Pages

Wednesday, 16 October 2024

Tera Ishq Jaan Leva By Amreen Riaz Complete Romantic Novel

Tera Ishq Jaan Leva By Amreen Riaz Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tera Ishq Jaan Leva By Amreen Riaz Complete Romantic Novel 

Novel Name: Tera Ishq Jaan Leva 

Writer Name: Amreen Riaz

Category: Complete Novel

وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا مسلسل ٹانگ ہلا رہا تھا یہ چیز جانتے ہوئے بھی اُس کے سامنے بیٹھے برزل ابراہیم کو یہ حرکت کس طرح ناگوار گُزر رہی تھی۔

"سکون سے خود بیٹھو گئے یا مجھے کوشش کرنی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابرہیم کے سپاٹ انداز پر وہ سر ہلاتا اپنی ٹانگ پر ہاتھ رکھ کر جیسے اُسے ہلنے سے روک رہا تھا یہ اُسکی شروع سے عادت تھی کہ وہ جب پریشان ہوتا تھا تو ٹانگ ہلانا شروع کر دیتا تھا اور کچھ عادتیں چاہنے کے باوجود بھی نہیں چھوڑی جاتی ہیں۔

"اوکے مسٹر دانیال میں آپکا یہ کام کر دونگا آپ رقم سلیمان کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابرہیم نے کال منقطع کر کے موبائل سامنے ٹیبل پر رکھا اور نظروں کے فوکس میں حیدر کو لیا جو کہ اپنا سانس سینے میں اٹکتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔

"بھا_بھائی_وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہکلایا تھا جبکہ برزل ابرہیم کے دائیں جانب کھڑا سلیمان اُسکی حالت سے محفوظ ہو رہا تھا۔

"سیلمان میں فریش ہونے جا رہا ہوں،میرے آنے تک ایس پی کی ساری ڈیٹیل اس ٹیبل پر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابرہیم نے اُٹھتے ہوئے سلیمان سے کہا جبکہ حیدرنے جان چُھوٹ جانے پر شکر ادا کیا مگر اگلے ہی لمحے اُس کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔

"اور حیدر کی ٹائیگر کے ساتھ ریس کرواؤ جو ہار گیا اُس کا انجام تم لوگ جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بھائی پلیز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر جلدی سے منت کرتا اُٹھ کر اُس کے پاس آیا۔

"حیدر تمہیں پانی پی کر خود کو ریس کے لیے تیار کرنا چاہیئے،اور مجھے یقین ہے تم ہار کر مجھے شرمندہ نہیں کرو گئے۔۔۔۔۔"وہ حیدر کا شانہ تھپتھپا کراندر کی جانب بڑھ گیا سلیمان نے تب کا ضبط کیا قہقہ ہوا کہ سُپرد کیا۔

"ویسے ایک کُتے کے ساتھ ریس لگاتے اچھے لگوگئے تم۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے مسکراتے لہجے پر حیدر دانت پیس کر رہ گیا اور اس کے زہن کے پردوں میں آج سے دو دن پہلے کا منظر گھوم گیا جب سجاد نے ٹائیگر کے ساتھ ریس لگائی تھی اور ہارنے کی شکل میں سجاد ٹائیگر کا ہی ڈنر بن گیا تھا۔۔

!_____________________________________!

"بھائی ایک بات کہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جب وہ دس منٹ بعد آیا تو سلیمان نے ایس پی کی ساری انفارمیشن اُس کے سامنے رکھتے ہوئے اجاذت چاہی جو کہ سر ہلانے کی صورت میں دی گئ تھی۔

"حیدر کی پہلی اسائمنٹ تھی یہ سزا اُس کے لیے زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ میرا چچا زاد بھائی ہے سلیمان،مجھے اسکا خیال ہے پر اُسے سبق بھی سکھانا ہے کہ آئندہ وہ کسی بھی کوشش میں ناکام نہ ہو اور فکرنہ کرو ٹائیگر اُسے ہارنے نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابرہیم کی بات پر سلیمان نے تشکر بھری سانس خارج کی تھی۔

"ایس پی نازر اعوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابرہیم نے ٹیبل پر پڑی فائل اُٹھائی تھی۔

"بھائی، اعوان ہاوس میں ٹوٹل نو مالکان اور چار ملازم ہیں جن میں ایس پی نازر اعوان اُسکی بیگم مہ پارہ بیگم دو بیٹے احسن اور حسنین اعوان جبکہ ایک بیٹی فاریسہ اعوان اور شاہ زر اعوان اُسکی بیگم تنزیلہ اور دو بیٹے ثمر اور قمر باقی کی تفصیل اس فائل میں موجود ہے اُن کے کاروبار سے لے کر اُن کے جن جن لوگوں کے ساتھ تعلقات اور لین دین ہے۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے بتانے پر وہ ایک نظر فائل پر ڈالتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"تو کیا خیال ہے آج رات ایس پی کو کوئی تحفہ نہ دیاجائے اب اُس نے برزل ابراہیم کے راستے میں ٹانگ آرائی ہےکُچھ تو انعام بنتا ہےنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں چھپی معنی خیزیت دیکھ کر سلیمان مسکرا دیا۔

"تو پھرمیں جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پوچھنے لگا۔

"تُم نہیں سلیمان،مجھے تعارف کروانا ہے اپنا،اُس نے حیدر سے کہا تھا کہ وہ کسی برزل ابرہیم کونہیں جانتا اب اُسے اپنی پہچان بھی تو کروانی ہےنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کی آنکھوں میں جو سرد پن نظر آ رہا تھا سلیمان نے دل ہی دل میں ایس پی کے بچ جانے کی دُعا کی تھی۔

!____________________________________!

"فاریسہ جب تمہارے بابا نے منع کیا تھا پھر بھی کیوں تُم نے اپنا نام لکھوایا،بتاؤ مجھے۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کڑھے تیوروں سے اُسکی طرف بڑھیں تھیں جو کہ سہم گئی تھی۔

"جب تم اچھے سے جانتی ہو کہ تمہارے بابا کو یوں اکیلی لڑکی کا کہیں بھی جانا گوارہ نہیں ہوتا اور کالج ٹرپ پر مری جانے کی بات کر رہی ہو وہ بھی دو دن کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مما ،پلیز بس دو دن کی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہلکا سا ممنائی تھی مگر مہ پارہ کی گھوری نے اُسکی زبان کو وہی روک دیا تھا۔

"دو دن تو دور دو گھنٹے کی بات ہی کیوں نہ ہو فاریسہ،تم جانتی ہو کہ تمہارےبابا جتنے مرضی پڑھے لکھے اور آزاد خیال ہیں پر وہ بیٹی کے معاملے میں بلکل نہیں ہیں تمہیں پڑھنے کی اجاذت بھی بس اس صورت دی گئی کہ تمہارارشتہ کسی اونچی فیملی ہو جائے اور لوگ تمہارے بابا کو باتیں نہ سُنائیں کہ نازر اعوان کی بیٹی ان پڑھ ہے،چودہ سال ہو گئے تمہیں پڑھتے ہوئے کیا ایک دفعہ بھی اکیلی کو گھر سےباہرجانے کی اجاذت دی گئی؟تو اتنی دور وہ تمہیں کبھی نہیں بیھجیں گئے اس لیے فضول کی تکرار مت کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کے دو ٹوک انداذ پر وہ آنسو پیتی وہی ٹک گئی ایک موہوم سے اُمید تھی کہ اب منگنی ہو جانے کے بعد تو وہ کہیں جا سکتی تھی پر مہ پارہ بیگم نے وہ بھی ختم کر دی تھی۔

"پھپھو آپ کے کیے کی سزا کب تک مجھے ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دلگرفتگی سے دل ہی دل میں عائشہ پھپھو سے مخاطب ہوئی۔

"دو ماہ صبر کر لو شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ  پاکستان کیا پوری دنیا دیکھنا۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ نے اس کے لٹکے منہ کو دیکھ کر اسے ایک اور اُمید کی کرن تھمانی چاہی۔

"کیا پتہ ماما اس سونے کے پنجرے سے نکل کر دوسرے گھر جاؤں تو وہ بھی فاریسہ کے لیے ایک پنجرہ ہی ہو جس میں مجھے بس اپنی مرضی سے سانس لینے کی اجاذت ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی خواہش کے ٹوٹ جانے پر وہ خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی تھی مہ پارہ بیگم کے دل پر لگی تھی وہ نم آنکھوں سے اُسکی پیشانی چومتیں اسے اپنے ساتھ لگا گئیں۔

"ایسا کیوں سوچتی ہو تم،ہادی امریکہ سے پڑھ کر آیا ہے بہت آزاد خیال اور زندگی کو جینے والا ہے دیکھ لینا تمہیں بہت خوش رکھے گا،کئی دفعہ وہ اشاروں میں تم سے بات کرنے کا کہہ چُکا ہے مگر تمہارےبابا کی وجہ سے میں چپ ہو جاتی ہوں،کل تو وہ تمہیں موبائل گفٹ کرنے کا بھی کہہ رہا تھا مگر میں نے منع کر دیا کہ دوماہ رہ گئے شادی میں تب ہی دے لینا پھر تم بھی موبائل سے اپنی تصویریں بھی بنانا اور دوستوں کے ساتھ بھی گپ شپ کرنا کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم نے اُسکی جھولی میں اُمیدوں کے نئے جُگنو ڈالے تھے تو وہ بھی آنکھوں میں مستقبل کے خوش نما سپنے بنتی مسکرا دی تھی۔

"پھر کیا میں یونی سے ماسٹرز بھی کر لونگی۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے مسکراتے لہجے پر انہوں نے مُسکراتے ہوئے سر ہلا دیا تھا۔

!______________________________________!

رات کا پچھلا پہر تھا وہ اعوان ہاوس کی ساری سیکیورٹی پہلے سے ہی دیکھ چُکا تھا اس لیے کمال مہارت سے دیوار پھلانگتا لان سے گزرتا ہوا وہ گھر کے اندر داخل ہو گیا تھا وہ چاہتا تو چوری چپکے بھی نازر اعوان کے روم میں جا سکتا تھا مگر وہ بے خوف ہو کر اپنے دُشمن کو خوفزدہ کرتا تھا۔

تفصیلی نگاہوں سے ہال کا جائزہ لیتا وہ پانی پینے کے خیال سے کچن میں گیا فریج میں سے پانی کی بوتل نکالی گلاس پکڑا اور پانی ڈال کر منہ سے لگاتا پانی چڑھا گیا۔

"دُشمن کے گھر کا پانی پی لیا ہے تم نے برزل ابراہیم،کیا اب اس پانی کو حلال کرو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔؟وہ خود سے بولتا گلاس واپس رکھتا باہر کی جانب بڑھنے لگا مگر کچن کی طرف آتے کسی وجود کو محسوس کرتا وہی رُک گیا اور آنے والے کا انتظار کرنے لگا قدموں کی رفتار سے اتنا تو اسے بخوبی علم ہو گیا تھا کہ کچن کی طرف آتا نسوانی وجود تھا۔

"عورتوں کی چیخ و پکار کو برداشت کرنے کا زرا موڈ نہیں برزل ابرہیم۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑایا تبھی فارسیہ اعوان نے کچن میں پاؤں رکھا تھا اور چھ فٹ سے نکلتے قد والے ایک انجان آدمی کو اپنے کچن میں دیکھ کر اُسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں وہ اس قدر بھونچکی رہ گئی تھی کہ اُس کے حلق سے چیخ تک نہ نکل سکی تھی جبکہ دوسری طرف برزل ابرہیم نے گہری نگاہوں سے اس فریز ہوئی لڑکی کو دیکھا تھا جو اپنی چیخ حلق میں ہی دباتی اسے حیران کر گئ تھی۔

"مجھے بہت کم لوگ حیران کرتے ہیں جن میں تم بھی شامل ہو چُکی ہو،اچھا لگا تمہارا چپ ہونا کیونکہ اگر تم زرا بھی آواز نکالتی تو جان سے جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اُسے سرہاتا پسٹل نکال کر شیلف پر رکھ گیا فاریسہ جو پہلے ہی ڈر سے دم سادھے کھڑی تھی پسٹل کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتی وہ اس کے آخری الفاظ پر خوف سے سفید پڑ گئی تھی۔

"تم_چ_چور_ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فارسیہ ہکلائی۔

"تمہارے اس عالیشان گھر میں ایسا کچھ بھی نہیں جو میرے کسی کام کا ہو سوائے تمہارے باپ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات کا مطلب سمجھ کر وہ اپنے بابا کے لیے پریشان ہوئی تھی ایک سوچ اُس کے زہن میں آئی شاید کوئی مجرم جو اُس کے باپ سے اب بدلہ لینے آیا تھا۔

"کیا تمہارا باپ بھی تمہاری طرح ڈرپوک ہے پھر تو زرا مزہ نہیں آنے والا مجھے۔۔۔۔۔۔۔"پسٹل کو دوبارہ اپنی جیب میں رکھتا وہ باہر نکلنے لگا مگر پھر کُچھ یادآنے پر اس کی طرف مُڑا جو کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھی واپس مڑتا دیکھ کر لرزنے لگی۔

"بنا کوئی آواز نکالے یہی بیٹھ جاؤ،جب تک میں تمہارے باپ سے نہ مل کر آؤں تم یہاں سے کہیں نہیں جاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُنگلی اُٹھا کر اُسے وارن کرگیاوہ زور زور سے سر ہلاتی وہی کرسی پر ٹک گئی۔

برزل کو یقین تھا کہ وہ جس قدر ڈری سہمی تھی کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گی اس لیے وہ ایس پی نازر اعوان کے کمرے کی فوٹیج اپنے زہن میں لاتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا اور دائیں طرف مُڑا جہاں ایس پی نازر اعوان کا روم تھا۔

"کھڑکی سے اندر جانا بُری بات برزل،میاں بیوی کی پرائیوسی کا خیال رکھا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔"کھڑکی سےہٹتا وہ دروازے کو ناک کرنے لگا اور تمیزدار بن کر دروازہ کُھلنے کا انتظار کرنے لگا اگر یہاں حیدر یا سلیمان ہوتے تو اسکے مینرز پر حیران رہ جاتے۔دو دفعہ دستک دینے کے بعد دروازہ کُھلا تھا مہ پارہ بیگم رات کے اس پہر جہاں دروازہ ناک کرنے پر حیران ہو کر اُٹھیں تھیں وہ بھی فارسیہ کا خیال کر کے کہ وہ کئی دفعہ رات کو ڈر جاتی تھی مگر سامنے کھڑے اس اجنبی کو دیکھ کر وہ بھی ششدر رہ گئی تھیں۔

"ہیلو آئی ایم برزل ابراہیم،اصل میں مجھے آپ کے شوہر سے کچھ ضروری بات کرنی ہے آپ براہ مہربانی پانچ منٹ کا ٹائم دیں اور کچن میں جا کر پانی پی کر خود بھی ریلکس ہو جائیں اور اپنی بیٹی کوبھی ریلکس کریں،شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جتنے آرام وسکون سے بولتا اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر گیا تھا مہ پارہ بیگم کو اُتنے ہی زور کا کرنٹ لگا تھا۔

"یہ،چور،فارسیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فارسیہ کا خیال آتے ہی وہ کچن کی طرف بھاگیں تھیں۔

دوسری طرف برزل نے آرام سے سوئے نازر اعوان کو گھورتے ہوئے دیکھا اور جب اُسے اُٹھایا تو اُسکی حالت بھی مہ پارہ بیگم سے مختلف نہ تھی۔

"تم ہو کون؟اتنی جُرت کہ ایس پی اعوان کے گھر تک آ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نیند بھگاتا اُٹھ کر پسٹل پکڑنے لگا جوکہ پہلے ہی برزل کے قبضے میں جا چُکا تھا۔

"گُڈ کوئسچن،میں برزل ابراہیم ہوں اور جُرت تو ابھی دیکھی کہاں ہے تم نے میری،دوسری بات تمہارے گھر تک نہیں تمہارے کمرے میں موجود ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کُرسی کھینچ کر اُس کے مقابل بیٹھتا ہوا اُسے غصہ دلا گیا۔

"اوہ تو تم ہوبرزل ابراہیم،تمہارے کارندے کو پکڑا تو تم اُسکی تڑپ میں یہاں تک آ گئے،اب جو میرے گھر تک آئے ہو اسکی سزا بھی ملے گی تم جانتے نہیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے اپنے خوف پر قابو پا لیا تھا آخر پولیس والا تھا اس طرح کے کاموں سے کئی دفعہ پالا پڑا تھا مگر برزل ابراہیم کے طریقے پر وہ ڈر ضرور گیا تھا۔

"ایک بات وہ میرا کارندہ نہیں بھائی تھا،دوسری بات تم نے اُسے پکڑا اور پانچ منٹ بعد ہی اُسے چھوڑ دیا کیسے چھوڑا اُسے یہ بھی تم جانتے ہو،تیسری بات میں غلطی ایک دفعہ معاف کرتا ہوں اور آخری بات میرے راستے میں آنے کی بُھول دوبارہ ہرگز نہ کرنا ایس پی ورنہ اس بار نتیجہ بُرا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کھڑاہوا۔

"تُم یہ تو جانتے ہو گے کہ کسی پولیس والے کے گھر آنا اُسے دھمکانے کی سزا کیا ہو سکتی ہے،ایسا کیس بنا دونگا کہ تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی وردی کا روب ڈالنے لگا برزل کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھو لیا جیسے کسی بچکانہ بات پر مسکرایا جاتا ہے۔۔

"پر افسوس کے تم میرے خلاف ہر کوشش میں ناکام ہو جاؤ گئے،خیر اب چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"پسٹل اُسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا نازر اعوان نے جلدی سے پسٹل پکڑنا چاہا مگر برزل نے پھر سے پسٹل اچک لیا۔

"مجھے کیوں لگتا ہے کہ تم پھر سے کوئی بیوقوفی کرو گئے،ادھر آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم اُسے لیے ونڈو کے پاس آیا جس باہر گیٹ کامنظر صاف نظر آ رہا تھا جہاں اس کے باڈی گارڈز کو برزل کے بندے گھیرے بیٹھے تھے اور دو لوگ اس کے گھر میں داخل ہو رہے تھے۔

"تمہیں کیالگتا ہے کہ تم مجھ پر پیچھے سے وار کرو گئے تو بچ جاؤ گئے،یہ لوگ ایک منٹ میں تمہاری فیملی اور گھر کو بھون ڈالیں گئے اس لیے سوچ سمجھ کر اب برزل ابراہیم کے راستے میں آنا کیونکہ اب کی بار میرا کوئی بھائی نہیں بلکہ میں تمہارا مقابلہ کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا پسٹل اُس کے ہاتھ میں تھماتا وہ پُر اعتماد قدموں سے چلتا اُس کے کمرے سے نکلنے لگا ایس پی اعوان نے پہلے پسٹل اُس کی پیٹھ پر تانہ مگر اُسکا ہاتھ ٹریگر پر کانپنے لگا تو غصے سےپسٹل بیڈ پر پھینک دیا۔

برزل ابراہیم لمبے لمبے ڈگ بھرتا نیچے آیا تو اعوان ہاوس کی ساری فیملی باہر موجود تھی۔

"تم،تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر آنے کی۔۔۔۔۔۔۔"احسن کا جوان خون گرم ہوا تھا اس سے پہلے کہ وہ اسکی طرف لپکتا برزل ابراہیم کے پسٹل کی نوک نے اُسے وہی روک دیا تھا۔

"مجھے اس طرح کی بتمیزیاں کُچھ خاص پسند نہیں۔۔۔۔۔۔۔"وہ سپاٹ لہجے میں بولا اور ایک سرد نظر سب کے چہروں پر ڈالی جو خوف سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

"اور تم جو ہمارے گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"احسن خاموش ہو جاؤ،کوئی نہیں آئے گا اس کے راستےمیں۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کی آواز پر احسن نے اپنے لب بھینچ لیے تھے برزل نے پسٹل اپنے بلیک لیدر کی جیکٹ میں رکھا اور آگے بڑھ گیا مگر پھر اُس کے قدم رُکے تھے فارسیہ جو مہ پارہ بیگم کی اوٹ سے اسے دیکھ رہی تھی اسکی خود پرنظر پڑتے دیکھ کر چُھپنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

"میں نے تمہیں وہی کچن میں رُکنے کا کہا تھا مگر تُم نے ثابت کیا کہ تم ڈرپوک ہونے کے ساتھ ساتھ نالائق بھی ہو،اس کی سزا ملے گی تمہیں فارسیہ اعوان،انتظار کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ اس پر گہری نگاہ ڈالتا وہاں سے نکل گیا۔

"بھائی آپ نے ہمیں باہر رُکنے کا کیوں کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"گاڑی میں بیٹھتے ہی سلیمان نے پوچھا۔

"اندر تم لوگوں کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔"وہ گاڑی چلانے کا اشارہ کر گیا۔

"ایس پی نے میڈیا کے سامنے اپنی واہ واہ کے لیے حیدر کو نہیں پکڑا تھابلکہ وہ رئیس کے آدمیوں کو بچانا چاہتا تھا،ایس پی کا کُچھ لنک ہے اُن کے ساتھ پتہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پر سب سے پہلے مجھے فارسیہ اعوان کےبارے میں ساری انفارمیشن چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی بات پر سلیمان نے چونک کر دیکھا اُسے برزل ابراہیم کے منہ سے شاید اس بات کی توقع نہیں تھی دس سال ہو گئے تھے اُنہیں ساتھ کام کرتے کبھی بھی برزل ابراہیم کے منہ سے کسی لڑکی کا نام نہیں سُنا تھا۔

"جی،جی بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی حیرت پر قابو ڈالتا وہ مودب انداز میں گویا ہوا تو برزل اپنے موبائل کے ساتھ چھیڑ کھانی کرنے لگا۔

!____________________________________________!

برزل ابراہیم کے جانے کےبعد وہ سب نازر اعوان کی طرف لپکے تھےجبکہ مہ پارہ بیگم فارسیہ کی طرف مُڑی جو ابھی تک برزل ابراہیم کی آخری بات کے خوف کے زیر اثر تھی۔

"تم ڈرو مت وہ صرف دھکما کر گیا ہے تمہارے پاپا ہیں نہ وہ سب سمبھال لیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم نے اُسے خوف سے نکالا تھا۔

"بابا یہ کون تھا جس کی اتنی ہمت کے وہ اس ٹائم ہمارے گھر میں آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"احسن کا غصے سے بُرا حال تھا۔

"ایک مجرم تھا بس،جاؤ تم لوگ اپنے اپنے کمرے میں،میں ہوں نہ سب سمبھال لونگا۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کی پُرسوچ نگاہیں کہیں ٹکیں تھیں۔

"کیسے سو جائیں بھائی صاحب،پہلی دفعہ آپکی موجودگی بھی اس خوف کو ختم نہیں کر پا رہی کہ کوئی اتنی آسانی سے ہمارے گھر میں آ گیا ہے کل کو وہ ہماری جان تک لے جائے گا تو آپ کیا کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہ زر اعوان کی بات پر باقی بھی متفق ہوئے تھے۔

"ایسا نہیں ہوگا، تم لوگ سکون سے جا کر سو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس وقت سوال جواب کے موڈ میں نہ تھے اس لیے سب کو کہتے وہ باہر گارڈز کی باز پرس کرنے کی طرف بڑھے۔

!__________________________________________!

سلیمان فارسیہ اعوان کی تفصیلات لیے اندر کی جانب بڑھا کہ حیدر کو ٹائیگر سے پیار کرتے دیکھ کر رُکا۔

"میرے شہزادے میرے ٹائیگر تم نے ثابت کر دیا کہ تم نے میرا نمک کھایا ہے مجھ سے ہار کر تُم نے میرا دل جیت لیامیرے لال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے پچکارنے پر سلیان قہقہ لگا گیا حیدر اُسکی موجودگی پر کچھ خفیف سا ہوتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"تمہارے جیسے بھائی سے یہ ٹائیگر اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کو اُس کے دانتوں کی نمائش ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔

"وہ تومیں دیکھ چُکا ہوں مگر اتنابھی پیار نہ جتاؤ پرائی چیز سے،یہ بھائی کا وفادار ہے اگر اب کی بار کُچھ ایسا کیا تو یہ بھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے کہنے پر وہ منہ لٹکا گیا۔

"اُس ایس پی کو میں نے معاف نہیں کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

"تم اُسکی فکرنہ کرو اُسے بھائی خود دیکھ رہے ہیں،تم نئی اسائمنٹ پر کام کرو بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے کہنے پر وہ سر ہلا گیا تو سلیمان ہال میں آیا جہاں اُسے مس زونا ملی۔

"بھائی کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟وہ پوچھنے لگا۔

"سر اس وقت جم میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے بتانے پر وہ جم کی طرف بڑھ گیا۔

"بھائی یہ مس اعوان کی انفارمیشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ بلیک ٹرازور اور بلیک ٹی شرٹ میں ملبوس برزل ابرہیم سے بولا جو کہ تولیے سے منہ پر آیا پسینہ صاف کرتا اُسے گلے میں ڈال کر پانی کی بوتل منہ سے لگا گیا۔

"بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"فاریسہ اعوان نازر اعوان کی اکلوتی بیٹی ہے،جو اسی شہر کے گرلز کالج میں گریجویشن کر رہی ہے پڑھائی میں اچھی ہے مگر اس کے باوجود وہ کسی اچھے ادارے میں نہیں گئی،وہ صبح آٹھ بجے اپنے ڈرائیور کے ساتھ کالج جاتی ہے اور ایک بجے واپس،صرف گھر تک محدود ہے اگر کبھی شاپنگ کرنے بھی گئی ہے تو اپنی مدر کے ساتھ اس کے علاوہ وہ کہیں اتنا آتی جاتی نہیں حتی کے وہ نہ کسی سکول ٹرپ اور نہ کسی کالج ٹرپ کے ساتھ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی بات پر اُس نے سر ہلایا تھا۔

"اور کُچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔

"چھ ماہ پہلے اُسکی منگنی رائل انڈسٹری کے مالک کے چھوٹے بیٹے ھادی انصار کے ساتھ ہوئی تھی اور دو ماہ بعد شادی کا پلان ہے،آج تک وہ اپنے فیانسی سے نہ ملی ہیں اور نہ کوئی بات چیت کیونکہ اُسےموبائل کی سہولت نہیں دی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"منگنی کے بارے بتاتے ہوئے سلیمان نے غور سے اُس کے چہرے کی طرف دیکھا تھاجو بلکل بے تاثر تھا وہ کچھ بھی اُخذ کرنے میں ناکام رہا تھا۔

"اوکے تم جاؤ اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کو جانے کا کہہ کر وہ ٹائم دیکھنے لگا جہاں گھڑی دس بجا رہی تھی۔

"تو آج ملتے ہیں تم سے فاریسہ اعوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کا خوفزدہ چہرہ آنکھوں کے سامنے لاتا مسکرایا تھا۔

نازر اعوان شدید غصے کے زیر اثر تھا اور بات چھوٹی بھی نہ تھی برزل ابراہیم ایک ایس پی کے گھر میں نہ صرف آسانی سے داخل ہوا تھا بلکہ نازر اعوان کو اپنی بے خوفی کا کُھلا چیلنج کر گیا تھا اور یہی چیز نازر اعوان کو سکون نہ لینے دے رہی تھی۔

"رات کو کون آیا تھا یا کیا ہوا تھا یہ بات اس گھر سے باہر نہیں جانی چاہیئے میں نہیں چاہتا لوگوں کو ہم پر ہسنے کا موقع ملے اور آگے کسی اور کی ہمت پڑے اعوان ہاوس کی طرف نگاہ کرنے کی بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صبح ناشتے کی ٹیبل پر نازر اعوان نے سب کو باور کروایا اور اپنی کیپ پکڑتا پورچ کی طرف بڑھا۔

"میں سیکیورٹی بڑھا رہا ہوں پھر بھی اب آنکھیں کھول کر رہنا تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے سیکیورٹی گارڈ کو گھورنے لگا جو نادم سا ہو کر سر جھکا گیا وہ کہنا چاہتا تھا کہ جب ایک ایس پی ہو کر آپ بے بس ہو گئے تھے تو وہ بے چارہ کیا کرسکتا تھا مگر کہہ نہ سکا کیونکہ کہنے کی صورت میں وہ نوکری کیا دنیا سے بھی جا سکتا تھا کیونکہ نازر اعوان اس وقت ایک زخمی شیر کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا جس کے جنگل میں ہی کوئی اُسے مات دے گیا تھا۔

آفس آ کر اُس نے سب سے پہلے ایس ایچ او نسیم کو بلایا تھا۔

"برزل ابراہیم کے بارے میں جو کچھ جانتے ہو یا جو کچھ ملے جلدی سے میرے ٹیبل پر لا کر رکھو،پندرہ منٹ ہیں تمہارے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سختی سے آڈر کرتا اُسے جانے کا اشارہ کیا اور اپنے موبائل سے ریئس کا نمبر ری ڈائل کیا۔

"نہیں مجھے یہ خود ہی ہینڈل کرنا ہوگا،ایک عام سے آدمی کے ساتھ لڑنے  کے لیے مجھے ریئس کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کال ڈسکنٹ کر کے موبائل ٹیبل پر رکھا اور برزل ابراہیم کے بارے میں سوچنے لگا جس سے اسکی آنکھیں غم و غصے کی شدت سے سُرخ ہو رہی تھیں۔

"تُم نہیں جانتے برزل ابراہیم کہ تم نے شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالا ہے،بچنا نہ ممکن ہے اب تمہاراایسی سزا دونگا کہ سات پُشتیں یاد رکھیں گئیں کہ نازر اعوان کے گھر میں گھسنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس سے مخاطب ہوتا وہ زور سے ٹیبل پر ہاتھ مار گیا۔

نسیم کے آنے پر وہ اُسکی طرف متوجہ ہوا۔

"سر،برزل ابراہیم گاڑیوں کے شوروم بی_سکائے کا اونر ہے،پاکستان میں ٹوٹل اُسکی نو برانچ ہیں جو ہر بڑے شہر میں ہے،باہر کے ملکوں کے ساتھ بھی اسکا لین دین ہے،بی_سکائے پیلس میں اکیلا رہتا ہے،ماں باپ مر چکے ہیں اور سوائے ایک چچا زاد کے اُسکا کوئی رشتےدار نہیں،سلیمان اُسکا رائٹ ہینڈ ہے جو اُس کے تمام معمالات پر نظر رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نسیم کی انفارمیشن پر نازر اعوان سر نفی میں ہلاتا اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

"ایک ایس پی کے گھر میں بلا خوف گھسنے والا ایک عام آدمی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بڑبڑاہٹ پر نسیم نے نہ سمجھی سے دیکھا تھا۔

"اُس دن حیدر کو پکڑا تھا کہ وہ اسمگلنگ کر رہا تھا تو پھر۔۔۔۔۔۔۔"

"صوری سر بات کاٹنے کی معافی چاہتا ہوں مگر حیدر ہی وہ بندہ تھاجس نے اسمگلنگ کی نشانداہی کی تھی اور اُن بندوں کو پکڑوانے کے لیے وہ اُدھر رُکا تھا مگر ہماری غلطی کی وجہ سے اصل مجرم بھاگ گئے اور اُسے ہم نے پکڑ لیا حالانکہ پانچ منٹ بعد آتے فون نے ہمیں اُسے چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھامگر وہ بے گناہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم سے جتنا پوچھا جائے اُتنا جواب دیا کرو نسیم،اور جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کو اُسکا حیدر کی فیور میں بولنا ناگوار گُزرا تھا اس لیے جھڑکتے ہوئے باہر کی راہ دکھائی۔

"کُچھ تو ایسا ہے جو اُس کے بارے میں یہ پولیس نہیں جانتی،پتہ لگانا ہوگا اور یہ کام دلاور ہی کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے اپنے خاص مخبر کا نمبر ڈائل کرکے موبائل کان سے لگا لیا۔

!__________________________________________!

وہ بیلو جینز پر وائٹ شرٹ ذیب تن کیے شرٹ کے کف لنکس کو فولڈ کرتا سیڑھیاں اُتر رہا تھا حیدر اُسے دیکھتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"آپ کہیں جا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"؟حیدر کے سوال پر برزل ابراہیم نے ابرو اُچکا کر اُسے دیکھا تھا جو گڑبڑا گیا تھا۔

"میرا مطلب ہے کہ آپ نے آج مجھے لنچ باہر کروانے کا بولا تھا،میں مس زونا کے ہاتھ کے بد زائقہ۔۔۔۔۔۔۔"اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ مکمل کرتا مس زونا کے نمودار ہونے پر وہ زبان کو روک گیا تھا مگر برزل ابراہیم نے اُس کی کوشش کو اپنے پاؤں سے کچلتے ہوئے خود ہی اُسکا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔

"سُن لیا آپ نے مس زونا،آپ میری غیر موجودگی میں جو اسے چٹ پٹے کھانے بنا بنا کر کھلاتی ہیں نہ یہ اُنکا صلہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے پلٹ کر مس زونا کو کہا جبکہ حیدر کا دل کیا کہ اپنا سر کسی بھاڑی چیز سے ٹکڑا دے کیونکہ سامنے والے کا تو وہ کُچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا۔

"میرا وہ مطلب نہیں تھا مس زونا۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر جلدی سے اُس کے قریب آیا تھا آخر ایک واحد مس زونا ہی تو تھی جو اُسکی مان لیتی تھی۔

"جی کیا مطلب تھا آپکا سر حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی خفگی دیکھ کر حیدر بے چارگی سے برزل ابراہیم کو دیکھنے لگا جو کہ اسکی حالت سے کافی محفوظ ہو رہا تھا۔

"میرے خیال میں مس زونا آج سے دو ہفتے تک آپ حیدر کی ہر فرمائش کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیں تو بہتر ہے،اتنی سی سزا تو بنتی ہے آپ کے محنت سے بنائے گئے فاسٹ فوڈ اور باربی کیو کی توہین پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بلکل سر۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر ہلاتیں چلی گئیں تو برزل ابراہیم نے مسکراتی نظر حیدر پر ڈالی جو منہ لٹکائے بیٹھ گیا تھا حیدر نے تو بس اسکے ساتھ لنچ پر جانے کی وجہ سے کہا تھا ورنہ مس زونا کے کھانوں کی وجہ سے ہی تو وہ زندہ تھا یہ حیدر کی زاتی رائے تھی اپنے بارے میں۔

"میں سوچتا ہوں تمہیں باہر لنچ کروانے کے بارے میں،فلحال تو تم مس زونا کے ہاتھ کے دال چاول انجوائے کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس پر اپنی شاندار مسکراہٹ اُچھالتا اُسے تپانے کا آخری پتہ بھی استمال کر گیا تھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا لاؤنج سے نکلتاچلاگیا۔

"ماما پاپا،جاتے ہوئے مجھے اس پتھر دل بندے کے سُپرد کر کے کس گناہ کی سزا دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی حالت اس وقت اُس انسان کی تھی جو اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار چکا تھا۔

!__________________________________________!

فارسیہ اعوان گیٹ سے باہر نکلتی اپنی گاڑی کی تلاش میں نظریں دوڑانے لگی مگر جس مخصوص جگہ پر اُسکی گاڑی اور ڈرائیور امتیاز ہوتے تھے آج وہ جگہ خالی تھی اور اس کالچ میں آئے چار سالوں میں ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا۔

"یہ انکل کہاں رہ گئے۔۔۔۔۔۔۔؟وہ کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ ڈالتی ادھر اُدھر دیکھنے لگی تبھی دس قدم کے فاصلے پر موجود برزل ابراہیم پر نظر پڑتے ہی اُسکی حالت رات سے کُچھ مختلف نہ تھی وہ پتھرائی نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی جو اس کا تفصیلی جائزہ لیتا اس کے قریب آ گیا تھا فارسیہ اعوان جو اُسے یہاں اپنے سامنے دیکھ کر جامد ہو گئی تھی ہوش کی دُنیا میں آتے ہی وہ کالج کے گیٹ کی طرف قدم موڑ گئی مگر برزل ابراہیم کی سرد آواز پر نہ صرف اُسکے قدم تھمے تھے بلکہ دل بھی ایک پل کے لیے رُکا تھا۔

"تو تم رات والی غلطی دوہرانا چاہتی ہو،اوکے ویل،مگر میں ایک دفعہ ہی کسی کی غلطی کو لائٹ لیتا ہوں،اب کی بار کالج نہیں تمہارے گھر میں تم سے ملاقات ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔"

"م_میر_میرے_گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے یقینی سے بولی تو برزل ابراہیم نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ پھنسا کر ریلیکس انداز میں کہا۔

"ہاں تمہارے گھر پر اور اس دفعہ تمہارے باپ کے روم میں نہیں سب کے سامنے تمہارے روم میں آؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہہ کر اس کے خوف سے پڑتے سفید چہرے کی طرف دیکھنے لگا پھر اسکی نگاہ اُس کے ہاتھ کی دوسری اُنگلی میں پڑی انگوٹھی پر پھسلی تھی۔

"کیا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟"وہ کن انکھیوں سے اردگرد گُزرتے سٹوڈنٹس کو دیکھتی اصل مدعے پر آئی اصل میں وہ اپنے ڈرائیور کے آنے سے پہلے اسے یہاں سے بھیجنا چاہتی تھی کیونکہ وہ کبھی بھی نازر اعوان کو اپنی طرف سے مشکوک نہیں کرنا چاہتی تھی اور اسکی وجہ اُسکا یہ خوف تھا جس کی وجہ سے وہ کبھی اپنی صفائی پیش نہیں کر سکتی تھی اور یہ خوف اُس کے دل و دماغ میں بٹھانے والا خود اُسکاباپ تھا اسی لیے وہ کبھی کسی کے سامنے کھل کر نہ بات کر سکی تھی اور نہ کبھی اپنے سیلف ڈیفنس میں کچھ کر پائی تھی بس اپنی کم ہمتی کی وجہ سے جسکا سب نے فائدہ اُٹھایا تھا اور شاید برزل ابراہیم بھی اُٹھا رہا تھا۔

"تم سے کل رات کے بارے میں پوچھنے آیا ہوں تم کچن میں کیوں نہیں رُکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی نگاہ دوسری دفعہ اُسکی اُنگلی میں پڑی اُس ہیرے کی انگوٹھی سے اُلجھی تھی مگر چہرہ بے تاثر تھا۔

"وہ_میں_میں مما کے ساتھ_اُنہوں نے کہاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فارسیہ نے اپنے دائیں جانب کھڑی اپنی کلاس فیلوز کو دیکھا جو برزل ابراہیم کو بڑے اشتیاق سے دیکھتیں شاید نہیں یقیننا اُس کی وجاہت اور پرسنالٹی پر کمنٹس دے رہی تھیں۔

"میرا کہا زیادہ ضروری تھا فارسیہ اعوان،اسکی سزا ملے گی۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اُسکے رنگ بدلتے چہرے پر اپنی نگاہیں فوکس کیں۔

"صوری_صوری پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی کوئی بھی سزا سُنے بغیر وہ معافی مانگ گئی تھی جس پر برزل نے گہرا سانس بھرا تھا وہ اُسکی معافی نہیں چاہتا تھا۔

"اللہ کے نام پر کچھ دے دو بابا،اللہ جوڑی سلامت رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔"یکدم ایک فقیر دونوں کے پاس رُکا جس کی آواز پر فارسیہ ڈر کر پیچھے ہوئی تھی۔

"بابا جی کو کچھ دو گی نہیں تم۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی بات پر فارسیہ نے کُچھ اچنبھے سے دیکھا۔

"کیونکہ میرے پاس کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ برزل ابراہیم کہہ رہا تھا اگر یہاں سلیمان ہوتا تو شاید چکرا کر رہ جاتا اور اگر حیدر یہ سن لیتا کہ برزل ابراہیم کے پاس کچھ نہیں تو وہ صدمے سے شاید بے ہوش ہو جاتا۔

"میں کیا دوں۔۔۔۔۔۔۔"فارسیہ اپنے ہاتھ میں پکڑے نوٹ بک کو پیچھے کرتی اپنے کاندھے پر لٹکے بیگ میں سے تلاشنے لگی مگر اگلے ہی پل وہ ٹھٹھک کر برزل ابراہیم کو دیکھ رہی تھی جو اُس کے ہاتھ کو پکڑ چُکا تھا۔

"یہ لیں بابا جی اور دُعاوں میں یاد رکھیے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کمال سادگی سے اُس کی اُنگلی سے وہ ہیرے کی انگوٹھی اُتار کر اُس فقیر کو دیتا پھر پہلے والی پوزیشن میں کھڑا ہو چکا تھاوہ جو اس سارے عمل میں فریز ہوئی تھی بے یقینی سے اُس فقیر کو دیکھنے لگی جو خود بھی اُلجھا سا اس انگوٹھی کو دیکھتا آگے جا رہا تھا۔

"وہ_میری انگوٹھی_رُکیں وہ۔۔۔۔۔۔۔۔"صدمے اور بے یقینی کی کیفیت سے نکلتی وہ اُس فقیر کی طرف قدم بڑھانے لگی مگر برزل اُس کے راستے میں آ کھڑا ہوا کہ وہ بمشکل اُس سے ٹکڑاتے بچی۔

"کیا تمہارے باپ نے یہ نہیں بتایا کہ فقیروں کو جو چیز دی جائے وہ واپس نہیں لیتے اس سے وہ ناراض ہو کر بددُعائیں دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پُرسکون تھا جیسے بہت بڑا بوجھ سر سے اُتر گیا ہو مگر فارسیہ تو ابھی تک صدمے کی حالت میں تھی وہ اُسکی منگنی کی انگوٹھی تھی اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ جب اُسکی ساس نے یہ انگوٹھی اُسکی اُنگلی میں پہنائی تھی تو کہا تھا۔

"یہ ہادی نے سپیشل دبئی سے خریدی تھی فاریسہ کے لیے وہ بھی پورے دس لاکھ کی۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اتنا چھوٹا سا دل ایس پی کی بیٹی کا،افسوس کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے تاثرات کا جائزہ لیتا مایوسی سے سر نفی میں ہلاگیا فاریسہ نے اب کی بار نم آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا۔

"وہ رنگ_میری_میری نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ تو پہلے بتانا تھا چلو کوئی بات نہیں جس کی بھی ہو اُسے ثواب ہی ملنا ہے ویسے وہ کونسا اتنی مہنگی تھی یہی کوئی ایک دو ہزار تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ معصوم دکھنے کی اداکاری اچھے سے کر رہا تھا کیونکہ کہ برزل ابراہیم کبھی معصوم بن نہیں سکتا تھا۔فارسیہ اُسے کہنا چاہتی تھی کہ یہ رنگ قیمتی تھی سب سے بڑی بات کہ منگنی کی تھی مگر اُس کے گلے میں جیسے آنسوؤں کا پھندا سا پڑ گیا تھا وہ مہ پارہ بیگم اور نازر اعوان کے متوقع ردعمل کو سوچ کر پریشان ہو گئی تھی کہ کیا کہے گی اُنکو رنگ کہاں گئ؟

"تمہارے انکل کے آنے میں تیس سینکڈ رہ گئے ہیں،باقی باتیں اگلی ملاقات میں سہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی نم آنکھوں لرزتے ہونٹوں پر نگاہ ڈالتا چل دیا فاریسہ رنگ کے غم میں مبتلا اُسکے الفاظ پر غور ہی نہ کر سکی۔

برزل ابراہیم نے اپنی گاڑی کے پاس آ کر دیکھا جہاں اُسکا ڈرائیور گم صُم کھڑی فاریسہ کے پاس آ چُکا تھا اور یقیننا کار خراب ہونے کا بتا رہا تھا برزل نے موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کیا اور نظریں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتی فاریسہ پر ٹکائیں۔

"یاسر مجھے ڈائمنڈ کی رنگ چاہیئے آج رات تک،نہیں ڈیزائن میں بتاؤنگا ویسی سیم ہونی چاہیئے اور اُسکی قیمت بیس لاکھ سے کم نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کال بند کرتا اب وہ نظروں سے اوجھل ہوتی گاڑی پر سے نظریں ہٹا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔

!____________________________________________!

فارسیہ اعوان سارے راستے ہی رنگ کی پریشانی اور سب کے سوال جواب پر سوچتی ہلکان ہوتی آئی تھی اپنے بائیں ہاتھ کو ڈوپٹے کی اوٹ میں چھپاتی ہال میں بیٹھیں تنزیلہ بیگم اور مہ پارہ بیگم سے سرسری سلام دعا کرتی وہ اپنے کمرے میں آ کر دروازہ بند کیے بیٹھ گئ۔

"ماما کو پتہ چل جائے گا،نہیں چچی کو پتہ لگے گا وہ پوچھیں گی کیا کہوں گی میں،گم گئی، نہیں بابا غصہ کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑاتی دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلنے لگی۔

"مجھے مما کو بتا دینا چاہیئے اُس کے بارے،وہ کالج آ گیا پر میرے کالج کا کیسے پتہ لگا اُسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ واقع میں شیدید پریشان تھی اس لیے اُسکا دماغ کام نہیں کر پا رہا تھا ورنہ اُسکی سوچ کی سُوئی بس اسی سوچ پر آ کر نہ رُکتی۔

"میں کیا کروں،کس سے مدد لوں،اگر بابا کو پتہ لگ گیا کہ میں اُس سے ملی تھی یا اُس نے میری رنگ فقیر کو دے دی تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گئے،اور چچی لوگ سمجھیں گئے وہ میری وجہ سے گھر آیا تھا،کیا کروں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ گہرے اضطراب میں مبتلا گالوں میں پھسلتے آنسوؤں کو بے دردی سے رگڑتی برزل ابراہیم سے آج دوسرا رشتہ قائم کر گئی تھی وہ تھا نفرت کا اور پہلا رشتہ جو ان دو ملاقاتوں میں اُبھر کر آیا تھا وہ خوف کا تھا۔

"اس کے لیے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے نام سے ناواقف تھی اور ناواقف ہی رہنا چاہتی تھی۔

پھر وہ سارا دن کسی نہ کسی بہانے سے اپنے کمرے میں ہی مقید رہی تھی مگر رات کے ڈنر کے وقت اُسے نیچے آنا پڑا تھا ہاتھ کو ڈوپٹے کی اوٹ میں کرتی وہ سب کو سلام کرتی چیئر گھسیٹ کر ٹک گئی۔

"کُچھ پتہ چلا بھائی صاحب اُس لڑکے کا،کون تھا کیا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"تنزیلہ بیگم نازر اعوان سے پوچھنے لگی جبکہ اُنکی بات پر فاریسہ اپنی جگہ چور سی ہو کر رہ گئی۔

"میں نے صبح بھی کہا تھا کہ وہ ایک مجرم تھا میرا،مجھے دھمکانے یہاں تک آ گیا،اُس کے ساتھ کیا کرنا ہے یہ بھی مجھے پتہ ہے آپ لوگ بے فکر ہو کر رہیں۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے دو ٹوک بات کر کے اپنی توجہ کھانے کی جانب مبذول کی۔

"بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے اختیار پُکار بیٹھی تھی مگر جس طرح اُنہوں نے سر اُٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا اُس کے الفاظ اُس کے منہ میں ہی دب گئے تھے۔

"کیا بات تھی۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے زاری سے بولے فاریسہ کی آنکھیں پُرنم سی ہو گئیں نازر اعوان اپنے انداز سے ہمیشہ اُسے باور کرواتا تھا کہ وہ اُس کے لیے عام ہے اوررہے گی۔

"اب بول بھی چُکو کم عقل لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔"اب تو اُن کے لہجے میں ناگواری صاف محسوس کی جا سکتی تھی جس کو مہ پارہ بیگم نے تاسف سے دیکھا تھا جبکہ باقی سارے اس چیز سے لا تعلق ہو کر کھانے میں مصروف تھے۔

"وہ_میرے کالج میں_کالج میں سپیچ کمپیٹیشن ہے_ بوائز کالج کے ساتھ_میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہرگز نہیں،جب ایک دفعہ کہہ دیا کہ تم بس کالج اور گھر کی حد تک رہو گی تو پھر؟ اور بات ختم اب۔۔۔۔۔۔۔"کہہ کر وہ پانی کا گلاس منہ سے لگا گئے فارسیہ نے ڈبڈائی آنکھوں سے مہ پارہ بیگم کی طرف دیکھا جو افسوس سے سر ہلا کر رہ گئیں تھیں ہمیشہ سے اُنکو نازر اعوان کا فارسیہ کے ساتھ رویعہ بُرا لگتا تھامگر وہ اُسکی "وجہ" کی وجہ سے خاموش ہو جاتی تھیں۔۔

"ویسے ڈیئر سسٹر،کیا تم بول لو گی سب کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔"یہ قمر تھا اُسکا چچازاد بھائی اُسکی بات پر فارسیہ نے غصے سے دیکھا مگر قمر کے ساتھ بیٹھے احسن کی ہنسی دیکھ کر وہ لب کاٹ کر رہ گئی پھر بڑی بے دلی سے وہ کھانا کھا کر مردوں کے اُٹھنے کے بعد اُٹھی مگر تنزیلہ چچی کے سوال پر رُکی تھی۔

"تمہاری منگنی کی رنگ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُن کے سوال پر خشک ہوتے گلے کو تر کرتی مُڑی۔

"اُس کے روم میں ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم نے اُسکی مُشکل آسان کی تھی وہ گہرا سانس بھرتی سر ہلاتی اپنے کمرے میں آ گئی۔

"آج روم میں تھی کل روم میں ہو گی اور ایک دن سب کو پتہ لگ جائے گا میں کیا کہونگی سب کو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر تھامے بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی وہ اس وقت اُس بیلو جینز اور وائٹ بٹن ڈاؤن شرٹ والے برزل ابراہیم کو سوچنا نہیں چاہتی تھی مگر وہ اُس گرے آنکھوں والے برزل ابراہیم کو سوچ رہی تھی۔

!____________________________________________!

"میرا کام اچھے سے ہو جانا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بات ختم کرتا وہ کھانے کی ٹیبل پر آیا تھا جہاں ہمیشہ کی طرح وہ دونوں اسکا انتظار کر رہے تھے۔

"شروع کرو تم دونوں۔۔۔۔۔۔"مس زونا کو اشارہ کرتا وہ دونوں سے بولا مس زونا نے کھانا پلیٹ میں نکال کر اُس کے سامنے رکھا اور خود زرا سا پیچھے ہو کر کھڑی ہو گئی۔

"ارے یہ کیا،اپنے حیدر میاں آج دال چاول کھا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان جو سارے واقع سے لاعلم تھا حیدر کے آگے پڑی پلیٹ کو دیکھ کر حیران ہوا تھا جو دل پر پتھر رکھ کر کھا رہا تھا۔

"اوہ حیدر تم کافی سادہ ہوتے جا رہے ہو،کھانے میں سادگی بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دبا کر اُسے سراہا تھا جو ضبط کے گھونٹ بھر کر رہ گیا۔

"لگتا ہے حیدر میاں کو سزا دی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کو اُسکا دال چاول کھانا اور پھر خاموش رہنا ہضم نہیں ہو رہا تھا اس لیے مس زونا کی طرف دیکھا جس نے کندھے اُچکا دیے سب جانتے تھے کہ مس زونا سوائے برزل ابراہیم کہ کسی کو وضاحت نہیں دیتی تھی.

"کس نے دی ہے بتائے گا کوئی مجھے،کس کی اتنی ہمت کہ میرے بھائی کو اس طرح کی سزا دے۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم اُس کے سُرخ چہرے کے تاثرات دیکھ کر لُطف اندوز ہو رہا تھا۔

"تھنکیو سو مچ،آپ نے میرے لیے اسٹینڈ لیا،مجھے بہت اچھا لگا ہے،اب کیا میں یہ سادہ کھانا کھا سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"بڑے تحمل سے بولتا سلیمان کو قہقہ لگانے پر مجبور کر گیا کیونکہ وہ ساری گیم سمجھ چُکا تھا۔

"شیور مائے لٹل برو۔۔۔۔۔۔۔"برزل مسکراہٹ دبا گیا۔

"بھائی ایس پی آپ کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی اطلاع پر برزل نے سر ہلایا۔

"اچھا ہے سلیمان،اُسے میرے بارے میں جاننے کی کوشش بھی کرنی چاہیئے کیونکہ یہ اُس کے لیے اب اشد ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔"

"اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے بھائی کہ وہ آپ کے بارے میں جان تو لے گا مگر کُچھ کر نہیں پائے گا کیونکہ بی_سکائے جو بھی کام کرتے ہیں اُنکے ثبوت نہیں چھوڑتے۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کا لہجہ مُسکراتا تھا جس کو سمجھ کر برزل کے لب پھیلے تھے۔

"اس بار نازر اعوان کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیلنے کو دل کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔"کھانے سے ہاتھ کھینچتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔

"اس کھیل میں چوہا تو نازر اعوان ہوگا مگر بلی۔۔۔۔۔۔؟خاموشی سے کھانا کھاتے حیدر نے پہلی دفعہ اس گفتگو میں حصہ لیا تھا غصہ تو اُسے بھی تھا نازر اعوان پر جس نے جان بوجھ کر اسے پکڑا تھا۔

برزل ابراہیم کی آنکھوں کے سامنے وہ خوفزدہ ہرنی آئی تھی اُس کے لب مسکرا اُٹھے۔

"ہے ایک ڈرپوک اور معصوم بلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتا ہوا وہ چلا گیا حیدر نے نا سمجھی سے سلیمان کی طرف دیکھا جو خود اسکی بات کا مطلب سمجھ رہا تھا۔

"فاریسہ اعوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے زہن میں جھمکا ہوا وہ حیرانگی سے سیڑھیاں چڑھتے برزل ابراہیم کو دیکھنے لگا۔

"ڈرپوک بلی۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر ابھی تک اُلجھن میں تھا۔

"_________________________________________!

فارسیہ ابھی تک سوچوں میں ڈوبی تھی کہ دستک کی آواز پر اپنے خیالوں سے نکل کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں انجم کھڑی تھی۔

"آ جائیں۔۔۔۔۔۔۔"وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تو انجم کمرے میں آئی اُس کے ہاتھ میں کُچھ تھا۔

"چھوٹی بی بی یہ آپ کے لیے۔۔۔۔۔۔۔"ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا اس کے سامنے رکھتی وہ چلی گئی فارسیہ جو پوچھنے لگی تھی کہ اس میں کیا ہے اور کس نے بھیجا مگر اُسکی جانے کی پُھرتی دیکھ کر چُپ ہو گئی اور ڈبہ کھولا جس کے اندر ایک چھوٹی سے میرون ویلوٹ کلر کی ڈبی اور ساتھ ایک چِٹ تھی۔

"یہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ سوچتی ڈبی کو کھولنے لگی تو اُس کے اندر ہیرے کی رنگ دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی وہ بلکل اُس جیسی رنگ تھی بس فرق تھا اُس کے اندر " بی" کا وہ بھی بڑے غور سے دیکھنے پر نظر آتا تھا ورنہ کوئی سرسری دیکھتا تو یہ پہچان ہی نہ پاتا کہ یہ وہ رنگ نہیں ہے۔

"یہ کیسے؟کس نے بھیجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُلجھن کا شکار ہونے لگی پھر اُس چِٹ کو کھول کر دیکھا تو اُس پر لکھی عبارت پڑھ کر وہ حیرانگی کے شدید جھٹکے کے زیر اثر چلی گئی۔

"یہ رنگ پہن لینا اور اُتارنے کا کبھی سوچنا مت ورنہ پھر تُم مجھے تو جان گئی ہو گی کہ میں جو کہتا ہوں وہ کرتا بھی ہوں،

اب شکریہ تو فرض ہے تم پر اور خود کو تیار رکھو بہت جلد شُکریہ وصول کرنے آؤنگا۔۔۔برزل ابراہیم"

وہ جیسے جیسے پڑھتی گئی ویسے ویسے اُسکا دم خُشک ہوتا گیا۔

وہ ساری رات اسی کشمکش میں رہی تھی کہ اس رنگ کو پہننا ہے یا نہیں مگر وہ صبح تک فیصلہ نہ کر پائی تھی کالج کے لیے تیار ہو کے رنگ کو پکڑ کر ڈریسنگ کے ڈرا میں رکھتی وہ جانے کے لیے مُڑی کہ کمرے میں داخل ہوتیں مہ پارہ بیگم کو دیکھ کر وہ رُکی اور اپنا ہاتھ ڈوپٹے کی اوٹ میں کر لیا۔

"ہو گئی تیار تم۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکا تفصیلی جائزہ لیتیں بولیں۔

"جی مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اصل میں،میں تم سے ضروری بات کرنے آئی تھی،تمہاری ساس کی کال آئی تھی وہ ڈیٹ فکس کرنے آنا چاہتی ہیں،میں نے کہا کہ تمہارے بابا سے بات کر کے آپکو بتا دونگی۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کی بات پر وہ گہرا سانس بھرتی عجیب سے انداز میں مُسکرائی تھی۔

"اور بابا تو کہتے ہونگے کل کے بجائے آج ہی وہ آ جائیں اور مجھ مصیبت کو لے جائیں تا کہ بابا کی فکر ختم ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکے طنز پر مہ پارہ بیگم خاموش ہو گئیں تھیں کیونکہ یہی جواب نازر شاہ سے ملا تھا۔

"پر ماما میرے پیپر۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم فکر نہ کرو وہ تمہاری اسٹڈی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گئے بلکہ وہ خود چاہتے ہیں کہ تم تعلیم جاری رکھو۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم نے نرمی سے اُسکا گال سہلایا تھا وہ مُسکرادی۔

"رنگ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔؟مہ پارہ بیگم اُسکے ہاتھ کو دیکھتیں کہہ اُٹھیں فاریسہ گڑبڑا گئی۔

"وہ_وہ ڈرا میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیوں؟کل بھی تمہاری چچی رنگ کے بارے پوچھ رہی تھیں،جلدی سے پہنو۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کے اسرار پر وہ سر ہلاتی نہ چاہتے ہوئے بھی وہ رنگ نکال کر اُنگلی کی زینت بنا چُکی تھی۔

!__________________________________________!

نازر اعوان اس وقت ایک ہوٹل میں بیٹھا دلاور کا انتظار کر رہا تھا جو کہ اپنے دیئے گئے ٹائم سے دس منٹ لیٹ ہو چُکا تھا۔

"سب کے سب نہ کارہ لوگ ہیں یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔"کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ ڈالتا وہ پانی کا تیسرا گلاس منہ سے لگا گیا۔

دو دنوں سے وہ ایسے ہی پیج تاب کھا رہا تھا آخر کو کوئی بڑی دیدہ دلیری سے نہ صرف اُس کے گھر میں گھسا تھا بلکہ سر عام اُسے دھمکی سے بھی نواز گیا تھا۔

"صوری سر لیٹ ہو گیا میں۔۔۔۔۔۔۔۔"تبھی دلاور اس کے پاس آتا جلدی سے بولا نازر اعوان بس غصے سے گھور کر رہ گیا۔

"کام کا بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے بارے میں جاننے کے لیے نازر اعوان بہت بے تاب تھا۔

"سر آؤٹ ورڈلی دیکھا جائے تو وہ ایک عام شہری ہے جو بڑے شریفانہ طور پر رہ رہا ہے مگر ان ورڈلی وہ شریف نہیں ہے،اُسکا بیک گراؤنڈ کلیر ہے اُسکا کام دھندا لیگل ہے مگر اُسکا اپنا ایک گینگ ہے جو پُورے ملک میں کیا باہر کے ممالک میں بھی کام کرتا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں کیسے کرتے ہیں اور بنا ثبوت چھوڑے وہ کیسے سب کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں یہ بھی نہیں معلوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دلاور کی انفارمیشن پر نازر اعوان کا دماغ گرم ہواتھا۔

"یہ اطلاعات ہیں تمہاری،یہ مخبری کرتے ہو تم،کوئی ایک بات جو میرے پتے کی بتائی ہو تم نے،ایک عام آدمی کے بارے میں تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سر وہ عام آدمی نہیں ہے،کسی پولیس اسٹیشن کسی بھی انوسٹیگٹر کسی بھی گینگ کے پاس اُسکی زرا بھی انفارمیشن نہیں ہے،ثبوت تو دور کی بات کوئی جانتا بھی نہیں کہ وہ کام کیا کرتا ہے بس اتنا ہے کہ لوگ اُس کے نام کو جانتے ہیں اور اُس کی عزت کرتے ہیں کیونکہ اُسکا اُٹھنا بیٹھنا بہت بڑے بڑے سیاست دانوں اور قانون کے رکھوالوں کے ساتھ ہے کیونکہ وہ فنڈنگ بہت دیتا ہے سیاسی پارٹیوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دلارو نے اُسکی بات کاٹ کر سچائی بیان کی جو اُسے کسی صُورت ہضم نہیں ہوئی تھی۔

"پر اب اُسکا پالا میرے ساتھ پڑا ہے نازر اعوان کے ساتھ،اور میں بخوبی جانتا ہوں کہ اپنی بل میں چھپے سانپ کو کیسے باہر نکالنا ہے،ایک دفعہ وہ میرے پر کُھل جائے پھر کیس بنانا اور اُسے اندر کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کی آنکھوں میں بدلے کی آگ صاف دکھائی دے رہی تھی۔

"سر اُس نے کیا کیا ہے ویسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے اور نہ تمہارے لیے جاننا ضروری ہے،تُم بس اتنا کرو کہ جن سیاسی پارٹیوں کو وہ فنڈ دیتا ہے وہ کونسی ہیں تا کہ پتہ چلے اُن سے وہ کونسے کام نکلواتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

نازر اعوان اُٹھتے ہوئےکچھ نیلے نوٹ اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتا ہوٹل سے باہر نکل گیا۔

!__________________________________________! 

وہ غائب دماغی کے ساتھ کلاس روم میں بیٹھی پینسل سے لکیریں کھینچتی سب سے لاتعلق تھی کہ اُسکے ساتھ بیٹھی اُسکی دوست حرا نے دوسری بار اُسے ٹہوکا دیا۔

"کہاں گم ہو آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آں،ہاں،کہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بوجھل دل کے ساتھ گہری سانس بھر گئی۔

"مجھے لگا شاید اُس ہینڈسم کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حرا کی معنی خیز بات پر وہ نہ سمجھی سے دیکھنے لگی۔

"کون ہینڈسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

"ارے وہی جو اُس دن کالج کے گیٹ پر تھا تمہارے ساتھ،تمہارا منگتیر ھادی اور کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حرا کی بات پر وہ بھونچکی سی اُسے دیکھنے لگی۔

"وہ_نہیں وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ویسے بہت زیادہ خوش قسمت ہو کہ تمہیں اتنا خوبصورت اور چارمنگ پرسنالٹی کا منگیتر ملا اور اُوپر سے لونگ اور کیرنگ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حرا اپنے ہی دھیان میں بولی جا رہی تھی وہ بار بار کچھ کہنے کو لب وا کرتی پھر چپ ہو جاتی اُس کے خاموش ہونے کے بعد وہ بولتی کہ پرنسپل کے آفس میں اُس کا بلاوا آ گیا۔

"میڈم نے مجھے کیوں بُلایا۔۔۔۔۔۔۔"خود سے کہتی اور سوچتی وہ پرنسپل رخشندہ کے آفس میں داخل ہوئی۔

"جی،آپ نے بُلایا،میڈم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے کہنے پر میڈم رخشندہ نے اسکی طرف دیکھا۔

"ہاں وہ باہر آپ کے ڈرائیور آئے ہیں،آپ کے گھر سے کال آئی تھی کہ آپ کے گھر مہمان آ رہے ہیں سو آپکی ہاف چُھٹی منظور ہو گئی ہے،آپ جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"میڈم کی بات پر اُس کا دھیان مہ پارہ بیگم کی طرف گیا جو صُبح اسے اطلاع دے رہی تھیں۔

"اوہ تو وہ لوگ آج ہی آ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دلگرفتگی سے وہ بیگ اُٹھائے گیٹ کی طرف چل دی۔

باہر آ کر دیکھا تو ڈرائیور یا گاڑی کہیں دکھائی نہ دی وہ کچھ پریشان سی ہوتی ادھر اُدھر دیکھنے لگی تبھی ایک بلیک گاڑی کھڑی نظر آئی۔

"یہ تو ہماری گاڑی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر نفی میں ہلاتی واپسی کے لیے قدم موڑے کہ اپنے پیچھے کھڑے اُس چھ فٹ سے نکلتے قد والے برزل ابراہیم کو دیکھ کر دل اُچھل کر نہ صرف حلق میں آ رُکا تھا بلکہ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے اٹک گیا تھا۔

"یقننا بُرا تو بلکل نہیں لگا ہوگا مجھے یہاں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے دلچسبی سے اس کے تاثرات جانچنے لگا۔

"میں_میں نے،یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے خُشک لبوں پر زبان پھیرتی اپنا انگوٹھی والا ہاتھ آگے کر گئی جیسے کہہ رہی ہو کہ میں نے رنگ پہن لی ہے اب کیا لینے آئے ہو۔

"نائس۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے رنگ کو اپنے ہاتھوں کی دو پوروں سے چھو کر سراہا تھا جو جلدی سے نہ صرف اپنا ہاتھ پیچھے کر گئی بلکہ خود بھی دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔

"ویل،گاڑی میں چلنا زرا،مجھے تم سے کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکی گھبراہٹ کا جائزہ لیتا بے نیازی سے بولا۔

"نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ قطعیت سے انکار کر گئی مگر اس کے دیکھنے پر جلدی سے وضاحت دینے لگی۔

"وہ،مجھے گھر_جانا ہے،وہ میرا،ڈرائیور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں نے ہی بلوایا ہے تمہیں،تمہارا ڈرائیور ٹھیک ایک گھنٹے بعد اپنے ٹائم پر ہی آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ حیرت کے شدید جھٹکے کے زیر اثر اُسے دیکھنے لگی۔

"آ،آپ،آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خود کو کوسنے لگی کہ گیٹ سے باہر ہی کیوں نکلی پہلے ڈرائیور کی نشانداہی تو کر لیتی مگر وہ فاریسہ اعوان تھی سب کے حکم پر سر خم کرنے والی اتنی سمجھداری کا مظاہرا کیسے کر سکتی تھی۔۔

"اب چلو گی کہ مجھے تمہارا ہاتھ پکڑ کر یا بازو سے کھینچ کر زبردستی گاڑی میں لے جانے کی دھمکی دینی ہو گی،اگر ایسا ہی کوئی سین کریٹ کرنا چاہتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے اپنے ازلی لاپرواہی والے انداز میں کندھے اُچکائے تھے جبکہ فاریسہ سر نفی میں ہلاتی قدم بڑھا گئی اور اپنے دھک دھک کرتے دل کو قابو میں کرتی کن انکھیوں سے کالج کے گیٹ کی طرف دیکھنے لگی جو بند ہو چُکا تھا پھر سڑک کی دفعہ دیکھا جہاں اس وقت اُکا دُکا گاڑیاں گزر رہی تھیں وہ اس سے بچنے کے لیے کُچھ بھی نہیں کر سکتی تھی سوائے رونے کے اور اُس نے ویسا ہی کیا تھا اُسکی آنکھوں میں پانی اکھٹا ہونے لگا تھا وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی اُس کے سامنے بے بس ہو گئی تھی۔

گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا گیا تھا وہ بیگ سمبنھالتی اندر بیٹھ گئی اندر بیٹھنے پر اُسے اندازہ ہوا وہ کوئی کار نہیں تھی بلکہ آمنے سامنے سیٹوں والی کوئی اور ہی گاڑی تھی جس کی سیٹوں کے درمیان ایک ٹیبل تھا جس میں دو تین قسم کے کھانے تھے اپنے ڈر،اپنی بے بسی سے آنکھوں میں آ جانے والے آنسوؤں کو صاف کرتی وہ یہ نہیں دیکھ سکی تھی کہ دو آدمی فرنٹ سیٹس سے اُٹھ کر جا کر باہر کھڑے ہو گئے تھے۔

"اصل میں مجھے لنچ کرنا تھا تو میں نے سوچا کیوں نہ تمہارے ساتھ کیا جائے،دوسرا شکریہ بھی تو وصول کرنا تھا اس ادنی سی چیز کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ رنگ کی طرف اشارہ کرتا پانی کی بوتل منہ سے لگا گیا۔فاریسہ کا دل کیا کہ وہ رنگ اُتار کر اس کے منہ پر دے ماڑے مگر وہ ایسا کر نہیں پائی تھی کیونکہ اُس کے اندر ایسا کرنے کی ہمت نہیں تھی اسلیے تو اپنی کم ہمتی پر آرام سے آنسو بہانے لگی تھی۔

"تمہیں لگتا ہے کہ مجھے تمہارے ان آنسوؤں سے فرق پڑے گا،بلکل نہیں میرا اور تمہارا ایسا کوئی رشتہ نہیں کہ تم آنسو بہاؤ اور میں کہوں کہ مت رو تمہارے آنسو میرے دل پر گڑ رہے ہیں،سو یہ صاف کرو اور سکون سے کچھ باتیں سُنو اور چلی جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کی طرف ٹشو پیپر بڑھایا جسے فاریسہ نے مرے مرے ہاتھ سے تھام کر آنسو صاف کرنے لگی جو اس کھٹور کی باتوں پر بلاوجہ ہی آئے جا رہے تھے۔

"لنچ کرنا ہے تو کر لو،ویسے بھی رات کا کھانا بمشکل ہی ہضم ہوگا تمہیں،کیونکہ میں تمہارے لیے رات تک ایک سپرائز پلان کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کانٹے اور سپون کی مدد سے سیلڈ کھاتا وہ فاریسہ کا دم خشک کرنے لگا۔

"مجھ سے شادی کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جو ابھی اُسکی پہلی بات پر سوچ میں پڑ گئی تھی اب تو ششدر آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھ رہی تھی جو اتنی بڑی بات کہنے کے بعد بھی پُرسکون سا کھانا کھا رہا تھا۔

"تمہارے بابا سے بات کرنے سے پہلے میں نے سوچا تم سے پوچھ لوں،کیونکہ کل کو میں یہ نہیں سُننا چاہتا کہ مجھ سے کسی نے میری مرضی ہی طلب نہیں کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شاید اسے اپنی باتوں سے ختم کرنا چاہتا تھا اس لیے باتوں کے تیر چلاتا گیا یہ دیکھے بنا کہ اگلا بندہ مرنے کے قریب ہو چلا تھا۔

"نہیں،نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پھر سے اُسکی آنکھوں سے جیسے سیلاب اُتر آیا تھا۔

"بابا مار دیں گئے مجھے،بابا،نہیں،پلیز مجھے معاف کر دیں،یہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آگے کا سوچ کر ہی دھل گئی تھی وہ جانتی تھی کہ یہ سُننے کے بعد اُسکا باپ اُس کے منہ سے صفائی کا ایک لفظ بھی نہیں سُنے گا۔

اُس کے سفید پڑتے چہرے کی طرف دیکھ کر برزل نے کھانے سے ہاتھ روکا اور اب کی بار کچھ نرم لہجے میں گویا ہوا۔

"تم فکر نہ کرو، جس  طرح میں رشتہ طلب کرونگا تمہارے بابا تمہیں ماریں گئے نہیں بلکہ تمہیں محفوظ کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی تسلی پر وہ مسلسل سر نفی میں ہلا رہی تھی۔

"میری شادی ہونے والی ہے،میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں تو یہی تو کہہ رہا ہوں کہ تیار ہو جاؤ تمہاری شادی ہونے والی ہے،دو دن دے رہا ہوں تمہیں،تیسرے دن آ جاؤنگا تمہیں رُخصت کروانے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دھماکے پہ دھماکہ کیے جا رہا تھا بنا سوچے کے سامنے والے میں اتنی ہمت ہےکہ وہ ان دھماکوں کے اثرات کو برداشت کر سکے فاریسہ کے ابھی سے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے وہ زرد چہرہ لیے برزل ابراہیم کی طرف رحم کی اپیل کرتی نظروں سے دیکھنےگی وہ اسے نہیں بتا سکتی تھی کہ وہ اس سے ہرگز شادی نہیں کرنا چاہتی اور وہ اپنے باپ کو بھی جانتی تھی کہ وہ اس کو مارنے میں ایک پل بھی نہیں سوچیں گئے۔۔

"اب تمہیں جانا چاہیئے کیونکہ ٹائم ہو گیا ہے تمہارے ڈرائیور کے آنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتا دوسری اس پر ڈالی جو سفید یونفارم میں سفید ہو گئی تھی۔

"اب تین دن بعد تم سے ملاقات ہو گی،فاریسہ اعوان سے نہیں فاریسہ برزل ابراہیم سے،تب تک کے لیے اللہ حافظ۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے نکلتے ہی وہ بولا اور دور کھڑے آدمیوں کو اشارہ کرتا بلیک چشمہ آنکھوں پر چڑھاتا ایزی ہو کر بیٹھ گیا۔

فاریسہ مرے مرے قدموں سے کالج کے گیٹ کی طرف بڑھتی اپنی زندگی کے آخری پلوں کو محسوس کرنےگی۔

!__________________________________________!

"سر برزل ابراہیم آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس ایچ او نسیم کی آواز پر نازر اعوان نے چونک کر سر اُٹھایا تھا۔

"بھیجو اُسے اور ہاں دروازے پر ہی رہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نسیم کو کہتا وہ اپنا پسٹل نکال کر ٹیبل پر رکھ گیا تبھی دروازہ کُھلا اور بلیک جینز پر گرے ٹی شرٹ پر بلیک لیدر کی جیکٹ پہنے وہ اپنی بھرپور مردانہ وجاہت لیے اسکے سامنے تھا۔

"سلامتی تو آپ پر بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی سلامتی نہیں چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتا وہ مُسکرا کر بولا۔

"آپ کے گھر میں بنا اجازت گھسا تھا جو آپ کو کافی نا قابل قبول لگا اس لیے آپ کے تھانے میں اجازت سے آیا ہوں یقیننا یہ بھی اچھا تو بلکل نہیں لگا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے پُرسکون نظروں سے نازر اعوان کے غصے سے سُرخ ہوتے چہرے کی طرف دیکھا۔

"یہ تو ماننا پڑے گا برزل کہ باپ بیٹی میں ایک چیز کامن ہے وہ ہے مجھے دیکھ کر چہرہ لال کرنا،وہ ڈر کی وجہ سے اور یہ غصے کو ضبط کرنے کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے سر جھٹکا۔

"یہاں آنے کا مقصد۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ایک زاتی کام سے آیا ہوں،ویسے ملاقات تو گھر میں کرنی چاہیئے تھی مگر وہ کیا ہے نہ اس بار میں زرا بے ادبی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے اتنا ہلکا نہ لو لڑکے ورنہ اس بار کی غلطی آخری غلطی بن جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کے لہجے میں اور آنکھوں میں صاف نفرت دیکھی جا سکتی تھی۔

"وہ تو آپ لے رہے ہیں مجھے،یہ جو آپ کے مخبر میرے خلاف کچھ جاننے کی،کچھ تلاشنے کی غلطی کر رہے ہیں تو میں بتا دوں کہ وہ اپنا ٹائم ویسٹ کر رہے ہیں،کیونکہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے بولتے ہوئے دیوار پر لگے کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور اپنی بات مکمل کی۔

"کیونکہ میں ایک نہایت شریف آدمی ہوں اور شریفانہ طور پر چھوٹا سا کاروبار کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم فکر نہ کرو برزل ابراہیم ثبوت ملے نہ تو ثبوت بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا ہمارے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان تلخی سے بولا۔

"اچھی بات ہے،بہت اچھا لگا سُن کر،مطلب کافی مزہ آنے والا ہے سپاہی اور شریف آدمی کی لڑائی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی مرضی کے مطابق جملے کو ڈال گیا۔

"ویل اس وقت مجھے ایک اور کام سے آنا پڑا،اگر میرے گھر میں مجھ سے کوئی بڑا ہوتا تو وہ آتا مگر وہ کیا ہے نہ کہ گھر میں،میں ہی بڑا ہوں سو مجھے ہی آنا پڑا آپ سے آپکی بیٹی کا ہاتھ مانگنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے آخری الفاظوں نے نازر اعوان کے دماغ کو جھٹکا دینے کے بعد جھنجنا کر رکھ دیا تھا۔

"تم،تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ کہنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان اپنی سیٹ سے اُٹھتا کھا جانے والے انداز میں چلایا تھا۔

"ٹیک اٹ ایزی،ریلیکس میں بھی تو ہوں نہ جو تم سے رشتے داری کرنے لگا ہوں مگر صرف نکاح ہونے تک پھر تمہارا اور میرا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اس سے پہلے کہ میں تمہیں یہی مار دوں میری نظروں کے آگے سے دفعہ ہو جاؤ اور میری بیٹی کے بارے میں اب ایسا سوچنا بھی مت۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے اُسے قہر بھری نگاہوں سے گھورا تھا جو ریلیکس انداز میں اُٹھ کھڑا ہوا۔

"تمہاری بیٹی کے بارے میں ایسا نہیں سوچ رہا،اُسے تو میں ٹھیک سے جانتا بھی نہیں بلکہ دیکھا بھی نہیں غور سے،یہ سب تو میں تمہارے لیے کر رہا ہوں تا کہ داماد بن کر میں تمہارے قریب آ سکوں اور تم میرے بارے میں جاننے کے لیے یوں یوں ٹکے ٹکے کے لوگوں کے سامنے پیسہ نہ پھینکو اس لیے تیار رہنا پورے تین دن بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہہ کر وہ جانے لگا پھر کچھ یاد آنے پر پلٹا جو آگ برساتی نگاہوں سے اسے دیکھتا 

اپنے اشعتال کو قابو میں کیے ہوئے تھا۔

"میں نے سُنا تھا کہ پولیس والے اپنے دامادوں کی بڑی عزت کرتے ہیں،پر تم نے بتا دیا کہ میں نے ٹھیک سُنا تھا مگر اُمید غلط بندے سے لگا لی،تین دن بعد ملاقات ہو گی بائے سُسر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دل جلانے والی مسکراہٹ اُچھالتا وہ نکل گیا نازر اعوان نے غصے سے ٹیبل پر پڑا گلاس زمین پر دے مارا۔

"تمہارا کوئی علاج کرنا پڑے گا بہت جلد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان موبائل ہاتھ میں لیے اپنے آفس سے نکلا۔

!__________________________________________!

وہ رات تک پریشان اور بے فکر رہی تھی اُسے رہ رہ کر برزل ابراہیم کی دیدہ دلیری پر غصہ آرہاتھا اور اپنی شامت آنے کا اتنا خوف طاری ہو گیاتھا کہ وہ کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ چکر لگاتی مسلسل دُعائیں مانگ رہی تھی اور نازر اعوان کے ردعمل کا سوچ سوچ کر اُسکا دل بیٹھا جا رہا تھا۔

"چھوٹی بی بی آپکو بڑے صاحب اپنے کمرے میں بُلا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی سوچوں میں اس قدر محو تھی کہ انجم کے آنے پر چونکی اور اُسکے پیغام پر دم سادھے اُسے دیکھنے لگی جیسے وہ اُسکی لیے موت کاپروانہ لے کر آئی ہو۔

"بابا،بابا نے،کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دھک دھک کرتے دل کی رفتار کو قابو میں کرتی پوچھنے لگی جو کندھے اُچکا کر چلی گئی۔

"اوہ تو برزل ابراہیم تم نے میری موت کا سامان تیار کروا دیا،مطلب میرا آج آخری دن تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے کمرے پر نگاہ دوڑاتی وہ آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو اپنے اندر اُتارتی بوجھل دل لیے نازر اعوان کے کمرے کی طرف چل دی۔

"میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی برزل ابراہیم،مر کے بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"اس لمحے اُسے برزل ابراہیم سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔

"جی،جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُن کے کمرے میں بیٹھے سب لوگوں پر نگاہ دوڑاتی وہ ہاتھ مسلتی نم آنکھیں مہ پارہ پر جمائے بولی جو پریشان اور فکرمند نظر آ رہی تھیں۔

"تمہارا پرسوں نکاح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کی اطلاع پر وہ بھونچکی سی اُن کو دیکھتی رہ گئی وہ تو کسی اور الفاظ کی توقع کر رہی تھی۔

"کل سے تم کالج نہیں جایا کرو گی،بلکہ پرسوں تک اس گھر سے باہر پاؤں بھی نہیں رکھنا،کچھ مخالف لوگ تعاقب میں ہیں اس لیے پرسوں ہادی کے ساتھ نکاح ہے تمہارا اور رُخصتی کچھ دن بعد۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے بات ختم کرکے اُسے جانے کا اشارہ دے دیا اُن کے کمرے سے نکلتی وہ حیران و پریشان تھی اور سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ بچ کیسے گئی۔

"فکرنہ کرو جس طرح میں رشتہ طلب کرونگا تمہارے بابا تمہیں ماریں گئے نہیں بلکہ محفوظ کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے الفاظ اُس کے کانوں میں گونجے تھے وہ گہرا سانس بھر گئی۔۔۔

بابا اُسکا فاریسہ سے شادی کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے جانے کے بعد احسن نے سوال کیا بلکہ سب ہی اسی اُلجھن میں تھے اُن کو بھی برزل ابراہیم کے اس اقدام کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

"وہ صرف اپنے خوف میں مبتلا کرنا چاہتا ہے مجھے،وہ چاہتا ہے کہ میں اُس سے ڈر جاؤں اور اُس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کروں ورنہ اس کے علاوہ اور اُسکا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو بھائی صاحب آپ کیوں اُس سے دُشمنی لے رہے ہیں؟جو اُس رات ہمارے گھر میں آ گیا اب شادی کا کہہ رہا وہ تو کچھ بھی کر سکتا ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" تنزیلہ بیگم جو اس سارے عمل سے کچھ خوفزدہ ہو گئیں تھیں نازر اعوان سے بولیں مگر اُن کے چہرے پر برہمی کے آثار دیکھ کر خاموش ہو کر اپنے شوہر کی طرف دیکھنے لگیں جو اُنکو چپ رہنے کا اشارہ کر رہے تھے۔

"وہ سوائے ڈرانے دھمکانے کے اور کچھ نہیں کر سکتا ہے،جب تک میں ہوں آپ لوگوں کو خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ لوگ بس کل تک جو کچھ ضروری ہے وہ کریں میں نے ھادی سے بات کر لی ہے اُنکو کوئی مسلہ نہیں ہے کل نکاح کرنے میں،وہ دس لوگ آئیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کی بات مکمل سُن کر مہ پارہ بیگم اُٹھ کھڑی ہوئیں۔

"آپ جو کہے گئے وہ ہو جائے گا مگر اس بات کا خیال رکھیے گا کہ اس مجرم کے چکر میں میری اولاد کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتے ہوئے چلی گئیں نازر اعوان نے پُرسوچ نگاہیں دیوار پر ٹکا دیں اب انکو کوئی مضبوط حکمت عملی کرنی تھی۔

!____________________________________________!

وہ گھر آیا تو سلیمان اور حیدر اُسے ہال میں بیٹھے ہی مل گئے وہ اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ کینسل کرتا ان دونوں کی طرف پلٹ آیا۔

"ہم آپکا کب سے ویٹ کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔!حیدر اسے دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔

"خیریت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سامنے صوفے پر ٹک کر ہاتھ میں پکڑا موبائل صوفے پر رکھ گیا۔

"ہاں وہ مجھے شاپنگ پر جانا تھا،سلیمان بھائی کے ساتھ ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے دیکھنے پر وہ جلدی سے سلیمان کی طرف اشارہ کر گیا جس پر سلیمان مسکرایا۔

"ہاں ضرور جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بولتا سلیمان کو تو نہیں حیدر کو ضرور حیران کر گیا۔

"مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے مگر پر وہ سانس روک گیا۔

"اپنی آنکھیں کُھلی رکھا کرو حیدر،اس ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو میری کمزوریوں کی تلاش میں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ تم میری کمزوری بنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی آپ فکر نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مضبوط لہجے میں بولا برزل ابراہیم نے سر ہلایا۔

"کل دوپہر کو تم دونوں مجھے تیار ملو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھتا ہوا دونوں سے مخاطب ہوا۔

"کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے پوچھا۔

"بارات لے کر جانا ہے ایس پی کے گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آرام و سکون سے بولتا موبائل ہاتھ میں پکڑتا اُن دونوں کے حیران چہروں پر نظر دوڑاتا سیڑھیاں چڑھ گیا جبکہ وہ حیرت کے شدید جھٹکوں سے نکلتے اب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے کہ کیا جو انہوں نے سُنا اُسکا وہی مطلب تھا جو وہ سمجھ رہےتھے۔

!___________________________________________!

فاریسہ وائٹ فراک اور چوڑی دار پاجامے میں وائٹ ڈوپٹہ بائیں کندھے پر ڈالے اور سُرخ کامدار ڈوپٹہ سر پر لیے ہلکے پُھلکے میک اپ اور جیولری میں بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی کہ سامنے صوفے پر بیٹھے ھادی کی نگاہیں مسلسل اس کے ارد گرد ہی گھوم رہی تھیں جبکہ فاریسہ اس کی نگاہوں کے تاثر سے بے نیاز آنے والے وقت کے بارے میں سوچتی پریشان ہو رہی تھی بے اختیاری میں وہ بار بار اُنگلی میں پہنی گئی برزل ابراہیم کی انگوٹھی کو گھما رہی تھی وہ برزل ابراہیم کو زرا پسند نہیں کرتی تھی بلکہ یہ کہنا سہی ہوگا کہ اُس کے خوف کے زیر اثر وہ آج تک یہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی کہ وہ اُسے نا پسند کرتی ہے کہ نفرت؟

"احسن مہمان آ چُکے ہیں تمہارے بابا کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

مہ پارہ بیگم احسن کے قریب آئیں۔

"مما،بابا زرا سیکیورٹی سسٹم چیک کرنے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی،آخر ہو کیا رہا ہے تمہارے بابا یہ تو کہتے ہیں کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں وہ دھمکی دے رہا ہے پھر یہ سب کیوں کر رہے ہیں،رشتے دار کتنی باتیں بنائیں گئے آخرکار وہ بھی تو سب محسوس کررہے ہیں نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم فکرمندی سے گویا ہوئیں کیونکہ وہ لوگوں کے طرح طرح کے سوالات کےجواب دے دے کر تنگ آچُکی تھیں۔

"مما پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،بابا پولیس میں ہیں اورسب کو پتہ ہے کہ جب بھی کوئی پولیس والا کسی مجرم پر ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ اسطرح کی دھمکیاں ہی دیتے ہیں،بابا تو بس نکاح کر کے اس دھمکی کے اثر سے نکلنا چاہتے ہیں،وہ آ گئےبابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"احسن کے نرمی سےکہنے پر مُسکرائیں پھر اُس کے نازر اعوان کی طرف اشارہ کرنے پر اُس طرف متوجہ ہوئیں جہاں نازر اعوان اور شاہ زر اعوان آ رہے تھے۔

"مہمانوں کی ریفریشمنٹ کا بندوبست کریں مولوی صاحب عصر کی نماز ادا کر کے آئے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے مہ پارہ بیگم سے کہا۔

"جی میں نے کہہ دیا ہے انجم کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک نظر ہال میں بیٹھے مہمانوں پر ڈال کر وہ فاریسہ کی طرف بڑھیں جو کچھ پریشان سی لگ رہی تھی اُن کے لاکھ دلاسے تسلیوں کے باوجود وہ اپنے ڈر سے نکل نہ پا رہی تھی اور آگے کیا ہوگا یہی سوچ کر پریشان ہو رہی تھی اس گھر میں بس فاریسہ اعوان ہی تھی جسے پورا یقین تھا کہ وہ آئے گا کیونکہ ان تین ملاقاتوں میں وہ اتنا تو اسے جان پائی تھی۔

"مسٹر ہادی کیا آپ اپنے موبائل کا سپیکر آن کر کے میرا پیغام سب تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ھادی نے کسی انجانے نمبر سے کال یس کرکے موبائل کان سے لگایا تھا کہ دوسری طرف سے ایک مسکراتی آواز پر اُس نے اپنی آنکھوں پر لگے نظر کے چشمے کو ہاتھ کے انگوٹھے سے درست کرتا پوری اعوان فیملی پر نظر دوڑانے لگا جو سب بھی اسے کچھ پریشان سا دیکھ کر کچھ نہ کچھ معاملہ سمجھ گئے تھے۔۔

"سپیکر آن کرو ہادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اعوان ہاوس کے سب سے بڑے بیٹے ایس پی نازر اعوان کے کہنے پر ہادی نے سپیکر آن کیا۔

"میں نے سُنا ہے یہاں نکاح کی تیاریاں چل رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف سے آتی آواز پر ایک دفعہ سب ساکت ہوئے تھے کہ اسے پتہ کیسے چل گیا وہ تو سب چوری کر رہے تھے اُس کے دیے گئے ٹائم سے ایک دن پہلے۔

"آپ لوگ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ مجھے پتہ کیسے لگ گیا تو اس کے لیے اتنا ہی کہنا چاہونگا کہ فاریسہ اعوان میری ہے تو جو میرا ہو جاتا ہے اُسکو نظر میں رکھنا اور اُس پر نظر رکھنا مجھے بخوبی آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکے مسکراتے لہجے پر فاریسہ کے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔

"تمہاری یہ بھول جلد ختم ہو جائے گی برزل ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار شاہ زر نے مظبوط لہجے میں کہتے ہوئے احسن اور قمر کو کو مولوی کو جلد لانے کا اشارہ کیا تھا وہ سمجھ کر سر ہلاتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"مجھے خوشی ہوئی یہ سب جان کر کہ آپ لوگوں نے خود ہی سارے انتظامات کروا لیے نکاح کے اب بس دولہے کی مطلب کہ میرے آنے کی دیر ہے تو وہ آپ فکر نہ کریں مولوی کے آنے تک میں بھی حاضر ہو جاؤنگا اچھا ہے میرا اور فاریسہ کا نکاح اُس کے اپنوں کے درمیان ہو تا کہ وہ مجھے بعد میں یہ تانہ نہ دے سکے کہ میں نے اُس کے اپنوں کے سامنے اُسے اپنے نام نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جیسے جیسے وہ بولتا جا رہا تھا سب کے سانس بیٹھے جا رہے تھے فاریسہ نے تو اپنے ساکت دل پر ہاتھ رکھ کر یہ یقین کیا تھا کہ دل کے ساکت ہو جانے پر بھی وہ سانس کیسے لے پا رہی تھی۔

"فاریسہ میری زندگی اچھے سے تیار ہونا اور وائٹ ڈریس پہننا کیونکہ وائٹ کلر میرا فیورٹ کلر ہے جو تم پر بہت سُوٹ کرتا ہے، اوکے پھر ملتے ہیں ایک گھنٹے بعد تمہیں مسز برزل ابراہیم بنانے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی جان نکالتا وہ کھٹاک سے فون رکھ گیا ہادی نے اپنے چہرے پر آیا پسینہ صاف کیا اور سب کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب کیا کرنا ہے؟ 

"بابا،مماپلیز بچا لیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ روتی ہوئی مہ پارہ بیگم کے سینے سے جا لگی جنہوں نے ڈبڈائی آنکھوں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔

"ہم برزل ابراہیم کو اتنی آسانی سے جیتنے نہیں دیں گئے اُس نے ایک گھنٹے بعد آنے کا کہا ہے نہ تو اچھا ہے ایک گھنٹہ آنے کے بعد وہ فرایسہ اعوان سے نہیں فاریسہ ہادی سے ملے گا، جلدی نکاح خواں کو بلاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہ زر اعوان کے بولنے پر جہاں باقی سب کے چہرے پر اُمید کی کرن آئی وہی ہادی نے اپنے خُشک لبوں پر زبان پھیر کر اپنی عینک کو درست کیا تھا۔

!___________________________________________!

"مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ برزل بھائی شادی کرنے جا رہے ہیں اور ہم بارات لے کر جا رہے ہیں ایس پی کے گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر جسکا دماغ برزل ابراہیم کے احکامات سے سُن ہو چُکا تھا اپنے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے سلیمان سے بولا جس نے کندھے اُچکائے تھے۔

"میں بھائی کے فیصلوں پر کبھی اتنا حیران نہیں ہوا جتنا اب ہوا ہوں کیونکہ مجھے اس فیصلے کے پیچھے چھپے مقصد کی کوئی سمجھ نہیں آ رہی،بھائی کے لیے ایس پی ایک معمولی پریشانی ہے مگر اتنا بڑا قدم کیوں اُٹھا رہے ہیں کچھ معلوم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی بات پر حیدر گہری سانس بھر کررہ گیا اور ایس پی کے بنگلے کے آگے گاڑی روک دی۔

دوسری طرف نازر اعوان مسلسل بڑھتے غصے کو قابو میں کرتا ادھر سے اُدھر ٹہلتا احسن اور قمر کا انتظار کر رہا تھا جو ابھی تک نہیں آئے تھے۔

"کہاں رہ گئے یہ لڑکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"موبائل پر اُنکا نمبر ملاتا وہ پریشان ہو اُٹھا تھا جو کہ مسلسل بند جا رہا تھا۔

"آپ لوگ یقیننا ہمارا ہی انتظار کر رہے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی آواز پر وہ سب چونک کر ہال کے دروازے کی طرف دیکھنے لگے تھے جہاں بلیک پینٹ پر وائٹ بٹن ڈاؤن شرٹ اور بلیک کوٹ پہنے  اپنی مردانہ وجاہت لیے وہ سب کے سانس روک گیا تھا فاریسہ نے اپنے سفید پڑتے چہرے اور ڈبڈائی آنکھوں کے ساتھ مہ پارہ بیگم کی طرف دیکھا جو خود جامد تھیں۔

"تم،تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی،سیکیورٹی،دفعہ ہو جاؤ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان حیرانگی سے نکلتا چلا اُٹھا تھا۔

"ہمت؟ابھی بھی آپکو میری ہمت کا اندازہ نہیں ہوا سُسر جی۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کے سُرخ چہرے پر مسکراتی نگاہ ڈالتا وہ اُسے مزید تپا گیا تھا۔

"تم نے ہماری ہمت دیکھی نہیں ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔"حسنین نے آنکھیں نکالیں تھی جس پر سلیمان غصے سے اس کی طرف بڑھنے لگا مگر برزل نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

"میں کہہ رہا ہوں دفعہ ہو جاؤ ورنہ یہ دن تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پسٹل نکال کر برزل ابراہیم پر تان گیا جو مسکرا رہا تھا سلیمان اور حیدر نے پسٹل نکال کر ایس پی کی طرف تانے تھے جس پر فاریسہ کی چیخ نکل گئی برزل ابراہیم نے اُس ڈری سہمی ہرنی کی طرف ایک خاص نگاہ ڈالی جو کہ آنکھوں میں آنسو لیے اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔

"نیچے کرو پسٹل،یہ کیا طریقہ ہے سلیمان؟وہ میرے سسر جی ہیں کیا مجھے اتنا بے ادب سمجھا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مصنوعی خفگی سے اُنکو کہتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا صوفے کی طرف آیا اور آ کر بیٹھ گیا۔

"وہ آ گئے مولوی صاحب،نکاح شروع کریں کیونکہ مجھے اتنی دیر کسی کے گھر بیٹھنا پسند نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مولوی کو پاس آنے کا اشارہ کرتا وہ شاہ زر اعوان سے مخاطب ہوا۔

"اور مجھے تمہیں اپنے گھر بٹھانے کا شوق بھی نہیں ہے،میں نہیں جانتا کہ تم کیسے میری سیکیورٹی کو چکما دے کر میرے گھر میں گھس آئے مگر میں اتنا ڈرپوک نہیں کہ تمہاری اس گھٹیا بات کو مان لونگا،مجھے اس وقت تمہیں مارنا بھی پڑا تو مار دونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس پی نازر کی آنکھوں میں نفرت اور غصے کی چنگاریاں صاف دیکھی جا سکتی تھیں۔

"جی جانتا ہوں میں،اور یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ لوگ یہ نہیں چاہے گئے کہ میری وجہ سے میرے دو سالے مارے جائیں،اب اس سب میں احسن اور قمر کا کیا قصور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے منہ سے نکلتے الفاظ سب کو ساکت کر گئے ماسوائے اُن تینوں کے جن کے چہروں پر خون جلا دینے والی مسکراہٹ تھی۔

"احسن۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کی آنکھوں سے آنسو چھلکے تھے اور فاریسہ تو بس مرنے کے قریب تھی۔

"کہاں ہے میرا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔"تنزیلہ بیگم چلا اُٹھیں تھیں۔

"بھائی صاحب میرے بیٹے کا اس میں کیا قصور ہے اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا نہ تو پھر دیکھیئے گا۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔"

"ریلیکس خاتون،آپ بے فکر ہو جائیں اگر آپ خوشی خوشی یہ نکاح پڑھا دیں گئے تو اُنکو کچھ نہیں ہوگا ورنہ۔۔۔۔۔۔۔"سب پر ایک نظر ڈالتا وہ رُکا تھا۔

"ورنہ شاید آپ لوگ اُنکو زندہ نہ دیکھ سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جتنا خود پرسکون تھا اُتنا ہی سب کو بے سکون کر رہا تھاپھر ایک کٹیلی نگاہ ھادی پر ڈالی جو کچھ عجیب نگاہوں سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا بلکہ کچھ کر بھی رہا تھا کیا کر رہا تھا برزل ابراہیم سمجھ کر مُسکرا دیا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم رو دیں تھیں نازر اعوان نے بے بسی سے پسٹل والا ہاتھ نیچے کیا تھا اور پھر کچھ سوچ کر موبائل پر نمبر ڈائل کرنے لگا۔

"اگر ایک کال بھی ہوئی تو اپنے بیٹوں کی زندگی مشکل میں ڈالو گئے،تمہاری کوئی کال بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ پائے گی مگر شاید کچھ ایسا ہو جائے کہ یہ دونوں خاتون برداشت نہ کر پائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مہ پارہ بیگم اور تنزیلہ بیگم کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا پھر اُٹھ کھڑا ہوا۔

"دو منٹ ہیں سوچ لیں،یا تو بیٹی مجھے سونپ دیں یا بیٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نازر اعوان کی طرف آیا تھا۔

"اگر بیٹی سونپیں گئے تو برزل ابراہیم یہ گارنٹی دے گا کہ جب تک زندہ رہونگا اُس تک کوئی پریشانی نہیں آنے دونگا،اگر بیٹے سونپیں گئے تو پھر ساری زندگی اُنکو ترسیں گئے آپ لوگ،میرے جانے کے بعد اگر آپ لوگ پورے ملک کا قانون بھی لے آئیں گئے تو آپ لوگ کبھی ثابت نہیں کر پائیں گئے کہ یہ کام میں نے کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جیبوں میں ہاتھ پھنسا کر نازر اعوان کے قریب آیا تھا۔

"کیونکہ میں ایک عام اور شریف آدمی،دن دہاڑے ایس پی کے بیٹوں کو اغوا کیسے کر سکتا ہوں بلکل بھی نہیں سُسر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" برزل کے لبوں پر بڑی جان لیوا مسکرایٹ تھرک رہی تھی جو نازر اعوان کو اندر تک جلا گئی تھی۔

"بہت پچھتاؤ گئے تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نفرت ہی نفرت تھی۔

"بلکل یہی آپ سے کہہ رہا ہوں کہ میری بات نہ مان کر بہت پچھتاؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نکاح شُروع کریں مولوی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم صوفے پر آ کر ٹک گیا اور سلیمان اور حیدر کو پاس آنے کا اشارہ کیا۔ 

کب سے خاموش تماشائی بنے مولوی نے نازر اعوان کو دیکھا جو برزل ابراہیم کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا پھر شاہ زر اعوان کو جس نے سر اثبات میں ہلا دیا تھا مہ پارہ بیگم نے کرب سے آنکھیں بند کی تھیں فاریسہ ایک آخری اُمید بھری نظر ماں باپ پر ڈالتی رو پڑی تھی ھادی نے سرد نگاہوں سے برزل ابراہیم کے فاتحانہ چہرے کی طرف دیکھا تھا اور حسنین نے اپنے باپ کی بے بسی دیکھ کر غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں تھیں۔

!___________________________________________!

 فریسہ نہیں جانتی تھی کہ اُس نے کیسے کب سائن کیے تھے وہ حواسوں میں تب آئی تھی جب برزل ابراہیم اس کے پاس آ کھڑا ہوا تھا۔

"چلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر نفی میں ہلاتی اپنی ماں کی طرف بڑھنے لگی تھی۔

"یہ کوشش نکاح سے پہلے کرنی چاہیئے تھی میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیتا وہ باہر کی جانب قدم بڑھانے لگا۔

"نہیں،مما،بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ رو دی تھی مگر برزل ابراہیم بنا پرواہ کیے آگے بڑھ بڑھتا رہا اور سلیمان اور حیدر بھی اپنا اپنا کام ختم کرتے اُس کےپیچھے چل دیے۔

"ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کو پچھلی سیٹ پر دھکیل کر وہ سلیمان کی طرف مُڑا۔

"جی بھائی،آپ کے کہے کے مطابق میں نے ایس پی کے گھر کی موبائل سروس ہیک کر دی تھی جس سے ایک گھنٹے تک وہ جس کو بھی کال کرے گا نمبر بند ہونے کا ہی جواب ملے گارڈز کو بھی نجم کا لایا گیا مشروب پلا دیا گیا جس کا اثر دو منٹ تک ختم ہو جائے گا،ھادی کے علاوہ اور کسی کے موبائل میں ویڈیو نہیں بنائی گئی اور ھادی کا موبائل سے وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر کے اُسکا سارا سسٹم ہی بلاک کر دیا ہے کہ کہیں اوربھی ہوگی تو نہیں مل سکے گی اُسے،ایس پی کے سیکیورٹی کیمرے بھی ہیکڈ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"گڈ،آ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دونوں کو کہتا وہ دوسری طرف سے آ کر فاریسہ کے ساتھ ٹک گیا جو اب آنسو روک کر خوفزدہ ہونے لگی تھی۔

"مجھے آپ کا سُسرال زرا پسند نہیں آیا،کسی نے بھی کھانے کا نہیں پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی بات پر وہ مُسکرا دیا۔

"کبھی ایسے باراتی بن کر بھی تو نہیں گئے نہ تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے فاتحانہ نظر فاریسہ کے جھکے سر پر ڈالی تھی۔

"یہ تو ہے ویسے بھابھی بہت کیوٹ ہیں پر افسوس کہ یہ میرے طرح بہت بہادر ہیں. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی بات کے پیچھے چھپے مطلب کو سمجھ کر وہ دونوں ہنس دیے۔

"یہی تو چیز یہاں تک لے آئی مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خود سےبولتا مسکرایا۔

"_________________^^^^^^^^________________"

برزل ابراہیم کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی احسن اور قمر گھر میں داخل ہوئے سب اُنکی طرف بے قراری سے لپکے۔

"میرے بچے تم ٹھیک ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"تنزیلہ بیگم بھاگ کر قمر کی طرف بڑھیں۔

"شکر ہے تم لوگ خیریت سے آ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم نے تشکر کی سانس بھری۔

"کہاں سے اغوا کیا اُس نے تم لوگوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اغوا،کس نے بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"احسن اُلجھ کر نازر اعوان کو دیکھنے لگا۔

"تم دونوں کو برزل ابراہیم نے اغوا کیا تھا نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہ زر اعوان نے دونوں کو دیکھا جو نہ سمجھی سے انکی طرف دیکھ رہے تھے۔

"کس نے کہا آپ سے؟ہمیں تو کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"قمر کی بات پر سب چونکے تھے۔

"برزل ابراہیم نے کہا کہ___تم لوگ کہاں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اصل سوال کی طرف آئے۔

"ہم مولوی صاحب کو لے کر آ رہے تھے کہ گھر سے تھوڑی دُور ایک لڑکی ہماری گاڑی سے ٹکڑا گئی،وہ کافی ذخمی ہو گئی تھی،ہم نے مولوی صاحب کو گھر بھیج دیا اور خود اُسے لے کر ہسپتال چلے گئے،اب وہ بہتر ہوئی تو ہم گھر آ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"احمق لوگو..........."نازر اعوان غصے سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔

"کیا ہوا ہے بابا،فاریسہ کہاں؟ہو گیا نکاح؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"احسن سب کے پریشان چہروں کی طرف دیکھ کر ہال میں نظریں دوڑانے لگا ہادی کی تلاش میں مگر وہ لوگ جا چکے تھے۔

"وہ میری بچی کو لے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار ہوئے۔۔

"کیا،مگر کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟احسن کو حیرت کا جھٹکا لگا جیسے نازر اعوان اپنے بیوقوف بن جانے پر حیرت زدہ تھا۔

"تم دونوں کی نالائقی کی وجہ سے،اُس نے تم لوگوں کو مارنے کی دھمکی دی تھی،تم دونوں بچے تھے کہ منہ اُٹھا کر اُس لڑکی کے ساتھ ہسپتال چل پڑے گھر میں کسی کو اطلاح تو کرتے بیوقوف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ دونوں کو ہی پیٹ دے۔

"ہم نے کالز کی تھیں مگر سب کے نمبرز بزی تھے،سو ہم نے سوچا کہ نکاح میں مصروف ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"قمر نے جواب دیا۔

"مگر تم لوگوں کے نمبر تو بند،اوہ__نہیں،ہماری موبائل سروس بند کی گئی تھی،واہ برزل ابراہیم واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان ساری گیم سمجھتا پیچ و تاب کھانے لگا۔

"کتنی آسانی سے وہ ہمیں پاگل بنا گیا،شاید وہ لڑکی وہ ایکسڈنٹ بھی اُسی کی چال تھی،اصل میں وہ اپنی کاروائی کا کوئی ثبوت چھوڑے بغیر سب کر گیا تا کہ کل کو ہم اُس کے خلاف چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان 

گہرے گہرے سانس لینے لگا۔

"بابا اُس نے ہماری بہن کے ساتھ زبردستی شادی کی ہے،ہم کیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حسنین نے نئی راہ دکھانی چاہی۔

"زبردستی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔

"جب نکاح کے وقت وہ حیدر وڈیو بنا رہا تھا تو اُس میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ہم سب نکاح میں موجود تھے اور کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ نکاح نہ ہو،اب ہم عدالت جائیں تو وہ فاریسہ کو ہمارے خلاف لے آئے گا،اُس سے کسی کام کی بھی توقع کی جا سکتی ہے،ہماری عزت پہلے ہی بہت خراب ہو چکی ہے باقی عدالتوں میں جا کر ختم کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میری بچی کا کیا ہوگا نازر،اُسے کس بات کی سزا ملی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کے رونے پر احسن اُن کے قریب آ گیا۔

"آئے گی وہ واپس،دو دن تک ہی مگر بیوہ ہو گر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سفاکیت سے کہتے وہ باہر کی طرف چل دیے۔

سلیمان نے گاڑی بی_سکائے پیلس کے پورچ میں آ کر روکی تو برزل ابراہیم ایک نظر خاموش آنسو بہاتی فاریسہ پر ڈالی پھر دروازہ کھول کر باہر آ گیا اور دوسری طرف آ کر دروازہ کھولتا اس کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا فاریسہ جو اس کی ایک نظر پر ہی خوف محسوس کرتی خود میں سمٹ گئی تھی دروازہ کُھلنے پر باہر نکل آئی۔

"چلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جو حیدر اور سلیمان کو دیکھ رہی تھی جو ان سے کافی آگے نکل گئے تھے برزل ابراہیم کی آواز پر اُسکی طرف دیکھنے لگی جو اسکے چلنے کا ہی ویٹ کر رہا تھا فاریسہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی اس کے پیچھے چلتی ہال میں داخل ہوئی جہاں ایک طرف سلیمان اور حیدر کھڑے تھے اور دوسری طرف ایک پچیس سال کی لڑکی کھڑی تھی۔

"مس زونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے پُکارنے پر وہ لڑکی ان کے پاس آئی۔

"جی سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میم کو کمرے میں لے جائیں اور انکی ہر ضرورت کا خیال رکھنا اب آپ کے زمعے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے کہنے پر مس زونا نے اپنی نم نم آنکھوں والی خوبصورت میم کو دیکھ کر سر ہلایا تھا۔

"سر،آپ کے روم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟مس زونا کچھ تذبذب کا شکار ہوئی کیونکہ برزل ابراہیم کے الفاظ نے کونسے کمرے میں لے کر جانا ہے انکی نشانداہی نہیں کی تھی۔

"مس زونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے اس کے قریب آیا۔

"جب برزل ابراہیم ان کا ہو گیا تو پھر کمرے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے،ایک کمرہ کیا یہ پورا بی_سکائے پیلس ان کو حق مہر میں دے دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے الفاظ میں اگرچہ نرمی تھی مگر اُسکا لہجہ کچھ باور کرواتا تھا جیسے اُسے مس زونا کا یہ سوال پسند نہ آیا ہو۔

"سوری سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کو بھی اس چیز کا احساس بخوبی ہو گیا تھا۔

"تم اپنے کمرے میں جاؤ آرام کرو بہت جلد ملاقات ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ فاریسہ کی طرف مُڑتے ہوئے بولا جو ایک خشک نگاہ اس پر ڈالتی سر جھکا گئی۔

"آئیے میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ چل دی وہ جانتی تھی کہ اگر وہ کوئی واویلا کرے گی تو برزل ابراہیم نے زبردستی کیا بس ایک غصے کی نظر سے ہی اسے پست کر دینا تھا وہ اب تک اتنا تو جان گئی تھی کہ برزل ابراہیم کچھ بھی کر سکتا تھا یہ جانے بنا کہ اس میں کسی کی مرضی ہے بھی یانہیں؟

"حیدر یہ اب تم پر ہے کہ تم گھر کو ایس پی کی کسی بھی بیوقوفی سے کیسے سیکیور کرتے ہو اور سلیمان اب ہمارا کام اور بھی محتاط طریقے سے ہوناچاہئیے،ذخمی گیڈر اب اور بیتابی سے ہم پر وار کرنے کی کوشش کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دونوں ایک ساتھ بولے تھے اُس نے سر ہلا دیا۔

"مجھے ایک کام نپٹانا ہے اس لیے میں جا رہا ہوں،تم لوگ خیال رکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتا ہوا وہ ایک نظر اپنے بیڈ روم کے بند دروازے پر ڈال کر باہر کی طرف ہو لیا۔

!_________________________________________!

مس زونا اسے جس کمرے میں لے کر آئی تھی وہ کہنے کو تو بیڈ روم تھا مگر اُسکی کشادگی بہت زیادہ تھی ایک طرف صوفے اور دیوان رکھ کر چھوٹے سے ڈرائنگ روم کی شکل دی گئی تھی اور دوسری طرف اسٹڈی روم کی طرز کا ایریا تھا جہاں ٹیبل اور اُس کے اوپر لیپ ٹاپ اور بہت ساری فائلز تھیں اگر اسٹڈی ایریا کے ساتھ دیکھا جائے تو گلاس ڈور تھا جس کے پیچھے ڈریسنگ روم تھا اور آگے بیڈ روم تھا رائل طرز کا شاہانہ بیڈ روم جو اپنے مالک کی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

"میم آپ فریش ہو جائے اور مجھے بتا دیں کہ آپ اس وقت کیا کھانا پسند کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کی آواز پر وہ انکی طرف مُڑی۔

"نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر نفی میں ہلا گئی۔

"میم کچھ تو کھانا پڑے گا ورنہ سر مجھ پر غصے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کی بے چارگی پر وہ ایک نظر ڈال کر رہ گئی پھر اُسے جانے کا اشارہ کرتی وہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔

"مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر ہاتھوں میں تھام گئی اُسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ زندگی اُس کے ساتھ اتنا بڑا گیم کر گئی تھی اور وہ بلکل چپ تھی۔

"مجھے یہاں نہیں رہنا،میں،میں واپس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھتے ہوئے بولی مگر پھر یکدم رُکی تھی۔

"کہاں جاؤنگی میں،وہ کہیں نہیں جانے دے گا مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے آنسو آنکھوں سے بے اختیار ہو گئے تھے۔

"کیا کروں میں؟گھر میں سب کیا کر رہے ہونگے مما،بھائی اور بابا،بابا تو بہت غصے میں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا زہن اسکے اپنوں کی طرف ہی بھٹک رہا تھا تبھی مس زونا ٹی ٹرالی لیے کمرے میں داخل ہوئی۔

"میم یہ آپ کے لیے،اب تو میں سب اپنی پسند سے لے آئی ہوں پر بعد میں سب آپکی پسند سے تیار ہوا کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کہہ کر چلی گئی فاریسہ نے ایک نظر کھانے کی طرف ڈالی پھر نہ چاہتے ہوئے بھی کھانے کی طرف ہاتھ بڑھا گئی کسی نے سچ ہی کہا ہے نیند اور بھوک انسان کو حالت جنگ میں بھی نہیں چھوڑتیں۔

!__________________________________________!

وہ وائٹ پھولوں کا گلدستہ ہاتھ میں لیے گیٹ کے پاس آ کر ُرک گیا اور کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا جہاں اُس کے آنے کا ٹائم ہو چُکا تھا سر پر رکھی ریڈ کیپ کو ہاتھ سے دُرست کرتا وہ ایک طرف کھڑا ہو گیا اور گاڑی کی ہیڈ لائٹس سے بچنے کی خاطر زرا سا رُخ موڑ لیا تھا تبھی گاڑی کُچھ فاصلے پر رُکی تھی اور اُس میں سے نکلنے والی دلاج آفندی اپنی شاہانہ چال چلتی اُس کے قریب آئی تھی۔

"آج پھر کورئیر والا کچھ لے کر آیا ہے میرے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی مسکراتی آواز پر وہ اسکی طرف مڑا جو کہ چونک گئی تھی۔

"آج بھیجنے والا خود ہی آ گیا ہے آپ سے ملنے مس آفندی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی آواز پر وہ اُس کے سحر سے نکلی تھی۔

"ابراہیم تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خوشی سے چہکی تھی۔

"لگتا ہے میری طرح آپ بھی بہت بیتاب تھیں مجھ ناچیز کو ملنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے اُس کے خوبصورت چہرے پر ایک مسکراتی نگاہ ڈالی تھی۔

"یہ تو پوچھو مت کہ میں کس قدر بے قرار تھی تم سے ملنے کے لیے ابراہیم،اگر تم نے مجھے روکا نہ ہوتا تو میں ضرور ملنے آجاتی،تمہیں نہیں پتہ میں نے کس قدر بےقراری سے یہ پانچ دن نکالے ہیں تم نے مجھے اتنا بے چین کر دیا ہے کہ اب تو بستر بھی کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ایک جذب سے بولتی اس کے قریب آ چُکی تھی برزل ابراہیم نے وہ پُھول اُس کی طرف بڑھائے جسے اُس نے ایک پیار بھری مسکراہٹ سے کسی اعزاز کی طرح تھام لیے تھے اور اُنکی خوشبو اپنی سانسوں میں اُتارنے لگی۔

"ہمیشہ کی طرح شُکریہ میری زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پیار بھری نگاہوں سے اُسے دیکھتی اُسکا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا گئی۔

"میں اب ان دوریوں کو ختم کرنا چاہتی ہوں ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی قربت کے لیے مچل رہی تھی برزل ابراہیم نے ایک مسکراتی نگاہ اُس کے حسین سراپے پر ڈالی اور اُس کے کان میں سرگوشی نما انداز میں بولا۔

"میں بھی ایسا ہی چاہتا ہوں خوبصورت ملکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو پھر دیر کس چیز کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پُرجوش ہو کر بولی۔

"اس چیز کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے ہاتھ سامنے کیا جس پر ایک چھوٹی ڈبیہ تھی۔

"یہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ حیران ہوئی

"یہ ہمارے ملن کا راستہ ہے دلاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں سمجھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُلجھن آمیز نظروں سے دیکھنے لگی۔

"یہ تمہارے نام نہاد شوہر برجیس آفندی کے لیے ہے تا کہ وہ ہمارے ملن کی رات میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اُسکی تم فکر نہ کرو میں اُسے اکثر ہی سلیپنگ پلز دیتی رہتی ہوں وہ صُبح کو ہی ہوش میں آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہی تو میں نہیں چاہتا کہ وہ صُبح بھی ہوش میں آئے،یہ پلز اُسے دو دن تک ہر چیز سے بے خبر رکھیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"دو دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ حیرت سے بولی۔

"ہاں دو دن میری جان،کیا تم سمجھتی ہو کہ تمہارے ساتھ  بس ایک رات گُزار کر ہی میرا دل مطمن ہوگا تو بلکل غلط ہے،تمہارے اس حسین اور دلکش وجود میں دو دن تو کھویا رہنے کا حق ہے نہ مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نہایت دلکشی سے بولتا اُسے نہال کر گیا وہ اُس کے سینے سے جا لگی۔

"میں تو خود چاہتی ہوں کہ تمہارے ساتھ باقی کی اپنی پوری زندگی گُزار دوں،کاش برجیس آفندی سے پہلے تم مجھے ملے ہوتے تو میں اُسکی بے پناہ دولت پر لات مار کر تمہارے پاس آنے کو ترجیح دیتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وقت تو ابھی بھی ہمارے ہاتھ میں ہے میری جان،تم بس یہ کام کرو اور مجھے اسی گیٹ پر واپس ملو،یہاں سے سیدھا ہم اُسی ہوٹل میں جائینگے جو میں نے تمہارے لیے سجایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے نرمی سے اُسے اپنے سے الگ کیا تو وہ مُسکراتی ہوئی جانے لگی پھر رُکی۔

"کہیں وہ بُڈھا اس سے مر تو نہ جائے گا اُسے پہلے ہی ہارٹ پرابلم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"فکر نہ کرو میری جان،اس کے کھانے سے بس میٹھی پُرسکون نیند آئے گی،اس میں مرنے کا چانس ایک پرسنٹ اور زندہ رہنے کا 99 پرسنٹ ہے لیکن یاد رہے یہ ملانے کے تیس سیکنڈ تک ہی اُسے پلا دینا ویسے بھی میں نے تمہارے بیڈروم کا کیمرہ دو ہفتے پہلے ہی بند کر دیا تھا تم آرام سے اُسے پلا سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے ملتے ہیں پھر بیس منٹ بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتے ہوئے چل دی تو برزل ابراہیم نے اُسکی گاڑی کے چلنے کے بعد پھولوں میں رکھا ٹریسر آن کیا پھر اپنا موبائل نکال کر برجیس آفندی کے روم کے کمیروں سے کنکیٹ کیے جہاں ساٹھ سالہ برجیس آفندی یقیننا دلاج کا ہی ویٹ کر رہا تھا۔

تقریباً پانچ منٹ بعد ہی دلاج آفندی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔

"میری جان کہاں رہ گئی تھی تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برجیس آفندی خوشدلی سے اسکی طرف بڑھا تھا۔

"تمہاری یہ جان ہی تمہاری جان لے گی فکر نہ کرو برجیس آفندی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے ایک کٹیلی نگاہ اُسکے مسکراتے چہرے کی طرف ڈالی تھی پھر کچھ دیر بعد ہی اُس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا اُس نے ایک نظر نائٹ ڈریس میں ملبوس برجیس آفندی پر ڈالی جو کہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑا بال سنوار رہا تھا دلاج نے بڑی پیار سے بیڈ پر بیٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر گلاس رکھا اور اُسے آواز دی۔

"آ جائیے نہ جان،اور کتنا انتظار کروائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دلاج کے کہنے پر وہ مسکراتا ہوا بیڈ پر آ بیٹھا تھا۔

"آج دودھ آپ میرے ہاتھ سے پیئے گئے تاکہ آپ کو آج جلدی نیند نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دلاج مدہوش کرنے والی نظروں سے دیکھتی اُسے سائیڈ ٹیبل کی طرف مڑی اور گلاس کے اندر وہ ٹیبلٹ ڈال دی۔

"اچھے بچوں کی طرح سارا ختم کرنا ہے آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی گردن میں بازو ڈالے لاڈ سے بولتی اُسے مدہوش کیے جا رہی تھی برجیس آفندی نے دودھ کا گلاس لبوں سے لگا کر ایک سانس میں ہی پی لیا خالی گلاس ٹیبل پر رکھتا وہ دلاج پر جُھکا تھا۔

سب دیکھتا برزل ابراہیم چہرے کا رُخ موڑ گیا پھر تین منٹ بعد سکرین کی طرف دیکھا جہاں اُسکی پلائی گئی دوائی اثر کر گئی تھی اور وہ بیڈ پر چت لیٹا تھا۔

"میری جان میں آ رہی ہوں تمہارے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دلاج نے موبائل پکڑ کر اسے ٹیکسٹ کیا اور کپڑے نکال کر واشروم میں گھس گئی۔

"پر افسوس میرے تک پہنچ نہ پاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے لبوں پر مُسکراہٹ تھی اُس نے برجیس آفندی کے روم کے کیمرے کو ہیک کیا جس میں یہی ویڈیو تھی وہ مسکراتا ہوا اُسے سٹارٹ کر گیا۔

دلاج آفندی واشروم سے سُرخ نازیبا لباس میں باہر آئی اور ایک مسکراتی نگاہ برجیس آفندی پر ڈالتی پرس لیے باہر نکل آئی۔

برزل ابراہیم نے اُسے کال کی جو اُس نے دوسری بیل پر ہی ریسسو کر لی تھی۔

"میری جان تم سیدھا ہوٹل چلی جانا میں وہی ملتا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی سُنے بغیر کال کٹ کی سم موبائل سے نکال کر توڑ دی اور پانی میں بہا دی۔

"اب تمہاری اُلٹی گنتی شروع دلاج آفندی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ زہرخند مسکراہٹ سے بولا اور وہاں سے چل دیا۔

!__________________________________________!

دلاج ابراہیم کے بتائے گئے ہوٹل آئی مگر وہاں ابراہیم کا نام ونشان ہی نہ تھا وہ اُسے بار بار کال ملا رہی تھی مگر اُسکا نمبر ہی بند تھا اُسکا سر اب زور زور سے چکرانے لگا تھا وہ سر میں اُٹھتی درد کی ٹھیسوں کو برداشت کرتی ہوٹل کے روم میں بیٹھ کر وہ اُسکا انتظار کرتی کرتی نیند کی وادیوں میں کھو گئی یہ اُن پھولوں کا اثر تھا جو ابراہیم سے لے کر وہ خوشی سے انکی مسکراہٹ اپنے ناک کے زریعے سینے میں اُتارتی رہی تھی۔

صُبح اُسکی آنکھ کھلی تو درد ویسے ہی ہو رہی تھی آنکھیں سُرخ ہو چکی تھیں وہ اپنے چکراتے سر کو سھنبالتی اُٹھی اور آہستہ چلتی گرتی پڑتی اپنی گاڑی تک آئی مگر سر تھا کہ پھٹا جا رہا تھا جیسے کوئی دماغ میں ہتھوڑے برسا رہا تھا وہ گاڑی میں بیٹھنے لگی کہ ایک وجود اس کے قریب آ رُکا تھا۔

"ہوش کی دُنیا کی آخری ملاقات کرنے آیا ہوں تم سے دلاج آفندی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ابراہیم کی آواز پر وہ اس کی طرف دیکھنے لگی مگر سر کی درد برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔

"ابرا،ابراہیم،میرا سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسلسل اپنے سر کو دبا رہی تھی برزل ابراہیم مسکرادیا۔

"مائے ڈئیر یہ اُن پھولوں کا کمال ہے جن کی خوشبو تم باربار اپنی سانسوں میں اُتارتی رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مطلب،تم نے کچھ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ حیرانگی سے بولی۔

"جی بلکل،یہ میرا ہی کارنامہ ہے،اصل میں تمہیں یہاں ایک خبر دینے آیا ہوں جو یقینناً تمہارے لیے صدمے کا باعث بنے گی مگر تم زرا احتیاط سے کام لینا یہ نہ ہو کہ تمہارا دماغ اس دھچکے کو برداشت نہ کر پائے اور تم وقت سے پہلے ہی اپنے ہوش و حواس گنوا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے اُسے دیکھا جو بار بار اپنا سر دبا رہی تھی اب تو اُسکی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا۔

"تمہارے شوہر برجیس آفندی اس دُنیا سے جا چُکے ہیں اور پولیس تمہیں ڈھونڈ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے چکراتے سر کو تھامتی بمشکل بول پائی تھی۔

"رات کو جو ٹیبلٹ تم نے اُسے دودھ میں ملا کر دی اصل میں وہ جان لیوا زہر تھا مس آفندی،پولیس کو سی سی ٹی فوٹیج کے زریعے آپ کا کارنامہ ملا،یہ کیا کر دیا آپ نے؟پہلے شوہر کی طرح دوسرے شوہر کی جان بھی لے لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم،تم نے کیا یہ،کیا کیا ہے تم نے میرے ساتھ،تم نے کہا تھا وہ نیند کی دوا ہے،مرنے کا چانس نہیں تھا،تم نے مجھے پھنسایا،میں بتا دونگی سب کو ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی بے حال ہوتی حالت پر رو دی تھی۔

"میں نے صرف ایک بُرے انسان کو استمال کیا ہے دوسرے بُرے انسان کے خاتمے کے لیے تا کہ دونوں کو اُنکی بُرائی سے نجات دلا سکوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم نے،آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا کہ وہ کراہ اُٹھی۔

"فکر نہ کرو بس دو منٹ تک تم اس درد سے نجات پا لو گی اور ساتھ ان تلخ حقیقتوں سےبھی،میں یہاں تم سے معذرت کرنے آیا تھا اصل میں مجھ سے غلطی ہو گئی جو کل رات تمہیں پلز دی تھیں اُن میں مرنے کا چانس 99 پرسنٹ تھا اور زندہ رہنے کا ایک پرسنٹ،مجھے یقین ہے تم اسے میری بھول سمجھ کر معاف کر دو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک آخری مسکراتی نگاہ اُس پر ڈالی جو بیہوش ہو رہی تھی برزل ابراہیم نے اردگرد دیکھا اور وہاں سے چل دیا۔

!____________________________________________!

سلیمان اور حیدر لان میں بیٹھے چائے سے لُطف اندوز ہوتے باتیں کر رہے تھے کہ گیٹ کے کُھلنے اور برزل ابراہیم کی گاڑی اندر داخل ہوتی دیکھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔

برزل ابراہیم گاڑی کو لاک کرتا ان دونوں کی طرف آ گیا۔

"کیسے ہو تم دونوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں سے کہتا کرسی گھسیٹ کر ٹک گیا۔

"بلکل ٹھیک ہیں بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے کہا اور سلیمان اُس کے لیے چائے بنانے لگا۔

"آپ کو معلوم ہے بھائی کہ برجیس آفندی مر گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی اطلاع پر وہ حیران ہوا۔

"اچھا،وہ کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اُسکی دوسری بیوی نے اُسے مارا ہے زہر دے کر،اور خود وہ فرار تھی مگر کچھ دیر پہلے اُسے پکڑ لیا گیا ہے مگر وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہے اب،اُسے پاگل خانے منتقل کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے بتانے وہ سر ہلا گیا جبکہ سلیمان نے حیرت سے دیکھا کہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ برجیس آفندی مرتا اور برزل ابراہیم بے خبر رہتا مگر وہ اس سے سوال جواب کرنے کی ہمت خود میں نہیں پاتا تھا۔

"مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی اُس کی بیوی نے جائیداد کے کیے برجیس آفندی کو مارا مگر وہ یکدم پاگل کیسے ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے سوال پر برزل ابراہیم نے ایک نظر اُس پر ڈالی جو سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"یہ تو پھر تمہیں دلاج آفندی ہی بتا سکتی ہے،پولیس کی طرح تم بھی اُسکی صحت یابی کی دعا کرو سلیمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔

"میرا یہ مطلب تو نہیں تھا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شرمندہ ہوا۔

"مجھے ہر بات کے پیچھے چھپے مطلب کو بخوبی جاننا آتا ہے،تم بس ایک کام کرو کہ دلاج آفندی سے ملاقات کے لیے جو بھی آئے اُسکا نام پتہ مجھے ملنا چاہیئے اور یہ کام کسی کی نظروں میں آئے بغیر کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر ہلا گیا۔

"حیدر تم برجیس کے جنازے پر جاؤ گئے،مجھے اب شام سے پہلے کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتا ہوا وہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔

"کیا پتہ دلاج آفندی پاگل ہونے کا ڈرامہ کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ بات حیدر کے دماغ میں کب سے تھی۔

"بلکل نہیں،یہ جس بندے کا کام ہے وہ کبھی کچے کھیل نہیں کھیلتا حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان مسکراتا ہوا برزل ابراہیم کی پُشت کو دیکھنے لگا وہ جانتا تھا کہ اتنی ہویشاری سے صرف برزل ابراہیم ہی اپنے دشمنوں کا صفایا کرتا ہے۔

!_________________^^^^^^^_____________!

وہ کمرے میں آیا تو فاریسہ بیڈ پر براجمان نیند کی وادیوں میں کھوئی ہوئی تھی برزل ابراہیم نے ایک گہری نگاہ اپنی سوئی ہوئی شریک حیات پر ڈالی جو اُسی لباس میں ملبوس تھی کمبل سینے تک پھیلائے وہ کروٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی برزل نے ٹائم دیکھا جہاں صبح کے دس بجنے والے تھے شاید ساری رات وہ دُکھ اور خوف کی کیفیت میں مبتلا رہی تھی اس لیے لیٹ سونے کی وجہ سے وہ ابھی تک سوئی ہوئی تھی۔

برزل ابراہیم نے بیڈ کے دوسری طرف بیٹھ کر شوز اُتارے اور گھڑی اُتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی وہ بنا شور کیے موبائل بھی ساتھ رکھ گیا اور آہستہ سے کمبل میں گھستا لیٹ گیا فاریسہ کی اس طرف پشت تھی اس لیے برزل نے اُس کے کالے سیاہ بالوں پر نظریں ٹکا دیں اور ایک گہرا سانس بھر کر رہ گیا اگر آج سے کُچھ دن پہلے کی بات کی جائے تو یہ برزل ابراہیم کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ وہ یوں اچانک اس طرح شادی کرے گا اپنی زندگی کے ان اکتیس سالوں میں اُس نے ایک دفعہ بھی کسی لڑکی کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور اب نہ صرف سوچا تھا بلکہ اتنا بڑا فیصلہ بھی کر گیا تھا اور یہ سب کس چیز کے زیر اثر کیا تھا وہ چاہ کر بھی اپنے لبوں پر نہیں لانا چاہتا تھا۔

"تم نہیں جانتی کہ تم اپنے تمام ڈر اور خوف کے باوجود اتنی طاقت ور ہو کہ تم نے مجھ جیسے شخص کو تسخیر کر لیا ہے،اب تمہارے بنا سانس لینا بھی مشکل لگتا ہے اور تم واحد وہ انسان ہو جو برزل ابراہیم کو ہر معاملے میں جھکا سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے ڈوپٹے کو اپنے ہاتھ میں لیتا اُسکی خوشبو اپنے اندر اُتارتا وہ پلیکیں موند گیا تھا۔

نازر اعوان موبائل ہاتھ میں پکڑے کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا کہ موبائل کی رنگ ٹون نے اُسے سوچ کی گہرائی سے نکالتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کیا۔

"رئیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس کا نمبر دیکھ کر وہ پُرجوش ہوتا کال یس کر کے کان سے لگا گیا۔

"ہاں بولو ایس پی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف سے رئیس کی بھاری اور روب دار آواز اُسکی سماعتوں سے ٹکڑائی۔

"مجھے تم سے کسی اہم مسلے میں مدد چاہئیے اس لیے تم سے ملنا چاہتا ہوں میں جتنی جلدی ہو سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آج تو مجھے برجیس کے جنازے میں شرکت کرنی ہے،کل کسی وقت بھی تم آ سکتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ٹھیک ہے پھر کل فارم ہاوس میں ملتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے ایک بوجھ سر سے سرکتا ہوا محسوس کیا تھا وہ جلد سے جلد برزل ابراہیم سے بدلہ لینا چاہتا تھا اور وہ جتنا اب تک برزل ابراہیم کو جان پایا تھا اُسے اتنا معلوم ہو چکا تھا کہ یہ کوئی عام آدمی نہیں ہے۔

"سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"تبھی ایس ایچ اوہ نسیم کمرے میں داخل ہوتا نازر اعوان کو اپنی طرف متوجہ کر گیا۔

"ہاں بولونسیم کیا بنا دلاج آفندی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سر اُسکی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ برجیس آفندی کو قتل تو کر گئی تھی مگر اپنے پکڑنے جانے کے خوف میں اس قدر مبتلا ہو گئی تھی کہ اُسکا دماغ یہ ٹینشن قبول نہیں کر پایا اور اُسکا دماغی توازن بگڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نسیم کے بتانے پر نازر اعوان پرسوچ انداز میں سر ہلا گیا۔

"نہ جانے کیوں میری چھٹی حس کہتی ہے کہ اس میں کسی تیسرے کا ہاتھ ہے مگر ہمارے ہاتھ کوئی بھی ثبوت نہیں جس کی وجہ سے اس کیس کو بند کرنا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور دوسرے کام کا کیا بنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے سوالیہ نگاہوں سے نسیم کو دیکھا۔

"آپ کے حکم کے مطابق ہم نے برزل ابراہیم پر اپنی پُوری نگاہ رکھی ہے،فلحال وہ اپنے گھر اور بی_سکائے شوروم کے علاوہ کہیں نہیں جا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم پھربھی اُس پر گہری نظر رکھو،وہ کہاں آتا جاتا ہے کس سے ملتا ہے ایک ایک پل کی اطلاع دو مجھے،اُسے تم کوئی عام انسان مت سمجھو نسیم،وہ ایک پُرسرار شخص ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے نسیم کو باور کروایا تھا کیونکہ نسیم کی اب تک کی تحقیق کے مطابق وہ ایک عام شہری ہی تھا۔

!____________________________________________!  

دوپہر کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اُسکی روشنی کھڑکی سے ہوتی چھن سے اُن کے کمرے سے ٹکڑا رہی تھی فاریسہ اپنی نیند پوری کر چُکی تھی اس لیے کسکسما کر وہ آنکھیں کھولتی پہلے تو اس نئے منظر اور اپنی یہاں موجودگی کو سمجھتی چت لیٹی رہی پھر پاس کسی دوسرے کی موجودگی کا تعین کرتی وہ چہرا موڑ کر اپنے دائیں پہلو میں لیٹے برزل ابراہیم کو دیکھ کر دھک رہ گئی جو آرام دہ آنکھیں موندیں پُرسکون نیند لے رہا تھا فاریسہ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھی اور اس سے پہلے کے بیڈ سے اُترتی اُسکا ہاتھ برزل ابراہیم کی مظبوط گرفت میں آ چُکا تھا وہ جہاں تھی وہی دم سادھ گئی۔

"اتنی بُری شکل بھی نہیں ہے میری کہ تم یوں ڈر کر بھاگو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ بیٹھا تھا۔

"میری طرف دیکھنے کا شرف بخشو گی کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس سے مخاطب ہوا جو بلکل ساکت تھی برزل ابراہیم جانتا تھا کہ وہ اس کی طرف دیکھنے کی ہمت کبھی بھی نہیں کر سکتی تھی اس لیے وہ اُس کے بازو سے پکڑ کر نہ صرف اُسکا رُخ اپنی جانب کیا تھا بلکہ اپنے ہاتھ سے اُسکا چہرہ اونچا کیا تھا۔

"کیا تم مجھ سے ڈر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس سوال کا جواب وہ بہتر جانتا تھا مگر پھر بھی پوچھ رہا تھا اصل میں وہ اس سے بات کر کے اس کا ڈر ختم کرنا چاہتا تھا۔

"بتاؤ،کچھ پوچھ رہا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اُس کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیا جو بلکل ٹھنڈا ہو رہا تھا فاریسہ خشک لبوں پر زبان پھرتی سر اثبات میں ہلا گئی تھی اور لبوں سے "نہیں" کہہ کر برزل کو مسکرانے پر مجبور کر گئی۔

"میرا نہیں خیال کہ اب تمہیں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب تم مسز برزل ابراہیم ہو جس کے سامنے میں بھی کبھی آواز بلند نہیں کر پاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے نرم لہجے اور بات کے مطلب پر وہ پہلی مرتبہ اسے دیکھنے لگی جو نگاہوں میں ایک خاص تاثر لیے اسے دیکھ رہا تھا فاریسہ اُسکی نظروں کے تسلسل سے گڑبڑا کر نظریں جُھکا گئی۔

"کیا تم کچھ بول کر مجھ پر احسان کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اُس کے ہاتھ کو ہلکے سے دبایا تھا جبکہ فاریسہ کے اس کے انداز اور اس کے اتنے قریب ہونے پر پسینے چھوٹ رہے تھے وہ کبھی بھی اتنی بہادر نہ رہی تھی کہ کسی بھی مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے اور اب تو اُس کے سامنے برزل ابراہیم تھا جس کا ڈر پہلی ملاقات میں ہی اُس کے اندر بیٹھ چُکا تھا۔

"وہ،ا،احسن،بھائی،وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رات سے وہ اپنے بھائی کی وجہ سے پریشان تھی کہ برزل ابراہیم کی قید سے وہ آزاد ہوا تھا یا نہیں؟

"وہ تو کل کا گھر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اُسکی بات کا مطلب سمجھ کر بتانے لگا۔

"اُسے نقصان پہنچانا میرا مقصد نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو پھر کیا مقصد تھا آپکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بولی تو نہیں تھی مگر اُسکی آنکھوں میں یہی سوال اُبھرا تھا جسے برزل ابراہیم پڑھ کر زیرلب مُسکرایا۔

"میرا مقصد تمہیں اس حیثیت سے اس جگہ تک لانا تھا جہاں تم اب براجمان ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ایک پل کو رُکا پھر کہنے لگا۔

"یہ گھر اب تمہارا ہے یہاں صرف تمہاری مرضی چلے گی،جس کو چاہو گی وہی اس گھر میں رہے گا،تم اپنی مرضی سے ہر کام کر سکتی ہو کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہوگا،جیسے چاہو رہو،جہاں دل کرے جانا بس گھر سے باہر جانا ہو تو وہ میرے علم میں لائے بغیر مت جانا اس کے علاوہ کسی کام میں بھی تم سے زبردستی نہیں کی جائے گی،یہی سمجھو کہ تم سے نکاح جو زبردستی کیا ہے اس کے بدلے تمہیں ہر قسم کی آزادی دے رہا ہوں بس خود سے آزاد اب ساری زندگی نہیں کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جیسے ہر کام میں مہارت رکھتا تھا ایسے دلوں کو جیتنے کے فن سے بھی بخوبی واقف تھا وہ جانتا تھا اُس کے سامنے وہ لڑکی بیٹھی ہے جو ساری زندگی اپنی مرضی کرنے کو ترستی آئی ہے اُس کے ہاتھ میں "جیسے چاہو جیو" کی چابی پکڑا کر وہ اُس لڑکی کے دل میں ایک خوش کن احساس پیدا کر گیا تھا وہ حیرت سے اُسکی طرف دیکھتی جیسے اُسے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی اُسے بلکل توقع نہیں تھی کہ برزل ابراہیم اُسے یہ سب کہے گا وہ تو یہی سمجھ رہی تھی کہ باپ کی دشمنی کی بھینٹ چڑھتی وہ ایک قید خانے سے نکل کر دوسرے قید خانے میں جا رہی تھی مگر برزل ابراہیم کا رویعہ اُسے انجانہ سا سکون دے گیا تھا۔

"تمہیں اس گھر میں عزت،اعتبار،محبت اور خوشیاں سب کچھ ملے گا بس بدلے میں تمہیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میٹھے لہجے میں بولتا اُس کے ہاتھ پر دباؤ بڑھا گیا فاریسہ نے کچھ خوفزدہ نگاہوں سے دیکھا کہ پتہ نہیں کیا مانگنے والا ہے۔

"میں ہمیشہ تمہاری خوشی کو اہیمت دونگا،کبھی وہ کام نہیں ہوگا جس میں تمہاری مرضی شامل نہ ہو بس اس کے بدلے میں تم سے ایک چیز مانگوں گا اور وہ ہے کہ تم میری زندگی تک مجھ سے دور نہیں جاؤ گی،کبھی بھی اُس راستے پر نہیں چلو گی جو تمہیں مجھ سے دور لے جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"محبت چاہت کیا کچھ نہیں تھا اُس کے لہجے میں برزل ابراہیم محبت کے معاملے میں اپنی انا اپنا غرور سب اس لڑکی پر وار گیا تھا اور محبت کا اصول بھی یہی تھا جس سے ہو جائے پھر اُس کے سامنے سب ہار جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچتا۔

"تمہارے حصے میں یہ گھر،عزت،محبت،آزادی اور میرے حصے میں صرف تُم،بولو منظور ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نہیں جانتا تھا کہ وہ فاریسہ کو کیا کچھ سونپ گیا تھا ہر لڑکی کی یہی تو خواہش ہوتی ہے اور فاریسہ تو شروع سے ان چیزوں کو ترستی آئی ہے۔

فاریسہ نے اپنی گھنی پلکیں اُٹھا کر اس خوبرو چہرے والے برزل ابراہیم کی طرف دیکھا جو پوری جان سے اس کی طرف متوجہ تھا فاریسہ نے آہستہ سے سر ہلا دیا،

"بہت شکریہ میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے چہرے پر آسودگی بھری مسکراہٹ تھی۔

"میرے خیال میں اب کچھ کھا لینا چاہیئے،ناشتے کا تو ٹائم گزر گیا،اب لنچ ہی کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کا ہلکے سے دبا کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا فاریسہ نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جہاں ابھی بھی برزل ابراہیم کا لمس دہک رہا تھا زندگی میں پہلی دفعہ کسی مرد نے اُسے چُھوا تھا اور پہلی مرتبہ ہی اُس کی دھڑکن یوں بے ترتیب ہوئی تھی۔

"میں فریش ہونے جا رہا ہوں،مس زونا کو لنچ کا کہہ دینا اور ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکی طرف پلٹا جو وہی بیٹھی ہوئی تھی۔

"یہ ڈریسنگ روم ہے یہاں تمہارے کپڑوں سے لے کر جیولری تک ہر چیز موجود ہے،جو اچھا لگے پہن لینا جو نہ لگے اُسکی طرف دیکھنا بھی مت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے وہ واشروم میں گھس گیا جبکہ فاریسہ حیران سی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"میرے کپڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ حیرت زدہ تھی اُسی حیرانگی کو دور کرنے کے لیے وہ ڈریسنگ روم کی طرف آئی وارڈرب کی سلائیڈ ہٹا کر بائیں جانب دیکھا تو حیرانگی میں اضافہ ہو چلا تھا۔

ایک طرف رنگ برنگے کپڑوں کی قطاریں تھیں تو دوسری طرف جوتے،اگر ایک طرف ہینڈ بیگز کی کولیکشن تھی تو دوسری طرف جیولری اور بہت ساری استمال کی وہ چیزیں جن کو دیکھ کر وہ لال سُرخ ہوتی سلائیڈ بند کرتی واپس آ گئی اور واش روم سے پانی گرنے کی آواز کا اندازہ کرتی وہ کمرے سے باہر نکل آئی جہاں لاؤنج میں ہی اُسے مس زونا مل گئی۔

"جی میم،کچھ چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اُس کے پوچھنے پر اس نے فقط سر ہلا دیا۔

"جی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا پوری طرح مودب تھی فاریسہ کچھ ہچکچا گئی پھر خود میں ہمت پاتی بولی۔

"وہ لنچ کا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے میم،دس منٹ تک آپکا لنچ کمرے میں آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کہتی ہوئی کچن کی طرف چل دی فاریسہ لب کاٹتی وہی صوفے پر ٹک گئی اور برزل ابراہیم کی باتوں پر غور و فکر کرنے لگی وہ جس طرح کے حالات کا سامنا کر کے اس گھر میں موجود تھی کیا اب آسانی سے سب فراموش کرکے وہ ایک پُرسکون زندگی گزار سکتی تھی؟

!_________________________________________!

وہ موبائل پر سینڈ ہوا ایڈریس غور سے دیکھتا اپنے مطلوبہ پتے پر آ کر گہری سانس بھر گیا دس مرلے کا وہ گھر دیکھنے کے لائق تھا اُس نے گیٹ پر موجود بیل کا بٹن دبایا اور کسی کے آنے کا ویٹ کرنے لگا دو منٹ بعد ہی ایک ستر سالہ شخص اُس کے سامنے تھا اُن پر سلامتی بھیجتا وہ اپنے مدعے پر آیا۔

"کیا یہ زوالفقار صاحب کا گھر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

"نہیں بیٹا،یہ تو میرا گھر ہے اور میرا نام امیر علی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امیر علی اسے پہچاننے کی ناکام کوشش کرتا بولا تو وہ لب بھینچ گیا۔

"اصل میں جہاں تک مجھے اطلاع دی گئی ہے یہاں زوالفقار صاحب رہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہمارے آنے سے پہلے رہتے ہونگے کیونکہ یہ گھر ہم نے بیس سال پہلے ہی خریدا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امیر علی کی اطلاع اُسے کچھ بے سکون کر گئی تھی۔

"کیا آپ بتا سکتے ہیں جنہوں نے آپ کو یہ گھر بیچا اُنکا کوئی نام پتہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے اور تو کچھ نہیں پتہ بس اتنا یاد ہے کہ یہ گھر میں نے اپنے چچازاد بھائی سرور علی کے توسط سے لیا تھا،اس گھر کے پرانے مالک مکان سرور علی کے دوست تھے اس سے زیادہ مجھے کچھ پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا سرور علی کا ایڈریس دے سکتے ہیں آپ مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے ہاتھ میں ایک نئی اُمید کی کرن آئی تھی مگر امیر علی کی اگلی بات نے اُس کرن کو بھی بجھا دیا تھا۔

"اُسکا تو کچھ سال پہلے ہی انتقال ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ،اوکے بہت شکریہ آپکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جلدی سے کہتا وہ وہاں سے ہٹ گیا امیر علی جو اس کے بارے میں جاننا چاہتے تھے اسے یوں جاتا دیکھ کر اپنے گھر کو ہو لیے۔

"یا اللہ کتنے سال ہو گئے مجھے اُس بندے کو تلاشتے ہوئے،پلیز میری مدد فرما اور میں اس تلاش میں کامیاب ہو جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زیرلب اللہ سے کہتا وہ لمبے لمبے بھرتا وہاں سے چل دیا۔

!___________________________________________!

برزل ابراہیم اپنے آفس میں بیٹھا فائلز دیکھ رہا تھا کہ مجید دستک دیتا اس کے مصروف سے انداز میں 'یس' کے الفاظ اپنے کانوں میں انڈیلتا اندر داخل ہوا۔

"سر آپ سے ملنے کوئی اعجاز سہگل آیا ہے،کہتا ہے ضروری ملنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اعجاذ سہگل۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتا تھا۔

"اوکے بھیج دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دوبارہ سے فائلز پر جھک گیا۔

"سر مجھے وہ آدمی مشکوک لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مجید کی بات پر وہ مسکرایا۔

"مجید میرے خیال میں تمہیں اس شوروم میں نہیں کسی کرائم برانچ میں ہونا چاہیئے تھا ہر کوئی تمہیں مشکوک لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سر اس بار شک کچھ غلط نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اچھا،وہ کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔؟برزل ابراہیم نے دلچسپی سے پوچھا۔

"سر وہ پہلے ہمارے شوروم میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ اُسے وہ گاڑی چاہئیے جو برزل ابراہیم تک باآسانی اُسے پہنچا سکے،پھر وہ برزل ابراہیم کے زیر استمال گاڑیوں کو دیکھنے کے بعد برزل ابراہیم کے متلعق جاننے کی کوشش کرتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ مجھے اُس سے ملنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ویل،مجید بھیجو زرا اُسے تا کہ برزل ابراہیم سے یادگار ملاقات کروائی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کو بھی دال میں کچھ کالا لگا تھا مجید مسکرا کر باہر چل دیا دو منٹ بعد ہی ایک چالیس سالہ پینٹ کوٹ میں ملبوس اعجاز سہگل نامی شخص کمرے میں داخل ہوا۔

"بہت حسرت تھی آپ سے ملنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کو دیکھتا وہ مسکرایا تھا برزل نے غور سے اُسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں ایک عجیب سی مسکراہٹ کندہ تھی۔

"ایسا بھی کیا ہے اس نا چیز انسان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے پیون کو چائے کے کپ رکھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

"یہ تو آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں خود کو ناچیز کہہ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اعجاز سہگل نے چائے کا کپ پکڑ کر لبوں سے لگا لیا۔

"بات کو گھما پھرا کر کرنے کے بجائے سیدھی طرح کلیر کر دیں تو ہم دونوں کا بہت سا قیمتی وقت برباد ہونے سے بچ سکتا ہے،دوسرا میں ایک شریف آدمی اس طرح کے اُلجھے دھاگے نہیں سُلجھا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے دو ٹوک بات کی جس پر اعجاز سہگل ہنس دیا۔

"شریف آدمی۔بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

برزل ابراہیم نے بمشکل خود پر کنٹرول کیا تھا کیونکہ وہ کچھ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے لوگوں کو اس کو جاننے میں پرکھنے میں دلچسبی ہونے لگے۔

"میں نے سر فصیح سے بہت کچھ سن رکھا تھا آپ کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شاید اسے چونکانا چاہتا تھا برزل ابراہیم جو اپنے تاثرات کو کنٹرول کرنا جانتا تھا اس لیے حیرت سے بولا۔

"کون سر فصیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

"ارے مجھ سے چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں،میں سب جانتا ہوں،اصل میں سر فصیح مجھے اپنا دوست مانتے ہیں ورنہ خود سوچو اتنا بڑا راز وہ بھلا کیونکر مجھے بتائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ریلیکس انداز میں بولتا مسکرایا۔

"ویل،لگتا ہے آپ کو بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے،آپ کسی اور آدمی کی تلاش میں غلط آدمی کے پاس آ چُکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے انداز میں کہیں بھی گربڑاہٹ نہیں تھی وہ بہت پُرسکون تھا۔

"بلکل بھی نہیں،اس آدمی کی تلاش میں،میں نے سات سال برباد کیے ہیں،برزل ابراہیم کی کھوج مجھے کہاں سے کہاں تک لے گئی ہے یہ تم نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ میری کھوج میں کیونکر تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"موبائل ہاتھ میں لیے کچھ ٹائپ کرتا وہ مُسکرا کر پوچھنے لگا۔

"میں دیکھنا چاہتا تھا آخرکار وہ کون ہے جو نائن گروپ کا سب سے بڑا دشمن ہے مگر کوئی اسے نہیں جانتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اعجاز سہگل کے انداز میں کچھ تھا برزل ابراہیم کے تاثرات بدلے تھے۔

"نائن گروپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نہ سمجھی سے دیکھنے لگا۔

"برزل،برزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے معصوم بننے پر ہنسا تھا۔

"تم بہت تیز ہو،بہت دماغ ہے تمہارے پاس اور اُسکا استمال تم اچھے سے کرنا جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سرہانے لگا برزل نے سر ہلاتے ہوئے آخری الفاظ ٹائپ کیے اور موبائل ٹیبل پر رکھ دیا۔

"آپ کیا کہنا چاہتے ہیں،مجھے تو کسی بات کی سمجھ نہیں آ رہی مسٹر سہگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اعجاز سہگل کی ٹائی پن کو اپنی نظروں کی گرفت میں لیے وہ بلکل پُرسکون تھا۔

"برزل ابراہیم بس کرو اب،میں تمہیں جان چُکا ہوں اور تمہارے لیے سر فصیح کی نائن گروپ کی لسٹ لے کر آیا ہوں،آئی تھنک اسے پڑھ کر تم خود کو مزید چھپا نہیں سکو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی جیب سے ایک چٹ نکال کر اُسکی طرف بڑھائی برزل نے تھام کر ایک نظر اُس پر ڈالی اور بے تاثر انداز میں بولا۔

"یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟وہ برزل ابراہیم تھا اعجاز سہگل گہری سانس بھر کر رہ گیا۔

"لگتا ہے آپ اپنا اور میرا وقت ضائع کرنے آئے ہیں،اپنا مطلوبہ شخص ڈھونڈنے کے لیے آپکو بی_سکائے پیلس نہ کافی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سپاٹ لہجے میں برزل ابرہیم بولتا اُسے جانے کا اشارہ کر گیا اعجاز سہگل اپنی ناکامی پر گہری سانس بھرتا وہاں سے نکل گیا۔

اُس کے جانے کے بعد برزل ابراہیم نے اُس چٹ کو دوبارہ دیکھا اور مُسکرادیا۔

"آہ بیوقوف دُشمن،جو چیز مجھے کچھ کنفیوز کر رہی تھی وہ تم نے خود ہی کلیر کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

دس منٹ بعد ہی سلیمان کمرے میں داخل ہوا برزل نے سوالیہ انداز میں دیکھا۔

"بھائی آپ کے حُکم کے مطابق کام ہو گیا،اُسکی گاڑی موٹر وے پر چڑھتی ہی بلاسٹ ہوگئی اور وجہ وہی گیس لیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی اطلاع پر وہ پُرسکون ہوا۔

"بے چارہ اعجاز سہگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ کون تھا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان جاننا چاہتا تھا۔

"وہی آدمی جس کے بارے میں سر فصیح نے کہا تھا کہ کوئی میری کھوج میں ہے،کوئی میری حقیقت اور نائن گروپ کا راز جاننے کی کوشش میں ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ پابھی گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

"تو بھائی اسے مارنے سے بہتر تھا کہ اسے پکڑ کر سب کچھ پتہ کروا لیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں تھوڑی سی معلومات کی خاطر کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں کرنا چاہتا تھاسلیمان،وہ آدمی کسی کے ساتھ کنیکٹڈ تھا اُسکی ٹائی پن پر کیمرہ لگا تھا مطلب کہ ہماری ملاقات کسی اور کی نظر میں بھی تھی اور میں اُسے قید کر کے سب کے شکوک پر یقین کی مہر نہیں لگانا چاہتا تھا،اس لیے تمہیں کہا کہ اُس کی گاڑی میں ہی اُسکی موت کا سامان تیار کرو تا کہ اُس کے کنیکٹڈ مین کو لگے وہ خود مرا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مطلب کوئی ہے ایسا جو ہمیں فالو کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے کہنے پر برزل ابراہیم نے مسکرا کر اُسکی طرف دیکھا۔

"کرنے دو سلیمان،اس سے ہمارا کام اور آسان ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سب سے پہلے یہ پتہ لگانے ہوگا کہ اعجاز سہگل کس کے لیے کام کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ جاننا مشکل نہیں ہوگا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے پُراعتماد لہجے میں یقین دلایا۔

"اعجاز سہگل جاتے ہوئے ایک بہت اچھا کام کر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل مسکرا کر ٹیبل کی طرف آیا اور وہ چٹ ہاتھ میں لی۔

"نائن گروپ کے نام ہیں اس میں اور سب سے مزے کی بات کہ مسز اور مسٹر وقار رانا کا نام نہیں ہے اس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مطلب کہ وہ ان دونوں کو ہماری نظروں سے ہٹانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں وہ جس آدمی کے ساتھ بھی تعلق رکھتا تھا وہ ان دونوں کو بچانا چاہتا تھا کیونکہ یہ دونوں میاں بیوی ہمیں اُس آدمی تک پہنچا سکتے ہیں تمہاری اطلاع کے مطابق مسز رانا ہی دلاج آفندی کو ملنے آئی تھی،مطلب یہی بندی ہماری راہیں ہموار کرے گی اور یہ دونوں میاں بیوی نہ صرف نائن گروپ کی بربادی کی وجہ بنے گئے بلکہ میرے مقصد میں بھی کامیابی دلوا سکتے ہیں،جس مقصد کے لیے میں اب تک جیتا آیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آخر میں اُسکی آنکھوں کی سُرخی بڑھ گئی تھی سلیمان جو انکی وجہ اچھی طرح جانتا تھا لب بھینچ گیا۔

"انشاءاللہ بھائی ہم بہت قریب آ چکے ہیں انکے اور کامیابی ہمیں ہی ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"انشاءاللہ سلیمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس دُکھ کی کیفیت سے جلد نکل آیا۔

"سب سے پہلے میں مسٹر اور مسز وقار رانا تک رسائی حاصل کرونگا اور تم مسز رانا کے پورے ملک میں جتنے بھی دارلامان ہیں اُنکی لسٹ اور تمام سیکیورٹی بیچ کو انڈرلائن کرو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ تو ہو جائے گا مگر وہ عورتوں کی جائے پناہ ہے،ہم کس طرح اندر داخل ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

"حیدر داخل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم سکون سے بولتا اُسے حیران کر گیا۔

"وہ بھی تو لڑکا ہے کسطرح عورتوں اور لڑکیوں کے بیچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لڑکا ہے مگر اُسے دوسری مخلوق بنانے میں صرف ڈوپٹہ اور ایک لپ اسٹک کی ضرورت ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے مسکراہٹ روکی تھی اور سلیمان حیرت زدہ ہنس دیا۔

"حیدر نہیں مانے گا بلکہ پورے گھر میں ڈانس کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور ہم اُسی ڈانس کا فائدہ اُٹھا لیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابرہیم کی شرارتی مسکراہٹ سلیمان کو بھی مسکرانے پر مجبور کر گئی۔

!____________________________________________!

فاریسہ برزل ابراہیم کی غیر موجودگی کا فائدہ اُٹھاتی ہوئی اُس کے لائے گئے ڈریس میں سے بلیک سوٹ کا انتخاب کرتی اُسے اپنے تن پر سجاہ گئی تھی اُسے یہاں آج تیسرا دن تھا اور برزل ابراہیم اُس لنچ کے بعد گیا ابھی تک نہ واپس آیا تھا فاریسہ اُسے بلکل یاد نہیں کرنا چاہتی تھی مگر پھر بھی سوچ میں تھی کہ وہ دو دن سے تھا کہاں؟

"بابا نے کہا تھا وہ بہت بڑا مجرم ہے،تو مجرم گھر میں نہیں رہتے کہ پولیس نہ پکڑ لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دل و دماغ کو باور کرواتی کمرے سے نکل آئی۔

برزل ابراہیم کی غیر موجودگی میں وہ بس کمرے کی ہو کر رہ گئی تھی مس زونا سے ناشتہ کھانا سب کمرے میں ہی منگوا لیتی تھی ایک دو دفعہ کمرے سے نکل کر لاؤنج تک گئی مگر پھر اپنے گھر کی یاد اور برزل ابراہیم کی زور زبردستی یاد کر کے غم زدہ سی کمرہ نشین ہو گئی مگر دو دن اپنے دکھ میں اچھا سا ٹائم بتا کر وہ اب خود کو فریش محسوس کر رہی تھی اس لیے آج نہ صرف کمرے سے باہر نکلی بلکہ سارا گھر بھی دیکھ چکی تھی جو اسے بہت پسند آیا تھا۔

سب جگہ دیکھتی وہ کچن کی طرف آئی وہ بہت مسرور تھی کہ یہ شاندار گھر اُسکا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک شاندار برزل ابراہیم بھی اُسکا ہے یہ وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی سامنے سے آتے حیدر کو دیکھ وہ ہچکچا کر رک گئی شادی کے دن کے بعد یہ دوسری ملاقات تھی۔

"کیسی ہیں بھابھی آپ...........؟حیدر مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا فاریسہ نے بس سر ہلانے پر اکتفا کیا۔

"میں آپکا دیور حیدر ہوں،بھائی نے تو ہمارا تعارف بھی نہیں کروایا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ہماری دوستی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔".

"کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بے ساختہ اُس کے لبوں سے پھسلا تھا۔

"ادھر آئیے میں بتاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اُسے لاؤنج میں بیٹھنے کا اشارہ کرتا صوفے پر بیٹھ گیا اس وقت جو حیدر کے دماغ میں چل رہا تھا وہ برزل ابراہیم کے لیے نہ قابل برداشت ہونے والا تھا۔

"یہاں بیٹھیں بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اُسے سنگل صوفے پر بیٹھنے کا کہہ کر خود ٹوسٹر صوفے پر بیٹھ گیا۔

"آپ کو پتہ ہے بھائی کو سب سے زیادہ کیا پسند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے سوال پر وہ سر نفی میں ہلا گئی ابھی تک تو اُس نے برزل ابراہیم کو غور سے نہیں دیکھا تھا اُسکی پسند نہ پسند کے بارے وہ کیسے معلوم کر سکتی تھی اور ویسے بھی ابھی وہ جس سچوئیشن میں تھی وہ ایسا جاننے کے بارے میں خواہش مند بھی نہ تھی۔

"میں بتاتا ہوں،بھائی کو سب سے زیادہ 'ڈر' پسند ہے جو کسی کے پاس ہو صرف برزل ابراہیم کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی بات پر وہ نہ سمجھی سے دیکھنے لگی۔

"کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مطلب یہ کہ بھائی چاہتے ہیں کہ ہر کوئی اُن سے ڈرتا رہے،اور جو نہیں ڈرتے اُن سے بھائی دب کے رہتے ہیں جیسے مثال کے طور پر میں،بھائی مجھ سے دب کے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے اپنے دائیں بائیں جانب دیکھنا لازمی سمجھا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر یہ الفاظ برزل ابراہیم کے کانوں تک پہنچ جاتے تو اس نے زمیں کے اندر ضرور دب جانا تھا۔

"وہ،آپ سے ڈرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کو شاید یقین نہ آیا تھا۔

"ایسا ویسا ڈرتے ہیں،وہ تو میں ذرا بڑا ہونے کی وجہ سے اُنکو عزت دینے پر مجبور ہوں ورنہ تو میری مرضی کے بغیر وہ ایک کام بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو پھر،اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں آپ سے ملوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے جیسے یقین کر لیا ہو حیدر زور سے سر ہلانے لگا۔

"بلکل،اُن کو پتہ تھا کہ میں آپ سے ملا تو میں آپ کو بھی زرا اُن پر روب ڈالنے کا اور نہ ڈرنے کا کہونگا وہ نہیں چاہتے کہ ایک اور حیدر جیسا اس گھر میں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کمال چالاکی سے الفاظ کا ہیر پھیر کرتا اُسے اکسانے پر لگا ہوا تھا وہ اصل میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ حیدر کی طرح ایک اور ڈرپوک اس گھر میں ہو وہ فاریسہ کو برزل ابراہیم کے آگے کھڑا کرنا چاہتا تھا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ برزل ابراہیم فاریسہ سے کسی بھی معاملے میں سختی نہیں کر سکتا تھا اور اسی چیز کا فائدہ حیدر اُٹھانا چاہتا تھا۔

"مجھے کیا کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی بات پر وہ مسکراتا پُرجوش سا کہنے لگا۔

"آپ نے بس یہی کرنا ہے کہ ہر کام میں بس اپنی مرضی کرنی ہے،وہ کوئی بھی بات کہیں آپ نے اُنکی کسی بات پر عمل نہیں کرنا،بلکہ آپ نے اپنی بات ہی منوانی ہے زرا روب میں رہنا ہے اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے پتہ ہے بھابھی آپ بہت بہادر ہیں،آپ بھائی سے بلکل نہیں ڈرتی بلکہ آج سے وہ آپ سے ڈر کر رہیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے اس سے زیادہ خود کو یقین دلایا تھا۔

"ہاں میں بہت بہادر ہوں،میں نہیں ڈرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے بھی خود کو باور کروایا تھا۔

"گُڈ بھابھی،آپ سب سے اچھی والی بھابھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اپنی کامیابی پر خوش ہو گیا تھا فاریسہ بھی دھیمے سے مُسکرادی تھی اسے حیدر اچھا لگا تھا۔

"آپ کیا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے زہن میں آیا کہ کہیں یہ بھی تو برزل ابراہیم کی طرح یہ بھی تو مجرم نہیں تھا۔

"میں ابھی اسٹڈی سے فارغ ہو کر ریسٹ کر رہا ہوں پھر مجھے بی_سکائے شوروم کا انچارج سھنبھالنا ہے جب بھائی واپس اپنی جگہ پر چلیں جائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کونسی جگہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے پوچھنے پر وہ بتاتا کہ

تبھی لاونج کے دروازے سے سلیمان اور برزل ابراہیم داخل ہوئے۔

"کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم حیدر کے ساتھ آ کر ٹک گیا جبکہ سلیمان فاریسہ کے دائیں جانب بیٹھ گیا تھا۔

"کچھ نہیں بھائی،بس بھابھی سے گپ شپ ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ تو کیا تمہاری بھابھی گپ شپ کر لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے ایک مسکراتی نگاہ سر جھکائے بیٹھی فاریسہ پر ڈال کر حیدر سے پوچھا۔

"ہاں کیونکہ بھابھی مجھے اپنا بھائی مانتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو پھر بھابھی مجھ سے بھی گپ شپ لگا سکتی ہیں کیونکہ میں بھی بھابھی کا بھائی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے کہنے پر فاریسہ نے دیکھا جو نرم سی مسکراہٹ لیے اس کی طرف دیکھ رہا تھا فاریسہ سر ہلا گئی برزل ابراہیم کچھ پرسکون ہوا تھا کہ فاریسہ ان کے ساتھ گھلنے ملنے کو تیار ہو گئی تھی تبھی مس زونا سب کے لیے چائے اور برزل ابراہیم کے لیے کافی لے کر آئی۔

"مس زونا میرے لیے کچھ کھانے کا لے آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے کہنے پر مس زونا نے سرہلایا۔

"آپ کیا کھائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کباب لے آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی فرمائش پر وہ کچن میں چلی گئ جبکہ سلیمان نے معنی خیز نظروں سے حیدر کی طرف دیکھا اور مُسکرا دیا برزل ابراہیم بھی سلیمان کی مسکراہٹ کو سمجھتا مسکرایا تھا۔

"میرے شیر کھا پی کر جان بناؤ دو دن تک،پھر تمہیں پتہ نہیں کتنے دن دال روٹی پر گزارا کرنا پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے حیدر کے کلین شیو چہرے پر نظر ڈال کر جیسے اُسے تیار کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔

"کیوں،اب کیا کوئی نئی سزا ملنے لگی ہے اب میں نے کیا کر دیا ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چائے کا کپ وہی رکھتا برزل ابراہیم کی طرف متوجہ ہوا جو صوفے سے اُٹھ رہا تھا۔

"بعد میں بات کرتے ہیں حیدر،ابھی اپنا فوڈ انجوائے کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اُسکا شانہ تھپتھایا تھا اور حیدر انجان نہیں تھا وہ اس تھپکی کا مطلب اچھے سے سمجھتا تھا۔

"میم آپ میرے ساتھ آئیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے فاریسہ سے کہا جو کچھ ڈر گئی تھی بے ساختہ وہ حیدر کی طرف دیکھنے لگی جس نے سر نفی میں ہلایا تھا کہ انکی مان کر مت جائیے گا سلیمان نے حیرت سے حیدر کی طرف دیکھا تھا اور سارا معاملہ سمجھ کر وہ مسکرا دیا تھا۔

"وقت سے پہلے مرے گا یہ بھائی کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان سوچ کر رہ گیا۔

"اُٹھو گی کہ میں سہارا دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے لہجے میں کچھ تھا کہ وہ جلدی سے اُٹھ گئی تھی۔

"اُف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُن دونوں کا جاتے دیکھ کر حیدر نے اپنا سر کشن سے دے مارا تھا۔

"بھابھی آپ میری ہی بہن نکلی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑا کر رہ گیا سلیمان ہنس دیا۔

"چھوٹے تم جس کام میں پڑ رہے ہو نہ وہ تمہیں اس گھر سے کیا دُنیا سے بھی کِک آؤٹ کروا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے خبردار کرنا ضروری سمجھا تھا حیدر اُسکی بات پر خفیف سا ہو گیا۔

"میں تو بس بھابھی کو بہادر بنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اس گھر میں اور کتنے بزدل جنم لیں گئے،کسی کو تو بہادر ہونا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے منہ بسورنے پر سلیمان قہقہ لگا کر ہنس پڑا تھا۔

"اس گھر میں ایک بہادر ہی کافی ہے حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے اُسے سمجھاتے ہوئے پلیٹ سے ایک کباب اُچک لیا جو مس زونا رکھ کر جا چُکی تھی۔

!___________________________________________!

وہ اپنی چادر کو کندھوں پر ڈالتی اُن تینوں سوئی لڑکیوں پر نظر ڈالتی کمرے سے باہر نکل کر راہداری سے گُزرتی بالکونی میں آ کر چاند کو دیکھنے لگی جو کہ اس کی طرح اُسے خاموش لگا تھا وہ سیاہ آسمان کو تکتی دیوار سے ٹیک لگا گئی اور اپنی پچھلی زندگی کو سوچنے لگی جو ہر دفعہ اُس کے لیے آنسوؤں کا ہی زریعہ بنی تھی۔

اس دارالمان میں آئے اُسے چھ ماہ ہوچُکے تھے وہ اب کافی حد تک سھنبل چُکی تھی مگر پھر بھی ان چھ ماہ میں ایسی کوئی رات نہ تھی کہ جس پر وہ آنسو نہ بہاتی ہو اور اپنی غلطیوں پر پشیمان نہ ہوتی ہو ایک گہرا سانس بھرتی وہ کمرے میں واپس جانے لگی کہ اُس کے کانوں میں کسی کی سسکیوں کی آواز پڑی وہ اُس آواز کے تعاقب میں سیڑھیوں کی طرف آئی جہاں دوسری سیڑھی پر وہ وجود بیٹھا سسکیاں لے رہا تھا۔

ہانیہ نے اُس وجود کی صورت دیکھتے ہوئے گہرا سانس بھرا یہ عروج تھی جو آج ہی کسی کی ستائی ہوئی اس دارالامان میں آئی تھی۔

"رونے سے اگر سب ٹھیک ہو جاتا تو میں بھی چھ ماہ بعد بھی رو نہ رہی ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کی آواز پر عروج نے چہرہ اُٹھا کر اُسکی طرف دیکھا جو اُس کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔

"میں کچھ ٹھیک کرنے کے لیے نہیں رو رہی،بلکہ اس بات پر رو رہی ہوں کہ میں نے سب غلط کیسے کر لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ رندھی آواز میں بولی تو ہانیہ کے چہرے پر اذیت بھری مسکراہٹ آئی۔

"اصل رونا ہی یہی ہے کہ ہم لوگوں کو عقل ہی تب آتی ہے جب ہم اتنا کچھ غلط کر لیتے ہیں کہ پیچھے مُڑنے کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیونکہ ہم سارے راستے خود ہی جلا کر آگے بڑھتے ہیں اور بعد میں ہمارا مقدر ایسی جگہیں یا دو گز قبریں ہی بنتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شاید کسی سے بات کرنے کی خواہش مند تھی اس لیے اس کی باتوں کا جواب دینے لگی تھی ورنہ ہانیہ نے دیکھا تھا صبح سے وہ رونے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی تھی۔

"میں یہ نہیں پوچھونگی کہ تم کیسے اس جگہ تک پہنچی کیونکہ مجھ سمیت یہاں کی دو سو عورتوں کی لگ بھگ یہی کہانی ہے وہ کسی نہ کسی طرح اپنی غلطیوں،بیوقوفیوں اور کسی نامحرم پر اندھا اعتماد کر کے ہی اس مقام تک پہنچ سکی ہیں،جس سے پوچھو محبت میں ماری گئیں یا کسی کی انا اور خودغرضی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کے لہجے میں دُکھ کی کیفیت تھی جس پر عروج کے آنسو تیز بہنا شروع ہو گئے کیونکہ وہ بھی تو ایسی ہی چوٹ کھا کر آئی تھی۔

"اُس نے کہا تھا کہ تم اپنے ماں باپ چھوڑ دو اور میں اپنے چھوڑ دونگا،میں نے تو چھوڑ دیے ہمیشہ کے لیے مگر وہ اپنے دو ماہ تک بھی نہ چھوڑ سکا اور آخرکار مجھے چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا تو ہانیہ کے ہونٹوں سے درد بھری سسکی نکلی۔

"یہی تو اصل تکلیف ہے عروج کہ ہم جب نا محرم کی محبت میں پڑتی ہیں تو اپنے محرم رشتے ہی ہمیں اپنے سب سے بڑے دشمن لگنے لگتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے وہ ہماری خوشیوں کو ہم سے چھین کر ہمیں برباد کرنا چاہتے ہوں،اُنکی کہی ہر بات ہمیں اپنے خلاف لگتی ہے کہ وہ ہمیں ہماری زندگی جینے نہیں دے رہے یہ کیا ہر بات میں روک ٹوک یہ نہ کرو ایسے باہر نہ جاؤ کسی نا محرم سے آنکھ بھی مت ملاؤ،بھائیوں کی طرح ہم آزاد کیوں نہیں ہیں ہم اپنی مرضی کا ہم سفر کیوں نہیں چُن سکتی ہیں،ہم بس اس بات کا فائدہ اُٹھاتی ہیں کہ اسلام میں لڑکی کی پسند کا کہا گیا ہے مگر یہ نہیں پتہ کہ کس طریقے سے لڑکی کو اپنی پسند کا کہا گیا ہے،باہر ہوٹلوں میں مل کر لڑکے سے جان پہچان بڑھا کر پسند کرنے کا نہیں کہا گیا ہے،جس انجان پر ہم اندھا اعتماد کر کے اپنوں کو بے اعتمادی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں وہی ہمیں پھر ہماری اصل اوقات ہم پر واضح کر دیتے ہیں،جس گھر میں ہم ات اتنے سال آزادی سے رہ رہے ہوتے ہیں وہی ہمیں قید خانہ لگنے لگتا ہے اور ہم اُس قید خانے سے نکلنے کے لیے اتنے بےتاب ہو جاتے ہیں کہ آخر کار وہاں سے نکل کر اس جیسی جگہوں پر آ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کے لہجے میں جو درد بول رہا تھا عروج اُس کو اچھے سے محسوس کر سکتی تھی مگر افسوس کے سب کھو جانے کے بعد ہی یہ سب محسوس ہوا تھا۔

"کیا میری طرح تمہیں بھی استمال کر کے چھوڑ دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج نے دلگرفتگی سے پوچھا جس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا جیسے سیلاب اُمڈ آیا تھا۔

"میں سب سے زیادہ مخالفت کیا کرتی تھی کہ یہ پیار محبت سب فضول ہے کوئی سچا پیار نہیں کرتا اور پھر احمر سے ملنے کے چار ماہ بعد ہی میری سوچ کیا میرا دل بھی بدل گیا،وہ چار ماہ تک میرے پیچھے زلیل ہوتا مجھے اپنی محبت کا یقین دلا گیا ہے کہ،یقین بھی کیا مجھے بیوقوف بنا گیا تھا اب سوچتی ہوں تو خود پر زور زور سے قہقے لگانے کا دل کرتا ہے،بس وہ چار ماہ تک دھوپ میں کھڑا میرا بس اسٹاپ پر انتطار کرتا اور میں بس اس میں ہی پگھل گئی،مجھے اپنے گھر والے بُرے لگنے لگے کیونکہ وہ جان چُکے تھے کہ میں اُس سے شادی کرنا چاہتی ہوں مگر وہ کہتا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نکاح کرنے کے بعد آگاہ کرے گا کیونکہ اُسکی کزن کے ساتھ اُسکی بات طے تھی،میری بہن میری ماں نے مجھے سمجھایا مگر میرا یہ ماننا تھا کہ احمر ایسا نہیں وہ مجھے اکیلے میں ملنے کا نہیں کہتا کوئی بُری حرکت نہیں کرتا بس بات ہی تو کرتا تھا وہ باقی لڑکوں جیسا نہیں کیونکہ اُسکا لہجہ اُسکی قسمیں سب بتاتا تھا کہ وہ بہت مجبور ہے مگر وہ میرے لیے سب کچھ فیس کرے گا،ایک رات اُس کے کہنے پر سب چھوڑ چھاڑ کر ایک کرائے کے گھر میں چلی آئی اور نکاح سے ایک رات قبل ہی مجھے منہ کی کھانی پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ نے ایک کرب سے آنکھیں میچیں تھیں جیسے سارا کچھ نئے سرے سے تازہ ہو گیا تھا۔

"وہ مجھ سے نکاح نہیں کرنا چاہتا تھابلکہ استمال کرنا چاہتا تھا پوری آزادی کے ساتھ وہ بھی اکیلا نہیں بلکہ اپنے دوستوں کی شراکت داری سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کے لبوں سے سسکیاں نکلیں تھیں اور عروج اپنا غم بھول کر اُس کے غم میں آنسو بہانے لگی تھی۔

"میں جانتی ہوں میں کیسے وہاں سے بھاگی اپنی عزت بچا کر اور یہاں پناہ لے لی،اب بتاؤ عروج غلطی تو میری تھی نہ تو پھر سزا بھی مجھے ہی ملنی تھی نہ،اپنے ماں باپ کی مرضی پر ایک ناپسندیدہ کے لیے سر جھکانے والیوں کو تو ایک دن صبر آ جاتا ہے مگر اپنی پسند کے لیے ماں باپ کو چھوڑنے والیوں کو صبر نہیں آتا عروج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ نے بے دردی سے اپنی آنکھوں کے آنسو صاف کیے تھے۔

"محبت کے بغیر جی لیتا ہے انسان پر عزت کے بغیر جینا مرنے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے اور یہ بات اب سمجھ میں آئی مجھے،میں نے محبت ترجیح دیتے ہوئے اپنی اور اپنے ماں باپ کی عزت کو ملیا میٹ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج نے ہانیہ کے سسکیاں بھرتے وجود کو خود سے لگا کر دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی۔

!_________!__________________________________!

فاریسہ اُس کے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوئی تھی جو کہ بیڈ پر ٹک گیا تھا۔

"ادھر آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جو بیٹھنے کے لیے جگہ دیکھ رہی تھی اس کے پاس بلانے پر خوف سے زرد ہوئی تھی۔

"وہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے،یہاں آ کر بیٹھو،میں نے اُس دن کہا تھا نہ کہ میں تمہاری مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرونگا تمہیں مجھ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے انتہائی نرم انداز پر وہ جھجھکتی ہوئی اس سے کچھ فاصلے پر ٹک گئی مگر اُس کے دل کی رفتار تیز ہو گئی تھی۔

"ریلکیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے دھیان سے اُس کی طرف دیکھا جو اس کے لائے گئے بلیک ڈریس میں بالوں کی چٹیا کیے اپنی معصومیت اور سادگی میں برزل کے دل کے تار ہلا رہی تھی۔

"یہ میں تمہارے لیے لایا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک مہنگا موبائل سیٹ اُسکی طرف بڑھاتے ہوئے وہ اُسے حیران کر گیا۔

"میرے خیال میں موبائل تمہارے پاس ہونا چاہیئے تا کہ تمہارا جس سے دل چاہے تم بات کر سکو،جیسا کہ اپنی فرینڈز سے،اپنے بھائیوں اور اپنی ماما سے جو یقیننا تمہارے لیے پریشان ہونگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی بات پر وہ تشکر سے اُسے دیکھتی موبائل کو دیکھنے لگی چار دنوں سے وہ کتنی دفعہ مما کو یاد کر کے روئی تھی اُن سے بات کرنے کے لیے بے چین ہوئی تھی۔

"اس کے اندر سم وغیرہ ڈال دی گئی ہے،میرا نمبر،سلیمان اور حیدر کا بھی سیو ہے،میں چاہتا ہوں کہ تم کبھی بھی ہم تینوں کے علاوہ کسی پر بھروسہ مت کرو،مجھ سے اگر کچھ نہ کہہ سکو تو حیدر اور سلیمان کو اپنے بھائی سمجھ کر کچھ بھی کہہ اور کروا سکتی ہو وہ تمہیں کبھی مایوس نہیں کریں گئے،دوسرا میں نے تمہاری مما کا نمبر بھی سیو کیا ہے کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ تمہیں اُنکا نمبر یاد نہیں ہے ورنہ چاردنوں سے تم اس گھر میں ہو تم لینڈ لائن نمبر سے بھی رابطہ کر سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے مظبوط اور پریقین  لہجے پر وہ شرمندہ سی ہو کر سر جھکا گئی کیونکہ حقیقت بھی یہی تھی اسے کسی کا نمبر زبانی یاد نہیں ہوتا تھا۔

"لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم میرا نمبر ہر حال میں یاد رکھو اور تم یاد کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جیسے اس کے تاثرات پڑھ رہا تھا موبائل اسکی طرف بڑھایا جسے وہ تھام چُکی تھی۔

"وہ میں،یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہنا چاہتی تھی کہ اُسے پتہ نہیں کہ موبائل استمال کیسے کرنا ہے مگر کہہ نہ سکی پھر حیدر کا سوچ کر چپ ہو گئی کہ اُس سے سیکھ لے گی برزل ابراہیم جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتا وہ سب سمجھ گیا تھا۔

"لاؤ میں تمہیں اس کے فنکشنز سمجھا دوں،تا کہ تمہیں آسانی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل تھوڑا سا اسکی طرف جھکا تھا وہ پزل ہوتی دم سادھ گئی مگر برزل اس کے کیفیت کو نظرانداز کرتا موبائل کے بارے میں بتانے لگا وہ جو اس کی قربت پر دھک دھک کرتے دل کو قابو کرنے میں ہلکان ہو رہی تھی اس کی موبائل کی طرف توجہ پر کچھ ریلیکس ہوتی اُس کی طرف متوجہ ہوئی جو ایک ایک کرکے سب فنکشنز سمجھا رہا تھا۔

پندرہ منٹ تک وہ اُس کی ہر مشکل آسان کر گیا تھا فاریسہ اب کہ ریلیکس بیٹھی موبائل کے ساتھ لگی تھی برزل اُس کے قریب سے اُٹھتا ڈریسنگ روم کی طرف بڑھا اپنے کپڑے لے کر وہ فریش ہونے واشروم میں چلا گیا جب دس منٹ بعد آیا وہ وہی بیٹھی موبائل کے ساتھ ہی چھیڑ کھانی کر رہی تھی۔

"کل سلیمان تمہیں بُکس وغیرہ لا کر دے گا تم پیر سے اپنے کالج جایا کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

فارسیہ برزل کے نئے آڈر پر چونک کر اُسکی طرف مُڑی جو ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا  ٹرازور اور ٹی شرٹ میں ملبوس اپنی وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

"کالج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ یقیننا حیران تھی۔

"ہاں کالج،تمہارے دو ماہ تک ایگزیمز ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ تم ایگزائمز دو،ابھی تم اسی کالج میں ہی پڑھو گی اُس کے بعد تمہارا کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن کروا دونگا،اس لیے اچھے سے تیاری کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے جھٹکے پر جھٹکے لگا رہا تھا فاریسہ حیران تھی کہ وہ اس نئی زندگی کو اپنی خوش قسمتی سمجھے یا اپنے ماں باپ سے دوری کی وجہ سے اس گھر کو اپنی قید سمجھے۔

"ڈنر پر ملتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنا موبائل پکڑتا وہ اس پر ایک نرم نگاہ ڈالتا چلا گیا جبکہ فاریسہ حیران ہوتی وہی رہ گئی۔

!_________________________________________!

برزل ابراہیم سیڑھیاں اُترتا نیچے آیا تو حیدر اور سلیمان میں کسی بات پر بحث چل رہی تھی اسے دیکھ کر دونوں خاموش ہو گئے تھے۔

"حیدر اسٹڈی میں جاؤ،مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مودب سا بولتا چلا گیا۔

"سلیمان پیر سے فاریسہ کالج جایا کرے گی اُسکی سیکیورٹی اب تمہاری زمعہ داری ہے،وہی کچھ کرنا جو حیدر کی اسٹڈی کے دوران کیا تھا،سمجھ گئے ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ سلیمان کی طرف مُڑا۔

"جی بھائی،آپ فکر نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے ایس پی کی خاموشی کچھ پُرسرار سی لگ رہی ہے،میں نہیں چاہتا کہ وہ فاریسہ کو کوئی نقصان پہنچائے اس لیے دھیان میں رکھنا اُسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اب چلو زرا اس لڑکے کی سرکس دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر سلیمان بھی مسکراتا ہوا اُس کے ساتھ اسٹڈی میں داخل ہوا جہاں حیدر پہلے سے براجمان تھا۔

"حیدر میں نے تمہیں پہلی اسائمنٹ دی تھی جس میں رئیس کے آدمیوں کو پکڑوانا تھا مگر تم ناکام ہوتے خود پکڑے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اُس ایس پی نے جان بوجھ کر مجھے پکڑا تھا بھائی صرف اُن آدمیوں کو نکالنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے صفائی دینا ضروری سمجھا تھا۔

"بات یہ نہیں کہ کسی نہ جان بوجھ کر پکڑا کہ انجانے میں،بات یہ ہے کہ ہم پکڑے ہی کیوں گئے ہمارا کام ہی ایسا ہے کہ ہمیں ہر کام بنا پکڑے یا کسی کی نظروں میں آئے بغیر کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے بیٹھتے ہوئے اسے کچھ باور کروایا تھا وہ سر ہلا گیا۔

"سلیمان۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے اشارے پر سلیمان نے کچھ فوٹیج ایل ڈی پر ظاہر کیے تھے۔

"یہ تو مسز رانا ہیں،ٹی وی ہر دوسرے دن آ جاتی ہیں کسی نہ کسی ٹاک شو میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے سکرین پر اُبھرتی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"ہاں بلکل ٹھیک پہچانا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے سر ہلایا۔

"مجھے کیا کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اتنا تو جان چُکا تھا کہ کوئی نیو اسائمنٹ ہے۔

"یہ عورت روپ تو مدر ٹریسا کا لیے پھر رہی ہے مگر اصل میں اسکی حقیقت کچھ اور ہے،اس کا شوہر وقار آفندی ایک سیاست دان اور بزنس مین ہے مگر اس کے علاوہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ مل کر انڈر گراونڈ لڑکیوں کا کام کرتے ہیں،اس عورت کا جو دارلامان ہے اور بے سہارا فاؤنڈیشن وہ سب ہے ہی اصل میں جوے کا اڈا ہے،یہ لوگ بے سہارا عورتوں کو پناہ کے لالچ میں رکھتے ہیں مگر پھر اُنکو کہیں نہ کہیں اپنے فائدے کے لیے استمال کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان دو پل رُکا پھر سکرین پر دلاج آفندی اور مسز رانا کی تصویر اُبھرنے پر بولا۔

"دلاج آفندی بھی اس کے دارالمان میں آنے والی ایک لڑکی تھی مگر وہ ملزم تھی کیونکہ وہ اپنے شوہر کی قاتل تھی،مسز رانا نے اُسکی ایسی برین واشنگ کی کہ وہ اُن کو فائدہ دے سکے،وہی ہوا کہ کچھ ماہ بعد ہی اپنے دوست نما حریف برجیس آفندی کے لیے اُسے استمال کیا،اسی طرح یہ لوگ نہ صرف لڑکیوں بلکہ چھوٹی بچیوں کا بھی استمال کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کہہ کر چپ ہو کر برزل کی طرف دیکھنے لگا۔

"مجھے ان دونوں میاں بیوی تک جانا ہے جبکہ تم مسز رانا کے دارالامان میں جاؤ گئے اور جب تک میرا کام نہیں ہو جاتا تم وہی رہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے کہنے پر وہ حیرانگی سے بولا۔

"پر بھائی میں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اُس کے سوال پر سلیمان نے مسکراتے ہوئے برزل ابراہیم کی طرف دیکھا تھا۔

"تمہیں اپنی بھابھی کے کپڑے اور میک اپ استمال کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر جھٹکا کھا کر دونوں کے مسکراتے چہرے دیکھنے لگا۔

"مطلب میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سوچ ہی اُسے دنگ کر گئی تھی بھلا وہ کیسے ایک ہجرا بن سکتا تھا۔

"نہیں نہیں،مجھے نہیں بننا وہ،اس سے بہتر ہے کہ میں مر جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر فورًا سے پیشتر انکار کر گیا۔

"مرنے سے پہلے یہ کام کر جاؤ تو اچھا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "برزل جا کر کرسی پر بیٹھتا لیپ ٹاپ کھول لیا حیدر نے سلیمان کو دیکھا جو ہنس رہا تھا حیدر کے تپنے میں ایک منٹ نہ لگا تھا۔

"آپ مجھے سمجھ کیا رہے ہیں،میں کیسے ایک ہجرا بن سکتا ہوں بھائی،شکر ہے مما پاپا زندہ نہیں ورنہ وہ اس دن پر ہی دُکھ سے مر جاتے کہ اُنکا بڑا بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو ایک ہجرا بنانے پر تُلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم بہت اچھے لگو گئے حیدر،ٹرسٹ می۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی آنکھیں مُسکرا رہی تھیں جبکہ سلیمان زبردست قہقہ لگا گیا۔

"بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پاؤں پٹخ کر رہ گیا بے بسی سے مُٹھیاں بھینچ گیا۔

"لوگ اپنے بھائیوں کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر بنیں،انجینر بنیں فوجی بنیں اور آپ،اتنا پڑھا لکھا کر مجھے یہ بنا رہے ہیں،آج مما پاپا ہوتے تو میرے ساتھ یہ سب نہ ہوتا،لوگ مجھے دیکھ کر ہنسیں گئے اور وہاں دارالامان میں پتہ نہیں کیسے لوگ ہونگے آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں،میری جگہ ہم اصل والا بھیج دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب وہ جذباتی بلیک میلنگ پر آیا تھا برزل ابراہیم اُٹھ کر اس کے قریب آیا تھا۔

"اس کام کے لیے میں رسک نہیں لینا چاہتا حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پر بھائی یہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کرنا پڑے گا حیدر،تم جانتے ہو نہ ہمارا مقصد ہماری خواہشوں اور جانوں سے بڑھ کر ہے،ہم ہر حال میں جو کرنا پڑے کر کے اپنے مقصد کو حاصل کریں گئے،تم مما پاپا سے کیا پرامس بھول گئے ہو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جس بات کی طرف اشارہ کیا تھا حیدر نے زور سے سر ہلایا تھا۔

"میں اُس پرامس کو پورا اور اُس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرونگا بھائی کیونکہ وہ میری جان سے بھی بڑھ کر مجھے عزیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے چہرے پر اس وقت جو سنجیدگی اور دُکھ تحریر تھا برزل نے اُسے اپنے ساتھ لگا کر اُسکی پیٹ پر تھپکی دے کر خود کو مضبوط رکھتے ہوئے پلٹ گیا تھا۔

"تم بس ایک کھیل کی طرح لو اسے،جیسے کہ تم کسی ڈرامعے میں ایکٹینگ کر رہے ہو،تم نے دیکھا نہیں فلموں اور ڈراموں میں لوگ کس طرح کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی بات پر وہ سر ہلا کر برزل ابراہیم کی طرف دیکھنے لگا جو اضطرابی انداز میں ادھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا یہ اضطراب کس لیے تھا وہ دونوں ہی اچھی طرح جانتے تھے۔

"بھائی،آپ پریشان نہ ہو ایک دن ہم اُن تک پہنچ جائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے کہا تو برزل ابراہیم گہری سانس بھرتا سر ہلا گیا۔

"اب تمہیں سلیمان باقی کی تفصیل بتا دے گا اور یہ بھی کہ تم کس طرح وہاں داخل ہو گئے،کیا باتیں کرنی ہیں کس طرح رہنا ہے یہ بھی سب،کور سٹوری ایسی ہو کہ کسی کو شک نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی میں سمجھ گیا جس طرح آپ نائن گروپ کو جاننے کے لیے ایک سال تک پاگل بنے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے کہنے پر برزل ابراہیم مسکرایا۔

"مگر تمہارا کام زیادہ اچھا ہوگا میری نسبت،شوخ اور رنگین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا تو حیدر تپ گیا تھا یہی مذاق اور طنز اُس کے لیے ناقابل برداشت تھے۔ 

!__________________________________________!

ایس پی نازر اعوان اس وقت رئیس کے فارم ہاوس میں موجود تھا اور رئیس کا انتظار کر رہا تھا جو دو منٹ ہی کمرے میں داخل ہو گیا تھا۔

"کیسے ہو ایس پی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس ہمیشہ کی طرح شلوار قمیض پر واسکوٹ پہنے اس کے سامنے تھا۔

"میں ٹھیک ہوں،بس کچھ پریشانی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بلکل ویسی جیسی آج سے بیس سال پہلے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس کی معنی خیز بات پر وہ گہرا سانس بھرتا سر جھٹک گیا۔

"نہیں اُس سے کچھ مختلف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں بتاؤ،ہم یاروں کے یار ہیں،تمہیں پریشانی سے نکالنے کی پوری کوشش کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"برزل ابراہیم،جس کے بھائی نے تمہارے بندوں کے پاس ڈرگز دیکھ کر پولیس کو کال کر دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں تو وہ معاملہ تو کب سے رفع دفع ہو گیا،کیا اس وجہ سے وہ پریشان کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس نے سگریٹ لبوں سے لگائی۔

"ہاں تب کا وہ پیچھے پڑا ہوا ہے،کہتا ہے کہ میں نے اُس کے خلاف جا کر اچھا نہیں کیا ہے،اُس نے مجھے بہت بڑی تکلیف سے دوچار کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ اُس سے بڑی تکلیف میں مبتلا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کے لہجے میں اُس کے لیے نفرت صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔

"اوکے تصویر دے دو،کل تک مر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مارنا ہے اُسے پر مجھے خود مارنا ہے میں چاہتا ہوں ہوں کہ تم کچھ ایسا کرو کہ وہ جیل کے اندر ہو،پھر میں اُسے بتاؤں کہ میرے ساتھ پنگا لینے والوں کاانجام کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"فکر نہ کرو،ہو جائے گا ایس پی،ایک معمولی سے بندے کو جال میں پھنسانا کونسا مشکل کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ معمولی نہیں ہے رئیس،وہ بہت طاقتور اور تیز دماغ کا آدمی ہے،اُسکا اُٹھنا بیٹھنا بہت بڑے لوگوں کے ساتھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے اُسے آگاہ کرنا ضروری سمجھا تھا۔

"جو بھی ہے میں دیکھ لونگا،تم بس اُس کو کیسے مارنا ہے یہ سوچو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔

فاریسہ فریش ہو کر کمرے سے نکلتی لاؤنج میں آئی جہاں اُسے سلیمان اور برزل ابراہیم بیٹھے دکھائی دیے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی اُنکی طرف بڑھنے لگی کہ اُن کے ساتھ بیٹھی ہستی کو دیکھ کر اُس کے قدم تھمے تھے بلکہ وہ کچھ حیرانگی سے دیکھنے لگی اس کے سُرخ سُوٹ میں ملبوس وہ کوئی لڑکی تھی۔

"یہ تو میرا ڈریس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سوچتے ہوئے آگے بڑھی تا کہ اس لڑکی کی شکل دیکھ سکے جس نے اسکا سُوٹ پہننے کی ہمت کی تھی۔

"آئیے بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے بعد سلیمان کی اُس پرنظر پڑی تو وہ احترام سے اُٹھتا اسے بیٹھنے کا کہتا خود اُس لڑکی کی طرف بیٹھ گیا جس کی ابھی بھی اس طرف پشت تھی۔

"یہ،یہ کون ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟وہ بلا تجسس پوچھ گئی اب پوچھا کس سے تھا یہ کہنا مشکل تھا کیونکہ وہ اس لڑکی پر نظریں ٹکائے ہی بولی تھی۔

"یہ آپکی نند صدف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان مسکراتے ہوئے بتانے لگا فاریسہ نے حیرانگی سے برزل ابراہیم کی طرف دیکھا جو زیرلب مسکرا رہا تھا۔

"صدف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لبوں سے یہ الفاظ ادا ہوئے تو وہ لڑکی گھوم کر اس کی طرف ہوئی۔

"کیسی ہیں آپ بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بہت باریک آواز میں بولتی اسے دھچکا لگا گئی کیونکہ سُرخ سوٹ میں ملبوس بال پشت پر لہرائے فل میک اپ میں وہ اسے حیدر کی طرح لگی تھی نہ جانے کیوں کچھ عجیب سی لگی تھی اور پھر دو پل نظر گاڑھے وہ اتنا جان چُکی تھی کہ وہ لڑکی نہیں تھی کوئی دوسری مخلوق تھی۔

"یہ،یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لگتا ہے آپ مجھے پہچان نہیں پائی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر مسکراتے ہوئے بولتا اسے نہ صرف چونکا گیا بلکہ وہ آنکھیں پھاڑے بے یقینی سے اُسے دیکھنی لگی۔

"حیدر بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شاید ابھی بھی بے یقینی کے سفر میں غوطہ زن تھی۔

"کیسا لگ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسکرا رہا تھا فاریسہ جو پہلے حیرت زدہ تھی اب اسکو دیکھتی ہنسی تھی اور پھر ہنستی چلی گئی تھی حیدر نے خفت زدہ ہو کر برزل ابراہیم کو دیکھا جو پُرشوق نگاہوں سے اپنی بیوی کو ہنستا دیکھ رہا تھا۔

"اللہ،بھائی،یہ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسلسل ہنس رہی تھی جس سے اُسکی آنکھوں میں پانی اُبھر آیا تھا۔

"بھائی اگر بھابھی ہنس رہی ہیں ہیں تو جو بھی دیکھے گا ہنسے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نروٹھے انداز میں بولتا صوفے پر ٹک گیا۔

"سچ میں یار بہت کیوٹ لگ رہے ہو،بھابھی تو اس لیے ہنس رہی ہیں کہ اُنکو پتہ ہے کہ تم حیدر سے یہ عجوبہ بنے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے مسکراہٹ روکی تھی۔

"عجوبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سلیمان کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

"ہاں ایسا عجوبہ جو میری بیوی کے ہونٹوں پر ہنسی لے آیا ہے،اس کے بدلے تو تمہیں سات خون معاف ہیں حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم پیار بھری نظر فاریسہ پر ڈال کر کہہ اُٹھا جو اسکی بات پر خجل سی ہو گئی۔

"بھابھی کیا میں واقع میں اچھا نہیں لگ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاید وہ دُنیا کا پہلا شخص تھا جسے یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ وہ ہیجڑا بن کر اچھا لگ رہا تھا یا نہیں۔

"آپ بہت اچھے لگ رہے ہیں،ایسے ہی رہا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے تسلی دیتی شاید نہیں یقیننا کچھ بُڑا بول گئی جس کا اندازہ اُسے برزل ابراہیم اور سلیمان کے قہقے سے ہوا تھا۔

"بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر خفیف سا ہو گیا۔

"اچھا ٹھیک ہے،اب تم لوگ جاؤ،جیسے بولا ہے ویسے ہی کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے کہنے پر دونوں سر ہلا کر چلے گئے جبکہ فاریسہ کے لبوں پر ایک دفعہ پھر مسکراہٹ آ گئی تھی۔۔۔

"مُسکراتے ہوئے اچھی لگتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے دلکش لب و لہجے پر اُسکا دل دھڑکا تھا وہ نظریں ملائے بنا اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

"کہاں جا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔

"وہ،کمرے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کے نزدیک آنے پر کچھ گھبرائی تھی۔

"کمرے میں اس وقت نہ ہی جاؤ تو بہتر ہے کیونکہ کمرے میں،میں جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا لہجہ معنی خیز تھا فاریسہ اُس کے الفاظ میں چھپی معنی خیزیت پر اُسکا دل دھک سا رہ گیا وہ دھڑکنوں کی اتھل پتھل ہوتی رفتار پر کچن کی جانب بھاگ گئی جبکہ برزل مسکراتا ہوا کمرے میں چلا گیا اور پھر واقع ہی فاریسہ رات تک کمرے میں نہ گئی تھی اور جب دھڑکتے دل کے ساتھ گئی تو برزل ابراہیم کو سوتا دیکھ کر سکون کا سانس لیتی بیڈ پر ٹک گئی۔

"____________________________________________"

حیدر اپنی کور سٹوری کے مطابق مسز وقار رانا کے ساتھ ٹکراتا اُسکی ہمدردی سمیٹ چُکا تھا اور برزل ابراہیم کے اندازے کے مطابق مسز رانا نے اسے اپنے "سہارا دارلامان" میں ہی بھیجا تھا۔

"میم اسکا ہم کیا کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس دارلامان کی انچارج انیلا نے کچھ بے زاری سے اس مخلوق کو دیکھا تھا۔

"تم پاگل ہو انیلا،یہ بھی ہمارے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے اور اگر نہ بھی ہو تو لوگوں کے لیے ہم سہارا دینے والے ہیں تو سہارا ہر ایک کے لیے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مسز رانا انیلا کو دبے دبے انداز میں کہتی چلی گئ تو انیلا بھی صدف نامی اس مخلوق کی طرف متوجہ ہوئی جو کہ کچھ سہمی ہوئی نظروں سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔

"چلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انیلا اُسے چلنے کا اشارہ کرتی اندر کی طرف بڑھی جہاں اس وقت دارالامان کے مرکزی کمرے میں سب عورتیں اور لڑکیاں لنچ کر رہی تھیں۔

"ارے دیکھو تو کون آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف کے کانوں میں مختلف آوازیں پڑی تھیں کچھ مسکراتی کچھ طنزیہ کچھ ہمدردی لیے آنکھیں اسکا پوسٹ مارٹم کر رہی تھیں۔

"یہ تم لوگوں کی نئی ساتھی ہے،اسکا نام صدف ہے،یہ لوگوں کی طنزیہ نگاہوں اور کچھ وحشی جانوروں سے بچتی یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئی ہے اس لیے تم لوگ اسکو اپنے جیسی ایک مظلوم عورت ہی لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انیلا کہتی ہوئی واپس چلی گئی تو صدف نے ہچکچاتے ہوئے اپنے ڈوپٹے کو سہی کیا اور ایک طرف کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔

"کھانا کھاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ ہانیہ تھی جسے شروع سے ہی اس مخلوق سے گہری ہمدردی رہی تھی صدف نے سر اُٹھا کر دیکھا پنک کلر کے سادہ سے لباس میں ملبوس ڈوپٹے کو سر پر لیے سادہ سی وہ لڑکی صدف کو اچھی لگی تھی بلکہ صدف کے اندر چھپے حیدر کو بھی اچھی لگی تھی اس لیے سر ہلا دیا۔

ہانیہ ایک پلیٹ میں دال چاول ڈال کر اس کے قریب آئی اور پلیٹ اس کے آگے رکھ کر خود بھی ساتھ ٹک گئی۔

"مجھے ہمیشہ سے اس بات کا دُکھ رہا ہے کہ انسان کس قدر جانور بن گیا ہے کہ تم لوگوں پر بھی اُسے رحم نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف کو جھجکتے ہوئے چاولوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے ہانیہ دلگرفتگی سے بولی تھی۔

"باہر کے جانوروں سے اتنا خوف کبھی محسوس نہ ہو اگر اپنے گھر کے لوگ ہمیں اپنا سمجھ لیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف کے لب و لہجے میں گہرے دکھ کی جھلک تھی ہانیہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔

"لگتا ہے تمہیں بھی تمہارے گھر والوں نے اس حقیقت کے ساتھ قبول نہیں کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ نے اس کے خوبصورت چہرے پر جمے میک اپ کو دیکھا تھا۔

"نہیں کیا تو میں یہاں ہوں نہ،کیونکہ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی اچھی قسمت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی اور شاید بابا کی عزت بھی رول رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف کی نم آنکھیں ہانیہ کی آنکھیں بھی نم کر گئی تھیں بلکہ باقی جو ان کے ارد گرد عورتیں تھیں وہ بھی افسوس سے اسکی طرف دیکھنے لگیں جو لب کاٹ رہی تھی۔

"ہم چاہے ایک جیسی نہیں پر ہمارے دُکھ ایک جیسے ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج کی غم زدہ آواز پر سب ہی دل مسوس کر رہ گئیں تھیں۔۔

!___________________________________________!

آج پھر وہ اُسی محلے میں موجود تھا اور اُمید لیے محلے کی جامعہ مسجد میں مولوی عبیداللہ کا انتظار کر رہا تھا جو ظہر کی ازان سے فارغ ہوتے اس اجنبی کی طرف آئے تھے۔

"ہاں بولو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مولوی عبیداللہ اس کے قریب بیٹھ گئے اور اس خوش شکل نوجوان کی طرف دیکھا جو بڑا مودب سا بیٹھا تھا۔

"آپ سے کچھ مدد چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اگر میرے لائق ہوئی تو ضرور کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں تین دفعہ اس محلے میں کسی کو تلاش کرنے آ گیا ہوں مگر تلاش کرنے میں ناکام رہا ہوں کیونکہ جس کے پاس بھی گیا وہ ہی پہنچ سے دور ہوتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے بات شروع کی تھی۔

"کس کو تلاش کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مولوی کے پوچھنے پر وہ گہرا سانس بھرتا بولا۔

"زولفقار صاحب کو،آج سے بیس پچیس سال پہلے وہ اس محلے میں رہتے تھے اور اُنکی وفات بھی اسی محلے میں ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر مولوی عبیداللہ نے ایک نظر اُسکی سوالیہ نظروں کی طرف دیکھا پھر سر ہلا گئے۔

"زولفقار اعوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُنکے کہنے پر وہ خوشگوار انداز میں گویا ہوا۔

"تو آپ جانتے ہیں اُنکو؟مجھے اُنکے گھر والوں سے ملنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ تو میں نہیں جانتا کہ اُن کے گھر والے اس محلے سے اُٹھ کر کہاں گئے ہیں مگر اتنا پتہ ہے کہ ایک شخص تمہیں اُن کے گھر تک لے جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مولوی عبیداللہ نے جیسے اس پر بہت بڑا احسان کر دیا تھا  وہ تشکر بھری نظروں سے دیکھتا انکے اگلے الفاظ کا منتظر تھا۔

"زولفقار اعوان کا بڑا بیٹا ایس پی نازر اعوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"الفاظ کیا تھے اُس کے لیے ایک جھٹکے کا باعث ثابت ہوئے تھے وہ اپنی پوری زندگی میں اس قدر حیران نہیں ہوا تھا جتنا اب حیران سا اُنکی طرف دیکھ رہا تھا۔

"ایس پی نازر اعوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے یقینی سے بڑبڑایا۔

"ہاں اُنکا بڑا بیٹا ایس پی ہے،جبکہ چھوٹا بیٹا شاہ زر اعوان کوئی کاروبار سھنمبالتا ہے،اُنکی ایک بیٹی عائشہ تھی جو اُنکی وفات سے کچھ سال بعد ہی فوت ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ان باتوں کے جاننے کے بعد اب کچھ بھی جاننے کو نہ بچا تھا وہ لب بھینچ کر اُن سے اجازت طلب کرتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"تُم کون ہو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے ساتھ ہی اُٹھتے مولوی عبیداللہ نے دیارفت کیا تھا۔

"میں زولفقار اعوان کی بیٹی عائشہ اعوان کا بیٹا ہوں،برزل ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُنکو حیرت میں چھوڑتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

اپنی گاڑی کے پاس آ کر وہ گہرا سانس لیتا خود کو کمپوز کرنے لگا۔

"پہلے تو تم نے صرف میرا غصہ دیکھا تھا اب تم برزل ابراہیم کے قہر کو دیکھو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نازر اعوان سے مخاطب ہوتا اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔

"سلیمان گھر آ کر ملو مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کو میسج چھوڑتا وہ گاڑی گھر کے راستوں پر ڈال گیا۔

!___________________________________________!

جب وہ گھر آیا تو سلیمان اُسے اسٹڈی روم میں ہی مل گیا تھا وہ دروازہ بند کرتا اُس کے قریب آیا جو اسے کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا کیونکہ برزل ابراہیم کے لب غصے اور ضبط سے بھینچے ہوئے تھے جبکہ رگیں اُبھری ہوئیں تھیں۔

"کیا بات ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کو اس کے تاثرات سے پریشانی محسوس ہوئی تھی۔

"مما پاپا کا قاتل نازر اعوان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے سلیمان کی سماعتوں میں بم پھوڑا تھا۔

"مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے یقینی سے دیکھنے لگا جو گہرے سانس بھرتا ضبط کے کٹھن مراحلوں سے گزر رہا تھا ورنہ بس نہیں چل رہا تھا کہ اُسے ابھی جا کر ختم کر دے۔

"مطلب عائشہ چچی کا بھائی نازر اعوان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان بھی شدید حیرت میں مبتلا تھا جس انسان کو وہ کب سے ڈھونڈ رہے تھے وہ اُنکی نظروں کے سامنے موجود تھا۔

"ہاں،نازر اعوان ہی وہ قاتل ہے جسے ہم اتنے سالوں سے ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا اُسے معلوم ہوگا کہ ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے بات اُدھوری چھوڑ کر اُسکی طرف دیکھا جو سر نفی میں ہلا گیا تھا۔

"بلکل بھی نہیں،اگر اُسے یہ پتہ ہوتا کہ میں زندہ ہوں تو وہ کب کا مجھے بھی مما پاپا کے پاس بھیجنے کا کوئی منصوبہ بنا چُکا ہوتا،اس لیے ہم اُسکی بے خبری کا فائدہ اُٹھا کر اُس کا سانس لینا بھی بند کر دیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے لہجے میں چٹانوں سی سختی اور آنکھوں میں نفرت اور غم و غصے کے شعلے لپک رہے تھے۔

"اور بھابھی،اُنکا کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے اچنبھے سے پوچھے گئے سوال پر برزل ابراہیم نے ایک نظر اُسے دیکھا تھا اور پھر بے تاثر انداز میں کہہ اُٹھا۔

"میں بیس سالوں سے ماں باپ کے بغیر زندگی گُزار رہا ہوں اگر اب وہ بھی باپ کے بغیر باقی کی زندگی گُزار لے گی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"زندگی تو گُزار لیں گی مگر اپنے باپ کے قاتل کے ساتھ کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کو یہی اُلجھن تھی کہ اگر فاریسہ کو پتہ چل گیا تو وہ ان لوگوں سے نفرت ہی کرے گی۔

"میں بھی تو ساری عمر اُس کے ساتھ اس حقیقت کو جھٹلا کر رہونگا کہ وہ میرے ماں باپ کے قاتل کی بیٹی ہے،اور دوسری بات میں یہ راز کبھی بھی اُسے نہیں بتاؤنگا کہ ہمارا کوئی اور رشتہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے فیصلہ کن انداز میں سلیمان کی طرف دیکھا۔

"اور جہاں تک اُس کے باپ کی بات ہے وہ مرے گا تو میرے ہاتھوں ہی مگر فاریسہ کیا کسی کو بھی اس بات کا پتہ نہیں لگے گا کہ نازر اعوان کی جان لینے والا برزل ابراہیم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں سمجھ گیا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان جانتا تھا کہ برزل ابراہیم اپنا شکار کیسے کرتا تھا۔

"اور وہ راز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی ادھوری بات پر ہی برزل ابراہیم کی آنکھیں سُرخ ہو گئیں تھیں۔

"اُس راز تک ہمیں نازر اعوان نہیں حیدر لے کر جائے گا اس لیے ہمیں فلحال ایس پی کو اپنی طرف سے غافل رکھنا ہے کہ اُس کا دشمن برزل ابراہیم اصل میں ہے کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے نازر اعوان کی بربادی کا کھیل شروع کر دیا تھا۔

سلیمان کو ایک اہم کام سونپ کر وہ اپنے روم میں آیا تو سامنے ہی اپنے موبائل کے ساتھ لگی فاریسہ کو دیکھ کر وہ ایک گہری سانس بھر کر رہ گیا اگر شادی سے پہلے اُسے پتہ ہوتا کہ فاریسہ کا باپ ہی قاتل ہے تو وہ شاید کبھی بھی اس سے شادی نہ کرتا کیونکہ اُس نے اپنی پوری زندگی میں کسی سے اگر نفرت کی تھی تو وہ اپنی ماں کا خاندان تھا جس نے اسکے ماں باپ کو اپنے جھانسے میں پھسلا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا وہ اُس خاندان کے کسی بھی فرد کو اپنے اتنے نزدیک نہیں دیکھ سکتا تھا اور اب اُس قاتل کی بیٹی کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقام دے دیا تھا۔

"آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ اُسے وہی دروازے کے پاس کھڑے خود کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھتا پا کر بے اختیار اُٹھ کر اُس کے قریب آئی تھی جو غیر محسوس انداز میں ایک قدم پیچھے ہوا تھا۔

"کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے منتشر ہوتے جذبات پر قابو پاتا اس کے قریب سے گزرتا آگے بڑھ گیا۔

"کچھ نہیں،وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر نفی میں ہلاتی کچھ پوچھتی پوچھتی چپ کر گئی۔

"کچھ پوچھنا ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکی طرف دیکھنے لگا جس کے نین و نقش اسے اسکی باپ کی یاد دلا گئے وہ مٹھیاں بھینچ کر چہرے کا رُخ موڑ گیا۔

"وہ بھائی،وہ حیدر بھائی ایسے کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جس بات پر وہ کل سے پریشان اور سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی اس سے پوچھ گئی۔

"پریشانی والی بات نہیں،اصل میں اُسے اپنی یونی میں ایک پلے پیش کرنا ہے جس میں اُسکا رول یہ ہے،وہ ریہرسل کے لیے کچھ دن اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے فلیٹ میں رُکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ نرمی سے کہتا اُسے پرسکون کر گیا۔

"مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے شاید دو دن تک نہ آؤں،تم نے کل سے کالج جوائن کرنا ہے اس لیے دو باتوں کو زہن میں رکھنا کہ اب تم مسز برزل ابراہیم ہو اس لیے فاریسہ اعوان کو بھول جاؤ اور اعوان ہاوس کو بھی کیونکہ وہاں اب تمہارا کوئی خیر خواہ نہیں بیٹھا،وہ لوگ تم سے قطع تعلق کر چکے ہیں اور اس بات کی تصدیق بھی تم اپنی چچی سے بات کر کے دیکھ چکی ہو جنہوں نے تمہیں تمہاری مما سے بات نہیں کرنے دی،میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ بہت جلد تمہیں تمہاری مما سے ملواؤنگا مگر تب تک تم کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا کہ مجھے افسوس ہو،اور دوسری بات تم ہمیشہ اپنا خیال رکھنا کیونکہ تم اپنے پاس میری امانت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے قریب کھڑا اُس کے گال کو نرمی سے سہلاتا وہ فاریسہ اعوان کو یہ باور کروا چُکا تھا کہ وہ اُس کے لیے خاص ہے اور خود کو بھی باور کروا گیا تھا کہ چاہے اُسکا باپ قاتل تھا مگر وہ معصوم تھی اُسکی محبت اور اُسکی بیوی تھی جسے وہ خود سے اس بات پر لاتعلقی کا اظہار نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ایک قاتل کی بیٹی تھی کیونکہ برزل ابراہیم ہمیشہ ظلم کرنے والوں کے لیے عذاب تھا معصوم اور مظلوم کے لیے وہ ایک نرم اور ٹھنڈی آبشار ثابت ہوا تھا۔

"جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس کی اس قدر نزدیکی پر بمشکل ہی سر ہلا پائی۔

برزل ابراہیم نے ایک نظر اُس کے گالوں پر چھائی سُرخی کو دیکھا پھر ایک سانس ہوا کے سُپرد کرتا واش روم میں چلا گیا جبکہ فاریسہ نے بھی کب کی روکی سانس اب ہوا کے سُپرد کی تھی۔۔ 

نازر اعوان اس وقت اپنی اسٹڈی میں بیٹھا کسی کیس کی فائل دیکھ رہا تھا کہ اُسکا موبائل بج اُٹھا دھیان موبائل کی سکرین کی طرف گیا جہاں رئیس کالنگ کے الفاظ اُسے ہر چیز سے بے نیاز کرتے کال پک کرنے کی طرف متوجہ کر گئے۔

"ہاں رئیس بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں نے پتہ کروایا ہے اُس لڑکے کے بارے میں،مجھے تو کچھ خاص نہیں ملا اُس میں سوائے یہ کہ اُسکا اُٹھنا بیٹھنا کچھ سیاسی لوگوں کے ساتھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس کی بات پر نازر غصے سے اعوان مُٹھیاں بھینچ گیا مگر خود پر قابو پاتے ہوئے بولا۔

"تو دوسرے کام کیا سوچا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ دو دن تک ہو جائے گا،تم اُسکی فکر نہ کرو بلکہ یہ سوچو کہ اُسے پولیس مقابلے میں مارنا کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس کی مسکراتی آواز اُسے ریلکیس کر گئی۔

"وہ سوچ لیا ہے میں نے،تم بتاؤ کیسے اُسے میرے تھانے تک پہنچاؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"رئیس کے لیے کوئی کام ناممکمن نہیں ہے،تمہیں برزل ابراہیم کو سلاخوں کے اندر ڈالنے کے لیے کسی بڑی وجہ کی ضرورت ہے نہ تو وہ وجہ میں تمہیں میسر کر دونگا،جیسے آج سے کچھ سال پہلے تمہارے لیے کسی کو اس دُنیا سے اُٹھوا دیا تھا،ہم تو یاروں کے یار ہیں ایس پی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس کی بات اُسے کچھ یاد دلا گئی تھی پھر سر جھٹک کر اُسکا شکریہ بولتا فون رکھ گیا۔

"وہ ابراہیم بھی ضدی تھا اور یہ ابراہیم بھی ضدی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس پی بڑبڑا کر رہ گیا تبھی مہ پارہ بیگم ان سے اجازت لیتی اندر داخل ہوئیں۔

"میں بس آ ہی رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کو لگا شاید کھانے کے لیے بلانے آنے آئی تھیں۔

"مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم جھجھکتے ہوئے کہنے لگیں۔

"جی بولیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس پی نازر اعوان فائل کے اندر کاغذات رکھنے لگا جبکہ کان مہ پارہ بیگم کی طرف ہی متوجہ تھے۔

"جیسا کہ آپ کو پتہ چل چکا ہے کہ میری فاریسہ سے کال پر بات ہوئی تھی تو میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ فاریسہ خوش ہے وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان نے مہ پارہ بیگم کی طرف سپاٹ نگاہوں سے دیکھا وہ دو پل کو چپ کر گئیں پھر خود میں ہمت لاتے ہوئے بول پڑیں۔

"میں نے کھل کر بات کی اُس سے،وہ لڑکا اُس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کر رہا ہے، فاریسہ کو مکمل آزادی دے رکھی ہے اُس نے،کل سے وہ کالج بھی جایا کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کے لہجے میں سکون اور ایک خوشی کا احساس تھا جو ہر ماں کے لہجے میں بیٹی کو خوش دیکھ کر ہوتا تھا۔

"کالج،کالج جائے گی وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کو یہ اطلاع معقول لگی تھی۔

"جی اُس نے خود بتایا کہ وہ کل سے کالج بھی جوائن کر رہی اور اُسے کہیں بھی آنے جانے کی مکمل آزادی ہے،وہ لڑکا چاہے مجرم ہے آپکا مگر وہ ہماری بیٹی کے لیے اچھا ثابت ہو رہا ہے اس لیے۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک پل کو رُکیں پھر کہہ اُٹھیں۔

"اس لیے میں چاہتی ہوں کہ آپ بھی اُس لڑکے کو قبول کرنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میرا خیال ہے تم وہ بے عزتی اور زلت فراموش کر چُکی ہو جو اُس دن ہادی کے خاندان کے سامنے مجھے سر جھکانے پر مجبور کر گئی تھی،اُس کے بعد کیسے کیسے لوگوں کی نظریں برداشت کی ہیں اور  تم بس وہ اُسے کالج جانے دے رہا ہے تو موم ہو گئی واہ بیگم واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس پی کے طنزیہ فقرے اُنکو سر جھکانے پر مجبور کر گئے۔

"وہ ایک مجرم ہے جس نے صرف مجھے نیچا دکھانے کے لیے تمہاری بیٹی سے نکاح کیا اور تم چاہتی ہو کہ میں واقع میں جُھک جاؤں اُس کے آگے تا کہ کل کو کوئی اور منہ اُٹھا کہ یہ سب کرے ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس پی نازر اعوان کے منہ سے شعلے نکلنے لگے تھے۔

"کیا آپ اپنی بیٹی کو بیوہ کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ دو بدو بولتے مہ پارہ بیگم کو لاجواب کر گئے۔

"یہ مت بھولو کہ میں اپنے گھر کی عزت کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے والے کی آنکھیں نکال لیا کرتا ہوں،یہ لڑکا تو میرے ہاتھوں ہی مرے گا اور تم فکر نہ کرو ہادی بیوہ کو اپنا لے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُنکو کچھ باور کرواتے وہاں سے چلے گئے۔

"آپ کے لیے آج بھی ایک بیٹی کا گھر اُجاڑنا اُتنا ہی آسان ہے جتنا تب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کی آنکھوں میں گہرے دُکھ کی چھاپ اُبھری تھی۔

!___________________________________________!

وہ کالج جانے کے لیے تیار ہو کر لاونج میں آئی تو مس زونا ناشتہ ریڈی کر کے اُس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

"میم ناشتہ ریڈی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کے کہنے پر وہ بیگ صوفے پر رکھتی ناشتے کے لیے ٹیبل پر آ بیٹھی صرف ایک گلاس جوس اور ایک بریڈ کھا کر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"بھابھی!بھائی فون کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بیگ لیے وہ باہر پورچ میں آئی کہ سلیمان جو فون پر یقیننا برزل ابراہیم سے ہی بات کر رہا تھا اسکی طرف دیکھ کر کہنے لگا تو فاریسہ جلدی سے اپنے بیگ سے موبائل نکال کر دیکھا جہاں برزل ابراہیم کی پانچ مسڈ کالز تھیں اور پھر سے کال آنا شروع ہو چکی تھی وہ گھبراہٹ میں سلیمان کی طرف دیکھنے لگی جو کچھ دور جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔

"جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کال یس کرتی مدھم آواز میں بولتی اُسے غصہ دلا گئی مگر وہ کمال مہارت سے پی گیا تھا۔

"میرا فون سُننے سے تو آپکا کچھ نہیں جائے گا محترمہ،اگر کال کرتا ہوں تو اُسے پک کرلیا کریں اتنا احسان تو مجھ ناچیز پر کر سکتی ہیں نہ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کا ٹھنڈا لہجہ اُسکی سماعتوں سے ٹکڑایا تو وہ اپنے سوکھے لبوں کو تر کرتی کہہ اُٹھی۔

"وہ،وہ میں نے بیل بند کر دی تھی کیونکہ،کیونکہ کالج جانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی صفائی پر وہ سمجھ گیا کہ کالج میں سیل الاؤ نہیں تھا۔

"تم فکر نہ کرو میں تمہاری پرنسپل سے بات کر لیتا ہوں مگر تم کبھی بھی میری کال سننے میں ایک سیکنڈ کی بھی دیر مت لگانا کیونکہ یہ چیز مجھے بہت ناگوار گُزرتی ہے،ویسے بھی بنا کسی ضروری کام میں کوشش کرونگا کہ تمہیں کالج ٹائم تنگ نہ کروں،اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ بار اُسکا انداز کچھ نرم تھا۔

"جی۔۔۔۔۔۔۔۔"فقط اتنا ہی زبان سے ادا کیا گیا۔

"میں نے ویسے تو سلیمان کو سب سمجھا دیا ہے مگر تم سے پھر کہہ رہا ہوں کہ اپنی حفاظت کرنا تم اپنے پاس برزل ابراہیم کی امانت ہو اس لیے کسی بھی غیر ضروری فرد سے بات کرنے سے پرہیز کرنا اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ ساتھ سر بھی ہلا گئی کیونکہ وہ خود سے واقف تھی سوائے اپنی دو دوستوں کے وہ زیادہ تر کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔

"اوکے پھر رات کو ملتے ہیں،اللہ حافظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہہ کر فون بند کر دیا گیا وہ بھی موبائل کو بیگ میں رکھتی گاڑی میں بیٹھ گئی تو سلیمان نے آ کر فرنٹ سیٹ سمبھال لی۔

سلیمان نے جب گاڑی کالج کے راستے میں ڈالی تو فاریسہ نے دیکھا کہ ایک اور گاڑی ان کے ساتھ گیٹ سے نکلی تھی وہ سیکیورٹی کے خیال سے چپ کر گئی۔

"بھابھی یہ دونوں گارڈز یہاں ہی رہا کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اُسے کالج کے گیٹ کے پاس چھوڑتا اُس گاڑی کی طرف اشارہ کر کے بولا جو پورے راستے اُن کے ساتھ رہی تھی وہ سر ہلا کر اندر چلی گئی اُسکی دوستیں اتنے دن بعد اسے دیکھ کر خوش ہوئیں تھیں وہ بھی خوشی خوشی اپنی غیر حاضری کی اصل وجہ بیان کرنے سے گریز کرتی اُنکو اپنا موبائل دکھانے لگی تبھی اُسکی نظر کلاس میں داخل ہوتی ایک نئی لڑکی پر پڑی۔

"یہ نیو ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ زارا سے پوچھنے لگی جو اس کی نظروں کے تعاقب میں اُس لڑکی کی طرف دیکھ کر سر ہلا گئی۔

"ہاں آج تیسرا دن ہے اسکا یہاں،لائبہ نام ہے اسکا،کسی سے بات چیت نہیں کرتی ہے اتنی اس لیے زیادہ نہیں پتہ مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زارا کے جواب پر فاریسہ سر ہلا گئی پھر ٹیچرز کے لیکچرز کے دوران فاریسہ کو کئی دفعہ احساس ہوا کہ جیسے وہ کسی کی نظروں کے احصار میں ہے مگر اپنا وہم سمجھتی وہ سر جھٹک گئی۔

!___________________________________________!

حیدر(صدف) کو یہاں آج دوسری رات تھی مگر وہ بہت اُکتا گیا اس ماحول سے اور اپنے اس صدف کے گیٹ اپ سے اگر سچی پوچھا جائے تو وہ اس دالامان کے پھیکے اور سادہ کھانوں سے بھی تنگ آ گیا تھا اس لیے اپنا کام ختم کر کے وہ جلد سے جلد وہاں سے جان چاہتا تھا اس لیے سب کے سونے کے بعد وہ دھیرے سے اپنے پلنگ سے اُترا اور بے آواز چلتا باہر نکل آیا سیکنڈ فلور پر مین آفس تھا وہ سی سی ٹی وی کیمروں سے بچتا اوپر والے پورشن میں آ گیا اور ابھی اُس کے قدم آفس کی طرف بڑھے تھے کہ ہانیہ کی آواز پر وہ سخت جھنجھلا کر مُڑا۔

"صدف تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کا کمرہ اس فلور پر تھا وہ پانی پینے کے خیال سے باہر آئی تھی۔

"کچھ نہیں،بس جگہ کو دیکھ رہی تھی اصل میں نیند نہ آنے کی وجہ سے ٹائم پاس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اپنا غصہ چھپا کر خود پر صدف کی مظلومیت طاری کرتا ہوا بولا تو ہانیہ گہرا سانس بھرتی افسردگی کی لیپیٹ میں آ گئی۔

"میں سمجھ سکتی ہوں تمہاری کیفیت،کیونکہ میں بھی اس کیفیت سے گزر چکی ہوں،اتنی جلدی اس جگہ سے مانوس ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کہتی ہوئی سیڑھی کہ سٹیپ پر بیٹھ گئی تو حیدر بھی نہ چاہتے ہوئے اُس سے تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھ گیا اب نیند نہ آنے کا بہانہ بنایا تھا اب پورا تو کرنا تھا۔

"کیا تمہیں مجھ سے وحشت یا اُلجھن نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کو دو دن سے اسکا آس پاس پھرنا ناگوار گزر رہا تھا اس لیے پوچھنے لگا۔

"سچ کہوں تو آج سے کچھ ماہ پہلے اگر تم یوں میرے سامنے آئی ہوتی تو میں شاید ایک نظر ڈالنے کا بعد دوسری نہ ڈالتی کیونکہ شروع سے مجھے عجیب سی جھجک محسوس ہوتی آئی ہے مگر اب جب خود ایک ٹھوکر سے گر کر اُٹھی ہوں تو ہر ایک کا درد دل پر محسوس ہونے لگا ہے اور تم لوگوں کا بھی جو زمانے کی ٹھوکروں پر رہتے ہیں اور لوگ حقیر نظروں سے دیکھتے ہیں اور ہنستے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بول رہی تھی اور حیدر اُسکی طرف دیکھ رہا تھا جو سادہ سی پر ایک عجیب سی کشش لیے ہوئے تھی کہ وہ بے ساختہ اُسے دیکھے گیا۔

"تم یہاں کیسے آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے سوال پر وہ ایک ٹھنڈا سانس بھر کر رہ گئی۔

"وہی جو ہمارے معاشرے کی چالیس پرسنٹ لڑکیوں کی داستان ہے،کسی کی جھوٹی اور وقتی محبت کے بہکاوے میں آ کر اپنے والدین کی عزت کی پرواہ کیے بغیر قدم اُٹھا لینا اور پھر ایسا گرنا کہ دُنیا کے رحم و کرم پر آ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا لہجہ بھیگ گیا تھا اور آنکھوں میں ایک دُکھ کی کیفیت تھی۔

"محبت تو نہ نہ ہوئی وہ،کیونکہ محبت ایسی نہیں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آجکل محبت ہوتی ہی نہیں ہے صدف،بس ایک کھیل ہے جو جتنا اچھا کھیل گیا وہ جیت گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

"میں نہیں مانتی اس بات کو،محبت ہوتی ہے مگر جو محبت کے ساتھ کھیلتے ہیں اصل میں وہ محبت نہیں کرتے اور جو کرتے ہیں وہ کھیل نہیں کھیلتے بلکہ اپنی بُری نظر بھی اپنی محبت پر نہیں پڑنے دیتے اور ایک جائز رشتے کی طرف چل پڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے انداز میں کچھ تھا ایسا کہ وہ بے اختیار اُسے دیکھے گئی جو کہ اب اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔

"میرے خیال میں اب چلنا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف کہتی ہوتی وہاں سے چل دی تو ہانیہ بھی سر جھٹکتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

!____________________________________________!

"سر آپ سے کوئی ابراہیم نامی شخص ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا اس وقت اپنے آفس میں بیٹھا کسی فائل پر جھکا تھا کہ پیون کی اطلاع پر سر ہلا کر اُس انسان کو اندر آنے کی اجازت دیتا پھر سے فائل پر جھک گیا۔

"کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نووارد کی آواز پر وقار رانا نے سر اُٹھا کر دیکھا بلیک جینز کی پینٹ پر وائٹ شرٹ زیب تن کیے وہ بہت خوش شکل جوان تھا۔

"آئیے بیٹھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا فائل بند کرتا اسکی طرف متوجہ ہوا جو کہ کرسی سھمبال چکا تھا۔

"دو دن سے تم مجھ سے ملنا چاہتے تھے کیا بات تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا کی بات پر وہ مسکرایا۔

"یہی سمجھ لیں کہ آپکی زندگی اور موت کی بات تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ابراہیم کی بات پر وقار رانا کے تاثرات بدلے تھے۔

"کیا مطلب ہے تمہارا،تم جانتے نہیں کہ میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جانتا ہوں اس لیے تو آیا ہوں،آپ نہ صرف ایک سیاست دان بلکہ ایک سماجی شہرت یافتہ بزنس مین ہیں اور یقین مانے تو میں آپ سے ملنے ہی اس لیے آیا ہوں کہ آپ سہارا گروپ آف فاؤنڈیشن کے آنر ہیں جہاں ہر سال کتنی ہزار عورتیں معاشرے کے گرم تھپڑوں سے بچنے کے لیے پناہ لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا کہنا چاہتے ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا نہ سمجھی سے دیکھنے لگا تھا۔

"بتاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے موبائل پر انگوٹھا چلانے لگا وقار رانا کو پتہ بھی نہ چلا اور وہ آفس کے کیمرے بلاک کر گیا تھا تا کہ اسکی ریکارڈنگ نہ ہو۔

"سب سے پہلے میں اپنا مکمل تعارف کرواتا چلوں،میرا نام ابراہیم ہے اور میں ایک ٹارگٹ کلر ہوں جسے آپکی بیوی مسز رانا نے آپکے لیے ہائر کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بہت پرسکون سا بولتا وقار رانا کے سر پر آفس کی چھت گرا چکا تھا۔

"تم،کیا مطلب ہے اس بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا بے یقینی سے دیکھنے لگا۔

"یہی کہ آپکی بیوی نے بیس لاکھ کے بدلے میں مجھ سے آپکی جان مانگی ہے سمپل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا بکواس کر رہے ہو،کون ہو تم،ابھی پولیس کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا کی زبان کے ساتھ ہاتھ بھی چلنے لگے وہ موبائل اُٹھا گیا کہ ابراہیم نے اُسے روک دیا۔

"ایک منٹ،بات سُن لو پھر جسے مرضی کال کرنا،تمہاری بیوی کے پلان کے مطابق ہی تم سب کر رہے ہو اور اس میں صرف تمہارا نقصان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا ثبوت ہے تمہارے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا نے موبائل واپس رکھ دیا۔

"تمہاری بیوی جانتی ہے کہ تمہارا افیر اپنی ورکر ثمن کے ساتھ چل رہا ہے مگر شاید تم نہیں جانتے کے تمہاری بیوی اپنے سیکٹری اعزاز کے ساتھ دس سالوں سے ریلشن میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مسز رانا اور اعزاز کی تصویریں اُس کے آگے ٹیبل پر رکھتا وہ اُس کے ہوش و حواس ساکن کر گیا تھا وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنی بیوی کی نازیبا سیلفیاں دیکھ رہا تھا جو برزل ابراہیم نے بڑی محنت کے بعد اعزاز کے موبائل سے حاصل کی تھیں۔

"اعزاز اُن سے شادی کرنا چاہتا ہے اس لیے آپکو اُن کے راستے سے ہٹانے کے لیے مجھے ہائیر کیا گیا ہے،وہ ایک طلاق یافتہ عورت کے طور پر نہیں بلکہ بیوہ کے طور اعزاز کی ہمسفری اختیار کرنا چاہتی ہیں،کیونکہ اگر وہ طلاق لے کر آپ سے الگ ہوتی ہیں تو جائیداد کا ففٹی پرسنٹ اُنکے ہاتھ سے نکل جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ابراہیم کے حقائق وقار رانا کو گہری سوچ میں مبتلا کر گئے تھے ان سب باتوں کے بعد شک کی گنجائش ہی کہاں بچی تھی۔

"تم مجھے کیوں سب بتا رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟اپنی سوچوں سے نکلتا وہ سوال کر گیا جس پر برزل ابراہیم کے لبوں پر پرسرار مسکراہٹ چمکی تھی۔

"تمہاری بیوی نے تمہاری جان لینے کی قیمت بیس لاکھ رکھی ہے جبکہ اب میں تم سے تیس لاکھ چاہتا ہوں جو تم مجھے دو گئے اور دوسرا یہ کہ مجھے اپنے ملک کو ایک اچھے انسان اور اتنے عظیم سیاستدان کی موت سے نقصان نہیں پہنچانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں کیسے یقین کر لوں کہ تم اب مجھے نقصان نہیں پہنچاؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"چیک بک نکال کر وہ اس سے پوچھنا نہیں بھولا تھا۔

"اگر میرے کہے کے مطابق چلو گئے تو میں کیا کوئی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اگر تمہاری بیوی مجھے ہائیر کر سکتی ہے تو کسی اور کو بھی تو کر سکتی ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم جس طرف لے کر جانا چاہتا تھا آسانی سے وہ یہ کام کر گیا تھا۔

!_____________________________________________!

فاریسہ اپنے کمرے میں بیڈ پر آلتی پالتی مارے بیٹھی پوری ایل ڈی پر نظریں جمائے ڈرامہ دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ برزل ابراہیم کے آنے کا اُسے پتہ ہی نہیں چلا تھا۔

"کیا کل کلاس میں اس ڈرامے کے بارے سوال جواب ہونے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اسکی محویت پر مسکراتا ہوا بولا جس پر وہ خفیف سی ہوتی سر نفی میں ہلا گئی۔

"کیسا رہا آج کا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ موبائل اور والٹ سائیڈ ٹیبل پر رکھتا پوچھنے لگا۔

"اچھا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دو لفظی جواب دے کر اسکی طرف دیکھنے لگی جو اب گھڑی اُتار بیڈ پر بیٹھتا کر شوز اُتار رہا تھا۔

"مس کیا مجھے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ سوال اُسے گہری سوچ میں مبتلا کر گیا کہ کیا جواب دے اگر حقیقتا وہ بتاتی تو کل رات کمرے میں اُسکی غیر موجودگی اُسے محسوس ہوئی تھی۔

"بتاؤ نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسرار کیا گیا تھا۔

"وہ حیدر بھائی کب آئیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جلدی سے پوچھتی سوال سے بچنے کی کوشش کر گئی تھی برزل ابراہیم مسکراتا ہوا اُس کے قریب آیا اور ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے روبرو کھڑا کیا۔

"یہ جواب تو نہیں بنتا تھا میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے چہرے پر چھائی سُرخی کو وہ نظر بھر کر دیکھنے لگا۔

"چلو میں بتاتا ہوں کہ میں نے تمہیں کتنا مس کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم شرارت سے کہتا ہوا اُسکے چہرے پر جھکنے لگا کہ وہ خوف سے بے اختیار پیچھے ہوئی تھی اگر اُسکا ہاتھ برزل ابراہیم کی گرفت میں نہ ہوتا تو وہ یقیننا بیڈ پر جا گرتی۔

"ویری بیڈ مسز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسے زرا اچھا نہیں لگا تھا اس لیے اُسکا ہاتھ سختی سے دباتا پیچھے ہٹ گیا فاریسہ نے سکون کا سانس لیا تھا۔

"کپڑے نکالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسے حکم دیتا وہ شرٹ کے بٹن کھولنے لگا فاریسہ جھجھکتی ہوئی اُس کے قریب سے گزرتی آگے بڑھنے لگی کہ برزل ابراہیم نے قمر سے پکڑ اپنے بے حد قریب کر لیا تھا فاریسہ جو اس کے لیے بلکل تیار نہ تھی اُسکا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا تھا۔

"اب میں اتنا بھی اچھا نہیں ہوں کہ تم میرا ہاتھ جھٹکو اور میں اسکی سزا نہ دوں مسز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے چہرے پر ہاتھ رکھتا اُسکی خوفزدہ آنکھوں میں جھانکتا وہ اُسے سٹپٹانے پر مجبور کر گیا۔

"وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہشششششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لبوں پر اُنگلی رکھ کر خاموش کروایا گیا تھا فاریسہ کی جان جیسے اُس کی اُنگلی کے نیچے دبے لبوں پر آ ٹکی تھی۔

"میں صرف ایک بار معاف کرتا ہوں اور وہ موقع تمہیں آج دے رہا ہوں،آئندہ ایسا مت کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسے نرمی سے چھوڑتا وہ اچھے سے باور کروا گیا پھر اُسے وہی ساکت چھوڑ کر وارڈرب کی طرف بڑھ گیا جبکہ فاریسہ دھک دھک کرتے دل کو قابو میں کرتی کمرے سے نکلتی لاونج میں آ گئی تھی۔

اس وقت وہ مسز رانا کے انتظار میں ایک کیفے میں بیٹھا کافی سے لطف اندوز ہو رہا تھا دو منٹ بعد ہی مسز رانا کیفے میں داخل ہوتی ادھر اُدھر دیکھتی اسے ہی تلاش کرنے کی کوشش میں تھی برزل ابراہیم نے کھڑا ہو کر اُسے اپنے طرف آنے کا اشارہ کیا تھا وہ اسے دیکھتی اس طرف چلی آئی۔

"اوہ تو تم ہو ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنا بیگ ٹیبل پر رکھے اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی وہ اس خوبرو مرد کو غور سے دیکھنے لگی۔۔

"جی اور یہ خاکسار آپکا بہت احسان مند ہے کہ آپ نے یہاں آ کر مجھے شرف بخشا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے سینے پر ہاتھ رکھتا وہ ایک ادا سے بولتا مسز رانا کو مسکرانے پر مجبور کر گیا۔

"باتیں اچھی کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"لوگوں کو قتل بھی بہت اچھے سے کرتا ہوں،ٹرسٹ می۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سکوائش کا گلاس لبوں سے لگاتا وہ مسز رانا کو چونکنے پر مجبور کر گیا۔

"کیا مطلب؟کونسی بات تھی جس کے لیے تم مجھے اکیلے اس انجان اور شہر کی آبادی سے دُور اس چھوٹے سے کیفے میں بُلایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ جیسی مشہور ہستی کو اگر اس شہر کے کسی فیمس کیفے میں بُلاتا تو اس وقت پورا میڈیا وہاں پر موجود ہوتا اور میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ آپکی اور میری ملاقات کسی کی نظر میں آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ایسی بھی کیا چیز ہے اس ملاقات میں جو کسی کی نظر میں نہیں آنی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مسز رانا کے چہرے پر اُلجھن رقم تھی۔

"کسی مطلب آپکے شوہر مسٹر وقار رانا کی نظر میں نہیں آنی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا وجہ ہے اسکی،تم کھل کر بات کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مسز رانا نے اپنے کٹ شدہ بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کیا تھا وہ تھی تو لگ بھگ چالیس سال کے مگر اپنی عمر سے کم ہی دکھتی تھی اپنے فیشن اور فٹنس کی وجہ سے۔

"اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر ہلاتا ہوا ادھر اُدھر دیکھتا اب اُنکو پوری توجہ سے دیکھتا کہنے لگا۔

"اصل میں آپ کے شوہر نے مجھے آپ کو قتل کرنے کے لیے ہائر کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بہت آسانی کے ساتھ اگلے کو جھٹکا دیا کرتا تھا اب بھی ایسا ہوا تھا مسز رانا آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھ رہی تھی۔

"کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہی بتانے لگا ہوں،ریلکیس میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی جینز کی پاکٹ میں سے کچھ تصویرں نکال کر مسز رانا کے آگے رکھیں جن کو دیکھ کر اُنکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ایک تصویر میں وہ اور اعزاز ناقابل نظر پوز میں تھے تو ایک تصویر میں وقار رانا اپنی سیکٹری کے ساتھ نازیبا حرکات میں نظر آ رہا تھا جبکہ ایک تصویر آفس کی تھی جہاں برزل ابراہیم وقار رانا سے پیسے لے رہا تھا۔

"یہ،یہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُنکا وجود زلزوں کی لپیٹ میں تھا بے یقینی اور اپنا گناہ منظر عام پر آنے کی دہشت اُنکی آنکھوں میں صاف دیکھی جا سکتی تھی۔

"اعزاز،آپکا سیکٹری اور کلاس فیلو،جسکی محبت میں آپ یونی کی لائف میں مبتلا تھیں مگر وقار رانا کی دولت کی وجہ سے آپ کو اُسے چھوڑنا پڑا،مگر دس ماہ پہلے ہی وہ دوبارہ سے آپکی لائف میں آیا تو آپ خود کو روک نہ پائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جیسے جیسے بول رہا تھا مسز رانا کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔

"اس تصویر میں یہ ثمن ہے،جس کا افیئر آپکے شوہر کے ساتھ کچھ سالوں سے چل رہا ہے کیونکہ آپکی بے رُخی کی وجہ سے وہ اُسکی طرف راغب ہونا پڑا اور اب تو وہ اُس سے شادی کا خواہش مند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور یہ تصویر جس میں آپکے شوہر مجھے ایڈوانس کی رقم دے رہے ہیں آپکو اُنکی زندگی سے نہیں بلکہ اس دُنیا سے بھی آؤٹ کرنے کے لیے،کیونکہ اگر وہ آپکو طلاق دیتے ہیں تو ففٹی پرسنٹ جائیداد بھی آپکو دینی پڑے گی سو اگر آپکی موت واقع ہو جاتی ہے تو پھر ساری جائیداد اُن کو ملے گی،ویسے بھی وہ ایک سیاست دان ہیں تو طلاق دے کر اپنی سیاست خراب نہیں کریں گئے بلکہ آپ موت سے لوگوں کی ہمدردی حاصل کر کے اپنے ووٹ بڑھائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی بات ختم کرتا وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا ان کے تاثرات کو غور سے دیکھنے لگا جو اتنے جھٹکوں کے بعد کچھ بھی بولنے کی پوزیشن میں نہ تھیں۔

"میں چھوڑوں گی نہیں اسے،ابھی پوچھتی ہوں وقار سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ غصے سے اُٹھنے لگیں مگر برزل ابراہیم نے روک دیا تھا۔

"کیا چاہتی ہیں کہ آجکی رات آپکی آخری رات ہو،اگر مرنے کی خواہش ہے تو جائیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے پُرسکون انداز پر وہ نڈھال سی بیٹھ گئی۔

"تم مجھے بچانا چاہتے ہو کہ مارنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اگر مارنا ہوتا تو اب تک پورے پاکستان میں یہ نیوز پھیل گئی ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے کہنے پر وہ پُر یقین لہجے میں بولیں۔

"کیا تم میری مدد کرو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپکی مدد کرنے ہی تو یہاں تک آیا ہوں،بس آپ مجھ پر یقین رکھے اور جو میں کہتا ہوں وہ کرتی جائیے،مگر ایک بات یاد رکھیے گا کہ وقار رانا کو ہرگز شک مت ہونے دیجئے گا کہ آپ سب جانتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی بات پر وہ سر ہلا گئیں تو ابراہیم کے لبوں پر پُر سرار مسکراہٹ تھرکنے لگی۔۔

!___________________________________________!

حیدر آج پھر رات کی تاریکی اور خاموشی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیکنڈ فلور پر موجود تھا کوریڈور میں لگے کمیروں کو آف کرتا وہ آفس کے کیمرے بھی ہیک کر چُکا تھا آفس کے دروازے کو اپنی مہارت سے کھولتا آفس کے اندر داخل ہوتا دروازہ بند کر گیا ایک نظر آفس پر ڈالی جہاں ایک طرف ٹیبل پر بہت ساری فائلز اور لیپ ٹاپ پڑا تھا جبکہ ایک طرف صوفے رکھے گئے تھے وہ اپنے مطلب کی طرف متوجہ ہوتا لیپ ٹاپ کو آن کرنے لگا اور اپنی جیب سے یو ایس بی نکال کر لیپ ٹاپ سے کنکیٹ کی اور اپنے ہاتھوں کو تیز چلانے لگا مگر جس فائلز کی اُسے تلاش تھی اُن پر لگا پاسپورڈ دیکھ کر وہ جھنجھلا کر رہ گیا حیدر نے ایک حتیاطی نظر بند دروازے کی طرف ڈالی پھر موبائل نکال کر برزل ابرہیم کا میسج دیکھا جہاں اس پاسورڈ کو ہیک کرنے کا طریقہ درج تھا وہ اُس پیغام کو زہن میں رکھتا پانچ منٹ کی محنت سے آخرکار کامیاب ہو گیا تھا جلدی سے اپنا کام ختم کرکے وہ اُس آفس سے نکل آیا تھا۔

اب اگلا کام یہ تھا کہ اُسے یہ یو ایس بی برزل ابراہیم تک پہنچانی تھی اس لیے وہ اس جگہ سے نکلنے کے بارے میں سوچنے لگا۔

"کیا بات ہے تم بڑی چپ چپ ہو صبح سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شام تک وہ یہاں سے نکلنے کے بارے ہی سوچتا رہا تھا اس لیے اُسکو سوچوں میں ڈوبا دیکھ کر ہانیہ اور عروج اس کے پاس آ بیٹھی تھیں وہ دونوں کو دیکھتا جیسے کسی نتیجے پر پہنچا تھا۔

"مجھے اپنی ماں بہت یاد آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اتنا تو جان گیا تھا کہ عورتوں کو ہمدردی کے نام پر کس قدر آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا تھا۔

"ماں کسے یاد نہیں آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج نے گہری سانس ہوا کے سپرد کی جبکہ ہانیہ خاموش ہی رہی تھی۔

"ہاں پر میں ملنا چاہتی ہوں اپنی ماں سے،چاہے وہ مجھے نہ ملیں پر میں اُنکو دیکھ کر ہی سکون محسوس کرونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے اپنی آواز میں ایک گہرا سوز شامل کیا تھا۔

"کیا میڈم تمہیں اجازت دیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج جس کو یہاں آئے کچھ دن ہوئے تھے اس لیے اس جگہ کے قانون سے نا واقف تھی اس لیے ہانیہ کی طرف دیکھنے لگی۔

"ایک دو دفعہ کچھ لڑکیوں کو اجازت ملی تو ہے مگر وہ بھی وہ لڑکیاں جن کے والدین خود آئے تھے ملنے ورنہ ایسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ نے صدف کے منہ لٹکے چہرے کی طرف دیکھ کر بات اُدھوری چھوڑ دی جبکہ دوسری طرف حیدر گہرے اضطراب میں پڑ گیا وہ جانتا تھا کہ اگر کسی عقل مند نے لیپ ٹاپ کو دیکھا تو اُسے پتہ چل جائے گا کہ اس کے ساتھ چھیڑ کھانی کی گئی ہے کیونکہ وہ فائلز یو ایس بی میں انسٹال کرنے کے بعد باقی کی کرپٹ ہو چکی تھیں اس سے پہلے کہ سب کی تلاشی لی جاتی وہ یہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔

"تم فکر نہ کرو،میں کچھ کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔

"کیا کرو گی تم؟کیا میڈم سے بات کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ سب کی نظروں میں آئے کہ وہ یہاں سے غائب ہوا تھا۔

"نہیں کیونکہ انہوں نے ایسے ہرگز نہیں ماننا،میں چوری تمہیں یہاں سے نکالوں گی مگر دن کی سفیدی سے پہلے واپس آ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جو وہ چاہتا تھا ہانیہ اپنی عقل مندی سے جلد ہی وہاں تک آ گئی تھی حیدر نے مسکراہٹ روکتے ہوئے پسندیدہ نظروں سے دیکھا تھا جبکہ عروج ہکا بکا رہ گئی۔

"تم پاگل ہو ہانیہ،اس بے چاری کے ساتھ خود بھی اس چھت سے محروم ہونا چاہتی ہو،اگر کسی کو پتہ لگ گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"فکر نہ کرو،کسی کو کچھ پتہ نہیں لگے گا،ویسے بھی ہمارے سوا صدف کے پاس آتا کون ہے،وہ نیاز جو کھانا دینے آتا بس،تو ہم سب کو یہی کہیں گئے کہ یہ بیمار ہے آرام کر رہی ہے،نیاز کو میں اچھی طرح سمبھال لونگی مگر میں تو اپنی ماں سے پتہ نہیں ساری زندگی نہ مل پاؤں مگر تمہیں ضرور ملوانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ نے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پُریقین لہجے میں کہا تو حیدر کی آنکھیں چمک اُٹھیں وہ مسکرا دیا۔

"لڑکی تو کمال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سوچ کر رہ گیا پھر اُنکی طرف متوجہ ہوا جو فرار کا راستہ سوچنے لگیں تھیں وہ اُن کو مکمل دھیان سے سُنتا یہ نہ بتا سکا کہ وہ بہت اچھے سے فرار کا راستہ جانتا ہے بس اُسے یہی تھا کہ اُس کی غیر موجودگی کسی کے نوٹس میں نہ آئے۔

!_____________________________________________!

"شیخ صاحب سٹی ہوٹل میں آپکا ویٹ کر رہے ہیں،ٹیبل نمبر تھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شیخ کی گاڑی کے پاس کھڑا تھا کہ شیخ کا ڈرائیور اُسے شیخ کا پیغام دیتا وہاں سے چلا گیا برزل ابراہیم نے ایک نظر اپنے حلیے پر ڈالی وہ اس وقت ڈھیلی پینٹ اُس پر بٹن ڈاؤن شرٹ پہنے بالوں کو جیل کی مدد سے سر پر چپکائے سیدھی مانگ نکالے آنکھوں پر نظر کی عینک اور معمولی لباس نے اُسے برزل ابراہیم کی شناخت سے کافی حد تک چھپایا ہوا تھا۔

سٹی ہوٹل میں داخل ہوتے اُس نے اطراف میں نظریں دوڑایں تو ٹیبل نمبر تھری پر جا کر ہی اُسکی نظریں ٹک گئیں جہاں شیخ ڈنر کرتا دکھائی دیا تھا برزل ابراہیم سب لوگوں پر سرسری نظر ڈالتا شیخ کی ٹیبل کے پاس آ رُکا۔

"اجاذت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے پوچھنے پر شیخ نے بنا دیکھے سر ہلا دیا برزل ابراہیم کرسی پیچھے کرتا وہی ٹک گیا۔

"کیا رپورٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہوتا ہوا پوچھنے لگا۔

"آپ کا اندازہ ٹھیک تھا،ایک جاسوس لگایا ہوا ہے اُن لوگوں نے آپ کے پیچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شیخ نے پہلی دفعہ کھانے سے توجہ ہٹا کر اسکی طرف دیکھا تھا۔

"اوہ!کون ہے وہ؟کیا نام ہے اُسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ ابھی تک میں پتہ نہیں کروا سکا،کیونکہ اُنکا نیٹ ورک بہت وسیع پیمانے تک پھیلا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو عالم صاحب آپ مجھے یہ بتانے یہاں تک آئے ہیں کہ آپ ابھی تک اُس جاسوس کا پتہ نہیں لگا سکے جو میرے خلاف ثبوت اکھٹے کر رہا ہے،تم جانتے ہو نہ اگر اس بات کا علم اوپر والوں کو ہو گیا تو وہ اس جاسوس کے مجھ تک آنے سے پہلے ہی مجھے قتل کر دینگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شیخ کے لہجے اور انداز میں اس کے لیے غصہ اور اپنے لیے ڈر صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔

"میں نے آپکو کہا تھا کہ آپ بے فکر ہو جائیں میں اُس تک پہنچنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے اُسے یقین دلانے کی کوشش کی تھی۔

"بس دو دن ہیں تمہارے پاس عالم،مجھے ہر حال میں اُس جاسوس کا پتہ چاہئیے،اعجاز سہگل جو اس کام میں مہارت رکھتا تھا اور وہ بہت قریب بھی تھا اُس جاسوس کے مگر وہ مارا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شیخ کے افسوس سے سر ہلانے پر برزل ابراہیم نے حیرانگی ظاہر کی۔

"مگر اعجاز سہگل تو کار ایکسڈینٹ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہی تو اُس آدمی کی خاصیت ہے کہ وہ بڑی ہویشاری سے اپنا کام کر جاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اسکا مطلب اُسکا اب منظر عام آنا ضروری ہو گیا ہے ورنہ وہ بہت بڑا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اس لیے تو تمہیں سونپا ہے یہ کام آخر تم بھی تو بہت عقلمند اور تیز ہو اس کام میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شیخ نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرنے لگا۔

"مگر میں تب تک آپکی اس بات کو تسلیم نہیں کرونگا جب تک مجھے اُس ایجنٹ کی اصل شناخت نہیں ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عالم کے پُرجوش لہجے پر شیخ نے مسکراتے ہوئے اُس کے کندھے پر تھپکی دی تھی جیسے کہ اُسے سراہا گیا تھا۔

"تم اگر اس اسائنمٹ میں کامیاب ہو جاتے ہو تم نائن الیون گروپ کا ایک خاص ممبر بن سکو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے کہتے ہوئے شیخ کی طرف دیکھا جس کی نگاہیں کسی منظر پر ٹھٹھک کر رُکی تھیں برزل نے اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اگلہ لمحہ اُس کے لیےبھی چونکا دینے والا تھا اُسکا دماغ بھک سے اُڑا تھا مگر وہ جلد ہی اپنے تاثرات پر قابو پا گیا تھا مگر اُسکی آنکھوں میں کاٹ اور سرد پن صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔

شیخ کی نظروں کی گرفت میں فاریسہ برزل ابرہیم تھی جس کی وجہ سے برزل کا خون کھول اُٹھا تھا۔

"شیخ صاحب،آپ کس طرف متوجہ ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اُسکی بیوی پر کوئی یوں نظریں جما لے۔

"کیا قیامت خیز حسن ہے،معصومیت اور حسن ایک ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شیخ کی آنکھوں سے چھلکتا چھچھورا پن اور لبوں سے ادا ہوتے جملے برزل ابراہیم کو غصے سے مٹھیاں بھینچنے پر مجبور کر گئے تھے اُس نے قہر آلود آنکھوں سے اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھے حیدر کو دیکھا تھا۔

"یہ کون ہے،پتہ کرو عالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شیخ کے لہجے میں بیتابی چھلکی تھی جسے برزل ابراہیم نے بمشکل ہضم کیا تھا۔

"فکر نہ کریں آپ،آپ کھانا انجوائے کریں میں ابھی آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کو وہاں سے اُٹھتا دیکھ کر وہ شیخ سے کہتا ہوا ہوٹل کی راہداری سے گزرتا ہوا واشروم کے دروازے میں آ رُکا اور اُس کے اندازے کے مطابق حیدر بھی اسی سمت آیا تھا۔

برزل ابراہیم نے ایک نظر آس پاس گزرتے اجنبیوں پر ڈالی پھر ایک طرف کھڑا ہو گیا جیسے ہی حیدر نے مین باتھ انٹریا پر قدم رکھے برزل نے ایک جھٹکے سے اُسکا رُخ اپنی طرف کیا اور اُس کے سمھبلنے سے پہلے ہی ایک زور دار مُکا اُس کے منہ پر دھڑا کہ حیدر جا کر دروازے سے لگا تھا وہ جو برزل ابراہیم کو حیران پریشان دیکھتا ابھی سمجھنے کی کوشش میں تھا تب تھا اُسکا دوسرا مُکا اُس کے ناک سے خون نکال چُکا تھا۔

"بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر ناک سے نکلتا خون صاف کرتا رحم طلب نظروں سے اُسے دیکھنے لگا جو کہ اُسے بُری طرح گھور رہا تھا۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو میری اجاذت کے بغیر یہاں لانے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دھیمی آواز میں غرایا تھا۔

"وہ میں آپ کو یو ایس بی دینے آیا تھا پر گھر میں نہ آپ تھے اور نہ سلیمان بھائی،بھابھی کو دی ہے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ رُکا پھر نظریں چُراتا بولنے لگا۔

"میں نے کہا کہ کچھ اچھا کھانے کو دل ہے،بھابھی نے کہا کہ چلو باہر ڈنر کرتے ہیں قسم سے آپ بھابھی سے پوچھ لیں میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے تاثرات سے خوفزدہ ہوتا وہ جلدی سے صفائی دینے لگا تھا برزل ابراہیم کے سرد تاثرات میں زرا کمی نہیں آئی تھی بلکہ آنکھوں اور لہجے میں برہمی چھلکنے لگی تھی۔

"تمہاری اس بیوقوفی کی وجہ سے مجھے شیخ کی جان لینی پڑے گی جس کے پیچھے میں اتنے سالوں سے خوار ہو رہا تھا صرف تمہاری وجہ سے حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک آخری پنچ اُس کے منہ پر مارتا وہ وہاں سے چلا گیا تھا حیدر درد سے بلبلاتا آئینے میں اپنا سوجھا ہوا منہ دیکھتا وہ باہر فاریسہ کے پاس آیا جو اسے دیکھتی حیران و پریشان ہو اُٹھی تھی۔

"یہ،یہ کیا ہوا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ فکرمندی سے بولی تھی۔

"کچھ نہیں بھابھی،چلیں یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جلد از جلد اُسے وہاں سے لے کر جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر پانچ منٹ بھی مزید رُکتا تو برزل ابراہیم نے اسے چلنے کے قابل بھی نہیں چھوڑنا تھا۔

"مگر ہوا کیا،کس نے کیا یہ سب،بتائیے نہ کس سے جھگڑا ہوا ہے آپکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے سوال پر حیدر نے خفگی بھری نظر شیخ کے ساتھ بیٹھے برزل ابراہیم پر ڈالی تھی اور اس سے پہلے کہ فاریسہ دیکھتی حیدر اُسکا ہاتھ پکڑتا وہاں سے نکل گیا تھا۔

"ارے وہ حسینہ کہاں گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم جس نے شیخ کو اپنے مسلے پر اُلجھایا ہوا تھا فاریسہ اور حیدر کے نکلتے ہی وہ ریلکیس ہوتا کرسی کی پُشت سے کمر ٹکا گیا جبکہ شیخ خالی جگہ دیکھ کر حیران ہوا۔

"کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

"وہی لڑکی جو تمہیں دکھائی تھی،جو بھی کرو عالم مگر وہ لڑکی مجھے چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شیخ کی اگر بیتابی عروج پر تھی تو برزل ابراہیم کی برداشت آخری حدوں کو چھونے لگی تھی۔

"چلیے میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہر انجام سے بے نیاز ہوتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔

"کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ چلیں تو سہی،کسی حسین چہرے سے ملاقات کروانی ہے آپکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی آنکھوں میں ایک خاص معنی خیزیت تھی جسے اپنے مطلب پر لیتا شیخ مسکراتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

"آپ مجھے فالو کریں،اور ہاں اکیلے ہی آئیے گا گارڈز کو یہی انتظار کا بول دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جب باہر گاڑی کے پاس آیا تو برزل ابراہیم شیخ کو کہتا ہوا اپنی بائیک کی طرف چلا گیا۔

شیخ خود ہی ڈرائیونگ کرتا پانچ منٹ کی مسافت طے کرتا ایک جگہ پر رُکا جہاں برزل ابراہیم بائیک کھڑی کیے اُس کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔

"یہاں ہے وہ حسینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شیخ کہتا ہوا اُس کے پاس آیا جو بہت سرد نگاہوں سے اُسے دیکھ نہیں بلکہ گھور رہا تھا۔

"پہلے مجھ سے تو مل لو جسکی تمہیں کافی عرصے سے تلاش تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ پھنساتے ہوئے اُسکی طرف قدم موڑے جو کہ آنکھوں کی طرح چہرے پر بھی حیرانگی کے تاثرات لیے اسکی طرف متوجہ تھا۔

"کون،کون ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں برزل ابراہیم،میری ہی تلاش تھی نہ تم کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے الفاظ اُسے حیرت کے شدید جھٹکے میں غوطہ زن کر گئے تھے۔

"تم ہو برزل ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔

"ہاں میں ہوں اگر کوئی شک ہے تو وہ پانچ منٹ بعد دور ہو جائے گا جب میں تمہاری جان لونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے الفاظ ہی اُسکی جان لے گئےتھے شیخ نے بھاگنے کے لیے ادھر اُدھر دیکھا مگر اس سے پہلے کے وہ بھاگنے کی کوشش کرتا برزل ابراہیم اُس تک پہنچ چُکا تھا۔

"ابھی تمہیں مارنا میرے پلان میں نہیں  تھا مگر جس انسان پر تم نے بُری نظر ڈالی تھی وہ میری بیوی ہے اور میری بیوی پر بُری نظر ڈالنے والا زندہ نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں پر گلوز چڑھائے اور اُسی کا پسٹل نکال کر اُس کے ہاتھ میں زبردستی تھماتا اُسکی کنپٹی سے لگا گیا۔

"تم مجھے نہیں مار سکتے،میرے پاس نائن الیون کی ساری انفارمیشن ہے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ تمہاری غلط فہمی ابھی دور کر دیتا ہوں کہ برزل ابراہیم کبھی کسی کی بلیک ملینگ میں نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بولتا ہوا وہ اپنا کام کر گیا تھا پسٹل شیخ کے ہاتھ میں ہی تھا اور وہ گاڑی پر لڑھک گیا تھا۔

"خودکشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہر چیز کا معائنہ کرتا وہ زیرلب بولا اور اپنی بائیک پر بیٹھتا یہ جا وہ جا۔

!____________________________________________!

حیدر گھر میں داخل ہوتا ہی جلدی سے اپنا گیٹ اپ چینج کرنے کے لیے کمرے میں جانے لگا کہ اپنے کمرے سے نکلتے سلیمان نے اسے دیکھا تو ٹھٹھک کر رُکا۔

"یہ کیا ہوا ہے،کس نے کیا ایسا بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کو اس کی آنکھ کے پاس بنے سُرخ نشان کو دیکھ کر آگ ہی لگ گئی تھی آخر کو وہ دونوں کو عزیز تھا۔

"یہی تو پورے راستے میں پوچھتی آئی ہوں مگر بھائی کچھ بول ہی نہیں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی بات پر سلیمان نے ایک نظر حیدر کے خفا خفا چہرے پر ڈالی اور دوسری فاریسہ پر اور پھر جیسے سارا معاملہ سمجھتا ہوا ہولے سے مسکرا دیا مگر حیدر جو اس سے ہمدردی کا خواہاں تھا اسے مسکراتا دیکھ کر پاؤں پٹختا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

"ارے بھائی،اس نے آپکو بھی کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اصل میں وہ اس وقت کچھ بتانے کے قابل ہی نہیں، ویسے آپ پریشان نہ ہوں یہ دو ماہ میں ایک دفعہ ہو جاتا اس کے ساتھ،آپ جا کرآرام کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اُسے راستہ دیتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا تو فاریسہ اس کی بات کا مطلب سمجھنے میں اُلجھتی ہوئی اپنے روم کی طرف بڑھ گئی۔

جس وقت برزل ابراہیم گھر میں داخل ہوا تب تک حیدر جا چُکا تھا اور برزل کا سپاٹ چہرہ دیکھ کر سلیمان نے شُکر ہی کیا تھا کہ وہ یہاں نہیں ورنہ برزل ابراہیم کو روکنے کی ہمت اُس میں بھی نہ تھی۔

"تمہاری بھابھی کے پاس یو ایس بی ہے،جاؤ لے کر آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کا غصہ ابھی تک ہوا نہیں ہوا تھا اس لیے سلیمان کو کہتا وہ اسٹڈی روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔

برزل ابرہیم نے جیب سے موبائل نکال کر ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ کسی پرائیوٹ نمبر سے کال آنے لگی تھی وہ یس کا بٹن پُش کرتا موبائل کان سے لگاتا شرٹ کے بازو فولڈ کرنے لگا۔

"تم شیخ کو کیسے مار سکتے ہو برزل ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف سر رفیع تھے برزل ایک گہرا سانس بھرتا چیئر پر بیٹھ گیا۔

"اس طرح کی بکواس کرنے والے کو سو بار بھی مار سکتا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں نے کہا تھا کہ تم نے اپنی پرسنل لائف کو اس مشن سے دور رکھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ شاید بھول رہے ہیں کہ اس مشن کے ساتھ جُڑنے کی وجہ ہی میری پرسنل لائف تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم میرے کہے پر چلوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور ساتھ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں اپنے سے جُڑے رشتوں پر ہلکی سی آنچ بھی آنے نہیں دونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوبدو بولتا وہ سر رفیع کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر گیا۔

"تم ہمیشہ سے ہی ضدی رہے ہو،اب مجھے ڈیٹا سینڈ کرو مسز وقار کے فاونڈیشن کا،تا کہ اگلا قدم اُٹھائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے کہتے ہوئے سلیمان کو دیکھا جو اس کی طرف ہی آ رہا تھا۔

"یہ سب سر رفیع کو سینڈ کرو میں زرا کام سے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے کہتا کمرے سے نکل گیا۔

حیدر جس راستے سے گیا تھا اُسی راستے سے واپس آ گیا تھا کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چل سکا تھا کہ وہ اس فاونڈیشن میں تھا بھی کہ نہیں اور یہ سب ہانیہ کی مدد سے ہوا تھا جسکا وہ احسان مند تھا۔

"صدف،یہ کیا ہوا تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج اور ہانیہ اسکی بگڑی شکل دیکھ کر چونکیں تھیں جس شکل کو وہ میک اپ کر کے کافی حد تک سنوار چُکا تھا۔

"گھر واپسی کا یہی انجام ہوتا ہے ہم جیسوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اُن سے ہمدردی سمیٹنے لگا تھا۔

"دفعہ کرو تم سب کو،وہ اپنے ہی کیا جو یوں کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کو تکلیف ہوئی تھی۔

"دفعہ نہیں نہ کر سکتی میں،یہی تو ہوتا نہیں مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف کی آنکھوں کے سامنے برزل ابراہیم کا غصیلا عکس لہرانے لگا۔

"اور اسی چیز کا وہ فائدہ اُٹھاتے ہیں،تم اپنی ماما سے مل آئی ہو نہ،باقیوں کو بھاڑ میں جھونکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج نے بھی اُسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔

!________________________________________!

"تمہارا کام ہو گیا ہے اعوان،کل صبح تمہارا ملزم سلاخوں کے پیچھے ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس کی کال اور بات نے جتنی خوشی نازر اعوان کو دی تھی وہ اُتنا ہی کھل کر ہنسا تھا جس پر مہ پارہ بیگم بھی چونک گئیں تھیں کیونکہ آجکل وہ نازر اعوان کو بس برزل ابراہیم سے انتقام کی آگ میں ہی جلتادیکھ رہی تھی۔

"کیا بات ہے،آپ بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کے کال بند کر کے موبائل ٹیبل پر رکھتے ہی مہ پارہ بیگم پوچھنے لگی تھیں۔

"یقینناً تم بھی سن کر خوشی محسوس کرو گی کہ کل تک تمہاری بیٹی واپس آجائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُنکی بات پر وہ پہلے سے زیادہ چونک کر دیکھنے لگیں۔

"کیا مطلب،کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ کل پتہ چل جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتے ہوئے واشروم میں گھس گئے مہ پارہ بیگم حیرانگی کے اثر سے نکلتیں جلد ہی اپنے موبائل کی طرف لپکیں اور فاریسہ کو کال ملائی جس نے تیسری بیل پر ہی کال ریسیو کی تھی۔

"فاریسہ میری بات دھیان سے سُنو،برزل کو میسج کرو یا کال کہ اُسے تمہارے پاپا سے خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ماما یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نہ سمجھی اور حیرانگی کہ ملے جلے تاثرات لیے مخاطب ہوئی جو اُسکی بات کاٹ کر گویا ہوئیں۔

"یہ وقت کیوں اور کیسے کے سوالوں میں پڑنے کا نہیں ہے جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بات ختم ہوتے ہی کال بند ہو گئی تھی مگر فاریسہ کی اُلجھن ختم نہیں ہوئی تھی۔

"نہیں میں اُنکو نہیں بتاؤنگی ورنہ،ورنہ وہ میرے پاپا کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مہ پارہ بیگم کی ساری باتیں زہن سے جھٹکتی موبائل رکھتی خود اضطرابی انداز میں کمرے میں چکر لگانے لگی تھی نہ جانے کیوں دل ہمک ہمک کر اسے کچھ اور ہی کہہ رہا تھا مگر وہ اسے نظرانداز کرتی کتابوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنے لگی جس میں بھی وہ بڑی طرح ناکام ہوئی تھی۔

دوسری طرف ان سب باتوں سے انجان برزل ابراہیم اپنے آفس سے نکلتا سلیمان کو کال ملاتا بلوتوتھ کان سے لگاتا خود ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

"ہاں سلیمان کہاں ہو،ایسا کرو کہ ابھی مجھے غاذی چوک پر ملو،اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتا ہوا کال بند کرکے ہاتھ میں پہنی گھڑی کی طرف دیکھا جو کہ شام کے چھ کے ہندسے کو کراس کرنے کی کوششوں میں تھی۔

غاذی چوک سے سلیمان کو لیتا اس نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی تھی۔

"اب نیکسٹ ہم کیا کرنے والے ہیں بھائی کیونکہ شیخ کے مرنے کے بعد چیزیں کچھ کنفیوز ہو رہی ہیں،کسی کا لنک بھی کسی کے ساتھ نہیں مل رہا ہے ہم وہاں تک اب کیسے پہنچیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کچھ نہیں شاید زیادہ ہی کنفیوز ہو رہا تھا۔

"ریلیکس سلیمان،یہ جو سب تمہیں کنفیوز لگ رہا ہے نہ اصل میں یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں وہاں تک لے جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایزی انداز میں کہتا وہ گاڑی کی سپیڈ ہلکی کر گیا تھا کیونکہ آگے ناکہ بندی تھی جس پر سلیمان بھی کچھ حیرت سے دیکھنے لگا جہاں پولیس والے انکو گاڑی روکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔

"سر ہمیں آپکی گاڑی کی تلاشی لینی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پولیس کانسٹبل سلیمان کی طرف کھڑکی میں جھکا تھا۔

"کس چیز کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سلیمان یہ انکا فرض ہے،ہوگا انکا کوئی سیکورٹی ایشو،جی آپ لے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم نے کہتے ہوئے سلیمان کو گاڑی سے نکلنے کا اشارہ کیا تھا اور خود بھی گاڑی سے نکلتا ایک طرف کھڑا ہو گیا تھا اور باریک بینی سے اردگرد کا جائزہ لیا کہ پولیس والے جو پہلے ایک دو گاڑی رکوا کر کھڑے تھے اب سب کو جانے کا کہتے صرف اسکی گاڑی کی طرف ہی متوجہ تھے جیسے وہ صرف رکے اس کے لیے تھے برزل ابراہیم گیم کو اچھے سے سمجھ گیا تھا۔

"بھائی یہ سب کیا ہے،یہ لوگ صرف ہماری تلاشی کے لیے ہی ناکہ بندی کرکے بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان بھی ان سب چیزوں کی آبزرویشن کر چکا تھا۔

"ریلکیس،گاڑی میں کونسا کچھ نکلنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کہتا ہوا اس پولیس افسر کی طرف متوجہ ہوا جو اس کی گاڑی سے ایک سفید پیکٹ نکالتا ایس ایچ اوہ کے پاس آیا تھا۔

"یہ دیکھیں سر،جسکی اطلاح ملی تھی،دو کلو سفید پاؤڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"جہاں وہ ایس ایچ اوہ مسکرایا تھا وہی سلیمان بھی ششدر سا برزل ابراہیم کو دیکھنے لگا جو کہ بے تاثر چہرہ لیے بس پولیس وین کی طرف دیکھا رہا تھا جس میں سے ایس پی نازر اعوان اترا تھا۔

"بھائی ہم ٹریپ ہو گئے ہیں اس ایس پی کے ہاتھوں،اوہ نو،اب کیا ہوگا الزام بھی اتنا بڑا اور حیدر بھی وہ جو کچھ نہیں جانتا کہ ہمارے بعد وہ کس سے رابطہ کرسکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کچھ زیادہ ہی بوکھلاہٹ کا شکار لگتا تھا جس کے برعکس برزل ابراہیم ریلکیس تھا۔

"سلیمان تم بہت جلدی پریشان ہو جاتے ہو،میں انکو باتوں میں لگاتا ہوں تم بس مجھے یہ پتہ کر کے دو کہ فاریسہ سیو ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کہتا ہوا پولیس کی طرف متوجہ ہوتا اپنی ایکٹنگ شروع کر چکا تھا اور سلیمان سب سے نظریں بچاتا گھر میسج کرنے لگا جس کے جواب پر وہ ریلیکس ہوتا برزل کو اشارہ کر گیا تھا اور پھر برزل کی طرف متوجہ ہوا کہ اس سچویشن سے نکلنے کے لیے وہ آخر کونسا حربہ آزمانے لگا تھا۔

!____________________________________________!

وقار رانا اور مسز رانا اس وقت ڈنر کر رہے تھے اور ساتھ دونوں ہی ایک دوسرے کے الفاظ جانچ رہے تھے کہ جو برزل ابراہیم ان کے کانوں میں ڈال چکا تھا وہ کس حد تک درست ثابت ہونے والا تھا۔

"میں سوچ رہی تھی کہ فاؤنڈیشن کی ساری زمعداری ثمن پر ڈال دوں اور وہ وہاں ہی رہا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مسز رانا کی بات پر وقار رانا ٹھٹھکے تھے اور یہی انکا زرد چہرہ مسز رانا کے یقین کے لیے کافی تھا۔

"میرا نہیں خیال کہ ثمن یہ زمعداری نبھا پائے گی اور ویسے بھی وہ اتنے سالوں سے میری سیکٹری ہے اور سارا کام وہی دیکھ رہی ہے تو مجھے مشکل ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا سمبھل کے جواب دے ریا تھا۔

"تمہیں تو مشکل ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دل ہی دل میں مسکرائی۔

"نیکسٹ پراجیکٹ کے لیے مشینری کی ضرورت ہے جس کے لیے مجھے ایک ہفتہ بنکاک جانا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا کی بات پر وہ محض سر ہلا گئیں کیونکہ یہ برزل ابراہیم انکو پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ دونوں ایک ساتھ جائیں گئے اور کس ہوٹل میں رہیں گئے۔

"بچے نیکسٹ ویک آ رہے ہیں،کچھ پلان کرنا چاہئیے اُنکی آؤٹنگ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا نے اپنے پر سے توجہ ہٹانی چاہی۔

"ہاں میں بھی سوچ رہی ہوں اس لیے سارا کام اعزاز کے سپرد کر رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ اعزاز ابھی تک کنوارہ ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کانٹے کی مدد سے فرائیڈ فش کا پیس منہ میں رکھتا وہ نارملی بات کر رہا تھا مگر دھیان مسز رانا کی طرف ہی تھا۔

"ہاں وہ شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا کسی کی محبت میں مبتلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وقار رانا کے سوال پر وہ زرا گڑبڑائی۔

"نہیں مجھے نہیں پتہ کبھی اتنا پرسنل نہیں ہوئی میں اُس کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"حالانکہ تمہارا پرسنل سیکڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پرسنل پر کافی زور دیا گیا تھا جن پر وہ کندھے اُچکاتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"میں چلتی ہوں جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنا گال وقار رانا کے گال کے ساتھ ٹچ کرتی وہ یہ جا وہ جا جبکہ وقار رانا کے لبوں پر زہرخند مسکراہٹ تھی۔

!___________________________________________!

"تو مسٹر برزل ابراہیم آپکو ڈرگز کی اسمگلنگ کے جُرم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ایک منٹ ایس ایچ اوہ صاحب،اتنی جلدی کس بات کی ہے،آپ پہلے ہمارے بیٹھنے کے لیے تو انتظام کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم ریلکیس انداز میں بولتا پولیس والوں کے ساتھ سلیمان کو بھی حیرت میں ڈال رہا تھا جو اس صورتحال میں فق چہرہ لیے برزل ابراہیم کو دیکھ رہا تھا۔

"فکر کیوں کرتے ہو برزل ابراہیم،تمہارے لیے بہت اچھی جگہ رینج کی ہوئی ہے ہم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار ایس پی نازر اعوان بولا تھا برزل نے ایسی سرد مہری سے دیکھا تھا کہ اُسکی آنکھوں میں چھلکتی نفرت پر نازر اعوان بھی ایک پل کو ساکت ہوا تھا۔

"پر افسوس کہ آپکی یہ خواہش تو اس جہان میں پوری ہو نہیں سکے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جیبوں میں ہاتھ پھنسائے ایس ایچ اوہ کی طرف مڑا۔

"میرے خیال میں کوئی پندرہ سال تو اس سروس میں آپ نے گزار لیے ہونگے اور کئی دفعہ ڈرگز دیکھی ہونگیں تو ایسی بھی کیا مجبوری تھی کہ اس سفید پاؤڈر کو چیک کرنے کے بجائے الزام تراشی پر آگئے،کوئی خاص وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اتنے ٹھنڈے لہجے میں گویا ہوا کہ سب کو سن کر گیا۔

"یہ نشینل کا نمک ہے،چکھ کے دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی بات پر سب ٹھٹھک کر اس شاپر کی طرف متوجہ ہوئے تھے اور ایس ایچ اوہ کیا سب نے چکھ کر بار بار دیکھا تھا وہ نمک ہی تھا سب بے ساختہ نازر اعوان کی طرف دیکھ رہے تھے جو اپنے پلان کی ناکامی پر شعلے بار نظروں سے برزل ابراہیم کو دیکھ رہا تھا جس کے لبوں پر زہریلی اور جلا دینے والی مسکراہٹ تھرک رہی تھی۔

"صوری سر،ہمیں غلط فہمی ہوئی آپ جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایس ایچ اوہ نے معذرت کی جس پر وہ سر ہلاتا ہوا ایس پی کے قریب آیا۔

"یہ ہربہ بہت سٹوپڈ تھا،کچھ نیا تلاش کرو جو برزل ابراہیم کے لائق تو ہو کیونکہ برزل ابراہیم کو مات دینا تم جیسے چھوٹے کھلاڑیوں کے لیے بہت مشکل ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ جانے لگا پھر پلٹا تھا۔

"اور ایک بات اب تم بھی اپنی الٹی گنتی شروع کر دو ایس پی کیونکہ برزل ابراہیم اب تمہیں برباد کرنے والا ہے وہ ڈھنکے کی چوٹ پر،تمہاری طرف تو بہت پرانے حساب نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سرد لب و لہجے میں اسے دیکھتا وہ اپنی گاڑی کی طرف چل دیا پیچھے نازر اعوان ہاتھ پہ ہاتھ مارتا رہ گیا۔

"شکر ہے میں تو ڈر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اس چوکی سے نکلتا گہرا سانس بھر کر بولا۔

"تم تو ایسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہو جاتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ارے بھائی یہ چھوٹی بات نہیں تھی،پر یہ سب ہوا کیاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان ابھی تک حیران تھا۔

"یہ ایک ٹریپ تھا کہ برزل ابراہیم کو پکڑا جا سکے اور پھر پولیس مقابلے میں مار دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ایس پی نازر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے نفرت سے نام لیا تھا۔

"آپ نے کیسے سب ہینڈل کیا،کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے تجسس پر برزل مسکرایا۔

"مجھے شروع سے ہی قدم پھونک کر رکھنے کی عادت ہے،آج صبح میری گاڑی جسے میں لاک لگا کر آفس میں گیا تھا باہر آیا تو گاڑی کا بیک ڈور اوپن تھا اور یہی چیز میرے دماغ میں کلک کر گئی تلاشی لینے پر مجھے بہت بڑی مقدار میں ڈرگز ملے جن کو ضائع کر کے میں نے نمک رکھ لیا اور پھر میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ایس پی کی شکل کیسے ہوگی جب وہ اپنے پلان میں بڑی طرح ناکام ہوگا جو دیکھ کر کافی مزہ آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی بات پر سلیمان محفوظ ہوا۔

"اسکا مطلب وہ ناکامی کے بعد ایک اور حملہ کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پر اس دفعہ اسے اتنابھی موقع نہیں ملے گا کیونکہ اب ایس پی کی الٹی گنتی شروع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے لہجے میں ایسی سختی تھی کہ سلیمان کو ایس پی پر ترس آنے لگاتھا۔

!___________________________________________!

برزل کمرے میں آیا تو فاریسہ کو پریشان اور گم صم صوفے پر بیٹھے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔

"کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی آواز پروہ چونک کر اسے دیکھنے لگی جو شرٹ کے کف لنکس کھولتا اس کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا۔

"آپ،آپ آ گئے،آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے اختیار بولی تھی پھر اُسکی حیران نظروں کو دیکھتی گڑبڑا گئی۔

"میں تو ٹھیک ہوں،کیا کچھ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں،نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ساتھ سر بھی نفی میں ہلا رہی تھی۔

"اوکے ریلکیس،میرے کپڑے نکال دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا شرٹ کے بٹن کھولنے لگا جبکہ فاریسہ مہ پارہ بیگم کی کال پر پھر سے الجھنے لگی وہ کتنی زیادہ پریشان رہی تھی ایک طرف باپ اور ایک طرف وہ انسان جس کے لیے آج پہلی مرتبہ اس نے تکلیف محسوس کی تھی مگر باپ کی محبت پھر بھی غالب آ گئی تھی اور اس نے اسے کال نہیں کی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ ڈائنگ ٹیبل پر برزل ابراہیم کے ساتھ بیٹھی بھی اسی الجھن میں گرفتار تھی کہ برزل نے اسکی توجہ اپنی طرف کی۔

"تم کھانا کیوں نہیں کھا رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی،کھا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جلدی سے اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوئی۔

"کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم کہیں جاؤ تو مجھے میسج کر دیا کرو،جسٹ فار انفارمنگ تا کہ مجھے پریشانی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بہت نرمی سے اسے کہنے لگا کیونکہ حیدر پر غصہ نکال سکتا تھا مگر اس پر نہیں۔

فاریسہ نے کچھ نہ سمجھی سے دیکھا پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا۔

"میں اور حیدر بھائی کل کھانا کھانے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کوئی مسلہ نہیں آگے بھی جا سکتی ہو،شاپنگ کرنے بھی مگر جانے سے پہلے ایک میسج کر کے احسان کر دیا کرو کیونکہ میں اپنے گارڈز کو اپنی بیوی کی ایک ایک چیز پر نظر رکھنے کا کہہ کر اسکی پرائویسی کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا ہوں اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے نرم لہجے پر وہ پرسکون ہو کر سر ہلا گئی یہ بات اسے اچھی لگی تھی۔

"کل حیدر بھائی کو کسی نے مارا تھا،بہت زیادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی طرف سے اس نے بہت بڑی بات بتائی تھی مگر برزل سر ہلاتا کھانے میں یوں مگن تھا جیسے کچھ سنائی نہ دیا ہو جبکہ فاریسہ سوچنے لگی کہ اپنے بھائی کے بارے میں سن کر وہ غصے میں آ جائے گا۔

"انکو چوٹیں آئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس نے پھر احساس دلانا چاہا مگر نہ جی۔

"بہت خون بہہ رہا تھا انکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس خاموشی پر حیران تھی آخرکار بول اٹھی۔

"آپ کچھ نہیں کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جو کرنا تھا کر لیا ویسے بھی غلطی اسکی تھی اگر یوں کسی کی بیوی کو بنا پوچھے بتائے لے کر جائے گا تو ایسا تو ہوگا نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی بات اسکے پلے نہ پڑی تھی اس لیے کچھ دیر سمجھتی پھر سر جھٹک گئی۔

"کیا میں انکا حال پوچھ سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی بات پر برزل نے اسے دیکھا جو حیدر کے ذخموں کا سوچتی پریشان ہو اٹھی تھی۔

"اوہ تو بھائی کی چوٹوں کی وجہ سے پریشان تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ تھوڑی دیر پہلے اسکی خاموشی کا مطلب اخذ کرتاکندھے اچکاتا اٹھ کھڑاہوا۔

"وہ ٹھیک ہے اب،پرسوں تک آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اپنے موبائل پر آتی کال کی طرف متوجہ ہوا پھر رک کر اسے دیکھا۔

"اپنی پلیٹ ختم کر کے اٹھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسے ہدایت دیتا چلا گیا تو وہ گہرا سانس بھرتی کھانے سے دو دو ہاتھ کرنے لگی۔

"دیکھو تو کیا حال کر دیا تمہارا،کتنا ظالم انسان تھا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ نے صدف(حیدر) کو اپنے ذخموں پر ٹوکور کرتے دیکھ کر اس سے ہمدردی جتائی اور ان دیکھے شخص سے نفرت۔

"ہاں بہت ظالم،سخت دل اور سفاک ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنی چاہی۔

"کیا لگتا ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بھائی ہے میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اس جیسا بھائی نہ ہی ہو تو اچھا ہے،جسے زرا ترس نہیں آیا تم پر،اگر میں تمہاری جگہ ہوتی ہو تو ہاتھ توڑ دیتی اس کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کے جوش پر وہ حیرانگی سے دیکھنے لگا۔

"تم ایسا کر سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں کیونکہ مجھ میں ہمت ہے کسی کا بھی ہاتھ جھٹکنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ لاپروائی سے بولتی اسکی خود کو دیکھتی پسندیدہ نظروں سے انجان تھی۔

"تم تو بہت بہادر ہو،میں بھی تمہارے جیسا بنوگا اور بھائی سے اپ ڈرنا چھوڑ دونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس سے زیادہ خود کو باور کروانے لگا مگر ہانیہ اس کے الفاظ پر چونکی تھی۔

"یہ تم کیسے بول رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کی بات حیدر کو ٹھٹھکنے پھر گڑبڑانے پر مجبور کر گئی۔

"وہ کبھی کبھی اپنی مردانہ لک کو دیکھنے لگتا اوہ صوری لگتی ہوں نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی وضاحت بھی گڑبڑائی ہوئی تھی۔

"اچھا میں کھانا لے کر آتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"شکر ہے،بچ گیا،کل تو ہمیشہ کے لیے یہاں سے جان چھوٹ جائے گی میری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بولتا ہوا اپنے گلابی آنچل کو کوفت سے سر پر لینے لگا۔

!___________________________________________!

"یہ کیا تھا رئیس،ایک چھوٹا سا کام کہا تھا وہ بھی تم سے نہ ہو پایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان بہت تپا ہوا تھا اور ساری بھڑاس رئیس پر نکالنے لگا۔

"تم ایسے کہہ رہے ہو جیسے پہلے کبھی تمہارا کام کیا نہ ہو یا وہ ہوا نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف رئیس بھی بھڑکا تھا۔

"تو کیسے اس دفعہ تم ناکام ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہی تو سمجھ نہیں آ رہا،میرے بندے نے وہ پیکٹ اس کی گاڑی میں رکھا تھا مگر وہ نمک کیسے بن گیا یہ تو پھر اس لڑکے کی چالاکی ہے نہ،بہت شاطر دماغ ہے اس کے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔"رئیس کی بات پر نازر اعوان پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔

"یہی تو میں کہتا تھا تمہیں کہ اسے عام نہ سمجھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "

"تو مروا دوں پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں مجھے اسے ایک بار نہیں بار بار موت کی اذیت سے دوچار کرنا ہے،اس لیے تم بس کوئی ٹریپ تیار کرو اس کے خلاف کہ یہ میرے چنگل میں آ سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ٹھیک ہے کرتا ہوں کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔"کہہ کر وہ رابطہ منقطع کر گیا۔

"تم نہیں بچو گئے مجھ سے اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "ایس پی نازر اعوان کے دل دماغ میں اس وقت وہی چھایا ہوا تھا۔

!____________________________________________!

فاریسہ کالج سے آئی تو لاونج میں برزل ابراہیم کو بیٹھے دیکھ کر حیران ہوئی کیونکہ وہ اس وقت کبھی گھر پہ نہیں ہوتا تھا۔

اپنی حیرانگی کو پرے کرتی اس پر سلامتی بھیجتی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی جب بیس منٹ بعد فریش ہو کر آئی تو برزل ابراہیم کو وہی لیپ ٹاپ پر بزی دیکھ کر وہ کچن میں چلی گئی جہاں مس زونا اسے دیکھ کر پہلے سے ہی اسکا لنچ ریڈی کر چکی تھی۔

آپ یہاں لنچ کریں گی کہ باہر ڈائینگ ہال میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کے استفسار پر وہ مرر ونڈو سے ایک نظر اپنے کام میں  متوجہ برزل ابراہیم کو دیکھتی بے اختیار بول اٹھی۔

"وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ اس کے حیران چہرے کو دیکھے بغیر باہر جانے لگی۔

"مگر میم سر پسند نہیں کرتے کہ کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پہلے ان سے پوچھو میں کوئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نہ جانے کہاں سے آج اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ یوں بول اٹھی تھی مس زونا شرمندہ ہوتی سر ہلا گئی۔

فاریسہ آ کر ایک طرف صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی اور ایل ڈی کا ریموٹ اپنی گرفت میں لیتی اپنا پسندیدہ چینل لگا گئی برزل ابراہیم نے ایک نظر اٹھا کر دیکھا تھا پھر اپنے کام میں لگ گیا۔

مس زونا نے کھانے کی ٹرالی فاریسہ کے سامنے کی تو برزل ابراہیم نے سر اٹھا کر سوالیہ نظروں سے مس زونا کو دیکھا تھا۔

"صوری سر،وہ میم یہاں کھانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے آپ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے بات مکمل سنے بغیر جانے کا کہہ دیا۔

"تمہیں ڈائینگ ٹیبل پر ایزی ہو کر کھانا کھانا چاہئیے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کے بعد وہ اس سے بولا جو چائینز رائس سے بھرپور انصاف کرنے میں مصروف تھی۔

"یہاں بھی ایزی ہوں،میں آج سے یہی لنچ کیا کرونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بنا دیکھے بولی تھی برزل نے بس ایک نظر دیکھا پھر سر جھٹک گیا وہ اس طرح کی بے ترتیبی کا عادی نہیں تھا اور یہی بات حیدر میں تھی مگر اسکو تو وہ ڈانٹ لیتا تھا مگر یہاں معاملہ ہی اور تھا۔

"کالج کیسا جا رہا ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بلکل ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسکرائی تھی کیونکہ اب کالج اور گھر دونوں میں وہ آزاد تھی پھر زہن میں ایک خیال آیا تو برزل کی دیکھنے لگی جو اپنے کام میں ہی اُلجھا ہوا تھا وہ لبوں پر زبان پھیرتی خود میں ہمت پیدا کرنے لگی۔

"میری ہر بات مان رہے ہیں یہ،لڑتے اور غصہ بھی نہیں کرتے بابا کی طرح،میں کہہ سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مثبت پہلو تلاش کرتی خود میں ایک طاقت سی محسوس کرنے لگی۔

"وہ ہمارے کالج کی ٹرپ جا رہی،کیا میں بھی نام لکھوا دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آہستہ سے بولی برزل نے انکار کرنے کے لیے سر اٹھایا مگر اسکی پرامید نظروں کو دیکھ کر چپ ہو گیا اصل میں اسے مسلہ بس سیکیورٹی کا تھا کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ نازر اعوان کچھ تو نیا تلاش کرے گا برزل کو قابو کرنے کے لیے اور وہ فاریسہ بھی ہو سکتی تھی۔

"ہاں تم لکھوا لو،اپنی فرینڈز کے ساتھ انجوائے کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نرمی سے بولتا اسکے چہرے پر مسکراہٹ لا گیا۔

"آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ یقیننا بہت خوش ہوئی تھی اور اس چیز کا اظہار بھی کر گئی برزل نے مسکراتی نگاہوں سے دیکھا۔

"اب مجھے بھی یقین آنے لگا ہے کہ میں بہت اچھا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بابا نے کبھی بھی مجھے کہیں جانے نہیں دیا،میری فرینڈز ہر سال ٹرپ پر جاتی ہیں اتنا مزہ آتا ہے انکو۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ خوشی خوشی پہلی دفعہ یوں اس سے باتیں کرنے لگی تھی۔

"وہ مجھے تصویریں دکھاتیں تھیں اب میں بھی بہت تصویریں بناؤنگی اور آپ کو بھی سینڈ کروں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ٹرپ جا کہاں رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکی باتوں میں دلچسبی لیتا پوچھنے لگا۔

"ناردن ایریاز میں،تین دن کا ٹرپ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کچھ سوچتا ہوا سر ہلانے لگا یہ اسے اچھا نہیں لگا تھا مگر اس نے ظاہر نہیں کیا تھا۔

"میں نے تمہارا اکاؤنٹ کھلوا دیا ہے،اے ٹی ایم کارڈ شام تک سلیمان تمہیں دے دے گا،تم اس کے زریعے جتنی چاہے شاپنگ کر سکتی ہو،جو لینا ہو لے سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی بات پر وہ خوش ہوئی تھی اور یہ خوشی اس بات کی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے سب کر سکتی تھی۔

"کھانا کھاؤ اب۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں بس کھا لیا،میں زارا کو بتاؤں کہ میں بھی اس دفعہ جاؤنگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اٹھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف گئی کیونکہ اسکا موبائل وہاں تھا جبکہ برزل لیپ ٹاپ بند کرتا اب اس بارے میں سوچنے لگا تھا۔

!__________________________________________!

مہ پارہ بیگم کمرے میں آئیں تو نازر اعوان کو پریشانی سے کمرے میں ٹہلتے پایا۔

"کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ انکا چہرہ دیکھ کر اس بات کا اندازہ تو پہلے ہی لگا چکی تھیں کہ اپنے کام میں یہ بری طرح ناکام ہوا تھا۔

"کچھ نہیں بس فاریسہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"الہی خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کے منہ سے فاریسہ کا سن کر وہ پریشان ہوئی تھیں۔

"کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہی کہ ہم کیوں اس لڑکے کی وجہ سے اپنی بیٹی سے دور ہو گئے،نکاح بھی فاریسہ کا ہم نے کروایا تھا اور خود سے دور رکھ کر سزا بھی ہم ہی اسے دے رہے ہیں تو میرے خیال میں ہمیں اپنی بیٹی کو یوں تنہا نہیں چھوڑنا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کے دماغ میں کیا چل رہا تھا وہ سمجھ نہ پا رہی تھیں۔

"جیسا کہ تم کہتی ہو کہ وہ لڑکا بہت اچھا ہے فاریسہ کے ساتھ تو پھر فاریسہ کو وہ ہم سے ملنے کو تو نہیں روکے گا نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ فقط یہی کہہ پائیں کیونکہ وہ انکی بات کا مطلب جاننا چاہتی تھیں۔

"تو فاریسہ کو بولو کہ وہ ہم سے ملے،اسکو بولنا کے اس کے پاپا اسے ملنا چاہتے ہیں،یہ اسکا گھر ہے وہ آ کر اپنے بھائیوں سے بھی مل سکتی ہے،مجھے اسکا سیل نمبر دو،میں خود بھی بات کرونگا اس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آخر بیلی تھیلے سے باہر نکل آئی تھی۔

"جی میں کہونگی اس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خاموش ہو گئی تھیں پھر نازر اعوان کے واشروم جانے کے بعد وہ سر تھام کر بیٹھ گئیں۔

"یہ اتنے سالوں تک تو بیٹی کا باپ بن نہیں سکا اب یوں اچانک،کل تک جسے بیوہ کرنا چاہ رہا تھا آج ایسے کیسے،کہیں فاریسہ کو اس کے شوہر کے خلاف تو استمال نہیں کرنے کا سوچ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایسی بہت ساری سوچیں اسکے دماغ میں گھومنے لگی تھیں۔

!_________________________________________!

برزل ابراہیم پرسوچ انداز میں اسٹڈی روم میں بیٹھا تھا کہ سلیمان آیا۔

"بھائی یہ رئیس اور نازر اعوان کا معاہدہ،جو انہوں نے پانچ سال پہلے ایک بلیک بزنس کے لیے کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے ایک فائل اسکے سامنے رکھی۔

"گڈ،یہ میں نے نازر اعوان کا جی میل اکاؤنٹ ہیک کیا ہے جس میں اس کی وہ ساری ڈیلنگز کی اور چیک کی ڈیٹیلز ہے جو اس نے کسی کا دو نمبر کام کر کے کیش اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرواتا رہا ہے اور سب سے مین چیز سلیمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ لیپ ٹاپ کی سکرین اسکی طرف کر کے بولا۔

"یہ پانچ قتل جو اس نے پیسے لے کر ان بندوں کی وجہ سے کیے اور ان سے لاکھوں کے حساب سے پیسے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"واو،یہ تو پرفیکٹ ہے،یہ انکشافات تو ایس پی کی وردی دو منٹ میں اتروا دیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان خوش ہوا تھا۔

"اب تم دیکھ لو کہ یہ سب کیسے استمال کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی آپ فکر نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ لیپ ٹاپ کے ساتھ یو ایس بی اٹیچ کرنے لگا۔

"دو دن تک وقار رانا کی گیم بھی ختم کر رہا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اتنی جلدی،ابھی تو انکی میٹنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اسکا کوئی خاص فائدہ نہیں سلیمان،کیونکہ جب وہ مر جائیں گئے تو نائن گروپ جلدی ہی میٹنگ کرنا چاہے گا،مطلب کہ ایک ماہ پہلے ہی اور میں انکو اور اس زمین پر چلتا پھرتا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

"فاریسہ اپنے کالج ٹرپ کے ساتھ ناردن ایریاز جانا چاہتی ہے،میں نے اسے اجاذت بھی دے دی ہے اور تم جانتے ہو کہ اب کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اسکی بات پر چونکا تھا کچھ کہنا چاہا تھا پھر خاموش ہو گیا۔

"جی بھائی سمجھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں چاہتا ہوں کہ تم اتنے دن ایس پی کو الجھائے رکھو کہ وہ اپنی نوکری بچانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے سر ہلا دیا برزل اپنے موبائل پر کچھ ٹائپ کرنے لگا۔

!_________________________________________!

برزل کمرے میں آیا تو فاریسہ اپنے موبائل کے ساتھ لگی تھی اور مسکرا رہی تھی اور یہ مسکراہٹ صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ پہلی دفعہ گھومنے جا رہی ہے۔

"برزل ابراہیم،اگر تم پہلے ہی اپنی بیوی کو ٹور پر لے جاتے تو اس وقت تمہیں یہ کڑوا گھونٹ نہ بھرنا پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خود کو ملامت کرتا ٹروزر شرٹ وارڈرب سے نکالتا  واشروم میں گھس گیا جب دس منٹ بعد باہر آیا تو فاریسہ کو ویسی حالت میں ہی پایا۔

"کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بالوں میں برش کرتا وہ اسکی توجہ خود کی جانب کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

"میں زارا سے بات کررہی تھی،اس نے مجھے نام بتایا ہم نے جن جگہوں پر جانا ہے اور یہ دیکھیں میں نے گوگل سے سب نکالیں ہیں دیکھیں تو کتنی زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ موبائل کی سکرین اسکی طرف کرکے بولی جو اب بیڈ پر بیٹھ رہا تھا۔

"واو نائس پلیسز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے اشتیاق کے پیش نظر بولا۔

"بہت مزہ آنے والا ہے،زارا کہہ رہی تھی کہ وہاں سے ہم شاپنگ بھی کریں گئے وہ بیس ہزار لے کر جا رہی اپنے بابا سے،کیا اس میں اتنے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ایم ٹی کارڈ کی طرف دیکھ کر بولی جو کچھ دیر پہلے سلیمان نے اسے دیا تھا برزل نے مسکراہٹ روکی تھی۔

"اس میں بیس ہزار تو نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ کوئی بات نہیں میں زیادہ چیزیں نہیں لونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔

"میری کالج پاکٹ منی جو آپ دیتے ہیں دس ہزار ہے وہ بھی،کیونکہ میں بس کبھی کبھار ہی کچھ کھاتی ہوں کالج سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اچھی بیویوں کی طرح تھوڑے پیسے میں ہی گزارہ کرنے والی بننے لگی تھی برزل کو اس وقت اتنی اچھی لگی کے وہ بے ساختہ ہی جھک کر اس کے رخسار پر اپنے ہونٹ رکھ گیا جو اس کی حرکت پر سن ہوئی تھی اور اس کے لمس پر گلابی ہوئی تھی۔

"اس میں بیس ہزار نہیں بلکہ بیس لاکھ سے بھی زیادہ اماؤنٹ ہے،تم جو چاہے خرید سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے شرم سے نکالنے کو ہلکے پھلکے انداز میں کہنے لگا تو وہ اس کی بات پر حیران ہوتی آنکھوں کے ساتھ منہ بھی کھول گئی تھی جس کی صورت میں برزل کو پھر سے اپنے دل کے ہاتھ مجبور ہو کے اس کے دوسرے رخسار پر ہونٹ رکھنے پڑے اب کی بار وہ شرم سے لال گلابی ہوتی پیچھے کو سرکنے لگی۔

"میں نے تمہیں ٹرپ پر جانے کی اجاذت دی ہے کچھ تو شکریہ بنتا تھا میرا،ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکا ہاتھ پکڑتا وہ پوچھنے لگا جو اسکی طرف دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔

"جی،میں ابھی آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہاتھ چھڑواتی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دھک دھک کرتے دل کو سھمبالتی کمرے سے باہر آگئی۔

"اف،ایسے شکریہ کون لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھتی بڑبڑائی۔

برزل کمرے میں آیا تو فاریسہ اپنے موبائل کے ساتھ لگی تھی اور مسکرا رہی تھی اور یہ مسکراہٹ صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ پہلی دفعہ گھومنے جا رہی ہے۔

"برزل ابراہیم،اگر تم پہلے ہی اپنی بیوی کو ٹور پر لے جاتے تو اس وقت تمہیں یہ کڑوا گھونٹ نہ بھرنا پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خود کو ملامت کرتا ٹروزر شرٹ وارڈرب سے نکالتا  واشروم میں گھس گیا جب دس منٹ بعد باہر آیا تو فاریسہ کو ویسی حالت میں ہی پایا۔

"کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بالوں میں برش کرتا وہ اسکی توجہ خود کی جانب کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

"میں زارا سے بات کررہی تھی،اس نے مجھے نام بتایا ہم نے جن جگہوں پر جانا ہے اور یہ دیکھیں میں نے گوگل سے سب نکالیں ہیں دیکھیں تو کتنی زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ موبائل کی سکرین اسکی طرف کرکے بولی جو اب بیڈ پر بیٹھ رہا تھا۔

"واو نائس پلیسز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے اشتیاق کے پیش نظر بولا۔

"بہت مزہ آنے والا ہے،زارا کہہ رہی تھی کہ وہاں سے ہم شاپنگ بھی کریں گئے وہ بیس ہزار لے کر جا رہی اپنے بابا سے،کیا اس میں اتنے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ایم ٹی کارڈ کی طرف دیکھ کر بولی جو کچھ دیر پہلے سلیمان نے اسے دیا تھا برزل نے مسکراہٹ روکی تھی۔

"اس میں بیس ہزار تو نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ کوئی بات نہیں میں زیادہ چیزیں نہیں لونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔

"میری کالج پاکٹ منی جو آپ دیتے ہیں دس ہزار ہے وہ بھی،کیونکہ میں بس کبھی کبھار ہی کچھ کھاتی ہوں کالج سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اچھی بیویوں کی طرح تھوڑے پیسے میں ہی گزارہ کرنے والی بننے لگی تھی برزل کو اس وقت اتنی اچھی لگی کے وہ بے ساختہ ہی جھک کر اس کے رخسار پر اپنے ہونٹ رکھ گیا جو اس کی حرکت پر سن ہوئی تھی اور اس کے لمس پر گلابی ہوئی تھی۔

"اس میں بیس ہزار نہیں بلکہ بیس لاکھ سے بھی زیادہ اماؤنٹ ہے،تم جو چاہے خرید سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے شرم سے نکالنے کو ہلکے پھلکے انداز میں کہنے لگا تو وہ اس کی بات پر حیران ہوتی آنکھوں کے ساتھ منہ بھی کھول گئی تھی جس کی صورت میں برزل کو پھر سے اپنے دل کے ہاتھ مجبور ہو کے اس کے دوسرے رخسار پر ہونٹ رکھنے پڑے اب کی بار وہ شرم سے لال گلابی ہوتی پیچھے کو سرکنے لگی۔

"میں نے تمہیں ٹرپ پر جانے کی اجاذت دی ہے کچھ تو شکریہ بنتا تھا میرا،ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکا ہاتھ پکڑتا وہ پوچھنے لگا جو اسکی طرف دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔

"جی،میں ابھی آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہاتھ چھڑواتی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دھک دھک کرتے دل کو سھمبالتی کمرے سے باہر آگئی۔

"اف،ایسے شکریہ کون لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھتی بڑبڑائی۔

!_____________________________________________!

حیدر آج یہاں سے ہمیشہ کے لیے ہی جا رہا تھا اور کور سٹوری یہ بنانی تھی کہ وہ اپنے گھر والوں سے ملنے گیا اور ان کے سلوک سے دلبراشتہ ہو کر خودکشی کر گیا جو کہ اس فاؤنڈیشن کے چوکیدار نے سب کو کہنا تھا۔

"آج پھر تم جانا چاہتی ہو،ارے ابھی تین دن پہلے ہی تو اپنے گھر والوں سے مار کھا کر آئی تھی تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ اس کے منہ سے سن کر حیران رہ گئی۔

"کیا کروں امی کی بڑی یاد آ رہی ہے،وہ اس دن بیمار تھیں اب پتہ لینے تو جانا ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صدف نے لپ اسٹک کو ہونٹوں پر رگڑتے ہوئے کہا۔

"مگر صدف وہ پھر سے۔۔۔۔۔۔۔۔...."

"نہیں اب جیسا کہ مجھے میڈم سے ایک دن کی چھٹی ملی ہے تو میں اس ٹائم گھر جاؤنگی جب بھائی لوگ اپنے کام پر گئے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"چلو ٹھیک ہے اب تم کہہ رہی ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تم میری اتنی فکر کرتی ہو مجھے بہت اچھا لگتا ہے،تم بہت اچھی ہو ہانیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر وہ سچے دل سے بولتا ہانیہ کو عجیب سا احساس دلا گیا کہ وہ اسکی آنکھوں سے پھوٹتی روشنی سے نظریں چرانےگی۔

"تم خود بہت اچھی ہو صدف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ غیر محسوس انداز میں اپنا ہاتھ کھینچ گئی۔

"پر تم بہت زیادہ اچھی ہو،میں تمہیں ہمیشہ اپنے دل میں یاد رکھونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ تم ایک دن کی چھٹی پر جا رہی ہو کہ ایک سال کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا جس پر حیدر بھی مسکرا دیا اور اس پر ایک بھرپور نظر ڈالتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

"بہت جلد تم سے دوبارہ ملاقات ہو گی ہانیہ،مگر صدف بن کرنہیں بلکہ حیدر بن کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دل ہی دل میں ہمکلام ہوا۔

!___________________________________________!

ایس پی نازراعوان جو کہ برزل ابراہیم کو قابو کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا مگر اسکی اپنی ذات ہی ایسے چکر میں قابو ہوئی کہ وہ کتنے پل ہی دم بخود رہ گیا۔

"یہ کیا پاپا،یہ چینل والے کیا بکواس کیے جا رہے ہیں،کس نے دیے انکو آپ کے خلاف یہ ثبوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حسن کی آواز پر وہ چونکا پھر اپنے موبائل کی طرف لپکا اگلے آدھے گھنٹے تک اس نے ان تمام لوگوں کو کال کر کے اس گیم سے نکالنے کی درخواست کی تھی جن کے اس نے ڈھیر سارے کام کیے تھے مگر اس وقت ان سب کو اپنی اپنی فکر تھی وہ اس کا ساتھ دے کر یا اس کی سفارش کر کے اپنی کرسیاں گنوانا نہیں چاہتے تھے۔

"دیکھ لونگا میں ان سب کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"موبائل کو بیڈ پر پھینکتا وہ سر تھام کر رہ گیا اس کی رہی سہی کسر آئی جی کے دفتر سے موصول ہوئی کال نے نکال دی تھی کہ اسے نوکری سے نکال دیا گیا تھا بلکہ اس پر بلاوجہ قتل اور رشوت لینے کے الزام میں کیس بھی کر دیا گیا تھا۔

"برزل ابراہیم،برزل ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ نام ایک پھنکار کی طرح اس کے ہونٹوں سے ادا ہوا تھا۔

دوسری طرف ٹی وی دیکھتے سلیمان اور برزل ابراہیم مسکرا دیے تھے۔

"پہلا تحفہ تو مل گیا ایس پی کو اور اگلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے پوچھا۔

"اگلے کے لیے زرا صبر کرو سلیمان،ابھی اسکا ہی مزہ لینے دو،میں نہیں چاہتا کہ جھٹکے پر جھٹکہ ملنے سے اسے ہارٹ اٹیک آ جائے اور اتنی آسان موت تو میں نہیں چاہتا اس ایس پی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی آنکھوں اور لہجے میں صرف اس کے لیے نفرت ہی تھی۔

"یہ تو جیل چلا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں جائے گا مگر جیل اسکا دوسرا گھر ہے یہ وہاں بیٹھ کر ہمارے لیے کچھ پلان کرے گا،رئیس کی مدد سے،شاید مجھ پر حملہ یا فاریسہ کو مجھ سے دور کرنے کی کوشش،کچھ بھی ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو آپ بتا دیں سب بھابھی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ بتاؤں کہ اس کے باپ کو جیل میں بجھوانے والا میں ہوں بلکہ کل کو کو اسے مارنے والا بھی میں ہوں تا کہ وہ ساری زندگی مجھ سے نفرت کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے روکھے لہجے پر وہ سر نفی میں ہلاتا بولا۔

"یہ نہیں بلکہ یہ کہ یہ نازر اعوان نے کیسے آپ کے پیرنٹس کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ بھی نہیں سلیمان،میں اسے ان سب باتوں سے الگ رکھنا چاہتا ہوں،ہاں یہ بتاؤنگا کہ میں اسکی عائشہ پھوپھو کا بیٹا ہوں مگر نازر اعوان کے مرنے کے بعد اور مجھے اسے اور زندہ بلکل نہیں دیکھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جیبوں میں ہاتھ پھنساتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"اسکی موت سے پہلے ایک شاندار ملاقات کرنی ہو گی مجھے اس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ٹی وی پر آتی اسکی تصویر کو گھورتے دیکھ کر کہہ اٹھا سلیمان مسکرا دیا۔

!__________________________________________!

حیدر کے واپس آنے پر فاریسہ بہت زیادہ خوش ہوئی تھی اور اب اسے اپنی ٹرپ کے بارے میں بتا رہی تھی جس کے ساتھ وہ کل جا رہی تھی۔

"بھائی آپکو اکیلے بھیجنے پر رضامند ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ حیران تھا کیونکہ آج تک حیدر کبھی اکیلا نہیں گیا تھا۔

"اکیلی کہاں؟میری فرینڈز ہو گی نہ ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تین دن کے لیے آپ جا رہی ہیں،میں تو پیچھے بور ہو جاؤنگا،آج ہی تو میں اتنے دن بعد آیا ہوں کل آپ چلی جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے کہنے پر فاریسہ نے اسکی طرف دیکھا پھر کچھ سوچ کر کہنے لگی۔

"آپ بھی چلے جائیں اپنے دوستوں کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں جا سکتا فلحال،جب ہمارا مقصد پورا ہو جائے گا پھر ہم ورلڈ تور پر جائیں گئے،یہ بھائی نے پرامس کیا ہوا ہے اس کے بعد ہی بی_سکائے شوروم کا انچارج لینا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اپنے پلان بتانے لگا۔

"کونسا مقصد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے سوال پر حیدر نے خود کو کوسا۔

"مقصد مطلب کہ یہ جو میں پراجیکٹ کر رہا ہوں جس میں مجھے وہ کردار کرنا پڑا،یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر ہلا گئی جس پر حیدر نے سکون کا سانس لیا کہ کوئی اور سوال نہیں کیا۔

"مس زونا لے بھی آئیں کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مس زونا کو وہی سے آواز دینے لگا۔

"یہ کیا طریقہ ہے حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پیچھے سے برزل ابراہیم کی سرزنش پر وہ چونک کر صوفے سے اٹھا تھا۔

"میں تو بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جلدی سے مودب بن گیا اس دن والی مار پھر سے تازہ ہو گئی تھی۔

"گڈ جاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے پیشانی چوم کر اسکا کندھا تھپتھپایا تھا جس پر حیدر کے دل میں اس کے لیے محبت اور بڑھ گئی تھی۔

"مس زونا اگریہ آپ سے ایسے بات کرتا ہے تو آپ دال چاول کا ٹوٹکا پھر سے یوز کر سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اگلے لمحے ہی برزل مس زونا کو کہتا حیدر کے دل سے وہ محبت کا جذبہ پھر سے سلا گیا جو تھوڑی دیر پہلے جاگا تھا۔

"اف یہ بھائی نہیں بدل سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پیر پٹخ کر رہ گیا اور برزل کے جاتے ہی مسکینی نظروں سے مس زونا کو دیکھنے لگا کہ وہ مسکراتی ہوئی اس کا فیورٹ جھنک فوڈ اس کے سامنے رکھ گئی۔

"آہ،جیو مس زونا،لو یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی بات پر جہاں فاریسہ نے چونک کر مس زونا کو دیکھا وہاں ہی مس زونا بھی ہنستی ہوئی فاریسہ سے بولی۔

"میم!حیدر سر دن میں چار دفعہ اظہار کرتے رہتے ہیں،آپ بتائیں کیا کھائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے کہنے پر وہ سر ہلا کر چلی گئی۔

"اگر یہ اظہار کسی اور نے سن لیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کا اشارہ جس طرف تھا حیدر جان گیا تھا۔

"فکر نہ کریں مائے لونگ بھابھی،بھائی کو بھی اب عادت ہو گئی ہے وہ سنتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپکو ڈر نہیں لگتا ان سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ارے ڈر کس بات کا،برزل ابراہیم تو حیدر سے ڈرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے جب سیڑھیاں اترتے برزل پر نظر پڑی۔

"ہاں ڈرتا ہوں میں ان سے،آخرکو بڑے بھائی ہیں میرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جس طرح بات بدل گیا تھا فاریسہ نے ہونق پن سے دیکھا جو کن انکھیوں سے برزل کو ہی دیکھ رہا تھا جو ان پرایک نظر ڈالتا باہر چلا گیا تھا۔

"آپ نے تو کہا تھا کہ آپ نہیں ڈرتے ان سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اف بھابھی یہ سیکرٹ ہے پلیز دل میں رکھیں یہ بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ فاریسہ کو الجھن میں ڈالتا خود زنگر کے بڑے بڑے بائٹ لینے لگا۔

!__________________________________________!

"ہاں کیا خبر ہے دلاور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان جیل میں بھی موبائل پر بزی تھا۔

"سر آپکی بیٹی فاریسہ آج کالج ٹرپ پر اسلام آباد جا رہی ہے وہاں ایک رات رک کر پھر آگے جانے کا پلان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"گڈ،جو کہا ہے وہی کرو اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دلاور نے کال بند کر دی۔

"تم نے جس حال تک مجھے پہنچایا ہے برزل ابراہیم میں بھی تمہیں اتنی ہی تکلیف دونگا چاہے اس میں میری بیٹی ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کی آنکھوں میں برزل کے لیے قہر صاف محسوس کیا جا سکتاتھا۔

!__________________________________________!

فاریسہ کا یہ پہلا سفر تھا اسلام آباد کا وہ بھی اپنی دوستوں کے ساتھ جسکی وجہ سے وہ بہت زیادہ خوش تھی۔

"ہم کتنی دیر تک پہنچ جائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ زارا سے پوچھنے لگی۔

"بس اسلام آباد تو ہم پہنچنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زارا نے نے کھڑکی سے باہر جھانکا جہاں اونچے اونچے پہاڑ اس بات کی نشانداہی کر رہے تھے کہ وہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔

"اس کا کوئی دوست نہیں ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی نظر اب لائبہ پر پڑی تھی جو اپنے موبائل کے ساتھ بزی تھی۔

"شاید اسے کسی دوست کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"زارا نے بھی اس طرف نگاہ کی تھی۔

"ایک ماہ سے دیکھ رہی میں اسے،یہ بہت چپ چپ رہتی ہے زارا کیا پتہ اسے کوئی مسلہ ہو ہمیں اس سے بات چیت کرنی چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی ہمدرد طبعیت بیدار ہوئی۔

"اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زارا نے ہامی بھری جس پر فاریسہ مسکرا دی۔

جبکہ دوسری طرف لائبہ ٹائپ کر رہی تھی۔

"جی سر،نہیں اسے آج تک مجھ پر شک نہیں ہوا،اوکے ٹھیک ہے آج دی اینڈ کر دوں گی میں اپنے اس گیم کا،بائے سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ٹائپنگ سے فارح ہوتی فاریسہ کو نظر میں رکھتی مسکرائی تھی۔

"بہت بڑا سپرائز ہے تمہارے لیے اسلام آباد میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑائی تھی۔

مہ پارہ بیگم بار بار فاریسہ سے رابطہ کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتیں جا رہی تھیں وہ اتنا تو جان گئی تھیں کہ نازر اعوان کی نوکری ختم کرنے والا اور اسے سلاخوں کے پیچھے بھیجنے والا صرف برزل ابراہیم تھا اور یہی بات وہ فاریسہ کو بتانا چاہتی تھیں کہ وہ برزل سے بات کر کے نازر اعوان کو جیل سے باہر کروا دے اور پھر نازر اعوان ان کے راستے میں کبھی نہیں آئے گا اس بات سے بے خبر کہ برزل ابراہیم اسے اپنے راستے سے ہی نہیں بلکہ دینا سے بھی ہٹا دینا چاہتا تھا۔

"یہ اسکا نمبر کیوں مسلسل انگیج جا رہا ہے،میسج کا بھی ریپلائے نہیں کر رہی ہے،کہیں برزل نے میری بیٹی کے ساتھ تو کچھ،نہیں،نہیں،ایسا کیوں کرے گا بھلا وہ،تو کیا نازر نے فاریسہ کے ساتھ،نہیں وہ تو خود اس وقت اتنی مشکل میں ہے وہ بھلا کیا کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"

ایسی بہت ساری سوچیں ان کے دل دماغ میں حاوی ہو رہی تھیں مگر سب کو وہ جھٹک کر ایک بار پھر فاریسہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔

جبکہ دوسری طرف ان کے میسج ریسیو کرتا سلیمان مسکرا دیا تھا جس نے برزل کے کہنے پر انکا فاریسہ سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کر رکھا تھا تا کہ اسے کسی بھی ایسی خبر کا معلوم نہ ہو جو فاریسہ کے لیے پریشانی کا باعث بن سکے۔

!____________^^^_______________^^^____________!

دلاور کو پل پل کی رپورٹ مل رہی تھی جسکی وجہ سے وہ اپنے پلان میں کامیابی کے بہت نزدیک تھا بس رات ہونے کا ویٹ کر رہا تھا اسے اطلاع مل چکی تھی کہ دو گھنٹے پہلے وہ لوگ اسلام آباد پہنچ چکے تھے اور ایک سی کلاس ہوٹل میں رک کر سامان وغیرہ رکھ کر وہ لوگ لنچ کر کے اب قریبی جگہوں پر سیر کرنے نکلے تھے دس دس لڑکیوں کے پانچ گروپ تھے اور ہر گروپ کے ساتھ ایک فی میل ٹیچر اور ایک میل سیکیورٹی گارڈ تھا۔

دلاور نے دور سے ہی ان لڑکیوں کے گروپس میں سے فاریسہ اعوان کو تلاشا تھا جو کہ اپنی فرینڈز کے ساتھ گھومتی ہوئی اس بات سے بلکل انجان تھی کہ یہ ٹرپ اس کے لیے کافی یادگار بننے والی تھی۔

"ایس پی اوہ نہیں نہیں ایک سابق ایس پی کی بیٹی ہے تو کافی خوبصورت تو کیوں نہ دلاور مارنے سے پہلے اسکی خوبصورتی سے فائدہ اٹھایا جائے،آخر ہمارا بھی تو حق ہے نہ حسن کو خراج تحسین پیش کرنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی آنکھوں میں اس وقت ہوس کی چمک صاف محسوس کی جا سکتی تھی اور لبوں پر کمینی سی مسکراہٹ تھی وہ اس لڑکی سے نظر ہٹاتا اب ہوٹل کی طرف مڑا۔

"ہاں بتاؤ،کیا پلان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ موبائل کان سے لگاتا وہاں سے ہٹ گیا۔

دوسری طرف فاریسہ نے زارا کو لائبہ کی طرف اشارہ کیا جو اب ایک طرف ہو کر کال سن رہی تھی۔

"آو اس سے بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ زارا کا کاتھ پکڑے اس طرف کو آئی جہاں لائبہ انکو اپنی طرف آتا دیکھ کر کال بند کر گئی۔

"آپ نام سے تو واقف ہونگی لائبہ،تو کیوں نہ اس ٹرپ کو ایک ساتھ انجوائے کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی شیور،اصل میں مجھے زرا لوگوں سے گھلنا ملنا اتنا خاص پسند نہیں تھا اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لائبہ کے جواب پر دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

"پر آپ لوگوں کے ساتھ باتیں کرنا اچھا لگ رہا ہے،کیا ہم فرینڈز بن سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لائبہ کی بات پر دونوں مسکرائیں اور اس سے ہاتھ ملایا۔

"جی آج سے ہم آپکے دوست ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مائے پلیزر،میں اسلام آباد بہت دفعہ آ چکی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ان کے ساتھ چلتی بتانے لگی۔

"اوہ پھر تو آپ نے ساری اچھی جگہیں دیکھ رکھی ہونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زارا نے نے پوچھا تو وہ سر ہلا کر فاریسہ سے بولی۔

"یہاں بہت خوبصورت جگہ ہے ایک تو بہت زیادہ خوبصورت ہے پر وہاں بس رات کو ہی جاتے ہیں لوگ مگر میم لوگ ہمیں وہاں لے کر نہیں جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے سوالیہ انداز سے دیکھا۔

"کیونکہ وہ ایک سنسان راستے سے گزر کر پھر آتی ہے دوسرا وہ اوپن ہی رات کو ہوتی ہے تو میں نے میم سے کہا تھا مگر وہ سختی سے منع کر گئیں کیونکہ وہاں کی ایک ٹکٹ  بھی ہزار کی ہے تو میم نے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں جانے کی،مگر وہاں جا کر تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا خوبصورت ہے بہت سارے فلم ایکٹرز اور سنگرز وہاں آتے ہیں اور تو اور وہاں پر میجک بوکس گیم ہے جس میں بہت مزہ آتا ہے اگر ون کر جائیں تو سنگرز کا آٹو گراف کے ساتھ لائیو ملاقات بھی کرنے کا موقع ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس نے اپنی بات کو اور دلچسب انداز میں ڈالا تھا کہ دونوں ہی اس کے پیچھے لگ گئیں۔

"پلیز ہمیں بھی لے چلو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو میم سے کیا کہیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے دماغ میں بات آئی تو وہ منہ لٹکا گئیں۔

"ارے ہم نو بجے کے بعد آئیں گئے تب تک میم اور باقی سٹوڈنٹس بھی سونے کے لیے اپنے اپنے کمرے میں جا چکے ہونگے،بس دو گھنٹے کی تو بات ہے کسی کو پتہ بھی نہیں لگے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لائبہ کے پلان وہ دونوں شش و پنج میں پڑ گئی مگر پھر اس کے تسلی اور حوصلہ دلانے سے کچھ دیر میں ہی مان گئی تھی۔

"شکر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لائبہ نے دل ہی دل میں کہتے ہوئے گہرا سانس لیا۔

!____________________________________________!

لائبہ فاریسہ کو چلنے کا کہہ کر خود زارا کے پاس کھڑی ہوگئی۔

"لپ اسٹک ریڈ اچھی لگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"زارا کو پنک کلر کی لپ اسٹک لگاتے دیکھ کر لائبہ نے اپنے بیگ سے ریڈ لپ اسٹک نکالی اور اسے لگانے لگی۔

"اوہ،یہ پھیل گئی ایک منٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لائبہ نے اپنے ہینڈ بیگ سے ٹشو نکالا جس پر کلوروفل وہ پہلے ہی لگا چکی تھی زارا کے ناک پاس کیا اور اسکی سوچ کے مطابق تیس سیکنڈذ کے اندر ہی وہ ہوش سے بیگانہ ہوتی ایک طرف لڑھکنے لگی تھی کہ لائبہ نے جلدی سے پکڑ کر اسے بیڈ پر لٹایا اور اس پر کمبل اوڑھتی وہ دروازہ بند کرتی باہر نکل آئی جہاں کوریڈور سے نکلتے ہی اسے ایک طرف ریلنگ کے پاس کھڑی فاریسہ نظر آئی۔

"زارا نہیں آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ عائشہ آ گئی تھی اسکا نیٹ نہیں چل ریا تھا تو اسنے گھر بات کرنی تھی،زارا اسکی بات کروا کر آ جائے گی میں نے اسے سارا راستہ سمجھا دیا تھا،ویسے بھی اچھا ہے الگ الگ جائیں تاکہ کسی کو شک بھی نہ پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لائبہ نے اسکی تسلی کروائی جس پر وہ سر ہلاتی اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔

ہوٹل سے نکل کر دائیں طرف ایک کچی ڈھلوان تھی وہ اسی راستے سے گزرنے لگی۔

"اف کتنا اندھیرہ ہے یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے درختوں کے درمیان بنے اس راستے کو دیکھتے ہوئے جھرجھری لی تھی۔

"کوئی نہیں بس پانچ منٹ کا راستہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لائبہ نے موبائل کی ٹارچ آن کی۔

وہ دونوں دس منٹ تک مطلوبہ مقام تک پہنچ چکیں تھیں،

"واؤ نائس ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"گیٹ سے ٹکٹ لیتیں وہ آگے بڑھیں جہاں ایک طرف اوپن ریسٹورنٹ بنا ہوا تھا اور وہاں سے اٹھتی باربی کیو کی خوشبو جبکہ دوسری طرف ایک اسٹیج جس پر کوئی لوک فنکار بیٹھا اپنی مدھم سرائی لوگوں تک پہنچا رہا تھا اور سب سے خوبصورت چیز یہ تھی کہ وہاں پر لائٹنگ بہت زیادہ ہوئی تھی درختوں اور پودوں پر چمکتی لائٹس اور ایک طرف لگے اسٹالز جن پر مختلف چیزیں لگیں تھیں۔

"یہاں سے آگے ہے وہ جگہ،مگر تم ابھی یہی بیٹھو تا کہ میں زارا کو لے آؤں،لگتا ہے کہ راستہ بھول گئی ہو گی وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لائبہ کہتی ہوئی چلی گئی تو فاریسہ پسندیدہ نظروں سے دیکھتی سب ایک کرسی پر آ کر بیٹھ گئی۔

"میم آپکا وہ ٹیبل ہے،مسز برزل ابراہیم کے نام سے بک کروایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ویٹر کی بات پر وہ حیران ہوتی اُس ٹیبل کی طرف دیکھنے لگی جو کہ باقی ٹیبلز سے زیادہ خوبصورت سجایا گیا تھا۔

"لائبہ نے کیا ایسا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خود سے سوال و جواب کرتی وہاں آ کر بیٹھ گئی تو تبھی اسکی نظر دوسری طرف اٹھی تھی اور وہ چونک گئی۔

!_______^^_________________________^^______!

برزل ابراہیم گھڑی پر ٹائم دیکھتا کسی کا انتظار کر رہا تھا تبھی مسز رانا اس طرف آتی اس کے سامنے ٹک گئی۔

"اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جب خطرہ قریب آنے لگے تو پھر ایمرجنسی ہی بنتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مطلب یہ کہ مسز رانا،آپ کے شوہر نامدار کو آپکو مارنے کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہو رہی ہے،وہ مجھے اس کام لے لیے ناکارہ سمجھ کر کسی اور کلر سے رابطہ کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کی اطلاع پر مسز رانا دم سادھے اسے دیکھنے لگی۔

"اب،اب میں کیا کروں،تم اس کلر کا بتاؤ مجھے تا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کتنے لوگوں کو خریدیں گی آپ،ویسے بھی مسز رانا ہر ایک کے دل میں آپ کے لیے عزت نہیں ہوتی کہ وہ سمجھیں کہ مسز رانا بے سہارا عورتوں کے لیے اتنا کچھ کر رہی ہیں تو ہم انکی جان نہ لیں تا کہ وہ ہمارے وطن عزیز کے لیے کام کرتی رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دو پل کو رکا۔

"ویسے بھی روز روز کے ڈر سے بہتر ہے آپ ایک دفعہ ہی اس ڈر سے جان چھڑوا لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیسے؟بتاؤ مجھے میں ویسا ہی کرونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس وقت اس کے چہرے پر موت کا ڈر صاف محسوس کیا جا سکتا تھا برزل ابراہیم کی آنکھوں میں طنزیہ مسکراہٹ چمکی تھی۔

"اس سے پہلے کہ وہ آپ کو ماریں آپ انکو مار دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے یقینی سے برزل کو دیکھنے لگی۔

"جی آپ، اب میری بات دھیان سے سُنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ تھوڑا سا اسکی طرف جھکا۔

"آپ نے کل ناشتے کی ٹیبل پر ہی ہنگامہ کھڑا کر دینا ہے کیسے کرنا یے وہ آپکو پتہ ہے،آپ کے گھر کے نوکر بھی سب دیکھ لیں گئے کہ مسٹر وقار آپکو مارنا چاہتے ہیں یوں مسٹر وقار غصے میں اپنا پسٹل نکالیں گئے جس کے اندر ایک گولی بھی نہیں ہو گی کیسے نہیں ہو گی وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں،آپ کا باڈی گاڑڈ اسلم ان کو پسٹل نکالتا دیکھ کر انکی طرف اپنی گن کر کے نشانہ لگا دے جس سے یہی ہوگا کہ وہ آپ کو قتل کرنے والے تھے تو آپ کے گارڈ نے آپکی جان بچاتے ہوئے انکی جان لے لی،اسکا فائدہ آپکو یہ ہوگا کہ ایک مسٹر وقار سے جان چھوٹ جائے گی اور آپ انکی بیوہ بن کر اعزاز سے شادی کر لینا اور دوسری یہ کہ سیلف ڈیفنس کے طور پر قتل کا کیس نہیں بنتا بس آپکا گن مین کچھ ماہ کے لیے اندر ہوگا پھر وہ آزاد کر دیا جائے گا اور تیسرا فائدہ یہ کہ جائیداد بھی آپ کے پاس رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے بات ختم کر کے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں پر نہ صرف سکون بلکہ ایک انوکھی چمک بھی دیکھنے کو ملی تھی۔

"تم تو بہت چالاک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دلچسبی سے دیکھتی اسے سراہنے لگی۔

"نہیں جی میں تو ایک عام سا شریف سا آدمی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بولتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور پھر اگلے ایک گھنٹے کے دوران وہ مسٹر وقار رانا کے پاس بیٹھا یہی کچھ کہہ رہا تھا۔

"آپ نے غصے میں جب پسٹل نکالنی ہے تو مسز رانا کا گن مین آپ پر اپنا نشانہ باندھے گا جس سے آپ نے مسز رانا پر گولی چلا دینی ہے،اسلم کی گن میں ایک گولی بھی نہیں ہو گی جس سے آپکو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،اور وہ گولی کس طرح نہیں ہو گی یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں،سیلف ڈیفنس کے طور پر کیا جانے والا قتل صرف کچھ ماہ کا کیس ہوتا ہے جس طرح آپ کی اوپر تک پہنچ ہے آپ تو باعزت بری ہو نگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"گریٹ آئیڈیا،تم بہت قابل کلر ہو،اس سب کے بعد میں تمہیں اپنے ساتھ رکھ لونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وقار رانا خوش ہوا تھا جبکہ برزل ابراہیم اس کو تاسف سے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔

اپنی گاڑی کے پاس آ کر وہ سلیمان کو کال ملا گیا۔

"ہاں کیا رپورٹ ہے،فاریسہ ٹھیک ہے،اوکے گڈ،نیکسٹ جو کہا ہے وہ کرنا اوکے بائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بات مکمل کرتا موبائل گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر رکھتا خود اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

!___________________________________________!

وہ مسلسل بھاگ رہی تھی اندھیرے کی وجہ ایک پاؤں ادھر تو دوسرا ادھر پڑ رہا تھا اس کے کپڑے مٹی اور پانی میں گرنے کی وجہ سے خراب ہو چکے تھے جھاڑیوں سے کپڑوں کو الجھاتی اور چھڑواتی وہ بس یہاں سے دور نکل جانا چاہتی تھی اسکا موبائل بھی کہیں پیچھے کسی کھائی میں گر چکا تھا جس کو پکڑنے کے بجائے وہ اس راستے کی تلاش میں تھی جو راستہ ہوٹل کی طرف جاتا تھا۔

"ہاں یہ راستہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے پیچھے قدموں کی آواز کو محسوس کرتی وہ جلدی سے ایک درخت کی اوٹ میں ہو گئی تھی کہ اس کے پیچھے آتے دلاور کی نظروں سے اوجھل ہونے میں وہ کامیاب ہو گئی تھی تبھی اسے محسوس ہوا جیسے جھاڑیوں میں دھرے اس کے پاؤں پر کوئی نرم سی چیز گزری تھی وہ چیخ مارتی اٹھی اور بھاگنے لگی مگر بڑی قسمت کہ نہ صرف پاؤں کے لڑکھڑانے کے باعث وہ گر چکی تھی بلکہ دلاور کی گرفت میں بھی آ چکی تھی۔

"مسز فاریسہ ابراہیم،اتنی بھی جلدی کس بات کی تھی آپکو،میں نے کہا تو تھا کہ اپنی بانہوں میں اٹھا کر آپکو آپکے روم تک پہنچا کر آؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسکراتا ہوا اس کے پاؤں کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا جس پر وہ خوف سے سفید پڑتی چیخیں مارنے لگ پڑی مگر دلاور نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کی باقی چیخوں کا گلا گھونٹ دیا۔

"چھوڑو مجھے،چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنا آپ چھڑوانے کو مچل رہی تھی مگر دلاور جس کو وقار رانا نے فاریسہ کو مارنے اور سارا الزام برزل ابراہیم پر ڈالنے کا کہا تھا اس وقت فاریسہ کی خوبصورتی دیکھ کر اسکی نیت پھسل چکی تھی وہ اسے مارنے سے پہلے اپنے نفس کی تسکین چاہتا تھا اس لیے ہی وہ ہوس زدہ نگاہوں سے اس کے سراپے کو دیکھتا اس پر جھکا تھا۔

"اتنی بھی جلدی کیا ہے دلاور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دلاور جو اُسکی طرف جھکنے والا تھا ایک آواز پر وہ چونک کر دوسری طرف مڑا جہاں برزل ابراہیم جیبوں میں ہاتھ پھنسائے بڑے ریلکس انداز میں منہ میں کچھ چباتا اس کی طرف آ رہا تھا تبھی زمین پر پڑے وجود نے ایک کک دلاور کے پیٹ میں ماری تھی کہ وہ وہی دوہرا ہوتا زمین پر منہ کے بل گرا تھا۔

"گڈ جاب لائبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے سراہا تھا۔

"شکریہ سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنا حلیہ درست کرتی ایک طرف ہو کر دلاور کی طرف دیکھنے لگی جو ششدر سا اپنی جگہ ہی پڑا تھا۔

"تو تمہیں کیا لگا دلاور کہ برزل ابراہیم اتنا بے خبر ہو سکتا ہے وہ بھی اپنی بیوی سے،وہ برزل جو لوگوں کے ساتھ گیم کھیلتا ہے وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو حتی کہ اس کے سگے باپ کو بھی کوئی گیم کھیلنے دے گا تو یہ تمہاری بہت بڑی بھول تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اس کے قریب آیا۔

"اصل میں تمہارے اس ایس پی نے کچھ زیادہ ہی شریف سمجھ لیا ہے مجھے مگر تمہیں بتا دوں کہ میں اتنا شریف بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے ایک دو تین گھونسے اس کے منہ پر مارے تھے کہ اس کے ناک سے خون نکلنے لگا تھا اس سے پہلے کہ دلاور اپنے پسٹل کو ہاتھ میں لیتا برزل اس کا پسٹل لے چکا تھا۔

"ابھی برزل کے مقابلے کے لیے چھوٹے ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اس کے گریبان سے پکڑا اور اسے لیے اوپر کی طرف بڑھنے لگا۔

"مجھے معاف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"خاموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اتنی زور سے دھاڑا کہ دلاور کا گلا خشک ہو گیا۔

"میری بیوی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے تم آؤ اور میں تمیں معاف کر دوں نہ جی برزل اب اتنا بھی سخی نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"گڈ بائے دلاور فکر نہ کرو تمہارے باس کو جلدی ہی تمہارے پاس بھیج دونگا تا کہ تم اکیلا محسوس نہ کرو خود کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے برزل نے اسے دھکا دیا تھا اور وہ ایک چیخ کے ساتھ کھائی میں جا گرا تھا۔

"بے چارہ پاؤں پھسلا اور کھائی میں جا گرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑایا اور پھر واپس لائبہ کے پاس آیا۔

"تمہاری میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سر انکو وہی بٹھا کر آئی ہوں جہاں آپ نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے،تم واپس ہوٹل جاؤ تا کہ کسی کو شک نہ ہو،میں فاریسہ کو ساتھ کاٹیج لے جاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"لائبہ سر ہلاتی چلی گئی برزل نے ایک گہرا سانس لیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس طرف چل دیا جہاں فاریسہ براجمان تھی۔۔

!_____________________________________________!

فاریسہ کی نظر دائیں طرف اٹھی تو وہ چونک گئی اور چونکنے کی وجہ مسز فاریسہ ابراہیم کا نام تھا جو کہ ٹری کے اوپر جگمگا رہا تھا تبھی ویٹر ایک ٹرے پکڑے اس کے ٹیبل پر آیا اور اس ٹرے پر پڑا ہارٹ شیپ کا کیک جس پر ہیپی برتھڈے فاریسہ لکھا ہوا تھا ارد گرد لگی کینڈلز وہ سب دیکھ کر حیران ہوتی جا رہی تھی اور آنکھیں تب کھلی کی کھلی رہ گئیں جب اس نے بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس برزل ابراہیم کو اپنی طرف آتے دیکھا وہ حیرت سے کھڑی ہو گئی۔

"آپ یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ویلکم کرنے کا انداز اچھا لگا مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے کھڑے ہونے کی طرف اشارہ کر کے بولا تھا۔

"بیٹھیں میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!وہ نرمی سے اسکے کندھوں پر دباؤ ڈالتا اسے کرسی پر بٹھا گیا۔

"یہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہیپی برتھڈے ٹو یو مائے لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے کان میں سرگوشی کرتا جھک کر اسکی روشن پیشانی پر نرم سا لمس چھوڑتا وہ یقیننا اسے جھٹکے پر جھٹکا دے رہا تھا۔

"مجھے لگا تمہاری برتھڈے کو یادگار بنانے کے لیے اس سے اچھا پلان تو ہو ہی نہیں سکتا تھا،امید ہے آپکو اپنے شوہر کی یہ چھوٹی سی کاوش اچھی لگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اس کے سامنے ٹک گیا۔

"آپکو کیسے پتہ لگا کہ میری سالگرہ ہے آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ابھی تک حیران تھی اور بہت خوش بھی۔

"بیوی ہو میری اور مجھے شادی سے پہلے ہی پتہ لگ گیا تھا کہ تمہاری سالگرہ اس ڈیٹ کو ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسے کیک کاٹنے کا اشارہ کرنے لگا پھر فاریسہ نے اپنی زندگی کی پہلی سالگرہ یوں گھر سے باہر اتنی اچھی سیلبریشن اور گریٹ سپرائز میں منائی کہ وہ خوشی سے نہال ہی ہو گئی تھی آج اسکی سالگرہ تھی یہ تو اسے بھی بھول چکا تھا مگر برزل ابراہیم کے اس سپرائز نے اسے فخر کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ اس کے پاس ایسا شخص ہے جو اسکی قدر کرتا ہے اسکی ہر خوشی کا خیال رکھنے والا ہے۔

"بہت بہت شکریہ آپکا،آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آسمان کی طرف غبارے چھوڑتی اسکی طرف خوشی سے پلٹی جو اسے مسکراتی نظروں سے اس کے روشن چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔

"آپ بھی بہت اچھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اس کے خوبصورت چہرے سے بالوں کی لٹیں ہٹائیں پھر اپنی جیب سے اس کے لیے پینڈینٹ نکال کر ایک اسکی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں پسندیدگی کی چمک صاف محسوس کی جا سکتی تھی پھر نرمی سے اسکی گردن میں سجا دیا۔

"یہ چھوٹا سا گفٹ قبول کیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!برزل نے نرمی سے اسکی گردن پر اپنی انگلیوں کا لمس چھوڑا تھا کہ فاریسہ اسکی نزدیکی اور اس لمس پر دہکنے لگی تھی۔

"میرے خیال میں اب ڈنر کر لینا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے کہتے ہوئے ویٹرز کو اشارہ کیا تھا اور اگلے پانچ منٹ میں وہ دونوں باربی کیو سے لطف اندوز ہوتے ساتھ ساتھ باتیں کر رہے تھے۔

"ایک بات کہوں تو مانو گی تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کباب کا پیس منہ میں رکھتی وہ اسے دیکھنی لگی جو سنجیدہ سا لگا تھا۔

"جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سر ہلا گئی۔

"کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم میرے علاوہ کسی پر اعتبار نہ کرو،حیدر یا سلیمان واحد دو انسان ہیں جن کو اپنے بعد میں تمہیں ان پر اعتبار کرنے کا کہہ سکتا ہوں مگر ان کے علاوہ تم کسی پر بھی اعتماد نہیں کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے ہی  لائبہ کو بولا تھا فاریسہ کو یہاں لانے کا مگر وہ اس بات پر کافی حیران اور پریشان تھا کہ وہ کیسے یوں کسی پر بھی اعتماد کر کے اتنی آسانی سے آ سکتی تھی اس لیے پہلی دفعہ برزل کا دل ڈرا تھا کہ اگر لائبہ کی جگہ کوئی اسکا دشمن ہوتا تو؟ کیا تب بھی فاریسہ یوں اعتماد کر کے چل پڑتی بنا کچھ کہے بنا انفارم کیے۔

"تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ کہیں بھی جاؤ جس کے ساتھ بھی کم از کم مجھے کال یا ایک میسج تو کر سکتی ہو نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی بات پر وہ شرمندہ سی ہو گئی اور خود کو کوسنے لگی کہ کیوں وہ یہ بات بھول گئی تھی۔

"وہ مما کو کال نہیں ہو رہی تھی تو مجھے لگا شاید آپکو بھی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے کال کر کے دیکھنا کسی بھی حالت میں مجھے کال ضرور ہوا کرے گی اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے نرم لہجے پر وہ سر ہلا گئی۔

برزل ابراہیم نے کچھ جگہوں سے اسے شاپنگ کروائی تھی پھر اس کی میڈم کو کال کرکے فاریسہ کی اپنے ساتھ جانے کا کہتا وہ اسے لیے ایک خوبصورت کاٹیج میں آیا تھا۔

"یہاں میرے مما بابا نے اپنے ہنی مون کا کافی عرصہ گزارہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شاپنگ بیگز صوفے پر رکھتا بتانے لگا فاریسہ نے دیکھا سامنے دو کمرے تھے اور ساتھ اوپن کچن اور جہاں وہ کھڑے تھا وہ سٹنگ ایریا تھا۔

"واو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!فاریسہ نے مرر ونڈو سے باہر کا نظارہ دیکھا جہاں سے ایک جھیل نظر آ رہی تھی رات کی چاندنی ہر سو ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی۔

"پاپا کی ڈائری میں لکھا ہے کہ جب پاپا مما کو پہلی مرتبہ لائے تھے وہ بھی اس بیک ڈور ونڈو سے باہر کا منظر دیکھ کر کافی خوش ہوئیں تھیں.........."دیوار سے ٹیک لگاتا وہ پہلی دفعہ اس سے کچھ شیئر کر رہاتھا۔

"انکی ڈیتھ کیسے ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے کیا سوال کر دیا ہے اور کس سے کیا ہے جس کے ماں باپ کو مارنے والا ہی اسکا سگا باپ تھا۔

اس سوال پر برزل کے تاثرات ایک دم سے بدلے تھے اسکی آنکھوں میں ایک خاص سرد پن تھا جس پر فاریسہ الجھتی ہوئی کچھ پریشان ہوئی تھی مگر اگلے ہی پل وہ خود کو سھمبال چکا تھا۔

"تم فریش ہو جاؤ،میں سلیمان کو کال کر کے آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سامنے کمرے کی طرف اشارہ کرتا وہ خود باہر چلا گیا۔

!___________________________________________!

ہانیہ نے جب سے سنا تھا کہ صدف نے خودکشی کر لی ہے وہ گم صم ہو کر رہ گئی تھی عروج کو پتہ تھا کہ اتنے دن میں وہ صدف کے کافی قریب آ چکی تھی اس لیے اسے دلاسہ دینے لگی دکھ تو اسےبھی ہوا تھا۔

"گھر والے اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہیں،اب وہ جیسی بھی تھی اس میں اسکا تو قصور نہیں تھا نہ،گھر والے سپورٹ کرنے کے بجائے جب یوں تکلیف پہنچائے تو پھر خودکشی ہی کی جاتی ہے،پتہ نہیں کس تکلیف میں آ کر صدف نے یہ فیصلہ لیا ہوگا،مرنے کے لیے بہت بڑا دل چاہئیے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار ہوئے تھے وہ صدف کی تکلیف سے زیادہ اس بے حسی  پر رو رہی تھی جو کئی کبھار گھر والے لوگوں کے ڈر سے کر جاتے ہیں یہاں تک کہ اپنی اولاد کو گلے لگانے سے بھی ڈرتے ہیں۔

"تم پریشان مت ہو،ایسی کہانیاں تو ہمارے معاشرے میں ہزار ہیں پتہ نہیں کتنی صدف اس معاشرے کی بے حسی کی بھینٹ چڑھیں ہونگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔

"یہ تو ٹھیک کہا تم نے،صدف کے ساتھ ساتھ ہماری طرح کی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں جو نہ سمجھی میں آ کر جذبات میں بہت آگے نکل جاتی ہیں مگر دنیا سے ٹھوکر کھا کر واپس پلٹتیں ہیں تو سوائے ان پناہگاہوں کے دوسرا کوئی سہارا نہیں ہوتا،یقین کرو عروج ماں باپ کو دھوکا دینے کی تکلیف الگ ہے کسی بے وفا کے ہاتھوں بیوقوف بننے کا درد ایک طرف مگر اب جو ماں باپ کی بے رُخی تڑپا رہی ہے نہ اسکی تکلیف ناقابل برداشت ہو رہی ہے،اتنا بڑا گناہ کر دیا میں نے کہ ایک معافی نہیں مل سکتی مجھے،ایک معافی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہچکیوں سے رونے لگ پڑی جب کہ اس بار عروج بھی اپنے آنسو نہ روک پائی۔

"اللہ بھی تو ہے نہ جتنے مرضی گناہ کر لیں وہ پھر سے توبہ کرنے پر اپنے بندے کو اپنی رحمت میں لے لیتا ہے مگر یہ اس کے بندے،یہ ہماری ایک غلطی بھی معاف نہیں کر پا رہے،میں بیٹی ہوں انکی ایسے کیسے وہ مجھ سے لاتعلق ہو سکتے ہیں ایک دفعہ تو سن لیتے میری ایک دفعہ تو معاف کردیتے مجھے پھر چاہے ساری عمر شکل نہ دیکھتے مگر ایک دفعہ تو بس ایک دفعہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتی جا رہی تھی اور روتی جا رہی تھی اور عروج آنسو بہائے اسے دلاسہ دینے کی کوشش کرتی رہی اسکا بھی تو وہی دکھ تھا۔

!__________________________________________!

دس منٹ بعد وہ کمرے میں آیا تو فاریسہ کو بیڈ پر موبائل لیے بیٹھا دیکھ کر اپنا موبائل ٹیبل پر رکھتا واشروم میں گھس گیا۔

"یہ مما کا نمبر کیوں بزی جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بیس دفعہ ڈائل کر چکی تھی مگر نو رسپانس۔

"ان کے موبائل سے کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتی ہوئی برزل کے سمارٹ فون کو ہاتھ میں لیتی بیڈ کے پائنتی پر بیٹھ گئی اور کال لاگ نکال کر نمبر لکھنے لگی تبھی برزل ابراہیم واش روم سے نکلتا اسکی طرف آیا۔

"میں مما کو کال کر رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!برزل کا موبائل کان سے لگاتی وہ اسے انفارم کر گئی برزل نے کندھے اچکائے مگر اسکا سارا دھیان اس طرف ہی تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ مہ پارہ بیگم کی اس سے بات ہو اور وہ نازر اعوان کے بارے میں اسے کچھ بتائیں۔

"ہیلو مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف کال ریسسو ہو چکی تھی اور برزل نے بے اختیار اپنی مٹھی بھینچی تھی۔

"اٹس اوکے برزل،تم فاریسہ کو ہینڈل کر سکتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے خود کو تھپکی دی اور خود کمرے سے باہر آ گیا تا کہ وہ ریلکیس ہو کر بات کر سکے اور جب پانچ منٹ بعد وہ کمرے میں جانے لگا تو وہ یہی سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے باپ کا سن کر روتی ہو گی پریشان بیٹھی ہو گی مگر وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سچویشن اسکے برعکس تھی فاریسہ ریلکیس انداز میں صوفے پر بیٹھی برزل کے موبائل کی گیلری اوپن کیے پکس دیکھنے میں مصروف تھی۔

"بات ہو گئی مما سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ فاریسہ کو کیا معلوم ہوا ہے جسکی وجہ سے وہ یوں ریلکیس تھی۔

"جی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے جواب دے کر پھر سے موبائل میں بزی ہو گئی تھی۔

"مطلب کہ اسکی مما نے اسے نازر اعوان کے بارے کچھ نہیں بتایا تا کہ یہ پریشان نہ ہو یا شاید فاریسہ نے ٹرپ کے بارے بتا دیا ہو اور وہ اسکی ٹرپ خراب نہ کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل یہی سوچ کر سر جھٹک گیا اور اس کے قریب بیٹھ گیا جو بڑی دلچسبی سے برزل کی تصویریں دیکھ رہی تھی جو مختلف مقامات کی تھیں۔

"پیارا لگ رہا ہوں نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے سوال پر وہ گڑبڑائی کیونکہ وہ ایک تصویر کو دیکھے گئی جس میں وائٹ شرٹ میں مسکراتا برزل بہت اچھا لگ رہا تھا فاریسہ نے موبائل سائیڈ پر رکھ دیا وہ اپنی چوری پکڑے جانے پر خجل سی ہو گئی۔

"چلو تم نہ بتاؤ مجھے پر میں تو بہت تفصیل سے بتانے لگا ہوں کہ تم مجھے کتنی پیاری لگتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا تھا اور اپنی پرشوق نظریں اس پر جما دی جس کے چہرے کا رنگ سرخی مائل ہونے لگا تھا۔

"اور ویسے بھی شکریہ بھی تو وصول کرنا ہے تم سے ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی معنی خیزی پر وہ اس دن والا شکریہ سمجھتی دونوں گالوں پر ہاتھ جما گئی جس پر برزل محفوظ ہوتا کھل کر مسکرایا تھا اور اس کی ادا پر نثار ہوتا اس کے لبوں کو فوکس میں رکھتا جھک گیا تھا۔

فاریسہ تو اس ردعمل پر بھونچکی رہ گئی تھی وہ وہی فریز ہوتی مزاحمت بھی نہ کر سکی تھی۔

"آپ،آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کو پرے کرتی وہ دھک دھک کرتے دل کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں بری طرح ناکام ہوتی اس پر جھنجھلائی تھی جو مسکراتا ہوا پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا۔

"پر تم بہت اچھی ہو کہ اس برے کو آج کی ساری گستاخیوں پر معاف کر دو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے لب اب اس کی گردن پر تھے اور فاریسہ اب کی بار اس کے ہاتھ اپنے وجود سے جھٹک نہ سکی تھی کیونکہ وہ بھی اس کو اپنے دل میں داخل ہونے سے روک نہ پائی تھی۔

"کیا اجاذت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اسکا رخ اپنی طرف کرکے گھمبیر لہجے میں بولتا اسکی اجازت کا منتظر تھا جو کہ بس ایک نظر اسے دیکھ کر اس کے سینے میں منہ چھپا گئی تھی اور برزل ابراہیم تو اس اجاذت نامے پر ہی دل و جان سے فدا ہو گیا تھا وہ خود پر نازاں ہو رہا تھا۔

"بہت شکریہ میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اس کے کان کی لو کو چومتا وہ اسے اپنے بازووں میں اٹھا کر بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔

!____________________________________________!

سلیمان بے چینی سے ادھر ادھر چکر لگا رہا تھا تبھی اسے مطلوبہ خبر کی اطلاع بذریعہ کال دی گئی تھی۔

"اوہ ڈیٹس گریٹ،آخرکاد مسٹر وقار اور مسز رانا دونوں اپنے اپنے انجام کو پہنچے،اوکے سعد اب تم نائن گروپ پر نظر رکھو،نہیں وہ برزل بھائی خود دیکھ لیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے کال بند کر کے برزل کے نمبر پر میسج کر دیا اور خود اسٹڈی سے نکلتا پورچ میں آیا جہاں حیدر کہیں جانے کے لیے تیار تھا۔

"تم کہاں جا رہے ہو،بھائی اگر یہاں نہیں تو انکی غیر موجودگی کا غلط فائدہ مت اٹھاؤ حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اف کیا ہو گیا ہے بھائی،بس آدھے گھنٹے کے لیے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر جھنجھلا کر بولا مگر سلیمان کے گھورنے پر بے چارگی سے کہنے لگا۔

"آپ برزل بھائی کی طرح مت کریں،وہ بھی تو بنا بتائیں اسلام آباد جا کر سیریں کر رہے ہیں نہ تو کیا میں ایک دوست سے تعزیت کرنے نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

"کس دوست سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی انویسٹگیشن پر وہ گڑبڑایا۔

"وہ ہے ایک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

"حیدر شاید تم کچھ بھول رہے ہو کہ بھائی نے کچھ کہا تھا کہ ہم اپنے آنے جانے کا ہمیشہ انکی انفارم میں رکھیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی پتہ ہے،مسز رانا کی ڈیتھ کی نیوز سنی تو اپنے ایک دوست سے ملنے جا رہا ہوں جو مسز رانا کے انسٹیوٹ میں کام کرتا تھا بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے جاؤ مگر دھیان سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی اجازت پر وہ خوش ہوتا گاڑی کی طرف آیا۔

"کیا ہانیہ مجھے پہچان پائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ یہی سوچتا ایکسائٹڈ ہو رہا تھا۔

!_________^^_________________________^^________!

برزل کی آنکھ میسج کی ٹون پر کھلی تھی وہ ایک نرم نگاہ اپنے پہلو میں سوئی فاریسہ پر ڈالتا اٹھ بیٹھا میسج سلیمان کا تھا جس میں مسٹر وقار رانا اور مسز رانا کی ویسے ہی پلان کے مطابق ڈیتھ کا بتایا گیا تھا برزل مسکراتا ہوا اٹھا اور وارڈرب سے اپنا سوٹ نکال کر واشروم میں چلا گیا جب دس منٹ بعد باہر آیا تو فاریسہ اسی حالت میں سوئی ہوئی تھی برزل پیار بھری نظروں سے دیکھتا اس کے قریب آ کر ٹک گیا اور آہستہ سے اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھے جس پر وہ ہلکا سا کسمکسائی تھی۔

"صبح بخیر جان من۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!برزل نے اس کے کان میں سرگوشی تھی جس پر فاریسہ نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تھیں اور برزل ابراہیم کو اپنی طرف مسکراتی نظروں سے  متوجہ دیکھ کر وہ شرم سے دوہری ہوتی کمبل میں منہ چھپا گئی اور کمبل کو مضبوطی سے پکڑ لیا جیسے وہ اب اس کو اپنا چہرہ نہیں دکھائے گی برزل ابراہیم کا ایک بھرپور قہقہ کمرے میں گونجا تھا۔

"اوکے اوکے،میں باہر جا رہا ہوں تم فریش ہو جاؤ،میں تب تک ناشتے کا انتظام کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!برزل مسکراہٹ روکتا اٹھ کر کمرے سے باہر آ گیا فاریسہ کو جب یقین ہو گیا کہ وہ چلا گیا ہے تو اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اف کیسے سامنا کرونگی میں انکا،توبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ رات کے لمحات یاد کرتی پھر سے شرم سے سرخ پڑنے لگی پھر اپنا ڈریس لے کر وہ جب کپڑے بدل کر کوئی آدھے گھنٹے بعد کمرے سے جھجھکتی ہوئی نکلی تو لاؤنج میں ادھر سے ادھر چکر لگاتے برزل کو دیکھ کر وہ چونکیں تھیں اور چونکنے کی وجہ برزل کی سرخ آنکھیں تھیں وہ غصے سے بار بار کوئی نمبر ڈائل کر رہا تھا فاریسہ کو بہت گڑ بڑ لگی اور اس بات کا یقین تب ہوا جب وہ لوگ اگلے کچھ گھنٹوں میں گھر پہنچے تھے اور سلیمان کے سامنے آتے ہی برزل نے ایک کھینچ کا تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا تھا جہاں سلیمان اس افتاد پر ٹھٹھک کر رہ گیا وہی فاریسہ بھی منہ پر ہاتھ رکھتی دم سادھ گئی۔

حیدر ہانیہ سے ملنے کے لیے وہاں آ تو گیا تھا مگر اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اندر کیسے جائے یا ہانیہ کو کیسے بلوائے تبھی اسکی نگاہ اس چوکیدار پر پڑی جس کی مدد سے وہ اس دن فرار ہوا تھا۔

"مگر برزل بھائی نے کہا تھا کہ میں اس سے اپنی اصلی حالت میں جان پہچان نہیں کروا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی کہی تاکید پر وہ سر جھٹک کر کچھ اور سوچنے لگا۔

تبھی اسکی نگاہ مین گیٹ سے واپس آتیں کچھ لڑکیوں پر پڑی جن میں عروج اور ہانیہ بھی تھی۔

"یہ کہاں گئیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خود سے بڑبڑایا اور اپنی گاڑی سے ہٹ کر انکی طرف آیا۔

"ایکسیوزمی مس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی بھاری آواز میں وہ بولتا ہانیہ کو اپنی طرف متوجہ کر گیا جو کہ کچھ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

"پتہ نہیں کون ہے ہانیہ،دفعہ کرو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!عروج نے ہانیہ کو آگے بڑھنے کا کہا تو وہ بھی سر جھٹکتی آگے بڑھنے لگی کہ بے اختیار حیدر کو اسے آواز دینی پڑی۔

"ہانیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے نام کی پکار پر نہ صرف اس کے قدم رکے تھے بلکہ وہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگی۔

"وہ مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے،پلیز دو منٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے التجائی لہجے پر ہانیہ نے ایک نظر اندر جاتی عورتوں اور گیٹ پر کھڑے چوکیدار کو دیکھا پھر عروج کو اندر جانے کا کہتی اس کے تھوڑا سا فاصلے پر آ رکی۔

"آپکو میرا نام کیسے پتہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ حیران تھی۔

"مجھے نام کیا سب کچھ پتہ ہے آپ کے بارے مس ہانیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مطلب بھی سمجھا دیتا ہوں،پہلے آپ بتائیں کہاں گئے تھے آپ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے سوال پر وہ اسے گھورنے لگی اور پھر ایک جھٹکے سے واپسی کے لیے مڑنے لگی کہ حیدر کے اگلے اقدام پر جہاں وہ ششدر رہ گئی تھی وہی حیدر بھی اپنے اس عمل پر حیران تھا کہ وہ کیسے اتنی جرت کر گیا تھا کہ راہ چلتے ایک لڑکی کا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔

"ہانیہ پلیز میری بات سن کے جانا،میں سب بتاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اس کی آنکھوں کی تپش سے گھبراتا اسکا ہاتھ چھوڑ کر التجائیہ لہجے میں کہتا اسے غصہ دلا گیا۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرا راستہ روکنے کی اور مجھے ہاتھ لگانے کی،میں نہیں جانتی تم کون ہو اور کیسے میرے بارے جانتے ہو مگر آئندہ سے یہاں آ کر اس طرح کا تماشہ کھڑا کر کے مجھے اس جگہ سے بھی نکلنے پر مجبور نہ کرنا اور نہ اس خوش فہمی میں رہنا کہ میں اگر لا وارثوں کی طرح رہ رہی ہوں تو آسانی سے تمہارا نوالہ بن جاؤنگی میں تمہاری جان لے لونگی سمجھے تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنی زبان سے زہر اگلتی اندر کی طرف بڑھ گئی جبکہ حیدر سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

"صدف کے ساتھ تو اتنی میٹھی بن کر رہتی تھی اور اب میرے ساتھ،اف یہ تو برزل بھائی کے گروپ کی معلوم ہوتی ہے برے پھنسے ہو حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ منہ ہی منہ میں بولتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

!_______<<<<<__________________<<<<<<<_____!

"میں نے کیا کہا تھا سلیمان کہ اُس پر نظر رکھو مگر تم نے کیا کیا،تم نے میری سالوں کی محنت پر پانی پھیر دیا،صرف دو دن تم اسے فوکس میں نہ رکھ سکے صرف تمہاری دو دن کی لاپرواہی نے مجھے کتنی بڑی اذیت سے دو چار کر دیا ہے تم یہ سوچ بھی سکتے ہو کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بول نہیں رہا تھا بلکہ دھاڑ رہا تھا اپنے کمرے میں بیٹھا حیدر بھی دوڑ کر باہر آیا تھا مگر برزل کو اس قدر اشعتال میں دیکھ کر سیڑھیوں کے پاس ہی تھم گیا۔

"صوری بھائی،پتہ نہیں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان شرمندہ سا بولنے کی کوشش کرنے لگا مگر برزل ابراہیم کی اگلی دھاڑ نے اس کے الفاظ منہ میں ہی بند کر دیے۔

"کیسے پتہ نہیں چلا تمہیں کیسے نہیں سلیمان،تم جانتے ہو نہ کتنے سالوں سے میں اس آدمی کے پیچھے زلیل و خوار ہو رہا ہوں،میری جان اسکی  قید میں ہے اور تم کیسے اتنی لا پرواہی برت گئے کیسے،تم جانتے تھے نہ کہ میری زندگی کا مقصد میرے ماں باپ سے کیا وعدہ ہمارا سکون سب کچھ اس آدمی کے چلے جانے سے بھاڑ میں چلا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"بھائی کیا ہوا نینی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہو چکا تھا اور برزل ابراہیم حیدر کو ساکت دیکھتا جلدی سے اسکی طرف بڑھا تھا۔

"ریلیکس حیدر،کچھ نہیں ہوا ہماری نینی کو اور میں اسے کچھ ہونے بھی نہیں دونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کچھ دیر پہلے منہ سے آگ برسانے والے برزل سے وہ بہت مختلف تھا حیدر کو اپنے ساتھ لگائے اسے تسلیاں دیتا فاریسہ کو الجھن میں ڈال گیا۔

"نینی کون ہے.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خود سے بولی پھر برزل کی طرف دیکھا جو سلیمان کو اسٹڈی میں جانے کا کہتا حیدر کو لیے اسکے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

"بھائی،بات سنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ سلیمان کے پیچھے لپکی۔

"جی بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی نظریں جھکیں ہوئی تھیں۔

"یہ نینی کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے سوال پر سلیمان نے ایک نظر فاریسہ کو دیکھا اور دوسری نظر برزل کو جو اس طرف ہی آ رہا تھا سلیمان بنا کچھ کہے اسٹڈی روم میں چلا گیا۔

"تم جاؤ روم میں فریش ہو کے سو جاؤ،رات کو ملتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نرمی سے اسکا گال تھپتھپا کر وہ سلیمان کے پیچھے چلا گیا فاریسہ نے پہلے حیدر کے کمرے میں جانے کا سوچا مگر پھر نیند لینے کے خیال سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

    !_____________\\\\\\\\\\\______________!

"سب سے پہلے اس ایس پی کا کام تمام کرو میں اسے اور زمین پر چلتا پھرتا نہیں دیکھ سکتا،کل اسکا آخری دن ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے لیپ ٹاپ کو اپنے آگے کرتے ہوئے سلیمان سے کہا تو اس نے سر ہلا دیا۔

"آپ ملاقات نہیں کریں گئے اس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کچھ دیر تک نکلتا ہوں پہلے یہ بتاؤ کہ مسٹر اور مسز وقار رانا کے جنازے پر کوئی ایسا بندہ جو پہلے نہ دیکھا ہو یا جس کے بارے تم مشکوک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کا غصہ اب اتر چکا تھا اس لیے وہ جلد سے جلد اب اس معاملے کو ہینڈل کر لینا چاہتا تھا کیونکہ اس کام میں صرف کچھ دن ہی بچے تھے۔

"جنازے پر تو نہیں مگر اس کے کمرے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک آدمی مشکوک لگا جو بڑی پریشانی سے اس کے کمرے کی تلاشی لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے اپنے موبائل کی سکرین اس کے سامنے کی جہاں وہ آدمی مسز رانا کا لاکر کھولنے کی کوشش میں تھا۔

"سب لوگ جنازے کے ساتھ گئے تھے مگر یہ کمرے میں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے برزل کو انفارم کیا جو بہت غور سے دیکھ رہا تھا اور پھر جیسے مسکرایا تھا۔

"یہی وہ بندہ ہے جو ہمیں نینی تک لے کر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نہ سمجھی سے دیکھنے لگا تو برزل نے اپنے لیپ ٹاپ سے ایک تصویر نکال کر اس کے سامنے کی۔

"یہی بندہ آج سے پانچ سال پہلے نینی کے ساتھ اسلام آباد ائیر پورٹ سے نکلتے دیکھا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے غور کیا تو دونوں سیم ہی تھے۔

"اس لیے کہوں کہ اسے کہا دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اب کی بار کچھ ریلکیس ہوا تھا۔

"میں ایس پی سے ملنے جا رہا ہوں تم ایسا کرو کہ اس بندے کی موجودگی کہاں کہاں ہو سکتی ہے سب جگہوں کی اپ ڈیٹ مجھے سینڈ کر دینا اوکے اور دوسری بات اوپر تک خبر پہنچا دو کہ برزل ابراہیم اصل میں ہے کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکا اشارہ جس طرف تھا سلیمان سمجھ چکا تھا اس لیے سر اثبات میں ہلا دیا برزل نکلنے لگا کہ فاریسہ کا خیال کرتے ہوئے کمرے میں چلا آیا جہاں وہ سکون سے بیڈ پر آرام فرما رہی تھی برزل جانتا تھا کہ وہ اس کے آج کے رویعے پر کچھ پریشان ہو گئی تھی اور برزل نے اپنی پریشانی میں اسکی پریشانی اگنور کر دی تھی۔

"تم نہیں جانتی اور نہ کبھی جان سکو گی کہ تمہارے باپ نے کس قدر اذیتیں دی ہیں ہمیں اس لیے ہوسکے تو اپنے باپ کے قتل پر معاف کر دینا مجھے میں تمہیں بہت بڑی تکلیف دینے جا رہا ہوں پر وہ شخص اس قابل نہیں کہ اسے تمہارے آس پاس بھی برداشت کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل فاریسہ سے مخاطب تھا جو ان سب باتوں سے انجان نیند کی وادیوں میں اتری ہوئی تھی۔

برزل نے جھک کر اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے تھے اور اس پر کمبل ٹھیک کرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

              !_______________________!

نازر اعوان شکستہ سا سلاخوں کے پیچھے بیٹھا تھا دلاور کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا اپنے لیدر کی فیکٹری میں لگی آگ اور شاہ زر اعوان کے ہارٹ اٹیک کی خبر نے اسے بلکل نڈھال کر دیا تھا اوپر سے رئیس جیسے لوگ بھی اسکا ساتھ چھوڑ چکے تھے جن کی وجہ سے وہ اس حال تک پہنچا تھا۔

"برزل ابراہیم چھوڑونگا نہیں تمہیں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم سے نفرت تھی کہ بڑھتی چلی جا رہی تھی تبھی ایک سپاہی نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔

"کوئی ملنے آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان اپنے کسی پیارے کو دیکھنے کی چاہ میں جھٹکے سے اٹھا تھا مگر برزل ابراہیم کو سامنے پا کر وہ چونکا تھا پھر نفرت اور غصے کی شدت سے پھٹ پڑا تھا۔

"تم،تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی،کیا یہ سب کر کے میری فیکٹری میں آگ لگا کر تم جیت گئے ہو تو یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے تمہیں اندازہ نہیں کہ نازر اعوان کیا کچھ کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے اندازہ ہے اس بات کا کہ اپنی انا کی تسکین کے لیے نازر اعوان اتنا گر سکتا ہے کہ اپنی بہن کی جان بھی لے سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے سپاٹ لہجے پر وہ چونکا تھا۔

"تم،تم کہنا کیا چاہتے ہو،کون ہے میرا دشمن جو تم سے سب کروا رہا ہے کون بولو کیا وہ رفیع جو بھاگ گیا تھا یہاں سے مجھے اس پر شک تھا کہ وہی ہے تمہارے پیچھے،کیا لگتے ہو اسکے بیٹے ہو کیا،ارے جو مرضی کر لو میرا کچھ بگاڑ نہ پاؤ گئے بس مجھے یہاں سے نکلنے دو ایک دفعہ تم سب کو دیکھ لونگا اور اپنی بیٹی کو بھی تم سے طلاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میری بیوی کا نام بھی مت لو اپنی زبان سے نازر اعوان کیونکہ تم تو باپ کہلانے کے لائق بھی نہیں رہے جس نے اپنی بیٹی کو ہی نقصان پہنچانے کے لیے دلاور کو بھیج دیا،اپنی سگی بیٹی کی عزت پر ہاتھ ڈلوانے والا ایک باپ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے ٹھنڈے لہجے پر نازر اعوان سن ہوا تھا۔

"افسوس تو تمہیں ہوا ہوگا دلاور کی موت کا سن کر اور اپنی بیٹی کا زندہ بچ جانے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مار دیا تم نے دلاور کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ باپ کیا انسان کہلانے کے لائق بھی نہ تھا برزل نے تاسف سے دیکھا۔

"تو کیا کرنا چاہتے تھے تم فاریسہ کو نقصان پہنچا کر؟مجھے جیل کے اندر کرنے کے لیے فاریسہ کو قربان کرنا چاہتے تھے نہ تا کہ تم مجھے آسانی سے مار سکو جیسے آج سے پندرہ سال پہلے تم نے ایک ابراہیم نامی انسان کے ساتھ کیا تھا ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دو پل کو رکا۔

"اب سمجھ میں آیا کہ تم نے میری مما کو کیسے موت دی ہوگی کیونکہ تمہارے جیسا پتھر دل انسان ہی یہ کام کر سکتا تھا اور تم وہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار ٹھٹھکنے کی باری نازر اعوان کی تھی۔

"تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کا دماغ جو پہلے ان حادثوں کے صدمے مشکل سے برداشت کر رہا تھا اب تو سن ہو کر رہ گیا تھا۔

"میں مسز عائشہ ابراہیم کا بیٹا ہوں جو بدقسمتی سے تمہاری بہن تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے لہجے میں کاٹ تھی۔

"ایسا کیسے،عائشہ کی تو بیٹی تھی،وہ جسے اغوا کروایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نازر اعوان کے منہ سے نکلے ان الفاظ کوبڑی مشکل سے برزل نے برداشت کیا تھا ورنہ دل تو کر رہا تھا کہ اس مکار کا منہ نوچ لے جس نے اس کے ماں باپ کو ابدی نیند سلا دیا تھا اور معصوم سی بچی کے ساتھ ظلم کیا تھا۔

"عائشہ کا بیٹا تھا برزل ابراہیم،جو تمہارے سامنے کھڑا ہے تمہیں تمہارے کیے کی سزا دینے تا کہ کچھ تو تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو سکے کیسے اتنا بوجھ لے کر آگے جاؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

نازر اعوان نے اب کی بار غور سے دیکھا تو وہ اسے اسی ابراہیم کا بیٹا لگا جسے اس نے جھوٹے کیس میں پھنسا کر جیل کے اندر ہی مار دیا تھا اور عائشہ کو گھر جا کر موت کی گہری وادی میں دھکیل دیا تھا۔

پہلے جتنی بار بھی وہ اس سے ملا تھا ہمیشہ نفرت اور غصے کی آگ میں جلتا وہ اس کے نقوش پر دھیان دینے سے قاصر رہا تھا جو ہو بہو ابراہیم سے ملتے تھے۔

"تمہاری بدقسمتی کہ میں اس وقت رفیع چاچو کے ساتھ تھا اور شاید تمہاری موت میرے ہاتھوں لکھی تھی اس لیے تو اللہ نے مجھے زندہ رکھا تمہارے کیے کا تم سے حساب لینے جو تم نے میرے پیاروں کے ساتھ کیا نازر اعوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے لب و لہجے میں اس کے لیے سرد مہری اور نفرت صاف محسوس کی جاسکتی تھی نازر اعوان اس کے کرخت انداز پر گھبرایا تھا مگر پھر جیل کا خیال آتے ہی ریلکیس ہوا تھا اس چیز سے بے خبر کہ برزل طنزیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

"افسوس نازر اعوان،تمہاری یہ جیل جس میں تم نے اپنا راج بنایا ہوا تھا یہ بھی تمہیں مجھ سے محفوظ نہ رکھ پائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑا ایک باکس سامنے کیا جس پر نازر اعوان کی نظر اب اٹھی تھی۔

"کیا کرنے لگے ہو تم،سپاہی،شوکت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خوف کا شکار ہوا تھا اور برزل یہی چاہتا تھا کہ ڈر اور خوف سے ہی مر جائے تا کہ اسے یاد آئے کہ اس نے کیا کیا ظلم کیے ہیں۔

"افسوس کہ یہاں سننے والا کوئی نہیں ہے،وہ دیکھ رہے ہو،یہ ساؤنڈ پروف آلہ ہے،اس سے تمہاری چیخ و پکار کوئی نہیں سن پائے گا سوائے موت کے فرشتے کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے چھت کی طرف اشارہ کیا تھا جہاں کالے رنگ کا مقناطیس شکل کا ایک آلہ چھت سے چپساں تھا اور یہ کیسے کیا تھا اسکا جواب مانگنے کی نازر اعوان میں اب ہمت نہ تھی اور نہ ہی ضرورت رہی تھی۔

"یہ چھوٹا سا تحفہ تمہارے داماد کی طرف سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے وہ باکس اوپن کر کے جیل میں پھینک دیا اور اس میں سے نکلنے والے دو بچھوؤں کو دیکھتا نازر اعوان خوف سے تھرتھرانے لگا تھا۔

"یہ تمہیں مار دیں گئے یا تم ان دونوں کو مار دو گئے،میرا مقصد صرف تمہیں ٹارچر کرنا ہے مر تو تم کل جاؤ گئے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے کہتے ہوئے واپسی کو قدم موڑے تھے اور پیچھے صرف نازر اعوان کی بچاؤ بچاؤ کی آوازیں تھیں جو کہ اس جیل کے اندر ہی دب کر رہ گئیں۔

!_______________________________________!

برزل گھر آیا تو رات کے نو بج رہے تھے وہ مس زونا سے حیدر کے بارے پوچھتا اس کے کمرے میں چلا آیا جہاں وہ اور فاریسہ باتوں میں مصروف تھے۔

"کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خوش مزاجی سے پوچھنے لگا۔

"کچھ نہیں میں اور بھابھی باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تمہاری بھابھی مجھ سے تو باتیں نہیں کرتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے شکایتی لہجے پر فاریسہ نے نظریں جھکائیں تھیں۔

"آپ پیار سے کریں گئے تو بھابھی بھی کریں گی کیونکہ آپ تو ہر ٹائم آگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے اسے اپنی طرف گھورتے پا کر زبان دانتوں تلے دبائی تھی ورنہ ہو سکتا تھا کہ برزل اسکی گردن ہی دبا دیتا۔

"چلو یہ طریقہ بھی آزما لیں گئے، فاریسہ تم زرا ایک کپ کافی تو لے آؤ کمرے میں،مس زونا نے بنا دی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے نرمی سے کہا جس پر وہ سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی۔

"حیدر تمہیں ایک کام کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے جانے کے بعد برزل اس کی متوجہ ہوا۔

"کیا کام بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پہلے پرامس کرو کہ تم چاچو کو اس بارے کچھ نہیں بتاؤ گئے،یہ ہم بھائیوں کا سکرٹ ہے اپنی بہن کو واپس لانے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کا اشارہ سر رفیع کی طرف تھا۔

"اوکے میں چاچو کو کچھ نہیں بتاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے یقین دلایا جس پر برزل اسے کچھ سمجھانے لگا تھا۔

جب پندرہ منٹ بعد برزل کافی کا کپ لیے اپنے کمرے میں آیا تو فاریسہ وارڈرب سے اپنا نائٹ ڈریس نکال رہی تھی برزل نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھا اور قدم اس کی طرف بڑھاتے ہوئے فاریسہ کو اپنے بازؤں کی گرفت میں جکھڑ لیا کہ وہ جو اس افتاد کے لیے بلکل تیار نہ تھی دھک سی رہ گئی۔

"یہ آپ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"پیار کرنے کی چھوٹی سی کوشش کیونکہ میں باتوں سے زیادہ عمل کرنے کو پیار سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی بات اچک کر کہتا وہ اپنی گرفت اور مضبوط کرنے لگا۔

"آپ صبح پریشان تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی سوئی اسکی صبح کے ردعمل پر ہی اٹکی تھی برزل نے گہرا سانس لیتے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔

"ہاں میں کچھ پریشان تھا اس لیے تمہیں بھی نظر انداز کیا جس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے کہہ کر اسکی روشن پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔

"نینی کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے دل میں جو جو سوال اُبھر رہے تھے وہ سب کے جواب چاہتی تھی برزل نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ ٹک گیا۔

"نینا ہماری بہن ہے،حیدر کی چھوٹی بہن ہے وہ،آج سے پندرہ سال پہلے وہ چھ سال کی تھی جب اسے اغوا کیا گیا تھا،پانچ سال پہلے میں اس تک پہنچ سکا تھا میری اس پر نظر تھی اور سکون تھا کہ وہ محفوظ ہے بس اسے واپس گھر لانے پر میں کام کر رہا تھا کہ آج صبح مجھے خبر ملی کہ نینی کو ملک سے باہر لے کر جایا جا چکا ہے جسکی وجہ سے میں آؤٹ آف کنٹرول ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ تو اب کیا کریں گئے آپ،وہاں جائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ حقیقتا پریشان ہوئی۔

"نہیں کیونکہ وہ پاکستان میں ہی ہے،کہاں ہے یہ بھی کچھ دنوں تک پتہ چل جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"انشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے پُرخلوص لہجے پر برزل کے لبوں پر آسودہ مسکراہٹ چمکی تھی اس نے نرمی سے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔

"تم جانتی ہو کہ تم سے محبت کرنے کی سب سے بڑی وجہ کیا تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میرا ڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے بے اختیار کہنے پر وہ قہقہ لگاگیا جس پر وہ خجل سی ہو گئی۔

"بلکل نہیں،وہ وجہ تمہاری معصومیت تھی مگر اب لگ رہا کہ اتنی معصوم بھی نہیں ہو تم جتنی میں سمجھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ محفوظ ہوتا بول رہا تھا۔

"چالاک ہوں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خفگی سے دیکھنے لگی۔

"ہاں بہت چالاک کہ مجھے پتہ بھی نہیں لگنے دیا اور مجھے لُوٹ لیا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسے بیڈ پر لٹا کر اس کے اوپر جھکا تھا فاریسہ جو اس کے بوجھل لہجے اور قربت پر پزل ہو رہی تھی اس کی بھرپور شرارتوں پر سٹپٹا کر ادھر ادھر پناہ کی تلاش میں دیکھنے لگی مگر آخرکار اس کے سینے میں ہی چھپ کر پناہ لینی پڑی جو اپنی بھرپور محبت کا یقین اپنے عمل سے دلاتا اسے اپنے مظبوط حصار میں قید کر چکا تھا۔

نازر اعوان مر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کو یہ اطلاع صبح سات بجے ہی مل چکی تھی اور تب سے وہ اپنے کمرے میں چکر لگاتا فاریسہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اسے یہ خبر دینی چاہئیے یا نہیں اگر نہیں تو کس طرح روکا جائے اور اگر ہاں تو کیسے اسے اس غم سے دو چار کیا جائے۔

آج برزل ابراہیم اپنے ماں باپ کے قاتل کو اپنے انجام تک پہنچا کر پُرسکون ہو گیا تھا ورنہ پندرہ سالوں سے وہ اذیت میں مبتلا تھا کہ اس کے ماں باپ کا قاتل کیسے گھوم پھر رہا ہے جس نے ایک بہن کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھانٹ اتار دیا تھا اور ابراہیم کو کسی جعلی کیس میں گرفتار کروا کر پولیس مقابلے کا نام دے کر ابدی نیند سلا دیا تھا۔برزل ابراہیم تب اپنے چاچو،چچی اور حیدر کے ساتھ اپنی آنسہ پھوپھو کے پاس گیا ہوا تھا جبکہ نینا جسکی عائشہ کے ساتھ بہت بنتی تھی وہ عائشہ کے ساتھ ہی رک گئی جس سے نازر اعوان کو لگا کہ عائشہ کی بیٹی ہے جسے اس نے اغوا کروا دیا تھا مگر بعد میں اغوا کرنے والا آدمی فرار ہو گیا تو نازر اعوان نے اس خبر کو کچھ اہمیت نہ دی بلکہ جان چھوٹی کہہ کر اپنی زندگی میں مگن ہو گیا۔

رفیع جو آنسہ کے شوہر بھی تھے اور ابراہیم کے کزن بھی اس کی مدد سے ہی برزل ابراہیم یہاں تک پہنچ پایا تھا کیونکہ عائشہ کی فیملی کے بارے میں ابراہیم کے علاوہ کوئی نہیں جانتے تھے اس لیے برزل کو انکو ڈھونڈنے میں کافی عرصہ کوشش کرنی پڑی اور آج اسکی یہ کوشش رنگ لائی تھی۔

وہ فاریسہ کے موبائل پر بار بار آتی مہ پارہ بیگم کی کال دیکھ چکا تھا اس لیے ایک فیصلے پر پہنچتے ہوئے اس نے کال پک کر لی۔

"فاری،تمہارے پاپا نہیں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کی بھیگی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکڑائی۔

"اوکے وہ جنازے کے ٹائم آ جائے گی مگر ایک بات مسز اعوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم جو اسکی آواز پر چونکیں تھی اس کی بات پر بولتے بولتے رک گئی۔

"فاریسہ کے ساتھ اگر کسی نے بھی مس بی ہیو کیا نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں اور اپنے بیٹوں سے بھی کہہ دیجئے گا بنا ثبوت اگر انہوں نے فاریسہ کے سامنے میرا نام لیا تو وہ بھی اپنی گنتی شروع کر لیں کیونکہ عائشہ ابراہیم کا خون اتنا سستا نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ابراہیم کے لہجے مین کیا کچھ نہ تھا،وارننگ غصہ اور آخر میں جس راز سے اس نے پردہ اٹھایا تھا دوسری طرف مہ پارہ بیگم تو ششدر سی اپنے بیڈ پر گرنے والے انداز میں بیٹھی تھیں وہ حق دق سی باربار برزل ابراہیم کے آخری الفاظ یاد کر رہی تھیں۔

"عائشہ کا بیٹا ہے یہ،عائشہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم نے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو ہاتھ سے صاف کیا وہ تو عائشہ پر کیاایک ایک ظلم جانتی تھیں۔

"تو تم اس گناہ میں بھی سرخرو ہو گئے برزل،قصاص تمہارا حق تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہولے سے بولیں اب انکو پتہ تھا کہ کیا کرنا ہے اس لیے اپنے دونوں بیٹوں کا انتظار کرنے لگیں تا کہ انکو سچ بتا کر ان کے اندر پلنے والے انتقام کو ختم کر سکیں۔

              !_________________________!

برزل نے فاریسہ کو یہ خبر دیتے ہوئے بڑی نرمی سے اسے سھمبھالا تھا کیونکہ وہ جس طرح ٹوٹ کر بکھری تھی برزل کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بھی ایک عام سے بیٹی تھی جو اپنے باپ کی سختی اور ظلم سے واقف ہو کر بھی اس سے محبت کی انتہا پر تھی۔

سلیمان خدشات کی بنا پر اعوان ہاوس میں فاریسہ کے ساتھ جانا چاہتا تھا مگر برزل نے اسے منع کر دیا اور خود ساتھ آیا تھا فاریسہ کو اندر بھیج کر وہ خود باہر ہی کھڑا رہا تھا وہ اس گھر میں داخل ہونا نہیں چاہتا تھا اس لیے تین گھنٹے وہ گاڑی میں ہی بیٹھا رہا اور ساتھ وہ اندر کی ساری خبر سلیمان سے لیتا رہا جس نے اعوان ہاوس کے کیمرے ہیک کیے ہوئے تھے۔

فاریسہ کے بھائیوں نے برزل کو دیکھ کر سوائے گھورنے کے اور کوئی ری ایکٹ نہیں کیا تھا اور کیوں نہیں کیا تھا یہ برزل اچھی طرح جانتا تھا۔

"آپ جنازے کے ساتھ نہیں جائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سوجھی آنکھیں لیے وہ روتی ہوئی اس کے سامنے تھی۔

"میرا بس چلتا تو میں نازر اعوان کو قبر بھی نصیب ہونے نہ دیتا اور تم جنازے کی بات کرتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اپنے سے کچھ فاصلے پر نازر اعوان کی لاش کو سرد نگاہوں سے دیکھا تھا مگر فاریسہ کا خیال کرتے ہوئے بول اٹھا۔

"مجھے ضروری کام ہے،تم چلو اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں یہاں رُکنا چاہتی ہوں کچھ دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی بھیگی آواز پر برزل نے دانت پیس کر مٹھیاں بھینچ لیں تھیں اس نے بمشکل خود کو کچھ سخت کہنے سے باز رکھا تھا۔

"مجھے تو کوئی پرابلم نہیں مگر تمہارے بھائی تمہاری یہاں موجودگی سے خوش نہیں ہیں اور تم جانتی ہو کہ کس طرح کے حالات رہے ہیں اس لیے تمہیں یہاں چھوڑ کر جانا مجھے مناسب نہیں لگ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ فکر نہ کریں،وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گئے،مما بہت رو رہی ہیں اور مجھے بھی مما کے پاس رہنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے دیکھا جس کی آنکھیں مسلسل رونے کے باعث سرخ ہو چکیں تھیں برزل کا دل کٹ کر رہ گیا مگر صرف فاریسہ کے غم سے ورنہ نازر اعوان کو وہ سو دفعہ مارنے کو تیار تھا۔

"اوکے میں کل لینے آ جاؤنگا تمہیں،اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے جھک کر اسکی پیشانی چومی تھی اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا فاریسہ نے محسوس کیا تھا کہ پچھلے پانچ گھنٹوں سے اس نے ایک دفعہ بھی فاریسہ کے ساتھ اس کے بابا کے مرنے کا افسوس نہیں کیا تھا کیونکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ برزل کو افسوس تو تھا ہی نہیں بس خوشی تھی جس کو وہ چھپا رہا تھا۔

                 !<__________________________>!

"آپ بھابھی کو وہاں کیوں چھوڑ آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!حیدر کو فاریسہ کا وہاں رکنا پسند نہیں آیا تھا اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زہر تو برزل کو بھی لگ رہا تھا۔

"میری بیوی کا باپ مرا ہے حیدر،ایک بیٹی کا باپ اب میں ایک بیٹی کی فیلگنز کیسے ہرٹ کرتا،بٹ ڈونٹ وری ایک رات کی تو بات ہے،دوسرا میری اس پر کیا اس گھر کے ایک ایک بندے پر نظر ہے،اس گھر کے باہر دو گارڈز ہیں جو میرے بندے ہیں اس گھر کے اندر ایک ملازمہ ہے جو میرے لیے کام کر رہی ہے سو اب تم اس کی ٹینشن مت لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اسے ریلکیس کیا جس پر وہ ہو بھی گیا۔

"مس زونا کافی پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے مس زونا کو مخاطب کیا جس پر وہ سر ہلا کر کچن میں چلی گئیں۔

"یہ سلیمان بھائی کہاں جا رہے اتنے تیار شیار ہو کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے سلیمان کو سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا تھا جو بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ اور بلیک لیدر کی جیکٹ میں بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا۔

"کوئی ڈیٹ کا سین ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے آنکھیں ٹپٹانے پر وہ اسے ایک مکا لگاتا باہر چلا گیا۔

"کچھ گڑ بڑ ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے برزل کی توجہ اس طرف دلائی جو کہ اپنے موبائل پر بزی تھا۔

"کوئی گڑ بڑ نہیں ہے حیدر،وہ تمہاری طرح چوری چھپے کچھ نہیں کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سمجھ نہ پایا۔

"تم سہارا فاؤنڈیشن میں کس لڑکی سے ملنے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے براہ راست پوچھنے پر حیدر کی کرنٹ کی طرح اچھلا۔

"میں گیا تھا،کب،کس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اچھا بھلا گڑبڑا گیا تھا۔

"کیا اب اس لڑکی کے کپڑوں کا کلر بھی بتاؤں یا اس کی وہ وارننگ جو وہ تمہیں دے کر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی خشمگیں نگاہوں پر وہ روہانسا ہو گیا۔

"آپ نے پھر سے امجد کو میرے پیچھے لگا دیا،بندے کی پرائیویسی بھی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بلکل ہوتی ہے مگر بندے کی تم جیسے بندر کی نہیں،اب کی بار جاؤ تو زرا ہمت سے جانا اور دوٹوک بات کرنا،اگر اسے عزت دینا چاہتے ہو تو پہلے اسے اپنی عزت بناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اٹھ کھڑا ہوا مس زونا کے ہاتھ سے کافی کا مگ لیتا وہ اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ حیدر برزل کی بات پر خوش ہوتا اوہ صوری پہلی بات پر ناراض اور دوسری بات پر خوش ہوتا اب آئندہ کی ملاقات کے بارے سوچنے لگا جس میں وہ سب بتا دینا چاہتا تھا اور پرپوز بھی کرنا چاہتا تھا۔

             !____________________________!

!اوہ شکر ہے تم آ تو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہانہ ایک ادا سے سلیمان کے ساتھ لگی تھی جس نے آگے سے بھی گرم جوشی دکھائی تھی۔

"تمہیں پتہ تو ہے ڈارلنگ کہ برزل ابراہیم کو ڈاج دے کر آنا کتنا مشکل کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ صوفے پر ٹکتا کہنے لگا۔

"تو کب تمہارا کام ختم ہوگا جب تم اس برزل ابراہیم کی غلامی سے آزاد ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہانہ نے ہمیشہ کی طرح سوال کیا تھا۔

"بہت جلد،میں خود بہت تنگ آ چکا ہوں تمہیں اندازہ نہیں شاہانہ اس شخص کا حکم ماننا کتنا مشکل کام ہے جس سے آپ حد سے زیادہ نفرت کرتے ہوں اور میری نفرت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ان دونوں بھائیوں کے لیے جن کو یہ نہیں پتہ کہ میں ہی انکا سب سے بڑا دشمن ہوں،ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان ایک قہقہ لگاتا شاہانہ کے ہاتھ سے وائن کا گلاس پکڑ چکا تھا۔

"وہ ہیں کہ مسلسل میرے سنی سے بیوقوف بنتے جا رہے ہیں جسے وہ یہاں وہاں ڈھونڈ رہے ہیں وہ تو ان کے سامنے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!شاہانہ محفوظ ہو رہی تھی۔

"ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے ڈارلنگ،تمہیں نہیں پتہ کتنی مشکل سے میں اس برزل ابراہیم کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوا اور کس قدر دی گریڈ کیا اس نے مجھے اور میں برداشت کرتا رہا اور وہ تھپڑ جو چار دن پہلے اس نے مجھے سب کے سامنے مارا وہ سود سمیت اسے لٹاؤنگا،تم دیکھتی جاؤ بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بھینچے لہجے میں وہ کہہ رہا تھا سلیمان کی آنکھوں میں نفرت صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔

"سود سمیت تو اسے بہت کچھ ملنے والا ہے،وہ نہیں جانتا کہ وہ اپنے سیکرٹ کس بندے کے ہاتھ دے رہا ہے اور یہی اسکی بھول اسکی بربادی لے کر آئے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہانہ بھی کم نہ تھی آخرکو وہ بھی برزل کی ڈسی ہوئی تھی۔

"پہلے آفندی،پھر سونیا،مسٹر اور مسز رانا اور شیخ بھی دیکھتے دیکھتے اس نے ہمارے کتنے بندوں کو مار دیا اور مجھے سب دیکھ کر بھی برداشت کرنا پڑا صرف نائن گروپ کی اس فائل کے لیے جو اس رفیع کے پاس ہے مگر برزل کی وجہ سے میں ابھی تک اسے حاصل نہیں کر پا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس وقت سلیمان ایک الگ ہی روپ میں تھا جس کے لب لہجے میں پہلے والی نرمی اور حلاوت سب غائب تھا۔

"ریلیکس میری جان،تم سب حاصل کرو گئے اور اس کے بعد ہم دیکھیں گئے برزل کی بربادی،جس کی شروعات میں اسکی بیوی سے کرونگی کیونکہ مجھے وہ زہر لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!شاہانہ کی آنکھوں میں مری میں شاپنگ کرتے برزل اور فاریسہ کے مسکراتے چہرے لہرائے تو وہ نفرت سے پھنکاری تھی کیونکہ وہ برزل ابراہیم کے پاس فاریسہ کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتی تھی اور یہ سلیمان بھی جانتا تھا اس لیے تو سلیمان کے ساتھ کام کرنے پر وہ راضی ہوئی تھی۔

            _______________________________

 فاریسہ نے مہ پارہ بیگم کے کمرے میں جھانکا جہاں وہ بیڈ پر آرام فرما رہی تھیں فاریسہ انکے پاس چلی آئی۔

"مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے پکارنے پر مہ پارہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔

"آؤ میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ برزل مجھے لینے آئے ہیں باہر،میں نے سوچا آپ سے مل کر جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کچھ مدھم لہجے میں بولی کیونکہ کل کا وہ دیکھ رہی تھی سوائے مہ پارہ بیگم کے کوئی بھی اس سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا بھائیوں نے اتنا نہیں کیا تھا کہ گلے سے لگا کر اسے دلاسہ ہی دے دیں۔

"برزل ٹھیک رہتا ہے نہ تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ استسفار کرنے لگیں۔

"جی وہ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"چلو شکر ہے،اب میں تمہاری طرف سے بلکل فکرمند نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسکرائیں۔

"مما،بابا کو کس نے مارا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟فاریسہ کے سوال پر مہ پارہ بیگم چونکیں تھیں۔

"کیا مطلب،تمہیں بتایا تو تھا کہ ہارٹ اٹیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

"چچی کہتی ہے کہ برزل نے مارا ہے انکو،قمر بھائی نے بھی یہی کہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کچھ روہانسی ہو رہی تھی کچھ خوفزدہ تھی کچھ بے یقینی تھی۔

"وہ اس لیے کہ برزل کی تمہارے بابا کے ساتھ دشمنی کو سب جانتے ہیں اس لیے انکو شک ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہے کیونکہ برزل اپنے ماموں کو کیسے مار سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم کے انکشاف پر وہ ساکت ہوئی تھی۔

"کیا مطلب مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مطلب یہ کہ برزل تمہاری عائشہ پھوپھو کا بیٹا ہے،تو وہ کیسے اتنا بڑا ظلم کر سکتا ہے،تم اپنے دل سے پوچھو کیا برزل تمہیں ایسا لگتا ہے اور کیا تم یوں ہی ہر کسی کی باتوں میں آ کر برزل پر شک کرو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم اسکا زہن ہر قسم کی سوچ سے پاک کرنے لگیں کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ فاریسہ برزل سے بد ظن ہو اور انکا گھر خراب ہو۔

نازر اعوان کے ساتھ جو بھی کیا وہ اس پر برزل کو حق پر سمجھتیں تھیں کیونکہ نازر اعوان نے عائشہ اور ابراہیم کے ساتھ جو کچھ کیا تھا مہ پارہ بیگم اسکی گواہ تھیں۔

"نہیں مما،میں نے تو ویسے ہی آپ سے پوچھا کیونکہ چچا کو جو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اسکا قصور وار بھی وہ برزل کو ٹھہرا رہیں تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ تمہارے شوہر کی وجہ سے ہمارا بزنس ٹھپ ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ تمہارے چچا کی حالت پر ایسے رہ ایکٹ کر رہی ہے،تم اسکی فکر نہ کرو اور اپنے گھر پر توجہ دو،اب جاؤ برزل انتظار کر رہا ہوگا،میں اب ملنے آیا کرونگی تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مہ پارہ بیگم نے اسکی پیشانی چومی تھی۔

وہ جب باہر آئی تو برزل گاڑی کے پاس کھڑا موبائل کان سے لگائے ہوئے تھا۔

"کیسی ہے میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل موبائل جیب میں رکھتا گرم جوشی سے اسکی طرف بڑھا تھا اسے اپنے ساتھ لگائے وہ اسکی پیشانی چوم گیا۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آہستہ سے بولی اور برزل کے فرنٹ ڈور اوپن کرنے پر گاڑی میں بیٹھ گئی۔

"طبعیت تو ٹھیک ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فکرمندی سے پوچھنے لگا برزل کو وہ چپ چپ لگی۔

"جی،بس نیند پوری نہیں لے سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے اب گھر جا کر جتنا چاہو ریسٹ کر سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے پیار سے گال تھپتھپایا تو وہ ہلکے سے مسکرادی۔

برزل لاؤنج میں لیپ ٹاپ پر ہی کچھ کام کر رہا تھا جب اس نے سلیمان کو لاونج کے دروازے سے اندر داخل ہوتے دیکھا۔

"آ گئے تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے لیپ ٹاپ ایک طرف رکھ دیا۔

"جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے پاس بیٹھنے کی بجائے کھڑا رہا تھا۔

"بہت دیر لگا دی تم نے،جبکہ حارث نے تو دو گھنٹے قبل ہی تمہیں فری کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں ایک کام یاد آ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے پورے اعتماد سے جواب دیا تو برزل نے سر ہلایا۔

"میں دو دنوں کے لیے حیدر اور فاریسہ کو آنسہ پھوپھو کے پاس دبئی بھیج رہا ہوں،تا کہ فاریسہ زرا اپنے بابا کے غم سے دھیان ادھر ادھر بٹا سکے اور حیدر بھی جانا چاہ رہا تھا تو تم دیکھ لو اس کے پاسپورٹ اور ٹکٹس وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اسکی بات پر کچھ حیران ہوا تھا مگر ظاہر نہیں کیا تھا شاید ان کے جانے کا مقصد اسکی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔

"جی بھائی میں ایک دو دن میں کر دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے گڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے پھر سے لیپ ٹاپ اپنی گود میں رکھ لیا تو سلیمان بھی سر جھٹک کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔

"یہ فیصلہ کیونکر ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسی سوچ میں غلطاں تھا جب حیدر کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر وہ اسکی طرف متوجہ ہوا۔

"بھائی آپ فری ہیں نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے احتیتاطً پوچھا۔

"ہاں بلکل تم آؤ نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ آپ اتنا تیار شیار ہو کر کس خاتون سے ملنے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کو تب کہ یہی مڑوڑ اٹھ رہے تھے۔

"خاتون سے کیونکر ملونگا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے کندھے اچکائے۔

"کیوں ملا جاتا کسی خاتون سے،ارے بھائی کوئی عشق وشق کے لیے ہی نہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"عشق وشق وہ بھی ہماری کیٹگری میں بلکل نہیں لڑکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی بات پر حیدر کی آنکھوں کے سامنے ہانیہ کا چہرہ لہرایا۔

"مگر محبت ہونے کو ہو جاتی ہے،اس میں کسی کیٹگری کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"خیر ہے چھوٹے،تم تو نہیں اس چکر میں پڑ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے سر سے پاؤں تک اسے معنی خیزی سے دیکھا تھا حیدر سر کھجانے لگا۔

"ابھی کہاں بھائی،ابھی تو شروعات کی تھی مگر برزل بھائی نے پلین ہی چوپٹ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے منہ بسورا۔

"کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی ایک طرف ٹک گیا۔

"آپکو نہیں پتہ کہ بھائی ہمیں دبئی بھیج رہے ہیں کچھ دنوں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں تو تم خود ہی ایکسائیٹڈ تھے وہاں جانے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ تو پہلے تھا نہ،اب تو زبردستی بھیج رہے ہیں بھائی مجھے،میں نے کیا کہ بھابھی کو بھیج دیں پر نہیں وہ مجھے بھی ساتھ ہی جانے کو کہہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر جسے ہانیہ سے ملنا تھا اتنا اس نے پلان کیا ہوا تھا اب وہ کڑھ رہا تھا۔

"ابھی تو میری لو اسٹوری پہلی قسط پر تھی کہ بھائی نے ایک لمبا گیپ دے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنا ہی رونا رو رہا تھا اس کے برعکس سلیمان کچھ اور سوچ رہا تھا۔

"برزل بھائی تو کہہ رہے تھے کہ حیدر خود جانا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ارے میں ایسا کیوں چاہونگا،اس لیے تو آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ بھائی سے سفارش کریں نہ میری،یا ایک ہفتے کی مہلت دے دیں،میرا زرا بھی دل نہیں جانے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے میں بات کرونگا،تم فکر نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہائے شکریہ مائے ہینڈسم برو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر مکھن لگانے میں تو ماہر تھا سلیمان نے مسکراتے ہوئے اس کے بال بگاڑے۔

حیدر کے جانے کے بعد وہ مسلسل کچھ سوچتا رہا پھر جیسے اسکی آنکھیں چمکیں تھیں اور وہ عجلت میں کمرے سے باہر نکلا تھا۔

                   !_______________________!

برزل دیکھ رہا تھا کہ وہ جب سے اعوان ہاوس سے واپس آئی تھی کچھ گم صم اور بجھی بجھی سی تھی وہ آج اپنے سارے ضروری کاموں کو لات مارتا آج کا دن اس کے ساتھ بتانے والا تھا۔

"کیا سوچا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے ساتھ بیڈ پر ہی ٹک گیا۔

"کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے دیکھا وہ انہی کپڑوں میں ملبوس تھا جو اس نے جاگنگ کے لیے پہنے ہوئے تھے۔

"آپ آفس نہیں جائیں گئے آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ٹائم دیکھنے لگی جہاں گھڑی نو کے ہندسے کو پار کرنے والی تھی۔

"اُداس بیوی کو چھوڑ کر کون احمق آفس جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے ارادہ ہی اس کے لبوں سے نکلا تھا اور برزل اچھل کر اسکی طرف پلٹا تھا۔

"کیا کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ میرا مطلب تھا کہ آپ کو کیوں لگا کہ میں اُداس ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ گڑبڑا کر صفائی دینے لگی پھر بے ساختہ اسکا ہاتھ پکڑ گئی۔

"میرا وہ مطلب نہیں تھا میں تو بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اس ادا پر تو سات خون بھی معاف کیے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکا اشارہ اس کے ہاتھ پکڑنے پر تھا جس پر وہ خجل ہوتی ہاتھ چھوڑ گئی مگر برزل نے اسی ہاتھ سے اسکا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا تھا۔

"تم دو دن سے چپ چپ ہو فاریسہ،تمہاری یہ خاموشی میری جان جلا رہی ہے یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ نرمی سے اس کا ہاتھ دبانے لگا تھا۔

"وہ آپ میرے کیا لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے عجیب سے سوال پر برزل کا دل چاہا ہسے مگر اس کی کیفیت کا اندازہ کرتا وہ آسانی سے جواب دے گیا۔

"تمہارا شوہر ہوں اور کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اس کے علاوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کے اس سوال پر جیسے وہ سارا معاملہ سمجھ گیا تھا اور یہ بھی کہ دو دنوں سے وہ اسی کشمکش میں الجھی ہوئی تھی۔

برزل بنا کچھ بولے اٹھا اور وارڈرب کے اندر بنے لاک ڈور کو کھولتا وہ ایک البم باہر نکال کر اس کے پاس چلا آیا۔

"اس میں میری مما اور پاپا کی تصویروں کے ساتھ میری بچپن کی تصویریں ہیں اور تمہارے سوال کا جواب بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے البم کھولا تھا اور پہلی تصویر پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھیں کھلیں تھیں۔

"عائشہ پھوپھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مہ پارہ کے پاس انکی تصویریں دیکھ چکی تھی کیونکہ دونوں کزنز اور بیسٹ فرینڈ بھی تھیں۔

"میں تمہاری عائشہ پھوپھو کا بیٹا ہی ہوں اور تمہارا شوہر بھی اور کزن بھی لگتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مما نے بتایا تھا،مجھے لگا انکو غلط فہمی ہو رہی ہیں کیونکہ آپ نے مجھے نہیں بتایا نہ پاپا کو،ورنہ وہ آپ سے کبھی نہ لڑتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی بات پر اپنے سرد تاثرات کو بخوبی چھپا گیا جو نازر اعوان کے زکر پر نمودار ہوئے تھے۔

"تمہیں بتانا چاہتا تھا مگر کچھ حالات ایسے رہے کہ بتا نہیں سکا کیونکہ مجھے بھی یہ حقیقت شادی کے بعد پتہ چلی تھی کہ جسے میں دل دیئے بیٹھا ہوں اس کے ساتھ میرے دو دو رشتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نرمی سے مسکراتا بولا جو مسکرا کر تصوریں دیکھ رہی تھی برزل کی بچپن کی تصویروں پر وہ خوب ہنسی تھی کیونکہ عائشہ اور ابراہیم نے برزل کی ہر شرارت کو کیمرے میں مقید کیا ہوا تھا جیسے انکو پتہ تھا کہ وہ اسکا بس بچپن ہی دیکھ سکیں گئے۔

"آپ کے پاپا بلکل آپ جیسے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عائشہ اور ابراہیم کی مری کے اسی کاٹیج کی تصویر تھی جہاں یہ رہ کر آئے تھے۔

"میں بلکل اپنے پاپا جیسا ہوں،اس لیے تو بہت خوبصورت ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اسکا جملہ درست کرتے ہوئے شوخی سے کہا۔

"یہ کس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بھی شرارت کے موڈ میں آئی تھی اور برزل کو یہ چیز خوش آئند لگی تھی۔

"تمہاری ان خوبصورت آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اسکی دونوں آنکھوں پر باری باری جھکا تھا۔

"آنکھیں بھلا بولتی ہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس سے پرے ہونے لگی مگر یہ کوشش ناکام کر دی گئی۔

"بہت ساری باتیں آنکھوں سے ہی تو شروع ہوتی ہیں جیسے کہ میری آنکھیں اب بول رہی ہیں کہ مسز برزل کو قریب سے قریب تر کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"گھمبیر لہجے میں بولتا وہ اسے سچ مچ میں سٹپٹانے پر مجبور کر گیا فاریسہ اسکی نگاہوں کی معنی خیزی سے خود میں سمٹنے لگی۔

"تم اب بہکا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اسکے ڈوپٹے کو اپنے ہاتھ میں لیتے اسے دیکھا۔

"نہیں تو،میں تو مس زونا کے پاس جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکے اشارے کرتی نگاہوں سے نظریں چراتی وہ ڈوپٹہ اس کے ہاتھ میں ہی چھوڑے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے باہر جاتی برزل نے بری پھرتی سے اسے اپنے قابو کیا تھا۔

"مس زونا سے زیادہ اس وقت تمہارے شوہر کو تمہاری ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ایک پاؤں کی مدد سے دروازہ بند کرتا اب بیڈ کی طرف آ رہا تھا۔

"وہ حیدر بھائی نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"حیدر نامعہ سننے کا زرا موڈ نہیں اور جو موڈ بن رہا ہے تم اس پر فوکس نہیں کر رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے فاریسہ کو بیڈ پر دھکیلا تھا۔

"آفس سے چھٹی کا کچھ تو مداوا بنتا ہے نہ مسز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے چہرے پر جھکتا وہ اس کے پوش اڑانے لگا تھا جو اسکی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی پھر اسکی شدتوں کے آگے بے بس ہوتی اسکے سینے میں ہی سر چھپانے کو مجبور ہو گئی۔

             !_____________________________!

برزل کے کہے کے مطابق کل رات کی اسکی اور فاریسہ کی فلائٹ تھی وہ برزل کے آگے چپ ہو گیا تھا مگر فاریسہ کو اس نے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش ضرور کی تھی۔

"آپکو پتہ بھائی ہمیں کل آنسہ پھوپھو کے پاس بھیج رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے زارا سے بات کرتی فاریسہ سے کہا جو کہ موبائل ایک طرف رکھ کر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔

"ہاں انہوں نے بتایا تھا آج اور آنسہ پھوپھو نے مجھ سے بات کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تو کیا آپ تیار ہیں جانے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کا ریلکیس موڈ دیکھ کر وہ اچنھبے سے پوچھنے لگا۔

"ہاں کیونکہ میرا بڑا دل ہے گھومنے پھرنے کا،برزل نے بتایا کہ دبئی میں بہت اچھی اچھی جگہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ایکسائٹڈ ہوتی حیدر کے سارے ارمانوں پر پانی ڈال چکی تھی۔

"مگر بھابھی اچھی جگہیں تو پاکستان میں بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں وہ تو ہیں مگر برزل نے کہا ہے کہ پہلے دبئی دیکھ آؤ پھر پاکستان وہ خود دکھا دیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اف برزل بھائی،آپ بہت تیز آدمی ہیں،مما کہاں پھنسا کر چلی گئیں آپ مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ صوفے پر ڈھیر ہوتا کڑھنے لگا فاریسہ کچھ پریشان سی ہونے لگی۔

"کیا ہوا ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اس وقت اس سے یہ نہ سوال کیا جائے تو بہتر ہے،بے چارہ اپنے غم میں غرق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سیڑھیاں اترتے سلیمان نے بھی جلتی میں تیل چھڑکا تھا۔

"آپ دونوں مجھ پر بہت ظلم کر رہے ہیں بھائی،میں پوری دنیا کو بتاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر غمگین آواز میں کہہ اٹھا۔

"دنیا کو بتا کر کس پر ظلم کرو گئے پیارے حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے مسکراتے لہجے پر حیدر غصے سے پیر پٹختا باہر چلا گیا فاریسہ حیران پریشان سب دیکھ رہی تھی سلیمان کی طرف پلٹی جو مسکرارہا تھا۔۔

"کیا ہوا ہے انکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اصل میں وہ ابھی دبئی نہیں جانا چاہتا،مگر برزل بھائی آپکی وجہ سے اسے بھیج رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے سر ہلایا اور برزل سے بات کرنے کے بارے میں سوچنے لگی۔

"آپکی تیاری مکمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کو بتا کر وہ اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوئی جہاں مہ پارہ بیگم کی کال تھی وہ کال یس کرتی وہاں سے چل دی۔

"کل رات نو کی فلائٹ ہے،یہ دونوں گھر سے ڈرائیور کے ساتھ ائیرپورٹ پر جائینگے،آگے اب تمہارا کام ہے شاہانہ،پرسوں ملاقات ہوگی برزل ابراییم کو ایک بڑا سپرائز دینے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہانہ کے نمبر پر میسج چھوڑتا وہ بڑے کھلے انداز میں مسکرایا تھا۔

             !____________________________!

رات کے کھانے پر بھی حیدر کا رونا دھونا جاری تھا کہ جب نک سک سے تیار برزل ابراہیم جو کہیں گیا ہوا تھا ڈائنگ ٹیبل کی طرف آیا تو حیدر کے لبوں کو جیسے تالا لگ گیا۔

"کیا شور مچا رہے تھے تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کچھ بات تو برزل کے کانوں میں بھی پڑ چکی تھی اس لیے براہ راست حیدر سے پوچھا جو گڑبڑا گیا۔

"کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ فورًا سر نفی میں ہلا گیا۔

"سر آپ کیا کھائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا جو ان تینوں کے آگے کھانا سرو کر چکی تھی اب برزل سے بولی۔

"آپ جائیں یہ کام آج آپکی میم کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے کہنے پر وہ سر ہلاتی چلی گئی جبکہ فاریسہ کچھ حیرت سے برزل کو دیکھنے لگی جس نے آج سے پہلے یہ فرمائش نہیں کی تھی۔

"کیا کچھ مشکل کام کہہ دیا میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہہ کر اس کی پسند کے کوفتے پلیٹ میں ڈال کر اس کے آگے رکھے اور ساتھ ایک چپاتی بھی۔

"بھائی حیدر کو بھیجنا ضروری ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اسکی مسکینی صورت پر بلیک میل ہوتا برزل سے بات کرنے پر مجبور ہو گیا جو کہ اب یوں معصوم بنا بیٹھا تھا جیسے بولنا آتا ہی نہ ہو۔

"سلیمان تم جانتے ہو کہ میں فاریسہ کے ساتھ اسے کیوں بھیج رہا ہوں ویسے بھی آنسہ پھوپھو کافی عرصے سے کہہ رہی ہیں کہ حیدر ملنے نہیں آ رہا،ریحان بھی بہت مس کر رہا اسے،اکلوتا دوست ہے وہ اسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ریحان خود یہاں آنا چاہتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے بولنا چاہا مگر برزل نے جس نگاہ سے اسے دیکھا تھا وہ وہی چپ ہو گیا تھا۔

"میں سوچ رہا کہ یہ جتنے بھی کام ہیں سب کو ختم کر کے اپنے ولیمے کی دعوت رکھوں اور آنسہ پھوپھو کی فیملی سمیت سب دوستوں کو مدعو کروں جو میرے یوں سمپل نکاح کرنے پر کافی نالاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے فاریسہ کی طرف دیکھا جو اس بات پر مسکرائی تھی آخر اسے بھی دلہن بننے کا سجنے سنورنے کا اس خاص دن کا شروع سے انتظار تھا ہر لڑکی اپنے اس دن کے لیے آنکھوں میں بہت سارے سپنے سجاتی ہے وہی دن تو سب کی نظروں میں اسے اسپیشل پرسن کا ٹیگ دیتا ہے۔

"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں اس بات پر خوش ہوئے تھے۔

"اس دعوت کا اسپیشل گیسٹ پتہ ہے کون ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"آنسہ پھوپھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے گیس کرنا چاہا مگر برزل کے سر نفی میں ہلانے پر منہ لٹکا گیا۔

"فاریسہ بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے بھی کوشش کی مگر ناکام۔

"ہم تو دولہا دلہن ہونگے،ہمارے علاوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا نینی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی بات پر جہاں برزل محفوظ ہوتا مسکرایا تھا وہی حیدر خوشی سے اچھلا تھا۔

"ارے میں کیوں نہیں یہ سوچ پایا،یہ تو سب سے اچھی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"تمہارا دماغ تو بس دبئی نہ جانے میں اٹکا ہوا ہے تم کیسے یہ سوچتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے طنز کیا حیدر خفیف سا ہو گیا۔

"بھابھی تو بھائی کو اچھے سے سمجھنے لگی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے فاریسہ کی تعریف کی جس پر وہ مسکرائی تھی۔

"شی از مائے وائف سلیمان،اور شوہر کو بیوی سے زیادہ کون جان پائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے فاریسہ کا چھوڑا ہوا پانی کا گلاس منہ سے لگا لیا۔

"یہ تو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان سر ہلاگیا۔

"تمہاری تیاری ہو گئی حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ حیدر کی طرف متوجہ ہوا۔

"جی بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے کل صبح ہی کسی ضروری کام سے اسلام آباد جانا ہے،تم دونوں کو امجد سی آف کرنے جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے لبوں سے امجد کا سن کر حیدر بدمزہ ہوا وہ اس بندے کو اپنا بہت بڑا دشمن سمجھتا تھا کیونکہ یہ ہمیشہ اسکی جاسوسی کر کے برزل کے ہاتھوں اسے بے عزت کرواتا تھا۔

"اس امجد کو تو صبح میں ایسا مزہ چکھاؤنگا نہ لگ پتہ جائے گا اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اور فاریسہ کے جانے کے بعد وہ بڑبڑایا۔

"اور اس بار میں بھی تمہارا ساتھ دونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان مسکرا کر بولتا اسے حیران کر گیا۔

"واقع میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یس مائے سویٹ لٹل برو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی یقین دہانی پر وہ خوش ہوا تھا یہ جانے بغیر کہ کل سلیمان اسکی نہیں اپنی مدد کرنے والا تھا امجد کو ہٹا کر وہ شاہانہ کا راستہ صاف کرنے جا رہا تھا۔

        !__________________________________!

"اگر حیدر بھائی نہیں جانا چاہتے تھے تو آپ کیوں زبردستی بھیج رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

فاریسہ نے نائٹ ڈریس کی ڈوریاں بند کرتے ہوئے برزل سے کہا جو صوفے پر بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ ہی کچھ چھیڑ چھانی کر رہا تھا۔

"وہ جس کام کے کیے رکنا چاہتا ہے وہ کام بعد میں بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے بنا دیکھے جواب دیا۔

"اپنا موبائل دو مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے کہنے پر فاریسہ نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا مگر وہ اپنے کام میں بزی تھا فاریسہ نے موبائل برزل کو دیا جو اب اسکے موبائل کو لیپ ٹاپ کے ساتھ کنکیٹ کرتا کچھ کرنے لگا تھا۔

"یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اسکے موبائل کی باڈی اتار کر کوئی اور باڈی ساتھ اٹیچ کر رہا تھا۔

"کچھ نہیں،بس ایک تجربہ کر رہا ہوں آخر ایک شوروم کا اونر ہوں پرزوں کو جوڑنے توڑنے کا کافی شوق ہے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی بات پر وہ نہ سمجھی سے کندھے اچکاتی بیڈ کی طرف پلٹ گئی۔

"مما کل ملنے آ رہیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے کچھ دیر پہلے ہوئی بات اس کو بتائی۔

"اچھی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے تاثرات سپاٹ ہی تھے۔

"کیا آپ ہمارے گھر نہیں جایا کریں گئے،شاہ زر چاچو تو آپ کے ماموں ہیں وہ ہیں بھی کافی بیمار،فالج ہو گیا انکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"فاریسہ کیا گفٹ لاؤ گی تم وہاں سے میرے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس وقت اعوان ہاوس کے لوگوں کے بارے بات نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے کمال خوبصورتی سے ٹال گیا تھا جس پر فاریسہ نے بھی نوٹس نہ لیا۔

"میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سوچنے لگی اور برزل اس وقت یہی چاہتا تھا کہ وہ اپنی سوچوں میں ہی الجھی رہے تا کہ وہ اپنا کام کر سکے۔

"آپکو کیا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اپنا کام ختم کر چکا تھا اس لیے اٹھ کر اسکی طرف آیا۔

"مجھے تو فاریسہ چاہئیے بلکل ایسے ہی ہستی مسکراتی مسز برزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پیار سے اسکی گود میں سر رکھتا لیٹ گیا۔

"وہ تو آپکی ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ شرمگیں مسکراہٹ لیے آہستہ سے بول گئی جس پر برزل نے وارفتانہ نظروں سے اسے دیکھا اور نرمی سے اس کے چہرے کا جھکاؤ اپنی طرف کرتا اس کے گال کو اپنے لمس سے دہکا گیا۔

"فاریسہ کے علاوہ کسی چیز کا ارمان نہیں برزل کو،تم جانتی ہو کہ تم میرے لیے کس قدر خاص ہو،میری زندگی کی اولین چاہت میرے دل کا سکون اور میری جان ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بوجھل لہجے میں کہتا اس کے رخساروں پر پھول کھلا گیا۔

"یہ تین دن بہت مشکل گزرنے والے ہیں تمہارے بغیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکا ہاتھ تھام گیا۔

"تو آپ بھی ساتھ آ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نہ جانے کیوں فاریسہ کو بھی برزل کے بغیر جانا اداس کر رہا تھا۔

"دل تو میرا بھی تھا مگر یہاں کچھ بہت ضروری کام ہیں،خاص طور پر نینا کی واپسی،تم مل آؤ پھوپھو لوگوں سے وہ جب سے شادی ہوئی تب سے تم سے ملنے کی ضد کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں نینا کے لیے بہت دعا کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ سچے دل سے بولتی اسے بہت پیاری لگی۔

"جانتا ہوں کہ تم اپنی اکلوتی نند سے ملنے کو بہت بے چین ہو مگر دھیان سے وہ حیدر کی کاپی ہے بلکل،دونوں نے تمہیں بہت تنگ کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل مسکرا کر کہنے لگا۔

"میں ہینڈل کر سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی اس میں کوئی شک نہیں آخر کو برزل ابراہیم کو ہینڈل کر رہی ہیں آپ،یہ آسان تو نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اس کی کچھ دیر پہلے بند کی ڈوریاں کھول دی تھیں جس پر وہ جھجھک کر اسے پرے کرنی لگی۔

"آج کی رات ہینڈل کر لو پھر تین راتوں کی چھٹی بھی تو آ رہی ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے ایک جھٹکا دیتے ہوئے اسے اپنے اوپر گرایا تھا۔

"آپ بہت مطلبی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شرم سے ہلکان ہوئی تھی۔

"اس معاملے میں ہونا بنتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے لائٹ آف کر کے اسے اپنی اپنی گرفت میں لیا تھا۔

برزل آج صبح ہی اسلام آباد کے لیے نکل چکا تھا ان دونوں کی سی آف کرنے کے لیے بس سلیمان ہی تھا جو حیدر کے اشاروں پر امجد کی طرف مُڑا تھا۔

"امجد تمہیں ائیرپورٹ جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،ڈرائیور چھوڑ آئے گا انکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مگر سلیمان یہ تو بھائی کا حکم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ان سے میں بات کر لونگا تم ٹینشن مت لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے دو ٹوک انداز پر وہ شش وپنج میں پڑا تھا ایک طرف برزل تھا جس کا حکم سب سے اول تھا ایک طرف سلیمان تھا جسکی کوئی بات برزل ٹالتا نہیں تھا۔

"اوکے خداحافظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھتا وہ اندر کی طرف بڑھ گیا تو ڈرائیور نے بھی گاڑی گیٹ سے باہر نکال لی اور اب گاڑی اپنی منزل کی طرف فراٹے بھر رہی تھی۔

"بھائی کو دیکھا آپ نے،ہمیں سی آف بھی نہیں کیا اور اسلام آباد چلے گئے،مجھے تو لگتا کہ وہ ہمیں جان بوجھ کر یہاں سے بھگانا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے پاس برزل کی کافی شکایتیں اکھٹی ہو گئی تھیں جو وہ آنسہ پھوپھو سے کرنا چاہتا تھا۔

"نہیں وہ ایسا صرف پھوپھو کی وجہ سے کر رہے ہیں کیونکہ وہ ہم سے ملنا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے صفائی دی تھی۔

"ریحان سے میری بات ہوئی تھی کل،وہ لوگ خود آنا چاہ رہے تھے مگر انکو برزل بھائی نے روک دیا،پتہ نہیں بھائی کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر الجھنے لگا تھا۔

"وہ شاید ہمیں بھیج کر سکون سے نینا کو تلاش کرنا چاہتے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی اس بات پر حیدر بھی متفق ہوا تھا۔

"ہاں یہ ہو سکتا ہے اس لیے تو بھائی نینی کو لانے کا وعدہ کر چکے ہیں اور آپ کو ایک بات بتاؤں بھائی اپنا ہر وعدہ پورا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے لہجے میں برزل کے لیے پیار اور یقین صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔

وہ دونوں ہلکی پھلکی باتیں کر رہے تھے کہ یکدم چونکے تھے اور چونکنے کی وجہ انکی گاڑی کا رکنا اور ڈرائیور کا ایک طرف لڑھک جانا تھا۔

"یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "جہاں فاریسہ چیخی تھی وہی حیدر نے اپنی بیک سیٹ سے پسٹل نکالنا چاہا تھا مگر وہاں کچھ نہیں تھا اور حیدر کو اچھی طرح یاد تھا کا تھا اس گاڑی میں اس نے خود پسٹل رکھا تھا۔

"میرا فون کہاں گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ جسے برزل کو اطلاع دینے کا خیال آیا تھا مگر اس کے بیگ میں موبائل ہی نہیں تھا حیدر بھی اپنے موبائل کی تلاش میں ادھر ادھر جھانکنے لگا مگر کچھ ہوتا تو ملتا نہ دونوں ہکا بکا رہ گئے۔

"بھابھی،ہمیں جان بوجھ کر ٹریپ کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کا جہاں رنگ پھیکا پڑا تھا وہی فاریسہ بھی خوف سے سفید ہونے لگی جب اس نے اسلحہ تھامے تین آدمیوں کو اپنی گاڑی کے پاس آ کر کھڑے ہوتے دیکھا۔

"عزت سے باہر نکلو گئے یا مجھے ذحمت کرنی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک نسوانی آواز پر دونوں چونکے تھے ان کے سامنے ایک پچیس چھبیس سالہ لڑکی تھی جو ہاتھ میں گن لیے انکو باہر نکلنے کا اشارہ کر رہی تھی۔

"مسز برزل آپ ہمیں اپنی مہمان نوازی کا شرف بخشنا پسند فرمائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ لڑکی کا لہجہ سپاٹ اور آنکھوں میں ایک خاص نفرت تھی جسے فاریسہ محسوس کرتی سن ہو گئی پھر حیدر کے اشارے پر مرے مرے قدموں سے باہر نکلی ساتھ حیدر بھی نکل آیا۔

حیدر نے ارد گرد دیکھا یہ علاقہ کچھ سنسان تھا پاس سے اکا دکا ہی گاڑیاں گزر رہی تھیں مگر کوئی بھی ایک طرف کھڑی گاڑی اور اس میں ہونے والے واقع کو جانے بغیر آگے بڑھتا رہا تھا۔

"سلیم انکو گاڑی میں بٹھاؤ اور برزل ابراہیم تک یہ سپرائز ضرور پہنچا دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہانہ کہتی ہوئی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی تو وہ سلیم نامی آدمی ان دونوں کو گاڑی کی طرف دھکیلنے کے لیے فاریسہ کو ہاتھ لگانے لگا کہ حیدر ایک الٹا ہاتھ اس کے منہ پر دے مارا تھا۔

"میری بھابھی کو ہاتھ لگایا نہ تو جان لے لونگا تم سب کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ غرایا تھا سلیم نے غصے سے اسکی طرف پیش قدمی کی مگر شاہانہ کے اشارے پر صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا۔

"یہ ہمیں کہاں لے کر جا رہے ہیں بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی آنکھوں سے پانی کا جھرنا بہنے لگا تھا وہ پھر سے چھ ماہ پہلی والی فاریسہ بن چکی تھی تھر تھر کانپنے والی جسے برزل کی نرم طبعیت اور اس کے پیار نے بدل ڈالا تھا۔

"یہ تو میں بھی نہیں جانتا مگر آپ پریشان نہ ہو برزل بھائی سب سھنبال لیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر جو اندر سے خود بہت پریشان تھا مگر اسے تسلی دیتے ہوئے ریلکیس کرنے لگا۔

آدھے گھنٹے کی مسافت پر وہ لوگ جہاں انکو لے کر آئے تھے وہ ایک ویران علاقہ تھا جہاں دو منزلہ عمارت بھی باہر دیکھنے سے ویران تھی مگر جب وہ اندر گئے تو ایک دروازے سے گزر کر وہ سیڑھیاں اترتے کسی طے خانے میں داخل ہوئے تھے جہاں ان کے علاوہ بھی کچھ لڑکیاں تھیں جن کو دیکھ کر فاریسہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ جان چکی تھی کہ وہ لوگ کس مصیبت میں پھنس چکے تھے۔

"یہاں چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ آواز دروازے کے باہر نہیں جاتی اس لیے کل تک زرا سکون سے ان کے ساتھ رہو تم دونوں پھر کل پتہ چل جائے گا کہ تم لوگ ہمارے کس کس کام آنے والے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہانہ کہتی ہوئی اب فاریسہ کی طرف بڑھی جو خوف سے حیدر کے ساتھ لگی تھی۔

"اور تم فاریسہ اعوان،تمہیں فاریسہ برزل بننے کی سزا ضرور ملے گی آخر کو تم نے شاہانہ کے پیار کو اپنی قسمت کا تاج بنایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ زہر خند لہجے میں بولتی فاریسہ کو نفرت سے دیکھتی چلی گئی فاریسہ نے ڈبڈائی نظروں سے حیدر کی طرف دیکھا جو کہ شاہانہ کی پشت کو گھور رہا تھا پھر اسکی طرف پلٹا۔

"آپ پریشان نہ ہوں جب تک میں زندہ ہوں کسی کی اتنی جرت نہیں کہ آپ کو ہاتھ لگائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اب کیا ہوگا بھائی،برزل کیسے ہمیں بچانے آئیں گئے،انکو تو اس جگہ کا پتہ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا تھا۔

"آپ بیٹھیں یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے ایک کرسی پر اسے بٹھایا اور دوسری پر خود ٹک گیا۔

"آپ دل چھوٹا نہ کریں،برزل اور سلیمان بھائی کا نیٹ ورک بہت سٹرانگ ہے،وہ ہمیں جلد ڈھونڈ لیں گئے،اگر ہمارے موبائل ہوتے تو اس میں لگے ٹریک کی مدد سے وہ فورا ڈھونڈ لیتے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے حیدر نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا اور اسکی آنکھیں چمکی تھیں۔

"ارے یہ تو میں بھول ہی گیا تھا،اس میں ٹریکر لگا ہوا ہے،یہ بھائی نے گفٹ کی تھی دو سال پہلے،بہت خاص گھڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اب کی بار آہستہ آواز میں بولتا اسے بتانے لگا جس پر فاریسہ بھی ہلکی پھلکی ہو گئی۔

"یہ آن کر دیا ہے،اب بھائی دیکھ لیں گئے کہ ہم کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اب کہ ریلکیس ہوتا اٹھ کھڑا ہوا اور ارد گرد کا جائزہ لینے لگا یہ ایک ہال نما کمرہ تھا جس کے ایک طرف پانچ لڑکیاں بیٹھیں تھی کچھ رونے میں مشغول تھیں تو کچھ حیرت اور تاسف سے انکو دیکھ رہی تھیں۔

"آپ لوگ فکر نہ کریں،بہت جلد یہاں سے آزاد ہونگی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پُراعتماد انداز میں ان سے مخاطب ہوا جن کے وجود میں اس اجنبی کی بات پر زرا بھی ہلچل نہ ہوئی تھی۔

"بھابھی آپکا موبائل کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ اسکی طرف پلٹا۔

"میں نے تو کلچ میں ڈالا تھا مگر نکلا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پھر سے پریشان ہونے لگی۔

"حیرت کی بات ہے میرا موبائل بھی میری جیب میں تھا تو کیا گھر میں ہی کسی نے ایسا کیا،کوئی تو تھا جو ان کے ساتھ ملا ہوا ہے کیونکہ ان لوگوں نے ہماری تلاشی نہیں لی جیسے انکو پتہ ہو کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کا دماغ اب کام کرناشروع ہوا تھا وہ گھڑی کی طرف دیکھنے لگا جس میں لگا ٹریکر ابھی تک ریڈ سنگلر دے رہا تھا کہ دوسری طرف سے ابھی اسے ایکٹیویٹ نہیں کیا گیا تھا۔

"بھائی ہم سے لاپروہ نہیں ہو سکتے،یہ نہ ممکمن ہے،میں شہر میں کہیں جاؤں تو وہ امجد کو میرے پیچھے لگا دیتے ہیں اب یوں کیسے وہ انجان رہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کا دماغ اسی کشمکش میں الجھنے لگا تھا۔

        !____________________________!

"حیدر اور بھابھی ائیرپورٹ نہیں پہنچے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امجد کی اطلاع پر سلیمان نے کچھ چونک کر دیکھا تھا یا شاید ایکٹینگ کی تھی۔

"کیا مطلب؟کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ابھی ائیرپورٹ پر رابطہ کیا وہ دونوں ائیرپورٹ پہنچے ہی نہیں اور انکی گاڑی کو ٹریک کیا تو وہ ایک گھنٹے کی مسافت پر کھڑی ہے جب ایک آدمی کو وہاں بھیجا تو ڈرائیور مر چکا تھا اور گاڑی میں نہ حیدر تھا اورنہ بھابھی کا کوئی نام و نشان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امجد بہت پریشان لگ رہا تھا آخر کو برزل اسکی زمعداری مقرر کر کے گیا تھا ان کو بحفاظت پہنچانے کی مگر سلیمان کی وجہ سے وہ مجبور ہو گیا تھا۔

"اوہ یہ تو اچھا سائن نہیں،ایسا کرو تم خود جا کر وہاں دیکھو میں برزل بھائی کو کال کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے کہنے پر وہ چلا گیا سلیمان جو اس کے سامنے موبائل نکال کر نمبر پش کرنے لگا تھا اسے جاتا دیکھ کر مسکرا دیا ااور کسی نمبر پر میسج کرتا ریلکیس اندازمیں بیٹھ گیا۔

"مس زونا کچھ اچھا سا لے آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ وہی سے آواز لگاتا اب ٹی وی کی طرف یوں متوجہ تھا جیسے اس سے بڑا کوئی کام اور ہو ہی نہ۔

              !_________________________!

امجد وہاں کی صورتحال پر غور کرتا اب برزل کو کال ملا رہا تھا۔

"بولو امجد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی آواز کچھ عجلت میں لگی 

"بھائی میں نے سب دیکھ لیا مگر حملہ کرنے والوں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

"کیا مطلب؟کونسا حملہ کونسا سراغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے سوالیہ انداز پر امجد چونکا تھا کیونکہ اسے آئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا تو کیا سلیمان نے ابھی تک برزل کو اطلاع نہ دی تھی۔

"بھائی آپکو نہیں پتہ کہ حیدر اور بھابھی کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"واٹ یہ کیا کہہ رہے ہو،میں آ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف سے برزل کی سختی بھری آواز ٹکڑائی تھی امجد کال بند ہونے پر سلیمان کے بارے میں سوچنے لگا اور پھر دو گھنٹے بعد جب برزل کے حضور وہ پیش ہوا اس نے اپنا خدشہ بیان کر دیا تھا۔

"جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ ان کو سی آف کرنے تم جاؤ گئے تو پھر تم کیوں نہیں گئے امجد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل سب سے پہلے امجد پر برسا تھا۔

"بھائی گستاخی معاف مگر یہ سب کیا سلیمان بھائی کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا مطلب ہے تمہارا امجد،تم جانتے ہو نہ کہ کیا بول رہے اور کس کے آگے کس کے بارے میں بات کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے لہجے میں دبا دبا غصہ تھا مگر امجد بنا ڈرے بولنے لگا۔

"جی بھائی میں سب جانتا ہوں،پہلی بات تو یہ کہ مجھے سلیمان بھائی نے کہا تھا کہ میں ان کے ساتھ نہ جاؤں،دوسری بات جب مجھے پتہ چلا کہ وہ لوگ ائیر پورٹ نہیں پہنچے اور میں نے سب سلیمان بھائی کو بتایا انہوں نے مجھے اس جگہ جانے کا کہا اور بولا کہ وہ آپ کو انفارم کرتے ہیں مگر ایک گھنٹے بعد میں نے آپکو بتایا اتنی بڑی بات آپ سے سلیمان بھائی کیسے چھپا سکتے ہیں،پھر جب میں گھر آیا تو مس زونا نے بتایا کہ سلیمان بھائی کھانا کھا کر تیار ہو کر گھر سے نکل گئے ہیں اور اب انکا نمبر بند ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ حیدر اور بھابھی کا موبائل ان کے روم میں ملا مجھے،یہ سب باتیں کیا ظاہر کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امجد بہت باریک بینی سے جائزہ لے چکا تھا اس کے دلائل اور حقائق ایسے تھے کہ برزل بھی کسی گہری سوچ میں پڑ گیا تھا امجد اندازہ نہ لگا سکا کہ برزل کیا سوچ رہا تھا۔

"تم جاؤ،مجھے پتہ ہے سلیمان کہاں ملے گا اور کل شام تک حیدر اور فاریسہ بھی گھر پر ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اٹل انداز میں کہتا اپنے لیپ ٹاپ کی طرف بڑھا۔

            !____________________________!

"بھائی ابھی تک اسے کنکیٹ نہیں کر رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اب کہ جھنجھلانے لگا تھا بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا وہ فاریسہ کو پریشان لگا تھا۔

"کیا ہوا ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس سے پہلے کہ حیدر کچھ جواب دیتا دروازہ کھلا تھا اور شاہانہ اندر داخل ہوئی اس کے پیچھے دو آدمی اور دس لڑکیاں بھی تھیں جبکہ حیدر کی نظر صرف شاہانہ پر تھی جو اسکی طرف آ رکی تھی۔

"تم چلو ہمارے ساتھ،یہاں بس یہ لڑکیاں رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہانہ کے تحکمانہ انداز پر فاریسہ ڈر کر حیدر کے بازو کو پکڑا تھا وہ ابھی تک اگر ہوش و حواس میں تھی تو صرف اسی وجہ سے کہ حیدر اس کے ساتھ تھا۔

"میں اپنی بھابھی کے ساتھ ہی رہونگا،چاہے جو بھی کر لو تم مجھے ایک انچ بھی ہلا نہیں سکو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کا لہجہ بہت مضبوط تھا جس پر شاہانہ مسکرائی۔

"کیا بات ہے ایک بیوی کا پیارا وہاں اسے ڈھونڈ رہا اور ایک بھابھی کا پیارا یہاں اس کی حفاظت کر رہا،بہت اچھا لگا دیور جی پر کاش تم اس کے بجائے میرے دیور ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہانہ نے حیدر کے چہرے پر ہاتھ رکھا تھا جسے اس نے نفرت سے جھٹکا تھا۔

"اب لگا برزل ابراہیم کے بھائی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ محفوظ ہوئی تھی۔

"آج کی رات یہی رک جاؤ تم یہ تمہاری ہونے والی بھابھی اتنا تو احسان کر ہی سکتی ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسکرائی اور پھر نفرت بھری نگاہوں سے فاریسہ کو دیکھا۔

"اور تم میری سوکن،بہت جلد اس دنیا سے جانے والی ہو،آج کی رات اپنی آخری ہی سمجھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ فاریسہ کا خون خشک کرتی وہاں سے چل دی تو حیدر نے فاریسہ کو ریلیکس کیا۔

"آپ پریشان نہ ہوں وہ تو فضول بکواس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا واقع یہ تمہاری بھابھی بن جائینگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اسکی بات پر حیرانگی سے مڑا تھا مطلب اسے اپنے مرنے والی بات سے زیادہ اس بات پر دھچکا لگا تھا کہ وہ برزل سے شادی کرنا چاہتی تھی اور کہیں ایسا ہو نہ جائے اس ٹف سچویشن میں بھی حیدر ہنس دیا تھا۔

"بھابھی ٹیک اٹ ایزی،بھائی اس طرح کے سفید پاؤڈروں کو پسند نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر مسکراتا ہوا مڑا تھا اور تبھی اسکی نظر ان دس لڑکیوں کے درمیان کھڑی ہانیہ پر پڑی تو وہ ششدر سا اسے دیکھنے لگا جو اسے پہچان کر خود بھی حیران تھی کہ یہی لڑکا اسے اس دن ملا تھا۔

"تم یہاں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے ساختہ اس کے قریب چلا آیا۔

"کون ہو تم،میں نہیں جانتی تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ وہ پہلے والی ہانیہ نہیں تھی یہ تو کوئی ڈری سہمی لڑکی تھی۔

"میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سب کی سوالیہ نگاہوں پر گھبرا گیا اور اپنا تعارف کروانے پر جھجھک کا شکار ہوا آخر کہتا بھی کیا کہ میں صدف ہوں۔

"اوکے ریلکیس مس،میں آپ کو جانتا ہوں،آپکی دوست عروج کو بھی،وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عروج کے نام پر ہانیہ چونکی تھی۔

"اسکا کوئی پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے جو حیدر کو بہت تکلیف دے رہے تھے وہ حیران سی فاریسہ کی طرف مڑا۔

"بھابھی یہ آپکی ہونے والی دیورانی ہے،پلیز اسے دلاسہ دیں کہ ہم یہاں سے نکل جائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ ہانیہ ہے،میں نے زکر کیا تھا نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے سرگوشی کے انداز میں بتانے وہ سر ہلا کر اسکی طرف بڑھی اور پھر اگلے دس منٹ میں حیدر نے دیکھا کہ فاریسہ نہ صرف ہانیہ کو بلکہ سب کے چہرے پر امید کی مسکراہٹ لے آئی تھی۔

               !________________________!

اگلی صبح ہی انکو کچھ کھانے کو مل سکا تھا جس پر وہ سب شکر ادا کرتے کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔حیدر کھانے سے فارغ ہوتا فاریسہ کے پاس آیا جو رات سے ہانیہ کے ساتھ تھی اور ہانیہ بھی اب فاریسہ کے ساتھ اٹیچ ہوتی اب حیدر کے گھورنے پر بھی برا نہیں منا رہی تھی۔

"بھابھی بات سنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ اٹھ کر اس کے پاس چلی آئی۔

"بھابھی کیا بھائی نے کوئی خاص چیز یا خاص بات کی آپ سے کل،کچھ بھی ایسا جو آپکو عجیب لگا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر جو رات سے کڑھیاں ملانے میں لگا ہوا تھا اس سے پوچھنے لگا۔

"نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ سر نفی میں ہلا گئی۔

"شاہانہ کی باتوں سے یہ تو اندازہ ہوا کہ بھائی سب جان گئے ہیں پھر بھائی میری گھڑی میں لگا ٹریکر ابھی تک ایکٹیویٹ کیوں نہیں کر رہے،یہ بات مجھے پریشان کر رہی ہے،حالانکہ یہ گھڑی ہے اسی مقصد کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"کیا پتہ انکو یاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"وہ برزل ابراہیم ہے آپکو نہیں پتہ انکا،وہ دس منٹ سے پہلے یہاں تک پہنچ جاتے اگر ان کو پہچنا ہوتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی بات پر فاریسہ نے حیرانگی سے دیکھا۔

"مطلب وہ جان بوجھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھابھی،ہمیں کسی اور نے نہیں بلکہ آپکے شوہر نے ٹریپ کیا ہے،آخر میں بھی انکا بھائی ہوں اتنے سالوں سے ان کے ساتھ ہوں مگر ہر دفعہ کی طرح میرا زہن لیٹ کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کو کچھ تو سمجھ آنے لگی تھی۔

"نہیں برزل ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے برزل کی امید پر ہی تو وہ سکون میں تھی اور اب برزل ہی سب کر رہا تھا۔

"انہوں نے کر دیا ہے بھابھی،آپ خود سوچیں ہم دونوں دبئی جا رہے تھے مگر ہمارے پاس ہمارے پاسپورٹ نہیں تھے،پھر ریحان جسے ہمارے آنے کا پتہ ہی نہیں تھا بلکہ وہ خود پاکستان آ رہا ہے پھوپھو کے ساتھ نیکسٹ ویک،دوسرا بھائی نے مجھے یہ سب رفیع چاچو سے چھپانے کا کہا پر کیوں؟اسی وجہ سے،ہمارے موبائل میرا پسٹل کیوں غائب ہوا،وہ بھائی جو کالج تک ہمیں سیکورٹی میں جانے دیتا یوں دو گھنٹوں کا سفر بس ڈرائیور کے ساتھ اور اوپر سے ایک رات گزر چکی مگر بھائی ہم سے رابطہ تک نہیں کر پا رہے ایسا نہیں ہو سکتا،آپکو نہیں پتہ بھائی ہر کام پلان سے کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر رات سے اسی نتیجے تک پہنچ پایا تھا تبھی فاریسہ نے اپنے بالوں سے لگا کلپ اتار کر حیدر کے سامنے کیا جس کو حیدر نے حیرانگی سے دیکھا۔

"کل صبح یہ دیا تھا انہوں نے مجھے اور کہا تھا کہ اسے کسی بھی صورت میں اپنے سے الگ نہ کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی بات پر حیدر نے اس کلپ کو کھولا تھا اور پھر مسکرا دیا تھا اس میں لگا ٹریکر اور ایک مخصوص چپ وہ دیکھ چکا تھا۔

"آپ کے شوہر بہت چالاک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ فاریسہ کو دوبارہ اسے بالوں میں لگاتا پرسکون ہوتا مسکرایا تھا۔

"تو بھائی نے ہمیں دو دن کے لیے دبئی نہیں یہاں بھیجا ہے،واو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر محفوظ ہوا تھا مگر فاریسہ ناراض ہو گئی تھی۔

"وہ کیسے ہمارے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں،میں بلکل بات نہیں کرونگی ان سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نارضگی سے کہتی ہانیہ کی طرف چل دی جبکہ حیدر جو اسے کچھ بتانا چاہتا تھا چپ کر گیا ہے۔

"اچھا ہے بھائی زرا آپکو بھی پتہ چلے کیسے چھوٹے بھائی سے کچھ چھپاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

          !_____________________________!

سلیمان گھر آیا تو ہال میں برزل ابراہیم کو دیکھتا رکا تھا پھر ایک نظر امجد کو دیکھا جو بڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"آ گئے آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اس کے قریب آیا۔

"امجد نے مجھے کافی کچھ بتایا تمہارے بارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی آواز پر امجد نے مسکراتی نظروں سے سلیمان کو دیکھا کہ اب تمہاری گیم اوور۔

"اچھا ہم بھی تو سنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ریلکیس ہوتا صوفے پر ٹکا۔

"میرے بھائی اور بیوی کو اغوا کر کر اتنے سکون میں بیٹھے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے گھورا تھا۔

"جی جیسے آپ اپنے بھائی اور اپنی بیوی کو اغوا کروا کر سکون سے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے دوبدو جواب دیا اور پھر دونوں قہقہ لگا کر ہنس پڑے اور امجد،وہ تو بس ہکا بکا دونوں کو مسکراتے دیکھ رہا تھا۔

امجد دونوں کو ہنستا دیکھ کر ہکا بکا تھا جو اب امجد کو دیکھ رہے تھے۔

"لگتا ہے بھائی امجد کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اسکی حیران پریشان شکل دیکھ کر محفوظ ہو رہا تھا۔

"بات بھی تو پریشانی والی ہے نہ سلیمان،میری بیوی اور میرا بھائی اس شاہانہ نامی چڑیل کے قبضے میں ہیں اور میں یہاں بیٹھا ہنس رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے لب و لہجے سے چھلکتی شرارت صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔

"مطلب کہ سب کچھ آپ کے علم میں تھا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امجد جیسے کسی نتیجے پر پہنچا تھا۔

"بھائی کا ہی آئیڈیا تھا میں تو خواہ مخواہ لوگوں کی نظروں میں بدنام ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے امجد کو جتایا جو جز بز ہو گیا۔

"اب مجھے کیا پتہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"امجد نے صفائی دی۔

"اوکے بوائز اب میرے خیال میں اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو جانا چاہئیے کیونکہ میں نے سنا ہے کہ حیدر کا دماغ کام کر گیا ہے اور اس نے میری بیوی کو بتا دیا ہے جو مجھ سے ناراض ہو چکی ہے اگر میں نے ایک دن اور لیٹ کیا تو وہ مجھے دیکھنا ہی چھوڑ دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل جو فاریسہ کے کلپ میں لگے وائس ٹریکر سے سب سن چکا تھا اب کچھ بے چین نظر آ رہا تھا امجد اور سلیمان نے بے ساختہ اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی کہ سب کو ڈرا کر رکھنے والا آج اپنی بیوی کی ناراضگی سے ڈر رہا تھا۔

"سلیمان مسکراؤ مت ورنہ میں ہر چیز تم پر ڈالتا خود صاف بچ نکلونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اسے مسکراتا دیکھ کر گھورنے لگا اسکی بات پر سلیمان کے لب سکڑے تھے کیونکہ اسے پتہ تھا وہ ایسا کر بھی سکتا تھا آخر برزل ابراہیم کے سامنے سلیمان کی سنتا بھی کون تھا اسکا سگا باپ تک نہیں۔

"چلو اب جو کہا ہے اس پر عمل کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔

         !____________________________!

"ہانیہ آپ یہاں کیسے آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کے سوال پر ہانیہ نے ایک نظر اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں محبت اور احترام کی روشنی صاف نظر آ رہی تھی وہ فاریسہ کی طرف دیکھنے لگی جیسے چاہ رہی ہو کہ وہ ہی جواب دے کیونکہ وہ رات کو فاریسہ کو سب بتا چکی تھی۔

"حیدر یہ اکیلی نہیں بلکہ سب لڑکیاں یہاں ہیں جو اس سہارا فاؤنڈیشن میں تھیں،جیسا کہ تم مجھے بتا چکے ہو کہ تم بھی وہاں اسی وجہ سے گئے تھے کہ وہ لوگ بے سہارا عورتوں کو سہارا دے کر پھر انکو یہاں تک لاتے ہیں اور پھر انکو آگے بیچ دیتے ہیں،کس قدر ظالم لوگ ہیں خدا کا قہر ٹوٹے گا ان پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ تو رات سے ایسے ایسے انکشافات سن اور دیکھ رہی تھی کہ وہ ہل کر رہ گئی تھی کہ وہ کس دنیا میں آج تک جیتی آئی تھی کہ باہر کی دنیا میں ہونے والے مظالم وہ جان ہی نہ پائی تھی۔

"اور عروج،اسکا کیا ہوا،وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی پھر سے حیدر نے ہانیہ کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔

"آپ کیسے جانتے ہیں اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کے یوں براہ راست کیے جانے والے سوال پر وہ دو پل کو چپ ہوا تھا پھر کہہ اٹھا۔

"کیونکہ میں صدف بن کر کافی دن تم لوگوں کے ساتھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے اسے سچائی بتانے کا سوچ لیا تھا کیونکہ وہ اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا تو سب سچ بتا کر ہی وہ ایسا کرنا چاہتا تھا۔

ہانیہ منہ کھولے ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی اب اسے پتہ لگا تھا کہ وہ حیدر کو دیکھ یہی سوچتی تھی کہ اسے کہیں دیکھا ہے اب حقیقت اس کے سامنے کھلی تھی۔

"کیا،آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ صدمے میں تھی کہ کس قدر وہ ان کے جذبات کے ساتھ کھیلتا انکو بیوقوف بناتا رہا تھا۔

"ہاں میں ہی وہ روپ لیے ہوئے تھا اگر یقین نہیں تو بھابھی سے پوچھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ حیدر نے اسکی توجہ خاموش بیٹھی ہانیہ کے تاثرات کا جائزہ لیتی فاریسہ کی طرف اشارہ کیا تھا۔

"آپ نے اتنا بڑا دھوکہ دیا ہمیں،ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلے آپ،کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

"یہ جو سہارا فاؤنڈیشن نے آپ لوگوں کو دھوکہ دیا اس کے مقابلے میں تو میں کچھ بھی نہ تھا اور دوسری بات میرا مقصد میری نیت غلط نہیں تھی بلکہ سہارا فاؤنڈیشن کا اصلی گھناؤنا چہرہ سب کے سامنے لانا تھا تا کہ آئندہ سے آپ جیسی کوئی ہانیہ کوئی عروج ان کے ہتھے نہ چڑھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نے کمال مہارت سے ہانیہ کا غصہ کم کیا تھا۔

"ہاں ہانیہ،حیدر تو وہ روپ نہیں لینا چاہتا تھا مگر میرے شوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کی زبان سے نکلنے لگا مگر اسے یاد آیا کہ وہ تو ناراض تھی اس لیے بات پلٹ دی۔

"حیدر کے بھائی نے مجبور کیا تھا،اور مجھے بھی یہ سب رات کو ہی پتہ لگا ورنہ میں بھی اس سب سے لا علم تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اصل میں برزل بھائی ایک سیکرٹ ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں وہ ان لوگوں تک پہنچنا چاہتے تھے جن جن کا ان کرائمز میں ہاتھ تھا،ہمیں بھی وہی اور تمہیں بتانے کا یہ مقصد ہے کہ تم اب ہماری فیملی کا حصہ بننے جا رہی ہو اور تمہیں سب پتہ ہونا چایئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ جو بڑے دھیان اور نرمی سے سب سن رہی تھی اس کی آخری بات پر چونکی تھی۔

"یہاں سے نکلتے ہی میں تمہیں اپنی دیورانی بنانے والی ہوں کیونکہ تم نہ صرف حیدر کی پسند ہو بلکہ مجھے بھی بہت اچھی لگی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ کو یہ بھول گیا تھا کہ وہ لوگ اغوا ہوئے تھے کسی کی قید میں تھے۔

"یہ سچویشن یہ جگہ ایسی تو نہیں ہے مگر میں وہ پہلا لڑکا ہونگا جو یوں اس طرح کے حالات میں اپنی بھابھی کے سامنے کسی کو پرپوز کر رہا ہوں پر میں آج موقع نہیں گنوانا چاہتا ہوں،میں تمہارے بارے تمہارے ماضی کے بارے سب کچھ جانتا ہوں اور آج کے بعد تم میرے منہ سے تمہارے ماضی کے بارے کبھی کوئی سوال کوئی بات نہیں سنو گی،میں پوری عزت اور دل کی رضامندی کے ساتھ تمہیں اپنانا چاہتا ہوں کیا تمہیں میرا ساتھ قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر ایک جذب سے کہہ رہا تھا اور ہانیہ ساکت سی ٹک ٹک اسے دیکھی جا رہی تھی جتنا کچھ وہ کر چکی تھی اس کے بعد اس طرح کا صلہ یا معافی وہ تصور بھی نہ کر سکی تھی کیا اللہ یوں بھی معاف کر دیتا ہے۔

"میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر حیدر نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے بولنے سے روک دیا تھا۔

"تم ہاں ناں کا آپشن رکھتی ہو مگر پلیز ایک دفعہ مجھ پر اعتبار کر کے دیکھ لو میں کبھی بھی تمہارا اعتبار ٹوٹنے نہیں دونگا،محبت سے پہلے عزت کا رشتہ قائم کرونگا،چاہو تو مجھ سے کوئی گارنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"نہیں مجھے آپکی آنکھوں سے چھلکتی محبت سے زیادہ کسی گارنٹی کی ضرورت نہیں ہے،میں اس قابل تو نہیں تھی کہ اللہ مجھ پر یوں کرم کرتے مگر وہ بہت بے نیاز ہے،اپنے بندے سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اسکی ہر خطا معاف کر دیتا ہے،آپ میرے اللہ کی طرف سے انعام ہیں مجھے قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہانیہ کے لبوں سے نکلتے الفاظ حیدر کے ساتھ ساتھ فاریسہ کو بھی خوشی سے نہال کر گئے۔

"بہت شکریہ،مجھے میری محبت کو قبول کرنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکا ہاتھ ہلکے سے دباتا وہ اٹھ کھڑا ہوا جبکہ فاریسہ نے بے اختیار ہانیہ کو اپنے ساتھ لگایا تھا۔

         !____________________________!

برزل ابراہیم جس نے سارا پلان صرف نینا کی وجہ سے کیا تھا جس آدمی کے ساتھ اس نے نینا کو پانچ سال پہلے دیکھا تھا اسی آدمی کے ساتھ شاہانہ کو دیکھنے پر وہ سلیمان کو اس لڑکی کے پاس بھیجنے پر مجبور ہوا تھا جو کہ برزل ابراہیم کو دو دفعہ کلب میں مل چکی تھی اور برزل کے ساتھ کی بھی خواہش مند تھی مگر جب برزل نے اسے دھتکارا تو سلیمان کو شاہانہ کے قریب ہونے کا موقع مل گیا پھر سلیمان نے خود کو برزل کا دشمن ظاہر کیا جو اس سے بدلہ لے رہا تھا اور اپنی نفرت کا اظہار کرکے اسے یقین دلانے کے لیے وہ شاہانہ کو برزل کے وہ سیکرٹ اوپن کرنے لگا جو برزل چاہتا تھا کہ انکو پتہ چلے۔

سلیمان چاہتا تھا کہ شاہانہ اسے اس آدمی تک لے جائے جو ان کو نینا تک لے جائے گا مگر سلیمان صرف یہ جان سکا تھا کہ نینا ابھی بھی اس آدمی کے پاس ہے مگر یہ نہیں کہ کہاں اور یہ کہاں'معلوم کرنے کے لیے آخرکار برزل کو ایک بڑا فیصلہ لینا پڑا اور وہ تھا فاریسہ کو وہاں تک بھیجنا مگر وہ اکیلی فاریسہ کو بھیج کر کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا اس لیے سلیمان کے زریعے وہ شاہانہ تک یہ بات پہنچانے میں کامیاب ہوا تھا کہ حیدر کو اغوا کرنے میں بھی شاہانہ کو فائدہ تھا کہ برزل اسکی ہر بات مان لے گا یہاں تک کہ اس سے شادی بھی کر سکتا تھا۔

"تم جانتے ہو نہ کہ کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس ویران علاقعے میں پہنچ کر برزل نے ایک بار پھر سلیمان کو کچھ باور کروایا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان کی زرا سی کوتاہی حیدر،فاریسہ اور نینا کے لیے کسی پریشانی کا باعث بنے۔

"بھائی آپ فکر نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے یقین دہانی کروائی اور پراعتماد انداز میں چلتا اندر کی طرف بڑھ گیا جبکہ برزل اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ اسکے سگنل کا انتظار کرنے لگا۔

سلیمان کو دیکھ کر وہاں موجود گارڈز نے شاہانہ کو بلایا تھا جو سلیمان کو سامنے پا کر مسکرائی تھی۔

"آؤ،آؤ،تمہارا ہی انتظار تھا،آج برزل ابراہیم کو سپرائز دینے کا دن ہے جو تمہارے بغیر ممکمن نہیں تھا............"

"مگر میں سب سے پہلے حیدر کو اپنا اصلی چہرہ دکھا کر دھچکا دینا چاہتا ہوں تا کہ اسے پتہ چلے کہ مجھ پر روب چلانے کا وہ کتنا برا انجام دیکھے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس وقت شاہانہ کو وہی نفرت اسکی آنکھوں میں نظر آئی جسے وہ دو سالوں سے دیکھتی آ رہی تھی۔

"کیوں نہیں،آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسے اپنے ساتھ لیے تہہ خانے کی سیڑھیاں اترنے لگی سلیمان نے اپنے ٹائی پن پر لگا کیمرہ اچھی طرح فوکس کیا تا کہ باہر بیٹھا برزل سب دیکھ سکے۔

"سلیمان بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اسے دیکھ کر خوشگوار لہجے میں بولتا اٹھا تھا فاریسہ اور ہانیہ(جسے وہ سب بتا چکے تھے)وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"شاہانہ تم نہیں جانتی کہ تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے ان کو اس قید میں رکھ کر،اب برزل ابراہیم سے سارے حساب بے باق کرنے کا ٹائم آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے الفاظ تینوں کو ساکت کر گئے حیدر نے اپنے دماغ کو ہلا کر اسے اپنے ٹھکانے پر لایا اور غور سے سلیمان کی طرف دیکھا جس کی شرٹ پر لگا ٹائی پن اسے بہت کچھ سمجھا چکا تھا کیونکہ ایسا پن ان دونوں کے پاس تھا جو برزل نے ہی دیا تھا حیدر جیسے ریلیکس ہوا تھا مگر فاریسہ تو سلیمان کی شکل میں دکھائی دیتی امید کا سرا ہاتھ سے نکلنے پر آبدیدہ سی ہو گئ۔

"بھائی آپ یہ کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ مائے سویٹ انوسینٹ بھابھی،آپکو ابھی میرا پتہ ہی نہیں کہ میں کیا کیا کچھ کر چکا ہوں اور کرنے والا ہوں،وہ آپکا شوہر جو مجھ پر بہت اعتبار کرتا ہے مجھے اپنا رائٹ ہینڈ سمجھتا ہے اسے یہ نہیں معلوم کہ میں اسے کیسا سپرائز دینے والا ہوں،تم دونوں سے نبٹنے کے بعد اسکی باری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کے لہجے میں نفرت درشتگی اور کھٹیلا پن صاف نظر آ رہا تھا۔

"شاہانہ ڈارلنگ چلو چلتے ہیں ان کے لیے اتنا ہی دھچکا کافی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شاہانہ کا ہاتھ پکڑ کر چلا گیا تو فاریسہ کے کب سے رکے آنسو بے اختیار ہو گئے وہ سلیمان کے اس روپ پر ابھی تک بے یقین تھی۔

"بھابھی ریلکیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اسکے زرد رنگ کو دیکھ کر گھبرایا تھا۔

"آپ نے دیکھا،یہ وہ سلیمان بھائی تو نہ تھے،برزل نے کتنا یقین کیا ان پر وہ کیسے برداشت کریں گئے اتنی بڑی سچائی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ بھی آپکے شوہر کا کارنامہ ہے بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر جو اتنے جھٹکوں پر خود حیران و پریشان تھا آخرکار جھنجھلا گیا۔

"کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"سلیمان بھائی آنسہ پھوپھو کے بیٹے ہیں،وہ ایسے کیسے کر سکتے ہیں یقیننا اس سب کے پیچھے بھی آپکے شوہر کا ہاتھ ہے ویسے بھی وہ بہت بڑے پلان میکر ہیں،آپکو نہیں پتہ وہ چٹکیوں میں کیا کیا کھیل کھیل جاتے ہیں کہ ہمارے جیسے معصوم دھچکوں کی زد میں ہی رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر اب کے اپنا سارا غصہ نکال رہا تھا۔

"میں ان سے اب کبھی بات نہیں کرونگی،پہلے تو ہمیں یہاں پھنسایا اور اب سلیمان بھائی کو یہ سب کرنے لے لیے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خود سے عہد کرتے ہوئے بول اٹھی اور حیدر بھی یہی چاہتا تھا کیونکہ وہ تو برزل سے کوئی بھی سوال جواب کرنے کی ہمت نہیں پاتا تھا بس فاریسہ کے زریعے ہی اپنا بھی بدلہ لینا چاہتا تھا۔

            !_____________________________!

"بھائی میں چاروں تہہ خانوں میں دیکھ چکا ہوں نینا یہاں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان جسکا مقصد ہی یہاں آنے کا یہ تھا وہ پن کیمرہ کے زریعے برزل سے بولا جو خود بھی سب دیکھ چکا تھا اب کچھ پریشان ہوا تھا صرف نینا کی وجہ سے تو وہ فاریسہ کو یہاں بھیجنے پر مجبور ہوا تھا۔

"پر حملہ تو کرنا پڑے گا،نہ صرف حیدر اور فاریسہ کے لیے بلکہ یہاں موجود ان پچاس لڑکیوں کے لیے بھی جو نجانے کب سے اس دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں،تم ایسا کرو بس کسی طرح ان سب کے موبائل سروس کو ہیک کرو تا کہ باہر سے کوئی ہم پر حملہ نہ کر سکے باقی یہ شاہانہ اور اس کے بیس چیلے تو ہمارے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوکے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کہتا ہوا وہی کرنے لگا جو برزل نے کہا تھا پھر اگلے بیس منٹ میں وہ سب کو اپنے قابو میں کر چکے تھے۔

"اوہ بلڈی باسٹرڈ،تو تم نے دھوکہ دیا ہمیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شاہانہ سلیمان کو غصے سے دیکھتی چلائی تھی جس نے ایک جلی ہوئی مسکراہٹ اس پر پھینکی تھی۔

"تم جانتی ہو کہ میں کس کا بیٹا ہوں،اس کرنل رفیع کا جس کے ڈر سے پورا نائن گروپ کانپ رہا تھا جس نے برزل بھائی کو تم لوگوں کی تباہی کے لیے یہاں بھیج کر تم سب کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے،تو میں کیسے برزل بھائی کے خلاف اپنے بابا کے خلاف جا سکتا تھا. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اوہ تو تمہارا پلان تھا یہ مگر یہ سب کر کے بھی تم لوگ نائن گروپ کا کچھ نہیں بگاڑ پاؤ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یہ تو اس بندے کی اگلی چال تک ہے،تمہارے اینڈ کے بعد وہ بندہ انہیں کا اینڈ کرنے والا ہے،شاید تم یہ نہیں جانتی کہ وہ بندہ کس شکل اور روپ سے نائن گروپ میں گھس چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان برزل ابراہیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا جو سب لڑکیوں کو سپاہیوں کے ساتھ سیو جگہ پر پہنچا رہا تھا۔

"نینا تو پھر بھی نہیں ملے گی تم لوگوں کو،کیونکہ وہ یہاں نہیں ہے جہاں وہ ہے وہاں تک پہنچنا برزل ابراہیم کے لیے ناممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار وہ چلائی تھی جس پر برزل ابراہیم شان بے نیازی سے چلتا اس کے قریب آیا تھا۔

"اسکی فکر تم مت کرو،یہ غلط فہمی بھی میں ابھی پوری کر دونگا،تم بس اپنے انجام کی پرواہ کرو،سلیمان مجھے ایسے لوگ زمین پر چلتے پھرتے زرا اچھے نہیں لگتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"جی بھائی میں سمجھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان اسکا اشارہ سمجھتا پسٹل نکال گیا برزل وہاں سے حیدر اور فاریسہ کے پاس آیا جو اس کی طرف دیکھنے سے بھی گریزاں تھے برزل کو یاد تھا جب وہ ان کو آزاد کروانے اس تہہ خانے میں گیا تھا تب بھی دونوں نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی اور خاموشی سے باہر چلے گئے تھے۔

"تم لوگ ٹھیک ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں کی خاموشی پر کھلنے لگا تھا فاریسہ تو امجد کو چلنے کا اشارہ کرتی ہانیہ کو ساتھ لیے گاڑی میں جا بیٹھی تھی اور حیدر بھی فاریسہ کے ساتھ بیٹھ گیا وہ بھی فاریسہ کا ساتھ پا کر شیر بنا ہوا تھا اور دل ہی دل میں برزل کی بے بسی پر محفوظ ہو رہا تھا۔

"امجد تم ان کو گھر چھوڑ کر دوبارہ یہاں مت آنا،اوکے اب جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل امجد سے بولتا ہوا واپس پلٹ آیا جہاں سلیمان اسکا ہی منتظر تھا۔

"سب کا کام تمام کر دیا ہے مگر کسی کے منہ سے بھی نینا کے بارے ایک لفظ نہیں نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دو پل کو وہ رکا۔

"مگر جب اس آدمی کو پکڑا تھا تو اس نے یہی کا بتایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان نے سوالیہ نگاہوں سے برزل کو دیکھا جو کچھ سوچ رہا تھا۔

"سر ہر جگہ دیکھ لیا ہے،اب اس بلڈنگ کو آگ لگا دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یاسر ان کے پاس چلا آیا۔

"ہاں لگانی تو آگ ہی ہے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ نائن گروپ کو ابھی اس بات کی بھنک ہی پڑے کی کسی نے پلان کے طور پر یہ سب کیا ہے جب تک میرے ہاتھ انکی گردنوں تک نہ پہنچ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔

"اور نینا،اسکا کیا اب،اس فیلڈ میں آنے کی پہلی وجہ نینا دوسری وجہ نازر اعوان اور تیسری وجہ ملک دشمن عناصر تھے،آخری والی دونوں وجوں پر آپکو کامیابی ملی ہے مگر پہلی وجہ تو پھر وہی رہ گئی،جب تک نینا پاکستان میں ہے تب تک ہی ہمارے لیے آسانی ہے ورنہ تو ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یو ڈونٹ وری سلیمان،نینا یہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سلیمان کو چونکاتا آگے بڑھنے لگا سلیمان اور یاسر بھی اس کے ساتھ آئے جو اندر آ کر شاہانہ کے موبائل سے چھیڑ چھانی کر رہا تھا پھر اگلے پانچ منٹ میں ہی اس نے سکرین سلیمان کے آگے کی جہاں ایک پیغام لکھا تھا۔

"سر نے کہا ہے ان پچاس لڑکیوں کو آج رات ہی آگے سپلائی کرنا ہے جبکہ وہ نینا نامی لڑکی سیدھی ہمارے پاس لائی جائے گی کیونکہ اس کا ریلیشن کرنل رفیع سے نکلا ہے اور وہ ہمارے بہت کام آنے والی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

"یہ،مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان الجھا جس کی الجھن برزل نے دور کی۔

"یہ میسج آج صبح شاہانہ کو ریسیو ہوا مطلب یہ کہ اج رات ہی یہ سب ہونے والا تھا،تو پھر نینا یہی ہوئی نہ،جب شاہانہ اور اس کے باس کو معلوم ہوا کہ نینا کرنل رفیع کی بھانجی ہے تو انہوں نے شاہانہ کو اسے ان لڑکیوں سے الگ رکھنے کا کہا کیونکہ اب وہ ان کے لیے خاص مہرہ ثابت ہونے والی تھی تو خود سوچو کہ اگر یہ میسج شاہانہ کو آیا ہے تو شاہانہ کو پتہ تھا اسکا کہ وہ یہاں ہے مگر اس نے بتایا نہیں کیونکہ وہ یہ تو جانتی تھی کہ ہم اسے ہر حال میں مار دیں گئے اس لیے وہ ہمیں نہ بتا کر اپنی طرف سے ہم سے بدلہ لے گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"مگر ہم نے تو کونہ کونہ چھان مارا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یاسر نے لب کشائی کی۔

"وہ کونوں میں نہیں شاہانہ کی گاڑی کی ڈگی میں ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کی بات پر دونوں حیران ہوئے۔

"میرا دماغ ہمیشہ دشمن سے ایک فٹ آگے چلتا ہے،جب ہم نے سلیمان کو اندر بھیجا تب شاہانہ کہیں جانے لگی تھی اس کی گاڑی ریڈی تھی مگر سلیمان نے اسے اپنی باتوں میں الجھا کر روک لیا تھا تو اس بات کا مطلب یہی کہ شاہانہ نینا کو ہی کہیں لےکر جانے والی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے کہتے ہوئے بلڈنگ سے باہر کھڑی تین گاڑیوں کی طرف بڑھے ایک گاڑی جو شاہانہ کے استمال میں تھی سلیمان اسے فورا پہچان گیا تھا برزل تب تک گاڑی کا لاک کھولنے میں کامیاب ہو چکا تھا ڈگی کو ان لاک کرتا وہ ڈگی کی طرف آیا اور وائٹ چادر میں بیہوش نینا ان کے سامنے تھی جسے دونوں فورًا پہچان چکے تھے۔

"نینی،نینی آنکھیں کھولو،میری جان دیکھو بھائی آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اس کے گال تھپتھپاتا اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا مگر بے سود برزل نے اسکی کلائی پکڑ کر نبض چیک کی جو بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔

"میں اسے گھر لے کر جا رہا ہوں اسے ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے،تم لوگ اپنا کام کر لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سلیمان سے کہتا نینی کے بیہوش وجود کو اپنی بانہوں میں بھرتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تھا۔

       !_______________________________!

وہ اسے سیدھا گھر لایا تھا مس زونا کو ڈاکٹر کو کال کرنے کا بول کر وہ اسے اپنے کمرے میں لایا تھا فاریسہ اور حیدر جو ہانیہ کو اسے دیے گئے ایک کمرے میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے برزل کی آواز پر باہر نکلے تھے اور ایک وجود کو اٹھائے دیکھ کر اس کے پیچھے ہی لپکے تھے۔

"بھائی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر بولتا اندر داخل ہوا تھا مگر جب اسکی نگاہ نیلے رنگ کے عام سے لباس میں ملبوس نینا پر پڑی تو اس کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔

"نینی،میری بہن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خوشی سے اسکے قریب چلا آیا جو آنکھیں بند کیے ان سب چیزوں سے نا واقف تھی۔

"نینی مل گئی،شکر ہے میرے اللہ،نینی آنکھیں کھولو،کیا ہوا ہے اسے،بھائی یہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر نینا کو جھنجھورنے لگا تھا برزل حیدر کی کیفیت کا اندازہ کرتا اس کے قریب آیا۔

"وہ ابھی ہوش میں نہیں،ڈاکٹر آ رہا ہے،تم پریشان مت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی تھی فاریسہ اور ہانیہ یک ٹک اس بیس سالہ لڑکی کی طرف دیکھ رہے تھے جسکی شکل حیدر اور برزل سے ملتی جلتی تھی۔

ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد بتایا کہ وہ زہنی پریشانی کی وجہ سے بیہوش ہوئی تھی اسے اب اچھی خوراک اور اچھے ماحول کی ضرورت تھی۔

"میرے خیال میں یہ تھوڑی دیر تک ہوش میں آ جائے گی،فاریسہ تم اور ہانیہ اس کے پاس ہی رہنا اور حیدر تم بھی،کیونکہ نینی کی دونوں بھابھیاں ابھی اس کے لیے انجان ہیں اس لیے یہ نہ ہو وہ ڈر جائے،تمہیں دیکھ کر وہ سب سمجھ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے نرم اور ہلکے پھلکے رویعے پر جہاں ہانیہ پرسکون ہوتی مسکرائی تھی وہی حیدر بے اختیار اس کے گلے لگا تھا۔

"تھینکیو سو مچ بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی آواز میں ہلکی سی نمی گھل گئی تھی برزل نے اسکی پشت تھپتھپا کر اس کا سر چوما تھا حیدر اور نینا کی شکل میں دو ہی تو اسکا خاندان تھے اب وہ فاریسہ کی طرف دیکھنے لگا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی مگر اس کے دیکھنے پر نظریں پھیر گئی برزل کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھو لیا۔

"میں آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل حیدر سے کہتا چلا گیا۔

پھر جب نینا کو ہوش آیا تب ایک بار پھر جذباتی منظر دیکھنے کو ملا تھا وہ اپنے دونوں بھائیوں کو پا کر جہاں خوش ہوئی تھی وہی اپنے مما پاپا اور بڑی مما اور بڑے پاپا کی وفات پر دکھی بھی ہوئی تھی۔

"مجھے لگا میں اب کبھی بھی آپ سے مل نہیں پاؤنگی،میں نے اپنے مرنے کی بہت دعائیں کی،کئی دفعہ خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی مگر ہر دفعہ بچ گئی اور اپنے بچ جانے پر مجھے رونا آتا تھا اب پتہ لگا کہ اللہ مجھے کیوں بچانا چاہتے تھے،صرف اپنے بھائیوں سے ملنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نینا نم لہجے میں بولی وہ برزل کے کندھے کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور حیدر کا اس نے ہاتھ پکڑا ہوا تھا جبکہ سلیمان۔فاریسہ اور ہانیہ ان تینوں بہن بھائیوں کے ملن کو مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔

"گزرے اذیت بھرے پل،وہ تکلیف زدہ باتیں تم اب سب کچھ بھول جاؤ کیونکہ اب تم اپنے گھر اپنے بھائیوں کے پاس ہو،اب میرا تم سے وعدہ ہے کہ میں تم تک کسی بھی تکلیف کو آنے نہیں دونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا جس پر وہ مسکرا دی۔

"ہمارا تعارف تو کروائیں سویٹ کزن سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان کی مسکراتی آواز پر نینا نے سلیمان کی طرف دیکھا تھا اور نہ جانے کیوں اسے دیکھنا اسے اچھا لگا تھا۔

"یہ آنسہ پھوپھو کے بیٹے ہیں سلیمان،تمہیں یاد تو ہوگا بچپن میں ہم انکے گھر بہت رہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے مسکرا کر تعارف کروایا۔

"اور یہ فاریسہ بھابھی ہیں برزل بھائی کی زوجہ محترمہ اور یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور یہ ہماری ہونے والی بھابھی مطلب کہ حیدر صاحب کی ہونے والی گھر والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"حیدر کی بات کو سلیمان نے اچک لیا تھا جس پر سب مسکرائے تھے اور ہانیہ کے گال سرخ ہوئے تھے۔

"سر کھانا لگ چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مس زونا کی اطلاع پر سب نے سر ہلا کر آنے کا اشارہ کیا تھا۔

سلیمان کے نمبر پر پاپا کالنگ کے الفاظ چمکے تو وہ گہرا سانس بھرتا کال یس کرتا موبائل کان سے لگا گیا۔

"یہ کیا کرتے پھر رہے ہو تم لوگ،کیسے برزل نے یہ رسک لیا فاریسہ اور حیدر کو وہاں پہنچانے کا،اور بنا مجھ سے بات کیے تم لوگوں نے ان سب لوگوں کا صفایا کر دیا،کم از کم مجھے تو لا علم نہ رکھتے تا کہ خدا ناخواستہ اگر کچھ برا ہو جاتا تو میں کچھ کر لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دوسری طرف سے کرنل رفیع کی  غصے سے بھڑکیلی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکڑائی تو اس نے برزل کو دیکھا جو اسکا اڑا رنگ دیکھ کر معاملہ سمجھ چکا تھا اور اب محفوظ ہوتا مسکرا رہا تھا۔

"پاپا میں نے کچھ نہیں کیا یہ سارا آپکے لاڈلے کا پلان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان دونوں طرف سے پیس کر رہ جاتا تھا۔

"مجھے بتانے کو بھی کیا اس نے منع کیا تھا،حد ہے نالائقی کی،تمہاری ممی اور ریحان آ رہے ہیں نیکسٹ ویک تب آؤنگا میں،پھر تمہارے اور تمہارے اس فیورٹ بھائی کے کان کھینچونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کرنل رفیع نے کہہ کر کال بند کر دی تو سلیمان نے تشکر کا سانس لیا۔

"شکر ہے مما آ رہی ہیں وہ بچا لیں گی مجھے،ورنہ میں بھی سارا الزام ان کے لاڈلے پر ڈال دونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان بڑ بڑایا اور ڈائینگ ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے اسکی نظر حیدر کی کسی بات پر مسکراتی ہوئی نینا پر پڑی تو وہ دیکھتا رہ گیا جو فاریسہ کے گرین لباس میں بالوں کو کیچر میں مقید کیے بہت خوبصورت لگی تھی۔

"تو آخرکار میری تلاش بھی ختم ہوئی،مما آپ جلدی آئیں تا کہ اس نیک کام میں اور دیری نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سلیمان مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں کہہ اٹھا۔

            !______________________________!

برزل رفیع چاچو سے بات کر کے کمرے میں آیا تو فاریسہ کو سر تک کمبل میں لیٹے دیکھ کر حیران ہوا کہ دس منٹ پہلے جب وہ نینا کے پاس سے اٹھا تھا تب یہ سب اس کے کمرے میں تھے تو کیا دس منٹ میں ہی وہ کمرے میں آ کر سو چکی تھی۔

"اوہ تو محترمہ میری وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کو سارے معاملے کی سمجھ آئی تھی وہ دیکھ رہا تھا کہ فاریسہ اس سے نہ بات کر رہی تھی نہ دیکھتی تھی اب بھی وہ برزل کے آنے سے پہلے سو جانا چاہتی تھی تا کہ اسے پتہ چل سکے کہ وہ اس سے بہت ناراض تھی۔

برزل نے دروازہ بند کیا اور موبائل ٹیبل پر رکھ کر جوتا اتار کر وہ اس کے ساتھ لیٹ گیا۔

"فاریسہ،کیا سو گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے ہلتے پاؤں کو دیکھتا ہوا بولا جس کی حرکت فورًا رکی تھی برزل مسکرا دیا پھر تھوڑا سا اسکے قریب ہوتا وہ اسی کمبل میں گھس گیا مگر فاریسہ نے کروٹ لے کر چہرہ دوسری طرف کر لیا۔

"اف بیوی کیا اب ناراض رہ کر جان لو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا جسے جھٹک دیا گیا تھا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ کچھ سوچنے لگا پھر شرارت سے اسکے بالوں کو ہاتھ میں لپیٹ کر اپنے لبوں سے لگایا مگر دوسری طرف کچھ اثر نہ ہوا۔

"برزل ابراہیم کاش بیوی کو منانے کے طریقے ہی پوچھ لیتے کسی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑایا پھر اسکی طرف کروٹ کر کے وہ اسکی قمر پر ہاتھ پھیرنے لگا جس سے دوسری طرف منہ کیے ہوئے فاریسہ دھک ہوئی اپنی قمر پر تھرکتی اسکی انگلیاں اسے عجیب سے احساس میں گرفتار کر گئیں اب وہ ہاتھ آہستہ آہستہ چلتا اس کے پیٹ پر آیا تھا اور یہی فاریسہ کی ہمت جواب دے گئی وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔

"شرم کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دھک دھک کرتے دل کو سمبھالتی اسے بول گئی جو اپنی کامیابی پر مسکراتا ہوا اسے پیچھے سے گرفت میں لے چکا تھا۔

"میری جان ناراض ہے اور اسے منانے کے لیے اگر بے شرم بھی بننا پڑا تو بن جاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے کہتے ہوئے اسکے چہرے کے ساتھ چہرہ مس کیا تھا۔

"آپ بہت برے ہیں،آپ سے مجھے بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ سخت خفا تھی برزل نے اسکا رخ اپنی طرف کیا۔

"میں جانتا ہوں میری جان اور تمہیں ناراض ہونے کا حق بھی ہے مگر پچھلے چار گھنٹوں سے جو تم مجھے اگنور کر رہی ہو بات نہیں کر رہی دیکھ نہیں رہی یہی سزا بہت ہے میرے لیے،اب چھوڑ دو یہ ناراضگی پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں کے کر وہ التجائیہ لب و لہجے میں کہتا اسے پگھلا گیا مگر یاد آنے پر وہ بول اٹھی۔

"آپ نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا،یہ سب باتیں حیدر بھائی نے بتائیں کہ آپ اصل میں کیا کرتے ہیں،آپ مجھے اغوا کروانے سے پہلے مجھے بتا تو سکتے تھے نہ تا کہ مجھے تکلیف تو نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے شکوے پر وہ شرمندہ ہوا۔

"ائم صوری میری جان مگر مجھے یہ سب نینا کو واپس لانے کی وجہ سے کرنا پڑا، اور جہاں تک تمہیں نہ بتانے کی بات ہے تو وہ میں کسی ٹائم کا انتظار کر رہا تھا مگر بتا نہیں سکا،بٹ آج سے پرامس میں اب کچھ بھی تم سے چھپاؤنگا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اسکا ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتا وہ وعدہ کر رہا تھا اور فاریسہ جانتی تھی کہ برزل ابراہیم جھوٹا وعدہ نہیں کرتا تھا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسکرا کر بولتی برزل کو ہلکا پھلکا کر گئی مگر اگلے لمحے ہی پھر سے ایک سوال پر برزل کو الجھا گئ۔

"وہ لڑکی کہتی تھی کہ وہ آپ سے شادی کر لے گی،کیا آپ اسے میری سوکن بنا دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ارے میں پاگل ہوں کہ ایسا کرونگا،تم سے محبت کرتا ہوں تم سے پہلے کسی کو نظر بھر کر نہیں دیکھا تمہارے ملنے کے بعد تو صرف تمہارا ہو کر رہ گیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"محبت سے چور لہجہ تھا فاریسہ کے دل میں جیسے ٹھنڈی پھواڑ برسنے لگی۔

"اور مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ تم میرے لیے اتنی پوزیسو ہو،کیا اتنی محبت کرتی ہو مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل کے شرارتی سوال پر وہ جھینپی تھی۔

"بولو نہ،اتنا پیار کرتی ہو اپنے شوہر سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل ہولے ہولے سے اسکا ہاتھ دباتا اسے بولنے پر اکسا رہا تھا جو سرخ ہوتی لب کاٹ رہی تھی۔

"بولو نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہر بیوی اپنے شوہر سے پیار کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نپا تلا سا جواب تھا۔

"میں ہر بیوی کے بارے میں نہیں اپنی بیوی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میں بھی تو ایک بیوی ہوں نہ تو میں بھی تو اپنے شوہر سے کرونگی نہ پیار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے انداز کے مطابق اظہار کر گئی برزل مسکراتا ہوا اسکی روشن پیشانی پر اپنے لب رکھ گیا۔

"اور ایسا اظہار میں روز سننا پسند کرونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا وہ ہلکا پھلکا ہو گیا تھا آج اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا وعدہ پورا کرنے کی خوشی بھی نینا کی شکل کی صورت میں مل چکی تھی۔

"نیکسٹ ویک ہمارے ولیمے کا گرینڈ ریسپیشن ہوگا اور ساتھ حیدر اور ہانیہ کا نکاح بھی،پھوپھو لوگ بھی آ رہے ہیں اب تمہارے پاس ایک ویک ہے تم نے ہانیہ اور نینی کے ساتھ مل کر اپنی بھی شاپنگ کرنی ہے اور انکی بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل اسے بتانے لگا جو سب سن کر خوش ہوئی تھی اور برزل بھی نائن گروپ کا کام تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کر کے اپنی زندگی کو ٹائم دینا چاہ رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اس کام میں اس کے تین ماہ تو لگ جانے تھے۔

"مجھے دلہن بننے کا بہت شوق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور مجھے ہر رات کو شادی کی رات بنانے کا بہت شوق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل معنی خیزی سے کہتا اسے بیڈ پر لٹا چکا تھا۔

"یہ غلط ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فاریسہ نے اسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے کسی بھی پیش قدمی سے روکنے کی ہلکی سی کوشش کی تھی۔

"اور جو تم کر رہی ہو وہ ٹھیک ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"برزل نے اسکے ہاتھ نرمی سے پیچھے کیے تھے اور اس کے چہرے پر جھکا جو اسکی قربت پر سرخ ہوتی اس کے سینے میں ہی پناہ ڈھونڈنے لگی تھی اور برزل نے مسکراتے ہوئے لیمپ کو آف کر دیا مگر انکی زندگی میں داخل ہوتی محبت کی روشنی ہر جگہ پھیل چکی تھی۔

ختم شدہ        

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Tera Ishq Jaan Leva Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tera Ishq Jaan Leva  written by Amreen Riaz.Tera Ishq Jaan Leva  by Amreen Riaz is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment