کیوں لگ رہے ہیں ۔۔۔؟ مراد ان کو لیتے حویلی میں داخل ہوا تو جنت بھی پیچھے ہی بڑھی ۔۔۔

“ بولیں کاکا ۔۔۔مراد ان کو گھبراتے پریشان دیکھ سینجدگی سے پوچھتے ساتھ ہی بیٹھا ۔ 

“ بابا ۔۔۔ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔۔ میں نے آپ کا نمک کھا کر آپ کے ساتھ ہی ناانصافی کر ڈالی ۔

میں مجبور تھا ۔۔۔۔ یہ سب کچھ مجھ سے ان لوگوں نے کروایا ، میں ڈر گیا تھا ۔۔ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔۔ 

داتا بخش جو پہلے مراد کے سامنے صوفے پر براجمان تھا ۔ اک دم سے مراد کے پیروں میں گرتے روتے بولنا شروع ہوا ؛۔

“ جنت حیران ہوتی مراد کو دیکھ گئی ، جو ان کو اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا ؛۔

“ ہوا کیا ہے ۔۔۔؟ کاکا ۔۔۔۔۔ کھل کر مجھے بتائیں ۔۔۔۔!! مراد نے اُن کو پکڑتے اپنے ہمراہ بٹھایا ۔ 

جنت کا دل جیسے خوف سے لرزا ۔ وہ ایسی ہی تو تھی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی دل پر لگا جانے والی ؛۔

جیسے ہی مراد نے پوچھا ، داتا بخش روتے سب کچھ جو اُسنے لندن کیا 

بچے تبدیل کیے ، جس مجبوری سے کیے سب کچھ مراد اور جنت کے آغوش اتار گیا ۔ 

“ جیسے جیسے جنت سن رہی تھی ، بے یقینی سے نیلی آنکھوں سے آنسو گرتے مراد کو دیکھ گئی ۔ 

“ کاکا ،۔۔۔۔ آپ کیسے اتنا بڑا قدم اٹھا سکتے تھے ۔۔۔؟ آپ نے میرا بیٹا ۔۔۔۔؟؟ جنت روتے چیخی اٹھی 

اس کا مطلب برہان ہمارا بیٹا ہے ۔۔۔؟ جنت روتے مراد کا بازو تھام گئی 

مجھے معاف کر دیں ۔۔۔۔۔ بابا ۔۔۔۔۔ میں نے سب کچھ مجبوری میں کیا ۔ 

چھوٹے بابا کی جان کو خطرتا تھا ۔ فیصل شاہ سب کچھ ختم کر دے گا ؛۔

آپ کو اندازہ نہیں ۔ وہ کتنا گرا ہوا انسان ہے ۔ داتا بخش نے اس پل مراد اور جنت کو داتا بخش کی کوٹھے والی سچائی بھی بتائی ۔

کیسے اُسنے آئمہ کا استعمال کیا اور اُسکا بیٹا لیتے اُسکو اسلم کا بیٹا بنایا ۔ 

اور پھر کیسے آئمہ سے جان چھڑوانے کے لیے اُسکو قتل کروایا ۔ 

“ بابا ۔۔۔۔۔ میری بیٹوں کی جان خطرتے میں ہے ، آپ آج الیکشن کمیشن آفس مت جائیں ۔ 

فیصل شاہ نے وہاں جال بچھایا ہے ۔ داتا بخش نے مراد کو آگاہ کیا ؛۔

“ مراد ۔۔۔۔ مجھے میرا بیٹا چاہیے ۔ دیکھا وہ ہمارا بیٹا ہے ہمارا خون ۔۔۔ جنت کی خوشی کی کوئی انتہا نا رہی تھی ؛۔

مجھے ابھی میرے بیٹے کے پاس لے کر چلیں ، کہیں ایسا نہ ہو دیر ہو جائے ۔ حمیدہ آپا لوگ لندن جانے والے ہیں ۔ 

جنت روتے بولی تو مراد نے اُسکو خود میں بھنچا ۔ 

تم تیاری کرو ، جنت ہم ابھی نکلے گئیں۔ مراد اُسکا ماتھا چومتے بولا تو وہ سڑھیوں کی طرف بھاگی ۔

“ کاکا ۔۔۔۔۔ آپ نے جو بھی کیا اچھا نہیں تھا ۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر آپ کہہ رہے ہیں تو آپ کو مجبور کیا گیا ہوگا ۔۔۔ 

میں خوش ہوں کہ آپ نے مجھ سے سب کچھ سچ کہہ دیا ۔،

میں جنت اور بچوں کو لیتے میرپور سے نکلتا ہوں ، آپ ایک کام الیکشن کمیشن جائیں اور وہاں میرے نا آنے کی خبر بتا آئیں ۔ 

باقی اس فیصل شاہ کو میں چھوڑوں گا نہیں ، بے فکر رہے کچھ نہیں ہونے دوں گا آپ کی بیٹوں کو بچا لوں گا ؛۔

مراد ان کے کندھے پر ہاتھ رکھے بولا ۔

تو داتا بخش مراد کے گلے لگتے بلکتے رونا شروع ہوا ۔ 

سب ہی انجان تھے آنے والا وقت اُن کے خلاف چل رہا تھا ؛۔

داتا بخش مراد اور جنت لوگوں کی گاڑی نکلتے دیکھ تیزی سے دوسری گاڑی میں سوار ہوتے آفس کی طرف بڑھا :۔

“ داتا بخش ہم سب سچ بول رہے ہیں ۔ وقار شیزاری لوگوں کا کوئی گردو یہاں نہیں آیا ۔۔۔

داتا بخش کے آدمی جن کو وہ وہاں پہلے ہی کھڑے لیے ہوئے تھا ، 

ان سے سنتے ہی گھبرایا ۔ کہیں ان لوگوں کو کسی نے بتا تو نہیں دیا ۔۔۔؟؟ داتا بخش کی جان پر بنی ؛۔

چونکہ مراد اپنے قافلے کے بنا ہی میرپور سے نکلا تھا ، تاکہ داتا بخش باقی سبھی گاڑیوں کے ساتھ ان لوگوں کو گمراہ کر سکے ؛۔

لیکن سبھی انجان تھے ، سب لوگوں کے راستے ایک ہی منزل کی طرف روانہ ہوئے تھے ۔۔۔۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 

سو گائز ۔۔۔۔۔ 🙈🤪 کیسا لگا آج کا دھماکے سے بڑھا ایپی ۔۔۔۔؟🙈🙈🤪🤗

کل والی ایپی میں سب کچھ آمنے سامنے ہوگا ۔ 😁اور پھر ناول ختم 🙈🙈

ہائے میرا بھی دل بھر گیا 🙈🥺🥺 خیر گائز جیسے بھی ہو اب ناول تو ختم ہونا ہی تھا ۔ ☺️😀

باقی بہت سے ریڈرز نے گزارش کی ہے ، کہ میں لاسٹ پر آیت برہان اور باقی سب کپلز کے سین دوں 🥰

تو بس پھر اگلی لاسٹ کی ایپی پڑھنے کے کیے تیار ہو جاؤ ، انشااللہ کل والی ایپی کے بعد سب کچھ اچھا ہی ملنے والا ہے 😍🙈

باقی ۔۔۔۔ اب کی لاسٹ والی تینوں ایپی پر مجھے تین سو سے  لائکس چائیے ۔ 🙈☺️ 

کیا تم سب اب اتنا بھی میرے لیے نہیں کر سکتے ۔۔؟ 😕☹️

میں بتا رہی ہوں اگر لائکس پورے نا آئے تو اگلی ایپی پر لمبا انتظار کرنا پڑے گا ۔ ( دھمکی 🤓😏




This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages