Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 112 Online - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 30 June 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 112 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 112 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 112

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 112

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔112 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ساہیوال 

کیسی ہو نادیہ ۔۔۔؟ مان جو نادیہ سے ملنے آیا تھا اُسکو سڑھیوں سے آتے دیکھ تیزی سے پوچھا ۔۔۔ 

نادیہ جو انجان تھی کہ مان اُسکے گھر آیا ہے ، اُسکو سڑھیوں پر نظریں اٹھائے خود کا منتظر دیکھ چونکی ؛۔

میں ٹھیک ہوں ، وہ سرسری سا دیکھتے ساتھ ہی نیچے آتے اُسکے بالکل سامنے کھڑی ہوئی ۔۔

تم یہاں ۔۔۔۔؟ وہ حیران تھی کہ مان اُسکے گھر ۔۔۔۔ جبکے وہ جانتی تھی ، جو ماضی کے تلخ وقت میں ہوا تھا دونوں گھرانے کے لوگ ایک دوسرے سے دور ہو گئے تھے ؛۔

آنا جانا بند ہو گیا تھا ۔ 

میں یہاں آنے والا نہیں تھا ، لیکن صرف تمہارے لیے تمہیں دیکھنے کے لیے چلا آیا ۔ کہیں باہر چل سکتے ہیں ۔۔۔؟ 

وہ اُسکو دیکھتے ساتھ ہی پوچھ گیا تو نادیہ اُسکے ایسے اتنا دھمیے سے پوچھنے پر حیران ہوئی ؛۔

تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ، نادیہ نے اتنا بولتے جیسے اُسکو جواب دیا تھا ؛۔

میرے یہاں آنے سے کیا برا ہوا ۔۔۔؟ مجھے ٹھیک سے وضاحت دو ۔۔۔؟ وہ اُسکو ایسے بےہیو کرتے دیکھ تھوڑا تنکے لہجے میں بولا ۔۔۔

ارم کو اچھا نہیں لگے گا ۔ وہ سرسری سا مان کا چہرہ دیکھ بولی 

ارم کو اچھا لگے یا نہیں۔ ایک بات ہمارے درمیان تہ ہوئی تھی کہ ہم ہمشیہ اچھے دوست رہیں گئے ۔ 

کبھی بھی کوئی بھی مصیبت میں پڑے گا تو دوسرا اُسکا ساتھ دے گا ، ویسے بھی ارم شکی بیوی نہیں ہے ؛۔

وہ اتنا کہتا ہلکے سے مسکرایا تو نادیہ کا اتار ہوا چہرہ بھی سرد مسکراہٹ لبوں پر پھیلا گیا ۔ 

چلو ۔۔۔۔وہ اُسکو راستہ دیتے بولا ۔ 

ماما پاپا ۔۔۔ میں نے ان سے بات کر لی ہے ۔ تم بس میرے ساتھ چلو وہ اُسکا ہاتھ پکڑتے آگے بڑھا تو نادیہ اُسکو ایسے دیکھ کھنچتی چلی گئی ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور 

حیا اٹھو ۔۔۔۔۔ ایان جو اُسکے سر پر ناز ہوا تھا اُسکو نوٹ بک پر جھکے دیکھ سپاٹ ہوتے بولا ۔ 

میں۔۔۔۔۔۔ حیا اُسکے ایسے بےہیو پر حیران ہوئی تھی : 

تمہارے علاوہ کوئی اور ہے یہاں۔۔۔؟ وہ ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھے جھکا تو حیا تیزی سے اٹھی ۔ 

کیا کہا تھا ۔۔۔ کہ عابش کو میرے قریب آنے سے روکو ۔۔۔۔ کیا کیا تم نے ۔۔؟ وہ اُسکی طرف اپنا فون کرتے غرایا ۔ 

تو حیا سرسری سا اُسکا فون دیکھ گئی ، جہاں عابش کے لاتعداد میسجز اور کالز آئی ہوئی تھی ۔۔۔

میں کیا کروں ۔۔۔؟ مجھے ابھی کوئی راستہ نہیں مل رہا وہ اُسکو ٹانے کے لیے نظریں پھیرتی بولی 

حیا خاں ۔۔۔۔ میری بات اچھے سے دماغ میں بٹھا لو ۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے ایسے مجھے ٹال دیکھنے سے میں خاموشی سے بیٹھ جاؤں گا تو تم ابھی مجھے جان نہیں پائی 

میں سیدھا نعمان جیجو کے پاس چلا جاؤں گا جو ہوگا میں دیکھ لوں گا ۔ ایان اتنا بولتے ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتے کلاس سے نکلا ۔ 

حیا اپنا سر پکڑ چکی تھی ، وہ کیا کرے اُسکو کچھ سمجھ نہیں آئی تھی ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حسن ۔۔۔۔۔۔۔ تجھے پتا چلا ۔۔۔۔ نمی کا جو رشتہ ہوا تھا وہ ٹوٹ گیا ۔،

شہریار جو اسد سے افسوس کی خبر سن سیدھا حسن کے سر پر ناز ہوا تھا اُسکو خوشی سے بتاتے آگاہ کیا ۔ 

کیا ۔۔۔۔؟ وہ تو جیسے سن اپنی چئیر سے اچھال ہی گیا ،  

تم سچ بول رہے ہو ۔۔۔؟ حسن جو بوجھ سا گیا تھا سن خوشی سے چہک اٹھا ۔

سچی یار ۔۔۔۔ تجھے پتا ہے میں زیادہ مذاق نہیں کرتا اور تیری ایسی شکل دیکھ کر جھوٹ بولوں گا ۔۔؟ 

کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔۔!! وہ اتنا بولتے مسکرایا تو حسن خوشی سے اُسکے گلے لگا ۔ میں نمی سے بات کر کہ آتا ہوں اس بار دیر نہیں کروں گا ۔ 

وہ چہکتے ساتھ ہی اپنی نئی سوچ شہریار پر عیاں کر گیا تو وہ اُسکو بھاگتے جاتے دیکھ دل سے خوش ہوا ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ ہو مسٹر سرحان شاہ ۔۔۔۔۔ کہاں ہو ۔۔۔؟ ساری رات بھی گھر نہیں آئے اور ابھی بھی تمہارا دل نہیں کیا کہ بیوی کا حال ہی پوچھ لوں، 

ابھی سرحان نے فون اٹھایا تھا کہ حور کی باتیں سن اُسکے لبوں میں دلفریب مسکراہٹ پھیلی ۔۔۔

“ کیا بات ہے ،، لگتا ہے آج مس حور کو اپنے شوہر کی یاد ستا رہی ہے ۔۔۔؟ وہ اُسکو ایسے غصہ ہوتے دیکھ بولا ۔ 

مسٹر ۔۔۔ زیادہ ہوا  میں اڑنے کی ضرورت نہیں۔ تم نے ہی آئے اور نہ ہی کال کی جس وجہ سے میں پریشان ہو گئی تھی ۔ 

وہ سامنے ہی انار کو آفس میں تیزی سے داخل ہوتے دیکھ تھوڑا چونکی تھی ۔

تم کہاں ہو ۔۔۔۔۔؟؟ سرحان جو اپنے آدمیوں کو ناشتہ لاتے دیکھ گیا تھا ۔ 

ان کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ساتھ ہی حور سے سوال کیا ،

میں آفس میں آئی ہوں ، تم سے بعد میں بات کرتی ہوں وہ جواب دیتے ساتھ ہی تیزی سے کہتے فون بند کر گئی 

ارے ۔۔۔۔ ناشتہ ۔۔۔۔ کیا ۔۔۔۔ سرحان جو اگلا سوال پوچھنے والا تھا فون بند دیکھ خود سے بڑبڑایا ۔ 

“ ہو میڈم ۔۔۔۔۔ توں ایسے اتنا گھبرائی پریشان یہاں وہاں کیوں ٹکرا رہی ہے ۔۔۔؟ حور جو کیبن سے نکل آئی تھی حور کو اپنے کسی اور آفیسرز کو چیک کرنے کا بولتی حور کو دیکھ گئی 

تیرا چہرہ کیوں اتار ہوا ہے،،۔۔۔؟ حور اُسکے چہرے پر بارہ بجے دیکھ اب کہ سینجدگی سے پوچھا ۔۔۔۔

یار کل میرے بابا گاوں سے واپس لاہور آئے تھے ، لیکن وہ گھر نہیں پہنچے ۔ 

ساری رات انتظار کرتی رہی مگر وہ صبح ہونے کے بعد بھی نہیں آئے ان کا فون بند گا رہا ہے ۔ 

انار پوری طرح گھبرائی بولی تو حور حیران ہوتی پریشان ہوئی ؛۔

انار ۔۔۔۔۔۔ تیرا بابا کا نمبر آخری بار بس اسٹاپ پر ہی چلا تھا وہی فون بند ہوا اُسکے بعد فون کو کسی نے ابھی تک اون نہیں کیا ۔۔۔ 

میں نے بس اسٹاپ کے آس پاس لگے کیمروں کی سی سی ٹی وی کی ویڈیو مگوائی ہے ، دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں گئے تھے ۔ 

عالیہ جو وہی آئی تھی ، انار کے کندھے پر ہاتھ رکھتے حوصلہ دیتے بولی ۔

پریشہ کہاں ہے ۔۔۔؟ حور نے بھی اُسکو حوصلہ اور صبر کرنے کا بولا تھا جبکے ساتھ ہی کہا تھا دعا کرو وہ یہاں بھی ہوں اچھے سے ہوں ۔۔۔۔

پریشہ کو یونی چھوڑ آئی ہوں کہ اُسکا دھیان ابا کی طرف نا جائے ، توں پلیز میرا ایک کام کر دے ۔۔۔۔۔

زر کو کال کر اور بول کہ یونی میں پریشہ کا تھوڑا خیال رکھے ، پریشہ بتاتی ہے کہ زر اُسکا دوست ہے ۔۔۔؟ 

میں تو اُس پاگل لڑکی کی باتوں پر حیران ہوتی ہوں ، لیکن ابھی توں اُسکو بول دے انار حور کو کہتی عالیہ کے پیچھے گئی تو حور نے فون پر جلدی سے ٹائپ کرتے زر کو میسج کیا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کہاں ہے وہ ۔۔۔۔ سلطان شاہ جو اکرام اور صفدر کے ہمراہ وہاں آئے تھے ۔ سرحان اور ادیان ( نور کے شوہر ) کو دیکھ سپاٹ چہرہ لیے دریافت کیا ۔ 

وہاں ۔۔۔۔۔ سرحان سرسری سا اشارہ کر گیا تو سلطان شاہ لوگ آگے بڑھے ؛۔

“ شاہ تم نے ہاتھ اٹھایا ۔۔۔۔؟ اکرام سلطان شاہ اور صفدر کو آگے جاتے دیکھ سرحان سے رعب سے بھری آواز میں پوچھا ۔۔۔ 

چاچو ۔۔۔۔ وہ اپنی زبان نہیں کھول رہا تھا ۔ الٹا کہہ رہا ہے مجھے برہان شاہ سے ملنا ہے میں اُسکو کچھ بتانا چاہتا ہوں 

ایک بار صرف ایک بار اس کو اُس سے ملنے دوں، سرحان کا بھی غصے سے برا حال ہوا پڑا تھا 

وہ ساری رات سے داتا بخش سے پوچھتا رہا لیکن وہ صرف ان چند الفاظ کے علاوہ کچھ بول ہی نہیں رہا تھا 

جس وجہ سے مجبوری میں سرحان اور ادیان نے خود اپنے ہاتھوں سے داتا بخش کی اچھے سے دھلائی کی ۔ 

“ شاہ ۔۔۔۔ مارنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔؟ اکرام اُسکو اپنے ہاتھ پر پٹی باندھتے دیکھ دھمیے سے غرائے 

چاچو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا ، ویسے بھی ابھی میں نے اُسکی عمر کا لحاظ رکھ لیا ہے ۔ 

اُسنے جتنی بے دردی سے میرے چاچو کی جان لی تھی اُتنا تو میں ابھی گیا ہی نہیں ۔ سرحان جو قمیض کے بنا تھا گاڈر سے قمیض لیتے اکرام کے ہمراہ آگے بڑھا ؛۔

پانی ڈالو اس خبیث انسان پر ۔۔۔۔۔۔سلطان شاہ جو چئیر پر براجمان ہوئے تھے ایک نظر داتا بخش کا وجود دیکھ سخت رعب دار آواز میں بولے 

اٹھ کمینے انسان ۔۔۔۔ صفدر شاہ جو پانی کا  جگ اٹھاتے اُسکے منہ پر انڈھیل گئے تھے اُسکو قہر نظروں سے دیکھتے ساتھ ہی جھنجھلاڑا تو داتا بخش جو پانی کے ایسے اتنا زور سے پڑنے پر ہڑبڑاتے آنکھیں کھول گیا تھا 

سامنے ہی صفدر شاہ سمیت باقی سبھی لوگوں کی طرف دیکھا ؛۔

کچھ یاد آیا ۔۔۔؟ سلطان شاہ اپنی چئیر کو تھوڑا سا گھیسٹتے داتا بخش کے قریب ہوئے تو داتا بخش سلطان شاہ کی آنکھوں میں غصہ اور نفرت دیکھ پل بھر کے لیے ڈرا ۔

 داتا بخش تجھے تیرے گناہوں کی سزا میں کسی پولیس کے حوالے تجھے کر کہ نہیں دوں گا ۔ اگر توں چاہتا ہے کہ تجھ پر رحم کھایا جائے ۔۔۔۔

اور تیری اس عمر کا لحاظ رکھا جائے تو شرافت سے بتا توں نے کس کے کہنے پر میرے جگری شاہ کا خون کیا تھا ۔۔۔۔؟ 

تجھے ایک بار بھی اُسکے پیار کا احساس نہ ہوا تھا ۔۔؟ تجھے تو وہ اپنا دوست کہتا تھا ۔ توں نے اُسکی جان کیسے لی ۔۔؟ 

سلطان شاہ جس کی مراد کی حالت یاد آتے ہی آنکھیں بھری تھی داتا بخش کو گربئاں سے پکڑتے اپنی طرف کھینچا تو وہاں موجود سبھی لوگوں کی آنکھیں نم ہوئی ؛۔

“ شاہ ۔۔۔۔۔۔۔ سائیں ۔۔۔۔۔۔ خدا میرا جانتا ہے، میں نے اپنے بابا مراد سائیں کو نہیں مارا ۔ 

داتا بخش کی آنکھیں جو بھری تھی اور بھرتے ہی ساتھ کناروں سے پانی سیلاب کی طرح بہنا شروع ہوا ؛۔

جھوٹ بولتا ہے کمینے انسان ۔۔۔۔!! میں تجھے ابھی مار دوں گا ۔ توں نے میری بہن کی جان لی ۔ 

میں تیرے ٹکڑے کرتے جانوروں کو ڈالوں گا ۔تیری بیٹی کی زندگی عذاب بنا دوں گا ۔ 

صفدر شاہ جو اپنا غصہ دبائے سلطان شاہ کو دیکھ رہے تھے داتا بخش کے ایسے بولنے پر وہ تیزی سے لپکتے داتا بخش کے کمزوز کندھوں سے شروع ہوتے  منہ پر اندھا دھند مکے برسانا شروع ہوا ؛۔

صفدر شاہ ۔۔۔۔۔۔ سلطان شاہ بلند آواز میں دھاڑے تو سرحان اور ادیان نے مشکل سے صفدر شاہ کو پیچھے کیا ؛۔

بھائی صاحب آپ اس کی باتیں سن سکتے ہیں، لیکن میں اس کی باتیں برادشت نہیں کر سکتا ۔۔۔ 

اس نے ہمارا نمک کھا کر ہمیں ہی ختم کر دیا ہے ، میری بہن اُسکو مراد کا ہاتھ بولتی تھی اس نے میری بہن کو ہی ختم کر دیا 

اُسکے بچوں کو یتیم مسکین کر دیا ۔ اس کمنیے کو جینے کا بالکل بھی حق نہیں۔ صفدر شاہ جو آج بکھر چکے تھے 

روتے ساتھ ہی دھاڑتے پھر سے پوری طاقت لگاتے داتا بخش کو پکڑنے کی کوشش کی ۔۔

صبر کرو ۔۔۔۔۔ صفدر شاہ ۔۔۔۔ اکرام نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُسکو حوصلہ کرنے کا بولا 

“ شاہ ۔۔۔۔ سائیں ۔۔۔۔ میرا اللہ جانتا میں نے جس مالک کا نمک کھایا اُسکو نہیں مارا ۔۔۔۔ 

اگر آپ سب کو مجھے مار کر سکون ملتا ہے تو مار دے ، مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا ، لیکن مرنے سے پہلے مجھے ایک بار ۔۔۔۔ 

صرف ایک بار ۔۔۔۔ برہان شاہ سے مل لینے دیں ۔ 

مجھے ایک بار ۔۔۔۔ اُس سے بات کر لینے دیں ، میں سب گناہ قبول کر لوں گا ، داتا بخش کی آنکھیں بھی بھرتے بھیگ مانگنا شروع ہوئی ؛۔

تمہاری ہمیت کیسے ہوئی ۔ برہان شاہ کا نام اپنی زبان پر لانے کی ۔۔۔۔؟ سلطان شاہ جو داتا بخش کے بالکل سامنے بیٹھے تھے 

اُسکو گربیاں سے پکڑتے کھینچا خود کے قریب کرتے قہر نظروں سے دھاڑے ۔

وہ کیوں تم سے ملے ۔،۔۔۔ جو بھی گناہ قبول کرنے ہیں میرے سامنے کرو ، اُسکا ان سب باتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ؛۔

سلطان شاہ اُسکا چہرہ دبوچتے غرائے تو داتا بخش تکلیف محسوس کرتے چیخ اٹھے ؛۔

“ شاہ ۔۔۔۔ سائیں ۔،۔۔۔۔ جیسے ہی داتا بخش کا منہ جو سلطان شاہ نے دبوچا تھا چھوڑا ۔۔۔۔ 

وہ کانپتی آواز میں بولا ۔ 

اُسکا ہی تو سب کچھ لینا دینا ہے ۔ شاہ ۔۔۔ سائیں ۔۔۔ میرا اُس سے بات کرنا بہت ضروری ہے ؛۔

غفار چوہدری کو میں نے پیغام دیا تھا ، کہ بہت سال پہلے میں اپنے مالک مراد شاہ سائیں کے ساتھ کیا ظلم کیا تھا ؛۔

میں وہ سب کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ شاہ ۔۔۔ سائیں ۔۔۔۔ مگر میں مجبور تھا ۔۔۔ 

کیا ۔۔۔ کیا تھا تم نے ۔۔۔۔۔؟ سلطان شاہ دھاڑتے ساتھ ہی گلے سے داتا بخش کو دبوچ گئے ۔ 

پہلے سائیں۔۔۔،مجھے ایک بار مراد شاہ کے بیٹے سے ملنے دیں ۔، خدا کی قسم میں کچھ بتا دوں گا ۔ 

اُسکی جان کو خطرتا ہے ، میری بات مان لیں ، داتا بخش کے بزرگ نما چہرے سے خون بہنا شروع ہوا تھا 

بند ہوتی آنکھوں کو مشکل سے کھولتے بولا ۔ 

لو ۔۔۔۔۔اب نئی فرمائش سن لو ۔۔۔۔۔ اس سالے کی ۔۔۔۔ پہلے برہان سے ملنا تھا اب زر سے ملنا چاہتا ہے ؛۔

صفدر شاہ جس کا دماغ گھوم رہا تھا گرجتے سلطان شاہ کو دیکھا ؛۔

تجھے کیا لگتا ہے ، داتا بخش توں ایسے مجھے بولے گا تو میں ڈر کر کہ مراد کے بیٹے کی جان کو خطرتا ہے تجھے اُس سے ملنے دوں گا ۔۔۔۔۔۔؟ 

داتا بخش ۔۔۔۔ زر شاہ کو میرے زندہ ہوتے ہوئے کوئی بھی چھو نہیں سکتا ۔ توں اتنے سال سے اُسکے قریب نہیں جا سکا تو باقی سب کون ہیں۔۔۔۔؟ 

سلطان شاہ سینا اکڑر کر بولے تو داتا بخش جو زخم حالت میں مبتلا ہوا تھا 

طنزیہ ہنستے سب کے سینوں میں آگ کی جلتی جنگاری کو ہوا دے گیا ۔

تیری اتنی ہمیت توں ہم پہ ہنسے ۔۔۔۔۔؟ سلطان شاہ کا ہاتھ اٹھا تھا اور داتا بخش کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا ؛۔

“ ہنسی نہیں آئے گئی تو کیا رونا آئے ۔۔۔۔۔؟ جس کو آپ نے شاہ سائیں ۔۔۔ اپنے سینے سے لگا کر جوان کیا ہے نہ ۔۔۔۔؟ 

وہ زرشاہ ۔۔۔۔مراد شاہ کا بیٹا نہیں ہے ۔ داتا بخش جس کا کان سُن ہو چکا تھا 

ہنستے بولا ۔، میرے بابا مراد شاہ سائیں ۔۔۔۔ کا لال اُسکا چراغ آپ لوگوں کی  قید میں نا ہے اور نہ ہی وہ کبھی اس قید میں زر شاہ کی طرح بیٹھ سکتا تھا ؛۔

کیا بکواس لگائی ہے ۔۔۔ سلطان شاہ کا دماغ جیسے گھوما تھا ۔،

کوئی بکواس نہیں ،، میں نے ہی غفار چوہدری کو بھی یہ سب بتایا کہ زر شاہ مراد شاہ کا بیٹا نہیں ۔۔۔۔

یہی تو ایک گناہ کیا تھا میں نے ۔۔۔ شاہ سائیں۔۔۔۔۔ اپنے مراد شاہ سائیں کا بیٹا ان سے چھین لیا ؛ 

میں نے اپنے ان ہاتھوں سے بچے بدلے تھے مراد شاہ کا بیٹا جو پیدا ہوا تھا اُسکو اُسکی ماں کیے دیکھنے سے پہلے ہی اٹھا کر لے گیا ۔ 

داتا بخش کے رونے میں تیزی آئی تھی جبکے اُسکے الفاظ سن سلطان شاہ جو اُسکو دبوچے ہوئے تھے 

ساکت ہوتے اُسکو چھوڑ پیچھے کرسی سے لگے ، سرحان کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا 

وہ کیا سن رہا تھا ۔ اکرام نے بےیقینی سے داتا بخش کو دیکھا ؛۔

ماضی کے بہت سے ایسے راز ہیں جو اس دل پہ بوجھ بن گئے ہیں ، اکرام خان ۔۔۔ اپنی بیٹی آیت خان سے پوچھنا 

کبھی فرصت ملے تو اپنی بیٹی سے ہمارا پتا پوچھنا یقین جانو تمہاری بیٹی ہمارے بارے میں اچھے سے بتا دے گئی ؛۔

آٹھ سال پہلے وہ کالی وحشی رات ۔۔۔۔ جو کچھ شاہ ہاؤس ہوا تھا اپنی بیٹی سے پوچھنا ۔۔۔ 

آپ سب ہمیں ڈھونڈ رہے تھے ، اور ہمارا پتا آیت بیٹی  جانتی تھی ۔ اکرام خان کوئی شک نہیں اس میں تمہاری بیٹی بہت برکتوں والی ہے ؛۔

داتا بخش جس کی آنکھیں بند ہو گئی تھی ساتھ ہی اتنا بولتے زبان خاموش ہوئی ۔

سرحان اور اکرام دونوں داتا بخش کے منہ سے آٹھ سال پہلے کا سن ساکت ہوئے ۔۔۔۔ 

یہ کیا بول رہا تھا ۔۔۔۔؟ آٹھ سال پہلے کیا ہوا ۔۔۔۔؟ سلطان شاہ کو لگا تھا جیسے ان کی زمین ہلنا شروع ہو چکی ہو ۔ 

آنکھیں کھولو ۔۔۔ داتا بخش ۔۔۔۔ بتاؤ مجھے ۔۔۔۔ کیوں جھوٹ بول رہے ہو اتنے بڑے ۔۔۔ سلطان شاہ سے تو یہی ہضم نہیں ہو رہا تھا 

کہ مراد شاہ کا بیٹا زر نہیں ہے ، ایسے کیسے ہو سکتا تھا ۔ انہوں نے جس کو دل سے لگا کر رکھا اپنے جگر کا ٹکڑا سمجھ وہ ۔۔۔۔ وہ ٹکڑا تھا ہی ۔۔۔۔ 

بابا سائیں۔۔۔۔۔ اس کو ہسپتال لے کر جانا ہوگا ۔ سرحان اپنے آدمیوں کو اشارہ کرتا بولا تو سبھی جلدی سے داتا بخش کو اٹھاتے وہاں سے گئے ۔ 

شاہ وہ کیا بکواس کر رہا تھا ۔۔۔؟ سلطان شاہ کی حالت بھی جیسے بگڑی تھی ان کا بی پی ہائی ہوا ؛۔

سبھی ان قریب ہوئے تھے ۔ 

سلطان انکل ۔۔۔۔۔۔ برہان سب کو ایک جگہ اکٹھے دیکھ حیران ہوا تھا ۔،

برہان شاہ ۔۔۔۔ سرحان جو اپنے باپ کے قدموں میں بیٹھا تھا سلطان شاہ کے ہمراہ کھڑا ہوا ۔۔۔

آپ سب نے اتنا ظلم اُس بزرگ پر کیسے کیا ۔۔۔؟ برہان سب کے پریشانی سے سجے چہرے دیکھ سلطان شاہ سے سوال کر گیا ۔۔۔ 

“ شاہ ۔۔۔ ان کاموں اور معاملوں سے دور رہو ۔ ان سے تمہارا کچھ لینا دینا نہیں ۔ 

سلطان شاہ دو ٹوک بولتے وہاں سے واک آوٹ کر گئے تو سرحان جو داتا بخش کے آٹھ سال پہلے والی بات پر الجھا

“ شاہ تم یہاں کیسے آئے ۔۔۔۔؟ صفدر شاہ جو جانے لگے تھے سرسری سا برہان سے پوچھا ۔۔۔ 

صفدر انکل کیا آدمی صرف آپ ہی رکھ سکتے ہیں۔۔۔؟ بس افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ اس بار میں لیٹ ہو گیا اور سرحان یہ بازی جیت گیا ؛۔ 

وہ اپنی نیلی آنکھوں پر گلاسیز لگاتے بنا کچھ سنے آرام سے واپس گیا ۔ 

ابھی وہ سب لوگ بند فیکڑی سے نکلے تھے ، کہ برہان سرحان کے آدمیوں کو داتا بخش کو اٹھاتے گاڑی میں ڈالتے دیکھ ان کی طرف لپکا ۔۔۔

داتا بخش جو تھوڑا تھوڑا ہوش میں تھے ، برہان کو دیکھ اپنا ہاتھ اسُکی طرف ہوا میں کرتے قریب آنے کے لیے جیسے التجا کی ۔۔۔

چھوڑو ۔۔۔۔ برہان سپاٹ گویا تو سبھی آدمی ڈرتے پیچھے ہوئے ؛۔

داتا بخش ۔۔۔۔۔ برہان جو اُسکے قریب ہوا تھا ، اُسکو دیکھ پکارا تو داتا بخش کا چہرہ ہلکے سے مسکرایا۔ 

“چھوٹا۔۔۔ بابا ۔۔۔۔۔۔ سائیں ۔۔۔۔۔ میرا ۔۔۔۔ داتا بخش جو ٹوٹے لفظوں سے بولا تھا 

برہان نے پورے کان لگاتے اُسکی آواز سننے کی کوشش ، 

وہ کیمرہ ۔۔۔۔۔ داتا بخش جو برہان کو قریب ہونے کا اشارہ کر گیا تھا خشک ہونٹوں سے بولتے وہ برہان کو کان قریب کرنے کا کہہ گیا ۔۔۔

اُس کیمرے میں آپ کی زندگی کا سب سے بڑا سچ چھپا ہے ، میرے ۔۔۔۔ مراد سائیں ۔۔۔۔ کا اصل چراغ ۔۔۔۔ صرف ۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔

داتا بخش کے ادھورے الفاظ پورے ہونے سے پہلے ہی ہونٹوں میں قید ہوئے ؛۔

برہان اُسکے اپنی زندگی کا راز لفظ سن چونکا ، جبکے چراغ پر وہ ٹھٹھکا ۔ 

جلدی سے ہسپتال لے کر جاؤ ، صفدر شاہ جو باہر آئے تھے ، برہان کو گاڑی سے نکلتے دیکھ آدمیوں کو بولا تو وہ زن سے گاڑی لے اڑے۔۔۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انار ۔۔۔۔۔ ویڈیو مل گئی ، تمہارا شک درست تھا ۔ تمہارے ابا کو کسی نے کڈنیپ کیا۔ عالیہ جو چیپ اپنے ساتھ لائی تھی 

لیپ ٹاپ کے ساتھ اٹچ کرتے اُسکو ویڈیو پلے کرتے دکھانا شروع ہوئی ؛۔

 انار جس کی آنکھیں لال ہوئی تھی ۔ مٹھیاں بھنچتے پورا ویڈیو دیکھا ۔ 

میں ان لوگوں کو چھوڑوں گئی نہیں ، وہ دل میں بڑبڑاتی سفاک چہرہ لیتے آفس سے نکلی ۔،وہ جان گئی تھی 

کہ یہ کام سلطان شاہ کا ہی ہے ، اب اُسکو کسی طرح سلطان شاہ سے ملنا تھا ؛۔

اکرام خان ۔۔۔۔۔ وہ داتا بخش تمہاری بیٹی کے بارے میں کیا بول رہا تھا ۔۔۔؟ صفدر شاہ جو سبھی لوگوں کے ساتھ ڈیفیس والے بنگلے میں آیا تھا 

اکرام کو سوچ میں پڑے دیکھ داتا بخش کی کہی بات کا پوچھا ؛۔

صفدر انکل ۔۔۔۔۔ اُس انسان کی کسی بھی بات پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں ۔ وہ ہمیں گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔ 

اور کچھ نہیں ۔۔۔۔ سرحان جو خود الجھا ہوا تھا صفدر کو اکرام پر چڑھتے دیکھ دو ٹوک بولا ۔۔۔ 

صفدر شاہ ۔۔۔۔ سرحان ٹھیک کہہ رہا ہے ، ُاُسکی بکواس باتوں پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں ؛۔

ابھی وہ کہہ رہا تھا کہ زر ہمارے مراد کا بیٹا نہیں چونکہ اُسنے بدل دیا تھا میرا دل یہ بات ماننے کو تیار نہیں ۔۔۔۔ 

اور اگر یہ سچ ہوا تو ۔۔۔۔ ادیان جو سرحان کے ساتھ ہی بیٹھا تھا ، سلطان شاہ کو دیکھ درمیان میں ہی بولا 

سرحان سمیت سبھی نے اُسکو گھور کر دیکھا تھا ۔ 

ہم نہیں جانتے پھر کیا ہوگا ، اگر یہ سچ ہوا تو سب سے پہلے ہمیں ہمارا اصل چراغ کا پتا کرنا ہوگا ۔ 

سلطان شاہ کی آنکھیں بھیگی تھی اور ساتھ ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھتے کھڑے ہوئے ؛۔ 

میرے خیال سے ان باتوں کو یہی بند کر دینا چاہیے، حور بیٹی یہاں آئی ہوئی ہے اس گھر میں ۔۔۔۔ 

میں نہیں چاہتا وہ کچھ بھی سنے ، اور اپنے ذہین یا دل پر کسی بھی قسم کا بوجھ ڈالے ۔ جب وقت آئے گا سب کچھ سامنے آ جائے گا ۔۔۔۔،

ابھی مجھے بھی یہی لگتا ہے ، ہمیں غفار کی بات مان لینی چاہیے ۔ اور زر حور کا ڈی اینے کروا لینا چاہیے ۔ 

سلطان شاہ جو کھڑے ہو چکے تھے ۔ اپنی سوچ سب پر عیاں کرتے آرام سے آگے بڑھے ؛۔

تو کیا زر کو سچ بتا دیں گئیں۔۔۔۔؟ سرحان اک دم سے اٹھتے اپنے باپ کے سامنے کھڑا ہوا ؛۔

 سلطان شاہ ۔۔۔۔۔۔ کہاں چھپے بیٹھے ہو باہر آو ۔۔۔۔ 

اس سے پہلے کہ سلطان شاہ سرحان کے سوال کا جواب دیتے ایک لڑکی کی اونچی آواز سن سبھی چونکے جبکے وہ سب تیزی سے لاوئج روم سے نکل ہال میں داخل ہوئے ۔۔۔

ہاتھ مت لگانا ۔۔۔۔انار جو گاڈرز کی طرف پسٹل کرتی دھاڑی تو گاڈرز سبھی پیچھے ہوئے ۔ 

کیا شور مچایا ہوا ہے ۔۔۔؟ صفدر شاہ جو آگے تھے ، سپاٹ چہرہ لیے پوچھا ۔ 

سلطان شاہ جو پیچھے ہی تھے تیزی سے آگے ہوئے ۔ سرحان انار کو دیکھ جیسے ذہین پر زور ڈال گیا ؛۔

سلطان شاہ ۔۔۔۔۔ کہاں ہے میرا باپ ۔۔۔؟ کیا کیا تم نے اُسکے ساتھ ۔۔۔؟ انار پسٹل ویسے ہی ہاتھ میں پکڑے دھاڑتے سلطان شاہ پر چیخی تو سبھی اُس لڑکی کی جرات پر حیران ہوئے ؛۔

 کون سا تمہارا باپ ۔۔۔۔۔؟ سلطان شاہ سخت لہجے مگر دھیمے سے دریافت کیا ؛۔

داتا بخش ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہے ۔۔۔؟ انار جو پسٹل لوڈ کر چکی تھی سب پر قہر بھری نظر ڈالتے ان کو ساکت کر گئی ؛۔

تو یہ داتا بخش کی بیٹی ہے ۔۔۔۔؟ بھائی صاحب داتا بخش کی کمزوری خود چل کر ہمارے در پر آئی ہے ؛۔

مت کرو اپنا بکواسی منہ ۔۔۔۔۔۔؟ اناد صفدر شاہ کی بکواس سن اکتائے لہجے میں غرائی تو سبھی اُسکی زبان سن شاک ہوئے۔۔۔۔

ادیان جو اتنا سینجدہ ماحول میں کھڑا تھا ، مشکل سے اپنی ہنسی کو کنٹرول کر پایا تھا ۔۔۔

انار ۔۔۔۔۔۔!! حور جو اوپر سے آئی تھی سامنے ہی ماحول کو دیکھ حیران ہوئی ۔ 

انار ۔۔۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔؟ حور اُسکو گن تانے دیکھ غصے سے بھڑکی ۔ 

تو سرحان کو اچھے سے یاد آیا تھا ، کہ انار حور کی دوست ہے جو اُسکے ساتھ کام کرتی ہے ۔۔۔ 

حور ۔۔۔۔۔ انار حور کو دیکھ خود حیران ہوئی تھی ۔ 

سلطان شاہ میں نے کچھ پوچھا ہے ، کہاں ہے میرا باپ ۔۔۔؟ حور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے میرے ابا کو پکڑا ہے ؛۔

توں یہاں ۔۔۔۔؟؟ انار سلطان شاہ سے بولتے ساتھ ہی حور کو پوچھ گئی 

انار اپنی گن نیچے کر ۔۔۔۔ حور دھاڑتے اُسکے قریب گئی تو سلطان شاہ سبھی اُسکی طرف لپکنے کو آگے ہوئے خبر دار اگر اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہلے ۔۔۔ انار ان لوگوں کو دیکھتے بلند آواز میں دھاڑی تو سبھی خاموشی سے اپنی جگہ پر جمے ۔ 

انار میں نے کہا گن نیچے کر ۔۔۔۔ اب کہ حور بلند آواز میں چیختے بولی تو انار نے صدمے سے اُسکو دیکھتے ساتھ ہی سرحان کو دیکھا ؛۔

ایسے کیسے گن نیچے کر لوں ، ان لوگوں نے میرے ابا کو اغواء کیا ہے ۔

سلطان شاہ ایک بات کان کھول کر سن لو ، اگر میرے ابا کو کچھ بھی ہوا تو میں تمہاری آنے والی نسلوں کو تباد کر دوں گئی ؛۔

یہ صلہ دیا میرے باپ کی وفاداری کا ۔۔۔؟ مراد شاہ کے آگے وہ اپنا سب کچھ قربان کر گیا ۔،

دیکھو ۔۔۔ لڑکی تم کچھ نہیں جانتی ۔ تمہارا باپ میرے جگری مراد شاہ کا قاتل ہے ۔ اور اس بار اُسکو اُسکے کیے کی سزا ملے گئی ۔ سلطان شاہ انار کی بات کاٹ درمیان میں ہی بولے ۔ 

تو حور جو الجھ چکی تھی ، پل میں سب کچھ سمجھی اس کا مطلب انار کا باپ جو ہے وہی داتا بخش ہے ۔۔۔؟ 

حور دل میں خود سے مخاطب ہوتے خود ہی سب کچھ سمجھ گئی تھی ۔ 

کون سی سزا ۔۔۔۔۔؟ ہاں ۔۔۔۔ کیا ثبوت ہے ۔۔۔۔؟ اگر اتنا ہی شوق ہے قاتل کو اُسکے انجام تک پہچانے کا ۔۔۔ تو جو اصل قاتل ہے اُسکو ڈھونڈو ۔۔۔۔ 

میرا باپ کوئی قاتل نہیں ہے ، میرا باپ تو مراد شاہ کا وہ مظبوط بازو تھا جو اُسکے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتا ۔ 

کیا بھول گئے وہ سب قربانیاں ۔۔۔؟ جو میرے باپ نے اُس شاہ خاندان کے لیے دی ۔۔۔۔؟ 

مراد شاہ مر گیا لیکن افسوس مرنے کے بعد بھی وہ میرے باپ کو اکیلا سکون لینے کی زندگی بخش کر نہ گیا ؛۔

انار میرے ساتھ چل ۔۔۔۔۔ حور اُسکی باتیں سن تیزی سے اُسکے ہاتھ سے گن پکڑتی بولی 

میں کہیں نہیں جاؤں گئی میرا باپ کہاں چھپایا ہے مجھے بتاؤ ۔۔۔؟ 

انار سلطان شاہ کی طرف بڑھی تو حور نے غصے سے اُسکو بازو سے پکڑتے اپنے سامنے کیا ۔۔۔ 

تجھے سنائی نہیں دے رہا ۔۔۔؟ میں بول رہی ہوں میرے ساتھ چل ۔۔۔ تیرے ابا کو کچھ ہونے نہیں دوں گئی 

میرا یقین رکھ ، حور انار کو دیکھتے منہ کے بل چیخی تو انار نے اُسکا لال ہوتا چہرہ دیکھا 

توں کیوں ان کے لیے مجھ سے لڑ رہی ہے ، انار تیکی سی نگاہ ڈالتے حور سے سوال کر گئی ۔،

کیونکہ جس مراد شاہ کی توں یہاں کھڑی باتیں کر رہی ہے ، وہ میرا باپ ہے ، سمجھی ۔۔۔ وہ خود پر ضبط کرتے غصے سے اُسکو بولتے ساتھ ہی بازو سے پکڑتے کھینچ لے گئی 

انار پوری طرح ساکت ہو چکی تھی ۔ 

تم یہاں روکو ۔ میں بس ابھی آئی ، حور انار کو لان میں ٹھہرنے کا بولتی واپس سے گھر میں داخل ہوئی 

بھائی صاحب ہمیں داتا بخش کی لڑکی کو پکڑ لینا چاہیے ، جب اُسکی بیٹی کا چہرہ اُسکے سامنے کریں گئیں تو دیکھنا کیسے وہ سیدھا اپنے گناہ قبول کرے گا 

ہرگز بھی ایسا کرنے کا مت سوچنا صفدر ماموں ۔ اس سے پہلے سلطان شاہ کچھ بولتے حور کی الفاظ سن سبھی اُسکی طرف متوجہ ہوئے ؛۔

بڑے بابا ۔۔۔۔۔ پلیز ہمیں بتائیں داتا بخش کہاں ہے ۔۔۔؟ انار میری دوست ہی نہیں میری ٹیم کا بہت خاص حصہ ہے ۔ 

داتا بخش نے ماضی میں جو بھی کیا ہو ، اُسکا اثر انار یا پریشہ کے آج پر نہیں پڑنا چاہیے ۔ پلیز بتائیں وہ کہاں ہے ز 

میں خود بھی داتا بخش سے بات کرنا چاہتی ہوں ، حور نے بہت آرام سے سلطان شاہ سے درخواست کی تو وہ اپنی بہو کی باتیں سن ہلکے سے مسکرائے 

حور بیٹا  وہ ہسپتال میں ہے ، تم اس لڑکی کو لے جاؤ ، لیکن ایک بات یاد رکھنا یہ لڑکی اپنے باپ کو دیکھ سکتی ہے اُس سے مل کر سکتی مگر اُسکو اپنے ساتھ لے جا نہیں سکتی ۔ 

تب تک داتا بخش ہمارے پاس ہی رہنے والا ہے جب تک اُس پر لگے الزام جھوٹے ثابت نہیں ہو جاتے ؛۔

سلطان شاہ حور کے سر پر ہاتھ رکھتے واپس سے لاوئج کی طرف گئے تو سرحان کے علاوہ باقی سب تیزی سے گئے ؛۔

تو تم رات بھر ۔۔۔ داتا بخش پر برس رہے تھے ۔۔۔؟ حور جو جانے لگی تھی سرحان کے آ آگے ہونے پر سپاٹ چہرہ لیتے بولی ۔ 

حور ۔۔۔۔۔ 

اس سے پہلے وہ کچھ کہتا وہ واک آوٹ کرتے آرام سے گئی ؛،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کیا ہوا ۔۔۔۔۔؟؟ حور جو انار کے ساتھ ہسپتال پہنچی تھی سرحان لوگوں کے گاڈرز کو زخمی دیکھ ساکت ہوئی 

انار بھی ان لوگوں کی حالت دیکھ گاڑی کے اندر جھانکنے کے لیے گئی کہ شاید اُسکا باپ بھی اندر ہو 

مگر افسوس ۔۔۔۔ گاڑی خالی تھی ، میرا باپ کہاں ہے ۔۔۔۔؟ انار گاڑی خالی دیکھ دھاڑتے ساتھ ہی ایک آدمی کو پکڑتے مارنا شروع ہوئی ،۔

ہماری گاڑی پر حملہ ہوا ، یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ ہمیں کچھ بھی پتا نہیں چلا ، 

جن لوگوں نے ہم پر حملہ کیا وہ لوگ داتا بخش کو اپنے ساتھ لے گئے 

حور جس آدمی سے پوچھ رہی تھی اُسکی بات سن انار کی طرف لپکی جو اندھا دھند ایک آدمی کو پیٹ چکی تھی ؛۔

بس کرو ۔۔۔۔ انار ۔۔۔۔ ہمیں جلد سے جلد آفس جانا ہوگا ، پتا کرنا ہوگا کہ ابھی تمہارے بابا کو کس نے قید کیا ۔

حور انار کا ہاتھ کھینچ اپنی گاڑی کی طرف بھاگی تو دونوں تیزی سے بیٹھتے وہاں سے نکلی ؛۔

ایسے کیسے حملہ ہو گیا ۔۔۔؟ سرحان اپنے آدمی کا فون سن دھاڑتے ساتھ ہی باقی سب کو فکر کرنے پر مجبور کر گیا ۔ 

اب کیا ہو گیا ۔۔۔؟ صفدر شاہ نے اپنا سر پکڑا جیسے جانے اب کیا مانوس خبر سننے کو ملنے والی ہے : 

کیا ہوا شاہ ۔۔۔۔۔۔؟؟ جیسے ہی سرحان نے فون بند کیا یہ کہہ کر کہ وہ آتا ہے ، سلطان شاہ نے بنا دیر کیے بیٹے کو مخاطب کیا ۔۔۔۔ 

بابا سائیں ۔۔۔۔ میرے خیال سے میرا اور اکرام ماموں کا شک درست تھا ۔ 

داتا بخش اکیلا نہیں تھا چاچو کو مارنے والا ۔ کوئی جانتا تھا کہ ہم داتا بخش تک پہنچ چکے ہیں ۔ 

اسی لیے تو اُس شخص نے میرے آدمیوں پر حملہ کرواتے داتا بخش کو اپنے ساتھ لے اڑا۔۔۔۔

سرحان نے آہ بھرتے بولا تو سبھی اک دم سے کھڑے ہوئے ، 

فکر نہیں کریں ، میں جلد ہی ان لوگوں تک بھی پہنچ جاؤں گا ، وہ لوگ اب زیادہ دیر مجھ سے چھپ نہیں سکتے ؛۔

سرحان اتنا بولتے وہاں سے نکلا تو اکرام بھی سرحان کے پیچھے ہی گیا ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ویسے آیت یار توں آج رات ہمارے پاس یہاں ڈپائمنٹ میں ٹھہر جا ۔۔۔۔!! عاشی آیت کو خوشی سے بولتے ساتھ ہی ریکوسٹ کر گئی ۔

برہان رہنے نہیں دے گا ، آیت نے منہ لٹکاتے تیزی سے جواب دیا تو نمی ، سارا ، آمنہ عاشی نے شرارتی آنکھوں سے اُسکو گھورا ۔۔

ویسے آیت ۔۔۔۔ تم بہت بدل گئی ہو ۔۔ اسد جو وہاں آیا تھا ، سب کو باتوں میں مصروف دیکھ اپنی طرف متوجہ کروایا ۔ 

ہاں سب کو میں ہی بدلی نظر آ رہی ہوں ، اور جو تم لوگوں نے مجھے بتائے بنا اتنے بڑے کام کیے ہیں ان سب کا کیا ۔۔؟ 

آیت جو جان چکی تھی کہ نمی اور حسن ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ، وہ حسن کو آتے دیکھ شرارت سے تنک کر بولی  

تو نمی جو آیت کے ساتھ چیکے بیٹھی تھی ہلکی سی چوٹکی کاٹ گئی 

آہ ،۔۔۔ آیت اک دم سے اچھالی تو اسد نے نمی کو پھر آیت کو دیکھا جو مسکرانا شروع ہوئی تھیں ۔ 

ایان بھائی ۔۔۔ یہاں میرے پاس بھی بیٹھ جائیں ، یا بس اب بھابھی کو فون پر تنگ کرنے کا مزا ہی لینا ہے ۔۔۔؟ 

آیت ایان کو روم سے نکل باہر جانے کے لیے تیار دیکھ شوخ سے لہجے میں بولی 

تو سبھی لوگوں کے ایک ساتھ قہقہے گونجے ، ایان جو حیا کا سر کھا رہا تھا فون پاکٹ میں ڈالتے اپنی بہن کے قریب آتے بیٹھا :، 

لو بھئی میں آ گیا ۔ بتاؤ کیا چاہتی ہو ۔۔۔۔؟؟ ایان آیت کے ساتھ بیٹھتے اُسکے ماتھے کو چوم ساتھ ہی فرمائش پوچھ گیا ۔

آپ ہم سب کو کہیں باہر لے کر جائیں ، آئس کریم کھانے کا من ہو رہا ہے ؛۔

ٹھیک ہے تم لوگ تیار ہو جاؤ ہم سب باہر چلتے ہیں ، ایان آیت کے ساتھ باقی سب لڑکیوں کو بھی دیکھ گیا تو سبھی تیزی سے اٹھتے تیار ہونے گئیں ۔۔۔۔۔

عاشی نہیں جائے گئی ، اُسکو اپنے نوٹس تیار کرنے ہیں ، شہریار جو ابھی گھر میں داخل ہوا تھا ، 

عاشی کو خوشی سے بھاگتے جاتے دیکھ اونچی آواز میں بولا تو عاشی نے رونے جیسا منہ بناتے اُسکو گھورا 

ابھی جانے دو آ کر سب کچھ کر لوں پکا ۔۔۔ وہ روم میں جانے کی بجائے اُسکے پاس آتے بہت پیار سے بولی 

آیت عاشی کو ایسے شہریار سے التجا کرتے دیکھ دل سے مسکرائی ، 

آیت ہر روز کا کام بن گیا ہے شہریار کا ، ایان نے سرگوشی کرتے آیت کو بتایا ۔ 

بول دیا نہ ۔۔۔۔ شہریار جو چند بکس لینے آیا تھا ان کو اٹھاتے عاشی کو گھورا جو مسلسل پلیز پلیز کا نعرہ لگانا شروع ہوئی تھی 

چلو ۔۔۔۔۔ ایان جو گھڑی پر ٹائم دیکھ گیا تھا روم کے ڈور کو دیکھ ہانک لگائی تو آمنہ ، نمی سارا تیزی سے باہر آئی 

چلو ۔۔۔۔ وہ ایک ساتھ بولی تو آیت بھی کھڑی ہوئی،

آیت توں بول نہ ۔۔۔۔ عاشی منہ بناتے آیت کے پاس اپنا کیس لائی ۔ 

سوری ۔۔۔۔ تمہارا شوہر جو کہہ رہا ہے وہ کرو ۔ وہ بہت پیار سے اُسکے گال تھپکتے نقاب کر گئی تو عاشی نے سب کو اُسکو بائے کرتے ساتھ ہی مسکراتے زبان چڑھاتے دیکھا ۔۔۔۔،

عاشی نے کھا جانے والی نظروں سے شہریار کو گھورا ، جاؤ مجھے نہیں پڑھنا وہ رونے والے انداز میں بولتی آرام سے روم میں گھسی ۔ 

کبھی بھی یہ کڑوا کریلا مجھ سے خوش ہونے والا نہیں ۔خود تو مزے سے کام کے ساتھ انجوائے بھی کر لیتا ہے ۔ لیکن مجھے ہر وقت پڑھائی کے نام پر  سزا دیتا ہے ۔ 

عاشی روم میں گھستے  غصے سے خود سے بڑبڑائی ، 

کیا مسلۂ ہے ۔۔؟ ابھی وہ خود سے باتیں کرنا اسٹاٹ ہوئی تھی کہ روم میں اک دم اسکے پکڑتے دیوار پر لگاتے دیکھ عاشی کی شاک سے آنکھیں بڑی ہوئی 

ئہ سب اتنی جلدی ہوا کہ اسکو بھی کچھ سمجھ نا آیا تھا کہ وہ کیسے اک دم اسکے قریب تر آ گیا

کہاں جانا ہے تمہیں ۔۔؟ وہ اُسکو پوری طرح اپنی بانہوں کے حصار میں قید آئی ابراچکائے کنفیوز کر گیا 

عاشی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے ہی الجھا ، وہ اندھوں کی طرح آنکھیں بڑی کیے اُسکو احساس اور قربت پر بکھرنے کو ہوئی ۔۔۔ 

جواب دو ۔۔۔۔ وہ اُسکی حالت سے جیسے انجوائے کر گیا تھا ، 

ک۔۔۔ ہیں ،۔۔۔کہیں ۔۔۔۔ نہ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ وہ لڑکھڑاتے آواز میں مشکل سے ہی یہ دو لفظ بول پائی تھی 

نہیں بتاؤ۔۔۔۔۔ مجھے تمہارا شوہر ہوں ۔۔۔ مجھ پر فرض بنتا ہے تمہارا خیال رکھوں،۔۔۔۔ 

بولو پڑھائی نہیں کرنا چاہتی تو کیا کرنا چاہتی ہو ۔۔؟ وہ اُسکی حالت سے محفوظ ہوتے ساتھ ہی اُسکے بالوں کی چند آئی شرارتی لٹوں کو کھینچ گیا ۔۔۔۔

شہریار جو خود اُسکے ساتھ شرارت کر رہا تھا، اُسکے گلابی ہونٹوں کو آپس میں ملے دیکھ جیسے کھویا ۔

وہ ویسے ہی گھمبیر سا ہوتا اُسکے مزید قریب ہوا عاشی کو لگا تھا جیسے اُسکا سانس یہی بند ہو جائے گا 

وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوتے اُسکی کمر چھوڑ چہرہ ہاتھوں میں بھر اُسکے ہونٹوں پر جھکا ۔ 

عاشی کی سانسیں جیسے تھمی تھی وہ اُسکی بڑھتی جسرت پر مقابل کے شرٹ کو مٹھیوں میں بھنچ گئی 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 جاری ہے 

ایم سو سوری 🥺کہ ایپی لیٹ پوسٹ کیا ،🥸 گائز ہمارے کچھ مہمان آ گئے تھے 🙃جس وجہ سے میں بہت مصروف ہو گئی تھی 🤗

بالکل بھی کچھ بھی کرنے کا ٹائم نہیں ملا 🥺👀، سب کو اندازہ تو ہوا ہوگا کہ پیج پر بھی کچھ پوسٹ نہیں ہوا ؛۔🥸

باقی انشااللہ اگلی قسط میں کافی سارے سچ کھول دوں گئی کچھ دن بس ۔۔😍🙈 پھر ناول مکمل ہو رہا ہے ☺️🙈😁

جانتی ہوں کافی سارے ریڈرز تو شکر ہے بول رہے ہونگیں 🙈🙃

باقی اس قسط پر مجھے دو سو لائکس کے اوپر لائکس چاہیے ساتھ میں کمنٹس باکس میں بھی سب کے کمنٹس نظر آنے چاہیے 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages