Pages

Tuesday, 5 November 2024

Mohabbat Ya Vani Romantic Novel by Habza Maqsood Complete

Mohabbat Ya Vani Romantic Novel by Habza Maqsood Complete  

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mohabbat Ya Vani Romantic Novel by Habza Maqsood Complete 

Novel Name: Mohabbat Ya Vani

Writer Name: Habza Maqsood

Category: Complete Novel

(حال)

نواب کریم کا قتل تم نے کیا ہے ۔۔اور خون بہا بھی تم ہی دو گے مجھے اپنے کسی بھی کام میں شامل کرنے کا سوچنا بھی نہ ۔۔۔

آفریدی خان کا پارا ہائی ہو گیا تھا ایک دم سے ۔ ۔۔۔

بابا ! مگر!!!!!

 میری بیٹی ابھی بس دس سال کی ہے کیسے پیش کر دو اسے میں "خون بہا" میں 

مطلب کیا ہے تمہارا بابا ہانیہ کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔۔۔

اگر پھر کبھی اپنے گناہ کی سزا میری معصوم بچی کے سر ڈالنے کی کوشش کی تو جان نکال دو گا سمجھ لگی ۔۔۔

أفریدی خان بلند آواز میں بولے اور مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کیا ۔۔

خان صاحب اس وقت بے بسی کی انتہا پر تھے ۔

کیوں کے بات اپنی بیٹی پہ آ رہی تھی ۔بیٹی بھی وہ کے جسے آج تک کسی بھائی نہ اپنے ہونے کا مان نہیں دیا تھا ۔۔۔

بابا جان دیکھے آپ کو اپنی بیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔

بیٹے کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی خان صاحب نے بول دیا تھا 

"خبر دار ' زبان کھینچ لو گا اگر میری بیٹی کا نام لیا بھی تو "

تو کیا میں قتل ہو جاؤ یہ پھر اپنی دس سالہ بیٹی پیش کر دو "

یہ بات قتل کرنے سے پہلے سوچنی تھی ۔

اب تم قتل ہو جاؤ یہ تمہاری بیٹی جاۓ مجھے کوئی پروا نہیں ہے """

دو باپ ایک دوسرے کے مقابل ڈٹ چکے تھے ۔۔

"حالانکہ ان کا رشتہ باپ بیٹا کا تھا مگر اس وقت دونوں کو اپنی اپنی اولاد کی پڑی تھی دونوں ایک دوسرے کے کیا لگتے ہے دونوں ہی نظر انداز کر رہے تھے "

ایک کو پوتی کا احساس نہیں ہو رہا تھا اور دوسرا اپنی بہن کو بہن نہیں قربانی کا بکرا سمجھ رہا تھا ۔۔۔

بابا جان ۔۔۔۔۔۔

"تم چپ کر جاؤ اب !یہ میری بیٹی کا معاملہ ہے تمہاری بیٹی کا نہیں "

"وہ بپھر گے تھے"

میری بیٹی میرے لئے کیا ہے یہ بس میں جانتا ہو ؟؟؟؟

تم سب کے لئے تو وہ ایک "منحوس" لڑکی ہے جس کا وجود بھی تم لوگ اس حویلی میں گوارا نہیں کرتے ۔۔۔

"جس کی سلام کا جواب دینا تم لوگ گناہ سمجتھے ہو "

یاد ہے جب تمہارا بیٹا ہوا تھا کیسے میری بیٹی کی گود سے "چھینا" تھا تم نے ۔۔۔

یاد کرو اپنے الفاظ 

"تم خود تو منحوس ہو اپنی منحوسیت میری اولاد پہ مت ڈال دینا "

یہ الفاظ تم نے ادا کیے تھا جو میری بیٹی کی روح تک کو زخمی کر گے تھے ۔۔۔

خان صاحب آج سارا حساب بے باق کرنے کو تیار تھے ۔۔۔ان کے سامنے کسی کی دال نہیں گل سکتی تھی اب ""

_________________________

(ماضی)

اچھا بات سنو ہانی یار یہ ساتھ والے ڈیپارٹمنٹ  میں جو لڑکا آیا ہے ۔۔۔۔

یہ تو کسی بھی لڑکی کو منہ ہی نہیں لگاتا بہت اکڑو ہے ۔۔۔

چھوڑو سحر یار بس چند دنوں کی مار ہے یہ لڑکا بھی ۔۔۔

اچھا چلو زیادہ نہیں تو بس ایک لنچ کر کے دکھاؤ اس کے ساتھ 

اوہ تو میں یہ چلینچ سمجو یا پھر مزاق 

چلینچ سمجو  مزاق کا نام دے رہی ہو ڈر گئی کیا؟؟؟؟؟؟؟

ڈرتی میں کسی سے بھی نہیں بہت اچھی طرح جانتی ہو مجھے ۔۔۔۔

جی جی بلکل اب بس میری یہ بات پوری کر کے دکھاؤ ذرا ۔۔۔

اگر پوری کر دی تو ؟؟؟؟؟؟

تو جو تم کہو !!!!

مجھے تم سے کوئی امید نہیں !!!!

مگر یار چلینچ پورا کرو گی تو کچھ تو حق بنتا ہے نہ تمہارا !!!

ہاں یہ تو ہے 

چلو تین دن کا ٹارگٹ ہے 

اچھا ؟؟؟؟؟

پھر بیس ہزار کیش اور بندھو خان میں ڈنر دے دو گی کیا ؟؟؟؟

ہے تو بہت زیادہ مگر چلو تمہاری جیت کا امكان بھی تو بہت کم ہے ۔

میں تو آج جا رہی ہو دو دن کی چھٹی پہ گھر پیچھے تم اپنا کام شروع کر سکتی ہو ۔۔

بات لنچ تک سہی ہے یہ اس سے آگے بھی کچھ ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔

نہیں جی بس لنچ تک ہی سہی ہے ۔۔۔۔

سحر اٹھ کر چلی گئی روم میں ہانی پیچھے سوچنے لگی کے اس لڑکے کو کیسے اپنے چکر میں لاؤ ۔ 

ہانی اور سحر بہت اچھی دوستیں تھی ۔۔۔

دونوں پڑھائی کے سلسے میں ہوسٹل میں مقیم تھی ۔۔۔

سحر پنجابی فیملی سے اور ہانی پٹھان فیملی سے تھی ۔۔۔

سحر جتنی آزاد تھی گھر باہر سے ہانی اتنی ہی پابندیوں میں جکڑی ہوئی تھی ۔۔۔

یہی وجہ تھی کے ایک دو دن کی چھٹی پہ سحر گھر چلی جاتی اور ہانی ہوسٹل ہی میں رہنا پسند کرتی ۔ ۔۔۔۔

کیوں کے گھر میں تین بھائی اور ان کی بیویاں  تھی ۔ 

بڑے بھائی کے دو بیٹے  اور ایک بیٹی تھی ۔۔۔

اس سے چوٹھے کے چار بیٹے تھے اور سب سے چھوٹا ابھی منگنی شدہ تھا ۔ 

اوہ میں کیا سوچنے لگ گئی ہو مجھے تو اس لڑکے کا بارے میں کچھ باتیں پتہ کرنی ہے ۔۔۔

مگر کیسے پتہ کرو ۔۔۔

یہی سوچ تھی ابھی کے وہی سامنے سے آتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔

ہانی بھی جلدی سے اسی سمت چل پڑی ہانی جان بوجھ کر ٹکراتے ٹکراتے بچی مگر اپنی کتابیں جان بوجھ کر نیچے گرا دی ۔ ۔۔

کچھ نوٹس اس لڑکے کے بھی نیچے گر گے ہانی نے جلدی جلدی میں اپنی پرسنل ڈائری  اس کے نوٹس میں رکھ دی اسی امید کے تخت کے ہو سکتا ہے اسی طرح کوئی رابطے کی کوئی امید نکل آتی ۔۔۔۔

نوٹس اسے پکڑا کر بہت تیزی سے چل پڑی کہی اس کی نظر اس رکھی گئی ڈائری پر  ہی نہ پر جاۓ ۔ ۔ ۔۔

______________________

(حال )

اور بابا جان سوچ میں پڑ گے تھے کے جس بہن سے قربانی چاہ رہا ہے اسے کبھی بھائی ہونے کا تحفظ تو دیا نہیں ۔ ۔۔۔

سحر کے گھر نہ جانے کی اصل وجہ اس کے اپنے بھائی تھے ۔۔ 

جو اسے منحوس سمجھ کر سلام کا جواب تک دینا گوارا نہیں کرتے تھے ۔ ۔۔ ۔۔۔

کیوں کے سحر کی پیدائش کے چند گنٹھوں بعد ہی  ان کی ماں اس دنیا سے رخصت ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔

اسی دن سے اس معصوم اور نہ سمجھ بچی کو اس کے اپنے ہی بھائی منحوس کے نام سے پکارنے لگے ۔۔

بابا جان تھے جو پیار کرتے ورنہ اور کوئی ایسا نہیں تھا جو اسے سمجھ سکتا ۔۔

بڑتی عمر کے ساتھ ساتھ جب کوئی بھی بدلاؤ نہیں آیا بہن کے لئے تو بابا جان نے ہانی کو ہوسٹل بیج دیا 

اپنی ماں اپنے بھائی اور خاندان والوں سے ٹکر لے کر یہ فیصلہ کیا تھا کیوں کے آج تک کسی لڑکی کو میٹرک  سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔ 

لیکن ہانی ادھر رہتی تو اپنی ذات میں گم ہو جاتی یہ کوئی موذی مرض میں مبتلا ہو جاتی جو ان کو بلکل گوارا نہیں تھا ۔ 

اس لئے کسی کی پروا کیے بنا ہوسٹل بیج دیا جہاں آ کر ہانی کی طبیعت پہ بہت اچھا اثر ہوا تھا اور اس کی ذات میں خود اعتمادی ضرورت سے زیادہ بڑہ گئی تھی 

جو اس کی ذات کے لئے بہت بری ثابت ہونے والی تھی ۔ ۔۔ 

_______________________

(ماضی) 

اور ہانی کی ترکیب کامیاب ہوئی تھی دوسرے ہی دن وہ لڑکا ہانی کو ڈھونڈ رہا تھا کے اس کی ڈائری اسے دے دو ڈائری لاک تھی کوئی نمبر ہو سکتا لکھا ہو "

پر وہ کھول نہیں سکتا تھا ""

اسی لئے پوری یونیورسٹی میں اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا !!!

آخر کامیاب ہو ہی گیا ۔۔

وہ بلکل ایک الگ اور پرسکون گوشے میں بیٹی اپنی پڑھائی کر رہی تھی دور سے وہی لگ رہی تھی ۔۔۔۔

قریب جا کر یقین ہو گیا کیوں وہ سیم کل کے حلیہ میں بیٹھی تھی ۔۔۔

ہیلو !!!!

"مس کل آپ مجھ سے ٹکرا گئی تھی "

جی کب ؟؟؟؟؟

کل !!!!

ہانی جان بوجھ کر انجان بن رہی ....

مگر ۔۔۔۔۔

دلشاد تو ہانی کی آنکھوں میں کھو گیا تھا اتنی حسین اور گہری آنکھیں اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔۔۔

چند لمحہ یوہی گزر گے ہانی کو خود ہی بولنا پڑا جی کوئی کام تھا کیا ۔۔

جی جی وہ کل آپ کی ڈائری غلطی سے میرے پاس رہ گئی ۔۔

اوہ گاڈ تھنک یو سو مچ بہت ضروری ڈائری ہے یہ میری شکر ہے ۔۔۔

کوئی بات نہیں اپ کی چیز تھی اپ کو لوٹا دی 

اچھا پھر آپ کا لنچ یہ ڈینر تو بنتا ہے نہ ۔۔

نہیں نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔

کیوں ؟؟؟؟

ایک ذرا سی ڈائری تو تھی ۔۔

اپ کو نہیں پتہ بہت قیمتی ہے یہ  ۔۔۔

اچھا اپ کا نام ؟؟؟

دلشاد خان ۔۔۔

اوہ میں بھی خان ہو ۔۔

اور نام ؟؟؟

نام ہانیہ مگر پیار دوست ہانی بولتے ہے آپ بھی بول سکتے ہے ۔۔

اچھا تو آپ کس ڈپارٹمنٹ سے ہے ؟؟؟

بی_ایس_آنرز_سی_ایس_أئی_ٹی_ڈپارٹمنٹ لاسٹ ایئر۔ ۔۔

اوہ گڈ ۔۔

ویسے میں اپنا بزنس کرتا ہو ساتھ ساتھ اسٹڈی ۔۔

اپ رہتے کہا ہے ۔۔

فلحال  میں ادھر ہی رہتا ہو مگر آبائی گاؤں میں فیملی ہے میں ادھر تنہا رہتا ہو بزنس کے سلسلے میں ۔۔۔

اچھا ۔(کل سحر آ جاۓ پھر کل ہی کا کہو اسے ورنہ وہ یقین نہیں کرے گی) ہانی دل ہی دل میں سب ترتیب دے رہی تھی ۔۔

کیا ہم کل ساتھ چائے یہ لنچ پہ ساتھ چل سکتے ہے ۔۔

دلشاد اتنا دل پھینک قسم کا تھا تو نہیں مگر ہانی تھی ہی ایسی ۔۔

آنکھیں ایسی تھی کے دل کرتا تھا دیکھتے رہو ۔۔۔

رنگ دودھ سے بھی سفید اور گال ایسے جیسے سرخ رنگ ڈال دیا ہو ۔۔گٹھنوں سے نیچے جاتے بال ۔۔پانچ فٹ سے نکلتا ہوا قد ۔۔

ہر طرح سے حسین تھی یہ لڑکی ایک پل میں ہی دل کے تار چیر گئی تھی ۔

پتہ نہیں کتنے پل بےخود سا دیکھتا جا رہا تھا 

ہانی نے اس کے سامنے ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کیا ۔

تو ایک دم سے شرمندہ ہو گیا مگر پھر خود پہ کنٹرول کر کے موبائل نمبر لے کر اپنی راہ لی ۔۔

ہانی چلینچ پورے ہونے پہ جہاں خوش تھی مگر دل میں کہی خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی جسے وہ اپنی خوشی میں نظر انداز کر رہی تھی ۔ ۔۔

(ماضی)

دلشاد ہانیہ ہی کے علاقے سے تھا مگر ہانی انجان تھی ۔۔۔

کیوں کے وہ کبھی اپنی حویلی سے باہر نہیں نکلی تھی ۔۔۔

دلشاد تین بھائی تھے ۔۔۔

چار سال پہلے اپنا بزنس اور اپنی پڑھائی چھوڑ کر گاؤں چلا گیا تھا ۔

اپنے بابا جان کی موت کی وجہ سے اور اب حالات کچھ بہتر ہوۓ تو اپنے ادھورے کام مکمل کرنے کے لئے لوٹ آیا تھا ۔۔۔

اپنے کام سے کام رکھنے والا انسان پتہ نہیں کیوں ہانیہ کو مسلسلہ سوچتا جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کیا کوئی لڑکی اتنی حسین بھی ہو سکتی ہے ۔ 

اب سمجھ آ رہی تھی ۔۔

"اک نظر کی محبت یوں ہو جاتی ہے "

محبت کو فضول بولنے والا خود اس میں گرفتار ہو چکا تھا ؟؟؟؟؟

دلشاد ایسا تھا کے اسے دیکھ کر کوئی بھی لڑکی اپنی زندگی ہار سکتی تھی ۔۔۔۔

مجسم "غرور" دکھتا تھا ۔۔

وہ تھا ہی ایسا کے سامنے والے چپ کے چپ رہ جاتے تھے ۔۔۔

مگر وہ خود ایک ذرا سی لڑکی کے سامنے سب کچھ ہر گیا تھا ۔۔۔

خدا کی اس قدرت پہ جتنا حیران ہو رہا تھا کم تھا ۔۔۔

تار تو ہانی کے دل کے بھی بجے تھے مگر وہ تو ایک "چیلنچ" پورا کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔۔۔

مگر قسمت نجانے کیا چاہ رہی تھی ۔۔۔

_____________________

(حال)

بابا جان !!!

ہانی کی وجہ سے بہت زیادہ غیر مطئمن ہو چکے تھے ۔۔

انہوں نے ہانی کو اپنے پاس حویلی بلا لیا تھا ۔۔

وہ خود کافی زیادہ پریشان تھی پتہ نہیں کیوں دل بہت زیادہ بوجھل ہو رہا تھا پھر بابا جان کی طبیعت خرابی کا سن کر رہ نہیں سکی اور بابا جان کے ایک دفعہ بولنے پہ گاؤں آ گئی ۔۔۔۔

پہلی بار اسے ادھر آ کر سب ہی چپ چپ اور غمگین محسوس ہو رہے تھے ۔۔

ورنہ جب بھی آتی تو اور کچھ نہ سہی اپنے لئے نفرت ضرور دیکھ لیتی سب منہ پھیرتے "خاص کر بڑی بھابھی تو اپنے بچو کو اس کے پاس بھی نہیں انے دیتی تھی "

اس دفعہ تو بچے بہت دفعہ اس کے پاس اور یہ بچو کے پاس ہوتی۔۔۔

بھابھی تو کیا بھائی بھی چپ چپ سا تھا ۔

بابا جان خیریت تو ہے نہ سب ٹھیک تو ہےنہ ؟؟؟

وہ ان کے کمرے میں ان کے پاس کندھے پہ سر رکھ کر بیٹھی تھی (یہ انداز اس کا سب زیادہ لاڈلا تھا)

بابا جان کے مطابق تمہارے بڑے بھائی سے "قتل"ہو گیا ہے ۔۔۔

کیا !!!!

ہانی کو بہت شاک لگا تھا یہ سن کر ۔۔۔

بیٹا تم کیوں پریشان ہو رہی ہو ۔۔۔

جس نے یہ سب کیا ہے وہی بھگتے گا "خون بہا "میں خود قتل ہو یہ "اپنی بیٹی دے مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ۔۔۔

مگر بابا جان "ہالے  بہت چھوٹی ہے وہ کیسے جا سکتی ہے خون بہا میں ۔۔۔۔

تو پھر خود قتل ہو جاۓ میری بلا سے ۔۔۔

مگر بابا جانی ؟؟؟؟

ہانی چپ کر جاؤ کوئی بات نہ کرنا ہمارا کوئی تعلق نہیں اس سے چاہے وہ میرا بیٹا ہیں "مگر اس دفعہ مجھ سے کوئی امید نہ رکھے "

ہانی چپ کی چپ رہ گئی تھی بابا جانی کو ایسے سخت رویے میں پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی ۔ ۔۔

بابا سو گے تو وہ خود بھی سونے کے لئے آ گئی ۔۔۔

ابھی سونے کا سوچ ہی رہی تھی کے "ادا "(بڑے بھائی نے آواز دی) ہانیہ اٹھی ہو کیا ۔۔

کچھ پل تو "یقین "ہی نہیں ہوا کے ادا نے اسی کو پکارا ہے ۔۔۔

دوسری آواز پہ اٹھی اور دروازہ کھولا ادا اپ کو کیا ضرورت تھی ۔۔

انے کی مجھے بلا لیا ہوتا میں آ جاتی ۔۔۔

نہیں ہانیہ ۔۔۔۔

"پیاسا کنواں کے پاس آتا ہے کنواں تھوڑی نہ پیاسا کے پاس جاتاہے "

کیا مطلب ادا۔۔۔

 دیکھو ہانی غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے نہ ۔۔۔

ہانی چپ تھی ۔۔

ہانی بولو نہ ؟؟؟؟

جی ادا انسان تو ہے ای خطا کا  پتلہ ہے ۔۔۔

تو بس ہانی مجھ سے غلطی ہو گئی میری وہ غلطی تم سدھار سکتی ہو ۔۔۔

ادا وہ کیسے ؟؟؟

دیکھو اگر میں خود کو پیش کر دو تو میرے بچو کا کیا ہو گا اور اور اگر میں اپنی بیٹی دو تو وہ بس دس سال کی ہے کیسے اس پہ ظلم کا پہاڑ توڑ دو ۔۔۔۔

نہیں ادا نہیں یہ دونوں باتیں ہی نہیں ہو سکتی "نہ اپ نہ ہی ہالے  " 

اپ ان کو پیسوں کی اوفر کرے ہالے  بہت چھوٹی ہے ۔۔۔

نہیں وہ پنچایت فیصلہ سنا چکی ہے یہ تم جاؤ گی یا ہالے "

ادا میں؟؟؟؟؟؟

ہاں !!!!

مگر میرا کیا قصور ہے ۔۔۔

قصور تو ہالےکا بھی کوئی نہیں قصور وار تو میں ہو نہ مگر مجھے کوئی سزا دینے کو تیار ہی نہیں میں تو بے بس ہو مگر بابا جان کوئی ساتھ نہیں دے رہے ۔۔۔

پہلی دفعہ تینوں میں سے کسی بھائی نے اتنے پیار سے سر پڑ ہاتھ رکھ کر پیار سے کچھ مانگا تھا کیسے انکار کرتی ۔۔۔۔

بھائی مجھے کچھ وقت دے ۔۔۔

نہیں ہانی وقت بہت کم ہے اگر تم نہ مانی تو پھر میں "ہالے  دے دو گا خون بہا میں ""

_____________________

(ماضی)

سحر کل سے تمہارا انتظار کر رہی ہو ۔۔۔

ہاں تو میں بتا کے تو گئی تھی کے دو دن کے بعد واپسی ہو گی ۔۔

ہاں یار مگر خوشی میں وقت کٹ نہیں رہا تھا ۔۔۔

یار چیلنچ پورا کرنا تھا آج دوپہر کا وقت دیا ہے یونی سے فری ہو کر چلنا ہے ہم دونوں نے ۔۔۔۔

اچھا بھئ بہت دل پھینک قسم کا نکلا لگ تو نہیں رہا تھا ایسا کے اتنی جلدی مان جاۓ گا ۔.  

چلو تم اپنی "ہار "تیار رکھو ۔۔

ہاں جی !!!

اپ کے حسن کے سامنے وہ ہار گیا " مجھے کیا پتہ تھا ورنہ اتنی شرت لگانے سے پہلے سوچ لیتی ۔۔۔

چلو اب تو لگا بھی لی اور ہار بھی گئی ؟؟؟؟

چلو یار کوئی نہیں ۔۔

دونوں طرف فائدہ تمہارا ہی ہے ۔۔

لنچ ساتھ کیا تینوں نے مگر دلشاد کو برا لگ رہا تھا یوں سحر کا ساتھ انے پہ مگر کیا کہ سکتا تھا ۔۔۔

کھانے سے فری ہوتے ہی دلشاد نے خود ہی بول دیا ہانی کل میرے آفس آنا مجھے خوشی ہو گی ۔۔۔

مم ۔۔۔۔مم ۔۔مگر ؟؟؟؟؟

ہانی کو بوکھلاتا دیکھ کر سحر جلدی سے بولی جی جی بلکل آ جاۓ گے اگر آپ ہمارے کہنے پہ آ سکتے ہے تو ہم بھی آئے گی ۔۔

جی مگر میں اپ کو نہیں "جسٹ"ہانی کو انوئیٹ کر رہا ہو ۔۔۔

جسٹ پہ ذرا زور دے کر بولا تو سحر ذرا شرمندہ ہو گئی ۔۔۔

اور ہانی کے لبوں پہ پہلے ہنسی پھر سنجیدگی  آئی ۔۔۔

دیکھے پہلے نمبر پہ میں نہیں آ سکو گی سحر کے بنا کیوں کے مجھے بلکل بھی اجازت نہیں ہے ۔۔۔

اج بھی ہم ضرور شوپنگ کا بہانہ کر کے آئی ہو ۔۔۔

سوری بات جسٹ آج کی ہوئی تھی میں آئی گی ۔۔۔

اگین ہم نہ ملے تو ہی بہتر ہے ۔۔

دیکھے اپ اپنی دوست کو ساتھ لے آئے مگر ایک دفعہ آ ضرور جاۓ میری خوشی کے لئے ۔۔

مگر ؟؟؟؟؟

اگر مگر کچھ نہیں اپ نے آنا ہے اور ضرور آنا ہے ۔۔۔

اپنا نمبر دے دے ۔۔۔

میری فیملی کے علاوہ کسی کے پاس میرا نمبر نہیں جا سکتا سوری ۔۔۔۔

اپ اپنا نمبر دے دے (سحر بولی) میں اپنے نمبر سے کال کر لو گی جب اپ بولے گا ہم آ جاۓ گی مگر بس آخری دفعہ اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہو گا ۔۔۔۔

اوکے یہ لے میرا نمبر اور اپنا دے تا کہ مجھے پتہ تو ہو کس کا نمبر ہے ۔۔۔

نمبر کا تبادلہ ہوا ۔۔

دلشاد کو دکھ تو تھا ہانی کے نمبر نہ دینے پر لیکن چلو شکر ادا کیا کے چلو سحر کا ہی سہی کوئی رابطہ کا ذریعہ تو ملا ۔۔۔۔

ادھر سے اٹھتے ہی ہانی سحر کو بولنے لگ گئی کیا ضرورت تھی نمبر لینے اور دینے کی ۔۔۔

یار کوئی بات نہیں بندا برا نہیں ۔۔۔

مگر سحر تم جانتی ہو نہ میں اس طرح کوئی کام نہیں کر سکتی ۔۔۔

کوئی فضول نہیں بس تھوڑا بہت تفریح کا سامان ہیں یار ۔۔

دلشاد نے ان کے باہر نکل جانے تک ہانی کو اپنی نظروں میں سموئے رکھا ۔۔۔

دونوں نکل چکی تھی دلشاد بھی جانے کے لئے اٹھا مگر اپنے سامنے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر ٹھٹک گیا ۔۔۔

عادل تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔

اچھا جی اپنی خفیت مٹانے کے لئے مجھ پہ غصے ہونے لگے ہے ۔۔۔۔

دلشاد کو سمجھ نہیں لگ رہی تھی کیا کہو ۔۔

یار وہ بس ویسے ہی !!!

نہیں بھائی میں بلکل نہیں مانو گا بتاؤ مجھے "ان دونوں میں سے آپ کے والی کونسی ہے "

ایسا کچھ بھی نہیں !!!

بھائی آپ مجھے نہیں ٹال سکتے بولے بھی ؟؟؟؟

"بلیک ڈریس میں جو تھی وہ "

اوہو بھائی اسی لئے گاؤں انے کو دل نہیں کرتا ۔۔

نہیں یار وہ تو چند روز پہلے ہی یونی میں ٹکرا گئی ۔۔

اور ایک ہی نظر میں اچھی لگ گئی ہے وہ تو ابھی کچھ جانتی ہی نہیں سوچ رہا ہو کیسے بتاؤ اسے کچھ سمجھ نہیں للگ رہی ۔۔۔

جیسے مجھے بتایا ویسے ہی اسے بھی بتا دے مگر ؟؟؟

خیر چھوڑو تم بتاؤ تم یہاں کیسے وہ دوست ہے نہ میرا اس نے پارٹی دی تھی۔۔۔۔

میرے آسٹریلیاں جانے کی تو یہ وقت ہو گیا ادھر ادھر گومتے اس لئے سوچا دوپہر کا بھی کھا لو پھر ہی واپس نکلتا ہو ۔۔۔

پرسو نکلنا ہے میں نے آسٹریلیاں کے لئے تو میں سوچا مل لو سب سے پھر وقت نہیں ملے گا ۔۔۔۔

اوہ اچھا کیا یاد کروا دیا کل میں بھی گھر آ جاؤ گا ۔۔۔

ویسے یار تم نہ جاتے تو اچھا تھا ۔۔

چلے کوئی بات نہیں اب تو ساری تیاری ہو چکی ہے ویسے بھی دو سال کی ہی تو بات ہے پھر آ ہی جانا ہے ۔۔۔

اچھا اب جلدی سے نکل جاؤ واپس وقت پہ رات نہ ہو جاۓ ۔۔۔

اچھا فی امان اللہ ۔۔۔

مگر سب سے پھلے گھر والوں میں سے میں بھابھی سے میں ملو گا ۔۔۔۔

اچھا یار مل لینا میرا تو سیٹ اپ ہو لینے دو پورا ۔۔۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے ابھی سیٹ اپ نہیں ہوا پھر دو سال کے بعد آ لو پھر ہی بات شادی تک لے کے جانا سمجھ لگی ۔۔۔۔

اچھا یار سہی ہے ۔۔۔

خود ہی بول کر خود ہی قہقہ لگا گیا ۔۔۔

فی امان اللّه 

دلشاد کو اپنے بھائی اپنی جان سے بھی بڑہ کر تھے ۔۔۔

________________

(حال)

ادا صبح تک میں بابا جان سے بات کر لو پھر ہی کچھ کہو گی ۔۔۔

بابا جان تو صاف انکار کر دے گے ہانی ۔۔

مگر میں خود سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ادا خدا کے لیے سوچنے دے مجھے کچھ ۔۔

دل ہی دل میں بہت غصہ آ رہا تھا ہانی پہ مگر مجبوری تھی کچھ بول بھی نہیں سکتے تھے ۔۔۔۔۔

چلو سہی سوچ لو پھر ۔۔

ادا چلے گے مگر ہانی کی ساری رات آنکھوں میں کٹی کچھ سمجھ نہیں لگ رہا تھا کرو تو کیا ۔۔۔۔

صبح ناشتے کی میز پر ہی ادا نے بول دیا بابا جان اگر آپ اپنے فیصلہ میں کوئی گنجائش نہیں کر سکتے تو سہی ہے ۔۔۔۔

میں اپنی بچی "خون بہا" میں دے رہا ہو میں مزید قیدی بن کر گھر نہیں رہ سکتا ۔۔

یہ الفاظ بولتے ہوا کن آنکھوں سے ہانی کو دیکھ رہا تھا اور دل دعا کر رہا تھا ۔۔۔

کاش ہانی خود تیار ہو جاۓ ۔۔۔

مگر ادا اپ کی بیٹی بہت معصوم سی بچی ہے "یہ ہم سب جانتے ہے کے ونی ہونے والی لڑکیوں کے ساتھ کیا رویہ رکھا جاتا ہے پھر اپ کیسے یہ سب کر سکتے ہے "

میں ایک معصوم سی بچی پہ ظلم نہیں ہونے دو گی بابا جان ادا کو کچھ تو بولے یہ غلط بات ہے ۔۔۔۔۔

ایسا کرنا سہی نہیں ہے ۔۔

بابا جان !!!!!

ہانی چپ کر جاؤ میں بے بس ہو کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔

بابا جانی !!!!

اگر آپ بھی بے بس ہے تو پھر میں تو موجود ہو نہ "قربان" ہونے کے لئے میں جاؤ گی ۔۔۔

مگر میں ایک چھوٹی سی بچی پہ ظلم نہیں ہونے دو گی ۔۔۔۔

ہانی!!!! 

خبردار ؟؟؟

جو ایسی بات منہ سے نکالی بھی تو ۔۔۔

کیا دیا ہے ان بھائیوں نے ساری زندگی تمہیں میں کبھی بھی تمہارا دکھ برداش نہیں کر سکو گا ۔۔۔۔

"میری آتی جاتی سانسوں کا نام ہے ہانی "

بابا جانی !!!

اپ ہمیشہ مجھے یہ بات بولتے آئے ہے 

"کے جو آپ کے ساتھ غلط کرے کبھی بھی اس کے ساتھ غلط نہ کرو "ورنہ آپ کی اور اس کی تربیت میں کوئی فرق نہیں رہے گا ""

ہانی مجھے کچھ یاد نہیں تم کچھ بھی ایسا نہیں کرو گی سمجھ لگی ۔۔۔

نہیں بابا جانی اگر میرے بھائیوں نے مجھے کچھ دیا نہیں ساری زندگی تو مجھ سے کچھ مانگا بھی نہیں ۔۔۔۔

پہلی دفعہ مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کے میرا ان سے کوئی رشتہ ہے جو یہ لوگ مجھ سے "آس " لگا کے بیٹھے ہے ۔۔۔

بابا جان آپ کو میری قسم ہے مجھ سے یہ احساس بری خوشی مت چھینے ۔۔۔

شادی تو آپ نے ویسے بھی کرنی ہے میری تو پھر ایسے ہی سہی ۔۔۔

"شادی میں اور ایسے میں بہت فرق ہیں میری جان "

"بابا جانی میں اپنے بھائیوں کے لئے مظبوط ہوئی ہو مجھے کمزور مت کرے "

خود تو تم اس اندھے کنواں میں کود رہی ہو یہ کیوں نہیں سوچ رہی کے باپ اس عمر میں کیا کرے گا ۔۔۔۔

تمہاری جدائی برداش کر سکے گا کیا ؟؟؟؟؟

"آپ یہ سمجھ لیجئے گا بابا جان کے آپ کی بیٹی آپ کے بیٹوں سے قربان ہو گئی ہے ""

""""جدائی موت سے زیادہ سخت ہوتی ہے """"

ہانی مرے ہووے پہ صبر آ جاتا ہے مٹی کا ڈھیر دیکھ کر مگر میں کیا کرو گا ۔۔۔

تم کیا جانو ہانی میں نے اور تمہاری ماں نے بہت منتوں مرادوں سے مانگا ہے تمہیں ۔۔۔۔۔

بابا جان !!!

ہو سکتا ہیں وہ لوگ اتنے ظالم نہ ہو مجھے ملنے کی اجازت دے اپ سے ملنے کی ۔۔۔

بیٹی یہ تم بھی جانتی ہو "ونی" کا مطلب اور میں بھی پھر کیوں جوٹھی تسلی دے رہے ہو خود کو بھی اور مجھے بھی ۔۔۔۔۔

بابا جانی مان جاۓ خدا سے اچھے کی امید رکھ کر ۔۔۔

بس کرو ہانی بابا پتھر ہو چکے ہے جانتے بھی ہے میری بیٹی بہت کم عمر ہے ۔۔۔

مگر پھر بھی نہیں مان کے دے رہے ۔۔۔

پوتی کو یوں سولی چڑھاتا دیکھ کر دل پسیج رہا تھا ۔۔۔۔

مگر مقابل"  بیٹی تھی " کیا کرتے ۔۔۔

آخر کو بیٹی قربان کرنے کا سوچ لیا اور ہانی کو اجازت دے دی ۔۔۔

ادا نے ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کی اور "پنچایت" کو نکاح کا کہا ہے ۔۔۔

آج شام نکاح کا وقت مقرر ہو گیا تھا ۔۔۔

بابا جان کا دل دکھ سے بڑہ گیا تھا دل تو ہانی کا بھی "گم ہو رہا تھا ۔۔۔

مگر اب تیر كمان سے نکل چکا تھا کچھ ہو نہیں سکتا ۔۔۔

تیاری کیا کرنی تھی بس گھر کے ہی چار پانج سوٹ رکھ لئے تھے ۔۔۔

اور اپنی بربادی کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔

بابا جان تو کیا گھر کے کسی بھی فرد سے بات نہیں کی تھی ۔۔۔

کسی کا سامنا نہیں کیا تھا کہی کمزور نہ پر جاۓ ۔۔۔۔

__________________________

(ماضی)

آج دلشاد نے گاؤں جانا تھا مگر ہانی کو بھی آج کا کہا ہوا تھا ۔۔۔

پھر سوچا گاؤں جانا بھی ضروری ہے ۔۔

ہانی سے کل واپس آ کر ملو گا ۔۔

سحر کا نمبر ملایا اور اسے بتایا آج میں ضروری کام سے گھر جا رہا ہو کل انشااللہ شام کی چائے پہ ملاقات ہو گی ۔۔۔

ہانی نے بھی شکر ادا کیا آج کے دن تو یہ بلا ٹلی ۔۔۔

دلشاد ایک بھائی کو ایئیر پورٹ چھوڑ کر دوسرے کو ہزاروں نصحیتں کر کے اور چچا جان (باپ کی موت کے بعد یہ چچا جان ہی نے کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔۔ان کو بھی بلکل باپ جیسی عزت اور مقام دیا تھا)کے ساتھ ساتھ رہنے کا بول کر واپس لوٹ آیا تھا ۔۔۔

دوپہر کو فری ہوتے ہی سب سے پہلے سحر کو کال کی اور جگہ بتائی ۔۔۔

اچھا تو اپ فون پہ بول رہے ہے یونی ایک ہی ہے ادھر بھی مل سکتے تھے ۔۔۔

بات سہی ہے آپ کی مگر میں ریگولر سٹوڈنٹ میں سے نہیں ہو اس لئے روز روز نہیں آتا آپ کی طرح ۔۔۔کیا ہانی سے بات ہو سکتی ہے ۔۔

سپیکر اون تھا ہانی نے ایک منٹ میں ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا ۔۔۔

سحر بولتے بولتے چپ کر گئی ۔۔۔

اور کہا نہیں وہ ہانی روم میں نہیں ہے ۔۔۔

دلشاد کچھ مایوسی سے بولا اچھا چلے کوئی نہیں شام کو ملاقات ہو گی ۔۔۔۔

وقت مقرر کر کے ہانی کے لئے گفٹ کا سوچنے لگا ۔۔۔

اج اپنی پسند کا اظہار کرنے کا سوچ چکا تھا ۔۔۔

ایک بہت اچھی رنگ اور پرفیوم لے کر شام کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔

ادھر ہانی سحر کو ہزار باتیں سنا چکی تھی کے کیوں ایسے ملنے کا کہا ہے پتہ بھی ہے اگر میرے گھر والو کو بھنک بھی پر گئی تو "حشر نشر "کر دے گے میرا ۔۔۔۔۔۔

خیر یار کچھ نہیں ہوتا میں صاف بول دو گی کے آج کے بعد ہم سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کرے کیوں کے ہم کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھ سکتے ۔۔۔۔۔

شام کے وقت مقرر کردہ جگہ پہنچ گئی دونوں چند پل بعد ہی وہ خود بھی آ گیا ۔۔۔

اتے ہی ہانی کا چہرہ اپنی نظروں کے حصار میں موقید کر لیا جو کے ہانی کو بہت برا لگ رہا تھا ۔۔۔

دلشاد نے سحر کو ذرا سائیڈ پہ جانے کا کہا ۔۔۔

"کیا میں ہانی سے چند پل بات کر سکتا ہو آپ کی غیر موجودگی میں "

سحر اٹھ کر جانے ہی والی تھی کے ہانی نے اسے واپس بٹھا دیا ۔۔۔

دیکھئیے!!!!!

زیادہ وقت نہیں ہے ہمارے پاس جو بھی بات ہے آپ صاف صاف بولے ہم جانا چاہ رہی ہے ۔۔۔

اتنی بھی کیا جلدی ہے کچھ وقت مجھے دے دی گی تو کیا ہو جاۓ گا ۔۔۔

آپ نے کیوں بلایا ہے بولے گے یہ نہیں ؟؟؟؟

"میں آپ سے محبت کرنے لگا ہو ہانی "

یہ کب ہوا کیسے ہوا میں نہیں جانتا۔۔۔

مگر !!!!!

میری دن رات ہر پل ہر لمحے میں اپ بس چکی ہو اب آپ کی یاد سے فرار ممکن ہی نہیں کیا کرو؟؟؟؟

کیا آپ میری محبت کا یہ چھوٹا سا نظرانہ لینا پسند کرے گی ۔۔۔۔

وہ اپنی ہی دھن میں بولتا جا رہا تھا اور ہانی کی آنکھیں ضرورت سے زیادہ پھیل چکی تھی یہ بول کیا رہا ہے ۔۔۔۔

اور سحر بھی ڈر کے مارے چپ تھی پتہ نہیں اب ہانی کیا کر دے کیوں کے ہانی کے غصے سے بہت اچھی طرح واقف تھی ....

او۔۔۔ہیلو مسٹر تم ہوتے کون ہو اس طرح فضول باتیں کرنے والے میں کسی گڑے پڑے خاندان سے نہیں ہو کے تمہارے فضول سے گفٹ سے خود کو ڈھیر کر دو گی تمھارے قدموں میں تم جیسے دل پھینک بہت دیکھے ہے اپنی حد میں رہو سمجھ لگی ایک دفعہ منہ کیا لگا لیا تم تو گلے پر رہے ہو ۔۔۔

ہانی بولنے پہ آئی تو بولتی چلی گئی یہ 

دیکھے بنا کے مقابل کا چہرہ شدت ضبط سے سرخ ہو چکا ہے ۔۔۔۔

چلو سحر اٹھو تم ہی کو شوق تھا انے کا اور منہ لگنے کا ۔۔۔۔

ایک بات سنتی جاؤ ہانی نہ تو میں کسی چوٹھے خاندان سے ہو نہ دل پھینک بس سچ بتایا تھا مگر تم انتہائی فضول نکلی ہو "تف "ہے تم پر اور تمہاری سوچ پر ۔۔۔۔

ہانی بنا کچھ بولے سحر کا ہاتھ پکڑ کر نکلتی چلی گئی ۔۔

_________________________

(حال)

اور پھر نکاح کا وقت بھی آ گیا ۔۔۔

"نکاح نامے پہ سائن کرتے ہوۓ ہاتھوں کے ساتھ ساتھ دل بھی کانپ گیا تھا ۔۔۔

نہ کوئی مہندی نہ سنگار نہ زرق برق سوٹ ایسی شادی کبھی سوچی بھی نہیں تھی ۔۔

خیر نکاح ہوتے ہی ادا نے خود گاڑی میں بٹھا دیا اور ہانی پیچھے(بیٹی کی ایسی رخصتی پہ ) گر  جانے والے بابا جان کو دوسری نظر نہ دیکھ سکی ۔۔۔

اور چپ چاپ بیٹھ گئی اچھے کی امید لگا کر ۔.  

ابھی کچھ لمحوں کا سفر ہی کٹا تھا کے ہانی نے بے اردہ نظر ڈرائیونگ کرتے دلشاد پہ پڑی تو ایک لگا ۔۔۔

وہ بنا کسی پہ توجہ دئیے گاڑی چلا رہا تھا جیسے اس سے ضروری کوئی کام ہو ہی نہ.......

گھر انے تک ہانی کی جان نکل چکی تھی سوچ سوچ کے ۔۔۔۔

کے کیا سلوک کرے گا یہ انسان میرے ساتھ جو میں اتنا غلط رویہ کیا تھا ۔۔۔۔۔

شام سے رات کے دو بج چکے تھا مگر دور دور تک کوئی نظر نہیں آیا ۔۔

آنکھ لگنے کے قریب تھی 

کے دلشاد کمرے میں داخل ہوا ۔۔

"ہانی کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی تھی " 

اس کے انداز سے بلکل بھی نہیں لگ رہا تھا کے ہانیہ انجان ہے ۔۔

بہت سکون سے آ کر بیٹھ گیا تو ۔۔۔

پوچھا اسی بات پہ حیران ہو رہی ہو نہ کے میں ٹھٹکا نہیں تمہیں یہاں دیکھ کر ؟؟؟؟

جی یہی سوچ رہی ہو !!!!

اچھا تو بات ایسے ہے کے میں یونیورسٹی سے پتہ کر چکا تھا کے تم کون ہو ادھر سے پتہ لگا تھا کے تم میرے بابا کی مخالف پارٹی سے پھر چھوڑ دیا اور بھول گیا """

کے ہمارا ملاپ ممکن نہیں مگر دیکھو ۔۔۔

خدا کی قدرت جیسے بھی ملے ہم مل گے ۔۔۔

اور ۔۔۔۔

سائیڈ پہ ذرا جک کر سائیڈ ٹیبل کی ڈرا سے "پرفیوم اور رنگ " نکل کر دیکھائی دیکھو یہ وہی چیزیں تھی نہ جو بہت "مان "اور پیار سے لے کر آیا تھا تمہارے لئے مگر تم نے نہیں لی ۔۔۔

مگر آج تو انکار نہیں کر سکتی ۔۔۔

دلشاد نے بہت محبت سے ہانی کا ہاتھ پکڑا اور رنگ پہنا دی ۔۔۔

ہانی نے اطمینان سے آنکھیں موند لی ۔۔

اور سب خدشوں کو دماغ سے جھٹک دیا ....

دلشاد نے یہ سب الفاظ دل پہ پتھر رکھ کر بولے تھے ۔۔۔۔

کیوں کے نہ تو وہ اپنی "انسلٹ " بھولا تھا نہ ہی ہانی کے بھائی کے ہاتھوں اپنے پیارے چچا جان کا "قتل" بھولا تھا ۔۔۔۔

ہانی کی آنکھیں بند تھی دلشاد کا ہاتھ گوما اور ہانی کے چہرے پہ نشان چھوڑ گیا ۔۔۔

ہانی نے اس  "تھپڑ" کا سوچا بھی نہیں تھا ایک دم لڑکھڑا کر سر بیڈ کرواؤن سے ٹکرا کر نمی چھوڑ گیا تھا ۔۔۔

تم ایک "قاتل "کی بہن ہو کر کیسے مجھ سے یہ  امید رکھ سکتی ہو ۔۔۔

تم "ونی" ہو کر آئی ہو کبھی اچھے کی امید مت رکھنا سمجھ لگی ۔۔۔۔

میری بیوی کی جگہ لو یہ کبھی نہیں ہو گا ۔۔۔

اور میں اپنی انسلٹ کبھی نہیں بھول سکتا سمجھ لگی ۔۔۔۔

زبان کے ساتھ ساتھ دلشاد کے ہاتھ بھی مسلسل چل رہے تھا ۔۔

اس نے ہانی کو کسی کپڑے کی طرح دھنک کر رکھ دیا تھا ۔۔۔

جب دل کا غبار نکل گیا تو ساتھ رکھی چیئر پہ بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگا ۔۔۔

ہانی کچھ سوچ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی ہوا کیا ہیں ۔۔۔

میں کیسے ایک دم سے خوش فہمیوںمیں مبتلا  ہو گئی تھی کیوں بھول گئی تھی کے یہ بھی ایک "ظالم وڈیرا" ہے ۔۔۔

اور ہاں !!! ایک بات یاد رکھنا "نکاح "کر کے لایا ہو میں تمہیں اور "نکاح " کا مطلب تم جانتی ہو گی اچھی خاصی میچور" ہو ۔۔۔۔

اگر نکاح نہ بھی کرتا تو تمہارا بھائی پھر بھی بیج ہی دیتا اپنی "عزت" سے زیادہ اپنی "جان" پیاری ہے تمھارے بھائی کو ۔۔۔

تم ہر رات میرے بستر پر میری "نکاح " میں ہونے کے باوجود میری "رکھیل" بن کر رہو گی ۔۔۔۔

کیوں کے  اپنا حق میں کبھی نہیں چھوڑتا ۔۔۔

اور تمہارے اس "گداز جسم" پہ مکمل حق ہے میرا ۔۔۔

مگر ؟؟؟؟؟

میں نام اپنے اس تعلق کو پھر بھی "رکھیل" ہی کا دو گا ۔۔۔

اچھی طرح سمجھ لو ۔اپنی اوقات ۔۔۔۔۔۔

________________________

(ماضی)

واپس ہوسٹل آ کر سحر اور ہانی کی کافی منہ ماری ہو چکی تھی ۔۔۔۔

سحر کی بات ہی یہ تھی کیا ضرورت تھی فضول بولنے کی ۔۔۔

جب آرام سے بات ہو سکتی تھی پھر اتنا "تماشا "کیا تم نے ۔۔۔

وہ ایک اچھا انسان تھا جو سیدھی طرح بات کی اس نے مگر تم اپنے آگے کسی کو کچھ سمجو تو ہے نہ ۔۔۔۔

اگر اب اس نے کچھ غلط کیا تو ۔۔۔۔

سحر چھوڑ دو فضول باتیں اور آرام کرنے دو مجھے  ۔۔۔۔

سحر کافی در جلتی کڑھتی رہتی رہی تھی ۔۔

ہانی کا غصہ "ہنوز" جو کا تو تھا ۔۔۔

بس کل یونی سے فری ہو جانا ہے میں گھر چلے جاؤ گی رہنا ادھر تنہا تم ۔۔۔

سحر تم جانتی ہو مجھے گھر جانا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔

کچھ دن تو رہ لو سوری میں نہیں رکو گی ۔۔۔

ابھی یہی بحث جاری تھی کے ہانی کے فون پہ بل ہوئی ۔۔۔

بابا جان کا نمبر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی ۔۔۔

السلام علیکم بابا جانی !!!! 

وعلیکم السلام میری جان !!!

بابا اپ کی آواز سہی نہیں لگ رہی کیا آپ کی طبیعت خراب ہے ؟؟؟؟

ہاں بیٹی میری طبیعت کافی خراب ہے نیچے تمہارا انتظار کر رہا ہو اپنا سامان لے کر آ جاؤ میں تمہیں اب یہاں نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔

بابا جان مگر !!!!

کچھ اگر مگر نہیں بہت پڑھائی ہو گئی پیپر ہو گے تب آ جانا واپس ۔(اب کیا بولتے کے بیٹے  سے "قتل" ہو گیا ہے یہی ڈر لاحق ہے کہی تمہیں "خون بہا" میں پیش نہ کر دے میرے سامنے ہو گی تم تو ڈر کم ہو گا ذرا)

تقریبا کوئی بیس منٹ کے بعد ہانی اپنا مختصر سامان لے کر نیچے آ گئی ۔۔۔

اور بابا کی طبیعت کافی خراب تھی دیکھ کر چپ کر گئی ۔۔۔

مگر حویلی آ کر سب کا رویہ دیکھ کر ٹھٹک  ضرور گئی تھی ۔۔۔

مگر نہیں جانتی تھی یہی "خاموشی" اور "سکوت" اس کی "زندگی" کا "آرام" اڑا لے جا گا۔۔۔

ادھر دلشاد بہت دکھی ہو گیا تھا ۔۔۔

کافی دن بعد یونی آیا تو بےاردہ ہی سوچا کلرک آفس سے پتہ کرو یہ لڑکی ہے کون ؟؟؟

ایسے ہی وہ کسی کو کسی کا بھی ڈیٹا نہیں دے سکتے لیکن پھر کافی کوشش کے بعد چند باتیں بتا دی ۔۔۔

مگر دلشاد دھنک رہ گیا کے ہانی انہی کے مخالف " علاقے سے انہی کے دشمنوں کی بیٹی تھی ۔۔۔

چپ کر گیا اور چل پڑا ۔۔۔۔

دلشاد واپسی کے لئے نکل رہا تھا کے گاؤں سے چھوٹے بھائی کا فون آیا ۔۔۔۔

بھائی ہم لٹ گے برباد ہو گے ؟؟؟؟

ہادی بولو کیا ہوا ماں حضور سہی ہے ان کی طبیعت ۔۔۔

بھائی چچا کا قتل ہو گیا مخالف پارٹی  سے کچھ دن پہلے جھگڑا ہوا تھا عادل نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔

 اپ کو نہ بتاؤ اب جب آج ان لوگوں سے ٹکراؤ  ہوا تو یہ پتہ لگنے کے بعد کے وہ ملک سے باہر جا چکا ہیں دو سال کے لئے تو وہ اندھا دند  فائرنگ کر کے چچا کو مار گے ۔۔۔۔ 

ہادی کے "مطابق " ہانی کا ہی بھائی تھا جس نے یہ سب کیا تھا ۔۔۔

مگر ۔۔

اس وقت اس کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا اور اسے گاؤں جانے کی جلدی تھی ۔۔۔

کیوں کے وہا اس کا بھائی بلکل تنہا تھا ۔۔۔۔

_______________________

پنجایت بیٹھی تو ظاہری سی بات ہے ۔۔۔

خون بہا کے سوا دوسری کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی تھی ۔۔

فضل خون بہا میں اپنی بیٹی یہ بہن دے گا دوسری کوئی بات نہیں ۔۔۔۔

آفریدی خان کا ایک دم دل بند ہوا تھا "بہن" کے نام پہ ایک دم سے بول پڑے نہیں بہن کیوں جس نے گناہ کیا خمیازہ بھی بھگتے ۔۔۔۔

بات اس کی بیٹی یہ اس کے قتل کی کر لے بہن اس کی کوئی نہیں ہے ( ہانیہ تو جان سے پیاری تھی بابا جان کو) 

دلشاد ہانی کے لئے اتنا پیار دیکھ کر ٹھٹک گیا اور بولا "بہنیں" ہمیشہ بھائیوں سے قربان ہوتی آئی ہے ۔۔۔

اگر اپ کی بیٹی آ جاۓ گی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔۔۔۔

خیر بیٹی ہو یہ بہن مجھے خون بہا میں اپ کے گھر ہی کی کوئی عورت چائیے ۔۔۔۔

پنجایت برخاست ہوئی تو ۔۔۔

فضل کے دماغ میں ہانیہ ہی گوم رہی تھی بس اسے منانا ہو گا ہر طرح ۔۔۔۔

اور وہ بہت آسانی سے مان گئی تھی ۔۔

فضل خود بھی خوش اور بیٹی بھی پاس گئی تو "بابا جان " کی جان بابا جان تو جیسے بےجان ہو گے تھے پل پل تڑپ رہے تھا مگر ہانی سے کوئی بھی رابطہ ممکن نہیں تھا ۔۔۔۔۔

ابھی نکاح کو بس پندرہ دن ہی ہوۓ تھے مگر دلشاد نے "غموں" کے پہاڑ توڑ دئیے تھے ۔۔۔

جتنا سوچتی جتنا دکھ کرتی کم تھی ۔

آج کا دن گویا قیامت بن کر طلوع ہوا تھا ۔

بابا جان نہیں رہے یہ خبر سن کر ہانی کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی تھی ۔۔۔

کام والی ماسی کے ذریعے سے یہ بات معلوم ہوئی تھی ۔۔

ہانی بن پانی کی مچھلی طرح تڑپ رہی تھی ۔۔

مگر ساس نے صاف بول دیا تھا کے دلشاد آ جاۓ تو اسی سے بات کرنا ۔۔۔۔

باقی جو "لڑکیاں" ونی ہو کے آتے ہی وہ اپنے گھر والوں کو دفنا کے فاطہ پڑھ کر آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

تم بھول جاؤ کے اپنے باپ کا آخری دیدار کر سکو گی ۔۔۔

ہانی اس ظلم پہ تڑپ اٹھی تھی ۔۔۔

اور حد سے زیادہ "باغی رویہ" میں بولی تھی میں جاؤ گی اور ضرور جاؤ گی دیکھتی ہو مجھے کون روکتا ہے ۔۔

دلشاد جو شہر سے بہت تھکا ہارا لوٹا تھا مگر "زنانہ خانے" کے دروازے پر ہی ایسی بات سن کر ہی دماغ خراب ہوا تھا ۔۔

اندر اتے ہی بہت غصے سے بولا کیا بکواس ہو رہی ہے ۔۔۔

بیٹا اس کے گھر اس کے "باپ کا مرگ" ہو گیا ہے اور ایک ہی ضد ہے میں جاؤ گی اور ضرور جاؤ گی ۔۔۔۔

اوہ ؟؟؟؟

تو اتنی زبان چلنے لگ گئی ہے ۔۔۔

دلشاد نے ایک منٹ لگایا تھا اور اپنی پینٹ میں سے "مظبوط لیدر کی بیلٹ"نکالی تھی ۔( گاؤں ہوتا تو خاص شلوار سوٹ روایتی کپڑے استعمال کرتامگر جب شہر جاتا تو خاص پینٹ شرٹ یا تھری پیس زیب تن کرتا)

اور اسی بیلٹ سے ہانی کی دھولائی شروع کر دی ہانی کی چیخیں پوری حویلی میں گونج رہی تھی مگر کوئی "پرسان حال" نہ تھا ۔۔۔

مار مار کر ہانی کو لہو لہان کر دیا اندر سے باہر جاتی چیخوں نے مالی بابا کو اندر انے پہ مجبور کر دیا ۔۔۔

اور انہوں نے ہاتھ جوڑ کر دلشاد کے آگے ہانی کو بچایا تھا ۔۔۔

ویسے تو کسی میں اتنی جرات ہی نہیں تھی کوئی اس کے آگے آتا مگر مالی بابا بہت پرانے وقتوں سے تھے ان کی حویلی جس کی وجہ سے کبھی کبار ان کی مان لیا کرتا تھا ۔۔۔

سو آج بھی مان کر بیلٹ ایک سائیڈ پہ ڈال کر کام والی کو اشارہ دیا اٹھا کے کمرے میں چھوڑ آؤ ۔۔۔

دو کام والیاں مل کر "نیم بیہوش " ہانی کو کمرے میں چھوڑ کر آئی تھی ۔۔۔

پھر ایک کو "انسانیت" کے ناتے اس کی مرہم پٹی کر دی ۔۔

مگر جو زخم دل پہ لگے تھے ان پہ کوئی مرہم نہیں رکھ سکتا تھا ۔۔۔

پورے تین دن بعد مکمل ہوش میں آئی تھی اور پھر سے اپنے پیارے بابا جان کی یاد میں رونا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔

ماسی نے بہت مشکل سے اس کو چپ کروایا تھا ۔۔۔

کیوں کے !!!!!

دلشاد گھر تھا اگر ذرا بھی آواز سن لیتا تو ہانی کا پھر وہی حال کرتا ابھی تو پہلے کے زخم نہیں بھرے تھے ۔۔۔

ہانی اس "غمگسار" کو پا کر بہت سے دکھ اپنے کہ لیتی ۔۔۔

مگر جو دکھ تھے وہ کہا ختم ہو سکتے تھے ۔۔

جو زخم لگ چکے تھا کہا بر سکتے تھے ۔۔۔۔

_________________________

گزرے بہت مہینوں میں ہانی کو زخم پہ زخم ملے تھے آج حویلی کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

جب سے اس حویلی کے اندر آئی تھی کبھی جانک کر نہیں دیکھا تھا ۔۔

کیوں کے اسے اندرونی حصہ سے 

اس سحسین موسم میں چند ملازموں کو موسم انجوئے کرتے دیکھ کر دل سے اک "ہوک"نکلی تھی ۔۔۔

" ویسے تو میں اُنہیں بُھولنے کی پُوری اداکاری کر لیتی ہُوں۔۔۔۔

 پر جب مُجھے بُخار ہو جاتا ہے نہ تو وہ مُجھے بڑی شِدّت سے یاد آنے لگتےہے ، 

بار بار میری آنکھوں سے آنسو نِکلتے ہیں ، میری بے چینیاں بڑھ کر دِل ہی دِل میں اُن سے گِلہ کرنے لگتی ہیں ، 

پتہ نہیں کِیوں مُجھے لگتا ہے کہ ؛ میرے بُخار کے ذمہ دار وہ ہے حالانکہ ؛ ایسا کُچھ بھی نہیں ہوتا ، 

، چند مہینے پہلے کی طرح مُجھے لگتا ہے کہ ؛ اب بھی وہ میرے کہنے پر کہ ؛ " مُجھے بُخار ہے " یہی کہے گے کہ ؛ سیل آف کرو اور سو جاؤ! حالانکہ ؛ وہ جانتے ہے مُجھے بُخار میں نیند نہیں آتی ، 

اُنہیں خبر بھی ہے کہ ؛ مُجھے اُن کی ضرورت ہے مگر نہ جانے کِیوں وہ ہمیشہ مُجھے منظر سے غائب کردینا چاہتے ہے ،

 وہ یہ بھی جانتے ہے کہ ؛ بُخار میں میرا دِل ننھے بچے کی طرح ہو جاتا ہے ، اُن کو معلوم ہے میڈیسن میرا بُخار کم نہیں کرسکتی ، 

مُجھے تو اُن کی باتوں کے سیرپ چاہئے ہوتی ہے لیکن وہ میری فیلنگز کو نہیں سمجھ، یا شاید سمجھنا ہی نہیں چاہتے، 

 ؛ کبھی وہ میرے زخموں پر مرہم رکھے ، ابھی بھی بُخار میں جھلستے وجود کے اندر دھڑکتا انگارہ دِل اُن ہی کی طرف ہمکنے کی جان توڑ کوشش کررہا ہے 

 میں چاہتی ہوں کہ ؛ وہ مجھے سُنے ، میں چاہتی ہُوں کہ ؛ میں اُن کو سُنوں ،

 پر مُجھے لگتا ہے کہ ؛ آج بھی مُجھے اپنے دِل پر پاؤں رکھ کر اپنی سِسکیاں اپنے لبوں تلے دبانی پڑیں گی ،

 لوگ اپنی فیلنگز چُھپا لیتے ہیں ، پر میں نہیں چُھپا پاتی ، میرا دِل پھٹنے لگتا ہے! ۔ " 

اور وہ کیسے مجھے کوئی تسلی دے سکتے ہے کیوں کے دنیا سے گے لوگ واپس کب اتے ہیں کب کوئی تکلیف محسوس کرتے ہے ۔۔۔

کاش بابا جان آپ زندہ ہوتے ' اپ کے ہونے کا احساس تو ہوتا نہ ۔۔۔

نجانے کب شام سے رات ہوئی مگر وہ اپنے بابا جان سے گلے شکوے کرنے میں اس قدر مگن تھی کے کچھ خبر ہی نہیں ہوئی ۔۔۔

دلشاد کی آواز پہ چونکی !!!!!

ہیلو ۔۔۔۔کہا گم ہو اٹھو اور کھانا لاؤ کمرے میں جلدی ۔۔۔

طبیعت اتنی خراب تھی کے کچھ ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی مگر انکار کرتی تو "جانوروں" کی طرح دھلائی کرتا یہ انسان اس لئے چپ چاپ اٹھی گئی ۔۔۔۔

کھانا نکال کر لے گئی تو دروازے پہ ہی حکم مل گیا واپس لے جاؤ میرا موڈ بدل گیا ہے چائے لے اؤں ہانیہ کا دل تو کیا تھا ساری ٹرے اس کے سر میں انڈیل دے مگر یہ ممکن نہیں تھا ۔۔۔

چپ چاپ واپس آ کر چائے رکھی اور پاس کھڑی ہو گئی ۔

نجانے کتنا وقت بیت گیا پتھر بنی کھڑی رہی ۔۔۔۔

دلشاد آیا اور اسے اپنے خیالوں میں گم دیکھا آواز دی

 "کہا گم ہو سارا سوسپین جلا دیا ہے "

ہانی ایک دم ڈر گئی تھی ۔۔۔اور تھپڑ کا انتظار کرنے لگی(کیوں کے دو سالوں میں یہی سب برداش کر رہی تھی مگر اب تھک گئی تھی) مگر دلشاد نے بہت نرمی سے ہانیہ کا سرک جانے والا ڈوپٹہ اس کے سر پہ دیا اور بولا 

"اپنی چادر کی حفاظت کیا کرو یہ عورت کی عزت ہوتی ہے ""

اس لبو لہجے کی عادی کب تھی ۔۔۔

دلشاد کے ہاتھ کے ساتھ ہانی کا ہاتھ ٹکرایا تو ایک دم جاتے جاتے واپس مڑا ہانی تمہیں تو بہت زیاده بخار ہے ۔۔۔

کوئی دعا لی کیا ؟؟؟؟

نہیں میں ہو جاؤ گی سہی بہت ڈیٹ انسان ہو مرتی نہیں ۔۔۔

فضول باتیں نہ کیا کرو جاؤ کمرے میں ۔۔۔

سکھی ۔۔۔۔

دلشاد نے کام والی کو آواز دی ۔۔۔

جی صاحب ۔۔۔۔

ہانی کی طبیعت بہت خراب ہے اسے کمرے میں لے جاؤ ۔۔۔۔

اور ہاں رات اس کے پاس ہی رکنا ۔۔۔

جی صاحب سہی ۔۔۔

ہانی کو اس نرمی کی سمجھ نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔

پھر سکھی کی زبانی ہی معلوم ہوا کے دلشاد کا چھوٹا بھائی "عادل" اپنی ڈگری مکمل کر کے واپس آ رہا ہے اس لیے ہر کسی پہ مہربانیاں ہو رہی ہے ۔۔۔۔

ہانی اذیت سے مسکرا گئی ۔۔۔۔۔

چلو کسی کی وجہ سے ہی سہی موڈ تو کچھ بہتر ہوا ۔۔۔

ہانی کی طبیعت گڑتی گڑتی ضرورت سے زیاده ہی خراب ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔

مگر !!؟

پروا کسے تھی 

"آج کل تو دلشاد کو بھی اس کی طلب محسوس نہیں ہو رہی تھی ""

کیونکہ ؟؟؟؟

اس کا جان سے پیارا بھائی دو سال بعد پاکستان آ رہا تھا اس لئے اپنی ہر خواہش اور خوشی سائیڈ پہ رکھ کے ہر چیز اس کی پسند کے مطابق کروا رہا تھا ۔۔۔

ہانی اگر کوئی گھر کا کام کاج نہیں بھی کرتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بیسوں ملازم تھے گھر میں ۔۔۔

بس ایک سکھی تھی جو اتے جاتے حال چال پوچھتی کھانا وغیرہ دے جاتی ۔۔

آج شام عادل کی فلائٹ تھی ۔۔۔

آج تو سب ہی کی ٹون الگ تھی 

دلشاد کے مطابق "چچا جان کے قتل اور عادل کے جانے کے بعد یہ پہلی خوشی تھی "

اس لئے کوئی کمی نہیں چاہیے تھی کسی بھی طرح کی ۔۔۔

آج تو کافی دنوں سے ہانی کی دھلائی  کا بھی خیال نہیں آیا تھا ۔۔۔

مگر وہ تو خود بے انتہا بیمار تھی 

شام ہو گئی اور عادل حویلی پہنچ گیا اس کا استقبال ایسے کیا گیا جیسے کسی دلہن کا استقبال ہوتا ہے ۔۔۔

اسی خوشی میں پورے گاؤں کو رات کے کھانے کی دعوت دی گئی تھی ۔۔۔

دلشاد کسی کام سے کمرے میں آیا اور بولا دیکھو یہ منحوسیت چھوڑو کچھ ڈنگ کے کپڑے پہن کر باہر آؤں ۔۔۔

میری طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے اور ویسے بھی کوئی ڈنگ کا سوٹ لے کر دیا ہے دو سالوں میں کیا ؟؟؟؟

ہان یہ بھی سہی ہے چلو امی جان سے کوئی سوٹ لے کر دیتا ہو۔۔۔

 ( کوئی اور موقع ہوتا تو دلشاد دھنک کر رکھ دیتا مگر اس وقت کوئی بدمزگی نہیں چاہ رہا تھا ویسے بھی خوش تھا)

اتنی مہربانی بھائی کی خوشی میں کیا ؟؟؟؟

نہیں ہانیہ کی تو تم سے "محبت "تھی مگر حالت ایسے ہو گے تھے کے تم "نفرت" نہ سہی مگر دل میں تمہاری ذات کے لیے "کینہ" ضرور آ گیا ۔۔

باقی اگر اتنا عرصہ کوئی جانور بھی گھر رکھا جاۓ تو اس سے بھی "انسیت" ہو جاتی ہے تم تو پھر انسان ہو اور پھر "تم تو میری راتوں کی رنگینی"بھی ہو ۔۔۔۔

اٹھو فرش ہو جاؤ اور میں کپڑے بیجواتا ہو بدل کر باہر اوں ورنہ بہت اچھی طرح جانتی ہو ۔۔۔۔

دوسرا طریقہ استعمال کرو گا ۔۔۔۔

اس نے جا کر سوٹ بجوا دیا ۔۔۔

سوٹ کافی اچھا تھا شاید بیٹے کی خوشی تھی اس لئے ۔۔۔

اتنی طبیعت خرابی میں بھی دلشاد کے ڈر کی وجہ سے تیار ہو کر باہر آ گئی تھی ۔۔۔

پتہ نہیں طبیعت کیوں اتنی بیزار تھی کے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا مگر پھر بھی لوگوں کو اتے جاتے دیکھ رہی تھی ۔۔

جب سب چلے گے تو رات بھی کافی زیادہ ہو چکی تھی "اٹھ"کر واپس جانے لگی تو پتہ نہیں کیوں آنکھوں کے سامنے گومنے لگ گے ایک دم چکرا کر گڑ گئی ۔۔۔

عادل نے دور سے دیکھا تو کوئی ملازمہ سمجھ کر چل پڑا مگر اپنے بڑے بھائی کو اس کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر ۔۔۔

خود بھی ادھر ہی چل پڑا تب تک دلشاد اسے لے کر اپنے کمرے میں داخل ہو چکا تھا اس کے پیچھے گیا ۔۔۔۔

دلشاد کے منہ سے ہانی سن کر "ٹھٹکا" ضرور تھا ۔۔۔

کیوں کے وہ ادھر سے سوچ کر آیا تھا کے جاتے ہی بھائی کو کہو گا ۔۔۔

کے ہانیہ سے شادی کر لے کیوں کے ان کے علاقے میں شادی پہ شادی کچھ عجیب بات نہیں تھی ۔۔۔۔

جو ونی ہو کر آئی ہے وہ ایک ملازمہ سے زیادہ تو نہیں  تو اپ اپنی محبت ہانی سے شادی کر لے ۔۔۔۔

مگر یہ الفاظ "ہانی تم ٹھیک ہو آنکھیں کھولو "

سن کر تعجب میں پر گیا تھا ۔۔۔

پھر اپنی سوچو کو جٹھکا اور آگے بڑھ کر دلشاد کے ساتھ مل کر اسے ہوش میں لانے کی تدبیر کرنے لگا ۔۔۔

مگر اس کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی چونک گیا تھا ۔۔۔۔

"رنگ روپ نہ سہی مگر کچھ مٹھے مٹھے سے نقش ہوٹل والی ہانی کے ہی تھے ""'

ہانی کو ہوش یا تو چپ چپ باہر آ گیا مگر کھویا کھویا ضرور تھا ہانی کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

مگر بہت الجا الجا سا تھا ۔۔اب موقعے کی تلاش میں تھا کب بھائی اکیلے ملے اور میں اپنا شک دور کرو ۔۔۔۔

جلد ہی یہ موقع مل گیا کیوں کے حویلی کے سبی ملازم بہت دنوں سے کاموں میں لگے تھا آج سب ہی جلد سونے کے لیے جا چکے تھے ۔۔۔

تو بھائی خود ہو کچن سے گرم دودھ کا گلاس لے کر نکل رہا تھا ۔۔۔

بھائی پلیز دو منٹ بات سن لے ۔۔

ہاں یار بولو "پلیز" والی کونسی بات ہے ۔

عادل نہ جو بات پوچھنی تھی دلشاد کے تو "وہموں گمان  میں بھی نہیں تھا ""

"بھائی یہ وہی ہوٹل والی ہانی ہے """

اس نے بغیر کسی لگی لپٹی کے بول دیا اس کے ہاتھ سے تو دودھ کا گلاس  چھلک گیا ۔؟؟؟۔

ہاں نہیں !!!!!

بھائی ہاں یہ نہ ؟؟؟

ہاں !!!

واقعی یہ وہی ہے تو پھر اس کی حالت کیا ہو گی اپ نے اس کے ساتھ شادی کر لی اور مجھے بتایا بھی نہیں ہے کیوں وجہ جان سکتا ہو ؟؟؟

یار شادی نہیں کی یہی "ونی" ہے چچا جان کے "قاتل"  کی بہن ۔۔۔

 مجھے معلوم ہی نہیں تھا کے یہ ہمارے "مخالف پارٹی" نواب آفریدی خان کی بیٹی اور قاتل فضل خان کی ہمشیرہ ہے ۔۔۔۔

بس اپنی محبت کہی دور چلی گئی اور اس قاتل کی بہن یاد رہ گئی ۔۔۔

افسوس بہت افسوس ؟؟؟؟

اپ کو شرم نہیں آئی اس کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہوۓ ۔۔۔

چاہے جو بھی ہو ہم مسلمان ہے اس بات پہ اتنا یقین ہونا چاہئے کے اللّه کی رضا کے بنا کوئی دنیا سے نہ جا سکتا ہے نہ آ سکتا ہے ۔۔۔۔

پھر اگر ہم دنیا داری کے طور پر ہی سہی "ونی" لے لے مگر اس کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہئے وہ بھی انسان ہے ۔۔

تمہیں کس نے کہا کے اس کے ساتھ میں بدسلوکی کرتا ہو ؟؟؟؟

کہنے کی کیا ضرورت ہے !!!

اس کی سرخوں سفید رنگت میں "زردیاں" گھل چکی ہے ۔۔۔۔۔

اچھی بھلی اس کی صحت ایک ڈھانچے  کی صورت لے چکے ہے پھر کیا ضرورت رہ گئی کچھ پوچھنے یہ بتانے کی ؟؟؟؟

دلشادی نظرے چرا گیا تھا ۔۔۔

اچھا چھوڑو اس کی طبیعت خراب ہے اس کے لئے یہ دودھ تھا جو کے اب ٹھنڈا ہو چکا ہے پھر گرم کر کے اسے پلا دو پھر کرتے ہے بات؟؟؟؟

_________________________

ہانی کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے وہ خبر سنا دی جو اس کے "سر پر آسمان گڑانے  کے لئے کافی تھی  "

دیکھے یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔

کیوں نہیں ہو سکتا کیا یہ آپ کی وائف نہیں ہے یہ کوئی اور رشتہ ہیں اپ دونوں کے درمیان (ڈاکٹر نے بہت زو معنی بات کہی تھی)

ایسا نہیں ہے ہیں تو میری وائف مگر مجھے ضرورت نہیں ہے ابھی اولاد کی اور یہ "ایکسپٹ" کر رہی ہے یہی وجہ ہے میری فکر کی ۔۔۔۔۔

دیکھے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہے جن کو پہلے اپنا "فیوچر" سٹبلیش کرنا ہوتا مگر یہ اللّه کی مرضی ہے جب وہ لکھ دے کسی کا دنیا میں آنا تو آ کر رہتا ہے ۔۔۔

دیکھے ایک بات اگر آپ بےبی "اباؤٹ" کر دے تو جتنی رقم اپ کہے گی میں تیار ہو ۔۔۔

دیکھے پہلے نمبر پہ میں یہ گناہ کا کام کر  نہیں سکتی دوسری بات "بہت دیر ہو چکی ہیں "

اب اس بچے کو پیدا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور ہاں اگر آپ ایسا کچھ کرے گا تو آپ کی وائف کی حالت پہلے ہی بہت خراب ہیں ۔۔

ان کا خیال رکھے ۔۔۔۔

اب جا سکتے ہے اپ ۔۔۔

________________________

واپسی پہ دلشاد بہت چپ تھا  ۔۔

ہانی !!!!!

"تم ایکسپٹ" کر رہی ہو اپنا خیال رکھنا اب ۔۔

ہانی کو شاک لگا تھا ۔۔

دلشاد "میں تو آپ کی رکھیل ہو نہ پھر مجھ سے اولاد کیوں ؟؟؟؟؟

بکواس کرنے کا نہیں کہا بتایا ہے بس باقی کوئی خوش فہمی میں نہ رہنا جو تمہاری اوقات ہے رہو گی تم اسی میں بس پتہ نہیں کیسے یہ غلطی کر بیٹھا ہو ۔۔۔ 

پھر حویلی تک مکمل خاموشی رہی ۔۔۔

واپس آ کر ہانی کو کمرے میں چھوڑ کر سکھی کو اس کے کھانے پینے کی ہدایت دے کر اور کوئی بھی کام ہانی کو نہیں کہا جاۓ گا مکمل آرام دیا جاۓ ۔.  

ہانی سے جتنی بھی نفرت سہی مگر بات اب۔۔

 "اپنی اولاد اپنے خون کی تھی "

بات خاموش گوشے میں چپ چاپ کب سے سگریٹ پھونک رہا تھا جب عادل کی نظر پڑی تو اس کی طرف آ گیا کیا ہوا یہاں کیوں کھڑے ہے اپ ۔۔۔

اتنا بے گانہ تھا دنیا سے کے خبر ہی نہیں ہوئی ۔۔

عادل نے کندھا ہلایا تو چونکا !!

ایسے کیوں کھڑے ہے کیا ہوا ہیں ؟؟؟

کچھ نہیں بس ویسے ہی ۔۔۔

اپ تو بھابھی کو لے کر گے تھے نہ تو پھر کیا کہا ڈاکٹر نے ,؟؟؟؟؟

تم کیا کرو گے پوچھ کے ؟؟؟

میں ویسے ہی پوچھ رہا ہو باقی کوئی بات نہیں ۔۔۔

تمہاری بھابھی "ایکسپٹ" کر رہی ۔

کیا بھائی واقعی ۔۔۔

ہان ۔۔۔

اوہ تو اپ اتنی بری خوش خبری یوں سگریٹ میں اڑا رہے ہیں  ۔۔۔۔۔

سب کو بتائے بھائی آج تو جشن ہونا چاہیے اتنی بری خبر ہے یہ ۔۔۔

تم جانتے ہو یہ میری بیوی نہیں "ونی" ہے 

دلشاد نے ونی پہ زور دے کر کہا تھا ۔۔

بھائی جو بھی ہے مگر خدا اپ کو اسی کے جسم سے خوشی دے رہا ہے وہ جو بھی ہے 

ہیں تو اپ کے نکاح میں نہ پھر یہ اپ کی باتیں فضول ہے بتا دے سب کو ۔۔۔۔

__________________

ادھر ہانی کا بھی یہی حال تھا وہ کسی صورت نہیں چاہ رہی تھی کے دلشاد جیسے "درندے " کی  اولاد کو جنم دے مگر دیر ہو چکی تھی ۔۔۔

اس ساری حویلی میں بس ایک سکھی تھی جو اس کے درد اور غم میں شریک ہوتی تھی ۔۔۔

بہت سمجھا بجا کر حوصلہ تسلی دے رہی تھی دیکھے نہ بی بی اگر صاحب نے آپ کو بیوی کا مقام دیا ہے نہ تو ہی اپ کے وجود سے اپنی اولاد چاہی ہے ۔۔۔

اب ہانی چپ تھی کیا بتاتی کے تمہارے صاحب بھی "پچھتا" رہے ہے ۔۔دکھ اور اذیت سے آنکھیں موند گئی تھی ۔۔۔

پتہ نہیں کتنے سر دو گرم سے گزرنا باقی تھا ۔۔۔

__________________ 

یہ کپڑے اور پھل تمہارے لئے ہیں ۔۔

کیوں ؟؟؟؟

کیوں کے تمہیں ضرورت ہیں ان سب کی 

نہیں مجھے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں اپ کو پتہ ہے مجھے ان چیزوں کا ذائقہ بھی بھول چکا ہے آپ جو کھانا مجھے دیتی ہے ملازموں کے ساتھ وہی دے مجھے اور کوئی نوازش نہیں  چاہئے  اپ کی مہربانی ہے ۔۔۔

مجھے جواب سننے کی عادت نہیں اور یہ سب تمہارے لئے ہے بھی نہیں یہ سب میرے بیٹے کی اولاد کے لیے ہے یہ سب ۔۔۔

اگر بہو ڈنگ کی ہوتی تو تو سارے خاندان کو بلاتی مگر خیر خوشی تو پھر بھی کرو گی میں بس تمہاری حالت کچھ سمبل جاۓ ۔۔۔

______________________

انھیں دنوں میں وقت کیسے گزارا کچھ پتہ ہی نہیں لگا ۔۔۔

اج ڈاکٹر نے ہانی کو ٹائم دیا ہووا تھا سو دلشاد کے ساتھ آئی۔۔۔۔۔

ہسپتال میں داخل ہوتے ہی ہانی کی نظر "ادا "پہ پڑی جو وہیل چیئر پہ بیٹھے تھے ۔۔۔

ہانی کا تو دل پسیج گیا تھا آخر تھا تو بھائی نہ ۔ ۔۔۔

پتہ نہیں کیوں ہانی کے بہت دفعہ پوچھنے پہ بھی ادا چپ رہے اور ملازم چپ چاپ ادا کو لے کر چلا گیا اس کے اتنے رونے پہ دلشاد ہی نے بتایا تمھارے ادا کی لڑائی ہو گئی تھی کچھ لوگو سے تو ان کی دونوں ٹانگوں میں اتنی گولیاں لگی ہے ۔۔۔۔

کے دونوں ٹانگیں ناکارہ ہو چکی ہے ساری زندگی کے لئے ۔۔۔

مگر میں تو کبھی بد دعا نہیں دی ادا کو ؟؟؟؟

ہاں مگر تم بہن ہو کیسے دے سکتی تھی ؟؟؟؟

جو اور لوگو کے ساتھ ظلم کرتا رہا ہیں ان لوگوں کی" اہ " لگی ہے خیر چھوڑو تم فکر نہ کرو ہر کام میں اللّه پاک کی بہتری ہوتی ہے ۔۔

"ہانی مجھے بیٹے کی "خواہش" ہے ۔۔۔

مگر میں کوئی اور ظالم اور درندا  اس دنیا میں نہیں لانا چاہتی مجھے بیٹی کی خواہش ہے کوئی دوسرا "دلشاد " نہیں ۔۔۔

وہ لب بینچ گیا تھا کوئی جواب نہیں تھا اس لئے چپ چاپ سائیڈ پہ چلا گیا ۔۔۔

آخر پھر وہ وقت بھی  آن پہنچا جب ہانی کو "ڈلیوری روم " میں لے کر گے تو دلشاد کا دل نجانے کیوں ڈر رہا تھا ۔۔۔۔

پتہ نہیں خودبہ خود ہی ہانی کے لیے سجدہریز ہو گیا تھا خدا کے سامنے ۔۔۔۔

پتہ نہیں کیوں ایسا لگ رہا تھا ہانی کو کبھی نہیں دیکھ سکے گا ۔ ۔۔

بہت جان لیوا انتظار کے بعد ڈاکٹر نے بیٹی ہونے کی اطلاع کے ساتھ ساتھ أپریشن ناکام ہونے کی اطلاع دی  اپ کی وائف کی حالت پہلے سے ہی خراب تھی بہت مشکل سے ہم بس بچی کو بچا سکے ہے ۔۔۔

بلکل آخری سانسیس چل رہی ہے اگر اپ ملنا چاہئے تو مل سکتے ہے ۔۔۔۔

دیکھو ہانی اللّه پاک نے تمہاری دعا پوری کی ہے ہماری بیٹی ہوئی ہے ۔۔۔۔

بلکل تم جیسی ہے اب مجھے احساس ہوا یہ بیٹیاں تو بہت نازک ہوتی ہے کانچ جیسی ۔۔۔۔۔

سنو ۔۔؟؟؟؟

میں ابھی مرنا نہیں چاہتی مگر مجھے پتہ ہے کہ مجھے جانا ہے ،کہ میرے جانے اور میرے رکنے پہ میرا اختیار نہیں مگر میں چاہتی ہوں کہ میں اپنی بیٹی کو اپنی گود میں لو اور تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں اور ایک تصویر ہماری کیمرے میں " مقید"  کی جاۓ جو کل کو میری بیٹی کو دو اور کبھی میری اور اپنی نفرت کا نہ بتانا ۔۔۔

یہ تصویر ہماری زندگی سے بھرپور ہونی چاہیے....

کسی نرس سے کہو مجھے توڑا بہت تیار کر دے تا کے کل کو میری بیٹی کو ہماری تصویر پہ کبھی شک نہ گزرے کے ہمارے تعقات خراب تھے ۔۔۔۔

"دلشاد اور پاس کھڑی ڈاکٹر دونوں ہی کی آنکھیں نم ہو گئی تھی اس "عجیب "فرمائش" پہ "

پلیز!!!!!

میری آخری خوشی پوری کر دو تو تعلقات لیز ڈاکٹر کے کھنے پہ ایک نرس اس کے بال بنا کر ہلکا سا میک اپ کرنے لگی ۔۔۔۔۔

دلشاد پاس کھڑا آنسو بہا رہا تھا ۔۔۔کیوں کے موت تو دشمن کی بھی رلا دیتی ہے یہ تو اپنے "نکاح " میں تھی اپنی اولاد کی ماں تھی ۔۔۔

تیاری مکمل ہوئی تو ہانی کا سانس رکنے لگ گیا ۔۔۔

د۔۔۔۔۔۔دل۔ ۔۔دل۔ ۔۔۔شا۔ ۔۔۔۔د۔ ۔۔۔

ہاں ہانی بولو ۔۔۔

م۔۔۔۔ی۔ ۔۔ر۔ ۔۔ی۔ ۔میر۔ ۔۔۔ی۔ ۔۔سا۔ ۔۔۔۔۔۔نس۔ ۔۔۔ر۔ ۔۔۔ک۔ ۔۔۔ر۔ ۔۔۔۔۔ہی۔ ۔۔۔مگر۔ ۔۔۔۔۔می۔ ۔۔۔۔ں۔ ۔۔۔۔مر۔ ۔۔۔بھ۔ ۔۔۔ی۔ ۔۔گی۔ ۔تو ۔۔۔۔۔میر ۔۔۔۔۔ی ۔۔۔آنکھ ۔۔۔۔ی ۔۔۔۔۔۔ں ۔۔۔۔۔تب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تک ۔۔۔۔بن  ۔۔۔۔۔د ۔۔۔۔۔۔نہ ۔۔۔۔۔۔کر ۔۔۔۔۔۔نا ۔۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔۔۔جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تک ۔۔۔۔۔۔ہما۔۔۔۔۔۔۔ری ۔۔۔۔۔۔۔تصو۔۔۔۔۔۔۔یر۔۔۔۔۔۔ب۔۔۔۔۔۔ن ۔۔۔۔۔۔۔جا ۔۔۔۔۔۔۔۔ئے

(دلشاد میری سانس رک رہی ۔۔۔۔۔مگر میں مر بھی جاؤ تو تب تک میری آنکھیں بند نہ کرنا کے جب تک ہماری تصویر بن نہ جاۓ)

بہت جلدی میں دلشاد نے تصویر بنائی تو ہانی کو دیکھائی  ۔۔۔۔۔

ہانی تمہاری یہ خوشی پوری کر دی ہے ۔۔۔۔

کاش دلشاد تم پہلے میرا کچھ خیال کر لیتے تو شاید میں مرتی نہ ۔۔۔۔

تمہیں یاد ہے جب ہماری شادی ہوئی تھی ،سب کچھ چھڑوا  دیا تم نے میرا .....

۔

چپ کر جاو پگلی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔اس نے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے آنکھوں کی نمی چھپائی تھی مگر آواز اتنی بھاری تھی کہ جیسے بڑی مشقت سے بولرہا ہوں ۔شاید اس سے اپنی بیوی کہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔۔

 ۔

وہ آنسووں سے ہنس دی ۔۔

 ۔۔

اس نے جھک اس کے ہاتھوں پہ بوسہ دیا ۔۔

مگر تم ہمیشہ سے بد تمیز ہو ۔۔وہ منہ بسور کے بولی تھی ۔۔

ہے ناں ۔۔میں بدتمیز ہوں ناں ۔۔اس حالت میں بھی اس کہ خالی آنکھوں میں شرارت تھی ۔۔

ہاں بہت زیادہ ۔۔

ہاں۔۔اور آپکو پتہ چل جاتا تھا کہ اب میں شرمندہ ہوں ۔۔

ہے ناں ۔۔

وہ بڑے مان سے پوچھ رہی تھی ۔۔وہ سر جھٹک کے بولی ۔۔

ہاں ۔۔ایسے ہی تھا۔۔

 اب سمجھ آئی کہ اللہ مرد کو برتر کیوں رکھا ہے تاکہ وہ اپنی عورت کی اپنے سے چھوٹا اور نازک جانتے ہوئے اس کی خود سے بھی ذیادہ حفاطت کرے اس پہ شفقت والا رویہ رکھے اور آپ ایسے تھے نہیں ۔۔

اس نے آنسو پوچھے اور اپنے شوہر کو دیکھا جو رو رہا تھا ۔۔

ارے پاگل تم کیوں رو رہے ہو جا تو میں رہی ہوں۔۔انتہاء دکھ لئے وہ ہنسی  ۔۔

ہاں اس لئے تو رو رہا ہوں کہ تم جا رہی ہو  

مت روئیں آپ ۔۔وہ مشکل سے سانس لیتے بولی تھا ۔۔

اتنے میں اس کی سانس اکھڑنے لگی ۔۔۔۔

نرس جلدی سے ڈاکٹر کو بلاوں میری بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے نرس بھاگی بھاگی گئی ۔۔

میرا ہاتھ مت چھوڑیں پلیز۔۔وہ اکھڑی سانس میں بولی ۔۔

ہاں نہیں چھوڑ رہا ناں ۔۔وہ امید اور نا امیدی میں بھول رہا تھا ۔۔

کان پاس کریں اپنا۔۔اس نے ہمت کر کہا۔

ہاں ہاں بولوں۔وہ پاس ہوا۔۔

انت حیات ۔۔

تم میری زندگی ہو ۔۔

وہ سسک پڑا ۔۔اور روتے ہوئے بولا ۔۔

ختم کر کے تو جا رہی ہو ۔۔

کاش تم اپنی زندگی میں مجھ سے یہ سب کہ لیتی تو آج تم یوں نہ جاتی ۔۔۔۔۔مگر میں بھی آنا میں رہا اور تم نفرت کرتی رہی کچھ بھی نہیں بچا ۔۔۔۔مگر ہانی وعدہ ہے تم سے اپنی بچی کی قسم لیتا ہو کبھی دوسری شادی کا نہیں سوچا گا تمام عمر تمہاری اور اپنی بیٹی کے لئے گزار دو گا ۔۔۔۔۔

د۔۔۔۔۔۔۔۔۔ل.........

اکھڑتی سانسوں کے ساتھ بولنے کی کو شش کرنے لگی ۔۔۔۔

ہانی مجھے معاف کر دو اپنی بیٹی کا صدقہ سمجھ کر ہی سہی معاف کر دو مجھے 

أپ پلیز باہر جائے ۔۔۔۔

ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تین۔ ۔۔۔۔

جھٹکوں کے ساتھ ہی ہانی ۔  اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔۔۔۔۔

اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی جیسے سو رہی ہو۔۔۔۔

وہ تو ابھی أئی۔سی۔یو۔ سے باہر بھی نہیں نکلا تھا اور وہ آخری ہچکی  لے گئی تھی ۔۔۔۔

دلشاد کو یوں روتا دیکھ کر عادل بولا بھائی اپ کو تو نفرت تھی پھر یہ آنسو ۔۔۔۔

یار میں جان ہی نہیں سکا پہلے دن جیسی محبت تھی اب بھی مجھے اس سے مگر ایک "آنا پرست وڈیرے" نے کبھی ظاہر نہیں ہونے دی آج ایسا لگ رہا ہیں ساری زندگی کا "پچھتاوا" دے گئی مجھے ۔۔۔۔

آج کے بعد ہمارے علاقے میں کبھی کوئی خوں بہا نہیں لے گا اب پھر کبھی کوئی معصوم کلی نہیں مسلی جاۓ گی کسی باپ یہ بھائی کے گناہ میں ۔۔۔۔۔۔

کاش بھائی اپ پہلے سمجھ لیتے تو آج کبھی ساری زندگی کا پچھتاوا مقدر نہ بنتا آپ کا ۔۔۔۔۔

 _ ________________

ہانی کے بھائی کو جب اس کی موت کی اطلاع ملی تو وہ خود پہ اختیار نہیں رک سکا ۔۔۔

نہیں یہ نہیں ہو سکتا میں تو ہانی سے معافی مانگنا چاہتا تھا مگر نہیں ۔۔۔۔

بابا جان تو احساس ہونے سے پہلے ہی چلے گے مگر ہانی تو آخری امید تھی کے اگر ہانی معاف کر دے گی تو بابا جان معاف کر دے گے اور اگر بابا جان معاف کرے گے تو اللّه کی بارگاہ سے معافی مل جاۓ گی مگر نہیں ۔۔۔۔۔

قسمت دور کھڑی ہنس رہی تھی ۔۔۔۔

دو مردوں کو تمام عمر کا پھچتاوا  دے گئی جو دونوں اس پہ "فرعون" بن بیٹھے  تھے آج وہی رلا گئی ۔۔۔۔

ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mohabbat Ya Vani Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mohabbat Ya Vani written by Habza Maqsood Mohabbat Ya Vani by Habza Maqsood is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment