Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 2 Complete PDF - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 20 June 2022

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 2 Complete PDF

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 2 Complete PDF

RJ  Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Tawaif  Based Novel Enjoy Reading...

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Epi 2

Novel Name: Sulagti Yadon K Hisar Main

Writer Name: RJ

Category: Episode Novel

Episode No: 2

سلگتی یادوں کے حصار میں

ازقلم: آر جے

قسط  2


آج حرمین یونیورسٹی نہیں آئی تھی۔شام جو آج اُس ملانی کو اپنی جانب قائل کرنے کی غرض سے کچھ نیا پلین کرکے آیا تھا یہ جان کر پل میں اُسکا موڈ غارت ہوا تھا لیکن تاشہ کی بروقت انٹری پر مجبوراً اُسے میٹھا بننا پڑا۔

”شام۔۔۔یہ لو اپنی اسائنمنٹ۔۔۔میں نے کمپلیٹ کردی ہے۔۔۔تمھارے بعد میں نے اپنی اسائنمنٹ تیار کی تھی اسی وجہ سے کل رات ٹھیک سے سو نہیں پائی۔۔۔“  اُسکے ٹیبل پر دھرے بازوؤں کے بیچ سر باقر کا دیا ہوا اسائنمنٹ رکھتی وہ اطمینان اور کچھ تھکاوٹ سے بولی۔

”سو سویٹ آف یو ہنی۔۔۔تم ہمیشہ میرا خود سے ذیادہ خیال رکھتی ہو۔۔۔اتنی اچھی کیوں ہو تم۔۔۔؟؟؟“  اپنا مطلب پورا ہوجانے کے بعد  یہ جملہ وہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کو بول چکا تھا۔

فواد نے اُسکے از حد معصوم بننے پر آنکھیں گھوماتے ہوئے تاشہ کو دیکھا تھا۔

”میں کہاں اتنی اچھی۔۔۔۔؟؟؟تم بھی ناں بس۔۔۔“  تاشہ اپنی خوشاآمد ہوتے دیکھ شرماتے ہوئے کھل کر مسکرائی تو شام ابرو اچکا گیا۔

تبھی افروز آندھی طوفان کی طرح وہاں آیا اور فواد کے ساتھ والی چیئر کھینچ کر بیٹھ گیا۔

وہ جو شام اور رابعہ کے تازہ تازہ بریک اپ کے بعد بڑے خوشگوار موڈ میں اُسے اپنی گرلفرینڈ بنانے گیا تھا،پہلے کی بانسبت اس بار ذیادہ بےعزتی کروا کے واپس لوٹا تھا۔سب نے اُسکے سخت تیور دیکھے تھے جو اب ضبط کے گہرے سانس بھرتا تاشہ کے وہاں سے دفع ہونے کا انتظار کررہا تھا۔

تینوں کی بےزار نظروں اور خاموشی سے وہ بھی یہ بات سمجھ گئی تھی۔

”اوکے شام۔۔۔۔اب میں چلتی ہوں۔۔۔اگر مجھ سے پھر کوئی کام پڑا تو بلا جھجک مجھے یاد کرلینا۔۔۔“  افروز کی خود پر پڑتی غصیلی نظریں محسوس کرتی ہوئی وہ جھٹ سے بولی تو شام زبردستی مسکراتے ہوئے سرکو جنبش دےگیا۔

”ہاں بھئی اب بول۔۔۔۔اتنی سویٹ سی شکل کیوں بنا رکھی ہے تُو نے۔۔۔؟؟“  تاشہ کے جاتے ہی فواد نے غیرسنجیدگی سے اُسکی طرف دیکھ کر پوچھا۔

وہ ہنستا مسکراتا جتنا اچھا لگتا،غصے میں اُسی قدر کوجا لگنے لگتا۔

”کمینی۔۔۔خود کو پتا نہیں کیا سمجھ کر بیٹھی ہے۔۔۔ہے کیا وہ۔۔۔؟لڑکی کم اور سوکھی لکڑی ذیادہ لگتی ہے مجھے۔۔۔ہمت تو چیک کرو ذرا اُس رابعہ کی یار۔۔۔ مجھے۔۔۔مجھے انکار کردیا اُسنے۔۔۔افروز صدیقی کو۔۔۔“  افروز تو جیسے اسی پل کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا تبھی ایکدم سے پھٹ پڑا اور اپنے سینے پر انگلی رکھتا دونوں سے ذیادہ خود کو یقین دلانے لگا۔

”وہ بھی دو بار۔۔۔۔“  شام نے اپنے موڈ کی پروا کیے بغیر مسکراتی آواز میں اُسکے زخموں پر نمک چھڑکا تھا۔

”ذیادہ بکواس نہیں کر میرے ساتھ۔۔۔۔یہ تیرا ہی غصہ تھا جو اُسنے مجھ بے قصور پر اتاردیا۔۔۔لڑکی تھی اسی لیے چپ کرگیا ورنہ بتاتا اُسے اچھے سے کیا چیز ہوں میں۔۔۔اور مجھے یہ بیہودہ سا مشورہ  دینے والا بھی تُو ہی تھا سالے جو میں پھر سے اُسکے پاس چلا گیا۔۔۔ورنہ تو میری جوتی بھی راضی نہیں تھی اُسے منہ لگانے کو۔۔۔“  اپنا حساب بےباک کرتے ہوئے وہ قدرے تپ کر بولا تو شام اُسکی مزید بگڑتی شکل دیکھتے ہوئے کھل کر ہنس دیا۔

یہ دیکھ کر فواد کی بھی دبی دبی سی ہنسی چھوٹ گئی۔

”تم دونوں کوئی بہت ہی بڑے۔۔۔۔(گالیاں)###۔۔۔ہو۔۔۔بائے گاڈ۔۔۔“  وہ دونوں کو غصے سے گھورتے ہوئے تاسف زدہ لہجے میں بولا پر شاید اُنہوں نے بےشرمی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی تبھی فل سٹاپ لگائے بغیرڈھٹائی سے ہنستے جارہے تھے۔

”میری جان۔۔۔میری بات مان تو اچھے بچے کی طرح اب اُسے اپنی بہن بنالے۔۔۔۔پٹالیا تُونے اُسے جتنا پٹانا تھا۔۔۔پورا پُھس ہے تُو اس گیم میں کمینے۔۔۔“  فواد نے مزید مرچی لگاتے ہوئے اُسے مزے سے مشورہ دیا جس پر افروز اپنا سارا ضبط کھوچکا تھا۔

”ابے ڈھکن۔۔۔بہن ہوگی تیری۔۔۔مجھے دو بہنیں ہی کافی ہیں۔۔۔اور پٹانے کی کیا بات کرتا ہے۔۔۔؟؟چالیس لڑکیوں کو پٹاکے بھلا بھی چکا ہوں۔۔۔۔“  فواد کے سر پر زور کی ایک ٹھوکتے ہوئے وہ دوسری مارنے  پر بھی آیا تھا جب فواد نے بوکھلاتے ہوئے بیچ میں ہی اُسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے قابو میں کرلیا۔

شام نے ہولے سے ہنستے ہوئے اپنا فون باہر نکالا اور کی بورڈ پر تیزی سے انگلیاں چلاتے ہوئے کچھ ٹائپ کرنے لگا۔

”سالے۔۔۔دیکھ تو کتنے بال اُ گ آئے ہیں تیرے۔۔۔گھر جاکے ویکس ضرور کرلی یو۔۔۔۔“  افروز کو غصے سے اپنا ہاتھ چھڑواتا دیکھ کر فواد نے پھر سے بھڑکی مکھیوں کے چھتے کو چھیڑا تھا۔

جہاں شام کی سنجیدگی پھرسے ہنسی میں بدلی تھی وہی افروز نے فواد کو دوسری بھی ٹھوک ڈالی۔

اُن دونوں کی نوک جھونک پر ہی سہی لیکن شام کا موڈ فریش ہوچکا تھا۔

اور شاید وہ دونوں چاہتے بھی یہی تھے۔

***************************

وہ اس وقت چپ چاپ سی بیڈ پہ ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھی سامنے دیوار کو تکے جارہی تھی۔اُسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ذباب نامی لڑکے سمیت اُسکی چھوٹی سی فیملی اُسے پسند کرکے جاچکی تھی۔

پسند کرکے کیا جا چکی تھی بلکہ رشتہ طے ہونے کی پکی یقین دہانی کرواچکی تھی۔لڑکا شکل و صورت کے لحاظ سے حرمین کو خود سے کافی بہتر لگا تھا۔لیکن جس چیز نے اُسے ذیادہ اٹریکٹ کیا تھا وہ ذباب کی اچھی سیرت تھی۔

اس کے باوجود بھی جانے کیوں اُسکے دل میں ایک ڈر سا بیٹھ گیا تھا۔

جیسے کچھ ہی دنوں بعد اُن کی فیملی کو کوئی اور خوبصورت لڑکی پسند آجائے گی اور پھر وہ فون پر ہی اس رشتے سے انکار کردیں گے۔یہ سوچ ہی اُسکے رونگٹے کھڑے کردیتی تھی۔

وہ اپنے آپ میں اس قدر کھوئی ہوئی تھی کہ اُسے حاویہ کے کمرے میں آنے کا بھی پتا نہیں چل پایا تھا۔

”اووووو۔۔۔اپیہ۔۔۔میری پیاری اپیہ۔۔۔میں نے بولا تھا ناں کہ آپکا رشتہ آج کے آج ہی پکا ہوجائے گا۔۔۔آخر میرے ہونے والے زی زو(جیجو)کو آپ سے پہلی نظر میں محبت ہوہی گئی۔۔۔ہووووو۔۔۔“  حاویہ نے آتے ساتھ ہی اُسے جھنجھوڑ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا جس پر وہ بری طرح چونکتے ہوئے اُسکی حرکت پر مسکرا کر رہ گئی۔

نیناں کے ساتھ کالج سے واپس گھرآتے ہی حاویہ نے سلام دعا کے فوری بعد دھڑکتے دل کے ساتھ نفیسہ بیگم سے حرمین کے رشتے کی بابت پوچھا تھا۔

آگے سے جب اُسے مثبت جواب ملا تو وہ پرجوش سی بیگ صوفے پر پھینکتی اپنے روم کی جانب بھاگی جبکہ نیناں وہی کھڑی نفیسہ بیگم سے خوشی خوشی ساری تفصیل جاننے لگی۔

نیناں حاویہ کی بیسٹ فرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ اُسکی اچھی پڑوسن بھی تھی اسی لیے اکثر اُنکے گھر پر ہی بلاجھجک اپنا وقت گزارلیتی۔

”مبارکاں اپیہ۔۔۔۔مبارکاں۔۔۔۔میری اپیہ چھیل چھبیلی میں تو ناچوں گی ناچوں گی۔۔۔ناچوں گی۔۔۔“  خوشی حاویہ کے سر چڑھ کر بول رہی تھی تبھی وہ اردگرد سے بےبہرہ بیڈ پر چڑھ کر بےہنگم سا ڈانس کرنے لگی۔

”اب بس بھی کرجاؤ حاویہ۔۔۔بیڈ توڑو گی کیا۔۔۔؟؟“  اب کے اسے لُڈی ڈالتا دیکھ کرحرمین نے بمشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے اُسے منع کیا۔

ساتھ ہی اپنا چشمہ بھی اوپر چڑھایا تھا جو محترمہ کے اچھلنے پر ناک کے سرے پر آ ٹھہرا تھا۔

”ارے خدا کو مانیں اپیہ۔۔۔۔ایسے کیسے بس کرجاؤں۔۔۔؟ٹریٹ نکالیں ٹریٹ۔۔۔وہ بھی گرینڈ والی۔۔۔“  وہ ایکدم سے خود کے عضو قابو کرتی ہوئی دھپ سے حرمین کے پاس بیٹھتی اپنا تقاضا کرگئی۔

”بالکل ٹھیک بول رہی ہے حاوی۔۔۔ یوں سوکھی سوکھی مبارکیں تو ہم بھی آپکو وصولنے نہیں دیں گے حرمین آپی۔۔۔“  تبھی نیناں بھی حرمین کو بولنے کا موقع دئیے بغیر حاویہ کی تائید میں بولتی ہوئی مٹھائی کی پلیٹ پکڑے کمرے میں داخل ہوئی۔

”تم دونوں تو پاگل۔۔۔۔“  اُنکی ڈیمانڈ سن کر وہ جو اُن دونوں کو ٹالنے ہی والے تھی حاویہ نے اچانک پورے کا پورا گلاب جامن پکڑکر زبردستی اُس کے منہ میں ڈالتے ہوئے اُسکی بولتی بندکردی تھی۔

”آپ چپ کرکے یہ گلاب جامن کھائیں اور کسی اچھے سے ہوٹل میں ہمیں آج کا ڈنر کروائیں۔۔۔بس بات ختم۔۔۔“  حاویہ مستحکم لب و لہجے میں بولتی ہوئی مسکراہٹ سمیٹ گئی۔

حرمین نے بمشکل گلاب جامن حلق سے نیچے اتارتے ہوئے دروازے پر کھڑی نفیسہ بیگم کی جانب بےبس نظروں سے دیکھا۔

اُنھوں نے مسکرا کر اثبات میں سرہلاتے اپنی رضامندی کو ظاہر کیا تو حاویہ سمیت نیناں بھی اُنکے پُرنور چہرے کو دیکھتی خوشی سے اچھل پڑیں۔

***********

”باسط۔۔۔یہ خبرپکی ہے۔۔۔؟؟؟“  عائل نے کسی بھی قسم کا سخت ایکشن لینے سے پہلے انسپکٹر باسط سے ایک بار پھر کنفرم کرناچاہا۔

اُن کے مخبر کی طرف سے ملنی والی انفارمیشن کے مطابق پاشا جی دار سپر فاسٹ ہوٹل میں اپنے ساتھیوں سمیت پہنچ چکا تھا جہاں خفیہ طور پر ڈرگز اسملنگ کے حوالے سے میٹنگ کی جانی تھی۔

اس کام میں چار لوگ شامل تھے۔پاشا جی دار چھوٹے سے گینگسٹر گروپ کا باس تھا جو بہت سے غیر قانونی کاموں میں ملوث رہ چکا تھا۔

عائل کی اس پر بہت پہلے سے نظر تھی جو ہر بار کسی نہ کسی طرح بھاگ نکلتا۔لیکن اب وہ یہ سنہری موقع کسی بھی طرح ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔

”یس سر۔۔۔ہنڈرڈ پرسنٹ۔۔۔۔“  انسپیکٹر باسط نے پورے یقین سے جواب دیا تو عائل کے چہرے پر جوش کے ساتھ ساتھ سختی در آئی۔

”بہت خوب۔۔۔تو پھر دیری کس بات کی ہے۔۔۔۔؟؟؟چلو نکلتے ہیں۔۔۔۔آج پاشا جی دار اپنے ساتھیوں سمیت ہمارے چنگل سے کسی بھی صورت نکلنا نہیں چاہیے۔۔۔کیونکہ میں اُنھیں ہر حال میں قانون کی سخت گرفت میں تڑپتا مچلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔گیٹ اٹ۔۔۔“  ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتا ہوا اگلے ہی پل وہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور انسپیکٹر باسط کو آڈردیتے ہوئے بجلی کی سی تیزی سے باہر کی جانب لپکا۔

”یااللہ مدد۔۔۔۔۔“  سلوٹ مار کر عائل کے پیچھے لپکتا وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تھا۔

کیونکہ خدانخواستہ اگر آج پاشا جی دار نہیں پکڑا جاتا تو عائل کا غضب ناک روپ پھر اُن سب کو جھیلنا پڑنا تھا۔

***************************

”یاہوووووو۔۔۔۔۔ہوووو۔۔۔۔ہوووو۔۔۔۔۔“  دوسری بائیکس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جیسے ہی شام کی ہیوی بائیک ریڈ لائن کو چیڑتی ہوئی ذرا سے فاصلے پر بریک کھاتی رکی،وہاں پر بیٹھے لوگ ایکدم سے اپنی جگہ سے اُٹھ کر شور مچاتے ہوئے اپنے ہاتھ پیٹنے لگے۔

وہ سرشار سا ہیلمٹ سر سے اتارتے ہوئے اپنی بائیک سے نیچے اُترا اور بھوری آنکھوں میں فتح کی چمک لیے اپنے ساتھیوں کی جانب آیا۔

پیچھے دوسرے پارٹی سپیٹرز اپنی شکست پر ہاتھ ملتے رہ گئے۔شام ہر ماہ اس ریس میں پورے اشتیاق سے حصہ لیتا تھا اور یہی چیز حسن صاحب کو زہر لگتی تھی۔

جیت کر وہ جہاں کئی لوگوں کو مایوس کرتا تھا وہیں بہت سوں کو اپنا دیوانہ بھی بنا چکا تھا۔

”کنگریجولیشن یار۔۔۔میں جانتا تھا ہمیشہ کی طرح یہ ریس بھی تمہی جیتو گے۔۔۔کبھی تو ہارنا سیکھ لو۔۔۔تاکہ تمھارے مخالف بھی جیتنے کا اصل سواد چکھ سکیں۔۔۔“  ہادف جوکہ اس ریس کا بڑا پرانا کھلاڑی تھا شام کو گلے سے لگاتے ہوئے سرشار سا گویا ہوا۔

”نو چانس برو۔۔۔۔۔“  جواب میں شام نے مسکراتے ہوئے آنکھ دبائی تھی اور اپنی جیت کی خوشی میں مچلتی لڑکیوں پر بھرپور نگاہ ڈالی جو اُس تک پہنچنے کے لیے محض چند قدموں کے فاصلے پر ہی رہ گئی تھیں۔

”یہ کمینہ کبھی نہیں ہارے گا۔۔۔۔سو اپنا منہ دھورکھو۔۔۔۔“  افروز لقمہ دیتے ہوئے مسکرایا اور فواد سمیت تینوں نے پلٹ کر شام کی طرف دیکھا جو اب وجیہہ چہرے پر جیت کا غرور سجائے اپنے فینز کے ساتھ کھڑا مختلف پوز میں سیلفیاں لے رہا تھا۔

****************************

وہ چاروں اس وقت ہوٹل میں بیٹھ کر ڈنر سے بھرپور انصاف کررہے تھے جب حاویہ ایکدم سے اپنی سیٹ چھوڑ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔

” کہاں میڈم۔۔۔۔؟؟“  نیناں نے اُسے وہاں سے جاتا دیکھ کر بےاختیار پوچھا تو نفیسہ بیگم سمیت حرمین بھی اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

”اتنا پریشان کیوں ہورہے ہیں سب۔۔۔؟؟؟واشروم تک ہی تو جارہی ہوں۔۔۔فکر نہیں کریں اُسکا بل پے نہیں کرنا پڑے گاآپکو۔۔۔“  اُنکے چہروں پر چھائی فکر سے لطف لیتی وہ شرارتی انداز میں گویا ہوئی تو سب نفی میں سر ہلاکررہ گئے۔

ٹریٹ کی خوشی میں حاویہ نے کچھ ذیادہ ہی آڈر کردیا تھا لیکن اب سب ختم کرنا اُسے محال لگنے لگا تو وقتی طورپر نفیسہ بیگم کی ڈانٹ سے بچنے کےلیے واشروم سے بہتر اُسے اس وقت اور کوئی بیسٹ آپشن دکھائی نہیں دیا تھا۔

”کھایا ہے نہیں اور نکالنے کی دیکھو کتنی جلدی ہے محترمہ کو۔۔۔۔“  نیناں جو اُسکی رگ رگ سے واقف تھی اُسکی ڈرامے بازی پر زیرِ لب بڑبڑائی۔

اگر حاویہ اُسکی یہ بات سن لیتی تو یقیناً ایک جھاپڑ پکا پڑنا تھا اُسے۔

”جلدی جاؤ اور جلدی واپس آؤ۔۔۔۔پھرتم نے اپنا سوپ بھی ختم کرنا ہے اور ہمیں گھر بھی جانا ہے۔۔۔“  نفیسہ بیگم اُسے آڑے ہاتھوں لیتی ہوئی بولیں تو اُسکی مسکراہٹ معدوم پڑتی ختم ہوگئی۔

”اوکے ماما۔۔۔۔“  سنجیدگی سے بولتی ہوئی وہ واشروم والے ایریے کی جانب نکل گئی۔

پیچھے سے حرمین اور نیناں اُسکی حالت پر دبا دبا سا ہنس پڑیں جبکہ نفیسہ بیگم ان سے بےخبر کھانے میں مگن تھیں۔

ابھی حاویہ کو وہاں سے گئے چند منٹ ہی ہوئے تھے جب اچانک دروازے سے پولیس کی ٹیم ہوٹل میں داخل ہوئی اور سب کو آتے ساتھ ہی وارن کرنے لگی۔

دور کونے میں ٹیبل کے گرد بیٹھے چار افراد ایکدم آنے والی آفتاد پر بوکھلاتے ہوئے بنا سوچے سمجھے وہاں سے اٹھ کر مخالف سمت بھاگے تھے۔

”وہ رہے۔۔۔پکڑو اُنھیں۔۔۔“  پاشا جی دار کو اپنی جان بچانے کی خاطر فرار ہوتے دیکھ کر عائل اپنی بیلٹ ہولسٹر سے پسٹل باہر نکالتے ہوئے زور سے چلایا۔

تبھی اُن میں سے ایک نے سب کو خوفزدہ کرنے کے لیے بے دھڑک ہوائی فائرنگ کردی تو لوگوں 

میں بھگدڑ سی مچ گئی۔سب اُٹھ اُٹھ کر باہر کی جانب بھاگنے لگے۔

”حرمین۔۔۔حاویہ۔۔۔حاویہ واشروم میں ہے۔۔۔۔اُسے واپس لاؤ۔۔۔حرمین میری بچی۔۔۔۔“  نفیسہ بیگم دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے لرزتی آواز میں گویا ہوئیں۔

وہ تینوں بھی باقیوں کی طرح خوفزدہ ہوکر وہاں سے باہر بھاگ جانا چاہتی تھیں لیکن حاویہ کی غیر موجودگی نے اُن سب کو اس خطرناک سچویشن میں مزید خوف میں گھیرتے ہوئے یہی رکنے پر مجبور کردیا تھا۔

”چلو نیناں۔۔۔ہمیں حاویہ کو لے کر جلدی یہاں سے نکلنا ہوگا۔۔۔“  گھبراتی ہوئی حرمین نے  نفیسہ بیگم کو تسلی دی اور نیناں کو ہاتھ پکڑے ابھی دو قدم ہی اٹھائے تھے جب اچانک ہوٹل کی ساری لائٹس ایکدم سے آف ہوگئیں۔

اُسی کے ساتھ چاروں طرف نیم اندھیرا چھاگیا تھا۔تب تک پولیس ٹیم دو مجرموں کو پکڑچکی تھی۔

پاشا جی دار نے رک کر وارنگ کے طور پر ہوا میں فائر کیا اور لوگوں کے دھکے کھاتا تیزی سے آگے کو لپکا۔

”شِٹ۔۔۔۔“  اُنکی چالاکی پر دانت پیستے ہوئےعائل نے فوری سے بیشتر موبائل ٹارچ آن کی تھی۔

لیکن ایک طرح سے اُسے اطمینان بھی تھا۔اگر وہ ہوٹل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوبھی جاتے تو ہوٹل کے اطراف میں پھیلی پولیس سے بچ کر فرار نہیں ہوپاتے۔

اگلے ہی پل اُسکی تیز نظروں نے دور تک جاتی ناکافی روشنی میں پاشا جی دار کو واشروم ایریا کی جانب گم ہوتے دیکھا تھا۔بنا کوئی لمحہ ضائع کیے وہ بھی ساری لائٹس آن کرنے کا آڈر دیتے ہوئے  لمبے لمبے ڈگ بھرتا سرعت سے اُسکے پیچھے لپکا۔

”ماما حاویہ۔۔۔۔۔“  حاویہ کے اندھیرے سے ڈر کا سوچ کر حرمین چند موبائلوں کی مدھم روشنیوں میں چیخی تھی۔

اس سے پہلے وہ حاویہ کے لیے واشروم کی طرف جاتیں کانسٹیبل نے اُنھیں وہیں پر روک دیا۔

*****************************

واشروم سے باہر نکل کروہ لمبی قطار میں بنے واش بیسن کے آگے کھڑی ہوکر ہاتھ دھورہی تھی اور ساتھ ہی آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے مسکرائے جارہی تھی۔

”نشیلی آنکھیں۔۔۔دھیما لہجہ۔۔۔حُسن تو قیامت۔۔۔واللہ!!۔۔۔ہم فنا ہوجائیں گے خود کو شیشے میں دیکھتے دیکھتے۔۔۔واہ واہ۔۔۔واہ واہ۔۔۔“  بہت دن پہلے کا رٹا رٹایا شعر بڑی ادا سے مدھم لہجے میں بولتی ہوئی وہ آخر میں کھکھلا کر ہنسی تھی جب باہر بڑھتے شور کے ساتھ فائرنگ کی آواز پر وہ بری طرح چونکتی ایکدم چپ ہوئی تھی۔

اس سے پہلے کہ باہر مچے کہرام سے باخبر ہونے کے لیے وہ باہر کی جانب قدم اٹھاتی اگلے ہی پل اُسکی خوف سے پھیلتی آنکھوں میں اندھیرا چھایا تھا۔

”مم۔۔۔ماما۔۔۔اپ۔۔۔پیہ۔۔۔ماما۔۔۔۔“  گھٹی گھٹی آواز میں چیختی وہ وہیں پر جم گئی تھی۔

دل کی دھک دھک کرتی دھڑکنیں اُسے زور و شور سے سنائی دے رہی تھی کہ وہ بےساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کراُسے مسلنے لگی۔

معاً حاویہ کو پھرسے چلنے والی گولی کی آواز کے ساتھ قریب آتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔

”ماما۔۔۔میں یہاں ہوں۔۔۔مج۔۔۔ھے۔۔۔بہت ڈر۔۔۔لگ رہا ہے۔۔۔اپیہ۔۔۔“  اس دبیز تاریکی میں وحشت زدہ بہتی آنکھوں سے اُسنے سامنے کھلتے دروازے کو دیکھا تھا۔

اپنوں کی موجودگی کا سوچ کر اُسکے کپکپاتے لب ہولے سے مسکرائے۔

لیکن اگلے ہی پل موبائل ٹارچ کی روشنی کے ساتھ اُسے ایک ہٹا کٹا اجنبی شخص دروازے کو لاک لگاکر تیزی سے اپنی جانب آتا ہوا دکھائی دیا جس کے ہاتھ میں پسٹل دبی ہوئی تھی۔

اس غیر متوقع صورتحال پر حاویہ کی جان ہوا ہوئی تھی۔

اُسنے اپنی بےجان ہوتی ٹانگوں سے کسی ایک واشروم میں بھاگنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی پاشا جی دار بڑی پھرتی سے اُسے اپنی گرفت میں لےچکا تھا۔کھینچا تانی سے اُسکا پیچ کلر کا حجاب ڈھیلا پڑتے ہی کھلتا چلاگیا۔

”چھ۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔بچ۔۔۔اؤ۔۔۔بچاؤؤؤ۔۔۔۔۔“  اپنا آپ اُس سے چھڑاتی وہ روتی ہوئی چلارہی تھی۔

”اے۔۔۔چپ کر۔۔۔نہیں تو تیرے دماغ میں اسکی ساری گولیاں گھسا دوں گا ابھی کہ ابھی۔۔۔۔سمجھی۔۔۔“  اُسکی کنپٹی پر پسٹل ٹھوکتا وہ حاویہ کو حددرجہ ڈرا چکا تھا۔

وحشت سے پُر روشنی میں اپنی شفاف گردن پر اُسکے مضبوط بازو کا دباؤ محسوس کرتی وہ سسک پڑی تھی۔

اس پل اُسکے لرزتے دل نے شدت سے کسی مسیحا کے آنے کی دعا مانگی تھی کہ تبھی زور زور دروازہ بجنے لگا۔

”اوپن دی ڈور۔۔۔۔میں جانتا ہوں پاشا۔۔۔تم اندر ہی ہو۔۔۔ڈیمٹ۔۔۔اوپن اِٹ۔۔۔“  عائل کی دھاڑ پر جہاں پاشا محتاط ہوا تھا وہیں حاویہ اِس آواز پر چونکی۔

”دروازہ توڑو۔۔۔۔فوراً۔۔۔۔“  عائل کی کرخت آواز کے ساتھ ہی ہوٹل کی تمام لائٹس جگمگا اُٹھی تھیں۔

کچھ ہی دیر میں لاک ٹوٹنے کی آواز آئی تھی اور اگلے ہی لمحے عائل چند کانسٹیبلز سمیت دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

یہ دیکھ کر پاشا حاویہ کو بےدردی سے ساتھ گھسیٹتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا تھا۔

عائل جو ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنےکے لیے پہلے سے ہی تیار کھڑا تھا پاشا جی دار کے چنگل میں پھنسی حاویہ کو ہراساں دیکھ کر بری طرح ٹھٹکا۔

حاویہ کی بھی حالت اُس سے کچھ مختلف نہیں تھی جو اب مدد طلب نظروں سے اُسی کو تکے جارہی تھی۔

”آگے مت بڑھنا۔۔۔ورنہ اس لڑکی کو میں یہی مارڈالوں گا۔۔۔“  پاشا عائل کے چہرے پر پھیلتی پریشانی کو بھانپتا ہوا غصے سے بولا تو عائل کے اُسکی جانب بڑھتے قدم وہی تھم گئے۔

”لیسن پاشا۔۔۔اس لڑکی کوچھوڑدو۔۔۔۔ادروائز آئی ول کل یو۔۔۔۔“  حاویہ کے بھیگے چہرے سے بمشکل لہو ہوتی نظریں ہٹاتا وہ شہادت کی انگلی پاشا کی طرف اٹھا کر غرایا تو جواب میں وہ بےہنگم قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔

”ہونہہ۔۔۔مجھے کیا پاگل سمجھ رکھا ہے تُونے اے۔ایس۔پی جو میں اس سنہری طوطی کو یونہی جانے دوں گا۔۔۔؟؟چل اب ذیادہ ہوشیار مت بن اور جیسا میں بولتا ہوں ویسا ہی کر۔۔۔نہیں تو یہ لڑکی جان سے جائے گی۔۔۔“  سفاکیت سے بولتے ہوئے اُسنے حاویہ پر اپنی گرفت مزید سخت کی تھی۔

نتیجتاً حاویہ کی ہلکی سی چیخ نکلی تھی جو اُسکے ساتھ ساتھ عائل کو بھی تکلیف سے دوچارکرگئی۔

”پلیزززز آفیسر۔۔۔۔“  وہ التجائیہ نظروں سے عائل کی جانب دیکھتی سسکی تھی۔

”دیکھو۔۔۔۔میں تم سے آخری بار بول رہا ہوں۔۔۔لڑکی کو آرام سے میرے حوالے کردو۔۔۔اگر اسے کچھ بھی ہوا تو یقین جانو میرے ہاتھوں سے زندہ نہیں بچو گےتم۔۔۔۔“  بے اختیار ایک قدم آگے بڑھتا وہ بےبسی سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے دانت پیس کر گویا ہوا۔اُسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ پاشا جی دار کے ہزار ٹکڑے کردے۔

”کیوں بے سالے۔۔۔۔دھمکی دے رہا ہے مجھے۔۔۔؟؟؟“  پاشا جی دار اُسے اپنی سرخ آنکھیں دکھاتا ہوا پھنکارا۔

”صرف دھمکی نہیں دے رہا۔۔۔۔بلکہ کرکے بھی دکھاؤں گا۔۔۔۔“  غضب ناک نظروں سے اُسے گھورتا ہوا وہ پُر یقین تھا۔

”پلیز مجھے بچالو۔۔۔۔۔“  وہ پل پل تڑپ رہی تھی اُسکی مضبوط پکڑسے نکلنے کے لیے۔اس لمحے جانے کس احساس کے تحت عائل کا سامنے کھڑی لڑکی کو اپنے تحفظ بھرے حصار میں لینے کا شدت سے دل چاہا تھا۔

”بس بہت ہوا۔۔۔چپ چاپ یہاں سے کھسک لے۔۔۔اور اپنے کتوں سے بول کہ وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو یہاں سے جانے دیں۔۔۔ورنہ۔۔۔“ تڑخ کر بولتے ہوئے پاشا جی دار نے ٹریگر پر انگلی کا ہلکا سا دباؤ ڈالا تو 

سر پہ منڈلاتی موت کو مزید قریب سے دیکھتی حاویہ خوف سے آنکھیں میچتی اپنی سانسیں روک گئی تھی۔

پاشا کی یہ حرکت دیکھتے ہوئے آئل اپنا ضبط کھوچکا تھا اور اگلے ہی پل گولی کی آواز وحشت زدہ سناٹے کو چیڑ گئی۔

”ٹھاہ۔۔۔۔۔“  حاویہ کے سر سے کچھ انچ کے فاصلے پر ہوا میں معلق پاشا کے ہاتھ میں دھنستی گولی پاشا کو بری طرح بُلبلانے پر مجبور کرگئی جس کے ساتھ ہی پسٹل جھٹکے سے فرش پر جاگری۔

اِدھر حاویہ کے سر کو زور کا جھٹکا لگا تھا جس پر وہ چیختی ہوئی چار قدم پیچھے ہٹی اور مارے وحشت کے اپنے سن ہوتے کانوں پر سختی سے ہاتھ رکھ گئی۔

موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہوا عائل سرعت سے پاشا جی دار تک پہنچا تھا اور اُسے سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر پے در پے اُس پر مکے  برسانے  لگا۔

”گھسیٹتے ہوئے لےجاؤ اس ذلیل شخص کو یہاں سے۔۔۔۔“  پاشا کو آدھ موا چھوڑتا وہ غصے سے آڈر دیتے ہوئے اُسکے پاس سے اُٹھ گیا اور گہرے سانس لیتا چہرے پر آیا پسینہ اپنی سرخ آنکھوں سمیت بازو سے پونچھ ڈالا۔

”یس سر۔۔۔۔“   کانسٹیبلز اُسکے کہے پر عمل کرتے ہوئے پاشا جی دار کو بازوؤں سے تقریباً گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گئے جو نیم بے ہوشی کی حالت میں ڈھیلا پڑچکا تھا۔

”تم ٹھیک تو ہو۔۔۔۔؟؟؟“  عائل نے مڑکر واش بیسن کے ساتھ لگ کر کھڑی حاویہ کو دیکھا اوراُس کے پاس جاکر قدرے فکرمندی سے پوچھا تو نفی میں سر ہلاتی ہوئی وہ باآواز رونے لگی اور اگلے ہی پل اپنا سارا ضبط کھوتی بے اختیار اُسکے سینے سے جالگی۔

عائل اپنی جگہ ساکت ہوا تھا حاویہ کے اس طرح خود سے قریب آنے پرکیونکہ اُسے مقابل سے اس چیز کی توقع قطعی نہیں تھی۔

اُس نے زرا سا سر جھکاکر اُسکی جانب دیکھا تو بےساختہ اُس کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی لیکن وہ اُسکے دل کی بگڑتی حالت سے یکسر انجان ابھی بھی خوف کے زیرِ اثر رونے کا شغل پورا کررہی تھی۔

اُسکی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچے جانے کیوں حاویہ کو اُس کے حصار میں تحفظ کا احساس ہوا تھا۔شاید اسی لیے کہ وہ قانون کے ساتھ ساتھ اُسکی جان کا بھی رکھوالا بن گیا تھا۔

لیکن اپنے مسیحا پر غصہ بھی بہت آرہا تھا جس نے اتنے قریب کرکے گولی چلائی تھی۔

اگرنشانہ چُوک جاتا تو۔۔۔۔؟

یہ سوچ کر حاویہ کے رونے میں مزید تیزی آئی تھی۔

”آپ بہت سنگدل ہیں۔۔۔۔“  وہ اُسکے چوڑے سینے میں منہ دیے ہچکیوں کے درمیان دبا دبا سا چیخی۔

”پتا ہے۔۔۔۔“  اُسکے خوف سے کانپتے نازک وجود کے گرد آہستگی سے اپنا ایک بازو حائل کرتا وہ قدرے آرام سے اعتراف کرگیا۔

”بدتمیز بھی۔۔۔۔“  اب کی بار نازک سی مٹھی کا مکا بناکر پوری قوت سے دل کے مقام پر مارا گیا تھا۔

”اب یہ بہت ذیادہ ہورہا ہے۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔“  اُسنے جیسے وارن کیا تھا لیکن اُسکی خوفزدہ حالت کے پیشِ نظر لہجہ ہنوز نرم تھا۔

”پتا نہیں۔۔۔۔“  منہ بسور کربھرائی آواز میں بولتی وہ آنسوؤں سمیت اپنی بہتی ہوئی سرخ ناک اُسکی شرٹ سے صاف کرچکی تھی۔

اپنے صاف ستھرے یونیفارم کا بیڑا غرق ہوتا دیکھ کر اُسکی گہری سیاہ آنکھیں ایک پل کے لیے صدمے سے پھیلی تھیں۔

چلو آنسوؤں کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن سُوں سُوں کرتی ناک۔۔۔۔

”اوئے گندی لڑکی۔۔۔۔یہ سرکاری وردی ہے کوئی ٹشو پیپر نہیں جسے تم اپنا مال سمجھ کر کھلم کھلا استعمال کررہی ہو۔۔۔۔“  اگلے ہی پل وہ تمام لحاظ نرمی بلائے طاق رکھتے اُسے خود سے الگ کرتا ہوا تپ کربولا تو وہ اُسے گھورتی ہوئی ہونٹوں کے کنارے نیچے لٹکاگئی۔یعنی مقابل کا سخت رویہ برداشت نہ کرتے ہوئے پھر سے رونے کی پوری پوری تیاری پکڑلی گئی تھی۔

عائل جو جیب سے رومال نکال کر اپنی شرٹ کو صاف کررہا تھا اُسکی معصوم سی رونی صورت دیکھ کر چونکا۔

”پلیز پلیز۔۔۔۔رونا نہیں بلکل بھی۔۔۔میں تمھارے آنسو مزید افورڈ نہیں کرپاؤں گا۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔“  اپنے تاثرات پل میں نرم کرتا وہ تھوڑا قریب آیا اور حاویہ کو تقریباً بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے ہوئے رومال کی دوسری سائیڈ سے اُسکی گال پر لڑھکتے آنسو صاف کرنے لگا۔

ایسے میں وہ حق دق سی اُسے  یک ٹک دیکھتی چلی گئی۔

”جانتا ہوں۔۔۔۔بہت ہینڈسم ہوں۔۔۔لیکن فی الوقت مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تم یہاں اپنی فیملی کے ساتھ آئی ہو۔۔۔۔یا پھر اپنی کسی فرینڈ کے ساتھ۔۔۔؟؟؟“  اُسکی حیران بھوری آنکھوں میں جھانکتا وہ مسکراتے ہوئے رومال پیچھے ہٹاگیا تھا۔

”وہ۔۔۔وہ ماما۔۔۔اپیہ۔۔۔نیناں۔۔۔سب باہر میرا ویٹ کررہی ہوں گی۔۔۔۔اُففف۔۔۔۔“  اُسکے اچانک پوچھنے پر وہ ہوش میں آئی اور شدتوں سے دھڑکتے دل کو سنبھال کر پیچ دوپٹہ سر پر اوڑھتی  باہر کی جانب بھاگی تھی۔

”پاگل۔۔۔۔“  اُسکے یوں نظریں چرا کر بھاگنے پر وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر ہنستا ہوا اُسکے پیچھے ہی باہر نکل گیا۔

وہ لڑکی اب بھی اُسے مروتاً تھینک یو بول کر نہیں گئی تھی جو رفتہ رفتہ اُسکے دل میں بسنے لگی تھی۔

**************

”ماما۔۔۔۔“  وہ نفیسہ بیگم کو کانسٹیبل سے بحث کرتا دیکھ فوری اُنکی جانب دوڑی تھی۔

عائل نے کانسٹیبل کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا تو حاویہ جھٹ سے نفیسہ بیگم کے گلے جالگی۔

”حاویہ۔۔۔۔میری بچی تم ٹھیک تو ہوناں۔۔۔؟؟تمھیں کچھ ہوا تو نہیں ناں۔۔۔ہاں۔۔۔؟؟“  اُسے اپنے آپ میں سموتے ہوئے وہ پریشانی سے گویا ہوئیں تو وہ اپنوں کا سہارا پاتے پھر سے رونے لگی۔

”ماما میں بہت ذیادہ ڈرگئی تھی۔۔۔وہ غنڈہ۔۔۔اُسنے مجھے پکڑلیا تھا۔۔۔اور۔۔۔اورجان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔۔۔لیکن پھر یہ پولیس آفیسر ٹائم پر آگئے۔۔۔اور اِنھوں نے مجھے اُس غنڈے سے بڑی مشکلوں سے بچایا۔۔۔“  حاویہ کے گہری سانسوں کے بیچ وضاحت دینے پر جہاں نفیسہ بیگم سمیت حرمین کے دل کو ہاتھ پڑا تھا وہیں پیچھے کھڑا عائل اُسکے آخری جملے پر لب بھینچ کررہ گیا۔

نیناں جو عائل کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہی تھی اگلے ہی پل اُسکی یہ حیرت حاویہ کو دیکھتے ہوئے معنی خیز مسکراہٹ میں بدل گئی۔

اتنے بڑے ہنگامے کے بعد چاروں مجرموں کو ہتھکڑیاں ڈال کر گاڑی میں پٹخ دیا گیا تھا اور اس کامیابی کا اظہار  پولیس ٹیم کے چہروں سے پھوٹتی خوشی سے بخوبی ہورہا تھا۔

”تمھارا بہت شکریہ بیٹا۔۔۔خدا تمھیں ہمیشہ سلامت رکھے۔۔۔اگر تم بروقت میری بیٹی کی مدد کو نہیں پہنچتے تو نجانے کیا ہوجاتا۔۔۔۔؟؟“  نفیسہ بیگم عائل کی جانب غور کرتی تشکرآمیز لہجے میں گویا ہوئیں۔

”شکریہ کی کوئی بات نہیں آنٹی۔۔۔یہ تو میرا فرض تھا۔۔۔“  نرمی سے بولتے ہوئے اُسنے گہری نظروں سے حاویہ کو دیکھا تھا جو نفیسہ بیگم کے سینے سے لگی چور نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔

پر آئل سے نظریں ملتے ہی گڑبڑا کر پلکیں جھکاگئی جس پر اُسکے لبوں پر عیاں ہوتی ہلکی سی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔

”آپ۔۔۔؟؟آپ شام کے بھائی ہیں ناں۔۔۔اے۔ایس۔پی۔عائل حسن۔۔۔۔“  حرمین جو کب سے الجھی ہوئی تھی دماغ پر زور ڈالتے ہوئے عائل سمیت سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواگئی۔

حاویہ نئی جان پہچان نکل آنے پر چونک کر سیدھی ہوتی آئل کو دیکھنے لگی۔

”جی بالکل۔۔۔۔پر سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔۔۔۔ایم شیور کہ اس سے پہلے ہماری کبھی ایک دوسرے سے ملاقات بھی نہیں ہوئی ہوگی۔۔۔“  اپنے متعارف ہونے پر وہ ذرا کنفیوز ہوا تھا۔نیناں کو بھی وہ پہچان چکا تھا لیکن اس لڑکی کو جو شاید حاویہ کی بڑی بہن تھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔

”ایکچولی میرا نام حرمین زہرا ہے اور میں شام کی یونیورسٹی میں ہی پڑھتی ہوں۔۔۔۔وہ سینئر ہیں مجھ سے۔۔۔یونی میں ایک دو دفعہ آپکو آتے جاتے دیکھا تھا۔۔۔تو اسی لیے بس۔۔۔۔“  اپنا چشمہ صحیح سے ناک پر ٹکاتے ہوئے وہ مسکرا کر دھیمے لہجے میں بولی۔

”اوہ۔۔۔۔میں سمجھ گیا۔۔۔“  حرمین نے تھوڑا سا جھجکتے ہوئے وضاحت دی تو عائل تائید میں سرہلاتا خوش اخلاقی سے گویا ہوا۔

”آپ نے میری سسٹر کی جان بچائی۔۔۔اس کےلیے تھینکس۔۔۔“  حرمین حاویہ کو بھیگی گال رگڑتا دیکھ کر تشکر آمیز لہجے میں بولی تو عائل کا دھیان ایک بار پھر سے اُسکی جانب کھینچتا چلا گیا جسکے دلکش نقوش جانے کیوں خفا خفا سے تھے۔

”نیڈڈ ناٹ۔۔۔۔اچھا اب اجازت دیں۔۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔“  جس کے بولنے کا وہ منتظر تھا وہ تو منہ سیئے خاموش کھڑی تھی تبھی وہ انسپیکٹر باسط کو اندر داخل ہوتا دیکھ کر بےبسی سے گہرا سانس بھرتا  ایک آخری نگاہ حاویہ پر ڈال کر وہاں سے پلٹ گیا۔

”اللہ کے حفظ و امان میں رہو بچے۔۔۔۔“  نفیسہ بیگم نے دل سے دعا دی تو عائل کی پشت کو دیکھتے ہوئے بےاختیار حاویہ کے لب ہولے سے آمین کہے جانے والے انداز میں پھڑپھڑائے جسکا شاید وہ خود بھی اندازہ نہیں کرپائی تھی۔

*****************************

 پنتالیس سالہ تابین بائی نے دروزاے پر ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا تو وہ اندر کی طرف کھلتا چلاگیا۔کمرے میں قدم پڑتے ہی نیم تاریکی نے اُن کا استقبال کیا تھا۔اگلے ہی پل وہ اندازے سے سوئچ بورڈ کی جانب پلٹی تھیں اور ”ٹچ ٹچ ٹچ۔۔۔“ کی گونج پر اطراف میں سفید روشنی بکھرگئی۔

سامنے ہی وہ گہری نیند میں ڈوبی ہوش و خرد سے بیگانہ محوِ خواب تھی۔ ایک پل کو تابین بائی کو اُسکی نیند پر رشک سا آیا تھا جو مختلف ساز میں بجتے تبلے گھنگھروں کی چھنکاروں اور اِس حویلی نما کوٹھے میں جوبیس گھنٹے ہونے والے شوروغل میں بھی خوابوں کی سیر کو نکل جاتی تھی۔

”اُففف۔۔۔میری ننھی کلی۔۔۔۔“  ساری کا گلابی رنگ پلو پشت سے گھما کر ہاتھ میں لیتے وہ مسکرا کر اُسکی جانب بڑھی جو اپنا دودھیا رنگ بازو آنکھوں پر چڑھائے سوئی تھی۔

”رابی۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔اُٹھ جاؤ اب۔۔۔وقت گزرتا جارہا ہے۔۔۔اور کتنی دیر سوتی رہوگی تم۔۔۔۔؟؟“  اُسکے سرہانے بیٹھ کر وہ نرمی سے اُسکا بازو پیچھے ہٹاتی بولیں تو رابی کسمساکر زرا سی آنکھیں کھول کر اُلجھے انداز میں اُنھیں دیکھنے لگی۔

”ارے خواجہ صاحب آنے والے ہیں آج رات کو تمھارے لیے۔۔۔۔جانتی تو ہو اگر تمھارے حسن کا دیدار کرنے میں ذیادہ دن بیت جائیں تو اُنکی طبیعت میں بے چینی سی بھرجاتی ہے۔۔۔“  وہ یقیناً آج کی رات منعقد ہونے والی محفل کے بارے میں بھول گئی تھی تبھی تابین بائی نے تحمل سے اُسکا گلاب چہرہ دیکھتے ہوئے یاددہانی کروائی تو وہ اپنی گلابی پڑتی آنکھوں میں نیند کا خمار لیے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔

”واللہ۔۔۔ کیا کہنے خواجہ صاحب کے۔۔۔اچھے سے واقف ہوں میں اُنکی طبیعت سے۔۔۔بس آپ فکر نہیں کریں بی بی جان۔۔۔۔ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی وہ یہاں سے خوش ہوکر جائیں گے۔۔۔اور کرکے بھی جائیں گے۔۔۔“  اپنے چہرے پر آئی لٹوں کو پیچھے کرتے بےتاثر لہجے میں بولتی ہوئی اب وہ کمر پر بکھرے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہی تھی۔

”میں چاہتی ہوں کہ آج کی محفل میں تم سبز رنگ کا جوڑا زیب تن کرو۔۔۔۔خواجہ صاحب تمھیں اپنے من پسند رنگ میں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔۔۔“  تابین بائی پرجوش سی بولتی اُسکی الماری کی طرف بڑھی تھیں جس کا پٹ کھولتے ہی رنگ برنگے جوڑوں کا انبار دکھائی دینے لگا۔

”یہ رنگ تو سالار کا بھی من پسند ہے۔۔۔کیا وہ بھی اس محفل میں موجود ہوگا۔۔۔۔؟؟؟“  اُن کے ہاتھ میں گہرے سبز رنگ کا خوبصورت کام والا شرارہ کرتی دیکھ کر رابی کو بےاختیار اپنے دیوانے کی یاد آئی تھی جو نجانے کتنی ہی رنگین محفلوں میں شرکت کرتے کرتے اُسے سنجیدہ لے بیٹھا تھا۔

”اُس کم ذات کا تو نام بھی مت لو میرے سامنے۔۔۔اتنے دن ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک اُسنے مجھے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی تمھارے نام کی۔۔۔جھوٹا کہیں کا۔۔۔بس لارے لگائے جارہا ہے۔۔۔اگر آج آ بھی گیا تو اپنے آدمیوں سے کہہ کر اُسے باہر پھینکوا دوں گی۔۔۔جب تک وہ اپنی جیب خالی نہیں کرتا اُسکا یہاں داخلہ ممنوع ہے۔۔۔۔“  کپڑے اُسکے سامنے رکھتی تابین بائی سالار کے نام پر بری طرح چڑ گئی تھیں جو چند دن پہلے اُن کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر بھی آمادہ ہوچکا تھا لیکن صرف رابی کی خاطر خاموشی اختیار کرگیا تھا جسے اپنی بی بی جان سب سے بڑھ کر دل عزیز تھیں۔

”واللہ۔۔۔کیا کہنے اُسکے بھی۔۔۔میرے حق میں تو سستا ترین عاشق ثابت ہوا سالار خان۔۔۔۔“  عادت کے مطابق اپنے مخصوص انداز میں بولتی وہ ہولے سے ہنسی تھی۔

شاید سالار خان کی بےوقوفی پر جو اُسے دل سے چاہنے لگا تھا یاپھر اپنی بدقسمتی پر جو وہ چاہ کر بھی کسی کی نہیں ہوسکتی تھی۔

وہ خود بھی صحیح سے جان نہیں پائی تھی۔

*****************************

وہ آفس کے بعد اپنے فرینڈز کے ساتھ باہر لنچ کرنے گیا تھا اور اب شام کے سائے گہرے ہوتے ہی تھکا ہارا واپس لوٹا تھا۔اپنے شاندار سے فلیٹ کا دروازہ کیز کی مدد سے کھولتے ہوئے شاہ بوجھل قدموں سے اندر داخل ہوا اور بازو پہ دھڑا کوٹ سامنے تھری سیٹر صوفے پر اچھالتا خود بھی ساتھ ہی ڈھے گیا۔

”اففف۔۔۔آج کا دن بہت ٹف گیا۔۔۔۔“  اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتا وہ پشت پر سر ٹکاکر آنکھیں موند گیا جب ایکدم اُسکے فون پر رِنگنگ ہوئی۔

بڑے ضبط سے آنکھیں کھولتے اُسنے اپنے فون کی اسکرین چیک کی تھی جس پر ”موم کالنگ“ لکھا نظرآرہا تھا۔

”ہیلو موم۔۔۔۔سب خیریت۔۔۔فون کیوں کرنا ہوا۔۔۔۔؟؟“  گہرا سانس بھرتے اُسنے کال پِک کی اور بظاہر نرمی لیے عجلت بازی سے پوچھا۔

”کیا مطلب کیوں کرنا ہوا۔۔۔؟کیا اب مجھے اتنا حق بھی نہیں کہ تمھیں اپنی مرضی سے فون کرسکوں۔۔۔؟؟“  اپنی ماں کی بھڑکی آواز سن کر شاہ کے ماتھے پر پڑتے بل اگلے ہی لمحے غائب ہوگئے۔

”نہیں ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔۔۔بس تھوڑا کام کا برڈن تھا ناں تو اسی لیے۔۔۔خیر چھوڑیں یہ سب۔۔۔۔آپ اپنی بتائیں۔۔۔۔؟؟“  بظاہر تھکاوٹ سے بولتا وہ حال احوال پوچھنے پر آیا۔

”کیا بتاؤں بیٹا۔۔۔تمھارے دور جانے سے میرا دل ہر وقت بےچین رہتا ہے۔۔۔اتنے دن گزر گئے لیکن تم ہوکہ ابھی تک گھر ملنے نہیں آئے۔۔۔۔کب آؤں گے۔۔۔۔؟؟“  اپنے دل کی بات زبان پر لاتے وہ شاہ کو بھی ایک پل کے لیے بے چین کرگئی تھیں لیکن دوسرے ہی پل اُسکا انداز سرد ہوا تھا۔

”جلد آؤں گا۔۔۔بس ایک پروجیکٹ میں پھنسا ہوا ہوں۔۔۔وہ کمپلیٹ کرتے ہی آپ سے ملنے کے لیے چلا آؤں گا۔۔۔“  وہ آپ پر زور دیتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوا تو دوسری طرف وہ خوشی سے مسکرا دیں۔

”تمھارے لیے دن رات رشتے دیکھتی پھر رہی ہوں۔۔۔کچھ خوبصورت لڑکیاں ہیں جو میری نظروں سے گزری ہیں۔۔۔۔اُنکا فیملی بیک گراؤنڈ بھی اچھا ہے۔۔۔لیکن میرے لیے ان میں سے کسی ایک کو سلیکٹ کرنا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔۔۔۔سوچا اس میں تمھاری رائے۔۔۔“  وہ اپنی ہی دھن میں بول رہی تھیں جب شاہ ایکدم صوفے سے ٹیک چھوڑ کر اُنھیں مزید بولنے سے روک گیا۔

”موم۔۔۔موم۔۔۔جسٹ ریلکس۔۔۔۔“  اپنے بائیں ہاتھ کو تیزی سے اوپر نیچے جنبش دیتا ہوا وہ لب بھینچ گیا۔

”ریلکس ہی تو نہیں ہوا جاتا مجھ سے۔۔۔۔بس جلدی سے اپنی شادی کرواؤ۔۔۔۔اور مجھے دادی بناؤ۔۔۔اب اور انتظار نہیں ہوتا مجھ سے۔۔۔“  وہ پھر سے اپنی بےتابیاں اپنے بیٹے پر انڈلنے لگی تھیں۔

”وہ بھی بن جائیں گی۔۔۔انشاءاللہ جلد ہی بن جائیں گی۔۔۔۔“  اپنی ماں کی بےصبری پرشاہ قدرے تحمل سے گویا ہوا۔

”تو بتاؤ پھر۔۔۔۔؟؟“  شاہ کے بات ٹالنے کے انداز کو اُسکا اقرار سمجھتی وہ پھرسے اُس سے رائے مانگنے لگیں۔

”آپ کو میرے لیے بےکار میں لڑکیاں دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔میں خود ہی اپنے لیے کوئی اچھی سی خوبصورت لڑکی پسند کرلوں گا۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔“  ٹھوس لہجے میں بولتا وہ آخر میں مسکراتی آواز میں گویا ہوا۔

چمکتی آنکھوں میں بےاختیار آبرو کا حسین سراپا گھوما تو وہ اپنے احساسات جان کر بری طرح چونکا۔

وہ لڑکی اُس کے لیے محض ضد کا سامان نہیں تھی بلکہ اُسکی پہنچ اس سے بھی کہیں آگے کی نکلی تھی جسے وہ صرف نام اور کام کی حد تک ہی جانتا تھا۔

زندگی میں پہلی بار اِس عجیب  احساس سے دوچار ہوتے شاہ کے لب آپ ہی آپ مسکرائے تھے۔تبھی اسپیکر سے اُبھرتی تلخ آواز پر اُسکا سکتہ ٹوٹا۔

”بالکل۔۔۔جیسے پہلے پسند کی تھی۔۔۔۔“  انداز طنز بھرا تھا۔

طنز کیا تھا نشتر تھا جو شاہ کے سینے میں پیوست ہوتا اُس کو مسکراہٹ سمیٹتے ہی سختی سے مٹھیاں بھینچنے پر مجبور کرگیا۔

دل تو شدت سے چاہا تھا کہ موبائل فون دیوار پر دے مارے لیکن پتا نہیں کیسے وہ خود پر ضبط کرگیا۔

”فار گاڈ سیک موم۔۔۔۔میں فی الحال اس طرح کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔۔۔آپ کسی اور سے ایسی فرمائشیں کریں۔۔۔یہ آپ کے لیے ذیادہ بیسٹ آپشن رہے گا۔۔۔مجھے ان سب سے معاف ہی رکھیں آپ۔۔۔پلیزززز۔۔۔۔“  کچھ توقف کے بعد کڑے تیوروں سے ٹھہر ٹھہر کر بولتا ہوا وہ اگلے کو اپنی جلدبازی میں کی جانے والی غلطی کا احساس دلاگیا تھا

”لیکن۔۔۔۔“  

”خدا حافظ۔۔۔۔“  اکھڑے لہجے میں بولتے ہوئے وہ اگلے ہی پل کال کاٹ کر موبائل کو صوفے پر پٹختا بالوں کو سختی سے مٹھیوں میں جکڑ گیا تھا۔

****************************

آج سنڈے تھا۔سب گھر پر ہی موجود تھے لیکن عائل کو ایک ضروری کیس کے سلسلے میں صبح ہی صبح اپنی ڈیوٹی پر جانا پڑا۔

”یہ سب کیا ہے شام۔۔۔۔؟؟؟“  وہ بےنیاز سا ناشتہ کرنے میں مگن تھا جب حسن صاحب نے اپنے موبائل کی چمکتی اسکرین اُسکے سامنے کرتے ہوئے سخت لہجے میں استفسار کیا۔شام نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ تصویر میں ہیلمٹ کو بغل میں دبائے لڑکیوں کے بیچ کھڑا مسکرارہا تھا۔پیچھے ریس کا سارا منظرصاف نظر آرہا تھا جو حسن صاحب کو غصے میں لانے کے لیے کافی تھا۔کسی حسد خورے نے شام کی پِک حسن صاحب کو جان بوجھ کر سینڈ کرکے اپنی شیطانی دکھائی تھی۔اِن دونوں کی نوک جھونک کا سوچ کر پاس ہی بیٹھی عائمہ بیگم کی سانس سینے میں اٹکی تھی۔

”آفکورس ڈیڈ۔۔۔میری پِک ہے۔۔۔سمپل۔۔۔“  ایک پل کو وہ چونکا ضرور تھا لیکن اپنے باپ کے غصیلے روپ سے مرعوب ہوئے بنا خود کو لاپرواہ ظاہر کرتا وہ آرام سے کندھے اچکاگیا۔

خود کے نظرانداز کیے جانے پر شام کو واپس ناشتہ کرتے دیکھ کر حسن صاحب کو مزید طیش آیا تھا۔

”جب میں نے تمھیں ہزار بار منع کیا ہے ایسی واہیات ریسز میں شرکت کرنے سے۔۔۔تو پھر تم دوبارہ کیوں گئے وہاں۔۔۔ہممم۔۔۔۔؟؟کوئی شرم لحاظ ہے کہ نہیں تم میں۔۔۔؟؟ہر بار اپنی خراب حرکتوں سے میرا دماغ گھومادیتے ہو۔۔۔اور پھر بولتے ہو کہ میں بلاوجہ میں تم پر سختی کرتا ہوں۔۔۔پہلے اس قابل تو بن جاؤ کہ تم سے پیار جتایا جائے۔۔۔دیکھو تو ذرا اس بےشرم کو۔۔۔کیسے لڑکیوں کے ساتھ چپک کر کھڑا ہے۔۔۔؟؟“  درشتگی بھرے انداز میں اُنھوں نے شام کو اُسکی اوقات دکھائی تھی اور ساتھ ہی اسکرین پر پھر سے گہری نگاہ ڈالتے حقارت سے بڑبڑائے جس پر وہ مارے ضبط کے سختی سے اپنے لب بھینچ گیا۔

عائمہ بیگم  اپنے شوہر کے غصے سے خائف ہوتی چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہی تھیں۔

غلطی اُنکے بیٹے کی ہی تھی جو ہر بار کی طرح اب بھی اپنی اکڑ دکھانے سے باز نہیں آیا تھا۔

”ڈیڈ۔۔۔ریس لگانا میرا شوق ہے۔۔۔اور شوق پورا کرنا میری ضد۔۔۔ایم سو سوری فار اِٹ۔۔۔میں آپکی یہ بات پوری نہیں کرسکتا۔۔۔اینڈ سیکنڈلی۔۔۔ میں لڑکیوں کے ساتھ نہیں بلکہ لڑکیاں میرے ساتھ چپک کر کھڑی ہوتی ہیں۔۔۔“  ہاتھ میں پکڑا سلائس واپس ڈش میں پٹختا وہ حسن صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سرد مہری سے گویا ہوا۔

”یہ۔۔۔یہ دیکھ رہی ہو تم اپنے لاڈلے سپوت کو۔۔۔کس طرح اپنے باپ سے برابر زبان لڑا رہا ہے۔۔۔؟یہ سب تمھاری اور عائل کی دی ہوئی بلاوجہ ڈھیل کا نتیجہ ہے۔۔۔لیکن فکر نہیں کرو مجھے بھی بگڑے ہوؤں کی لگامیں اچھے سے کسنی آتی ہیں۔۔۔بس ایک بار اسکی اسٹڈیز مکمل ہوجانے دو۔۔۔پھر دیکھتا ہوں کیسے یہ سب فضول کام چھوڑ کر بزنس کی طرف نہیں آتا۔۔۔۔؟؟“  تڑخ کر بولتے ہوئے حسن صاحب نے شام کے ساتھ ساتھ اب عائمہ بیگم کو بھی بیچ میں گھسیٹا تھا اور دوسرے ہی پل اپنے سامنے پڑی پلیٹ کو غصے سے پیچھے دھکیلتے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

اپنے بگڑے ہوئے خودسر بیٹے کی بغاوت دیکھ کر یقیناً اُنکی بھوک مرچکی تھی تبھی وہ تن فن کرتے اپنے کمرے میں چلے گئے۔

شام جو اپنے باپ کی چبھتی دھمکی پر غور کرتا سامنے پڑی ڈشز کو غصے سے گھوررہا تھا اچانک پاس 

پڑے مینگو جوس سے بھرے جگ کو جھٹکے سے ہاتھ مارتا سارا ٹیبل گیلا کرچکا تھا۔

”شام۔۔۔۔“  عائمہ بیگم نے دبی آواز میں چیختے ہوئے بےاختیار اُسے ٹوکا۔

”اسی لیے۔۔۔اسی لیے مجھے ان کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا پسند نہیں۔۔۔لیکن آپکو اور بھائی کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔۔۔یار۔۔۔یہ مجھے کبھی خوش ہوتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔۔۔کئی بار تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں انکا بیٹا ہوں ہی نہیں۔۔۔“  شہادت کی انگلی اٹھا کر اُنھیں اصل معاملہ باور کرواتا وہ حددرجہ تلخ ہوا تو عائمہ بیگم پریشان ہوتی نظریں پھیرگئیں۔

”موم مجھے ایک بات تو بتائیں۔۔۔میں سچ میں انہی کا بیٹا ہوں ناں۔۔۔۔؟؟“  بھوری آنکھوں میں سرخی لیے وہ اس پوائنٹ پر الجھا تھا تبھی عائمہ بیگم نے اُسے غصے سے گھورا۔

”شام اب بس بھی کرو۔۔۔کیسی فضول باتیں کررہے ہو۔۔۔۔؟تم جانتے تو ہو اپنے ڈیڈ کے غصے کو۔۔۔اپنی پیاری بہن کی موت کے بعد سے وہ خاصے چڑچڑے ہوگئے ہیں۔۔۔ایسے میں وہ کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔۔۔مت کیا کرو ایسے کام جن سے اُنکا موڈ خراب ہوجاتا ہے۔۔۔“  بہت سال پہلے اپنی اکلوتی نند کی موت کا حوالہ دیتی عائمہ بیگم نے حسن صاحب کے بڑھتے چڑھتے غصے کا سبب بتایا تو آگے سے وہ چٹخ گیا۔

”اور میرے موڈ کی آپکو کوئی پرواہ نہیں جو وہ ہمیشہ خراب کردیتے ہیں۔۔۔مجھ پرغصہ تو ایسے اتارتے ہیں جیسے کہ میں نے اُنکی بہن کی جان لی ہو۔۔۔۔آپ میری ایک بات اچھے سے سن لیں موم اور بےشک اُنھیں بھی سمجھادیں۔۔۔نہ تو میں اُنکا بورنگ سا بزنس جوائن کروں گا اور نہ ہی اُنکی ضد کے آگے اپنے شوق چھوڑوں گا۔۔۔دیٹس فائنل۔۔۔۔“  اپنا اٹل فیصلہ سناتا ہوا وہ  چیئر سے اُٹھ کھڑا ہوا اور ناشتہ ادھوڑا چھوڑ کر بگڑے تیوروں کے ساتھ وہاں سے نکلتا چلاگیا۔

عائمہ بیگم نے اُسے ناشتہ بیچ میں چھوڑجانے پر روکا نہیں تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ وہ  کہنے پر بھی نہیں رکے گا۔

”اُففف۔۔۔یہ باپ بیٹا تو اپنے چکر میں مجھے پاگل کرکے چھوڑیں گے۔۔۔یااللہ کیا کروں میں۔۔۔۔؟؟“  بھوک تو عائمہ بیگم کی بھی اُڑ چکی تھی تبھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے وہیں سر پکڑ کربیٹھ کر گئیں۔

****************

جاری ہے  م

 next episode will b posted tomorrow Inshallah

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulagti Yadon K Hisar Main  written by RJ .  Sulagti Yadon K Hisar Main by  RJ is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Rude Hero Tawaif  Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel '' Sulagti Yadon K Hisar Main '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1to 10 

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”سلگتی یادوں کے حصار میں “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel By RJ Continue Novels ( Episodic PDF)

  سلگتی یادوں کے حصار میں ناول    از  آر جے (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages