Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 105 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 105 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 105 

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 105

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 105 سرپرائز 🙈 اسپشل 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سرحان جو گھر رات کو گھر میں آیا تھا ، کہ حور کو دیکھ سکے ۔ 

آیت کے کمرے سے دبی سسکیاں سن قدم اُس طرف بڑھا گیا ؛۔ 

وہ جو روم کا ڈور لاک کرنے لگا تھا ، پھر کچھ سوچتے ویسے ہی اندر داخل ہوا ۔ 

وہ بیڈ کے ساتھ لگی کھنٹوں میں منہ دبائے رونے کا کام پکڑے نظر آئی تو وہ تیزی سے آیت کی طرف پکا ؛۔ 

شہزادی ۔۔۔۔ وہ خود سے بڑبڑایا تھا جبکے ساتھ ہی جاتے اُسکے قریب نیچے ہی بیٹھا ۔۔۔

آیت ۔۔۔۔ سرحان اُسکو ویسے ہی اپنے کام میں مشکوک دیکھ ہلکے سے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ 

تو آیت جو خود سے بیگانی رونے کا کام کر رہی تھی ڈرتے سر اٹھا گئی ؛۔ 

کالی سیاہ گنی پلکیں بھیگی سرخی مائل کیے سوجھی پڑی تھی، وہ پل بھر بھی چین سے کہاں سو پائی تھی ؛۔ 

نیند سے جیسے وہ روٹھ چکی تھی یا پھر نیند اُس پر مہربان ہونا نئیں چاہتی تھی ؛۔

شہزادی یہ کیا حال بنا لیا ہے تم نے ۔۔۔؟ تمہیں اندازہ ہے اگر برہان نے تمہیں اس حال میں دیکھا تو کیا ہوگا ۔۔؟ 

وہ اُسکو بچوں کی طرح روتے دیکھ پیار سے بولا تو ساتھ کھنٹوں کے بل تھوڑا آگے جاتے ٹیبل سے ٹشوز کا ڈبہ اٹھا لایا ؛۔ 

وہ مجھے نہیں دیکھ رہا تھا ، وہ مجھ سے ناراض ہے ، تم نہیں جانتے میں نے اُسکو کتنی تکلیف اور اذیت دی ہے ؛۔

وہ مجھ سے روٹھ کر ایسے بے خبر ہوا ہے۔ میں کوئی شہزادی نہیں ، میں صرف بری ہوں ۔۔۔

جو انسانوں کو اُن کی زندگیوں سے دور کر دیتی ہوں ، وہ تو ایسا نئیں تھا ، وہ تو زندگی جینا چاہتا تھا ۔ 

میرے ساتھ ۔۔۔ وہ ہمشیہ رہنا چاہتا ہے ، لیکن میں ہی اُسکی خوشیوں میں دیوار بنی ہوئی ہوں ؛۔

کیوں اُسکی نفرت محبت میں بدل گئی ، شاہ آخر کیوں۔۔۔۔؟ 

کیوں وہ میرے اتنے قریب آ گیا ۔۔۔؟ کیوں وہ مجھے چھوڑ آگے نہیں بڑھ پا رہا ۔۔۔؟ آخر کیوں ۔۔۔۔؟ 

وہ سرحان کو بازوں سے پکڑ چیخی تو سرحان اُسکو اتنی تکلیف میں دے صرف حوصلہ ہی دے سکتا تھا ۔ 

 میں نے اُسکو ایک پل بھی خوشی کا نصیب نہیں کیا ، میں اُسکی محبت کے قابل نہیں ہوں ۔ 

جانتے ہو ، وہ اُسکو ویسے ہی بازوں سے دبوچے سسکیاں بھرتے بولنے کی کوشش کرنے لگی ۔ 

اُسکو میرا تمہیں شاہ کہنا بالکل بھی اچھا نہیں لگتا ، وہ اُسکا پاگل پن بناتے ہلکے سے مسکرانے کی سعا کر گئی 

 حور جو آیت کے پاس ہی آنے لگی تھی کہ اُسکا دل بے چین ہوا پڑا ہے ، سرحان کو آیت کے پاس نیچے بیٹھے دیکھ دروازے کے قریب ہی کھڑی سننا شروع ہوئی ؛۔،

تمہں کیا لگتا ہے ، شاہ ۔۔۔۔!! میں اپنی زندگی خوشیوں سے بھری جینا نہیں چاہتی ۔۔؟ جانتے ہو میں اس کھلی فضا میں زندگی بھرپور خوشیوں سے جینا چاہتی ہوں ، میرا بھی دل کرتا ہے 

میں برہان کے ساتھ اپنے ان پلوں کو کسی منظر میں قید کر لوں ، لیکن میں چاہ کر بھی یہ نہیں کر پاتی 

حور کی آنکھیں بھیگی تھی ، جبکے وہ کرب سے ان کو صاف کرتی پلٹنے کو ہوئی ؛۔،

جانتے ہو ماضی ہمشیہ میرے آج میں آ کر کھڑا ہو جاتا ہے ، شاہ برہان کو سمجھ کچھ پتا ہے کہ آٹھ سال پہلے کیا ہوا تھا ۔ 

وہ بے دردی سے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے جیسے آج اپنا دل سرحان کو سنانا شروع ہوئی تھی ۔ 

وہ خاموشی سے صرف اُسکو سن لینا چاہتا تھا کہ اُسکا دل ہلکا ہو جائے ۔ 

جانتے ہو ۔۔۔ وہ مجھ سے میرا ماضی سننا چاہتا ہے ، وہ چاہتا ہے میں اُسکو اپنی اذیت خود بیان کروں 

میں کیسے اُسکو اس آگ میں جانے دے سکتی ہوں ، میں کیسے وہ سب کچھ بول دوں جو مجھے ختم کرتا ہے ، 

میں کیسے برہان کو بتاؤں کہ وہ رات میری زندگی کی ہر خوبصورت رات کو چھین کر لے گئی۔۔۔

حور جو جانے لگی تھی ، ماضی سن وہی کمرے کے ساتھ چیکی ، اور غور سے سننے کے لیے اپنے کان کھڑے کیے ۔ 

آٹھ سال پہلے شاہ ہاؤس میں جو کچھ ہوا تھا ، وہ میں سب کچھ بھول جانا چاہتی ہوں ، فرق صرف اتنا ہے ،

کہ اُسکی بات کو آٹھ سال گزر گئے ، لیکن وہ زخم آج بھی ویسے ہی ہرے ہیں ، میرا دل کسی بھی پل وہ سب کچھ بھول نہیں پاتا ۔۔۔

تم مجھے بتاؤ میں کیا کروں ۔۔۔؟ کیسے اُس ماضی کو پیچھے چھوڑ دوں جو میرا پیچھا چھوڑنا ہی نہیں چاہتا 

آج بھی وہ کالی رات اور ان رات کی چیخیں میرے کانوں میں مجھے سنائی دیتی ہیں ۔ 

میں کیا کروں شاہ ۔۔۔؟ وہ بچوں کی طرح معصومیت سے چہرہ اٹھاتے سرحان کی آنکھوں میں آنسو بھر گئی ۔

تم نے تو کہا تھا وہ مجھے سن سکتا ہے ، وہ جو میرے منہ سے ہمشیہ محبت کا اظہار سننا چاہتا تھا وہ ۔۔۔۔ وہ بھی سن کر نہیں اٹھا ۔۔ 

اُسکو بولو شاہ کہ وہ اٹھ جائے ، آیت اُسکے بنا نہیں رہ سکتی ، میں کبھی تنگ نہیں کروں گئی میں کچھ بھولا دوں گئی میں وعدہ کرتی ہوں ۔۔۔۔

ہمشیہ اُسکے لیے خوش رہوں گئی کبھی دوسری شادی کا بھی نہیں کہوں گئی ، بس وہ ایک بار اپنی آنکھیں کھول دے ۔ 

حور جو ساکت ہو چکی تھی ، آٹھ سال پہلے کا چیخیں سن اندر تک کانپی ۔ کیا ہوا تھا آیت کے ساتھ ۔۔۔؟ 

وہ خود سے خوف میں مبتلا ہوئی تھی ، اُسکو اچھے سے یاد تھا کہ شاہ ہاوس میں اُسنے فیصل شاہ کو کسی بچی کے ساتھ زیادتی کرتے دیکھا ۔۔ 

وہ پوری طرح گھبرا اٹھی تھی ، جبکے ویسے ہی پیچھے مڑی ۔ حور کو لگا تھا جیسے وہ سانس نہیں لے پا رہی ہو ۔ 

کیا وہ بچی ۔۔۔۔ اسُکو دماغ ماوف ہونا شروع ہوا تھا وہ سڑھیوں پر بھاگی تھی اور اوندھوں کی طرح لڑکھڑاتے گرنے سے بچی ۔۔۔۔

حور ۔۔۔۔ زر جو ہسپتال سے آیا تھا اُسکو گرنے سے بچاتے بازوں سے پکڑ گیا ۔

کیا ہوا حور ۔۔۔۔ !! زر کی آواز بلند ہوئی تھی ، وہ سانس نہیں لے پا رہی تھی ۔ ماں ۔۔۔۔ 

بھائی ۔۔۔۔ زر اونچی آواز میں چیخا تھا ۔ جبکے وہ گھبراتے حور کو ویسے ہی لیتے صوفے پر بٹھا گیا ۔،

وہ تڑپ کر اٹھی تھی ،اُسکی آنکھوں میں جیسے دھند سی چھائی ، وہ ماضی کی وہ تلخ رات یاد کر گئی جب اُسنے بچی کی چیخیں سنی تو خوف سے چھپ کر بیٹھ گئی ۔ 

اُسکا مطلب وہ بچی آیت تھی ۔۔۔۔؟ حور کئ زمین گھوم چکی تھی ۔ وہ یہ درد جیسے برادشت نا سکی ہو ۔

کیا ہوا ۔۔۔۔ ناز بیگم اور شبانہ سبھی بھاگ زر کے قریب آئی تھی ۔ 

سرحان بھی زر کی دھاڑ والی آواز سن اٹھا ۔ آیت بھی ڈری تھی ۔ 

سرحان نے اپنی آنکھوں کو صاف کیا تھا اور باہر کی طرف لپکا ۔ 

کیا ہوا ۔۔۔۔؟ حور ۔۔۔۔۔!! سرحان جو اوپر ہی کھڑا تھا ، حور کو سامنے نیچے دیکھ تیزی سے بھاگا ۔ 

آیت بھی پیچھے ہی نکلی تھی ، جبکے نیچے حور کو دیکھ وہ بھی مرے قدموں سے بھاگی ۔ 

کیا ہوا ۔۔۔۔ !! سرحان کی جان پر بنی تھی ، اُسکو کھلی فضا کی ضرورت تھی ۔ 

پانی لے کر آو ، لگتا ہے وہ سانس نہیں لے پا رہی ، ناز بیگم نے ملازمہ کو بھاگ پانی لانے کا بولا تو ملازمہ کانپتی ٹانگوں سے بھاگی ، 

سرحان حور کو کھڑکی کے سامنے کرو ، آیت جانتی تھی اُسکی حالت وہ بالکل اپنی جیسی دیکھ رہی تھی ۔ 

آہ ۔۔۔۔۔ حور نے مشکل سے سانس بھرا تھا اور چھوڑا ۔ وہ تیز تیز سانس بھرنا شروع ہوئی تھی ،

آیت نے اُسکو پیچھے سے پیٹ مسلا تو حور نے بھیگی آنکھوں سے آیت کو دیکھا ؛۔۔

جبکے وہ ویسے ہی بلک بلک رونا شروع ہوئی تھی ساتھ ہی وہ آیت کو خود کے حصار میں لیتے ایسے بھنچ گئی جیسے وہ اُس رات میں ہو ۔۔۔ 

حور پہلی بار اس قدر روئی تھی کہ سبھی اُسکے ایسے اتنا رونے پر ڈر اٹھے۔ سرحان کی جان پر بنی تھی۔ 

آیت بھی جتنا حیران ہوتی کم تھا ، جبکے وہ ویسے ہی اُسکو خود سے لگائے بال سہلانا شروع ہوئی ۔ 

حور بس کرو ۔۔۔ !! کچھ نہیں ہوا ۔ تم اب اکیلی نہیں ہو تمہارے ساتھ ایک چھوٹی سی جان بھی جوڑی ہوئی ہے۔ 

حور اُسکو ایسے اتنا اونچی آواز میں روتے دیکھ خود بھی بھیگی پلکوں سے بولی تو حور کے رونے میں تیزی مزید بڑھی ۔ 

“ کیا زندگی کی ڈوریاں ایسے ایک دوسرے میں الجھی ہوئی تھی ، کیا یہ زندگی تھی ان کی ۔۔۔؟ حور درد سے دل میں صرف اتنا ہی سوچ سکی ؛۔

مجھے ابھی جان کے پاس جانا ہے ، وہ درد سے تڑپ اٹھی تھی ، اُسکو برہان کے پاس جانا تھا ۔ 

ابھی بہت لیٹ ہو گیا ہے ، صبح لے چلوں گا ، سرحان نے محبت سے اُسکو دیکھتے ہلکے سے گویا ۔ 

میں نے کہا مجھے ابھی جانا ہے ، وہ پوری قوت سے چیخی تو سبھی پریشان ہوئے ۔ 

حور میری بات سنوں ، حور نے اُسکا سرخ ہوتا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا تھا

ابھی جا کر کچھ بھی فائدہ نہیں ہونے والا ، فجر کے ہوتے ہی نماز پڑھ کر ہم جائیں گئے۔ ابھی تم کچھ آرام کر لو ۔

آیت نے اُسکو ایک بار میں کہا تو وہ خاموش سی ہوتی اُسکا چہرہ دیکھنا شروع ہوئی ، بولی کچھ بھی نہیں ۔ 

سبھی حور کو دیکھ رہے تھے اور وہ آیت کو ایسے دیکھ رہی تھی ؛ جیسے زندگی کا ابھی مرکز وہی ہو ۔۔۔۔ 

زندگی ایک بار پھر سے الجھ چکی تھی ۔ حور جو آرام سے بیڈ پر آتے لیٹ چکی تھی ، ویسے ہی ایک سائیڈ کو کروٹ لیے دبی دبی سسکیاں بھرنا شروع ہوئی ۔ 

وہ یہ چاہتی تھی کہ وہ چیخ کر سب کچھ بیاں کر دے ، فیصل شاہ کو اپنے ہاتھوں سے مار ڈالے ۔۔۔۔ 

لیکن یہ آسان نہیں تھا وہ یہ بھی جانتی تھی۔ اگر وہ آٹھ سال پہلے کا یہ راز سامنے لاتی تو اس میں صرف فیصل شاہ جلنے والا نہیں تھا ، آیت کا آج سب کچھ ختم ہو جاتا ۔ 

وہ ہمشیہ بلند آواز رہی تھی کوئی بھی درد سہنا عورتوں کا اُسکو اچھا نہیں لگتا ہے ، وہ ہمشیہ ایسی عورتوں کو بےوقوف کہتی اور مانتی تھی ۔۔۔ 

کہ وہ مر مر کر کیوں جیتی ہیں، اُسکو سخت نفرت تھی ایسی عورتوں سے جو سب کچھ برادشت کر کہ خاموش رہنا پسند کرتی تھی ۔۔۔ 

آج وہ اُسی کشمش میں گھیری تھی ، آج اُسکو احساس ہوا تھا کہ کئی بار ایسے خود کی آواز کو دبانا پڑتا ہے 

آج کی خاطر اپنی زبان اپنا اندر کا درد چھپانا پڑتا ہے ، کچھ بھی آسان نہیں ہوتا ، یہ درد وہ کیسے برداشت کرتے خاموش رہنے والی تھی اُسکو اس کا احساس ہی جیسے جکڑ رہا تھا۔ 

ایک طرف حور اندر تک ٹوٹ چکی تھی تو دوسری طرف سرحان جو روم کی بالنکی میں کھڑا سلگ رہا تھا ، آیت کی باتیں اُسکو اندر تک زخمی کر گئی تھی ۔ 

وہ کیا کرتا اپنی شہزادی کے لئے ، یہ اسُکا درد وہ اپنے حصے میں لکھ اُسکو اس ماضی سے آزاد کر جاتا ۔ 

سگریٹ جلائے وہ دل کو سکون دے رہا تھا یا اس آگ میں مزید جلنا شروع ہوا تھا کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا ۔ 

زندگی الجھی تو تقدیروں کا لکھا بھی جیسے ان پر آ رک گیا تھا ، سبھی اندر ہی اندر جل رہے تھے ۔ 

ہر کوئی مجبوری میں گھیرا ہوا تھا ، کسی کو کسی کی زندگی کی فکر پڑی تھی تو کسی کو کسی کے آج کا سب کچھ ختم ہونے کا خوف گھیرے ہوئے تھا 

آیت جانتی تھی اسُکو “ اپنے مجازی خدا کے لیے اپنے رب اُس پاک ذات سے رجوع کرنا ہے ، جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے ۔ جو ان کی زندگیوں کو چلا رہا ہے ۔

وہ تہجد کی نماز ادا کرتے بھیگی پلکیں اٹھائے اپنے رب سے رجوع کر چکی تھی۔ 

وہی اُسکا سہارا اور امید تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ اُسکا یقین اُسکا سکون صرف اللہ کے در پر ہے ۔۔۔۔” 

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 حور ۔۔۔۔۔ سرحان جو فجر کے فورا بعد ہی حور کو ہسپتال لے آیا تھا ۔

اسُکو اپنے دھیان میں چلتے دیکھ محبت سے پکار اپنے سامنے کر گیا ۔ 

اُسکی کالی آنکھیں لال جھیل لگی تھی ، جن میں پانی کی چمک ابھی بھی برقرار تھی 

برہان کے پاس جاتے ہی رونا نہیں ، وہ اُسکی آنکھوں کے کنارے پاش نظروں سے اپنے پھوروں سے صاف کرتے گھمبیر سے گویا ۔۔۔۔ 

تو حور نے نظریں جھکاتے سر ہلایا ۔اور آگے بڑھ گئی 

سرحان اور حور اکیلے ہی آئے تھے ، چونکہ آیت نے آنے سے انکار کر دیا تھا ، وہ اپنے رب سے رجوع کرتے سب سے بیگانہ ہو جانا چاہتی تب تک کے لیے جب تک اُسکا شوہر آنکھیں نہیں کھول دیتا ۔۔۔۔

سرحان ویسے ہی حور کے پیچھے بڑھا تھا ، وہ آئی سی یو کے اندر جا چکی تھی اور سرحان وہی کھڑا ہوتے دیکھنا شروع ہوا ۔،

سلطان شاہ اور اکرام ہسپتال میں ہی تھے ، عماد نے ائک کمرہ بک کیا تھا جہاں وہ فحال آرام کر رہے تھے ؛۔

حور جو بہت مظبوط بنتی اندر داخل ہوئی تھی ۔ سامنے اپنے جان ۔۔۔۔۔ جوان خوبصورت بھائی کو سب سے بے خبر سوتے دیکھ پوری طرح جیسے بکھر گئی ۔ 

کناروں پر ٹھہرے آنسووں بن توڑے گالوں کے راستے سے بہنا شروع ہوئے 

وہ بھاری ہوتے اپنے قدم مشکل سے اٹھاتے اُسکے بیڈ تک آئی تھی ۔ 

کتنا ناز تھا اُسکو اپنے اس جان پر ۔۔۔! وہ کیسے پوری دنیا کو بےوقوف بناتی تھی کہ یہ میرا بوائے فرینڈ ہے ؛۔ 

کیا کچھ وہ اُسکے ساتھ کر گزری تھی ، سب کسی فلمی منظر کی طرح آنکھوں کے سامنے لہرائے ۔۔۔

وہ اُسکے سینے پر پٹی دیکھ تڑپ اٹھی تھی ، جبکے منہ پر ہاتھ رکھتے وہ بیڈ کے قریب بیٹھی ۔۔۔

“ جان ۔۔۔۔ وہ بھاری ہوتی آواز میں مشکل سے بولی تھی ۔ 

“ جان ۔۔۔۔ وہ ویسے ہی بیٹھے اُسکا ہاتھ جو بیڈ پر پڑا تھا اپنے ہاتھوں میں بھر گئی ۔ 

اپنی جان کو محسوس نہیں کرے گئے ۔۔؟ وہ مظبوط بنتی سراعتی انداز میں بولی ۔ 

“ جان ۔۔۔۔۔ آپ کو پتا ہے ، آپ کے ایسے سونے پر سب بکھر چکے ہیں ۔۔۔؟؟ آپ کی زندگی بکھر چکی ہے ، 

“ جان آپ کی آیت ۔۔۔۔ حور کی آنکھیں پھر سے برسی تھی ، وہ خاموش ہوئی تھی ۔ جبکے کرب سے آنکھیں بند کرتے اپنے آنسو مقابل کے ہاتھ پر گرا گئی ۔ 

“ وہ ٹوٹ چکی ہے ، اسُکی زندگی جیسے ختم ہو رہی ہو ، جان اگر آپ نہیں اٹھے تو جانتے ہیں ۔۔۔!! وہ مر جائے گئی ۔ 

یہ دنیا بہت ظالم ہے ، آپ کی جان کو اس بات کا احساس کل رات ہوا ۔ 

“ اگر آپ نے آنکھیں نہیں کھولی تو وہ ۔۔ اس دنیا کے آگے بکھر جائے گئی ۔ 

اُسکو اس درد سے بچا لیں ، جانتے ہیں آپ ۔۔۔؟ وہ ویسے ہی بہتی آنکھوں سے مقابل کے بازو پر ہلکے سے سر ٹکا گئی 

کل میں اُسکے درد بھری کتاب کی ایک ایسا ہستی بن گئی کہ اُسکے درد کو محسوس کرتے میں کانپ رہی ہوں۔ 

میں اُسکے درد کا وہ حصہ بن گئی جان ۔۔۔ جس کا ذکر میں دنیا کے سامنے لانا چاہتی تھی لیکن اب چاہ کر بھی یہ میں اچھال نہیں سکتی ۔۔۔ 

ہماری زندگیوں میں کتنی الجھنے پڑی ہوئی ہیں ، ایسا لگتا ہے میں کسی کو بھی نہیں جانتی ۔ وہ بچوں کی مانند اپنا درد برہان کے آغوش اتار رہی تھی ؛۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور 

حور کی حالت دیکھی تھی ۔۔۔؟ انار نے حیا سے پوچھا جو بے دلی سے نوٹس بنا رہی تھی ۔۔۔ 

ہمم ۔۔۔ دیکھا تھا اُسکو بہت برا حال ہے اُسکا ، اور آیت تو ایسے تھی کہ جیسے اُسکا کچھ بھی نہ رہا ہو ۔ 

بس دعا کرو یار برہان آنکھیں کھول دے ، نعمان بھائی اور نمرین بھابھی آج ماما اور پاپا کے ساتھ جانے والے ہیں ۔ 

آئی تھنک ایان بھی چلا گیا ہے ، حیا نے تفیصل سے بتاتے سامنے سے آتی عاشی اور نمی کو دیکھا ۔ 

بس یار ۔۔۔ جو اللہ نے لکھا ہوتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے، دیکھو کتنے گاڈرز ساتھ تھے ۔ پھر گولی لگ گئی ۔ 

جب لکھی ہو تو نظر آنے والی چیزیں بھی ایسے دھندلی ہو جاتی ہیں کہ انسان کو وہ سامنے نظر ہی نہیں آتی ؛۔

انار نے اتنا بولتے پریشہ کا کال اٹھایا جو اُسکے سیل پر آیا تھا ۔ 

ہاں پریشہ ۔۔۔؟ انار نے فون اٹھاتے ہی وجہ پوچھی ۔ 

آپی آپ کہاں ہیں ، بابا کسی کام سے میرپور جانے کی باتیں کر رہے ہیں وہ اپنا سامان ایسے باندھ رہے ہیں 

جیسے واپس ہی نا آنا ہو ، پریشہ جو اپنے باپ کو سامنے ہی اپنی تیاری میں مگن دیکھ رہی تھی انار کو آگاہ کر گئی ۔ 

میری بات کروا ان سے ۔۔۔ انار حیران ہوتی حیا کو وہاں بیٹھے چھوڑ اٹھتے واک کرنا شروع ہوئی ۔ 

عاشی اور نمی حیا کے پاس آتے بیٹھ چکی تھی ۔ 

ہاں پتر ۔۔۔،داتا بخش فون پکڑتے کان سے لگا گئے ، 

ابا کہاں جا رہے ہیں آپ ۔۔؟ میرپور میں آپ کو کیا کام پڑ گیا ۔۔۔؟انار اپنے باپ کی آواز سن تیزی سے بولی 

پتر میرے مالک کو میری ضرورت ہے ، میں نے صدیوں سے ان کا نمک کھایا ہے ، میرا جانا ضروری ہے ۔ 

کون سا نمک اور کس مالک کی باتیں کر رہے ہیں آپ ۔۔۔؟ آپ نے جب میرپور چھوڑ دیا تھا تو بس بھول جائیں کہ کوئی مالک تھا آپ کا ۔

ہمیں کیا لینا دینا کوئی جیے یا مرے ۔ انار نے قہر آلود الفاظ سے گویا ۔ 

اللہ نہ کرے ان کو کچھ ہو ، اپنی زبان کو لگام ڈالو ، داتا بخش کی دھاڑ سن انار نے لب بھنچے تھے ۔ 

اور داتا بخش فون بند کرتے پریشہ کو پیار دیتے نکلے تھے ؛۔،

انار جانتی تھی کہ مراد شاہ اور جنت کون ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ حور کے ماں باپ ہیں ، 

انار انجان تھی ، لیکن ماضی میں کچھ باتیں تھی جو اُسکے علم میں تھی آخر اُسکا باپ اور ماں ہر وقت صرف مراد کی کہانیاں ہی تو سناتے تھے ۔۔۔۔

وہ اتنا جانتی تھی کہ مراد کی موت کے بعد اُسکے باپ پر قمامیت گرائی گئی تھی سلطان شاہ کسی نامی کی وجہ سے ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میرپور 

“ دھیان سے آنا ۔۔۔میں انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔ “ جیسے ہی مقابل کو یہ الفاظ یاد آئے بند نیلی آنکھیں پھٹاک سے کھول چھت کو گھور گیا ،،،۔۔

ڈاکٹر ۔۔۔۔۔ نرس جو وہاں قریب ہی موجود تھی ، روم سے نکل باہر ڈاکٹر کی طرف بھاگی ۔ 

ڈاکٹر ۔۔۔ عماد لوگ تیزی سے ڈاکٹر کی طرف لپکے جو روم سے برہان کو چیک کرتے نکلے تھے ۔

مسٹر برہان اب ٹھیک ہے ، شکر کرے اللہ کا کہ ان کو ہوش آ گیا ، باقی ہم شام کو ان کو آئی سی یو سے دوسرے روم میں شیفٹ کر دیں گئے ۔۔۔ 

آپ لوگ ویسے مل سکتے ہیں، دھیان رہے زیادہ اُنکو فحال آرام کرنے دینا ہے ۔ ڈاکٹر نے پیشہ وارنہ انداز میں کہتے سب کو خوشی سے آ شنا کروایا ۔ 

سلطان شاہ لوگ سبھی برہان کو دیکھ آئے تھے ۔ ڈاکٹر نے ایک ٹائم پر ایک کو ہی اندر جانے کا بولا تھا ۔ 

“ کیسا ہے میرا جگری یار ۔۔۔۔؟ عماد جو برہان کے قریب آتے بیٹھا تھا ۔ 

اُسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ساتھ ہی دریافت کیا ، برہان کے آکسیجن ماسک ابھی ویسے ہی لگا ہوا تھا ؛۔

برہان جو بے چین سا لیٹ چھت کو گھور رہا تھا ، عماد کو اپنے قریب دیکھ سرد سی ہنسی لبوں پہ پھیلا گیا ۔ 

جبکے ساتھ ہی آکسیجن ماس اتارنے کی کوشش کی ، شاہ ابھی توں کچھ مت بول ۔ 

تجھے آرام کرنا ہے ، عماد نے اُسکو روکنا چاہا ۔ لیکن برہان اپنا ماس اتار نیچے کر گیا ۔ 

“ عماد ۔۔۔۔ وہ بہت آہستہ سے بول پایا تھا درد ابھی بھی سینے میں آہستہ سے اٹھ رہا تھا ۔ 

بولے میرے جگر ۔۔۔۔ عماد جس نے مشکل سے برہان کی آواز سنی تھی کان قریب کیا ؛۔

“ آیت ۔۔۔۔ کہاں ہے ۔۔۔۔؟؟ اُسکو مجھے ۔۔۔ دیکھنا ۔۔۔۔

وہ گھر پر ہے ، میں سرحان کو بولا تھا کہ زد کو بولے ان کو لے کر آئے ۔ 

عماد ہلکے سے مسکراتے چہرے کے ساتھ برہان کو بتاتے جیسے صبر کرنے کا گویا 

توں نے مجھے معاف کر دیا ۔۔؟ وہ شرارت سے اب کہ بولتے ساتھ ہی آنکھ دبا گیا تو عماد اُسکے چہرے کو دیکھ محفوظ ہوا 

میں تجھ سے کبھی ناراض ہو سکتا ہوں ۔۔۔؟ عماد نے ویسے ہی اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے بولا تو وہ ہلکے سے ڈمپل گالوں پر نمایاں کر گیا ۔ 

عماد مجھے ۔۔۔ آیت کو دیکھنا ہے ۔ اُسکو پلیز میرے پاس لے کر آ ۔ وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر سے بولا تھا 

اور عماد سر ہلاتے فون لیتے باہر گیا ۔ زر کہاں ہے توں ۔۔۔؟ تجھے بولا تھا کہ آیت لوگوں کو لے آ ۔۔۔؟ 

عماد جس نے زر کو کال لگائی تھی فون پک ہوتے تیزی سے پوچھا

بابا نے ابھی منع کر دیا ہے ، کہ میڈیا اور پولیس کا کام شروع ہونے والا ہے 

اس لیے میں شام کو ہی آیت یا حور بھابھی لوگوں کو لانے والا ہوں 

زر نے آرام سے بتاتے عماد کو سوچ میں ڈالا ۔اچھا تو حمیدہ آنٹی لوگ آنے والی نہیں ۔۔۔۔؟ عماد نے سوچتے اگلا سوال پوچھا ۔۔۔۔

وہ لوگ پہلے ہی نکل گئیں تھیں ، تو ان کی ملاقات تو ہو ہی جائے گئی ۔ 

ٹھیک ہے ۔ عماد اتنا بولتے فون کاٹ گیا ۔ 

اکرام انکل ۔۔۔ عماد اکرام کو دیکھ ان کی طرف لپکا ۔ 

انکل پولیس کو ابھی برہان کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔؟ عماد نے آرام سے پوچھا 

عماد بیٹا میڈیا میں خبر ہر طرف برہان کا ہی ذکر پھیلا ہوا ہے ، بس اسی لیے ہم نے سوچا پولیس والا کام نمٹا دیں ۔ 

اور ویسے ہی پولیس صرف برہان کو دیکھنے آنے لگی ہے ، بیان وغیرہ تبھی لیا جائے گا جب برہان بالکل ٹھیک ہو جائے گا ۔ 

کچھ نہیں ہوگا اکرام اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے آگے بڑھے ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شام ہو چکی تھی اور آیت زر کے ساتھ ہسپتال پہنچ گئی ۔ 

وہ بے انتہا خوش تھی ، کہ برہان کو ہوش آ گیا ۔ جب اُسکو بتایا گیا تب وہ جائے نماز پر بیٹھی دعا میں مشکوک تھی ۔،

آیت جو دعا مانگ رہی تھی اُسکو لگا تھا ، جیسے اُسکے چاہنے والے رب نے اپنی مہربانی اُسکے گرتے آنسووں پر کر دی ہے ۔ 

وہ تو تبھی بھاگ آ جانا چاہتی تھی لیکن سب بڑوں کی وجہ سے خاموش ہوگئی 

کہ جہاں اتنا صبر کیا ہے وہاں تھوڑا اور سہی ۔ اور اُسکا صبر میٹھا پھل لئے منتظر تھا ۔،

آ گئی آیت بیٹا ۔۔۔؟؟ سلطان شاہ جو اکرام کے ساتھ گھر جا رہے تھے 

کہ ان کو اب آرام کرنا تھا ، سرحان پیچھے ہی حور کو لیتے ہسپتال آ رہا تھا ۔ 

عماد اور سرحان لوگ برہان کے پاس رکنے والے تھے ؛۔

بابا آپ لوگ جا رہے ہیں۔۔؟ زر نے ان کو دیکھتے سوال کیا ؛

ہاں بیٹا ۔۔۔۔ آیت بیٹا جاؤ ۔۔۔۔ !!! تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے برہان کو نیند کی دوائی دے دینی ہے 

اکرام اپنی بیٹی کی سوجھی سرد پڑتی آنکھوں کو دیکھ بولے تو سلطان نے بھی آیت کے سر پر پاتھ رکھا ۔ 

“ اللہ ہمشیہ ہماری بیٹی کا گھر آباد رکھے ، وہ دل سے دعا دیتے ساتھ ہی ماتھے پر بوسہ دے گئے تو آیت آگے بڑھی ۔ 

جبکے دل میں آمین کرتی خوش ہوئی اور تیزی سے قدم اٹھاتے لفیٹ میں سوار ہوئی ؛۔

زر بیٹا تم ۔۔۔۔ اکیلے یہاں سے نکلو گئے نہیں ۔ آنے سے پہلے ہمارے گاڈرز کے ساتھ آنا ۔ 

سلطان شاہ نے سخت لہجے میں کہا تو وہ سر ہلا گیا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آیت جو روم کے باہر پہنچ چکی تھی ، عماد کو ہاشم لوگوں کے پاس کھڑے دیکھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ساتھ ہی ہلکے سے ہاتھ اٹھاتے دوپٹہ درست کر گئی 

عماد جو آیت کو دیکھ چکا تھا۔ خوشی سے اُسکے طرف بڑھا ۔ 

کتنی دیر کر دی تم نے آنے میں۔۔۔؟ عماد نے بے تکلفی سے بولا 

تو آیت خاموش سی الجھی ، جلدی جاؤ اندر جانتی ہو ، جب سے ہوش آیا ہے صرف تمہارا نام لے رہا ہے ۔

عماد نے برہان کا حال بیان کیا تو سرد پڑتی آنکھوں میں خوشی سے بھر گئی 

وہ تیزی سے ڈور کی طرف بڑھی تھی ، اور اندر داخل ہوئی تھی۔ 

برہان کو آئی سی یو سے نارمل روم میں شیفٹ کر دیا گیا تھا ۔ 

آیت جیسے ہی اندر داخل ہوئی وہ سامنے ہی آنکھیں بند کیے بیڈ پر نظر آ یا 

آیت چھوٹے چھوٹے قدم لیتی  اُسکا چہرہ تکنا شروع ہوئی ۔ 

برہان جس نے ایسے ہی آنکھیں بند کی تھی ، اُسکی ہلتی چوڑیوں کی اور دبی سی آہٹ سن نیلی آنکھیں کھول سامنے دیکھ گیا 

تو وہ دشمنِ جان سامنے ہی  چھوٹے چھوٹے قدموں سے آتی نظر آئی ، 

برہان نے نیلی آنکھیں اُس پر ٹکائی تھی ، وہ ابھی تک اُسی لباس میں ملبوس تھی جس میں مقابل نے اُسکو آخری بار دیکھا ۔

جیسے ہی وہ قریب آئی برہان نے اُسکے چہرے کو دیکھا ، کالی سیاہ آنکھیں بے رنگ سرد لال سرخیوں سے مائل سوجھی ہوئی تو آنکھوں کے نیچے نا سونے کی وجہ سے حلقے پڑے ہوئے تھے ۔،

مقابل کو وہ ایک بکھری سی کتاب لگی تھی ، کیا وہ اس قدر بکھر سکتی تھی ۔۔۔۔؟ یہ سوال بے ساکت دل میں اٹھا تھا، 

آیت جو اُسکے زخم کو دیکھ رہی تھی ویسے ہی اُسکے چہرے کو دیکھتے چئیر کو تھوڑا سا گھسیٹتے بیٹھی ۔

 “ ایم سوری ۔۔۔۔ برہان جس نے چہرہ آیت کی طرف موڑا تھا ویسے ہی لیٹے بولنا شروع ہوا ۔

آیت خاموش سی اُسکی بھاری گھمبیر آواز سن دل میں سکون محسوس کر گئی ۔ 

میں نے کہا تھا میں جلدی آتا ہوں ، اور چاہتے ہوئے بھی آ نہ سکا 

جب تم سے کال پر بات کر رہا تھا ، تبھی سب کچھ ہو گیا ، فون بند کرتے ہی آنکھوں میں اندھیرہ چھا گیا ۔ 

تبھی میری زمین پوری طرح گھوم سی اٹھی ، جانتی ہو آیت ۔۔۔۔! برہان کی نیلی جھیل جیسی آنکھیں چمکی تھی 

“ برہان شاہ نے بہت سے حملے پہلے بھی سہے ہیں ، پہلے بھی میرے بزنس کی وجہ سے بہت کچھ ہوا لندن میں۔۔۔

مگر برہان شاہ نے اپنی پوری زندگی میں پہلی بار موت کو سامنے دیکھا ۔ 

“ برہان شاہ نے پہلی بار موت کے بے حد قریب محسوس کیا ، وہ یہ بولتے کرب سے آنکھیں بوند گیا ۔ 

آیت خاموشی سے جیسے اُسکو سننا شروع ہوئی تھی جبکے اُسکی سرد پڑتی آنکھوں میں پانی کی چمک بھری ۔ 

“ میں نے پہلی بار موت کو فیل کیا ، جب میری آنکھیں بند ہو رہی تھی مجھے لگ رہا تھا اب میں کبھی واپس ان کو کھولنے والا نہیں ۔۔۔۔

تب میرے دل میں اگر کچھ اٹھا تھا تو یہی درد اٹھا کہ اگر میں نہ اٹھا تو میرے بعد تم کیا کرو گئی ۔۔۔۔؟ 

وہ کیا بولنے یا سمجھانے کی اُسکی کو کوشش کر رہا تھا آیت پوری طرح کنفیوز ہوئی۔ 

“ تب مجھے یاد آیا جب میں نے تمہیں ایک بار کہا تھا کہ اگر کبھی مجھے کچھ بھی ہو جائے نا تو میں اس چیز کی اجازت بالکل بھی نہیں دوں گا کہ تم دوسری شادی کر لو ؛۔ 

آیت میرا دل تب تڑپ رہا تھا اور میں کسی بھی قمیت پر تمہیں چھوڑ جانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ 

پھر آنکھیں بند ہوتے ہی یہ احساس ہوا کہ میں ہمشیہ تمہارے ساتھ تو پھر بھی رہنے والا نہیں ۔ 

اس موت نے مجھے سمجھایا کہ شاید میرا تم سے دور رہنا ہی بہتر ہے ۔

برہان کی نیلی آنکھوں سے بوندے گری تو آیت  اُسکے آخری الفاظ سن کناروں پر ٹھہر پانی گالوں پر بہا گئی ؛۔

کہہ لیا جو کہنا تھا ۔۔۔؟ وہ گالوں کو بے دردی سے صاف کرتے سپاٹ بولی ۔ 

جبکے لال آنکھوں سے گھورتے کھڑی ہوئی ، برہان جو لیٹا ہوا تھا ۔ اُسکے ایسے بولنے اور پھر اٹھتے جانے پر ماتھے پر بل ڈالتے رگیں تن گیا ۔،

بس نہیں چلا تھا کہ ابھی اُسکو دبوچ لیتا ، ابھی اُسکی بات ختم  ہی کہاں ہوئی تھی ۔۔ 

وہ دیکھتا رہ گیا اور وہ آرام سے نظروں سے اوجھل ہوئی ۔،

آیت جو روم سے نکل آئی تھی اپنی آنکھوں کو اچھے سے صاف کرتی خادم کو قریب بلا گئی ۔۔

اپنے ان گاڈرز کو یہاں سے ہٹاؤ ، ابھی یہاں اتنا گہرا پہرا دینے کی ضرورت نہیں ہے، میں یہاں ہوں اپنے شوہر کے ساتھ ؛۔

کیا ہوا آیت ۔۔؟ عماد جو وہی آ رہا تھا اُسکو خادم کو حکم سناتے دیکھ پوچھا 

کیا ہونا تھا ۔۔۔۔؟ کچھ بھی تو نہیں ہوا ۔ جب ان گاڈرز کو اُس پر پہرا دینا چاہیے تھا تب تو دیا نہیں ابھی یہاں ایسے سج کر کھڑے ہونے سے کیا فائدہ پہنچنے والا ہے ۔۔۔؟ وہ تپے انداز میں بھڑکی تو عماد نے خادم کو جانے کا حکم دیا 

وہ کچھ گاڈرز وہاں سے ہٹاتے اپنے ساتھ لے گیا ۔ 

برہان نے کچھ کہا ۔۔۔؟ وہ اُسکو غصے میں دیکھ اگلا سوال در گیا ۔

ہاں سبھی اختیار اُسی کو تو دئیے ہوئے ہیں ، اپنی من مرضی کرنے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ 

خیر تم بھی آرام کر لو میں اُسکے پاس یہاں ہوں ، مجھے گاڈرز کا یہاں اچھا نہیں لگ رہا تھا بس اسی لیے ایسے کہا ۔

وہ موضوع گول کرتے عماد کو الجھا گئی جبکے وہ خاموشی سے وہاں سے گیا ۔

نرس ۔۔ ڈاکٹر نے برہان کو چیک کر لیا ہے۔۔۔؟ آئی می ابھی وہ کب واپس سے دیکھنے آنے والے ہیں ۔۔۔؟ 

ابھی تو ڈاکٹر صاحب فجر کے بعد ہی آئیں گئیں، نرس اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھ تیزی سے بولی تو آیت نے اُسکو مزید چند باتیں کہی اور واپس سے روم میں داخل ہوئی ؛۔

برہان جو ضبط کی انتہا کو پہنچا تھا ، اُسکو واپس سے روم میں داخل ہوتے ڈور کو لاک کرتے دیکھ چونکا۔ 

ماتھے پر بل ویسے ہی نمایاں تھے ۔ آیت نے سرد مہری بھری نگاہوں سے اُسکو گھورا اور اُسکے قریب ہوتے جھکی ۔

برہان نے ضبط کرتے چہرہ موڑا ، تو وہ فورا سے اسُکا چہرہ خود کی طرف کر گئی ۔ 

یہاں میری طرف دیکھو۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں تمہیں دیکھ رہی ہوں۔ 

جیسے خاموشی سے میں نے تمہیں سنا تھا ویسے امید رکھتی ہوں تم مجھے سنو گئے ۔ آیت کی پلکیں پھر سے بھیگی تھی ۔ 

جب میں نے نیوز دیکھی ،تو مجھے لگا میری دنیا ختم ہو گئی ۔ میں مرنے والی ہوں ۔ 

مجھے تب یہ احساس جکڑ گیا کہ میں نے تمہیں صرف تکلیف دی کبھی خوشی تو دی ہی نہیں۔۔۔

وہ ویسے ہی بولتے اُسکے تنے نصب ڈھیلے کر گئی ۔ غصے اور ضبط کی جگہ چہرے پر اُسکے ایک عجیب سی خوشی چمکی ۔

میں تب چاہتی تھی تم ایک بار آنکھیں کھول دو تو میں اپنا دل نکال کر تمہارے سامنے رکھ دوں 

اور بولوں ،۔۔۔۔۔ اُسکے آنسووں جیسے اُسکے گلے میں پھنسے تھے ۔ وہ ہچکیوں میں روتے بولنا شروع ہوئی 

دیکھو اس دل میں ۔۔۔ صرف تم رہتے ہو ، میں چیخ کر تمہیں بتانا چاہتی تھی کہ برہان شاہ تمہاری جیت پکی ہو گئی ۔

میں اپنی نفرت ہار تمہارے عشق کی غلام بن گئی ہوں ، میں بتانا چاہتی تھی کہ میں تمہارے ۔۔۔۔ 

وہ بہتی آنکھوں سے اپنی بہتی ناک کو بچوں کی طرح صاف کرتے اُسکے بازو پر سر رکھ گئی ۔۔۔

“ میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتی ، میں تمہارے عشق کے آگے ہار گئی برہان شاہ ۔۔!! ایک بار مجھے دیکھو میں صرف تمہارے لیے ماضی بھول جاوں گئی 

تڑپتے آیت نے چہرہ اٹھاتے مقابل کو دیکھا ، اُسکی نیلی آنکھوں میں بےیقنی چھائی تھی کہ کہیں وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا ۔

“ میں صرف تمہاری بن کر رہنا چاہتی ہوں ، جسے تم پسند نہیں کرو گئے میں کبھی اُس انسان کو دیکھوں گئی بھی ۔،

بس ائک بار مجھے سنو ۔۔۔آیت خان تمہارے عشق میں جھک چکی ہے ، تمہارا عشق جیت گیا ۔

چاہے کچھ بھی ہو جائے آیت صرف تمہاری تھی اور ہمشیہ تمہاری رہے گئی ۔

وہ سوں سوں کرتی جھکے سے اٹھی تھی ، اور جو تم نے ابھی کہا نا ۔۔؟ اُسکی آنکھیں ائک بار پھر بھری تھی 

کہ تم مجھے چھوڑ دو ۔۔۔۔۔ وہ خاموش ہوئی ، اور پھر سے بولی 

تو تم چاہو چھوڑ دو مجھے ۔۔۔۔ میں تمہیں دیکھتے ہی اپنی زندگی کاٹ لوں گئی ۔ وہ سرخ ہوتی چھوٹی سی ناک کو سکڑتے اک دم سے اٹھی 

اس سے پہلے وہ پہلے کی طرح دوڑ لگاتی مقابل نے ہوشیاری سے کام لیتے اُسکے ہاتھ کو اپنے مظبوط ہاتھوں میں جکڑتے اپنی طرف ہلکے سے کھینچا 

تو وہ اُسکے قریب جھکی ، برہان کو سینے میں زخم پر ہلکے سے درد اٹھا جس کو وہ نظر انداز کرتے اُسکے لال ہوتے چہرے کو دیکھ گیا ۔۔۔۔

ابھی تم نے کیا کہا تھا ۔۔؟ وہ اُسکی آنکھوں میں دیکھتے ویسے ہی آیت کو جکڑے بولا تو آیت نے اپنے ہاتھ میں درد محسوس کرتے بے رخی سے گھورا ۔ 

یہی کہ ۔۔۔۔ چھوڑ۔۔۔۔

اس سے پہلے ۔۔۔۔ وہ تیزی سے بولا تو وہ سوچ میں پڑی جیسے ہی یاد آیا نظریں مقابل کی نظروں سے ملا گئی ۔

یہی کہ ۔۔۔۔۔ آیت صرف تمہاری تھی اور ہمشیہ تمہاری رہے گئی وہ ہچکیاں بھرتے بولی  تو برہان کے دل میں جیسے سکون اتار ۔۔۔

ایک بار پھر سے کہو ۔۔۔!! وہ ویسے ہی اُسکو خود پر مزید جھکاتے بولا تو آیت جس کی سانسیںوں کی تپش مقابل کہ  چہرے پر پڑنے لگی تھی ۔ 

آنکھیں بند کرتے اُسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکاتے پوری طرح اُس پر جھکی ۔

میں صرف تمہاری ہوں ، بہت چاہتی ہوں تمہیں ۔۔۔ تمہارے بنا بالکل بھی جی نہیں سکتی ، مجھے کبھی بھی تنہا مت چھوڑنا ۔

کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا ۔ اس سے پہلے وہ آگے کچھ کہتی وہ ویسے ہی اُسکو خود کے قریب محسوس کرتے گھمبیر گویا 

تو آیت جو آ نکھیں کھول گئی تھی ، مقابل کے دیکھ گئی ۔ 

ابھی تو چھوڑنے کی بات کر رہے تھے ۔۔۔؟ وہ جھکے سے اٹھتے مقابل کے پاس بیٹھی ۔ 

وہ اُسکے ایسے کہنے پر واپس سے ہاتھ سے کھینچ خود کے قریب جھکا گیا یوں کہ دونوں کے چہرے ایک بالکل ایک دوسرے کے سامنے تھے ز

برہان شاہ جو کہتا ہے وہ دوسروں کے لیے لکیر بنا دیتا ہے ، لیکن تم تو زندگی ہو ۔اور تمہیں جو میں بولوں گا وہ کم کروں گا اور جو نہیں کہوں گا وہ ضرور کر گزروں گا ۔

تو بہتر یہی ہے کہ جو سامنے ہوں اُسکو سمجھنے کی کوشش کرو ۔ وہ ویسے ہی اُسکو بولتے ساتھ ہی آنکھ دبا گیا تو آیت کا چہرہ ہلکے سے مسکرا گیا ۔

آیت تمہں کب احساس ہوا کہ تم مجھے چاہتی ہو ۔۔۔۔؟ وہ ویسے ہی اُسکو نظروں میں رکھے بولا 

تبھی ڈور لاک ہوا تو آیت ڈرتے جھکے سے کھڑی ہوئی ۔ کون ہوگا ۔۔۔؟ وہ گھبرائی تھی ۔ 

آہ ۔۔۔۔ میں نے ڈور لاک کیا ۔۔۔؟ وہ بھی اندر سے ۔۔۔۔؟ ہسپتال میں۔۔؟ وہ بے یقینی سے خود کی حرکت پر شرمسار ہوئی ۔۔۔۔ 

جبکے برہان اُسکو ایسے دیکھ اچھے سے محفوظ ہوا ،ویسے تم نے بالکل اچھا کیا تھا جو ڈور لاک کر لیا ۔

اگر تم یہ نہیں کرتی تو ہمیں یہ لوگ ایسے ہی ڈسٹرب کرتے ، میری مانو تو ابھی بھی ڈور کھولنے کی ضرورت نہیں ۔ 

تم یہاں میرے قریب آو ، اور مجھ سے باتیں کرو برہان جس کے ہاتھ میں آیت کا ہاتھ ویسے ہی موجود تھا 

اُسکو اپنی طرف کھنچتے گویا ۔

برہان چھوڑو مجھے ۔۔۔ پہلے ہی میں بہت شرمندہ ہوں اپنی اس حرکت پر ۔۔۔ میں کیسے بھول گئی کہ میں ہسپتال میں ہوں۔۔۔؟ 

روم کا ڈور لاک کر لیا ۔ وہ بےیقنی سے رونے والی ہوئی ۔

ارے۔۔۔ اس میں اتنا شرمندہ ہونے والی کیا بات ہے ۔۔۔؟ بیوی ہو تم میری ۔۔۔ تمہارا حق بنتا ہے مجھ پر ۔ 

اور ویسے بھی میں بول دوں گا سب کو کہ میں نے ہی ڈور لاک کرنے کا کہا تھا ۔

کیا بات ہے ۔ تم نے کہا اور میں نے بنا کچھ کہے ڈور لاک کر دیا ۔۔۔؟ آیت جو رونے لگی تھی 

برہان کی بات سن ماتھے پر ہاتھ مارتے خود کی عقل کو کوسا ۔ 

آیت کہاں لکھا ہے کہ ہسپتال میں روم کا ڈور لاک نہیں کر سکتے ۔۔۔؟ 

اگر صفدر انکل ہوئے تو ۔۔۔؟ آیت جو پوری طرح ڈر چکی تھی خود سے بڑبڑاتی آگے بڑھی ۔ 

برہان کا چہرہ زندگی سے بھرپور چمکا تھا ۔ آیت نے ایک نظر برہان کو دیکھا تو آنکھیں بند کرتے ڈور کو آہستہ سے کھولا 

کتنی دیر لگا دی تم نے آیت ۔۔۔!! حور آیت کو بھوت بنے دیکھ تیزی سے اندر داخل ہوئی تو سرحان بھی مسکراتی نظروں سے آیت کو دیکھ گیا ؛۔ 

تم لوگ تھے ۔۔۔۔؟؟ آیت کی جان میں جیسے جان آئی کہ شکر ہے کوئی بڑا نہیں تھا ۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے   




This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

Previous Post Next Post