Pages

Wednesday, 6 November 2024

Dil E Dushman By Amreen Riaz Complete Romantic Novel

Dil E Dushman By Amreen Riaz Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dil E Dushman By Amreen Riaz Complete Romantic Novel 

Novel Name: Dil E Dushman

Writer Name: Amreen Riaz

Category: Complete Novel

اُسے آج بہت اہم میٹنگ میں بُلایا گیا تھا اس لیے وہ اُس کے بارے میں ہی سوچتا میجر رضا کے آفس میں داخل ہوا تھا جو کیپٹن علی اور کیپٹن احمر کے ساتھ کُچھ ڈسکس کر رہے تھے اس پر نظر ڈال کر اُنہوں نے گھڑی کی طرف دیکھا پھر اُسکی طرف ایسی نظروں سے دیکھا کہ وہ شرمندہ ہوتا سر ہی جُھکا گیا۔

"میرے ساتھ کام کرنے کے لیے سب سے پہلے آپکو وقت کا پابند ہونا پڑے گا،کین یو انڈرسٹنڈ کیپٹن مرتقوی یزدانی۔۔۔۔۔۔"اُنکا لہجہ سپاٹ تھا۔

"آئم صوری سر،یس سر۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے بس لہجے میں بولا تو کیپٹن علی اور کیپٹن احمر نے بامُشکل اپنی مُسکراہٹ روکی تھی۔

"اوکے سٹ ڈاؤن۔۔۔۔۔"مرتقوی اُن دونوں کو گھورتا نشت سھنبال گیا۔

"جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ مشن ہمارے لیے بہت خاص ہے کیونکہ اس میں باہر کی قوتوں کے ساتھ ہمارے اپنے لوگ ملے ہیں،جو اپنے لالچ کے لیے اپنے ہی لوگوں کے دُشمن بن چُکے ہیں ہمیں باہر والوں کو پکڑنے کے لیے پہلے اپنے اندر موجود لوگوں کو پکڑنا ہوگا اور اُن کو پکڑ ہم تبھی سکتے ہیں جب ہم اُن پر پوری نظر رکھیں گئے اور ہمیں اس بات کا اندازہ ہو کہ اُن کے ساتھ کون کون اور کہاں تک ملوث ہے۔۔۔۔۔۔۔"میجر رضا نے اُنکو بتاتے ہوئے دیوار نصب ایل ڈی پر کُچھ انسانی اور جگہوں کی تصویریں دکھائیں اور ساتھ اُن کو سارا پلان بتانے لگا تقریباً کوئی دو گھنٹے کی لگاتار میٹنگ کے بعد جب میجر رضا نے سب کو ایک ایک ڈیٹیل اور اُنکا مشن بتا کر اُنکی طرف سوالیہ انداز سے دیکھا۔

"کسی کو کُچھ پوچھنا ہو۔۔۔۔۔۔۔"

"نو سر۔۔۔۔۔"تینوں ایک آواز میں بولے۔

"دو ماہ کا وقت ہے،ہمارا ایک انٹیلی جنس آل ریڈی اس پر ایک سال سے کام کر رہا ہے اور یہ ساری انفارمیشن اُس کے تھرو ہی ہم تک پہنچی ہے،سب سے اہم یہ ہے کہ آپ کبھی بھی اپنا کانفڈینس لوز نہیں کریں گئے،کُچھ بھی ہو آپ لوگ پکڑے بھی جاؤ خُود پر بھروسہ رکھنا ہے اتنا تو آپ جانتے ہیں کہ اعتبار اپنے سگے بھائی پر بھی نہیں کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔"میجر رضا  نے کہتے ہوئے مرتقوی یزدانی کو کُچھ جتایا تھا جو گڑبڑا گیا تھا۔

"اب آپ لوگ جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے کہنے پر تینوں اُٹھے اور اُسے سیلوٹ کرتے کمرے سے نکل گئے۔

"یار ایک تو مشن اتنا کنفیوز ہے اُوپر سے میجر رضا اس مشن کو ہیڈ کر رہے ہیں اُف۔۔۔۔۔۔۔"مرتقوی جس کی میجر رضا کے سنجیدہ مزاج اور غُصے سے جان جاتی تھی باہر آتا علی سے کہنے لگا۔

"یہ تو ہے پر اب زیادہ چوکس رہنا پڑے گا ورنہ ایک غلطی پر بھی میجر رضا ہمیں اس دُنیا سے اُٹھا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔"علی کے مُنہ لٹکا کر کہنے پر مرتقوی گہرا سانس بھر کر اپنے کارڈ کی طرف دیکھا جہاں اُسکا نام پتہ سب غلط درج تھا۔

"_________________________________"

اقرب چوہان اپنے معمول کی واک پر تھا وہ اپنے ٹریک پر چلتا ہیڈ فُون کانوں سے لگائے بلیک ٹریک سُوٹ میں وہ دوڑتا ہوا اب واپسی کے راستے کی طرف تھا تبھی اسکی نگاہ کی گرفت میں خُون کے قطرے آئے تھے جن کے تعاقب میں اس نے دیکھا تو نگاہ سیدھی بینچ پر بیٹھی ایک لڑکی کی طرف گئی جسکی اس طرف تو پُشت تھی مگر اُس کے پاؤں سے نکلتا خُون بے ساختہ اس کے قدم اُسکی جانب بڑھے تھے اُس نے ہیڈ فُون گلے میں ڈال کر اُس کے قریب آیا جو درد سے بلبلا رہی تھی۔

"کیا میں آپکی ہیلپ کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُس لڑکی سے پوچھا اُس نے اپنا جُھکا سر اُٹھایا تھا اقرب اُسکا حسن دیکھ کر تھما تھا جس کی بیلو آنکھیں پانی سے بھریں ہوئیں تھیں۔

"کیا ہوا ہے آپکو۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے اُسکی نگاہ اس کے پاؤں پر اُٹھی تھی جہاں ایک باریک کانچ کا ٹُکڑا اُس کے دائیں پاؤں میں گُھسا ہوا تھا جہاں سے خُون کا فواراہ نکل رہا تھا۔

"اوہ آپ کا تو پاؤں بہت ذخمی ہے،لائیں مُجھے دکھائیں۔۔۔۔۔۔"اقرب نے کہتے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا اور اُس کے پاؤں کو ہاتھ لگانا چاہا مگر اُس نے پاؤں کھینچ لیا تھا اقرب نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جو سر نفی میں ہلاتی رو رہی تھی اقرب نے گہرا سانس بھرا اور اُسکا پاؤں پکڑ کر اپنے سامنے کیا اور غور سے اُس کانچ کو دیکھنے لگا۔

"میں اب اسے نکالونگا درد بہت ہوگا پر برداشت کر لیجئیے گا اوکے۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات پر وہ سر اثبات میں ہلاتی آنکھیں زور سے میچ گئ تھی اقرب نے جب اُس ٹکڑے کو نکالا وہ درد سے کراہ اُٹھی تھی اقرب نے اپنا رومال نکال کر اُس پر مظبوطی سے باندھ دیا۔

"درد تو ہوگی پر پہلے سے جلن کم ہو گی،گھر جا کر کوئی مرہم پٹی کر لیجئیے گا اور پین کلر بھی لے لیجئیے گا۔۔۔۔۔۔"اقرب کہتے ہوئے اُٹھا تھا۔

"آپکا شُکریہ۔۔۔۔۔۔"گلابی ہونٹ ہلے تھے۔

"ویلکم،اگر آپ بُرا نہ مانیں تو کُچھ کہوں۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات پر وہ سر اثبات میں ہلاتی اُسے دیکھنے لگی۔

"اگر آپ اس ربڑ کی چپل میں واک کریں گی تو پھر روز ہی آپکو اس طرح کی درد سے گُزرنا پڑے گا کیونکہ یہ پارک ہے یہاں کانچ کے ٹکڑے اور کانٹے تو ہونگے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی چپل کی طرف اشارہ کرتے بولا وہ شرمندہ سی ہو گئی۔

"میں واک کرنے نہیں آئی میں تو بس صُبح کی تازہ ہوا کھانے آئی تھی،پتہ نہیں کیسے یہ لگ گیا۔۔۔۔۔۔۔"

"کوئی نہیں آئندہ احتیاط کیجئیے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا پلٹ گیا وہ اُسکی پُشت کو دیکھتی آہستہ سے اُٹھی اور لنگڑا کر چلنے لگی مگر چلنا مُشکل تھا وہ بے بسی سے نم آنکھیں لیے وہی ٹک گئی۔

"ہر طرف سے تکلیف میری ذات کو کیوں ملتی ہے۔۔۔۔۔۔"وہ دلگرفتکی سے بولتی آنسو صاف کرنے لگی اقرب چوہان جو تب سے اسے ہی دیکھ رہا تھا گہرا سانس بھرتا اسکے نزدیک آیا۔

"کیا سہارے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات پر وہ چونکی پھر سر نفی میں ہلا گئی وہ کیسے بتاتی کہ سچ میں ہی اسے سہارے کی ضرورت تھی۔

"اُٹھییے اور ہاتھ دیجیے۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اس کے آگے ہاتھ پھیلایا وہ جھجکتی ہوئی اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئی اور پھر اُس کے سہارے ایک پاؤں پر چلتی اپنی گاڑی تک آئی تھی جہاں ڈرائیور کھڑا تھا۔

"بس یہاں تک ہی،بہت شُکریہ آپکا۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتی ہوئی گاڑی میں ٹک گئی جس کا دروازہ ڈرائیور نے کھول دیا تھا۔

اقرب اُسکی جاتی گاڑی کو دیکھتا واپسی کی راہ اختیار کر گیا۔

"_________________________________"

"جو سمجھایا ہے تُمہیں سمجھ آ گیا نہ قُرت۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف سے کنفرم کیا گیا تھا۔

"جی سمجھ آ گیا آپ فکر نہ کریں اس دفعہ آپکو اس ٹارگٹ کو اچیو کر کے دکھاؤنگی۔۔۔۔۔۔۔"وہ مظبوط لہجے میں بولتی دوسری طرف والے کو خُوش کر گئی۔

"اوکے،تُمہیں ہم ساری لوکیشن سینڈ کر دیتے ہیں،اچھے سے کرنا سب،بائے۔۔۔۔"دوسری طرف سے کال کٹ کر دی گئی تھی وہ موبائل پینٹ کی جیب میں رکھتی آنکھوں پر سن گلاسز لگاتی اپنے پہلے ٹارگٹ کی تلاش میں چل نکلی تھی اس چیز سے بلکل بے خبر دو نظریں آل ریڈی اس کو دیکھتیں اپنا ٹارگٹ اوکے کر گئیں تھیں۔

"________________________________"

وہ زخمی پاؤں کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تو سامنے ہی اپنی ماں کے پاس بیٹھے انوار صدیقی کو دیکھ کر اُسکا حلق تک  کڑوا ہو گیا تھا جس کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح اسے دیکھ کر خباثت بھری مُسکراہٹ چمکی تھی۔

"عدن،کیا ہوا تُمہارے پاؤں کو۔۔۔۔۔۔"نارینہ کے چہرے پر تو نہیں لہجے میں ضرور پریشانی چمکی تھی۔

"اوہ مائے سویٹ ڈارلنگ،کیا ہوا،آؤ میں اپنی جان کو مرہم لگاؤں۔۔۔...."انوار صدیقی اپنے سیاہی مائل ہونٹوں کے ساتھ مشروب کا گلاس لگاتے ہوئے بولا جس نے کاٹ دار نظروں سے اُسے دیکھا تھا جس پر نارینہ کُچھ بوکھلا کر بولی۔

"عدن تُم اپنے کمرے میں جاؤ میں فضا کو بھیجتی ہوں تمہارے رُوم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ انوار صدیقی کو آنکھوں سے اشارہ کرتی دُر عدن کی طرف متوجہ ہوئی جو دونوں پر قہر بھری نظر ڈالتی لڑکھڑا کر چلتی اپنے رُوم میں آئی تھی اسے انوار صدیقی پہلے ہی زہر لگتا تھا مگر جب سے اس کے کانوں میں یہ بات پڑی تھی کہ وہ اس سے شادی کا خواہش مند ہے تب سے تو اسکا دل اُسے قتل کر دینے کو چاہتا تھا مگر وہ چُپ تھی بلکہ یوں کہنا مناسب رہے گا کہ وہ بے بس تھی اپنے باپ اور اپنی سوتیلی ماں کی وجہ سے باپ کا تو وہ بزنس پارٹنر تھا اور ماں کا کہنے کو تو دوست تھا مگر وہ اچھے سے جانتی تھی کہ عاشق سے کم نہیں تھا وہ جانتی تھی کہ آج صُبح اُس نے نمودار ہونا ہے اس لیے وہ اُسکا سامنا نہ کرنے کی وجہ سے قریبی پارک میں چلی گئی تھی۔

"چھوٹی بی بی۔۔۔۔۔۔"فضا کی آواز پر وہ چونکی تھی پھر گہرا سانس لیتی اُسے فسٹ ایڈ باکس لانے کو کہتی وہ بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔

"________________________________"

"سرکار آئیں ہیں آج ہمارے غریب کھانے پر۔۔۔۔۔۔۔۔"ریشماں بائی اُسے اپنے کوٹھے پر دیکھ کر خُوشی سے پُھولے نہ سما رہی تھی جو سگریٹ کے کش لیتا اُسکی خُوشی کو نظر انداز کرتا مطلب کی بات پر آیا تھا۔

"مال کہاں ہے۔۔۔۔۔۔؟

"اندر ہے سرکار،آپ چل کر دیکھیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ریشماں اسے لیے ایک ہال نما کمرے میں آئی تھی جہاں پندرہ سولہ سال کی عُمر کی دس لڑکیاں یوں سہمی ہوئی کھڑی تھیں جیسے اُنہوں نے زکی کی شکل میں اپنی موت دیکھ لی ہو اور سچ بھی یہی تھا زکی اُن معصوموں کے لیے موت کا فرشتہ ہی تو بن کر آیا تھا۔

"تُمہارے کام سے میں بڑا خُوش ہوں ریشماں جیسے کا پیس کہو ڈھونڈ نکالتی ہو۔۔۔۔۔۔۔"زکی اُنکو سر سے پاؤں تک دیکھتا ریشماں کی طرف پلٹا جو اس کی بات سے یوں فخر سے سر تان کر کھڑی ہو گئی تھی جیسے اُس نے پتہ نہیں حسن کارکردگی کے گولڈ میڈل سے نواز دیا ہو۔

"سرکار بس آپکی نظر کرم چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے اچھے موڈ کو دیکھتی اپنے مطلب کی طرف آئی۔

"کس کام میں۔۔۔۔۔۔۔"اپنے بندوں کو اُن لڑکیوں کو لے کر جانے کا اشارہ کرتا وہ اسکی طرف پلٹا۔

"نیا ایس پی آیا ہے،کُچھ تنگ کر رہا ہے اُوپر سے کمینہ ایماندار بہت ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"ارے یہ پولیس میں کب سے ایماندار لوگ بھرتی ہونا شُروع ہو گئے،فکر نہ کرو مائی کرتے ہیں اُس ایماندار کا کُچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زکی نے کہتے ہوئے اپنی جیب سے کُچھ نیلے نوٹوں  کی دس کاپیاں نکل کر اُس کے ہاتھ میں دیں اُسکی جیسے آنکھیں اُبل کر باہر آنے کو تھیں۔

"بڑی مہربانی سرکار،آپ کا دیا ریشماں کے بھاگ جگا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"اور تُم لوگوں کے بھاگ سُلانے کا کام کرتی ہو مائی۔۔۔۔۔۔۔"اُس کا اشارہ ایک کمرے سے نکلتے سیٹھ عابد کی طرف تھا جو اپنی قمیض کے بٹن بند کر رہا تھا وہ اُسکی بات ماننے سے انکاری ہوا تھا اس بات سے بے خبر تھا کہ زکی کس بلا کا نام ہے۔

"یہ لیں سرکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے پیچھے کمرے سے نکلتی رانی اس کے قریب آتی اُسکی طرف ایک چپ پکڑاتے بولی زکی نے مُسکراتے ہوئے اُس کے ہاتھ سے وہ چپ لی۔

"ویلڈن۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے سہراتے ہوئے اُس کے وجود پر ایک نگاہ ڈالی تھی جس کے تن پر لباس نہ ہونے کے برابر تھا۔

"سرکار آپکا ویلڈن نہیں چاہئیے آپ کا کُچھ ٹائم چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتی بڑی دلبرانہ نظروں سے دیکھتی بولی تھی۔

"ابھی تو تم سیٹھ عابد کو بھگتا کر تھکی ہوئی ہو پھر کبھی سہی رانی،آخر اس کام کا تُمہیں انعام بھی تو دینا ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سگریٹ کا دُھواں اُس کے مُنہ پر چھوڑتا باہر آیا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہ چپ اس نے اپنے موبائل میں ڈالی اور سکرین پر انگوٹھے کی مدد سے فنکشنز کو سیٹ کرتا سکرین پر چلتی سیٹھ عابد اور رانی کی رات کی کہانی دیکھنے لگا جب وہ لوگ حد سے گُزرنے لگے تو وہ سکرین آف کرتا موبائل جیب میں رکھ گیا۔

"سیٹھ عابد،بچارہ۔۔۔۔۔۔۔"ایک کمینی سی مُسکراہٹ اُس کے ہونٹوں سے چپک کر رہ گئی تھی۔

"__________________________________"

وہ شُروع سے ہی ریس کا بہترین کھلاڑی رہا تھا جُوا لگا کر کھیلنا اُسکا پسندیدہ مُشغلہ تھا جس کے جُرم میں وہ تین دفعہ جیل بھی جا چُکا تھا مگر اُس کا ہاتھ بہت اُوپر تک تھا جسکی وجہ سے دو گھنٹے بعد ہی وہ جیل سے باہر ہوتا تھا۔

"باری۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا بہترین دوست حارث اُسے آوازیں دیتا آ رہا تھا باری نے پلٹ کر دیکھا جو پُھولی ہوئی سانسوں کو ہموار کرتا لمبے لمبے سانس لینے لگا۔

"میدان سے میں آیا ہوں سانس تُمہارا اُکھڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"تُمہاری بائیک جب چھلانگیں مارتی اس ریت کے پہاڑوں پر سے قلابازی کھاتی نیچے کو آتی ہے تو یقین جانو میرا سانس بند ہونے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے کپڑوں سے ریت کے زرے جھاڑنے لگا۔

"یہی تو اصل مزہ ہے،موت کو ڈاج دینا۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے مُنہ میں چیونگم ڈال کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا تبھی اُسکی نگاہ کسی چہرے پر پڑی تھی جسے دیکھ کر مُسکراتا وہ ہیلمٹ پہنتا اپنی بائیک پر بیٹھا اور حارث کو بائے بولتا بائیک کو کِک مارتا وہاں سے بائیک بھگا لے گیا تھوڑی دُور جا کر اُس نے بائیک روکی اور بنا پیچھے مُڑے وہی کھڑا ہو گیا جیسے یقین تھا کوئی چل کر اس کے تک ضرور آئے گا۔

"اچھے کھلاڑی ہو۔۔۔۔۔۔۔"وہ جو کوئی بھی تھی اس کے تک آ گئی تھی جس نے ہیلمٹ اُتارتے ہوئے اُس کی کاجل سے بھری آنکھوں میں نظریں گاڑیں۔

"میرے تک آنے کا مقصد۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دو ٹوک بات کرنے کا عادی تھا وہ جو کوئی بھی تھی اس کے انداز پر دلکشی سے مُسکرائی۔

"تُمہارے تک ابھی آئی کہاں ہوں مسٹر باری۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی میں کوئی رنگ چمکا تھا۔

"میرے تک آنا کوئی مُشکل بھی نہیں مس ہائما رائے۔۔۔۔۔."وہ بھی اُسی کے انداز میں بولا جو اس کے مُنہ سے اپنا نام سُن کر پہلے تو ٹھٹھکی پھر مُسکرا دی تھی۔

"نائس،مُجھے اچھا لگا کہ تُم میرے بارے جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔"

"جو لڑکی ایک ماہ سے مسلسل میری ہر ریس دیکھ رہی ہو،میری ریس پر لاکھوں روپیہ لگا رہی ہے پھر مجھے جیتتا دیکھ کر خُوش ہوتی واپس چلی جاتی ہے کیا میں اُسکے بارے کُچھ نہیں جانوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دوبارہ اُسے اپنی نظروں کی گرفت میں قید کرنے لگا جو اس بات پر خُوش ہوئی تھی۔

"تو تُم مجھ پر نظر رکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔"

"بلکل نہیں،جس کی خُود کی نظریں باری پر ہوں اسے باری نظروں میں نہیں رکھے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پُر اعتماد تھا ہائما رائے کی آنکھوں میں پسندیدگی کے رنگ اُترے تھے جن کو دیکھتا باری زیرلب مُسکراتا اپنی بائیک کو کِک مارتا چلا گیا ہائما رائے اپنے بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتی معنی خیزی سے مُسکراتی چلی گئی۔

"__________________________________"

وہ صدف آپا سے جان چُھڑواتا اندر بی جان کے رُوم میں آیا تو وہاں شہناز بیگم اور بی جان نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا۔

"آخر ایک دم سے آپ سب کو میری شادی کی فکر کیسے ستانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اب کی بار کُچھ جھنجھلا اُٹھا تھا۔

"اقرب پچھلے چار سالوں سے تُم ہمیں ٹرخا رہے ہو پر اب بہت صبر کر لیا ہم نے،اب تُمہاری ایک نہیں سُنے گیں ہم،دیکھو تو تیس سال عُمر ہونے کو ہے تُمہاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بی جان اب کہ غُصے میں آئیں وہ بے بسی سے گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

"ماما آپ اپنے دوسرے بیٹے پر اپنا یہ شوق کیوں نہیں پُورا کرتیں۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ تُم سے چھوٹا ہے اقرب،اس لئے پہلے تُمہاری  ہو گی اور بہت جلد ہو گی۔۔۔۔۔۔۔"اُنکی بات پر وہ مدد طلب نظروں سے بی جان کو دیکھنے لگا مگر وہ بھی ہری جھنڈی دکھاتیں اپنی بہو کی ہاں میں ہاں ملانے لگیں آخر اُنکی بھی یہ دیرینہ خواہش تھی۔

"مطلب کہ اس بار کوئی چُھوٹ نہیں ہے،اوکے ڈھونڈے لڑکی پھر،پر ایک بات بتا دُوں میں پسند میری ہی چلے گی۔۔۔۔۔۔۔"

"جو ہماری پسند ہے نہ بھائی جی یقینناً آپکی پسند بننے میں دیر نہیں لگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف آپا مُسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں۔

"اوہ رئیلی،ایسی بھی کونسی پسند آ گئی آپکو۔۔۔۔۔۔"وہ تجسس سے بولا اس سے پہلے کہ وہ اُس کے بارے میں کُچھ بتاتیں اقرب کے بجتے فُون نے اُسکی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی وہ بی جان کے پاس سے اُٹھا اور سکرین پر روشن ہوتے نمبر کو دیکھ کر اُس کے ماتھے پر دو شکنیں اُبھریں تھیں۔

وہ کمرے سے باہر نکلتا موبائل کان سے لگاتا غُصے سے بولا۔

"کتنی دفعہ کہوں کہ مجھے کال مت کیا کرو پھر بھی تُم باز نہیں آتے،جو بھی بات ہو پر آج کے بعد تُم اس نمبر پر کال نہیں کرو گئے،میں شام تک ملتا ہوں تُم سے بائے۔۔۔۔۔۔۔."کال کٹ کر کے موبائل جیب میں رکھتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا اب اسے جانے کی تیاری بھی تو کرنی تھی۔

"_________________________________"

"باری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی ہیوی بائیک کو وہ دھونے میں مصروف تھا جب ایک نسوانی آواز اُس کے کانوں میں پڑی جس کے تعاقب میں اُس نے دیکھا جہاں ہائما رائے اپنی ریڈ سوک کے پاس چست شارٹ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس بالوں کو کُھلا چھوڑے فُل میک اپ میں اس کی نظر کی طلب میں کھڑی تھی باری نے پائپ کو وہی چھوڑا اور بڑی شان سے چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔

"تُمہارا ہی انتظار تھا۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے اُس نے  ہائما کے چہرے پر آئی آوارہ لٹ کو پھونک سے پیچھے کیا تھا جو اُسکی بات پر دلکشی سے مُسکرائی تھی۔

"قسمت والے ہو جو ہائما رائے کے انتظار میں ہو کر بھی جلدی مُراد پا گئے ہو،ورنہ تو لائنیں لگی ہوئیں ہیں انتظار کرنے والوں کی۔۔۔۔۔۔۔"

"اگر قسمت کا دھنی اسے کہتے ہیں تو پھر میں خُود کو خُوش نصیب سمجھنے میں ایک پل کی دیر بھی کیوں لگاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے چہرے پر بکھری دلفریب مُسکراہٹ کو دیکھتا کہنے لگا۔

"مُجھے پٹا رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھوں میں شرارت تھی۔

"نہیں تُمہاری چال میں آنے کی کوشش کر رہا ہوں،ہائما رائے اپنا قیمتی وقت مُجھ نا چیز پر ضائع کیوں کر رہی ہے،اس بات کا مطلب سمجھا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آؤ میرے ساتھ،سارے مطلب سمجھاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی گاڑی کا فرنٹ ڈور اوپن کرتے ہوئے بولی باری نے ایک نظر اپنی بائیک کو مُڑ کر دیکھا اُسے لاک لگا کر اُسکی گاڑی میں بیٹھ گیا۔

"تُمہیں کہیں ایسا تو فیل نہیں ہو رہا کہ میں تُمہیں اغوا کر کے لے کر جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی طرف دیکھ کر بولی جو ریلیکس ہو کر بیٹھا تھا۔

"باری کو اغوا کرنا اگر اتنا آسان ہوتا تو ہائما رائے یوں پچھلے ایک ماہ سے میرے پیچھے اپنا وقت برباد نہ کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے جواب پر ہائما رائے لاجواب ہوئی وہ اُسکی سوچ سے بھی زیادہ زہین اور مظبوط اعصاب کا مالک تھا۔

"ماننا تو پڑے گا خُوبصورتی اور وجاہت کے ساتھ اللہ نے تُمہیں دماغ بھی بہت دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"شُکر ہے اُس بابرکت ذات کا،ورنہ مجھ میں تو کوئی خوبی نہیں۔۔۔۔۔."گاڑی انجانے راستوں پر گامزن تھی جن کو دیکھتا وہ پریشان نہیں ہوا تھا بلکہ پُرسکون ہوا تھا۔

"یہ تُم کہتے ہو نہ کہ تُم میں کوئی خوبی نہیں ورنہ دیکھنے والے قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ایک جگہ گاڑی روک کر گاڑی سے باہر نکلی اور اسے بھی نکلنے کا اشارہ کیا باری نے نکل کر دیکھا کوئی آدمی کھڑا انکی طرف ہاتھ ہلا رہا تھا وہ ہائما رائے کے پیچھے چلتا اُس آدمی تک آیا جس کو پہلی بار ہی وہ دیکھ رہا تھا۔

"یہی ہے وہ باری۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس آدمی سے بولی جو اب اُسکا معائنہ کر رہاتھا بیلو جینز پر سکائے شرٹ پہنے وہ اپنی بھرپور وجاہت سے اُس آدمی کو چونکا گیا تھا۔

"زہانت اور وجاہت ساتھ ساتھ۔۔۔۔۔۔"وہ اسے سہرانے لگا جس پر ہائما رائے نے جان لُٹاتی نظروں سے باری کو دیکھا جس کے چہرے پر سوالات کی بھرمار تھی۔

"میرا نام انوار صدیقی ہے میں بھی ایک ریس کا میدان سجاتا ہوں ہر اتوار،ہائما نے تُمہاری بہت تعریف کی تو مجھے بھی تُمہاری کارگردگی متاثر کن لگی،میں تُمہیں اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔"اُس نے باری کے ہر سوال کا جواب دے دیا تھا۔

"کیا بلیک کام ہے۔۔۔۔؟وہ اُس پر نظریں جمائے پوچھنے لگا۔

"جوا لگاتے ہیں،ہائما پچھلے ایک ماہ سے تُم پر لاکھوں کا جُوا لگا رہی تھی پر تُمہیں ملتے تھے صرف ہزاروں،پر اگر ہمارے ساتھ کام کرو گئے جتنے کا جوا لگے گا اُتنے ہی تُمہاری جیب میں آئیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لاکھوں اچھے کھلاڑی ہیں نظر صرف مُجھ پہ ہی کیوں ٹکی۔۔۔۔۔۔۔؟باری کی بات انوار صدیقی ہنسا تھا۔

"بھئی مان گئے ہائما کھلاڑی تو تُمہارا ہر میدان میں ماہر ہے۔۔۔۔۔۔۔"باری کی طریف پر ہائما رائے کی گردن فخر سے بلند ہوئی۔

"تُمہارا ریکارڈ چیک کیا تو پتہ لگا کہ تُم نہ صرف اچھے کھلاڑی ہو بلکہ اچھے مُجرم بھی ہو پولیس کو چکما دینا ہر ایک کہ بس کی بات نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار باری کے چہرے پر مُسکراہٹ چمکی تھی۔

"مُجرم ہوں پر اتنا کسی کو حق نہیں دیتا کہ مجھے کوئی شکار کرے۔۔۔۔۔۔۔"

"اور میں نے تو کر لیا،اب کیسے بچو گئے۔۔۔۔۔۔۔"ہائما رائے اس کے بازو پر اپنا ہاتھ رکھتی گویا ہوئی جس پ انوار صدیقی کے لبوں پر ایک معنی خیز ُمسکراہٹ آئی تھی۔

"اگر اسے شکار کرنا کہتے ہیں تو میری نظر میں آپ لوگوں سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔۔"اپنے بازو سے ہائما رائے کا ہاتھ ہٹا گیا انوار صدیقی قہقہ لگا گیا۔

"بہت مزہ آنے والا ہے تُمہارے ساتھ کام کر کے،مان گئے تُمہیں،اچھا بھی ہائما اب میں چلتا ہوں اسے اتوار کو میدان میں لے آنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انوار صدیقی دونوں کو گُڈ بائے بولتا چلا گیا باری کی نظروں نے اینڈ تک اُسکا تعاقب کیا جو پیدل ہی چلا جا رہا تھا۔

"چلیں ہم بھی۔۔۔۔۔۔"ہائما رائے کے کہنے پر وہ سر ہلاتا اُس کے ساتھ چل دیا۔

"________________________________"

سیٹھ عابد کو دن کے گیارہ بجے واٹس ایپ پر ایک ویڈیو میسج ریسیو ہوا اس نے ویڈیو کو  اوپن کیا اور اگلے لمحے اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جو عمل رات کی تاریکی میں ہر خوف کو پس منظر رکھ کر بڑی ڈھٹائی سے کیا جائے صُبح کے اُجالے میں اُسی کو دیکھتے ہوئے لوگ خُود سے بھی نظریں نہیں ملا پاتے یہی سیٹھ عابد کے ساتھ ہوا تھا وہ بنا دیکھے ہی اُسے بند کرتا اپنے آفس میں چکر لگانے لگا اُس کے ہر انداز میں اضطراب کا پہلو نمایاں تھا ماتھے پر چمکے پسینے کو صاف کرتا وہ زکی کا نمبر ملانے لگا۔

"میری سوچ کے عین مطابق رزلٹ آیا ہے،میں تُمہاری کال کا ویٹ ہی کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی مُسکراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

"یہ کیا بدتمیزی ہے زکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ لو جی،بدتمیزیاں تو آپ فرما رہے تھے اپنی رانی کے ساتھ اور الزام ہم پر سیٹھ صاحب دس از ناٹ فیئر سیٹھ عابد۔۔۔۔۔۔۔"وہ دل جلانے میں بہت ماہر تھا یہ سیٹھ عابد کو جلتا دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا۔

"تُمہارا مقصد کیا ہے زکی،اتنی گری ہوئی حرکت کرنے کی وجہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"گری ہوئی حرکت تو نہ کہیں سیٹھ صاحب،کیونکہ جتنے آپ میری نظروں میں گر گئے ہیں نہ اُس کے بعد تو یہ کُچھ نہیں ویسے میں سوچ رہا تھا اگر یہ ویڈیو غلطی سے آپ کی بیگم کے نمبر پر سینڈ ہو جاتی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراہٹ روکتا اُس کی بے بسی کا مزہ لینے لگا۔

"نہیں زکی تُم ایسا کُچھ نہیں کرو گئے،بولو کیا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔"سیٹھ عابد فورًا لائن پر آیا تھا۔

"یہ ہوئی نہ بات،اجمل پٹھان کے ساتھ مُجھے کام کرنا ہے،اب آگے تُم سوچو کہ کیسے مُجھے اُس تک پہنچاتے ہو،بائے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے فُون بند کر دیا سیٹھ عابد دانت پیس کر رہ گیا۔

"دل تو کرتا سالے کو مروا دُوں پر پتہ نہیں سالے نے یہ ویڈیو کس کس کو دی ہو۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر تھام کر وہی ٹک گیا۔

"اجمل پٹھان کے ساتھ یہ کام کیوں کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔؟اُس کے دماغ میں یہ خیال آ کر رُکا تھا۔

"_________________________________"

اقرب چوہان شاپنگ کر کے نکلا تو رات کی سیاہی ہر طرف پھیل چُکی تھی وہ جینز کی پاکٹ سے گاڑی کی چابی نکالتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی نسوانی چیخ پر اُس کے کان جلدی سے کھڑے ہوئے اُس نے آواز کے تعاقب میں نظریں گھُمائیں تو سامنے کا منظر اُسے اپنی طرف راغب کر گیا ایک لڑکی کو کوئی آدمی زبردستی کھینچ رہا تھا اقرب چوہان نے شاپنگ بیگز گاڑی کی چھت پر رکھے اور تیز قدم اُنکی طرف بڑھائے۔

"یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو اس لڑکی کو۔۔۔۔۔۔"اقرب نے غُصے سے اُس پچاس سالہ آدمی کو نہ صرف گھورا بلکہ اُس کے ہاتھ سے اُس لڑکی کا بازو بھی آزاد کروایا اُس لڑکی پر نظر پڑتے ہی وہ چونکا تھا یہ وہی پارک والی لڑکی تھی چونکی تو وہ بھی اسے دیکھ کر تھی۔

"تُم کون ہوتے ہو ہمارے بیچ بولنے والے،یہ منگیتر ہے میری،ہونے والی بیوی ہے میری ہٹو تُم راستے سے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس آدمی کو اُسکی آمد ناگوار گُزری تھی اقرب نے اُسکی بات پر دُر عدن کی طرف دیکھا جو روتی ہوئی سر نفی میں ہلا رہی تھی۔

"مُجھے لگتا تو نہیں یہ آپکی منگیتر ہے پر اگر ہے بھی تو یہ کوئی طریقہ نہیں کسی کے ساتھ زبردستی کرنے کا،وہ آپ کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تو اُسکی کوئی ریزن تو ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار اقرب کُچھ نرمی سے بولا تھا۔

"کوئی ریزن نہیں نکھرے دکھا رہی ہے ارے پیسہ دیا ہوا اس کے باپ کو،ایسے کیسے چھوڑ دُوں اس سونے کی چڑیا کو،چلو تُم۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُس کے لب و لہجے پر ناگواری سے اُس آدمی کو دیکھا تھا جو پھر سے اُسکی کلائی پکڑنے کے بجائے اس بار اُسے اُس کے بالوں سے پکڑا تھا۔

"چھوڑو مُجھے وحشی انسان،نہیں جانا مُجھے تُمہارے ساتھ چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔"وہ روتے ہوئے چلا رہی تھی اقرب سے رہا نہ گیا اس نے ایک کِک مار کر اُس آدمی کو زمین پر پھینکا تھا دُرعدن بھاگتی ہوئی اُسکی پُشت پر چُھپی تھی۔

"تُم نے مجھے مارا،مُجھے انوار صدیقی کو؟تُم جانتے نہیں میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔"

"جو بھی ہو مُجھے جاننے کا کوئی شوق نہیں،لڑکی تُمہارے ساتھ نہیں جانا چاہتی تُم زبردستی اُسے لے کر نہیں جا سکتے اس لیے چلتے بنو یہاں سے،ورنہ اس شاپنگ سنٹر میں جتنی پبلک ہے نہ سبکو بُلا کر ایسی پٹائی کرواؤنگا اس عُمر میں شادی کرنے کا بُھوت دماغ سے اُتر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب سخت لہجے میں کہا انوار صدیقی نے ایک نظر پاس سے گُزرتے لوگوں کو دیکھا دوسری کڑھی نظر عدن پر ڈالی جیسے کوئی وارننگ دے رہا ہو وہ سمٹ کر اقرب کے پیچھے چُھپ سی گئی انوار صدیقی کھا جانے والی نظروں سے اقرب کے چہرے کو دیکھتا وہاں سے چلا گیا۔

"آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔"اقرب اُسکی طرف پلٹا جو رو رہی تھی۔

"ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔۔"دُرِعدن اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔

"آئیے میں آپکو ڈراپ کر دُوں۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات پر اُس نے شش و پنج میں پڑ کر ایک نظر اپنی گاڑی کو دیکھا اقرب نے بھی اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھ کر کہا۔

"آپ کے پاس تو گاڑی ہے،اوکے آپ چلے جاؤ۔۔۔۔۔۔"

"نہیں،مُجھے ڈر لگ رہا ہے،وہ بہت بُرا ہے یقینناً کہیں راستے میں رُکا ہوگا یا ہمارے گھر۔۔۔۔۔۔۔"وہ خوف سے پھیکی پڑنے لگی نارینہ کو جب پتہ چلنا تھا کہ اُس نے اس کے عاشق کی سر بازار یوں دُھلائی کروائی ہے اُس نے کہاں بخشنا تھا اسے اور عدن کا باپ وہ تو پہلے ہی اپنا سارا بزنس اس آدمی کے ہاتھ میں دے کر کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔

"اتنا کیوں ڈرتی ہیں اُس سے،کھا تو نہیں جائے گا آپ کو اگر اتنا ہی تنگ کرتا ہے تو تھانے میں رپٹ درج کروا دیں۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کے مشورے پر ایک تلخ مُسکراہٹ اُس کے لبوں پر چمکی۔

"کیا رپٹ درج کرواؤنگی؟؟میرے باپ نے اپنے ڈوبتے بزنس کو بچانے کے لیے میرا سودا کیا ہے یا میری سوتیلی ماں نے اپنے عاشق سے میرا رشتہ طے کر کے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے،میرے باپ کی طرف سے آج مجھے وہ لے جائے یہ تو میں ہوں جو چیخ و پکار کر کے بچتی آ رہی ہوں اب تو گھر میں بھی عزت محفوظ نہیں ہے میری۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے رُخساروں پر آنسو چھلکے تھے جن کو دیکھ کر اقرب نے اپنے لب بھینچ لیے تھے۔

"کمال کا شخص ڈھونڈا ہے میرے باپ نے،دو بیویاں بھگتا چُکا ہے،جواری شرابی اور زانی سب کُچھ اُسکی ذات میں موجود ہے دل تو کرتا ہے قتل کر دُوں اُسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کر دیں قتل اُسکا۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے جتنے آرام سے کہا تھا وہ اُتنا ہی چونکی تھی۔

"میں کیسے۔۔۔۔۔۔؟

"جیسے بھی زہر پلا دیں یا گولی مار دیں پر اس عذاب سے جان چُھڑوا لیں روز روز کے مرنے سے بہتر ہے ایک دفعہ ہی اُسے مار کر سکون لیں،پولیس کی فکر مت کریں میرا دوست ہے ایس پی باذل خان،فُل سپورٹ ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔"دُر عدن ابھی تک حیرانگی سے اُسے دیکھ رہی تھی وہ اتنی آسانی سے اسے یہ مشورہ کیسے دے سکتا تھا اس سے پہلے کہ وہ کُچھ کہتی اقرب چوہان کلک کی آواز پر کُچھ چونکا تھا اور ادھر اُدھر دیکھتا وہ عدن کو فراموش کر گیا جو حیرت سے اسے چاروں طرف دیکھتا دیکھ رہی تھی۔

"کسی نے ہماری تصویر لی ہے۔۔۔۔۔۔۔"اقرب اُسکی سوالیہ نگاہوں میں دیکھتا اسے ٹھٹھکا گیا۔

"ہماری تصویر؟کیوں۔۔۔۔۔۔؟وہ اب خُود بھی ادھر ا دھر دیکھنے لگی۔

"اسکا جواب ابھی نہیں دے سکتا میں،اوکے آپ جائیں اگر کسی قسم کی ضرورت ہوئی تو اس نمبر پر کال کر لیجئیے گا،بائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے اپنا نمبر دیتا اپنی گاڑی کے پاس آیا۔

"کسی نے اقرب چوہان کی تصویر لی ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باقی کے الفاظ اُس کے مُنہ میں ہی رہ گئے تھے۔

"___________________________________"

باذل علی خان کو ایس پی تعینات ہوئے ابھی کُچھ پی دن ہوئے تھے اُسکی پوسٹنگ لاہور کے اُس ایریا کی طرف ہوئی تھی جہاں مُجرم کھلے عام گھوم رہے تھے اُسکی نظر میں جو سب سے خاص چیز آئی تھی جس پر وہ کام بھی شُروع کر چُکا تھا وہ تھا ریشماں مائی کا کوٹھہ کہنے کو تو وہ طوائفوں کا اڈا تھا مگر وہاں جسم فروشی،وائٹ پاؤڈر اور لڑکیاں اغوا اور پھر اُنکو فروخت کرنے کا کام بھی ہو رہا تھا اور صرف یہاں تک نہیں بلکہ یہ کام بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا تھا باذل علی اس پر دن رات کام کر رہا تھا اور جو جو نام اس کے سامنے آئے تھے جو اُس ریشماں کے ساتھ لین دین کر رہے تھے اُن میں اجمل پٹھان اور زکی سرفہرست تھے اجمل پٹھان سے تو وہ صرف نام کی حد تک واقف ہوا تھا مگر زکی کو وہ تب جان گیا تھا جب اگلے دن وہ اس کے روبرو ہوا تھا۔

"تو تم ہو ایماندار ایس پی۔۔۔۔۔"وہ اسے سر سے پاؤں تک دیکھتا تمسخرانہ انداز سے بولا جس کے ماتھے پر دو شکنیں پڑیں تھیں۔

"یہ کونسا طریقہ ہے کسی کے آفس میں آنے کا۔۔۔۔۔۔۔"

"زکی کو اب پولیس والے طریقے سکھائیں گئے نہ جی اب اُتنے بُرے دن بھی زکی پر نہیں آئے ابھی۔۔۔۔۔۔۔"

"تو پھر آج سے تُمہارے بُرے دن شروع ہو گئے زکی،کیونکہ تم میرے پہلے ٹارگٹ ہو جسے میں ہر حال میں اچیو کر کے رہونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باذل خان مظبوط لہجے میں بولا زکی اُسکی بات پر یوں مُسکرایا جیسے کسی چھوٹے بچے کی بات پر مُسکرایا جاتا ہے بڑے ریلیکس موڈ کے ساتھ اُس نے جیب سے سگریٹ اور لائٹر نکالا سگریٹ کو ہونٹوں کے درمیان رکھ کر لائٹر کا شعلہ دکھا کر ایک لمبا سا کش لیا اور دُھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا جو اسے گُھورنے میں مصروف تھا۔

"نئے ہو شاید اس لیے ایسا کہہ رہے ہو،جب یہاں کام کرو گئے زکی کو جانو گئے آئی ہوپ اُس دن یہ اکڑ بُھول جاؤ گئے کیونکہ تم جانتے نہیں ہو ایس پی زکی کس بلا کا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھوں میں دیکھتا بنا کسی خوف کے بولتا باذل خان کو تپ چڑھا گیا۔

"جانتا ہوں تُم جیسوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں پر جتنے بھی لمبے ہوں زکی جب کاٹنے والے پیدا ہو جائیں تو کاٹ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاہا بہت اچھا،کافی اعتماد ہے خُود پر،لیکن تُم یہ نہیں جانتے زکی اُن کاٹنے والوں کو اس قابل چھوڑتا ہی نہیں کہ وہ اُس پر نظر بھی رکھ سکیں،اینی ویز چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔"وہ اپنا کُرتا جھاڑتے ہوئے اُٹھا۔

"ریشماں مائی کے کوٹھے سے جتنا دُور رہو گئے ایس پی اتنا تُمہارے لیے اور تُمہاری وردی کے لیے اچھا رہے گا اور دُعا کیا کرو کہ آئندہ زکی سے ملاقات اچھے ماحول میں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آخری کٹیلی نظر اُس پر ڈالتا بڑی شان سے چلتا اس کے آفس سے نکلا تھا باذل خان نے غُصے سے ہاتھ ٹیبل پر مارا۔

"یہ تو وقت بتائے گا زکی کسی کی وردی خطرے میں پڑتی یا تُمہاری زندگی۔۔۔۔۔۔"

"___________________________________"

قُرت خٹک نے اپنے کلائی پر بندھی گھڑی پر ایک نگاہ ڈالی پھر پاپ کارن کھاتی ادھر سے اُدھر جاتی گاڑیوں کو دیکھنے لگی وہ جسکا انتظار کر رہی تھی وہ اُسے کہیں دکھائی نہ دے رہا تھا تبھی ایک پرانے پھٹے کپڑوں میں ملبوس فقیر اسکے پاس آیا۔

"معاف کرو بابا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے کہتی پھر سے پاپ کارن کھانے میں مصرف ہو گئی مگر وہ جانے کے بجائے اُسے گُھورنے لگا۔

"سُنائی نہیں دیتا کیا،کہاں نہ معاف کرو۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ غُصے سے بولی تھی اور تب حیران رہ گئی جب اُس فقیر نے اس کے ہاتھ سے پارہ کارن کا مگ کھینچ لیا۔

"ابھی میرے اُتنے بُرے دن نہیں آئے کہ تُجھ سے بھیک مانگوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ آواز؟وہ ٹھٹھک کر اُس لمبی لمبی داڑھی والے بابے کو دیکھنے لگی جو پارپ کارن ہاتھ میں لیے اب اُسے کھانے میں مصروف ہو گیا تھا۔

"مُجھے لگا تم اپنی اصلی شناخت کے ساتھ آؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا بیوقوف سمجھ رکھا ہے مجھے،میرا چہرہ جتنا چُھپا رہے گا اُتنا تم سب کے لیے اچھا ہوگا۔۔۔۔۔۔"قُرت خٹک اُسکی بات پر سر اثبات میں ہلاتی اپنے بیگ سے ایک نوٹ نکال کر اُسکی طرف بڑھا گئی۔

"یہ لو۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے ہاتھ سے تھام گیا۔

"یہ نہ سمجھنا بھیک لی ہے تم سے،اس نوٹ کے اندر جو چُھپا ہے وہ لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا پارپ کارن ا سے واپس کر گیا۔

"خُوش رہو اللہ کامیاب کرے۔۔۔۔۔۔"اونچی آواز میں د عا دیتا وہ واپس سڑک پار کرتا اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا قُرت نے اُسے بیٹھے دیکھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔

"__________________________________"

باری نے جب حارث کے گوش و گُزار سب کیا تو وہ حیران رہ گیا۔

"تُمہیں نہیں لگتا کہ دال میں کُچھ کالا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پوری دال ہی کالی ہے حارث،ویل دیکھتے ہیں کہ اصل کہانی کیا ہے اور کیا چُھپا ہے اس کے اندر ویسے بھی ہمیں تو بس پیسے سے مطلب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ٹین پیک مُنہ سے لگاتا ہوا کندھے اُچکا گیا۔

"مجھے آج تک ایک بات سمجھ نہیں آئی باری،نہ تو تُمہاری کوئی فیملی ہے اور نہ کوئی خاص ضرورت،پھر تُم یہ جان لیوا بائیک ریسنگ کیوں کرتے ہو اور یہ بھی کہتے ہو کہ جوے کا ایک پیسہ بھی تُم پر حرام ہے حالانکہ ساری بات ہی جوئے کی ہے۔۔۔۔۔۔"حارث جو اسے چھ ماہ سے یہ سب کرتے دیکھ رہا تھا بلکہ کئی دفعہ وہ اُسکی مبہم باتوں اور پُراسرار حرکتوں پر حیران بھی ہو جاتا تھا اُسے ایسا لگتا تھا باری کسی کھوج میں ہے آج سے چھ ماہ پہلے وہ کوئٹہ کے اس علاقے میں آیا تھا جہاں اُس نے ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لیا تھا اُس گھر میں کُچھ خاص تھا تو وہ صرف باری کی سپورٹس بائیک جسے وہ کافی عزیز رکھتا تھا۔

"یہ بھی ایک راز ہے کبھی فُرصت میں بتاؤنگا ابھی تو تُم جاؤ یہاں سے ہائما رائے ادھر ہی آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"باری نے ایک طرف ریڈ سوک رُکتی دیکھ کر حارث سے کہا جو گہری سانس بھرتا وہاں سے چلا گیا۔

"ہائے باری۔۔۔۔۔۔۔"ہائما رائے وائٹ پینٹ پر ریڈ ٹی شرٹ پہنے اپنے پُرکشش وجود کے ساتھ اُس کے سامنے موجود تھی۔

"کیسے ہو۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے ساتھ شیک ہینڈ کرتی پوچھنے لگی۔

"تُمہاری نظر سے دیکھوں تو بہت اچھا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی کالی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مُسکرایا۔

"کیا میری نظر کافی نہیں تُمہیں یہ بتانے کے لیے کہ تُم بہت اچھے ہو۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا چاہتی ہو باری سے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی آنکھوں سے پھوٹتی الوہی چمک کو دیکھتا پوچھنے لگا وہ دلکشی سے مُسکراتی اُس کی شرٹ کو مُٹھی میں بھینچتی اُسے اپنے قریب کرتی ایک ادا سے بولی۔

"باری سے باری کو چاہتی ہوں،کیا باری میرا ہونا چاہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"حُسن کے جال میں قید کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی شرٹ اُس کی گرفت سے آذاد کرتا پیچھے ہٹا۔

"نہیں محبت کی زنجیر تُمہارے قدموں میں ڈالنا چاہتی ہوں۔........"وہ اعتراف کر گئی جس پر باری حیران ہو کر دیکھنے لگا۔

"یہ اچانک محبت کہاں سے آگئی؟وہ بھی محض ایک دو ملاقاتوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ایک دو ملاقاتیں تُمہیں لگتی ہیں مجھے تو لگتا ہے جیسے برسوں سے میں تُمہیں جانتی ہوں،آج سے ایک ماہ پہلے جب تُمہیں پہلی دفعہ دیکھا تھا تب ہی میرے دل نے تُمہیں اپنا مان لیا تھا میں ہر روز تُمہیں دیکھتی تھی تم پر لاکھوں لُٹاتی تھی کہ شاید میں تُمہاری نظر میں آ جاؤں جیسے تُم میری نظروں میں سما گئے ہو،اب مجھے کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہو رہی کہ تم نہ صرف میرے دل میں ہو بلکہ میرے خوابوں میں بھی تُمہارا بسیرا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جذبے سے بولتی چلی جا رہی تھی باری بے تاثر چہرہ لیے اُسے دیکھ رہا تھا۔

"آئی لو یو باری،میں تُم سے بہت بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔"

"میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ ہائما رائے مجھ پر مرتی ہے۔۔۔۔۔۔"

"ہائما رائے نہیں،ماہی کہا کرو مجھے تم۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے ماہی۔۔۔۔۔۔"باری نے مُسکرا کر کہا جس پر وہ مُسکراتی ہوئی اُسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل کی حکایتیں سنانے لگی جو پوری دلجمعی سے سن تو رہا تھا مگر نگاہ اُسکی ہائما رائے کے پیچھے کھڑی اُس کی گاڑی پر تھی۔

"_________________________________"

وہ اپنے آفس سے ابھی نکلا تھا جب اُسے صدف آپا کی کال آئی۔

"اقرب،جہاں بھی ہو جلدی سے گھر آؤ۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی بات مکمل کر کے کال کٹ کر گئیں اقرب نے کُچھ حیران ہو کر اُنکی افراتفری اور لب و لہجے پر غور کیا پھر گاڑی میں بیٹھتا اگلے آدھے گھنٹے بعد وہ اپنے گھر موجود تھا۔

"خیر تھی اتنا شارٹس نوٹس دیا۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا اُن پر نظر ڈالتا اُن کے ساتھ بیٹھے وجود پر نگاہ ڈالی تو حقیقتاً حیران رہ گیا تھا دُر عدن بی جان کے پاس بیٹھی اُسے دیکھ کر خُود بھی حیران رہ گئی تھی۔

"ہاں خیر تھی،اگر ایسے نہ کہتی تو تم رات کو ہی آتے گھر۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ ہمارے گھر۔۔۔۔۔۔۔۔؟وہ دُرعدن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

"اس سے متعارف کروانے کے لیے ہی بُلایا ہے،یہ دُرعدن ہے میرے گھر کے ساتھ ہی اسکا گھر ہے،میں نے تُمہیں بتایا تھا نہ کہ تُمہارے لیے میں نے ایک لڑکی پسند کی ہے تو وہ یہی عدن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُنکی بات پر وہ حیرت زدہ ہی تو رہ گیا بے یقین آنکھوں سے عدن کے جھکے سر کو دیکھنے لگا۔

"ادھر آؤ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف آپا اسے ساتھ لیے بی جان کے رُوم میں چلی آئیں۔

"یہ لوگ کافی ماہ سے ہمارے ساتھ والے گھر میں رہ رہے بہت اچھے لوگ ہیں،عدن تو ہر روز مجھ سے ملتی ہے بہت اچھی لڑکی ہے بس مسلہ یہ ہے کہ اس کی ماما نورینہ سوتیلی ماں ہے وہ اور اس کے پاپا پیسوں کے لیے اسکی شادی ایک پچاس سالہ شرابی اور بدمعاش قسم کے آدمی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں،اس کے فادر کا سارا بزنس ٹھپ ہو رہا جسکی وجہ سے انوار صدیقی اس شرط پر ان کے بزنس میں انویسٹمینٹ کرے گا اگر عدن کی شادی اُس سے ہو گی اور آج اُسکا عدن سے نکاح تھا یہ میرے پاس روتی ہوئی آئی تو میں نے اسے بچانے کا حل تُمہاری شکل میں سوچا ہے اب تم بتاؤ کیا کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انکی پوری بات سکون سے سنتا وہ پرسوچ نگاہوں سے سامنے بی جان کے ساتھ بیٹھی دُر عدن کو دیکھنے لگا جو اس وقت لیمن  کلر کے سُوٹ میں بالوں کی چُٹیا کیے جس سے کُچھ بال نکل کر چہرے کے دائیں بائیں جھوم رہے تھے سادگی میں بھی خُوبصورت لگ رہی تھی بلکہ اپنے دلکش نقوش کی وجہ سے پہلے دن ہی اقرب کو وہ اپنی طرف متوجہ کر گئی تھی۔

"ویل جب آپ لوگوں کی پسند ہی چلنی ہے اس معاملے میں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے،پر آپ اس نکاح کو کیسے روک سکتی ہیں آئی مین وہ اسکے پیرینٹس ہیں کُچھ بھی کرنے کا حق رکھتے ہیں وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"حق ہی تو چھیننا ہے ان سے،میں نے ماما اور بی جان نے فیصلہ کیا ہے کہ ابھی تم دونوں کا سادگی میں نکاح کر دیتے ہیں رُخصتی ان معاملوں کے نمٹ جانے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف آپا کی پلاننگ پر اُسکا دماغ اش اش کر اُٹھا۔

"کیا بات ہے آپکی کوئیک سروس کی پر مائے سویٹ بہنا لڑکی کے باپ کی رضا مندی کے بغیر نکاح کیسے ہو سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہو سکتا ہے لاکھوں لوگ کرتے ہیں باپ کی مرضی کے بغیر اگر عدن کے فادر جیسے باپ ہوں تو کسی مرضی کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔"انکا اپنا ہی موقف تھا وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

"میرا دماغ تو اس جھمیلے میں پڑنے سے انکاری ہو رہا،آپ لوگ ایسا کریں رشتہ لے کر اُنکے گھر جائیں جتنا ان کے فادر کا بزنس میں لوس ہوا اُتنا چیک بنا کر دیں آئی ہوپ وہ مان جائیں گئے اگر پھر بھی نہ مانے تو کورٹ میں پیش ہو سکتی ہے یہ یا کسی بھی ادارے سے ہیلپ لے سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم اپنے یہ مشورے اپنے پاس رکھو اقرب،ہمیں اس کا یہی حل نظر آ رہا کہ تُمہارے ساتھ نکاح کر دیں بعد میں وہ کچھ بھی نہ کر سکیں گئے کیونکہ کوئی بھی اقرب چوہان کے خلاف جانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف آپا کی بات پر وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا کندھے اُچکا گیا۔

"کمرے میں جاؤ فریش ہو کر آؤ مولوی صاحب آتے ہی ہونگے۔۔۔۔۔۔۔"وہ جیسے سب کچھ پہلے سے ہی تیار کر کے بیٹھیں تھیں وہ بے بسی سے سر نفی میں ہلاتا اپنے کمرے میں آ گیا ان تینوں عورتوں سے وہ کبھی جیت نہیں سکتا تھا تو آج کیسے جیت جاتا بھلا صدف آپا تو بات کرتیں تھیں مگر شہناز بیگ کے آنسو اور بی جان تو فٹ سے جذباتی ہو جاتی تھیں جس سے اقرب ہمیشہ ڈرتا تھا۔

"_________________________________"

نکاح کی رسم ادا ہوتے ہی وہ کسی ارجنٹ کام سے چلا گیا تھا جب رات کو واپسی ہوئی تو صدف آپا اپنے گھر جانے کی تیاریوں میں تھیں۔

"آج رُک جائیں یہاں،میں جا کر احمد اور صمد کو بھی لے آتا ہوں۔۔۔۔۔۔"اقرب نے صدف آپا کے بیٹوں کا نام لیا جن کو وہ آج گھر چھوڑ آئیں تھیں۔

"بلکل نہیں،یہاں آ کر وہ سکول سے چھٹی مار لیتے ہیں اور سپورٹ بھی بی جان کی لیتے ہیں جن کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی؛گھر کونسا دُور ہے دس منٹ کا تو سفر ہے کل پھر آ جاؤنگی۔۔۔۔۔۔۔"اُنکی بات پر وہ سر ہلا گیا۔

"کیا احسن بھائی لینے آئیں گئے آپ کو یا میں چھوڑ دُوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں احسن آئیں گئے،اچھا تُم یوں کرو مُنہ ہاتھ دھو کر آؤ میں تُمہارا کھانا گرم کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔"وہ کہتی ہوئیں کچن میں چلی گئیں اقرب نے نگاہیں چار سو گُھمائیں جیسے آنکھیں کسی کی متلاشی ہوں یہ نکاح کا رشتہ بھی انوکھا ہے ابھی چار گھنٹے پہلے وہ اس بندھن میں بندھا تھا لیکن پھر بھی اُس کے احساسات کُچھ عجیب سے ہو رہے تھے۔

وہ مُنہ ہاتھ دھو کر ڈائنگ ٹیبل پر آیا تو وہاں دُرعدن کو دیکھ کر ایک خوشگواریت کی لہر اُس کے پُورے وجود میں دوڑی تھی۔

"تُم دونوں کھانا کھاؤ میں تب تک ماما اور بی جان سے مل لُوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف آپا ٹیبل پر کھانا سجاتیں چلی گئیں اقرب چوہان نے اپنی پلیٹ میں سالن نکالتے ہوئے دُر عدن کی طرف دیکھا جو ہاتھوں کو مسلتی سر جُھکائے بیٹھی تھی۔

"آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہیں۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی آواز پر وہ چہرے پر آئے بالوں کو کان کے پیچھے ٹھونستی پلیٹ پکڑ کر سالن ڈالنے لگی۔

"ابھی تک آپکے والد صاحب نے کوئی رابطہ نہیں کیا یا ابھی تک اُنکو آپکی غیر موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے پہلا نوالہ مُنہ میں ڈال کر گفتگو کا آغاز کیا۔

"میرا سیل آف ہے،ابھی تو وہ مجھے چند عزیزوں کے گھروں میں تلاش کر رہے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ کو کیا لگتا ہے کہ اب بھی آپکو چُھپنے کی یا اُن سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔؟اقرب کا اشارہ جس بات کی طرف تھا وہ سمجھ گئی تھی۔

"میں نہیں چاہتی وہ یہاں آ کر کوئی تماشہ کریں یا وہ انوار صدیقی آپ کے ساتھ کُچھ غلط۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ایسا کبھی سوچنا بھی نہ،انوار صدیقی جیسے معمولی لوگ اقرب چوہان تک آنے کی کبھی ہمت نہیں کر سکتے،آپ کو ڈرنے کی یا کسی خوف میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اب آپ اپنے گھر میں محفوظ ہیں کیونکہ اب آپ مسز اقرب چوہان ہیں۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کے مضبوط لہجے میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جو اُسے پُرسکون کر گئی تھی۔

"لگتا آپ کھانے پینے کے معاملے میں کافی لاپرواہ ہیں اس لیے تو دھان پان سی ہیں۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے گہری نگاہوں سے اُس کے سراپے کو دیکھا تھا وہ جز بز ہوتی نظریں جُھکا گئی تبھی صدف آپا انکی طرف آئیں۔

"احسن آ گئے ہیں میں چلتی ہوں اب،عدن میں پھر سے تُمہیں کہہ رہی ہوں کہ اب پریشان بھی نہیں ہونا اور رونا بھی نہیں اب بلکہ اب تم نے ریلیکس ہو کر رہنا ہے یہ تُمہارا گھر ہے،میں نے اقرب کے ساتھ والا رُوم تُمہارے لیے سیٹ کروا دیا ہے،میں کل پھر آؤنگی تا کہ تُمہاری شاپنگ اور ضرورت کی تمام چیزیں لے آئیں،اوکے گُڈ نائٹ۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکے رُخسار پر بوسہ دیتیں اقرب سے ملتیں چلی گئیں اقرب احسن سے ملنے کے لیے باہر چلا گیا جب وہ تین منٹ بعد اندر آیا تو شہناز بیگم عدن کی پیشانی چومتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں تھیں۔

"بہت ناانصافی کر گئیں میرے ساتھ،اقرب کے ساتھ والا رُوم دینے کے بجائے اقرب والا ہی دے دیتں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے پاس سے گُزرتا اُس کے بالوں سے کیچر اُتارتا سرگوشی کے انداز میں بولتا سیڑھیاں چڑھنے لگا رُخ موڑ کر دیکھا جس کے چہرے پر سُرخی چھا گئی تھی اقرب زیرلب مُسکراتا اُسکا کیچر ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہو گیا۔

"_________________________________"

وہ اس وقت کلب میں تھا ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا جب اُسے کوئی چہرہ دکھائی دیا تھا جسکی تلاش میں وہ یہاں تک آیا تھا۔

"اے ہینڈسم،تھوڑا سا وقت چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔"ایک لڑکی اپنی اداؤں کا جال بچھانے آ پہنچی۔

"وقت ہی تو نہیں میرے پاس۔۔۔۔۔۔"وہ نرمی سے کہتا اُٹھا اور اُس بندے کے پاس آ کھڑا ہوا۔

"کیسے ہو اجمل پٹھان۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کون؟پہچانا نہیں تُمہیں۔۔۔۔۔۔"اجمل پٹھان اسے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھتے بولا جس پر وہ محفوظ مُسکراہٹ لبوں پر سجا گیا۔

"ویل مجھے پہچانتے کم لوگ ہی ہیں،ویسے مجھے زکی کہتے ہیں،سیٹھ عابد نے بتایا تُمہارے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا مال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"سیٹھ عابد کا نام سُن کر وہ اپنے مطلب پر آیا تھا۔

"بہت۔۔۔۔۔۔۔۔"زکی نے اُسے لالچ دیا۔

"پھر تو کام کے آدمی ہو۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھیں چمکیں۔

"یہ میرا کارڈ ہے،رابطہ کر لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جلدی میں کہتا وہ دائیں طرف چلا گیا اور وہاں جا کر خالی گلاس کو مُنہ لگاتے ہوئے مُڑ کر اُس بندے کی طرف دیکھا جو اب اجمل پٹھان سے بات کر رہا تھا زکی جسے کلب میں داخل ہوتا دیکھ کر وہ اپنا چہرہ چُھپا گیا تھا۔

"یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟وہ کن انکھیوں سے دیکھتا بُڑبڑایا پھر اُسے اور اجمل پٹھان کو ساتھ جاتا دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا۔

"__________________________________"

باری اپنی بائیک کو ریس دیتا ہوا دو بڑے جمپ لگاتا سب سے آگے نکلتا ریڈ ریبن کراس کر گیا تھا ہائما رائے خُوشی سے اُچھلتی اُسے جیت جی وِش کرنے لگی تبھی باری کی نگاہ ہائما رائے کے پیچھے بیٹھے انسان پر پڑی تھی جس نے بلیک پینٹ شرٹ پر بلیک ہُڈ پہن رکھا تھا جو سر کو ڈھانپے ہوئے تھا چہرے پر بلیک ہی ماسک تھا ہاتھوں پر ہی بلیک گلوز تھے باری کو جو چیز چونکانے کا باعث بنی تھی وہ تھی اُس کے ہاتھ میں دبا پسٹل جسے وہ گُھما رہا تھا اور پھر اُسکا نشانہ باری پر سیٹ کیا گیا تھا۔

"ہمیشہ کی طرح جیت تُمہاری۔۔۔۔۔۔"ہائما رائے آ کر اُس کے گلے میں اپنی باہنوں کا ہار بناتی اُسکی توجہ اُس طرف سے ہٹا گئی مگر باری نرمی سے اسے پرے کرتا اُس طرف دیکھنے لگا جہاں اب وہ انسان موجود نہ تھا۔

"میں ابھی آیا۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا کُرسیوں کی قطاروں پر سے چھلانگیں لگاتا بھاگتا ہوا مین گیٹ سے باہر نکلتا ادھر اُدھر دیکھنے لگا تبھی وہ انسان ایک گاڑی کی طرف لمبے لمبے ڈگ بھرتا جاتا دکھائی دیا۔

"بہت ڈرپوک دُشمن ہو یار،ایسے پیٹ دکھا کر بھاگنا اچھا نہیں لگا مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باری کی مُسکراتی آواز پر اُس وجود کے قدم تھمے تھے۔

"مارنا چاہتے تھے کہ خوفزدہ کرنا چاہتے تھے مُجھے؟ایک بات کی تو گارنٹی ہے مارنے کا ارادہ نہیں تھا تُمہارا ورنہ یوں خالی ہاتھ نہ جاتے۔۔۔۔۔۔۔"باری چلتا ہوا قریب آیا تھا وہ انسان یکدم غُصے سے باری کی طرف پلٹا تھا اور پسٹل اُس پر تان لیا تھا۔

"نو پلیز نہیں،ہی از مائے لائف نو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نہ جانے کہاں سے ہائما رائے درمیان میں آ کھڑی ہوئی تھی وہ جو کوئی بھی تھا سر نفی میں ہلاتا گاڑی میں بیٹھا اور چلا گیا۔

"تم جانتی ہو کون ہے یہ؟۔۔۔۔۔۔؟باری نے ہائما کو اپنے سوال پر نظریں چُراتے دیکھ کر اچھنبے سے دیکھا۔

"تُم بتا نہیں رہی کون ہے یہ اور مُجھے کیوں مارنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔؟

"شاید میرے پاپا کا کوئی آدمی،اُنکو پتہ لگ گیا تُمہارا،وہ غُصے میں ہیں بہت،باقی باتیں میں کل بتاؤنگی تُمہیں ابھی مُجھے جانا ہوگا۔۔۔۔۔"وہ جلدی میں کہتی چلی گئ باری کو وہ  کُچھ پریشانی میں مبتلا لگی تھی۔

"__________________________________"

قُرت خٹک چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی رات کا اندھیرا ہر سُو پھیل رہا تھا وہ اس اندھیرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے ٹارگٹ کو آسانی سے اچیو کر سکتی تھی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتے اُس نے موبائل پر کوئی کوڈ ملایا اور پھر سر دیوار کی اوٹ سے نکالتی اُس کا نتیجہ دیکھنے لگی جو اُسکے یقین کے مطابق سیکیورٹی کیمرے اپنی اوسط میں ہی رُک گئے تھے وہ دیوار پھلانگنے کا سوچتی ابھی چڑھنے لگی تھی کہ کسی نے اُس کی کنپٹی پر پسٹل رکھا تھا۔

"کوئی ہویشاری نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"مردانہ آواز پر وہ پلٹی تھی سامنے کوئی چھبیس سالہ خُوبرو مرد تھا۔

"آپ مُجھ پر کس حق سے پسٹل تان رہے ہیں۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے موبائل سے اُس کوڈ کو ڈیل کرتی اپنے ازلی اعتماد سے بولی۔

"اتنی رات گئے یوں چوروں کی طرح مشکوک حرکتیں کرو گئی تو پسٹل ہی تانا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"مرتقوی یزدانی نے اُس کے حُلیے پر گہری نظر ڈالی تھی جو بیلو جینز پر وائٹ شرٹ پہنے اُوپر بلیک لیدر جیکٹ میں بالوں کو پونی میں مُقید کیے خُوش شکل لڑکی تھی۔

"مشکوک حرکتوں سے کیا مطلب ہے تُمہارا؟میں واک کررہی تھی یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"رات کے گیارہ بجے واک؟وہ بھی آرمی کے کینٹ ایریا میں۔۔۔۔۔۔"مُرتقوی کو وہ کُچھ مشکوک لگی تھی۔

"ہاں تو کہاں لکھا ہے کہ یہاں پابندی ہے واک پر۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے گھورتے ہوئے واپس راستے کو ہولی۔

"کون ہو تُم۔۔۔۔۔۔"مُرتقوی اُس کے پیچھے آیا۔

"اندھے ہو نظر نہیں آ رہا لڑکی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی ناکامی پر اس پر چڑھ دوڑی۔

"وہ تو مجھے بھی نظر آ رہا پر اس لڑکی کے رُوپ میں کیا چُھپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مرتقوی نے اُس پر جانچتی نگاہ ڈالی۔

"ویری فنی،کیا میں تُم سے پوچھوں کہ تُمہارے اس لڑکے والے رُوپ کے پیچھے کیا چُھپا۔۔۔۔۔۔۔"

"میں تو ایک عام شہری ہوں،آرمی میں میرا دوست ہے اُس سے گپ شپ کرنے آیا تھا،تُم بتاؤ کیا کر رہی تھی یہاں۔۔۔۔۔۔۔"

"میں ایک عام شہری ہوں اور واک کرتی کرتی یہاں آ گئی بس۔۔۔۔۔۔"وہ چبا کر بولتی اسے قہر بھری نگاہوں سے دیکھتی چلی گئی۔

"ایک عام لڑکی رات کے اس پہر یوں چوروں کی طرح کیوں گُھسے گی؟سر رضا کو بتانا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔"وہ پُرسوچ انداز میں اُسکی پُشت کو گُھورنے لگا۔

"_________________________________"

"اماں اقرب نے کال کی آپکو؟کب تک آئے گا۔۔۔۔۔؟

"اتنا اچھا کہ بتا دے کب آئے گا دیکھو تو یہ لڑکا،پرسوں کا نکلا ابھی تک گھر نہیں آیا ایک وہ چھوٹا دو ماہ سے غائب ہے مجھے تو انکی سمجھ نہیں آتی یہ کرتے کیا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دُر عدن بی جان کے پاس بیٹھی اُن سے باتیں کر رہی تھی جب شہناز بیگم کے استفسار پر بھڑک گئیں۔

"کیا کرتے ہیں وہ۔۔۔۔۔۔"دُر عدن جو اُس کے یوں غائب رہنے سے خُود حیران تھی پوچھنے لگی۔

"آوارہ گردی۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی آواز پر دُرعدن اُچھلی تھی جو اپنی مخصوص مُسکراہٹ لیے بی جان کے گلے سے لگا تھا۔

"میری جان آپ کو تو پتہ میری جاب ہی ایسی ہے،اور جہاں تک بات سنی کی ہے تو وہ نیکسٹ ویک تو چکر لگائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بی جان کو پیار سے بتاتا اُنکی ناراضگی پل میں دُور کر گیا۔

"میں تو دُلہن کے لیے کہہ رہی تھی،سارا دن بولائی بولائی پھرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بی جان نے اُسکی توجہ دُرعدن کی طرف دلائی اقرب نے پُرشوق نظریں اُس پر ٹکائیں جو سر جُھکا گئی۔

"تو اُسکا علاج کیا میں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بیوی کے لیے شوہر ہی اُسکی راحت اور خُوشی کا باعث ہوتا ہے،ہم لاکھ عدن کا دل بہلائیں پر اس وقت اسے تُمہاری زیادہ ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شہناز بیگم کی بات پر وہ سر ہلا گیا صدف آپا بھی اُسے یہی بات سمجھاتیں تھیں کال پر مگر اُسکی مصروفیت کی وجہ سے وہ اپنے اس رشتے کو وقت نہ دے پا رہا تھا۔

"اوکے جی،صوری میری جاب کا مسلہ تھا بٹ اب میں پوری کوشش کرونگا آپکی بہو کو خُوش رکھنے کی۔۔۔۔۔۔"

"مُجھے پتہ ہے میرا اقرب سب سے اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بی جان اُسکا سر چُوم گئیں۔

"بہو مُجھے زرا وضو کروا دو،مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بی جان اپنی اسٹک کے سہارے اُٹھتیں شہناز بیگم سے بولیں جو سر ہلا کر اُن کے ساتھ چل دیں۔

"کوئی شکایت ہے تو آپ بھی کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اپنے سے پانچ انچ کے فاصلے پر بیٹھی عدن سے کہا وہ سر نفی میں ہلا گئی۔

"کیا کوئی پریشانی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟اقرب اُس کے چہرے پر ہی نظریں جمائے بولا۔

"بابا یاد آ رہے ہیں اُن پر کیا گُزر رہی ہو گی،میں بہت بڑا قدم اُٹھا گئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔"دن رات اُسکو یہی بات کھائے چلی جا رہی تھی کہ وہ اپنی ذات سے اپنے بابا کو کتنا بڑا غم دے بیٹھی تھی۔

"اُٹھیں چلیں میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ گیا۔

"کہاں۔۔۔۔۔۔...؟وہ سوالیہ انداز سے دیکھنے لگی۔

"آپ کے بابا کے پاس چلتے ہیں،آئی ہوپ وہ نہ صرف آپ کو معاف کریں گئے بلکہ آپکی بات بھی سمجھیں گئے اور آپ بھی اس گلٹ سے باہر نکل آئیں گئیں۔۔۔۔۔۔"اقرب کی سنجیدگی پر وہ چونک اُٹھی.

"نہیں مُجھے نہیں جانا،وہ انوار صدیقی۔۔۔۔"

"اقرب چوہان کبھی ڈر کر نہیں چُھپتا،انوار صدیقی لاکھوں نبٹا چُکا ہوں میں،چلیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکا ہاتھ پکڑتا اسے گاڑی تک لایا۔

"ہمارا وہاں جانا ٹھیک نہیں پلیز آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ڈر رہی تھی وہ جانتی تھی انوار صدیقی اس وقت غُصے سے بھڑکا ہوگا وہ اپنی وجہ سے اقرب کو کسی مُشکل میں ڈالنا نہیں چاہتی تھی۔

"عدن ہر ڈر کا مقابلہ کرنا چاہئیے ورنہ یہ خوف ہر خُوشی کے رنگ کو پھیکا کرتا رہے گا۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات پر وہ پریشانی سے ہاتھ مسلنے لگی کہ اسے کیسے سمجھائے؟

"__________________________________"

وہ اُس سے ایڈریس پوچھتا گاڑی عدن کے گھر کے سامنے روک کر اُسے اُترنے کا کہتا خُود بھی گاڑی سے اُتر گیا۔

"پلیز واپس چلتے ہیں،کُچھ دن بعد آ جائیں گئے۔۔۔۔۔۔"وہ آخری بار اسکا ارادہ بدلنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔

"جو کام کُچھ دن بعد کرنا ہے وہ ابھی ہو جائے تو اچھا نہیں،اور آپکو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں میں ہوں نہ آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے عدن کا ہاتھ پکڑا اور اُسے لیے اندر چلا آیا جہاں ہال میں ہی اُنکو نارینہ بیٹھی مل گئی جو ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر ایک جھٹکے سے اُٹھی تھی۔

"اوہ تو آ گئی تُو ہمارے مُنہ پر کالک مل کر،اس کے ساتھ مُنہ کالا کر کے آئی ہو نہ،لگتا جس کا دل بھر گیا جو اب تُمہیں چھوڑنے آ گیا۔۔۔۔۔۔۔"نارینہ نے زہر خند نظروں سے عدن کو دیکھا تھا۔

"کس قدر واہیات الفاظ استمال کر رہی ہیں آپ،بنا کُچھ پوچھے بنا کُچھ جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کو اُسکا لہجہ اور انداز ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔

"اب اور جاننے کو کُچھ رہ گیا ہے کیا؟تین راتیں باہر گُزار کر آنے والی لڑکی کے ساتھ اسی انداز میں بات کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ بھی تو سوچیں کہ وہ کیوں یہ تین راتیں باہر گُزارنے پر مجبور ہوئی تھی؟آپ لوگ جس دلدل میں اسے جھونکنے والے تھے کیا اُس کے بعد بھی یہ ایسا قدم نہ اُٹھاتی تو کیا کرتی؟کیسے بے حس والدین ہیں آپ پیسے کی خاطر کس طرح آپ لوگ اپنی بیٹی کی پوری زندگی داؤ پر لگا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے نرمی سے اُنکو قائل کرنا چاہا تھا۔

"واہ بھئی واہ کیا عاشق ڈھونڈا ہے تُم نے،اس کے اسی بھاشن پر تُم اس کے ساتھ بھاگی ہو گی ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔"نارینہ کے لہجے میں تمسخر تھا عدن تو بس سُرخ چہرہ اور نم آنکھیں لیے اقرب کی پُشت پر چُھپی رہی تھی۔

"مُجھے آپ سے کوئی بحث نہیں کرنی،عدن کے پاپا کہاں ہیں اُنکو بُلائیے۔۔۔۔۔۔"وہ نارینہ کے حُلیے اور باتوں سے ہی جان گیا تھا کہ وہ کس قسم کی عورت تھی اور ایسی عورتوں کے ساتھ اُلجھنا اُسے پسند نہ تھا۔

"نہیں ہیں یہاں وہ اور ویسے بھی اگر ہوتے بھی تو اس بے شرم اور ذلیل لڑکی کو گھر بھی نہ گُھسنے دیتے جو اپنے باپ کی عزت کو رول کر عیاشیاں کرتی پھر۔۔۔۔۔۔"

"مائینڈ یور لینگویج مس،آپ جانتی نہیں کہ آپ کس کے بارے اور کس کے سامنے کیا کہہ رہی ہیں اگر آپ عورت نہ ہوتیں تو یہ زبان ہی گدی سے کھینچ نکالتا جس سے آپ میری بیوی کے خلاف زہر اُگل رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس قدر درشت لہجے میں اُسکی بات کاٹ کر بولا کہ نارینہ جہاں پھیکی پڑی وہی عدن بھی کُچھ سہم گئی تھی۔

"یہ میرا کارڈ ہے،اس کے پاپا آئیں تو اتنا پیغام دے دیجیے گا کہ عدن اس وقت اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گھر میں موجود ہے اور اگر وہ باپ بن کر آتے ہیں تو ٹھیک اگر آپکی زبان کے مطابق آئیں گئے تو میری بیوی سے بدتمیزی تو دُور کی بات اُس پر بُری نظر بھی پڑی تو میں وہ آنکھیں بھی نکال لونگا کیونکہ عدن اقرب چوہان کوئی عام لڑکی نہیں رہی اب،مائینڈ اٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سپاٹ انداز میں وارننگ صاف محسوس کی جا سکتی تھی نارینہ تو اُس کی آنکھوں سے نکلتے شعلوں پر ہی سُن رہ گئی تھی۔

"آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"گُم صُم عدن کا ہاتھ پکڑتا وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی اُسے لیے چلا گیا۔

"__________________________________"

"باری میں آج بہت خُوش ہوں،تُم جانتے ہو پاپا کو ہمارے رشتے پر کوئی اعتراض نہیں وہ تُم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باری نے سُوئی جاگی کیفیت میں کال اٹینڈ کی تھی مگر ہائما رائے کا چہکتا لہجہ سماعتوں سے ٹکرایا تو وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔

"اوہ رئیلی وہ مُجھ سے ملنا چاہتے ہیں،مطلب اُنکو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔۔"وہ پہلے تو اپنے مطلب کی بات کرتا خُوش ہوا تھا مگر پھر اپنا انداز بدل گیا تھا۔

"ہاں تُمہیں ایڈریس سینڈ کر رہی ہوں تُم رات کو وہی آ جانا ساتھ ڈنر بھی کریں گئے اور آج کی رات میں تُمہارے ساتھ گُزارنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا لہجہ شہد آگہیں تھا۔

"اوکے تُم کر دو میں آ جاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکا انداز نظر انداز کر گیا۔

"کال بند کر کے باری نے موبائل سائیڈ پر رکھا پھر پُرسوچ نظریں باہر کے منظر پر ٹکا دیں۔

"کیا کوئی اتنی آسانی سے میرے روبرو آ جائے گا یا باری کو ٹریپ کرنے کی یہ کوئی کوشش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"گہرا سانس بھرتا وہ اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوا۔

"یہ نمبر سینڈ کر رہا ہوں اس وقت کی لوکیشن سینڈ کرو مُجھے۔۔۔۔۔۔"کہہ کر اس نے کال کٹ کر دی اور اپنے کپڑوں کی طرف متوجہ ہو گیا اور پھر وہ لباس منتخب کیا جو دیکھنے کی حد تک لباس تھا مگر اُس کے اندر کُچھ ایسے راز تھے جن کو صرف وہ ہی جانتا تھا۔

"__________________________________"

وہ ڈنر کے بعد چہل قدمی کرنے لان میں جانے لگا تو ساتھ عدن کو بھی آواز دے دی۔

"جی۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے قریب آئی۔

"اٹھائیس سال ہوگئے اکیلے واک کرتےہوئے اب ساتھی مل گیا ہے اُس کے بعد بھی اکیلے واک کرنا کتنا بُرا فعل ہے۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات پر وہ زیر لب مُسکرا دی۔

"اس ٹائم واک۔۔۔۔۔۔؟وہ رات کی پھیلتی سیاہی کو دیکھنے لگی۔

"تو کیا اس ٹائم لوگ واک نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔؟

"کرتے ہونگے میں نے کبھی دیکھا نہیں۔۔۔۔۔۔"

"تو اب ساتھ بھی دئیجیے اور مجھے واک کرتے ہوئے دیکھیں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے ساتھ لیے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا لان میں چلا آیا عدن اُس کے مضبوط ہاتھ میں چُھپے اپنے ہاتھ کو دیکھ کر عجیب سے احساس سے دُوچار ہو گئی۔

"مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنا ہاتھ اُسکی گرفت سے نکالتی نگاہیں پھیر گئی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"میرے پاس آپکی نیند کو بھگانے کا طریقہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ رُک کر بولا۔

"کیا۔۔۔۔۔۔۔"عدن متوجہ ہوئی جو زیرلب مُسکرا رہا تھا۔

"نیند کو بھگانے کے لیے رومینس اور رومانٹک گفتگو کافی خاصیت رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔"بڑا پُرحدت انداز تھا اُسکی نیند کیا اُسکا دماغ بھی بھک سے اُڑ گیا تھا وہ سُرخ ہوتی جانے لگی مگر اُسکا ہاتھ اُُسکی گرفت میں آ گیا تھا۔

"ہے مسز اقرب،ایسے تو نہ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔"کیا دلکش التجا تھی دُرعدن کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

"اگر تُم اجازت دو تو کیا رُخصتی کا کہہ دُوں،ہمیں اب ایک ہو جانا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔"دھیمے لہجے کی فرمائش تھی عدن کو پتہ بھی نہ لگا کب اُس نے آہستہ سے اسے اپنے اتنے قریب کیا تھا کہ دُرعدن کی پُشت اُس کے سینے سے جا لگی تھی۔

"مُجھے لگتا ہے مجھے محبت ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مدھم سرگوشی اُس کے کان کے پاس اُبھری تھی عدن تو بلکل ساکت تھی جیسے جان ہی نہ رہی تھی۔

"پلیز مکمل کر دو۔۔۔۔۔۔۔"پُر تپش لہجہ اُس کے رُخسار گرم کر گیا وہ اُس کی گرفت سے نکلتی بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں آ کر لمبے لمبے سانس لیتی بیڈ پر گری تھی۔

"__________________________________"

قُرت خٹک اپنی ناکامی سے کڑھتی غُصے سے بل کھاتی مرتقوی کو کوسنے اور گالیوں سے مسلسل نوازتی ادھر سے اُدھر چکر لگا رہی تھی۔

"کمینہ،پتہ نہیں کہاں سے بیچ میں آ گیا۔۔۔۔۔"اس سے پہلے کہ وہ اپنے مُنہ سے اور کُچھ نکالتی بجتے سیل نے اُسکی توجہ اپنے طرف کھینچی۔

"اوہ شٹ،کیا جواب دُوں انکو۔۔۔۔۔۔"سکرین پر چمکتے نمبر کو دیکھ کر اُسکی سانس ر

کی تھی پھر گہرا سانس لیتی کال اٹینڈ کر گئی۔

"کام ہوا کہ نہیں۔۔۔۔۔"پوچھا گیا قُرت نے اپنے سُوکھے لبوں کو تر کیا۔

"وہ دراصل میں۔۔۔۔"

"مطلب ناکام ہو گئی،ویل یہ لاسٹ موقع تھا اب نیکسٹ فیل ہوئی تو معاف نہیں سیدھا صاف کیا جائے گا،سمجھ تو گئی ہو گی تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کافی بے لچک انداز تھا۔

"آئم صوری،نیکسٹ ٹائم میں اپنی۔۔۔۔۔۔۔"

"اس طرح کے بے مقصد الفاظ مُجھے نہیں سُننے۔۔۔۔۔۔"کھٹاک سے فُون بند کر دیا گیا۔

"اُف۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر تھام گئی۔

"مسٹر کیپٹن مرتقوی یزدانی کیوں نہ پہلا نوالہ تُمہیں ہی بنایا جائے،تم نہیں بچو گئے میرے ہاتھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خیال میں اُس سے مخاطب  ہوئی جس کی وجہ سے اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

"__________________________________"

ہائما رائے اپنے موبائل کو دیکھتی کسی گہری سوچ میں گُم تھی تبھی اس کے ہاتھ میں موجود موبائل وائبریٹ کرنے لگا تھا ادھر اُدھر دیکھتی وہ کال اٹینڈ کر گئی۔

"جی پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف اسکا باپ تھا۔

"مُبارک ہو تم کافی حد تک کامیاب ہو گئی ہو اپنے مقصد میں۔۔۔۔.."

"مجھے آدھی اُدھوری کامیابی کی کوئی خُوشی نہیں،میں خُوش تب ہوونگی جب اپنے دُشمن کو چاروں شانے چت کر کے اس دُنیا سے اُسکا صفایا کرونگی۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں نفرت صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔

"وہ بھی ہو جائے گا،پہلے اُس کام تک تو رسائی حاصل کر لو جس کے لیے تُم اُس تک گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔"

"اُسکی آپ فکر نہ کریں پاپا،بس کُچھ دن تک وہ سب کُچھ میرے ہاتھ میں ہوگا اور وہ دن اُس کا آخری دن ہوگا۔۔۔۔۔"ہائما رائے کا مظبوط لہجہ اُس کے باپ کو نہال کر گیا۔

"شاباش میری بیٹی،مُجھے تم پر ہمیشہ فخر تھا اور رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نہ پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے پوچھنے پر اُسکا باپ گڑبڑایا تھا مگر وہ محسوس نہ کر سکی۔

"ہاں کیوں نہیں بھلا،تُم کرو اپنا کام اور ہاں زرا دھیان سے وہ بہت خطرناک ہے اگر اُسے زرا بھی بھنک پڑ گئی تو وہ ہمیں چھوڑے گا نہیں۔۔۔۔۔۔"

"اُسکی آپ فکر نہ کریں مُجھے پتہ ہے اُسے کیسے ہینڈل کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔"ہائما نے اُنکو تسلی دیتے ہوئے فُون بند کر دیا۔

"__________________________________"

اجمل پٹھان سے ڈیل کر کے اُٹھا تھا جب اجمل پٹھان کی بات پر وہ کُچھ چونک کر اُسکی طرف پلٹا تھا۔

"انوار صدیقی تُم سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"مُجھ سے پر کیوں۔۔...۔۔"

"اسی کام کے سلسلے میں،میں نے اُسے بتایا تُمہارے بارے میں،اگر تُم زیادہ پیسہ کمانا چاہتے ہو تو اُس کے ساتھ کام کرو،اُسکا واسطہ بہت اُوپر تک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تُمہاری بات مان کر اُس سے مل لیتا ہوں،کیونکہ مجھے تو ہر اُس کام میں دلچسبی ہے جس میں پیسہ ہو۔۔۔۔۔۔۔"زکی کے کہنے پر اجمل پٹھان مُسکرایا۔

"تو سمجھو انوار صدیقی تُمہارے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہوگا۔۔۔۔۔۔"

"چلو دیکھ لیتے ہیں وہ میرے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہوتا ہے یا میں اُسے آسمانوں تک پہنچاتا ہوں۔۔۔۔۔۔"وہ معنی خیزی سے بولا جس کو بنا سمجھے اجمل پٹھان ہنس دیا۔

"لگتا تُمہیں پیسے کی بہت خواہش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پیسے کی نہیں سُلطان کی۔۔۔۔۔۔۔۔"زکی نے سگریٹ کا بڑا سا کش لیا۔

"سُلطان۔۔۔۔۔۔۔.."اجمل پٹھان حقیقتاً حیران ہوا تھا۔

"ہاں سُلطان بہت نام سُن رکھا اُسکا،اس بلیک دھندے کے بازار میں سب سے بڑا بیوپاری ہے وہ،کمال ہے تُم نہیں جانتے اُسے۔۔۔۔۔۔"زکی نے اُس کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ غور سے ملاحظہ کیے تھے۔

"جانتا ہوں بس نام کی حد تک،انوار صدیقی ضرور جانتا ہوگا اُسے۔۔۔۔۔۔۔"

"چلو پھر تُم بھی اُس سے ملنے کی کوشش کرو میں بھی کرتا ہوں دیکھتے ہیں کس کی مُراد بر آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ادھ جلے سگریٹ کو جوتے سے مسلتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔

"مال پہنچ جائے گا نہ۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جب پیسہ پہنچ جائے گا تو مال بھی پہنچ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زکی نے اُس سے کہتے ہوئے باہر کی راہ لی۔

صدف آپا اپنے بچوں سمیت آئیں ہوئیں تھیں اس لیے عدن کا دل کافی حد تک بہل گیا تھا ورنہ تو اپنے فادر کی پریشانی ہی اُسے کھائے چلی جا رہی تھی۔

"شُکر ہے آپ خُود آ گئیں ورنہ میں آپکو کال کر کے بُلانے والا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات پر جہاں صدف آپا اُسکی طرف متوجہ ہوئیں وہی دُرعدن کُچھ پریشان سے دکھائی دینے لگی تھی شاید وہ جانتی تھی کہ اقرب کیا کہنے والا ہے۔

"کیوں کوئی کام تھا۔۔۔۔۔۔"

"جی کام تو بہت خاص ہے آپ سے،پر پہلے وعدہ کریں پُورا کریں گی۔۔۔۔۔۔"

"ایسا بھی کیا کام اقرب۔۔۔۔۔۔۔"وہ کُچھ حیران ہوئیں۔

"پہلے وعدہ تو کریں۔.۔۔۔..."اُس نے کن انکھیوں سے عدن کے رنگ بدلتے چہرے کی طرف دیکھا۔

"اوکے وعدہ،اب بولو۔۔۔۔...."

"میں چاہتا ہوں کہ اب ہماری۔۔۔۔۔۔۔"

"صدف آپی وہ بی جان بُلا رہی تھیں آپکو،اُنکی بات سُن آئیں پہلے ورنہ وہ غُصے ہونگی۔۔۔۔۔۔۔۔"عدن نے جلدی سے کہتے ہوئے انکی توجہ اقرب سے ہٹائی تھی۔

"ہاں میں اُنکی سُن آؤں،تُم یہی رُکو اقرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بی جان کے رُوم کی طرف بڑھ گئیں اقرب نے مُسکراہٹ روکتے ہوئے عدن کو دیکھا جسکی نیلی آنکھوں میں خفگی کے اثرات تھے۔

"آپ ایسی ویسی کوئی بات بھی آپی سے نہیں کریں گئے۔۔۔۔۔۔"

"کونسی ایسی ویسی بات،بتاؤ تُم۔۔۔۔۔۔۔"

"جیسی بھی کرنے لگے تھے۔۔۔۔.."نگاہیں چُرائیں گئیں تھیں۔

"میں تو اپنے مطلب کی بات کر رہا تھا،تُمہارا تو نام بھی نہیں لیا میں نے۔۔۔......"وہ اُسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔

"آپ کیا کہنے والے تھے اُن سے۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔"

"یہی کہ میرے کمرے کو کسی کے وجود سے آباد کریں۔۔۔۔۔۔۔"معنی خیز لہجہ اُس کے پُورے وجود میں ایک برقی سے دوڑا گیا وہ نظریں جُھکا گئی۔

"وہ ابھی پاپا ناراض۔۔..۔۔۔۔۔۔"

"اُنکو بھی منا لیں گئے پہلے تم تو مان جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب اُس کے قریب ہوا تھا۔

"آپ۔۔۔۔۔۔۔۔"

"عدن۔۔۔۔۔۔۔"نام پُکارتے ہوئے ہاتھ بھی پکڑا گیا تھا۔

"جی۔۔۔۔۔۔۔"

"تھوڑا سا مُشکل ہو رہا یوں ساتھ رہ کر بھی دُور رہنا،تُم سمجھ رہی ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آواز کی گھمبیرتا پر اُس کے گال سُرخ ہوئے تھے ہاتھ چھڑواتی اُٹھنے لگی مگر اقرب نے ایسا کرنے نہ دیا عدن کی جان جیسے مُشکل میں پڑنے لگی۔

"مُمانی جان،آپکو نانو بُلا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔"احمد نے اُسکی جان اس مُشکل سے نکال لی تھی اقرب کی گرفت سے اپنا ہاتھ نکالتی وہ چلی گئی اقرب نے گہرا سانس بھر کر احمد کو پکڑ لیا۔

"بھانجے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے گال چُومتا وہ زیرلب بڑبڑایا تھا۔

"__________________________________"

باری ہائما رائے کے بھیجے گئے ایڈریس پر پہنچ چُکا تھا وہ کوئی دس مرلہ گھر تھا باہر کھڑے چوکیدار سے ہائما رائے کے بارے پوچھتا وہ اندر داخل ہوا تو اُسے کُچھ عجیب سا لگا وہاں ایک سکوت سا ہر سو پھیلا ہوا تھا۔

"ماہی۔۔۔۔۔۔"اُسے پکارتا وہ ہال میں داخل ہوا باریک بینی سے ہر طرف کا جائزہ لیتا وہ ہال کے سامنے والے رُوم کی طرف بڑھا جس کا ادھ کُھلا دروازہ اور فرش پر پڑا ڈوپٹہ اُسے اپنی طرف متوجہ کر گئے باری کو کسی گر بڑ کا احساس ہوا تھا اُس نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا اور اگلے پل ہی وہ ششدر سا سامنے خُون سے لت پت ہائما رائے کو دیکھ رہا تھا۔

"با،باری۔۔۔۔۔۔۔"ہائما رائے جو شاید ابھی اپنی موت سے لڑتے ہوئے آخری سانس گن رہی تھی اُسکو پُکارنے لگی۔

"یہ یہ کیا ہوا؟کس نے کیا یہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟وہ دوڑتا ہوا اُس کے نزدیک آیا اُس کا سر پکڑ کر اپنی گود میں رکھا اور اُس کے پیٹ سے نکلتے خُون کو دیکھتا وہ لب بھینچ گیا۔

"تُمہیں ہسپتال لے کر جانا ہوگا،اُٹھو۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں،اب ہسپتال جانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ،تُم آ گئے باری،تُمہارا انتظار،آہ۔۔۔۔۔۔۔۔"درد سے وہ کراہ اُٹھی تھی۔

"ماہی یہ کس نے کیا تُمہارے سات،پلیز بتاؤ مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ،باری،تم چلے۔۔۔۔۔۔"اگلے الفاظ اُس کے مُنہ میں ہی رہ گئے تھے اور وہ دم توڑ گئی تھی باری اُس کے ساکت وجود کو دیکھتا دم سادھے بیٹھا رہ گیا اُس کے مضبوط اعصاب ایک دم سے جھٹک کر رہ گئے تھے کسی احساس کے زیر اثر اُس نے پلٹ کر دیکھا تو دروازے میں کھڑے اُس انسان کو دیکھ کر چونکا تھا وہی بلیک ڈھیلی ڈھالی پیٹ شرٹ پر بلیک ہُڈ اور ماسک سے چہرہ چُھپائے باری پر پستول تانے وہ انسان وہی تھا جو اس دن باری کو ریس کے میدان میں ملا تھا باری نے ایک نظر ہائما رائے کے بے جان وجود کو دیکھا دوسری نظر اُس انسان پر ڈال کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا وہ یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اُسے ٹریپ کیا گیا ہے یا ہائما رائے کو؟؟؟

"__________________________________"

"ہائے مُرتقوی۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے جاگنگ ٹریک پر تھا جب اپنے پیچھے ایک نسوانی آواز پر مُڑا تھا قُرت خٹک کو دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا۔

"تُم۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس رات کے بعد اب دیکھا تھا اس نے قُرت کو۔

"مجھے قُرت خٹک کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔"وہ اپنا ہاتھ اُسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولی مرتقوی نے ایک نظر اُس کے چہرے پر پھیلی مُسکراہٹ کو دیکھا اور ہاتھ ملا لیا۔

"یہاں پاس میں ہی میرا گھر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے ساتھ چلتے بتانے لگی۔

"میں ان کوارٹرز میں رہتا ہوں،میرا نام کیسے جانتی ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جاننا کچھ مُشکل تو نہیں تھا،بس جان لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تُم آرمی میں ہو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟وہ اس کے ساتھ چلنے لگی جس پر مرتقوی کو کُچھ حیرت ہوئی اُس کی اتنی بے تکلفی پر۔

"نہیں آرمی والوں کا دوست ہوں۔۔۔۔۔۔۔"

"جُھوٹ تو مت بولو کیپٹن مرتقوی یزدانی۔۔۔۔۔"وہ دل ہی دل میں مُسکرائی۔

"کیا روز آتے ہو یہاں۔۔۔۔"

"تم کیوں پوچھ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"مرتقوی اپنی ناگواری نہ چُھپا پایا۔

"تا کہ تُمہیں کپنی دے سکوں۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے کسی ایرے غیرے کی کمپنی کی کوئی ضرورت نہیں خاص طور پر کسی لڑکی کی تو بلکل نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سپاٹ انداز میں بولتا دوڑتے ہوئے اسکے پاس سے نکل گیا قُرت نے اپنی چھبتی نظریں اُسکی پُشت پر جمائیں۔

"تُمہیں تو یہ بعد میں پتہ چلے گا کیپٹن کہ تُمہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ واپسی کی راہ پکڑ گئی۔

"_________________________________"

بی جان اور شہناز بیگم عمرہ ادا کرنے جا رہی تھیں اس لیے وہ جانے سے پہلے اقرب اور دُرعدن کی رُخصتی کر دینا چاہتے تھے تا کہ دونوں کو تنہا اس گھر رہنے میں پرابلم نہ ہو اس بات پر جہاں اقرب خُوش ہوا تھا وہی عدن کو ایک نئی فکر اور پریشانی لاحق ہو گئی تھی وہ ابھی رُخصتی نہیں چاہتی تھی جب یہ بات اُس نے صدف آپا سے کی تو وہ پیار سے اُسے سمجھانے لگیں۔

"میں سمجھ رہی ہوں تُمہاری کیفیت عدن،اپنے گھر والوں کی رضا کے بنا تُمہیں شادی شُدہ زندگی کا آغاز کرنا مُشکل لگ رہا ہے پر تُمہارے پاپا کو منانے میں ابھی وقت لگے گا اور اُس وقت کا انتظار کرنے میں تم اپنے اس رشتے کو نظر انداز مت کرو،ماما اور بی جان عمرہ کرنے کے لیے جا رہی ہیں اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ رُخصتی ہو جائے تا کہ بنا کسی جھجک یا پریشانی کے تم لوگ ساتھ رہ سکو۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہم لوگ ویسے بھی تو رہ رہے ہیں نہ،ایک ماہ ہی تو ہے ہم ماما اور بی جان کے آنے کے بعد رُخصتی رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عدن کی بات پر وہ گہرا سانس بھر کر اس کے معصوم چہرے کی طرف دیکھنے لگیں کہ کس طرح اسے ان کے نازک رشتے کی نزاکت سمجھائیں ۔

"تُمہاری بات ٹھیک ہے پر عدن اب ساتھ رہنے کی اور بات ہے،ماما اور بی جان بھی تو ساتھ تھیں پر اُنکے جانے کے بعد تم دونوں کو تنہا اس گھر میں رہنا ہوگا،تم لوگ میاں بیوی ہو تنہا بھی رہ سکتے ہو مگر ہم تم لوگوں کو کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتے،تم بیوی ہو اقرب کی وہ تم پر حق رکھتا ہے اور یہ حق کی کشش اقرب کو آزمائے ہم ایسا نہیں چاہتے تم سمجھ رہی ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف آپا نے نپے تلے انداز میں جو اسے سمجھانا چاہا تھا وہ سمجھ کر اُسکا چہرہ سُرخ ہوا تھا وہ بنا کُچھ کہے اُٹھ گئی تھی۔

"اب کیا کروں؟ہاں اقرب سے بات کر لونگی،آئی ہوپ وہ سمجھ جائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔"یہ سوچ اُسے ریلیکس کر گئی۔

عدن اقرب چوہان سے بات کرنے کا موقع تلاش کرنے لگی مگر اقرب کُچھ دنوں سے گھر ہی نہیں آ رہا تھا اور جب وہ گھر آیا تب بھی عدن کو ٹائم نہ مل سکا کیونکہ صدف آپا نے شاپنگ میں بھی اسے اپنے ساتھ گھسیٹ لیا تھا اور پھر کب ان بھاگتے دنوں میں مہندی کا دن آن پہنچا اُسے پتہ بھی نہ لگا مہندی کا فنکشن بہت بڑے پیمانے پر ارینج کیا گیا تھا عدن مرجنڈا اور گرین کنٹراس کے جوڑے میں ملبوس اقرب کی ڈھیر ساری کزنز میں گری وہ کُچھ پریشان سی نظر آ رہی تھی۔

 "ہیلو عدن بھابھی۔۔۔۔۔۔۔"ایک دلکش مردانہ آواز پر وہ سر اٹھا کر دیکھنے لگی کوئی پچیس سالہ خوبرو نوجوان تھا۔

"آئی ایم سنی،آپکا اکلوتا دیور۔۔۔۔۔۔"اُس کے تعارف کروانے پر عدن کے چہرے پر پہچان کے رنگ اُبھرے تھے کیونکہ وہ نہ صرف اُسکی تصویر دیکھ چُکی تھی بلکہ کئی دفعہ اُسکا نام بھی سُن چُکی تھی۔

"ویسے بھائی آپ نے جتنی بھابھی کی تعریف کی تھی بھابھی کو اُس سے بڑھ کر پایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سنی کی شوخ آواز پر جہاں عدن جھینپ کر سر جُھکا گئی وہی اقرب بھی مُسکراتا ہوا عدن کا شرمیلا رُوپ دل میں اُتارنے لگا۔

"__________________________________"

ڈیزائنر کے سُرخ لہنگے میں جس پر گولڈن بے تحاشا کام ہوا تھا گولڈ کی جیولری اور ہیوی میک اپ میں وہ آسمان سے اُتری کوئی حور لگ رہی تھی اقرب جو خُود بھی سکن کلر کی شیروانی پر سُرخ قلعہ پہنے اپنی بھرپور مردانہ وجاہت کے ساتھ پُورے ماحول پر چھایا ہوا تھا مگر جب نگاہ صدف آپا کے ساتھ سٹیج کی طرف آتی عدن پر پڑی تو کتنے پل ہی وہ دم بخود رہ کر اُسے دیکھتا رہ گیا جو اس کے دل کے تار ہلا گئی تھی وہ خُوبصورت تو تھی مگر اُسکی خُوبصورتی اقرب کے لیے اتنی جان لیوا ثابت ہو گی یہ اقرب کو اب معلوم ہوا تھا وہ یک ٹک اُسے دیکھنے میں مصروف تھا جو اپنے چہرے پر اُسکی مسلسل ٹکیں نظروں کو محسوس کرتی پزل ہو رہی تھی۔

اقرب چوہان کو کبھی کسی چہرے نے اس طرح اپنی طرف کھینچا نہیں تھا جتنا عدن اسے اپنے حُسن سے اسکے دل کو جکڑ چُکی تھی وہ محبت سے بھی شاید کُچھ اُوپر کی کیفیت میں مبتلا ہو چُکا تھا اپنے کمرے کی طرف جاتے اُسے اس چیز کا احساس ہوا تھا کہ وہ خُون کی طرح اس کے جسم میں گردش کرنے لگی تھی۔

"___________________________________"

"زکی کو اریسٹ  کر لیا گیا ہے اور اریسٹ کرنے والا ایس پی بازل خان۔۔۔۔۔۔"یہ خبر سب کے لیے بریکنگ نیوز ثابت ہوئی تھی کہ زکی کو کسی نے اریسٹ کرنے کی ہمت کی تو کی کیسے؟

اور صُبح سے پچاس فُون سُنتے بازل خان کو بھی اس چیز کا احساس ہو چُکا تھا کہ اُس نے زکی کو شاید گرفتار نہیں کیا تھا بلکہ کسی ایم این اے تو کسی وزیر کے اُس طوطے کو قید کر لیا ہے جس کے اندر سب کی جان تھی اس لیے تو کبھی کوئی کال کر رہا تھا تو کبھی کوئی تھانے چلا آ رہا تھا بازل غُصے سے اُٹھا اور اپنے قدم سلاخوں کے پیچھے بیٹھے زکی کی طرف بڑھا دئیے جو کُرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا ایک پاؤں ہلا رہا تھا  اُسکا چہرہ بلکل پُرسکون تھا جیسے اپنے بیڈ رُوم میں بیٹھا سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتا ریلیکس ہو دُھویں کو ہوا کے سُپرد کرتا وہ اب اُسکی طرف متوجہ ہوا جو قہر بھری نظروں سے اُسے گھور رہا تھا۔

"تُمہیں کہا تھا نہ زکی کو گرفتار کر کے تم نے خُود اپنے اور اپنی وردی کے لیے مُشکلات پیدا کی ہیں،اس چیز کا احساس اب تک تو تُمہیں ہو گیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

"ہاں ہو گیا احساس کہ میں نے بُڑائی کی اُس جڑ کو پکڑا ہے جس کے ساتھ بہت سے قانون کے محافظ بھی اپنا اصل چہرہ دکھا رہے ہیں کیا دیتے ہو ان کو جن کی رات کی نیندیں اُڑ گئی ہیں تُمہیں حوالات میں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔"بازل خان کی بات پر وہ دلکش قہقہ لگا گیا جیسے اُسکی بات سے بہت محفوظ ہوا ہو۔

"یہی تو کمال ہے زکی کا،گرفتار ہوتا میں ہوں اور جان باقیوں کی جانا شُروع ہو جاتی ہے خیر چھوڑو اس بات کو،تم مجھے چھوڑنے کی تیاری کرو،ٹھیک پانچ منٹ بعد میں ان سلاخوں سے باہر ہونگا۔۔۔۔"

"کبھی نہیں زکی.........."بازل نے مضبوط لہجے میں سر نفی میں ہلایا زکی یوں مُسکرایا جیسے کسی چھوٹے بچے کی بات پر مُسکرایا جاتا ہے۔

"ویل اوکے۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر ہلاتا پیچھے ہو گیا تبھی بازل اپنے بجتے فُون کی طرف متوجہ ہوا۔

"یس سر،جی سر بٹ،میرے پاس سارے ثبوت ہیں سر،اوکے سر،ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بازل خان نے موبائل جیب میں رکھتے جلتی نظر اُس پر ڈالی جو مُسکرا رہا تھا عجیب سا تمسخر تھا اُسکی نظروں میں جسے محسوس کر کے بازل لب بھینچ گیا۔

"کہا تھا نہ ایس پی،پر تُم بھی نہ بات ہی نہیں مانتے میری۔۔۔۔۔۔۔۔"

"دیکھ لینا زکی وہ دن دُور نہیں جس دن میں تُمہارا ان کاؤنٹر کرونگا۔..۔۔۔۔۔"

"اوہ رئیلی،پر افسوس یہ حسرت ہی رہے گی،میں چاہوں تو ایک منٹ میں یہ تُمہاری وردی اُتروا دُوں پر وہ کیا ہے نہ تم بہت ایماندار ہو اور مجھے ایمان دار لوگ کافی سُوٹ کرتے ہیں۔......."

لبوں پر تھرکتی مُسکراہٹ غُصہ دلانے کو کافی تھی مگر بازل ضبط کرتا سپاہی کو لاک کھولنے کا اشارہ کرتا چلا گیا۔

"___________________________________"

دروازے کو آہستگی سے بند کرتا بیڈ کی طرف بڑھنے لگا نگاہ گلاب کی لڑیوں کے پیچھے سر جُھکائے بیٹھی عدن پر ٹکی تھی جو خُود کو اُسکی نگاہ کی گرفت میں جکڑتا پا کر لرز کر رہ گئی تھی۔

"ایسے لگتا ہے جیسے آج چاند زمین پر اُتر کر آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے نزدیک بیٹھا وہ بے خُود سا اُسکی طرف دیکھتا کہہ گیا۔

"دُرعدن اقرب چوہان مجھے چاروں شانے چت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور یقین مانو اس وقت مجھے اپنی مات دکھائی دے رہی ہے کہ آج میں اپنا آپ ہار گیا ہوں تُم پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکے لہجے کی گھمبیرتا نے عدن کی دھڑکنیں اتھل پتھل کر دی تھیں اقرب بے اُسکا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا جس پر وہ کچھ سمٹ کر پیچھے ہوئی۔

"بہت بُری بات عدن،اس طرح نہیں کرتے۔۔۔۔۔"پیار سے سرزنش کی گئی تھی۔

"وہ۔۔۔۔۔۔۔۔"پلکیں اُٹھا کر کُچھ کہنا چاہا تھا مگر اُسکی آنکھوں سے پھوٹتی روشنیوں پر زبان بند ہوئی تھی جس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے لبوں کی نرمی کو محسوس کیا تھا عدن کی جیسے جان جانے لگی تھی جسکا ہاتھ رینگتا ہوا ا سکی گردن پر آیا تھا اور اگلہ لمحہ عدن کے لیے قیامت بن کر ٹوٹا تھا جب وہ جُھکتے ہوئے اُسکی پیشانی پر اپنا دہکتا لمس چھوڑ گیا۔

"اس وقت خُود کو دینا کا سب سے خُوش قسمت انسان تصور کر رہا ہوں جس کے نصیب میں اللہ نے تُمہیں لکھ دیا۔۔۔۔۔۔"اسکے سامنے تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا اور اس کے چہرے کو گرفت میں لیتا اپنی نظروں کی پیاس بجھانے لگا عدن اُسکی نظر کی حدت سے پزل ہونے لگی۔

 "مُجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کہو نہ سُن رہا ہوں۔۔۔۔.۔۔۔"اُسکی چوڑیوں سے کھیلنے لگا۔

"وہ ابھی میں،یہ سب۔۔۔۔۔۔۔"اُسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح بات کرے جو اس کی قُربت میں مدہوش ہو رہا تھا۔

"اقرب آپ۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے مُنہ سے نکلتا اُسکا نام اقرب کو مسکرانے پر مجبور کر گیا اُسے آج سے پہلے اپنا نام اتنا اچھا نہیں لگا تھا جتنا عدن کے لبوں سے ادا ہوا اچھا لگا تھا۔

"جی اقرب کی جان۔۔۔۔۔۔"شوخ انداز میں کہتا اُس کی کلائی کو جھٹکا دیتا اُسے اپنے اُوپر گرا گیا وہ دھک سی رہ گئی۔

"ہر گُستاخی معاف۔۔۔۔۔۔"بوجھل آواز میں کہتا وہ واقع میں شریر گُستاخیوں پر اُتر آیا تھا اُس کے چہرے پر اپنی چاہت کے پھول کھلانے لگا جو اُسکی قُربت کی گرمی سے پگھلنے لگی تھی۔

"آپ،پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بولنے کے قابل ہوئی تو اسکی بڑھتی شوخ جسارتوں کو بندھ باندھنے کے لیے بول اُٹھی۔

"مجھے آپ سے کُچھ کہنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر پھر سے نزدیک کرنا چاہا تھا کہ وہ جلدی سے کہہ گئی۔

"کہو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ توجہ سے سننے لگا۔

"وہ اصل میں مُجھے پاپا کی بہت فکر اور،اور وہ ابھی تک مجھ سے ناراض ہیں میں چاہتی تھی کہ رُخصتی ان کے مان جانے کے بعد ہو مگر کسی نے میری ایک نہیں سُنی،آپ سے بات کرنی تھی پر آپ گھر ہی نہیں تھے۔۔۔۔۔۔"

"اب کیا چاہتی ہو تُم۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کر بیٹھا تھا۔

"میں ابھی اس رشتے کو یہی رکھنا چاہتی ہوں جب تک پاپا نہیں راضی ہو جاتے تب تک پلیز۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر اقرب نے ایک گہری سانس ہوا کہ سُپرد کی۔

"ہوگا تو کُچھ مُشکل پر تُمہارے لیے یہ بھی سہی،اب خُوش۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے نرمی سے استفسار کیا وہ مُسکراتی ہوئی سر ہلا گئی اور پھر اقرب نے چھوٹی چھوٹی باتیں کر کے اُسکی ساری جھجھک ختم کر دی۔

عدن جب لباس تبدیل کر کے آئی اقرب ٹرازور شرٹ میں ملبوس بیڈ پر لیٹا اپنے موبائل کے ساتھ لگا تھا عدن بیڈ کی دوسری طرف آ کر ٹک گئی اقرب نے اُسے لیٹتے دیکھ کر لائٹ آف کر کے ہاتھ بڑھا کر اُسے اپنے قریب کر لیا۔

"بے فکر رہو پاس سونے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے مُسکرا کر کیا جُھک کر اُسکی پیشانی چومی اور بانہوں میں لے کر آنکھیں موند گیا جبکہ عدن عجیب سے احساسات میں گری اُسے اتنا قریب دیکھ کر کتنی دیر تک سو نہ سکی۔

حارث تُم ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں اس وقت اُسکی شاپ میں آئے تھے حارث جو کسی گاڑی کو ٹھیک کرنے میں مصروف تھا دو اجنبیوں کو دیکھتا اُنکی طرف آیا۔

"جی میں ہی حارث ہوں آپ لوگ۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں کو پہچاننے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔

"ہمیں تم نہیں جانتے پر ہم تُمہیں جانتے ہیں،تم باری کے دوست ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔"اُن میں سے ایک بولا حارث باری کے نام پر چونکتا ہوا سر ہلا گیا۔

"ہمیں باری سے ملنا ہے کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ایک سال سے تو میں بھی اُسے ڈھونڈ رہا ہوں مجھے بھی نہیں پتہ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے بتانے پر دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

"کیا مطلب ہے تُمہاری بات کا؟وہ تُمہارا دوست تھا تو تُمہیں پتہ ہی نہیں وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

"میں سچ کہہ رہا ہوں وہ میرا دوست تھا میں مانتا ہوں پر مجھے نہیں پتہ وہ اب کہاں ہے،آج سے ایک سال اور چھ ماہ پہلے وہ اسی طرح ایک دن میری شاپ پر آیا تھا اپنی بائیک ٹھیک کروانے پھر وہاں سے ہماری دوستی شُروع ہوئی اور ایک سال پہلے وہ اچانک غائب ہو گیا،میں نے کافی ڈھونڈا جہاں جہاں اُس کے ملنے کے امکان تھے مگر وہ نہیں ملا اور مجھے نہیں پتہ کہ وہ کہاں چلا گیا۔۔۔۔۔۔"حارث نے تفصیل سے بتایا دونوں نے اُس کے چہرے پر سچائی کی جھلک دیکھتے ہوئے سر اثبات میں ہلا دیا۔

"کیا تُمہارے پاس اُسکی کوئی تصویر یا تُم ہمیں اُسکی شکل بتا سکتے ہو۔۔۔۔۔۔"

"تصویر تو کوئی نہیں ہے میرے پاس اُسکی،ہاں اُس کی شکل و صورت بتا سکتا ہوں بہت زیادہ خُوبصورت تھا،کلین شیو رہتا تھا آنکھوں کا کلر لائٹ براؤن تھا ستواں ناک اور بھرے بھرے ہونٹ اس میں کوئی شک نہیں تھا وہ بہت زیادہ چارمنگ تھا اس لیے تو ہائما رائے مرتی تھی اُس پر۔۔۔۔۔۔۔۔"ہائما رائے کے نام پر دونوں چونکے تھے۔

"ہائما رائے۔۔۔۔۔۔۔؟

"ہاں وہ ریس دیکھنے آتی تھی وہی باری کی محبت میں مبتلا ہو گئی وہ اور حیرت کی بات ایک سال سے میں نے اُسے بھی ریس کے میدان میں نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔"حارث خُود بھی کنفیوز تھا یہ سب سوچ کر کہ وہ دونوں ایک ساتھ غائب ہوئے تو کیوں؟؟؟

"اچھا بہت شُکریہ تُمہارا،اب ہم چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں جانے لگے۔

"آپ لوگ کون ہیں اور باری کے بارے کیوں جاننا چاہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔"حارث کی بات پر وہ اُسکی طرف مڑے۔

"ہمارا تعلق پاک آرمی سے ہے اور تُمہارا دوست باری کوئی عام انسان نہیں بلکہ قانون کا بہت بڑا مُجرم ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں اُسے حق دق وہی چھوڑ کر چلے گئے حارث ششدر سا اُنکی بات کا مطلب سمجھتا وہی کھڑا رہ گیا۔

"___________________________________"

شادی کے دوسرے دن ہی غائب ہوتا اقرب ابھی تک گھر نہیں آیا تھا آج بی جان اور شہناز بیگم کی فلائٹ تھی اور وہ دونوں مُسلسل غُصے سے اقرب کو کوس رہی تھیں۔

"دیکھو تو اُسے ابھی تک نہیں آیا،ہمارے جانے کے بعد یہ اس طرح عدن کا خیال رکھے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شہناز بیگم کو رہ رہ کر اُس پر تاؤ آ رہا تھا۔

"ماما آپکو تو پتہ اُسکی جاب ہی ایسی ہے،میری بات ہوئی اُس سے وہ اتنے دن اس لیے نہیں آیا کہ سارا کام ختم کر کے پُورا ایک ماہ ریلیکس ہو کر عدن کو ٹائم دے سکے۔۔۔۔۔۔۔"ہمیشہ کی طرح صدف آپا نے ہی اُسکی سائیڈ لی تھی جس پر وہ دونوں کُچھ پُرسکون ہو گئیں۔

صدف آپا اور حسن بھائی اُنکو ائیرپورٹ چھوڑنے چلے گئے تو عدن اپنے کمرے میں آ کر سو گئ دو گھنٹوں بعد کھٹکے کی آواز پر اُسکی آنکھ کُھلی تھی آنکھیں کھول کر دیکھا تو اقرب کو وارڈرب سے کپڑے نکالتے پایا۔

"آپ اب آئے ہیں،بی جان اور ماما کتنا ویٹ کر کے گئیں آپکا۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کر بیٹھتی خُود کو کچھ کہنے سے باز نہ رکھ پائی۔

"ابھی اُنکو مل کر سی آف کر کے آیا ہوں،کسی کام میں پھنس گیا تھا پھر وہی سے سیدھا ایئرپورٹ چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے بتاتا واش رُوم میں گُھس گیا عدن بال سمیٹ کر بیڈ سے اتری ٹائم دیکھا جہاں رات کے دس بج رہے تھے وہ ڈنر کے خیال سے کچن میں آئی جہاں خانسا ماں کھانا ٹیبل پر لگا رہا تھا کچھ ہی دیر بعد اقرب بھی بلیک شلوار سُوٹ میں نکھرا نکھرا سا ٹیبل پر آ پہنچا۔

"کیا تُم ڈنر کئیے بغیر ہی سو گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔؟

"ہاں میرا دل نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔"وہ مدھم لہجے میں بولی۔

"کیوں۔۔۔۔۔۔"اقرب نے گہری نگاہوں سے دیکھا وہ کُچھ بجھی بجھی لگی۔

"بی جان اور ماما کے بغیر دل نہیں لگ رہا میرا۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لڑکی ابھی سے؟ابھی تو کُچھ گھنٹے ہوئے اُنکو اور فکر نہ کرو تُمہارا دل لگانے کو میں ہوں نہ۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکرایا۔

"آپ کا کیا بھروسہ،چاہے پھر سے غائب ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے اچانک غائب ہو جانے پر چوٹ کرتے ہوئے بولی.

"میری جاب ہی کچھ ایسی ہے یار۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر کھجانے لگا۔

"کیا جاب ہے آپکی؟آئی مین کیا کرتے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔"جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی دیکھ رہی تھی کہ وہ دس پندرہ دنوں کے لیے غائب ہو جاتا تھا کہاں ہوتا تھا یا کیوں وہ آج تک نہ سمجھ سکی تھی۔

"بزنس ہے باقی تفصیل پھر کبھی سہی،تُم یہ بتاؤ کہ تُمہارے پاپا سے بات ہوئی تُمہاری۔۔۔۔۔۔۔؟اقرب کے سوال پر وہ سر نفی میں ہلا گئی۔

"مُجھے نمبر دو اُنکا،میں ٹرائی کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔"

"نہیں آپ رہنے دیں میں خُود ہی کر لونگی۔۔۔۔۔۔۔"وہ جلدی سے منع کر گئی اقرب چوہان ہاتھ نیپکن سے صاف کرتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"میں چاہتا ہوں کہ تم جلدی اُنکو منا لو کیونکہ اب انتظار زرا مُشکل ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے کان میں سر گوشی کے انداز میں بولتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا جبکہ عدن دھڑکتے دل کے ساتھ وہی بیٹھی رہ گئی۔

"___________________________________"

انوار صدیقی غُصے سے بلبلاتا ہوا ادھر اُدھر کے چکر لگانے میں مصروف تھا تبھی اُسکی نگاہ اپنی طرف آتی قُرت خٹک پر پڑی۔

"کیا بنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چھوٹتے ہی پوچھنے لگا۔

"ہو گیا کام۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراتے ہوئے بولی انوار صدیقی نے پُرسکون سانس خارج کی۔

"ویری گُڈ۔۔۔۔۔۔۔"وہ حقیقتاً خُوش ہوا تھا۔

"اگلا ٹارگٹ۔۔۔۔۔۔"پوچھا گیا۔

"کیپٹن مرتقوی یزدانی۔۔۔۔۔۔"اُس کے لبوں پر مُسکراہٹ تھرک رہی تھی۔

"اور مجھے پُورا یقین ہے کہ تم اُس میں بھی کامیاب ہو جاؤ گی۔۔۔۔."

"میں آپکو ناراض کرنے کا رسک کیسے لے سکتی ہوں بھلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور میں تُمہیں خُوش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا مائے سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدیقی کا موڈ عاشقانہ ہوا تھا آنکھوں میں عجیب سی چمک لیے وہ قُرت کے اُوپر جُھکا تھا مگر وہ نرمی سے اُسے اپنے سے دُور کر گئی۔

"اُف قُرت ڈارلنگ ایک تو تم قریب آنے نہیں دیتی۔۔۔۔۔"وہ بدمزہ ہوا۔

"ابھی میں بہت خاص مشن پر ہوں سر،ابھی آپکا میرے قریب آنا ٹھیک نہیں ہوگا،مشن ختم ہو لینے دیں پھر جتنا کہے گئے قریب ہو جائیں گیں۔۔۔۔۔۔۔۔"قُرت نے اُسکی آنکھوں میں جھانکا وہ ہنستے ہوئے سر ہلا گیا۔

"چلو کوئی نہیں جہاں اتنا انتظار کیا وہی اور سہی۔۔۔۔۔۔"

"ہائما رائے کو کس نے قتل کیا تھا سر۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اچانک پوچھ بیٹھی انوار صدیقی چونک کر اُسکی طرف مُڑا۔

"تُم کیوں پوچھ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔"ا لٹا سوال کیا گیا تھا۔

"آرمی والے باری کو ڈھونڈ رہے تھے،اب ہائما رائے کی تلاش میں ہیں پر اُسکا تو قتل ہو چُکا ہے نہ،تو اِسے کون مار سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"باری،باری نے قتل کیا تھا ہائما رائے کو،کیونکہ باری آرمی کا ایجنٹ تھا۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے انکشافات پر قُرت حیران ہوئی۔

"اگر وہ آرمی کا ایجنٹ تھا تو پھر آرمی والے اُسے ڈھونڈ کیوں رہے ہیں،دوسرا وہ ایک سال سے غائب کہاں ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟

"ان باتوں کا جواب تو تُمہیں آرمی والے ہی دے سکتے ہیں کیونکہ یہ اُنکی کوئی چال ہے جس میں وہ ہمیں اُلجھانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انوار صدیقی کی بات پر وہ بھی متفق ہوتی سر ہلا گئی۔

"اچھا اب تم جاؤ،ہمارا زیادہ دیر یہاں رُکنا ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔۔"صدیقی کے اشارے پر وہ اپنی گاڑی کی طرف آئی۔

"ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے مجھے مرتقوی یزدانی کے قریب جانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔"گاڑی چلاتے ہوئے یہی سوچ اُسکے دماغ میں تھی۔

"__________________________________"

"کیا بات ہے،کُچھ غُصے میں لگ رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب چوہان نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے بازل کی طرف دیکھا۔

"یار وہی گھسا پیٹا قانون،ایک مُجرم کو پکڑتے ہیں اور اُس کے سارے محافظ جاگ پڑتے ہیں اگر یہی سسٹم پاکستان میں چلتا رہا تو کب ہم لوگ قاتلوں،ڈرگز مافیا اور ان کالے دھندے کرنے والوں کا صفایا کریں گئے؟سب سے تکلیف دہ بات یہی ہے کہ ہمارے اپنے ہی چند کاغذ کے ٹکروں کے لیے اپنا ایمان اپنا ضمیر بیچ کر اپنوں کے ہی دُشمن بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"باذل خاں جس نے زکی کو پکڑنے کے لیے اُس کے خلاف ثبوت اکھٹے کر کے اپنا پُورا زور لگایا تھا اُسکا اتنی آسانی سے جانا ہضم نہ کر پا رہا تھا۔

"پر مجھے پُورا یقین ہے کہ جب تک تم جیسے ایماندار آفیسرز اپنا کام کرتے رہیں گئے تب تک یہ لوگ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"انشاءاللہ،زکی کو میں چُھوڑونگا  نہیں اس دفعہ ایسا پکا ثبوت ڈھونڈوں گا کہ اُوپر تک بھی جانا پڑا تو میں جاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اِسکا لہجہ پُراعتماد تھا۔

"اوکے ضرور،ویسے یہ زکی ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب چوہان اس کے مُنہ سے کئی دفعہ اُسکا نام سن چُکا تھا اس لیے پوچھ بیٹھا۔

"دو نمبر بندہ ہے،ڈرگز سمگلر،لڑکیوں کا بیوپاری اور قتل و غارت ہر کام کرتا ہے وہ،کرپٹ سیاست دان اور بزنس مین کی کسی کمزوری پر ہاتھ ڈال کر اُنکو انگلیوں پہ نچانا اور اپنا کام نکلوانا اُسکا پسندیدہ مُشغلہ ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"پھر تو پہنچ اُوپر تک ہو گی اُسکی۔۔۔۔۔۔۔"

"ہے تو ایک رات بھی حوالات میں نہیں ٹھہرنے دیتے سالے کو۔۔۔۔۔۔"بازل کے لہجے میں اُس کے لیے نفرت صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔

"تُم کوشش کرو اپنی،اگر میری مدد کی ضرورت پڑی تو میں حاضر ہوں،اب اجاذت دو پھر کبھی ملتے ہیں۔۔۔۔۔۔"

اقرب اُٹھ کھڑا ہوا تو باذل نے بھی اُسکی تقلید کی۔ 

"ساتھ ہی چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باذل نے اُس کے ساتھ ہی قدم بڑھا دئیے۔

"___________________________________"

"ہاں بولو پٹھان۔۔۔۔۔۔"موبائل کان سے لگاتے ہوئے بولا۔

"تُمہارے لیے خُوشی کی خبر ہے زکی۔۔۔۔۔۔۔۔"اجمل پٹھان کی آواز کچھ پُرجوش تھی۔

"اور میرے کان ترس رہے اچھی خبر کے لیے۔۔۔۔۔۔۔"

"تو پھر سُنو سلطان تم سے ملنے کے لیے راضی ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔"

"کیا واقع میں۔۔۔۔۔۔"وہ خُوش ہوا تھا۔

"سو فیصد سچ،میں نے اسے تُمہارے بارے بتایا کہ تم کتنا پاور فُل آدمی ہے تو وہ بہت امپریس ہوا تم سے۔۔۔۔۔۔"

"پٹھان صاحب دل جیت لیا آپ نے زکی کا،اسی خُوشی میں اگلے مال کا سارا پرافٹ آپکا۔۔۔۔۔۔"وہ سخی بنا جس پر اجمل پٹھان خُوش ہوگیا۔

"مہربانی،اب کل وہ ٹائم بتائے گا کہ کہاں ملے گا وہ تم سے،میں تُمہیں بتا دُونگا،اچھا پھر میں فُون رکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"کھٹاک سے فُون بند کر دیا گیا زکی کے لبوں کو مُسکراہٹ نے چُھو لیا۔

"سُلطان رائے،مائے سویٹ ہائما رائے کے لونگ پاپا۔۔۔۔۔۔"وہ ہنسا تھا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا۔

"__________________________________"

گاڑی خراب نہیں تھی مگر اُسے خراب کر کے وہ اُسی راستے میں کھڑی ہوگئی جہاں اُسکی  سوچ کے مطابق مرتقوی یزدانی نے گُزارنا تھا اور بلکل ویسا ہی ہوا کُچھ دیر بعد اِسے مرتقوی کی گاڑی آتی دکھائی دی تو ہاتھ ہلا کر لفٹ مانگنے لگی۔

"ارے آپ۔۔۔۔۔"مرتقوی کے گاڑی روکنے پر وہ اُسکے فرنٹ دروازے پر جھکتی حیرانگی کا تاثر دینے لگی۔

"وہ اصل میں میری گاڑی خراب ہو گئی ہے کیا آپ مجھے لفٹ دیں گئے۔۔۔۔۔۔"اُسکی خاموشی پر وہ اپنے مطلب پر آئی۔

"جی آئیے۔۔۔۔۔۔"مرتقوی کے کہنے پر قُرت مُسکراتی ہوئی فرنٹ ڈور اوپن کر کے ٹک گئی۔

"بہت شُکریہ آپکا۔۔۔۔۔۔۔"

"اس میں شُکریہ والی کونسی بات ہے؟تُمہاری جگہ کوئی بھی ہوتا میں اُسے بھی لفٹ دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مرتقوی کا لہجہ پچھلی ملاقاتوں کے برعکس تھا۔

"کہاں جا رہے تھے تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس پر گہری نگاہ ڈالی گئی تھی۔

"آفس سے گھر جا رہا ہوں،تم کہاں اُترنا پسند کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ابھی سے تنگ آ گئے ہو کیا۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر مرتقوی نے حیرانگی سے دیکھا جو مُسکرا رہی تھی۔

"ابھی سے کیا مراد ہے تُمہاری؟کیا اس سے زیادہ سفر کرنے کی خواہش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اگر کہوں ہاں تو۔۔۔۔۔۔"لب و لہجہ دل افروز تھا وہ بھی مرتقوی یزدانی تھا لوگوں کے چہروں سے اُن کے دل کی کیفیت جان لیتا تھا۔

"تو میں حاضر ہوں دل و جاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ گاڑی کا موڑ کاٹتے ہوئے مُسکرا کر بولا جس پر قُرت زیرلب مُسکرادی دونوں اپنی اپنی نظر میں ایک دوسرے کو بیوقوف بنا رہے تھے بنا یہ سوچے کہ اصل میں کوئی اُن دونوں کو بیوقوف بنا رہا تھا۔

"___________________________________"

آج صُبح سے ہی بارش زور و شور سے ہو رہی تھی اور عدن کی جان تھی کہ لبوں پر آئی ہوئی تھی اسے شروع سے ہی رات کی بارش اور بادلوں کی گرج چمک سے ڈر لگتا تھا اور ابھی بھی بادلوں کی گرگراہٹ اور بجلی کی چمک اُسکی جان ہولائے دے رہی تھی۔

"اقرب پلیز جہاں بھی ہیں آ جائیں۔۔۔۔"وہ اقرب کی واپسی کی دُعائیں کرنے لگی اُسے کال کرنے کا سوچ کر سیل اُٹھایا پر اگلے لمحے ہی خُود کو کوس کر رہ گئی کہ نمبر تو اُسکا اس کے پاس تھا ہی نہیں اور نہ کبھی اقرب نے اسے کال وغیرہ کی تھی۔

"اور اگر لائٹ چلی گئی تو۔۔۔۔۔۔"یہ سوچ کر ہی وہ خوف سے سفید پڑنے لگی تبھی اُسے کسی کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی تو اقرب کا سوچ کر کُچھ پُرسکون ہو گئی جو دو منٹ بعد ہی کمرے میں داخل ہوا تھا۔

"شُکر ہے آپ آ گئے ورنہ میرا تو ڈر کے مارے دم نکل رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے بھی یہی خیال آیا تھا اس لئے تو کام اُدھورا چھوڑ کر بھاگا چلا آیا۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکرا کر بولتا اُس کے قریب ہی بیڈ پر  ٹک کر شوز اُتارنے لگا۔

"ویسے بہت ڈرپوک ثابت ہوئی ہو،اتنی سی بارش سے گھبرا گئی۔۔۔۔۔۔"وہ شرارت کے موڈ میں تھا اس لیے مُسکراتے ہوئے اُسے دیکھا جو اب کچھ خفگی سے دیکھ رہی تھی۔

"یہ اتنی سی بارش ہے؟اور بادلوں کی آواز سُنی آپ نے۔۔۔۔۔۔"

"ہاں تو؟اتنا زبردست ساؤنڈ کریٹ ہو رہا بارش اور بادلوں کی گرج چمک کا،میرا تو آئیڈیل موسم ہے بڑی خواہش تھی ساون کی پہلی بارش ہو اور میں اور میری بیوی اُس میں بھیگیں پر اُف بڑی ڈرپوک بیوی ملی مجھے تو اور بہت ان رومانٹک بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے تپ دلانے کی کوشش کر رہا تھا جس میں وہ کامیاب بھی رہا تھا نیلی آنکھوں میں غُصہ جھلک رہا تھا وہ نروٹھے انداز میں بیڈ سے اُتر کر جانے لگی مگر اقرب نے اُس کی کلائی کو جھٹکا دے کر اسے اپنے اُوپر گرا لیا۔

"چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔۔"وہ اپنا آپ چھڑوانے لگی مگر اقرب نے بیڈ پر منتقل کرتے ہوئے اُس کے گرد دائیں بائیں بازو رکھتے ہوئے اُسے اپنے احصار میں قید کر لیا۔

"اب چھوڑنا تو نا ممکن بن گیا ہے لڑکی۔۔۔۔۔۔"اقرب نے پیار سے اس کے چہرے پر بکھری چند لٹوں کو سنوارا تھا۔

"اقرب آپ کھانا نہیں کھائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے پر سے اُسکا دھیان بٹانا چاہتی تھی۔

"فل وقت تو تُمہاری قُربت کی پیاس پاگل کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔"نہ صرف لب و لہجہ بہکا تھا بلکہ وہ بہکی بہکی حرکتیں بھی کرنے لگ پڑا تھا عدن اُسکی بڑھتی شوخ جسارتوں پر گھبرا اُٹھی تھی۔

"آپ،اقرب آپ نے۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر روکنے کی کوشش کی گئی تھی مگر وہ ان لمحوں کی گرفت میں قید ہوتا اُس کے چہرے پر جھکتا اُسکی بولتی بند کروا گیا تھا وہ تو کاٹو تو بندن میں لہو نہیں کی طرح سن ہو گئی تھی جو قُربت کے مدہوش کن نشے میں ڈوبتا ہر حد پار کر رہا تھا عدن کی ہر مزاحمت اُسکی بانہوں میں دم توڑتی چلی گئی جو دیوانہ وار اُس کے ایک ایک نقوش کو چُومتا اپنا ہر حق جماتا چلا گیا ہاتھ بڑھا کر لائٹ آف کرتا اس پر جُھکا جو مکمل سپردگی اُسے بخشتی آنکھیں موند گئی تھی ایک بارش باہر ہو رہی تھی تو ایک بارش اندر ہو رہی تھی جو عدن کے وجود کو اپنی محبت سے بھگوتی چلی گئی کہ اُسکا پور پور اس چاہت کی بارش میں بھیگ کر نکھر گیا تھا۔

"__________________________________"

رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے اُسکی آنکھ بھی کافی دیر سے کُھلی تھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ اُٹھا تو ایک نگاہ عدن کی تلاش میں پُورے کمرے میں دوڑائی مگر وہ کہیں نہ تھی بیڈ سے اُٹھ کر وارڈرب سے کپڑے نکال کر واش رُوم میں گُھس گیا جب دس منٹ بعد فریش ہو کر آیا تب بھی عدن کو کمرے میں نہ پا کر کُچھ حیران ہوتا ٹاول کو سٹینڈ پر رکھ کر باہر آیا تو نگاہ عدن پر پڑی جو ییلو سُوٹ میں نکھری نکھری ڈرائینگ رُوم کے صوفے پر بیٹھی تھی نم بال پُشت پر بکھرائے موبائل کو ہاتھ میں پکڑے وہ کُچھ مضطرب سی لگی تھی۔

"عدن۔۔۔۔۔۔۔"بہت نرم پُکار تھی مگر وہ پھر بھی ڈر کر اُچھلی تھی گود میں پڑا موبائل زمین پر سجدہ ریز ہوا تھا اقرب نے مُسکراتے ہوئے اُسے دیکھا جو پہلے کُچھ گڑبڑائی تھی پھر شرم سے سُرخ پڑتی نظر کے ساتھ چہرہ بھی جُھکا گئی۔

اقرب چوہان اُس کے قریب آیا زمین پر پڑا موبائل اُٹھا کر صوفے پر رکھا اور پھر اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے کمرے میں لا کر بیڈ پر بٹھایا۔

"تم اب میری طرف دیکھ سکتی ہو،ویسے شکل اتنی بُری بھی نہیں میری۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے مسلسل جھکے سر پر چوٹ کر گیا۔

"نہیں وہ۔۔۔۔۔۔"کُچھ کہنے کے لیے نظریں اُٹھائیں تھیں مگر اُسکی شریر آنکھوں کو دیکھ کر پھر سے لال انار ہو گئی جو اُسکی شرمائی شرمائی کیفیت اور اداؤں سے محفوظ ہوتا اس کے خُوشبو بکھیرتے نم بالوں میں چہرہ چُھپا گیا۔

"بہت ظالم ہو یار اپنی ایک ادا سے ہی میرے ہوش و حواس چھین لیتی ہو۔۔۔۔۔۔"بوجھل لہجے کی گمبھیرتا نے عدن کے پُورے وجود میں ایک سنسی خیز لہر دوڑا دی وہ رفتہ رفتہ اُس کے پھر سے قریب جا رہی تھی جو اُسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ کر اُسکی دھڑکنوں کی رفتار بڑھا گیا تھا بہت جان لیوا قُربت تھی جس میں پھر سے وقت ریت کی طرح پھسلتا جا رہا تھا۔

"دل تو کرتا ہے تُمہیں اپنے سینے میں قید کر لُوں،قسم اٹھا کر کہتا ہوں اقرب چوہان کا جینا اب تُمہارے بیغیر مُشکل ہو جائے گا،دل میں اُتر کر روح میں اُترتی جا رہی ہو یار۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی نیلی آنکھوں کو باری باری چُومتا وہ اپنی ہار کا اعتراف کر گیا جو بڑی مُشکل سے اقرب سے خُود کو آزاد کرواتی اُٹھی تھی۔

"میں ناشتہ لگواتی ہوں آپ آ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بنا دیکھے بولتی وہ چلی گئی اقرب چوہان کو اُسکا رویعہ کُچھ عجیب سا لگا۔

"کہیں ناراض تو نہیں کہ میں نے عدن کو اُس کے پاپا کے مان جانے تک ٹائم دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ سوچ آتے ہی وہ خُود کو کوس کر رہ گیا کہ کیوں جذبات میں آ کر وہ بنا اُسکی مرضی پوچھے اپنا استحقاق جما گیا تھا۔

"منانا پڑے گا ورنہ اُسکا روٹھنا جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑاتا ہوا اُس کے پیچھے کمرے سے باہر نکلا۔

"__________________________________"

قُرت خٹک کی اداؤں نے آخر اپنا تیر مرتقوی یزدانی کے سینے میں پیوست کر ہی لیا تھا بڑھتی ہوئی ملاقاتوں کے ساتھ وہ ایک دوسرے کے کافی قریب آ گئے تھے دونوں ہی ایک دوسرے کو اپنے قریب لاتے ایک دوسرے کا کام آسان کر رہے تھے۔

"تُم نے کبھی اپنی فیملی کے بارے میں نہیں بتایا مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"قُرت کے سوال پر مرتقوی نے کندھے اُچکائے۔

"تم نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اب پوچھ رہی ہوں اب بتا دو۔۔۔۔۔"

"بتانا کیوں ہے اب ملاقات ہی کروا دُونگا تا کہ اب اس سے آگے بات چلائی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مرتقوی کے مہبم اشارے پر وہ دل ہی دل میں تمسخر اُڑاتی بظاہر مُسکرائی۔

"اوکے کیوں نہیں،تم یہ آرمی والوں کے ساتھ بہت دوستی کر کے بیٹھے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیوں تُمہیں آرمی والے نہیں پسند۔۔۔۔۔۔۔۔؟جواب دینے کے بجائے سوال داغا گیا۔

 "مُجھے پاک آرمی سے بہت پیار ہے پر مُجھے آرمی والے زہر لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی عجیب و غریب بات پر وہ حیرانگی سے دیکھنے لگا جو آرام سے پاستا کھانے میں مصروف تھی۔

"شُکر ہے تُمہیں میں زہر نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔۔"بے اختیار زبان سے نکلا تھا۔

"تُم کونسا آرمی میں ہو۔۔۔۔۔۔۔"

"آرمی والے کا دوست تو ہوں نہ۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے بات سھنبالی تھی اور کن انکھیوں سے اُسے دیکھا جو سر ہلاتی دوبارہ کھانے میں مصروف ہو چُکی تھی دونوں ایک دوسرے سے اپنی اصلیت چُھپا رہے تھے اور دل ہی دل میں مُسکرا دئیے تھے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کی اصلیت جانتے تھے اور دونوں اس چیز سے واقف نہ تھے۔

"کتنا بیوقوف ٹارگٹ ملا ہے اس بار۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکی طرف دیکھ کر مُسکرائی تھی۔

"دُشمن اُوپر سے بیوقوف کافی مزہ آنے والا ہے کیپٹن مرتقوی یزدانی۔۔۔۔۔۔۔"اسکی آنکھوں میں بھی تمسخر تھا۔

"___________________________________"

"ایک تو جسے دیکھو جہانہ جہانہ کرتا پھر رہا ہے،جہانہ اتنی فارغ نہیں کہ سب کے بُلانے پر دوڑی چلی آئے ہاں۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے بالوں کو جھٹکے سے پیچھے کرتی سامنے موجود گارڈز کو گُھورنے لگی۔

"تُمہیں تو اس چیز کا شُکر کرنا چاہئیے کہ سُلطان نے تُمہیں خُود یاد کیا ہے،لوگ تو سلطان سے ملنے کے لیے ترستے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"اُن میں سے ایک گارڈ نے اسے اسکی خُوش قسمتی سے آگاہ کیا تھا۔

"تو جہانہ بھی کوئی معمولی ہستی نہیں ہے؛دبئی کے شیخ تک میرے دُر پر آتے ہیں،تم لوگوں کا سُلطان کیا چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سلطان کی ان دیکھی پرسنالٹی سے زرا متاثر نہ تھی دونوں نے حیرانگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر گاڑی کے سلطان ولا میں رُکتے ہی دونوں اُترے اور اُسکا دروازہ کھول کر اُسے بھی اُترنے کا اشارہ کیا۔

"بڑی گرمی ہے،امبریلا میرے سر پر کرو ورنہ میرا کلر خراب ہو جائے گا۔۔۔۔۔..."وائٹ روش پر اپنی اونچی ہیل سے ٹک ٹک چلتی اپنے آرٹی فیشل بالوں کو ہاتھ میں گُھماتی خُود کو شاید مس ورلڈ تصور کر رہی تھی۔

"مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا سُلطان نے اس شی میل کے اندر دیکھا کیا،بس یہی کہ اپنی ہجڑوں کی پارٹی کا گُرو ہے یہ بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے پیچھے چلتے دونوں نے ایک دوسرے سے اظہار خیال کیا جو وہ کب سے سوچ رہے تھے۔

"صرف پارٹی کا نہیں گینگ کا گُرو ہے یہ،اور رائے صاحب کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسرے کی اطلاع پر وہ سر ہلا گیا۔

ایک بڑے سے ہال میں داخل ہوتی وہ ارد گرد دیکھنے لگی پھر صوفے پر دونوں پاؤں اُوپر کر کے آلتی پالتی مار کے اُن گارڈز کو دیکھنے لگی۔

"جاؤ جلدی بلاؤ اپنے سُلطان کو،اتنا فالتو ٹائم نہیں میرے پاس،رات کو کسی فنکشن پر بھی جانا مجھے اور ہاں کوئی ٹھنڈا ونڈا بھی پلاؤ مجھے۔۔۔۔۔۔۔"اپنے ہاتھ میں پکڑے کلچ سے پان کی پُریا نکال کر مُنہ میں رکھ لی اور پان کو کھاتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف دیکھنے لگی جہاں سے شاید سوٹڈ بوٹڈ سُلطان ہی چل کر آ رہا تھا ساٹھ کی عمر کا وہ آدمی اس کے قریب آ کر رُکتا اسے دیکھنے لگا جو بے تاثر چہرہ لیے پان کھانے میں مشغول تھی۔

سُلطان نے باریک بینی سے اُسکا جائزہ لیا پنک سُوٹ میں ڈوپٹہ گلے میں ڈالا تھا چہرے کا گُندمی رنگ جس پر میک اپ کی تہیں جمائی ہوئیں تھیں آنکھوں میں لمبا سا کاجل  کانوں میں بڑے بڑے ایئر رنگز اور ہاتھوں میں رنگ برنگی چوڑیاں آرٹی فیشل بالوں کی چٹیا آگے کیے وہ اپنے حُلیے سے ہی اپنی زات کا پتہ دے رہی تھی۔

"اوہ تو تُم ہو جہانہ،نُور بازار کا گرو۔۔۔۔۔"سُلطان اُس کے سامنے والے صوفے پر براجمان ہوا۔

"جب ساری خبر ہے تُمہیں تو پوچھتا کاہے کو ہے،کام کی بات پر آؤ۔۔۔۔۔۔۔"ملازم کے ہاتھوں جوس کا گلاس لیتے ہوئے وہ کچھ رکھائی سے بولی تھی سُلطان کو اُسکا انداز کُچھ ناگوار گُزرا تھا مگر وہ اپنے فائدے کے لیے گدھے کو باپ کیا خُود بھی گدھا بن جایا کرتا تھا۔

"لوگ صرف تیری ظاہری شکل کو جانتے ہیں پر میں تُمہاری اصل شکل سے بھی واقف ہوں جہانہ۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان نے اپنی سگریٹ جلائی۔

"بتا کیا ہے اصل  شکل میری۔۔۔۔۔۔۔"اُس کا وہی انداز تھا پُراعتماد۔

"یہی کہ تُم وڑائچ کے ساتھ اُسکے ہر اللیگل کام میں ملوث ہو چاہے وہ بچوں اور لڑکیوں کی اسمگلنگ ہو یا دو نمبر اسلحہ اور سفید پاوڈر کی بات ہو۔۔۔۔۔۔"اب کی بار وہ چونکی تھی اور اُسکا چونکنا سُلطان نے بھی نوٹ کیا تھا۔

"یہ سب تُجھے کس نے بتایا۔۔۔۔۔۔۔؟

"اجمل پٹھان نے،سُنا ہے وڑائچ کے مال کو ہر چیکنگ پوسٹ سے بحفاظت نکالنا صرف تُمہارا کام ہے اور یہی بات مجھے متاثر کر گئی تُم جانتی ہو جہانہ آجکل بہت سختی ہوئی ہے،آرمی اس دفعہ خُود پاکستان کے اندر کے حالات کا جائزہ لیتی ایکشن لے رہی ہے اور پچھلے ایک ماہ سے مُجھے مال بجھوانے میں کُچھ مُشکل آ رہی ہے اور میں بنا کسی کی نظروں میں آئے ہر کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان سگریٹ کو جوتے سے مسل کر اُٹھ کھڑا ہوا۔

"وڑائچ کو چھوڑنا پڑے گا پھر تو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑائی مگر اُسکی آواز سُلطان کے کانوں تک بخوبی پہنچ گئی تھی۔

"اُسے چھوڑنے کا انعام بھی دُونگا اور اُس سے ڈبل پیسہ ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان کے لالچ دینے پر اُسکی آنکھیں چمکی تھیں۔

"ٹھیک ہے سُلطان پر تم کبھی مُجھ سے فراڈ نہیں کرو گئے ورنہ جہابہ اگر کام آ سکتی ہے تو کام بگاڑ بھی سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے انداز میں وارننگ تھی۔

"اور سُلطان اپنے فائدے کو کبھی لات نہیں مارتا بے فکر رہو۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان نے اپنے گاڑڈ کو اشارہ کیا اُس نے کُچھ نوٹ اس کے آگے ٹیبل پر رکھ دئیے۔

"__________________________________"

زکی سُلطان سے ملنے کے لیے بلکل تیار تھا مگر اجمل پٹھان نے اُسے کال کر کے آنے سے منع کر دیا تھا۔

"سُلطان ابھی دبئی چلا گیا واپسی دس دن کے بعد ہو گی اب تُمہیں انتظار کرنا پڑے گا زکی۔۔۔۔۔۔۔"اجمل پٹھان کی بات زکی کو بدمزہ کر گئی۔

"اوکے ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"کال بند کر کے اُس نے وڑائچ کا نمبر ملایا تھا۔

"کیا بنا زکی۔۔۔۔۔۔"وہ چھوٹتے ہی پوچھنے لگا۔

"سُلطان پاکستان سے باہر ہے اب دس دن لگ سکتے ہیں اُس سے ملنے کے لیے تب تک تم اپنا کام کرو۔۔۔۔۔۔۔"

"ابھی رات تک تو پاکستان میں تھا وہ،ضرور کسی ڈیل کی وجہ سے گیا ہوگا۔۔۔۔۔۔"

"ہاں کیونکہ اگلے ماہ دبئی میں صحرائی کیمل ریس ہے اور تُمہیں پتہ اُس ریس کے لیے بچے اور لڑکیاں چاہئیے ہوتیں ہیں جو اس بار سُلطان فراہم کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زکی کے پاس ساری انفارمیشن تھی اور کیسے تھی یہ تو وڑائچ بھی نہیں جانتا تھا۔

"چلو ٹھیک ہے پھر،اب ویٹ کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔"وڑائچ کے کہنے پر زکی نے فُون بند کر کے بیڈ پر اُچھالا۔

"جو بھی کرنا ہے اس ایک ماہ کے اندر کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔"

"_________________________________"

جب وہ کچن میں آیا عدن ناشتہ ٹیبل پر لگوا رہی تھی اقرب کُرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور نظریں اس پر مرکوز کر دیں جو خفا خفا اسے اپنے دل کے قریب محسوس ہو رہی تھی۔

عدن اسکے اس طرح دیکھنے پر پزل ہونے لگی تھی خانسا ماں کے جانے کے بعد اقرب اُٹھ کر اس کے پاس چلا آیا جو فریج سے جوس نکال رہی تھی۔

"کیا ناراض ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"جگ اُسکے ہاتھ سے پکڑ کر شیلف پر رکھا اور اُس کے ہاتھ پکڑ کر استفسار کیا۔

"آپ کو اس سے کیا۔۔۔۔۔۔۔"انداز کُچھ نروٹھا سا تھا۔

"کیا کہا مجھے کیا؟مجھے تکلیف ہو رہی ہے یار تُمہارے اس گریز سے۔۔۔۔۔۔"

"تو۔۔۔۔۔"وہ اُسکی طرف دیکھ نہیں رہی تھی۔

"تو یہ کہ مان جاؤ پلیز کیا جان لو گی۔۔۔۔۔۔۔"بوجھل آواز میں کہتا اپنا سر اُس کے سر کے ساتھ ٹکڑایا عدن نے گھورتے ہوئے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کرنا چاہا مگر وہ اور قریب ہو گیا۔

"آپ پھر سے تنگ کر رہے ہیں اقرب۔۔۔۔"

"اب صُلح ہو گئی ہے اب تو تنگ کر سکتا ہوں نہ میں۔۔۔۔۔۔۔"مُسکراتے لہجے میں کہا گیا۔

"آپکو کس نے کہا صلح ہو گئی ہے۔۔۔۔۔"اس کے حصار سے نکل کر جگ شیلف سے اُٹھا کر ٹیبل پر رکھا۔

"تو کیا نہیں ہوئی؟ویسے بھی عدن اگر تُم انصاف کرو تو قصور تُمہارا بھی تھا تُم نے مجھے روکا کیوں نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔"لبوں پر مُسکراہٹ آنکھوں میں شرارت عدن نے نا سمجھی سے اُسکی طرف دیکھا اور پھر جب بات سمجھ میں آئی تو سٹپٹا کر سُرخ ہوتی چہرہ جُھکا گئی اقرب قہقہ لگا گیا۔

"_________________________________"

وڑائچ کو جب جہانہ کی سُلطان کے ساتھ کام کرنے کی خبر ہوئی تو وہ پہلی فُرصت میں اس کے پاس آیا۔

"تُم ایسا کیسے کر سکتی ہو جہانہ۔۔۔۔"شاید وہ ابھی بھی بے یقین تھا جہانہ نے ترچھی نگاہوں سے اُسے دیکھا۔

"جہانہ کو جہاں فائدہ نظر آئے گا وہی جائے گی وڑائچ،تُو بھی تو یہی کرتے ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں پر میں بھی تو تُمہیں فائدہ دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔"

"ہر فائدے میں صرف دس فیصد اور وہ سُلطان چالیس فیصد دینے کو تیار ہے میں تو کہتی تو بھی سُلطان سے ہاتھ ملا لے فائدے میں رہے گا۔۔۔۔۔۔۔"اپنے بھڑکیلے ڈوپٹے کے پلو کو ہاتھ میں میں جھلاتی وہ وڑائچ کو غُصہ دلا گئی۔

"تم جانتی ہو کہ سُلطان ہمیشہ میرا دُشمن رہا ہے اُسکی وجہ سے اجمل پٹھان کے ساتھ میری لڑائی ہوئی اور تم کہہ رہی کہ اُس کے لیے کام کروں۔۔۔۔۔۔۔"

"غُصہ کاہے کو ہوتا میرے لال،میں تیرا کام بھی کر دیا کرو گی اور اُسکا بھی تُو ٹینشن فری ہو جا میرے شکر پاڑے۔۔۔۔۔۔۔"جہانہ اُسکی سُرخ رنگت کو لو دیتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔

"سُلطان تُمہیں ایسا کرنے دے گا۔۔۔۔۔۔۔"

"ارے سُلطان سے ڈرتی میری جوتی،جہانہ کی اپنی ٹور ہے مجھے لوگوں کو انگلیوں پر نچانا خوب آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا جس پر وڑائچ متاثر ہوتا مُسکرا دیا۔

"اری اوہ شبو،وڑائچ سائیں کو کوئی ٹھنڈا ونڈا پلا۔۔۔۔۔۔"اُٹھتے ہوئے شبو کو کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

"__________________________________"

عدن کو شاپنگ پر جانا تھا اقرب گھر نہیں تھا اس لیے اُس نے صدف آپا کو کال کر کے بُلایا ساتھ اُنکے بیٹے احمد اور اسد بھی چلے آئے۔

"مُمانی جان ہمیں آئسکریم کھلائیں۔۔۔۔۔۔"مال کے اندر داخل ہوتے ہی وہ دونوں آئسکریم کا شور مچانے لگے عدن بہلا پھسلا کر جیسے تیسے اپنی شاپنگ مکمل کی صدف آپا نے اپنے گھر کی گُرو سری کی خریداری کرنی تھی ان تینوں کو جانے کا کہہ دیا تو عدن ان دونوں کو ساتھ لیے آئسکریم بار چلی آئی۔

"تم دونوں یہاں اپنی اپنی پسند کا فلیور آڈر کرو میں یہ شاپنگ بیگز گاڑی میں رکھ آؤں،زرا دھیان سے اوکے۔۔۔۔۔۔۔"اُنکو گلاس وال کے پاس والے ٹیبل پر بٹھایا دونوں نے سر اثبات میں ہلا دیا عدن مال کے باہر کھڑی گاڑی کے پاس آئی اور شاپنگ بیگز گاڑی کے اندر رکھ دئیے۔

جب وہ کُچھ دیر بعد وہ واپسی کے لیے پلٹی تو ایک فقیر اچانک اُسکی راہ میں حائل ہوا۔

"اللہ کے نام پر کچھ دیتی جاؤ،اللہ تُمہیں ہمیشہ سہاگن رکھے آباد رکھے۔۔۔۔۔"بنا فقیر کی دُعاؤں پر غور کیے وہ پریشانی سے ادھر اُدھر دیکھتی اپنے بیگ سے پیسے نکالنے لگی۔

"یہ لو بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لال نوٹ نکال کر اُسے پکڑایا اور احمد اور اسد کی طرف دیکھنے لگی جو گلاس وال کے اُس پار بیٹھے آئسکریم کھا رہے تھے۔

"اللہ تُمہیں بھی اس طرح کے بچے دے آمین ۔۔۔۔۔"وہ فقیر اُسکی نظروں کے تعاقب میں اسد لوگوں کو دیکھتا ہوا اپنے زہن کے مطابق  دعا دینے لگا جس پر عدن گڑبڑائی پھر اس نے کُچھ گھور کر اس فقیر کو دیکھا اور پھر اُنکی طرف قدم بڑھا دئیے۔

"___________________________________"

جب وہ ڈھیر سارے شاپنگ بیگز پکڑے گھر آئیں تو اقرب چوہان کو لاؤنج میں ہی بیٹھے پایا۔

"دیکھو تو گھر میں بیٹھے ہو اتنا نہیں ہوا کہ بیوی کو شاپنگ کروا لاؤں۔۔۔۔۔۔"صرف آپا نے گھورا جو احمد اور اسد کو پیار کر رہا تھا۔

"کُچھ ضروری کام تھا دوسرا آپکی بھابھی صاحبہ نے ہم سے زکر ہی نہیں کیا ورنہ ہر کام کو لات مار کر ان کے ساتھ جاتے ہم۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ عدن کو دیکھتا ہوا بولا جو صوفے پر بیٹھی ہیل سے پاؤں آزاد کر رہی تھی۔

"شوہر ہو اُس کے بن کہے ہر ضرورت پوری کرو اُسکی،اس چیز کا تُمہیں خیال ہونا چاہئیے کہ اُسے کس وقت کس چیز کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف آپا اُسے سرزنش کرتی کچن کی طرف چلی گئیں اقرب نے عدن کو دیکھا جو چُپ سی بیٹھی اپنے پاؤں دبا رہی تھی اقرب اُٹھ کر اس کے قریب آیا اور اس کے پاؤں سہلانے لگا۔

"یہ کیا کر رہے آپ،چھوڑیں۔۔۔۔۔۔"وہ جلدی سے اپنے پاؤں سمیٹ گئی۔

"جب شُوہر تھک کر آتا ہے تو بیوی اُسکا خیال کرتی ہے اب تُمہارے پاؤں ہیل کی وجہ سے درد کر رہے ہیں تو کیا میں اپنے ہاتھوں سے اُنکو نرمی بھی نہیں بخش سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔"بہت نرم اور میٹھا لہجہ تھا عدن کتنی دیر ہی اُسے دیکھے گئی پھر صدف آپا کو آتے دیکھ کر وہ جلدی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"عدن جاؤ فریش ہو کر آؤ،خانسا ماں نے ڈنر ریڈی کر لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف آپا کے کہنے پر وہ سر ہلا کر اپنے کرنے کی طرف بڑھ گئی۔

"اقرب تُم بھی آ جاؤ،احمد اور اسد چلو مُنہ ہاتھ دھو کر آؤ تم دونوں بھی اور ہاں احمد میرے بیگ میں تُمہاری الرجی کی ٹیبلٹ ہے وہ یاد سے کھا کر آنا۔۔۔۔۔۔"صدف آپا تینوں کو کہتیں پھر سے کچن کی طرف پلٹ گئیں۔

"مجھے نہیں کھانی وہ۔۔۔۔۔"احمد نے مُنہ بسورا۔

"کیوں نہیں کھانی؟آؤ میں کھلاتا ہوں آپ کو،کہاں ہیں آپکی مما کا بیگ۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بیگ کی تلاش میں ادھر اُدھر دیکھنے لگا پھر صوفے پر پڑا ہینڈ بیگ پکڑ کر اُسکی ٹیبلٹ ڈھونڈنے لگا مگر جو چیز اُسکے ہاتھ لگی تھی وہ اُس کے چونکنے کا باعث بنی تھی۔

"__________________________________"

وہ تیز تیز قدموں سے اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچی تھی موبائل سے ٹائم کی طرف دیکھا جہاں انوار صدیقی کو دیا گیا ٹائم پُورا ہو گیا تھا تبھی وہ اُسے آتا دکھائی دیا۔

"اتنی دیر؟تُمہیں یہاں میرے پہنچنے سے پہلے موجود ہونا چاہئیے تھا۔۔۔۔۔۔۔"وہ غُصے سے تیز لہجہ اختیار کر گئی۔

"تُمہیں تو پتہ ٹریفک کا مسلہ۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اچھا زیادہ مجھے نہیں سُننا،لاؤ دو مجھے جو پاپا نے بھیجا ہے۔۔۔۔۔"وہ اُسکی بات کاٹتی ادھر ا دھر دیکھتی بولی تو انوار صدیقی نے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا چھوٹا سا پیک اُسے تھما دیا۔

"کیا تم اس چیز کو اُس تک پہنچا سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"انوار صدیقی کی بات پر ایک تمسخر بھری مُسکراہٹ اُس کے لبوں پر چمکی۔

"تم شاید ابھی ہائما رائے سے واقف نہیں ہوئے صدیقی اپنے دُشمن کو اُس کے بل میں جا کر مارنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر انوار صدیقی بھی مُسکرایا تھا۔

"اوکے اب میں چلتی ہوں۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے وہ واپسی کو چل دی۔

دُرعدن نے بی جان اور شہناز بیگم سے بات کر کے موبائل اقرب کو تھما دیا اور خُود اُس کے لیے کافی بنانے لگی۔

"آپ لوگ زیادہ سے زیادہ دُعا کریں گیں تو پھر ہی ہم آپ لوگوں کے آنے تک خوشخبری کا ارینج کریں گئے نہ۔۔۔۔۔"اقرب نے مُسکراتے ہوئے عدن کی طرف دیکھا جو اسکی بات کا مطلب سمجھتی سُرخ ہو گئی تھی اقرب بات مکمل کر کے اُس کی طرف متوجہ ہوا۔

"پتہ ہے ماما کیا بات کر رہی تھیں۔....."اقرب کے سوال پر وہ سٹپٹا کر رہ گئی کیونکہ جو بات شہناز بیگم نے اقرب سے کی تھی وہ اُس سے بھی کی تھی۔

"آپ یہ کافی لیں نہ۔...."

"یہ جب بھی میں رومانٹک موڈ میں آتا ہوں تم میری توجہ کھانے پینے والی چیزوں کی طرف کیوں مبذول کرواتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب اُسکی بات پر بدمزہ ہوتا بولا تو عدن مُسکرا دی۔

"آپ تو ہر وقت رومانٹک موڈ میں ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔"

"فائدہ میرے اکیلے کا رومانٹک موڈ میں آنے کا،موڈ تو تُمہارا ہی دیکھنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔."

"میں نے سُنا تھا فوجی بہت رومانٹک ہوتے ہیں آج دیکھ بھی لیا۔۔۔۔۔۔۔"وہ روانی میں بولتی اُسے چونکا گئی۔

"تُمہیں کس نے بتایا کہ میں فوجی ہوں۔۔......."اقرب کے سنجیدہ انداز پر وہ ٹھٹکی۔

"وہ صدف آپا نے،آپ کو بُرا لگا کیا۔....."

"ارے بلکل بھی نہیں میری جان،میں تو خُود تُمہیں اپنے پروفیشن کے بارے بتانا چاہتا تھا پر کبھی فُرصت میں،تم میری بیوی ہو میرا لباس تُمہیں تو سب پتہ ہونا چاہئیے کہ تُمہارا شوہر کیا کرتا ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے کہا تو وہ مُسکرا دی ورنہ تو وہ ڈر گئی تھی کہ شاید اسے بُرا لگا تھا اُسکا سب جاننا۔

"اچھا تو ہم کیا بات کر رہے تھے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کُچھ بھی نہیں،بہت ٹائم ہو گیا اب سو جانا چاہئیے۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کر بیڈ پر آ گئ اقرب نے بھی اُسکی پیروی کی تھی۔

"ایک تو یار تم سوتی بہت ہو۔۔۔۔۔۔۔"

"کہاں سوتی ہوں اقرب۔۔۔...؟وہ لیٹتے لیٹتے اُٹھ بیٹھی۔

"رات کو،شاید تُمہیں کسی نے بتایا نہیں رات سونے کے لیے تھوڑی ہوتی ہے۔۔۔۔۔"اقرب نے اُسے اپنے قریب کیا تھا۔

"شاید آپکو علم نہیں کہ رات سونے کے لیے ہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اُسے دُور ہٹانے لگی۔

"وہ تو شادی سے پہلے ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔"اقرب نے آنکھ دبائی تھی وہ سُرخ ہوتی آنکھوں پر بازو رکھ کر لیٹ گئی۔

"اچھا ایک بات تو بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا۔۔۔۔۔"

"تُمہیں بچے کیسے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات پر وہ آنکھوں سے بازو ہٹا کر اُسے دیکھنے لگی جو پہلے کی برعکس کُچھ سنجیدہ تھا۔

"آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔....."

"میرے خیال میں ہمیں بچے کے متعلق اب سوچنا چاہئیے۔۔..."اقرب نے غور سے اُسکے شرماتے رُوپ کو دیکھا تھا۔

"سو جائیں آپ۔۔۔۔۔."

"نہیں پہلے بتاو اگر تم ابھی بچوں کی زمعےداری میں نہیں پڑنا چاہتی تو ہم ویٹ کر لیں گئے۔۔۔۔۔۔۔"عدن نے اقرب کی بات پر سر نفی میں ہلاتے ہوئے اپنا سر اُس کے سینے میں چُھپایا تھا۔

"مجھے بچے بہت پسند ہیں اور میرا دل کرتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔"

"کہ۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے مُسکراتی آنکھوں سے دیکھا۔

"کہ اب آپ سو جائیں۔۔۔۔۔۔۔"اُسکے کہنے پر اقرب ہنسا تھا۔

"آپ کے اس اقرار کے بعد اب نیند تو نہیں آئے گی اس لیے اب آپکو میرے موڈ کا خیال کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے لائٹ آف کر کے اُس کے گرد اپنا حصار تنگ کیا تھا۔

"__________________________________"

"مجھے میجر رضا سے ملنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مرتقوی یزدانی سیدھا اُن کے ہیڈ کوارٹر آیا۔

"میجر رضا چوہان اس وقت بزی ہیں۔۔........"چوکیدار کی اطلاع پر وہ گہرا سانس بھرتا انتظار کرنے لگا اور پھر پندرہ منٹ کے انتظار کی مشقت کے بعد اُسے اندر بُلا لیا گیا۔

"کیپٹن مرتقوی آپ سے جب کہا تھا کہ مشن کے دوران آپ مجھ سے نہیں مل سکتے تو پھر بھی آپ۔۔۔۔۔۔۔"اقرب چوہان نے سخت نظروں سے دیکھا۔

"صوری سر،اصل میں ایک خبر ایسی تھی کہ مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میجر اقرب رضا نے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

"قُرت خٹک کے بارے بات کرنی تھی۔۔۔۔۔"

"کون قُرت خٹک۔۔۔۔۔"اقرب کی سوالیہ نظریں اُسکی طرف اُٹھیں۔

"انوار صدیقی کے لیے کام کرتی ہے آرمی سے کُچھ انفارمیشن چاہتی ہے اور اُسکا اگلا ٹارگٹ میں ہوں۔۔۔.۔۔۔"

"تو نظر رکھو اُس پر اور ساتھ خُود ٹارگٹ بننے کے بجائے اُسے اپنا ٹارگٹ بناؤ۔۔۔۔۔"اقرب چوہان کی بات میں جو اشارہ تھا وہ سمجھتا ہوا سر ہلا گیا۔

"ہائما رائے کا کُچھ پتہ چلا۔۔۔۔۔"اقرب چوہان کے پوچھنے پر مرتقوی نے اب تک کی حاصل کی ساری معلومات اُس کے گوش و گُزار کیں۔

"اُس رات ہائما رائے مر گئی تھی یا بچ گئی تھی اس راز سے پردہ صرف ایک شخص اُٹھا سکتا ہے اور وہ ہے باری،پر اُسکو ڈھونڈنے میں ہم ابھی تک ناکام ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"

"باری۔۔۔۔۔"اقرب زیرلب بڑبڑایا پھر اُٹھتا ہوا ونڈو کے پاس آ کھڑا ہوا۔

"باری اُس رات وہاں گیا تو تھا پر کیا زندہ واپس آیا یہ بھی کسی کو نہیں پتہ۔۔۔۔۔"مرتقوی بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔

"تُم ہائما رائے کو فلحال چھوڑو اور انوار صدیقی کا پتہ لگواؤ،اور اصل شکل کونسی پے انوار صدیقی کی یہ بھی جاننا ضروری ہے کیونکہ باری کو جو انوار صدیقی ملا تھا وہ کوئی اور تھا،عدن کو تنگ کرنے والا انوار صدیقی اور تھا اور قُرت خٹک کے ساتھ جو تصویر میں دکھا وہ کوئی اور تھا مجھے اصل والا انوار صدیقی چاہئیے۔۔۔۔۔۔"

"اوکے میں دو دن تک پتہ لگواتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"مرتقوی نے کہا اور اُسے سیلوٹ مارتا باہر چلا گیا جبکہ اقرب چوہان کی پرسوچ نظریں ہائما رائے کی تصویر پر اُلجھ گئیں۔

"___________________________________"

آج اقرب چوہان کی سالگرہ تھی یہ بات دُر عدن کو صدف آپا سے معلوم ہوئی تھی اور وہ اقرب کو سرپرائز دینے کا سوچتی مُسکراتی ہوئی صدف آپا سے مل کر پلان بنانے لگی۔

"جب تک پاپا زندہ تھے وہ ہر سال اپنی برتھ ڈے بہت بڑے پیمانے پر سیلبریٹ کرتا تھا مگر پانچ سال ہوگئے پاپا کی ڈیتھ کو اُس کے بعد تو وہ بلکل بدل کر رہ گیا ہے یہ تو تم سے شادی کے بعد پھر سے جیسے پُرانا اقرب جاگ گیا ہے۔۔۔۔۔"

"اور میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ اقرب پھر سے اپنی ہر خُوشی کو سلیبریٹ کریں بلکل پہلے کی طرح۔۔......"وہ مُسکرا کر عزم سے بولتی صدف آپا کو خُوشی سے نہال کر گئی۔

"یہ تو بہت اچھی بات ہے،تو پھر آج کی رات تُم اُس کے لیے اسپیشل بناؤ کل کا دن ہم سب مل کر اُس کے لیے اسپیشل بنائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔"

صدف آپا کی بات پر وہ ایگری ہوتی سامان کی لسٹ بنانے لگی پھر ڈرائیور کو لسٹ تھمائی مگر کُچھ سوچ کر اُس کے ساتھ خُود بھی چل دی۔

وہ اقرب کے لئے گفٹ پسند کر رہی تھی تبھی کوئی لڑکی اُس کے پاس آ کھڑی ہوئی عدن نے ایک سرسری سی نظر اُس پر ڈالی پھر اپنی توجہ گفٹ پر مبذول کی اور شاپ کیپر کو پیک کرنے کا کہہ کر بیگ سے پیسے نکالنے لگی۔

"اوہ تو شوہر کے لیے گھڑی پسند کی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ لڑکی واچ کو پکڑتے ہوئے مُسکرا کر بولی۔

"جی آپ کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عدن نے اچھنبے سے اس کے بے تکلفانہ انداز کو دیکھا۔

"یہ سوال اپنے شوہر سے پوچھنا بہت تفصیل سے جواب دے گا تُمہیں۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا مطلب۔۔۔۔۔۔"وہ نہ سمجھی۔

"ہائما رائے کو جانتی تو نہیں ہو گی تُم۔۔۔۔۔۔"وہ بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتی  عدن کو حیرانگی میں مبتلا کر گئی وہ اُسے پہچاننے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

"کون ہائما رائے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ویل یہ تو باری ہی بتا سکتا تُمہیں کہ ہائما رائے کون ہے اور تُمہارے شوہر کا اُس سے کیا رشتہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی باتوں میں کُچھ راز تھا جس کو دُر عدن سمجھنے کی ناکام کوشش کرتی پیمنٹ ادا کرتی وہاں سے چل دی۔

"ارے مسز اقرب چوہان،اتنی جلدی بھی کیا ہے جانے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آگے بڑھ کر اُسکا راستہ روک گئی۔

"آخر آپ ہو کون اور مجھے تنگ کرنے کا مقصد۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار عدن جھنجھلا کر کہہ اُٹھی جس پر وہ مُسکرائی۔

"یہ بھی جا کر اپنے شوہر سے پوچھنا کیونکہ وہ بہتر بتا سکے گا۔۔۔۔۔."

"آپ کا میرے شوہر کے ساتھ کیا تعلق ہے۔۔۔۔۔۔"

"یہ بھی اپنے شوہر سے پوچھنا۔۔۔۔۔۔"اُس کے چہرے پر پُرسراریت بھری مُسکراہٹ چمک رہی تھی۔

"ہائما رائے ہو آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ باری سے پوچھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اب یہ باری کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"عدن چڑ گئی اس فضول سی بحث سے۔

"باری؟ارے تُمہیں نہیں پتہ؟کمال ہے کیسی بیوی ہو اپنے شوہر کے نک نیم کو بھی نہیں جانتی تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ طنزً ا مُسکراتی وہاں سے چل دی جبکہ عدن حیران پریشان سی اُسکی پُشت کو تکتی رہ گئی۔

"________________________________"

گھر آ کر بھی عدن کُچھ پریشان سی اُس لڑکی کے بارے سوچتی رہی اور رات کو جب اقرب آیا تو وہ چاہنے کے باوجود بھی اُس لڑکی کا زکر اقرب کے سامنے نہ کر سکی۔

"کیا بات ہے عدن کُچھ پریشانی ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب اُس کے چہرے کے اتار و چڑھاؤ کو دیکھتا پوچھنے لگا۔

"نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر نفی میں ہلاتی مُسکرائی۔

"ڈنر میں آج سب کُچھ میری پسند کا بنا کیوں؟تُم نے اپنی پسند کا بھی کُچھ بنوا لینا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فروٹ ٹرائفل سے لُطف اندوز ہوتے وہ کہنے لگا۔

"کیا پتہ جو آپکی پسند ہو وہ ہی میری بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ تو پھر بہت اچھی بات ہے،آج کلر بھی میری پسند کا پہنا ہے کیوں۔۔۔۔۔؟اقرب کے لبوں پر شرارتی مُسکان تھی جیسے وہ سب جانتا ہو کہ آج اُسے اسپیشل ٹریٹمنٹ کیوں مل رہی ہے۔

"ویسے ہی آج موسم اچھا تھا تو ریڈ کلر پہن لیا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کندھے اُچکا کر بولتی پانی پینے لگی۔

"میرے دل کا موسم بھی آج بہت اچھا ہے۔۔۔۔۔۔"لہجہ معنی خیز تھا۔

"وہ تو ہمیشہ ہی اچھا ہوتا ہے آپ جا کر کمرے میں آرام کریں مُجھے صدف آپا سے کُچھ کام ہے میں اُن کو کال کر کے آتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ملازمہ کو برتن اُٹھانے کا اشارہ کرتی ڈرائینگ رُوم کی طرف بڑھ گئی اقربب نے پُرسوچ نظروں سے اُسکی پُشت کو دیکھا اسے عدن کے انداز کُچھ مشکوک سے لگے۔

"آج میرا برتھ ڈے ہے شاید سرپرائز کے چکروں میں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراتا ہوا اپنے کمرے کے طرف بڑھ گیا۔

"__________________________________"

اُس نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا جہاں رات کے گیارہ بج رہے تھے وہ ایک نظر بند ہوتی گاڑی پر ڈال کر گہرا سانس بھرتا موبائل نکال کر نمبر ملانے لگا تا کہ گھر سے دوسری گاڑی منگوا سکے۔

تبھی اُسکی آنکھیں کسی گاڑی کی تیز روشنی سے چیندھیا گئیں تھیں آنکھوں کے آگے ہاتھ رکھتا وہ خُود کو اُس گاڑی کی ہیڈ لائٹس سے بچانے لگا اُس گاڑی کا دروازہ کُھلا تھا اور اندر سے پہلے دو گارڈز نکلے پھر وہ تیسرا وجود نکلتا اقرب چوہان کو چونکا گیا تھا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ بلیک لونگ اوور کوٹ میں ملبوس ہاتھوں اور چہرے کو بلیک ماسک میں چُھپائے سر پر ہُڈ پہنے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔

"ہماری طرف سے تُمہاری سالگرہ کا تحفہ،دی اینڈ میجر اقرب رضا چوہان۔۔۔۔۔۔۔"اُن میں سے ایک گارڈ بولا اقرب نے اُس بلیک ہُڈ والے کی طرف دیکھا جس نے پسٹل کا رُخ اُسکی طرف کیا تھا اقرب بنا کسی خُوف اور ڈر کے اُن تینوں کی طرف دیکھنے لگا پھر پلک جھپکتے ہی اقرب نے پھرتی دکھاتے ہوئے نہ صرف اک کِک لگا کر پسٹل نیچے پھینکا تھا بلکہ اُس بلیک ہُڈ والے انسان کو اپنے شکنجے میں لیتا اپنا پسٹل اُس کے سر پر تان گیا تھا۔

"تُم لوگوں کی جوئی بھی ہویشاری اس کا سر پھوڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے دونوں کو اس پر پسٹل تانے دیکھ کر وارن کیا پھر اُس وجود کی طرف نگاہ کی جو خُود کو چھڑوانے کی پوری کوشش میں لگا ہوا تھا۔

"اب تُمہارا کھیل ختم،اُس رات باری کے ہاتھوں تو بچ نکلے تھے تم پر اب اقرب چوہان کی گرفت سے خُود کو نکال نہیں پاؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُسے گاڑی کے بونٹ پر پٹخا تھا تبھی اُس کے جیب میں پڑا موبائل بجنے لگا وہ جانتا تھا کہ عدن کی کال ہے اس لیے اگنور کرتا اُس کے چہرے سے ماسک اُتارنے کے لیے ابھی ہاتھ بڑھائے تھے کہ اُس کے کانوں میں عدن کی آواز پڑی۔

"اقرب،اقرب پلیز مجھے بچائیں پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔"موبائل کے لاؤڈ سپیکر سے آتی عدن کی آواز اُسے جھنجھوڑ گئی تھی اقرب نے پیچھے مُڑ کر دیکھا ایک گارڈ کے ہاتھ میں موبائ تھا جس کے سپیکر سے عدن کی آواز آ رہی تھی۔

"اقرب پتہ نہیں یہ کون لوگ ہیں پلیز اقرب آ جائیں پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار وہ رو دی تھی۔

"اگر چاہتے ہو کہ تُمہاری بیوی زندہ رہے تو چھوڑ دو اسے ورنہ۔۔۔۔۔۔"اُس نے موبائل کی طرف اشارہ کیا تھا اقرب کی گرفت خُود بخود اُس وجود پر ڈھیلی پڑی تھی وہ وجود جھٹکے سے خُود کو اس سے چھڑواتا گاڑی کی طرف آیا تھا۔

"اگر میری بیوی کو کُچھ ہوا نہ تو تم سب کی لاشیں بچھا دُونگا،یہ تم لوگوں کی بُھول ہے کہ تم لوگ میری بیوی کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہو۔۔۔۔۔"اقرب نے سخت لہجہ اختیار کیا۔

"ہماری اُس سے کوئی دُشمنی نہیں اس لیے گھر جاؤ وہ سیو ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہی گارڈ بولتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھا پھر اقرب کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ لوگ اُس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔

اقرب نے موبائل نکالا جہاں عدن کی مسڈ کال تھی وہ پھرتی سے اُسے کال ملاتا ٹیکسی میاں بیٹھتا گھر کی طرف روانہ ہوا۔

وہ بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا جہاں عدن صوفے کے پاس زمین پر بیٹھی رونے میں مشغول تھی.

"عدن۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے قریب بیٹھا جو اُسے دیکھتی اُس کے گلے لگ گئی تھی۔

"تُم ٹھیک ہو نہ۔۔۔۔۔۔"اُسکی پیشانی چُوم کر اُس کے آنسو صاف کیے۔

"ہاں۔۔۔۔۔۔"روتے ہوئے سر ہلایا۔

"شُکر ہے،میری جان نکل گئی تھی عدن،میں ہر محاذ پر ہر حال میں لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہوں مگر تُمہارے معاملے میں اب خُود کو بے بس تصور کرنے لگا ہوں میں اپنے پروفیشن میں اپنی فیملی کو نہیں لانا چاہتا مگر آج پہلی بار وہ لوگ میری فیملی میرے گھر تک پہنچ گئے جو میرے لیے ناممکن سی بات ہے کہ ایسا ہو کیسے سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے بیڈ پر بٹھا کر خُود باہر جانے لگا تا کہ چوکیدار سے گارڈز سے ساری جانچ پڑتال کر سکے وہ لوگ اتنی ہائی سیکورٹی کے ہوتے اس کے گھر تک اور عدن تک کیسے پہنچ گئے عدن کو دیکھنے اُسکی پریشانی میں وہ سیدھا کمرے میں آیا تھا اب اُسے ٹھیک حالت میب دیکھ کر وہ پُرسکون ہوتا اپنے اصل جون میں واپس آیا تھا۔

"میجر اقرب چوہان کے گھر میں گھسنا ممکن تو نہ تھا پھر وہ لوگ کیسے۔۔۔۔۔۔۔"بہت سارے سوالات اُس کے دماغ میں چل رہے تھے وہ عدن سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر اُسکی حالت کا اندازہ لگاتا سب کینسل کرتا وہ باہر مین گیٹ پر آیا پر اُن سے ملنی والی اطلاع پر وہ چونکا تھا۔

"سر ہم سب گیٹ پر ہی تھے،کوئی مشکوک افراد اس طرف نہیں آئے بس بیکری والے ایک لڑکا اور لڑکی تھی وہ بھی جسے عدن بی بی نے کیک کا آڈر دیا ہوا تھا وہ کیک کی ڈلیوری کرنے آئے لڑکے کو ہم نے روک لیا لڑکی کو جانے دیا پانچ منٹ بعد وہ لڑکی واپس چلی گئی ان سب کے دوران اندر کیا ہوا ہمیں نہیں پتہ گارڈز اور سیکیورٹی کیمرے تو اپنی اپنی جگہ پر ہیں،یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ہم زندہ رہتے ہوئے دُشمن کو اپنی بی بی تک جانے دیتے جو بھی ہوا اُن بیکری والوں کے بہروپ کی وجہ سے ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"گارڈ کی بات پر اقرب جو کُچھ سوچنے میں مگن تھا سر ہلاتا ہوا سیکیورٹی رُوم میں گیا کیمروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی جس میں گیٹ پر موجود اُس لڑکے کی شکل تو صاف نظر آ رہی تھی مگر لڑکی کیپ میں سر جُھکائے اندر جا رہی تھی اُس کے ہاتھ کی تیسری اُنگلی میں پڑی انگوٹھی اقرب کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر گئی۔

"ہائما رائے زندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیرت ہی حیرت تھی۔

"__________________________________"

"مُرتقوی یزدانی اور قُرت خٹک رات کے اس وقت کافی شاپ میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے جب قُرت خٹک کے سیل پر انوار صدیقی کی کال آئی وہ ایک نظر مرتقوی پر ڈالتی کال بند کر گئی۔

"کس کی کال تھی قُرت۔۔۔۔۔۔۔۔؟مُرتقوی اس کے چہرے کے تاثرات کو غور سے دیکھنے بولا۔

"کسی دوست کی کال تھی،تُمہارے  ہوتے مجھے اس ٹائم کسی کی کال سُننے کی کوئی ضرورت نہیں یہ وقت صرف ہمارا ہے۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی پیار سے اپنا لمس چھوڑ گئی۔

"تُمہاری یہی باتیں مُجھے دیوانہ بنا رہی ہیں کہ اب ایک پل کی جدائی بھی بڑی جان لیوا لگ رہی ہے،میرا دل تو اب مجھے شادی پر اُکسانے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اگر وہ اداؤں کی کھلاڑی تھی تو مرتقوی یزدانی باتوں کا بہترین کھلاڑی تھا دو آنکھیں مسلسل ان پر نظریں گاڑے بیٹھی تھیں وہ وہ دونوں اس چیز سے یکسر انجان تھے۔

"تو روکا کس نے ہے کر لو شادی۔۔۔۔۔۔"

"تو دو پھر ایڈریس اپنے گھر کا کل ہی اپنے گھر والوں کو بھیجتا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ فورًا سے پیشتر راضی ہوا۔

"ابھی اتنی بھی جلدی کیا ہے مرتقوی ابھی تو پوری زندگی شادی کے لیے پڑی ہے،تم پہلے مجھے اپنے گھر والوں سے ملوا لو۔۔۔۔۔"قُرت نے کہتے ہوئے اپنے موبائل پر آئے میسج کو پڑھا۔

"کوئی تم پر فوکس کر کے بیٹھا ہے،جتنی جلدی ہو سکے اپنا کام کرو اور نکلو یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔"میسج پڑھ کر موبائل کو ہینڈ بیگ میں رکھا اور مرتقوی کی طرف متوجہ ہوئی جو کہہ رہا تھا۔

"گھر والوں سے بھی ملوا دُونگا،کل یا پرسوں لے کر چلتا ہوں تُمہیں۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے مجھے کال پر بتا دینا تا کہ میں تیاری کر لُوں آخر پہلی دفعہ اُن سے متعارف ہونا ہے۔۔۔۔۔۔"کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے بات ختم کی۔

"اچھا اب میں چلتی ہوں پھر ملتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"باہر تک تُمہارے ساتھ ہی چلتا ہوں میں۔۔۔۔۔۔"پیسے نکال کر ٹیبل پر رکھتا وہ بھی اس کے ہم قدم ہو گیا جو باریک بینی سے ارد گرد کا جائزہ لیتی اپنی گاڑی میں بیٹھی کافی بار سے کُچھ فاصلہ طے کر کے گاڑی روک دی بیک مرر سے اُس وجود کو اپنی طرف آتے دیکھتی گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔

"کیا بنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آنے والا سراپہ سوال تھا۔

"آج سے ٹھیک دس دن بعد جس راستے سے سُلطان نے اپنا مال دبئی پہنچانا ہے اُس راستے کی ساری سیکورٹی میجر اقرب چوہان کے زمعے ہے اور مرتقوی یزدانی بھی میجر اقرب کے ساتھ ہے کیونکہ وہ دونوں سگے بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔۔"قُرت نے اب تک کی ساری انفارمیشن اُس کے گوش و گُزار کی۔

"اچھی بات ہے،بہت اچھی بات۔۔۔۔۔۔۔۔"انوار صدیقی خُوش ہوا۔

"مرتقوی یزدانی کو مُجھ پر شک ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ لوگ انوار صدیقی کی اصل شکل تلاش کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"قُرت کی بات پر وہ قہقہ لگا گیا۔

"اور اس تلاش میں وہ بُری طرح ناکام ہونگے۔۔۔۔۔۔"

"کیونکہ انوار صدیقی اصل میں تو۔۔۔۔.""

"خاموش قُرت ڈارلنگ،تُم نے شاید سُنا نہیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔۔۔۔۔"انوار صدیقی کی آنکھوں میں شرارت صاف محسوس کی جا سکتی تھی قُرت مُسکرا دی۔

"اب اقرب چوہان بھی ہمارے ہاتھ میں ہے اور مرتقوی یزدانی بھی،اس لیے اب ہمیں دُشمنوں سے کوئی خطرہ نہیں بس یہ دس دن نکل جائیں پھر نہ اقرب چوہان رہے گا اور نہ اُسکا بھائی۔۔۔۔۔۔"انوار صدیقی کی آنکھوں میں اقرب چوہان کا انجام صاف نظر آ رہا تھا۔

"__________________________________"

اقرب پُورے گھر کا جائزہ لیتا جونہی پورچ میں آیا ایک چیز پر نظر پڑتے نہ صرف اُسکے قدم رُکے تھے بلکہ اُسکی نظر بھی ساکت ہوئی تھی وہ تیز قدموں کے ساتھ اپنی ہیوی بائیک کے پاس آیا تھا جو اپنی اصلی شکل کھو چُکی تھی کسی نے بڑی بے دردی سے اُس پر اپنا ہتھیار استمال کرتے ہوئے اپنا غُصہ نکالا تھا اپنی پسندیدہ ہیوی بائیک کا یہ حشر دیکھ کر وہ سختی سے لب بھینچ گیا یہ اُس کے پاپا نے اُسے گفٹ کی تھی اُسے ریس بہت پسند تھی جسکی وجہ سے رضا چوہان نے اُسے بائیک گفٹ کی تھی جو اقرب کو اپنی جان سے بھی پیاری تھی۔

"کیا ہوا اقرب،اوہ نو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عدن اُسکا انتظار کرتی کمرے میں تھی کہ اُسے غائب پا کر اُس کے پیچھے باہر چلی آئی مگر اُسے ساکت بائیک پر نظریں جمائے دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئی۔

"یہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے چہرے کے عجیب سے تاثرات دیکھتی الفاظ مُنہ میں ہی روک گئی جو آگے بڑھتا بائیک پر لگی چٹ کو اُتار کر پڑھنے لگا۔

"یور برتھ ڈے گفٹ باری فرام ہائما رائے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُن سطروں پر نظریں پھیرتا برداشت کے بہت سے مراحل طے کر گیا۔

"یہ میرے پاپا کی طرف سے دیا گیا آخری گفٹ تھا جو مجھے میری جان سے بڑھ کر عزیز تھا اسکو جب بھی دیکھا پاپا یاد آئے اور دُشمن نے اُس پر ہی وار کر دیا،خیر دُشمن تھا نہ ہر احساس سے عاری،پر دُشمن کی اس غلطی کو کبھی معاف نہیں کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دلگرفتگی سے بولتا بائیک کو دیکھنے لگا جسے مرمت کر کے شاید پہلی حالت میں لایا جا سکتا۔

"یہ کیا کس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جس نے بھی کیا اُس نے اپنی نفرت کی انتہا دکھا دی مجھے۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے اُسکی نظریں لوہے کے راڈ پر پڑی جس کی مدد سے بائیک کی یہ حالت کی گئی تھی دُشمن جتنا بھی شاطر دماغ کا تھا پھر بھی بہت بڑی غلطی کر گیا تھا۔

"عدن تُم جا کر سو جاؤ میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پر وہ کیک۔۔۔۔۔."

"اتنی بڑی برتھ ڈے سیلبریشنز ہو تو گئیں باقی کی صُبح سہی تُم جاؤ جا کر سو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار وہ کُچھ تلخ ہوا تھا شاید اپنے اس نُقصان کو برداشت کرنا مُشکل ہو رہا تھا اُس کے لیے۔

وہ اُس پر ایک نظر ڈالتی جانے لگی مگر اُس کی آواز پر پھر سے رُکی۔

"عدن۔۔۔۔۔۔"

"جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مُڑ کر دیکھا۔

"بے فکر ہو کر سو جاؤ اب میں یہاں ہوں تُمہیں کوئی ڈر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکے پاس آ کر اُسکی پیشانی چُوم کر نرمی سے بولتااُس کے دل میں گڑھ کر گیا وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتی کمرے کی طرف بڑھی۔

اقرب نے پُرسوچ نظروں سے اُس راڈ کو دیکھا پھر اپنے کام میں لگ گیا۔

"___________________________________"

ہائما رائے تیز قدم اُٹھاتی سُلطان رائے کی طرف بڑھی مگر اُس کے پاس ایک عورت کو دیکھ کر وہ وہی رُک گئی پانچ منٹ کے انتظار کے بعد وہ عورت واپسی کو مُڑی ہائما اُسے دیکھ کر حیران ہوئی جسے وہ عورت سمجھ رہی تھی وہ عورت نہ تھی بلکہ وہ مرد بھی نہ تھی وہ جہانہ تھی جو سی گرین لش پُش سُوٹ میں فُل میک اپ کیے لمبے بالوں کے ساتھ ایک ادا سے چلتی اس طرف آ رہی تھی۔

جہانہ جو پٹھان سے بات کرتی باہر کی طرف جا رہی تھی سامنے ایک خُوبصورت لڑکی کو دیکھ کر اُس کے قدم رُکے تھے۔

"یہ شہزادی کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"رُک کر گہری نگاہوں سے اُسکی طرف دیکھا۔

"یہ ہائما رائے سُلطان کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔۔"پٹھان نے بتایا۔

"اوہ تو یہ ہے ہائما رائے بہت سُن رکھا اس کے بارے۔۔۔۔۔۔۔"جہانہ مُسکرائی تھی ایک عجیب سی مُسکراہٹ تھی۔

وہ چلتی ہوئی اُس کے قریب آ کر رُکی جو کُچھ ناگواری سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"کیسی ہو ہائما رائے۔۔۔۔۔۔۔۔"جہانہ اپنی باریک آواز میں مُخاطب ہوئی ہائما نے دیکھا جس کی آنکھوں میں سرد مہری صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔

"تُم سے مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نخوت سے بولتی جانے لگی۔

"مطلب کی باتیں تو آپ خوب جانتی ہیں ویسے بھی مطلبی لوگ ہماری باتوں کے مطلب کہاں سمجھیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی پُشت سے آواز اُبھری وہ نظر انداز کرتی آگے چل دی۔

"یہ کیا عجیب و غریب مخلوق تھی پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ناک چڑھا کر بولی۔

"ہاہا یہ جہانہ ہے،بڑی کام کی چیز ہے یہ بیٹا اور آپ کے پاپا بنا مطلب تو کسی کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے ساتھ لگا گئے۔

"تم سُناؤ بڑے دھماکے کر رہی ہو میجر کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیوں آپ کو اچھا نہیں لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ارے میں تو بہت خُوش ہوں بیٹا تم سے،اقرب چوہان نہیں جانتا کہ اُس نے کس کے ساتھ پنگا لیا ہے،میں تو کہتا ہوں جس طرح اُسکی بائیک کی حالت کی ہے  اُسی طرح میجر کی زندگی بھی برباد کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آبھی نہیں پاپا ابھی تو میرا بدلہ پُورا نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔"دھیمی آواز میں بولی وہ سر ہلا کر اپنے موبائل پر آتی کال کو پک کرتے دوسری طرف چلے گئے۔

"کیسے کر دُوں باری کی زندگی برباد پاپا،اپنے باری کی پاپا جو ہائما رائے کی رگ رگ میں اُتر چُکا ہے جب بھی اُسے تکلیف دیتی ہوں میرے اپنے دل کے سو ٹکڑے ہو جاتے ہیں پر کیا کروں جو اُس نے میرے ساتھ کیا اُسکی سزا تو ملے گی اُسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو اپنے اندر اُتارنے لگی۔

"___________________________________"

"ہائما رائے زندہ ہے اوہ مائے گاڈ اتنا بڑا دھوکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے آفس میں بیٹھا وہ مسلسل اسی کے بارے سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا اُس کے دماغ میں آج سے ایک سال دو ماہ پہلے کی وہ رات کسی فلم کی طرح لہرانے لگی۔

جب وہ ہائما رائے کے ساکت وجود کو دیکھتا اُٹھا تو اُسکی نظر بلیک اورر کوٹ میں ملبوس اُس انسان پر پڑی جس نے ہمیشہ کی طرح پسٹل اس پر تانہ تھا۔

"ہائما کو مارنے کی وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟باری نے بنا کسی ڈر و خوف سے پوچھا۔

"میرے ساتھ دُشمنی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ تُم سُلطان کے آدمی ہو اور سُلطان میرا دُشمن ہے پر ہائما کو مارنے کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باری باتیں کرتا کرتا غیر محسوس طریقے سے اُس انسان کے قریب آتا جا رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ اُس تک جاتا پیچھے سے کسی نے فائر کھولا تھا اقرب اگر جلدی سے سھنمبلتا نہ تو گولی سیدھی اس کے سر پر لگتی وہ بھاگ کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا پھر اس کے دیکھتے دیکھتے ہی دو آدمی ہائما رائے کے ساکت وجود کو اور اُس انسان کو لے کر چلے گئے باری پہلے تو اُن پر فائر کرنے لگا پھر کُچھ سوچتا کھڑکی کے راستے نکل گیا۔

بجتے موبائل نے اُسکی توجہ اپنی طرف معبذول کروائی و گہرا سانس کھینچتا کال پک کر گیا دوسری طرف مرتقوی تھا۔

"بگ برو سُلطان پاکستان آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں مُجھے اطلاع مل چُکی ہے۔۔۔۔۔۔۔"اقرب چیئر سے اُٹھتا ونڈو کے پاس آ رُکا۔

"اب پھر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پوچھنے لگا۔

"اُسی پلان پر چلیں گئے مرتقوی جس پر اب تک چلتے آ رہے ہیں،نو دن رہ گئے بس سُلطان کی آزادی کے جس دن اس نے دبئی لڑکیاں اور بچے سپلائی کرنے اُسی دن اُسکا دی اینڈ کیونکہ اُسکا اب زیادہ دیر زندہ رہنا ہمارےلوگوں کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی ٹھیک ہے،انوار صدیقی کے پیچھے لگا تو ہوا ہوں پر کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"چھوڑ دو اُسکا پیچھا تم بس اپنے کام پر توجہ دو کیونکہ میں نہ صرف ساری گیم سمجھ چُکا ہوں بلکہ مجھے سب کے اصلی چہرے بھی نظر آ گئے ہیں،ہم جسے مردہ تصور کر چُکے تھے وہ زند ہے ہائما رائے زندہ ہے وہ سب ایک گیم تھی جس میں مُجھے پھنسانے کی کوشش کی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب چوہان کے زہن کی سکرین پر ہائما کے ساتھ گُزارنے کے پل کسی فلم کی طرح چلنے لگے دوسری طرف مرتقوی حیران ہوا تھا۔

"اوہ تو آرمی والوں کے ساتھ گیم مہنگی پڑے گی اُن کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"انشاءاللہ،تُم اب کہاں ہو۔۔۔۔۔۔"

"وہی جہاں اس وقت مجھے ہونا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے ٹھیک ہے پھر ملتے ہیں جلد........۔۔"اقرب نے کہہ کر کال بند کر دی موبائل جیب میں رکھتا اپنے آفس سے نکل گیا۔

"___________________________________"

 سُلطان نے زکی سے ملنے کی خواہش کی تھی وہ فورًا ہی اُس سے ملنے چلا آیا۔

"بہت نام سُن رکھا ہے تُمہارا زکی۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان اس سے مل کر حقیقتاً خُوش ہوا تھا کیونکہ اُسے زکی میں اپنی جھلک نظر آئی تھی وہی کمینہ پن مطلبی اور لالچی۔

"بام تو میں نے بھی بہت سُن رکھا آپ کا سُلطان جو دُنیا کی نظر میں انتہائی شریف پروفیسر سُلطان رائے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زکی کی بات پر وہ قہقہ لگا گیا۔

"شریف بن کر رہنا پڑتا ہے زکی ورنہ یہ قانون کے رکھوالے یہ خاکی وردی والے تو ایک پل بھی نہ جینے دیں ہم جیسوں کو،تُمہیں نہیں پتہ کن کن لوگوں کا ضمیر خریدنا پڑتا سیاست دانوں اور پولیس والوں کو خریدنا تو آسان مگر یہ آرمی والے اصل مُشکل تو ان لوگوں سے بچ کر کام کرنا ہے اور اسی چیز کے لیے مجھے تم جیسے لوگوں کی ضرورت ہے،آج سے ایک ہفتے بعد میری زندگی کا انتہائی اہم دن ہوگا وہ ایک دن مجھے عرب سے کھرب پتی بنا دے گا پانچ سو لڑکیاں اور دو سو چھ ماہ سے دو سال تک کے بچے جو اُس ریس کے لیے چاہئیے جو مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیں گئے پر فکر مت کرنا تم سب کو حصہ ملے گا۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان شاید زیادہ ہی خُوش تھا اس لیے پُرجوش ہو کر بے تکان بولے جا رہا تھا زکی سر ہلا گیا۔

"یہ تو بہت اچھی بات ہے اوکے میں بھی اس میں حصہ ڈالونگا اور مجھے خُوشی ہو گی اگر تم مجھے اپنا ساتھی بناؤ گئے تو۔۔۔۔۔."

"ارے کیوں نہیں تم تو اپنے یار ہو اب اور سُلطان یاروں کا یار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کُچھ دیر باتیں کر کے وہ اجازت لیتا اُٹھ گیا جہانہ جو سُلطان کے پاس آ رہی تھی اسے گہری نگاہوں سے دیکھتی سُلطان سے ہم کلام ہوئی۔

"پتہ نہیں کیوں مجھے لگ رہا یہ بندہ کہیں دیکھا میں۔۔۔۔۔۔۔"

"زکی ہے کافی اچھا انسان ہے دیکھ رکھا ہوگا کہیں تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان ان سُنی کرتا اُٹھ گیا۔

اقرب پچھلے چار دن سے غائب تھا عدن ہر روز اُسکا انتظار کرتی تھی مگر وہ خُود تو نہ آیا مگر صدف آپا کو دو دن عدن کے پاس رہنے کے لیے بھیج دیا عدن دل مسوس کر رہ گئی کہ اسے ایک دفعہ بھی کال کرنا گواراہ نہیں کیا اور صدف آپا سے روز بات کر لیتا تھا۔

"کیا وہ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں یا کوئی اور پریشانی ہے جس کے لیے وہ مجھے پریشان نہیں کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسی طرح کی سوچوں میں اُلجھی تھی کہ ایک شام اقرب چوہان گھر چلا آیا جسے دیکھ کر عدن کھل اُٹھی وہ بھاگتی ہوئی اُس کے سینے سے جا لگی۔

"چار دن بعد آپ آئے ہیں اقرب،ایک دفعہ بھی مجھے کال کرنا گواراہ نہیں کیا آپ نے،اتنا مس کیا میں نے آپکو۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے ساتھ لگی شکوہ کرنے لگی جو اس کے انداز اور اس کی بے قراری پر حیران تھا کہ جب سے شادی ہوئی تھی کبھی عدن خُود سے اس کے قریب نہیں آئی تھی۔

"ایک کام میں بہت مصروف تھا۔۔۔۔۔۔"نرمی سے اُسے اپنے سے الگ کرتا شرٹ اُتارنے لگا اب اُسکا ارادہ شاور لینے کا تھا۔

"اتنے مصروف کہ میں بھی یاد نہیں رہی۔۔۔۔۔۔۔"حیرانگی سے سوال کرتی اُسے گہرا سانس لینے پر مجبور کر گئی۔

"یہ بات نہیں عدن،کسی ایسی جگہ سے کسی نے ڈسا ہے کہ نہ تو تکلیف ختم ہو رہی اور نہ ذخم بھرا جا رہا خیر چھوڑو اس بات کو تم جا کر کھانا لگاؤ میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"

"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مدھم انداز میں بولتی باہر چلی آئی اُس کے قدم کُچھ سست سے تھے۔

کھانا کھا کر اقرب کو اپنے کسی دوست سے ملنے جانا تھا تو اُس نے ساتھ عدن کو بھی لے لیا تا کہ اسے کچھ شاپنگ کروا سکے،مال سے واپسی پر وہ اُسے ساتھ لیے باذل خاں سے ملنے اُس کے بتائے گئے ایڈریس پر آیا۔

"کیسی ہیں بھابھی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔"بازل کے استفسار پر عدن نے ہولے سے جواب دیا۔

"تُم نے مجھے کُچھ دکھانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"بازل کے اشارے پر دونوں ایک صوفے پر ٹک گئے اقرب کے کہنے پر وہ سر ہلاتا دیوار گیر ایل ڈی کو آن کرنے لگا۔

"میں نے سُلطان رائے کے سارے کارناموں کی ویڈیو حاصل کر لی ہے،وہی تُمہیں دکھانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔"بازل خاں کہتا ہوا ایک کُرسی پر ٹک گیا تھوڑی دیر بعد کے منظر عدن کو نہ صرف چونکانے کے باعث بنے تھے بلکہ وہ لٹھے کی مانند سفید ہوتی چلی گئی سُلطان رائے کے اب تک کے سیاہ کارناموں سے بھری تھی کیا کُچھ نہیں تھا ڈرگز سے لے کر بچوں کے اغوا اور اُن کے ساتھ کیا جانے والا وحشیانہ عمل جوان لڑکیوں کی عصمت کے ساتھ کھلواڑ وہ مُنہ پر ہاتھ رکھتی روتی ہوئی رُوم سے باہر نکلی تھی اس سے آگے دیکھنا اُس کے بس میں نہیں تھا۔

"اوہ شٹ مُجھے عدن کو ساتھ نہیں لانا چاہئیے تھے وہ تو پہلے بہت ڈری ہوئی ہے،میں اُسے دیکھتا ہوں تُم سے بعد میں بات ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب عجلت میں بازل سے کہتا عدن کے پیچھے باہر آیا جہاں وہ ایک طرف کُرسی پر بیٹھی رو رہی تھی۔

"عدن کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسکا رُخ اپنی طرف موڑا جس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

"اوہ مائے گاڈ لڑکی اتنا چھوٹا دل،یہ تو ابھی کُچھ بھی نہیں ہے وہ لوگ تو اس سے بھی آگے نکل چُکے ہیں۔۔۔۔۔۔"

"کوئی اتنا کیسے گر سکتا ہے کوئی خوف کوئی ڈر نہیں۔۔۔۔۔۔"

"خوف خدا ختم ہونا ہی انسان کو حیوان بنا دیتا ہے تم چھوڑو اس سب کو اپنے زہن پر کوئی بوجھ نہ ڈالو،چلو تمہیں آج ڈنر اپنی پسند کی جگہ سے کرواتا ہوں۔۔۔۔۔"اُس کے آنسو صاف کرتا اُسے بہلانے لگا اور اگلے کُچھ لمحوں میں عدن کو اپنی باتوں میں لگاتا بہلا گیا تھا۔

"_________________________________"

عدن ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی چینل سرچنگ میں مصروف تھی کی ڈور بیل کی آواز پر پلٹ کر ہال کے دروازے کی طرف دیکھا اور اگلے لمحے ہی وہ کرنٹ کی طرح اُچھلی تھی۔

"جہانہ۔۔۔۔۔۔۔"اُس عجیب مخلوق کی موجودگی اپنے گھر میں دیکھ کر وہ حق دق تھی۔

"تُم یہاں کیوں آئی ہو؟کیا پاپا نے بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"عدن اُس کے قریب آئی جو کُچھ عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔

"دیکھو یہاں سے فورآ چلی جاؤ،اقرب گھر آتے ہونگے اگر اُنہوں نے تُمہیں دیکھ لیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔"عدن کے لہجے میں کُچھ خوف تھا جسے جہانہ نظر انداز کرتی سیڑھیاں چڑھنے لگی عدن اُس کے پیچھے دوڑی۔

"یہ تُم جا کہاں رہی ہو،میں تم سے کُچھ کہہ رہی ہوں کہ یہاں سے چلی جاؤ جو بھی کام ہے میں پاپا سے بات کر لونگی۔۔۔۔۔۔"مگر وہ اس کی ان سُنی کرتی اس کے بیڈ رُوم میں داخل ہو گئی۔

"یہ کیا طریقہ ہے جہانہ،تم جانتی نہیں کہ تم میری بات سے اختلاف کر کے کتنا خطرہ مول لے رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ بار عدن غُصے میں آئی تھی مگر اگلے پل ہی وہ کُچھ ٹھٹکی تھی جب جہانہ نے اپنے سر سے وگ اور اپنے زیورات اُتارنے شُروع کر دئیے تھے اور جیسے جیسے وہ اپنے جسم سے چیزیں ہٹا رہی تھی ویسے ویسے ہی عدن کا رنگ اُڑتا چلا گیا کیونکہ جہانہ کے رُوپ سے نکلنے والا کوئی اور نہیں اقرب چوہان تھا۔

عدن اُسے پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتی مُنہ پر ہاتھ رکھتی دم سادھے بیڈ پر بیٹھتی چلی گئی جو اب واشروم میں گُھس گیا تھا اس کے ساکت وجود پر ایک نگاہ بھی ڈالے بنا جب پانچ منٹ بعد فریش ہو کر اپنی اصلی حالت میں واپس آیا تب بھی عدن کو نظر انداز کر دیا جو ابھی بھی گُم صُم تھی شاید اپنی اصلیت کے کھل جانے کا اتنا بڑا شاک لگا تھا کہ وہ نہ تو نظر اُٹھا پا رہی تھی اور نہ ہی کُچھ بول پا رہی تھی۔

"مُرتقوی میرے خیال میں اب اس کھیل کا دی اینڈ ہو جانا چاہئیے،تُم لوگ اپنی اپنی جگہ پر الرٹ رہو میں بس آ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔"شاید وہ کال پر بزی تھا پھر وارڈرب کی طرف بڑھا وہاں سے مختلف ہتھیار نکال کر اُنکو اپنی شرٹ پینٹ اور جوتوں میں رکھنے کے بعد ایک چوٹا سا بیگ لیا جس میں اُسکا لیپ ٹاپ وغیرہ تھا کمرے سے نکلنے سے پہلے ایک نظر اُس پر ڈالی جسکی آنکھوں سے آنسو پھسل رہے تھے اقرب کو پارک میں وہ پہلی ملاقات یاد آ گئی جب اسی طرح وہ اُسکی بھیگی نیلی آنکھوں سے دامن نہ چُھڑوا سکا تھا اقرب کے لبوں پر ایک تلخ مُسکراہٹ چمکی۔

"میں اپنے اُس مشن پر جا رہا ہوں جس مشن میں مجھے اپنے مدمقابل اپنی بیوی سے لڑنا پڑے گا اور یہ مشن جہاں مُجھے میرے دو سالوں کی محنت پر مُجھے سرخرو کرے گا وہی اس کے مکمل ہو جانے پر اقرب چوہان جیت کر بھی ہار جائے گا کیونکہ اس مشن میں  میں نے اپنی بیوی اپنی محبت ہار دی ہے،یہ تو نہیں کہونگا کہ میری سلامتی کے لیے دُعا کرنا کیونکہ ہائما رائے تو اپنے باپ کی سلامتی کے لیے ہی دُعا کرے گی پر اتنا ضرور کہوں گا کہ اپنا خیال رکھنا تُمہیں تکلیف میں دیکھنے کی ہمت نہیں مجھ میں۔۔۔۔۔۔۔"اپنے الفاظ سے اُس کے سینے میں تیر برساتا وہ چلا گیا ہائما ایک جھٹکے سے اُٹھتے اُسے روکنے کو پیچھے گئی تھی مگر وہ تب تک گاڑی میں بیٹھتا چلا گیا۔

"ایسے نہیں اقرب بنا کوئی الزام بنا کسی صفائی کے آپ چلے گئے،مُجھے ایک دفعہ سُن تو لیتے۔۔۔۔۔۔۔"وہ وہی زمین پر بیٹھتی روتی چلی گئی۔

"__________________________________"

اقرب اُسے اپنے پیچھے بھاگتا دیکھ چُکا تھا اس لیے گاڑی کی سپیڈ تیز کر کے گیٹ سے نکال کر سڑک پر لا کر روک دی اور بالوں میں ہاتھ پھیرتا خُود کو پُرسکون کرنے لگا مگر عدن کے آنسو اُسے بُری طرح ڈسٹرب کر رہے تھے۔

"اتنے بڑے دھوکے کے بعد بھی یہ دل تُمہارے آنسووں پر بے چین ہو اُٹھا ہے یہ کیسی محبت ہے جو محبوب کے اتنے بڑے فراڈ پر بھی ختم ہونے کے بجائے میرے وجود کو گھائل کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑا کر رہ گیا پھر دو گہرے سانس لے کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔

"عدن ایک احسان کرنا اب میرے سامنے ہائما رائے بن کر مت آنا،تُمہاری اصلیت مُجھے اپنے سگے بھائی پر بھی آشکار نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔۔"یہ میسج اُس کے نمبر پر سینڈ کر کے موبائل آف کیا اور اپنے پلان کے مطابق اپنے خفیہ ٹھکانے پر چلا گیا۔

"_________________________________"

"آج سُلطان رائے نے سب کو بُلایا ہے میٹنگ کے لیے کیونکہ کل اُس کے مال کی سپلائی کا دن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ میسج سُلطان رائے کے تمام ساتھیوں کو اپنے اپنے سیل پر موصول ہوا تھا زکی اس پیغام کو پڑھتا مُسکرایا اور پھر سُلطان رائے کے پاس جانے کی تیاری کرنے لگا۔

"تو پھر آج زکی کا بھی کھیل ختم ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زکی مُسکرا کر بولا تھا

"_________________________________"

عدن کو اقرب کو کال کرنے کا خیال آیا تو اپنے موبائل کی تلاش میں کمرے میں آئی ٹیبل پر پڑا اپنا موبائل نکالا تو اقرب کے نمبر سے ملنے والا پیغام اُسکی آنکھیں نم کر گیا۔

"نہیں اقرب پلیز واپس آ جائیں میں آپ کو کھو نہیں سکتی پلیز آپ ایک دفعہ مُجھ سے بات کریں میں سب بتاتی ہوں بہت سارے چہروں کے پیچھے لوگ چُھپ کر آپ کو ختم کرنے کی سازش کر رہے ہیں پلیز اقرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے میسج اور کال کر کر کے تھک گئی مگر اُسکا نمبر تھا کہ مسلسل بند جا رہا تھا عدن وہی بیٹھ کر رونے لگی۔

"میں کیا کروں کیسے روکوں،اس وقت تو وہ میری بات پر یقین کیا میری شکل بھی نہیں دیکھیں گئے۔۔۔۔۔۔"

"ایسا کیوں سوچ رہی ہو عدن،تُمہاری اصلی شکل جان کر بھی اُس نے تُم سے مُنہ نہیں موڑا پھر بھی تُمہیں اس گھر سے نہیں نکالا اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی اور تُم کہہ رہی ہو وہ تُمہاری بات نہیں سُنے گا۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے دل نے جیسے اُسے ڈپٹا تھا۔

"ہاں اگر اقرب چاہتا تو ہائما رائے کو استمال کر کے سُلطان رائے کو آسانی سے پکڑ سکتا تھا مگر اُس نے پھر بھی مُجھے عزت دی اس انسان کی بیٹی کو عزت دی جس نے نہ جانے کتنے گھروں کی عزتوں کے ساتھ کھیلا میں آپکو کبھی معاف نہیں کرونگی پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آنکھوں کو صاف کر کے وہ آُٹھ کھڑی ہوئی۔

"میں نے ایک بیٹی کا فرض ادا کر کے بہت گناہ کر لیے اقرب کا دل توڑ دیا اُسے دھوکہ دیا پر اب مُجھے ایک بیوی کا فرض ادا کرنا ہے اپنے شوہر کو بچانا ہے۔۔۔۔۔۔۔"حتمی فیصلہ کرتی وہ باہر کو چل دی۔

مُرتقوی یزدانی موبائل ہاتھ میں لیے گُم صمُ سا بیٹھا تھا جب اقرب چوہان کمرے میں داخل ہوا۔

"تُمہیں تو اس وقت اپنی جگہ پر ہونا چاہئیے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے لیپ ٹاپ پر سُلطان رائے کے بنگلے کی لوکیشن سیٹ کی جہاں سب اکھٹے ہو رہے تھے بلکہ اقرب اُنکو اکھٹا کر رہا تھا اپنے جال میں پھنسانے کو۔

"جانے لگا ہوں،میں نے سب کیمرے سیٹ کر دئیے ہیں۔۔۔۔۔۔"

"گُڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب اب اپنے موبائل پر کُچھ ٹائپ کر رہا تھا۔

"بھابھی کو آپ صدف آپا کی طرف چھوڑ آتے،ہو سکتا دُشمن اُن پر کوئی اٹیک کرے جیسے پہلے کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مُرتقوی کی بات پر اقرب نے لب بھینچ کر سر جھٹکا تھا۔

"اُسے کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے،پہلے اٹیک ہوا نہیں کروایا گیا تھا،خیر چھوڑو اس بات کو تُم کیپٹن عُمر اور کیپٹن علی کی ساتھ کونکٹیڈ رہنا اور مُجھے تب تک پہچاننے کی غلطی مت کرنا جب تک میں نہ کہوں،مُجھے انوار صدیقی کا چہرہ پہلے بے نقاب کرنا ہے،اب جاؤ تُم۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات کو نہایت توجہ سے سُنتا وہ جانے لگا پھر مُڑ کر بولا۔

"اس سب کے بعد قُرت خٹک کا کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاید یہی اُسکی بے چینی تھی جو وہ تھوڑی دیر پہلے بھی گُم صُم تھا وہ جانتا تھا کہ وہ دُشمن ہے پھر بھی نہ جانے کیسے ناٹک کرتے کرتے وہ اُس پر دل ہار بیٹھا تھا اقرب نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی مُسکراہٹ روکی جس پر مُرتقوی نے نہایت خُفگی سے دیکھا۔

"دُشمن سے دل لگاتے ہوئے سوچنا تھا بھائی میرے۔۔۔۔۔۔۔"

"دل کو روکنا آسان ہے کیا،دُشمن کب دلِ دُشمن بن گیا پتہ ہی نہیں لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مُرتقوی کی بات پر اقرب کا خیال عدن کی طرف گیا تو گہرا سانس بھر کر بولا۔

"اگر دُشمن کا  پتہ لگ بھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا اس دل کو،تم فلحال قُرت خٹک کو دل دماغ سے نکال کر اس مشن پر فوکس کرو۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے پروفیشن میں واپس آتا اسے سیلوٹ کرتا چلا گیا تو اقرب بھی اپنے کام میں لگ گیا۔

"__________________________________"

دُر عدن سیدھی اپنے باپ کے پاس آئی تھی جو اپنے کمرے میں تیار ہو رہا تھا۔

"ارے میری بیٹی آئی ہے۔۔۔۔۔۔"وہ ٹائی لگاتے اس کے قریب آ کر اسے گلے سے لگانے لگے مگر وہ غیر محسوس طریقے سے پیچھے ہٹ گئی۔

"کیا بات ہے؟میری بیٹی مُجھ سے ناراض ہے۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے انداز میں تبدیلی نوٹ کر کے حیران ہوئے۔

"ایسی بات نہیں،آپ کہیں جا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سُلطان رائے کی تیاری پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھنے لگی۔

"ہاں کُچھ دوستوں کے ساتھ میٹنگ ہے،آج کی رات بہت اسپیشل ہے آپ کے ڈیڈی کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دوبارہ آئینے کی طرف مڑے عدن کے دل میں ایک نفرت کی لہر اُٹھی وہ جانتی تھی کہ آج کی رات کیوں اسپیشل ہے اس کے لیے۔

"کیا آج میٹنگ اُسی سلسلے سے جُڑی ہے جس کے بارے میں اُس دن اقرب بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔"اس کے سوال پر سُلطان رائے کے پرفیوم کی طرف جاتے ہاتھ ایک پل کو رُکے تھے۔

"کیسی باتیں کر رہی ہو میری جان،تُمہیں بتایا تو ہے کہ وہ صرف سازش ہے میرے خلاف ورنہ میں یہ اخلاقیات سے گرے کاموں کا سوچ بھی نہیں سکتا،مجھے یہی ڈر تھا کہ وہ میجر تُمہیں میرے خلاف ضرور کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اقرب تو کُچھ جانتے ہی نہیں کہ میں کون ہوں اور میرا آپ سے کیا رشتہ ہے،وہ مجھے آپ کے خلاف کیوں کریں گئے،میں صرف اُن تصویروں کی بات کر رہی ہوں جو باری کے دوست بازل خاں نے دکھائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اُن کے بارے بھی انوار تُمہیں اچھے سے بتا چُکا کہ وہ ایڈٹ کی گئی تھیں اقرب چوہان کے کہنے پر تا کہ اُن کو میرے خلاف استمال کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بولتے ہوئے اُس کے قریب آئے۔

"میری جان تُمہیں نہیں پتہ ان لوگوں کا،یہ ہمارے دُشمن ہیں اور ہمیں ان پر بھروسہ نہیں کرنا،ماہی نے کیا تھا نہ اپنے باری پر بھروسہ؟کیا انجام ہوا اُسکا؟اس اقرب چوہان نے اپنا مطلب نکال کر وہ چپ اُس سے حاصل کر کے مار دیا اُسے،میری بیٹی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان رائے جُھوٹ اور مکاری کی آخری حد پر تھا آنکھوں میں آنسو تک لے آیا تھا جن کو دیکھ کر ہائما ہر بار کی طرح جذباتی ہونے کے بجائے بس خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔

"وہ میری بھی بہن تھی اور میں صرف اُسکی موت کا بدلہ لینے ہی اقرب چوہان تک گئی تھی اور ایسا کرنے کو آپ نے بولا تھا مگر میں ا سے مارنا چاہتی تھی پر آپ کو صرف وہ چپ چاہئیے تھے آخر ہے کیا اُس کے اندر۔۔۔۔۔۔؟اب کی بار وہ جھنجھلا کر بولی۔

"سو دفعہ بتا چُکا ہوں کہ اُس کے اندر میری بے گناہی کے ثبوت ہیں اگر تُم وہ چپ حاصل کر لیتی ہو تو میں سب کے سامنے لے آونگا کہ ان کاموں میں میرا کوئی ہاتھ نہیں،تم چاہتی ہو نہ کہ میں انوار صدیقی جیسے بندوں سے کنارہ کشی کر لُوں تو وہ صرف اسی طریقے ممکمن ہے ورنہ اقرب جیسے دُشمن سے بچنے کے لیے مجھے انکا سہارا لینا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ عدن کو پھر سے باتوں میں اُلجھا رہا تھا مگر وہ اب ساری حقیقت جان چُکی تھی۔

"آپ اپنی گرفتاری دے کر وعدہ معاف گواہ بن جائیں یقین کریں اقرب سے میں بات کر کے آپکو۔۔۔۔."

"یہ کیا باتیں کر رہی ہو تم،اقرب ہمارا دُشمن ہے وہ کوئی اس ملک کا محافظ نہیں ہے بلکہ وردی میں چُھپا دُشمن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ میجر ہے،یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ وہ انوار صدیقی جیسے وطن دُشمن لوگوں کے خلاف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چٹخ کر بولی تو سُلطان رائے کے ماتھے پر دو ابھری لکیریں صاف دیکھی جا سکتی تھیں۔

"یہ تُمہیں اچانک ہو کیا گیا ہے،کہیں تم بھی تو ماہی کی طرح کسی پاگل پن پر تو نہیں اُتر آئی۔۔۔۔۔۔۔۔"اُنکی نظروں میں شک تھا۔

"مجھے ابھی ان کو کُچھ نہیں بتانا ورنہ اقرب کے لیے مُشکل ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔"ایک سوچ اس کے دماغ میں آئی۔

"مجھے بس آپکی فکر ہے اور میں کل تک وہ چپ لا کر آپکو دے دُونگی اور پھر وعدے کے مطابق آپ ان سب کو چھوڑ کر میرے ساتھ کسی اور ملک شفٹ ہو جائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔"وہ بات بدل گئی جس سے سُلطان رائے خُوش ہو اُٹھا۔

"یہ ہوئی نہ بات میری بیٹی،اب جلدی سے واپس چلی جاؤ یہ نہ ہو اُسے شک ہو جائے اور ہاں آج رات سے کل رات تک کوشش کرنا کہ وہ گھر پر ہی رہے مجھے دبئی جانا ہے یہ نہ ہو وہ مجھے جانے نہ دے۔۔۔۔۔"

"جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آنسو پیتی سر ہلا گئی۔

"وہ جہانہ بھی آج آئے گی کیا آپ سے ملنے۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں اُسی نے تو یہ میٹنگ رکھی ہے،تم کیوں پوچھ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

"ویسے ہی،میں چلتی ہوں۔۔۔۔۔۔"وہ اُن کے کمرے سے نکلی۔

"میں آپکو یہ ہرگز نہیں بتا سکتی پاپا کہ نہ صرف وہ چِپ میرے پاس ہے بلکہ میں نے اُسے دیکھ بھی لیا ہے اور اُسے دیکھنے کے بعد مجھے آپ سے سوائے نفرت کے اور کوئی احساس نہیں ہو رہا،کتنی بے دردی سے آپ بچوں اور بچیوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کے ساتھ بھی گھناؤنی سازشیں کر رہے ہیں،اور جو سب سے اذیت ناک پہلو آپکا میری آنکھوں کے سامنے آیا ہے وہ یہ کہ آپ نہ صرف لوگوں کے دُشمن ہیں اُنکے قاتل ہیں بلکہ اپنی سگی بیٹی ماہا رائے کے بھی قاتل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی آنکھوں سے چھلکتے آنسووں کو صاف کرتی وہ ہائما رائے سے عدن اقرب چوہان بنتی اُس بنگلے سے نکلی تھی جس میں اب سے کبھی نہ آنے کی اُس نے قسم کھا لی تھی۔

"__________________________________"

اقرب چوہان  نے سارا سیٹ اپ کر کے ہر ساتھی کو اُنکی جگہ بنا کر وہ اپنے گیٹ اپ چینج کرنے لگا تبھی اُسکی چھٹی حس نے کُچھ اشارہ دیا تھا اُسے محسوس ہوا تھا جیسے کوئی آ رہا تھا جیب کو تھپتھپا کر گن کی موجودگی کا اندازہ لگاتا وہ تیز قدم اُٹھاتا

باہر کی جانب بڑھا تبھی اُسے سامنے سے بلیک اوور کوٹ میں ملبوس وہی انسان دکھائی دیا جسے وہ آج تک جان نہ پایا تھا اقرب نے غور سے دیکھا تو اُسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا کہ نہ تو آج اُس انسان کے ہاتھ میں پسٹل تھا بلکہ آج اُس انسان کی چال بھی کچھ سست سی تھی اقرب کا پسٹل کی طرف جاتا ہاتھ پلٹ آیا کیونکہ اُسے آج اتنا یقین تھا کہ آج یہ انسان اسے مارنے نہیں آیا تھا۔

"حیرت ہے وہ دُشمن جسے میں آج تک نہیں جان پایا وہ اُس جگہ آن پہنچا جس کے بارے کوئی بھی نہ جان سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُس کے بلیک ہُڈ میں چُھپے چہرے کی طرف دیکھا۔

"کیونکہ یہ دُشمن اب دل دُشمن بن چُکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ آواز وہ لاکھوں لوگوں میں بھی پہچان سکتا تھا حیرت کے شدید جھٹکے کے زیر اثر وہ اُسے دیکھ رہا تھا کو اب اپنے چہرے سے ماسک ہٹا چُکی تھی۔

"عدن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے ساکت لب ہلے تھے۔

"یا شاید ہائما رائے۔۔۔۔۔۔۔"وہ تمسخرانہ ہنسا شاید اتنے ماہ خُود کو بیوقوف بنائے جانے پر۔   

"مُجھے پتہ ہے آپ بہت ناراض ہیں مُجھ سے،ہونا بھی چاہئیے آخر میں نے اتنا بڑا دھوکہ دیا آپ کو آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ناراض۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک تلخ مُسکراہٹ اُس کے لبوں کو چُھو گئی۔

"تُمہارا ابھی پچھلا وار نہیں بُھول پا رہا تھا تو ایک نیا رُوپ لے کر آ گئ،مجھے ابھی بتا دو اور کتنے رُوپ ہیں تُمہارے مس ہائما سُلطان رائے۔۔۔۔۔۔۔۔"آخری الفاظ چبا چبا کر اُس نے مُنہ سے ادا کیے جن کو سُن کر عدن کو آج سے پہلے شاید اتنی تکلیف نہ ہوئی ہو۔

"دُرعدن اقرب چوہان بن کر آپ کے پاس اپنی صفائی کے لیے آئی ہوں،ایک دفعہ مُجھے سُن تو سکتے ہیں نہ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار اُس کے لہجے میں التجا سی تھی۔

"کیا پتہ یہ بھی کوئی گیم ہو تم باپ بیٹی کی،مجھے یہاں روکنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری دیکھ کر وہ کٹ کر رہ گئی اُسکی آنکھیں بے اختیار چھلک پڑیں جن میں نمی بھی اقرب چوہان دیکھ نہیں سکتا تھا۔

"میں سُن رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے گویا اُسے معاف کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا عدن کے لبوں کو مُسکراہٹ چُھو گئی۔

"_________________________________"

سُلطان رائے جو ایک عام سے سرکاری پروفیسر تھے مگر ان کے گھر دولت کی اتنی ریل پیل تھی کہ کبھی کبھی اُنکی بیوی بھی حیران رہ جاتی تھیں کہ آخر کون سے ایسے خاص زریعے ہیں جن کی بدولت وہ لوگ اتنے عیش و آرام والی زندگی بسر کر رہے ہیں مگر سُلطان رائے انکو کو ہمیشہ چُپ کروا دیتا تھا۔سُلطان رائے کی دو بیٹیاں ماہا رائے اور چھوٹی ہائما رائے وقت کے ساتھ بڑی ہوئیں تو ہائما رائے تعلیم کے لیے لندن چلی گئی جبکہ ماہا رائے ماں کے انتقال کے بعد گھر رہنے لگی تبھی اُسے اپنے باپ کی دوغلی شخصیت کا اندازہ ہوا،اُسے ریس بہت پسند تھی وہاں اُسکی ملاقات باری سے ہوئی جو نہ صرف ریس کا بہترین کھلاڑی تھا بلکہ حُسن وجاہت میں سب سے آگے تھا کُچھ ہی ملاقاتوں میں ماہا رائے کے دل میں اُتر گیا جب اُس کے باپ سُلطان رائے کو پتہ چلا تو اُس نے ماہا کو باری سے اپنا اصل نام چھپانے کا کہا اور باری  کو اپنے ساتھ کام کرنے کا کہا جس پر ماہا رائے ایک دن باری کو انوار صدیقی سے ملوانے لے گئ۔

ماہا جب سُلطان رائے کے کہنے پر چلتی رہی مگر ایک دن ماہا کے سامنے سے سُلطان رائے کی اصل شکل بے نقاب  ہو جاتی ہے جس میں باری اُسکی بہت مدد کرتا ہے ہائما کو اچانک اُس کے باپ کی کال آئی کہ وہ جلد پاکستان آئے ماہا کی جان کو خطرہ ہے دو دن بعد ہی وہ پاکستان تھی۔

"کیا مطلب پاپا،باری سے وہ بہت محبت کرتی ہیں اُن سے کیا خطرہ ہو سکتا ماہا آپی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

"یہی تو بات ہے جو وہ بھی سمجھ نہیں رہی،باری کوئی عام آدمی نہیں ہے وہ دُشمن ہے میرا،اصل میں یہ لوگ ملک دُشمن کام کر رہے ہیں اُس میں مجھے بھی شامل ہونے کا کہا تھا پر میں اپنے وطن سے غداری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا بیٹی اس لیے تو یہ مجھے بلیک میل کرنے کے لیے میری بیٹی کو میرے خلاف کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو پاپا آپ پولیس کے پاس جائیے تا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پولیس کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں وہ بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان رائے نے اُسے اپنی باتوں میں اس قدر اُلجھا لیا کہ وہ ماہا رائے کی بات پر بھی یقین نہیں کر پائی۔

"آپی آپ اُس بہروپئیے کی باتوں میں آ گئی ہیں آپکو پاپا بُرے لگنے لگے ہیں جنہوں نے آج تک ہمارے ساتھ کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی،پلیز وہ لڑکا اچھا نہیں وہ دُشمن ہے اور وہ نہ صرف آپکی جان کو خطرہ پہنچا سکتا بلکہ وہ پاپا کو بھی مارنے کا پلان بنا کر بیٹھا ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"ہائما میری جان تم اس وقت پاپا کی باتوں میں آ چُکی ہو اس لیے تُمہیں میری بات پر یقین نہیں آ رہا،مجھے کُچھ دن کا ٹائم دو میں ثبوتوں کے ساتھ تُمہیں پاپا کی اصلیت بتاؤنگی۔۔۔۔۔۔۔۔"ماہا کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

ہائما کو اب ماہا کی فکر تھی کہ کہیں وہ باری اسے نُقصان نہ پہنچائے اس لیے اُس دن وہ ریس کے میدان میں چلی گئی جہاں ہائما نے پہلی دفعہ باری کو دیکھا تھا ایک پل کو تو بھی مسرائمز ہو گئی تھی بلاشبہ وہ مردانہ وجاہت کا مُنہ بولتا ثبوت تھا۔

"اس نے اپنی خُوبصورتی سے ہی آپی کو اپنے جال میں پھنسایا ہے میں اُسکا قصہ ہی ختم کر دُوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آنکھوں اور دل میں نفرت لیے اُٹھی تبھی باری کی بھی اس پر نظر پڑی تھی ہائما بھی یہی چاہتی تھی کہ وہ اس ہجوم سے نکلے اور پھر عین اس کی سوچ کے مطابق وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔

"بہت ڈرپوک دُشمن ہو یار،ایسے پیٹ دکھا کر بھاگنا اچھا نہیں لگا مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باری کی مُسکراتی آواز پر اُس کے قدم تھمے تھے اور وہ غُصے سے اس پر پستول تان گئی تھی مگر نی جانے ماہا رائے کہاں سے آ گئی تھی۔

"نو پلیز،ہی از مائے لائف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے التجائی انداز پر وہ سر نفی میں ہلاتی گاڑی میں بیٹھی اور چلی گئی۔

ہائما نے ہر کوشش کی ماہا کو سمجھانے کی اور باری سے دُور رکھنے کی مگر وہ محبت کے اُس مقام پر تھی جہاں سے واپسی کے لیے قدم موڑنا نا مممکمن سی بات ہو جاتی ہے اور پھر ایک رات جب سُلطان رائے نے اپنی پوری رضا مندی سے باری کو کھانے پر انوائٹ کیا تو ماہا کو حیرانگی ہوئی کیونکہ وہ تو حقیقت سے واقف تھی جبکہ دوسری طرف ہائما بھی اس فیصلے پر پریشان ہو گئی۔

"باری مجھے لگتا ہے پاپا کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ چُپ میرے پاس ہے اور میں تُمہیں دینے والی ہوں تم پلیز مجھے آ کر لے جاؤ جلدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ماہا جسے کسی بہت گڑبڑ کا احساس ہو چُکا تھا باری کو کال کر کے وہ سب چیزیں پیک کرنے لگی تبھی سُلطان رائے کمرے میں داخل ہوا۔

"میں نے بہت کوشش کی تُمہیں اس سب سے دُور رکھنے کی مگر تم اس وقت میری سب سے بڑی دُشمن بن چُکی ہو اُس لڑکے کے ساتھ مل کر جو مجھے کوئی ایجنٹ لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں وہ پاک آرمی کا آفیسر ہے میجر اقرب چوہان اور میں اُسے آپ کے بارے سب کُچھ بتا چُکی ہوں کیونکہ میں اب آپ کی بیٹی بن کر نہیں بلکہ اس قوم کی بیٹی بن کر دکھاؤنگی اور آپ کا اصل چہرہ نہ صرف اس دُنیا کو بلکہ ہائما کو بھی بتا دُونگی۔۔۔۔۔۔۔۔"ماہا نڈر انداز میں بولتی سُلطان رائے کی حیوانیت کو بلاوا دے گئی۔

"ہائما کو سب بتانے کے لیے تم زندہ رہو گئ تو پھر نہ کیونکہ میں اپنے کام میں جب اپنی محبوبہ بیوی کو مار سکتا ہوں تو بیٹی کو کیوں نہیں بیٹی بھی وہ جو اپنی ماں کی طرح کُھلم کھلا اعلان جنگ کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان رائے کے انکشاف پر وہ اپنی جان کی فکر چھوڑ کر اپنی ماں کی موت پر بلک اُٹھی۔

"کیا ماما کو آپ نے مارا،مطلب اُنکو ہارٹ اٹیک نہیں تھا ہوا،تم اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہو سُلطان رائے کہ تُمہیں اپنی بیوی پر زرا رحم نہیں آیا؟آخر رحم آ بھی کیسے سکتا تھا جو دوسروں کی جان لینے کا شوقین ہو وہ اپنوں کو بھی نہیں بخشتا،اس وقت مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو رہی ہے کہ میری رگوں میں آپ کا گندہ خُون دوڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"فکر نہ کرو بہت جلد تم بھی اپنی ماں کے پاس جانے والی ہو کیونکہ تُمہارا زندہ رہنا میری موت کی وجہ بن سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میری موت بھی اب تُمہیں نہیں بچا سکتی سُلطان رائے کیونکہ وہ چِپ جس کے پاس ہونی چاہئیے تھی اُس کے پاس جا چُکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لبوں پر تمسخرانہ ہنسی لیے اُس نے سُلطان رائے کے فق چہرے کی طرف دیکھا اور پھر اگلے ہی لمحے وہ سُلطان رائے کے پستول سے نکلتی دو گولیوں کا شکار ہوتی وہی لڑھک گئی سُلطان رائے انوار صدیقی کو کال ملاتا وہاں سے چل دیا۔

جب باری اس کے پاس آیا تو وہ چند سانسوں کی محتاج تھی۔

"باری یہ چپ،یہاں سے دُور چلے جاؤ،آہ،چھوڑنا مت انکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے ہاتھ میں دبی چِپ اُسکے سُپرد کرتی وہ آخری ہچکی لیتی آنکھیں بند کر گئی باری ابھی ساری صورتحال سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا تبھی ہائما کوسُلطان رائے نے کال کی کہ باری نے ماہا کو آج کوئی نقصان پہنچانا ہے اُس کے پاس جاؤ جب ہائما انوار صدیقی کے ساتھ آئی تو ماہا کو مردہ حالت میں دیکھ کر پتھر کی ہو گئ اُس نے پسٹل نکال کر باری کو مارنا چاہا مگر انوار صدیقی اُسے وہاں سے لے گیا۔

"اُس نے میری بہن کو مار دیا اور تم مجھے یہاں لے آئے ہو،مجھے اُسے قتل کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ روتے ہوئے چیخ اُٹھی۔

"میری بچی حوصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان رائے نے انوار صدیقی کو جانے کا اشارہ کیا اور ہائما کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ 

"دل تو میرا بھی کر رہا کہ اُس باری کو زندہ گاڑ دُوں جس نے میری پھولوں جیسی بیٹی کے ساتھ پہلے زیادتی کی پھر اُسے مار دیا۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان رائے نے جلتی پر تیل چھڑکنے کے لیے اپنے سے بات بنائی جس پر ہائما تڑپ اُٹھی تھی۔

"لیکن ہمیں پہلے اُس سے وہ چِپ حاصل کرنی ہے جس میں میری بے گُناہی کے اور ان کے کالے کرتوت کے سب ثبوت ہیں تا کہ ہم یہ ملک چھوڑ کر کہیں اور شفٹ ہو جائیں،کیونکہ میں اب بہت ڈر گیا ہوں ایک بیٹی کو کھو چُکا ہوں تُمہیں کھونے کا حوصلہ نہیں مُجھ میں۔۔۔۔.."سُلطان رائے بہترین اداکار تھا اور ہائما اس کی اداکاری میں اُلجھتی چلی جا رہی تھی۔

"___________________________________"

"اور پھر وہاں سے آپ کے ساتھ نفرت کا سلسلہ شروع ہوا،میں کُچھ نہیں جانتی تھی جیسے جیسے پاپا مجھے کہتے رہے میں کرتی چلی گئی،مُجھے وہ چِپ حاصل کرنے کے لیے آپ کے قریب ہونا تھا اس لیے مُجھے دُرعدن بن کر آپ سے ملنا پڑا بلکہ صدف آپا کے ہمسائے بن کر اُن کے نزدیک ہو کر ایک مظلوم لڑکی کی کہانی بنائی آپ سے شادی کے بعد جہاں آہستہ آہستہ آپ میرے دل میں جگہ بناتے چلے گئے ویسے ہی مجھے پاپا کے کردار میں کُچھ عجیب سا لگنے لگا مگر میں سب چیزوں کو اگنور کرتی بس وہ چِپ ڈھونڈنے میں لگی تھی تا کہ جتنی جلدی ہو سکے ان سب چیزوں سے جان چُھڑوا کر باہر چلی جاؤں کیونکہ میں اپنے دل کو روک نہ پا رہی تھی جسے آپکی عادت ہوتی چلی جا رہی تھی اور یہ چیز مجھے بے چین کر رہی تھی آپکی سالگرہ والی رات بھی بس اپنے دل کے بدلاؤ پر مجھے غُصہ آیا تھا اور میں نے وہ غُصہ آپکی بائیک پر نکالا کہ سارا قصور اُس بائیک کا تھا نہ آپ ریس لگاتے نہ ماہا آپی آپ کو دیکھتیں اور نہ وہ سب ہوتا،اُسی رات پاپا نے کال کی دو آدمی بھیج رہا ہوں اقرب کا کام تمام کرو کیونکہ وہ مُشکلیں کھڑی کر رہا ہمارے کام میں،میں جب آپ تک گئی تو ہر لمحے میرے دل نے مجھے کوسا کہ میں کیا کر رہی ہوں،پھر جو آپ کو کال ہوئی وہ ریکارڈ تھی جو کسی ایسی ہی صورتحال کے لیے تھی،میرا دل بدل گیا تھا میں بدل گئی تھی کئی دفعہ تو ایسا ہوتا تھا کہ میں بُھول ہی جاتی تھی کہ میں کس سازش کے تحت آپ کی زندگی میں آئی،اُن دنوں کی ہی بات ہے کہ وہ چِپ میرے ہاتھ لگی جسے شاید میں نے دیکھنے کا فیصلہ ٹھیک کیا تھا اور اُسے دیکھنے کے بعد میری آنکھوں کے سامنے سے سارا پردہ ہٹ گیا تھا اور جب میں ماہا آپی کے رُوم میں گئی تو میرے لیے لکھ کر چھوڑا گیا خط جس پر سارے انکشاف تھے کہ پاپا یہ جاننے کے بعد اُسے مار دیں گئے،اور یہی بات میں نے پاپا کے مُنہ سے بھی سُن لی تھی ایک دن کہ وہ مجھے بھی صرف استمال کر رہے ہیں،میں یہ سب کُچھ آپکو بتانا چاہتی تھی مگر ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں نے خُود آپ سے دھوکہ کیا میں کیسے آپکو اعتبار دلا سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھوں سے آنسو لگا تار بہہ رہے تھے اقرب خاموش بیٹھا نظریں کسی غیر مری نُقطے پر جمائے بلکل چُپ تھا۔

"میں آپ سے معافی مانگتی رہونگی معاف کرنا نہ کرنا یہ آپ کی مرضی مگر پلیز اس وقت مجھ پر اعتبار کریں کیونکہ جو میں جانتی ہوں وہ آپ نہیں جانتے اقرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں سب کُچھ جانتا ہوں،آج نہیں بلکہ پہلے سےہی۔۔۔۔۔۔"وہ یکدم بول اُٹھا تھا عدن نے حیرانگی سے دیکھا جو کہہ رہا تھا۔

"آج سے تقریباً دو سال پہلے مجھے ایک اسائمنٹ دی گئی تھی جس پر کام کرتے ہوئے میں کوئٹہ پہنچا اور بائیک ریس میں حصہ لیا،وہاں مجھے ہائما رائے نامی لڑکی ملی پہلے تو میں اُسے اگنور کرتا رہا کیونکہ مجھے کسی بھی فائدے کے لیے عورت کا استمال کرنا یا اُسے دھوکہ دینا اچھا نہیں لگتا پر جب میں اُس کے قریب ہوا اور سُلطان رائے کے بارے میں اُس کے شکوک و شہبات سُنے تو مجھے لگا کہ مجھے نہ صرف اُسکی مدد کرنی چاہئیے بلکہ اس کے پاپا کو بچانے کے لیے بھی کوشش کرنی چاہئیے مگر مجھے نہیں پتہ تھا کہ سُلطان رائے گناہ کی اس دلدل سے نکلنا ہی نہیں چاہتا،پھر ماہا نے مجھے انوار صدیقی سے ملوایا اُس کے بعد کی کہانی کا تُمہیں پتہ ہے کہ اُس چپ کو حاصل کرنے کے لیے تُمہیں میرے خلاف کیا اور یوں ظاہر کروایا جیسے میں نے ماہا کا قتل کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کہتے ہوئے کُرسی پر ٹکا۔

"مجھے سُلطان رائے اور اُس کے تمام نیٹ ورک کے خلاف ثبوت تو مل چُکے تھے مگر مجھے یہ جاننا تھا کہ ہمارے سرکاری لوگ کس حد تک ان کے ساتھ ملوث ہیں جس کی وجہ سے فلحال کسی بھی ایکشن کے ہمیں خاموش رہ کر ان پر نظر رکھنی پڑی،اُسی دوران تُم مجھ سے ملی میں نہیں جانتا تھا کہ تم کون ہو اور کس مقصد کے تحت میرے تک آئی ہو ہر کام سوچ سمجھ سے کرنے والا اقرب چوہان تُمہارے معاملے میں لا پرواہی برت گیا تھا،ایک دو ملاقاتوں میں تُم مجھے اچھی لگنے لگی تھی اور پھر نکاح کے بعد تو سیدھا میرے دل میں اُترتی چلی گئی تُم،ولیمے کے بعد جب تُم نے مجھ سے ریلشن کے لیے ٹائم مانگا تھا تب بھی مجھے کچھ کنفیوزن ہوا تھا پر میں نے اپنے کسی بھی خیال کو یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ شاید واقع میں تم ابھی اس ریلشن کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے والد کی رضامندی کی خواہش مند ہو،اُس کے بعد جب مجھے تم پر شک کرنے کا خیال تب آیا جب میں نے تُمہیں انوار صدیقی کے ساتھ دیکھا۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی بات پر وہ نہ سمجھی سے اُسے دیکھنے لگی۔

"تُمہیں وہ فقیر یاد ہے جب تم صدف آپا کے ساتھ شاپنگ پر گئی تھی جس نے احد اور احمد کی طرف دیکھتے ہوئے تُمہیں بچوں کی دُعا دی تھی،وہ میں ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا مطلب آپکو تب سے پتہ چل گیا اور انوار صدیقی کا بھی کہ وہ کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تب یہ اندازہ نہیں تھا کہ تم ہائما رائے ہو بس یہ لگا کہ تم دُشمن کے ساتھ ملی ہوئی ہو پر سالگرہ والے دن میں نے اپنی ایک کو لیگ کو تُمہارے پاس بھیجا تھا ہائما رائے بنا کر کیونکہ میں تُمہارا ری ایکشن دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا تم ہائما رائے کی کچھ لگتی ہو پر تب میں حیران رہ گیا کہ تم نے یہ بات مجھ سے تو شیئر نہ کی پر اپنے والد صاحب کو میسج کر دیا کہ کوئی لڑکی ہائما بن کر مجھ سے ملی ہے تب مجھے لگا کہ تم ہی ہائما ہو پھر جب تم نے مجھے سپرائز دیا تھا میری بائیک پر حملہ کر کے تب ایک غلطی کر دی تم نے وہ یہ کہ جب ایک لڑکی کیک ڈلیور کرنے آتی ہے وہ پھر واپس کیوں نہیں جاتی کیونکہ ہمارے گھر میں باہر جانے والے ہر راستے میں کیمرہ لگے ہیں پھر جس لوہے کہ ریڈار سے تم نے بائیک کی وہ حالت کئ اُس پر فنگر پرنٹس بھی تُمہارے تھے اور باقی کی کہانی تو تم جانتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی باتوں پر وہ شرمندگی سے سر جُھکا گئی۔

"اچھا فلحال تم جاؤ باقی باتیں بعد میں،مجھے جانا ہے لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں مجھے آپ کے ساتھ جانا ہے۔۔۔۔۔۔"

"پاگل ہو کیا۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بچکانہ بات پر وہ شاید حیران ہوا تھا۔

"یہی سمجھ لیں لیکن مجھے آپ کے ساتھ جانا ہے کیونکہ میں اب سُلطان رائے پر اور اعتماد نہیں کر سکتی وہ آپ کو کوئی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ رئیلی۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکرایا 

"تُمہیں ابھی بھی یہ خُوش فہمی ہے کہ سُلطان رائے تُمہارے سامنے آنے سے مجھ پر کوئی وار نہیں کرے گا تو یہ تُمہاری غلط فہمی ہے کیونکہ جو اپنی بیوی اور ایک بیٹی کو مار سکتا ہے وہ دوسری کو بھی مارتے ہوئے ایک پل بھی سوچنے میں نہیں لگائے گا اس لیے تم گھر جاؤ کیونکہ مجھے اپنا فرض اور محبت دونوں کی سلامتی درکار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب چوہان کے کہنے پر وہ چُپ سی ہو گئ۔

"تم نکلو میں تُمہیں کیپٹن احمد کے ساتھ بھیج رہا ہوں جو میرے آنے تک گھر ہی رہیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے میں جا رہی ہوں مگر آپ کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے اچانک کہنے پر وہ کندھے اُچکا گیا۔

"ہاں بولو۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ کو ہر قسم کے حالات سے مقابلہ کر کے ہمارے لیے ایسے ہی آنا پڑے گا جیسے آپ جا رہے ہیں کیونکہ آپ جس دُشمن کے بیچ جا رہے ہیں اُسے آپکی جان کی زرا پروا نہیں پر مجھے ہے اور میں آپکو کھونا نہیں چاہتی اقرب۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھوں سے آنسو بے اختیار ہوئے تھے اقرب نے گہرا سانس لے کر لب بھینچ لیے تھے پھر آگے بڑھ کر اُسے اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔

"میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر اللہ نے میری زندگی اور کامیابی لکھی ہے تو میں انشاءاللہ کامیاب ہو کر تُمہارے پاس آؤنگا اب تم جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی پیشانی چُوم کر اُسکا چہرہ ہولے سے تھپتھپایا تھا پھر اُسے کیپٹن احمد کے ساتھ بھیج کر وہ جہانہ بن کر سُلطان رائے کے ٹھکانے پر پہنچ گیا تھا۔

"___________________________________"

"آؤ آؤ جہانہ تُمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان رائے اسے دیکھ کر خُوش ہوا اقرب نے چاروں طرف دیکھا جہاں وہ سب لوگ موجود تھے جو اقرب کو مطلوب تھے انتظار تھا تو صرف انوار صدیقی کا جس نے دو منٹ بعد ہی اپنے قدم رکھے تھے۔

"آئیے آئیے ایس پی بازل علی خان عُرف انوار صدیقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جہانہ کی آنکھوں اور چہرے پر تمسخر کی ایک واضع جھلک تھی جس پر باذل علی خاں کچھ عجیب سا محسوس کر گیا مگر پھر سُلطان رائے کی طرف متوجہ ہوا جو کہہ رہا تھا۔

"ہے تو یہ باذل علی خان ہی لیکن میں نے اسے انوار صدیقی کا نام دیا ہے تا کہ یہ دُنیا سے چُھپا رہے اور میں اسے اس لیے چُھپایا رہا کیونکہ یہ میرے لیے بہت خاص چیز تھی جس کے زریعے مجھے دُشمن کی ہر چال کا نہ صرف پتہ چلتا تھا بلکہ اُس چال کو اُلٹنا کیسے ہے یہ بھی جان جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باذل خاں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا جس پر باذل کے چہرے پر کمینی سی مُسکراہٹ آئی جسے اقرب نے سرد نگاہوں سے دیکھا تھا۔

"میں نے تو جہانہ کے بہت چرچے سُنے ہیں رائے صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باذل خاں کی نگاہیں جہانہ پر تھیں۔

"ہاں بہت کام کی چیز ہے اُنکو دو منٹ میں اُلو بنا لیتی ہے جن کو ہم بیس سالوں میں نہ رام کر پائے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ تو بس جہانہ کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے کیونکہ دھوکہ دینا میری نظر میں تو کچھ مُشکل کام نہیں کیوں ایس پی باذل خاں جیسے آپ دے رہے ہیں اپنے عہدے کو اپنی فیملی کو بلکہ سب سے زیادہ اقرب چوہان کو،کیونکہ وہ تو آپ پر اندھا اعتماد کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاہاہا،اقرب چوہان میرا جگری دوست،کیا کروں جہانہ اپنا کام ہی ایسا ہے،اب دیکھو نہ یہ چپ جسے سُلطان رائے حاصل کرنے میں ہزار جتن لگاتا رہا مگر حاصل نہ کر سکا اور میرے میٹھے سے دھوکے نے ایک منٹ میں یہ چپ اقرب چوہان سے حاصل کر لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خُوشی سے اپنی کمینگی کا اظہار بڑے فخر سے کر رہا تھا اقرب کے لبوں پر طنزیہ مُسکراہٹ آ گئی کیونکہ وہ اس نقلی چپ کو جانتا تھا جو جان بوجھ کر اسے دی گئی تھی۔

"ویل یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی اب کام کی بات پر نہ آیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کب سے خاموش بیٹھا زکی بول اُٹھا جسکی ہاں میں ہاں پٹھان نے بھی ملائی۔

"ہاں جہانہ کیوں بلوایا تم نے ہمیں یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان رائے اور باذل خان نے بھی اپنی اپنی نشست سھنبال لی۔

"جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کل مال سپلائی ہونا ہے تو وہاں کون کون کس کس جگہ پر کھڑا ہوگا اور کسی کی کیا ڈیوٹی ہو گی زرافہ سمجھانا ہے تم لوگوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پر یہ سب تو رائے پہلے ہی بتا چُکا کہ کس کو کونسی جگہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زکی کے لب ہلے۔

"ہاں وہ بتا تو چُکا ہے پر میری اطلاعات کے مُطابق اس پلان میں ہمیں ردو بدل کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا مطلب ہے تُمہارا جہانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رائے کُچھ پریشان ہوا۔

"مطلب یہ کہ اقرب چوہان کی ٹیم ہمارے پلان کو جان چُکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا،ایسے کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سب کے چہروں پر یہی سوال تھا۔

"ایسا نہیں ہونا چاہیے جہانہ اس دن کے لیے میں نے کب سے انتظار کیا ہے،میرا خواب تھا یہ تم نہیں جانتی اس کو کرنے کے لیے میں بے اپنی بیوی اپنی بیٹی تک کی جان لے لی صرف اس لیے کہ وہ کہیں میرے  کامیابی  کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائے تم جانتی ہو اس ڈیل سے مجھے کتنا فائدہ ہوگا سو عرب کا،میں امیر ترین آدمی بن جاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لیکن شاید تم یہ نہیں جانتے کہ اس ڈیل کے نہ ہونے سے ہمیں ہماری قوم کو ہمارے ملک کو کتنا فائدہ ہو گا تُمہارے جیسے درندے سے جان چُھوٹ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب اپنی آواز میں بولتا سب کو ٹھٹھکا گیا۔

"اقرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"باذل پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا جو اپنے تن پر سجے چمکیلے لباس سے آزاد ہو رہا تھا بلیک چست پینٹ پر بلیک ٹی شرٹ میں وہ اقرب چوہان تھا جو وگ سر سے اُتار کر پاس لگے بیسن پر ریلیکس انداز میں مُنہ دھو رہا تھا وہ ساکت اس کی طرف دیکھتے اپنے پسٹل کی تلاش میں جیبیں کنگھالنے لگے۔

"وہ یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے خالی پسٹل ٹیبل پر پھینکے۔

"اتنا بڑا دھوکہ اتنا بڑا جال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رائے ابھی تک بے یقین تھا۔

"یہ تو کچھ بھی نہیں رائے،جو تم اتنے سالوں سے سب کو دیتے آ رہے ہو اور جو یہ میرا دوست سب کو دیتا آ رہا ہے اصل دھوکہ تو اُسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے خشمگیں نگاہوں سے اُسے دیکھا جو شرمندہ ہو گیا تھا۔

"تم نہیں جانتے میجر کہ تم نے اپنی اصلیت دکھا کر کتنی بڑی غلطی کر دی،یہ رائے کا ٹھکانہ ہے اس سے تم بچ نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔"

رائے کہتا اپنے موبائل کی طرف بڑھا مگر وہ بھی اقرب اپنے قبضے میں لے چُکا تھا پھر رائے اور باذل دروازے کی طرف بڑھے کو بند تھا اقرب مُسکراتا ہوا کُرسی پر براجمان ہو گیا۔

"میں بیوقوف تو بلکل بھی نہیں ہوں رائے۔۔۔۔۔۔۔"

"بہت بڑے بیوقوف ہو میجر جو تن تنہا شیر کی پھٹکار میں آ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"سُلطان رائے نے کہتے ہوئے اپنے کوٹ سے پسٹل نکال کر سیدھا اُسکی طرف تان لیا تھا۔

"___________"

 "اب تُمہاری گیم ختم اقرب چوہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رائے نے کہتے ہوئے پسٹل کا ٹریلر دبانے ہی لگا تھا کہ پیچھے اُس کی کنپٹی پر پسٹل رکھ لیا گیا تھا۔

"گیم تو تُمہاری ختم ہونے والی ہے رائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زکی کی آواز پر وہ ششدرہ ہوا تھا۔

"زکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے ساکت لب ہلے تھے۔

"زکی نہیں کیپٹن مرتقوی یزدانی،لٹل برادر آف اقرب چوہان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مگر اقرب نے تو مجھے کسی اور سے ملوایا تھا کہ وہ مُرتقوی یزدانی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بلکل ویسے ہی جیسے آپ باذل خاں حیران ہوا تھا۔

نے ہر ایک سے الگ الگ بندوں کو انوار صدیقی بنا کر ملوایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مُرتقوی کی بات پر دونوں اجمل پٹھان کی طرف دیکھنے لگے۔

"اُسکی طرف دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں وہ وعدہ معاف گواہ بن چُکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے مُسکراتے ہوئے اُن کے کانوں میں زہر گولا تھا۔

"یہاں سیکورٹی کیمرے ہیں جن سے تم پکڑے جاؤ گئے چوہان میرے بندے تُمہیں بھون ڈالیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سیکورٹی کیمرے بھی ہیک ہیں اور تُمہارے وہ بندے بھی اس وقت آرمی کے قبضے میں ہے ہم سارا پلان کر کے آئے ہیں ورنہ اس وقت تُمہیں خُون خرابہ نظر آتا،اصل میں ہمیں تم دونوں زندہ چاہئیے تھے اس لیے اتنی محبت کرنی پڑی جس میں سب سے زیادہ مدد اس نے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کے اشارے پر چاروں نے پلٹ کر دیکھا۔

"قُرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اگر وہ چونکے تھے تو ٹھٹھک مُرتقوی یزدانی بھی گیا تھا۔

"جی قُرت خٹک ایجنٹ آف پاک آرمی،جو دو سالوں سے آپ کو بیوقوف بنانے کا اعزاز حاصل کر پائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"قُرت نے شرارتی نظروں سے دم سادھے کھڑے مُرتقوی یزدانی کی طرف دیکھا تھا۔

"آئی تھنک اتنا کافی ہے ان کے لیے یہ نہ ہو کہ ان کو ہارٹ اٹیک نہ ہو جائے،کمنگ ینگ بوائز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کے کہنے پر آرمی کے جوان اندر آئے اور تینوں کو پکڑ کر لے گئے سُلطان رائے تو جھاگ کی طرح ساکت ہو گیا تھا۔

"کیا سپرائز دیا ہے بگ برو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مُرتقوی قُرت کی طرف دیکھ کر خُوش ہوا تھا۔

"اتنا اچھا کام کرنے پر انعام تو بنتا تھا،اب جلدی سے سب بچوں اور بچیوں کو اُن کے ٹھکانے پر پہنچاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی،پر وہ ہائما رائے کا کیا بنا آپ تو کہہ رہے تھے وہ زندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مُرتقوی کے سوال پر وہ دو پل کو چُپ ہوا تھا۔

"میرا وہم تھا وہ،ہائما رائے کا کہیں وجود نہیں ہے اب۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب بولتا ہوا وہاںں 

سے چل دیا۔

اصل میں وہ نہیں چاہتا تھا کہ عدن اُسکی فیملی یا کسی کی نظر میں بھی کسی مُجرم کی بیٹی کہلوائے۔۔۔

"__________________________________"

اقرب کے جانے کے بعد مُرتقوی بھاگتا ہوا قُرت کے پاس آیا تھا۔

"کیا زبردست پلان تھا بگ برو کا اور لاجواب کام تھا آپکا،مجھے پتہ ہی نہ چل سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ نے بھی زکی کا کردار بخوبی نبھایا۔۔۔۔۔۔۔۔"قُرت کے لہجے میں ستائش تھی۔

"اور اب کیا پلان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مُرتقوی کے رُک جانے پر وہ بھی رُکی تھی۔

"اب ایک نیو اسائمنٹ اور ایک نیا کردار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا اس میں میں بھی شامل ہو سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"قُرت نے اُسکی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں جذبوں کی ایک داستان رقم تھی۔

"کیا آپکو وہ محبت جُھوٹ لگتی ہے جو پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"قُرت بھی اقرار کر گئی تھی وہ خُوش ہوتا سر نفی میں ہلا گیا تھا۔

"تو ایڈریس اب تو دو گی نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سر کو پتہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہہ کر چل دی۔

"کیا مُجھ سے شادی کرو گی قُرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے سوال پر وہ رُکی تھی پھر مُسکرا کر اُسے دیکھنے لگی۔

"اپنے گھر والوں کو بھیجنا اُن کو بتا دُونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتے ہوئے چل دی تو مُرتقوی بھی ہنستا ہوا اُس کے پیچھے بھاگا۔

"___________________________________"

وہ گھر پہنچا تو عدن اُسے کہیں دکھائی نہ دی وہ کیپٹن احمد کو سی آف کرتا سیدھا بیڈ رُوم میں آیا تو پہلی نظر عدن پر پڑی جو جائے نماذ پر بیٹھی دُعا کرنے میں مصروف تھی۔

"عدن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کی پُکار پر وہ مچل کر اُٹھی تھی اور اُس کے سینے سے لگ گئی تھی۔

"مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا مجھے لگا شاید میں نے بہت بڑی غلطی کر دی آپ کی زندگی میں آ کر آپکو دھوکا دے کر آپکی جان کی دُشمن بن گئی تھی اور اس سب کی قصور وار میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بلکل بھی نہیں،تم جیسے بھی میری زندگی میں آئی مجھے اب یا تب بھی اس بات سے فرق نہیں پڑتا عدن،مجھے بس اس بات کی خُوشی ہے کہ تم میری زندگی میں تو آئی چاہے جیسے بھی جس مقصد سے بھی اور دوسرا تُمہیں میرے خلاف اُکسایا گیا تھا ٹریپ کیا گیا تھا ورنہ اگر تُم مجھے یا میری فیملی کو نُقصان پہنچانا چاہتی تو بہت سے طریقے اور موقعے تھے تُمہارے پاس عدن۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پہنچایا تو تھا نقصان میں نے آپ کی عزیز ترین بائیک کو،آپ نے کہا تھا کہ آپ اُس نقصان کے لیے دُشمن کو کبھی معاف نہیں کرے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عدن کے یاد دلانے پر وہ ہنس دیا۔

"ہاں تو کب معاف کیا ہے میں نے،اس جُرم کی سزا تو تُمہیں کاٹنی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا رنگ پھیکا پڑا تھا۔

"وہ یہ کہ تم اب دن رات مجھ سے محبت کا اظہار کیا کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُسے بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا جس پر وہ پُرسکون ہو کر مُسکرا دی۔

"یہ سزا مجھے دل و جان سے قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو ہو جاؤ شُروع۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کے کہنے پر وہ مُسکراتی ہوئی اُسکی بانہوں سے نکلی تھی۔

"یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔"وہ بد مزہ ہوا تھا۔

"آپکو ایسی نیوز دینے لگی ہوں جس سے آپ خُوش ہو جائینگے۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے اُس نے رپورٹس اس کے ہاتھ میں تھمائی جن کو کُچھ حیرت سے دیکھتے ہوئے وہ پڑھنے لگا مگر جیسے جیسے وہ پڑتا چلا گیا اُس کے تاثرات بدلتے چلے گئے۔

"مطلب کہ میں پاپا بننے والا ہوں،رئیلی اوہ مائے گاڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خُوشی سے پُرجوش ہوتا اُس پر اپنی محبت نچھاور کرنے لگا۔

"بہت شُکریہ میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عقیدت سے اُسکی پیشانی چُومتا وہ اُسے خُود میں بھینچ گیا۔

"پر وہ میڈیسن جو میں نے تُمہارے بیگ میں دیکھی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب کے سوال پر وہ شرمندہ سی ہو گئی۔

"ہاں وہ پہلے میں نے سوچا تھا پر آپ سے محبت جب ہو گئی تو پھر آپکی محبت کو اپنے وجود میں کیسے نہ سمو لیتی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لو یو سو مچ مائے ہارٹ بیٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب نے اُسکی آنکھوں پر بوسہ لیا۔

"اماں ،ماما اور صدف آپا کو یہ خُوش خبری سُنائی تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں آپ کے آنے سے کچھ دیر پہلے یہ رپورٹس ڈاکٹر نے بھجوائیں،کل بی جان اور ماما حج کر کے واپس آرہی تو صدف آپا بھی کل آئیں گئیں تب آپ بتا دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شرمیلی مُسکان لبوں پر سجا کر بولی اقرب نے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ شرمیلی مُسکان اپنے لبوں سے چُرا لی۔

"تُم نے تو مجھے میرے مشن کی کامیابی سے بھی بڑی خُوش خبری دے دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مشن کے نام پر عدن کے چہرے پر اُداسی چمکی تھی۔

"تُمہارے پاپا زندہ ہیں اور رہیں گئے کیونکہ ہمیں اُن سے انفارمیشن چاہئیے،کیا تم اپنے پاپا سے ملنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اقرب جیسے اُسکی کیفیت سمجھ کر بولا تھا وہ سر نفی میں ہلا گئی۔

"نہیں مجھے اُن سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا بس ایک درد ہوتا ہے دل میں یہ سوچ کر کے میرا باپ اتنا ظالم اور درندہ کیسے بن گیا اور میں اب اُنکو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی میں اپنی اولاد پر اُنکا سایہ بھی نہیں ڈالنا چاہتی کیونکہ مجھے اپنی اولاد کو نہ صرف اچھا انسان بلکہ محب وطن بنانا ہے اس دھرتی پر جان دینے والا اقرب چوہان بنانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک مظبوط اور پختہ حوصلے سے بولی جس پر اقرب نے بھی سر ہلا کر اُسکا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا کیونکہ اصل کامیابی یہی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اچھا انسان بنا لیں ورنہ اچھا ڈاکٹر اچھا پروفیسر اچھا انجینئر تو کوئی بھی بن جاتا پر اچھا انسان بننا ہی اصل کامیابی ہے اور یہ کامیابی ہم سب کو حاصل کرنے کی پوری جدوجہد کرنی چاہئیے۔۔۔۔۔

"_________ختم شُدہ________

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dil E Dushman Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil E Dushman written by Amreen Riaz.Dil E Dushman by Amreen Riaz is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment