Pages

Tuesday, 22 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 46 To 55

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 46 To 55

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 46 To 55

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

"کھاکر بتائیں کیسا بنا ہے یہ عجوبہ ۔۔!!" 

یشاور سات بجے سے کچن میں مصروف تھا اور بہار گروسری کی لسٹ بنانے میں لگی تھی۔ دوپہر میں وہ فریش ہوکر سوگیا تھا اور پھر رات میں ہی اس کی آنکھ کھلی تھی۔ بادل کے تھرو وہ اپنی مورے کی پراپرٹی کو اب بزنس میں انویسٹ کرنے کا سوچ رہا تھا۔ بادل کی شکل دیکھنے کو اس کا دل تو نہیں کرتا تھا پر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مترادف وہ خاموشی سے اسے برداشت کررہا تھا۔ 

اب وہ اکیلا نہیں تھا بہار اس کی ذمہ داری تھی۔ کل کو اس کی اپنی فیملی ہوتی تو اسے اب اپنے کیریئر کے بارے میں سیریس ہونا تھا۔ تعلیم اس کی مکمل تھی پر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے بادل کی مدد چاہیے تھی۔ 

 انتھک کوششوں کے بعد نو بجے تک یشاور نے میکرونی بناہی لی۔ اس دوران بھی اس کا ہاتھ جلتے جلتے بچا اور کئ بار تو برتن ٹوٹتے بچے۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ کہہ سکتے ہیں کہ یشاور کو بہار کی صورت میں انجانے میں ہی سہی ذندگی گزارنے کا مقصد مل گیا تھا۔

اس نے ٹیبل سیٹ کیا اور بہار کے آنے کا انتظار کرنے لگا جو پورے ٹائم پر ٹیبل پر موجود تھی۔ 

" کیسا بنا ہے یہ عجوبہ ۔۔!! دیکھنے میں تو اتنا اچھا نہیں۔۔!! وائٹ ساس میں ڈوبے شیلز لگ رہے ہیں پر ٹیسٹ میں آپ کو کیسا لگا یہ ۔!اچھا ہے نا ۔۔!!" 

ابھی بہار نے چکھی ہی تھی وہ ڈش۔ جب سر کھجاتے ہوۓ یشاور نے اس سے پوچھا۔ اسے بالکل اندازا نہیں تھا کہ یہ کیسی بنی ہوگی۔

" سچ بتانا ہے یا تعریف کرنی ہے۔۔!!" 

بالکل سپاٹ چہرے کے ساتھ بہار نے چمچ واپس رکھا۔ تو یشاور نے معصوم سی صورت بنائی۔

" افکورس تعریف کرنی ہے۔ یہ آپ کو قابو کرنے کے لیے بنگالی بابا سے سیکھی ہے میں نے۔اب سچ بول کر میرا منہ کڑوا کرنا ضروری ہے کیا۔ کردیں دل بڑا کرکے تھوڑی سی تعریف اس ساگو دانے جیسی کھیر کی ۔!!"

پل میں وہ سنجیدہ ہوا پھر چمچ سے میکرونی اٹھا کر برا سا منہ بناتے ہوئے اس نے چڑ کر کہا۔ تو بہار نے پلیٹ کو دھکا لگا کر تھوڑا آگے کیا۔ 

" یشاور لعنت ہے تم پر ۔۔!! بندہ چکھ ہی لیتا ہے پہلے۔ کیا زہر بناکر کھلا دیا تم نے اسے۔ وہ قابو تو نہ آئ اوپر سے جو تھوڑی بہت میری طرف آئ تھی وہ بھی دور ہوگئ۔۔۔!! ایسے ہی چلتا رہا تو بغیر کسی نام لیوا کے مروں گا میں۔ ماں تو ان کی اب مجھے دیکھے بھی نہ ۔۔!!! فٹے منہ اس ویڈیو والے بندے کا ۔۔!!"

منہ اس نے دوسری طرف کیا پھر باقدہ ہاتھ کھول کر خود کو کوسا اور زبردستی مسکراتے ہوۓ بہار کو دیکھا۔ جو اس کی حرکتیں دیکھ رہی تھی۔

" میں جھوٹ نہیں بول سکتی خان ۔!! اب منہ کڑوا ہویا میٹھا جو سچ ہے وہ سچ ہے ۔!! کیا سوچ کر آپ نے یہ ۔۔!! یہ بنایا ۔۔!! مطلب کس عظیم انسان کی ریسیپی تھی یہ۔۔!!" 

پلیٹ واپس کھینچ کر بہار نے اسے چمچ سے وہ دکھایا جو اس نے بنایا تھا۔ یشاور کو اپنی ساری محنت مٹی میں دبتئ ہوئ محسوس ہوئ۔ اس نے پھر سے چند نیک القابات سے اس ویڈیو والے شیف کو نوازا۔

" سوچا تھا یہ کھاکر آپ میری فین تو ہوہی جائیں گی۔ پر یہاں تو یشاور ذلیل ہوگیا۔بڑا ہی منحوس انسان تھا وہ جس نے یہ ریسیپی بنائ۔ میں بھی مانتا ہوں یہ گیلا آٹا کسی کام کا نہیں ۔۔!! اچھا آج چھوڑ دیں کل سے آپ خود ہی بنالینا ۔۔!! " 

دل میں اس نے اس ویڈیو والے بندے کا چینل ریپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔سوچا تھا اس نے کہ بہار خوش ہوگی شاباشی دے گی ۔!! 

یہاں تو بہار نے سچ بولنے کی اجازت چاہی تھی ۔!!

" یہ کھاکر میں آپ کی فین تو نہیں ہوسکتی خان۔۔!! اتنی بھوک لگی تھی مجھے اور آپ نے تو میرے ارمانوں پر ہی پانی پھیر دیا۔۔!! اب سچ بولنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے۔ میں جو فیل کررہی ہوں وہ بتانا چاہتی ہوں ۔!! ایسا کریں آپ خود ٹیسٹ کریں۔ منہ کھولیں ۔۔!!" 

بہار نے ٹھنڈی آہ بھری تو ایک بار پھر یشاور نے اپنے آپ پر ہی لعنت بھیجی پھر کچھ سوچ کر بہار اپنی جگہ سے اٹھی اور چمچ اس کے منہ کے پاس کیا۔ جو اس پوزیشن میں تھا ہی نہیں کہ اس کی پیش قدمی پر حیران ہوتا۔ کہاں وہ اس سے بولتے بھی ہچکچاتی تھی اور کہاں آج فرینک ہوکر بات کررہی تھی۔

" پانی تو مجھ بیچارے کے ارمانوں پر پھرا یے وہ بھی کیچڑ سے لدا ہوا۔۔!! آپ سچ بول لیں آپ کو اجازت ہے۔ اور ایسا کریں کہ یہ پلیٹ میرے منہ پر مار دیں جو حرکت میں نے کی ہے میں اسی کے  لائق ہوں۔!!" 

یشاور نے منہ کھولا لیکن بڑبڑانا نا بھولا۔پر جیسے ہی اس نے اپنا بنایا عجوبہ کھایا اس کے چہرے کے تاثرات حد سے زیادہ بگڑے پھر اچانک ہی اس نے حیرت کے مارے ہنستی روکتی بہار کو دیکھا۔ 

وہ بے یقینی کے عالم میں تھا کہ یہ کیسا مزاق ہے۔ تب بہار کا وہاں قہقہہ گونجا۔ وہ جو کب سے اسے تنگ کررہی تھی اب اس نے چمچ اس کے سامنے رکھا اور ہنسنے لگی۔ پھر ہنستی ہی گئ۔

" یہ تو مزے کی ہے بہت ۔۔!! آپ مجھے تنگ کررہی تھیں ۔۔!! بہار یہ کیا حرکت ہے جان نکال دی آپ نے میری ۔۔۔!!" 

اس نے سر جھٹکا ایک خفیف سا تاثر اس کے چہرے پر تھا جب ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر بہار نے آنکھیں پٹپٹاتے اسے دیکھا۔ 

" مجھ معصوم نے کیا کیا ہے۔۔!! میں تو آپ کی پیاری سی بیوی ہوں۔ لیکن اپنی شکل کاش آپ تب دیکھتے۔ منہ چقندر کی طرح لال ہوگیا تھا آپ کا۔۔!! 

آپ کے کونسے ارمانوں پر پانی پھرا ہے لائیں دیں میں سکھانے کے لیے ڈال آؤں ۔ !! " 

اس کی پچھلئ حالت یاد کرکے وہ پھر سے ہنسی اور اپنی کرسی پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گئ۔ یشاور نے اسے ہنستے ہوۓ پہلی بار دیکھا تھا وہ اس کے دل میں اتری اور اترتی ہی گئ۔ کیوٹ سے حلیے میں کھلے بالوں کے ساتھ اس کی کیوٹ سی بیوی جس کے چہرے پر ہنستے ہوۓ ڈمپل پڑتا تھا وہ اس میں کھوگیا ۔ دل رک کر دھڑکا۔ کیا تھی وہ ۔۔!!! 

" آپ نے جو میرے دل کے ساتھ کیا ہے جائیں اب مجھے کچھ نہیں کھانا۔ یہ اب آپ ہی کھائیں۔۔!!!" 

وہ اپنے دل کی حالت سے انجان تھا تبھی وہاں سے اٹھنے لگا جب بہار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا۔ 

" خان جی ناراض ہوگئے ہیں ۔۔!! میں تو بس مزاق کررہی تھی۔ آپ نے کہا تھا نا کہ بیوی قابو میں آجاۓ گی تو میں نے سوچا کیوں نہ آپ کو ہی پاگل بنایا جاۓ ۔۔!!! "

لمحے کے لیے یشاور کو عجیب سا احساس ہوا۔ پہلی بار ہی یہ کیفیت اسے محسوس ہورہی تھی اور اس کی حالت عجیب تھی۔ 

"کھالیں نا خان جی ۔!! ارمانوں پر تو پانی پھر ہی گیا ہے لیکن اس سے پیٹ نہیں بھرتا نا اب ہیٹ کے چوبوں کے منہ میں کچھ تو ڈالنا ہے نا کھالیں یہ سچ میں مزے کا بنا ہے۔ میں نا سہی یہ چوہے آپ کے قابو میں ضرور آجائیں گے۔ !!" 

جیسے وہ روک رہی تھی یشاور تو پوری زندگی بھی یہیں رکا رہتا تو کم تھا۔ تبھی گہرا سانس خارج کرکے وہ وہاں بیٹھ گیا۔ بہار نے اس کا ہاتھ چھوڑا اور اب میکرونی کھانے میں مگن ہوگئ اس کے چہرے پر خوشی تھی اور یشاور نے یہ سب اسی خوشی کے لیے ہی تو کیا تھا۔ 

بامشکل اپنی نظروں کو اس نے قابو میں کیا۔ پھر خود بھی کھانا کھانے لگا۔ 

"جب کچھ اچھا لگے تو تعریف کردینی چاہیے مس بہار۔۔!! سامنے والے کو خوشی ہوتی ہے " 

یشاور کی بات سن کر بہار نے سامنے سے پانی کا گلاس اٹھایا۔ 

" نہیں شکریہ میں جانتی ہوں کہ میں بہت پیاری ہوں آپ کی تعریف سن کر کہیں میں شرما نہ جاؤں۔۔!! آپ رہنے دیں پھر کبھی کیجۓ گا "

بہار نے ایک ادا سے  ہنستے ہوۓ کہا تو یشاور کو صدمہ ہوا۔ کل تک تو یہ بولنا بھی نہیں چاہتی تھی اچانک اسے کیا ہوگیا۔ 

"میں نے کھانے کی بات کی ہے مس بہار ۔۔!! آپ کی نہیں ۔۔!! کھانے کی تعریف کریں "

" تو میں کسی کھانے سے کم پیاری ہوں۔۔!! مجھے غور سے دیکھیں اور بتائیں کیا مجھے دیکھ کر آپ کو کچھ کچھ نہیں ہوتا۔۔!! میرے سامنے آپ کو کھانا یار رہے گا کیا۔ ۔!!"

گلاس بہار نے واپس رکھا۔ یشاور جو کھانا کھارہا تھا اچانک وہ اس کے حلق میں ہی پھنس گیا۔ اس نے ہلکا سا کھانس کر تھوک نگلا۔ 

"مس بہار کیوں مجھے ہارٹ اٹیک کروانے کی تیاری میں ہیں آپ۔۔!! پلیز اپنا دھیان کہیں اور لگائیں مجھے ابھی مرنے کا شوق نہیں۔ آپ تو مار دیں گی ایسے مجھے ۔۔۔!!" 

اس نے اسی کا گلاس اٹھا کر پینا شروع کردیا تو وہاں بہار کی ہنسی کی جلترنگ گونجی۔ وہ یشاور کے دل پر قابض ہورہی تھی مکمل طور پر۔ 

" مانتے ہیں آپ۔۔!؛ مجھ ناچیز میں آپ کو مارنے کا حوصلہ ہے ۔!! عادت ڈال لیں خان جی۔ میں تو یہی ہوں اور آپ کے سامنے ہوں۔ یہ میرا انداز ہے۔" 

بہار نے آنکھ دبائ تو یشاور کا دل تھما یہ کیا عجوبہ ملی تھی اسے۔ 

" بہار خانزادہ کا انداز ۔۔!! اگلے کو بغیر ہتھیار کے مارنا آرزو تھی میری۔ آج پوری ہوگئ۔۔!! ویسے یہ جو ننھا سا دل ہے آپ کا یہ مجھے دیکھ کر ہی آپے سے باہر ہے یا یہ اس کی پرانی عادت ہے ۔!!" 

وہ اب بھی اسے تنگ کرنا چاہتی تھی۔ جواب میں یشاور خفیف سا مسکرایا۔ 

" گھٹیا تھا میں بے حیا نہیں تھا۔ !! عورتوں میں نا پہلے کبھی دلچسپی تھی نا اب ہے" 

اس نے جواب دیا۔ تو بہار نے سر ہاں میں ہلادیا۔

" عورتوں میں نہیں لڑکیوں میں تو ہوگی نا۔ !! دلچسپی۔۔۔!!" اس نے پھر سے کریدنا چاہا۔ تو یشاور نے سر کو نفی میں جنبش دی۔ 

" اتنا دل پھینک نہیں ہوں میں۔۔!! جہاں دل پھینکا وہاں لوگوں کے آنے جانے کے راستے مکمل بند کروں گا۔ اپنا قبضہ جماکر خود ہی سیکیورٹی پر بیٹھوں گا۔۔!! سوچ ہے آپ کی مس بہار ۔۔!! اب کوئ بات نہیں کرنی۔ کھانا کھائیں اور سوجائیں اور یہ جو بیوی والی روح آرہی ہے نا آپ میں کل سے کھانا آپ ہی بنائیں گی" 

یشاور کا لہجہ اب بھی نرم تھا۔ بہار کسی سمجھدار بچے کی طرح سر ہاں میں ہلاتی رہی۔ پھر آخر میں اس نے جھک کر سر کو خم بھی دیا۔ اس نے آج بہت سوچا تھا یشاور کے بارے میں اور دل نے یہی کہا تھا کہ اسے اپنے واحد رشتے کو کسی بری یاد کی نظر نہیں ہونے دینا چاہیے۔ قدم اس کی جانب بڑھانا ہی چاہیے ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"مبارک ہو لالہ۔ آپ کی زندگی میں بھی اب کوئ رونا ڈالنے والا آنے والا ہے۔ میں کتنا خوش ہوں میں بتانہیں سکتا ۔۔!! میرا بس نہیں چل رہا کہ خوشی سے بھنگڑا ڈالوں یا یہیں ناچنے لگوں!! آپ نے ساری زندگی مجھ معصوم پر رعب جھاڑا،مجھے مارا،میرے کان کھینچے، میرا منہ توڑا اب کوئ فائنلی آپ سے میرے ہر درد کا بدلہ لینے آنے والا ہے۔ آپ بابا بننے والے ہو یہاں آؤ آج تو کس کے گلے ملو۔۔!!' 

درمان نے بےبی کی خبر گھر آتے ہی سب کو سنادی تھی۔ زرلشتہ راستے میں ہی سوگئ تھی تبھی درمان نے اسے کمرے میں لٹادیا۔ پھر گھر کے سارے لوگوں کو اکٹھا کرکے انہیں مٹھائ کے ساتھ وہ خبر سنائی.جو اتنے ٹائم سے وہ دل میں چھپاکر بیٹھا تھا۔ پھر کیا ہونا تھا پہلے تو فدیان کو بات سمجھ ہی نہیں آئ کہاں سوچا تھا اسنے کہ وہ بھی کبھی چاچو کے منصب پر براجمان ہوگا۔ پھر جو اس کا ذہن چلا تو وہ خوشی سی اچھل پڑا پھر آگے بڑھ کر درمان کو زور سے گلے لگاگیا۔ 

شنایہ بیگم اور دراب آفریدی بھی سامنے ہی کھڑے تھے۔ یہ خبر اچانک ملی تھی تو وہ دونوں بھی شاکڈ تھے۔ البتہ معصومہ صاحبہ اپنی بلی کی وجہ سے کمرے میں تھیں اور اسے سلارہی تھیں۔ 

" یہ تم میری خوشی میں خوش ہورہے ہو یا اپنے بدلے پورے ہونے کی تمنا میں دل مچل رہا ہے تمہارا ۔!! میں بابا بننے والا ہوں کاکول اکیڈمی نہیں جارہا ٹریننگ کے لیے ۔۔!! تم اس خوشی کے وقت بھی پٹو گے مجھ سے"

درمان تو اس کے انوکھے انداز پر ہی حیران تھا اس نے اس کی گردن پکڑی جو خوشی کے مارے اب بھی ہنس رہا تھا۔

" مار لیں مار لیں ۔۔!! آنے والا ہے میرا چیمپ۔۔!! پھر دیکھوں گا میں کہ اپنے معصوم چاچو کو پٹتے دیکھ کر وہ اپنے بابا سے کیسا بدلہ لیتا ہے۔ میں تو پہلے ہی بتا رہا ہوں بیٹا ہو یا بیٹی بھلے نام آپ لوگ رکھ لینا لیکن حق اس پر میرا ہی زیادہ ہوگا۔ میں اس کا اکلوتا چاچو ہوں تو وہ میرے ہی نقش قدم پر چلے گا۔ لوگوں کے گھر کی بیلز بجانا، درخت پر چڑھ کر امرود توڑنا، لوگوں کو پانی کے غبارے مارنا اور بچوں کی چیز چھیننا وہ سارے نیک کاموں میں میرا پارٹنر ہوگا۔۔!!"

بڑی سنجیدگی سے بچوں کی طرح ایک ایک کام اس نے انگلی پر گنا۔ جیسے یہ سب بہت ضروری ہوں۔ 

" وہ میرا بیٹا ہوگا تمہارا کرائم پارٹنر نہیں  ہوگا جیسے تمہارے نیک ارادے ہیں نا مجھے مستقبل میں تم اور وہ دونوں گھر کے باہر مرغے بنے نظر آرہے ہو۔ خبردار جو تم نے اپنے جیسا کوئ نمونہ ٹرین کرنے کا سوچا بھی۔ میں نہیں چاہتا کہ مستقبل میں ایک اور فدیان اغواہ ہوکر عیاشیاں کرتا پھرے۔ ایڈونچر کے نام پر سر پھرواۓ اور بلی لاکر گھر میں بلی بلے کی شادی کی مہم چلواۓ۔۔!!

 اپنی بلی پیاری ہے تو انسان بن جاؤ ورنہ زرلشتہ تو بلے کا بھی بندوبست کرچکی ہے بس آگے بینڈ باجے اور ایک دیوار کی کمی ہے جہاں سے دونوں بھاگ کر جائیں گے۔۔!! کیوں خبر بنوانا چاہتے ہو کہ آفریدی خاندان کی بلی کسی بلے کے ساتھ بھاگ گئ۔ وہ بھی فدیان آفریدی جیسے فتنے کے ہوتے ہوۓ۔ پاگل کہیں کا..!!" 

درمان نے اس کی گردن چھوڑ کر مٹھائ کا ڈبہ اپنے بابا کے سامنے کیا۔ وہ پیچھے جھرجھری لےکر رہ گیا اگر بلی بھاگ جاتی تو سچ میں کیا اس کی بدنامی ہوتی.؟اب کیا وہ بلی پر بھی نظر رکھے؟

" برخوردار مبارک ہو ترقی ہوگئ ہے تمہاری ۔!! آخرکار تم ہمارا درد سمجھ ہی جاؤ گے کہ جب بیٹا تمہارے جیسا اکڑو ہو تو بیچارے باپ پر کیا گزرتی ہے۔ دیکھنا اپنی کاپی ملے گی تمہیں۔ جو بچپن سے لے کر اب تک تم نے ہمارے ساتھ کیا اب اس کا حساب دو گے تم۔۔!!"

انہوں نے مٹھائ اس کے منہ میں رکھی پھر ہنستے ہوۓ اس کے گلے لگ گۓ جو سوچ رہا تھا کہ یہ مبارکباد دے رہے ہیں یا اس کی شامت آنے پر خوش ہورہے ہیں۔

" جیسے آپ دونوں باپ بیٹا مجھے مبارکباد دے رہے ہیں نا مجھے اپنا فیوچر تاریک نظر آرہا ہے۔۔!!! اللہ رحم کرے میرے حال پر۔۔!! ورنہ آپ دونوں نے تو ابھی سے تصور میں مجھے پاگل ہوتا دیکھ بھی لیا ہے ۔!! " 

اس نے بےبسی سے کہا تو دراب آفریدی بھی مسکراۓ۔ کافی وقت کے بعد کوئ خوشی آئ تھی یہاں۔ 

وہیں شنایہ بیگم بھی اس کی خوشی محسوس کرسکتی تھیں اچھے سے۔ اتنے دنوں سے وہ بس ان سے ناراض تھا اس نے بات نہیں کی تھی کوئ بھی۔ 

درمان نے مٹھائ ان کے سامنے کی۔ جو انہوں نے ہنستے ہوۓ پکڑ لی۔ 

" اپنی اولاد ملنے والی ہے تو کم از کم میرا بیٹا تو واپس کردو مجھے۔ ایک مہینہ ہونے کو ہے تم بات نہیں کررہے ڈھنگ سے مجھ سے۔ کب تک ناراض رہو گے۔ ہوگی نا غلطی۔ اب احساس بھی ہوگیا ہے تو معاف کردو۔۔۔!! اور تو اور اب تو میں بھی دادی بننے والی ہوں۔ زرلشتہ کے ساتھ جو بھی مسئلہ تھا میرا اب وہ بھی ختم سمجھو میرے نزدیک۔ مجھے وہ پوتا دینے والی ہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا۔ درمان اپنی اولاد کے واسطے ہی ماں کو معاف کر دو ۔۔!!" 

شنایہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو چمکے۔ انہوں نے درمان کے سامنے ہاتھ جوڑے جسے دھچکا لگا۔ شنایہ بیگم جیسی بھی تھیں کم از کم درمان ان کی عزت کرتا تھا ان کے اپنے سامنے جڑے ہاتھ اسے تکلیف دے گۓ۔ مٹھائ کا ڈبہ ٹیبل پر رکھ کر اس نے ان کے ہاتھ پکڑے۔ پھر ان پر بوسہ دیا۔ 

" آپ کو احساس ہوگیا ہے یہ بہت ہے میرے لیے۔ پلیز مجھے گنہگار نہ کریں۔مجھے امید ہے اب آپ زرلشتہ کو قبول کرلیں گی۔ اس سے میری خوشی جڑی ہے یہی سوچ کر اسے قبول کرلیں ۔۔!! وہ سچ میں بہت اچھی ہے۔ آپ ایک دفعہ پیار سے ہاتھ سر پر رکھیں گی تو وہ سںب بھول جاۓ گی۔۔!! " 

درمان نے انہیں سمجھانا چاہا جنہوں نے نم آنکھوں سے سر ہلاکر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ 

" خوش رہو ہمیشہ..!! اور زرلشتہ کا خیال رکھنا۔ کوئ ہریشانی نہیں ہونی چاہیے اسے سمجھ گۓ نا۔ میں جانتی ہوں وہ ابھی مجھ پر بھروسہ نہیں کرے گی۔ بچی ہے میرے سلوک نے دل توڑا ہے اس کا۔ میں خود بھی فاصلے پر رہوں گی اس سے جب تک وہ خود مجھ پر بھروسہ نہ کرے۔۔!! سردار علاقے میں مٹھائ بٹوائیں، پہلی خوشی ہے یہ ہمارے بیٹے کی اسے پھیکا تھوڑی نا رکھیں گے ۔۔!!" 

ماحول اداس ہورہا تھا تبھی اپنے آنسو انہوں نے صاف کیے سردار دراب کو بھی اپنی بیوی کا ٹھکانے لگتا دماغ دیکھ کر سکون ملا وہیں فدیان اور درمان بھی ان میں آئ تبدیلی پر خوش تھے۔ مٹھائ کا سنتے ہی انہوں نے سر ہاں میں ہلادیا۔ 

" صرف مٹھائ کیوں کل رات پورے علاقے کی دعوت کا انتظام ہونا چاہیے۔ ہماری بیٹی کا صدقہ بھی اتارو اور بھی بہت کچھ ہے کرنے کو۔ اور یاد سے کل وشہ کے گھر مٹھائ اور دیگر لوازمات کے ساتھ یہ خبر پینچادینا فدیان ۔۔!! اکلوتی پھپھو ہوگی وہ۔ اس کا یہ خبر جاننا ضروری ہے۔ جب سے گئ ہے پلٹ کر دیکھا نہیں اس نے۔۔!! اسی بہانے ملنے اجاۓ گی۔۔ !!" 

وہ واقعی بہت خوش تھے ابھی اگر آدھی رات نہ ہوتی تو پورے علاقے کو وہ ابھی ہی اکٹھا کرلیتے۔ ان کے خاندان میں رسم تھی ایسی خوشی کے موقع پر پورے علاقے میں تحائف تقسیم کرنے کی تاکہ سب کی دعائیں آنے والی بلاؤں کو ٹال دیں اور یہ خوشی برقرار رہے۔ 

فدیان نے سامنے سے مٹھائ اٹھائ اور کھاتے ہوۓ سر ہاں میں ہلادیا۔ وہ خوش تھا کہ زرلشتہ اور درمان خوش ہیں۔ اصل محبت یہی ہے اپنی محبت کو خوش دیکھ کر خود بھی خوش ہوجانا۔ 

 شنایہ بیگم کی نظریں درمان پر تھیں جس نے اتنے ٹائم نے بعد انہیں گلے لگایا تھا۔ وہ بھی خوش لگ رہی تھیں۔ اولاد کی خوشی میں ۔۔!! 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" کیا ہوا تھا باہر ۔۔!! آغا جان نے آپ کو کیوں بلایا تھا"

ابھی فدیان کمرے میں آیا ہی تھا جب اسے معصومہ سامنے کشمکش میں کھڑی دکھی۔ فدیان کے ہاتھ میں گلاب جامن کی پلیٹ تھی جو وہ اس کے لیے ہی لایا تھا۔ 

" خوشی کی خبر ہے میرا پارٹنر آنے والا ہے اس گھر میں ۔۔!! اب فدیان آفریدی بھی اکیلا نہیں ہوگا۔ جونیئر زلزلے کے آتے ہی میری پوزیشن بھی مضبوط ہوجاۓ گی اس گھر میں ۔۔!!"

فدیان نے گلاب جامن اٹھاکر اس کے منہ کے سامنے کیا جس نے اسے کھانے کے ساتھ ساتھ اس کی باتوں کا مطلب سمجھا۔ 

" کون آرہا ہے ۔۔!!" 

معصومہ نے معصومیت سے پوچھا تو اب کی بار فدیان مسکرایا اور ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔ 

" چھوٹا سا بےبی ۔۔!!" فدیان نے چہکتے ہوۓ بتایا۔ تو معصومہ کے ذہن میں پہلا خیال ہی شنایہ بیگم کا آیا۔ 

وہ بھول گئ کہ زرلشتہ بھی شادی شدہ ہے۔ اب اپنے دماغ کا کیا کرتی وہ۔

" واؤ سبلنگز۔۔!! یعنی ساسوں ماں اب مصروف ہوجائیں گی۔ اچھا ہی ہے ہم آزادی سے گھر میں گھوم لیا کریں گے۔!!" 

اس نے فورا بار دہرائی تو فدیان نے ہاں میں سر ہلایا۔ 

البتہ بات گلاب جامن کے چکر میں اس نے نہیں سنی تھی۔

"فورا جاؤ اور مبارکباد دے کر آؤ۔۔!! بلی اب سوگئ ہے تو تم فری ہو۔ گلے بھی ملنا اور دعائیں بھی دینا اوکے " 

آدھے گلاب جامن وہ کھا چکا تھا تب اچانک اس نے سر اٹھاکر اسے تاکید کی جس کے چہرے کا رنگ اڑا۔ وہ اور شنایہ بیگم کے گلے لگے گی۔ ناممکن ۔۔!!

" م۔میں جاؤں ۔۔!!"

اس نے اچنبھنے سے پوچھا تو اب کی بار فدیان نے اسے  آنکھیں دکھائیں۔ 

" ابھی جاؤ ورنہ وہ سوجائیں گے۔ !! اور جلدی واپس آنا اور اپنا حصہ کھالینا۔ ورنہ میں نے کھالیا تو پھر مجھے نہ کہنا باقی کی مٹھائ سرونٹس میں تقسیم ہوچکی ہے یہ بس آخری پلیٹ تھی ۔!!" 

پلیٹ آدھی ہوچکی تھی جب فدیان نے اسے اپنے نیک ارادے بتاۓ تو تھکا ہوا سانس خارج کرکے وہ جانے لگی۔ کیا دن آگۓ تھے اب شنایہ بیگم کو مبارکباد دیتی وہ ۔!! 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

شنایہ بیگم کے کمرے کے پاس آکر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کمرے کے اندر بیٹھے دراب آفریدی نے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔ 

کانپتے ہاتھوں سے اس نے دروازہ کھولا تو دراب آفریدی نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے خوش آمدید کہا۔شنایہ بیگم اپنی جیولری اتار کر ابھی اٹھی تھیں ڈریسنگ ٹیبل سے جو وہ روز پہنتی تھی۔ ان کی پیشانی پر بل پڑے معصومہ کو دیکھ کر جو وہ چھپا گئیں۔ 

" جی بیٹا کچھ کہنا ہے آپ نے ۔۔!!" دراب آفریدی نے شفقت بھرے انداز میں پوچھا تو خشک ہونٹوں کو تر کرکے معصومہ نے شنایہ بیگم پر نگاہ ڈالی۔ 

 " و۔وہ نا مجھے آنٹی سے بات کرنی تھی۔ف۔فدیان نے بھیجا ہے ۔!!" 

معصومہ نے ڈرتے ہوۓ کہا۔ شنایہ بیگم کے چہرے پر اب ناگواریت تھی۔ لیکن شوہر کی موجودگی میں کچھ کہنا ناممکن تھا۔تبھئ ہنستے ہوۓ انہوں نے معصومہ کو دیکھا۔ 

" کرو بات۔ کیا کہنا ہے۔۔!!!" 

انہوں نے اسے حوصلہ دیا تو ہمت کرکے وہ ان کے پاس ائ اور انہیں گلے لگالیا۔وہ تو بوکھلا ہی گئیں کہ یہ کیوں گلے پڑگئ ہے۔ پھر جو اس نے کہا وہ دراب آفریدی کی سماعتوں کو بھی ششدر چھوڑ گیا۔ 

" آنٹی آ۔آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔ اللہ اللہ کرنے کی عمر میں اللہ آپ کو اولاد سے نواز رہا ہے۔ اولاد بہت بڑی نعمت ہے آپ خوش نصیب ہیں بہت۔ اللہ کرے کہ یہ وقت خیر خیریت سے آجاۓ۔ اپنا بہت زیادہ خیال رکھیے گا اور اچھل کود نہ کیجۓ گا۔ ہمیشہ خوش رہیں۔ ۔!!" 

اپنا جملہ جو اس نے آتے ہوۓ بنایا تھا وہ اس نے جلدی سے بولا پھر جھٹکے سے دور ہوئ ان سے اور اپنی پیشانی پر چمک رہا پسینہ صاف کرنے لگی۔ 

" کیا کہہ رہی ہو یہ تم ۔۔!! کونسا بچہ ۔۔!! " انہوں نے حیران ہوکر پوچھا۔

" آپ کا بچہ۔ !! آپ ماں بننے والی ہیں نا ۔۔!! فدیان نے کہا مجھے ۔ !!" بالکل سادہ سے انداز میں کہا گیا اس کا یہ جملہ کسی مزاق سے کم نہ تھا۔

" معصومہ ۔۔!! مورے ماں بننے نہیں والی مورے ماں بن چکی ہیں ۔۔!! "

تبھی دروازہ کی اوٹ سے کوئ گلہ پھاڑ کر ہنسا۔ شنایہ بیگم کا چہرہ پورا غصے سے لال ہوریا تھا اور دراب آفریدی تو خود صدمے میں تھے۔ 

فدیان جو اس کے جاتے ہی مزید گلاب جامن کی تلاش میں باہر آیا تھا جب اس نے معصومہ کو اپنی ماں کے کمرے کی سمت جاتے دیکھا تو ہیچھے آگیا اس کے یہ سوچ کر کہ کہیں وہ اس کی شکایت تو نہیں لگانے والی دراب آفریدی سے۔ یہاں تو ایک نئ کہانی سن کر اس کی آنتیں تک درد کرنے لگیں ہنس ہنس کر۔ معصومہ نے مڑ کر دیکھا اسے سمجھ نہیں آیا تھا کچھ بھی۔

" بیٹا آپ غلط پتے پر آگئ ہیں۔ آپ کو شاید زرلشتہ اور درمان کے کمرے میں جانا تھا ۔۔!!" 

اس دفعہ دراب آفریدی بھی ہنس پڑے شنایہ بیگم تو جل بھن گئ۔ معصومہ کو اپنی غلطی کا اب احساس ہوا تھا تو وہ فورا ان کی نظروں سے اوجھل ہونے کے لیے بجلی کی سی تیزی سے کمرے سے نکل گئ۔ 

پیچھے فدیان اب بھی ہنس رہا تھا۔ 

" سوری آغا جان اس کے دماغ کا وائ فائ خراب ہے میسجز غلط پتے پر پہنچ جاتے ہیں اور ہمارے میسج اسے ملتے بھی دیر سے ہیں۔ میں زرا اسے دیکھوں اب کہیں چوکیدار کو مبارکباد نہ دے آۓ۔۔!!" 

اپنی ہنسی روک کر فدیان بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ 

شنایہ بیگم نے لب بھینچ کر پیر پٹخا۔ دراب آفریدی ابھی تک ہنس رہے تھے کہ اللہ اللہ کرنے کی عمر میں اللہ انہیں اولاد سے نواز رہا ہے۔ سیریسلی ۔۔!!! 

" بیگم آرام سے۔ !! اچھل کود نہ کیجۓ گا۔ بھول گئ ہیں کہ بچی کیا کہہ کر گئ ہے۔ اللہ کی نعمت ہے یہ خیال رکھیں اس کا ۔!!"

ان کی ہنسی چھوٹی تو شنایہ بیگم بھی واش روم چلی گئیں ابھی وہ کہیں جاکر اپنے بال ناچنا چاہتی تھیں وہ زرلشتہ تو انہیں تنگ کرتی تھی پر اس نے تو ان کا مزاق ہی بنادیا تھا۔ اور دراب آفریدی تو ہنستے جارہے تھے مسلسل۔۔!! 

" دلبرم ۔۔!! اب کہیں نا جانا مجھے ڈر ہے کہ اب اگلی مبارکباد چاچا رشید کو نہ مل جاۓ۔ بیچارے صدمے سے مر جائیں گی۔ ان کی تو شادی بھی نہیں ہوئ۔!! آجاؤ باقی کی مبارکبادیں صبح بانٹ لینا ۔۔!!" 

وہ منہ بناکر جارہی تھی جب فدیان نے اس کے کندھے پر بازو پھیلایا اور اسے کمرے کی جانب لے جانے لگا۔

" وہ زرلش آپی کو مبارکباد ۔۔!!" اس کے دروازے کے پاس سے گزرتے معصومہ نے اشارہ کیا تو فدیان نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا۔ 

" رہنے دو خانی۔..!! وہ سورہی ہوں گی آجاؤ تم بھی سوجاؤ ۔۔!!" 

 اسے سچ میں نہیں پتہ تھا کیا کر آئ ہے وہ شنایہ بیگم کے ساتھ۔ پھر فدیان کے کہنے پر وہ چلی گئ وہاں سے اپنے کمرے میں سونے کے لیے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" درمان ۔۔!! بےبی کب آۓ گا ۔۔!! ہم اس کے لیے شاپنگ کب کریں گے۔ میں نے نہ سوچا ہے کہ ساتھ والے کمرے میں تو کوئ رہتا نہیں یہ بیچ والی دیوار تڑوا کر بےبی کا کمرہ بنالیتے ہیں ۔۔!!" 

زرلشتہ نے جاۓ نماز تے کرکے واپس رکھی پھر درمان کے سامنے آکر کھڑی ہوئ۔ اس نے نفل پڑھنے تھے اسے یہ بات یاد تھی اب تک۔ اور درمان کے آتے ہی وہ اٹھ بھی گئ پھر نفل پڑھ کے وہ رات کے دو بجے فری ہوی اب تھک گئ تھی وہ بہت۔ 

" اس میں بہت ٹائم ہے ابھی۔ تڑوالیں گے دیواریں بھی آگے پیچھے اوپر نیچے جونسی تم کہو گی وہی تڑوائیں گے ۔۔یہاں آؤ کچھ ہے تمہارے لیے ۔۔!!" 

درمان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھایا۔ تو وہ خاموشی سے بیٹھ گئ۔ حجاب میں لپٹا زرلشتہ کا چہرہ دیکھ کر درمان کو اس پر جی بھر کر پیار آیا۔ اس نے خوبصورت سی رنگ زرلشتہ کے سامنے کی۔ 

" یہ تمہارا گفٹ ۔۔!! تھینکس میری زندگی میں آنے کے لیے۔ تھینکس مجھے مکمل کرنے کے لیے زرلشتہ ۔۔!! جو خوشی تم مجھے دے رہی ہو اس کے لیے میں ہمیشہ تمہارا شکرگزاد رہوں گا ۔!! محبت نہیں عشق ہوگیا ہے مجھ تم سے۔۔!! عشق ۔۔!!" 

درمان نے باکس اس کے سامنے کیا پھر محبت بھرے انداز میں اعتراف کرنے لگا جس نے پہلے تو اس باکس کو دیکھا پھر آنکھیں سکیڑیں۔ 

" یہ کیا ہے .!!" 

" انگوٹھی یے۔۔!! پسند نہیں آئ کیا ۔!!" درمان نے ناسمجھی سے پوچھا۔

" انگوٹھی کیا خود خرید کر مجھے اس میں رکھنی ہے۔ یا خالی ڈبہ سر پر سجانا ہے درمان ۔۔!! آج فرسٹ اپریل نہیں ہے جو آپ مجھے خالی باکس دے رہے ہیں۔ حد ہوتی ہے مزاق کی بھی ۔۔!!" 

درمان کے ہاتھ میں پکڑا باکس زرلشتہ نے جھپٹا اور اسے الٹا کرکے درمان کو دکھایا کہ دیکھ لو اس میں کوئ انگوٹھی نہیں ہے۔ درمان کو دھچکا لگا انگوٹھی اسی میں ہی تھی پھر کہاں گئ۔ 

" نہیں یار انگوٹھی تھی اس میں۔۔!! میں نے خود رکھی تھی۔ آج ہی تو خریدی تھی کہاں گئ ..!!"

اس نے پاکٹس چیک کیں۔ زرلشتہ کو لگا تھا وہ اس سے پیار سے بات کرے گا پر موصوف تو اسے ہی تنگ کررہے تھے۔ 

تبھی باکس اس نے درمان کے سامنے لہرایا۔ 

" کیا سلیمانی ٹوپی پہنی ہے اس انگوٹھی نے جو مجھے نہیں دکھ رہی یا یہ کوئ نیا ماڈل نکلا ہے ہوسکتا ہے نیو ڈیزائن ہو۔ یہ آپ نے جس دکان سے لی تھی وہ بھی چیک کرلینی تھی کہیں آپ کے قبیلے والوں کی تو نہیں تھی۔ خود جن ہیں تو چیزیں بھی جنوں والی ہی لاتے ہیں۔۔!!" 

زرلشتہ نے تیز انداز میں کہا رات کے دو بجے یہ مزاق اسے پسند نہیں آیا تھا۔ درمان نے باکس پکڑا۔ 

"انگوٹھی تھی اس میں زرلشتہ ۔۔!!" اس نے دہائی دی تو اب کی بار زرلشتہ نے فرضی انگوٹھی نکال کر پہن لی۔ 

" اب خوش ہیں آپ ۔۔!! دیکھیں کتنی پیاری لگ رہی ہے نا ۔ شادی کے بعد پہلا تخفہ آپ نے مجھے دیا اور دیکھیں نا کتنا پیارا ہے۔ مجھے امید ہے اسے کسی کی نظر نہیں لگے گی۔ نظر ہی نہیں آۓ گی تو نظر کیسی ۔۔!! اب آپ بیٹھیں یہیں میں سونے لگی ہوں۔  !!" 

ہاتھ کو اس نے ستائشی نظروں سے دیکھا پھر غصے سے لال پیلی ہوتی ہوئ بیڈ پر جاکر لیٹ گئ ۔ درمان کو پتہ تھا انگوٹھی اس میں ہی تھی پر کہاں گئ وہ ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"ونی ہوئ لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت بھی ملتی ہے یہ پہلی ہی بار سنا ہے۔۔!!" 

"ساری اکڑ سارا غرور جو اسے اپنے گھر والوں پر تھا اس کے گھر والوں نے خود ہی توڑ دیا۔ اسے چاہیے تھا اب قانون پڑھنے نہ آتی۔ قانون توڑنے والے قانون پڑھتے اچھے تو نہیں لگتے نا۔۔!!" 

وشہ نے آنکھیں میچیں ایسے کئ جملے اب وہ روز سنتی تھی۔ جن لوگوں نے آج تک اس کی طرف نگاہ بھی نہیں اٹھائ تھی وہ بھی اب اس سے ہی ہمدردی کرتے نظر آتے تھے۔ وہ جہاں تک ممکن ہوتا ان کی نظروں کو نظر انداز کردیتی پر یہ جملے تو زہر کی طرح اس کی روح میں اتر کر اسے اندر ہی اندر ماررہے تھے۔ اگر وہ ونی ہوئ تھی اس میں اس کا تو کوئ قصور نہیں تھا پھر سب نے کیوں اس سے سکون سے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا تھا۔ 

" خود تو سکون سے سورہے ہیں نا انہیں باتیں جو نہیں سننی پڑتی لوگوں کی۔ ونی ملنے کے بعد عزت مزید بڑھی ہوگی ان کی۔ گھاٹا تو ہمارے ہی حصے میں آیا ہے۔ ایک ہم ہیں جو بے قصور ہوتے ہوۓ بھی سزا کے مرتکب ٹھہرے ہیں۔ قصور کسی نے کیا قیمت ہمیں چکانی پڑرہی ہے۔ ہمیں واپس یونی جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ خواب دفنا دیتے ہم یہی اچھا تھا ۔۔!!"

رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے اور وشہ اب بھی اپنی عادت سے مجبور جاگ رہی تھی۔ اسے پہلے بھی راتوں کو جاگنے کی عادت تھی پڑھائ کی وجہ سے وہ فجر تک جاگتی رہتی تھی پھر چند گھنٹے ہی سوکر پھر سے پڑھائ میں مگن یوجاتی تھی۔ اب تو عادت ایسی پختہ ہوئ تھی کہ اسے سچ میں نیند نہیں آتی تھی۔ کئ کئ راتوں تک ۔۔!!! 

دیار پر اس نے نگاہ ڈالی جو صوفے پر سویا ہوا تھا۔ پھر سر جھٹک کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر اس نے آنکھیں بند کیں تو پھر وہ منظر گھوما اس کی آنکھوں کے سامنے جب سونیا نے اس کے مقدس رشتے کو سوالیہ نشان بنایا تھا۔۔!! 

اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ اور سائیڈ سے کتاب اٹھاکر اپنی گلاسز واپس سے لگاکر اسے پڑھنے لگی۔ نیند تو اسے آنے والی نہیں تھی اور فضول باتیں وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ لیمپ کی روشنی میں وہ اپنے ٹیسٹ کی تیاری کرنے لگی۔ جو اسے یاد تو تھا پر اب دھیان بٹانے کے لیے یہ کرنا ہی پڑا اسے۔ 

" اب اگر کسی نے ہمیں ونی ہونے کا طعنہ دیا تو الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے منہ پر ماریں گے ہم۔ قانون پڑھا ہوتا انہوں نے تو جانتے ہوتے یہ کہ یہ رسم تو ملک کی عدالتیں نہیں روک سکیں ہم کیا روکیں گے۔۔!! ان لوگوں کا حل یہی ہے منہ ہی توڑ دیں ہم ان کا ۔!!" 

 اس نے خود کو جیسے تسلی دی تھی۔ پھر سارے خیال ایک طرف کرکے وہ کتاب پڑھنے لگی دیار سویا ہوا تھا اس بات سے بے خبر ہوکر کہ ان کے رشتے میں ہلچل اب مچنے والی ہے۔  

" یہ سب کس نے بھیجا ہے ۔!!! "

صبح صبح ہی بہراور درانی کے گھر مٹھائ اور دیگر لوازمات پہنچ گۓ۔ ابھی وشہ اور دیار یونی کے لیے نکلنے ہی والے تھے لاؤنج میں رکھا سامان اور ساتھ کھڑی دو ملازماؤں کو دیکھ کر دیار نے پوچھا۔ لاونج میں ہوتی ہلچل کی وجہ سے بہراور درانی بھی یہاں آگۓ تھے اور رخمینہ بیگم تو کھڑی ہی یہاں تھیں۔ 

سب وجہ جاننا چاہتے تھے جب ایک ملازمہ نے مؤدب انداز میں انہیں زرلشتہ کے ہاں خوشخبری کا بتادیا۔ سب پہلے تو مکمل شاکڈ تھے۔ دراب آفریدی کا نام سن کر بہراور درانی کے چہرے کے تاثرات میں ناگواری بھی شامل ہوئ تھی پر جب انہیں اپنی چھوٹی سی لاڈلی کے ہاں اتنی بڑی خوشی کا پتہ چلا تو اس ماحول میں جیسے خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ 

سب سے پہلے ہوش رخمینہ بیگم کو آیا جن کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ رینگ گئ۔ 

" میں نانی بننے والی ہوں۔۔!! سردار سنا آپ نے ہماری آپ نانا بننے والے ہیں۔ میری بیٹی ۔۔!! ہمیں جانا چاہیے اس سے ملنے۔ وہ کتنا خوش ہوگی نا ہمیں دیکھ کر۔ اسے ضرورت ہوگی ہماری۔ ہم چلتے ہیں اس کے پاس ۔!!" 

لاونج میں گونجتی ان کی آواز نے سکتا توڑا تو وہیں بہراور درانی کے دل میں سب ٹھیک ہونے کی ننھی سی امید جاگی۔ جو دوریاں دونوں گھروں کے بیچ عرصے سے حائل تھیں اب انہیں ختم کرنے کےلئے ایک ننھا سا مہمان آرہا تھا۔ وہ اب تک حیران تھے۔ جب انہیں ٹوٹے ماضی کی بکھری کرچیوں کی زد میں آکر لہولہان ہوا ایک وجود یاد آیا۔ ایک راز ان کی آنکھوں کے سامنے گھوما ۔۔!! 

اس راز میں اتنا درد تھا کہ بیٹی کے ہاں کی خوشی بھی اس درد کے آگے جیسے ہار گئ تھی۔ انہوں نے مٹھیاں بھینچی۔ ذکیہ کی سسکیاں انہیں سنائ دیں۔ اس دردناک ماضی میں ہی کہیں دھندلا ہوکر چھپا وہ وجود یعنی ذکیہ جو مر کر بھی آج تک ان سے قصور پوچھتی تھی انہیں اس کا درد یاد آیا۔

ماضی میں کچھ تو ایسا ہوا تھا جو وہ چاہ کر بھی اب دراب آفریدی کے در پر نہیں جانا چاہتے تھے۔ شاید مرکر بھی وہ نہ جاتے وہاں ۔

" سردار ۔۔!!! آپ سن رہے ہیں میں کیا کہہ رہی ہوں۔ ہمیں جانا چاہیے نا زرلشتہ کے گھر۔ سارے شکوے ساری شکایتیں ، ساری رنجشیں ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ دراڑ بھرنے کا وقت آگیا ہے سردار۔۔!!  

سب بھول جاتے ہیں اور چلتے ہیں نا ان کے گھر۔ اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لیے۔ انہوں نے بھی تو پہل کی ہے نا اب ہمارے باری ہے۔۔!!" 

 رخمینہ بیگم نے انہیں بت بنے دیکھا تو خود ہی چند قدموں کا فیصلہ طے کرکے ان کے قریب آئ۔ دیار اور وشہ بھی ان کی جانب ہی دیکھ رہے تھے جتنا خوش دیار تھا یہ خبر جان کر اس کا بس نہ چلا کہ اڑ کر اپنی بہن کے پاس پہنچ جاۓ۔ اس کی جان سے عزیز بہن تھی وہ بچوں جیسی بالکل ۔۔!! 

اس کی خوشی میں وہ دل و جان سے خوش تھا۔ خوش تو وشہ بھی تھی پر ساری رات جاگنے کی وجہ سے اس کا دماغ تھکا ہوا تھا اس وقت۔ 

"بیگم جو بات ممکن ہی نہیں وہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔!!! اچھے سے جانتی ہیں آپ ہمارے بیچ جو رنجش ہے وہ اب مرتے دم تک ایسی ہی رہے گی۔ جس دراڑ کے بھرنے کی آپ کو امید ہے وہ اب اس دن بھرے گی جب ماضی میں جو بھی ہوا اس کا حساب دے گا دراب مجھے ۔۔! 

اب مزید کوئ بحث نہیں۔ وشہ بیٹی اور دیار جاکر مبارکباد دے آئیں اگر آپ جانا چاہیں تو چلی جائیں پر مجھ سے ایسی بےتکی بات اب نہ کیجۓ گا۔ مہربانی ہوگی آپ کی۔ جس کی قبر پر پھول ڈالتا ہوں نا میں اس کی قبر پر جانے کا حق بھی چھن جاۓ گا مجھ سے اگر میں نے اس دراب کی دہلیز پر قدم رکھا تو ۔۔!! بات ختم ۔۔!!" 

دبے دبے لفظوں میں بہت کچھ باور کروادیا انہوں نے رخمینہ بیگم کو۔ تبھی تو وہ خاموشی سے لب بھینچ گئیں ۔ وشہ نے کچھ بھی نہیں سنا تھا وہ تو غائب دماغی سے اپنے ناخن دیکھ رہی تھی۔ البتہ دیار نے ایک تھکا ہوا سانس ضرور خارج کیا۔ وجہ وہ بھی جانتا تھا اور دہرانا بس ایسا تھا جیسے کوئ زخم کرید کر اسے تازہ کیا جاۓ۔ پھر اس سے رستے خون کو دیکھ کر دوبارہ رویا جاۓ۔ 

"مما، بابا آپ پلیز بحث نہ کریں ہم زرلش کے لیے کوئی دعوت رکھ لیں گے گھر پر یا کسی ہوٹل وغیرہ میں۔ وہاں تو ہم سب جاہی سکتے ہیں۔ اس میں کسی کو کوئ مسئلہ نہیں ہوگا۔ اور زرلش بھی جب ہمارے پاس آۓ گی تو نارمل ہونے کی بجاۓ اپنی خوشی خود بھی سیلیبریٹ کر لے گی میں درمان سے کہہ دوں گا وہ لے آۓ گا اسے۔۔!! آپ پلیز کسی پرانی یاد کی وجہ سے اس خوشی کو تو پھیکا نہ کریں ۔۔!! " 

اس سے پہلے کہ رخمینہ بیگم کی آنکھوں سے آنسوں نکلتے اپنے شوہر کے لہجے کی وجہ سے۔ دیار نے مسئلے کا حل پیش کردیا تو اب کی بار بہراور درانی بھی ٹھنڈے پڑے۔ یہ حل انہوں نے کیوں نہ سوچا انہیں بھی احساس ہوا۔ رخمینہ بیگم بھی مسکرائیں کہ اپنی بیٹی سے وہ مل تو لیں گی اسی بہانے۔ 

وہ دونوں ملازمائیں اپنا پیغام دے کر جاچکی تھیں۔

" ممانی بننے والی ہیں آپ جانم ۔۔!! خوشی نہیں ہورہی کیا آپ کو ۔۔!!" 

دیار وشہ کی جانب جھکا اور سرگوشی کی جواب میں وہ فورا خیالوں سے باہر نکلی۔اور اس کی جانب گھور کر دیکھا۔ 

" ہم پھپھو بننے والے ہیں کوئ ممانی نہیں ۔!! اپنے الفاظ ٹھیک کرلیں ۔۔!! آۓ بڑے خوامخواہ فری ہونے والے ۔۔!" 

وشہ کی بات سن کر دیار نے سمجھنے والے انداز میں سر ہاں میں ہلایا۔

" یہ پھپھو کا شوہر پھر کیا بنے گا پھپھا۔۔!! یہ تھوڑا عجیب نہیں ہوجاۓ گا۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ میں ماموں اور آپ ممانی بن جائیں۔ اچھی فیل آۓ گی ۔۔!!" 

رخمینہ بیگم تو اب مٹھائ نکالنے گئ تھیں سب کا منہ میٹھا کروانے کے لیے اور بہراور درانی تو فون میں مصروف تھے تبھی دیار بھی اپنے پسندیدہ کام میں لگا تھا وشہ کو تنگ کرنے میں ۔۔!! 

"آپ کو ہم سے چپکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم پھپھو ہی اچھے ہیں اور آپ ماموں۔۔!! اور آپ کی فیلنگ کے چکر میں ہمیں آپ کی بیوی بننے کا کوئ شوق نہیں۔۔!! " 

اس نے بھی فورا جواب دیا۔ 

" میں کب چپک رہا ہوں آپ سے۔ اتنا دور تو کھڑا ہوں۔ اور آپ بیوی ہیں میری۔مانتی نہیں ہیں وہ الگ بات ہے ۔۔!! ویسے میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر میں بھی پورے علاقے میں اپنے بابا بننے کی خوشی میں مٹھائ بانٹوں ۔۔!!  ہمیں بھی کوئ مما، بابا کہنے والا آجاۓ، اس گھر میں بھی رونق لگ جاۓ۔۔!! کیا خیال ہے آپ کا اس بارے میں ۔۔!!" 

دیار اس کی جانب مڑا اور خالصتا راۓ مانگنے لگا جب وشہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑیں پھر اس نے اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کی۔ 

" نیک خیال ہے آپ کا۔ اس گھر میں بھی بچوں کی کلکاریاں گونجیں گی۔ سب مصروف ہوجائیں گے۔ آپ کو بےبی مل جاۓ گا تو آپ ہمارا پیچھا بھی چھوڑ دیں گے۔۔!! ہمیں بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے اب ۔۔!!"

 بڑی ہی سنجیدگی سے وشہ نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی تو دیار کو لگا کہ اس نے غلط سن لیا ہے۔ 

وشہ کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ سنجیدہ ہے۔ بالکل سنجیدہ ۔۔!! 

" آپ کو میری بات پر غصہ نہیں آیا میرا منہ توڑنے کا دل نہیں کیا آپ کا۔۔!! وشہ آپ ہوش میں تو ہیں۔ یہ کیا سن لیا میں نے۔۔!! " 

اس نے تفتیشی انداز میں کہا تو وشہ نے ہاتھ میں پکڑے فون سے ٹائم دیکھا۔ 

" ہمیں کیوں اعتراض ہوگا۔ بابا کہلاۓ جانا حق ہے آپ کا۔ اور ہم کیوں آپ سے یہ حق چھینیں گے ۔۔!"

وہ اب بھی ویسے ہی سکون میں تھی۔ جب دیار نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یقین کیا کہ وہ زندہ ہے ورنہ اسے لگا اب تک وہ مر ہی گیا ہے۔

" مطلب آپ نے دل سے مجھے قبول کرلیا ہے۔۔!!! جانم آپ نے تو زرلشتہ سے بھی بڑی خوشی دی ہے مجھے. میں کیسے شکریہ کہوں آپ کو۔۔!!" 

دیار کے لہجے سے خوشی چھلکی تو وشہ نے اس کی جانب دیکھ کر آبرو اچکائیں۔ 

" ہمیں پتہ ہوتا آپ اتنی سی بات سے اتنا خوش ہوجائیں گے تو ہم بہت پہلے ہی اجازت دے دیتے آپ کو۔ اور شکریہ کی ضرورت نہیں ہے اب اتنا توہم آپ کے لیے کر ہی سکتے ہیں بس آپ بے فکر رہیں۔آج ہم یونی سے آتے ہی مما سے بات کریں گے اور منالیں گے انہیں۔ تھوڑا مشکل ہے کیونکہ وہ خود ایک عورت ہیں کبھی اس کے لیے نہیں مانیں گی اور جتنا ان کا دل اچھا ہے وہ آپ کا منہ بھی توڑ سکتی ہیں۔ لیکن یہ ہمارا مسئلہ ہے جلد آپ بھی علاقے میں مٹھائیاں بانٹیں گے ۔۔!! " 

 وشہ اب بھی سکون میں تھی جب دیار نے مٹھائ لاتی اپنی ماں کو دیکھا اور ناسمجھی سے سر کھجایا۔ 

" مما کو کیوں منانا ہے ۔۔!! میں سمجھا نہیں ۔۔!!" 

" مما کو نہیں توکیا بابا کو منائیں گے ہم۔۔!! آخر دوسری شادی آپ کی وہ ہی کروائیں گی نا۔ ہم خود رشتہ ڈھونڈنے سے تو رہ گۓ آپ کے لیے۔ آپ کی دوسری شادی ہوگی تو آپ کے ہزاروں ارمان جو روز روز آپ ہمیں سنا کر ہمارا خون جلاتے ہیں وہ سارے کے سارے پورے ہوجائیں گے ۔۔!! کیا اب ارمان نہیں پورے کرنے آپ نے ۔۔!!" 

 بے نیازی سے وشہ نے اسے دوسری شادی کی اجازت دی جو ہونق بنا اس کی عظیم سوچ کو داد دے رہا تھا۔ وہ تب سے اس کی شادی کی بات کررہی تھی اور وہ بیچارہ اندر ہی اندر خوشی سے بے ہوش ہونے والا تھا کہ آخر کار وشہ نے اسے قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اب وہ بھی سکون سے زندگی گزاریں گے۔ پر یہ نہیں سدھر سکتی ۔۔!! 

" ملکہ عالیہ مجھ ناچیز کے لیے اپنی اعلیٰ ظرفی دکھاتے آپ نے جو اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے نا وہ آپ کے حق میں اچھا ہوگا پر مجھ ناچیز کے گلے میں پھندا ہی ڈلے گا۔۔!! مجھ سے ایک آفت نہیں سنبھالی جارہی دوسری کیا خاک سنبھالوں گا۔۔!! " 

اس نے جل کر کہا۔

"ہم آپ کا احساس کررہے ہیں اب بھی آپ کو مسئلہ ہے ۔ توبہ ہے دیار آپ احساس کے بھی قابل نہیں ۔۔!!رہیں ایسے ہی ہمارا کیا جاتاہے " 

وشہ نے کندھے اچکاۓ تو دیار نے اسے گھورا وشہ کے لیے مسکراہٹ دبانا مشکل تھا۔ جو اس نے دیار کے ساتھ کیا تھا ابھی۔ اس کا دل ہنسنے کو کیا پر سنجیدہ رہنے کے لیے وہ چپ ہوگئ۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" زرلشتہ جاؤ چاۓ بناکر لاؤ میرے لیے۔۔!! کوئ احساس ہے تمہیں میں کب سے کام کام کررہا ہوں۔ تھک گیا ہوں گا۔ چاۓ کی ضرورت ہوگی مجھے۔اچھی بیویوں کی طرح میرے لیے چاۓ لاؤ۔ اور یہ کیا تم فون میں لگی رہتی ہو۔ کیا ہے اس میں جو دیکھ رہی ہو ۔!!"

درمان نے لیپ ٹاپ بند کرکے صوفے پر پٹخا۔ پھر تن فن کرتے بیڈ پر فون میں سر دے کر بیٹھی زرلشتہ کے ہاتھ سے فون کھینچا اس نے۔ جو صبح سے خاموش تھی۔ اس حرکت پر زرلشتہ نے اپنے خالی ہاتھ دیکھے جن میں ابھی فون تھا۔ پھر نظریں اپنے پاس کھڑے درمان پر مرکوز کیں جو اب فون میں دیکھ رہا تھا۔ وہ گیم کھیلنے میں مگن تھی بس جیتنے ہی والی تھی جب درمان نے یہ حرکت کی۔ 

" ہوٹل بند ہے آج ۔!! جاۓ کہیں اور سے جاکر پئیں یہ آپ کو بورڈ لگانظر نہیں آرہا کہ آج چاۓ نہیں بنے گی۔ اور میرا فون واپس کریں۔ آپ کو پتہ نہیں کسی کا فون کھینچنا اخلاقیات کے خلاف ہوتا ہے۔ فون انتہائ پرسنل چیز ہوتی ہے ۔۔!!" 

زرلشتہ غصے سے لال پیلی ہوتی ہوئ کھڑی ہوئ پھر دائیں جانب اشارہ کیا کہ یہاں بورڈ لگا ہے درمان نے بے ساختہ اس جانب دیکھا پھر اس سے پہلے وہ فون چھینتی درمان نے فون پاکٹ میں ڈال لیا۔ 

" یہ کس لہجے میں بات کررہی ہو تم مجھ سے۔بھول گئ ہو کہ میں کیا کرسکتا ہوں۔ کھڑے کھڑے جان نکال دوں گا تمہاری۔ چاۓ سے منع کیا تو زرا لحاظ نہیں کروں گا کہ تم بیمار ہو۔ باۓ دا وے تم میری پرسنل پراپرٹی ہو تو اس حساب سے تمہارا فون بھی میرا ہی ہے۔ چاۓ لاؤ اور لے لو۔ گیم پاز پر ہے وہیں سے کھیل لینا۔۔!!" 

وہ اسے خونخوار نظروں سے گھور رہی تھی جب درمان نے اسے مصنوعی جھاڑ پلائی لیکن اس پر اثر نہ ہوا تو رعب کو سائیڈ پر پھینک کر اس نے اس کی پیشانی پر بکھرے بال ہاتھ سے بگاڑے۔ پھر اس کا گال نرمی سے کھینچ کر اسے باور کروایا کہ وہ اسی کی ہی یے۔ تو زرلشتہ نے گہرا سانس خارج کیا۔ 

" جانتی ہوں میں پھر سے ٹیرس پر کھڑا کردیں گے یا گلا دبا دیں گے اس کے علاؤہ آپ کر ہی سکتے ہیں۔اور میں آپ کی پراپرٹی نہیں ہوں۔آپ تو مجھے اپنی کنیز سمجھنے لگے ہیں بادشاہ سلامت ۔۔!! چاہتے ہیں کنیز اٹھتے بیٹھتے آپ کو سلام پیش کرے۔ آپ کے ایک اشارے پر رقص پیش کرے یہاں ۔۔!! ہیں نا یہی چاہتے ہیں نا ۔۔!! اور کیا کیا خواہشیں ہیں آپ کی بادشاہ سلامت ۔۔!! ظالم ہیں آپ ۔۔!! جن ۔۔!! ہٹیں میں چاۓ بناکر لاؤں۔ جیسے حالات ہیں نا ایک بڑا ڈرم رکھواتی ہوں میں چاۓ کا یہاں۔ یا ہوٹل ہی کھول لیتی ہوں۔ تاکہ آپ کے پیچھے خوار نہ ہونا پڑے ۔۔!!" 

اس کا ہاتھ جھٹک کر زرلشتہ سائیڈ سے گزر گئ تو درمان نے ناسمجھی سے سوچا کہ آخر ہوا کیا ہے اسے۔ یہ کیوں جنگلی بلی بنی ہوئ ہے۔ خود ہی شکوہ کیا پھر جواب بھی نہیں لیا اور چلی گئ۔ اسے بالکل بھی یاد نہیں تھا کہ رات اس نے انگوٹھی کے نام پر جو اسے خالی ڈبہ دیا ہے وہ اس پر اب بھی خفا ہے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" فدیان میں نہیں جارہی مبارکباد دینے کے لیے۔ میں نا اب کوئ اور غلطی کردوں گی۔ !! رات بھی آنٹی کو مبارکباد دے دی تھی میں نے۔ اب نہیں جارہی میں ۔۔!!" 

معصومہ بیڈ پر بیٹھی تو فدیان نے پیشانی پر ہاتھ رکھا وہ کب سے اسے کہہ رہا تھا کہ اٹھے اور زرلشتہ سے بات کرے کیونکہ درمان کہہ چکا تھا کہ اگر اس کی لائ بلی کی وجہ سے کوئ مسئلہ ہوا زرلشتہ اور معصومہ کے بیچ، کوئ فساد برپا ہوا تو وہ اسے علاقے کے بیچ میں بنے برگد کے درخت پر الٹا لٹکائے گا۔ جو فساد اس نے پھیلا ہے اب اسے سمیٹے۔ اور یہاں تو معصومہ ہلنے کو بھی تیار نہیں تھی۔ 

" معصومہ اٹھو ورنہ سونا کو میں واپس کر آؤں گا۔۔!! سونا چاہیے تو ابھی جاؤ زرلشتہ کے پاس ۔!! ہری اپ۔۔!!" 

دونوں بازو سینے پر لپیٹ کر فدیان نے سنجیدگی سے کہا تو معصومہ کا منہ کھلا اس نے فرش پر بال سے کھیل رہی سونا کو دیکھا پھر منہ بسورا۔

" سونا کو آپ کیوں واپس کریں گے۔ وہ میری ہے۔ وہ کہیں گئ تو میں بھی جاؤں گی۔۔!!' 

" اووو۔۔!! اچھا ۔۔!! میری بلی کی وجہ سے تم مجھے ہی میاؤں کہہ رہی ہو۔ میں نے اسے بھگا دینا ہے گھر سے۔ اٹھ جاؤ ایک ہی بار میں ۔ ورنہ میں اٹھا کر تمہیں اس کے پاس لے جاؤں گا۔۔!!" 

فدیان چند قدم اس کے قریب ہوا اس کے تیور بدلتے دیکھ کر معصومہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر بیڈ سے دور ہوئ۔ اور دروازے کے پاس پہنچی۔ 

" آپ کیوں مجھے اٹھائیں گے۔ گناہ ملتا ہے اگر کوی لڑکا کسی لڑکی سے ایسی بات کہے تو۔۔!! ویسے بھی آپ کا تو نہیں پتہ پر مجھے جنت میں ہی جانا ہے تو ذرا فاصلے پر رہیں ۔۔!! جارہی ہوں میں مبارکباد دینے میری سونا سے دور رہیے گا۔۔!!" 

دروازے کے  پاس کھڑے ہوکر معصومہ نے نئی لاجک پیش کی تو فدیان کے چہرے پر تاسف پھیلا کیا عظیم سوچ ہے معصومہ کی۔۔!! 

پھر سکون سے وہ چلی بھی گئ۔ 

" یہ انوکھا پیس میرے ہی حصے میں آنا تھا۔ مجھے پورا یقین ہے ان اغواہ کاروں کی بددعائیں مجھے لگ گئ ہیں ۔۔!! جب سے یہ آئ ہے میں بیچارہ خود کشی کرنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کررہا ہوں ۔۔!! اسے عقل کب آۓ گی ۔۔!!" 

اس نے منہ بنایا سچ ہی تھا جب سے معصومہ آی تھی اس کی معصومیت کی وجہ سے وہ بیچارہ کئ بار اپنے بال نوچ چکا تھا۔ کل رات بھی وہ کہہ رہی تھی کہ جب سونا بڑی ہوجاۓ گی تو وہ اس کی شادی کروائیں گے۔ کسی بلے کے ساتھ ۔۔!! 

وہ اس کے لیے کپڑے بنواۓ گی اور مناسب سا گھر داماد بلا بھی ڈھونڈے گی کیونکہ اگر کوئ بلا سونا کو اپنے ساتھ لے گیا تو وہ رہ نہیں پاۓ گی۔ 

فدیان تو حیران تھا کہ کہیں بلی لاکر اس نے اپنے نصیب پر بلی تو نہیں ماردی ۔کیونکہ اس کی بیوی تو بلی کی دیوانی ہوچکی تھی۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

معصومہ کمرے سے نکلی اور سیڑکیوں کے پاس پہنچی تو اسے زرلشتہ سیڑھیاں چڑھتی ہوئ نظر ائ۔وہ وہیں رک گئ تاکہ وہ آجاۓ تو وہ اس سے بات کرلے۔

زرلشتہ نے معصومہ کو دیکھ لیا تھا پھر بھی انجان بنی۔ سادہ سی شلوار قمض میں ملبوس زرلشتہ کا دوپٹہ سیڑھیوں پر پوچا لگانے کا کام کررہا تھا کھلے بال اور دونوں ہاتھوں سے چاۓ کا ٹرے پکڑ کر وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ ٹرے میں دو کپ تھے۔

معصومہ کے پاس سے وہ سکون سے گزرنے لگی جب معصومہ نے حیرت کے مارے اسے دیکھا۔ کہاں وہ اسے دیکھ کر ہی باتوں کی پٹاری کھول دیتی تھی اور کہاں اب جارہی تھی جیسے اس نے اسے دیکھا یی نہ ہو۔

" آپی سنیں بات کرنی تھی آپ سے ۔۔!!" 

معصومہ جلدی سے اسکے ہم قدم ہوئ۔ اور اسے روکا جس نے رک کر اسے مڑ کر دیکھا۔

" اکیسکیوز می آپ کون ہیں ۔۔!!" 

زرلشتہ نے معصومہ کو سر تا پیر دیکھا پھر استفسار کیا تو معصومہ کو دھچکا لگا۔ 

" آپی میں معصومہ ۔۔!! معصومہ خانم ۔۔!!" 

معصومہ نے فورا کہا تو زرلشتہ نے آنکھیں سکیڑیں۔ 

" تم معصومہ ہو۔۔؟؟" زرلشتہ نے پوچھا۔ 

" جی میں ہی ہوں معصومہ آپ کو یاد آئ۔۔!!"معصومہ نے امید سے کہا۔ تو زرلشتہ نے ہونٹوں کو او کی شیپ میں گول کیا۔ 

" اوووو تو تم معصومہ ہو۔ سوری پر میں تمہیں نہیں جانتی ۔۔!!" 

معصومہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑیں۔ 

" میں فدیان کی بیوی ہوں ۔۔!! یاد کریں۔ آپ کو میں یاد آجاؤں گی۔۔!!" وہ دو قدم مزید آگے ہوئ۔

" فاد بھائ کی بیوی ۔۔!! انہوں نے شادی کب کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے اپنی بیٹی انہیں دے کیسے دی۔ یہ تو معجزہ ہوگیا۔ وہ شادی شدہ نکلے ۔۔! بڑے چھپے رستم ہیں ۔۔!! خیر میری طرف سے مبارکباد دے دینا انہیں ۔۔!! میں بھی چکر لگاؤں گی جب فری ہوی ۔! ورنہ معذرت ۔۔!!" 

زرلشتہ نے آنکھیں پٹپٹائیں۔ تو معصومہ نے لب بھینچے وہ اسے بھول گئ تھی کتنی عجیب تھی یہ بات۔ 

"میں آپ کی دوست بھی ہوں آپ کو یاد نہیں ہے وہ الگ بات یے۔۔!! " 

معصومہ نے منہ بسورا۔ جب زرلشتہ کو یاد آیا کیسے وہ اس کے آگے پیچھے گھومتی تھی اور معصومہ اسے اگنور کرتی تھی۔ وقت نے اب پلٹا کھایا تھا معصومہ کی خیر نہیں تھی اب۔ 

" میری دوست ۔۔!! وہ تو ژالے ہے۔ ژالے کیا تم نے سرجری کروالی ہے۔ کہاں سے کروائی ہے کتنی چھوٹی لگ رہی ہو نا تم۔۔!! اچھا تم تو دیورانی ہو میری۔ حیرت یے مجھے یاد کیوں نہیں ۔۔!!! " 

اس نے سوچنے کی بھرپور ایکٹنگ کی۔

" میں ژالے نہیں ہوں آپی ۔۔!! میں آپ کو یاد کیوں نہیں ہوں۔۔ آپ مجھے کیسے بھول سکتی ہیں ۔۔!!" 

"  تو میں کیا کروں۔۔!! ہو گی تم معصومہ۔ دیکھیں محترمہ میں شادی شدہ لڑکی ہوں۔ بہت سی ذمہ داریاں ہیں جو مجھے نبھانی ہیں۔ بیمار ساس ہے جو شوگر اور بلڈ پریشر کی مریضہ ہے۔ بیمار سسر یے جو بستر سے لگاہوا ہے۔ جن کا خیال میں ہی رکھتی ہوں ۔ ایک شوہر ہے میرا کھڑوس سا جسے میری ذرا پرواہ نہیں اور عنقریب بیوی کے منصب سے ترقی ہوکر میں مما بھی بننے والی ہوں۔ یعنی میں بہت مصروف ہوں۔ میرے لیے اس وقت میرے شوہر کو یاد رکھنا ضروری ہے اور کسی کو نہیں ۔۔!! آپ ہوں گی معصومہ پر مجھے نہیں پتہ کون ہیں آپ۔۔!! آپ غلط پتے پر آگئ ہیں۔ اپنے صحیح پتے پر جائیں ۔۔!!" 

زرلشتہ نے ٹرے ایک ہاتھ میں پکڑی ساتھ ہی دوپٹہ کا سرا اٹھا کر پسینہ پونچھا جیسے سچ میں بہت کام ہوں اسے۔ پھر لاپرواہی سے آنکھیں گھمائیں۔

معصومہ نے رونی صورت بنائی تو وہ کیا اسے بھول گئ ہے۔ 

" آپی بےبی ملنے والا ہے تو کیا مجھے بھول جائیں گی آپ۔۔!! میں تو اس سے پہلے سے ساتھ ہوں آپ کے ۔!" 

وہ روہانسی ہوئ۔ 

" سویٹ ڈول بلی وہاں ہے آپ کی۔۔!! جائیں اور اسے کھلائیں۔ میرے ساتھ وقت ضائع نہ کریں ۔۔!! باۓ۔۔!"

بے مروتی کی انتہا کرتے ہوۓ زرلشتہ نے اپنے اندر کے غصے کو دبا کر اسے بلی کا طعنہ دیا پھر اپنے کمرے کے دروازے کو پاؤں سے ٹھوکر مار کر اس نے کھولا  اور چلی گئ۔ معصومہ تو کھڑی سوچ رہی تھی کہ اسے ہوا کیا ہے۔ 

" آپی میں آپ کی بہن ہوں آپ مجھے کیسے بھول گئیں میں نے تو کچھ کیا بھی نہیں تھا نا۔۔!! مجھ معصوم کو ایسے ہی نامعلوم کہہ دیا آپ نے۔۔!! اب فادی کو کیا شکل دکھاؤں گی کہ مبارکباد دینے گئ تھی اگلوں نے پہچاننے سے ہی منع کردیا۔ واہ معصومہ تیری قسمت ۔ !!" 

معصومہ نے زرلشتہ کے کمرے کا بند دروازہ دیکھا پھر فدیان کے پاس واپس چلی گئ۔ یہاں سے تو بڑی عزت مل گئ تھی اسے۔ اب مبارکباد وہ کسے دیتی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" یہ لیں چاۓ۔۔!! اور فون واپس کریں میرا۔ آگے ہی ایک فون سنبھال لیا ہے آپ نے۔ پھر ذکر کرنا بھی بھول گۓ ہیں یہ بھی لے جائیں گے آپ۔ سنیچر بننے کا شوق جو ہے آپ کو۔ بیوی سے فون ہی چھینتے رہتے ہیں۔۔!! ہنہہ ۔!!" 

زرلشتہ نے چاۓ کی ٹرے اپنی سائیڈ ٹیبل پر جاکر رکھی درمان صوفے پر بیٹھا تھا اس نے اس کی جانب دیکھا بھی نہ۔ پھر ایک کپ اٹھا کر اسنے درمان کے سامنے کیا ساتھ ہی اپنا فون بھی چھین لیا۔ وہ بیچارہ تو سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ ہوش تو اس کے تب ٹھکانے لگے جب اس نے کپ میں دیکھا جو خالی تھی۔ 

" زرلشتہ میں نے چاۓ مانگی تھی۔ خالی کپ نہیں۔ اس میں کیا مجھے اب خود چاۓ بناکر ڈالنی ہے۔۔!! حد ہوتی ہے لاپرواہی کی بھی۔ دس منٹ لگاکر آئ ہو وہ بھی خالی کپ لے کر ۔۔!!" 

درمان نے کپ اسے دکھایا جس نے اسے گھورا۔

" چاۓ ہے اس میں۔بس آپ کو نظر نہیں آرہی۔ میں چاۓ لائ ہوں اگر آپ کو نہیں دکھی تویہ آپ کا مسئلہ ہے میرا نہیں ۔۔!! خاموشی سے جو ملا ہے پی لیں۔ ورنہ جنگلی بلی بننے میں لمحہ نہیں لگے گا مجھے۔۔!! آپ کی دی انگوٹھی بھی تو پہن کر گھوم رہی ہوں نا میں۔ آپ بھی پی لیں چاۓ۔۔!!" 

زرلشتہ نے لٹھ مار انداز میں کہا تو درمان کا سر چکرا کر رہ گیا کہ زرلشتہ میں صحیح بیوی والی روح آگئ یے۔ ایک انگوٹھی جو کل کھوگی تھی اس کا وہ طعنہ کتنی بار دے گی اسے آخر۔ 

" زرلشتہ انگوٹھی کہیں گر گئ تھی میں نئ لادوں گا تمہیں۔ پر مجھ سے ناراض تو نہ ہو۔۔!! یہ جو تم کررہی ہو۔ سزا سے بھی زیادہ ہے۔ چاۓ نہیں دینی تو نا دو پر یہ تو نہ کرو۔۔!!"  

خود زرلشتہ صاحبہ جاکر بیٹھ پر بیٹھی اپنا چاۓ کا کپ پینے میں مصروف تھیں۔ درمان نے صفائ دینا چاہیے تو زرلشتہ یوں خاموش بیٹھی رہی جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔

" زرلشتہ یہ اب زیادہ ہورہا ہے۔ تم سچ میں مار کھاؤ گی مجھ سے۔۔!! زرلشتہ ۔۔!! زرلشتہ اب جواب تو دو۔۔!!" 

درمان نے کپ سامنے رکھا پھر اٹھ کر اس کے پاس پہنچا جو بڑے انہماک سے چاۓ پینے میں مگن تھی۔ درمان نے اسے بلایا پر جواب نادارد۔ 

" ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔مجھے الٹا طریقہ استعمال کرنا ہی ہوگا اب!! تم آسانی سے نہیں سمجھ سکتی۔ کچھ بھی۔۔!!" 

درمان نے آنکھیں میچیں پھر کچھ سوچا۔

"زرلشتہ مجھے کچھ بتانا تھا تمہیں۔۔!! بہت اہم بات ہے۔ بہت سے بھی زیادہ ۔۔!!" 

پل میں درمان سنجیدہ ہوا اور زرلشتہ کے بھی کان کھڑے ہوۓ۔ کہ بات کیا ہے آخر۔۔!!

" کہیں سچ میں دوسری شادی تو نہیں کی ہوئ آپ نے۔۔!! اور یہ راز آج آپ مجھ پر آشکار کرنے والے ہیں۔ آپ سے کسی سیدھے کام کی امید نہیں ہے مجھے۔۔!!" 

زرلشتہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اس کے لیے محبت ہی محبت تھی۔ پر اصل میں تو وہ چاۓ چھیننے والا تھا۔ درمان نے ایک ہاتھ بید کراؤن پر رکھا اور دوسرے سے زرلشتہ کا گال نرمی سے چھوا۔ آنکھوں میں اب فکر اتری۔ زرلشتہ نے فلوقت ناراضگی سائیڈ پر کی۔ درمان کا لہجہ اسے خاصہ الجھا ہوا لگا تھا۔ 

" زرلشتہ ۔۔!! بہت بڑا مسئلہ ہوگیا ہے۔۔!! بہت سے بھی بڑا۔ تمہاری سوچ سے بھی بڑا ۔۔!!" 

اس نے بات کا آغاز کیا۔ 

" ک۔کون سا مسئلہ ۔۔!!" زرلشتہ کو پریشانی ہوئ۔ وہ بھول گئ کہ درمان کچھ دیر پہلے تک نارمل تھا۔ پاگل تھی وہ اب کیسے درمان کے اردوں کو سمجھتی۔ 

" مسئلہ یہ ہے کہ ۔۔۔!!! تم ۔۔!!! اس دنیا کی سب سے بیوقوف لڑکی ہو۔ اتنی بڑی بیوقوف کہ تمہیں جلد بیوقوفوں کی سردار کا ایوارڈ ملے گا۔۔!!"

 اگلے ہی لمحے وہ زرلشتہ کے ہاتھ سے چاۓ کا کپ لے چکا تھا۔ زرلشتہ کو اس حرکت کی امید نہیں تھی ورنہ وہ کپ بچا لیتی۔پر کپ تو جاچکا تھا۔ کپ لیتے ہی درمان ہنسنے لگا۔ 

" یہ بدتمیزی ہے درمان ۔۔!! وہ میری چاۓ یے۔ !! پینی ہے  مجھے واپس دیں ۔۔!!" 

زرلشتہ نے دانت پیسے پر جواب میں جس جلادینے والی مسکراہٹ سے درمان نے اسے دیکھا وہ لب بھینچ کر رہ گئ۔ 

"چیٹنگ کیسی جانِ درمان ۔۔!! تمہارا ہی شوہر ہوں میں۔ تمہارے ساتھ رہ رہ کر تمہارے جیسا ہی ہوگیا ہوں۔۔!!" 

اس نے کندھے اچکاۓ اور ایک ہی سانس میں ساری چاۓ ختم کرکے اس نے کپ سائیڈ پر رکھ دیا۔ 

زرلشتہ نے منہ ںسورا اب وہ رونے والی تھی کہ درمان ہی کیوں جیت جاتا ہے ہمیشہ۔ 

" جاۓ اب میں نے بات ہی نہیں کرنی۔ میں ناراض ہوں اب پکا والا۔ آپ نے تخفے کے نام پر چیٹنگ کی پہلے اور رہی سہی کسر اب پوری کردی۔ !! اب میں ناراض ہوں۔ بات نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں ۔۔!!!" 

زرلشتہ بیڈ سے نیچے اتری اور اپنے آنسو رگڑ کر ڈریسنگ روم چلی گئ۔ چاۓ سے زیادہ اسے دکھ تھا کہ درمان اسے بیوقوف بھی بنارہا ہے۔ اس کے جاتے ہی درمان نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

" تمہیں اب منانا ہی پڑے گا بٹرکپ۔۔!! ورنہ حالات مزید کشیدہ ہوجائیں گے۔!!مجھے ہی سیز فائر کا اعلان کرنا ہوگا ورنہ تم تو جنگ چاہتی ہو ہم دونوں کے درمیان۔۔!!' 

درمان بیڈ پر بیٹھ گیا زرلشتہ کے پیچھا جانا اسے مزید رلانے جیسا تھا۔ اسے اب اسے منانے کی تیاری کرنی تھی۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" دے آئ ہو مبارکباد ۔۔!! کیا کہا اس نے۔ اور یہ منہ پر بارہ کیوں بجے ہیں تمہارے ۔۔!! ٹھیک تو ہو نا ۔!!" 

معصومہ کو دیکھتے ہی فون سائیڈ پر کرکے فدیان اس کے پاس آیا ۔ جس نے حلق تر کیا۔ جو عزت افزائی وہ کروا کر آئ تھی فدیان کو بتانا مشکل تھا۔ پر بتانا تو تھا ہی۔

" وہ میں گی تو تھی ۔ پر آپی نے مجھے پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ میں نے بتایا کہ میں معصومہ ہوں فدیان کی بیوی۔ تو وہ کہتی ہیں کہ فدیان کو میری طرف سے شادی کی مبارکباد دے دینا کیونکہ ان کی شادی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اور کہنا کہ وہ جلدی چکر لگائیں گی۔ بس بیمار ساس اور سسر اور کھڑوس شوہر کو سنبھالنے میں وقت ہی نہیں ملتا انہیں۔ کہ کہیں اور چکر لگاسکیں ۔۔!!" 

اپنی عزت افزائی چھپاکر معصومہ نے بھی بات الگ انداز سے پیش کی جو سچ بھی تھی۔ اسے سن کر فدیان نے سوچا کہ زرلشتہ ایسا کیوں کہے گی۔ وہ تو جانتی ہے اس کی شادی کا۔ پھر اسے معصومہ پر ہی شک ہوا کہ اب کی بار مبارکباد علاقے کے کسی گھر میں تو نہیں دے آئ یہ۔ 

" معصومہ مبارکباد زرلشتہ کو دینی تھی۔۔!! لیکن تمہاری باتوں سے لگ رہا ہے کہ حویلی سے باہر نکلتے ہی جو لڑکی تمہیں پہلے دکھی تم نے اسے ہی مبارکباد دے کر کام ختم کیا۔ میری چھوٹی سی بیوی یہاں بیٹھو اور بتاؤ جسے تم نے مبارکباد دی وہ درمان لالہ کی بیوی ہی تھیں نا۔ یا بلی کے چکر میں تم زرلشتہ کی شکل ہی بھول گئ ہو۔۔!!' 

اسے شانوں سے تھام کر اس نے بیڈ پر لاکر بٹھادیا۔ پھر

اس کی دماغی حالت کا جائزہ لینے کے لیے اس نے ایک ایک۔ لفظ پر زور دے کر پوچھا امید طلب نظروں سے کہ وہ کہہ دے اسے زرلشتہ یاد ہے۔ معصومہ کو غصہ آیا اب۔ 

" میں زرلش آپی کے پاس ہی گئ تھی فدیان۔ میرئ یادداشت ٹھیک ہے بالکل ابھی تک تو۔ لیکن جیسے آپ مجھے پاگل سمجھ رہے ہیں نا آپ کی یادداشت پر مجھے شک ہورہا ہے۔ ہمارے کمرے سے کچھ کمرے دور ہی تو وہ ہیں ۔ میں روز ملتی ہوں ان سے۔ میں کیسے بھول سکتی ہوں انہیں ۔ !! حد کرتے ہیں آپ بھی ۔۔!"

اس کی عقل پر معصومہ نے افسوس کیا تو فدیان نے اب کی بار اس کی پچھلی بات کو دوبارہ سے سوچا۔ پھر کمرے میں بلی کے " میاؤں " کرنے کی آواز سے اسے سب سمجھ میں گیا۔ اس کے چہرے پر پہلے بے یقینی پھر مسکراہٹ ابھری۔ سارا معاملہ وہ سمجھ چکا تھا۔ 

" تو پھر تم اپنی خیر مناؤ معصومہ خانم۔ !! کیونکہ جو کچھ ابھی تم نے مجھے کچھ دیر پہلے بتایا ہے۔ اس سے مجھے خطرے کی  بو آرہی ہے۔ زرلشتہ کو میں پہلے سے جانتا ہوں۔اپنے دوستوں کو وہ کبھی نہیں بھولتی ساتھ ہی جو اس کی دوستی کو بھلا دے۔ وہ اسے کبھی چھوڑتی بھی نہیں۔۔!! تم اپنی انشورنس کروالو۔ کیونکہ عنقریب وہ تمہیں پاگل کرنے کی کوشش ضرور کرے گی۔ اور میں بیچارہ اس لڑکی کے سامنے نہیں بول سکتا۔ کیونکہ مجھے اپنی جان بہت پیاری یے۔ تم اپنی بلی کسی جگہ بند کرکے رکھ لو۔ یا خود اپنی حفاظت کرو وہ اعلانِ جنگ کرچکی ہے ۔!!" 

زرلشتہ کی حرکتیں پھر اس کی باتیں اور آخر میں اس کا غصہ یاد آتے ہی فدیان نے جھرجھری لی۔ وہ خود آج تک اس لڑکی کے سامنے نہیں ٹک سکا تھا تو معصومہ تو بچی تھی اس کے سامنے۔ وہ جس کے سامنے بڑے سے بڑے مکار بھی اپنے بال نوچتے تھے وہ بھی زرلشتہ کے سامنے ہار جاتا تھا۔ ایک تو اس کی معصومیت پھر اس کا غصہ وہ بھی الگ سٹائل میں ۔۔!! 

" کیسی جنگ ۔ !! میں نے کیا کیا ہے۔ میں تو اتنا پیار کرتی ہوں ان سے۔۔!! وہ مجھ سے کیوں ناراض ہوں گی ۔۔!!" 

اپنی حرکتیں معصومہ کو بھول گئی تھیں جب فدیان نے دانتوں کی نمائش کی۔

" یہ تو اسے اگنور کرنے سے پہلے سوچنا تھا نا۔ جب وہ تمہارے آگے پیچھے پھر رہی تھی تب سوچنا تھا تم نے۔۔!! جب جانتی ہو کہ وہ تم سے بہت پیار کرتی ہے تو تمہیں کل کی آئ بلی کے پیچھے اسے اگنور نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔!! اور مجھے تو دور ہی رکھنا اس دیوارانی، جیٹھانی کے مسئلوں سے۔ایویں ہی مجھے نا گھسیٹ دینا ۔۔!! اب بیٹھ کر سوچو کہ اسے منانا کیسے ہے۔ مدد چاہیے ہوئ تو پوچھ لینا۔ " 

وہ ششدر تھی کہ ایسا کیا ہوا جو زرلشتہ اس سے ناراض ہوگئ۔ تب فدیان نے اس کا چہرہ دیکھتے نفی میں سر کو جنبش دی اور چلا گیا۔ معصومہ کو ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے آخر ۔۔!! 

" پر مجھے کوئ یہ تو بتاۓ میں نے کیا کیا ہے ۔!!" 

معصومہ سوچتی ہی رہ گئ۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" یہ لوگ چاہتے کیا ہیں ہم سے آخر ۔۔!! کیا مسئلہ ہے انہیں۔۔کیوں ہمارے سکون کے دشمن بن گۓ ہیں یہ ۔!! " 

یونی کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ دیکھتے ہی وشہ کا پارہ ہائ ہوا۔ کیونکہ وہاں اس کا ونی ہونا ہی ڈسکس کیا جارہا تھا۔کچھ  سٹوڈنٹس حیران ہورہے تھے اس بات پر۔اور کچھ ہمدردی دکھارہے تھے کچھ کا کہنا تھا یہ قبائلی علاقوں کی جہالت ہے ۔ اور وشہ جیسی لڑکی جو اس قسم کے ٹرومے سے گزر رہی ہے اسے اب پڑھائ چھوڑ دینی چاہیے۔ جب وہ اپنے لیے نا لڑ سکی تو کسی کے لیے کیا خاک لڑے گی۔ 

وشہ نے فون سائیڈ پر پٹخ دیا۔ سر درد سے پھٹ رہا تھا اس کا اوپر سے یہ فضول نظریں جو آتے جاتے وہ محسوس کررہی تھی۔ سونیا نے اس کا تماشہ آخر کار بنا ہی دیا تھا۔ 

" یااللہ ہمیں صبر دے..!! یہ سب ہمیں پاگل کردیں گے ۔ بالکل پاگل۔ہمارا تماشہ بناکر انہیں تسکین مل رہی ہے۔ پر تو تو ہمارے حال سے واقف ہے نا۔ ہم کیسے منہ بند کریں ان لوگوں کا۔۔!!" 

اس نے آنکھیں میچیں پھر اپنی کن پٹی کی رگوں کو ہاتھ کی انگلیوں سے دبانے لگی۔ دور کھڑی سونیا نے اسے دیکھا تو چہرے پر مسکراہٹ دوڑی۔ 

" ابھی تو آغاز ہے وشہ میڈم ۔۔!! آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا۔۔۔!!"

" ساسوں ماں۔۔!! آپ نے میرے لیے سوپ بھیجا دلچسپ۔۔!!! ساتھ میں یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اب سے ہم ناشتہ اور رات کا کھانا اکٹھے کھایا کریں گے تاکہ ہمارے بیچ پیار بڑھے۔زبردست ۔!! یہیں بس نہیں ہوئ آپ نے اپنا خاندانی ہیروں کا ہار بھی مجھ پاگل کے گلے میں لٹکانے کے لیے بھیج دیا۔جس زیور پر آپ کو کسی کی نظر بھی نہیں تھی پسند اب وہ آپ مجھ ونی کو دے رہی ہیں۔ 

یا تو پوتے کی خبر سن کر آپ کو سچ میں شاک لگا ہے اور آپ  اپنے سارے گناہ بھول کر سدھر گئ ہیں۔ یا میں اپنی خراب طبیعت کی وجہ سے اس وقت کومہ میں ہوں اور یہ سب مجھے خواب میں دکھایا جارہا ہے ۔!! آپ کیسے سدھر گئ آخر کیسے۔ میں نہیں مان سکتی!!" 

زرلشتہ کی نظریں باؤل میں موجود سوپ پر تھیں جو ابھی ملازمہ اسے دے کر گئ تھیں۔ اسے یہ سب عجیب لگ رہا تھا پھر ان کا فیورٹ اور سب سے قیمتی ڈائمنڈ کا سیٹ جو انہوں نے مبارکباد میں اس کے لیے بھیجا تھا۔

 اسے لے کر تو وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی تھی۔ آخر کیا کرنا چاہ رہی تھیں شنایہ بیگم وہ سمجھ نہ سکی۔جب شنایہ بیگم جیسی خونخوار عورت آسانی سے سدھر جاۓ تو ایک عقلمند انسان بھی اس پر یقین نہیں کرے گا وہ تو پھر بھی زرلشتہ تھی۔ کیسے مان لیتی۔

" زر۔۔!! کیا دیکھ رہی ہو سوپ میں۔ یہ پینے کے لیے ملا ہے ڈوبنے کے لیے نہیں۔ جیسے تم دیکھ رہی ہونا یہ مرغی ابھی زندہ ہوجاۓ گی۔ اور خود کو ایسے گھورنے کا حساب مانگے گی۔ ابھی کھانے میں وقت ہے تو پی لو اسے۔ "

درمان فریش ہوکر ڈریسنگ روم سے نکلا تو صوفے پر بیٹھی زرلشتہ کے سامنے پڑا باؤل دیکھ کر اسنے اسے پینے کا اشارہ کیا۔ جس نے منہ بسورا۔

" مجھ سے نہیں پیا جارہا ہے سوپ۔ اچھی فیلنگ نہیں آرہی مجھے۔ یہ سوپ دیکھنے میں جتنا اچھا یے۔ میرا دل کہہ رہا ہے پینے کے بعد میرے ساتھ کچھ نہ کچھ برا ضرور ہوگا۔ تو میں نہیں پیوں گی اسے ۔۔!! "

 آنکھیں گھماتے ہوۓ زرلشتہ نے باؤل پڑے کھسا دیا۔ تو درمان نے اسے گھوری سے نوازا۔

" مورے نے اتنے دل سے بھجوایا ہے۔ وہ اب پیار کا ہاتھ بڑھاریی ہیں تو تم کیوں اکڑ دکھا رہی ہو۔ یہ صحیح تو ہے کیا مسئلہ ہے اس میں۔ تم بھی نہ بس الٹا ہی سوچتی رہتی ہو۔۔!!" 

درمان نے اسے ڈپٹا۔ جس کے تاثرات اب بھی ویسے ہی تھے۔

"تو پیار کا ہاتھ ہی بڑھارہی ہیں نا۔ خود تو نہیں نا بڑھ رہیں۔مت بھولیں ہاتھ کے ساتھ ہی کلائ ہوتی ہے۔ کلائ آستین سے ڈھکی ہوتی ہے اور اسی آستیں میں سانپ چھپاتے ہیں لوگ۔۔!! آستین کے سانپ جان لے لیتے ہیں اور سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ مجھے اپنا بےبی خود سے پیارا ہے۔ 

اس کے بارے میں کسی قسم کا کوئ رسک میں نہیں لوں گی۔ یہ ہاتھ وہ کچھ ٹائم پہلے بڑھادیتیں تو میں خوش ہوتی اس وقت۔ پر اب مجھے اپنے بےبی کی جان کی پرواہ ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے میں کسی پر بھی یقین نہیں کروں گی۔۔!!" 

زرلشتہ صوفے سے اٹھ گئ۔ اسے وہ سوپ نہیں پینا تھا تو اس نے نہ ہی پیا۔ البتہ اس کی عجیب و غریب باتیں درمان کا پارہ ضرور ہائ کرگئیں۔ 

" زرلشتہ وہ میری ماں ہیں۔ زبان سنبھال کر بات کیا کرو ان کے بارے میں۔ یہ آستین کا سانپ جیسے الفاظ ان کے لیے استعمال کرکے میرے غصے کو دعوت نہ دو۔ اگر تمہیں اپنا بچہ عزیز ہے تو میری ماں کو بھی میری خوشی عزیز ہے۔۔!! وہ اچھی ہورہی ہیں تو انہیں ہونے دو۔ خوامخواہ کے شک اور وہم کی وجہ سے ان کا دل خراب نہ کرنا تم۔۔!!" 

درمان نے دبی دبی غراہٹ میں کہا۔ تو زرلشتہ جو سکون سے کھڑی تھی ایک پل کے لیے اس کا دل بھی سہم گیا۔ درمان کافی عرصے کے بعد اس پر چیخا تھا۔ تو ڈر تو فطری تھا۔ اس کی فق ہوتی رنگت دیکھ کر درمان نے لب بھینچے۔ مٹھیاں بھینچ کر اس نے گہرا سانس خارج کیا۔ 

" س۔سوری ۔۔!! میں کچھ زیادہ ہی بول گئ۔ اب نہیں بولوں گی۔ " 

زرلشتہ نے آنسو روکنا چاہے۔ پہلے بھی ان دونوں کے بیچ اختلاف شنایہ بیگم کی وجہ سے تھے اب پھر سے وہی وجہ بن رہی تھیں۔ درمان چند قدم آگے آیا اور اس کے مقابل کھڑے ہوکر اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔ 

" زرلشتہ ..!!! تم بس زیادہ سوچ رہی ہو ہنی۔ مورے ایسا کچھ نہیں کریں گی اب۔ وہ سمجھ گئی ہیں کہ میری خوشی تم میں ہے۔ تمہیں نہیں پینا نا سوپ تو مت پیو۔ پر ان کی طرف سے اپنا دل خراب نہ کرو۔ وہ تمہیں قبول کررہی ہیں پلیز کچھ ایسا نہ کرنا کہ گھر کے حالات پھر سے خراب ہوجائیں۔۔!! بٹر کپ۔۔!! میں جانتا ہوں تمہیں ہمارے بےبی کی فکر ہے۔ پر انہیں بھی تو فکر ہے نا۔ ماۓ لو ۔!! بس تم ریلیکس رہو۔ اور یاد رکھو کچھ برا نہیں ہوگا۔۔!!"'

درمان نے اسے نرمی سے سمجھایا تو اس نے پلکیں جھپک کر ہاں کہا۔

اسے بھی اسے نارمل دیکھ کر سکون ملا۔ سوپ ویسے کا ویسا پڑا تھا۔ 

اب زرلشتہ ان پر یقین کرنا ہی نہیں چاہتی تھی تو کوئ چاہ کر بھی اسے مجبور نہیں کرسکتا تھا۔ درمان بھی نہیں ..!! 

 "  سوری بٹر فلاۓ۔۔!! ناراض نہ ہونا مجھ سے ۔۔!! ابھی انگوٹھی والی ناراضگی باقی ہے نا۔پہلے وہ تو دور کردوں میں پھر باقی باتیں سوچیں گے۔!!" 

درمان نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا تو اس نے سکون سے آنکھیں بند کیں۔ یہ سوچ اس کے ذہن میں گردش کررہی تھی۔ اسے الجھا رہی تھی۔

"شاید میں ہی غلط سمجھ رہی ہوں انہیں ۔۔!! شاید وہ واقعی بدل گئ ہوں۔۔!!" 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" خان جی۔۔!! آپ کیا پہلی بار شاپنگ پر گۓ تھے۔ میری ساری چیزیں تو پرفیکٹ ہیں جو جو چاہیے تھا اس سے زیادہ ہی لادیا آپ نے۔ میں تو حیران ہوں کہ میری چیزیں میری سوچ سے بھی اچھی کیسے لادیں آپ نے۔  پر یہ گروسری کے ساتھ کیا ظلم کیا ہے آپ نے۔ انڈے تو جیسے ڈائناسور کے ہیں۔ اتنے بڑے ۔۔۔!! یہ حلال بھی ہیں یا حرام اٹھا لاۓ ہیں۔ " 

 بہار نے اپنا سامان کمرے میں رکھ دیا تھا ساری چیزیں اس کے کپڑے ، جوتے سب پرفیکٹ تھا سائز بھی سیم تھا۔ پھر جونہی اس نے گروسری کا سامان نکالا اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ 

یشاور کچن سے بہار کی جھنجھلائ آواز سن کر وہاں آیا تو بہار نے اپنی ہتھیلی کے سائز کا انڈہ اس کے سامنے کیا۔ وہ کہیں سے بھی مرغی کا تو نہیں تھا۔ یشاور نے غور سے انڈہ دیکھا۔ 

" کیوں مس بہار ۔۔!! کیا مسئلہ ہے اس میں۔ کیا یہ پین میں فراۓ ہونے سے انکار کررہا ہے۔ یا اسے آملیٹ نہیں بننا۔ صحیح تو ہے ۔۔!!" 

یشاور نے انڈا پکڑا اور اسے گیند کی طرح اوپر اچھال کر کیچ کیا۔ بہار نے دانت پیسے۔

"پھر یہ گوشت کہیں سے بھی بکرے کا نہیں لگ رہا۔ مجھے تویہ کسی راہ چلتے کتے کا لگ رہا ہے۔ مرغی کا گوشت جیسے جمے ہوۓ خون میں نہایا ہوا ہے لگ رہا ہے مرغی نے خود کشی کی تھی۔ یہ حلال ہوئ مرغی کا گوشت ایسا تو نہیں ہوتا۔

 آٹا مجھے چھنا ہوا میدہ لگ رہا ہے۔ چینی اتنی باریک جیسے نمک ہو۔ نمک اتنا موٹا جیسے کان سے نہیں کسی پتھر کو رگڑنے سے نکلا ہو۔ لال مرچ سرخ پاؤڈر جیسی، ہلدی زہریلا رنگ، اور یہ باقی کے مصالحے بھی کسی کام کے نہیں ۔۔!! یشاور پیسے برباد کرآۓ ہیں آپ تو۔  کم از کم میں تو یہ انڈہ نہیں کھاؤں گی ۔۔!!" 

ایک ایک چیز بہار نے یشاور کے سامنے غصے سے پٹخی تو وہ بیچارہ تو اس کا غصہ دیکھ کر دنگ تھا۔ یہ غصہ بھی کرتی ہے وہ مسمرائز ہوا۔ آخر میں بہار نے انگلی اٹھا کر جیسے اعلان کیا کہ وہ یہ نہیں کھاۓ گی۔ یشاور مسکرایا اور اس کی وہی انگلی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا۔ 

"تو کیا کھانا ہے آپ نے ۔۔؟؟ جو کھانا ہے ہم ابھی وہی لے آئیں گے۔۔۔!!" 

یشاور کا دھیان اس کے چہرے پر تھا جہاں اچانک غصے کی بجاۓ کئی رنگ گھلے۔ بہار کی سانسیں بےہنگم ہوئیں۔۔یشاور کا محبت بھرا لہجہ اس کے دل میں طوفان لانے کا ہنر رکھتا تھا۔ اسے وہ اچھا لگتا تھا خود کو اہمیت دیتے ہوۓ۔ 

" رہنے دیں آپ۔ پھر سے کچھ الٹا ہی لے آئیں گے۔ پتہ نہیں کونسی جگہ گۓ تھے شاپنگ کرنے کے لیے۔ ہم بھلے پاکستان میں رہتے ہیں پر آۓ دن ٹی وی میں خبریں بھی تو چلتی ہیں نا۔ گدھے، گھوڑے کے گوشت کی ۔!! دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ کہیں رات میں آپ بکرے کا سالن کھاکر سوئیں اور صبح لان میں جاکر گھاس کھانے لگیں کسی گدھے کی طرح تو۔ تو نقصان تو آپ کا ہی ہوگا نا۔ اچھا نا ہاتھ تو چھوڑیں ۔۔!!" 

بہار نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں نامعلوم سی ہنسی تھی۔ وہ کنفیوژ ہوئ اور اس نے بات سنبھلنا چاہی۔ یشاور نے اس کی انگلی چھوڑ کر اس کا ہاتھ پکڑا۔ جو اس نے چھڑوانا چاہا۔

" بڑی فکر نہیں ہونے لگی آپ کو میری۔۔!!! ویسے یہ کل سے سورج کونسی سائیڈ سے نکل رہا ہے جو آپ کے ان گنت رنگ مجھ بیچارے کو دیکھنے پڑرے ہیں حیریت تو ہے نا۔۔!!"

یشاور کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکھ کر بہار نے اٹکتا سانس کھینچا۔ وہیں یشاور نے اس کی کلائی پر بریسلیٹ بندھا دیکھا تھا۔ وہ جب اسے ملی تھی تب بھی اس کی کلائی پر یہ موجود تھا۔ بہار کوشش کررہی تھی اسے قبول کرنے کی پر مشکل تھا یہ ابھی۔

" آ۔آپ کھانا باہر سے م۔منگوالیں۔ ملازمہ صفائ کرگئ تھی۔ پ۔پر کھانا خود ہی بنانا تھا مجھے۔ پ۔پر اب نہیں بنایا جاۓ گا ۔۔!!" 

 بہار نے ایک ہاتھ سلیب پر رکھا۔ اور گہرا سانس لیا۔ کچھ عرصے پہلے جو قیامت گزری تھی اس کے کچھ مناظر اس کے ذہن کے پردوں پر لہراۓ۔ تو اس کا ہاتھ بھی لرزا۔ یشاور نے اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کیں جہاں خوف کا سایہ تھا۔ تبھی آرام سے اس نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ تو بہار نے کانپتے ہاتھ سے اپنی گردن پر چمکتا پسینہ صاف کیا۔ اس کی حالت عجیب ہورہی تھی۔

" مس بہار آر یو اوکے ۔۔!! اچھا آپ روم میں جائیں۔ کھانا میں آرڈر کردوں گا۔ گروسری کے سامان میں جو آپ کو نہیں پسند وہ ہم بعد میں ارینج کرلیں گے۔ آپ پلیز جائیں ۔۔!!" 

یشاور نے فورا کچن میں رکھے چھوٹے سے ڈائنینگ ٹیبل پر پڑے گلاس میں پانی انڈیلا اور  اس کی جانب بڑھا دیا جس نے کانپتے ہاتھوں سے پکڑ کر اسے پینے کی کوشش کی۔ اس دوران بھی وہ پوری طرح کانپ رہی تھی۔ اسے ایڈجیسٹ ہونے میں وقت لگنا تھا۔ اور یشاور کو انتظار تھا کہ کب وہ نارمل ہوگی۔ یشاور نے اسے جانے کو کہا تو سر ہاں میں ہلاکر وہ فورا وہاں سے چلی گئ۔ 

" بہار بےفکر رہیں ۔۔!! آپ کی حالت کے ذمہ دار لوگ میرے شکنجے سے بچ نہیں پائیں گے۔ وعدہ رہا جلد ان فرعون صفت حیوانوں کو آپ کے قدموں میں لاپھینکوں گا۔ اس دن مجھے آپ کا محافظ کہلانے کا صحیح معنوں میں اختیار حاصل ہوگا۔۔!! بس چند دن صبر کریں۔ میں سب سنبھال لوں گا۔ آپ کے گھر والوں کی قبروں کا نشان تو مل گیا ہے۔ بس وہ درندے مل جائیں تو آپ کا بدلہ پورا ہوجاۓ گا۔!!'

یشاور نے دور جاتی بہار کی سمت دیکھا تو آنکھوں میں تکلیف ابھری۔ وہ پہلے دن سے اسی کے مجرموں کی تلاش میں تھا پر اپنے ریسورسز سے۔ اس بارے میں ہمیشہ کی طرح بس بادل کو پتہ تھا اور وہ بھی لاتعلق بنا تھا جیسے وہ بھی چاہتا تھا یشاور اپنے باپ کی اصلیت تک خود پہنچے۔ اس کے پرانے آدمی انہی لوگوں کی تلاش میں تھے جو اس سیاہ رات بہار کے گھر کی جانب گۓ تھے۔ پہلے تو اسے اس کے گھر کو ڈھونڈنے میں مشکل ہوئ۔ کیونکہ اسے تب بہار کا نام بھی نہیں پتہ تھا۔

پھر مشکل سے گھر ڈھونڈنے پر آس پاس کے لوگوں سے پتہ چلا کہ بہار کے گھر والے راتوں رات علاقہ چھوڑ کر چلے گۓ ہیں۔ کہاں گۓ کوئ نہیں جانتا۔اس نے مزید معلومات نکلوائیں تو ایک ادھیڑ عمر کے شخص سے اسے پتہ چلا کہ اس رات علاقے سے دور ایک ویران گھر کی سمت اس نے چند لوگوں کو جاتے دیکھا تھا جو سالوں سے بند یے۔ وہ بوریوں میں بند کوئ شے دفنا بھی رہے تھے وہاں۔ اس نے وہاں جاکر دیکھا تو توقع کے مطابق سچ میں کچھ دفنایا گیا تھا۔ 

ابھی کچھ دن پہلے ہی بہار سے چھپ کر اس نے پہلے تو وہ لاشیں نکلوائیں پھر شرعی طریقے سے نمازِ جنازہ ادا کرکے انہیں قبرستان میں دفنوادیا۔ یہ سب انتہائ راز داری سے کیا اس نے۔ کہیں کسی دشمن کو بھنک نہ پڑجاۓ۔ اس نے اس بارے میں بہار کو کچھ نہ بتایا کیونکہ جو حالت اس کے گھر والوں کی تھی وہ دیکھتی تو جی نہ پاتی۔ 

" جلد سب ٹھیک ہوجاۓ گا بہار ..!!! سب ٹھیک ہوجاۓ گا ..!!" 

یشاور نے عزم سے کہا ۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ جلد دلاور اپنے انجام کو پہنچ جاتا لیکن تب تک ناجانے وہ مزید کتنوں کو تباہ کرتا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"کتنے تمیز دار لوگ ہیں یہ سب۔۔!! کتنی خاموشی سے کھانا کھارہے ہیں۔ جیسے سکون سالوں بعد ملا ہو انہیں ۔۔!! سسر جی کو تو دیکھو دوسری پلیٹ ہے بریانی کی اب تک پیشانی پر سلوٹ نہیں آئ ان کی۔ یہ نہیں کہ برابر میں بیٹھی اپنی بیوی پر چیخ ہی دیں کہ عورتیں مردوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتیں۔ یا انہیں کہیں کہ کھانے میں نمک زیادہ ہے۔ کوئ پلیٹ ہی توڑدیں۔ نہ جی کسی کو خیال ہی نہیں کہ ہماری خاندانی روایات کا مزاق بن رہا ہے اس وقت ۔۔!! مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا اب ۔۔!!" 

زرلشتہ نے ٹیبل پر چھائ خاموشی کو دیکھ کر ناک پھلائ۔ بھلا ایسے بھی کوئ کھانا کھاتا یے۔ کتنے روکھے تھے اس گھر کے لوگ۔ مبارکباد بھی دینے آۓ تھے تو سر پر ہاتھ رکھا اور یہ جا وہ جا۔ 

" آغا جان ۔۔!! آپ کی اپنی نمک کی کوئ کان ہے کیا ۔۔!! یا نمک بنانے والی کوئ فیکٹری ۔۔!!' 

دراب آفریدی کے کان کھڑے ہوۓ انہوں نے اس کی سمت دیکھا۔

" نہیں بیٹا ۔۔!! ہمارے پاس نمک کی توکوئی کان نہیں۔ البتہ یہ دو کان ہیں ہمارے پاس۔ جس سے ہم نے آپ کی بات سنی۔ اس کے علاؤہ کسی نمک ، سونے یا ہیرے کی کان سے ہمارا کوئ تعلق نہیں ۔۔!!" 

انہوں نے نرمی سے جواب دیا۔ تو زرلشتہ نے سمجھ کر سر ہاں میں ہلادیا۔ 

" تو آپ کے کسی دوست کی کوئ کان ہو۔ یا کہیں سے اس گھر میں مفت کا نمک آتا ہو۔ " 

بات زرلشتہ نے آگے بڑھائ تو اس دفعہ درمان نے بھی اپنے ساتھ بیٹھی زرلشتہ کو دیکھا۔ وہ کیا پوچھنا چاہتی تھی اخر۔ 

" نہیں بیٹا ۔۔!! ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہمارے کسی دوست کا تعلق بھی کسی کان سے نہیں ہے۔ پر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ۔۔!!" 

انہوں نے مکمل توجہ اس پر مبذول کی۔

" تو یقینا آپ کی مسز آپ کے کانون سے ہی نمک نکالتی ہوں گی۔ تبھی تو مفت کا مال سمجھ کر انہوں نے کسی کی کان کا نمک اس بریانی میں انڈیلا ہے۔ توبہ اتنا نمک۔۔!! میرا توگلا ہی جل گیا" 

اس نے پلیٹ کی طرف اشارہ کیا تو ٹیبل پر بیٹھے سارے کے سارے نفوس کو اچانک ہی اچھوکا لگا۔ کھانے کے وقت کیسی عجیب بات کی تھی اس نے۔ فدیان کو تو ابکائ آتے آتے رہ گئ۔ 

شنایہ بیگم بھی حیران تھیں یہ کیا شوشا چھوڑا ہے زرلشتہ نے آخر۔ 

" استغفرُللہ..!! آپی کھانے کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کرتے گناہ ملتا ہے ۔!! کھانا ٹھیک تو ہے۔ کوئ نمک نہیں ہے اس میں ۔۔!!" 

معصومہ نے فورا کہا تو اب کی بار زرلشتہ نے آنکھیں پٹپٹاکر اسے دیکھا کہ محترمہ آپ کو بلی سے فرصت مل گئ جو یہاں ہی آکر بیٹھ گئ ہیں آپ۔ 

"محترمہ آپ ہیں کون۔ مجھے تو یاد ہی نہیں آرہا۔ جب سے آپ کو دیکھا ہے آپ آپی, آپی کی رٹ لگارہی ہیں۔ پڑوسیوں کی بچی ہیں نہ آپ۔ چینی مانگنے آئ تھیں اور اب کھانا کھانے رک گئ ہیں۔ یہ لیں آپ سلاد بھی لیں ۔۔!!" 

زرلشتہ نے اداکاری کی حد کردی اٹھ  کر اپنے سامنے رکھی سلاد کی ٹرے یوں معصومہ کو دی جیسے وہ اب بھی اسے نہ جانتی ہو۔زرلشتہ کے ارادے اچھے نہیں تھے۔ فدیان کے چہرے پر دبی دبی ہنسی تھی۔ معصومہ کی ہورہی عزت افزائی کی وجہ سے۔ 

" زرلشتہ بچے ۔۔!! کیا ہوا آپ کو کھانا اچھا نہیں لگا کیا۔ نہیں لگا تو میں کچھ اور منگوالیتی ہوں۔ ایسا ہوتا ہے ایسی حالت میں۔ آپ کا یہ کھانے کا دل نہیں کررہا تو نہ کھائیں۔ زبردستی نہیں ہے ۔!!" 

اچانک ہی شنایہ بیگم نے مسکرا کر اسے مخاطب کیا تو زرلشتہ کے ہاتھ میں پکڑی سلاد کی پلیٹ جو وہ معصومہ کو دے رہی تھی وہ اس کے ہاتھ سے چھوٹی اور قورمے کے برتن پر الٹ گی۔ ٹرے جگ سے ٹکرائی اور خیر سے پورا پانی کا جگ ٹیبل پر گرنے سے خالی ہوگیا۔ پانی کی دھاڑ سیدھا فدیان کی گود تک پہنچی اور وہ اچھل کر کرسی سے اٹھا اسے دوران ہاتھ لگنے سے وہ وہاں رکھی پلیٹیں بھیی گرا چکا تھا۔ تھوڑا سا قورمہ زرلشتہ کے ہاتھ پر بھی گرا۔ پر اسے فیل نہ ہوا۔

" تم ٹھیک تو ہو زرلشتہ ۔۔!! کہیں لگی تو نہیں ۔۔!!" 

درمان اسی لمحے کھڑا ہوا اور زرلشتہ کا رخ اپنی جانب کیا۔ جو یوں کھڑی تھی جیسے ابھی کے ابھی اس کی جان نکلے گی۔ 

" میری آخری خواہش پوری ہوگئ درمان ۔۔!! مجھے جی بھر کر دیکھ لیں۔ قیامت کے دن آپ تو حساب دیتے ہی خوار ہوجاییں گے جنت میں مجھ تک پہنچنے میں وقت ہی بہت لگ جاۓ گا۔ درمان میں مرنےوالی ہوں۔ " 

درمان اس کے ٹشو سے صاف کر رہا تھا جب اس کی حیرت سے ڈوبی آواز اسے سنائ دی۔ 

" اللہ نہ کرے ۔۔!!" 

چار نفوس کے لبوں سے ایک ساتھ یہی فقرہ نکلا تھا۔

درمان, فدیان، دراب آفریدی اور معصومہ ۔۔!! جبکہ شنایہ بیگم تو ٹیبل پر بکھرا پھیلاوا دیکھ رہی تھیں۔ 

" درمان آپ نے سنا ساسوں ماں کو میری فکر ہورہی تھی انہوں نے مجھے آپ کہا۔ مجھے یعنی زرلشتہ درمان آفریدی کو آپ کہا انہوں نے ۔۔!! اس کے بعد کوئ خواہش بچی ہی نہیں اب۔ ویسے ساسوں ماں آج کل کونسا ڈرامہ دیکھ رہی ہیں۔ پاکستان کا تو نہیں دیکھ رہیں ۔ پھر کہاں کا دیکھ رہی ہیں۔ !! اتنی اچھی ساس ۔۔!!" 

اپنا ہاتھ اس نے چھڑوایا پھر گھوم کر شنایہ بیگم تو دیکھا۔ جو سٹپٹا گئیں کہ اس لڑکی کو عزت راس ہی نہیں آتی۔ دراب آفریدی مسکراۓ۔ شنایہ بیگم کو ستانا کوئ اس سے سیکھتا۔ 

" زرلشتہ زیادہ ہورہا ہے اب ۔۔!! کیوں تنگ کررہی ہو انہیں ۔۔!! چلو بیٹھ کر کھا لو کھانا۔ پھر ساری رات بکریوں کی طرح میں میں کرتی رہو گی۔۔!! " 

درمان نے اسے گھورا تو وہ لب بھینچ کر کرسی پر بیٹھ گئ۔

 اس دوران معصومہ فدیان کی حالت دیکھ رہی تھی جس بیچارے کے دامن پر پانی کے ساتھ قورمے کے داغ بھی لگے تھے۔

" آپ کا دامن تو داغدار ہوگیا فاد بھائ۔ !! اب یہ معاشرہ آپ کو کیسے قبول کرے گا۔۔!! آغا جان دیکھ لیں اپنے بیٹے کے کرتوت اور پوچھیں ان سے کہاں سے دامن پر داغ لگوایا ہے انہوں نے۔ مانا داغ اچھے ہوتے ہیں پر اس کا مطلب نہیں کہ ایک داغ دار دامن والے بندے کو ہم قبول کرلیں۔ جب یہ معاشرہ ایک لڑکی کے دامن پر داغ برداشت نہیں کرتا تو اصولا تو اب فاد بھائ کو عاق کردینا چاہیے آپ کو ۔!!" 

اس کی زبان پر پھر سے خارش ہوئ تو درمان نے سر پکڑا۔ وہیں سب لوگوں کی نظریں اب فدیان پر تھیں جس کے سفید کرتے پر پانی اور قورمے کے دھبے تھے۔ فدیان بوکھلایا۔ یہ زرلشتہ اب اسے کیوں گھسیٹ رہی تھی بیچ میں۔

" یہ تمہارے دامن پر داغ کیسے لگے ہیں فدیان ۔۔!! اب میں لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گا میرے بیٹے کا دامن تو صاف نہیں رہا ۔۔!! تم نے ہماری پلیٹیں توڑ کر اچھا نہیں کیا۔۔!! ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے تم نے ۔۔!!" 

دراب آفریدی نے بھی زرلشتہ کی ہاں میں ہاں ملائی تو اپنے سنجیدہ باپ کو اپنی غیر سنجیدہ بیوی کی سائیڈ لیتا دیکھ کر درمان نے بےبسی سے سانس خارج کیا۔

" بابا یہ آپ کی اسی بہو کا کہا دھرا ہے۔ ٹیبل پر زلزلہ لاکر مجھ بیچارے پر پانی اور سالن گرا کر ایسے بیٹھی ہے جیسے اس معصوم کو تو کچھ پتہ ہی نہ ہو۔ اوپر سے آپ بھی اسی کی ہی سائیڈ لے رہے ہیں۔ " 

منہ بناکر فدیان دوسری کرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔ 

تب زرلشتہ نے جمائ روکی۔ 

" ساسوں ماں وہ میں کہہ رہی تھی کہ یہ جو آپ نے ہار پہنا ہے کتنے کا ہوگا۔۔!!" 

درمان نے اس کی پلیٹ میں وہاں رکھے دوسرے باؤل سے میٹھا نکال کر ڈالا تاکہ وہ کھالے۔ جو اس نے دو چمچ ہی کھایا تھا جب اسے شنایہ بیگم کا ہار دکھا۔ 

" جب بنوایا تھا تب بیس سے تیس لاکھ کا تھا۔ اب ہوگیا ہوگا ساٹھ ستر لاکھ کا۔ اس میں ہیرے لگے ہیں نایاب قسم کے۔ بہت مہنگا ہے یہ۔ دس سال پہلے بنوایا تھا۔ مجھے بہت پسند ہے یہ ۔۔!!" 

اس کے پوچھنے کی دیر تھی جب شنایہ بیگم ہنسنے لگیں زیور کا تو انہیں ہمیشہ سے ہی بڑا شوق تھا۔ ان کے پاس سچ میں ان گنت سیٹ تھے۔ 

زرلشتہ نے ہممم کہا پھر معصومہ کی جانب دیکھا جو انگلیاں مروڑ رہی تھی۔

" اس نام کی معصومہ کا کہنا ہے یہ فاد بھائ کی بیوی ہے ۔۔!! کیوں فاد بھائ یہ بیوی ہی ہے نا آپ کی۔ آپ کی کیا راۓ ہے اس بارے میں ۔۔!!" 

دونوں کہنیاں اس نے ٹیبل پر رکھیں پھر فدیان سے کسی رپورٹر کی طرح پوچھا جس نے مظلوم صورت بنائی۔ 

" بلی آنے تک تو یہ میری ہی بیوی تھی۔ پر بلی کے بعد میں اس کا شوہر ہوں۔ یہ سیچوئیشن ہے تو عجیب سی ہی پر یہی سچ ہے۔ اسے میں بھی یاد نہیں اب ۔مجھ مظلوم کی تکلیف کون سمجھے جس نے اپنے نصیب پر بلی ماری ہے۔۔!!" 

اس نے 'آہ' بھری تو معصومہ نے دانت پیسے کیسے دھڑلے سے وہ بیوی کی بلی کی برائ کررہا تھا۔ زرلشتہ نے یوں سر کو نفی میں ہلایا جیسے اس کا دکھ اسے بھی پتہ ہو۔

" یعنی آپ بھی بلی کے ستاۓ ہوۓ ہیں۔ آپ کے کرتوت ہی ایسے تھے۔ آج نہیں تو کل آپ کے گھر کے بیچ کسی بلی نے ہی چھلانگ لگانی تھی۔ خیر آپ کی معصوم صورت سے انداز ہوگیا مجھے کہ آپ ہی وہ مظلوم انسان ہیں جو اس ۔۔!! اس لڑکی کے شویر ہیں۔۔" 

وہ لمحےمیں کھڑی ہوئ اور اونچی آواز میں معصومہ کو پوائنٹ آؤٹ کرنے لگی۔ جو بیچاری اس افتادہ پر سہم کر کرسی سے لگی۔ ہال میں خاموشی چھائی تو زرلشتہ نے اب کی بار شنایہ بیگم کو پیار سے دیکھا۔ 

" تو ساسوں ماں سارا پیار میرے اوپر کیوں لٹارہی ہیں   اس بچی ہر بھی نظرِ کرم ڈالیں اور جو ہار آپ کے گلے میں ہے اسے بھی اتار کر اس کے گلے میں ڈال دیں۔ مجھے بالکل نہیں پتہ کہ یہ بچی کون ہے۔ پر آپ دیں دیں اسے ہار ۔۔!! اگر آپ اچھی ہوگئ ہیں تو پلیز توازن سے چلیں ۔۔!! میں بربادی آئ میں برابری کی قائل ہوں۔ اسے بھی ہار دیں۔۔!!" 

وہ جو کرنا چاہتی تھی سب سمجھ گۓ زرلشتہ خود ہی ان کے پاس آئ اور ہاتھ آگے کرکے ان کا پسندیدہ لاکھوں کا ہار مانگا جو بیچاری اب بت بن گئ تھیں۔

" دے دو شنایہ ۔۔!! بچی مانگ رہی ہے ہار تو اسے انکار نہ کرو ۔۔۔!!"

انہوں نے ہار پر ہاتھ رکھا تو دراب آفریدی نے انہیں حکم سنایا۔ یہ کھانے کا کہنا تو انہیں لاکھوں کے حسارے میں ڈال گیا تھا۔ چار و ناچار انہوں نے ہار اتار کر زرلشتہ کے ہاتھ میں رکھا جس نے وہ ہار جاکر معصومہ کو پہننے کو دے دیا۔ 

معصومہ حیران تھی کہ ایک طرف وہ اسے جانتی ہی نہیں تو دوسری طرف اتنا مہنگا ہار وہ اس کے لیے لے ائ۔ درمان خاموش تماشائی بنا بیٹھا تھا جو وہ کرتی پھررہی تھی وہ بھی نہیں روک سکتا تھا اسے۔

" آپی ۔ !! آپ کو میں یاد آگئ ۔۔!! میں معصومہ ہوں ۔۔!!" 

اس نے ہار اسے دیا تو معصومہ نے پھر سے پوچھا۔ 

" کون معصومہ ۔۔!! میں نہیں جانتی۔۔!! " 

زرلشتہ مسکرائ۔ ایک پراسرار سی مسکراہٹ۔تو معصومہ رونی صورت بناکر رہ گئ۔ 

سب کو ہلا کر اب زرلشتہ کی روح تک میں سکون اتر چکا تھا۔ اب اسے پتہ لگا تھا کہ گھر میں سب نے اکٹھے کھانا کھایا ہے۔ خیر سے یہاں بیٹھا ایک ایک بندہ اب اس کھانے کو یاد ضرور رکھتا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" وشہ ۔۔!!" 

بیڈ پر گم سم بیٹھی وشہ کو کب سے دیکھتے دیار نے آخر چپ توڑی۔ وہ اسے الجھی الجھی لگی تھی۔ جب سے یونی سے آئ تھی چپ ہی بیٹھی تھی۔ وشہ اب بھی سامنے کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔

" جانم ۔۔!! کیا ہوا ہے آپ کو۔ آپ کی زبان آج بند کیوں ہے۔ کب سے میں آپ کو دیکھ رہا ہوں بقول آپ کے تاڑ رہا ہوں اور آپ نے ایک دفعہ بھی مجھے نہیں گھورا۔۔!! سب خیریت تو ہے نا ۔۔!!" 

وہ اب بھی چپ تھی جب دیار خود ہی بیڈ پر اس کے قریب آکھڑا ہوا اور اس کے گال کو دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے چھوا۔ تو وہ جو خیالوں میں گم تھی اس لمس ہر چونک کر اسے دیکھنے لگی۔ آنکھوں میں جو درد تھا اس نے اسی وقت چھپا لیا۔ 

" کیا ہوا ہے دیار ۔۔!! آپ کو کوئ کام تھا کیا ہم سے۔" 

وشہ نے آواز کو حتی الامکان نارمل رکھا۔ آنکھیں اس نے دیار سے چرائ تھیں۔ تب لب بھینچ کر دیار نے اس کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اپنی جانب موڑا۔ اس کی سوجھی آنکھیں، ان کے نیچے ہلقے پھر زرد سی رنگت وہ اسے تکلیف میں لگی۔ پر افسوس وہ آج بھی اسے کچھ نہ بتاتی۔ 

" پہلے جیسے میرے سارے کام آپ ہی کرتی ہیں۔ زرا جگہ بنائیں۔ یہ بیڈ میرا بھی تھا مجھے بھی اس پر بیٹھنے کا شرف بخش دیں۔ صوفے پر بیٹھ بیٹھ کر مجھے تو اس بیڈ کی اہمیت پتہ چل گی ہے۔نعمت یے یہ نعمت۔!!" 

شرارت سے اس کا گال کھینچ کر دیار نے اسے سائیڈ پر ہونے کو کہا تو وہ توقع کے برعکس ہو بھی گئ۔ اس کا ابھی لڑنے کا ارادہ نہیں تھا تو اس نے بات ماننے میں ہی عافیت جانی۔

" طعنہ ہی دینا ہے آپ نے دے لیں۔ ایک آپ ہی تو بچے ہیں جو باتیں نہیں سنارہے۔ آپ بھی سنالیں ۔۔!!" 

وشہ نے سوچا۔ لیکن کہا کچھ نہیں۔ دیار نے وہیں بیٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اس بار بھی وہ چپ ہی تھی۔ اس کا یخ بستہ ہاتھ جو پسینے سے تر تھا۔ اسے لگا کہ کچھ تو ایسا ہے جو اس کی جانم کا سکون چھین گیا ہے پر کیا۔۔!!

"طبیعت زیادہ خراب لگ رہی ہے آپ کی۔میری مانیں تو ہاسپٹل چلیں۔۔۔!! آپ کی زبان کا چیک اپ کروانا پڑے گا کہیں ڈیمج تو نہیں ہوگئ۔ آپ آج بول نہیں رہیں۔ سٹرینج۔۔!!" 

اس کا ہاتھ اس نے دونوں ہاتھوں کے بیچ کیا۔ تو اب کی بار وشہ میں پرانی وشہ کی روح واپس سے آئ۔ اس نے دیار کو گھورا۔

" آپ کو بیٹھنے کی اجازت دی ہے ہم نے۔ فری ہونے کی نہیں دی۔ کچھ زیادہ ہی فری نہیں ہورہے آپ ہم سے۔۔!! چھچھوڑ پن باہر چھوڑ کر آیا کریں۔ کب سے تاڑ رہے ہیں ہمیں ہم چپ ہیں تو مطلب یہ نہیں یہ چھچھوڑ پن کی اجازت مل گئ ہے آپ کو۔ تھوڑی سی عزت دے رہے ہیں تو لے لیں۔ ورنہ پھر سے ذلیل کرکے یہاں سے بھی اٹھائیں گے ہم آپ کو۔۔!!" 

ہرنی جیسی آنکھوں میں وارننگ تھی۔ دیار نے سکون کا سانس لیا کہ وہ ٹھیک ہے۔ عجیب ہی بندہ تھا وہ بھی۔بیوی منہ نہیں لگارہی تھی اس بات پر بھی مطمئن تھا۔ 

"چھچھوڑ پن دروازے پر ہی چھوڑ کر جاتا ہوں میں۔ قسم لے لیں آپ کے علاؤہ کبھی کسی کو دیکھا بھی نہیں۔ شرافت سے سارا دن گزار کر رات کو آتے ہی دروازے سے چھچھوڑا پن واپس لیتا ہوں اور آپ کے پاس آجاتا ہوں۔۔!! اچھا بتائیں کسی نے کچھ کہا ہے کیا آپ کو۔ یونی میں کوئ مسئلہ ہوا ہے کیا۔ یا کسی نے مس بیہیو کیا ہے ۔۔!! مجھے بتاسکتی ہیں آپ۔۔!!" 

اس کا ہاتھ دیار نے مضبوطی سے تھاما تو وشہ کی بے چین روح کو تسکین ملی۔ اس کی آنکھیں جو پچھلی کئ راتوں سے بس چند گھنٹے ہی سوئ تھیں ان میں نیند کا خمار اترا۔ 

" ہمیں کوئ کچھ کہہ سکتا ہے کیا۔ بس نیند نہیں آرہی تھی پڑھائ کی وجہ سے۔ چھٹیوں کی وجہ سے پڑھائ کا بوجھ بس بڑھ گیا ہے تو ہمیں رات میں بھی پڑھنا پڑتا ہے۔ اور کوئ بات نہیں ہے۔ " 

اس نے گہرا سانس خارج کیا۔ جو سکون اب دیار نے وشہ کے چہرے پر دیکھا تھا وہ بھی سمجھ گیا کہ وہ دن دور نہیں اب جب وشہ اسے خود قبول کرے گی۔ جب انسان کو کسی سے محبت ہونے لگے تو اس کی قربت سکون دیتی ہے۔ اس کا ساتھ انسان کو مضبوط کرتا ہے۔ 

دیار کہاں جانتا تھا یہ لڑکی تو عشق کرتی ہے اس سے۔ بس قسمت سے ڈر کر دور رہنے میں اس نے عافیت جانی ہے۔ 

" اتنی سی بات تھی بس اور آپ نے مجھے بتایا بھی نہیں۔ جانم اتنا نہ پڑھیں بعد میں سنبھالنے تو آپ نے ہمارے بچے ہی ہیں نا۔ آپ کو بس آپ کا شوق پورا کرنے کے لیے پڑھائ کی اجازت دی ہے۔ بعد میں عدالتوں کے دھکے نہیں کھانے آپ نے۔ " 

اس کا حال دیکھ کر دیار کو اب سچ میں غصہ آیا تھا جب اس کی بات سن کر وشہ نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالا۔ 

" آپ کو نہ فضول باتیں کرنی ہیں بس۔۔!!! زرلش سے ملنے کے لیے تو آپ ہمیں لے کر نہیں گۓ۔ بس باتیں کروالیں ہم آپ سے۔۔!! اور ابھی ہمارا موڈ نہیں ہے آپ سے الجھنے کا۔ باقی باتیں سنبھال کر رکھیں بعد میں لڑیں گے ۔اب یہاں بیٹھ ہی گۓ ہیں تو منہ بند کرکے بیٹھے رہیں اور ہمیں سلائیں۔ !! تاکہ آپ کا دھیان فضول باتوں سے باہر نکل آۓ۔۔!!" 

وشہ واپس سے اپنی شیرنی والی لک میں واپس آگئ۔ تو دیار نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوۓ اپنے ہاتھ کھڑے کیے۔ اسے مرعوب ہوتا دیکھ کر  وشہ نے اسے حکم دیا تھا۔ دیار نے معصوم سی صورت بنائ۔ تو وشہ اس کے ہی سینے سے سر ٹکاکر آنکھیں موند گئ۔پہلے تو وہ چونک گیا وہ پہلے بھی اس کے پاس تب ہی آئ تھی جب تکلیف برداشت سے باہر تھی اب بھی وہ پاس آئ تھی تو مطلب وہ تکلیف میں تھی۔

دیار نے اس کی توقع کے مطابق اسے اپنے حصار میں قید کیا۔ 

" ملکہ عالیہ اور کوئ حکم ہے تو بتادیں ۔۔!! مجھ بیچارے کو تو سچ والا غلام بنالیا ہے آپ نے۔ خیر ہے کوئ بات نہیں اس کا معاوضہ آپ سے بعد میں لے لوں گا میں ۔۔!!!" 

 ایک ہاتھ اس کے گرد لپیٹ کر دوسرے سے اس نے اس کا سر سہلایا۔ جس کے دماغ کی الجھنوں میں اب کچھ حد تک کمی آئ تھی۔ 

"سوچ ہے آپ کی کہ اس دفعہ ہم ریڈ کلر کا ڈریس پہن کر آپ کے سامنے بیٹھ جائیں گے۔ نہیں ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔!! "

اس نے واضح لفظوں میں کہا۔ تو اس کے سر پر بوسہ دے کر دیار نے آہ بھری۔ 

" ہاں مجھ معصوم کے سارے ارمان دیوار سے لگاتی جائیں۔ یہی تو کرتی ہیں نا آپ ۔۔!!"

اس نے شکایت کی ۔ وہ یوں بیٹھے تھے جیسے سچ میں ایک عام میاں بیوی کی طرح ان میں بھی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو۔ وہ چوہے بلی والی لڑائی لڑتے ہی نہ ہوں۔

"ویسے دیار کیا ونی ہونے کے بعد لڑکی سے عام انسانوں کی طرح جینے کا حق چھین لینا صحیح ہے ۔۔!! کیا ایسا کرنا چاہیے لوگوں کو " 

  کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد وشہ نے مدھم سی آواز میں پوچھا تو وہ حیران ہوا۔ پیشانی پر سلوٹیں ابھریں۔

" نہیں ۔۔!!! بالکل نہیں ۔۔۔!! ونی وغیرہ کچھ نہیں ہوتی۔ یہ انسانوں کے بنائے گھٹیا قانون ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اہمیت بس نکاح کی ہوتی ہے۔ اور آپ خود لاء کی سٹوڈنٹ ہیں ایسی عجیب بات آپ نے سوچی بھی کیوں ۔۔!! 

مت سوچا کریں یہ سب ۔۔!! آپ ونی نہیں ہیں بیوی ہیں میری۔۔!! " 

دیار نے اسے سمجھایا پر وہ تو سوچکی تھی۔ اس کی ہلکی بھاری سانسوں کی آواز سن کر اسے اندازا ہوا کہ وہ چند منٹوں میں ہی سوگئ ہے۔ تبھی وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر خود بھی آنکھیں بند کر گیا۔ یہ سکون اس کے جاگتے اسے میسر نہیں ہوسکتا تھا تو اب مل رہا تھا یہ بری بات تھی۔ 

" اوپس۔۔!! بیچاری وشہ۔۔!! ونی ہوگئ۔ مس ایٹیٹیوڈ کوئین کا سر جھک ہی گیا۔سارا غرور خاک ہوگیا میڈم کا۔۔!!" 

وشہ کوریڈور سے گزر رہی تھی جب دوبارہ اسے وہی طعنہ سنائ دیا۔ سائیڈ پر سونیا کھڑی تھی۔ جس کی نظریں وشہ پر جمی تھیں۔ آنکھیں میچ کر وشہ نے عود آنے والا غصہ ضبط کیا۔ پھر خاموشی سے ہی وہاں سے جانے لگی۔ بحث کرنے کا کوئ فایدہ تھا ہی نہیں۔

"سر اٹھا کر چلنے والے اب سر جھکا کر جارہے ہیں۔چچ چچ چچ۔۔!! مس جواب تو دیتی جائیں ۔۔!!" 

وشہ نے ابھی چند قدم مزید آگے لیے ہی تھے۔ جب ایک اور طعنہ اسے سننے کو ملا۔ عجیب بات تھی کہ اب بھی اس نے کچھ نہ کہا۔ اور خاموشی سے کینٹین کی جانب چلی گئ۔ ان لوگوں سے لڑنے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔ 

اس کے جاتے ہی وہاں کھڑے سونیا کے گروپ نے اس کی بےبسی پر قہقہہ لگایا۔ سونیہ نے اسے پوری یونی کے سامنے مزاق بناکر اپنا بدلہ لے ہی لیا تھا۔ 

" اس کی زبان تو بند ہوگئ۔ مجھے لگا تھا کہ جواب میں منہ نوچ دے گی ہمارا ۔ لیکن یہ تو سر جھکاکر چلی گئ۔ سلی گرل۔۔!! اب آگے کا کیا پلان ہے۔۔!!" 

سونیہ کے ساتھ کھڑے لڑکے نے ببل چباتے ہوئے پوچھا تو سونیا نے پونی ٹیل میں مقید اپنے بالوں کو ہاتھ سے آگے کیا۔ 

" آخری دن ہے محترمہ کا یونی میں آج۔۔!! اسے آخری بار دیکھ لینے دو پوری یونی۔ دوپہر تک ایسا ذلیل کرکے اس یونی سے باہر نکالوں گی کہ ساری زندگی دوبارہ یونی کی شکل نہیں دیکھے گی۔ بہت اکڑ تھی نا اسے اپنی ذہانت پر۔ مجھ سے آگے نکل رہی تھی نا۔ اب اپنے انجام کو پہنچے گی یہ آج۔ بس کچھ ہی دیر کی بات ہے اسے ہمارے سامنے جھکنا ہی ہوگا ۔۔۔!!!"

اس کے لہجے میں زہر بھرا ہوا تھا تبھی اس کے ارادے سن کر اس کے دوست بھی کمینگی سے ہنسے۔ 

دوسروں کا مزاق بنانا کم ظرفوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔یہ احساس برتری کا شکار لوگ ہر اس انسان کو اپنا ٹارگٹ بناتے ہیں جن سے انہیں خطرہ ہوکہ وہ ان سے آگے نکل جائیں گے۔ یہ ان لوگوں کو ذہنی طور پر احساس کمتری میں ڈال کر اپنے راستے سے ہٹاتے ہیں۔ افسوس سونیا بھی ایسی ہی تھی کسی امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد۔ جسے مزہ آرہا تھا وشہ کو ٹارچر کرکے۔ اسے اپنے راستے سے ہٹاکر۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

وشہ کینٹین میں بیٹھی کافی کے کپ کو دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ ایسا کیا گناہ ہوا تھا اس سے آخر کہ یہ لوگ اس کے دشمن بن گۓ ہیں۔ اس نے تو آج تک یہاں کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تو یہ سب کیوں ہورہا ہے اس کے ساتھ۔ 

جب اسے کسی کی آواز سنائ دی۔ 

" آپ کو یونی کی بیک سائیڈ پر بنے ہال میں میم رابعہ بلا رہی ہیں۔۔!! کوئ ضروری بات کرنی ہے انہیں آپ سے۔" 

وشہ نے ویران اور تھکی ہوئی نظریں اس آنے والی لڑکی پر ڈالیں اسے بالکل نہیں پتہ تھا یہ کون ہے۔ 

" میم رابعہ ۔۔!! کیا بات کرنی ہے انہیں مجھ سے۔۔!!" 

وشہ نے سنجیدگی سے پوچھا تو اس لڑکی نے شانے اچکادیے۔

" آپ خود جاکر دیکھ لیں۔ مجھے نہیں پتہ۔ بس انہوں نے آپ کو بلانے کا کہا تھا ۔۔!!" 

اپنی بات دہرا کر وہ لڑکی وہاں سے چلی گئ۔ پیچھے وشہ نے اپنی تھکن سے چور آنکھیں سہلائیں۔ اور غائب دماغی سے اپنا فون اور بیگ اٹھا کر وہاں سے ہال کی طرف چلی گئ۔ 

اس کا ذہن کام نہیں کررہا تھا ورنہ وہ ضرور سوچتی کہ میم رابعہ پچھلے ایک  ہفتے سے لیو پر ہیں۔ پر یہ فکریں انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی تو چھین لیتی ہیں۔ اس کی صلاحیت بھی چھین چکی تھیں فکریں۔ 

خاموشی سے چلتے ہوئے وہ بیک سائیڈ پر بنے اس کشادہ ہال میں آئ۔ جہاں لائٹس آف تھیں۔ ابھی نو ہی بجے تھے۔ اور یہ ایریا بالکل سنسان تھا۔

ہال نما کمرے کا دروازہ کھول کر وشہ نے اس تاریک جگہ پاؤں رکھے۔ اندھیرے اور گہری خاموشی کو دیکھ کر اسے کچھ غلط محسوس ہوا تھا۔ پر اس نے دھیان ہی نہ دیا۔ 

" میم۔۔!! آپ کہاں ہیں ۔۔؟؟" 

ہال میں آکر وشہ نے اونچی آواز میں پوچھا پر جواب اسے نہ ملا۔ وہ چلتی ہوئ کرسیوں کے پاس آئ۔ سامنے قطاروں میں کرسیاں ہی کرسیاں لگی تھیں۔ اور سامنے ایک ڈائس رکھا تھا۔ اسی لمحے اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے دروازہ بند کیا ہو۔ وہ چونک کر مڑی۔ اس کے سلب حواس لمحے میں بیدار ہوۓ۔

" کون ہے یہاں ۔۔؟؟؟ ہم پوچھ رہی ہیں کون ہے یہاں ۔۔!!" 

وشہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ وہ جلدی سے دروازے کی سمت گئ اور ہینڈل پکڑ کر گھمایا۔ دروازہ کسی نے باہر سے لاک کیا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن یوں سست ہوئ جیسے ابھی رک جاۓ گی۔ 

" دروازہ کس نے لاک کیا ہے۔ کون ہے وہاں ۔۔؟؟ ہم کہہ رہے ہیں دروازہ کھولو ۔۔!! ہمارا دم گھٹ جاۓ گا یہاں۔ کوئ ہے تو پلیز دروازہ کھولے ۔۔!! پلیز ۔۔!!" 

معاملہ اب بھی وشہ کی سمجھ سے باہر تھا۔ اس نے دروازہ بجایا پر چونکہ دروازہ میٹل کا تھا تو چند سیکنڈ میں ہی اس کے ہاتھ سرخ ہوگۓ۔ وشہ چند قدم پیچھے ہوئ۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور لب بھینچے۔ اسے اب خود پر غصہ آیا کہ وہ یہاں آئ ہی کیوں تھی۔

وہ سمجھ گئی کہ یہ کسی کی سازش ہے اور وہ شکار ہوچکی ہے۔ اس نے گہرا سانس خارج کیا۔ وہ آسانی سے ڈرنے والوں میں سے نہیں تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے فون کی ٹارچ لائٹ آن کی۔ اور سوئچ بورڈ ڈھونڈا وہ کافی بار یہاں آچکی تھی اسے انداز تھا بورڈ کہاں کہاں ہیں۔ 

لائٹ کے بٹن اس نے آن کیے۔ اور توقع کے مطابق مین کنکشن سے اس سائیڈ کی لائیٹ بند کی گئ تھی۔ حبس زدہ کشادہ کمرہ، گپ اندھیرا پھر بے بسی بھی ایسی کہ اس جگہ سروس کا نام و نشان نہیں تھا وہ کسی کو مدد کے لیے نہیں بلا سکتی تھی۔ چند آنسو اب اس کی آنکھوں سے نکلنے لگے۔ ونی ہونا جرم بن گیا تھا اس کا۔ وہ بیچاری تو مفت میں اذیت جھیل رہی تھی۔ 

" سونیہ یو ہیو ٹو پے فار دس۔۔!! جو تم نے کیا ہے نا اس کا حساب تمہیں دینا ہوگا۔۔!! انتہا کی گھٹیا اور نیچ ہو تم ۔۔!! کمظرف ۔۔!!" 

لب بھینچ کر وشہ وہیں رکھی ایک نشست پر بیٹھ گئ اور سر ہاتھوں میں گرالیا۔ وہ کسی سے نا ڈرنے والی لڑکی دنیا کے ہاتھوں ستاے جانے کے بعد اب تھک گئ تھی بہت بری طرح سے۔ اوپر سے اس کا وہ محافظ ناجانے کہاں تھا۔

" ہم کہاں پھنس گئے ہیں۔ ہمیں یونی آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ہم گھر پر ہی اچھے تھے۔ ہمیں پڑھنے کی خواہش ہی مار دینی چاہیے تھی۔ آغا جان آپ نے جو ہمارے ساتھ کیا ہے۔ ہم کبھی اس بات کو نہیں بھولیں گے۔ آج جس حالت میں ہم ہیں آپ کی وجہ سے ہی ہیں۔ کیا چلا جاتا آپ کا جو آپ اس فضول رسم کو اہمیت نہ دیتے ہوتے۔ کاش ہمارے سامنے آپ دھاک بک جاتے۔کاش۔۔!!" 

اپنا موبائل وشہ نے مٹھی میں جکڑ کر سوچا۔ وہ چیخنا چاہتی تھی رونا چاہتی تھی پر وہ تو کچھ بول ہی نہ پائ۔ 

اپنا سر کرسی کی پشت پر ٹکا کر اس نے جلتی ہوئ آنکھیں موند لیں۔ جنہوں نے اسے یہاں بند کیا تھا وہ جانتی تھی وہ اسے خود ہی اب یہاں سے نکالیں گے۔ خود کو ہلقان کرنا فضول تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

ٹھیک دو گھنٹوں بعد گیارہ بجے کے قریب اس ہال کا بند دروازہ کھلا اور اس بند جگہ پر کسی کے قدموں کی چاپ سنائ دی۔ وشہ تب سے اسی پوزیشن میں ہی بیٹھی تھی اس نے آنے والے کی جانب دیکھنے کے لیے سر اٹھایا۔ شہد رنگ آنکھوں کے کنارے اس وقت ضبط سے سرخ ہوچکے تھے۔ وہ انتہا کا صبر کرکے یہاں بیٹھی تھی۔ جب دروازے کے باہر سے آتی روشنی میں ان لوگوں کا دھندلا سا عکس اسے دکھا۔ وہ سونیا کا ہی گروپ تھا۔ جنہوں نے پہلے تو لائٹس آن کیں پھر دروازہ دوبارہ بند کردیا۔ 

ان میں دو لڑکیاں اور چار کے قریب لڑکے تھے جو شکل سے ہی عیار معلوم ہوتے تھے۔ وہ چھ تھے اور وشہ اکیلی تھی۔ سونیہ نے کرسی پر سکون سے بیٹھی وشہ کو دیکھا اسے لگا تھا اب تک وہ رو رو کر مرنے والی ہوگی۔ پر وشہ کے چہرے پر آنسو تو نہیں اسے غصہ ہی دکھا۔ 

" بےبی کو غصہ آرہا ہے کیا۔۔؟؟ بےبی کو ڈر تو نہیں لگا نا یہاں ۔۔؟؟ بےبی وانٹ ٹو کراۓ۔ !! ہم آگۓ ہیں نا اب جی بھر کر رو لو۔ اپنے گھر والوں کے ظلم پر بھی رو لو۔ میرا کندھا تمہارے لیے حاضر ہے سویٹی ۔۔!! چاہو تو تسلی دے سکتا ہوں میں تمہیں ۔۔!!" 

ان میں سے ایک لڑکا چلتا ہوا وشہ کے سامنے آیا۔ اس کی آواز میں طنز تھا پھر وشہ کی صورت دیکھتے کمینگی سی اتری تھی اس کے لہجے میں۔ وشہ نے دانت بھینچے۔ یہ غلیظ لفظ اس کی روح پر لگے تھے سیدھا۔ 

" دانی۔۔!! کم آن ۔۔!! پوچھ کیوں رہے ہو۔ وہ مشرقی لڑکی ہے اب منہ سے تو نہیں بتاے گی نا اسے سہارا چاہیے۔ تم خود ہی اسے سہارا دے دو۔ اس سے پہلے بےبی سچ میں رو پڑے۔۔!!" 

یہ آواز سونیہ کے ساتھ کھڑی لڑکی کی تھی۔ اس کی بات سن کر دانی لوفروں کے انداز میں مسکرایا۔ ابھی اس نے اپنا ہاتھ وشہ کی جانب بٹھایا ہی تھا۔ جب وشہ نے بس ایک سلگتی نگاہ اس پر ڈالی۔ شہد رنگ آنکھوں میں سختی تھی۔

" ہم پٹھان ہیں یاد رکھنا۔ ادھار نہیں رکھتے۔۔!! ہاتھ لگایا تو باخدا یہ ہاتھ اگلے دو مہینوں تک کھانا کھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑیں گے۔ لڑکی ہیں ہم پر کمزور نہیں ہیں ۔۔!!! اپنا سہارا خود جیسی کسی غلاظت کے لیے سنبھال کر رکھو۔ جس پر تم جیسی مکھیاں بیٹھتی اچھی بھی لگیں۔ الحمداللہ ہمیں کسی کتے کو منہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ جو بکنا ہے سیدھا سیدھا بکو۔ ہمیں فضول میں تم جیسے کیڑوں پر وقت ضائع نہیں کرنا۔" 

وشہ کسی شیرنی کی مانند ہی اٹھی۔ اس کی آواز میں وارننگ تھی۔ کب سے وہ ٹوٹ رہی تھی پر اب جب اس نے خود کے لیے اس شخص کی نظروں میں تمسخر دیکھاتو اس کے دل نے گوارہ نہ کیا کہ وہ بےبس بن کر اپنا تماشہ بنواۓ۔ وہ اپنی مخافظ خود تھی۔ دانی ڈرا تھا تبھی وہی ہاتھ اپنے بالوں میں پھیر کر خود کو نارمل کرنے لگا۔ 

 البتہ سونیہ نے ضرور اسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھا۔ 

" رسی جھل گئ پر بل نہیں گیا۔ وشہ ڈیئر تم اکیلی ہو اس وقت ۔ تمہیں پتہ بھی ہے اس وقت تمہارے ساتھ ہوکیا سکتا ہے۔ یہیں کہ یہیں مٹی کردوں گی میں تمہیں۔ تمہاری لاش دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہے گی ۔۔!!" 

سونیہ کی بات سن کر وشہ نے ابرو اچکائیں۔ 

" اتنی ہمت ہے تم میں کہ ہمیں مٹی کرو۔ ہم ایک ہیں پر تم جیسے سو پر بھاری ہیں۔ خود مٹی ہوۓ تو تم سب کی لاشیں بھی کوئ نہیں پہچان پاۓ گا۔ ہماری پہنچ سے ناواقف ہو تم ابھی۔ بزنس مین کی بیٹی ہونے پر اچھل رہی ہو باخدا جب تمہیں پتہ چلا ہم کون ہیں تو اس دن منہ چھپاتی پھرو گی۔۔!!" 

 وشہ پر اعتماد تھی پر اندر سے آج زندگی میں پہلی بات چوٹ کھانے پر وہ اپنی ہی نظروں میں گری تھی۔ وہ تو ان جیسوں کو دیکھنا بھی گوارہ نہ کرتی کجا آج ان کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی توہین میں الفاظ سننا۔ 

" ہو کیا تم۔۔!! آج بتا ہی دو۔ کسی مڈل کلاس فیملی کی نیچ رسموں کی بھینٹ چڑھی ایک مظلوم لڑکی۔۔!! جسے میرے سٹینڈرڈ کا پتہ بھی نہیں ہوگا ابھی۔ اوکے لیٹ می شو یو ہو آۓ ایم ۔۔!! میں کیا ہوں تمہیں آج ںتاہی دیتی ہوں۔ سنی ناؤ یورز ٹرن ۔۔!! عقل ٹھکانے لگاؤ اس کی ۔۔!!" 

سونیہ کو غصہ تو بہت آیا پر وشہ کے قریب وہ نہ گئ اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ شیرنی اس کا ہی منہ نہ نوچ دے۔ یہاں کھڑے کسی بھی فرد حتی کہ ٹیچرز تک کو وشہ کے سٹینڈرڈ کا نہیں پتہ تھا۔ اسے دلچسپی ہی نہیں تھی کسی کو کچھ بھی بتانے میں۔ اور یہی وجہ تھی کہ یہ ٹکے ٹکے کے لوگ اس کے سامنے کھڑے تھے۔ سونیہ نے اپنے برابر کھڑے لڑکے کو آگے ہونے کو کہا تو وہ چہرے پر سختی لیے اس کے حکم پر وشہ کے سامنے بھی ہوا۔ 

" کم آن کٹی ۔۔!! سے سوری تو سونیہ ۔۔!! ورنہ جو تمہارے ساتھ ہوگا نا تمہاری سوچ سے بھی برا ہوگا۔۔!!" 

وہ بھی دانی جیسا ہی کوئ لڑکا تھا پھٹی ہوئ جینز اور شرٹ،بکھرے بال اور گلے میں چین ڈالے اس کی نظریں وشہ پر تھیں۔ وشہ نے فون وہیں سائیڈ پر رکھ دیا۔ 

" تمہاری اس مکھی سے معافی تو ہماری جوتی بھی نہ مانگے۔ ہمت ہے تو منگواؤ معافی۔!! آؤ آگے اور بتاؤ کیا کرو گے تم ۔۔!!" 

وشہ نے ہاتھ خالی کیے۔ جیسے آج دو دو ہاتھ کرنے کا اس کا ارادہ تھا۔ اس کے ہاتھ میں چھلکتا دیار کے نام کا بریسلیٹ سونیہ کے ساتھ کھڑی لڑکی نے دیکھا تھا غور سے۔

" یو *****۔!! تمہیں تو میں بتاتا ہوں ۔۔!!" 

ابھی سنی نے اس کی چادر کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا جب وشہ نے انتہائ مہارت سے اس کے بڑھتے ہاتھ کی کلائی پکڑ کر اتنی زور سے گھمائ کہ اس کی چیخ اس بند ہال میں دب کر رہ گئ ایک ٹھوکر اسے رسید کرکے وشہ نے ایک ہی جھٹکے میں اسے زمین بوس کردیا۔ سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی تھیں۔ مار دھاڑ میں وہ درمان اور فدیان سے آگے ہی تھی پیچھے تو نہیں تھی۔ اپنی بہن کو ہر طرح کی سیچوئیشن سے لڑنا سکھایا تھا انہوں نے۔

سنی کراہ رہا تھا جبکہ دانی نے تھوک نگلا کہ شکر ہے میں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا ورنہ تو ہاتھ سچ میں ٹوٹ جاتا۔ سنی ڈائس سے ٹکرایا تھا تبھی اب دوبارہ اٹھنے کی ہمت نہ کرسکا۔ 

" اور کسی نے کچھ بکنا ہے تو بک دے۔۔!! ورنہ ہم جائیں یہاں سے۔۔!!" 

وشہ نے انگلیاں آپس میں ملاکر چٹخائیں تو دانی تو چار سے پانچ قدم مزید پیچھے ہوگیا۔ پر سونیہ کے ساتھ کھڑے دوسرے لڑکے کو خوامخواہ میں  غصہ آیا تھا تبھی تو وہ بھی آگے بڑھا۔ 

"تجھے تو میں بتاتا ہوں ۔۔!! بہت اکڑ رہی ہے نا" 

وہ ابھی وشہ کے قریب آیا ہی تھا جب کراٹے سٹائل میں اپنا الٹا ہاتھ سیدھا اس نے اس کی گردن پر مارا ایسا کی وہ دانی کے قدموں میں گرا۔ چٹک کی آواز آئ تھی جیسے گردن ہی ٹوٹ گئ ہو اس کی۔ سونیہ شاکڈ تھی وشہ اور اتنی تیز ۔ اس نے نہیں سوچا تھا۔

دو لڑکے زمین پر گرے تھے اب اور سب کے رنگ فق تھے۔ جب اسی دوسری لڑکی تانیہ نے اپنے ساتھ کھڑے لڑکے کو کوئ اشارہ کیا۔ جو اس کی بات سمجھ کر ہلکا سا مسکرایا۔ اور سائیڈ سے ہو کر اب دوسری طرف جانے لگا۔ یہ ممی ڈیڈی بچے وشہ کے سامنے واقعی کچھ نہیں تھے۔ 

"تم نے یہ کیسے کیا ۔۔!! کون ہو تم آخر ۔۔!! تم کوئ عام لڑکی نہیں ہو۔ !! کون ہو تم ۔۔!!" 

سونیہ نے حیرت سے پوچھا تو وشہ زخمی سا مسکرائی۔ 

" اس سے تمہارا کوئ سروکار نہیں ۔۔!! " 

وشہ نے بات ختم کی۔ سونیہ نے بھی سیف کو دیکھا جو وشہ کے پیچھے جاکھڑا ہوا تھا۔ تو ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوے اس نے اپنی پیشانی پر آیا پسینہ پونچھا۔ 

" آئندہ ہمارے راستے میں نہ آنا۔ قاتل بننے کا شوق نہیں ہے ہمیں۔ کہیں ہمرے ہاتھ سے ضائع ہوکر اپنے والدین کو رونے کے لیے چھوڑ دو گے تم۔!! فضول لوگ ۔۔!!' 

سر جھٹک کر وشہ اپنا فون اٹھانے کے لیے مڑی جب اچانک ہی سیف نے اس کا وہی ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب جھٹکا وشہ اس افتادہ ہر بوکھلا گئ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتی سونیہ آگے بڑھ کر اسکے منہ پر پیچھے سے ہاتھ رکھ گئ۔

وشہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں کیونکہ اس کے دونوں ہاتھ جو سیف کی گرفت میں تھے اسے کراحت محسوس ہوئی ان سے۔ وشہ کا دماغ یہ دباؤ سہہ نہیں پارہا تھا۔ وہ کب سے جان چھڑوارپی تھی ان سے اور یہ پیچھے ہی پڑگۓ تھے اس کے۔ وہیں تانیہ ہنستے ہوۓ اس کے قریب آئ۔ اور اس کی حیرت سے پھیلیں آنکھیں دیکھیں۔

" سرپرائز وشہ ڈیئر ۔۔!! تم نے جو کرنا تھا کرلیا اب ہماری باری۔ اب ہم کریں گے اور تم دیکھو گی  خاموشی کے ساتھ ۔!! کیوں سیف ۔۔!!" 

اس نے سیف کی جانب دیکھ کر آئ ونک کی وشہ نے کچھ بولنا چاہا پر سونیہ کی گرفت سخت تھی۔ وہ کچھ نہ بول پائ۔ 

سیف کی مسکراہٹ دیکھ کر سونیہ بھی زہریلا سا مسکرائی۔ 

" ذرا سی فائیٹ اور کچھ سٹنٹ سیکھ کر تم خود کو مجھ سے بڑا سمجھنے لگی تھی۔ اب بتاؤ کیا سزا دیں ہم تمہیں ۔۔!! ویسے سیف میں سوچ رہی تھی کہ مس وشہ کو بھی ہماری ہی طرح تھوڑا فیشن ایبل ہونا چاہیے ہے نا۔ یہ کیا اس دور میں بھی بڑی سی چادر میں چھپی ہوتی ہے۔تو کیا خیال ہے گائز ۔۔!! یہ خواہش میں ہوری کرلوں ۔۔!!" 

سونیہ نے ہنستے ہوۓ کہا یہ الفاظ وشہ کو تکلیف دے گۓ۔ وار پیچھے سے ہوا تھا اسے اب افسوس ہوا کہ اس نے پیچھے کیوں نہ دھیان دیا۔سونیہ نے دوسرے ہاتھ سے اس کی چادر سر سے اتار دی۔ یہیں وشہ کو لگا سب ختم ۔۔!! 

جس چادر کی حفاظت اس نے آج تک کی تھی آج اس ونی لفظ کی بھینٹ چڑھ گئ وہ ۔۔!!! 

اسے اب دیار پر بھی غصہ آیا کہ کیوں مانگا تھا اس نے اسے ونی میں نا وہ مانگتا نا وشہ آج اس مشکل میں ہوتی نا سر سے چادر اترتی۔ 

" اس کے بال ۔۔!! کتنے پیارے ہیں نا۔ آۓ ایم امیزڈ۔۔!! کیا یوز کرتی ہو تم۔ ۔!!" 

تانیہ نے اس کے بالوں کو ہاتھ لگایا۔ وشہ نے آنکھیں میچیں سیف کی نظر بھی اس کے بالوں پر ہی تھی ۔ اور اس کی موت تو پکی تھی اب۔ دیار کی عزت پر نظر پڑی تھی اس کی۔ آج یا کل تو وہ مرتا۔ وشہ کا سانس اکھڑا۔ اس کی رنگت پیلی پڑی۔ 

" اور یہ بریسلیٹ اس پر دیار لکھا ہے۔ کون ہے یہ دیار ۔۔!! تمہارا کوئ عاشق ہے یا وہ ٹیپیکلٹ شوہر ۔۔!! ادھیڑ عمر کوئ پاگل سا۔ کھڑوس سا۔۔!! ہاہاہاہاہاہا۔ پاگل ہو تم اس کا نام لکھ کر ہاتھ میں باندھ لیا۔!!" 

 تانیہ نے سیف کے ہاتھ سے اس کا ہاتھ لیا پھر اس کی کلائی پر بندھا بریسلیٹ کھول کر اسے دیکھنے لگی۔ 

یہیں اس سے غلطی ہوئی تھی شیرنی کو جاگنے میں وقت ہی کتنا لگتا یہ وہ بھول گئ۔

 اور اگلے ہی لمحے وشہ نے اسی ہاتھ کو اس کی گرفت سے آزاد کروا کر پہلے تو سونیہ کی کلائی اسی پوزیشن میں پکڑ کر اپنے سر سے گزری اور اسے اپنی پکڑ میں لیا پھر ایک ٹھوکر سیف کے پیٹ میں ماری جو کراہ کر دور ہوگیا۔ وشہ کی سینڈل کے نیچے لگی چھوٹی سی ہیل اس کے پیٹ میں بڑی طرح چبھی تھی۔ تانیہ کے ہاتھ میں پکڑا بریسلیٹ اس نے دوسرے ہاتھ سے جھپٹا اور اس کی کلائی مروڑ کر اسے بھی پکڑ لیا۔ سیف سہارا لے کر کھڑا ہوا۔ وہی سنی بھی اٹھ گیا تھا۔ البتہ وہ جس لڑکے کی گردن چٹخ گئ تھی وہ ابھی بھی بےہوش پڑا تھا۔

" شوہر ہو یا عاشق ۔۔!! تم لوگوں کو کس چیز کی موت پڑی ہے۔ زیادہ ہی سر پر چڑھ گے ہو تم لوگ۔اپنی گھٹیا ذہنیت اپنے پاس سنبھال کر رکھو" 

اس نے ان کی کلائییوں کو زور سے مروڑا تو وہ نازک اندام لڑکیاں کراہ کر رہ گئیں دانی صاحب دور ہی رہے انہیں جان پیاری تھی اپنی۔ 

سونیہ کو وشہ نے دور کرسیوں پر دھکیل دیا جو سیدھا کرسی سے گری اور اسے لگا کمر ہی ٹوٹ گئ ہو۔  اور تانیہ کی گردن کے گرد بازو پلیٹ کر وشہ اس کے کان کے قریب جھکی۔

" جس چیز کی اہمیت کا پتہ نہ ہو اس پر بات نہیں کرتے۔ قصور تم لوگوں کا نہیں ان ماں باپ کا ہے جنہوں نے پیسے کے چکر میں تم لوگوں کو دین ہی نہیں سمجھایا۔ تانیہ بی بی تم نے عزت پر وار کیا ہے ہماری۔ ہم چاہیں تو ابھی تمہیں یہیں مار دیں۔ پر افسوس تمہارے گندے خون سے ہمیں اپنے ہاتھ میں رنگنے ۔!! "

 اس نے گردن ہر دباؤ بڑھایا تو وہ چیخ اٹھی۔ پھر اسے بھی اس نے سونیہ کی جانب ہی اچھال دیا جس کا سر بیئر سے ٹکرایا۔ وشہ نھ زمین سے اپنی شال اٹھائ ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی اسے دیار سے نفرت ہوئ۔ جب محافظوں کے ہوتے ہوۓ کسی بھی مقام پر انجانے میں ہی عورت کی عزت پر وار ہو تو قصور مخافظ کا ہی ہوتا ہے۔ کہ وہ انجان ہی کیوں رہا۔ دیار بھلے وشہ کے ساتھ جو ہوا اس سے ناواقف تھا پر وہ ناواقف رہا ہی کیوں یہی تو قصور تھا اس کا۔ وشہ کو یونی تک چھوڑنے کے ساتھ اسے چاہیے تھا اس کی خبر بھی رکھتا۔ وہ عزت تھی اسکی اور عزت سے لمحے کی بےخبری بھاری نقصان دے سکتی ہے انسان کو۔

چادر اپنے گرد لپیٹ کر اس نے اپنے سامنے کھڑے سنی, دانی اور اس سیف کو دیکھا۔ وہ تینوں بدلہ لینا چاہتے تھے پر وشہ کی آنکھوں میں غصے اور دکھ کی ملی جلی آتش فشاں جیسی کیفیت دیکھ کر ڈر کر انہوں نے سر جھکا لیے۔ 

 " دعا ہے تم لوگوں کا کیا تمہاری عزت کو نہ بھگتنا پڑے ۔!!!!!کچھ بکنا ہے تو بک لو ۔۔!! کوی کسر تو نہیں رہ گئ نا۔ یا ہم جائیں۔۔!!" 

اپنا بیگ اٹھا کر اس نے فون پر ٹائم دیکھا پھر چیخی تو دانی نے سر جھکایا۔ 

وشہ نے جو کرنا تھا اس نے کردیا تھا اب اسے کسی سے کوئ سرو کار نہیں تھا تو چپ چاپ وہ اس ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئ۔ 

سونیہ اور تانیہ سمیت سارے ہی لوگ درد سے کراہ رہے تھے۔ اور دانی خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس نے اپنا فون نکالا اور اب اگلی کال سیدھا ڈین کے آفس میں کی۔ وہ ان لوگوں کے قابو میں نہیں آئ تھی اب آخری مہرہ وہی تھے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

 " ہیلو ڈیئر معصومہ ۔۔!! کیسی ہیں آپ۔۔؟؟ میں بور ہورہی تھی تو سوچا کہ ہمسائیوں سے ہی مل لوں۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں اندر آسکتی ہوں۔۔!!!" 

درمان آج گھر پر نہیں تھا کسی ضروری کام سے وہ باہر گیا تھا۔ زرلشتہ کب سے بیٹھی بور ہورہی تھی اب اس نے معصومہ کے پاس جانا ہی مناسب سمجھا۔ دروازے کے پاس کھڑے ہوکر اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہینڈ بیگ کندھے پر صحیح کیا پھر تمیز سے دروازہ کھٹکھٹا کر اس نے معصومہ کے باہر نکلنے کا انتظار کیا۔ معصومہ نے جب زرلشتہ کو سامنے دیکھا تو اسے حیرت ہوئی۔ وہ کافی دنوں سے اس سے ناراض تھی۔ اور آج خود اس سے ملنے آئ تھی۔ 

" آپ اجازت کیوں لے رہی ہیں آپی۔۔!! پہلے تو آپ نے کبھی ایسے نہیں کیا۔ آپ آجائیں نا اندر ۔۔!!"

معصومہ نے پیار سے کہا تو زرلشتہ نے آنکھیں سکیڑیں۔ 

" پہلے کیا مطلب ۔۔!! میں تو کبھی پہلے آپ سے ملنے نہیں آئ تھی۔ میں تو پہلی بار آئ ہوں۔ خیر اب راستے سے ہٹیں مجھے کیا دروازے پر ہی کھڑا رکھیں گی آپ ۔۔!!" 

خود ہی راستہ بناکر زرلشتہ کمرے میں آگئ۔ معصومہ کے چہرے پر اداسی چھائی کہ وہ اب تک اس سے انجان ہے۔ 

" آپی ۔۔!! آپ ناراض ہیں نا۔ میں منالوں گی آپ کو۔ پر ایسے تو نا بات کریں جیسے آپ سچ میں مجھے نہیں جانتی ۔۔!!"

معصومہ نے دروازہ بند کیا پھر زرلشتہ کو دیکھا جو اس کے کمرے کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار ہی دیکھا ہو اس نے۔

" ارے چھوٹی بچی ۔۔!! میں کیوں ناراض ہوں گی آپ سے۔ آپ ہیں کون ؟ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا۔۔!! اچھا اب کوئ چاۓ پانی تو پوچھ لیں۔ گھر آۓ مہمانوں کی تھوڑی تو عزت کریں ۔۔!!"

زرلشتہ نے اپنا ہینڈ بیگ اتار کر بیڈ پر رکھا پھر خود بھی بیٹھ گئ۔ اس بیچ بھی اس نے معصومہ کو یاد ضرور دلایا کہ وہ اسے نہیں جانتی۔ جو اب رونے والی صورت بناگئ۔ 

" کیا لیں گی آپ بھابھی صاحبہ ۔۔!! بتادیں۔ کہیں آپ کی شان میں گستاخی نہ ہوجاۓ مجھ سے۔ میں تو آپ کو یاد نہیں آؤں گی اب ۔ مجھے تو آپ یاد ہیں نا۔ آپ بتادیں کیا لینا ہے آپ نے ۔۔!!" 

زرلشتہ مسکرائ ایک فارمل سی مسکراہٹ۔ اس نے کن اکھیوں سے اپنے کاٹ میں بےخبر لیٹی سونا کو دیکھا تو چہرے پر تھوڑی سی شرارت ائ۔ 

" ایک گلاس ٹھنڈا یخ برف جیسا پانی ۔۔!! ساتھ میں تھوڑی سی ٹھنڈی ہوا۔ ذرا جلدی۔ مجھے آگے ابھی کسی اور سے بھی ملنے جانا ہے۔۔!! " 

سونا سے نظریں ہٹا کر اس نے معصومہ کو کام میں لگا دیا۔ معصومہ نے گہرا سانس خارج کیا۔اور پانی لینے چلی گئ۔ اس کے جانے کی دیر تھی جب زرلشتہ نے فورا اپنے بیگ کی زپ کھولی۔ 

" سونا بچے ۔۔!! تم تو گئ آج۔ بلی چاہے گلی کی  ہو یا نسلی ہو۔ چوہے سے اس کی دشمنی پکی ہوتی ہے۔ سونا ڈیئر اب تمہیں معصومہ بھی نہیں بچا سکتی ۔۔!!" 

زرلشتہ نے بیگ سے ایک چھوٹا سا کھلونا نما چوہا نکالا۔ جو اس نے کل ہی آرڈر کیا تھا۔ وہ دکھنے میں بالکل اصلی تھا۔ اس نے آرام سے وہ چوہا بیڈ کے نیچے رکھ کر اس کا ریموٹ اپنی چادر کے نیچے کرلیا۔ 

" بس اب آنے والا ہے مزہ ۔۔!! سونا جی کے کھیلنے کا وقت ہوگیا ہے ۔!!"'

اپنے ہاتھ جھاڑ کر پھر سے وہ سنجیدہ ہوکر بیٹھ گئ اگلے دو منٹ میں معصومہ پانی کے گلاس کے ساتھ حاضر تھی ساتھ میں وہ ایک پھولا ہوا شاپر بھی لائ تھی۔ 

" یہ آپ کا یخ ٹھنڈا پانی۔ !!" 

زرلشتہ نے گلاس پکڑا تو اس کے ہاتھوں تک میں خنکی اتری۔ اتنا ٹھنڈا ۔۔!!!!! 

پھر زبردستی ہنستے ہوۓ اس نے پانی کا گلاس خالی کردیا ساتھ ہی جھرجھری لی۔ پانی حد سے زیادہ ٹھنڈا تھا۔ معصومہ نے بھی بدلہ پورا لیا تھا۔ 

" اور یہ ٹھنڈی یخ ہوا۔ " 

اگلے ہی پل معصومہ نے بندھے ہوۓ شاپر کو دونوں ہاتھوں سے پھاڑ دیا۔ ٹھاہ کی آواز سے زرلشتہ اچھلی۔ تو معصومہ نے مسکراہٹ دبائ۔ 

" اب یاد آیا آپ کو کہ میں کون ہوں ۔۔!! " 

معصومہ مسکرائ تو زرلشتہ نے دانت پیسے۔ دل تو اس کا کیا کہ ابھی اسکے دونوں گال کھینچ ڈالے اور اسے سبق سکھادے۔ اس سے سیکھ کر اسی پر اپلائی کررہی تھی یہ چیزیں۔ پر اس نے گہرا سانس لیا۔ ابھی اسے پگھلنا نہیں تھا۔

" وہ معصومہ میں کہہ رہی تھی کہ مجھے تم واقعی میں اب تھوڑی سی ہی یاد آئ ہو۔ پر پوری نہیں ائ۔۔۔۔!!!!معصومہ دھیان سے نیچے چوہا ہے۔۔!!" 

اپنے ہاتھ میں پکڑے ریموٹ کو اس نے چلانا شروع کیا پھر اگلے ہی لمحے چوہا معصومہ کے پاؤں پر تھا زرلشتہ چیخی تو معصومہ نے پاؤں جھٹکا۔

" کہاں ہے چوہا۔۔؟؟؟" 

چوہا دیکھ کر وہ بھی چیخ اٹھی۔ زرلشتہ بیڈ پر چڑھ گئ اور اگلے ہی لمحے چوہا سونا سے ٹکرایا جو ہمیشہ کی طرح بھنگی بنی سورہی تھی اچانک اس نے اپنے پاس موٹے تاشے چوہے کو دیکھا تو وہ بھی اچھل کر چیخ اٹھی ۔

" میاؤں ۔۔۔۔۔!!" 

سونا کے بال کھڑے ہوگے۔ اور معصومہ صاحبہ نے اس کی چیخ پر اس کی جانب قدم لیے ہی تھے۔ جب چوہا معصومہ کی طرف آیا۔ اب وہ خود کو بچاتی یا سونا کو۔ جان سب کو پیاری ہوتی ہے معصومہ بھی بیڈ پر چڑھ گئ۔ 

" آپی ۔۔!! چوہا سونا کو کھاجاۓ گا ۔۔!!اسے بچائیں ۔۔!!" 

معصومہ چیخی تو زرلشتہ نے اپنے کان پر ہاتھ رکھا۔ 

" اتنی ڈرپوک بلی لینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا نا تمہیں۔ ساری دنیا کی بلیوں کی ناک کٹوا دی اس سونا نے۔ پاگل کہیں کی چوہے کو پکڑنے کی بجاۓ ڈر کر اس کا جائزہ لے رہی ہے۔۔!!" 

زرلشتہ بھی ویسے ہی چیخی۔ کیونکہ سونا کانپ کر چوہا دیکھ رہی تھی۔ زرلشتہ کو شرارت سوجھی اور اگلے ہی لمحے چوہا پیچھے پیچھے اور سونا جی آگے آگے تھے۔ 

معصومہ کا رنگ اڑا تھا جبکہ زرلشتہ تو محظوظ ہورہی تھی۔

سونا صوفے پر چڑھی اور اگلے ہی لمحے چوہا اچھل کر صوفے پر تھا سونا سہم کر صوفے سے چپک گئ۔ جب زرلشتہ کا دل قہقہہ لگانے کو چاہا۔ 

" آپی آپ ہنس رہی ہیں۔ وہ کھاجاۓ گا سونا کو۔۔!! اسے بچائیں ۔۔!!" 

معصومہ نے اس کے ہنسنے پر چوٹ کی۔ 

" تو کیا چوہے کا پیٹ نہیں ہوتا۔ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اسے بھوک نہیں لگتی۔ یا وہ جاندار نہیں ہوتا۔ تمہیں کیا پتہ معصومہ کہ یہ چوہا کب سے بھوکا ہوگا۔ اس نے کچھ کھایا بھی ہوگا یا نہیں۔ ہوسکتا ہے اس کے بچے بھوک سے بھلک رہے ہوں۔ کسی بلی کی یاد میں تڑپ رہے ہوں۔ یہ سونا ہی اس کے بچوں کو بچانے کی واحد امید ہو۔ میں سمجھ سکتی ہوں اس چوہے کا درد۔ میں کبھی اس کی آہ نہیں لوں گی۔ چوہے صاحب لے جاؤ سونا کو۔۔!!" 

زرلشتہ نے اسے ایموشنل کرنا چاہا جس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ 

چوہے نے آہستہ آہستہ قدم سونا کی جانب لیے تو سونا نے چھوٹی سی میاؤں کی۔ پھر صوفے سے چھلانگ لگاکر بیڈ کی طرف آئ۔ زرلشتہ التی پالتی مار کر بیڈ پر بیٹھ گئ۔ جیسے یہ ڈرامہ اسے مزہ دے رہا ہو۔

" آپی ۔۔!!! سونا کو بچائیں۔۔!!" 

اب کی بار معصومہ غصے سے بولی۔ 

" ناجان نا پہچان وہ ہے میری بلی جا بنالے اسے اپنا مہمان ۔۔!! والا حساب ہوگیا نا یہاں تو ۔۔!! بی بی مجھے نہیں پتہ کون ہے آپ کی آپی۔ میں نہیں بچارہی کسی کو بھی۔۔!!" 

ریموٹ اس کی بڑی سی شال کے نیچے چھپے ہاتھ میں تھا جسے وہ اچھے سے کنٹرول کررہی تھی۔ چوہا سائیڈ ٹیبل پر چڑھا اور  پانی کا گلاس نیچے گر کر ٹوٹ گیا۔ پھر سونا نے کھڑکی پر لگا پردہ پکڑ کر اوپر چڑھنا چاہا تو کرٹنز جس راڈ سے ہینگ ہوۓ تھے وہ ہی نیچے گرگۓ۔ کمرے میں طوفان بدتمیزی مچا ہوا تھا۔ معصومہ ڈر کے مارے نیچے بھی نہیں اتررہی تھی۔ اور اوپر بھی نہیں کھڑی ہورہی تھی۔ 

جب زرلشتہ نے سونا کی حالت دیکھ کر ہنسنا شروع کردیا۔ 

" لگتا ہے یہ چوہا سالوں سے بلیوں کے ساتھ چل رہی اپنی جنگ آج جیت کر ہی جاۓ گا۔ اپنے آباؤ اجداد کے سارے بدلے اسے سونا سے ہی لینے ہیں۔ مسٹر چوہے لگے رہو اور ثابت کردو ہر میدان میں ہر طوفان میں بلیاں نہیں اب چوہے ہی جیتیں گے ۔۔!!! " 

زرلشتہ نے نعرہ لگایا سارے کمرے میں تباہی پھیلی ہوئ تھی۔ جب معصومہ نے گہرا سانس خارج کیا۔ اپنی سونا سے اسے اس قدر بزدلی کی توقع نہیں تھی۔ آج تو سونا نے اس کی ہی نہیں ساری دنیا کی بلیوں کی ناک کٹوا دی تھی۔ رونے کا فایدہ نہیں تھا تبھی وہ بھی نیچے بیٹھ گئ۔ 

سونا بھاگ بھاگ کر تھک گئ تھی جب اچانک ہی زرلشتہ کا دھیان ہٹا اور چوہا دیوار سے ٹکڑا کر رک گیا۔ 

اس کے رکنے کی دیر تھی جب معصومہ نے نیچے پڑا گلاس اٹھا کر اسے مارا اور اگلے ہی لمحے کمرے میں خاموشی چھاگئی کیونکہ چوہے صاحب کے پارٹس فرش پر بکھرے ہوۓ تھے اور زرلشتہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئ تھیں۔ 

وہ کھلونا تھا معصومہ کو یقین نہ آیا۔ اس نے زرلشتہ کو گردن گھماکر دیکھا جو اپنے اتنے مہنگے کھلونے کو ٹوٹتا دیکھ کر صدمے میں تھی۔ سونا نے تو سکون کا سانس لیا اور واپس سے صوفے پر چڑھ گئ۔ اس کے بال اب بھی کھڑے تھے۔ 

" آپی یہ تو کھلونا تھا۔ آپ کررہی تھیں یہ سب ۔۔!! پر کیوں ۔۔!!" 

معصومہ نے استفسار کیا تو زرلشتہ نے اب رونے کی تیاری پکڑی۔ 

" تم نے میرا چوہا توڑ دیا۔ مجھے اتنا پسند تھا یہ۔میں کل سے اس کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ تم نے اسے توڑدیا۔ اپنی بلی کی خاطر تم پہلے مجھ سے دور ہوئ۔ مجھے اگنور کیا اب تم نے اسے بھی توڑ دیا۔ جاؤ اب مجھے تم سے بات ہی نہیں کرنی ۔۔!!" 

زرلشتہ پکڑی تو جاچکی تھی پر چوہا ٹوٹنے کا دکھ بھی تھا اسے۔ اپنی آنکھوں میں جمع ہوتے آنسو زرلشتہ نے روکے نہیں نکلنے دیے۔ 

ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری والے محاورے پر پوری طرح سے چل رہی تھی وہ۔

" میں نے کب آپ کو اگنور کیا۔۔؟؟ اور اب آپ رو کیوں رہی ہیں۔ مجھے بتائیں تو سہی ہوا کیا ہے ۔!!" 

معصومہ نے ہاتھ بڑھا کر اس کی گال پر بہتا آنسو صاف کیا تو زرلشتہ نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔ 

" تم تو جیسے بہت ہی معصوم ہو نا۔ تمہیں تو کچھ پتا ہی نہیں۔ میں ناراض ہوں تم سے۔ مجھے بات ہی نہیں کرنی تم سے۔ اپنی بلی کے ساتھ ہی خوش رہو ۔ میرا بےبی آجاۓ نا میں ہاتھ ہی نہیں لگانے دوں گی تمہیں اس کو۔ اسے تمہاری گود میں بھی نہیں دوں گی۔ نا ہی وہ تمہیں خالہ کہے گا۔ وہ تمہیں چاچی ہی کہے گا۔ اب رہو اس دو انچ کی بلی کے ساتھ ۔۔!! " 

ریموٹ وہیں پھینک کر زرلشتہ اس پر ہی غصہ نکال کر چلی گئ اور معصومہ اب بھی اپنے کمرے کا حشر دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ اس نے کیا کیا ہے۔ 

کمرے سے باہر نکلتے ہی زرلشتہ نے گہرا سانس لیا کہ بچت ہوگئ۔ ورنہ وہ معصومہ کو اپنی اس بچکانہ حرکت کی کیا صفائ پیش کرتی۔ 

" مس وشہ آفریدی۔۔!! کیا آپ کو انداز بھی ہے یہ کیا حرکت کی ہے آپ نے۔ وہ پانچوں کوی عام سٹوڈنٹس نہیں تھے۔ سونیہ بزنس ٹائیکون کی بیٹی ہے۔ تانیہ اس علاقے کے کمشنر کی بیٹی ہے۔ سیف، سنی اور سہیل کا بیک گراؤنڈ بھی انتہا کا سٹرانگ ہے۔ پوری یونی کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ اگر ان پانچوں میں سے ایک کو بھی کچھ ہوا تو۔ بات میڈیا میں چلی گئ تو ہماری یونی کی ریپوٹیشن الگ خراب ہوجاۓ گی۔ ایسا بھی کیا کردیا تھا ان بچوں نے جو آپ نے ان سب کی ہڈیاں ہی توڑ دیں۔ ان کی جان لینے کی کوشش کی۔ وہ مر بھی سکتے تھے۔ کیا آپ کو سمجھ آرہی ہے میری بات وہ سچ مر بھی سکتے تھے ۔!!" 

کشادہ جدید طرز کے کیبن میں اپنی آفس چیئر پر بیٹھے ساحل سر جو اس یونی کے ڈین تھے انہوں نے ٹیبل پر زور سے ہاتھ جمایا اور اپنی سرخ ہوتی نظریں سامنے بیٹھی وشہ پر گاڑھ دیں جس کے اطمینان میں رتی برابر بھی کمی نہیں آئ تھی۔ وشہ کی نظریں سامنے رکھے گلوب پر تھیں جیسے اسے دیکھنے سے زیادہ کوئ ضروری کام ہو ہی نہ اسے۔ 

" مرے تو نہیں نہ وہ لوگ۔ ڈھیٹ ہیں بہت نہیں مریں گے۔ ہم نے ایسے مارا ہی نہیں کہ امیر والدین کی بگڑی اولادیں اس صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائیں۔ چند مہینے بستر پر تڑپیں گے پھر وہی اپنی گھسی پٹی صورت لےکر اس یونی میں منڈلاتے پھریں گے۔"

وشہ نے آنکھیں ذرا سی ترچھی کرکے سامنے بیٹھے ساحل کو دیکھا پھر یوں کندھے اچکاۓ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ وہ اس کے اعتماد پر غش کھانے والا ہوا۔ مار کر انہیں ہاسپٹل پہنچا کر وہ یوں بیٹھی تھی جیسے ہیلو ہاۓ کرکے آرہی ہو ان کے ساتھ۔ 

 "اور رہی بات اس یونی کی ریپو کی تو آۓ ایم ڈیم شور کوئ انہیں چلتے پنکھے سے بھی الٹا لٹکادے تو وہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ ان کی ابتر حالت کے پیشے ہم ہیں۔ یو نو عزت سب کو پیاری ہوتی ہے۔ لڑکی سے پٹنا پھر ڈھنڈورا پیٹنا ان تین لوفروں کی سو کولڈ ایگو گوارہ نہیں کرے گی۔"

وشہ نے اس دفعہ ساحل کی صورت دیکھ کر جیسے یقین سے کہا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ جب ساحل نے مٹھیاں بھینچیں۔ اس لڑکی کا اعتماد اسے برا لگا تھا۔ ہمارے معاشرے میں جب عورت اپنی عزت کی محافظ خود بن جاۓ۔ ان راہ چلتے کتوں کا منہ توڑنا شروع کردے جو اسے کمزور سمجھ کر اس پر بھونکیں۔ تو یہی ہوتا ہے کچھ نام کے عزت دار اس لڑکی کے اعتماد سے کڑہتے ہیں۔ 

"رہی بات ان رئیس زادوں اور ان پھل جھڑیوں کے جرم کی تو جس دانی صاحب نے آپ کو نقشہ کھینچ کر اس لڑائ کا آنکھوں دیکھا حال بتایا۔ اس نے یہ نہیں بتایا کہ ہمیں پوری یونی کے سامنے مزاق بنانے والے بھی وہی تھے۔ ہمیں ٹارچر کرنے والے ہمیں اس ہال میں گھنٹوں بند کرنے والے اور ہماری چادر تک پہنچنے والے بھی وہی تھے۔ ہمارے ہاں چادر محض چادر نہیں ہوتی یہ ایک عورت کا مان، اس کا غرور، اس کی حیاء اور اس کی غیرت ہوتی ہے۔ کوئ ہماری غیرت پر ہاتھ تو ڈالے ہم ہاتھ نہ توڑ دیں اس کا ۔۔!!" 

اس نے مٹھیاں بھینچیں جیسے غصہ ضبط کررہی ہو وہ۔ اسے اب بھی وہ لمحہ یاد تھا جب ان لڑکوں کی نظر اس کے بے چادر سر پر پڑی تھی۔ وہ لمحہ جیسے فریم ہوکر اس کے ذہن پر چپک گیا تھا۔ وشہ اتنی بہادر بھی نہیں تھی جتنا آج وہ کرائ تھی۔ کم از کم اب وہ لڑکے زندگی بھر اس کی صورت دیکھنے کی خواہش نہ کرتے۔ ساحل نے بھینچی مٹھیاں کھولیں۔ 

" ایک لڑکی ہوکر اتنا غرور اچھا نہیں ہوتا مس وشہ۔ آپ جو کرائ ہیں اس کے نتائج بھیانک بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئ ایشو تھا تو آپ سیدھا مجھ سے کنسرن کرتیں۔ میں کیوں بیٹھا ہوں یہاں جب آپ خود اس یونی میں خون خرابہ کرتی رہیں گی۔ آپ کو چاہیے تھا کہ تحمل کا مظاہرہ کرتیں اور آکر سیدھا مجھے بتاتیں ۔۔!! میں اپنے طریقے سے یہ میٹر سوٹ آوٹ کردیتا۔۔!! " 

ساحل نے اپنے سامنے سے پانی کا گلاس اٹھا کر اس کے سامنے کیا تو اس کی بات پر وشہ کی بھینچی مٹھیاں تک غصے سے سرخ ہوگئیں۔ 

" آپ بینائ یا سماعت سے محروم نہیں ہیں سر ۔۔!! یا سب اچانک نہیں ہوا جو آپ کو کچھ نہیں پتہ۔ یونی کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایسے کئ ہتک آمیز جملوں سے بھرا پڑا ہے جو آپ کے ان چہیتوں کی وجہ سے ہم ہر کسے گۓ۔ ہمارے ماں، باپ کو غلط کہا گیا۔ جو جو بکواس کی جاسکتی تھی کی گئ۔ تب کہاں تھے آپ۔ ہمیں تو کہیں نہیں دکھے۔ 

تب یونی کی ریپو کا سوال نہیں تھا کیا۔  اور جس وقت وہ گھٹیا لوگ ہمیں رسوا کرنا چاہ رہے تھے کیا ہم تب رسوائ کو گلے میں ڈال لیتے کہ ان کا کام حکم ہوتے ہی ہم آپ کے پاس دکھیاری صورت لے کر جائیں گے لیں اب ہم وکٹم بن گۓ ہیں پوری طرح سے۔ آئیں اور ہیلپ کریں ہماری ۔۔!! کیا ماہان سوچ ہے آپ کی۔ ہم تماشہ بنتے، ہماری بےبسی کی تشہیر کی جاتی تب آپ خوش تھے ۔۔۔!!!" 

وشہ روانی میں بولتی گئ اور آخر میں یہاں اس کا طنز سے بھرپور قہقہہ گونجا جیسے وہ سچ میں خود پر ہی ہنسی ہو۔ کہ ظلم بھی اس کے ساتھ ہوا اب سوال جواب بھی وہ سہے کیونکہ اس نے آواز اٹھائی۔ اس نے ظالم کا ہاتھ ہی توڑ دیا۔ تو وہ غلط ہے۔ 

کیا عجیب سوچ تھی لوگوں کی۔۔!!! 

" مس وشہ آپ سمجھ نہیں رہیں۔ وہ کوئ عام لوگ نہیں ہیں۔ ان کے پیرنٹس چپ نہیں رہیں گے۔ وہ آپ کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔ وہ یہاں آئیں گے۔ مجھے جواب دہ ہونا ہوگا ان کے سامنے۔ آپ کی سوچ ہے کہ اگر وہ لوگ ڈونیشن دینا چھوڑ دیں تو یونی کی ساکھ خراب ہوجاۓ گی۔ ہوسکتا ہے وہ اپنے بچوں کو یہاں سے ٹرانسفر کروالیں۔ آپ نے توجو کرنا تھا کرلیا اب بھگتنا تو مجھے ہی پڑے گا نا ۔۔۔!!!" 

ساحل نے جھلا کر ٹیبل پر ہاتھ مارا تو وشہ کے چہرے کی رنگت بدلی۔ کتنا بےحس تھا وہ جسے بس یونی کی ریپو کی فکر تھی بھلے کسی کی عزت جاتی ہے تو جاۓ اس کی بلا سے۔

" بچے ۔۔!!! سیریسلی وہ بچے ہیں ۔۔!! واؤ۔۔!! تو سیدھا سیدھا کہیں نا آپ کی ڈونیشن رک جاۓ گی۔ آپ کے پاس آتے پیسے کم ہوجائیں گے۔ آپ کی یونی تو ان کی بھیک کے بغیر تباہ ہوجاے گی۔ یہ ہمیں نتائج سے کیوں ڈرا رہے ہیں آپ ۔۔!!! وشہ آفریدی تو آپ سے بھی نہیں ڈرتی۔ ان کراۓ کے لوفروں کے باپ سے ڈرنا تو دور کی بات ہے۔۔!!! ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔ ہم نہیں ڈرتے کسی سے بھی ۔۔!!" 

وہ حتی الامکان نارمل رہنے کی کوشش کررہی تھی کیونکہ سامنے بیٹھے اس تیس سے پینتیس سالہ بندے کی لالچ بھری سوچ اسکا میٹر شارٹ کرنے کا کام کررہی تھی۔ پھر جیسی نظریں اس کی تھیں اسے سب سمجھ آرہا تھا۔ ساحل کو اب جی بھر کر غصہ آیا وشہ کی خوداعتمادی پر۔ اسے ابھی وشہ کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا کہ وہ ہے کون۔ 

ورنہ آگے والی بات کرنے سے پہلے وہ زبان کاٹنا پسند کرتا۔ 

" مس وشہ بات اتنی بھی بڑی نہیں تھی جتنی آپ نے بنادی ہے۔ اسے عزت کا مسئلہ بناکر۔ ہم 2024 میں جی رہے ہیں۔ 1990 میں نہیں کہ جب سر کی چادر اترنے کو لوگ معیوب سمجھتے تھے۔ بہن بیٹیوں کو غیرت کا مسئلہ بنادیتے تھے۔اس جدت پسند معاشرے میں جو ان لوگوں نے کیا اس میں مجھے تو کوئ برائ نظر نہیں آرہی۔ ان فیکٹ آپ کو بھی غور کرنا چاہیے اپنی ڈریسنگ پر۔ آجکل کی لڑکیاں جس آزادی میں سانس لے رہی ہیں وہ تو آپ کو بس اس فضا سے متعارف کروائے تھے۔ ڈیٹس اٹ ۔۔!! " 

ساحل نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائ۔ اور ریلیکس ہوکر بیٹھ گیا۔مگر وشہ تو زلزلوں کی زد میں تھی کہ اس آدمی کی سوچ محض چند ٹکوں کے لیے ایسی ہوگی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ بار بار اس کی اپنے وجود پر اٹھتی نظریں وشہ کو زہر لگ رہی تھیں۔

 وہ دیار کو چھچھوڑا اور ناجانے کیا کیا کہتی تھی پر اسے نہیں یاد تھا آج تک دیار نے ایک بھی نگاہ غلط اس پر ڈالی ہو۔ وہ اس کی ملکیت تھی پر کمال ہی ظرف تھا دیار کا جو محض اس بات کی وجہ سے کہ وشہ اسے پسند نہیں کرتی ہنس کر اس کی بےمروتی بھی برداشت کرلیتا اور حق جتانا تو دور کی بات وہ اسے یہ تاثر بھی نہ جانے دیتا کہ حاکم ہے اس پر۔ دل نے شدت سے گواہی دی کہ دیار جیسا انسان اس دنیا میں قسمت والوں کو ہی ملتا ہے۔ اس کی قسمت اچھی ہے جو اسے دیار ملا۔ چاہے جیسے بھی ملا پر مل تو گیا ۔۔!!!

اس نے ہاتھ کی بھینچی ہوئ مٹھی کو دو سے تین بار آہستگی سے ٹیبل پر مارا۔ اسے اپنے سر میں درد کی ٹھیسیں اٹھتی محسوس ہوئیں کہ اب اسے ان غلاظت بھری ذہنیت کے لوگوں سے بات کرنی پڑے گی۔

" تو یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم اوور ری ایکٹ کررہے ہیں یہ کہنا ہے آپ کا۔!!!" 

وشہ کے حلق میں کانٹے چبھے۔ اس نے آنکھیں میچیں جیسے خود کو ہوش میں رہنے پر اکسایا ہو۔

" جی ہاں میں یہی تو کہہ رہا ہوں۔ شکر ہے آپ کو میری بات سمجھ تو آئ۔۔!! آپ ابھی تک تنگ سوچ کے ساتھ جی رہی ہیں۔ وہ لوگ تو بس آپ کی سوچ بدل رہے تھے۔ آپ کو چاہیے کہ ان لوگوں سے اپالوجائز کرلیں اور خود کے حلیے کو بھی بدل لیں۔ مستقبل میں آپ کے لیے آسانی ہوگی ۔ ورنہ ایسے تو آپ پوری زندگی لوگوں کا منہ توڑ کر خود اپنے مقدمے لڑتی رہیں گی ۔۔!!" 

وشہ کی جانب دیکھ کر ساحل اب پرسکون ہوا کہ چلو اس کے الٹے دماغ میں کوئ بات تو ائ۔ ورنہ تو اسے ڈر تھا کہ معاملہ بڑھ نہ جاۓ۔ 

" ہماری سوچ تنگ ہے۔ سچ کہا آپ نے۔ ہماری سوچ واقعی میں تنگ ہے۔ ہمیں ریلائز ہورہا ہے۔۔!!" 

وشہ نے لب بھینچے۔ وہ پرسکون لگ رہی تھی۔ ساحل بے ساختہ مسکرایا۔ اور کرسی کی ٹھیک چھوڑ کر وشہ کے چہرے پر مسکراتی نگاہ ڈالی۔ جس نے جواب میں اس کیبن کا سرسری سا جائزہ لیا۔ 

" ویسے آپ کیا ساری لڑکیوں کو یونہی دیکھنا چاہتے ہیں جیسے ابھی آپ نے اپنے تخیلات میں ہمارا عکس دیکھا۔ ریلیکس ہوجائیں ہم بات گہرائی سے سمجھ رہے ہیں آپ کی ۔۔!! آپ بتائیں ۔۔!!" 

اس نے پانی کا گلاس اپنے بالکل سامنے کیا۔ ساتھ ہی سامنے رکھی بلیک انک کی جانب اپنی مخروطی انگلیاں لےجانا چاہی جو اس سے زرا فاصلے پر رکھی تھی جیسے کسی ضروری استعمال کے بعد وہ اسے اٹھانا بھول گۓ ہوں۔ ساحل کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئ۔ 

" افکورس ۔۔!! سب کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہ چادر ، پردہ، حیاء، شرم سب کتابی باتیں ہیں۔ان فیکٹ آپ تو مس ورلڈ سے کم نہیں لگیں گی اگر خود کو ذرا سا بولڈ کرلیں گی تو۔ اس کے لیے پہلے تو آپ کو ایکسکیوز کرنا ہوگا ۔ سونیہ اور اس کے فرینڈز سے۔ پھر آگے کی باتیں تو ہوہی جائیں گی۔!! امید ہے آپ سمجھنے کے بعد مجھے مایوس نہیں کریں گی ۔۔!!" 

ساحل سمجھ نہ پایا وہ کیا کررہی ہے وشہ کہاں سمجھ میں آنے والی شے تھی۔ غصے کی زیادتی سے وشہ کو اپنا دل اب پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ 

انک اس نے اپنے سامنے رکھ کر کھولی لیکن ظاہر یوں کیا جیسے وہ کمفرٹیبل ہو بہت یہاں۔ 

" صحیح کہہ رہیں۔ ہم کچھ زیادہ ہی دقیانوسی سوچ کے مالک ہیں تبھی تو کب سے جو کرنا چاہیے وہ کر ہی نہیں رہے۔ غلط جگہ سکون سے بیٹھنے کی کوشش کررہے ہیں۔شکریہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے۔ شکریہ ہمیں حقیقت سے روشناس کروانے کے لیے۔  !!" 

وشہ کرسی سے اٹھی اور اگلے ہی لمحے وہ بلیک سٹیمپ انک سیدھا ساحل کے منہ کو اس کی سوچ کی طرح کالا کرچکی تھی۔ساحل چونک کر اٹھا اس کا منہ اور شرٹ بالکل کالی ہوچکی تھی۔ پھر اگلے ہی لمحے وہ پانی کا گلاس وشہ نے اس کی آنکھوں پر پھینکا۔ پانی اس کی آنکھوں پر پڑا اور ناک سے بہتا ہوا اس کے کھلے منہ میں چلا گیا۔ انک کے کڑوے زائقے کو محسوس کرکے ساحل نے فورا وہ انک ملا پانی منہ سے نکالا۔ اور سامنے کھڑی وشہ پر قہر برساتی نظر ڈالی۔ 

" بیوقوف، جاہل لڑکی یہ کیا بےہودگی ہے۔ ٹیچرز سے بات کرنے کی تمیز بھول گئ ہو۔۔!! " 

وہ دھاڑا تو وشہ نے معصوم سی صورت بنائ۔ لیکن سر اب چکرا رہا تھا اس کا۔ وہ غلط ٹائم پر خود سے ہاررہی تھی۔ نتائج برے بھی ہوسکتے تھے۔

" پروفیسر ۔۔!! آپ کو ہماری بولڈنیس اچھی نہیں لگی۔ دیکھیں نا ہم 2024 میں لینڈ کرچکے ہیں۔ جہاں ٹیچرز سٹوڈنٹ کو غلط مشورہ دے تو اس کا منہ کالا کیا جاتا ہے۔ اب بتائیں کیسے لگے ہم آپ کو ۔ اور رہی بات معافی کی تو جاؤ ایڑھی چوٹی کا شور لگالو ہم مرکر بھی حق پر ہونے کے باوجود معافی نہیں مانگیں گے ۔ !!"

 گلاس وشہ نے دیوار پر مارا تو ساحل بھی آپے سے باہر ہوا۔ کرسی کو دھکا دے کر وہ سیدھا وشہ کے قریب آیا اور اپنی سرخ انگارہ آنکھوں سے اسے دیکھا۔ 

" یو(گالی) ***** .ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے ساتھ یہ سلوک کرنے کی۔ وہ لوگ تو بچے تھے تو تم ان سے بچ گئ۔ میرے ہاتھوں نہیں بچو گی۔ معافی نہیں مانگنی نا دیکھتا ہوں کیسے میری بات نہیں مانتی تم۔ سارا غرور آج خاک ہوگا تمہارا۔ اپنی غلطی کی بہت بڑی قیمت چکانی ہوگی تمہیں ۔۔!! بہت بڑی ۔۔!!" 

ساحل دھاڑا تو وشہ نے کچھ کہنا چاہا جب اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے سایہ سا لہرایا۔ اتنے دنوں کا سٹریس اچانک ہی اس کے دماغ کو ماؤف کرنے لگا تھا۔ پھر صبح سے وہ بھوکی تھی اور سب سہتی جارہی تھی اسے لگا کہ وہ زمین بوس ہوجاۓ گی۔ 

جب اسے اپنے چہرے پر کچھ بھاری محسوس ہوا تو اچانک ہی اس کا سن دماغ ہلکا سا بیدار ہوا۔ وشہ کی آنکھیں درد سے بند ہونے لگیں۔ لگا پورا جبڑا ہی ٹوٹ گیا ہو۔ آنکھوں نے سامنے دیار کا عکس لہرایا۔ 

"میرے لیے جنون ہی پیار ہے۔ مجھے ایسا ہی پیار پسند ہے۔ اور میرا پیار سہنا ہی ہوگا آپ کو وشہ ۔۔!" 

دیار کا جملہ اسکے کانوں میں گونجا۔ ساحل نے تھپڑ مارا تھا اسے۔ اگر وہ اس وقت مینٹلی پریپیئر ہوتی تو ہاتھ توڑ دیتی۔ پر اچانک ہی اسے کچھ ہوا تھا۔ وہ سیدھا ٹیبل پر گری اس کی تو چیخ بھی نہیں نکلی تھی۔ تھپڑ اتنا شدید تھا۔ 

"پھر اگلے ہی لمحے اسے ساحل نے بازو سے پکڑ کر کھینچ کر اپنے سامنے کیا اور اس کی حیرت سے بھرپور صورت دیکھی۔ 

"داسی نہیں ملکہ بنارہاہوں میں۔ آپ کی الٹی کھوپڑی میں کوئ بات آۓ تو آپ سمجھیں نا ۔۔!! "

اسے دیار ہی یاد آرہا تھا اس وقت۔ وہ سمجھ نہ سکی کہ اس کی ہمت کی حد اب اپنے مخافظ کو بلارہی ہے۔ جو اس کے ساتھ ہوئے ایک بھی ظلم سے اب تک ناواقف اپنے آفس میں بیٹھا تھا۔ درمان لیو پر تھا تو مجبورا اسے آنا پڑا۔ ورنہ تو اس کا کوئ ارادہ نہیں تھا یہاں آنے کا۔ لیپ ٹاپ کی سکرین پر چلتی دیار کی انگلیاں ساکت ہوئیں۔ ایک عجیب سی بے چینی نے اسے ان گھیرا۔ جیسے سانس لینے کو ہوا بھی فضا سے ختم ہورہی ہو۔ دیار نے اپنی شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولے۔ 

" یہ اچانک سے کیا ہورہا ہے مجھے ۔۔!! آج طبیعت اتنی ڈاؤن کیوں یے۔ پہلے بھی ایسا لگا تھاکہ جسم سے روح کھینچ رہا ہو کوئ۔ پھر سب نارمل ہوگیا۔ اب پھر سے وہی سب ۔۔!! کہیں میری جانم کسی مزار پر میرے دنیا سے نکلنے کی دعائیں تو نہیں مانگ رہی۔  !!" 

دیار کو وشہ ہی یاد آئ۔ اس نے پانی کا گلاس اٹھایا کہ پی سکے پر گھٹن بہت زیادہ تھی۔ پیار سچا ہوتو ایک کی تڑپ دوسرے کا سکون بھی چھین لیتی ہے۔

" ہوش ٹھکانے آۓ تمہارے یا اچھی کسر باقی ہے ۔۔!! تم سیدھی طرح بات سمجھنے والی لڑکی ہو ہی نہیں ۔ !! اسی مار کے قابل ہو تم ۔۔!! " 

ساحل نے جھٹکے سے اس کی چادر کھینچی۔ پر وشہ میں ہمت نہیں تھی اس سے لڑنے کی۔ جسم سے جان اس تھپڑ کی شدت نے نکال کر اسے بےبس کردیا تھا۔

" د۔دیار ہیلپ ۔۔!!" وشہ نے آنکھیں میچیں۔ 

" شیرنی کو کال کرلینی چاہیے۔ بھلا بچوں والی بات کے بعد اپنے مظلوم شوہر کو موت کی سزا دینا ٹھیک تو نہیں۔ کہیں دوسری بیوی ہی نہ ڈھونڈ لاۓ میرے لیے۔ یا مجھے جانا چاہیے اس کے پاس۔ روبرو بات زیادہ ٹھیک ہوگی۔ اسے سمجھانا پڑے گا کہ مجھے بس وہ چاہیے دوسری، یا تیسری سے بال نچوانے کا میرا ارادہ نہیں!!" 

دیار نے لیپ ٹاپ بند کیا اور اپنا کوٹ اٹھا کر ٹیبل سے کیز لے کر کمرے سے نکل گیا۔بے چینی کم نہیں ہورہی تھی۔ 

" میری شیرنی ۔۔!! آپ پر صرف میرا حق ہے۔ دیار درانی کا۔ اٹھیں اور منہ توڑ دیں اس کا۔ میری شیرنی تو امانت میں حیانت برداشت نہیں کرتی نا تو کیسے ابھی چپ ہے۔ وشہ آپ میری امانت ہیں اٹھیں اور حفاظت کریں اپنی۔  !!" 

ایک اور تھپڑ کے بعد وہ بےسود ہوکر فرش پر گری تھی جب اسے لگا جیسے دیار اسے پکار رہا ہو۔ اسے اٹھنے کو کہہ رہا ہو۔ 

" وشہ اگر آج آپ نا اٹھیں تو کھودیں گی مجھے ۔۔!!! مجھ پر تو غصہ نکال لیتی ہیں پھر اب یہاں کیا ہوا ہے آپ کو۔ شیرنی کہیں چوہیا تو نہیں بن گئ۔ وشہ گیٹ اپ۔۔!! ورنہ بھول جانا مجھے ۔ !!" 

دیار جو اس کے تخیل میں تھا وہ اس پر جیسے چیخ اٹھا تو وشہ نے پوری شدت سے لب بھینچ کر آنکھیں میچ لیں۔ 

ساحل کی ہنسی کی آواز وہ سن سکتے تھی جو اب ٹشو سے اپنا منہ صاف کررہا تھا۔

" بس ہوگئ یہ ڈھیر ۔۔!! کہا تھا نا وہ بچے تھے۔ تم جیسی کو تمہاری اوقات میں یاد دلا سکتا تھا۔ یہ ہے تمہاری اوقات ۔۔!! اب بتاؤ کیا کیا جائے تمہارے ساتھ ۔۔!!"

ساحل نے طنز کیا۔

" وشہ اٹھیں ۔۔!! آپ ہار نہیں مان سکتیں ۔۔!! "

وشہ نے آنکھیں کھولیں۔ 

" وشہ آپ پر صرف میرا حق ہے۔ تو اسنے آپ کو چھوا کیسے ۔۔۔!! کیسے ہاتھ لگایا اس نے۔ اور کہاں ہے آپ کی شال ۔۔!! کوئ ہوش ہے آپ کو ۔۔!! اٹھیں ابھی کے ابھی ۔۔!!" 

وشہ نے مٹھیاں بھینچی جتنا دم تھا اس میں اس نے سارا استعمال کیا اور کسی زخمی شیرنی کی طرح اٹھتے ہی بغیر ساحل کو سمجھنے کا موقع دیے اس نے پیپر ویٹ اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔ جو ہنس رہا تھا اچانک درد کی شدت سے چیخا۔ بند دروازے کے بیچ ہی چیخ بھی دب گئ اس کی۔ 

پھر اپنے زخمی لبوں سے بہتا خون وشہ نے انگوٹھے سے صاف کیا اور اپنا سر پکڑ کر کھڑے اس پروفیسر کے منہ پر زور کا تھپڑ مارا۔ 

" یہ ہمیں لڑکی ہونے کی وجہ سے کمزور سمجھنے کے لیے " 

وہ کسی حقیقی شیرنی کی ہی دھاڑ تھی۔ ساحل کو دن میں تارے دکھے۔وشہ کو نہیں پتہ تھا اچانک ہمت کیسے آئ پر محسوس ہوا کہ اب اگر وہ چپ رہی یا بےبس ہوئ تو دیار کا سامنا تاعمر نہیں کرپاۓ گی۔ ساحل نے سامنے دیکھا غصے سے۔ پر درد اس کی جان نکال رہا تھا۔

" یہ ہمیں ہاتھ لگانے کے لیے۔یہ ہم پر گندی نگاہ ڈالنے کے لیے۔ یہ ہمیں بےبس سمجھنے کے لیے ۔۔!!" 

وشہ نے ایک اور تھپڑ مارا پھر تیسرا پھر چوتھا وہ مارتی ہی رہی جب تک ساحل پیچھے نہ گرگیا۔ اور بےہوش نہ ہوگیا۔ 

وشہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے گال پر تھپڑ کا نشان تھا اور لب پھٹنے سے خون نکل رہا تھا۔وہ سسکی۔ 

ہاں وہ رودی ۔۔!! 

اگر وہ نا اٹھتی۔ تو یہ تو مار دیتا اسے۔ صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے۔ وشہ کے ہاتھوں پر سیاہ انک لگی تھی جو اس کے چہرے پر مارتے اس کے ہاتھوں پر لگی تھی۔ 

وشہ نے اپنی شال اٹھائ اس سے پہلے ساحل کو ہوش آتا وشہ نے اپنا فون اور بیگ پکڑا اور وہاں سے بھاگ گئ۔ یونی میں اس وقت تمام سٹوڈنٹس ہی کلاسز میں بزی تھے تو کسی نے اسے بھاگتے نہ دیکھا پر وہ بڑی مشکل سے اس یونی سے نکلی تھی۔ جہاں آج کا دن کسی قیامت سے کم نہیں گزرا تھا اس کا۔ بیک گیٹ پر گارڈ نہیں تھا۔ شاید کہیں گیا تھا وہ۔ تو اسکی حالت کسی نے نہ دیکھی۔

یونی سے باہر نکلتے ہی وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئ۔ اس کا سانس پھول رہا تھا۔ اور اسے بالکل بھی نہیں پتہ تھا اب آگے کیا ہوگا۔ دیار اس کی حالت دیکھ کر کیا ری اکشن دے گا۔ پر اتنا تو طے تھا کہ اسے اس لمحے اس کی ہی ضرورت ہے  جسے کچھ پتہ ہی نہیں۔  

 آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا وشہ یونی کی دیوار کے ساتھ ہی کھڑی تھی۔ وہ وہاں سے ہلی ہی نہ۔ جیسے بت بن گئ ہو۔ 

جب دیار بھی اپنی حالت سے تنگ آکر وہاں پہنچ ہی گیا۔

گاڑی میں بیٹھے پہلے تو اس نے سوچا کہ وہ کسی کلاس میں بزی ہوگی۔ وہ اسے بلاۓ تو وہ غصے میں نہ آجاۓ۔ پھر اس نے سوچا کہ گاڑی میں بیٹھے رہنے کا فائدہ نہیں ہے۔ اسے باہر ہی نکل جانا چاہیے۔

دیار گاڑی سے باہر نکلا تو اسے سامنے وشہ ہی ایک سکن کلر کی شال میں لپٹی لڑکی دکھی جس کی سینڈل وشہ جیسی تھی۔ اسے لگا وہ وشہ ہے۔ پھر اس نے خود ہی اس سوچ کی نفی کہ وہ کیوں ہوگی وہ۔ وہ بھلا یونی کے گیٹ کے پاس کیوں کھڑی ہوگی۔ 

اس نے سر جھٹکا۔ پر نظریں بار بار وہاں ہی بھٹک رہی تھیں۔ یہ یونی کا بیک گیٹ تھا جہاں رش ہمیشہ ہی نہ ہونے کے برابر ہوتا۔ اسی وجہ سے وہ ہمیشہ یہاں سے ہی یونی آف ہونے کے بعد نکلتی تھی۔ اب بھی ایریا سنسان تھا۔ 

وشہ بت بن کر کھڑی تھی جب نظریں بھٹک کر دیار پر گئیں۔ مرتے کو سانسیں ملیں اور ڈوبتے کو سہارا۔ 

وہ کب سے دعا کررہی تھی کہ دیار آجاۓ اور وہ آگیا۔ 

وشہ کی آنکھیں پھر سے بھیگیں۔ ہاتھ میں پکڑا بیگ اور فون زمین بوس ہوا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ 

جب اچانک دیار کی نظریں بھی واپس سے وہیں بھٹکیں اور اگلے ہی پل اسے دھچکا لگا۔ وشہ کو وہ پہچان گیا تھا۔ 

" وشہ ۔۔!!" 

گاڑی کی ٹیک چھوڑ کر وہ اس کی جانب بھاگا۔ وہیں وشہ بھی اس کی جانب ہی چلنے لگی۔ خاموش آنکھیں برس رہی تھیں اور اسے دیار کے پاس ہی جانا تھا۔ 

دیار کے دل کی دھڑکن رکی جب اس کے پاس کھڑے ہوکر وشہ نے ڈبدبائ آنکھوں سے اس دشمنِ جاں کو دیکھا۔ جو قیامت گزرنے کے بعد آیا تھا۔ دیار نے پہلے اس کی آنسوؤں سے تر آنکھیں، پھر زخمی گال اور آخر میں اس کے لبوں کے کنارے پر جما ہوا خون دیکھا۔ اسے محسوس ہوا ہاں سچ میں روح نکل رہی تھی یہاں تو۔ اس کی بے چینی بےسبب نہیں تھی۔ 

" ج۔جانم ۔۔!! میری جان ۔۔!! میرا سکون ۔۔!! کیا ہوا ہے آپ کو ۔۔؟؟" 

دیار نے آگے بڑھتے اسے اپنے حصار میں قید کیا اور وہ بھی اس کی پناہ میں چھپی۔ اس کی شرٹ مٹھی میں دبوچ کر وشہ نے اس کی خوشبو میں گہرا سانس لے کر خود کو بتایا کہ محافظ آگیا ہے اب۔ اب کچھ نہیں ہوگا۔ 

" آ۔آۓ مس یو سو مچ دار ۔۔!!! آپ کیوں دیر سے آۓ۔ ہم یاد کررہے تھے آپ کو ۔۔!! آپ کو نہیں پتہ ہم کتنی تکلیف میں ہیں۔ہمیں چھپالیں خود میں دار۔ آپ کی جانم ٹوٹ گئ آج۔ دنیا اچھی نہیں ہے۔ اس نے مارا ہمیں ۔۔!!" 

وشہ نے سرگوشی کی تو دیار نے اسے خود میں بھینچا۔ وہ مشکل سے ہی سانس لے رہا تھا۔ جتنی تکلیف وشہ کو ہورہی تھی اس سے زیادہ اذیت کے زیر اثر دیار تھا۔

" میری جان ۔۔!!! میں آگیا ہوں۔ ڈونٹ کراۓ ۔۔!! میں چھپاچکاہوں آپ کو خود میں۔ کوئ نہیں آئے گا پاس آپ کے ۔۔!! کس نے مارا آپ کو ۔۔!! کس کی ہمت ہوئ میری جانم کو درد دینے کی ۔۔!!" 

دیار نے اس کا چہرہ سامنے کیا پھر اسکی پیشانی کو محبت سے چھوا پھر اس کے زخمی گال پر لمس چھوڑا۔ وہ آنکھیں موند گئ جیسے سکون ملا ہو اسے۔ 

"ہ۔ہم تو آپ کے ہیں نا تو اس نے کیوں چھوا ہمیں۔۔!! آپ اب ہمیں خود سے دور نہ کرنا۔ آپ رکھیں گے نا ہمیں اپنے پاس۔نہیں تو وہ سب مار دیں گے ہمیں ۔۔!!" 

وشہ کی بات سن کر دیار کے جسم میں جیسے لاوا ابل پڑا ہو۔ اس کی عزت کو کسی نے کیسے میلی نظروں سے دیکھا۔ کیسے ۔۔۔!! اس نے اس کے آنسو صاف کیے تو گال پر ہوتے درد سے وہ سسک اٹھی۔ 

" آپ بس میری ہی ہیں۔۔!! میری شیرنی ۔۔!! مت روئیں دل کٹ رہا ہے میرا۔ " 

وشہ کو واپس سے اپنی پناہ میں لے کر اس نے اس کے سر پر بوسہ دیا۔ 

" کس کی ہوئ اتنی جرات جو آپ کو ہاتھ لگا سکے۔ مجھے بتائیں اس کی نسلیں نہ تباہ کردیں تو میرا نام بھی دیار درانی  نہیں۔۔!!" 

دیار نے اسے خود میں شدت سے بھینچ لیا اور وہ بھی اس کی خوشبو میں سکون ڈھونڈنے لگی۔ جان تو وہ گئ تھی کہ سکون بس اس شخص کی ملکیت میں ہے۔ یہ پاس ہے تو سب ٹھیک ہے۔

" س۔سر نے اور سونیا کے گروپ نے ۔۔!! سب نے ہمیں ہرٹ کیا۔ ہمیں ہال میں بند کردیا۔ ہم دو گھنٹے روتے رہے۔ اندھیرا تھا بہت اندھیرا۔ پھر اس سونیہ نے ہماری چادر سر سے اتاری۔ اور ابھی نا سر نے بھی یہی کیا۔ ہمیں تھپڑ مارے۔۔!! ہمیں ٹیبل بھی زور سے لگا اور ہم فرش پر بھی گرے ۔۔!! اس نے کہا ہم یہی ڈیزرو کرتے ہیں۔ پر ہمارا قصور نہیں تھا سب نے ہمارا ونی ہونے کی وجہ سے مزاق بنایا۔ بہت ٹارچر کیا سب نے ۔۔!!" 

وہ جیسے اس کے آتے ہی وہ بچی بن گئ تھی جو سارے دن اس کے ساتھ جو بھی برا ہوا اس کی شکایت گھر آکر لگاتی ہے۔ دیار کا اشتعال بڑھتا ہی گیا کہ اتنا سب ہوگیا۔ اسے کسی حبیث نے تھپڑ مارا اور وہ سکون میں تھا۔ وشہ کو شانوں سے تھام کر اس نے سامنے کیا پھر اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھا۔ 

" کون سونیہ ۔۔!! آپ کو کسی نے ہال میں بند کیا۔ اور تھپڑ مارا ۔۔!! آپ کا مزاق بھی بنایا گیا اور آپ نے ہمیں بتایا بھی نہیں۔ تو یہ تھی آپ کی پریشانی کی وجہ۔ !! اس وجہ سے اتنے دنوں سے چپ تھیں آپ ۔۔!! میں بھلے آپ کی نفرت کے قابل تھا پر ایک بار مجھ پر بھروسہ تو کرنا تھا نا ۔۔!! کیوں نہیں کیا آپ نے مجھ پر بھروسہ کیوں ۔۔!!" 

دیار کو ابھی سب سے پہلے وشہ پر ہی غصہ آیا۔ اس سوال کے جواب میں وشہ مزید شدت سے رونے لگی۔ 

" س۔سوری۔ آپ تو نہ غصہ کریں ہم پر ۔۔!! آۓ وانٹ یو ۔۔!! ڈونٹ ڈو دس ود می ۔۔!! دار ہمیں درد ہورہا ہے۔ ۔!!" 

وشہ پھر سے بےبسی کی حدوں پر پہنچی۔ تو دیار نے سب ایک طرف کرکے اسے واپس سے خود سے نرمی سے لگایا۔ باقی سب تو وہ اب خود ہی جان لیتا۔ 

" درد ہورہا ہے میری جان کو۔ سارا قصور ہی میرا ہے۔ جب مجھے لگا تھا کچھ گڑبڑ ہے تو میں نے معاملے کی گہرائی کیوں نہ جانی۔ آپ جتنی بھی بہادر ہوتیں تھیں تو لڑکی ہی نا۔ خدانخواستہ کچھ برا ہوجاتا تو میں کیسے خود سے نظریں ملاتا۔۔!! بےفکر رہیں میں آگیا ہوں نا تو سب ٹھیک ہوجاۓ گا ۔۔!! جس جس نے بھی آپ کو ہاتھ لگایا وہ سب اب میرے ذمے ۔ !! آپ بس ریلیکس ہوجائیں۔ میں یہیں ہوں ۔۔!!" 

دیار نے اس کا سر سہلایا۔ تو وشہ نے بھی آنسو روکے۔ 

" آپ تو نہیں نا چھوڑیں گے ہمیں۔۔!! آپ پاس رکھیں گے نا ہمیں ۔۔!! ہمیں بچالیں گے نا سب سے ۔۔!!" 

کوئ ڈر تھا جسے وہ دور کرنا چاہتی تھی یہ پوچھ کر۔ جب دیار نے پیار سے اس کے سر پر بوسہ دیا۔ 

" سانسوں کے بغیر بھی کیا زندگی ہوتی ہے۔ آپ میرے پاس ہی رہیں گی۔ ہمیشہ ۔۔!!! اب آپ کو اس دنیا کے بھروسے نہیں چھوڑوں گا میں۔ آج تو کوتاہی ہوگئ اب نہیں ہوگی واپس سے یہ غلطی۔  !!" 

اس نے اس یونی کے گیٹ کو دیکھا۔ پھر وشہ کو تسلی دی۔ جسے سکون ملا تھا یہ سن کر۔

" میرے غصے کو آواز دینے والوں کو اب میں خود برباد کروں گا ۔۔!!! میری جان ۔۔!! میرا سکون ۔۔!! میں پاس ہوں۔ یہیں ہوں۔ مجھے محسوس کریں۔ یقین جانیں اب آپ کو کوئ کچھ نہیں کہے گا ۔۔!!" 

دیار نے اس کا سر سہلاتے ہوۓ اپنے دانت بھینچے اس کے چہرے پر سختی ہی سختی تھی۔ پر اگلے لمحے اسے محسوس ہوا وشہ کی اس کی شرٹ پر پکڑ کمزور پڑگئی اور دیار کے پاس ہی وہ بےہوش ہوگئ۔

جب تک وہ یہاں نہیں تھا اپنے ہوش میں رہنا ضروری تھا پر اب تو وہ آگیا تھا اب اسکا دماغ سکون لے سکتا تھا۔ 

" ہیییییں جانم ۔۔۔!!! مجھے دیکھیں۔ آپ ایسے چپ نہیں ہوسکتیں۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اب۔ میں ہوں یہاں ۔۔!! جانم ۔۔ !!" 

دیار نے اس کا چہرہ سامنے کیا پھر زخم دیکھ کر وہ لب بھینچ گیا پھر اس کے وجود کو باہوں میں بھر کر دیار نے ایک قہر آلود نگاہ اس یونی پر ڈالی۔ جیسے بس میں ہوتو اسے ہی دھماکے سے اڑا دے۔

" اب وقت ہی بتاۓ گا کہ اس گناہ کی سزا میری عدالت میں کیا ملتی ہے۔ معافی کی کوئ گنجائش نہیں۔ نا وشہ کے لیے جس نے خود کو مشکل میں ڈالا۔ یہ جانتے ہوۓ کہ وہ دیار درانی کی ملکیت ہے۔ نا اس یونی کے لیے جو اسے مشکل میں ڈالنے کی وجہ بنی ۔!!!" 

دیار نے اسے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا پھر بجلی کی سی تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔ سوۓ ہوۓ شیر پر وار ہوا تھا۔ زخمی شیر اپنی شیرنی کے ٹھیک ہوتے ہی ایکشن میں ضرور آتا۔ 

اس کا فون اور بیگ بھی دیار اٹھا چکا تھا وہاں سے۔ 

اسے ہاسپٹل سے واپس وہ دو گھنٹے بعد لے آیا وہ اب بھی بےہوش تھی اور ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ وہ خود ہی کل صبح تک ہوش میں آۓ گی۔ کسی جھٹکے کا گہرا اثر ہوا ہے اس پر۔ ڈریپ ختم ہوتے ہی وہ اسے لے آیا۔ باقی ریپورٹس نارمل تھیں بس وہ فیزیکلی ویک تھی۔ اس کا دھیان دیار کو رکھنا ہوتا اب ۔ 

اسے بازوؤں میں بھر کر وہ لاونج سے گزرتے ہوۓ سیدھا اپنے روم میں آیا اور آہستگی سے اسے بیڈ پر لٹا کر اس نے تکیہ ٹھیک کیا۔ 

" کیوں ہیں آپ اتنی ضدی ۔۔!! ہر مسئلہ خود ہی سلجھانا ہے۔ مجھے بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ کیوں آخر ۔ !! خدانخواستہ اگر آپ کو کچھ ہوجاتا تو میں تو جیتے جی مر جاتا نا۔ پر آپ کو میری بات کیوں سمجھ آۓ گی آخر ۔۔!! کس نے مارا ہے آپ کو یہ تو پتہ لگوالوں گا میں۔ پر میرا قہر اب آپ کو بھی سہنا ہی ہوگا۔یہ زخم میں جیسے سہہ رہا ہوں اب دیار درانی کو آپ سہیں گی۔ آپ پر واضح کرنا حد سے زیادہ ضروری ہے کہ عورت چاہے جتنی بھی مضبوط ہو، انا پرست ہو وہ ہوتی عورت ہی ہے۔ جس کی عزت کانچ سے بھی نازک ہوتی ہے۔ وشہ کیوں آپ نے خود کو مشکل میں ڈالا ، کیوں  ۔۔!!" 

اس کی جانب جھک کر دیار نے اس کی گال پر لگے زخم پر لمس چھوڑا پھر اس کے بکھرے بال سمیٹے۔ 

زخم بہت واضح تھا وجہ تھی ایک ہی گال پر دو دفعہ ایک ہی جتنی قوت سے ہونے والا تشدد۔ وہ بہادر تھی پر فزیکلی کمزور ہی تھی۔ البتہ دماغ کا استعمال کرکے وہ اگلے کو چت کرنا جانتی تھی۔

" معافی نہیں ملے گی اب آپ کو سن لیں ۔!! بہت ہوگئ آپ کی ضد۔آپ کی انا ۔۔!! اس دفعہ آپ بھی میری جانم کو تکلیف دینے کی وجہ سے اسی تکلیف سے گزریں گی جس سے میں گزر رہا ہوں۔ بس دیکھتی جائیں اب ہوتا کیا ہے۔ دیار درانی کو دعوت آپ نے ہی دی ہے۔ اب آگے دیکھیں کیا ہوگا ۔۔!!" 

دیار کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر وشہ کے گال پر گرا پھر وہ خود بھی اسی کے ساتھ ہی بیٹھ کر اس کے بال انگلیوں کی پوروں سے سہلانے لگا۔ جیسے اسے سکون میں لارہا ہو۔ 

" اب دور نہیں جائیں گی آپ مجھ سے ۔۔!! سمجھ گئ نا آپ ۔۔!! میں بھی اب بےخبر نہیں رہوں گا کبھی بھی آپ سے ۔!! وشہ دیار درانی ۔۔!! آپ جب میری تھیں تو خود پر ہونے والے ظلم کا مجھے کیوں نہ بتایا آپ نے ۔۔!!" 

دیار نے جھک کر اس کی جبین پر مہرِ محبت ثبت کی۔ وہ سچ میں اپنے ہوش میں نہیں تھا ہوش تو اس کے اڑ چکے تھے۔ 

" معصومہ ڈیئر ۔۔!! میں چند گھنٹے اس کمرے سے باہر کیا گیا تم نے تو میرے کمرے کو جنگ کا میدان ہی بنادیا۔ اتنی صفائ سے تو چور بھی کسی کا گھر نہیں پلٹتے جیسے میری سلطنت پر بلی چھوڑی کر تم نے اسے ہڑپہ کا کھنڈر بنایا ہے۔ کس غلطی کی سزا ہے یہ ۔۔!! پردے تک اتار کر پھینک دیے، فرنیچر توڑ دیا۔ معصومہ میری جان یہ تباہی مچانے کے بعد تم افغانستان کے طالبان کی ٹیم میں شامل ہونا چاہو گی۔

 یا کچے کے ڈاکوؤں کے ساتھ کام کروگی۔ پیسہ دونوں صورتوں میں پانی کی طرح ہمارے گھر کے فریج میں جما رہے گا۔ تم تو ٹیلنٹڈ ہو یار۔ دہشت گردی رسکی کام ہے۔ میری مانو تو تم کچے کے ڈاکوؤں کے ساتھ ہی مل جاؤ۔ پیسہ کا پیسہ اور مشہوری کی مشہوری۔ !!راتوں رات ترقی کی بلندیوں پر پہنچو گی تم ۔ لیکن تمہارے ان ننھے سے ہاتھوں نے یہ ظلم کیا کیسے۔!!"

نو بجے کے قریب فدیان کمرے میں آیا تو سامنے جو طوفانِ بدتمیزی مچا تھا اسے دیکھ کر اس نے باقاعدہ داد دینے والے انداز میں تالیاں بجائیں۔ پھر راستے میں گرا تکیہ اٹھا کر اسے صوفے پر اچھال کر فدیان نے معصومہ کو ستائشی نظروں سے دیکھا اسے حیرت تھی کہ معصومہ نے یہ کیا کیسے۔ وجہ جاننے میں اسے کوئ دلچسپی نہیں تھی۔ معصومہ نے سارا بکھیڑا ایک دفعہ پھر دیکھا یہ واقعی کسی انسان کا کام نہیں تھا۔

" یہ میں نے نہیں کیا اس چوہے نے کہا ہے۔ زرلشتہ آپی کے ساتھ آیا تھا وہ۔ ان فیکٹ وہی لائیں تھی اسے۔ اس نے میری سونا پر حملہ کیا۔ وہ میری سونا کو کھانے والا تھا۔ پورے کمرے میں اس نے سونا کو بھگایا۔ وہ بیچاری بہت ڈر گئ تھی۔"

دن کا منظر یاد کرکے معصومہ نے جھرجھری لی پھر بیڈ کے پاس ہی نیچے ڈھیلی ہوکر لیٹی سونا کی جانب ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھا تو یہ چوہے والا معاملہ سن کر فدیان نے سونا پر بےیقین نگاہ ڈالی۔ 

" یہ بھنگی بلی ایک چوہے سے ڈر گئ۔۔!! سارا بکھیڑا ایک طرف مگر بےعزتی نہیں ہوگئ آج بلیوں کی۔ یہ کیسی بلی ہے جسے ایک چوہے نے ڈرا دیا۔ اچھا بتاؤ زرلش وہ چوہا لےگئی ہے کیا ۔۔!! مجھے اس چوہے کو گارڈ آف آنر پیش کرنا ہے۔ جس نے چوہوں کو عزت کے اس مقام پر پہنچا دیا جہاں کبھی یہ بھنگی بلیاں بیٹھا کرتی تھیں۔ میں اس چوہے کا آٹوگراف لینا چاہتا ہوں ۔۔!! تم رکو میں جنگلی بلی کا شیر جیسا چوہا دیکھ آؤں ۔۔!! آج تو زرلشتہ نے اگلے پچھلے ریکارڈ ہی توڑ دیے۔اب ایویں تو میں اس کا فین نہیں ہوں نا۔ لڑکی کمال کی ہے۔۔!! "

 فدیان نے بات کرتے ہوے پہلے تو سونا کو پاؤں سے آگے کی جانب دھکا لگایا جو فرش پر پوچے کی طرح رگڑ کھاکر آگے ہوگئ پر اٹھنے کی زخمت نہ کی اس نے۔ پھر بہت روکنے کے بعد بھی اس کی ہنسی چھوٹی تو معصومہ نے منہ بسورا۔ فدیان کو حیرت نہیں ہوئ تھی اسے زرلشتہ سے ایسے ہی کسی ڈرامے کی امید تھی۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ زرلشتہ نے سونا کو کسی بلے کے ساتھ بھگا نہیں دیا وہ یہ بھی کرسکتی تھی۔ اس نے ہاتھ ہلکا ہی رکھا ۔۔!!

پھر فدیان زرلشتہ سے اس چوہے کا پوچھنے جانے لگا معصومہ کی آواز سن کر وہ اچھل پڑا۔ 

" وہ چوہا میں نے توڑ دیا۔ جان بوجھ کر نہیں غلطی سے ہوا یہ سب ۔۔!!! آپ اس کا پوچھنے نہ جانا۔ ورنہ وہ آپ کو بومب باندھ کر مار دیں گی۔ابھی شام کے وقت آپی نے اسے روتے ہوۓ دفنایا ہے پیچھے والے لان میں۔سارے ملازمین بھی اکٹھے ہوگۓ تھے وہاں پر۔ جیسے روبوٹک چوہا نہیں کوئ جاندار تھا۔انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں اس کے بعد۔وہ مجھ سے مزید خفا ہوگئ ہیں۔ آپ پلیز مجھے بچالیں ان سے مجھے ان کے ارادے اچھے نہیں لگ رہے ۔۔!!" 

معصومہ نے اسے صورتحال بتانے کے ساتھ ساتھ التجا بھی کی کہ اسے بھی سیکیورٹی دی جاۓ۔ زرلشتہ اب مزید غصے میں آچکی ہے۔ جب یہ سن کر فدیان وہیں بیڈ پر اس کے پاس ہی صدمے سے بیٹھا۔ 

" میری جان ۔۔!! اپنی جان پیاری ہے تو ایسی الٹی سیدھی حرکتیں کیوں کرتی ہو۔ وہ چوہا میں نے بھی دیکھا تھا کل زرلشتہ اسے لاونج میں دوڑا رہی تھی خوش تھی وہ اس کے ساتھ کھیل کر۔ تم نے اسکی پسندیدہ چیز توڑ دی۔ پھر مجھ سے مدد مانگ رہی ہو جسے وہ گنجا کرنے میں وقت نہیں لگاۓ گی ۔ آفرین ہے تم پر۔۔!! تم پکا میرے چالیسویں کے چاول پورے علاقے میں بٹوانے والی ہو ۔!!" 

اس کالہجہ تھکا ہوا تھا وہ پیچھے کی سمت بیڈ پر گرا اور ڈر کر تھوک نگلا۔ معصومہ کی حالت بھی ویسی ہی تھی۔ نا اسے پتہ تھا اس کی غلطی کیا ہے نا وہ جانتی تھی وہ کرکیا رہی ہے۔ 

" پر وہ چوہا لائیں تھیں مجھے کیا پتہ تھا۔ مجھے لگا وہ سونا کو ماردے گا۔ تو میں نے توڑ دیا اسے۔ پر آپی نے بھی تو مجھے تنگ کیا نا ۔!!" 

وہ اپنی صفائی میں بولنے لگی تو فدیان نے گردن اس کی جانب موڑ دی۔ 

" تمہیں چوٹ لگی کہیں ۔۔؟؟ وہ تم پر چیخی ۔۔؟؟ تمہیں تکلیف دی ۔۔؟؟ سونا کو بھی بس ڈرایا کیا اسے کہیں چوٹ لگی ۔۔؟؟ اس نے تم سے بدتمیزی کی ؟؟ کیا چوہا توڑنے کے بعد اس نے سونا کو کچھ کہا تاکہ تمہیں اذیت دے سکے ۔۔؟؟" 

فدیان کے سوال معصومہ نے سنے تو فورا نفی میں سر ہلایا۔ 

" نہیں آپی نے تو مجھے چوٹ نہیں پہنچائ۔ ہاں کمرہ ضرور خراب ہوا پر سونا کو بھی تکلیف نہیں دی بس وہ اسے تنگ کررہی تھیں۔ میں جانتی ہوں فادی۔۔!! آپی کبھی کسی کو تکلیف نہیں دیتیں۔ سونا کی وجہ سے میں نے انہیں اگنور کیا۔ وہ چاہتیں تو بدلے میں سونا کو مجھ سے دور کردیتیں۔ میں اتنا تو جانتی ہوں وہ جو چاہتی ہیں وہ آسانی سے کرلیتی ہیں۔ پر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔۔!! 

انہوں نے تو مجھے اپنی باتوں سے بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں خود غرض ہوگئ تھی۔ ایک نیا دوست ملتے ہی میں نے انہیں چھوڑ دیا ۔۔!! وہ ناراض ہیں میں سمجھ گئی ہوں۔ پر آج جوبھی ہوا میں سمجھ ہی نہیں پائی ۔۔!!" 

معصومہ کا لہجہ ظاہر کررہا تھا کہ زرلشتہ کے خلاف تو وہ بھی نہیں بول سکتی۔ فدیان مسکرایا پھر ہاتھ بڑھا کر اس کی گود میں رکھا اس کا ہاتھ نرمی سے تھام گیا۔ 

" وہ سونا کو تم سے دور نہیں کرنا چاہتی بس تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ معصومہ وہ آسانی سے کسی کو دوست نہیں بناتی۔ میں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں مہنگے سے مہنگا گفٹ، اسکی پسند کی ہرشے میں نے اسے دینا چاہی تاکہ وہ مجھ سے دوسری کرلے بدلے میں بھائ کہہ کر اسنے مجھے بھائ بنانے میں کسر نہیں چھوڑی۔ اور قسمت نے بھی بھائ بناہی دیا مجھے اس کا۔۔!! "

فدیان مسکراتے مسکراتے سنجیدہ ہوا پھر تکلیف کی ننھی سی لہر اس کے چہرے پر چھائ اور اگلے ہی لمحے چھپ گئ۔ معصومہ نے اس کے بدلتے تاثرات غور سے دیکھے تھے۔یہاں آکر وہ لہجے پڑھنا سیکھ گئ تھی۔ اور جو حسرت فدیان کے انداز میں چھپی تھی وہ اس تک پہنچ بھی گئ۔ پر اسے لگا شاید یہ وہم ہو اس کا۔

"معصومہ وہ تھوڑی بچکانہ حرکتیں کرتی ہے پر فکر نہیں کرو اب چوہا ٹوٹنے کے بعد وہ کچھ نہیں کرے گی ۔!! میں جانتا ہوں اسے۔ اب بھی بھائ کے آتے ہی ان کے پاس بیٹھ کر رورہی ہوگی اور وہ اسے چپ کروارہے ہوں گے۔ اسے چوہا ٹوٹنے سے زیادہ اس بات کا ڈر تھا کہ اس ہھیلاوے کے بعد تم ایسا کچھ نہ کہہ دو کہ اس کا دل ٹوٹ جاۓ۔ وہ تبھی یہ سب کررہی ہے تاکہ اس کی حرکت بھول کر تم اسے منانے کا سوچو ۔۔!! منانا ہے نا اسے ۔۔!!" 

فدیان نے بات کور کی تو معصومہ نے بھی ہاں میں سر ہلادیا۔ دیکھ وہ ابھی بھی فدیان کی صورت رہی تھی۔ 

" گڈ گرل ۔۔!! اس کی پسند کی چاکلیٹس، ٹیڈی بیئر ، پرفیومز اور پھول میں سب تمہیں لادوں گا کل تم اسے دے دینا۔ ساتھ میں اسے گلے لگاکر سوری کہہ دینا۔ اسی لمحے وہ سب بھول جاۓ گی ۔۔! تھوڑے نخرے کرے گی پر مان جاۓ گی ۔۔!!" 

فدیان نے معصومہ کی رنگ فنگر میں وہی انگوٹھی دیکھی تو پھر سے مسکرایا۔ اور اس انگوٹھی کو ذرا سا اتار کر پھر سے اسے پہنا کر پھر سے اتارنے لگا۔ معصومہ الجھ سی گئ۔ وہ کتنا جانتا ہے زرلشتہ کو۔۔!!

" فدیان آپ زرلشتہ آپی کی پسند نا پسند بھی جانتے ہیں۔ اور یہ بھی جانتے ہیں وہ مانیں گی کیسے اور اب کیا کررہی ہوں گی۔ پر کیسے ۔۔؟؟"

معصومہ نے جواب چاہا انداز نارمل تھا فدیان تو انگوٹھی سے کھیلنے میں مگن تھا جان ہی نہ سکا کہ وہ کچھ جاننا چاہ رہی ہے۔

" اسے اس سے زیادہ ہی جانتا ہوں میں۔ پاگل ہے پوری کی پوری۔ پر بہت کیوٹ ہے۔!! کسی کے بھی دل میں بس جاتی ہے۔ اور خود بھی نہیں جانتی۔اچھا ہی کیا بھائ نے جو اسے خود تک ہی الجھا لیا۔ ورنہ کئ مجھ جیسے اسے حسرت بنالیتے ۔۔!! "

فدیان نے حسرت میں ڈوبی آہ بھری تو دماغ نے الرٹ کیا وہ کیا غلطی کرچکا ہے۔ اس نے فورا معصومہ کا ہاتھ چھوڑا اور اٹھ کر بیٹھ گیا معصومہ تو شاکڈ تھی۔ یہ کیا کہہ دیا تھا فدیان نے ۔۔!! 

فدیان کے چہرے کی رنگت پیلی پڑی۔ اپنا راز خود اگل کر اس نے غلطی کردی تھی۔ 

" وہ حسرت ہیں آپ کی ۔!! پیار کرتے تھے آپ ان سے ۔!! فدیان کیا سچ میں ۔۔!!" 

معصومہ کے دل کی رفتار سست پڑی۔چاہے رشتہ انجانے میں جڑا تھا۔ وہ فدیان کو اب بھی زیادہ نہیں جانتی تھی پر یہی تو وہ شخص تھا جس نے اسے وہ زندگی دی جو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچی تھی۔ اس نے ہی تو اسے زندگی کا مطلب سمجھایا ۔۔!!

اور جب کسی کو پتہ چلے جسے وہ اپنی متاعِ جاں سمجھنے لگا ہے اس کے دل میں تو کسی اور کے نام کی حسرت باقی ہے۔ تو نا زمین اپنے پیروں کے نیچے محسوس ہوتی ہے نا آسمان کی یہ نیلی چادر انسان کو اپنی لگتی ہے۔ وہ زلزلوں کی زد میں آجاتا ہے۔ 

" پلیز معصومہ یہ الفاظ میرے اور اس کے لیے استعمال نہ کرو۔ وہ قابلِ عزت ہے۔ بھابھی ہے وہ میری۔ کسی نے سن لیا تو اس کی زندگی میں طوفان آجاۓ گا۔ جو بھی ہے اس سے وہ انجان ہے۔!! میرا وہ مطلب نہیں ہے جو تم سمجھ رہی ہو میرا مطلب ہے وہ میری یونی فیلو ہے میں کافی ٹائم سے اسے جانتا ہوں۔ اب تو بھابھی بھی ہے اس کی عزت کرتا ہوں میں۔ تم کچھ غلط مت سمجھنا۔۔!! پلیز ۔۔!!" 

فدیان نے اس کے دونوں ہاتھ واپس سے تھامے اس کی آنکھوں میں ریکوئسٹ تھی۔ معصومہ کا سانس اب بھی بے ترتیب سا تھا ایک آنسو ناچاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھ سے گرا۔ اور اس نے سر ہاں میں ہلاکر تھوک نگلا۔ حلق میں کانٹے سے چبھے اسے۔ 

" وہ ب۔بھابھی ہی ہیں آپ کی۔۔!! اور کچھ نہیں ۔۔!! آپ چیزیں لادیجۓ گا میں منالوں گی انہیں۔ !! میں نے کچھ غلط نہیں سمجھا۔ فکر نہیں کریں ۔۔!! وہ ہیں ہی اتنی پیاری کہ دل خود ہی ان کی طرف کھچا چلا جاتا ہے۔۔!!"

معصومہ نے ہمت سے کہا تو اپنی جلدبازی پر خود کو ڈپٹتے ہوۓ فدیان وہاں سے اٹھ کر واش روم چلا گیا۔ یہ حسرت تو دل میں چھپی تھی آج دل نے دغادی تو وہ سنبھل بھی نہ سکا۔ وہ غلطی کرگیا ۔ اب یہ غلطی ناجانے کیا رنگ لاتی۔ اس کے جاتے ہی معصومہ نے اپنے آنسو سختی سے رگڑ دیے۔ 

" وہ بس میرے ہیں تو زرلش آپی ان کے دل میں کیوں ہیں ۔۔!! جہاں مجھے ہونا چاہیے وہاں مجھ سے بھی پہلے وہ تھیں۔ انہیں مجھ سے زیادہ ان کے بارے میں پتہ ہے ۔۔!! پر کیوں ۔۔!!!"

معصومہ نے اپنا ہاتھ لبوں پر جماکر اپنی چیخ کا گلا گھونٹا۔ چہرہ حد درجہ سرخ ہوچکا تھا جیسے سارا خون چہرے پر ہی سمٹ آیا ہو۔ اس لمحے معصومہ کو زرلشتہ بالکل بھی اچھی نہ لگی۔ 

اگر آپ کی جان سے بھی پیارا وجود آپ کے شوہر کے دل میں بس رہا ہو تو پتہ چلنے پر وہ وجود بھی زہر لگتا ہے۔ ہاں معصومہ کو زرلشتہ سے تھوڑی ہی سہی نفرت ہوئ۔ دل کیا کہ فدیان کے دل سے اسے نکال دے۔ پر وہ نہیں نکال سکتی تھی وہاں وہ خود بھی نہیں تھی۔ 

" آپی ۔۔!! آپ کیوں ہیں ان کے دل میں ۔۔!! میں نے تو بہن مانا تھا آپ کو ۔ پھر یہ سب کیا ہے ۔۔!!!" 

معصومہ نے ہاتھ ہٹایا پھر بکھرے ہوۓ کمرے پر ایک عجیب سی نگاہ ڈالی جیسے وہ ٹوٹ رہی ہو۔ 

پھر فدیان کے واش روم سے نکلنے سے پہلے ہی وہ کمفرٹر میں دبک کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔ بس ایک ذرا سی غلطی اس معصوم سی لڑکی کو حسد جیسے برے جزبے سے روشناس کرواگئ تھی۔ حسد کی ایک ننھی سی چنگاری بس ابھی اس کے دل میں سلگی تھی اب وقت بتاتا کہ وہ چنگاری مستقبل میں اسے کسی مقام پر لاتی۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" بس کردو زرلشتہ ۔۔!! تم تو یوں منہ بناکر کھڑی ہو جیسے وہ روبوٹک چوہا نہیں کوی انسان تھا۔ اور تمہیں جان سے پیارا تھا وہ۔ ایک نقلی چوہے کے ٹوٹنے پر تم اتنا دکھ منارہی ہو۔ کل کو مجھے کچھ ہوگیا تو تم تو جینا ہی چھوڑ دو گی ۔ !!" 

وہ ٹیرس پر کھڑی تھی ناک مسلسل رونے سے لال اور گرے آنکھوں کا رنگ بھی بدل چکا تھا۔ درمان کی بات سن کر زرلشتہ نے ڈانٹنے والی نظروں سے اسے دیکھا۔

" میں چوہے کے ٹوٹنے پر نہیں رورہی درمان ۔۔!! بس ویسے ہی رونا آرہا ہے۔ اور بہت آرہا ہے۔ وجہ مجھے بھی نہیں پتہ۔ بس اتنا پتہ ہے میرا موڈ خراب ہے۔ کیوں، کس کی وجہ سے، اور کیسے یہ سوال آپ نہ پوچھیں جواب مجھے بھی نہیں پتہ ۔ !!" 

زرلشتہ نے سوں سوں کرتے ہوئے اسے بتایا۔ اس جواب پر درمان کو اس کی دماغی حالت پر پھر سے شبہ ہوا۔ کوئ انسان بغیر وجہ کے روبھی سکتا ہے۔کیا عجیب بات تھی اس کی ۔۔ !!!

" پاگل تو نہیں نا ہوگئ تم۔۔۔!! خیر وہ تو تم ہو۔ لیکن کوئ دورہ تو نہیں نا پڑا نا تمہیں رونے کا۔ اچھا یہ سب چھوڑو بتاؤ گھر سے کوئ کال آئ ۔ !!" 

اس نے اس کا دھیان بٹانے کو کہا۔ تو اسے یاد آیا خبر تو گھر پہنچ گئ تھی پر اس نے گھر والوں نے تو کال کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس نے ابھی ہی دھیان دیا تھا اور سوچ کر اب وہ باقاعدہ آواز سے رونے لگی۔

" کونسا گھر ؟ کس کا گھر ؟ میرا تو بس یہی ایک ٹھکانہ ہے اب۔یہیں جینا ہے اور یہیں مرنا ہے۔ گھر والے تو بھول گۓ ہیں مجھے۔ وشہ بھی بھول گئ وہ تو دوست تھیں نا میری۔ انہوں نے بھی کوئ کال نہیں کی۔ اور دیار لالہ نے تو پلٹ کر پوچھا تک نہیں کہ کہیں درمان تمہین ٹارچر تو نہیں کرتے۔ بھائ کی ضرروت تو نہیں ہے نا ؟؟؟ درمان دیکھ لیں میرا تو کسی کو خیال ہی نہیں ۔۔!!!" 

روتے ہوے اپنی آنکھیں رگڑ کر اس نے معصوم سی صورت بنائی۔ درمان نے گہرا سانس ہوا نے سپرد کیا۔ دیار سے اس کی بات بھی نہیں ہوتی تھی اب وہ آفس آتا تھا ایک دو چکر لگالیتا پر افسوس بات کرنے کی توفیق موصوف کو حاصل نہ ہوئی۔ درمان بھی اس کے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ اس چمکتے آسمان کو دیکھنے کے لیے۔

" ویسے یار اب تو مورے بھی پیار کرتی ہیں تم سے۔ خیال رکھتی ہیں تمہارا۔ کم از کم اسی بات کو سوچ کر رونا بند کرو۔ دیار کو نہیں خیال کہ تم سے بات کرلے تو تم کیوں اس کے بارے میں سوچ رہی ہو۔ بھاڑ میں جھونکو ایسے بھائ کو جسے بہن کی خوشی سے لینا دینا ہی نہیں!!" 

درمان نے دیار کی صورت اور اس دن والے مکے یاد کیے تو سوچا موقع اچھا ہے اس کی بہن کو اس کے خلاف ہے بھڑکادے۔ تاکہ بدلہ ہی لے لے دیار سے۔ زرلشتہ نے آنسو پھر سے رگڑے۔ 

" ساسوں ماں کا پیار ہی تو ہضم نہیں ہورہا مجھ سے۔۔! کوکیلا اچانک سے سدھر گئ بات ہضم ہونے والی ہے ہی نہیں ۔۔!!" 

اس کا ذہن الجھ گیا درمان کی اگلی بات اس نے نہیں سنی تھی۔ پر رونا روک کر اس نے شنایہ بیگم کا پیار ضرور یاد کیا جو آج کل اس پر نچھاور ہورہا تھا۔ درمان نے سر جھٹکا یہ آج اس کا دماغ پکانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اب تو وہ بھی بور ہورہا تھا۔

" اب آپ کو کیا ہوا ہے ۔۔؟؟؟" 

درمان خاموش ہوا تو زرلشتہ نے پوچھا۔ 

" پیار ہوا ہے۔۔!! تم سے۔ جس کی تمہیں قدر ہی نہیں ۔!!" 

اس نے شرارت سے جواب دیا۔

" رہنے دیں ایسا ہی پیار ہوا ہوگا جیسی انگوٹھی دی تھی آپ نے۔ بندہ کسی کو دکھا بھی نہیں سکتا۔ ہنہ!!" 

زرلشتہ نے سر جھٹکا تو درمان کو یاد آیا وہ انگوٹھی اسے گاڑی میں گری ملی تھی۔ دیکھتے ہوئے وہ وہیں بھول آیا تھا۔پھر اسے وہ دینا اسے یاد ہی نہ رہا۔ 

اس نے انگوٹھی نکال لی۔ اور بیچاری سی صورت بناکر زرلشتہ کو دیکھا۔ 

" شادی کرو گی مجھ سے ۔۔؟؟" 

گلا کھنکار کر درمان نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ عجیب انسان تھا اپنی ہی بیوی سے ہچکچا رہا تھا۔ زرلشتہ اس کی جانب مڑی۔ 

" تو پہلے کیا ڈرامہ کیا تھا۔ شادی ہی ہوئ تھی ہماری بندوقوں کے ساۓ میں۔ " 

اس نے بے رخی دکھائ تو درمان مسکرایا۔ اسے وہ شادی بھول ہی نہیں سکتی تھی یہ بندریا اسے بیڈ پر اچھلتے جو ملی تھی۔ 

" ہاں بات تو ٹھیک ہے تمہاری اچھا بتاؤ منہ دکھائ لوگی ۔۔!! تمہارا منہ جس حال میں دیکھا تھا میں نے اس حساب سے مجھے تمہیں کسی چڑیا گھر یا مینٹل اسائلم بھیجنا چاہیے۔ پر مروتاً پوچھ رہا ہوں منہ دکھائ لوگی ۔۔!!" 

اس نے مسکراہٹ دبائ وہ جانتا تھا زرلشتہ کو غصہ ہی آۓ گا اس بات کے جواب میں۔ 

" تو جس حال میں میں نے آپ کا منہ دیکھا تھا مجھے تو آپ کو کسی عامل بابا کے حوالے کردینا چاہیے۔۔!! جن ہیں آپ۔ قبرستان میں رہتے ہیں۔ بندے مار کر چپکے سے دفنا دیتے ہیں کسی کو خبر ہی نہیں ۔۔!!" 

اس نے منہ چڑایا جیسے بدلہ لے رہی ہو جب اس بات پر درمان نے صدمے سے منہ کھولا۔ 

" تمہیں چاہیے ہی نہیں ۔۔!! میں نے سوچا تھا پروپوز کردوں تمہیں۔ تم خوش ہوجاؤ گی پر تم تو پٹڑی پر آہی نہیں رہی۔ رہنے دو یہ خواہش میں کسی اور پر پوری کرلوں گا ۔۔!!'"

انگوٹھی مٹھی میں دبوچ کر درمان نے مصنوعی رعب دکھایا تو اس کی بند مٹھی کو زرلشتہ نے متجسس نگاہوں سے دیکھا۔ 

" آپ پروپوز کرنے لگے ہیں مجھے۔ تو پہلے بتانا تھا نا۔ اچھا نا ناراض نہ ہوں کرلیں۔ بیوی ہوں آپ کی اب اتنا تو آپ کا بھی حق بنتا ہے ۔۔!!" 

وہ بھول گئ کہ ابھی کچھ دیر پہلے آنسوؤں کا ریلا اس کی آنکھوں سے جاری تھا اب اسے یاد تھا تو بس یہ کہ درمان اسے پروپوز کرنے والا ہے۔ 

درمان نے شکر کا سانس لیا کہ یہ مصیبت ہاتھ تو آئ۔ ورنہ انگوٹھی کا طعنہ سن سن کر وہ اب پاگل ہونے والا تھا۔ درمان گھٹنے کے بل بیٹھا۔ اور انگوٹھی اس کے سامنے کی۔

" ول یو میری می۔۔!!" 

اس نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا تو زرلشتہ بھی مسکرانے لگی۔ اس نے مسکراتے ہوۓ اپنی انگلیاں مڑوریں۔ 

" افکورس درمان ۔۔!! بالکل نہیں کروں گی۔ یہ غلطی میں دوبارہ کرہی نہیں سکتی۔ میرا کیا دماغ پھرا ہوا ہے جو ایک جن کو پھر سے قبول کروں۔ مجھے دلچسپی نہیں ہے ۔!!" 

اپنے بال جھٹک کر اس نے اسے جلادینے والی ہنسی دکھائ تو درمان کا منہ کھلا۔ یہ تو دن بدن اب ہاتھ سے نکلتی ہی جارہی تھی۔ اس انکار کو اس نے جیسے تیسے نگلا۔ وہ پہلا انسان تھا جس کی اپنی بیوی ہی دوبارہ پروپوز کرنے پر اسے ٹھینگا دکھا چکی تھی۔

" یار کرلو نا شادی ۔۔!! اپنے بچوں کو کیا شکل دکھاؤں میں کہ ان کی ماں نے مجھے یعنی ان کے باپ کو انکار کیا تھا۔ پلیز مان جاؤ نا ۔۔!!"  

 مشکل سے ہی سہی وہ رونی صورت بناگیا۔ تو زرلشتہ نے سوچنے کی ایکٹنگ کی۔ 

" بہت بدتمیز ہوں میں، عقل مجھے چھوکر نہیں گزری، بچپنا ختم نہیں ہوسکتا مجھ میں سے، ڈریسنگ کی سینس نہیں ، بولنے کا پتہ نہیں ، پڑھائ پوری نہیں ہوئ، گھر والے بھول چکے ہیں ، فضول خرچ ہوں بہت، موڈی ہوں اپنے مطابق چلتی ہوں، اور بھی اتنی برائیاں ہیں کہ گنوانے لگوں تو دن ہوجاۓ۔ میری مانیں تو اپنے جیسی ہی کوئ ڈھونڈ لیں۔ فائدے میں  رہیں گے۔ سیانے کہتے ہیں پہلی بار کی گئ غلطی دوبارہ نہیں دہراتے۔۔!! میری مانیں تو جائیں اور کوئ اور ڈھونڈ لیں ۔۔!!" 

اس کی اور جھک کر اس نے اپنی برائیاں اس کے سامنے رکھیں جس کی اب بس ہوگئ تھی۔ کتنے نخرے تھے اس کے۔ 

" ہاں نا جس دن دوسری ڈھونڈی میرا کفن لےکر تم میرے پیچھے آؤ گی۔ اتنا تم میں حوصلہ ۔۔!! 

ڈریسنگ سے مجھے مسئلہ نہیں، بات تم جو کرلیتی ہو وہی بہت ہے، میچورٹی اگر حد سے زیادہ ہو تو لائف بورنگ ہوجاتی ہے باقی سب بھی فضول کے ریزن ہیں۔ سیدھا سیدھا ہاں کرو ۔۔!!" 

درمان اٹھ کر کھڑا ہوگیا تو زرلشتہ نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے گھورا۔

" عجیب انسان ہو پیچھے پڑگۓ ہو جب کہہ دیا نہیں کرنی شادی تو نہیں کرنی ۔۔!! میرا تمیز سیکھنے کا کوئ ارادہ نہیں ہے آپ سے شادی کرکے۔ تو وہ رہا باہر کا راستہ جائیں ۔۔!!" 

اس نے اسے آنکھیں دکھائیں جس کی اب سچ میں بس ہوگئ تھی۔

"تمیز سیکھنا بھی مت۔ کسی بھی کام میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ تم سنجیدہ ہوگئ تو میرا کیا بنے گا۔ میں چاہتا ہی نہیں کہ کوئی میرے علاؤہ تمہیں پسند کرے۔ مجھے تو تم ایسے ہی قبول ہو اور دل و جان سے قبول ہو۔ "

زرلشتہ کا ہاتھ خود ہی پکڑ کے اس نے وہ انگوٹھی اسے پہناہی دی۔ کہیں پھر سے وہ گم نہ ہوجاۓ۔

زرلشتہ کا منہ حیرت سے کھلا جب اگلے ہی لمحے اسکے دونوں ہاتھ پر بوسہ دے کر اس نے آنکھ دبائ۔ 

" لو ہوگئ شادی ۔۔!! مسز درمان یہ کھڑوس ایک دفعہ پھر سے مبارک ہو ۔۔!! بس اتنا کرنا میرے لیے کہ کبھی کچھ بھی ہوجاۓ مجھ پر یقین کرنا ۔۔!! کرو گی نا ۔۔!!" 

اس کے ہاتھ چھوڑ کر درمان نے اس کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کی جس نے منہ پھلا کر خاموشی اختیار کی۔ 

" بولو نا کرو گی بھروسہ ۔۔!!"

اس کے گرد بازو لپیٹ کر اس نے لفظوں پر زور دیا۔ 

" نہیں ۔۔!! میں نہیں کروں گی ۔۔!! مجھے شوق نہیں ہے پراۓ لوگوں پر بھروسہ کرنے کا۔ جو زبردستی ہی شادی کرلیں۔ میری عجیب قسمت ۔۔!! دو دفعہ آپ سے شادی ہوئ دونوں دفعہ ہی میں راضی نہیں تھی۔ !! "

اپنی انگوٹھی کو دیکھتے ہوۓ اس نے جتایا کہ میں راضی نہیں ہوں۔ جب درمان نے اسے اپنے حصار میں مکمل قید کیا۔ 

" تو تمہاری رضامندی سے ہوہی کیا جانا ہے۔ مرضی تو میری ہوگی نا شوہر ہوں تمہارا۔ ہم چاہیں گے تو تیسری بار پورا سٹیج سجاکر مہمان بلا کر شادی کریں گے۔ تب بھی میری ہی چلے گی ۔۔!!" 

اس نے اس کا دھیان بٹادیا تھا اس کا کام ہوچکا تھا۔ جب اس بات پر زرلشتہ بھی مسکرائ۔

" پاگل کہیں گے لوگ ہمیں ۔۔!!" 

" کس کی اتنی ہمت جو درمان کو پاگل کہے۔ بس اینیورسری آنے دو پوری شادی دوبارہ ہوگی !" 

اس نے سنجیدگی سے کہا۔ 

" اچھا بتائیں بےبی کی شاپنگ کب کرنی ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اس کا کمرہ بنانا بھی ابھی سے شروع کردیں وہ دیوار اب تڑواہی دیں۔ ساتھ میں بڑا سا جھولا، وارڈ روب، بہت سے کھلونے، اس کی ہر ضرورت کی چیز سب لائیں گے۔ ابھی سے شروع کریں گے تو آسانی ہوگی۔ پلیز نا ۔۔!!!"

اس نے ضد کی۔ درمان کی خوشبو میں زرلشتہ کی اداسی بھی ختم ہوگئ۔ وہ اپنی اس چھوٹی سی فیملی کے ساتھ خوش تھا پر اسے خبر نہیں تھی خوشیوں کو ہی تو نظر لگتی ہے۔ یہ نظر نہ اتاری تو نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" آنٹی ۔۔!! یہ اتنے سارے کالے بکرے کیوں لائن میں کھڑے ہیں یہاں۔ کوئ ڈانس پارٹی رکھی ہے کیا آپ نے ان سب کی۔ آپ تو چھپی رستم نکلیں ۔۔!! یہ شوق بھی تھے آپ کو ۔۔!! مجھے کیوں نہیں بتایا آپ نے۔ بھلا میں بھی شامل ہوجاتی۔ مانا میں بکری نہیں ہوں پر بکروں کے حقوق کی ان کی آزادی کی قائل ہوں میں ۔۔!! بہو ہوں میں آپ کی اب آپ کو اپنے کاموں میں مجھے بھی ساتھ ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔۔!!"

کانوں میں ہیڈ فری لگاۓ زرلشتہ فون مین مگن ہوکر لان کے پچھلے حصے سے گزری جہاں سیاہ بکروں کی لمبی سی قطار شنایہ بیگم کے سامنے کھڑی تھی اور وہ ان کی گنتی کررہی تھیں۔ وہیں کھڑے ہوکر زرلشتہ نے بےتکلفی سے شنایہ بیگم کے شانے پر کہنی رکھی پھر ان سارے بکروں کا طائرانہ جائزہ لیا۔ 

" کچھ بھی بولتی رہتی ہو تم لڑکی۔۔!! ایسا کچھ نہیں یے ۔۔!!" انہوں نے گہرا سانس خارج کیا۔ تو زرلشتہ نے سمجھ کر سر ہاں میں ہلایا۔ 

 " اچھا تو بکروں میں الیکشن مہم چلانے والی ہیں آپ۔اب آپ ان سب کی چیئر پرسن بنیں گی۔ بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے آپ نے۔ بکروں سن لو ووٹ صرف ساسوں ماں کا۔۔!! جس نے شنایہ بیگم کو ووٹ نہ دیا کل صبح اس کے پاۓ کی خوشبو ہماری حویلی کے کونے کونے میں پھیلے گی۔ انسانوں کی سیاست تو ہوتی ہی گندی ہے ساسوں ماں۔  ووٹ نہ ملے تو بندے مروادیتے ہیں یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان مرے ہوئے بندوں سے انہیں کیا فائدہ ملے گا۔ الٹا بددعائیں ہی ملیں گی۔آپ نے اچھا کیا جو ان بکروں کی سیاست میں شامل ہوگئیں۔جیت گئیں تو کرسی ملے گی۔ ناجیتیں تو دعوت اڑے گی۔ سن لو سب میری ساس جلاد یے یہ تو وقت آنے پر مجھے بھی مار دے گی۔ اپنی سگی بہو کو۔ تو تم کیا چیز ہو۔ دو فٹ کے بکرے۔جان پیاری ہے تو انہیں ہی کھا جاؤ۔ مطلب ووٹ دے دو ۔!!" 

اس کی زبان کو سکون تو تھا نہیں تبھی شنایہ بیگم نے اس کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹایا اور ایک آدمی کو دور کھڑا موٹا تازہ بکرا وہاں لانے کو کہا۔ 

" تھوڑی سنجیدہ ہو جاؤ۔ اگلے سردار کی بیوی ہو تم۔ کوئ چھوٹی بچی نہیں ہو۔ ایسے زبان قینچی کی طرح چلتی رہی تو میرا ہی مزاق بنواؤں گی۔ صدقے کے بکرے ہیں یہ سارے۔تمہارا ہاتھ لگوانے کے لیے لاۓ ہیں۔ اپنے پوتے سے ہربری نظر دور ہٹانا چاہتی ہوں میں۔ تو ہاتھ لگاؤ انہیں اور نظر اترواؤ اپنی۔۔!! کچھ بھی فضول نہ بولنا۔ پچھلا تھپڑ یاد ہے نا۔ دوسرا لگانے میں وقت نہیں لگے گا۔ بدتمیز منہ پھٹ لڑکی ۔۔!!" 

انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر مڑورا تو وہ کراہ اٹھی۔ صبح کا وقت تھا اور درمان بھی گھر پر نہیں تھا۔ نا ہی دراب آفریدی تھے تو وہ ذرا لحاظ کے موڈ میں نہیں تھیں۔ 

" ساسوں ماں یہ ہاتھ توڑ دیں گی تو بکرے پر پاؤں رکھوں گی میں۔ حدہوتی ہے ابھی اپنا نمونہ بھی نہیں اٹھایا ان ہاتھوں نے اور آپ اپاہج کرنا چاہتی ہیں مجھے ۔۔!! ظالم عورت ۔۔!!" 

زرلشتہ نے منہ بنایا پھر ہاتھ چھڑواکر انہیں گھورنے لگی۔ جنہوں نے یوں نظریں پھیریں جیسے انہیں فرق ہی نہ پڑا ہو۔ 

" اچھا اب ایک ایک پر ہاتھ رکھنا ہے کیا ۔۔!! مطلب سب کے سروں پر دادی اماں بن کر پیار کروں میں۔اگر اسی دوران کوئ بکرا مجھے پسند آگیا اور اس دل نے اسے چھری تلے دینے سے انکار کردیا تو کیا ہوگا پھر۔ ویسے یہ چھوٹا والا آپ مجھے دے دیں۔ اس کے پیسے میں درمان کے آتے ہی پورے کردوں گی۔ پلیز  ۔۔!!"

فون زرلشتہ نے وہاں کھڑی ملازمہ کے ہاتھ میں رکھا پھر آگے بڑھ کر ایک ذرا سے چھوٹے بکرے کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے محبت پاش نظروں سے گھورنے لگی تو شنایہ بیگم کا دل کیا اس کا گلا ہی دبادیں۔ کبھی کوئ کام اس لڑکی نے ڈھنگ سے کیا ہو۔

" کسی بھی ایک پر ہاتھ رکھ دو اور جان چھوڑو میری۔ کتنا بولتی ہوں تم۔ کیا وقت آگیا ہے پوتے کے لالچ میں مجھے تمہاری فکر کرنی پڑرہی ہے۔ میرا بس چلے تو تمہیں ابھی ہی مار دوں۔ مجبوری بن گئ ہو تم اب ۔۔!!" 

پہلی بات انہوں نے ذرا غصے سے کہی تو منہ بناکر زرلشتہ نے سارے ہی بکروں کے سروں پر ہاتھ رکھنا شروع کردیا۔باقی کی بات انہوں نے اس کی جانب کوفت سے دیکھ کر بس سوچی۔ دوسری طرف صدقے کی مرغیاں بھی ایک ملازمہ اس پر سے وار رہی تھی۔ 

وہ سچ میں غش کھانے کو تھی کہ شنایہ بیگم بدل کیسے گئیں اتنا کہ اس کی حرکتوں کے جواب میں تھپڑ مارنے تک نہیں آئیں۔ خیر اب اسے مزہ نہیں آرہا تھا ان سے الجھنے میں۔ کیونکہ جواب جتنا ٹھنڈا مل رہا تھا وہ بور ہوگئ تھی۔

" ایسی سدھری ہوئ اور نیک پروین ساس مجھے نہیں چاہیے۔ پہلے یہ لیڈی ہٹلر تھیں تو برداشت کرنا مشکل تھا اب پیار کی دیوی بن رہی ہیں تو ہضم نہیں ہورہیں۔ چھوڑ زرلشتہ اب نیا شکار ڈھونڈ ۔۔!! یہاں سے تو اب تجھے نیک پروین ساس کے سوا کچھ نہیں ملنے والا ۔۔!!" 

اپنا کام پورا کرتے زرلشتہ نے بیزاریت سے سوچا۔ یہاں تو دال گل ہی نہیں رہی تھی جیسے دال نہیں ہانڈی میں شنایہ بیگم کے زیور ہی ڈال دیے ہو اس نے۔ پھر انہوں نے پیسوں کے تھال اس کے سامنے کیے تو اس کی زبان پر پھر سے خارش ہوئ۔

" زیور تک تو بات ٹھیک تھی پر پیسے ایسے کھلے عام تھال میں رکھ کر دینا سیو نہیں ہے۔ میں اپنا اکاؤنٹ نمبر دیتی ہوں آپ کو آپ اس میں ڈلوادینا۔ جب مجھے ضرورت ہوئ میں نکال لیا کروں گی۔ !! 

ایسے کھلے عام اتنا پیار جتاکر شرمندہ نہ کریں آپ مجھے ۔۔!!"

زرلشتہ نے ہنستے ہوئے کہا تو شنایہ بیگم نے اس پاس کھڑے ملازموں کو دیکھ کر اپنا غصہ قابو کیا۔ پھر لب بھینچے۔ 

" ہاتھ رکھو ان پر بھی ۔۔!! صدقے کے ہیں یہ بھی ۔۔!!"

وہ اسے تنبیہ کرنے لگیں۔ 

" توبہ ہے ساسوں ماں ۔۔!! کبھی تو خوش ہونے دیا کریں مجھے ۔۔!! لیں رکھ دیا ہاتھ ان پیسوں پر۔ ساتھ میں اس ملازمہ پر بھی اور لیں آپ  پر بھی ہاتھ رکھ دیا۔ اب سب کچھ دے دیجۓ گا۔ جاتے ہوۓ حویلی پر بھی ہاتھ رکھ کر جاؤں گی اسے بھی دان کردیجۓ گا۔ کب سے جو جو مل رہا ہے مجھ پر ہی وار رہی ہیں۔ کہیں شیطان کے ساتھ ساتھ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بھی نہ بھگادیجۓ گا ۔۔!!" 

ان کی گھورتی نظروں کو خاطر میں نہ لاکر اس نے ان پر بھی ہاتھ رکھا پھر ہینڈ فری کان میں لگاکر وہاں سے واک آؤٹ کرگئی۔ جاتے ہوۓ اسے جو جو ملا اس ہر ہاتھ رکھنا نہ بھولی وہ۔ 

شنایہ بیگم نے اس آفت کے ٹلتے ہی ملازمہ کو جانے کا اشارہ کیا۔ 

" سوچا تھا اسے مار کر درمان کی دوسری شادی کرواؤں گی اور خوشی میں تخائف بانٹوں گی پر جو سوچیں وہ ہوتا تھوڑی ہے۔ جس لڑکی کی شکل بھی نہیں گوارا مجھے اسی کا صدقہ اتارنا پڑرہا ہے۔ میرا بس چلے تو مار دوں اسے۔ پر افسوس بس ہی تو نہیں چل رہا ۔۔!!" 

انہوں نے پیر پٹخا۔ وہ بدلیں نہیں تھیں بس پوتے کی خواہش میں خاموش ضرور ہوگئ تھیں اس دوران بھی زرلشتہ سے ان کی نفرت اب بھی ویسی کی ویسی تھی۔ 

 دن کے دس بج رہے تھے صبح کا سورج اب حدت پھیلانے میں مصروف تھا۔ پرندے حمد و ثناء کے بعد رزق کی تلاش میں محوِ سفر تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اب بھی جاری تھی جو سورج کی حدت کا اثر کم کرنے کے ساتھ ساتھ سحر پھونک رہی تھی۔ دل موہ لینے والا ایک احساس تھا اس موسم میں آج ۔۔!!! 

لان کی کھڑکی سے چھلکتی سورج کی روشنی کمرے میں سوئی وشہ کے چہرے پر پڑی تو کسمسا کر اس نے کروٹ بدلی۔ اپنا ہاتھ اسے خالی خالی سا لگا اسے اچھے سے یاد تھا صبح فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی تھی تب اسے اپنے ہاتھ میں دیار کا ہاتھ محسوس ہوا تھا۔ 

وہ اسے دیکھ تو نہ پائ پر اسے اچھے سے یاد تھا سر میں اٹھتے درد سے وہ سسکی تھی تب دیار کی میٹھی سی آواز نے اسے سکون میں رہنے کو کہا تھا۔ساتھ ہی اپنی پیشانی پر اس کا لمس محسوس کرکے اسے سکون بھی ملا تھا اور پھر اس کے دوبارہ نیند کی وادی میں کھونے تک وہ مسلسل اسکے بالوں کو اپنی انگلیوں کا لمس بخشتا رہا تھا۔ 

پھر وہ کہاں گیا۔ وشہ نے مشکل سے آنکھیں کھولیں جو اسے دیکھنے کی تمنائی تھیں پر وہ وہاں نہیں تھا۔ وہ کہنیوں کے سہارے اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی اور نیند کے خمار سے بوجھل آنکھیں کمرے کے کونے کونے میں دوڑائیں جو اسے دیکھنے کی خواہش میں بےچین تھیں۔

پر وہ وہاں نہیں تھا۔ وشہ کا سر بری طرح چکرایا تو اس نے آںکھیں زور سے میچ لیں۔ 

"د۔دار ۔۔!!" سر تھام کر اس نے بے آواز پکارا اور اسی لمحے دروازہ کلک کی آواز سے کھل گیا۔ گھنی پلکوں کی جھالر اٹھا کر شہد رنگ پتلیوں نے آنے والے کو دیکھا تو روح تک میں جیسے سکون کی میٹھی سی لہر دوڑ گئ۔ سامنے دیار وائٹ جینز، شرٹ میں ملبوس بکھرے بالوں کے سنگ ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے پکڑ کر اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وشہ نے گہرا سانس لیا۔ اسے بےساختہ اپنی کل کی حالت یاد آئ جب وہ یونی کے سامنے دیار کو ملی تھی۔ اور بےخبری میں سب بتا کر اسے اذیت میں ڈال کر خود سکون کی نیند میں کھو گئ تھی۔ 

" اچھا ہوا آپ کو ہوش تو آگیا ۔۔!! میں کب سے آپ کے جاگنے کا انتظار کررہا تھا۔ آپ نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ ویکنس کی وجہ سے آپ کو ہوش بھی نہیں تھا آرہا تھا۔چلیں اب آپ اٹھ گئ ہیں تو فریش ہوجائیں اور ناشتہ کرلیں۔" 

اس نے ٹرے ٹیبل پر رکھ دی پھر وشہ کے پاس کھڑے ہوکر اپنے نارمل لہجے میں اسے مخاطب کیا تووہ چند سانچے اسے دیکھتی رہی۔ اس کا نارمل رہنا عجیب سی بات تھی اصولا تو اسے وشہ سے کل کے واقعے کے بارے میں پوچھنا چاہیے تھا۔

" آپ کچھ پوچھیں گے نہیں۔ کہ کیا ہوا ہمارے ساتھ؟ وہ لوگ کون تھے اور ہم نے بات کیوں چھپائ آپ سے۔۔۔!!" 

خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر وشہ نے بات خود ہی اس جانب موڑ دی۔ جب اسپر سے کمفرٹر ہٹاکر دیار نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔

" بخار نہیں ہے اب آپ کو۔۔!! لیکن ہوسکتا ہے پھر سے۔ ابھی آپ کے لیے ہر چیز سے بڑھ کر ناشتہ کرنا ضروری ہے وشہ ۔۔!! باقی باتیں ہم بعد میں کرلیں گے۔ ابھی ہاتھ دیں اپنا۔۔!!"

دیار نے اس کے سامنے ہاتھ کیا جو وشہ نے آرام سے تھام لیا تب دیار نے اسے سہارا دے کر کھڑا کرنے کے ساتھ ہی ایک بازو اس کے گردلپیٹ کر واش روم تک جانے میں اس کی مدد کی۔ اس کا منہ دھلواکر پھر ٹاول سے خود ہی خشک کرکے وہ اس کے دانت برش کرنے تک وہیں کھڑا رہا پھر آرام سے اسے سہارا دے کر اس نے بیڈ پر واپس لابٹھایا۔ وہ اب بھی بظاہر پرسکون تھا۔ 

" آپ جو چاہیں پوچھ لیں۔ ہم بتانے کو تیار ہیں۔ پر ایسے ہمارے ساتھ اجنبیوں کی طرح پیش نہ آئیں۔ ہمیں تکلیف ہورہی ہے ۔۔!!" 

دیار نے ناشتے والی ٹرے اس کے پاس رکھی پھر آرام سے وہاں سے جانے لگا تو وشہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے روک دیا دیار نے مڑکر اسے دیکھا جسے سزا دینے کا خیال پھر سے اس کے ذہن میں آیا تھا۔۔ پر کیا کرتا وہ اس دل کا جو اس کی آنکھوں میں چمکتی نمی دیکھ کر تڑپ اٹھتا تھا۔ وہ مان گیا وشہ کو سزا دینا مطلب خود کانٹوں پر لوٹنا ہے۔ 

" وشہ ۔۔!! میری جان ۔۔!! مجھے کچھ نہیں پوچھنا آپ سے۔ آپ خود کو اس واقعے سے جلد از جلد باہر لے آئیں تو بہتر ہوگا۔ آپ کی آنکھوں میں نمی اچھی نہیں لگتی مجھے۔ بس میرا سکون ۔۔!! روتے نہیں ہیں۔ رونا انہیں ہے اب جنہوں نے آپ کو رلایا ۔۔!!" 

دیار نے بےبسی سے اس کا لرزتا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لیا پھر ہلکی سی گرفت اس پر بناکر اسے سمجھایا ۔ جو نظریں جھکا گئ۔ دیار نے اس کے آنسو پونچھے پھر اس کے زخمی رخسار دیکھ کر دل میں ٹھیس اٹھی۔

 وشہ بھلے بہت بدتمیز تھی۔ اسے ٹیز کرنا اسے پسند تھا پر آج تک دیار نے اسے سخت نظروں سے نہیں ڈرایا تھا کجا اسے زخمی کرنا۔ نرمی سے جھک کر اس رخسار کو اپنے لمس کا مرہم بخش کر دیار پیچھے ہوا۔ وشہ سانس روکے بیٹھی تھی۔ نظریں جھکی ہوئی تھیں جیسے وہ واقعی شرمندہ ہو جو اس کے ساتھ ہوا اس پر۔ دیار کو برا لگا وہ کیوں شرمندہ ہورہی ہے جبکہ گنہگار سراٹھا کر چل رہے ہیں۔ کیوں ۔۔!! 

" ناشتہ کریں آپ مجھے ایک ضروری کام ہے وہ کرلوں پھر آپ کو میڈیسن دے دوں گا ۔۔!! ٹرے خالی چاہیے مجھے۔ ورنہ نتائج کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی ۔۔!!" 

خود کو اس نے حد درجہ نارمل رکھا پھر اسے ہدایت دے کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ اس نے جاتے ہی وشہ نے کب کا رکا سانس فضا کے سپرد کیا پھر ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں کی زینت بنی۔ اپنے رخسار پر ہاتھ رکھ کر اس نے سر جھٹکا پھر ناشتہ کرنے لگی۔ یہ دیار کا حکم تھا اور ماننا ہی تھا اسے ہر قیمت پر۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"بادل خان بس بہت ہوگیا یہ سب۔ کون ہے وہ حبیث جو میری پیٹھ پیچھے میرے خلاف منصوبے بنارہا ہے۔ تم کیوں نہیں پکڑ پاریے اسے۔!!!! اس ہفتے یہ میری تیسری فیکٹری آگ کی نظر ہوگئ۔ اربوں روپے کا سامان بک گیا پر پیسے وصول نہیں ہوۓ۔ میری جمع پونچی کوئ ڈھونڈ ڈھونڈ کر آگ میں جھونک رہا ہے۔ بس میری برداشت ختم ہوگئ۔ !! مجھے میرا دشمن میرے قدموں میں چاہیے ۔۔ !!! جلد از جلد ۔۔!! ورنہ تمہاری موت پکی ۔ !!"

ڈاکٹر کی دی گئی دوائ کھانے کے بعد دلاور نے پانی کا گلاس اٹھا کر فرش پر باران(بادل) کے قدموں میں پھینکتے ہوۓ سرد نظروں سے اسے گھورا۔ جو سکون سے کھڑا اپنی ٹوپی ٹھیک کرنے میں مگن تھا۔ یہ دوسرا اٹیک ہوا تھا دلاور خان کو۔کیونکہ آج صبح ان کی افغانستان والی اسلحے کی فیکٹری بھی کسی نے دھماکے سے اڑادی۔

 گلگت والی فیکٹری اور باقی بھی دو سے تین جگہیں جہاں ان کا اربوں روپیہ محفوظ تھا وہ بھی تباہ ہوچکا تھا۔ دلاور خیران تھا کہ روۓ یا ہمت پکڑے۔ اس کے کھربوں روپے ختم ہونے میں اتنا ہی وقت لگتا تھا جتنا کسی بچے کو تیزی سے کسی کتاب کے صفحے پلٹ کر اسے ختم کرنے میں لگتا ہے۔ بس ایک منٹ اور ارںوں روپے غائب ۔ !!!

" دلاور جانی ۔۔!! تم کیوں خود کو کھپا رہا ہے ہمارا ہوتے ہوۓ۔ ہم جانتا ہے تمہارا گناہوں کا گھڑا اب بڑھ چکا ہے اب تمہارا انجام کا وقت قریب ہے۔ موت کا فرشتہ بھی تم کو ہی ڈھونڈتا پھررہا ہے صرف یہی نہیں جہنم میں آگ کا دیگ بھی رکھ کر فرشتے سیسہ پگھلا رہے ہیں۔ ساتھ میں سیخیں بھی رگڑ رہا ہے وہ سب۔اور باربی کیو کا مصالحہ بھی تیار ہوچکا ہے۔

 تمہارا جاتے ہی تم پر مصالحہ لگاکر وہ تم کو کڑاہی میں ڈبوئیں گے۔ تم کو سیکیں گے۔ تمہارا کھال ادھیڑیں گے۔ اور تم کو اتنا اتنا تڑپائیں گے کہ تمہارا چیخیں یہاں زمین پر بیٹھ کر بھی ہم سنے گا۔ !!! بس ایسا کرو اب کلمہ پڑھ لو تم۔ تم کو آتا تو نہیں ہوگا چلو پھر ایسے ہی مرجاؤ ۔۔!!"

بادل نے خیالوں میں اسے الٹا لٹک کر فریادیں کرتے بھی دیکھ لیا پھر اسے جلدی سے کلمہ پڑھنے کا اشارہ کیا جس کا منہ حیرت کی زیادتی سے کھلا ہوا تھا۔ وہ اس سے مدد مانگ رہا تھا اور وہ یہاں اسے کلمہ پڑھنے کو کہہ رہا تھا۔ اس نے مٹھیاں بھینچیں۔ 

" بادل خان ۔۔!! بس بہت ہوگیا یہ مزاق ۔۔!! جاؤ اور میرا دشمن ڈھونڈو۔ مجھے وہ میرے قدموں میں چاہیے ورنہ تمہیں میں قبر میں ضرور اتار دوں گا ۔۔!!" 

وہ پھنکارے تو بادل خان نے جمائ روکی۔ 

" قدموں میں محبوب آتا یے دلاور نالائقہ۔۔! دشمن تو پستول لے کر سر تک آتا ہے۔ ہم کو اپنا اس والا مسئلہ سے دور رکھو ویسے بھی تم جانتا ہے ہم کو صبح اٹھتے اپنا چپل نہیں ملتا، کھانا کھاتے برتن نہیں ملتا، منہ دھوتے صابن نہیں ملتا، ہم تو شیشہ دیکھے تب بھی اپنا منہ نہیں دکھتا، ہم گھر نہیں گیا آج تک کیونکہ جانتا ہے ہم، ہم یہاں سے گیا تو ہم کو تم واپس نہیں ملے گا۔ اور تم چاہتا ہے کہ ہم جاۓ اور اس بہادر، نیک سیرت، شہزادہ کو ڈھونڈے جس نے تم جیسا فرعون کا دل تک لرزا دیا۔ نا دلاور نا۔۔!! 

ہم ایسا کچھ نہیں کرے گا ۔۔!!" 

باران نے ہاتھ کھڑے کیے پھر صاف گوئی سے کام لیتے ہوۓ دلاور خان کے منہ پر انکار کیا جو تلملا اٹھے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ انہوں نے باران کو رکھا ہے یا باران نے انہیں رکھا ہے۔ اتنی تو دلاور نے کبھی خود کی بھی نہیں مانی تھی جتنی اسے باران کی الٹی سیدھی باتیں ماننی پڑتی تھیں۔ وہ اپنی نشست سے اٹھے۔ تو باران اکڑ کر کسی ضدی بچے کی طرح منہ پھیر گیا۔ 

" تو تم مجھے انکار کررہے ہو ۔۔!! مجھے یعنی دلاور خان کو  ۔!!!" وہ گرجے۔ 

" ہاں ہم تم کو انکار کررہا ہے ۔۔!! تم کو یعنی دلاور بادام کو۔  !!" اس نے جیسے ناک سے مکھی اڑائ۔ تو دلاور کے چہرے پر غصے سے سرخی چھائ۔

" میری نظروں سے دور چلے جاؤ ۔۔!! ابھی اور اسی وقت۔۔!! آئندہ شکل نہ دکھانا مجھے اپنی۔ یہی سمجھو میں نے تمہیں کام سے نکال دیا ۔ !! 

دفع ہوجاؤ ۔۔!!"

غصے سے وہ آپے سے باہر ہوۓ جب کہ یہ بات سن کر باران نے آنکھیں سکیڑیں پھر بےساختہ مسکرایا۔ 

" تم ہم کو نکال رہا ہے۔۔!! یعنی اب سے ہم اس جہنم سے آزاد ہوا۔ ۔!! یارا ترس گیا تھا ہم اس بات کو سننے کے لیے۔ شکریہ تمہارا تم نے ہمارا بھی خیال کیا۔ !! 

اس سے پہلے تم مکر جاۓ۔ !! 

ہم دفع ہورہا ہے۔ زندگی رہا تو تمہارا شکل پھر نہیں دیکھے گا۔ لیکن تم جلدی نہ کرنا آرام سے مرنا۔ ہم آۓ گا تم کو کندھا دینے۔۔!! اللہ حافظ ۔۔!!" 

اس کی آنکھیں چمک اٹھیں وہ ویسے بھی کافی بور ہورہا تھا کیونکہ جو اسے چاہیے تھا وہ سب تو وہ لے چکا تھا۔ اب اسے ایک ضروری کام کے سلسلے میں کہیں جانا تھا تو اسے چھٹی چاہیے تھی۔ دلاور نے اچھا کیا جو بن مانگے ہی اسے چھٹی دے دی۔ وقت ضائع کیے بنا صرف اپنی بات کہہ کر بادل خان وہاں سے ہوا کے گھوڑے پر سوار  ہوکر بھاگ گیا۔ دروازہ بند ہونے کی آواز پر دلاور خان نے اپنا دایاں ہاتھ دل کے مقام پر رکھا اور صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گۓ۔

" یہاں میں مرنے والا ہوں اور اسے فکر ہی نہیں ۔۔!! احسان فراموش کہیں کا۔ بجائے میرے پیروں میں گرنے کے یہاں سے ہی بھاگ گیا۔ لیکن جاۓ گا یہ کہاں اسے آنا تو میرے ہی پاس ہوگا۔ جاۓ دیکھ آۓ یہ باہر کی دنیا بھی۔۔!! دھکے کھاۓ گا تو میری ہی حویلی اسے پناہ گاہ کی صورت میں اچھی لگے گی ۔۔!! ہنہہ ۔۔!!"

دلاور خان نے ہنکار بھرا۔ انہیں امید تھی کہ وہ ضرور واپس آۓ گا۔ ابھی تو فیکٹری کا صدمہ زیادہ بڑا تھا تو وہ اسی کی یاد میں گھلنے لگے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اسے کمرے میں چھوڑ کر دیار جدید طرز کے بنے سٹڈی روم میں داخل ہوا جو جدیدیت میں اپنی مثال آپ تھا۔ کتابوں کی ترتیب پھر لکڑی کا خوبصورت سا کام، براؤن کلر جو آنکھوں کو خواب سا لگتا اور بالکل بیچ میں رکھا ون سیٹر صوفہ جس کے سامنے ٹیبل بھی موجود تھی۔ جو اس بات کی گواہی تھا کہ یہاں اس کے سوا کوئ نہیں آتا۔

دیار صوفے پر بیٹھ گیا۔ چہرے پر حددرجہ سنجیدگی تھی۔

" ہوگیا کام ۔۔؟؟ کیا خبر ملی ہے ۔۔؟" 

اس کی آواز سٹڈی میں گونجی تو سامنے کھڑے نوریز نے لب دبا کر سر کو ہلکی سی جنبش دی ہاں میں۔ دیار نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائ۔ 

" چھوٹے سردار ۔۔!! کل یونی میں دو غیر معمولی واقعات رونما ہوۓ۔ پہلا واقعہ گیارہ بجے کے قریب جب پانچ سٹوڈنٹس کو بےہوشی کی حالت میں ایمرجنسی میں ہاسپٹل بھیجا گیا۔ جبکہ چھٹا اب بھی خوفزدہ ہے۔ وہ بار بار یہی کہہ رہا ہے کہ وہ اسے بھی ماردے گی۔ یونی میں کسی کو نہیں پتہ کہ انہیں کیا ہوا پر ریپورٹس کے مطابق کسی نے بس ایک ہی وار میں موت کے منہ میں پہنچادیا انہیں۔ بات ماننے لائق تو نہیں پر سردار ۔۔!! اس دانیال کا کہنا ہے یہ سب ایک لڑکی نے کیا۔۔!! پر یہ ابھی کنفرم نہیں ۔۔!!"

 نوریز کی  آخری بات سن کر دیار مسکرایا۔ دائیں گال پر ڈمپل ابھرا جسے وہ اسی پل چھپا گیا۔ اپنی شیرنی پر اس لمحے حد سے زیادہ پیار آیا تھا اسے۔ جو چھ لوگوں کو اکیلے موت کے منہ میں پھینک کر آئ تھی۔ نوریز نے اس کی مسکراہٹ دیکھی تو مبہوت رہ گیا۔ اس کی مسکراہٹ اس کی سمجھ سے باہر تھی۔

" دوسرا واقعہ یونی کے ڈین کا خون اور سیاہ رنگ میں لتپت اپنے آفس میں نیم مردہ حالت میں ملنا ہے۔ جیسے اسے جان سے مارنے کی کوشش کی گئی ہو۔ ریپورٹس کے مطابق اس کے چہرے پر اس وقت تک تھپڑ مارے گۓ جب تک وہ بےہوش نہ ہوگیا۔ اور کنپٹی پر بھی کسی بھاری شے سے وار کیا گیا۔ اس کے ساتھ بھی جو ہوا کوئ نہیں جانتا۔ حیرت انگیز طور پر پولیس اس واقعے سے دور ہے۔ جیسے اسے کسی نے انوالو ہونے سے روک دیا ہو۔۔!! "

نوریز حیران تھا پر دیار نہیں کل ہی اس نے ڈی آئ جی کو فون کرکے اس یونی کے معاملے سے دور ہونے کا کہا تھا۔ اس نے نوریز پرنگاہ ڈالی جس کی حیرت سے اسے لطف ملا تھا۔

"البتہ یہ بریسلیٹ یونی کے گارڈ کو بلیک میل کرکے میں لے چکا ہوں جس پر آپ کا نام لکھا ہے۔۔۔!! یہ ڈین کے آفس سے ملا۔ باقی ان زخمی ہونے والوں کی پرسنل اینڈ فیملی انفو اس فائنل میں ہے۔۔!! آگے آپ حکم کریں کیا کرنا ہے۔۔!!"    

نوریز نے انتہائ مؤدبانہ انداز میں وہ بریسلیٹ دیار کے ہاتھ میں دیا جس نے اسے یوں پکڑا تھا جیسے کوئ مقدس شے ہاتھ کو لگی ہو۔ عرصے تک اس کی محبوب بیوی کی کلائی میں رہا تھا یہ بریسلیٹ۔ یہ بھی اب دیار کو عزیز تھا۔ 

بریسلیٹ صوفے پر رکھ کر دیار نے فائل کھولی۔ پھر مصروف سے انداز میں اوراق پلٹنے لگا۔ 

" ایسا کرو اس سونیہ نامی لڑکی کے والد کے سارے کرنٹ پراجیکٹس ختم کروادو۔ بوڑھا ہوگیا ہے اسے بھی چھٹی مل جاۓ گی۔ تانیہ کے بابا ڈپٹی کمشنر ہیں الزام لگادو اس پر کوئی یا اس کا کوئ کارنامہ میڈیا کے حوالے کردو مجھے یہ خبروں کی زینت بنا ہوا چاہیے۔ 

باقی ان دانیال ، سنان ، سیف اور یہ جو بھی ہیں سارے ان کو بھی سڑک پر لےآؤ۔ ڈاکہ ڈلواؤ یا کمپنی کو آگ لگادوں۔ ایسا حشر کرو ان کا کہ سارے میرے آفس کے باہر لائن بناکر بھکاریوں کی طرح کھڑے ہوں۔ کچھ سکے بھی رکھ لینا بھکاریوں کو خالی ہاتھ تو نہیں لوٹاتے نا۔ ۔!! سمجھ گۓ۔ ۔!!" 

دیار نے فائل سامنے بھینک دی۔ اور خود دونوں پاؤں ٹیبل پر رکھ کر اپنے پاس سے بریسلیٹ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔ بس ایک منٹ لگا تھا اسے ان سب کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں۔ یہ تھا وشہ کا بیک گراؤنڈ ۔۔!! جہاں ان سب کی اوقات واقعی میں کیڑے مکوڑوں جیسی ہی تھی۔ انداز ایسا تھا جیسے وہ نوریز کو انہیں تباہ کرنے کا نہیں باہر سڑک سے کچرا اٹھانے کا کہہ رہا ہے۔نوریز کو نہیں پتہ تھا اسے مسئلہ کیا ہے آخر ان لوگوں سے۔ پر وہ جان گیا وہ لوگ اسی کے قابل ہیں۔ 

" اور وہ یونی کا ڈین۔ ۔!!" 

نوریز کے سوال پر دیار کی آنکھوں کے سامنے رات کا منظر گھوما جب کئی بار وشہ اسی کے خوف سے جاگی تھی  اور وہ اسے دلاسوں کے سوا اور اپنے لمس کے سوا کچھ نہ دے پایا تھا۔ آنکھوں میں سرخی اتری۔ 

" نوریز ۔۔!! دین میں برابری کا حکم ہے نا۔ کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک اور آنکھ کے بدلے آنکھ۔ بس یہی سمجھ لو عزت کے بدلے عزت ۔۔!! 

اسے مجھ پر ہی چھوڑ دو۔ میں جانوں اور میرا کام جانے ۔۔!! تم بس وہ کرو جو تمہیں حکم ملا ہے۔ دو دن کے اندر اندر اگر میرے آفس کے باہر بھکاریوں کی طرح وہ نہ کھڑے ہوئے تو اپنی قبر کا بندوبست کرلینا تم ۔۔!!" 

دیار نے کرخت انداز میں کہا پھر سب چھوڑ کر بس وہ بریسلیٹ مٹھی میں جھکڑ کر وہ سٹڈی سے چلا گیا ۔ اس کے جاتے ہی نوریز نے جھرجھری لی۔

" جو بھی کیا ہے ان لوگوں نے مجھے اس سے کیا۔ پر بھیک تو انہیں مانگنی ہی ہوگی دیار لالہ سے ۔۔!! بندہ اوقات دیکھ کر پنگا لیتا ہے۔ اس شیر سے بھلا ان گیدڑوں کا کیا مقابلہ۔ اب بھگتیں۔۔!! چل نوریز لگ جا کام پر ۔۔!! مزہ آنے والا ہے ۔۔!!" 

اس نے لاپرواہی سے سر جھٹکا اور اپنے کام میں لگ گیا۔ دیار نے کہہ دیا تھا تو اب بربادی پکی تھی ان سب کی۔ 

دیار کمرے میں آیا تو امید کے مطابق وہ آرام سے ناشتہ کررہی تھی دیار کے چہرے کے تاثرات نارمل ہوۓ۔ اسے بےساختہ یاد آیا ان سات لوگوں کو اس کی بیوی نے اکیلے مارا۔ زبردست ۔۔!! 

بریسلیٹ جینز کی پاکٹ میں ڈال کر وہ وہیں صوفے پر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ وشہ سکون سے ناشتہ کررہی تھی جو کمزوری کی وجہ سے تھا تو مشکل کام پر اسے دیار کا حکم ماننا بھی تھا۔

" جانم ۔۔!! ابھی تو آغاز ہے۔ آپ کے حواسوں تک رسائ چاہیے مجھے۔ ایسی رسائ کے آپ کو سوئ بھی چبھے تو پہلے مجھے بتائیں۔ ایسے نہیں چل سکتا اب کہ آپ درد میں ہوں اور میں بےخبر رہوں۔ بس تھوڑا سا وقت پھر آپ بھی قابو میں ہوں گی میرے۔۔!!" 

دیار کی نظریں وہ خود پر محسوس کررہی تھی تب ہاتھ بھی کانپے اس کے۔ کیا وقت آگیا تھا اس جیسی شیرنی بھی اس سامنے بیٹھ کر خود کو گھور رہے شخص کی نظروں سے کنفیوز ہورہی تھی۔ 

شیرنی بس اس شیر کے قابو میں تھی اور کسی کے نہیں۔ یہ تو ثابت ہوچکا تھا۔  

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" یہ رہا میرا نیا آفس۔۔!!! جہاں مجھے آنر شپ ہونے کے باوجود اس بادل خان کی انسٹرکشنز کے مطابق چلنا ہوگا۔ پیسہ میں لگاؤں گا مجھے کٹھ ہتلی کی طرح اپنے اشاروں پر وہ نچاۓ گا ۔!! فیصلے اس کے ہوں گے اور سیکھنے کے نام پر کڑہتا میں رہوں گا۔ اگر مجھے بہار اور اپنا مستقبل عزیز نہ ہوتا تو کبھی اس بےموسمی بادل کی مدد نہ لیتا میں۔ !! 

کیا ہے یہ بادل خان ۔۔!! دنیا میں سب سے زیادہ مجھے اسی سے نفرت ہے اور کام بھی یہی میرے آرہا ہے ۔۔!!" 

یشاور اس وقت اپنے کیبن میں موجود سامنے رکھی فائلز کو دیکھ کر آپے سے باہر ہورہا تھا جو بادل کی ہدایت کے مطابق اسے چیک کرنی تھیں۔ اتنی جلدی آفس اور بزنس سٹارٹ کرنا ویسے تو ناممکن سی بات ہے پر اگر بات بادل ( باران )کے سامنے ہو تو ناممکن نہیں ممکن ہے۔ باران نے اسے آفس ناصرف سیٹ کروا کر دیا بلکہ اگلے کچھ عرصے تک ساری ڈیلز بھی وہی سپروائز کرتا۔ یشاور نے کرسی پر بیٹھ کر پہلی فائل کھولی۔ تو اچانک ہی اسے کچھ جھٹکا لگا۔ 

" ویٹ ۔۔!! ویٹ ۔۔!! ویٹ ۔۔۔!! یہ خیال  میرے ذہن میں پہلے کیوں نہیں آیا۔ وہ بادل تو ان پڑھ ہے۔ بالکل کنگال اس کے خرچے تو بابا اٹھاتے ہیں۔ اسے بزنس کی نالج ہی نہیں۔ تو اس نے یہ سب کیسے کیا ۔۔!!" 

یشاور نے فائل بند کی۔ یہ خیال اس کے ذہن میں ابھی ہی آیا تھا۔ اس نے حلق تر کیا۔ اور سر کو نفی میں جنبش دینے لگا۔ 

" یہ آدمی جس نے پہلے مورے کو ان کی وراثت میں حصہ لےکر دیا پھر میرا نکاح پڑھوایا پندرہ منٹ کے اندر اندر ۔۔!! مجھے آفس کھول کر دیا اور پہلی ہی بار میں وہ ڈیلز اس کمپنی کو ملیں جو اگلے دس سال بعد کہیں جاکر شاید ملتیں۔ پھر پورا سٹاف تجربہ کار ہے۔ اور بھی ناجانے کیا کیا چھپا ہوا ہے جس کی مجھے خبر ہی نہیں۔ تو یہ انوکھا عجوبہ یہ بھی پتا لگوا سکتا ہے کہ بہار کے گھر والوں کا قاتل کون ہے۔۔! مجھے اس کی مدد لینی چاہیے ۔۔!!" 

یشاور نے تانے بانے بنے تو اس کے چہرے پر چمک آگئ۔ بادل تو اس کا کام آسانی سے کردیتا۔ اس نے مٹھی بناکر اضطراب کے عالم میں ٹیبل پر جمائ اور گہرا سانس خارج کیا۔

" اسے میری مدد کرنی ہی ہوگی۔ بہار کی فیملی کے قاتل اگر پکڑے گۓ تو بہار اس ٹروما سے نکل سکتی ہے۔ جتنی جلدی یہ معاملہ سوٹ آؤٹ ہوگیا اتنی ہی جلدی میں اسے خود کی زندگی میں شامل کرسکتا ہوں۔ بس وہی واحد امید ہے میری ۔۔!!" 

یشاور نے عزم سے کہا۔ ذہن میں بہار کا چہرہ گھوما تھا ۔ جو اس کی بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ اسے اب عزیز بھی ہوتی جارہی تھی۔ وہ مسکرایا۔ 

بادل کی مدد ملنے کی امید تھی اسے۔ اور وقت ملتے ہی وہ اس سے مدد مانگتا بھی۔ ابھی تو اسے یہ فائلز دیکھنی تھیں پھر بادل سے مدد بھی وہ لے لیتا۔ 

البتہ بہار اس وقت گھر کے کاموں میں ہی الجھی تھی شاید اپنا دھیان بٹانے کی کوشش میں تھی وہ۔ یشاور کی ہدایت پر ملازمہ اس کے آفس سے آنے تک بہار کے ساتھ ہی رہتی۔ بہار کی جان کو خطرہ تھا تو یشاور نے رسک لینا حماقت ہی سمجھی۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

شام ہونے والی تھی اور زرلشتہ اپنے روم میں بیڈ پر لیٹی درمان کی ہدایت کے مطابق سونے کی کوشش کررہی تھی درمان نے اسے سختی سے اچھل کود سے منع کیا تھا۔ کھانا وقت پر کھانے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اسے آرام کرنے کی بھی تلقین کی تھی اس نے۔ اور وہ اچھے بچوں کی طرح اس کی ہر بات مان بھی رہی تھی۔ جب اچانک ہی دروازہ کھلا۔ کمرے میں چڑڑڑڑ کی آواز پیدا ہوئی تو زرلشتہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئ۔

سامنے کھڑی معصومہ کے ہاتھ میں کچھ بیگز اور ایک ٹیڈی بیئر تھا کیوٹ سا وائٹ کلر کا۔ البتہ اس کے چہرے پر عجیب سا تاثر تھا جیسے زرلشتہ کے پاس  وہ مرضی سے نہیں آئ۔ یہی سچ تھا فدیان نے اسے زبردستی ہی بھیجا تھا اس کے پاس۔ 

معصومہ کو دیکھ کر زرلشتہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی اسے لگا وہ اسے منانے آئ ہے۔

" وہاں کیوں کھڑی ہو معصومہ۔ مانا کہ میں تمہیں نہیں جانتی۔ پر تم مہمان ہو میرے کمرے میں۔ جب میں تمہارے کمرے میں آئ تھی تم نے بھی تو مجھے پانی پلایا تھا نا میں بھی پلادوں گی اندر آجاؤ۔۔!! "

مسکراہٹ روکتے ہوئے نرم سے لہجے میں زرلشتہ نے اسے مخاطب کیا جو میکانکی انداز میں چلتے ہوۓ اس کے قریب آئ۔ 

" یہ آپ کے لیے ۔۔!! ہوسکے تو راضی ہوجا ئیے گا مجھ سے ۔۔!!" 

وہ بولنا نہیں چاہتی تھی پر اس نے بات کرہی لی۔ زرلشتہ نے اسکا لہجہ نوٹ نہیں کیا تھا وہ تو بیگز دیکھ رہی تھی اس نے ٹیڈی بیئر پکڑا جس پر سوری لکھا تھا ساتھ ہی بیگز میں اس کی پسند کی چاکلیٹس اور دیگر چیزیں تھیں۔ 

وہ سچ میں خوش ہوگئ۔ 

" تھینکس معصومہ ۔۔!! تم مجھے منانے آئ ہو۔ میں بہت خوش ہوں۔ مانا کہ تمہاری غلطی معافی کے قابل نہیں تھی تم نے مجھے اگنور کیا۔ پر میری پسند کی چیزیں لاکر تم نے میرا دل جیت لیا ہے۔ یار سب میری پسند کا ہے۔ تمہیں کس نے بتایا میری پسند کے بارے میں!!" 

بیگ سے پرفیوم نکال کر اس نے کلائ پر سپرے کی پھر اس کی مہک خود میں اتار کر وہ معصومہ کو دیکھنے لگی۔ جس نے اس بات کے جواب میں دانت بھینچے۔ اس کی آنکھوں میں ناگواریت اتری۔

" میں نے نہیں یہ سب فادی نے سلیکٹ کیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے آپ کو یہی سب اچھا لگتا ہے۔ ویسے کتنی عجیب بات ہے نا ایک غیر لڑکے کو آپ کی پسند نا پسند کا اتنا پتہ ہے جتنا شاید درمان بھائ کو بھی نہیں پتہ ہوگا ۔۔!!" 

معصومہ کو غصہ آیا زرلشتہ کی خوشی دیکھ کر تو وہ طنز کرگئ۔ جب سے فدیان کی محبت اس پر کھلی تھی وہ چڑچڑی ہوچکی تھی۔ 

زرلشتہ کو فیل ہوا جیسے اس بات کا مقصد کچھ اور ہے پر معصومہ کیوں اسے کچھ برا کہے گی یہی سوچ کر زرلشتہ ناچاہتے ہوۓ بھی مسکرائی۔

" اب ایسا بھی نہ کہو یار ۔۔!! فاد بھائ میرے یونی فیلو تھے۔ سینیئر ہونے کے ناطے وہ ہیلپ کرتے تھے میری تو مجھے جانتے ہیں وہ۔ یہ سب انہیں ژالے سے پتہ لگا ہے۔ جبکہ درمان کو میرے دل کا پورا حال معلوم ہوتا ہے۔ بھلا ان کا کیا مقابلہ کسی سے !! " 

زرلشتہ کے لہجے میں مان تھا جبکہ معصومہ کی نظر اس کے چہرے پر تھی جہاں واضح تھا وہ درمان سے کس حد تک عشق کرتی ہے۔ کیونکہ اس کا نام لیتے ہی اس کے چہرے پر سکون سا اترتا تھا۔ 

" اوووو تو فاد بھائ سینئر تھے تبھی سب جانتے ہیں آپ کے بارے میں۔ برا نہ منائیے گا آپی ۔ اس حساب سے تو پوری یونی کے لڑکوں کو آپ کی پسند ناپسند کی خبر ہوگی۔!! محرم اور نامحرم میں فرق ہوتا یے۔ آپ کو کم از کم یہ فرق پتہ ہونا چاہیے۔ !! وہ لڑکیاں اچھی نہیں ہوتیں جن کی پسند ناپسند بھی نامحرم جانتے ہوں۔ آگے آپ سمجھدار ہیں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں ایسی لڑکیاں جو دوسروں کو اپنے پیچھے پاگل کریں وہ واقعی اچھی نہیں ہوتیں  ۔۔!!" 

معصومہ کے لفظ تھے یا زہر ۔۔!! 

زرلشتہ کے دل نے کہا کہ کچھ تو غلط ہے جو معصومہ اسے کہنا چاہ رہی ہے پر وہی سمجھ نہیں پارہی۔ اس بات کے بعد تو مہر لگ گئ کہ کچھ تو غلط ہوا ہے۔ ۔!! 

پر کیا ۔۔!! 

زرلشتہ نے نارمل رہنے کی کوشش کی اور اٹھ کے اس کے مقابل کھڑی ہوئ۔

" ڈیئر معصومہ خانم ۔۔!! مجھے محرم اور نامحرم کا فرق تم سے زیادہ اچھے سے پتہ ہے۔ الحمدللہ میں نے آج تک ایسا کچھ نہیں کیا کہ مجھے سیدھا ہی ان لڑکیوں میں شامل کردیا جاۓ جنہیں حیاء کا مطلب بھی نہیں پتہ۔ مانا میری ڈریسنگ سینس سے میں بہت کھلے ذہن کی لگتی ہوں گی پر میں ایسی نہیں ہوں۔

 میرے گھر والوں نے مجھے سب اچھے سے سمجھایا ہے۔ بہت اچھے سے ۔ !! رہی بات فاد بھائ کی تو جاؤ ان سے پوچھ لو میں نے یونی میں کبھی سیدھے منہ بات نہیں کسی لڑکے سے۔ انہیں بھی جب بھی بلایا بھائ کہہ کر بلایا ۔ میں انہیں دیار لالہ جتنی ہی عزت دیتی ہوں۔ وہ بھائ ہی ہیں میرے ۔۔!! اور زرا یہ تو بتاؤ یہ کسے میں نے اپنے پیچھے پاگل کیا ہے اور میں پاگل خود ہی نہیں جانتی ۔۔!!" 

وہ اب بھی نارمل رہنے کی کوشش میں تھی کیونکہ سامنے کھڑی لڑکی کا ذہن جتنا تھا اسے پتہ تھا۔ وہ جانتی تھی اس سے سختی سے بات کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ پر کوئ بھی لڑکی برداشت نہیں کرسکتی کہ اسے کوئ برا کہے۔ تو زرلشتہ کا حوصلہ تھا جو وہ یوں سکون سے کھڑی تھی۔ معصومہ نے لب بھینچے پھر جلتی نظروں سے اسے دیکھا۔ 

" آپ سچ میں اتنی ہی معصوم ہیں یا ڈرامہ کررہی ہیں۔ فادی آپ کے پیچھے پاگل ہیں اتنا کہ آپ کا نام لیتے ہی ان کے لہجے میں چھپی حسرت مجھے تک محسوس ہوگئی اور آپ انجان ہیں ان سے ۔۔!! 

واقعی ۔۔!! اس حساب سے تو لڑکوں کو اپنے پیچھے پاگل کرنا آپ کا مشغلہ ہوگا ۔۔!!" 

اس نے سلگ کر کہا تو زرلشتہ کے چہرے کا رنگ اڑا وہ کیا بکواس کررہی تھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ زرلشتہ کا سانس بھاری ہوا۔ کتنی آسانی سے الزام لگا تھا اس کے کردار پر۔ کتنی ہی آسانی سے۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور گہرا سانس ہوا میں خارج کیا۔ اسے معصومہ کو لفظوں کے زہر سے مارنے میں دلچسپی نہیں تھی پر یہ تو طے تھا جو اس نے بولا اس کی معافی نہیں۔ 

" وہ ہے کمرے کا دروازہ ۔۔! اس سے پہلے کہ میرے لہجے میں مسز درمان آفریدی تم سے بات کرے۔ جس کے کردار پر تم نے سوال اٹھایا چلی جاؤ یہاں سے ۔۔!! 

آۓ سیڈ لیو۔۔!!" 

زرلشتہ سکون سے بات کررہی تھی البتہ آخری جملے سے واضح تھا یہ سکون نہیں تکلیف بھرا لہجہ ہے۔ 

معصومہ لمحے کے لیے تو حیران ہوئ کہ بجائے اسے جواب دینے کے زرلشتہ اسے بھیج کیوں رہی ہے پھر اس نے سوچا کہ اس کے پاس جواب ہوگا ہی نہیں۔

" آپ کے سامنے بھی مسز فدیان آفریدی کھڑی ہے۔ مجھے جواب چاہیے ۔۔!! کیوں میرے شوہر کے دل میں آپ بستی ہیں ؟؟؟ کیوں ۔۔؟؟؟؟" 

معصومہ کا لہجہ نفرت آمیز تھا جب زرلشتہ نے کانپتے ہاتھوں سے اپنی پیشانی پر چمکتا پسینہ پونچھا۔ اسے غصہ آرہا تھا۔ پر اتارنا نہیں تھا اسے۔ اس کا غصہ درمان بھی سہہ نہیں پاتا تھا یہاں تو معصومہ کھڑی تھی۔ 

" مسز فدیان آفریدی آپ کے شوہر کا دل آپ کا مسئلہ ہے میرا نہیں ۔۔!! اس دنیا میں زرلشتہ درمان آفریدی ایک ہی شخص کے دل کی ملکہ ہے، اسی کے دل کی حکمران ہے، اور ایک ہی شخص کو اس نے اپنے پیچھے پاگل کیا ہے وہ شخص کوئ اور نہیں اس کا شوہر درمان آفریدی ہے۔ جس سے اسے دل کی گہرائیوں سے محبت کیا عشق ہے ۔۔!! جس کے علاؤہ وہ کسی دوسرے کے نام کو اپنے ساتھ جڑنے بھی نہ دے۔ اسے اسی شخص سے عشق تاقیامت رہے گا جس نے اسے محبت کا مطلب سمجھایا، جو انجانے میں اس کے دل تک اترا اور جو اس پر حاکم ہے۔ !! "

وہ گرج اٹھی اس کی آواز کمرے کے درو دیوار سے ٹکرائی۔ یہ تھا وہ اقرار جو معصومہ کو بھی لرزا گیا۔ عشق سچا تھا تبھی تو زرلشتہ کے عشق کی گواہی اس کی آنکھیں دے رہی تھیں۔ وہ لمحے کو رکی۔ جیسے خود کو سخت کہنے سے روکا ہو۔ 

" بیبی میں کوئ گری پڑی لڑکی نہیں ہوں جو منہ اٹھا کر دوسروں کو اپنے پیچھے پاگل کرے گی۔ میری اپنی عزت اپنا وقار ہے۔ میں اپنے شوہر کی امانت میں حیانت کرنے سے پہلے مرنا پسند کروں گی۔ تو محترمہ جائیں اور اہنے وہم دور کرنے کو اہنے شوہر کو کہیں۔ ۔!! 

میں آپ کو جواب دہ نہیں ہوں۔ آئندہ یہ صورت مجھے نہ دکھانا ۔۔!! 

ورنہ تمہاری جان لینے میں مجھے ایک سیکنڈ نہیں لگے گا ۔۔۔!! اب جاؤ یہاں سے ۔۔!!" 

اس کا ضبط جواب دے گیا پھر آواز میں لرزا دینے والی صلاحیت تھی کچھ تو ہوا جو معصومہ بھی لرز اٹھی۔ بہت غلط بولا تھا اس نے زرلشتہ کو تو وہاں سے جانا ہی اسے مناسب لگا۔ البتہ اس کے جاتے ہی زرلشتہ نے جھٹکے سے بیڈ پر رکھی ساری چیزیں زمین بوس کی تھیں۔ پھر سائیڈ ٹیبل پر رکھی درمان کی فوٹو اٹھا کر اسے لے کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئ۔

" سوری ۔۔!! آپ نے کہا تھا مجھے سوجانا چاہیے۔ میں ہی ڈھیٹ بن کر اٹھی ہوئ تھی۔ آپ کی بات مان لیتی تو یہ سب نہ سننا پڑتا۔ اچھا اب میں پکا سونے لگی ہوں۔ غصہ حرام ہے ۔۔!! اس سے میرا ہی نقصان ہوگا۔ مجھے اپنے بےبی کی خاطر پرسکون رہنا چاہیے ۔۔!! " 

اسنے درمان کی تصویر سے بات کی پھر بیڈ پر فورا ہی لیٹ کر اس کی تصویر کو خود سے لگاکر آنکھیں بند کرلیں اس نے۔ اتنی تو عقل اس میں تھی کہ خود کو ازیت دینا ابھی ٹھیک نہیں ہے۔ اسے خود سے جڑے ننھےسے وجود کا خیال تھا۔ دل کی د" بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی والے محاورے پر آج سچ میں عمل ہوتا دکھ گیا۔ قانون کے رکھوالے نکلے قانون کے سب سے بڑے دشمن۔ ملک کے باعزت اداروں کی آڑ میں چھپ کر اپنے ہی ملک کو کسی دیمک کی طرح چاٹنے والے ایک اور غدار کے منہ سے نقاب اتر گیا۔ جی ناظرین آپ کو ایک اہم ترین خبر سے آگاہ کرتے  چلیں کہ ڈپٹی کمشنر مسٹر احسان عادل صاحب کی رشوت لیتے ہوۓ تصویریں منظرِ عام پر آگئیں۔ تفصیلات کے مطابق ملک کو بھاری نقصان پہنچانے کے لیے بناۓ گۓ منصوبے پر اس غدارِ وطن نے محض چند ٹکوں کی خاطر دستحط کرکے اپنے غدار ہونے کا ثبوت دے دیا۔۔!!" 

لاونج میں کھڑے نفوس پھٹی ہوئ آنکھوں سے ٹی وی پر چلنے والی خبر سن رہے تھے جسے سنتے ہی سامنے کھڑے احسان عادل کے چہرے پر ہوائیاں اڑیں۔ تانیہ اپنے ٹوٹے بازو کے ساتھ وہیں کھڑی شاک میں تھی کہ اس کے بابا کیا سچ میں پکڑے جاچکے ہیں۔ 

" یہ کیا بے ہودگی ہے ۔۔!! ابھی ان چینل والوں کا دماغ میں سیٹ کرتا ہوں۔ جو دل میں آیا بول دیں گے یہ لوگ۔ بھاری رقم لے کر منہ بند کیا تھا انہوں نے اور اب یوں الزام لگا رہے ہیں مجھ پر جیسے خود تو دودھ کے دھلے ہیں۔  !! " 

احسان نے جلدی سے اپنا فون نکالا ابھی وہ نمبر ڈائل کرنے والا ہی تھا جب اچانک ہی میئر کی کال دیکھ کر اس کے تنے اعصاب نارمل ہوۓ۔ اس شہر کے میئر کی پشت پناہی کے بغیر وہ یہ سب کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس نے جلدی سے کال پک کی۔ پھر کچھ بولنے کو لب وا کیے۔ لیکن میئر کی بات سن کر اسے لگا پورا گھر ہی اس پر آن گرا ہے۔ 

" دیکھو احسان مانا ہم بہت اچھے دوست تھے۔ میرے بہت سے کام کیے تم نے۔ پر اس وقت مجھے اپنی سیٹ کی فکر ہے۔ اگر میڈیا کو پتا لگا کہ میں تمہارے ساتھ انوالو ہوں اس سب میں تو میرا مستقبل بھی داؤ پر لگ جاۓ گا۔ اب مجھے کال نہ کرنا میں تمہیں جانتا ۔۔!!" 

ٹھک سے فون بند ہوا اور احسان صاحب شاک کی کیفیت میں سامنے ایل سی ڈی دیکھتے رہ گۓ۔ 

" ناظرین آپ کو ایک اور اہم خبر سے آگاہ کرتے چلیں سفان گروپ آف انڈسٹری کے شیئرز اچانک ہی تاریخ کی کمترین سطح پر ٹریڈ ہورہے ہیں۔ ان کی کمپنی کی مارکیٹ والیو صفر ہونے کے قریب ہے۔ جبکہ وہ اس شہر کے دوسرے بڑے بزنس ٹائیکون ہیں پہلے نمبر پر دران آفریدی دا ڈی گروپ آف انڈسٹریز اپنی پوری شان سے کھڑی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر موجود یہ کمپنی دن دھارے دیوالیہ ہوچکی ہے۔۔ !!!" 

تانیہ صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھی اس کے بابا کو سسپینڈ کردیا گیا تھا اب ان پر انکوائری بیٹھتی۔ کیس چلتا۔۔!! 

ان کا گھر اور باقی کی پراپرٹی سب پولیس کسٹڈی میں جانے والے تھے اسے اپنا آپ سڑکوں پر بھیک مانگتا ہوا دکھنے لگا۔ 

تبھی ان کے گھر میں مزید چند نفوس اجڑی ہوئی حالت میں داخل ہوۓ 

" احسان میرا بزنس ڈوب گیا۔۔!! دران آفریدی دا ڈی گروپ آف انڈسٹریز نے آخری موقع پر ناصرف میرا پروجیکٹ کینسل کیا بلکہ مجھے باقی کمپنیوں کی نظروں میں بھی گرا دیا۔ میں سڑک پر آگیا ہوں احسان۔ مجھے مدد چاہیے تمہاری۔ کچھ کرو کسی طرح مجھے اس مسئلے سے باہر نکالو۔۔۔!!!" 

سفان کی پیشانی عرق آلود تھی آخر دن دھارے سڑک پر آنے کا دکھ اس کے حواس جو سلب کرچکا تھا۔ سونیہ اور اس کی ماں بھی ان کے پیچھے ہی وہاں داخل ہوئیں۔

تانیہ نے سونیا کو دیکھا تو فورا اٹھ کر اس کے گلے لگ گئ۔ احسان صاحب تو یوں خاموش تھے جیسے اس جہاںِ فانی سے کوچ کرگئے ہوں۔ انہوں نے بے بسی سے بھری نگاہ ڈالی سفان صاحب پر پھر کچھ ہی دیر میں سیف، سنی، دانی اور سہیل کے پیرنٹس بھی وہاں موجود تھے جو سب کے سب برباد ہوچکے تھے۔ ایسے برباد کہ اب اٹھ بھی نہ پاتے۔ ان کے کاروبار کے ساتھ ساتھ ان کی عزت کا بھی کباڑا کیا تھا دیار نے۔ ایسا کہ اب کوی ان پر یقین نہ کرتا۔ وہ سب فیملی فرینڈز تھے۔ تبھی ہر الٹے سیدھے کام میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد کرتے تھے۔ اور آج دکھ کے موقع پر بھی ایک دوسرے کے پاس ہی آۓ تھے۔

لاونج میں وخشت زدہ سی خاموشی تھی سارے نفوس سر جھکاکر خود کے ساتھ ہوا معاملہ ہی سمجھنے کی تگ و دو میں تھے۔ 

" سفان آپ مانیں یا نہ مانیں یہ سب کسی کی سازش ہے ۔۔!! پہلے تو کسی نے ہمارے بچوں کو جان سے مارنے کی کوشش کی پھر اس سے دل نہیں بھرا تو ہمیں تباہ و برباد کردیا۔ میں کہہ رہی ہوں کہ تحقیقات کروائیں۔ کوئ ہمارا دشمن بن چکا ہے ۔ !!!" 

اس دفعہ بولنے والی مسز سفان تھیں ان کی بات سن کر لاونج میں بیٹھے تمام نفوس نے اچانک ہی سونیہ کے گروپ کو دیکھا جو کل ہی ہاسپٹل سے واپس آۓ تھے۔ کسی کے بازو تو کسی کی گردن پر لگی پٹی گواہ تھی کہ اب بھی سب کی حالت بہت بری ہے۔ 

دانی نے تھوک نگلا۔ بھلے وہ فیزیکلی ٹھیک تھا پر مینٹلی تو اس کے ہوش بھی اب تک اڑے تھے۔ اسے تو خواب میں بھی وشہ ہی دکھتی تھی جو اس کی جان لینا چاہتی ہے۔

" نہیں بھابھی ۔۔!! جو بھی ہوا اس کا تعلق بچوں سے نہیں ہے۔ دانی نے بتایا تھا مجھے یہ سب ان کی کسی یونی فیلو کا کیا دھرا ہے۔ کسی قبائلی علاقے میں رہنے والی لڑکی سے مار کھائ ہے انہوں نے۔ وہ مڈل کلاس لڑکی اتنی طاقتور نہیں ہوسکتی کہ ہمارا بال بھی بیکا کرسکے۔ یہ سب کسی اور نے کیا ہے۔ پر کیوں ؟؟ ہم نے کیا بگاڑا ہے کسی کا ۔۔؟؟" 

ان کی بات کے جواب میں دانی کے والد صاحب گفتگو کا حصہ بنے جبکہ سونیہ نے حلق تر کرکے جھک کر تانیہ کو دیکھا تھا۔

" کہیں یہ وشہ کا کیا دھرا ہی تو نہیں ۔۔!! وہ سٹوپڈ مڈل کلاس لڑکی یہ کرتو نہیں سکتی۔ لیکن ہوسکتا ہے اس کے کسی عاشق نے کیا ہو یہ سب ۔۔!! تانی ۔!! آۓ ایک ڈیم شور یہ سب اسی مس پردہ دار نے کیا ہے ۔!!"

سونیہ کی بات پر تانیہ نے اسے گھورا۔ جیسے اس فضول سوچ کی امید اسے سونیہ سے نہیں تھی۔ 

" اوووو پلیز سونی ۔۔!! وہ مڈل کلاس ونی ہوئ لڑکی۔ جس کے بیک گراؤنڈ کا کسی کو پتہ ہی نہیں وہ یہ سب کر ہی نہیں سکتی۔ اس سب کا تعلق ہم سے نہیں۔ تو مت سوچو اس مس پردہ دار کے بارے میں ۔۔!!"

اس نے ناگواریت سے کہا تو سونیہ نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔ 

" پھر کس نے کیا ہے یہ سب ۔۔!! کون تباہ کرنا چاہتا ہے ہمیں۔۔!! کون۔ ۔۔!!!" 

احسان صاحب نے اپنی چپ توڑی اور نشست سے اٹھ گۓ ابھی ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچنے ہی والا تھا جب ان کے ملازم نے انہیں وہیں پر روک دیا۔

" سر ۔۔!! یہ کوریئر آپ کے لیے آیا ہے ۔۔!! بھیجنے والے نے یہ بھی کہا ہے کہ عزت پیاری ہے تو یہاں موجود سارے بھکاری اس کے آفس کے سامنے موجود ہوں شام سے پہلے ورنہ کل صبح آفس کی بجائے سب کو چوک پر کھڑا کرکے وہ بھیک منگواۓ گا۔ اور یہ بھی کہاانہوں نے کہ ذرا تیار شیار ہوکر بھیک مانگنے آنا۔ تاکہ اسے بھیک دینے میں مزہ آۓ اور آپ کو لینے میں۔!!" 

ملازم نے دیار کے مینیجر کا بھیجا پیغام من و عن انہیں سنادیا۔ جو اس قدر تذلیل پر تلملا اٹھے پر ایسی پوزیشن میں نہیں تھے کہ اس ملازم پر غصہ اتارتے۔

جھپٹ کر انہوں نے وہ باکس کھولا۔ اور دیکھتے ہی رہ گۓ۔ اس باکس میں چھ کٹورے تھے۔ سارے نفوس اسی جانب ہی دیکھ رہے تھے۔ جیسے بھکاریوں کے پاس ہوتے ہیں ویسے ہی کٹورے تھے وہ۔ ساتھ ہی آفس کا ایڈریس اور ایک چٹ بھی تھی۔

سفان صاحب نے ان کے ہاتھ سے چٹ لی جس پر لکھا تھا۔

" بربادی مبارک ہو ۔۔۔!!! "

یہ الفاظ وہاں موجود سب نفوس سنکر ٹھٹھک گۓ۔ 

لاونج میں پھر سے سکتہ چھایا۔ وہ چٹ آگے بڑھ کر دانی نے لی اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ 

" دیار درانی ۔۔!!!" 

چٹ کے آخر پر لکھا تھا۔ یہ نام لیتے اسکے ہاتھ بھی کانپے۔ انہیں تباہ کرنے والا دیار تھا۔ 

" مسٹر دیار درانی نے یہ سب کیا ہمارے ساتھ ۔۔!! پر کیوں ۔؟؟ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں ان کے ساتھ۔ ان فیکٹ مسٹر درمان آفریدی کی فرسٹ چوائس ہم ہیں۔ اتنے سالوں سے کبھی ہمارے ساتھ ان کے تعلقات خراب نہیں ہوۓ۔ تو انہوں نے یہ سب کیوں کیا ۔ !!" 

سفان صاحب نے آہ بھری اور صوفے پر بیٹھ گۓ۔ جبکہ سیف کو اسی وقت وشہ یاد آئ تھی۔ پھر اس کا وہ بریسلیٹ جس پر وشہ لکھا تھا۔ اس نے نفی میں سر کو جنبش دی۔ 

" ڈیڈ ۔ !! مسٹر دیار کیا شادی شدہ ہیں۔ آۓ مین کیا آپ جانتے ہیں ان کی وائف کون ہیں ؟؟"

سیف نے بامشکل کہا دل بار بار دعا کررہا تھا کہ وہ کہہ دیں ایسا کچھ نہیں یے۔ انہوں نے بھنویں سکیڑیں۔

" ہاں حال ہی میں شادی ہوئ ہے ان کی۔ بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سردار بھی ہیں اپنے علاقے کے۔  انفیکٹ مسٹر درمان آفریدی کی بہن سے ہی ان کی شادی ہوئ ہے۔ تم کیوں پوچھ رہے ہو۔۔!!" 

انہوں نے ناسمجھی سے پوچھا تو سیف نے مسکین فیض صورت بنائ۔ اپنے پاؤں پر کلہاڑی خود جو ماری تھی اس نے۔

" وشہ آفریدی اور درمان آفریدی۔۔!! پھر وشہ کے ہاتھ پر دیار کے نام کا بریسلیٹ۔۔!! اس کی اکڑ اور اس کا غصہ عام نہیں تھا۔ وہ خود بھی عام نہیں ہے۔ سونیہ تم نے ہمیں تباہ کردیا۔ تمہاری وجہ سے ہم نے اس لڑکی کو ٹیز کیا اور اس کے اس شوہر نے ہمیں سڑک پر لاپھینکا۔ وہ وشہ کوئ عام لڑکی نہیں ہے۔ وہ مسٹر دیار درانی کی بیوی ہے۔ دا ڈی کمپنی کے اونر کی، اس شخص کی بیوی جو ہمیں بھکاریوں کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ وہ دیار جس نے ہمیں کیڑے مکوڑے ہی بنادیا ہے۔ جی ڈیڈ مسٹر دیار درانی اپنی بیوی کا بدلہ لے رہے ہیں۔۔۔!!" 

اس کی باتیں سنتے ہی سونیہ کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سب کی نظریں اب اس کے گروپ پر تھیں سب سے پہلے ہوش دانی کے والد کو آیا انہوں نے کھینچ کر تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔

" پڑھنے جاتے تھے تم لوگ یا دوسروں کی عزت پر نظر رکھنے جاتے تھے۔ بدعقل تمہاری ایک غلطی مجھے تباہ کرگئ۔۔ !!" 

وہ گرجے تو دانی نے سر جھکا کر رخسار پر ہاتھ رکھا۔ 

" وہ مس ایٹیٹیوڈ ۔۔!! اس پرنس چارمنگ کی بیوی ہے۔ وہ دیار درانی جس کی جھلک دیکھ کر کوئ بھی اس کا دیوانہ ہوجاۓ۔ وہ اس وشہ کا شوہر ہے۔ وشہ کے تو نصیب ہی کھل گۓ۔ سیدھا ہی بزنس ٹائیکون کی بیوی بن گئ وہ تو ۔۔!!" 

تانیہ اپنی نشست سے اٹھی تو سنی کے والد نے افسوس سے سر جھٹکا۔

" وہ اس سے پہلے ایک بزنس ٹائیکون کی بہن بھی ہے۔ ایک سردار کی بیٹی، دوسرے سردار کی بہن اور تیسرے سردار کی بیوی ۔۔۔!! 

وہ چاہے تو ہمیں کھڑے کھڑے مار دے۔۔!!

اور یقین ہے مجھے کوئ حساب بھی نہیں لے گا اس سے۔ اب ہمیں وہی کرنا ہوگا جو وہ چاہتا ہے۔ 

شام ہونے والی ہے میری مانیں تو بغیر چوں چراں کیے بھیک مانگ لیں۔ سڑکوں پر کھڑے ہوکر بھیک مانگنے سے زیادہ اچھا دیار درانی کے آگے جھکنا ہے۔ 

میں مزید نقصان افورڈ نہیں کرسکتا تو میں تو تیار ہوں اس کی بات ماننے کے لیے ۔۔۔!!"

لاونج میں موجود باقی کے نفوس بھی اب صوفے پر تھک کر بیٹھ گئے۔ اب بھیک مانگنے کے علاؤہ کوئ چارہ جو نہیں تھا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

 دوپہر کے وقت زرلشتہ روم میں بیٹھی بور ہورہی تھی ۔ اس دن کے بعد اس نے خود ہی کمرے سے باہر نکلنا کم کردیا تھا بلاوجہ معصومہ سے الجھنا اسے گوارہ نہیں تھا۔ ابھی بھی وہ کمرے میں بیٹھی آئس کریم کھارہی تھی جب اچانک دروازہ کھلا۔ اور درمان کمرے میں داخل ہوا۔ ابھی اس کا آفس سے واپس آنے کا ٹائم نہیں ہوا تھا پر دیار نے اسے جلدی ہی بھیج دیا۔ وہ وہاں بھی بس ایک فارمیلٹی کے تحت ہی سلام دعا کرلیتا اس سے۔ اس سے زیادہ وہ بات نہیں کرتا تھا۔ آج اس نے کہا کہ اسے زرلشتہ کو ٹائم دینا چاہیے۔ تو وہ چلاجاۓ اور درمان آرام سے گھر بھی آگیا۔ البتہ جو دعوت دیار نے زرلشتہ جو دینے کا پروگرام بنایا تھا وشہ والے مسئلے کی وجہ سے اس نے وہ پارٹی ڈیلے کردی۔ تاکہ ایک دفعہ وشہ کا مسئلہ حل ہوجاۓ تو اطمینان سے وہ انتظامات دیکھ سکے۔

اپنا کوٹ اتار کر بیڈ پر رکھ کر اس نے دونوں بازو سینے پر لپیٹ کر صوفے پر بیٹھی زرلشتہ کو دیکھا جو کافی دنوں سے اسے بہت سیریس سی لگ رہی تھی۔ 

" مس ڈرامہ کوئین۔۔!! کیا ہوا ہے تمہیں۔ اتنی چپ چپ کیوں ہو۔ کس کا غصہ مجھ پر اتار رہی ہو ہنی ۔۔!! " 

درمان نے بغور اسکے تاثرات دیکھے۔ جو اس کی بات سن کر بےساختہ اسی کی جانب دیکھنے لگی۔ سلک کی جینز اور شرٹ پہنے کھلے بالوں کے ساتھ ہاتھ میں آئس کریم پکڑے وہ اسے دیکھ کر مسکرا اٹھی۔ 

" آپ کون ہیں جناب۔ شکل سے تو پیارے ہی لگ رہے ہیں۔۔۔!! پر ایسے ہی کسی خوبصورت لڑکی کے کمرے میں آنا اچھی بات نہیں ہوتی۔ میرے شوہر گھر پر نہیں ہیں۔ بعد میں آئیے گا ۔۔!!" 

زرلشتہ نے آئس کریم کھاتے ہوئے شرارت بھرے انداز میں کہا۔ اس کی بات سن کر درمان نے فورا کمرے میں دیکھا کھوجتی نگاہوں سے۔

" کہاں ہے وہ خوبصورت لڑکی جس کے کمرے میں،میں بنااجازت آیا ہوں۔ مجھے تو نہیں دکھ رہی۔ تمہیں دکھ رہی ہے تو مجھ سے بھی ملوادو اسے۔ میں بھی خوبصورت لڑکی دیکھ لوں گا۔۔!!" 

اپنے بازو پشت پر باندھ کر اس نے خاصے تجسس بھرے انداز میں پوچھا جب زرلشتہ نے آئس کریم ٹیبل پر رکھ کر اپنی آنکھوں کے سامنے آۓ بال ہاتھ سے پیچھے کیے۔ 

" میں ہوں وہ خوبصورت لڑکی۔ دکھ نہیں رہی کیا میں۔میرے علاؤہ آپ نے کسی کو دیکھا تو میں آپ کو ماروں گی۔ آۓ بڑے خوبصورت لڑکی کا دیدار کرنے والے۔۔!!" 

اسنے منہ بسورا دھمکی سن کر درمان نے سر تا پیر اس کا جائزہ لیا۔ پھر ناک پھلائ۔ 

" تم تو عجوبہ ہو ۔۔!! خوبصورت لڑکی تو نہیں ہو۔ میں اتنا بھی اندھا نہیں ہوا کہ تمہیں پیارا سمجھوں۔ اچھا کھا کیا رہی ہو مجھے بھی دکھاؤ ۔۔!!" 

اس نے جیسے کہا تھا وہ خوبصورت نہیں زرلشتہ کا منہ کھلا  پھر آندھی طوفان کی طرح فورا اس تک پہنچی۔

" آپ اندھے ہی ہوگۓ ہیں جو بھول گۓ کہ اگر آپ جن ہیں تو میں بھی چڑیل ہوں۔ آپ کا منہ نوچ بھی سکتی ہوں۔ ایک تو آپ مجھے ٹائم نہیں دیتے .آج جلدی آگۓ ہیں تو میری انسلٹ کررہے ہیں۔ اب میں ناراض ہوں مجھے نہیں بات کرنی آپ سے ۔ جائیں ڈھونڈلیں پیاری لڑکی ۔۔۔!!" 

دونوں بازو سینے پر فولڈ کرکے اس نے خفگی سے رخ دوسرا جانب کیا وہ یوں منہ پھلائے اسے حد سے زیادہ کیوٹ لگی۔ ساری تھکن لمحے میں دور ہوئ اور وہ فریش ہوگیا۔ اسے اپنے سامنے کھڑا دیکھنا ہی اس کی تھکن کا آرام تھا۔ 

" اوووو میرا کیوٹ سا ٹیڈی بیئر ٹائم نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہے ۔۔!! کم آن کیوٹی پاۓ میں بھلا تمہیں بھول سکتا ہوں۔ یہاں آؤ میرے پاس ۔۔!!" 

اس نے ہاتھ وا کیے اسے پچکارنا چاہا جس نے ابھی بھی اس کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ 

" میں آپ کا ٹیڈی بیئر نہیں ہوں۔ مجھے آپ کے پاس نہیں آنا۔ آپ کو پیاری لڑکی چاہیے تو جائیں ڈھونڈ لیں ۔۔!!"

 اس نے غصے سے کہا پھر اگلے ہی لمحے درمان اسے حصار میں قید کرتے ہی اونچا کرکے گول گول گھمانے لگا۔

" لو مل گئ پیاری لڑکی ۔۔!! ماۓ کپ کیک اتنا کیوٹ فیس بناؤ گی تو کھاجاؤ گا میں تمہیں ۔۔!! کس بات کا غصہ آیا ہے میری جان کو۔ بتاؤ تو سہی مجھے۔ کسی نے کچھ کہا ہے کیا  ۔۔!!!"

" ممم۔مان بھلا مجھے کوئ کچھ کہہ سکتا ہے۔ گز بھر لمبی زبان ہے میری۔ اسی سے لپیٹ کر اس کی بات کو واپس  پھینک دیتی ہوں میں۔ اور اس گھر میں آپ کے علاؤہ میں کسی کو سیریس نہیں لیتی ۔۔!!" 

زرلشتہ ڈر کر چیخی۔ پھر دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر اسے سہمی ہوئی نظروں سے دیکھا۔

" تو میرا سن فلاور میرے علاؤہ کسی کو سیریس نہیں لیتا۔ تو پھر خاموش کیوں تھا اتنے دنوں سے ۔۔!! کسی نے تو کچھ کہا ہے ۔۔!!" 

اسے یقین نہ آیا البتہ پورا کمرہ دونوں کو اپنے گرد گھومتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ زرلشتہ کئ ہلکی سی چیخیں اور درمان کے قہقہے سے جیسے ہر سمت رونق سی پھیل گئ۔ 

" میں گر جاؤں گی مان ۔۔۔!! ایک ہی بیوی ہے آپ کی۔ دوسری کسی نے دینی بھی کوئ نہیں۔ چھوٹو سا دل ہے میرا بند ہوجاۓ گا۔۔!! مجھے نیچے اتاریں۔ ڈر لگ رہا ہے مجھے ۔۔!!" 

وہ روہانسی ہوئ جبکہ دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔

" تمہیں میں گرنے نہیں دوں گا ۔۔!! ماۓ ٹیڈی بیئر۔ اور یہ دل بھی میرا ہے۔میری زندگی میں یہ نہیں رکے گا۔ تم پر درمان کی جان قربان۔۔!! اتنا ڈر کیوں رہی ہو۔ میں ساتھ ہوں تو ہاتھ کھول کر ہوا میں اڑ سکتی ہو تم۔ میرے ہوتے تمہیں کچھ نہیں ہوگا ۔۔!!"

وہ اسی پوزیشن میں رہ کر بولا تو زرلشتہ نے نفی میں سر ہلایا۔ اس کے بال بھی اڑریے تھے جبکہ وہ خود ڈر کر بےہوش ہونے والی تھی۔ 

درمان اس کے ایکسپریشن پر مسکرایا۔ اس کی بلی ڈرپوک بھی بہت تھی تبھی خود ہی رک کر اس نے اسے بیڈ پر بٹھادیا جس نے اپنا چکراتا سر تھاما اور پیچھے کی جانب لیٹ گئ۔ سر تو درمان کا بھی گھوما تھا تو وہ اس کے برابر ہی گرنے کے انداز میں لیٹ گیا۔ 

" دن بدن بچے بنتے جارہے ہیں آپ۔ ایسے کون کرتا ہے مان۔ ڈرا دیا آپ نے مجھے۔ میری تو یادداشت ہی چلی جاتی اگر آپ مجھے تھوڑی دیر مزید گھماتے تو۔ اور مجھے کچھ نہیں ہوا کسی بات کا غصہ نہیں ہے مجھے۔ بس آپ سے شکایت ہے آپ مجھے ٹائم نہیں دیتے ۔۔ !!" 

تھوڑی دیر تک اپنی سانس اس نے نارمل کی پھر پھولے ہوۓ سانس کے ساتھ درمان کو جواب دیا۔ جس نے ہنستے ہوۓ گردن موڑ کر اسے دیکھا زرلشتہ بھی اسی جانب دیکھ رہی تھی۔

" بچہ نہیں نان سیریس کہو مجھے۔ اچھے بھلے بندے کو اپنا دیوانہ بناکر نکما کردیا تم نے۔ اب تو تمہارے بغیر درمان کسی کام کا نہیں رہا۔ دن میں اٹھتے ہی مجھے تم چاہیے ہو اور رات سونے سے پہلے بھی تمہاری صورت دیکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ نشے کی طرح میری رگ رگ کو تمہاری ضرورت ہے اب ۔۔۔!!! میں وقت نہیں دے پارہا تمہیں پر پرامس اس ہفتے کے بعد میں تمہیں شاپنگ پر لے کر جاؤں گا۔ ہم کھانا بھی باہر کھائیں گے اور ہر اس جگہ جائیں گے جو تمہیں پسند ہے۔ اوکے ۔۔۔!!!" 

اس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں قید کیا جو اس کی بات سن کر مسکرا اٹھی۔ یہ اظہار تو درمان کو روز کرنے کی عادت تھی۔ اس کے بغیر تو سچ میں اس کا دن نہیں شروع ہوتا تھا۔

" ہفتے بعد کیوں مان ۔۔!!! مجھے ابھی جانا ہے نا۔ میں بور ہو جاتی ہوں کمرے میں۔ ہم گھومنے جاتے ہیں کہیں پر پلیز ۔۔۔!!!" 

اس کی طرف گھوم کر زرلشتہ نے بیچاری سی صورت بنائی تو اس نے نفی میں سر کو جنبش دی۔

" پروجیکٹ ہے ایک جو ہفتے تک ختم ہوجاۓ گا وہی پروجیکٹ جس میں تم نے میری مدد کی تھی۔ بس وہ ختم ہوجاۓ پھر میرا سارا وقت تمہارا۔۔۔!!! میری جان ۔۔!! بس تھوڑا سا انتظار اور ہم خوب گھومیں پھریں گے۔ تب میرا ٹیڈی بیئر اپنا خیال رکھے مجھے اپنے ٹیڈی بیئر کی زندگی سے زیادہ کچھ عزیز نہیں تو کوئ کوتاہی مت کرنا ۔۔۔!!! " 

درمان کا لہجہ سمجھانے والا تھا تبھی زرلشتہ نے سر ہاں میں ہلادیا۔ وہ اس کی مصروفیات سمجھتی تھی۔ تبھی تو معصومہ والا مسئلہ بھی اس نے خود تک رکھا حتی کے فدیان سے بعد میں سلام دعا بھی ہوئ تب بھی اس نے ظاہر نہ ہونے دیا اس کی بیوی کیا کیا کہہ چکی ہے اسے۔ 

" ٹیڈی بیئر دن بدن پھولتا جارہا ہے۔ آپ کو ہی اچھی نہیں لگوں گی میں پھر ۔۔!!"

" میری جان وہ سانس نہیں آۓ گی اب مجھے جس میں تمہارا وجود مجھے اچھا نہ لگے۔ تم نیچرلی کیوٹ ہو۔ دن بدن کیوٹنیس میں اصافہ ہورہا ہے تمہاری۔ ۔!!! فضول نہ سوچا کرو۔ اچھا بتاؤ صبح سے کیا کیا کھایا تم نے اور کیا کیا کرتی رہی ہو۔۔!! تمہاری صلح ہوئ کیا معصومہ سے ۔۔!!" 

اس نے اپنا سر کہنی پر ٹکایا اور اسے دیکھنے لگا فرصت سے وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا وہ واقعی نارمل ہے۔ جواب میں جیسے اس نے اپنا درد چھپایا تھا درمان بھی بیوقوف بن گیا ۔

" جی جی سب ٹھیک ہے۔ وہ مان گئی ہے۔ اس نے مجھے چاکلیٹس بھی دیں اور باتیں بھی کی مجھ سے۔ پر جو بھی ہوجاۓ مجھے تو آپ کا وقت چاہیے نا۔ اچھا میں نا آپ کو بتاتی ہوں کہ کل میں نے خواب میں کیا دیکھا ۔۔۔!!!" 

اس نے بات گھمائ اور اپنا خواب اسے سنانے لگی جو پورے انہماک سے سب سن رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس سے باتیں بھی کررہا تھا۔ اس دوران بھی درمان نے کئ بار اس کی اس مسکراہٹ کی نظر اتاری جو دن بدن خوبصورتی کی حد سے بھی آگے نکل رہی تھی۔ اسے ڈر بھی لگا کہ کہیں اسے نظر نہ لگ جاۓ۔ پر وہ اس کی معصومیت کا دیوانہ تھا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" مسٹر دیار درانی سے کہہ دیں کہ ہم لوگ آگۓ ہیں ان کے بتاۓ ہوۓ وقت پر۔ انہیں جو بات کرنی ہے ہم سے کرلیں۔ ہم سننے کو تیار ہیں ۔۔۔!!!" 

سفان صاحب نے دیار کے سیکرٹری کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ پورے وقت پر یہاں پہنچے تھے پر افسوس دیار کا ملنے کا موڈ نہیں تھا۔ اسکے سیکرٹری نے دائیں بائیں سر ہلایا۔

" سر مصروف ہیں ابھی۔ پب جی کا لیول اٹکا ہوا ہے جو انہیں ہر حال میں پورا کرنا ہے آج کے آج۔ جب سے ان کی سسٹر کی شادی ہوئ ہے تب سے یہ لیول اٹکا ہوا ہے۔ اپنی بہن کے ساتھ کھیلتے تھے وہ یہ گیم۔  آج انہیں موقع ملا ہے تو وہ اسے پورا کرکے ہی چھوڑیں گے۔ آپ لوگ دعا کریں وہ جیت جائیں پھر آپ سے بھی نمٹ لیں گے۔ اپنا اپنا کشکول تھام کر سارے قطار میں کھڑے ہوجائیں ۔ !!" 

سیکرٹری نے بند دروازے کو دیکھا جہاں دیار بیٹھا سچ میں گیم کھیل رہا تھا۔ پھر ان چھے لوگوں کو قطار میں کھڑا کرکے خود وہ اپنا کافی کا مگ پکڑ کر دیار کے آفس چلا گیا۔ 

پورے دو گھنٹے تک وہ لوگ وہاں کھڑے رہے کشکول تھام کر۔ جب سیکرٹری کو نکلتے دیکھ کر سہیل کے والد آگے ہوۓ۔

" دیکھیں ہم لوگ دو گھنٹے سے یہاں کھڑے ہیں۔ کوئ ہماری بات بھی نہیں سن رہا مسٹر دیار سے کہیں ہم سے مل لیں۔ جب ملنا ہی نہیں تو بلایا کیوں انہوں نے !!!"

 انہوں نے خالی کشکول سائیڈ پر رکھ دیا۔ تو دیار کے سیکرٹری نے اسے گھورا۔

" صاحب کے کھانے کا وقت یے ابھی۔ انسان ہیں وہ۔ بھوک لگتی ہے انہیں۔ سب آپ لوگوں کی طرح ویلے نہیں ہوتے۔ پہلے وہ کچھ کھالیں پھر بات کرلیں گے آپ سے ۔ ہٹیں میرے راستے سے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے   منہ اٹھا کر آجاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ منہ کسی شاپر  میں ڈال کر گھر چھوڑ آئیں !!" 

اسے سائیڈ پر کرکے وہ وہاں سے نکلا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو ہاتھ میں سینڈوچز اور باقی کچھ کھانے کی چیزیں تھیں جنہیں وہ لے کر وہ اندر چلا گیا۔ 

وہ سب منہ کھولے کھڑے تھے اس سے ملنا مجبوری تھی سب کی اور وہ مجبوری کا دائرہ اٹھانا جانتا تھا۔ 

مزید ایک گھنٹے بعد دیار فائنلی کمرے سے باہر نکلا۔ ہاتھ میں فون پکڑ کر وہ مکمل اس میں ہی مگن تھا۔ جب وہ سب اسے امید بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔

" آپ فری ہوگۓ ہیں تو ہم بات کرلیں ۔۔ !!!" 

احسان صاحب نے پوچھا۔ دیار نے ترچھی نگاہ اس پر ڈالی۔

" مجھ سے کیوں بات کرنی ہے۔ راحم ۔۔!! کتنی بار کہا ہے تم سے مانگنے والوں کو زیادہ انتظار نہیں کرواتے باہر سے ہی دس بیس روپے دے کر رخصت کردینا تھا تم نے۔ شکل سے تو اچھے خاصے ہیں یہ سب ہٹے کٹے ۔۔!! کپڑے بھی اچھے ہیں ان کے۔ ایسا کرو ان کا ڈیٹا لے لو۔ اگر مستقبل میں جمادار کی ضرورت ہوئ ہمیں تو ان کو ہی نوکری پر رکھ لیں گے۔۔۔!! یہی کہنا تھا نا تم سب نے تو لو ہوگیا مسئلہ حل۔۔!!" 

دیار کی بات سن کر ان سب کا منہ کھلا وہ انہیں خود بلاکر ذلیل کررہا تھا۔ راحم کے چہرے پر دبی دبی ہنسی تھی۔ 

" ہم مانگنے والے نہیں ہیں مسٹر دیار ۔۔!!" سیف کے والد صاحب نے اس کی تصحیح کرنا چاہی جس نے بیزاریت سے اسے روک دیا۔

" جانتا ہوں میں تم لوگ بھکاری نہیں ہو۔ مجبور ہو۔ گھر میں بیمار بہن اور جوان ماں ہے جس کی شادی تمہیں کرنی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بیویاں ہیں اور فرمائشیں کرنے والے بچے ہیں ۔تمہیں نوکری نہیں مل رہی۔ اور اب حالات سے تنگ آکر سوٹ کوٹ پہن کر ہاتھ میں پیالا پکڑ کر یہاں کھڑے ہو۔ بلا بلا بلا ۔۔!! 

جانتا ہوں میں ہوگیا نا کام۔ تو اب جاؤ۔۔۔!!!" 

 اس نے پھر سے انہیں زلیل کیا تو وہ سب اہانت کے احساس سے لب بھینچ گۓ۔ 

" سر یہ لوگ وہی ہیں جنہیں آپ نے شام میں ملنے کو کہا تھا۔ کرپٹ کمشنر احسان اور باقی یہ بھکاری ٹولہ ۔۔!!!" 

راحم نے مسکراہٹ دبائ جبکہ یہ بات سن کر دیار نے اووو کی شکل میں ہونٹوں کو گول کیا۔ 

" تو میں نے تو شام میں بلایا تھا انہیں نان سیریس لوگ۔ رات میں آۓ ہیں۔ اب آہی گۓ ہیں تو آئیں کرلیں بات۔ مجھے گھر بھی جانا ہے۔ شادی شدہ بندہ ہوں میں ان کی طرح نکما بھیک منگا نہیں ۔۔۔!!" 

ناک چراتے ہوۓ دیار ابھی زرلشتہ کا بھائ ہونے کا ثبوت دے رہا تھا۔ اس نے واپس قدم پیچھے کی سمت لیے تو ناچاہتے ہوئے وہ سب بھی اس کے آفس میں داخل ہوۓ۔ خود انہیں تین گھنٹے یہاں کھڑا کرکے وہ بھول گیا کہ اس نے کیا کیا ہے۔ وہ دیار تھا ڈرامہ کرنا جانتا تھا۔

کیبن ویسے تو صاف ستھرا تھا پر سامان بکھرا ہوا تھا صوفے پر۔ یقینا وہ نہیں چاہتا تھا یہ لوگ اسکے سامنے بیٹھ کر بات کریں۔ خود تو وہ اپنی سربراہی نشست سنبھال گیا جبکہ ان سب کو  بیٹھنے کو جگہ بھی نہ مل سکی۔

" اب بولو مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟؟" 

انجان بننے کی کوشش کی دیار نے تو سنی کے والد صاحب نے تھکا ہوا سانس خارج کیا۔ اولاد نے ذلیل کرواکے رکھ دیا تھا انہیں۔ انہیں شدت سے احساس ہوا کاش اپنے بچوں کو اچھی تربیت دی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

" ہمارے بچوں نے جو آپ کی بیوی کے ساتھ کیا ہم شرمندہ ہیں اس پر۔ بات یونی تک ہی اچھی ہی جناب۔ بچے ہیں وہ سارے۔ لڑائ ہوگی اور بات ختم ہوگئی۔ اسے اتنا سیریس نہیں لینا چاہیے ہمیں۔ ہمارے سالوں کے تعلقات خراب ہورہے ہیں۔ معافی مانگنی ہے تو ہم مانگ لیں گے۔ پر پلیز یہ دشمنی یہیں ختم کردیں ۔۔!!!" 

انہوں نے اپنے تئیں معاملہ سمجھانا چاہا پر دیار کو بےساختہ وہ لمحہ یاد آیا جب وشہ روتے ہوۓ اس میں چھپ رہی تھی۔ وہ کتنا ڈری ہوئ تھی اس لمحے کہ دیار کو چھوڑنا بھی اسے روح کے نکلنے جیسا لگا تھا۔ بس مزاق سارا ایک طرف ہوا اس نے اشارے سے راحم کو جانے کو کہا۔ اپنی عزت کی بات وہ اس کے سامنے نہ کرتا۔ وہ بھی مؤدب انداز میں سر کو خم دے کر وہاں سے باہر چلا گیا۔ تو دیار نے سامنے سے پانی کا گلاس اٹھایا۔ 

" آپ کے بچوں نے میری معصوم سی بیوی کو یونی کے سامنے شرمندہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ اسے تفریخ کا موضوع بنایا ۔ اسے ٹارچر کیا مینٹلی طور پر اتنا کہ وہ راتوں کو سو نہیں پاتی تھی۔ وہ جو کبھی نہیں جھکی اسے جھکایا ان 'بچوں' نے ۔ پھر اسے ستایا، ہال میں گھنٹوں بند رکھا کیونکہ ان کے نزدیک میری بیوی کا بیک گراؤنڈ کچھ بھی نہیں تھا۔ 

وہ بیک گراؤنڈ جاننا چاہتے تھے میری بیوی کا۔ میں نے تو بس بتایا کہ میری بیوی کی پہنچ کہاں تک ہے۔ آج جس جگہ ہاتھ میں کشکول تھام کر تم سب کھڑے ہو یہ میری بیوی کی پہنچ ہے۔ بھکاری ہو تم سب اس کے سامنے !! ڈیٹس اٹ ۔۔!!" 

اس نے پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں حلق میں اتارا گردن کی رگیں غصے سے تنی تھیں جب ان سب نے شرمندگی سے سر مزید جھکاۓ۔ اپنی اولاد کے کرتوت انہیں بھی پتہ تھے۔

" مسٹر دیار وی آر ایکسٹریملی سوری۔ !!! ہم کہیں گے ان سے وہ خود معافی مانگیں گے آپ کی بیوی سے۔ پلیز ابھی یہ معاملہ یہیں ختم کردیں۔ !!" 

تانیہ کے والد نے التجا کی تو دیار نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائ۔

" بات بس تنگ کرنے تک ہوتی تو میں بھیک منگواکر چھوڑ بھی دیتا۔ ہاتھ عزت پر ڈلا ہے اور دیار بےغیرت نہیں جو اپنی عزت پر ڈلنے والا ہاتھ توڑے بغیر ہی چھوڑ دے۔یا سب بھول جاۓ۔ نہیں میں معاف نہیں کروں گا۔ تم سب دفع ہوسکتے ہو یہاں سے ۔۔!! 

جاکر اپنے مقدمے لڑو، سڑکوں کی خاک چھانو پھر اس پل کو رونا جب ان جیسی نالائق اولاد پروان چڑھائی تھی تم لوگوں نے۔ ۔!! مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں تو تم لوگ اپنی شکل گم کرو ۔۔۔!!!" 

اس نے سرد ترین انداز میں انہیں نکلنے کا اشارہ کیا جو اب اس کے پیر پڑنے کو بھی تیار تھے۔ دیار نے سخت نگاہ ان سب پر ڈالی۔

" آپ نے بھیک مانگنے کو کہا ہم نے مانگ لی آگے بھی جو چاہیں گے ہم کریں گے۔ پر پلیز ہم سے دشمنی نہ کریں۔ ہم آگے ہی سڑک پر آچکے ہیں۔ جو آپ چاہیں گے ہم کریں گے۔کہیں گے تو وہ سب آپ کے پیروں میں گر کر معافی مانگیں گے۔ پلیز معاف کردیں ہمیں ۔۔۔!!!" 

سونیہ کے والد صاحب نے بالاخر چپ توڑ دی تو وہ پراسرار مسکرایا۔

" ان سب کو اپنی بیوی کے پیروں میں گرانا کیا مشکل ہے میرے لیے۔۔!! بالکل نہیں۔ جب ان کے سرپرست یہاں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوسکتے ہیں تو وہ کیا پیر نہیں پکڑ سکتے اس کے ۔۔۔!! پر مجھے انٹرسٹ نہیں ہے اس میں۔ وہ اپنا بدلہ لے چکی ہے۔ اب میری باری ہے۔ تم سب کے گناہوں کا گھڑا بھر گیا ہے۔ بس اب تم سب کی الٹی گنتی شروع۔ دھکے کھاؤ اب۔ اور مجھ سے بہتری کی امید نہ رکھنا۔

اب دفع ہوجاؤ یہاں سے کہیں میں اپنے آپے سے باہر نہ ہوجاؤ۔۔۔!!! آۓ سیڈ لیو ۔۔۔!!" 

وہ پھنکار اٹھا تو مجبورا ان سب کو وہاں سے جانا پڑا۔ عزت بھی گئ، دولت بھی گئ اور ذلیل بھی ہوۓ۔ 

اپنی ہی اولاد کی ہٹ دھرمی ان سب کو سڑک پر لے آئ۔ جبکہ دیار کے جلتے دل پر پھوار برسی اس نے وشہ کا بیک گراؤنڈ دکھادیا تھا انہیں۔

پر ابھی بھی بہت کچھ باقی تھا کرنے والا۔ اپنی جانم کے آنسوؤں کا حساب وہ لیتا اور ضرور لیتا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" بس بہت ہوگیا۔۔۔!!! مجھے اب زرلش آپی سے بات کرنی ہی نہیں کسی بھی موضوع پر۔ مجھے انہیں دیکھنا ہی نہیں۔ وہ اچھی نہیں ہیں۔ !! " 

معصومہ نے سونا کی پشت سہلائ جو ابھی ہی سوئ تھی۔ معصومہ نے جو کہا اس کے بارے میں فدیان بھی نہیں جانتا تھا۔ زرلشتہ چاہتی تو فدیان کو سب بتادیتی پر اس نے نا بتاکر اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔

" دعا ہے کہ آپی یہاں سے بہت دور چلی جائیں ۔۔!! بہت دور ۔۔۔!! اتنی دور کی واپس مجھے دیکھیں بھی نہ۔ وہ ایسی نہیں ہیں جیسی شروع میں مجھے لگی تھیں۔ اور مجھے وہ نہیں چاہییں ۔۔!!!" 

معصومہ نے سفاکیت سے کہا۔ ہاں محبت انسان کو سفاک بھی بنادیتی ہے۔ ایسا اس صورت میں ہوتا یے جب انسان سامنے موجود شخص کو کھونے کے احساس سے اتنا ڈرے کہ اس کے علاؤہ اسے سب لوگ برے لگنے لگیں۔

معصومہ کی ایج جتنی تھی اس ایج میں محبت ویسے بھی سمجھ ہی نہیں آتی۔ اسے بھی نہ آئ۔ 

" کاش ایسا کچھ ہوجاۓ کہ آپی یہاں سے چلی جائیں۔ پھر فادی بھی انہیں بھول جائیں اور سچ ٹھیک ہوجاۓ۔۔۔!!! لیکن آپی ہرٹ نہ ہوں۔ وہ روئیں بالکل بھی نہیں۔ لیکن چلی جائیں وہ یہاں سے ۔۔۔!!!" 

وہ اپنی سونا سے باتوں میں مگن تھی جبکہ فدیان گھر پر نہیں تھا۔ وہ بہت عجیب سی دعائیں مانگ رہی تھی انجانے میں۔ اس بات سے انجان ہوکر کہ قبولیت کا وقت کوئ بھی ہوسکتا ہے۔

کہیں یہ لمحہ اس کے لیے زندگی بھر کا پچھتاوا نہ بن جاتا۔  

" وشہ بچے ۔۔!!! یہاں میرے پاس آؤ آپ ۔۔!!! اتنے دنوں سے آپ سے ملاقات ہی نہیں ہوئ ۔۔!! کہاں مصروف ہو آپ۔"

وشہ دوپہر کے وقت وشہ کمرے سے باہر نکلی۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے بیٹھے وہ بور ہوچکی تھی۔ لاونج میں بیٹھی رخمینہ بیگم کی نگاہ جب اس پر پڑی تو بےساختہ وہ مسکرا اٹھیں۔ وشہ انہیں بہت پیاری لگتی تھی پہلے دن سے ہی۔ آخر ان کی لاڈلی کی پسند تھی وہ انہیں پیاری کیوں نہ لگتی۔ یہ بھی سچ تھا کہ زرلشتہ وشہ کو دیار کی دلہن بنانا چاہتی ہے یہاں آتے ہی وہ انہیں صاف لفظوں میں بتاچکی تھی۔ ساتھ ہی وارننگ بھی دے چکی تھی کہ کچھ بھی ہوجاۓ اس کے لالہ جان کی زندگی میں کوئ اور لڑکی وہ آنے نہیں دے گی۔ رخمینہ بیگم بھی دل ہی دل میں خوش تھیں کہ ان کی لاڈلی کی پسند انجانے میں ہی سہی ان کے گھر آرہی ہے۔ 

وشہ بھی سکون سے چلتی ہوئ ان کے پاس آکر بیٹھ گئ۔ 

" کچھ نہیں مما..!! بس طبیعت کچھ دنوں سے بوجھل تھی۔ سر میں شدید درد تھا۔ ہم آپ کے پاس بھی نہیں آپاۓ۔ آج کچھ بہتری آئ تو سوچا آپ سے ہی مل لیں۔ آپ بتائیں کیا کررہی ہیں ۔۔ !!!" 

مسکراتے ہوۓ وشہ نے ان کے سوال کا جواب دیا۔ وہ یہاں دیار کے علاؤہ سب سے عزت سے بات کرتی تھی۔ اور رخمینہ بیگم کی عزت کرنا تو اس پر فرض تھا۔ وہیں اس کے منہ سے ہمیشہ اپنے لیے زرلشتہ اور دیار کی طرح مما سن کر انہیں بھی عجیب سی خوشی ہوتی تھی۔ 

" بچے طبیعت خراب تھی تو آرام کرنا تھا نا۔ اچھا یہاں میرے پاس آئیں۔ اپنی بیٹی کا سر میں دبا دوں۔۔!!!" 

انہوں نے اس کی پیشانی کو چھوا ہلکی سی تپش محسوس کرکے انہوں نے اپنی گود میں سائیڈ سے کشن اٹھاکر رکھا پھر اسے وہاں سر رکھنے کو کہا۔ وشہ وہیں صوفے پر پاؤں اوپر کرکے ان کی گود میں ہی سر رکھ کر لیٹ گئ۔ 

"میں آنا تو چاہتی تھی پر آپ تو جانتی ہیں میں گھر پر نہیں تھی۔ اپنے میکے گئ تھی آج ہی واپسی ہوئی۔ مجھے پتا ہوتا میری بیٹی بیمار ہے تو میں پہلے ہی آجاتی۔ اب لگ گیا ہے نا پتہ تو آپ کو ٹھیک کرکے ہی جان چھوڑوں گی آپ کی ۔۔۔!!!" 

 جھک کر اس کے سر پر بوسہ دیتے وہ کہیں سے بھی اسکی ساس نہیں لگی تھیں۔ ساس اگر شنایہ بیگم جیسی خود غرض ہوسکتی ہے تو رخمینہ بیگم کی طرح بےلوث محبت کرنے والی بھی ہوسکتی ہے۔ وشہ نے سکون سے آنکھیں موند لیں۔ ان کے پاس آکر اسے سکون ملتا تھا۔ 

" آپ کو پتہ ہے مما۔ !! ہمارا بہت دل کرتا تھا ہماری مورے ہم سے ویسے ہی پیار کریں جیسے ہر ماں اپنی بیٹی سے کرتی ہے۔ ہم بیمار ہوں تو وہ ہمارے پاس آکر بیٹھیں۔ ہمیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلائیں۔ بہت سا پیار کریں۔ ہمیں نیند نہ آۓ تو ہم ان کی گود میں سر رکھ سکیں۔ ہمیں کوئ تنگ کرے تو ہم سیدھا انہیں بتائیں۔ ان سے اپنے دل کی ہر بات شیئر کریں۔ وہ ہمیں غلطی کرنے پر ڈانٹیں۔ پھر ہم بھی ان سے لڑیں انہیں منائیں، وہ ماں سے زیادہ ہماری دوست بن جائیں۔ "

انہوں نے نرمی سے اس کا سر دبانا شروع کیا تو آنکھیں موند کر وشہ نے ایک حسرت ان کے سامنے رکھی۔ جو اداسی اور حسرت وشہ کے لہجے میں تھی ایک ماں ہونے کے ناطے وہ سمجھ گئیں۔

انہوں نے جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا تو اس نے آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا۔ 

"بہت سے خواب تھے ہمارے بھی۔ بیٹیوں کو تو پیار بن مانگے ہی مل جاتا ہے نا ماؤں سے پیار لینے کے لیے کوئ بیٹی دعائیں تو نہیں کرتی نا۔ پر ہم نے بہت دعائیں کی تھیں۔بہت ۔۔۔!! لیکن افسوس مورے نے کبھی ہم سے ویسا تعلق نہیں بنانا چاہا جیسا ایک ماں اور ایک بیٹی کا ہونا چاہیے۔ ہمیں بھلے اغاجان اور لالہ نے بہت پیار دیا ہو۔ پر جو پیار ہم چاہتے تھے وہ ہماری حسرت ہی بن کر رہ گیا۔ ہمیں نہیں یاد کبھی ہماری مورے نے پیار سے ہمیں گلے لگایا ہو۔ پتہ نہیں کیوں پر ہمیں ان کی سوچ سے ہمیشہ چڑ ہی رہی۔ لیکن آپ سے ملنے کے بعد لگتا ہے جیسے ہماری ساری دعائیں قبول ہوگئ ہوں۔ آپ سچ میں بہت پیاری ہیں ..!!!!" 

اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی جو اس نے ان کی نظروں میں آۓ بغیر ہی پیچھے دھکیل کر ان کا اپنے سر پر رکھا ہاتھ تھام کر شدت سے چوما۔ انہیں اس پر ڈھیروں پیار آیا۔ وہ سچ میں دل کی ملکہ تھی پر افسوس دیار کے لیے یہ ملکہ دروازے کھول نہیں پارہی تھی۔ وجہ وہی ونی لفظ کا کانٹا تھا۔

" میرا بیٹا۔۔۔!!! آپ مجھے میرے لائق بچوں سے زیادہ پیاری ہو۔ مجھے آپ جیسی ہی پیاری سی بیٹی چاہیے تھی۔ سلجھی ہوئی، کیوٹ سی۔ مانا زرلشتہ بھی کیوٹ ہے پر اپنی ماں کو بھی بخشتی نہیں ہے وہ۔ جان نکالنا جانتی ہے وہ اپنے ڈراموں سے۔ آج سے میں ہی آپ کی مما ہوں۔ اوکے ۔۔!! جو کہنا ہو مجھ سے کہنا آپ۔ دیار کے کان کھینچنے ہو یا وہ آپ کو تنگ کرتے بس مجھے بتانا پھر آپ دیکھنا میں کیا حال کرتی ہوں اس کا۔۔۔!! بس بہت پیار لے لیا اس نے۔ اب میرا سارا پیار آپ کا ۔۔!!!" 

محبت بھرے لہجے میں کہتے انہوں نے وشہ کا گال کھینچا۔ جس نے ہنستے ہوئے سر ہاں میں ہلادیا۔

(رشتے بنانا پھر انہیں نبھانا ایک ہنر ہے جو ہر کوئ نہیں جانتا۔ رشتے خون سے زیادہ خلوص کے ہوتے ہیں۔ اخلاق اچھا ہوتو اجنبی لوگوں کے دلوں میں بھی جگہ بن جاتی ہے۔ جبکہ اخلاق اگر برا ہوتو سگے رشتوں میں بھی محبت نہیں رہتی۔)

" وشہ بچے ۔۔!! آپ اور دیار کے بیچ کیا کوئ مسئلہ چل رہا ہے۔ آپ کے چہرے پر مجھے وہ خوشی نہیں دکھی جو ایک بیوی کے چہرے پر ہوتی ہے۔ ماں ہونے کی حیثیت سے پوچھ رہی ہوں میں۔ جو بات ہے مجھے بتادیں۔ اگر دیار نے آپ کو دل سے قبول نہیں کیا تب بھی بتادیں۔ میں سمجھاؤں گی اسے۔۔!! اصل میں بچے یہ شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوئ تھی۔ وہ کسی کی بیٹی کو جرگے میں لانے کے حق میں نہیں تھا۔ یہ جرم یے وہ جانتا ہے۔ وہ راضی نہیں تھا۔ کیا اس کا رویہ آپ کے ساتھ ٹھیک نہیں ۔۔!!" 

وشہ نے بغور ان کی بات سنی تو اسے جھٹکا ہی لگا۔ اسے لگا تھا یہ نکاح دیار کی مرضی سے ہوا ہے پر اس کی مما تو کچھ اور کہہ رہی تھیں۔ 

" مما ۔۔!! ہمیں سمجھ نہیں آیا کچھ۔ آپ کیوں کہہ رہی ہیں کہ یہ نکاح دیار کی مرضی سے نہیں ہوا۔ ونی انہوں نے ہی تو مانگی تھی نا جو تذلیل ان کی جرگے میں آغاجان کی وجہ سے ہوئ اس کا بدلہ لینے کے لیے۔۔!! ہمیں تو یہی پتا تھا ۔۔۔!!" 

اس نے لفظوں پر زور دیا کیونکہ سچ اس کے نزدیک یہی تھا۔ جب رخمینہ بیگم نے سر کو نفی میں جنبش دی۔ 

"ونی اس کے بابا نے مانگی تھی۔ وہ خلاف تھا اس کے۔ یہ فضول رسمیں اسے نہیں پسند۔ !!! اس کے بابا نے اسے زبردستی راضی کرنا چاہا تھا کہ وہ مان جاۓ نہیں تو وہ اسے عاق کردیں گے۔ پھر بھی وہ نہیں مانا۔ اسے بس اس لڑکی کی عزت عزیز تھی جسے ہماری فضول رسمیں ونی جیسی لعنت کی بھینٹ چڑھا رہی تھیں۔ " 

رخمینہ بیگم کی بات سن کر وشہ شاکڈ رہ گئ۔ اسے جو پتہ تھا وہ سب کیا غلط تھا۔ وہ سوچ ہی پائ بس۔ 

"بچے وہ روایتی مردوں جیسا نہیں ہے۔ عورت کی عزت اسے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ جب اس پر الزام لگا تھا بدکرداری کا کہ وہ گلریز کے گناہوں میں بھی شریک تھا اور درمان زوۓ پر قاتلانہ حملہ بھی اس نے کیا پھر فدیان کی گمشدگی کی وجہ بھی وہی ہے تو اسے بچانے کے لیے زرلشتہ کی قربانی دے دی جاۓ۔ تو اس نے اپنا سینہ پیش کیاتھا۔ بھرے جرگے میں اعلان کیا تھا کہ کسی میں ہمت ہے تو آۓ اور مار دے اسے۔پر اس کی غیرت کی طرف کوئ نگاہ نہ اٹھاۓ۔ 

اسے موت سے ڈر نہیں لگتا۔ اسے بھی گولی لگی تھی جب درمان پر حملہ ہوا۔ وہ آئ سی یو میں تھا۔ اس کا زخم اب تک کچا یے کیونکہ علاج ہی نہیں کروایا اس نے۔ کہیں بات یہاں سے باہر نہ نکل جاۓ۔ یہ بات جرگے میں کسی کو نہیں پتہ۔  کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ کمزور نہ لگے سب کو۔۔۔!!! وہ بہت تکلیف میں بھی ہو تو کسی کو نہیں بتاتا۔ وہ ایسا ہی ہے۔ سب سے الگ سچ سے جدا ۔۔۔!!!" 

وشہ اٹھ کر بیٹھ گئ۔ یہ انکشاف اس کے دل پر تکلیف بن کر گزرا کہ وہ اتنی تکلیفوں سے گزرا پر اس نے صبر کیا۔ پھر وہ بھی اس کے جزباتوں کا مزاق بناکر اسے بس اذیت دیتی رہی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اس کے دل نے اسے طعنہ دیا کہ اس نے کبھی دیار سے محبت کی ہی نہیں۔ اگر کی ہوتی تو آج دیار کے دل میں چھپے ایک ایک درد کو وہ سن کر ان زخموں پر مرہم بھی رکھ چکی ہوتی وہ زخم جو وہ کسی کو دکھاتا ہی نہیں۔ وہ بیوی تھی اس کی پر پھر بھی کتنا دور تھی اس سے۔

" پھر زرلش ونی کیوں ہوئیں۔ !! اگر وہ نہیں چاہتے تھے تو ۔۔!!" 

ناجانے کیوں پر اس نے پوچھا لیا۔ 

"  ہم نے زرلشتہ کو ایموشنل بلیک میل کیا تھا کہ دیار کی زندگی اسکے نکاح سے بچ جاۓ گی۔ وہ دیار سے عشق کرتی ہے بس مان گئ اور چلی گئ آپ کے گھر۔ ایک نئ جنگ لڑنے۔  پھر دیار کو بھی ہم نے چپ کروایا کہ اگر وہ احتجاج کرے گا تو اس گھر سے ہمارا بھی جنازہ اٹھے گا۔ وہ ناچاہتے ہوۓ بھی چپ ہوگیا تھا تب۔ زرلشتہ کے نکاح کے بعد وہ اس قدر شرمندہ تھا کہ گھر بھی چھوڑ گیا۔ وہ تکلیف میں تھی تو دیار نے خود کو ایک لمحہ بھی سکون کا میسر نہیں آنے دیا۔ زرلشتہ کے کہنے پر ہی وہ واپس آیا ہے۔ ورنہ اس کا بس چلتا تو جس لمحے اس نے زرلشتہ کی رپورٹس دیکھی تھیں۔

 وہ خود کو اذیت ناک موت مار دیتا۔ وہ سچ میں سب سے مختلف ہے اتنا مختلف کہ سچ کھلنے کے بعد بھی اسے بدلہ نہیں چاہیے تھا۔ ورنہ پٹھان کی فطرت ہے بدلہ لینا۔وہ اپنی عزت پر وار کرنے والے کو وہاں مارتا ہے جہاں اس نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ پر اسے بدلہ ایک عورت سے نہیں چاہیے تھا۔ یہ تو درمان زوۓ نے اسے آپ کی حفاظت کا زمہ دیا تھا کہ وہ آپ کو اپنے نام سے جوڑ کر یشاور سے بچالے ورنہ وہ آپ کو کبھی ونی نہ ہونے دیتا۔۔۔!!" 

وہ بولتی گئیں اور وشہ کو لگا وہ اپنی ہی نظروں میں گر گئ ہو۔ کتنا برا بھلا کہا تھا اس نے دیار کو اب تک۔ اس کی غیرت پر سوال اٹھاۓ تھے بدتمیزی کی حدیں پار کی تھیں۔ اسے ٹارچر کرنے میں کمی نہیں چھوڑی تھی اس نے اور وہ بدلے میں اسے محبت ہی محبت دیتا رہا تھا۔ ایک آنسو آنکھ سے نکل کر وشہ کی محبت پر تیر کی طرح لگا۔ 

" وشہ تمہیں اس  شخص سے محبت تھی ہی نہیں۔ تم اس کے قابل تھی ہی نہیں۔ تم نے اسے سمجھنے کی بجاۓ صرف دکھ دیا۔ وہ محبت ڈیزرو کرتا تھا کاش تم اسے سن لیتی ایک بار۔ کاش اسے بدلے میں محبت دے دیتی جو اس کا حق تھا ۔۔!! کاش ۔۔۔!!!" 

اس نے آنکھیں بند میں حلق میں کانٹے سے چبھے اور دل میں درد اٹھا۔ اپنے کیے پر پچھتاوا ہوا اسے۔ دل کیا کاش وہ سامنے آجاۓ تو وہ لمحہ نہ لگاۓ اس سے معافی مانگنے میں۔ 

" بیٹا اگر وہ آپ سے ٹھیک سے بات نہیں کرتا یا آپ کو عزت نہیں دیتا تو مجھے بتائیں۔ میں جو کرسکی کروں گی آپ کے لیے۔ پر بدگمان نہ ہونا آپ اس سے۔ وہ ٹوٹ چکا ہے اندر سے۔ دل زخمی ہے اس کا۔ بیٹیوں جیسی بہن کے ساتھ جو ہوا وہ اسے اذیت کی گہرائیوں میں لے کر گیا ہے۔ کسی لمحے اگر اس نے آپ کی تذلیل کی ہے تو معاف کردیں اسے۔ پلیز ۔۔!!" 

انہیں اس کے آنسو دیکھ کر لگا جیسے وہ دیار کی وجہ سے رورہی ہے تو انہوں نے اسے حوصلہ دینا چاہا یہ سن کر اس نے تڑپ کر انہیں دیکھا تھا وہ کہنا چاہتی تھی کہ دیار نے اسے اتنی عزت دی ہے جتنی کسی کو خواب میں ہی مل سکتی ہے۔ اس نے اسے اتنی محبت دی کہ عزت کرنا بھی خود پر فرض کرلیا۔ وہ تو بادشاہ جیسا دل رکھتا ہے۔ پر اذیت اتنی تھی کہ لفظ حلق سے نہ نکلے۔ اس نے زبردستی رونے سے خود کو باز رکھا۔

" و۔وہ اچھے ہیں بہت ۔۔!! برے تو ہم ہی تھے۔ اچھا ہم کمرے میں جارہے ہیں سونا ہے ہمیں۔ بعد میں آئیں گے آپ کے پاس ۔۔۔!!" 

وشہ وہاں سے اٹھی اور چلی گئ۔ پیچھے انہوں نے بس اس کی خوشیوں کی دعا ہی مانگی تھی۔ یشاور والی بات دیار نے بتائ تھی انہیں شاید وہ چاہتا تھا کہ اس کی ماں یہ نہ سوچیں کہ وہ ونی پر راضی ہے۔ وہ تو مخافظ بن کر لایا تھا وشہ کو نا کہ اسے ونی میں لایا تھا۔

کمرے میں آتے ہی وشہ نے دروازہ اندر سے بند کیا اور ہاتھ چہرے پر رکھ کر سسک اٹھی۔ اسے شرمندگی ہوئ کہ کاش وہ دیار کے ساتھ اتنا برا سلوک نہ کرتی کاش ۔۔۔!!! 

" سوری دیار۔۔۔!! ہم نے غلط سمجھا آپ کو۔ ہمیں یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا آپ کے ساتھ۔ ناجانے آپ ہمیں ہمارے لفظوں کی سختی پر معاف بھی کریں گے یا نہیں۔ پر وعدہ رہا اپنے گناہوں کا کفارہ ہم ضرور ادا کریں گے ۔۔ !!!" 

اپنے آنسو رگڑ کر وشہ نے خود سے کہا۔ اس کے دل میں تو دیار ہی بستا تھا۔ ایک تالا لگا تھا غلط فہمی کا اس دروازے پر آج وہ بھی کھل گیا۔

اس کے دل کے دروازے کھل گۓ تھے دیار کے لیے۔ اب وقت بتاتا کہ ان کی کہانی میں آگے کیا ہونے والا ہے۔ محبت پار لگے گی یا ابھی امتحان باقی ہیں۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" معصومہ کی بچی ۔۔ !!! ہاتھ لگو تم میرے پھر اچھے سے سیٹ کروں گی میں تمہارا دماغ۔ شادی شدہ لڑکی جو اپنی زندگی میں خوش ہے اس سے انسیکیور ہورہی ہو تم۔ تم سے بڑا پاگل آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔۔۔!! اچھی بھلی دوست تھی تم میری۔ دوست سے بڑھ کر بہن تھی۔پہلے ہماری دوستی میں وہ بلی کودی۔ جس کی چھلانگ سے ہماری دوستی سہم کر تھوڑی ہوگئ۔ 

رہی سہی کسر فاد بھائ کے افلاطونی ارادے نکال گۓ۔ انہیں میں پسند تھی تو کیا اب منہ پر تیزاب پھینک دوں۔ زبان کٹر میں دے دوں اور خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگادوں۔ نہیں نا ۔۔ !! میں کیوں تکلیف دوں خود کو۔ محبت انہیں تھی اپنی بیوی کے ہوتے ہوۓ وہ یہ عجیب کام کررہے ہیں۔سزا تو انہیں ملنی چاہیے۔

تو پھر مجھے کیوں سزا دے رہی ہے یہ معصومہ۔۔۔!!!!" 

زرلشتہ نے جھنجھلا کر سوچا پھر پاؤں پٹخ کر منہ بسورا۔ معصومہ کی اتنی بدتمیزی کے باوجود وہ اس سے نفرت نہیں کرپائی تھی۔ ہاۓ یہ اس کا بدتمیز دل اب بھی معصومہ کو ہی چاہتا تھا۔ کیا کرتی وہ اس دل کا۔۔۔!!!! 

" ایسا کرتی ہوں بہت سے کاکروچ اس پر چھوڑ دیتی ہوں۔ نہیں کاکروچ مجھے ہی کھاگیا تو ۔۔!!! یہ خطرناک آئیڈیا ہے کاکروچ کا دل آسکتا ہے مجھ پر۔میرے پاس اپنا ذاتی جن ہے۔ کسی کاکروچ کو مجھے دل دینے کا حق نہیں۔ دفع کرو اس آئیڈیا کو۔ایسا کرتی ہوں اسے اور خود کو کسی روم میں بند کردیتی ہوں۔ جب گھنٹوں ساتھ رہے گی تو ناچاہتے ہوۓ بھی مجھ سے بات کرے گی۔ کیا آئیڈیا ہے نا یہ ۔۔!! اس سے اسے تکلیف بھی نہیں ہوگی میرا کام بھی ہوجاۓ گا ۔۔ !!"

پہلے آئیڈیے پر اس نے زور سے نفی میں سر ہلایا پھر اگلے ائیڈیے پر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اپنا کندھا تھپتپھا کر وہ اب گھر کے اندرونی حصے کی طرف جانے لگی۔ابھی لان کا ہی چکر کاٹ کر آئ تھی وہ۔

 اس کا یہ بدتمیز دل اپنی بہن واپس چاہتا تھا۔۔۔!!

 اس کے دل کی ڈھٹائی بھی تو دیکھیں کیا چاہتا تھا۔۔۔!!! 

شوخا دل ۔۔۔!!

" ہاں آج گھر پر کوئ بھی نہیں ہے۔ سارے مرد رات سے پہلے واپس نہیں آئیں گے یعنی کوئ بھی آج اس لڑکی کو بچانہیں سکتا۔ تم بےفکر ہوکر آجاؤ۔ روندو سی تو ہے وہ ڈر کر بےہوش ہوجاۓ گی تم لے جانا اسے۔ میں بعد میں بات سنبھال لوں گی ۔۔!!! کہہ دوں گی کہ اس کا باپ اسے لے گیا۔ یا وہ بھاگ گئ۔ میرا بیٹا چند دن اسے ڈھونڈے گا پھر بھول جاۓ گا ۔۔!!" 

وہ گھر میں داخل ہونے ہی والی تھی جب اسے کسی کی آواز سنائ دی۔ اس کے کان کھڑے ہوۓ یہ کون تھا ؟؟ 

وہ وہیں دروازے کی اوٹ میں ہوگئ۔ اس کے اندر کا جاسوس جاگا تھا۔

مقابل کچھ کہہ رہا تھا تبھی تو فون کرنے والی ہستی اب اس کی بات سننے میں مصروف تھی۔

" کونسی لڑکی، کب، کس کو دےرہی ہیں یہ کوکیلا بیگم ۔۔!! لڑکی ہے یا گھر میں ہڑا فالتو کارپیٹ کہ گھر میں کوئ نہیں آؤ اور لے جاؤ ۔۔!! توبہ یہ شنایہ ناگن کبھی نہیں سدھر سکتیں۔۔!! کہیں مجھے تو کسی کو نہیں دینے والیں۔ میں تو بیچاری دکھوں کی ماری۔ آسان شکار ہوں ان کے لیے۔ ۔!! ساسوں ماں کبھی تو شرم کرلیں تھوڑی سی ۔۔ !!" 

زرلشتہ نے دماغ کے گھوڑے دوڑاۓ تو خود کو مظلوم تصور کرکے آہ بھری۔ وہیں شنایہ بیگم جو فون پر کسی سے بات کررہی تھیں ان کے چہرے کے تاثرات بھی بگڑگۓ۔

" وہ چھٹانک بھر کی لڑکی پھر تمہاری ہوگی۔ جو چاہے کرنا۔ میری مانو تو مار دینا اسے۔ باقی تمہارے پیسے تمہیں کام ختم ہوتے ہی مل جائیں گے۔ مجھے بس اس لڑکی سے جان چھڑانی ہے ۔۔!!!" 

انہوں نے نخوت بھرے انداز میں کہا تو زرلشتہ نے دروازے کا سہارا لیا۔ کہیں وہ سچ میں اسے قتل نہ کردیں۔ 

"یااللہ کیا میری روح یہ عورت نکال کر رہے گی۔ میں تو اب اسے تنگ بھی نہیں کرتی تو یہ ظلم مجھ بیچاری پر ہی کیوں یااللہ ۔۔۔!! میں نے تو کچھ نہیں بگاڑا اس عورت کا ۔۔!! میں تو معصوم سی لڑکی ہوں۔ دیکھیں نا یااللہ میں کتنی معصوم ہوں ۔۔!!"

آسمان کی جانب نگاہیں اٹھاکر اس نے کیوٹ سا فیس بنایا پر شنایہ بیگم کی اگلی آواز سن کر اسے دھچکا لگا۔

" جان تو میں اس فتنی سے چھڑوانا چاہتی تھی جو اصل فساد کی جڑ ہے۔ میرا شیر جیسا بیٹا چھین لیا اس مکار لڑکی نے مجھ سے۔ بس نام سے معصوم لگتی ہے ورنہ شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا اس سے۔ لیکن چھوڑو اس فتنی کو۔ ابھی تو مجھے اس معصومہ کو راستے سے ہٹانا ہے۔ جب ایک قبر میں اتری تو دوسری کا راستہ بھی بن جاۓ گا۔۔!! تم پہنچو جلدی ۔۔۔!!" 

شنایہ بیگم اپنی بات کہہ کر سیڑھیوں کی طرف جانے لگیں۔ جبکہ زرلشتہ کا منہ اب بھی پورا کھلا ہوا تھا۔

" ساسوں ماں شیطان مجھ سے نہیں آپ سے پناہ مانگتا ہے۔ مجھے لگا تھا زندگی میں فن آنے والا ہے آپ مجھے اغواہ کریں گی۔ مجھے قید کرنے کی کوششیں کریں گی پھر درمان میری خاطر عاشق بن کر سڑکوں پر پھریں گے۔ مجھے دن رات ڈھونڈیں گے۔ روئیں گے میرے لیے اور مجھے ڈھونڈنے کے لیے پورے پاکستان کی پولیس لگادیں گے۔ میری ویلیو بنے گی گھر والوں کی نظروں میں۔ درمان کو عشق ہوجاۓ گا مجھ سے کسی ہیرو کی طرح۔ پر افسوس آپ کی چھوٹی سوچ جو مجھے چھوڑ کر اس معصوم سی بچی کو اٹھانے گئ ہیں ۔۔۔!! ڈرامے باز کہیں کی ۔۔!! ہنہہ ۔!!" 

ان کی باتیں سوچ کر زرلشتہ کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔ بھلا یہ کیا کوئ بات تھی کہ منہ پر ہی ذلیل کردیں وہ۔ اتنی عزت افزائی صحت کے لیے نقصان دہ تھی۔ 

" آپ کا پلان تو تباہ کروں گی میں۔ وعدہ رہا ۔۔!! شیطان کا پتہ نہیں لیکن آپ ضرور پناہ مانگیں گی مجھ سے۔ میں درمان کو کال کرکے سب بتادوں گی۔ وہ آئیں گے اور آپ کو رنگے ہاتھوں سے پکڑلیں گے۔ میں اتنی پاگل نہیں ہوں جو بغیر تیاری کے آپ کو روکوں۔ پہلے اپنا مخافظ بلاؤں گی میں ۔۔!!" 

منہ بگاڑ کر زرلشتہ نے ان کی پشت کو دیکھا جو اب سیڑھیوں پر چڑھ رہی تھیں پھر اپنا سیل جو وہ ہر وقت ہاتھ میں پکڑ کر رکھتی تھی اسے آن کرکے جلدی سے اس نے درمان کا نمبر ڈائل کیا۔ 

" اوووو مان جی ۔۔!! کس چڑیل کے ساتھ مصروف ہیں آپ۔ مطلب آج مجھے ضرورت ہے تو فون ہی نہیں اٹھاریے۔ اٹھا لیں اللہ کا واسطہ ہے آپ کو ۔ میری ساس کوئ نیا چاند چڑھانے والی ہے۔ اس چاند کو چڑھنے سے پہلے اتار لیں واپس ۔ !!" 

دوسری،تیسری پھر چوتھی بار اس نے کال کی لیکن فون درمان نے نہیں اٹھایا تھا تو آخر کار تنگ آکر اس نے کوشش رد کردی۔ فدیان کا نمبر اس کے پاس تھا نہیں۔ بس درمان کا ہی تھا جس سے وہ بات کرتی تھی۔ آج اسے افسوس ہوا کاش اس کے پاس دراب آفریدی یا فدیان کا نمبر ہوتا تو وہ اسے بلالیتی کاش ..!!!

" ڈونٹ وری زرلشتہ ۔۔۔!! اپنی چھٹانک بھر کی بہن کو تم اکیلی ہی بچاسکتی ہو۔ مانا وہ بدتمیز ہے پر کسی غیر کے حوالے کردینا اس کے ساتھ ظلم ہوگا۔ اپنے شوہر کے معاملے میں تو تم بھی پوزیسو ہو اور یقینا کبھی کوئ لڑکی درمان کے دل میں آئ تو تم اس کا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرو گی تو معصومہ نے تو بس زبان درازی کی تھی۔ تمہیں اسے بچانا ہوگا۔۔!!" 

آنکھیں بند کرکے زرلشتہ نے خود کو کمپوز کیا پھر فورا وہ بھی شنایہ بیگم کے پیچھے ہی گئ۔ معصومہ کو بچانا ابھی ضروری کام تھا اس کے نزدیک۔  

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" اٹھو لڑکی ۔۔!! کام ہے مجھے تم سے۔ میرے ساتھ چلو ۔۔!!" 

کمرے میں آتے ہی شنایہ بیگم نے سامنے بیڈ پر بیٹھی معصومہ کو انتہائ نارمل انداز میں مخاطب کیا۔ جس نے پہلے تو سمجھا یہ خیال ہے پھر جب شنایہ بیگم کی صورت اس نے غور سے دیکھی تو اتنا سکون اور پیار دیکھ کر اس کا دل بند ہوتا ہوتا بچا۔

" آپ کو مجھ سے کام ہے ۔۔!! سچ میں ..!!" 

اس نے تصدیق چاہی۔ تو ہنستے ہوئے انہوں نے ہاں میں سر ہلایا۔

" وہ لان کی سیٹنگ بدلنی ہے مجھے پھر تم سے بہت سی باتیں بھی کرنی تھیں سوچا خود آجاؤں تمہارے پاس۔ تم بیٹیوں کی طرح ہو میرے لیے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہمارا تعلق مضبوط ہو ۔۔!!" 

شنایہ بیگم کو بازی اپنے حق میں کرنی آتی تھی۔ آج وہ معصومہ کو راستے سے ہٹانے کے لیے اس سے پیار کرنے کو بھی تیار تھیں۔ معصومہ نے آنکھیں زور سے بند کرکے پھر انہیں کھولا یہ اسے خواب ہی لگا تھا۔

"پر آپ تو نفرت کرتی ہیں نا مجھ سے ۔۔!!" 

وہ بیڈ سے نیچے اتر گئ۔ 

" کرتی تھی ۔۔!! وہ میری غلطی تھی۔ میری سوچ ہی نیچی تھی تب۔ جو میں تم جیسی پیاری لڑکی کو حقیر سمجھتی رہی۔ اب غلطی کا احساس ہوگیا ہے مجھے۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہیں اس گھر کی بہو ہونے کا حق دوں ۔۔!! تمہیں اپنی بیٹی بناکر رکھوں۔۔!! میں سچ کہہ رہی ہوں مجھ پر یقین کرو ۔۔!!" 

اپنی چال کامیاب ہوتی دیکھ کر وہ چند قدم مزید اس کے پاس آئیں۔ تو معصومہ کا حلق خشک ہوا۔ اچانک ملا پیار اس سے برداشت نہیں ہوا تھا۔ 

" معصومہ سورج مغرب سے نکل آۓ تو یہ قیامت کی نشانی ہوتی ہے۔ معجزہ نہیں ہوتا۔ پانی بےرنگ سے رنگیں ہوجاۓ تو وہ ملاوٹ شدہ ہوجاتا ہے خالص پانی نہیں رہتا ، امریکہ پاکستان کو کنٹرول کرنا چھوڑ دے یہ محض وہم  ہوگا ہماری جیت نہیں ہوگی۔ بالکل اسی طرح شنایہ ناگن آۓ مین ساسوں ماں ہم دونوں سے پیار سے بات کریں کہ یہ ہماری موت کا پیغام ہوگا ان کے سدھرنے کی گواہی نہیں ہوگی۔ یہ ٹریپ کررہی ہیں تمہیں۔ تمہاری جان کی دشمن ہیں یہ۔ پلیز مت ماننا ان کی بات ۔۔!!" 

دروازہ دھرام سے کھلا وہ جو جان لگا کر یہاں تک آئ تھی اسی دروازے پر دونوں ہاتھ رکھ کر وہ سانس نارمل کرنے لگی البتہ جو اس نے کہا تھا شنایہ بیگم کا چہرہ ضرور غصے سے سرخ کرگیا۔

" تمیز نام کی بھی کوئ چیز ہوتی ہے لڑکی۔ آندھی طوفان بن کر کسی کے کمرے میں دھاوا بول دینا اس حویلی کی بہوؤں کو زیب نہیں دیتا۔ اپنا نہیں تو کم کم اس معصوم جان کا ہی لحاظ کرلو جو تمہارے وجود میں سانس لے رہی ہے۔ تمہاری اس اچھل کود نے میرے وارث کو کچھ کیا تو جان نکال لوں گی میں تمہاری ۔۔ !!!" 

مٹھیاں بھینچ کر انہوں نے اسے کھاجانے والی نظروں سے گھورا۔ البتہ معصومہ حیران تھی کہ زرلشتہ یہاں کیوں آئ ہے۔ اصولا تو اسے آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ 

" مجھے زیب سے کچھ چاہیے بھی نہیں ۔۔!! مجھے جو چاہیے ہوا درمان سے لے لوں گی۔ آپ اپنی فکر کریں۔ اور کونسا وارث ۔۔!! مجھے تو بیٹی ملے گی۔ دیکھ لینا آپ ۔۔!! بیٹا،بیٹا کی رٹ لگارہی ہیں آپ خوامخواہ میں ۔۔!! معصومہ ڈیئر یہ عورت تمہاری جان کی دشمن ہے مت یقین کرنا اس پر ۔۔!! پچھتاؤ گی نہیں تو ۔۔!!" 

دروازے کو چھوڑ کر وہ دونوں کے سامنے کھڑی ہوئ۔ سمپل سے گرے ٹراؤزر اور کرتی کے ساتھ گلے میں مفکر سٹائل میں دوپٹہ لیے، پونی میں قید بالوں کے ساتھ وہ انتہا کی خوبصورت لگ رہی تھی۔ سادگی میں بھی وہ آفت کی پرکالہ کیوٹنیس بکھیرنے کا کام کرتی رہتی تھی ۔

معصومہ نے خفگی کا اظہار کرنے کے لیے ناک پھلائ۔ جب شنایہ بیگم تو غصے سے پھٹنے والی تھیں۔ انہیں  پتہ لگ گیا کہ سب جانتی ہے یہ لڑکی۔

" شکل اچھی نہ ہو تو بات اچھی کرلینی چاہیے لڑکی۔۔ !! میرے وارث کے لیے کچھ برا نہ بولنا۔ بیٹی ہوئ تو تمہیں اسی کے ساتھ ہی گھر سے نکالوں گی میں ۔۔ !!! یاد رکھنا۔  !!" 

معصومہ کو ایک طرف کرکے وہ اب زرلشتہ سے لڑنے کے موڈ میں تھیں جس نے طنزیہ مسکراہٹ انہیں پاس کی۔

" آرڈر پر لے رہی ہیں کیا آپ پوتا۔۔!! کہاں سے بنوارہی ہیں اور کب تک بن جاۓ گا۔ مجھے بھی بتادیں اکٹھے ہی ریسیو کرنے جائیں گے۔ ایڈوانس رقم تو دے دی تھی نا آپ نے۔ کہیں ہے منٹ لیٹ ہونے پر ڈلیوری کینسل نہ ہوجاۓ ۔۔!! 

کوئ عقل کو ہاتھ ماریں کوکیلا جی ۔۔!! میں کہاں سے پوتا لاؤں۔ اگر نصیب میں ہی بیٹی ہوتو۔ اور کس کی اتنی ہمت ہے جو زرلشتہ درمان آفریدی کو گھر سے نکالے ۔۔!! شکل اچھی نہیں ہے تو بات اچھی کریں آپ کم از کم۔ !!" 

ان کی بات اس نے انہی ہر الٹ دی تو وہ تلملا کر پہلو بدل گئیں۔ زرلشتہ سے بحث میں جیتنا ناممکن تھا۔ 

" آپ کیوں آئ ہیں یہاں پر ۔۔!! مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔ جائیں آپ یہاں سے ۔۔!!" 

ان دونوں کو لڑتا دیکھ کر معصومہ نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ اتنے دونوں سے وہ اس سے دور تھی اچانک سامنے دیکھ کر دل میں کہیں نرم گوشہ کھلا تھا۔ 

" کیوں بی بی ۔۔!! یہ میرا بھی گھر ہے۔ برابر کا حق ہے میرے شوہر کا اس میں۔ میرا تو جہاں دل کرے گا آندھی طوفان کیا میزائل کی طرح خاضری لگوالوں گی۔ تمہیں مجھ سے بات نہیں کرنی تو منہ سی لو۔ میری تو اپنی زبان ہے میں تو دل کھول کر بولوں گی ۔۔!!" 

جواب زرلشتہ نے تڑک کر دیا۔ معصومہ کی بدتمیزی اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ پتہ نہیں کیوں پر معصومہ سے دور جانا ناممکن تھا اس کے لیے۔ 

" یہ گھر میرا بھی ہے اور یہ کمرہ میرے شوہر کی زاتی پراپرٹی ہے۔ میں بھی آپ کو یہاں سے نکالوں گی ۔۔!! جائیں میرے کمرے سے ۔۔!!" 

وہ کہاں چپ رہنے والی تھی زرلشتہ اسے اپنے جیسا بناتو گئ تھی پر اب بھگتنا مشکل تھا۔ 

" میں جیٹھانی ہوں تمہاری عزت سے بات کیا کرو۔ ورنہ چوٹی سے پکڑ کر میں تمہیں گھر سے نکال دوں گی۔ میرے لالہ کو تم جانتی نہیں ہو ابھی۔ وشہ کے شوہر ہیں وہ۔ اس گھر سے دو دو تعلق ہیں میرے۔ مجھے ہلکے میں نہ لینا ۔۔۔!!!" 

زرلشتہ چیخ اٹھی اس کی چیخ سن کر سکون سے سوئی سونا کی بھی آنکھ کھلی تھی۔ اس نے سامنے دیکھا تو اسے زرلشتہ دکھی۔ اس نے ہلکی سی میاؤں کہ تھی۔ جیسے چپ رہنے کا حکم دیا ہو۔

" میں بھی دیورانی ہوں آپ کی۔ مجھ سے بھی عزت سے بات کیا کریں۔ کسی وقت میں اپنی بہن بنایا تھا آپ نے مجھے۔ اس حساب سے میرا بھی اس گھر سے دوہرا تعلق ہے ۔۔!! اور میں نے چوٹی بنائ ہی نہیں میرے بال کھلے ہیں۔ اب کس سے پکڑ کر نکالیں گی آپ مجھے ۔۔۔!!" 

سونا کو گھور کر معصومہ نے اسے چپ رہنے کو کہا۔ لڑنے میں مزہ آرہا تھا اسے بھی۔ وہیں شنایہ بیگم کے کانوں سے دھواں نکلنے والا تھا۔ کیسی لمبی زبان تھی ان کی بہوؤں گی۔ ایک سے بڑھ کر ایک ۔۔۔!!

" بس بہت ہوگیا ۔۔۔!! چپ کر جاؤ تم دونوں کتنی بولتی ہو ۔۔!! ٹڑٹڑٹڑٹڑٹڑ بس بولتے ہی جانا ہے۔ کان دکھ گۓ میرے ۔۔۔!!" 

ان دونوں کی بحث سے تنگ آکر وہ بھی غرائیں۔ البتہ یہ غراہٹ سامنے کھڑے دونوں نفوسوں پر بےاثر گزری تھی۔

" میں بس تمہیں ان کی مکاری سے بچانے آئ تھی۔ ورنہ تم جیسی خودسر لڑکی سے بات کرنے کا مجھے کوئ شوق نہیں ۔۔!! بس اس عورت سے دور رہنا۔ مہربانی ہوگی تمہاری ۔۔!!" 

ناک چراتے ہوۓ وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کے کھڑی ہوگئی۔ تو معصومہ نے بھی آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا۔

" میں خود سر نہیں ہوں۔ وجہ آپ کو بھی پتہ ہے۔ میری جگہ آپ ہوتیں تب بھی یہی کرتیں ۔۔۔!!" 

اس نے بھی بازو سینے پر باندھے۔ 

" میں اس گھر میں رہ رہی ہوں تو کیا شنایہ بیگم کا قصور ہے اس میں۔ نہیں نا۔ نا میری خوشی ہے اس میں ۔۔!! قسمت میں یہی لکھا تھا  بس۔!!! قسمت سےڑا نہیں جاتا اسے بدلا جاتا ہے ۔ ایسے ہی اس دل میں ہوں میرا بھی قصور نہیں۔ نا ان کا قصور ہے۔ تم نے بس بات کو بڑھایا تھا۔ میں ہوتی تو درمان کا گریبان پکڑتی۔ کہ کیا کمی ہے مجھ میں جس میرے علاؤہ کسی دوسری کو دیکھ رہے ہیں۔ اور ان کا دل چیر کر اس میں سے دوسری لڑکی کو نکالتی تمہاری طرح زبان درازی نہ کرتی ۔۔۔!!!" 

اس نے وضاحت دی جو معصومہ کو بھی کسی حد تک صحیح لگی۔ سچ تو کہا تھا اس نے بات فدیان سے ہونی چاہیے تھی ناکہ زرلشتہ سے۔ اس کے عصاب ڈھیلے پڑے۔

" مجھے جو سمجھ آیا میں نے وہی کیا۔ اب مجھے بات نہیں کرنی آپ سے۔ آپ جائیں۔ خود کو میں بچاسکتی ہوں ۔۔!!!" 

چند قدم پیچھے ہوکر اس نے تھک کر جواب دیا تو زرلشتہ نے منہ بگاڑ کر اس کی نقل اتاری۔

" تو تم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ مجھ سے بات نہیں کرنی ہے نا ۔۔۔!! تو بھاڑ میں جاؤ اب ۔۔!! مجھے بھی بات نہیں کرنی تم سے ۔۔!!" 

وہ بھی چند قدم مزید دور ہوئ اب شنایہ بیگم آپے سے باہر ہورہی تھیں۔ ان کا بلایا ہوا بندہ کچھ دیر میں یہاں ہوتا اور یہاں تو پلین خراب ہورہا تھا۔ 

" تم دونوں بعد میں لڑلینا۔۔!! ابھی تو تم میرے ساتھ چلو۔ تمہیں لینے کے لیے آدمی آنے والا ہے۔ ایک مصیبت سے تو جان چھوٹے میری۔ باقی اس زرلشتہ کو تو بعد میں دیکھ لوں گی میں ۔۔!!" 

انہوں نے آگے بڑھ کر معصومہ کی کلائی دبوچ لی جس کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہوئیں پھر اگلے ہی پل وہ اسے اپنے ساتھ کمرے سے کھینچ کر لے جانے لگیں۔ 

زرلشتہ بھی شاک میں تھی شاک سے نکلتے ہی وہ بھی ان کے پیچھے گئ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" کوئ مینرز ہیں آپ میں ۔۔!! جب دیکھ بھی رہی ہیں کہ میں اور معصومہ کسی اہم ٹاپک پر بات کررہے ہیں تو کیوں ہمارے بیچ میں آرہی ہیں آپ کو کہیں سکون نہیں ملتا۔ انڈین موویز میں کام کرنے لگ جائیں۔ سکون میں رہیں گی۔ بہت نام کمائیں گی آپ ..!!"

بڑبڑاتے ہوۓ زرلشتہ ان کے پیچھے تھی جبکہ اب منظر کچھ یوں تھا معصومہ غصے اور ناراضگی کی ملی جلی کیفیت سے زرلشتہ کو دیکھ رہی تھی جبکہ شنایہ بیگم اسے کھینچ کر ساتھ لے جانا چاہتی تھیں اور زرلشتہ اپنا غصہ شنایہ بیگم پر اتار رہی تھی۔

" مجھے نہیں چاہیے آپ کی مدد۔۔!! آپ مجھ سے دور رہیں ۔۔!!"

شنایہ بیگم جھٹکے سے رکیں۔ کیونکہ یہاں یہ دونوں بلیاں لڑنے میں مصروف تھیں۔ ان کا پلان تو پانی پانی ہوگیا۔ زرلشتہ کے ہوتے کیا کچھ آسانی سے ہوسکتا ہے؟ نہیں..۔!!!

معصومہ آگے بڑھ کر زرلشتہ کو جواب دے رہی تھی جبکہ زرلشتہ بھی اسے چڑانے میں کسر نہیں چھوڑ رہی تھی۔ 

" اس سے تو اچھا تھا میں اس معصومہ کی بجاۓ تمہیں دے دوں اس شخص کو۔ اصل مصیبت تو تم ہو۔ تم راستے سے ہٹ جاؤ تو ساری پریشانیاں ہی ختم ہوجائیں۔۔!!" 

معصومہ کا ہاتھ انہوں نے چھوڑ دیا جو پورا سرخ ہوچکا تھا پھر وہ زرلشتہ کو دیکھ کر کرخت لہجے میں بولیں۔ تو اس نے جیسے ناک سے مکھی اڑائ تھی۔ 

" وہ آپی ہیں میری ۔۔!! پلاسٹک کا خالی شاپر نہیں ہیں جو آپ کسی کو بھی دے دیں گی اور میں منہ دیکھتی رہوں گی۔ میں ان سے ناراض ہوں بیزار نہیں ہوں۔ اب نا کچھ کہنا آپ انہیں ۔۔۔!!" 

جواب معصومہ نے دیا تھا البتہ خود کو خالی شاپر سے کمپیئر کرنے پر زرلشتہ نے دانت کچکچاۓ۔

" جی ساسوں ماں ہماری معصومہ بھی بسکٹ کا خالی ریپر نہیں ہے جو کہیں بھی پھینک دیا جاۓ۔ یہ بدتمیز ہے فضول نہیں ہے۔ آپ اسے میرے حوالے کریں میں کس بل نکال دوں اس کے ۔۔۔!!!" 

زرلشتہ کا پارہ ہائ ہوا جب معصومہ نے رونی صورت بنائی۔

" میں نے سائیڈ لی تھی آپ کی ۔۔!! آپ کا غصہ کم ہی نہیں ہوتا بس۔ ڈانٹتی ہی رہتی ہیں مجھے۔ اچھا نا سوری میری غلطی تھی میں معافی مانگتی ہوں آپ سے ۔۔۔!!" 

ہار مار کر معصومہ نے کان پکڑے تو زرلشتہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھر آئی۔ وہ یہی تو چاہتی تھی کہ دوستی کا ہاتھ بڑھاۓ معصومہ ۔۔۔!!! اور وہ اس ہاتھ کو پکڑنے میں سیکنڈ نہیں لگاۓ گی۔ 

" معافی کان پکڑ کر نہیں گلے مل کر مانگی جاتی ہے معصومہ kitty ۔۔!! میں جانتی ہوں تم پوزیسو ہو اسے لے کر اور ہونا بھی چاہیے۔ پر پلیز کبھی ایک رشتے کی وجہ سے دوسرے سے دور نہ ہونا۔ رشتوں میں توازن پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ رشتے نازک ڈور کی طرح ہوتے ہیں۔ ذرا سی غلط فہمی انہیں توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ جو تم نے کہا وہ معافی کے قابل نہ ہوتا اگر میں تمہیں جانتی نہ ہوتی۔ اپنے لفظوں کی گہرائی سے تم بھی ناواقف ہو ابھی۔ پلیز آئندہ جو بھی مسئلہ ہو اسے بیٹھ کر حل کرنا۔ جلد بازی نہ دکھانا۔۔ ۔!!! پلیز ۔۔!!" 

زرلشتہ نے اسے گلے لگایا تو وہ بھی سکون میں آگئ اتنے دنوں سے یہ واقعہ اس کے بھی ہواسوں پر سوار تھا۔ زرلشتہ کو وہ جتنا غلط کہتی تھی دل اتنا ہی بے چین ہوجاتا تھا۔ اب جب وہ اس سے راضی تھی تو دل کو تسکین مل گئ ۔

لیکن شنایہ بیگم غش کھانے والی تھیں۔ کہ کیا مسئلہ ہے ان دونوں آفتوں کے ساتھ۔ پہلے لڑرہی تھیں اب گلے مل رہی ہیں۔ انہیں یہ دونوں ہی پاگل لگیں۔

" ہوکیا رہا ہے یہاں ۔۔!! بس میں اب مزید تم دونوں کی لڑائ اور پیار نہیں دیکھوں گی۔۔!! آج دونوں میں سے ایک تو میرے راستے سے ضرور ہٹے گی۔ میں ایک کی جان تو نکال کر رہوں گی۔۔۔!!!" 

وہ تینوں ابھی سیڑھیوں کے قریب کھڑے تھے۔ شنایہ بیگم سامنے جبکہ زرلشتہ اور معصومہ ذرا دور تھیں ان سے۔ شنایہ بیگم کی سرخ ہوتی آنکھیں اور چہرے پر آئ سلوٹیں دیکھ کر معصومہ کا دل کانپ اٹھا تھا پر زرلشتہ ہنوز سکون میں تھی۔ جیسے اسے فرق ہی نہ پڑا ہو۔

" سوری ساسوں ماں۔۔۔!! معصومہ ابھی بچی یے اور بچوں کو مارنا گھٹیا اور نیچ لوگوں کا کام ہوتا یے۔ ذرا اپنے معیار کا خیال کریں اور بچی سے دور رہیں۔ ابھی اس کی بہن کھڑی ہے یہاں۔ اسے ہاتھ لگا تو تباہ کردوں گی آپ کو۔ البتہ میری طرف آئیں گی تو درمان کو کھودیں گی۔ یو نو وہ عشق کرتے ہیں مجھ سے۔ قابض ہوں میں ان کے دل پر۔ میری جان تو آپ چاہ کر بھی نہیں نکال سکتی۔ !! ڈیئر ساسوں ماں۔..!!" 

ہاتھ میں پکڑے فون کو ایک ادا سے گھوماتے زرلشتہ نے انہیں تپانے میں کسر نہ چھوڑی جو پہلے ہی بھڑکی ہوئ تھیں ان کا دل کیا شوٹ کردیں اس لڑکی کو۔ کس گناہ کی سزا تھی یہ ۔۔ !!! 

کچھ دیر تک وہ خاموش رہیں۔ جیسے غصہ ضبط کررہی ہوں۔ پھر ان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آئ۔ 

" تمہیں لگتا ہے میں تمہیں نہیں ماروں گی پوتے کی وجہ سے تمہاری جان بخش دوں گی تو غلط فہمی ہے تمہاری۔ میں بس درمان کو واپس حاصل کرنے کے لیے اچھی بننے کا ڈرامہ رچارہی تھی۔ ورنہ تمہیں تو اس دنیا میں اگلا سانس بھی نہ لینے دوں میں۔ بس چند مہینے مجھے تمہیں برداشت کرنا ہے پھر پوتا ملتے ہی نرس تمہارا کام ختم کردے گی۔ روز سیکنڑوں لڑکیاں ایسی حالت میں مرجاتی ہیں۔ تم بھی ان میں سے ہی ایک ہوگی۔میرے بیٹے کو شک بھی نہیں ہوگا اور کام تمام۔۔۔!!" 

انہوں نے دور کھڑی ملازمہ کو اشارہ کیا۔ جیسے کچھ لانے کا کہا ہو۔ جو سرہلا کر چلی گئ۔ پھر اپنے ہاتھ پشت پر باندھ کر اپنے گھٹیا منصوبے اپنے ہی منہ سے انہوں نے بتانا شروع کردیے۔ 

معصومہ کے ساتھ اس دفعہ زرلشتہ کا رنگ بھی بدلا۔ وہ کیسی گھٹیا پلیننگ کرکے بیٹھی تھیں۔ اسے اس لمحے محسوس ہوا سامنے کھڑی یہ عورت 'ماں' جیسے مقدس رشتے پر دھبہ ہے۔ کوئ مان اتنی سنگدل کیسے ہوسکتی ہے ۔۔ !!! 

" چند دن روۓ گا وہ.پھر میں بچے کے ذریعے اسے جذباتی کرکے اس کا دوسرا نکاح کروادوں گی اپنی پسند کی لڑکی سے۔۔!! یہ نہ سوچنا کہ درمان کی وجہ سے میں تمہیں زندہ رہنے دوں گی۔ مرنا طے ہے تمہارا بھی ۔ !! اور یہ معصومہ اسے تو آج تڑپنا ہی تھا۔ سوچا تھا اسے شہر سے دور کسی تےخانے میں پھینکوا کر پل پل تڑپاؤں گی۔ اپنے فدیان کی تڑپ کا بدلہ لوں گی۔ جو اغواہ ہونے کے بعد اس کے ساتھ ہوا اس کا حساب یہ دے گی۔ اس کی زندگی موت سے بھی بدتر کروں گی میں۔ لیکن اب ارادہ بدل گیا ہے میرا۔ سوچ رہی ہوں کہ اسے اس کی بہن کی موت کا صدمہ دوں۔ تاکہ باقی کی سانسیں گھٹ گھٹ کر لے یہ۔ تمہیں اس کے سامنے مار کر ۔۔۔!!!" 

شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر شنایہ بیگم نے ایک قدم زرلشتہ کی جانب لیا جو بلارادہ ہی دو قدم پیچھے ہوئ۔ اسے لگا تھا شنایہ بیگم بہت بری بھی ہوجائیں تو اپنے بچوں کی خوشیوں کا لحاظ کریں گی۔ پر یہ عورت تو خودغرض تھی۔ ممتا بھی اس عورت کو دیکھتی تو شرمندہ ہوجاتی۔ 

معصومہ کو اس عورت کی آواز سے ٹپکتی وخشت محسوس ہوئی۔ وہ محسوس کرسکتی تھی کیونکہ اس کے بابا بھی تو ایسے ہی تھے۔ خودغرض ۔۔۔!!

" ا۔انہیں چھوڑ دیں۔ آپ مجھے لے کر جارہی تھیں نا۔ میں تیار ہوں چلنے کے لیے۔ جو کرنا ہے میرے ساتھ کریں۔ پر پلیز آپی کو چھوڑ دیں۔ ان کی کنڈیشن کا ہی احساس کرلیں۔ ماں ہیں آپ بھی۔ میں بحث نہیں کروں گی وعدہ ۔ !! میں چلتی ہوں آپ کے ساتھ ۔۔ !!" 

جیسے وہ زرلشتہ کو دیکھ رہی تھیں معصومہ سے برداشت نہ ہوا مٹھیاں بھینچ کر ہمت لاکر اس نے انہیں مخاطب کیا جنہوں نے پراسرار سی ہنسی کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔

" پکا تم چلنے کو تیار ہو۔.!!" انہوں نے عجیب سے انداز میں پوچھا۔ 

" ج۔جی ۔۔!!" 

معصومہ نے لب بھینچے۔ وہیں زرلشتہ نے ٹرانس کی کیفیت میں اس لڑکی پر نگاہ ڈالی جو موت کے منہ میں جانے کی بات کررہی تھی۔ اپنی بڑی بہن کو بچانے کے لیے۔ اسے پھر سے غصہ آیا۔  !! 

" دماغ ٹھکانے پر ہے کیا تمہارا ۔۔!! وہ تمہیں مارنا چاہتی ہیں۔ ٹارچر کرنے کے لیے لے جارہی ہیں۔ فدیان سے دور کرنا چاہتی ہیں۔ اور تم پاگلوں کی طرح راضی ہوگئ۔ بیوقوف لڑکی مجھے مارنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ دیار درانی کی بہن ہوں ایسوں سے لڑنا جانتی ہوں۔ تم کمرے میں جاؤ۔ ان سے تو میں خود ہی نمٹ لوں گی ۔ !!" 

اس کا لہجہ آخر تک سنجیدہ ہوگیا۔ معصومہ نے نفی میں سر ہلایا۔

" میں نے مس بیہیو کیا تھا آپ سے۔ اسے سوری سمجھ لینا آپ۔ آپ کمرے میں جائیں۔ میں جانوں اور ان کا کام ۔۔!! مجھے عادت ہے مار کھانے کی، ڈرنے کی اور رونے کی ۔۔!! بےفکر رہیں یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ دلاور خان جیسے وخشی کی بیٹی ہوں میں۔ یشاور خان جیسے خودسر کی بہن ہوں میں۔ سترہ سال ٹارچر سیل میں گزارے ہیں۔ یقین جانیں یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ پہلے سے مرے کو تڑپانا بس خواہش ہی رہے گی ان کی۔۔ !!!" 

وہ کرب سے مسکرائی تو زرلشتہ نے ایک ہاتھ پیشانی پر رکھا افسوس سے۔ وہ اسے سمجھ نہیں رہی تھی۔ یہ عورت سفاکیت کی حدوں کو چھورہی تھی۔ کچھ بھی کرجاتی یہ۔

" معصومہ اپنا مارے تو چھاؤں میں ہی پھینکتا ہے یہ اپنی نہیں ہیں تمہاری۔۔!! کیوٹی تم مانو میری بات اور جاؤ روم میں۔ مجھے مارنا اگر ان کی خواہش ہے تو کرلیں یہ پوری۔ پہلے بھی کئ بار کوشش کی تھی انہوں نے اب بھی کرلیں۔ پر تمہاری زندگی شروع ہوئی ہے ابھی ۔۔!! جاؤ پلیز ۔۔۔!!" 

زرلشتہ نے اس ملازمہ کو آتے دیکھا تھا یہ آجکل شنایہ بیگم کے ساتھ ہی ہوتی تھی ان کا رائٹ ہینڈ بن کر۔ اسے جھٹکا تب لگا جب اس نے اس ملازمہ کو شنایہ بیگم کو ایک گن دیتے دیکھا۔ اسے نہیں پتہ تھا اس لیڈی ہٹلر کے پاس گن بھی ہے۔ یعنی وہ آج پوری تیاری کے ساتھ آئ تھیں آر یا پار کے موڈ میں۔۔!!! زرلشتہ نے معصومہ کو ڈانٹا تھا۔ جو سچ میں ڈھیٹ بن کر ہی کھڑی تھی۔ 

" مردے کو کیا پتہ وہ چھاؤں میں ہے یا دھوپ میں۔۔!! جانا آپ کو ہوگا۔ میں ویسے بھی اب اس زندگی سے اکتا چکی ہوں۔ پہلے بابا اور بھائ اب ساس نما لیڈی ہٹلر ۔ میرے میں ہمت نہیں ہے ڈر ڈر کر رہنے کی۔ بس آج اس فضول زندگی سے آزاد ہو جانے دیں مجھے۔ خودکشی حرام ہے تو چلو قتل ہونا ہی سہی۔! لیں ساسوں ماں جو کرنا ہے میرے ساتھ کریں۔ دیکھ لیتے ہیں آج آپ جیتتی ہیں یا میری ڈھٹائی۔ پر میری زرلش آپی سے دور رہیں۔ انہوں نے مجھے جینا سکھایا ہے میری زندگی ان پر قربان۔۔ !!" 

زرلشتہ کو اس میں اپنا عکس دکھا تھا۔ وہ کون تھی آخر ۔۔۔؟؟؟ جو اس پر جان دینے کو تیار تھی ؟؟؟ اتنی جلدی اس کے دل تک پہنچ گئ تھی ؟؟ کون تھی وہ ؟؟ 

" فضول باتیں مت کرو۔ ورنہ مار کھاؤ گی تم۔ بڑے چھوٹوں کے لیے قربانیاں دیتے ہیں۔ چھوٹے بڑوں کے لیے نہیں ۔۔۔!!! تم پر میری جان قربان ۔۔!! پلیز معصومہ ۔۔!! مت فضول سوچو۔ تم کیوں اپنی اہمیت نہیں سمجھتی۔۔!! پلیز یار ۔۔!! سمجھو ۔۔!!" 

وہ اسے سمجھانے لگی پر جیسے وہ سر جھکا کر کھڑی تھی اسے سمجھ آگیا یہ پیچھے نہیں ہٹے گی۔ موت کو سامنے دیکھ کر صرف ہمت والے ہی کھڑے رہتے ہیں۔ ان دونوں میں ہمت تھی تو یہ دونوں اپنے قدموں پر کھڑی تھیں۔ 

 وہاں اب شنایہ بیگم کا مقروع قہقہہ گونجا۔ ہاں شنایہ بیگم تو حد میں کبھی تھیں ہی نہیں۔ وہ طاقت کے نشے میں چور، خودغرضی کی مثال تھیں۔ 

" کیا نوٹنکی کررہی ہو تم دونوں ۔۔۔!! دیورانی جیٹھائ کا انوکھا پیار دیکھنے کو مل گیا مجھے۔ اچھا اب جبکہ تم دونوں مرنے کو تیار ہو تو ایسا کرتے ہیں اس چھوٹی کو مار دیتے ہیں۔ زرلشتہ کے سامنے جب یہ مرے گی تو جو درد اس کے چہرے پر ہوگا میں اس سے تسکین حاصل کروں گی۔کمزوری ہاتھ لگی ہے اس کی۔ ایسے کیسے جانے دوں میں ۔۔!!!" 

سفاکیت سے کہتے انہوں نے معصومہ کی جانب وہ گن کی۔ یہ پلین بی تھا ان کا۔ انہیں پتہ تھا اگر کچھ بھی الٹ ہو تو ایک کو تو وہ مار ہی دیں۔ زرلشتہ کی آنکھیں میں خوف ابھرا۔ وہ سچ میں مارنے والی تھیں۔ معصومہ نے آنکھیں بند کیں۔ لیکن دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ اتنا کہ اچانک ہی اسے محسوس ہوا ہوا میں آکسیجن کی مقدار کم ہوگئ ہو۔ سانس اٹکا اس کا۔ 

" یہ نہیں ہوسکتا ۔۔!! میں اسے مرنے نہیں دوں گی۔ لالہ کہتے ہیں وہ پھپھو کو بچانہیں پاۓ یہ درد انہیں روز مارتا ہے۔ اگر وہ انہیں بچانے کو جان دیتے تو شاید کوئ گلٹ نہ ہوتا۔ مجھے یہ لڑکی عزیز ہے بہت۔۔!! میں جو کرسکی کروں گی۔ اگر کوئ مدد کو نہیں آرہا تو ٹھیک ہے اب میں مرنے کو تیار ہوں۔ وقت آگیا ہے زرلشتہ جو کرسکتی ہوں کر گزرو ۔۔!!!" 

اس نے گہرا سانس لیا۔ 

" ثابت کردیا نا  آپ نے کہ آپ مجھ سے ڈرتی ہیں۔ اتنا کہ ابھی بھی آپ میں یہ گولی مجھ پر چلانے کی ہمت نہیں۔ مجھے لگا تھا کہ شنایہ بیگم سب سے پہلے طاقتور پر وار کریں گی۔ کمزوروں پر وار کرنا آسان جو ہوتا ہے۔پر وہ تو ڈر گئیں جو بچوں سے لڑنے لگی ہیں۔ شنایہ بیگم ڈرپوک ہیں۔  !!" 

انگلیوں آپس میں الجھا کر زرلشتہ زبردستی مسکرائی۔ دل ڈر رہا تھا کہ گولی نہ چل جاۓ۔ اس کے ہاتھوں میں لرزش تھی۔ 

شنایہ بیگم نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ 

" ڈرپوک تم ہوگی۔ !! میں جب چاہوں مار سکتی ہوں تمہیں۔ یہ بکواس دوبارہ نہ کرنا۔۔ !!" 

انہوں نے وارننگ دی اسے۔ تیر نشانے پر لگا تھا۔ 

" ڈرپوک ہیں آپ۔ اس حویلی کے کونے کونے کو بتاؤں گی میں۔ آپ ڈرپوک تھیں، ڈرپوک ہیں اور ڈرپوک رہیں گی۔ جو اپنے شوہر کے سامنے بھولی بن کر رہتی ہے اور ان کے ہیٹھ پیچھے شیرنی۔۔۔!! 

کیسی دوغلی انسان ہیں آپ۔ جسے اہنے بچوں کی خوشیاں نہیں عزیز۔ منافق ہیں آپ ۔!! گھٹیا سوچ کی مالک۔ خود کو نعوذباللہ خدا سمجھنے والی کہ جسے جب چاہے ماردے۔۔ !!!" 

اپنے ہاتھ اب اس نے پشت کی جانب باندھ لیے۔ ٹریکر پر ان کی انگلی دیکھ کر وہ گھبرائی تھی۔ 

شنایہ بیگم نے اب کی بار گن کا رخ اس کی طرف کیا۔

" بکواس بند کرو اپنی۔۔!! تمہیں مرنے کا زیادہ شوق ہے تو ٹھیک ہے اب میں تمہیں ہی ماروں گی۔۔!! تاکہ تم سمجھ جاؤ کہ میں کسی سے نہیں ڈرتی۔۔۔!!" 

معصومہ نے فورا آنکھیں کھولیں۔ اسے سانس نہیں آریا تھا پر وہ کچھ حد تک سمجھ رہی تھی یہاں کیا ہورہا ہے۔ اسے بےساختہ یاد آیا اس نے کہا تھا زرلشتہ دور چلی جاۓ بہت دور۔۔!! 

اس کی پیشانی پسینے سے تر ہوئ۔ اس نے نفی میں سر کو جنبش دی۔ اس نے بولنا چاہا پر آواز ہمیشہ کی طرح دبنے لگی۔ آنکھوں سے موتی گرتے گۓ۔ 

" تو ماریں نا ۔۔!! اور معصومہ کو زندہ چھوڑ کر اپنی بہادری کی گواہی دیں۔۔!! میں یہیں کھڑی ہوں۔ آئیں اور ماریں ۔ !!" 

ہاتھ اس نے کھول دیے۔ کلمہ بھی وہ پڑھ چکی تھی۔ کہ شاید زندگی اتنی ہی لکھی تھی۔ شنایہ بیگم نے غصے سے ٹریگر دبایا اور اگلے ہی لمحے اس حویلی کے درو دیوار کانپ اٹھے۔ گولی چلی تھی۔ 

معصومہ نے درد سے آنکھیں میچیں۔ سانس تو اسے مشکل سے آرہا تھا پر جو ہوا تھا اس کے حواس سلب ہوۓ فورا۔ !! 

اور وہ فرش پر بےجان ہوکر گری۔ شنایہ بیگم نے سامنے دیکھا۔ گولی تو انہوں نے زرلشتہ پر چلانی تھی پر معصومہ نے یہ کیا کیا۔۔۔!!! 

ہوا یوں کہ جب گولی چلنے لگی اسی لمحے معصومہ نے آگے ہوکر زرلشتہ کو دوسری طرف پش کیا۔ دھکا زور کا نہیں تھا تو وہ بس جگہ سے ہی پٹی اور گرتے گرتے بچی۔ اس کے ہاتھ میں پکڑا فون بھی زمین بوس ہوا۔  گرم سلاخ کی مانند گولی اس کے پیٹ میں پیوست ہوئ تھی۔ اور بس اتنی سی کہانی تھی اس کی اور ایک سیکنڈ میں اس کی آنکھیں بند ہوئیں۔

اس گھر نے تو اس کی چیخ بھی نہ سنی اسے کہاں عادت تھی ایسی سیچوئیشن میں بولنے کی۔ وہ تو ابھی بولنے لگی تھی چب ان کی سفاکیت کی نظر ہوگئ۔

" آآآ۔ آپ نے م۔معصومہ کو مار دیا ۔۔۔!!! کیسے کرسکتی ہیں آپ یہ ۔۔۔!!! " 

ہوش میں آتے ہی وہ غرائ۔ سامنے کھڑی عورت سے اسے اتنی نفرت محسوس ہوئی جیسے وہ اس کا قتل کردے گی۔ آگے بڑھ کر معصومہ کا سر اس نے اپنی گود میں رکھا خون کے چند چھینٹے اس کے رخساروں پر لگے تھے۔ 

" معصومہ ۔۔!! کم آن گیٹ اپ ۔۔!! کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔ کیوں آئ تم میرے سامنے۔ !! منع کیا تھا نا میں نے مار دے گی یہ عورت۔ یہ سفاک ہے۔ اسے کسی کا احساس نہیں۔ کیوں کیا تم نے یہ سب ۔۔۔!!! اب اٹھو میں مر جاؤں گی اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو۔ میری بہن ہو تم۔ جان ہو تم میری۔۔!! مجھے نہیں چھوڑ سکتی تم۔۔۔!!!" 

اس کے رخسار تھپتھپاتے وہ چیخی پھر اپنا دوپٹہ اتار کر اس نے اس کے زخم پر رکھا۔ اس کی آنکھوں میں خون اترا تھا شعلے برساتی نگاہوں سے شنایہ بیگم کو دیکھتے وہ زخمی شیرنی کی مانند ان پر جھپٹی کہ اسی لمحے وہ پسٹل ان کے ہاتھ سے گر گئ۔ 

" میں جان نکال لوں گی آپ کی۔ !! سب کو بتاؤں گی آپ کی سفاکیت کے بارے میں۔ آپ انسان نہیں حیوان ہیں۔ کوئ شرم آرہی ہے آپ کو۔ ابھی تو اس نے ہنسنا شروع کیا تھا۔ وہ خوش ہونے لگی تھی آپ نے ماردیا اسے۔ اللہ سے ڈر نہیں لگتا آپ کو۔ !! کس مٹی کی بنی ہیں آپ ۔۔۔!!" 

اس نے ان پر حملہ کیا وہ اس لمحے انہیں مار بھی سکتی تھی۔ جب شنایہ بیگم کو باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز آئ محسوس ہوا جیسے کوئ گاڑی حویلی میں آئ ہے۔ ہارن تو درمان کی گاڑی کا تھا۔ ان کے ہاتھ پیر کانپے۔ 

" درمان آگۓ ہیں۔ میں سب بتاؤں گی انہیں۔ میری معصومہ کو مارا آپ نے۔ وہ نہیں چھوڑیں گے آپ کو۔ میں آغا جان کو بھی بتاؤں گی ۔ !! بری ہیں آپ ۔ !! انتہا کی بری ۔۔!!" 

انہیں چھوڑ کر زرلشتہ نے سیڑھیوں سے دور دکھائ دیتے گھر کے اینٹرنس کو دیکھا۔ اور جانے لگی درمان کے پاس۔ جب معاملہ سمجھتے ہی شنایہ بیگم کو اپنی موت قریب محسوس ہوئی۔ درمان ان کی صورت پوری زندگی نہ دیکھتا، فدیان نفرت کرنا ان سے، دراب آفریدی تو طلاق دے دیتے انہیں۔ انہوں نے سوچا تھا کہ سب کے آنے سے پہلے ہی وہ سارے ثبوت مٹادیں گی۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا سوائے ایک کام کے۔

" تم زندہ بچو گی تو کسی کو کچھ بتاؤ گی۔ تمہیں بھی کرنا ہوگا۔!!" 

بس اگلے ہی لمحے وہاں ایک اور چیخ کی آواز سنائ دی۔ شنایہ بیگم نے جو کرنا تھا فائنلی کردیا۔ زرلشتہ کو سیڑھیوں سے دھکا دے کر وہ اس کا منہ بھی بند کرواگئیں۔ 

کچھ لوگ واقعی میں بےحس ہوتے ہیں۔ وہ بےحس تھیں۔ 

زرلشتہ کو سمجھ نہیں آیا اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ سیڑھیوں سے ہوتے وہ سیدھا نیچے فرش پر گری۔ اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا۔ ایک موتی بائیں آنکھ سے ہوتا ہوا لکیر کی صورت میں بالوں میں جذب ہوگیا۔ ان دھندلی ہوئ آنکھوں نے آخری منظر بس یہ دیکھا تھا کہ درمان اس کے قریب آیا ہے۔ اس نے اس کا سر اپنے گود میں رکھ کر اسے خود میں بھینچا ہے۔ 

" م۔مم۔ معصومہ ۔۔!!!" یہ آخری الفاظ اس نے بولے تھے۔ پھر اس کی آنکھیں بھی اس خودغرض دنیا کو دیکھنے سے انکاری ہوگئیں۔ درمان ساکت سا اس کے بےجان ہوتے وجود کو دیکھ رہا تھا۔ 

" میری جان ۔۔!! میرا سکون ۔۔ !! میری کل کائنات ۔۔!! میں آگیا ہوں۔ مجھے دیکھو۔ بات کرو مجھ سے۔ مجھے دیر کیوں ہوگئ۔ میں آرہا تھا تمہاری پکار پر۔ تمہارے سارے لفظ میں نے سنے ہیں۔ اب میری باری تم چپ نہیں ہوسکتی۔۔۔!!؛" 

اس کے چہرے کو سامنے کرکے وہ شدت اذیت سے بولا۔ کتنا مشکل تھا اس کی بند آنکھوں کو دیکھنا۔ 

" درمان پاگل نہ بنو ۔۔!! وقت ضائع نہ کرو اسے ہاسپٹل لے کر جاؤ۔ کھودو گے تم اسے ۔۔!! اٹھو جاؤ ۔۔!!" 

کسی نے اسے جھنجھوڑا تھا۔ ہاں وہاں کوئ اور بھی موجود تھا۔ درمان نے فورا اسے دیکھا اور خود کو مضبوط کرکے زرلشتہ کو اٹھاکر باہر کی سمت بھاگا۔ جاتے وقت اس کا کندھا ایک اور وجود سے ٹکرایا تھا۔ جو شاید مینٹکی طور پر یہاں تھا ہی نہیں۔ 

" م۔ میری معصومہ کہاں ہے چاچو ۔۔!! وہ۔ وہ کہاں ہے ۔۔!!" 

یہ تھا فدیان۔ یہ بھی اسی کے ساتھ آیا تھا گھر۔ اس تیسرے وجود نے گھوم کر سیڑھیوں کے اوپر کھڑی خوف سے سفید پڑتی شنایہ کو دیکھا۔ 

" جب گولی چلی تھی وہ سیڑھیوں کے اوپر تھی۔ وہیں ہوگی وہ۔ وقت ضائع نہ کرو۔ اسے اٹھاؤ۔ اس نے زندگی میں پہلے کیا کم دکھ دیکھے ہیں جو ایک اور دکھ اسے مل گیا۔ !! فدیان جاؤ جلدی کرو۔۔۔!!!" 

اس کی بات سن کر فدیان بامشکل سیڑھیوں کی طرف بھاگا تھا۔ اوپر آتے ہی اس کے قدم پھر سے رکھے۔ وہ بےحس و حرکت فرش پر پڑی تھی۔ خون لکیر کی صورت میں بہتا جارہا تھا۔ وقت ضائع کیے بنا اس نے اپنی متاعِ جاں کو بازوؤں میں بھرا۔ 

" مجھے چھوڑ کر جانے کی غلطی کی تم نے معصومہ تو قیامت میں بھی معاف نہیں کروں گا میں تمہیں ۔۔۔!!! جو پہلے ہوا تب تو میں کچھ نہیں کر پایا تھا تمہارے لیے پر اب نہیں ۔۔!! میں خود کو تباہ کرسکتا ہوں پر تمہیں دور نہیں جانے دوں گا ۔۔!!" 

اسے اٹھا کر فدیان نے جیسے اس کے بےجان وجود کو زندہ رہنے کی وارننگ دی تھی۔ پھر ایک شعلے برساتی نگاہ اس نے اپنی نام نہاد ماں پر ڈالی۔ 

" مرگیا میں آپ کے لیے۔ ۔!! بھول جائیں مجھے۔۔!!!" 

بس اتنا ہی کہنا تھا اسے اور وہ بھی جاچکا تھا۔ اب وہاں وہ تیسرا وجود تھا اور شنایہ بیگم تھیں۔ 

خوف سے کانپتے ہوۓ شنایہ بیگم نے لب بھینچے۔ اپنی موت کو دعوت تو دے دی تھی انہوں نے اب یہ شخص کیا کرنے والا تھا سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوگے ان کے۔ 

" اور کتنوں کو اجاڑیں گی آپ بھابھی۔۔۔!!! کیا ایک باران کو زندہ درگور کرکے آپ کو سکون نہیں ملا ۔۔۔!! جو دو اور وجود اس آگ کی نظر کردیے آپ نے۔ شرم کیوں نہیں آتی آپ کو۔ !!! میری دفعہ تو آپ بچ گئ تھیں پر اس دفعہ وعدہ رہا آپ کو اس اذیت میں برابر کا شریک نہ بنایا تو میں بھی باران آفریدی نہیں۔۔!!! روحِ زکیہ درانی کی موت کا حساب لینے آیا تھا میں آپ سے۔ پر اب اپنی دونوں بیٹیوں کا حساب بھی لوں گا میں ۔۔۔!!!" 

براؤن شرٹ اور جینز پہنے سامنے کھڑا اڑتیس سے انتالیس سال کی عمر کا یہ شخص اپنی ہلکی نیلی صبح کے آسمان کی طرح تر و تازگی بکھرتی آنکھیں سامنے کھڑے اس بےحس وجود پر گاڑے اسے لرزنے پر مجبور کرگیا۔ ہاں وہ باران آفرہدی تھا۔ شخصیت ایسی کہ زیر ہوۓ بنا کوئ رہ نہ سکے۔ بکھرے بال اور صاف شفاف چہرے پر ہلکی سی بیئرڈ لیے وہ درمان کا تقریبا ہم شکل ہی لگتا تھا۔ بس درمان سے زیادہ وجیہہ تھا وہ۔ شاید ایج میں اس سے بڑا ہونے کی وجہ سے یہ وجاہت دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔ شنایہ بیگم کا حلق خشک ہوا۔

" ت۔ تم تو پیرس میں تھے نا۔ یہاں کب آۓ۔ اور درمان اور فدیان  کیوں گھر واپس آۓ ۔۔!! "

وہ اب تک ان دونوں کے یہاں آنے کی وجہ سے حیران تھیں۔ جب باران نے فرش پر گرا خون دیکھا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

(فلیش بیک ۔۔۔!!! )

" چاچو ۔۔!! واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز ۔۔!! آپ کب واپس آۓ۔ بڈی آپ زندہ تھے میں تو بھول ہی گیا تھا ..!!" 

درمان کے کیبن میں کھڑے فدیان نے باران کو زور سے گلے لگایا۔ وہ بقول ان کے پیرس میں تھا۔ سالوں سے ۔۔!! وہ چار سال پہلے تک وہیں تھا۔ ابھی حال ہی میں واپس آیا تھا۔ 

" تم تو میرے مرنے کے بعد ہر سال عرس بھی کرواتے رہے ہو نا میرا جو اتنے حیران ہورہے ہو۔ پاگل ۔۔!! ہٹو میرے پاس سے۔ تم جیسے بھتیجے سے اچھا تو میں ایک بلی پال لیتا ۔۔!! کن از کم بدتمیز تو نہ ہوتی وہ ۔۔!!" 

اس سے دور ہوکر باران درمان کے گلے لگا۔ 

" چاچو بلی نہیں پالنی آپ نے۔ آگے اس ڈرامے باز نے بلی پالی ہے نا۔ اب روتا پھرتا ہے۔ آپ سیدھا ہی شادی کرو اب۔ عمر نکل رہی ہے آپ کی۔ اب کرہی لو شادی ۔۔!!" 

درمان کی بات سن کر باران نے اس کی کمر میں دھموکا جھڑا۔ تو وہ کراہ اٹھا۔ فدیان کے چہرے پر دبی دبی ہنسی تھی۔ 

" انہیں مکوں کو مس کیا تھا میں نے۔ صرف اس دنیا میں آپ ہیں جس کا ہاتھ بھائ کو مارنے کے لیے اٹھتا ہے۔ ورنہ یہ جرآت تو ان کی بیوی میں بھی نہیں ۔۔۔!!" 

فدیان نے دانتوں کی نمائش کی۔ پھر ہلکی سی گپ شپ کے بعد درمان، فدیان اور باران تینوں گھر کی طرف نکل گۓ۔ تاکہ دراب آفریدی کو سرپرائز دے سکیں۔ وہ دراب آفریدی کا چھوٹا بھائی تھا۔ جو سالوں پہلے یہاں سے جا چکا تھا۔ البتہ درمان اور فدیان سے فون پر بات ہوتی تھی اس کی۔ یہاں ان سے ملنے وہ بقول ان کے پہلی بار آیا تھا۔ انہیں کیا پتا تھا بادل بن کر وہ سالوں سے یہاں ہی ان کے آس پاس موجود ہے۔

راستہ بہت لمبا تھا تبھی درمان تیز اسپیڈ میں گاڑی چلارہا تھا۔ جب علاقے سے تھوڑا دور اسے زرلشتہ کی کال آئ۔ زرلشتہ ہمیشہ اوٹ پٹانگ باتیں کرنے کے لیے اسے کال کرتی تھی اور اب اس کی کال وہ اپنے چاچو اور بھائ کے سامنے کیسے پک کرتا تو اس نے اسے اگنور کیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کتنی بڑی غلطی کردی تھی اس نے اس وقت۔ 

کافی دیر تک وہ اسے کال کرتی رہی تو اس نے سوچا کچھ دیر بعد اچانک اس کے سامنے جاکر اسے سرپرائز کرے گا۔ دل ہی دل میں وہ بہت خوش تھا کہ اس کی بلی اسے اپنے سامنے اچانک دیکھ کر خوش ہوجاۓ گی۔ اور اس کی وہ اچانک والی مسکراہٹ دیکھنے کو تو وہ سب کرنے کو تیار تھا۔ 

علاقے میں پہنچتے ہی اچانک فدیان نے اس کا فون اٹھایا۔ سامنے زرلشتہ کی کال آرہی تھی۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب وہ اپنا فون ہاتھوں میں گھمارہی تھی۔ اس وقت فون کی والیم بند کرکے اس نے ہوشیاری سے درمان کو کال کی تھی۔ آخری کوشش کررہی تھی وہ شاید ۔۔!!

" کتنے دکھ کی بات ہے بھائ۔۔!! زرلش بھابھی آپ کو دس سے پندرہ بار کال کرچکی ہیں اور آپ کال پک ہی نہیں کررہے۔ اتنا ظلم وہ بھی ایک چھوٹی سی لڑکی پر۔۔!! چاچو یہ ظلم ہم نہیں دیکھ سکتے۔ کیا کہتے ہیں کال پک کروں میں ۔۔۔!!!" 

اس نے شرارت سے درمان کو چرایا جس نے فون پکڑنا چاہا پر اب فون وہ اپنے پیچھے کرچکا تھا۔

" نیکی اور پوچھ پوچھ ۔۔!! ذرا کال پک کرو۔ تمہیں پتہ لگے گا شیر اپنی بیوی کے سامنے بھیگا ہوا شیر ہوتا ہے۔ ڈرپوک سا ۔۔۔!! یہ بھی ڈرتا ہے اس سے ۔۔!! تم کال توپک کرو آج دیکھ لیں گے ۔۔!!" 

باران نے اسے شہہ دی۔

" فدیان ۔۔!! فون واپس کرو میری پرسنل چیزوں سے دور رہا کرو ۔۔!! واپس کرو اسے ۔۔!!" 

درمان کو ڈر تھا کہ کہیں وہ بلی اس پر چیخنا نہ شروع کردے جو وہ آج کل کرتی رہتی تھی۔ اس نے فون لینا چاہا پر غلطی سے کال اٹینڈ ہوگئ۔ درمان نے آنکھیں بند کیں کہ پتہ نہیں زرلشتہ کیا نیا شوشہ چھوڑے گی پر جو انہوں نے سنا وہ سانس نکالنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔  

"تمہیں لگتا ہے میں تمہیں نہیں ماروں گی پوتے کی وجہ سے تمہاری جان بخش دوں گی تو غلط فہمی ہے تمہاری۔ میں بس درمان کو واپس حاصل کرنے کے لیے اچھی بننے کا ڈرامہ رچارہی تھی۔ ورنہ تمہیں تو اس دنیا میں اگلا سانس بھی نہ لینے دوں میں۔ بس چند مہینے مجھے تمہیں برداشت کرنا ہے پھر پوتا ملتے ہی نرس تمہارا کام ختم کردے گی۔ روز سیکنڑوں لڑکیاں ایسی حالت میں مرجاتی ہیں۔ تم بھی ان میں سے ہی ایک ہوگی۔میرے بیٹے کو شک بھی نہیں ہوگا اور کام تمام۔۔۔!!" 

درمان سمیت سب شاکڈ تھے کہ کیا یہ شنایہ بیگم ہی ہیں۔ اتنی سفاک۔ 

" زرلشتہ ۔۔۔!! کیا ہورہا ہے یہ گھر میں۔ تم ٹھیک تو تو ۔۔!! زری جواب دو ۔۔!! " 

درمان نے فون جھپٹا۔ تو گاڑی مس بیلنس ہوئ۔ لیکن درمان اسے وقت پر سنبھال گیا۔ سامنے سے جواب بھی نہیں آیا تھا زرلشتہ جانتی ہی نہیں تھی کہ کال درمان اٹینڈ کرچکا ہے۔ اس نے تو فون کی جانب پھر دیکھا ہی نہیں تھا۔ 

" درمان کچھ تو برا ہورہا ہے گھر میں ۔۔!! جتنی تیز گاڑی چلاسکتے ہو چلاؤ ۔۔!!! ہمیں گھر پہنچنا ہے ۔ !! ہری اپ۔۔!!" 

باران کی آواز پر درمان نے گاڑی کی سپیڈ آخری لیول تک کردی۔ اسے گھر پہنچنا تھا۔ وقفے وقفے سے وہ فون پر معصومہ ، زرلشتہ اور شنایہ بیگم کی آوازیں سن رہے تھے۔ فدیان تو رونے والا تھا جب معصومہ کی باتیں اس نے سنی تھیں۔ وہ اس کے پاس جاکر اسے خود میں چھپانا چاہتا تھا۔ اسے بچانا چاہتا تھا۔ اسے بتانا چاہتا تھا وہ اس کے لیے کتنی اہم ہے۔ پر افسوس جب گولی کی آواز انہوں نے سنی تو درمان سمیت فدیان کی روح بھی فنا ہوتے ہوتے بچی۔ 

پھر جب زرلشتہ کی باتیں سنی انہوں نے تب تک فدیان اپنے حواسوں میں رہا ہی نہیں تھا۔ اسے نہیں پتہ تھا وہ کیوں مررہا ہے معصومہ کے دکھ میں۔ پر وہ مررہا تھا۔ 

حویلی میں آتے ہی درمان گاڑی سے نکل کر بھاگا لیکن فدیان کو جھنجھوڑ کر باران نے گاڑی سے نکالا تھا۔ 

دروازے کے پاس اسنے اپنی ماں کو زرلشتہ کو دھکا دیتے دیکھا تھا۔ پھر جب تک وہ راہداری عبور کرکے وہاں تک آیا وہ خون میں لت پت تھی۔ ہاں اپنی ماں کا چہرہ وہ دیکھ چکا تھا۔ 

سب جان چکے تھے وہ عورت کیسی ہے ۔۔!!! 

باران کے ساتھ ہی فدیان گھر میں آیا۔ اور وہ بھی سب سے واقف ہوچکا تھا۔ شنایہ بیگم نے اپنے چہرے سے خود ہی نقاب ہٹادیا تھا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

(حال ۔۔۔!!!!!)

تم سالوں بعد اس لیے واپس آۓ تاکہ مجھے تباہ کرسکو۔۔!! میرے بیٹوں کو میرے خلاف کرسکو۔ پر افسوس تم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ میرے بیٹے اندھا یقین کرتے ہیں مجھ پر۔ کچھ بھی ہوجاۓ وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ چایے وہ دونوں لڑکیاں مر جائیں۔۔!! بددعا ہے میری کہ وہ دونوں زندہ نہ رہیں۔ ان کے جنازے آئیں اب اس گھر میں واپس ۔ !!!" 

انہوں نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔ باران نے چند سانحے آنکھیں بند کیں اور اپنا فون نکال کر کسی کا نمبر ڈائل کیا۔

" اس حویلی میں یا یہاں سے باہر جس جس نے بھی شنایہ بھابھی یا ساتھ دیا ان معصوم بچیوں کو تکلیف دینے میں مجھے اگلے آدھے گھنٹے میں وہ اس حویلی سے باہر اہنے ٹارچر سیل میں ادھ موئے چاہییں۔ چمڑی ادھیڑ دو ان کی۔ اپنے حواسوں میں نہ رہیں وہ ورنہ یاد رکھنا تمہاری کھال ادھیڑتے وقت میرے ہاتھ ذرا بھی نہیں کانپیں گے۔ دراب لالہ کے سامنے آدھے گھنٹے بعد وہ سب گڑگڑس کر اپنے گناہ قبول کرتے ہوۓ پاۓ جائیں۔اگر تیس منٹ سے ایک سیکنڈ بھی زیادہ ہوا تو تم جانتے ہو باران خان تو پھر بھی رحم کرسکتا ہے پر بادل خان کے قہر سے بچنا ناممکن ہے ۔۔۔!!!!"

دوسری طرف کا وجود اس کے لہجے کی سختی پر خوف سے کانپ اٹھا ہاں وہ جانتا تھا بادل خان نام ہی قہر کا ہے ۔اس کے ہاتھ نہیں کانپتے تھے ظالموں کے ٹکڑے کرتے وقت بھی۔ 

شنایہ بیگم کا ماتھا ٹھنکا وہ تو بربادی کی تیاری کرچکا تھا۔ انہوں نے لب وا کیے کہ کچھ کہہ سکیں پر اس سے پہلے ہی سرد سے انداز میں باران نے اپنے لبوں پر انگشت شہادت رکھی گویا انہیں چپ ہونے کا کہا ہو۔ 

" شام میں آپ کی سزا کے ساتھ میری کچہری بھی لگے گی ۔۔۔!!! بس تیار ہوجائیں۔ سزا پانے کے لیے۔۔۔!!!" 

وہ چلا گیا وہاں سے۔ بس فیصلہ سناکر۔ اس لمحے اس کے بھتیجوں کو اس کی ضرورت تھی۔ کبھی جس مقام پر وہ کھڑا تھا آج اسی عورت کی وجہ سے اس مقام پر دو اور لوگ  کھڑے تھے۔ وہ دو مزید بادل خان بنتے نہیں برداشت کرسکتا تھا۔ 

شنایہ بیگم نے سوچا کہ وہاں سے بھاگ جائیں پھر خیال آیا دراب آفریدی بغیر کسی ثبوت کے انہیں سزا نہیں دیں گے۔ اور باران مخض باتوں سے اس علاقے کے سردار کو انہیں سزا دینے کو نہیں کہہ سکتا۔ پر وہ بھول گئیں وہ باران ہے باران ۔۔۔!!! 

جو گرجتا بھی جاتا ہے اور قہر بن کر برسنا بھی۔۔!! 

ثبوت سامنے رکھ کر اگلے کو مارنا تو مشغلہ ہے اس کا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" مسٹر درمان ۔۔!! بی سٹرونگ ۔۔!! ہم چیک اپ کررہے ہیں ان کا۔ اونچائی سے گرنے کی وجہ سے گہری چوٹ لگی ہے ان کے سر پر اور خون بھی زیادہ ویسٹ ہوگیا ہے۔ آپ بس دعا کریں۔ میں نے شاید پچھلے چیک اپ کے وقت بھی آپ کو بتایا تھا کہ وہ سیریس کیس ہیں۔ ذرا سی لاپرواہی جان لے سکتی ہے ان کی۔ پر آپ نے میری بات نہیں مانی۔ کسی بھی سیچوئیشن کے لیے مینٹلی تیار رہیں ۔۔۔!!!" 

وہ آئ سی یو کے باہر کھڑا سامنے چھوٹے سے شیشے کے ہول سے مشینوں میں جکڑی زرلشتہ کو دیکھ رہا تھا جسے صبح تک وہ ہنستا مسکراتا چھوڑ کر گیا تھا۔ اچانک کیا ہوگیا اس کے ساتھ ۔۔!!! 

ڈاکٹر چلی گئ پر وہ دیکھتا رہا جب نرسز مختلف انجیکشنز ڈرپ میں انجیکٹ کررہی تھیں اس کا خون صاف کررہی تھیں اور سائیڈ پر رکھی اس کی دھڑکنیں  دکھاتی مشین پر لائن بس ہلکی سی ٹیڑھی تھی۔

وہیں فدیان آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑا سامنے جلتی سرخ روشنی تک رہا تھا۔ معصومہ کا جسم بےجان تھا جب وہ یہاں آیا۔ اب تو وہ کچھ بولنے لائق بھی نہیں  رہا تھا ۔ سب اچانک ہی بدل گیا۔ اپنے انجام کے پاس پہنچتے بھی وہ نقصان کرگئیں اوروں کا۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment