Tu Jaane Na novel by Ayat Fatima Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday, 12 October 2024

Tu Jaane Na novel by Ayat Fatima Complete Romantic Novel

 Tu Jaane Na By Ayat Fatima New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tu Jaane Na novel by Ayat Fatima Complete Romantic Novel 


Novel Name: Tu Jaane Na 

Writer Name: Ayat Fatima

Category: Complete Novel


بیا کتنی مرتبہ کہا ہے تم سے کہ جب میں روم میں موجود ہُوں تو تم بھی یہیں موجود ہونی چاہئے ہو

وہ سختی سے اس کی کلائی جکڑ کر بولا تو ابیہا نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے انہیں تر کیا۔

"یش۔۔یشم۔۔۔میں۔فارس کو سری لیک کھلا رہی تھی۔۔۔۔اس لیے نہیں آ پائی"

وہ نظریں جھکائے اسے اپنی صفائی دیتی

بولی جس پر اس نے گھور کر ابیہا کے شفاف

چہرے کو دیکھا۔

اس کے پھڑپھڑاتے گلابی ہونٹ یشم کے جذبات کو مزید بڑھاوا دے رہے تھے۔

"تم کیوں کھلا رہی تھی فارس کو سری لیک نازیہ مر گئی تھی کیا"

وہ غصے سی جبڑے بھینچ کر بولا تو ابیہا مزید خوفزدہ ہوئی۔

اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔

وہ جانتی بھی تھی کہ یشم اسے لے کر کس حد تک شدت پسند تھا مگر پھر بھی اس نے دیر سے آ کر کوتاہی کی تھی جس کا نتیجہ تو بھگتنا ہی تھا۔

"آپ جانتے بھی ہیں یشم۔۔۔۔کے فارس کو فیور ہے وہ عجیب چڑچڑا سا ہو گیا ہے اس لیے ضد کر رہا تھا کہ اسے کچھ نہیں کھانا تو مجھے ہی کھلانا پڑا۔۔۔مجھے پتہ ہوتا کے آپ جلدی آ جائیں گے تو میں اسے پہلے ہی کھلا لیتی"

وہ اب بازو میں شدید تکلیف محسوس کر رہی تھی مگر اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ سامنے والے سے مذاحمت کرتی اس لیے آہستہ سے وضاحت دیتی بولی۔

"فیور اُترا نہیں فارس کا ؟"

وہ اچانک فکر مند ہوتا اس کا بازو چھوڑ کر تشویش ناک لہجے میں بولا تو ابیہا کو بھی اطمینان ہوا۔

کہ اب فوراً سے ہی اس کا غصّہ کم ہو گیا تھا۔

"نہیں اس نے میڈیسن لی ہی نہیں۔ میں نے کل بتایا بھی تھا آپ کو کہ وہ مجھ سے یا نازیہ سے میڈیسن نہیں لے رہا آپ آ کر دیں مگر آپ کسی فائل کو ریڈ کر رہے تھے تو شاید آپ بھول گئے ہوں ہے"

وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی تو یشم کو یاد آیا تھا۔

کہ واقعی کل وہ اسے بلانے آئی تھی مگر وہ کام کی وجہ سے نہیں جا سکا تھا۔

"بیا تم مجھے صبح بھی یاد دلا سکتی تھی۔۔۔اینی ویز اب چلو نیچے مجھے میڈیسن نکال دو اس کی میں دیتا ہوں"

کہتے ساتھ ہی وہ اس کہ ہاتھ پکڑتا نیچے کی طرف بڑھا تھا۔

 وہ دونوں لاؤنج میں آئے تو بی جی (ان کے ولا کی ملازمہ جو بہت پرانی ہونے کی وجہ سے ان سب کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں) صوفے پر بیٹھیں چائے پی رہی تھیں انہیں دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"کیا ہوا بیٹا کہیں جا رہے ہیں آپ لوگ"

وہ ابیہا کا ہاتھ یشم کے ہاتھ میں دیکھتیں اندازاً بولیں تو ابیہا نے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی تھی جو بیکار گئی۔

"نہیں بی جی کہیں نہیں جا رہے۔۔۔فارس کہاں ہے اسے میڈیسن دینی ہے فیور بڑھتا جا رہا ہے اس کا"

یشم سنجیدگی سے بولا تو انہیں نے سر ہلایا۔

"ہاں بیٹا میں بھی بہت پریشان ہوں۔۔۔رات بھر سویا بھی نہیں بچہ اب بھی رو رہا تھا تو نازیہ باہر لان میں لے گئی ہے اسے"

وہ بھی پریشانی سے بولیں تو ابیہا نے چہرا اٹھا کر شکوہ کناں نظروں سے یشم کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔

مگر اس نے اس کی آنکھیں نظر انداز کرتے قدم اگے بڑھنے تو ابیہا کو بھی ساتھ چلنا پڑا تھا۔

وہ دونوں باہر ائے تو نازیہ گھاس پر بیٹھی بچوں جیسی حرکتیں کرتی فارس کا موڈ فریش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

جبکہ وہ چیئر پر بیٹھا روئے جا رہا تھا طبیعت

ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اُسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

اسے روتے دیکھ ابیہا تڑپ کر یشم سے اپنا ہاتھ چھوڑاتی اس کی جانب بھاگی تھی۔

اس نے فارس کو اٹھا کر اس کی گال پر بوسا دیا تو وہ بھی ماں کا لمس پا کر کچھ خاموش ہوا۔

یشم بھی ان کے قریب آیا اور اُس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر فارس کو ابیہا کو گود سے لیا۔

"بابا کا شیر"

وہ بھی اس کی ناک کو لبوں سے چھو کر محبت سے بولا تو ابیہا نے اپنے بیٹے کے تاثرات دیکھنے کی خاطر اس کا چہرہ دیکھا۔

جب اب ہلکہ سا مسکرا دیا تھا جب بھی میر یشم آفندی اس کی ناک پر ہونٹ رکھتا تو فارس ہمیشہ مسکرا دیا کرتا تھا۔

"جاؤ میڈیسن لاؤ اس کی اور پانی بھی"

ابیہا نازیہ سے بولی جو اب گھاس پر بکھرے فارس کے کھلونے سمیٹ رہی تھی۔

اس کی بات لے سب کام چھوڑتی اندر کی جانب بڑھی۔

"دیکھ رہے ہیں حالت اس کی۔۔۔۔۔اسی لیے کہتی ہُوں میں کہ اسے اپنے روم میں رکھا کروں ایج دیکھیں آپ اس کی ابھی صرف ڈیڑھ سال کا ہے اور آپ نے اسے سيپریٹ روم میں شفٹ کر دیا یشم کوئی ایسے بھی کرتا ہے اپنی اولاد کے ساتھ"

وہ فارس کے ماتھے کو چھو کر فکرمندی اور غصے کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجاتی ہوئی بولی۔

یشم اب آہستہ سے فارس کو لیے ایک چیئر اور بیٹھا اور ایک نظر اس کے اداس چہرے کو دیکھا۔

"نازیہ ہے نا فارس کے لیے رات ہوتی تو ہے وہ اس کے پاس"

اس کی بات پر ابیہا ٹھیک سے اسے گھور بھی نہیں پائی تھی۔

"نازیہ ماں نہیں ہے اس کی یشم۔۔۔۔۔جتنا اچھے سے ایک ماں اپنی اولاد کو سنبھالتی ہے کوئی ہیلپر نہیں سمبھال سکتی۔۔۔۔۔۔مگر مجال

ہے آپ یہ بات ماں لیں۔ ایک مرتبہ آ لینے دیں ماما کو آپ کی شکایت تو انہی سے کروں گی میں"

وہ ناک چڑھاتی بھی کہتی اتنی کیوٹ لگی تھی کہ یشم کا دل کیا اس کی ناک کو لبوں سے چھو لے مگر دور ہونے کی وجہ سے وہ اپنی خواہش دل میں ہی دبا گیا۔

"اب تم کیا چاہتی ہو بیا کے فارس کو ساتھ سلا کر ہم اپنی پرائیویسی بلکل ختم کر دیں۔۔۔آئی تھنک تمہارا فارس کو کوئی سبلنگ دینے کا ارادہ نہیں ہے"

وہ لہجے کو سنجیدہ بناتا ہوا بولا تھا جبکہ آنکھوں میں شرارت تھی۔

اس کی بات پر ابیہا سرخ پڑتی نظریں جھکا گئی۔

ابھی وہ مزید کوئی بات کرتے جب نازیہ ایک ٹرے میں پانی کا گلاس اور فارس کی میڈیسنز رکھ کر حاضر ہوئی۔

یشم نے اٹھ کر فارس کو ابیہا کی گود میں ڈالا تو وہ بھی سمجھ گیا کہ اب اس کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے۔

"مما۔۔۔"

فارس منہ بسور کر اپنی ماں کو دیکھتا ہوا اسے پکارنے لگا۔

یشم نے سیرپ نکال کر شیک کیا اور پھر ایک چمچ میں سیرپ انڈیل کر چمچ فارس کے منہ کے قریب کی۔

مگر وہ فوراً چہرہ پیچھے کرتا بیا کے سینے میں چھپا گیا تو دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

"فارس کم آن لک ہئر"

یشم سختی سے بولا تو فارس مزید بیا کو چپکا۔

"ایسے نہیں لے گا آپ کو پکڑنا پڑے گا اسے میں سیرپ دے دیتی ہوں"

ابیہا اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی تو یشم نے سر ہلایا۔

"ہر دفعہ زبردستی ٹھیک نہیں ہوتی۔۔۔کبھی میں گھر نہیں بھی ہوتا۔"

یشم نے کہتے ساتھ ہی چمچ واپس ٹرے میں رکھی اور فارس کو بیا سے لیا۔

"اٹس ٹو سوویٹ یو وانا ٹراے اٹ؟"

وہ سیرپ کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

مگر فارس بھی اپنے نام کا ایک تھا۔

"نو بابا۔۔۔مما۔۔وانت تو۔۔تلائے"

"نو بابا۔۔۔۔مما وانٹ ٹو ٹرائے"

وہ بیا کی طرف دیکھتا بولا تو وہ مسکراہٹ دبا گئی تھی۔

"فارس جلدی سے میڈيسن لے لو دین بابا ہمیں پارک لے جائیں گے"

بیا اسے لالچ دیتی بولی تو اس کی آنکھوں میں بھی چمک آئی تھی۔

"اوتے مما"

اس نے کہتے ساتھ ہی فوراً ہونٹ کھولے تو اب کی بار بیا نے سیرپ اس کے منہ میں انڈیل دیا تھا۔

پھر اسے پانی پلا کر اُس نے یشم کو دیکھا جو اب موبائل پر شاید کسی سے بات کر رہا تھا کیونکہ اس کی انگلیاں ٹائپنگ کی صورت میں حرکت کر رہی تھیں۔

اِسے مصروف دیکھ کے بیا فارس کو لیتی پھولوں کی جانب آ گئی تھی۔

تاکہ کچھ وقت اس کے ساتھ گزار کر اس کا موڈ تھوڑا فریش کر سکے۔

وہ دونوں ماں بیٹا پھولوں کو دیکھنے میں مگن تھے جبکہ یشم اب اٹھ کر اندر جا چکا تھا کیونکہ اسے سٹڈی سے فائل لینی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کو سمینہ بیگم بھی گاؤں سے لوٹ چکی تھیں۔

اب وہ لاونج میں ہی فارس کو گود میں لیے بیٹھی تھیں جبکہ ابیہا بھی ان کے ساتھ جڑ کر بیٹھی تھی۔

بیشک وہ اس کی تائی اور ساس تھیں مگر انہوں نے ہمیشہ اسے ماؤں جیسا پیار دیا تھا۔

ابیہا کو بھی ان سے بہت محبت تھی۔

"دادو کے پھول کو کسی نے کچھ کہ ہے کیا ؟"

سمینہ بیگم فارس کی گال پر بوسا دے کر اس کا اُداس چہرہ دیکھتیں محبت سے بولیں۔

ابیہا میں بھی فارس کی طرف دیکھا تھا دوپہر سے لے کر اب تک سارا وقت اس نے فارس کے ساتھ ہی گزارا تھا۔

کِیُونکہ یشم دوبارہ کسی ارجنٹ کام کی وجہ سے آفیس چلا گیا تھا۔

"مدے۔۔۔مما۔۔شات شونا۔۔اے"

اس نے معصومیت سے آنکھوں میں آنسو لیے اپنی پریشانی بتائی تو ابیہا تڑپ ہی اٹھی۔

یعنی وہ صحیح سمجھتی تھی کہ فارس اسی کے ساتھ سونا چاہتا ہے مگر یشم کا کہنا تھا کہ وہ نازیہ کے ساتھ بھی بہت کمفرٹيبل فیل کرتا ہے۔

"تو اس میں رونے کی کیا بات ہے میری جان۔۔۔۔۔آپ سو جانا مما کے پاس"

وہ اس کے آنسو صاف کرتیں نرمی سے بولیں تو ابیہا نے ٹینشن میں ہونٹ چبائے۔

ایک طرف شوہر تھا دوسری طرف بیٹا۔

دونوں ہی ضد کے پکے اور درمیان میں وہ بیچاری گھن چکر ہو کر رہ گئی تھی۔

یشم کا کہنا نہیں بلکہ حکم تھا کہ رات کی فارس ان کے ساتھ نہیں سوئے گا چاہے دن میں ابیہا اس کے ساتھ ہی رہے۔

ادوسرا یشم جب بھی آفیس سے لوٹتا تھا تو اسے ابیہا اپنے سامنے چاہیے ہوتی تھی۔

اس کا کہنا تھا کہ وہ بیا کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری تھکن غائب ہو جاتی ہے۔

پہلے شروع شروع میں جب ابیہا نے فارس کو سمینہ بیگم کے ساتھ سلانا شروع کیا تو وہ بہت تنگ کرتا تھا۔

ناں ساری رات خود سوتا نہ سمینہ بیگم کو سونے دیتا۔

پھر تنگ آ کر انہوں نے نازیہ کو گاؤں سے بلوایا تھا۔

وہ اٹھارہ سالہ کنواری لڑکی تھی جو بی جی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی بی جی اس کے لیے فکر مند رہتی تھیں تو سمینہ بیگم نے سوچ بچار کے بعد اسے بھی یہیں بلوا لیا تھا۔

ان کا سمجھنا تھا کہ وہ اگر فارس کے ساتھ رہے ہی تو فارس اُس سے دل لگا لے گا اور انہیں پریشان نہیں کرے گا۔

لیکن ہوا اس کے بر عکس یہ کہ فارس سارا دن تو ہنسی خوشی نازیہ کے ساتھ گزار لیتا مگر رات اس کا رونا دھونا شروع ہو جاتا تھا۔

ایک طرف سے ابیہا اس کی طرف سے پریشان تھی دوسرا شرمندہ بھی تھی۔

کہ سب کیا سوچتے ہوں گے کہ ان میاں بیوی کے عجیب کام ہیں۔

بیٹا باہر رو رہا ہے اور خود اندر سو رہے ہیں۔

وہ جانتی تھی کہ یشم فارس سے بہت محبت کرتا ہے مگر وہ اس کے لیے کچھ زیادہ ہی حساس تھا۔

وہ بہت چھوٹی تھی جب میر یشم آفندی نے اس کا خیال رکھنا شروع کیا تھا اور اُسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب دونوں بڑے ہو گئے۔

اس لیے اب یشم سے پل کو بھی بیا کی دوری برداشت بھی کے جاتی تھی۔

اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ ہر دوسرے حفتے بیا کو لے کر کہیں آؤٹ آف کنٹری چلا جائے۔

یشم ہمیشہ بیا کی چھوٹی چھوٹی چوٹ پر بھی ایسے پریشان ہو جاتا تھا جیسے پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا ہو۔

"میں یشم سے بات کرتی ہوں جب تک فارس کی طبیعت بہتر نہیں ہو جاتی اسے تمہارے ساتھ سونے دے۔۔۔بچے کی حالت دیکھو ذرہ خیال نہیں ہے اسے۔"

سمینہ بیگم فارس کے سرخ رنگ میں زردیاں گھلتیں دیکھ خفگی سے بولیں تو بیا نے گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتے سر ان کے کندھے پر رکھا۔

"کر کے دیکھ لیں پتہ آپ کی بات مان جائیں"

وہ تھکے لہجے میں بولی تو سمینہ بیگم نے اس کی گال پر ہاتھ رکھا۔

"جاؤ آرام کر لو کچھ دیر سارا دن ان دونوں کے پیچھے لگی رہتی ہو تھک گئی ہو گی"

وہ محبت سے بولیں تو بیا پھیکا سا مسکرا دی۔

"آپ بھی اتنے اتنے دنوں کے لیے چلی جاتی ہیں گاؤں مجھے کتنی یاد آتی ہے آپ کی۔۔۔"

وہ شکوہ کرتی بولی تو اُنہوں نے اس کی طرف دیکھا۔

"ہاں بچے نجمہ کافی دنوں سے بلا رہی تھی تو اس لیے جانا پڑا مجھے۔میں نے بھی بہت یاد کیا تم تینوں کو"

وہ اسے سینے سے لگا کر بولیں تو بیا نے بھی آنکھیں موند لیں۔

سمینہ بیگم اب فارس سے باتیں کر رہی تھیں جب لاؤنج میں یشم داخل ہوا۔

اسے دیکھ کر بیا فوراً اٹھ کر اس تک آئی تھی اور ہمیشہ کی طرح یشم نے اپنے کندھے پر لٹکا کوٹ اسے تھمایا جو وہ صوفے پر رکھتی کچن میں چلی گئی۔

"اسلام و علیکم ماما۔۔۔آ گئیں آپ"

وہ سمینہ بیگم کی پیشانی پر بوسا دے کر ان کے ساتھ بیا کی چھوڑی جگہ پر بیٹھتا بولا۔

"ہاں صارم کو یہاں کوئی کام تھا تو اسی کے ساتھ آ گئی میں"

وہ بھی اس کے بال ماتھے سے سمیٹتیں پیار سے بولیں۔

"جی بہتر۔۔۔اس کا فیور اترا ؟"

وہ ان کی گود میں لیٹے فارس کی طرف اشارہ کرتا بولا تھا جو بیا کے موبائل میں کارٹون دیکھ رہا تھا۔

تبھی بیا اس کے لیے پانی لائی تو یشم نے اس سے گلاس لے کر ہونٹوں سے لگایا۔

پھر خالی گلاس اسے دیا تو وہ ٹیبل پر رکھتی سامنے رکھے صوفے پر آ بیٹھی۔

"کہاں اُترا ہے اس کا بخار۔۔۔تم بھی تو خیال نہیں رکھتے بیٹے کا۔ آج بھی رو رو کر مجھے بتا رہا تھا کہ اسے اپنی ماں کے پاس سونا ہے۔ تو بس یشم میرا فیصلہ ہے کہ کچھ دن یہ بیا کے ساتھ سوئے گا اور تم کوئی احتجاج نہیں کرو گے"

وہ سنجیدگی سے بولیں تو یشم نے ایک نظر سامنے بیٹھے اپنی بیوی کو دیکھا تھا جو اب نظریں جھکا چکی تھی۔

"ہممم۔۔۔اور کچھ"

وہ صوفے کی بیک پر سر ٹیکاتا آنکھیں موند کر بولا جبکہ دونوں ہاتھ اپنی تھائی پر رکھے تھے۔

"بھی اور کچھ نہیں بچے۔۔۔میں حبیبہ سے کہہ کر کھانا لگواتی ہوں تم فریش ہو آو"

ان کی بات اور وہ سر ہلاتا اٹھ کر اوپر کی طرف بڑھا تو پیچھے بیا جو خوشی دبائے بیٹھی تھی بھاگ کے ان تو آتی ان سے لپٹ گئی۔

"تھینک یو سو سو مچ ماما۔۔۔کو کام میں اتنے دنوں میں نہیں کر پائی آپ نے ایک لمحے میں ہی کر دیا"

وہ مسکراتی ہوئی بولی تو سمینہ بیگم مسکرا دیں۔

آخر وہ بھی ماں تھی اس کا بھی دل کرتا تھا کہ اُس کا بچہ اس کے پاس سوئے۔

سمینہ بیگم جانتی تھیں بیشک نازیہ فارس کا جتنا بھی خیال رکھے ابیہا کی پھر بھی تسلی بھی ہوتی تھی۔

وہ واقف تھیں کہ یشم ابھی تو تھوڑا غصّہ ہو گا مگر کچھ دنوں تک خود ہی ٹھیک ہو جائے گا

اچھا اب جاؤ اس کے پاس ٹھنڈا کرو اسے کے طرح۔۔۔غصےمیں لگ رہا تھا"

وہ اسے خود سے دور کرتیں بولیں تو وہ فارس کا ماتھا چوم کر پیچھے ہوئی۔

"مجھ سے ان کا غصّہ ٹھنڈا کیا جاتا تو آج تک ہر بات کے لیے آپ کے پاس نہ آتی"

وہ منہ بسور کر بولی کِیُونکہ دنیا میں سب سے زیادہ ڈر جس چیز سے اسے لگتا تھا ایک تھا یشم کا غصّہ۔

غصّے میں تو جیسے وہ سب کچھ فراموش کے جاتا تھا۔

وہ یہ بھی یاد نہیں رکھتا تھا کہ بیا اب اس کی محبت اور نرمی کی عادی ہو چکی ہے اس کی ڈانٹ برداشت نہیں کر پائے گی۔

"اچھا خیر میں ان کے پاس جاتی ہُوں آپ کھانا لگوا دیں"

وہ کہتی اوپر کی طرف بڑھی تو پیچھے 

سمینہ بیگم نے حبیبہ کو آواز دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں آئی تو واش روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی یعنی وہ باتھ لے رہا تھا۔

بیا بھی پر سکون ہوتی کمرے میں بکھرا پھیلاوا سمیٹنے لگی تھی۔

جب اچانک ہی واشروم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔

"بیا کپڑے نکال دو میرے"

یشم کی آواز پر وہ فوراً پلٹی تو واشروم کا دروازہ بند تھا وہ آہستہ سے الماری تک آئی۔

ایک وائٹ شرٹ اور بلیک ٹراؤزر نکال کر واش روم کی طرف آئی۔

"یہ لیں"

اس نے دروازہ بجا کر کہا تو چند سیکنڈز میں ہی دروازہ کھلا۔

ابیہا نے کپڑے آگے بڑھائے تھے مگر یشم نے کپڑوں کی بجائے سختی سے اس کی کلائی پکڑی۔

ابھی وہ کچھ سمجھتی کہ یشم نے ایک ہی جھٹکا دے کر اسے واش روم میں گھسیٹتے دروازہ لاک کیا تھا۔

وہ اب گہرے سانس لیتی خود کو نارمل کرنا

چاہ رہی تھی۔

اس کی آنکھیں بلکل بند تھیں مگر اسے بند آنکھوں سے بھی یشم کا حلیہ سوچتے شرم آ رہی تھی۔

وہ جانتی تھی کہ یشم بہت بے باک ہے مگر اس حد تک نہیں واقف تھی۔

یشم نے اس کے سرخ چہرے پر ایک پھونک ماری اور پھر دونوں بازو اس کی اطراف میں دیوار پر ٹکا گیا۔

"آنکھیں کھولو"

وہ اس کے سرخ ٹماٹر ہوئے چہرہ کو دیکھتا سختی سے بولا تھا۔

جبکہ اس کی بات پر وہ بیا کا دل کانوں میں گونجنے لگا تھا۔

"نن۔۔نہیں پہلے۔۔آپ کپڑے پہنیں"

وہ گھبرا کر آنکھوں پر ہاتھ رکھتی بولی تو وہ غصے میں بھی دھیما سا مسکرایا۔

یعنی وہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے کچھ نہیں پہن رکھا حالانکہ اس نے ٹاول باندھ رکھا تھا۔

"بیا میں چاہتا ہوں تم مجھے ایسے دیکھو۔۔۔۔۔سو اوپن يور آئز"

وہ لہجے کو سخت کرتا بولا تو بیا بوکھلا گئی۔

"پلیز۔۔۔۔۔یش۔۔آپ کپڑے پہن لیں۔۔مجھے ایسے نہیں دیکھنا آپ کو"

وہ اب بلکل رونے والی ہو رہی تھی۔

یشم کو بھی اسے تنگ کرنے میں مزا اس رہا تھا اب وہ دھیما سا مسکرایا۔

اور اس کے آنکھوں پر رکھا ہاتھ ہاتھ کر پل میں ہی اس کے نازک ہونٹوں کو اپنی گرفت میں کے گیا۔

بیا جسے پہلے ہی سانس نہیں آ رہی تھی اس کی حرکت پر تڑپ اٹھی۔

وہ اب اپنے دونوں ہاتھوں سے بھرپور مذاحمت کر رہی تھی جب کافی دیر اسے تڑپانے کے بعد وہ نرمی سے اس سے الگ ہوا۔

تو اس کے ہونٹ سرخ پڑ چکے تھے۔

جبکہ آنکھیں ہنوز بند ہی تھیں۔

"اگر آپ نہیں چاہتیں کے میں یہیں اپنی تمام

خواہشیں پوری کرنے پر اتر آؤں تو آنکھیں کھول دیں بیا"

وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولا تو بیا کی پلکیں کانپنے لگیں۔

اس نے آہستہ سے آنکھیں کھلی تھیں مگر نظریں سیدھا اس کے چہرے پر ہی جما لیں کِیُونکہ اس میں نیچے دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔

یشم نے اس کے ہاتھ تھام کے اپنے کندھوں اور رکھے تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔

اس کے کندھوں پر موجود پانی کے قطرے بیا کی ہتھیلی کو چھونے لگے۔

"مجھے جانے دیں۔۔۔"

وہ کپکپاتی ہوئی بولی تو اچانک ہی یشم نے بغیر کچھ سوچے سمجھے اسے بانہوں میں اٹھایا اور باہر آیا۔

اسے بیڈ پر لیٹا کر وہ اس اور جھکا تو اس کی نظر اُس کے ٹاول پر گئی تھی۔

بیشک وہ بھی نہ کافی تھا مگر ناں ہونے اسے بہت بہتر تھا۔

"تم کچھ زیادہ بدتمیزی نہیں سمجھنے لگی مجھے "

وہ مصنوعی سنجیدگی سے بولا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔

"میں سمجھتی نہیں ہوں۔۔۔۔آپ بدتمیزی ہیں اچھا"

وہ ناراضگی سے بولی۔

"اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے"

اس نے طنز کیا تو بیا نے گھور کے اسے دیکھا۔

"میں کوئی چور نہیں ہوں"

"لیکن میرا دل چرایا ہے تم نے"

"مجھے۔۔۔تنگ مت کریں"

وہ شرما کے بولی تو یشم نے اس کی طرف دیکھا جو ابھی تک شرم سے سرخ تھی۔

"مجھے کپڑے تو پہنا دیں"

وہ شرارت سے بولا تو بیا شرماتی چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔

"صدقے جاؤں ان معصوم اداؤں پر"

وہ اس کی حرکت پر مسکرا کر محبت سے کہتا ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا تو بیا بھی فوراً اٹھ کر کمرے سے نکلی تھی۔

نعیم افندی صاحب کے دو بیٹے تھے۔

میر زاور آفندی اور پھر میر صادق آفندی۔

دونوں نے ہی بڑے ہو کر اپنے والد کا کاروبار سنبھالا تھا۔

جو کہ پہلے گی بہت ترقی یافتہ تھا۔

ان کی اپنی دو تین کمپنیز تھیں اور ایک گاڑیوں کا شو روم تھا۔

میر زاور بڑے تھے تو ان کی شادی پہلے ہوئی تھی اور ان کی بیوی سمینہ بیگم بہت نرم دل اور عقل مند خاتون ثابت ہوئی تھیں۔

ان کی شادی کے ایک سال بعد ہی ان کے ہاں بیٹا ہوا جس کا نام میر یشم آفندی رکھا گیا وہ بچپن سے ہی بہت ذہین تھا۔

اس کی آنکھوں میں ہے وقت کچھ بھی حاصل کر لینے کی ہمت اور جذبہ رہتا تھا۔

وہ چھ سال کا تھا جب اس کے چاچو نے شادی کا سوچا تھا۔

مگر ان کی شادی ان کے والد کی مرضی سے سمینہ بیگم کی چھوٹی بہن ردا سے کی گئی۔

وہ بھی اپنی بہن کی طرح بہت اچھی بہو اور

بیوی ثابت ہوئیں۔

ان کی شادی کے دو سال بعد اللہ نے انہیں ابیہا کی صورت میں اپنی رحمت سے نوازا تھا۔

مگر نعیم آفندی کی قسمت میں پوتی کو دیکھنا نہیں تھا شاید اس لیے اس کی پیدائش سے کچھ ماہ قبل ہی وہ وفات پا چکے تھے۔

بیوی ان کی بہت پہلے ہی وفات پا چکی تھیں۔

ان کی وفات کے بعد دونوں بھائیوں نے بہت اتفاق سے سب کچھ سمبھالا تھا۔

دونوں میں کبھی کسی بات پر بحث نہیں ہوئی کیونکہ اللہ کا دیا بہت کچھ تھا ان کے پاس ایک دوسرے سے لڑنے کی کوئی وجہ تھی ہی نہیں۔

ابیہا بہت چھوٹی تھی جب اس کے ماں باپ اور بڑے بابا کی ڈیتھ ہو گئی۔

تینوں شہر سے گاؤں جا رہے تھے کیونکہ گاؤں میں ابیہا کی ماما اور خالہ کے میکے والے رہتے تھے وہاں کسی عزیز کی شادی تھی تو تینوں وہاں گئے تھے۔

سمینہ بیگم بچوں کی وجہ سے گھر ہی رک گئی تھیں۔

مگر واپسی پر ان کا ایکسڈنٹ ہو گیا اور تینوں موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔

ابیہا کی عمر اس وقت صرف بارہ سال تھی جبکہ یشم تب بیس برس کا میچور لڑکا تھا۔

ان کی وفات کے بعد یشم نے اُسی عمر سے ہی سب کچھ اس طرح سمبھال لیا جیسے وہ

کوئی بڑی عمر کا مرد ہو۔

یشم کو بچپن سے ہی ابیہا سے عشق تھا اور ساری فیملی اس بات سے واقف تھی۔

اس نے کبھی ابیہا کو خود کو بھائی نہیں کہنے دیا تھا۔

حالانکہ وہ اس سے بہت چھوٹی تھی مگر پھر بھی یشم کا دباؤ تھا کہ وہ اسے نام سے پکارے۔

بڑے سب اس کی آنکھوں میں جنون دکھ کر گھبرا کر رہ جاتے کِیُونکہ ان دونوں کی عمروں میں بہت فرق تھا۔

مگر زاور آفندی کو اس بات پر بہت خوشی ہوتی کہ ان کی بھتیجی ہی ان کی بہو بنے گی۔

یشم کو ڈرائیونگ پہلے سے ہی آتی تھی مگر زاور صاحب نے اسے گاڑی نہیں لے کر دی تھی کیونکہ ان کے خیال سے وہ ابھی چھوٹا تھا۔

گھر میں ڈرایور موجود ہوتا تھا مگر یشم خود ڈرائیو کرتا۔

اس کی روٹین بہت ٹف ہو گئی تھی۔

صبح تیار ہو کر وہ ابیہا کو خود اسکول ڈراپ کرتا پھر خود آفیس جاتا ساتھ ساتھ شو رُوم کی خبر رکھنا۔

 سمینہ بیگم نے دونوں کو بہت محبت دے رکھی تھی مگر پیار کی جگہ پیار اور سختی کی جگہ سختی۔

وہ دونوں آہستہ اہستہ بڑے ہو رہے تھے.

یشم ابیہا کا بچپن سے ہی بے حد خیال رکھتا تھا اور وہ بھی یشم کی ہر بات مانتی ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ رہتی تھی۔

مگر ابیہا نے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اسے یشم کے قریب بیٹھنے ، اس سے زیادہ باتیں کرنے سے جھجک سی محسوس ہونے لگی۔

اسے سمینہ بیگم بھی سمجھاتی رہتی تھیں کہ اب تم بڑی ہو رہی ہو تو یشم سے کچھ فاصلہ رکھو۔

جب وہ اٹھارہ سال کی ھوئی اور اس نے یونی میں ایڈمشن لیا۔

تو یشم نے ڈائرکٹ سمینہ بیگم سے خود آ کر بات کی کے وہ ابیہا کو اپنے نکاح میں لینا چاہتا ہے۔

یشم تب چھبیس سال کا مضبوط مرد تھا۔

یشم نے بہت کم عمری میں ہی اپنی کمپنی کا ملک سے باہر بھی ایک نام بنا لیا تھا۔

شاید ہی پاکستان میں اس عمر کا کوئی اتنا کامیاب بزنس مین ہوتا۔

یشم کی خواہش پر سمینہ بیگم کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔

مگر انہوں نے ابیہا سے بات کرنے کے لیے یشم کو انتظار کرنے کا کہا۔

اُنھوں نے ابیہا سے بات کی تو کوئی خاص مسلہ اسے بھی نہیں تھا۔

بس ایک مشرقی لڑکی کی طرح وہ اپنا آپ کسی اور کو سونپنے پر جھجک رہی تھی، ڈر رہی تھی۔

سمینہ بیگم نے اسے بہت پیار محبت سے سمجھایا تھا پھر ان کچھ ہی دنوں میں اُنھوں نے آہستہ آہستہ ابیہا کو شوہر کے حقائق کے مطلق بتانا شروع کر دیا۔

کِیُونکہ یشم اور انہوں نے کبھی اُسے نہ تو کوئی ناول پڑھنے دیا اور نہ کبھی ٹی وی دیکھنے دیا۔

اسے دوست بنانا پسند نہیں تھا تو اسکول کالج میں اس نہیں کوئی خاص دوستیں بھی نہیں بنائیں تھیں جن سے اسے کچھ معلومات ملتی۔

تو وہ اٹھارہ سال کی عمر میں بھی اس سب سے نہ واقف تھی۔

اس لیے سمینہ بیگم نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اسے سب کچھ آہستہ آہستہ کر کے بتا دیا و

ان کی باتوں پر شرما کر رہ جاتی۔

کچھ دنوں میں ہی ان دونوں کو نکاح رکھ دیا گیا تھا۔

نکاح کے روز ابیہا بہت کنفیوز تھی مگر سمینہ بیگم نے اسے زیادہ کچھ سوچنے نہیں دیا تھا۔

وہ اسی کے پاس بیٹھی رہیں اسے باتوں میں لگائے رکھا۔

ابیہا جو یشم سے پہلے ہی دور دور رہنے لگی تھی نکاح کے بعد تو اس کے لیے چودھویں کا چاند بن کر رہ گئی۔

وہ کم کم ہی کمرے سے نکلتی خاص کے جب یشم نے آفیس سے آنے کا وقت ہوتا ابیہا بلکل کمرے کی ہو کر رہ جاتی۔

بس صبح یشم اسے یونی چھوڑتا تو اس

دشمنِ جاں کا دیدارِ ہو جاتا۔

یشم ہی ہلکی پھلکی بات کر دیتا تو وہ جواب دے دیتی نہیں تو کبھی خود سے اس نے کچھ نہیں کہا۔

بیا جس نہیں بچپن میں شاپنگ شاپنگ کی رٹ لگائے رکھی ہوتی تھی اب سمینہ بیگم اسے زبردستی شاپنگ پر بھیجتی تھیں۔

یشم کو اُس کی پریشانی بھی رہتی تھی کہ وہ اس حد تک کم گو کیوں ہو گئی ہے۔

مگر سمینہ بیگم کا کہنا تھا کہ وہ اب بڑی ہو گئی ہے اب پہلے کی طرح تم سے مانوس ہو کر نہیں رہ سکتی اس عمر میں لڑکیاں یُونہی ہو جاتی ہیں۔

اور اب تم دونوں کو رشتہِ بھی بدل گیا ہے تو

کچھ حیا کی وجہ سے بھی وہ تمھارا سامنا نہیں کرتی۔

یشم بھی مطمئین ہو گیا کہ واقع اب وہ پہلے کی طرح تو اس سے چپکنے سے رہی۔

یشم کی مصروفیات بڑھ گئیں وہ رات لیٹ آفیس سے لوٹتا تو وہ دونوں سو چکی ہوتیں۔

یشم کبھی بھی رات باہر نہیں گزارتا تھا کام چاہے کتنا ضروری بھی کیوں نہ ہو۔

وہ ہمیشہ دن دن میں ہی نپٹا لیتا کِیُونکہ گھر میں وہ دونوں ہی عورتیں تھیں جن کا اکیلا رہنا مناسب نہیں تھا۔

وقت گزرتا چلا گیا اور وہ دونوں مزید بڑے ہو گئے اب یشم اٹھائیس اور بیا بیس سال کی ہو چکی تھی۔

یشم نے تو ابھی تک رخصتی کا مطالبہ نہیں کیا تھا مگر سمینہ بیگم کو اب یہ وقت رخصتی کے لیے ٹھیک لگنے کہا تھا۔

اب بیا بھی کوئی چھوٹی بچی نہیں تھی اور یشم بھی تو انہوں نے ایک رات یشم سے اس موضوع پر بات کی۔

اس کا کہنا تھا بیا سے اس کی رضامندی لے لیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

سمینہ بیگم نے بیا کو بلوا کر اس سے بات کی تو وہ رونے والی ہو گئی تھی۔

اس نے بہت بہانے بنائے کے ابھی ایک یہ سب قبول نہیں کے سکتی یا اس کی پڑھائی ختم ہو جائے پھر صحیح۔

مگر سمینہ بیگم نے اسے سمجھا بجھا کر قائل کر ہی لیا۔

ان کے شہر میں کوئی رشتہ دار نہیں تھے سارے گاؤں میں ہی تھے۔

تو گاؤں سے سب کو بلایا گیا اور شہر سے صرف یشم کے کچھ دوستوں کو ہی بلاوا بھجوایا گیا۔

بیا بلکل چھوئی موئی سی بن گئی بات بات پر رونا شروع ہو جاتی۔

سمینہ بیگم بھی پریشان ہو جاتیں کے اسے ہوا کیا ہے۔

یشم بھی اب کچھ دنوں سے آفیس وغیرہ نہیں جا رہا تھا گھر میں ہی بہت کام تھے۔

گاؤں سے ابیہا کی نانی یعنی ملکہ بیگم جو سمینہ بیگم کی والدہ تھیں۔

ان کہ ساتھ نجمہ بیگم ابیہا کو بڑی خالہ اور ایک ممانی ہی آئی تھیں۔

جنہوں نے اب شادی تک یہیں رہنا تھا۔

ابیہا اپنی نانو کے گلے لگ کر بہت روئی تھی  وہ بہت عرصے بعد ان سے ملی تھی کیونکہ وہ بہت کم ہی گاؤں جاتی تھی۔

یشم کچھ دنوں کے لیے سمینہ بیگم کو گاؤں چھوڑ آتا تھا اور پھر لے آتا کیونکہ ان دونوں کی یہاں اپنی مصروفیات ہوتی تھیں۔

بیا کا کالج اور یشم کا آفیس۔

سمینہ بیگم کی غیر موجودگی میں یشم

احتیاطاً نیچے والے کمرے میں شفٹ ہو جاتا تھا کیونکہ بیا اسے دیکھ کر ہی ڈر جایا کرتی تھی۔

ابیہا کو سب نے بہت مشکل سے سمبھالا تھا۔

مگر اس کا بہت خیال رکھتے ہوئے بھی وہ شادی سے تین دن پہلے بیمار ہو گئی۔

اس کا بخار اس قدر تیز تھا کہ سب ہی بوکھلا گئے تھے۔

یشم نے ڈاکٹر کو بلوایا تو انہوں نے کچھ میڈیسن دیں اور اس کا خیال رکھنے کی تلقین کی۔

رات تک نجمہ ، سمینہ اور ملکہ بیگم اس کے پاس ہی بیٹھی رہیں۔

وہ اسے کھانا کھلا کر اب اس سے باتیں کر رہی تھیں جب اچانک کمرے میں میر یشم آفندی داخل ہوا۔

آج اسے ایک اہم میٹنگ کے لیے آفیس جانا پڑا تھا مگر وہاں بھی سمینہ بیگم فون کر کے اسے بتاتی رہی تھیں کہ بیا کی طبیعت بھی سمبھل رہی اور وہ رو رہی ہے۔

اس لیے اب وہ آفیس سے سیدھا اس کے کمرے میں ہی آیا تھا۔

اسے دیکھ کر وہ جلدی سے دوپٹا ٹھیک کرتی نظریں جھکا گئی تھی۔

باقی تینوں اسے دیکھ کر مسکرا دیں۔

وہ سلام کرتا ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔

"الحمدلللہ اب تو کچھ طبیعت ٹھیک ہو گئی ہے اس کی "

نجمہ بیگم بھانجے کو دیکھتیں مسکرا کر بولیں۔

"مجھے بیا سے اکیلے میں بات کرنی ہے"

وہ سنجیدگی سے بولا تو بیا نے جھٹکے سے سر اٹھایا وہ ہرگز یہ نہیں چاہتی تھی اس لیے اس نے سختی سے سمینہ بیگم کا ہاتھ جکڑ لیا۔

"ہاں بچے کیوں نہیں۔۔۔بیوی ہے تمہاری کر کو بات اکیلے میں ہم تو ویسے بھی اب جا رہی تھیں"

ملکہ بیگم کی بات پر بیا کی آنکھیں بھر آئیں مگر وہ تینوں اسے یُونہی چھوڑے باہر نکل گئی تھیں۔

یشم کچھ دیر گہری نظروں سے اسے دیکھتا

رہا پھر اٹھ کر مضبوط قدم لیتا اس کے پاس بیڈ پر آ بیٹھا۔

اس کے بیٹھتے ہی وہ تھوڑا پیچھے ہوئی تھی۔

"کوئی پریشانی ہے تمہیں ؟"

وہ روعب سے بولا تو بیا نے نم انکھوں سے نفی میں سر ہلایا۔

"بیا میری جان کیوں کر رہی ہو یہ سب۔۔۔تم جانتی ہو ناں کہ کتنی محبت کرتا ہوں میں تم سے پھر اُس گریز اور رونے کا مقصد"

وہ اس کہ ہاتھ تھام کر بے بسی سے بولا تھا۔

وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ یہ سب کیوں کر رہی ہے اسے کیا بتاتی۔۔۔

"مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔۔۔۔مجھے۔۔پڑھنا ہے"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی دکھی لہجے میں بولی تو یشم نے پرکھتی نظروں سے اسے دیکھا۔

"میں نے کبھی تم سے کہا ہے کہ شادی کے بعد تم نہیں پڑھو گی ؟"

وہ سوالیہ انداز میں بولا۔

"نن۔۔نہیں"

وہ بس اتنا ہی بول پائی تھی جانے کیوں اس کے سامنے اُس کے الفاظ کہاں کھو جاتے تھے۔

"تو اب میں مت سنوں کے تم رو رہی ہو یا ماما وغیرہ کی تنگ کر رہی ہو کل مہندی ہے

پارلر ائے گی تو آرام سے بغیر تنگ کیے تیار ہو جانا ورنہ مجھے تو جانتی ہی ہو تم کل ہی رخصتی کروا لوں گا"

وہ آخر میں دھمکی دیتا بولا تو وہ بوکھلا کر سر ہلا گئی۔

"مم۔۔مجھے آپ سے ڈر لگتا ہے"

اس نے اچانک ہی اپنا مسلہ پیش کیا تو یشم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔

"یہ بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں یہ بات اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔مگر پریشان مت ہو پرسو تمہارا سارا ڈر نکال دوں گا"

وہ مسکرا کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔

پیچھے وہ شرمندہ سی ہوتی بیٹھی رہ گئی تھی

یشم آفندی کمرے میں داخل ہوا تو وہ مرمریں وجود اس کے کمرے میں اس کے بیڈ پر موجود تھا۔

اسے یوں اپنے بیڈ پر دیکھ کر یشم کے وجود میں سرور سا آیا تھا۔

وہ بہت سکڑی سمٹی بیٹھی تھی یشم رخصتی کے وقت اس کی بوکھلاہٹ دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ ڈر رہی ہے۔

وہ آہستہ قدم لیتا اس تک آیا اور اس کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔

اسے بیٹھتے دیکھ بیا مزید سمٹی تو یشم کو برا لگا تھا۔

"ریلیکس بیا کھا نہیں جاؤں گا تمہیں"

وہ سنجیدگی سے بولا تو بیا نے آنکھیں بھی میچ لیں۔

"تم کیوں ڈرتی ہو مجھ سے کبھی کچھ کہا ہے میں نے تمہیں جو تم مجھے دیکھتے ہی خوفزدہ ہو جاتی ہو"

یشم زبردستی اس کہ ہاتھ سختی سے اپنے ہاتھ میں تھام کر بولا تو بیا نے نفی میں سر ہلایا۔

وہ جانتی تھی کہ یشم پہلے ہی غصّہ کنٹرول نہیں کر پاتا اب اس کے بے جا گریز کی وجہ

 سے مزید آگ بگولہ ہو جائے گا۔

"مم۔۔مجھے۔۔وقت۔۔چاہیئے"

وہ اچانک ہی آنکھیں بند کرتی بول اٹھی تو یشم نے گھور کر اسے دیکھا۔

"سوچنا بھی مت۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ پہلے ہی بہت وقت دیا ہے تمہیں ورنہ اگر میں چاہتا تو رخصتی لے سکتا تھا"

یشم سختی سے بولا تو بیا کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر گئیں۔

اس نے آنکھوں کھولیں تو یشم ان سیاہ نین کٹوروں میں آنسو دیکھ کے تڑپ اٹھا۔

"م۔۔مجھے ڈر لگتا ہے"

وہ نظریں جھکا کر بولی البتہ ہاتھ ابھی بھی اس کے ہاتھ میں ہی تھا۔

"کس چیز سے ڈر لگتا ہے"

وہ قریب ہوتا اسے خود سے لگا کر بولا تو بیا بوکھلا گئی مگر اس کی گرفت سخت ہونے کی وجہ سے وہ حل بھی نہیں پائی تھی۔

"یہی۔۔۔یہی جو آپ۔آج۔۔کرنا چاہتے۔۔ہیں۔۔مجھے۔۔مجھے نہیں کرنا۔"

وہ اچانک سے روتی ہوئی بہت بڑی بات کہہ گئی تھی۔

اس کی بات پر یشم نے اس کی پیٹھ سہلانی شروع کی تک اسے نارمل کر سکے۔

وہ اب اس کے سینے پر سر رکھتی ذار و قطار رو رہی تھی۔

"بیا ایم سوری بٹ آج میں خود پر ضبط نہیں

کر سکتا۔۔۔تم بھی ایک اچھی بیوی کی طرح میرے حقوق بغیر کسی زبردستی کے مجھے سونپ دو ورنہ لے تو میں ویسے بھی لوں گا پھر تمہاری اس میں مرضی شامل ہو یا نہ ہو"

یشم بغیر کسی لچک کے ٹھوس لہجے میں بولا تو بیا کے وجود میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ 

"پلیز۔۔۔يش۔۔صرف۔۔۔صرف۔۔آج ٹائم۔۔۔دے۔دیں کل۔۔۔میں آپ کی ۔۔بات مان۔۔لوں گی"

وہ اس کا ہاتھ تھام کر روتی ہوئی بولی تھی مگر یشم اپنے ارادوں سے بلکل نہیں ہٹا۔

"جسٹ سٹاپ اٹ بیا۔۔۔۔فوراً اٹھیں اور چینج کر کے آئیں"

وہ غصّے سے بولا تو بیا نے ایک رحم طلب نظر

سے اسے دیکھا تھا مگر اس کی آنکھوں میں جذبات کا ایسا سمندر تھا کہ وہ فوراً نظریں جھکا گئی۔

"اگر اگلے ایک منٹ میں آپ چینج کرنے بھی گئیں تو یہ کام میں خود کروں گا اینڈ اٹس ناٹ اے جوک ایٹ آل"

وہ سختی سے بولا تو بیا نے اس کی طرف دیکھا۔

جانے کیوں اسے بہت ڈر لگ رہا تھا وہ جانتی تھی یشم کی شدتیں سہنا اس کے لیے ممکن نہیں۔

"یش۔۔۔۔اگر۔۔اگر آپ نے۔میری بات۔۔بھی مانی۔۔۔تو میں آپ سے۔۔کبھی بات نہیں۔۔کروں گی "

وہ پھر سے آنسو بہاتی ہوئی بولی تو یشم جھٹکے سے بیڈ سے اٹھا۔

اس نے اچانک ہی ایک بازو ابیہا کی گردن اور دوسرا کمر میں ڈالتے اسے اٹھایا اور ڈریسنگ روم کی طرف بڑھا۔

بیا جو رونے میں مگن تھی اس کی حرکت پر اس کی چیخ بے ساختہ تھی۔ 

اس نے یشم کے سینے پر بہت مکے مارے مگر اس کی گرفت مضبوط تھی۔

وہ اسے ڈریسنگ روم میں لایا اور اسے کبرڈ کے ساتھ پن کر کے کھڑا کرتے خود اس کے لیے ایک بلیک نائٹی نکال کر ڈریسنگ روم کی لائٹ آف کی۔

بیا جو گہرے سانس بھر رہی تھی جیسے ہی وہ اس کے ارادے سمجھی اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے والی ہوئیں۔

"یش۔۔۔پلیز۔۔مت کریں۔۔۔آپ۔۔باہر جائیں می

خود چینج۔۔کر لوں گی"

وہ تاریکی میں ہی اس کے کندھوں پر ہاتھ ہاتھ رکھتی کپکپآتی آواز میں بولی تھی مگر یشم کی طرف خاموشی ہی چھائی رہی۔

بیا کو اپنی لہنگے کی شرٹ اُترتی محسوس ہوئی اور یشم کی ٹھنڈی انگلیاں اپنے جسم کو چھوتی محسوس ہوئیں تو وہ شرم و حیا سے تپ اٹھی۔

گلابی چہرہ پل میں سرخ ہوا تھا۔

یشم نے کچھ دیر بعد لائٹ آن کی تو وہ اب بلیک نائٹی پر اسی کے ساتھ کا بلیک گاؤن پہنے ہوئے تھی۔

گاؤن سلک کا اور بیلٹ ٹائٹ بندھے ہونے کی

وجہ سے اس کے نسوانی جسم کی تمام رعنایاں عیاں ہو رہی تھیں۔

جو یشم کے جذبات کو مزید بھڑکا رہی تھیں۔

یشم نے اسے دوبارہ بانہوں میں بھرا اور اسے لیے بیڈ تک آیا اور اسے بیڈ کے وسط میں لیٹا کر پیچھے ہوا۔

اس نے لائٹ آف کی اور خود بیڈ پر اس کے اوپر جھکتے اپنی بلیک شرٹ اُتار کر دور اچھالی۔

تو خود کی ایک سے بیا کی انکھوں سے بے آواز آنسو گرتے تکیے میں جذب ہونے لگے۔

یشم کے گرم ہونٹ آہستہ آہستہ اس کی گردن پر سرایت کرنے لگے تو بیا کو اپنی گردن جلتی محسوس ہوئی تھی۔

یشم نے اچانک اپنے لب اس کے سرخ لبوں سے جوڑے تو بیا کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

یشم آہستہ آہستہ اس کی سانسیں اپنی سانسوں میں انڈیلتا رہا۔

مگر جب اسے محسوس ہوا کہ بیا سانس نہیں لے پا رہی وہ نرمی سے اس سے الگ ہوا۔

بیا اب بچوں کی طرح زور زور سے رونے لگی تھی۔

یشم نے اس کی دونوں انکھوں پر 

رکھتے ان کی نمی خود میں جذب کر لی۔

پھر اس نے بیا کے دائیں رخسار اور ہونٹ رکھے اور ان پر زور سے دانت گاڑھ کے پیچھے ہوا۔

اس کی حرکت اور وہ مزید رونے لگی تھی

مگر یشم کو فرق نہیں پڑ رہا تھا۔

وہ واقف تھا اگر آج وہ اس کے رونے دھونے کا خیال کر کے اسے وقت دے بھی دیتا تو کل بھی اس کا یہی حال ہونا تھا۔

"بیا یقین کرو تمہیں کچھ بھی نہیں ہو گا"

وہ بوجھل لہجے میں بس یہی کہہ کر اس پر دوبارا جھکا اور جھٹکے سے اس کے گاؤن کا بیلٹ کھول دیا تو گاؤن بھی جسم سے دھلکتا چلا گیا۔

اب وہ صرف بازووں کے سہارے اٹکا تھا تو یشم نے بیا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے تھوڑا اوپر کیا اور دوسرے ہاتھ سے گاؤن اس کے بازووں سے بھی نکال دیا۔

گاؤن کو سائڈ پر رکھ کر یشم نے دونوں پر

کمبل لیا اور اس کے وجود میں گم ہوتا چلا گیا۔

رات بھر کمرے میں یشم کی معنی خیز سرگوشیاں اور وقفے وقفے سے بیا کی سسکیاں گونجتی رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح اس کی آنکھ کھلی تو خود کو یشم سے چپک کر سوتے پا کر وہ ناراضگی سے برا سا منہ بنا کے اس سے کچھ فاصلے پر ہوئی۔

اس کی حالت اس وقت بلکل ٹوٹی بکھری تھی اس لیے ابیہا نے مجبوراً یشم پر لپٹا کمبل ہی خود پر اچھے سے اوڑھ لیا

اسے اب گردن اور کندھوں پر شدید جلن ہو رہی تھی یہ سب رات میں یشم کی شدتوں کا ہی خمیازہ تھا جو وہ بھگت رہی تھی۔

بیا نے پورا ارادہ کر لیا تھا کہ اب وہ یشم سے ہرگز بات نہیں کرے گی۔

رات کو اس کے اتنا رونے کے باوجود بھی وہ کیسے اپنی منمانیاں کرتا رہا تھا۔

وہ شرم کی وجہ سے اب مزید اسے فیس کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی اس لیے آہستہ سے بیڈ سے اٹھتی واشروم کی طرف بھاگی۔

وہ شاور کے بعد کپڑے بدل کر باہر آئی اور بالوں کو ڈرائے کے کے ہلکا سا میک اپ کیا اس کی خوش قسمتی تھی کہ یشم ابھی بھی نہیں اٹھا۔

وہ بغیر آواز کیے دروازہ کھول کر باہر نکل

گئی اور پھر دروازہ دوبارہ اچھے سے بند کر دیا۔

وہ نیچے آئی تو لاؤنج میں ملکہ ، نجمہ اور سمینہ بیگم بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں اسے آتے دیکھ تینوں ہی محبت سے مسکرا دیں۔

اس کے رنگ میں سرخیاں گھلیں تھیں جو سب کو ہی ان دونوں کا رشتہ مکمل ہونے کی نوید سنا رہی تھیں۔

سمینہ بیگم کا تو بس نہیں چل رہا تھا اس کے صدقے واری جاتیں۔

وہ شوکنگ پنک کلر کی ہلکے کام والی لانگ شرٹ کے نیچے ہم رنگ سٹریٹ ٹراؤزر پہنے ہوئے تھی اور ایک کندھے پر ہم رنگ دوپٹہ پھیلا رکھا تھا، سفید نازک پاؤوں میں سلور فلیٹ چوز پہن رکھی تھی۔

کچھ بالوں کو ایک طرف سے آگے رکھا تھا

باقی پیچھے کمر پر جھول رہے تھے۔

جیولری کے نام پر کانوں میں وائٹ گولڈ کے ٹاپس ، ہاتھوں میں گولڈ کی چار رنگز اور گولڈ کے ہی سٹائلش سے بینگل۔ گلے میں صرف ایک باریک سی چین لٹک رہی تھی۔

وہ آج اس قدر خوبصورت اور پر وقار لگ رہی تھی کہ سب حیران ہی رہ گئیں تھیں۔

پہلے دن ہی اس پر اس قدر روپ چڑھا تھا کہ نہ جانے آگے کیا ہوتا۔

وہ مسکراتی ہوئی آگے آئی تو سمینہ بیگم نے اٹھ کر اسے سینے سے لگایا پھر اس کی پیشانی چومی۔

"ماشاءاللہ میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے"

وہ اسے دیکھتیں محبت سے بولیں تو وہ شرم

سے مزید لال ہوئی۔

پھر وہ نجمہ اور ملکہ بیگم سے مل کر سمینہ بیگم کے پاس ہی بیٹھ گئی۔

"یشم نہیں اٹھا ؟"

ملکہ بیگم کے سوال پر اس نے نظریں جھکائے ہی نفی میں سر ہلایا تھا۔

جانے کیوں وہ اس سوال پر بھی شرما گئی تھی۔

شاید اس لیے کہ اب تک وہ دونوں یوں دور دور تھے اور اب اچانک ایک ہی کمرے میں رہنا اور دوسروں کا بیا سے اس کے مطلق پوچھنا اسے عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔

"میری بچی کی عادت بہت اچھی ہے ماشاللہ جلدی سونا اور جلدی اٹھنا"

سمینہ بیگم نے مسکرا کر کہہ تو دیا مگر بعد

میں انہیں اپنی بات کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے پہلو میں بیٹھی بیا کو دیکھا۔

جو اب کان کی لووں تک سرخ پڑ چکی تھی دل کر رہا تھا یہاں سے اٹھ کر کہیں بھاگ جائے۔

"بیٹا شادی کی پہلی صبح میاں بیوی ساتھ باہر نکلتے ہیں کمرے سے۔۔۔اب وہ اٹھے گا تو تمہیں کمرے میں موجود نہ پا کر غصّہ ہو گا بچے"

ملکہ بیگم اسے سمجھاتی ہوئیں بولیں تو اس نے خفگی سے انہیں دیکھا مگر جلد ہی نظریں دوبارہ جھکا لیں۔

اب اُنہیں کیا کہتی کے ان کے نواسے نے رات اس کے ساتھ کتنی بے رحمی کی ہے کیا اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ بھی اس سے ناراض ہو ؟

"کچھ نہیں ہوتا امی اپنا گھر ہے اس کا کوئی روایتی سسرال نہیں جو یہ ان سب جھنجھٹوں میں پڑے۔۔۔یشم کو چھٹی والے دن دیر تک سونے کی عادت ہے جبکہ بیا ہمیشہ سے ہی جلدی اٹھ جاتی ہے۔ اب بیچاری اٹھ گئی تھی تو اکیلے کمرے میں کیا کرتی۔ اچھا کیا کہ جلدی سے تیار ہو کے نیچے آ گئی یشم بھی خود ہی آ جائے گا آپ پریشان مت ہوں"

سمینہ بیگم اس کی طرف داری کرتی ہوئیں اس کے بولنے سے پہلے ہی اس کے دفاع میں بولیں۔

ان کی بات اور بیا بھی مسکرا کر چہرہ ان کے کندھے پر رکھ گئی۔

پھر ان سب کے بہت روکنے کے باوجود بھی بیا نے ناشتے میں ملازمہ کی بہت مدد کروائی تھی۔

اس کا کہنا تھا کہ یہ اس کی خواہش تھی مگر وہ یونی کی وجہ سے ٹائم نہیں نکال سکتی 

اس لیے کوکنگ نہیں کرتی تھی۔

اب ٹائم ہے تو کیوں نہ صحیح ٹراے کر لیا جائے۔ 

پھر اس نے ٹیبل اور ناشتہ لگایا اور وہ سب ڈائننگ ٹیبل پر آ بیٹھیں۔

تبھی مير یشم آفندی بھی بلیک جینز ،شرٹ پر  لائٹ بلو ڈینم جیکٹ پہنے اپنی بھر پور وجاہت کے ساتھ سیڑھیاں اُترتا دکھا۔

بیا کا دل تو اسے ایک نظر دیکھ کر ہی دھڑک اٹھا تھا مگر وہ جلدی سے خود کو قابو کرتی سينڈ وچز کی دش ٹیبل پر سیٹ کرنے لگی۔

"دیکھا کتنی زمہ دار بیوی ہے تمہاری۔۔۔آج ہی کچن میں گھس گئی کہ ناشتہ میں بناؤں گی"

وہ سلام کرتا ایک کرسی کھینچ کر بیٹھا تو نجمہ بیگم اسے دیکھتیں مسکرا کر بولیں۔

"کیا خاک زمہ دار شوہر کا تو خیال ہے نہیں محترمہ کو بغیر میرے اُٹھنے کا انتظار کیے  صبح اٹھتے ہی نیچے بھاگ آئی"

اس نے ایک کاٹ دار نظر سامنے کھڑی بیا پر ڈال کر طنزیہ کہا تو اس نے برا سا منہ بنایا۔

"تو اس میں غلطی تمہاری ہی ہے۔ صبح جلدی اٹھا کرو نہ"

ملکہ بیگم کی بات پر وہ سنجیدگی سے بغیر کوئی جواب دیے اپنی پلیٹ پر جھک گیا۔

جبکہ ابیہا اب شرمندہ سی ہوتی وہیں کی وہیں کھڑی تھی۔

"بیا بچے بیٹھو یشم کے ساتھ اور شروع کرو

ناشتہ"

سمینہ بیگم کی آواز پر وہ بوکھلا سی گئی مگر اب کیا کر سکتی تھی اس لیے آہستہ سے اس کے قریب آتے اس کی بائیں جانب والی کرسی پر بیٹھ گئی۔

یشم اس تمام دورانیہ میں خاموش ہی رہا تھا پھر سب ناشتے کے بعد کاموں میں لگ گئے جبکہ ان دونوں کو اوپر بھیج دیا گیا۔

ریسیپشن کل کا رکھا گیا تھا تو سمینہ بیگم نے ان دونوں کو آرام کرنے کا کہا تھا۔

وہ دونوں کمرے میں آئے تو یشم نے گھور کر اُسے دیکھا جو جلدی سے بیڈ پر لیٹتی کمبل خود پر اوڑھ چکی تھی۔

"مجھ سے پوچھ کر نیچے گئی تھی تم ؟"

وہ بلند آواز میں دھاڑا تو بیا کانپ کر رہ گئی۔

یشم اب بیڈ تک آیا اور اس کے پاس لیٹ کر کمبل کھینچ کے دونوں پر لپیٹا۔

"میں آپ۔۔سے۔۔ناراض۔۔ہوں"

وہ ہمت کرتی بولی۔

"وجہ؟"

وہ اوزاری سے بولا۔

"آپ۔۔نے رات۔۔میں۔۔میری کوئی۔۔بات۔۔نہیں سنی"

وہ پھر سے اموشنل ہوتی ہوئی بولی تو یشم نے اچانک ہی اسے خود سے لگایا۔

"تم ضرورت سے زیادہ ہی نازک ہو بیا۔۔۔میں نے بہت کوشش کی تھی کہ نرمی سے پیش آؤں اور یقیناً اس سے زیادہ نرمی سے پیش نہیں آیا جا سکتا تھا"

وہ سنجیدگی سے بولا تھا کیونکہ واقعی رات اس نے خود کو بہت کنٹرول میں رکھا تھا اس کی یہی کوشش رہی تھی کہ بیا کو تکلیف مت ہو مگر وہ نازک جان اتنا بھی برداشت نہیں کر پائی تھی۔

"میں۔۔ضرورت سے زیادہ ۔۔نازک نہیں۔۔۔آپ ضرورت۔۔سے زیادہ۔۔۔۔ظالم۔ہیں"

وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں ہی صحیح مگر کہہ گئی تھی۔

اس کی اتنی ہمت پر یشم ہلکہ سا مسکرایا۔

"ابھی کہاں اپنا ظلم دکھایا ہے تمہیں بے بی ڈول ابھی تو صرف ٹریلر تھا آہستہ اہستہ بس تم تھوڑی مضبوط ہو جاؤ پھر تمہیں اپنے جنون ، اپنی شدتوں اور بقول تمھارے اپنے ظلم سے روشناس کرواوں گا"

اس کی بات پر بیا نے ہونٹ باہر نکالے۔






یشم جs کی نظر یں اس کے چہرے کا طواف ہی کر رہی تھیں اس کے ہونٹ دیکھ کر وہ پل میں ہی اسے نیچے کرتا خود اوپر ہوا اور اسے سمجھنے کا موقع دیئے بغیر ہی اس کے ہونٹوں کو اپنے عنابی لبوں میں جکڑ لیا۔

اچھے سے اپنی خواہش پوری کر کے و پیچھے ہوا تو بیا نے ناراضگی سے چہرہ پھیر لیا۔

پھر یشم نے دو گھنٹے لگا کر اسے منایا تھا اور اس کے بعد دونوں کل کی تیاریوں میں لگ گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی شادی کے پانچ ماہ بعد ہی بیا کی طرف سے خوشخبری ملی تو سمینہ بیگم اور یشم

بہت خوش ہوئے تھے۔

دونوں نے ہی اس کا بے حد خیال رکھا تھا۔

ان دنوں یشم کی محبت بیا کے لیے اس قدر بڑھ چکی تھی کہ بیا خود کو اس دنیا کی خوش قسمت ٹرین لڑکی سمجھنے لگی تھی۔

یشم اس کی بہت کیئر کرتا ، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا مگر سختی کے وقت سختی کرنا وہ ابھی بھی بھی بھولا تھا۔

بیا کی تھوڑی سی لاپرواہی اسے آگ لگا دیتی تھی اس کہ بس نہیں چلتا تھا کے غصے سے بیا کو ایک دو لگا ہی دے۔

پھر اس کی محبت میں وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا اور شادی کے پورے ڈیڑھ سال بعد اللہ نے انہیں پیارا سا بیٹا عطا کیا۔

جس کا نام یشم نے فارس رکھا تھا۔

فارس میں سب گھر والوں کی جان بستی تھی۔

بیا کا تو بس نہیں چلتا تھا سارا دن اور رات اسے خود میں ہی بھینچ کر رکھے۔

البتہ یشم کو پھر فارس کی وجہ سے بیا کا خود کو یوں نظرانداز کرنا گراں گزرنے لگا تو اس نے ایک سال کے فارس کی سمینہ بیگم کی سونپ دیا۔

بیا کے بہت احتجاج کے باوجود بھی اس کی ایک نہیں چلی تھی اور فارس سمینہ بیگم کے لاس رہنے لگا تھا۔

پھر انہوں نے نازیہ کو ہائر کیا تب بھی بیا نے یشم کی بہت منانے کی کوشش کی تھی مگر یشم کی نہ ہاں میں نہیں بدلی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ماما کی جان"

یشم شرٹ لیس واشروم سے باہر آیا تو اس کے کانوں میں اپنی بیوی کے یہ مٹھاس بھرے الفاظ گونجے تھے۔

اس نے خفگی سے ان دونوں کو دیکھا تھا جو ایک دوسرے میں مگن تھے۔

بیا نے فارس کو بیڈ پر لٹا رکھا تھا اور خود اس کے دونوں ہاتھ تھامے اس پر مکمل جھکی ہوئی تھی۔

وہ وقفے وقفے سے اپنے بال اس کے چہرے پر سہلاتی تو کمرے میں فارس کی کھلکھلاہٹیں گونج اٹھتیں۔

یشم سنجیدگی سے آ کر اپنی طرف لیٹ گیا تو بیا نے بے بسی سے اسے دیکھا جو اب سیل پر کچھ کے رہا تھا۔

شکل ہی بتا رہی تھی کہ وہ غصّہ ہے مگر کنٹرول کر رہا ہے۔

"سڑو"

اس نے آہستہ آواز میں کہا اور پھر فارس پر جھک گئی مگر اس کی بڑبڑاہٹ جیسے یشم کو غُصہ نکالنے کا موقع دے گئی تھی۔

وہ جھٹکے سے موبائل سائڈ پر رکھتا اٹھا اور بیا کو کھینچ کر تکیے پر گراتے اس پر جھکا۔

فارس نے پہلے تو غصے سے باپ کو دیکھا پھر بے زاری سے وہ اٹھ بیٹھا اور رخ ان دونوں سے موڑ کر سامنے دیوار پر لگی ایل ای ڈی کی طرف کر لیا جہاں اس کے پسندیدہ کارٹون لگے تھے۔

بیا کی آنکھیں اب شرارت سے مسکرا رہی تھیں مطلب اب وہ اپنی بھڑاس نکالنا چاہ رہا تھا۔

"کیا بکواس کی تم نے ذرا پھر سے کہنا"

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا غصّے سے غرایا تو بیا نے دونوں ہاتھ اس کی گردن میں ڈالے اور ایک ادا سے مسکرائی۔

"وہی جو آپ کو اس وقت محسوس ہو رہا تھا ہمیں ساتھ دیکھ کر"

وہ بغیر کسی خوف کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تو یشم نے گھور کر اسے دیکھا۔

"زیادہ اکڑنے کی ضرورت نہیں ہے اچھا ۔۔۔ اگر چاہوں تو ابھی تم دونوں کو الگ کر سکتا ہوں۔ لیکن اگر میں نے ترس کھا ہی لیا ہے تو

تم مجھے طیش مت دلاؤ کے واپس تم دونوں کو تمہاری اوقات یاد کروا دوں"

وہ چڑتا ہوا بزاهر غصّے سے بولا تھا۔

"یش پلیز۔۔۔آپ کیوں ایسا سوچتے ہیں کہ اگر فارس اور میں دونوں قریب ہیں تو اس کا مطلب میں آپ کو بھول جاتی ہُوں۔خود سوچیں بھلا یہ ممکن ہے کہ میں آپ کو بھول جاوں"

وہ اب کی بار سنجیدگی سے بولی تو یشم نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں سچائی دکھ رہی تھی۔

"میں جانتا ہوں تم مجھے بھول نہیں سکتی۔۔۔مگر میں تمہیں شیئر نہیں کے سکتا بیا فارس کے ساتھ بھی نہیں"

وہ شدت پسندی سے بولا تو بیا کا دل کیا سر

پیٹ لے۔

"آپ کا ہی خون ہے فارس صرف میرا بیٹا نہیں ہے جو آپ مجھے aسے بھی شئیر بھی کے سکتے"

وہ خفگی سے بولی تھی۔

"یہ جو بکواس تم نے کی ہی ابھی مطلب جانتی ہو اس کا ہاں؟؟"

وہ اس کی بات کا مفہوم شاید کچھ اور ہی سمجھا تھا اس لیے بھڑکتا ہوا بولا بیا نے پہلے تو حیرت سے اُسے دیکھا مگر پھر اپنی بات یاد آئی تو خود پر دو لفظ بھیجے کہ کس کے سامنے کیا کہہ گئی تھی۔

"افف یش۔۔۔آپ ہر بات سیریس لے جاتے ہیں میں نے صرف آپ کو سمجھانے کی خاطر کہا تھا"

اس کی بات پر یشم نے سر ہلایا۔

پھر اچانک ہی اس کے ہونٹوں کو چھو کر پیچھے ہوا۔

البتہ بیا اس کی حرکت پر آج بھی شرما گئی تھی۔

یشم نے فارس کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھایا اور اسے پیار کرنے لگا تو بیا بھی مسکرا کر ان کے قریب ہوئی۔

اب کمرے میں پھر سے فارس کر بیا کی کھلکھلاہٹیں گونج رہی تھیں مگر اس دفعہ ان دونوں کے ساتھ یشم کے قہقہے بھی گونج رہے تھے۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Tu Jaane Na Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tu Jaane Na written by Ayat Fatima.Tu Jaane Na by Ayat Fatima is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages