Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 104 Online - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 13 June 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 104 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 104 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 104 

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 104

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 104 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ برہان ابھی تک آیا کیوں نہیں ۔۔۔۔؟ آیت جو مسلسل اُسکا انتظار کر رہی تھی ، مغرب کی اذان سن خود سے بڑبڑائی ۔ 

چونکہ جب اُسکی بات ہوئی تھی برہان سے تب عصر کا ٹائم تھا ؛۔

وہ برہان کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے پرستہ بنا چکی تھی ، وہ ہلکی آنچ کرتے لان میں نکل آئی ۔ 

کیونکہ اُسکا دل کچھ بے چین سا تھا وہ اندر اندر خود سے گھبرا رہی تھی ۔ 

آیت جو لان میں آ بیٹھی تھی ، چند گاڈرز کو فون پر کچھ دیکھتے آپس میں  سرگوشیاں کرتے دیکھ اٹھی ۔ 

چونکہ وہ سرسری سی نگاہ آیت پر بھی ڈال رہے تھے ۔ آیت کو ان کا ایسے دیکھنا بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا ۔ 

وہ تیزی سے گھر میں واپس داخل ہوئی تھی اور فون اٹھاتے برہان کو کال ملائی ۔ 

اُسکا نمبر بند جا رہا تھا ۔ آخر فون ٹوٹ چکا تھا ۔ کال کیسے لگتی ۔۔۔؟ 

ہیلو ۔۔۔۔۔۔ السلام وعلیکم پاپا ۔۔۔۔۔ آیت جو ابھی واپس سے کال لگانے لگی تھی برہان کو ۔۔۔ 

کہ اکرام کا فون پک کرتے ساتھ ہی سلام دعا کی ، 

آیت بیٹا تم کہاں ہو ۔۔۔۔۔؟؟ برہان کیسا ہے ۔۔۔؟ اکرام جو فکر سے بولے تھے ، برہان کو پوچھ اُسکو ہلا گئے ۔

برہان کیسا ہے ۔۔۔ مطلب ۔۔۔۔ وہ ٹھیک ہے الحمد اللہ ۔۔۔ وہ تیزی سے بولی تھی جبکے دل میں اک انجان سا خوف اٹھا ۔۔۔۔۔

بیٹا یہ نیوز ۔۔۔۔ کیا ہوا پاپا ۔۔۔۔؟ اس پہلے اکرام اپنی بات مکمل کرتے آیت نے کانپتی آواز سے پوچھا ۔ 

ہم لوگ نکل چکے ہیں ، اللہ سب ٹھیک کرے گا ، اکرام نے اپنی بیٹی کو جیسے حوصلہ دیا ۔۔۔۔

پاپا آپ کیا بول رہے ہیں ۔۔۔۔؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی ۔۔۔ آیت کی آواز کانپتی جیسے دل کو دھک دھک دھڑکنا شروع ہوا تھا ۔۔۔

تبھی ملازمہ بھاگتے آیت کے پاس آئی تھی ، اور بولی کہ چھوٹی بی بی نیوز میں چھوٹے صاحب کا دکھا رہے ہیں۔ 

آیت فون رکھتے ڈرتے رموٹ اٹھاتے نیوز چینل پر لگا گئی ، سامنے ہی برہان کو جب خادم لوگ ہسپتال لے کر پہنچے تھے ۔ 

آیت کو منظر نظر آیا ، وہ ساکت ہوتی منہ پر ہاتھ رکھ گئی ، آنکھوں سے بے آواز آنسو گرنا شروع ہوئے ۔ 

آیت کو لگا تھا تو اپنے ہوش سے بیگانہ ہو جائے گئی ، ٹانگیں کانپنا شروع ہوئی تھی وہ پوری ٹھنڈی پڑ چکی تھی ۔ 

وہ ویسے ہی گرنے کو ہوئی تو ملازمہ نے جلدی سے آیت کو پکڑا ۔ 

ہسپتال ۔۔۔۔۔ وہ روتے اک دم سے مظبوط بنتے اٹھی تو ملازمہ آیت کو لیتے ہسپتال کی طرف نکلی ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کہاں ہے برہان ۔۔۔۔!! آیت کاشف لوگوں کو سن کھڑے دیکھ ان کی طرف لپکی ۔ 

جبکے وہ کتنی مشکل سے میڈیا کے لوگوں سے بچ کر وہاں آئی تھی 

وہ وہی جانتی تھی ۔ وہ پوری طرح بیگانی ہوئی پڑی تھی ، اگر ابھی چاہت تھی تو بس برہان کو دیکھنے کی ۔ 

آیت میڈم ۔۔۔۔ سر ۔۔۔ کو ابھی ڈاکٹر دیکھ رہے ہیں۔ 

جسم کے جس حصے میں گولی لگی ہے ، وہاں ۔۔۔ !!! 

کہاں لگی گولی ۔۔۔۔؟ آیت جس کی آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھی ، تیزی سے دھاڑی پوچھ گئی ۔،

سینے میں۔۔۔ وہ ڈرتے اتنا ہی بول پائے ۔ 

تبھی ڈاکٹر روم سے باہر آئے تھے ۔

ہمیں ان پیپرز پر سائن چاہیے۔ تاکہ ہم مسٹر برہان شاہ کا آپریشن کرتے گولی نکال سکیں ۔۔۔۔

آپ لوگوں نے ابھی تک گولی نہیں نکالی ۔۔۔۔؟؟ کیسے ڈاکٹر ہیں آپ ۔۔۔؟ ایسے جو ڈاکٹر کو دیکھ غرائی تھی 

غصے سے پیپرز پکڑ گئی ۔ مسز برہان ایک بار پیپرز پڑھ لیں۔

لیڈیز ڈاکٹر اب کے آگے ہوئی تو آیت نے چونک کر اُسکی طرف دیکھا ۔ 

میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے ، پن دیں ۔۔۔ وہ دھاڑی تھی ۔ 

مسز برہان اس میں لکھا گیا ہے ، کہ اگر آپریشن کے دوران ان کو ہم بچا نہیں سکے تو اُسکے ذمہ دار ہم نئیں ہونگیں۔۔۔ 

لیڈیز ڈاکٹر نے بہت آرام سے آیت کو سمجھاتے آگاہ کیا ۔ 

کیا مطلب ہے ۔۔۔؟ آیت جو سائن کرنے لگی تھی ، ساکت ہوتی تھمی ۔ 

دیکھیں مسز برہان ۔۔۔۔۔۔ مسٹر برہان شاہ کی جان خطرے میں ہے ؛۔

ہمیں جلد سے جلد ان کا آپریشن کرتے گولی نکالنی ہوگئی ،  ویسے بھی ان کو خون بھی بہت بہہ چکا ہے ۔ 

ڈاکٹر کی بات سن آیت کی زمین پوری طرح ہل چکی تھی وہ کیا کرے وہ پوری طرح الجھی تھی ۔۔۔۔ 

وہ بہتی آنکھوں سے کانپتے ہاتھوں سے پیپرز پر سائن کرتے خود کی زندگی کو اپنے رب کے ہاتھ میں دے گئی ۔ 

وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی ۔ بے بسی کا عالم چار سُو چھایا تھا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جس نے بھی یہ کام کیا ہے کمال کا کیا ہے ، میرا تو دل خوشی سے جھوم اٹھا ہے ۔ 

ویسے پتا کرنا پڑے گا کہ آخر اتنی جرات کس میں تھی کہ برہان شاہ کو ہمشیہ کئلیے اس دنیا سے رخصت کرنے بندوبست کر دیا ۔۔۔۔۔؟ 

سرشار شیزاری جو نیوز پر ہنوز نظریں ٹکائے ہوئے تھا ۔

ویسے ہی دیکھتے وقار شیزاری اپنے باپ سے بولا ۔ 

ٹھیک کہا پتا کرو ، یہ نیا جانی دشمن کو بن گیا اس کا ۔ وقار شیزاری کو بھی تجسب پیدا ہوا تھا ۔۔۔۔

نیوز دیکھی تم لوگوں نے ۔۔۔؟ فیصل شاہ کو ہسپتال جا رہے تھے راستے میں ہی پہلے وقار شیزاری لوگوں سے جاننے کئلیے کہ یہ ان کا کام تو نہیں ڈیرے پر آیا ؛۔

جب سے نیوز پھیلی ہے تب سے نیوز ہی سن رہے ہیں کہ خبر چل پڑے ، کہ برہان شاہ اس دنیا سے رخصت ہو کہ حقیقی خدا سے جا ملا ۔۔۔۔

سرشار خوشی سے اٹھتے کھڑا ہوا تو فیصل شاہ نے تیکے سے تیوارے ڈالے گھورا ۔ 

ویسے یہ کس کا کام ہے ۔۔۔؟ فیصل شاہ نے ویسے ہی کھڑے سرشار کو پوچھا ۔ 

دو دن تک میں پتا کر لوں گا کہ یہ کس کا کام تھا ، جیسے ہی مجھے پتا چل گیا میں ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھا لوں گا ۔

سرشار دو ٹوک بولتے آرام سے کندھے پر شال درست کرتے واک آوٹ کر گیا تو فیصل شاہ بھی سمجھ گیا 

یہ اس بار بھی ان کا ہاتھ نہیں ہے ، وہ تیزی سے ہسپتال جانے کئلیے نکلا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سب لوگ ہسپتال پہنچ چکے تھے ، برہان کا آپریشن ابھی چل رہا تھا ؛۔

سرحان اور عماد نے سبھی کچھ ایک طریقے سے سنبھال لیا تھا ۔ 

میڈیا کے سوالوں کے جواب سرحان نے دئیے تو عماد نے سبھی گاڈرز کی اچھے سے کلاس لگاتے ساتھ ہی ان لوگوں کا پتا لگانے کا بول دیا تھا ۔ 

سلطان شاہ بے بس سے سر جھکائے بیٹھے تھے ، کیونکہ سلمان شاہ اور حمیدہ بیگم ٹوٹے ہوئے صرف اپنے بیٹے کے لیے آنسو بہا رہے تھے ۔ 

آیت جو اپنی ماں کے ساتھ لگی ہوئی تھی تو دوسری طرف حور بے چینی سے آنسووں کو مسلسل گالوں پر بہنے سے روکتے ٹہل رہی تھی ۔۔۔۔ 

اسماء بیگم اپنی بہن کو صبر دے رہی تھی کہ ہمارے شاہ کو کچھ نہیں ہوگا؛۔ 

تبھی ڈاکٹر آپریشن کے روم سے باہر آیا تھا ۔ اور ان لوگوں کی طرف بڑھا : 

اکرام سبھی کھڑے ہوئے تو آیت جو خوف سے لرز رہی تھی ڈاکٹر کو دیکھ تیزی سے اٹھتے ان کی طرف  لپکی ؛۔ 

سلطان شاہ بھی تھکے انداز میں کھڑے ہوئے تھے ، 

گولی نکال دی ہے ، لیکن مسٹر برہان شاہ کا خون بہت حد تک بہہ چکا ہے ، 

ان کا بلڈ گروپ  او نیگٹیو ہے ، پورے ہسپتال میں اس بلڈ کا خون فحال نہیں مل رہا ۔۔۔ 

کسی دوسرے ہسپتال سے منگوایا جا رہا ہے، کافی ٹائم لگ رہا ہے ۔ کیا مسٹر برہان شاہ کے کوئی بہن بھائی خون دے سکتے ہیں۔۔۔؟ ڈاکٹر نے بہت ہی آرام سے ساری سٹوئچن سے آگاہ کیا ۔ 

جہانگیر بیٹا جلدی سے اپنے بھائی کو خون کو دو ، سلمان شاہ اپنے بڑے بیٹے جو ساتھ ہی آیا تھا آواز لگاتے پکار گئے ؛۔

لیکن پاپا میرا بلڈ گروپ تو بی ہے ، جہانگیر نے تیزی سے بولا تو سبھی چونکے ۔ 

ڈاکٹر آپ ہمارا خون لے لیں ، ہمارے بیٹے کو بچا لیں ۔ سلمان شاہ جن کی حالت پہلے ہی خراب تھی 

گھبرائی سی آواز میں بولتے ان کو کہا ، دیکھیں سر آپ کا خون کیسے لے سکتے ہیں آپ پھر بھی ٹیسٹ دے پہلے ۔

ڈاکٹر نے اپنی ساتھ موجود نرس کو اشارہ کیا تو وہ سلمان شاہ کو اپنے ساتھ لے گئی ۔ 

حور جو خاموشی سے سب کچھ سن رہی تھی ، بنا کسی سے کچھ کہے ان کے پیچھے ہی گئی۔۔۔

سلمان شاہ کا گروپ بھی بی ہی نکلا تھا ، وہ چاہ کر بھی برہان کو خون نہیں دے سکتے تھے۔۔۔

میرا بھی او گروپ ہے ، آیت اچانک سے ہوش میں آتے اٹھی تو اکرام کو بھی یاد آیا تھا ، جبکے سرحان کا ذہین بھی کھولا تھا ۔ 

سرحان آیت کو لیتے آگے بڑھا تو باقی سبھی لوگ بھی پیچھے گئے ، 

نرس ہم خون دیں گئے ، میرا گروپ وہی ہے جس کی ضرورت ہے ، حور سلمان شاہ کو جاتے دیکھ تیزی سے روم میں داخل ہوتی بولی تو نرس نے فورا سے بنا ٹیسٹ کیے حور کو لیتے آگے بڑھی  ؛۔

ایک منٹ ڈاکٹر آپ ہمارا خون دیں ، آیت جو وہی روم میں داخل ہوئی تھی تیزی سے بولی ؛،

جبکے سرحان روم سے باہر ہی چلا گیا تھا چونکہ وہ اپنے دوستوں سے پتا کر رہا تھا 

پر مسز برہان خون وہ ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے بولتے سامنے اشارہ کیا تو حور کو آیت دیکھ اُسکی طرف لپکی ؛، 

حور ۔۔۔۔ آیت نے جیسے ہی نام پکارا حور آیت کو دیکھ گئی ۔ 

بے فکر رہو میں اپنے بھائی اپنے جان  کو خون دوں گئی تو مجھے لگے گا میں اپنے بھائی کے کسی کام تو آئی ۔ 

تو آیت خاموش ہوئی وہ حور کو روک نہیں سکتی تھی وہ جانتی تھی ۔ 

ڈاکٹر میرے کچھ دوست آ رہے ہیں ، بس کچھ وقت دیں وہ پہنچنے والے ہیں، 

ان سب کا او گروپ ہی ہے۔ سرحان جو فون پر اپنے میرپور کے جاننے والے دوستوں کو فون کرتے ہسپتال آنے کا بول چکا تھا ڈاکٹر کو بھی بھاگ آتے بتایا ۔

یہ تو بہت اچھا ہو گیا ہے ، ویسے ہمیں خون مل چکا ہے ، اور مسٹر برہان شاہ کو لگا بھی دیا گیا ہے ، ڈاکٹر نے سبھی لوگوں کی طرف دیکھتے بولا 

آپ اپنے دوستوں کو بھیج دیں ، ہم ان کے ٹیسٹ کرتے خون لے لیتے ہیں ، 

تو سبھی کے چہرے جو پریشان تھے کچھ اچھا سن جیسے سکون میں آئے 

کس نے دیا خون ۔۔۔۔؟ سرحان حیران ہوا تھا کہ ابھی تو خون مل نہیں رہا تھا۔

مسز سرحان نے ۔۔۔ جیسے ہی ڈاکٹر نے حور کا نام لیا سبھی خاندان والے حیران ہوتے ساکت ہوئے ۔ 

کہ برہان کے بہن بھائیوں میں کسی کا خون نہیں ملا اور حور کا مل گیا ؛۔

ڈاکٹر تو پھر آپ ہمارے زر بیٹے کا خون لے لیتے ۔۔۔ ؟ اُسکو گروپ بھی یہی ہوتا ۔ سلطان شاہ نے اب کہ زر کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔

بابا میرا او گروپ نہیں ہے ، میرا تو بی ہے ،زر نے اتنا کہتے ان کو مزید حیران کیا ۔ 

حور بیٹا آپ نے خون ۔۔۔۔؟ سلطان شاہ حور کو آگے دیکھ تیزی سے لپکے ، 

صرف ایک بوتل دی ہے ، انہوں نے کہا صرف ایک ہی دے سکتی ہوں ویسے بھی خون مل گیا تھا ۔ 

حور اپنی بازو کو مسلتے آرام سے بولی تو سرحان نے غور سے اُسکو دیکھتے بنچ پر بٹھایا

سرحان بھی حیران ہوا تھا یہ کیسا اتفاق تھا ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رات سے دن چڑھ چکا تھا اور برہان کی حالت میں کوئی فرق نہیں پڑ تھا ۔

سبھی لوگ ویسے ہی آس لگائے بیٹھے تھے ، ڈاکٹرز نے برہان کو آئی سی یو میں شیفٹ کر دیا تھا ۔ 

اور سبھی گھر والوں سے دعا کرنے کا بولا تھا ، برہان کے گولی دل کے بہت قریبی حصے میں لگی جس وجہ سے اُسکی حالت ابھی بھی خطرتے میں بتائی جا رہی تھی۔

 “ شاہ ۔۔۔۔۔۔ سلطان شاہ جو تھک چکے تھے نیم داز آواز میں سرحان کو پکارا ۔ 

جی بابا۔۔۔۔ وہ تیزی سے اپنے باپ کے قریب ہوتے نیچے بیٹھا ۔،

بیٹا سب عورتوں کو گھر لے جاؤ ، ان کا یہاں سے ایسے بیٹھنا اچھا نہیں لگتا ۔ 

ان سب کو لے جاؤ اور گھر چھوڑ آو ، سلطان  شاہ سب کیطرف ایک نظر ڈالتے بولے تو سرحان فورا سے اٹھ کھڑا ہوا؛۔

چلو حمیدہ گھر چلو ۔۔۔۔۔! اللہ کے آگے دعا کرتی رہو دیکھنا اللہ سب بہتر کر دے گا ۔۔۔

ناز بیگم جن کے کان میں سرحان نے آتے بولا تھا وہ حمیدہ بیگم کو اٹھانا شروع ہوئی 

میں کہیں نہیں جاؤں گئی ، میں اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ گھر لے کر جاؤں گئی ۔ 

بھائی صاحب میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں میرے بیٹے کو اس میرپور اور یہاں کی دشمنیں سے دور رکھیں ، 

جب سے وہ پاکستان آیا ہے ، ہم سے دور ہو گیا ہے ، پہلے وہ کہاں مجھے فون کیے بنا رہتا تھا ۔۔۔۔۔! 

اب تو مہنیوں مہنیوں اپنی شکل نہیں دکھاتا ۔ میں مزید اپنے بیٹے کو یہاں چھوڑنے والی نہیں ۔۔۔۔ 

اُسکو اس سیاست سے دور کر دیں خدا کا واسطہ ہے ، میں اپنا بیٹا کھونا نہیں چاہتی ناز بھابھی میں اپنا لال ایسے کھونا  نہیں چاہتی ۔۔۔۔ 

حمیدہ جو بلک بلک رونا شروع ہوئی تھی ان کی باتیں سن سلطان شاہ کی آنکھیں بھری ؛۔

آیت چلو ۔۔۔۔۔ !!! سرحان جو سبھی عورتوں کو زر کے ساتھ بھج چکا تھا ۔۔!! اب کہ آیت کے قریب آیا 

جو جائے نماز پر بیٹھی مسلسل بہتی آنکھوں سے ورد کر رہی تھی ؛۔

مجھے کہیں نہیں جانا ، میں یہاں ہی رہنے والی ہوں ، جب تک وہ اپنی آنکھیں نہیں کھولے گا میں کہیں نہیں جاوں گئی ۔ 

آیت جو جائے نماز سے اٹھ چکی تھی اکٹھا کرتے بنچ پر بیٹھی ۔ 

سلطان شاہ جو آیت کے ساتھ والے بنچ پر براجمان تھے ، اپنی جگہ سے اٹھتے آیت کے قریب بیٹھے ؛۔ 

آیت بیٹا ۔۔۔۔۔! وہ محبت سے اُسکے سر پر ہاتھ رکھتے ساتھ ہی اُسکو خود سے لگایا 

یوں کہ آیت جو اپنے آنسو صاف کرتے ہٹی تھی ان کے ایسے پیار کرنے سے پھر آنکھیں نم کر گئی ؛۔

بیٹا گھر جاؤ  ، اور اللہ سے دل لگاؤ اپنے شوہر کی صحت یابی مانگو ۔۔۔۔

مجھے یقین ہے میرا اللہ میرے اس شیر بہادر بیٹے کو تندرستی سے نواز دے گا 

پھر آ جانا بیٹا ابھی گھر جاؤ ، یہاں کچھ سیاسی لوگ آنا چاہتے ہیں ، اس لیے بیٹا تم لوگو ں کا یہاں ہونا بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ 

سلطان شاہ جن کی آنکھوں سے خود آنسو بہے تھے ، درد سے گویا تو آیت اپنے آنسو صاف کرتے اٹھی ، 

تو حور جو دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی سرحان کی بازو پکڑتے خود کو گرنے سے بچایا۔۔

تم ٹھیک ہو ۔۔۔۔؟ سرحان نے فکر سے اپنی بیوی کو پوچھا تھا ۔ 

ہممم ۔۔ وہ سرسری سا بولتی آیت کے ساتھ آگے بڑھی ، مجھے ایک بار برہان کو دیکھنا ہے۔۔۔۔ 

رات سے میں نے اُسکو دیکھا نہیں ، پلیز سرحان ۔۔۔۔ آیت جو پہلے قدم اٹھا چکی تھی ، روتے دبی آواز میں سرحان سے بولا ۔۔۔۔ 

ٹھیک ہے آیت ۔۔۔۔۔! لیکن تم وہاں بیٹھنے کی ضد نہیں کرو گئی اور رونا بالکل بھی نہیں ہے ۔ 

اُسکو کسی بھی قسم کی آواز سننی نہیں چاہیے ۔ سرحان نے سمجھایا تو وہ تیزی سے سر ہلا گئی ۔ 

چلو ۔۔۔۔۔ حور سرحان کو آیت کو لے جاتے دیکھ ویسے ہی ہسپتال سے باہر نکل گاڑی میں بیٹھی ؛۔،

وہ پہلے ہی برہان کو دیکھ چکی تھی ، ابھی مزید ہمیت نہیں تھی اسی لیے وہ گاڑی جیب میں آتے بیٹھی 

آیت جو آئی سی یو روم میں داخل ہوئی تھی ، سامنے ہی برہان کو دیکھتے لال سوجھی آنکھیں جو وہ روم میں آنے سے پہلے صاف کرتے آئی تھی ، 

مقابل کو مشینوں میں جکڑے دیکھ ساکت ہوتی پوری طرح کانپی ، جبکے آنکھیں خود بہ خود ہی بہنا شروع ہوئی تھی 

وہ مرتے قدموں کے ساتھ آگے بڑھی تھی ، اُسکو اپنا ایک بھی قدم اٹھانا کسی پتھر سے کم نہیں لگا تھا ؛۔ 

وہ آہستہ آہستہ چلتی مقابل کے بیڈ کہ قریب آئی تھی ، وہ سامنے بیگانہ سا انجان سوتا ہوا نظر آ رہا تھا ۔

جیسے ہی نظر سامنے گولی والی جگہ پر گئی ، رونے کی آواز ہچکیوں میں باندھی ۔ وہ اپنی آواز کو دبانے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ گئی ۔  

وہ آکسیجن ماسک جو برہان کو سانس دینے کے لیے لگایا تھا دیکھ تیزی سے بھاگتے روم سے نکلی ؛۔

جبکے باہر جاتے ہی وہ بلک بلک رونا اسٹاٹ ہوئی تھی عماد جو وہی بیٹھا ہوا تھا 

اُسکو ایسے ٹوٹتے دیکھ درد سے آنکھیں بند کر گیا وہ کیا کر سکتا تھا ۔،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حور جو ٹھیک نہیں تھی ، گھر میں داخل ہوتے ہی چکر کھاتے زمین بوس ہوئی ۔ 

سرحان جو حور کے پیچھے ہی تھا تیزی سے اُسکو پکڑنے کی کوشش کی ۔ 

حور ۔۔۔۔۔ ؟؟؟ وہ اُسکا سر اٹھاتے منہ کو تھپکنا شروع ہوا 

کیا ہوا ۔۔۔؟ ناز بیگم اور باقی سب شبانہ بیگم لوگ بھی قریب آئی تھی ؛۔

لگتا ہے بھوکے رہنے کی وجہ سے میری بچی بہوش ہو گئی ہے ، اسماء بیگم بھی گھبرائی تھی ۔۔۔ 

آیت جو ہاتھ میں بیگ لیے ہوئے تھی ، اُسکو سینے سے لگائے حور کو دیکھنا شروع ہوئی۔ 

بھائی میں نے ڈاکٹر کو کال کر دی ہے، وہ بس آتے ہی ہونگیں :۔ 

آپ ایسے کریں حور بھابھی کو اوپر ان کے روم میں لے جائیں ، زر سرحان کو حور کو گود میں اٹھاتے دیکھ بولا 

تو سرحان جو پہلے ہی اوپر جانے والا تھا تیزی سے بھاگا ۔ 

ڈاکٹر کیا ہوا ۔۔۔۔! سرحان جو سبھی عورتوں کے ساتھ کمرے کے باہر کھڑا ڈاکٹر کا ویٹ کر رہا تھا ؛۔ 

ان کو روم سے نکلتے دیکھ تیزی سے آگے ہوا ، 

گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے ، ٹائم پر کچھ نا کھانے کی وجہ سے وہ ایسے بہوش ہوئی 

اور ماشااللّہ آپ باپ بنے والے ہیں ، ڈاکٹر کے آخری الفاظ سن وہاں موجود سبھی لوگوں کے چہرے ہلکے سے مسکرائے تھے 

جبکے سرحان بے یقینی سے شاک ہوتا منہ کھول گیا ۔،

 مسٹر سرحان آپ کو اپنی بیوی کا خاص خیال رکھنا ہوگا ، وہ کافی کمزور ہیں ، زیادہ سے زیادہ ان کو آرام کرنے کی ضرورت ہے ، 

ڈاکٹر چند ہدایتی  باتیں کہتی وہاں سے گئی تو سبھی گھر والے سرسری سی مبارک باد سرحان کو دے گئے ؛۔

چونکہ وہ سب لوگ برہان کو لے کر پریشان بھی تھے ، لیکن وہ خوش ہوئے تھے کہ اللہ نے اتنی بڑی خوشخبری سے نوزاہ 

سرحان جو ڈاکٹر کی بات سن تیزی سے روم میں داخل ہوا تھا ، سب ہی باری باری حور کو گلے ملتے مبارک باد اور صحت یابی کی دعائیں دینے لگے ؛۔ 

سرحان جو بہت آرام سے کھڑا تھا ، عماد کی کال آتے دیکھ تیزی سے فون پک کرتے روم سے نکلا ؛۔ 

ہاں عماد ،۔۔۔۔۔۔؟؟ سرحان نے جلدی سے پوچھا کہ سب خیریت ۔۔۔؟ 

سرحان ۔۔۔۔ برہان کی شرٹ اور کچھ سامان جو اُسکے پاس تھا ، ڈاکٹر نے وہ سب یہاں بنچ کے پاس بیگ میں رکھا تھا ؛۔۔

ابھی پولیس وہ سامان مانگ رہی ہے ، برہان کی شرٹ بھی چاہیے جس پر خون لگا ہوا ہے ، توں گھر تو نئیں لے گیا ۔۔۔؟ 

عماد پولیس والوں کی سکیورٹی سخت ہوتے دیکھ سرحان سے پوچھ گیا 

نہیں یار ۔۔۔۔ وہ بیگ وہی تھا ، میں نے دیکھا تھا سامان ۔۔۔ برہان کا شرٹ تھا اور واچ والٹ ٹوٹ موبائل ۔۔۔

سرحان نے تفیصل سے بتایا تو عماد نے پھر سے نظریں وہی گھومائی ؛۔

اچھا برہان کیسا ہے ۔۔۔۔؟ ڈاکٹر آیا چیک کرنے کیلئے ۔۔۔۔؟ 

سرحان نے اگلا سوال پوچھا ، سبھی بڑے ڈاکٹر جن کو بلایا تھا وہ پورٹ چیک کر رہے ہیں برہان کی ؛۔

دیکھو کیا بتاتے ہیں وہ ۔۔۔۔ عماد نے سرسری سا جواب دیتے ساتھ ہی فون رکھا ۔۔۔

سرحان ویسے ہی چلتے فون پاکٹ میں رکھے روم میں آیا ؛۔

تو حور جو اکیلی بیٹھی ہوئی تھی ، بے آواز آنسو بہانے میں مصروف نظر آئی ؛۔ 

وہ تڑپ کر اُسکی طرف لپکا تھا ، حور جس نے سرحان کو آتے دیکھ لیا تھا ۔ 

لال ہوتی آنکھوں کو رگڑھتے صاف کیا ، وہ آتے ہی اُسکے قریب براجمان ہوا ۔ 

کیا ہوا میری پری کو ۔۔۔۔۔؟ وہ محبت سے پاش اُسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر گھمبیر سا گویا ۔ 

“ اگر میری جان کو کچھ ہوا تو ۔۔۔۔!! 

شش۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے حور روتے خود غلط الفاظ نکالتی سرحان نے اُسکے گلابی ہونٹوں پر انگلی رکھتے خاموش کرایا ۔ 

جو ہوگا نہیں وہ بولنا کیوں ۔۔۔۔؟ یقین رکھو اُس ذات پر ۔۔۔۔!! وہ سب کچھ بہترین کرے گا ۔ 

وہ محبت سے اُسکے ماتھے پر لب رکھتے اپنے اندر بھنچ گیا ۔ 

وہ بھی اُسکی قربت کا احساس پاتی خاموشی سے دل میں دعا کرنے لگی ، 

“ تھینک یو حور ۔۔۔۔۔ میری زندگی کو مکمل کرنے کے لیے وہ ویسے ہی اُسکو خود سے لگائے اپنی خوشی بیان کر گیا ۔ 

تو وہ ہلکے سے مسکرا گئی ، وہ خود خوش تھی لیکن پریشانی کی وجہ سے وہ یہ پل انجوائے نہیں کر پا رہی تھی ؛۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آیت جو کھٹنوں میں سر گرائے ہوئے نیچے زمین پر بیٹھی تھی ۔ 

سرسری سی نگاہ اٹھاتے بیگ کی طرف دیکھا جو وہ اپنے ساتھ لائی تھی ؛۔ 

 اچانک سے یاد آیا تھا کہ وہ برہان کا بیگ لائی ہے جس میں اُسکی چیزیں تھی ؛۔

وہ ویسے ہی کھٹنوں کے بل چلتے ٹیبل سے بیگ اٹھاتے ویسے ہی دیوار سے لگتے اُسکو چیک کرنا شروع ہوئی 

وہ ساکت سی مقابل کی شرٹ کو نکالتے جو خون سے لت پت ہوئی پڑی تھی 

نکال خود کی کالی سیاہ آنکھوں کو بند کر گئی ، دل میں کس قدر درد اٹھا تھا ، وہ کیسے وہ برداشت کر گئی تھی 

اس لمحے یہ وہ وہی جانتی تھی ، خشک سرخی سے مائل آنکھیں ایک بار پھر بھیگی تھی ۔ 

وہ ویسے ہی روتے اُسکی شرٹ خود سے لگا گئی ، آنکھوں سے آنسو رکنا نہیں چاہتے تھے ، اور وہ اس پل صرف برہان کو اپنے قریب محسوس کرنا چاہتی تھی جو وہ چاہ کر بھی نہیں کر پا رہی تھی ؛۔

“ میں نہیں رہ پاہوں گئی تمہارے بنا ۔۔۔۔ کاش تمہارے حصے میں لکھا ہر زخم مجھے ملتا جاتا۔۔۔

کاش برہان کے میں تمہارے پاس ہوتی ، وہ تڑپتے خود سے چیخی تھی ،

آیت ۔۔۔۔۔!! شبانہ بیگم جو حور کے لیے دودھ لے کر جا رہی تھی ۔ 

آیت کے رونے کی آوازیں سن تڑپتے اسُکے روم میں داخل ہوئی اور ساتھ ہی لائٹ اون کی ۔ 

وہ گلاس ٹیبل پر رکھتی اپنی بیٹی کی طرف لپکی تھی جو برہان کی خون سے لت پت شرٹ خود سے لگائے ہچکیوں میں رونا شروع ہوئی تھی ۔۔ 

آیت ۔۔۔۔ بیٹا ۔۔۔۔ شبانہ کی آنکھیں خود بھری تھی وہ کیا حوصلہ دیتی اپنی بیٹی کو ۔۔۔ 

ماما ۔۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔ بہت ڈر ۔۔۔ لگ رہا ہے ۔۔۔۔ !! وہ مشکل سے ہچکیاں بھرتے بولی تھی ؛،۔

میں نہیں ۔۔۔۔!!! 

آیت ۔۔۔۔۔!! کیا ہوا ۔۔۔۔۔؟؟ سرحان جو عماد کی کال سن آیت کے پاس آیا تھا اُسکے حالت کو دیکھتے فکر سے شبانہ کو دیکھتے آیت کے ہاتھ میں شرٹ دیکھ حیران ہوا 

آیت اٹھو میرے ساتھ ہسپتال چلو ، سرحان نے بنا کچھ کہے اُسکو بازو سے پکڑتے کھڑا کیا ۔۔۔

چاچی آیت میرے ساتھ ہسپتال جائے گئی ، آپ ایسے کریں مجھے سب کے لیے ناشتہ دے دیں میں لے جاتا ہوں 

وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن یہ ابھی تو آئی ہے ، اس نے کل سے کچھ بھی نہیں کھایا پانی کا ایک گھونٹ بھی نہیں پیا 

چاچی میں اُسکو دیکھ لوں گا ، اُسکو ابھی میرے ساتھ جانے دیں ؛۔،

ضروری ہے سرحان نے اتنا سا کہتے بات ختم کی تو شبانہ اپنی بیٹی کو بے سُرت دیکھ اُسکا دوپٹہ سر پر درست کیا ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

جاو ۔۔۔۔ سرحان جو آیت کو لیتے ہسپتال واپس پہنچ چکا تھا ۔ 

سبھی کو ناشتہ دیتے آیت کو آئی سی یو کے باہر کھڑے دیکھ اندر جانے کا بولا ۔ 

آیت بھیگی پلکیں اٹھاتے سرحان کو دیکھنا شروع ہوئی تھی ۔ 

جیسے آنکھوں سے ہی سوال پوچھا تھا ، کیوں ۔۔۔؟ 

جاؤ نا ۔۔۔۔ وہ عماد کو آتے دیکھ اُسکو جانے کا بول گیا ؛۔ 

مجھے نہیں جانا ۔۔۔۔۔ وہ روتے مشکل سے کہہ پائی تھی وہ برہان کی وہ حالت دیکھ برداشت نہیں کر پا رہی تھی 

آیت ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا کہ برہان کے لیے اگلے چوبیس گھنٹے بہت خاص ہیں ۔ برہان ہمیں سن سکتا ہے ؛۔

تم پلیز برہان سے بات کرو ، وہ تمہیں ضرور سننے گا ، اسُکا ہوش میں آنا بہت ضروری ہے ۔۔۔

عماد جس کے ہاتھ میں کچھ پیپرز تھے سرحان کی طرف بڑھاتے آیت کو آگاہ کیا تو آیت ساکت سی شیشے سے پار برہان کو دیکھنا شروع ہوئی ۔ 

جبکے ویسے ہی مرے قدموں سے اندر داخل ہوئی ، آہستہ سے چلتے وہ مقابل کے بالکل قریب جاتی چئیر پر بیٹھی ؛۔۔

یہ پیپرز۔۔۔۔؟ سرحان نے چونکتے پوچھا ، یہ پیپرز چوہان انڈسٹری کے ہیں

میں نے سوچ لیا ہے ، اُن کو اُسکے سبھی شئیرز واپس خرید کر دوں گا ، 

اور جو برہان بے خریدے ہیں وہ بھی اُنکو واپس کروں گا 

یہ دشمنی میں آگے بڑھنے نہیں دوں گا جیسے ہی برہان ٹھیک ہو گیا یہی کام کروں گا ۔ 

مجھے اس میں تمہاری ضرورت ہے ، عماد نے تفیصل سے سرحان کو بتایا تو وہ ٹھٹکا ۔ 

جو ان لوگوں نے کرنا تھا وہ کر لیا ہے ، اب باری ہماری ہے وار کرنے کی ۔ 

کوئی شئیرز واپس نہیں کیے جائیں گئے ، وہ کوئی دودھ کی دھلے نہیں تھے ، 

کہ ان گھٹیا لوگوں پر ایسے ڈرتے رحم کر دیا جائے ، ابھی وار ہم کرے گئے اور میں دیکھوں گا وہ کیسے بچتے ہیں ۔

وعدہ ہے میرا۔۔۔ برہان کے آنکھیں کھولنے سے پہلے ان دونوں بھائیوں میں سے ایک کا جنازہ اٹھے گا ۔

وہ قہر برستی نگاہوں سے فائل کو لیتے وہاں سے گیا تو عماد جس کو لگا تھا سرحان عقل مندی دکھائے گا 

سر پکڑ بیٹھا ، کہ ابھی ایک کا حال دیکھ سمجھا نہیں جو یہ خود بھی اس میں پڑنے چلا گیا ہے ۔۔۔۔

آیت جو برہان کو تک رہی تھی بہتی آنکھوں کو صاف کرتے ہلکے سے چئیر کو آگے کرتی برہان کو غور سے دیکھ گئی 

وہ آکسیجن ماسک لگائے بے خبر سو رہا تھا ، جسم پر سینے پر پٹی باندھی گئی تھی ۔ 

دائیں ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی ، وہ ہر چیز سے بے خبر ہوا پڑا تھا ۔

آیت کانپتے ہاتھوں سے ہلکے سے برہان کی سخت ڈولے پر نازک سا ہاتھ رکھتے بیڈ کے قریب ہوئی 

اتنا قریب کہ وہ پوری طرح برہان کے بازو پر جھکی تھی ، بے آواز آنسو گرتے اُسکے بازو میں جذب ہونا شروع ہوئے 

وہ کیا بولتی ۔۔۔۔ الفاظ زبان تک ہی نہیں آ رہے تھے ، بولنے کی ہمت جیسے ختم ہو چکی تھی ؛۔

وہ تھوڑا سا مزید مقابل کے قریب ہوئی اس قدر کہ وہ برہان کے کان میں اپنی گرم سانسیوں کی تپش چھوڑنا شروع ہوئی ۔ 

“ وہ خود کو ایسے ہارتا ہوا محسوس بالکل بھی نہیں کروا سکتی تھی ، جلدی سے اٹھتے آنسو صاف کرتے خود کو مظبوط ظاہر کیا “ 

اور مقابل کے واپس سے قریب ہوتے بازو پر ہلکے سے سر ٹکاتے کان کے قریب ہوتے الفاظ جوڑنے لگی ؛۔ 

“ برہان ۔۔۔۔۔ آیت نے بہت مدھم سی آواز میں بولا ۔ 

جبکے آواز اس قدر نم تھی ، وہ مشکل سے نام لے پائی تھی ۔ 

میں کیسے کہوں ۔۔۔؟؟ آنکھیں خود سے ایک بار پھر بھیگی ۔ 

برہان آیت تمہارے بنا نہیں رہ سکتی ، تم نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ تم کبھی بھی ہمیں اکیلا نہیں چھوڑو گئے ، 

وہ بہتی سیلاب جیسی آنکھوں سے بچوں کی طرح بولنا شروع ہوئی تھی ؛۔

برہان ۔۔۔۔ محبت کا مطلب بھی نہیں جانتی تھی ، تب سے تمہیں چاہنے کی آرز دل میں پیدا کر بیٹھی ۔ 

میں کب تمہاری طرف جھکتی چلی گئی مجھے خود بھی اندازہ نہیں ہوا تھا ۔ 

دیکھو ۔۔۔۔ شاہ ۔۔۔۔ دیکھو مجھے ۔۔۔ آج میں تم سے اپنی محبت کا اقراء کر رہی ہوں ۔۔۔۔ 

ایک بار ۔۔۔ اپنی آنکھیں کھولو اور مجھے دیکھو ۔۔۔ میں کیسے تمہارے لیے تڑپ رہی ہوں ، برہان میں ماضی سب کچھ بھول جاؤں گئی ۔۔۔

بس تم میرے ساتھ رہنا ، میں کبھی بھی تمہیں تنگ نہیں کروں گئی ۔ پلیز خدا کے لیے اپنی آنکھیں کھولو ۔

جانتے ہو ، مجھے تمہاری ان نیلی جھیل جیسی آنکھوں سے عشق ہے ؛۔ 

بہت چاہتی ہوں تمہیں برہان ۔۔۔۔ پلیز میرے لیے اٹھ جاؤ ۔ 

وہ جو مظبوط بنتے بول رہی تھی ، روہانسا لہجا لیے اب رونے کا کام شروع کر چکی تھی ۔۔۔۔

آواز اک دم سے بھاری ہو چکی تھی گلا خشک ہو چکا تھا ، وہ بھیگی پلکیں مقابل کے چہرے پر ٹکائے منہ میں کچھ پڑھتے اُسکے چہرے پر پھوک  مار گئی ؛۔

تبھی عماد اندر آیا تھا ، آیت نے اپنا سر اٹھاتے آنے والے کو دیکھا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ شاہ ۔۔۔۔ چوہان کا چھوٹا بھائی یہاں میرپور میں ہی نظر آیا ہے ، 

اس وقت وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ ملتان جانے کے لیے آدھے گھنٹے بعد نکلنے والا ہے ۔۔۔

صفدر شاہ جو سرحان کے کہنے پر ساری نیوز اپنے خبری آدمیوں سے نکال چکے تھے ۔ 

اُسکو بتاتے آگاہ کیا ، کاشف لوگ جو سرحان کے قریب ہی کھڑے تھے 

حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھتے سرحان کو دیکھا ، خون کے بدلے خون بہنا چاہیے ۔ ۔۔۔۔

صفدر شاہ نے قہر بھری نظروں سے سوچتے سرحان کے کندھے پر دباو دیا تو وہ کاشف اور ہاشم کو ساتھ آنے کا بولتے آگے بڑھا ۔ 

عماد سر کو بتائیں ۔۔۔۔؟ کاشف اپنی پسٹل کو لوڈ کرتے گاڈرز کو ہدایت دیتے ہاشم سے سرگوشی کرتے پوچھا گیا 

میں بھی اسی حق میں ہوں کہ ان کو سبق خون بہا کر دیا جائے ، 

بہروز چوہان کی بھی زمین ایسے ہی گھومتی ہوئی نظر آنی چاہیے جیسے اُس نے ہماری ہلا کر رکھ دی۔ 

ہاشم نے بھی اپنا پسٹل لوڈ کیا تھا اور کاشف کو اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا ۔ 

خادم کو میسج کر دیا گیا تھا کہ جو کچھ مرضی ہو جائے تم برہان کے روم میں کسی بھی اجنبی کو جانے نہیں دو گئے 

چاہیے کوئی پارٹی کا آدمی ہی کیوں نا آیا ہو ۔ 

سرحان اپنی ایک ٹیم بناتے قافلے کی صورت میں ہسپتال سے نکل چکا تھا 

تبھی اُسکے فون پر میسج کی بیٹ ہوئی تھی ، اُسکے آدمیوں نے اپنا کام کر دیا تھا ۔ 

وہ میسج ٹائپ کرتے ان کو سیدھا میرپور کے گاوں میں ڈیرے پر لانے کا حکم دے گیا ۔ 

گاڑی سڑک پر دوڑتی ہر منظر چھوڑتی جا رہی تھی ۔

اور وہ لوگ آدھے گھنٹے بعد ہی گاوں پہنچے تھے ۔ گاڑی تیز سپٹڈ کیے ڈیرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

سرحان قہر آنکھوں میں بھرے گاڑی سے نکلا تو اُسکے آدمی بھاگتے گاڑی کا دروازہ کھول سامنے ہی لائن میں کھڑے ہوئے 

کاشف اور ہاشم بھی سرحان کے پیچھے ہی ڈیرے کے اندرونی بند حصے کی طرف بڑھے ۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔!! بہروز چوہان کا چھوٹا بھائی مہروز دھاڑتے چیخا کھڑے آدمی پر بھڑکا ۔۔۔

اتنی بھی کیا جلدی ہے ، رہائی کی ۔۔۔۔؟ کچھ وقت اپنا ہمیں بھی دو ۔۔۔!! تاکہ ہم تمہارے بدن میں لگی آگ کو ختم کر سکیں ۔

سرحان جو سخت قدموں سے چہرے پر قہر لیے روم میں داخل ہوا تھا ؛۔ 

اُسکو قہر بھری نظروں میں رکھتے چئیر پر استرائیہ انداز میں ٹانگ پہ ٹانگ جمائے طنزیہ تیر پھینک زہر خند مسکراہٹ بھی اچھال گیا ۔۔۔۔

مہروز چوہان کا خون طش مار اٹھا تھا لیکن وہ مجبور تھا ابھی اُسکے ہاتھ رسیوں سے باندھے کھنٹوں کے بل بٹھایا گیا تھا 

اُسکے سبھی ساتھیوں کو وہاں سے اُسکے پاس سے گھیسٹتے باہر لے جانا شروع ہوئے ۔ ساتھ ہی سرحان کی آنکھوں کا اشارہ سمجھ کھڑکیوں کے پردے سلکتے ایک سائیڈ پر کیے گئے ۔ 

ہاشم لوگ اپنی پسٹل جو لوڈ کیے ہوئی تھی لیتے باہر نکلے تھے ۔ 

وہ سب اپنی بھیگ مانگ رہے تھے اور ہاشم نے کرب سے اپنے مالک کا چہرہ یاد کرتے ماتھے پر پسٹل رکھتے گولی چلائی 

تو کاشف اور سرحان کے ایک خاص آدمی نے بھی گن سے فائر نکال پرندوں کو خاموش درختوں سے چہچاتے اڑنے پر مجبور کیا ۔۔۔۔۔

فضا میں گولی کی آواز ایک ساتھ چلتے اپنا قہر پھیلا گئی ، تو اندر بیٹھے مہروز چوہان نے بے یقینی سے سرحان کو دیکھا تھا ؛۔

یہ کون تھا ۔۔۔۔! وہ انجان تھا ۔۔۔۔! ابھی تو وہ اُسکے لانے کی وجہ بھی نہیں جان سکا تھا ۔ 

کون ۔۔۔۔ ہو تم ۔۔۔۔؟ وہ مشکل سے توک نگلتے لڑکھڑاتے آواز سے پوچھ سکا تھا ۔۔۔۔

میں کون ہوں تمہارے لیے جاننا کسی کام آنے والا نہیں ۔ چونکہ تمہارا حال بھی ویسا ہی ہونے والا ہے 

جیسا تمہارے ان آدمیوں کا ہوا ہے ، ابھی صرف تم میرے سوال کا جواب دو ۔

سرحان جو اپنی پسٹل کو رومال سے سرسری سا صاف کرنا شروع ہوا تھا 

مہروز چوہان اور اُسکے ساتھ بیٹھے ایک گوے نما کو دیکھتے پسٹل سیدھی ان پر ہوا میں ٹکاتے ایک آنکھ بند کرتے نشانہ باندھا ۔۔۔۔۔

 دونوں کا خوف سے برا حال ہوا تھا ۔ دیکھو ۔۔۔تم کس چیز کی دشمنی نکال رہے ہو ۔۔۔؟ 

مہروز چوہان ہمت کرتے ٹوٹے آواز سے بولا تو سرحان نے تاسف سی سفاک مسکراہٹ اچھالی ۔ 

“ ہمارے دل پر زخم بھی کرتے ہو ، اور پوچھتے ہو کہ گناہ کیا ہے ۔۔؟ 

وہ پسٹل میں گولی ڈالتے اب کہ اُسکو لوڈ کر گئے تو مہروز کے ماتھے پسینے کی بوندیں نمایاں ہوئی ، جو اُسکے اندر کا خوف اچھے سے عیاں کر رہی تھی ؛۔

تم میں سے برہان شاہ پر گولی کس نے چلائی تھی ، وہ اک دم سے سپاٹ ہوا تو مہروز چوہان کو سیکنڈ نا لگے تھے 

اور وہ بات کی تہ تک پہنچ گیا ۔ کہ بدلا لیا جا رہا ہے ۔ 

ہاشم تمہیں کیا لگتا ہے کون تھا ۔۔۔؟ سرحان نے ہاشم کو مخاطب کیا تو بنا دیر کیے گولے کے سر پر ناز ہوا ۔ 

سرحان نے بروان آنکھوں سے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا تو اُسکے ہاتھوں کو ٹیبل پر رکھتے باندھے 

کس ہاتھ سے گولی چلائی تھی ، وہ پسٹل سے ہی اُسکے ہاتھ کی ضرب لگاتے گویا 

گوے نے پلیز ۔۔۔۔ کرتے ایم سوری کا ورد پڑھنا شروع کیا تو سرحان نے پسٹل سے گولی چلاتے اُسکے ہاتھ پر ہمشیہ کا درد دیا

اُسکی چیخیں گونجی تھی ، کس کو کسی خاتے میں نا لایا گیا تھا ؛۔

 مہروز چوہان جو نیچے بیٹھا ہوا تھا اُسکو تڑپتے دیکھ لرز اٹھا ۔ 

“ برہان شاہ کو مارنے کے لیے اتنی دور سے آدمی کو بلانے کی ضرورت کیا تھی۔۔؟ 

یہ کام تو تم خود بھی کر سکتے تھے ۔۔۔۔؟ تمہیں کیا لگا تھا کہ ایسے اُسکو گولی مارنے سے وہ مر جائے گا ۔۔۔؟ 

اب رخ مہروز کی طرف تھا ، جبکے ہاشم اُس گوے کے سر پر نشانہ باندھتے اُسکو فارغ کر چکا تھا ؛۔ 

میرا بھائی تمہیں چھوڑے گا نہیں ، اب وہ ڈرتے سامنے وجیہ شخص کو باتوں سے ڈرنا شروع ہوا 

کہ شاید وہ ڈر جائے ، لیکن وہ ابھی کہاں جانتا تھا شاہوں کے چراغوں کے کارنامے اور قصے ۔۔۔۔۔

سرحان کا چہرہ جو غصے سے لال ہوا تھا ، اُسکے بھائی والی بات سن پسٹل سے گولی چلاتے اُسکے بازوں کو زخمی کیا ؛۔ 

وہ درد سے کراہ اٹھا تھا ، سرحان نے اُسکو بالوں سے پکڑتے کھینچا تو وہ گرنے والے انداز میں آگے کو گرا ز

کیا اتنی ہی برداشت تھی ۔۔۔؟ جانتے ہو برہان شاہ میں  جتنی طاقت وار کرنے کی اُتنی ہی طاقت سامنے والے کے زخموں کو سہنے کی بھی ہے ؛۔

تمہارا بھائی تمہاری موت سے ہماری طاقت اور غصے سے حد کو اچھے سے سمجھ جائے گا ، اگر جان پیاری ہوئی تو پھر مڑ  کر بھی نئیں دیکھے گا 

اور اگر وہ بھی تم جیسے ہماری طرف بڑھا تو اُسکا حال بھی یہی ہوگا ۔

تمہیں اور تمہارے بھائی کو ہم شاہوں سے الجھنے سے پہلے ہماری  ہسٹری دیکھ لینی چاہیے تھی ۔ 

اس سے پہلے وہ اپنی زبان کھولتا تھا سرحان کا صبر جیسے لبریز ہوا اور دیکھے ہی فائز نکالتے اسُکو خاموش کروایا ؛۔ 

سبھی لاشوں کو پھینک آو ، اُسکو اپنے بھائی کی لاش دیکھنا بھی نصیب نا ہو ۔ 

سرحان دو ٹوک اپنے آدمی سے کہتے آگے بڑھا تو ہاشم لوگ بھگ  دار ہوتے پیچھے ہی لپکے ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 

میں نے پوچھا تھا اور کہاں بھی تھا کہ لائکس دو ایپی پر ، نہیں دئیے تو ایپی واپس سے ویب پر پوسٹ ہو گئی 






This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

1 comment:

Post Bottom Ad

Pages