Pages

Tuesday 15 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 41&45

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 41&45

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 41&45

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

وشہ ریڈ کلر کا ڈریس پہنے، بغیر میک اپ کے بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اسے ہلکے رنگ پہننے کی عادت تھی تبھی آج اتنا ڈارک کلر اس پر جچ رہا تھا۔ اپنے دوپٹے کو دونوں مٹھیوں میں دبوچ کر وہ منہ بناۓ بیڈ پر بیٹھی تھی ۔ سر جھکا تھا۔

وہ سرجھکانے والوں میں سے نہیں تھی پر اب سر جھکانا مجبوری تھی کیونکہ سامنے صوفے پر بیٹھے دیار کی نظریں اس پر ہی جمی تھیں۔پچھلے ایک گھنٹے سے وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا اسے ہی دیکھ کر شاید کوئ بدلہ لے رہا تھا۔ اس کی بےرخی کا بدلہ ۔!  وشہ بیچاری  تو یہاں سے غائب ہونا چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ جتنی بھی بہادر تھی پر اپنے ہی شوہر کی نظریں اسے کنفیوز کررہی تھیں۔

وشہ نے آنکھیں سکیڑ کر سر اٹھایا پر جب دیار کو صوفے کی پشت سے ٹیک لگاۓ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاۓ خود کو تکتا پایا تو رونی صورت بناکر پھر سے سر جھکاگئ۔ دیار کی صورت دیکھنا مطلب خود اس کے سامنے ہتھیار ڈال دینا۔ جو وشہ مرکر بھی نہ کرتی۔ اس حرکت پر دیار ہلکا سا مسکرایا پھر اگلے ہی پل اپنے اسی کام میں مصروف ہوگیا یعنی وشہ کو دیکھنے میں۔

" کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ۔ کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں آپ ہم سے!! کس ٹھرکی کی روح آگئ ہے آپ میں۔ ہم پچھلے ایک گھنٹے سے اس جگہ بیٹھے ہیں کہ کسی لمحے تو آپ کہیں گے کہ ہماری سزا پوری ہوگئ۔ ہم اب جائیں یہاں سے اور ایک آپ ہیں جو بس ہمیں گھورے ہی جارہے ہیں ۔ بس اتنا ہی تھا ہمارا صبر ہم جارہے ہیں۔۔!! بھاڑ میں جائیں آپ آپ کی اس سزا سے اچھا تو ہم باہر ٹیرس پر رہنا پسند کریں گے ۔!!"

وشہ کا صبر جواب دے گیا تبھی مٹھیاں بھینچ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر وہ چلائ۔ لیکن دیار تو ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ غصے سے اٹھ کر جانے لگی کہ خود ہی جان چھڑ والے اس سے۔ پر دیار کی سنجیدہ سی آواز اس کے قدم جکڑ گئ۔

" واپس آکر بیٹھیں۔ میرا دل نہیں بھرا ابھی۔ ابھی بس ایک گھنٹہ دو منٹ اور تیس سیکنڈ ہوۓ ہیں مزید ستائیس منٹ اور تیس سیکنڈ آپ کو میرے ہی سامنے بیٹھنا ہے۔ اگر آپ واپس نہ آئیں تو سزا بڑھ جاۓ گی۔ اگلے ایک منٹ کے اندر اندر ساری حویلی میرا اعتراف عشق سنے گی۔ پھر آپ دیتی رہنا سب کو وضاحتیں ۔۔!! 

اگر ایسا چاہتی ہیں تو میں ابھی اظہار کرنے کو تیار ہوں۔ جیسے آپ کی مرضی ۔۔!!!"

دیار سنجیدہ تھا وہ دھمکی بھی دے گیا اور وہاں سے اٹھ بھی گیا۔ جب وشہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں کہ یہ بندہ کیا پاگل ہے۔کیوں اس کی اور اپنی عزت کا دشمن بنا ہے۔ وہ فورا اس کے سامنے ائ۔

" پاگل ہوگۓ ہیں کیا آپ۔۔؟؟؟کونسا عشق۔ کونسا اظہار۔ خدا کو مانیں اگر آپ نے ایسا کچھ بھی کیا تو ہم کیسے آپ کی امی اور بابا کا سامنا کریں گے۔ہم تو یہاں کے ملازمین سے بات بھی نہیں کرپائیں گے۔ اچھا آپ جو چاہتے ہیں وہی ہوگا۔ ہم واپس بیٹھ رہے ہیں ۔۔!!"

وشہ نے اسے روکا پھر تھک کر واپس جانے لگی۔ جب آہنی مسکراہٹ کو مشکل سے روک کر دیار نے اس کا ہاتھ پکڑا تاکہ اسے روک سکے۔ وشہ کے اس روپ سے وہ محظوظ ہورہا تھا۔ یہ شیرنی پاگل بھی تھی اور بیوقوف بھی۔۔!!

"میرا آپ سے پہلی نظر میں ہوا عشق اور کیا۔۔!! اور اعتراف میں کوئ مسئلہ نہیں ہے میں چاہتا ہوں کہ اس حویلی کے درودیوار جان جائیں کہ دیار درانی کو ایک لڑکی اپنے پیچھے دیوانہ کرچکی ہے۔اب تو دیار درانی اپنا بھی نہیں رہا۔ آپ یہاں آئیں میرے سامنے ۔۔!! کیا کروں میں آپ نے جو پچھلے اتنے دن مجھے اگنور کرکے میرے ساتھ ظلم کیا ہے اسے میں بھلا نہیں پارہا ۔۔!!"

دیار نے اس کا رخ اپنی طرف کیا جس نے آنکھیں میچیں ہوئ تھیں۔ دیار محسوس کرسکتا تھا کہ وہ بیچاری یہاں سے غائب ہونا چاہتی ہے۔ اور ایسے تو وہ اسے مزید اپنا دیوانہ بنارہی تھی۔ لیکن اسے برا بھی لگا کہ ہر بار اس کی محبت کا جواب کیا نفرت سے دینا ضروری ہے وشہ کے لیے ۔۔!! 

محبت کا جواب محبت سے دے کر وہ اس کے دل کی ملکہ بھی تو بن سکتی ہے۔

"آ۔آپ ہمارے ساتھ اچھا نہیں کررہے۔ بیوی ہیں ہم آپ کی تھوڑا سا احساس کریں ہمارا۔۔!! کیوں ہماری جان نکالنے پر تلے ہیں "

وشہ منمنائ۔ آواز بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ 

"آپ نے کیا تھا کیا میرا احساس جو میں کروں ۔!!اور آپ تو وہی بھر رہی ہیں جو آپ نے کیا ہے۔ ویسے آپ اس کلر میں بہت پیاری لگتی ہیں۔ائندہ ایسے ہی رنگ پہنا کریں۔۔!! سپیشلی یہ ریڈ کلر۔۔!! تاکہ میں آپ کے سامنے پوری دنیا کو بھول جاؤں۔ بتائیں مانیں گی نا میری بات ۔۔!!"

اس کا دوسرا ہاتھ بھی دیار نے نامحسوس طریقے سے پکڑا۔ پھر اپنی سحر طاری کرنے والی آواز میں حکم جمع ریکوئسٹ بھی کر گیا۔ وشہ کا دل تو اس قدر تیز دھڑک رہا تھا جیسے ابھی نکل کر باہر آجاۓ گا۔ دیار کو کہاں خبر تھی کہ وہ تو پہلے سے ہی اس کی دیوانی ہے اور اب اسی سے ہی بچ رہی ہے۔

" ہم تو اب پوری زندگی ریڈ کلر نہیں پہنیں گے۔ نفرت ہوگئ ہے اس رنگ سے ہمیں۔آپ کا یہ ٹھرکیوں والا روپ ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ دور ہی رہا کریں ہم سے۔۔!! اچھا پہن لیں گے۔!! گھور کیوں رہے ہیں آپ ہمیں ۔اب ہاتھ چھوڑیں۔ کیوں ہاتھ لگاتے ہیں آپ ہمیں۔ ہمیں پانی پینا ہے ۔!! حلق خشک ہوگیا ہے ہمارا آپ کی فالتو باتیں سن کر۔۔!!" 

وشہ نے پہلے بے رخی کا مظاہرہ کیا پر جب اس کی آنکھوں میں سنجیدگی دیکھی تو فورا مان بھی گئ پھر اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا۔ دیار نے گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا۔ وشہ کو ہینڈل کرنا بہت محنت طلب کام تھا۔ پر اچھی بات یہ تھی کہ ڈرانے پر وہ باتیں مان جاتی تھی۔

" وشہ ۔۔!! وشہ۔۔!! وشہ ۔!! کیوں مجبور کررہی ہیں مجھے سختی کرنے پر۔ میں اگر وہ دیار بن گیا جو باقی دنیا کے لیے ہوں تو آپ کی زندگی اجیرن ہوجاۓ گی۔ تو مجھے وہی رہنے دیں جو میں بننا چاہتا ہوں آپ کے لیے۔ عورت کی ضد، اس کی اکڑ اور اس کا طنز بھرا لہجہ مرد کی انا پر وار کرتا ہے۔ 

مرد کو محبت کا جواب محںت سے ہی چاہیے ہوتا یے۔ اگر آپ نے میری انا پر وار کیا تو نتائج آپ کی سوچ سے بھی برے ہوں گے۔۔!! مجھے دیار درانی بننے پر مجبور نہ کیا کریں ۔ مجھے بس دیار ہی رہنے دیں۔ دیار درانی کی ضد کے سامنے آپ فنا ہوگئیں تو پچھتاوہ میرا بھی مقدر بنے گا۔!!"

اس کے ہاتھ چھوڑ کر دیار نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر جیسے تنبیہہ بھری التجا کی تھی۔ جو سلوک وشہ کا اس کے ساتھ تھا اب اسے غصہ دلارہا تھا۔ وہ کوئ اس کا سالوں پرانا عاشق نہیں تھا جو سب سہتا رہتا۔جس نے بڑی ریاضتوں کے بعد اسے حاصل کیا ہو۔ 

وہ تو اسے ملی ہی بیوی کے روپ میں تھی جسے اپنانے کی وہ حتی الامکان کوشش کررہا تھا پر وشہ اسے بدگمان کیے جارہی تھی۔

وہ اتنا ہی سمجھا سکتا تھا اسے۔ وشہ نے تھوک نگلا۔ کوئ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئ تھی۔ 

دیار نے سر کو نفی میں جنبش دی کہ جس رشتے کو وہ بچانا چاہتا ہے۔ جس بیوی کو وہ اپنانا چاہتا ہے وہ خود ہی سب حتم کرنے کی کوششوں میں ہے۔۔!!

آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر عقیدت بھرا لمس چھوڑ کر اس نے وشہ کی صورت دیکھی جو سانس لینا بھی بھول چکی تھی۔ جیسے وہ برف کا مجسمہ ہو۔

وشہ کا دل باہر نکلنے والا تھا اب۔ وہ جتنا اس سے دور جارہی تھی وہ اتنا ہی اسے اپنی طرف مائل کررہا تھا۔

" سزا ختم ہوئ آپ کی۔ آئندہ میری انا کو ٹھیس مت پہنچائیے گا۔ ورنہ دیار درانی اگر اپنی پر ضد پر آیا تو آپ فنا ہوں گی ۔!! ناراض رہنا ہے رہیے، دور رہنا ہے رہیے، ضد کرنی ہے تو کریے، میں ہوں یہاں آپ کو سر آنکھوں پر بٹھانے کے لیے۔ 

آپ کا ہر وہم ہر ڈر دور کرنے کے لیے۔ آپ کا سکون بننے کے لیے پر اس سے آگے جانے کی اجازت میں نہیں دوں گا آپ کو۔ نظر انداز ہونا اور خود کی تذلیل برداشت کرنا میرے خون میں شامل نہیں ۔ ہاتھ گریبان تک آیا میں نے برادشت کیا کیونکہ آپ ناسمجھ ہیں ابھی۔ پر بات اگر میری ذات پر آئ تو سب ختم۔۔!! امید ہے آپ سمجھ گئ ہوں گی۔!!"

اسے محسوس ہوگیا تھا کہ وہ شاکڈ ہے تبھی اس نے ہر لفظ پر زور دیا تاکہ وشہ سمجھ جاۓ۔وشہ کیا کچھ سمجھتی وہ تو اب بھی صدمے میں تھی۔

" ہاتھ لگانے کے لیے معذرت۔ سزا ختم ہوتے ہی اب آپ کی خواہش کا احترام بھی کروں گا میں۔ دوبارہ قریب نہیں آؤں گا آپ کے۔جائیں ریسٹ کریں ۔ کل تیار رہیے گا یونی جانے کے لیے۔ میں رات گھر واپس نہیں آؤں گا اب صبح ہی ملاقات ہوگی۔!! اللہ حافظ"

اس کے رخسار تھپتھپاتے اس نے اسے ہوش میں آنے کا اشارہ کیا پھر وہاں سے چلا بھی گیا۔ وہ عجیب انسان تھا جسے انا بھی پیاری تھی اور محبت بھی۔ وشہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ مرد سب برداشت کرسکتا ہے پر اپنی تذلیل یا خود کا غیر اہم ہونا نہیں ۔۔!!

 دروازہ بند ہونے کی آواز پر ہوش میں آئ پھر آنکھیں جھپک کر یقین کیا کہ وہ اس دنیا میں ہے یا آگے کا ٹکٹ کٹوا چکی ہے۔

" یااللہ یہ اب کونسا روپ تھا ان کا۔۔!! محبت ، عزت ، دوستانہ روپ سارے ہم نے دیکھ لیے پر یہ جنون ۔۔!! ایک گھنٹہ انہوں نے ہمیں سزا دی صرف اس لیے کہ ہم نے کوئ بات نہیں کی تھی ان سے۔ وہ تو ہم پہلے بھی نہیں  کرتے۔ یااللہ یہ ہم کہاں پھنس گۓ ہیں ۔!!"

وشہ نے بند دروازے کو دیکھا تو جھرجھری لی پھر لرزتے قدموں کو سنبھال کر  بیڈ پر بیٹھی اور سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر پینے لگی۔ وہ سچ میں حیران تھی کہ اچانک دیار ہو کیا ہوگیا۔

 اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ اب اس کی برداشت ختم ہورہی ہے۔ وہ گیا بھی یہاں سے اس لیے ہے تاکہ خود کو کمپوز کرسکے کہ اسے یہ رشتہ محبت سے چلانا ہے جنون سے نہیں ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" معصومہ ۔۔!! منہ بناکر کیوں گھوم رہی ہو تم۔مجھے بات کرنے کا موقع تو دو۔ کیوں ناراض ہوگئ ہو مجھ سے۔!! یار سچ میں اس لڑکی نے جو بھی کہا اس میں میرا کوئ قصور نہیں یے۔ تم سوشل میڈیا کی لائف سے بےخبر ہو یہاں لوگ تعریف میں بھی یہ سب بول جاتے ہیں۔۔!!"

 فدیان نے معصومہ کی جانب دیکھا جو دوپہر سے بالکل خاموش تھی۔ وہ جو نماز پڑھ رہی تھی تب فدیان کو اس کے بابا کی کال آگئ تو اسے وہاں سے جانا پڑا۔ ابھی مغرب کا وقت تھا اور واپس آتے ہی اس نے معصومہ سے بات کرنا چاہی جو جاۓ نماز تے کرکے رکھ رہی تھی۔ 

" خانی۔۔!! تمہیں ناراض ہونا بھی آتا یے۔ میں متاثر ہوا ہوں تم سے کہ کوئ تو بیویوں والی بات ہے تم میں۔۔!!" 

فدیان آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ سے جاۓ نماز لے کر اس کی جگہ پر رکھ دی پھر اس کی صورت دیکھتے اس کی ناراضگی کو سراہا۔ معصومہ اب سر جھکا کر انگلیاں مروڑ رہی تھی۔

"میں ناراض نہیں ہوں پر ا۔اگر کوئ مجھے کہے ول یو میری می تو آپ کیا کریں گے۔۔!!" 

حلق تر کرکے معصومہ نے سوال پوچھا جسے سنتے ہی فدیان کی صبیح پیشانی پر بل پڑے۔

" اسے کچھ اور کہنے کے لائق نہیں چھوڑوں گا۔زبان ہی کھینچ دوں گا۔ تم میری عزت ہو اور اپنی عزت پر کسی کی نظر مجھے پسند نہیں ۔۔!! جس نے فدیان آفریدی کی بیوی کو دیکھا اس کی آنکھیں نوچ دوں گا میں۔ آئندہ ایسے فضول سوال مت پوچھنا مجھ سے۔ بیوقوف لڑکی ۔!!"

اسے برا لگا تھا تبھی اس نے معصومہ کو ڈانٹ دیا جس کے نین کٹوروں میں جمع نمکین پانی باہر نکلنے کو بے تاب ہوا۔اس نے سر اٹھایا۔

" ت۔تو مجھے بھی برا لگا ہے۔ آپ کی ش۔شادی ہوگئ آپ نے کسی کو بتایا کیوں نہیں۔ اور آپ سے جو یہ سب کہتے ہیں آپ ان کی زبان بھی تو کھینچ دیں نا۔۔!! م۔مجھے اچھا نہیں لگا۔۔!!"

معصومہ کا شکوہ سن کر فدیان کی پیشانی پر پڑے بلوں میں اضافہ ہوا۔ معصومہ کو برا لگا تھا۔ یعنی وہ اس رشتے کو قبول کررہی تھی۔

" میری خانی کو برا لگا ۔۔!! کوئ بات نہیں میں اب سختی سے سب کو کہوں گا کہ کوئ مجھ سے اب الٹی سیدھی باتیں نہ کرے کیونکہ میری ایک چھوٹی سی بیوی بھی ہے۔جسے برا لگتا ہے یہ سب!! تم پوزیسو ہورہی ہو میرے لیے۔ مجھے یقین نہیں آرہا ۔۔!! اچھا ایک کام کرتے ہیں اناؤنس کردیتے ہیں کہ فدیان آفیشلی کسی کا ہوچکا ہے۔ کیا خیال ہے تمہارا اس بارے میں ۔۔!!"

اس نے اپنا فون نکالا ساتھ ہی اب نیا آئیڈیا بھی سوچ لیا۔معصومہ کی ناراضگی کی وجہ جو بات تھی اس بات پر پریشان ہوتی وہ اسے اپنے دل کے بہت پاس لگی۔ کوئ آپ کے لیے پوزیسو ہو تو اچھا تو لگتا ہی ہے۔ 

معصومہ دوبارہ سر جھکا کر انگلیاں مڑورنے لگی۔ اس کی مما کے علاؤہ یہ وہ پہلا شخص تھا جو اس کا خیال رکھتا تھا جس سے وہ فریلی بات کرتی تھی اگر یہ شخص کسی اور کا ہوجاتا تو وہ یہ دکھ کیسے برداشت کرتی۔ 

فدیان اس کے پاس آیا اور اس کے دونوں ہاتھ آزاد کرواۓ جن پر وہ اپنی جھنجھلاہٹ نکال رہی تھی۔

" آپ کیا کرنے لگے ہیں ۔۔!!" معصومہ کا ہاتھ اس نے پکڑا تو چونک کر وہ پوچھ بیٹھی۔

" اپنی شادی کا اعلان ۔۔!! جو تم چاہتی تھی۔۔!! " اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ پھر اس کی آستین ٹھیک کرکے اس نے اس کا ہاتھ آدھا چھپایا۔

معصومہ متجسس تھی کہ وہ کیا کرنے لگا ہے۔ تب اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فدیان نے پک بنائ۔ اس اینگل سے کہ اس کے ہاتھ میں موجود رنگ صاف صاف پک میں نظر آۓ۔

" لو ہوگیا تمہارا کام۔۔!! اب میں اسے کروں گا پوسٹ۔ کیوٹ سے کیپشن کے ساتھ ۔۔!!!" تصویر بناتے ہی اس نے معصومہ کو بیڈ پر بٹھادیا اور خود بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ 

وہ بھی سکرین کو ہی دیکھ رہی تھی۔

"Mrs.Fidyan Afridi❤️

میرے ہمسفرإ

تیرا ذکر ہے میری کتاب

 میری فکر کا  نصاب تو

 میرا حرف حرف تیری زندگی

میرا لفظ لفظ تیری بندگی۔۔!!!!

میں نظر نظر تجھے پڑھوں 

میں حرف حرف تجھے جیوں

ہر قدم قدم

 تیرےحسن کا طواف ہو

تیرے ذکر کی تسبیحات ہو

تیری دید کی تلاوتیں

تیرا وصل ہو

 تیری قربتوں کا شراب ہو

 اور محبتیں بےحساب ہو

سب چاہتیں 

سب شدتیں بےنقاب ہو

نہ نظر پڑے کسی غیر کی 

رفاقتوں کا وہ حجاب ہو۔

نیچے الحمداللہ ❤️ لکھ کر اس نے معصومہ کو دیکھا۔ پھر دلکشی سے مسکرایا۔ یہ کیوٹی اس کی جان بنتی جارہی تھی۔

" بس ہوگیا آپ کا کام ۔۔!! اب خوش ہونا تم۔۔!!" 

اس نے پک پوسٹ کی تو فون ہی معصومہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ جو معصومیت سے اس پک کو دیکھ رہی تھی۔ کیا وہ کسی کے لیے اتنی اہم تھی کہ کوئ اس کا تعارف اپنے نام سے ہی کروادے۔

اسے یاد تھا کہ اس کے بابا تک اس کا تعارف کرواتے ناگواریت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کبھی کسی نے اسے اتنے پیار سے نہیں اپنایا تھا جتنا فدیان اس کے لیے کررہا تھا۔

" اب کیا ہوگا۔۔؟؟" 

اس نے فون کی سکرین دیکھی۔

" تمہیں پیار ہوگا مجھ سے۔۔!! مجھے تو ہورہا ہے اب تم ہی رہ گئ ہو۔۔!!" 

اس نے معصومہ کا گال کھینچا۔ وہ بہت کیوٹ تھی اور ناچاہتے ہوۓ بھی کسی کو اس پر پیار اجاتا۔

" پیار۔۔!! وہ کیسے ہوتا ہے۔ میں بھی کرلوں گی آپ بتائیں کیسے ہوتا ہے۔ آپ نے کیسے کیا!!" 

معصومہ نے فورا پوچھا ۔ جیسے واقعی اس کا کوئ سپیسیفک طریقہ ہوگا۔ کوئ کتاب ہوگی اس ٹاپک پر ۔ تب کمرے میں فدیان کا قہقہہ گونجا۔ کوئ اتنا بیوقوف کیسے ہوسکتا ہے۔

"پیار کوئ چاۓ کی ریسپی تھوڑی ہے جو میں سٹیپ باۓ سٹیپ تمہیں بتاؤں کہ اپنے دل میں  تھوڑی سی توجہ ڈالو۔ پھر جذبات کی آنچ پر اسے پکنے دو۔ تھوڑا سا دل نرم کرو۔ اور احساس ڈالو اس میں۔ حسب ضرورت عزت اور مان ڈاک کر  اگلے کی آنکھوں میں کھوکر وقت گزرنے دو۔جیسے اس کے دل میں اتر رہے ہو تم ۔کسی کے جذبات سمجھو اور کسی کو خود کو سمجھنے دو۔ بس ایسے ہی ہوگا پیار۔

تم بہت چھوٹی ہو ابھی اس بات کو سمجھنے کے لیے تو تم رہنے دو یہ باتیں ۔ میرے پیار کے سہارے زندگی گزر جاۓ گی۔۔!! اور اب سے تم یہاں ہی سویا کرو۔۔!! صوفے پر تم کمفرٹیبل نہیں ہو مجھے پتہ ہے۔۔!! "

اپنا فون اس نے واپس نہ لیا کیونکہ معصومہ کمنٹس پڑھ رہی تھی ۔

جس میں لوگ فدیان کو مبارک باد دے رہے تھے ۔

کچھ دل ٹوٹنے کے میسج بھی آرہے تھے جن کی وجہ سے اس کے چہرے پر غصے کے ننھے سے تاثرات پھیلے۔ فدیان اپنی بات کہہ کر فریش ہونے کے لیے چلا گیا۔

" میں بھی پیار کرلوں گی ان سے۔ پھر یہ سب جان چھوڑ دیں گے ان کی۔ پر یہ پیار ہوتا کیسے ہے۔ مجھے نہیں پتا۔۔!!" 

معصومہ اب بھی کمنٹ ہی دیکھ رہی تھی اور پیر اوپر کرکے اب بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر وہ بیٹھ گئ۔ اسے کیا پتہ تھا کہ پیار یہی تو ہے کہ اب فدیان کے بارے میں کسی کی ایک بات اس سے برداشت نہیں ہورہی۔

 دونوں کا رشتہ بہت ہی کم وقت میں ایک الگ رخ پر چل پڑا تھا۔ معصومہ جو ساری دنیا سے ڈرتی تھی وہ فدیان سے بغیر اٹکے بات بھی کرلیتی تھی اور ناراض بھی ہوجاتی تھی۔

یہ سب فدیان کی محبت کا نتیجہ تھا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان نے زرلشتہ کو بتادیا تھا کہ وہ پہلی شادی اور بچوں والی بات مزاق تھی ۔ اور وہ تصویر والا بچہ اس کے کولیگ کا بیٹا ہے۔ بس آفس میں ملاقات ہوئ تھی تو اس نے پک بنالی تھی اس کے ساتھ۔ وہ تھا ہی اتنا کیوٹ ۔

یہ سن کر زرلشتہ خفا ہوگئ کہ درمان نے جان بوجھ کر اس کا مزاق بنایا۔شام میں وہ ڈسچارج ہوگئ تو درمان اسے لے کر گھر واپس آگیا۔ راستے میں اس کی پسند کی ہر چیز اس نے اسے دلوائی تاکہ اگر اس کا کچھ کھانے کا دل کرے تو وہ کھاسکے۔ 

زرلشتہ خفا ضرور تھی پر آئس کریم کو اس نے منع نہ کیا۔ یہاں تک کہ ڈنر بھی باہر ہی کیا لیکن خاموشی سے۔ درمان تب اس کی خاموشی برداشت کرتا رہا اس کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ  کچھ کھارہی ہے جو اس کی صحت کے لیے ٹھیک یے۔ باتیں تو وہ بعد میں بھی کرلیتا۔ یہاں تک کہ بےبی والی بات بھی اس نے راز ہی رکھی۔ 

ابھی گاڑی روک کر اس نے زرلشتہ کو دیکھا جو آنکھیں بند کرکے سیٹ سے ٹیک لگاۓ ہوۓ تھی۔ 

" ہمیں اپنی کوئ خوشی منانے کا موقع نہیں ملا ذرلشتہ۔ پہلے شادی اتنی جلدی ہوگئ ہمیں ایک دوسرے کو جاننے کا موقع بھی نہ ملا۔ پھر تمہارے ساتھ جو سلوک اس گھر میں ہوا۔ میں شرمندہ ہوں اس سب کے لیے۔

 لیکن یہ جو خوشی کی خبر مجھے ملی ہے اس خوشی کو ہم سیلیبریٹ کریں گے ۔!! یہ خبر تمہیں بھی اچھے سے ملے گی۔۔!! اور اس خوشی کے دنیا میں آنے تک اور بعد میں بھی تمہاری زندگی خوبصورت بنادوں گا میں ۔۔! انشأ اللہ ۔ بس تھوڑا سا وقت چاہیے مجھے تاکہ پہلے تمہاری طبیعت ٹھیک ہوجاۓ۔ اور ناراضگی بھی کم ہوجاۓ۔۔!!"

اس نے گاڑی انلاک کی۔ پھر زرلشتہ کی سائیڈ پر آکر دروزہ کھولا۔

"ماۓ چیری فلاور ۔۔!! ہم گھر آگۓ ہیں تو اب اٹھ جائیں۔ آپ کمرے میں جاکر سوجائیے گا ۔" 

اس نے پیار بھرے انداز میں اسے مخاطب کیا جو بس آنکھیں ہی بند کرکے بیٹھی تھی تبھی آنکھیں کھول کر بغیر درمان کو دیکھے باہر نکلنے کے لیے راستہ دیکھنے لگی۔ 

درمان سائیڈ پر ہوگیا تو وہ بھی باہر نکل آئ ۔ 

شال اب بھی اس نے شانوں کے گرد لپیٹ تھی۔ موسم ذرا ٹھنڈا تھا تبھی اسے سردی محسوس ہوئ۔ اس نے جھرجھری لی۔ اور گھر کے اندرونی حصے کی جانب جانے لگی تب درمان اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

" مصیبت۔۔!! کیا ہوگیا ہے تمہیں بات کیوں نہیں کرنی تمہیں مجھ سے۔ وہ سب مزاق تھا بس۔ مجھ سے بات تو کرو ۔ اچھا سوری۔۔!! میں کان پکڑ رہا ہوں اپنے ۔! مجھے معاف کردو ہنی بی ۔۔!!"

درمان نے اپنے کان پکڑے لیکن زرلشتہ کو نیند آئ تھی اور اس کا ارادہ نہیں تھا اس سے لڑنے کا۔ 

"مجھے سونا ہے ابھی۔ جانے دیں مجھے ۔۔!!" 

اس نے بات ختم کی۔ 

" تم ایسے ہی بغیر بات کیے سوگئی تو میرا کیا ہوگا۔ میں تو ساری رات اسی گلٹ میں رہوں گا کہ تم مجھ سے ناراض ہو ۔!!"

درمان نے اپنا مدعا سامنے رکھا تو زرلشتہ نے تھک کر آس پاس دیکھا۔پھر کچھ سوچنے لگی۔ درمان آسانی سے اسے جانے نہ دیتا۔ وہ ضدی تھی تو درمان پر تو ضد شروع ہوتی تھی۔

اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنا وجود ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اسے یقین تھا کہ درمان اسے گرنے نہیں دے گا۔ اتنا یقین کرتی تھی وہ اس پر کہ اگر اچانک سے وہ بے ہوش بھی ہوئ تو درمان اسے اسی پل تھامے گا۔ 

ہوا بھی یہی کہ اس کی آنکھیں بند ہوتا دیکھ کر درمان فورا اسے سنبھال کر خود سے لگاگیا۔ اس کی جان لبوں پر آئ کہ اب زرلشتہ کو کیا ہوگیا۔ابھی تو وہ ٹھیک تھی۔

" زرلشتہ ۔۔!! کیا ہوا ہے تمہیں ۔۔!! تم ٹھیک ہو ۔۔!!" اس نے بے چینی سے اسے خود میں بھینچا۔ تب زرلشتہ نے بھی سکون کا سانس لیا ۔

" میں بے ہوش ہوگئ ہوں مان۔۔!! سردی بہت زیادہ ہے یہاں تو میں اب صبح ہی ہوش میں آؤں گی۔ آپ بھی پریشان نہ ہوئیے گا اور سوجائیے گا۔ بعد میں بات کریں گے۔ گڈ نائٹ۔ !!"

مس ڈرامہ کوئین نے گڈ نائٹ کہتے ہی خاموشی اختیار کرلی۔ درمان اس کی سوچ پر عش عش کراٹھا کہ یہ بے ہوش ہونے کے بعد ٹائمنگ بھی بتارہی ہے کہ کب اٹھے گی۔ واہ کیا لڑکی ہے ۔!!

وہ مسکرایا۔ 

" ڈرامہ کوئین ہو تم۔لڑنا بھی مجھ سے ہے۔ بات بھی مجھ سے نہیں کرنی۔ اور لاڈ بھی سارے اٹھوانے ہیں۔ کوئ مجھے تمہارے ارد گرد گھومتا دیکھ لے تو مجھے درمان آفریدی ماننے سے انکار کردے۔ میں کیا تھا اور تمہارے عشق میں کیا بن گیا ہوں میں ۔۔!!" 

سر جھٹک کر اس نے اسے اٹھالیا۔ کیونکہ اب وہ صبح ہی جاگتی۔ یہ منظر لان میں کھڑی شنایہ بیگم نے بڑے غور سے دیکھا۔ جونہی درمان اسے اٹھاکر گھر کے اندر لے جانے لگا تب اپنا دایاں ہاتھ انہوں نے صدمے سے اپنے دل پر رکھا۔ 

" توبہ ۔۔!! میرا شیر جیسا بیٹا اس چوہیا کی خدمتیں کررہا ہے ۔ ساری شرم اور سارا لحاظ مرگیا ہے اس میں اس لڑکی کی وجہ سے۔ میرا درمان ایسا کیسے کرسکتا ہے ۔!!" 

انہوں نے کلس کر سوچا۔ چہرے پر ان گنت رنگ آتے گۓ۔ ان کی پوری زندگی گزر گئ تھی کبھی ان کے شوہر نے ان کا اتنا خیال نہیں رکھا تھا جتنا ان کے بیٹے اپنی بیویوں کا رکھ رہے تھے۔

" ایک وہ فدیان ہے جس نے اپنی بیوی کمرے میں ہی چھپاکر رکھی ہے جو سمجھ رہا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اس کی جان بچالے گا۔ اور ایک یہ ہے جو اسے ہواؤں میں اڑاتا پھررہا ہے۔ اور میں یہاں سواۓ اپنا خون جلانے کے کچھ نہیں کرپارہی ۔۔!! لیکن میں وقت آنے پر ان دونوں میسنیوں کو ایک ساتھ ٹھکانے لگاؤں گی۔ ایک ساتھ۔۔!! اڑ لیں جتنا اڑنا ہے انہوں نے آخر میں جیت شنایہ بیگم کی ہی ہوگی ۔!!"

انہوں نے پیر پٹخا چہرہ غصے سے لال ہوچکا تھا پھر اب سوچنے لگیں کہ آخر کب زرلشتہ اور معصومہ ان کے ہاتھ آئیں گی کب۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

یشاور نے بہار کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کروالیا تھا۔ ڈاکٹر تو چند دھمکیوں میں اپنی نوکری بچانے کی خاطر چپ ہوگئ اور معاملہ پولیس تک نہ پہنچایا گیا۔ کیونکہ یشاور جانتا تھا جن لوگوں نے بہار کی پوری فیملی ختم کردی ہے وہ لوگ پولیس کے ذریعے آسانی سے اس لڑکی تک پہنچ کر اسے بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

وہ اسے سیدھا اپنے فلیٹ میں لے کر آیا۔ بہار اب بھی ہاسپٹل والے ڈریس میں تھی۔ کیونکہ اس کے کپڑے اس حال میں نہیں تھے کہ دوبارہ استعمال کیے جاسکتے۔ تبھی وہ اسی حالت میں اس کے ساتھ آگئ۔

فلیٹ میں داخل ہوتے ہی یشاور نے لائٹس آن کیں۔ فلیٹ بہت بڑا نہیں تھا نارمل تھا۔ دو کمرے اٹیچ واش روم کے ساتھ،  ایک کچن اور لاؤنج وغیرہ۔ بہار یہاں آسانی سے رہ تو سکتی تھی پر ایک انجان بندے ہر یقین کرنا مشکل تھا۔

اس نے سرسری سا گھر دیکھا۔

" آپ اس سامنے والے کمرے میں رہ سکتی ہیں۔ وہ روم میرا ہے اس میں ضرورت کی ساری چیزیں آپ کو مل جائیں گی اور صفائ بھی ہوئ ہے اس کمرے کی۔ دوسرا کمرہ ابھی سیٹ نہیں تو آپ کو وہیں ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔آپ کے لیے مجھ پر یقین کرنا مشکل ہے میں سمجھ سکتا ہوں آپ کو۔ پر آپ کو یقین کرنا ہوگا۔

 میں یہاں لاؤنج میں ہی ہوں آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہوئ تو مجھے بتادیجۓ گا ۔!!! آپ روم لاک کرلیجۓ گا اندر سے تو آپ بھی مطمئن رہیں گی۔۔!! امید ہے آپ سمجھ گئ ہوں گی کی اس وقت سمجھوتہ کرنے کے سوا ہم دونوں کے پاس کوئ چارہ نہیں ۔۔!!"

یشاور نے جس کمرے کی طرف اشارہ کیا تھا بہار اسی سمت دیکھ رہی تھی۔ اس کی بات ختم ہوتے ہی بہار نے ہاں میں سرہلادیا۔ اس وقت یشاور اس کے لیے واحد سہارا تھا۔ جس کے نام تک سے وہ بے خبر تھی لیکن اس کے ساتھ وہ محفوظ تھی اگر وہ اسے چھوڑتا تو وہ ماری جاتی۔

" بھوک لگی ہے مجھے۔ اور کپڑے بھی نہیں ہیں میرے پاس۔۔!! آپ پر یقین ہے مجھے کیونکہ آپ ہی اس مشکل وقت میں مجھے سہارا دے رہے ہیں۔ آپ کا یہ احساس میں کبھی نہیں بھولوں گی"

بہار یشاور کی مشکور تھی۔ اس کا لہجہ اس بات کا گواہ تھا۔ جواب میں یشاور نے گہرا سانس خارج کیا۔

" میں نے سنا تھا کہ سہارا دینے والی اللہ کی ذات ہے۔ وہ اپنے نیک بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ آپ بھی اس کے انہی بندوں میں شامل ہیں تبھی تو مجھ گنہگار کو بھی وہ سیدھے رستے پر لے آیا ہے تاکہ آپ کو محفوظ رکھ سکے۔ آپ کو جو چاہیے لسٹ بنادیجۓ گا میں کل لادوں گا آپ کو۔ اور کھانا بھی میں آرڈر کردیتا ہوں۔۔!!"

عام سے لہجے میں جواب دیتے ہوۓ وہ بہار کے لیے کی گئ اپنی ساری عنایتوں سے بری الزمہ ہوگیا۔ ابھی وہ بات کرہی رہا تھا جب ڈور بیل بجی۔ اسے پتہ تھا آنے والا کون ہے۔ اس کی ماں۔۔!!

ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس نے دوبارہ اپنے باپ کو کال کرکے سیدھا سیدھا کہا تھا کہ یا تو وہ اس کی ماں کو اس کے پاس بھیجے یا وہ واپس علاقے میں آجاۓ گا پھر اس کے ساتھ جو بھی ہوا ذمہداری اس کے باپ پر ہی عائد ہوگی۔

تبھی دلاور خان نے فورا بادل کو سبرینہ بیگم کے ساتھ روانہ کردیا۔ 

" ک۔ کون آیا ہوگا۔ کہیں وہ لوگ تو نہیں آگۓ۔۔!!"

ڈور بیل کی آواز سن کر بہار ڈر گئ۔ اسے لگا جیسے وہ لوگ یہاں بھی آگۓ ہوں گے۔ 

" ریلیکس مس بہار ۔۔!! میری مورے آئ ہیں۔ ساتھ میں ایک عجیب سا انسان بھی ہوگا۔ بادل ۔!! بادل تو آسمان پر ہوتے ہیں پر وہ موصوف زمین پر ہی طوفان لانے اور بجلیاں گرانے کا کام کررہے ہیں۔ آپ یہاں بیٹھ جائیں میں دروازے پر دیکھتا ہوں کہ کون ہے۔ !!"

یشاور نے اسے ریلیکس ہونے کو کہا جو تیزی سے سر ہاں میں ہلاکر صوفے پر بیٹھ گئ۔ تو یشاور بھی دروازہ کھولنے چلا گیا۔

باہر سبریبہ بیگم اور بادل خان ہی کھڑے تھے۔ بادل کا دل تو نہیں تھا یشاور کی شکل دیکھنے کا کیونکہ اسے اس سے خاص قسم کی چڑ تھی۔ لیکن سبرینہ بیگم کو وہ اکیلا اس کے ساتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ 

یشاور نے دروازہ کھولا تو توقع کے مطابق اسے بادل ہی سامنے دکھا۔ جسے دیکھ کر اس نے آنکھیں پھیر لیں۔

" السلام علیکم ۔۔!! مورے ۔۔!! " 

سبریبہ بیگم کو دیکھتے ہی یشاور نے سلام کیا۔ جو ابھی جواب دینے ہی والی تھیں جب بادل کی آواز سن کر چونک گئیں۔

" او پشاور کا ٹوٹا ہوا شاور ۔۔!! تم ادھر شہر میں آکر اسلام بھی قبول کرگیا۔ ہم سنا تھا کہ بچہ لوگ شہر میں آکر بگڑ جاتا ہے۔ پر تم سدھرا ہوا ہی کہاں تھا تم تو پیدائشی بگڑا ہوا ہے۔ دونمبر شاور ہم سمجھا تھا کہ تم اس شہر کا بڑا بدمعاش بن گیا ہوگا پر تم تو سلام کرنا ہی شروع ہوگیا۔ ہم کو لگتا ہے باجی یہ سب کوئ مزاق ہے۔ کدھر ہے کیمرہ ہم کو بتاؤ ہم ہاتھ ہلادے۔۔!!" 

بادل نے اچھا بھلا طنز کیا تھا یشاور نے آنکھیں میچ کر اس طنز کو برداشت کرگیا۔

" ہاں سوچا تو میں نے تھا کہ کوئ گینگ ہی بنالوں اپنی۔ میرے باپ کی ساری دولت پر تو تمہارا قبضہ ہے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ بدمعاشوں والے سارے کام تو تم کررہے ہو۔ ساتھ میں اپنا ذاتی میرج بیورو بھی کھول رکھا ہے تم نے۔

درمان ، دیار، فدیان سب کی شادی کرواکر تم ان کے ماں باپ کا خرچہ بھی بچاچکے ہو۔ بڑے منجھے ہوۓ کھلاڑی ہو تم اور تمہارے سامنے میں نہیں ٹک سکتا۔ یعنی اس فیلڈ کو میری ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے دل برداشتہ ہوکر اسلام قبول کرلیا میں نے۔ کیونکہ میں اور تم جہنم میں بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔۔!! "

جواب یشاور نے بھی تگڑا دیا تو بادل نا چاہتے ہوۓ بھی ہنس پڑا۔ ہنسی خالص تھی ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک۔

وہیں سبریبہ بیگم کو بادل پہلے ہی سب بتاچکا تھا کہ یشاور نے انہیں یہاں کیوں بلایا یے۔ میرج بیورو کے ساتھ اس کی اپنی سیکرٹ ایجنسی بھی تھی۔ اسے تو یہ بھی پتہ تھا کہ درمان صاحب بابا بننے والے ہیں اور دیار صاحب کو وشہ ناکوں چنے چبواچکی ہے۔ یہاں تک کہ فدیان نے جیسے معصومہ کو سنبھالا تھا وہ یہ بھی جانتا تھا۔ فدیان سے وہ متاثر ہوا تھا آخر کیسے اس لاپرواہ سے لڑکے نے شادی کے رشتے کو دیار اور درمان جیسے سنجیدہ لڑکوں سے بھی زیادہ اچھے سے نبھایا۔

اسے پتا تھا کاروان خانزادہ کی بیٹی یشاور کی امان میں ہے۔ کاروان کے ساتھ سب اچانک ہوا تھا وہ تو اس کے مسئلے سے بھی ناواقف تھا تبھی وہ اسے بچا نہ سکا۔ لیکن جو اس کے ساتھ ہوا اسے اس بات کا دکھ تھا۔ اور اس کی بیٹی کی حفاظت اس کی ذمہداری تھی۔ 

وہیں یشاور کو تو پہلے سے پتہ تھا کہ بادل کوئ عام بندہ نہیں ہے اس کی پہنچ آگے کی ہے۔ اور دیار اور درمان کا نکاح بھی اسی کی مرضی سے ہوا یے۔ یہاں تک کہ اسے علاقے سے نکلوانے والا بھی وہی یے۔ اسے تو یہ بھی پتہ تھا کہ ہونہ ہو فدیان ہو اغواہ بھی اسی نے ہی کروایا تھا ۔ 

"ملیں گی نہیں مجھ سے۔۔!! مانا میں اس دنیا کی سب سے بری اولاد ہوں پر ہوں تو آپ کا ہی بیٹا نا۔ آپ کی محبت پر میرا بھی حق ہے۔ میں مار کے ہی قابل ہوں آپ مار بھی لیجۓ گا میں کچھ نہیں کہوں گا اب۔ پر ایک بار گلے تو لگاسکتی ہیں نا۔ معاف تو کرسکتی ہیں نا مجھے!!" 

یشاور کی آنکھوں میں نمی چمکی وہ ماں کے جواب کا منتظر تھا جنہوں نے نم آنکھوں سے ہاں میں سر ہلایا۔ اولاد چاہے جتنی بھی بری ہوں پر جب وہ ماں باپ سے محبت سے ملنا چاہتی ہے تو وہ اس کے سارے ستم بھول جاتے ہیں۔ وہ بھی سب بھول گئ تھیں۔

" یشاور میرے بیٹے ۔۔!! تم اپنے بابا کے شر سے آزاد ہوگۓ ہو اس دن کا بہت انتظار کیا تھا میں نے ۔۔۔!! میرے بچے تم نے جب مجھے بلانا چاہا تھا میں نے تب ہی تمہیں معاف کردیا تھا ۔!!"

وہ آگے بڑھیں تو یشاور نے انہیں گلے لگالیا۔ وہ رورہی تھیں اور یشاور تو آج پہلی بار ماں کی محبت محسوس کررہا تھا۔

ان سب کے بیچ بادل کی آنکھیں بھی نم ہوئ تھیں۔ یشاور کو لگتا تھا کی اس کی ماں اسے کبھی معاف نہیں کرے گی پر اس کی ماں نے تو اس سے کوئ شکایت کیے بنا ہی اسے معاف کردیا تھا

"یہ لڑکی بغیر کسی رشتے کے اس گھر میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی یشاور۔۔!! تم سمجھتے ہو اس بات کو۔۔!! میں جانتی ہو اس کی جان کو خطرہ ہے لیکن بغیر کسی جائز رشتے کہ میں تمہیں اس کی مدد کرنے کی بھی اجازت نہیں دوں گی۔ امید کرتی ہوں تم میری بات سمجھ رہے ہو"

لاؤنج کی فضا میں کچھ دیر کی لمحاتی خاموشی کے بعد سنائ دیتی سبریبہ بیگم کی آواز تمام نفوس کو فیصلے کی جانب لے جانے لگی۔ یشاور نے بادل اور سبرینہ بیگم کو سب کچھ بتادیا تھا جو اس کے ساتھ اس تمام وقت میں ہوا۔ ساتھ میں یہ بھی بتادیا کہ اس لڑکی کے پاس رہنے کی کوئ جگہ نہیں ہے۔ اور وہ اس کی مدد کرنا چاہتا ہے۔

معافی تو سبرینہ بیگم اسے پہلے ہی دے چکی تھیں پر ہاسپٹل کے کپڑوں میں ملبوس اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ کر ان کا دل ٹکڑوں میں کٹا۔ وہ بامشکل بیس سے اکیس سال کی تھی۔ اور اس کا پورا گھر دشمنوں کی نظر ہوچکا تھا۔ خود بھی اس کی حالت قابل رحم تھی۔ نا کوئ گھر تھا نا کوئ سہارہ ۔۔!!

انہوں نے وہی بات کی جو بادل نے انہیں سمجھائ تھی۔ یعنی یشاور اور بہار کے نکاح کی۔ کیونکہ اس وقت صرف یشاور ہی اسے دلاور خان کے شر سے بچا سکتا تھا۔ 

ان کی بات سن کر یشاور نے بہار کی طرف دیکھا جو اس کی ماں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اداس صورت، آنکھوں میں خوف ، اور دل میں وہم لیے کہ موت اس کا بھی مقدر ہے اب۔ اسے کوئ بچانے نہیں آۓ گا۔ اور ناجانے اس کے گھر والے کس حال میں ہوں گے۔ 

وہ سب مر تو گۓ تھے پر افسوس اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ان کی قبریں کہاں ہیں ۔ کسی نے انہیں دفنایا بھی ہوگا یا نہیں۔ اپنے گھر والوں کا آخری دیدار کرنا تو حق تھا اس معصوم کا۔ جو بے بسی اس سے چھین چکی تھی۔۔!!

" آپ اسے اپنے ساتھ لے جائیں ۔۔!! میرے ساتھ نا سہی یہ آپ کے ساتھ تو رہ ہی سکتی ہے۔ اسے کسی رشتے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی تب۔ یہ آئیڈیا کیسا رہے گا۔"

یشاور نے دوسرا حل نکالا تو اس بار بادل نے اپنے کانوں میں انگلی گھمائ جیسے اسے یشاور سے اس قدر بیوقوفی کی امید نہیں تھی۔

" چائنہ کا ٹاور۔۔!! ہم تم کو بہت عقلمند سمجھتا تھا خانہ خرابہ۔۔!!! ہم کو لگتا تھا کہ دلاور خان کے مرنے کے بعد تم اس کا سارا کالا دھندہ سنبھال لے گا۔ ہم تمہارا ساتھ کام کرنے گا پھر۔ آخر دلاور جانا کا عمر بھی تو ہوگیا ہے نا۔ اس نے امرت تو پیا نہیں جو وہ قیامت تک پیسہ ہی کماتا رہے گا۔ وہ مرے گا تو ضرور۔۔!!

پر تم تو شرافت میں ملک کے وزیراعظم کو بھی پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ اتنا شریف ہے تم استغفر اللہ ۔۔!! او نفسیاتی انسان باجی تمہارا نکاح کا بات کررہا یے۔ وہ چاہتا ہے کہ تم اس بچی سے نکاح کرکے اس کا محافظ بنے۔ اس کا سہارا بنے۔ ناکہ اپنی ماں کو ہی اس کو لے جانے ہو کہہ دے۔ تم تو معصومیت کا ریکارڈ بنانا چاہ رہا ہے۔ معصوم سا یشاور ۔ مارا یہ تو سننے میں بھی عجیب لگتا ہے!! "

بادل خان نے اس کی بیوقوفی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ جس نے جواب میں سر کھجانا شروع کیا۔ پتہ اسے بھی تھا اس کی ماں کیا چاہتی ہے پر وہ الگ بات تھی کہ اس کا شادی جیسے جھنجھٹ میں پڑنے کا موڈ نہیں تھا۔ 

جس کی زندگی کا فیصلہ یہ تین نفوس کررہے تھے وہ تو خود اپنی قسمت پر گریہ کرنے میں مصروف تھی۔ کہاں سوچا تھا اس نے کہ ایک دن وہ اتنی ارزاں ہوجاۓ گی کہ پراۓ لوگ اس کی زندگی کے فیصلے کریں گے۔حقیقت ہے وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔

" یشاور تم نکاح کرلو اس بچی سے۔ اس کا خیال تم ہی رکھ سکتے ہو۔ اتنی پیاری تو ہے یہ معصوم سی۔ بہت خوش رہو گے تم دونوں ایک ساتھ۔۔!!" 

سبریبہ بیگم نے بات دہرائی۔ وہ آج نکاح کروانے ہی آئ تھیں۔ بادل نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا کر یشاور کو امید طلب نظروں سے دیکھا جو لب بھینچ کر ٹیبل پر رکھے گلدان کو تکنے لگا۔ اسے شادی نہیں کرنی تھی۔ اور کوئ اسے نہ سمجھتا ۔

" بات صرف میری نہیں ہے مورے۔بہار بہت چھوٹی ہیں مجھ سے۔میں ان کے قابل نہیں ہوں۔آپ کو نکاح ہی کروانا ہے تو کوئ اور اچھا سا لڑکا دیکھ لیں جو ان کے قابل ہو۔ ان کا ہم عمر، ہم خیال۔۔!!! اور یہ بھی مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہیں گی کیوں بہار میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا آپ نہیں کرنا چاہتی نا مجھ سے شادی ۔!!"

 کچھ سوچ کر یشاور نے فیصلے کا حق بہار کو دیا جو ہونق بنی بیٹھی تھی۔ سبریبہ صاحبہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تاکہ وہ ہمت کرکے کچھ بول سکے۔ جو اچانک ہوش میں آئ۔ پھر اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کرکے گرنے لگے۔ فیصلہ کیا کرتی وہ جب اس کی بقا ہی یشاور کے ساتھ میں تھی۔ انکار کرکے وہ کہاں جاتی۔

" آ۔ آپ سب جو کہیں گے میں مان لوں گی۔ میرا اب رہا ہی کون ہے اس دنیا میں ۔۔!! سب مرگۓ۔ کوی نہیں بچا۔ میں م۔مان جاؤں گی آپ کی بات۔ مجھے کوئ اعتراض نہیں۔!!"

ضبط کے باوجود لاؤنج میں اس کی ہچکی گونجی تو سبریبہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگالیا۔ دلاور خان اگر ان کے سامنے ہوتا تو وہ اسے آج مار ہی دیتیں جو ایک معصوم سی لڑکی کو دربدر کرچکا تھا۔ وہ سنگدل انسان آسان موت کے قابل نہیں تھا اسے تڑپا تڑپا کر مارنا تھا انہیں۔

" بس ہوگیا فیصلہ۔۔!! اس کا نکاح ابھی اسی وقت ہوگا۔ بادل تم نکاح خوان کا بندوبست کرو اور یشاور تمہیں معافی چاہیے تھی نا تو وعدہ رہا اگر تم اسے اپنا لو تو میں مرتے دم تک تمہاری احسان مند رہوں گی۔بس یہ نکاح جتنا ہوسکے خفیہ رکھنا اپنے باپ سے۔ ان کا کوئ بھروسہ نہیں کہیں بچی کو نقصان نہ پہنچادیں۔۔!! بس اب ایک لفظ اور نہیں جو میں نے کہا ہے وہی ہوگا ۔۔!!"

ان سے مزید بہار کی بےبسی نہ دیکھی گئ ماں تھیں وہ بھی۔ کیسے کسی اور کی اولاد کو روتا دیکھتیں ۔ انہوں نے بادل کو حکم دیا جو پہلے سے ہی ساری تیاریاں کرچکا تھا۔ یشاور نے اس کے بارے میں ٹھیک کہا تھا اس کا اپنا میرج بیورو ہے۔ رشتے کروانے سے لے کر ارجنٹ بیسز پر نکاح سارا انتظام وہ چٹکیوں میں کرسکتا ہے۔ 

بادل وہاں سے اٹھا تاکہ نکاح خوان اور گواہ جو اس فلیٹ سے ذرا فاصلے پر کھڑے اسی کے حکم کے منتظر تھے انہیں بلا سکے۔ اور یشاور تو حیران تھا کہ کیا اس کا بھی نکاح ہوگا۔ پر کیوں ہوگا۔۔!!!

 اسے تو نکاح کرنا ہی نہیں تھا ۔۔!!

وہ تو خود کو نہیں سنبھال سکا آج تک کسی اور کو کیا سنبھالے گا ۔۔!! پر ماں کے آگے آج وہ بھی نہ بولا وہ پہلی بار حکم دے رہی تھیں جو ماننا اس کی مجبوری تھی۔ 

وہیں بہار تو رونے میں مصروف تھی یہ رونا ہی تو مقدر تھا اس کا۔

اگلے پندرہ منٹ کے اندر اندر نکاح کی تیاریاں کیا پورا نکاح ہی ہوگیا۔یشاور تو بادل کو ہی گھورتا رہا جس کی اپنی نکاح کروانے والی ایجنسی بھی تھی۔کبھی بھی کہیں بھی وہ کسی کو کسی سے بھی جوڑ کر سارے انتظامات کرواکے نکاح کردیتا ۔ زبردست ۔۔۔!!!

" اللہ کرے کہ کسی دن تمہارا بھی ایسے ہی نکاح ہو بادل خان۔۔!! تم کیوں کنوارے رہو گے۔ لوگوں کو پھنسا کر آسان زندگی گزارنا ناانصافی ہے۔ اللہ کرے کہ جلد از جلد تم بھی کسی کے غلام بن جاؤ۔ الٰہی آمین ۔۔!! یا اللہ بادل کی زندگی میں کوئ زلزلہ، طوفان کچھ بھی بھیج دے۔ پر اسے کنوارا نہ رہنے دینا۔۔۔!!" 

نکاح ختم ہوتے ہی یشاور نے بادل کو جانچتی نظروں سے گھورتے ہوۓ دعا مانگی۔ جو اگر بادل سنتا تو اس کی زبان ہی کھینچ دیتا۔

نکاح نامے پر دستخط ہوتے ہی بہار کی طبیعت کا احساس کرتے سبرینہ بیگم اسے یشاور کے کمرے میں چھوڑ آئیں ساتھ میں اسے کھانا بھی دے آئیں جو بادل نے ہی آرڈر کیا تھا۔ 

نکاح خواں اور گواہان کو رخصت کرکے یشاور نے بادل پر تیز نظر ڈالی۔ جو چھوارے کھانے میں مگن تھا یہ بھی وہ ساتھ ہی لایا تھا۔

 چھوارے کیا ٹیبل پر مٹھائ بھی رکھی تھی۔

" تم وہ نہیں ہو جو تم لگتے ہو۔۔!! مجھے پہلے سے ہی شک تھا تم پر ۔ تم کسی خاص مقصد سے میرے بابا کے ساتھ ہو بتاؤ مجھے کیا مقصد ہے تمہارا۔۔!! کیا کرنے والے ہو تم ۔۔!  کچھ تو ہے جو کوئ نہیں جانتا ۔ آخر کون ہو تم۔۔!!"

بادل نے یشاور کا اتنا گہرا سوال سنا تو پراسرار سا مسکرایا۔ کوئ اسے جان کے ناممکن۔۔!! 

اور وہ کسی کو خود کو جاننے دے بالکل ناممکن۔۔!!

"ہم دیکھنے میں ہینڈسم نہیں لگتا۔جانتا ہے ہم پر اصل میں ہم ایسا نہیں ہے۔ یہ کوریا کا میک اپ کا کمال ہے۔ ہم پٹھان کا حسن اس میک اپ کا تہ کے نیچے چھپا ہے۔  ہم منہ دھو کر اۓ تو تم سے بھی کمال لگے گا۔ پر یارا ہم تو اس رنگ میں بھی جچتا یے۔ تم دیکھو تو ہم کو ہم اب بھی تم کو ٹکڑ دیتا ہے۔"

ہاتھ جھاڑ کر بادل اس کے مقابل کھڑا ہوا۔ پھر اپنے ہلکے سے گندمی رنگ کے پیچھے کی وجہ اس نے کوریا کا میک اپ بتائ۔ اب وہ اس کا دماغ گھمانے والا تھا۔

"ہمارا نام بھی وہ نہیں جو تم سمجھتا ہے ہم باران ہے باران ۔۔!! یعنی بارش ۔طوفانی بارش ۔ جو سب تباہ کردے۔ سیلاب لادے۔ زمین کو بنجر بنادے ۔۔!! پر بارش تو بادل سے ہوتا ہے تو ہم بادل بھی ہے۔ بادل آسمان پر ہوتا ہے لیکن آسمان تو اونچا ہوتا ہے ہم تو نیچے رہتا ہے۔ نیچے تو پانی بھی ہوتا ہے۔

 یعنی اوپر بھی پانی نیچے بھی پانی ۔ ایسے تو پانی ہی پانی ہے اس زمین پر۔ لیکن سائنس کہتا ہے ایک دن زمین سے پانی ختم ہوجاۓ گا۔ تو اتنا پانی آخر جا کدھر رہا ہے۔ پانی تو کھانے میں بھی ڈلتا ہے۔ کھانے میں تو مصالحہ بھی ڈلتا ہے۔ لیکن مصالحہ اگانے کے لیے بھی تو پانی ہی چاہیے ادھر بھی پانی ہی پانی ہے...!!" 

 اس نے بات مزید گھمائ یشاور اس کی باتوں میں الجھ گیا۔ تب اس نے پلیٹ سے گلاب جامن اٹھایا ۔ اور اسے دیکھنے لگا۔

" یہ دودھ سے بنتا ہے ہم کو تو یہی لگتا ہے۔ پر دودھ تو گاۓ دیتی ہے گاۓ تو پانی ہی پیتی ہے ۔ ادھر بھی پانی۔۔!! یارا اس کا تو شیرہ بھی پانی سے بنتا ہے۔۔!! اتنا پانی ۔۔!! ہم اس کو کھاۓ تو ہمارا کیا پانی کا کمی پورا ہوگا۔ تم تو نقلی شاور ہے کوئ ڈاکٹر تھوڑی تم کیسے بتاۓ گا اتنا گہری بات۔!! ہم یہ بات بھی کسی ڈاکٹر سے ہی پوچھے گا۔۔!!"

گلاب جامن اس نے منہ میں رکھا پھر وہاں رکھے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر ہاتھ صاف کرکے اس نے ٹشو وہی رکھ دیا۔ پھر یشاور کی صورت دیکھی وہ واقعی اس کی باتوں میں الجھ چکا تھا۔ اس کے چہرے پر سلوٹیں تھیں جو اس بات کی گواہ تھیں کہ بادل اس کا وہم ہی جڑ سے اکھاڑ گیا ہے۔

" مارا تم کیوں اتنا سوچتا ہے تم بھی پانی پیو اس زمیں پر بہت پانی ہے۔ یہاں تو یہ ٹشو بھی تھوڑا تھوڑا سا گیلا تھا اس میں بھی پانی ہوگا۔ کتنا پانی ہے ادھر ۔ ہم تو ہے ہی بادل ہم میں تو پانی ہی پانی ہے۔ تم بھی ٹوٹا ہوا شاور ہے شاور سے بھی تو پانی پی آتا ہے۔ تم میں بھی پانی ہے۔ 

ہم سنا ہے کہ انسانی جسم میں بھی بہت پانی ہوتا ہے۔ یعنی پانی ہی پانی ۔!! چلو ہم چلتا ہے اب باجی کو تم بھیج دینا۔۔!! یہاں تو بہت پانی پانی ہوگیا ہے سب۔ کہیں تم بھی شرم سے پانی پانی نہ ہوجاۓ۔ ہو سکے تو چلو بھر پانی لے کر اس میں ڈوب مرنا ۔ بہت پانی ہے یہاں ۔۔!!!"

اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر یشاور کے ہاتھ میں پکڑایا پھر پانی پانی کرتا وہاں سے نکل گیا۔ پیچھے یشاور پانی کے گلاس کو دیکھنے لگا۔

" یہ تو میرے دماغ کی ہی دہی کرگیا۔ دہی دودھ سے بنتا ہے۔ دودھ میں تو گوالا بھی من بھر پانی ڈالتا ہے۔ اتنا پانی ۔۔!! جبکہ گاۓ بھی تو پانی پی پیتی ہے۔ پانی ہی پانی۔۔!! توبہ یہ بادل خان کیا کیا کہہ گیا ہے ۔ اتنا پانی تو زمین پر ہے نہیں جتنا یہ دریافت کرگیا ہے !!!!"

اس نے بادل خان کی پشت دیکھی پھر کچھ سوچ کر پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں پی گیا اس میں بھی تو پانی ہی تھا۔ بادل نے بات بڑے مزے سے گمائ تھی اتنے مزے سے کہ اب یشاور کو بھی یاد نہیں تھا کہ اسے بادل خان پر شک ہے۔

 کچھ دیر بعد اسے اس کی ماں اپنے پاس آتی ہوئ دکھی۔ جو ابھی بہار کو ہی بہلا کر آئ تھیں کہ یشاور اس کا بہت خیال رکھے گا۔

یشاور نے گلاس ٹیبل پر رکھا اتنے میں وہ اس کے قریب کھڑی تھیں۔

" آپ جارہی ہیں ۔۔؟؟ چاہیں تو یہیں رک جائیں آج"

یشاور کا لہجہ احترام سے لبریز تھا اس نے روکنا چاہا جنہوں نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا۔

" یہ تم اپنے پاس رکھو۔ میرا حصہ ہے یہ جائیداد سے۔ میرے بھائیوں کو تو توفیق تھی نہیں دینے کی بس بادل نے ہی مہینہ پہلے اپنے طریقے سے نکلوایا ہے ان سے۔ اور میں اسے تمہیں اور معصومہ کو دینا چاہتی ہوں۔انکار مت کرنا اسے میری خوشی سمجھ لو۔۔!!" 

کچھ فائلز تھی ایک لفافے میں جو انہوں نے یشاور کے ہاتھ میں تھمائیں جس نے لینے سے انکار کرنا چاہا پر وہ اسے تنبیہہ بھی کرگئیں۔ جو ہچکچا رہا تھا اسے لینے میں ۔ آخر اس نے اپنی ماں کو آج تک دیا ہی کیا تھا جو ان سے کچھ لیتا۔

" آپ کا حق ہے یہ۔ آپ اپنے پاس رکھیں مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔۔!! آپ آگئیں یہ بہت ہے میرے لیے ۔۔!!"

 اس نے رسان سے انکار کرنا چاہا جب ان کی مسکراہٹ اداسی میں بدل گئ۔

" یشاور بیٹا ۔۔!! میں درخواست کرتی ہوں تم سے کہ اب دلاور خان سے دور رہو۔ اس سے کچھ بھی لینے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔ کہیں اس کے گناہوں کی سزا میں تم بھی حصہ دار نہ بن جاؤں۔تم یہ سب اپنے پاس رکھو کوئ اچھا سا کاروبار شروع کرنا۔

 خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کرو ۔ تاکہ ماں کو سنبھال سکو تم۔ ماں تمہاری اب بھی ینگ ہے بڑھاپہ چھو کر بھی نہیں گزرا مجھے۔ لیکن عمر تو بڑھ رہی ہے نا جلد تمہارے ہی کندھوں پر میرا بوجھ پڑے گا۔۔!! اتنے قابل تو ہوجاؤ کہ ماں کی فرمائشیں پوری کرسکو۔ " 

وہ اسے سمجھا بھی رہی تھیں پر آخر میں انہوں نے شرارت سے اسے چھیڑا۔جو خود بھی مسکرا اٹھا۔ اور سر ہاں میں ہلا کر ان کی صورت دیکھنے لگا۔ وہ اب بھی بلاشبہ حسین تھیں۔ چھوٹی سی عمر میں بس گھر والوں نے انہیں کندھوں سے بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا اور دلاور خان جیسے کم ظرف انسان کے حوالے کرکے وہ خود مطمئن ہوگۓ۔

══════⋆

 وہ تب بس بارہ سال کی تھیں جب خود سے کئ سال بڑے شخص کے نکاح میں انہیں بس کاروبار میں ہوۓ گھاٹے کو پورا کرنے کے لیے دے دیا گیا۔ دلاور خان نے ایک حساب سے انہیں خریدا ہی تھا۔ تبھی تو آج تک ان کی جلی کٹی باتیں سن کر بھی دلاور خان  نے انہیں نہ طلاق دی تھی نا جان سے مارا تھا۔ کیونکہ یہاں بھی انہیں ہی حسارہ ہوتا۔۔!! وہ ان کے بھی مجرم تھے۔ وہ کیا ان کے سارے گھر والے ان کے مجرم تھے۔ دلاور خان کا اصل چہرہ جاننے کے باجود وہ انہیں چھوڑ نہیں سکتی تھیں ۔کیونکہ وہ ملکیت تھیں ان کی۔ جن کے ساتھ رہنا ان کی مجبوری تھی۔

البتہ آج سے چار سال پہلے جب بادل ان کی زندگی میں آیا تو اس نے ان کی درد بھری کہانی جان کر انہیں وہ شفقت دی جو ایک بھائ سے بہن چاہتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے سنگدل گھر والوں سے ان کی وراثت تک اس نے انہیں لے کر دی ۔اتنی خاموشی سے کہ دلاور خان کے فرشتوں تک کو خبر نہ ہوپائ۔ بھائ نہ ہو کر بھی وہ پچھلے چار سالوں سے ان کے لیے شفقت بھرا سایہ اور معصومہ کا محافظ بنا ہوا تھا۔

══════⋆

"پیاری تو آپ سچ میں بہت ہیں۔ اور آپ کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے میں ہمیشہ حاضر ہوں جب چاہیں ہمیشہ کے لیے میرے پاس آجائیں اور یہ سب آپ کی امانت ہے اسے میں امانت کے طور پر ہی رکھوں گا۔ اور میں اب آپ کو آپ کا بیٹا بن کر دکھاؤں گا۔ انشأ اللہ "

اس نے آگے بڑھ کر انہیں خود سے لگایا۔ سالوں بعد ماں کی ممتا اسے محسوس ہوئ تھی وہ اس جذبے کو اب کھونا نہیں چاہتا تھا۔ 

" اچھا بس بہت ہوگیا یہ سب۔ تم بہار کے پاس جاؤ۔ اس کا خیال رکھنا اوکے مجھے کوئ شکایت نہیں ملنی چاہیے۔ تم میرے بیٹے بعد میں ہو سب سے پہلے وہ میری بیٹی ہے۔ اسے کسی کی بھی کمی نہ محسوس ہو۔۔۔!! 

جلد ملیں گے۔ اللہ حافظ" 

 اپنی نم آنکھیں صاف کرکے انہوں نے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا پھر اسے ہدایت دے کر چلی گئیں۔ یشاور نے وہ لفافہ وہیں ٹیبل پر رکھااور خود وہیں صوفے پر ہی لیٹ گیا۔ بہار کمرے میں سورہی تھی اور اسے اس کا سکون خراب نہیں کرنا تھا۔

 وہ لڑکی جو اسے کچھ دن پہلے سڑک پر ملی تھی اب وہ اس کی بیوی تھی۔ جس کے لیے وہ آدھے گھنٹے پہلے تک نامحرم تھا اب وہ اس کا واحد محرم تھا۔ یہ تبدیلی اسے اب محسوس ہورہی تھی۔ 

اپنا آپ اسے اب سنجیدہ ہوتا محسوس ہوا۔ وہ اب اکیلا نہیں تھا اس کی بھی اپنی فیملی تھی۔ ناچاہتے ہوۓ بھی وہ مسکرایا۔ دل میں اب سکون تھا کہ وہ لڑکی اب اس کی امان میں ہے اسے وہ ہر خطرے سے بچا کر رکھے گا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اگلے دن کے آغاز کے ساتھ ہی سب کی زندگیاں کسی الگ رخ پر چل پڑیں ۔ جہاں معصومہ اور فدیان کی معصوم سی محبت اب معصومہ کو بھی محسوس ہورہی تھی وہیں زرلشتہ اور درمان کی زندگی میں ننھی سی خوشی ان کے رشتے کو مزید مضبوط بنارہی تھی۔ یشاور اور بہار کے تعلق کو نام ملا تھا تو وہیں وشہ اب بھی دیار سے کھچی کھچی تھی۔

آج اسے یونی واپس سے جوائن کرنا تھی اور وہ اس کے لیے پرجوش بھی تھی۔ صبح صبح ہی وہ اپنی بکس سمیٹ کر آج یونی میں ہونے والے لیکچرز کا اپنی دوست سے پتا لگواکر یونی جانے کے لیے تیار ہوگئ۔ 

سمپل سے ڈریس میں ہمیشہ کی طرح بڑی سی چادر اپنے گرد لپیٹ کر اس نے خود کو کور کیا۔ اسے میک اپ کا شروع سے ہی شوق نہیں تھا اور خاص طور پر یونیورسٹی کے لیے تیار ہونے کا مطلب اس کے نزدیک خود کو چھپانا ہی تھا۔ 

دیار بھی سات بجے ڈیرے سے واپس آگیا۔ آتے ہی اسے وشہ تیار دکھی تو بغیر کچھ کہے وہ اسے لے کر اس کی یونی کے راستے پر گامزن ہوگیا۔ یونی کا نام اسے وشہ بتاچکی تھی۔

سارے راستے دونوں کے بیچ خاموشی ہی طاری رہی۔ نا وشہ نے کچھ کہا نا ہی دیار نے اس خاموشی میں حلل ڈالا۔ ٹھیک دو گھنٹوں بعد وہ دونوں وشہ کی یونیورسٹی کے پاس موجود تھے۔

وشہ نے گاڑی کے شیشے کے پار اپنی منزل دیکھی۔ اسے امید نہیں تھی کہ دیار خود اسے اس کے خواب کے پاس لاۓ گا۔

" لیں جانم آپ کی منزل آپ کے سامنے ہے اور میری منزل میرے بہت پاس۔۔!! آپ کو جیسے آپ کی منزل کی قدر ہے ویسے ہی مجھے میری اس خوبصورت سی منزل سے پیار ہے۔ اب جب آپ کو اپنی منزل مل رہی ہے تو التجا ہے کہ مجھ بندہ ناچیز پر  بھی ایک نگاہ الفت ڈالیں تاکہ میں بھی پھر سے جی اٹھوں ۔۔!!!"

وشہ نے گاڑی کا دروازہ کھولنا چاہا پر وہ تو لاک تھا پھر اس نے دیار کی جانب دیکھ کر ہینڈل گھمایا جو اشارہ تھا کہ دروازہ کھولو۔ 

جس کے جواب میں معصومیت کی اعلی مثال بنتے ہوۓ دیار نے ایک ہاتھ سٹیرنگ پر رکھا اور اسے دیکھ کر محبت بھرے لہجے میں پھر سے اس کے دل پر دستک دینا چاہی۔ 

" آپ کیا کبھی اپنا چھچھوڑا پن چھوڑ نہیں سکتے ۔۔!!! شرافت سے گاڑی انلاک کریں اور اپنا راستہ ناپیں۔ واپسی کے لیے گاڑی بھیج دیجۓ گا۔ ہم آپ کے ساتھ تو بالکل بھی واپس نہیں جائیں گے۔۔!! اب گاڑی انلاک کریں " 

وشہ نے غصے سے کہا۔ تو اس کی بات سن کر دیار نے آنکھیں میچیں۔ جیسے ضبط پھر ٹوٹ رہا ہو۔ 

" شرافت مجھے چھو کر بھی نہیں گزری جانِ دیار۔۔!! دلبرم اگر میرا چھچھوڑا پن آپ نے دیکھ لیا تو کیا بنے گا آپ کا۔ ابھی جو میں کرتا ہوں اسے پیار کہتے ہیں چھچھوڑا پن نہیں ۔۔!! اور میں تو واپسی پر بھی آپ کو لینے خود آؤں گا۔

 یاد ہے نا آپ کو پہلی ملاقات کے وقت آپ کے ڈرائیور نے ہی غدار ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ آپ کو مشکل میں ڈال کر۔ اس لیے اپنی اتنی پیاری، کیوٹ اور اپنے دل کی دھڑکن اپنی اکلوتی بیوی کے معاملے میں، میں کسی پر بھی یقین نہیں کروں گا۔ ابھی آپ کے لیے کچھ ہے میرے پاس۔ !! اگر یہاں سے باہر نکلنا ہے تو ہاتھ آگے کریں اور میرا تحفہ قبول کریں ۔!!"

دیار نے اس کے اکھڑے تاثرات دیکھنے کے باوجود اپنے انداز سے محبت کم نہ ہونے دی۔ 

" یہ تو ہم جانتے ہیں کہ آپ ہیں ہی چھچھوڑے۔۔!! وہ ملاقات ہی تو غلطی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم آپ سے ملے ہی نہ ہوتے۔ ہم آپ کو جانتے ہی نہ ہوتے۔ آپ سے بہت دور ہوتے ہم۔۔!! یا آپ ہمیں بچاتے ہی نا ۔!!" 

وشہ کی بات سن کر اسے انتہا کا غصہ آیا۔ کیوں وہ اتنا کڑوا بولتی تھی۔

" اگر آپ مجھے پہلے نہ ملی ہوتیں تو تب بھی میں آپ کا اتنا ہی خیال رکھتا جتنا اب رکھتا ہوں۔ میری محبت کسی ملاقات کی محتاج نہیں۔ یہ بس ان احکامات کی محتاج ہے جو ایک شوہر ہونے کی حیثیت سے میرا دین مجھ پر فرض کررہا ہے۔ میں اس وقت تک آپ کی راہ میں فریادی بن کر کھڑا رہوں گا جب تک مجھ میں ہمت رہی۔۔!! اگر دل قبول کریں گی تو دیار ساری زندگی آپ کی ڈھال بن کر کھڑا رہے گا اور اگر دل روند دیں گی تو آپ اپنے راستے میں اپنے راستے۔۔!!!"

دیار نے گہرا سانس خارج کیا۔ کب تک وہ اپنی تذلیل برداشت کرکے جواب محبت سے دیتا رہتا۔ وہ مرد تھا اس کا صبر ختم ہونے کی دیر تھی وشہ کی دنیا ہل جاتی۔

لیکن وہ صابر تھا اس نے ہاتھ آگے کیا۔ جیسے کوئ امید مانگی ہو۔

وشہ کا دل کانپا۔ تو وہ کیا صبر ختم ہونے پر اسے چھوڑ دے گا۔اس  کے لیے بھی دیار کی محبت کا جواب نفرت سے دینا کے ٹو کی پہاڑی سرکرنے کے مترادف تھا۔وہ ہتھیار ڈالنا چاہتی تھی اور عنقریب ڈال بھی دیتی۔ دیار کی محبت اسے دل نرم کرنے پر مجبور کرچکی تھی۔تبھی بغیر کچھ بھی کہے اس نے ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ 

"جو بھی ہے جلدی دیں ہمارا لیکچر مس ہوجاۓ گا۔ اور واپسی بارہ بجے ہے آجائیے گا۔۔!!!"

دیار نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دیکھا تو دل کے کسی کونے میں امید جاگی کہ وہ جلد اسے قبول کرلے گی۔ اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ واپس کھینچ لیتی دیار نے اپنی پاکٹ سے وہ بریسلیٹ نکالا جو اس نے اس کے لیے ہی بنوایا تھا۔ جس پر جانِ دیار لکھا تھا۔ 

بریسلیٹ پہنانے کے بعد دیار نے محبت بھری نظر وشہ کے چہرے پر ڈالی پھر اس کے ہاتھ میں وہ بریسلیٹ دیکھا۔ 

" جانم کبھی کبھی ایک چھوٹی سی عنایت کرکے آپ مجھے اپنا اسیر بنالیتی ہیں۔۔!! دل کرتا ہے آپ کو سب سے چھپا کر خود میں بسا لوں۔ کیا ہیں آپ..!! میرا دل میری جان میری شریکِ حیات ۔۔!!! بہت عزیز ہوتی جارہی ہیں آپ مجھے حد سے زیادہ۔ ۔!!" 

ایک جزب کے عالم میں دیار نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھاما پھر عقیدت بھرا لمس اس ہاتھ پر چھوڑ کر وہ دل سے مسکرایا۔ اتنا اثر تھا اس کی مسکراہٹ میں کہ گاڑی میں پھیلی بے سکونی اب سکون میں بدل گئ۔ بس اتنی سی توجہ چاہیے تھی دیار کو۔ بدلے میں وہ اس کی راہیں پھولوں سے بھر دیتا۔

وشہ لرزی پھر حلق تر کرکے چہرہ دوسری طرف موڑ گئ۔

" اچھا اب ہمیں جانا ہے۔ یہ فلمی ڈرامہ بعد میں کرلیجۓ گا۔ وقت پر آجائیے گا اپ۔ ہمیں یونی کے گیٹ ہر کھڑے ہونے کی عادت نہیں ۔۔!!" 

نامحسوس طریقے سے وشہ نے اپنا ہاتھ آزاد کروایا تو دیار نے بھی گاڑی انلاک کردی وشہ تیزی سے اپنی بکس اور فون اٹھا کر گاڑی سے نکل گئ۔ نظر بھٹک کر اس بریسلیٹ پر تھم رہی تھی جس پر اس دشمن جان کا نام لکھا تھا۔ 

اس نے اپنی اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالا۔ اور یونی کے گیٹ کو عبور کر کے دیار کی نظروں سے دور ہوگئ۔

یونی میں آتے ہی ایک سائیڈ پر کھڑے ہوکر وشہ نے اپنے اس ہاتھ ہو دیکھا جسے دیار کی توجہ ملی تھی۔ اسے بھی اپنے اسی ہاتھ پر جی بھر کر پیار آیا۔ 

" دیار آپ ہمیں اب پاگل ہی کریں گے۔۔!! ایسا بھی کوئ جنونی ہوتا ہے کیا جیسے آپ ہیں۔ آپ سے ڈر بھی نہیں لگتا اور پیار بھی آتا یے۔ یہ جنون ہے یا کیا ہے۔۔!! 

افففففف ہم کیسے بچیں آپ کی محبت سے ۔!! اگر ایسا ہی چلتا رہا نا تو اس سال ہم فیل ہی ہوں گے۔ آپ کے خیال ہمیں پیپرز میں کچھ لکھنے ہی نہیں دیں گے۔ ہم بس دیار دیار دیار ہی لکھ کر آئیں گے وہاں ۔!!! "

اس ہاتھ کو دیکھ کر وشہ نے ہنستے ہوۓ سوچا۔ پھر سر جھٹک کر لیکچر اٹیند کرنے چلی گئ۔

 •┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

آج ناشتہ زرلشتہ نے منہ بناکر کر ہی کیا تھا۔ ابلے انڈے ، فروٹس، جوس اور ہر ہیلدی چیز دیکھ کر اس کا دل خراب ہوا کہ وہ کیوں یہ سب کھاۓ پر درمان کو غصے میں آتا دیکھ کر وہ خاموشی سے سب کھاگئ۔

 ساتھ ہی درمان نے ملازمہ کو تاکید بھی کی کہ زرلشتہ کو کوئ سپائسی چیز روز روز نہ دی جاۓ۔ اس کی ڈائٹیٹ کا خیال رکھتے ہوۓ اسے کھانا وقت پر ملنا چاہیے۔ اگر وہ گھر پر نہ ہوا تو اسے وہ اپنی نگرانی میں کھانا کھلائیں۔مختصرا پاستہ، پیزا اور ساری عجیب چیزیں اسے ہفتے میں دو سے تین بار ملیں گی بس۔ 

اسے اب فروٹس ، اوٹس اور سبزیوں پر گزارا کرنا ہوگا۔بقول زرلشتہ کے اس کا درمان ناراضگی کا بدلہ لے رہا تھا اس سے۔ اسے موٹا کرنے کی تیاریاں جاری تھیں تاکہ بعد میں اس کا مزاق بنایا جاسکے۔

ابھی وہ چاکلیٹس کے باکسز دیکھ رہی تھی جو کل درمان نے اسے دلاۓ تھے۔ اسے درمان سے بات بھی کرنی تھی جو اس وقت سٹڈی روم میں کوی فائل رکھنے گیا تھا۔

درمان جب سٹڈی سے باہر نکلا تو اسے زرلشتہ بیڈ پر بیٹھی ہوئ دکھی۔ وہ پہلے سے بہت بہتر تھی۔ وہ بغیر اس سے کچھ بھی کہے جاکر صوفے پر بیٹھ گیا۔ اور اپنا لیپ ٹاپ اٹھاکر ٹائم پاس کرنے لگا۔ وہ زرلشتہ کو شو کروارہا تھا کہ وہ بہت بزی ہے۔ 

" نک چڑی بلی ۔۔!! سب لے دیا اسے میں نے۔ اتنا خیال بھی رکھا اس کا اور ایک دفعہ اس نے مجھ سے بات نہیں کی۔ اچھا ہے نا اب جب سپائسی چیزیں نہیں ملیں گی اسے تب اسے میری قدر ہوگی۔۔ !! فرنچ کٹ بالوں والی بلی ۔!! کیوٹ ہے تبھی اسے ڈانٹنے کو دل نہیں کرتا ورنہ ڈرامہ کوئین تو یہ پوری ہے۔۔!!" 

ابھی درمان اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب اسے اپنے کندھے پر کچھ محسوس ہوا اس نے چونک کر دیکھا تو وہی فرنچ کٹ بالوں والی بلی اس کے کندھے پر سر رکھ کر لیپ ٹاپ کی طرف دیکھ رہی تھی۔

" مجھ سے بات  تو کریں نا مان ۔!! ناراض میں ہوں آپ تو نہیں ہیں نا۔ آپ مجھ سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ آۓ کانٹ لو ودآوٹ یو۔۔!! "

لاڈ سے زرلشتہ نے اسے بلایا جس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئ۔ بلی اس کے بغیر رہ بھی نہیں سکتی تھی۔ انٹرسٹنگ ۔۔!!

" بہت پیار آرہا ہے تمہیں مجھ پر۔۔!! بات تو ٹھیک ہے تمہاری ناراض تم ہو میں تو نہیں ہوں مجھے بات کرنی چاہیے تم سے۔۔!! بتاؤ کیا بات کرنی ہے تم نے۔۔!!" 

اس نے اب بھی خود کو مصروف ظاہر کیا تو زرلشتہ نے اس کے لیپ ٹاپ کو گھورا۔ جیسے اسے توڑ دے گی۔

" کیا کررہے ہیں آپ ۔۔!!! مجھ سے بات کرنی ہے تو مجھے دیکھیں۔ میں آپ کی بیوی ہوں یہ لیپ ٹاپ نہیں ۔۔!!!" 

زرلشتہ نے خفگی دکھائ۔ لیکن درمان نے سنی ان سنی کردی۔

" فائنینشل ایشوز ہیں کچھ۔ اپنے بجٹ میں رہ کر مجھے یہ پروجیکٹ پورا کرنا ہے۔ پر سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے کروں۔ اس کام کی ریکوائرمنٹ زیادہ ہیں پر بجٹ اتنا نہیں ۔۔!! ہفتے سے میں الجھا ہوں اس کام میں۔ اور مجھے اگلے چند دنوں میں اسے ہر حال میں پورا کرنا ہے۔ ورنہ کمپنی لاس میں چلی جاۓ گی۔ اگر میں یہ کردیا تو کمپنی کو پورے سال کا منافع ایک ہی پروجیکٹ سے مل جاۓ گا۔ بس یہی سمجھو یہ ڈو اور ڈاۓ والا رسک ہے۔ یا تو میں مزید اونچائی پر جاؤں گا یا اس سے بھی نیچے گر جاؤں گا۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں میں۔۔!! 

یہ میرے لیے اب تک کا سب سے مشکل کام ثابت ہونے والا ہے۔ بس ابھی تم مجھے ڈسٹرب نہ کرو۔ یہیں بیٹھی رہو مجھے مسئلہ نہیں پر مجھے اسے حل کرنا ہے۔۔!!"

درمان نے وہ فائل اوپن کی جو اس کی سمجھ سے بھی باہر تھی۔ یہ سب سراسر زرلشتہ کو تنگ کرنے کے لیے اس نے کیا۔ جو اب غصے سے آنکھیں میچ گئ۔ اسے کوی اگنور نہیں کرسکتا تھا۔ کیا یہ کام اس سے زیادہ اہم تھا۔ نہیں ۔۔۔!!! 

" دل تو کررہا ہے کہ یہ لیپ ٹاپ ہی توڑ دوں۔۔!! اچھا آپ مجھ سے بات کریں نا میں ناراض ہو اسی بات کا احساس کرلیں۔ اور اسے مجھے دیں ۔۔!! میرے اور آپ کے بیچ مجھے اس لیپ ٹاپ کی انٹرفیرینس بھی برداشت نہیں ۔۔!!" 

زرلشتہ نے اس کی گود سے لیپ ٹاپ اٹھا لیا درمان نے روکنا چاہا کہیں وہ اسے توڑ ہی نہ دے پر اس کی تنبیہی نگاہ پر وہ چپ ہوگیا۔ اسے حوصلہ تھا کہ لیپ ٹاپ کا ڈیٹا ایک اور لیپ ٹاپ سے اٹیچ ہے تو اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں اگر وہ توڑ بھی دے گی تو نقصان نہیں ہوگا ۔ اور زرلشتہ کے ارادے نیک بھی نہیں تھے۔

" اچھا رکھ لو اسے اپنے پاس ہی۔ لیکن ایک بات بتاؤ بچے کیسے لگتے ہیں تمہیں ۔۔!! " درمان نے اسے اپنے حصار میں قید کرکے اپنے اندر چلتا سوال پوچھا ۔

زرلشتہ نے بچے والا لفظ سنا تو اسے وہ بچہ یاد آیا جس کے ساتھ اس نے درمان کی تصویر دیکھی تھی۔

" زہر لگتے ہیں مجھے بچے۔۔!! ہر وقت روتے رہتے ہیں۔ لڑاکا اور بدتہذیب بھی ہوتے ہیں۔۔!!! کچھ سال پہلے ایک سکول فیلو نے اپنی چھوٹی سسٹر مجھے اٹھانے کے لیے دی تھی بدتمیز نے میرے بال ہی کھینچ دیے۔ میں نے رکھ کر تھپڑ لگایا تھا اسے۔ پھر اس کا باجا پورے سکول نے سنا تھا۔

 اس کے علاؤہ بچے ہر وقت گند مچاتے رہتے ہیں۔ اپنی چیزیں بھی شیئر نہیں کرتے اور ہماری چھین لیتے ہیں بہت عجیب نیچر ہے ان کی۔ ایک دفعہ سکول میں دو بچے لڑتے لڑتے مجھ سے ٹکڑاۓ تھے میں دوسری سیڑھی سے نیچے گری تھی۔ پھر میں تو بچ گئ پر وہ بچے سکول میں مجھے واپس نہیں دکھے۔ ان شارٹ مجھے ایسے زہریلے نمونے نہیں پسند ۔۔!! "

درمان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا زرلشتہ کی اتنی عظیم سوچ نے۔ زرلشتہ کو ڈر تھا کہ کہیں درمان اس بچے کو گھر ہی نہ لے آۓ۔

درمان ہکا بکا رہ گیا۔ اتنی عظیم سوچ۔۔!!

" تھوڑے بھی نہیں پسند تمہیں بچے۔ اگر اللہ نے تمہیں اولاد سے نواز دیا تم تو اس بیچارے کو ایدھی سینٹر ہی چھوڑ آؤ گی۔ یار بچے اتنے بھی برے نہیں ہوتے۔ وہ ناسمجھ ہوتے ہیں اس لیے روتے ہیں۔ تم تو بچوں کو زہریلا ہی کہہ رہی ہو" 

درمان نے صدمے کے زیر اثر کہا۔ بھلا بچوں پر اتنا غصہ جائز تو نہیں ہے۔ لیکن زرلشتہ کی اپنی سوچ تھی اور درمان کو فکر تھی کہ جب اسے ان کے بچے کا پتہ چلا تو وہ کیسے ری ایکٹ کرے گی۔ کہیں ہنگامہ ہی نہ مچادے۔ 

" کیا ہوگیا ہے مان ۔۔!! اپنے بچے میں ایدھی سینٹر کیوں چھوڑ کر آؤں گی۔ میں پاگل تھوڑی ہوں۔۔!!" 

اس کی بات سن کر زرلشتہ نے ایک خفگی بھری نگاہ درمان کے چہرے پر ڈالی پھر لیپ ٹاپ کی سکرین سکرول ڈاؤن کرنے لگی۔ وہ بڑے غور سے اس کی بنائ پریزنٹیشن دیکھ رہی تھی۔

" تم نے خود ہی تو کہا تمہیں بچے زہر لگتے ہیں۔۔!! میرے بچوں کو تو تم پھر ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گی۔۔!! بہت ظالم ماں بنو گی تم..!!" 

درمان نے اسے اس کی بات یاد دلانا فرض سمجھی۔ اب وہ پریشان تھا کہ جب اسے پتہ لگے گا وہ ایکسپیکٹ کررہی ہے تو وہ سچ میں ہنگامہ کھڑا کرے گی۔ وہ ویسے ہی بیوقوف ہے کہیں کوئ نقصان نہ ہو جاۓ۔

زرلشتہ کا فوکس اب لیپ ٹاپ پر تھا مکمل۔ پر باتیں وہ درمان کی ہی سن رہی تھی۔

"سچ ہے مجھے بچے نہیں پسند دوسروں کے۔ ویسے بچے جنہیں آپ اپنا کہہ کر مجھے رلاتے ہیں۔ ورنہ بچے اتنے بھی برے نہیں ہوتے۔ چھوٹے سے تو ہوتے ہیں بول بھی نہیں پاتے۔۔!! اور میں ظالم ماں کیوں بنوں گی۔ میں اچھی والی مما بنوں گی انشاء اللہ ۔۔!! اپنے بچوں کو تو میں اپنی جان سے بھی پیارا رکھوں گی۔ انہیں بہت سارا پیار کروں گی۔ 

ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں ہوں گے ان پر میں لوشن لگاؤں گی۔ ان کے لیے پیارے پیارے سے کپڑے لوں گی۔ جب وہ بڑے ہو جائیں گے تو میں انہیں سکول چھوڑنے جاؤں گی۔ ان کے لیے لنچ باکس بناؤں گی۔ بہت سا پیار کروں گی انہیں ۔۔!! بچے پیارے ہوتے ہیں مجھے چھوٹا بہن بھائ بھی نہیں ملا تھا۔ پھر فیملی میں کوئ چھوٹا کزن بھی نہیں تھا جسے میں پیار کرتی۔۔!! میں ہی چھوٹی تھی تو اب جب اللہ مجھے چھوٹا سا بے بی دے گا تو میں اپنے سارے شوق پورے کروں گی۔۔!!" 

اس کی بنائ ہوئ پریزنٹیشن میں اب اس نے تبدیلی کرنا شروع کی۔ درمان نے اسے چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھا پر چپ رہا اس کے لیے پروجیکٹ سے زیادہ ضروری زرلشتہ کی بچوں کے بارے میں راۓ لینا تھا۔

" تم اتنا سب کچھ کرلو گی۔ تم تو خود اتنی چھوٹی سی ہو۔ بال اتنی مشکل سے تم اپنے بناتی ہو ان کا خیال کیسے رکھو گی۔۔!!" 

لیپ ٹاپ کی فکر چھوڑ کر درمان نے اس کی پیشانی پر جھول رہے بال ہاتھ سے سیٹ کیے۔ چھوٹی سی بینڈیج اب بھی اس کی پیشانی پر بندھی تھی۔ اس کا زخم اب پہلے سے بہت بہتر تھا پر بھرا نہیں تھا مکمل۔ پھر اس کے گال اور ہونٹ کے کنارے پر اس کی نظریں گئیں جن پر لگے زخم اب ٹھیک ہوچکے تھے۔ بچوں کے بارے میں اس کی راۓ جان کر اسے تسلی تو ہوگئ کہ وہ اتنی بھی بیوقوف نہیں۔ بس وہ خوش ہوگی یہ بات جان کر وہی کافی ہے۔

" ویسے مان ۔۔!! آپ کیوں پوچھ رہے ہیں مجھ سے یہ سب۔۔!! کہیں دوسری شادی واقعی تو نہیں کی ہوئ آپ نے۔ اور اب جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے میں سنبھالوں گی یا نہیں ۔ تو سن لیں کہ میں بس اپنے، لالہ جان کے،اور فاد بھائ کے بچوں کو پیار کروں گی آپ کی دوسری بیوی کے بچوں کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گی۔

 ان کا فیڈر چھپادوں گی اور ان کے کھلونے بھی توڑ دوں گی۔ آپ کی زندگی میں بس میں ہوں اور میں ہی رہوں گی۔ تو دوسری شادی کا پلان کرنے سے پہلے میری دھمکی یاد رکھیے گا۔ میں سچ میں واپس نہیں دکھوں گی آپ کو کبھی بھی۔۔!!!" 

  درمان کی باتوں کے پیچھے چھپی وجہ زرلشتہ نے تلاش کرنا چاہی پھر منہ بسور کر اسے دھمکی بھی دی۔ جو اس کی ساری باتوں کا رخ ایک طرف جاتے دیکھ کر بیچارگی سے سر نفی میں ہلاگیا۔ 

"  زرلشتہ  کرکیا رہی ہو تم۔۔!! یہ تمہارے بس کا کام نہیں۔ تم بچی ہو ابھی اس کام کو کرنے کے لیے ۔۔!! تو اسے چھوڑو اور مجھے بتاؤ دوبارہ تو طبیعت خراب نہیں ہوئ نہ تمہاری کہیں درد تو نہیں ہورہا یا چکر تو نہیں آرہے۔۔!!" 

اس نے لیپ ٹاپ اس کے ہاتھوں سے لینا چاہا تو اسے گھور کر زرلشتہ نے وارننگ دی۔ تبھی اس نے بات کا رخ بدلا۔ 

" ٹھیک ہوں میں کچھ نہیں ہوا مجھے ۔!! آپ پاس ہیں تو سب ٹھیک ہے۔۔!! لیں ہوگیا آپ کا کام۔۔!! اب پورے سال کے پروفٹ میں سے ٹونٹی پرسنٹ تو میرا بھی حق بنتا ہے۔ دیکھ لیں آپ کی بیوی اتنی بھی پاگل نہیں جتنا اسے یہ دنیا سمجھتی ہے۔ اب ہم مووی دیکھیں گے۔ آپ کا اب سارا وقت صرف میرا ہے۔ آپ اب کوئ اور کام نہیں نکالیں گے اوکے ۔۔!! " 

زرلشتہ جو بڑے غور سے درمان کے پروجیکٹ کی ڈیٹیلز دیکھ رہی تھی۔ وہ فورا ایرر تک پہنچ گئ۔ پھر اس نے چٹکیوں میں مسئلہ سلجھایا ۔ اور کام ختم ۔ 

درمان نے جب سامنے ڈیٹیلیز میں ریکوائرمنٹس اور بجٹ آخر میں رزلٹ سب دیکھا تو وہ حیران ہوا۔ اسے لگا زرلشتہ مزاق کررہی ہے۔ تبھی لیپ ٹاپ پکڑ کر وہ اب اوپر سے آخر تک اس پریزنٹیشن کی ڈیٹیلیز چیک کرنے لگا۔ اسے یاد تھا یہ مسئلہ تو اس کی پوری کمپنی کے تجربہ یافتہ سٹاف سے بھی نہیں سلجھا تھا۔ وہ یہ کام کرنا چاہتا تھا پر اسے لگتا تھا یہ بس خواب ہی رہے گا۔

" زرلشتہ کیا تم نے خود یہ سولو کیا ہے..!!" 

اس نے زرلشتہ کی جانب سوال طلب نظروں سے دیکھا۔ جس نے لاپرواہی سے سر ہاں میں ہلادیا۔

 وہ اس سے بھی ذہین تھی۔ پر اس نے یہ کیا کیسے ۔!!

" زری یہ تم نے کیسے سولو کیا۔ میں عرصے سے اسی میں الجھا ہوا ہوں میں نہیں کرسکا اسے حل۔ کیا تم بھی کوئ بزنس وومین تو نہیں ہو یا کوئ سیکرٹ ایجنسی ہے تمہاری کون ہو تم۔۔؟؟؟ تم وہ بیوقوف اور پاگل زرلشتہ نہیں ہو تم اتنی ذہین کب سے ہوگئ ۔۔!!" 

وہ جاننا چاہتا تھا۔ اس نے روانی میں سوال ہوچھے۔ تو ناسمجھی سے زرلشتہ جو اس کے پاس ہی بیٹھی تھی اس نے فورا نفی میں سر ہلایا ۔ درمان کا لہجہ بھلے حیرت بھرا تھا پر وہ ڈر گئ۔

" میں زرلشتہ ہی ہوں مان۔ آپ کی بیوی ۔ مجھے کیوں مشکوک بنارہے ہیں۔ میں کسی سیکرٹ ایجنسی کا حصہ نہیں ہو۔ آپ مجھے پولیس کے حوالے کردیں گے کیا۔ پر میں نے کیا کیا ہے۔۔!! مان بیلیو می میں نے اسے سولو کیا ہے پر میں نے کوئ جرم نہیں کیا۔ آپ مجھے خود سے دور کردیں گے۔ میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر ۔!!" 

درمان کی آنکھوں میں حیرت کی انتہا تھی تبھی ڈر کر زرلشتہ نے اس کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ پکڑ کر فائنل سیو کی اور اسے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا پھر اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر وہ رونے والی ہوگئ۔ بس اتنی سی ہمت تھی اس میں کہ درمان کی ستائش بھی اسے ڈرا گئ۔

 "اف زری۔۔۔!! میری جان ۔۔!! میں کیوں کروں گا تمہیں خود سے دور۔ تم نے مجھے حیران کردیا ہے اپنی ذہانت سے۔ میں شاکڈ ہوں اس وقت ۔ بس چند  منٹ اور کام ختم۔۔!! سوپرب یار۔۔!! میری جان رونا نہیں ہے میں ویسے ہی فضول بول رہا تھا ۔۔!!" 

اس سے پہلے کہ وہ اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے کے بعد بھی روپڑتی وہ اسے خود میں بھینچ گیا

 تاکہ اسے اپنی موجودگی کا احساس دلاسکے۔ وہیں زرلشتہ نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا ابھی تک۔ اسے اس سے دور نہیں جانا تھا کسی بھی قیمت پر۔ 

" ایجوکیشن کیا ہے تمہاری زری۔۔!! " 

اسے ریلیکس کرتے ہوۓ اس نے جاننا چاہا۔

" بی کام ۔۔!!"  

اس نے مدھم سی آواز میں بتایا۔

" آگے نہیں پڑھنا۔ کیا بننا تھا تمہیں۔!! " 

وہ مزید پوچھنے لگا۔

" آپ کی مرضی۔۔!! کہیں گے تو پڑھ لوں گی۔ مجھے ایم بی اے کرنا تھا۔ لالہ جان کی طرح مجھے بھی بزنس جوائن کرنا تھا۔ پر بس انہیں بتانے کے لیے کہ میں ان سے کم نہیں ہوں۔ اب تو ہم دور ہوگۓ ہیں۔ اب کیا فایدہ ۔۔!! چھوڑیں ان باتوں کو ہم مووی دیکھیں ۔۔!!" 

 وہ اپنے لالہ کی طرح بزنس ورلڈ میں آنا چاہتی تھی شادی سے پہلے ۔اسے انٹرسٹ تھا اس میں اور اپنے لالہ سے اس نے بہت کچھ سیکھا بھی تھا اب تک۔ اپنی ایجوکیشن سے زیادہ نالج تھی اس کے پاس۔ 

 وہ الگ بات تھی کہ یہ سب وہ بس اپنے لالہ کے لیول تک پہنچنے کے لیے سیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے مما بابا کو بتانا چاہتی تھی کہ ہر کام کی طرح وہ اس میں بھی ان سے آگے ہے۔

درمان نے آنکھیں بند کیں وہ تو بغیر کسی تجربے کے بزنس کی دنیا میں تہلکہ مچاسکتی تھی کیونکہ اس کا دماغ الگ ڈائریکشن پر چلتا تھا جس جانب کوئ سوچے بھی نا اس جانب۔

" مس سوپر انٹیلیجنٹ تم میرے پاس ہی اچھی ہو۔ اس مطلبی دنیا سے دور میرے عشق کے حصار میں تم محفوظ ہو۔ تم اوروں جیسی نہیں جسے میں دنیا کے بھروسے چھوڑ دوں۔

جیسے آہستہ آہستہ میں تمہیں جان رہا ہوں تم مجھے بھی پاگل کرو گی۔ سالوں گزر گئے مجھے اس مقام تک آتے آتے اور میں اب بھی حیران ہوں کہ تم نے یہ مسئلہ سلجھایا کیسے ۔!! اس کے بعد تو تمہیں میں دنیا کی نظروں میں بالکل نہیں آنے دوں گا۔ میں تمہیں کھو نہیں سکتا۔ عزیزم۔۔!! خود غرض ہورہا ہوں پر تم معصوم بہت ہو تم میرے پاس ہی اچھی لگتی ہو۔۔!!"  

درمان بھی عجیب تھا وہ چاہتا تو زرلشتہ کی قابلیت جاننے کے بعد اسے اہنے لیے استعمال کرلیتا۔ پر وہ اس کو اب دنیا کی نظروں سے بھی چھپاکر رکھنا چاہتا تھا۔ 

"ہمم۔۔!! یہی اچھا ہے کہ ہم کوئ مووی ہی دیکھ لیں۔ اور پڑھائ کی بات رہی جہاں تک۔۔!! میں کچھ دنوں میں ایڈمیشن کروادوں گا تمہارا۔ اوکے تم اپنا خواب پورا کرلو۔ بتادو دیار کو کہ اس کی سپر ایٹیلیجنٹ بہن جلد اسے اپنے آفس میں مینیجر کی جاب پر رکھنے والی ہے۔ تم بہت  آگے جاؤ گی۔۔!!"

درمان ڈررہا تھا اندر سے کہ وہ واقعی کہیں اسے بھول نہ جاۓ۔ لیکن دل نے کہا کہ محبت محبوب کو قید کرنے کا نام نہیں۔ اس کی خوشی میں خوش ہونے کا نام ہے۔ وہ راستہ آسان کرے اس کا اس کے خوابوں تک جانے کا۔ ناکہ رکاوٹ بنے۔ 

تب ہنستے ہوئے زرلشتہ اس سے دور ہوئ اور لیپ ٹاپ اٹھاکر اس نے آن کیا پھر پاسورڈ دیکھ کر درمان کی جانب لیپ ٹاپ بڑھادیا۔ جس نے زبردستی ہنستے ہوئے پاسورڈ انٹر کیا۔

اس کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ ہی " My beloved Musibat" تھا ۔ یہ جان کر زرلشتہ کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئ۔ اس سادے سے بندے کو اس نے کیا سے کیا بنادیا تھا۔

" اتنا فضول دماغ نہیں ہے میرے پاس جو بزنس بزنس کرتے ضائع کردوں۔ اور جب میرے شوہر کی انکم اتنی ہے کہ میں جی بھر کر چاکلیٹس کھاسکتی ہوں تو میں کیوں محنت کروں۔ آپ کی زمینیں ہیں، کڑوروں ، اربوں کی جائیداد ہے۔ سیٹلڈ بزنس ہے۔ جس پر میرا ہی حق ہے۔ کیونکہ میں بیوی ہوں آپ کی۔ 

میرا میرے بابا کی پراپرٹی میں بھی شیئر ہے ۔ جب اللہ نے مجھے اتنی بے فکر زندگی دی ہے تو میں اسے کبھی بھی دنیا سے آگے نکلنے میں ضائع نہیں کروں گی۔ سب سے بڑھ کر میرے پاس آپ ہیں جن کے ہوتے ہوۓ مجھے کسی چیز کی فکر نہیں۔ میں تو صوفے کے نیچے سے بھی چپس نکال لیتی ہوں۔ " 

درمان کے دل کی کوئ بات ہو اور زرلشتہ وہ جان نہ پاۓ ناممکن ۔!! 

تبھی اس نے وہ کہا جو درمان سننا چاہتا تھا پھر جھک کر صوفے کے نیچے سے چپس کے پیکٹس نکالے ۔ صوفے کے نیچے سے کیا وہ تو گھر کے کونے کونے سے کھانے کی چیزیں نکال سکتی تھی چیزیں پھیلانے کی عادت جو تھی اسے۔

درمان اس کے اتنے لاپرواہ انداز پر خاموش ہی رہا۔ وہ اسے اس سے زیادہ جانتی تھی۔

"مجھے بس آپ کے ساتھ پیاری سی زندگی جینی ہے ہر فکر سے آزاد ہوکر۔ ساتھ ہی مجھے ہر خوشی سیلیبریٹ کرنی ہے۔ مجھے کسی سے آگے نہیں نکلنا نا ہی کسی کو اپنا ٹیلنٹ دکھانا ہے۔ نظر لگ جاتی ہے نا اس لیے۔۔!! اب تھوڑی سی جگہ بنائیں اپنے پاس میرے لیے۔مجھے صحیح سے بیٹھنا ہے۔۔۔!!" 

زرلشتہ نے چپس کا پیکٹ کھولا پھر اس کے بازو کے حصار میں آکر وہ اس کے سینے پر سر رکھ کر دونوں پاؤں سامنے ٹیبل پر رکھ کر ٹھیک سے لیٹی تاکہ مووی انجواۓ کرسکے۔ 

پھر باربی مووی لگا کر اس نے لیپ ٹاپ درمان کی گود میں رکھ دیا اور خود چپس کھانے لگی۔

درمان تسلی سے اس کی صورت دیکھتا رہا آخر وہ کس نیکی کا صلہ تھی۔ اس کے لیے خواب بھی چھوڑ رہی تھی کہیں درمان سے دور نہ ہوجاۓ۔

" پہلے سے دیوانے بندے کو اور کتنا دیوانہ بناؤ گی عزیزم۔۔!! زه تا سره ډیره مینه لرم(میں بہت پیار کرتا ہوں تم سے)"

درمان نے دل سے کہا۔ تو وہ بھی مسکرائی۔

"زه به داسې څه ونه وایم. مینه ستا ستونزه ده نه زما.(میں ایسا کچھ نہیں کہوں گی پیار کرنا آپ کا مسئلہ ہے میرا نہیں )"

اسے یہی جواب ملا بس ۔

" تم تو میری ہی ہو نا۔۔!!"

" خوش فہمی ہے آپ کی۔اچھا اب مجھے تنگ نہ کریں!!" 

اس کی باتوں سے پریشان ہوکر زرلشتہ نے تیزی سے کہا۔ تو وہ بھی سر جھٹک کر اس کے ساتھ وہ کارٹونک مووی دیکھنے لگا جو زرلشتہ کو دیکھنی تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اگلے دن دوپہر کے وقت یشاور کی آنکھ کھلی۔ اس کا سامان اس کے کمرے میں تھا جہاں بہار تھی ۔ وہ وہاں نہیں جاسکتا تھا۔ کہیں وہ ڈسٹرب نہ ہوجاۓ۔ تبھی دوسرے کمرے میں جاکر ہاتھ منہ دھو کر وہ فریش ہوا۔ پھر لاؤنج میں جو بکھیرا بکھرا تھا اس نے وہ سمیٹا۔

اس میں ایک سگھڑ شوہر کی روح بھی تھی تبھی سارا بکھیرا سمیٹ کر وہ کچن میں آیا تاکہ اپنے اور بہار کے لیے کچھ بناسکے۔ پہلے دن کی بیوی سے کام کرواتا وہ اچھا نہ لگتا ۔۔!! 

اسے بس انڈا ابالنا آتا تھا اور کچھ نہیں آتا تھا۔ اس لیے ایپیرن پہن کر یشاور نے فریج سے انڈے نکالے۔ اور احتیاط سے ایک طرف رکھ دیے۔ 

" وہ کیا کھاتی ہوگی ناشتے میں ۔۔!! اسے انڈا پسند بھی ہوگا یا نہیں ۔۔!! کہیں اس کا موڈ ہی نہ خراب ہوجاۓ صبح صبح۔ پہلے کیا کم برا ہوا ہے اس کے ساتھ جو اب میری وجہ سے بھی وہ انکمفرٹیبل ہو۔۔!! پر مجھے اس کے علاؤہ کچھ بنانا نہیں آتا۔ کیا کروں میں اب۔۔!!" 

اس نے انڈے دیکھے پھر دونوں ہاتھ سلیب پر رکھ کر کچھ سوچنے لگا۔

" ہاں یوٹیوب ۔۔!! وہ کس دن کام آۓ گی۔ ایسا کرتا ہوں کسی آسان سے آملیٹ کی ریسیپی نکالتا ہوں میں۔ ساتھ میں جوس، بریڈ کچھ تو بن ہی جاۓ گا۔ یشاور کتنے ذہین ہو تم۔ یہ سوچ پہلے تمہارے ذہن میں کیوں نہیں آئ۔۔!! شاباش لگ جاؤ کام پر ۔۔!!" 

خوش ہوتے ہوئے وہ لاؤنج میں آیا جہاں اس کا فون رکھا تھا اس نے وہ فون اٹھایا اور یوٹیوب اوپن کرکے آملیٹ کی ریسیپی سرچ کی۔ لیکن سامنے تو کوئ سینکڑوں آملیٹ کی ریسیپیز آگئیں ۔ جنہیں دیکھ کر اس کی پیشانی پر سلوٹیں نمودار ہوئیں۔

"آلو اور انڈے کی مزیدار ریسیپی جو کھاۓ دیوانہ ہوجاۓ۔ شوہر کو اپنا دیوانہ بنائیں روز ناشتے میں یہ آمیلٹ کھلائیں وہ آپ کا اسیر ہوجاۓ گا۔ ساس بہت بڑبڑ کرتی ہے کہ آپ کو کچھ بنانا نہیں آتا تو پریشان نہ ہوں صرف ایک مرغی کا انڈہ لیں اور ساس کا دماغ ٹھکانے لگائیں ایسا آملیٹ جو جادو کردے، مغلیہ دور میں اکبر جو آملیٹ کھاتا تھا اس کی ریسیپی سامنے آگئ اب ساس کا کچن سے پتہ کٹے گا اب آپ کی حکمرانی ہوگی،

 اگر آپ ہیں مہنگائ سے پریشان تو ٹراۓ کریں پودینے کا آملیٹ جو کھاتے ہی لوگ انعام میں آپ کو ہزاروں روپے دے دیں گے۔ شوہر کے دل کے چاروں خانوں میں بسنا ہے تو آملیٹ کی کڑوروں سال پرانی طلسماتی ریسیپی ضرور سیکھیں، اگر آپ نے یہ ویڈیو نہ دیکھی آملیٹ کی تو شوہر کو قابو کرنے کا خواب خواب رہ جاۓ گا۔۔!!" 

یشاور کے چہرے پر رنگ آتے گۓ اور اگلا تھمب نیل دیکھ کر جاتے بھی گۓ۔ وہ سکرول کرکے یوٹیوب ویڈیوز کے تھمب نیل پڑھ رہا تھا۔ اس نے تو سادہ سے آملیٹ کی ریسیپی جاننا چاہی تھی پر یہاں تو جیسے عامل بابا آملیٹ کی ریسیپی اپلوڈ کررہے تھے محبوب آپ کے قدموں میں والے بابا۔۔!!

" نا میرا کوئ شوہر ہے نا ہی کوئ ساس جسے ناکوں چنے چبوانے ہیں میں نے۔ ایک چھوٹی سی بیوی ہے جسے مجھے خوش کرنا ہے۔ تو یہ کڑوروں سال پرانی ریسیپیز مجھے نہیں جاننی۔ وہ بس بیس سال کی ہوں گی کڑوروں سال پرانی یا کسی مغل بادشاہ کے دور کی ریسپیز کھاکر وہ کہیں بیمار نہ ہو جاۓ ۔۔!!"

اس نے یوٹیوب بند کرکے اب ٹک ٹاک اوپن کی وہاں سے شاید کچھ مل جاتا۔ آخر وہاں بھی تو لوگ ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں کھانے کی۔

اس نے وہاں آملیٹ کی ریسیپی سرچ کی۔ 

پہلی ویڈیو لگتے ہی اچانک اس لاؤنج کی خاموشی میں کسی پھٹے ہوۓ ڈھول اور فائو جی کی سپیڈ پر چل رہے  سنگر کا گانا فضا میں گونجا۔ ایسا گونجا کہ یشاور ہی ڈر کر اچھل پڑا۔ فون اس کے ہاتھ سے چھوٹتا چھوٹتا بچا۔

" استغفر اللہ ۔۔!! یہ آملیٹ کی ویڈیو ہے یا کسی راکنگ بینڈ کا شو ۔۔!! "

اس نے جلدی سے والیم بند کرنا چاہی پر افسوس اب فون اس کے قابو میں نہیں تھا فون ہی ہینگ ہوگیا۔ 

لاؤنج میں سنگر کی گلا پھاڑنے والی آواز جاری تھی۔

" پرانے زمانے میں جب لوگوں کے پیچھے کتے پڑجاتے تھے تب وہ ایسے چیختے تھے جیسے یہ چیخ رہا ہے۔ بند ہوجا۔ وہ سورہی ہے اٹھ جاۓ گی۔ ہوجا بند ورنہ میں توڑ دوں گا تجھے۔۔!!" 

وہ بھی جھنجھلا کر چیخا۔ 

اسی دوران اسے سامنے بہار کھڑی نظر آئ۔ جو  اسے فون سے لڑتے دیکھ رہی تھی۔

" یہ بند ہی نہیں ہورہا مس بہار ۔۔!! آپ کا سکون خراب ہوا اس کے لیے سوری۔ آپ جائیں فریش ہو جائیں میں ناشتہ بنادیتا ہوں ۔۔!!" 

جلدی سے فون بند کرکے اس نے صوفے پر پھینکا اور بال ٹھیک کرکے بوکھلاہٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوۓ اس نے سنجیدہ ہونے کی آخیر کوشش کی۔

" وہ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ میں کیا پہنوں اب۔۔!!" 

بہار کل سے پریشان تھی اس لئے اس نے اب یشاور کو بتانا چاہا۔ 

" کچھ دن ایڈجسٹ کرلیں پھر میں آپ کو شاپنگ پر لے جاؤں گا۔ آپ وہاں سے جو چاہیں لے لیجۓ گا۔ مجھے بالکل بھی نہیں پتہ کہ آپ کس ٹائپ کے کپڑوں میں کمفرٹیبل ہیں۔ ابھی آپ روم میں جائیں میرے وارڈروب سے جو آپ کو اچھا لگے پہن لیں۔ پلیز ابھی گزارہ کرلیںبعد میں آپ اپنی ضرورت کا سامان لے لیجئے گا۔۔!!"

یشاور نے عام سے انداز میں کہا پھر خود کچن کی جانب چلا گیا۔ جو حالت اس کی بہار نے ابھی دیکھی تھی اس کے بعد اسے اب تھوڑا سا سنجیدہ دکھنا تھا۔

بہار بھی چپ کرکے واپس چلی گئ۔ 

اور یشاور اب آملیٹ کی ریسیپی بنانے لگا خود ہی کچھ سوچ کر۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" اے لڑکی ۔۔!! کہاں گھومتی پھررہی ہو تم۔یہاں آؤ میرے پاس۔" 

معصومہ کچن سے پانی پی کر نکلی تھی جب اچانک اسے شنایہ بیگم دکھیں۔ ان کی صورت ان کا غصہ سب یاد آتے ہی اس بیچاری کا سر چکرایا۔ پانی نہیں تھا کمرے میں ورنہ تو کبھی یہاں نہ آتی۔ 

ان کا حکم سن کر وہ پوری طرح لرزی۔

" یہاں آؤ میری شکل کا کیا دیکھ رہی ہو تم۔ یہاں آکر میرے پیر دباؤ ۔۔!!" 

وہ صوفے پر بیٹھ گئیں اور معصومہ کو پاس آنے کو کہا جس کی آنکھوں کے سامنے دھندلاہٹ چھائ۔ وہ جتنی بھی بہادر ہوجاتی اس عورت سے وہ نہیں لڑسکتی تھی۔ 

چادر جو اس نے سر پر اچھے سے لی تھی اس کا ایک سرا اس نے مٹھی میں دبوچا پر اس جگہ سے وہ نہ ہلی۔ 

" بہت ہی ڈھیٹ ہو تم تو۔ میں یہاں کیا بکواس کررہی ہوں تمہیں سمجھ نہیں آرہا۔ یہاں آؤ اور پیر دباؤ میرے ۔۔!!" 

اب کی بار وہ مزید غصے میں ائیں۔ معصومہ کا سانس رکا پر وہ وہاں سے ہلی ہی نہ۔ وہیں جم گئ۔

" یہ مجھے اپنے پاس بلارہی ہے۔ یہ کھاجائیں گی مجھے۔ پہلے سٹور میں بند کیا تھا اب تو پکا مجھے کھائیں گی۔ میں نہیں جاؤں گی ان کے پاس۔۔!!" 

اس نے تھوک نگلا اور سر دائیں سے بائیں ہلایا۔ مطلب تھا نہیں آؤں گی۔

" میرا حکم ماننے سے انکار کررہی ہو تم۔ تمہاری اتنی جرآت ۔۔!! آج تو میں تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کرکے چیل کوؤں کو کھلادوں گی۔ شنایہ بیگم کو نہ کہنے والا انسان اس دنیا میں اگلا سانس بھی لے تو میری انا کو گوارہ نہیں ۔ تمہاری موت میرے ہی ہاتھوں لکھی ہے۔۔!!" 

وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئیں اور چند قدم معصومہ کی جانب لیے جو اب الٹے قدم پیچھے ہونے لگی۔ دل فدیان کو پکار رہا تھا وہ کمرے سے نکل کر موت کے پاس آگئی تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ سچ میں نہ مرجاۓ۔ 

" م۔میں گاجر مولی نہیں ہوں جس کے ٹکڑے آپ کریں گی۔ اگر پرندوں کا اتنا ہی احساس ہے آپ کو تو دو کلو گوشت لاکر اوپر چھت پر ڈال آئیں پرندے شوق سے کھالیں گے۔ مجھ معصوم کو مار کر کیا ملے گا آپ کو ۔!! " 

ایک قدم پیچھے لیتے ہوئے معصومہ نے اٹکتے ہوۓ کہا تو انہوں نے ابرو اچکائ۔

" تو اس چوہیا کے منہ میں بھی اس فتنی نے زبان ڈال دی ہے۔۔۔!! بہت خوب ۔۔!! تو تمہارا انجام بھی اس فتنی جیسا ہی ہونا چاہیے ۔!! تمہیں تو میں ۔۔۔۔!!!" 

وہ تیز قدم لے کر اسے قابو کرنا چاہتی تھی لیکن دوسری طرف سے آتے دراب افریدی کو دیکھ کر  وہ وہیں رک گئیں۔ ان کی نظروں میں انہیں نہیں آنا تھا۔ 

" بیٹا کیوں ڈرتی ہو تم مجھ سے۔۔!! میں ماں جیسی ہوں تمہارے لیے ۔ مانا تم ونی ہوئ ہو میں نے شروع میں تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا پر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے میں سدھارنا چاہتی ہوں اپنی غلطی کو۔ مجھے اپنی ماں سمجھو تم۔۔!!!" 

 پل میں چڑیل سے ایک عظیم ساس بننے کا سفر طے کرکے انہوں نے چہرے پر مسکینیت سجائ تو معصومہ بھی بوکھلا گئ۔ یہ اس کی ساس کو اچانک کیا ہوگیا تھا۔اتنی میٹھی۔۔!!

" کیا ہورہا ہے یہاں۔ شنایہ بیگم تم پھر سے بچی کو ڈرارہی ہو۔۔۔!!" 

دراب آفریدی گھر سے باہر جارہے تھے جب ان دونوں کو ایک جگہ کھڑا دیکھ کر وہ ان کے پاس ہی آۓ۔ 

معصومہ نے ان کی آواز سنی تو مڑ کر ان کی صورت دیکھی۔

" یہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے چھت پر ۔!!!" 

معصومہ ابھی بتانے ہی والی تھی جب شنایہ بیگم نے فورا اس کی بات کاٹ دی۔

" میں کہہ رہی تھی کہ یہ گھر اس کا اپنا ہی ہے۔ جہاں چاہے وہاں گھوما کرے۔ چھت پر لان میں اور دل کرے تو میرے پاس بھی آکر بیٹھ جاۓ۔۔!! پر یہ تو ڈرتی ہی رہتی ہے ۔ سردار آپ کہیں جارہے ہیں کچھ چاہیے آپ کو تو بتادیں۔ میں لادیتی ہوں۔۔!!" 

نرم اور مکاری بھرے انداز میں شنایہ بیگم نے ایکٹنگ کے ریکارڈ قائم کیے۔ وہ بھی ان کے ہی شوہر تھے جانتے تھے وہ کتنی دودھ کی دھلی ہیں۔

" معصومہ آپ جاؤ جہاں آپ جارہی تھی۔ شاباش بچے ڈرتے نہیں ہیں مقابلہ کرتے ہیں جاؤ آپ۔۔!!"

اس کی ڈری ہوئی صورت دیکھ کر انہوں نے اسے جانے کو کہا وہ حکم ملتے ہی وہاں سے چلی گئ۔ شنایہ بیگم کے پاس کھڑے ہونا اسے منظور نہیں تھا۔ 

پھر دراب آفریدی نے جانچتی نگاہ شنایہ بیگم پر ڈالی۔

" مت ڈرایا کرو بچیوں کو ۔۔!! ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔ دور رہا کرو زرلشتہ اور معصومہ سے۔ عزت ہیں وہ اس گھر کی۔ بہوئیں ہیں ہماری۔ شرف لوگ گھر کی عزتوں کو ڈرایا دھمکایا نہیں کرتے۔ تم نے تو وشہ کو کبھی وہ پیار نہیں دیا جو اس کا حق تھا اسے بھی اپنے جیسا بنانا چاہا تبھی وہ تم سے دور ہی رہی ہمیشہ. مائیں ایسی نہیں ہوتیں جیسی تم ہو۔ تو سدھر جاؤ۔ کم از کم ان دونوں کو ہی بیٹیاں سمجھ لو۔ شکایت نہ ملے مجھے تمہاری کوئ بھی۔ ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔۔!!" 

ان کی صورت دیکھتے ہوۓ آخر تک ان کا لہجہ سخت ہوگیا تو شنایہ بیگم نے فورا ہاں میں سرہلادیا پھر وہاں سے خود بھی چلی گئیں ۔ دراب آفریدی کے سامنے وہ نہیں بول سکتی تھیں ڈرتی جو تھیں ان سے۔

ان کے جاتے ہی دراب آفریدی بھی شنایہ بیگم کے لیے سدھرنے کی دعا کرتے ڈیرے پر جانے کے لیے گھر سے نکل گۓ۔ 

یہ دعا پوری ہونے والی نہیں تھی۔ وہ سدھارنا چاہتیں تبھی سدھر پاتیں۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

بہار نے یشاور کے وارڈ روب سے اپنے پہننے لائق کپڑے ڈھونڈے۔ وہاں بس قمیص، شلوار ہی تھیں ۔ ساتھ میں میچنگ کی مردانہ شالز۔ وہ یہی پہنتا تھا بس ۔

اور اس میں تو بہار غائب ہی ہوجاتی۔ بہت ڈھونڈنے کے بعد اسے وہاں سے شرٹ اور ٹراؤزر مل ہی گۓ۔ جو کم از کم وہ کیری تو کرلیتی۔ اسے عجیب لگ رہا تھا یشاور کی چیزیں استعمال کرتے ہوۓ پر کل رات سبرینہ بیگم اسے ہدایت دے کر گئ تھیں کہ وہ یشاور کو شوہر سمجھے اپنا۔ اس سے بات کرے۔ اس سے ڈر کر دور ہونے کی ضرورت نہیں۔ ورنہ تعلق مضبوط نہیں ہوگا۔ 

وہ بچی نہیں تھی سمجھدار تھی تبھی اس نے ان کی بات سمجھ لی۔ فریش ہوکر اس نے وہی کپڑے زیب تن کیے۔ شرٹ کے سلیوز کہنیوں تک فولڈ کرکے۔ اس نے ٹراؤزر کے پانچے بھی ٹخنوں سے اوپر تک موڑ لیے۔ جو لمبا تھا کافی تبھی اب بھی پاؤں کے نیچے آرہا تھا۔وہ کیوٹ لگ رہی تھیں ان کپڑوں میں۔ 

پھر اپنے بال ٹاول سے ڈراۓ کرکے وہ ویسے ہی اب کچن کی جانب یشاور کے پاس جانے لگی اسے بھوک لگی تھی بہت۔ 

جونہی وہ کمرے سے باہر نکلی اسے کچن والی سائیڈ سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئ۔ وہ چونک اٹھی پھر یاد آیا کہ وہاں تو یشاور ہے۔ تبھی خاموشی سے وہ کچن کی جانب گئ۔

پر وہاں آتے ہی جو منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا وہ پلک جھپکنا بھی بھول گئ۔ سامنے یشاور صاحب نے کچن میں اپنے سگھڑاپے کا ثبوت دیتے ہوۓ طوفان بدتمیزی نہیں طوفان تمیز داری مچایا ہوا تھا۔ ہر چیز بڑے سلیقے سے تباہی کے دہانے تک پہنچائی تھی موصوف نے۔ پورا کچن اس وقت جنگ عظیم کا منظر پیش کررہا تھا۔ 

انڈے فرش پر گرے تھے جو شاید مستقبل میں چوزوں کے نکلنے کی وجہ ہی بن جاتے۔ آٹا فرش پر بکھرا تھا جسے فضول میں ہی یشاور نے نکالا پھر غلطی سے ڈبہ ہی فرش کو سلامی دے گیا۔ کچھ گلاس اور پلیٹیں بھی ٹوٹی تھیں جو شاید ہاتھ لگنے سے قتل کی تھیں یشاور نے۔ پھر موصوف خود بھی آملیٹ بننا چاہتے تھے شاید جا یہی ان کا خواب تھا۔ 

تبھی تو تھوڑا سا نمک ان کے بالوں میں، مرچیں ایپرن پر اور آنکھوں میں کسی مظلوم ہیروئن کی طرح آنسو تھے۔ جی جناب وہ پیاز کاٹتے ہوۓ ایموشنل ہوگۓ تھے۔ لوگ کہتے ہیں مرد کو بس اس کی من پسند عورت رلا سکتی ہے۔ وہ مرد اگر پیاز کاٹتے ہوتے تو کبھی بہادری کا دعویٰ نہ کرتے۔ مرد جو پیاز بھی رلاسکتا ہے۔

" سنیں ۔۔!!! آپ کیا کررہے ہیں۔۔!!" 

بہار کی نظریں یشاور کے بالوں ہر تھیں۔ جو وائٹ ہوچکے تھے نمک سے۔ اس نے پلٹ کر بہار کو دیکھا پھر مسکرانے لگا۔ 

" ناشتہ بنارہا ہوں آپ کے لیے۔ آپ بیٹھیں ابھی بن جاۓ گا یہ ۔!!" 

آنسو اس نے ہاتھ کی پشت سے پونچھے پھر پیاز کاٹنے لگا۔ بہار نے تاسف سے کچن دیکھا۔

" آپ فریش ہو جائیں جاکر میں بنالیتی ہوں ناشتہ۔ مجھے آتا ہے بنانا ۔۔!! آپ بتادیں کیا کھائیں گے ۔!!" 

وہ چند قدم آگے بڑھی۔ساتھ ہی آفر بھی دی اس نے۔ یشاور نے آنکھیں مشکل سے کھول کر اسے دیکھا۔ جو گیلے بالوں میں اس کے کپڑے پہنے کوئ کارٹون لگ رہی تھی۔ 

"کیا آپ سے کام کرواؤں گا میں اب۔ کل نکاح ہوا ہے ہمارا۔۔!! اب اتنا بھی گھٹیا نہیں ہوں میں۔ یہ دیکھیں آپ چاۓ بن گئ ہے۔ وہ میں بنالیتا ہوں پر بس یہ انڈہ نہیں بن رہا ۔۔!! میرا کوئ قصور نہیں اس میں۔ مرغی نے صحیح دیا ہی نہیں ۔۔!! جو انڈہ آپ کے کھانے کے قابل ہوا وہ بن جاۓ گا۔۔!!" 

یشاور نے پیاز چھوڑ کر تیار شدہ چاۓ کپ میں ڈال کر بہار کی جانب بڑھائ۔ جس نے پہلے اس کا بگڑا ہوا حال دیکھا پھر کپ پکڑ لیا۔ 

ایک انجان انسان جس پر وہ مسلط ہوئ تھی۔ جس کا نام بھی نہیں پتہ تھا اسے۔ وہ اس کے لیے اتنی محنت کررہا تھا۔ لیکن کیوں۔۔!!

اس کے دل نے پوچھا۔ پھر بہار نے چاۓ کا سپ لیا۔ چاۓ بالکل پھیکی تھی وہ جلدی میں چینی ڈالنا بھی بھول گیا تھا۔ لیکن بہار نے وہ پھیکی چاۓ بھی حلق سے اتاری۔

" کیسی بنی ہے۔۔!!" دوبارہ پیاز کاٹتے ہوۓ یشاور نے پوچھا۔ 

" بہت اچھی بنی ہے۔۔!! شکریہ آپ کا اس چاۓ کے لیے ۔۔!!" 

 اس نے اگلا سپ لیا۔ جب کوئ بہت پیار سے آپ کے لیے کچھ بناۓ تو پھر وہ چیز جیسی بھی ہو اس کی تعریف کرنے اور اگلے کا مان رکھنے میں کوئ قباحت نہیں ہوتی۔ 

" آپ رہنے دیں خان ۔!! میں بنالوں گی۔ ہماری شادی کوئ عام شادی نہیں ہے جو آپ میرا اتنا خیال رکھ رہے ہیں۔ آپ پلیز رہنے دیں آپ کی آنکھیں لال ہوگئ ہیں۔ میں بنادیتی ہوں پلیز ۔۔!!" 

وہ پھیکی چاۓ آدھی پی کر اس نے اب ہلقان ہوتے یشاور کو پھر سے روکنا چاہا۔ جس کی حالت اب بہت بری ہوچکی تھی پیاز کی وجہ سے۔ آنکھوں میں ہوتی جلن کی وجہ سے کہ اس نے اس دفعہ چھری سائیڈ پر رکھ دی۔ 

اور آنکھیں ہاتھ کی پوروں سے دبانے لگا۔ جب جلن برداشت سے باہر ہوئ تو اس نے سنک سے پانی کے چھینٹے چہرے پر مارے۔ تاکہ اسے سکون ملے ۔

" ایک تو مرغی نے انڈے خراب دیے اوپر سے کسان نے پیاز بھی نمک مرچ ڈال کر اگاۓ تھے۔" یہی سوچا یشاور نے۔ 

" آئندہ آپ کچن میں مت آئیے گا خان ۔!! میں سنبھال لوں گی سب۔ اب آپ کے ساتھ رہنا ہے تو مجھے بھی آپ کی مدد کرنی چاہیے ۔!! آپ پلیز فریش ہو جائیں میں ناشتہ بنادیتی ہوں۔۔!! پلیز ۔۔!!" 

بہار نے پیاز کاٹنا شروع کیے پھر یشاور کو خان کہ کر مخاطب کیا۔ جو سنک پر جھکا ہوا تھا اچانک ہی مڑا۔ وہ اسے خان کہ رہی تھی۔ دل نے محسوس کیا اس لفظ میں کشش تھی۔ وہ بے ساختہ مسکرایا۔ 

" مس بہار ۔۔!! شادی شادی ہوتی ہے ارینج ہو یا لو۔ تیاری سے ہو یا ہنگامی ہو۔ اور رہی بات آپ کے میرے ساتھ رہنے کی تو ہم کونسا کوئ مغربی ملک کے باشندے ہیں جس میں شوہر بھی کام کرے اور بیوی بھی کرے۔ میں اکیلا ہی بہت ہوں اس کام کے لیے۔ ویسے چاۓ سچ میں اچھی تھی یا بس دل ہی رکھا ہے آپ نے۔ !!" 

اس کی مسکراہٹ سچی تھی تبھی آنکھوں کا درد بھی وہ بھول گیا۔ اس نے بہار کا وہاں رکھا چاۓ کا کپ اٹھایا اور ایک سپ لیا ۔ 

پھر کیا ہونا تھا اگلے ہی پل موصوف کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات آۓ اور وہ واپس سے سنک پر جھک گیا۔ بہار آملیٹ بنانے میں مصروف تھی اس کا دھیان اس جانب نہیں تھا۔ 

" توبہ ہے نا بہار ۔۔!! آپ اس زہر کو پی کر اس کی تعریف کررہی تھیں۔ استغفر اللہ ۔۔!! یہ تو چوہے مار دوا سے بھی زیادہ زہریلی ہے۔ آپ نے کیوں پی ہے یہ چاۓ۔۔!! اور رہنے دیں آپ۔ناشتہ ہمیں باہر سے ہی منگوا لینا چاہیے ۔۔!! اور یہ کچن بھی میں ہی صاف کروں گا۔۔!! میں کتنا برا شیف ہوں۔ مجھے تو جیل میں مجرموں کو ٹارچر کرنے کا کام ملنا چاہیے۔۔!! "

 اس نے کپ وہیں رکھا پھر آگے بڑھ کر بہار کے ہاتھ سے بھری لینا چاہی جو اس کے قریب ہوتے ہی ڈر کر دور ہوئ۔ وہ بھی اس کے ڈر کو محسوس کرکے وہیں کھڑا ہوگیا۔ وہ ہنستی نہیں تھی نا ہی زیادہ بولتی تھی۔ 

اس کا مزاج سنجیدہ تھا بہت سنجیدہ ۔۔!!

کب سے وہی بس بولے جارہا تھا لیکن کسی بات کا اس نے وہ جواب نہ دیا جو دینا چاہیے تھا۔ اسے نارمل ہونے میں بہت وقت لگتا۔ 

" آپ دور رہ کر بات کیا کریں پلیز ۔۔!! مجھے ڈر لگتا ہے۔ سوری پر ڈر لگتا ہے۔ وہ لوگ بھی ایسے ہی پاس آۓ تھے میرے ۔ اچانک سے۔۔!! پلیز آپ دور رہیں ۔۔!!!" 

بہار نے اکھڑتی سانسیں استوار کیں۔ پھر سر جھکا کر  یشاور کو دور ہونے کو کہا جو بغیر برا مناۓ چند قدم دور ہوگیا۔ وہ ڈررہی تھی تو اس کا احساس کرنا اس کا فرض تھا۔

" میں دور ہوں آپ سے۔ کچھ بھی عجیب سا یاد نہ کریں آپ۔۔۔!!! مس بہار آپ مجھ پر یقین کرسکتی ہیں ۔۔!! اوکے ۔۔!! میں ناشتہ آرڈر کردیتا ہوں یہ ہمارے بس کا کام نہیں۔ آپ کسی بھی کام کو ہاتھ نہ لگانا۔ اوکے ..!!" 

دونوں ہاتھ اٹھاکر اس نے جیسے سرینڈر کیا پھر خود ہی ایپرن اتار کر وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی بہار نے اس فضا میں تکلیف سے بھرا سانس خارج کیا۔ جو درد کے سوا کچھ نہیں تھا۔ 

" کیوں چھوڑ گۓ سب مجھے۔۔!! میں بہار تھی۔ میری زندگی میں خزاں کا موسم کیوں آگیا۔ یااللہ میں کیوں زندہ ہوں آخر۔" 

اس نے سلیب پر ہاتھ رکھے تاکہ رونے کی آواز باہر تک نہ جاۓ۔

" یہ خانہ خراب کا بچہ ۔۔!! حبیث انسان۔۔ !! کتنا حرام کا پیسہ بچہ کر رکھا تھا۔ ہم تو اس کو گننا شروع کرے تو اگلا ایک سال بغیر کھاۓ پۓ بھی ہم اس کو نہیں گن سکتا ۔!! یہ تو پاکستان کا سیاستدانوں سے بھی بڑا چور یے۔ لٹیرا یے۔ مچھر کا شکل واپس یہ دلاور خان اتنا امیر ہوگا ہم کو اندازا نہیں تھا" 

بادل خان نے ہاتھ میں پکڑے پیسے دیکھے جنہیں اس نے سائیڈ پر لگے ڈھیر سے اٹھایا تھا۔ وہ کم و بیش بھی پانچ لاکھ تھے اور یہ اس دولت کا 0.001 بھی نہیں تھا۔ دلاور خان کی حرام کی کمائی تک وہ بالآخر پہنچ ہی گیا تھا۔ 

"ہم کو لگا تھا کہ اس کا کڑوروں ہم لٹا کر اس کو نقصان پہنچارہا ہے۔ پر وہ کتے پر بیٹھنے والا مکھی کو ان کڑوروں اربوں سے فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ اس کا پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ امریکہ بھی خرید لے تب بھی شریف خاندان سے زیادہ امیر رہے گا ۔.!! زماخدایا ہم کو بچپن سے ہی پیسے کے بیچ کھڑے ہونا اچھا لگتا تھا آج تو ہمارا آس پاس پیسہ ہی پیسہ ہے۔ اتنا پیسہ کے ہم اس کو آگ بھی لگاتے تب بھی کچھ نہ کچھ بچ جاۓ گا ۔!! ہم کو چٹکی کاٹو کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہا۔۔!!"

بادل خان نے وہ پیسے سائیڈ پر پھینکے پھر گھوم پر ان ڈھیروں کو دیکھا جو دلاور خان نے اکٹھے کیے تھے۔ وہ اتنا امیر تھا پھر بھی مزید کی بھوک اسے تھی۔

 بادل خان اس وقت اپنے صوبے سے دور کسی دوسرے صوبے میں بنے ایک ویران اور کھنڈر نما علاقے کے بیچ اس ظاہری طور پر تباہی شدہ محل نما گھر میں کھڑا تھا۔ دن رات ایک کرکے دلاور کے پرانے وفاداروں کو اٹھواکر ان کی زندگی موت سے بھی بدتر کرکے اس نے اس جگہ کا پتہ لگایا تھا ۔ یہ وہ جگہ تھی جس کے بارے میں چند لوگ جانتے تھے۔ 

سارا حرام کا پیسہ جو وہ بینک میں نہیں رکھ پاتا تھا وہ یہیں سیو کررہا تھا۔ یہ تو ایک کمرے کا منظر تھا ابھی تو اس حویلی میں ایسے سینکڑوں کے قریب کمرے تھے۔ یہ جگہ ہانٹڈ مشہور تھی جنگلی جانوروں کی وجہ سے آج تک کوئ یہاں نہیں آیا تھا اور دلاور کی جان یہیں اٹکی تھی۔ 

اپنے پیچھے کھڑے آدمی کے سامنے اس نے اپنا ہاتھ کیا اور کھوۓ ہوۓ انداز میں کہا جب اس شخص نے سرد سانس خارج کرکے اس کے بازو پر چٹکی کاٹی۔ بادل خان کراہ اٹھا۔ یہ حقیقت ہی تھی۔ 

" سانسیں گروی رکھی ہیں اس کی یہاں پر۔ہم اس کی دکھتی رگ کے قریب پہنچ چکے ہیں جہاں اپنا مشن شروع کرنے سے پہلے ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اسے مارنا ہمارا مقصد تھا اور ہم اسے تڑپا تڑپا کر مارنے والے ہیں۔۔!! کیا کرنا ہے اس جگہ کا اب ۔۔!!! "

وہ شخص عمر میں بادل سے کچھ سال بڑا تھا تقریبا اڑتالیس سال عمر تھی اس کی۔ چہرے پر سنجیدگی گال پر ایک ہلکا سا نشان اور بکھرے بالوں کے ساتھ پینٹ شرٹ پہنے وہ اپنی عمر سے کم لگتا تھا  ۔ 

اس کے سنجیدہ لہجے کی وجہ سے بادل بھی اپنے اصل میں واپس آیا۔ اب ڈرامے کا کیا فایدہ اس شخص کے سامنے۔ 

" کرنا کیا ہے اڑا دیتے ہیں اس جگہ کو۔ سردی لگ رہی ہے مجھے آج پیسے جلاکر ہاتھ سیکوں گا۔ کتنی خواہش تھی میری کہ پیسوں کو جلتا دیکھوں پر اپنی محنت کی کمائی جلانے کی ہمت نہ ہوئی میری۔ آج موقع بھی ہے اور دستور بھی ہے اور پلیز ایک ویڈیو بھی بنانی یے۔ تاکہ جب جب میری روح بے چین ہو میں یہ ویڈیو دیکھ سکوں۔ میں بہت ایکسائیٹڈ ہوں کہ آج لائیو پیسوں کو نظر آتش ہوتا دیکھوں گا۔۔!!

 ویسے ان سب میں تمہارا بھی تو حصہ ہے نا۔ وہ اربوں روپے جو اس حبیث نے تمہارے گھر والوں سے زبردستی ہتھیاۓتھے چاہو تو واپس لے لو ۔!! " 

اس کی بات کے جواب میں بادل نے شوق سے اپنی خواہش بیان کی۔ پیسے جل رہے ہوں اور وہ کھڑا ویڈیو بناۓ کیا سین ہوگا نا ۔۔!  سوچ کر ہی مزہ آگیا اسے۔ اس کا بات کرنے کا لہجہ بھی مکمل بدل گیا اچانک ہی۔ جب اس نے راسم زئ کو اس کا حصہ یاد دلایا تو اس نے نخوت سے لب بھینچے ۔

" تھوکنا بھی پسند نہ کروں میں ان اربوں روپے پر جو میرے خاندان کی جان لے گۓ ۔ اس حبیث نے چند ٹکوں کی خاطر میرا باپ، میرا بھائ میری خوشیاں مار دیں۔ پہلے میری محبت چھینی میں چپ رہا ۔ تمہاری محبت میری جھولی میں ڈال دی میں چپ رہا پھر مجھے ہی خالی ہاتھ کردیا میں تب بھی کچھ نہ کہہ سکا۔ پراب نہیں۔۔۔!!"

راسم زئ کی رگیں تن گئیں۔ مٹھیاں بھینچ کر اس نے آنکھیں بند کیں ۔باران( بادل) اس کے چہرے پر وہی درد دیکھ رہا تھا جو روح کو کھوکر اس نے محسوس کیا تھا سالوں تک۔

" اس کی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دی میں نے۔ جب وہ پہلے ہی موت کے قریب تھی۔ اس حبیث کے چہرے سے ناواقف تھا میں اور وہ مجھے اس معصوم کے ساتھ جانوروں والا سلوک کرنے پر مجبور کرتا رہا.۔ اس کی آہیں اس کی سسکیاں اس کی فریادیں مجھے نہیں بولتیں باران ۔۔!! میں بیوقوف تھا جاہل تھا جسے اس حبیث کا اصل رنگ نہ دکھا۔ 

جب وہ میری ہی محبت چھین چکا تھا تو میں نے کیوں اس پر یقین کیا۔ مجھے کیوں نا اس کا اصل رنگ دکھا ۔۔!! اور جب دکھا وہ حبیث مار چکا تھا اس معصوم کو۔۔!!! میں بھی مجرم ہوں تمہارا۔ میری  مانو تو مجھے بھی سزا دو ۔۔!! میں حقدار ہوں اس سزا کا ۔۔!!" 

راسم نے آنکھیں میچیں وہ بھی دلاور خان کا ڈسا ہوا تھا۔ اس ہمدرد کے روپ میں چھپے حبیث پر اس نے اندھا اعتماد کیا اور اس کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر ایک معصوم کو اذیت دیتا رہا۔ دلاور نے جب اسے اپنا اصل روپ دکھایا تب دیر ہوچکی تھی ۔ وہ اپنا مطلب نکال چکا تھا اور ان لوگوں کی دولت ہتھیا کر انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر اپنی زندگی میں مگن ہوگیا تھا۔ پچھلے چار سال سے وہ بھی باران عرف بادل کی مدد کررہا تھا۔ 

"سزا یہی ہے تمہاری کہ تباہ کرو اس شخص کو ۔ وہ آخرت میں بھی رسوا یے اور دنیا میں بھی اسے عبرت کا نشان بناؤ ۔۔!!ویسے  صحیح کہہ رہے ہو تم اس پیسے میں سینکڑوں لوگوں کا خون شامل ہے ۔ کئ ماؤں کی آہیں اور کئ بچوں کی ہچکیاں شامل ہیں اس میں۔ اس کے حرام کے کاروبار سے جتنے لوگوں کو بھی نقصان ہوا ان کا درد شامل ہے ۔ اس کا ایک روپیہ بھی حرام ہوگا لوگوں پر۔ 

اگر یہ پیسے کسی کے ہاتھ لگے تو حرام کھاکر ان کی نسلوں میں بھی دلاور خان ہی پیدا ہوگا۔ اور یہ دنیا ایک اور منافق افورڈ نہیں کرسکتی۔ اب جیسے کو تیسرا کرنا ہوگا ۔ ! میں سب چیک کرچکا ہوں یہاں کوئ انسان موجود نہیں سواۓ ہمارے۔ 

اور پہرہ دار بھی اپنی گھٹیا سوچ کی وجہ سے ابدی نیند سو چکے ہیں تو ہمیں اب مزید دیر نہیں کرنی چاہیے ۔۔!! میرے ساتھ آؤ۔۔!!"

باران ( بادل) نے اسے اپنے پیچھے آنے کو کہا اور خود کروفر سے چلتا حویلی کے باہر والے راستے کی طرف گیا۔ اس دوران ہاتھ سے ایک ریموٹ نکال کر اس نے ہوا میں اچھالا پھر اس کیچ کرکے ایک تیز نگاہ اس پوری حویلی پر ڈالی۔ 

" ایسے کئ ٹھکانے ہوں گے تمہارے دلاور خان۔ اب اگر روح کے بادل نے ایک ایک ٹھکانہ تباہ نہ کیا تو وہ کبھی عشق کا ذکر نہیں کرے گا۔ ایک عاشق سے پنگا لیا ہے تم نے تمہیں وہاں لے جاکر ماروں گا کہ ہر منافق کی روح کانپ اٹھے گی تمہارے انجام پر۔ !!" 

 اس کے چہرے پر سختی بھائ کرخت لہجے میں اس نے زیر لب کہا پھر حویلی سے باہر نکل کر ان سوکھی جھاڑیوں کو ہاتھ سے پیچھے کرکے وہ اب اس جگہ سے دور جانے لگا۔ راسم بھی اس کے پیچھے ہی تھا جس کے چہرے پر ایسی ہی سختی تھی جو اس کے چہرے پر تھی۔ 

"لو راسم کیا یاد کرو گے تم۔ اڑا دو اس حویلی کو اور لگادو آگ دلاور خان کی زندگی میں ۔!! عاشق ہوں تبھی اپنے رقیب کے ساتھ بھی کام کررہا ہوں۔ مجھے اپنی محبت کے آگے کچھ نہیں دکھ رہا۔ ٹھکانے تم تباہ کرو اور مہمان وہ میرا بنے گا۔ " 

اس نے وہ ریموٹ اچھالا تو راسم نے مسکراتے ہوۓ پکڑ لیا۔ 

" تھینکس یار ۔۔!! میرے اندر لگی آگ آج تھوڑی سی ہی سہی بھج جاۓ گی۔ جن ہاتھوں سے وہ سبریبہ کو مارتا ہے آج انہی ہاتھوں پر لرزا طاری ہوگا۔ جیسے وہ اس معصوم کی زندگی کی خوشیاں کھاگیا آج اس کی خوشی چھیننے کا موقع تم مجھے دے رہو  ۔!! پیار آرہا ہے تم پر۔ چلو فون نکالو اور ویڈو بناؤ ..!" 

راسم مسکرایا ۔ اس کی محبت سبرینہ ہی تھی۔ جو اس کی ہی منگ تھی بچپن سے اور اسے عزیز بھی تھی بہت۔ وہ تو چھوٹی تھیں تب انہیں کچھ نہیں پتا تھا پر وہ تو ان کے پیدا ہونے سے ہی واقف تھے کہ وہ ان کی ہیں۔ پھر جو قسمت نے پلٹا کھایا وہ بھی نہ سمجھ سکے اور خاندانوں کے تعلق ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت بھی چھن گئ۔ 

بادل نے سر جھٹکا اسے سب پتہ تھا تبھی تو اس نے آتے ہی سب سے پہلے سبرینہ بیگم کو بہن بناکر حفاظت دی۔ اس کا دل تو روح کی تکلیف کا بدلہ لینے کے لیے راسم کو مارنے کا تھا پر ایک عاشق دوسرے عاشق کا درد سمجھ گیا۔  لیکن ایک ایک سسکی جو روح نے اس کی وجہ سے لی اس کا بدلہ پورا لیا۔ راسم کے گال پر لگا نشان اسی بدلے کی گواہی تھا۔ پھر اس نے اسے بدلے پر اکسایا کیونکہ اصل مجرم دلاور تھا۔ 

باران نے فون نکالا اور کیمرہ آن کیا۔ اور اگلے ہی لمحے فضا میں زار دار دھماکوں کی آوازیں گونجیں۔ آگ کے شعلے اچانک سے پوری حویلی کو لپیٹ میں لے گۓ اور چند سیکنڈز کے اندر ہی سب کچھ جو حویلی میں تھا ایندھن بن گیا۔ بادل نے وہ لمحہ محفوظ کیا۔ 

" پہلی بربادی مبارک دلاور خان ۔۔!!" 

وہ دلکشی سے مسکرایا۔ وہیں راسم کے دل کو بھی سکون ملا تھا۔ 

" ٹھنڈ پڑگئ میرے کلیجے میں ۔۔!! ایسے دو چار اور ٹھکانے مل جائیں تو مزہ آجاۓ۔ ۔!!" 

راسم زئ نے ریموٹ دور اچھال دیا اور اونچی آواز میں جوش سے کہا۔

" ملے گا بچے ۔۔!! سب ملے گا۔۔!! بادل خان کے ہوتے تم ناامید نہیں ہوگا۔ چل اب ہم کو واپس اور تم کو گلگت جانا ہے وہاں جو اس حبیث کا فیکٹری کو آگ لگادینا اتوار والا دن جب سٹاف چھٹی پر ہوگا تب ..!! اور مارا شارٹ سرکٹ والا آگ لگانا بم باندھ کر نہ پہنچ جانا ۔ چل اللہ حافظ۔!!" 

بادل(باران) نے اس کی جانب دیکھ کر آئ ونک کی پھر 

سیٹی بجاتے ہوۓ وہاں سے چلا گیا ۔ راسم کو ابھی اس آگ کو مزید کچھ دیر دیکھنا تھا تو وہ وہیں تھا اور بادل کو چونکہ دلاور کی چاپلوسی کرنی تھی تو وہ جاچکا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" ہم کہاں جائیں یااللہ ..!! یہ آج مسکرا مسکرا کر ہمارے ہوش کیوں اڑارہے ہیں یہ تو سادے ہم سے برداشت نہیں ہوتے اور ان کا یہ ڈمپل. ہم کیوں سانس لینا بھول رہے ہیں.!! آج تو ہمارا راز ان کے سامنے کھلے گا ۔!!وشہ بی سٹرونگ مت دیکھو ان کی صورت ۔ وہ جان بوجھ کر ایسے کررہے ہیں ..!! تم نہیں بولتی ان سے ۔۔!! اففففف" 

وشہ نے ڈریسنگ مرر پر کھڑے دیار کو دیکھا جو آج دعوت پر جانے کی تیاری کررہا تھا۔ سیاہ مردانہ شلوار قمیض جو اس پر جچ رہی تھی اس کے ساتھ گلے میں پیچھے سے لٹکائ مرادنہ شال اور ساتھ میں پشاوری کھسہ۔۔۔!! 

اور وہ اپنی قیمتی مسکان چہرے پر سجاۓ ڈمپل کی نمائش کررہا تھا۔ اور خود پر پرفیوم سپرے کرکے بار بار مرر سے بیڈ پر کتابوں کا ڈھیر لگا کر بیٹھی وشہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔ جس کا سانس پرفیوم کی مہک روک رہی تھی ۔ 

" دیار کی جان ۔۔!! کتنا پڑھنا ہے آپ نے ابھی۔ دیکھ تو رہی ہیں کہ شوہر تیار ہورہا ہے اسے آپ کی مدد کی ضرورت بھی ہوسکتی ہے۔ ایک روایتی بیوی بن کر آپ کو چاہیے کہ یہاں میرے پاس آکر کھڑی ہوں اور میری مدد کریں۔ مجھ سے باتیں کریں اور تھوڑا سا مسکرائیں۔ میرا بھی دل ہے ہزار خواہشیں ہیں اس کی جو پورا کرنا فرض ہے آپ کا اور آپ آخرت سنوارنے کی بجاۓ اسائنمنٹ بنارہی ہیں ۔۔!!" 

اپنے کف لنکس اس نے بند کرنا چاہے پر پھر دل ہی نہیں کیا۔ جب بیوی پاس ہے تو وہ کیوں یہ زخمت کرے۔ شاہانہ چال چلتے وہ وشہ کے پاس آکھڑا ہوا پھر ذرا سا جھک کر اس کی دنیا میں طوفان برپا کرنے لگا۔ 

" ایسے شوق ہیں تو جائیں ایک اور شادی کرلیں۔ وہ آپ کے ہزاروں کیا لاکھوں شوق پورا کرے گی۔ ہمیں آپ کا دل بہلانے والے ہنر نہیں آتے نا ہم سے یہ ہوگا۔ ہمیں پڑھنے دیں۔ آۓ بڑے دل کی خواہشیں بتانے والے ۔۔!!" 

وشہ نے سراٹھایا تاکہ اسے جواب دے سکے پر موصوف جیسے اس کے پاس کھڑے تھے اس نے فورا ہی غصے میں آنے کی کوشش کی۔ تو دیار نے بھنویں اچکائیں۔ 

" دوسری بھی کرلوں گا پہلے آپ تو قابو میں آجائیں ۔۔!! یہ جو آپ کی ہوائ جہاز جیسی زبان ہے نا اب اسے قابو میں کروں گا میں۔۔!! دیکھتا ہوں کہ کیسے نہیں خواہشیں پوری کرتی آپ میری ۔۔!!" 

اس نے اس کے ہاتھوں سے اسائنمنٹ پیپرز چھینے اور پیچھے صوفے کی جانب اچھال رہے جو دو لفظ اب تک اس نے لکھے تھے وہ اس نے نہیں دیکھے تھے۔وشہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھی کیونکہ وہ کب سے دیار دیار ہی لکھ رہی تھی۔ 

" جائیں تیسری بھی کرلیں چوتھی کیا پانچویں بھی کرلیں۔ پر ہم آپ کے قابو میں نہیں آئیں گے۔ ہم کوئ خواہش پوری نہیں کریں گے آپ کی۔ آپ کے ہاتھ سلامت ہیں خود ہوجائیں تیار ہم کیوں داسی بن کر آپ کے آگے پیچھے چلیں۔" 

اس کی آنکھوں میں دیکھ کر وشہ چیخی دیار سکون سے کھڑا تھا اس کی چیخوں کی عادت ہوگئ تھی اسے۔ پھر وہ اپنی اسائنمنٹ اٹھانے کے لیے آگے بڑھی جب اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا۔ وشہ ہلکا سا چیخی پھر اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ اور اس کے چہرے پر چیلنجنگ تاثرات دیکھ کر اس کے اندر سرد لہر دوڑ گئ۔ 

" داسی نہیں ملکہ بنارہاہوں میں۔ آپ کی الٹی کھوپڑی میں کوئ بات آۓ تو آپ سمجھیں نا ۔۔!! آج میں بھی دیکھتا ہوں کہ کیسے بچیں گی آپ مجھ سے ۔۔!! دیار درانی سے پہلی ملاقات مبارک ہو آپ کو ۔۔!!" 

وشہ اس کا چہرہ ہی تک رہی تھی حیرت سے جب دیار نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے۔ پھر سائیڈ سے اس کا دوپٹہ اٹھاکر اس نے مسکراتے ہوۓ وشہ کی صورت دیکھی ۔ اس کا ڈمپل ظاہر ہوا تو وشہ کے آنکھیں میچیں۔ 

" چھوڑیں ہمیں۔۔!!"

 وہ حلق کے بل چیخی۔ جب دیار نے اسی دوپٹے سے اس کا منہ باندھ دیا۔ بہت بولتی تھی وہ اب اس کی زبان کو سکون مل جاتا۔  

ہاتھ اس نے چھوڑے تھے پر وشہ بھاگ نہ سکی۔

اس کے ساتھ جو ہورہا تھا وہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔ 

وشہ نے محسوس کیا کہہ اس کے چہرے پر پٹی بندھی گئ ہے اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تو دیار مسکرا رہا تھا اور ہاتھ اس کے اب بھی اس کی قید میں تھے۔

وشہ نے کچھ بولنا چاہا پر سواۓ عجیب عجیب سی آوازوں کے وہ کچھ بھی نہ بول پائ۔ 

" سوکیوٹ یار ۔۔!! پیاری لگ رہی ہیں ایسے۔ آج آپ کی زبان کو بھی سکون مل گیا۔ پیار آرہا ہے اب اپ پر۔۔!! لیکن ترس نہیں آرہا۔ آپ ترس والی شے نہیں ۔۔!!" 

وہ اپنے ہاتھ چھڑوانا چاہتی تھی اور کچھ بولنا چاہتی تھی۔ لیکن دیار درانی ترس کے موڈ میں نہیں تھا اس نے کہا تھا کہ دیار درانی کے سامنے وہ کچھ بھی نہیں اسے ہی شوق تھا اس کی انا کو للکارنے کا اب بھگت رہی تھی وہ۔  

" مس وشہ کیا لگتا ہے اب آپ کو کیا سزا ملی چاہیے آپ کو۔۔!! ساری رات ایسے ہی ہاتھ پیر باندھ کر آپ کو چھوڑ دیا جاۓ یا پھر سٹور میں بند کردیا جاۓ۔ یا پھر آپ کو چوہے کے حوالے کیا جاۓ۔ ہممممم میں سوچ رہا ہوں کہ کوکروچ چھوڑوں آپ پر۔ آپ بہت بہادر ہیں لڑ لیں گی اس سے ۔۔!!" 

وہ بے بس تھی اور دیار کو مزہ آرہا تھا اسے ڈرانے میں۔ وشہ نے نفی میں زور شور سے سر ہلایا۔ پھر" ہو ہو" کرکے اسے روکنا چاہا جو کچھ سوچ رہا تھا۔ 

" سوچ رہا ہوں کہ آپ کو پیاری سی سزا دوں۔ اس وقت شاور کے نیچے کھڑا کردوں گیزر آف کرکے۔ تاکہ آپ کا دماغ ٹھنڈا ہوجاۓ ۔۔!! یہ آسان بھی ہے اور اچھی سزا بھی ہے۔ آپ کا دماغ ٹھنڈا ہوگا تو آپ میری خواہش پوری کریں گی ۔۔!! دو پیار بھری باتیں۔ ایک فور ہیڈ کس اور کف لنکس بند کرنا،پھر تھوڑی سی تعریف اور اچھی بیویوں کی طرح مجھے اللہ حافظ کہنا۔  !! آپ سب کریں گی ۔ ٹھیک ہے اب یہی کریں گے۔" 

 اس نے بڑے آرام سے کہا تو وشہ کی آنکھوں میں بے یقینی پھیلی۔کیا وہ اس وقت ٹھنڈے پانی کے شاور کے نیچے کھڑی ہوکر زندہ رہ پاۓ گی۔ وہ تو بری طرح بیمار ہوگی۔ 

" ام ام ام " وہ رونی صورت بناکر بولی ۔

" میں تو یہی کروں گا" وہ باضد تھا۔

وشہ نے نفی میں سر ہلایا لیکن وہ مسکرارہا تھا۔ وشہ نے اپنے ہاتھ دیکھے پھر دیار کو دیکھا اور ہمت کرکے اس دوپٹے کو کھولنے کے لیے اس کے بازو کی مدد لی۔ جو پہلے تو ساکت رہ گیا پھر جیسے اس کا سہارا لے کر اس نے دوپٹہ کھولا اور گہرا سانس لیا وہ اسے داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کے بازو پر گال ٹکا کر اس نے تھوڑی سی محنت سے دوپٹہ رگڑ کر  اتارا تھا۔ 

" آپ نہیں کرسکتے یہ۔ ہم ڈیل کرلیتے ہیں کوئ۔آپ خواہشیں کم کریں ہم مان لیں گے۔ پر ہمیں نہیں بیمار ہونا " 

زبردستی نارمل رہ کر وشہ نے اس کی آنکھوں میں آس سے جھانکا ۔ جس نے سوچنے کی ایکٹنگ کی۔

" نہیں وشہ میں کاروباری بندہ ہوں۔ مجھے کسی کی شرائط قبول نہیں۔ اب پچھلی عاثلی میں ایک بار آۓ لو یو بھی شامل ہوگیا۔ میں آپ کی نہیں مانوں گا آپ میری مانیں گی " 

اس کی اگلی خواہش سن کر وشہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔ اس کی پیشانی عرق آلود ہوئ۔ کہاں پھنس گئ تھی وہ ۔ 

" اس سے اچھا ہے کہ ہمیں بالکنی سے دھکا دے دیں۔ یہ والی خواہش نکال کر آپ پرانی ڈیل واپس آفر کریں ہم مان جائیں گے ۔۔!!" 

اس نے حلق ترکیا ۔ 

" نہیں اب ایک دفعہ گلے لگانا بھی شامل ہوگیا۔ یہ بھی خواہش تھی میری " 

اس نے نئ خواہش کی۔ یعنی احتجاج کرو تو خواہشیں بڑھیں گی ۔ 

" اوکے منظور ہے ہمیں ۔۔!! اس کے علاؤہ کوئ چھوچھوڑی بات اب نہ کیجۓ گا " 

وہ سلگ کر رہ گئ پر اسے پڑھنا تھا صبح ٹیسٹ تھا اس کا اور دیار اسے فیل ہی کروانا چاہتا تھا۔ تبھی اس نے سوچا کہ وقت ضائع کرنے کا فایدہ نہیں جب بات ماننی ہی اس کی ہے۔ 

وہ جتنی جلدی جان چھڑاتی اتناہی اچھا ہوتا ۔

دیار نے مسکراہٹ دبائ۔ اسے کہتے ہیں بیوی کو قابو میں کرنا بغیر تکلیف پہنچاۓ۔ جو وہ کرنا تو نہیں چاہتا تھا پر وشہ نے ہی مجبور کیا اسے۔ 

"مجھے دیکھیں اور بتائیں کہ کیسا لگ رہا ہوں میں ۔۔!!" 

دیار کی آواز سن کر وشہ نے اس کی صورت دیکھی تو وہ مسکرایا پھر اس کا وہ ڈمپل۔ وشہ نے دانت پیسے۔ 

" زہر لگ رہے ہیں ۔۔!!" 

وہ پھنکاری تو دیار نے بھنویں سکیڑیں۔ 

" ذرا پھر سے بولیے کیا کہا آپ نے۔ لگتا ہے جان پیاری نہیں آپ کو "۔ اس نے اسے گھورا۔ 

تو وہ سٹپٹا گئ۔

" زہر مطلب قاتل۔۔!! مطلب جان لیوا۔ زیر کھانے سے لوگ مرجاتے ہیں تو آپ کو دیکھنے سے بھی مرجائیں گے۔ " اپنی بات اس نے واضح کی پر تعریف اب بھی نہیں کی تھی اسنے ۔

" اوووو تو آپ مرمٹی ہیں مجھ پر۔ زہے نصیب ۔۔۔!! آپ کی جان پر بن آئی ہیں مجھے دیکھ کر۔ شکریہ دلم۔!! " 

دیار نے وہی قاتلانہ مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اس کی بات کو واضح کیا اچھے سے کہ وہ ہوش کھوتے کھوتے بچی۔

" چلیں اس بات پر آۓ لو یو کہیں " 

اسکی اگلے ڈیمانڈ سن کر وشہ روہانسی ہوئ اتنی ہمت نہیں تھی اس میں ۔ 

" پلیز دیار اللہ کا واسطہ ہے نا کریں نا ایسے۔۔!! ہم رو پڑیں گے۔ آپ کیوں جان نکال رہے ہیں ہماری۔ ہمیں محبت ہوتی پھر بھی ہم یہ نہ کہتے۔ پلیز چھوڑ دیں ہمیں۔ کیا بگاڑا ہے ہم نے آپ کا۔۔!!" 

اس کی آنکھوں میں نمی چمکی ۔ وہ اسے زیادہ تنگ کررہا تھا۔ اور وہ لڑ بھی نہیں پارہی تھی ۔ دیار فورا سے پہلے اس کے ہاتھ چھوڑ کر اسے خود سے لگاگیا۔ اسے بس اسے تنگ کرنا تھا رلانا نہیں تھا۔ 

ہاتھ چھوٹتے ہی وشہ بھی روپڑی۔ 

" روئیں تو نہیں۔ اچھا نہ کہیں کچھ بھی۔ میں کہہ دیتا ہوں۔ بہت پیار کرتا ہوں آپ سے بہت سے بھی زیادہ ۔۔!!" 

وہ رونے لگی تھی اب۔دیار نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ اور اس کے سر پر ٹھوڑی ٹکا کر اس نے اپنے دل کی بات کہی۔ جو وہ روز ہی کہتا تھا۔

" ج۔جھوٹ بولتے ہیں آپ ۔ پیار ایسا نہیں ہوتا کہ جس سے کیا جاۓ اسے بے بس کرکے اس کا مزاق بنائیں۔ ہم لڑتے ہیں اور آپ نے ثابت کردیا کہ ہم کچھ بھی نہیں آپ کے سامنے۔ اپنی انا کے چکر میں آپ نے ہماری انا روند دی۔ جھوٹ بولتے ہیں آپ ۔ نہیں ہے پیار آپ کو ہم سے ۔۔!!" 

وشہ کسمسائ اور اسے جھٹکے سے خود سے دور کیا۔ وہ خود ہی دور ہوگیا۔ اس کی بات اسے چبھی تھی ۔ اب وہ اسے جو چاہے کہہ لے اور وہ اسے جواب بھی نہ دے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوتا۔

" میرا پیار ایسا ہی ہے۔ عادت ڈال لیں سہنے کی۔ کسی ایک کو انا مارنی ہوگی دونوں میں سے تو آپ ہی ماریں گی اپنی انا۔ محبت بےشک نہ کریں پر تذلیل کریں گی تو زبان آپ کی کچھ بولنے لائق نہیں رہے گی ۔" وہ ڈھیٹ بنا رہا۔ رشتہ بچانے کے لیے ضدی ہونا تھا اسے ۔

" پیار کون سہتا ہے۔ یہ جنون ہے آپ کا اسے پیار کا نام نہ دیں " وہ جرح پر اتری.

" میرے لیے جنون ہی پیار ہے۔ مجھے ایسا ہی پیار پسند ہے۔ اور میرا پیار سہنا ہی ہوگا آپ کو وشہ ۔۔!" 

اس نے کندھے اچکاۓ پھر کف لنکس خود ہی بند کرنے لگا۔ 

"ہم غلام نہیں آپ کے جو آپ کا حکم مانیں گے۔آپ قید کررہے ہیں ہمیں " 

" میں محفوظ کررہا ہوں آپ کو ۔ یہ زنجیریں نہیں حصار ہے۔وقت ہے سمجھ جائیں۔ ورنہ حصار توڑنا آسان یے بہت ۔۔!! " 

"کیا چاہتے ہیں آپ ہم سے " وہ ہارنے لگی۔ دیار سے جیتنا مشکل تھا۔ 

" آپ کو آپ سے ہی چاہتا ہوں ۔ اور کچھ نہیں۔ پیار نہ کریں لیکن میری ہر خواہش کا احترام کریں بدلے میں آپ کو ہر خوشی دوں گا" 

وہ آگے بڑھا اور اس کے آنسو پونچھے۔ پھر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ جہاں کچھ الگ تھا جو وہ پڑھ نہیں پارہا تھا۔ یا پڑھ رہا تھا پر دل نہیں مان رہا تھا۔ 

" آپ کی خواہشیں زیادہ ہیں۔ اور چیپ بھی " اس نے منہ بسور۔ 

" تو ڈیسنٹ خواہشیں کس شوہر کی ہوتی ہیں۔ ایک شوہر اب بیوی کے سامنے نظریں جھکا کر اسے ادب سے سلام کرنے سے تو رہا۔ کیا ہے ڈیسنٹ خواہش آپ کے نزدیک وہ بتادیں آئندہ وہی مانگا کروں گا "

وہ اسے کیوٹ لگی ایسے منہ بناتے ہوۓ کتنے رنگ دیکھ لیے تھے اس نے کچھ ہی دیر میں اس کے۔

وشہ نے سوچا اور بہت سوچا پر ڈیسنٹ کیا تھا ۔ اسے کچھ نہ سمجھ میں آیا۔ 

" اچھا آپ سوچیں کچھ ملا تو مجھے بتادیجۓ گا ۔ مجھے دعوت پر جانا ہے۔ سوجائیے گا اللہ حافظ " 

وہ کھوئ ہوتی تھی اس لیے اس کے آنسو صاف کرکے اس کی پیشانی پر عقیدت بھرا لمس چھوڑ کر اس نے اس کے گال تھپتھپاۓ اور وہاں سے چلا گیا۔ 

اس کے جاتے ہی وشہ نے گہرا سانس لیا اور اپنے گلے سے دوپٹہ اتار کر اسے کھولا۔

" ہم اظہارِ محبت کریں تاکہ آپ مزید ہمارے سر پر سوار ہوں۔ ہم اتنے بھی پاگل نہیں ۔۔!! اللہ کی امان میں دیا آپ کو ۔۔!! "

 دوپٹہ ٹھیک کرکے اس نے صوفے سے اسائنمنٹ اٹھائ اور بیڈ پر بیٹھ گئ دیار نے بدلہ لے لیا تھا اور دیار درانی کی جھلک اسے ڈرا بھی گئ تھی۔ 

اب وقت بتاتا کہ آگے کیا ہوگا دونوں کے ساتھ ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"کیا ہورہا ہے پارٹنر۔ کونسی سوچوں میں گم ہو۔۔!!" 

معصومہ ٹیرس پر کھڑی سامنے پہاڑ دیکھ رہی تھی۔ صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے سے ٹکڑا کر اسے سکون دے رہی تھی۔ سادہ سے کپڑوں میں ملبوس وہ چھوٹی سی لڑکی آزاد فضا محسوس کرکے شاید آزادی کیا ہوتی ہے وہ جاننا چاہتی تھی۔ 

جب فدیان اس کے پاس آکر کھڑا ہوا۔ 

" وہ سامنے جو پہاڑ ہیں وہ کیا ایسے ہی کھڑے رہتے ہیں۔ وہ تھکتے نہیں۔ میں روز دیکھتی ہوں وہ ایسے ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ چاہے بارش ہویا دھوپ نکلی ہو انہیں فرق کیوں نہیں پڑتا ۔۔!!" 

معصومہ اب بھی پہاڑ دیکھ رہی تھی البتہ فدیان اس انوکھے سوال پر چونک ضرور گیا۔   

" خانی ۔۔!! پہاڑ نہیں تھکتے ان میں کونسا جان ہوتی ہے وہ بے جان ہوتے ہیں۔ ان کا کام ہی کھڑے رہنا ہے۔ جیسے آسمان نیچے نہیں گرتا, سمندر کا پانی ختم نہیں ہوتا، سورج روز نکلتا ہے ویسے ہی پہاڑ بھی کھڑے رہتے ہیں چاہے دن ہو یا رات ۔۔!!تم کیا کیا سوچتی رہتی ہو یار۔" 

اس نے اس کے سوال کا جواب اسی کے انداز میں دیا بغیر ہنسے۔ وہ اس کے زہن کو جانتا تھا وہ ہنس کر اس کی دل آزادی نہ کرتا۔ معصومہ نے اسے دیکھا۔

" جس میں جان نہ ہو اسے کیا کسی چیز سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ چاہے وہ کھڑا رہے یا گھومتا رہے۔"

اس نے رخ فدیان کی جانب کیا۔

" نہیں اسے فرق نہیں پڑتا۔یہ قدرت کا قانون ہوتا ہے۔ جب تک اللہ چاہے یہ ایسے ہی رہیں گے۔"

اس کے گال کو فدیان نے ہاتھ سے چھوا۔ پھر اسے سمجھانا چاہا۔

"تو جان تو میرے ٹیڈی میں بھی نہیں ۔۔!! تو کیا اسے بھی نہیں پتہ کہ میں اس سے بات کرتی ہوں۔ اس کا خیال رکھتی ہوں کیا اسے نہیں پتہ ہوگا ۔۔!!" 

معصومہ نے پریشانی سی پوچھا ۔ فدیان نے گہرا سانس لیا۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ 

" معصومہ خانم ۔۔!!! بے جان چیزوں سے پیار کرنا چھوڑ دو۔ دل ان سے لگاؤ جو دل رکھتے ہوں۔ تاکہ تم جتنا پیار انہیں دو وہ جواب میں اتناہی تمہیں دیں۔ میری جان میں تمہارا دل نہیں توڑنا چاہتا پر بے جان چیزیں کچھ محسوس نہیں کرتیں ۔۔!!" 

وہ کہنا تو نہیں چاہتا تھا پر اسے مضبوط بنانے کے لیے اس دنیا سے تھوڑا سا باہر نکالنا ضروری تھا جس میں وہ رہ رہی تھی۔ معصومہ کے چہرے پر اداسی چھائی تو کیا اس کا وہ ٹیڈی بھی اس لیے بس ایک ہی بات کرتا ہے کہ اسے کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔  

" فدیان ۔۔!! کیا سچ میں مجھ سے وہ بھی پیار نہیں کرتا ۔۔!!! " 

اس نے پھر سے پوچھا ۔

" میری جان تم سے کون پیار نہیں کرتا ۔۔!! تم تو بے جان چیزوں کو بھی دل رکھنے پر مجبور کردو۔ اچھا چھوڑو یہ سب مجھے بتاؤ تمہیں تمہیں کیا پسند ہے "

اس کا دھیان بٹانے کے لیے اس نے بات بدلی۔ معصومہ نے آنکھیں معصومیت سے جھپکیں۔ 

" مجھے تو خود بھی نہیں پتہ مجھے کیا پسند ہے۔۔!! سب ہی اچھا ہوتا ہے پر کیا سچ میں ٹیڈی کو کچھ فیل نہیں ہوتا " 

وہ ناسمجھی سی بولی پھر اسے اس کی وہی بات یاد آئ۔ اس کا دل تو بکھر رہا تھا جسے اس نے سالوں سے دوست مانا وہ فدیان کے نزدیک بے جان تھا ان پہاڑوں کی طرح، سورج کی طرح اور ہر کھلونے کی طرح ۔

" ٹیڈی کو چھوڑو مجھے دیکھو۔۔۔!! میں تمہارے لیے وہ گفٹ لایا ہوں جسے سب فیل ہوگا۔۔! جس کا تم خیال رکھو گی، وہ تم سے اٹیچ ہوگا۔ اور وہ تم سے بات بھی کرے گا۔ چاہیے تمہیں ۔۔!!" 

وہ اداس ہو اسے کہاں گوارہ تھا اس نے اپنائیت سے چور انداز میں کہا تو معصومہ نے فورا اس کی جانب اشتیاق سے دیکھا ۔

" سچی ایسا بھی دوست ہوتا ہے " 

" جی ہوتا ہے. رکو میں لاتا ہوں " اس نے مسکرا کر کہا اور اس کا ہاتھ چھوڑ کر کمرے میں چلا گیا۔ پیچھے معصومہ اسی جگہ سٹل کھڑی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا لایا ہے وہ۔ 

کچھ دیر بعد فدیان کمرے سے نکلا تو اس کے ہاتھ میں بلی تھی۔ چھوٹی سی وائٹ کلر کی جس کی آنکھیں سبز رنگ کی تھیں۔

اسے دیکھ کر معصومہ اچھل کر دور جاکھڑی ہوئ۔ اس کے چہرے پر ڈر چھایا اسے بلیاں پسند تھیں بس دور سے دیکھنے میں اچھی لگتی تھیں ایک بلی کو اتنے پاس دیکھنا اس ڈرپوک بلی کے بس کی بات نہیں تھی۔

"ف۔فادی دور رہیں " اس نے کانپتے ہوۓ کہا۔ تو فدیان نے دونوں بلیوں کو دیکھا۔ یعنی بلی اور بیوی کو۔۔!!  

" کیا ہوا ہے یاد تمہارے لیے لایا ہوں اتنی سوفٹ ہے یہ ٹچ تو کرو۔۔!! ویل مینرڈ ہے، ٹرینڈ ہے، خود واش روم جاۓ گی تو گندگی کا کوئ خطرہ نہیں۔ بیڈ پر نہیں چڑھے گی اسے بس اپنی جگہ پر بیٹھنا پسند ہے۔ پیار کرو گی تو یہ آگے سے غصہ نہیں کرے گی اسے اچھا لگتا ہے اگر کوئ اسے پیار کرے، کھانا میں اس کا لے آیا ہوں تم برتن میں ڈال دینا بھوک لگے گی تو خود ہی کھالے گی۔ اسے کھیلنا بھی آتا ہے، باتیں بھی سمجھتی ہے، ان شارٹ تم اسے سنبھال سکتی ہو خانی ۔۔!!" 

فدیان نے کسی ماہر بلیاں پالنے والے جمع بلیوں کے بیوپاری کی طرح اپنے ہاتھ میں پکڑی بلی کی تعریفیں کی۔ جو اب میاؤں میاؤں کررہی تھی مطلب تھا کہ مجھے نیچے اتارو۔ اسے نئ جگہ گھومنی تھی۔ معصومہ چند قدم مزید پیچھے گئ۔ 

" ف۔فادی یہ کاٹ لے گی" اس نے ڈر کر کہا۔ تو فدیان نے بلی کو زمین پر چھوڑ دیا۔ 

" سونا ۔۔!! جاؤ اسے بتاؤ تم آوارہ بلی نہیں ہوں اسے نہیں مارو گی۔ وہ چاہے گی تو تم رہ سکتی ہو ورنہ تمہیں اپنے پرانے گھر جانا ہوگا ۔۔!!" 

فدیان نے یوں بات کی جیسے بلی سمجھے گی۔ 

" میاؤں ۔۔!! میاؤں ۔۔میاؤں۔۔!!" 

نیچے اترتے ہی بلی نے اونچی آواز میں کہنا شروع کیا اس کی آواز سن کر معصومہ نے سہمتے ہوۓ دیوار سے لگ کر نفی میں سر ہلایا۔

" ن۔ن۔نو فادی یہ کھاجأۓ گی مجھے ۔۔!! " 

معصومہ کا سانس اکھڑا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی پیشانی پر آیا پسینہ پونچھا۔ اس سے پہلے کہ اسے استھیما کا اٹیک آتا اور وہ فدیان کی جان بھی نکال دیتی۔ فرش پر کھڑی اس بلی نے میاؤں میاؤں کرتے اس کی جانب جانا شروع کیا ۔ معصومہ نے گہرے سانس لیے۔ فدیان حیران تھا کہ بات ڈرنے والی تو نہیں۔ اسے کیا ہورہا یے۔ 

اس سے پہلے کہ وہ گرتی بلی نے  جاتے ہی اس کے پاؤں پر اپنے پاؤں رکھے اور میاؤں میاؤں کرتے اپنا سر اس کے پیروں پر رگڑنے لگی۔ جیسے کہہ رہی ہو مجھے نہ نکالو رکھ لو مجھے۔ 

وہ سوفٹ سی تھی معصومہ کو پہلے تو جھٹکا لگا پھر اس نے پاؤں سے اسے ہٹانا چاہا تو بلی نے ہلکی سی میاؤں کرکے اس کے پیروں میں لیٹنا ہی مناسب سمجھا اور پھیل کر لیٹ گئ۔ اپنا ہی گھر سمجھ لیا اس نے اس گھر کو۔

" محبوب آپ کے قدموں میں سنا تھا یہ بلی آپ کے قدموں میں پہلی بار دیکھی خانی۔مان جاؤ اسے واپس نہیں جانا۔ یہ تنگ سے پنجرے میں اتنی ساری بلیوں کے ساتھ رہتی تھی میں جب بلی پسند کررہا تھا تب اس نے میری جانب دیکھ کر کئ بار میاؤں میاؤں کیا تھا۔۔!! پلیز رکھ لو اسے ۔۔!!" 

فدیان ریلیکس ہوگیا ۔ 

" یہ تو پیاری ہے۔ فادی یہ تو پیار کررہی ہے مجھے. ہی ہی ہی ۔!! " 

وہ کھلکھلائ اور نیچے بیٹھ گئ پھر اس نے اس بلی کو ہچکچاکر اٹھایا ۔ جو اب بھی خود کو ڈھیلا چھوڑے ہوۓ تھی۔

" یہ اچھی ہے ..!! یہ میری ہے نا " کافی دیر تک وہ اس کے نرم بالوں میں انگلیاں چلاتی رہی پھر اس نے خوش ہوکر پوچھا۔ 

" تمہاری ہی ہے ۔۔!!" فدیان نے فورا کہا کہیں وہ اسے لینے سے انکار نہ کردے۔ بلی اب بھی ڈھیلی ہوکر آدھی آنکھیں بند کرکے اس کی گود میں لیٹی تھی۔ 

" تھک گئ ہے اسے سلا دو جاکر۔اس کا سامان بھی روم میں ہے ۔۔!!" 

اس نے بلی کو سوتے دیکھا تو معصومہ سے کہا جو پل میں بدل گئ اس نے ہاں میں سر ہلایا اور اسے کمرے میں لے گئ ۔

" یہ خود بھی بلی ہی ہے۔ یہ میری بلی ہے اور وہ اس کی بلی ہے۔۔!! اور مجھے دونوں پیاری ہیں۔ " 

اس نے ریلنگ پر ہاتھ رکھا اور سامنے کا منظر دیکھنے لگا۔

"وشہ یار میں نے سنا ہے کہ تم ونی ہوگئ ہو ۔!! وہ سینئرز کا گروپ بات کررہاتھا کہ تم اپنے گھر والوں کے کسی گناہ کے کفارے میں مخالف پارٹی کے سامنے صلح کے لیے پیش کردی گئ ہو۔ واہ یار کیا ناول والی کہانی ہے نا۔ تم جو کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی اسے اس کے گھر والوں نے بھرے جرگے میں کسی ایرے غیرے کے حوالے کردیا۔ اچھا بتاؤ نکاح کرواکر گئ ہو یا ایسے ہی باندی بن کر رہ رہی ہو !!" 

وشہ اپنی کتابیں سمیٹ کر ابھی کلاس اٹینڈ کرکے باہر نکلی ہی تھی جب کوریڈور میں پیچھے سے اسے ایک آواز سنائ دی جب سے وہ واپس یونی آئ تھی سب لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ تو اس کے پاس سے گزرتے اسے حقارت بھری نظروں سے بھی دیکھتے جنہیں وہ مسلسل اپنی غلط فہمی سمجھ رہی تھی۔ پر جب اس نے اس لڑکی کے منہ سے ونی والا لفظ سنا تو اسے جھٹکا لگا۔ آخر انہیں کیسے پتہ چلا۔۔!! 

" محترمہ آخر یہ فضول بکواس ہم سے کرنے کی وجہ ہم جان سکتے ہیں۔ کیا آپ ہماری بچپن کی دوست ہیں یا راز دار ہیں ہماری جو ایسی فضول اور بے مقصد بات ہم سے کررہی ہیں۔ ونی نہیں ہوۓ ہم نکاح ہوا ہے ہمارا۔ سمجھ میں آئ آپ کو بات نکاح ۔۔!! 

جائز طریقے سے رخصت ہوۓ ہیں ہم۔ کسی صلح کے لیے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیے گۓ۔ آئندہ زبان سنبھال کر بات کریے گا." 

وشہ نے دبی دبی غراہٹ سے کہا۔ اس پوری یونی میں اس کا کوئ دوست نہیں تھا۔ وہ کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھی نا دوستی کا رشتہ اسے پسند تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔تو پھر کوئی کیوں اس کے نجی معاملات میں بولے۔ 

دوسری لڑکی حلیے سے ہی کسی امیر باپ کی بگڑی اولاد لگ رہی تھی۔ کھلے بال، مغربی طرز کا تنگ لباس اور گلاسز بالوں میں سجاۓ ہوۓ اس نے وشہ کے جواب پر سمجھ کر سر ہاں میں ہلایا۔ 

" تم تو اب یہی کہو گی نا۔ ایک تو تم قبیلے میں رہنے والی لڑکیاں، دقیانوسی سوچ، فضول رسم و رواج ۔۔!! اوپر سے یہ اتنی بڑی چادر ۔۔!! کیسے رہ لیتی ہو تم لوگ زندہ۔۔!!" 

مصنوعی ہمدردی دکھاتے ہوۓ اس نے وشہ کی چادر پر چوٹ کی۔ جس کا ضبط جواب دے رہا تھا۔ وہ بغیر جواب دیے آگے چلنے لگی۔ ایسے فضول لوگوں سے بحث بے نتیجہ ہی ختم ہوتی۔ اسے غصے میں آتا دیکھ کر وہ لڑکی بھی اس کے پیچھے چلنے لگی۔

" کیا ہوگیا وشہ کو بات بری لگ گئ۔ یہ تمہارا قاتل غصہ اس پر تو میرا بھی دل آریا ہے۔ آوروں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ یقین جانو یونی کے لڑکے مرتے ہیں تم جیسی پر۔ ایک تم ہی ہو جو منہ نہیں لگاتی کسی کو۔ ایک بات ہاں تو کرو دل بہلانے کو بہت مل جائیں گے..!!"

وشہ کے چلتے قدموں کو بریک لگی کتنی واہیات سوچ تھی اس لڑکی کی۔ وہ رکی تو اسکے پیچھے کھڑی لڑکی بھی رک گئ۔

" ہم جواب نہیں دے رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی نیچ اور گھٹیا ذہنیت ہم پر آشکار کریں۔ ہم آپ جیسی نہیں ہیں جو ان مکھیوں کو خود پر منڈلانے دیں۔ ہم ہاتھ توڑ دیں گے جو ہماری طرف بڑھا۔ وہ آنکھ نوچ دیں گے جس نے ہمیں دیکھا۔ تو ہمارے معاملات سے دور رہیں اور جاکر کوئ اور شکار ڈھونڈیں ۔۔!!" 

وشہ اتنے کرخت لہجے میں اسے وارننگ دے رہی تھی کہ ایک لمحے کو تو وہ بھی کانپ گئی۔ پھر اپنے گلاسز اتار کر اس نے آنکھوں کے سامنے لگاۓ۔ خاصی ڈھیٹ تھی وہ۔

  "مستقبل کی لائیر اپنے ہی گھر والوں کے سامنے ٹک نہ سکیں لوگوں کے کیا ہاتھ توڑیں گی۔ یہ ونی تو قتل کے بعد ہوتی ہے نا تمہارا بھائ کیا قاتل بھی ہے۔ تم کیا کسی قاتل کی بہن ہو۔یا باپ کے کسی گناہ کی سزا بھگت رہی ہو۔ اچھا یہ تو بتاؤ وہ جس کے ساتھ تم رہ رہی ہو دکھنے میں کیسا ہے۔ ہینڈسم ہے یا ایویں ہی ہے۔۔!! میں اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ اگر کسی کام کا نہیں تو رک جاؤ چند سال مجھے وکیل بننے دو میں تمہارا کیس مفت میں لڑ کر تمہیں اس سے رہائی دلوا دوں گی ۔!! تب تک اسے برداشت کرو اگر بچے وغیرہ آگۓ تب تک۔ تو کوئ بات نہیں انہیں اسی کے منہ پر مار ۔۔!!!"

ابھی اس کی بات منہ میں ہی تھا جب اس کا جبڑا وشہ نے مضبوطی سے پکڑا۔ وہ شاکڈ رہ گئ کیونکہ وشہ کی پکڑ مضبوط تھی۔ 

" ہمارے شوہر کے بارے میں کچھ کہا آپ نے تو زبان کھینچ دیں گے آپ کی۔!! ہم بارہا سمجھاریے ہیں آپ کو کہ ہمارے نجی معاملات میں دخل نہ دیں۔ ہمارا نکاح ہمارے شوہر ہماری زندگی سب ہماری ہے۔ آپ ہماری سرپرست نہیں جو ہر بات ہم آپ کو بتائیں۔۔!! آج تو چھوٹ رہے ہیں بعد میں فضول بولیں گی تو ہم برداشت نہیں کریں گے۔ اب راستے میں نہ آئیے گا ہمارے ۔۔!!" 

نحوت سے وشہ نے اسے دور جھٹکا تو وہ شاکڈ سی اس پاس دیکھنے لگی یہ منظر وہاں کھڑے چند سٹوڈنٹس نے دیکھا تھا اور دبی دبی ہنسی تھی ان کے چہروں پر۔ اپنی بات کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئ لیکن اس لڑکی نے غور سے یہاں کھڑے لوگوں کی خود پر نظریں محسوس کی تھیں۔ وہ وشہ کو شرمندہ کرنا چاہتی تھی اور وشہ اسے ہی جھٹک کر گئ تھی۔ 

" وشہ ۔۔!! وشہ ۔۔!! وشہ ۔۔!! تم مجھے شروع سے ہی پسند نہیں۔ لیکن آج تم نے اچھا نہیں کیا۔ تمہیں رونا چاہیے تھا اس ذلت کے بعد جو تمہارے خاندان نے تمہارے مقدر میں لکھی پر تم تو اڑتی پھررہی ہو۔ چلو تمہیں میں اچھے سے بتاؤں گی کہ ذلت کیا ہوتی ہے۔ تمہیں میں نے اب رونے پر مجبور نہ کردیا تو میں بھی سونیا نہیں۔۔!! جسٹ ویٹ اینڈ واچ ۔۔!!" 

اپنی گلاسز واپس سے بالوں میں لگاکر اس نے جیسے کوئ تہیہ کیا تھا پھر وہاں سے وہ واک اؤٹ کرگئ۔ یہ ہنستی ہوئ نظریں اسے زہر لگی تھیں۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" اومارا نقلی پٹھان، ٹینڈے کے چھلکے والا منہ کیوں بنالیا ہے تم نے۔ آخر کیا ہوگیا ہے اچانک تم کو یارا ۔۔!! ابھی باہر کھڑا اس ہیرو نما گارڈ نے ہم کو بتایا کہ اس پہلے سے سڑا ہوا دلاور خان کا یہ منہ مزید سڑ گیا ہے۔ ہم نے بھی کہا کہ اس کا منہ سڑا نہیں یہ وہ پھٹکار ہے جو جہنم کا مہر لگنے کے بعد اکثر سیاستدانوں کے منہ پر پڑتا ہے۔ یہ فخر کا بات ہوتا ہے اور ہمارا یار جہنمی ہے۔ یہ کتا پن اس کے منہ پر ہی اچھا لگتا ہے۔ اب اس حرام خور کو تم چھوڑو ہم کو بتاؤ کیا ہوا۔ کیا موت کا فرشتہ دکھ رہا ہے تم کو۔ یا شیطان نے تم کو اپنا بیٹا ماننے سے انکار کردیا ہے ۔ یا کوئ ٹافی چھین کر بھاگ گیا کیا تمہاری۔۔!!"

کمرے میں دلاور خان لیٹا ہوا تھا ایک ہاتھ دل کے مقام پر رکھ کر کیونکہ جونہی اسے صبح صبح خبر ملی کہ اس کی اربوں کی جائیداد جس حویلی میں چھپی تھی اسے کسی نے بامب سے بلاسٹ کردیا تو اسے منی ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ فورا ڈاکٹر حویلی میں آگیا ورنہ وہ آئ سی یو میں ہوتا۔ بادل نے خیر سے ڈاکٹر بھی تو گھر کے باہر ہی کھڑا کروایا تھا کسی بھی ایمرجنسی کے لیے۔ 

ابھی بادل خان ڈرامائی انداز میں آگے بڑھا اور ہمدردی کرنے لگا۔جب اس قدر ذلت پر وہ کراہ اٹھے۔ 

" بادل کبھی تو برسنا چھوڑ دیا کرو ۔۔!! ہارٹ اٹیک ہوا ہے مجھے۔ میں مرتے مرتے بچا ہوں۔اور تم یہاں مجھے ٹینڈے کا چھلکا کہہ رہے ہو حد ہوتی ہے۔۔!!مجھے جہنمی کہہ رہے ہو۔ میری اربوں کی جائیداد جل کر خاکستر ہوگئ ہے۔کسی کمینے نے میری حویلی کو آگ لگادی ہے۔۔!!" 

وہ بیڈ کا سہارہ لے کر اٹھ گئے پھر انتہا کی دکھی شکل بناکر اسے اپنا مسئلہ بتایا جس نے جواب میں سوچنے کی اداکاری کی۔

" مارا تم نالی کا مینڈک تو پہلے ہی تھا اب بندر کا پرسنل شاگرد بھی بن گیا ہے۔ جائیداد اربوں( عربوں) کا جلا ہے اور تم اتنادکھ خود لے گیا ہے۔ کہیں تم میں احساس تو نہیں پیدا ہوگیا اور کونسا حویلی تھا تمہارا جس میں ارب کا جائیداد پڑا تھا اور وہ جلا پر ہم کو بو نہیں آیا۔ تم جانتا ہے مارا جائیداد جلتی دیکھنے کا ہم کو کتنا شوق ہے ۔!! 

تم کہیں ہم سے باتیں تو نہیں چھپاتا نا۔۔!!"

اس نے اس کی کم عقلی پر چوٹ کی کہ جائیداد کسی اور کی جلی ہے اور وہ دل پر بات لے کر بیٹھ گیا ہے۔

پھر اس نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا جو سٹپٹا گیا۔ بادل سے بھی راز رکھی تھی اس نے یہ بات کیونکہ وہ اس معاملے میں اس پر بھی یقین نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے بندے لگادیے تھے اس کام پر کہ اپنا دشمن ڈھونڈ سکے ہر افسوس وہ سارے اس وقت تلاش کے نام پر چھٹیوں پر گۓ تھے۔وہ بادل کے بندے تھے کوی دلاور کو کیسے بتاتا ۔۔!! 

" پاگل ہوگۓ ہو کیا تم۔۔!! رہنے دو تمہیں کچھ سمجھ نہیں آۓ گا ایسا کرو گلگت کی فیکٹری کا چکر لگا آؤ۔ کل وہاں سے منافع آنا تھا آیا نہیں ابھی تک۔ جلدی واپس آنا ٹھیک ہے " 

وہ واپس سے لیٹ گۓ اور بادل کو حکم دیا جس نے جواب میں دانت نکالے۔

" بادل کا جان کمینہ نیچ سوچ کا انسان ۔۔!! ہم اتنی دور گلگت جاۓ تاکہ کوئ پری ہم پر عاشق ہوجاۓ اور ہم کو کہیں کا نہ چھوڑے ہم اتنابھی پاگل نہیں ہے نا تمہارا باپ کا ملازم ہے جو تمہارا ایک اشارہ پر دوڑتا گلگت جاۓ ادھر سے سیاچن پھر امریکہ کے کھنڈروں میں منہ دے کر مرجاۓ۔۔!! " 

اس نے اپنی ٹولی صحیح کی پھر اکڑ کر کہا تو دلاور خان نے سر پر ہاتھ رکھا۔ یہ سیدھا بندہ ہی نہیں اس کے دل نے کہا۔ 

"ہم تمہارا ملازم ہے تو ہم نہیں جارہا کہیں بھی بھیج دو جس کو تمہارا دل کرے۔ابھی ہم کو پچاس نفل پڑھنا ہے آخر آج شیطان کو تڑپتے جو دیکھا ہم نے۔۔!! جو کوئی نہیں دیکھ سکا ہم وہ دیکھ گیا تو ہم اب جارہا ہے ذرا اللہ کو یاد کرلے..! سجدے کا توفیق بھی کسی کسی کو ہوتا ہے ہم کو یہ موقع جانے نہیں دینا ۔ !تم ادھر ہی مرو دل کرے تو مکھیاں بھی مارو اور مچھر بھی۔۔!! "

اس نے بے نیازی سے جو سچ تھا کہہ دیا۔ پھر سیٹی بجاتے ہوۓ وہاں سے چلا گیا۔ پیچھے دکاور خان کا دل اب پھر سے درد کرنے لگا۔

" یہ میرا دوست ہے یا دشمن پتہ لگانا مشکل ہے۔۔!! جان بھی دے دے گا اور مجھ زندہ کو کتا کمینہ بھی کہہ دے گا۔ یہ کام کا ہوتا تو میں اسے بھی مار دیتا..!! اب چھوڑو دلاور خان دنیا میں ہی جہنم دیکھ رہے ہو تم یہ یقینا دوزخ میں لوگوں کو ٹارچر کرنے والا فرشتہ ہے..!!" 

انہوں نے پانی کا گلاس پیتے ہوۓ بادل کی باتیں یاد کیں تو بے ساختہ جھرجھری لی۔ پھر آنکھیں بند کرکے ان پیسوں کا دکھ منانے لگا جو ان کی جائیداد کا سب سے بڑا حصہ تھے ۔ انہیں امید تھی کہ اس کے پیچھے جو بھی ملوث ہے وہ پکڑا جاۓ گا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" کرلوں گا میں یہ سارے کام ۔۔!! مجھے اچھے سے آتے ہیں۔ دیکھیں گھر بھی کتنا گندہ ہورہا ہے۔اب صفائ تو کرنی ہی ہوگی نا۔ اور آپ کو تو پتہ ہے صفائ نصف ایمان ہے۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں تو سوچا آج ادھاایمان تو لے ہی لوں۔۔!!" 

یشاور نے صوفے سے کشنز اٹھاکر جھاڑے تو دھول سے اس کے گلے میں جلن ہوئ تو وہ کھانسنے لگا۔

بہار اسی کے کپڑے پہن کر اس کے سامنے کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ جو اتنے دنوں سے بس اس کے کمفرٹ زون کا خیال رکھنے کے لیے کوششیں کررہا تھا اسے وقت پر کھانا کھلانا( جو وہ کچھ حد تک سیکھ چکا تھا بنانا) اس سے باتیں کرنے کی کوشش کرنا۔۔!!

بہار بھی حیران تھی کہ ایک انجانی لڑکی جو اس کے سر پر مسلط ہوئ ہے وہ کیوں اس کے لیے اتنی محنت کررہا ہے۔ 

" آپ رہنے دیں میں کردیتی ہوں۔ اتنے دنوں سے فری ہوں اب تو میں بھی بور ہورہی ہوں۔ گھر کے کام کروں گی تو دھیان بٹ جاۓ گا۔ آپ جاکر فریش ہو جائیں صبح بھی ناشتہ اور لنچ آپ نے بنایا تھا پھر صفای میں لگ گۓ۔مجھے اچھا فیل نہیں ہوریا آپ ریسٹ کریں میں لنچ بنادوں گی۔۔۔!!" 

بہار اب تھک کر خود ہی آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے کشنز لے لیے۔ جس نے اپنے گلے میں ہوتی خراش دبا کر نارمل ہونے کی کوشش کی۔ 

"آپ بور ہورہی ہیں آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔!!! اور گھر کے کام کرنے سے آپ کا دھیان بٹے گا عجیب بات ہے۔ اور رہنے دیں یہ سب میں میڈ ارینج کرچکا ہوں وہ صفائ وغیرہ کرجایا کرے گی۔ آپ بھی اپنی شاپنگ کی لسٹ مجھے بناکر دے دیں میں کل مال جاؤں گا تو سب لادوں گا آپ کو۔ آپ کل اکیلی نہیں ہوں گی گھر پر تو مجھے بھی تسلی رہے گی۔ جہاں تک بات رہی کھانے کی تو میں نے ایک نیوو ریسپی دیکھی ہے۔ وہی بناؤں گا اج۔۔!! شوہر کو ملٹی ٹیلنڈڈ ہونا چاہیے۔ یہ بیوی کا حق ہے میں بھی اچھا اور ذمہ دار شوہر بننے کی کوشش کررہا ہوں . !!" 

یشاور نے کشنز لے کر واپس سے صوفے پر رکھ دیے پھر عام سے انداز میں بات کرکے یوں ظاہر کیا جیسے یہ سب بہت آسان ہو اس کے لیے اور وہ خوشی سے کررہا ہوں جبکہ یہ سب کرتے کرتے اس بیچارے کو نانی، دادی ، پھپھو ، خالہ، پرداری، یہاں تک کہ سات نسلیں بھی یاد آگئ تھیں۔ پیاز دیکھ کر اب اسے ڈر لگتا تھا کہ رونا پڑے گا۔

 برتن دھوتے ہوۓ کئ گلاس وہ توڑ کر خود کو زخمی کرچکا تھا اور یہاں تک کہ لال مرچ کا ڈبہ ایک دفعہ اس نے خوشبو لینے کےلئے سونگھ لیا کیونکہ ویڈیو والے شیف نے کہا تھا کہ مصالحوں کا اروما صحت کے لیے اچھا ہے اسے لال مرچ دکھی تو اس نے سونگھ لی پھر رات تک چھینکتا رہا۔

مختصراً وہ بیچارہ بڑی مشکل سے کوشش کررہا تھا کہ بہار خوش رہے۔ 

" کیا بنائیں گے آپ ۔۔؟!" 

بہار جانتی تھی وہ اس سے بات کرنا چاہتا ہے اور اسے بھی دوستی کرنی تھی اس سے۔ وہ اس کے پاس آئ۔

" نام تو مشکل تھا البتہ ویڈیو کے تھمپ نیل میں لکھا تھا کہ " بیوی کو دیوانہ کرنے کے لیے ایک بار ٹراۓ ضرور کریں پچھتائیں گے نہیں، اگر بیوی آپ کو گھاس نہیں ڈالتی، آپ کو ویلیو نہیں دیتی تو یہ کھانے کے بعد تیر کی طرح سیدھی ہوجاۓ گی، اس ریسیپی میں جادو ہے ہر اس مظلوم شوہر کے لیے جو بیچارہ میری طرح بیوی سے بات کرنے کو بھی ترستا ہے۔۔!! 

آج میں ٹراۓ کروں گا اور دیکھتے ہیں کتنی سچائی ہے اس میں ۔۔!!"  

بغیر زرا سا بھی جھوٹ بولے یشاور نے اسے اپنے نیک ارادے بتادیے اور اب اپنے کمرے کی طرف جانے لگا فریش ہونے کے لیے لیکن بہار کا منہ کھلا ہوا دیکھ کر اس نے مسکراہٹ روکی۔

" آپ مجھے قابو کرنے کے لیے نیٹ سے ریسیپیز لارہے ہیں۔ایسا ہے تو میں اب وہ نہیں کھاؤں گی جو آپ بنارہے ہیں ۔۔!!" 

اس نے صاف اعلان کیا تو یشاور کی مسکراہٹ اب اس کے ہونٹوں پر رینگ گی۔ اپنی اوشن گرین آنکھیں اس نے بہار کے خوبصورت سے چہرے پر ڈالیں۔

" مجھے تو کرنا ہے آپ کو قابو ۔۔!! میں تو ابھی بنگالی بابا کا پتہ بھی ڈھونڈ رہا ہوں وہ جو محبوب آپ کے قدموں میں لانے والے ہوتے ہیں ان کا۔ مجھے اپنی بیوی دل میں لانی ہے۔۔!! آپ پر تعویز کرواؤں گا اب میں، جادو بھی کرواؤں گا اور آپ کو سیدھا بھی کردوں گا۔۔!!" 

اس کی حالت سے لطف اٹھاتے ہوۓ یشاور نے اس کی ناک دبائ جو منہ بناکر کھڑی تھی کہ اسے قابو میں کرکے کیا ملے گا اسے۔ 

" ابھی تو جائیں اور لسٹ بنائیں کیا چاہیے آپ کو۔ اور جو جو چاہیے لکھ دیجیۓ گا میں وہاں کسی فیمیل والنٹیئر کی ہیلپ لوں گا اور آپ کو لاکر دے دوں سامان۔ مجھے بالکل اندازا نہیں کہ آپ کونسا پرفیوم یوز کرتی ہیں اور کونسے سائز کے کپڑے پہنتی ہیں وہ بھی لازمی مینشن کیجۓ گا ۔۔۔!! 

ساتھ میں گروسری کا اگر آپ کو پتہ ہے کیا کیا چاہیے تو وہ بھی لکھ دیں اور گھر کی باقی کی ضروریات بھی لکھ دیں ۔۔!! 

مجھے کچھ بھی نہیں پتہ اس بارے میں تو اب آپ کو ہی گھر سنبھالنا ہے۔ لیں ہوگیا آپ کی بوریت کا حل پیش ۔۔!! اب میں فریش ہونے جارہا ہوں آکر آپ کے لیے سپیشل "شویر آپ کے دل میں والی میکرونی بناؤں گا ۔۔!!!" باۓ " 

اس نے اسے ہاتھ لگایا تھا بغیر اس کی پرمیشن کے اور بہار کو ڈر بھی نہیں لگا تھا تبھی وہ سکون سے چلا گیا کہیں وہ اب ڈر نہ جاۓ۔ 

بہار نے گہرا سانس خارج کیا پھر کمرے میں چلی گئ۔ لسٹ بنانے ۔۔!!

جو اسے یشاور نے کام سونپا تھا۔ اسے کرنا تھا۔ پین اور نوٹ پیپرز اسے ڈھونڈنے سے مل جاتے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" یہ دیکھو وہاں پہاڑ بھی ہیں ۔۔!! تم نے کبھی پیار دیکھیں ہیں کیا۔ وہ دیکھو کتنے اونچے ہیں.!" 

تاریکی میں ڈوبی ایک جھیل کا منظر پیش کرتی معصومہ کی آنکھوں میں خوشی تھی اب اس کی تنہائی جو دور ہوچکی تھی تو خوش ہونا بنتا تھا۔ بلی کو اس نے ہاتھوں میں اٹھایا تھا اور وہ اسے اب پہاڑ دیکھا رہی تھی۔ جو بجاۓ پہاڑ دیکھنے کے آس پاس گھور رہی تھی۔ 

" سونا ۔۔!! پہاڑ تو دیکھو نا ۔ تم گندی بلی ہو میں جو دیکھاتی ہوں وہ نہیں دیکھتی تم اس کے علاؤہ ہر جگہ نظر ہے تمہاری ..!! میں اب ناراض ہوجاؤں گی۔ پہاڑ دیکھو ۔۔!!" 

معصومہ نے اسے ڈانٹا یہ بلی اسے نہیں سمجھتی تھی اور اسے غصہ آرہا تھا۔ 

اس نے خفگی سے کہا تو اس بار بلی نے چونک کر " میاؤں " کہا اور مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ جیسے ناراضگی کی وجہ جاننا چاہتی ہو۔۔!!

" تم پہاڑ نہیں دیکھ رہی گندہ بچہ ہو تم ۔۔!! میں فادی سے کہوں گی کہ تمہیں کسی اور کو دے دیں۔ جہاں پہاڑ نہ دکھتے ہوں۔ پتہ بھی ہیں تمہیں یہ پہاڑ دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں پھر بھی اتنا اچھا ویو نہیں ملتا انہیں جو فادی کے کمرے کے ٹیرس سے دکھتا یے۔ تمہیں تو قدر ہی نہیں ۔ مفت میں جو دیکھ رہی ہو۔۔!! مجھے یہ منظر دیکھنے کے لیے فادی سے نکاح کرنا پڑا تھا ۔ اچھا ہے فادی تمہاری بھی شادی کروادیں۔۔!! پھر اپنے بلے کے کہنے پر تو تم دیکھو گی نا پہاڑ ۔۔!! " 

غصہ کرتے ہوۓ معصومہ نے بلی کو نیچے اتار دیا یہ ناراضگی کا اعلان تھا۔ وہیں سونا نے نیچے اترتے ہی دو سے تین بار میاؤں میاؤں کیا۔ پھر وہیں بیٹھ کر اپنا منہ فرش سے رگرنے لگی۔ پھر وہیں ڈھیلی ہوکر لیٹ گئ صبح سے معصومہ اسے اپنے ساتھ گھماتی پھر رہی تھی کبھی اسے اپنی چیزیں دکھاتی تو کبھی اس کے ساتھ کھیلتی اب وہ بھی تھک گئ تھی۔ 

" اوووو تم تو تھک گئ ہو۔ تبھی پہاڑ نہیں دیکھ رہی تھی۔ میں بھی نہ پاگل ہوں جسے لگا تم جان بوجھ کر ایسا کررہی ہو۔ کیونکہ تمہیں میری بات نہیں ماننی ۔۔!! ایسا کرتے ہیں اب سوجاتے ہیں۔ میں بھی تھک گئ ہوں تو تمہیں سلاکر میں بھی سوجاوں گی ۔۔!! ٹھیک ہے ۔۔!!"

معصومہ نے سونا کو واپس اٹھایا جو اپنی عادت سے مجبور اب بھی ڈھیلا چھوڑے ہوۓ تھی خود کو ایسے وہ مزید کیوٹ لگتے تھی اور اب تو وہ معصومہ سے بہت اٹیچ ہوچکی تھی۔ 

" اوووو سونا بےبی۔۔!! کتنی کیوٹ ہونا تم۔ مجھے تو پیار ہوگیا ہے تم سے۔۔!! تمہیں ہوا ہے کیا ۔ !!" 

اسے اٹھا کر معصومہ نے کیوٹ سا فیس بنایا اسے جی بھر کر پیار آیا تھا اس بلی پر جواب میں سونا نے اپنی ادھ کھلی نظروں سے اسے دیکھا اور " می۔۔!! " کی آواز نکالی۔

فدیان نے صحیح کہا تھا کہ وہ پیار اس سے کرے جو بدلے میں اسے پیار بھی دے اور اب وہ اسے جواب بھی دیتی تھی اسے خود سے لگاکر معصومہ دل سے ہنسی۔ جب سے وہ یہاں آئ تھی بہت خوش تھی فدیان کے ساتھ اب اس کا دیا ہوا تحفہ وہ فدیان کی مزید دیوانی ہوئ تھی۔

اسے اٹھا کر وہ کمرے میں آئ اور اسے اس کے چھوٹے سے کاٹ میں رکھ دیا جو سپیشلی فدیان اس کے سامان کے ساتھ لایا تھا۔

کاٹ میں جاتے ہی سونا سکون سے اپنے ٹیڈی بیئر پر لیٹ گئ۔ وہ نسلی بلی تھی تو انداز بھی شاہانہ تھا اس کا۔ 

اس پر پیار بھری نگاہ ڈال کر معصومہ بھی اپنے بیڈ پر جاکر اپنے ٹیڈی بیئر کو گلے لگا کر سوگئ۔ وہ تھک ہی اتنا گئ تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں نیند اس پر غالب آگئ۔ 

ٹھیک آدھے گھنٹے بعد فدیان کمرے میں واپس آیا وہ درمان کے حکم کے مطابق اپنا آفس وزٹ کرنے گیا تھا کیونکہ اسے آرڈرز تھے کہ نیکسٹ ویک سے جوائننگ دینی ہے اسے۔اب فدیان اداس تھا کہ اگر ایسا ہوا تو اسے بھی شہر ہی رہنا ہوگا وہ اپنی kitty کے بغیر کیسے رہے گا وہاں۔

کمرے میں آتے ہی اسے معصومہ اور بلی دونوں اپنی اپنی جگہ پر سکون سے سوئی ہوئ دکھی تو ایک خوبصورت سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیلی۔ کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے ٹیڈی بیئر پر سکون سے قابض تھیں۔ آگے بڑھ کر فدیان نے اپنی بلی کو پیار سے دیکھا پھر جھک کر اس کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کی۔

" میری بلی۔۔!! شکر ہے تمہاری بوریت ختم ہوگئ اور آج تو تم نے زرلشتہ کو بھی منہ بنانے پر مجبور کردیا۔ وہ جو کسی کی باتوں سے زچ نہیں ہوتی آج تمہیں بلی کے ساتھ دیکھ کر بیچاری رونے والی تھی کہ تم بھی اب مصروف ہوگئ ہو۔اب دیکھتے ہیں وہ کتنی بلیاں تمہیں تنگ کرنے کے لیے لاۓ گی۔تم دونوں دیوارانی جیٹھانی کم اور سکول جانے والی بچیاں زیادہ لگتی ہو ۔!! سچ میں " 

اس کے گال پیار سے چھو کر اس نے ہنستے ہوۓ سوچا پھر سر جھٹک کر ڈریسنگ روم کی طرف چلا گیا۔

" اب مزہ آۓ گا جب زرلشتہ تم سے خود کو اگنور کرنے کا بدلہ لے گی ۔!! گھر میں رونق لگ جاۓ گی۔اور لٹریلی معصومہ خانم ہارنا تم نے ہی ہے۔ وہ پاگل ضرور ہے پر تمہیں اپنے پاس خود واپس لے جاۓ گی۔۔!!"

اپنے کپڑے سیلیکٹ کرتے ہوۓ اس نے سوچا پھر اپنی سوچ ہر ہنسنے لگا اس یاد تھا کہ کچھ دنوں سے معصومہ جو اپنی بلی کے ساتھ مگن ہے درمان کی بلی کو جنگلی بلی بننے پر مجبور کررہی ہے۔ ایک ہی تو دوست تھی اس کی جو اب بلی والی ہوگئ۔ وہ بیچاری اب روۓ نا تو کیا کرے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" مان ۔۔!! مجھے بھی بلی جاہیے ۔۔!!" 

فرنٹ سیٹ پر بیٹھی زرلشتہ نے سختی سے کہا تو ڈرائیونگ کرتے درمان نے لب دانتوں تلے دباۓ۔ 

" تم نے بلی کا کیا کرنا ہے۔تم خود ایک بلی ہو۔ جنگلی بلی۔ !! کیا تم اس چھوٹی بچی سے بدلہ لینے کی پلیننگ کررہی ہو۔۔!!"

اس نے بے نیازی دکھائ تو زرلشتہ کو وہ منظر یاد آیا جب وہ معصومہ کے لیے کل نوڈلز خود بناکر لے کر گئ تھی تو نوڈلز ٹھنڈے ہوگۓ پر اس کی بلی کا وہ کھانا ختم نہ ہوا جو وہ اسے کھلا رہی تھی۔

"وہ نا اب مجھ سے بات نہیں کرتی۔بلی بلی کرتی رہتی ہے۔ میں کیا کیوٹ نہیں ہوں جو اسے بلی چاہیے۔ میں بھی تو سارا سارا دن اسے پیار کرتی تھی۔ بلی ملتے ہی معصومہ نے رنگ بدل لیے۔ آپ مجھے بلی لادیں میں بھی اپنی بلی اسے دکھاؤں گی ۔۔!!" 

اپنی آنکھوں میں جمع ہوتے اداسی کے آنسو اس نے پیچھے دھکیلے پھر درمان کے بازو کو پکڑ کر اس پر سر رکھ کر فرمایش کرنے لگی۔ وہ اسے باہر کھانا کھلانے کے لیے لے جارہا تھا۔ آج زرلشتہ نے حجاب بھی کیا تھا کیونکہ درمان کی خواہش تھی کہ وہ حجاب کیا کرے گھر سے نکلتے وقت۔ 

" زرلشتہ ماۓ کپ کیک۔۔!! تمہیں بلی سے آگے کا کچھ ملنے والا ہے۔ بلی تو ہمیشہ چھوٹی ہی رہے گی بات بھی نہیں کرے گی۔ بلّا ملا تو بھاگ بھی جاۓ گی۔ پر جو ہمارے پاس ہوگا نا وہ تمہارا ہی رہے گا ۔!!" 

درمان نے گاڑی ریسٹورنٹ کے باہر روکی۔ ابھی تک اس نے زرلشتہ کا اپنی جان سے زیادہ خیال رکھا تھا پر اسے بے بی کی خبر نہیں بتائی تھی آج یہ خبر وہ اسے بتانے والا تھا۔

" آپ نہیں دیں گے نا بلی ۔۔!! جائیں مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے ۔۔!! جب اس کے پاس بلی ہے تو مجھے بھی بلی دیں یا بلا لاکردیں میں نا اس کی بلی سے اپنے بلے کی دوستی کرواؤں گی پھر دونوں کی شادی کرواکر انہیں رخصت کردوں گی پھر معصومہ میرے ساتھ واپس سے بہت سی باتیں کیا کرے گی۔۔!!" 

وہ ضد پر اتری یہ بلی اور بلے کی شادی کروا کر معصومہ کو واپس لانے کا نیک خیال اسے تب آیا تھا جب سونا معصومہ کو اس سے بات نہیں کرنے دے رہی تھی ۔ درمان نے سر کو نفی میں جنبش دی پھر گاڑی سے باہر نکل کر اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولا۔ 

وہ صاف صاف لفظوں میں اسے کئ بار کہہ چکا تھا کہ وہ کوئ بلی نہیں لاۓ گا اگر بلی آگئ تو زرلشتہ اس کی کیئر کے چکر میں کھانا پینا چھوڑ کر اپنی صحت خراب کرے گی جو اسے منظور نہیں۔

زرلشتہ نے لب بھینچے وہ اسے بلی نہ لے کر دیتا یعنی معصومہ اب اس سے دور ہوگئ تھی۔

اس نے ہاتھ آگے کیا تھا جسے بے رخی سے اس نے تھاما اور وہ اسے لے کر ریسٹورنٹ میں داخل ہوا۔ رات کا وقت تھا پورا ریسٹورنٹ روشنیوں میں نہایا ہوا تھا اور ہر طرف خاموشی تھی کیونکہ پورا ریسٹورنٹ خالی تھا صرف چند سٹاف میمبرز موجود تھے۔ 

" زرلشتہ درمان آفریدی ۔۔!! ناراض بعد میں ہوجانا پہلے آرڈر دو ۔۔!! بھوکا رہنے کا سوچا تم نے تو اپنے ہاتھوں سے ماروں گا تمہیں ۔۔!! یہ جو دو دن سے کھانے کے نام پر تم چڑرہی ہونا اب ضائع ہوجاؤں گی میرے ہاتھوں۔ بتاو کیا کھانا ہے۔۔!!" 

وہ سامنے والی کرسی پر بیٹھی تو ویٹر نے آکر آرڈر کا پوچھا۔ زرلشتہ یون بیٹھی تھی جیسے یہاں کوئ ہو ہی نا تب درمان کی دبی دبی غراہٹ سن کر اس نے سامنے پڑی پلیٹ اٹھاکر سائیڈ پر پھینکی۔ جو چھٹاک کی آواز سے ٹوٹ گئ۔ 

" زہر لادیں ۔۔!! بلی تو لاکر نہیں دے رہے ..!!" 

وہ چیخی۔ تو ویٹر اچھل کر دور ہوا۔ اتنا غصہ وہ بھی اس چھوٹی سی لڑکی کا۔ درمان سکون سے بیٹھا تھا۔ 

" آرڈر لکھواؤ ورنہ اگلے ہفتے تک تمہارا فون یوز کرنا بند ۔۔!!" 

اس نے شائستگی سے دھمکی دی۔ 

" کردیں بند لیکن جب تک بلی نہیں دیں گے میں ایک گھونٹ پانی بھی نہیں پیوں گی۔۔!!" 

اس نے اٹل انداز میں کہا۔ تو درمان نے کندھے اچکاۓ۔ 

" یہاں کی ٹاپ فائیو ڈشز، اور سگنیچر پاستہ۔۔!! ساتھ میں چاکلیٹ کیک آخر میں۔۔!! اور زرا جلدی مجھے تو بہت بھوک لگی ہے۔ سنا ہے یہاں کا کھانا کھاکر بھوک تو ختم ہوجاتی ہے پر آنکھیں مزید کی خواہش ضرور کرتی ہیں۔ میم کو رہنے دیں یہ ڈائٹ پر ہیں ایک گلاس فریش جوس ہی بہت ہوگا ان کے لیے ۔۔!!" 

وہ جو سمجھ رہی تھی کہ وہ اب زبردستی اسے کھانے کا آرڈر دینے کو کہے گا ساتھ ہی بلی لانے کا وعدہ بھی کرے گا اس نے تو بات ہی ختم کی۔ 

" جوس نہیں چلو بھر پانی منگوائیں تاکہ اس میں منہ دے کر میں مرجاؤں۔۔!! خود چھ چھ ڈشز اور میرے لیے جوس ۔۔!! یہ بلی بھاری پڑ رہی ہے مجھے ۔۔!!"

اس نے جل کر سوچا۔

اگلے دس منٹ میں آرڈر ٹیبل پر تھا اور زرلشتہ کی نظریں اسی پر بھٹک رہی تھیں۔ منہ میں پانی آرہا تھا اور بھوک بھی جاگ اٹھی تھی۔ درمان نے اپنی پلیٹ میں کھانا نکالا تو زرلشتہ نے ٹھنڈا سانس لیا۔ 

پھر اسے دیکھتے ہوۓ اسنے کھانا شروع کیا۔ دل ہی دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے کہ جنگلی بلی اب معصومہ والی بلی خود ہی بھول جاۓ گی۔ بھوک اچھے اچھوں کو سیدھا کردیتی ہے۔ 

" مزے کا ہے۔ آۓ لو اٹ۔!! تم تو جوس پیو۔ کیوں منہ پھلا کر بیٹھی ہو۔!!" 

اسے جان بوجھ کر جلایا اس نے جس نے مٹھیاں بھینچ کر ہاتھ ٹیبل پر رکھا پھر اس کی طرف اپنی سرمئ آنکھوں سے دیکھا جن میں اب آنسو تھے۔ 

" کھائیں کھائیں دل کھول کر کھائیں ۔۔!! میں جوس ہی پی لوں گی۔ مجھے اب آپ سے بات ہی نہیں کرنی۔ "

آنسو گال پر پھسلا یہیں درمان جو اسے تنگ کررہا تھا اس کی بس ہوئ فورا فارک پلیٹ میں رکھ کر وہ اٹھا اور جاکر اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا۔ 

" ماۓ روز ۔۔!!! رو تو نہیں میری جان ۔۔!! تم غلط ضد کررہی ہو بلی سنبھالنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے اس کنڈیشن میں۔ پیٹس کو پراپر کیئر دینی ہوتی ہے۔ نہیں تو وہ بیمار ہوجاتے ہیں اور تم اب خود کو سنبھالو گی یا کیٹ کو۔۔!! چلو میں خود تمہیں کھانا کھلاتا ہوں۔۔!! یہاں کا سپیشل سپائسی پاستہ ہے یہ۔ تمہیں پسند آۓ گا۔۔!!" 

اس کے آنسو پونچھ کر درمان نے اس کی پلیٹ میں پاستہ نکالا جو اس کا فیورٹ تھا پھر خود اسے کھلانے لگا۔ وہ جانتا تھا محترمہ کو کھانا بھی خود ہی کھلانا ہوگا تبھی تو اس نے پورا ریسٹورنٹ ہی بک کروالیا تھا۔ تاکہ وہ اسے اچھے سے سنبھال سکے۔ 

" تو معصومہ اب کبھی میرے پاس واپس نہیں اۓ گی۔ میں کیا اکیلی ہی رہوں گی۔۔!!" 

اس نے کھاتے ہوۓ پوچھا ۔ درمان خود بھی ساتھ ساتھ کھارہا تھا اس نے نفی میں سر ہلایا۔ 

" تم کیوں اکیلی رہو گی۔۔!! رکو تمہیں کچھ بتانا ہے پھر بتانا تم اکیلی ہو یا نہیں ہو۔ !!" 

اس نے ویٹر کو اشارہ کیا اب زیادہ دیر راز رکھنا صحیح نہیں تھا۔ ویٹر نے وہ کیک اس کے سامنے رکھ دیا۔ زرلشتہ معصومیت سے سب دیکھ رہی تھی جو درمان کررہا تھا۔ کیک آتے ہی جب زرلشتہ نے اس پر" Mama To Be" لکھا دیکھا تو ناسمجھی سے درمان کو دیکھا جس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ 

" یہ کیا یے۔۔!! " اس نے جاننا چاہا۔

" تمہارا گفٹ ۔۔!! بلی چاہیے تھی نا تمہیں۔۔!! بلی نہ سہی بےبی آنے والا ہے۔۔!! ہمارا بے بی۔۔!! "

اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر درمان نے خوشی سے کہا۔تو زرلشتہ کی آنکھیں پھیلیں۔ اس کا منہ حیرت سے کھلا۔

" بےبی ۔۔؛! وہ جو چھوٹا سا ہوتا ہے۔ روتا رہتا ہے۔۔!! جس کے آتے ہی مما کے پاؤں کے نیچے جنت آجاتی ہے۔ جیسے میں اپنی مما کا بےبی ہوں ویسا والا بےبی۔۔!!"

اس کا سانس بے ربط ہوا یہ خوشی کتنی پیاری تھی کہ وہ اب مما بننے والی ہے۔ کچھ لمحوں تک تو وہ بس سوچتی ہی رہی کہ کہیں یہ خواب تو نہیں پھر اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو گرے۔ اس سے یہ خوشی سنبھالی نہیں جارہی تھی۔ 

" درمان آپ سچ کہہ رہے ہیں نا ۔۔!! آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ایک چھوٹا سا بےبی جو بس میرا ہوگا۔ میں اسے کسی کو نہیں دوں گی۔ درمان میں نا سب کو بتاؤں گی کہ اللہ مجھے بےبی دے رہا ہے۔۔!!"

اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ اس کا سانس مزید پھولا تو کرسی سے اٹھ کر درمان نے اسے خود سے لگایا۔ وہ اتنی خوش ہوگی کہ رو ہی پڑے گی اسے اندازا نہیں تھا۔ 

" بالکل سچ کہہ رہا ہوں میں اور تمہیں بتانا ہے نا سب کو ہم جاتے ہی پورے گھر میں اعلان ہی کردیں گے کہ اپنی اپنی بلیاں سنبھالو ہمیں بےبی ملنے والا ہے۔ اب بلی چاہیے کیا۔۔!!" 

اس کا سر سہلاتے ہوۓ درمان نے اسے نارمل کرنا چاہا جو رونے کی وجہ سے کانپ رہی تھی اب۔

" نہیں م۔مجھے نفل پڑھنے ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔ میں نے اپنی اوقات کے مطابق اپنی تنہائی کا حل مانگق تھا اس نے اپنے کرم کے مطابق دے دیا۔۔!! میں بہت خوش ہوں م۔مان بہت خوش ۔ اب مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ بلی بھی نہیں۔!! آپ خوش ہیں ۔۔!!" 

آنسو پونچھ کر زرلشتہ نے چہرہ درمان کے سامنے کیا۔ جو خود مشکل سے ضبط کرکے کھڑا تھا اس نے ہاں میں سر ہلایا۔ 

" تم جو چاہتی ہو ہم وہ کریں گے نفل بھی پڑھیں گے اور سب کو بتائیں گے بھی ۔۔!! مورے بھی خوش ہوجائیں گی دیکھ لینا ۔۔!! پھر سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔ سب۔۔!! وہ تمہاری معصومہ بھی بلی چھوڑ کر تمہارے پاس آۓ گی۔۔!! چلو اب کھانا کھالو ۔۔!! پھر گھر چلتے ہیں ۔۔!! کیک بعد میں کٹ کریں گے ۔۔!!" 

وہ واپس سے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور اسے کھانا کھلانے لگا جس کی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہیں تھا آج اس کے پر ہوتے تو وہ اڑ کر اپنی خوشی مناتی۔

یہ کیا مل رہا تھا اسے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔   

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment