Pages

Wednesday, 6 November 2024

Ye Dil Awara Romantic Novel By Momina Shah Complete Novel

Ye Dil Awara Romantic Novel By Momina Shah Complete Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ye Dil  Awara Romantic Novel By Momina Shah Complete Novel 

Novel Name: Ye Dil  Awara 

Writer Name: Momina Shah

Category: Complete Novel

سبز آنچل لہراتا ہوا دیوار کی اوٹ میں ہوا تھا ، چوڑیوں کی چھنکار اسکے ہاتھوں کی جنبش سے خاموش ماحول میں پھیلی تھی۔ 

کسی سے چھپنے کی کوشش میں شدید ناکامی حاصل ہو رہی تھی۔ سر سے گرتا آنچل وہ اٹھا کر دوبارہ سر پہ ڈالتی مزید دیوار کے ساتھ لگ گئ تھی۔ 

جس شخص سے چھپنے کی کوشش تھی وہ دیوار کے پار آکر کھڑا ہوا تھا۔ 

" تبسم ۔۔"۔ اسکے نام کی گھمبیر سرگوشی اسے دیوار کے پار سے سنائ دی۔ 

اسکا دل یکدم رفتار پکڑ گیا ، اسنے خود کو مزید چھپانے کی کوشش میں خود کو دیوار سے چپکا دیا۔ 

دیوار کی اوٹ سے ایک مردانہ وجیہہ ہاتھ نمودار ہوا تھا ، وہ ہاتھ پھیلائے کھڑا اس بات کا منتظر تھا ، کہ جواباً اسکے ہاتھ میں وہ اپنا نازک مرمریں ہاتھ دھر دے۔ 

اس سے پہلے کے وہ اپنا مرمریں ہاتھ اسکے ہاتھ پہ دھرتی کے کسی نے اسے پوری شدت سے جھنجھوڑا تھا۔ 

وہ سٹپٹا کر آنکھیں کھول کر اٹھی تھی ، اسنے ماحول کو بغور تکا تو وہ اپنے کمرے اپنے بستر پہ تھی۔ 

اور اسکی چھوٹی بہن اسکے سر پہ کھڑی اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔ 

" اٹھ گئ ہوں فیہا ، بس کرو"۔ اسنے نیند سے بوجھل ہوتی آواز میں دھیرے سے کہا۔ 

" آپی جلدی اٹھیں ناں میری وین آنے والی ہوگی میرا ناشتہ نہیں بنا میرے بال نہیں بنے آپی جلدی"۔ وہ ہنوز اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔ 

" اچھا چلو جلدی تم یونیفارم پہن کر کنگھا لے کر نیچے آؤ ، میں جب تک ناشتہ بناتی ہوں تمہارا"۔ وہ اپنی آنکھیں مسل کر اٹھی تھی۔ سراہنے کے پاس پڑا دوپٹہ اٹھایا تھا۔ دوپٹہ اچھے سے اپنے سینے پہ پھیلاتی وہ اسے ہدایت دیتی کمرے سے نکل گئ تھی۔ 

جمائیاں لیتی وہ کچن میں کھڑی تھی۔ سنک کا نلکا کھول کر چہرہ پہ پانی ڈالا ہاتھوں کو اچھے سے وہاں پہ موجود برتن دھونے والے صابن سے دھویا ، کیبنٹ کھول کر چائے کا پتیلا اٹھایا، چولہا جلا کر چائے کا پانی چڑھایا۔ فریج سے آٹا نکال کر پراٹھے کا پیڑا بنایا۔ تیزی سے ہاتھ چلاتی وہ ناشتہ بنانے میں مگن تھی۔ 

آج اسے اٹھنے میں بےحد دیر ہوچکی تھی۔ 

" آپی۔۔۔ ناشتہ لے آئیں "۔ ڈائیننگ ایریا سے فیہا کی آواز آئ تو وہ جلدی جلدی ٹرے میں فیہا کے لیئے ناشتہ سجاتی کچن سے منسلک ڈائننگ ایریا میں آئ تھی جہاں فیہا صاحبہ کھلے بکھرے بال لیئےبیٹھی تھیں۔ اسنے گہری سانس خارج کی ، ٹرے ٹیبل پہ رکھی اسے ناشتہ کرنے کا اشارہ کیا اور خود اسکی پشت پہ کنگھا لے کر کھڑی ہوئ ، جلدی جلدی اسکی دوپونیاں بنائیں ، پھر اوپر جا کر اسکے کمرے سے اسکا اسکول بیگ لائ ، لنچ باکس اسکےبیگ میں رکھا۔ پانی کی باٹل ابھی وہ اسکے بیگ میں رکھنے ہی لگی تھی کے وین کے ہارن کی آواز آئ اور ایکدم سے وہ دونوں پھرتی سے باہر بھاگی تھیں، ہاں البتہ تبسم اسکا بیگ اٹھا کر اسکے پیچھے لے کر بھاگنا نہیں بھولی تھی۔ خیر یہ تو روز کا ہی معمول تھا۔ 

وہ اسے سی آف کرتی اندر آئ تھی ، ڈائیننگ ٹیبل پہ سے گندے برتن اٹھاتی ، ساتھ ساتھ وہ نیوز چینل آن کرچکی تھی۔ سامنے ملک کی صورتحال تھی۔ نجانے کونسے کونسے تبصروں میں اینکر اور میزبان گم تھے۔ 

وہ بھی انہیں کان لگا کر سنتی رہی کہ اتنے میں کچن سے جلنے کی بو آئ ، وہ برتن وہیں ٹیبل پہ چھوڑ کر کچن کی طرف بھاگی تھی ، اور وہاں جو چائے اسنے اپنے لیئے چڑھائ تھی وہ سوکھ کر جل گئ تھی ، اسنے ہڑبڑا کر چولہا بند کیا اور گرم ساس پین کو اٹھا کر سنک میں رکھ کر پانی کھول دیا یکدم پانی پتیلے پہ پڑنے سے پانی کی شڑ کی صورت میں آواز نمودار ہوئ اور یکدم پتیلا ٹھنڈا پڑھ گیا۔ 

وہ گہری سانس لے کر واپس ڈائیننگ ٹیبل سے برتن اٹھانے گئ ابھی اسنے سب کچھ سمیٹا ہی تھا کہ سستی سے زینے اترتی سجل نمودار ہوئ۔

" آپی ناشتہ "۔ وہ صوفہ پہ جاکر بیٹھی تھی۔ بیٹھنے سے پہلے ٹیبل پہ پڑا رموٹ اٹھایا تھا۔ اور نیوز چینل ہٹا کر ٹی وی پہ ہی نیٹفلکس آن کیا تھا۔ کل رات جو (korean) سیریز اسنے جہاں چھوڑی تھی وہاں سے ہی دوبارہ دیکھنا شروع کی تھی۔ تبسم نے اسے افسوس سے تکا۔

" کیا حرکت ہے یہ ، صبح صبح یہ منحوسیت نا پھیلاؤ بند کرو اسے"۔ تبسم نے اسکے ہاتھ سے ریموٹ جھپٹ کر ٹی وی بند کیا۔

" کیا یار آپی دیکھنے دوناں۔۔۔!!"۔ سجل چڑی تھی۔ 

" میں نے کہا ناں صبح صبح اس قسم کی منحوسیت پھیلانے کی کوئ ضرورت نہیں"۔ تبسم کا انداز قطعی تھا۔

" لو ۔۔۔ منحوسیت اس سے نہیں آپکے نیوز چینلز سے پھیلتی ہے آپی قسم سے صبح صبح ان سیاستدانوں کی شکل دیکھ دل خراب ہوجاتا ہے"۔ وہ منہ بنا کر گویا ہوئ جیسے نیم کے پتے چبا لیئے ہوں۔

" بکواس ہی کرتی رہنا سدا ، اٹھو جاؤ برش کرکے اؤ ناشتہ لگاتی ہوں میں"۔ وہ اسے ڈپٹ کر کچن میں گھسی تھی۔ 

" آپی ایسے ہی دے دو ناشتہ برش کیئے بغیر ناشتہ کرنا ہیلدی ہوتا ہے"۔ وہ اپنے باب کٹ بالوں میں ہاتھ چلا کر بولی۔

" بکواس نا کرو شرافت سے اٹھو اور برش کرکے اؤ"۔ اسنے کچن سے ہی ہانک لگائ۔

" افف آپی میں کیا کروں آپ لوگوں کا ۔۔۔۔ علم کی بڑی ہی کمی ہے میرے گھر میں "۔ وہ آنکھیں مٹکا کر ڈرامائی انداز میں گویا ہوئ۔ 

" اٹھ رہی ہو تم یا میں آؤں"۔ وہ کچن کے دروازے پہ کھڑی اسے گھور کر بولی تو وہ منہ بناتی اپنے روم کی طرف بھاگی تھی۔

♧♧♧♧♧♧

" نیلم کمبخت اٹھ جا "۔ اسکی ماں کی آواز اسکے کانوں میں پڑی تو اسنے تکیہ اٹھا کر اپنے چہرے پہ رکھا تھا۔ 

" اٹھ جا کمبخت ماری اٹھ جا سسرال میں تیرے لوگ صبح چار کو اٹھنے والے لوگ ہیں اور تو ہے کہ دن کہ بارہ ہوگئے پر بی بی کے اٹھنے کے امکانات نہیں"۔ اب تو اماں اسکے سر پہ کھڑی اپنا قصیدہ شروع کرچکی تھیں۔ 

" اماں ابھی تو سکون سے جینے دو ابھی تو میں اپنے ماں باپ کے گھر موجود ہوں ناں۔۔!!"۔ اسنے چڑ کر کہا۔

" ارے یہاں سے نہیں سیکھے گی طور طریقہ تو وہاں جاکر تو بس طعنہ ہونگے"۔ اماں بھڑکی۔

" رہنے دو آپکے طعنے برداشت کرتی ہوں ناں ، اپنی پیاری پھپھو جان کے بھی کر ہی لوں گی"۔ اسکی آواز نیند کے خمار میں ڈوبی ہوئ تھی۔

" ارے آٹھ جا کمبخت ماری تب جب آئے گی ٹسوے بہاتی ہوئ میں نے ایک منٹ بھی تجھے اس گھر میں نہیں جھیلنا"۔ اماں نے اسکے منہ پہ سے تکیہ کھینچا۔

"میں نکل تو جاؤں امی واپس آپکے چنگل میں پھنسنا بھی نہیں میں نے"۔ وہ بستر سے چھلانگ مار کر اترتی تڑخ کر بولی۔

" میں ایسے ہی تو نہیں کہتی کہ بڑی بیغیرت ہے تو۔۔۔!!"۔ اماں نے پیروں سے چپل نکال کر باقاعدہ اسکا نشانہ لیا پر چپل اس تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ واشروم کا دروازہ کھول کر بند ہوگئ۔

اماں کی سلواتیں واشروم میں بھی باآسانی اسکے کانوں میں پڑھ رہی تھیں ، وہ منہ بناتی پانی کا ایک چھپا کہ منہ پہ مار کر جان بوجھ کر اپنا دماغ اماں کی باتوں سے ہٹا کر گنگنانے لگی تھی۔ 

♧♧♧♧♧♧

" پاپا وہ مجھے آپ سے بات کرنی تھی"۔ تبسم نے سجل اور پاس بیٹھی نیلم کو عاجزی سے دیکھ کر پاپا کو کہا۔ 

" جی بیٹا کہیئے "۔ پاپا نے نگاہ نیوز پیپر پہ سے ہٹا کر اسے تکا۔

" پاپا وہ فیہا سجل کہہ رہی تھیں کہ انہیں شادی میں جانا ہے"۔ اسنے دبی ہوئ آواز میں کہا تو سجل نے اسے آنکھیں دکھائیں۔

" اور ۔۔۔ اور میں بھی یہی چاہتی ہوں پاپا"۔ اسنے سجل کی گھوریوں سے تنگ آکر کہا۔

پاپا نے گہری نگاہ اسکے چہرے پہ ڈال کر اسے تکا۔ 

" تبسم آپ جانا چاہتی ہیں ؟؟ ، بہر حال بیٹا مجھے تو یقین نہیں آرہا پر اگر آپ جانا چاہتی ہیں تو ہم چلیں گے"۔ پاپا نے سنجیدگی سے کہا۔ 

تبسم کے حلق میں کچھ اٹکا تھا۔ 

" پاپا ایک انسان کی وجہ سے سب سے تو ناطہ نہیں توڑ سکتے ناں۔۔۔!!"۔ بہ مشکل سوکھے حلق سے آواز بر آمد ہوئ۔ 

" میں تو اپنی اتنی بہادر بیٹی کے لیئے پوری دنیا کو چھوڑنے کو تیار ہوں"۔ انہوں نے اخبار لپیٹ کر ٹیبل پہ رکھی۔ 

" پر میں نہیں چاہتی کے آپ میری وجہ سے اپنے ہر رشتے سے منہ موڑ لیں"۔ اسنے نم نگاہیں جھکا کر کہا۔ 

" ہمم ٹھیک ہے مجھے کوئ مسئلہ نہیں پر تمہیں کوئ بھی مسئلہ یا پریشانی ہو فوراً مجھے خبر کر دینا ہم اسی وقت وہاں سے نکل آئیں گے"۔ انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔

" پاپا ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا ، اور ہماری نیلم کی شادی ہے یہ شادی تو نا میں مس کر سکتی ہوں نا کسی اور کو کرنے دوں گی"۔ وہ پاس بیٹھی نیلم کو محبت سے تک کر گویا ہوئ۔ 

نیلم بھی مسکرا کر سر جھکا گئ۔ 

" ہاں بھئ بس اللہ ہماری نیلم کے نصیب اچھے کریں "۔ پاپا نے مسکرا کر کہا۔

" امین"۔ ان تینوں نے یک زبان ہو کر امین کہا۔ 

" آپی چلیں پھر شاپنگ پر چلتے ہیں ناں وقت کم یے اور کام زیادہ"۔ سجل نے پرجوشی سے کہا۔

" ابھی ۔۔۔ اچھا تم اور نیلم چلے جاؤ نیلم کا تھوڑا بہت سامان رہتا تھا وہ بھی اپنی آخری شاپنگ پوری کر لے گی اور تم اپنی اور ہم سب کی شاپنگ بھی کر لینا"۔ تبسم نے وقت دیکھ کر کہا۔ 

" آپی یہ کیا بات ہوئ ہم نے سوچا تھا ہم۔بہت ساری مستی کریں گے پلیز ناں"۔ نیلم اور سجل دونوں منتوں پہ اتر آئ تھیں۔

" نہیں ناں۔۔۔ دیکھو فیہا بھی اسکول سے نہیں آئ اور آلائنہ کو بھی میں نے ابھی سلایا ہے اٹھے گی اور میں نہیں ملی ناں اسے تو میری بچی نے رو رو کر گھر سر پہ اٹھا لینا ہے"۔ اسنے جواز پیش کیا۔

" کیا یار آپی ، پلیز ناں آلائنہ کو لے لیں ساتھ ، اور فیہا کا کیا ہے آئے گی کھانا کھائے گی اور سو جائے گی"۔ سجل نے جھٹ سے کہا۔

" نہیں یار میں کیا آلائنہ کو لیکر خوار ہونگی تم دونوں چلی جاؤ"۔ اسنے صاف دامن بچایا۔ 

اصغر صاحب وہاں سے اٹھ کر جاچکے تھے۔ تبسم کی نگاہ نیلم پہ پڑی تو وہ چونکی۔۔، نیلم گم صم سی بیٹھی تھی۔ 

" کیا ہوا نیلم ۔۔؟؟"۔ تبسم نے پوچھا۔

" کچھ نہیں"۔ اسنے مسکا کر کہا۔

" کیا ہوگیا ہے بہن ، کہیں کوئ الٹی سیدھی چیز تو نہیں کھا پی لی جو ایسی بہکی بہکی حرکتیں کر رہی ہو"۔ سجل نے اسکا اتنا سنجیدہ انداز دیکھ کر حیرت سے کہا۔

" جی نہیں بس تمہاری شکل جب سے دیکھی ہے ناں عجیب سی بہکی بہکی حرکتیں سرزد ہورہی ہیں"۔ اسنے ناک چڑھا کر کہا۔ 

" کچھ بھی ، نک چڑھی نا ہو تو"۔ سجل نے جل کر کہا۔ 

" اچھا اچھا بس لڑنا بند کرو"۔ تبسم نے نیلم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی روک دیا نیلم منہ بنا کر رہ گئ۔ 

" تبسم آپی یہ غلط بات ہے آپ اسے فوراً ڈیفینڈ کرتی ہیں"۔ نیلم کی زبان سے شکوہ پھسلا۔

" ایسی تو کوئ بات نہیں پاگل لڑکی، میں تو تم دونوں کو لڑنے سے روک رہی تھی"۔ تبسم نے جھٹ صفائ پیش کی۔ 

نیلم اور سجل ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرادی تھیں۔ 

" اچھا چلیں اٹھیں تیار ہوجائیں "۔ سجل نے تبسم کو بازو سے کھینچ کر زبردستی اٹھاتے کہا۔ 

" یار میری بچی زیادہ لوگ دیکھ کر ڈر جاتی ہے"۔ اسنے آخری کوشش کی۔

" کوئ نہیں ڈرتی ، چلیں تیار ہوکر آئیں"۔ اب کے نیلم نے اسے کندھوں سے تھام کر زبردستی زینوں تک گھسیٹا۔ نا چار تبسم کو تیار ہونا پڑا اور بازار جانا پڑا۔

♧♧♧♧♧

وہ لوگ ڈولمین مال (سی ویو) میں موجود دو گھنٹے سے کبھی ایک شاپ سے جاکر سامان لیتی تو کبھی دوسری شاپ سے پر سجل اور نیلم کی خریداری مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ، اب تو چھ ماہ کی آلائنہ نے بھی رونا شروع کر دیا تھا۔ وہ اسے کندھے پہ ڈالے اسکی پیٹھ تھپک تھپک کر اسے خاموش کروانے کی کوششوں میں لگی تھی پر اب تو اسکے رونے میں بے حد شدت آگئ تھی۔ 

" تم دونوں ایسا کرو جو کچھ لینا ہے لے لو میں باہر جا رہی ہوں کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر تم لوگوں کا انتظار کرتی ہوں ٹھیک ہے"۔ وہ ان کو بتاتی آلائنہ کو گود میں لیئے (ideas) سے نکلی تھی لمبی راہداری عبور کرکے وہ حال نما ایریا میں پہنچی ہی تھی کہ سامنے سے آنے والے شخص سے بری طرح سے ٹکرائ تھی۔ آلائنہ کے سر کے نیچے تو اسنے اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا پر اسکا سر جو سامنے والے کے کندھے سے بڑی زور سے ٹکرایا تھا ، تھام کر رہ گئ۔ 

" آئم سوری۔۔۔میم۔۔"۔ اسنے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ 

مقابل کھڑی لڑکی کے چہرے پہ ماسک ہونے کی وجہ سے وہ پہچان نا پایا تھا۔ مگر جیسے ہی نم نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھ تو اسکی نیلی آنکھیں دیکھ اسکے تمام شبہات دور ہوگئے ، اور پھر اسکی گود میں موجود اسکی بیٹی اپنی بیٹی کو وہ کیسے نا پہچانتا روز ہی تو نیلم کے ذریعہ آلائنہ کی ویڈیوز اور تصاویر اسکے پاس آرہی ہوتی تھیں اور ہر ہفتے وہ اسے ایک دن اپنے ساتھ لیکر بھی تو جاتا تھا۔ 

" کوئ ۔۔ب۔۔بات نہیں"۔ اسنے نگاہیں واپس جھکا کر کہا۔ 

"نگاہیں تو ایسے جھکا رہی ہیں آپ جیسے میری مجرم ہوں"۔ اپنی سرد بلوری آنکھیں اسکے چہرے پہ گاڑھ کر کہا۔ 

" ہنہہ غلطی سے بھی ایسی کسی غلط فہمی کا شکار مت ہوئیے گا صالح صاحب"۔ جھٹ نیلی نشیلی آنکھیں اٹھا کر کہا۔ 

صالح کے ہونٹوں پہ بڑی ہی جاندار مسکراہٹ آئ تھی۔ 

تبسم آلائنہ کو مزید اپنے سینے میں بھینچتی آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ صالح نے اسکی بانہوں سے بڑے ہی آرام سے آلائنہ کو آچکا تھا۔ 

تبسم کا دل کھسکا تھا ، دل کے چلنے کی رفتار قدرے سست ہوئ تھی۔ 

" صالح ۔۔۔ پلیز دیں آلائنہ کو مجھے "۔ وہ اسکے پیچھے لپکی تھی۔ 

اسکے قدم بھی مال کے (exit) ڈور کیطرف تھے۔ وہ آلائنہ کو گود میں لیئے روڈ کراس کرتا پارکنگ ایریا میں اپنی گاڑی کی سمت گیا تھا۔ تبسم کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے ، وہ اسکے پیچھے بھاگتی ہوئ پہنچی تھی۔ صالح اسے دیکھ کر تمسخر سے ہنسا تھا۔ 

" دیکھو "مسز تبسم صالح" تمہاری کتنی بڑی کمزوری ہے میرے پاس ۔۔۔ ، سوچو کیا ہوگا جب میں اسکے بڑے ہوتے ہی اسے تمہارے پاس سے چھین کر لے جاؤں گا"۔ وہ اسکی آنکھوں میں نمی نمودار ہوتی دیکھ کر سنگدلی سے گویا ہوا۔

" تمہاری نظر میں یہ میری کمزوری ہوگی پر میری بیٹی میری طاقت ہے صالح ۔۔۔ !!!"۔ وہ چہرے پہ چڑھا ماسک نیچے اتار کر گہرے سانس لیتی غصہ سے گویا ہوئ۔ 

صالح کے لبوں کی تراش میں دوبارہ ہنسی امڈنے لگی اسنے چہرے پہ آتی ہنسی کو دبا کر چہرے پہ پھتروں جیسی سنجیدگی لاکر اسے مخاطب کیا۔ 

" تبسم۔۔۔!! یاد ہے کبھی تم۔مجھے بھی اپنی طاقت کہا کرتی تھیں"۔ 

" اور شاید وہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی"۔ اسنے آنکھوں کے کنارے پونچھ کر کہا۔

صالح نے اسکے حسین سرخ و سفید چہرے کو دلکشی سے تکا۔ 

" میری جان یہی بات میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو"۔ اسنے آلائنہ کے گالوں پہ بوسہ دے کر کہا۔ 

آلائنہ اپنے ننھے ہاتھ اپنے باپ کے چہرے پہ مار رہی تھی اور کبھی منہ رکھ اسکے گالوں پہ ناک پہ پیار کرنے لگتی ، اسکا پیار اتنا نرالہ تھا کہ لمحوں میں صالح کا چہرہ بھیگ گیا تھا۔ 

صالح کے طرز تخاتب پہ تبسم کا چہرہ نا چاہتے ہوئے بھی گلنار ہوا تھا۔ 

" آلائنہ کو دیں مجھے گھر جانا ہے"۔ اسنے آلائنہ کو اسکی گود سے لینا چاہا۔

" آج آلائنہ کا دن میرے ساتھ تھا پر تم نے اسے بھجوایا نہیں"۔ صالح نے آلائنہ کو اسکی دسترس سے دور کیا۔

" آپ نے کسی کو لینے نہیں بھیجا تھا"۔ اسنے الفاظ چبا کر ادا کیئے۔ 

" میں نے بھیجا تھا پر پتہ چلا کہ محترمہ سیر سپاٹوں کو نکلی ہوئ ہیں"۔ اسنے اسے آنکھیں دکھا کر کہا۔ 

" جو بھی تھا پر اب وقت نہیں اسے لے جانے کا "۔ اسنے نگاہ چرا کر کہا۔

" ایسے کیسے وقت نہیں ، بیٹی میری ہے وقت میرا ۔۔۔ سب میرا ہے"۔ اسنے سنجیدگی سے کہتے آخر میں اسے تکتے معنی خیزی سے کہا۔ 

" جو آپکا تھا اب وہ بلکل بھی آپکا نہیں رہا صالح ۔۔ مجھے طلاق جلد چاہیئے"۔ اسنے سرد مہری سے کہا۔ 

" بال سفید ہوجائیں گے پر کبھی آزادی نہیں دوں گا"۔ اسکا مغرور لہجہ اسے تپا گیا تھا۔

" جب وہ وقت آئے گا تب دیکھوں گی"۔ وہ اسکی گود سے کسی خونخوار شیرنی کی طرح آلائنہ کو دبوچتی مال کی طرف واپس چلی گئ تھی۔ اور وہ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوتا سر نفی میں ہلاتا ہنسا تھا۔ 

" ہائے۔۔۔ میری جان ۔۔۔ میری جان۔۔"۔ وہ زیر لب گنگنایا تھا۔

♧♧♧♧♧

وہ لوگ ابھی گھر واپس آئ تھیں ایک ہی باری میں تمام شاپنگ پوری کرنے کے چکر میں رات کے بارہ بج گئے تھے۔ 

اس وقت بھی وہ لوگ نیلم کے پورشن میں بیٹھی تمام چیزیں بکھرے بیٹھیں ایک ایک چیز کو نجانے کتنی کتنی بار دیکھ چکی تھیں۔ 

تبسم سائڈ پہ بیٹھی آلائنہ کو فیڈ کروا رہی تھی۔ آلائنہ صاحبہ دودھ پیتے پیتے نگاہ چھت پہ گاڑھے آنکھیں گول گول گھما رہی تھی۔ تبسم گم سن سی بیٹھی تھی۔ 

سب اپنی چیزیں بھی پیک کر رہے تھے ، سب نے فارم ہاؤس جانا تھا ، وہیں نیلم کی شادی کے تمام فنکشن ہونے تھے، وہ فارم ہاؤس صالح کا تھا۔ پھپھو لوگ بھی وہاں پہنچ چکے تھے بس اب ان سب نے جانا تھا بڑے تایا یعنی صالح کی فیملی وہاں پہنچ چکی تھی۔ پھپھو لوگ بھی پہنچ چکے تھے ، بڑی پھپھو نیلم کی ساس بھی وہاں پہنچ چکی تھیں بس اب صبح ان تمام لوگوں نے نکلنا تھا۔ 

کھیلتے کھیلتے آلائنہ بھی سو گئ تو وہ سب سے اجازت لیتی آلائنہ کو اپنے پورشن میں لے آئ تھی۔ ابھی وہ اندر گھسی ہی تھی کہ ڈرائنگ روم سے آتی بھاری مردانہ آواز اسکے کانوں سے ٹکرائ تھی۔ دو لوگوں کے بات کرنے کی آواز صاف اسکے کانوں میں پڑ رہی تھی۔ وہ دونوں آوازوں کو بخوبی پہچانتی تھی۔ ایک آواز اسکے باپ کی تھی اور ایک اسکے شوہر کی وہ سیدھا ڈرائنگ روم میں گھسی تھی ، دونوں کی رنگت غصہ سے سرخ ہو رہی تھی۔ اسنے آلائنہ کو صوفہ پہ لٹایا اور کشن اسکے ایک سائڈ پہ رکھ دیا تاکہ وہ گرے نا۔۔!! 

" کیا ہوا ہے پاپا۔۔؟؟"۔ اسنے صالح کو مکمل طور پہ نظر انداز کرکے اپنے باپ کو مخاطب کیا۔ 

" کچھ بھی نہیں"۔ انہوں نے صالح کو آگ اگلتی نظروں سے تک کرکہا۔

" آپ کو کوئ کام تھا۔۔؟؟"۔ اب کے اسکا رخ صالح کی طرف ہوا۔ 

" میں اپنی بیٹی کو ہمیشہ کے لیئے لینے آیا ہوں اور میں آلائنہ کو لیکر ہی جاؤں گا میں نے کہہ دیا"۔ سرخ نگاہیں اٹھا کر ضدی لہجہ میں کہا۔ 

تبسم نے گہری سانس خارج کرکے اسے سنجیدگی سے تکا اور بہ مشکل زبان سے الفاظ ادا کیئے۔ 

" ٹھیک ۔۔ ہے لے جائیں ۔۔۔ "۔ 

صالح نے حیرت سے اسے تکا چہرے پہ بے یقینی کے سائے لہرائے۔ 

" میں سچ میں آلائنہ کو لے جانے آیا ہوں۔۔"۔ اسنے دوبارہ ایک ایک لفظ سہی سے ادا کیا۔

" میں نے کہا ناں لے جائیں ۔۔۔ "۔ یہ کہتے ہوئے اسکے حلق میں کچھ اٹکا تھا۔

" آوکے پھر میں آلائنہ کو لے جا رہا ہوں"۔ وہ سوئ ہوئ آلائنہ کو گود میں اٹھاتا کمرے سے نکلا ہی تھی کہ اسکے کانوں میں اپنے چاچو کی آواز گونجی۔ 

" تم۔نے یہ کیا کردیا تبسم کیسے رہو گی تم آلائنہ کے بغیر۔۔"۔ انکی کرخت آواز اسکے کانوں میں پڑی تو وہ فتح مندی سے مسکرایا تھا۔

" بابا آپ نے نوٹ نہیں کیا پر میں اسے اچھے سے جانتی ہوں اس وقت اسے ضد چڑھی ہوئ تھی، اگر میں بھی منہ ماری کرتی تو اسکی ضد مزید پکی ہوجاتی میں جانتی ہوں ناں اسے"۔ اسنے بھیگی آواز لیئے کہا۔

" بیٹے جب اتنا جانتی ہو تو چلی جاؤ بسا لو اسکے ساتھ گھر"۔ اب کے وہ کچھ نرم پڑے تھے۔

" نہیں پاپا میرے لیئے سب سے اہم آپ ہیں"۔ اسنے فوراً نفی کی تھی۔ 

باہر کھڑے صالح نے غصہ سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔ 

♧♧♧♧♧♧

پوری رات اسنے بغیر آلائنہ کے کیسے گزاری تھی یہ اسے پتہ تھا اور اسکے اللہ کو ، پوری رات اسکے رونے کی آواز اسکے کانوں میں پڑتی اور اسے بے چین کر دیتی۔ اب بھی بس اسے جلدی لگی تھی سب تیار ہوں تو وہ لوگ بھی فارم ہاؤس کے لیئے نکلیں ، کالے رنگ کا لان کا پرنٹڈ سوٹ پہنے وہ کاموں میں بھی لگی تھی پر ساتھ ساتھ ہی اسکی سوچیں اسکا دل سب کچھ آلائنہ کی طرف لگا تھا۔

" کیا ہوا آپی اتنی گم صم سی کیوں کھڑی ہو۔۔؟؟"۔ سجل خوبصورت سے پیچ کلر کی کرتی پہنے بالوں کو پائ پونی ٹیل کی شکل دیئے چہرے پہ نیوڈ میک اپ سجائے کھڑی مستفسر تھی۔ 

اسنے سر نفی میں ہلایا۔ 

" آلائنہ کی یاد آرہی ہے؟؟"۔ سجل نے نرمی سے پوچھا۔

" ہاں"۔ دبی سی آواز بہ مشکل اسکے حلق سے نکلی۔ 

" آپکو یاد ہے شروع شروع میں جب آپ یہاں آئ تھیں تب آپکو آلائنہ کے بابا کی بھی ایسے ہی یاد آتی تھی ، ایسے ہی آپ پورے گھر میں بوکھلائ بوکھلائ پھرتی تھیں"۔ اسنے اسکے سامنے والے صوفہ پہ بیٹھ کر کہا۔ 

" ایسا کچھ بھی نہیں تھا ، جاؤ فیہا کو دیکھو اسے لے کر آؤ پاپا کہہ رہے تھے وہ مل سے سیدھا وہیں آجائیں گے"۔ اسنے نظریں چرا کر کہا۔

" ہمم دکھ رہا ہے وہ تو "۔ سجل تمسخر سے ہنسی تھی۔

" جاؤ فیہا کو دیکھو"۔ اسنے اٹھتے ہوئے کہا۔ 

کچھ ہی دیر میں سب تیار تھے۔ چھوٹے چاچو (نیلم کے والد) کی فیملی بھی تیار ہوچکی تھی۔ 

شایان اور میزان (نیلم کے بھائ) دونوں لگے سامان اٹھا کر گاڑیوں میں بھر رہے تھے اور پھر ٹھیک دو گھنٹے بعد وہ لوگ فارم ہاؤس پہنچے تھے۔ فارم ہاؤس کی سر زمین پہ قدم رکھتے نجانے کتنی ہی پرانی یادیں تازہ ہوگئ تھیں ، کچھ اچھی تھیں تو کچھ بری پر تھی تو یادیں ہی اور یادیں تو ہمیشہ جان لیوا ہوتی ہیں۔ 

وہ سجل اور تبسم تینوں ساتھ ساتھ چلتی اندر کی طرف قدم بڑھا رہی تھیں ، اور وہ نگاہیں دوڑاتی اپنی بچی کو ڈھونڈ رہی تھی۔ سب انکو ریسیو کرنے باہر آئے تھے سب ان سے ملکر انہیں اندر لے کر گئے تو بہت ڈھونڈنے پہ بھی اسے اپنی بچی نہ ملی دل کانپ کر رہ گیا کہ وہ اسے یہاں نہیں لایا تو کیا سچ میں کہیں اور لے گیا ہے۔ اسنے ہمت کرکے بڑی تائ کو مخاطب کیا۔

" تائ امی وہ آلائنہ کہاں ہے۔۔؟؟"۔ 

" بیٹا وہ تو پوری رات روتی رہی ہے اور صالح بھی پوری رات اسکے ساتھ جاگا رہا ہے ابھی بھی بڑی مشکلوں سے صالح نے اسے سلایا ہے اور خود بھی وہ سو رہا ہے"۔ تائ امی نے خوشدلی سے بتایا۔ 

وہ محض سر ہلا کر رہ گئ ، اپنی بچی کے ساری رات رونے کا سن کر اسکا حلق سوکھ کہ رہ گیا تھا ، دل بے چین ہو اٹھا تھا آنکھوں میں نمی تیرے لگی تھی۔ وہ سب سے نظر بچاتی خاموشی سے صالح کے کمرے کی طرف روانہ ہوگئ تھی ، افف وہی کمرہ جہاں سے اسکی زندگی بدلی تھی ، جہاں سے وہ آج یہاں پہنچی تھی ، عجیب ہی کسی کشمکش میں مبتلا تھی وہ۔

طویل راہداری جسکے دونوں طرف کمروں کے دروازے تھے وہ عبور کرتی راہداری کے بلکل اختتام پہ پہنچی تھی سب سے آخری کمرہ کا دروازہ اسنے ہلکا سا بجایا پر دروازہ نہ کھلا ، اسنے ہمت کرکے ہینڈل گھمایا تو ہلکے سے کلک کی آواز سے دروازہ کھلتا چلا گیا ، قدم اندر رکھا تو جیسے سب منظر کسی فلم کی صورت چلنے لگے ، آج بھی وہ کمرہ ویسا ہی تھا جہازی سائز بیڈ اسکے دونوں اطراف سائڈ ٹیبل ، سائڈ ٹیبل پہ پڑے قیمتی لیمپ ، دیوار گیر الماری بیڈ کے سامنے صوفہ موجود تھا جو اپنی شان کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ کمرے میں نیم اندھیرا تھا، اسنے بیڈ کی جانب دیکھا تو وہ اوندھے منہ پڑا گہری نیند میں ڈوبا تھا ، پر آلائنہ کی قلقاریوں کی آوازیں آرہی تھیں وہ تھوڑا آگے کو ہوئ تو آلائنہ اپنی موٹی موٹی ہری آنکھیں کھولے اپنے باپ کے بالوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کبھی وہ زور سے چیخ دیتی کبھی ہنس دیتی غوں غاں کی آوازیں مسلسل اسکے منہ سے نکل رہی تھی۔ ابھی وہ جھک کر آلائنہ کو اٹھانے ہی لگی تھی ، کہ صالح نے بیچ میں ہی اسکا ہاتھ تھام لیا سرد بلوری آنکھیں اسکے چہرے پہ گاڑھیں۔ 

تبسم نے بوکھلا کر اڑی رنگٹ سمیت اسے تکا۔ 

" کیا کر رہی ہو۔۔؟"۔ بوجھل بھاری مگر کرخت آواز میں پوچھا۔

" وہ ۔۔۔ تائ امی نے بتایا کہ یہ ساری رات روتی رہی ہے تو میں نے سوچا آکر اسے لے لوں سلا دوں سوئے گی نہیں تو چڑچڑی ہو جائے گی"۔ اسنے اسکے چہرے پہ سے نگاہ ہٹا کر کہا۔

" میری بیٹی ہے مجھ پہ گئ ہے اگر ہفتہ بھی نہیں سوئے گی ناں تو چڑچڑی نہیں ہوگی اپنی ماں پہ نہیں گئ ہے کہ ایک گھنٹے کی نیند بھی ضائع ہوجائے تو زمین آسمان ایک کردے"۔ اسنے اسکی کلائ آزاد کرکے آلائنہ کو پیار کرتے کہا۔ 

وہ اسکے پیار کرنے پہ مزید کھلکھلا اٹھی تھی۔ 

تبسم نے سنجیدگی سے اسے تکا، اور آلائنہ کو اسکے پاس سے زبردستی اچک کر کمرے سے نکل گئ اور وہ محض اسکی پشت کو گھورتا رہ گیا۔ 

خیر وہ آلائنہ کو پاس رکھ ہی نہیں سکتا تھا اسے اس بات کا اندازہ ایک رات میں ہوچکا تھا۔ وہ پوری رات روتی رہی تھی، اور وہ جاگا اسکے ساتھ خوار ہو رہا تھا۔ اور جو سہی بات تھی اتنی خواریاں اسکے بس کی بات نہیں تھی۔ 

وہ سر تکیہ پہ ڈالتا واپس سونے کی کوشش کرنے لگا کہ ماضی کا ایک بھولا بھٹکا منظر اسکی سوچ کے پردے پہ لہرایا۔

" طایا ابا آپ لوگ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں ، صالح پلیز مجھے بتائیں ۔۔، مجھے گھر جانا ہے پلیز "۔ تبسم روتی ہوئ گڑگڑائ تھی۔ اور سامنے بیٹھے صالح کے چہرے پہ بڑی دل سوز مسکراہٹ نے گھیرا کیا تھا۔ 

" دیکھو تبسم میں تمہارے باپ کا بڑا بھائ ہوں یعنی تمہارے باپ جیسا ہی ہوں اور میں نے تمہارے لیئے ایک فیصلہ لیا ہے"۔ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ کر اسے تکا۔ 

اسنے بے بسی سے انہیں تکا تھا۔

" میں تمہارا نکاح صالح سے کروا رہا ہوں ابھی اور اسی وقت"۔ انہوں نے جیسے اسکی سماعتوں پہ بم پھوڑا تھا۔ 

" ایسا کچھ سوچئے گا بھی مت آپ آئے تھے ناں ہمارے گھر اسی مقصد سے میرے پاپا نے منع کردیا ناں آپ لوگوں کو بس بات ختم اور ایسا سوچئے گا بھی مت کہ میں اپنے پاپا کی مرضی کے خلاف جاکر کوئ قدم اٹھاؤں گی"۔ اسنے دوپٹہ درست کرتے اسی کمرے سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ 

" ایسا کرنے کی غلطی نا کرنا تبسم نہیں تو اپنے باپ کا مرا ہوا منہ دیکھنا نصیب ہوگا"۔ اپنے طایا کی بات سن کر اسکا دل اور پیر دونوں کانپ اٹھے تھے۔ 

اسنے گردن موڑ کر افسوس سے انہیں تکا، اسکی آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔ 

اور پھر اسکا نکاح صالح سے ہوگیا ، صالح نے بند آنکھیں کھولی تو دوپہر کے تین بج رہے تھے ، نیند تو اب آنکھوں سے کوسوں دور ہوچکی تھی وہ اٹھ کر باتھ لینے چلا گیا۔

♧♧♧♧♧

مہندی کا فنکشن آج شام میں ہی تھا شام کے چھے بج رہے تھے اور سب مارے مارے اپنی اور فنکشن کی تیاریوں میں گم تھے۔ نیلم کسی کو اپنی مدد کے لیئے ڈھونڈ رہی تھی پر کوئ لڑکی فارغ ہوتی تب ناں۔۔۔!! 

وہ چلتے چلتے ایک کمرے کا دروازہ دھاڑ کی آواز کے ساتھ کھولتی اندر گھسی تھی۔ 

" یار تبسم آپی کہاں ہو آپ میں کیسے تیار ہوں کوئ کمبخت نہیں مل رہا بیوٹیشن کمینی بھی نہیں آئ ابھی تک"۔ وہ کمرے میں گھستے ہی بیڈ پہ اوندھے منہ گر کر جھوٹ موٹ کا رونے لگی تھی۔ 

واشروم سے نکلتے وجود نے اسے حیرت و نا سمجھی سے تکا تھا۔ 

" تبسم آپی سجل منحوس بھی نجانے کہاں غائب ہوکر مر چکی ہے میں نے۔۔۔ اپنے بالوں میں کرلز ڈلوانا تھے"۔ اسنے رونی آواز میں کہا۔ 

اسکی پتلی کمر بیڈ پہ کسی بل کھائ ہوئ ناگن کی طرح لگ رہی تھی، سیاہ لمبے بالوں کی چوٹی پھسل کر آدھی کمر پہ تھی تو آدھی بیڈ پہ پڑی تھی۔ 

اس شخص نے اپنا سر تولیہ سے خشک کرتے اسکا بھرپور جائزہ لیا۔ 

نیلم کو تبسم کی آواز نا آئ تو وہ چڑ کر پیچھے مڑی تھی پر اپنے پیچھے کھڑے شخص کو دیکھ کر یکدم سیدھی ہوکر بیٹھی تھی۔ چندھیائ ہوئ نظروں سے وہ اسے گھور رہی تھی۔ 

اور وہ جواباً سنجیدگی سے اسے تک رہا تھا۔ 

" تم یہاں اگر کسی غلط ارادے سے میرے پیچھے گھسے ہو ناں تو سوچنا بھی مت ، میں اور لڑکیوں جیسی نہیں"۔ وہ اسکے برہنہ سینے سے نگاہ چرا کر بولی۔ 

" مجھے تو لگتا ہے تمہارے ارادے مجھے لیکر غلط ہیں جبھی تو تم میرے کمرے میں ایسے آکر پڑی ہو"۔ مقابل نے بھی حساب برابر کیا۔

" ہنہہ تمہارا کمرہ۔۔ یہ ۔۔۔ کمرہ"۔ اسنے تمسخر سے ہنس کر اسے تکا اور شہادت کی انگلی گول گھمائ۔ 

" یہ کمرہ تبسم آپی کا ہے۔۔۔ سمجھے"۔ وہ جارہانہ انداز میں کہتی ، اسے اچھی خاصی عجیب لگی تھی۔

" مس نیلم غور سے دیکھیں یہ کمرہ اسوقت میرے استعمال میں ہے"۔ اسنے تولیہ اچھال کر بیڈ پہ پھینکتے کہا۔ 

" او ہیلو گاؤں کے رہنے والے کوئ تمیز ہوتی ہے کوئ طریقہ ہوتا ہے ، پانی سے نچڑا ہوا تولیہ تم نے بیڈ پہ پھینک دیا"۔ اسنے دونوں ہاتھ کمر پہ رکھ کر کہا۔ 

" don't try to be my wife ... crazy girl...!!!". 

آدم نے بیزار لہجہ میں کہا تھا۔ 

" تو کیا ہوا بن جاؤں گی بہت جلد بغیر کسی ٹرائے کے"۔ اسنے ناک چڑھا کر کہا۔

" اچھا ۔۔ اتنی ڈیسپریٹ ہو رہی ہو میری بیوی بننے کے لیئے"۔ وہ اسکی طرف قدم بڑھاتا سنجیدگی سے گویا ہوا۔ 

نیلم کے حلق میں کچھ اٹکا تھا۔ نیلم نے تھوک بہ مشکل حلق سے نیچے اتارا۔ 

" دور۔۔۔ دور رہو بےہودہ آدمی۔۔"۔ نیلم اسے خود سے دور کرنے کے چکر میں اسکے برہنہ سینے پہ ہاتھ دھر گئ تھی، کہ یکدم اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اسنے اپنا ہاتھ کھینچا تھا۔ 

" دیکھو تمہارے ارادے بلکل بھی ٹھیک نہیں۔۔۔۔ اب تم مجھے ایسے دیکھ کر بے ایمان ہو رہی ہو"۔ اسنے اسکی اڑی رنگت کو مزید زرد کردیا اپنے الفاظ سے۔ 

" گھٹیا آدمی ۔۔"۔ وہ اسکی سائڈ سے ہوکر نکلی ہی تھی کہ آدم نے اسکی کلائ تھامی۔ 

" مجھے تم بلکل اچھی نہیں لگتی اور پھر جب تم ایسے زبان چلاتی ہو تب تو بلکل بھی اچھی نہیں لگتی"۔ وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا ٹھنڈے لہجہ میں بولا۔ 

" مجھے بھی تم زہر سے کم نہیں لگتے"۔ اسنے اسکی مضبوط گرفت سے اپنی کلائ آزاد کرانا چاہی پر ناکام ہی رہی۔

" ہممم سچی ۔۔۔ ایسا ہے گڈ"۔ اسکی بات پہ اسنے اسکی نگاہوں میں جھانکا۔ 

" بلکل۔۔۔ ایسا ہی ہے"۔ وہ خونخوار لہجہ میں بولی۔ 

آدم نے اسکی کلائ چھوڑی تو وہ اسے گھورتی ہوئ اسکے کمرے سے نکل گئ تھی۔ 

اور آدم محض اسکی پشت دیکھتا رہ گیا تھا۔ 

♧♧♧♧♧♧

مہندی کا فنکشن شروع ہوچکا تھا آج کے فنکشن میں بس گھر گھر کے لوگ ہی تھے اور کچھ قریبی دوست ، 

تبسم آلائنہ کو گود میں لیئے کبھی ایک کام کی طرف دوڑ لگا رہی تھی کبھی دوسرے تیار وہ ابھی تک نہیں ہوئ تھی ہاں البتہ آلائنہ کو اسنے پیلے اور گلابی رنگ کے کومبینیشن کا شرارہ پہنایا ہوا تھا۔ آلائنہ چڑ رہی تھی اسے وہ سوٹ بلکل بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ سب تیاریوں میں لگے آتے جاتے آلائنہ کو کبھی پیار کرتے اور کبھی اسکے گال کھینچ کر چلے جاتے اور وہ جو بڑی مشکلوں سے چپ ہوتی دوبارہ رونا شروع کردیتی۔ وہ کچن میں لگی مٹھائی کی پلیٹ سجا رہی تھی اور آلائنہ رونے کا شغل فرما رہی تھی۔ 

" کیا ہوگیا مما کے بچے کو کیوں رو رہا ہے میرا بے بی"۔ وہ اسے پیار کرکے پوچھنے لگی۔ 

" م۔۔م۔۔مم۔۔۔ممم۔۔۔ب۔ببب۔۔۔ب۔ببا"۔ وہ آگے سے جواباً نجانے اپنی زبان میں کیا کہنے لگی تھی۔ تبسم مسکرائ تھی۔ 

" ماں صدقے میرے بچے کے میرا شونا"۔ وہ اسکو ہلکا سا گدگدا کر بولی۔ 

" آپی مٹھائی کی پلیٹ سیٹ ہوگئ"۔ سجل تیزی سے کچن میں گھسی تھی لمحے میں آلائنہ کے گال کھینچے تھے اور آلائنہ نے منہ پھاڑ کر رونا شروع کیا تھا۔ 

تبسم کا تو غصے کے مارے مانوں حال برا ہوا تھا۔ 

" تم انسان بن جاؤ سجل"۔ اسنے اسکے کندھے پہ تھپڑ مار کے اسے ڈانٹا۔ 

" توبہ آپی آج تمہاری بیٹی کا موڈ خود ہی ٹھیک نہیں کوئ پاس سے بھی گزر جائے تو رونا شروع کردیتی"۔ سجل نے اپنا بازو ملتے کہا۔ 

" دفعہ ہوجاؤمٹھائی لے کر جاؤ میں چینج کرکے آرہی ہوں"۔ وہ اسے ڈانٹتی آلائنہ کو گود میں لے کر اپنے کمرے کی طرف گئ تھی۔ 

" میرا بچہ بس ۔۔۔ بس ۔۔۔ میری گڑیا ۔۔۔ مما کی شہزادی بش۔۔۔"۔ وہ آلائنہ کو سینے سے لگائے خاموش کروانے میں لگی تھی۔ آلائنہ نے رونا بند کیا تو اسنے آلائنہ کو بیڈ پہ بٹھایا۔ اسکے ہاتھ میں اسکا سافٹ ٹوائے دیا اور خود کپڑے لیکر جلدی سے واشروم میں گھسی تھی۔ ابھی پانچ منٹ بھی نا ہوئے تھے کے آلائنہ کے بے دردی سے رونے کی آواز آئ وہ جلدی سے کپڑے پہن کر نکلی تو سامنے صالح آلائنہ کو خود میں بھینچتا کھڑا تھا۔ جیسے ہی صالح کی نظر تبسم پہ پڑی اسنے خون آشام نظروں سے اسے تکا تھا۔

" ک۔۔کیا ہوا یہ رو کیوں رہی تھی ایسے"۔ اسنے آلائنہ کو صالح سے لینا چاہا پر صالح صاحب کے ارادے کچھ اور ہی لگ رہے تھے۔ 

" گر گئ تھی بیڈ سے صرف تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے ، تمہارا سجنا سنورنا اتنا اہم تھا کہ تم میری بچی کو ایسے یہاں لاوارثوں کی طرح پھینک کر چلی گئ"۔ صالح باقاعدہ چیخا تھا۔ 

اسنے خاموش نظروں سے اسے تکا تھا اور بنا کوئ جواب دیئے آلائنہ کو لینے آگے بڑھی تھی۔ پر صالح نے اسے دھکا دے کر پیچھے گرا دیا وہ بیڈ پہ اوندھے منہ گری تھی۔ پرانی سر کش تبسم نے یکدم اندر سے انگڑائی لی تھی۔ 

" دھکا کیسے دیا مجھے آپ نے ہمت کیسے ہوئ آپکی "۔ وہ اسکے سامنے کھڑی ہوتی اس سے بھی زیادہ بلند اواز میں چیخی تھی۔ یہ شکر تھا کہ باہر تیز میوزک کے شور کی وجہ سے انکی آوازیں باہر نا جا رہی تھیں۔ 

" ہمت کی تو تم بات کرو ہی نا تو اچھا ہوگا"۔ وہ خونخوار لہجہ میں بولا۔ 

ان دونوں کو دوسرے پہ چیختے دیکھ آلائنہ ایک بار پھر شدت سے رونے لگی تھی۔ 

" میری بچی مجھے دیں"۔ وہ اسکی طرف ایک بار پھر لپکی تھی۔ 

" کیا میری بچی میری بچی کی رٹ لگا کر رکھی ہے۔۔۔ سنمبھالنا آتا ہے تمہیں۔۔۔؟؟ گر گئ تھی یہ بیڈ سے اگر اسے کچھ ہوجاتا تو میں تمہاری جان لے لیتا تبسم"۔ اسکے حلق میں گھٹلیاں ابھر کر معدوم ہوئ تھیں۔ آنکھیں لال آنگارہ ہو رہی تھیں۔

" صالح بس۔۔۔ !! بہت ہوگیا میں نے کہا ناں غلطی سے ہوا ہے جو بھی ہوا ہے مجھے لگا تھا میں اتنا ٹائم نہیں لگاؤں گی جلدی چینج کر لوں گی ، پر خیر میری بیٹی ہے میں سنمبھال سکتی ہوں اور میں ہی اتنے مہینوں سے سنمبھال رہی ہوں اسکے پیدا ہونے سے پہلے سے لیکر آج کے دن تک"۔ اسنے چڑ کر اسکی گود سے بہ مشکل آلائنہ کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا تھا۔ اسکی کمر تھپکتے وہ اسے چپ کرانے لگی تھی۔ صالح نے غصہ سے اسے گھورا تھا۔ 

" مما کا بیٹا بس نہیں۔۔۔۔نہیں روتے نہیں ہیں میرا چاند"۔ وہ اسے جھلاتی ٹہلنے لگی تھی۔ پیلے رنگ کی گھٹنوں سے اوپر تک کی کرتی اور پیلے ہی رنگ کا غرارہ پہنے دوپٹے سے بے نیاز وہ آلائنہ کو چپ کروا رہی تھی۔ بالوں کو لپیٹا گیا تھا جو کھل کر کمر پہ کسی آبشار کی مانند کھلے تھے۔ آلائنہ نے رونا بند کر دیا تھا اب اپنی ماں کے چہرے پہ ہاتھ پھیر رہی تھی۔ کبھی اپنی ماں کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتی کبھی ناک پہ کبھی ہونٹ کے اوپر موجود تل پہ۔ 

وہ دونوں ایک دوسرے میں گم تھی۔ صالح کو نجانے کیوں برا لگا تھا۔ ہاں برا تو لگنا ہی تھا یہ لمحے تو اسنے ان تینوں کے ایک ساتھ سوچے تھے پر وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا تھا۔ عجب ہی محبت تھی اسے اس سے شدید خطرات اسکی ساتھ لاحق تھے اسے ایک وقت اور اب وہ اسکی ایک نظر محبت کی چاہتا تھا پر اب وہ بھی تو ویسی نہیں رہی تھی۔ اب تو سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ خاموشی سے کمرے سے نکل کر باہر آگیا تھا ، باہر سب خوش تھے سب کے چہروں پہ ہنسی تھی بے چین تھے تو محض دو دل اور وہ دل صالح اور تبسم کے تھے۔

♧♧♧♧♧♧

وہ تیار ہوکر باہر لان میں آئ سب لگے ناچنے گانے میں مگن تھے مگر وہ ایک طرف تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ اسنے ایک نظر اسے دیکھا۔ اور پھر نگاہ پھیر گئ۔ آلائنہ اپنے باپ کو دور سے سے ہی دیکھ چہکنے لگی تھی۔ پر وہ صالح کے پاس نا گئ صالح نے آلائنہ کی توجہ جب اپنی جانب مبذول دیکھی وہ خود آٹھ کر آیا اور آلائنہ کو اسکی گود سے لیکر چلا گیا۔ اسنے نگاہ چرا کر ارد گرد دیکھا۔ سامنے ہی نیلم مہندی کی دلہن بنی بیٹھی تھی وہ بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی۔ وہ تھی ہی اتنی پیاری کسی کانچ کی گڑیا کی مانند تھی۔ وہ اسکے پاس جاکر بیٹھی تو نیلم اسکی طرف دیکھ مسکرائ تھی وہ بھی اسے دیکھ جواباً مسکرائ تھی۔ 

" ویسے تبسم آپی آپ کب سے اندر تھیں صالح بھائ بھی اندر تھے کیا کر رہے تھے آپ دونوں"۔ نیلم نے اپنی امڈتی شریر مسکراہٹ کو دبا کر پوچھا۔

" نیلم۔۔۔ بد تمیزی نہیں بلکل بھی نہیں تو میں آٹھ جاؤں گی"۔ اسنے اسے گھور کر کہا تو نیلم نے فوراً معافی مانگی۔

" سوری آپی میں تو مذاق کر رہی تھی"۔ اسنے لب دبا کر کہا۔ 

" دکھ رہا ہے مجھے تم لوگوں کے مذاق آجکل کچھ زیادہ ہی ہو رہے ہیں"۔ تبسم۔نے اسے گھور کر کہا۔ 

موسم بھی اتنا اچھا ہورہا تھا۔ ہوائیں چل رہی تھیں۔ پھپھو نیلم کی رسم کرنے آئیں ، ساتھ ہی انہوں نے آواز لگائ۔

" جا تبسم آدم کو بلا کر لا"۔ پھپھو نے تبسم کو کہا۔ تبسم سر اثبات میں ہلاتی لڑکوں کے ٹولے تک پہنچی تھی جہاں۔۔۔ آدم ، شایان ، میزان ، غازی ، اور صالح کھڑے تھے۔ اور آلائنہ صالح کی گود میں بیٹھی تھی۔ 

وہ تمکنت سے چلتی انکے پاس آکر رکی تھی ، شایان نے فوراً آٹھ کر کرسی خالی کی تھی وہ بھی یقیناً جان بوجھ کر کیونکہ وہ کرسی صالح کی کرسی کے ساتھ بلکل جڑی پڑی تھی۔ 

" آپی بیٹھیں"۔ شایان نے اسے بیٹھنے کا کہا۔ اسنے شایان کو گھور کر دیکھا۔ پر سب کی نگاہیں خود پہ مرکوز دیکھ کر خاموشی سے بیٹھ گئ۔ 

" آدم ۔۔"۔ اسنے کرسی پہ بیٹھ کر آدم کو مخاطب کیا جو اپنے موبائل میں لگا نجانے کونسی دنیا میں گم تھا۔

" جی۔۔ "۔ آدم نے سر اٹھا کر کہا۔

" پھپھو بلا رہی ہیں تمہیں اسٹیج پہ جاؤ"۔ وہ نرمی سے بولی۔ 

" اوکے"۔ وہ سر ہلاتا اٹھا تھا اور اسٹیج کی طرف چلا گیا تھا۔ 

وہ خاموش بیٹھی تھی کہ آلائنہ نے اسکا دوپٹہ اپنے ہاتھ میں لیکر اسکے دوپٹہ سے کھیلنا شروع کردیا تھا۔ 

" مما کا بچہ"۔ وہ یکدم ذرا سا ترچھا ہوکر آلائنہ کی طرف متوجہ ہوئ۔

" آجاؤ مما پاش آؤ"۔ اسنے آلائنہ کے آگے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا۔ اس دوران صالح کی نگاہیں محض اسکے چہرے پہ ٹکی تھیں۔ آلائنہ نے کھکھلاتے ہوئے اپنے ننھے ہاتھ اپنی ماں کی طرف بڑھائے تھے، اور ذرا سا اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تھی جو اسکے لیئے اس وقت مشکل تھا۔ تبسم نے آگے بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لیا۔ شایان اور میزان کو کسی نے آواز دے دی تھی وہ اس لیئے آٹھ کر چلے گئے اور غازی کو کال آگئ تھی تو وہ بھی آٹھ کر اندر چلا گیا تھا۔ وہ دونوں آلائنہ کے ساتھ وہاں بیٹھے تھے۔ وہ جہاں بیٹھے تھے وہ جگہ کافی کونے میں تھی جہاں بہ مشکل ہی کسی کی نظر پڑنے کے امکان تھے۔ صالح نے ارد گرد نظر دوڑائی جب کوئ نا دکھا تو یکدم اسکے ماتھے اور گال پہ جھک کر بوسہ دیا تھا۔ وہ حیرت و بے یقینی سے اسے تکنے لگی۔ 

" یہ کیا بد تمیزی ہے"۔ اسنے اپنے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

" اس بدتمیزی کا ون پرسنٹ بھی نہیں جو میں کرتا تھا"۔ اسنے مسکراہٹ دبا کر کہا۔

" آپ کو پتہ ہے آپکا مسئلہ کیا ہے صالح ۔۔۔ آپکی نظروں میں کوئ انسان کسی کھاتے میں آتا ہی نہیں آپکو اس بات سے بلکل فرق نہیں پڑتا کہ آپکا چھونا مجھے نہیں پسند ، آپکے لیئے بس آپ ہی اہم ہیں دوسرا انسان کیا سوچتا ہے یہ تو آپکی سر دردی ہے ہی نہیں"۔ غصہ کی زیادتی سے جو اسکے منہ میں آیا وہ بولتی چلی گئ بنا کچھ سوچے بنا کچھ سمجھے۔ 

" تم تبسم ۔۔۔ بہت پچھتاؤ گی جس دن میرے دل کے دروازے تمہارے لیئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بند ہوگئے اور میں کسی اور کو لے آیا ناں تو اس دن تم نے بڑا ہی گڑگڑانا ہے پر کچھ ہو نہیں سکے گا تب"۔ وہ اسکے پاس سے طیش کے عالم میں اٹھتا اپنی گاڑی کی چابیاں ٹیبل سے لیکر نکلتا چلا گیا تھا۔

♧♧♧♧♧♧

غازی اندر اپنے روم کی طرف جارہا تھا ، کے سامنے سے آتی سجل اس سے بڑے ہی برے انداز میں ٹکرائ تھی۔ 

" سوری غازی بھائ"۔ اسنے پھولوں کا تھال نیچے پڑا دیکھ کر کہا۔ زمین پہ بیٹھ کر وہ پھول چننے لگی تھی ، غازی نے سنجیدگی سے اسے تکا اور بنا کوئ جواب دیئے اسکی سائڈ سے ہوکر خاموشی سے نکل گیا۔ غصہ تو سجل کو تب آیا جب زمین پہ گرے لال گلاب کی پتیوں کو وہ بڑی ہی بے دردی سے اپنے قدموں تلے مسل گیا۔ 

" اوہ ہیلو ۔۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے غازی بھائ"۔ وہ اسکی طرف بڑھی تھی اسے اسکے کندھے سے تھام کر موڑا تھا۔ 

اسنے سرد بے تاثر نظریں اسکے چہرے پہ گاڑھ کر اسے ایسے تکا جیسے پوچھ رہا ہو کونسی والی موت پڑی ہے۔

" یہ کیا طریقہ ہے پھول تو اٹھوا ہی سکتے تھے آپ میرے ساتھ"۔ اسنے ہاتھ باندھ کر کسی سخت استانی کے لہجہ میں کہا۔

" پھول اٹھانے کا میرا کوئ موڈ نہیں پر اگر تم مر جاؤ تو تمہاری قبر پہ پھول چڑھوانے کی خواہش ضرور رکھتا ہوں"۔ غازی نے اپنی ناک کو شہادت کی انگلی سے ہلکا سا مسلا تھا۔

" میری قبر۔۔۔ !!! "۔ اسنے شہادت کی انگلی اپنے سینے پہ رکھ کر پوچھا جیسے تصدیق چاہتی ہو کہ جو سنا ہے درست ہی سنا ہے ناں۔

"ہمم"۔ اسنے ہلکے سے سر کو جنبش دے کر کہا۔

" اللہ نا کریں مرے میرے دشمن مرے آپ جیسے شیطان مردود"۔ اسنے اسکے سینے پہ اپنا ہاتھ زور سے مار کر کہا۔ 

غازی نے آئبرو آچکا کر اسے تکا ، جیسے کہہ رہا ہو امید نہیں تھی کہ تمہارے منہ میں اتنی لمبی زبان ہوگی۔ 

" آپ کو کیا لگتا ہے مجھے نہیں پتہ آپ کیا کرتے ہیں۔۔۔ توبہ توبہ اتنی جلدی تو میں اپنی پروفائل پکچر نہیں بدلتی جتنی جلدی آپ اپنی بندی بدل لیتے ہیں ، اور ۔۔۔ میں نے اس دن دیکھ لیا تھا آپکو ۔۔۔ آپ چرس بیچتے ہیں ناں۔۔۔۔ ہائے اور وہ سفید سفید کیا تھا۔۔۔؟؟ ہمم"۔ سجل غازی کے قریب ہوکر رازدارانہ لہجہ میں مستفسر ہوئ۔ 

" منہ بند رکھو اپنا اور یہ بکواس میرے سامنے کر لی پر۔۔۔۔ اگر یہ باتیں کسی اور کے کانوں میں غلطی سے بھی پڑی ناں۔۔۔۔ تو جان سے جاؤ گی اب تم میرے بارے میں اتنا تو جان ہی گئ ہو کہ میں کیسا ہوں تمہیں جان سے مارنا کوئ مشکل کام تھوڑی ہوگا میرے لیئے"۔ وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا خطرناک لہجہ میں گویا ہوا۔ سجل کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا اٹھی اسنے بہ مشکل تھوک نگلی ، غازی کو سہمی ہوئ نگاہ سے تکا۔ 

"۔۔ میں۔۔۔ تو مذاق کر رہی تھی"۔ اسنے رونی صورت بنا کر کہا۔ وہ پھولوں کے تھال کو مضبوطی سے تھام کر باہر کو بھاگی تھی۔ غازی نے اسکی پشت کو تمسخر سے تکا تھا۔

♧♧♧♧♧♧

آدم اور نیلم دونوں ساتھ اسٹیج پہ بیٹھے تھے۔ نیلم کے چہرے پہ کچھ دیر پہلے والی مسکراہٹ اب موجود نا تھی۔ وہ نگاہیں گھما کر ادھر ادھر سب کو دیکھ کر اسمائیل پاس کر رہی تھی۔ آدم کے حالات بھی اس سے مختلف نا تھے، وہ بھی موبائل میں لگا اپنے کام میں گم تھا۔ سامنے کھڑی فوٹوگرافر نے ان دونوں کو مخاطب کیا تو ان دونوں نے ہی اسے تکا۔

"سر۔۔۔ میم پلیز آئیے آپ لوگوں کا فوٹوشوٹ کر لیں"۔ فوٹوگرافر کو دیکھ کر آدم نے سنجیدگی سے سر اثبات میں ہلایا۔ وہ دونوں اتر کر کیمرہ مین کے پیچھے گئے تھے۔ نیلم کا پیر ہلکا سا رپٹا تھا۔ آدم نے یکدم اسے ہاتھ سے تھام کر گرنے سے بچایا تھا۔ 

" سر آپ یہاں بیٹھیں میم آپ سر کے کندھے پہ سر رکھیں"۔ فوٹوگرافر نے گائڈ کیا تو نیلم نے نا چار اسکے کندھے پہ سر رکھا۔ 

" میم تھوڑا قریب"۔ وہ کھسک کر اسکے قریب ہوئ تھی ، نیلم کے نتھنوں سے اسکی مہنگی پرفیوم کی خوشبو ٹکرائ تو اسکا دل یکدم گدگدا اٹھا۔ اس پوزیشن میں پکچر لینے کے بعد نجانے فوٹوگرافر کتنے ہی قسم کے پوزس کروا چکی تھی۔ نیلم تو تھک گئ تھی۔ 

" پلیز بس اور ہمت نہیں"۔ نیلم نے تنگ آکر کہا۔ 

" پر میم۔۔۔ بس تھوڑی سی اور۔۔"۔ فوٹوگرافر نے کہا۔ 

" پلیز نو بلکل نہیں"۔ اسنے قطعی لہجہ میں کہا۔ 

تو فوٹوگرافر وہاں سے ہٹ گئ وہ اور آدم وہاں تنہا رہ گئے تھے۔ نجانے آدم کے دل میں کیا آئ کہ وہ اسے مخاطب کر گیا۔ 

" کیا تم خوش نہیں اس شادی سے۔۔؟؟"۔ 

نیلم نے نگاہیں اسکے چہرے کی سمت کرکے اسے تکا اور سنجیدگی سے کہا۔

" بلکل بھی نہیں کیا تمہیں میری بیزاری دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا"۔ 

" نہیں ۔۔۔ بظاہر تو تم خوش لگتی ہو "۔ اسنے آسمان کی طرف نگاہ کرکے کہا۔

" تم کسی کو پسند کرتی ہو"۔ ۔۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پوچھا۔

" نہیں۔۔۔ "۔ اسنے منہ بنا کر کہا۔ 

" پھر خوش کیوں نہیں"۔ اسنے سنجیدگی سے پوچھا۔

" کیونکہ آدم تم میری ٹائپ کے نہیں ہو ، تمہارا لائف اسٹائل بہت مختلف ہے اور میں بہت جولی نیچر کی ہوں تم نہیں ہو ویسے تو میں کیسے خوش ہوسکتی ہوں یا پھر تمہارے ساتھ خوش رہ سکتی ہوں۔۔۔ مجھے تو اپنی زندگی میں کوئ اپنے جیسا انسان چاہیئے تھا جو میرے جیسا ہو بلکل میرے جیسا"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔ 

" شوہر چاہیئے تھا یا بھائ ۔۔۔ بلکل میرے جیسا"۔ اسنے اسکی بات کو مذاق میں اڑایا اور آخر میں اسی کے الفاظ دھرا کر اسکی نقل اتاری۔ 

" شٹ اپ"۔ نیلم نے چڑ کر کہا اور اسکے پاس سے اٹھی۔

" تم ہی کہہ رہی تھی تمہیں جولی شوہر چاہیئے تھا اب میں جولی بن رہا ہوں تو تم سے ہضم نہیں ہورہا شٹ اپ شٹ اپ کر رہی ہو"۔ اسنے اسکا دوپٹہ کرسی کے کونے سے آزاد کیا۔

" تم کچھ بھی کر لو آدم سیڈلی تم میری ٹائپ نہیں بن سکتے"۔ اسنے افسوس سے کہا۔

" اور تم کچھ بھی کرلو شوہر کی صورت میں تو میں ہی تمہیں ملنے والا ہوں"۔ اسنے اس سے بھی زیادہ پر سوز لہجہ میں کہا۔ 

وہ منہ بناتی وہاں سے نکل گئ اور وہ محض کندھے آچکا کر رہ گیا۔

فنکشن ختم ہوا تو سب اپنے اپنے کمروں میں بھاگے جلدی نہا دھو کر ہلکے پھلکے کپڑے پہن کر سب لاؤنج میں بیٹھے تھے ، بڑے بوڑھے سب اپنے کمروں میں آرام فرما رہے تھے ، تبسم بھی آلائنہ کو لیکر اپنے کمرے میں لیٹی اسے سلا رہی تھی جب کمرے میں نیلم آئ۔ 

" آپی ۔۔"۔ اسنے ہلکی سی آواز میں پکارا۔

" ہمم کوئ کام تھا نیلم"۔ تبسم نے آلائنہ کو تھپکتے کہا۔

" وہ آپی ۔۔۔ باہر آئیں نا انجوائے کرتے ہیں اب نجانے ایسے ہمیں کب موقع ملے ، اور میں کب واپس آؤں"۔ نیلم اسکے پیروں کے پاس بیڈ پہ بیٹھتی گویا ہوئ۔ 

" بس تم ہمیشہ خوش رہو اس سے بڑی بات کیا ہوگی چلو چلتے ہیں باہر ایک رات خوب ہلا گلا کرتے ہیں"۔ تبسم نے محبت سے کہا۔ 

نیلم دھیرے سے مسکرائ تھی۔ اسکی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی تھی۔

تبسم آٹھ بیٹھی تھی اسے خود میں بھینچا تھا ، تبسم کا نیلم کو سینے سے لگانا اور نیلم کا پھوٹ پھوٹ کر رونا سب بے ساختہ تھا۔ 

" شش۔۔۔ بس۔۔۔ چپ ۔۔"۔ تبسم نیلم کی پیٹھ سہلا کر گویا ہوئ۔

" میں کیسے رہوں گی آپی آپ سب کے بغیر"۔ وہ سسکتے ہوئے بولی۔ 

تبسم مسکرائ تھی آنکھوں میں آنسو تو اسکے بھی آچکے تھے۔

" آدم کی محبت ہم سب کو بھلا دے گی ، پھر تم کہا کرو گی آپی کیا کروں آدم کے بغیر تو میں رہ ہی نہیں سکتی"۔ تبسم نے شرارت سے کہا۔ 

" آپی ۔۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں میرا دل کٹ رہا ہے ، جہاں ساری زندگی گزاری اب وہاں میں مہمان بن کر آیا کرونگی ۔۔۔ آپی مجھے نہیں سمجھ آرہا میں کیا کروں"۔ وہ اب بھی اسکے سینے سے لگی سسک رہی تھی۔ 

" دیکھو ادھر میری طرف میں کہہ رہی ہوں نا سب بھول جاؤ گی پھر بس یاد رہے گا تو بس آدم ۔۔۔"۔ اسنے اسے ٹھوڑی سے تھام کر کہا۔

" پر۔۔۔ آپی آپ تو ہم میں سے کسی کو نا بھولی آپ نے تو صالح بھائ کو ہی بھولنے کی ٹھان لی"۔ اسنے منہ بسور کر کہا۔

" نیلم صالح اور میری بات الگ ہے ، میں دعا کرونگی تمہاری زندگی میں کبھی اتنا برا موڑ نا آئے"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔

" پر آپی۔۔"۔ نیلم نے کچھ کہنا چاہا پر تبسم نے اسکی بات کاٹ دی۔

" کوئ پر ور نہیں چلو چلیں باہر تفریح کرتے ہیں اس اسپیشل رات کو مزید اسپیشل بناتے ہیں"۔ وہ بیڈ سے اتر کر سوئ ہوئ آلائنہ کو اپنی بانہوں میں بھر کر بولی۔ 

" چلیں پھر انتظار کس بات کا ہے"۔ نیلم نے بھی چہک کر کہا۔

وہ دونوں کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آئ تھیں ، وہاں فیہا ، سجل ، میزان ، شایان ، غازی ، آدم ، ملیحہ (آدم کی بہن) بیٹھے تھے۔ 

تبسم نے ہنستے ہوئے دور سے ہی سب کو ہیلو کیا تھا سب نے جواباً ہائے کیا تھا۔

" اور بھئ کیا سڑے ہوئے بیٹھے ہو سب کوئ شغل میلا لگاؤ"۔ تبسم نے آلائنہ کو غازی کے پاس صوفہ پہ لٹایا۔ 

" یہ سو گئ بھابھی"۔ غازی نے سوئ ہوئ آلائنہ کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔

" مہم سو گئ تھک گئ تھی بہت زیادہ"۔ تبسم نے مسکرا کر کہا۔ 

" ہمم "۔ غازی نے آلائنہ کے گال پہ ہلکے سے پیار کیا۔ 

تبسم نے آدم کو مخاطب کیا جو بیزار سا بیٹھا تھا۔

" کیا ہوا آدم بیزار"۔ تبسم نے صوفہ پہ بیٹھ کر آدم کو چھیڑا۔ آدم محض مسکرا کر رہ گیا۔ 

" کچھ نہیں آپی "۔ اسنے کندھے آچکا کر کہا۔ 

" کیا ہوا بڑے ہی اداس لگ رہے ہو"۔ تبسم نے اسے چھیڑا تھا۔ 

" اب آپ میری اداسی کی وجہ تو سمجھ ہی لیں"۔ اسنے نیلم کو دیکھ کر جان بوجھ کر کہا۔

" ہاں ہاں آرہی ہے تمہاری اداسی کی وجہ سمجھ"۔ اسنے ہنستے ہوئے کشن اٹھا کر آدم کو مارا۔ 

نیلم نے منہ بنا کر آدم کو دیکھا تھا۔ 

" غازی۔۔۔ "۔ تبسم نے غازی کو پکارا۔

" جی بھابھی "۔ غازی نے موبائل سے سر اٹھا کر کہا۔

" میں نے سنا ہے تم بندیاں ایسےبدلتے ہو ۔۔۔ جیسے"۔ اس سے پہلے تبسم کچھ کہتی سجل نے پیچھ سے آکر اسکے منہ پہ اتنی زور سے ہاتھ رکھا تھا۔ کہ تبسم کی آنکھیں ابل کر باہر کو آگئ تھیں ، اسکی سانس رک گئ تھی۔ 

" نہیں آپی ایسا کوئ سین نہیں ہورہا بلکل خاموش رہیں کچھ نہیں بولیں گی آپ میں قسم دے رہی ہوں آپکو آلائنہ کی۔۔۔۔ اور پاپا کی اور۔۔"۔ ابھی بات اسکے منہ میں ہی تھی جب صالح باہر سے اندر آیا تھا وہ تب کا گیا شاید اب واپس آرہا تھا۔ سجل کی نظر جیسے ہی صالح پہ پڑی اسنے جھٹ اپنی بات مکمل کی۔ 

" اور تمہارے شوہر کی آپی بلکل خاموش"۔ سب آنکھیں پھاڑے تبسم کی حالت دیکھ رہے تھے اور وہ محترمہ اسکے منہ کے ساتھ ساتھ اسکا ناک دبائے جو قسمیں دینا شروع ہوئ تھی تو روکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ صالح روم میں جانے کے بجائے انہیں کے پاس آیا تھا پر تبسم کی حالت دیکھ اسے سجل پہ جی بھر کر غصہ آیا تھا۔ وہ غصہ میں آگے بڑھا تھا، سجل کو تبسم سے دور جھٹکا تھا۔ تبسم کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔ اس سے پہلے کے وہ ڈھے کر پیچھے صوفہ پہ گر جاتی صالح نے اسے خود سے لگایا تھا۔ اسکا چہرہ پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ رنگت بلکل زرد پڑ چکی تھی، اسکی سانس اکھڑ رہی تھی۔ صالح غصہ میں سجل پہ چیخا تھا۔ 

" جاؤ دیکھو اسکے سامان میں ان ہیلر رکھا ہوگا لیکر آؤ"۔ وہ اسپہ چیخا تھا۔ 

سجل تبسم کے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔ سب حیرت سے تک رہے تھے ، کہ آخر ہوا کیا ہے اسے۔ 

" تبسم ۔۔۔ ریلیکس ۔۔۔ بس ۔۔ ریلیکس "۔ وہ اسکے گال سہلاتا اسے ریلیکس کر رہا تھا۔ 

" تبسم ۔۔۔ میری جان ۔۔بس دیکھو ۔۔۔ ابھی ٹھیک ہوجاؤگی تم ہاں شش۔۔۔ بس بس "۔ وہ اسکے گالوں پہ جھکا تھا۔ سب نے یکدم ایک دوسرے سے نظریں چرائ تھیں۔ 

وہ کبھی اسکا سر اپنے سینے سے لگاتا تو کبھی اسکا چہرہ تھام کر اسکے چہرے پہ بوسہ دینے لگتا۔ اور اسکی اس حرکت پہ سب اپنی جگہ چور سے ہوجاتے۔ 

" ان ہیلر۔۔۔ ان ہیلر"۔ سجل نے پھولے ہوئ سانس سمیت کہا۔ 

صالح نے اسکے ہاتھ سے ان ہیلر جھپٹا تھا۔ اور یکدم تبسم کے منہ سے لگا کر اسنے انہیلر کو پش کیا تھا۔ 

کچھ ہی دیر میں تبسم کی حالت سنمبھلی تھی۔ 

حالت سنبھلنے کے بعد بھی وہ صالح کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔ آنکھیں موندی ہوئ تھیں۔ 

" اب بہتر محسوس کر رہی ہو"۔ صالح نے اسکے بال سہلاتے پوچھا۔ 

" ہمم"۔ تبسم نے سر مزید اسکی آغوش میں کیا تھا۔ 

" پانی پیو گی"۔ اسنے اسکے گال تھام کر کہا۔ 

" ہاں۔۔"۔ اسنے زبان پہ لب پھیر کر کہا۔ 

" پانی لاؤ". اسنے تبسم کے گال سہلاتے ہوئے آدم کو کہا، آدم کچن میں گیا گلاس میں پانی لایا صالح کو دیا۔ 

" اٹھو پانی پی لو"۔ صالح نے اسے بٹھاتے پانی کا گلاس اسکے لبوں سے لگایا۔ 

اسنے ایک ہی سانس میں سارا پانی نگل لیا تھا۔ 

" چلو آؤ روم میں چھوڑ آؤں تمہیں آرام کرو"۔ صالح نے گلاس اسکے ہاتھ سے لیکر آدم کو واپس دیا جیسے ہی اسکے آگے ہاتھ پھیلایا۔ تبسم نے اسے بغور تکا اور اسکے ہاتھ کو پھر گہری سانس لیکر بنا اسے اپنا ہاتھ دیئے آگے بڑھی تھی۔ آلائنہ کو اٹھا کر وہ اپنے کمرے کی سمت چلی گئ تھی۔ اور صالح اپنے خالی ہاتھ کو دیکھتا رہ گیا تھا۔ تبسم کو بچپن سے دمہ کا دورہ پڑتا تھا۔ پر بہت کم سالوں میں کبھی ایک بار پر آلائنہ کے بعد سے اسے کبھی بھی کہیں بھی استہما کا اٹیک آجاتا تھا۔ صالح نے سجل کو تکا۔ 

" آئندہ سے خیال رکھنا"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے نکل گیا۔ 

" یہ کیا تھا "۔ میزان نے آنکھیں گھما کر کہا۔ 

" محبت"۔ نیلم نے کندھے آچکا کر کہا۔

" ایسی کے ہمارا بھی خیال نا رہا"۔ آدم نے آنکھیں دکھا کر کہا۔

"محبت ایسی ہی ہوتی ہے"۔ نیلم نے دھیرے سے کہا اور خود بھی سونے کے لیئے چلی گئ۔ 

♧♧♧♧♧♧

وہ کمرے میں آکر بیڈ پہ لیٹی تھی آلائنہ اسکے برابر میں ہونٹوں کا پاؤٹ بنائے سو رہی تھی وہ اسے دیکھ ہولے سے مسکرائ تھی۔ پر آنکھوں میں نجانے کہاں سے نمی نمودار ہوئ تھی۔ اپنے ارد گرد اسے اسوقت بھی صالح کی خوشبو محسوس ہورہی تھی۔ پرانی یادوں کا ایک منظر سامنے آکر لہرایا تھا۔

" رونے دھونے کا کوئ فائدہ نہیں اب مس اپس۔۔ مسز صالح"۔ صالح اسکے سامنے بیڈ پہ گرنے کے انداز میں بیٹھا تھا۔ صالح اور تبسم کا نکاح ہوئے ابھی کچھ لمحے ہی بیتے تھے۔ طایا ابا جا چکے تھے وہ دونوں اس فارم ہاؤس میں تنہا تھے۔ تبسم نے اسے قدرے سہمی ہوئ نظروں سے تکا تھا۔

" ایسے مت دیکھو عشق ہوجائے گا"۔ اسکے چہرے پہ آتی لٹ کو صالح نے اپنے ہاتھ پہ لپیٹا تھا۔ 

" آپ جیسے لوگ جن کا دن ایمان محبت رشتے سب پیسہ اور دولت ہو انکو کسی سے لگاؤ تک نہیں ہوسکتا یہ تو پھر بھی آپ عشق کی بات کر رہے ہیں یہ تو نا ممکن سی بات ہے"۔ اسنے نفرت سے کہا تھا۔

" ہاں تو تم کیا چاہتی ہو ہم اپنی جائداد میں غیروں کو شریک کر لیں ، اگر چاچو اس بات سے انکار کردیتے ناں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو جائداد میں سے حصہ نہیں دیں گے تو شاید ایسا نا ہوتا پر ۔۔۔ انہوں نے تو کہا کہ وہ تم لوگوں کو حصہ دیں گے پھر ہم کیسے اپنے کاروبار اور اپنی جائداد میں کسی غیر کو شمولیت حاصل کرنے دے سکتے تھے"۔ اسنے ناک سے مکھی اڑائ۔ 

" وہ ہمارا حق تھا صالح جو ہمیں شریعت نے دیا ہے آپ کون ہوتے ہیں ہم سے ہمارا حق چھیننے والے"۔ اسنے افسوس سے اسے تکا تھا۔ 

" بکواس بند کرو ہماری جائداد میں کسی غیر کی شمولیت ناممکن سی بات ہے ، اب چاچو تمہیں آرام سے تمہارا حصہ دے سکتے ہیں کیونکہ اب کاروبار میں کسی غیر کو نہیں بلکہ اپنے کو شمولیت ملے گی"۔ اسنے بڑے فخر سے کہا۔

" بہت چھوٹی سوچ کے مالک ہو تم"۔ اسنے اسکی طرف سے چہرہ موڑ کر کہا۔ 

" سوچ چھوٹی ہے تو کیا ہوا دل بہت بڑا ہے میرا جانم"۔ اسنے اسکا ہاتھ تھام کر کہا تھا۔ 

" اپنی بکواس بند کرو"۔ تبسم نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچنے کی کوشش کی تھی جو بلکل ناکام ٹہری تھی۔ وہ اسکے چہرے پہ بیزاریت دیکھ کمینہ پن سے ہنسا تھا۔ 

اسکے ہاتھ کو اسنے اپنے لبوں سے چھوا تو وہ اندر تک لرز اٹھی تھی۔ اپنا ہاتھ اسنے اتنی شدت سے کھینچا تھا اسکا ہاتھ سرخ ہوگیا تھا۔ 

" بہت گھٹیا ہو تم"۔ اسنے کمرے کے دروازے کی طرف قدم بڑھا کر کہا۔ 

وہ اسکے ارادے جان گیا تھا۔ وہ اسکے پیچھے لپکا تھا اور اسے کھینچ کر بیڈ پہ پھینکا تھا۔ تبسم کو کچھ بے حد غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔

وہ کہنیوں کے بل اٹھی تھی ، وہ اسکے بے حد قریب آیا تھا۔ اسکی گردن پشت سے تھام کر وہ اسکا چہرہ اپنے چہرہ کے بے حد قریب لایا تھا۔ تبسم کی نیلی آنکھوں میں ایک انجانے خوف نے ہلکورے لیئے تھے۔ صالح نے مسکرا کر اسے تکا تھا۔

" میری جان ۔۔۔ صالح کے چنگل سے آزادی نا ممکن سی بات ہے ، جسم سے روح تو پرواز کر جائے گی تمہاری پر صرف میرا نام لے لے کر ، ایسی چاہت ہوجائے گی تمہیں مجھے سے کہ مجھ سے زیادہ اہم کوئ نہیں رہے گا"۔ صالح نے اسکے چہرے پہ پھونک مار کر کہا۔ 

تبسم کی روح تک جھنجھنا اٹھی تھی۔ اسنے صالح کی بلوری آنکھوں میں گہرائی تک جھانکا تھا۔

" ایسا ہونا ایک خواب ہے جو تم جاگتی آنکھوں سے دیکھتے ہو جو ناممکن سی بات ہے ، محبت و چاہت تو دور مجھے تو تم پہ کبھی ترس بھی نہیں آئے گا"۔ وہ اسکے سینے پہ دھکا دیتی اسے خود سے دور کرکے بیٹھی تھی۔ صالح ہنسا تھا۔ دلفریب سی ہنسی۔۔!!

وہ خیالوں سے باہر آئ تو اسکی آنکھیں بھیگ رہی تھیں گرم سیال بہہ بہہ کر اسکے گال بھگو رہا تھا۔ وہ سچ ہی تو کہا کرتا تھا۔ کہ محبت کروا کے ہی رہے گا وہ اسے اور آج حقیقتا وہ اسکے دل کے مرض " محبت" کی دوا بن کر رہ گیا تھا۔ آج نجانے کتنے مہینوں بعد وہ اسکے سینے سے لگی تھی۔ اپنے ہر دکھ کے آنسو آج وہ اسکی بانہوں میں بہا آئ تھی۔ بظاہر تو دیکھنے میں یہی لگتا کہ جیسے وہ بیماری کی تکلیف سے رو رہی ہے پر درحقیقت وہ تو اس سے جدائ ، اس سے بے رخی برتنے ہر درد کو رو رہی تھی۔ 

♧♧♧♧♧♧

سب آٹھ کر تیاریوں میں لگ گئے تھے آج انہوں نے رخصتی رکھی تھی۔ اور دن کے بارہ بجے تک تمام مہمانوں نے پہنچ جانا تھا۔ 

صالح نے بلیک کمیز شلوار پہنی ہوئ تھی۔ اور غازی نے گرے ٹی شرٹ اور اسکے ساتھ بلیو جینز پہنی ہوئ تھی۔ میزان اور شایان نے ایک جیسے سفید شلوار سوٹ زیب تن کیئے ہوئے تھے۔ 

سجل نے ہلکے گلابی رنگ کی میکسی پہنی ہوئ تھی جس میں وہ آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی۔ فیہا بھی پر پل کلر کی میکسی پہنے آلائنہ کو گود میں لیئے پھر رہی تھی جس نے بلیک کلر کی فراک پہنی تھی جو نیلم نے آلائنہ کے لیئے لی تھی۔ تبسم جو ابھی سیاہ میکسی پہنے سجی سنوری باہر آئ تھی صالح کو بھی سیاہ لباس میں دیکھ سمجھ گئ تھی کہ یہ سب سجل اور نیلم نے جان بوجھ کر کیا ہے۔ صالح کی نظر تبسم پہ پڑی تو بے اختیار اسکے ہونٹوں پہ مسکراہٹ نمودار ہوئ تھی۔ نیلم اور آدم دونوں اسٹیج پہ بیٹھے بے حد خوبصورت لگ رہے تھے۔ نیلم نے شاکنگ پنک کلر کا بھاری کا مدار شرارہ پہنا ہوا تھا۔ اور آدم نے کاٹن کا سفید کلف لگا شلوار کمیز پہنا تھا۔ آج انہوں نے تقریباً تمام لوگوں کو دعوت دی تھی۔ بہت سی لڑکیاں اسٹیج پہ چڑھی نیلم سے مل رہی تھیں۔ 

تبسم تمکنت سے چلتی لوگوں سے ملنے لگی تھی۔ وہ کچھ جان پہچان والی عورتوں کے پاس آکر ان سے ملنے کھڑی ہوئ تھی ملاقات ہوئ حال چال پوچھا گیا ادھر ادھر کی باتیں چل رہی تھیں ، جب ایک عورت نے تبسم کو مخاطب کیا۔

" سنا ہے تمہاری اور صالح کی طلاق ہوگئ"۔ اس عورت نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ تبسم بھی دھیرے سے مسکرائ تھی۔ 

" نہیں ہماری طلاق نہیں ہوئ ابھی"۔ اسنے سادگی سے بتایا۔ 

" اچھا چلو اچھی بات ہے طلاق نہیں ہوئ نہیں تو اتنا بڑا داغ لے کر کہاں پھرتی اپنی بچی کو لیکر"۔ عورت نے بظاہر بڑی اداسی سلے کہا۔

" پر اگر طلاق نہیں ہوئ تو تم اپنے ابو کے گھر کیوں ہو اتنے عرصہ سے"۔ دوسری عورت نے کہا۔ 

" ہمارے بیچ ناراضگی ہے کچھ"۔ تبسم نے ادھر ادھر نظر دوڑا کر کہا۔

" اوہ۔۔ دیکھو ذرا حالانکہ تم دونوں نے بھاگ کر شادی کی تھی"۔ایک اورعورت نے تبصرہ کیا تبسم کا دماغ گھومنے لگا تھا۔ وہ ان سے معذرت کرتی ایک سائڈ پہ تنہا بیٹھ گی تھی۔ 

اور پھر اسنے تقریباً پورا فنکشن وہیں تنہا بیٹھ کر گزارا تھا۔ 

♧♧♧♧♧

غازی آدم کے پاس گیا تھا ، ابھی ابھی نیلم اور آدم کا نکاح ہوا تھا غازی نے آدم سے ملکر اسے نکاح کی مبارکباد دی اور واپس مہمانوں کیطرف بڑھا پر اچانک اسکے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں کچھ اٹکا تھا۔ غازی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سجل کا دوپٹہ اسکی گھڑی میں پھنسا تھا۔ وہ لگی اپنا دوپٹہ کھینچ رہی تھی۔ غازی محض اسے دیکھ کر رہ گیا ، اس سے پہلے کے وہ آگے بڑھ کر اسکا دوپٹہ اپنی گھڑی میں سے نکالتا ، سجل نے دوپٹہ کو اتنی زور سے کھینچا تھا ، کہ اسکا دوپٹہ پھٹ گیا تھا ، اسکے دوپٹہ کا ایک چھوٹا ٹکڑا غازی کی گھڑی میں پھنسا رہ گیا۔ 

" طریقہ نہیں ہے کوئ کام کرنے کا"۔ غازی نے دبی آواز میں کہاں۔

" بلکل بھی نہیں ہے سارے طریقہ اور سلیقہ ہم نے آپ کو جو دان کردیئے ہیں"۔ اسنے منہ بنا کر کہا۔

" جیسے کام کرنے کا طریقہ نہیں ویسے ہی تمہیں زبان چلانے کا بھی کوئ طریقہ سلیقہ نہیں"۔ غازی نے اسے سرد نگاہوں سے گھورا تھا۔ 

" آپکو ہے نا وہی کافی ہے"۔ وہ منہ بنا کر کہتی ، نیچے تبسم کے پاس چلی گئ تھی اور وہ محض سر کو نفی میں جنبش دے کر رہ گیا تھا۔ 

♧♧♧♧♧♧

فنکشن ختم ہوچکا تھا نیلم کو کل رخصت ہوجانا تھا کل پھپھو کی فیملی نے نیلم کو گاؤں لے کر نکلنا تھا۔ نیلم کا تو سوچ سوچ کے ہی برا حال ہوگیا تھا۔ کہ وہ گاؤں میں رہے گی کیسے ، وہاں کی آب و ہوا تو کبھی اسے راس ہی نا آئ تھی نجانے وہ کیا کرے گی۔ وہ گم صم سی بیڈ پہ بیٹھی تھی۔ اسے آدم کے کمرے میں لاکر بٹھایا گیا تھا۔ 

کچھ دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئ آدم دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا بیڈ تک آیا تھا وہ اسکے پاس آکر بیڈ پہ بیٹھا ہی تھا۔ کہ نیلم نے گھونگھٹ الٹ کر اسے گھورا تھا۔

" سوچنا بھی مت آدم کے میں یہاں تمہارے لیئے ایسی سجی سنوری بیٹھی ہوں۔۔!!"۔ اسنے انگلی اٹھا کر اسے دھمکایا تھا۔ 

" تو پھر کیا کسی اور نے یہاں آنا تھا جسکے انتظار میں تم انارکلی بنی گھونگھٹ ڈالے بیٹھی تھیں"۔ آدم نے جواباً اسے گھور کر کہا۔ 

" زیادہ ناں میرے ساتھ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے"۔ وہ اسے گھور کر کہتی پیچھے کو ہو کر بیٹھی تھی۔

" واہ بکواس شروع بھی خود کرتی ہو اور الزام بھی دوسروں پہ "۔ آدم نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا تھا۔

" یو ۔۔۔ جاہل آدمی تم میرے ساتھ زبردستی کروگے۔۔۔۔ میں خون پی جاؤں گی تمہارا"۔ اسکے ہاتھ پکڑنے پہ وہ بگڑی تھی۔ 

" یو نکمی عورت پہلی بات میں جاہل نہیں ایک پڑھا لکھا وکیل ہوں ، دوسری بات میں حق رکھتا ہوں تم پہ ۔۔ اور زبردستی کرنا چاہوں تو کوئ روک بھی نہیں سکتا ، تیسری بات میرا خون پینے کے لیئے ساری زندگی پڑی ہے آرام سے پیتی رہنا میرا خون اتنی بھی کیا جلدی ہے"۔ آدم نے اسکے ہاتھ پہ اپنی گرفت مزید سخت کرتے بولنا شروع کیا دوسرے ہاتھ سے اپنے جیب میں پڑا ایک باکس نکالا تھا جس میں سونے کی جدید طرز پہ بنی انگوٹھی تھی۔ انگوٹھی اسکی انگلی میں پہنا کر اسنے اپنی جیب سے ایک اور لفافہ نکال کر اسکے ہاتھ کو سیدھا کرکے اسکی ہتھیلی پہ دھرا تھا۔ اسنے نا سمجھی سے لفافے کو تکا تھا۔ 

" یہ کیا ہے۔۔؟؟؟"۔ اسنے لفافہ اپنے ہاتھ میں الٹ پلٹ کر دیکھا۔ 

" تمہارا حق مہر"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔ 

" پورا۔۔؟؟"۔ اسنے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔

" ہاں۔۔"۔ اسنے سر اثبات میں ہلایا۔ 

"مطلب پورے بیس لاکھ اتنے پتلے سے لفافہ میں الّو سمجھ رکھا ہے کیا "۔ اسنے منہ بنا کر کہا۔ 

" جاہل پلس نکمی عورت لفافہ کھول کر دیکھو چیک ہے"۔ اسنے اسے افسوس سے دیکھا تھا۔ 

وہ اپنی بے وقوفی پہ نظر چرا کر رہ گئ۔ 

" چلو اب تم جسکے لیئے سجی بیٹھی تھی ایسے پر پھیلا کر بیٹھی رہو میں تو جارہا ہوں سونے پر یہ مت سوچنا کہ میں صوفہ یا زمین پہ پڑا سڑتا رہوں گا ، میں ادھر بیڈ پہ ہی سوؤں گا"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا اور کبرڈ سے اپنا نائٹ ڈریس نکال کر واشروم میں بند ہوگیا۔ اور وہ محض زبان چڑھا کر رہ گئ۔ 

صبح کا وقت تھا ، وہ لوگ گاؤں کے لیئے بس نکلنے ہی والے تھے نیلم سب سے مل رہی تھی ، آنکھوں سے آنسو خود بخود بہہ رہے تھے۔ اپنی امی کے گلے لگی تو دل اور موم ہوگیا۔ 

" امی مجھے آپ بہت یاد آؤ گی"۔ اسنے روتے ہویے کہا۔ 

" مجھے بھی میری بچی بہت یاد آئے گی"۔ امی نے اسکے سر پہ پیار کرتے کہا۔

بھائیوں سے ملی تو رونا اور شدت سے آیا اور ابو سے ملتے وقت تو وہ پوری شدت سے سسک پڑی تھی۔ 

خیر وہ مرحلہ بھی گزرا ، اور نیلم رخصت ہوگئ وہ لوگ اپنی گاڑیوں میں کراچی سے روانہ ہوئے تھے اور خیبر پختون خواہ کے ایک چھوٹے اور غیر ترقی یافتہ گاؤں میں انکے سفر کو اختتام پذیر ہونا تھا۔ پھپھو اور پھپھو کے ساتھ آئ گاؤں سے چند عورتیں الگ گاڑی میں روانہ ہوئ تھیں۔ آدم اور نیلم الگ گاڑی میں نکلے تھے ، کراچی سے نکلتے ہی حیدرآباد شروع ہوا تو جگہ جگہ کیلے کے کھیت آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے لگے ، وہ آدم کو مکمل طور پہ نظر انداز کرتی باہر کے نظاروں میں گم تھی، دوپہر کے دو بجے تک وہ لوگ سندھ کے بلکل اختتام پہ تھے ، کھانے کے لیئے آدم نے گاڑی روکی ، کوئ اچھا ہوٹل نا دکھا پورے راستے تو اسنے ایک ڈھابہ میں ہی کھانا کھانا پسند کیا۔ نیلم بھی اسکے ساتھ گاڑی سے اتری تھی۔ تیز ہوائیں چل رہی تھی ، دھوپ بھی زوروں کی نکلی ہوئ تھی۔ نیلم کی آنکھیں چندھیا سی گئ تھیں تپتی دھوپ میں آدم اسکے برابر آکر رکا تھا۔ 

" چلو کھانا کھائیں بھوک لگی ہے بہت"۔ اسنے آگے بڑھتے کہا۔ نیلم بھی خاموشی سے اسکے پیچھے چل دی تھی بھوک تو اسے بھی شدید لگی تھی۔ وہ لوگ ڈھابہ کے برآمدے میں لگی چارپائیوں میں سے قدرے کونے والی چارپائی پہ جاکر بیٹھ گئے۔

بیرا انکے پاس آیا تھا۔

" جی کہو۔۔۔ کیا کھاؤ گے آپ لوگ کیا لائیں آپکے لیئے"۔بیرے نے آتے ہی کہا۔ اور نیلم کو بغور دیکھا۔

" آ۔۔۔ ۔۔ کیا کیا ہے مینیو میں؟؟"۔ آدم نے اسے گھور کر پوچھا۔

" مینو ( مینیو) میں ہے ، دال، ماش دال، چاول ، اور روٹی اور مرغی کا سالن"۔ اسنے کسی روٹو طوطے کی طرح بتایا۔

" بس ۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔۔!!"۔ نیلم کے منہ سے بے اختیار پھسلا تھا۔ 

" کیوں تمہیں کیا سو لوگوں کا غلہ نگلنا ہے"۔ آدم نے اب کے اسے بھی گھورا تھا۔

" نہیں ۔۔۔ پر کچھ اچھا بھی تو ہو ناں"۔ نیلم نے منہ بنا کر کہا۔ 

" جو یہاں مل رہا ہے ناں اسی کو صبر شکر سے کھا لو"۔ آدم نے سنجیدگی سے کہا اور اپنا رخ بیرے کی سمت کیا۔ 

" ایک ماش دال لے آؤ اور مرغی کا سالن اور ساتھ میں تین روٹیاں اور ایک پلیٹ چاول لے آؤ"۔ آدم نے اسے آڈر دیا وہ آڈر لے کر چلا گیا۔ تو آدم نے اپنا رخ نیلم کی طرف کیا جو منہ پھلائے بیٹھی تھی ، اسکے چادر سر سے ڈھلک کر کندھوں پہ آگئ تھی۔ اسکے سیاہ بالوں کی لٹیں ہوا کے بہاؤ پہ اڑنے لگی تھیں۔ آدم نے آگے کو ہوکر اسکا سر سے سرکا آنچل اسکے سر پہ درست کیا تھا۔ اسنے خفگی سے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا۔ آدم نے گہری سانس خارج کی تھی اسکی حرکت پہ۔ 

" ایسے مت بی ہیو کرو ، جیسے لوگ لو میریجز میں کرتے ہیں"۔ آدم نے سادگی سے کہتے اپنے پیر چارپائی پہ لمبے کیئے تھے۔ اور چارپائی کے سراہنے پہ سر رکھے آڑا ہوکر لیٹا تھا۔ نیلم اسکے گھٹنوں کے پاس بیٹھی تھی۔ اسکی بات پر اسنے مزید خفگی سے تکا تھا۔

" خواب ہی رہنے ہیں یہ تو تمہارے "۔ نیلم نے منہ بنا کر کہا۔ 

آدم اسی پوزیشن میں لیٹا سنجیدگی سے اسے تکتا رہا نیلم نے نگاہیں پھیر لیں ، پر کئ لمحے بیت جانے کے بعد بھی اسکی نظروں کی تپش کم نا ہوئ تو نیلم نے اسے چڑ کر تکا۔

"کیا مسئلہ ہے"۔ اسنے اسکے پیر پہ تھپٹر رسید کرکے کہا۔ 

"مسئلہ تو کوئ نہیں بس دیکھ رہا تھا ، کہ تمہیں اتنا نخرہ کس بات کا ہے"۔ اسنے پیر جھلاتے کہا۔ 

" پتہ چل گیا ناں اب مجھے ندیدوں کی طرح تاڑنا بند کرو"۔ نیلم نے تپ کر کہا۔

اس سے پہلے کے آدم کچھ جواباً کہتا ، بیرا کھانا لے آیا تھا ، آدم آٹھ کر سیدھا بیٹھا بیرے نے جلدی جلدی کھانا ٹرے میں سے نکال کر انکے سامنے رکھا اور اپنی ٹرے لے کر واپس نکل پڑا۔ 

" چلو ہاتھ دھو لو"۔ آدم نے جگ ہاتھ میں پکڑ کر کچی زمین کی طرف ہلکا سا انڈیل کر اپنے ہاتھ دھوئے پھر نیلم کو کہا۔ اسنے بھی منہ بناتے اپنے ہاتھ آگے کیئے تھے۔ 

ہاتھ دھو کر دونوں کھانا کھانے لگے تھے جب نیلم نے دو نوالے کھانا کھا کر ہاتھ پیچھے کر لیئے۔ آدم نے اسے سنجیدگی سے تکا، اور دوبارہ اپنا کھانا کھانے میں مشغول ہوگیا۔ کھانا کھا کر اسنے بیرے کو پیسے ادا کیئے اور نیلم کو اٹھنے کا اشارہ کیا وہ دونوں ساتھ ساتھ گاڑی تک گئے جب نیلم گاڑی میں بیٹھ گئ تو آدم نے اسے کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا۔ ہوٹل کے برابر میں ہی ایک دکان تھی۔ آدم اس دکان تک گیا جب وہ واپس آیا اور شاپر اسنے نیلم کو تھمایا تو نیلم کا چہرہ خوشی سے گلنار ہوگیا تھا۔ اس شاپر میں لیس ، کر کرے ، چیٹوز ، اور ایک کولڈرنک تھی۔ کولڈرنک کو تو اسنے سائڈ پہ کیا اور لیس کا پیکٹ کھول کر فوراً کھانا شروع کردیا تھا کیونکہ اسکا سچ میں بھوک کے مارے برا حال ہورہا تھا پر ہوٹل کا کھانا اس سے بلکل نہیں کھایا جا رہا تھا۔آدم نے ایک نظر اسے دیکھا اور دوبارہ اپنا فوکس ڈرائیونگ کی طرف کر دیا۔ 

♧♧♧♧♧

وہ سب لوگ بھی بس فارم ہاؤس سے نکلنے کی تیاریوں میں تھے جب تبسم کی ساس تبسم کے پاس آئ ، 

" سامان پیک کر لیا اپنا؟"۔ انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔

" وہ جو آلائنہ کی مالش کر رہی تھی انہیں دیکھ کر مسکرائ۔

" جی کر لی ہے"۔ 

" اچھا ۔۔۔۔ تو پھر تم۔۔۔ واپس کب آؤ گی گھر۔۔؟؟"۔ انہوں نے نرمی سے پوچھا۔ 

اسنے ایک نظر انہیں دیکھا۔ 

" کبھی نہیں"۔ اسکے اسقدر سنجیدگی سے کہنے پہ انہوں نے اسے جانچتی نظروں سے تکا۔

" ایسا مت کرو بے شک صالح بہت برا ہو پر وہ تمہارے ساتھ تو اچھا تھا ناں وہ تمہاری تو عزت اور قدر کرتا تھا ناں۔۔"۔ اسکی ساس نے نرمی سے کہا۔ 

" نہیں تائ امی۔۔۔ وہ نا ہی میری عزت کرتا تھا نا ہی قدر اگر کرتا تو میں آج اسکے ساتھ ہوتی"۔ اسنے تلخی سے کہا۔

" تبسم اب اپنے بارے میں مت سوچو اپنی بچی کے بارے میں سوچو ، اسے باپ کی ضرورت ہے "۔ انہوں نے ایک اور کوشش کی۔

" میں کیوں نا سوچوں اپنے بارے میں تائ امی میں۔۔۔۔۔ پرسکون رہوں گی میں خوش رہوں گی تو اپنی بچی کی تربیت بھی اچھے سے کرسکوں گی"۔ اسنے سنجیدگی سے کہتے آلائنہ کو کپڑے پہنانا شروع کیئے۔

" ایسا نہیں ہوتا تبسم ، بچوں کو ہمیشہ اپنے ماں اور باپ دونوں کی ضرورت پڑتی ہے"۔ انہوں نے آلائنہ کے گال پہ ہاتھ پھیر کر کہا۔

" پلیز آپ اگر صالح کی وکیل بن کر آئ ہیں تو مجھے انکے حق میں کچھ نہیں سننا"۔ اسنے چڑ کر کہا تھا۔ 

" میں صالح کی وکیل نہیں بن کر آئ تبسم میں تم دونوں کی خیر خواہ بن کر آئ ہوں"۔ انہوں نے اسکا ہاتھ تھاما۔

" تائ۔۔۔امی۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔یہ میرے بس میں نہیں"۔ تبسم نے انکے ہاتھ پہ دوسرا ہاتھ رکھ کر کہا۔

" ٹھیک ہے تمہاری مرضی پر میری بات کے بارے میں سوچنا ضرور"۔ انہوں نے آلائنہ کو گود میں لے کر کہا۔ وہ محض سر ہلا کر رہ گئ۔ 

♧♧♧♧♧♧♧

وہ سب لوگ اپنے گھروں کو پہنچ گئے تھے ، انکی وہی نارمل روٹین واپس اسٹارٹ ہوچکی تھی۔ رات کا وقت تھا تبسم کچن میں لگی کھانا بنارہی تھی۔ سجل فیہا اور آلائنہ لاؤنج میں بیٹھی تھیں ، تبسم کام کرتے کرتے ماضی کے گہرے خیالوں میں ڈوب گئ تھی۔ 

" اٹھو "۔ صالح نے کمرے میں گھستے ہی کہا تھا۔ وہ جو بیٹھی کسی بھی طرح سے یہاں سے نکلنے کے چکروں میں تھی صالح کو دیکھ کر اٹھی تھی۔

" چلو نکلیں یہاں سے چاچو کو پتہ چل گیا ہے کہ ہم نے تمہیں یہاں رکھا ہے وہ کسی بھی وقت یہاں پہنچتے ہونگے"۔ صالح نے الماری کھول کر کچھ ضروری سامان ایک سفری بیگ میں ڈالا اور اسکا ہاتھ تھامتا اسے لیکر باہر کو روانہ ہوا۔ وہ جو حیرت سے کھڑی تھی اسکے ساتھ کھینچی چلی گئ ، جلدی سے ہوش میں آتے اسنے صالح کی مضبوط گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑوایا تھا۔

" میں کہیں نہیں جاؤں گی تمہارے ساتھ ، دور رہو میرے پاپا ابھی آئیں گے اور مجھے یہاں سے لے جائیں گے اور تم دیکھنا وہ تمہارا کیا حال کریں گے"۔ تبسم نے خونخوار ہوتے لہجہ میں کہا تھا۔ صالح نے ایک آئبرو آچکا کر اسے دیکھے اسکی بڑھتی ہمت اور خود سر لہجہ دیکھ وہ اپنی جان لیوا مسکراہٹ لیئے اسکی آنکھوں میں جھانک کر بڑے ہی ٹھنڈے لہجہ میں گویا ہوا۔ 

" میری جان میں جانتا تھا تم یہ والے ڈرامے ضرور کروگی اسی لیئے پہلے سے پوری تیاری کرکے بیٹھا ہوں ، اسنے کہتے ہی تبسم کے پیچھے کھڑی کسی ملازمہ کو اشارہ کیا تھا۔ تبسم ابھی کچھ کہتی اس سے پہلے ہی دو عورتوں نے اسکے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے اور ایک نے آکر منہ پہ پٹی باندھ دی تاکہ وہ بول نا سکے ، تبسم جو چلانا چاہتی تھی اسکی چیخ و پکار کرکے خود کو بچانے کی خواہش ۔۔۔ محض اک خواہش ہی رہی۔ 

" اب لگ رہی ہو تم میرے ساتھ چلنے کو تیار ۔۔۔ لے کر اؤ اسے"۔ اسنے کمینے پن سے کہتے ان عورتوں کو بھی مخاطب کیا۔ 

کچھ ہی لمحوں بعد وہ اسکی جیپ کی فرنٹ سیٹ پہ اسکے ساتھ بیٹھی تھی ، اور وہ جیپ کا رخ بلوچستان کی سمت کرچکا تھا ، اسکا فارم ہاؤس ویسے بھی ہب ڈیم کے ایریا کے بعد بنا تھا ، یہاں سے بلوچستان پہنچنا منٹوں کا کھیل تھا۔ 

تقریبا کوئ بیس منٹ بعد تبسم نے دیکھا کہ چاروں طرف کیچو کے باغ ہیں۔ ہریالی ہی ہریالی ہے، تبسم کے کھلے بال ہوا کی دوش پہ اڑنے لگے تھے اور صالح کی پوری توجہ یقیناً اپنی منزل کی طرف تھی۔ 

♧♧♧♧♧♧♧

نیلم گاؤں پہنچی اور لوگوں نے آکر اسے چاروں طرف سے گھیر لیا ، آدھا راستہ تو اسکا بڑے آرام و سکون سے گزرا تھا پر اسکے بعد اسکی حالت ناساز ہونے لگی تھی آدھا راستہ اسنے الٹیاں کرتے گزارہ تھا۔ اب اسکی حالت ایسی ہو رہی تھی کے وہ بلکل نڈھال ہو رہی تھی خیر پھپھو نے یہ سب زیادہ دیر نا چلنے دیا اور سب کو کہا کہ ابھی نیلم نے آرام کرنا ہے ، جب سب عورتیں نیلم کے پاس سے ہٹیں اور ادھر ادھر ہوکر بیٹھیں تو پھپھو نیلم کو لیکر کھلے میدان سے اس سمت لائ جہاں مٹی کے بڑے بڑے کمرے موجود تھے۔ اسکے کمرے میں جب اسے پھپھو لائ تو وہ ہونق بنی کمرے کو دیکھ رہی تھی۔ بے شک کمرے میں فرنیچر بہت اعلی تھا کمرہ کچا ہونے کے باوجود بھی پھپھو نے کمرے کے کچی مٹی کے فرش پہ مہنگی دبیز کالین بچھائ تھی پر بیڈ کے ارد گرد ارٹیفیشل پھولوں سے ہوئ سجاوٹ نے اسکا سر چکرا کر رکھ دیا تھا۔ سیج ایسے سجائ گئ تھی کے اگر کوئ بندہ بیڈ پہ بیٹھ جاتا ناں تو اسنے دکھنا نہیں تھا۔ نیلم تھوک نگلتے کمرے میں پڑے صوفہ پہ جا ٹکی تھی۔ 

" ارے ادھر کیوں بیٹھ رہی ہے آ میرا بیٹا ادھر آآ لیٹ جا پلنگ پہ بس تیرے نہانے کا بندوبست کر رہے ہیں پھر نہا دھو کر ٹھیک سے ایک دو گھنٹے کے لیئے سو جانا"۔ پھپھو نے شفقت سے کہا۔

" نہیں۔۔۔ پھپھو میں یہاں ٹھیک ہوں"۔ اسنے تھکے ہوئے لہجہ میں کہا۔ 

کمرے میں گرمی نہیں تھی ، گاؤں میں ویسے بھی پہاڑی علاقے تھا تو اچھا موسم تھا پر پھپھو نے اسپیشیلی اسکے لیئے سولر پینلز کا پلانٹ لگوا کر پورے گھر میں بجلی کا بندوبست کیا تھا۔ ابھی بھی دن کا ٹائم تھا پھر بھی کمرے میں سفید دودھیا روشنی پھیلی ہوئ تھی۔ کمرے میں موجود کچی مٹی کی خوشبو سے اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ اور پھر سامنے سجی سیج۔۔۔۔ !!!

" ارے اچھا چل آرام کر تو میں باہر سے کسی کو بھیجتی ہوں کہ تیرے ساتھ کوئ بیٹھا رہے ، نئ حویلی دلہن کو اکیلا نہیں چھوڑتے ، سایہ ہوجاتا ہے اکثر دلہنوں پہ"۔ پھپھو نے کمرے سے نکلتے نکلتے کہا تھا۔ نیلم کا حلق سوکھا تھا۔۔۔ 

" پھپھو ۔۔۔ تو کیا یہاں جن ون بھی ہیں ؟؟"۔ اسنے سہمی ہوئ نظروں سے پھپھو کو تکا۔ 

" ہاں بیٹا گاؤں ہے یہاں اکثر ہوتہ ہے ہوائ مخلوق"۔ پھپھو نے کمرے سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔ 

" پھپھو ڈرا کیوں رہی ہو "۔ اسنے سہم کر کہا۔

" ارے پگلی ڈرنے کی کوئ بات نہیں کچھ نہیں کہتے کسی کو"۔ پھپھو نے ناک سے مکھی اڑائی۔ 

نیلم کا تو حال ہی برا ہونے لگا تھا۔ 

پھپھو جو باہر جھانک رہی تھیں یکدم آدم کو کمرے کی سمت آتے دیکھا تو کمرے سے باہر نکل گئیں۔ 

وہ جو پھپھو کو کمرے سے نکلتے دیکھا ، پھپھو کے پیچھے بھاگی تھی کمرے میں اندر آتے آدم سے بری طرح ٹکرائ تھی۔ اس سے پہلے کے وہ آدم سے ٹکرا کر زمین بوس ہوتی لمحوں میں آدم نے اسے اپنے بانہوں میں بھر کر گرنے سے بچایا تھا۔

" کیا ہوا بھاگی کدھر جا رہی ہو؟"۔ آدم نے اسے خود سے دور کرکے پوچھا۔ 

" وہ۔۔۔ میں تو روم کا دروازہ بند کرنے آئ تھی۔۔۔ ایک دم سے تم آگئے اگے"۔ اسنے گہری سانس لے کر کہا۔

" اچھا سہی اب ہٹو آگے سے مجھے بھی سونا ہے نیند آرہی ہے۔۔۔ پورا راستہ ڈرائیو کرکے آیا ہوں تھکن سے بڑا حال ہے"۔ آدم نے اسے اپنے سامنے سے ہٹنے کو کہا۔ تو وہ ایکدم اچھل کر سائڈ پہ ہوئ تھی آدم نے کمرے کا دروازہ بند کیا پر اسکی بھی نظر جیسے ہی بیڈ پہ پڑی اسے بھی گھبراہٹ ہونے لگی۔

" یہ کیا مصیبت ہے"۔ آدم نے ان کاغذ کے پھولوں کی لڑیوں کو ہاتھ میں تھام کر دیکھا۔ 

" وہی تو۔۔"۔ نیلم بھی جھٹ اسکے برابر میں آکر کھڑی ہوئ تھی۔

" میں۔۔ بھی وہی کہہ رہی ہوں کہ یہ کیا ہے اسکے اندر اگر ہم میں سے ایک بھی گھسا ناں تو اسنے زندہ نہیں نکلنا"۔ اسنے آدم کو دیکھ کر کہا۔ 

" بات تو ٹھیک ہی ہے"۔ آدم نے لڑیوں کو آگے پیچھے کرکے کہا۔

" ہم ایک کام کرتے ہیں یہ سب اتار دیتے ہیں"۔ نیلم نے جھٹ کہا۔

" ہاں میں کسی کو بلا کر لاتا ہوں باہر سے "۔ آدم نے جیسے ہی باہر جانے کی بات کی نیلم کی جان ہتھیلی پہ آگئ سوچ کر ہی کہ وہ یہاں اکیلی بیٹھے گی اسنے آدم کا ہاتھ اچانک سے پکڑ کر کھینچا دونوں کا توازن بگڑا اور دنوں سیدھا سیج سمیت بیڈ پہ گرے تھے۔ آدم بیڈ پہ چت پڑا تھا اور نیلم صاحبہ اسکے سینے پہ پڑی مسکین سی شکل بنا کر آدم کو دیکھ رہی تھی۔ 

" قسم سے میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا"۔ نیلم نے مسکینیت سے کہا۔

" دکھ رہا ہے وہ تو مجھے"۔ آدم نے اسے گھورا تھا۔ سیج پوری ان پہ گری پڑی تھی۔ 

" اب آٹھ بھی جاؤ"۔ آدم نے اسے گھرکا۔

وہ منہ بنا کر اٹھنے لگی تھی کہ یکدم واپس آدم کے اوپر گری تھی۔ 

" ہلنا مت اب"۔ آدم نے اسے کندھوں سے تھام کر کہا۔

" یہ کیا بات ہوئ پہلے کہتے ہو اٹھو پھر کہتے ہو ہلو مت ہلوں گی نہیں تو اٹھوں گی کیسے۔۔!!"۔ اسنے چڑ کر کہا تھا۔

" بلکل چپ"۔ آدم نے اسے گھور کر کہا اور پھولوں کی لڑیوں کو ارد گرد سے ہٹانے لگا جیسے ہی پھولوں کی لڑیاں ادھر ادھر ہوئ ، نیلم اس سے فوراً دور ہوئ۔ 

بیڈ سے اتر کر کھڑے ہوتے نیلم نے کمر پہ دونوں ہاتھ رکھ کر کہا۔ 

" لو مسئلہ ہی مک گیا"۔ 

آدم جو ابھی آٹھ کہ بیٹھا تھا ، اسے محض گھور کر رہ گیا۔ 

" گھورو مت یوں مجھے نظر لگ جائے گی"۔ نیلم نے منہ بنا کر کہا۔

" ہاں بڑی آئ ناں تم ملکہ حسن"۔ آدم نے سر جھٹکا۔

" جیلس آدمی"۔ نیلم نے زبان چڑھا کر کہا۔ 

"میں اور تم سے جیلس"۔ آدم نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا۔

" ہاں تو اب میں اتنی خوبصورت گوری چٹی گول مٹول سی پیاری سی لڑکی ہوں اور تم زکوٹا جن"۔ اسنے ہاتھ جھلا کر کہا۔

" ہاں دکھ رہا ہے۔۔۔ بڑی آئ حسین و جمیل گول مٹول سی لڑکی ۔۔۔ خوش فہمیوں سے نکل آؤ پھٹا ہوا ڈھول ہو تم بی بی"۔ آدم نے اسے ہاتھ سے پرے کیا اور کمرے کے دروازے کی طرف دوبارہ رخ کیا۔ 

اسے کچھ سمجھ نہیں آئ تو اسے روکنے کے لیئے وہ فل سپیڈ میں شروع ہوئ۔ 

" آدم رک جاؤ باہر نا جاؤ۔۔۔"۔ 

آدم نے دروازے کے پٹ پہ ہاتھ رکھ کر اسے ایک آئبرو اٹھا کر تکا۔

" کیوں۔۔۔؟؟"۔ سنجیدگی سے پوچھا گیا۔

" وہ۔۔۔۔ وہ ۔۔ پھپھو کہہ رہی تھیں ، کہ نئ حویلی دلہن کو اکیلے نہیں چھوڑتے سایہ ہوجاتا ہے"۔ اسنے مسکین صورت بنا کر کہا۔

" تم پہ نہیں ہوگا بے فکر رہو"۔ آدم نے پہلے سے بھی زیادہ سنجیدگی سے کہا۔ 

" کیوں نہیں ہوگا۔۔۔؟؟"۔ اسنے چڑ کر کہا۔

" کیونکہ تم خود ہی چڑیل ہو تو کوئ جن یا چڑیل تم پہ سایہ کرکے کریں گے بھی تو آخر کریں گے کیا۔۔!!"۔ آدم نے کمرے کا دروازہ کھول کر کہا۔ اور بنا مزید اسکی سنے کمرے سے نکل گیا اور وہ محض اسے گھور کر رہ گئ۔ پورے کمرے کو نگاہیں گھما کر تکا۔ خوف سے اسکا دل کانپنے لگا تھا۔ کلمہ پڑھتے وہ واپس صوفہ پہ جاکر بیٹھی تھی۔ 

♧♧♧♧♧♧♧

سجل ابھی اپنے کالج سے نکلی تھی۔ کالج سے نکل کر وہ روڈ کراس کرتی منہ میں چوینگم گم ڈالے وہ منہ چلاتی فٹ پاتھ پہ چل رہی تھی۔ تپتی دھوپ اسکے چہرے پہ پڑھ رہی تھی پر دھوپ اور ارد گرد کے ماحول سے انجان کانوں میں ائیر پوڈس لگائے گانے سنتے ہوئے اپنی ہی دنیا میں گم چلتی جا رہی تھی۔ 

کہ یکدم کسی نے پیچھے سے اسکا ہاتھ کھینچا تھا۔ سجل طیش کے عالم میں مڑی تھی اور تھامنے والے کے پیٹ میں بہت زور سے مکا مارا تھا۔ غازی جو اسکو آوازیں دیتا دور سے بلا رہا تھا وہ رک ہی نہیں رہی تھی اور اب ہاتھ تھام کر روکنے پہ غازی کی آنکھیں ابل کر باہر آئ تھیں ، وہ کرآہ کر رہ گیا تھا۔ 

غازی کو دیکھ سجل نے یکدم کانوں سے ائیر پوڈس نکالے تھے۔ اور اپنے سر پہ ہاتھ مارتے غازی کو عاجزی سے دیکھا تھا۔

" یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔۔"۔ غازی نے تکلیف کے باعث بہ مشکل کہا۔ 

" سوری ۔۔۔ ایم ۔۔ ایم ریئلی سوری غازی بھیا ۔۔۔ "۔ اسنے بوکھلائے لہجہ میں کہا۔

" کب سے آوازیں دے رہا تھا تمہیں پیچھے سے پر تم نا جانے کونسا نشہ کرکے چلی جارہی ہو رکنے کا تو تم نام ہی نہیں لے رہی"۔ اسنے بھڑک کر کہا۔

" وہ ائیر پوڈس لگے تھے نا میرے کانوں میں"۔ اسنے اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔

" راستے میں پیدل چلتے کون ائیر پوڈس لگا کر چلتا ہے"۔ اسنے قدرے برہم لہجہ میں کہا۔

" میں۔۔۔"۔ اسنے منہ بنا کر کہا۔ 

" چلو تمہیں گھر تک چھوڑ دوں"۔ غازی نے مڑتے ہوئے کہا۔ 

" ارے نہیں غازی بھیا میں چلی جاؤں گی ، روز جاتی ہوں پہنچ جاؤں گی میں گھر آرام سے"۔ اسنے جھٹ کہا۔ 

غازی نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ، جو سفید کالج کے یونیفارم میں چٹیا بنائے کھڑی تھی، چٹیا سے نکلے بال ہوا کی دوش پہ اڑ رہے تھے۔ 

" مجھے پتہ ہے چلی جاؤ گی پر آؤ میں چھوڑ دوں"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔ اور اپنی گاڑی کی سمت بڑھا۔ وہ بھی لاچار سی اسکے پیچھے ہی چل پڑی فٹ ہاتھ کے بلکل پاس ہی اسکی کار کھڑی تھی اور کار کی فرنٹ سیٹ پہ ایک حسین دوشیزہ بیٹھی تھی۔ سجل نے غازی کو دیکھ کر ایک شریر سی اسمائل پاس کی۔ 

غازی اسکو نظر انداز کرتا ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ سجل بھی خاموشی سے بیک سیٹ پہ بیٹھی تھی۔ اور کھسک کر بیچ میں آئ تھی ، اور فرنٹ سیٹ کے بیچ موجود سپیس میں سر گھسیڑ کر بیٹھی تھی۔ 

" ہیلو میں سجل غازی بھیا کی کزن "۔ اسنے چہک کر اپنا ہاتھ اس لڑکی کی سمت کرکے کہا۔ وہ لڑکی جو کسی مجسمے کی طرح بیٹھی تھی سجل کا بڑھا ہوا ہاتھ نزاکت سے تھاما تھا اور بلکل چنی سی اسمائل پاس کرکے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی۔ سجل کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اتنی نخریلی لڑکی تھی۔ وہ منہ پھلا کر پیچھے ہوکر بیٹھ گئ اور کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں آپس میں بات کرنے لگے تھے۔ 

" غازی میں شاید کل آپ سے نا مل سکوں"۔ اسنے غازی کو دیکھ کر نرمی سے کہا۔

" کیوں۔۔۔ ایسا کوئ سین نہیں ہورہا"۔ غازی نے اسے گھور کر پوچھا ، سجل نے جلتی آنکھیوں سمیٹ غازی کو گھورا تھا۔ 

" پر میں کل کچھ مصروف ہوں غازی میری کچھ اہم میٹینگز ہیں"۔ اسنے غازی کے اسٹیئرنگ پہ رکھے مضبوط بازو پہ اپنا نازک مر مریں ہاتھ رکھا تھا۔ 

سجل نے تنگ آکر اپنے کانوں میں واپس ائیر پوڈس ٹھونسے تھے۔ اور آنکھیں موند گئ تھی۔ غازی نے فرنٹ مرر سے اسے دیکھا اور دوبارہ ڈرائیونگ میں مشغول ہوگیا۔

♧♧♧♧♧♧

تبسم بیڈ پہ لیٹی آلائنہ پہ جھکی اس سے باتیں کر رہی تھی اور وہ اپنی ماں کی باتوں کے جواب میں غوں غاں کی آوازیں نکال رہی تھی۔ اور کبھی دونوں ہاتھ پیر اٹھا لیتی۔ 

" میرا بچہ مما کی جان مما کا بے بی۔۔۔ کتنا پیارا بیٹا ہے ناں مما کا"۔ وہ اسکے گالوں پہ پیار کر رہی تھی اور کبھی اسکا پیٹ ہلکا سا گد گدا دیتی۔ 

" مما کا ڈارلنگ ہے ناں۔۔۔ مما کا چھوٹا شا بچہ"۔ تبسم نے آلائنہ کو گود میں اٹھا کر خود میں بھینچا تھا۔ 

ابھی وہ آلائنہ کے ساتھ لگی کھیل رہی تھی جب اسکا موبائل بجا۔ اسنے آلائنہ کو پیار کرکے سائڈ ٹیبل پہ پڑا موبائل اٹھا کر کان سے لگایا۔ 

" ہیلو ۔۔۔ اسلام و علیکم ۔۔"۔ تبسم نے موبائل کان سے لگا کر کہا۔ 

" وعلیکم اسلام ۔۔۔ آلائنہ کی یاد آرہی ہے مجھے میں لینے آرہا ہوں اسے"۔ موبائل سے نکلتی صالح کی آواز اسکے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھا گئ تھی۔ 

" نہیں ابھی پرسوں ہی تو سب اپنے اپنے گھروں کو گئے ہیں ، اتنی جلدی یاد آنے کا کوئ جواز ہی نہیں بنتا"۔ تبسم نے سنجیدگی سے کہا۔

" کیوں نہیں بنتا میری بیٹی ہے مجھے یاد آرہی ہے یہ کیا بات ہوئ کوئ جواز نہیں بنتا۔۔۔!!"۔ صالح چڑا تھا۔

" دیکھیں آلائنہ کی طبیعت کچھ بہتر نہیں ہے "۔تبسم نے گہری سانس لے کر کہا۔ 

" مجھے نہیں پتہ میں آرہا ہوں"۔ اسنے دوٹوک لہجہ میں کہتے کال کاٹ دی اور وہ محض موبائل کی روشن اسکرین کو گھورتی رہ گئ تھی۔ 

جیسا کہ اسنے کہا تھا۔ ویسا ہی ہوا کچھ دیر بعد وہ حاظر تھا باہر کھڑا گاڑی کے ہارن بجا رہا تھا۔ تبسم چڑ کر باہر نکلی تھی۔ 

" مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟"۔ تبسم نے گھر سے باہر نکل کر پوچھا۔ 

" آلائنہ۔۔"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔

" اسکی طبیعت کچھ بہتر نہیں ہے صالح اسے آپ آج رہنے دیں بھلے اگلے ہفتے دو بار ساتھ لے جائیے گا"۔ اسنے رساں سے کہا۔ 

" میں نے کہا آلائنہ کو لے کر آؤ"۔ صالح اب بھی اپنی ضد پہ آڑا تھا۔ 

تبسم افسوس سے اسے تکتی آنر گئ تھی اور کوئ پندرہ منٹ بعد آلائنہ کو اسے لاکر دیا تھا۔ 

الائنہ کو گود میں لیتے ہی صالح مسکرایا تھا۔ 

" پاپا کی جان "۔ اسے خود میں بھینچتا وہ محبت سے گویا ہوا تھا۔ 

نجانے کیوں تبسم کی آنکھیں بھیگی تھیں ، وہ اندر واپس جانے کو مڑی تھی، اور صالح گاڑی اسٹارٹ کرتا نکل گیا تھا۔

♧♧♧♧♧♧♧

وہ نجانے کس جنگل میں اسے اٹھا لے آیا تھا۔ یہاں لاکر اسنے اسے کھول دیا تھا۔ وہ ایک درخت کے پاس نڈھال سی بیٹھی تھی کہ اچانک سے تیز بارش شروع ہوگئ تبسم مکمل طور پہ بارش میں بھیگ چکی تھی۔ بھیگ تو صالح بھی گیا تھا پر تبسم نڈھال سی پڑی تھی اسکے ہونٹ جامنی ہونے لگے تھے صالح اسکے پاس گیا تھا۔ 

" تبسم۔۔ کیا ہوا"۔ صالح نے اسکے گال پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔

" تبسم نے مندی مندی آنکھوں سے اسے تکا اور پھر آنکھیں بند کرگئ۔ تبسم کا وجود ہولے ہولے ٹھنڈ سے کانپنے لگا تھا۔ صالح نے اسے اپنی بانہوں میں بھرا تھا۔ وہ اسے لیئے کسی خشک مقام تک پہنچنا چاہتا تھا پر چاروں طرف ہی بارش خوب برسی تھی۔ صالح نے ایک بڑے درخت کے پاس اسے بٹھایا تھا۔ صالح اس سے دور ہونے لگا تو تبسم نے اسکے جیکٹ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ اسکا پورا وجود بھیگا ہوا تھا۔ اسکا بھیگا لباس اسکے جسم سے چپکا اسکے نشیب و فراز عیاں کر رہا تھا۔ صالح نے نگاہ چرا کر اس سے دور ہونا چاہا پر گھٹنے کے نیچے پھتر آنے سے وہ اسپہ دوبارہ گرا تھا۔ صالح اسکے حسین مکھڑے کو نجانے کتنے ہی لمحہ تکتا رہا اور بے ساختہ اسکے ہونٹوں کے اوپر موجود تل پہ اسنے اپنے لب رکھے تھے۔ اسکی انگلیاں دھیرے دھیرے تبسم کے پورے وجود پہ رینگنے لگی تھیں، تبسم نے بند ہوتی آنکھوں کو بہ مشکل کھولا ، صالح نے جھک کر اسکی آنکھوں پہ اپنے تشنہ لب دھرے تھے۔ کچھ بولنے کی چاہ میں تبسم کے لب پھڑپھڑانے تھے ، صالح نے اسکے بھیگے کپکپاتے ہونٹوں پہ اپنا انگوٹھا پھیرا تھا۔ اسکے گالوں پہ بوسہ دیتے صالح اسکے لبوں پہ جھکا اسکے لبوں کا جام پینے لگا تھا۔ اسکے لبوں سے خود کو خوب سراب کرکے وہ اسکی گردن پہ جھکا تھا۔ اپنے دانتوں سے وہ اسکی گردن پہ جگہ جگہ اپنے اور اسکے پہلے ملن کے ثبوت چھوڑ گیا تھا۔ اسکی سفید کرتی کی زپ کھول کر وہ اسکی کمر پہ ہاتھ پھیرتے مدہوش ہونے لگا تھا۔ لمحے سرکتے گئے اور وہ ان سرکتے لمحوں کے سنگ اسکی اور اپنی جان ایک کر چکا تھا۔

صبح کا سورج درختوں کے بیچ میں سے چھن کر اپنی کرنے انکے چہرے پہ ڈال رہا تھا۔ تبسم جو صالح کے برہنہ سینے سے لگی پڑی تھی کل رات کے تمام منظر بند آنکھوں کے پردے پہ گھومے تو کرنٹ کھا کر اٹھی تھی صالح کا برہنہ وجود دیکھ وہ اس سے دور ہوئ تھی۔ اپنے لباس کی بے ترتیبی دیکھ اسکا دل سرک گیا تھا۔ یعنی جو سب کچھ اسے رات میں خواب لگ رہا تھا وہ ایک حقیقت تھا۔

وہ رونے لگی تھی اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ 

صالح جو گہری نیند میں غرق تھا ، تبسم کے رونے کی آواز سن کر اٹھا تھا۔ 

تبسم کو روتے دیکھ وہ یکدم اسکے پاس آیا تھا۔ 

" کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے"۔ صالح نے اسے پورے حق سے بے باک انداز میں تھاما تھا۔ وہ اسے خود سے دور جھٹکتی مزید شدت سے روئ تھی۔ 

" دور رہو مجھ سے تم نے میرے ساتھ کل رات بہت غلط کیا ہے گندے ہو تم"۔ اسنے سسکتے ہوئے کہا۔ 

" کیا کیا ہے میں۔۔۔ نے۔۔؟؟"۔ اسنے بیزاریت سے کہا۔ 

" تم نے گناہ کیا ہے"۔ وہ سسکی۔

" دماغ خراب ہوگیا ہے کونسا گناہ بیوی ہو میری میرے نکاح میں ہو۔۔۔۔ اب ایک آنسو نہ نکلے تمہاری آنکھوں سے نہیں تو جان لے لوں گا"۔ وہ بھڑکا تھا۔ 

"اٹھو پیدل چلنا ہے ابھی کیا پتہ کوئ جگہ مل جائے رکنے کو "۔ صالح نے اسے اٹھنے کو کہا اور ساتھ ہی پڑے دو بیگ جو اسنے فارم ہاؤس میں ہی پیک کروائے تھے ، انکو کندھوں پہ لادا۔ تبسم اپنی جگہ سے ٹس سے مس نا ہوئ وہیں غصہ میں کھڑی اسے گھورتی رہی نا اسکے آنسو رکے نا آسکا رونا بند ہوا اور نا گھورنا۔ 

صالح نے ٹھنڈی سانس خارج کر کے اسے تکا۔ اور چلتا ہوا اسکے پاس آیا۔ جیسے ہی اسکے گال پہ صالح نے ہاتھ رکھا اسنے پوری شدت سے اسکا ہاتھ اپنے چہرے پہ سے دور جھٹکا۔ 

" اچھا سوری"۔ صالح نے کان پکڑ کر کہا۔ 

" آپ نے جو میرے ساتھ کیا ہے ناں وہ معافی کے قابل نہیں"۔ اسنے نم لہجہ میں کہا۔ 

صالح نے درخت سے ٹیک لگا کرداہنے کندھے پہ پہنے بیگ کی سائڈ پاکٹ کو کھول کر اس میں سے چوینگم نکال کر منہ ڈالا اور اسے بغور تکنے لگا۔ 

" میں معافی مانگ بھی نہیں رہا "۔ 

" آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں"۔ وہ بے یقین ہوئ۔ 

" ایسا کچھ غلط بھی نہیں کیا میں نے"۔ وہ ببل چباتا بے فکر لہجہ میں کہتا اسوقت اسے شدید زہر لگا تھا۔ 

" آپ نے میری بے ہوشی کا فائدہ اٹھایا ، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے کچھ غلط نہیں کیا"۔ جلتے لہجہ میں اسنے اپنے الفاظ مکمل کیئے۔

" اب ایسا بھی کچھ غلط نہیں کیا میں نے بیوی ہو میری پھر ۔۔۔ حسین ہو ۔۔۔ جوان۔۔ ہو اور تنہائی بھی تھی تو اسمیں میری کوئ غلطی نا ہوئ "۔ اسنے آرام دہ لہجہ میں بات پوری کرکے کندھے اچکائے۔ 

" آپ جیسا سستا انسان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا صالح"۔ اسکی آنکھیں ایک بار پھر نم ہوگئ تھیں۔ 

" اور میں نے تم جیسی حسین پلس بیوقوف عورت نہیں دیکھی"۔ اسنے اسکی نیلی کانچ سی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ 

" آپ نے یہ جو کچھ کیا ہے ناں صالح میں اسکے لیئے آپکو رسوا کرکے رکھ دوں گی"۔ اسنے روتے لہجہ میں کہا اور آگے قدم بڑھا کر اسی سمت جانے لگی جس سمت صالح کا رخ تھا۔ پیر کے نیچے پھتر آنے کی وجہ سے اسکا پیر رپٹا تھا اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی صالح نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ نیلی کانچ سی آنکھیں بلوری آنکھوں سے ملی تو جیسے دنیا رکنے لگی وہ لڑکی جو ابھی تک اسکی قربت کا سوچ کر ہی سلگ رہی تھی اس وقت اسکی بانہوں میں دنیا جہاں سے غافل ہوگئ تھی۔ 

تبسم نے ہوش میں آتے اس سے نگاہ چرائ تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہوتے نجانے کونسے راستوں کے مسافر بننے لگے تھے۔ 

♧♧♧♧♧♧

سجل گھر پہنچی تو تبسم لاؤنج میں اداس سی بیٹھی تھی اور فیہا ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھی کھانا کھانے میں مصروف تھی۔ سجل صوفہ پہ گرنے کے انداز میں لیٹی تھی۔ بیگ اچھال کر ایک سمت پھینکا تھا جوتے اتار کر دوسری سمت اور بڑی شان سے سلام جھاڑا تھا۔ 

" اسلام و علیکم بڑی بی"۔ 

"وعلیکم اسلام"۔ تبسم نے اسے افسوس سے تکتے جواب دیا۔ 

" اتنی دیر کیوں ہوگئ آج آنے میں۔۔؟؟"۔ تبسم نے کڑک لہجہ میں پوچھا۔

" ارے آپی وہ غازی بھیا مل گئے انہوں نے ڈراپ۔۔۔"۔ ابھی سجل کی بات اسکے منہ میں آدھی ہی تھی کہ تبسم نے اسے روکا۔

" ضرورت کیا تھی غازی کے ساتھ آنے کی میں دیکھ رہی ہوں تمہیں ۔۔آجکل "۔ تبسم نے اسے جھڑکا۔

" کچھ بھی۔۔۔ میری بات تو سن لیں پہلے غازی بھیا کی گرل فرینڈ بھی انہی کے ساتھ تھیں پہلے انکی گرل فرینڈ کو انہوں نے ڈراپ کیا پھر مجھے"۔ اسنے منہ بسور کر کہا۔ 

" جو بھی ہے پر کسی کے ساتھ آنے کی ضرورت نہیں ہے خود آیا جایا کرو"۔ تبسم نے سنجیدگی سے کہا۔ 

" آپی آپ کو پتہ غازی بھیا کی گرل فرینڈ کتنی ایٹیٹیوڈ والی ہے میں۔۔ نے اتنے اچھے سے اسکو کہا ہیلو میں غازی بھیا کی کزن ۔۔۔ پر آپکو پتہ ہے اسنے کیا کیا۔۔۔!! اسنے میری دو انگلیاں تھام کر میرا ہیلو لیا اور۔۔۔ پھر زبردستی چنی سے اسمائل پاس کی "۔ اسنے آنکھیں گھما گھما کر بتایا۔ 

" ہوگیا ہو تمہارا غازی نامہ تو جاؤ چینج کرو فریش ہوکر آؤ"۔ اسنے بیزاریت سے کہا۔ 

" ویسے آلائنہ کہاں ہے؟؟"۔ سجل نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔ 

" اسکے پاپا اسے لیکر گئے ہیں"۔ اسنے دروازے کی سمت دیکھ کر کہا۔

" اوہ جبھی آپکا موڈ خراب ہے"۔ سجل نے دانت نکال کر کہا۔ 

" سجل دفعہ جاؤ میرا سر ویسے ہی بہت دکھ رہا ہے"۔ تبسم نے کشن اٹھا کر اسے دے مارا۔ 

سجل کشن کیچ کرتی اٹھی تھی اور فریش ہونے چلی گئ تھی۔ 

♧♧♧♧♧♧♧

تبسم کا آج گاؤں میں ولیمہ تھا ، لال رنگ کا گھیر دار بنارس فراک پہنے وہ بیٹھی تھی لوگ آ آ کر اسے دیکھ کر جا رہے تھے جو دیکھتا وہ یہ کہے بنا رہ نا پاتا کہ دلہن تو بے حد حسین ہے۔ ایک لڑکی نیلم کے پاس آئ اسکا گھونگھٹ اٹھا کر دیکھا اور زور سے گھونگھٹ نیلم کے منہ پہ مار کر مقامی زبان میں بولی۔ 

" اتنی بھی تو یہ کوئ خوبصورت نہیں ، بس ٹھیک سے بھی ٹھیک ہی ہے"۔ لڑکی نے اک ادا سے کہا اور سامنے سے ہٹ گئ۔ 

نیلم کا دل یکدم عجیب سا ہوا اس لڑکی کے انداز و اتوار پر۔ 

خیر اللہ اللہ کرکے اسکا ولیمہ مکمل ہوا اور اسے اسکے کمرے میں چھوڑ کر گئے سب پر اسکی چھوٹی نند فضا اسکے ساتھ بیٹھی تھی۔ 

نیلم نے سادہ سا لان کا گلابی رنگ کا سوٹ پہنا تھا۔ شام کے آٹھ بجے تو رات کا کھانا پھپھو اسکے لیئے لیکر آئیں ، اور اسی وقت آدم بھی کمرے میں آیا آدم کے آتے ہی فضا چلی گئ آدم بھی خاموشی سے اسکے پاس بیڈ پہ بیٹھ کر اسکے ساتھ کھانا کھانے لگا تھا۔ 

کھانا کھاتے نیلم نے اسے ایک نظر تکا۔ آدم کھانا کھانے میں مشغول تھا۔ 

" ۔۔ وہ ۔۔ ایک بات۔۔ تو بتاؤ"۔ اسنے الفاظ جمع کرتے اپنا جملہ مکمل کیا۔ 

" کیا بات۔۔۔ ؟؟"۔ آدم نے اسے ایک نظر دیکھ کر پوچھا۔ 

" ۔۔۔ وہ آج ناں ایک لڑکی ولیمہ میں آئ تھی اسنے میرے۔۔۔ چہرے پہ سے گھونگھٹ بہت بدتمیزی سے اٹھایا تھا ، اور۔۔۔ اور وہ اسنے ناں بہت بد تمیزی سے کہا تھا کہ میں کوئ اتنی بھی خوبصورت نہیں بس ٹھیک ہوں بلکہ ٹھیک ہی ہوں۔۔۔ تو پھر وہ کون تھی کیا تم جانتے ہو اسے"۔ اسنے پوری بات تفصیل سے بتا کر اسے دیکھا۔ آدم نے سر کو سمجھنے کے انداز میں جنبش دی۔ 

" وہ میری پھپھو کی بیٹی ہے نیلم ۔۔ وہ تھوڑی سی نک چڑی ہے پر پلیز کبھی اس سے بد تمیزی نا کرنا یہ سمجھو اس شادی میں میری تم سے یہ پہلی اور آخری ریکویسٹ ہے کہ اسکی بدتمیزی کو نظر انداز کرنا"۔ آدم نے نرم سے لہجہ میں کہا۔ نیلم اسکا چہرہ حیرت سے دیکھتی رہ گئ۔ 

کچھ دیر بعد آدم اپنے کپڑے پیک کر رہا تھا نیلم نے اسے حیرت سے تکا۔ 

" یہ۔۔۔ کیوں ۔۔ پیک کر رہے ہو۔۔"۔ نیلم حیران ہوئ۔ 

" اسلام آباد جانے کی پلیکنگ ہے یہ اب دیکھو یہ کیس ختم ہوگا تب ہی آؤں گا میں زیادہ تر اسلام آباد میں ہی رہتا ہوں"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔ 

" اچھا"۔ وہ محض سر ہلا کر رہ گئ۔ 

" ۔۔ میں۔۔ تمہیں لے جاتا پر فائدہ ہی نہیں ہمارے رشتے میں وہ بات ہی نہیں کے ہمیں ایک ساتھ وقت گزارنے کی تمنا جاگے"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔ 

نیلم کے لب کچھ بولنے کی چاہ میں پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ 

تبسم لاؤنج میں ایک سمت سے دوسرے سمت چکر کاٹ رہی تھی صالح ابھی تک آلائنہ کو نہیں لایا تھا ساتھ ساتھ وہ بار بار کال ملا رہی تھی پر جواب نادرد تھا۔ تبسم کے پیر اب بے جان ہونے لگے تھے باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئ تو وہ بھاگتی ہوئ باہر گئ۔ پر سامنے اپنے پاپا کو دیکھ اسنے دھیرے سے سلام کیا تھا۔ پاپا اسکے سلام کا جواب دیتے اندر آئے تھے۔ 

" کیا ہوا تابی (تبسم) پریشان کیوں ہو بیٹے؟"۔ پاپا نے صوفہ پہ بیٹھ کر پوچھا۔ 

" کچھ نہیں بس وہ صالح ۔۔۔ آلائنہ کو لے کر گئے ہیں اور ابھی تک نہیں آئے اور اسکی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی میرا جی گھبرا رہا ہے پاپا"۔ اسنے ڈسپینسر سے گلاس میں پانی بھرتے گھبرائے ہوئے لہجہ میں کہا۔ 

پانی کا گلاس پاپا کو دیا۔ 

" پریشان نا ہو میں کال کرتا ہوں اسے"۔ پاپا نے پانی کا گلاس لیتے ہوئے کہا۔ 

" پاپا میں کب سے کال کر رہی ہوں ۔۔۔ وہ نہیں اٹھا رہے کال"۔ اسنے نم آنکھیں جھپک کر کہا۔ 

" اللہ خیر کرے گا تم پریشان نا ہو بس"۔ پاپا نے جیب سے موبائل نکال کر کہا۔ اور صالح کا نمبر ملا کر موبائل کان سے لگایا۔ 

تبسم پریشان سی صوفے کے کنارے پہ ٹک کر بیٹھی تھی۔ ابھی پاپا نے موبائل کان سے لگایا ہی ہوا تھا کہ یکدم باہر سے صالح کی گاڑی کے ہارن کی آواز پہ وہ بھاگتی ہوئ باہر گئ تھی۔ ابھی وہ مین گیٹ کھول کر باہر بھی نہیں نکلی تھی۔ کہ صالح آلائنہ کو گود میں لیئے اندر لایا تھا۔ اسنے بے تابی سے آلائنہ کو لینا چاہا تو صالح نے نرمی سے آلائنہ کو اسکی گود میں ڈال دیا، آلائنہ کے دائیں ہاتھ پہ کینولا لگا تھا۔ تبسم نے نم ہوتی آواز میں صالح کو مخاطب کیا۔ 

" تم اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تھے"۔ 

" ہاں میں اسے یہاں سے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیئے ہی آیا تھا ، کیونکہ مجھے اتنا تو پتہ تھا کہ تم اسے ڈاکٹر کے پاس خود لیجانے کی ہمت نہیں کر پاؤ گی"۔ صالح نے سنجیدگی سے کہا۔ 

آلائنہ کی دوائیں آگے بڑھ کر ٹیبل پہ رکھیں اور خود سامنے والے صوفہ پہ تبسم کہ پاپا کہ مقابل جاکر بیٹھا۔ اپنی سرد آنکھیں انکی آنکھوں میں گاڑھیں۔ 

اور سنجیدگی سے گویا ہوا۔ 

" مجھے معاف کر دیں"۔ اسی انداز میں معافی مانگی گئ۔ تبسم نے حیرت سے اسے تکا تھا۔ تبسم کے پاپا نے ایک آئبرو آچکا کر صالح کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ تم معافی مانگ رہے ہو۔ 

کچھ دیر کے توقف کے بعد ، پھر صالح کی آواز گونجی۔ 

" اپنی تمام کوتاہیوں پہ شرمندہ ہوں میں ، مجھے معاف کردیں"۔ وہی سرد انداز پیر پہ پیر ڈالے بیٹھا وہ شخص کہیں سے بھی معافی کا طلبگار نا لگ رہا تھا۔ انہوں نے ایک نظر اپنی بیٹی کی سمت دیکھا جو بڑی آس سے اپنے باپ کو تک رہی تھی۔ اور لمحے میں اپنے فیصلے پہ پہنچتے انہوں نے گلا کھنکھار کر کہا۔ 

" میں نے تمہیں معاف کیا۔۔ جاؤ لے جاؤ اپنی بیوی اور بیٹی کو"۔ 

تبسم تو مانوں گرنے کو ہوگئ تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب آخر ہو تو ہو کیسے رہا ہے۔ 

صالح سے اسے قطعاً اس بات کی امید نہیں رہی تھی کہ وہ معافی مانگے گا۔ 

صالح نے نگاہ ترچھی کرکے حیران و پریشان کھڑی تبسم کو مخاطب کیا۔ 

" جاؤ جلدی اپنا اور آلائنہ کا سامان پیک کرو"۔

" جی۔۔ اچھا"۔ تبسم نے غیر یقینی لہجہ میں کہا اور وہ آلائنہ کو لیئے تیزی سے زینے چڑھنے لگی تھی۔ 

♧♧♧♧♧♧♧

وہ آلائنہ اور تبسم کو لے کر گھر جا رہا تھا۔ پورا راستہ صالح بھی خاموش رہا اور تبسم بھی ، گھر پہنچ کر صالح نے انکا سامان اٹھایا اور اندر کی جانب رخ کر گیا اور تبسم بھی آلائنہ کو لے کر اسکے پیچھے پیچھے چل پڑی۔ 

پورا گھر سنسان پڑا تھا یقیناً سب سو رہے تھے ، وہ تینوں اپنے کمرے میں آئے تو تبسم نے آلائنہ کو پلنگ پہ لٹایا ، ابھی وہ پلٹی تھی کہ صالح اسکے پاس آکر کھڑا ہوا۔تبسم کا دل یکدم سرکا تھا۔

" یہ مت سمجھنا تبسم ۔۔۔ کہ یہ سب میں نے تمہاری اس شرط کی خاطر کیا ہے یہ میں نے اپنی بیٹی کے لیئے کیا ہے"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔ 

" چلو کسی کے ہی بہانے تم نے اپنی کوتاہیوں کی معافی تو مانگی"۔ تبسم نے ہلکا سا مسکا کر کہا۔ 

" بہت خوشی ہورہی ہے مجھے اپنے باپ کے سامنے جھکتا دیکھ کر"۔ اسنے اسے کاندھوں سے جارحانہ انداز میں دبوچ کر کہا۔ وہ یکدم سسکی تھی اسنے نم پرشکوہ نگاہوں سے اسے تکا۔ 

" جب تمہاری بیٹی بڑی ہوگی۔۔۔ ناں۔۔۔ اور تم پر کسی اور مرد کو فوقیت دے گی تب پوچھوں گی ۔۔ کہ اب بتاؤ صالح صاحب کیسا لگا۔۔۔۔"۔ اسنے غصہ سے پھڑپھڑا کر کہا۔

صالح نے اسے گھما کر دیوار کی پشت سے لگایا تھا اور خود اسکے بلکل قریب جا کھڑا ہوا تھا۔ اتنا قریب کے تبسم کی پشت سے صالح کا سینہ لگا ہوا تھا۔ وہ دھیرے سے اسکے کان کہ پاس جھکا تھا اسکے لب تبسم کے چہرے سے مس ہونے لگے تھے۔ 

" تبسم بکواس اتنی کرو جتنی جھیل سکو۔۔۔ "۔ 

تبسم کی ریڑھ کی ہڈی سنسنائ تھی۔ 

" میں کوئ بکواس نہیں کر رہی صالح صاحب ۔۔۔ آنے والے دور کا سچ بتا رہی ہوں"۔ اسنے تمسخر سے ہنس کر کہا۔ اسکا ہنسنا تھا کہ صالح نے اسے سیدھا کرکے اسکی پشت کو دیوار سے لگایا۔ صالح کی گرم سانسیں تبسم کا چہرہ جھلسانے لگی تھیں۔ تبسم نے نگاہیں اٹھا کر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھنا چاہا پر نگاہیں نجانے کس احساس کے بوجھ تلے دب کر جھک گئیں۔ 

" تم میری فکر نہیں کرو میری جان اب اپنی فکر کرو"۔ صالح نے اسکے گلابی کچھ بولنے کی چاہ میں کپکپاتے لبوں کو اپنے انگوٹھے سے مسلا۔ تبسم نے اسے خود سے دور کرکے پیچھے ہونا چاہا ، پر صالح نے مزید اسے کوئ موقع دیئے اپنی گرفت اسکے لبوں پہ رکھی تھی۔ کئ لمحے اس فسوں خیز مرحلے کی نظر ہوگئے، اسکے لبوں سے ہٹتے اسنے کمینے پن سے ہنس کر اسے تکا تھا۔ تبسم کے ہونٹ پہ ہلکی سی خون کی بند نمودار ہوئ تھی۔ تبسم نے اسے خود سے دور جھٹکا تھا۔ اور غصہ سے اپنے کپڑے اپنے بیگ میں سے نکال کر واشروم میں لے کر گھسی تھی۔ اور صالح پیچھے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتا پلنگ پہ آلائنہ کے پاس لیٹا تھا۔ اسکا ننھا سا ہاتھ تھام کر صالح نے اپنے لبوں سے لگایا تھا۔ 

♧♧♧♧♧♧♧

صبح کا سورج نکلنے میں ابھی بہت وقت تھا۔ نیلم سوئ پڑی تھی اور وہ نہایا دھویا بس نکلنے ہی والا تھا جب کمرے میں ہوتے مسلسل شور سے وہ اٹھ بیٹھی آنکھیں کھول کر مندی مندی آنکھوں سے اسے تکا تو وہ نک سک سا تیار تھا۔ اسنے گھڑی کی سمت نظر دوڑا کر دیکھا تو صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ اور شاید نہیں یقیناً وہ نکلنے کی تیاریوں میں تھا۔ 

وہ بیڈ کی پشت سے اپنی کمر ٹکائے بیٹھی اسکی تیاریاں ملاحظہ کر رہی تھی۔ زیادہ دیر زبان پہ ہوتی کھجلی برداشت نا ہوئ تو کہہ ہی اٹھی۔ 

" کہیں ادھر تمہاری کوئ دوسری بیوی ۔۔۔ تو موجود نہیں ۔۔۔؟؟۔"۔ اسکی نیند سے بھاری ہوتی آواز سن کر اسنے مڑ کر اسے دیکھا تھا۔ 

" بے فکر رہو میری وہاں پر کوئ دوسری بیوی نہیں ہے پر پہلی ضرور ہوسکتی ہے"۔ اسنے سنجیدہ سی نظریں اسکے چہرے پہ گاڑھ کر کہا۔ 

" مطلب تم کہنا چاہ رہے ۔۔۔ ہو کہ مجھ سے پہلے ہی تم کسی سے شادی کرچکے ہو"۔ اسنے ایک آئبرو آچکا کر پوچھا۔ 

" شاید"۔ آدم نے عام سے لہجہ میں کہا۔ 

" اچھا ۔۔۔ ویسے لگتا ہے تم بس نکلنے والے تھے میرے جاگ جانے سے ڈسٹرب ہوگئے"۔ تبسم نے دھیمے سے لہجہ میں کہا۔ 

" ہاں میں نکلنے والا تھا ، پر تمہارے جاگنے سے ڈسٹرب نہیں ہوا کیونکہ میں تمہیں ، خود جگانے والا تھا ، اگر میں باہر جاؤں گا اور تم نہیں ہوگی تو سب کو ہمارے تعلق میں خرابی کی بھنک لگ جائے گی"۔ اسنے اپنے سفید کف فولڈ کرتے کہا۔ وائٹ کلر کی کمیز شلوار پہنے وہ بے حد جازب نظر لگ رہا تھا۔ 

نیلم نے دل کی لے کو بگڑتے دیکھ اپنے دل کو ڈپٹا تھا۔ 

" ہمم سہی ۔۔۔۔"۔ اسنے پلنگ سے اترتے کہا۔ 

نیلم نے بکھرے بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹ کر کیچر میں مقید کیا تھا۔ آدم نے اسکے حسین سراپے سے نظریں چرائ تھیں۔ نیلم نے بال سمیٹ کر اپنے سراہنے کے پاس پڑا دوپٹہ اٹھا کر اپنے کندھوں پہ درست کیا تھا۔ 

" ویسے واپسی کب تک ہوگی تمہاری"۔ نیلم نے لب کچلتے پوچھا۔ 

" میں نے بتایا تو تھا جیسے ہی یہ والا کیس جسکے سلسلے میں ، میں جارہا ہوں یہ بخیر انجام پائے تو پھر گھر آؤں گا"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا وہ بھی اسکے پیچھے ہی نکل گئ ، کچھ ہی دیر بعد آدم گاؤں سے نکل چکا تھا۔ اور نیلم کو لگا تھا جیسے وہ اب سچ میں تنہا ہوگئ ہو۔ 

♧♧♧♧♧

تبسم کی صبح آنکھ آلائنہ کے رونے سے کھلی تھی۔ وہ صالح کی نیند نا خراب ہو یہ سوچ کر آلائنہ کو لیکر کمرے سے باہر لاؤنج میں آگے تھی ابھی وہ صوفہ پہ بیٹھی آلائنہ کو فیڈ کروا رہی تھی۔ کہ سامنے والے کمرے سے طائ امی نماز کے انداز میں سفید چادر لپیٹے کمرے سے نمودار ہوئیں اور حیرت سے تبسم کو تکا۔ نا سمجھی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات لیئے وہ تبسم کے پاس آئ تھیں۔ 

" تم۔۔۔ کیسے آئ تبسم ۔۔ اور کب"۔ انہوں نے ورتہ حیرت سے پوچھا۔ 

اس سے پہلے کے تبسم کوئ جواب دیتی انکی نظر آلائنہ کے کینولے والے ہاتھ پہ پڑی ، انہوں نے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر تبسم سے آلائنہ کی طبیعت کے حوالے سے دریافت کیا۔

" کیا ۔۔ ہوا ہے میری آلائنہ کو تبسم۔۔؟؟"۔ انہوں نے فکر مندی سے پوچھا۔ تبسم نے گہری سانس لیکر انہیں تمام احوال سنایا۔ آلائنہ کی بیماری سے صالح کے اسے گھر لانے تک۔ سب کچھ اور وہ حیرت سے اسے تک رہی تھیں انہیں تو بلکل یقین نہیں آرہا تھا پر خیر جو بھی تھا وہ اپنی بہو اور پوتی کے گھر واپس آنے پہ بے حد خوش تھیں۔ 

" تم اسکا خیال رکھو میں ناشتہ بنانے جا رہی ہوں بتاؤ ناشتے میں کیا کھاؤ گی"۔ انہوں نے محبت سے پوچھا۔ 

" ابھی تو کچھ بھی نہیں اور آپ کیوں بنا رہی ہیں ناشتہ مجھے بتا دیں میں بنا دیتی ہوں"۔ اسنے جلدی سے کہا۔ 

" ارے نہیں کوئ ضرورت نہیں اپنی بچی کی حالت تو دیکھو کیا ہورہی ہے اسے سنمبھالو اور اپنے شوہر کو اٹھاؤ جاکر مل کے لیئے جلدی نکلتا ہے وہ"۔ انہوں نے شفقت سے کہا اور خود کچن کی سمت رخ کیا۔ 

وہ صالح کی کل رات والی بدتمیزی یاد کرکے بیزاریت سے اٹھ کر کمرے میں آئ تھی۔ 

وہ بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹا تھا۔ تبسم منہ بناتی آلائنہ کو کاٹ میں لٹاتی صالح کے پاس آئ تھی۔ 

" صالح آٹھ جائیں مل جانا ہے آپکو"۔ تبسم کی نرم سی آواز صالح کے کانوں میں پڑی تو اسکے لب خود با خود مسکرائے تھے اسنے مسکرا کر کروٹ بدلی اور سیدھا ہوکر لیٹا تبسم کا ہاتھ تھام کر اسے کھینچ کر خود پہ گرایا تھا۔ 

" جانتی ہو میں جب سے معافی مانگ کر آیا ہوں نا تم سے نفرت سی ہونے لگی ہے جانے کیوں"۔ صالح نے اسکے کمر پہ اپنے ہاتھوں کی گرفت سخت کرکے کہا۔ 

" معافی مانگ کر آئے ہو اپنی غلطیوں کی سکون نہیں مل رہا تمہیں کیا۔۔۔ یقیناً تمہیں دل سے پشتاوا نہیں ہے جبھی تم اتنی آسانی سے کہہ رہے ہو کہ تمہیں مجھ سے نفرت ہورہی ہے جس سے تم عشق کے دعویدار تھے"۔ اسنے اسکی گرفت سے آزاد ہونے کے جتن کرکے کہا۔ 

صالح کئ لمحے خاموشی سے اسے تکتا رہا اور یکدم اسکے بال اسکے چہرے پہ سے ہٹاتا وہ اسکی ٹھوڑی پہ چاک کاٹتا تبسم کو چڑھنے پہ مجبور کر گیا تھا۔ 

" مسئلہ کیا ہے تمہارا یہ والی حرکتیں نا کیا کرو زہر لگتے ہو ایسی حرکتیں کرتے ہوئے"۔ اسنے غصہ سے کہتے صالح کے سینے پہ تھپڑ مارا تھا۔ صالح بنا اثر لیئے اسکی ناک پہ اپنے دانت ہلکے سے گاڑھتا ہنسا تھا۔ وہی دل جلا دینے والی ہنسی۔۔۔۔ !!

" بھاڑ میں جاؤ۔۔۔ دفعہ ہوجاؤ"۔ اسنے زبردستی خود کو اسکی گرفت سے آزاد کروایا اور منہ بناتی اس سے دور جا کھڑی ہوئ تھی۔ 

" جلدی اٹھ جاؤاگر کام پہ جانے کی ذرا سی بھی خواہش ہو "۔ اسنے جلے بھنے لہجہ میں کہا۔ 

وہ کہہ کر الماری کھول کر اسمیں آلائنہ اور اپنے کپڑوں کی جگہ بنانے لگی تھی۔ کہ صالح دبے پاؤں چلتا اسکے بلکل قریب آیا تھا اور اسے اسکی پشت سے بانہوں میں بھر گیا تھا۔

" میں تم سے بہت خفا ہوں ۔۔۔ تمہیں چاہیئے مجھے مناؤ"۔ صالح نے اسکی کھلی زلفوں میں چہرہ چھپاتے کہا۔ تبسم نے بھی اپنی آنکھیں مینچ لیں۔ 

" کیوں مناؤں ۔۔۔ میری شرط بھی تو تم نے بہت دیر سے پوری کی ناں تو اب بھول جاؤ کہ میں تمہیں جلدی مناؤں گی ناراض رہو"۔ اسنے اسکے پیٹ پہ کہنی مار کر کہا۔ 

" آہ نا مناؤ میں بھی اتنا تنگ کرونگا ناں کہ یاد رکھو گی"۔ وہ پیچھے سے یکدم۔آکر اسکے گالوں پہ بوسہ دیتا اس سے دور ہوا تھا۔ اور واشروم میں فریش ہونے گھس گیا تھا۔ 

آدم کو گئے آج دو دن ہونے کو آآ گئے تھے ، وہ کافی حد تک سب کے ساتھ گھل مل گئ تھی۔ پر کہیں نا کہیں اس شادی سے وہ ناخوش بھی تھی۔ اسے یاد تھا جب سے اسنے ہوش سنمبھالا تھا اسنے خود کو آدم کے نام سے ہی جڑا پایا تھا۔ آدم جو گاؤں میں رہتا تھا۔ کبھی بچپن میں آیا تھا ، اور اسکی ملاقات اس سے ہوئ تھی۔ تب آدم بھی بچہ تھا اور نیلم بھی دونوں کے بیچ کسی نا کسی بات پہ لڑائی ہو جاتی تھی۔ اور پھر ان چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑوں سے اسے آدم سے چڑ ہوگئ تھی۔ اسکے بعد تو آدم سے وہ کبھی نا ملی پر۔۔۔ آدم سے اسکو بیزاریت سی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس رشتے سے نفرت تو اسے اس دن ہوئ جب اسے پتہ چلا کہ اسکی امی نے خود پھپھو کو کہا تھا کہ میری نیلم تمہارے آدم کی ہوئ۔ اس وقت نجانے کیوں اسے اپنے بے حد ارزاں ہونے کا احساس ہوا تھا۔ 

وہ کم عمری کے دور سے نکل کر جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکی تھی پر اسکی نفرت آدم کے لیئے کبھی کم نا ہوئ ، اور جو چیز سوچ سوچ کر اسکا دل ڈوب جاتا تھا وہ تھا گاؤں۔۔۔ اور گاؤں کا مرد۔۔۔۔ اسنے کبھی آدم کے بارے میں جاننا ہی نا چاہا کچھ ، اور نا کسی اور نے بتایا۔

پر اب آدم کی غیر موجودگی اسے نجانے کیوں بے چین سا کر گئ تھی۔ 

پھپھو اسے ابھی کمرے سے باہر لائ تھیں انہوں نے بتایا تھا ، آدم کی پھپھو آئ ہیں ، آدم کی پھپھو کا سن کر اسکے ذہن کے پردے پہ وہ پھپھو کی بیٹی لہرائ تھی۔ خیر جگرا بڑا کرکے وہ باہر آئ تھی۔ اسکے کمرے سے نکل کر چاروں طرف ہریالی تھی اور اس ہریالی سے ایک راہداری سی بنی تھی وہ لوگ اس راہداری کو عبور کرکے کھلے میدان میں آئے تو وہاں درخت ہی درخت تھے اور درختوں کے نیچے چارپائیاں بچھی تھی۔ ایک چارپائی پہ آدم کی پھپھو بیٹھی تھیں اور انکے برابر میں ہی انکی نواب زادی۔ نیلم نے جھک کر آدم کی پھپھو کو سلام کیا تھا۔ اور انہوں بڑی شفقت سے اسکا ماتھا چوم کر اسے اپنے پاس ہی بٹھایا تھا۔ تبسم سر پہ طریقہ سے دوپٹہ لیئے بیٹھی تھی۔ نگاہیں اسکی جھکی ہوئ تھیں۔ 

" کیسی ہو دلہن"۔آدم کی پھپھو نے مقامی زبان میں پوچھا۔ 

" میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہو "۔ نیلم نے بھی اسی زبان میں جواب دیا۔ 

" میں بھی بلکل ٹھیک ہوں۔۔ میں گھر پہ کام وام کرکے فارغ ہوئ تو میں نے سوچا کیوں نہ اپنے آدم کی دلہن کو مل آؤں"۔ آدم کی پھپھو نے بڑی محبت اور شفقت سے کہا۔

نیلم دھیرے سے مسکائ تھی۔

" آدم آجائے ناں تو پھر تم دونوں کی دعوت رکھوں گی میں اپنے گھر"۔ پھپھو نے ہنس کر بتایا۔

" جی اچھا"۔ وہ مسکا کر رہ گئ تھی۔

" ارے باجی آپ آؤ میری گائیں نے بچہ دیا ہے وہ چل کر دیکھو میرے ساتھ"۔ نیلم کی ساس نے اپنی نند سے کہا۔

" مبارک ہو مبارک ہو بس اب کسی دن ایسے ہی بتانا کے میری بہو کے ہاں بچہ ہوا ہے میں پھر پورے گاؤں میں مٹھائی بٹواؤں گی"۔ انہونے ہنستے ہوئے کہا۔ 

نیلم جو چھوئ موئ سی بنی بیٹھی تھی انکی باتوں پہ اسنے عجیب سا منہ بنا کر سب کو دیکھا تھا۔ مطلب بات یہاں گائے کے بچے کی ہورہی تھی فکر انکو میرے بچے کی لگ گئ تھی اففف توبہ یہ عورتیں ۔۔۔!! وہ من ہی من میں بڑبڑائ تھی۔ سب گائے کا بچہ۔۔۔ دیکھنے چلے گئے تھے۔ وہ اور آدم کی بدتمیز پھوپھی زاد رہ گئے تھے وہاں تنہا۔ نیلم جو اسکو مسلسل نظر انداز کر رہی تھی، اور وہ تھی کہ سر سے لیکر پیر تک نیلم کا جائزہ لے رہی تھی۔ 

" افسوس اگر چمڑی گوری بھی ہے تو کیا ہوا آدم نے تو تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا اب تک"۔ اسکے الفاظ تھے یا سیسہ نیلم نے غصہ سے اسکی طرف دیکھا تھا۔ 

" تمہیں کیسے پتہ۔۔"۔ نیلم نے بہت ضبط سے پوچھا۔ 

" اور کون بتا سکتا ہے آدم نے بتایا تھا ، اب وہ محبت مجھ سے کرتا ہے اور مجبوری میں تم سے شادی کرنی پڑھ گئ تو کیا کرتا آدم بچارہ بس تم سے دور رہ سکتا ہے اور وہی کر رہا ہے ۔۔۔ نہیں تو کون کمبخت مرد ہوگا ۔۔۔ جو اپنی نئ حویلی دلہن کو تنہا چھوڑ کر جائے گا بتاؤ"۔ منال آدم کے پھپھو کی بیٹی دلکشی سے ہنس کر گویا ہوئ۔ منال نیلم کو اسقدر حقیر نگاہوں سے تک رہی تھی کے نیلم وہاں بغیر مزید وقت ضائع کیئے اپنے کمرے میں چلی آئ تھی اپنے کمرے میں آتے ہی وہ ڈریسنگ کے پاس گئ اور دراز کھول کر اپنا موبائل اپنے کان سے لگایا۔ سگنل ہوتے تو کال لگتی ناں نیلم نے غصہ سے پاگل ہوتے اپنا موبائل آٹھا کر دیوار پہ مارا تھا۔ جو دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ 

♧♧♧♧♧

تبسم اپنے کمرے میں لگی آلائنہ اور اپنا سامان سمیٹ رہی تھی، آلائنہ بھی بہت رو رہی تھی وہ کام چھوڑ کر آلائنہ کے پاس آئ تھی اسے چپ کرانے کی کوشش کی پر ناکام رہی وہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی آلائنہ کی طبیعت خراب تھی ابھی بھی وہ بخار میں تپ رہی تھی۔ تبسم نے موبائل اٹھا کر کان سے لگایا۔ 

دوسری طرف سے کال پک کی گئ۔ 

" اتنی جلدی میری یادستانے لگی تمہیں"۔ صالح نے فائل بن کرتے کہا۔ 

" صالح ۔۔۔ پلیز گھر آجائیں آلائنہ کی بہت طبیعت خراب ہو رہی ہے پلیز آئیں اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر چلیں"۔ تبسم کی روتی ہوئ آواز اسکے کانوں میں پڑی تو اسکی شوخی ہوا ہوئ اور وہ جلد آنے کا کہتا کال کاٹ چکا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد صالح آگیا تھا۔ تبسم کو بھی وہ ساتھ زبردستی لے کر گیا تھا۔ 

ڈاکٹر نے آلائنہ کا چیک اپ کیا۔ اسے کچھ دوائیں لکھ کر دیں اور بتایا کہ آلائنہ کو موسمی بخار ہورہے ہیں گھبرانے والی کوئ بات نہیں ، اور اسے جو پاؤڈر کے انجیکشن کینولا میں لگ رہے تھے وہ لگائے وہ دونوں ابھی گاڑی میں آکر بیٹھے تھے۔ تبسم نے آلائنہ کو اپنے سینے میں بھینچا ہوا تھا اور بار بار اسکے سر پہ پیار کر رہی تھی۔ 

صالح نے ایک نظر تبسم کو دیکھا۔ اور واپس اپنی توجہ روڈ کیطرف مرکوز کردی۔ 

کچھ ہی دیر میں وہ لوگ گھر پہنچے تھے۔ طائ امی لاؤنج میں بیٹھی ان لوگوں کا انتظار کر رہی تھیں انہیں دیکھ کر وہ فوراً انکے پاس آئ تھی۔ 

" کیا ہوگیا تھا آلائنہ کو میں مارکیٹ تک گئ تھی واپس آئ تو چوکیدار نے بتایا کہ تم دونوں آلائنہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ہو"۔ انہوں نے جھٹ پوچھا۔ 

" امی پریشانی والی کوئ بات نہیں بس موسمی بخار ہے اور کوئ بات نہیں"۔ صالح نے اپنی ماں کو نرمی سے بتایا۔ تبسم نے بھی صالح کی بات کی تائید کی۔ امی اپنے کمرے میں چلی گئیں اور تبسم اور صالح اپنے کمرے میں تبسم آلائنہ کو لٹا کر خود بھی اسکے ساتھ لیٹی تھی اپنی بچی کا زرد پڑتا چہرہ دیکھ اسکی آنکھیں نم تھی۔ وہ بلکل پہلے جیسی ایکٹو نہیں رہی تھی بے حد نڈھال سی ہو رہی تھی۔ 

صالح بھی آلائنہ کی دوسری سمت آکر لیٹا تھا۔ اور کروٹ کے بل لیٹ کر تبسم کے گال پہ ہاتھ دھرا تھا۔ 

" پریشان مت ہو ہوجاتا ہے بچے بیمار ہوجاتے ہیں"۔ صالح نے پیار سے کہا۔ 

" پتہ نہیں کیوں میرا نا دل گھبرا رہا ہے اسے دیکھ کر"۔ تبسم نے بھیگے ہوئے لہجہ میں کہا۔ 

" بے فضول میں گھبرا رہا ہے تمہارا دل کچھ بھی نہیں ٹھیک ہوجائے گی ہماری گڑیا "۔ اسنے تبسم کی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے۔ 

" نجانے کب ٹھیک ہوگی۔۔۔۔ یہ کتنی ایکٹو تھی اب تو میری بچی کھیلتی بھی نہیں باتیں بھی نہیں کرتی تین دن ہوگئے ایسے ہی بخار میں تپتی نڈھال سی پڑی رہتی ہے"۔ تبسم نے آلائنہ کو تکتے کہا۔ 

" پریشان نا ہو سب ٹھیک ہوجائے گا"۔ صالح نے اسکے گال سہلا کر کہا۔ تو اثبات میں سر ہلاتی آنکھیں موند گئ تھی۔ 

♧♧♧♧♧♧

رات کا نجانے کونسا پہر تھا، جب نیلم کو نیند میں اپنے ارد گرد جینٹس پرفیوم کی خوشبو سنگھائی دی۔ دماغ بیدار ہوا تو اسے ایسا لگا جیسے کوئ جن ون ہوگا ڈر اور خوف کے مارے اسکا دل کانپنے لگا تھا۔ 

اسنے ڈرتے اپنی آنکھیں کھو لیں تو بستر پہ بلکل اپنے پاس آدم کو سوتا پایا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کہ اسوقت بے حد قریب پڑے تھے اسنے آدم کے پاس سے دور ہونا چاہا پر آدم گہری نیند میں ڈوبا اپنا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں اس پہ ڈالے بے غم سو رہا تھا۔ نیلم کو آج صبح منال والی بات یاد آئ تو غصہ سے اسکا دماغ گھوما تھا اسنے اس قدر جارحانہ انداز میں آدم کو خود سے دور جھٹکا کہ آدم بوکھلا کر اٹھا تھا۔ 

"ک۔۔کیا ہوا"۔ آدم نے پریشانی سے پوچھا۔ 

" دور رہو مجھ سے پورے میرے اوپر چڑھے پڑے تھے"۔ نیلم نے بھنے ہوئے لہجہ میں کہا۔ 

" سوری نیند میں غلطی سے ہوگیا ہوگا"۔ اسنے گہری سانس لے کر کہا اور اس سے دور ہو کر لیٹا تھا۔ 

نیلم کے کانوں میں منال کی آواز گونجی تھی۔ آدم نے تمہیں ہاتھ تک نہیں لگایا ، کیا فائدہ ایسی گوری چمڑی کا۔۔۔!!

" وہ غصہ سے آدم کا گریبان پکڑتی اسے جھنجھوڑ کر اسکی آنکھوں میں دیکھتی بے خوف اور نڈر انداز میں بولی تھی۔

" مسٹر آدم ۔۔۔۔ اب جو بھی کچھ ہو ناں اسے یہ بھی بتا دینا یاد سے"۔ آدم جو نا سمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا اسکے اگلے عمل پہ اسکے حیرت کی کوئ حد نہیں رہی تھی۔ وہ آدم کے لبوں سے اپنے لب ہلکے سے مس کرکے پیچھے ہٹی تھی۔

" یہ بھی بتا دینا اسے"۔ نیلم نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا اور آدم تو اب تک اسکے لبوں کو فوکس میں کیئے ہوئے تھا۔ نیلم پیچھے ہوکر لیٹتی اس سے پہلے ہی آدم نے اسکے نرم ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا نیلم جو غصہ کے مارے اپنے ہوش کھو بیٹھی تھی اب اسکے ہوش سہی معنی میں ٹھکانے پہ لگے تھے۔ نیلم خود کو اس سے دور کرنے کے چکر میں اسکے جذبات کو مزید ہوا دے گئ تھی۔ آدم جو دھیرے سے اسکے لبوں کے جام کو پی رہا تھا اسکے انداز میں بے حد شدت آئ تھی۔

نیلم کو اپنے کیئے پر پشتاوا ہونے لگا تھا پر جو وہ کرچکی تھی اسکے بعد تو وہ آدم کو قصوروار ٹہرا بھی نہیں سکتی تھی۔ 

آدم کی انگلیاں اسکے بدن کی دلکشی کو محسوس کر رہی تھیں۔ نیلم خود میں ہی سمیٹنے لگی تھی۔

آدم اسکے لبوں کو اپنی گرفت سے آزاد کرتا اسکی گردن میں اپنا منہ چھپا گیا تھا۔ نیلم کا سانس اٹکا تھا۔

" آدم۔۔۔ ۔۔۔ پلیز۔۔۔"۔ آدم کا ہاتھ بے باکی سے اسکے پیٹ پہ چل رہا تھا۔ اسنے آنکھیں مینچ کر کہا۔ 

" شش۔۔۔ خود جگایا ہے جذبات کو میرے ، اب یہ منتیں ۔۔۔ سماجتیں جچتی نہیں تم پہ"۔ اسنے اسکے کانوں کی لو پہ اپنے دانت گاڑھ کر کہا۔ 

نیلم کا پورا وجود کانپ اٹھا تھا۔

" آدم۔۔۔۔ دور رہو۔۔۔۔ تم ۔۔ تو مجھ سے پیار بھی نہیں کرتے آدم ۔۔۔۔"۔ اسنے نم لہجہ میں کہا۔ 

" تم پیار کرنے کا موقع دو گی تو میں تم سے پیار کرونگا ناں"۔ آدم نے سنجیدگی سے کہا۔ 

" ۔۔۔ تم منال سے پیار کرتے ہو کیوں نہیں بتایا پہلے"۔ اسنے آدم کو خود سے دور کرتے کہا۔ 

" ۔۔۔ میں منال سے پیار ۔۔۔ استغفراللہ "۔ آدم نے جھٹ سے اس سے دور ہوکر اسے دیکھا تھا۔ دور ہی رہو اب تم دیکھا اسکا نام سن کر یاد آگیا ناں اس سے کیا وعدہ اب مجھ سے دور رہنا آدم"۔ اسنے نم لہجہ میں کہا۔

" پاگل و گل تو نہیں ہوگئ تم "۔ آدم نے حیرت سے کہا۔

" ہاں ہوں میں پاگل اب خوش"۔ وہ منہ بنا کر کہتی کروٹ بدل کر سو گئ تھی اور وہ محض کندھے آچکا کر رہ گیا تھا۔

♧♧♧♧♧♧♧

سجل آج کافی دن بعد کالج آئ تھی اور اسے اپنی سہیلیوں سے پتہ چلا تھا۔ کہ کوئ نیو ٹیچر آئے ہیں اور وہ بہت ہی ہینڈسم ہیں سجل کافی دیر سے اس نئے ٹیچر کا انتظار کر رہی تھی اور آخر کار اسکے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور کلاس میں ٹیچر اینٹر ہوئے سجل حیرت و پریشانی سے ٹیچر کو دیکھ رہی تھی۔ ٹیچر نے سجل کو مخاطب کیا۔

"۔۔ آپ۔۔۔ کھڑی ہوں ۔۔"۔ ٹیچر نے سنجیدگی سے کہا۔ 

" یس سر ۔۔۔"۔ وہ بوکھلا کر کھڑی ہوئ تھی۔ 

" آپ۔۔۔ پچھلے ایک ہفتہ سے مجھے اس کلاس میں نہیں دکھیں ۔۔۔ اب۔۔۔۔ کیسے آنا ہوا۔۔ آپکا۔۔۔۔ "۔ ٹیچر نے کرخت لہجہ میں کہا۔ سجل نے گہری سانس لیکر جواب دیا۔ 

" سر کچھ فیملی پرابلمز تھیں"۔ 

" آئندہ سے اگر آپ ایبسنٹ ہوئ تو آپ کو کلاس میں نہیں بیٹھنے دیا جائے گا ، اسی لیئے کوشش کریں کے ریگولر آئیں"۔ ٹیچر کی وارننگ پہ وہ منہ بناتی بیٹھی تھی۔ 

" میں نے کہا تھا ناں بے حد اسٹرکٹ ہیں"۔ اسکی سہیلی نے پیچھے سےکہا۔ 

" ایک بار نہیں ہزار بار اسٹریکٹ ہوں مجھے کیا"۔ سجل نے منہ بنا کر کہا ابھی وہ لگی بول ہی رہی تھی کہ ٹیچر نے بورڈ مارکر کا کیپ اسکے ماتھے پہ مارا تھا۔ سجل جل بھن کر رہ گئ تھی۔ اور ٹیچر کو ایسی بری نظروں سے گھورا تھا کہ جیسے آنکھوں ہی آنکھوں سے کہہ رہی ہو سالم نگل لوں گی۔ 

" یار یہ کتنی ڈیشنگ ہیں"۔ اسکی دوست پھر بھی باز نا آئ۔ 

" آنکھیں خراب ہوگئ ہیں تمہاری"۔ اسنے منہ بنا کر کہا۔ اور اپنے نوٹ پیڈ پہ جھک گئ۔ 

کلاس مکمل ہوئ تو سجل نے شکر کا سانس لیا ابھی وہ کالج سے نکلی ہی تھی کے بلیک کار اسکے سامنے آکر کھڑی ہوئ تھی۔ فرنٹ ڈور کھلا تھا۔ سجل نے غصہ سے اسے گھورا تھا۔ 

" مجھے نہیں جانا آپکے ساتھ میں خود چلی جاؤں گی"۔ اسنے تڑخ کر کہا۔ 

" میں اسی روڈ سے جا رہا ہوں جاتے جاتے تمہیں بھی ڈراپ کردوں گا"۔ اسکے ٹیچر نے کہا۔ 

" سوری سر پر میں اجنبیوں سے لفٹ نہیں لیتی"۔ اسنے منہ بنا کر کہا۔ 

" خیر ہے آج لے لیں "۔ اسنے اسے گھور کر کہا۔ ہر آنے جانے والا سجل کو عجیب سی نظروں سے تک رہے تھے۔ سجل تنگ آکر فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی تھی اور زور دار آواز کے ساتھ گاڑی کا دروازہ بند کیا تھا اور یہی چیز غازی کہ دل پہ جاکر لگی تھی۔ 

" ہاتھ ذرا ہولا رکھو"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔ 

" ایوئیں ہولا رکھو ۔۔۔ میری کتنی انسلٹ کی آپ نے غازی بھیا آپکو اندازہ ہے"۔ اسنے تڑپ کر کہا۔ 

" کب کی میں نے تمہاری انسلٹ"۔ وہ حیران ہوا۔ 

" ابھی جو تھوڑی دیر پہلے کلاس میں کر رہے تھے اسے کیا کہتے ہیں آپکی زبان میں۔۔"۔ سجل نے آنکھیں پٹپٹا کر پوچھا۔ 

" ۔۔۔ ہنہ۔۔۔ اسے ۔۔۔ ڈانٹنا کہتے ہیں جو آپکے لیئے فائدہ مند ثابت ہوگا"۔ غازی نے سنجیدگی سے کہا۔ 

سجل تمسخر سے ہنس کر ونڈو سے باہر دیکھنے لگی تھی اور غازی بھی بنا مزید کچھ کہے احتیاط سے ڈرائیونگ کرنے لگا تھا۔ 

♧♧♧♧♧

وہ دونوں جنگل میں پیدل چل چل کر تھک چکے تھے تبسم تو اب بلکل گرنے کو تھی۔ صالح کو دور کہیں ایک چھوٹے سے گاؤں کی آبادی دکھی تو وہ تبسم کو لےکر وہاں پہنچا وہاں کے لوگوں سے پوچھتے پوچھتے انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا جب تک وہ لوگ اس کمرے کی تلاش مکمل کرکے اس کمرے میں گھسے اندھیرا چھا چکا تھا۔ یہ بلوچستان کا ہی کوئ چھوٹا سا گاؤں تھا۔ وہ دونوں اس اندھیرے کمرے میں گھسے ، ٹھنڈ یہاں پہ کافی زیادہ تھی۔ صالح کمرے میں گھستا کونے میں پڑی لکڑیوں اور سوکھی گھانس کو اکٹھا کر رہا تھا۔ تبسم چارپائی پہ چڑھ کر بیٹھ گئ تھی۔ کچھ دیر گزری تو اسے نیم اندھیرے میں صالح کے قریب سانپ دکھا۔ 

" صالح۔۔"۔اسنے سہمی ہوئ آواز میں کہا۔ 

" ہاں۔۔ کہو۔۔"۔ وہ جو نیچے بیٹھا آگ لگا رہا تھا ، اسکی دھیمی سی آواز پہ بنا اسکی طرف دیکھے بولا۔

" صالح سانپ ہے۔۔"۔اسنے کمرے کے کونے کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ 

" کہاں "۔ وہ ایک دم چونکا۔

اسنے پھر سے انگلی سے اشارہ کیا۔

صالح نے بغور دیکھا ، وہ احتیاط سے چلتا اسی سمت جانے لگا۔

" نہیں صالح پلیز مت جائیں"۔ وہ آنکھیں پھاڑ کر بولی۔

صالح نے اس کونے پہ پہنچ کر غور سے دیکھا تو کوئ لمبا ربڑ کا ٹکڑا پڑا تھا۔ 

صالح نے نگاہیں ترچھی کرکے اسے تکا جو چارپائی پہ چڑی آنکھیں مینچ کر اسے واپس آنے کی تلقین کر رہی تھی۔ وہ قدم قدم چلتا اسکے پاس آیا تھا۔ 

" یہ دیکھو"۔ اسنے جیسے ہی اسکے قریب جاکر بلکل اسکے چہرے کے سامنے ربڑ کا ٹکڑا لہرایا تو اسنے آنکھیں کھول کر دیکھا ایک پل کو تو وہ دل پہ ہاتھ رکھتی پیچھے ہوئ۔ 

اسکی حرکت پہ صالح کے سنجیدہ چہرے پہ مسکراہٹ رینگی تھی۔ 

" ڈرپوک"۔ صالح نے ہنس کر کہا۔

" کون ۔۔"۔ اسنے نا سمجھی سے پوچھا۔

" آپ "۔ دو بدو جواب ایا۔

" نہیں میں تو نہیں ڈرتی کسی سے"۔ اسنے سکھا حلق تر کرکے کہا۔

" مجھ سے بھی نہیں"۔ وہ اسپے جھک کر سرد لہجہ میں کہتا اسے مزید سہما گیا تھا۔

اسنے زبان سے کچھ کہنے کہ بجائے سر نفی میں ہلایا۔ 

" اچھا واہ تم مجھ سے نہیں ڈرتی، تمہیں مجھ سے خوف نہیں آتا"۔ اسنے اسکے بازوں پہ دھیرے سے انگلیاں پھیرتے کہا۔

" ک۔۔کہا نا نہیں"۔ اسنے رخ موڑ کر کہا۔ 

" جب ڈرتی نہیں تو یہ کپکپاہٹ کیسی"۔ اسنے اسکے بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑاتے پوچھا۔ 

" بھوک۔۔۔ بھوک لگ رہی ہے ۔۔۔ اسکی وجہ سے"۔ اسنے آنکھیں مینچ کر کہا۔ 

" بھوک تو مجھے بھی لگ رہی ہے"۔ اسنے ذومعنی لہجہ میں کہا۔جاری ہ

" پلیز پیچھے ہٹیں"۔ صالح کی زو معنی بات پہ تبسم کے گال لال آنگارہ ہوئے تھے۔ 

" کیوں۔۔۔ پیچھے ہٹوں کل رات تو میں اس سے بھی زیادہ قریب تھا تمہارے"۔ صالح نے اسے گردن سے تھام کر کہا۔ تبسم نے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا۔ صالح اسکی جدوجہد پہ مسکایا تھا۔ 

" چلو ۔۔۔ گھبراؤ مت باہر جا رہا ہوں دیکھتا ہوں شاید کچھ مل جائے کھانے کا خریدنے کو"۔ اسنے اسکے ماتھے پہ بوسہ دے کر کہا۔ 

" ۔۔۔۔ آپ ۔۔۔ باہر نا جائیں ۔۔۔ مجھے ڈر لگے گا پلیز۔۔۔ "۔ اسنے سہم کر کہا۔ 

" ڈرنے کی کیا بات ہے شام کے سات بج رہے ہیں ۔۔۔ جانے دو کچھ کھانے کو یہاں کی مارکیٹ سے مل ہی جائے گا دیر ہوگئ تو مارکیٹ بند ہوجائے گی اور تم بھوکی رہو گی پھر"۔ صالح نے اسے ڈرتے دیکھ نرمی سے کہا۔ 

" پر۔۔۔ میں یہاں۔۔"۔ اسنے چاروں طرف خالی کھنڈر کمرے کو دیکھ کر بات ادھوری چھوڑی۔

" گھبراؤ مت دروازہ ٹھیک سے بند کرکے یہاں بیٹھ جاؤ میں جلدی آجاؤں گا"۔ صالح نے اسکے گال سہلا کر کہا۔ 

وہ تھوک نگلتی دھیرے سے سر کو اثبات میں جنبش دے گئ تھی۔ 

صالح کے جاتے ہی اسنے دروازہ اچھے سے بند کیا تھا اور پھر واپس چارپائی پہ آکر پیر سکیڑ کر بیٹھ گئ تھی۔ خوف سے اسکا وجود کانپ رہا تھا۔ 

♧♧♧♧♧♧

تقریباً آدھے گھنٹے بعد صالح کھانا لیکر آیا تھا ، بہت ڈھونڈنے کے بعد کباب اور روٹی لایا تھا ساتھ کچھ برتن بھی خرید کر لایا تھا۔ تبسم نے اسکے آنے کے بعد سکھ کا سانس لیا تھا۔ صالح نے ان برتنوں کو بالٹی میں پڑے پانی سے بہت اچھے سے دھویا تھا۔ اور پھر خود ہی کھانا نکال کر چارپائی پہ اسکے پاس آکر بیٹھا تھا، تبسم اور اس نے مل بانٹ کر کھانا کھایا۔ کھانا کھاتے وقت دونوں تقریباً خاموش تھے۔ کھانا کھا کر فارغ ہوئے صالح نے برتنوں کو اٹھا کر کمرے میں ہی بنے چھوٹے سے باورچی خانے میں رکھا تھا۔ اور خود آکر چارپائی پہ لیٹا تھا۔ تبسم جو ہاتھ دھو رہی تھی۔ ہاتھ دھو کر واپس آئ تو صالح کو چارپائی پہ لیٹا دیکھ وہیں کھڑی رہ گئ۔ پورے کمرے میں نگاہ دوڑا کر اسنے اپنے لیٹنے کے لیئے جگہ ڈھونڈی پر نادرد ، وہ خاموشی سے چلتی صالح کے قدموں کے پاس آکر بیٹھ گئ تھی۔ صالح جو خاموشی سے اسے پیج و تاب کھاتے دیکھ رہا تھا۔ کافی وقت گزر جانے کے بعد بھی جب وہ نا لیٹی تو صالح نے اسے کھینچ کر اپنی بانہوں میں گرایا تھا۔ 

" کیا ساری رات یونہی بیٹھے رہنے کا ارادہ ہے اپکا"۔ صالح نے اسکے کان کہ پاس جاکر سرگوشی نما آواز میں کہا۔ 

تبسم نے محض سر کو نفی میں جنبش دی۔ 

" تو پھر ٹانگیں اوپر کرو اور ٹھیک سے لیٹو"۔ صالح نے اسکے پیر چارپائی سے نیچے لٹکے دیکھ کر کہا۔ 

" جی۔۔ جی"۔ اسنے دھڑکنے دل کے ساتھ کہا۔ اسکا دل صالح کی قربت میں بڑی زور و شور سے دھڑکنے لگا تھا۔ صالح نے اسکے لیٹتے ہی اپنا پیر اسکی ٹانگوں پہ دھرا تھا۔ تبسم نے کروٹ لیکر اس سے دور ہونا چاہا پر ناکام ہی رہی ، صالح نے اسکی پشت کو اپنے سینے سے لگا کر اسکے حسین و نازک سراپے کو اپنی آغوش میں بھینچا تھا۔ 

" ایسے نا کریں تھوڑا دور ہٹیں ۔۔۔ مجھے ۔۔۔ گھب۔۔۔ راہٹ ہو رہی ہے"۔ اسنے سہمے ہوئ آواز میں کہا۔ صالح کے ہونٹوں پہ شریر سی مسکان رینگی تھی۔ 

" دور ہٹنے کے لیئے تو میری جان تمہیں اپنا نہیں بنایا ناں "۔ صالح نے اسے مزید خود میں بھینچتے کہا۔ 

تبسم کا دل سرک سا گیا۔

" دیکھیں۔۔۔ یہ سب بہت غلط ۔۔۔ ہے۔۔۔ آپ بھی جانتے ہیں۔۔۔۔ یہ بات کہ۔۔۔۔آپ نے مجھے محض بدلہ اور دولت لینے کے چکر میں اپنایا ہے آپ اپنے مفاد پورے ہوتے ہی مجھے چھوڑ دیں گے ۔۔۔ تو پھر یہ سب نا کریں ۔۔۔ پلیز"۔ تبسم نے اٹکتے اٹکتے اپنی بات مکمل کی۔ 

صالح نے دھیرے سے اسکا رخ اپنی جانب کیا تھا۔ 

تبسم نے اپنی آنکھیں مینچ لی تھی۔ 

" تبسم ۔۔۔۔ تم جو بھی سمجھو یہ دو بہانے تو میرے باپ اور تمہارے باپ کے لیئے ہیں پر جب میں نے رشتہ بھجوایا تھا تو بڑی چاہت سے بھجوایا تھا کیونکہ تم مجھے بے حد پیاری لگی تھیں تم مجھے بے حد حسین لگتی تھیں ، تم ہمیشہ مجھے بہت پیاری لگی ہو اور میں نے تم سے زبردستی نکاح بھی جب کیا تب بھی کسی بدلے کے لیئے نہیں کیا ۔۔۔ صرف تمہاری چاہت میں کیا"۔ صالح نے مخمور لہجہ میں کہا۔ تبسم نے پلکوں کی باڑ کو ہلکا سا اٹھا کر دوبارہ جھکا لیا۔ 

" صالح یہ کیسی محبت ہے ۔۔۔ محبتوں میں تو عزتوں کا پاس رکھا جاتا ہے آپ نے تو مجھے گھر سے بھاگی ہوئ لڑکی کا ہی لقب دلوا دیا"۔ اسنے دھیرے سے نگاہ اٹھا کر صالح کو تکا ۔ 

صالح لاجواب ہوا تھا اس بات کا جواب اسکے پاس بھی شاید نہیں تھا۔ 

" آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے صالح میرے پاپا اس وقت کتنے مشکل وقت سے گزر رہے ہونگے صرف اور صرف آپکی چاہت کی وجہ۔۔۔ سے"۔ اسنے نم لہجہ میں کہا اور کروٹ بدل کر آنکھیں موند گئ۔ اور صالح محض اسکی پشت کو دیکھتا رہ گیا۔

♧♧♧♧♧♧♧

آدم کی آنکھ کھلی تو وہ بستر سے غائب تھی ، ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑی وہ اپنے لمبے گھنے بالوں کو چٹیا میں گوند رہی تھی۔ آدم کی نگاہ کے سامنے سے رات میں بیتا ایک ایک لمحہ گزرا ، اسکے ہونٹ خود بخود مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔ آدم بستر سے اٹھتا دھیرے سے اسکے پاس آیا تھا اور نیلم کے بال اسکے ہاتھ سے لیکر اسکے بالوں کی چوٹی خود بنانے لگا تھا۔ نیلم نے نگاہ ترچھی کرکے اسے گھورا تھا۔ آدم نے دھیرے سے آگے کو ہوکر اپنے ہونٹ اسکے گال پہ رکھے تھے۔ نیلم نے اسکی حرکت پہ گھبرا کر اسکی گرفت سے اپنے بال آزاد کروائے تھے اور اس سے تھوڑا دور ہوکر خود ہی اپنے بال جلدی جلدی بنانے لگی تھی۔ آدم ڈریسنگ سے ٹیک لگائے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ جو اسکے دیکھنے پہ کنفیوز ہوتی اسکی سمت سے رخ ہی موڑ گئ تھی۔ آدم نے بغور اسکی پشت کو تکا ۔ چٹیا آگے کو ہونے کی وجہ سے اسکی دودھیا گردن گلا گہرا ہونے کہ باعث کافی زیادہ دکھ رہی تھی۔ آدم نے اسکے پاس جاکر دھیرے سے اسکی گردن پہ لب رکھے تھے۔ نیلم کا دل آدم کے لمس پہ کانپا تھا۔ 

" ادم۔۔۔۔ پلیز۔۔۔ دور رہیں"۔ نیلم نے کپکپاتے لہجہ میں کہا۔ 

آدم نے اپنا ہاتھ دھیرے سے اسکی کمر پہ پھیرتے اسکے پیٹ پہ دھرا تھا اور اسے ہلکا سا جھٹکا دے کر پشت سی ہی اپنی بانہوں کے حصار میں لیا تھا۔ 

" تم خود پاس آئ ہو اب میرے دور جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"۔ آدم نے اسکے کان کہ پاس آکر سرسراتے لہجہ میں کہا۔ 

نیلم اپنی آنکھیں مینچ کر کپکپاتے ہونٹوں سمیٹ گویا ہوئ۔ 

" آدم۔۔۔۔ پلیز دور رہیں۔۔۔ مجھ سے۔۔۔ آپ منال کو پسند کرتے ہیں مجھے پتہ چل چکا ہے پلیز مجھ سے دور رہیں"۔ 

" پاگل ہوگئ ہو تم یہ کس نے کہا تم سے"۔ آدم نے اسکا رخ اپنی جانب کر کے پوچھا۔ 

" میں پاگل ہی ٹھیک ہوں پلیز دور ہٹیں ۔۔۔"۔ نیلم نے خفگی سے کہتے آدم کو خود سے دور جھٹکا اور کمرے سے نکل گئ۔ آدم حیران پریشان سا الماری سے اپنے کپڑے نکالتا کمرے سے باہر گیا تھا۔ ارادہ اسکا غسل خانہ جا کر نہا دھو کر فریش ہونے کا تھا۔ اسی لیئے وہ سیدھا نہانے چلا گیا۔ 

نیلم پھپھو کے پاس مٹی کے بنے باورچی خانہ میں آکر بیٹھی تھی پھپھو ناشتہ بنا رہی تھی آدم کی دو بہنیں جھاڑو دے رہی تھیں، اسے اپنے پاس بیٹھتے دیکھ پھپھو مسکرائ تھیں۔ 

" آدم کب آیا"۔ پھپھو نے مسکرا کر پوچھا۔ 

" کل رات کو پھپھو"۔ اسنے نگاہ جھکا کر کہا۔

" اچھا۔۔۔ سہی ۔۔۔ "۔ پھپھو نے مٹی کے چولہے میں جلتی آگ کو پھونک مار کر بھڑکایا تھا۔ 

" پھپھو جلدی سے کچھ بنا دو بہت بھوک لگ رہی ہے"۔ نیلم نے گھٹنوں پہ سر رکھ کر کہا۔ 

" بس تھوڑی دیر صبر کر لے ابھی بن جائے گا ناشتہ"۔ پھپھو نے مصروف سے لہجہ میں کہا۔ 

" آج تو میں سوچ رہی ہوں تجھے گاؤں کے طور طریقے سکھاؤں کچھ اب زندگی یہاں گزارنی ہے تو یہاں کے حساب سے ہی گزارنی پڑے گی ناں"۔ پھپھو نے پیڑا بناتے کہا۔ 

اسنے اپنی چھوٹی آنکھیں اٹھا کر پھپھو کو دیکھا اور لب ہلکے سے بسور لیئے ، پھپھو نے جیسے ہی اسکی طرف دیکھا وہ ہلکے سے مسکرائ اور ہلکے سے مسکرانے سے ہی اسکے گالوں میں گڑھے پڑھ گئے تھے۔ پھپھو اسکے معصوم سے چہرے کو دیکھ کر مسکرائ تھیں۔ 

جیسے ہی پھپھو نے پہلا پراٹھا بنا یا اسے دیا انڈہ پراٹھا اور چائے لیکر وہ درختوں کے نیچے رکھی چارپائیوں میں سے ایک پر آکر بیٹھ گئ تھی۔ 

ابھی اسنے چند نوالے ہی لیئے تھے کہ نہایا دھویا آدم اسکے برابر میں آکر بلکل اس سے چپک کر بیٹھا تھا۔ نیلم نے گھبرا کر باورچی خانہ کی سمت دیکھا پھپھو اپنے کام میں مصروف تھیں۔ اسنے نگاہ گھما کر آدم کو دیکھا اور پھر گلابی لبوں کو بسور کر منہ بنا کر اسے دیکھا۔ آدم اسکو دیکھ کر ایک پل کو تو اسکے چہرے کے نقوش میں کھونے لگا تھا۔ وہ کتنی پیاری ۔۔۔ تھی ۔۔۔ یہ چیز آدم کو اب سمجھ آرہی تھی ایسے ہی سب اسکے حسن کی تعریف نہیں کرتے تھے۔ چھوٹی سیاہ ہرنی جیسی خوف زدہ آنکھیں چھوٹی سی ناک گلابی نازک لب گول کتابی چہرہ ہائے اور اسپہ کالی زلفوں کا پہرا۔ آدم نے بڑی محبت سے اسے تکا تھا۔ نیلم واپس اپنے ناشتہ کی طرف متوجہ ہوگئ تھی۔ آدم بھی اسکے ساتھ کھانے لگا تھا۔ نیلم نے آدم کے پراٹھے کی طرف جاتے ہاتھ پہ زور دار تھپڑ مارا تھا۔ 

" میرا پراٹھا ہے جاؤ پھپھو سے لو اپنا ناشتہ"۔ اسنے اسے گھوری سے نواز کر کہا۔ 

" کیا تمہارا کیا میرا۔۔۔۔ جو تمہارا ہے وہ میرا اور جو میرا ہے وہ تمہارا"۔ آدم نے اسکے ہونٹ کے کونے پہ لگے انڈے کے چھوٹے سے ٹکڑے کو ہٹا کر اپنے منہ میں ڈالا تھا۔ نیلم اسکی حرکت پہ اس سے نگاہ چرا گئ۔ 

آدم مسکرایا تھا۔ 

" کرنے دو اماں اور دے دیں گی ناشتہ قسم سے میری اماں بہت اچھی ہیں "۔ آدم نے پراٹھا لیتے کہا۔ نیلم نے بھی مزید اسے کچھ نا کہا خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی۔ وہ دونوں ناشتہ کرنے میں مگن تھے ساتھ ساتھ آدم اسے تنگ کرنے سے بھی باز نا آرہا تھا جب انہیں اپنے پیچھے سے منال کی آواز سنائ دی۔ نیلم تو کڑوی سی شکل بنا کر واپس اپنا ناشتہ کرنے لگی تھی ۔ پر آدم کھڑا ہوگیا تھا۔ اور اسے کھڑا ہوتے دیکھ نیلم کو یقین ہوگیا تھا کہ اس دن جو کچھ منال نے کہا تھا وہ سچ ہے۔ 

" منال آؤ نا بیٹھو"۔ آدم نے خوشدلی سے کہا۔ اسکے لہجہ کی نرمی دیکھ نیلم نے بری سی شکل بنائ تھی۔ 

" نہیں مجھے نہیں بیٹھنا تم شاید بہت مصروف ہو پہلے سے ہی"۔ منال نے خفگی سے کہا۔ 

" ارے ۔۔۔۔ نہیں میں بلکل بھی مصروف نہیں بس میں ۔۔۔۔ انتظار ہی کر رہا تھا تمہارا"۔ آدم نے نرمی سے کہا۔ نیلم کے ماتھے پہ لاتعداد شکنوں کا جال بچھ چکا تھا۔ 

" مجھے تو نہیں لگتا"۔ منال نے جلتے لہجہ میں کہا۔ 

" ارے کیوں نہیں لگتا کل شام میں تم نے مجھے آنے کو کہا تھا اور دیکھو میں رات ہی پہنچ گیا تاکہ تم مجھے اپنا کام بتا سکو ۔۔۔۔"۔ آدم کے لہجہ میں کچھ تو ایسا تھا کہ نیلم نے جلتی آنکھوں سے آدم کو دیکھا اور اپنا ناشتہ وہیں چھوڑ کر غصہ سے اپنے کمرے کے سمت چلی گئ۔ 

آدم محض اسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔ 

" آؤ تم بیٹھو۔۔"۔ آدم نے منال کو بیٹھنے کو کہا۔

" لگتا ہے تمہاری بیوی کو میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا"۔ منال نے چارپائی پہ بیٹھتے کہا۔ 

" نہیں۔۔۔ ایسا کچھ نہیں بس اسے زیادہ بات کرنے کی عادت نہیں کسی سے"۔ آدم نے شائستگی سے کہا۔

" خیر ہے میں بھی منہ نہیں لگاتی تمہاری بیوی جیسے لوگوں کو"۔ منال نے آنکھیں گھما کر کہا۔ 

" ایسا نہیں ۔۔۔ وہ دل کی بری نہیں ہے بس اسے لوگوں سے زیادہ باتیں کرنے کی عادت نہیں"۔ آدم کو منال کے الفاظ نیلم کے لیئے برے لگے تھے۔ 

" تو کیا کسی کو سلام کرنا بھی نہیں پسند"۔ منال نے سر جھٹک کر کہا۔ 

" تم بتاؤ کیوں بلا رہی تھیں تم مجھے"۔ آدم نے اسکی بات نظر انداز کرتے اہم بات پوچھی۔ 

وہ آدم کو بتانے لگی تھی۔۔۔ اور آدم غور سے اسکی بات سن رہا تھا۔ آدم نے دھیرے سے سر ہلایا اور وہ مزید اسے بتانے لگی۔

♧♧♧♧♧♧

نیلم کمرے میں آکر بیڈ پہ بیٹھی تھی اسکی آنکھوں سے آنسو بھل بھل بہہ رہے تھے۔ وہ بار بار اپنی آنکھیں اور ناک رگڑ رہی تھی۔ رو رو کر اسکی ہچکیاں بندھ گئ تھی۔ تقریبا آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد آدم کمرے میں فریش سے موڈ سمیٹ آیا تھا پر اسے اس بے دردی سے روتے دیکھ وہ اسکی طرف لپکا تھا۔ 

" کیا ہوا کیوں رو رہی ہو"۔ آدم نے اسکا چہرہ تھام کر پوچھا۔

" دور ۔۔۔ ر۔۔۔رہو ۔۔۔"۔ اسنے اسکے ہاتھ بے دردی سے خود سے دور جھٹکے تھے۔ آدم نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔ 

" اچھا ہوا۔۔۔ کیا ہے یہ تو بتاؤ"۔ آدم نے اسکے ہاتھ تھامنے چاہے اسنے اپنے ہاتھ دوپٹہ میں چھپا لیئے۔ 

"۔۔۔ کچھ۔۔ نہیں"۔ اسنے سسک کر کہا۔ 

آدم محض اسے دیکھ کر رہ گیا۔ 

" ہوا کیا ہے ۔۔۔۔ نیلم پلیز بتاؤ تو سہی۔۔۔ ایسے بری طرح سے کیوں رو رہی ہو"۔ آدم نے عاجزی سے پوچھا۔

" کہا ناں ۔۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔ بس مجھے اکیلا چھوڑ دو"۔ اسنے بے رخی سے کہا۔ 

سنو۔۔۔۔ میری طرف دیکھو۔۔۔"۔ اسنے اسے بازو سے تھام کر اسکا رخ اپنی سمت کیا۔ 

" نہیں دیکھوں گی"۔ منہ بسور کر کہتے ایک سسکی لی۔ 

" میری کوئ بات بری لگی ہے"۔ آدم نے پیار سے پوچھا۔ 

" کوئ۔۔۔ بات۔۔!!!! مجھے تو تم پورے کے پورے زہر لگتے ہو"۔ اسنے سسک کر کہا۔ 

" لو۔۔۔ یار۔۔۔ تم۔۔۔ لڑکیاں اتنی کمپلیکیٹڈ کیوں ہوتی ہو"۔ آدم بلکل اپنے بال نوچنے کے قریب تھا۔ 

" لڑکیاں۔۔۔!! اور کتنی لڑکیاں آچکی ہیں تمہاری زندگی میں مجھ سے پہلے"۔ اسنے سسک کر کہا۔ 

" کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔"۔ آدم نے حیرت سے پوچھا۔ 

" پاگل ہوگئ ہوں میں موت پڑھ رہی ہے مجھے"۔ اسنے غصہ سے سائڈ ٹیبل پہ پڑا آدم کا موبائل اٹھا کر اتنی زور سے دیوار پہ مارا تھا کہ اسکا موبائل اپنی شکل میں نہیں رہا تھا۔ اور آدم محض آنکھیں پھاڑ کر اپنے موبائل پر ظلم ہوتا دیکھتا رہ گیا۔ 

"تم نے۔۔۔ موبائل توڑ دیا میرا نیلم۔۔۔"۔ اسنے بے یقینی سے کہا۔

" میں تمہارا سر بھی ایسے ہی توڑ دوں گی"۔ اسنے خونخوار ہوتے لہجہ میں کہا۔

" سر۔۔۔ ایویں فالتو کا تھوڑی ہے میرا سر۔۔۔ خیر ۔۔۔ ابھی تو میرا موبائل توڑنے کا حساب دو۔۔۔"۔ آدم نے بھڑک کر کہا۔ 

" آدم سخت زہر لگ رہے ہو مجھے تم میری نظروں سے دور ہوجاؤ "۔ نیلم نے خونخوار لہجہ میں کہا۔ 

" بھئ یہ کیا بات ہوگئ میرا اتنا مہنگا موبائل توڑ کر اب کہہ رہی ہو کہ تمہاری نظروں سے دور ہوجاؤں بھئ کیوں۔۔۔۔ کونسے مزے لگے ہیں"۔ اسنے خفا ہوتے کہا۔ 

" آدم انسان بن جاؤ"۔ نیلم نے اسے گریبان سے تھام کر خونخوار لہجہ میں کہا۔ 

آدم اسکا غصہ کی تمازت سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھتا رہ گیا تھا۔ وہ اسے اسوقت اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی۔ آدم سر جھٹکتا خاموشی سے کمرے سے نکل گیا تھا اور وہ بیڈ پہ منہ کے بل لیٹتی ایک بار پھر سسک اٹھی تھی۔

♧♧♧♧♧♧

سجل آلائنہ کی طبیعت کی ناسازی کا سن کر آئ تھی پر جب وہ یہاں آئ تو پتہ چلا صالح اور تبسم آلائنہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ہیں۔ طائ امی کے ساتھ وہ کچن میں لگ گئ تھی انکے ساتھ کام کرا رہی تھی۔ جب تھوڑی دیر بعد غازی گھر آیا تھا۔ طائ امی نے چائے اور پانی ٹرے میں رکھ کر اسے دیا کہ غازی کو دے آئے۔ وہ طائ امی سے ٹرے لیکر غازی کے کمرے میں بنا دستک دیئے گھس گئ تھی۔ وہ جو شرٹ لیس اپنے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے پاس بیٹھا اپنے بازو پہ لگے زخم پہ مرہم پٹی کر رہا تھا۔ سجل کو دیکھ کر اسکے ماتھے پہ کئ بل نمودار ہوئے تھے۔ سجل اسکے ہاتھ پہ زخم دیکھ ٹرے ٹیبل پہ رکھتی اسکے پاس آکر کھڑی ہوئ تھی۔ 

" یہ کیا ہوگیا ۔۔۔۔ ایک منٹ گولی لگی ہے"۔ سجل نے پہلے آنکھیں چندھیا کر زخم کو بغور دیکھا اور پھر ایک دم آنکھیں بڑی کرکے اشتیاق سے مستفسر ہوئ۔ غازی محض اسکی شکل دیکھ کر رہ گیا۔ کوئ اور لڑکی ہوتی تو یقیناً ڈر کر سہمی کھڑی ہوتی۔۔۔۔ پر خیر یہ لڑکی تھوڑی تھی۔۔۔ نمونہ ۔۔ تھا نمونہ۔۔۔ !!!

" ہمم"۔ غازی نے سر جھٹک کر کہا۔ 

" گولی نکال لی اس میں سے"۔ اسنے پرجوشی سے پوچھتے پیچھے پڑا یلو کلر کا بین بیگ کھینچ کر غازی کے قریب کیا تھا اور خود اس پہ بیٹھی تھی۔ 

" ہاں ۔۔۔ نکال لی ہے"۔ اسنے تکلیف سے لب بھینچ کر کہا۔ 

" دھت تیری کی۔۔۔ مجھے موقع دے دیتے میں نا چھری گرم کرکے لاتی اور اس سے نکالتی"۔ اسنے افسوس کیا تھا۔

غازی نے اسے غصہ سے گھورا تھا اور سر جھٹک کر زخم صاف کرنے لگا تھا۔ 

" ارے یہ تو مجھے کرنے دیں۔۔۔ مطلب لائف میں کچھ تو ایڈوینچر ہو ناں"۔ سجل نے لب کچل کر چہک کر کہا تھا۔ اور غازی کا ہاتھ زور سے دبا کر پکڑا تھا کہ غازی محض درد سے کراہ کر رہ گیا تھا۔ اس لڑکی میں کہیں سے بھی نزاکت نام کی کوئ چیز نا تھی۔ 

غازی کے بازو پہ لگی چوٹ کو اچھے سے صاف کرنے کے بعد اسپہ بینڈیج کرتے پورے عمل میں اسکے چہرے پہ ایک عجیب سی چمک انوکھی سی خوشی تھی غازی اسکے چہرے پہ موجود خوشی دیکھ اسکے چہرے کے نقوش میں کھونے لگا تھا۔ 

" ہوگئ"۔ اسنے بینڈیج مکمل کرکے دونوں ہاتھ جوڑ کر مسمرائزنگ سے انداز میں غازی کی بیندیج کو دیکھا تھا۔ 

" تھینک یو غازی بھیا آپ نے مجھے کچھ ایڈوینچر کرنے کا موقع دیا ۔۔۔ پر یہ زخم۔۔۔ لگا کیسے آپکو"۔ اسکے سوال پہ غازی نے گہری سانس لی تھی جو سوال وہ پہلے اسپیکٹ کر رہا تھا وہ محترمہ کو اب یاد آرہا تھا۔ 

" وہ میں نہیں بتا سکتا پر ۔۔۔۔ کسی کو نہیں پتہ چلنا چاہیئے کہ میرے ہاتھ پہ گولی لگی ہے گوٹ اٹ"۔ غازی نے شہادت کی انگلی اٹھا کر وارن کرتے لہجہ میں کہا۔

" مطلب ۔۔۔۔ سیکریٹ ۔۔"۔ اسنے اپنی سنہری آنکھوں سے غازی کی سرد گرے آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔ 

" ہمم"۔ غازی نے سنجیدگی سے کہا۔ 

" اوہ واؤ نیو ایڈوینچر"۔ وہ خوشی سے چہکی تھی۔ اور غازی محض اسے دیکھتا رہ گیا۔ بس کثر رہ گئ تھی تو اپنا سر دیوار پہ مار دینے کی رہ گئ تھی۔ 

♧♧♧♧♧♧

صالح اور تبسم گاڑی میں بیٹھے تھے آلائنہ کو ڈاکٹر کو دکھا کر وہ دونوں اب گھر واپس آرہے تھے۔ تبسم نے سر سیٹ کی پشت سے ٹکایا ہوا تھا۔ آلائنہ تبسم کی گود میں لیٹی آنکھیں موندے سو رہی تھی۔ تبسم نے اسکے چہرے پہ دھیرے سے اپنے ہاتھ کی انگلیاں پھیریں۔ صالح نے ڈرائیونگ کرتے ایک نظر تبسم کو دیکھا جسکا رنگ اپنی بچی کی بیماری دیکھ مرجھا سا گیا تھا۔ 

" پریشان نا ہو ٹھیک ہو جائے گی"۔ صالح نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔

" صالح یہ۔۔ پہلے کبھی ایسے بیمار نہیں ۔۔۔ ہوئ نجانے اب کیا ہوگیا ہے میری بچی نجانے کس کی نظر لگ گئ ہے"۔ تبسم نے نگاہ صالح کی جانب کرکے کہا۔ 

" کوئ بات نہیں ہوجاتے ہیں بچے ایسے بیمار اس میں اتنی پریشانی والی کوئ بات نہیں پریشان نا ہو"۔ صالح نے اسکے ہاتھ پہ ہلکا سا دباؤ دے کر کہا۔ 

تبسم نے گہری سانس لیکر اثبات میں سر ہلایا۔ 

" ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ اب کافی بہتر ہوگئ ہے اسکی طبیعت پہلے سے"۔ تبسم نے دھیرے سے بتایا۔ 

" دیکھا ڈاکٹر نے بھی بتا دیا ۔۔۔ اور تم۔ایسے ہی پریشان ہو رہی ہو"۔ صالح نے گاڑی موڑتے کہا۔ 

" ہمم"۔ تبسم۔نے آلائنہ کو دیکھ کر کہا۔ 

" ڈنر باہر کریں۔۔؟"۔ صالح نے اسے ایک نظر دیکھ کر پوچھا۔ 

" نہیں بس گھر چلو"۔ اسنے آلائنہ کا نرم گال سہلاتے کہا۔ 

" چلو جیسی تمہاری مرضی"۔ صالح نے نرمی سے کہا۔ تبسم نے ایک نظر اسے دیکھا۔ صالح نے بھی اسی وقت تبسم کی سمت دیکھا۔ اور تبسم کو اسکی آنکھوں میں وہی ڈر دکھا جو اسکی اپنی آنکھوں تھا۔ تبسم نے نم آنکھوں سمیت اسے تکتے دھیرے سے اپنا سر اسکے کندھے پہ رکھا تھا۔ صالح تکلیف سے اپنے لب بھینچ کر رہ گیا تھا۔

رات کو سونے کا وقت آیا تو آدم کو مجبوراً کمرے کا رخ کرنا پڑا اب اسے کل شام تک اسلام آباد واپس جانا تھا۔ آج کی رات تو یہیں تھی۔ وہ کمرے میں آیا تو وہ آنکھوں پہ بازو رکھے سو رہی تھی یا ۔۔۔ ناٹک کر رہی تھی کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ آدم خاموشی سے آکر اسکے برابر لیٹا تھا۔ ایک نگاہ ترچھی کرکے اسے دیکھا تو وہ اب بھی ویسے ہی پڑی سو رہی تھی۔ آدم نے آگے کو جھک کر اسکا بازو اسکی آنکھوں پہ سے ہٹایا تھا۔ 

بازو ہٹتے ہی اسکا من موہنا چہرہ سامنے تھا۔ اسکا شک سہی ثابت ہوا تھا وہ سو نہیں رہی تھی وہ آنکھیں موندے سونے کا ناٹک کر رہی تھی۔ اسکے لب اور پلکیں اضطراب کیفیت میں جنبش کر رہی تھیں۔ آدم نے دھیرے سے اسکی آنکھوں پہ اپنے لب رکھے تھے۔ نیلم نے اپنی آنکھیں کھول کر اسے تکا تھا۔ اسکی سرخ آنکھیں دیکھ آدم کو شرمندگی ہوئ تھی۔ 

" نیلم۔۔۔۔ جیسا تم سمجھ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہیں"۔ آدم نے اسے کھینچ کر اپنی بانہوں میں لیتے مخمور لہجہ میں کہا۔ 

" آدم پلیز۔۔۔ مجھے نا بتائیں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ میں نے سب جان لیا ہے"۔ اسنے بھاری ہوتے لہجہ میں کہا اور اسکو خود سے دور کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگی تھی۔ 

" یہ تو غلط بات ہوئ ناں نیلم کہ خود ہی تم کچھ بھی سمجھ لو"۔ آدم نے نرمی سے شکوہ کیا۔ 

" میں نے کچھ بھی نہیں سمجھا میں نے وہ سمجھا ہے جو سچ ہے"۔ اسنے لب کچلتے کہا۔ آدم محض اسے دیکھتا رہ گیا۔ وہ خاموشی سے چھت کو گھور رہی تھی۔ دوپٹہ سے بے نیاز اسکا وجود مزید دلکش لگ رہا تھا۔ صالح نے جھک کر اسکی گردن پہ لب رکھے تھے۔ نیلم اسکی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئ تھی۔ 

" آدم بدتمیزی مت کرو"۔ نیلم نے چڑ کر کہا۔

" اسے بدتمیزی تو نہیں کہتے اسے تو عشق ۔۔۔ محبت۔۔۔ پیار کہتے ہیں"۔ آدم نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔ 

" آدم یہ میٹھے الفاظ کی مار اسے مارو جو کم عقل ہو میں نہیں ہوں کم عقل"۔ اسنے منہ بنا کر کہا۔ 

" صحیح کہہ رہی ہو تم تھوڑی ہو کم عقل"۔ آدم نے اسکے نازک لبوں کو اپنے انگوٹھے سے مسلا تھا۔ نیلم کا سانس اٹکا تھا۔ نیلم کا دل اسکے گانوں میں بجنے لگا تھا۔ وہ اس سے پہلے اس سے دور ہوتی۔ وہ اسکے نازک لبوں کو اپنی مضبوط گرفت میں لے چکا تھا۔ نیلم نے اپنی آنکھیں مینچ لی تھیں۔ آدم اسکو بخشتا اس سے دور ہوا تو وہ نگاہیں جھکائے سانس رکے ہوئے تھی۔ 

" سانس لو"۔ آدم نے اسکے گال سہلا کر کہا۔ 

" آدم ۔۔۔ میں ناراض ہوں تم سے پلیز مجھے تنگ مت کرو"۔ وہ دھیرے سے منمنائ تھی۔ 

" تم ناراض ۔۔۔ ہو تو میں تمہیں منا رہا ہوں مان جاؤ ناں"۔ آدم نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا۔ 

" آدم مجھے نیند آرہی ہے"۔ نیلم نے خفگی سے کہتے کروٹ بدل لی۔

آدم محض ٹھنڈی سانس لیکر رہ گیا تھا۔ 

وہ بھی سیدھا ہوکر لیٹ گیا تھا۔ آنکھیں گھما کر وہ پریشان سا آنکھیں موند گیا تھا۔ 

♧♧♧♧♧

صبح تبسم اٹھی تو ، وہ صالح کی بانہوں میں تھی اسنے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کیا اور اٹھی۔ چاروں طرف نگاہ دوڑا کر دیکھا تو اسکا دل ڈوبنے لگا تھا۔ کمرے میں روشنی نا ہونے کے برابر تھی۔ اور کمرہ دھول مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ تبسم نے کمرے میں واحد چھوٹی سی کھڑکی کھولی کمرے میں روشنی چھن کر آئ اور سیدھا صالح کے چہرے پہ پڑی۔ صالح نے روشنی کو روکنے کے لیئے اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھا تھا۔ تبسم اسے ایک نظر دیکھ کر کمرے میں پڑی چھوٹی سے جھاڑو اٹھا کر جالے اتارنے لگی تھی۔ دھول اڑ اڑ کر صالح کے نتھنوں سے جیسے ہی ٹکرائ وہ چھینکتا ہوا اٹھا تھا۔ 

" ۔۔۔ یہ۔۔۔ یار ۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔ تبسم"۔ صالح نے غصہ سے بھڑک کر کہا۔ 

تبسم نے ہاتھ روک کر مڑ کر اسے دیکھا۔ 

" جالے صاف کر رہی ہوں"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔ 

" پلیز مت کرو یہ سب کوئ ضرورت نہیں اسکی"۔ صالح نے چڑ کر کہا۔ 

" کیوں نا کروں اب جب تک یہاں ہیں تو صفائ ستھرائ تو کرنی پڑے گی ناں"۔ تبسم نے منہ بسور کر کہا۔ 

" ضرورت کیا ہے آخر اس صفائ کی"۔ صالح چڑے ہوئے لہجہ میں بولا۔ 

" اپ کو نہیں ہوگی پر مجھے ہے ضرورت "۔ تبسم نے سنجیدگی سے کہا تھا اور خود صفائ کے کام میں جت گئ تھی۔ اور صالح سر پکڑ کر رہ گیا تھا۔ 

" آپ اٹھ کر جائیں اور مجھے کہیں سے کپڑے ہی ارینج کردیں پھر میں آپکے ساتھ جاکر سامان وغیرہ لے آؤں گی"۔ تبسم نے اسے بیٹھے دیکھ گھور کر کہا۔ وہ سر ہلاتا نا چار باہر نکل گیا اسکے نکلتے ہی تبسم نے دروازہ بند کیا اور اپنے کام میں واپس لگ گئ۔ 

♧♧♧♧♧♧♧

آدم کو آج اٹھتے اٹھتے کافی دیر ہوگئ تھی۔ وہ جب کمرے سے نکل کر آیا تو باہر کا منظر دیکھ وہ بہ مشکل اپنی ہنسی دباتا آکر چارپائی پہ بیٹھا تھا۔ نیلم لگی گائے کا دودھ دھونے کا طریقہ سیکھ رہی تھی۔ 

" ارے ایسے نہیں ایسے کر"۔ پھپھو نے تنگ آکر اسے دوبارہ طریقہ سکھایا۔ 

" اللہ پھپھو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ گائے ۔۔۔ ہے یہ پھپھو ۔۔۔ لات وات ماردی تو"۔ نیلم نے سہمے ہوئے لہجہ میں کہا۔ آدم سر نفی میں ہلاتا ہنسا تھا۔ 

" پھپھو یہ بعد میں ۔۔۔ کچھ اور سکھا دو ابھی یہ مجھ سے نہیں ہوگا"۔ نیلم نے رونی صورت بنا کر کہا۔ 

" نا پہلے یہ ہی کرنا پڑے گا ، یہ کرے گی تو آگے کچھ سیکھ سکے گی ناں"۔ پھپھو نے اٹل لہجہ میں کہا۔ 

نیلم نے روہانسی صورت لیئے پھپھو کو دیکھا تھا۔ 

" چل کر اب نکال"۔ پھپھو نے پیچھے ہوتے اسے آگے ہونے کو کہا۔ 

" پھپھو۔۔۔ "۔ اسنے ہلکی سی فریاد کی۔ 

" جلدی کر"۔ پھپھو نے کرختگی سے کہا۔ 

نیلم نے ابھی ڈرتے ڈرتے گائے کے تھن کو چھوا ہی تھا کہ آدم کی پیچھے سے آواز لگانے پہ وہ چیخ مار کر دور ہوئ تھی۔ 

" نہیں نیلم لات مار دے گی"۔ آدم نے محظوظ کن انداز میں کہا۔ 

نیلم نے دل پہ ہاتھ رکھے آدم کو گھور کر دیکھا تھا۔ 

" مسئلہ کیا ہے تمہارا ، ایک تو مجھ سے ویسے ہی کام نہیں ہورہے"۔ نیلم نے کھڑے ہوتے اپنے پہلوؤں میں ہاتھ رکھ کر کہا۔ 

" میں نے کیا کیا ہے میں تو بس تمہیں آگاہی دے رہا تھا"۔ آدم نے لب دبا کر کہا۔ 

" بکواس نا کرو "۔ نیلم نے چڑ کر کہا اور واپس گائے کے پاس رکھی پیڑھی پہ جا کر ڈرتے ڈرتے بیٹھی تھی۔ 

ڈرتے ڈرتے اسنے دودھ دھونا۔۔۔ شروع کیا تو ۔۔۔۔ روتی بسورتے شکلیں بھی ساتھ ساتھ ہی بنا رہی تھی۔ اور پھپھو ساتھ ساتھ اسے گائڈ کر رہی تھیں۔ اور آدم لیٹا اسے دیکھ رہا تھا۔ نیلم نے دودھ سے بھری بالٹی اٹھائ تھی۔ اور پھپھو کو خوشی سے دکھائی تھی۔ 

" پھپھو ۔۔۔ یہ دیکھو۔۔۔ "۔ نیلم نے چہک کر پھپھو کو دودھ کی بالٹی دکھائ۔ پھپھو نے اسے خوب شاباشی سے نوازا وہ آدم کو اچٹتی نگاہ دکھا کر بالٹی باورچی خانہ میں رکھنے چلی گئ۔ آدم بھی اسکی ادا پہ ہنسا تھا۔ 

ابھی نیلم بالٹی رکھ کر باہر آئ تھی کہ اسکی نگاہ آدم کے ساتھ بیٹھی منال پہ پڑی اسکا موڈ جو کچھ بہتر تھا۔ وہ یکدم بگڑا تھا۔ 

وہ انکے پاس سے گزرنے کو تھی کہ آدم نے اسکی کلائ تھام کر اسے روکا نیلم نے سوالیہ نظروں سے آدم کو تکا۔ 

" کہو۔۔۔ کیا کہنا ہے"۔ نیلم نے پھولے ہوئے منہ سمیت کہا۔ 

" منال آئ ہے تم نے اسے سلام تک نہیں کیا"۔ آدم نے اسے محبت سے تکتے کہا۔ 

" تم بیٹھے ہو ناں اپنی پیاری منال کو سلام کرنے بہت ہے بلکہ ایسا کرو اپنی گود میں بٹھا لو اپنی پیاری منال کو"۔ نیلم نے بدتمیزی سے کہا۔ آدم کا چہرہ اسکی اسقدر بد تمیزی پہ غصہ کے باعث سرخ ہو گیا تھا۔ اسنے بنا مزید کچھ کہے نیلم کا ہاتھ چھوڑ دیا نیلم منال پہ ایک نفرت بھری نگاہ ڈال کر وہاں سے چلی گئ۔ 

" دیکھا کہا تھا ناں ۔۔۔ نہیں کرو ، شہر کی لڑکی سے شادی کر دی نا زندگی اجیرن بد تمیز کہیں کی"۔ منال نے جلتے لہجہ میں کہا۔ آدم محض اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔ 

" خیر ۔۔۔ شکریہ میرا مسئلہ حل کرنے کے لیئے ، ۔۔ میں اپنے گھر چلی جاؤں گی کل ۔۔۔ پر دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ سدھرتے ہیں یا نہیں۔۔۔ کاش آدم تمہاری بچپن میں اس نیلم سے منگنی نا ہوئ ہوتی۔۔۔ تو تم آج میرے ہوتے نا میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتی نا تم ایسی بدتمیز عورت کے ساتھ زندگی گزارتے"۔ منال نے ٹوٹے ہوئے لہجہ میں کہا۔ آدم نے نگاہ اٹھا کر اسے تکا۔ 

" منال میری دعا ہے تم اپنے گھر میں خوش رہو ، تم بلکل مجھے میری بہنوں جیسی ہو ، اور تم نیلم کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال نا کرو اگر تمہیں ہماری دوستی کا زرا بھی پاس ہے تو مجھے نیلم سے بہت محبت ہے وہ مجھے بے حد عزیز ہوگئ ہے ان چند دنوں میں ، ایسا نہیں کہ وہ مجھے پہلے پسند نہیں تھی وہ مجھے پہلے بھی پسند تھی پر اب وہ پسند سے محبت تک کا سفر میری زندگی میں طے کر چکی ہے ، اور جو الفاظ تم اسکے لیئے استعمال کرتی ہو وہ مجھے تکلیف دیتے ہیں"۔ آدم نے نرم سے لہجہ میں کہا۔

" اور۔۔ وہ جو میرے بارے میں کہہ کر گئ ۔۔ اسکا کیا؟؟"۔ منال نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔

" اسکے ۔۔۔ لیے میں تم سے معذرت خواہ ہوں"۔ آدم نے نگاہیں چرا کر کہا۔

" ہنہ۔۔۔ ساری زندگی ایسے ہی لوگوں سے معافیاں مانگتے گزرے گی تمہاری"۔ منال نے طنزیہ لہجہ میں کہا اور اٹھ کر چلی گئ۔

آدم محض سر جھٹک کر رہ گیا۔ 

♧♧♧♧♧♧

کلاس میں پن ڈراپ سائیلنس تھی ، غازی بورڈ پہ لگا سمجھا رہا تھا۔ سب بچے توجہ سے اہم پوائنٹس نوٹ کر رہے تھے۔ صرف ایک سجل تھی۔ جو ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے اشتیاق سے غازی کو تک رہی تھی۔ غازی جیسے ہی اسٹوڈنٹس کی طرف متوجہ ہوا۔ سجل کو اپنی طرف ایسے تکتا پا کر وہ چڑ گیا تھا۔ یہ سلسلہ تقریباً پچھلے ایک ہفتہ سے چل رہا تھا۔ جب سے سجل کو غازی کی حقیقت کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ غازی نے غصہ سے اسے گھورا تھا پر وہ بنا توجہ لیئے اپنی ایک آنکھ دبا گئ تھی۔ اسکی حرکت پہ غازی کے ماتھے پہ پسینے کی چند بوندیں نمودار ہوئ تھیں۔ 

" مس سجل اسٹینڈ اپ"۔ غازی نے غصہ سے تقریباً غرا کر کہا۔ 

" یس سر"۔ سجل معصومیت سے کھڑی ہوئ تھی۔ 

" ذرا یہاں آکر یہ سوال حل کرکے دکھائیں"۔ غازی نے دانت پیس کر کہا۔ 

" س۔۔ سر۔۔سر میں"۔ سجل کی سٹی یکدم گم ہوئ تھی۔ 

" جی۔۔ بلکل آپ ہی"۔ آدم نے سنجیدگی سے کہا۔ 

سجل نے تھوک نگلی۔ اور پھیکی سی ہنسی ہنستی وہ چلتی ہوئ آئ اس پہلے کے وہ بورڈ تک آتی ، غازی کی ڈائسک کے قریب آکر یکدم اسکا پیر رپٹا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی غازی نے اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں بھرا تھا۔

یکدم کلاس میں ہوٹنگ شروع ہوئ ، غازی نے سجل کو خود سے دور جھٹکا ، سجل سیدھی کھڑی ہوتی اپنے بال سیٹ کرتی بورڈ مارکر اٹھا کر بورڈ کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئ تھی۔ اسے بورڈ کے پاس کھڑے کھڑے پانچ منٹ گزرے دس منٹ گزرے پر وہ سوال حل نا کر سکی اسنے منہ بسور کر غازی کو دیکھا جو ہاتھ باندھے اسے تنقیدی نگاہوں سے تک رہا تھا۔ 

"کریں"۔ غازی نے بورڈ کی طرف ہتھیلی پہلا کر کہا۔

" ن۔۔ نہیں آرہا۔۔سر"۔ اسنے دانت پیس کر کہا۔ 

" اوکے گیٹ آؤٹ"۔ غازی نے سرد لہجہ میں کہا۔ 

" جی۔۔۔ "۔ سجل نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔

" میں نے کہا آپ کلاس سے باہر جا سکتی ہیں کیونکہ آپ کے کلاس میں بیٹھنے کا کوئ فائدہ نہیں"۔ غازی نے سنجیدگی سے کہتے اسپہ سے رخ موڑ دیا اور باقی کلاس کو مخاطب کرتا وہ آگے سمجھانے لگا تھا۔ 

اور سجل منہ بناتی کلاس سے باہر آگئ تھی۔ باہر آکر گھانس پہ بیٹھتی وہ آسمان کو دیکھنے لگی تھی۔ 

♧♧♧♧♧

صالح اسکے لیئے کچھ کپڑے وغیرہ لے کر آیا تھا اور تھوڑا بہت کچھ کھانے کو بھی جب وہ اندر آیا تو اسنے پورا کمرہ صاف کر دیا تھا۔ صالح نے ستائشی نگاہوں سے پورے کمرے کو دیکھا۔ 

" واہ تم نے تو کمرے کو چمکا دیا"۔ صالح نے مسکرا کر کہا۔

" ہیں ناں۔۔۔ اب سب کچھ تھوڑا تھوڑا صاف لگ رہا ہے ناں"۔ تبسم نے مسکرا کر کہا۔ صالح اسکے چہرے پہ مسکان دیکھ مسکرایا تھا۔ 

" ہاں تو اور کیا بہت خوبصورت لگ رہا ہے سب کچھ صاف ستھرا ہوکر"۔ صالح نے مسکا کر کہا۔ 

" اب مجھے بازار لے جائیے گا تاکہ تھوڑا سا سیٹ کر لوں ناں سب کچھ اب جب تک یہاں ہیں تو اس جگہ کو تھوڑا رہنے کے قابل تو بنا ہی لیں"۔ اسنے مٹکے سے صالح کے لیئے پانی بھرتے کہا۔

" ہاں بلکل ٹھیک کہہ رہی ہو"۔ صالح نے اسکے ہاتھ سے پانی لیتے کہا۔ پانی پی کر اسنے گلاس زمین پہ رکھتے تبسم کا ہاتھ تھام کر اسے محبت سے تکا تھا۔ 

" شکریہ"۔ صالح نے اسکے ہاتھ پہ ہونٹ رکھ کر کہا۔

" شکریہ کس لیئے؟"۔ تبسم نے اٹھی پلکیں جھکا کر پوچھا۔ 

" مجھے تھوڑی سی جگہ اپنی زندگی میں دینے کے لیئے"۔ اسنے نرم سے لہجہ میں کہا۔ 

" میں ۔۔۔ نے صرف یہ تھوڑی سی گنجائش اس لیئے دی ہے کیونکہ ۔۔۔ آپ نے کہا آپ نے کسی دولت کی لالچ میں مجھ سے نکاح نہیں کیا بلکہ آپ مجھے پسند کرتے تھے پر آپ ایک بات یاد رکھیئے گا ، جب ہم یہاں سے واپس لوٹیں گے تب آپ میرے پاپا سے معافی مانگیں گے اپنی ہر بدتمیزی کی"۔ تبسم نے نگاہیں جھکا کر کہا۔ 

" میں مانگوں گا معافی"۔ صالح نے کچھ سوچ کر کہا۔ 

" سچ آپ بہت اچھے ہیں صالح"۔ تبسم نے مسکا کر کہا۔ 

صالح نے اسکا ہاتھ کھینچ کر اسے اپنی تھائ پہ بٹھایا تھا۔ تبسم یکدم بوکھلا سی گئ تھی۔ 

" کیا ہوا"۔ صالح نے اسکی گردن پہ لب رکھ کر کہا۔ 

"وہ۔۔۔ کچھ بھی نہیں"۔ تبسم نے نگاہیں جھکا کر کہا۔ 

" کپڑے لایا ہوں نئے پہن کا تیار ہوجانا پھر بازار سے تمہیں جو کچھ لینا ہو لے لینا"۔ صالح نے اس گلابی ہونٹوں کو بغور تک کر کہا۔ 

" ہمم"۔ تبسم نے ہلکی سی آواز میں کہا اسکی پر تپش نظریں خود پہ محسوس کرکے وہ اپنی پلکوں کی باڑ نا اٹھا سکی۔ 

صالح نے اسکے گالوں پہ ہاتھ رکھ کر اسکا سر اپنے قریب کیا تھا اور دھیرے سے اسکے نازک لبوں کو اپنی گرفت میں لیتا اسکی سانسیں روک گیا تھا۔ تبسم جو اسکی گرفت میں یکدم مچلنے لگی تھی اور صالح اسکی سانسوں کو پینے میں اسقدر گم تھا کہ وہ اسکی حالت پہ غور ہی نا کر پایا۔ اپنے تشنہ لب جب اسنے اسکے لبوں سے ہٹائے تو وہ یکدم بوکھلا گیا تھا۔ اسکی سانسیں بند ہورہی تھیں، اسکی رنگت زرد ہورہی تھی چہرے پہ ننھے ننھے پسینے کے قطرے نمودار ہورہے تھے۔ صالح کے یکدم ہاتھ پیر پھولے تھے اور تبسم بے جان سی ہوتی اسکے سینے سے لگی تھی۔ صالح نے اسے لیا تھا اور اسے لیکر علاقہ میں ہی بیٹھنے والے ایک چھوٹے سے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا۔ ڈاکٹر نے دیکھتے ہی اسے چند دوائیں اور ان ہیلر دیا۔ تبسم کی حالت سنمبھلی تو وہ اسے گھر لے آیا۔ 

" سوری میری وجہ سے"۔ صالح نے شرمندگی سی کہا۔ 

تبسم نے نگاہیں چرائ تھیں۔ 

" ۔۔ ک۔۔ کوئ بات نہیں"۔ تبسم نے کپکپانے لہجہ میں کہا۔ 

" وہ دراصل دھول مٹی کی وجہ سے بھی میری حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی"۔ تبسم نے نگاہیں چرا کر کہا۔ 

" اب تم بہتر محسوس کر رہی ہو"۔ صالح نے نرمی سے پوچھا۔ 

" جی ۔۔۔"۔ تبسم نے دھیمے سے لہجہ میں کہا۔ صالح بھی محض سر کو اثبات میں جنبش دے کر رہ گیا۔ 

آدم کو شام میں شہر نکلنا تھا اسنے بنا کوئ بات کیئے نیلم سے اپنا سامان پیک کیا۔ نیلم باہر پھپھو کے ساتھ بیٹھی تھی جب وہ اپنا سامان لیکر باہر آیا اور پھپھو سے ملتا شہر کے لیئے نکل گیا نیلم جلتی آنکھوں سے محض اسے جاتا دیکھتی رہی تھی۔ نیلم نے بھی سر جھٹک کر اسکے اس سے بنا ملے جانے پہ کوئ توجہ نا دی۔ 

وہ پھپھو کے ساتھ باتیں کر رہی تھی جب منال کسی مرد کے ساتھ آئ تھی۔ نیلم کے ماتھے پہ منال کو دیکھتے ہی بل سجے تھے۔ 

" ارے منال ارے خاور بھی آیا ہے ۔۔ آؤ آؤ بیٹھو "۔ پھپھو نے خوشدلی سے انہیں بیٹھنے کو کہا۔ نیلم خاموشی سے منال کو تک رہی تھی منال کے ساتھ کھڑے آدمی کے ہاتھ میں بیگ تھا جو اسنے چارپائی پہ رکھ دیا تھا۔

" نہیں مامی بس بیٹھیں گے نہیں ۔۔ اب جانا ہے سسرال جا رہی تھی ، مسئلہ تو آدم نے ختم کر دیا تو بس اب خاور بھی آگیا ہے لینے اور اسے اپنی غلطیوں پہ شرمندگی ہے ، ساری زندگی تو ماں کے گھر نہیں بیٹھا جاسکتا ناں ۔۔۔ بس سوچا جانے سے پہلے آپ لوگوں سے مل لوں ۔۔ آدم تو ابھی مل کر گیا ہے مجھ سے"۔ نیلم کو جھٹکوں پہ جھٹکے لگ رہے تھے۔ پہلے جھٹکا تو اسے یہ سن کر لگا کہ منال شادی شدہ ہے اور دوسرا شدید ترین جھٹکا اسے یہ سوچ کر لگا کہ۔۔۔ آدم اس سے نہیں ملا پر منال بی بی سے مل کر چلا گیا۔ نیلم کا غصہ کے مارے حال برا ہورہا تھا ۔۔۔ پر وہ تو جا چکا تھا اب وہ غصہ نکالتی بھی تو آخر کس پہ۔

" بس اللہ تمہیں خوش رکھیں "۔ پھپھو نے اسکی پیٹھ تھپک کر کہا۔ ان دونوں سے ملکر ان کو رخصت کرکے پھپھو نے نیلم کو چائے بنانے کو کہا تو نیلم کچن میں جاکر چائے بنانے بیٹھی تھی۔ پر سارا دیہان اسکا آدم کی طرف تھا جو بنا اس سے ملے چلا گیا تھا۔ 

" کتنا بدتمیز ہے چلو مانا میں نے اس وقت بہت بد تمیزی کر لی تھی پر کون کرتا ہے ایسا اپنی نئ نویلی دلہن کے ساتھ"۔ نیلم نے منہ بنا کر خود سے کہا۔ 

" کیا ہو جاتا اگر ۔۔۔ وہ مجھے محض اتنا ہی بول دیتا اچھا چلتا ہوں ۔۔۔۔ "۔ نیلم من ہی من خود سے بڑبڑا رہی تھی۔ 

" ٹھیک ہے اب آئے گا ناں تب میں بھی بات نہیں کرونگی"۔ نیلم نے منہ بنا کر سوچا۔ 

اور سر جھٹکتی چائے میں چمچ چلانے لگی تھی۔ 

♧♧♧♧

"آپی پلیز آپ پاپا کو کہو نا مجھے جانے دیں پکنک پہ۔۔۔ پلیز۔۔۔"۔ سجل نے تبسم کے پاس بیڈ پہ بیٹھتے رونی صورت بنا کر کہا۔ 

" میں کیسے کہوں ایک تو تم یہ ہر کام میرے سر پہ ڈال دیتی ہو"۔ تبسم نے اسے گھور کر کہا۔ 

" آپی پلیز ناں ۔۔ میری ساری فرینڈز جا رہی ہیں اور۔۔۔ غازی بھیا بھی تو جارہے ہیں ناں۔۔"۔ سجل نے باقاعدگی سے پیر جھلاتے کہا۔ 

" ہاں تو وہ اسٹوڈنٹ نہیں ہے ٹیچر ہے"۔ تبسم نے اسے گھورا۔

" توبہ ۔۔۔ آپی آپ تو نا بلکل ہی بدل گئ ہو ، اس ایک مہینے میں ہی آپ نے تیور بدل لیئے"۔ سجل نے دکھی لہجہ میں کہا۔

" تیور بدلنے کی کوئ بات نہیں پر پاپا نہیں مانیں گے"۔ تبسم نے آلائنہ کو تھپکتے کہا۔ اب پہلے سے آلائنہ کی طبیعت بہتر تھی۔ 

" پر آپی ۔۔۔!!"۔ سجل نے ضدی لہجہ میں کچھ کہنا چاہا۔ 

" کوئ پر ور نہیں ایسے اکیلے جوان لڑکی کا جانا درست بھی نہیں ۔۔۔ میں نہیں بات کرونگی اس حوالے سے پاپا سے بات میں ویسے بھی آج پاپا سے اپنی کوئ بات منوانے آئ ہوں"۔ تبسم نے سنجیدگی سے کہا۔ 

" واہ تم میاں ۔۔۔ اور بچے والی تمہیں کسی چیز کے لیئے پاپا کی اجازت کی کیا ضرورت"۔ سجل بس رونے کو تھی۔ 

" سجل میں نے کہا ناں میں کچھ نہیں کر سکتی اس سلسلے میں"۔ تبسم نے صاف ہاتھ جھاڑتے کہا۔ 

" آپی پلیز ایک بار۔۔"۔ سجل نے ایک بار پھر منت کی۔

" سوری میں نہیں کرسکتی تمہاری مدد اور میں پاپا کے پاس جا رہی ہوں بات کرنے"۔ تبسم نے نرمی سے کہا۔ 

" آلائنہ کا خیال رکھنا میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں"۔ تبسم نے اپنا دوپٹہ اچھے سے پہنتے کہا اور کمرے سے نکل گئ سجل اپنے پیر پٹخ کر رہ گئ۔ 

♧♧♧♧♧

" پاپا میں آجاؤں اندر"۔ تبسم نے کمرے کے دروازے پہ کھڑے ہوکر کہا۔ 

" پاپا جو کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے اسے دیکھ کر مسکرائے تھے۔ 

" میری تابی کب سے اپنے پاپا کے کمرے میں آنے کی اجازت لینے لگی"۔ انہوں نے کتاب کو سائڈ پہ رکھتے کہا۔ 

تبسم مسکراتی ہوئ کمرے میں آکر پاپا کے مقابل پڑے صوفہ پہ بیٹھی تھی۔ 

" میں نے سوچا اجازت لے کر آؤں یہ نا ہو پاپا کہیں بلکل چین سے نہیں چھوڑتی یہ"۔ تبسم نے کھنکھناتی آواز میں کہا۔ 

" تابی۔۔۔ "۔ پاپا نے اسکے چہرے کو بغور تکتے اسکا نام پکارا۔

" جی"۔ اسنے دھیرے سے کہا۔ 

" جب تم صالح کے ساتھ پہلے بھی خوش تھی تو کیوں نا گئ پہلے اسکے ساتھ کیوں اپنی زندگی کا یہ ڈیڈھ سال اس سے ناراضگی رکھ کر گزارا؟"۔پاپا نے اسکے چہرے کی شادابی دیکھ کر پوچھا۔ 

" پاپا ۔۔۔ آپ کو سب بتایا تو تھا میں نے"۔ تبسم نے مسکا کر کہا۔ 

" خیر پاپا مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے"۔ اس سے پہلے کے پاپا کچھ بولتے تبسم نے جلدی سے بولا۔ 

" کیا بات خیریت تو ہے کسی نے کچھ کہا تو نہیں تمہیں "۔ پاپا پریشانی سے بولے۔

" نہیں پاپا کسی نے کچھ نہیں کہا ، وہ۔۔۔ "۔ تبسم نے کچھ ہچکچا کر بات ادھوری چھوڑی۔ 

"کیا ہوا خیریت"۔ پاپا نے سنجیدگی سے پوچھا۔ تبسم نے اپنے دوپٹہ کو ہاتھوں میں مروڑا اور ہمت مجتمع کرتی گویا ہوئ۔ 

" پاپا مجھے طائ امی نے بھیجا ہے ۔۔۔ اور وہ بہت امید لگائے بیٹھی ہیں کہ آپ انکی بات کا پاس ضرور رکھیں گے"۔ 

تبسم نے اپنے باپ کے الجھن زدہ چہرے کو دیکھا تو گہری سانس لیکر بات کا سلسہ وہیں سے دوبارہ جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا۔

" وہ چاہتی ہیں کہ سجل بھی انکی بہو بن جائے غازی کے لیئے وہ تبسم کا ہاتھ مانگنا چاہتی ہیں"۔ تبسم نے اپنی بات مکمل کرکے اپنے باپ کو بغور دیکھا تھا جن کے چہرے سے کسی بھی بات کا اندازہ لگانا مشکل سا تھا۔ 

" میں بھابھی کی بہت عزت کرتا ہوں تبسم پر۔۔۔۔ میں نے اپنی ایک بیٹی کو انکے انتہائ بد تمیز بیٹے کے ساتھ رہنے کے لیئے بھیج دیا ہے بس اتنا بہت ہے"۔ انہوں نے پروقار سے لہجہ میں اپنی بات کہی۔ 

" پر پاپا۔۔۔ غازی بہت مختلف ہے صالح سے"۔ تبسم نے پریشانی سے کہا۔ 

" میں نے کب کہا کہ وہ دونوں ایک جیسے ہیں ۔۔۔ پر بھابھی سے معذرت کر لینا"۔ انہوں نے اپنی بات ختم کرکے تبسم کو دیکھا جو عاجز سی صورت بنائے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ 

" پاپا۔۔۔ پلیز طائ اماں نے بڑے مان سے بھیجا ہے مجھے ایسا نا کریں پلیز آپ سوچ کر بتائیے گا پلیز"۔ تبسم نے منت کی۔ 

" میں نے کہا ناں نہیں ۔۔۔ تو مطلب نہیں"۔ انکا لہجہ اٹل تھا۔ 

" پاپا پلیز میری خاطر"۔ تبسم نے ایک اور کوشش کی۔ 

" مانا کہ تم مجھے عزیز ہو پر اسکا مطلب یہ نہیں کہ تمہاری ساس کو خوش کرنے کے لیئے میں اپنی دوسری بیٹی کی زندگی خراب کر دوں"۔ پاپا نے دو ٹوک لہجہ میں کہا۔ 

" پاپا۔۔۔ آپ میری۔۔۔ بات۔۔تو"۔ تبسم کو بات مکمل کرنے کا موقع دیئے بغیر انہوں نے اپنے الفاظ سے اسکا منہ بند کروا دیا تھا۔

" کیا زندگی ہے اب تمہاری ۔۔۔ مانا کہ تمہارا شوہر بہت اچھا ہے پر اسکا مطلب یہ نہیں کے تم مکمل طور پہ خوش ہو ۔۔۔ اپنی بچی کی حالت دیکھو تھیلی سیمیا کی مریض ہے تمہاری بیٹی۔۔۔ دن رات کا سکون برباد ہے تمہارا تبسم میں سجل کو ایسی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہوں گا"۔ پاپا کے لہجہ کی سختی اور انکے الفاظ تبسم کی آنکھوں میں آنسو لے آئے تھے۔

" پاپا ابھی اسکی رپورٹس نہیں آئ ہیں آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں پہلے سے"۔ تبسم نے دکھ سے کہا اور بنا مزید کچھ سنے نکل گئ تھی اوپر جاکر اسنے اپنا بیگ اٹھایا تھا۔ آلائنہ کو سجل سے لیکر وہ اپنے گھر کے لیئے نکل گئ تھی۔ 

♧♧♧♧♧♧

آدم کو گئے پورا ہفتہ ہونے کو آگیا تھا ، وہ ابھی تک واپس گاؤں نہیں آیا تھا۔ نیلم بولائ بولائ اسکے آنے کا انتظار کر رہی تھی پر وہ تو جیسے پیچھے سب کو بھول کر گیا تھا۔ نیلم نے اب گھر کا کام بھی تھوڑا تھوڑا کرنا سیکھ لیا تھا۔ دن کے بارہ بجے تھے جب وہ لگی پھپھو کے ساتھ تندور پہ روٹی لگا رہی تھی۔ 

" پھپھو آدم کیا ہمیشہ سے اتنے ذیادہ دنوں کے لیئے شہر جاتا ہے"۔ نیلم نے مصروف سے لہجہ میں پوچھا۔ 

" ہاں اسکا تو ہمیشہ سے معمول ہے جاتا ہے تو پھر ہفتوں بعد ہی گھر واپس آتا ہے"۔ پھپھو نے روٹی تندور میں لگاتے کہا۔ 

" اچھا"۔ نیلم نے پیڑا بناتے منہ بنا کر کہا۔ 

" اس بار آئے گا تو کہوں گی تجھے بھی ساتھ لے جائے کچھ دنوں کے لیئے"۔ پھپھو نے اسے منہ بناتے دیکھ کر کہا۔

" نہیں پھپھو آپ کچھ نا بولنا میں یہاں ٹھیک ہوں"۔ نیلم نے جھٹ کہا۔ 

" اچھا اچھا جیسی تیری مرضی"۔ پھپھو نے دھیرے سے کہا۔ 

نیلم اور پھپھو روٹی بنا کر فارغ ہوئ تو کھانا کھا کر نیلم کمرے میں آئ تھی۔ اب اسکا ڈر کافی حد تک کم ہوگیا تھا یہاں رہ کر پر رات میں اسے ڈر روز ہی لگتا تھا۔ 

وہ کمرے میں ڈسٹنگ کرنے لگی اپنا کمرہ اچھے سے صاف کرکے وہ باہر آئ تو پھپھو اپنے کمرے میں سو رہی تھیں۔ اور آدم کی بہنیں بھی سو رہی تھی نیلم ادھر ادھر پورے گھر میں بولائ بولائ پھر رہی تھی۔ 

♧♧♧♧♧

" تائ امی میں نے بات کی تھی۔۔۔ پاپا سے پر انہوں نے صاف انکار کر دیا"۔ تبسم نے نرمی سے بتایا۔ 

" پر۔۔ کیوں۔۔"۔ تائ امی کو دکھ ہوا۔ 

" کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کل کو سجل کے بچے بھی تھیلی سیمیا کے مریض ہوں"۔ تبسم نے خشک لبوں پہ زبان پھیری۔ 

" یہ کیسی بات ہوئ بھلا "۔ تائ امی نے حیران سی صورت بنائے کہا۔ 

" پریشان نا ہوں آپ ہم غازی کے لیئے اچھی سی لڑکی ڈھونڈیں گے بلکل اسکے ٹکر کی"۔ تبسم نے بات کو ختم کرنا چاہا۔ 

" پر میرا سجل کو اس گھر میں لانے کا خواب ۔۔"۔ انہوں نے دھیرے سے کہا۔

" تائ امی یہ تو زندگی ہے ضروری نہیں ناں ہر خواہش اور ہر خواب پورا ہو"۔ تبسم نے انکے ہاتھ تھام کر محبت سے کہا۔ 

" پر ۔۔۔میں ۔۔۔ "۔ تائ امی کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ 

" آپ پریشان نا ہوں میں ایک بار اور بات کرتی ہوں پاپا سے "۔ اسنے انکے گرد بازو پھیلا کر کہا۔ 

♧♧♧♧♧♧

تبسم کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی کھڑکی سے نظر آتا چاند اسکے چہرے پہ اپنی ٹھنڈی روشنی پھینک رہا تھا۔ تبسم کسی برف کے مجسمے کی مانند یک ٹک آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جب صالح آفس سے آیا اور کمرے میں آیا اسے ایسے بیٹھے دیکھ اسنے اسے مخاطب نا کیا۔ اپنے کپڑے لیکر وہ چینج کرنے گیا نہا دھو کر وہ باہر آیا۔ سوئ ہوئ آلائنہ کو پیار کیا۔ اور جیسے ہی تبسم کو دیکھا وہ اب بھی اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔ صالح گہری سانس لیتا اسکے پاس آکر بیٹھا تھا۔ 

" کیا ہوا؟"۔ صالح نے اسکے کندھے کے گرد اپنے مضبوط بازو باندھے۔ 

" ہنہ۔۔ کچھ نہیں بس ویسے ہی۔۔۔ "۔ تبسم نے اسے دیکھ کر سر کو نفی میں جنبش دی۔ صالح مسکرایا۔

" ویسے ہی کیا۔۔۔۔ کیوں پریشان ہو اسقدر۔۔۔ "۔ صالح نے اسکے گال پہ ہاتھ رکھ کر پیار سے پوچھا۔ 

وہ دھیرے سے مسکائ۔ 

" یاد آرہی تھی"۔ اسنے بھیگی آواز میں کہا۔ 

" کس کی"۔ صالح نے سب جانتے بھی پوچھا۔ 

تبسم نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں میں شکوہ لیئے صالح کو دیکھا۔ صالح کا دل کٹا تھا۔ 

" تبسم ہم سب اس دنیا میں واپس لوٹنے کو آئے ہیں اسے بھی جانا تھا تمہیں بھی جانا ہے مجھے بھی ہماری بچی کو بھی ہمارے ماں باپ کو بھی"۔ صالح نے نرم سے لہجہ میں کہا۔ 

" پر ۔۔ یاد تو پھر بھی آتی ہے ناں اپنے پیاروں کی"۔ تبسم نے بھیگے لہجہ میں کہتے اپنا سر صالح کے کندھے پہ رکھ دیا۔ 

صالح اسکے بالوں پہ لب رکھتا چاند کو دیکھنے لگا تھا۔

♧♧♧♧♧

صالح اور تبسم کو اس چھوٹے سے گاؤں میں رہتے ایک سال ہوگیا تھا۔ تبسم کا نواں مہینہ چل رہا تھا۔ صالح اسکے لیئے بے حد پریشان تھا پر ابھی وہ اسے یہاں سے لیجا بھی نہیں سکتا تھا گھر واپس جو اسکی کنڈیشن تھی۔ وہ بہت بری تھی۔ اسکے ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے۔ 

" تبسم طبیعت ٹھیک ہے ناں میری جان تمہاری"۔ صالح نے اسکے بال سہلا کر پوچھا۔ 

" ہمم۔۔۔"۔ اسنے نقاہت سے زرد ہوتے چہرے سمیت کہا۔

" صالح آپ دائ کو بلا لاؤ۔۔ مجھے کچھ بہتر محسوس نہیں ہو رہا"۔ تبسم نے بھیگے لہجہ میں کہا۔ 

" تمہیں یہاں اکیلے کیسے چھوڑ کر جاؤں میں "۔ صالح نے پریشان سے لہجہ میں کہا۔ 

" کوئ بات نہیں آپ جا کر بلا لائیں انہیں۔۔۔ پلیز"۔ تبسم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ صالح اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ دروازہ کھول کر باہر گیا تھا۔ اندھیرے میں اسنے برابر والے گھر کا دروازہ بجایا تھا۔ دروازہ بجانے پہ ایک خاتون دروازے پہ آئ تھی۔ پیچھے اسکے کوئ مرد بھی آیا تھا۔ وہ اسکا شوہر تھا۔

" آپ دونوں پلیز جاکر دائ کو بلا لائیں میری بیوی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں وہ بہتر محسوس نہیں کر رہی"۔ صالح نے گھبرائے ہوئے لہجہ میں کہا۔ 

" جی آپ پریشان نا ہو ہم جاتے ہیں بلا کر لاتے ہیں انکو آپ اپنی بیوی کے پاس جاؤ "۔ اس عورت نے عجلت میں کہا اور اپنی چادر لیکر اپنے شوہر کے ساتھ گھر سے نکل گئ۔ صالح تبسم کے پاس واپس گیا تھا۔ تبسم کا چہرہ یکدم زرد پڑ گیا تھا۔ صالح نے اسکے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے اسے تسلی دی۔ 

" بس ابھی دائ کو لے آئیں گے وہ لوگ ٹھیک ہے پریشان نا ہو بس ۔۔۔"۔ صالح نے نرمی سے کہا۔ 

پریشانی کے مارے اسکا حال برا ہو رہا تھا۔اسنے تبسم کے چہرے کو پریشانی سے دیکھا تھا۔ اور سر اوپر اٹھا کر اللہ سے خیریت کی دعا مانگی تھی۔ 

کچھ دیر بعد دروازہ بجا تھا صالح نے دروازہ کھولا تو دائ تھی۔ صالح باہر نکل گیا اور وہ عورت اور دائ اندر کمرے میں چلی گئ۔ 

♧♧♧♧♧

تقریباً دو گھنٹے بعد دائ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آئ تو اور صالح کو مسکرا کر دیکھا تھا۔ 

صالح نے بے چینی سے انہیں دیکھا۔ 

" میری بیوی ٹھیک ہے۔۔۔"؟۔ لہجہ اسکا بے حد بے قرار تھا۔

" بلکل ٹھیک ہے مبارک ہو اللہ نے تم دونوں کو بیٹے سے نوازا ہے"۔ دائ نے مسکرا کر بتایا۔ 

صالح نے یکدم گہری سانس لیکر اپنا سر ہاتھوں میں تھام کر آسمان کی جانب دیکھ اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔ اور اپنی جیب سے پچاس ہزار روپے نکال کر دائ کو دیئے تھے۔ 

" آپکا بہت شکریہ"۔ صالح نے مسکرا کر کہا۔ 

" نہیں کوئ بات نہیں یہ تو میرا کام ہے"۔ دائ رساں سے کہتی وہاں سے چلی گئ تھی۔ 

صالح اندر گیا تو انکی پڑوسن تبسم کے پاس بیٹھی تھی۔ وہ صالح کو اندر آتا دیکھ اپنے گھر چلی گئ اور صالح تبسم کے پاس آیا تھا۔ جسکا چہرہ کمزوری و نقاہت کی وجہ سے زرد پڑا ہوا تھا۔ اسکے برابر میں انکا نو مولود بیٹا سفید کمبل میں لپٹا پڑا تھا۔ 

صالح نے آگے آکر تبسم کے ماتھے پہ لب رکھے تھے۔ تبسم آنکھیں کھول کر ہلکا سا مسکائ تھی۔ صالح بھی اسے دیکھ کر جواباً مسکرایا تھا۔ 

" شکریہ مجھے اتنا پیارا تحفہ دینے کے لیئے"۔ اسنے اسکے گال پہ لب رکھ کر کہا۔ تبسم محض مسکا کر رہ گئ۔ 

" میرا شیر"۔ صالح نے آگے بڑھ کر اپنے بچے کو اٹھایا تھا۔ 

تبسم اسے دیکھ کر مسکرائ تھی۔ 

" پیارا ہے ناں"۔ تبسم نرمی سے کہا۔ 

" بہت"۔ صالح نے مسکرا کر کہا اسکی آنکھوں میں ہلکی سی نمی نمودار ہوئ تھی۔ 

" جب ہم گھر واپس جائیں گے تو دیکھنا اسے دیکھ کر سب بہت خوش ہونگے"۔ تبسم نے لب کاٹتے کہا۔ 

" ہاں سب بہت زیادہ خوش ہوں گے ، کتنا پیارا سے ہے یہ ناں"۔ صالح نے اسکی ناک چھو کر کہا۔ 

" اتنا بھی پیارا نہیں اپنا بچہ سب کو ہی پیارا لگتا ہے"۔ تبسم نے ہنس کر کہا۔

" ایسا بلکل بھی نہیں یہ سچ میں بے حد پیارا ہے تمہاری سوچ سے بھی زیادہ"۔ صالح نے اسکے روئ سے گالوں کو ہلکا سا سہلایا۔

تبسم محض مسکرا رہ گئ تھی۔ اسنے دھیرے سے آنکھیں موند لی تھیں۔ 

♧♧♧♧♧♧

" پاپا۔۔۔"۔ سجل نے ڈائینگ ٹیبل پہ بیٹھکر نوالا منہ میں ڈال کر پاپا کو مخاطب کیا۔

" ہمم ۔۔"۔ پاپا نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔ 

" پاپا۔۔۔ ایک بات کرنی ہے پر پاپا آپ وعدہ کرو آپ نا نہیں کروگے"۔ سجل نے آنکھیں پٹپٹا کر کہا۔

" ایسے کیسے وعدہ کر لوں پہلے بتاؤ تو سہی ، کہ آخر بات کیا کرنی ہے"۔ پاپا نے کھانا چھوڑ کر سجل کو دیکھا۔

" پاپا۔۔۔ وہ ہمارے کالج کی سب لڑکیاں ٹرپ پہ جارہی ہیں۔۔۔ میں نے بھی جانا ہے میں چلی جاؤں"۔ سجل نے معصوم سی صورت بنا کر کہا۔

" بیٹا ۔۔۔ بات ایسی ہے میں اجازت دے تو دیتا پر ۔۔۔ آپ دیکھو آپ کے جانے کے بعد گھر کون سنمبھالے گا آپ تو میری زمدار بیٹی ہو"۔ پاپا نے ڈائریکٹ منع کرنے کے بجائے میٹھے لہجہ میں اسے زیر کرنا چاہا۔

" پاپا۔۔۔۔ آپ کو پتہ ہے جب سے آپی اپنے سسرال گئ ہیں ساری ذمےداری میرے نازک کندھوں پہ آگئ ہے اب مجھے تھوڑا سا بریک چاہیئے"۔ وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ تیز تھی۔ اسنے بھی رونی سی صورت بنا کر کہا۔ 

" پر ۔۔۔ سجل ۔۔۔ دیکھو ۔۔۔ یہ ممکن نہیں اس وقت اپنے باپ پر ترس کھاؤ میں بھی ہر وقت بیمار رہتا ہوں اب"۔ پاپا نے اسے ایموشنل بلیک میل کرنا چاہا۔

" پاپا پچھلے سال کہیں آپ ذرا سے بیمار ہوگئے تھے اب تو بلکل ٹھیک ہیں آپ پاپا جانے دیں ناں"۔ تبسم نے منہ بنا کر کہا۔ 

" بہت ہی بے حس ہو تم"۔ پاپا نے اسے گھورا تھا۔

" میں بے حس ہی ٹھیک ہوں پر مجھے جانا ہے ٹرپ پہ"۔ اسنے ضدی لہجہ میں کہا۔ 

" سجل۔۔۔ ہنہہ ٹھیک ہے پر کوئ الٹی سیدھی حرکت نا کرنا پلیز ویسے جا کہاں رہے ہو تم لوگ"۔ پاپا نے آخر ہار مانتے اسے اجازت دی تھی۔ 

" ہم ۔۔۔ مری جا رہے ہیں"۔ سجل نے چہک کر بتایا۔ 

پاپا کو یکدم پھندا لگا۔ سجل نے جلدی سے آٹھ کر انکی پیٹھ سہلائ۔ 

" کیا ہوا پاپا آپ ٹھیک ہیں۔۔؟؟"۔ سجل نے پریشانی سے پوچھا۔ 

" میری ماں تم ٹھیک کہاں رہنے دیتی ہو ، پہلے کیوں نہیں بتایا کہ ٹرپ مری کا ہے "۔ پاپا نے تقریبا غرا کر کہا۔

" پہلے بتاؤں یا بعد میں بات تو ایک ہی ہے ناں پاپا"۔ سجل نے تپ کر کہا۔ 

" اگر مجھے پتہ ہوتا ناں کہ ٹرپ مری کی ہے تو میں مر جاتا پر اجازت نا دیتا"۔ پاپا نے ہاتھ ہلا کر کہا۔

" اوپس پر اب تو آپ اجازت دے چکے ہیں "۔ سجل ایک ادا سے کہتی اٹھی تھی اور بھاگتی ہوئ اپنے کمرے کی سمت گئ تھی پاپا محض اسے گھور کر رہ گئے تھے۔

♧♧♧♧♧♧

وہ لوگ اس گاؤں سے نکل آئے تھے۔ وہ دونوں واپس فارم۔ہاؤس آگئے تھے۔ ابھی نا گھر واپس گئے تھے نا کسی سے کوئ رابطہ کیا تھا۔ تبسم کمرے میں اپنے بیٹے کے پاس تھی۔ وہ صالح کو کہہ کہہ کر تھک چکی تھی کہ واپس گھر چلو پر وہ سنتا تو تب ناں ۔۔۔ انکا بیٹا تین مہینے کا ہوچکا تھا۔ پر اسکی عمر جتنی بڑی ہو رہی تھی وہ اتنا ہی بیمار ہونے لگا تھا۔ تبسم اور صالح اسکے لیئے بے حد پریشان تھے۔ آج تبسم اور صالح منان کو ڈاکٹر کے پاس لیکر جارہے تھے۔ 

" تبسم جلدی کرو"۔ صالح نے تبسم کو بالوں میں کنگھا کرتے دیکھ کر کہا۔ 

" ہاں بس چلیں آپ جائیں باہر میں منان کو لیکر آتی ہوں"۔ تبسم نے بالوں کو کیچر میں قید کرتے کہا۔ 

صالح اثبات میں سر ہلاتا باہر نکل گیا۔ 

تبسم نے منان کو گود میں لیا اور اسکے پیچھے نکلی۔ 

کچھ دیر بعد وہ لوگ ہاسپٹل میں تھے۔ 

ڈاکٹر کے کیبن میں گئے ، ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیئے منان کے ٹیسٹ ہوئے رپورٹ ارجنٹ تھی تو ایک گھنٹے بعد رپورٹس مل گئیں۔ 

وہ دونوں دوبارہ ڈاکٹر کے کیبن میں موجود تھے ڈاکٹر نے رپورٹس دیکھی۔ اچٹتی نگاہ اٹھا کر انہوں نے صالح اور تبسم کو دیکھا۔ اور پھر رپورٹس سائڈ پہ کرکے بات کا آغاز کیا۔ 

" آپ کے بچے کو تھیلیسیما ہے ، میں آپ لوگوں کو ذیادہ کوئ بڑی آس نہیں لگواؤں گا بس اسے بلڈ لگتا رہے گا تو یہ زندہ رہے گا۔ جب تک اسکی زندگی ہے اتنی یہ جی لے گا ۔۔ بہر حال تھیلیسیما کے پیشنٹس کو جہاں بلڈ لگتا ہے ، وہاں میں آپ کے بچے کو ریفر کر دیتا ہوں آج ہی جاکر اسے بلڈ لگوائیں"۔ ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا۔

ڈاکٹر کے کہے الفاظ سن کر صالح اور تبسم پہ سکتا طاری ہوگیا تھا۔ 

دونوں بے یقینی سے کبھی اپنے بچے کو دیکھتے تو کبھی ڈاکٹر کو۔ 

" کیا کچھ ہو نہیں سکتا"۔ تبسم نے نم آواز میں پوچھا۔ 

" ہوسکتا ہے پر اس بچے کی زندگی یہ ہی ہوگی ہاں اگر آپ اپنا نیکسٹ بے بی پلین کریں تب آپ لوگوں کو ایک خاص قسم کا کورس ہے وہ کرنا ہوگا اور آپکو مسز صالح نو ماہ تک وہ کورس کرنا ہوگا"۔ ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ طریقے سے کہا۔ 

تبسم اور صالح منان کو اس ہاسپٹل لے گئے تھے ، جہاں ڈاکٹر نے ریفر کیا تھا۔ منان کو خون لگنے لگا تھا پر شاید اللہ کی طرف اسکی زندگی ہی اتنی تھی خون لگنے کے ایک ہفتہ بعد انکا بچہ انتقال کر گیا تھا۔ اس وقت جو تبسم کی حالت تھی صالح کے لیئے اسے سنمبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔ 

خیر وقت کا کام ہے بیتنا تو وقت بیتتا گیا۔ منان کے انتقال کو ایک ماہ ہونے کو آگیا تھا۔ صالح اور تبسم نے ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کورس کو اسٹارٹ کر دیا تھا کیونکہ وہ لوگ اپنا نیکسٹ بے بی پلین کرنا چاہتے تھے۔ صالح تبسم کی تنہائی کا سوچ کر اسے اپنے گھر لے آیا تھا۔ 

اور وہاں اسکی ماں صالح کے گلے لگ کر خوب روی تھی۔ اسے وہاں پہنچ کر پتا چلا تھا کہ اسکا باپ اس دنیا میں نہیں رہا۔ اسکی غیر موجودگی میں انکی کمپنی کا دیوالیہ نکال دیا تھا تبسم کے والد نے بدلے کی آڑ میں صالح جو اپنے دل سے ہر قدورت نکال کر آیا تھا۔ ایک بار پھر اسکا دل برا ہوگیا تھا۔ 

انکو ایک ہفتہ ہوگیا تھا آئے اور تبسم اسے کہہ کہہ کر تھک گئ تھی کے چلو میرے پاپا سے ملنے اور ان سے معافی مانگو ، کافی ٹائم تک تو صالح خاموش رہا پر ایک دن وہ پھٹ ہی پڑا تھا۔ 

" سوچنا بھی مت کہ میں تمہارے خود غرض باپ سے معافی مانگوں گا"۔ صالح نے بپھرے ہوئے لہجہ میں کہا۔ 

" صالح۔۔۔ آپ کیسے بات کر رہے ہیں آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ میرے پاپا سے معافی مانگیں گے"۔ تبسم کی آنکھیں بھیگ گئ تھی۔ 

" مجھے نہیں یاد کوئ وعدہ"۔ صالح نے بے رخی سے کہا۔ 

" ٹھیک ہے تو پھر سوچنا بھی مت کہ میں آپکے ساتھ رہوں گی"۔ تبسم نے خونخوار ہوتے لہجہ میں کہا۔ 

" تم کہیں نہیں جا رہی یہاں سے "۔ صالح نے اسے بازو سے دبوچ کر۔اسکا رخ اپنی سمت کیا تھا۔ 

" میں یہاں سے جا رہی ہوں اپنے باپ کے گھر"۔ تبسم نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے اٹل انداز میں کہا۔ صالح کے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھا تھا۔ 

" تمہیں کس نے دیا اس بات کا اختیار کہ تم مجھے چھوڑ کر جاؤ تم نے وعدہ کیا تھا مجھ سے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے تم مجھے تنہا نہیں چھوڑو گی کبھی " صالح نے اسے غصہ سے گھور کر کہا۔

" جیسے آپکو اپنا وعدہ یاد نہیں ویسے میں بھی بھول گئ ہوں اپنا وعدہ "۔ اسنے غصہ سے کہا اور اپنا سامان پیک کیا۔ صالح چیختا چلاتا رہ گیا۔ اور سجل غازی کے ساتھ اپنے باپ کی دہلیز پہ واپس لوٹ آئ۔ جب وہ آئ تو اپنے باپ کے گلے لگ کر خوب روئ۔ 

" پاپا آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ناں"۔ تبسم نے سر اٹھا کر پوچھا۔ پاپا نے لب بھینچ کر سر کو نفی میں جنبش دی۔

" مجھے معاف کردو تابی تمہارا باپ تمہیں ڈھونڈ نا سکا"۔ پاپا نے اسکے گرد بازو ہائل کرکے کہا۔

" پاپا آپ کیوں معافی مانگ رہے ہیں معافی تو مجھے مانگنی چاہیئے"۔ تبسم نے سسک کر کہا۔ 

" نہیں ۔۔۔ تابی بس اور نا رونا جاؤ اپنے کمرے میں جاؤ اور آرام کرو"۔ پاپا نے اسکے سر پہ بوسا دے کر کہا۔ وہ اٹھی اور اپنے کمرے میں آگئ پوری رات اپنی بہنوں سے باتیں کرتی رہی۔ 

پاپا کے گھر آئے اسے کافی دن بیت چکے تھے اور نجانے کیوں وہ کورس کی گولیاں کھا رہی تھی۔ اسکے دل میں ڈر سا بیٹھ گیا تھا ، کہ اگر وہ کورس کی گولیاں چھوڑ دے اور وہ دوبارہ ایکسپیکٹڈ ہوجائے تو کہیں اسکے دوسرے بچے کو بھی یہ بیماری نا لگ جائے۔ وہ آج ہاسپٹل گئ تھی اسے پتہ چلا کہ وہ ایک بار پھر ایکسپیکٹ کر رہی ہے۔ اسنے کال ملا کر یہ بات صالح کو بتائ۔

" صالح میں دوبارہ ایکسپیکٹ کر رہی ہوں"۔ اسنے دھیرے سے اسے بتایا اسے لگا تھا کہ یہ بات سنتے ہی وہ اپنی تمام تر ناراضگیاں بھلا کر آئے گا اور پاپا سے معافی مانگ کر اسے ساتھ لے جائے گا۔ 

" تو ۔۔۔ گھر آجاؤ"۔ صالح کے لہجہ میں یکدم محبت آن سمائ تھی۔ 

" آپ پاپا سے آکر معافی مانگ لیں"۔ تبسم نے لب کچل کر کہا۔

" کیا فضول کی ضد لگائ ہے تم نے سوچنا بھی مت ایسا"۔ صالح نے غصہ سے کہہ کر کال کاٹ دی تھی اور تبسم کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔ اور پھر آلائنہ کے پیدا ہونے کے بعد تک جب بھی صالح نے رابطہ کیا تبسم اور صالح کی لڑائی ہی ہوئ۔ 

اور پھر آلائنہ کی طبیعت کی خرابی نے صالح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہ آلائنہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا۔ اسکے ٹیسٹ ہوئے تھے پر نجانے کیا مسئلہ آرہا تھا کہ رپورٹس اسکی تاخیر اختیار کر رہی تھی۔ صالح آلائنہ کو لیکر کافی ڈر گیا تھا۔ اور وہ مزید اپنی بچی کو خود سے دور نہیں کر سکتا ، اس لیئے اس نے تبسم کے والد سے معافی مانگ لی اور پھر وعدے کے مطابق تبسم اسکے ساتھ واپس آگئ تھی۔

♧♧♧♧♧

سجل تیار ہوکر ٹرپ پر روانہ ہوگئ تھی۔ انکی ٹرپ کراچی سے مری جا رہی تھی اور یہ ٹرپ پورے دس دن کی تھی۔ سجل نے پنک کلر کی کرتی گرے کلر کی جینز کے ساتھ پہنی تھی۔ جینز کے پائنچوں کو فولڈ کرکے ٹخنوں سے اوپر کیا ہوا تھا بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے کانوں میں چھوٹے چھوٹے سفید ٹاپس پہنے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔ پیروں میں اسنیکرز پہنے وہ کالج کے گراؤنڈ میں بسوں کے پاس کھڑی ارد گرد دیکھ رہی تھی۔ 

پانچ منٹ کی محنت کے بعد آخر اسکی محنت رنگ لائ اور اسے غازی ایک بس میں چڑھتا دکھا سجل بھی مسکراتی اپنی سہیلیوں کو لیکر اسی بس کی سمت گئ تھی۔ ابھی وہ اپنی سہیلیوں کے ٹولے سمیت بس میں چڑھی ہی تھی کہ ٹیچرز نے انہیں گھورا تھا۔ سر نواز جو سامنے ہی بیٹھے تھے انہیں دیکھ کر وہ رسانیت سے انہیں گائڈ کرنے لگے۔ 

" بیٹا آپ لوگ اس بس میں کہاں چڑھ رہی ہیں یہ بس تو ٹیچرز کی ہے وہ جو باقی تین بسز ہیں وہ اسٹوڈنٹس کی ہیں آپ ان میں سے کسی بھی بس میں جاکر بیٹھ جائیے"۔ 

سجل کا منہ بن گیا تھا ، اسنے نظر اٹھا کے غازی کو ڈھونڈا تو وہ بلکل لاسٹ میں بیٹھا اپنے موبائل میں غرق تھا۔

سجل کے دماغ نے تیزی سے کام کیا اور اسنے معصوم سی شکل بنا کر سر کو دیکھا۔

" سر در اصل مجھے گھر سے اجازت نہیں مل رہی تھی ٹرپ پہ جانے کی پر میرے کزن بھی ٹیچر ہیں ہمارے کالج میں وہ۔۔۔ سر غازی انکے توسط سے اجازت ملی ہے مجھے اور پاپا نے کہا تھا کہ غازی کے ساتھ ساتھ رہنا"۔ سجل نے معصومیت کا ڈھیر اپنے چہرہ پہ سجا کر کہا۔

" سر غازی آپکے کزن ہیں؟؟"۔ ٹیچر نے حیرت سے پوچھا۔ 

" جی جی سر قسم سے پوچھ لیں ۔۔۔ ان سے آپ خود ہی"۔ سجل نے لب کچل کر کہا۔ 

" سر غازی۔۔"۔ سر نواز نے غازی کو آواز دی۔ غازی جو اپنے موبائل میں لگا تھا۔ اسنے سر اٹھا کر دیکھا۔

" جی سر نواز کوئ کام"۔ غازی آٹھ کر آگے آیا تھا۔ سجل پہ نظر پڑتے ہی غازی کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ 

" جی وہ یہ سجل کہہ رہی ہیں کہ یہ آپکی کزن ہیں"۔ سر نواز نے آدھی بات بتائ۔

" ۔۔۔ تو۔۔؟؟"۔ غازی نے گہری سانس لیکر آگے کی بات جاننا چاہی۔ 

" تو یہ کہہ رہی ہیں ۔۔۔"۔ سر نواز ابھی بات مکمل کرتے اس سے پہلے سجل نے سر نواز کی بات کو کاٹ کر غازی کو دیکھ کر بات مکمل کی۔ 

" وہ پاپا نے آپکی وجہ سے اجازت دی ہے مجھے 

۔۔ اور پاپا نے کہا تھا جہاں غازی ہو وہاں تم رہنا"۔ اسکی بات مکمل ہوتے ہی غازی نے اسے افسوس بھری نظروں سے تکا تھا۔ 

" ہاں پر ابھی ہم سفر پہ ہیں تو کوئ ٹینشن کی بات نہیں آپ سجل جس بس میں اسٹوڈنٹ بیٹھے ہیں آپ بھی اسی بس میں جاکر بیٹھئیے"۔ غازی نے سنجیدگی سے کہتے سجل کو بغور دیکھا تھا۔ سجل کے ماتھے پہ یکدم تیوری آئ تھی۔ 

" پر سر۔" اسنے مزید کچھ کہنا چاہا پر غازی نے بغیر توجہ دیئے اسے واپس جانے کو کہا۔ وہ منہ بناتی اپنی سہیلیوں سمیت بس سے اتری تھی۔ اور دوسری بس میں چڑھتے اسنے غازی کو من ہی من کتنی ہی سلواتیں سنا دی تھیں۔

♧♧♧♧♧

وہ پھپھو کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی جب پورے دو ہفتے بعد آدم صاحب گھر واپس لوٹے تھے۔ نیلم کی نظریں جب اس سے ٹکرائ تو دل یکدم دھڑک اٹھا تھا۔ وہ لب کچلتی سائڈ پہ ہوئ تھی آدم اپنی ماں اور بہنوں سے ملکر اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ پر نیلم نے اسکی مسکراہٹ کا کوئ رسپونس نا دیا اور کچن میں لگ کر رات کا کھانا بنانے کی تیاری کرنے لگی۔ 

رات کا کھانا وغیرہ کھا کر وہ سب لوگ فارغ ہوئے اور پھر سب اپنے کمروں میں چلے گئے وہ بھی نا چار اپنے کمرے میں آئ تھی جہاں آدم صوفہ پہ بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔

نیلم کو کمرے میں دیکھ آدم نے کتاب بند کرکے سائڈ پہ رکھی تھی اور۔اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ 

" مجھے تو لگا تھا میری یاد میں کملا گئ ہوگی تم پر تم۔تو پہلے سے بھی زیادہ ان دو ہفتوں میں حسین ہوگئ ہو"۔ آدم آٹھ کر اسکے پاس آتا اسے پشت سے اپنی بانہوں میں لیتے سرگوشی نما آواز میں کہتا نیلم کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب کر گیا تھا۔ نیلم کی پلکیں یکدم حیا کے بوجھ تلے جھکی تھیں۔ 

" میری یاد آئ تمہیں ان دو ہفتوں میں"۔ آدم نے اسکے کندھے پہ اپنی تھوڑی ٹکا کر پوچھا۔ 

" نہیں ۔۔ آئ"۔ اسنے لب کچل کر خون چھلکاتے چہرے کو جھکا کر کہا۔ 

" یہ کیا بات ہوئ بھلا"۔ آدم نے اسکا رخ اپنی جانب کرکے اسکا چہرہ تھوڑی سے تھام کر ہلکا سا اوپر کرکے کچھ خفا سے لہجہ میں کہا۔ 

" وہی بات ہوئ جو جانے سے پہلے تم کرکے گئے مجھ سے ملے تک نہیں"۔ اسنے پلکوں کی باڑ کو ذرا سا اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر دوبارہ نظریں جھکا لیں۔ 

" اوہ تو یہ اس بات کا بدلہ لیا جارہا ہے مجھ سے"۔ آدم نے اسے کمر سے تھام کر خود سے لگایا تھا۔

" جی نہیں ۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں"۔ نیلم نے منہ بنا کر کہا۔

" نیلم ۔۔۔ تم نے مجھے یاد نہیں کیا پر میں نے تمہیں بہت یاد کیا ہے ان پچھلے دو ہفتوں میں"۔ آدم نے گھمبیر لہجہ میں کہتے نیلم کے ماتھے پہ اپنے لب دھرے۔

نیلم نے کپکپاتے ہاتھ آدم کے سینے پہ دھرے تھے۔ آدم کا دل اسقدر تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ کہ نیلم نے ڈر کے مارے اسکے سینے پہ سے اپنے ہاتھ ہٹا لیئے۔ آدم اسکی ادا پہ مسکرایا تھا۔ 

" میں تمہارے لیئے کچھ لایا ہوں"۔ آدم نے اسکے گال سہلا کر بتایا۔ 

" کیا۔۔ لائے ہو"۔ نیلم نے مسکا کر پوچھا۔ 

" صبر "۔ وہ اپنی گرفت سے نیلم کو آزاد کرتا الماری تک گیا تھا۔ اور وہاں سے ایک باکس لیکر اسکے پاس آیا تھا۔ 

" یہ کیا ہے"۔ نیلم نے بند ڈبے کو دیکھ اشتیاق سے پوچھا۔

" یہ ۔۔۔ کھول کر دیکھ لو"۔ آدم نے اسے خمار آلود نظروں سے تکتے ڈبہ اسکی طرف بڑھایا۔ 

نیلم اسکی نظروں سے کنفیوز ہوتی ڈبہ تھام گئ تھی اسنے ڈبے کا ریپر ہٹایا اور اندر پڑی بلیک کلر کی سلک کی سلیو لیس نائٹی دیکھ اسنےگھور کر آدم کو دیکھا تھا اور نائتی اٹھا کر بیڈ پہ اچھالی تھی۔ 

" یہ کیا ہے۔۔۔ میرے لیئے کچھ اور نہیں تھا لانے کو جو یہ گند اٹھا کر لے آئے"۔ نیلم نے تپے ہوئے انداز میں کہا۔ 

آدم نے بہ مشکل آپنے امڈتے قہقہہ کا گلا دبایا تھا۔

" تھا تو بہت کچھ تمہارے لائق پر یہ تو میں اپنی خواہش پہ لایا ہوں پانچ منٹ ہیں تمہارے پاس میں باہر ویٹ کر رہا ہوں چینج کر لینا نہیں تو ۔۔۔ میں خود بھی کروا سکتا ہوں"۔ اسنے ایک آنکھ دبا کر کہا۔ نیلم نے اسے اسقدر بے باکی پہ گھورا تھا۔ 

آدم تو نکل کر چلا گیا تھا اور وہ کشمکش میں کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی یہ سوچ رہی تھی کہ کیا کرے۔ 

پھر نا چار اسکی ناراضگی کا سوچ کر اسنے چینج کر لیا تھا۔ 

کچھ دیر بعد آدم کمرے میں واپس آیا تھا۔ نیلم کو دیکھ شراتاً مسکایا تھا۔ نیلم نے اسکے مسکرانے پہ جل کر کمبل کو اور اچھے سے اپنے گرد لپیٹا تھا۔ 

" یار یہ تو غلط بات ہے ، جاناں ۔۔۔ ایسے تو ناکرو"۔ آدم اسکے پاس آکے بیٹھتا بے باکی سے بولا۔ نیلم نے نگاہیں جھکا لی تھیں۔ 

آدم اسکی ادا پہ بے خود ہوتا اسکی جانب بڑھا تھا۔ نیلم آنکھیں مینچ کر بیٹھی تھی۔ 

آدم نے اسکے اوپر سے کمبل کو جارہانہ انداز میں دور پھینکا تھا۔ کمبل کا ہٹنا تھا اور آدم کے اسکے نازک بدن میں کھونا۔ اسکی سفید دودھیا پنڈلیاں نمایاں ہورہی تھیں۔ 

آدم بے خود سا جھکتا اپنے لب اسکی پنڈلیاں پہ رکھ گیا تھا۔ نیلم نے اسکے لمس پہ تڑپ کر اپنے پیر سمیٹنے چاہے۔ آدم نے اسکی ٹانگ کو زور سے کھینچ کر اسکا وجود سرکایا تو وہ بیڈ پہ ڈھہ سی گئ۔ نیلم کا دل شور مچانے لگا تھا۔ 

آدم نے اسکی بند آنکھوں کو دیکھ اپنے لب دھیرے دھیرے اسکی آنکھوں پہ دھرے تھے۔ نیلم نے اپنا چہرہ حیا کے مارے موڑا تھا۔ اسکے رخ موڑنے کے باعث اسکی دودھیا گردن نما یا ہو رہی تھی۔ آدم نے جھک کر اسکی گردن پہ اپنے لب رکھے تھے۔ نیلم نے بیڈ شیٹ کو مضبوطی سے اپنی مٹھیوں میں جکڑا تھا۔ آدم نے اسکی گردن پہ سے سر اٹھا کر اسکے کان کی لو پہ اپنے دانت گاڑھے تھے۔ اسکا وجود کانپ کر رہ گیا تھا۔

آدم کی انگلیاں اسکے وجود پہ دھیرے دھیرے سرکنے لگی تھیں۔ نیلم نے گھبرا کر کروٹ بدلی تھی۔ کروٹ بدلتے ہی اسکی برہنہ کمر آدم کے سامنے تھی۔ آدم نے اسکی دودھیا ملائم کمر پہ اپنی انگلیاں دھیرے سے سرکائ تھیں۔ اپنے لبوں سے اسکی کمر کو جا بجا چھوتا وہ مزید بہکنے لگا تھا۔ 

آدم نے نیلم کا رخ موڑ کر اسکے کپکپاتے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ نیلم نے اپنی آنکھوں کو مزید سختی سے مینچا تھا۔ آدم کے ہاتھ بے باکی سے اپنے وجود کی آرائش پہ چلتے محسوس کرکے وہ خود میں مزید سمٹ گئ تھی۔ آدم کے اگلے عمل نے اسے خوف زدہ کردیا تھا۔ وہ خوف سے آنکھیں مینچے پڑی تھی آدم نے دھیرے سے اسکے کان کے پاس سرگوشی کی تھی۔ 

" آئ لو یو"۔ اسکے محبت کے اعتراف پہ وہ اندر تک سر شار ہوچکی تھی۔ آدم کی گرفت پر لمحہ گزرنے کے بعد مزید اسکے وجود پہ تنگ ہوتی جا رہی تھی ۔ اور وہ کسی نازک سی گڑیا کی مانند اسکی بانہوں میں پڑی تھی۔ رات کا اندھیرا اور چاند کی چاندنی دونوں ان دو دیوانوں کے ملن کے گواہ تھے۔ 

انکا سفر صبح شروع ہوا تھا اور اب تو رات ہوگئ تھی انکو پہنچنے میں ابھی بہت وقت لگنا تھا۔ سجل بس میں بیٹھی بور ہورہی تھی۔ وہ صرف اس ٹرپ پہ غازی کی خاطر آئ تھی پر وہ اسے تو کوئ احساس ہی نا تھا۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے بس ایک ہوٹل کے باہر رکی تھی۔ رات کا کھانا انہوں نے یہیں کھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سب اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز بسوں سے اتر کر نیچے آئے تھے۔ سجل جو ایک ٹیبل پہ چیئر کھسکا کر بیٹھی تھی۔ سامنے سے غازی کو اپنی گل فرینڈ کے ساتھ آتا دیکھ اسکا چہرہ غصہ سے سرخ ہوا تھا۔ 

غازی اس سے مسکرا مسکرا کر بات کر رہا تھا۔ اور سجل جلتی نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ جلن کا احساس اسقدر تھا کہ وہ اپنے ارد گرد سے بیگانہ ہوکر انہیں ہی گھور رہی تھی۔ غازی اس سے بات کرتے کرتے ہنسا تھا اور پھر اسے اٹھنے کو کہا۔ وہ دونوں وہاں سے اٹھ کر قدرے خاموش گوشے کی سمت گئے تھے۔ سجل جلدی سے آٹھ کر انکے پیچھے لپکی تھی۔ انکی تنہائی کا سوچ کر ہی اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ ایک پتلی راہداری کو عبور کرکے وہ لوگ سیدھے ہاتھ کی طرف مڑے تھے۔ سجل بھی اسی سمت گئ تھی۔ لمبی اور طویل راہداری پار کرنے کے بعد ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔ وہ دروازہ پار کرتی باہر نکلی تھی۔ باہر نکلتے ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسکے چہرے سے ٹکرایا تھا۔ اسکے بال اڑ کر ادھر ادھر بکھرے تھے۔ سجل نے دھیرے سے چلتے آگے جانا چاہا کہ غازی کی آواز سن کر اسکے قدم اپنی جگہ پہ جمے۔ 

" آفرین ڈھونڈو اس آدمی کو وہ یہیں اسی سمت آیا یے"۔ غازی نے غراتی آواز میں کہا۔

" جی سر۔۔۔ میں اس سمت جا کر دیکھتی ہوں"۔ آفرین نے جس سمت کا کہا تھا اسی سمت بھاگی تھی اس شخص کو ڈھونڈنے۔ 

غازی نے دھیمی آواز میں موبائل پہ کسی کو کوئ ہدایت دی تھی جو سجل اچھے سے نہیں سن سکی تھی۔ پر اسے اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ آفرین اسکی گرل فرینڈ نہیں ہے اسکی ٹیم کا حصہ ہے اور وہ یہ بھی سمجھ گئ تھی کہ یہاں کچھ ایڈوینچر ہونے والا ہے اسی لیئے وہ دبے دبے قدم لیتی دوسری سمت اس شخص کو ڈھونڈنے چلی گئ تھی۔ جس شخص کا ہولیہ تک اسے معلوم نا تھا۔ نا اپنے بچاؤ کی تدبیر سے آشنا تھی اور نا ہی کسی مجرم کو پکڑنے کے فن سے۔ جانے انجانے میں وہ خود کو بہت بڑی مشکل میں پھنسا چکی تھی۔ 

وہ۔چلتے چلتے بہت آگے نکل آئ تھی۔ اسے اپنی پشت پہ کسی کے ہونے کا احساس ہوا وہ تھوک نگلتی مڑی تھی۔ پیچھے کوئ بھی نہیں تھا۔ ارد گرد گہرا اندھیرا اسکا حلق خشک کر گیا تھا۔

" یا اللہ اموشنز اموشنز میں یہاں آگئ اب سہی سلامت واپس لوٹا دینا"۔ خوف سے کپکپاتے لہجہ میں وہ بڑبڑائ تھی۔ 

کسی نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا۔ خوف سے سجل کی آنکھیں ابل کر باہر کو آئ تھیں۔ اسنے سانس روک کر خود کو حملہ کرنے کے لیئے تیار کیا تھا۔ اور اسنے مڑتے ہی اپنے پیچھے کھڑے شخص کے پیٹ میں لات ماری تھی۔ وہ کرآہ کر پیچھے ہوا تھا۔ اور پھر واپس اس پہ جھپٹا تھا۔ سجل خوف سی چیخی ، پر کیا فائدہ کوئ اسکی چیخ و پکار سننے والا ہوتا تو تب ناں۔

" تو ہی ہے ناں ۔۔۔ وہ آفسرنی ۔۔۔ "۔ اس شخص نے اسکا چہرہ دبوچ کر پوچھا۔ 

سجل نے خوف سے زرد پڑتے چہرے سمیت اس خونخوار شخص کو دیکھا تھا۔

" ۔۔۔ میں ۔۔ م۔۔۔ مجھے ۔۔۔"۔ وہ کچھ کہنے کی کوشش کرتی پر خوف کے مارے اسکے لبوں سے لفظ بکھر کر بر آمد ہوئے۔

" تو ہی تھی ناں جس نے اس دن ہمارا سارا ریکارڈ نکالا تھا"۔ اس شخص نے چاقو اسکی گردن پہ رکھ کر ہلکا سا زور دے کر کہا۔ 

سجل کی آنکھیں لمحوں میں پانیوں سے بھری۔ اسنے خوف سے اپنی آنکھیں مینچ لیں۔ اسکی گردن میں درد ہونے لگا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے اسکی گردن سے خون کی ایگ بوند گری ہو۔ وہ شخص سجل کو گھسیٹتا ہوا لیکر جارہا تھا۔ کہ یکدم منظر بدلا۔ اس شخص کو فرحین نے سر پہ ڈنڈا مارا تھا۔ وہ شخص درد سے بلبلاتے سجل کو جھٹک کر اپنا سر تھامتا پیچھے ہوا تھا۔ سجل جس کی خوف سے حالت بے حال ہوئ تھی۔ وہ سسکتے ہوئے زمین پہ بیٹھنے لگی تھی۔ کہ غازی نے آکر اسے مضبوطی سے تھاما تھا۔ اسنے بند ہوتی آنکھوں کو ہلکا سا کھول کر غازی کو دیکھا تھا اور پھر وہ ہوش و خرو سے بیگانہ ہوگئ تھی۔ 

غازی کی باقی کی ٹیم بھی آگئ تھی۔ اور اس شخص کو پکڑ کر ہیڈ کوارٹر لے گئے تھے۔ 

غازی نے ایک نظر فرحین کو دیکھا تھا۔ 

" تم سب کے پاس جاؤ اور سب سے کہہ دو کہ سجل کے گھر سے کال آئ تھی ایمرجنسی تھی اس لیئے غازی اسے واپس لے گیا"۔ اسنے سنجیدگی سے کہا۔ فرحین نے یس سر کہا اور وہاں سے چلی گئ۔ غازی نے تاریکی میں اسکے چہرے کو بغور دیکھا۔ 

" بے وقوف لڑکی۔" 

گہری سانس خارج کرکے وہ اسے اپنی بانہوں میں لیکر اٹھا تھا۔ وہ ہوٹل کے پچھلے دروازے سے اندر گیا تھا۔ اسے ایک سائڈ پہ صوفہ پہ بٹھا کر اسنے روم بک کروایا تھا اور روم کی چابیاں لیکر وہ اسے روم میں لیکر گیا تھا۔ اسکے زخم کی پٹی کرکے اسنے اسکی آنکھوں پہ پانی کے چھینتے مارے۔ اسکی پلکوں میں جنبش پیدا ہوئ اور تھوڑی دیر بعد اسنے اپنی آنکھیں دھیرے سے کھولیں۔ 

" رو کیوں رہی ہو اب تم؟۔" غازی نے اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھ چڑ کر کہا۔ 

" مجھے نہیں پتہ تھا اتنے گندے ہوتے ہیں مجرم "۔ اسنے سسکتے ہوئے اپنی گردن کو ہلکا سا چھوا۔

" مجرم تمہاری سوچ سے بھی زیادہ گندے ہوتے ہیں سجل بی بی ، یہ جو گردن پہ ہلکا سا نشان مار گیا ہے وہ یہ ہی دیکھ کر تمہارے آنسو نہیں تھم رہے سوچو اگر وہ تمہاری گردن کاٹ کر الگ کر دیتا پھر۔۔!!۔" غازی نے اسکے پاس سے اٹھتے ٹھنڈے لہجہ میں کہا۔ سجل کی آنکھیں ابل کر باہر کو ائیں۔ 

" اللہ نا کرے میرے ساتھ کبھی ایسا کچھ ہو"۔ 

" جیسی تمہاری حرکتیں ہیں تمہارے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے جلد یا بدیر"۔ غازی نے اپنے جوتے اتار کر سائڈ پہ رکھے اور صوفہ پہ لیٹا۔ 

" میرے دشمنوں کے منہ میں خاک"۔ سجل نے تڑپ کر کہتے ، اپنا بازو آنکھوں پہ رکھا تھا۔ ( جیسے کہہ رہی ہو بات ہی نہیں کرنی تم سے۔)

" تم نے آج یہ جو کچھ بھی کیا ہے سجل یہ میرے لیئے بلکل بھی قابل برداشت نہیں ہے۔" غازی نے بھی اپنی آنکھوں پہ بازو رکھ کر کہا۔

سجل نے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا اور بڑی امیڈ سے پوچھا۔

" کیوں؟۔" 

" سیریسلی تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کیوں۔۔!!! کیا تمہیں اندازہ نہیں ، کہ تمہاری وجہ سے میرا آدھے سے زیادہ کام خراب ہوچکا ہے۔ میرے لیئے میری زندگی میں میری ڈیوٹی سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں اور تمہاری وجہ سے ۔۔۔۔"۔ غازی نے آنکھوں پہ سے ہاتھ ہٹایا۔ اور سیدھا بیٹھ کر بولنا شروع ہوا تو رکا نہیں۔ اسکے چہرے کو سرد نظروں سے گھورتے وہ ایک پل کو رکا۔ 

" اگر آج میرا کام وقت پر صحیح نہیں ہوتا ناں۔۔ تو میں قسم کھاتا ہوں میں تمہاری جان لے لیتا"۔ غازی کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہورہی تھیں۔ 

" میں آپکا کام خراب کرنے نہیں آئ تھی وہاں۔۔۔ وہ تو۔۔۔ آپ اور"۔ اسنے خفا سے لہجہ میں کہتے ایک نظر غازی کو دیکھا اور کچھ پل کر رکی اور پھر آنسو حلق سے نیچے اتار کر اسکو دیکھتی بات کو وہیں سے دوبارہ جوڑا جہاں سے چھوڑا تھا۔ 

" آپ اور فرحین ساتھ۔۔۔ تھے میں بس آپ لوگوں کے پیچھے آئ تھی۔۔۔ کہ آپ لوگ تنہائی میں کیا کرنے جا رہے ہیں"۔ سجل نے بات مکمل کرکے غازی سے نظریں چرائ تھیں۔ جو اسے خون آشام نظروں سے گھور رہا تھا۔ 

" بہت خوب۔۔۔۔ اب بھگتو کیونکہ تمہارے کالج کی ٹرپ بھی تم مس کر چکی ہو"۔ غازی نے تڑخ کر کہا۔ 

سجل نے منہ کھول کر اسے دیکھا۔ 

" ایسے کیسے مس ہوسکتی ہے۔۔۔ ہائے اللہ اتنی مشکولوں سے لی تھی اجازت میں نے۔" 

غازی نے اسکی بکواس پر اسے گھورا تھا۔ 

" ایسے کیا گھور رہے ہیں مجھے کیا پہلے کبھی نہیں دیکھی میرے جیسی پیاری حسین سی لڑکی"۔ اسنے رونی صورت بنا کر کہا۔ 

غازی نے بیزار سی شکل بنا کر اپنا سر صوفہ کی پشت پہ گرایا تھا۔ اور سجل بری بری شکلیں بنا کر رہ گئ تھی۔ اس سے پہلے کے سجل کے دل میں ہوتی مزید کھل بلی اسے کوئ اور گوہر افشانی کراتی۔ کمرے کا دروازہ بجا تھا۔ 

غازی۔آٹھ کر دروازہ کھولتا سائڈ پہ ہوا تھا۔ فرحین کو اندر آتے دیکھ سجل کا موڈ بری طرح خراب ہوا تھا۔ 

" اب طبعیت کیسی ہے آپکی مس سجل۔۔۔ ؟۔" فرحین نے ہلکا سا مسکا کر پوچھا۔ 

" ابھی تک تو ٹھیک ہی تھی پر آگے کا کچھ کہہ نہیں سکتی۔" اسنے طنزیہ لہجہ میں کہا۔ 

" فرحین ۔۔۔ آپ نے کام کر دیا جو میں نے کہا تھا۔" 

" جی سر کردیا۔" فرحین نے سنجیدگی سے کہا۔ 

" اوکے فرحین اب صبح ہوتے ہی ایک اور ذمےداری میں آپکے کندھوں پہ ڈالنے والا ہوں۔ پلیز صبح ہوتے ہی ان محترمہ کو واپس کراچی چھوڑ آئیے گا۔" غازی نے سنجیدگی سے کہا۔ 

سجل نے منہ بنا کر غازی کو دیکھا تھا۔ 

" میں نہیں جاؤں گی کراچی واپس"۔ سجل کی بسورتی آواز کمرے میں گونجی۔ 

" کیوں اپنی قبر کھدوانی ہے؟۔" غازی نے بیزار آتے لہجہ میں کہا۔ 

" آپ تو بس میرے مرنے کی دعائیں مانگتے رہیں"۔ اسنے آنکھوں میں آئ نمی کو پیچھے دھکیل کر کہا۔

" آ۔۔۔ سر ۔۔۔ میرے خیال سے مجھے چلنا چاہیے میں نے اپنا روم بھی بک کروا لیا ہے۔" فرحین کو اپنا آپ اس سیچویشن میں مس فٹ لگا۔ 

" نہیں فرحین آپ یہاں سوئیں ان محترمہ کے ساتھ میں دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" غازی نے صوفہ پہ بیٹھ کر اپنے جوتے پہنے۔ 

" آپ مجھے چابیاں دے دیں۔" اسنے اٹھتے کہا۔ 

فرحین نے کمرے کی چابیاں اسے دی اور روم نمبر بھی بتایا۔ 

" اوکے گڈ نائٹ"۔ اسنے سنجیدگی سے کہتے کمرے سے نکلنے لگا تھا۔ کہ سجل کی آواز نے اسکے قدم برف کی مانند منجمد کیئے تھے۔ غازی نے غصہ سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر اسے دیکھا تھا۔

" غازی۔۔۔ میں ۔۔ آپ سے پیار کرتی ۔۔۔ ہوں پلیز آپ مجھ سے شادی کر لیں۔" سجل نے بہت مشکل سے یہ بات ادا کی تھی۔ 

" سجل بکواس بند کرو اور سو جاؤ۔" غازی نے سنجیدہ سے لہجہ میں کہا۔

" آپکو میری محبت محض ایک بکواس لگ رہی ہے۔۔۔۔ میں سچ میں آپ سے بہت پیار کرنے لگی ہوں۔" سجل کا لہجہ و انداز گریہ وزاری سے پر تھا۔

غازی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا اسنے آگے آکے اسکے منہ پہ ایک زناٹے دار تھپڑ مارا تھا۔ سجل جو محبت کے اعتراف کے لیئے آٹھ بیٹھی تھی اسکا زور دار تھپڑ اسے واپس منہ کے بل گرا گیا تھا۔ سجل کی آنکھوں سے دو آنسو مزید گرے تھے۔ وہ اسی پوزیشن میں پڑی رہی وہ غازی سے فرحین کے سامنے اس حرکت کی امید نہیں کر رہی تھی۔ غازی تن فن کرتا کمرے کا دروازہ قدرے زور سے مار کر نکل گیا تھا۔ اور وہ ویسے ہی پڑی سسک سسک کر رونے لگی تھی۔ فرحین نے اسے اسکے حال پہ چھوڑا اور خود بیڈ کی دوسری سمت آکر لیٹ گئ تھی۔ ایک نظر سجل کو دیکھا جو ابھی بھی اندھے منہ پڑی رو رہی تھی۔ 

♧♧♧♧♧

" صالح رپورٹس آگئ آلائنہ کی۔۔" اسنے قدرے بے قراری سے پوچھا۔ 

" ہاں آگئ ہیں۔" صالح نے اسکے گرد اپنے مضبوط بازو ہائل کرکے کہا۔ 

تبسم کا چہرہ یکدم پھیکا پڑا تھا۔ اسے لگا شاید صالح نے اسے بانہوں کے گھیرے میں اس لیئے لیا ہے کہ جب وہ روئے تو وہ اسے سہارا دے سکے۔ 

" صالح۔۔۔ ؟؟"۔ اسکی سہمی سی نگاہیں صالح کے چہرے پہ جمی تھیں۔

" رپورٹس کلیئر ہیں آلائنہ کو کوئ بیماری نہیں ہے"۔ صالح نے مسکرا کر بتایا۔ تبسم نے صالح کو بے یقینی سے دیکھا۔ صالح اسکی بے یقینی دیکھ ہولے سے مسکایا تھا۔ 

" س۔۔سچ میں۔۔ ہماری۔۔۔ بچی ۔۔۔ بلکل ٹھیک ہے۔" اسنے سسکتے ہوئے بکھرے لہجہ میں کہا۔ 

" ہاں ہماری بچی بلکل ٹھیک ہے اسے کوئ بیماری نہیں۔" صالح نے اسے خود میں بھینچ کر کہا۔ تبسم اسکے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔ اور صالح آنکھیں موندتا اسے تسلیاں دینے لگا تھا۔

♧♧♧♧♧♧

صبح کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ فرحین اٹھی تو سجل کو تب بھی اسی حال میں پڑے پایا۔ فرحین نے آگے بڑھ کر سجل کو ہلایا پر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نا ہوئ۔ 

" سجل آر یو اوکے"۔ فرحین نے ایک بار اور اسکا کندھا ہلا کر اس سے پوچھا۔ 

پر سجل کی طرف سے کوئ جواب نا پا کر فرحین کو فکر ہوئ وہ آٹھ کر غازی کے کمرے کی طرف گئ تھی۔ وہ غازی کو بلا کر لائ غازی بیزار سا کمرے میں آیا تھا۔

سجل کے پاس جاکر اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھکر۔اسکا کندھا ہلایا۔ 

" سجل اٹھو۔۔" غازی نے اسکا کندھا قدرے زور سے ہلایا۔ سجل نے ہلکا سا اپنا کندھا جھٹکا تھا۔ غازی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے۔ 

" sajal stop this nonsense." 

غازی نے چڑے ہوئے لہجہ میں کہا۔ 

" ہاں میں تو آپکے لیئے پوری کی پوری ( Nonsense ) ہوں۔ آپ بہت برے ہیں۔" اسنے منہ بنا کر کہا اور سر اٹھا کر اسے گھورا تھا۔ غازی اسکی سرخ سوجی آنکھیں دیکھ کر لب بھینچ گیا تھا۔ 

" فرحین ۔۔ مجھے تنہائی میں بات کرنی ہے سجل سے"۔ غازی کے یہ کہنے کی دیر تھی۔ فرحین ( یس سر ) کہتی کمرے سے نکل گئ تھی۔ 

غازی اسکے مقابل آکر بیٹھا تھا۔ 

" سجل ۔۔۔۔ میں تمہیں آخری بار وارن کر رہا ہوں وہ بات جو تم نے کل رات کی اب وہ میں کبھی دوبارہ تمہارے منہ سے نا سنو۔" غازی نے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔ 

" آپ بار بار سنیں گے میرے منہ سے یہی بات میں آپ سے پیار کرتی ہوں۔۔۔" اسنے سرکشی سے کہا۔ 

" سجل۔۔۔ سجل۔۔۔۔ انسان بن جاؤ۔" غازی بیڈ پہ زور سے اپنا ہاتھ مار کر چھوڑتے ہوئے کہا۔

" غازی۔۔۔ پہلے ۔۔ مجھے لگتا تھا کہ فرحین آپکی گرل فرینڈ ہے پر۔۔۔ پر اب مجھے پتہ ہے وہ آپکی گرل فرینڈ نہیں ہے وہ آپکی طرح ایک آفسر ہے وہ آپ کے ساتھ کام کرتی ہے۔ غازی پلیز ۔۔۔ آپ کیوں میری فیلینگس کو نہیں سمجھ رہے"۔ سجل نے سسکتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔

" سجل بس بہت ہوگیا ۔۔۔ جتنی بکواس تم نے کرنی تھی کر لی۔ تم جیسی بے حیا لڑکی کو میں اپنی زندگی کا ساتھی بناؤں گا ، کبھی نہیں۔۔۔ !! ، اتنا بھی بےغیرت نہیں ہوا میں کہ تم جیسی بے حیا لڑکی سے شادی کروں ، جو ایسے کسی غیر مرد کے سامنے بیٹھی دھڑلے سے اپنی محبت کا ڈھنڈھورا پیٹ رہی ہو۔ اور اگر ۔۔۔ پھر بھی یہ محبت نامی آگ بہت زیادہ لگی تم میں تو میں بھجا دیتا ہوں۔۔۔ شاید کچھ قرار آجائے۔" غازی نے ٹھنڈے لہجہ میں زہر سے بھرے الفاظ اسکے کانوں میں اتارے تھے اور بات کے اختتام میں اسکے وجود پہ دھیرے سے جھکا تھا۔ سجل کا دل یکدم سرکا تھا۔ سجل نے اسے خود سے دور جھٹکا اور خود اٹھ کر کھڑی ہوئ تھی۔ 

" مجھے گھر واپس جانا ہے"۔ اسنے روتے ہوئے کہا۔ 

" اتنی بھی کیا جلدی ہے گھر جانے کی ابھی محبت کا کھیل بھی باقی ہے۔" غازی نے اسکے قریب آتے کہا۔ 

سجل نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی امڈتی سسکیوں کو دبایا تھا۔ 

اس سے پہلے کے غازی اسکے چہرے پہ اپنا ہاتھ پھیرتا سجل نے اسے دھکا دیا تھا۔ 

" آپکو سمجھ نہیں آرہی دور رہیں مجھ سے مجھے گھر جانا ہے۔" اسنے تڑپ کر کہا۔ 

" آہ۔۔۔ اوکے میں کہتا ہوں فرحین کو۔" غازی نے سرد آہ تو ایسے خارج کی جیسے اسکے نجانے کونسے ارمان پورے ہوتے ہوتے ادھورے رہ گئے ہوں۔

غازی کمرے سے نکل گیا تھا اور کچھ دیر بعد فرحین کمرے میں آئ تھی۔ اور پھر تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ گھر کے لیئے روانہ ہوگئ تھی۔ 

♧♧♧♧♧

" آدم ۔۔۔ چائے۔" نیلم نے شرماتے ہوئے آدم کے آگے چائے کا کپ کیا تھا۔ 

آدم اسے دیکھ کر دلکشی سے مسکرایا تھا اور اسکے ہاتھ سے کپ لیکر تھاما تھا۔ 

" شکریہ۔" 

نیلم اسکے شکریہ کہنے پہ سر جھکا کر مسکائ تھی۔ 

" چائے بہت اچھی بنائ ہے"۔ آدم نے نیلم کا ہاتھ تھام کر کہا۔ نیلم نے نگاہیں جھکا کر اپنے بالوں کی آوارہ لٹیں کانوں کے پیچھے اڑسی تھیں۔ 

آدم چائے پی کر فارغ ہوا اسنے کپ سائڈ پہ رکھا اور نیلم کا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں تک لیکر گیا تو نیلم نے لب کچل کر اپنا سر مزید جھکا دیا۔ 

" ویسے کب تک ایسے شرمانے کا ارادہ ہے۔" آدم نے شرارتاً پوچھا۔ 

" میں ۔۔ شرما تھوڑی رہی ہوں"۔ نیلم نے ذرا سی پلکیں اٹھا کر کہا۔ 

" تو پھر۔۔؟۔" آدم نے لب دبا کر پوچھا۔ 

نیلم نے سر اٹھا کر اسے عاجزی سے گھورا۔ 

" بس بھی کردیں اب ۔۔" نیلم نے خفا ہوتے کہا۔ 

" پر میں نے تو ایسا کچھ کہا ہی نہیں جو تم مجھے کہہ رہی ہو بس بھی کریں نا اب۔" آدم ہنوز اسے چھیڑنے سے باز نا آیا۔ 

" آدم ۔۔۔ میں ناراض ہو جاؤں گی"۔ نیلم نے خفا سی صورت بنائے کہا۔ 

" تو اسمیں کونسی بڑی بات ہے میں تمہیں منا لوں گا"۔ آدم نے اسکے گال سہلا کر کہا۔ 

نیلم خاموش رہی کچھ نا کہا۔ 

" مجھے مس کروگی"۔ آدم نے نرمی سے پوچھا۔ 

" نا۔۔۔ بلکل نہیں"۔ نیلم نے مسکان دبا کر کہا۔ 

" یار۔۔۔ ایسے تو نا کرو"۔ آدم نے مصنوئ گھورا۔

" میں نے کیا کیا ہے اب"۔ نیلم نے انجان بنتے پوچھا۔ 

" کچھ نہیں کیا تم نے ساری غلطی میری ہے امید ہی زیادہ لگا لی تھی۔" آدم نے خفگی سے کہا۔ 

" اچھا ناں ۔۔!!! ناراض مت ہو ، میں تمہیں بہت یاد کروں گی اتنا یاد کرونگی تمہیں کہ تمہارے عشق میں لیلی بن جاؤں گی اور تمہیں اپنا مجنوں بنا لوں گی۔" نیلم نے اسکے کاندھے پہ تھوڑی رکھ کر شرارت سے کہا۔ 

آدم نا چاہتے ہوئے بھی اسکی بات پہ قہقہ لگا اٹھا تھا۔ 

" تمہیں پتہ ہے نیلم میں نے زندگی میں کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ میں ایسی ( cringe ) حرکتیں کرونگا۔ پر دیکھو اب یہی سب مجھے لطف دے رہا ہے"۔ آدم نے اسکے ماتھے پہ لب رکھے۔ نیلم مسکرائ تھی۔ 

" سوچا تو میں نے بھی نہیں تھا۔" 

دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑے تھے۔ 

" واپس کب آؤ گے؟۔" نیلم نے فکر مندی سے پوچھا۔ 

" تم یاد تو نہیں کروگی ، پھر کیا اس سے کہ میں جلدی اؤں یا دیر سے۔" آدم نے اسے دیکھ کر مصنوئ افسوس سے کہا۔ 

" اب ایسا بھی نہیں ہے بولا تو ہے یاد آؤ گے بہت۔" اسنے اسکے کندھے پہ سر ٹکایا۔ 

" پھر کوشش کرونگا کہ جلد آجاؤں"۔ آدم نے اسکے گرد اپنا بازو باندھ کر کہا۔ 

نیلم آسودگی سے مسکرائ تھی۔

♧♧♧♧♧♧

" پاپا پھر آپکا کیا جواب ہے۔" تبسم نے اپنے باپ کے پاس بیٹھ کر پوچھا۔ 

" تبسم میں ایک بار جواب دے چکا ہوں۔" پاپا نے سنجیدگی سے کہا۔

" پاپا ۔۔۔ پلیز تائ امی نے بڑے مان سے بھیجا ہے مجھے"۔ تبسم نے منت کی۔ 

" تبسم تم میری بیٹی ہو یا بھابھی کی۔" پاپا چڑے۔ 

" پاپا غازی بہت اچھا ہے۔ کتنا اچھا ہوگا جب میں اور سجل ایک ہی گھر میں ساتھ رہیں گے۔" اسنے پھر سے منت بھرے لہجہ میں کہا۔ 

" کیوں اتنا مجبور کر دیتی ہو تم بہنیں مجھے؟"۔ پاپا نے اسے گھورا تھا۔ 

" پاپا۔۔۔ ایسے تو نا بولیں۔" تبسم خفا ہوئ۔ 

" کیا چاہتی یو تبسم تم۔" پاپا نے عاجز آکر کہا۔ 

" میں چاہتی ہوں آپ راضی ہوجائیں اس رشتے کے لیئے۔"تبسم نے پاپا کا ہاتھ تھاما۔

" اوکے۔۔۔ ٹھیک ہے پر مستقبل میں کوئ بھی مسئلہ ہوا تو اسکی زمدار تم ہوگی۔" پاپا نے سنجیدگی سے کہا۔

" اوہ پاپا آئ لو یو آپ بہت اچھے ہیں"۔ تبسم نے آٹھ کے پاپا کے گرد اپنے دونوں بازو لپیٹ کر کھلکھلا کر کہا۔

پاپا محض سر جھٹک رہ گئے تھے۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد تبسم۔نے تائ امی کو کال کر کے یہ خوشخبری دی تھی۔ اور کچھ ہی دیر میں تائ امی اور صالح آئے تھے اور رشتہ پکا کرکے چلے گئے تھے۔ تبسم بھی انہی کے ساتھ واپس لوٹ کر چلی گئ تھی۔ 

♧♧♧♧♧

سجل فرحین کے ساتھ رات میں گھر پہنچی تھی۔ اسکے پاپا اسے اتنی جلدی واپس گھر آتا دیکھ پریشان ہوگئے تھے۔ 

" کیا ہوا سجل بیٹا آپکی ٹرپ تو دس دن کی تھی ناں آپ اتنی جلدی کیسے اگئین۔" پاپا نے فکر مندی سے پوچھا۔ 

" وہ انکل در اصل انکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو کالج انتظامیہ نے انہیں واپس بھیج دیا ، میں اسٹاف ہی ہوں کالج کا اور مجھے بھی مجبوری کے تحت واپس آنا پڑا اور ان کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسی لیئے ہم انہیں ساتھ لے آئے۔" فرحین نے مسکرا کر کہا۔ 

" جی شکریہ بیٹا۔" سجل کے پاپا نے دل سے شکریہ کیا۔ 

" اوکے انکل میں چلتی ہوں اب"۔ فرحین نے اٹھتے کہا۔ 

" بیٹا کھانا کھا کر جائیے"۔ 

" ارے نہیں انکل بہت شکریہ میری فیملی میرا۔ویٹ کر رہی ہے میں چلتی ہوں۔" فرحین نے جھٹ کہا۔ 

اور پھر وہ چلی گئ۔ سجل اپنے کمرے میں آگے تھی۔ بستر پہ لیٹتے ہی اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ اب تو شاید اسکی ساری رات روتے ہی گزرتی۔ 

♧♧♧♧♧

غازی پورے ایک ہفتے بعد گھر واپس لوٹا تھا۔ اور جو خبر آج اسے امی اور بھابھی نے سنای تھی ، وہ اسکے رونگٹے کھڑے کر گی تھی۔ وہ جس قدر سجل سے دور بھاگ رہا تھا ، اسکی قسمت اور دنیا والے ان دونوں کو ملانے پہ تلے تھے۔ وہ کافی دیر کمرے میں تنہا پڑا رہا ، اسکا دماغ سوچ سوچ کر تھک چکا تھا۔ آخر کار وہ خود سے لڑنے کہ بجاے اٹھا تھا ، اور سجل کے گھر کی سمت رخ کیا تھا ۔                                                        

کچھ دیر بعد وہ سجل کے گھر کہ آگے اپنی گاڑی سے ٹیک لگاے کھڑا تھا۔ اسنے اپنی پاکٹ سے موبایل نکال کر سجل کا نمبر ملایا ، اور اضطرابی کیفیت سے نگاہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا ، کچھ لمحوں بعد دوسری سمت سے کال پک کر لی گی۔                                                                   

" سجل ۔۔۔۔۔ میں نیچے کھڑا ہوں ، کچھ دیر کے لیے نیچے آو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔" غازی کی سنجیدہ سی آواز سجل کے کانوں میں پڑی۔ " مجھے آپ سے کوئ بات نہیں کرنی۔" سجل نے تڑخ کر کہا۔                 

غازی کے ماتھے پہ لاتعداد شکنوں کے جال بچھے تھے۔                          

" سجل میں تم سے فضول کی ہانکنے نہیں آیا ، میری گزارش ہے آپ محترمہ سے کہ برائے مہربانی نیچے تشریف کا ٹوکرا اٹھا کر لے آئیے۔" غازی نے   تنک کر کہا۔                                                                      

" میں نے کہا ناں مجھے آپ سے کوئئ بات نہیں کرنی۔"  اسکا انداز بیاں دو ٹوک تھا۔

" انسان کو اتنا بھی ضدی  نہیں ہونا چاہیئے ، تم ایک انتہائ خود پسند لڑکی ہو۔" غازی نے تقریبا غرا کر کہا۔    

" آپ نے مجھے جو جو سمجھا ہے ، میں بلکل ویسی ہی ہوں مسٹر غازی۔" سجل نے جلتے لہجہ میں کہا۔                                              

           " بلکل ۔۔۔۔۔ !!!! میں ویسے بھی گھٹیا لوگوں کی پرکھ جانتا ہوں۔"       

سجل نے اسکی بات پہ آنسو بھری آنکھوں سمیت ایک نظر موبائل کو دیکھا تھا ، اور پھر کال کاٹ دی۔                                                                  

غازی اسکی حرکت پہ مزید تلملا کر رہ گیا تھا۔                                     

٭٭٭٭٭٭٭                                      

آدم اسلام آباد میں تھا۔ اور نیلم گاوں میں تھی۔ آج منال اپنی امی کے گھر آئ ہوئ تھی۔ اور پھر کچھ دیر بعد انکے گھر بھی آآ دھمکی تھی۔ اسے دیکھتے ہی نیلم کے ماتھے پہ بارہ بجے ہوئے تھے۔ اس نے منال کو سلام تک نا کیا ، وہ شروع سے ایسی ہی تھی ، اگر ایک بار کوئ آنکھوں میں کھٹک جاتا تو بس کھٹک جاتا ، اور پھر اسکی چڑ ختم ہونے کا نام نا لیتی ، اور اکثر تو ایسا ہوتا کہ اسکی چڑ نفرت میں بدل جاتی۔                                                    

  " بندہ گھر آئے مہمان کو سلام ہی کر لیتا ہے ، پر تم سے تو اتنی بھی زحمت نہیں ہوتی۔" منال اسکے پیچھے اسکے کمرے میں آئ تھی۔                    

            " اگر مہمان عزت دینے کے قابل نا ہو تو۔۔۔۔۔؟؟؟؟۔" منال نے بھنوئیں اچکا کر  پوچھا۔                                                                        

‍" جو خود عزت والا ہو ، اسے دوسروں کو عزت دینے میں اتنی پریشانی در پیش نہیں آتی۔" منال صوفہ پہ ٹانگ پہ ٹانگ ڈال کر بیٹھی تھی۔                    " اور جو خود عزت والا ہو ، اسے کسی اور کی دی ہوئ عزت کی ضرورت نہیں پڑتی۔" نیلم اسے جلتی آنکھوں سے گھور رہی تھی۔ 

" نیلم ۔۔۔۔ مجھ سے مت الجھو نہیں تو بہت پشتا‌ؤ گی۔" منال نے مبہم سی مسکراہٹ سمیت کہا۔                                       

" شرم نہیں آتی ناں تمہیں دوسری عورتوں کے شوہروں پہ نظر رکھتے ہوۓ۔" نیلم نے اسے کچھ شرم دلانا چاہی۔                                                     

" میں تو سدا کی بے شرم ہوں ، تم جتنی بھی کوشش کر لو ۔۔۔۔۔ اپنے شوہر کو مجھ سے نہیں بچا سکوگی۔"  منال نے افسوس سے کہا۔ 

                                 " دیکھ کہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ تم ایک نیچ عورت ہو۔" آدم جو آج پورے پانچ دن بعد نیلم کو سرپرائز دینے کی غرض سے آیا تھا ، پر کمرے کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی نیلم کے الفاظ نے آدم کے قدم جکڑے۔

یکدم منال کے انداز بیاں  تبدیل ہوتے دیکھ ، نیلم نے حیرت سے اسے دیکھا۔

منال نے شیشہ میں آدم کا عکس دیکھ لیا تھا ، اسی لیئے اسنے اپني ٹون فورا بدلی تھی۔                                                                              

  " منال بی بی میں تم جیسی عورتوں سے خوب واقف ہوں ، میرے سامنے زیادہ بننے کی ضرورت نہیں۔" نیلم  نے جڑے ہوۓ لہجہ میں کہا۔                

" نیلم۔۔۔۔۔۔!!!۔"                                                                          

آدم کی ‏غراتی آواز پہ وہ بے ساختہ مڑی تھی۔ آدم کو دیکھ نیلم یکدم خوشی سے نہال ہوئ تھی۔ وہ خوشی سے جہکتی آدم کے سینے سے لگی تھی ، پر آدم نے اسے خود سے اسقدر زور سے جھٹکا تھا ، کہ وہ حیرت و بے یقینی سے اسے تکنے لگی۔                                                                         

" نیلم مجھے تم سے اس بات کی امید نہیں تھی۔" آدم نے بے یقینی سے کہا۔  

" ارے آدم کیسے ہو ، تم بھی ناں آتے ہی کیا باتیں لے کر بیٹھ گۓ آو اندر آو۔" منال نے بات سنمبھالنے کی اداکاری کی۔                                          

" نہیں منال آج اسے یہ بات سمجھنی پڑے گی ، کہ اسے ہر صورت مجھ سے جڑے رشتوں کو عزت دینی پڑے گی۔" آدم نے نیلم کو گھورتے کہا۔             

" کیا میں آپ سے جڑے رشتوں کی عزت نہیں کرتی آدم۔۔۔۔؟؟۔"                   

نیلم نے سرسراتی آواز میں کہا۔                                                        

" ۔۔۔۔ نہیں بلکل نہیں اگر تم عزت کرتی تو آج یہ سب نا ہوتا ، آج جسقدر دکھ مجھے ہوا ہے۔ میں الفاظ میں بیاں نہیں کرسکتا نیلم۔" آدم نے آفسوس سے پر لہجہ میں کہا۔                                                                        

منال کے ہونٹوں پہ شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوکر یکدم غائب ہوئ۔       

نیلم بنا کچھ کہے کمرے سے نکل گئ۔                                         

" منال امید کرتا ہوں ، کہ تم یہ سب دل پہ نہیں لو گی۔" آدم نے شرمنکی سے کہا۔                                                                                    

" نہیں آدم میں سب کچھ بھلا کر اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکی ہوں ، اب یہ تمام باتیں معنی نہیں رکھتی میرے لیئے۔" منال نے کمال اداکاری کرتے کہا۔ 

آدم کو اسکی باتوں سے مزید شرمندگی ہوئ تھی۔                               

٭٭٭٭٭٭                                       

تبسم مکمل طور پر غازی اور سجل کی شادی کی تیاریوں میں گم تھی۔ اسکی زمداریوں میں اب پہلے کے مقابلے کافی اضافہ ہوا تھا۔ اکثر صالح گھر آتا ، تو اسے تبسم کسی نا کسی کام میں مشغول ملتی ، اور اس بات  نے صالح کو اچھا خاصہ تپا کر رکھا ہوا تھا۔ آج بھی جب وہ گھر واپس آیا تو تبسم لگی کجن میں کھانا بنا رہی تھی۔ وہ غصہ سے سرخ ہوتا چہرہ لیۓ کچن میں گھسا تھا۔     

" ارادے کیا ہیں تمہارے ۔۔۔۔۔؟؟۔"                                                    

اپنی پشت پہ صالح کی تپی ہوئ آواز سن کر وہ حیرت سے مڑی تھی۔           

" کیا ہو گیا اتنے غصہ میں کیوں ہیں آپ۔۔؟؟۔"                                       

" یہ بھی کیا اب میں بتاوں گا۔۔۔۔"                                                    

" تو آپکے اسقدر غصہ میں ہونے کی وجہ آخر کوئ اور کیسے بتاۓ گا صالح۔۔۔!!!!۔"                                                                        

" کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں اسقدر غصہ کیوں ہوں۔"                            

صالح نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔                                    

" افف ہو ۔۔۔!! صالح مجھے کیسے پتہ ہو گا۔"                                        

" واہ بہت زبردست ، یہ انجان بننے کی ادا کمال ہے آپ محترمہ کی۔"          

اسنے اپنی کنپٹی سہلا کر کہا۔                                                       

  " میں نے کیا کیا ہے جو کب سے مجھے گھورے جا رہے ہیں آپ۔" تبسم نے اپنے پہلووں پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔                            

" شرافت سے ان فضول کاموں کو آگ میں جھونکو اور کمرے میں آو۔" صالح نے اسے آنکھیں دکھا کر کہا اور تن فن کرتا کچن سے نکل گیا۔                                                                            

" ارے ۔۔۔۔ یہ تو بتاتے جائیں ، کہ آخر منہ کس بات پہ پھولا ہوا ہے۔" تبسم محض اسکے پیچھے ایک ہانک لگا کر رہ گئ۔                 

٭٭٭٭٭٭                                  

      نیلم صوفہ پہ بیٹھی کام کے نام پر بیٹھی کریشیے کا کام کر رہی تھی۔ آدم الگ اپنے کام میں لگا تھا۔ دونوں بری طرح سے ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے میں گم تھے۔                                    

دونوں کے بیچ ایک سرد جنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے بیگانہ ہوۓ بیٹھے تھے۔                                       

" کیا مصیبت ہے ، ایک تو یہ کاغدات بھی ابھی آپس میں گڈ مڈ ہونے تھے۔" آدم نے فائل کو پرے اچھالتے کہا۔                                  

نیلم نے ایک نظر اسے دیکھا۔ اور واپس اپنے کام میں مشغول ہوگئ۔  

ایسا ہی ہوتا ہے ناں جب ہم اپنی زندگی میں موجود اہم رشتوں سے زیادہ اہمیت ان رشتوں کو دیتے ہیں، جو اہم نہیں ہوتے ، جن کے حقوق اللہ نے ہم پہ فرض نہیں کیۓ ہوتے ، پر دنیا داری کی خاطر ہم ان رشتوں کو باز پرس کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کر دیتے ہیں۔ پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ کہ ہم ایک دوسرے سے بیگانہ ہونے لگتے ہیں۔           

" اپنے اندر کا غصہ نکالنے کو کیا یہ بے جان چیزیں ہی ملی ہیں۔" نیلم نے مصروف سے لہجہ میں کہا۔                       

آدم  نے اسے سراسر نظر انداز کیا۔ نیلم کا دل دکھا۔ یہ بات اسکے لیۓ تکلیف دہ تھی ، کہ اسنے  کسی اور کی خاطر اسے نظر آنداز کیا۔          

" تم کہو تو سہی تم پہ غصہ نکالنے کو تیار ہوں میں۔"   آدم نے جھبڑے بھنچ کر کہا۔                                             

" سوچنا بھی مت کہ میں ایک لفظ بھی آپکی سابقہ محبوبہ کی حمایت میں سنوں گی۔" نیلم نے کریشیے کا سامان سمیٹتے ہوۓ کہا۔ 

" تمھاری زبان سے کیا نکلتا ہے ، شاید تمہیں خود بھی اسکا اندازہ نہیں ہوتا۔" آدم نے اچھے خاصہ تپے ہوۓ لہجہ میں کہا۔          

" مجھے اچھے سے اندازہ ہے کہ میں کیا بولتی ہوں۔ اور کیا کہتی ہوں خوب سوچ سمجھ کر کر کہتی ہوں جو بھی کہتی ہوں۔" 

نیلم نے ڈریسنگ ٹیبل کا دراز کھول کراسمیں سمیٹا ہوا سامان رکھا۔ 

" نیلم میں نے تم سے اس شادی میں بسس ایک چیز مانگی تھی۔ اور تم مجھے وہ بھی نہیں دے سکی۔" آدم نے کاغذات پلٹتے افسوس  بھرے لہجہ میں کہا۔                                                      

" آدم صاحب آپ کی نظروں میں محض بس یہی ایک چیز ہے ، پر میں نے جو کچھ پیچھے چھوڑا ہے ناں اب مجھے افسوس ہے کہ ماں باپ اپنی نازوں پلی بیٹیوں کو کیوں تم جیسے نا قدرے  لوگوں کو سونپ دیتے ہیں۔"                                                           

نیلم کی آنکھیں پانیوں سے بھری تھیں۔                        

" کیا چھوڑا ہے ، ہاں تم نے ۔۔۔۔۔۔ بس سمپتی کارڈ کھیلنے کی عادت ہے تم عورتوں کو۔"                                               

آدم نے بھڑک کر کہا۔                                           

             " میں نے کیا چھوڑا ہے۔۔۔۔۔۔!! یہ آپ ہی کہہ سکتے ہیں ، میں اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آئ ، اپنے بھائیوں کو چھوڑ کر آئ ، اپنے دوستوں کو چھوڑا ، اپنا ایک سنسار چھوڑ کر آئ۔ ایک آسائشوں بھری زندگی چھوڑ کر اس دشت میں آکر رہنے لگی ، اپنا سب کچھ چھوڑ آئ۔" اب نیلم کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی مانند گرنےلگے تھے۔                                                                         

" میں نے آپکے بن مانگے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا۔" اسکی آواز رندھ گئ تھی۔                                                                

        " بے شک یہ سب آپ نے مجھ سے مانگا نہیں پر میں نے سب چھوڑ دیا۔ آپ کو شاید نا پتہ ہو پر میں اپنی ماں کی انتہائ سست اور کام چور بیٹی تھی۔ پر اب میں ان چند دنوں میں آپکی ماں کی ایک پھرتیلی بہو بن گئ۔۔۔۔ پتہ ہے محض ان چند دنوں کے عرصہ میں ، اصل نیلم تو کہیں پیچھے ہی رہ گئ۔"                                       

اسنے اپنی آنکھیں پونچھی ، اور الماری سے اپنی چادر نکال کر صوفہ پہ اوڑھ کر آنکھیں موند کر سو گئ۔                                          

آدم محض اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔                                             

٭٭٭٭٭٭                                      

تبسم کمرے میں آئ فارغ ہوکر تو صالح صاحب ماتھے پہ تیوری سجاۓ بیٹھے تھے۔ تبسم بیڈ پہ اسکے قریب آکر بیٹھی۔            

" ہوا کیا ہے ، اتنا غصہ کیوں ہیں۔"                                    

" پاگل ہوگیا ہوں ، شوق ہے مجھے غصہ کرنے کا۔"                      

تبسم نے اسکی بات پہ شرارتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔                  

" وہ تو مجھے پتہ ہے کوئ نئ بات بتائیں۔"                                 

" ابھی اگر میں بتانے لگا ناں، تو پھر تم نے بہانے بنا کر یہاں سے نکلنے کی کرنی ہے۔"                                                    

اسکے معنی خیز الفاظ تبسم کے گال دہکا گۓ تھے۔ تبسم نے اپنے ہونٹوں پہ آتی دلکش سی ہنسی کو روکا تھا۔                            

" اب میں نے یہ بھی نہیں کہا۔ کہ آپ پریکٹکلی مجھے کوئ نئ بات بتائیں۔" تبسم نے صالح کے کندھے پہ سے نا دیدہ دھول جھاڑی۔    

" اپنی تمام فضول قسم کی مصروفیتوں کو ختم کرو بس یہ میری آخری وارننگ ہے۔" صالح نے اسکے نا‌زک ہاتھوں کو تھام کر کہا۔            

" صالح ۔۔۔۔۔ آپ جانتے تو ہیں ، کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ ، میں نے تو آدم کو میسج کیا ہے۔ کہ اگر وہ شہر میں ہے تو مجھے کال کرے۔" تبسم کی بات پہ صالح نے اسے افسوس سے تکا۔                        

" میں تم سے یہاں دنیا جہاں کی پٹیخوں پہ بات کرنے نہیں بیٹھا کم از کم اس وقت تو ہم سکون سے ہمارے حوالے سے بات کرسکتے ہیں ناں۔۔۔۔!!!۔"                                                                    

" اچھا ناں غصہ کیوں ہورہے ہیں ، کہیں کیا بات کریں۔"               

" واہ اب یہ بھی میں بتا‍‌‎وں۔۔۔۔!!!۔"                                          

" اچھا ۔۔۔۔۔ آپکا کام کیسا  جا رہا ہے۔" تبسم نے بہت سوچ کر پوچھا۔ 

" اچھا جارہا ہے ، پر تم کسی کام کی نہیں ہو۔"                             

صالح کی بات پہ تبسم کا منہ کھلا تھا۔                                      

" مطلب کچھ بھی۔۔۔!!۔"                                                        

" کچھ بھی کیا مطلب ، کیا تمہیں رومینٹک باتیں کرنا نہیں آتیں۔" 

" نہیں۔" ناک چڑھا کر جواب دیا۔                                        

" مجھے تو آتی ہیں ناں مجھے تو موقع دو۔"                          

" سوچنا بھی مت ، میں جا رہی ہوں ، تمہارے کپڑے پریس کرنے ہیں اور پھر امی نے کہا تھا انکے سر میں مالش کرنے کا تو میں چلتی ہوں۔"                                                                       

" کوئ یہ والا سین نہیں ہو رہا۔ اب تم صرف میرے پاس بیٹھو گی اور مجھے وقت دو گی۔" صالح نے اسے بازوں سے تھام کر کہا۔   

" پر۔۔۔۔"                                                                       

" پر ور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ بس اب صرف خاموشی۔"                            

" بری بات ہے امی کے سر کی مالش کر آوں۔۔۔۔"                         

" شش خاموش ۔۔۔۔" صالح نے اسکے کندھوں پہ سے دوپٹہ اتار کر کہا۔  " صالح ۔۔۔۔"                                                  

" تبسم ۔۔۔۔۔" صالح نے اسے گھورا۔                                           

تبسم نے افسوس سے اسے دیکھا۔                                            

صالح نے اسے کندھوں سے تھام کر بیڈ پہ لٹایا ، اور رفتا رفتا دونوں ایک دوسرے کی قربت میں مدہوش ہونے لگے۔               نیلم کی صبح آنکھ کھلی تو اسنے کمرے میں نگاہ دوڑائ ، آدم کو ارد گرد ڈھونڈا پر شاید وہ اٹھ کر جاچکا تھا ، شہر واپس ۔۔۔۔۔ یا پھر گھر ہی تھا، اسے کوئ اندازہ نہیں تھا۔ وہ کسلمندی سے آنکھیں مسلتی دوپٹہ ٹھیک کرکے کمرے سے نکل کر باہر آئ تھی۔  صبح صبح کا وقت تھا۔ ہلکی ہلکی روشنی چہار سو آسمان پہ پھیلی ہوئ تھی۔ وہ ارد گرد ہریالی پہ نظر دوڑاتی ، جیسے ہی کھلے میدان میں آئ۔ آدم سامنے ہی چار پائ پہ سر تھامے بیٹھا تھا۔ اسنے ارد گرد پھپھو کو تلاش کیا ، پر پھپھو کہیں نا دکھیں ، اور دن تو اس وقت تک پھپھو جاگ چکی ہوتیں تھی۔ وہ پھپھو کے کعرے میں گئ پر وہاں نا پھپھو تھیں۔ اور نا ہی آدم کی دونوں بہنیں تھیں۔ وہ پریشان سی واپس باہر آئ تھی۔ اور ناچار اسے آدم کو مخاطب کرنا پڑا تھا۔                                                    

" پھپھو اور چھوٹیاں کہاں ہیں؟؟۔"                                                                                                               

آدم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔                                                                                                                  

" منال کی ساس کا انتقال ہوگیا  ہے ، امی وہاں گئ ہیں۔"                                                                                       

" اوہ ۔۔۔۔۔ " اسے افسوس ہوا۔                                                                                                                       

" ناشتہ کیا ہے تم نے۔۔۔۔؟؟؟۔" نیلم نے سائڈ پہ پڑی دودھ کی بھری ہوئ بالٹی اٹھاتے پوچھا۔ 

" تمہارے جنوں نے دیا ہے۔" اسنے بھوئیں اچکا کر کہا۔ 

  " لڑنے کو تیار رہنا ہر وقت ضروری ہے کیا۔"

" میں لڑا تو نہیں ، میں نے محض ایک بات کی ہے۔"

" تمہاری محض بات کسی لڑائ سے کم نہیں۔" نیلم نے اسے گھورا۔

" تم تو بس مجھ سے جیلس ہوتی رہنا۔"

" کچھ ذیادہ ہی غلط فہمیاں پال رکھی ہیں تم نے۔" نیلم نے لکڑیاں اٹھاتے کہا۔

" غلط فہمیاں میں نے نہیں پالی ، تم نے پیدا کردی ہیں۔"   آدم نے سنجیدگی سے کہا۔ 

" واہ آدم صاحب کیا خوب ہیں ناں !!! آپ جناب بھی ، خیر مجھے کوئ شکوہ ہے ہی نہیں ، شاید ہمارے بیچ یہ جوتعلق ہے ناں اس کی بنیاد ہی بے حد کمزور  تھی ، اسی لیئے جڑتے ہی بکھر گیا۔" نیلم نے چولہے میں آگ جھونک کر کہا۔

" اپنی کوتاہیئوں کا الزام ہمارے تعلق کی بنیاد کو دینے کی کوئ ضرورت نہیں۔" آدم نے تڑپ کر کہا۔ 

" بلکل ٹھیک کہا ساری غلطی ۔۔۔۔۔۔ سارا قصور میرا اپنا تھا۔ زندگی میں پہلی بار کسی سے دل لگایا اور وہ بھی انتہائ غلط جگہ لگایا۔ کاش   میں یہ غلطی نا کرتی ۔۔۔۔۔۔ تو آج آپکے یہ الفاظ اسقدر تکلیف نا دیتے مجھے۔" نیلم روندھی آواز میں کہا۔

" نیلم یہ تم بھی ا چھے سےجانتی ہو ،  کہ منال کے لیئے جو الفاظ  تم نے استعال کیۓ وہ بلکل بھی درست نہیں تھے۔" 

" جی بلکل بجا فرما رہے ہیں آپ۔" نیلم نے سرد لہجہ میں کہا۔

" نیلم اپنی غلطی قبول کر لینے میں کوئ برائ نہیں۔" آدم نے نرمی سے کہا۔  

" ہممم بلکل اپنی غلطیاں قبول کرنے میں بے شک کوئ برائ نہیں پر شرط یہی ہوتی کے آپ غلط ہوں ۔" نیلم کی آنکھیں آکی تپش سے چمک رہی تھیں۔

" مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اسقدر ہڈ دھرم ہوگی۔" 

" اب تو ہوگیا ناں۔۔۔!!!!۔" اسنے آنکھیں گھما کر کہا۔

" تم سے بہس کرنا ہی فضول ہے ، ناشتہ بناؤ جلدی پھر منال کی ساس کی میت پہ ہمیں بھی جانا ہے۔"

                             "  مجھ بہس کرنا حقیقتا فضول ہے۔" 

                                                               ٭٭٭٭٭٭٭

" زندگی بہت مشکل ہوتی جا رہی ہے آپی۔" سجل نے صوفہ پہ سکژ کر بیٹھتے اداسی سے کہا۔

"خیریت ایسی کونسی مشکل آگئ میری چھوٹی سی بہن کی زندگی میں ۔۔۔۔؟؟؟؟۔" تبسم نے نرمی سے پوچھا۔

"۔۔۔۔شادی کی تیاریاں اور پھر اتنا کام مطلب ۔۔۔۔مجھے تو عادت نہیں ناں اتنا سب ایک ساتھ ہینڈل کرنے کی۔" اسنے جلد بات سنبھالی۔ کھلا تھا

" ارے تو تم کونسا اکیلی ہو میں ہوں ناں تمھارے ساتھ ۔۔۔۔۔ اور آدم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ چند دنوں میں نیلم کو لے آۓ گا۔ پھر تو تمہارے آدھے سے ذیادہ کام وہ ہی سنبھال لے گی۔" تبسم نے سجل کی بری کا جوڑا ترتیب سے طے کرتے کہا۔

" سچ۔۔۔۔!!!! وہ آرہی ہے مجھے تو اسکی اسقدر یاد آرہی ہے اتنے دنوں سے۔" سجل کا مرجھایا روپ لمحوں میں تھا۔ 

تپسم اسکی پرجوشی دیکھ کر مسکرائ تھی۔ 

" سچ کہہ رہی ہوں بھلا اس میں بھی کوئ جھوٹ بولنے والی بات ہے۔" تبسم نے ہنس کر کہا۔

" بس آپی نیلم آحاۓ ، پھر سج میں میری ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔" سجل نے پرسوچ انداز میں کہا۔

"  بس دعا کرو تم وہ جلد آجاۓ۔"

"امین۔" 

سجل اور تبسم کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی ،  جب دور بیل کی چنگھاڑتی ہوئ آواز انکے کانوں سے ٹکرائ۔

" میں دیکھتی ہوں نجانے کون آیا ہے۔" سجل نے اپنے پیر صوفہ پہ  سے اتار کر اپنی چپلوں میں اڑسا کر اٹھی۔

پتلی راہ داری پار کرککے وہ گیٹ کے پاس آئ۔ دروازہ  کھولا تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ اسکا رنگ زرد پڑا تھا۔ آخری ملاقات کا ایک ایک لمحہ نگاہوں کے سامنے سے گزرا ، وہ سب یاد آتے دونوں کے دل قدورت سے  بھر گۓ تھے۔

" بھابھی کہاں ہیں انہوں نے بلایا ہے مجھے۔" غازی نے اسکی آنکھوں سے لپکتی نفرت کو نظر انداز کیا۔

" اندر ہیں۔" سجل نے الفاظ کو ایسے پیس کر کہا۔ جیسے غازی کو اپنے دتوں تلے دبایا ہو۔

غازی نے بھوئیں اچکا کر اسے دیکھا۔ 

" بھابھی سے تو مل لوں گا ، پر تمہیں بھی وارننگ دے دوں ۔۔۔۔۔ اس شادی سے انکار کردو۔" غاززی نے دیوار گیر شیشہ میں اپنا اور اسکا عکس دیکھا۔ ایک کمینی سی ہنسی اسکے لبوں کی تراش میں نمودار ہوئ۔ 

غازی نے سجل کو تھام کندھوں سے تھام کر اسکا رخ شیشہ کی طرف کیا۔ سجل یکدم سٹپٹائ۔ 

" سامنے  دیکھو کہاں میں خوبرو سا شخص اور کہاں تم کالی سی لڑکی ۔۔۔۔ سوچنا ضرور۔۔۔۔ اس بارے میں۔" 

" ایک منٹ کالی کس کو بولے ۔۔۔۔ میں کالی نہیں ہوں میری رنگت گندمی ہے۔" سسرخ چہرے سمیت تپے ہوۓ لہجہ میں کہا۔

" پھر بھی میرے سامنے کالی ہی لگتی ہو ۔" اسنے اپنے آستین فولڈ کیئے اور اسے دیکھ ہلکی سی مسکان پاس کی۔ اور اس مسکان نے ہی سجل کے زخموں پہ جلتی کا کام کیا۔   

غازی سیدھا سجل کے پاس گیا تھا۔ اور وہ بھی جلتی کڑھتی اسکے پیچھے چلتی آئ   تھی۔ 

" بھابھی خیریت آپ نے بلوایا تھا۔" وہ صوفہ پہ گرنے کے انداز میں بیٹھا تھا۔

" بہت جلدی نہیں پدھارے آپ محترم۔۔۔۔!!!!۔" تبسم نے اسے گھورا۔

وہ دھیرے سے ہنسا۔

" یہ تو بھابھی آپ اپنے شوہر سے پوچھیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے جیسے ہی مجھے انفارم کیا میں دوڑا چلا آیا۔" 

اسکی یہ نقلی شرافت دیکھ سجل نے منہ بنایا۔

" بس بس اب اپنے کیۓ کا دوش میرے شوہر کو نا دیجیۓ۔" تبسم نے اسے گھور کر کہا۔

" چلیں نہیں دیتے آپکے شوہر کو دوش۔۔۔۔ یہ تو بتا دیں کام کیا تھا۔" 

" کام یہ تھا شادی ہے آپ جناب کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فکر کوئ ہوش ہے۔" تبسم نے اسے لگے ہاتھوں لتاڑا۔

" کیوں کیا کردیا مجھ معصوم نے۔۔؟؟؟؟؟۔" 

" تمہاری دلہن کی تیاریوں میں کم ہلکان ہورہی ہوں ، جو اب تمہاری تیاریوں میں بھی جان ہلکان کروں۔" 

" نا نا بھابھی یہ بات نا کرنا یہ صرف اگر میری دلہن کی شاپنگ ہوتی تو آپ بلکل نا لیتی حصہ ان کاموں میں ،یہ تو آپکی بہن کی شادی ہے اسی لیۓ آپ حصہ زرا بڑھ چڑھ کر لے رہی ہیںاس۔" غازوی کی آنکھوں میں شرارت ناج رہی تھی۔

" کچھ زیادہ نہیں چل رہی تمہاری زبان۔" تبسم نے کشن اٹھا کر اسے دے مارا۔ وہ پھر بھی ڈھٹائ سے ہنستا رہا۔

"' کھانا کھایا ہے۔" تبسم نے سارا سامان سمیٹتے ہوۓ کہا۔

" نہیں۔۔۔!!۔"اسنے مسکینوں والی صورت بنا کر کہا۔

" سجل جاو ۔۔۔ غازی کو کھانا لا کر دو۔۔۔" تتبسم نے تمام چیزوں کو ترتیب سے اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا۔

" تم کھانا کھاو میں یہ سب بھی اوپر رکھ کر آتی ہوں ، اور آلائنہ کو بھی دیکھ کر آتی ہوں۔" تبسم وہاں سے جا چکی تھی۔ 

سجل نا چار اٹھی تھی اور اسکے لیۓ کھانا گرم کرکے لائ تھی۔

" شکر۔۔۔۔ ہے مالک کا کہ کھانا آح کی تاریخ میں کھانا پیش کردیا آپ محترمہ نے۔" 

سجل محض اسے گھور کر رہ گئ۔

" یہ شکر کریں کہ آپکے سر پہ نہیں الٹا میں نے۔" سحل نے دانت پیس کر کہا۔

" توبہ توبہ کس قدر چرب زبان عورت ہو تم بھلا کوئ لڑکی اپنے ہونے والے مجازی خدا سے ایسے زبان چلاتی ہے۔" غازی کے الفاظ تھے یا آگ گولا۔ سیدھا اسکے سینے پہ جاکر پڑا تھا۔

" مجھ سے ایسے بات بلکل نا کریں ، جیسے ہمارے درمیان گہری دوستی ہو۔" سجل نے چڑ کر کہا۔

" وہ تو کبھی نہیں ہوسکتی۔" غازی نے نوالا بناتے کہا۔

" اس بات کا مجھے اچھے سے اندازہ ہے۔ مجھے کوئ خواہش بھی نیہں۔۔" 

" یہ نا کہو اتنا تو پتہ ہے مجھے بھی کہ خواہشیں تو بہت ہیں پر میری طرف سے نو لفٹ کے بورڈ نے تمہاری خخواہشوں پہ فل اسٹاپ لگا دیا ہے۔"

" موصوف آپ جن غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں اس سے خود کو باہر نکال لیں یہی آپکے لیۓ بہتر ہے۔" سجل تبسم کو آتا دیکھ اپنا جواب اسکے منہ پہ مار کر وہاں سے جاچکی تھی۔

                                                    ٭٭٭٭٭٭

آدم اور نیلم منال کے گھر ابھی پہنچے تھے ، منال کی ساس کو دفنا دیا گیا تھا۔ منال بےتحاشہ رو رہی تھی۔ نیلم اپنی ساس اور نندوں کے پاس جاکر بیٹھ گئ تھی۔

" ہاۓ اس ظالم آآدمی نے مار دیا اپنی ماں کو یہ مجھے بھی مار دے گا۔" منال نے بین کرتے کہا۔

 منال تڑپ کر بین کرنے لگی ، اسکے الفاظ سن کر ہر کوئ ہکا بکا تھا۔ کچھ دیر بعد محفل میں بیٹھی عورتیں چہ مگوئیاں کرنے لگی تھیں۔ 

رفتہ رفتہ لوگ اپنے گھروں کو حانے لگے۔ جب آدم اندر آیا اور منال اٹھ کر اسکے سینے سے لپٹتی مزید رونے لگی تھی۔ منال کی حرکت پہ نیلم اپنا پہلو بدل کر رہ گئ تھی۔ پر باقی سب کو اس بات سے شاید کوئ فرق نہیں پڑھا تھا۔

" آدم میں نے کہا تھا ناں وہ درندہ ہے۔۔۔۔ تم نہیں مانے دیکھو اس نے اپنی ماں کا بھی قتل کر دیا ۔۔۔۔۔ اب میں نہیں رہوں گی اس خونی کے ساتھ۔" 

منال کا شوہر جو ابھی اندر آیا تھا۔ منال کے الفاظ اسکے کانوں سے ٹکراۓ تو اسکے پیروں تلے سے زمین کھسک گئ۔ وہ یکدم بھڑکا اور اسکی طرف لپکا۔

" کیا بکواس کر رہی ہو ، امید نہیں تھی تم سے مجھے اس قدر گری ہوئ حرکت کی۔ تم مجھ پہ میری ماں کے قتل کا الزام لگا رہی ہو۔ شرم آنی چاہیۓ تمہیں منال۔" 

"بہت خوب محترم۔۔۔۔۔۔۔!!!! اپنی ماںں کا بے رحمی سے قتل کرتے تمہیں شرم آئ ، جو اب حقیقت بتاتے مجھے شرم آۓ۔۔۔۔ اور تم اپنی ماں کے قاتل ہو یہ الزام نہیں حقیقت ہے۔" منال نے حقارت بھری نظ اپنے شوہر کے وجود پہ ڈال کر کہا۔

" آدم بھائ اس کو دیکھیں یہ کیا بکواس کر رہی ہے۔" نیلم کے شوہر نے تڑپ کر کہا۔

" آدم اسکی باتوں میں نا آنا یہ ایک انتہائ شاطر آدمی ہے۔"  منال کو سب پریشانی سے دیکھ رہے تھے اور آخرکار وہ جو کچھ جاہتی تھی وہ ہوگیا وہ لوگ واپسی میں منال کو ساتھ لے گۓ۔

                                  ٭٭٭٭٭٭

وہ لوگ گھر واپس آچکے تھے۔ منال اپنی امی کے گھر واپس آآچکی تھی۔ نیلم بیٹھی کب سے یہی سوچ رہی تھی کہ کیا سچ مین اسکے شوہر نے اپنی ماں کا قتل کیا ہے۔ وہ انہیسوچوں میں گم تھی کہ آدم کمرے میں آیا۔ نیلم نے اسے بغور دیکھا۔

" بہت خوش ہونگے آج تو آپ۔" نیلم کا لہجہ طنزیہ تھا۔

" کیوں کیا آج کوئ خاص بات ہوئ ہے جس پہ مجھے خوش ہونا چاہیۓ۔" آدم نے اپنے آستین فولڈ کرتے کہا۔

"ہاں۔۔۔۔۔۔ ہوئ تو ہے۔" اسنے جانچتی نگاہوں سے آدم کو دیکھتے کہا۔

" اچھا۔۔۔۔۔ میری نظر میں تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔" وہ اسکے پاس آکربیٹھا تھا۔ 

" اتنا انجان بھی ہونا اچھا نہیں ہوتا۔" 

" ایسی کیا بات ہوگئ ، بتا دوتم خود ہی۔"

" چلو اتنی ضد کرتے ہو تو بتا ہی دیتی ہوں۔۔۔۔منال آگئ ہے اب تو واپس اور اپنے شوہر سے طلاق بھی مانگ رہی ہے خیر۔۔۔ اسکو تو طلاق مل ہی جاۓ گی۔ پر میں پوچھنا یہ چاہ رہی تھی۔ کہ وہ مجھ پر سوکن کی صورت عائد کی جاۓ گی۔۔۔۔یا پھر ۔۔۔۔۔ آپ مجھے طلاق دیں گے۔" 

وہ جو سنجیدگی سے اسکی بات سن رہا تھا۔ اسکے آخری الفاظ سن کر آدم کے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھا تھا۔ اور وہ یکدم اسپہ بھپرا تھا۔ 

" بکواس بند کرو نجانے کس نے تمھارے دماغ میں یہ خناس بھرا ہے۔"  

" یہ خناس کسی نے نہیں بھرا۔۔۔۔ میرے دماغ میں یہ آپکی عنایت  ہے۔ آپکے انداز نے میرے اندر یہ خناس بھرا ہے۔" وہ اسکی نظروں سے نظریں ملا کر گویا ہوئ۔

" ایسے کیا انداز دیکھ لیۓ ، تم نے میرے۔" آدم نے اسکے بازو کو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑا۔

" یہ خود سے پوچھیں مجھ سے نا پوچھیں۔۔" اسنےاپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی۔

" نیلم۔۔۔۔۔۔ آخری بار بہت طریقے سے سمجھا رہا ہوں۔ مجھے بلکل نہیں پسند جب تم ایسی جاہل عورتوں کی طرح بی ہیو کرتی ہو۔ شدید زہر لگتی ہو۔" آدم نے دبے دبے انداز میں غرا کر کہا۔

" سہی کہا آپ نے  ۔۔۔۔۔۔ اب میں تو آپ کو جاہل بھی لگوں گی، اور زہر بھی۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ شاید ہوسکتا ہے کچھ دنوں میں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو میں قاتل بھی لگنے لگوں۔" اسنے بکھرے سے لہجے میں کہا۔ 

" کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔۔۔؟؟؟؟۔" وہ اسکے انداز و اطور دیکھ کر حیران تھا۔

" ہاں یہ بھی کہہ دو کہ نیلم تو پاگل ہوگئ ہے۔" 

" اگر تمہاری حرکتیں ایسی ہی رہیں تو وہ نوبت بھی جلد پیش آجاۓ گی۔" آدم نے اسے ہلکا سا کھینچ کر اپنے پہلو میں لٹایا۔

" نیلم اس دن جوکچھ ہوا میں وہ سب بھول کر تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ اور میں امید کرتا ہوں ، تم بھی ایسا کرو گی۔" آدم  نے اسکے گال سہلا کر کہا۔

" سب سمجھ آرہی ہے مجھے ، ایسا سوچنا بھی مت کہ تمہاری جھوٹی محبت کے جھانسے میں آکر۔۔۔ میں تمہارے من کی مراد پوری کرونگی، آج میں نے تمہیں اپنا جسم نہیں سونپنا۔" اسکے الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ ۔۔۔ آدم کا ہاتھ جارہانہ انداز میں اسکے گال پہ پڑا تھا۔

وہ نیلم کے بال مٹھی میں دبوچتا اسکے کان کے پاس اپنے ہونٹ لے جا کر غرایا تھا۔

" اپنی زبان کی وجہ سے ایک دن تم خواہ مخواہ ماری جاو گی میرے ہاتھوں، اس سے پہلے کہ میں اپنا دائرہ ادب بھول جاوں۔۔۔۔ اور تمہارے ساتھ کچھ الٹا سیدھا کر بیٹھوں ، کوشش کرو کے ایسی نوبت نا آۓ۔" 

نیلم نے زخمی نظروں سے اسے دیکھا ، اور بنا کچھ کہے اسکی گرفت سے اپنے بال آزاد کراتی مڑ گئ تھی۔ چند خاموش آنسو اسکے تکیہ میں جذب ہوگۓ تھے۔

                                                                   ٭٭٭٭٭٭٭

غازی اور سجل کی شادی بلکل سر پر آن پہنچی تھی۔ آج کل تو تبسم کے پاس بلکل فراغت  میسر نہیں تھی۔ وہ الجھی بکھری حالت میں کبھی کس  کام کو دوڑ لگاتی اور کبھی کس کام کو ابھی بھی وہ لگی آلائنہ کو میش پوٹیٹوز کھلا رہی تھی۔ جب صالح روم میں  آتا دکھا تھا۔

" بابا کا بےبی کیا کھا رہا ہے۔" صالخخ نے آلائنہ کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر کہا۔

" بابا کی بیٹی کھانا کھا رہی ہے ، اور اسکے بابا نے اپنی بیٹی کا مائنڈ ڈسٹریکٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ اب مما کو دوبارہ محنت کرنی پڑے گی۔" تبسم نے منہ بنایا۔

صالح کی آنکھوں میں شرارت ناچچی تھی۔

" ہمم ٹھیک کہہ رہی ہو بس میں اپنی بیوی کا مائنڈ ڈسٹریکٹ نہیں کر پاتا باقی سب کو بہت آسانی سے ڈسٹریکٹ ہوجاتے ہیں۔"

تبسم نے اسے گھورا تھا۔ 

" اب اتنی آسان بات تو نہیں آپکی بیوی کو ڈسٹریکٹ کرنا۔۔۔!"۔

" اچھا ایسی بات ہے۔" وہ اسکی طرف جھکا تھا۔

" جی بلکل ایسی ہی بات ہے۔" تبسم نے آنکھیں مٹکائ۔

وہ مسکراتا دھیرے سے اسے گردن سے تھامتا اسکے لبوں پہ جھکا تھا۔ چند لمحوں بعد جب وہ اس سے دور ہوا ، تو گلال ہوتا چہرہ جھکاۓ بیٹھی تھی۔ ہونٹوں پہ اسکے شرمیلی سی مسکان رقص کر رہی تھی۔ صالح اسکا حال دیکھ کر ہنسا تھا۔

" ابھی چند لمحے پہلے کوئ بڑا اٹھلا اٹھلا کر کہہ رہا تھا۔ کہ اسے ڈسٹریث کرنا کوئ آسان بات تھوڑی ہے۔ پر۔۔۔۔۔۔ اب دیکھو وہی لڑکی سب بھلاۓ سر جھکا کر بیٹھی ہے۔" اسنے تبسم کے ہاتھ تھامے تھے۔

تبسم نے زرا سی پلکیں اٹھا کر صالح کو دیکھا تھا۔ 

" تم بہت خوبصورت ہو تبسم ، جس حال میں بھی ہو تم سیدھا میرے دل میں اترتی ہو۔" اسکا لہجہ بے حد مخمور تھا۔

" جھوٹے۔" تبسم نے ناک سکوڑ کر کہا۔

" مجھ سا سیدھا سادہ شریف آدمی تمہیں جھوٹا لگتا ہے؟؟؟۔" صالح نے آنکھیں دکھا کر پوچھا۔

" سیدھا۔۔۔۔۔ سادہ  ۔۔۔۔۔ شریف اور آپ۔۔۔ ہاہاہاہا۔" اسکا قہقہ بے ساختہ تھا۔

" اس میں اتنا گلا پھاڑ کے ہنسنے والی کیا بات۔ تم میری اچھاي سے جیلس ہو رہی ہو ناں۔" صالخ نے اس خشگمین گاہوں سے گھورا۔

" سوری۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو مائنڈ ہی کر گۓ۔۔۔" اسنے اپنی ہنسی بہ مشکل روکتے کہا۔ ہنسی روکنے کی وجہ سے اسکا چہرہ مکمل طور پہ سرخ ہو رہا تھا۔

                                                              ٭٭٭٭٭٭٭

" اٹھو مجھے واشروم جانا ہے"۔ اسنے آدم کو زور زور سے ہلایا۔ وہ جو گہری نیند میں غرق تھا۔ ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔ اور محترمہ کو خونخوار نظروں سے گھورا تھا

 " کیا موت پڑی ہے"۔ آدم نے نیند سے بوجھل ہوتی آواز میں پوچھا۔

" واشروم جانا ہے اٹھو"۔ رونی صورت بنا کر کہا۔

" تو جاؤ مرو کیا پوری عوام کو ساتھ لے کر جاؤ گی"۔ اسنے چڑ کر کہا۔

" واشروم کتنا دور ہے ہمارے کمرے سے بیچ میں اتنے سارے اونچے اونچے درخت ہیں ، اور پھپھو بتا رہی تھیں کہ جن ون بھی ہیں یہاں"۔ اسنے معصومیت سے کہا۔

" بے فکر ہو جاؤ تم جیسی چڑیل کا کچھ نہیں بگاڑنے والے جن"۔ آدم بیڈ سے اترتے تمسخر سے گویا ہوا۔

" اب تم کیا یہیں کھڑے رہوگے چلو نا جلدی کرو"۔ وہ جھنجھلا کر بولی۔

" چلیئے محترمہ شہزادی صاحبہ"۔ آدم نے اسکے جلدی مچانے پہ چڑ کر کہا۔

وہ دونوں کمرے سے نکل کر  درختوں بی جل کر نکلے۔ نیلم اپنی ناراضگی بھلاۓ ، آدم کا بازو دبوچے اسکے ساتھ چل رہی تھی۔ رات کا اندھیرا درختوں وحشت ناک سایہ۔ ہر چیز اسے خوفزدہ کرنے میں شاید محو تھی۔ وہ واشروم سے نکلی تو آدم سامنے کہیں بھی نہیں تھا۔ اسے یکدم ارد گرد کے ماحول سے خوف آیا۔

" آدم۔۔۔!!!۔" اسنے سرسراتی آواز میں آدم کو پکارا۔

اسکے کئ بار پکارنے پہ بھی وہ سامنے نا آیا تو  اسکی آآنکھوں میں آنسو چمکنے لگے اس سے پہلے کے وہ باقائدہ رونے کا شغل فرماتی۔ اپنے عقب سے اسکی آواز سن کر وہ بدک کر مڑی تھی۔

" کہاں چلے گۓ تھے آپ۔۔۔؟؟؟۔" نیلم نے منہ بسور کر پوچھا۔

" وہ ادھر بھینسو کے تبیلے کے پاس گیا تھا۔ آوازیں آرہی تھی اس سمت سے تو دیکھنے گیا تھا۔" 

" چلو روم میں چلیں۔" آدم نے اسکے گرد محبت سے بازو باندھ کر کہا۔

نیلم نے اسکے بدلے انداز دیکھ کر حیرت سے سر جھٹکا۔

وہ دونوں کمرے میں آۓ۔ نیلم سونے کے لیۓ واپس لیٹنے لگی تھی۔ کہ آدم کو کمرے کے بیچ و بیچ پریشان کھڑا پایا۔

" کیا ہوا اب سوجائیں۔" نیلم نے قدرے نرمی سے کہا۔

" ہممم۔۔۔ وہ سجل کی شاری ہے دو ہفتے بعد۔" آدم نے بیڈ پہ لیٹتے بتایا۔

" کیا سجل کی شادی ہے سچ میں۔۔۔۔، کس سے ہورہی ہے اسکی شادی مجھے بھی جانا ہے۔" نیلم چہک کر اسکی طرف پلٹی تھی وہ اسکے چہرے پہ گہری مسکان دیکھ کر دھیرے سے مسکایا تھا۔

" شادی کس سے ہے یہ تو ایک سرپرائزہے تمہارے لیئے پر ہاں اتنا بتا دوں کل شام تک ہم کراچی کے لیۓ نکلیں گے۔" آدم نے نرمی سے بتایا۔

" کیا سچی۔۔۔۔۔! ۔" اسنے خوشی سے دمکتے چہرے سمیت کہا۔

" چلو اب سوجاؤ ۔" آدم نے اپنی آنکھیں موند کر کہا۔

" وہ میرا تو سامان بھی پیک نہیں۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ میں نے تو کوئ شاپنگ بھی نہیں کی۔" نیلم نے دھیمی آواز میں کہا۔

" پیکنگ کل کر لینا۔۔۔۔اور شاپنگ کراچی جاکر کر لینا چلو اب سو جاؤ۔" 

" اچھا پھر ٹھیک ہے۔" نیلم نے دھیرے سے منمنا کر کہا۔اور وہیں اسکے بلکل قریب آنکھیں موند کر لیٹ گئ۔

آدم نے ایک نظر اسے دیکھا ، اور دھیرے سے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ فکرمندی کے ساۓ اسکے چہرے پہ اب بھی عیاں تھے۔

                                                         ٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلے دن شام میں آدم ۔۔۔نیلم کو لیکر نکل کیا تھا آدھا راستہ پیدل چل کر وہ دونوں گاڑی تک پہنچے۔ آدم نے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا وہ بیٹھی۔ ایک نو عمر لڑکا غانکا سامن ڈگی میں رکھ رہا تھا۔ وہ لڑکا سامان دے کرہٹا تو آدم نے اسے چند پییسے دیۓ۔ پیسے لیکر وہ وہاں سے چلا گیا۔ آدم بھی گاڑی میں آکر بیٹھا۔ اور کجھ ہی دیر میں وہ لوگ کچی سڑک عبور کرکے پکی سڑک کی سمت آگۓ تھے۔ اب بھی چاروں سمت اونچے اونچے پہاڑ موجود تھے۔ شام کے پانچ بج رہے تھے۔ نیلم سر گڑی کھڑکی کے ساتھ ٹکاۓ سامنے چلتے نظاروں کو انجواۓ کر رہی تھی۔

" آدم۔۔۔ آدم گاڑی روکیں۔۔" نیلم  کے انداز پہ آدم نے ہڑبڑا کر گاڑی روکی۔

" کیا ہوا۔۔؟؟؟؟۔" 

" مجھے وہاں جانا ہے۔ اس بہاڑ بہ۔" 

آدم نے اس سمت دیکھا۔ 

" نہیں نیلم ابھی نہیں اس پہاڑ پہ چڑھنے میں وقت لگے گا۔۔۔ اور ہمیں اندھیرا ہونے سے پہلے شہر کی سڑک تک پہنچنا ہے۔" آدم کے منع کرنے پہ نیلم نے منہ بنایا تھا۔

" کیا ہوجاۓ گا اگر میں ایک پانج منٹ کے لیۓ وہاں چلی جاؤں۔" 

اسکے شکوہ پہ آدم نے اس نرمی سے تکا ، اور سر کو دھیرے سے اثبات میں جنبش دیتا گاڑی سے اترا تھا۔ وہ بھی ہنستے ہوۓ اتری تھی۔

وہ دونوں بہ مشکل اوپر پہاڑ تک پہنچے تھے۔ پر جب وہ دونوں چوٹی پہ پہنچے تو دونوں کے ہونٹوں پہ ایک دلفریب سی مسکان پھیل گئ۔

وہاں کا منظر اسقدر دلفریب تھا کہ دونوں کئ لمحوں تک اس منظر کو دیکھتے رہے۔ 

" میں اکثر یہاں  آتا رہتا ہوں۔" آدم نے اسے نر سے لہجہ میں بتایا۔ 

" اچھا۔۔۔۔ مجھے تو کبھی نہیں لاۓ یہاں، کہ مجھے بھی اپنا گاؤں دکھا دو کبھی اتنی توفیق نا ہوئ۔" 

" مجھے لگا شاید تمہیں یہ جگہ پسند نا آۓ۔"

" ارے اتنی پیاری جگہ بھلا مجھے کیونکر پسند نہیں آۓ گی۔" نیلم خفا ہوتے کہا۔ 

ابھی وہ دونوں لگے آپس میں بات کر رہے تھے کہ انکے عقب سے معصوم سی نسوانی آواز برآمد ہوئ۔ دونوں نے ایک ساتھ مڑ کر دیکھا۔

" ارے سر جی آپ بڑے دنوں بعد یہاں آۓ ہیں۔ میں آپکا اتنا انتظار کر رہی تھی۔" اس لڑکی کا انداز عزت سے پر تھا۔

نیلم اسکا گول مٹول چہرہ دیکھ کر مسکرائ تھی۔ آدم بھی ہولے سے مسکایا تھا۔ 

" پیپر ہوگۓ آپکے۔۔۔؟؟؟۔" آدم نے سنجیدگی سے پوچھا۔

" کب کے سر جی۔"  اس لڑکی نے چہک کر بتایا۔

" اچھا آگے داخلہ لیا۔۔؟؟؟۔" آدم کے پوچھنے پہ وہ لڑکی سر اثبات میں ہلاتی بتانا شروع ہوئ تھی۔

" جی سرجی میں نے پچھلے مہینے ہی جاکر ، شہرکے اسکول میں ناائن کلس میں داخلہ لیا ہے۔ آپ ہی مجھے تیاری کروائیں گے۔" 

" بلکل کرواؤں گا پر یہ تو بتاؤ ، کے سبجیکٹ کونسا لیا ہے۔۔۔؟؟۔" 

" سسائنس لیا ہے ۔" 

" اوہ پھر تو شاید میں نا پڑھا پاؤں۔۔۔۔۔ کیونکہ میرا تو کبھی سائنس سے  واسطہ ہی نہیں پڑا۔"

" سر جی پلیز ایسے نا بولیں ، میں کیسے یہ امتحان پاس کرونگی۔" اسکے لہجہ سے اسکی فکرمندی عیاں تھی۔

" اگر آپ ہمارے گھر آسکو تو میں ّڑھا دونگی۔" نیلم نے اسے آفر کی۔

" آپ پڑھائیں گی مجھے۔" وہ یکدم خوش ہوئ۔

" ہاں میں پڑھاؤں گی۔" 

" شکریہ میں آجاؤں پھر کل سے۔" اسنے جوش میں پوجھا۔

" کل سے ۔۔۔ نہیں ابھی تو ہم کراچی جا رہے ہیں۔ جیسے ہی واپسی ہوگی ، ہم انفارم کردیں گے۔" آدم کے سنجیدگی سے بتانے پہ اس نے سر سمجھنے کے انداز میں سر ہلایا۔

" اچھا پھر میں چلتی ہوں ، وہ۔۔۔۔۔ سر جی میری بہن آپکو سلام دے رہی تھیں۔" وہ جاتے جاتے مڑی تھی۔

" وعلیکم اسلام۔" اسنے کچھ خجل ہوکر کہا۔

" نیلم نے غور آدم کو دیکھا، وہ لڑکی نیلم کو دیکھ کر ہلکا سا مسکائ تھی۔

"وہ میری بڑی بہن ہیں ناں بڑی خوبصورت ہیں۔ شادی نہیں ہوئ انکی۔۔۔۔ سر جی کو بڑا پسند کرتی ہیں۔" اس لڑکی کی بات پہ نیلم بہ مشکل مسکائ تھی۔

" آمنہ ۔۔۔ امی گھر پہ بلا رہی ہیں۔" اسکی بڑی بہن تھی شاید نقش دونو کے بہت ملتے تھے۔ آدم کو دیکھ کر اسکے چہرے پہ ایک شرمیلی سی مسکان آئ تھی۔

" اوہ۔۔۔ کیسے ہیں سر جی آپ۔۔۔؟؟؟۔" اسکا لہجہ بہت دھیما اور آنچ دیتا ہوا تھا۔

" میں ٹھیک ہوں۔: آدم نے دو ٹوک لہجہ میں جواب دیا تھا۔

" یہ آپکی۔۔۔ بہن ہیں۔" اسنے نیلم کو دیکھ کر پوچھا۔

" نہیں بیوی ہوں انکی۔" نیلم نے خود ہی مسکرا کر بتایا۔

اس لڑکی کا رنگ اڑا تھا۔ اسنے بے یقینی کے عالم میں نیلم کو اور پھر آدم کو دیکھا، اسکی بہن کا بھی منہ کھلا تھا۔

اور پھر وہ دونوں وہاں سے چلی گئ نیلم کا دل مزید آدم سے برا ہوگیا تھا۔

اسنے سوچ لیا تھا، وہ بھی اب خود کو بے پرواہ ظاہر کرے گی۔ مزید وہ اس شخص کے آگے اپنا آپ ذلیل نہیں کرسکتی تھی۔

وہ دونوں واپس گاڑی کی سمت چانے لگے تو اسنے اپنے لہجہ میں مصنوئ شوخی لاکر بات شروع کی۔

توبہ توبہ کیسے میسنے آدمی ہو تم میں تو تمہیں بڑا ہی سیدھا انسان سمجھتی تھی"۔ نیلم اسکے پیچھے پہاڑ سے اترتی کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرتی بولی۔

" بہت بکواس کرتی ہو"۔ وہ اسکی بات پہ خفت سے سرخ ہوتے چہرہ پہ ہاتھ پھیر کر بولا۔

" ارے میں بھی بولوں ، مجھ جیسی حسین لڑکی تمہیں نا بھائ ، جب یہاں تم پہ اسقدر خوبصورت گول مٹول لڑکیاں لائنیں مار رہی ہیں تو تمہیں مجھ جیسی سے کیا غرض"۔ وہ ہاتھ نچا کر کہتی ، اپنی رفتار تیز کرنے کی غلطی کر گئ تھی۔ یکدم پہاڑ پہ موجود چھوٹے سے پھتر میں اسکا پیر رپٹا اور وہ سیدھا اسکی پشت پہ گری تھی۔ اسنے یکدم خود کو سنمبھالا تھا ، نہیں تو وہ بھی اسکے ساتھ اس اونچے پہاڑ سے منہ کے بل گرتا اور شاید نہیں یقیناً وہ دونوں بہت زیادہ زخمی ہوتے۔ 

" پاگل ہو"۔ آدم کی مضبوط بانہوں میں کھڑی وہ ڈر سے آنکھیں میچیں کھڑی تھی۔ کہ یکدم اسکی کرخت آواز اسکے کانوں میں پڑی اسنے یکدم آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ 

" "بچ گئے"۔ اسنے گہرا سانس لیتے کھسیانی سی ہنسی ہنس کر کہا۔ اور وہ محض اسے گھور کر رہ گیا۔

" انتہائ پاگل ہو تم۔" اسکی بات پہ نیلم کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔

" پاگل ہی تو ہوں میں۔" نا چاہتے ہوۓ بھی شکوہ اسکی زبان سے پھسلا تھا۔ وہ اسے خود سے دور کرکے پہاڑ سے اتر گئ تھی۔ وہ بھی اسکے پیچھے ہی اتر آیا تھا۔

                                                        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ دونوں پرسوں کے کراچی پہنچ چکے تھے۔ نیلم اپنی امی کے ہاں سیدھی آئ تھی۔ اسوقت وہ سجل کے ساتھ بیٹھی اسکے سامان کی پیکنگگ کر رہی تھی۔ کچھ دیر میں انہوں نے شاپنگ کے لیۓ نکلنا تھا۔ سجل بیٹھی اسکے پاس الگ اپنے رونے رو رہی تھی۔ نیلم جو اپنا رونا اسکے آگے رو کر فارغ ہوئ تھی اب اسے بیٹھی تسلیاں دے رہی تھی۔

" سب ٹھیک ہوجاۓ گا تم پریشان نا ہو۔" نیلم نے اسے تسلی دی۔

"کیسے سہی ہوجاۓ گا سب ، نیلم جو کچھ  ہوا ہے اسکے بعد تو امید ہی نہیں کچھ سہی ہونے کی۔"  سجل نے تتکی پہ اپنا سرپٹخ کر کہا۔

" پریشان نا ہو۔۔۔۔بس اچھے کی امید رکھو۔" 

" میں سوچ رہی ہوں ، اس شادی سے انکار کر دوں۔" سجل نے اپنے نادر خیالات سے نیلم کو بھی آگاہ کیا۔

" پاگل ہوگئ ہو ، ابھی آخر موقع پہ آکر تم ایسی فضولیات بک رہی ہو کچھ تو ہوش کے ناخن لو۔" 

" تو پھر میں کیا کروں ، تم ہی بتاؤ۔” 

"سکون سے بیٹھ جاؤ ، شادی کے بعد سب بہتر ہو جاۓ گا۔"

" کیسے بہتر ہو جاۓ گا ، اور یہ تم کہہ رہی ہو شرم کرو اپنی تو تم نے خراب کردی ہے۔"

" اب یہ بھی ضروری نہیں کہ جیسا میرے ساتھ ہو رہا ہے ، ویسا تمہارے ساتھ  بھی ہو۔"

" اور اس بات کی کیا گیرینٹی ہے کہ میرے ساتھ سب بہتر ہو۔"

" بس کردو سجل نا کرو پاگل پنے کی باتیں کچھ ہوش کرو۔"

نیلم ے چڑ کر کہا۔

" دفعہ ہوجاؤ ، کسی کام کی نہیں تم۔" سجل کے چڑ کر کہنے پہ نیلم نے افسوس  سے اسے دیکھا۔

" میں وہی ہوں ، جسکے آگے ابھی تم بیٹھ کر اپنے رونے رو رہی تھی۔" نیلم نے اسے گھورا۔

"بس کردو  اب  زیادہ احسان نا جتاؤ۔" سجل نے خفا ہوتے کہا۔

" اٹھو جاؤ تیار ہوجاؤ ، پھر چلتے ہیں ، شاپنگ پہ۔" نیلم بے سامان سمیٹتے کہا۔

" میں نے نہیں جانا ، تم چلی جاؤ۔" 

" کس کے ساتھ جاؤنگی میں۔" نیلم نے اسے گھورا۔

" اپنے میاں کے ساتھ جاؤ۔" سجل نے خفا خفا سے لہجے میں کہا۔

" ٹھیک ہے نا جاؤ۔" نیلم نے بھی آنکھیں گھما کر کہا۔

تھوڑی دیر بعد دونوں کی صلح ہو چکی تھی۔ بور دونوں پورے چھ گھنٹے تک مارکیٹ میں پھرتی رہی 

سجل سجے سنورے کمرے میں دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھی تھی۔ غازی آج اسکے ساتھ کیسا سلوک کرے گا۔ یہ سوچ ہی اسکا دل ڈوبانے لگی تھی۔ 

اسکے سرخ گلابی لب مسلسل کپکپا رہے تھے۔ اسے وہ دن یاد آیا ، جب غازی نے کتنی بے دردی سے اسکی محبت کو ٹھکرا دیا تھا۔ وہ سب سوچ کر اسنے خود کو دوبارہ سے زلیل ہونے سے روکنا تھا۔ وہ ایک جست میں بیڈ پہ سے اتری تھی۔ یہاں اسکا اترنا تھا۔ اور وہاں غازی صاحب کا کمرے میں داخل ہونا تھا۔

 زہے نصیب۔۔۔ مجھے لگا تھا، آج تو آپ گھونگٹ ڈالے میرے انتظار میں بیٹھی ہونگی۔ پر یہاں تو معاجرہ ہی کچھ اور ہے۔ وہ دیوار کے ساتھ کمر ٹکا کر کھڑا ہوا تھا۔

سجل نے لب کچل کر اسے دیکھا۔ اور واپس نگاہیں جھکا لیں۔ دل تو مانوں ڈھول کی مانند کانوں میں بج رہا تھا۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Ye Dil  Awara Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ye Dil  Awara written by Momina Shah.Ye Dil  Awara by Momina Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment