Qaid E Yaram By Ayma Mughal New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Qaid E Yaram By Ayma Mughal New Complete Romantic Novel |
Novel Name: Qaid E Yaram
Writer Name: Ayma Mughal
Category: Complete Novel
ایمل ، ایمل کہاں ہو تم یاررر ،، اتنا ٹائم بھی کوئی لگاتا ہے کیا تیار ہونے میں ،، حد ہو گئی ایک گھنٹے سے تمہارے پانچ پانچ منٹ ختم نہیں ہو رہے ۔۔۔
عنایہ غصے سے بھری ایمل کے کمرے میں داخل ہوئی تھی جو نیچے کب سے اس کا انتظار کرتے کرتے تھک ہار کر اوپر اس کے کمرے میں آئی لیکن اس پہ نظر پڑتے ہی ہونٹ O کی شیپ میں کُھلے تھے۔۔۔
بیوٹیفل ،، گورجیس ،، کمال۔۔۔
آج تو کسی نہ کسی کو مار ہی ڈالو گی تم لڑکی۔۔۔
ایمل کو تیار دیکھ اس کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
ایمل بےبی پنک کلر کی لانگ میکسی پہنے ،،، بالوں کو جوڑے کی شکل دیے لیکن کچھ کرلی آوارہ لٹیں چہرے پہ گستاخیاں کرتی نظر آ رہیں تھیں ،، بھوری آنکھیں جن پہ آئی لائنر لگا کر ان کو مزید ابھارا گیا تھا ۔۔۔۔
وہ پہلی نظر میں ہی اپنی خوبصورتی اور پرسنیلٹی کی وجہ سے کسی کو بھی اپنا اسیر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔
ہیلو ،، عنایہ کدھر کھو گئی چلنا نہیں ہے کیا۔۔۔
ایمل ڈریسنگ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھائے ہاتھ میں پکڑے اس کے سامنے ہاتھ ہلا ہلا کر اس کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔۔۔۔
ہاں ہاں چلو ،، عنایہ گڑبڑا کر ہوش میں آئی تھی۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہو تم ایمل جان ،،عنایہ نے اس کی گال پہ کس کی جس پر ایمل کھلکھلا کر ہنسی ،،، تم بھی کسی ماڈل سے کم نہیں لگ رہی ایمل نے اسے آنکھ ماری۔۔۔۔
عنایہ نے بھی ریڈ اینڈ وائیٹ کلر کا ٹاپ پہن رکھا تھا۔۔۔۔
اس نے بھی زرا گردن اکڑاتے اس کی داد وصول کی اور پھر وہ بھی ہنستی اس کا ہاتھ پکڑے دونوں نیچے چلی آئیں جہاں باسم کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔
واہ ،،، آج تو کچھ لوگ بجلیاں گرا رہے ہیں خیر تو ہے ناں۔۔۔
باسم نے ایمل کی تیاری دیکھتے اسے چھیڑا تھا۔۔۔
خیر سے کم تو آپ بھی نہیں لگ رہے مسٹر باسم۔۔۔ کہیں لڑکیاں وڑکیاں پٹانے کا ارادہ تو نہیں جناب کا ۔۔۔
ایمل نے اپنی بھوری کانچ جیسی آنکھوں کو گول گول گھما کر اس پر بھی لطیف سا طنز چھوڑا جس پر باسم نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا ۔۔۔
اب تم دونوں نے ایک دوسرے کو تنگ کر لیا ہو تو چلیں۔۔۔
عنایہ نے دونوں کی نوک جھونک پہ ہنستے اب دونوں کو شرم دلوائی کیونکہ وہ آلریڈی بہت لیٹ ہو گئے تھے۔۔۔
جس پر وہ تینوں ہنستے باہر کی طرف چل دیے آج ایمل کی سالگرہ تھی جس کو سیلبریٹ کرنے کے لیے تینوں ایک ریسٹورنٹ میں جا رہے تھے جو باسم اور عنایہ کی طرف سے ایمل کے لیے ارینج کیا گیا تھا ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
یہ راجپوت ہاؤس ہے جہاں دو فیملیز مقیم ہیں۔۔۔
احسن صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔۔۔
سب سے بڑے بیٹے علی احسن پھر سنان احسن آخر پہ نازیہ احسن ۔۔۔۔
علی احسن کی شادی احسن صاحب کی بھتیجی زیمل سے جبکہ سنان احسن کی شادی احسن صاحب کی بھانجی نویرہ سے ہوئی ہے۔۔۔۔
علی احسن اور زیمل بیگم جن کی دو اولادیں ہیں باسم علی اور عنایہ علی۔۔۔
سنان صاحب اور نویرہ بیگم کی ایک ہی اولاد ہے ایمل سنان۔۔۔۔
جبکہ نازیہ احسن کی شادی ان کی مرضی سے ان کے کلاس فیلو زید ملک سے ہوئی ان کے بھی تین بچے ہیں
حسان زید ملک ،، حسنین زید ملک اور انابیہ زید ملک۔۔۔۔
ایمل میڈیکل یونیورسٹی کے لاسٹ ائیر میں زیر تعلیم ہے وہ خود کو فیوچر میں ٹاپ ڈاکٹرز کی لسٹ میں دیکھنا چاہتی ہے۔۔۔
عنایہ بھی اسی یونیورسٹی میں ایف ایس سی (میڈیکل) کی سٹوڈنٹ ہے جسے ڈاکٹری کا شوق تو نہیں لیکن وہ ایمل سے زیادہ اٹیچ ہونے کی وجہ سے اسی کے ساتھ پڑھ رہی ہے۔۔۔
باسم اپنی پڑھائی پوری ہونے کے بعد ایک اچھے سے آفس میں مینیجر کی پوسٹ پہ کام کر رہا ہے اور بہت جلد وہ اپنا آفس کھولنے کی نیت رکھتا ہے۔۔۔۔
زیمل بیگم اور نویرہ بیگم کا بھی آپس میں بہت پیار ہے ان کی ہی وجہ سے یہ گھر خوشیوں سے گھرا ہوا ہے اور بچوں کا آپس میں پیار سونے پہ سہاگے جیسا ہے۔۔۔۔
نویرہ بیگم چائے کا کپ لیے احسن صاحب کے روم میں داخل ہوئیں جو کرسی پہ بیٹھے کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔۔۔۔
چائے کا کپ میز پہ رکھتے انہوں نے احسن صاحب کو پہلے پانی کا گلاس اور دوا دی جو انہوں نے آرام سے لے لی کیونکہ وہ جانتے تھے اگر نہیں لی تو ایمل کی ڈاکٹری پھر سے ان پہ شروع ہو جائے گی۔۔۔
بچے کدھر ہیں آج نظر نہیں آ رہے احسن صاحب نے نویرہ بیگم سے پوچھا جو ان کے کمرے کی بیڈ شیٹ درست کر رہیں تھیں۔۔۔۔
سب باہر گئے ہوئے ہیں ایمل کی آج سالگرہ ہے تو عنایہ اور باسم نے اس کے لیے کوئی سرپرائز پلان کیا ہے ۔۔۔
نویرہ بیگم انہیں تفصیل سے آگاہ کرتی کچھ دیر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔۔
احسن صاحب نے ہاں میں سر ہلاتے کتاب بند کر کے ٹیبل پہ رکھی اور چائے کا کپ اٹھا لیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ملک ولا۔۔۔
نو ، نو ، انابی ایسا مت کرنا پلیز دیکھو تم میری چھوٹی سی چوہیا ۔۔۔ اوپسسسس سوری سوری میری چھوٹی سی پیاری سی بہن ہو نہ میرے نوٹس خراب مت کرو ، میں چلتا ہوں نہ تمہارے ساتھ۔۔۔۔
انابیہ تیار شیار ہو کر آدھے گھنٹے سے حسنین کی منتیں کر رہی تھی اسے بھی ایمل کی برتھڈے پارٹی میں ریسٹورنٹ جانا تھا لیکن وہ اپنے نوٹس بنانے میں مگن تھا اور دو دو منٹ کا بول کے آدھا گھنٹہ گزار گیا۔۔۔
اب جگ پانی کا لیے انابیہ اس کے سر پہ کھڑی تھی جو غصے میں اس کے نوٹس پہ گرانے والی تھی۔۔۔
حسنین نے ایک منٹ سے بھی کم ٹائم میں سب سمیٹا اور بالوں میں ہاتھ پھیرتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
چلو اب چوہیا خود لیٹ کروا رہی ہو وہ جلدی سے کہتا باہر بھاگا مبادہ کہیں اب وہ جگ پانی کا اس پہ ہی نہ پھینک دے۔۔۔
انابیہ جگ کو ٹیبل پہ رکھتی بعد میں اپنی توہین کا بدلہ لینے کا سوچتے پیر پٹکتی باہر آ گئی ۔۔۔۔
انابیہ سب سے چھوٹی اور اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے سب کی لاڈلی ہے۔۔۔۔
حسنین اور انابی تو بالکل بچوں کی طرح لڑتے جھگڑتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے پیار بھی بہت کرتے ہیں انہی کی وجہ سے گھر میں رونق لگی رہتی ہے۔۔۔
لیکن حسان زید ملک کی جان انابیہ میں بستی ہے جو کسی کو اسے اف تک نہیں کہنے دیتا۔۔۔۔
وہ لیپ ٹاپ کو گود میں رکھے تیزی سے کی پیڈ پہ انگلیاں چلا رہا تھا جب دروازہ ناک ہوا۔۔۔
یس کمنگ۔۔۔۔
مصروف سی اور رعب دار آواز میں اجازت دی گئی ساتھ ہی زرا سی آنکھیں ٹیڑھی کر کے کمرے میں آنے والی شخصیت کو دیکھا تو لبوں پہ گہری مسکان نے احاطہ کیا۔۔۔۔
گال پہ پڑتے ڈمپل نے اپنی جھپ دکھلائی جو خاص لوگوں کے لیے ہی تھا۔۔۔
مام آپ بغیر اجازت کے بھی اندر آ سکتی ہیں ۔۔۔
لیپ ٹاپ کو شٹ ڈاؤن کرتے سامنے شیشے کے میز پہ رکھتے وہ پوری طرح سے ان کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
نازیہ بیگم بھی مسکرا دیں اور اس کے پاس آ بیٹھں ،،، ایک نظر اپنے خوبرو جوان بیٹے پہ ڈالی۔۔۔
وائیٹ شرٹ اور بلیک پینٹ پہنے ،،،بازوؤں کو کہنیوں تک فولڈ کیے ،، ہاتھ میں برینڈڈ گھڑی پہنے ،، بالوں کو مخصوص سٹائل دیے ،، نیلی آنکھوں سے سب کو اپنے سحر میں جکڑنے والا کسی ریاست کا شہزادہ معلوم ہوتا تھا
سب سے خوبصورت اس کا دائیں گال پہ پڑتا ڈمپل تھا جس کا نظارہ کبھی کبھی ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔۔۔
"what happened Mom"...?
حسان نے انہیں کھوئے ہوئے دیکھتے پوچھا۔۔۔
وہ بیٹا جی میں آپ کو یاد دلانے آئی تھی کہ آج ایمل کا برتھڈے ہے تو اسے وش کر دینا ،، ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ بچی کہیں انتظار ہی نہ کرتی رہ جائے ۔۔۔
بلکہ شام کو ہم دونوں چلتے ہیں سب سے مل بھی لیں گے اور اسے وش بھی کر دیں گے۔۔۔
اب منع مت کرنا۔۔۔
نازیہ بیگم نے اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اسے مصنوعی گھوری دے ڈالی تھی ۔۔۔
اوکے مام ، آپ کا حکم سر آنکھوں پر ۔۔۔
اس نے ہلکا سا سر کو خم دیتے جانے کی رضامندی دے دی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے تم جلدی سے کام ختم کر لو پھر چلتے ہیں۔۔۔ نازیہ بیگم خوشی خوشی واپس چلی گئیں۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
وہ تینوں اس وقت ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھے دیے گئے آرڈر کے انتظار میں بیٹھے تھے ،،، دھیمی آواز میں چلتے میوزک نے ماحول میں الگ ہی سرور پیدا کیا ہوا تھا۔۔۔
بھاؤ۔۔۔۔
عنایہ ایمل سے کسی بات پر محو گفتگو تھی جب پیچھے سے اچانک کوئی اس کے کان کے پاس چیخا تو وہ ڈرتی دو فٹ اوپر اچھلی۔۔۔
کون ہے یہ جاہل آدمی ،،، وہ خود پر قابو پاتی غصے سے پیچھے مڑی جہاں حسنین نے اس کی پتلی ہوئی حالت دیکھ قہقہہ لگایا ۔۔۔
یو۔۔۔۔ ایڈیٹ ،نان سینس اگر میرا ہارٹ فیل ہو جاتا تو میں تمہیں چھوڑتی نہیں جنگلی انسان ۔۔۔
وہ دانت نکالتا اس کے ساتھ ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا جبکہ عنایہ کو ناچاہتے ہوئے بھی باسم کے ساتھ پڑی خالی کرسی پر بیٹھنا پڑا۔۔۔۔
کیسی ہو بونی۔۔۔؟
باسم نے اس کی دکھتی رگ پکڑی جس پر وہ بس اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔
سب کزنز میں سے اس کا قد چھوٹا ہونے پر باسم اسے بونی کا لقب دے چکا تھا جس پر وہ بےتحاشا چڑتی تھی۔۔۔
تم۔۔۔
تم نہیں آپ بولا کرو مجھے بونی۔۔۔
باسم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے وارننگ دیتے اس کا حلق خشک کر دیا تھا۔۔۔
آپ مجھ سے بات مت کیا کریں۔۔۔
انابیہ نے پھر بھی اپنے تئیں اسے گھوری دیتے بات مکمل کی تھی۔۔۔
جس پر باسم کے ہونٹوں کو گہری مسکان نے چھوا لیکن وہ بڑی مہارت سے اسے چھپا گیا۔۔۔
اسے مزہ آتا تھا انابیہ کو تنگ کرنے میں اسے خوامخواہ چڑانے میں تبھی وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔۔۔۔
پھر وہ سب ایمل کی برتھڈے سیلبریٹ کر کے خوبصورت یادیں بناتے وہاں سے نکل کر گھر کو چل دیے ۔۔۔۔
مام انابیہ اور حسنین کہاں ہیں وہ نہیں چلیں گے ساتھ۔۔۔۔؟
حسان نے اچانک یاد آنے پر پوچھا۔۔۔
وہ دونوں تو کب کے چلے گئے ،، ایکچولی باسم اور عنایہ نے ایمل کے لیے سرپرائز پلان کیا تھا تو ان دونوں کو بھی بلا لیا ۔۔۔
نازیہ بیگم لاؤنج میں بیٹھی گفٹس وغیرہ دیکھ رہی تھیں جو انہوں نے ایمل کے لیے منگوائے تھے۔۔۔
اوہہہہہ۔۔۔۔
اوکے مام ، پھر میں ریڈی ہو کر آتا ہوں ،، وہ کہتا ہوا واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں راجپوت ہاؤس کے لیے نکل گئے۔ راستے میں حسان نے ریڈ گلاب کا بکے اور کیک وغیرہ لیا آج وہ اس کی ساری ناراضگی ختم کرنا چاہتا تھا ۔۔۔
اسلام و علیکم بھابھی جان۔۔۔
نویرہ بیگم اور زیمل بیگم لاؤنج میں بیٹھی باتیں کر رہیں تھیں جب نازیہ بیگم اور ان کے پیچھے ہی حسان اندر داخل ہوئے ۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔
ارے نازیہ تم کب آئی ،،، آج کیسے یاد آ گئی ہماری آؤ بیٹھو زیمل بیگم نے اپنے پاس ہی اسے جگہ دی ،،، حسان احسن صاحب کا پوچھتے ان کے کمرے کی طرف رخ کر گیا جبکہ نویرہ بیگم کیچن میں چائے پانی کا انتظام کرنے چلی گئی ۔۔۔۔
پھوپھو جان وٹ آ سرپرائز۔۔۔
وہ سب ایک ساتھ گھر میں داخل ہوئے جب ایمل کی نظر لاؤنج میں بیٹھی نازیہ بیگم پر پڑی تو وہ تقریباً بھاگتی ہوئی ان کے پاس پہنچی اور ان کے گلے کا ہار بن گئی۔۔۔
میری بچی کی سالگرہ تھی تو کیوں نہ آتی میں بھلا ، نازیہ بیگم نے پیار سے اسکی گالوں کو چوما۔۔۔۔
باسم اور عنایہ بھی ان سے مل کر وہیں بیٹھ گئے حسنین اور انابیہ بھی ادھر ہی چلے آئے تھے۔۔۔
یہ لو یہ سب گفٹس تمھارے لیے یہ کیک اور بکے حسان کی طرف سے۔۔۔
آج بھی آپ کا اکڑو بیٹا نہیں آ سکا نہ پھوپھو یہ لے جائیں واپس مجھے نہیں چاہیے۔۔۔
ایمل منہ بسورتی رخ موڑ گئی دل ایک دم سے اداس ہو گیا سوچا تھا آج ہی کم از کم اس دشمن جاں کا دیدار کر لے گی لیکن بے سود۔۔۔
میں چینج کر کے آتی ہوں وہ کہتی سیڑھیاں چڑھ گئی نازیہ بیگم ارے ارے کرتی رہ گئیں۔۔۔
حسان احسن صاحب کا ہاتھ پکڑے انہیں لاؤنج میں لا رہا تھا جب تیزی سے ایمل کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھ سر نفی میں ہلا گیا۔۔۔
احسن صاحب کو بٹھاتے وہ سب سے ملا پھر کیک اور بکے اٹھائے اس کے پیچھے ہی اوپر چلا گیا۔۔۔۔
ایمل کا موڈ بری طرح آف ہوا تھا کمرے میں آ کر ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی بلا وجہ چیزوں کو پٹک رہی تھی ۔۔
ایمل۔۔۔۔
کیوں ان بے جان چیزوں پہ غصہ نکال رہی ہو یارر۔۔۔
یہ آواز تو وہ ہزاروں آوازوں میں بھی پہچان سکتی تھی ایک دم اس کے ہاتھ ساکت ہوئے اور اس نے مڑ کر دیکھا جو دروازے کے بیچ و بیچ بکے اور کیک ہاتھ میں پکڑے اسی کو بغور دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
آ---آپ کب آئے وہ اچانک اسے دیکھ ہڑبڑا گئی ۔۔۔
اس نے آگے بڑھ کر کیک اور بکے ٹیبل پہ رکھا پھر اس کی طرف متوجہ ہوا جب تم مجھے دل ہی دل میں صلاواتیں سنا رہی تھی ہے نا۔۔۔۔
تمہے لگا میں آج بھی نہیں آؤں گا۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے چلتا اس کے قریب جا رہا تھا اور وہ وہیں بت بنی کھڑی اپنے ہاتھوں کو مڑور رہی تھی ،،، اس کے سامنے آتے ہی وہ ایسے نروس ہو جایا کرتی ۔۔۔
ہیپی برتھڈے ایمل ،،، اسے بازو سے کھینچتے وہ ٹیبل کے پاس لایا۔۔۔۔
ابھی وہ کیک کٹ کرتے اس سے پہلے ہی اس کا موبائل بج اٹھا۔۔۔
سکرین پہ آنے والی کال نے اسے مسکرانے پہ مجبور کر دیا اور وہ سب وہیں چھوڑتا لاؤنج سے گزرتا لان میں چلا آیا۔۔۔۔
پیچھے ایمل منہ کھولے اسے جاتے دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔
ہیلو جانم۔۔۔۔
کوئی کہہ رہا تھا وہ خود سے کال کبھی نہیں کرے گی تو آج کیسے یہ ہمت کر لی۔۔۔
دوسری طرف جواب سنتے وہ کھل کر مسکرایا تھا۔۔۔۔
ابھی پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں
اوکے بائے۔۔۔۔۔
مام مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے آپ حسنین کے ساتھ گھر چلے جائیے گا وہ بتاتا ہوا فوراً وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ایمل ، عنایہ آ جاؤ یار میں لیٹ ہو رہا ہوں ابھی تم دونوں نہیں آئیں جلدی تو میں چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔۔
باسم کب سے ان کے انتظار میں نیچے کھڑا بار بار کبھی کلائی پہ بندھی گھڑی کو دیکھتا تو کبھی سیڑھیوں کی طرف کہ وہ کب نیچے آتیں ہیں ۔۔۔
نویرہ اور زیمل بیگم ٹیبل پر ناشتہ لگا رہی تھیں سنان صاحب لاؤنج میں بیٹھے اخبار کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے۔۔۔
کوئی بھی باسم کی دہائیوں پر دھیان نہیں دے رہا تھا کیونکہ یہ تو روز کا معمول تھا باسم کا ایسے دھمکیاں دینا ایمل اور عنایہ کا روز لیٹ ہونا۔۔۔
برخوردار کیوں خود کو تھکا رہے ہو تم جانتے تو ہو وہ تمہاری دھمکیوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتی انہیں یقین ہے کہ تم انہیں چھوڑ کر نہیں جاؤ گے۔۔۔
سنان صاحب کی بات سن کر باسم مسکرا دیا دونوں میری ذمے داری ہیں چاچو تو کیسے انہیں اکیلا چھوڑ کر چلا جاؤں۔۔۔
اتنے میں وہ دونوں بھی بھاگتی ہوئی نیچے آئیں باسم نے مصنوعی سا گھورتے ان کو چلنے کا کہا۔۔۔
ارے ناشتہ تو کرتے جاؤ زیمل بیگم نے آواز لگائی جس پر عنایہ مما یونی میں کھا لیں گے کچھ کہتی ہوئی تیزی سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
باسم انہیں یونی چھوڑتے آفس کے لیے نکل گیا۔۔۔
عنایہ آسائمنٹ تیار ہو گئی کیا تمہاری ۔۔۔؟
حسنین نے اسکے ساتھ والی چئیر پر بیٹھتے ہی اسے مخاطب کیا تھا جبکہ عنایہ اسے فل اگنور مارتے ہوئے ارحا اور فضا کو اپنی کل کی برتھڈے پارٹی کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔
عنایہ اس کی ریسٹورنٹ والی حرکت پہ ابھی تک منہ پھلائے مکمل بائکاٹ کر کے بیٹھی تھی۔۔۔
اسکے جواب نہ دینے پہ حسنین نے اچھا خاصا برا منایا تھا ،،،، اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ خود کو کالم ڈاؤن کر گیا۔۔۔
اس چڑیا کے پر کاٹنے ہی پڑیں گے بڑی ہواؤں میں اڑتی پھر رہی ہے یہ اب اتنی بھی کیا ناراضگی ایک چھوٹا سا مزاق ہی تو کیا تھا ،، ہونہہہ۔۔۔
حسنین سیٹی بجاتا اب ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جب اس کی نظر عنایہ کے ادھ کھلے بیگ کی طرف گئی چپکے سے اس کی آسائمنٹ نکال کر اپنے بیگ میں ڈالی پھر ارحم اور سعد کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سر کلاس میں اینٹر ہوئے اور سب کی آسائمنٹ جمع کرنی شروع کر دیں جب عنایہ پریشان سی اپنے ناخنوں کو دانتوں سے کترتی اب حسنین کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔
حسنین ،،، سنین سنو نہ مجھے میری آسائمنٹ نہیں مل رہی میں نے تو بیگ میں ہی رکھی تھی ۔۔۔
نمکین پانیوں سے لبالب بھری آنکھوں سے دیکھتی وہ اسے چھوٹی بچی ہی لگی جو اپنی چھوٹی سی چیز کے بھی گم ہو جانے پہ رو پڑتی ہے۔۔۔
تو میں کیا کروں ،،، وہ آرام سے کندھے اچکا گیا۔۔۔
آج بچا لو پلیز میں پکا ناراض نہیں ہوں گی تم سے ورنہ سر مجھے نہیں چھوڑیں گے آج۔۔۔
اوکے میں کچھ سوچتا ہوں وہ ہونٹوں پہ انگلی رکھتے سوچنے کی ایکٹنگ کرنے لگا ۔۔۔
ہاں آئیڈیا ، وہ ایک دم اس کی طرف مڑا۔۔۔۔
ایسا کرو تم میری آسائمنٹ لے لو اور اس پہ اپنے نام کا ٹائٹل پیج چپکا دو میں اپنی بعد میں جمع کروا دوں گا اب تم میری کزن ہو اتنا تو کر ہی سکتا ہوں تمہارے لیے۔۔۔۔
تم کتنے اچھے ہو حسنین تھینک یو ۔۔۔
عنایہ نے خوشی سے اچھلتے اب اس کا شکریہ ادا کیا جب حسنین نے فرضی کالر جھاڑتے داد وصولی۔۔۔
اب تم مجھے کینٹین لے جا کر برگر کھلاؤ گی اوکے۔۔۔
اب خون پسینے کی محنت تمہے دی ہے اتنا تو حق بنتا ہے میرا ،،، حسنین نے آنکھیں گھماتے اسے بات سنائی۔۔۔
باقی سب تو ٹھیک یہ خون پسینے کی کمائی تو سنا تھا آج پہلی بار خون پسینے کی محنت سن رہی عنایہ نے ہنستے ہوئے اس کے بال بگاڑے۔۔۔
مس ایمل بات سنیں گی۔۔۔؟
ایمل کوریڈور سے گزر رہی تھی جب اس کے کلاس فیلو نومی نے اچانک اسکے سامنے آتے اس کا راستہ روکا۔۔۔
تمہاری بکواس سننے کا میرے پاس ٹائم نہیں ہے ہٹو سامنے سے مجھے جانے دو میں لیٹ ہو رہی ہوں۔۔۔
ایمل نے اسے ٹکا سا جواب دیا تھا وہ سائیڈ سے ہوتی گزرنے لگی جب پھر نومی نے اس کا سفید مومی ہاتھ اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔۔۔
میرا ہاتھ چھوڑو ،، ایمل خونخوار نظروں سے اسے گھورتی اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی۔۔۔
تمہیں میری بات سمجھ نہیں آتی میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں بلبل اور تم ہو کے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے۔۔۔
نومی نے ہوس زدہ نظروں سے اس کے پورے بدن کا جائزہ لیا ہاتھ ابھی بھی اس کی گرفت میں پھڑپھڑا رہا تھا۔۔۔
چٹاخ۔۔۔
ایمل نے ایک زوردار تھپڑ اسکی گال کی زینت بنایا ۔۔۔
آئندہ میرے راستے میں مت آنا ،،، ایمل وارن کرتی اسے اپنا ہاتھ چھڑوا کر وہاں سے بھاگ گئی۔۔
تجھے تو میں دیکھ لوں گا سا۔۔۔۔۔(گالی)....
تیری اتنی جرات تو نے نومی پہ ہاتھ اٹھایا۔۔۔
یو ول پے فار دس مائی بلبل۔۔۔
جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔۔
وہ بھی منہ پے ہاتھ پھیرتا اسے مزہ چکھانے کا سوچتا وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕
عنایہ اور حسنین کے ساتھ ارحا ، فضا ، سعد ،ارحم سب اس وقت یونی کی کینٹین میں موجود تھے ہر طرف سٹوڈنٹس کی گہما گہمی تھی یہ ان کا فری پیریڈ تھا جب حسنین برگر کھانے کا شور مچاتے عنایہ کو ادھر لایا ساتھ باقی سب کو بھی کھینچ لایا۔۔۔
سو مائی سویٹ کزن حسنین کتنے برگر کھائیں گے آپ۔۔۔
عنایہ نے بیٹھتے ہی طنز میں ڈوبا میٹھا لہجہ اپناتے اس سے پوچھا تھا۔۔
حسنین کو کچھ خاص ہضم تو نہیں ہوا تھا اس کا لہجہ پھر بھی تھوک نگلتے اس نے ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو کھڑا کیا جس پر سب کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئی تھی۔۔۔
عنایہ نے چھوٹی سی ناک سکیڑتے آنکھوں سے گلاسسز اتارتے اسے گھورا۔۔۔
بھوکے ندیدے کھاؤ کھاؤ جتنے مرضی عنایہ دانت پیستے منہ ہی منہ میں بڑبڑائی تھی ۔۔۔
کینٹین پہ کام کرنے والے چھوٹے بچے کو آواز لگاتے عنایہ نے حسنین کے لیے پانچ اور باقی سب کے لیے ایک ایک برگر کا آرڈر دیا
آرڈر آنے پہ حسنین نے تو خوشی خوشی برگر کا صفایا کیا عنایہ بھی سکون سے برگر کھا رہی تھی اور دل ہی دل میں خود کو داد دی۔۔
جب سب کھا چکے تو اب بل دینے کی باری آئی جب عنایہ نے اطمینان سے وائلٹ نکالتے سارا بل پے کیا جب حسنین کی آنکھیں باہر ابلنے کو تیار تھیں کیونکہ وہ اس کا وائلٹ تھا۔۔ اس نے اٹھ کر اپنی پینٹ کی پوکٹ میں وائلٹ ڈھونڈنا چاہا جہاں خالی جیب اسے منہ چڑھا رہی تھی۔۔۔
ی۔۔۔یہ کیا عنایہ یہ تمہارے پاس کیسے آیا ۔۔۔
اب گھورنے کی باری حسنین کی تھی۔۔۔
بھکڑ تمہیں کیا لگا تھا میری آسائمنٹ چوری کر لو گے اور مجھے پتہ نہیں چلے گا چشمہ لگا کر تو میری چار آنکھیں بنتی ہیں جن میں سے دو ہر وقت تم پر رہتی ہیں ،،، میں نے تو تمہے تبھی دیکھ لیا تھا لیکن تمہیں مزہ بھی چکھانا بنتا تھا نہ کے نیکسٹ ٹائم عنایہ سے پنگا ناٹ چنگا مائی ڈئیر جنگلی کزن۔۔۔۔
عنایہ کی باتیں سنتے سب کا ہنس ہنس کر برا حال تھا ابھی حسنین اسے کچھ کہتا جب عنایہ کے سیل پر ایمل کی آنے والی کال نے اسے بچا لیا وہ کال سنتے فوراً اٹھ کر باہر بھاگی تھی۔۔۔
ایمل ویٹنگ ایریا میں اپ سیٹ سی کھڑی تھی جب عنایہ بھاگتے ہوئے اس کے پاس پہنچی۔۔۔۔
کیا ہوا آپی آپ ٹھیک تو ہیں ۔۔۔
عنایہ نے پھولے سانس کے ساتھ اسے پوچھا اور گلے لگ گئی۔۔۔
ہاں چھٹکی میری طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں دل بوجھل سا ہو رہا ہے تو میں نے ڈرائیور انکل کو بلا لیا تھا گھر جانے کے لیے اس لیے تم بھی میرے ساتھ ہی چلو ۔۔۔
ایمل اسے بتاتے ساتھ ہی اس کا ہاتھ پکڑتی یونی سے باہر نکل آئی جہاں ڈرائیور گاڑی کے پاس کھڑا انہی کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
سر مال پہنچ گیا ہے اور آپ کے کمرے کی زینت بنا دیا گیا ہے۔۔۔
ایک شخص سر جھکائے کھڑا سامنے بیٹھے سیٹھ کو اپنے ہو جانے والے کام کی خبر سنا رہا تھا ۔۔۔
جب سیٹھ نے ہنکارا بھرتے اسے ہاتھوں کی دو انگلیوں سے جانے کا اشارہ دیا جس پر وہ سر ہلاتا باہر نکل گیا۔۔۔
ڈیڈ ڈیٹس ناٹ فئیر مجھے اپنا شکار خود ڈھونڈنا پڑتا ہے اور آپ کو بیٹھے بٹھائے مل جاتا ہے وہ مکروہ ہنسی ہنستے اپنے باپ سے گلہ کر رہا تھا ۔۔۔
بیٹا میں چاہتا ہوں تم ایک اچھے شکاری بنو محنت سے کیے گئے شکار کو کھانے میں اور بھی مزہ آتا ہے خباثت سے ہنستے سیٹھ نے بیٹے کو دلاسہ دیا تھا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا کچھ دیر بعد اس کمرے سے کسی دو شیزہ کے رونے اور سیٹھ کے قہقہوں کی آواز گونجی تھی۔۔۔
لیکن یہاں فرق کسے پڑتا تھا یہ تماشا تو آئے دن لگا رہتا تھا اس لیے سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کسی نے اس پر زیادہ دیہان نہیں دیا تھا ۔۔۔۔
نعمان ابھی اٹھ کر جانے ہی والا تھا جب ناز ہاتھوں میں شراب کی بوتل پکڑے اپنی ادائیں دیکھاتی اسکے پاس آ کر بیٹھی تھی ۔۔۔
کدھر جا رہے ہو جانیمن آج رات میرے ساتھ گزار لو ۔۔۔
ناز اس کے ساتھ چپک کر اس کی شرٹ کے بٹنوں کے ساتھ کھیل رہی تھی جب نعمان نے اسے بالوں سے پکڑتے اس کا چہرہ اپنے قریب کیا اور اس پر جھکا تھا۔۔۔
کچھ دیر بعد نعمان نے اسے دھکا دیتے خود سے دور پھینکا اور اپنے ہونٹ صاف کیے اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
پہلے جو مشن آج تمہیں سونپا ہے اس پہ کام کرو اس کے بعد تمہیں خراج دوں گا یہ میرا وعدہ رہا وہ اسے آنکھ ونک کرتا وہاں سے نکل گیا جبکہ پیچھے وہ مسکرا دی تھی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
زید ملک اور نازیہ بیگم لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب انابیہ اور حسنین ایک دوسرے کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگ رہے تھے ۔۔۔
بابا بابا بچائیں مجھے اپنے اس نالائق بیٹے سے۔۔۔
انابیہ بھاگتی ہوئی جا کر زید ملک صاحب کے پیچھے چھپی تھی۔۔۔
آج تم نہیں بچو گی مجھ سے چھوٹی چوہیا۔۔۔
حسنین غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔
ارےے رک جاؤ کیوں لڑ رہے ہو دونوں ہمیں بھی تو بتاؤ ہماری بیٹی نے کونسا کارنامہ کیا جو یوں اب جان بچانے کے لیے بھاگتی پھر رہی ہے۔۔۔
زید ملک نے انابیہ کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اسے اپنے حصار میں لیتے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا۔۔۔
حسنین نے غصے میں ان کے آگے ہاتھ میں پکڑے پیپرز دکھائے جنہیں دیکھ کر زید صاحب کی بھی ہنسی نکل گئی۔۔۔
ڈیڈ آپ بھی ،،، حسنین تاسف سے سر ہلاتا وہیں کرسی پر نازیہ بیگم کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔
ارے یار ہنسنے والی بات پر ہنسیں گے ہی میری گڑیا تو ہے ہی ٹیلنٹڈ ماشاءاللہ سے ،،، زید صاحب نے ہنستے ہوئے اپنی گڑیا کا ماتھا چوما تھا اور پیپرز اب نازیہ بیگم کی طرف بڑھا دیے ۔۔۔۔
نازیہ بیگم نے بھی مسکراہٹ دباتے انابیہ کو مصنوعی جھڑکا تو حسنین کے تاثرات کچھ ڈھیلے پڑے تھے ۔۔۔
پیپرز پر حسنین کے مختلف سکیچز بنائے اسے مختلف ناموں سے نوازا تھا اس نے جیسے ایک پر اسے لڑکیوں والے لباس پہنائے چھمک چھلو کا نام دیا تھا۔۔۔
بابا یہ آپکی وائف میری سوتیلی ماں تو نہیں مجھے ڈانٹنے کے علاؤہ بھی کوئی کام کروا لیا کریں ان سے۔۔۔
انابیہ کی دہائیاں عروج پر تھیں جب وہاں حسان بھی چلا آیا ۔۔۔
حسان فل یونیفارم پہنے جانے کے لیے نیچے آیا تھا ایک انتہائی گھمبیر مسئلے پہ اسے اچانک ڈیوٹی جوائن کرنے کا لیٹر آیا تھا ورنہ وہ سول یونیفارم میں ہی سب کیس حل کر لیا کرتا تھا۔۔۔
نازیہ بیگم نے حسان کو دیکھتے ہی اس کی نظر اتاری تھی
جس پر حسان مسکرا دیا اور انہیں اپنے بازوؤں کے حصار میں لیتا ان کا ہاتھ چوم گیا۔۔۔
پھر وہ سب سے ملتا پولیس سٹیشن کے لیے نکل گیا تھا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی اسے اپنے آفس میں بیٹھے جب دھاڑ کی آواز سے اس کے آفس کا دروازہ کھلا اور ایک لڑکی اندر داخل ہوئی وہ جو دنیا جہان بھلائے فائلوں میں سر گھسائے بیٹھا تھا چونک کر اس نے اپنا سر اٹھایا اور سامنے دیکھ کر گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا۔۔۔
مجھے ریپورٹ لکھوانی ہے انسپکٹر ابھی اور اسی وقت وہ کہتی ہوئی اس کے سامنے ہی ٹیبل کے پار خالی پڑی کرسی پر براجمان ہو گئی۔۔۔
کس کی ریپورٹ لکھوانی ہے۔۔۔؟
حسان نے بالکل سیدھے بیٹھتے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پیوست کرتے اب سکون سے اس سے سوال پوچھا تھا۔۔۔
مجھے اپنے بوائے فرینڈ کے خلاف ریپورٹ لکھوانی ہے وہ نہ جلدی مجھ سے ملنے آتا ہے نہ ہی مجھے اپنے گھر والوں سے ملواتا ہے نہ ہی مجھ سے شادی کرتا ہے نہ میرے ساتھ ڈنر کرتا ہے نہ میرے ساتھ گھومتا پھرتا ہے مجھے بالکل ٹائم نہیں دیتا اور نہ۔۔۔۔۔
محترمہ یہ تھانہ ہے ،،، عشق خانہ نہیں جو آپ اپنے عاشق کی شکایت درج کروانے یہاں آ پہنچی ہیں۔۔۔میرا وقت برباد کرنے کے جرم کی پاداش میں آپ جانتی بھی ہیں کیا سزا مل سکتی ہے آپ کو۔۔۔؟
اسے سر تا پیر جھلساتی نگاہوں کے حصار میں رکھتے وہ لب دبا کر مسکرایا جو سامنے کھڑے وجود کی زیرک نگاہوں سے مخفی نہ رہ سکی۔۔۔
انسپکٹر آپ ہنس رہے ہیں میری باتوں پہ ،،، وہ چہرے پہ سخت تاثرات سجاتے اسے گھور رہی تھی مجھے تو پتہ چلا تھا یہاں سب کو انصاف ملتا ہے لیکن یہاں میری اتنی اہم بات پہ آپ کو ہنسی سوجھ رہی ہے وہ غصے سے منہ پھلاتی رخ موڑ گئی۔۔۔
بائے دا وے تمہیں کس نے بتایا میں ڈیوٹی پہ ہوں۔۔۔؟
حسان نے آئیبرو اچکاتے اس سے سوال پوچھا جس پر وہ تھوڑا گڑبڑا گئی۔۔۔
محبت کرنے والے اپنے محبوب کی خوشبو محسوس کرتے اس تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔۔۔ اسے محبت پاش نظروں سے دیکھتی وہ چہکی۔۔۔
اس کے انداز پر وہ کھل کر مسکرایا۔۔۔۔
اور آپ نے وہ کہاوت نہیں سنی دل کو دل سے راہ ہوتی ہے بس مجھے میرے دل نے بتایا اور میں یہاں آ پہنچی۔۔۔
وہ اپنے بالوں کو ایک ادا سے جھٹکتی اپنی دلفریب اداؤں سے اسے اپنا اسیر کر رہی تھی۔۔۔
حسان اور عرشیہ کچھ عرصہ پہلے ہی ایک کولیگ کی شادی میں ملے تھے جس کے بعد ان کی اکثر بات ہوتی رہتی ملنا ملانا لگا رہتا تھا حسان کو پتہ ہی نہ چلا کب وہ اس سے محبت کرنے لگ گیا۔۔۔
یہ کمبخت محبت بھی بڑی عجیب شے ہے جب تک اپنی جڑیں مضبوط نہ کر لے کسی کو بھی کان و کان خبر ہی نہیں ہونے دیتی۔۔۔
بزم امکاں میں نہیں کوئی تصور تجھ بن
تو میرا عشق ہے یہ بات گرہ باندھ کے رکھ
دھیرے دھیرے وہ قدم اٹھاتی اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی اب چلیں اٹھیں مجھے آپ کے ساتھ لنچ کرنا ہے میں کوئی بات نہیں سنوں گی آپ کی انسپکٹر۔۔۔ وہ شہادت کی انگلی اٹھائے اسے ایسے وارن کرنے والے انداز میں گویا ہوئی۔۔۔
حسان کو بھی مجبوراً اٹھنا پڑا وہ اسے ناراض ہرگز نہیں کر سکتا تھا تبھی گاڑی کی کیز اٹھاتے وہ اسے لیے پولیس اسٹیشن سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
شام کا وقت تھا موسم بھی کافی خوشگوار محسوس ہو رہا تھا ایسے میں راجپوت ہاؤس کے مکین آج گھر کے پچھلے لان میں کافی دنوں بعد سب مل جل کر بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔۔۔
نویرہ بیگم اور زیمل بیگم کیچن میں سب کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر رہی تھیں۔۔۔
نازیہ بیگم اور زید ملک کے ساتھ حسنین اور انابیہ بھی آئے ہوئے تھے جبکہ حسان ڈیوٹی پہ تھا۔۔۔
حسنین اور انابیہ آتے ہی ایمل کے روم میں گھس گئے عنایہ بھی وہیں موجود تھی لیکن باسم اپنے آفس میں تھا۔۔۔
سنان صاحب اور علی صاحب زید صاحب کے ساتھ بزنس کی باتوں میں مصروف ہو گئے۔۔۔
بابا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے میں آج ایک خاص مقصد۔۔۔
نازیہ بیگم نے احسن صاحب کی طرف دیکھتے بات شروع کی اور سب کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔۔۔
احسن صاحب نے چونک کر اپنی بیٹی کی طرف دیکھا جو کبھی بھی بات کرنے سے پہلے تہمید نہیں باندھتی تھی۔۔۔
احسن صاحب نے سر ہلا کر اسے بات کرنے کی اجازت دی تبھی نویرہ بیگم اور زیمل بیگم بھی چائے کی ٹرے اٹھائے ساتھ سنیکس لے کر وہیں آ گئیں۔۔
میں ایمل کو اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہوں۔۔۔
نازیہ بیگم نے بات کرتے ہی سب کے تاثرات جاننے کی کوشش کی جب سب کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔۔۔
ہمیں یہ رشتہ منظور ہے ،،، احسن صاحب نے ہی وہاں چھائی خاموشی کو اپنی رعب دار آواز سے توڑا۔۔۔
احسن صاحب کے ہاں کہتے ہی وہاں سب کے چہرے پہ مسکراہٹ چھا گئی۔۔۔
نازیہ بیگم تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں انہیں بھی ایمل بہت پیاری تھی اور ہمیشہ سے انہوں نے اپنے بیٹے حسان کے لیے ایمل کو سوچ رکھا تھا۔۔۔
بھئی اب منہ بھی میٹھا کروا دیا جائے پھر ہمارا ،،، زید صاحب نے ہنستے ہوئے کہا تبھی نویرہ بیگم کچھ میٹھا لانے کے لیے اٹھتی اندر چلی گئیں۔۔۔
مائی ڈئیر ممانی جان یہ مٹھائی کس لیے۔۔۔؟
انابیہ جو نیچے پانی پینے کے لیے آئی تھی نویرہ بیگم کے ہاتھ میں مٹھائی دیکھتی بولی۔۔۔
یہ ایمل کو تمہاری بھابھی بنانے کی خوشی میں ہے ،،، نویرہ بیگم نے ایک پیس اٹھاتے اس کے منہ میں ڈالتے اسے خوشخبری سنائی۔۔۔
کیاااااا۔۔۔۔ سچ میں ممانی جان۔۔۔
انابیہ تو خوشی سے اچھل ہی پڑی اور ان کے گلے لگ گئی۔۔۔
میں باقی سب کو بھی یہ خوشخبری سنا کر آتی ہوں ،،، وہ کہتی ہوئی واپس الٹے پاؤں بھاگ گئی جبکہ نویرہ بیگم باہر کو چل دیں۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
اسلام و علیکم سر۔۔۔
حسان نے ایس ایچ او کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سلیوٹ کیا تھا۔۔۔
و علیکم السلام ینگ مین۔۔۔
ایس ایچ او ذیشان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور بیٹھنے کا اشارہ دیا جس پہ بنا دیر کیے حسان ان کے سامنے ہی بیٹھ گیا۔۔۔
حسان نے بیٹھتے ہی اپنے برابر میں ایک اور آفیسر کو دیکھا جس پر اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا لیکن بولا کچھ نہیں۔۔۔۔ تبھی ساتھ بیٹھے نفوس نے اسے یوں دیکھ نیچے منہ کیے اپنی آمد آنے والی ہنسی کو روکا۔۔۔
یہ آفیسر حمزہ ہیں جو آپ کی اس کیس میں مدد کریں گے ،،، ایس ایچ او صاحب نے تعارف کرواتے ہی انہیں ایک دوسرے کی موجودگی کی وجہ بھی بتا دی۔۔۔
اوکے ، اب ہم اپنی میٹنگ سٹارٹ کرتے ہیں ۔۔۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کل ہمارے ملک میں زیادتیوں کے کیس حد درجہ بڑھ چکے ہیں خواہ وہ چھوٹا بچہ ہو یا بچی۔۔۔
زیادہ ٹارگٹ کم عمر جوان بچیوں کو بنایا جاتا ہے۔۔۔
خفیہ ذرائع سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بچیوں کو یا تو اغواء کر کے لے جایا جاتا ہے یا آج کل نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ لڑکیوں کو محبت کا جھانسہ دے کر انہیں پھانس لیا جاتا ہے ،،، پھر ان کو زیادتی کا نشانہ بنا کر یا تو باہر کے ملک بھیج دیا جاتا ہے یا ان کو اس حد تک ٹارچر کر کے دارالامان پہنچا دیا جاتا ہے کہ وہ کسی کے خلاف کچھ نہیں بول سکتیں۔۔۔
اور جو نہیں ڈرتیں ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔۔۔۔
ایس ایچ او ذیشان نے اٹھ کر اب سلائڈنگ کھولیں اور ان کا رخ سامنے بیٹھے دو جوانوں کی طرف کر دیا۔۔۔
ہمیں زیادہ کچھ تو نہیں پتہ چل سکا اس گینگ کا لیکن اس آدمی پہ شکوک و شبہات ظاہر ہوئے ہیں کہ یہ اور اس کا بیٹا بھی اس کام میں ملوث ہیں۔۔۔
یہ سیٹھ شہاب غوری ہے بظاہر تو یہ فیکٹری کا مالک ہے لیکن کالے دھندے میں پیسہ بنانے کے چکر میں یہ کام کرتا ہے البتہ اس کے بیٹے کی کوئی تصویر ہمیں نہیں مل سکی۔۔۔
ایک اور حیرت انگیز بات پتہ چلی ہے کہ اس گینگ میں ایک لڑکی بھی ملوث ہے۔۔۔
اب وہ کیوں ہے کس لیے ہے یہ آپ لوگوں کو جاننا ہے۔۔۔
مجھے جلد از جلد اس کیس کا معاملہ حل چاہیے۔۔۔ گوٹ اٹ۔۔۔
یس سر ،،، وہ دونوں اٹھتے ہی سلیوٹ مار کر روم سے باہر آ گئے ۔۔۔۔
سالے تو یہاں کب اور کیسے ،،، باہر نکلتے ہی حسان نے حمزہ کی گردن کو دبوچا۔۔۔
ابے چھوڑ مجھے ورنہ تجھے بھابھی کے نہ ملنے کی بد دعا دے دوں گا۔۔۔
حمزہ نے اپنی گردن چھڑواتے نیا شوشہ چھوڑا جس پر حسان قہقہہ لگا کر ہنس پڑا اور اسے گلے سے لگا لیا۔۔۔
حمزہ حسان کے بچپن کا دوست ہے ڈیوٹی تو ان دونوں نے اکٹھے جوائن کی تھی لیکن کافی عرصے سے یہ دونوں الگ الگ جگہ ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔۔۔
یوں اچانک ایک دوسرے کو سامنے دیکھ وہ حیرت زدہ رہ گئے۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔؟
عرشیہ نے چہکتے ہوئے اس کے بازو کو تھاما اور سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
سرپرائز ہے جانم ،،، بس کچھ دیر انتظار کر لو پھر تمہے خود ہی پتہ چل جائے گا ۔۔۔
حسان نے شوخ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا جس پر عرشیہ نے گڑبڑا کر اپنی نگاہوں کا زاویہ بدلا اور گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے باہر کے مناظر دیکھنے لگی۔۔۔
اچھا بتاؤ میوزک سنو گی۔۔۔
گاڑی میں چھائی خاموشی کو توڑنے کے لیے حسان نے عرشیہ کو اپنی طرف کھینچتے اسے اپنے حصار میں لیا اور اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا جس پر وہ برا سا منہ بناتے نا محسوس طریقے سے اس سے الگ ہو گئی۔۔۔
یس شیور وائے ناٹ میری جان۔۔۔
عرشیہ نے کہتے ساتھ ہی اسے آنکھ ونک کی اور فلائنگ کس اس کی طرف اچھالتے گاڑی میں میوزک پلے کر گئی۔۔۔
گاڑی یکدم ایک جھٹکے سے رکی تھی ۔۔۔
عرشیہ کا سر ۔۔۔۔۔ سے لگتے لگتے بچا جب غصے سے اس نے حسان کی طرف رخ موڑا لیکن اس کی آنکھوں میں خون اترا دیکھ وہ خوفزدہ ہو گئی تھی ۔۔۔
حسان اسٹیرنگ پہ اپنی گرفت مضبوط کیے بالکل سامنے دیکھ رہا تھا ،،، ہاتھوں کی نسیں اتنی ابھری ہوئی تھیں کہ جیسے ابھی یہ جلد سے باہر آ جائیں گی۔۔۔
عرشیہ نے ڈرتے ہوئے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا جہاں دو لڑکے ایک لڑکی کو زبردستی وین میں بیٹھانے کی کوشش کر رہے تھے ،،، کپڑے اس کے پھٹے ہوئے ،،، سر سے ننگی ،،، ڈوپٹہ دور پڑا سڑک کی زینت بنا ہوا تھا اور وہ لڑکی لاکھ کوششوں کے بعد بھی خود کو ان سے چھڑوانے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی ۔۔۔
تبھی حسان نے اپنی گن نکالی جو ہمہ وقت اس کے پاس ہوتی تھی ،،،، فوراً گاڑی سے نکلتے سب سے پہلے اس نے ہوا میں فائر کیا۔۔۔
رک جاؤ چھوڑ دو لڑکی کو ورنہ میں شوٹ کر دوں گا ۔۔۔
وہ ان کو وارن کرتا گن کا رخ ان کی طرف کیے آہستہ آہستہ ان کے آگے بڑھنے لگا جس پر وہ دونوں لڑکے وہیں رک گئے۔۔۔
ابے تو کون ہے ،،،کیا لگتا ہے اس کا جانے دے ہمیں ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا سمجھے ۔۔۔
ان دونوں میں سے اب ایک نے بھی جلدی سے اپنی گن نکالی اور نشانہ لڑکی کو بنایا۔۔۔۔
صورتحال کافی گھمبیر ہو گئی تھی اگر وہ نشانہ حسان کو بناتے تو وہ کبھی پیچھے نہ ہٹتا لیکن لڑکی کو نشانہ بناتے دیکھ اس نے فوراً اپنا اگلا لائحہ عمل تیار کیا۔۔۔
اوکے ، فائن میں پیچھے ہٹ رہا ہوں تم لڑکی کو کچھ مت کرنا۔۔۔۔
یہ کہتے ہی حسان نے گن نیچے کی اور الٹے قدم پیچھے کو چلنا شروع کر دیا ۔۔۔
گن تھامے لڑکے نے مسکرا کر دوسرے لڑکے کی طرف دیکھا ،،، یہی وہ موقع تھا حسان جس کی تلاش میں تھا کہ ان کی نظر بھٹکے اور وہ اپنی پلاننگ کو کامیاب کرے۔۔۔
حسان نے گھومتے ہی اپنی گن سے اس لڑکے کی ٹانگ کا نشانہ لیا اور ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے بغیر گولی چلا دی۔۔۔
لمحہ لگا تھا بازی پلٹنے میں اور وہ لڑکا تڑپتا ہوا سڑک پر گر چکا تھا اس کا دوسرا ساتھی خوفزدہ ہو کر اب حسان کی طرف دیکھ رہا تھا جب حسان نے اسکی بازو کا نشانہ لیتے فائر کیا اور وہ بھی زمین بوس ہواتھا۔۔۔
حسان نے فوراً آگے بڑھتے ہوئے اس سہمی ہوئی لڑکی کو اپنی تحویل میں لیا ،،، دور پڑا ڈوپٹہ اٹھا کر لایا اور اس کے سر پر اوڑھاتے شفقت بھرا ہاتھ رکھ گیا۔۔۔
حسان نے کال کر کے اپنے چند ساتھیوں کو بلایا اور انہیں انسٹرکشن دیتا ہوا اب وہ مطمئن سا وہیں کھڑا تھا۔۔۔
اس سب میں وہ عرشیہ کو تو بالکل فراموش کر گیا تھا اس کا خیال آتے ہی اپنی گاڑی کی طرف بھاگا لیکن عرشیہ وہاں نہیں تھی اسے نہ پا کر اس کے اوسان خطا ہوئے۔۔۔
شٹ ! گاڑی کو زوردار لات مارتا وہ اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو قابو کرتا بالوں کو زور سے مٹھی میں جکڑ گیا۔۔۔
تبھی اسے سسکی کی آواز سنائی دی تو اس نے چونک کر دوبارہ گاڑی میں دیکھا جو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر نیچے جھکی بیٹھی ہراساں سی دونوں ہاتھ منہ پہ دبائے دبکی بیٹھی تھی ،،، حسان نے فٹ سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اسے باہر نکالتے اپنے سینے میں زور سے بھینچ گیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان یونیفارم پہنے تیار ہو کر سیڑھیاں اترتا جلدی سے باہر جا رہا تھا جب نازیہ بیگم نے اسے پیچھے سے پکارا۔۔۔
حسان بیٹا ناشتہ تو کر کے جاؤ اتنی بھی کیا جلدی ہے تمہیں آج کل بالکل تم اپنے کھانے پینے پہ دھیان نہیں دے رہے انابیہ اور حسنین کیا کم ہیں اب تم بھی مجھے اپنے پیچھے ڈورانے لگ گئے ہو۔۔۔
حسان جو ان کے پکارنے پر رک کر پلٹا تھا نازیہ بیگم کی باتیں سنتے اسنے آئیبرو اچکائے جیسے کہ واقعی میں تنگ کر رہا ہوں آپ کو ،،،، وہ چلتا ہوا ڈائننگ ٹیبل کے پاس آ کر کرسی کھینچ کر بیٹھا جلدی ناشتہ کرنے لگ گیا اسے تھانے جانا تھا جبکہ زید صاحب چپ چاپ ناشتہ کرتے ساتھ ہلکا ہلکا مسکرا رہے تھے جانتے تھے کہ نازیہ بیگم کیوں اسے روک رہی ہیں تبھی حسان کی نظر زید صاحب پر پڑی تو وہ بھی حیرت آنکھوں میں سموئے انہیں دیکھنے لگ گیا۔۔۔
ارے آرام سے کھاؤ حسان گلے میں اٹک جائے گا۔۔۔
نازیہ بیگم نے پھر سے ٹوکا ،،، حسان ناشتہ چھوڑے ان کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔
مام کیا بات ہے ،،، خیریت تو ہے ۔۔؟ کچھ کہنا ہے تو سیدھی طرح کہیں نہ یہ بہانے کیوں ڈھونڈ رہی ہیں ۔۔۔
حسان ناشتہ چھوڑے اب پوری طرح سے ان کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔
ارے حسی بھیو میں بتاتی ہوں ،،، انابیہ نے جلدی سے آ کر اس کے گلے میں بانہیں ڈالیں اور حسان سے لاڈ کیا۔۔۔
حسنین بھی دانت نکالتا وہیں ٹیبل پر ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھ گیا ۔۔۔
مام ڈیڈ نے آپ کا رشتہ ایمل آپی سے کر دیا ہے بہت جلد ہم آپ کے سر پر سہرا سجانے والے ہیں ،،، میں تو بہت خوش ہوں ۔۔۔ مام میں آج سے ہی بھیو کی شادی کی تیاریاں شروع کر دوں گی سب اپنی پسند کا لوں گی ،،، انابیہ پٹر پٹر بولنا شروع ہوئی تو بریک ہی نہیں لگ رہی تھی زید صاحب اور نازیہ بیگم تو اسے خوش دیکھ کر ہی خوش ہو رہے تھے جب حسان نے ایکدم اٹھتے سپاٹ چہرے سے سب کو گھورا۔۔۔
میں تمہیں یہی بتانے کی کوشش کر۔۔۔۔
نازیہ بیگم کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے جب وہ مٹھیاں بھینچتا غصے سے سرخ چہرہ لیے بنا کچھ بولے وہاں سے نکل گیا۔۔۔
پیچھے زید صاحب سمیت سب اسے جاتا دیکھتے رہ گئے کہ ایسی بھی کیا بات کردی۔۔۔
نازیہ بیگم کو اب شدت سے یہ بات محسوس ہوئی کہ انہیں پہلے حسان سے بات کر لینی چاہیے تھی پھر کوئی ایسا قدم اٹھانا چاہیے تھا۔۔۔
چلو چوہیا ہمیں یونی کے لیے دیر ہو رہی ہے ،،، حسنین نے ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے انابیہ کو چھیڑا تو وہ بھی اسے ایک بازو پہ مکا جڑتے اپنی کتابیں لینے کے لیے واپس روم میں چلی گئی۔۔۔
مام کبھی مجھے بھی پوچھ لیا کریں ناشتے کا ،،، حسنین نے انہیں کھویا ہوا دیکھ اپنی دہائی دی جس پہ نازیہ بیگم کی محویت ٹوٹی اور انہوں نے ہنستے ہوئے اسے ناشتہ سرو کیا۔ جبکہ زید صاحب کسی اور سوچ میں پڑ گئے ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
یار یہ پریکٹیکل تو جان لے کر ہی رہے گا۔۔۔
ایمل اس وقت اپنی یونی کی لیب میں بیٹھی ایک پریکٹیکل میں سر گرداں تھی جب تھک ہار کر اس نے اپنی دوست زوباریہ سے مخاطب ہو کر کہا۔۔۔
وہ دونوں اس وقت لیب میں اکیلی تھیں لیکچر فری ہونے کی وجہ سے وہ دونوں یہاں آ گئیں آج ہی انہیں یہ ایک پریکٹیکل آسائمنٹ کی صورت میں دیا گیا تھا جس پر پریکٹس کرنے کے لیے وہ ادھر آ بھٹکیں۔۔۔
یار مجھے تو بہت پیاس لگ رہی ہے گرمی بھی بہت ہے یہ منحوس لائیٹ بھی پتہ نہیں کب آئے گی۔۔۔
ایمل نے معصوم سی شکل بنائے زوباریہ کی طرف دیکھا تو وہ پگھل گئی۔۔۔
اچھا تم یہیں بیٹھو میں کینٹین سے جوس اور کچھ کھانے کو لے کر آتی ہوں تب تک کیا معلوم لائیٹ بھی اپنے درشن کروا دے پھر آگے ہم اس پریکٹیکل کو کنٹینیو کریں گے۔۔۔
زوباریہ تم کتنی اچھی ہو ،،، ایمل نے ہنستے ہوئے اس کی گال پر پیار کیا۔۔۔
ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی زوباریہ کو گئے ہوئے جب لیب میں دروازہ بند ہونے کی آواز آئی ۔۔۔
ایمل نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو لیب کا دروازہ بند کیے اس سے ٹیک لگا کر سامنے ہی نومی اپنی شیطانیت بھرے چہرے کو لیے کھڑا تھا۔۔۔
اس نے مڑ کر دروازے کی کنڈی لگائی اور تھوڑے تھوڑے قدم اٹھاتا وہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
ایمل نے خوفزدہ ہو کر اس کے بڑھتے قدم دیکھ اپنے قدم پیچھے کو لیے۔۔۔ خوف سے اس کی آواز کہیں گلے میں ہی اٹک گئی ،،،،
ت۔۔تم۔۔۔ی۔۔۔یہا۔۔۔یہاں کیا ک۔۔کر رہے ہو ،،، ایمل نے بڑی مشکل سے اپنے خوف پہ قابو پانے کے کوشش کرتے اسے غراتے ہوئے پوچھا لیکن اس کا وجود پورا کانپ رہا تھا کہ ناجانے وہ اس کے ساتھ کیا کر گزرے گا۔۔۔
تم نے مجھے تھپڑ مارا تھا نہ اسی کا حساب چکتا کرنے آیا ہوں ،،، تمہیں کیا لگا کہ میں بھول جاؤں گا تم مجھے تھپڑ مار کر کہو گی کہ میرے راستے میں نہ آؤ تو میں پیچھے ہٹ جاؤں گا ،،،، نہ میری بلبل بلکہ اب تو اور بھی مزہ آئے گا تمہیں پانے میں ،،، تمہیں تو میں اپنے جوتے کی نوک پہ رکھوں گا۔۔۔
وہ اسے اور زیادہ خوفزدہ کرتے اس کے بالکل پاس پہنچ گیا تھا بس چند قدم کا فاصلہ بچا تھا دونوں کے درمیان اور ایمل اب پیچھے بھی نہیں ہٹ سکتی تھی کیونکہ وہ الٹے قدم چلتی چلتی دیوار کے ساتھ جا لگی تھی۔۔۔
اس کے منہ سے مغلظات سنتے اس کی آنکھیں بھر آئیں کہ سامنے کھڑا شخص کیسے اس کی عزت کو روندنے کا منصوبہ بنا رہا تھا اور وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
لڑکی کی عزت تو اس سفید چادر کی طرح ہوتی ہے کہ زرا سا داغ لگا نہیں اور میلی ہو جاتی ہے پھر وہ جتنا بھی اس داغ کو دھونے کی کوشش کر لے وہ دھل نہیں سکتا۔۔۔
اور مرد اس کالے کپڑے کی مانند ہے جس پہ جتنے بھی داغ لگ جائیں وہ نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔۔۔
وہ خوف سے سفید پڑتی آنکھیں میچ گئی دل میں اپنی عزت محفوظ رہنے کی دعا مانگی تھی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کسی کے چیخنے پر کھولیں۔۔۔
جہاں نومی نیچے فرش پہ گرا پڑا کراہ رہا تھا اس کے سامنے ہی حسنین غصے سے اپنی آستین کو اوپر چڑھاتے پھر سے اسے مارنے کی تیاریوں میں تھا۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری آپی کو ہاتھ لگانے کی سالے ،،، تیرا تو میں حشر بگاڑ دوں گا خود کو شیشے میں دیکھنے کے قابل نہیں رہے گا ،،، حسنین نے پھر سے آگے بڑھتے اسے لات رسید کی نومی نے اٹھ کر اپنا دفاع کرنے کے لیے اسے مکا رسید کرنے کی کوشش کی جب حسنین نے وہی ہاتھ مڑور کر اسکی کمر کے ساتھ لگاتے اس کی ہڈیاں چٹخا دیں۔۔۔
ابے سالے تجھے نہیں پتہ میں بلیک بیلٹ ہوں تیرے جیسے کو تو میں دو منٹ میں اوپر پہنچا دوں تم نے اچھا نہیں کیا میری آپی کو ہراس کر کے ،،، حسنین نے اب اس کی کمر میں ٹانگ ماری اور وہ دور جا کر گرا۔۔۔
تجھے تو میں دیکھ لوں گا۔۔۔۔
منہ سے خون نکلتے دیکھ وہ تیزی سے لیب کا دروازہ کھولے باہر کو بھاگا لیکن جاتے جاتے حسنین کو وارن کرنا نہیں بھولا ۔۔۔
جا جا بہت دیکھے تیرے جیسے ،،، حسنین ہاتھ جھاڑتے واپس مڑا اور ایمل تک پہنچا۔۔۔
حسنین لیب کے سامنے سے گزر رہا تھا جب اس نے گلاس وال سے اندر کا منظر دیکھا تو ایمل کو دیکھ وہیں ٹھٹھک کر رہ گیا جو دیوار سے لگے کانپ رہی تھی اور کسی لڑکے کو اس کے سامنے کھڑا دیکھ اس کا خون کھول اٹھا ۔۔۔۔
پہلے دروازے کو چیک کیا جو کہ اندر سے لاک تھا تبھی وہ دوسرے دروازے کی طرف بھاگا جو کہ صد شکر کھلا تھا۔۔۔ آتے ہی اس نے لڑکے کو ایک مکا جڑا تھا۔۔۔۔
آپی کون ہے یہ اور کب سے پریشان کر رہا ہے آپ کو ،،، بتایا کیوں نہیں آپ نے مجھے ،،، وہ ساتھ ساتھ ایمل کی ساری چیزیں سمیٹ رہا تھا اور اس سے پوچھ تاچھ کرنے لگا جبکہ ایمل ابھی تک شاک میں تھی ۔۔۔
وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اگر حسنین نہ آتا تو کیا ہوتا۔۔۔ اس سے آگے وہ کچھ سوچنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔۔۔
حسنین نے اسکی حالت کے پیش نظر اب زیادہ زور دے کر نہیں پوچھا اور اسے ساتھ لیے نیچے چل دیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان اس وقت اپنے آفس میں بیٹھا نازیہ بیگم کے کیے گئے فیصلے پہ غور کر رہا تھا کہ وہ کیا کرے اب ایک طرف عرشیہ اسکی محبت تھی تو دوسری طرف اسکی ماں کی خواہش ایمل کی صورت میں اسکے سامنے تھی۔۔۔
ایمل برا آپشن نہیں ہے لیکن میں عرشیہ سے محبت کرتا ہوں ،،، شاید میں نے دیر کر دی مجھے پہلے ہی مام سے بات کر لینی چاہیے تھی ۔۔۔۔
حسان انہی باتوں کو سوچ رہا تھا جب دروازہ ناک کرتے حمزہ اندر داخل ہوا۔۔۔
کبھی تو بھابھی کے خیالوں سے باہر نکلو اور کیس پر بھی دھیان دو۔۔۔
حمزہ نے بیٹھتے ہی اسے چھیڑا لیکن اس کے سپاٹ چہرے پہ نظر پڑتے ہی وہ خاموش ہو گیا۔۔۔
ہو گئی تیری بکواس ۔۔۔؟
اس لڑکی کا کیا کیا۔۔۔؟ حسان اس دن عرشیہ کو لیکر چلا گیا تھا اور یہ معاملہ حمزہ کے سپرد کر گیا۔۔۔
لڑکی کو دارالامان پہنچا دیا ہے اور ان دونوں میں سے ایک زندہ بچ گیا وہ لاک اپ میں ہے اس کا منہ میں کھلوا لوں گا تم فکر مت کرو۔۔۔
ہمم۔۔۔ حسان نے ہنکارا بھرتے اپنا سر کرسی کی پشت سے ٹکا دیا۔۔۔
اب یہ سڑا ہوا منہ کیوں بنا رکھا ہے کچھ بتاؤ گے یا میں اپنے طریقے سے پتہ کرواؤں ۔۔۔
جا خود پتہ لگوا لے ،،، حسان نے سکون بھرے لہجے میں اسے جواب دیتے تپا دیا۔۔۔
جبکہ حمزہ نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔۔۔
تبھی ایک دفعہ پھر سے اس کے کیبن کا دروازہ ناک ہوا تو اس نے ٹیک چھوڑتے اندر آنے والے شخص کو دیکھا۔۔
سامنے ہی زید صاحب کھڑے تھے۔۔۔
بابا آپ یہاں تھانے میں سب ٹھیک تو ہے۔۔۔
وہ کرسی چھوڑتا اٹھ کر ان کے پاس پہنچا۔۔۔
سب ٹھیک ہے برخوردار ،،، اپنے باپ کو بٹھاؤ گے یا یہیں کھڑے کھڑے سب پوچھ لو گے۔۔۔
زید صاحب نے تاسف سے سر ہلاتے پوچھا۔۔۔
کیسی باتیں کرتے ہیں آپ بابا ،،، آئیں بیٹھیں ۔۔۔
وہ انہیں لے کر سائیڈ پہ لگے صوفے پر جا بیٹھا۔۔۔
انکل مجھ غریب سے بھی مل لیں میں بھی آپ کے بیٹے کا دوست ہوں ،،، حمزہ آگے بڑھ کر ان سے گلے ملا جس پر زید صاحب ہنس دیے ،،، تم ابھی بھی اتنے ہی شرارتی ہو جتنے بچپن میں تھے تو وہ کھسیانی ہنسی ہنس دیا۔۔۔
مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے حسان بیٹا ،،،، زید صاحب نے بات کا آغاز کیا تو حسان نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا کہ ایسی بھی کونسی بات تھی جس کے لیے ان کو یہاں آنا پڑا۔۔۔
میں بعد میں آتا ہوں آپ بات کر لیں حمزہ یہ کہہ کر وہاں سے رفو چکر ہو گیا ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ایمل یونیورسٹی سے آتے ہی فوراً اپنے کمرے میں بند ہو گئی آج کے واقعے سے وہ بہت زیادہ ڈر گئی تھی اگر حسنین نہ آتا تو۔۔۔ آگے کا سوچ کر بھی اس کی روح کانپ اٹھی تھی۔۔۔
اس نے جلدی سے واشروم میں جا کر چہرے پہ ٹھنڈے پانی سے چھینٹے مارے تھے فریش ہو کر وہ ہاتھ منہ تولیے سے رگڑتی باہر نکلی تبھی دروازے پہ ملازمہ دستک دے کر اندر داخل ہوئی۔۔۔
بی بی جی آپ کو بڑے صاحب نے اپنے کمرے میں بلایا ہے ،،، وہ مؤدب سے انداز میں بولتی اب اس کے جواب کی منتظر تھی۔۔۔
اوکے ، میں آتی ہوں تھوڑے دیر میں ،،، وہ ٹاول کو ایک سائیڈ پہ رکھتی اب ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی اپنا حلیہ درست کرنے لگی اور ملازمہ اس کا جواب سنتے فوراً وہاں سے رفو چکر ہو گئی۔۔۔
سنان صاحب ، نویرہ بیگم اور علی احسن زیمل بیگم سب اس وقت احسن صاحب کے کمرے میں موجود تھے تبھی ایمل اندر داخل ہوئی ،،، خود کو یوں اچانک بلائے جانے پر حیران بھی تھی اور سب کو یوں اکٹھے بیٹھے دیکھ اس کی حیرت بڑھی تھی۔۔۔
ایمل گڑیا ادھر آؤ اپنے دادا جان کے پاس ،،، احسن صاحب نے محبت بھرے لہجے میں اسے بلایا تو وہ اپنی حیرت کو بالائے طاق رکھتی ان کی طرف بڑھی ،،، احسن صاحب نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر اپنے پاس ہی بٹھا لیا۔۔۔
ایمل گڑیا ہم نے آپ کا رشتہ حسان کے ساتھ طے کر دیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری بیٹی کو ہمارے اس فیصلے پہ کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن پھر بھی ہم آپ کی مرضی معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
ایمل ان کی بات سنتے ہی کہیں کھو گئی اس کے سامنے کل کا منظر گھوما۔۔۔
سنو سنو سنو میں ایک دھماکے دار نیوز سن کے آ رہی ہوں نیچے سے انابیہ خوشی سے اچھلتی کودتی اندر داخل ہوتے ہی ایمل سے گلے ملی تھی۔۔۔
اس کی بات سنتے ہی عنایہ اور حسنین کے بھی کان کھڑے ہوئے۔۔۔
ہمیں بھی جلدی سے بتاؤ چوہیا پھر ہم بھی ساتھ مل کر بھنگڑا ڈال لیں گے حسنین نے اپنی ہی پھینکی تھی۔۔۔
لال بیگ تم اپنا منہ بند نہیں رکھ سکتے تھوڑی دیر کے لیے انابیہ نے بھی ناک پھلاتے غصے سے پورا پورا بدلہ اتارا تھا اپنا جس پر عنایہ نے اپنا سر پیٹا۔۔۔ یار تم دونوں بعد میں لڑ لینا پہلے نیوز تو سنا دو۔۔۔
وہ نہ نیچے سب بڑوں نے آپی ایمل اور میرے دی گریٹ بھائی حسان ملک کا رشتہ پکا کر دیا ہے اب آپی میری بھابھی بن جائیں گی ۔۔۔
انابیہ کی خوشی تو دیدنی تھی حسنین اور عنایہ کو بھی سیکنڈ لگا تھا سمجھنے میں اور انہوں نے بھی ہلے گلے میں انابیہ کا پورا ساتھ دیا تھا جبکہ ایمل ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت میں انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔
کیا بن مانگے خوشیاں ایسے مل جاتی ہیں جیسے ایمل کو مل گئیں تھیں اس کے دل میں جو حسان کی محبت کا پودا پروان چڑھا تھا اس پہ پھل لگنے والا تھا یا یہ خوشیاں ایسے ہی ادھوری رہ جانی تھی وقت کا کھیل بڑا ظالم ہوتا ہے کب کیا کھیل کھیل جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔۔۔
ایمل ، ایمل بابا تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں نویرہ بیگم نے اسے بازو سے پکڑتے ہلایا تو وہ ہڑبڑا کر ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔۔۔۔
ج۔۔جی۔۔۔جی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے آپ نے جو بھی فیصلہ لیا ہے مجھے منظور ہے ،،، ایمل یہ کہتے ساتھ ہی تیزی سے اٹھتے کمرے سے نکل آئی اسے یوں جاتا دیکھ سب مسکرا دیے۔۔۔
راستے میں ہی اسے باسم مل گیا تو وہ اسے ایک نظر دیکھتی سائیڈ سے نکل گئی پیچھے اس نے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھائے جیسے اِسے کیا ہوا پھر سر ہلاتا آگے بڑھ گیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان کیا تمہیں ایمل پسند نہیں ۔۔۔؟
زید ملک نے بغیر تہمید باندھے اس سے سوال کیا جس پر حسان نے گہرا سانس بھرتے ان کی طرف دیکھا۔۔۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے ڈیڈ ایمل میری کزن ہے اچھی لڑکی ہے لیکن میں کسی اور سے پیار کرتا ہوں اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں انفیکٹ میں بہت جلد اسے آپ سب سے ملوانے والا تھا۔۔۔
مام کو ایک دفعہ وہاں جانے سے پہلے مجھ سے پوچھ لینا چاہئیے تھا۔۔۔
حسان نے بھی بغیر لپٹا لپٹی کے جواب دیا تو زید ملک اسے دیکھتے رہ گئے آخر کار ان کا ہی سپوت تھا۔۔۔
زید صاحب اس کے کندھے کو تھپکتے اٹھ گئے۔۔۔
ڈیڈ آپ ناراض ہیں کیا مجھ سے اب ،،، حسان کو کہاں گوارا تھی ان کی ناراضگی وہ بچپن سے ہی اپنے ہر رشتے کے لیے بہت حساس تھا۔۔۔
نہیں بلکہ میں جلد اپنی ہونے والی بہو سے ملنا چاہتا ہوں زید صاحب نے مسکرا کر اسے حوصلہ دیا اور ہاں تمہاری مام سے بھی بات کر لوں گا تم بس خوش رہو۔۔۔
تھینک یو ڈیڈ ، حسان خوش ہوتے ان سے لپٹ گیا،،، ڈمپل نے بھی اپنی جھلک دکھلائی تھی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
سیٹھ شہاب غوری اس وقت اپنے ایک خفیہ اڈے پہ بیٹھا سب کا انتظار کر رہا تھا ،،، آج وہ ایک بہت بڑی ڈیل کرنے والا تھا ۔۔۔
کچھ ہی دیر گزری تھی جب ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی اپنی مردانہ وجاہت کا شاہکار اندر داخل ہوا ،،، دو گارڈز اس کے دائیں بائیں موجود تھے ۔۔۔
اس کی پرسنیلٹی دیکھ سیٹھ کے بھی ہوش اڑے تھے لیکن خود پہ قابو پاتا وہ واپس اپنی حالت میں آیا ،،،
وہ آدمی اب ٹھیک سیٹھ کے سامنے بیٹھا ٹانگ پر ٹانگ رکھتے سگریٹ سلگا گیا۔۔۔
ہاں بولو سیٹھ کیسا مال ہے تمہارے پاس ،،، سگریٹ کا کش لیکر دھواں چھوڑتے اب اس نے سیٹھ سے سوال کیا۔۔۔
سب ان چھوا مال ہے یقیناً آپ کو پسند آئے گا سیٹھ نے خباثت بھرے لہجے میں جواب دیا۔۔۔
اس آدمی نے ہنکارا بھرتے سگریٹ کو نیچے مسلا ۔۔۔
ٹھیک ہے میں بن دیکھے مال کا سودا نہیں کرتا ،،، پہلے دیکھوں گا پھر ڈیل ڈن ہو گی اور اگر مجھے ایک بھی لڑکی پسند آ گئی تو تم کروڑوں میں کھیلو گے ۔۔۔
کروڑوں کا نام سنتے سیٹھ کے منہ میں رال ٹپکی۔۔۔
ٹھیک ہے مجھے منظور ہے کل میں آپ کو وہاں لے چلوں گا۔۔۔
ہونہہہ۔۔۔ اوکے پھر میں چلتا ہوں ،،، اس نے اٹھ کر سیٹھ سے ہاتھ ملایا اور باہر کو چل دیا۔۔۔
باہر نکلتے ہی اس نے اپنے ایک گارڈ کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ سمجھایا جس پر وہ سر ہلاتا وہاں سے نکل گیا اور اس کے گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی فراٹے بھرتی منظر سے غائب ہو گئی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
شٹ اس کو بھی ابھی خراب ہونا تھا ۔۔۔
انابیہ نے گاڑی سے نکلتے ہی ٹائر کو لات ماری ایک تو وہ پہلے ہی لیٹ ہو گئی تھی اور اسے کہیں ارجنٹ پہنچنا تھا ۔۔۔۔
ہر طرف ٹریفک کا ہجوم تھا اور حسان نے اسے سختی سے کسی اجنبی سے لفٹ لینے کو بھی منع کیا تھا تو وہ اس وجہ سے اب زیادہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو رہی تھی ۔۔۔۔
انابیہ نے موبائل نکال کر حسان کو کال ملائی لیکن اس کا نمبر بزی جا رہا تھا اور حسنین یونی میں تھا۔۔۔
اب کیا کروں وہ خود سے بڑبڑاتی اب چکر پہ چکر کاٹ رہی تھی اور ڈرائیور بیچارہ اپنا سا منہ لیے کھڑا تھا۔۔۔
تبھی انابیہ کے بالکل پاس ایک گاڑی آ کر رکی ۔۔۔
یو نان سینس ، بدتمیز ، ڈفر میرے اوپر ہی چڑھا دو یہ اپنی کھٹارا وہ تلملاتی ہوئی گاڑی کی طرف بڑھی جب اندر بیٹھا باسم کھل کر ہنسا۔۔۔
ارے بونی تو تم پہلے ہی ہو اب گاڑی کے سامنے کھڑی نظر کہاں آتی ہو۔۔۔ باسم نے اسے تپانے والے انداز میں کہا اور لب دبائے مسکراہٹ کو روکا۔۔۔
جس پہ انابیہ بل کھا کے رہ گئی۔۔۔
اچھا آ جاؤ میں چھوڑ دیتا ہوں تمہیں کدھر جا رہی ہو ،،، دھوپ میں کھڑی کھڑی جل کر کوئلہ ہو جاؤ گی اینڈ یو نو مجھے کالی لڑکیاں پسند نہیں ۔۔۔
باسم نے کہتے ساتھ ہی اسکی طرف کا دروازہ کھولا ۔۔۔
اللہ کرے تمہیں کالی لڑکی ہی ملے جل ککڑے کہیں کے ،،، دانت پیستی وہ گاڑی کے اندر بیٹھ گئی اسے جلد از جلد ایک جگہ پہنچنا تھا اگر لیٹ نہ ہو رہی ہوتی تو کبھی اس سے لفٹ نہ لیتی___
اس کے بیٹھتے ہی باسم نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔
ویسے تم نے جانا کدھر ہے ،،، باسم نے سرسری سا پوچھا۔۔۔
جہنم میں ،،، تپے چہرے کے ساتھ جواب دیا۔۔۔
مجھے اس کا راستہ نہیں پتا ،،، تمہیں پتہ ہے تو بتاؤ دونوں اکٹھے چلتے ہیں__
باسم نے لاپرواہی سے کہتے اسے مزید تپایا تھا۔۔۔
گاڑی روکو ،،، انابیہ غصے سے اسے دیکھتی چیخی۔۔۔
آہستہ بولو بونی یار میرے کان کے پردے پھٹ جائیں گے میں اپنی سماعت کھونا نہیں چاہتا ابھی تو میں نے اپنی بیوی کی میٹھی کوئل جیسی آواز بھی نہیں سنی۔۔۔
بھاڑ میں گئی تمہاری سماعت اور بھاڑ میں گئی تمہاری بیوی ،،، پھولے گالوں سمیت وہ سرخ انار بنی تیزی سے گاڑی سے نکلتے دروازہ زور سے مار گئی۔۔۔
باسم نے زور سے کانوں کے پردوں پر ہاتھ رکھا جنگلی کہیں کی بیوی تو میری تم ہی بنو گی بونی وہ دل میں بڑبڑایا لیکن اس کا ری ایکشن سوچ کے استغفرُللہ بھی اتنی ہی تیزی سے پڑھا تھا۔۔۔
انابیہ آنکھیں چھوٹی کیے ابھی بھی اسے گھور رہی تھی وہ جگہ تھوڑی ہی دور تھی جہاں اسے جانا تھا اس لیے وہ نہیں چاہتی تھی کہ باسم اسے اس جگہ جاتا دیکھے تبھی وہاں ہی کھڑی اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔۔۔
باسم نے سٹیرنگ پر گرفت مضبوط کی اور اسے آنکھ مارتے ہی گاڑی بھگا لے گیا ،،، پیچھے سے انابیہ نے چپل اتارتے ماری جو زرا سی دور پڑی اب سڑک کو سلامی دے رہی تھی۔۔۔
پیر پٹختی وہ جا کر چپل اٹھا لائی اور پہنتے پہنتے سو صلاواتوں سے باسم کو نوازا تھا پھر وہاں سے اٹھتی اپنی مطلوبہ جگہ کی طرف چل دی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
نازیہ بیگم اس وقت پریشان سی لاؤنج میں بیٹھی زید صاحب کا انتظار کر رہی تھی جب انہیں اندر داخل ہوتے دیکھا تو فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔
آپ کی بات ہوئی حسان سے ،،، کیا کہا اس نے۔۔۔؟
ارے بیگم صبر سے کام لو ادھر آؤ بیٹھو بتاتا ہوں ،، زید صاحب ان کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گئے ۔۔۔
ہم سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے ہمیں حسان سے پوچھ لینا چاہیے تھا ایک دفعہ وہاں جانے سے پہلے ۔۔۔
حسان کسی اور کو پسند کرتا ہے ، یہ بچوں کی زندگی ہے انہوں نے گزارنی ہیں زبردستی یوں گھر نہیں بسائے جاتے ۔۔۔
ہمیں آج ہی ملک ولا جانا ہو گا اور بات کرنی ہو گی ۔۔۔زید صاحب نے بات ختم کرتے اپنی زوجہ کی طرف دیکھا جو اب کافی پریشان دکھائی دے رہیں تھیں ۔۔۔
غلطی میری ہے مجھے ہی اب کچھ کرنا ہوگا ایک غلطی کر لی ہے دوسری دوبارہ نہیں دوہرانا چاہتی۔۔۔
ابھی وہ سوچوں کے گرداب میں پھنسی باہر نہیں نکلی تھیں کہ حسان اندر داخل ہوا ،،،اس نے آتے ہی سلام کیا جب وہ سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔ اسے ایک ضروری فائل چاہیے تھی جو صبح گھر ہی بھول گیا وہی لینے اب آیا تھا ۔۔۔
حسان میری بات سنو۔۔۔
نازیہ بیگم کی پکار پر وہ رکا اور مڑا تھا قدم قدم چلتا ان کے قریب آیا اور عقیدت سے ان کے ہاتھ چومتا وہیں پاس ہی بیٹھ گیا۔۔۔
کون ہے وہ لڑکی مجھے نہیں ملواؤ گے میری ہونے والی بہو سے ،،، نازیہ بیگم کے کہنے پہ اس نے بے یقین نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور پھر زید صاحب کی طرف جو ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔۔۔
آئی لو یو مام ،،، بہت جلد میں اسے گھر لے کر آؤں گا پھر سب سے ملاقات بھی ہو جائے گی اور شادی کی تاریخ بھی طے کر لیں گے۔۔۔ حسان پر جوش سا ہو کر بولا تبھی نازیہ بیگم نے اس کے کان کھینچے تھے بیٹا جی کچھ زیادہ ہی جلدی نہیں آپ کو شادی کی ،،، حسان کھل کر ہنسا تو نازیہ بیگم نے اس کا ماتھا چومتے اسے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دی۔۔۔
اوکے مام ، شام کو بات ہوتی ہے مجھے ابھی ضروری کام سے جانا ہے اور ہاں انابیہ اور حسنین کو میں خود آ کر بتاؤں گا ۔۔۔ نازیہ بیگم نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ مسکراتا اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
نازیہ بیگم زید صاحب کے ہمراہ اس وقت ملک ولا میں احسن صاحب کے کمرے میں بیٹھے تھے حسان بھی ساتھ ہی آیا تھا گھر کے باقی بڑے بھی اس وقت وہیں موجود پریشانی سے ان کا چہرہ تک رہے تھے ۔۔۔
کیا بات ہے نازیہ کیوں پریشان ہو کونسی ضروری بات کرنی ہے جو اس طرح سب کو اکٹھا کیا ہے۔۔۔۔ احسن صاحب نے ہی اس خاموشی کو توڑتے انہیں بات کا آغاز کرنے کو کہا۔۔۔
میں بتاتا ہوں نانا جان ،،، حسان نازیہ بیگم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول پڑا۔۔۔ اب سب کا رخ حسان کی طرف مڑ گیا۔۔۔
میں یہ شادی نہیں کر سکتا میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں ،،، ایمل کو ہمیشہ میں نے اپنی کزن کی حیثیت سے ہی دیکھا ہے وہ مجھے عزیز ہے اینڈ آئی ایم شیور اسے مجھ سے بھی زیادہ اچھا لڑکا ملے گا وہ بہترین ڈیزرو کرتی ہے۔۔۔
حسان نے سپاٹ لہجے میں بات مکمل کرتے سب کی سماعت پہ بم پھوڑے ۔۔۔ سب اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔
سب سے پہلے محویت سنان صاحب کی ٹوٹی تو وہ اچانک کھڑے ہو گئے ،،، نکل جاؤ میرے گھر سے دوبارہ یہاں قدم نہیں رکھنا میری بیٹی کو تم سے بہتر مل جائے گا۔۔۔۔
نویرہ بیگم بھی بیٹھی بھل بھل آنسو بہا رہی تھیں۔۔۔
مجھے معاف کر دیں بھائی جان میں نے حسان سے پوچھے بغیر یہ قدم اٹھایا جو کہ میری سب سے بڑی غلطی تھی۔۔۔
ابھی وہ سب باتیں ہی کر رہے تھے جب کچھ گرنے کی آواز آئی تو سب چونک گئے۔۔۔
ایمل چائے کی ٹرے لیے خوشی خوشی کمرے کے دروازے تک ہی پہنچی تھی جب حسان کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جس نے اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی اور ہاتھ میں پکڑی ٹرے زمین بوس ہوئی جبکہ ایمل بھی ہوش و خرد سے بیگانہ ہو کر زمین پر گر پڑی۔۔۔
ابھی تو اس نے اس خوشی کو ٹھیک سے جیا بھی نہیں تھا ابھی تو شروعات ہوئی تھی اس کے سنگ سپنے بونے کی اپنے خوابوں کو پروان کی پہلی سیڑھی پہ چڑھایا تھا لیکن یہ کیا جس کے ساتھ اس نے جنت تک کا سفر اختیار کرنا تھا وہ تو دنیا میں بھی اسے اپنانے سے انکاری ہو گیا تھا۔۔۔
حسان نے تو اس کی محبت کے پھول کو کھلنے سے پہلے ہی توڑ دیا۔۔۔
سب بھاگ کر ایمل کے پاس پہنچے ، سنان صاحب اسے گود میں اٹھاتے ایک کٹیلی نظر حسان پہ ڈالتے ایمل کو لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئے،،، علی صاحب نے جلدی سے ڈاکٹر کو فون کیا ۔۔۔
حسان کے بھی رنگ اڑ چکے تھے اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ اسے یوں بے ڈھرک آ کر انکار نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے آ کر چیک اپ کیا تو انہوں نے بتایا کہ بی پی خطرناک حد تک شوٹ کر گیا ہے ،،،
ڈاکٹر احتیاط کے ساتھ دوائی لکھ کے دیتی وہاں سے چلی گئی جبکہ حسان پہلو پہ پہلو بدل رہا تھا اب وہ اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے کمرے کی جانب بڑھا تو سنان صاحب نے درشت لہجے میں اسے اندر جانے سے روک دیا۔۔۔۔
چلے جاؤ یہاں سے آج کے بعد میری بیٹی کے سامنے بھی مت آنا ،،، بہت جلد میں کوئی اچھا سا رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کر دوں گا۔۔۔
سنان صاحب اسے غصے بھری نگاہوں سے دیکھتے کمرے کی طرف بڑھ گئے نویرہ بیگم تو پہلے ہی کمرے میں جا چکی تھیں زیمل بیگم کیچن میں اس کے لیے سوپ بنانے چلی گئیں جبکہ احسن صاحب کا اپنی پوتی کو اس حالت میں دیکھ کر بی پی ہائی ہو گیا تو علی صاحب ان کی طبیعت کے پیش نظر وہیں ان کے پاس رک گئے۔۔۔
زید صاحب معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے نازیہ بیگم اور حسان کو زبردستی گھر لیکر جانے کے لیے روانہ ہو گئے۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
رات کے کسی پہر نقاہت کی وجہ سے اس کی آنکھ کھلی تو عنایہ کو اپنے پاس سوتے ہوئے دیکھا جو یقیناً اس کی فکر میں یہیں سوئی تھی۔۔۔ ایمل کو اس پہ ڈھیروں پیار آیا۔۔۔
وہ افسردگی سے اٹھ بیٹھی جب ذہن بھٹک کر کچھ دیر پہلے ہونے والی باتوں میں جا الجھا تھا۔۔۔
اس دشمن جاں کی باتیں پھر سے یاد کرتے آنکھوں سے آنسو نکل آئے دل کر رہا تھا دھاڑیں مار مار کر روئے لیکن پاس سوئی عنایہ کا خیال کرتے اس نے اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھتے اپنی آواز کا گلا گھونٹا۔۔۔
یکطرفہ محبت بھی کسی اذیت سے کم نہیں ،،، یہ آپ کو ذہنی مریض بنا کر لاعلاج چھوڑ دیتی ہے پھر کچھ بھی ہو جائے نہ تو کوئی دلیل کام کرتی ہے اور نہ ہی کوئی دوائی ،،، یہ انسان کو زندہ لاش بنا کر رکھنے کی طاقت رکھتی ہے
"عشق عین ، عشق شین ، عشق قاف کرتا ہے
یہ لاحق جس کو ہو جائے اسے برباد کرتا ہے"
بند کمرے میں دم گھٹتا محسوس ہوا تو اپنا ڈوپٹہ تکیے سے اٹھاتی چپل پیروں میں اڑیستی باہر نکل آئی ہر طرف خاموشی تھی تو لاؤنج کا دروازہ کھلا دیکھ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی دروازہ عبور کرتی گارڈن میں لگے جھولے پر آ بیٹھی۔۔۔
ہوا میں ہلکی ہلکی نمی کا احساس تھا کھلی فضا میں آ کر اس کا کچھ سانس بحال ہوا چہرے پہ آنسؤوں کے مٹے مٹے نشان تھے کچھ ہی دیر میں وہ صدیوں کی بیمار لگنے لگ گئی۔۔۔
باسم اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر آفس کا ورک کر رہا تھا کب اتنا ٹائم ہو گیا اسے پتہ ہی نہ چلا تھکاوٹ کے باعث اسنے باقی کا کام کل کرنے کا سوچا پھر اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا۔۔۔
ہلکی سی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے وہ سونے کے لیے لیٹنے لگ گیا تو بالکونی کا ادھ کھلا دروازہ دیکھ وہ بند کرنے آیا جب نیچے بیٹھ ایمل پر نظر گئی تو گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔۔۔۔
نیچے آتے ہی اس نے کیچن کا رخ کیا دو کپ کافی بنا کر وہ ایمل سے بات کرنے کے لیے گارڈن کا رخ کر گیا۔۔۔
اہممم ،،، اہمممم کیا تلاش رہی ہو آسمان میں باسم نے اس کی محویت نوٹ کرتے گلا کھنکار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا وہ جو آسمان میں آدھے ادھورے چاند کو دیکھ ناجانے کن خیالوں میں گم تھی باسم کے پکارنے پر وہ ہڑبڑا گئی ۔۔۔
ایک نظر اس کی طرف دیکھا جو دونوں ہاتھوں میں مگ لیے کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ باسم نے ایک مگ اس کی طرف بڑھایا جسے اس نے مسکرا کر تھام لیا اور دوسرا مگ لبوں کو لگاتے اس کے پاس ہی زرا فاصلے پہ بیٹھ گیا ۔۔۔
کچھ نہیں بس چاند کو دیکھ رہی تھی کہ کتنا اکیلا ہے اور ادھورا بھی ،،، کیا اکیلے رہ جانے والے ایسے ہی ادھورے رہ جاتے ہیں۔۔۔؟
باسم سمجھ رہا تھا اس کا دکھ زیمل بیگم نے اسے حسان کے شادی سے انکار کرنے کی وجہ بھی بتا دی تھی۔۔۔
ضروری نہیں ، چاند اکیلا ضرور ہے لیکن مکمل پھر بھی ہو جاتا ہے بس اپنے گردش کرتے وقت کو صبر سے گزارتا ہے اور ایک دن مکمل ہو کر اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا ہے۔۔۔۔
باسم نے سپ لیتے چاند کی طرف دیکھتے اسے جواب دیا ۔۔۔
ایمل کو اس کے جواب سے تسلی ملی تھی اسے سمجھ آ گئی تھی کہ اسے بھی اب صبر کرنا ہے خدا نے چاہا تو اس کا ادھورا عشق بھی اپنی منزل پا لے گا اب وہ منزل مجازی عشق تک پہنچائے یا حقیقی عشق تک یہ تو وقت نے طے کرنا تھا۔۔۔۔
کافی اچھی بنی ہے شکریہ ،،، ایمل نے مسکرا کر باسم کو دیکھا جس نے سر کو خم دیتے اس کا کمپلینٹ وصول کیا اور پھر مسکرا دیا۔۔۔
تم مجھ سے ہر بات شئیر کر سکتی ہو میں تمہارا کزن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا دوست بھی بن سکتا ہوں اور رازدار بھی ۔۔۔۔
باسم نے ایمل کا چہرہ دیکھتے اسے پیشکش کی تھی۔۔۔
یس شیور ،،، ایمل بھی کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔ باسم بچپن سے ہی اس کا بہت خیال رکھتا تھا عنایہ اور ایمل میں کبھی فرق نہیں کیا تھا ایک محافظ بھائی بن کر ہمیشہ اس کا خیال رکھتا۔۔۔
چلو رات بہت ہو گئی ہے مجھے صبح آفس بھی جانا ہے اور تمہیں یونی نہیں جانا کیا۔۔۔؟ باسم نے کھڑے ہوتے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جس پر وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔
جانا ہے نہ بہت جلد میری ہاؤس جاب سٹارٹ ہونے والی ہے ۔۔ پھر بہت جلد میں ٹاپ ڈاکٹرز کی لسٹ میں شامل ہو جاؤں گی ۔۔۔
اوکے گڈ۔۔۔ باسم نے تھمبس اپ کا اشارہ کیا ۔۔۔
پھر دونوں ایک دوسرے کو گڈ نائٹ بول کر اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے گئے۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ایمل ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی فریش سی اپنے بالوں کو پونی میں قید کر رہی تھی جب عنایہ سوئی جاگی کیفیت میں اٹھ بیٹھی اور ایمل کو تیار ہوتا دیکھ حیران رہ گئی۔۔۔
آپی آپ یونی جائیں گی آج ،،، عنایہ نے دونوں آنکھوں کو زور سے مسلا جنہیں وہ زبردستی کھولنے کی کوششوں میں لگی تھی لیکن وہ کھلنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔۔۔
کیوں آج کیا ہے ۔۔۔؟ ایمل نے وہیں کھڑے اسے مڑ کر دیکھا ،،، تم بھی اٹھ جاؤ شاباش ہم ساتھ میں جائیں گے ،،،
لیکن آپی آپ کی طبیعت خراب۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوا مجھے میں بالکل ٹھیک ہوں اب تم بہانے مت ڈھونڈو۔۔۔
ایمل نے گھور کر اسے دیکھا تو وہ منہ بسورتی بیڈ سے نیچے اتر کر واشروم گھس گئی پیچھے ایمل ہلکا سا مسکرائی اور نیچے چلی آئی۔۔۔۔
سب ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے جب ایمل کو یوں تیار دیکھ سب کے ہاتھ رک گئے اور وہ آتے ہی چئیر گھسیٹ کر ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔۔۔
کیا ہو گیا ہے سب کو مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے سب جیسے میں کوئی جن ہوں ،،، وہ چھری کانٹا اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھتی لاپرواہی سے بولی۔۔۔
تم جن نہیں چڑیل ہو اس لیے سب گھور رہے ،،، باسم نے بھی ڈائننگ پہ آتے ہی شوشہ چھوڑا اپنا کوٹ کرسی کی پشت پہ ہینگ کرتے وہ بھی بیٹھ گیا۔۔۔
تم تو سڑتے ہو مجھ سے ویسے ہی تو سڑتے رہو ،،، ایمل نے انڈے کی بائٹ لیتے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔ جس پر باسم نے قہقہہ لگایا ۔۔۔
ایمل کو یوں نارمل بیہیو کرتے دیکھ سب کی جان میں جان آئی تھی احسن صاحب کو بھی کچھ تسلی ہوئی کہ کل تو جان ہی نکال دی تھی اس نے سب کی لیکن اب سب ٹھیک لگ رہا تھا یا وہ ٹھیک دکھا رہی تھی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔۔۔
تم آج یونی سے چھٹی کر لیتی نویرہ بیگم نے پریشان ہوتے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
ماما میں بالکل ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا مجھے میرا جانا ضروری ہے ،،، آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتے وہ خود کو مضبوط بنا کر بولی اور پھر باسم کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔۔
باسم مجھے اور عنایہ کو یونی چھوڑ دینا پلیز آج میری بہت امپورٹنٹ کلاس ہے میں وہ مس نہیں کر سکتی۔۔۔
جو حکم میری شہزادی لیکن جلدی آ جانا ورنہ چھوڑ کر چلا جاؤں گا ،،، باسم ہنستا ہوا کوٹ پہنتا روز کی دھمکی دیتا انہیں باہر اپنے پیچھے آنے کا کہتا خود بھی باہر کو چلا گیا ،،، وہ دونوں بھی اس کے پیچے ہی باہر کو بھاگ گئی مبادی کہیں چھوڑ کر ہی نہ چلا جائے۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕
انابیہ ایک چھوٹے سے خفیہ روم میں داخل ہوئی تھی جہاں دو لوگ اس کے انتظار میں بیٹھے تھے ایک موبائل کو لیپ ٹاپ کے ساتھ کنیکٹ کیے کچھ انفارمیشن نکال رہا تھا دوسرا مسلسل فون سے کسی پر بات کر رہا تھا ۔۔۔
انابیہ کے آتے ہی دوسرے شخص نے اسے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا جس پر اس نے فوراً عمل کیا۔۔۔۔
پہلے شخص نے بھی سرسری سی اس پر نگاہ دوڑائی اور پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد دوسرے شخص نے پہلے کے پاس بیٹھتے اس سے کام ہو جانے کی تفصیل پوچھی تو اس نے اوکے کا اشارہ کرتے کام دن ہونے کی خبر سنائی۔۔۔
مس انابیہ۔۔۔
انابیہ جو بے پرواہی سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے چیونگم منہ میں چباتی ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھی جہاں مختلف چیزیں پڑی اس کی سمجھ سے باہر تھیں اپنے نام کی پکار پر ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔۔۔
آپ شیور ہیں کہ آپ یہ کر سکتی ہیں۔۔۔؟ دیکھیں ہمارے لیے یہ مشن بہت اہم ہے آپ کی ایک غلطی ہمارا پورا پلان چوپٹ کر سکتی ہے۔۔۔۔
پہلے شخص نے سپاٹ لہجے میں اس سے پوچھا جبکہ اس کے ہڑبڑانے پر لب دبائے مسکراہٹ چھپا گیا تھا ۔۔۔
ی۔۔۔یس یس آئی ایم شیور آئی کین ڈو اٹ ۔۔
انابیہ نے دونوں کی طرف دیکھتے ہامی بھر لی ،،، وہ جانتی تھی کام مشکل ہے لیکن ان دونوں کو اس نے ایسے یقین دلوایا جیسے یہ تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو ۔۔۔
انابیہ آپ کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے اگر آپ کو زرا سا بھی لگتا ہے کہ آپ یہ نہیں کر سکتیں تو ہمیں بتا دیں ۔۔ اب کی بار دوسرا بولا جس کے چہرے پہ پریشانی اور بے چینی دونوں واضح تھیں۔۔۔
میں کر لوں گی آئی ول مینیج اور یہ میں اپنی خوشی سے کر رہی ہوں جان چلی بھی جائے تو پرواہ نہیں ،،، اس کے کہتے ہی دونوں نے اسے غصے بھری نگاہوں سے دیکھا ۔۔
اوپسسسس کچھ زیادہ بول گئی کیا۔۔۔؟
اچھا سوری۔۔۔ دونوں کی سرد نگاہیں خود پہ جمی دیکھ اسے اپنے الفاظوں کا احساس ہوا تھا ۔۔۔
دیر کیوں ہو گئی تھی آنے میں ۔۔۔؟
پہلے شخص نے ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے بات گھمائی۔۔۔
وہ میری گاڑی خراب ہو گئی تھی پھر کسی سے لفٹ لی ۔۔۔۔
کیا۔۔۔؟ کس سے لی۔۔؟ کہاں تک لی۔۔۔؟یہاں کا تو نہیں پتہ چلا اسے۔۔۔؟
انابیہ کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی دوسرے شخص نے پریشانی کے عالم میں سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔۔۔
نہ۔۔۔نہیں نہیں کسی کو نہیں پتہ چلا میں بہت پیچھے اتر گئی تھی اور لفٹ میں جاننے والے ( جل ککڑے یہ اسنے منہ میں بولا تھا) سے لی تھی۔۔۔
انابیہ نے فٹا فٹ وضاحت دی تو انہیں تھوڑا سکون ملا۔۔۔۔ پھر انابیہ کو اس کا کام سمجھاتے ہی سب اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف چل دیے۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
انسپکٹر مجھے ملوا دیں نہ اپنے گھر والوں سے۔۔۔۔
وہ دونوں اس وقت ایک ریسٹورنٹ میں آئس کریم کھانے کے لیے آئے بیٹھے تھے جب عرشیہ نے حسان سے منت کی ۔۔۔
میں نے تمہیں کچھ بتانے کے لیے ادھر بلایا تھا وہ تو سن لو ،،، حسان نے سنجیدہ لہجہ اپناتے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
اب ہماری شادی نہیں ہو سکتی عرشیہ میرے گھر والوں نے میرا رشتہ میری کزن کے ساتھ طے کر دیا ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ حسان نے چہرے پہ بیچارگی لیے اسے بتایا ۔۔۔
واٹ ۔۔۔؟ انسپکٹر تم ایسا کیسے کر سکتے ہو میرے ساتھ نمکین پانی سے لبالب آنکھیں بھر آئیں ،،، جانتے ہو نہ میں کتنی محبت کرتی ہوں تم سے ،،، عرشیہ ہذیانی انداز میں چیختی ٹیبل سے اٹھ کھڑی ہوئی آس پاس کے لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔۔۔
عرشیہ سٹاپ اٹ یار ہم بیٹھ کے بھی بات کر سکتے ہیں نہ حسان بھی لوگوں کو اپنی طرف دیکھتے جلدی سے اٹھ کر اس تک پہنچا ۔۔۔۔
انسپکٹر میں آپ کی جان لے لوں گی اگر آپ نے میرے علاؤہ کسی اور کا سوچا بھی ،،، عرشیہ آنکھوں میں آنسو لیے اس کے گریبان تک پہنچی تو حسان نے زبردستی اسے گلے سے لگا کر کالم ڈاؤن کرنے کی کوشش کی تو عرشیہ اب اسکے سینے پہ زور زور
سے مکے مارنے لگی اور ساتھ ہی رونا شروع کر دیا ۔۔۔
آہہہہ۔۔۔۔عرشی میری جان میں مزاق کر رہا تھا سوری گھر والوں کو میں نے منا لیا ہے یہی بتانے کے لیے تمہیں ادھر بلایا تھا،،، حسان نے اسے بازوؤں سے جھنجھوڑتے اسے سچ بتایا تو وہ شاکڈ رہ گئی۔۔۔
آ،آ،آپ سچ کہہ رہے ہیں نہ بولیں انسپکٹر آپ سچ بول رہے ہیں نہ ،،، عرشیہ نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں کو اس کی آنکھوں میں گاڑا جبکہ اس کا گریبان ہنوز پکڑا ہوا تھا ۔۔۔
بالکل سچ مائی عرشی ڈارلنگ ،،، تمہارے علاؤہ میں کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اتنی محبت کرتا ہوں تم سے میں۔۔۔
کل تمہیں گھر والوں سے ملوانے کے لیے لینے آؤں گا تم اچھا سا تیار ہو جانا تا کہ مام کو پہلی نظر میں ہی پسند آ جاؤ تم ،،، حسان نے کہتے ساتھ ہی اس کے ماتھے پہ اپنی محبت کی پہلی مہر ثبت کی اور دوبارہ اسے سینے سے لگا گیا تو وہ بھی شرماتی لیکن پر سکون سی اس کی باہوں میں آ سمائی ۔۔۔
دونوں ہوش میں تب آئے جب سب نے کھڑے ہو کر ان کے لیے تالیاں بجائیں۔۔۔
تب حسان ہوش میں آتا سر کھجاتا ہوا پیچھے ہٹا اور عرشیہ بھی مسکرا دی پھر دونوں نے آئس کریم کھائی اور وہاں سے نکل آئے ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
نومی اس وقت ایک بار کلب میں زخمی شیر کی طرح بھپرا بیٹھا گلاس پہ گلاس وائن کے پی رہا تھا۔۔۔
آج پھر سالی (گالی) ہاتھ سے نکل گئی ورنہ آج اسے ایسا مزہ چکھاتا کہ ہوش ٹھکانے لگا دیتا اس کے ،،، اس نے وائن کا گلاس پکڑے زور سے فرش پر کھنچ مارا اور دھاڑا۔۔۔۔
تم تو میری ہی ہو بلبل بھاگ لو جتنا بھاگ سکتی ہو بچا لو خود کو جتنا بچا سکتی ہو تمہارا آخری ٹھکانہ اب میرا بیڈروم ہی ہو گا۔۔۔ وہ خباثت سے مکروہ ہنسی ہنستا ہنستا ان کو قہقہوں میں تبدیل کر گیا۔۔۔
چلتا میوزک ایک دفعہ رک کر پھر سے بجنے لگا تھا اور نومی بھی لڑکھڑاتا ہوا اٹھ کر ڈانس فلور پہ آتے ہی ایک لڑکی کو اپنی طرف کھینچتے اس سے ڈانس کرنے لگ گیا۔۔۔
یہاں آنا اس کا معمول تھا ہر روز نئے گناہ کا چسکا اسے یہاں کھینچ لاتا اور وہ چند رقم اس بار کے مالک کو دے کر اپنی من مانیاں کرتا پھرتا رہتا۔۔۔۔
اپنے غم و غصّے کو اس نے اتارنے کے لیے آج نیا شکار ڈھونڈا تھا اور لا کر اسے اپنے کمرے میں پٹکا اور رات وہیں گزاری ۔۔۔۔
ساری رات گناہ کی دلدل میں گزارتے اب وہ پھر نئے سرے سے پلان بناتا یونی پہنچ چکا تھا جب اسے پھر سے ایمل مین گیٹ سے اینٹر ہوتی نظر آئی کھسیانی ہنسی ہنستے کچھ سوچ کر وہ بھی آج کلاس میں جا بیٹھا کیونکہ ایمل کو یہیں تو آنا تھا۔۔۔۔
ایمل جیسے ہی کلاس میں اینٹر ہوئی تو فرنٹ پہ ہی نومی کو بیٹھا دیکھ اس کا دل ڈوب کے ابھرا ،،، خود میں ہمت پیدا کرتی سیکنڈ لائن میں بیٹھ گئی تبھی سر کلاس میں اینٹر ہوئے ۔۔۔۔
سٹوڈنٹس بہت جلد آپ کی ہاؤس جاب سٹارٹ ہونے والی ہے یہ لاسٹ پریزینٹیشن ہو گی جو آپ دو دو سٹوڈنٹس کو گروپ کی شکل میں دینی ہو گی اپنا پارٹنر آپ خود ڈھونڈ کر مجھے اپنا نام لکھوا دیں۔۔۔
سر بول کر چپ ہوئے تو کلاس میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ،،،
سر میں مس ایمل کے ساتھ اپنی پریزینٹیشن پریزینٹ کرنا چاہتا ہوں مس ایمل کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ،،، ابھی سب ڈیسائیڈ کر رہے تھے کہ نومی کی کلاس میں آواز گونجی جبکہ ایمل کی حیرت سے آنکھیں باہر ابلنے کو تیار تھیں۔۔۔
سر نے اسے دیکھتے ہی ہاں میں سر ہلاتے ان کا نام لکھ لیا۔۔۔
لیکن سر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ دونوں میری کلاس کے بریلینٹ سٹوڈنٹس ہیں آئی ایم شیور کہ آپ دونوں کا کومبو بہت اچھا رزلٹ سامنے لائے گا ،،، ایمل منع کرنے ہی والی تھی جب سر نے اس کی بات اچک لی اور دونوں کو گڈ وشز دیتے باقی سٹوڈنٹس کے نام لکھتے کلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔۔۔۔
اور کتنا بھاگو گی مجھ سے بلبل جتنا دور جاؤ گی میں اتنا قریب کھینچ لوں گا تم بس میری ہو ۔۔۔
نومی اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتے کمینی ہنسی ہنس دیا اور ایمل بس مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی۔۔۔
شاید تم کل کی مار بھول گئے ہو اس لیے بہتر ہے اپنی گندی شکل لے کر یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔۔
ایمل کتابیں سمیٹتی اپنی جگہ سے اٹھ گئی ،،،
اب تو یہ شکل تمہیں ہی دیکھنی ہے ہر روز میری ویٹ اینڈ واچ ۔۔۔ کمینگی ہنسی ہنستے وہ وہیں اسکی چئیر پر بیٹھ گیا جبکہ ایمل اسے اور منہ نہیں لگانا چاہتی تھی تبھی پیر پٹکتی باہر آ گئی۔۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
اے چشمش کیسی ہو۔۔۔؟
حسنین نے آتے ہی عنایہ کے چشمے پہ چوٹ کی جو ایک بینچ پہ کتاب کھولے ناجانے کن خیالوں میں گم تھی ،،، حسنین بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گیا ۔۔۔
عنایہ بغیر جواب دیے کتاب بند کرتی بیگ کندھے پہ لٹکائے اٹھ کر یونہی چلنے لگ گئی۔۔۔
ہیں اسے کیا ہوا ۔۔۔؟ وہ ہکا بکا سا منہ کھولے اسے دیکھنے لگا ،،، وجہ اسے سمجھ نہیں آئی تبھی سعد اور ارحم اس کے پاس چلے آئے اور اسے باتوں میں لگا لیا وہ چاہ کر بھی عنایہ کے پیچھے نہ جا سکا۔۔۔
عنایہ بے وجہ چل چل کر تھک گئی تھی ارحا اور فضا آج دونوں ہی چھٹی پہ تھیں تو وہ جی بھر کر بور ہوئی۔۔۔
وہ چلتی ہوئی یونی کی بیک سائیڈ پہ آ پہنچی ادھر سٹوڈنٹس کا آنا جانا بہت کم تھا جہاں اس نے کچھ دور ایک لڑکے کو لڑکی کو زبردستی گھسیٹتے لے جاتے دیکھا وہ کافی زخمی تھی لیکن لڑکا بے پرواہ بنا اسے زبردستی گھسیٹے جا رہا تھا ،،، لڑکی نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سامنے والے نے بے رحمی سے اسے تھپڑ جڑے اور وہ اسے لیتا یونی کے بیک دروازے سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔
بھاؤؤؤؤ۔۔۔۔۔
نہ۔۔۔نہیں نہیں میں نے کچھ نہیں دیکھا عنایہ نے گھبرا کر آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیے خوف سے اس کا پورا وجود کانپ اٹھا وہ ہولے ہولے لرزتی نیچے بیٹھتی ناجانے کیا بڑبڑا رہی تھی ۔۔۔
عنایہ کیا ہوا ادھر دیکھو میں ہوں حسنین کیا دیکھا تم نے ،،، حسنین نے جلدی سے اس کے برابر بیٹھے اس کو دونوں کندھوں سے تھامتے جھنجھوڑا تو وہ آنکھوں سے زرا سا ہاتھ ہٹاتے اسے دیکھ اس کے گلے لگتی جلدی سے اس کے سینے میں منہ چھپا گئی،،، وجود اس کا ابھی بھی لرز رہا تھا جبکہ حسنین تو اس کے چھونے سے جیسے پتھر کا ہو گیا یہ نرم گرم لمس محسوس کرتے اس کے دل میں ایک خوبصورت احساس جاگا تھا ،،، حسنین بھی اسے اپنے گھیرے میں میں لیتے اسے محفوظ حصار سونپ گیا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان عرشیہ کو لینے جا رہا تھا جب ایمل کی یونیورسٹی کے آگے سے گزرتے اس کی نظر میں گیٹ کے پاس اکیلے کھڑی ایمل پر گئی تو گاڑی ایک سائیڈ پہ لگاتے اس سے بات کرنے کی نیت سے اس کی طرف بڑھا۔۔۔۔
ایمل اکیلی کیوں کھڑی ہو عنایہ کدھر ہے۔۔۔؟
وہ جو اپنے ہی دھیان میں کھڑی باسم کا انتظار کر رہی تھی جو ناجانے آج کیوں لیٹ ہو گیا تھا عنایہ آج چھٹی پر تھی ،،، اپنے سامنے کھڑے حسان کو دیکھ جیسے بت بن گئی ۔۔۔
ایمل مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے میں کافی دنوں سے تم سے ملنا چاہ رہا تھا دیکھو میں نہیں چاہتا کہ ہم دونوں ایک ایسے بندھن میں بندھیں جس میں نہ تم خوش رہ سکو اور نہ میں ،،، تم بہت اچھی لڑکی ہو مجھ سے بہتر ڈیزرو کرتی ہو۔۔۔۔
حسان نے اپنے تئیں اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔
آپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں بالکل ٹھیک ہوں آپ خوش رہیں۔۔۔
ایمل نے آنکھوں میں امڈ آنے والی نمی کو پیچھے دھکیلتے خود پہ ضبط کے کڑے پہرے لگائے تھے۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔؟
باسم جو ٹریفک میں پھنسا ابھی ایمل کو لینے یہاں پہنچا تھا حسان کو دیکھ آگ بگولہ ہوا تھا۔۔۔
میں ایمل سے بات کرنے آیا تھا۔۔۔ حسان نے بھی اسے ٹھنڈے لہجے میں جواب دیتے تپایا۔۔۔
لیکن ایمل تم سے بات نہیں کرنا چاہتی ،،، چلو ایمل یہاں سے ۔۔۔۔
باسم نے دانت پیستے حسان کو جواب دیا اور ایمل کا بازو پکڑے گاڑی کی طرف بڑھنے لگا جب حسان پھر سے اس کے سامنے آیا۔۔۔
ایمل میری بھی کزن ہے جتنا تمہارا اس پر حق ہے اتنا میرا بھی ہے مجھے دو منٹ اس سے بات کرنے دو پھر لے کر چلے جانا۔۔۔
حسان کی ہٹ دھرمی پر باسم اس کے گریبان تک پہنچا ،،، کہا نہ وہ تم سے بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔
ایمل ان دونوں کی بڑھتی لڑائی کو دیکھ خوفزدہ ہو گئی آس پاس کے لوگ بھی متوجہ ہونا شروع ہو گئے تھے۔۔۔
باسم چلو ادھر سے چھوڑو انہیں ،،، ایمل باسم کو بازو سے پکڑے گاڑی کی طرف چل دی جبکہ حسان ایمل کو یوں باسم کا بازو پکڑے دیکھ کڑوا گھونٹ بھر کے رہ گیا۔۔۔
گاڑی کے بونٹ پر زوردار مکا مارتے خود کے اندر اٹھتے اشتعال پر قابو پایا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
مام یہ عرشیہ ہے۔۔۔
حسان عرشیہ کو گھر لے کر آیا تھا تاکہ سب سے ملوا سکے۔۔۔
ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے ،،، نازیہ بیگم نے اٹھ کر اسے پیار کیا تو وہ جھینپ سی گئی۔۔۔
زید صاحب بھی اپنے لختِ جگر کی خوشی میں خوش تھے البتہ حسنین اور انابیہ کو تو وہ بالکل پسند نہیں آئی تھی لیکن اپنے جان سے پیارے بھائی کی خوشی کی خاطر چپ تھے اور مروتاً مسکرا رہے تھے ۔۔۔
نازیہ بیگم نے جوس سرو کیا تو عرشیہ نے کانپتے ہاتھوں سے تھاما لیکن کنٹرول کے باوجود جوس تھوڑا سا کپڑوں پر گر گیا ،،، وہ خاصی نروس دیکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔
مجھے واشروم جانا ہے ، جوس کا گلاس ٹیبل پہ رکھتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور حسان کی طرف دیکھا تو حسان سر ہلاتے سب کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دیتے اسے لیکر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
انسپکٹر یہ آپ کا کمرہ ہے۔۔۔؟
کمرے کی خوبصورتی کو دیکھ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔
انہونہہ۔۔۔ میرا نہیں ہمارا۔۔۔
حسان نے اس کے قریب آتے ہی اسے کمر سے تھام لیا اپنی شوخ رنگ آنکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑتے وہ بے خود سا ہونے لگا تھا ،،، بہت پیاری لگ رہی ہو جانِ حسان ،،، اسے خود سے قریب تر کرتے حسان نے اس کے کان میں سرگوشی کی تو اس کی جان لبوں پر آئی۔۔۔
ح۔۔۔۔حس۔۔حسان دور ہٹیں آپ کے کپڑے خراب ہو جائیں گے مجھے واشروم ۔۔۔۔
اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی حسان نے اسے زور سے خود میں بھینچ لیا ۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ کوئی اور گستاخی کرتا اس کا فون بج اٹھا جس پر برا سا منہ بناتے وہ پیچھے ہٹا ،،، عرشیہ ہنس دی۔۔۔
موبائل نکال کر دیکھا تو حمزہ کا تھا وہ عرشیہ کے سامنے اس سے بات نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
اوکے تم یہ صاف کر لو میں ابھی آیا ،،، وہ کہتے ہی روم سے باہر نکل گیا۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد وہ کال بند کر کے پلٹا تو عرشیہ رنگ اڑے چہرے کے ساتھ کمرے سے باہر نکلتی دکھائی دی تو حسان دو قدموں کا فاصلہ ایک قدم سے طے کرتے اس تک پہنچا،،، کیا ہوا گھبرائی ہوئی کیوں لگ رہی ہو۔۔۔
و۔۔وہ۔۔اندر چ۔۔چھپکلی تھی۔۔۔
عرشیہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی شرٹ دبوچے اس کے سینے سے لگ گئی۔۔۔
واٹ۔۔۔ تم چھپکلی سے ڈر گئی۔۔۔؟حسان کا قہقہہ بلند ہوا تو وہ اس سے دور ہو کر چھوٹی آنکھیں کیے اسے گھورنے لگ گئی۔۔۔
اوکے اوکے چلو آؤ نیچے چلتے ہیں وہ اپنے قہقہے کا گلا۔ گھونٹے اس کا ہاتھ پکڑے نیچے لے آیا۔۔۔
عرشیہ کے ماں باپ بہن بھائی کوئی بھی نہیں تھا اس لیے سب اس کی مرضی سے ہی زید صاحب نے طے کر لیا۔۔ اگلے جمعہ کو نکاح کی تقریب سادگی سے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ عرشیہ چاہتی تھی سب سادگی سے ہو۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان پریشانی کے عالم میں فائلوں میں سر دیے بیٹھا تھا کیس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا یہ پہلی دفعہ تھا کہ کیس مشکل نہ ہونے کے باوجود اسے مشکل لگ رہا تھا اس نے جتنے بھی ثبوت سیٹھ شہاب غوری کے لیے اکٹھے کیے وہ کافی نہیں تھے نہ تو اس لڑکی کا پتہ چل رہا تھا کہ وہ کون ہے اور نہ ہی ابھی تک سیٹھ کے بیٹے کی تصویر ملی تھی۔۔۔
جو کچھ اس نے ثبوت اکٹھے کیے تھے وہ سرے سے ہی گدھے کے سر سے سنگھ کی طرح غائب تھے۔۔۔۔
کون تھا جو اس کے گھر سے ہی اس کے کمرے سے اس کی ناک کے نیچے سے ثبوت لے اڑا تھا۔۔۔
حمزہ کو فون کر کے اب اس نے گھر بلایا تھا تبھی وہ اس کے انتظار میں بیٹھا خود پہ ضبط کر رہا تھا،،، اٹھ کر بالکونی کے پاس آکر سگریٹ نکالے لبوں میں دبا گیا کہ ذہن بھٹک کر دو آنکھوں میں چھپی نمی اور تڑپ پہ جا اٹکا تھا۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ انجانے میں ہی سہی لیکن ایمل کو وہ بہت بڑا دکھ دے چکا تھا لیکن وہ کہتے ہیں نہ محبت بہت خود غرض ہوتی ہے اور خود غرض محبت کسی دوسرے محبت کرنے والے کی مسکراہٹ بہت بے دردی سے کھینچ لیتی ہے اسے فرق نہیں پڑتا چاہے دوسرا محبت کرنے والا شخص قبر میں بھی اتر جائے ۔۔۔۔
لیکن ایمل اس معاملے میں ایسی نہیں تھی وہ شخص جو اس کی نس نس میں بہہ کر رگوں میں خون کی مانند دوڑتا تھا اسے ایمل سے محبت نہ سہی لیکن وہ اس کی فکر ضرور کرتا تھا اس کی بکھری حالت دیکھ اسے دکھ ہوتا تھا لیکن پھر وہی بات انسان اپنی محبت کے معاملے میں بہت خود غرض ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔
انہیں سوچوں میں کھویا تھا وہ جب حمزہ نے آ کر دروازہ ناک کیا اور اسے سوچوں کے بھنور سے باہر نکالا تو وہ واپس مڑا۔۔۔
مجھے لگتا ہے اب ہمیں اپنے دوسرے پلان کو سٹارٹ کرنا ہوگا جو ہو گیا اس پر سوچنے کے بجائے ہمیں فوراً دوسرا قدم اٹھانا پڑے گا۔۔۔
سیٹھ کو پکڑ کر اس سے سب اگلوا لیں گے اس کے بیٹے کا بھی اور اس لڑکی کا بھی۔۔۔
سیٹھ کی دم پر پاؤں رکھیں گے تو اس کے دم چھلے خود بخود اپنی بلوں سے باہر نکل آئیں گے ۔۔۔
حمزہ بھی خاصا غصے میں نظر آ رہا تھا تبھی وہ سپاٹ چہرہ لیے بیٹھے اپنا اگلا لائحہ عمل تیار کر گیا۔۔۔
حسان نے بھی ہامی بھرتے اسے اپنا عندیہ دے دیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
رات کا پہر تھا جب نعمان اپنے کمرے میں سونے کی غرض سے آیا لائٹ آن کرنے کی زحمت نہیں کی کیونکہ وہ اس وقت بہت تھکا ہوا تھا سونا چاہتا تھا بیڈ پہ لیٹا ہی تھا کہ ایک مخملی سا ہاتھ اس کے وجود پہ سرسرانے لگا۔۔۔
کچھ دیر تو وہ یونہی برداشت کرتا رہا پھر جھٹکے سے اس کا ہاتھ کھینچے اپنے قریب کرتے سائیڈ ٹیبل لیمپ کی بتی جلا گیا۔۔۔
سامنے ہی ناز ریڈ کلر کی نائیٹی میں اپنے ہتھیاروں سے لیس بدن کو سجائے اس کا ایمان ڈگمگانے کی کوششوں میں تھی ۔۔۔
کہا تھا نہ جب تک وہ کام نہیں ہو جاتا میرے پاس مت آنا تم نے ہمت بھی کیسے کی یوں میرے کمرے میں آنے کی وہ اس کے بازوؤں کو جھٹکتے بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
تبھی ناز نے اس کے سامنے کچھ پیپرز لہرائے تو وہ جھٹکے سے انہیں جھپٹ گیا۔۔۔
کھول کر دیکھتے ہی اس کے چہرے پہ شیطانی ہنسی ہنس دیا۔۔۔
ہمارے تک اس کا باپ بھی نہیں پہنچ سکتا اور ہاں جب تک وہ منہ کی نہیں کھا لیتا اسے زرا سی بھی ہمارے پلان کی بھنک نہیں لگنی چاہیے۔۔۔
وہ پیپرز کو اپنے سائیڈ ڈرار میں رکھتے سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔۔۔
اب تم جاؤ یہاں سے مجھے اپنی ڈیل یاد ہے اس انسپکٹر سے بہت جلد چھٹکارا حاصل کر کے تمہاری خواہش بھی جلد پوری کر دوں گا ابھی میں کسی کام میں پھنسا ہوا ہوں وہ ہو جائے گا تو سکون ملے گا ۔۔۔
ناز اس کے بھیجنے کے انداز سے سلگ ہی اٹھی تھی۔۔۔
جو اس سے بے حد پیار کرتی تھی یہ بھی اس سے اتنی ہی جان چھڑواتا تھا۔۔۔
دل تو ہر انسان کے پاس ہوتا ہے اور محبت تو کہیں بھی کسی سے کبھی بھی ہو سکتی ہے نہ محبت کرنے سے آج تک کوئی انسان بچ پایا ہے کیا ۔۔۔؟ جو بھی ہو جیسا بھی ہو محبت ہر دل میں اپنے ڈیرے جما لیتی ہے۔۔۔۔
ناز بھی اسی کشتی کی مسافر تھی لیکن اکیلی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
سب اس وقت لاؤنج میں بیٹھے تھے جب نازیہ بیگم زید صاحب اور حسنین ، انابیہ کے ہمراہ ایک دفعہ پھر راجپوت ہاؤس میں اپنے روٹھے ہوئے پیاروں کو منانے کی غرض سے آئے تھے ۔۔۔
میں جانتی ہوں جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا لیکن جوڑے تو آسمانوں پہ بنتے ہیں نہ اس میں بھی اللہ کی مصلحت ہو گی ،،، ایمل بھی میری بچی ہے مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بھی کچھ اچھا سوچا ہوگا لیکن عرشیہ بھی ایک اچھی لڑکی ہے بن ماں باپ کی بچی ہے شاید اس کے دکھوں کا مداوا میرے حسان سے شادی کی صورت میں ہونا ہو۔۔۔
اگلے جمعے ہم نے نکاح کی چھوٹی سی تقریب رکھی ہے میں چاہتی ہوں آپ سب ضرور شرکت کریں۔۔۔
نازیہ بیگم بول کر چپ ہوئیں تو سب کے چہروں کی طرف دیکھا جہاں سرد تاثر کے علاؤہ کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔
حسان نے میری بیٹی پر کسی اور کو ترجیح دی جس کے لیے میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا ۔۔۔
سنان صاحب اکھڑ لہجے میں اپنی بات کہتے وہاں سے اٹھ گئے جب کچھ گرنے کی آواز آئی۔۔۔
سب نے ایکدم مڑ کر دیکھا تو ایمل ہوش و خرد سے بیگانہ وجود لیے ایک دفعہ پھر زمین بوس ہو چکی تھی۔۔۔
وہ جو نازیہ بیگم سے ملنے آ رہی تھی اندر آتے ہی اس کے کانوں میں حسان کی شادی کی بات پڑی تو برداشت نہ کر پائی۔۔۔
ایمل میری جان کیا ہوا ؟ نویرہ بیگم بھاگتی ہوئیں اس کے پاس پہنچیں اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا ،،، سنان صاحب بھی ان پہ کٹیلی نظر ڈالتے ایمل کی طرف بھاگے جبکہ احسن صاحب سمیت سب ابھی تک خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔۔۔
ڈاکٹر نے آ کر چیک اپ کیا تو پتہ چلا بی پی خطرناک حد تک شوٹ کر گیا تھا ،،، ڈاکٹر نے سختی سے اب اسے کسی بھی ٹینشن سے دور رکھنے کو کہا ،،، اسی سب کے دوران باسم جو اپنی ضروری فائل گھر بھول گیا تھا لینے آیا لیکن گھر آ کر جس سیچویشن کا سامنا ہوا تو دوبارہ نا جا سکا۔۔۔
نویرہ بیگم اب ایمل کے سرھانے بیٹھی ورد وظیفے کر کر کے اس پہ پھونک رہی تھیں۔۔۔
کیا لکھا تھا ان کی بچی کے نصیب میں ،،، کچھ ہی دن میں ہنستی کھیلتی ان کی گڑیا کیسے مرجھا کر رہ گئی تھی۔۔۔ وہ تو ماں تھیں اور مائیں تو اپنے بچوں کی رگ رگ سے واقف ہوتی ہیں تو وہ کیسے نہ جانتیں کہ وہ حسان کے لیے جذبات رکھتی ہے۔۔۔
ماؤں کا بس چلے تو وہ دنیا جہان کی خوشیاں اپنے بچوں کو لا کر دے دیں لیکن نصیب کا لکھا مار جاتا ہے سچ ہی کہتے ہیں لوگ بیٹیوں سے ڈر نہیں لگتا ان کے نصیبوں سے لگتا ہے۔۔۔ ماں باپ اپنے بچوں کو ہر خوشی دے سکتے ہیں لیکن نصیب نہیں دے سکتے ۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
آہہہہہہ۔۔۔۔۔
انابیہ جو کیچن سے پانی کا گلاس لیکر نکل رہی تھی کہ کسی نے جھٹکے سے اس کی کلائی کھینچی تو اس نے چیخ مار دی لیکن جلد ہی اس کی چیخ کا گلا گھونٹ دیا گیا۔۔۔
انابیہ نے زور سے میچی آنکھوں کو آہستہ آہستہ کھولا جہاں سامنے ہی باسم اسے کڑے تیوروں سے کھڑا سخت گھور رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ تو انابیہ کو آگ ہی لگی تھی لیکن چہرے پہ باسم کے سختی سے جمائے ہاتھ نے اسے کچھ بھی بولنے سے باز رکھا تھا۔۔۔
پانی سارا انابیہ کے کپڑوں پہ گر کر اسے بھگو چکا تھا اور اس کی حالت باسم کو مزہ دے رہی تھی۔۔۔
ہلکے سے ہاتھ اس کے منہ سے اٹھاتے اسے کچھ بھی کہنے سے روکا اور دیوار سے اسے پن کرتے اپنے دونوں ہاتھ اس کے ارد گرد جما گیا۔۔۔
اس کے نازک سراپے کو دیکھتے وہ اس میں کھونے لگا بھول گیا تھا کہ اسے کہنا کیا ہے بس یاد تھا تو یہ کہ یہ بونی اس کے دل میں اونچی مسند پہ بیٹھے اسے مستقبل میں تگنی کا ناچ نچانے والی ہے لیکن وہ بھی باسم علی تھا ،،، اپنے نام کا ایک۔۔۔
آپ کو شرم نہیں آتی ایسی حرکتیں کرتے ہوئے ۔۔۔
انابیہ ہلکی آواز میں چیخی۔۔
نہیں تمہیں دیکھ بے شرم ہو جاتا ہوں ۔۔۔
باسم نے بھی جوابی کارروائی کی ۔۔۔
اوہ میں تو بھول گئی تھی آپ پیدائشی بے شرم ہیں۔۔۔
انابیہ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے اطراف میں باندھتے خود کو کور کرنے کی ناکام سی کوشش کی۔۔۔
ہاں ہوں میں بے شرم وہ بھی پیدائشی تو۔۔۔؟
مسکراہٹ دبائے اسے اور تپایا۔۔۔
آپ اپنی حد میں رہا کریں میرے ساتھ زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ انابیہ نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا ۔۔۔
اور اگر میں اپنی حد میں نہ رہوں تو۔۔۔۔؟ باسم نے وہی اسکی انگلی پکڑ کر اپنے ہاتھ میں دبا لی۔۔۔
شرم نہیں آتی آپ کو گھر میں اتنی ٹینشن والا ماحول ہے اور آپ یہاں اپنی ٹھرک جھاڑ رہے ہیں کھڑے پیچھے ہٹیں مجھے جانے دیں یہاں سے ۔۔۔
انابیہ نے دانت پیستے دونوں ہاتھوں سے اسے پیچھے کو دھکا دیا تو وہ دو قدم پیچھے ہٹا۔۔
لیکن اس کی بات نے اسے آگ بگولہ کر دیا۔۔۔
تم سمجھتی کیا ہو خود کو ہاں ۔۔۔؟ اور وہ تمہارا بھائی بھی خود کو بڑی توپ چیز سمجھتا ہے۔۔۔
تمہیں اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے اس گھر کی یہ سب کیا دھرا تمہارے چہیتے بھائی کا ہی ہے اور اب ہمدردی جتا رہی ہو۔۔۔
باسم نے اس کا جبڑا دبوچ کر بری طرح سے جھٹکا تو وہ لڑکھڑا گئی ،،، درد کی شدت سے آنکھوں میں آنسو رواں ہو گئے جنہیں چاہ کر بھی وہ باہر نکلنے سے روک نہ پائی ۔۔۔
باسم دانت پہ دانت جمائے زور سے مٹھیاں بھینچتا فوراً وہاں سے نکل گیا تاکہ غصے میں اسے کچھ کر نہ دے ،،، اسے تکلیف پہنچا کر وہ خود بھی تکلیف میں مبتلا رہتا تھا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسنین اور عنایہ اس وقت ایمل کے پاس موجود تھے کیونکہ احسن صاحب نے سب کو ایک دفعہ پھر اپنے کمرے میں بلایا تھا۔۔۔
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایمل کا رشتہ باسم سے ہو گا کسی کو کوئی اعتراض ہے تو مجھے ابھی بتا دو ۔۔۔
احسن صاحب نے دو ٹوک بات کرتے سب پہ بم پھوڑا ۔۔۔
باسم تو سکتے کی حالت میں کچھ بول ہی نہ پایا جبکہ انابیہ کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔
ہاں وہ محبت نہیں کرتی تھی باسم سے ٹھیک ہے لیکن باسم اور ایمل ایک ساتھ ۔۔۔
جس دن حسان کا نکاح ہوگا اس سے ٹھیک اگلے ہفتے ہم ایمل اور باسم کا نکاح کر دیں گے۔۔۔
باسم نے کچھ کہنا چاہا تو احسن صاحب نے اسے بھی چپ کروا دیا ۔۔۔۔
اب تم بھی حسان کی طرح کیا ہمارا مان توڑ دو گے ۔۔۔؟
باسم نے تڑپ کر احسن صاحب کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
نہیں دادا جان آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہو گا۔۔۔
یہ تو باسم ہی جانتا ہے اس نے ایک سیکنڈ میں کیسے اپنی خواہشات کو دفن کر کے اپنے بڑوں کی لاج رکھ لی تھی لیکن دل ٹوٹ کر ہزاروں ٹکڑے ہو گیا تھا۔۔۔
سب کے پاس اب کچھ بھی کہنے کو نہیں بچا تھا لیکن سب کو اب یہی فکر تھی کہ ایمل کیا کہے گی جب اسے پتہ چلے گا۔۔۔
عنایہ رو نہیں آپی جلدی ٹھیک ہو جائے گی ۔۔۔
حسنین عنایہ کو کب سے روتا ہوا دیکھ رہا تھا تو اب اس کو بھی عجیب فیلنگ آ رہی تھی سمجھ نہیں آ رہی تھی اس کے آنسو اسے کیوں تکلیف دے رہے ہیں تبھی اب وہ عنایہ کے پاس آ کر بیٹھ گیا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے اسے تسلی دینے لگا۔۔۔
حسان بھائی نے اچھا نہیں کیا آپی کے ساتھ میں انہیں کبھی معاف نہیں کروں گی ۔۔۔
عنایہ نے روتے روتے ناک سکیڑتے حسنین کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔
حسنین گہرا سانس بھر کر رہ گیا کہ اب کیا بولے اگر اس کے بھائی کی نظر سے دیکھا جائے تو انہوں نے اتنا بھی غلط نہیں کیا تھا اگر وہ ایمل آپی سے شادی کر بھی لیتے تو شاید وہ انہیں وہ خوشیاں نہیں دے پاتے جو وہ ڈیزرو کرتی ہے ۔۔۔
اچھا نہیں کرنا معاف ابھی چپ کر جاؤ آپی سو رہی ہیں تمہاری سوں سوں کرتی یہ ناک سے وہ ڈسٹرب ہوں گی۔۔۔۔
حسنین نے اس کا دھیان بٹانے کو اسے چھیڑا تاکہ وہ یہ سب بھول کر نارمل ہو جائے۔۔۔
اب عنایہ معمول کے مطابق سب بھول کر اسے گھورنے میں مصروف تھی۔۔۔ حسنین نے اسے ادھر ادھر کی باتوں میں لگا کر اس کا موڈ اب کافی بہتر کر دیا تھا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
پیاس کی شدت سے ایمل کی آنکھ کھلی سوکھے گلے میں جیسے کانٹے اگ آئے تھے۔۔۔ اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی پانی پیا ،،، اس بے مہر شخص کی شادی کا سن کر وہ اندر سے کئی بار ٹوٹی تھی لیکن اب اس طرح وہ گھر والوں کو اپنی وجہ سے اور پریشان نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
وہ بھی کتنی پاگل تھی حسان کی تھوڑی سی توجہ کو محبت سمجھ بیٹھی تھی۔۔۔
وصف اس میں ایک اضافی تھا خوش مزاجی کا۔۔۔
اور ہم کو لاحق تھے ،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،واہمے محبت کے
وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ نے ناک ہوا ۔۔۔
سنان صاحب جو اپنی بیٹی کے لیے بہت پریشان تھے ایک نظر اسے دیکھنے آئے تھے لیکن اس کو جاگتا دیکھ کر اندر چلے آئے ،،، ایمل بھی ٹیک چھوڑتے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔۔۔
اب کیسی طبیعت ہے میرے بچے کی۔۔؟
سنان صاحب نے اس کے ماتھے کو چھوا بخار نہیں تھا تو انہیں زرا تسلی ہوئی ۔۔۔
میں بالکل ٹھیک ہوں بابا جانی ،،، ایمل نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔
ادھر آؤ میرے پاس ،،، سنان صاحب نے اس اپنے پاس بلاتے اپنا محفوظ حصار سونپا اور بولے۔۔۔
ایمل تم میری بچپن سے آزاد اڑتی پھرتی تتلی ہو جسے میں نے کبھی جار میں بند نہیں کیا ۔۔۔
اڑنے اور اڑتے رہنے کی اجازت ہمیشہ دی ہے ،،، کبھی بھی اپنے پروں کو زنگ مت لگنے دینا ۔۔۔ تتلیوں کو پکڑ کر ان کے پر کاٹنے والے بہت ہوتے ہیں ،،، تم کسی کے ہاتھ مت آنا اور نہ ہی اپنے پر کاٹنے کی اجازت کسی کو دینا۔۔۔
میں چاہتا ہوں میری تتلی ہمیشہ اڑتی پھرتی پھولوں سے اٹھکیلیاں کرتی نظر آئے مجھے ہمیشہ ،،، ہم سب کی جان تم میں بستی ہے ایک ہی تو اللہ کا دیا ہوا تحفہ ہو تم میرے پاس میں تمہیں اداس نہیں دیکھ سکتا بیٹا۔۔۔
ایمل نے محسوس کیا تھا کہ بات کرتے وقت ان کی آنکھیں نم تھیں وہ سمجھ رہی تھی کہ اس کے ڈیڈ اس کے لیے کس قدر پریشان ہیں اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب وہ یوں کسی کو پریشان نہیں کرے گی ۔۔۔
مجھے ایک اور بات کرنی ہے آپ سے بیٹا ،،، آپ کے دادا جان کی خواہش ہے کہ آپ کا نکاح باسم سے کر دیا جائے وہ گھر کا بچہ ہے دیکھا بھالا ہے اور سب سے بڑی بات ہماری گڑیا ہمیشہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہے گی۔۔۔
سنان صاحب نے اسے بتا کر زلزلوں کی زد میں چھوڑ دیا وہ بے یقینی سے اپنے ڈیڈ کو دیکھ رہی تھی ابھی ایک چیز سے باہر نکلی نہیں تھی اور دوسرا پہاڑ اس پہ توڑ دیا تھا ۔۔۔
باسم کو تو اس نے ہمیشہ سے اپنے بھائیوں کی طرح ٹریٹ کیا تھا باسم کے ہوتے اسے کبھی بھائی کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی اور اب اس سے نکاح۔۔۔
ڈیڈ مجھے کچھ وقت چاہیے ابھی میں اس سب کے لیے تیار نہیں ہوں مجھے ابھی بس پڑھ کے ڈاکٹر بننا ہے مجھے شادی نہیں کرنی۔۔۔
وہ ان سے نظریں چراتی جا کر واشروم میں بند ہوئی ،،، شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے پانی کا نل پورا کھول لیا زور سے پانی کے چھینٹے منہ پہ مارتے اس نے خود کو رونے سے باز رکھا تھا لیکن پھر بھی بے لگام آنسو اس کی گالوں سے بہہ نکلے تھے اور کمرے میں بیٹھے سنان صاحب اس کی تکلیف کو محسوس کر سکتے تھے ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان ڈریسنگ کے سامنے کھڑا اپنے بالوں کو برش کر رہا تھا عرشیہ کے مل جانے پہ وہ اتنا خوش تھا کہ ہر چیز بھلائے وہ بس اب اپنی چند دن بعد ہونے والی شادی کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا وہ اسے دنیا جہان کی ہر خوشی دینا چاہتا تھا ابھی بھی تیار ہو کر وہ عرشیہ کو مال لے جانے والا تھا تاکہ وہ اپنی پسند کی شاپنگ کر سکے۔۔۔۔
نازیہ بیگم دروازہ ناک کرتی اندر داخل ہوئیں تو اپنے بیٹے کے چہرے کی خوشی دیکھ اس کی نظر اتاری۔۔۔
مام آپ کو کتنی دفعہ بولا ہے آپ ناک کیے بغیر بھی آ سکتی ہیں میرے روم میں ،،، وہ ان کے پاس آ کر بیڈ پہ بیٹھا اور ان کی گال پہ بوسہ دیا۔۔۔
آئی لو یو مام ،،، قاتل ڈمپل نے اپنی جھلک دکھلائی تھی لیکن کون جانتا تھا یہ اس ڈمپل کی آخری جھلک ہے اس کے بعد قسمت کا ایسا وار چلے گا کہ ڈمپل کے ہونے پہ بھی شک گزرے گا ،،، آیا وہ کبھی تھا بھی کہ نہیں ۔۔۔۔
مام میں عرشیہ کے ساتھ مال جا رہا ہوں تاکہ اسے اس کی پسند کی چیزیں لے دوں کچھ ہی دن تو رہ گئے ہیں شادی میں تو پھر وقت نہیں ملے گا ۔۔۔
ہاں ٹھیک ہے میں اور انابیہ کل چلے جائیں گے شاپنگ کرنے کے لیے ،،، نازیہ بیگم نے اسے اپنا بتایا۔۔۔
انابی کو میں ساتھ ہی لے جاتا ہوں نہ دونوں ایک دوسرے کی ہیلپ بھی کر دیں گی اور دونوں کی شاپنگ بھی ہو جائے گی۔۔۔
اچھا یہ بتائیں ماموں لوگ آ رہے ہیں نہ فنکشن پہ انہوں نے کچھ کہا تو نہیں دوبارہ ۔۔۔ حسان نے اچانک یاد آنے پر پوچھا ۔۔۔
ہاں میرے شہزادے وہ سب ضرور آئیں گے اور ہاں شاپنگ تھوڑی زیادہ کر لینا بعد میں کام آئے گی۔۔۔
کیا مطلب مام۔۔۔؟
میں بتاتی ہوں بھائی آپ کو اس کا مطلب ۔۔۔
نانا جان نے آپ کی شادی کے اگلے ہفتے ہی اس
ایمل آپی کے نکاح کی ڈیٹ فکس کر دی ہے۔۔۔
وہ جو کمرے کے باہر سے گزر رہی تھی اپنی ماں اور بھائی کو شادی کی باتیں کرتے دیکھ اندر آئی۔۔۔
حسان نے شاکڈ انداز میں انابیہ کی طرف دیکھا۔۔۔
پوچھیں گے نہیں کہ کس سے ایمل آپی کی شادی ہو رہی ہے ۔۔۔
کس سے ہو رہی ہے ،،، اس نے کھوئے کھوئے انداز میں پوچھا۔۔۔
علی ماموں کے بیٹے مسٹر باسم علی سے ۔۔۔
انابیہ کے بتانے کا انداز تلخی لیے ہوئے تھا اور یہ تلخی کس وجہ سے تھے اسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔۔۔
پیچھے حسان کو ایک گہری سوچ میں چھوڑ گئی تھی وہ۔۔۔
حسان حسان ۔۔۔
ج۔۔جی مام ۔۔۔۔
نازیہ بیگم اسے کب سے آوازیں دے رہی تھیں۔۔۔۔
تمہارا فون بج رہا ہے عرشیہ کا ہوگا دیکھ لو میں بھی چلتی ہوں۔۔۔
ہاں اوکے مام آپ جائیں میں دیکھ لوں گا۔۔۔ نازیہ بیگم کے جاتے ہی اس نے اپنا سر جھٹکا اور موبائل اٹھا کر دیکھا تو عرشیہ کا ہی تھا ۔۔۔
ساری سوچوں کو سائیڈ کرتے وہ بھی کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
تیاری کیسی ہے تمہاری پریزینٹیشن کی ،،، ایمل ابھی کلاس میں آ کر بیٹھی ہی تھی جب نومی پیچھے سے اٹھ کر اس کے برابر والی سیٹ پر آ بیٹھا۔۔۔
تم سے مطلب ،،، تم اپنا کام کرو میں کر لوں گی تیاری اور میں سر کو بول کر اپنا پارٹنر بھی چینج کروا لوں گی تم اپنا سوچو۔۔۔ ایمل اسے ٹکا کے جواب دیتی اپنی بکس یونہی کھولے ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا ،،، تم یہ بار بار کیوں بھول جاتی ہو کہ تمہارے سارے مطلب مجھ سے ہی ہیں اور جو بھی تمہارے ساتھ پارٹنر شپ کرے گا میں اس کی ہڈیاں توڑ دوں گا یا ایسے غائب کر دوں گا جیسے کبھی تھا ہی نہیں وہ ،،، اب تم خود سوچ لو کس کی زندگی کا تمہیں رسک لینا ہے کس کی جان تمہیں نہیں پیاری یہ بول کر وہ قہقہہ لگا گیا۔۔۔
ایمل خونخوار نظروں سے اسے گھورتی بل کھا کے رہ گئی۔۔۔ وہ جانتی تھی یہ ڈھیٹ انسان کچھ بھی کر سکتا ہے تبھی خاموشی میں ہی عافیت جانی۔۔۔
اٹھو یہاں سے یہ میری سیٹ ہے۔۔۔
زوباریہ نے اسے ایمل ساتھ بیٹھے دیکھ ماتھے پہ تیوری چڑھائی ۔۔۔۔
میں تم سے کہہ رہی ہوں بدتمیز انسان اٹھو یہاں سے اور اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھو ورنہ میں ابھی کے ابھی جا کر سر کو تمہاری شکایت لگا دوں گی ۔۔۔۔
زوباریہ نے اسے ہلتے نہ دیکھ ایک دفعہ پھر سے اپنے تئیں اسے دھمکی دی لیکن وہ پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔
میں آج یہیں بیٹھوں گا جاؤ تمھیں جو کرنا ہے کر لو۔۔۔
وہ اپنے کان کے اندر انگلی ڈال کر زور سے ہلاتا اسے بے لچک لہجے میں جواب دے گیا۔۔۔
کیا ہو رہا ہے یہاں آپ بیٹھ کیوں نہیں رہیں مس زوباریہ ۔۔۔
اس سے پہلے زوباریہ اس بے شرم انسان کو کوئی جواب دیتی سر نے کلاس میں اینٹر ہوتے ہی انہیں پوائنٹ آؤٹ کیا ۔۔۔
وہ سر یہ میری جگہ بیٹھ گئے ہیں یہ ایمل کو تنگ۔۔۔۔۔۔
سر ایکچولی مجھے مس ایمل سے پریزینٹیشن کے بارے میں ڈسکس کرنا تھا تو میں یہاں بیٹھ گیا جو مس زوباریہ کو ناگوار گزرا ہے بٹ اٹس اوکے سر میں چلا جاتا ہوں۔۔۔
نومی نے عادت سے مجبور ہو کر ایک دفعہ پھر زوباریہ کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی سر کو اپنی طرف متوجہ کر لیا جس پر سر بس سر ہلانے پر ہی اکتفا کر سکے اور نومی زوباریہ کو آنکھ مارتا وہاں سے اٹھ کر اپنی جگہ پر چلا گیا۔۔۔۔
کلاس ختم ہوئی تو ایمل زوباریہ کے ساتھ لائبریری کی طرف جانے لگی اسے پریزینٹیشن کے بارے میں کچھ معلومات چاہیے تھی اور سب سے بڑھ کر وہ جلد از جلد اس نومی نام کی بلا سے جان چھڑوانا چاہتی تھی تبھی زوباریہ کو بھی ہیلپ کے لیے ساتھ گھسیٹا۔۔۔
وہ ابھی لائبریری کے دروازے پر ہی پہنچی تھی جب ایک دفعہ نومی پھر سے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا اور زوباریہ کو گھورتے پھر ایمل سے مخاطب ہوا۔۔۔
تمہارے پاس ایک ہفتہ ہے اچھی طرح سوچ کر خود کو میرے لیے تیار کر لو اور صرف تمہاری خوشی کی خاطر میں بابا کو رشتہ لینے بھیجوں گا تمہارے گھر چپ چاپ ہاں کر دینا ورنہ تم مجھے جانتی نہیں ہو میں کس حد تک جا سکتا ہوں اور کیا کیا کر سکتا ہوں۔۔۔
سمجھ رہی ہو نہ انکار کی گنجائش نہیں ہے ورنہ میں یہ شادی کا جھنجھٹ بھی نہیں پالوں گا اور۔۔۔۔۔
وہ اپنے منہ سے مغلظات بکتا ایمل کو ہراساں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔
ایک ہفتے بعد میرا نکاح ہے میرے کزن سے اور تمہارے یہ گندے ارادے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے سمجھے اب ہٹو میرے راستے سے اور شکل گم کرو اپنی۔۔۔
ایمل بظاہر خود کو مضبوط بناتی اسے منہ توڑ جواب تو دے چکی تھی لیکن اندر سے ڈر بھی رہی تھی بہت تبھی زوباریہ نے اس کا جو ہاتھ پکڑا ہوا تھا اسے دباتے اپنے ساتھ ہونے کا احساس دلایا تو وہ کچھ ریلیکس ہوئی۔۔۔۔
نومی یہ سب سنتے خاموشی سے وہاں سے چلا گیا جبکہ ایمل کو اس کا چپ چاپ چلے جانا کھٹکا کہ کہیں اس نے اسے اپنے نکاح کا بتا کے کوئی بہت بڑی غلطی تو نہیں کر دی اسے کسی بڑے طوفان کا خدشہ محسوس ہونے لگا۔۔۔
بس نکل گئی اس جاہل کی ہوا تم پریشان نہیں ہو کچھ نہیں کر سکتا یہ فضول انسان اور ایک دفعہ تمہارا نکاح ہو جائے گا تو خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا جان چھوڑ دے گا تمہاری۔۔۔
زوباریہ اسے تسلیاں دیتے اس کو لیے لائبریری کے اندر چلی گئی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان یہ کیسا ہے ۔۔۔؟
وہ گلابی کام والے ڈوپٹے کو کندھے کے ایک سائیڈ پہ پھیلائے ، آنکھوں میں ایک الوہی سی چمک لیے اس سے پوچھ رہی تھی یہ کوئی دسواں ڈریس تھا جو وہ دیکھا رہی تھی لیکن حسان کو کوئی پسند ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔ ویری پریٹی ، بالکل تمہاری طرح جانم۔۔۔
حسان نے شوخ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا جس پہ وہ جھینپ سی گئی۔۔۔
دوکاندار سے وہ ڈریس پیک کروا کر باہر نکلے تھے تبھی حسان کو یاد آیا۔۔۔
شٹ یار گاڑی کی کیز میں اندر ہی بھول آیا تم گاڑی تک چلو میں ابھی لے کر آیا۔۔۔ حسان شاپنگ بیگ اسے تھماتے خود اندر کی طرف واپس چلا گیا ،،، چابی وہیں کاؤنٹر پر پڑی دیکھ سر نفی میں ہلایا تھا جلدی سے کیز اٹھاتا وہ باہر کو لپکا۔۔۔
ابھی وہ شاپ سے باہر نکلا اور جہاں کچھ دور کھڑی عرشیہ کو دیکھ ہی رہا تھا جو شاپنگ بیگز ہاتھ میں تھامے گاڑی سے ٹیک لگائے اسے ہی آتا ہوا دیکھ رہی تھی وہ مسکرا پڑا۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ اس تک پہنچتا ایک زور دار دھماکے کی آواز فضا میں گونجی اور پل بھر میں منظر بدل گیا۔۔۔۔
حسان پاگلوں کی طرح اس طرف بھاگا لیکن شاید دیر ہو گئی۔۔۔
جہاں کچھ دیر پہلے اس کی زندگی ہنستی مسکراتی کھڑی آنے والے دنوں کے خواب بن رہی تھی ایک ہی جھٹکے میں سب ختم ہو گیا اس سے سب کچھ چھن گیا اس کی محبت اس کی زندگی اس کے خواب ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئے تھے۔۔۔
حسان پتھر کا بت بنا اب بس اس راکھ کے ڈھیر کو دیکھ رہا تھا کچھ بھی تو نہیں بچا تھا کچھ بھی نہیں۔۔۔
اس کی محبت اس سے چھن گئی تھی جس کے بغیر وہ جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا وہ جو ڈھرکن بن کر اس کی دھڑکنوں میں ڈھرکتی تھی اب وہ جگہ بھی ساکت ہو گئی تھی۔۔۔
ڈھرکنوں کا شور کہیں دور جا سویا تھا۔۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا اس کی جگہ وہ خود مر جاتا ۔۔۔
محبت کا زندہ نہ رہنا انسان کو زندہ لاش بنا دیتا ہے پاگل کر دیتا ہے اس وقت حسان کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔۔
کوئی ایسی ہچکی دے مولا
جس میں دل کی رگیں ٹوٹ جائیں
حسان آسمان کی طرف دیکھ کر چلا اٹھا تھا ،،، آس پاس کا جمِ غفیر اکٹھا ہوا بس اس کی بے بسی کا عالم دیکھ رہا تھا اس کی جنونیت دیکھ کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس کو دلاسہ بھی دے سکے۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں پولیس اور ریسکیو والے پہنچ چکے تھے۔ ٹارگٹ تو حسان تھا لیکن ایک معصوم جان اس حادثے کی نظر ہو گئی جس نے ابھی جینا شروع ہی کیا تھا۔۔۔۔
حسان وہاں سے سیدھا گھر جانے بجائے اپنے آفس پہنچا جہاں باقی کے آفیسرز اس کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔۔۔
اس کے آتے ہی سب نے کھڑے ہو کر اسے سلیوٹ کیا ۔۔۔
جو پلان ہم نے ایک ماہ بعد کے لیے ترتیب دیا تھا اس پر کل ہی عمل ہوگا مجھے وہ سیٹھ ہر حال میں کل اپنے تھانے کے لاک اپ میں چاہیے گوٹ اٹ۔۔۔
یس سر۔۔۔
اب آپ جا سکتے ہیں سب ۔۔۔ اس نے سب کو جانے کی اجازت دے دی اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کیا کر گزرے۔۔۔ لہو چھلکاتی آنکھوں سے اس نے ٹیبل پہ زور سے مکا مارا تھا اور پھر گاڑی کی کیز اٹھاتے وہ گھر کے لیے نکل گیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
احسن صاحب کے کہنے پہ سب ملک ولا جانے کو تیار کھڑے تھے جب ایمل بھی تیار ہو کر نیچے آئی تو سب حیران سا ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔
ایمل تم بھی جاؤ گی ،،، نویرہ بیگم نے اس کے پاس آتے پوچھا۔۔۔
جی ماما میں بھی جاؤں گی آپ سب پریشان نہ ہوں میں بالکل ٹھیک ہوں اور جانا چاہتی ہوں ۔۔۔
ایمل نے جواب دے کر سب کی طرف دیکھا جن کی نظریں اسی پہ مرکوز تھیں۔۔۔
باسم لب بھینچے کھڑا تھا وہ بھی جانا نہیں چاہتا تھا لیکن علی صاحب اور زیمل بیگم کے کہنے پہ مان گیا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے آئی ایم پراؤڈ آف یو مائی گڑیا۔۔۔
احسن صاحب نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور سب کو چلنے کے لیے کہا۔۔۔۔
ایک گاڑی میں سنان صاحب ،نویرہ بیگم اور ساتھ ہی علی صاحب اور زیمل بیگم بیٹھ گئیں جبکہ دوسری گاڑی میں باسم کے ساتھ احسن صاحب اور پچھلی سیٹ پر عنایہ اور ایمل بیٹھ گئیں۔۔۔۔
ترے لہجے کے لگے زخم ابھی تازہ ہیں
مرہمِ وقت بھی انکو نہ مِٹا پایا ہے
مجھے ہوںٸ تھی بشارت سنہرے موسم کی
دلِ حزیں پہ کیوں یہ ابرِ سیاہ چھایا ہے
عشق کی راہ میں کچھ لوگ سُرخ رو ٹھہرے
میری تقدیر میں صحرا کا سفر آیا ہے
چند لمحوں کا سفر ہوگیا صدیوں پہ محیط
جانے کس نے یہاں منزل کا نشاں پایا ہے
اب تلک ہوں میں اسی وادیٔ حیرت میں غرق
کس قرینے سے میری جاں مجھے بھلایا ہے
اب تو پرچھاٸیاں بھی ساتھ میرا چھوڑ گٸیں
کیسے کہہ دوں کہ مرے ساتھ غم کا سایہ ہے
اب تو اس درجہ سحرؔ ہوتا ہے احساسِ تھکن
اے اجل لُوٹ لے سانسوں کا جو سرمایہ ہے
ایمل خود کو مضبوط بناتی وہاں کے لیے چل تو پڑی تھی لیکن اس سب سے بے خبر کہ آگے کون سی قیامت اس کا انتظار کر رہی ہے ۔۔۔
وہ سب ملک ولا پہنچ چکے تھے لاؤنج میں چھوٹا سا انتظام کیا گیا تھا زیادہ لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا ۔۔۔
اب سب حسان کے انتظار میں کھڑے تھے نازیہ بیگم اور عنایہ نے سب کا اچھی طرح سے خیال کیا تاکہ کسی کو بھی ان سے شکایت نہ ہو ۔۔۔
ایمل ایک کونے میں کھڑی عنایہ سے باتیں کر رہی تھی جب حسان گھر میں داخل ہوا۔۔۔
سب کی نظریں حسان پر ٹکی تھیں اس کی اجڑی بکھری حالت دیکھ سب کے اوسان خطا ہوئے۔۔۔
اس کی وحشت زدہ آنکھوں کو دیکھ سب کی زبان تالو سے چپکی پڑی تھی کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اس سے سوال کرے لیکن نازیہ بیگم ہی ہمت کر کے آگے بڑھیں۔۔۔
ح۔۔حسان بیٹا یہ کیا حالت بنا رکھی ہے اور عرشیہ کہاں ہیں وہ تو تمہارے ساتھ آنے والی تھی نہ۔۔۔
سب تیاریاں مکمل ہیں بس تم دونوں کا ہی انتظار۔۔۔۔
وہ نازیہ بیگم کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی چلتا ہوا ایمل کے آگے آ کھڑا ہوا۔۔۔۔
کیا نہیں تھا اس کی آنکھوں میں درد ، تڑپ ، کرب ، اذیت اس کی آنکھیں ہی اس کی حالت بیان کر رہی تھیں لیکن ایمل سمجھ نہیں پا رہی تھی اس کی حالت کہ وہ اس حال میں کیوں ہے۔۔۔
تم نے بددعا دی تھی نہ مجھے ،،،
بولو ،،، تم نے ہی بددعا دی ہے نہ مجھے تم سے میری خوشیاں برداشت نہیں ہوئی نہ ۔۔۔
حسان دونوں ہاتھوں سے ایمل کو بے دردی سے جکڑے اس پہ دھاڑا۔۔۔
ح۔۔حسان یہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔ چھوڑو اسے ،،، باسم نے آگے بڑھ کر حسان کو روکنا چاہا۔۔۔ اس سے بالکل برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ وہ ایمل سے اس لہجے میں بات کرے ۔۔۔
ایمل سے تو کسی نے آج تک اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی کجاکہ اس پہ دھارنا یا چیخنا چلانا۔۔۔۔
میں تم سے بات نہیں کر رہا تم یہ اپنا لیکچر اپنے پاس رکھو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔
حسان ایمل کو جھٹکے سے چھوڑتا انگلی اٹھا کر باسم کو وارن کر گیا۔۔۔
باقی سب بھی پریشان سے کھڑے سیچویشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔
نویرہ بیگم نے آگے بڑھ کر ایمل کو گلے سے لگایا وہ ڈری سہمی سی اس کے جارحانہ انداز دیکھ کر سہم گئی۔۔۔
حسان یہ کیا پاگل پن ہے اور عرشیہ کہاں ہے ۔۔۔۔؟
اب کے زید ملک نے آگے بڑھ کر حسان کو اپنی طرف گھمایا اور سوالیہ انداز میں گویا ہوئے۔۔۔
مر گئی عرشیہ ڈیڈ میری عرشیہ مر گئی۔۔۔
حسان روتے ہوئے زید ملک سے لپٹ گیا اور باقی سب کو حیران کر گیا۔۔۔۔
حسان میری جان یہ کیا کہہ رہے ہو ،،، نازیہ بیگم نے بھی آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا آنکھیں ان کی بھی نم ہو گئیں ۔۔۔
سب کی آنکھوں میں آنسو در آئے پہلی بار سب نے حسان کو یوں روتے ٹوٹتے بکھرتے دیکھا تھا۔۔۔
حسان ان سے الگ ہوتا اپنے کمرے میں چلا گیا وہ نہیں چاہتا تھا سب کے سامنے اور تماشا بنے جبکہ باقی سب بھی نازیہ بیگم اور زید ملک کو تسلیاں دیتے گھر واپس آ گئے۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ماما اس سب میں میری کیا غلطی تھی میں نے کبھی ان کے لیے بددعا نہیں کی وہ مجھ سے اتنا بدظن کیوں ہیں۔۔۔
نویرہ بیگم جب سے وہاں سے آئیں تھیں ایمل کے پاس اس کے کمرے میں ہی تھیں وہ بہت زیادہ ڈر گئی تھی اور جب سے آئی بس رو رہی تھی ۔۔۔
ابھی بھی وہ نویرہ بیگم کی گود میں سر رکھے آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔
مجھے پتہ ہے میری جان میری بیٹی بہت اچھی ہے بس تم زیادہ نہ سوچو اور سب کچھ بھول کر سونے کی کوشش کرو۔۔۔۔
نویرہ بیگم نے پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانی شروع کیں ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی تو نویرہ بیگم کو کچھ سکون ملا وہ اس کا سر سیدھا کر کے تکیے پہ رکھتی اس پہ کمفرٹر درست کرتی اپنے کمرے میں آ گئیں۔۔۔
ایمل سو گئی ہے کیا۔۔۔؟
نویرہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سنان صاحب نے پوچھا وہ بھی جب سے آئے تھے ایمل کو لے کر کافی ڈیپریسڈ نظر آ رہے تھے ،،، باقی سب بھی اس صورتحال سے اپنی اپنی جگہ پریشان تھے لیکن کر کچھ نہیں سکتے تھے ۔۔۔۔
ہاں جی بڑی مشکل سے سُلا کر آئی ہوں بہت گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی کھانا بھی بڑی مشکل سے اس نے کھایا ہے۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔ ان شاءاللہ جلدی سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔
سنان صاحب یہ کہتے ہوئے نویرہ بیگم کو تسلی دینے لگے یا پھر یوں کہیں کہ وہ خود کو تسلی دے رہے تھے۔۔۔
ان شاءاللہ ،،، آپ نے اپنی میڈیسن نہیں لی نہ ۔۔۔
یہ لیں آپ میڈیسن کھائیں میں آپ کے لیے دودھ گرم کر کے لاتی ہوں ۔۔۔
نویرہ بیگم انہیں دوائی اور پانی کا گلاس دیتے کیچن کا رخ کر گئیں۔۔۔۔
ادھر ایمل جو سونے کا ناٹک کر رہی تھی نویرہ بیگم کے جاتے ہی اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔ نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔۔
وہ حسان کے رویے سے آج بہت زیادہ ہرٹ ہوئی تھی وہ تو اس بے مہر شخص سے بہت محبت کرتی تھی ۔۔۔
محبت کرنے والوں کو بددعائیں نہیں دی جاتیں ان کے لیے تو ہمیشہ دعا ہی کی جاتی ہے ہر حال میں ،،، محبوب بےوفا ہو یا ستمگر اس سے تو بس محبت ہی کی جاتی ہے۔۔۔۔
من چاہا شخص ملے یا نہ ملے اس کی طلب نہیں مٹتی اور جس سے عشق ہو جائے اس سے ہم چاہ کر بھی دستبردار نہیں ہو سکتے۔۔۔۔
حسان سے ایمل کو بھی عشق ہے لیکن عزت نفس گنوا کر اگر محبت حاصل کی جائے تو وہ بس کونٹھی پہ بےوقت چیز کی طرح لٹکی رہ جاتی ہے ۔۔۔
اور یکطرفہ محبت تو ایسی بلا یا پھر ایسا مرض ہے جس سے جان چھڑوانا ممکن نہیں ہوتا ،،، آپ بیچ میں لٹکے رہ جاتے ہیں ۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ جس سے آپ کو عشق ہو اس کی عدم موجودگی میں آپ یتیم ہی رہتے ہیں پھر چاہے ساری دنیا بھی آپ کو گلے لگا لے آپ کے من چاہے شخص کی محبت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔۔۔۔
ایمل بھی سب کی محبتوں کے باوجود خود کو محبت سے محروم ہی سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔
محبت روح کے تمام زخم بھرنے کی تاثیر رکھتی ہے اور ایمل کے لیے وہ تاثیر بس حسان کی محبت ہے۔۔۔
مسائل اور بھی کافی ہیں پر حقیقت میں
تمہاری یاد سے میری رہائی بڑا مسئلہ ہے
ساری رات اس کی بس انہیں سوچوں کے گرد گھومتی رہی پھر ناجانے صبح کے کس پہر جا کر اس کی آنکھ لگی اور ان سب سوچوں سے اسے چھٹکارا حاصل ہوا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان کمرے میں داخل ہوا تو کمرے کی حالت دیکھ اس کا درد اور بڑھ گیا۔۔۔۔
ریڈ گلابوں سے کمرے کو سجایا گیا تھا ان کی مسحور کن خوشبو نے اسے راحت دینے کے بجائے اس کی تکلیف مزید بڑھا دی ہر چیز سے اسے وحشت سی ہو رہی تھی۔۔۔ جس کمرے میں اس نے اپنے سہانے خواب دیکھے تھے اب وہ اسے وحشت زدہ کر رہا تھا ۔۔۔
ہر چیز کو تہس نہس کرنے کے بعد اب وہ ایک کونے میں بیٹھا موبائل نکالے عرشیہ کی تصویریں دیکھ رہا تھا ۔۔۔ ضبط کے کڑے پہرے لگائے اس نے کچھ بھی الٹا کرنے سے خود کو باز رکھا تھا اسے اب بس عرشیہ کے قاتل کو ڈھونڈنے کا بھوت سوار تھا۔۔۔
نازیہ بیگم اور زید ملک اسے دیکھنے آئے تھے لیکن کمرے کو لاکڈ دیکھ کر واپس مڑ گئے وہ اپنے سب سے مضبوط بیٹے کو ایسے ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔۔
حسان نے موبائل پہ ایک نمبر نکال کر اس کو میسج فارورڈ کیا اور کمرے کی تاریکی سے تنگ آکر باہر نکل آیا لان میں ایک جگہ کرسی پر آ کر بیٹھا تو اچانک نظر سامنے اٹھی جہاں آج اس کے نکاح کا ارینجمنٹ کروایا گیا تھا پھولوں کی لڑیوں سے تھوڑی سی جگہ کو اتنے اچھے سے کور کیا گیا تھا کہ جب وہ دونوں وہاں بیٹھتے تو کسی ریاست کے شہزادہ شہزادی معلوم ہوتے۔۔۔
گھٹن اور بڑھنے لگی تو گاڑی نکالی اور بے وجہ سڑکوں پہ دوڑا دی۔۔۔ آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔۔۔
محبت نہ ملنا بھی بہت تکلیف دہ عمل ہے اور اس کے بغیر ساری زندگی گزارنا دم گھٹ جانے کے برابر ہے۔۔۔
ساری رات باہر گزار کر وہ صبح کے وقت گھر پہنچا تو نازیہ بیگم لاؤنج میں بیٹھے زید صاحب کو صبح کی چائے دے رہی تھی جب حسان کو باہر سے آتا دیکھ چونکی۔۔۔
حسان تم کدھر تھے ساری رات میری جان اپنی حالت تو دیکھو ایک ہی دن میں کیا سے کیا بنا لی ہے نازیہ بیگم اس کی حالت دیکھ تڑپ ہی تو اٹھیں تھیں۔۔۔
حسنین بھی یونی جانے کے لیے ریڈی ہو کر نیچے آیا تو بھائی کی حالت نے اسے بھی افسردہ کر دیا جبکہ انابیہ طبیعت خرابی کے باعث اپنے کمرے میں ہی تھی۔۔۔
میں ٹھیک ہوں مام آپ فکر مت کریں وہ خود پہ سرد خول چڑھائے ان سے مخاطب ہوا۔۔۔۔
انابیہ کا پوچھتے وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
انابیہ کیسی ہو ۔۔۔۔۔؟
وہ جو بستر پہ بے سود پڑھی تھی حسان کی آواز سنتے اس نے ایک دم سے آنکھیں کھولیں۔۔۔
میں ٹھیک ہوں بھائی اور آپ نے کیا حال بنا رکھا ہے اپنا۔۔۔
انابیہ نے آنکھوں میں نمی لاتے پوچھا۔۔۔
جو کام تمہیں سونپا گیا تھا اس کو کرنے کا وقت آ گیا ہے میں تمہیں کچھ ضروری انفارمیشن دوں گا اور تمہیں اس کا استعمال کرتے ان لوگوں تک پہنچنا ہے مجھے وہ ہر حال میں چاہیے ۔۔۔۔
سیٹھ کا بیٹا اور وہ لڑکی دونوں سیٹھ سے ملنے اس کے خفیہ اڈے پہ جائیں گے تبھی تمہیں ان کا پیچھا کرتے وہاں تک پہنچنا ہے اور مجھے ان دونوں کی تصویریں اور باقی انفارمیشن بھی چاہیے۔۔۔۔
حسان اس کا سوال نظر انداز کرتے سیریس انداز میں گویا ہوا۔۔۔
بھائی آپ بالکل فکر مت کریں میں تیار ہوں اس کام کے لیے اور آپ کو مایوس نہیں کروں گی۔۔۔
انابیہ کا جواب سنتے اسے تسلی ہوئی۔۔۔۔
ٹھیک ہے اگلے ہفتے ہی تمہیں یہ کام سر انجام دینا ہے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا اوکے ،،، تبھی حسان کا موبائل رنگ ہوا حمزہ کی کال تھی تو وہ یس کر کے کان کو لگاتا انابیہ کو سر سے ہلکا سا اشارہ کرتے باہر نکل گیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہفتہ گزر گیا تھا اس بات کو اور آج وہ دن بھی آ پہنچا تھا جب ایمل اور باسم کا نکاح ہونا تھا۔۔۔۔
مُدّتوں اُن کے تصور میں گُزاریں راتیں
مُدّتوں اُن کی توجہ سے گریزاں بھی رہے!
ایمل یونیورسٹی کے لیے تیار ہو کر ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی تھی لیکن چہرے پہ چھائی افسردگی اس کے دل کی ویرانی ظاہر کر رہی تھی۔۔۔
دل کی عجیب حالت ہو رہی تھی تبھی وہ خود سے نظریں چراتی بس نیچے چلی آئی۔۔۔
ایمل آج بھی تم یونیورسٹی جاؤ گی۔۔۔؟
آج چھٹی کر لو بیٹا شام کو نکاح ہے تمہارا اپنے کپڑے دیکھ لیتی کہ کون سا پہننا ہے۔۔۔۔
زیمل بیگم جو ٹیبل پہ ناشتہ لگا رہی تھیں ایمل کو ایسے تیار دیکھ کر جانے سے روکا۔۔۔
نویرہ بیگم بھی ان کی آواز سن کر کیچن سے باہر نکل آئیں جبکہ باقی سب ابھی اپنے اپنے کمروں میں تھے۔۔۔
میرا جانا ضروری ہے تائی جان میری بہت امپورٹنٹ لاسٹ پریزینٹیشن ہے اس کے بعد میری ہاؤس جاب سٹارٹ ہو جائے گی میں کوشش کروں گی جلدی آنے کی اور نکاح تو شام کو ہے نہ آپ اپنی مرضی سے کوئی بھی ڈریس پسند کر لیں میں پہن لوں گی۔۔۔
ایمل نے مسکرا کر جواب دیا لیکن اس مسکراہٹ میں گزرے دن کی اذیت تھی ،،، درد تھا جو زیمل بیگم اور نویرہ بیگم دونوں نے محسوس کیا تھا لیکن بولی کچھ نہیں۔۔۔
اچھا اب جلدی سے ناشتہ دے دیں نہ مجھے ،،، وہ جلدی سے چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گئی زیمل بیگم نے اسے ناشتہ دیا ۔۔
ابھی وہ ناشتہ کر رہی تھی کہ باسم بھی آفس کے لیے تیار ہو کر وہیں آ گیا۔۔۔
تم بھی آفس جاؤ گے آج ،،، زیمل بیگم نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔
یس مام میری ایک ضروری میٹنگ ہے جسے میں ڈیلے نہیں کر سکتا ،،، شام تک آ جاؤں گا ۔۔۔
سرد لہجے میں وہ جواب دیتا بنا ایمل کی طرف دیکھے ناشتے میں مصروف ہو گیا جبکہ ایمل نے بھی اس کی خاموشی اور سرد رویے کو دل سے محسوس کیا تھا۔۔۔
اوکے مام میں چلتا ہوں ،،، اپنا کوٹ اٹھا کر اس نے بازو پہ ڈالا جب زیمل بیگم بول پڑیں۔۔۔
ایمل کو بھی لے جاؤ ساتھ یونیورسٹی چھوڑ دینا عنایہ کی آج کوئی کلاس نہیں ہے تو وہ نہیں جا رہی۔۔۔
ایمل نے ایک نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا جو سخت تاثرات چہرے پہ سجائے بس ہاں میں سر ہلا گیا اور باہر کو چل دیا۔۔۔
ایمل بھی اسی وقت اٹھ گئی اپنی چیزیں اٹھاتے وہ بھی نا چاہتے ہوئے اس کے ساتھ جانے پہ مجبور ہو گئی کیونکہ ڈرائیور بھی آج چھٹی پر تھا۔۔۔۔
ایمل کے گاڑی میں بیٹھتے ہی باسم نے گاڑی سٹارٹ کر دی آدھا راستہ تو خاموشی سے گزرا پھر باسم نے ہی اس خاموشی کو توڑا۔۔۔
ایمل مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔
میں جانتا ہوں تم حسان سے محبت کرتی ہو اور یہ نکاح صرف دادا جان کی خوشی کے لیے کرنے پہ رضا مند ہوئی ہوجبکہ ہم دونوں جانتے ہیں اس فیصلے سے ہم دونوں ہی خوش نہیں رہ سکیں گے کیونکہ میں بھی انابیہ سے محبت کرتا ہوں۔۔۔
باسم کی بات سن کر ایمل چونکی ،،، اب تو وہ خود کو ہی ہر چیز کے لیے قصوروار سمجھ رہی تھی۔۔۔
آئی ایم سوری باسم میری وجہ سے تم بھی۔۔۔۔۔۔۔
رونے کی وجہ سے آواز اس کے گلے میں ہی پھنس گئی وہ نہ چاہ کر بھی سب کے لیے دکھوں کا سبب بنتی جا رہی تھی۔۔۔
میں اس نکاح سے انکار کر دوں گی تم فکر مت کرو میری لیے تمہے یہ قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔
وہ دل پہ پتھر رکھتی اسے اس کی زندگی کی نوید سنا گئی تھی ۔۔۔۔۔
اتنے میں ایمل کی یونیورسٹی آ گئی باسم ابھی کچھ کہتا جب وہ اس کی سنے بغیر جلدی سے گاڑی سے اتر کر یونیورسٹی میں داخل ہو گئی۔۔۔
باسم دل مسوس کر رہ گیا وہ اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا اور نہ ہی اسے کسی اندھیرے میں رکھنا چاہتا تھا تبھی نہ چاہتے ہوئے بھی جو بات دل میں دبا کر بیٹھا تھا آج ایمل کے سامنے زبان پر لے آیا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
باسم کو تھوڑی دیر پہلے ہی ایمل کا میسج آیا کہ اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تو وہ اسے گھر چھوڑ دے تبھی وہ آفس سے ہاف لیو لیے ایمل کو یونیورسٹی لینے جا رہا تھا ۔۔۔۔
اللہ کے نام پہ دے رے بابا۔۔۔دینے والے تیرے من کی مرادیں پوری کرے گا وہ سوہنا رب۔۔۔
الجھے ہوئے بکھرے اجڑے بال ،،، چہرے پہ جا بجا کالے نشان ،،، ہاتھوں اور پاؤں پہ جمی میل جس سے دیکھنے والے کو کراہیت محسوس ہوتی۔۔۔
وہ دھان پان سی وجود کی مالک سڑک کے کنارے ہاتھ میں کاسہ پکڑے بظاہر تو چندہ مانگ رہی تھی لیکن ایش گرے آنکھیں کچھ اور ہی تلاش کر رہی تھیں۔۔۔
ابھی کچھ دیر گزری تھی جب ایک گاڑی سگنل پر آ کر رکی اندر بیٹھے شخص نے سٹیرنگ پر زور سے ہاتھ مارا تھا ۔۔۔
ایک تو وہ پہلے ہی لیٹ ہو گیا تھا اوپر سے ٹریفک بھی آج معمول سے کچھ زیادہ تھی۔۔۔
اس نے نظریں ادھر ادھر گھمائیں جب نظر کچھ ہی دور بیٹھی ایک بھکارن پہ گئی ،،، ذہن کے پردے پہ ایک شبیہہ لہرائی تو ناجانے اسے کیا سوجھی کہ وہ گاڑی کو لاک کرتا باہر نکل آیا اور اس بھکارن کی طرف چل دیا۔۔۔۔
پاس آتے ہی غور سے اس کا چہرہ دیکھا پھر اپنے وائلٹ سے ان گنت نوٹ نکال کر اس کے کاسے میں پھینکنے والے انداز میں رکھے ،،، پھر اپنا ایک گھٹنہ فولڈ کئے اس بکھارن پر جھکا تھا۔۔۔
پیسہ پیسہ کرتی ہے ، کیوں پیسے پے تو مرتی ہے؟
میں بارش کردوں پیسے کی جو تو ہو جائے میری ۔۔۔۔
طنزیہ ہنسی ہستے وہ اسے بس طیش دلا رہا تھا۔۔۔
چھچھچ،،،،چھچھچ۔۔۔۔
افسوس ہوا تمہاری حالت دیکھ کر مجھے بونی اب تم ایسے مانگو گی پیسے ،،، مجھ سے مانگ لیتی ،،،اپنا بنک بیلنس تم پر لٹا دیتا ،، لہجہ طنز میں ڈوبا تھا ۔۔۔۔
ویسے مجھے کہتے ہوئے اچھا تو نہیں لگ رہا مگر میں یہ بات اب جا کر سب کو بتاؤں گا، بلکہ سب سے پہلے تمہارے چہیتے بھائی کو بتاؤں گا۔۔۔
وہ مسلسل طنز کے نشتر اس پر اچُھالتا اسے زچ کرنے پہ تلا ہوا تھا۔۔۔۔
اس کے لیے حیران کن بات تھی کہ وہ اسے اس حلیے میں بھی پہچان گیا ہے۔۔۔
اس کے بونی کہنے پہ تو وہ سر تا پیر سلگی۔۔۔
مگر ایک نظر آس پاس سے گزرتے لوگوں کو بھی دیکھا ، جو حیران کن نظروں سے اس خراب حلیے میں ملبوس بکھارن اور اس شاندار شخص کو دیکھ رہے تھے ، جو ڈھٹائی کے سارے ریکارڈ توڑے مسلسل مسکرا رہا تھا۔۔۔
کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کہ جو تم سمجھ رہے ہو مجھے ، واقعی میں میں وہی ہو ،،،، انابیہ نے صبر کے گھونٹ پیتے آخر اس نے گھٹی گھٹی آواز میں اس سے استحقاق کیا ۔۔۔۔
اب چھپانے کا کوئی فائدہ تھا نہیں کیونکہ یہ ڈھیٹ شخص کچھ بھی کر سکتا تھا اور وہ اپنا پلان فیل ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔
گڈ پوائنٹ ،،، مطلب دماغ ہے تمہارے پاس بونی۔۔۔
باسم نے کچھ سوچتے موبائل نکال کر فرنٹ کیمرہ آن کیا اور فٹا فٹ 2,3 سیلفیاں لے ڈالی ۔۔۔
لو ثبوت بھی آ گیا اب میں چلتا ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے وہ آنکھ ونک کرتا وہاں سے اٹھ گیا ۔۔۔
سگنل کھلنے کی بدولت پیچھے کھڑی گاڑیاں ہارن پہ ہارن بجا رہی تھیں جس وجہ سے اسے وہاں سے اٹھنا پڑا۔۔۔
پیچھے سے اس نے ہاتھ میں پکڑا کاسہ اس کی طرف پھینکا جو اسے لگا ہی نہیں وہ دانت کچکچاتی اسے بس جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔۔۔
پھر کبھی بدلہ لینے کا سوچتے وہ اٹھ کر دوبارہ سے کاسہ اٹھا لائی اور اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
باسم ایمل کو لینے یونیورسٹی پہنچا تو ایمل پریشان سی گیٹ پہ ہی کھڑی مل گئی۔۔۔۔
کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری یوں اچانک بلا لیا۔۔۔
باسم نے فکرمندی سے پوچھا تو اذیت بھری مسکراہٹ اس کی طرف اچھال گئی۔۔۔
تم چلو میں بتاتی ہوں ایمل کہتے ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔۔۔ مجھے تم سے ایک فیور چاہیے منع مت کرنا اور کسی کو بتانا بھی مت پلیز۔۔۔
میں حسان سے ایک آخری دفعہ ملنا چاہتی ہوں مجھے اس کے گھر لے چلو۔۔۔
ایمل نے جس طرح اس سے کہا وہ چاہ کر بھی انکار نہیں کر پایا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ایمل کی خاطر یہ کرنے پہ مجبور ہو گیا ورنہ وہ اس انسان کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔
باسم اور ایمل ملک ولا پہنچ چکے تھے گارڈ سے پتہ چلا کہ اس وقت گھر پہ کوئی بھی موجود نہیں ہے سوائے حسان کے تو وہ دونوں اندر کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔
باسم تم یہیں رکو میں بات کر کے آتی ہوں ،،، وہ کہتے ساتھ ہی سیڑھیاں چڑھ گئی جبکہ باسم وہیں لاؤنج میں بیٹھ گیا۔۔۔
پورا کمرہ بکھرا پڑا تھا اور حسان موبائل ہاتھ میں لیے بیڈ پہ اوندھے منہ پڑا شاید عرشیہ کو یاد کرتا سو گیا تھا۔۔۔
ایمل جو اسے سوتے دیکھ واپس مڑنے لگی تھی پاؤں کے اچانک مڑ جانے پہ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی تو حسان فوراً اٹھ بیٹھا۔۔۔
تم ،،،، تم یہاں کیا کر رہی ہو اس وقت اور کس سے پوچھ کر یہاں آئی ہو۔۔۔
وہ اس کی تکلیف نظر انداز کرتا اس کے سر پہ جا کھڑا ہوا اور پوچھنے لگا۔۔۔۔
م،،، میں آپ سے بات کرنے آئی تھی وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔۔۔
ابھی بھی گنجائش ہے بات کرنے کی ،،، حسان نے لہو چھلکاتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے اس کے دونوں اطراف دروازے پر ہاتھوں کو رکھتے اس سے سخت لہجے میں پوچھا۔۔۔
حسان میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں پلیز آپ
مجھے غلط مت سمجھیں۔۔۔
آپ کی یہ بے اعتنائی بے رخی میری جان لے لے گی ،،، میں گھٹ گھٹ کے مر جاؤں گی ۔۔
ایمل اس پتھر دل انسان کے آگے بےبسی کی آخری حدوں کو چھوتے ،،، ہاتھ جوڑے کھڑی ،،، بلک بلک کر رو رہی تھی لیکن وہ بے حس بنا اپنا رخ موڑ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
یہ میری لاسٹ وارننگ ہے دوبارہ میرے کمرے میں میرے آس پاس بھٹکنا بھی مت ورنہ تمہاری جان لے لوں گا میں سمجھی ،،،
حسان نے ایک دم مڑتے اس کا گلا دبوچا اور اپنی وحشت زدہ سی آنکھیں اس کی بھیگی آنکھوں میں گاڑ دیں۔۔۔
آہہہہہہہہہ۔۔۔
م ،،،میرا ،،،، س،،،سا،،،سانس ،،،، ر،،،،رک،،، رہا،،،ہے ،،چ،،،چھ،،،چھوڑیں ،،م،،،مجھے۔۔۔
وہ اس کی شرٹ کو دونوں ہاتھوں میں زور سے دبوچے اس سے فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔
ایک لمحے کے لیے بس حسان کا دل پسیجا تھا اور حسان نے زور سے اسے دروازے کی طرف دھکا دیتے چھوڑا تھا۔۔
I said just go away ,,,, leave me alone dam it....
حسان نے پاس پڑے شیشے کے ٹیبل پہ زور سے ہاتھ کا مکا بنا کے مارا ،،، شیشہ ٹوٹ کر چکنا چور ہوا تھا اور ہاتھ سے خون کی بوندیں ٹپ ٹپ زمین پر گر نے لگیں ۔۔۔
ایمل نے زوردار چیخ مار کر دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اور بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی ،،،
یہ کیسا عشق تھا جس کی سلگتی بھٹی میں وہ اکیلے جل رہی تھی اکیلے تڑپ رہی تھی ،،، جس کے لیے تڑپ رہی تھی اسے رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی اس کی ۔۔۔۔
کیا ہوا ایمل ۔۔۔۔؟
کیوں رو رہی ہو اس جلاد نے پھر سے تمہے کچھ کہا اس کی تو۔۔۔۔
باسم نے ضبط کی حدوں کو چھوتے مٹھیاں زور سے بھینچے اپنے اندر اٹھتے اشتعال پہ قابو پایا ،،،آنکھوں کے ڈورے سرخ انگارہ بنے ہوئے تھے جب ایمل نے سسکیاں لیتے وجود کے ساتھ اس کے ہاتھوں پر اپنے کانپتے ہاتھ رکھے سہارا لیا تھا اس سے پہلے وہ لڑکھڑاتی باسم نے اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر بازوؤں کے حصار میں لیا تھا اور دو آنکھوں نے دور سے یہ نظارہ دیکھتے خود کے بال مٹھیوں میں جکڑے تھے۔۔۔
وہ جو بے چین ہو کر اسے جاتے ہوئے ایک نظر دیکھنے آیا تھا ایسا منظر دیکھ دل کے کسی کونے میں چنگاری بھڑکی تھی اور واپس کمرے میں آیا پورا کمرہ تہس نہس کر کے بھی سکون نہیں ملا تو سگریٹ سلگائے خود کی جان کو دھوئیں میں جھونکنے بیٹھ گیا۔۔۔۔
وہ خود کو ہی سمجھ نہیں پا رہا تھا اسے دکھ بھی دیتا تھا اور تکلیف خود بھی محسوس کرتا تھا۔۔۔
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی یہ کیسی جلن ہے اس کی محبت تو وہ عرشیہ سے کرتا تھا تو کیوں ایمل کو باسم کے ساتھ دیکھ وہ آؤٹ آف کنٹرول بھی ہو جاتا ہے۔۔۔
سب یہ ملی جلی سوچیں اس کا ذہنی سکون برباد کر چکی تھیں۔ وہ راکنگ چئیر جھولتا ماتھے کو اب اپنی انگلیوں سے سہلا کر خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا جب اس کے ذہن میں پھر سے جھماکا ہوا۔۔۔
آج تو ایمل کا نکاح ہے باسم کے ساتھ ،،، فریبی مجھ سے محبت کے دعوے بھی کر رہی ہے اور نکاح بھی کسی اور کے ساتھ کر رہی ہے۔۔۔
زہریلی مسکراہٹ اس کے چہرے پہ آئی تبھی وہ کچھ سوچتا موبائل اٹھائے جلدی سے نیچے آیا اور گاڑی نکال کر زن سے بھگا لے گیا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ایمل سٹاپ اٹ یار ! کالم ڈاؤن رونا تو بند کرو پلیز ورنہ میں جا کر ابھی اس کا حشر بگاڑ دوں گا۔۔۔
ایمل سوں سوں کرتی نین بھرے کٹوروں سے اسے دیکھ رہی تھی ،،، رونے کی شدت سے چہرہ سرخ پڑ گیا تھا اور گلابی گالوں میں زردی سی گھل گئی جیسے اس کے وجود سے سارا خون ہی نچوڑ لیا گیا ہو ۔۔۔
باسم غصے میں ڈرائیو کرتا ایمل کو چپ کروا رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کیا کر گزرے۔۔۔
ایمل کے رونے میں کمی ہونے کے بجائے اور شدت آ گئی۔۔۔
کیسا ہوتا ہے دکھ...؟
کسی کو دھیرے دھیرے کھو دینے کا ،،، مان ٹوٹ جانے کا ،،، نظر انداز کیے جانے کا کرب ،،، بدلتی نگاہوں کو جھیلنے کا رُخ ،،، خالی ہاتھ رہ جانے کا ملال ،،، لمبی مسافتوں کے بعد بھی منزل کے نہ ملنے کا ،،، اپنا سب کچھ لٹا کے بھی اس کے نہ ملنے کا ،،، عزت نفس کے خلاف جا کر بھیک مانگنے کا اور پھر بھی دھتکار دیے جانے کا۔۔۔۔
ایمل چاہ کر بھی اپنے جذبات پر بندھ نہیں باندھ پا رہی تھی جب اذیت حد سے گزر جائے تو آنسو روکے نہیں رکتے ،،، بکھرتے ہوئے وجود کو ہمیشہ اس کا من پسند شخص ہی اسے سمیٹ سکتا ہے۔۔۔۔
باسم بے بس سا اسے دیکھ سکتا تھا اس کی تکلیف کا مداوا تو اس کے بس میں بھی نہیں تھا۔۔۔
دھیان ایمل کی طرف ہونے کی وجہ سے وہ سامنے سے آتی گاڑی کو دیکھ نہیں سکا جس کی وجہ سے دونوں گاڑیوں کا آپس میں زبردست تصادم ہوا اور بل کھاتی گاڑی فٹ پاتھ سے جا ٹکرائی۔۔۔
باسم گاڑی کو سنبھال نہیں پایا تبھی اس کا سر زور سے سٹیرنگ میں لگا اور خون کی لہریں اس کے ماتھے سے نکلتیں اس کا چہرہ بھر گئیں اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا جبکہ ایمل کا بھی سر ڈیش بورڈ پہ لگنے کی بدولت سر پہ گہری چوٹ آئی اور وہ بھی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی۔۔۔۔
پورا دن گزرنے کے ہاسپٹل کے ایک پرائیویٹ روم میں باسم نے درد سے اٹھتی ٹھیسوں کو برداشت کرتے اس نے ایک دم سے آنکھیں کھولیں اور ایمل کو پکارا۔۔۔
علی صاحب ،سنان صاحب اور زیمل بیگم وہیں موجود تھے ،،، زیمل بیگم تو اپنے بیٹے کی حالت کو دیکھ روئی جا رہیں تھیں ،،، باسم کے ہوش میں آنے پر وہ جلدی سے اٹھتیں اس کے پاس پہنچیں اور اس کے ماتھے پہ بکھرے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے ہٹاتیں اس کا ماتھا چوم گئیں۔۔۔
ا،،ایممممل ٹ۔۔ٹھیک ہے نہ مام۔۔۔۔
باسم نے ان کا وہی ہاتھ تھام کر تکلیف سے سانس لیتے ان سے پوچھا جبکہ زیمل بیگم بس روئے جا رہی تھیں۔۔۔
سنان صاحب بھی ہمت ہار گئے تھے اب وہ بھی علی صاحب کے گلے لگے خوب روئے تھے ،،، آج ایک مضبوط باپ بھی ہمت ہار گیا تھا۔۔۔۔
چاچو ، بابا کوئی مجھے بتائے گا کچھ کہ ایمل کہاں ہے آپ کیوں رو رہے ہیں ،،، وہ تکلیف سے دہرا ہوتا اٹھ کر بیٹھا ڈرپ لگے ہاتھ میں سے کینولہ کھینچ کر نکال دیا اور زیمل بیگم اسے منع کرتی رہ گئیں ۔۔۔۔
باسم لڑکھڑاتا ہوا سنان صاحب کے پاس پہنچا اور ان سے پوچھنے لگا جبکہ علی صاحب ان کو اشارے سے اس کی طبیعت کے پیش نظر منع کر رہے تھے لیکن وہ کب تک چھپاتے اس سے ،،، آج انہیں شدت سے ایک بیٹے کی کمی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔
ا۔۔ایمل غائب ہے و۔۔وہ تمہارے ساتھ تھی نہ تمہارے ایکسیڈنٹ کا کسی نے ہمیں تمہارے نمبر سے کال کر کے بتایا اور جب ہم وہاں پہنچے صرف تمہیں زخمی حالت میں پایا پھر تمہیں لے کر ہم جلدی سے ہاسپٹل آ گئے۔۔
میری ایمل میری گڑیا ناجانے کہاں ہو گی اور ٹھیک ہو گی کہ نہیں ،،، میرا دل پھٹ رہا ہے باسم میری بیٹی چاہیے مجھے ،،، وہ باسم کے گلے لگتے پھوٹ پھوٹ کر رو دیے ۔۔۔۔
بیٹیاں تو باپ کی شہزادیاں ہوتی ہیں ،،، گلاب زادیاں ہوتی ہیں ،،، پھول کی کلیوں جیسی ہوتی ہیں جنہیں باپ پیار محبت سے سینچ سینچ کے پروان چڑھا کر ،،، انہیں زمانے کے سرد و گرم سے بچا کر انہیں اپنے آنگن میں کھلاتا ہے اور جب وہ بڑی ہو کر پروان چڑھتی ہیں تو اس آنگن کو اپنی خوشبوؤں سے اپنی کھلکھلاہٹوں سے وہاں کی فضائوں کو معطر کر دیتی ہیں ۔۔۔
باسم کو تو یہ سن کر اس کے پیروں تلے زمین نکلی تھی ،،، وہ اپنے لڑکھڑاتے قدموں سے بہت مشکل سے اب دیوار کا سہارا لے کر کھڑا تھا۔۔۔
چاچو آپ فکر مت کریں میں ایمل کو ڈھونڈ نکالوں گا ،،، مجھے معاف کر دیں میں اس کی حفاظت نہیں کر پایا ۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ سنان صاحب کے سامنے جوڑے نظروں کو شرمندگی سے جھکائے ان سے معافی مانگنے لگ گیا جبکہ سنان صاحب نے تڑپ کر اس کے ہاتھوں کو تھاما ۔۔۔ وہ جانتے تھے کہ باسم لاپرواہ نہیں ہے ضرور کسی نے انہیں ٹریپ کیا ہے۔۔۔
ماما بابا آپ گھر جائیں چاچو کو لے کر ،،، چاچی بھی پریشان ہو رہی ہوں گی آپ ان کا خیال رکھیے گا میں ایمل کو ڈھونڈنے کا رہا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں اسے ہر حال میں ڈھونڈ کر با حفاظت گھر لے کر آؤں گا ۔۔۔
باسم نے مضبوطی سے مٹھیاں بھینچ کر خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کی لیکن ڈرپ لگے ہاتھ میں خون کی لکیر تیزی سے بہہ کر فرش پر ٹپ ٹپ گرنے لگی جس کی وہ زرا بھی پرواہ کیے بغیر باہر نکل گیا ،،، پیچھے سے علی صاحب ، زیمل بیگم آوازیں دیتی رہ گئیں لیکن اس نے ایک نہ سنی ان کی اور ہاسپٹل سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
سر میں شدید درد کی وجہ سے ایمل کی آنکھ کھلی تو وہ دھیرے دھیرے آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنے لگی ہاتھ بے ساختہ ماتھے پہ رکھا تو سر پہ پٹی سی محسوس ہوئی بھاری سر کے ساتھ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرتے وہ یاد کرنے لگی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا وہ کہاں موجود ہے ۔۔۔
آس پاس نظر دوڑائی تو اجنبی کمرے میں خود کو پا کر وہ خوفزدہ سی ہوئی۔۔۔
ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور جلدی سے بیڈ سے اترتے چپل پیروں میں اڑیستے دروازے کی طرف گئی ۔۔۔
کوئی ہے کھولو دروازہ پلیز مجھے گھر جانا ہے ،،، ایمل دروازے کو زور سے بجاتی چکراتے سر کو تھام کر وہیں بیٹھ گئی۔۔۔
ایک دفعہ پھر سے دروازہ بجایا تو کلک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو وہ وہیں بیٹھی بیٹھی سمٹ گئی ،،، خوفزدہ نظروں سے اندر آنے والے کو دیکھا۔۔۔
اے لڑکی تم یہاں کیا کر رہی ہو کون ہو تم ،،، ناز نے اسے نعمان کے کمرے میں دیکھا تو حیرت کے سمندر میں اتری ۔۔۔
کون لایا تمہیں یہاں بتاؤ ،،، ناز اس کو دونوں بازوؤں کو بے دردی سے پکڑتی انہیں جھٹکا گئی۔۔۔
م،،مجھے نہ،،،نہیں پتہ م،،میں یہاں کیسے آئی ککون لایا مجھے یہاں تتم کککون ہو د،،دیکھو م،،،مجھے یہاں سے جانے دوو پلیز میرے گھر والے مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔۔۔
ایمل نے ہچکیوں سے روتے ہوئے اس کے سامنے دونوں ہاتھ باندھ دیے آنکھیں رونے کی شدت سے سرخ پڑ گئیں تھیں۔۔۔
ناز کے ذہن میں جھماکا سا ہوا اسے نعمان کی وہ بات یاد آئی جب اس نے کہا تھا کہ اس کا بھی کوئی کام پینڈنگ پہ ہے کہیں وہ یہی کام تو نہیں اور نعمان اس سے پیار ۔۔۔ یا پھر اس کی وجہ سے مجھے اگنور تو نہیں کر رہا۔۔۔۔
ناز کا یہ سوچتے ہی کہ کہیں وہ سب سہی تو نہیں سوچ رہی اسے ایمل سے شدید نفرت محسوس ہوئی تھی۔۔۔
ناز نے فوراً دماغ لڑایا اور اس کے خرافاتی دماغ میں آئیڈیا آیا تو اس نے نعمان کے آنے سے پہلے جلد از جلد اس پہ عمل کرنے کا سوچا۔۔۔۔
اے اٹھو لڑکی تمہیں گھر جانا ہے نہ میں بھیج دیتی ہوں جلدی سے میرے پیچھے آ جاؤ۔۔۔۔
ناز اسے کہتی فوراً باہر چلی گئی جبکہ ایمل بھی چکراتے سر کو تھامتے لڑکھڑاتی ہوئی باہر اس کے پیچھے چل دی۔۔۔
ایمل کمرے سے باہر آئی وہ بہت بڑا بنگلہ تھا لاؤنج سے گزرتے اس کی نظریں ایک سائیڈ پہ شراب بار ٹائپ بنے کمرے پہ گئی جھرجھری سی لیتی وہ باہر آئی تو سامنے ہی ناز ایک گاڑی کے پاس کھڑے ڈرائیور کو کچھ سمجھا رہی تھی ،،، ایمل کے آتے ہی اس نے ڈرائیور کو آنکھ سے اشارہ کیا اور ایمل کے پاس آئی۔۔۔
تم گاڑی میں بیٹھ جاؤ ڈرائیور تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دے گا اوکے ،،، اس نے کہتے ساتھ ہی ایمل کو گاڑی میں بیٹھنے کا بولا۔۔۔۔
ایمل گاڑی میں بیٹھ گئی اور ڈرائیور نے کار سٹارٹ کر دی کچھ ہی دیر میں وہ گاڑی فٹ سے بنگلو سے باہر نکل گئی پیچھے عرشیہ زوردار قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔۔۔۔
نعمان صرف میرا ہے صرف میرا ،،، میں کسی کو بھی ہم دونوں کے درمیان نہیں آنے دوں گی اور جو بھی ہمارے درمیان آنے کی کوشش کرے گا میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی ،،، ایسی زندہ لاش بنا دوں گی کہ وہ مرنے کی دعائیں مانگے گی اور اسے موت نہیں آئے گی ،،، ناز پھر سے زور زور سے قہقہے لگاتی کوئی سائیکو لگ رہی تھی۔۔۔۔
پھر اس نے موبائل نکال کر سیٹھ کو کال ملائی ،،، سیٹھ آپ کے لیے ایک تحفہ بھیجا ہے قبول کیجیئے گا امید ہے آپ کو پسند آئے گا اور آپ کو بہت فائدہ دے گا وہ کمینی مسکراہٹ چہرے پہ سجاتی سیٹھ کا جواب سنتے کال کاٹ گئی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
نازیہ بیگم زید ملک کو پتہ چلا تو وہ بھی حسنین کے ساتھ وہاں پہنچ گئے پورا گھر ہی سوگوار سا تھا کیونکہ ایمل میں سب کی جان بستی تھی۔۔۔
ایمل کے لاپتہ ہونے کی خبر سن کر نویرہ بیگم کی تو جان نکل گئی تھی بی پی شوٹ کرنے کی وجہ سے وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بس ایمل کو پکارے جا رہی تھیں عنایہ ان کے پاس بیٹھی انہیں آوازیں دیتی رو رہی تھی۔۔۔
چچی جان ایمل آپی مل جائیں گی وہ ٹھیک ہوں گی آپ فکر مت کریں وہ فکر مند لہجے میں بولتی بس انہیں کالم ڈاؤن کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔
حسنین جو نویرہ بیگم کو دیکھنے آیا تھا عنایہ کو روتے دیکھ اس کے دل کو کچھ ہوا تو وہ اسی کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔
ہیے چشمش رو نہیں یار سب ٹھیک ہو جائے گا تم تو گئی تو باقی سب کو کون سنبھالے گا جب تک ایمل آپی مل نہیں جاتیں تمہیں ہی سب کا خیال رکھنا ہے اور بہادر بن کے دیکھانا ہے ۔۔۔
عنایہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا اسے تسلی دینے لگا تو وہ اس کے کندھے پہ سر رکھے اور زیادہ رو دی۔۔۔
حسنین کو تو جیسے کرنٹ لگا آج دوسری دفعہ اس کا لمس محسوس کر کے اس کا دل عجیب لے میں ڈھرکا۔۔۔
ابھی جو وہ محسوس کر رہا تھا عنایہ کو بتا دیتا تو وہ ناجانے کیا حال کرتی اس کا ،،، حسنین نے جلدی سے لاحول ولاقوۃ پڑھا اور دل پہ پتھر رکھتے اسے خود سے دور کیا تھوڑا کہ کہیں دل کہیں کوئی گستاخی نہ کروا دے ،،، عنایہ بھی گڑبڑا کر پیچھے ہوتی نظریں چرانے لگی۔۔۔۔
آئی ایم سوری وہ پتہ نہیں میں کیسے۔۔۔۔۔
اٹس اوکے ،،، مجھے کچھ کام یاد آگیا میں وہ کر کے آتا ہوں ،،، حسنین ادھر ادھر دیکھتے دم دبا کر وہاں سے بھاگ گیا۔۔۔
احسن صاحب کی بھی طبیعت ناساز تھی نازیہ بیگم نے زبردستی انہیں دوائی کھلا کر سلایا تھا۔۔۔
زید ملک لاؤنج میں بیٹھے سنان صاحب اور علی صاحب کا دکھ بانٹ رہے تھے ۔۔۔
حسان جو انابیہ کے پیچھے جانے کا سوچ رہا تھا حمزہ کے کال کرنے اسے مجبوراً تھانے جانا پڑ گیا تو وہ اسے بعد میں دیکھنے کا سوچتا حمزہ کے پاس چلا گیا۔۔۔
مجھے ایک انفارمیشن ملی ہے کہ سیٹھ کسی کے ساتھ بہت بڑی ڈیل کرنے والا ہے جو اسے کروڑوں کا فائدہ پہنچائے گا اور اس سے بھی بڑھ کر سیٹھ کے ساتھ اس کا بیٹا اور وہ لڑکی بھی وہاں ملاقات کریں گے تو یہی موقع ہے ہمارے پاس جب سب مجرم ایک ساتھ ہمارے شکنجے میں ہوں گے۔۔۔۔
حمزہ کو خفیہ ذرائع سے ملی گئی انفارمیشن سو فیصد ان کا کام آسان کر سکتی تھی جب وہ سب رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ۔۔۔
حمزہ حسان کو سب بتا کر خاموش ہوا تو ایک دم سے حسان کا موبائل رنگ ہوا ۔۔۔
حسنین کی کال تھی اور جو اس نے بتایا تھا اس کے ہوش اڑا گیا تھا ۔۔۔
اس کے زور سے بھینچی مٹھیوں پہ ابھرتی رگوں نے ہی اس کے اندر اٹھتے اشتعال کا پتہ بتا دیا تھا حمزہ بھی اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ پریشان ہوا۔۔۔۔
کال بند ہوتے ہی حسان نے زور سے دیوار پہ مارا تھا ۔۔۔
کیا ہوا حسان ایوری تھنگ از آل رائیٹ۔۔۔؟
حمزہ نے اس کے پاس کھڑے ہوتے اس کے کندھوں پہ ہاتھ رکھتے پوچھا لیکن اس کی آنکھوں میں خون اترا دیکھ وہ بھی ڈر گیا۔۔۔۔
مجھے ابھی جانا ہے بس فی الحال تم اس سب انفارمیشن کے ہر پوائنٹ پر غور کر کے اچھا سا پلان سوچ کے رکھو ،،، حسان حمزہ کو کہتا پھر اپنے ٹوٹے موبائل کو اٹھاتا راجپوت ہاؤس کے لیے نکل گیا۔۔۔
باسم کو صبح سے نکلے شام ہو گئی تھی لیکن ایمل کو کوئی سراغ نہ ملا تو وہ تھک ہار کر واپس گھر آیا تو سامنے ہی سب بیٹھے اسے اپنے منتظر ملے۔۔۔
لیکن اس کے چہرے پہ چھائی افسردگی اور اس کی جھکی نظروں نے سب کے سوالوں کا جواب دے دیا تھا۔۔۔ خاموشی سے چلتا وہ بھی صوفے پہ آ بیٹھا تبھی حسان اندر داخل ہوا ۔۔۔
حسان نے آتے ہی غصے میں باسم کو گریبان سے پکڑ لیا جبکہ باقی سب حسان کی اس حرکت کو دیکھ حیرت سے کھڑے ہو گئے۔۔۔
ایمل کہاں ہے ،،، تم لے کے گئے تھے نہ اسے ،،، تم حفاظت نہیں کر سکے اس کی تف ہے تم پر ،،، اگر ایمل کو ایک کھروچ بھی آئی تو میں تمہاری جان لے لوں گا۔۔۔
حسان نے غصے سے بھڑکتے باسم کے منہ پہ مکا جڑ دیا جبکہ باسم اس سب کے لیے تیار نہیں تھا تو وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔۔۔۔
حسان یہ کیا کر رہے ہو چھوڑو اسے ،،، زید ملک نے آگے بڑھ کر حسان کو باسم پہ دوبارہ ہاتھ اٹھانے سے روکا۔۔۔
ڈیڈ اگر ایمل کو کچھ ہوا میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا ،،، باسم کو شرربار نگاہوں سے گھورتا وہ خود کو زید ملک سے چھڑواتا پیچھے ہٹا۔۔۔
علی صاحب نے باسم کو اٹھا کر اسے کمرے میں بھیجا تاکہ وہ تھوڑا آرام کر سکے ،،، باسم اٹھ کر کمرے میں چلا گیا اور معاملے کی نزاکت کے تحت علی صاحب خاموش رہے ورنہ انہیں حسان کا رویہ پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔
حسان میری بچی کو ڈھونڈ دو تم تو پولیس میں ہو کچھ بھی کر سکتے ہو میری بچی ناجانے کس حال میں ہو گی ،،، سنان صاحب نے حسان کی طرف دیکھتے نم لہجے میں کہا تو حسان کا بھی دل پسیجا۔۔۔
آپ فکر مت کریں ماموں جان میں ایمل کو ڈھونڈ کر بہت جلد گھر لے آؤں گا ۔۔۔
حسان انہیں تسلی بخش جواب دیتا اپنے کسی سینیئر کو کال ملا گیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
نعمان اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک بار میں بیٹھا شراب پی رہا تھا بلکہ یوں کہہ لو اپنی جیت کا جشن منا رہا تھا۔۔۔
واہ یار کیا گیم کھیلا تم نے ،،، تمہارے تو مزے ہیں کیا مال اٹھا لائے ہو ،،، میرا بھی تھوڑا حق بنتا ہے۔۔۔
اس کے دوست نے آنکھ ونک کرتے اسے بھی بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھونے کی خواہش کی تو نعمان زوردار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔۔۔
ابے چپ کر یہ تیری بھابھی بنے گی یہ صرف میری ہے اور ہاں تمہارے لیے بھی انتظام کر دوں گا آخر تم نے میرا اتنا بڑا کام جو کیا ہے۔۔۔۔
نعمان نے شراب کا گلاس اس کے گلاس سے ٹکراتا منہ کو لگا گیا۔۔۔
چل اب میں چلتا ہوں اپنی بلبل کے پاس ہوش میں آ گئی ہو گی پھر تم مولوی کو لے کر آ جانا اور میرے نکاح کے چھوارے بھی کھا لینا۔۔۔
نعمان لڑکھڑاتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھ گیا اور اسے سب انتظام کرنے کا کہتا گھر کے لیے نکل پڑا۔۔۔
جھوم برابر جھوم ،،، جھوم برابر جھوم۔۔۔
نشے کی حالت میں گھر پہنچ کر وہ خوشی سے چور گنگناتا ہوا سیدھا روم میں آیا۔۔۔ جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا خالی کمرے نے اس کا منہ چڑھایا۔۔۔
سر کو دائیں بائیں جھٹکتے اس نے اپنی آنکھیں پوری کھولتے خود کو ہوش دلایا اور ایمل کو پورے کمرے میں تلاش کیا لیکن ایمل اسے کہیں نظر نہیں آئی ،،، اب سہی معنوں میں اس کا نشہ اترا تو وہ دھاڑا۔۔۔۔
نازززز۔۔۔۔ ناززز۔۔۔
ناز جو جانتی تھی وہ ایسے ہی ری ایکٹ کرے گا تبھی خود کو نارمل کرتے اس کی پکار پر اس کے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔
کیا ہوا جانِ من ایسے کیوں چلا رہے ہو۔۔۔
وہ ایک ادا سے چلتی اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی اور اس کے بالکل قریب ہوتے اپنے ہاتھ کی ایک انگلی اس کی گال پہ پھیرنے لگ گئی۔۔۔
ایمل کہاں ہیں ۔۔۔؟ میں جانتا ہوں کہ اسے تمہارے علاؤہ کوئی غائب نہیں کر سکتا یہاں سے اب جلدی بکو اگر وہ مجھے نہ ملی نہ تو تمہارا حشر بگاڑ دوں گا میں سمجھی۔۔۔
نعمان عرف نومی نے ناز کے بالوں کو پیچھے سے اپنی مٹھی میں زور سے جکڑے اس سے پوچھا۔۔۔
آہہہہ۔۔۔ چھوڑو مجھے ،،، کون ایمل میں کسی کو نہیں جانتی نہ مجھے پتہ ہے اور اگر پتہ بھی ہوتا تو زندہ نہیں بچتی وہ میرے ہاتھوں سے۔۔۔
ناز نے چیختے ہوئے اسے جواب دیا ۔۔۔
تم جانتے ہو نہ میں کتنی محبت کرتی ہوں تم سے تم صرف میرے ہو تم پہ بس میرا حق ہے سمجھے ،،، اب وہ اس کا گریبان پکڑ کر ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی ۔۔۔
تو تم ایسے نہیں مانو گی بہت ڈھیل دے رکھی ہے میں نے تمہیں اگر ایمل مجھے نہیں ملی تو زندہ تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔
نعمان غصے میں بھڑکتا اس کا بازو پکڑے اسے گھسیٹتے ہوئے نیچے لایا اور گاڑی میں پٹکا ،،، پھر خود بھی گاڑی میں بیٹھتے اسے بھگا لے گیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
سیٹھ شہاب غوری اپنے ٹھکانے پہ موجود تھا آج وہ بہت خوش تھا ناز نے جو لڑکی بھیجی تھی اس جیسی آج تک اس کے ہاتھ نہ لگی تھی ،،، اسے یقین تھا کہ آنے والی پارٹی کو اگر یہ پسند آ گئی تو وہ کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں کھیل سکتا ہے۔۔۔
ابھی وہ یہ سب سوچ کر خوش ہو رہا تھا جب اس کافون بجا۔۔۔ فون نکال کر دیکھا تو اسی شخص کا فون تھا جو اس سے پہلے بھی مل چکا تھا کسی اور ایمرجنسی ڈیل کی وجہ سے وہ تب آ نہ سکا تھا اس لیے اب فون کیا اور اسے اپنے آنے کی خبر بتائی۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد وہ سیٹھ کے پاس پہنچا تو سیٹھ شہاب غوری اس آدمی کو لیے اپنے دوسرے اڈے پہنچا جہاں ناجانے کتنی لڑکیوں کو رکھا گیا تھا۔۔۔
یہ لڑکیاں ہیں اس میں سے جس کا چاہو سودا کر لو ۔۔۔
آٹھ سے دس لڑکیاں اب اس کے سامنے موجود تھیں
اس کے ساتھ آج بھی دو گارڈ تھے جو اس کے دائیں اور بائیں موجود تھے۔۔۔
ایمل جو کونے میں دبکی بیٹھی تھی حاشان خان کی نظر اس پہ ٹھہری تو پلٹنا بھول گئی ،،،
سیٹھ کی طرف دیکھتے اس نے ایمل کی طرف اشارہ کیا تو سیٹھ ہنس دیا۔۔۔
نیا مال ہے آج ہی آیا ہے چوائس تو اچھی ہے تمہاری ،،، بتاؤ کیا قیمت دے سکتے ہو اس کی۔۔۔
سیٹھ میں نئے سرے سے ڈبل پیسے کمانے کا لالچ پیدا ہوا۔۔۔
حاشان خان نے ایک بلینک چیک اس کے سامنے رکھا۔۔۔
جتنی چاہے مرضی رقم بھر لو میں اس کا بھی ڈبل دوں گا تمہیں بس یہ ساری لڑکیاں میرے حوالے کر دو۔۔۔۔
سیٹھ کے تو منہ سے رال ٹپکنے لگی تھی اس کی سوچ میں بھی نہیں تھا کہ یہ لڑکی اسے اتنا فائدہ دے سکتی ہے۔۔۔۔
ایمل تو بس اپنی قیمت لگتے دیکھ رہی تھی اسے شدید گہرا صدمہ پہنچا تھا جب وہ یہاں پہنچی ،،، لاکھ چیخنے چلانے کے باوجود اس کی ایک نہیں سنی گئی تھی تبھی اس نے اب چپ سادھ لی تھی۔۔۔۔
حاشان خان نے اپنے گارڈز کو اشارہ کیا وہ باقی لڑکیوں کی طرف بڑھے اور حاشان خود ایمل کی طرف بڑھا ،،، اس کے پاس پہنچتے ہی اسے نرمی سے بازو سے پکڑتے کھڑا کیا اور اسے اپنے ساتھ لے کر چل پڑا اور ایمل کٹی ڈال کی طرح اس کے ساتھ کھنچتی چلی گئی۔۔۔
ایک گارڈ نے آگے بڑھ کر بلیک رنگ کی پراڈو کا دروازہ کھولا تو حشان ایمل کو بٹھاتے ساتھ ہی خود بھی پیچھے بیٹھ گیا جبکہ گارڈز اس کے یہ سب دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ آج تک حاشان خان نے خریدی ہوئی لڑکی کو کبھی اتنی اہمیت بھی نہیں دی تھی اور نہ ہی اتنی نرمی برتی تھی کسی ساتھ۔۔۔
دونوں کے بیٹھتے ہی گارڈ نے دروازہ بند کیا اور گاڑیاں اپنی منزل کی طرف گامزن ہو گئیں۔۔۔
حاشان نے دیکھا تھا وہ خوفزدہ سی ہرنی کی مانند اس سے جتنا دور ہو کے بیٹھ سکتی تھی دوسرے دروازے کے ساتھ چپکی بیٹھی تھی۔۔۔
قسمت کے بھی کھیل نرالے ہوتے ہیں ،،، انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے ،،، زندگی آپ کے اسی وصف کا امتحان لیتی ہے جو آپ میں سب سے زیادہ ہوتا ہے اور شاید ایمل میں صبر زیادہ ہے جو اس کے صبر کا امتحان لیا جا رہا تھا اس کی برداشت کی حد دیکھی جا رہی تھی۔۔۔۔
پہلی دفعہ کوئی لڑکی حاشان خان کو اپنی طرف متوجہ کر پائی تو وہ یہ لڑکی تھی جو پہلی نظر میں ہی اسے بھا گئی تھی ۔۔۔۔
حاشان خان ایک امیر کبیر فیملی سے تعلق رکھنے والا بگڑا رئیس زادہ جو جیسا ہے کہ ویسے کی بنیاد سے لوگوں سے تعلق رکھنے والا ،،، اچھوں کے لیے اچھا بروں کے لیے برا۔۔۔۔
اس کی ایک خوبی تھی ایسے دھندوں میں وہ ایسی لڑکیوں کو خرید کر وہ انہیں عزت سے زندگی جینے کا مواقع فراہم کرتا تھا بظاہر سب کی نظروں میں وہ برا انسان ایسی لڑکیوں کے لیے فرشتہ ثابت ہوتا تھا کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اس کی خریدی جانے والی لڑکیاں کہاں جاتی اور کیا کرتی تھیں۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
انابیہ کب سے ہر طرف نظریں جمائی بیٹھی تھی کہ کہیں وہ اپنے ٹارگٹ کو مِس نہ کر دے تبھی وہ اپنا پورا دھیان آتی جاتی گاڑیوں پر دے رہی تھی اسے حسان کا میسج موصول ہوا تھا کہ وہ چوکنہ رہے۔۔۔۔
تھوڑی دیر گزری تھی جب اس کے پاس ایک اور بھکارن آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔
اے بھنگن بھکارن اٹھ ادھر سے یہ اپن کا علاقہ ہے تم کدھر سے آ گیا ہے چل بھاگ ادھر سے ورنہ میں اپنے بندے اکٹھے کر کے تیرے کو اپنے علاقے سے باہر پھنکوا دوں گی_ جا جا کر کہیں اور مانگ کوئی اور علاقہ ڈھونڈ۔۔۔
وہ بھکارن دونوں ہاتھوں سے اپنی آستینیں اوپر چڑھاتے کمر پہ دونوں ہاتھ ٹکائے فل لڑنے کے موڈ میں تھی۔۔۔۔
انابیہ اپنے لیے یہ سب سنتے حیرت سے صدمے میں ہی چلی گئی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بولے ۔۔۔۔
پہلی دفعہ اس کا ایسی مخلوق سے واسطہ پڑا تھا۔۔۔
اے بھکارن کی بچی تجھے میں کدھر سے بھنگن لگ رہی ،،، ہاں ! بھنگن ہو گی تیری ماں ، تیری ساس ، تیرا پورا خاندان ۔۔۔
انابیہ غصے سے کاسہ کو مضبوطی سے پکڑتی اٹھ کر کھڑی ہوئی اور آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورنے لگ گئی۔۔۔
ہائے رے تیرے کو کیسے پتہ کہ اپن کی ساس بھنگن ہے کہیں تم اس کی دور پار کی کچھ لگتی تو نہیں ،،، وہ بھکارن سوچنے والے انداز میں اپنے ایک ہاتھ کی انگلی اپنے نچلے ہونٹ پہ رکھتی دوسرا ہاتھ کمر پہ ٹکائے ہی اسے دیکھنے لگی تو انابیہ گڑبڑا گئی۔۔۔
اس سے پہلے انابیہ کچھ بولتی اس بھکارن کا بچہ جو کوئی دو،تین سال کا تھا اس کا باجا بجنے لگ گیا زور وشور سے روتا وہ انابیہ کو اپنی طرف متوجہ کر گیا۔۔۔
وے چھیدے کے بچے تو تو اپنا سپیکر بند کر اب میں اس سے تو پہلے دو دو ہاتھ کر لوں پھر تیرے کو بھی اٹھا لوں گی ،،،
یہ پکڑ اور چپ چاپ ادھر بیٹھ کے یہ پان والی ٹافی کھا ۔۔۔۔
انابیہ نے بچے کی طرف دیکھا تو اس کا حلیہ بھی اسے خود سے زیادہ مختلف نہ لگا۔ گندی سی قمیض پہنے وہ کالا کلوٹا سا بچہ بغیر نیکر پہنے ،،، گلے میں ڈوری میں دو سے تین تعویذ پہنے ،،، بہتی ناک کے ساتھ جو اس کے اوپر والے ہونٹ تک بہہ رہی تھی وہ اپنے گندے ہاتھوں سے اسے پکڑائی جانے والی ٹافی کو نیچے زمین پر بیٹھ کے کھولنے کی کوشش کرنے لگ گیا۔۔۔
انابیہ نے اسے دیکھ جھرجھری سی لی ، خراب ہوتے دل کے ساتھ خود پہ زرا سی نظر ماری تو خود کے حلیے سے بھی اب شدید اریٹیٹ ہونے لگی تھی۔۔۔
وے بھکارن کیا میرے بچے کو گھورے جا رہی ہے نظر لگائے گی کیا۔۔۔ چل نکل یہاں سے اپنا کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈ ۔۔۔۔
وہ پھر سے ایک دفعہ انابیہ کو گھورنے لگی تو انابیہ پیر پٹکتی دل میں سو گالیوں سے نوازتی وہ مڑنے لگی جب اس نے پھر سے بھنگن کہہ کے آواز ماری تو انابیہ کا پھر سے پارہ ہائی ہوا۔۔۔۔
اب کیا تکلیف ہے تمہیں جا تو رہی ہوں نہ میں ،،، انابیہ نے دانت پیستے اس سے پوچھا تو اس بھکارن نے اس کے کاسے میں اتنے بڑے بڑے نوٹ دیکھ کے زبان ہونٹوں پہ پھیری اور فٹا فٹ سے اس کے کاسے میں پڑے سارے نوٹ اٹھا لیے۔۔۔۔
دیکھ بھنگن یہ تو نے اپن کے علاقے سے کمایا ہے پیسہ تو اس پہ اپن کا حق بنتا ہے چل یہ تھوڑے سے تو بھی رکھ لے کہیں کسی ڈھابے سے روٹی کھا لینا ٹھیک ہے تیرے لیے بس یہی کر سکتی میں اب کیونکہ تو بھی میری برادری کی ہے نہ ،،، چل اب جا اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ ۔۔۔
وہ بھکارن کچھ نوٹ اس کے کاسے میں واپس رکھتی اسے جانے کا کہنے لگی جبکہ انابیہ کو تو اپنی اتنی انسلٹ پر آگ ہی لگ گئی۔۔۔
ہاتھ میں اس کے تھمائے گئے پیسے بھی اس کے منہ پر مار کر لعنت بھیجتی انابیہ آگے کو چل دی جبکہ وہ بھکارن اس کے تیور دیکھ کر ہی عش عش کر اٹھی اور پیسے اکٹھے کر کے اپنے تھیلے میں چھپا کر نئے سرے سے اپنے کام پہ لگ گئی۔۔۔
انابیہ کچھ ہی دیر میں پیدل چل چل کر تھک گئی تھی اوپر سے اس حلیے میں بھی کراہیت محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ آج کا دن ہی خراب تھا پہلے باسم اور پھر یہ بھکارن۔۔۔
اپنی سائیڈ پاکٹ سے اب ببل نکال کر وہ چباتی ادھر ادھر دیکھنے لگی جب اسے ایک سگنل پہ رکی مطلوبہ گاڑی نظر آئی جلدی سے اس گاڑی کی نمبر پلیٹ پہ نظر گھمائی اور کنفرم کیا۔۔۔ کنفرم ہونے پر اس نے فوراً حمزہ کو کال ملائی اور اسے ایڈریس بتاتے خود رکشہ کرواتے اس گاڑی کا پیچھا کرنے لگ گئی۔۔۔
دور دراز کے ایک سنسان علاقے میں جا کر گاڑی رکی تھی اور اس میں سے ایک لڑکا اور لڑکی باہر نکلے ،،، لڑکا غصے سے لڑکی کو گھسیٹتا اندر ایک پرانی کھنڈر نما فیکٹری میں لے جا رہا تھا ۔۔۔۔
انابیہ جس نے رکشے کو تھوڑا دور ہی رکوا لیا تھا یہ منظر دیکھ کر اسے افسوس ہوا۔۔۔
وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ہی وہاں چلی آئی ۔۔۔
نعمان نے ناز کو لا کر سیٹھ کے پیروں کے پاس دھکا دے کر گرایا ۔۔۔
ڈیڈ اس سے پوچھیں میری ایمل کہاں ہے اگر اس نے ابھی اور اسی وقت نہیں بتایا تو میں اس کو خود اپنے ہاتھوں سے شوٹ کر دوں گا ۔۔۔
نعمان نے چیختے ہوئے سیٹھ سے کہا اور سیٹھ حیران سا ہو کر اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔
کالم ڈاؤن! کیا ہوا ہے آخر مجھے بتاؤ گے ۔۔۔
سیٹھ نے ناز کو اٹھاتے اسے سائیڈ پہ کیا اور نعمان کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔
ہاں میں نے ہی اسے غائب کروایا ہے بلکہ اسے تمہارے باپ کے پاس بھیج دیا تھا اور اب جانتے ہو وہ کدھر ہے ،،، ہاہاہاہا تمہارے باپ نے اسے آگے بیچ دیا اب تم بھول جاؤ اسے تم صرف میرے ہو سمجھے تمہیں جو بھی کوئی مجھ سے چھینے گا اس کا یہی حشر ہو گا۔۔۔
ناز نے ہذیانی انداز میں چیختے سب سچ اگل دیا اور زور زور سے پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتی آ خر میں پھٹ پڑی۔۔۔
نعمان نے بے یقینی سے اپنے باپ کی طرف دیکھا تو سیٹھ کے گلے میں بھی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔
اس سے پہلے نعمان کچھ کہتا انہیں کچھ شور کی آواز سنائی دی ۔۔۔
انابیہ جو چھپ کر سب سن چکی تھی اور ان کے چہرے دیکھ کر بے یقینی کی کیفیت میں منہ پہ ہاتھ رکھتی پیچھے کو ہوئی تھی ایک خالی ڈرم سے ٹکرا گئی جس کے گرنے کی بدولت سناٹے میں شور پیدا ہوا اور سب چونک گئے۔۔۔۔
انابیہ فوراً وہاں سے بھاگی تھی جبکہ اسکے پیچھے سیٹھ اور نعمان بھی بھاگے۔۔۔
انابیہ جو فیکٹری سے باہر نکل آئی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیسے اپنی جان بچائے کس طرف بھاگے وہ یہی کھڑی سوچ رہی تھی جب نعمان اور سیٹھ دونوں اس کے سر پر پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔
کون ہو تم،،، یہاں کیا کرنے آئی ہو ،،، نعمان اس کے سر پر پہنچا اور اس کی بازو پکڑ کر موڑتے ہوئے اس کی کمر سے لگا گیا ۔۔۔ انابیہ کی آنکھوں میں تکلیف سے تیزی سے نمی تیرنے لگ گئی۔۔۔۔
سیٹھ اور ناز دور سے کھڑے اب ان دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے اور انابیہ کے حلیے کی وجہ سے ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کون ہو سکتی ہے یہ اور یہاں کیسے پہنچی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حمزہ کو جیسے ہی انابیہ کا میسج ملا وہ فوراً پولیس فورس ساتھ لیے وہاں کے لیے روانہ ہو گیا اور حسان کو بھی میسج کر کے سیدھا وہیں آنے کا کہہ دیا۔۔۔۔
حسان جو پریشان سا راجپوت ہاؤس میں ہی بیٹھا تھا حمزہ کا پیغام ملتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
کدھر جا رہے ہو حسان اور یہ انابیہ کہاں ہے تمہیں کچھ پتہ بھی ہے ایک تو یہ لڑکی مجھے بہت پریشان کیے رکھتی ہے ۔۔۔۔
نازیہ بیگم نے حسان کے قریب آتے ہی پوچھا تو وہ انہیں تسلی دیتا اور انابیہ کو اپنے ساتھ لانے کا کہتا باہر چلا گیا۔۔۔۔
نویرہ بیگم کی حالت تو خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی تھی ،،، اکلوتی بیٹی کے گمشدہ ہونے کی خبر نے انہیں اور نڈھال کر دیا تھا۔۔۔۔
ان کی حالت دیکھ کر سنان صاحب بھی رو پڑے کہ بیٹی کو ڈھونڈنے جائیں یا بیوی کو سنبھالیں۔۔۔
ایسے میں زیمل بیگم نے پورا گھر سنبھالا ہوا تھا ابھی بھی وہ کیچن میں کھڑیں نویرہ بیگم کے لیے سوپ بنا رہی تھیں جب نازیہ بیگم بھی وہاں داخل ہوئیں۔۔۔۔
بھابھی کیا کر رہی ہیں ،،، نازیہ بیگم نے انہیں کچھ پکاتے دیکھا تو پوچھا ۔۔۔
ارے کچھ نہیں نازیہ بھابھی کے لیے سوپ بنا رہی تھی آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتے نازیہ بیگم کی طرف متوجہ ہوئیں جبکہ ان کی یہ نمی نازیہ بیگم سے مخفی نہ رہ سکی۔۔۔
آپ رو رہی ہیں بھابھی ،،، نازیہ بیگم نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ان کا رخ اپنی طرف موڑا جو پھر سے چمچہ ہلانے کے لیے مڑ گئیں تھیں ۔۔۔
ایمل ہماری بچی پتہ نہیں کہاں ہو گی کس حال میں ہو گی جب سے وہ لاپتہ ہوئی ہے گھر اجڑا اجڑا لگ رہا ہے اس کے بغیر پتہ نہیں اس نے کچھ کھایا بھی ہو گا کہ نہیں ،،، باسم کو اتنی چوٹیں آئیں ہیں تو ایمل کو بھی لگی ہوں گی ،،، بس یہی سوچ سوچ کر میرا دل پھٹ رہا ہے ۔۔۔ نازیہ بیگم کے وہ گلے لگے خوب روئیں تھیں ۔۔۔
بھابھی آپ فکر مت کریں ان شاءاللہ جلدی سب ٹھیک ہو جائے گا ہماری ایمل مل جائے گی حسان گیا ہے اسے ڈھونڈنے دیکھیے گا وہ جلد ہی ہماری بچی کو لے آئے گا۔۔۔ نازیہ بیگم نے انہیں خود سے لگائے تسلی دی۔۔۔
آپ جا کر آرام کریں یہ سب میں دیکھ لوں گی ،،، بابا کو بھی ابھی بہت مشکل سے میڈیسن دے کر سلایا ہے وہ بھی بار بار ایمل کو بہت یاد کر رہے تھے ۔۔۔۔
پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے ہمارے بچوں کو کسی کو کوئی خوشی راس ہی نہیں آئی۔۔۔
پہلے حسان اور عرشیہ پھر باسم اور ایمل کوئی بھی خوش نہیں ہے۔۔۔
زیمل بیگم نے پھر سے آنکھیں نم کیں تو نازیہ بیگم کی آنکھوں میں بھی ضبط کرنے کے باوجود آنسو چھلک ہی پڑے۔۔۔۔
کچھ دیر تک دونوں کو ہی خاموشی نے گھیرے رکھا پھر زیمل بیگم ہی انہیں علی صاحب کو دیکھنے کا کہتی وہاں سے چلی گئیں اور نازیہ بیگم نے کام کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔
زیمل بیگم اپنے کمرے میں جا رہی تھیں جب باسم کے کمرے کے سامنے سے گزریں تو سوچا اسے بھی دیکھتی جائیں کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔۔۔
زیمل بیگم اس کے کمرے میں داخل ہوئیں تو دیکھا وہ بے سدھ سا بیڈ پہ پڑا کچھ بڑبڑا رہا تھا۔۔۔۔ زیمل بیگم نے زرا دھیان لگا کر سنا تو وہ اس کی باتیں سن کر دنگ رہ گئیں۔۔۔
ایمل مجھے معاف کر دو میں تمہیں دکھ نہیں دینا چاہتا تھا لیکن انابیہ سے میں بے حد محبت کرتا ہوں میں اسی سے شادی کروں گا لیکن تم ناراض ہو کر کہاں چلی گئی ہو واپس آ جاؤ پلیز ہم بہت اچھے دوست بھی تو ہیں نہ مجھے یقین ہے تم سمجھو گی میری بات کو پلیز کم بیک۔۔۔۔
زیمل بیگم یہ سن کر جلدی سے کمرے سے باہر آ گئیں انہوں نے تو کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ ان کا بیٹا بھی ان سے کچھ چھپا سکتا ہے ،،، اب انہوں نے سوچ لیا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے وہ علی صاحب سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچتیں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
نعمان انابیہ کو گھسیٹ کر اندر لے جا رہا تھا تاکہ وہ اس سے سچ اگلوا سکے تبھی ہوا میں فائر ہوا تو سب وہیں کے وہیں کھڑے رہ گئے۔۔۔
حمزہ پولیس فورس کو ساتھ لیے وہاں پہنچ چکا تھا اور سب کو گھیرے میں لے لیا۔۔۔
نعمان نے جیب سے چاقو نکال کر انابیہ کی گردن پہ رکھ دیا۔۔۔۔
ہمیں جانے دو ورنہ اس کا یہیں کام تمام کر دوں گا پیچھے ہٹو سب ،،، نعمان زور سے دھاڑا ۔۔۔۔
انابیہ کو اس کے شکنجے میں پھڑپھڑاتے دیکھ حمزہ نے گن نیچے کر لی لیکن پولیس کا گھیرا ابھی بھی ان کے چاروں طرف موجود تھا۔۔۔۔
ڈیڈ ، ناز گاڑی میں جا کر بیٹھیں اگر کسی نے بھی روکنے کی کوشش کی میں اس کی گردن اڑا دوں گا سمجھے ،،، نعمان نے چاقو کا دباؤ انابیہ کی گردن پہ بڑھایا تو وہ سسک اٹھی۔۔۔۔
اسے چھوڑ دو ہم پیچھے ہٹ رہے ہیں ،،، آفیسر حمزہ نے سب کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا ۔۔۔
سیٹھ اور ناز دونوں گاڑی کی طرف بڑھے نعمان بھی انابیہ کو ساتھ ہی گھسیٹتا گاڑی تک پہنچا جب اس نے انابیہ کو دھکا دے کر دور پھینکا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔۔
ہوا میں ایک دم پھر سے دو فائرز کی آواز گونجی اور گاڑی کے ٹائر پنکچر کر گئی ،،، پولیس نے فوراً اپنا گھیرا گاڑی پہ مزید تنگ کر دیا جبکہ حمزہ نے انابیہ کو جا کر کور کیا۔۔۔۔
حسان وہاں پہنچ چکا تھا اور فائرنگ بھی اسی نے کی تھی۔۔۔۔
حسان نے گاڑی کے پاس پہنچ کر نعمان کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکالا اور دو تھپڑ اس کو رسید کرتے پولیس کے حوالے کیا پھر سیٹھ کو کھینچ کر باہر نکالا اور اسے بھی دو گھونسے رسید کر کے ہتھکڑی لگوائی۔۔۔
آخر پہ حسان نے ناز کو نکالا تو اس کو دیکھتے ہی اس کے ہوش اڑ گئے ۔۔۔
ع۔۔عر۔۔عرشیہ تم۔۔۔۔۔؟
حسان تھوڑا لڑکھڑا کر پیچھے ہوا۔۔۔
ہاہاہاہا انسپکٹر میں عرشیہ نہیں ناز ہوں عرشیہ تو کب کی مر گئی ہے نہ۔۔۔۔
ناز نے حسان کی طرف دیکھتے قہقہے لگائے سیٹھ اور نعمان بھی ان قہقہوں میں شامل ہو گئے۔۔۔
حسان نے کھینچ کر ایک تھپڑ ناز کے منہ پر مارا ۔۔۔۔
اتنا بڑا دھوکا ،،، حسان کے سر پر تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے جیسے ساتوں آسمان اس کے سر پر آ گرے ہوں۔۔۔
حسان نے خود اس کو ہتھکڑی لگا کر پولیس وین میں پھینکا اور سب کو لیے تھانے کی طرف چل پڑے ۔۔۔۔
اب حسان اور ناز لاک اپ میں اکیلے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔۔
حسان جس طرح خود پہ ضبط کیے بیٹھا تھا وہی جانتا تھا ،،، آنکھوں میں خون اتر آیا تھا اسے اب بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اس کے سامنے بیٹھی لڑکی جو اس سے محبت کی دعویدار تھی جس سے اس نے بھی اپنے دل و جان سے محبت کی تھی جس کی وجہ سے اس نے ایمل کو ٹھکرایا جس کے لیے اپنوں کی ناراضگی مول لی ،،، جس کی خاطر وہ پل پل تڑپا جس کے مرنے کی خبر سن کر اس نے خود پہ ہر خوشی حرام کر لی تھی وہ اس طرح سے اس کے سامنے آ جائے گی۔۔۔
وہ مٹھیاں بھینچتا اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو قابو کر رہا تھا جب اس نے سامنے پڑے ٹیبل پہ زور سے مکا مارا تھا اس کا جنونی انداز دیکھ کر ایک پل کے لیے تو ناز بھی سہم گئی تھی ۔۔۔
کون ہو تم ، تمہارا اصل چہرہ کون سا ہے ۔۔۔ حسان نے اس کے نزدیک جاتے زور سے اس کا جبڑا دبوچا۔۔
م۔۔میں عرشیہ ناز ہوں اور مجھے کبھی بھی تم سے محبت نہیں تھی میں صرف اور صرف نعمان سے محبت کرتی ہوں اور تمہارے پاس بھی اسی کے کہنے پہ آئی تھی اور یہ سب ناٹک کیا تھا ۔۔۔۔
تمہارے وہ ضروری پیپرز جو تم نے ہمارے خلاف ثبوت اکٹھے کیے تھے وہ بھی میں نے ہی چرائے تھے۔۔۔
عرشیہ نے گھٹی گھٹی آواز میں ہر راز سے پردہ اٹھا دیا تھا ۔۔۔ حسان کے دل کے سو ٹکڑے ہوئے تھے اور خود پہ حیران تھا کہ وہ کیسے ایک لڑکی کے ہاتھوں بے وقوف بن گیا تھا ۔۔۔۔
حسان نے جھٹکے سے اس کا منہ چھوڑا تھا ۔۔۔ تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تمہیں کوئی چاہے مجھے نفرت ہے تم سے شدید نفرت سمجھی۔۔۔
کچھ لوگ ہماری سرسری نگاہ تک کے اہل نہیں ہوتے جن پہ ہم اپنی خالص محبتیں لٹا دیتے ہیں اور وہ بھی یقین دلا دیتے ہیں کہ ہم واقعی اندھے تھے۔۔۔۔
حسان خود پہ ضبط کرتا باہر نکل آیا اگر دو منٹ بھی اور وہاں رکتا تو ناجانے کیا کر گزرتا۔۔۔۔
حسان اس سیٹھ اور اس کے بیٹے کا ک۔۔۔۔
حمزہ اس سے بات کر رہا تھا جب وہ اس کی بھی سنے بغیر تھانے سے باہر آ گیا۔۔۔
حمزہ انابیہ کو گھر پہنچا کر ہی تھانے واپس آیا تھا جب حسان کو اس نے اتنے غصے میں باہر نکلتے دیکھا لیکن اس کے تنے تاثرات دیکھ اس کی زبان کو بھی بریک لگ گئی ۔۔۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے زور سے سٹیرنگ پر مکا مارا اور گاڑی سٹارٹ کر دی ،،، اسے رہ رہ کر وہ پل یاد آ رہے تھے جو اس نے عرشیہ کی محبت میں گزارے تھے اور ایمل کو تکلیف دی تھی۔۔۔۔
اس دن کتنا تڑپایا تھا اس نے ایمل کو کتنی باتیں سنا دی تھی جبکہ اس کی کوئی غلطی بھی نہیں تھی ،،، حسان گاڑی کی سپیڈ خطرناک حد تک تیز کر چکا تھا کئی دفعہ ایکسیڈینٹ ہونے سے بچا لیکن اسے کوئی ہوش نہیں تھی بس رہ رہ کر ایمل کا خیال آ رہا تھا کہ اب وہ یہاں ہوتی تو اس سے معافی ہی مانگ لیتا لیکن قسمت نے اس سے یہ موقع بھی چھین لیا تھا۔۔۔۔
مرد کی زندگی کا بدترین خسارہ تب ہوتا ہے جب وہ اپنی ہی پسندیدہ عورت سے محبت میں دھوکہ کھا جائے اور دوسری محبت کرنے والی لڑکی کو خود ٹھکرا دے پھر وہ چاہ کر بھی اس خسارے کی بھرپائی نہیں کر پاتا۔۔۔۔
درد کے ترازو پر ۔۔۔۔۔!!!
کس کے غم کہاں تک ہیں۔۔۔۔۔!!!
شدتیں کہاں تک ہیں۔۔۔۔۔!!!
کچھ عزیز لوگوں سے۔۔۔
پوچھنا تو پڑتا ہے۔۔۔۔
آج کل محبت کی ۔۔۔۔!!!
قیمتیں کہاں تک ہیں۔۔۔!!!
ایک شام چلے آؤ۔۔۔۔!!!
کہ کھل کے حال دل کہہ لیں۔۔۔۔!!!
کون جانے سانسوں کی۔۔۔۔!!!
مہلتیں کہاں تک ہیں۔۔۔۔!!!
حسان ایمل کو یاد کر کے رو پڑا تھا ،،، اس نے خود سے وعدہ کیا تھا اب کہ ہر حال میں وہ ایمل کو ڈھونڈ کر سہی سلامت اپنے پاس لائے گا اور پھر اس کے سارے درد سمیٹ لے گا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حاشان ایمل کو لیے جہاں آیا تھا وہ اس کا شاندار سا لیکن چھوٹا دو کمروں پہ مشتمل فارم ہاؤس تھا ۔۔۔
حاشان نے ایک کمرے میں لا کر اسے چھوڑا جس کا پورا تھیم بلیک کلر کا تھا۔۔۔۔
حاشان ایمل کو کمرے میں چھوڑے باہر نکل گیا تو ایمل نے پورے کمرے پہ نظر دوڑائی ،،، کمرے کی ہر چیز بلیک تھی یہاں تک کے کمرے کا پینٹ بھی بلیک تھا تو وہ اس قدر تاریکی کو دیکھ جھرجھری سی لے کر رہ گئی کہ ایک جیتا جاگتا انسان کیسے اتنی تاریکی کو پسند کر سکتا ہے۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ہی وہ بازار سے منگوایا کھانا ٹرے میں لیے چلا آیا اور صوفے کے سامنے پڑے شیشے کے ٹیبل پر رکھ دیا۔۔۔
سنو ،،، کھانا کھا لو۔۔۔
حاشان نے لاپرواہی سے بولا وہ خود بھی حیران تھا اپنی نرمی پہ جبکہ کوئی اور اس کو ایسے نرمی برتتے دیکھتا تو یقیناً غش کھا جاتا کیونکہ ایک عرصے سے اس نے شاید ہی کسی سے نرمی سے بات کی ہو ۔۔۔۔
مجھے نہیں کھانا پلیز مجھے گھر جانے دیں میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے ،،، آ۔۔۔آپ کو جتنے پیسے چاہیے وہ دے دیں گے بس مجھے گھر جانے دیں مجھے ڈر لگ رہا ہے یہاں ،،، ایمل نے اس کے قریب آتے اس کا بازو پکڑ کر سہم کر کمرے کے چاروں طرف دیکھا ۔۔۔
لیکن حاشان تو اس کے چھونے سے جیسے پتھر کا ہو گیا تھا اسے تو بس ایمل کے ہلتے ہونٹ نظر آ رہے تھے ۔۔۔
ایک دم سے وہ اپنے حواس میں لوٹا تھا اور ایمل کو جھٹکے سے خود سے دور کیا ۔۔۔
تم اب سے یہیں رہو گی یہی تمہارا گھر ہے پہلے کون تھی تم کیا تھی سب بھول جاؤ آج سے بس تم میری ہو تمہیں چھوڑنے کے لیے نہیں خریدا۔۔۔
خریدا،،، وہ کیسے بھول گئی تھی کہ اس کی قیمت لگ چکی ہے اب سے یہ بکاؤ مال ہے یہ شخص اسے خرید کر یہاں لایا ہے اور خریدے ہوئے لوگوں کی حیثیت غلام سی ہوتی ہے ،،، کیا اب سے میں غلام ہوں ۔۔۔
نہیں ،،، نہیں۔۔۔
ایمل کانوں پہ ہاتھ رکھتی چیخ پڑی تھی۔۔۔ غصے سے ٹیبل پہ پڑے کھانے کو ہاتھ مار کر نیچے گرایا ،،، نہیں کھانا مجھے تم چلے جاؤ یہاں سے جسٹ لیو می الون ۔۔۔۔
حاشان اس کے چیخنے پر بھی پر سکون سا کھڑا تھا ۔۔۔ دو دن ہیں تمہارے پاس خود کو ذہنی طور پر تیار کر لو ٹھیک دو دن بعد ہم دونوں کا نکاح ہو گا پھر میں تمہیں تمہارے گھر والوں سے بھی ملوا دوں گا لیکن پہلے نکاح ہو گا۔۔۔
حاشان کی بات سن کر ایمل نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔
تم مرد لوگ خود کو سمجھتے کیا ہو ،،، ہم لڑکیاں کیا کٹھ پتلی ہوتی ہیں جس کا جب جی چاہا دھتکار دیا جس کا جب جی چاہا زبردستی نکاح کر لیا ۔۔۔
ایمل نے شدید دکھ سے اس کی طرف دیکھا لیکن وہ تو ایسے کھڑا تھا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔۔۔
نکاح پہ جوڑا کس کلر کا پہنو گی بتا دو میں وہی لے آؤں گا ویسے میری چوائس بھی بری نہیں ہے ،،، حاشان نے سکون سے اسے کہتے آگ ہی لگا دی ،،،، ایمل کو اتنی سمجھ تو آ گئی تھی کہ اس کا چیخنا چلانا بولنا سب فضول ہے سب کے سب مرد ڈھیٹ ہی ہوتے ہیں تبھی چپ چاپ جا کر بیڈ پہ بیٹھ کر رخ موڑ گئی۔۔۔۔
اوکے ، جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔۔
ویسے میں نے ایک میڈ کا انتظام کر دیا ہے وہ کچھ ہی دیر میں آ جائے گی اس کے سامنے کوئی تماشا مت کرنا اور بھوک لگے تو اسے کہہ دینا وہ کچھ نہ کچھ بنا دے گی تمہیں ۔۔۔ رات کو ملتے ہیں ڈنر پر مجھے ابھی ضروری کام سے جانا ہے ۔۔۔۔
یہ کہہ کر حاشان کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ پیچھے ایمل نے اسے منہ چڑانا اپنا فرض سمجھا ۔۔۔۔
اس کے جاتے ہی وہ پھر سے گھر والوں کا سوچ کر اداس ہوئی اور پھر سے رو پڑی ،،، روتے روتے ناجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھا اسے ہر چیز سے وحشت ہو رہی تھی وہ جس طرف بھی دیکھتا اسے عرشیہ خود پہ ہنستی ہوئی نظر آتی تھی
ابھی اس نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو وہاں بھی اسے بیک وقت عرشیہ ہنستے ہوئے اور ایمل روتے ہوئے نظر آئی تو ڈریسنگ مرر پہ پڑا واس اس نے اٹھا کر شیشے پہ مارا اور شیشہ ٹوٹ کر چکنا چور ہو گیا۔۔۔
سٹاپ اٹ پلیز ،،، سٹاپ اٹ ۔۔۔
نفرت ہے مجھے تم سے شدید نفرت ہر اس پل سے جو میں نے تمہارے ساتھ گزارا تمہیں اپنا وقت دیا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا تمہیں اپنے ہاتھوں سے سزا دوں گا۔۔۔۔
اجڑی بکھری حالت لیے وہ صوفے پہ بیٹھا سگریٹ پہ سگریٹ پھونکتے اب یہ سوچ رہا تھا کہ ایمل کو کہاں ڈھونڈے ۔۔
تبھی انابیہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی ،، اپنے جان سے پیارے بھائی کی حالت دیکھ اس کا بھی دل کٹ کر رہ گیا۔۔۔
بھائی یہ آپ نے خود کا کیا حال بنا رکھا ہے ،،، انابیہ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا تو وہ چونکا۔۔۔
انابی گڑیا آپ یہاں کیا کر رہے ہو آپ ٹھیک ہو نہ ،،، آپ جا کر ریسٹ کرو شاباش۔۔۔
حسان انابیہ کو دیکھتے ہی اپنے ہوش و حواس میں لوٹا اور پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے پوچھنے لگ گیا۔۔۔
بھائی میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے ۔۔۔ انابیہ نے کمرے پہ نظر دوڑاتے اور شیشے کے ٹکڑوں کو کمرے میں جا بجا بکھرے ہوئے دیکھ کر کہا۔۔۔
نہیں گڑیا میں بالکل ٹھیک ہوں آپ فکر مت کرو اور ہاں اگر آپ نے وہاں کوئی اور بھی بات دیکھی سنی جو آپ نے مجھے نہیں بتائی تو بتا دو۔۔۔
حسان نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا ۔۔۔
و۔۔وہ بھ۔۔بھائی ا۔۔ایمل کو سیٹھ کے بیٹے نے ہی اغواء کیا تھا اور عر۔۔۔عرشیہ نے ایمل آپی کو سیٹھ کے پاس بھیجا تو سیٹھ نے ایمل آپی کو آگے ب۔۔بیچ دیا۔۔۔
سوری بھائی اگر میں تھوڑی دیر پہلے وہاں پہنچ جاتی تو شاید ایمل آپی اس وقت ہمارے ساتھ ہوتیں۔۔۔
انابی نے ڈرتے ڈرتے حسان کو ساری بات بتائی تو حسان نے لہو چھلکاتی آنکھوں سے اسے دیکھا اس کی آنکھوں کی وحشت دیکھ تو انابیہ بھی اندر سے کانپ کر رہ گئی۔۔۔۔
تم جاؤ اپنے کمرے میں آرام کرو جا کر اور دروازہ بند کر جانا حسان نے جس سپاٹ انداز سے انابیہ کو جانے کا بولا وہ چاہ کر بھی وہاں نہیں رک سکی تھی تبھی اٹھ کر باہر نکل آئی۔۔۔۔
انابیہ کے جاتے ہی حسان نے اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے ضبط کی انتہا پر پہنچا تھا پھر کچھ سوچتے حمزہ کو کال ملا گیا ،،، حمزہ سے بات کرنے کے بعد اسے کچھ امید ملی تھی ایمل کے مل جانے کی تبھی اب وہ بے صبری سے صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔
یہ تو طے تھا کہ اب رات آنکھوں میں کٹنی تھی تو موبائل پہ ایمل کی تصویر دیکھتے وہ خود سے باتیں کرنے لگ گیا۔۔۔
اگر ہوتا میرے بس میں ۔۔۔
تو واپس وہ لمحہ لاتے۔۔۔۔
ناجانے تم کو ہم دیتے۔۔۔۔
نہ تم بھی چھوڑ کر جاتے ۔۔۔
اگر ممکن ہوا پھر سے۔۔۔
تمہیں پا کر نہ کھوئیں گے۔۔۔
جدا ہو کر ملے جب بھی۔۔۔
تو پہلے خوب روئیں گے۔۔۔
ایمل کی تصویر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتا خود کو پر سکون محسوس کرتا وہ ناجانے کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا ۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
شام کا وقت تھا جب ایمل کی نیند سے آنکھ کھلی کچھ دیر تو اسے سمجھنے میں لگی کہ وہ کدھر ہے ،،، ایک دم سے سب یاد آنے پر وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔۔۔
چپل پیروں میں اڑیستی وہ بیڈ سے نیچے اتری اسے ہر حال میں یہاں سے نکل کر اپنے گھر پہنچنا تھا ،،، اس نے ہلکے سے دروازہ کھولا تو کہیں سے کھٹڑ پٹڑ کی آوازیں آ رہی تھیں شاید کیچن میں کوئی تھا۔۔۔
اس نے ڈرتے ڈرتے کمرے سے قدم باہر نکالے اور جھانک کر کیچن میں دیکھا تو ایک عمر رسیدہ خاتون کچھ پکا رہی تھیں ،،، ادھر ادھر دیکھا تو حاشان اسے کہیں نظر نہ آیا ۔۔۔
یاد آنے پر اپنے ہی سر پہ بہت لگائی کہ وہ بتا کر گیا تھا شام تک آئے گا مطلب ابھی آیا نہیں ہے تو اچھا موقع تھا اس کے پاس کہ وہ یہاں سے نکل جائے ۔۔۔
ایمل یہ سب سوچتے مڑنے ہی لگی تھی جب اس خاتون کی نظر ایمل پر پڑ گئی تو وہ بول اٹھیں۔۔۔
بی بی جی اٹھ گئی آپ ،،، وہ دھیرے دھیرے چلتی اس کے پاس آ گئی جبکہ ایمل نے اپنے آس پاس آگے پیچھے دیکھا جیسے وہ کسی اور سے مخاطب ہو۔۔۔
کون بی بی جی آنٹی ،،، ایمل نے حیران ہو کر ان سے پوچھا تو وہ مسکرا پڑیں ۔۔۔
بی جان کہہ لو بیٹا حاشان بھی مجھے یہی کہتا ہے۔۔۔
حاشان کون ۔۔۔؟ ایمل نے پھر حیرت سے پوچھا۔۔۔
ارے تمہارا میاں حاشان اور کون ،،، حاشان بیٹے نے مجھے بتایا کہ تم اس کی دلہن ہو تبھی تو میں خوشی سے یہاں دوڑی چلی آئی ،،، شکر ہے اسے کوئی تو لگام ڈالنے والی آئی۔۔۔
بی جان یہ کہتے ہوئے ہنس پڑیں جبکہ ایمل اچانک لڑکھڑا گئی اور بمشکل گرنے سے بچی تھی وہ تو خود کو اس کی دلہن سنتے ہی تپ اٹھی۔۔۔
ب۔۔بی جان میں اس کی دلہن نہیں ہوں بلکہ وہ یہ مجھے خر۔۔۔۔
اٹھ گئی تم طبیعت ٹھیک ہے نہ تمہاری وہ بی جان آپ کھانا بنا دیں مجھے بہت بھوک لگی ہے میں فریش ہو کر آتا ہوں اور تم چلو ساتھ میرے زرا کپڑے تو نکال دو۔۔۔۔
حاشان گھر میں داخل ہی ہوا تھا جب ایمل کو بی جان سے باتیں کرتے سنا تو ایمل کے سب بولنے سے پہلے ہی خود ہی بول پڑا اور اسے بیچ میں ٹوکتا جلدی سے دونوں کے پاس پہنچا اور اب ایمل کا بازو پکڑے بی جان کو کھانے کا کہتا وہ اسے لیے سیڑھیاں چڑھ گیا جبکہ ایمل اسے گھور کر رہ گئی۔۔
یہ کیا حرکت تھی اور میں کب بنی دلہن آپ کی ،،، آپ نے بی جان سے جھوٹ کیوں بولا ۔۔۔
حاشان کے کمرے میں لا کر چھوڑنے کی دیر تھی جب ایمل پھٹ پڑی۔۔۔۔
نہیں بنی تو بن جاؤ گی دلہن ،،، یہ دیکھو نکاح کا جوڑا بھی لے آیا ہوں ،،، حاشان اس کا ہاتھ پکڑتا اسے ڈریسنگ مرر کے سامنے لے آیا اور شاپنگ بیگ سے ریڈ کلر کا کام والا ڈوپٹہ نکال کر اس کے سر پہ اوڑھا دیا۔۔
بیوٹیفل ،،، ایمل پہ یہ ڈوپٹہ اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ حاشان کے منہ سے یکلخت تعریف نکلی تھی ۔۔۔
ایمل نے غصے سے ڈوپٹہ خود سے اتار کر پھینکا۔۔۔
نہیں کرنا مجھے آپ سے نکاح ،،، آپ کو سمجھ نہیں آتی میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں ۔۔۔
ایمل حسان کو یاد کرتے رو پڑی اور جب نظر حاشان پہ پڑی تو اسے چپ لگ گئی۔۔۔۔
حاشان کے ماتھے پہ ابھرتی رگ نے اسے کے ضبط کی انتہا دکھا دی تھی ،،، لیکن وہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے باہر نکل آیا۔۔۔۔
مجھے تم دل پہ لکھ لیتے ۔۔۔
اگر تقدیر سے پہلے ۔۔۔۔
چھلکتا عشق رنگوں میں ۔۔۔
ہر ایک تصویر سے پہلے ۔۔۔۔
یہ ہم ہی جانتے ہیں کس طرح۔۔۔
تم نے یہ دل توڑا۔۔۔
ایمل کو حسان کی بے وفائی جی بھر کے یاد آئی اگر وہ تب شادی سے انکار نہیں کرتا تو اب شاید ایمل بھی یہاں نہیں ہوتی۔۔۔۔
کچھ حادثے انسان کو ذہنی طور پر اپاہج کر دیتے ہیں ہماری زندگی سے کسی کا چلے جانا دھوکہ دینا یا دھتکار دینا اتنا تکلیف دہ عمل نہیں ہوتا جتنا کہ اس کے جانے کے بعد اس کی محبت کا ہمارے دل میں ٹھہر جانا اذیت دیتا ہے ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
باسم کی طبیعت میں اب کافی سدھار تھا تو وہ اٹھ کر فریش ہوا اور تیار ہو کر نیچے آیا جب زیمل بیگم اسے تیار دیکھ حیران ہوئیں۔۔۔۔
کہاں جا رہے ہو باسم تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمہیں آرام کی ضرورت ہے ۔۔۔
زیمل بیگم نے اسے ٹوکا۔۔۔
پلیز مام آئی ایم گڈ مجھے ایمل کو ڈھونڈنے جانا ہے پتہ نہیں وہ کہاں ہو گی کس حال میں ہو گی میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا مجھے جانے دیں۔۔۔
باسم نے اٹل لہجے میں کہا تبھی زیمل بیگم چاہ کر بھی اسے روک نہ پائیں۔۔۔۔
ٹھیک ہے چلے جاؤ لیکن اپنا خیال رکھنا اور دھیان سے جانا ۔۔۔۔ زیمل بیگم نے یہ کہتے اسے اجازت دے دی۔۔
باسم سرد لہجے میں اوکے کہتا چلا گیا۔۔۔
ماما تائی امی کی طبیعت خراب ہو رہی ہے جلدی چلیں ،،، عنایہ نے زیمل بیگم کو آواز دی جو کہ باسم کو جاتے دیکھ رہی تھیں عنایہ کی آواز پر پلٹیں۔۔۔
سنان صاحب اور علی صاحب تھانے میں ریپورٹ درج کروانے گئے ہوئے تھے اور باسم بھی نکل گیا تھا تو زیمل بیگم جلدی سے نویرہ بیگم کے پاس گئیں ان کی بگڑتی طبیعت دیکھ وہ خاصا پریشان تھیں تب حسنین کے اچانک وہاں آ جانے پر انہوں نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔
عنایہ اور حسنین نویرہ بیگم کو ہاسپٹل لے گئے جبکہ احسن صاحب کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے زیمل بیگم کو گھر رکنا پڑا۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اچھی طرح چیک اپ کے بعد ان دونوں کو اپنے روم میں بلوا لیا ۔۔۔۔
کوئی پریشانی ہے کیا ان کو ۔۔۔؟ ڈاکٹر کے ایسے پوچھنے پر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔
جی نہیں ،،، دونوں بیک وقت بولے۔۔۔
خیر ایسا تو تب ہوتا ہے جب انسان بہت پریشان ہو آپ کوشش کیجیئے گا ان کو ہر قسم کی پریشانی سے دور رکھیں۔۔۔
ڈاکٹر اپنے پروفیشنل انداز میں انہیں کہتا میڈیسن کی پرچی تھما گیا ۔۔۔
وہ ٹھیک تو ہیں نہ کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ،،، حسنین نے ڈاکٹر سے پوچھا۔۔۔
نہیں زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہے ،،، ڈاکٹر نے آفیشل مسکراہٹ چہرے پہ سجائے جواب دیا ۔۔۔
تب جا کر دونوں نے سکھ کا سانس لیا اور وہ نویرہ بیگم کو لیے گھر واپس آ گئے اور راستے سے ان کی میڈیسن بھی لیتے آئے۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
عنایہ گھر آتے ہی اپنے کمرے میں فریش ہونے چلی گئی اور حسنین زیمل بیگم کو نویرہ بیگم کی میڈیسن کے اوقات سمجھاتا اب گھر جانے لگا تھا کہ دل نے دہائی دی کہ جاتے ہوئے پھر عنایہ کو دیکھ جائے تو اس کے قدم خود بخود عنایہ کے کمرے کی طرف اٹھ گئے۔۔۔۔
عنایہ فریش سی ہو کر ڈریسنگ مرر کے سامنے بغیر ڈوپٹے کے کھڑی اپنے بال ڈرائے کر رہی تھی ،،، لائٹ جامنی کرتے اور سفید رنگ کے ٹراؤزر میں وہ بالکل کھلی کھلی سی تتلی نما لگ رہی تھی ۔۔۔۔
عنایہ بے فکری سے بال ڈرائے کیے مڑی جب حسنین کو دروازے کے بیچ و بیچ کھڑے دیکھ کر اس کی آنکھیں باہر کو آئیں ،،، پھر کمر پہ دونوں ہاتھ ٹکائے اسے گھورتی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی ۔۔۔
یونہی آنکھوں کو بھا گیا وہ شخص۔۔۔
ورنہ ہم کہاں کوئی دلبر بنانے والے تھے۔۔۔
تم گئے نہیں ابھی تک ،،، عنایہ نے کڑے تیوروں سے پوچھا تو حسنین جو اس کے حسین سراپے میں ایسا کھویا تھا اسے نہیں پتہ چلا کہ کب وہ مڑی اور کب اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تو اس کی آواز پر وہ چونکا جو سامنے حشر برپا سامان لیے اسے کھڑی گھور رہی تھی ۔۔۔
تم نے کچھ کہا کیا ،،، حسنین کے لاعلمی سے پوچھنے پر وہ منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھنے لگی جبکہ حسنین نے دل کو ڈانٹتے اس کے حسین سراپے سے نگاہیں چرائیں۔۔۔۔
میں نے پوچھا تم گئے نہیں ،،، عنایہ نے اپنی بات دہراتے اسے بازو پہ ہلکی سی چپت لگائی اور مڑ گئی۔۔۔
نہیں وہ مجھے چائے پینی ہے ،،، حسنین کہتا ہوا بیڈ پہ آ کر پیر پسارے بیٹھ گیا جبکہ عنایہ نے پھر سے مڑتے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ سچ میں اسے ہی یہ کہہ رہا ہے۔۔۔
چائے اور وہ بھی میں بنا کے دوں تمہیں شکل دیکھی ہے اپنی جاؤ جا کر منہ دھو کر آؤ ،،، عنایہ نے ہوا میں بات اڑاتے اپنی الماری کھول لی اور اپنا ڈوپٹہ ہینگر سے نکالتے خود پہ اوڑھنے لگی جب حسنین اس کے بالکل قریب آ کر کھڑا ہوا۔۔۔
اسے بازو سے کھینچ کر سیدھا اپنے سامنے کرتے اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگ گیا جبکہ عنایہ کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی ڈوپٹہ بھی ہاتھ سے چھوٹ کر پیروں میں گر گیا۔۔۔
ی۔۔۔یہ ک۔۔کیا کر رہے ہو ح۔۔حسنین چ۔۔چھوڑو مجھے ایمل نے ہکلا کر کہا جبکہ حسنین بس ایک فٹ کا فاصلہ رکھے اسے دونوں بازوؤں سے جکڑے کھڑا تھا۔۔۔
تمہاری آنکھوں میں اپنی شکل دیکھ رہا ہوں کہ چائے پینے والی ہے کہ نہیں وہ سرد لہجے میں کہتا ایک دم عنایہ کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ہنس دیا تو عنایہ کی آنکھیں حیرت سے باہر ابلنے کو تیار تھیں۔۔۔
حسنین کو دھکا دیتے خود سے دور کیا اور ہزار گالیوں سے نوازتے اپنے نیچے پڑے ڈوپٹے کو خود پہ اوڑھا اور پیر پٹکتی کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد چائے لے کر آئی اور اس کے سامنے رکھتی بولی ،،، یہ چائے پیو اور شکل گم کرو۔۔۔
شکل کیا میری عقل سمیت میں پورا تم میں گم ہو گیا ہوں میری ڈارلنگ ،،،، یہ بات دل میں کہتے اسے تپے چہرے کے ساتھ خود کو دیکھتے ڈھٹائی سے اسے آنکھ مار کر چائے کا کپ لبوں کو لگا گیا اور عنایہ بری طرح گڑبڑا کر اپنا رخ پھیر گئی اور دل میں سوچا اسے ہو کیا گیا ہے جو ایسی حرکتیں کر رہا ہے ۔۔۔
حسنین چائے پی کر پھر سے اس کے پاس آیا اور اس کو فلائنگ کس کرتا باہر دروازے کی طرف بھاگا۔۔۔
یہ چائے کے لیے تھینکس ،،، بڑی کمال لگ رہی ہو اگلی دفعہ پنک کلر کا ڈریس پہننا وہ زیادہ سوٹ کرتا ہے تم پہ رنگ ،،، عنایہ تو اپنے گال پہ ہاتھ رکھے اس کی جرات پہ ورطہ حیرت میں چلی گئی ۔۔۔۔
یو۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے یہ لوگر بازیاں کرنے کی رکو زرا تمہیں تو میں بتاتی ہوں بندر کہیں کے ،،،، عنایہ جوتا اٹھائے اس کے پیچھے بھاگی لیکن وہ باہر کا داخلی دروازہ عبور کر گیا تو وہ پیر پٹک کر رہ گئی اور جوتا نیچے پھینکتے پاؤں میں پہنتے بعد میں بدلہ لینے کا سوچتی منہ پہ ہاتھ پھیر گئی ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
صبح کے وقت اس کی آنکھ کھلی تو بے ڈھنگے سے حلیے میں وہ بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا اٹھ کر بیٹھتے ہی اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر خود کو ہوش دلائی۔۔۔
پورا کمرہ بکھرا پڑا میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا جیسے ناجانے کتنی صدیوں سے یہاں جنگ لڑی جا رہی ہو پھر سر جھٹک کر اٹھتا فریش ہونے چلا گیا۔۔۔
فریش ہو کر باہر نکلا اسے حمزہ سے ملنے جانا تھا اس کا کوئی دوست تھا جس کے ذریعے سے معلومات حاصل کر کے وہ ایمل تک پہنچ سکتے تھے تبھی اسے اب جلدی تھی وہاں پہنچنے کی تاکہ ایمل کا کوئی سراغ ملے اور وہ جلد از جلد اس تک پہنچ سکے۔۔۔۔
سب کتنی تکلیف میں تھے اس کے نہ ہونے کا غم سب کو کھائے جا رہا تھا اور حسان کو اب خود بھی محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے آس پاس ہونے سے جو سکون ملتا تھا جب سے وہ غائب تھی تب سے وہ بھی بے سکونی میں مبتلا ہے۔۔۔۔
وہ سیڑھیاں اترتا جلدی میں باہر جا رہا تھا جب نازیہ بیگم کی پکار پر اسے رکنا پڑا۔۔۔
حسان کہاں جا رہے ہو اتنی جلدی میں ناشتہ تو کرتے جاؤ تم سب بہن بھائیوں نے میری ناک میں دم کیا ہوا ہے انابیہ اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا وہ کیا کر رہی ہے آج کل اور حسنین اس کا تو پوچھو ہی مت وہ بھی ناجانے کیا کرتا پھرتا ہے ۔۔۔۔
نازیہ بیگم نے صبح صبح حسان کے ساتھ ان دونوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تو ان کی اس فکرمندی پہ حسان مسکرا دیا ،،، آج کتنے دنوں بعد اس کے ڈمپل نے ہلکی سی جھلک دکھلائی جس کے سب دیوانے تھے۔۔۔
مام آپ فکر کیوں کرتی ہیں مجھے بھوک نہیں ہے ناشتہ میں ( ایمل کے ملنے کے بعد ہی کروں گا یہ اس نے دل میں سوچا ) حمزہ کے ساتھ کر لوں گا اسی سے ملنے جا رہا ہوں کیس کی سنوائی ابھی باقی ہے اور انابیہ ، حسنین کو میں خود دیکھ لوں گا آپ ٹینشن مت لیں۔۔۔
حسان چلتا ہوا ان کے نزدیک آیا اور انہیں اپنے حصار میں لیتا تسلی دے گیا ۔۔۔
نازیہ بیگم بھی پر سکون ہوئیں تھیں ۔۔۔
حسان ایمل کا کچھ پتہ چلا وہ مل تو جائے گی نہ بھائی بھابھی سب بہت ہی پریشان ہیں ایمل کے جانے سے گھر کی رونق ہی چلی گئی ہے سب چھپ چھپ کر روتے رہتے ہیں۔۔۔۔
نازیہ بیگم حسان کی طرف دیکھتے ہوئے روہانسی ہوئیں۔۔۔۔
میں بہت جلد ایمل کو ڈھونڈ لوں گا آپ پریشان نہ ہوں بہت جلد وہ ہم سب کے درمیان ہو گی آپ بس اپنا خیال رکھیں اور باقی سب کا بھی جلد ہی آپ کو ایمل سے بھی ملوا دوں گا ۔۔۔۔
حسان ان کو تسلی تو دے رہا تھا لیکن خود واقعی پریشان تھا کہ اگر اس سے بھی ایمل کا پتہ نہ چل سکا تو پھر کہاں ڈھونڈوں گا میں اسے ،،، خیر وہ ساری منفی سوچوں کو جھٹکتا نازیہ بیگم سے اجازت لیتا باہر چلا آیا۔۔۔۔
حسان حمزہ کے کیبن میں داخل ہوا جہاں حمزہ کے ساتھ ایک اور شخص بیٹھا اسی کے انتظار میں تھا۔۔۔
حسان یہ مسٹر حاشان خان ہیں یہ ایک پرائیویٹ ڈیٹیکٹیو کے طور پر بھی کام کرتے ہیں بلکہ اس کیس میں انہوں نے میری بہت مدد بھی کی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ تمہاری کزن کو ڈھونڈ نکالیں گے۔۔۔
حمزہ نے حسان کو بتایا تو وہ حاشان سے ملنے کے بعد اب کافی پر امید دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔
حسان نے حاشان کے پاس بیٹھتے ہی اسے اپنا موبائل فون نکال کر ایمل کی تصویر دیکھائی۔۔۔
یہ میری کزن ہے ایمل سنان کچھ دن پہلے ہی اسے سیٹھ کے بیٹے نے اغواء کیا اور اس سیٹھ نے اپنے بیٹے سے بھی غداری کرتے اسے آگے کسی کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔۔۔
حسان نے یہ بتاتے اپنے جبڑے بھینچے جبکہ حاشان ایمل کی تصویر دیکھتے سکتے میں آ گیا۔۔۔
زندگی بھی کیسے کیسے امتحان لیتی ہے جو ہمارے دل و جاں میں بس جاتا ہے اسے خود سے دور اسی کی خوشی کی خاطر کرنا پڑ جاتا ہے اسے ایمل کی بات یاد آئی تھی کہ وہ کسی سے محبت کرتی ہے تو وہ یہ حسان تھا جس کی خاطر وہ تڑپ رہی تھی۔۔۔۔
مل جائے گی ایمل آپ کو لیکن اس کے لیے آپ کو آج میرے گھر آنا پڑے گا میرا نکاح ہے اور میں چاہتا ہوں آپ اس میں شامل ہوں ،،، حاشان نے درد کی اذیت سے گزرتے انہیں کسی بھی قسم کا کوئی تاثر دیے بنا دعوت دی جو حسان نے ہنس کے قبول کر لی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ایمل فریش ہو کر باہر نکلی تو بی جان اس کے کمرے میں اس کے نکاح کا جوڑا لیے کھڑیں تھیں ۔۔۔
بیٹا یہ پہن کر تیار ہو جاؤ حاشان بس آنے والا ہی ہے ،،، وہ یہ کہتیں جوڑا بیڈ پہ رکھ کر ایمل کو بازو سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا کر کہنے لگیں۔۔۔
میں جانتی ہوں کہ تمہارا اس کے ساتھ نکاح نہیں ہوا وہ بدمعاش میرا دل رکھنے کے لیے اتنی بڑی بات کہہ گیا تھا تم جانتی ہو بچپن سے اسے پالا ہے میں نے اس کی رگ رگ سے واقف ہوں ،،، بہت چھوٹا تھا وہ جب اس کے والدین کی پلین کریش ہونے کی وجہ سے ڈیتھ ہو گئی ،،، میرا حاشان برا نہیں ہے میں سب جانتی ہوں اس کے بارے میں اور اندازہ ہے مجھے وہ تمہیں کہاں سے لایا ہے۔۔۔۔
وہ تو کسی کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی دیکھنے والا نہیں سب کے ساتھ بہت عزت احترام سے پیش آتا ہے اگر وہ تمہیں یہاں لایا ہے تو کسی غلط ارادے سے نہیں لایا ،،، میں بہت کہتی تھی کہ شادی کر لو لیکن ہر دفعہ ہنس کے ٹال مٹول کر جاتا کہ بی جان میں آپ پہ ظلم کرنے والی بہو نہیں لاؤں گا لیکن اندر سے وہ کس قدر ٹوٹ کر بکھر چکا ہے میں جانتی ہوں کیسے اس نے خود پہ ہر خوشی حرام کر کے دوسروں کی مدد کر کے سکون حاصل کرتا ہے وہ کوئی کرمنل نہیں ہے بس اس کا طریقہ تھوڑا الگ ہے۔۔۔۔
وہ جب مجھے یہاں لایا اور میں نے تمہیں دیکھا تو مجھے لگا مجھ بوڑھی کی دعائیں رنگ لے آئیں ہیں جب سے تم یہاں ہو میں نے اسے عرصے بعد مسکراتے دیکھا ،،، اس کی نگاہوں میں جو چمک تمہارے یہاں ہونے سے ہے میں اسے دوبارہ ماند پڑتی نہیں دیکھنا چاہتی ،،، تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں میرے حاشان کو دل سے اپنا لو اس کے دکھ درد سمیٹ کر اسے پھر سے زندگی جینے کا ڈھنگ سکھا دو۔۔۔
بی جان ایمل کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑتی رو پڑیں تو ایمل نے فوراً سے بی جان کے ہاتھ تھام لیے ۔۔۔
یہ کیا کر رہیں ہیں بی جان آپ بڑی ہیں اور ہاتھ جوڑتی اچھی نہیں لگتیں ،،، ایمل نے دونوں ہاتھوں کو چوم لیا لیکن ان کے اتنی بڑی قربانی مانگنے پر خاموشی سے دو آنسو نکل کر اس کی گالوں پر بہہ گئے کہ شاید اس کی زندگی میں یہی سب لکھا تھا حسان نہیں حاشان تھا ،،، ایمل نے بی جان کے آنسو صاف کرتے ہاں میں سر ہلا کر ان کی لاج رکھ لی تھی ۔۔۔۔
اس نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ،،، زندگی بھی انسان کو کس کس دوراہے پہ لا کر چھوڑ دیتی ہے کہ کبھی کبھی خود کو ہی ناچاہتے ہوئے بھی دوسروں کے لیے قربان کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔
حاشان کمرے میں داخل ہوا بی جان اٹھ کر باہر چلی گئیں جبکہ وہ ایمل کی آنکھوں میں نمی دیکھ تڑپ کر اس کے پاس پہنچا ۔۔۔
اپنی جانب تسلسل سے کھینچتی ہیں مجھے
کشش ثقل کی زندہ مثال ہیں تیری آنکھیں
تم رو رہی ہو ،،، حاشان نے بازو سے کھینچ کر اسے اپنے روبرو کیا جو اسے دیکھتے ہی رخ موڑ گئی تھی ۔۔۔
ہاں ، یک لفظی جواب تھا۔۔۔
لیکن کیوں ۔۔۔؟ سوال بھی ٹھک کر کے آیا۔۔۔
اب میں اپنی مرضی سے کیا رو بھی نہیں سکتی اور کیا چاہتے ہیں آپ ،،، زر خرید غلام ہوں آپ کی ہر بات مان تو لی ہے نکاح بھی کر رہی ہوں اور آپ کیا چاہتے ہیں ۔۔۔
ایمل پھٹ پڑی تھی اسے سب گھر والوں کی بہت یاد آ رہی تھی ۔۔۔۔
حاشان تو اس کے منہ سے یہ سب سن کر ہی دنگ رہ گیا لیکن خود پہ سختی کا خول چڑھائے طنزیہ ہنسی ہنس دیا ۔۔۔
ٹھیک ہے پھر یہ رونا دھونا کس بات کا مچا رکھا ہے تیار ہو جاؤ آدھے گھنٹے بعد نکاح ہے ،،، حاشان یہ کہتا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
حاشان کے جاتے ہی وہ بیڈ پر ڈھے سی گئی تصور میں حسان سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔
حسان میں نے آپ سے بہت محبت کی ہے لیکن آپ نے جب حقارت سے میرا ہاتھ چھوڑا میرا خلوص میری میری محبت میرے منہ پہ دے ماری لیکن میں چاہ کر بھی آپ سے نفرت نہ کر سکی ،،، آپ کا ٹھکرانا کسی اور کے لیے مجھے اذیت سے دوچار کر گیا جس کے لیے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔
آج کسی اور کی زندگی میں شامل ہونے جا رہی ہوں میں جس کی وجہ صرف اور صرف آپ ہیں ،،، ایمل منہ ہاتھوں میں چھپائے رو دی کچھ دیر اپنا غم غلطاں کرنے کے بعد اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی۔۔۔۔
ہجر میں خون رلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
لوٹ کر کیوں نہیں آتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
جب بھی ملتا ہے کوئی شخص بہاروں جیسا
مجھ کو تم کیسے بھلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
یاد آتی ہیں اکیلے میں تمھاری نیندیں
کس طرح خود کو سلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
مجھ سے بچھڑے ہو تو محبوب نظر ہو کس کے
آج کل کس کو مناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
شب کی تنہائی میں اکثر یہ خیال آتا ہے.
اپنےدکھ کس کو سناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
موسم گل میں نشہ ہجر کا بڑھ جاتا ہے
میرے سب ہوش چراتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
سرد راتوں میں تمھیں کیسے بھلا سکتی ہوں
آگ سی دل میں لگاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
تم تو خوشیوں کی رفاقت کے لیے بچھڑے تھے
اب اگر اشک بہاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
یک طرفہ محبت ایک پیر میں پہنے جوتے کی طرح ہوتی ہے۔ ایک کھو چکا ہوتا ہے ایک کو کھونے نہیں دیا جاتا۔ ٹھیک سے چلا نہیں جاتا اور چلے بغیر رہا بھی نہیں جاتا ،،، ایمل کی محبت بھی کچھ ایسی ہی تھی
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
آج کتنے دن ہو گئے تھے ایمل کو غائب ہوئے باسم نے ہر جگہ ڈھونڈ لیا تھا لیکن وہ اس کا کوئی سراغ نہ لگا پایا۔۔۔۔
گھر کے ماحول میں اس کا دم گھٹنے لگا تو وہ گھر سے باہر نکل آیا یونہی بے وجہ گاڑی سڑکوں پہ دوڑا دوڑا کر بھی وہ تھک چکا تھا ۔۔۔۔
اسے خود پہ بھی افسوس ہو رہا تھا کہ وہ بھی ایمل کا کتنا دل دکھا چکا تھا لیکن وقت اب ہاتھ سے پھسل گیا تھا اور وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا کاش وہ اسے حسان کی طرف نہ لے کر جاتا تو یہ سب نہیں ہوتا۔۔۔۔
وہ سٹیرنگ پر ہاتھ مارتا گاڑی کو سائیڈ پہ روکے باہر نکلا اور کھلی فضا میں بھی اس کا سانس اٹک رہا تھا وہ پریشان سا ابھی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا ایمل کو ڈھونڈنے کے بارے میں سوچ رہا تھا جب پیچھے سے آ کر کسی نے کھڑی گاڑی کو زور دار ٹکر ماری۔۔۔
باسم ایک دم ہل گیا غصے سے اس گاڑی کا دروازہ کھولے اندر بیٹھی لڑکی کو باہر نکالا جو کہ انابیہ تھی۔۔۔
اندھی ہو گئی ہو کیا نظر آنا بند ہو گیا جب چلانی نہیں آتی گاڑی تو کیا ضرورت ہے خود کے ساتھ دوسروں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈالنے کی تمہارے بھائی کی طرح تم بھی پاگل ہو گئی ہو۔۔۔
اب آپ حد سے بڑھ رہے ہیں باسم میرے بھائی کو کیوں بیچ میں لا رہے ہیں آپ کا جتنا نقصان ہوا میں بھر دوں گی اب ہاتھ چھوڑیں میرا میری فرینڈز دیکھ رہی ہیں اور بتائیں مجھے کیوں بلایا ہے یہاں ،،، انابیہ ہلکا سا احتجاجاً چیخی۔۔۔
اب تو یہ ہاتھ میں کبھی نہیں چھوڑوں گا بونی اور حد سے بڑھنا کیا ہوتا وہ بھی تمہیں جلد ہی بتاؤں گا چلو میرے ساتھ ،،، باسم نے انابیہ کا بازو جکڑے اسے کار میں زبردستی اپنے ساتھ بٹھایا اس کے لاکھ جھٹپٹانے کے باوجود بھی وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔
یہاں کیوں لائے ہو مجھے ،،، گاڑی جھٹکے سے کچہری کے باہر رکی تھی ۔۔۔
دھمال ڈلوانے ،،، اب اترو گاڑی سے ،،، باسم اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولے اسے طیش دلا گیا ۔۔۔
لیکن انابیہ کے باہر نہ نکلنے پہ مجبوراً اسے گھسیٹ کر اندر لے گیا ۔۔۔
ابھی کہ ابھی نکاح کرو مجھ سے ورنہ یہ پسٹل دیکھ رہی ہو تمہاری جان لے لوں گا میں۔۔۔
باسم نے ویسٹ میں چھپائی گن باہر نکالی اور اس کی گردن پہ رکھ دی جبکہ انابیہ کو تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ بات کہاں سے کہاں لے آیا اور باسم کا نکاح تو ایمل سے ہونے والا ہے تو مجھ سے کیوں۔۔۔؟
ک۔۔کیوں کروں میں آپ سے نکاح آپ تو ایمل آپی سے نکاح کرنے والے ہیں نہ تو اب مجھ سے کیوں ،،، انابیہ نے بنا ڈرتے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اسے سرد تاثر کے علاؤہ کچھ نظر نہیں آیا۔۔۔۔
تمہارے بھائی سے بدلہ لینے کی خاطر ،، ایمل کو غائب کرنے میں اسی کا ہاتھ ہے نہ وہ کیا سمجھتا ہے خود کو کہ جو وہ چاہے کر لے گا ایمل کو کڈنیپ کر کے ہمیں جو اذیت دے رہا ہے وہ اس کی بھرپائی اب تم کرو گی چپ چاپ نکاح کر لو ورنہ میں تمہیں بھی ویسے ہی کڈنیپ کر کے اپنی ہر حد پار کر جاؤں گا پھر رونا مت ،،، دو منٹ ہیں تمہارے پاس سوچنے کے لیے۔۔۔
باسم نے گن اپنی ویسٹ میں دوبارہ اڑیستے اسے جس نگاہوں سے دیکھا انابیہ کی جان پہ بن گئی ۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں نکاح کے لیے تیار ہوں لیکن میری ایک شرط ہے میں نکاح کے بعد اپنے گھر جاؤں گی اور تم مجھے اپنے ساتھ کہیں پر بھی چلنے کے لیے مجبور نہیں کرو گے ،،، انابیہ نے کچھ سوچتے فیصلہ لیا وہ ڈری نہیں تھی باسم سے لیکن دل بے ایمان ہو گیا تھا اسے پانے کے لیے وہ ایمل کی طرح تڑپنا نہیں چاہتی تھی تبھی حامی بھر گئی۔۔۔۔
یہ محبت بھی کیا کھیل کھیل جاتی ہے کسی کو تڑپنے پر بھی نہیں ملتی تو کسی کی جھولی میں بن مانگے آ گرتی ہے کسی کے لیے خوشیوں تو کسی کے لیے دکھ کا باعث بنتی ہے اور کھلی فضا میں جیسے آکسیجن ہر شخص کے بدن میں سرایت کر جاتی ہے ویسے ہی محبت بھی ہر بدن میں سما جاتی ہے ۔۔۔
جس طرح آکسیجن کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے ویسے ہی کوئی بھی انسان محبت کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔۔ محبت ایک آسمانی جذبہ ہے جو سب کو اپنے حصار میں کھینچ لیتی ہے اور پھر اس حصار سے انسان کا نکل پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں باسم اور انابیہ کا نکاح ہو گیا وہ ایک خوبصورت بندھن میں بندھ گئے تھے دونوں کو اپنی اپنی محبت مل گئی تھی لیکن دونوں ہی ایک دوسرے کی محبت سے انجان ، ایک دوسرے کے قریب تر ہو کر بھی بہت دور تھے۔۔۔۔
باسم انابیہ کو گھر چھوڑ کر واپس اپنے گھر چلا آیا اسے پا لینے کے بعد عجیب سی سرشاری محسوس ہوئی دل کی اتہا گہرائیوں میں سکون پہنچا تھا وہ اس کی ملکیت تھی اب اس کے نام سے منسوب ہو گئی تھی اب ہر قسم کا ڈر و خوف اس کے دل سے نکل گیا اور سکون کا لمحہ نصیب ہوا تھا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ایمل حاشان کی لائی گئی ریڈ کلر کی فراک میں سوگوار سی دلہن بنی بیٹھی اپنے گھر والوں کو یاد کر رہی تھی اس کا کوئی بھی اپنا اس کے پاس نہیں تھا۔۔۔
ڈریسنگ مرر کے سامنے بیٹھے اس نے شیشے میں اپنا عکس دیکھا تو آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی جھولی میں گرا ،،، جو حسان کے لیے سجنا سنورنا چاہتی تھی آج کسی اور کے نام کا جوڑا پہنے وہ ایک ان چاہے شخص کے ساتھ اس بندھن میں بندھنے جا رہی تھی جس کا اس نے بچپن سے خواب حسان کے لیے سوچ رکھا تھا لیکن اس بے مروت انسان کی محبت نے بھی اسے کیا دیا تھا صرف اذیت ، رسوائی ، دھتکار ،،،، کم از کم اس شخص نے اسے عزت تو دی تھی اس کی نسوانیت کو تو ٹھیس نہیں پہنچائی تھی بے شک وہ شخص بھی اس کا خریدار تھا لیکن اس کی عزت تو کرتا تھا اور محبت کے بغیر زندگی گزر سکتی ہے لیکن عزت کے بغیر نہیں ،،، ایمل نے یہ سب سوچیں سوچتے خود کو تسلیاں دے کر حسان کی محبت کو دل کے کسی کونے میں ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا سوچ لیا تھا۔۔۔
اس نے خود کو وقت کے بہتے دھارے کے سپرد کر دیا کہ اب جو ہو گا وہی اس کے لیے بہتر ہو گا۔۔۔
حاشان بلیک تھری پیس پہنے کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا ،،، تیکھے نین نقوش والا ،،، کسی بھی لڑکی کا ایک ہی نظر میں دل چرا سکتا تھا لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس کا دل دھڑکا بھی کس کے لیے جو پہلے ہی کسی کو دل دے چکی تھی ۔۔۔
وہ نک سکے سا تیار ہو کر ایمل کو لینے آیا تو وہ جو بس برائے نام تیار ہوئی تھی پھر بھی اسے مبہوت کر گئی وہ چاہ کر بھی نظر نہیں ہٹا پایا ایمل سے ،،، ایمل کی حاشان پہ نظر پڑی تو اٹھ کھڑی ہوئی تبھی حاشان کا بھی سکوت ٹوٹا۔۔۔۔
مولوی صاحب اور میرے کچھ دوست آ چکے ہیں سب نکاح کے لیے ہمارا نیچے انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔
نیچے چلیں ۔۔۔۔؟
حاشان نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی مخصوص انداز میں اس کے سامنے کی جسے ایمل چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کر سکی۔۔۔
ایمل نے خاموشی سے اس کی ہتھیلی تھامی تو حاشان اندر تک سرشار ہوا ،،، مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ اسے نیچے لیے چلا آیا۔۔۔۔
لاؤنج میں ایک صوفے پہ مولوی صاحب بیٹھے تھے جبکہ دوسرے صوفے پہ حمزہ کے ساتھ حسان موجود تھا۔۔۔۔
وہ دونوں آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب نظر سامنے اٹھی جہاں سے حاشان ایمل کا ہاتھ تھامے نیچے لا رہا تھا ،،، حسان کا تو ایمل کو دلہن کے روپ میں دیکھ مانو ایسا حال تھا کہ بدن کاٹو تو لہو نہیں ،،،
حسان ایکدم سے اٹھ کھڑا ہوا ضبط سے مٹھیاں بھینچی ،،، اس کے ماتھے کی ابھرتی رگیں اس کے ضبط کا پتہ دے رہی تھیں حمزہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کچھ بھی غلط کرنے سے روکا ۔۔۔۔
حاشان نے ایمل کو لا کر حسان کے سامنے کھڑا کر دیا جبکہ ایمل بھی حسان کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اس نے بے یقینی سے حاشان کی طرف دیکھا اور پھر حسان کی طرف جبکہ حاشان مطمئن سا کھڑا تھا ۔۔۔
اس نے فیصلہ ایمل پہ چھوڑ دیا تھا کیونکہ زور زبردستی سے وہ نکاح تو کر لیتا لیکن کبھی بھی اس کی محبت نہ حاصل کر سکتا ،،،
ہاں ، شاید وہ سمجھوتہ کر لیتی لیکن حاشان نہیں چاہتا تھا کہ وہ سمجھوتہ کرے تبھی بس خاموش تھا۔۔۔
حسان نے حمزہ سے ہاتھ چھڑوا کر اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی کہ وہ کچھ بھی الٹا سیدھا نہیں کرے گا اور پھر ایمل کی نازک کلائی کو مضبوطی سے جکڑے تھوڑا سائیڈ پہ لے آیا ۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
میں جسے عمر گریزاں سے چرا لایا تھا
وہ تیرے وصل کا لمحہ تھا گزرتا کیسے
میری مٹی میں فرشتوں نے تجھے گوندا تھا
میرے پیکر سے تیرا رنگ اترتا کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم صرف میری ہو ایمل۔۔
حسان نے اس کے روبرو آتے اس کے دونوں بازوؤں کو جکڑتے درشت لہجے میں کہا تو ایمل کرب سے مسکرا دی ،،، کیا نہ تھا اس مسکراہٹ میں دکھ ، تکلیف ، رنج ، غم و غصّہ کیا اس کی دی ہوئی تکلیف قابل قبول تھی۔۔۔
اب جب اس نے خود کو ذہنی طور پر حاشان کے لیے تیار کر لیا تھا تو وہ کیوں اب اس کی محبت کا دعویدار بن کر آج اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا ۔۔۔۔
کیوں آج وہ اسے کسی اور کے نام کی دلہن بنتے دیکھ تڑپ اٹھا تھا کیوں آخر کیوں ۔۔۔؟
کیا عرشیہ سے اس کی محبت محض دل لگی تھی ۔۔۔؟
اتنی تکلیف تو اسے عرشیہ کے دھوکے سے بھی نہیں ہوئی جتنا آج وہ جل اٹھا تھا بھڑک اٹھا تھا ۔۔۔
میں نے حاشان سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اب آپ چلے جائیں یہاں سے حسان ،،، میرا دل میرا وجود کوئی کھلونا نہیں ہے کہ جب آپ چاہیں اپنی مرضی سے اس کو اپنے پاس رکھ لیں یا اٹھا کر پھینک دیں۔۔۔
ایک وقت تھا جب میں آپ کے پاس آئی تھی اپنی محبت کی بھیک مانگنے تب آپ نے مجھے دھتکار دیا تھا آج میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ آپ کی بات مان لوں بس مجھ پہ رحم کریں اور چلیں جائیں یہاں سے پھر کبھی مت آئیے گا۔۔۔
ایمل نے اپنے بازو اس سے جھٹکے سے چھڑواتے منہ موڑے آج دل پہ منوں پتھر رکھتے اس ستمگر کا دل توڑا تھا یا شاید اپنی عزت نفس کو ایک دفعہ دوبارہ کچلنے سے بچا لیا تھا وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔۔۔
کیوں اب تمہاری محبت کہاں گئی جس کا تم دعویٰ کرتی تھی ختم ہو گئی محبت۔۔۔؟؟
تمہاری محبت بھی کیا بس ایک دھوکا ہی تھا۔۔۔؟
یا وقتی دل لگی تھی جو حاشان کے مل جانے پہ ختم ہو گئی ۔۔۔؟
حسان نے پھر سے اس کے دل پہ وار کیا تھا اسے ٹھیس پہنچائی جس پہ ایمل بھی تڑپ اٹھی۔۔۔
نہیں حسان میں نے آپ سے ہی محبت کی ہے ہمیشہ اور کرتی رہوں گی ،،، حسان نے ایمل کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا تو وہ مچل اٹھی تھی ،،، اظہار محبت سن کر حسان کے چہرے پہ مسکراہٹ در آئی۔۔۔
حسان نے اسے کھینچ کر اپنے گلے سے لگایا اور اپنے اندر سکون اتارا ،،، تم صرف حسان زید ملک کی ملکیت ہو جسے کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا ،،، تم چاہ کر بھی مجھ سے دور نہیں جا سکتی ایمل سنان راجپوت ۔۔۔
اس کے کان کے پاس ہلکی سی آواز میں گھمبیر سی سرگوشی کرتے اس کی جان لبوں پر لے آیا۔۔۔
حاشان نے پاس آتے ہلکی سی آواز میں گلا کھنکار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو وہ دونوں چونک کر ایک دوسرے سے الگ ہوئے ،،، ایمل تو سٹپٹا کر نظر چرانے پر مجبور ہو گئی جبکہ حسان بھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا دھیمے سے مسکرا دیا۔۔۔۔
مولوی صاحب انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔
حاشان نے کہا تو حسان ایمل کا ہاتھ پکڑے اسے لاؤنج میں واپس لے آیا اور صوفے پہ اپنے پاس بٹھاتے مولوی صاحب کو نکاح شروع کروانے کو کہا۔۔۔
ایمل نے حاشان کی طرف دیکھا تو وہ زخمی سا مسکرا کر اپنا رخ پھیر گیا۔۔۔
ایجاب و قبول کا مرحلہ طے پا گیا ایمل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حسان کے نام لکھ دی گئی ،،، ایک اور ادھوری داستان مکمل ہو گئی۔۔۔
حاشان نے پیچھے ہٹ کر تین زندگیوں کو برباد ہونے سے بچا لیا ،،، محبت پا لینے کا ہی نام نہیں کبھی کبھی کھو دینا بھی محبت ہے کسی کی خوشی کی خاطر اس سے منہ موڑ لینے کا نام بھی محبت ہے ، حاصل کر کے بھی لا حاصل رہ جانا زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے ۔۔۔
حاشان جانتا تھا ایمل ایک سراب ہے بس اس کے لیے وہ کتنا بھی چاہ لیتا اس کے دل سے حسان کی محبت کبھی ختم نہ کر پاتا ،،، وہ اس سے زبردستی نکاح کر بھی لیتا تو شاید سمجھوتہ کر لیتی اور حاشان یہی نہیں چاہتا تھا کہ وہ سمجھوتہ کرے۔۔۔
نکاح کے ہوتے ہی مولوی صاحب نے رخصت لی ،،، حسان ایمل کو لیے جانے لگا جب حاشان نے انہیں زبردستی ڈنر کے لیے روک لیا۔۔۔
وہ سب باہر ہی بیٹھے تھے جب حاشان کیچن میں بی جان کے پاس آیا تو وہ رو رہی تھیں ،،، حاشان نے آگے بڑھ کر شدت ضبط سے انہیں گلے لگایا وہ بی جان کا رونا سمجھتا تھا دل تو اس کا بھی ٹوٹ چکا تھا اور بی جان کا سہارا پا کر تو وہ مضبوط مرد بھی رو پڑا۔۔۔
محبت سے دستبردار ہونا اتنا بھی آسان نہیں ، شدت غم سے دل پھٹ رہا ہوتا ہے لیکن بے حسی کی تصویر بن کر مسکرانا پڑتا ہے ،، اپنے اندر کی جھلستی آگ میں اکیلے جلنا پڑتا ہے اور قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ اس میں جھلس کر بھی کسی کو کچھ نہیں ملتا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد سب نے کھانا کھایا اور حاشان کے ساتھ بی جان سے بھی ملتے ہی انہوں نے وہاں سے رخصتی لی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
انابیہ اس وقت اپنے کمرے میں موجود بیڈ پہ بیٹھی باسم کے بارے میں سوچ رہی تھی ایک پل میں وہ انابیہ زید ملک سے انابیہ باسم علی بن گئی تھی کتنا خوش کن احساس تھا محبت کو پا لینے کا ،،، اس کے نام سے منسوب ہونے کا ،،، باسم کا چہرہ چھن کر کے آنکھوں کے سامنے آیا تو وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پہ رکھے یوں شرما گئی کہ باسم جیسے اس کے سامنے ہی کھڑا ہو ۔۔۔۔
انابیہ تو خود بھی اپنے جذبوں سے انجان تھی لیکن یہ ایک دم سے اس کے دل میں اپنے محرم کے لیے جو جزبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا وہ خود سے ہی آنکھیں چراتی بیڈ پہ آنکھیں میچتے اوندھے منہ لیٹ گئی۔۔۔
کیا ہو گیا ہے تمہیں انابیہ باسم علی ،،، خود کی سوچوں کو لگام ڈالو اتنا اس کے بارے میں سوچو گی تو کیسے سو گی ،،، انابیہ نے اپنے دل کو ڈپٹا اور خود پہ کمفرٹر درست کرتی سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن یہ بے لگام سوچیں اسے ایسا کرنے سے روک رہی تھیں تبھی وہ کروٹ پہ کروٹ بدل رہی تھی اور ذہن بھٹک بھٹک کر اسی پہ جا ٹھہرتا ،،، وہ اس قدر اس پہ حاوی ہو گیا تھا کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ اس نے خود کو انابیہ زید ملک کے بجائے انابیہ باسم علی کہا۔۔۔
باسم فریش ہو کر باہر نکلا اور گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بالکونی کا دروازہ کھولے نگاہ اوپر اٹھائی تو آسمان پہ چمکتے چاند کو دیکھنے لگ گیا۔۔۔
چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک دمک رہا تھا جھلمل کرتے ستارے آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف تھے کبھی کوئی ستارہ بہت چمک جاتا تو کبھی وہ اپنی روشنی مدھم کرتے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا۔۔۔۔
باسم کھڑا انابیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ آج جو اس نے کیا وہ سہی کیا تھا یا نہیں کہیں کوئی زیادتی تو نہیں کر گیا وہ انابیہ کے ساتھ ،،، انابیہ نے بھی تو کوئی تاثر نہیں دیا تھا اسے ،،، باسم نے کمرے میں واپس آتے بیڈ پہ پڑا اپنا موبائل اٹھا کر انابیہ کا نمبر ملایا۔۔۔
کافی دیر سے وہ انابیہ کا نمبر ٹرائے کر رہا تھا لیکن بے سود اب اسے الجھن ہونے لگی تھی کہ وہ اسکی کال کیوں نہیں اٹھا رہی ۔۔۔ یکدم ہی اسے اپنے کمرے سے وحشت سی محسوس ہونے لگی تو وہ کچھ سوچتا اپنی کنپٹیاں سہلاتا چپکے سے کمرے سے باہر نکل آیا۔۔۔۔
انابیہ جو بے ڈھنگے حلیے میں اپنے بیڈ پہ سوئی جاگی کیفیت میں لیٹی ہوئی تھی ڈوپٹہ بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا کمفرٹر بھی آدھا زمین کو سلامی دے رہا تھا۔۔۔
باسم جو ابھی کھڑکی سے پھلانگ کر کمرے میں قدم رکھ چکا تھا اسے یوں سوئے دیکھ نفی میں سر ہلاتا بیڈ کے قریب آیا اور اس کے پاس بیٹھ کر نرمی سے اس کے بال سہلانے لگا۔۔۔
انابیہ نے تھوڑا سا کسمسا کر اپنی کروٹ بدلی جو کہ باسم سے برداشت نہیں ہوا تو خود بھی ساتھ لیٹ کر اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کا رخ اپنی طرف موڑا اور اس کا سر اپنے سینے پہ رکھتے ایک دفعہ پھر سے اس کے بال سہلاتے خود میں سکون اتارنے لگا ۔۔۔
انابیہ نے زرا سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تو اسے اپنا حسین خواب سمجھ کر اس کے ساتھ اور زیادہ چپک کر لیٹ گئی تو باسم لب دبائے اپنی مسکراہٹ سمیٹ گیا۔۔۔
یو ول بی مائن آلویز مائی لو ۔۔۔
وہ اسکے ماتھے پہ اپنی محبت کی پہلی مہر ثبت کرتے اسے خود میں اور سمیٹتے قدرے سکون سے آنکھیں موند گیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
صبح انابیہ کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک مضبوط حصار میں پایا وہ چاہ کر بھی ہل نہیں پا رہی تھی کیونکہ وہ پوری طرح باسم کے بازوؤں میں جکڑی ہوئی ہر طرح سے اس کے رحم و کرم پہ تھی۔۔۔
پوری آنکھیں کھول کر تھوڑی سی گردن کو جنبش دی اور آنکھیں ٹیڑھی کر کے تھوڑا اوپر کو دیکھا تو باسم کو دیکھ اس کی نیند کی خماری اڑن چھو ہوئی ،، اسے رات کا وہ منظر یاد آیا جب اس نے باسم کو یوں اپنے نزدیک دیکھ خواب سمجھا اور اس سے چپک گئی تھی ۔۔۔۔
اب اس کو اپنی وہ حرکت یاد کرتے ڈھیروں شرم نے آن گھیرا۔۔۔ وہ کیسے اس کے شکنجے میں خود ہی جکڑی گئی تھی ۔۔۔
انابیہ نے اپنا پورا زور لگاتے اس کے اوپر سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن ایک انچ بھی ہل نہ سکی ،،، وہ حیران ہوئی کہ نیند میں بھی اتنی مضبوطی سے اس جن نے اسے قابو کیا ہوا جیسے اس کے کہیں کھو جانے کا ڈر ہو۔۔۔
انابیہ نے غصے سے اس کے بازو پہ چٹکی کاٹی لیکن وہ پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوا حالانکہ وہ تو اس کے پہلی دفعہ ہلنے پر ہی جاگ گیا تھا لیکن اسے شو نہیں کروایا ،،، انابیہ کو تنگ ہوتے دیکھ اسے مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔
انابیہ نے تھک ہار کر خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو کچھ دیر بعد ہی باسم نے اپنی گرفت اس پہ ڈھیلی کر دی ،،، انابیہ نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا تو آنکھ ونک کرتا باسم بھی مسکرا کر اٹھ بیٹھا اور بیڈ کی بیک کراؤن سے ٹیک لگا گیا۔۔۔۔
آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی ،،، میرے بیڈ پہ لیٹنے کی ،، میرے قریب آنے کی ،،،
انابیہ سخت لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔
اپنی بیوی کے قریب نہیں آؤں گا تو اور کس کے پاس جاؤں گا ،،، تم میری تو یہ بیڈ بھی میرا اور کمرہ بھی میرا ،،، جب سب کچھ میرا ہے تو مجھے یہاں آنے کے لیے کسی کی پرمیشن لینے کی ضرورت نہیں ،،، تمہارے اس چہیتے بھائی کی بھی نہیں ۔۔۔۔
آپ بھول رہے ہیں کہ ابھی کسی کو بھی اس نکاح کا نہیں پتہ جب حسان بھائی کو پتہ چلا تو آپ کو چھوڑیں گے نہیں اس لیے اپنی فکر کریں کہ وہ آپ کا کیا حال کریں گے ،،، انابیہ نے دل جلا دینے والی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی ۔۔۔
نہیں پتہ تو ابھی بتا دیتے ہیں چلو میرے ساتھ ،،، باسم نے ایکدم اٹھتے اس کا بازو پکڑا اور دروازے کی طرف بڑھا جب انابیہ نے اسے ایسا کرنے سے روکا ۔۔۔
پلیز ابھی نہیں ،،، ابھی ایمل آپی مل جائیں پہلے ہی سب بہت پریشان ہیں ۔۔۔
انابیہ نے ملتجی لہجے میں کہا تو باسم کو یہی سہی لگا۔۔۔
اوکے ، ٹھیک ہے باسم نے تو محض اسے ڈرانے کے لیے کہا تھا ورنہ اس کا ابھی سب کو بتانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔۔۔
ابھی میں جا رہا ہوں کل پھر آؤں گا کھڑکی کھلی رکھنا وہ شرارت سے کہتا اس کی گال پہ بوسہ دیتے کھڑکی سے ہی واپس پھلانگ کر فرار ہو گیا پیچھے وہ دانت کچکچا کر رہ گئی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان ایمل کو لیے گھر آ رہا تھا جبکہ حمزہ ان دونوں کو سپیس دینے کی خاطر اپنے لیے کیب بک کروا کر تھانے کے لیے نکل گیا۔۔۔
اب ایمل فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے اپنے ہاتھوں کو گود میں دھرے مروڑ رہی تھی اپنے اندر کی بدلتی کیفیت وہ چاہ کر بھی نہیں چھپا پا رہی تھی اور حسان اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کرنے کے باوجود لب دبائے اپنی مسکراہٹ چھپا رہا تھا تاکہ ایمل مزید کنفیوز نہ ہو۔۔۔۔
گاڑی میں چھائی خاموشی سے حسان کو الجھن ہونے لگی تھی وہ جان ستم بھی تو ایک نظر اسے دیکھنے کی روادار نہیں بن رہی تھی تبھی حسان نے چڑ کر گاڑی میں میوزک پلے کیا۔۔۔
ہم تیرے بن اب رہ نہیں سکتے
تیرے بنا کیا وجود میرا
تجھ سے جدا گر ہو جاؤں
تو خود سے ہی ہو جاؤں گا جدا
کیوں کہ تم ہی ہو اب تم ہی ہو
میری عاشقی اب تم ہی ہو
میرا چین بھی میرا درد بھی
میری عاشقی اب تم ہی ہو
حسان نے شوخ نگاہوں سے اسے دیکھتے اپنے لب دبائے تھے ایک ہاتھ سے گاڑی ڈرائیو کرتے اپنا دوسرا ہاتھ اس کی گود میں رکھے ہاتھوں پہ رکھ کر اسے سہلانے لگا تھا ،،، ایمل کے جسم میں جیسے کرنٹ کی لہر دوڑ گئی برق رفتاری سے اسنے ہاتھ اس کے ہاتھ کی گرفت سے باہر نکالے البتہ دیکھنے سے ابھی بھی گریز کیا تھا۔۔۔
تیرا میرا رشتہ ہے کیسا
اک پل دور گوارا نہیں
تیرے لیے ہر روز ہوں جیتا
تجھ کو دیا میرا وقت سبھی
کوئی لمحہ میرا نہ ہو تیرے بنا
ہر سانس پہ نام تیرا۔۔۔۔۔
کیونکہ تم ہی ہو اب تم ہی ہو
میری عاشقی اب تم ہی ہو
اب کہ ایمل نے حسان کی طرف دیکھا جو بالکل سیدھا دیکھتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا اس کی نظر کی تپش نے حسان کا دھیان اپنی طرف کھینچا تو دونوں کی نظریں ملیں تو ایمل نے گھبرا کر نظریں چرائیں اور پھر سے کھڑکی کے پار باہر کے نظاروں میں محو ہو گئی۔۔۔
تیرے لیے ہی کیا میں
خود کو جو یوں دے دیا ہے
تیری وفا نے مجھ کو سنبھالا
سارے غموں کو دل سے نکالا
تیرے ساتھ میرا ہے نصیب جڑا
تجھے پا کے ادھورا نہ رہا میں
کیونکہ تم ہی ہو اب تم ہی ہو
میری عاشقی اب تم ہی ہو ۔۔۔
گاڑی میں فسوں خیز چھائے ماحول نے اسے راحت بخشی ساتھ بیٹھی لڑکی اب اسکا نصیب تھی اس سے جڑ گئی تھی۔۔۔ ان بولوں نے اس کے دل کی ترجمانی واضح طور پر کر کے حسان کی دلی کیفیت بیان کر دی ۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد گاڑی راجپوت ہاؤس کے پورچ میں آ کر رکی ایمل تیزی سے گاڑی سے اتر کر اندر کی طرف بھاگی اور حسان اس کے جانے کی سپیڈ دیکھ کر ہنس دیا۔۔۔
لاؤنج میں سب ساتھ ہی بیٹھے تھے نویرہ بیگم کی طبیعت بھی اچھی نہیں تھی لیکن زیمل بیگم ضد کر کے انہیں باہر لے آئیں تاکہ سب کے ساتھ بیٹھ کر ان کا بھی دھیان بٹ جائے ویسے بھی کمرے میں رہ رہ کر وہ بس ایمل کو یاد کرتے روتی رہتی تھیں ۔۔۔۔
راجپوت ہاؤس کے تقریباً ہر مکین کا یہی حال تھا اب وہاں پہلے جیسی ہل چل شور شرابہ نہیں تھا وہ چہکار جو کچھ عرصہ پہلے یہاں گونجتی تھی اب سوائے ویرانی کے یہاں کچھ نہیں تھا۔۔۔۔
ماما ،بابا ۔۔۔
ایمل نے انہیں پکارا تو سب نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں ایمل کھڑی رو رہی تھی سب حیرت سے اسی طرف دیکھتے ایمل کے ہونے کا یقین کر رہے تھے جب ایمل بھاگ کر سب سے پہلے سنان صاحب کے گلے لگی تو سنان صاحب نے کانپتے ہاتھوں سے اس کے گرد حصار باندھ کر اس کی موجودگی کا خود کو یقین دلوایا ،،، پھر وہ احسن صاحب سے ملی تو جیسے بوڑھی آنکھوں میں روشنی واپس لوٹ آئی احسن صاحب نے لرزتے ہاتھوں سے اسے تھام کر اس کا ماتھا چوما۔۔۔
پھر ایک ایک کر کے سب سے ملتے اب وہ نویرہ بیگم کی گود میں دبکے بیٹھی کب سے آنسو بہائے جا رہی تھی ،،، دونوں ماں بیٹی کا دل ایک دوسرے سے بھر ہی نہیں رہا تھا سچ کہتے ہیں ماں کی ممتا کا کوئی مول نہیں اس دنیا میں سکون کی جگہ بس ماں کی گود ہے جہاں دنیا کا ہر غم بھول جاتا ہے ۔۔۔۔
حسان بھی اندر آ کر ایک سائیڈ پہ کھڑا ہو گیا جب سنان صاحب کی اس پہ نظر پڑی تو فوراً سے اسے سینے میں بھینچا ۔۔۔۔
بہت شکریہ حسان بیٹا میری ایمل کو سہی سلامت گھر لانے کے لیے اس کے بغیر گھر بہت سونا ہو گیا تھا میں یہ تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔۔۔
نویرہ بیگم تو جیسے ایمل کے آتے ہی ٹھیک ہو گئیں وہ ایمل کو آرام کرنے کی غرض سے کمرے میں لے کر آئیں ۔۔۔
تم آرام کرو میری گڑیا میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں ،،، نویرہ بیگم پیار سے اس کے چہرے کو تھپتھپاتے مڑنے لگی جب ایمل نے ان کے بازو کو مضبوطی سے پکڑ کر نہ میں سر ہلاتے انہیں جانے سے روکا تو چوڑیوں کی کھنک نے ان کا دھیان اپنی طرف کھینچا ۔۔۔
ایمل یہ جوڑا ،،، یہ بناؤ سنگھار ،،، یہ سب کیا ہے ۔۔۔
نویرہ بیگم نے اب حیرانگی سے اس کے حلیے پہ نظر دوڑائی اور اس سے استفسار کیا۔۔۔
تو ایمل نے الف تا یے اپنی ساری روداد اپنی ماں کو سسکیاں لیتے سنا دی اور یہ بھی بتایا کہ حسان اس کے ساتھ نکاح کر چکا ہے لیکن یہ نکاح کرنا وہاں سے نکلنے کے لیے ضروری تھا اس لیے وہ کبھی بھی حسان کے ساتھ رخصت ہو کر اس کے گھر نہیں جائے گی ۔۔۔۔
اچھا رونا بند کرو چپ ہو جاؤ میری گڑیا جیسا چاہے گی ویسا ہی ہو گا کوئی تم سے زبردستی نہیں کرے گا میری جان ،،، نویرہ بیگم نے اسے گلے لگاتے پھر سے تسلی دی اور اسے چینج کر کے آرام کرنے کا کہتی وہاں سے نکل گئیں۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ایمل کے گھر آنے سے سب نارمل روٹین میں واپس آگئے تھے تو عنایہ یونی جانے کے لیے تیار ہوئی جبکہ ایمل کا ابھی جانے کا موڈ نہیں تھا تو وہ گھر پہ ہی تھی۔۔۔
باسم نے عنایہ کو یونیورسٹی چھوڑ دیا اور واپسی پہ اسے اکیلے نہ آنے کی سختی سے تاکید کی پھر اسے اپنے لینے آنے کا ہی کہہ کر آفس کے لیے نکل گیا۔۔۔
لیکچر فری ہونے کے باعث وہ ارحا اور فضا کے ساتھ یونی کے گراؤنڈ میں ہی بیٹھی تھی جب حسنین بھی اپنے دوستوں کے ساتھ وہیں چلا آیا ۔۔۔
سعد نے فضا کو دیکھا تو مسکرا دیا وہ فضا کو پسند کرتا تھا بلکہ اسے پرپوز بھی کر چکا تھا تو فضا کے مثبت جواب پہ وہ اب بہت جلد اپنے گھر والوں کو ان کے گھر بھیجنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔۔۔
عنایہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ،،، اب سے نہیں بچپن سے بس تمہیں دیکھا تمہیں چاہا تمہیں جانا ،،، تم میری زندگی کی وہ حقیقت ہو جسے میں کبھی نہیں جھٹلا سکتا۔۔۔
آئی لو یو ٹو مچ مائی پرنسز۔۔۔
عنایہ کی تحیر سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں وہ بنا پلکیں جھپکائے اس کی طرف دیکھتی رہی اس کا سکوت تب ٹوٹا جب سب نے زور زور سے تالیاں بجا کر خوب شور مچایا تو وہ گڑبڑا کر ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی اور اسے زبردست گھوری سے نوازتے ساتھ اپنی گلاسسز ٹھیک کیں ۔۔
واہ یار کیا ایکٹنگ ہے ،،، حسنین کے بیسٹ فرینڈ سعد نے اس کے کندھے پہ داد دینے والے انداز میں تھپکی دی تھی۔۔۔
ناٹ بیڈ یار ۔۔۔ ارحا،فضا اور ارحم نے بھی اسکو سراہا تھا اور پھر سب ہاتھوں پہ ہاتھ مارتے ہنس دیے۔۔۔
وہ سب اس وقت یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھے اگلے لیکچر کا انتظار کر رہے تھے جب عنایہ کو دیکھ حسنین کو شرارت سوجھی اس کے اندر کا ایکٹر جاگا اور اس نے سعد کو آنکھ مارتے پھر اپنی ایکٹنگ جھاڑی تھی۔۔۔
عنایہ کو اس وقت اپنی توہین محسوس ہوئی تو آنکھوں میں آئی نمی کو چھپانے کے لیے غصے سے اپنی کتابیں سمیٹتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور کلاس کی طرف چل دی جب پیچھے سے حسنین بھی بھاگتا ہوا آیا اور اس کے برابر تیزی سے چلنا شروع کر دیا۔۔۔
بات تو سنو یار۔۔۔ اچھا سوری مزاق کر رہا تھا نہ میں تم تو جانتی ہو نہ مجھے ،،، تم سے مزاق نہیں کروں گا تو کیا ارحا اور فضا سے کروں ۔۔۔۔؟
تم نہ۔۔۔۔۔۔۔
عنایہ چلتے چلتے ایک دم رکی آنکھوں میں غصہ بھرے اس کی طرف دیکھا جس نے مسکرا کر پھر سے جلتی پر تیل کا کام کیا تو وہ پیر پٹختی پھر سے آگے کو چل پڑی۔۔
پیچھے وہ اسے روتا دیکھ سر نفی میں ہلانے لگ گیا۔۔۔
روتو لڑکی۔۔۔
اففف۔۔۔ یہ عنایہ بھی نہ پتہ نہیں کب سمجھے گی مجھے ،،، وہ بیگ کو کندھے پہ ٹھیک کرتے ساتھ سیٹی بجاتے کوریڈور میں آگے کو بڑھ گیا۔۔۔
عنایہ کلاس میں جا کر اپنی جگہ پر جا بیٹھی ،،،چشمہ اتار کر بیگ میں رکھ دیا یہ سوچ کر کہ جب کلاس شروع ہو گی تب لگا لوں گی تبھی کلاس کے دو اوباش لڑکے اندر داخل ہوئے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کرتے عنایہ کی طرف بڑھے۔۔۔۔
ابھی ان میں سے ایک نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس کو اپنے بازو کی ہڈیاں چٹختی محسوس ہوئیں ،،، مڑ کر دیکھا تو ہاتھ ایک مضبوط شکنجے میں جکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری عنایہ کو ہاتھ لگانے کی حسنین نے غصے میں اس کے منہ پر مکہ جڑ دیا دونوں میں ہاتھا پائی سٹارٹ ہو گئی ،،، سعد اور ارحم بھی وہاں پہنچ گئے بہت مشکل سے حسنین کو انہوں نے سنبھالا اور وہ لڑکے دم دبا کر وہاں سے بھاگ نکلے۔۔۔
تم ٹھیک ہو عنایہ ،،، حسنین ان سے اپنا آپ چھڑوا کر عنایہ کے پاس پہنچا جو کافی ڈری ہوئی لگ رہی تھی ،،، حسنین اسے بازو سے پکڑتے کلاس سے باہر لے آیا۔۔۔۔
م،،،مجھے گھر جانا ہے پلیز مجھے گھر چھوڑ دو ،، عنایہ نے روہانسی لہجے میں بولا تو وہ اسے تسلی دیتا گھر لے جانے لگا البتہ عنایہ باسم کو میسج کرنا نہیں بھولی کہ وہ حسنین کے ساتھ گھر جا رہی ہے ۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
وہ سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے صبح کا ناشتہ کر رہے تھے جب حسان فل یونیفارم میں ملبوس سیڑھیاں اترتا نیچے آیا اور سب کے ساتھ ناشتہ کرنے بیٹھ گیا ،،، آج سب گھر والے وہیں موجود تھے تو حسان نے یہیں بات کرنا مناسب سمجھا۔۔۔
مام ڈیڈ مجھے آپ سب کو کچھ بتانا ہے ،،، حسان کے یوں کہنے پر سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا نازیہ بیگم اور زید ملک نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور حسان کو بولنے کی اجازت دی ،،، انابیہ نے ڈرتے ڈرتے اپنے بھائی کے فیس ایکسپریشن دیکھے کہ کہیں ان کو میرے اور باسم کے نکاح کا پتہ تو نہیں چل گیا اور یہ بھی کہ وہ کل رات میرے کمرے میں موجود تھا۔۔۔ انابیہ کے تو یہ سوچ کر ہاتھ پیر پھولنے لگ گئے جبکہ حسنین بڑے اشتیاق سے اپنے بھائی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اب انہوں نے کونسا کارنامہ سر انجام دے دیا۔۔۔۔
ایمل گھر آ گئی ہے وہ بھی سہی سلامت اور میں اس سے نکاح کر چکا ہوں آپ دونوں آج جا کر بس رخصتی کی تاریخ لے آئیے گا میں جلد از جلد رخصتی چاہتا ہوں۔۔۔
حسان نے بغیر تہمید باندھے اپنا مدعا بیان کیا اور سب کی طرف دیکھا جو شاک کے عالم میں اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔
حسان تم ہوش میں تو ہو یہ کیا کہہ رہے ہو تم ،،، سب سے پہلے نازیہ بیگم اس شاک سے باہر نکلی اور سخت لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔
یس مام ،،، تفصیل میں آپ کو بعد میں بتا دوں گا پلیز ابھی جتنا کہا ہے اتنا کریں اینڈ نو مور ادر کوئسچن ۔۔۔
مجھے پولیس سٹیشن پہنچنا ہے جلدی آج کیس کی سنوائی ہے شام تک میں آ جاؤں گا اور امید ہے جب میں آؤں تو مجھے یہ خوشخبری مل جانی چاہیے ۔۔۔
حسان اپنی ماں کو کہتا ناشتہ ادھورا چھوڑے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا کوٹ بازو پہ ڈالے پیچھے سب کو ششدر چھوڑ باہر نکل گیا۔۔۔
نازیہ بیگم نے زید ملک کی طرف دیکھا تو انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی اور اپنے ساتھ ہونے کا احساس دلوایا۔۔۔۔
مام میں تو بہت ایکسائٹیڈ ہوں فائنلی ایمل آپی میری بھابھی بن کر اس گھر میں آئیں گی مجھے تو بہت ساری شاپنگ کرنی ہے بھائی کی شادی کے لیے اور آج میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ ایمل آپی سے ملنے جاؤں گی ۔۔۔
انابیہ کو اتنا خوش دیکھ کر سب ہنس دیے حسنین کے تصور کے پردے میں بھی ایک نازک سراپا لہرایا تو وہ بھی بے خیالی میں مسکرا دیا لیکن اس کی غائبی محویت کوئی نوٹ کر چکا تھا ۔۔۔۔
حسان جیسے ہی تھانے پہنچا وہاں عجیب سی ہل چل مچی ہوئی تھی سامنے سے اسے حمزہ آتا ہوا دیکھائی دیا تو معاملے کی نوعیت سمجھنے کو اس کے پاس پہنچا۔۔۔
کیا مسئلہ ہے گاڑیاں باہر تیار کھڑی ہیں ان کو لے کر کیوں نہیں آ رہے ہمیں دیر ہو رہی ہے ،،، حسان نے اپنی گھڑی میں ٹائم دیکھا انہیں جلد از جلد عدالت پہنچنا تھا۔۔۔
وہ لڑکی جانے کو تیار نہیں ہو رہی تمہیں بلا رہی ہے ، حمزہ نے آنکھیں چراتے اسے عرشیہ کے بارے میں بتایا جو ضد کر کے بیٹھی تھی کہ پہلے حسان سے ملے گی پھر وہ کہیں جائے گی۔۔۔
حسان کے یہ سنتے ہی ماتھے پہ بلوں کا جال بچھا کہ آخر اب وہ لڑکی اس سے کیوں ملنا چاہتی ہے وہ تو اس کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا تھا کجاکہ اس سے ملتا۔۔۔
پھر بھی وہ حمزہ کو باہر جا کر انتظار کرنے کا کہتا خود عرشیہ ناز کے لاک اپ کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
انسپکٹر ، حسان پلیز مجھے معاف کر دو مجھے ابھی نہیں مرنا تم تو مجھ سے محبت کرتے ہو نہ مجھے بچا لو ،،، م۔۔میں خود کو بدل لوں گی جیسا کہو گے ویسا کروں گی ،، د۔۔دیکھو مجھے عدالت نہیں جانا وہ پھ۔۔پھانسی پہ چڑھا دیں گے مجھے نہیں مرنا انسپکٹر مجھے بچا لو تمہیں تمہاری محبت کا واسطہ مجھے بچا لو۔۔۔۔
عرشیہ نے حسان کو دیکھتے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر رونا دھونا شروع کر دیا وہ جانتی تھی کہ حسان اس سے محبت کرتا ہے وہ بچا لے گا اسے لیکن ہوش تو اس کے تب اُڑے جب اپنی گردن کو حسان کے مظبوط شکنجے میں دیکھی۔۔۔
خبردار اگر تم نے اس محبت کا واسطہ دیا ورنہ یہیں کھڑے کھڑے جان لے لوں گا میں تمہاری تم جیسی لڑکیوں کی وجہ سے ہی اچھی لڑکیوں کا اعتبار نہیں کیا جاتا تف ہے ایسی محبت پہ جو میں نے کبھی تم سے کی تھی جس نے مجھے ذلت اور رسوائی کے علاؤہ کچھ نہیں دیا ،،، تم سے تو کئی درجہ بہتر میری بیوی ایمل ہے جس کو میں نے تمہاری وجہ سے ٹھکرایا تھا صرف اور صرف تمہارے لیے اسے اتنے دکھ دہے لیکن اس نے اف تک نہیں کی ، تمہارے لیے اب میرے دل میں حد درجہ نفرت ہی نفرت ہے بس ،،، میرا بس چلے تو ابھی تمہاری اپنے ہاتھوں سے جان لے لوں۔۔۔
حسان نے اسے دیوار سے لگائے اس کی سانسیں اٹکائی ہوئی تھیں تکلیف کی وجہ سے اس کی آنکھیں باہر کو ابل کر نکلنے کو تیار تھیں ،،، حسان کی آنکھوں میں آج اس نے الگ ہی جنون دیکھا۔۔۔۔
کیا کر رہے ہو حسان چھوڑو اسے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لو اس کا عدالت فیصلہ کرے گی کہ اسے کیا سزا دینی ہے۔۔۔
حمزہ جو کافی دیر سے باہر حسان کا انتظار کر کر کے اندر اسے بلانے آیا لیکن سامنے کا منظر دیکھ ایک ہی جست میں اس تک پہنچا اور عرشیہ کو اس سے چھڑوایا۔۔۔ کچھ دیر اور حمزہ نہ آتا تو شاید وہ اسے جان سے ہی مار ڈالتا۔۔۔ عرشیہ کا بھی کھانس کھانس کر برا حال ہو گیا تو حمزہ نے لیڈی کانسٹیبل کو بلاتے اسے وہاں سے باہر بھیجا۔۔۔
حسان نے شدت ضبط سے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پہ مارا جو اس کے اندر اسے لے کر غصہ بھرا تھا وہ کافی حد تک نکل گیا تو حمزہ اسے کندھے سے تھپتھپاتا اسے ریلیکس کرتے باہر لایا اور گاڑیوں میں سوار ہوتے کورٹ کے لیے چل پڑے۔۔۔۔
عدالت نے سیٹھ اور نعمان کو دس دس سال کی قید با مشقت سزا سنائی جبکہ عرشیہ کو سات سال کی قید با مشقت سنائی اور تینوں کو بھاری جرمانہ عائد کر کے ان کی پراپرٹی کو بھی ضبط کر لیا گیا۔۔۔
تینوں اپنے انجام کو پہنچ گئے اور حرام کی کمائی بھی ضبط کر لی گئی برے کام کا برا نتیجہ ہی نکلتا ہے برائی کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن اپنے بھیانک انجام کو پہنچ ہی جاتی ہے۔۔۔۔
حمزہ نے کمرہ عدالت سے باہر نکل کر حسان کو مبارک دی کہ ایک اور کامیابی اس نے اپنے نام کر لی پھر تھوڑی بہت میڈیا سے گفتگو کرتے وہ اپنے اپنے گھر کو نکل گئے۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
گھر کے سب مکین لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے نازیہ بیگم بھی بچوں سمیت وہیں موجود تھیں سوائے زید ملک اور حسان ملک کے ،،، زید ملک کو کسی ارجنٹ میٹنگ کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑ گیا جبکہ حسان ابھی بھی تھانے میں موجود تھا اور جلد ہی وہ وہاں سے فارغ ہوتے یہیں آنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔۔۔۔
ابھی ابھی ایمل بھی سب سے مل کر وہیں بیٹھی ،،نازیہ بیگم تو اس کے صدقے واری جا رہی تھیں آخر کو ان کی ادھوری خواہش جو پوری ہو گئی ۔۔۔
آج کافی دنوں بعد راجپوت ہاؤس میں پہلے جیسی ہل چل نظر آئی انابیہ تو ایمل کے ساتھ چپک کر بیٹھی باتوں میں مصروف تھی جبکہ حسنین وقفے وقفے سے عنایہ کو دیکھ رہا تھا جو اسے فل ہری جھنڈی دیکھاتے ہوئے اگنور مار رہی تھی ۔۔۔
باسم سر درد کی وجہ سے آج آدھی چھٹی لیے گھر آگیا اور آتے ہی سب کو وہاں دیکھ کر خوشگوار حالت میں سب سے ملا انابیہ کو دیکھتے ہی اس نے آنکھ ماری جو حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی گڑبڑا کر نظروں کا زاویہ بدلا صد شکر کہ باسم کی یہ حرکت کسی نے دیکھی نہیں تھی ورنہ خوامخواہ اسے شرمندہ ہونا پڑتا رخ موڑتے انابیہ نے اسے دل میں کوسا۔۔۔
وہ دھیما سا مسکراتے ہوئے زیمل بیگم کو چائے کا بولتا سب سے ایکسکیوز کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا ،،، زیمل بیگم اٹھ کر چائے بنانے چلی گئیں ۔۔۔
سنان صاحب اور علی صاحب ایل ڈی پر نیوز چینل لگائے خبریں سن رہے تھے جب نازیہ بیگم نے گلہ کھنکھارتے اپنی بات شروع کرنا چاہی اور انابیہ کو جا کر زیمل بیگم کو بھی بلا کر لانے کو کہا وہ اٹھ کر کیچن میں چلی گئی ۔۔۔۔
مامی آپ کو باہر بلا رہے ہیں سب ،،، انابیہ نے کیچن میں جھانکتے زیمل بیگم کو مخاطب کیا جو چائے مگ میں انڈیل رہی تھیں۔۔۔
اچھا سنو تم یہ چائے زرا باسم کو اس کے کمرے میں دے آؤ میں نازیہ کی بات سن لوں۔۔۔
زیمل بیگم نے ٹرے میں مگ رکھتے ہوئے انابیہ کو پکارا جو مڑ کر واپس جانے لگی تھی لیکن زیمل بیگم کی بات سنتے ہی اس کے ہوش اڑے۔۔۔
مامی میں کیسے یہ۔۔۔۔۔
کیا کیسے چائے ہی تو دینی ہے بیٹا بس دے آؤ تم بلانے نہ آتی تو میں خود ہی جانے والی تھی۔۔۔
انابیہ نے جان چھڑوانے کی کوشش کی جب زیمل بیگم بولیں تو وہ شرمندہ سی ہو کر نظریں جھکا گئی۔۔۔
میں دے آتی ہوں ،،، انابیہ چائے لیے باسم کے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور زیمل بیگم لاؤنج میں چلی آئیں جہاں سب ان کا ہی انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔
نازیہ بیگم نے زیمل بیگم کے آتے ہی بات شروع کی تو سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔۔
جیسے کہ میری خواہش تھی شروع سے ہی کہ ایمل میرے حسان کی دلہن بنے لیکن پہلے جو سب ہوا وہ نہیں ہونا چاہیئے تھا میں شرمندہ ہوں لیکن جلد یا بدیر جیسے بھی میری یہ خواہش پوری ہو ہی گئی ہے۔۔۔
نازیہ بیگم نہارتے ہوئے ایمل کو دیکھ رہی تھی جبکہ باقی سب شاکی نظروں سے انہیں دیکھ کر ان کی بات کا مفہوم سمجھنے کی کوشش میں تھے لیکن نویرہ بیگم ان کی بات سمجھ گئی۔۔۔
نازیہ تمہیں جو بھی کہنا ہے کھل کر کہو ،،، اب کی دفعہ احسن صاحب بولے کچھ نہ کچھ تو ان کو بھی سمجھ آ رہا تھا۔۔۔
سب کی نظروں کو خود پہ مرکوز دیکھتے وہ سمجھ گئیں کہ ایمل نے شاید ابھی تک کسی کو کچھ نہیں بتایا تو اب مجبوراً انہیں ہی سب کو بتانا پڑا۔۔۔
مجھے لگتا ہے ایمل نے آپ سب کو کچھ بھی نہیں بتایا لیکن یہ بات چھپانے والی ہے بھی نہیں ،،، حسان اور ایمل کا نکاح ہو چکا ہے میں یہاں رخصتی کی تاریخ لینے آئی ہوں حسان جلد سے جلد رخصتی چاہتا ہے۔۔۔
نازیہ بیگم کی بات سن کر تو جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ان دونوں کا نکاح وہ بھی ایسے ،،، سب ابھی تک حیرت میں مبتلا تھے اس سے پہلے کوئی جواب دیتا ایمل خود ہی بول پڑی۔۔۔
مجھے نہیں چاہیے رخصتی اپنے بیٹے سے کہیں مجھے جتنی جلدی ہو سکے آزاد کر دے میں ڈائورس چاہتی ہوں۔۔۔۔ اس کے چہرے کے تاثرات اس حد تک سنجیدہ تھے کہ کوئی بھی اس کے اس اچانک کے فیصلے کو سمجھ نہیں پایا۔۔۔
گھر کے باقی افراد ایک شاک سے نکلے نہیں تھے کہ انہیں دوسرا جھٹکا ایمل کے جواب سے مل گیا۔۔۔
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ایمل ہوش میں تو ہو تم ایسا ممکن نہیں ہے لیکن ہاں میں اس کی وجہ ضرور جاننا چاہتی ہوں۔۔۔
نازیہ بیگم نے بے یقینی سے ایمل کو دیکھ کر پوچھا جواباً اس نے انگلی اٹھا کر جس طرف سب اس طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئے ۔۔۔
سامنے نیوز میں حسان کھڑا میڈیا کو اپنا بیان دے رہا تھا جبکہ اس کے بالکل پیچھے لیڈی کانسٹیبل عرشیہ کو ہتھ کڑی پہنائے اسے لے کر کھڑی تھی کچھ ہی فاصلے پر سیٹھ اور اس کا بیٹا بھی کھڑا تھا۔۔۔
عرشیہ زندہ ہے ،،، یہ یہاں کیا کر رہی ہے ۔۔۔
مطلب عرشیہ کا مرنا ایک ڈھونگ تھا اور اس کی وجہ سے آپ کے بیٹے نے میرے ساتھ جو سلوک کیا تھا مجھے سزا دی آخر کیوں۔۔۔؟
میں تو دل پہ پتھر رکھتی ان کی خوشی میں شریک ہونے آئی تھی لیکن اس کا الزام بھی انہوں نے میرے سر لگا دیا اگر مجھے پہلے سے پتہ ہوتا کہ عرشیہ زندہ ہے تو میں کبھی آپ کے بیٹے سے نکاح نہیں کرتی ۔۔
میرے لہجے پہ لگے زخم ابھی تازہ ہیں
مرہمِ وقت بھی انکو نہ مِٹا پایا ہے
مجھے ہوئی تھی بشارت سنہرے موسم کی
دلِ حزیں پہ کیوں یہ ابرِ سیاہ چھایا ہے
عشق کی راہ میں کچھ لوگ سُرخ رو ٹھہرے
میری تقدیر میں صحرا کا سفر آیا ہے
چند لمحوں کا سفر ہوگیا صدیوں پہ محیط
جانے کس نے یہاں منزل کا نشاں پایا ہے
اب تلک ہوں میں اسی وادیٔ حیرت میں غرق
کس قرینے سے میری جاں مجھے ستایا ہے
اب تو اس درجہ سحرؔ ہوتا ہے احساسِ تھکن
اے اجل لُوٹ لے سانسوں کا جو سرمایہ ہے
ایمل خود کا ضبط کھونے لگی تھی تبھی وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی وہ یوں خود کو سب کے سامنے بکھرتے نہیں دیکھ سکتی تھی جو بھی تھا اسے اپنا بھرم رکھنا تھا ،،، ضبط کیے آنسو لڑیوں کی صورت میں بہنے لگے آج پھر اس کی قسمت اس کے ساتھ دغا کر گئی پرانے زخم ہرے ہو گئے اور اب شدید پچھتاوا ہو رہا تھا کہ وہ کیوں کمزور پڑ گئی اس وقت کیوں وہ اس ستمگر کو آخری موقع دے گئی اس سے تو بہتر تھا کہ وہ حاشان سے نکاح کر لیتی۔۔۔
نیچے سب میں کوئی بھی بولنے کے قابل نہیں رہا تھا عرشیہ کے زندہ ہونے کا تو نازیہ بیگم کو بھی نہیں پتہ تھا تو وہ کیا ایمل کو سمجھاتیں انہیں پھر سے سب کچھ بکھرتا نظر آنے لگا ،،، وہ بھی دل پر ہاتھ رکھتی وہیں ڈھے گئیں۔۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
انابیہ نے چائے کی ٹرے ہاتھ میں لیے دروازہ ناک کیا۔۔۔
یس کمنگ۔۔۔
باسم جو ابھی ابھی شاور لیکر باہر نکلا اور شرٹ پہن رہا تھا بنا دیکھے اندر آنے والے کو اجازت دی ۔۔۔
انابیہ نے چائے لے جا کر ٹیبل پہ رکھی اور جلدی سے کھسکنے لگی تو باسم نے اس کا بازو جھپٹ کر اسے فرار ہونے سے روکا ۔۔۔
کدھر میری جان ،،، اتنی یاد آ رہی تھی میری کہ رات کا انتظار بھی نہیں کر سکی اور خود ہی یہیں چلی آئی میری محبت میں اتنی طاقت ہے مجھے اندازہ نہیں تھا اس کا لیکن اب میں زیادہ دن یہ دوری نہیں رہنے دوں گا ۔۔۔۔
باسم نے اسے کمر سے تھام کر اپنے قریب کیا تھا اور جان لیوا سرگوشیاں کرتے اس کی جان پر بنا گیا۔۔۔
بہت خوش فہمیاں ہیں آپ کو اپنے بارے میں مسٹر باسم میں یہاں آپ سے ملنے نہیں آئی بلکہ ایمل آپی سے اور اپنی بھابھی سے ملنے آئی ہوں ۔۔۔
انابیہ اسے خود سے تھوڑا دور جھٹکتے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔۔۔
بھابھی کون بھابھی ،،، باسم نے اس کی پوری بات اگنور کرتے اس سے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔۔۔
ایمل بھابھی ،،، آپ کو پتہ ہے ایمل آپی اور حسان بھائی کا نکاح ہو گیا ہے اور ہم یہاں ان کی رخصتی طے کرنے آئے ہیں ۔۔۔
انابیہ ایکسائٹیڈ سی بولے جا رہی تھی جبکہ باسم کے چہرے کے تاثرات خطرناک حد تک بگڑ رہے تھے ۔۔۔
اس کی اتنی جرات کہ اس نے ایمل سے نکاح کر لیا چھوڑو گا نہیں میں اسے ،،، ایمل کی زندگی میں برباد ہونے نہیں دوں گا ڈیم اٹ۔۔۔۔
باسم غصے کی شدت سے دھاڑا تو انابیہ سہم گئی لیکن اسے بھی غصہ بہت آیا کہ وہ کیسے اس کے جان سے عزیز بھائی کے بارے میں ایسے بات کر سکتا تھا۔۔۔
کیوں ،،، کیوں نہیں کر سکتے وہ نکاح ایمل آپی سے آپ کو کیوں غصہ آ رہا ہے ۔۔۔
اوہہہ ۔۔۔ ایمل آپی سے تو آپ بھی نکاح کرنا چاہتے تھے کہیں اس بات کا تو دکھ نہیں ہو رہا آپ کو کہ آپ ان سے نکاح نہیں کر سکے۔۔۔
شٹ اپ انابیہ جسٹ شٹ اپ ۔۔۔۔
باسم نے دھاڑتے ہوئے اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کیا ۔۔۔
رک کیوں گئے ماریں مجھے سچی بات کڑوی ہی لگتی ہے جیسے آپ کو لگ رہی ہے ۔۔۔
باسم نے زور سے اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑا اور بولا۔۔۔
تمہاری سوچ اتنی گندی ہو گی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ایمل میری بہن جیسی ہے بالکل مجھے عنایہ کی طرح عزیز ہے اور مجھے اگر ایمل سے نکاح کرنا ہوتا تو تم سے نہیں کرتا ۔۔۔ اب دفعہ ہو جاؤ میری نظروں سے دور میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا ۔۔۔
باسم نے جھٹکے سے اسے چھوڑتے دروازے کی طرف دھکا دیا اور خود اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتے غصہ ضبط کرنے لگا ،،، انابیہ کی آنکھوں میں بھی تکلیف کی شدت سے آنسو نکل آئے اور اس کے بے رحمی سے دھکا دینے پر وہ لڑکھڑاتی بامشکل گرنے سے بچی ،،، نم آنکھیں لیے بنا کچھ کہے وہ بھی کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
حسان اور حمزہ ابھی ابھی ایس ایچ او کے روم سے شاباشی لیتے باہر نکلے تھے دونوں نے مل کر ایک اور جیت اپنے نام کی ایس ایچ او صاحب نے دونوں کو خوب تعریف کی اور سراہا جسے انہوں نے دل سے قبول کیا ۔۔۔
حمزہ کی واپسی کے آرڈر آ چکے تھے جس کے لیے اسے آج ہی نکلنا تھا دونوں ایک دوسرے سے بخوشی گلے مل کر حمزہ وہیں سے نکل گیا جبکہ حسان یہ سوچتا ہوا گھر کو نکلا کہ اب تک نازیہ بیگم اس کی شادی کی تاریخ طے کر کے گھر آ گئی ہوں گی اب وہ بس گھر پہنچ کر یہ خوشخبری سننے کا منتظر تھا تبھی بے قرار سا گاڑی میں بیٹھا اور زن سے بھگا لے گیا۔۔۔۔
سارے راستے وہ یہی سوچتا ہوا آیا کہ ایمل کے آنے کے بعد وہ ساری غلط فہمیاں دور کر لے گا اسے اعتبار دے گا اپنی غلطی کی معافی مانگ لے گا جو اس کو تکلیف پہنچائی سب کا مداوا کر دے گا انہی سوچوں میں وہ گھر پہنچ چکا تھا ۔۔۔
وہ جیسے ہی گھر پہنچا تو نازیہ بیگم اسے کہیں نظر نہ آئیں تو وہ چلتا ہوا ان کے روم میں پہنچا جہاں نازیہ بیگم کے ساتھ زید ملک بھی موجود تھے وہ ان کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ نہ لگا سکا کہ وہ پہلے کیا بات کر رہے تھے ۔۔۔
دروازہ ناک کرتا وہ اندر داخل ہوا تو وہ دونوں میاں بیوی چونکے زید ملک نے اسے اندر آنے کی اجازت تو وہ کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔
مام مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا ۔۔۔
اس کی بیقراری دیکھتے نازیہ بیگم کو اندازہ تھا کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے اور اس کے حلیے سے بھی لگ رہا تھا کہ وہ باہر سے سیدھا یہیں آیا ہے۔۔۔
پہلے فریش ہو جاؤ برخوردار کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہو کھانے کا ٹائم ہو رہا ہے وہیں بات بھی کر لیں گے۔۔۔
اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی زید ملک بول پڑے وہ نازیہ بیگم کے پریشان چہرے کو دیکھ چکے تھے تبھی فی الحال اسے ٹالنا مناسب سمجھا۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں سب ڈائننگ ٹیبل پہ موجود تھے سوائے انابیہ کے جس نے راجپوت ہاؤس سے آتے ہی سر درد کا بہانہ بنا کر خود کو کمرے میں قید کر لیا اور ابھی بھی بھوک نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کمرے میں ہی موجود تھی۔۔۔
سب خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے لیکن حسان بے چینی ہونے کی وجہ سے ٹھیک سے کھا نہیں پا رہا تھا ہزار سوچوں میں اس کا دماغ گھیرا ہوا تھا کہ ناجانے وہاں کیا ہوا ہو گا جب سب کو اس کے اور ایمل کے نکاح کے بارے میں پتہ چلا ہو گا۔۔۔
نازیہ بیگم بھی تو اسے کچھ نہیں بتا رہی تھیں ،،، حسنین وہ تو حسان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا کہ کہیں بھائی اس سے نہ کچھ پوچھ لیں تبھی وہ بھی نظریں جھکائے بس کھانا کھانے میں مصروف تھا یا یوں کہیں وہ خود کو مصروف ظاہر کر رہا تھا۔۔۔
سب کھانا کھا چکے تو حسنین اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ زید ملک حسان کو لیے باہر لان میں آ بیٹھے ، نازیہ بیگم بھی چائے لیے وہیں آ گئیں۔۔۔
مام آخر آپ بتا کیوں نہیں رہیں مجھے کہ وہاں کیا ہوا ہے تاریخ طے کر کے آئی ہیں آپ کہ نہیں ،،، کسی نے کچھ کہا ہے کیا جو بھی بات ہے آپ بتا دیں آپ کا بیٹا اتنا مضبوط ضرور ہے کہ وہ کوئی بھی جواب سننے کی سکت رکھتا ہے۔۔۔
حسان نے بے چینی سے پہلو بدلتے ضبط سے نازیہ بیگم کی طرف دیکھتے پوچھا جو اپنے بیٹے کی بے قراری محسوس کرتے ہوئے بھی چپ سادھے بیٹھی تھیں۔۔۔
حسان عرشیہ زندہ ہے تم نے ہمیں یہ بات کیوں نہیں بتائی کیوں چھپایا۔۔۔؟
زید ملک نے سرد لہجہ اپناتے اس سے پوچھا تو حسان چونک گیا کہ آخر اس بات کا یہاں کیا مطلب۔۔۔
ڈیڈ میں آپ سب کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے نہیں بتایا اس نے جو کیا اسے اس کی سزا مل چکی ہے ،، حسان نے سرسری سا جواب دیا ۔۔۔
ایمل نے رخصتی سے منع کر دیا ہے اسے عرشیہ کے بارے میں سب پتہ چل گیا ہے وہ بہت غصے میں ہے اور اس کا حق بھی بنتا ہے تم نے اپنے جنون میں اندھے ہو کر اس معصوم پر کیا کیا ظلم نہیں کیا یہاں تک کہ اسے عرشیہ کی موت کا زمہ دار ٹھہرا دیا۔۔۔
اسے اتنی تکلیف پہنچانے کے بعد بھی تم اب اس سے کیا ایکسپیکٹ کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ خوشی خوشی رخصت ہو کر یہاں آ جائے گی کیا تمہاری دی ہوئی تکلیفیں وہ بھلا سکے گی ۔۔۔
نازیہ بیگم بولنے پہ آئیں تو بولتی چلی گئیں جبکہ حسان سر جھکائے سب سنتا رہا وہ جانتا تھا کہ بہت کچھ غلط کر چکا ہے انجانے میں وہ ایمل کے ساتھ بہت برا کر گیا اب سب ٹھیک بھی اسے ہی کرنا ہو گا جو اعتبار وہ اس پہ کھو چکی ہے دوبارہ اسے بحال کرنا ہوگا۔۔۔
مام آپ ٹینشن نہ لیں میں سب ٹھیک کر دوں گا ایمل کو منا لوں گا وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتا وہاں سے اٹھتا کمرے کو چل دیا جبکہ وہ دونوں اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہ گئے انہیں حسان سے اتنے نرم لہجے کی توقع جو نہیں تھی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
راجپوت ہاؤس کے سب مکین تقریباً سب سو گئے تھے بس نویرہ بیگم کیچن سمیٹ رہی تھیں جب نظر اچانک داخلی دروازے سے اندر آتے حسان پہ پڑی تو وہ باہر نکلتی پریشانی سے پوچھ بیٹھیں۔۔۔
حسان بیٹا آپ یہاں اور اس وقت۔۔۔
مامی مجھے ایمل سے بات کرنی ہے پلیز دو منٹ میں بات کر کے چلا جاؤں گا۔۔۔
حسان کے لہجے میں کچھ تو تھا جو نویرہ بیگم اسے منع نہ کر پائیں اور سر ہلا کر اسے اجازت دے دی ،،، اجازت ملتے ہی وہ سیڑھیاں پھلانگتا خاموشی سے ایمل کے روم میں داخل ہو گیا۔۔۔
ایمل جو ابھی شاور لیکر باہر نکلی تھی اور نائٹ ڈریس پہنے ڈوپٹے سے بے نیاز جب حسان کو اپنے روم میں دیکھ کر چیخ پڑی جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو لیکن حسان نے فوراً ہی اس کے منہ پہ ہاتھ رکھتے اس کی آواز کا گلہ گھونٹا۔۔۔
کون سا جذبہ ہے دل میں یہ سمجھنا ہے محال
قربتیں باہم ہیں اب تک ، فاصلوں کے باوجود
ایمل تو اس کی قربت سے ہی منجمد ہو گئی ،،، حسان بھی اس کے ہوش ربا سراپے کو دیکھ بہکنے لگا جو بات کرنے آیا تھا وہ تو بھول ہی گیا بس یاد تھا تو اپنا پاکیزہ بندھن ،،، آہستگی سے ہاتھ ہٹاتے اس نے ایمل کی پیشانی پہ اپنی محبت کی مہر ثبت کی پھر اپنے ہونٹوں سے باری باری اس کی دونوں آنکھوں کو چوما ۔۔۔۔
ایمل سے کھڑے ہونا مشکل ہو رہا تھا وہ پھر اس ستمگر کی محبت کے آگے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی تبھی اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے خود سے دور دھکیلا تو وہ بھی زرا ہوش میں آیا خود سے دور دھکیلنے والی حرکت اسے سخت زہر لگی لیکن کڑوے گھونٹ پی کے رہ گیا۔۔۔
ایمل ادھر دیکھو میری طرف کیا مجھ پہ اعتبار نہیں ہے تمہیں۔۔۔۔
اعتبار اور محبت میں بہت فرق ہوتا ہے ۔۔۔
وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔۔
تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ محبت اور اعتبار میں بہت فرق ہوتا ہے جبکہ ہر تعلق اعتبار پہ قائم ہے اعتبار تو کرو مجھ پہ میں کبھی تمہارا اعتبار نہیں توڑوں گا۔۔۔۔
وہ پہلے حیرت سے اسے دیکھتا پھر سنبھل کر بولا۔۔۔
یہی تو فرق ہے کہ تعلق میں محبت نہ ہو اعتبار ہو تو تعلق چل جاتا ہے لیکن اعتبار نہ رہے تو محبت بھی ساتھ نہیں چلا کرتی ،،، ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور تعلق بھی ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔
وہ جواباً اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔
پہلے اعتبار تھا آپ پہ کہ چلو محبت نہ سہی آپ کو مجھ سے لیکن اعتبار تو کرواتے ہیں لیکن نہیں آپ نے خود پر سے میرا اعتبار بھی لوٹ لیا اب مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا مجھے آزادی چاہیے آپ سے ،،، وہ نم آنکھوں سمیت بولتی اس کو تڑپا گئی۔۔۔
ایمل تم یہ کیسے کر سکتی ہو میرے ساتھ کیسے کہہ سکتی ہو یہ سب ،،، نکاح کوئی مزاق نہیں ہے تم بیوی ہو اب میری اور تمہیں میں کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے مرنا بھی پڑا تو مر جاؤں گا اب تو میرے مرنے کے بعد ہی تم آزاد ہو سکتی ہو ،،، ایک دفعہ تمہیں چھوڑنے کی غلطی کر چکا ہوں لیکن دوبارہ میں وہی غلطی نہیں دہراؤں گا سمجھی تم۔۔۔۔
حسان ایمل کے مطالبے پر بھڑک ہی تو اٹھا ،،، جانتا تھا پہلے ہی کتنی سنگین غلطی کر چکا ہے اب وہ کسی بھی قیمت پر ایمل کو کھونا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔
میں کچھ نہیں جانتی مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا بس ،،، جیسے آپ کو تب میری پرواہ نہیں تھی میری محبت آپ کو نظر نہیں آئی بالکل اسی طرح اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں۔۔۔
ایمل نے حسان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے اسے جواب دیا وہ تب کمزور پڑ گئی تھی لیکن اب نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔۔۔
تم ناراض ہو میں منا لوں گا تمہارے ہر دکھ کا مداوا کرنے کو میں تیار ہوں جو سزا دو گی سہہ جاؤں گا جتنا ٹائم چاہیے لے لو لیکن ایک بات ذہن نشین کر لو لوٹ کر تمہیں میرے پاس ہی آنا ہو گا ۔۔۔۔
حسان نے اسے کمر سے تھام کر خود کے قریب تر کیا تو ایمل کی سانس تک رک گئی وہ اس کی قربت کا لمحہ اسے کانپنے پر مجبور کر گیا۔۔۔
حسان نے اس کے لرزتے ہونٹوں کو دیکھا جو اس کے سانس روکنے پر لرز اٹھے تو حسان مدہوش ہوتے اس کے ہونٹوں پر آہستہ سے جھکا لیکن ایمل نے فوراً اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔۔۔
حسان ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا ایمل کا ایسا کرنا اسے سخت ناگوار گزرا پھر بھی ضبط کر گیا ،،، ایمل کو وہیں چھوڑے وہ چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گیا تو ایمل کی آنکھ سے ایک دغا باز آنسو ٹوٹ کر نکلا اور اس کی گال بھگو گیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
آدھی رات کا وقت تھا جہاں سب سو رہے تھے وہیں کیچن میں سے کھٹر پٹر کی آوازیں زور وشور سے آ رہی تھیں ،،، وہ کچھ بناتے ہوئے ساتھ ساتھ بڑبڑا بھی رہی تھی ۔۔۔
دو سینڈوچ میرے لیے بھی بنا لینا میں نے بھی کچھ نہیں کھایا مسز ۔۔۔
انابیہ شدید بھوک کے باعث اکتا کر کمرے سے باہر نکلی اور اپنے لیے سینڈوچ بناتے ساتھ باسم کو کوس رہی تھی جس کی وجہ سے اس نے غصے میں کھانا نہیں کھایا تھا اور اب خود اپنے لیے کچھ نہ کچھ بنانا پڑ رہا تھا تبھی ایک جانی پہچانی آواز کانوں سے ٹکرائی تو وہ بدک گئی ،،، پیچھے مڑ کر دیکھا تو باسم سینے پہ اپنے دونوں ہاتھ باندھے کھڑا مزے سے اسے دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لیے بھی سینڈوچز بنانے کا کہہ دیا۔۔۔۔
انابیہ اسے دیکھ کر شدید بدمزہ ہوئی اور اسے خطرناک طریقے سے گھورتی سب کچھ وہیں پٹک کر اس کے سامنے سے گزرتی کمرے میں چلی گئی۔۔۔
حالات کافی گھمبیر لگ رہے ہیں باسم کچھ سوچنا پڑے گا ،،، وہ سرد آہ بھرتا خود سے بڑبڑایا۔۔۔
انابیہ کے جانے کے بعد اسے احساس ہوا وہ کافی سخت رویہ اس کے ساتھ اختیار کر گیا تھا جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا حسان کے لیے کی سزا وہ انابیہ کو کیوں دے تبھی اب وہ انابیہ کو منانے یہاں پہنچ گیا تاکہ اس سے معافی مانگ سکے اور اس کو پر سکون کرتے خود بھی سکھ کا سانس لے۔۔۔
ادھورے چھوڑے سینڈوچز کو وہ بنانے لگا ساتھ ساتھ خود پہ حیران بھی تھا کہ یہ کام بھی اس کی قسمت میں لکھے تھے آگے جا کر بونی پتہ نہیں کیا کیا کروائے گی مجھ سے ،، اپنا فیوچر سوچتے اس نے جھرجھری سی لی ،،، اتنی دیر میں سینڈوچز بن گئے وہ انہیں ٹرے میں رکھتا انابیہ کے کمرے کی طرف قدم بڑھا گیا جہاں وہ بیڈ پہ منہ پھلائے بیٹھی تھی۔۔۔
باسم نے ٹرے اس کے سامنے رکھی اور خود بھی وہیں بیٹھ گیا۔۔۔
اچھا سوری میں مانتا ہوں میری غلطی ہے مجھے تم سے اتنی سختی سے پیش نہیں آنا چاہیے تھا اس وقت مجھے غصہ آ گیا تھا میری زندگی میں نہ تم سے پہلے کوئی تھا نہ ہے نہ ہو گا۔۔۔
باسم نے رسانیت سے بات کرتے ساتھ سینڈ وچ اٹھا کر اس کے منہ میں ڈالا جسے اس نے چھوٹی سی ناک چڑھاتے کھا لیا ۔۔۔
وہ جب کھا چکی تو ٹرے ٹیبل پہ رکھتا اب وہ اس کو مخمور آنکھوں سے دیکھتا اسے سٹپٹانے پہ مجبور کر گیا۔۔۔
اب آپ جائیں یہاں سے میں ٹھیک ہوں مام گئی ہوں مجھے نیند آ رہی ہے سونا چاہتی ہوں ۔۔۔
انابیہ اس کی آنکھوں کی طلب سمجھتے ہوئے بھی انجان بن کر اس سے جان چھڑوانے کے لیے نظریں چرا کر لیٹنے لگی جب باسم نے اس کی یہ کوشش ناکام بناتے اپنی طرف کھینچا۔۔۔
مجھے تو ابھی بھوک لگی ہے اور میں میٹھا کھانا چاہتا ہوں ،،، باسم یہ کہتے ساتھ ہی اسے فرار کا موقع دیے بغیر اس کے ہونٹوں پہ جھکا اور خود کو تسکین پہچانے لگا ۔۔۔
اس کی شدت تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی انابیہ کچھ دیر مزاحمت کے بعد دم توڑ گئی خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑتی نڈھال ہو گئی تھی لیکن باسم زرا سا بھی اس پہ رحم کھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔
انابیہ کی سانس اکھڑنے لگی تھی وہ چاہ کر بھی خود کو چھڑوانے میں ناکام ثابت ہوئی تو ہاتھ ادھر ادھر مارتے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ پڑے واس کو لگا ،،، واس گر کر چکنا چور ہوا تو باسم اپنے حواس میں لوٹا نرمی سے اسے چھوڑتے تھوڑا دور ہوا ،،، انابیہ تو گہرے گہرے سانس بھرتے خود کو نارمل کر رہی تھی اس نے گھور کر باسم کو دیکھا جو اب مسکرا رہا تھا ۔۔۔
یہ چھوٹی سی سزا وائفی میرے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنے کے لیے مجھے بالکل نہیں پسند کہ تم مجھ سے ایسے کسی کے لیے بھی جھگڑتی پھرو۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ کہتی دروازے پہ ہوتی دستک نے دونوں کو توجہ اپنی طرف کھینچی انابیہ کی تو سانس اٹک گئی جبکہ باسم بھی دروازے کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
انابیہ تم ٹھیک تو ہو بیٹا کیا ہوا ہے یہ آواز کیسی ہے دروازہ کھولو۔۔۔
نازیہ بیگم جو کیچن سے پانی لینے آئیں تھیں انابیہ کے کمرے سے کچھ گرنے کی آواز آئی تو پریشان سی اوپر چلی آئیں۔۔۔
نازیہ بیگم کی آواز پر تو وہ اچھل ہی پڑی حالت ایسی نہیں تھی کہ دروازہ کھولے وہ کبھی باسم کو گھور کر دیکھتی تو کبھی دروازے کی طرف۔۔۔
م۔۔مام میں ٹ۔۔ٹھیک ہوں ک۔۔کچھ نہیں ہوا آپ جائیں یہاں سے ،،، انابیہ ڈرتے بمشکل ہی یہ بول پائی۔۔۔
آپ جائیں یہاں سے اگر بھائی آ گئے تو اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔ وہ اسے کھڑکی کی طرف دھکیلتے ہوئے مڑ مڑ کر دروازے کی طرف بھی دیکھ رہی تھی کہ کوئی آ نہ جائے لیکن وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں تھا۔۔۔
میں تو کہتا ہوں آج سب کو بتا ہی دیتے ہیں اپنے نکاح کے بارے میں روز روز چھپتے چھپاتے آ کر ملنے سے تنگ آ گیا ہوں میں اور باہر جو دو مسٹنڈے جیسے گارڈ تمہارے بھائی نے گیٹ پر کھڑے کر رکھے ہیں نہ انہیں بھی چکما دینا آسان نہیں ہے یہ نہ ہو کسی دن مجھے چور سمجھ کر گولی سے اڑا دیں۔۔۔
باسم اس کا ہاتھ پکڑے تھوڑا سا دروازے کے قریب لایا وہ جان بوجھ کر اسے ڈرا رہا تھا اور انابیہ ڈری ہوئی لگ بھی رہی تھی اس کی حالت دیکھ باسم نے امڈ آنے والی مسکراہٹ کا مشکل سے گلا گھونٹا پھر بھی اس کے ہونٹوں کے کناروں کو مسکراہٹ میں ڈھلتے اور زبردستی روکتے دیکھ انابیہ نے اس کے بازو پہ زور سے چٹکی کاٹی۔۔۔
آپ مجھے بلاوجہ ڈرا رہے ہیں شرم نہیں آتی اپنی معصوم سی بیوی کو ڈراتے ،،، وہ خفگی سے گویا ہوئی۔۔۔
تو تم مانتی ہو خود کو میری بیوی ،،، باسم پھر پٹڑی سے اترا اسے تنگ کرنے میں مزہ آ رہا تھا تبھی بات کو بڑھاوا دیے جا رہا تھا۔۔۔
مام خیریت آپ اس وقت انابیہ کے روم کے باہر کیا کر رہی ہیں انابیہ ٹھیک تو ہے ،،، حسان ابھی ابھی راجپوت ہاؤس سے لوٹا اپنے کمرے میں جانے لگا جب نازیہ بیگم کو انابیہ کے کمرے کے باہر دیکھ ایک ہی جست میں ان تک پہنچتا استفسار کرنے لگا۔۔۔
ہاں سب ٹھیک ہے میں پانی لینے آئی تھی جب انابیہ کے کمرے سے کسی چیز کے گرنے کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی چیخ سنائی دی تو میں ڈر گئی ۔۔۔
اچھا آپ پریشان نہ ہوں آپ جائیں اپنے روم میں انابیہ کو میں دیکھ لیتا ہوں ،،، وہ انہیں تسلی دیتا ان کو کمرے میں بھیجنے کے بعد خود انابیہ کے کمرے کی طرف چلا آیا۔۔۔
حسان نے انابیہ کے آرام کا خیال کرتے دروازہ ناک کرنے کے بجائے ڈوپلیکیٹ کی سے کھولا وہ بس ایک نظر اسے دیکھ کر واپس چلا جاتا جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا سامنے کا منظر دیکھ اس کے ہوش اڑے۔۔۔
تم ،،، تم یہاں کیا کر رہے ہو وہ بھی میری بہن کے کمرے میں تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس وقت اس طرح اس کے روم میں آنے کی تم یہاں آئے کیسے ،،، حسان دھاڑا ۔۔۔۔
باسم انابیہ کا ہاتھ پکڑے کھڑا اسے مزید زچ کر رہا تھا جب کلک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا ،،، حسان کو ایکدم سامنے دیکھ وہ دونوں چونکے۔۔۔
انابیہ نے فوراً اپنے ہاتھ کھینچے اور پیچھے ہٹی ،،، حسان نے آگے بڑھ کر باسم کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور باہر لے آیا۔۔۔
گارڈز ،،، کدھر مر گئے سب کے سب ،،، حسان کے ڈھارتے ہی سب گارڈز جمع ہو گئے اور وہ باسم کو دیکھ سب حیران تھے کہ یہ اندر کیسے آیا یقیناً اسی وجہ سے ان سب کو یہاں بلایا گیا تھا ۔۔۔
حسان پہ در پہ باسم کو مکے مار رہا تھا لیکن جوابی کارروائی نہ ہونے کے برابر تھی بلکہ وہ چپ چاپ مار کھاتا زخمی سا ہنستے انابیہ کی طرف بار بار دیکھتا جب وہ نظریں چرا جاتی۔۔۔
حسان نے اسے گریبان سے گھسیٹتے اب دیوار میں مارا جس سے باسم کا سر پھٹا اور خون کی بوندیں لکیروں کی صورت میں بہنے لگیں تو وہ دھڑ سے زمین پہ گرا۔۔۔
باسم۔۔۔۔ انابیہ نے اس کا خون دیکھتے ہی چیخ ماری اور دوڑ کر اس کے پاس پہنچی ۔۔۔
بھائی چھوڑ دیں انہیں ان کا کوئی قصور نہیں ہے م۔۔میں نے بلایا تھا ان کو یہاں یہ خود نہیں آئے۔۔۔
انابیہ کی گوہر افشانی سن کر تو حسان سکتے میں آ گیا جبکہ نازیہ بیگم اور زید ملک جو اس ہنگامے کی وجہ سے کمرے سے باہر نکل آئے تھے انابیہ کو بے یقینی سے دیکھنے لگے کہ ان کی بیٹی بھی ایسا کچھ کر سکتی ہے کیا یہ تربیت کی تھی انہوں نے اپنی بیٹی کی جو انہیں آج یہ دن دیکھنے کو ملا۔۔۔
نازیہ بیگم نے آگے بڑھ کر انابیہ کو زوردار تھپڑ مارا ۔۔۔ مام پلیز کیا کر رہی ہیں آپ ،،، حسنین نے آگے بڑھ کر انابیہ کو اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔
آج تم نے مجھے اپنے بھائیوں اور باپ کے سامنے شرمندہ کر کے رکھ دیا ہے تمہیں زرا خیال نہیں آیا سب کا ایسا کچھ کرنے سے پہلے تم نے کسی کا نہیں سوچا ،،، تم جیسی بیٹیاں ہوتی ہیں جن سے لوگ پناہ مانگتے ہیں کاش تم پیدا ہوتے ہی مر گئی ہوتی کہیں کا نہیں چھوڑا تم نے ہمیں دفعہ ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے اور باسم تم ،،، تمہیں سوچنا چاہیے تھا وہ بیوقوف ہے تم تو سمجھدار تھے اس وقت کسی لڑکے کا لڑکی کے کمرے سے نکلنا کیا سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔
نازیہ بیگم نے پہلے اپنی بیٹی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور اس کے بعد باسم کو بھی خوب سنائی ،،، انابیہ تو حسنین کے گلے لگے سسکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔
پھوپھو بیوی ہے یہ میری نکاح کر چکا ہوں آپ کی بیٹی سے میں جائز بندھن میں بندھے ہوئے ہیں ہم بالکل ویسے ہی جیسے آپ کے بیٹے نے ایمل سے شادی کی ویسے ہی میں کر لی ،،، سکون سے بولتے اس نے سب کے ہوش اڑا دیے۔۔۔
حسان کے جیسے ہی حواس قائم ہوئے اس نے ایک اور باسم کو مکا جڑ دیا اب دونوں ایک دوسرے کا گریبان پکڑے کھڑے تھے جب زید صاحب نے آگے بڑھ کر ان دونوں کو چھڑوایا۔۔۔
بس کر دو دونوں یہ کس قسم کی نفرت ہے تم دونوں کی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی دونوں ہی اپنی اپنی لمٹس بھول چکے ہیں بڑوں کا کوئی لحاظ ہی نہیں رہا ۔۔۔
تم دونوں کی بے جا نفرت کی لپیٹ میں ایمل اور انابیہ دونوں ہی لپٹی گئی ہیں ایسے لڑ کر ایک دوسرے کو مار کر کیا حاصل ہو گا شرم آنی چاہیے تم دونوں کو میں اب مزید تماشا نہیں برداشت کر سکتا میں ابھی زندہ ہوں اب آگے کیا ہو گا اس کا فیصلہ میں کروں گا ،،، زید ملک نے دونوں پہ تنقیدی نگاہ دوڑائی اور انہیں ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے سے باز رکھا۔۔۔
باسم تم گھر جاؤ ابھی اور اسی وقت ،،، زید ملک نے رخ پھیرے اس سے کہا۔۔۔
لیکن انکل۔۔۔ بس ایک لفظ اور نہیں میں نے کہا نہ گھر جاؤ اور تم سب بھی اپنے اپنے کمروں میں جاؤ صبح بات ہو گی۔۔۔
زید ملک نے کھردرے لہجے میں کہا پھر کسی کی بھی ہمت نہ ہوئی کچھ بولنے کی باسم گھر کے لیے نکل گیا جبکہ سب اپنے اپنے روم میں چلے گئے اب بس نازیہ بیگم وہاں کھڑی تھیں ،،، زید ملک صوفے پہ ڈھے سے گئے یہ کیا ہو رہا تھا ان کے بچوں کی زندگیوں میں ایک نے زبردستی رعب جما کر شادی کر لی اور دوسرے سے زبردستی ڈرا کر کروا لی گئی۔۔۔
نازیہ بیگم جلدی سے جا کر کیچن سے پانی لے کر آئیں اور زید صاحب کو پلایا پھر وہ بھی ان کے پاس بیٹھی تسلی آمیز انداز میں ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
باسم آپ مجھے ہاسپٹل چھوڑ دیں گے پلیز۔۔۔
کل رات زوباریہ کی کال آئی تھی اس نے ایمل کو بہت مشکل سے کنویس کیا کہ وہ اپنے ڈاکٹر بننے کے خواب کو آدھا ادھورا بیچ میں نہ چھوڑے جو ہو گیا سو ہو گیا ہاؤس جاب سٹارٹ ہو چکی ہے تو وہ بھی اس کو آ کر کنٹینیو کرے ،،، زوباریہ کے بے حد اصرار کی وجہ سے ایمل کو ماننا ہی پڑا ،،، وہ تیار ہو کر کمرے سے باہر نکلی اسی وقت باسم کو بھی نکلتے دیکھا تو اسے پکار بیٹھی۔۔۔
باسم آفس کے لیے نکل رہا تھا کل رات کے ہوئے واقعے کی وجہ سے وہ ابھی کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی بغیر ناشتے کے اور بغیر کسی کی نظروں میں آئے وہ نکل جانا چاہتا تھا لیکن ایمل کی پکار نے اس کے بڑھتے قدموں کو بریک لگائی اور مڑ ا۔۔۔
ٹھیک ہے جلدی آ جاؤ چھوڑ۔ دیتا ہوں اور عنایہ کو بھی لے آؤ ساتھ اسے یونیورسٹی چھوڑ دوں گا ۔۔۔
باسم جلدی سے کہتا لاؤنج پار کر گیا جبکہ ایمل اس کے سر پہ لگی چوٹ دیکھ کر پوچھتے پوچھتے رہ گئی لیکن باسم نے پوچھنے کا موقع ہی نہیں دیا تو وہ گاڑی میں پوچھنے کا سوچتے سر جھٹکتی عنایہ کے روم کی طرف چل دی۔۔۔
ایمل ناشتہ تو کرتی جاؤ باسم بھی بغیر ناشتہ کیے جا رہا ہے ،،، زیمل بیگم اس وقت سب کے لیے ناشتہ لگا رہی تھی ایمل کو جاتے دیکھ آواز لگائی کیونکہ باسم بھی ابھی بھوک نہیں ہے کہہ کر ٹال گیا تھا اور یہ کہ آفس میں کچھ کھا لے گا اب ایمل کو بنا ناشتا کیے جاتے دیکھ ٹوکے بغیر نہ رہ سکیں ۔۔۔
تائی جان میں ہاسپٹل میں کچھ کھا لوں گی مما کو بھی بتا دیجیے گا میں لیٹ ہو رہی ہوں ۔۔۔ وہ فٹا فٹ وہاں سے کھسکی مبادہ کہیں پکڑ کر ناشتہ کروانے نہ بٹھا لیں۔۔۔
باسم آپ سے ایک بات پوچھوں ،،، وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا جب ایمل کا دھیان پھر سے ایک دفعہ اس کی چوٹ کی طرف گیا تو وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔۔۔
میں نے انابیہ سے نکاح کر لیا ہے اور کل رات یہ تمہارے شوہر نامدار کے دیے گئے زخم ہیں کل رات میں اسے منانے گیا تھا کل زیادہ ہی مس بیہیو کر گیا تھا میں اس سے پھر منانے گیا جب یہ سب ہو گیا۔۔۔
بڑے رسان سے اس نے پوری بات ایمل کو بتا کر اس کا ری ایکشن دیکھا جو اپنی پوری بڑی بڑی آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
کیا اب کچھ بولو گی بھی کہ بس دیکھتی رہو گی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کہیں تم بھی اپنے شوہر کی طرح میرا سر پھاڑنے کا سوچ رہی ہو تو پلیز ابھی نہیں ،،، وہ شوخ انداز میں کہتا اسے ہنس دیا ۔۔۔
باسم تم سیدھے طریقے سے شادی نہیں کر سکتے تھے جب سب گھر والوں کو پتہ چلے گا تو کیا ہو گا تمہیں گھر والوں کو اعتماد میں لیکر انسانوں کی طرح رشتہ بھیجنا چاہیے تھا ،،، ایمل کو آنے والے لمحات کا سوچ کر نئی فکر لگ گئی۔۔۔
ایک لڑکی کی عزت بہت قیمتی اور نازک ہوتی ہے اس پہ زرا سا بھی داغ برداشت نہیں کیا جاتا پھر چاہے اس داغ لگنے میں عورت کی مرضی شامل ہو یا نہ ہو ،،، ساری زندگی وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتی رہتی ہے۔۔۔۔
تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ،،، ایمل کے کہنے پہ وہ خاموش ہو گیا لیکن اب جو ہو گیا تھا اسے بدلا تو نہیں جا سکتا نہ تبھی کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
تھینک گاڈ تم آ گئی یار آئی رئیلی مس یو ،،، زوباریہ نے جیسے ہی ایمل کو دیکھا وہ اس سے چپک گئی وہ بہت خوش ہوئی تھی اسے دیکھ کر دونوں ایک دوسرے کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتی تھیں۔۔۔
میں نے بھی تمہیں بہت مس کیا میری جان ،،، ایمل نے پیار سے اسے ہگ کیا ،،، چلو میں تمہیں ڈاکٹر جبار سے ملواتی ہوں میں نے انہیں تمہارے بارے میں بتا دیا تھا کہ تم میڈیکل لیو پہ ہو تم بریلینٹ سٹوڈنٹ ہو اس لئے زیادہ ایشو نہیں ہوا۔۔۔
زوباریہ نے اسے ڈاکٹر جبار سے ملوا کر اس کی ڈیوٹی سیٹ کروا دی اور اسے اس کے پورشن میں چھوڑ کر اپنے پورشن میں چلی گئی ۔۔۔
تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی اسے کام کرتے جب کسی نے آ کر اسے بتایا کہ زوباریہ اسے کسی وارڈ میں بلا رہی ہے اور اس سے کوئی ملنے آیا تھا وہ اسی طرف جاتی سوچ رہی تھی کی یہاں اس سے ملنے کون آ سکتا ہے ،،، جب سامنے سے آتے اس نے ایک زخمی شخص کو دیکھا اسے ڈریسنگ کی ضرورت تھی تبھی اس نے آگے بڑھ کر اس کی ہیلپ کرنے کا سوچا۔۔۔۔
لیکن جیسے ہی آگے بڑھی حاشان کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔۔۔
حاشان آپ یہاں اور یہ اتنی چوٹ کیسے لگی آپ کے میرے ساتھ آئیں میں ڈریسنگ کر دیتی ہوں بہت خون بہہ رہا ہے وہ اسے ساتھ لیے ایک کمرے کی طرف چل پڑی ،،، وہ بھی ایمل کو یہاں ڈاکٹری لباس میں دیکھے حیران ہوا تھا لیکن فی الحال کچھ پوچھنے کی پوزیشن میں نہیں تھا تبھی چپ چاپ اس کے پیچھے چل دیا۔۔۔
چوٹ کیسے لگی آپ کو ،،، وہ ڈریسنگ کرتے ساتھ ساتھ اس سے پوچھنے لگی ۔۔۔
وہ چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا قریبی یہی ہاسپٹل تھا تو یہاں چلا آیا لیکن تم یہاں۔۔۔
میں ڈاکٹر بن رہی ہوں یہاں اس کی الجھن سمجھتے ایمل نے مسکرا کر سلجھا دی۔۔۔
ایمل دیکھو تم سے کون ملنے آیا ہے ،،، زوباریہ پرجوش سی اندر داخل ہوئی جب ایمل کو کسی کی ڈریسنگ کرتے دیکھا۔۔۔
کون آیا ہے وہ مڑ کر دیکھنے لگی جب سامنے ہی حسان کو کھڑا پایا۔۔۔
وہ ایکدم پیچھے ہوئی جب حاشان اور حسان کی نظریں آپس میں ٹکرائیں تو حسان ایک نظر اسے دیکھتا پھر دوسری کڑی نظر ایمل پہ ڈالی ،،،
مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے وہ اسے بازو سے کھینچتا باہر لے گیا۔۔۔
یہ یہاں کیا کر رہا ہے اور تم اس کی ڈریسنگ کیوں کر رہی تھی ،،، حسان نے جلے دل سے پوچھا۔۔۔
شاید آپ بھول رہے ہیں یہ آپ کا گھر نہیں ہاسپٹل ہے اور میں یہاں جاب کرتی ہوں۔۔۔
اور بھولیں مت آج آپ کے سامنے میں انہیں کی وجہ سے موجود ہوں یہ میرے مسیحا بھی ہیں یہ نہ ہوتے اس وقت تو میں ناجانے کہاں ہوتی زندہ بھی ہوتی یا مر گئی۔۔۔۔
ایمل کے الفاظ پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ حسان نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھتے اسے بات مکمل کرنے سے روکا ،،، اس کے الفاظ تیر کے نشتر کی طرح دل پہ چبھے تھے جس پہ وہ تڑپ اٹھا تھا۔۔۔
اوکے ، آئی ایم سوری میں کچھ زیادہ ہی ری ایکٹ کر گیا میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا تمہارے بغیر جینے کا تو تصور بھی مشکل ہے اب ناجانے کیوں تمہارے بنا اس دل کو چین نہیں ہے۔۔۔
وہ نامحسوس انداز میں اس کے قریب ہوتا کان میں سرگوشی کرنے لگا جس پہ ایمل گھبراہٹ کا شکار ہوتے گربڑا گئی۔۔۔
پ۔۔۔پہچھے ہٹیں آپ کو جو بھی بات کرنی ہے گھر آ کر کیجیے گا پلیز یہاں تماشا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
تھینک یو سو مچ مس ایمل میری مدد کرنے کے لیے ،،، حسان کچھ کہتا اسی وقت حاشان وہاں پہنچ گیا جو شکریہ ادا کرنے آیا تھا۔۔۔
اٹس اوکے ،،، یہ میرا فرض تھا ایمل نے مسکرا کر جواب دیا تو وہ بھی تھوڑا سا ہنس دیا۔۔۔
آج اتنے دنوں بعد اسے سامنے دیکھ دل میں کچھ ہوا تھا لیکن وہ اپنی کیفیت چھپا گیا ۔۔۔
بی جان کیسی ہیں ،،، وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔
ٹھیک ہیں ،،، آنا کبھی تم دونوں ان سے ملنے ڈنر ساتھ کریں گے ۔۔۔ وہ چھوٹی سی آفر دے بیٹھا جسے ایمل نے تو دل سے قبول کر لیا لیکن حسان کے تاثرات کچھ سمجھ نہیں آ رہے تھے۔۔۔
ویل اوکے میں چلتا ہوں گڈ بائے ،،، وہ انہیں بائے بولتا باہر نکل گیا جبکہ حسان بھی اس کے پیچھے باہر نکلا۔۔
ویسے یہ ڈیشنگ انسان ہے کون ،،، زوباریہ نے اس کے جاتے ہی ایمل سے اشتیاق سے پوچھا تو ایمل کسی سوچ میں پڑ گئی۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
آج سعد اور فضا کی انگیجمنٹ تھیں جس پر سب دوستوں کو انوائیٹ کیا گیا ۔۔۔
حسنین کب سے علی کے ساتھ کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جبکہ اس کی بے چینی کو دیکھ علی مسکرا رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اس کا دوست کس کا منتظر ہے کسے دیکھنے کے لیے بے چین ہوا جا رہا ہے۔۔۔
حسنین کی نظر جیسے ہی علی پر پڑی جو اسے دیکھتا ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش میں تھا تو حسنین خجل سا ہوا ،،، کمینے دانت اندر رکھ ورنہ سارے توڑ دوں گا۔۔۔
حسنین نے خجل مٹانے کو اسے مکا دیکھاتے ڈرانے کی کوشش کی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ،،، ساتھ حسنین کی خود کی بھی ہنسی نکل گئی۔۔۔
تم جس کے لیے بے چین ہو رہے تھے نہ وہ آ گئی ہے سامنے دیکھو ارحا کے ساتھ کھڑی ہے ویسے گڈ چوائس اوپر سے پلس پوائنٹ کزن ،،، واہ بھئی تیرے تو مزے ہیں دعا ہے جلد ہی تیری بھی نیا پار لگ جائے ۔۔۔ علی کہتا ہنس دیا۔۔۔
آمین۔۔۔ ویسے ارحا بھی بری نہیں ہے تم جو اس پہ ٹرایاں مار رہے ہو دیکھنا بچو کنوارے نہ رہ جانا یہ اپنا سعد تو فضا کو پٹا کے لے اڑا ،،، بچ گئے ہم دونوں غریب ۔۔۔ حسنین نے بھی اس پہ اچھی خاصی چوٹ کرتے اور اس کی پول کھولتے آخر میں دہائی دی۔۔۔
چل تو اپنے والی کو سنبھال مجھے اپنی والی سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔ حسنین اسے کہتا عنایہ کی طرف چل پڑا۔۔۔
عنایہ نے جب حسنین کو اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ ارحا کا ہاتھ پکڑے جلدی سے سٹیج کی طرف چل پڑی کہ سعد اور فضا کو مبارکباد دے سکے ،،، حسنین سے وہ ابھی تک خفا تھی وہ اس سے بالکل بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی تبھی اگنور کرنا مناسب سمجھا۔۔۔
عنایہ پلیز میری بات تو سنو یار آئی ایم سوری میں جانتا ہوں کہ میں نے تمہارا دل دکھایا ہے لیکن وہ بس ایک مذاق تھا ۔۔۔
عنایہ تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے روپوش ہونا چاہتی تھی اپنے آنسو وہ اس کے سامنے گرا کر اپنی ذات کا تماشہ نہیں بنا سکتی تھی لیکن حسنین نے اسے ایسا کرنے سے روکا اور ایک ہی جست میں اس تک پہنچتا اس کی کلائی نرمی سے تھامے سب کو بظاہر سمائل پاس کرتے وہ اسے ایک الگ کونے میں لے آیا جہاں بھیڑ کم تھی۔۔۔
عنایہ لائٹ جامنی رنگ کی میکسی پہنے سمپل سی تیار ہوئی بھی اس کا دل دھڑکا رہی تھی اوپر سے اس کی آنکھوں کی نمی نے اسے اور دلکش بنا دیا روئی روئی سی آنکھوں میں بھی وہ اسے بے حد پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔۔
آج تو تم آفت لگ رہی ہو ویسے میرے دل کا بھی قصور نہیں جو تم پہ آ گیا ہے تم ہو اتنی پیاری اور معصوم کہ کوئی بھی تمہیں چاہنے کی خواہش کر سکتا ہے۔۔۔
حسنین اس کی آنکھوں میں ایسا کھویا کہ دل کی بات زبان پر پھر سے پھسل گئی وہ یہ بھی نہ دیکھ پایا کہ عنایہ اسے اب خونخوار نظروں سے گھورتی اپنی چپل اتار چکی تھی ۔۔۔
تم ،،، تم نہیں سدھر سکتے بدتمیز انسان پھر سے وہی لوفروں والی حرکتیں چھوڑوں گی نہیں میں تمہیں شرم نہیں آتی اپنی ہی کزن کے ساتھ فلرٹ کرتے ہوئے۔۔۔
کمبخت فلرٹ کر کون رہا ہے تم مجھے سیریس ہی نہیں لیتی لیکن میں تمہیں سیریس لے چکا ہوں۔۔۔
وہ زرا سا اس کے نزدیک ہوا تو اس کی قربت اس کی مہک عنایہ کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ گئی۔۔۔
پ۔۔پلیز تھ۔۔تھوڑا د،،ور ہو کر کھڑے ہوں سب دیکھ رہے ہیں کیا سوچیں گے سب ہمارے بارے میں ،،، عنایہ نروس ہوتے اٹک اٹک کر بولی اور مجھ سے ایسی باتیں مت کیا کریں مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔
پھر کس سے کروں میں ایسی باتیں تم سے محبت ہے تو تم سے ہی کروں گا نہ اور تم بھی تو مجھ سے محبت کرتی ہو مجھے ارحا نے بتایا تھا۔۔۔
میں نے تو کبھی ارحا کو نہیں بتایا کہ مجھے آپ سے محبت ہے بلکہ میں تو کسی کو بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔
عنایہ خود کو ڈیفنس کرنے کے چکر میں سمجھ ہی نہ پائی کہ کیا بول رہی ہے جب حسنین کو مسکراتے دیکھا تو بریک لگی ،،، پیر پٹکتی وہ اسے غصے سے گھورتی وہاں سے رفوچکر ہو گئی۔۔۔
پھر پورا فنکشن وہ اس کی نظروں کے حصار سے چھپتی پھرتی رہی ،،، دل میں پنپتے خیال سر اٹھانے لگے ایک انجانا سا احساس اپنے ارد گرد محسوس کرنے لگی تھی وہیں حسنین نے بھی اسے خود سے چھپتے چھپاتے دیکھ کر اسے مزید تنگ کرنا ترک کر دیا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
اس وقت سب بڑے احسن صاحب سمیت زید ملک کے گھر لاؤنج میں جمع تھے ،،، احسن صاحب نے اپنی بیٹی کو پہلی دفعہ اتنا پریشان دیکھا تھا حیران تو سب تھے کہ ایسی کونسی ایمرجنسی آ گئی کہ سب کو گھر بلا لیا سوائے بچوں کے ،،،
نازیہ کیوں پریشان ہو اب کیا ہوا جو یہاں سب کو اکٹھا کر لیا ہے میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے جلدی بتاؤ کہ کیا بات ہے ،،، زیمل بیگم نے نازیہ کا ہاتھ پکڑے اس سے پوچھا۔۔۔
باسم نے انابیہ سے نکاح کر لیا ہے اور کل رات وہ یہاں انابیہ کے کمرے میں موجود تھا ۔۔۔
نازیہ کی بات سنتے ہی سب کو سانپ سونگھ گیا ۔۔۔
کسی کو بھی باسم سے ایسی حرکت کی امید نہیں تھا حسان تو مانا جنونی تھا لیکن باسم وہ تو بہت کول مائنڈ بندہ تھا ۔۔۔
حسان اور باسم کی شروع سے نہیں بنتی تھی سب جانتے تھے اور حسان نے جو کیا ایمل کے ساتھ اس کی وجہ سے وہ بہت ٹینشن میں تھا لیکن حسان سے بدلہ لینے کی خاطر وہ انابیہ کی زندگی تباہ کر دے گا یہ تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔
بچوں نے جو کرنا تھا کر لیا اب مزید کچھ برا نہ ہو اس لیے ہمیں اب فیصلہ کرنا ہو گا ،،، میں چاہتا ہوں جلد از جلد اب دونوں بچیوں کی رخصتی ہو جانی چاہیے ۔۔۔
زید صاحب نے پر سوچ انداز میں بولتے ان مسئلوں کا حل بتایا جس پہ سب نے اتفاق کیا ۔۔۔
تو ٹھیک ہے پھر دیر کس بات کی ہے اگلے ہی جمعے دونوں کی رخصتی کر دیتے ہیں ۔۔۔
علی صاحب نے بھی ہامی بھرتے کہا۔۔۔
میں ایک فیصلہ اور کرنا چاہتا ہوں اگر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو ،،، عنایہ کی شادی ہم حسنین سے کر دیتے ہیں ہماری ساری بچیاں ہماری آنکھوں کے سامنے رہیں گی یہ تو بچے اپنے تھے اس لیے ہم برداشت کر گئے لیکن باہر والوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا اس لیے عنایہ کے فرض سے بھی ہمیں ساتھ ہی سبکدوش ہونا چاہیے ۔۔۔
احسن صاحب نے اپنے بڑے ہونے کے ناطے سب کو مشورہ دیا جو سب کو پسند آیا تبھی سب راضی ہو گئے ۔۔۔
ہمیں اور کیا چاہیے بابا آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر مجھے تو دونوں ہی بہت عزیز ہیں ،،، میں مٹھائی لے کر آتی ہوں ،،، نازیہ بیگم نے احسن صاحب کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا پھر وہ کیچن میں چلی گئیں مٹھائی اور چائے کا دور چلا اور باقی سب باتیں بھی طے پا گئیں۔۔۔۔
سب ہنسی خوشی واپس چلے آئے۔۔۔
گھر آتے ہی احسن صاحب نے ایمل اور عنایہ کو اپنے کمرے میں بلایا باقی سب بڑے بھی وہیں موجود تھے ۔۔۔
ایمل ، عنایہ ادھر آؤ میرے پاس میری بچیوں مجھے تم دونوں سے کچھ بات کرنی ہے امید ہے تم اپنے دادا جان کی بات کو سمجھو گی ان کی بات مانو گی۔۔۔
احسن صاحب نے انہیں پاس بلاتے بات کا آغاز کیا۔۔۔
میں چاہتا ہوں میں اپنے جیتے جی اپنی بچیوں کی خوشیاں دیکھ لوں یہ سب کب تک چلتا رہے گا ایمل تم حسان کو معاف کر دو اب جو بھی ہو وہ تمہارا شوہر ہے ہم تمہاری رخصتی کرنا چاہتے ہیں جتنی دیر ہو گی رخصتی میں یہ رنجشیں بڑھتی جائیں گی تم سمجھ رہی ہو نہ ۔۔۔ احسن صاحب نے اسے اپنے تئیں سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔
ایمل نے احسن صاحب کی طرف دیکھتے ہاں میں سر ہلایا سب کی جان میں جان آ گئی۔۔۔
واؤ۔۔۔ مطلب آپی کی رخصتی ہو گی فنکشن ہو گا گھر میں مجھے تو بہت مزہ آنے والا ہے ،،، عنایہ ایکسائٹیڈ سی اٹھ کر بولی جب زیمل بیگم کی گھوری پر وہیں چپ ہو گئی۔۔۔
اور عنایہ بیٹا ہم نے آپ کا رشتہ حسنین سے طے کر دیا ہے آپ کا نکاح بھی کل ہے اور ایمل کے ساتھ ہی رخصتی بھی ہے۔۔۔
کیا اس حسنین بندر کے ساتھ میری شادی ۔۔۔۔
عنایہ شاکڈ کے عالم میں چیخی جب سب پہ نظر پڑی تو منہ کو بریک لگی پھر سب سے نظریں چراتی وہ کمرے سے باہر بھاگ گئی۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
اسی بھاگ دوڑ میں وہ دن بھی آ پہنچے جب کل رخصتی ہونی تھی آج عنایہ کا نکاح تھا تو سب کے اصرار پر بچوں کی مہندی کی تقریب بھی رکھی گئی۔۔۔
کچھ ہی دیر پہلی عنایہ اور حسنین کا نکاح پڑھوایا گیا وہ دونوں بھی ایک دوسرے کے نام لکھ دیے گئے حسنین کی خوشی تو دیدنی تھی اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے اسے عنایہ مل جائے گی اس نے سوچا بھی نہیں تھا جو کچھ ہو گیا تھا واقعی یہ اس کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔۔۔
عنایہ نکاح کے بعد کمرے میں واپس چلی آئی تاکہ مہندی کی نسبت سے کپڑے تبدیل کر لے ،،، وہ جیسے ہی دروازہ لاک کرنے کے لیے مڑی سامنے ہی حسنین کھڑا مسکرا رہا تھا ۔۔۔
حسنین نے اندر آتے ہی دروازہ بند کیا اور قدم قدم چلتا اس کے قریب ہو رہا تھا جبکہ عنایہ شرم و حیا سے سرخ پڑتی اپنے قدم پیچھے کو لے رہی تھی ۔۔۔
شکریہ ! میری زندگی میں آنے کے لیے مجھے اپنا آپ سونپنے کے لیے میں کوشش کروں گا تمہیں میری ذات سے کبھی کوئی تکلیف نہ ہو ۔۔۔ حسنین ہلکی سی سرگوشیاں کرتا اس کے گرد اپنا طلسم باندھتا اس کے ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگا۔۔۔
آ،،،آپ جائیں یہاں سے کوئی آ جائے گا پلیز ابھی آپی آتی ہوں گی مجھے لینے اگر کسی نے آپ کو یہاں دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے سب ہمارے بارے میں۔۔۔
یہی سوچیں گے کہ لؤی ڈوی کپل ہے انہیں تنگ نہیں کرنا چاہیے سپیس دینی چاہیے ۔۔۔
عنایہ بات کر رہی تھی جب حسنین نے اس کی بات اچک لی۔۔۔
عنایہ مہرون ریڈش کلر کے ڈریس میں سمپل سی تیار ہوئی بھی بہت پیاری اور دل دھڑکا دینے کی صلاحیت رکھتی تھی اس کا یہ روپ حسنین کو بہکنے پر مجبور کر رہا تھا ۔۔۔ حسنین نے بے اختیاری میں آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر محبت بھرا بوسہ دیا ۔۔۔
میں نے کچھ نہیں دیکھا دیور جی ،،، ایمل جو عنایہ کو لینے آ رہی تھی حسنین کو عنایہ کے ساتھ دیکھ وہ اپنی آنکھوں پہ شرارت سے ہاتھ رکھ گئی۔۔۔
عنایہ اور حسنین دونوں چونکے عنایہ بوکھلا کر پیچھے ہونے لگی تو پاؤں مڑنے کی وجہ سے گرنے لگی جب حسنین نے اسے بروقت سنبھال لیا۔۔۔
اوکے ،،، اوکے میں جا رہی ہوں آپ دونوں آرام سے نیچے آ جائیے گا میں زرا انابیہ کو دیکھ لوں وہ تیار ہو گئی کہ نہیں ۔۔۔ ایمل ہنستی ہوئی ان دونوں کو وہیں چھوڑے کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔۔
ایمل انابیہ کے روم میں جا رہی تھی جب سامنے ہی ایکدم کمرے سے نکل کر حسان آ کھڑا ہوا۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہو ،،، ایمل ییلو اور ریڈ کلر کے شرارے میں اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ حسان چاہ کر بھی نظریں نہیں پھیر سکا وہ جانتا تھا ایمل ابھی تک خفا ہے اس سے وہ بس اپنے دادا جان کے کہنے پہ یہ رخصتی کروا رہی ہے تاکہ ان کی دل آزاری نہ ہو۔۔۔
ایمل کوئی بھی ری ایکشن دیے بغیر سائیڈ سے ہوتی انابیہ کے پاس چلی گئی پیچھے وہ سرد آہ بھر کر رہ گیا ،،، اس نے سوچ لیا تھا اب وہ رخصتی کے بعد ہی اسے منانے اس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا فریضہ سر انجام دے گا۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ماشاءاللہ انابیہ تم بہت پیاری لگ رہی ہو میری جان ،،، ایمل جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی انابیہ ڈریسنگ مرر کے سامنے بالکل تیار بیٹھی آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی ۔۔۔
وہ دھیما سا مسکرا دی وہ ابھی رخصتی نہیں کرنا چاہتی تھی لاکھ احتجاج کے باوجود بھی اس کی ایک نہ سنی گئی تبھی وہ کچھ افسردہ سی دیکھائی دے رہی تھی ۔۔۔
انابیہ تم پریشان نہ ہو باسم بھائی بہت اچھے اور لونگ کے ساتھ ساتھ کئیرنگ بھی ہیں تم بہت خوش رہو گی ان کے ساتھ ،،، ایمل اسے رسان سے سمجھاتی باسم کی طرف سے اس کا دل صاف کر رہی تھی ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں گارڈن میں کیے گئے انتظام میں ہل چل سی مچی قریبی لوگوں کا آنا جانا شروع ہو گیا ۔۔۔تینوں جوڑیاں اپنی پوری آب و تاب سے چمکتی دمکتی چھائی ہوئی تھیں ہر کسی کی نگاہ کا مرکز وہ تینوں کپل تھے جو ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہے تھے ۔۔۔
حسان اور ایمل سنجیدہ سے بیٹھے بظاہر مسکرا رہے تھے ،،، باسم انابیہ کا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ حسنین بس عنایہ کو تنگ کرنے میں مصروف تھا تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ کوئی شوشا چھوڑتا جس پر عنایہ سٹپٹا جاتی ۔۔۔
بونی یار موڈ ٹھیک کر لو اب تو میں نے کچھ نہیں کیا سب ٹھیک ہو رہا ہے تو تم بھی نارمل ہو جاؤ رخصتی کا فیصلہ میرا نہیں دادا جان کا تھا ۔۔۔
یہ پل واپس نہیں آئیں گے اس لیے ناراضگی بھلا کر موڈ ٹھیک کر لو اور انجوائے کرو یار اور اپنے اس شوہر نامدار کو معاف کر کے ایک موقع دو اپنی غلطی سدھارنے کا۔۔۔
باسم نے انابیہ کا اداس چہرہ دیکھ کر اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن دوسری طرف مکمل خاموشی کا راج تھا ۔۔۔
باسم سرد آہ بھر کے رہ گیا رخصتی کے بعد منانے کا سوچتے فی الحال وہ بھی چپ کر کے باقی سب کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔۔
سب بڑے ایک ٹیبل پر بیٹھے اپنے بچوں کو دیکھ رہے تھے سب مطمئن تھے کہ اب ان کے بچوں کی زندگی میں سدھار آ جائے گا جو بھی ان کے بیچ تلخی ہے شاید کم ہو جائے۔۔۔
ایک دم لائٹ بند ہوئی تو سپاٹ لائٹ حسنین اور عنایہ پہ آ ٹھہری۔۔۔
حسنین نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی عنایہ کے آگے پھیلائی جسے کچھ حیرانگی اور تھوڑی جھجک کے بعد عنایہ نے تھام لیا۔۔۔
وہ اس کو مضبوطی سے تھامے سٹیج سے نیچے لے آیا اور ڈی جے کو مخصوص اشارہ کیا تو گانے کے بول فضا میں گونج اٹھے۔۔۔
دہلیز پہ میرے دل کی جو رکھے ہیں تو نے قدم
تیرے نام پہ میری زندگی لکھ دی میرے ہمدم
نہ سیکھا کبھی جینا جینا کیسے جینا جینا
ہاں سیکھا میں نے جینا میرے ہمدم
وہ عنایہ کو لیے ہلکے ہلکے سے سٹیپ لے رہا تھا جو شرم سے دوہری ہوتی جا رہی تھی ،،، حسان نے ایمل کی طرف دیکھا یہ بول تو اس کے دل کی ترجمانی بھی کر رہے تھے لیکن ایمل نے حسان کی طرف دیکھنے سے گریز کیا ۔۔۔۔
سچی سی ہیں یہ تعریفیں
دل سے جو میں نے کری ہیں
تو جو ملی ہے سجی ہے
دنیا میرے ہمدم
او آسماں ملا زمین کو میری
آدھے آدھے پورے ہوئے ہیں ہم
تیرے نام پہ میری زندگی
لکھ دی میرے ہمدم
نہ سیکھا کبھی جینا جینا کیسے جینا
ہاں سیکھا میں نے جینا میرے ہمدم
حسنین نے اسے نگاہوں کے حصار میں رکھتے اسے بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا حسنین اتنا رومانٹک نکلے گا اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔
عنایہ نے حسنین کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ کھو سی گئی۔۔۔
گانا ختم ہوتے ساتھ ہی سب نے بھرپور تالیاں بجائیں تو وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے عنایہ تو شرم کے مارے اندر بھاگ گئی جبکہ حسنین ڈھیٹوں کی طرح ہنستے سب سے داد وصول کرنے لگا۔۔۔۔
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Qaid E Yaram Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Qaid E Yaram written by Ayma Mughal.Qaid E Yaram by Ayma Mughal is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment