Mera Harjai By Sidra Sheikh Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 11 October 2024

Mera Harjai By Sidra Sheikh Complete Romantic Novel

Mera Harjai By Sidra Sheikh Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mera Harjai By Sidra Sheikh Complete Romantic Novel

Novel Name: Mera Harjai

Writer Name: Sidra Sheikh

Category: Complete Novel

"میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔ وہ میرا شرعی حق ہے نسواء آپ مجھے روک نہیں سکتی۔۔"

"شرعی حق۔۔؟ جب پہلی بیوی آپ کو اجازت دہ ہی نہیں رہی تو کس طرح کے حق کی بات آپ کررہے ہیں۔۔؟ میں سوتن برداشت نہیں کرسکتی میرا بیٹا  یہ برداشت نہیں کرسکتا"

وہ بات کی گہرائی کو سمجھی نہیں تھی شاید وہ جس طرح سے اپنے شوہر کو بہت اطمنان سے سب سمجھانے کی کوشش میں تھی وہ بات کو نہیں سمجھی تھی باہر پیلس کسی دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا اور وہ بات کی گہرائی کو سمجھی نہیں تھی حتی کی وہ اپنے شوہر کی بدلتی نگاہوں کو بھی موسمی تبدیلی سمجھ کر درگزر کررہی تھی پچھلے ایک سال سے۔۔

وہ بات کو سمجھی نہیں تھی یا سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔۔؟؟؟

"میں بھی اس سے دوری برداشت نہیں کرسکتا۔۔ پچھلے ایک سال سے۔۔ ایک سال سے میں سب دیکھ رہا تھا پچھلے ایک سال سے۔۔آپ کو جب جب اپنے پاس بلانا چاہا تو آپ نے ہمیشہ مننان کا بہانہ کیا۔۔۔ میں ایک مرد ہوں میری ضرورتوں کو آپ نے اگنور کیا۔۔

اب بس اور نہیں۔۔"

وہ جیسے ہی کمرے سے باہر جانے لگا تھا نسواء نے پیچھے سے جیسے ہی اپنے حصار میں لیا تھا نجیب کے کندھے پر سر رکھ کر اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رکھ دئیے تھے

وہ ایک لمس جو اتنے ماہ بعد ااتنے قریب ہونے پر نجیب کو محسوس ہوا تھا وہ پاگل سا ہوگیا تھا

"اب سے میں آپ کو خود کودور نہیں کروں گی نجیب۔۔ میں جانتی ہوں مننان کو سارا وقت دیتی رہی ہوں۔۔ مگر آپ بھی جانتے ہیں ہمارے بیٹے کو میری ضرورت تھی۔۔

مگر اب میں آپ کو آپ کی ضرورتوں کو اگنور نہیں کروں گی۔۔۔"

نیل پینٹ لگی وہ انگلیاں سینے سے ہوتی ہوئی شرٹ کے بٹن کھولنے لگیں تھی۔۔۔

اور شرٹ کا بٹن کھولنے کے بعد وہ ہاتھ جب نجیب کی بلٹ پر پہنچے تھے وہ ہاتھ آج کانپ نہیں رہے تھے وہ تہہ کرچکی تھی آج اپنے شوہر کو پھر سے پانے کے لیے وہ کچھ بھی کرے گی۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

اسکی انگلیوں کی حرکت پر نجیب اتنا شاکڈ ہوگیا تھا وہ مدہوش ہوگیا تھا جب نسواء نے شرٹ کے کالر سے پکڑ کر نجیب کو پیچھے بیڈ پر دھکا دہ دیا تھا۔۔۔

"آج نسواء نہیں۔۔۔ آج صرف نجیب۔۔۔ آض کے بعد سے صرف نجیب۔۔۔"

نائٹ گاؤن کو وہ اس سیڈکشن سے اوپن کررہی تھی کہ اسکی سانسیں گھبراہٹ اور نجیب کی دھڑکن ایکسائٹمنٹ سے تیز ہورہی تھی

"مائن۔۔۔۔۔۔۔بیوٹیفل۔۔۔"

اسکا سلکی گاؤن جیسے اسکے قدموں پر گرا تھا نجیب کے لبوں سے بےساختہ نکلا تھا۔۔۔

"یہ میں نے ہمارے ہنی مون پر گفٹ لیا تھا وکٹوریا سیکرٹ۔۔"

وہ سرگوشی کرتے ہوئے بیڈ پر آئی تھی آہستہ سے۔۔۔

"آپ مارنے کا ارادہ رکھتی ہیں مجھے۔۔؟؟ گوڈ۔۔۔"

نسوا کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنی جانب جیسے ہی کھینچا تھا وہ اس پر آگری تھی۔۔

"آج میں آپ کے سارے شکوے ختم کردوں گی نجیب۔۔۔"

نجیب کے دونوں ہاتھ بیڈ پر پن کرکے وہ سینے پر اپنے لب رکھ چکی تھی۔۔۔

اپنی محبت کے نشان وہ دیوانہ وار چھوڑے جارہی تھی۔۔۔

"اس دیوانگی کو میں ابھی تک جان نہیں پایا۔۔؟؟"

نجیب نے بالوں سے پکڑ نسوا کے چہرہ کو اپنے سینے سے اٹھائے اپنے ہونٹوں کے قریب کیا تھا

"میری دیوانگی سہہ نہیں پائیں گے آپ۔۔۔"

ان ہونٹوں پر اپنے ہونٹ نسوا نے جیسے ہی رکھے تھے اسکے بعد وہ سچ میں پاگل ہوتا جارہا تھا نسوا کی دیوانگی اسے بھی دیوانہ بناتی جارہی تھی۔۔

کپڑوں کی قید سے وہ خود بھی آزاد ہوگئی تھی اور لیٹے ہوئے اپنے مدہوش شوہر کو بھی کردیا تھا۔۔۔

"میں سب برداشت کرسکتی ہوں۔۔ مگر شئیرنگ نہیں۔۔"

ہونٹوں کو دانتوں میں لئیے اس نے جس شدت سے یہ بات کہی تھی نجیب کے کو مکمل شاکڈ کردیا تھا اسکے نچلے ہونٹ سے بہتا خون اس بات کی دلیل تھا۔۔۔

"میں جھوٹھی چیزوں کو دوبارا منہ نہیں لگاتی نجیب۔۔۔"

وہ اپنے دانت سے اسکے سینے پر اپنی محبت کے نشان چھوڑ رہی تھی اور اس کمرے کی ہر چیز گواہ تھی انکے ملاپ کی۔۔۔ ان چار دیواروں میں انکی سرگوشیاں ایسے گونج رہی تھی جیسے سمندر سے اٹھتی لہروں کا شور۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تم میری پہلی محبت ہو اور رہو گی۔۔۔ مگر میں اسکے ساتھ اس سفر میں آگے نکل چکا ہوں نسوا۔۔۔ میں آپ کی حق تلفی کبھی نہیں ہونے دوں گا۔۔۔"

پرسکون نیند میں سوتی ہوئی نسوا کے ماتھے پر بوسہ دے کر اس نے اپنے سینے سے لگا لیا تھا

وہ تاب نہیں لا پایا تھا اپنی بیوی کی محبت کی۔۔ وہ اس کی خوبصورتی پر بہت پہلے مر مٹا تھا مگر اسکی بیوی کے اس ہوٹ بولڈ روپ نے اسے اور پاگل کردیا تھا۔۔

مگر وہ مرد تھا اور وہ جانتا تھا اب وہ پیچھے قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔۔۔

وہ عمارہ کی اداؤں پر بھی فدا تھا۔۔۔ وہ اسکی محبت کا ذائقہ بھی چکھ چکا تھا۔۔ شاید یہی وجہ تھی وہ اسے بھی مکمل حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔۔

نسوا کے ماتھے پر بوسہ دئیے وہ کچھ گھنٹے ایسے ہی اسے اپنی آغوش میں لئیے جاگتا رہا۔۔۔ اور صبح کی پہلی کرن پر وہ اسے وہاں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔۔"

۔

"ماما آپ نے کہا تھا ڈیڈ۔۔ یہ شادی نہیں کریں گے۔۔۔"

چار سال کے اس بچے نے ماں کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے پوچھا تھا۔۔

جو اس رات کے بعد ایسے ہی نم تھی۔۔

"بیٹا۔۔ڈیڈ شادی نہیں کررہے۔۔"

وہ کہتے ہوئے نظریں چرا گئی تھی ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل کو ایک بار پھر سے آن کرکے اس نے نجیب کو کال ملائی تھی جو پھر سے کینسل کردی تھی گئی تھی

اس رات اس نے اپنی محبت ہی نہیں اپنی سیلف ریسپیکٹ بھی اپنے شوہر پر نچھاوڑ کردی تھی۔۔

اپنی تمام تر شدتوں کو ظاہر کیا تھا اپنے تمام ڈر و خوف کو سامنے رکھا تھا۔۔۔

وہ اس 'ہرجائی' کو سب کچھ پھر سے سونپ چکی تھی جو اسکے تمام تر جذبوں پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔

اس خوبصورت رات کی اگلی صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو اسکے ہاتھ بےساختہ بستر کی اس جانب بڑھے تھے جہاں اسکا شوہر تھا۔۔مگر آنکھ کھلنے پر جب اس نے خود کو بستر پر اکیلا پایا تو وہ خود کو اس احساس سے بچا نہیں پا رہی تھی جو اسے ہو رہا تھا۔۔۔

'ایک بازاری عورت ہونے کا احساس جو کسی کی رات تو رنگین بنا سکتی ہے مگر صبح ہوتے ہی اسکا وجود بستر کی الجھی ہوئی شیٹ کی طرح ہوجاتا ہے استعمال شدہ'

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔"

"قبول ہے۔۔۔

قبول ہے۔۔۔

قبول ہے۔۔۔"

۔

وہ پرجوش طریقے سے جواب دیتا ہوا کہہ رہا تھا مولوی صاحب کو۔۔۔

اسکی جلد بازی پر پورے حال میں قہقے گونجے تھے اسکی خوشی میں اسکے سب اپنے خوش تھے سوائے اسکی دادی کے۔۔۔

وہ سب کی رضا مندی حاصل کرچکا تھا صرف اپنی ضرورتوں کا کہہ کر اپنے شرعی حق کا کارڈ وہ بخوبی استعمال کرچکا تھا۔۔۔۔

اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑے اس نے سب سے ملوایا تھا۔۔ اور اسے اپنے سجے سنورے گھر میں بڑی عزت و شان سے لیکر داخل ہوا تھا۔۔۔

۔

۔

"نجیب۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔ آپ جس طرح سے خاموش ہوگئے تھے نکاح سے پہلے۔۔

نا فون نا کوئی رابطہ ڈر گئی تھی میں۔۔"

وہ ایکسائیٹڈ ہوکر نجیب کا ہاتھ تھامے اس بیڈروم میں داخل ہوئی تھی جو اس نے آج سے شئیر کرنا تھا اپنے شوہر کے

"کیوں۔۔؟؟ میں نے کبھی ایسا فیل کروایا تمہیں۔۔؟"

بیڈروم ڈور لاک کرکے اسے نے اسے پن کردیا تھا۔۔

"نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔؟؟"

"تو کیا مطلب تھا جان۔۔؟"

گردن پر ہونٹ رکھ کر نجیب سے سرگوشی کی تھی۔۔۔

"نجیب۔۔"

ان ہونٹوں کی درمیان وہ باقی کا فاصلہ بھی ختم کرچکا تھا۔۔

"اس گھڑی کا انتظار ناجانے کب سے تھا مجھے عمارہ۔۔ آج میں اور انتظار نہیں کروں گا۔۔"

"آپ کو اور انتظارکرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے نجیب میں آپ کی ہوچکی ہوں۔۔"

۔

وہ اسے اپنے بانہوں میں اٹھائے بیڈ پر لے گیا تھا۔۔وہ کامیاب ہوگیا تھا اسے حاصل کرنے میں۔۔۔ مگر اسے معلوم نہیں تھا اپنی زندگی کی انمول چیز کو کھو کر اسے یہ جسمانی سکون حاصل ہوا تھا۔۔

۔

عمارہ پر وہ اپنی محبتیں وار چکا تھا ان کچھ گھنٹوں میں۔۔۔

عمارہ کے سوجانے کے بعد وہ بستر سے اٹھ گیا تھا اپنے کپڑے چینج کرنے کے بعد وہ دبے پاؤں دروازہ بند کئیے اس کمرے کی جانب بڑھا تھا جو اس کا اور نسوا کا تھا۔۔

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرے اندر جانے سے پہلے باہر کھڑا ہوگیا تھا۔۔گھبراہٹ ہورہی تھی اسے۔۔

وہ جانتا تھا اس نے آج اپنی ضد پوری کی اپنی بیوی کو ہرٹ کیا ۔۔ وہ اس رات کے بعد ایسے جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔

مگر وہ جانتا تھا اگر وہ ایک پل بھی نسوا کے پاس رکا تو وہ کامیاب ہوجائے گی اسے یہ نکاح سے پیچھے ہٹنے کے لیے۔۔

وہ اس لیے لاتعلق رہا۔۔ اب جب شادی ہوگئی تھی تو اب اسے اور لاتعلق نہیں رہنا تھا نسواۓء سے وہ درواہ کھول کر جیسے ہی اندر داخل ہوا تو اندر کا منظر بہت الگ تھا۔۔۔

بہت وقت کے بعد اس نے اپنے بیٹے کو نسوا کے ساتھ یوں اسکے کمرے میں سوتے ہوئے دیکھا تھا۔۔

جو نسوا کے سینے پر سر رکھے ہوئے پرسکون نیند میں تھا۔۔

نجیب کے دل میں جانے کیا آیا کہ اس نے اپنے موبائل سے ان دونوں کی بہت سی تصاویر لے لی تھی۔۔۔

کچھ دیر وہ یوں ہی ٹیک لگائے ان دونوں ماں بیٹے کو دیکھتا رہا اور پھر وہ آہستہ سے مننان کو اپنی گود میں اٹھا چکا تھا۔۔

وہ چاہتا تھا کہ وہ مننان کو اسکے کمرے میں لٹا کر وہ نسوا کے ساتھ باقی کی رات گزارے اسکے پہلو میں۔۔ 

وہ مننان کو آرام سے بیڈ سے اٹھا چکا تھا اسی وقت اسکی شرٹ پیچھے سے پکڑ کر نسوا نے روک دیا تھا اسے۔۔۔

"میں ابھی مننان کو اسے کمرے میں چھوڑ آؤں پھر آتا ہوں۔۔"

وہ نسوا کی بند آنکھیں اور شرٹ پر مظبوط گرفت دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا۔۔

وہ جانتا تھا اسکی بیوی اس سے زیادہ وقت کے لیے ناراض نہیں  رہ سکتی اور اب اسکے چہرے پر وہ خاموشی دیکھ کر خوش ہوگیا مگر نسوا کی بات نے جیسے اسے مکمل بلینک کردیا تھا

"کیا آپ نے اپنی بیوی کے ساتھ اپنی شادی کنزیوم کرلی ہ نجیب۔۔؟؟"

"نسواۓء میں ابھی اسے چھوڑ کر آتا ہوں۔۔"

"کیا شادی کنزیوم کرچکے ہیں۔۔؟؟ یس آر ناٹ۔۔؟؟"

وہ ایک دم غصے سے بولی تھی اس کے بولے گئے الفاظ نے اسے اور نجیب دونوں کو حیران کیا۔۔

"یس۔۔۔نسواء تمہاری جگہ اور محبت۔۔"

"مننان کہیں نہیں جائے گا۔۔ غسل کئیے بغیر اس کمرے میں آنے کی جرات بھی کیسے کی آپ نے۔۔؟؟ بازاری وہ ہوئی یا میں۔۔؟"

وہ اٹھی اور مننان کو کھینچ لیا تھا اور واپس اپنے ساتھ لٹا لیا تھا۔۔۔

وہ آنکھیں بند کرکے جیسے ہی لیٹی تھی کچھ منٹ بعد خود کو سنبھال کر اپنا غصہ کنٹرول کرکے نجیب ایک بار پھر سے بیڈ کی دوسری جانب بڑھا تھا نسوا کی بیک اسکی طرف تھی وہ جیسے ہی لیٹا تھا نسوا کے پیٹ پر ہاتھ رکھے اس نے اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔کچھ فاصلہ بھی ختم کرنے کی کوشش کی تو نسوا نے مننان کو ان دونوں کے درمیان لٹا لیا تھا۔۔۔

۔

"نجیب۔۔۔ جب ایک بیوی ضرورتیں پوری کرنے آگئی ہے تو مجھے نہیں لگتا میری کوئی ضرورت رہ گئی ہے۔۔"

"نسوا بات کو بڑھاؤ مت۔۔۔ میں آپ کو یقین دلا چکا ہوں آپ کی حق تلفی نہیں ہوگی۔۔ سب ویسے ہی رہے گا۔۔ "

"حق تلفی۔۔؟ کرچکے ہیں۔۔ اپنے گریبان میں جھانکیں اور دیکھیں۔۔ بیوی کے خلاف جاکر شادی کی اور اسی بیوی کو کہہ رہے ہیں کہ بات کو نہ بڑھاؤ۔۔؟؟"

"میں صبح ہوتے ہی چلی جاؤں گی۔۔۔"

"وٹ دا ہیل۔۔؟؟ کیا بکواس کئیے جارہی ہیں۔۔؟؟'

وہ چلاتے ہوئے بستر سے اٹھا تھا

"لائٹس آف کردیں مننان سو رہا ہے۔۔"

وہ پھر سے کروٹ لے چکی تھی جب نجیب بازو سے پکڑ کر اسے بیڈ سے اٹھا چکا تھا

"میرا ہاتھ چھوڑیں نجیب۔۔۔صبح تک کا وقت دیجئے۔۔ تماشا مت لگائیں۔۔۔"

انکے شور کی آوازیں کمرے سے باہر جارہی تھی

نجیب کا پارہ اس وقت ہائی ہوا جب اسکی نظر کپبرڈ کے پاس پڑے سوٹ کیس پر پڑی۔۔

"کس سے پوچھ کر پیکنگ کی آپ نے۔۔؟؟ کیا  غلط کردیا میں نے۔۔؟ جو اس طرح کررہی ہیں۔۔؟ انوکھا کام نہیں کیا میں نے۔۔

چلیں آپ کو گھر کے بڑوں سے کنفرم کروا دیتا ہوں۔۔ اور تماشا آپ نے لگایا ہے نسواء۔۔۔"

وہ ہاتھ پکڑ کر سیڑیوں سے نیچے لے گیا تھا۔۔۔ نجیب نے اپنے ماں باپ کے کمرے کے باہر دستک دی اور پھر دادی کے کمرے میں۔۔۔

وہ سچ میں سب کو اٹھا چکا تھا ایک تماشا لگا چکا تھا۔۔ جو آج تک اس نے کبھی نہیں کیا تھا وہ اس خاندان کا سب سے سلجھا ہوا خاموش طبیعت شخص تھا۔۔ مگر وہ جس طرح نائٹ گاؤن میں ملبوس بیوی کو بنا دوپٹے کے کھینچتے ہوئے نیچے لایا تھا اس وقت نسواء کو وہ شخص اسکا نجیب نہیں لگا تھا۔۔

"نجیب بس کیجئے۔۔۔"

"آپ نے حد پار کردی ہے اب میں بس اس وقت کروں گا جب آپ سب کے سامنے تسلیم کریں گی کہ میں نے شادی کرکے غلطی نہیں کی۔۔"

وہ دونوں آپس میں بحث کررہے تھے جب سب باہر آگئے تھے انکے درمیان ایک دائرے کی صورت میں سب ہی فیملی ممبرز کھڑے تھے اور پہلی سیڑھی پر عمارہ جو بکھرے بالوں میں تھی نجیب کی شرٹ اور جینز پہنے وہ نسواء کے اندرونی زخموں پر اچھے سے نمک چھڑک چکی تھی

"موم ڈیڈ دادی۔۔۔ میری بیوی کو بتائیں کہ میں نے شرعی حق لیا ہے دوسری شادی کرکے اس میں گناہ کیا ہے۔۔؟؟"

"نسواء بیٹا میں تو تمہیں ایک پڑھی لکھی سلجھی ہوئی لڑکی سمجھتی تھی۔۔۔ نجیب کو اسکی خوشیوں سے دور نہیں کرسکتی تم۔۔"

"نسوا بیٹا۔۔ نجیب کو دوسری شادی کا حق دین اور معاشرہ دونوں نے دیا ہے۔۔۔"

نجیب ک والد کا لہجہ زیادہ دھیما تھا نجیب کی والدہ سے زیادہ نرم تھا۔۔۔

"دین اور معاشرہ چاہے اجازت دہ میں نے اجازت نہیں دی تھی پاپا جی۔۔"

وہ کوشش کررہی تھی مگر نجیب کی گرفت مظبوط تھی

"تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے میرے بیٹے کو۔۔ تم سٹیٹس میں اس قابل نہیں تھی پھر بھی ہم نے اجازت دی اسے تم سے شادی کرنے کی۔۔"

چچی کی آگ برساتی آواز نے اسے سر جھکانے پر مجبور کردیا تھا

"رخشندہ بس۔۔"

دادی نے اپنی بہو کو ڈانٹا اور خود نسواء کے سر کو اٹھا کر اپنی طرف کیا تھا

"اب شادی ہوگئی ہے نسواء میری پیاری بچی۔۔ اب لڑائی کا فائدہ نہیں۔۔"

"دادی انہوں نے اپنی مرضی کی۔۔ اب مجھے میری مرضی کرنے دیں۔۔"

"سن لیا دادی۔۔ یہ ناراض ہوکر جانا چاہتی ہے۔۔۔دیکھ لیں۔۔"

وہ اور اونچی آواز میں بولا تو نسوا خاموش ہوگئی تھی۔۔اور پھر گھر والوں کی نا ختم ہونے والی باتیں شروع ہوگئی تھی۔۔

وہ نسوا کے سٹیٹس سے لیکر اسکی غربت کو طنز و طعنوں کی نفرت میں لپیٹ چکے تھے۔۔ بس اس کا کردار تھا جس پر انگلی نہیں اٹھی تھی باقی تو اسکی بیوی کے حقوق بھی نجیب نے سامنے رکھ دئیے تھے اپنی اگلی بات کرکے۔۔ اس بات نے نسوا کو ناصرف شرمندہ کیا تھا بلکہ اسے اندر تک ایک نیا گھاؤ دہ دیا تھا

"ایک سال تک میں اپنے حقوق مانگتا رہا دادی تب کہاں تھی میری بیوی۔۔؟ پوچھیں اس سے۔۔ کیا میری ضرورتیں پوری کی اس نے۔۔؟؟"

اور سب کو لاجواب کردیا تھا نجیب کی بات نے۔۔۔وہ غصے میں بھول گیا تھا وہ اپنی بیوی اور اپنے رشتے کا اچھا خاصا تماشا بنا چکا تھا اس وقت۔۔

"ویسے افسوس کا مقام ہے نسوا۔۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے تمہارے شوہر نے باہر آفئیر نہیں چلایا زنا نہیں کیا۔۔۔ نکاح کیا ہے۔۔۔"

دوسری چچی بھی بول پڑی تھی۔۔اور باری باری سب۔۔۔ نجیب اپنی بیوی کو شرمندہ کروا کر اب اسے چپ کروانا چاہتا تھا۔۔ وہ الٹا کرگیا تھا سب کچھ۔۔ وہ چاہتا تھا اسکی شادی کو پوری طرح اپنائے نسوا اور پھر اپنے شوہر کو اپنے سر کا تاج بھی بنا کررکھے۔۔

"نسوا بیٹا تم نجیب کو اسکے حق سے منع نہیں کرسکتی۔۔ تم کیوں گناہ گار بن رہی ہو۔۔؟"

"بیٹا نسوا اچھی بیویاں ایسے شوہروں کی نافرمانی نہیں کرتی۔۔"

"نسواء اب سب کی باتیں سن لی ہے۔۔؟ تم اتنے سال اچھی بیوی بنی رہی ہو یہ بھی تمہارا فرض ہے۔۔۔"

وہ واپس اسے کمرے میں لے جانے کے لیے واپس سیڑیوں کی طرف بڑھا تھا جب نسوا کی بات نے سب کے جاتے قدم روک دئیے تھے 

"میں نجیب اور میرے راستے الگ کرنا چاہتی ہوں۔۔ میں نہیں رہنا چاہتی ایک چھت تلے اپنی سوتن کے ساتھ۔۔ میں نہیں کرنا چاہتی تھی اپنے شوہر کو کسی کے ساتھ شئیر۔۔ مگر میرے شوہر نام دار نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی ہے دادی۔۔ انہوں نے میرے خلاف جاکر شادی کی اب مجھے انکے خلاف جا کر علیحدگی لینی ہے۔۔"

اور نجیب کی گرفت کمزور پڑ گئی تھی اسکی کلائی پر۔۔۔ نجیب نے ہاتھ جیسے ہی چھوڑا تھا وہ بھی کچھ قدم پیچھے ہوگئی تھی

"ہاہاہاہا،،،، علیحدہ ہونا ہے۔۔؟؟ مننان کے ساتھ۔۔؟؟ جانا کہاں ہے۔۔؟؟ ویٹر بنو گی سرونٹ بنو گی۔۔؟ کیا ہے آپ کے پاس سروائیو کرنے کے لیے۔۔؟؟"

نسواء کو جیسے ہی پیچھے دھکیلا تھا وہ دادی کے پاس جا گری تھی جس گرتے ہوئے تھام لیا تھا دادی نے۔۔۔

"آئی ہیٹ یو ڈیڈ۔۔۔"

مننان بھاگتے ہوئے نیچے آیا تھا۔۔۔ نسواء کےہاتھوں کو اپنے چھوٹے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔۔

"مجھے بھی تم سے کچھ خاص محبت نہیں ہے۔۔ نفرت ہوگئی ہے۔۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہورہا ہے۔۔"

سیڑھیوں کے پاس پڑی بڑے سے گلدان پر ہاتھ مارتے ہوئے اپنے ہی بیٹے کو وہ الفاظ کہے تھے نجیب نے۔۔

"نجیب۔۔؟؟"

نسوا اٌنے بیٹے کو اپنے گلے سے لگا چکی تھی جب اس نے اپنے شوہر کے منہ سے یہ الفاظ سنے تھے

"آپ کو جانا ہے نہ۔۔؟ راستے الگ کرنے ہیں نہ۔۔؟ جائیں۔۔ میں آپ کو ایک روکوں گا نہیں۔۔ آپ جائیں۔۔ مگر جب باہر کی دنیا سے ٹھوکر کھا کر واپس آئیں گی تو آپ کو وعدہ کرنا ہوگا۔۔ آپ میرے اس رشتے کو اپنائیں گی بھی اور میرے اور ہمارے رشتے کو پہلے جیسا بھی کریں گی۔۔۔"

یہاں مننان کا دل توڑ کر اسکی ممتا کا گلا گھونٹ کربھی وہ شخص اسی بات پر اڑا ہوا تھا۔۔ نسواء دیکھتی رہ گئی تھی نجیب کو۔۔

"آپ کے لیے یہ ایک ہی رشتہ اتنا اہم کیوں ہوگیا ہے۔۔؟ کیا ہے آخر اس رشتے میں جسے میں ایکسیپٹ نہیں کروں گی تو کچھ نہیں ہوگا۔۔؟ سب تو ہوگیا ہے۔۔۔

نجیب۔۔ میں اتناسمجھ گئی ہوں۔۔ آپ بھی ان ٹپیکل مردوں میں سے ہیں۔۔ جو چاہتے ہیں ایک چھت تلے آپ کو دو جسم میسر ہوں۔۔ اسکا بھی اور میرا بھی۔۔۔

مگر میں آج سے اپنے وجود کو کبھی آپ کو نہیں سونپوں گی۔۔ جیسے آپ نے کیا کسی کے ساتھ خود کو شئیر کردیا۔۔ اب میں وہ نہیں کروں گی۔۔۔

"آ پ میرے لیے سب کچھ تھے نجیب۔۔مگر اپنے ہی خون کے لیے یہ سب۔۔؟"

"تو کیا کہوں۔۔؟؟ اور کیا کہوں۔۔؟" نسواء کو بازوں سے پکڑ کر اپنے قریب کھینچا تو اس نے دونوں ہاتھوں کو نجیب کے سینے پر رکھ دیا تھا وہ اتن نزدیکی بھی سہہ نہیں پارہی تھی نجیب کے ساتھ اور یہ بات نجیب کو بھی تکلیف دہ گئی تھی

"میرا ہی خون میری خوشیاں کھا گیا ہے۔۔ ورنہ آپ میں اتنی جرآت تھی کہ آپ میرا سامنا کریں۔۔؟"

"فار گوڈ سیک۔۔۔ سوچ کر بولئیے کیا کہہ رہے ہیں۔۔؟ آپ کا اپنا خون نہیں آپ کا یہ خمار ایک نئی بیوی کو لانا اپنی خواہشات کے لیے اپنا گھر آپ نے خود برباد کیا وہ اس عورت کو پانے کی حاصل کرنے کی چاہ نے کھا لیا ہمارے گھر کو۔۔

اب خدارا میرے بیٹے کو درمیان میں مت لائیے۔۔"

وہ مننان کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے اوپر روم میں چلی گئی تھی۔۔۔

"ڈیڈ مجھ سے ہیٹ کرتے ہیں موم۔۔؟؟ "

مننان نے روتے ہوئے پوچھا تو نسواء جلدی سے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھ چکی تھی 

"مننان بیٹا۔۔۔"

"ماما مجھے اب ڈیڈ سے پیار نہیں رہا۔۔۔"

نسواء کے گلے لگ کر اس نے جس انداز میں کہا تھا وہ اس وقت اپنی عمر سے بہت بڑا لگ رہا تھا آنکھوںمیں اپنے باپ کے لیے نفرت لئیے اس نے جب اپنی ماں کو دیکھا تھا نسواء کی روتی آنکھیں اور رو دی تھی۔۔ کہ اب اسکی آنکھوں سے پانی نکل بھی رہا تھا تو جلن ہونے لگی تھی۔۔

وہ کچھ دیر میں کپڑے چینج کرکے روم سے سوٹ کیس پکڑ کر نیچے لے آئی تھی۔۔

"میں اس سوٹ کیس کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آخر مجھے ٹھکرا کر میرے دئیے ہوئے پیسے سے آپ یہ وقت  گزاری کرو گی۔۔؟

میرا دیا ہوا چیلنج آپ میری محنت کی کمائی سے پورا کرو گی۔۔؟؟"

وہ کہتے ہوئے نیچے جھکا تھا نسواء کے ہاتھ سے سوٹ کیس کھینچ کر اس نے کپڑے نکالے تھے۔۔

نجیب کے ساتھ ساتھ سب کو ہی معلوم تھا نسواء نے لازمی اس بیگ میں مہنگی جیولری اور پیسے رکھیں ہوں گے ۔۔

کیونکہ وہ اس گھر کی واحد بہو تھی جس پر شوہر کی عنایت قیمتی تحائف کی صورت میں ہوتی تھی۔۔۔

نجیب نے ہر قیمتی جیولری اپنی بیوی کو گفٹ کی ہوئی تھی۔۔ وہ لاڈلی تھی نجیب کی۔۔

سب جانتے تھے پھر آج یہ سٹیج جو سجا ہوا تھا انکے رشتے کو لیکر اس نے تو ان دونوں کے رشتے کی حقیقت واضح کردی تھی

"کچھ۔۔۔بھی نہیں ہے۔۔؟؟ پیسے کہاں ہے۔۔؟ وومن۔۔۔ تم اس طرح باہر کی دنیا میں نکلو گی۔۔؟؟"

اس نے غصے سے وہ بیگ پیچھے پھینک دیا تھا۔۔ دنگ رہ گئے تھے سب

"اس میں صرف دو دو جوڑے کپڑوں کے ہیں۔۔ میرے اور میرے بیٹے کے۔۔

مجھے آپ کی مہنگی جیولری اور وہ پیسے نہیں چاہیے جو وقتی خوشی دیتے ہوں۔۔

مجھے وہ سب کبھی نہیں چاہیے تھا۔۔ مجھے وہ چاہیے تھا جو آپ نے چھین لیا مجھ سے۔۔۔

میرا سکون میری محبت۔۔ میرا مان اور بھرم وہ سب دوسری شادی کرکے آپ لوٹ چکے ہیں۔۔"

وہ مننان کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی تھی اب کے اس نے وہ بیگ اٹھانے کہ بھی زحمت نہیں کی تھی۔۔

"یہ پیسے لے لو۔۔ کچھ دن میں جب یہ آنا کا بخار اتر جائے گا تو واپس آجانا۔۔"

نجیب نے جب نسوا کے ہاتھ میں پیسے رکھنے کی کوشش کی تو مننان نے نجیب کے پیسوں والے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا

"میں ہوں ماما کے ساتھ ہمیں آپ کے پیسوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔۔"

بیٹے کی بات سن کر اس نے بےساختہ اپنی بیوی کی آنکھوں میں دیکھا تھا جو نم ہوچکی تھی۔۔

وہ دونوں آنکھیں جیسے ایک دوسرے سے شکوہ کررہی ہوں

"میں کوشش کروں گی مننان کو سمجھا سکوں کہ آپ 'میرے ہرجائی' ہیں ہمارے بیٹے کے نہیں۔۔۔

نسواء آنکھوں کے آنسو صاف کئیے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے لے گئی تھی۔۔۔

"وہ جتنے مان اور آنا اور غرور میں اِس گھر سے نکلی ہے وہ اتنی ہی جلدی الٹے پاؤں واپس بھی آئے گی دیکھ لیجئے گا آپ سب۔۔"

سب گھر والوں کو جیسے سانپ سونگ گیا ہو سب کے سب خاموش اسی دروازے کو دیکھ رہے تھے جہاں جس دروازے سے ابھی اس گھر کی بڑی بہو اور ان کا وارث سر اٹھائے گ چپ چاپ چلے گئے تھے انہیں چھو ڑ کر۔۔

نجیب کی گونجتی آواز میں تو بلا کا تکبر دیکھا تھا ان سب بڑوں نے خاص کر آفندی صاحب جو گرینڈ کاؤچ میں بیٹھ گئے تھے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اور پھر انکے بعد دادی اور نجیب صاحب کی والدہ ماہ جبین 

جو سب لوگ شاکڈ تھے مگر ان سب کی زبانوں کو نجیب کی بات نے بڑھاوا دیا تھا نسواء کے خلاف بولنے کے لیے

"نجیب۔۔ اندر آجائیے رات بہت ہوگئی ہے۔۔"

عمارہ نے نجیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جیسے ہی آہستہ آواز میں کہا نجیب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں بھر لیا تھا

"آپ سب بھی سو جائیں میں بھی جا رہا ہوں۔۔ نسواء نے میری زندگی میں آنے والی خوشیوں کو جس طرح سے خراب کیا میں انہیں معاف نہیں کروں گا۔۔ مگر یہ سب بعد کی باتیں ہیں پہلے اسے گھر آنے دیجئے۔۔"

وہ عمارہ کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے گیا تھا۔۔۔

"نجیب آپ آرام کیجئے۔۔ میں چائے بنانے کا کہوں ملازمہ کو۔۔؟؟"

"میرا آرام اس وقت تم میں ہے عمارہ۔۔ کم ہئیر۔۔۔"

وہ عمارہ کو اپنے پاس بیڈ پر بٹھا چکا تھا

"نجیب آپ ٹھیک نہیں ہیں آپ آرام کیجئے۔۔"

"میں نے کہا نہ مجھے آرام نہیں تم چاہیے۔۔ان ڈریس ناؤ۔۔۔"

وہ غصے سے چلایا تھا بیڈ پر سر کے نیچے ہاتھ رکھے وہ عمارہ کو دیکھ رہا تھا جو خود کو کپڑوں کی قید سے آزاد کررہی تھی اسکی نظر اپنی دوسری بیوی پر تھی مگر دھیان دل و دماغ اپنی پہلی بیوی پر تھا۔۔۔ جو جانے رات کے اس پہر کہاں ہوگی اس بات نے اسے بےچین کردیا تھا۔۔ مگر اسکی آنا اسے کچھ کرنے نہیں دے رہی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء بیٹا۔۔؟؟"

یہ تیسرا گھر تھا جس کا دروازہ اس نے اس وقت کھٹکھٹایا تھا۔۔ مننان کے ٹھنڈے پڑتے وجود کو وہ اپنی چادر میں لپیٹ چکی تھی اسکے چھوٹے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے ملتے ہوئے اس سرد رات میں گرمائش دینے کی کوشش کر رہی تھی جب اس ضعیف شخص نے دروازہ کھولا تھا اور ایک وقت کو وہ چونک گیا تھا

جب اپنی بیوی کی مالکن کو دروازے پر دیکھا تھا

"سائمہ۔۔۔ سائمہ باہر آئیں۔۔۔"

وہ مکمل دروازہ کھول چکے تھے۔۔ اور نہایت احترام سے نسواء کو اندر آنے کا کہا تھا جو بہت گھبرا گئی تھی پھر انہوں نے اپنی بیوی کو اونچی آواز میں بلایا تھا۔۔۔

"کیا ہوگیا ہے آفتاب اس وقت اتنی بلند آواز میں۔۔۔۔ نسواء بیٹا۔۔؟؟"

آنکھوں نے نیند جیسے اڑ گئی تھی۔۔

"کیا۔۔ ہم آج رات آپ کے پاس رہ سکتے ہیں۔۔ کیا ہمیں تھوڑی سی جگہ مل سکتی ہے سائمہ بی۔۔؟؟"

سائمہ نے نسواء کے التجا کرتے ہاتھوں کو پکڑ لیا تھا۔۔وہ دونوں میاں بیوی حیرانگی سے دیکھنے لگے مننان اور نسواء کو

"بیٹا اندر آئیں۔۔کیا ہوا ہے۔۔؟؟ آپ اس وقت یہاں۔۔؟ نجیب صاحب ٹھیک تو ہیں۔۔؟"

۔

نسواء کو وہ الگ کمرے میں لے گئیں تھیں جو غالباۓً گیسٹ روم تھا تیسرا اور آخری کمرہ جو چھوٹا سا تھا۔۔ صرف ایک چھوٹے سے بیڈ کے ساتھ

"آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی کچھ کھانے کو لےکر آتی ہوں۔۔"

وہ انہیں وہاں بٹھا کر جلدی سے باہر آگئی تھیں۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء نے کتنی کم عقلی کا مظاہرہ کیا ہے امی مجھے اس سے یہ امید نہ تھی"

ماہ جبین نے دادی کو انکے بیڈ پر لٹاتے ہی کہا ۔۔ وہاں باقی سب بڑے بھی آگئے تھے دادی کے بلانے پر

"نسواء نے جو بھی کیا ایک بیوی ایسا ہی کرے گی جب اسکی ایک نہیں چلے گی"

"امی نجیب نے کوئی گناہ نہیں کیا۔۔"

آفندی صاحب بھی للکار کر بولے تھے۔۔ اب انہیں بھی نسواء کا غصہ بلاوجہ کا لگنے لگا تھا

"بھائی صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں امی بیویوں کو اتنی چھوٹ نہیں ملنی چاہیے۔۔ اگر مرد اس قابل ہے کہ وہ دوسری شادی کرسکتا ہے تو کیوں اتنا واویلا مچایا گیا۔۔؟"

چچا نے جیسے ہی کہا باقی خواتین بھی انکا منہ تکنے لگیں۔۔ ابھی تک خواتین جو نسواء کو غلط کہہ رہی تھی اب اپنے اپنے شوہر کے خیالات سن کر وہ خطرہ محسوس کرنے لگیں تھی

"دادی۔۔میں ایک بات کہوں۔۔؟ نجیب بھائی نے کچھ غلط نہیں کیا میں جانتی ہوں آپ کچھ ایسا فیصلہ ضرور کریں گی کہ عمارہ بھابھی کو اس گھر سے دوسرے گھر میں شفٹ کروانا چاہیں گی کیونکہ نسواء بھابھی آپ کی لاڈلی ہیں۔۔؟"

نجیب کی چھوٹی بہن اپنے شوہر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی تھی

"فضا بیٹا بچوں کو کچھ بھی بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔"

دادی نے سخت بات کو بھی نرم لہجے میں کہا تھا

"دادی میں معافی چاہتی ہوں۔۔ مگر آپ بھابھی سے اپنی محبت ایک طرف رکھ کر نجیب بھائی کا سوچیں۔۔ وہ عمارہ بھابھی سے محبت کرتے ہیں۔۔انہیں دوسری شادی کا حق ہے۔۔"

"ہمم میں نے تمہاری بات سن لی ہے بیٹا۔۔ میں فیصلہ نہیں سنا رہی تم جاسکتی ہو داماد جی تھک گئے ہوں گے۔۔"

فضا کے ساتھ شرمندہ ہوتے اسکے شوہر کی طرف دیکھ کر دادی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا

فضا ابھی جانے لگی تھی جب دادی نے اسے پھر سے مخاطب کیا

"فضا بیٹا۔۔ اگر مستقبل میں تمہارے شوہر نے دوسری شادی کا ذکر کیا تو تم یہاں شکایت لیکر نہیں آؤ گی۔۔ اور اتنی ہی  فراغ دلی سے اپنی سوتن کو قبول کرو گی۔۔ کیا تمہیں منظور ہے۔۔؟؟"

"دادی۔۔؟؟"

 فضا کے پیروں تلے جیسے زمین نکل گئی ہو وہ ایک نظر اپنی دادی کو اور ایک نظر اپنے شوہر کو دیکھتی رہ گئی تھی جس کی آنکھوں میں ایک الگ چمک نظر آئی تھی اسے دوسری شادی کا سن کر

"میں کبھی سوتن برداشت نہیں کروں گی دادی۔۔۔"

"سوتن کوئی عورت برداشت نہیں کرتی فضا بیٹا یہ بات یاد رکھنا۔۔ عورت کو مجبور کردیا جاتا ہے۔۔ تم نے جو نسواء کے لیے کہا ہے اپنی اسی بات پر ڈٹی رہنا۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"اگلی صبح۔۔"

۔

"سائمہ بی۔۔ آپ نے اچھا کیا مجھے یہاں آکر بتا دیا۔۔"

"سر میں بس اتنا چاہتی ہوں آپ انہیں لینے آجائیں۔۔ نسواء میڈم کو کل رات سے تیز بخار ہے اور باہر کا موسم بھی دیکھ لیں۔۔"

"آپ انکی فکر نہ کریں۔۔ آپ نے بس گھر جا کر اتنا کرنا ہے کہ میری بیوی اور بیٹے کو بہت عزت افزائی کے ساتھ اپنے گھر سے نکال باہر کرنا ہے۔۔"

"جی۔۔؟"

سائمہ کرسی سے اٹھ گئی تھی ایک دم سے

"صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔؟ میں یہاں آپ سے کچھ اور درخواست کرنےآئی تھی اور آپ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔۔؟؟"

"میں جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔۔ ایک گھنٹہ کا وقت ہے تمہارے پاس واپس گھر جاؤ اور اسے نکال دو۔۔۔"

"میں ایسا کبھی نہیں کروں گی سر۔۔ ایم سوری۔۔"

وہ اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھی تھی انکا ہاتھ ڈور ہینڈل پہ تھا جب نجیب نے نوٹوں کا بڑا بنڈل اسکے قدموں کی جانب پھینکا تھا

"یہ نوٹ اٹھاؤ اور اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔۔ جیسا میں نے کہا ویسا کرو گی تو تمہارے شوہر کا علاج اور بیٹے کی کالج فیس میرے ذمہ ہوگی۔۔۔

اور تم بھی جانتی ہو نجبب آفندی جب کوئی ذمہ داری لے تو اسے نبھاتا بھی ہے۔۔۔اب جاؤ۔۔ اور جلدی سے نکالو ان دونوں کو وہاں سے۔۔"

سائمہ کچھ منٹ سوچنے کے بعد وہ نوٹوں کے بنڈل کو اپنی چادر میں چھپائے وہاں سے چلی گئی تھی

"نسواء۔۔ کل رات گھر کی دہلیز سے باہر گزار کر آپ نے جو بغاوت کی شرعات کی ہے میں اس بغاوت کو آج ہی کچل دوں گا اور شام سے پہلے مجبور کردوں گا آپ کو واپس گھر لے آنے پر۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"دوسری شادی کوئی گناہ نہیں ہے میں نے زنا نہیں کیا آپ کو تو خوش ہونا چاہیے

میں عمارہ سے بھی اتنا ہی پیار کرتا ہوں جتنا آپ سے کرتا ہوں نسواء وہ ہمارے درمیان میں نہیں آئے گی۔۔ اور نہ ہی آپ کو میں اجازت دوں گا کہ آپ مجھے اس کے پاس جانے سے روکیں۔۔"

"یہ کیسی محبت ہے آپ کی نجیب جس میں اتنی شراکت کسی اور عورت کو دے کر آپ مجھ سے محبت کی بات کررہے ہیں آپ جانتے بھی ہیں محبت کا مطلب۔۔؟"

"محبت کا مطلب۔۔؟؟ محبت کا مطلب ہمارے جلتے ہوئے یہ وجود ہیں جنہیں اپنی ضد کی وجہ سےآپ نے مزید جھلسا دیا ہے اس جلتی آگ میں۔۔۔"

نسواء کی ویسٹ پر ہاتھ رکھے وہ اپنے قریب کھینچ چکا تھا اسکے سسکتے ہوئے وجود کو۔۔

"نجیب۔۔"

"محبت کا مطلب یہی تو ہے کہ ہم دور ہوکر بھی دور نہیں رہ سکے۔۔ آپ مچلتی ہوئی ٹوٹ رہی ہیں میری آغوش میں نسواء اس سے زیادہ کیا محبت کا ثبوت دوں۔۔؟؟"

نسواء کی گردن پر اپنےلب رکھے وہ اسے اور مجبور کررہا تھا خود میں سمٹنے کو۔۔ بات حد سے بڑھ گئی تھی ب وہ لب گردن کی لو سے نیچے کا سفر تہہ کر چکے تھے

"یہ محبت نہیں ہے جسموں  کی ہوس ہے۔۔۔نجیب۔۔۔"

"میاں بیوی کے رشتے میں ہوس کچھ نہیں ہوتی۔۔ میری جان محبت محبت ہی ہوتی ہے چاہے وہ دو روحوں کی ہو یا دو جسموں کی۔۔۔ "

نسوا کے ہونٹوں کے قریب اس کے لبوں نے سرگوشی کی تھی۔۔

"خود کو روکو گی تو ظلم کرو گی خود پر میرا حق ہے تم پر تمہارے اس وجود پر۔۔

چاہے دوسری بیوی آگئی ہو۔۔ مگر تم اب بھی میری ملکیت ہو نسواء۔۔۔"

شرٹ کی ڈوری کھولے وہ اپنی ملکیت پر اپنی گرفت اور مظبوط کرچکا تھا ۔۔

وہ پہلو میں پگھلتی اس موم بتی کی طرح پگھل رہی تھی۔۔

لبوں کے درمیان کے فاصلے کو نجیب نے جیسے ہی ختم کیا تھا نسوا کے شکوے بھی دم توڑ گئے تھے

وہ جو دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بند کیا ہوا تھا وہ جو خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی

دوپٹے نیچے گرنے پر اسکا وہ کنٹرول میں گر چکا تھا۔۔۔ وہ اب محض ایک بے بس بیوی  رہ گئی تھی اپنے شوہر کو مکمل سرنڈر کرچکی تھی وہ اور اس کا وجود جو پاگل ہو رہا تھا نجیب کی قربت میں۔۔۔

۔

"میں نے کہا تھا نہ آپ میری اور عمارہ کی شادی کے آگے سر جھکا دیں گی نسواء۔۔۔"

"نہیں۔۔۔ کبھی نہیں میں مرنا پسند کروں گی مگر ایک ایسے شخص کے ساتھ گزارنا نہیں جسے میرے جذبات میرے احساسات کی کوئی پرواہ نہیں جو اپنی دل جوئی میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اسے اپنے بچے کی بھی فکر نہیں۔۔"

"ہاہاہاہاہاہا آپ پھر سے زیادہ  بول رہی ہیں نسواء۔۔ میں چکنا چور کردوں گا آپ کا یہ غرور۔۔۔مننان کو بھی چھین لوں گا۔۔۔"

"کبھی نہیں۔۔۔۔نجیب۔۔۔"

وہ چلاتی ہوئی اٹھ گئی تھی ۔۔"

"ماما۔۔۔ ماما آپ ٹھیک ہیں۔۔؟"

مننان جلدی سے نسواء کے پاس آگیا تھا۔۔۔نسواء کے چہرے سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو وہ صاف کرنا شروع ہوگیا تھا جب کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔۔ سائمہ بی سر جھکاتے ہوئے اندر آئی تھی ناشتے کی پلیٹ انہوں نے جیسے ہی نسواء کے پاس رکھی تھی انکی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے تھے۔۔

"سائمہ بی کیا ہوا ہے۔۔؟؟ "

وہ اپنی تکلیف بھلا کر سائمہ بی کے چہرے کو دیکھ کر پریشان ہوئی۔۔

"مننان بیٹا آپ باہر جاکر کھیلے گے۔؟ آپ کی ماما سے میں نے بات کرنی ہے۔۔"

"آپ میرے سامنے کرسکتی ہیں اب سے میں ہر بات کو سننا چاہتا ہوں۔۔"

مننان اٹھ کر نسواء کے پاس بیٹھا تھا۔۔ اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگا کر اس نے اپنی بھری ہوئی آنکھوں کو صاف کرنے کی کوشش کی تھی جب مننان نے پھر سے اپنے ہاتھوں سے صاف کئیے تھے

"ماما ڈونٹ ورری میں ہوں آپ کے پاس۔۔۔"

نسواء کے گال پر بوسہ دے کر اس نے پھر سے نسواء کو تسلی دی تھی دلاسہ دیا تھا

اپنے بیٹے کی یہ فکر دیکھ کر وہ بار بار اشکبار ہورہی تھی مننان بار بار چہرہ صاف کررہا تھا

"ماما آپ کی آنکھوں میں پانی کا کوئی ٹب تو نہیں۔۔؟ اتنا پانی۔۔؟"

اس نے معصومیت سے پوچھا تھا جس پر وہ اور سائمہ ہنس دئیے تھے روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ۔۔

۔

"سائمہ بی آپ بتائیے۔۔۔"

سائمہ بھی گھبراتے ہوئے ان دونوں کو دیکھنے لگی اور گہرا سانس بھر کر انہوں نے ایک ہی بات کہی تھی جس پر وہ دونوں ماں بیٹے اور زیادہ شاکڈ ہوئے تھے

"نجیب صاحب چاہتے ہیں میں تم دونوں کو گھر سے نکال دوں۔۔ نسواء۔۔ انہوں نے مجھے پیسے بھی دئیے ہیں۔۔ میں انہیں انکار کرنا چاہتی تھی مگر میں جانتی ہوں میرا ایک انکار میرا ہنستا بستہ گھر اجاڑ دے گا۔۔۔"

انہوں نے وہ نوٹوں کا بنڈل نسواء کے پاؤں کے پاس رکھ دیا تھا

"ہمم انہوں نے جیسا کہا ہے آپ ویسا کردیں۔۔ ہم تو برباد ہوئے ہیں مگر ہماری وجہ سے کوئی اور برباد نہیں ہونا چاہیے۔۔"

وہ ناشتہ کئیے بغیر خود  بھی اٹھی تھی اور اپنے بیٹے کو بھی اٹھایا تھا۔۔

"نسواء بیٹا یہ کچھ پیسے اپنے پاس رکھ لو اور یہ ایڈریس میری بہن کا ہے جو کراچی میں رہتی ہے تم نے اسے جا کر میرا یہ خط دہ دینا ہے وہ سمجھ جائے گی۔۔"

"نسواء نے وہ خط اور ایڈریس تو پکڑ لیا تھا مگر وہ پیسے نہیں۔۔"

"میں ان کے پیسوں کی ایک پائی بھی نہیں لوں گی۔۔۔"

"بے فکر رہو یہ میری محنت کی کمائی ہے جو میں نے جوڑی ہوئی تھی۔۔۔بیٹا۔۔"

کچھ دیر میں وہ فریش ہوکر گھر کی دہلیز پر کھڑے تھے۔۔۔

"اب آپ غصے سے ہمیں باہر نکالیں۔۔"

نسواء نے انکے ہاتھ کو تھامے ہوئے کہا تھا

"بیٹا۔۔ میں یہ نہیں کرسکتی ۔۔صرف نجیب صاحب کو خوش کرنے کے لیے۔۔"

"سائمہ بی انہیں خوشی ملے گی ہماری ذلت پر آپ انہیں وہ خوشی دہ دیجئے۔۔"

"ماما انکی خوشی اب میٹر نہیں کرتی۔۔"

مننان نسواء کا ہاتھ پکڑ باہر لے گیا تھا۔۔۔

۔

دوور سڑک پر تین گاڑیاں بیک ٹو بیک کھڑی تھی درمیان والی گاڑی میں نجیب خاموشی سے ان دونوں کو ہاتھ تھامے اس گھر سے باہر آتے دیکھ رہا تھا۔۔

بس سٹاپ پر کھڑی بس میں بیٹھنے سے پہلے نسواء لڑکھڑا گئی تھی چھوٹے سے پتھر سے جو پڑا ہوا تھا۔۔وہ زرا سا لڑکھڑائی ہے یہاں مننان  نے جلدی سے ہاتھ پکڑا نسواء کا اور وہاں نجیب نے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔۔مگر اسکے قدم وہاں رکے جب مننان نے دونوں کندھوں پر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ رکھ کر نسواء کو سنبھالا تھا

"ماما آپ ٹھیک ہیں۔۔؟؟"

میں ٹھیک ہوں بیٹا۔۔۔"

۔

وہ دونوں بس میں بیٹھ گئے تھے۔۔۔اور وہ بس انہیں ریلوے اسٹیشن کے قریب اتار دیتی ہے۔۔ جہاں ک نجیب نے انہیں فالو کیا تھا۔۔

وہ جس پلیٹ فارم پر بیٹھی تھی مننان کے ساتھ لڑکی کے اس سخت بینچ پر نجیب دور کھڑا تھا

"سر آپ اندر چل کر بیٹھ جائیں۔۔"

"اسکی ضرورت نہیں ہے یہ ٹرین کب آئے گی۔۔؟"

"سر کچھ تقریباً آدھا گھنٹہ لگ جائے گا۔۔"

"ہمم۔۔ کراچی جانے والے اس ٹرین کو پانچ چھ گھنٹے لیٹ آنے کا کہو۔۔"

"سر۔۔؟؟"

"جیسا کہا ہے ویسا کرو۔۔۔"

وہ بات کررہا تھا جب نسواء نے اسی جانب دیکھا۔۔ پیچھے اپنے لوگوں کو اشارہ کرکے وہ ایک پلر کے پیچھے چھپ گیا۔۔ اسکے چہرے پر ایک الگ ہی مسکراہٹ تھی۔۔

"آپ کو محسوس ہوجاتی ہے میری نظریں نسواء۔۔ بس کچھ اور گھنٹے۔۔ آپ مننان کو واپس لے آئیں گی۔۔ اور اپنا لیں گی عمارہ اور میرے رشتے کو۔۔"

نجیب نے اپنا سیل فون نکالا تھا

"عمارہ ریڈی ہوجاؤ۔۔ شاپنگ پر جانا ہے۔۔ پرسو فلائٹ ہےہماری۔۔ ہنی مون پر میں تمہیں اسی کنٹری میں لے جانا چاہوں گا جہاں تم نے جانے کی فرمائش کی تھی۔۔"

عمارہ کی بات کا جواب سنے بغیر نجیب نے فون بند کردیا تھا

"میں ابھی جارہا ہوں۔۔ تم لوگ یہیں نظر رکھو۔۔ کچھ گھنٹے کا کھیل ہے۔۔"

اور وہ ایک آخری نظر دیکھ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

اسکے جانے کے بعد نجیب کے لوگ وہاں پہرہ دینے لگے تھے۔۔جب نسواء نے نظریں گھمائی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر رش ہونے کے بعد۔۔ وہ ان لوگوں سے نظریں بچاتی ہوئی۔۔

دوسرے پلیٹ فارم کی جانب بڑھی تھی۔۔ جو ٹرین وہاں سے جانے والی تھی اس میں وہ مننان کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔۔اپنا اور مننان کا چہرہ کور کئیے۔۔۔

"وہ ٹرین جیسے جیسے چلنا شروع ہوئی تھی اس نے خود سے ایک ہی وعدہ کیا تھا

"میں کبھی واپس نہیں آؤں گی نجیب۔۔ کبھی آپ میرا چہرہ دیکھ نہیں پائیں گے۔۔"

اسکی آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسو مننان کی کلائی پر جیسے ہی گرے تھے اس کی انگلیوں کی گرفت اپنی ماں کے ہاتھو ں پر مظبوط ہوئی تھی

"میں لوٹ کر ضرور آؤں گا ڈیڈ۔۔ اپنی ماں کی آنکھوں سے نکلنے والے ہر آنسو کا حساب لینے۔۔"

نسواء کے ہاتھ پر بوسہ دئیے مننان نے بھی خود سے ایک وعدہ لیا تھا ایک قسم کھائی تھی

"آپ میری ماں کے ہی نہیں میرے بھی 'ہرجائی' ہیں۔۔ میں آپ کو کبھی بھولنے نہیں دوں گا۔۔۔"

"میری جنت آپ کی آغوش میں ہے نجیب میرا گھر آپ کے سینے میں اس دھڑکتے دل میں ہے۔۔"

اس نے جھک کر بوسہ لیا تھا اور پھر نجیب کے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلی تھی

"خیریت ہے نہ آج بہت پیار آرہا ہے مجھ پر۔۔؟"

"جی خیریت ہے اور پیار کب نہیں آتا۔۔؟؟"

سر اٹھائے نجیب کے چہرے پر انگلیاں پھیرتے ہوئے تھوڑی پر لب رکھ دئیے تھے نجیب کے ہاتھ کندھے سے پیچھے ہٹ کر نسواء کی کمر پر آگئے تھے۔۔

"نہ کریں نسواء میرے دل کو دھڑکن کو تیز۔۔ مت دیکھیں ان نظروں سے مجھے۔۔ میرے اندر کا بیسٹ باہر آگیا تو مشکل ہوجائے گا آپ کو سونا۔۔"

"اب نیند کہاں آئے گی۔۔؟؟ آپ کی بانہوں میں آنے کے بعد میں میں نہیں رہتی تم ہوجاتی ہوں۔۔۔۔"

تھوڑی سے لب ہٹاتے ہوئے وہ ان کھلتے بند ہوتے ہونٹوں کی جانب بڑھی تھی اس نے آہستہ سے سرگوشی کرکے سچ میں نجیب کے اندر کے بیسٹ کو جگا دیا تھا وہ جس طرح اسے بیڈ پر پن کرچکا تھا۔۔

نسواء کے دونوں ہاتھوں سر کے قریب لے جاکر اپنی گرفت مظبوط کرلی تھی اس نے مگر ان لبوں کے درمیان کا فاصلہ ختم نہیں کیا تھا۔۔

"کیا بات ہے نسواء آج آپ کو سچ میں بہت پیا آرہا ہے۔۔؟؟"

وہ اس پر اور جھکا تھا ۔۔

" آپ۔۔۔ پاپا بننے والے ہیں نجیب۔۔۔"

وہ مچلی تھی اپنی کلائی چھڑوانے میں کامیاب ہوگئی تھی وہ نجیب کے شاکڈ ایکسپریشن کے ساتھ اسکی گرفت بھی کم ہوئی تو اس نے نجیب کے ہاتھ کو اپنے پیٹ پر رکھ کر پھر سے وہ گڈ نیوز اسے سنائی تھی

"ایم پریگننٹ نجیب۔۔۔"

نجیب کے خاموش چہرے کو ہاتھوں میں لئیے اپنے لب بہت پیار سے ان لبوں پر رکھ دئیے تھے نجیب اب بھی شاکڈ ہی تھا۔۔۔

"نجیب کچھ بولئیے۔۔۔"

سانسیں بحال کرنے پر اس نے پھر سے نجیب کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"نسواء۔۔۔ آپ نے ٹیبلٹ کھانے کب بند کیا ۔۔؟؟ کس کی اجازت سے آپ نے وہ گولی کھانا بند کی تھی۔۔؟ اور کیوں۔۔؟ میں نے کہا آپ کو۔۔۔"

وہ جلدی سے اٹھ گیا تھا اپنا وجود الگ کرچکا تھا

"میں ریڈی ہوں نجیب میں نے کہا تھا۔۔"

"مگر میں ریڈی نہیں ہوں۔۔۔ہماری شادی شدہ زندگی میں یہ بچہ کسی پروپر پلاننگ کے بغیر۔۔"

"بس کردیں نجیب خدا کا واسطہ ہے یہ نعمت ہے اللہ کی۔۔۔"

"بنا پلاننگ کے یہ بچہ میرے لیے۔۔۔"

۔

۔

"ماما ہم پہنچ گئے ہیں ٹرین کو رکے ہوئے کچھ دیر ہوگئی۔۔"

نسواء کو اٹھاتے ہوئے مننان آہستہ آواز میں بولا اسی وقت اس نے آنکھیں صاف کرکے لوگوں کے ہجوم کو دیکھا جو ٹرین سے اتر رہے تھے

وہ اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑے باہر آگئی۔۔

"کولی میڈم۔۔؟؟ آپ نے اپنا سامان ٹیکسی میں رکھوانا ہے۔۔؟"

بہت سے لوگ ان دونوں کے پاس آکر پوچھنے لے نسوا خالی ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔۔

ایک بیگ ہی تھا وہ بھی نجیب نے جس طرح سے کھینچ کر کھولا تھا اس کا دل اتنا بدظن ہوا کہ وہ اپنا بیگ بھی چھوڑ آئی۔۔

"نہیں بھائی صاحب۔۔"

وہ مننان کا ہاتھ پکڑے اس بھیڑ سے مسافروں کے ہجوم سے ایگزٹ کی جانب 

چلی گئی تھی

"ماما ہم کہاں جارہے ہیں۔۔؟۔۔"

وہ ابھی بات کررہا تھا جب کیچڑ میں اسکے شوز چلے گئے تھے۔۔

مننان کے چہرے ہر ایک دم سے غصہ آیا تھا جو ہمیشہ آتا تھا زرا سی بات پر مگر اب اس نے غصہ نہیں کیا تھا سر کو ہلا کر وہ آگے بڑھ گیا تھا 

"مننان۔۔ نسواء جو اپنے بیٹے کا صبر دیکھ رہی تھی وہ جھک کر اسے اپنے سینے سے لگا چکی تھی

"بیٹا۔۔ آج سے ہم بہت امیر نہیں رہے ہم جہاں جارہے ہیں وہ جگہ شاید آپ کو پسند نہ آئے مگر میں بہت جلدی کچھ کروں گی۔۔ "

"اٹس اوکے ماما۔۔ میں بھی کوئی کام کروں گا۔۔"

"اوہ۔۔۔ میرے بچے۔۔۔"

مننان کو ایک بار پھر اس نے گلے سے لگایا۔۔ ممتا تھی کہ بار بار آنسوؤں میں بہہ رہی تھی نسواء کی آنکھوں سے۔۔ وہ کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی مگر وہ کمزور پڑ رہی تھی۔۔ اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ ایک رات باہر گزار دی وہ خوفزدہ ہوگئی تھی اس نئے شہر میں اکیلی اس سڑک پر کھڑی۔۔۔

"بھیا یہاں پاس کوئی اولڈ ایج ہوم یا کوئی یتیم خانہ ہے۔۔؟"

اس نے جاتے ہوئے رکشہ سے پوچھا تھا۔۔ 

"آئیے میں چھوڑ دیتا ہوں۔۔ کرایہ تین سو لوں گا۔۔"

"جی۔۔۔ جی چلئیے۔۔۔"

مننان کو رکشہ میں بٹھا کر وہ بھی بیٹھ گئی تھی۔۔ایک نئے سفر میں چل دئیے تھے وہ دونوں۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ گھنٹے پہلے۔۔۔"

۔

"آپ اندر نہیں آئیں گے نجیب۔۔؟"

"نہیں میں ایک ضروری کام پر جارہا ہوں ملازموں کو کچھ کام کہا ہے انہیں کہنا میرے آنے تک سب تیاریاں مکمل ہوں۔۔"

نجیب نے واپس گاڑی سٹارٹ کردی تھی

"تیاریاں کیسی نجیب۔۔؟ کوئی خاص ایونٹ۔۔؟"

عمارہ نے واپس ٹرن کرکے پوچھا تھا

"نسواء کو واپس آرہی ہے۔۔ اسکے میرے اختلافات اپنی جگہ مگر میں چاہتا ہوں اسکے جانے سے پہلے جو ہوا اسے اچھے سے ویلکم کیا جائے واپس گھر میں۔۔"

عمارہ کا چہرہ اتر گیا تھا۔۔ وہ بنا کچھ کہے جانے لگی تھی جب نجیب نے اسکی کلائی پکڑ کر واپس فرنٹ سیٹ پر کھینچا تھا

"میری کس دئیے بغیر جاؤ گی۔۔؟ ایسے ہی موڈ رکھو گی ہنی مون پر بھی۔۔؟؟"

"عمارہ کی گردن پر ہاتھ رکھے اس نے اسکے ہونٹوں پر بوسہ دیا تھا۔۔۔

"اپنا خیال رکھئے گا۔۔"

اب کے وہ مسکراتے ہوئے گاڑی سے نیچے اتری تھی۔۔

مسکراہٹ تو نجیب کے چہرے پر بھی عیاں تھی۔۔ وہ بہت خوش تھا تین گھنٹے بیت چکے تھے شام ہونے کو آئی تھی۔۔

"اب دنیا جہاں کی خاک چھان لینے کے بعد آپ دونوں کی عقل ٹھکانے آگئی ہوگی۔۔ویٹ فار مئ۔۔۔"

اس نے سپیڈ اور تیز کردی تھی۔۔

وہ جیسے ہی اسٹیشن پہنچا تھا اسکے پہرہ دیتے آدمی یہاں وہاں کچھ تلاش کررہے تھے ڈر بھی رہے تھے نجیب کو دیکھ کر سب کے اوسان خطا ویسے ہی ہوگئے تھے

"کیا ہوا ہے۔۔؟ کیوں گھبرائے ہوئے ہو۔۔؟ کہاں ہے وہ دونوں۔۔؟"

نجیب گلاسزلگائے ان کے پاس آیا تھا اور سیدھا اس پلر کے پاس کھڑا ہوگیا تھا اب  اس لکڑی کے بینچ پر وہ دونوں نہیں تھے۔۔

نجیب نے ایک نظر اس پلیٹ فارم کی طرف دیکھا جہاں سے ابھی ابھی وہ ٹرین گزر رہی تھی۔۔

اور کچھ سیکنڈ میں اس ٹرین کے جانے کے بعد وہ ہجوم بھی گھٹنے لگا تھا۔۔

وہ خاموشی سے وہاں بیٹھ گیا تھا۔۔۔ موبائل فرنٹ پاکٹ سے نکال  کر سائیڈ پر رکھ دیا تھا اس نے۔۔

گھٹنوں پر دونوں بازوں رکھے ہاتھوں میں سر پھینک چکا تھا وہ۔۔۔

۔

"سر موسم بہت خراب ہورہا ہے بارش شروع ہوجائے گی ابھی گھر چلیں۔۔"

نجیب نے ایک نظر اپنے ہائر کردہ گارڈ کو دیکھا تھا اور اس نے گھبرا کر اپنا ہاتھ نجیب کے کندھے سے ہٹا کر خود کو بہت سٹیپ پیچھے کرلیا تھا۔۔۔

۔

"سب کے سب دفعہ ہوجائیں یہاں سے۔۔ اور میرے حکم کے باوجود جو لاپروائی برتی گئی ہے اپنی سزا بھی تم سب مجھے تجویز کرو گے۔۔"

"پر۔۔ سر ہم یہیں تھے وہ ایک دم آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔۔ وہ لوگ چھپ گئے تھے۔۔ اتنا ڈھونڈنے پر بھی نہ مل سکے۔۔"

"آؤٹ۔۔۔"

وہ گارڈ وہاں سے چلے گئے تھے اسے اکیلا چھوڑ کر۔۔

"نسواء۔۔۔ آپ جانتی ہیں مجھے ایک چیز ایک جذبے سے انتہا کی نفرت ہے۔۔

آپ نے وہی کیا۔۔۔ 'بغاوت' کرڈالی آپ نے۔۔"

بارش کی بوندیں جوں جوں اسکے کپڑوں کو بھگو رہی تھی وہ سٹریٹ ہوکر پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھ چکا تھا۔۔ٹانگ پر ٹانگ رکھے وہ ریلوے ٹریک کی جگہ کو گھورنے لگا تھا جیسے اسے گماں ہو اپنی بیوی اور بیٹے کے کوٹ آنے کا۔۔

کچھ دیر مسلسل خالی جگہ پر دیکھنے کے بعد اسکے لبوں پر مسکراہٹ آئی تھی ایک نئی۔۔ مسکراہٹ ایک شیطانی مسکراہٹ جو اسکے خوبصورت چہرے کو اور بھی حسین بنا رہی تھی

"نسواء یہ اختتام نہیں ہے واپس تو آپ کو آنا ہی ہوگا۔۔میں ڈھونڈ نکالوں گا۔۔ اور سب سے پہلا کام میں اسے بوڈنگ سکول میں ڈال کر کروں گا جس نےہمیں ایک ہونے سے روکا۔۔۔"

"ہاہاہاہاہا میں ہار نہیں مانوں گا ایک عورت سے۔۔؟؟ اپنی بیوی سے۔۔؟ آپ میری محبت سہی پر آپ گستاخ ہیں۔۔ بغاوت کی ہے آپ نے۔۔ جس کی سزا آپ کو ضرور ملے گی۔۔یاد رکھیئے گا۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"یہاں پر اور لوگوں کو رکھنے کی گنجائش نہیں ہے آپ اس ایڈریس پر چلی جائیں۔۔"

"مگر اب تو بہت رات ہورہی ہے آپ ہمیں ایک رات کے لیے یہاں رہنے نہیں دے سکتی۔۔۔؟؟"

نسواء نے پھر سے التجا کی تھی

"ہم بہت معذرت خواہ ہیں آپ اس ایڈریس پر چلی جائیں یہاں ابھی بھی کچھ جگہ خالی ہے۔۔"

گیٹ بند کردیا تھا انہوں نے نسواء کے منہ پر

"ماما یہ دوسری بار ایسا ہوا ہے۔۔"

مننان کے لہجے میں غصہ تھا جو نسواء محسوس کررہی تھی ان چار سالوں میں پہلی بار مننان اس طرح اذیت کے دن گزار رہا تھا اسکے ساتھ۔۔

پیدل چلنا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا بھوک برداشت کرنا۔۔

"بیٹا ایم سوری۔۔ بس اس ایڈریس پر پھر ہم کسی ہوٹل میں۔۔۔"

وہ ابھی بات کررہی تھی جب پیچھے سے دو لوگوں کے چلانے کی آواز نے انہیں روک دیا

"لفٹ چاہیے میڈم۔۔؟؟'

"چلو بیٹا۔۔۔جلدی۔۔"

وہ مننان کا ہاتھ پکڑے تیز قدموں سے چلنا شروع ہوگئی تھی

"میڈم سنو تو سہی۔۔۔"

ایک آدمی نے نسواء کا ہاتھ جیسے ہی پکڑا تھا مننان نے غصے سے روڈ پر پڑے پتھر کو اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا تھا۔۔

"ہاتھ چھوڑو۔۔۔"

"پکڑو اس شیطان بچے کو۔۔"

اس نے دوسرے شخص کو بھی ایک پتھر اٹھا کر مارا تھا۔۔

وہ چھوٹا ضرور تھا مگر پچھلے چوبیس گھنٹوں نے اسکے دماغ کو کس قدر بڑا کردیا تھا یہ نسواء نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔۔

"بس کر دو مننان۔۔۔"

"نہیں ماما ان لوگوں کی ہمت کیسے ہوئی۔۔"

اس نے ایک اور پتھر مارا تھا اس پر جو سر پر چوٹ لگنے سے نیچے گرگیا تھا

"کیا ہورہا ہے یہاں۔۔"

پولیس کی گاڑی بھی وہاں آپہنچی تھی۔۔

"بس بیٹا چھوڑ دو ۔۔۔"

مگر مننان نے پولیس کے سامنے ایک پتھر اٹھا کر اسے اور زخمی کردیا تھا

"یہ سب کیا ہورہا ہے۔۔؟ اسے بھی گاڑی میں ڈالو۔۔۔آپ بھی چلئیے میڈم۔۔"

"یہ لوگ مس بی ہیو کررہے تھے ماما کے ساتھ۔۔ہم کیوں جائیں کہیں بھی۔۔"

"چلو ساتھ۔۔"

کانسٹیبل مننان کو زبردستی وین کی طرف لے جارہا تھا جب ایس ایچ او نے اسے روک دیا تھا مننان کی کہی ہوئی بات سن کر اس افیسر نے نسواء کی طرف دیکھا تھا اور پھر ان زخمی لوگوں کی طرف

"اس وقت کہاں جارہی تھی آپ۔۔؟"

نسواء کو مخاطب کرکے پوچھا تھا

جس پر اس نے وہ ایڈریس والی چٹ سامنے رکھ دی تھی

"ہمم۔۔آئیں ہم چھوڑ دیتے ہیں۔۔"

"میری ماما اس وین میں بیٹھ کر کہیں نہیں جائیں گی۔۔ ہم خود چلے جائیں گے۔۔"

"ٹھیک ہے آپ جاسکتے ہیں۔۔"

وہ سب حیران ہوئے تھے اس بچے کی باتیں سن کر جس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر نسواء نے اپنے پہلو میں چھپا لیا تھا

"آپ کو بہت شکریہ۔۔ ہم چلیں جائیں گے۔۔"

آفیسر نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ دونوں وہاں سے چل دئیے تھے۔۔ مگر پولیس وین انکے پیچھے پیچھے تھے۔۔۔جب تک وہ لوگ باحفاظت اس ایڈریس پر نہیں پہنچ گئے تھے"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نجیب بیٹا نسواء کہاں ہے۔۔؟"

ماہ جبین نے اکھڑے اکھڑے لہجے میں پوچھا تھا۔۔ گھر میں سب ہی موجود تھے مگر نجیب کو اکیلا دیکھ کر سب ہی کے چہرے پر الگ الگ تاثرات امڈ آئے تھے کچھ خوش تھے نجیب کی انسلٹ پر تو کچھ اداس نسواء کے نہ آنے پر۔۔

سب سے زیادہ دادی اداس ہوئی تھی

"وہ نہیں آئی نہ۔۔؟ میں نے تمہیں شادی کرنے سے پہلے ہی روکا تھا نجیب بیٹا۔۔ تم نے ایک نہ سنی۔۔ دیکھو کیا ہوگیا ہے ایک بیوی کے لیے تم نے اپنے اتنے سال کے رشتے کو داؤ پر لگا دیا۔۔۔ اب بھگتو۔۔۔"

دادی کہتے ہوئے پیچھے مڑی تھی اپنے روم میں واپس جانے کے لیے۔۔ 

"دادی کس نے کہا میں بھگتوں گا۔۔؟؟ نسواء نے غلطی کی ہے وہ بھگتے۔۔ اور شاید بھگت بھی رہی ہوگی۔۔ میں خوش ہوں۔۔ کم سے کم میرے پاس چاہنے والی بیوی ہے۔۔

اسکے پاس کون ہے۔۔؟؟"

دادی نے پلٹ کر نجیب کی جانب دیکھا تھا جو مسکرا رہا تھا اپنی بات پر

"نجیب بیٹا سمجھ نہیں آرہا میں تم پر ہنسوں یا ترس کھاؤں۔۔؟ اسکے پاس وہ ہے جو تمہارے پاس نہیں۔۔ اس نے اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگایا جسے تم نے ٹھکرا دیا تھا ۔۔ اسکے پاس تمہاری پہلی اولاد ہے۔۔ تمہاری پہلی بیوی چلی گئی اور پہلی اولاد بھی۔۔ تم چاہے جتنا مرضی خوش ہوجاؤ۔۔۔ آج سے ایک سال پہلے نجیب شاید اب نہیں رہے۔۔"

وہ کہہ کر واپس جانے لگی تھی جب وہ پھر پلٹی تھی اور کچھ  قدم کا فاصلہ ختم کرکے نجیب کے پاس کھڑی ہوگئی تھی اور اسکے چہرے پر ہاتھ رکھا تھا

"نجیب بیٹا۔۔ تمہارے لب مسکرا رہے ہیں مگر آنکھوں میں وہ چمک نہیں رہی ۔۔

تم خوش ہو۔۔؟؟ تو شکت کا درد کیوں جھلک رہا ہے چہرے پر۔۔؟؟

بیٹا مرد کی آنا برباد کرنے پر آئے تو گھر اجاڑ دیتی ہے۔۔ وقت رہتے سنبھل جاؤ۔۔ ورنہ وقت نہیں رہے گا نسواء کو منانے کا۔۔۔"

نجیب کا گال تھپتھپائے وہ اپنے کمرے میں واپس چلی گئی تھی وہاں سب کو دنگ چھوڑ کر۔۔

وہ لوگ جو نجیب کو دیکھ رہے تھے اب سب اسکے چہرے پر اداسی دیکھ کر خاموش ہوگئے تھے۔۔

اور اپنے اپنے کمرے میں جانا شروع ہوگئے تھے۔۔۔

۔

نجیب۔۔۔؟؟"

عمارہ کے منہ پر تو جیسے دنیا جہاں کی خوشی چھا گئی ہو۔۔۔ اس سب تماشے میں وہی سب سے زیادہ خوش ہورہی تھی۔۔

بنا محنت کئیے اسے اس گھر میں وہ سب مل گیا تھا جو نسواء کے ہوتے ہوئے شاید نہ ملتا۔۔

۔

"میں ابھی کمرے میں جانے کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔ لئیو مئ آلون۔۔۔"

نجیب عمارہ کے پاس سے گزر کر اوپر روم کی جانب بڑھا تھا۔۔

مگر اسکے اور عمارہ کے نہیں۔۔ اسکے اور نسواء کے روم میں داخل ہوتے ہی اس نے روم لاک کرلیا تھا اندر سے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ یہاں رہ سکتی ہیں بیٹا۔۔ بس یہ فارم فِل کرلیں۔۔"

مننان بیڈ پر لیٹتے ہی سو گیا تھا نسواء کے کندھے پر سر رکھ کر

نسواء نے اس فارم اور اور پین کو ایک نظر دیکھا تھا۔۔ وہ پلکیں جھکا گئی تھی اندر ایک جنگ چھڑ گئی تھی۔۔ آنسو برابر بہنا شروع ہوگئے تھے آنکھوں سے۔۔ مننان کے اٹھنے کے ڈر سے اس نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا اور اسکی سسکیاں ایسے اس کمرے میں گونجی تھی۔۔

سامنے بیٹھی کئیر ٹیکر اس اورفینیج کی جو اس ماں کی بےبسی دیکھ کر خود بھی آبدیدہ ہوگئی تھیں

یہ انکے لیے کوئی نئی بات نہ تھی یہاں آنے والے لوگوں کو وہ ایسے ہی ٹوٹتے دیکھتی تھی

"بیٹا۔۔۔"

"آپ۔۔ میرے لیے یہ پُر کردیں گی۔۔؟؟ نہ میرے پاس۔۔ باپ کا نام ہے نہ ماں کا۔۔۔

اب۔۔۔۔ شوہر کا نام بھی نہیں رہا۔۔۔"

وہ جتنی بیچارگی سے ان خواتین کا ہاتھ پکڑ کر اپنی بےبسی بتا رہی تھی انہوں نے ہاں میں سر ہلایا تھا نسواء کے سر پر ہاتھ رکھ  وہ اس کمرے سے چلی گئی تھی۔۔

۔

"نجیب آپ کو کیا ملا۔۔؟ ساتھ ساری زندگی کا تھا آپ نے اس ایک سال کو دیکھا۔۔ اور ان باقی سالوں کا۔۔؟ نجیب کیا کمی رہ گئی تھی۔۔؟ میں نے محبت میں تو کبھی کوئی کمی نہیں کی تھی۔۔۔ جسموں کی ہوس اتنی گہری  ہوتی ہے کہ شادی شدہ زندگی کھا جائے۔۔؟"

۔

نسواء کو شاید معلوم نہ تھا اسکی آغوش میں سورہے مننان نے بند آنکھیں کھولی تو ماں کی طرف دیکھا تھا جو ابھی بھی منہ پر ہاتھ رکھے رو رہی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مننان بیٹا۔۔ آپ بیٹھ جاؤ۔۔۔"

"نہیں ماما آپ کھانا بنائیں میں یہ برتن دھو دیتا ہوں۔۔"

ہاتھ سے برتن لئیے وہ سنک پر رکھ چکا تھا اور ایک سٹول پر کھڑا ہوکر کاؤنٹر پر بیٹھ کر اس نے وہ برتن دھونا شروع کردئیے تھے۔۔

وہ اداس ہوئی تھی مگر اپنے بیٹے کو محنت کرتے دیکھ اسکی آنکھوں میں خوشی بھی چھلکی تھی

"نسواء بیٹا۔۔ اس ٹیبل پر یہ مینو بھیجنا ہے اور اس ٹیبل پر یہ آرڈر۔۔۔"

"جی سر۔۔۔"

"بیٹا کتنی بار کہا ہے سر نہ بولو۔۔"

"ہاہاہا۔۔ ابھی ہم ریسٹورنٹ پر ہیں اور آپ اپنے شیف کے منہ سے انکل سننا چاہتے ہیں۔۔؟؟"

"ہاہاہا۔۔۔ ماما ٹھیک کہہ رہی ہیں سر۔۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔ تم دونوں سے کوئی جیت نہیں سکتا آرگومنٹ میں۔۔"

وہ کچن سے چلے گئے تھے تو نسواءاور مننان نے ہائی فائی کیا تھا دونوں ہاتھوں سے۔۔۔

پچھلے کچھ ماہ سے۔۔۔

۔

"بیٹا آپ یہیں رہو میں یہ آرڈر سرو کرکے آئی۔۔۔"

نسواء آپرون اتار کر باہر جانے لگی تھی۔۔۔ جب اس نے سامنے ٹیبل پر بیٹھے اس شخص کو دیکھا تھا۔۔۔

جس کے ساتھ وہی عورت بیٹھی تھی جس کی خواہش میں اسکی اور اسکے بیٹے کی زندگی گھر کی چار دیواری سے نکل کر یہاں آکر رکی تھی۔۔۔

"ویٹر۔۔۔"

وہ پلٹی تھی مگر نجیب کی آواز نے اسکے قدم روک دئیے تھے

"پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔"

وہ اپنے پیٹ پر رکھے خود کو روک رہی تھی اسی وقت مینیجر وہاں آگئے تھے

"کیا ہوا نسواء بیٹا۔۔؟؟"

"وہ پھر۔۔۔ واپس لوٹ آیا۔۔"

وہ ابھی بات کررہی تھی جب اس نے شیشے میں نجیب کو عمارہ کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے دیکھا۔۔ اور وہ جلدی سے دوسری جانب بڑھ گئی تھی

"نسواء۔۔۔ بیٹا کیا ہوا ہے۔۔"

نسواء کچھ کہنے کی کوشش میں تھی۔۔ جب کچھ ایسا ہوا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔

ایک دم سے اسکے سر میں ایک نئی درد شروع ہوگئی تھی۔۔

"کون واپس لوٹ آیا ہے نسواء۔۔۔؟؟"

نسواء کو الٹی آگئی تھی۔۔۔منہ سے نکلتے ہوئے خون کو ہاتھ پر دیکھ کر ایک سرد آہ نکلی تھی اسکے لبوں سے۔۔

"میرا۔۔۔ میرا کینسر۔۔۔"

اس نے سرگوشی کی تھی۔۔ وہ نجیب کی طرف بنا دیکھے واپس کچن کی طرف بڑھنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔ اس سب میں اس نے ایک بار بھی اپنے پیٹ سے ہاتھ نہیں ہٹایا تھا۔۔۔

۔

"ماما۔۔۔ آپ ٹھیک ہیں۔۔؟ بے بی ٹھیک ہے۔۔؟؟ آپ کے منہ سے خون کیوں نکل رہا ہے۔۔؟؟"

"کچھ نہیں بیٹا۔۔۔ مجھ سے۔ وعدہ کرو مجھے کچھ ہوگیا تو تم اپنے بہن/بھائی کا پورا خیال رکھو گے۔۔؟؟"

"ماما کیا ہوا ہے آپ کو۔۔"

"کچھ نہیں مننان بیٹا آپ باہر سے مس فردوس کو بلا لائیں۔۔۔ میں یہیں ہوں۔۔"

وہ مینیجر پاس بیٹھ گئے تھے۔۔

"بیٹا تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔ اس چھوٹے بچے کو اس عمر میں اتنے بوجھ تلے مت دباؤ۔۔"

"وہ اپنی ذمہ داریوں کو ابھی سے سمجھے گا تو سمجھائے گا۔۔۔ انکل۔۔ وہ میرا بہادر بیٹا ہے۔۔"

"ماما آپ کا بہادر بیٹا آپ کو کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔۔"

"بیوقوف عورت کس سے پوچھ کر تم نے میرے بچے کو نقصان پہنچایا۔۔؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی۔۔ مار دیا میرے بچے کو جاہل عورت۔۔۔"

عمارہ کو بازو سے پکڑ کر وہ کھینچتے ہوئے گھر لایا تھا اور بیڈروم میں لے گیا تھا غصے سے سب کے سامنے اسکے منہ سے ادا ہوئے الفاظ سب نے ہی سن لئیے تھے

"دادی۔۔" دادی جیسے ہی پیچھے صوفے پر گری تھی سب دادی کی طرف بھاگے تھے

"اس گھر کی بربادی شروع ہوچکی ہے نسواء کے جانے کے بعد سب کچھ ہی غلط ہورہا ہے۔۔"

"امی پلیز آپ رونا بند کریں۔۔ آپ کی طبیعت خراب ہوجائے گی پلیز۔۔"

دونوں بیٹے دادی کو اٹھا کر انکے کمرے میں لے گئے تھے

"یہ سب کیا ہورہا ہے ماہ جبین بھابھی۔۔؟ ابھی پرسو ہی تو یہ خوش خبری ملی تھی اور آج یہ 

سب۔۔۔؟"

"نوشین میں خود بھی نہیں  جانتی۔۔ میں دیکھتی ہوں۔۔"

وہ اوپر جاتے جاتے رکیں تھی جب تھپڑ کی گونج اور پھر عمارہ کی چیخ انہیں سنائی دی تھی

انہیں نے واپس مڑ کر باقی خواتین کو دیکھا تھا پہلی بار۔۔ نجیب نے ہاتھ اٹھایا تھا کسی پر اور وہ اسکی اپنی بیوی تھی جسے وہ اتنے چاو سے بیاہ کرلایا تھا

۔

"نجیب۔۔۔مجھے لگا تھا کہ آپ کو بچے پسند نہیں آپ نے خود بتایا تھا مجھے آپ کے بیٹے کے آنے کے بعد آپ کی وائف کیسے آپ سے دور ہوتی چلی گئی۔۔ میں آپ سے دور نہیں ہونا چاہتی تھی نجیب۔۔"

وہ روتے ہوئے نجیب کے قدموں پر گر گئی تھی نجیب نے مٹھی بند کرلی تھی غصے میں

"بس بکواس نہیں کرو۔۔ اپنی غلطی ماننے کے بجائے سارا الزام مجھ پر لگا رہی ہو۔۔؟

کچھ شرم کرو۔۔ آج سے تمہارا باہر جانا بند شاپنگ بند تمہارا خرچہ بند۔۔۔ جب تک تم پھر سے پریگننٹ نہیں ہوجاتی تمہیں کوئی آسائش نہیں ملے گی سنا تم نے۔۔۔"

اپنی ٹانگ سے وہ اسکا وجود پیچھے دھکیل چکا تھا۔۔

وہ باہر جانے کے لیے مڑا تھا اور دیوار پر غصے پر ہاتھ مارا تھا اس نے اور نفرت بھری نگاہ سے اپنی بیوی کو دیکھا تھا جو فرش پر سر رکھے زارو قطار رو رہی تھی

"وہ وہاں۔۔ اپنی اولد کے ساتھ ہے۔۔۔ اور تمہاری وجہ سے میں نامکمل ہوں۔۔ لوگوں کو تماشا دیکھنے میں مزہ آئے گا۔۔

مجھے نامرد سمجھے گے۔۔ سوچیں گے کہ میں پہلی بیوی کے سوگ میں آگے نہ بڑھ سکا۔۔؟

میں سب کو غلط ثابت کروں گا۔۔ میں آگے بڑھوں گا۔۔ میری اولاد ہوگی۔۔ اور جب نسواء مجھے اس اولاد کو محبت کرتے دیکھے گی تو وہ اپنے ہر فیصلے پر پچھتائے گی۔۔ اپنی ہر بغاوت پر وہ خون کے آنسو روئے گی۔۔۔ دیکھ لینا۔۔۔"

۔

اور دروازہ زور سے بند کرکے وہ گھر سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔

۔

"ڈیم یو نسواء۔۔۔ "

گاڑی کے ٹائر پر کک ماری تھی اس نے۔۔۔ وہ اپنی زندگی میں ہونے والی ہر ناکامی کا قصوروار اب نسواء کو ٹھہرانے لگا تھا

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء بیٹا اس آخری ٹیسٹ کے بعد ہم گھر چلے جائیں گی۔۔"

اوفینیج کی کیر ٹیکر اور اس ریسٹورنٹ کے مینیجر زبردستی نسواء کو  ہسپتال لے آئے تھے۔۔ ان تینوں کے پیچھے پیچھے مننان خاموشی سے چل رہا تھا وہ کبھی اپنی ماں کے قدموں کو دیکھ رہا تھا تو کبھی اس ہسپتال ماحول کو۔۔

"مننان بیٹا آپ یہی رہو ہم لوگ یہ ایک ٹیسٹ کرو کے آتے ہیں واپس۔۔"

"ماما جہاں بھی جائیں گی میں ساتھ جاؤں گا سر۔۔"

دو سٹیپ وہ آگے آکر نسواء کا ہاتھ تھام چکا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"جانم دیکھ لو۔۔ مٹ گئی دوریاں۔۔۔

میں یہاں ہوں۔۔ یہاں ہوں۔۔۔یہاں۔۔۔"

۔

"نجیب۔۔۔۔ اففو۔۔۔ ابھی میک اپ کیا تھا سب خراب کردیا۔۔۔پیچھے ہٹئیے۔۔۔"

وہ ساڑھی کے پلو کو واپس کندھے پر رکھے خود کو شیشے میں دیکھتے ہوئی بولی تھی

"نہیں ہٹوں گا۔۔ اور میں نے میک اپ کب خراب کیا نسواء بیگم۔۔؟ بس لپ اسٹک ہی خراب ہوئی ہے۔۔ اور اتنا ڈارک ریڈ کلر کون لگاتا ہے۔۔؟؟"

ساڑھی کی سلوٹیں ٹھیک کرتے ان ہاتھوں کو نسواء کی بیک پر مڑور کر اپنی طرف کھینچا تھا اسے

"جس نے ریڈ کلر پہنا ہو ظاہر ہے وہ ویسا ہی کلر لگائے گا۔۔ اب چھوڑئیے نہ۔۔۔"

وہ بےتاب ہورہی تھی مچلتے ہوئے خود کو نجیب کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش میں تھی جو اینجوائے کررہا تھا ہر اس لمحے کو۔۔

"چھوڑنے کے لیے نہیں لیا آغوش میں۔۔۔ اس کلر میں آپ مجھے اتنا ٹیمپٹ کرچکی ہیں کہ اب میرا ارادہ نہیں ہے یہاں سے کسی بھی گیٹ ٹو گیدر میں جانے کا۔۔۔"

"نجیب۔۔۔ آپ نے زبان دی تھی۔۔۔"

نسواء کے بگڑتے چہرے کو دیکھتے ہوئے وہ بےساختہ ہنس دیا

"ایسا کیا ہے وہاں جو میری بانہوں سے جانے کی اتنی جلدی ہے۔۔؟ میں چاہتا تھا کہ ہم وقت ساتھ گزاریں۔۔مگر آپ۔۔۔"

۔

"وہ نسواء کو اپنی بانہوں کی قید سے آزاد کر کے ٹرن ہوچکا تھا۔۔۔وی جیسے ہی آگے بڑھا نسواء بیک سے اسے ہگ کرچکی تھی 

"ایم سوری نجیب۔۔۔ کبھی کبھی بہت ہرٹ جاتی ہوں آپ کو۔۔۔؟؟"

کندھے پر ہونٹ رکھے اس نے نجیب کے سینے پر ہاتھ رکھے تھے

"کبھی کبھی۔۔؟؟ ہر وقت میری جان۔۔۔ "

ان ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے وہ خاموش ہوگیا تھا۔۔۔ کتنی دیر وہ ایسے ہی ایک دوسرے کی نزدیکی میں خود کو بھول بیٹھے تھے جب نسواء نے نجیب کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے وہ جذبات پھر سے جگا دئیے تھے نجیب کی آنکھوں میں

"اب باہر نہیں جانا۔۔۔؟؟"

"نہیں اب باہر کی دنیا میں نہیں کھونا اب آپ کی آغوش میں گم ہونا ہے۔۔۔"

۔

۔

"سر۔۔۔سر۔۔۔"

کیبن ڈور ناک ہوا تو نجیب کی سیکٹری نے آہستہ سے دروازہ کھولا تھا۔۔

و ہ جیسے ہی مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوا ایک پل کو نجیب شاکڈ ہوا تھا اپنی پرسنل سیکٹری کی شارٹ ڈریسنگ دیکھ کر۔۔

"سر کافی۔۔۔"

وہ کافی مگ ٹیبل پر رکھے ہوئے اس قدر جھکی تھی کی لونگ شرٹ کے اوپن بٹن ایک الگ انویٹیشن دے رہے تھے۔۔

نجیب نے غصے سے ہاتھ بند کرکے کرسی کو باہر ونڈو کی طرف کرلیا تھا

"سر۔۔۔؟"

"یہاں رکھ کر دفعہ ہوجائیں۔۔ اور جب تک میں نہ بلاؤں مجھے ڈسٹرب نہ کرنا۔۔۔اور ایک بات۔۔۔"

وہ سیکٹری جاتے جاتے رکی تھی

"آئندہ کے بعد اتنے چھوٹے کپڑوں میں آفس میں قدم رکھا تو اسی وقت نکال دوں گا۔۔

یہ کوئی کلب نہیں ہے۔۔ ناؤ گیٹ آؤٹ۔۔۔"

۔

"شرمندگی سے اسکی آنکھیں بھر آئی تھی اور وہ جلدی سے نجیب کے کیبن سے باہر چلی گئی تھی

"ہاہاہاہ بہت اڑھ رہی تھی ہوا میں شیلا جی۔۔"

باہر کھڑی کولیگ نے قہقہ لگایا تھا 

"ویسے اسے کیا پتہ تھا اسکے ساتھ اتنی بُری ہوجائے گی۔۔۔ ڈونٹ مائنڈ ہاں ہاہاہاہ۔۔۔"

"ہاہاہاہا وہ سب ہنس دئیے تھے۔۔۔"

"تم نے خود کو عمارہ سمجھ لیا ہے کیا۔۔؟؟ عمارہ بھی کچھ زیادہ دیر ٹک نہیں پائے گی نجیب سر نے اپنی پہلی بیوی کو جلانے کے لیے یہ شادی کی ہے۔۔"

"کیا واقع۔۔؟؟"

"تو اور کیا۔۔ میرے بھائی کے دوست ہیں نجیب سر۔۔۔ یہ دوسری شادی کا ڈرامہ پہلی بیوی کو سبق سیکھانے کے لیے کیا گیا۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تو اتنی خوب صورت ہے فدا دیدار پہ تیرے۔۔۔

مکمل عشق ہو میرا زرا سا پیار تو دہ دے۔۔۔"

۔

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں  سر۔۔؟؟"

"میں آپ کی مدر کی طبیعت کا پوچھنے آیا تھا۔۔ آپ آفس نہیں آرہی۔۔"

معاذ نے اندر آنے کی اجازت لئیے بغیر اندر قدم رکھ دیا تھا۔۔۔

"سر آپ نے آنے کی زحمت کیوں کی میں کل آنے والی تھی۔۔۔"

"سمیرا بیٹا کون آیا ہے۔۔؟؟"

اندر کمرے سے جیسے ہی آواز آئی تھی معاذ اسی کمرے کی جانب بڑھا تھا

"سر۔۔۔ سر آپ یہیں بیٹھے میں امی کو باہر لے آتی ہوں۔۔"

"نووو۔۔۔اٹس اوکے مس سمیرا۔۔۔"

پھولوں کا گلدستہ پکڑے معاذ اندر کمرے میں داخل ہوا تھا دروازہ ناک کرنے کے بعد۔۔۔

"السلام وعلیکم۔۔۔"

"وعلیکم سلام۔۔ بیٹا آپ۔۔۔"

"امی یہ میرے باس ہیں۔۔ آپ کا پتہ چلا تو حال پوچھنے آئے ہیں۔۔"

"آنٹی۔۔ میں دراصل آپ کی طبیعت کا پتہ کرنے آیا تھا اور مس سمیرا کا ہاتھ شادی کے لیے مانگنا چاہتا ہوں۔۔"

وہ انکے پاؤں کی جانب بیڈ پر بیٹھ گیا تھا اسکی بات نے دونوں ماں بیٹی کو حیران کردیا تھا

"بیٹا جی۔۔۔؟؟"

"سر آپ یہ کیا بات کررہے ہیں۔۔؟ آپ شادی شدہ ہیں۔۔"

"تو۔۔۔؟؟ مس سمیرا میں آپ میں اور اپنی پہلی بیوی میں مساوی معاملات رکھوں گا۔۔ میں صاحب اسطاعت ہوں۔۔ "

"ابھی کے ابھی نکل جائیے یہاں سے آپ۔۔۔"

"سمیرا بیٹا۔۔۔"

"نہیں امی۔۔ انکی جرآت کیسے ہوئی اتنی بڑی بات کرنے کی۔۔؟؟ جائیے آپ یہاں سے۔۔"

سمیرا آپے سے باہر ہورہی تھی معاذ نے زیادہ ری ایکٹ نہ کیا تھا وہ ایسے ہی رویہ اور بدتمیزی کی توقع رکھتا تھا اپنی خواہش پر۔۔۔

"آنٹی جی۔۔ کچھ دن پہلے سمیرا جب آفس سے آرہی تھی جو راستے میں ان غنڈوں نے کرنے کی کوشش کی میں اس رات کے بعد سے یہ فیصلہ لینے پر مجبور ہوا ہوں میں سمیرا کو اپنے نکاح میں لیکر اسکی سب ذمہ داریاں اپنے سر پر لینا چاہتا ہوں۔۔ اسکا محافظ بننا چاہتا ہوں۔۔ آپ بڑی ہیں آپ سوچ کر جواب دیجئے گا۔۔۔"

وہ انکے ہاتھ پر بوسہ لیکر اٹھ گیا تھا۔۔۔

"مس سمیرا کے پاس میرا نمبر ہے آپ مجھے اپنا جواب فون پر بتا دیجئے گا میں اپنی فیملی اور مولوی صاحب کو یہاں لے آؤں گا۔۔۔"

وہ اس روم سے جیسے ہی باہر آیا تھا سمیرا غصے سے پیچھے پیچھے آئی تھی اسکا پاؤں کارپٹ پر جیسے ہی اٹکا تھا وہ سیدھی معاذ کی بازؤں میں جا گری تھی

"مجھے نہیں پتہ تھا آپ کو اتنی جلدی ہے میری بانہوں میں آنے کی مس سمیرا۔۔؟؟

نکاح تک کا انتظار تو کیجئے۔۔۔"

معاذ نے اسے سنبھالتے ہوئے سرگوشی کی تھی

"سر۔۔۔"

"بہت جلدی آپ میرا نام لیں گی ان خوبصورت لبوں سے۔۔۔"

بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے وہ خود بھی پیچھے ہوگیا تھا۔۔

"آپ غلط کررہے ہیں آپ کی بیوی آپ سے بہت محبت کرتی ہے ۔۔۔"

"اور مجھے آپ کی سادگی سے محبت ہوگئی ہے۔۔ میں کہہ رہا ہوں نہ میں ناانصافی نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ یقین رکھئے مجھ پر۔۔۔"

۔

سمیرا سر جھکائے کھڑی تھی جب معاذ وہاں سے چلا گیا تھا وہ آخری بات کرکے۔۔۔

۔

"یا اللہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔؟؟ میں کیسے کسی سوتن بن سکتی ہوں۔۔؟ میں کبھی اس شادی کے لیے ہاں نہیں کروں گی۔۔۔

وہ خود کو مظبوط کرچکی تھی انکار کے لیے۔۔۔ مگر سمیرا کی والدہ نے جیسے تیسے اپنی قسم دے کر اپنی بیٹی کو راضی کرلیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"یہ جو جگہ جگہ درد کی کہانیاں سناتا ہے۔۔۔

فریبی ہے۔۔ سب جھوٹ بتاتا ہے۔۔۔"

۔

"یہ آپ کو کس نے کہہ دیا۔۔؟؟ میری دونوں وائف بہت خوش ہیں۔۔ 

یو سی۔۔ دوسری بیوی میری فیملی کی پسند تھی۔۔ میری پہلی وائف سے میری بے انتہا محبت کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔۔۔"

۔

لایر۔۔۔"

اس نے سرگوشی کی تھی اور ٹی وی کو بند کردیا تھا۔۔ گھٹنوں پر سر چھپایا اس رات کی تاریکی میں وہ ایسے ہی بلکتی تھی روتی تھی سسکتی تھی۔۔۔

۔

"کتنوں کو سینے سے لگایا۔۔۔ میری طرح ساتھ سُلایا۔۔

آنکھوں میں تیری پانی نہیں ہے۔۔ سب کو تو نے کتنا رولایا۔۔۔"

۔

"جھوٹے ہیں نجیب۔۔ آپ کے سب وعدے وہ سب قسمیں یہ کیسی بے انتہا محبت ہے نجیب۔۔؟ جو شریک کرلیتی ہے دوسروں کو بھی۔۔؟ وہ  محبت نہیں جسموں کی ہوس ہوتی ہے۔۔"

۔

"تو نے بڑا ستایا ہے مجھے۔۔۔ جا تو بھی ستایا جائے گا۔۔۔

ہائے بڑا رولایا ہے مجھے۔۔۔ ا تو بھی رولایا جائے گا۔۔۔"

۔

"میں ہی سمجھ نہ سکی تھی۔۔ سمجھ تب آئی جب آپ نے اپنے بیٹے کو دھتکار دیا۔۔

اس چھوٹے بچے کو نجیب۔۔۔"

وہ چہرے کو ہاتھوں میں لئیے بےتحاشہ رو دی تھی۔۔۔اور پیچھے کھڑا مننان  جس کا چہرہ بھی تر تھا اسکے آنسوؤں سے۔۔۔

۔

"جب تک ۔۔جی رہی ہوں یہ دُعا کرتی ہوں۔۔۔

تُو ہر روز مرے۔۔۔ میں جس طرح مرتی ہوں۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر اس دن اور رات کی "سی سی ٹی وی" فوٹیج اس ریلوے سٹیشن کی مل گئی ہے۔۔

جو باقی کی رہتی تھی۔۔۔میڈم کو ٹرین میں بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔ کیونکہ یہ ایک ہی خاتون ہے جو خود کو بار بار چادر میں چھپا رہی ہیں اور اپنے بچے کو بھی۔۔"

بڑی سی سکرین پر وہ پوائنٹ آؤٹ کررہے تھے کانفرنس روم میں بس وہ دو لوگ ہی موجود تھے نجیب جو گرینڈ چئیر پر بیٹھا خاموشی سے اپنے پی اے کی بریفنگ سن رہا تھا اور اسکی نظریں سکرین پر مرکوز تھی یہاں ہر کلیپ بہت سلو چل رہی تھی اسکا وجود سخت مگر آنکھوں میں بےچینی ابھری تھی

"ڈیم اِٹ یہ ایک کلپ پچھلے ماہ سے دیکھ رہا ہوں مجھے رزلٹ دو۔۔ جب یہ دونوں بیٹھے ہیں تو ایک ہی شہر میں اترے گے۔۔۔"

"سوری سر۔۔۔اس ٹرین نے بہت سے سٹاپ پر سٹے کیا تھا۔۔ بہت سے مسافر اترے۔۔ اور اسکے لاسٹ سٹاپ پر بھی ہمیں میڈم اترتی ہوئی نظر نہیں آئی۔۔۔اس کا ایک ہی مطلب ہوا۔۔۔"

اس نے چپ ہوکر نجیب کی طرف دیکھا تھا جو خود ڈوٹ سے ڈوٹ ملا کر اپنی کرسی سے کھڑا ہوگیا تھا

"اس کا مطلب ہوا کہ چادر بدل کر وہ انہیں میں سے کسی سٹاپ پر رکی اور اوجھل ہوگئی نظروں سے۔۔ مطلب ہوا کہ وہ چان چکی تھی کہ میں اسکا پیچھا کروں گا۔۔ اسکی ہار اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا تو انہوں نے یہ سب کیا۔۔"

وہ خود سے سرگوشی کرنے لگا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"فضا۔۔۔ تم نے خود کشی کرنے کی کوشش کی۔۔ بچے ایسا بھی کیا ہوگیا تھا۔۔؟؟ وہاں کسی نے کچھ کہا۔۔؟؟ معاذ نے کچھ کہا ہے۔۔؟؟'

نجیب ہاسپٹل روم میں آتے ساتھ ہی بہن کے پاس آیا تھا جو بھائی کے گلے لگ کر بے تحاشہ رونے لگی تھی

"بتاؤ کیا بات ہے فضا۔۔ معاذ نے کچھ کہا میں اسے زندہ گاڑھ دوں گا۔۔"

"آپ کچھ نہیں کرسکتے بھائی۔۔۔ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔ سب ختم ہوگیا۔۔ سب ۔۔"

"ہوا کیا ہے بیٹا۔۔؟ بتاؤ تو سہی۔۔۔"

سب فیملی کے لوگ بھی اندر آگئے تھے ڈاکٹرز ایکسکئیوز کرکے جیسے ہی گئے تھے فضا کا ہسبنڈ بھی اپنی فیملی کے ساتھ آگیا تھا

"یو۔۔۔ ہمت کیسے ہوئی میری بہن کو نقصان پہنچانے کی۔۔ کیا کیا ہے تم نے اسکے ساتھ۔۔"

نجیب نے کالر سے پکڑ کر دیوار پر دے مارا تھا اسکا وجود۔۔۔

"بس کیجئے نجیب بھائی۔۔۔ کچھ غلط نہیں کیا میں نے۔۔۔ نکاح کیا ہے دوسری شادی کی ہے۔۔۔ جو میرا شرعی حق تھا۔۔۔ آپ تو سمجھیں مجھے۔۔ میں صاحب حیثیت ہوں۔۔ دونوں بیگمات کو خوش رکھنے کا اہل ہوں۔۔۔ آپ کی بہن نے تماشا بنا دیا ہے۔۔

اب خود کشی کرنے کا کیا تُک بنتا تھا۔۔؟ میں نے کونسا کوئی گناہ کردیا۔۔؟"

وہ جتنی باتیں بول رہا تھا نجیب اتنے ہی قدم اس سے پیچھے ہوا تھا بہن کی سسکیاں اسکے کانوں میں اسی رات کی طرح گونج رہی تھی جب اسکی بیوی ایسے ہی رو رہی تھی اور وہ دوسری بیوی کے ساتھ اپنی دل جوئی کررہا تھا دوسرے کمرے میں۔۔۔

۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی دوسری شادی کرنے کی میری بیٹی کو دھوکا دینے کی۔۔"

ماہ جبین صاحبہ نے معاذ کے منہ پر تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تھا جب معاذ کی والدہ نے ہاتھ پکڑ لیا تھا

"آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔۔۔ کچھ ماہ پہلے اپنے بیٹے کی دوسری شادی آپ اتنے فخر سے بتا رہی تھی اس دن سب کے سامنے اور آج میرے بیٹے کو یہ لیکچر دہ رہے ہیں۔۔۔

فضا۔۔۔ تم نے اپنے شوہر اور سسرال کا بہت تماشا بنا دیا۔۔ اب اگر گھر آنا ہوا تو آجانا ورنہ میرا بیٹا تو تمہیں بار بار منانے نہیں آئے گا۔۔۔"

۔

وہ لوگ معاذ کو وہاں سے لیکر چلے گئے تھے۔۔ وہاں بس گھر کے افراد رہ گئے تھے ایک طرف دادی خاموش بیٹھی تھی تو دوسری طرف آفندی صاحب۔۔ ان سب میں نجیب ونڈو کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کچھ وقت کے لیے سب چپ ہوجائے ہر سو خاموشی ہوجائے اسکی بہن کی روتی ہوئی آواز اسے تکلیف پہنچا رہی تھی۔۔

اسکے گھر والوں کے دلاسے اسے اذیت دے رہے تھے

"فضا تم اس سے طلاق لے لو گی ہم تمہیں ایسے گھٹ گھٹ کر مرتے نہیں دیکھ سکتے۔۔"

"فضا تم اسے چھوڑ دو ۔۔"

"فضا بیٹا تمہیں ایسے بےوفا دھوکے باز شوہر کے ساتھ رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"

"کس طرح کا مرد تھا۔۔؟؟ وہ تو تم پر جان دیتا تھا فضا اب اچانک سے شادی کرلی۔۔؟؟"

سب فضا کو باتیں سنا رہے تھے۔۔ مگر وہ باتیں نجیب کو خود سے مخاطب  لگ رہی تھی۔۔۔ 

یہ وہی خواتین تھی نہ جو دوسرے کی بیٹی پر سوتن آنے پر اسکی کمر تھپتھپا رہی تھی اور آج یہ دوسرے مرد کو بُرا بھلا کہنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔

۔

"بس کرجائیں۔۔۔فضا تم واپس معاذ کے پاس جاؤ گی۔۔۔ دوسری شادی کوئی گناہ نہیں ہے۔۔۔"

نجیب کہتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھنے لگا تھا جب فضا نے اپنی ایک بات کہہ کر اسے لاجواب کردیا تھا

"بھائی جب نسواء بھابھی آپ سے اتنی محبت کرنے والی۔۔ آپ کی دوسری شادی برداشت نہیں کرسکی تو میں کیسے کروں گی۔۔؟؟ 

نسواء بھابھی غریب تھی یتیم تھی اس لیے کوئی آپ سے جواب مانگنے نہیں آیا۔۔۔

مگر میں بن ماں باپ کے نہیں ہوں۔۔ میں نہیں جاؤں گی اس دھوکے باز شخص کے پاس۔۔۔

آپ یاد رکھئے گا۔۔۔اب جائیں یہاں سے ڈیڈ مجھے ان سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔"

نجیب کی اس قدر تذلیل شاید پہلی بار گھر کے کسی فرد نے کی تھی وہ بھی اسکی بہن۔۔۔

وہ غصے سے چلا گیا تھا وہاں سے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ ماہ بعد۔۔۔۔"

۔

"بیٹا بہت بہت مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔۔۔"

نجمہ بی نے اس بچی کو نسواء کی گود میں ڈال دیا تھا۔۔

"نجمہ بی مننان کہاں ہے۔۔؟؟ وہ صبح سے نظر نہیں آیا۔۔وہ ٹھیک تو ہے نہ۔۔؟؟"

اپنی بیٹی کو اپنے سینے سے لگانے کے بعد اسکی ممتا اپنے بیٹے کے لیے بےچین ہوئی تھی

"وہ بھی یہیں ہے جاوید بھائی کے ساتھ کچھ دوائیاں لینے گیا ہے۔۔۔"

"آپ کو بہت تکلیف ہورہی ہے میری وجہ سے۔۔ اتنے پیسے لگ گئے ہیں آپ لوگوں کے اور پھر یہ ہسپتال کا خرچہ۔۔۔"

آغوش میں ماں سے لپٹی ہوئی بچی نے جب رونا شروع کیا تو وہ اور آبدیدہ ہوگئی تھی۔۔۔ اسکا دل ایک ہی نام پکار رہا تھا اپنی بیٹی کے نسوانی چہرے کو دیکھ کر

"نجیب۔۔۔"

"بیٹا۔۔ میں نہیں جانتی کہ کیا ہوا تھا تمہیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے تم بہت صابر و شاکر ہو۔۔ مگر اب امتحان تمہاری ممتا کا ہے تمہیں اب اپنے  بچوں کے لیے ایک مثال بننا ہے۔۔۔اپنے بچوں کے سر پر رہنا انکی تربیت اتنی اچھی کرنی ہے کہ دنیا دیکھے۔۔"

"آپ جانتی ہیں نہ میری حالت۔۔؟؟ میں بہت جلدی جانے والی ہوں۔۔ اس بیماری نے مجھے خالی کردیا ہے۔۔"

وہ تلخ باتیں کررہی تھی مگر اپنی بیٹی کے چہرے کو چومتے ہوئے وہ مسلسل مسکرا رہی تھی

۔

دوسری جانب مننان نے وہ آخری پلیٹ بھی دھو کر صاف کرکے ریک پر رکھ دی تھی۔۔

گیلا کپڑا لئیے وہ فرش کو صاف کرنے لگا تھا۔۔کچھ دیر میں وہ کچن سے لیکر باہر مین ہال تک سب صاف کرچکا تھا۔۔۔

اس بچے کو دیکھ کر سٹاف آفس میں کھڑے ہوئے دو لوگ بہت حیران ہوئے تھے

"اس بچے کو کون کام کروا رہا ہے یہاں۔؟؟"

ریسٹورنٹ کے اونر نے پیچھے کھڑے اسسٹنٹ سے پوچھا تھا

"سر جاوید صاحب کا کچھ لگتا ہے شاید وہ آج چھٹی لیکر چلے گئے تھے۔۔"

"تو بچے سے کام کرواؤ گے۔۔؟؟ اتنے چھوٹے بچے سے۔۔؟؟ بلاؤ اسے۔۔"

وہ اپنے روم میں چلے گئے تھے اور کچھ دیر میں مننان انکے اسسٹنٹ کے ساتھ روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔

"گڈ مارننگ سر۔۔۔"

وہ اندر داخل ہوتے ہی نہایت ادب سے بولا تھا۔۔۔

"تم جانتے ہو یہ عمر تمہاری پڑھنے کی ہے۔۔؟؟ نہ کہ کام کرنے کی۔۔۔"

"جب کام کرنے کے بعد جیب میں چار پیسے ہوں گے تو میں پڑھائی بھی مکمل کرلوں گا سر۔۔"

۔

وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جواب دے رہا تھا۔۔

"تمہارے ماں باپ کہاں ہے۔۔؟؟ کوئی زبردستی یہ سب کروا رہا ہے تم سے۔۔؟؟"

اپنے شاکڈ ایکسپریشن کو چھپاتے ہوئے اس شخص نے ایک بار پھر ایک نیا سوال پوچھا تھا

"ماں ہسپتال میں ہیں اس وقت۔۔۔ باپ میرے پیدا ہوتے ہیں اس دنیا سے چلے گئے تھے۔۔۔ میں ہوں اپنے گھر کا کفیل۔۔۔"

"یا اللہ۔۔۔"

اس چھوٹے سے منہ سے اتنی بڑی باتیں سن کر وہ اٹھ کر مننان کی طرف آئے تھے۔۔۔

"جن گھروں کے مرد اس عمر میں کفیل بن جائیں وہ گھر والے بہت خوش نصیب ہوتے ہیں۔۔۔تمہاری تنخواہ آج سے ڈبل کرتا ہوں میں ۔۔۔اور۔۔"

"مجھے محنت کی کمائی کمانا ہے۔۔۔ احسان اور ہمددری کی بھیک نہیں چاہیے۔۔۔"

وہ وہاں سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔ اسسٹنٹ کو بہت غصہ آیا تھا

"اسکی اتنی ہمت۔۔ آپ کہیں تو جاوید صاحب اور اسے نوکری نکال دیں۔۔؟؟"

"ہاہاہاہا۔۔۔۔ کیوں نکالنا ہے۔۔۔؟؟ اس بچے میں مجھے آنے والا ایک کامیاب شخص نظر آیا ہے۔۔ ایسے لوگوں کو قدر کرنی چاہیے۔۔۔ جاؤ معلوم کرو اسکی والدہ کو کیا ہوا ہے۔۔ میڈیکل کا سب خرچہ بنا کسی کو خبر کئیے ہسپتال کو دو۔۔۔اور جاوید صاحب جیسے ہی آئے میرے پاس بھیجو۔۔۔"

وہ واپس بیٹھ گئے تھے اور اور ریموٹ پکڑے انہوں نے اس سکرین کو آن کیا تھا جو پورے ریسٹورنٹ کی ایکٹویٹی پر نظر رکھے تھے ساری کیمروں میں سے اس سکرین کو دیکھا تھا جو کچن کے اندر کی ایکٹویٹی دیکھا رہی تھی

۔

جس میں مننان ڈشز کو اٹھا کر انکی جگہ پر رکھ رہا تھا۔۔۔ کرسیوں کی تربیت ٹھیک کرتے ہوئے استعمال ہوئے کپڑوں کو بسکٹ میں ڈالے دوسرے کمرے میں لے گیا تھا۔۔۔وہ

باری باری ہال کی ہر کرسی ہر میز کو ٹھیک کررہا تھا۔۔ اور جب تک مننان ایک جگہ بیٹھا نہیں تھا تب تک اس شخص نے اپنی نظریں نہیں ہٹائی تھی اس سکرین سے۔۔۔

لینڈ لائن پر جیسے ہی کال آئی تھی ریسیپشن پر مننان بھاگتے ہوئے لپکا تھا اور فون اٹھا لیا تھا۔۔۔

اور اند ر اس نے بھی وہ فون اٹھا لیا تھا جو کنیکٹ تھا۔۔۔ وہ جاننا چاہتا تھا اس بچے کی جلد بازی اسکی بےچینی جو فون کی گھنٹی پر اس کے چہرے پر عیاں ہوئی تھی

"مننان بیٹا۔۔۔"

"سر۔۔۔ ماں کیسی ہے۔۔؟؟ اور  سب ٹھیک ہے۔۔؟؟ بےبی ٹھیک ہے۔۔"

"ہاں بیٹا۔۔۔ چھوٹی سی پری آئی ہے۔۔میں حمزہ کو بھیج رہا ہوں آپ اسکے ساتھ آجاؤ۔۔۔"

"نہیں۔۔۔ ابھی نہیں شام کو شفٹ ختم ہوتی ہے ماں کی میں انکی جگہ شام تک رہوں گا۔۔۔ آپ بس ان دونوں کا خیال رکھئیے گا۔۔۔پلیز۔۔۔"

"ہاں۔۔۔ بلکل۔۔ کچھ کھایا ہے آپ نے۔۔؟؟"

"نہیں سر۔۔ ماں اور حورب کے ساتھ کھاؤں گا ۔۔۔"

"ہممم۔۔۔ مننان۔۔۔بیٹا۔۔تمہاری ماں بہت خوش نصیب ہے۔۔۔"

"نہیں سر۔۔۔ میں بہت خوش نصیب ہوں۔۔۔ میری ذات کے لیے اپنی ذات بھلا دی۔۔۔"

۔

کچھ سیکنڈ اور بات کرنے کے بعد کال بند ہوگئی تھی۔۔

مگر مننان ریسیور کو کان پر لگائے وہیں کھڑا رہا تھا۔۔۔ پانچ منٹ بعد۔۔۔ اپنی آنکھوں سے وہ پانی صاف کرکے وہ واپس اپنے کام پر لگ گیا تھا۔۔۔

۔

اوپر کمرے میں بیٹھا وہ باس اس قدر اداس ہوگیا تھا کہ تھوڑی دیر روم میں آنے والے کھانے کو اس نے بھی ہاتھ نہیں لگایا تھا۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مجھ سے وعدہ کرو مننان۔۔۔ میرے جانے کے بعد گڑیا کا خیال رکھو گے۔۔ اسے کبھی میری کمی محسوس نہیں ہونے دو گے۔۔۔"

شور و غل میں اس ہسپتال کا ایک ایسا کمرہ بھی تھا جہاں ہر سو خاموشی تھی اور وہ ماں کے قدموں میں سر رکھے آنسو بہا رہا تھا

"آپ کو کچھ نہیں ہوگا ماں۔۔ آپ میرے ساتھ اس کمرے سے باہر جائیں گی۔۔"

"میرے بچے ہم دونوں میں یہ بات تہہ پائی تھی کہ اس سرجری کے بعد جو ہوگا وہ ہم دونوں چپ چاپ قبول کریں گے۔۔"

"ماں کی جدائی کون بیٹا قبول کرسکتا ہے۔۔؟ وہ تو آپ کو بہلا رہا تھا میں۔۔۔"

نسواء کے پاؤں پر پھر سے چومنے کے بعد مننان نے اپنی بیمار ماں کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"ہاہاہا اتنے بڑے ہوگئے ہو کہ ماں کو بہلانے کے لیے جھوٹ بولو گے۔۔؟؟

یہاں آؤ میرے پاس۔۔۔"

نسواء نے بیڈ پر جیسے ہی جگہ بنائی تھی مننان پاس آکر بیٹھ گیا تھا وہ جیسے ہی وہاں بیٹھا تھا نسواء نے اسکے کندھے پر سر رکھ لیا تھا

"مننان۔۔ زندگی میں کچھ آزمائشیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں مکمل توڑ دیتی ہیں۔۔

تمہاری ماں بھی ٹوٹ چکی ہے۔۔ شاید یہ بیماری میری نجات ہے۔۔ میں تھک چکی ہوں۔۔ میں اپنی ناکام شادی میں اتنا الجھ کر رہ گئی کہ اپنے بچوں کی کمیوں کو پورا نہ کرسکی۔۔اور۔۔"

"شش۔۔۔ ماں۔۔ آپ اس بستر سے سہی سلامت اٹھ کر باہر جائیں گی۔۔

یہ دیکھیں۔۔ آپ کی رجسٹریشن بھی کرادی ہے میں نے۔۔۔

آپ نے نا صرف ا س کمپٹیشن میں حصہ لینا ہے بلکہ بیسٹ شیف ٹرافی جیتنی بھی ہے۔۔۔

اور ایسا تب ممکن ہے جب آپ میرا ہاتھ تھام کر اس ہسپتال کے کمرے سے باہر جائیں گی۔۔"

نسواء کے ماتھے پر بوسہ دے کر اس نے اپنی ماں کے سامنے اپنا یقین ، بھروسہ، مان بھرم سب رکھ دیا تھا۔۔ اس نے ہاتھ جیسے ہی بڑھایا تھا۔۔ کچھ دیر تو نسواء سر جھکائے لیٹی رہی تھی

اسکی ہارٹ بیٹ مانیٹر کرنے والی مشینیں بھی تیز ہوگئی تھی ۔۔۔کچھ سیکنڈ تک اسے سانس لینے میں دشوارہ ہونے لگی تھی۔۔ 

"ماں میرا ہاتھ تھام لیں اپنے بیٹے پر بھروسہ رکھیں۔۔ مجھے میرا مان میرا بھرم واپس لوٹا دیں جو اس گھر میں مجھ سے چھین لیا گیا۔۔۔

ایک بار اپنے بیٹے کو اپنا آپ سونپ دیں ماں کبھی گرنے نہیں دوں گا۔۔ ان آنکھوں میں ایک آنسو کا قطرہ نہیں آنے دوں گا۔۔۔ ایک بار۔۔۔ اس بیماری سے لڑیں میرے لیے چھوٹی کے لیے۔۔ وہ پیپر دے کر آئے گی تو ہم اسے ساتھ مل کر ویلکم کریں گے۔۔۔"

۔

اور جب نسواء نے رونا شروع کیا تھا وہ ہاتھ جو مننان نے آگے بڑھایا تھا وہ مایوسی میں پیچھے کرنے کی کوشش کی تو نسواء نے مظبوطی سے تھام لیا تھااس ہاتھ کو۔۔۔

"بس کرجائیں نجیب میرے وجود میں اب اتنی سکت نہیں کہ آپ کی محبت اور سختی برداشت کرسکوں۔۔۔"

یہ بات سننے کی دیر تھی نجیب نے عمارہ کو بیڈ کی دوسری جانب دھکیل دیا تھا۔۔۔

سانسیں بحال کرتے ہوئے وہ کمفرٹ لئیے کروٹ لے چکا تھا۔۔ رات کے اس پہر ہر رات کی طرح وہ اسی طرح اپنی بیوی پر اپنی محبتیں نچھاور کرتا تھا جو کہ اسکی نظر میں محبت تھی مگر عمارہ کی نظر وہ کچھ گھنٹے کسی ٹارچر سے کم نہ تھے

"نجیب۔۔۔"

"بس سوجاؤ عمارہ۔۔۔ جب تک تم پریگننٹ نہیں ہوجاتی تب تک تمہیں اس سب سے کوئی نہیں بچا سکتا۔۔۔ مجھے بس بچہ چاہیے۔۔۔"

"اور پھر کیا ہوگا۔۔بچہ آنے کے بعد۔۔۔؟؟"

اس نے خود کو کور کرتے ہوئے نجیب کی بیک کو دیکھا تھا جو منہ پھیرے آنکھیں بند کرچکا تھا۔۔۔یہ تو روز کا کام تھا اسے اذیت دے کر وہ شخص ایسے ہی سکون کی دن سوتا تھا ہر روز۔۔

مگر آگ اس نے ہمت کرکے وہ سوال پوچھنا شروع کردئیے تھے جو وہ کب سے پوچھنا چاہ رہی تھی

"بچہ آنے کے بعد۔۔ میں اسے بتاؤں گا کہ میں مکمل ہوں اسکے سوگ میں نہیں بیٹھا۔۔"

"اور اسے کیسے معلوم ہوگا بچہ آگیا ہے۔۔؟ نجیب جس کا آپ کو پتہ نہیں چلا ابھی تک اس تک کیسے جائے گی یہ بات۔۔۔؟؟"

"بیوقوف عورت۔۔ میں ایک بزنس ٹائیکون ہوں۔۔ جب میرا بچہ ہوگا تو میں کوئی نیوز چینل کوئی پیپر نہیں چھوڑوں گا یہاں یہ خبر شائع نہ ہو دنیا جہاں میں مشہور کروں گا دیکھ لینا۔۔۔"

۔

عمارہ اٹھ کر جانے لگی تھی جب نجیب نے اس شیٹ کو پیچھے سے کھینچا تھا عمارہ بیڈ پر گری تھی 

"نجیب۔۔۔"

"پھر سے کوشش کرتے ہیں میری جان۔۔ اس بار محبت سے پیش آؤں گا۔۔۔"

اس نے یہ کہتے ہی باقی کا فاصلہ ختم کردیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ایک سال بعد۔۔۔"

۔

"بہت بہت مبارک ہو بیٹا ہوا ہے بیٹا۔۔۔"

۔

نجیب کی گود میں وہ بچہ پکڑانے لگے تھے جب نجیب نے دروازے پر کھڑے رپورٹر کو اندر آنے کا اشارہ کیا تھا

"فوٹوز لو۔۔ اور جیسا میں نے کہا ہے ویسا کرو۔۔۔"

وہ جھک کر عمارہ کے ماتھے پر بوسہ دیتا ہے جس کی تصویر جلدی سے اس رپورٹر نے لے لی تھی اور پھر اپنے بیٹے کے ماتھے پر جب نجیب نے بوسہ لیا تھا۔۔کچھ ایسا ہوا تھا جو نہیں ہوا چاہیے تھا۔۔

اسکے لب اپنے بیٹے کے ماتھے سے ٹچ نہیں ہوئے تھے جب اسکی آنکھوں میں کچھ سال پہلے کا منظر گھومنا شروع ہوگیا تھا۔۔

۔

۔

"نجیب۔۔۔ہمارے پیار کی نشانی۔۔۔۔ہمارا بیٹا۔۔۔"

"ہمم۔۔۔۔ہمارا مننان۔۔۔"

"وااہ۔۔۔ نام کب سوچا تھا۔۔؟؟"

"بس ابھی اسکی معصوم صورت اور آپ کےچہرے پر یہ مسکان دیکھ کر۔۔۔ہمارے پیار کی نشانی۔۔۔"

اس چھوٹے سے بچے کو اپنے سینے سے لگائے نجیب بھی نسواء کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔۔

"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں نجیب۔۔؟؟"

"دیکھ رہا ہوں۔۔ آپ کتنا خوش ہو اسکے آنے پر۔۔"

"اور آپ خوش نہیں ہیں۔۔؟؟"

"سچ بتاؤں تو آپ کے چہرے کی یہ خوشی دیکھ کر میں خوش ہوں۔۔"

"اور مننان۔۔۔؟؟"

"اسکے لیے بھی خوش ہوں۔۔۔ آپ کو شئیر نہیں کرنا چاہتا میں بس۔۔ اب یہ آگیا ہے تو خوف میں مبتلا ہورہا ہوں کہ کہیں مجھے نہ بھول جائیں آپ۔۔۔"

"نجیب۔۔ کیسی باتیں کررہے ہیں آپ۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا آپ کو بھول گئی تو کیا یاد رہے گا آپ کی نسواء کو۔۔؟؟ کم ہئیر۔۔۔"

نسواء نے نجیب کے چہرے پر ہاتھ رکھے ہونٹوں پر اپنے لب جیسے ہی رکھے تھے نجیب کی گود میں سورہے مننان نے رونا شروع کردیا تھا۔۔۔

"دیکھا۔۔۔ اس لیے کہہ رہا تھا"

"ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ بالکل بچوں کی طرح منہ بنا رہے ہیں سویٹو۔۔۔"

"سویٹو۔۔؟؟ سیریسلی۔۔۔ گھر چلیں بیڈروم میں چل کر بتاؤں گا کتنا سویٹ ہوں۔۔"

"نجیب۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔ ڈرٹی ٹاکنگ۔۔۔"

"میں پریکٹیکل پر بی لئیو رکھتا ہوں بیگم۔۔۔"

مننان کی آنکھوں پر رکھے اس نے جلدی سے نسواء کے ہونٹوں پر بوسہ لے لیا تھا۔۔۔

۔

۔

"نجیب۔۔۔۔"

"نجیب بیٹا۔۔۔ جلدی کرو نہ ہماری بھی باری آنی ہے ابھی۔۔۔"

ماہ جبین نے جلدی سے آگے آکر کہا تھا۔۔۔ نجیب کی سب فیملی ممبرز اپنی اپنی محبت واار رہے تھے عمارہ اور اس بچے پر کسی کو پرواہ نہ تھی کہ انکا ہی خون انکی ہی بہو آنکھوں سے اوجھل تھی جس کا نام بھی نجیب کے ڈر سے کوئی لینا گنوارا نہ کرتا تھا۔۔۔

سوائے دادی کے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مننان بیٹا۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔ اس اخبار کو ایسے دیکھ رہے جیسے کچھ پڑھ لیا ہو۔۔

دیکھاؤ مجھے اج کی خبر۔۔۔"

مننان نے جلدی سے وہ صفحہ نکال کر باقی پیپر اپنے صاحب کو دہ دیا تھا۔۔

"بیٹا وہ جو گاڑی آئی ہے اسکے ٹائر چینج کرنے ہیں۔۔ اور جو دوسری والی ہے اسے ایک بار دیکھ لینا شام تک وہ چاروں گاڑیاں ٹھیک کرکے بھیجنی ہے واپس۔۔"

۔

"جی میں ابھی دیکھتا ہوں۔۔۔"

وہ جب سیٹ سے اٹھا تھا تو اس نے وہ پیپر اپنی جیب میں ڈال لیا تھا۔۔۔

اس گیراج میں کام کرتے ہوئے اسے تین سال ہوگئے تھے وہ اپنے ماں کے ساتھ اس ریسٹورنٹ میں بھی وقت دیتا تھا اور باقی کا کام وہ اس گیراج میں دیتا تھا۔۔۔

اس گیراج کی تنخواہ سے وہ چھوٹی بہن کی سکول فیس باآسانی پئے کردیتا تھا۔۔۔

۔

"بیٹا یہ اس میں ایک صفحہ کیا تمہارے پاس ہے۔۔"

دوسری طرف سے آواز آئی تو وہ بنا جواب دئیے چھت پر چلا گیا تھا۔۔۔

۔

دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اس نے جیب سے سگریٹ کا پیک نکالا تھا۔۔ اور لیٹر سے ایک سگریٹ سلگائے اس نے دوسری جیب سے اس اخبار کے پیج کو نکال کر دیکھنا شروع کیا تھا۔۔

۔

"ماہیر آفندی سن آف نجیب آفندی۔۔۔"

وہ ہونٹوں کے درمیان سلگتے اس سگریٹ کا دھواں منہ سے نکلتے ہی اس پیپر سے ٹکرا رہا تھا۔۔۔

وہ اس شخص کو دیکھ رہا تھا وہ بلکل نہیں بدلا تھا۔۔ بلکہ اور ینگ لگ رہا تھا اور خوبصورت 

اور پھر مننان کا دھیان اپنی ماں کی طرف گیا تھا جو کسی ریسٹورنٹ میں ایک معمولی نوکری پر تھی جو بیمار تھی اور اپنی عمر سے زیاہ لگنے لگی تھی اپنی بیماری میں۔۔۔

مننان کے اندر وہ جلن حسد اس لمحے دس گنا بڑھ گئی تھی

۔

ڈید۔۔۔نہیں۔۔۔ نجیب آفندی۔۔۔ آپ کا میرا سامنا بہت جلدی ہوگا۔۔ اور جب ہوگا تو اس آفندی ایمپائر۔۔۔ یہ خوبصورت فیملی۔۔۔ یہ شان و شوکت۔۔۔ اور یہ اولاد کا غرور سب چھین لوں گا۔۔۔

یہ میرا وعدہ ہے آپ سے۔۔۔ بس کچھ سال اور سہی۔۔۔"

۔

اس سگار سے اس نے اس کاغذ کو جلا دیا تھا سب سے آخر میں نجیب کی تصویر جلی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تم خوش ہو۔۔۔؟؟ "

"نجیب بھائی سچ پوچھیں تو میں خوش نہیں ہوں۔۔ دل جلتا ہے جب جب معاز کو اسکے کمرے میں جاتے اور نکلتے دیکھتی ہوں۔۔

وہ لمحات قیامت کی طرح گزرتے ہیں۔۔خود کو اتنا لاچار اور بے بس محسوس کرتی ہوں۔۔۔"

نجیب نے بہن کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ اسکے دماغ میں ایک ہی بات گھوم رہی تھی جو وہ کسی سے کہنا چاہتا تھا شئیر کرنا چاہتا تھا وہ بلآخر پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا تھا فضا کے سامنے

"تم اتنی محبت کرتی تھی اپنے شوہر سے تم نے سوتن برداشت کرلی۔۔پھر اسکی محبت میں اتنا ظرف کیوں نہیں تھا۔۔؟؟ اس نے میری خوشیوں کو ترجیح نہ دی۔۔۔"

۔

"نسواء بھابھی کی بات کررہے ہیں۔۔؟؟"

فضا نے حیرانگی سے پوچھا تھا

"تو اور کس کی بات کروں گا۔۔؟؟اتنی حیران کیوں ہورہی ہو۔۔؟؟"

"اتنے سالوں میں پہلی بار آپ نے نام بات کی ہے۔۔۔ اور نام بھی نہیں لیا ان کا۔۔

اس لیے حیرانگی ہوئی۔۔۔

نجیب بھائی۔۔۔ آپ نے اپنی ضد کو بیاہا تھا۔۔ اپنی مرضی کو۔۔۔ یہ مت بھولئیے گا آپ نے وجہ اپنے بیٹے کو بنایا۔۔۔ نسواء بھابھی نے جتنی محبت آپ سے کی وہ اس بات پر بھی نرم پڑ جاتی۔۔۔ مگر آپ کا طریقہ غلط تھا بھائی۔۔۔

مجھے ایک بات سمجھ آگئی ہے۔۔۔ آپ نے بھابھی کی قدر نہیں پائی اور نہ ہی اپنی پہلی اولاد کی۔۔۔"

۔

"فضا۔۔۔ چلیں۔۔۔"

معاز جیسے ہی کمرے میں آیا تھا فضا اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔

"میری بہن کا خیال رکھنا۔۔۔"

"جی نجیب بھائی۔۔۔اور ایک بات۔۔۔ سمیرا کی والدہ کو جو دھمکی آمیز فون آپ نے کیا تھا وہ بند کردیں۔۔ آپ اور میں ایک ہی صف پر کھڑے ہیں۔۔۔ ایسی منافقت نہ کریں۔۔دیکھا جائے تو آپ نے مجھ سے زیادہ بُرا کیا تھا نسواء بھابھی کے ساتھ۔۔"

نجیب نے گریبان پکڑ لیا تھا معاز کا۔۔۔

"بھائی۔۔۔ بھائی چھوڑ دیں۔۔۔"

"کیا بکواس کی تم نے۔۔؟؟ کیا بُرا کیا میں نے اسکے ساتھ۔۔؟؟گھر گاڑی پیسہ عزت شہرت سب تو دیا تھا اسے۔۔۔"

"اور یہی سب احسانات کے بدلے آپ نے اپنی بیوی کو بے آبرو بھی کردیا۔۔

بھول گئے سب کے سامنے کیسے آپ نے الزام لگایا تھا ان پر کہ کیسے انہوں نے آپ کو آپ کے حقوق نہ دئیے۔۔۔"

"معاز۔۔۔"

اپنے منہ پر ہاتھ رکھے فضا باہر کی جانب بھاگی تھی سب  بڑوں کو چیختے ہوئے پکارنے لگی تھی جب نجیب نے معاز کے منہ پر مکا مار کر اسے زخمی کردیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

"کچھ سال بعد۔۔۔۔"

۔

۔

"ماں میرا ہاتھ تھام لیں اپنے بیٹے پر بھروسہ رکھیں۔۔ مجھے میرا مان میرا بھرم واپس لوٹا دیں جو اس گھر میں مجھ سے چھین لیا گیا۔۔۔

ایک بار اپنے بیٹے کو اپنا آپ سونپ دیں ماں کبھی گرنے نہیں دوں گا۔۔ ان آنکھوں میں ایک آنسو کا قطرہ نہیں آنے دوں گا۔۔۔ ایک بار۔۔۔ اس بیماری سے لڑیں میرے لیے چھوٹی کے لیے۔۔ وہ پیپر دے کر آئے گی تو ہم اسے ساتھ مل کر ویلکم کریں گے۔۔۔"

۔

اور جب نسواء نے رونا شروع کیا تھا وہ ہاتھ جو مننان نے آگے بڑھایا تھا وہ مایوسی میں پیچھے کرنے کی کوشش کی تو نسواء نے مظبوطی سے تھام لیا تھااس ہاتھ کو۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"بہت بہت مبارک ہو بیٹا۔۔۔آج کی یہ جیت تمہاری ہے اور تمہارے بچوں کی ہے۔۔۔"

اس ٹرافی کو مننان کے ہاتھ پکڑا کر نسواء نے اپنے دونوں بچوں کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔۔

"آج کی یہ جیت میرے بچوں کی ہے۔۔۔"

"اب تم نے انٹرنیشنل کمپٹیشن میں پارٹی سپیٹ کرنا ہے اور جیتنا بھی ہے۔۔"

"جی موم۔۔۔"

"جی ماما۔۔۔"

حورب اور مننان دونوں نے دونوں سائیڈ سے گلے لگا لیا تھا 

"آپ سب کے لیے اب تک میں وہ سب کررہی تھی جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔

مگر اب آپ لوگ چاہتے ہیں میں باہر کے ملک جا کر یہ سب کروں۔۔۔؟ حصہ لوں۔۔؟؟

ایم سوری میں یہ نہیں کرسکتی۔۔۔ یہاں تک مجھے پہنچانے میں میرے بیٹے نے دن رات ایک کردئیے محنت کرکے  وہ یہ رجسٹریشن بھرتا رہا۔۔۔ مگر اب میں تمہیں اور پریشان نہیں کروں گی بیٹا۔۔۔"

مننان کے ماتھے پر بوسہ دے کر اپنے سینے سے لگا لیا تھا اس نے وہ آبدیدہ ہوئی تو باقی سب بھی ہوگئے تھے خاص کر حورب۔۔۔ اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنی ماں اور بھائی کو بس سٹریگل کرتے ہی دیکھا ۔۔۔ بھائی کو باہر کی دنیا سے لڑتے دیکھا اور ماں کو اس ظالم بیماری سے۔۔۔

۔

"ماں یہاں بیٹھے۔۔۔

صوفہ پر بٹھا کر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا تھا۔۔۔نسواء کے ہاتھوں کو ہاتھوں میں لئیے بے ساختہ اس نے احترام سے ان ہاتھوں کو ماتھے سے لگا لیا تھا اپنے۔۔۔

"ماں۔۔۔ میں جو محنت کررہا ہوں وہ میں ہمارے لئیے کررہا ہوں۔۔ آپ کے لیے چھوٹی کے لیے۔۔۔کون ہے ہمارا۔۔؟؟ ہم تینوں ہیں ایک دوسرے کے۔۔ "

"مننان بیٹا۔۔۔"

"ایک منٹ ماں آج مجھے کچھ کہنے دیں۔۔"

ہاتھوں پر بوسہ لیکر کر مننان نے نسواء کو چپ کروا دیا تھا۔۔۔

"آپ کو میں ایک کمرے میں بند نہیں دیکھنا چاہتا۔۔ میں چاہتا ہوں دنیا آپ کو آپ کے نام سے جانے۔۔۔ جتنا بڑا آپ کا نام ہوگا اور چوڑا سینہ میرا ہوگا اتنا لمبا قد میرا ہوگا جتنا کامیاب آپ ہوں گی۔۔۔جتنے قدم زندگی کی طرف آپ بڑھائیں گی ماں اتنے ہی آپ کے بچے اس راہ پر چلیں گے۔۔۔"

"مننان۔۔۔"

"بھائی صیحح کہہ رہے ہیں ماما۔۔جب تک آپ ہمت نہیں کریں گی ہمیں موٹیویشن کیسے ملے گی۔۔؟ ہمارے پاس آگے بڑھنے کے لیے مقصد کیا ہیں۔۔۔"

"افف اللہ۔۔۔ تم دونوں کب اتنے بڑے ہوگئے۔۔؟؟"

دونوں کے چہروں پر ہاتھ رکھ کر نسواء نے پوچھا تھا۔۔۔

"جب سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بڑا نہیں سر پر۔۔"

مننان نے سرگوشی کی تھی جو کسی نے نہیں سنی تھی سوائے نسواء کے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ ہمارے لیے کیا ہمت نہیں کریں گی ماں۔۔۔؟؟"

مننان کی باتوں نے اسے اندر تک جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔۔۔

بیڈ پر بیٹھے وہ سائیڈ لمپ کبھی آن کررہی تھی تو کبھی آف۔۔

جب بےتابی نے اسے اور بےچین کیا تو اس نے پاس پڑے اپنے موبائل کو اٹھایا۔۔

اور وہی ایک سائٹ آن کی جہاں اسے وہ ہرجائی نظر آتا تھا۔۔۔

۔

آج بھی ایک آرٹیکل پبلش تھا جس میں ایک ویڈیو بھی تھی۔۔ اس نے اپنی اینزائٹی کو کنٹرول کرتے ہوئے وہ آرٹیکل پڑھنا شروع کیا۔۔۔

۔

"مسٹر نجیب اپنے دونوں بچوں کو لیکر اپنی وائف کے ساتھ ورلڈ ٹور پر ۔۔۔"

اس سے اور پڑھا نہیں گیا تھا۔۔ اس کی نظر بس نجیب پر تھی۔۔۔ جو آج بھی ویسا ہی تھا

خوبصورت جوان پرجوش۔۔۔"

ایک نظر نسواء نے خود کو دیکھا تھا اپنی حالت کو دیکھا تھا۔۔۔اور پھر نجیب کو۔۔۔

۔

"تیرے لیے میری عبادتیں وہی ہے۔۔۔

تو شرم کر۔۔۔ تیری عادتیں وہی ہے۔۔۔"

۔

"میں محبت تھی۔۔۔ مگر ہمارے درمیان ہمارا بیٹا بھی آپ کو پسند نہیں آیا۔۔ اور یہاں آپ نے ایک پرفیکٹ فیملی بنا لی۔۔۔ نجیب کیا سچ میں بہانا ہمارا بچہ تھا۔۔۔؟ یا آپ کی ہوس۔۔۔ جانے کب سے دھوکا دے رہے تھے شادی سے پہلے۔۔۔"

۔

"جن کے لیے ہم روتے ہیں۔۔ وہ کسی اور کی بانہوں میں ہوتے ہیں

ہم گلیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔۔۔ وہ سمندر کناروں پہ ہوتے ہیں۔۔"

۔

"آپ میری پہلی محبت تھے نجیب۔۔۔میری نادان محبت۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"حذیفہ۔۔۔ بیٹا۔۔۔"

"جی موم۔۔"

اس نے موبائل کی سکرین کو جلدی سے آف کردیا تھا اس فوٹو کو ہائیڈ کرنے کے بعد۔۔۔

"بیٹا آج بھی ڈنر کرنے نہیں آئے۔۔۔کیا بات ہے۔۔؟؟"

وہ اندر آکر حذیفہ کے پاس بیٹھ گئی تھی جو کچھ سیکنڈ پہلے اندھیرے میں بیٹھا اس ایک تصویر کو دیکھ رہا تھا جو کچھ دن پہلے اس نے چپکے سے لی تھی اپنے ریسٹورنٹ کی ایک شیف کی۔۔۔

"دل نہیں کررہا تھا۔۔۔ بھوک نہیں ہے۔۔"

"بھوک کیسے ہوگی۔۔۔؟ وہ شیف ریزائن کرچکی ہیں۔۔؟؟ اور مننان بھی۔۔۔"

"آپ۔۔ آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔۔؟ آپ کو کس نے کہا ایسا موم۔۔؟؟"

"سب رپورٹ ہے مجھے۔۔۔ اتنے سال سے یہی وجہ تھی جو تم شادی سے انکار کررہے ہو۔۔؟"

"یہ حمزہ نے بتایا آپ کو۔۔۔ اسے تو میں نوکری سے نکال دوں گا۔۔"

وہ موبائل پر کال ملانے لگا تھا جب والدہ نے موبائل کھینچ لیا تھا اور وال پیپر پر وہ تصویر واضح تھی انکے سامنے

"ماشاللہ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔۔۔لگتا نہیں ہے دو بچوں کی ماں ہے۔۔۔"

حذیفہ صاحب شرما گئے تھے اپنی والدہ کی تعریف پر۔۔۔

"مگر یہ کب تک چلے گا۔۔؟؟ اتنے سال تم نے ان لوگوں کے پیچھے ضائع کردئیے کچھ حاصل ہوا۔۔؟؟ وہ پرائی امانت ہے حذیفہ اس راستے پر تمہاری کوئی منزل نہیں ہے۔۔"

"امی کچھ سال پہلے اگر آپ سمجھاتی تو شاید میں پلٹ آتا۔۔ مگر اب نسواء کو بھلا دینا میرے بس میں نہیں۔۔۔ اس دل کو محبت ہوگئی ہے۔۔ وہ میری روح میں اتر گئی ہے۔۔"

"اس کا انجام کیا ہے۔۔۔؟؟ بیٹا تھک جاؤ گے وہ ابھی بھی نکاح میں ہے کسی کے۔۔"

"میں انتظار کروں گا اس کا۔۔۔ ابھی وہ لوگ جانا چاہتے ہیں تو چلے جائیں۔۔ میری قسمت میں نسواء کا ساتھ ہوا تو اللہ اسے میرا کردے گا۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"وقت گزرتا چلا جارہا تھا۔۔۔ وہ دن دور نہ تھا جب ان تین کنٹیسٹنٹ میں نسواء بھی تھا۔۔۔

وہ چہرے پر ماسک لگائے پارٹی سپیٹ کرچکی تھی ۔۔۔

آج فنیلے تھا۔۔۔ آج اسکی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا کیونکہ آج و ہ اپنے بچوں کے لیے اس کمپٹیشن میں حصہ لے چکی تھی۔۔۔اور وہ جیتنا چاہتی تھی۔۔۔

اس نے اس کمپٹیشن میں اپنی دس منفرد ڈشز بناکر نمایا نمبر حاصل کرلئیے تھے۔۔۔

ورلڈ وائڈ لائم لائٹ مل رہی تھی اس شو کو اور ان تین کنٹیسٹنٹ کو۔۔۔

۔

۔

"مننان بیٹا۔۔۔"

مننان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا آبجیکٹ اسکی انگلیوں کو زخمی کرگیا تھا مگر اسکی نظریں اس ٹی وی سکرین سے ہٹ نہیں رہی تھی جہاں اسکی ماں اس سٹیج پر کھڑی اس کمپٹیشن کی فائنل ڈش تیار کئیے ججز کے سامنے رکھ چکی تھی۔۔۔

فیصلہ کی اس گھڑی میں اس نے اس پرچے کو بھی اپنی مٹھی میں دبوچ لیا تھا۔۔

وہ جانتا تھا اگر اسکا ماں کامیاب لوٹی تو وہ اور حورب کو بھی آگے بڑھنے کا ایک مقصد مل جائے گا اگر آج اسکی ماں کو ناکامی ملی تو وہ خود کو بھی ناکارہ بنا ڈالے گا۔۔۔

وہ خود سے عہد کرچکا تھا۔۔

۔

۔

"بھیا۔۔۔۔ ماما جیت گئی ہیں۔۔۔۔ واااووووو۔۔۔۔۔"

بار سے چلاتی ہوئی مبارک بار کی آوزوں کی ساتھ اس نے بند آنکھیں کھولی تھی

سیدھا ہاتھ جیسے کھولا تھا ہاتھ سے خون کا فوارا نکلا تھا۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ میں دبوچے اس پرچے کو اس نے سیدھا کرکے گیراج کے مین آفس کا رخ کیا تھا۔۔۔جہاں اس کے باس اور گیراج کے اونر نے اسے مبارک باد پیش کی تھی۔۔۔

"سر یہ ہے وہ خاکہ جس پر میں نئی گاڑی کو ڈیزائن کرنا چاہتا ہوں۔۔۔"

"یہ۔۔۔ یہ تم نے بنایا ہے۔۔۔؟؟ "

وہ شاکڈ ہوگئے تھے مننان کی ذہانت اور اس ڈیزائن پر۔۔۔

اٹھ کر مننان کو گلے لگا کر انہوں نے مننان کو شاباشی دی تھی جس کا دھیان صرف اپنی والدہ کی طرف تھا۔۔

۔

"آپ نے کردیکھایا ماں۔۔۔ آپ نے آج مجھے ایک نئی زندگی دہ دی ہے۔۔۔ آپ کا اونچا نام میری پہچان ہے ماں۔۔۔ بس اسکے بعد آپ کو اور محنت نہیں کرنے دوں گا۔۔

اب آپ اپنے بیٹے کی کامیابی دیکھیں گی۔۔۔ اس جہاں کی خوشیاں آپ کے قدموں پر بچھا دوں گا۔۔۔

اور نجیب آفندی کا غرور بھی ماں۔۔۔"

"اس وقت تم اس لڑکی کے ساتھ گھر میں داخل ہورہے ہو شکر کرو کوئی جاگ نہیں رہا

واپس بھیجو اسے اور اپنے کمرے میں۔۔"

"کم آن موم۔۔ موڈ آف مت کریں۔۔کم ہیر بےبی میرے روم میں چلیں۔۔"

وہ لڑکھڑاتے ہوئے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑے اسے اوپر لے  جانے لگا تھا جب عمارہ کی بات نے اسکے قدم روک دئیے تھےگیا تھا 

"نجیب نے جس دن تمہیں اس حالت میں دیکھ لیا وہ جان سے مار دیں گے۔۔۔"

"وہ۔۔؟؟ میرے سوکالڈ ڈیڈ۔۔۔؟ آپ کو پتہ بھی ہے وہ کیا کرتے پھر رہے ہیں۔۔؟؟

آپ کو کیسے پتا ہوگا آپ کی کیا حیثیت ہے ان کی زندگی میں سوائے ایک عورت کے۔۔؟؟ جو انکے بیڈروم میں بھی نہیں رہتی۔۔آپ اس گھر میں نام کی۔۔۔"

عمارہ نے اپنے بیٹے پر ہاتھ اٹھا دیا تھا اور روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی تھی۔۔

"کم حیا۔۔۔"

"بٹ ماہیر تمہاری موم۔۔۔"

"ڈونٹ وری انکی کسی کے سامنے نہیں چلتی سو تم ڈرو مت۔۔"

وہ اس لڑکی کی ویسٹ پر ہاتھ رکھے اپنے جانب کھینچ چکا تھا۔۔اسکے ہونٹوں کی طرف وہ جیسے ہی جھکا تھا آفندی صاحب نے غصے سے کھانسی کی تھی وہ ہاتھ پیچھے باندھے آگ بگولا ہورہے تھے جب ماہ جبین بیگم نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھے انکا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی

۔

"اوو آپ بھی جاگ رہے ہیں۔۔؟؟ یا مجھ پر نظر رکھ رہے تھے دادا جی۔۔؟؟

مائی سو کالڈ دادا جی۔۔۔ حیا میٹ مائی ایروگینٹ بگ بی۔۔۔"

وہ آفندی صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جیسے ہی کھڑا ہوا تھا اسکے منہ سے آتی ہوئی شراب کی بو نے ماہ جبین اور آفندی صاحب دونوں کو ہی  شاکڈ کردیا تھا۔۔۔

انہوں نے اپنے پوتے کو دیکھا تھا ایک نظر اور پھر سیڑھیوں میں کھڑی اس بےشرم لڑکی کو جو خود بھی نشے میں ماہیر کے جیسے جھوم رہی تھی

"حیا یا بےحیا۔۔؟؟ اس وقت تم کسی غیر لڑکی کو یہاں لیکر آئے ہو۔۔؟؟"

ماہ جبین کے طنز پر وہ لڑکی سر جھکا گئی تھی مگر ماہیر کے قہقے ہال میں گونجے تھے

"او کم آن یہ پہلی بار تو نہیں ہوا نہ۔۔؟ آج اتنا ہنگامہ کیوں۔۔؟؟ آپ جانتے ہیں میں کون ہوں۔۔؟؟ نجیب آفندی کا بیٹا۔۔۔ اکلوتا واررث ہوں اتنا تو حق بنتا ہے کہ اینجوائے کرسکوں۔۔؟؟"

"ابھی اسی وقت میری نظروں سے دور ہوجاؤ۔۔ اور اس لڑکی کو بھی چلتا کرو۔۔۔ یہ مجھے نظر نہ آئے۔۔۔"

"اووو ہو۔۔۔ سیریسلی۔۔؟؟ یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے۔۔۔؟؟ کل صبح نہیں بھیج سکتا۔۔؟ یہ ہوٹ آئٹم بہت مشکل سے ہاتھ آئی ہے۔۔۔ یو نو کل میں۔۔"

"شٹ اپ۔۔۔"

انہوں نے ماہیر کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹک دیا تھا جو نشے میں دھت نیچے گرتے ہی بے ہوش ہوگیا تھا۔۔۔

"ریحان۔۔۔ نصیب۔۔۔ اسے اٹھاؤ اور کمرے میں چھوڑ کر آؤ۔۔۔ اور ڈرائیور سے کہو اس لڑکی کو باحفاظت اسکے کمرے میں چھوڑ کر آئے۔۔"

۔

انہوں نے نفرت بھری نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا تھا۔۔۔ اور وہ خود لیونگ روم میں جاکر بیٹھ گئے تھے اور انکے پیچھے پیچھے انکی بیگم بھی خاموشی سے جاکر بیٹھی تھی

۔

"نجیب نے کوئی کمی نہ چھوڑی انکی پرورش میں یہ پھر بھی ایسے نکل آئے ہیں۔۔؟

جس دن انکی حقیقت کھلے گی تو کیا گزرے گی ہمارے بیٹے پر۔۔؟؟"

ماہ جبین نے سرگوشی کی تھی۔۔۔

"اس میں کوئی حیرانگی نہیں ہے اتنا لاڈ پیاد دے کر اس نے اپنی اولاد کو اپنے جیسا بنا دیا ہے۔۔

مغرور متکبر۔۔۔ گھمنڈ میں چور شخصیت۔۔۔"

۔

"کیا مننان بھی ایسا۔۔۔"

"بس بیگم مننان کا نام کبھی بھولے سے بھی نجیب کے سامنے مت لے لیجئے گا۔۔۔

اور۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ دونوں زندہ بھی ہوں گے۔۔۔ یاد نہیں کچھ سال پہلے پولیس کی رپورٹ نے ظاہر کردیا تھا کہ اس بس ایکسیڈنٹ میں وہ دونوں بھی تھے۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تم میرے ہو اس پل میرے ہو۔۔ کل شاید یہ عالم نہ رہے۔۔

کچھ ایسا ہو۔۔تم تم نہ رہو۔۔ کچھ ایسا ہو ہم ہم نہ رہے۔۔۔۔"

۔

"موسٹ ویلکم مسٹر حذیفہ مجھے بہت خوشی ہوئی آپ کمپنی کے شارٹ نوٹس میں یہاں تشریف لائے۔۔۔"

حذیفہ کانفرنس میں جیسے ہی داخل ہوا تھا بیس لوگوں میں نسواء کی آواز نے اسے وہیں ساکن کردیا تھا۔۔۔

وہ اتنے سال کے بعد اسے دیکھ رہا تھا جو سمپل ساڑھی میں لائٹ سے میک ایپ میں کھڑی تھی بالوں کو خوبصورت انداز میں فولڈ کیا ہوا تھا کہ چند لٹیں اسے اس کی عمر سے بہت کم ظاہر کررہی تھی۔۔۔

حذیفہ کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں جو خوشی جھلکی تھی وہ تاب نہیں لاپایا تھا اور آنکھیں جھکا لی تھی۔۔۔

"کمپنی کی 'ایم ڈی نے جب اتنے اونر سے مجھے دعوت دی تو کیوں نہ آتا۔۔؟؟"

نسواء کے سامنے والی کرسی خالی تھی جس پر حذیفہ بیٹھ گیا تھا   کچھ بزنس مین سے ہاتھ ملا کر۔۔۔۔

اس نے نسواء کے سامنے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا وہ جانتا تھا نسواء ہاتھ نہیں ملائے گی۔۔۔

اور وہ خود کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔

"تھینک یو سو مچ حذیفہ آپ کا۔۔  جنٹل مین اب میٹنگ شروع کرتے ہیں۔۔۔"

۔

وہ میٹنگ جو اس کنٹری میں ہوٹل کی کلیبریرشن کے لیے کی گئی تھی اور نسواء چاہتی تھی یہ حذیفہ کی کمپنی کے ساتھ ان کا کنٹریکٹ پاس ہو۔۔

وہ آج صبح ہی مننان سے اس بارے میں کافی لمبی بات چیت کرچکی تھی۔۔

اسے ابھی بھی مننان کے وہ الفاظ یاد تھے جو اس نے حذیفہ کے لیے بولے تھے

"ماں ان پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔۔ اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں ہوگا انکے احسانات کا بدلہ چکانے کا۔۔۔"

اور وہ یہی چاہتی تھی۔۔۔ 

"میٹنگ کے دوران حذیفہ نے نسواء سے ایک سوال کیا جس پر وہ بہت حیران ہوئی تھی

"اب کیسی ہیں آپ نسواء۔۔؟؟ "

"میں۔۔۔؟؟"

"جی آپ۔۔؟؟"

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔"

وہ شخص اجنبی ہوکر بھی ایک خاص سپوٹ رکھتا تھا نسواء اور اسکے بچوں کی لائف میں۔۔۔

"اور وہ ہمارا بب شیر۔۔؟؟ ابھی بھی دھاڑ ویسی ہی ہے۔۔؟؟"

"ہاہاہاہا ہمارے ببر شیر کی دھاڑ پہلے سے زیادہ بلند ہوگئی ہے۔۔ اب تو مجھے بھی ڈرا دیتا ہے۔۔"

"ہاہاہاہاہا۔۔۔"

وہ دونوں بےساختہ ہنس دئیے تھے جس پر میٹنگ میں بیٹھے لوگ حیران تھے اور وہیں دوسری طرف اپنے کیبن میں بیٹھا ہوا شخص خوش ہورہا تھا اپنی مانیٹر سکرین میں اپنی مان کو ہنستے دیکھ کر۔۔۔

"ماں ہم کامیاب ہوگئے ہیں۔۔۔"

وہ خود سے بولا تھا اس سکرین پر انگلیاں رکھی تھی اس نے جہاں نسواء تھی۔۔

آج وہ بےحد خوش تھا اپنی ماں کو اسے جوبن پر دیکھ کر ایک خوبصورت انرجیٹک بزنس وومن کے روپ میں دیکھ کر اسکے سارے ارمان پورے ہوگئے تھے۔۔۔

انکی محنت رنگ لے آئی تھی۔۔۔۔بنا نجیب آفندی کی دولت کے بنا سپورٹ کے۔۔۔

بنا اس شخص کے۔۔۔

۔

"یہ راستے الگ ہوجائیں۔۔۔ چلتے چلتے ہم کھو جائیں۔۔۔

میں پھر بھی تم کو چاہوں گا۔۔۔اس چاہت میں مر جاؤں گا ۔۔"

۔

ہنستے ہوئے نسواء کو جیسے کھانسی آنا شروع ہوئی تھی پانی کے گلاس کی طرف دونوں نے ایک ساتھ ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔

حذیفہ کے ہاتھ پر نسواء کی انگلیاں جیسے ہی ٹچ ہوئی تھی نسواء کی نظریں گلاس سے ہٹ کر حذیفہ کی آنکھوں پر گئی تھی ۔۔۔

۔

"کل مجھ سے محبت ہو نہ ہو۔۔ کل مجھ کو اجازت ہو نہ ہو۔۔

ٹوٹے دل کے ٹکڑے لیکر۔۔ تیرے در پہ ہی رہ جاؤں گا۔۔۔"

۔

"ایم سوری۔۔۔"

وہ ہاتھ ہٹا چکی تھی جب حذیفہ نے پانی کا گلاس اٹھا کر اسکے سامنے رکھا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تو آتا ہے سینے میں جب جب سانسیں بھرتی ہوں۔۔

تیرے دل کی گلیوں سے میں ہر روز گزرتی ہوں۔۔"

۔

"سی ای او مننان آمین احمد۔۔۔"

وہ گھبراتے ہوئے کیبن میں داخل ہوئی تھی۔۔ سامنے اس شخص کو دیکھ کر اسکی سانسیں جیسے تھم گئی تھی پچھلے دو سال سے یہی روانی تھی اسکی سانسوں کی مسٹر مننان کو دیکھنے کے بعد۔۔۔

۔

"ہوا کے جیسے چلتا ہے تو۔۔۔ میں ریت جیسی اڑتی ہوں۔۔۔

کون تجھے یوں پیار کرے گا۔۔۔ جیسے میں کرتی ہوں۔۔"

۔

"سر آپ کی چائے۔۔۔اور یہ فائلز۔۔۔"

"آپ کو معلوم نہیں ہے ابھی میٹنگ چل رہی ہے میری۔۔؟؟"

وہ اپنے ڈیلیگیشن سے ایکسکیوز کرکے اپنی سیکریٹری کی طرف بڑھا تھا

"اٹس اوکے سر میں یہاں ویٹ کرلوں گی مگر چائے ٹھنڈی ہوجائے گی۔۔۔"

۔

وہ سامنے صوفہ پر جاکر بیٹھ چکی تھی۔۔۔ مننان غصے پر قابو کرتے ہوئے اپنی میٹنگ کنٹینیو کرچکا تھا۔۔۔

مگر اسے مسلسل اس لڑکی کی نظریں خود پر محسوس ہورہی تھی

۔

"میری نظر کا سفر۔۔ تجھ پہ ہی آکے رکے۔۔

کہنے کو باقی ہے کیا۔۔ کہنا تھا جو کہہ چکی۔۔۔

۔

میری نگاہیں ہیں تیری نگاہوں پہ۔۔

تجھے خبر کیا بےخبر۔۔۔۔"

۔

"مس منیشہ نوٹ ڈاؤن کیجئے پوائنٹس کو۔۔۔اور یہ مجھے نیکسٹ آور میں چاہیے۔۔۔"

"جی۔۔۔ جی سر۔۔۔"

وہ نوٹ پیڈ میں جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی تھی مگر۔۔۔مننان کے چہرے پر پڑنے والی ایک نظر اسکا دھیان پھر سے اوجھل کرچکی تھی۔۔۔ ہونٹوں میں پین دبائے وہ پھر سے اسکے چہرے میں کھو گئی تھی

۔

"میں تجھ سے ہی چھپ چھپ کر۔۔۔ تیری آنکھیں پڑھتی ہوں۔۔

کون تجھے یوں پیار کرے گا۔۔۔ جیسے میں کرتی ہوں۔۔۔"

۔

مس منیشہ۔۔۔"

وہ چلایا تھا اور ساتھ ہی غصے سے فائل ڈیسک پر دے ماری تھی۔۔۔

ایک جھٹکے سے منیشہ اپنی سیٹ سے اٹھ گئی تھی۔۔۔ زرا سا پاؤں سلپ ہونے پر وہ مننان کی طرف گری تھی اور وہ چائے کا کپ مننان کی فائلز پر اور اسکے چھینٹے مننان کی شرٹ پر گرے تھے غصہ اتنا تھا کہ اسکے کانوں سے بھی دھواں نکلتا ہوا محسوس ہوا تھا منیشہ کو۔۔۔

"سر۔۔۔ جسٹ گیٹ آؤٹ۔۔ دفعہ ہوجائیں اس بلڈنگ سے۔۔۔آؤٹ ناؤ۔۔۔

کیا سوچ کر ماں نے رکھا آپ جیسی لاپرواہ لڑکی کو۔۔۔؟؟"

وہ اس پر چلا رہا تھا جس کی ڈانٹ باہر سٹاف کے لوگ بھی سن رہے تھے

"سر ایم سوری آگے سے نہیں ہوگا۔۔"

"آگے سے تب ہوگا جب آپ اس نوکری میں رہے گی میں ابھی نکال رہا ہوں۔۔ جائیں یہاں سے۔۔۔"

۔

اور وہ سر جھکائے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

۔

"یوزلیس۔۔۔"

۔

کچھ دیر بعد جب مننان آفس آور ختم ہونے کے بعد اپنی گاڑی میں بلڈنگ سے باہر نکلا تو کچھ دور فاصلے پر وہ لڑکی بینچ پر بیٹھی بارش میں بھیگ رہی تھی۔۔۔

گاڑی تھوڑی سی آگے جاکر مننان نے واپس بیک کی تھی اور اسکے سامنے روک دی تھی۔۔

۔

"کم اِن۔۔۔اتنی تیز بارش میں یہاں کیا کررہی ہیں۔۔؟؟"

"آپ کی وجہ سے کھڑی ہوں یہاں۔۔۔ آفس سے نکال دیا اور اب آفس ٹرانسپورٹ میں بھی نہیں جاسکتی میرا کارڈ بھی چھین لیا اس آنٹی نے۔۔۔

اور یہاں اتنی بڑی جگہ پر آفس بنا لیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں مل رہی ۔۔۔"

وہ بڑبڑائے جارہی تھی جب مننان نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ اوپن کیا تھا اس کے لیے۔۔

"میں ڈراپ کردیتا ہوں۔۔۔"

"سچ میں۔۔؟؟ اتنی بڑی گاڑی میں۔۔؟؟ یہ ماڈل آپ نے کچھ ویک پہلے تیار کیا تھا نہ۔۔؟؟ ہائے اللہ میں ایک سیلفی لے سکتی ہوں۔۔۔؟؟"

اس نے موبائل جیسے ہی نکالا تھا جو اسکے پرس کی طرح بھیگ چکا تھا۔۔۔

"میرا موبائل۔۔۔ ابھی بارہ مہینے کی کمیٹی سے خریدا تھا میں نے۔۔۔ سب آپ کی وجہ سے ہوا۔۔۔ میری چاکلیٹ بھی بھیگ گئی اور میرے لئیز۔۔۔"

وہ وہیں بینچ پر اپنے پرس سے چیزیں نکال کر 

"بہت بُرے ہیں آپ مسٹر مننان۔۔۔"

"او جسٹ شٹ اپ۔۔۔"

"کیوں شٹ اپ۔۔۔ آپ شٹ اپ یو شٹ اپ مسٹر۔۔۔ یہ آپ کا آفس نہیں ہے۔۔

نکالیے میرے بیس ہزار دوسو پچس روپے۔۔۔"

وہ کمر پر ہاتھ رکھے گاڑی کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی

"ماں آپ کو یہی ملی تھی میری سیکریٹری کے لیے۔۔۔؟؟"

وہ خود سے مخاطب ہوا تھا سامنے کھڑی وہ لڑکی بالکل پاگل لگ رہی تھی اسے

"اگر آپ گاڑی میں نہ بیٹھی تو۔۔۔میں چلا جاؤں گا اور آپ رہیے گا ساری رات یہاں۔۔۔"

۔

پیچھے سے کتے کے بھونکنے کی آواز پر وہ بینچ کی طرف بھاگی تھی سب چیزیں پرس میں ڈالے جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی 

"اب آپ میرا منہ کیا دیکھ رہے ہیں۔۔ چلائیں گاڑی۔۔۔"

"سیٹ بلٹ مس۔۔۔"

"نہیں آتی لگانی۔۔۔ میں کونسا روز ان لینڈ کروزر گاڑیوں میں بیٹھتی ہوں میں تو بھئ پبلک ٹرانسپورٹ میں کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ۔۔۔"

اسکے الفاظ ہونٹوں پہ آنے سے پہلے دم توڑ گئے تھے جب مننان آگے جھکا تھا وہ سیٹ بلٹ لگاتے ہوئے اور جھکا تو اسکے ہونٹ منیشہ کے بارش میں بھیگے کندھے سے جیسے ہی ٹچ ہوئے تھے اسکی سانسیں رک گئی تھی

وہ بےساختہ مننان کی آنکھوں میں دیکھنے لگی تھی پہلی بار اتنے قریب سے۔۔۔

۔

"تو جو مجھے آ ملا۔۔۔ سپنے ہوئے سرپھرے۔۔۔

ہاتھوں میں آتے نہیں۔۔اڑتے ہیں لمحے میرے۔۔"

۔

بےخودی میں اسکی انگلیاں مننان کے چہرے کو چھونے کے لیے جیسے ہی آگے بڑھی مننان پیچھے ہوگیا تھا اور گاڑی سٹارٹ کردی تھی اسکا ہاتھ ہوا میں رہ گیا تھا۔۔۔

۔

"میری ہنسی تجھ سے میری خوشی تجھ سے۔۔۔ تجھے خبر کیا بے خبر۔۔۔

جس دن تجھ کو نہ دیکھوں۔۔ پاگل پاگل پھرتی ہوں۔۔۔

۔

کون تجھے یوں پیار کرے گا جیسے میں کرتی ہوں۔۔۔"

۔

"مس منیشہ۔۔۔ یہ بس سٹاپ یہاں سے بس لیکر آپ گھر چلی جائیے گا۔۔"

"مگر سر کچھ فاصلے پر ہی میرا گھر ہے۔۔"

"ہاں مگر میں آپ کا پرسنل ڈارئیور نہیں ہوں۔۔"

پر سر۔۔"

"آؤٹ۔۔۔"

"اوکے۔۔ چلائیے مت۔۔۔"

وہ غصے سے نیچے اتر گئی تھی اور مننان جلدی سے گاڑی چلا چکا تھا

"اللہ کرے ٹائر پنکچر ہوجائے۔۔ اللہ کرے گاڑی کسی ٹرک۔۔۔ نہیں نہیں اللہ نہ کرے۔۔

ٹرک کے ساتھ لگ گئے تو ہماری لو سٹوری ادھوری رہ جائے گی۔۔۔ اللہ کسی موٹر بائک کے ساتھ کسی کھمبے کے ساتھ لگا دینا مگر ٹرک کے ساتھ نہیں۔۔۔"

۔

وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہتی وہاں سے رکی ہوئی بس کی جانب بڑھی تھی۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماننا پڑے گا نجیب آفندی۔۔۔ اپنے گھر کی عزت بچانے کے لیے تم سات سمندر پار آگئے۔۔۔ میرے پیسے ساتھ لیکر آئے ہو۔۔؟؟"

سنسان روڈ پر گاڑی روک کر وہ سیٹ سے نوٹوں سے بھرا ہوا بیگ اٹھا کر باہر نکلے تھے

"تم جیسا دلال اس بات کو نہیں سمجھ سکتا۔۔ تمہارا واسطہ نہیں پڑا ۔۔۔"

نجیب نے بیگ کو درمیان میں رکھ کر اس آدمی کو غصے سے کہا تھا جو سگریٹ جلائے اسے دیکھ رہا تھا

"میرا واسطہ عزت سے نہ پڑا ہوا مگر تمہاری عزت دار بیوی سے ضرور پڑا تھا۔۔ ویسے کیسی ہے میری بیوٹیفل عمارہ۔۔؟؟"

"یو باسٹرڈ۔۔۔"

نجیب نے غصے سے اسکے منہ پر مکا  مارا تھا اور مارتا ہی چلا گیا تھا جب تک کہ اسکا منہ خون سے نہ بھر گیا ہو

"او۔۔۔ معافی۔۔۔ معذرت۔۔۔"

وہ ہاتھ جوڑتے پیچھے ہوا تھا۔۔

"یہ پیسے پکڑ اور وہ تصاویر اور وہ سب ثبوت دو۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔"

اس نے جیکٹ کی جیب سے گن نکال کر نجیب کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

"نجیب آفندی تمہاری آدھی موت تو یہاں آتے آتے مر گئے ہوگے۔۔۔

تمہاری بیوی کی عزت جو داؤ پر لگی ہوئی تھی۔۔۔ ہاہاہا آدھی موت تمہیں میں مار دوں گا۔۔"

وہ دونوں ابھی گھتم گھتا ہورہے تھے جب پاس سے ایک گاڑی ہارن دیتے ہوئے گزری۔۔ بیک سیٹ پر بیٹھی فائلز میں گم  نسواء اس شخص کو نہیں دیکھ پائی تھی مگر نجیب کی نظر اس پر پڑ گئی تھی۔۔۔ جو کچھ سوچ سمجھنے کی حالت میں نہ تھا۔۔۔وہ گاڑی جیسے ہی گزری تھی نجیب پر گولی چلا دی تھی اس آدمی نے۔۔۔اور پیسوں کا بیگ لئیے وہاں سے بھاگنے لگا تھا جب نجیب نے اسکی ٹانگ پکڑ لی تھی۔۔

اور کچھ لوگ بائیکس پر آگئے تھے۔۔۔

"مارو اسے۔۔۔ گاڑی کو ڈیمیجڈ کردو پوری طرح۔۔۔"

اس آدمی نے بیگ کو بائیک پر رکھ کر اپنی بائیک سٹارٹ کردی تھی اپنے لوگوں کو کہہ کر۔۔۔

۔

"ڈیم اِٹ۔۔۔۔"

اس آخری آدمی کو بھی بُری طرح زخمی کردیا تھا نجیب نے۔۔۔ ان سب کو وہ وہاں سے بھگا چکا تھا۔۔ مگر خود زخمی اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے وہ زمین پر جیسے ہی بیٹھا تھا اسکے لبوں سے بےساختہ ایک ہی نام نکلا تھا۔

"نسواء۔۔۔ میں جانتا تھا تم زندہ ہو۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر آپ کو تو گولی لگی ہے۔۔کتنا خون بہہ رہا ہے۔۔ آپ چلئیے میرے ساتھ۔۔"

زخمی نجیب کو کندھے سے سہارا دیتے ہوئے اس لڑکی نے جیسے ہی اٹھانے کی کوشش کی تھی نجیب نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا

"میں۔۔ ٹھیک ہوں۔۔ ایم آلرائٹ۔۔میں چلا جاؤں گا۔۔"

"سر آپ کو ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے چلیں میرے ساتھ۔۔"

"ایک بار میں سمجھ نہیں آتی میں نہیں جاسکتا۔۔ مجھے اسے ڈھونڈنا۔۔ اسے دیکھا ہے میں نے یہیں۔۔۔"

وہ غصے سے بولتے ہوئے سنسنان روڈ پر یہاں وہاں نظر دہرانے لگے تھے۔۔

"سر آپ کسے ڈھونڈ رہے ہیں۔۔؟؟ آپ کو سمجھنا چاہیے میں ایسے آپ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔۔۔"

اس بار اس نے جتنی سختی سے نجیب کا کہا تھا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی گاڑی کی طرف زبردستی لے جانا شروع کردیا تھا

"ہاؤ ڈیڑھ یو۔۔۔ مجھے ہاتھ لگانے کی ہمت۔۔۔"

"پلیز بیٹھ جائیے۔۔۔"

وہ جس قدر التجا سے بولی تھی نجیب کو کچھ پل کے لیے نسواء کی آواز اور اسی چھوی نظر آرہی تھی اس لڑکی میں۔۔۔"

اسکا تھری پیس ڈریس بری طرح بھر گیا تھا بازو سے نکلتے خون کی وجہ سے۔۔ وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا

"تم بس میرا ٹائم ویسٹ کررہی ہو لڑکی۔۔ اگر میں نے آج اسے نہیں ڈھونڈا تو پھر کبھی نہیں ملے گی وہ مجھے۔۔۔"

وہ بڑبڑا رہا تھا اور جب موبائل اٹھایا تو وہ بھی بند ہوگیا تھا نیچے گرنے کی وجہ سے

"آپ انہیں بعد میں بھی ڈھونڈ سکتے ہیں مگر اگر وقت میں یہ گولی نہ نکالی گئی تو آپ کی جان بھی جاسکتی ہے۔۔"

وہ اور آرام سے جواب دیتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کرچکی تھی۔۔ بات کرتے ہوئے نظریں جھکائے ہوئے تھی مغربی لباس میں دیکھ کر نجیب حیران ضرور ہوا تھا سلوار سوٹ میں۔۔۔ گلے میں دوپٹہ لیا ہوا تھا چہرے پر گلاسز لگی ہوئی تھی جو نظر کی تھی

جسے بار بار وہ ٹھیک کررہی تھی۔۔۔ وہ جس قدر دکھنے میں نرم مزاج لگرہی تھی اس قدر ہی اس نے فاسٹ ڈرائیو کی تھی اس وقت۔۔

"مجھے ہسپتال لے جانے کا فائدہ کوئی نہیں ہے یہاں سٹرائیک چل رہی ہے سب کچھ بند ہے آج کے دن۔۔۔"

"جی مجھے معلوم ہے سر۔۔۔"

وہ سگنل پر جیسے ہی رکے تھے اپنے دوپٹے کا ایک حصہ کاٹ کر اس نے نجیب کے زخمی بازو پر باندھ کر اسے حیران کردیا تھا

"اس سے خون بہنا کم ہوجائے گا۔۔۔"

"ہمم۔۔۔"

"ویسے کسے ڈھونڈرہے تھے آپ۔۔؟؟ کچھ بتائیے۔۔ میں اپنے بھائی سے کہوں گی وہ چند منٹوں میں ڈھونڈ نکالے گے۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔ یہاں میں سالوں میں ڈھونڈ نہیں پایا اور تمہارا بھائی منٹوں میں ڈھونڈ نکالے گا۔۔؟ نائس جوک۔۔۔"

اس کے لہجے میں طنز تھا جس پر غصہ ہونے کے بجائے وہ لڑکی ہنس دی تھی

جب گاڑی ہسپتال کے باہر رکی تو سب کچھ بند تھا۔۔۔ روڈز خالی تھی پارکنگ خالی تھی۔۔

اور نجیب نے اس لڑکی کو دیکھا تھا اور بےساختہ ہنس دئیے تھے اس لڑکی کی خاموشی پر۔۔

"اس کنٹری میں سٹرائیک کا مطلب سٹرائیک ہی ہوتا ہے بچے۔۔۔"

اس آخری لفظ پر وہ بہت شاکڈ ہوئے تھے مگر اس وقت سب سے زیادہ حیران ہوئے تھے جب گارڈ نے گیٹ اوپن کیا تھا ہسپتال کا۔۔۔

وہ گاڑی جیسے ہی اندر داخل ہوئی تھی وارڈ بوائے سٹریچر لیکر پہلے ہی کھڑے ہوئے تھے۔۔

۔

"انہیں جلدی سے آپریشن ٹھیٹر میں لے جائیں میں وہی آرہی ہوں۔۔۔"

وہ سٹریچر جیسے جیسے ہاسپٹل میں داخل ہوا تھا وہ لوگ نجیب کو اندر لے گئے تھے جو باضد ہوگئے تھے

تب اس لڑکی نے نجیب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔

"پلیز سر۔۔۔ آُ جتنی جلدی اندر جائیں گے اتنی جلدی ہی ٹھیک ہوکر واپس گھر اپنی فیملی میں بھی جاسکے گے۔۔۔"

۔

وہ ابھی بات کررہی تھی جب دو ڈاکٹر پیچھے سے آکر انکے پاس رکی تھی

"ڈاکٹر حورب سب ٹھیک تو ہے۔۔؟؟ "

"جی۔۔۔ آپ انہیں آپریشن ٹھیٹر میں لے جائیں۔۔ یہ آپریشن میں ہی کروں گی۔۔۔"

"ڈاکٹر حورب۔۔۔؟؟"

نجیب نے ایک بار پھر سے اس لڑکی کا نام لیا تھا جس نے ہلکی سی مسکراہٹ پاس کی تھی۔۔۔

"جی ڈاکٹر حورب سر۔۔۔آپ بےفکر کر جائیے اندر۔۔۔"

۔

۔

"آپریشن ٹھیٹر میں وہ واحد ڈاکٹر تھی جو سب سے زیادہ کانفیڈنٹ تھی۔۔۔

مگر کندھے سے گولی نکالنے لگی تھی اسکے ہاتھ کانپ گئے تھے۔۔ نجیب کی بند آنکھیں اسے ایک الگ درد محسوس کرنے پر مجبور کررہی تھی

"ڈاکٹر حورب۔۔ آر یو آلرائٹ۔۔؟؟ اگر آپ کمفرٹ ایبل نہیں تو ہم۔۔"

"نووو اٹس اوکے۔۔۔"

۔

زخم پر سٹیچیز کرنے کے بعد وہ ماسک اتارے وہیں کھڑی رہی تھی کچھ دیر۔۔۔

"جب انہیں ہوش آجائے تو مجھے انفارم کردیجئے گا۔۔۔لازمی۔۔۔"

۔

وہ یہ کہہ کر چلی گئی تھی۔۔۔

۔

۔

"جی ماما میں نےنماز پڑھ لی تھی کھانا بھی کھا لیا تھا۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی آپریشن سے فارغ ہوئی۔۔۔"

۔

"جی ماما ایم سو سوری۔۔۔ مجھے تھوڑا لیٹ ہوجائے گا۔۔۔

ہاہاہا بھائی کے گارڈز سایہ کی طرح سر پر سوار ہوتے ہیں میری سیکیورٹی کی فکر مت کیجئے۔۔۔"

"ڈاکٹر حورب وہ پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔۔۔"

"ماما مجھے ابھی جانا ہوگا۔۔۔ سو سوری۔۔۔ لوو یو۔۔۔ اپنی میڈیسن وقت پر کھا لیجئے گا۔۔ بھائی کو بھی بتادیجئے گا ورنہ ہاسپٹل سر پر اٹھا لیں گے۔۔۔

ہاہاہا اوکے۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔"

۔

وہ جلدی سے لیب کوٹ پہنے سپیشل وارڈ کی جانب بڑھی تھی جس کے ساتھ والا روم اس نئے پیشنٹ کو آلاٹ کیا گیا تھا۔۔۔

۔

"تم لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا مجھے ابھی جانا ہے۔۔۔"

کانچ ٹوٹنے کی آواز نے حورب کو الرٹ کردیا تھا جلدی سے دروازہ کھولے وہ اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔

"سر۔۔۔"

"یو۔۔۔کیا کیا ہے مجھے۔۔۔میں نے کہا تھا۔۔۔"

"آپ پورے ہاسپٹل کو ڈسٹرب کررہے ہیں سر۔۔ آپ خاموشی سے لیٹے رہیں۔۔ سسٹر آپ انہیں سوپ پیلا کر میڈیسن۔۔۔"

"میں کوئی چھوٹا بچہ ہوں جو کسی کے ہاتھوں سے کھاؤں گا پئیوں گا۔۔؟؟میرا موبائل کہاں مجھے فون کرنا ہے یہاں سے جانا ہے۔۔"

نجیب نے حورب کو مکمل طور پر اگنور کرکے پاس کھڑی نرس سے کہا تھا

"سسٹر آپ جائیں یہ مجھے دیجئے۔۔۔"

وہ سوپ کا باؤل پکڑے سامنے چئیر پر بیٹھی تھی جو بیڈ کے سامنے تھی

"آپ جانا چاہتے ہیں تو شوق سے جائیے مگر ہمارے ہاسپٹل کی ریپوٹیشن خراب کرکے نہیں۔۔۔

آپ آج کا دن اس بیڈ سے ہل نہیں سکتے جب تک آپ یہ پی کر میڈیسن نہیں کھا لیتے سر۔۔"

"کوئی زبردستی ہے۔۔؟ تم جانتی نہیں ہو میں کون ہوں میرے ایک شارے سے یہ ہاسپٹل کا نام و نشان۔۔۔ تمہاری نوکری سب ختم ہوجائے گا۔۔"

"آپ نے اشارہ کرنا ہے سیدھے ہاتھ سے۔۔؟؟ اس سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرنے کے لیے اس ہاتھ کا ٹھیک ہونا ضروری ہے سر۔۔ٹرائی کیجئے۔۔۔"

اور حورب کی بات سچ ثابت ہوئی تھی جب نجیب سے سیدھا ہاتھ اٹھایا نہ جاسکا تھا

"سی۔۔۔؟؟ اب منہ کھولیں۔۔۔"

کچھ سیکنڈ میں نجیب نے ہار مانتے ہوئے منہ کھولا تو وہ آہستہ آہستہ سوپ پیلانا شروع ہوگئے تھے سپون سے۔۔۔

"ویسے۔۔ آپ ڈھونڈ کسے رہے تھے۔۔؟؟"

"میری بیوی کو۔۔۔"

"کیوں۔۔؟؟ وہ آپ کو چھوڑ گئی ہیں۔۔۔؟؟"

"نہیں۔۔۔ میں نے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا۔۔۔"

نجیب نے سرگوشی کی تو حورب کی آنکھوں میں ایک الگ نفرت ابھری تھی

"تو آپ اب کیوں ڈھونڈ رہے ہیں۔۔؟؟ جانے والے واپس آجاتے ہیں مگر نکالے جانے والے لوٹ کر واپس نہیں آتے۔۔۔ انکی آنا انہیں پیچھے مڑنے نہیں دیتی سر۔۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ہاہاہا۔۔۔ نجیب۔۔۔ہاہاہاہا گدگدی ہورہی ہے۔۔۔"

نجیب نے اسکے کندھے سے سر اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا

"سیریسلی نسواء۔۔؟؟ کچھ اور ہونا چاہیے تھا۔۔۔ ۔۔"

"لائک کیا ہونا چاہیے تھا۔۔۔؟؟""

نجیب کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا۔۔۔

"میرے پیار کرنے پر آپ مدہوش ہوجاتی۔۔۔ مچلتی بہکتی۔۔۔ مہکتی۔۔۔"

وہ باری باری اسکی آنکھوں پر بوسہ دے رہا تھا اور پھر اسکے رخصار پر محبت کی مہر چھوڑتے ہوئے وہ اسکی گردن پر جیسے ہی بوسہ دینے کے لیے جھکا تھا نسواء کے قہقے پھر سے روم میں گونجے تھے۔۔۔

"ہاہاہاہاہا۔۔۔ یا تو آپ میری گردن کو سکیپ کردیں یا پھر اپنی بیرڈ کو کم کریں۔۔۔چبھ رہی ہیں۔۔۔"

"ہاہاہاہا آہاں۔۔۔ اب تو خیر نہیں ہے۔۔۔ اور کچھ دن پہلے کون میری بیرڈ کی تعریف کررہا تھا۔۔۔؟؟ اب کون بچائے گا وائفی۔۔۔"

وہ ایک بار پھر سے گردن پر جھکا تھا اس بار اپنے گال کو جیسے ہی نسواء کے نیک سے ٹچ کیا تھا اسے گدگدی نہیں ہوئی تھی اسکے ہاتھوں کی گرفت نجیب کے بالوں میں مظبوط ہوئی تھی۔۔۔

۔

"نجیب۔۔۔"

۔

"بھاگا بھاگا پھرتا ہے یہ دل۔۔۔ جانے ایسی کیا ہے مشکل۔۔

تیرے بنا جیتا نہیں ہے۔۔۔ تو تو میری سانسوں میں شامل۔۔۔"

۔

"بچے بڑے ہوگئے ہیں نجیب۔۔۔"

سسکی سے بھری آواز اسے خود کو سنائی دے گئی تھی۔۔۔

۔

"میری تنہایاں ڈسے مجھے سوہنیا۔۔۔

ہوں گی رسوائیاں تیرے دل کی سوہنیا۔۔۔"

"وہ تمہارا شوہر ہے وہ تمہیں نہیں سمجھے گا تو کون سمجھے گا۔۔؟ نسواء یہ بیماری کوئی عام بیماری نہیں ہے اس بیماری میں گھروں کے گھر اجڑتے دیکھے ہیں جانے والے کے بعد ایک دنیا مر جاتی ہے زندہ رہنے والوں کی۔۔"

پانی کا گلاس نسواء کے ہاتھ میں تھما کر انہوں نے کچھ ٹیبلیٹس بھی دی تھی جو کھانے کے بعد نسواء نے پانی کا سیپ لیا تھا

"تم نہیں سمجھ سکتی سحرش۔۔ وہ شخص جنون کی حد تک عشق کرتا ہے مجھ سے۔۔۔ 

نجیب کی محبت میں وہ شدت ہے کہ اپنے بیٹے کو بھی کبھی کبھی برداشت نہیں کرتے۔۔"

"ہاہاہا آہاں۔۔؟؟ بیڈروم معاملات تو بہت ڈسٹرب ہوئے ہوں گے۔۔؟؟"

ڈاکٹر دوست نے ٹیز کرتے ہوئے نسواء کا موڈ چینج کرنا چاہا تھا۔۔

"اس لیے تمہارے پاس آئی ہوں۔۔ مجھے اور میڈیسن دو جسے کھا کر اتنی انرجی آسکے کہ یہ بار بار سر درد نہ رہے۔۔ میں نجیب کو اور زیادہ خود سے دور نہیں کرسکتی۔۔

میں اس دوری میں اور پاگل ہورہی ہوں۔۔سو پلیز۔۔۔ کچھ اور بھی دو۔۔۔"

"نسواء۔۔۔ نسواء۔۔ریلیکس۔۔ یہ کینسر ابھی سٹارٹ ہے۔۔ جو علاج ابھی شروع کیا یہ تو کچھ بھی نہیں جو اذیت آگے جاکر مل گی تمہیں۔۔ اور تم کہہ رہی ہو ابھی سے بوجھ ڈال دوں دوائیوں کا۔۔؟؟ چندا ایسے نہیں ہوتا۔۔ اس لیے کہہ رہی ہوں نجیب بھائی کو بتا دو۔۔"

نسواء ہاتھ چھڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔

"ایسا ممکن نہیں ہے ۔۔ تم اور باقی سب ڈاکٹرز مجھے یقین دلا رہے ہو تسلیاں دہ رہے ہوں مگر میں جانتی ہوں کہ اس میں سروائیو کے آپشن۔۔"

"شش۔۔۔ ہم کچھ ہفتوں میں اس پر قابو پالیں گے نسواء یہ مکمل جائے گا نہیں مگر یہ پھر اس طرح تنگ بھی نہیں کرے گا بس علاج پر گرفت مظبوط کرنی ہے ہم نے۔۔۔"

۔

سحرش سے کچھ دیر اور باتیں کرکے میں واپس گاڑی کی طرف آگئی تھی

اور اس دن گھر جانےکے بجائے میں نے نجیب کے دفتر کا راستہ لیا تھا۔۔

آج میں نجیب کو سرپرائز دینا چاہتی تھی۔۔مگر آفس جاکر پتہ نجیب اپنی سیکریٹری کے ساتھ لنچ پر گئے ہیں۔۔

مجھے پہلی بار اپنے پانچ سال کی شادی میں اپنے شوہر کی ذات مشکوک لگی مگر میں اس بات کو درگزر کرچکی تھی کیونکہ اس سب میں میری زات شرمندہ ہورہی تھی میں اپنے شوہر کے ساتھ زیادتی کررہی تھی۔۔

گھر جا کر میں سیدھا مننان کے روم میں گئی تھی وہ اپنے کھلونوں میں اتنا مصروف تھا کہ اسے میرے آنے کی خبر نہ ہوئی۔۔ پر ایسا مجھے لگا تھا۔۔ میں جیسے خاموشی سے اسکے بیڈ پر بیٹھی اسے گلے لگانے لگی تھی وہ پلٹ کر میرے گلے لگ گیا تھا۔۔

میرا بیٹا۔۔ میری زندگی۔۔۔ اتنی سی عمر میں اسے معلوم ہوجاتا تھا میں کب کمرے میں آئی ہوں کب کمرے میں گئی ہوں۔۔

مننان میں میری جان بسنے لگی تھی۔۔ دادی کہتی ہیں مننان کا بچپن نجیب جیسا رہا۔۔

اور انہوں نے تو یہاں تک کہا مننان نجیب کی چھوی بنے گا دیکھنے میں بھی اور شخصیت میں بھی۔۔

"دادی بس نجیب کی طرح بزنس مین نہ بنے۔۔ آپ نہیں جانتی نجیب کا وہ روپ اتنے سخت اور ظالم بزنس مین۔۔۔"

مجھے یاد ہے دادی بےساختہ ہنس دی تھی میرے ساتھ۔۔۔

۔

میں بس نجیب کے آنے کا انتظار کررہی تھی۔۔اور ساتھ ساتھ اپنی دوائیوں کو کھا کر وہیں مننان کو اپنے ساتھ سلائے لیٹ گئی تھی۔۔

۔

کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو خود کو نجیب کی بانہوں میں سوتے ہوئے پایا

"نجیب۔۔ آپ کب آئے۔۔؟"

"بس ابھی۔۔میں نے کتنی بار کہا ہے پورا دن جہاں مرضی گزارو مگر رات ہر رات تم مجھے ہمارے بیڈروم میں ملو نسواء۔۔"

"ہمم۔۔۔" نجیب کے سینے پر بوسہ دئیے میں آنکھیں بند کرچکی تھی نجیب کی انگلیوں کو اپنی کمر پر محسوس کرتے ہوئے میں نے وہ سوال پوچھا جو پوچھنے کے لیے بےچین ہوئی تھی

"آج آپ کہاں گئے تھے۔۔؟ آفس میں فون کیا تو نہیں تھے۔۔؟"

"میں کچھ کلائنٹس کے ساتھ کنسٹرکشن سائیڈ پر گیا تھا۔۔"

"ہممم۔۔۔"

جھوٹ۔۔ جھوٹ جب کسی رشتے میں آجائے تو سمجھ لیجئے رشتوں میں محبت کمزور پڑ گئی ہے۔۔

وہ دن تھا جس دن میں نے اپنے شوہر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔۔

کیونکہ میں خود بھی پر امید نہیں تھی کینسر جیسی بیماری سے بچ نکلنے میں۔۔

۔

مگر اللہ کا کچھ اور ہی منظور تھا۔۔ جس دن سحرش نے مجھے  گرین سگنل دہ دیا وہ دن میری زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا۔۔۔

مجھے یاد ہے جس دن میں ہاسپٹل سے گھر آئی تھی پورے مینشن کو سجے سنورے دیکھ میں دنگ رہ گئی تھی۔۔ جہاں تک مجھے یاد تھا آج کے دن کوئی تہوار کوئی فنکشن نہ تھا۔۔

جب میں ملازموں کے جھڑمٹ سے گزرتے ہوئے اوپر جانے لگی تھی اس وقت میری نظر دادی کے کمرے میں پڑی جو رو رہی تھی مجھے دیکھ کر۔۔

میں بیڈروم میں جانے کے بجائے سیدھا دادی کے کمرے میں گئی تھی

"دادی کیاہوا آپ اس طرح کیوں رو رہی ہیں۔۔؟ مننان ٹھیک ہے۔۔؟ آپ کو کچھ ہوا۔۔؟ کسی نے کچھ کہا۔۔؟؟"

دادی کا ہاتھ پکڑ کر میں انہیں انکے روم میں لے گئی تھی دادی کو جیسے ہی بیڈ پر بٹھا کر انکے پاس بیٹھی وہ میرے گلے لگ کر زاروقطار رونے لگی اور ایک ہی بات کہہ رہی تھیں وہ۔۔

۔

"اپنا گھر بچا لو بیٹا۔۔ بچا لو اپنے گھر کو۔۔۔"

"دادی آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔؟ کیا ہوا ہے میرے گھر کو۔۔؟"

"نسواء۔۔ اپنے شوہر کو بچا لو۔۔ کسی تیسرے کو اپنا گھر برباد کرنے مت دینا۔۔"

اور جب میں نے انکی بات سن کر انکی آنکھوں میں دیکھا میں انکی آنکھوں میں دیکھ کر ایک بات سمجھ گئی تھی جو پچھلے کچھ ماہ سے نجیب کی لاپروائی مجھے سمجھانے کی کوشش کررہی تھی اور میں دوائیوں کے نشے میں ہر ایک ہنٹ کو درگزر کررہی تھی۔۔۔

"نجیب کہاں ہے۔۔؟؟"

میرے منہ سے بےساختہ نکلا تھا

"اوپر کمرے میں۔۔نسواء۔۔۔"

دادی روتے ہوئے میرے دونوں ہاتھوں کو اپنے ماتھے سے لگا چکی تھی

اب کے وہ درد جو دادی کی آنکھوں میں تھا وہ میرے دل میں ہونا شروع ہوگیا تھا۔۔

چڑھتی ہوئی ہر سیرھی میرے قدموں سے جان نکال رہی تھی میں آج اپنے کمرے میں جاتے ہوئے ڈر رہی تھی گھبرا رہی تھی

میرا سانس ایسے آرہا تھا جیسے اب بند ہوجائے۔۔رئیلنگ کا سہارا لئیے میں میں اپنے بیڈروم تک پہنچ گئی تھی۔۔

۔

جب اندر داخل ہوئی تو دروازہ بند کئیے اس پر سر رکھ لیا تھا آنکھیں بند کرلی تھی

کیونکہ نجیب کے کپڑے بستر پر پڑے دیکھ لئیے تھے میں نے۔۔۔

مجھے دیکھتے وہ ایک ہی جملہ بولے تھے وہ جملہ جو کوئی بیوی کبھی نہ سننا چاہے گی۔۔

وہ جملہ جو آپ کے ہنستے بستے گھر کو آگ لگا دے اور کوئی آگ لگانے والے کو کچھ نہ کہہ سکے۔۔کچھ بھی نہ۔۔۔

"میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔ وہ میرا شرعی حق ہے نسواء آپ مجھے روک نہیں سکتی۔۔"

دل میں ہزار گلے شکوے تھے۔۔ہزار باتیں تھی پر میں اپنے شوہر نامدار کا چہرہ تکتی رہ گئی تھی۔۔

میری زندگی کے پانچ سال جو میں نے اس شخص کے ساتھ گزار دئیے مجھے جہاں جس راستے چلایا گیا میں چلتی رہی۔۔

نجیب نے دن کو رات کہا تو میں نے رات سمجھا۔۔۔ رات کو صبح کہا تو میں نے صبح سمجھا۔۔

میں نے ان پانچ سالوں میں کبھی کسی ایک بات کے لیے نجیب کو انکار نہ کیا۔۔

ااور جب نجیب نے کہا میں اانکے حقوق انہیں نہ دے پائی تو میری زبان پر میری بیماری آتے آتے رہ گئی۔۔

کیا میاں بیوی کا رشتہ بستر کی ان چادروں تک مقیم رہتا ہے ۔۔؟

وہ سوال جو میں خود سے پوچھ رہی  تھی میں اس پل نجیب سے پوچھنا چاہتی تھی۔۔

مگر میرے شوہر کا خوبصورت چہرہ مجھے سب کچھ ہی بھلا چکا تھا۔۔۔

نجیب کو اپنے حصار میں لئیے انکی گردن پر میں نے جیسے ہی اپنے ہونٹ رکھے تھے نجیب کے پاؤں کمرے سے باہر جاتے رک گئے تھے۔۔۔

اور اس دن ہماری شادی میں پہلی بار میں نے اپنی محبت قسمیں اور وعدوں سے زیادہ اپنے وجود کو اپنے شوہر کے سامنے پیش کردیا۔۔

اپنی عزت نفس کو۔۔ اپنی آنا کو ۔۔۔ وہ محبت بھرے کچھ گھنٹے نجیب کی بانہوں میں گزرے تو یقین ہوا کہ میں نے واپس پا لیا اپنے شوہر کو۔۔۔

نجیب کے سینے پر سر رکھے ایک گہری نیند سو چکی تھی میں۔۔

اس بات سے بےخبر کہ میں لڑنے سے پہلے ہی ہار گئی تھی۔۔۔

خود کو تنہا پایا اس بستر پر تو اپنا وجود کسی بازاری عورت سے کم نہیں لگا تھا مجھے۔۔۔

اس بستر کے کور میں خود کو لپیٹے باتھروم کے شاور میں خود کو اس شیشے میں دیکھ رہی تھی اپنے آپ سے ایک عجیب سے نفرت ہونے لگی تھی مجھے۔۔

کیوں۔۔؟؟ میں نے اپنے شوہر کو اپنا آپ سونپا تھا تو کیا ہوا اگر وہ مجھے بازاری بنا گیا۔۔؟

میں اپنے ہی جواب سے مطمئن نہیں تھی کیوں۔۔؟؟ 

یا اللہ کیوں۔۔۔ اللہ میں تو پچھلے دو سال سے اس بیماری کی اذیت میں تھی۔۔

اللہ میں نے کسی نامحرم کو نہیں دیکھا بات نہیں کی چاہت نہیں کی۔۔

اللہ میں نے بس اپنے شوہر کو سب سمجھا۔۔۔ اللہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔۔؟؟ پہلے وہ بیماری اور پھر شوہر کی بیوفائی۔۔؟؟ اللہ کیسے برداشت کرسکوں گی میں۔۔

بیماری تو سہہ گئی پر سوتن۔۔؟؟ اپنے رشتے میں شراکت۔۔؟؟

اللہ ایسا کیوں ہوا۔۔؟؟

میں نے اس دن پہلی بار اپنے رب سے شکوے کئیے شکایتیں کی کسی  نا سمجھ بچے کی طرح۔۔۔

باتھروم کے وال کے ساتھ ٹیک لگائے کتنے گھنٹے میں روتی رہی۔۔ کبھی اپنی قسمت پر تو کبھی ہمارے رشتے کے نصیب پر۔۔اور کبھی اپنے مننان پر۔۔۔

۔

وہ کچھ دن عذاب تھے۔۔ میں اور میرا بیٹا ایک کمرے میں بند ہو کر رہ گئے تھے۔۔

میں نجیب سے زیادہ اس فیملی پر ناراض تھی جو بار بار مجھے آکر کہہ رہے تھے کہ میں سواغت کروں نجیب کی دوسری بیوی کا۔۔

وہ ایک بہو کی ذمہ داریاں بتا رہے تھے مگر ایک بیوی کے ارمان کچل کر وہ مجھے نصیحتیں کررہے تھے

انہیں معلوم نہ تھی میں نجیب کی بیوی ہی نہیں انکے بچے کی ماں بھی ہوں انکی محبت بھی ہوں۔۔

میں کیسے شراکت برداشت کرلیتی۔۔۔

۔

اس رات کے بعد میں نے خود کو مننان کے روم میں شفٹ کرلیا تھا۔۔۔میرا بیٹا۔۔

جو اتنا معصوم تھا پھر بھی اتنے معلوم تھا میری آنکھوں کے آنسو پونچھنا۔۔

میرا مننان۔۔۔

اپنے شوہر کو نکاح کے دن میں نے اتنا خوش دیکھا تو وہ بیوی جو اس امید میں تھی کہ اسکا شوہر ایک بار اسکی محبت میں پشیمان اسے منانے ضرور آئے گا مگر وہ شوہر نہ آیا۔۔

وہ شوہر اپنی دوسری بیوی کے ساتھ اتنے گھنٹے گزارنے کے بعد جب میرے سامنے آیا تو۔۔۔ میرے لب خاموش تھے۔۔ میری آنکھیں بیان کررہی تھی میرا درد۔۔۔

مگر وہ بےدرد جانے کیوں اتنا ظالم بن گیا تھا۔۔ جو اپنی ہی بیوی کا ہاتھ پکڑے ساری محفل میں اسے بے آبرو کرچکا تھا۔۔وہ حقوق جو بند کمروں میں رہنے چاہیے تھے وہ اس شخص نے دس لوگوں میں بیان کرکے میری عزت نفس کا اندر تک ڈیمیجڈ کردیا تھا 

وہاں بھی نجیب کا غرور کم نہ ہوا تو ہمارے بیٹے پر الزام لگا دیا۔۔

کیسے کوئی مرد اپنی ہی اولاد کو قصور وار ٹھہرا سکتا ہے۔۔؟

۔

اس دن میں نے عورت کو ہی دوسری عورت کو چپ کرواتے ہوئے اسے دباتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ اور پھر میری نظر اس نئی نویلی دلہن پر پڑی تھی میرے شوہر کی دوسری بیوی میرے شوہر کی سیکریٹری۔۔۔ کتنا نکھار دیا تھا اسے میرے نجیب کی محبت نے۔۔

کہاں غلط ہوتی ہے بیوی۔۔؟ کہاں بدگماں ہوجاتا ہے شوہر۔۔؟

کہاں رشتہ خراب ہوتا ہے۔۔؟؟ کہاں موقع دیتی ہے بیوی کہ شوہر سوتن لے آئے۔۔؟

وہ مجھے اس لمحے میرے حال پر نہیں چھوڑ رہے تھے وہ مجھے اپنی زندگی سے اپنے گھر سے نکال رہے تھے تاکہ میں ررینگتے رینگتے واپس انکے قدموں میں آؤں اور اپنا لوں اس عورت کو جس نے میرا شوہر چھین لیا مجھ سے۔۔؟؟

نہیں تھا اتنا ظرف نہیں تھی نسواء اتنی مظبوط۔۔۔

نسواء بہت کمزور تھی اس لیے تو شوہر کو واپس نہ پا سکی۔۔۔

اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑے میں اپنے سسرال سے نہیں اس جنت سے باہر نکالی گئی تھی جسے میں نے سینچا تھا مجھے نہیں پتہ تھا اتنی محبت اتنے سالوں کی محبت بھی نہیں دیکھتے مرد جب ظالم بننے پر آجائے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"بیک ٹو پریزنٹ"

۔

ماما۔۔۔واااوووو اتنی مزیدار خوشبو آرہی ہے آج کیا سپیشل بن رہا ہے ۔۔۔"

حورب کچن میں داخل ہوتے ہی شاک ہوئی جب اس نے اپنی ماں اور بڑے بھائی کو ایک ساتھ کوکنگ کرتے ہوئے دیکھا۔۔

"ڈبل واووو۔۔۔ آج کیا کوئی سپیشل اکیژن ہیں۔۔؟؟ "

"آج ہماری گڑیا کا برتھ ڈے ہے۔۔۔"

وہ دونوں سائیڈ پر ہوئے تو کیک پر حورب کی نظر پڑی وہ دونوں کے گلے لگی تھی بھاگتے ہوئے۔۔

"سیریسلی۔۔؟؟ میں پورا دن ایویں ہی دیوداس بنے گھوم رہی تھی کہ آپ دونوں کو میری سالگرہ یاد نہ رہی۔۔۔"

حورب کی آنکھیں صاف کرکے نسواء نے اسکے ماتھے پر بوسہ لیا تھا۔۔

"بس بیوٹیفل لیڈیز بس چلیں کیک کاٹے۔۔"

ڈائننگ ہال میں جیسے ہی وہ دونوں آئے تھے حورب کو لیکر سب ملازم اور ورکز پہلے ہی سجے ہوئے ٹیبل کے پاس تھوڑا پیچھے کھڑے تھے۔۔۔

"ہیپی برتھ ڈے مس حورب۔۔۔"

"چلو بیٹا کیک کاٹ لیتے ہیں۔۔۔"

مننان جیسے ہی سامنے آیا تھا ملازم ڈر کے پیچھے ہوئے تھے۔۔اور نسواء نے مننان کو آنکھوں سے اشارہ کیا تھا جس کے بعد اسکے چہرے پر تھوڑی سی مسکان آئی تو اس نے تمام ملازمین کو آگے آکر حورب کو وش کرنے کی پرمیشن دی تھی۔۔۔

"پہلے ڈرا دیتے ہیں بھائی پھر کہتے ہیں آگے آجاؤ۔۔۔ماما دیکھا نہ آپ نے۔۔آؤچ۔۔۔"

حورب کا کان جیسے ہی کھینچا تھا اس نے نسواء  دونوں کو ایک دوسرے سے پیچھے کردیا تھا

"ماں آپ نے دیکھا کیسے ٹانگ کھینچ رہی۔۔"

"آپ کی اتنی بڑی ٹانگ کیسے کھینچ سکتی ۔۔ ماما اتنے بڑے کیوں ہو گئے ہیں یہ۔۔؟؟"

"ہاہاہاہاہا ہاں اب تو میں بھی کندھے سے نیچے ہی آتی ہوں۔۔۔"

نسواء اور حورب نے جیسے ہی پوائنٹ آؤٹ کیا تو مننان کے چہرے پر بےساختہ ہنسی آگئی تھی

۔

کیک کاٹنے کے بعد حورب نے سب سے پہلے نسواء کو دیا تھا اور پھر مننان کو۔۔ اور پھر مننان نے ہلکی سی بائٹ نسواء کی طرف کی تھی۔۔ ماتھے پر بوسہ دینے کے بعد اس نے اپنے گلے سے لگا لیا تھا اپنی ماں کو۔۔۔وہ ایسے ہی تھا کوئی موقع نہیں چھوڑتا تھا ماں کی آغوش میں اسے سکون ملتا تھا اسکا بےچین دل چین پا لیتا تھا۔۔

"ویسے کتنے بڑے ہوگئے ہو۔۔؟؟"

نسواء نے سر اٹھا کر مننان کے چہرے کی جانب دیکھا تھا اپنے جوان بیٹے کو پورے جوبن میں دیکھے اسکو ایک ہی چہرہ نظر آتا تھا کبھی کبھی ۔۔۔

اور وہ اسکے شوہر کا چہرہ تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ایک پیک چاہیے۔۔بس ایک ڈوس۔۔"

"اور جو پچھلے ہفتے دی تھی اسکا کیا۔۔؟ ہر روز شزا ایسے نہیں چلے گا۔۔"

"پلیز ہانی بس آج دہ دو۔۔۔"

"یہ لاسٹ ہے۔۔ اگر تم نے پیسے نہ دئیے تو میں ذمہ دار نہیں ہوں۔۔ جس سے مال میں لیتی ہوں وہ اور ادھار نہیں کریں گے۔۔۔"

اس نے بیگ سے وائٹ پیکٹ کاغذ میں چھپائے شزا کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا

"آئی لوو یوو۔۔ ہانی ۔۔"

وہ اس پیکٹ کو لیکر کوریڈور سے باتھروم کی طرف جانے لگی تھی جب ہانی نے اسے روک لیا تھا

"خبردار جو تم نے کالج میں یہ حرکت کی آگے ہی پرنسپل کو شک ہوگیا ہے مجھ پر اگر تم نشے میں دھت کہیں گری پڑی ملی تو رسٹیکیٹ کردیں گے ہمیں۔۔"

وہ اسے زبردستی پکڑ کرلے جانے لگی تھی جب شزا نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا

"تمہیں پتہ نہیں ہے میں کون ہوں۔۔؟؟ میں نجیب آفندی کی اکلوتی بیٹی ہوں کس میں اتنی ہمت ہے کہ مجھے نکالے۔۔؟؟ میرے پاپا ٹرسٹی ہیں اس  انسٹیٹیوٹ کے۔۔"

"سیریسلی۔۔؟؟ تم امیر باپ کی بیٹی ہوگی پر میں نہیں ہوں شزا ضد مت کرو ورنہ کھینچ لوں گی۔۔"

"اوکے اوکے سوری۔۔۔ سوری۔۔۔ میں  گھر جا کر لے تو لوں مگر وہ بڈھی دادی ہر وقت سر پر سوار رہتی ہیں۔۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔تمہاری موم کس لیے ہیں۔۔؟؟"

"انکی تو بات ہی نا کرو۔۔ وہ ہوں اور ماہیر بھائی۔۔ ان دونوں کو کوئی یاد بھی ہے۔۔"

شزا سگریٹ جلائے خالی کلاس روم میں چلی گئی تھی ۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماہیر بیٹا ایک بار آفس چلے جاؤ بس ایک بار۔۔ نجیب کا غصہ کم ہوجائے گا۔۔"

"آپ کو ان کی اتنی پرواہ کیوں ہے۔۔؟؟ آپ جانتی بھی ہیں کہ وہ کیا گل کھلا رہے ہیں۔۔؟؟"

"میں کچھ سننا نہیں چاہتی  وہ کیا کرتے ہیں کیا نہیں۔۔"

عمارہ چہرے کے آنسو صاف کئیے منہ پھیر چکی تھی

"آپ کو معلوم ہے ان کا آفئیر چل رہا ہے۔۔؟ شزا کی عمر کی لڑکی ہے 

آپ جانتی ہیں وہ کتنی زیادتی کررہے ہیں آپ کے ساتھ۔۔۔؟؟ کتنے سال پہلے انہوں نے آپ کا ہاتھ پکڑا روم شئیر کیا آپ کے ساتھ موم۔۔؟ بچپن سے آپ کو الگ کمرے میں دیکھتا آرہا ہوں۔۔کیا مل رہا ہےبرداشت کرکے۔۔؟؟"

عمارہ کو صوفہ پر بٹھا کر وہ جیسے ہی سامنے بیٹھا تھا عمارہ سر جھکا چکی تھی

"تم نہیں سمجھو گے۔۔ اس گھر میں نجیب کی حکومت  تم نہیں سمجھو گے۔۔۔

اور میرے اور نجیب کے درمیان جو دوریاں ہیں وہ ہمارا پرسنل میٹر ہے ماہیر۔۔

تم بیچ میں نہ آؤ تو بہتر ہے۔۔"

وہ ماہیر کا ہاتھ جھٹک کر کمرے سے جانے لگی تھی جب ماہیر نے اپنا فائنل فیصلہ سنا دیا تھا

"تو میں بھی پابند نہیں ہوں آپ کا۔۔ آئندہ آپ بھی میری زندگی میں دخل مت دیجئے گا۔۔۔"

"نجیب تمہارا خرچہ بند کردیں گے ماہیر۔۔ تم اپنے باپ کو نہیں جانتے۔۔"

"ہاہاہا وہ مجھے نہیں جانتے موم۔۔ میں بھی ان کا ہی خون ہوں۔۔۔ اوقات یاد دلا دوں گا۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء میم۔۔ ایک بات پوچھوں۔۔؟؟"

منیشہ نے وہ تمام نیوز پیپرز سامنے رکھتے ہوئے پوچھا تھا

"منیشہ ابھی نہیں بس مسٹر عثمان سے کہیں کانفرنس روم ریڈی کریں کچھ امپورٹنٹ کلائنٹ آرہے ہیں اور مننان کو بھی انفارم کردیں آج کی میٹنگ میں بریفنگ وہ دیں گے اور۔۔۔"

بات کرتے کرتے نسواء کی نظر سب سے اوپر والے نیوز پیپر پر پڑی تھی۔۔۔

۔

"سب نوٹ ڈاؤن کرلیا ہے اب میں پوچھ لوں کہ آپ سب کنٹریز کے نیوز پیپرز کیوں منگواتی ہیں۔۔؟؟"

منیشہ نے وہ بات پوچھ ہی لی تھی جس کا جواب نہیں دیا تھا نسواء نے اسکی نظر ایک مخصوس کاغذ کے ٹکڑے پر تھی جس میں بڑی سی تصویر تھی۔۔۔ اس شخص کی جسے دیکھے ایک عرصہ ہوگیا تھا۔۔

مگر پہلو میں ایک نیا چہرہ دیکھ کر نسواء کے لبوں پر ایک ہنسی چھا گئی تھی۔۔۔

۔

"اب آپ اتنا نیچے گر گئے ہیں کہ بیٹی کی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ آفئیر چلا رہے ہیں۔۔؟؟"

"میم۔۔۔؟؟ کب سے بول رہی ہوں آُ سن رہی ہیں۔۔؟؟ کیا میں زیادہ بولتی ہوں۔۔؟

آپ کو پتہ ہے مننان سر نے مجھے کہا ہے میری سیلری ڈبل کردیں گے اگر میں انکے سامنے چپ رہا کروں گی۔۔

اب بھلا کوئی انہیں بتائے چند ہزار روپے کے لیے میں اپنی زبان کیسے بند کرلوں۔۔؟؟"

وہ بڑبڑا رہی تھی جب نسواء نے ہنستے ہوئے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔۔

"مننان نے زیادہ پریشان تو نہیں کیا۔۔؟؟"

"سیریسلی ماں۔۔۔؟؟"

مننان کیبن میں داخل ہوا تھا ایک نظر غصے سے منیشہ کو دیکھا تھا جو  نسواء سے ایکسکئیوز کرکے وہاں سے بھاگ گئی تھی

مننان کو دیکھتے ہی وہ نیوز پیپرز جلدی سے چھپا دئیے تھے  دراز میں۔۔۔

"ماں آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔۔۔"

"ہاں بیٹا کیا بات ہے۔۔؟؟ یہاں آکر بیٹھو۔۔۔"

وہ خود بھی اٹھ کر سامنے کاؤچ پر بیٹھ چکی تھی

"ماں آپ کو یاد ہے میں نے کہا تھا میں نیو کمپنی لانچ کرنے جا رہا ہوں۔۔"

"ہمم میں جانتی ہوں ۔۔۔کوئی بھی انویسٹمنٹ چاہیے یا۔۔"

"ماں۔۔ میں پاکستان میں کمپنی لانچ کرنا چاہتا ہوں۔۔"

نسواء کی بات کو ٹوک دیا تھا مننان نے

"مننان بیٹا۔۔ یہ یہ نہیں ہوسکتا۔۔"

"کیوں نہیں ہوسکتا ماں۔۔؟ کتنی کنٹریز میں ہماری کمپنی آفس کو لانچ کیا تو وہاں کیوں نہیں جہاں سے ہم آئے ہیں۔۔"

نسواء نظریں چرا گئی تھی اتنے سالوں میں بھی کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا اسکا اسکے بیٹے کے ساتھ ان دونوں نے کبھی اس شخص کے بارے میں اس زندگی کے بارے میں بات ہی نہ کی تھی۔۔ نہ مننان نے کبھی سوال کیا نہ نسواء کے کبھی جواب دیا تھا۔۔

اور حورب نے جب پوچھنا چاہا مننان نے ہمیشہ اسے ڈانٹ کر چپ کروا دیا۔۔

وہ اپنے بچوں کو ایک ہی بات کہتی تھی کہ وہ کافی ہے انکے لیے۔۔۔

"ماں آپ نے میرے کبھی کسی فیصلے کو رد نہیں کیا پلیز اس کو بھی نہ کریں میں واپس جانا چاہتا ہوں۔۔"

"تم واپس نہیں جاؤ گے ہم واپس نہیں جائیں گے۔۔۔"

"کیوں اس شخص کی وجہ سے آپ مجھے رد کررہی ہیں۔۔ آپ کو ڈر ہے وہ ایک بار پھر سے ہمیں برباد کردیں گے۔۔؟؟ ماں وہ شخص اب ایک بال بھی نہیں کھاڑ سکتے ہمارا۔۔وہ۔۔"

نسواء کا ہاتھ اٹھ گیا تھا۔۔۔

"وہ شخص باپ ہے تمہارا۔۔ فارگوڈ سیک۔۔۔ آج کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔؟؟ یہ تربیت کی تھی میں نے۔۔؟؟ مننان۔۔۔"

"وہ میرا باپ نہیں ایک ظالم شوہر ہے جس نے اپنی بیوی پر سوتن لا دی۔۔ اپنے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔۔۔ وہ شخص میرا دشمن ہوسکتا ہے پر باپ نہیں۔۔۔"

نسواء کا پھر سے ہاتھ اٹھ گیا تھا۔۔ اور وہ روتے ہوئے اپنے ہی کیبن سے نکل گئی تھی اور پھر آفس سے باہر چلی گئی تھی

"ماں۔۔۔۔"

مننان بھی کیبن سے باہر بھاگا تھا سٹاف جو نسواء کو اس حالت میں دیکھ کر رک گیا تھا وہ سب مننان کو دیکھ کر پھر سے اپنے اپنے کام پر لگ گئے تھے مننان کے غصے کا شکار سب ہی ہوچکے تھے اور اب دور سے ہی مننان کی آمد پر سب ڈسپلین فارم میں ایکٹو ہوتے تھے۔۔۔

۔

"ماں۔۔۔"

نسواء کی گاڑی تیز سپیڈ میں آفس پارکنگ سے گزر گئی تھی 

"ڈیم اِٹ۔۔۔پیچھے جاؤ۔۔۔ اکیلا مت چھوڑنا۔۔"

نسواء کے سیکیورٹی گارڈ کو آرڈر دے کر اس نے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یہاں وہاں دیکھا تھا۔۔۔

"پاکستان تو میں ضرور جاؤں گا۔۔۔ نجیب آفندی کو بتانے کے بزنس ورلڈ میں انکی برابری کا انکا رائیول آچکا ہے۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میں آپ کا سایہ اپنے بچوں پر پڑنے نہیں دوں گی نجیب۔۔۔ مننان کبھی بدلے کی آگ میں نہیں جلے گا۔۔ میری بیٹی کبھی باپ کا ایسا روپ نہیں دیکھے گی جو آج میں دیکھ چکی ہوں اس نیوز پیپر میں۔۔۔"

وہ اور سپیڈ تیز کرچکی تھی گاڑی کی۔۔۔ آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے

وہ حیران تھی آج مننان کے منہ سے بولے جانے والے الفاظ پر اتنے سال سے وہ جب کوشش کرتی تھی مننان سے بات کرنے کی مننان ٹال جاتا تھا۔۔

مگر آج نجیب کو لیکر جو باتیں اس نے کی نسواء کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اتنی نفرت کیسے ہوگئی اسکو نجیب سے۔۔۔

"میں نے تو ہر بات پر اپنے بچوں کی تربیت اس تربیت سے الگ کی جو نجیب اور انکی فیملی نے بچوں کو دینی تھی۔۔

میں ایسے منافقت سے بھرے لوگوں میں کیسے رہنے دیتی اپنی بچوں کو۔۔؟؟

میں ہوس پرست اس شخص کا سایہ کیسے حورب پر برداشت کرتی۔۔؟؟ وہ کبھی باپ کہلانے کے قابل نہیں ہیں۔۔۔ اگر باپ ہیں بھی تو دوسری بیوی کے بچوں کے۔۔۔

میرے بچوں کو ایسا باپ نہیں چاہیے۔۔۔"

اس نے غصے سے کہا تھا۔۔۔ وہ غصے میں اتنی پاگل ہوچکی تھی کہ سامنے آتے ٹرک کی طرف اسکا دھیان نہ جاسکا۔۔۔

اس سے پہلے اسکی گاڑی اس کے ساتھ ٹکراتی پیچھے سے گارڈ کی گاڑی نے نسواء کی گاڑی کو ٹکر مار کر دوسری طرف کردیا تھا۔۔۔ اور سامنے گاڑی کو بچانے کے لیے ٹرک نے عین اسی سائیڈ پر ٹرن لیا تھا جہاں گاڑی کو ٹکر ماری تھی گارڈ نے۔۔۔ اور نسواء کی گاڑی اس ٹرک سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔

۔

"یو باسٹرڈ۔۔۔"

مننان کی آواز ایسے گونجی تھی دو گاڑیاں اس وقت بری طرح ٹکرائی

وہ اپنی چلتی گاڑی سے اترا تھا اور جس طرح اسکی گاڑی کے سٹئیرنگ چھوڑے تھے اس نے وہ وہاں گارڈز کی دوسری گاڑی سے جاٹکرائی تھی

اور وہ بھاگتے ہوئے اپنی کی گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔۔۔

"ماں۔۔۔ ماں۔۔۔ماں۔۔۔"

گاڑی کا بونٹ مکمل طور پر ڈیمیجڈ ہوگیا تھا اس نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ جیسے ہی کھولا تھا نسواء کا سر مننان کے کندھے پر آگر تھا

"ماں۔۔۔ماں آنکھیں کھولیں۔۔۔پلیز ۔۔"

اس نے نسواء کو جیسے باہر کھینچنے کی کوشش کی تو بےہوشی کی حالت میں بھی نسواء کے لبوں سے آہ نکلی تھی۔۔۔

ریسکیو کو بلاؤ۔۔ مشینری بلاؤ۔۔۔ ایسے باہر نہیں نکالا جائے گا۔۔ انکی ٹانگیں د چکی ہیں

جلدی کرو۔۔ جلدی۔۔ خون بہت بہہ چکا ہے۔۔۔"

وہ چلا رہا تھا ۔۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح بہہ رہے تھے۔۔۔

کچھ منٹ میں وہاں ہیلپ پہنچ چکی تھی۔۔ کچھ اور منٹ میں نسواء کو سٹریچر پر لٹا دیا گیا تھا

اور وہ ایمبولینس سیدھا حورب کے ہاسپٹل کی جانب بڑھی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تھینک یو سو مچ مسٹر متین۔۔ہمیں خوشی ہوئی یہ ڈیل  سائن ہوئی آفٹر آل آپ کی کمپنی کے ساتھ اور بھی ڈیلز بہت کامیاب رہیں ہیں۔۔۔"

وہ کلائنٹس سے باتیں کررہی تھی حذیفہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔

جو ویل چئیر پر آنے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری  تھی۔۔ پچھلے دو ماہ وہ سامنے بیٹھی اس عورت کو دیکھ رہا تھا جس نے ایک خاص مقام بنا لیا تھا اسکے دل میں۔۔

"مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی آپ دونوں کو ساتھ دیکھ کر۔۔"

مسٹر متین کی بات پر جہاں نسواء شاک ہوئی تھی وہی حذیفہ ہنس دیا تھا

"بس دعا کریں سب سے پہلے آپ کا ہی منہ میٹھا کرواؤں گا۔۔۔"

حذیفہ نے آہستہ آواز میں مسٹر متین کو کہا تھا جس کی بات سن کر نسواء نے آنکھیں دیکھائی تھی۔۔

تھوڑی دیر میں مسٹر متین چلے گئے تھے اور وہ دونوں بھی۔۔ نسواء کی پرائیویٹ سرونٹ جیسے ہی ویل چئیر کا ہینڈل پکڑنے لگی تھی حذیفہ نے روک دیا تھا۔۔

"کیا کچھ دیر آپ سے بات نہیں ہوسکتی نسواء۔۔؟؟"

"میں جانتی ہوں آپ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔۔"

"صرف ایک ڈنر۔۔ اسکے بعد میں واپس چلا جاؤں گا۔۔"

"اتنی جلدی۔۔؟؟ مننان کی برتھ ڈے آرہی ہے رک جاتے۔۔۔"

وہ باتیں کرتے کرتے لیفٹ کے سامنے آ گئے تھے عین اسی وقت حذیفہ کو کسی کی کال آگئی۔۔۔

"امی کی کال آگئی بس ایک منٹ۔۔۔"

وہ جیسے ہی وہاں سے دور گئے تھے ایک اور شخص اسی جگہ آکر کھڑا ہوگیا تھا۔۔ جس کا پہلے دھیان اپنے موبائل کی طرف تھا۔۔

اور جب نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا تو وہ حیران رہ گیا۔۔۔

۔

۔

"نسواء نجیب آفندی رک جاؤ وہیں۔۔۔"

نجیب کی اونچی آواز نے اسکے وجود کو پتھر بنا دیا تھا اس وقت۔۔۔

اسکی بیک نجیب کی طرف تھی۔۔۔ اور سامنے لگے ہوئے لفٹ کے شیشے میں اسے نجیب کا وجود جیسے ہی نظر آیا تھا اسکی گرفت مظبوط ہوگئی تھی اس ویل چئیر پر اور اس نے ایک بٹن سے چئیر کو سٹارٹ کردیا تھاابھی بھی اسکی بیک نجیب کی طرف تھی وہ لفٹ بند ہونے لگی تھی جب نجیب نے اپنے شوز سے اسے روک دیا تھا اور ڈور پھر سے اوپن ہوگیا تھا اسکا۔۔۔

"مجھے لگا تھا آپ دنیا کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی ہوں گی۔۔۔

مجھے لگا تھا کہ آپ مجھ سے جدا ہوکر کوئی بہت ہی اچھی زندگی گزار رہی ہوں گی

مجھے لگا تھا کہ مجھے ٹھکرا کر آپ نے خود پر بہت احسان کیا ہوگا۔۔۔

مجھے لگا تھا نسواء الگ ہونے کا فیصلہ کسی ٹھوس وجہ پر لیا ہوگا۔۔

سوچ رہا تھا کہ اتنے سال میں ایک بار آپ میرے در پہ آئیں گی یا چھت کی بھیک مانگیں گی یا مننان کی اچھی زندگی کے لیے چند روپے۔۔۔

اور جب آپ نہیں آئی تو میں اس بات کو ماننے پر مجبور ہوگیا تھا کہ زندگی گلزار رہی ہوگی اس لیے آپ کو میری ضرورت محسوس نہ ہوئی۔۔۔

مگر یہ کیا۔۔۔؟؟ آپ معذوروں کی طرح اس ویل چئیر کے سہارے اس حال میں اس ہوٹل کی لوبی میں تنہا۔۔۔؟؟

معلوم ہوتا ہے کہ شوہر سے جُدا ہوکر زندگی نے  آپ کو آپ کی حیثیت بتا دی نئی۔۔۔؟؟"

ویل چئیر کے ہینڈل جیسے ہی پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا تھا۔۔۔وہ دونوں سائیڈ پر ہینڈل رکھ کر نسواء کے چہرے کی طرف جھکا تھا۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

نسواء کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ گھٹنوں کے بل رک گیا تھا۔۔اتنے سالوں کے بعد وہ غصہ بھی تھا اور ناراض بھی۔۔ وہ خوش بھی تھا اور اداس بھی۔۔۔

نسواء کے چہرے کی خوبصورتی وہی رونق دیکھ کر اسکے دل میں ایک چبھن ہوئی تھی۔۔

یہاں وہ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہورہا تھا ۔۔۔

"میرے بغیر زندگی کا مزہ چکھ لیا نسواء آپ نے۔۔؟؟ دیکھیں کیا حالت ہوگئی ہے۔۔

معذور ہوگئی ہیں آپ۔۔؟؟ اور کہاں ہے وہ آپ کا بیٹا۔۔؟ جس اولاد کے لیے اپنے شوہر کو ٹھکرا دیا۔۔ اب کہاں ہے وہ اولاد۔۔۔؟؟ اب تو سمجھ جائیں کہ اولاد ساری زندگی ساتھ نہیں رہتی میاں بیوی رہتے ہیں۔۔۔"

"میاں بیوی۔۔؟؟ لیکچر اچھے دیتے ہیں آپ مسٹر نجیب۔۔۔

وہ شوہر جو جسموں کی ہوس میں اس قدر آگے نکل گیا کہ اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کسی عورت کو اپنی بیوی کی برابری پر لے آیا تھا۔۔؟؟

شوہر۔۔؟؟ خود کو کہتے ہیں۔۔ ویسے کیسی جارہی ہے دوسری بیوی اور بچوں کے ساتھ زندگی۔۔؟؟ بیڈروم میں زندگی رنگین تو رہتی ہوگی۔۔؟؟ میری طرح دوسری والی بھی تو حق تلفی نہیں کرتی ہوگی۔۔؟؟ "

"نسواء۔۔۔"

نجیب نے آنکھیں بند کرلی تھی۔۔۔ جب نسواء نے بےرخی سے اپنی آنکھیں صاف کی تھی

"ہاتھ چھوڑ دیجئے مجھے جانا ہے۔۔۔"

وہ آنکھیں کھول کر کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔ غصے سے چہرہ لال ہوگیا تھا نجیب کا۔۔۔

"رسی جل گئی بل نہیں گیا۔۔؟؟ آج کیا حیثیت ہے آپ کی پھر بھی آنا نہیں مررہی آپ کی۔۔؟؟ کیا ہے آپ کے پاس نسواء۔۔۔؟؟"

"میرے پاس  میری خودداری ہے۔۔ میرا مننان ہے نجیب۔۔۔آپ کے پاس کیا ہے۔۔؟؟"

"ہاہاہا سب کچھ ہے میرے پاس۔۔۔ میرا بیٹا ہے ایک خوبصورت بیٹی ہے۔۔۔اور میری عمارہ ہے۔۔۔ آپ کو کیا لگا تھا ۔۔؟ مجھے چھوڑ جائیں گی تو مر جاؤں گا۔۔؟؟"

"آپ کیوں مرتے میرے جانے سے۔۔؟؟ مرتے وہ ہیں جو محبت کرتے ہیں۔۔ کیا آپ نے کبھی محبت کی تھی۔۔؟؟"

نجیب کے جتنے الفاظ اسے تکلیف پہنچا چکے تھے نسواء کی ایک ہی بات نے نجیب آفندی کو چپ کروا دیا تھا۔

"نسواء۔۔۔"

"مجھے معلوم تھا کہ آپ کو محبت نہیں نجیب۔۔۔ یقین جانئیے۔۔۔ اب مجھے بھی محبت نہیں رہی۔۔۔ اور مبارک ہو آپ کو آپ کی پرفیکٹ فیملی۔۔۔"

ویل چئیر آٹومیٹک تھی ایک بٹن پریس کرنے پر وہ ٹرن ہوگئی تھی۔۔۔

"نسواء۔۔۔میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔"

حذیفہ کی دور سے آتی آواز نے نجیب کو شاکڈ کردیا تھا۔۔۔

وہ سب سے زیادہ شاکڈ اس وقت ہوا جب حزیفہ نے ویل چئیر کو پکڑ کر پوری طرح لفٹ میں اینٹر کردیا تھا۔۔۔

"میں نے آج آپ کو بتایا نہیں اس ڈریس میں آپ کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں۔۔

آج ڈنر ڈیٹ کینسل تو نہیں کریں گی۔۔؟؟"

وہ بات کرتے کرتے لفٹ میں لے گئے تھے چئیر کو۔۔۔

لفٹ بند ہونے سے پہلے نسواء نے اس شخص کی نظروں میں دیکھا تھا۔۔۔ جس کی آنکھوں میں شکست دیکھی تھی اس نے پہلی بار وہ ناکامی وہ ہار دیکھی تھی۔۔۔

حذیفہ باتیں کرتا جارہا تھا۔۔۔ مگر نجیب کی نظریں نسواء اور نسواء کی نظریں نجیب پر تھی۔۔۔

لفٹ کا ڈور جیسے ہی بند ہوا تھا۔۔۔ نجیب کی لیفٹ آئی سے وہ پانی کا قطرہ بھی آنکلا تھا۔۔

اور اسکے بعد ایک اور قطرہ۔۔ نجیب نے نے اپنے آنسو کو ہاتھوں میں لئیے پھر اسی بند دروازے کو دیکھا تھا۔۔۔

اور اسے احساس ہوا تھا۔۔۔ نجیب آفندی کی آنکھوں میں پہلی بار آنسو تھے۔۔۔

اسکے لیے جسے اس نے گنواہ دیا تھا اپنی عیاشی میں اپنی لاپرواہی میں۔۔۔

۔

"آپ صرف میری ہے نسواء۔۔ ہمیں کوئی جُدا نہیں کرسکتا نہ ہی میری آنا نہ ہی آپ کی ضد اور نہ ہی وہ شخص جس کے ساتھ گئی ہیں آپ اپنے شوہر کے سامنے۔۔

سوچا نہ تھا کبھی یہ دن بھی آئے گا۔۔۔کہ آپ غیر کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے جائیں گی۔۔۔"

آج نجیب آفندی کی غیرت کو دھچکا لگا تھا یا اس شوہر کو جو گرانٹڈ لیتا رہا اپنی بیوی کی محبت وفا کو۔۔؟ 

جو بھی تھا وہ شروعات تھی اسکے زوال کی۔۔۔

"میں گاڑی تک چھوڑ دیتا ہوں نسواء۔۔"

حذیفہ کا دل نہیں تھا نسواء کو سیکیورٹی کے ساتھ چھوڑنے کا مگر اسے امپورٹنٹ کال آگئی تھی اسے لیے اسے واپس آفس جانا تھا

"نہیں آپ جائیں۔۔۔ میں مینیج کرلوں گی یہ دیکھ نہیں رہے سانڈ جیسے گارڈ رکھے ہیں مننان نے۔۔"

حذیفہ بےساختہ ہنسے تو نسواء اسکے چہرے کو دیکھتی رہ گئی تھی۔۔ کتنے سال اس چہرے کو اس نے سنجیدہ دیکھا اسے ابھی بھی وہ شام یاد تھی جب اس شخص نے مننان کے لیے آسانیاں پیدا کردی تھیں کہ مننان کے خواب کو پورا کرنے کے لیے اپنے ریسٹورنٹ سیل پہ لگا دئیے تھے۔۔۔

"ہاہاہاہا۔۔۔ "

گارڈ بھی اپنی ہنسی کنٹرول کررہے تھے چہرہ پھر بھی سخت تھا۔۔

وہاں سب ہی خوش تھے مگر کوئی تھا جو یہ سب برداشت نہیں کرپارہا تھا خاص کر نسواء کا حذیفہ کو دیکھنا۔۔

کچھ منٹ میں حذیفہ جیسے ہی وہاں سے گئے نسواء کی ویل چئیر پارکنگ کی طرف لے جانے کی کوشش کی تو نسواء کی نظر فرسٹ فلور فٹ وئیر شاپ پر گئی جہاں رکھے ہوئے شوز دیکھ کر اسے خریدنے کی خواہش جاگی مننان کے لیے۔۔۔

"آپ گاڑی نکالے میں وہیں آتی ہوں۔۔"

"پر میم۔۔"

"پر ور کچھ نہیں۔۔۔"

وہ سختی سے کہتے ہوئے چئیر کا بٹن پریس کر چکی تھی

وہ نظریں تعاقب کررہیں تھی نسواء کا۔۔ مگر گارڈز پر بھی باقاعدہ نظر رکھے ہوئی تھی

۔

اور جب نسواء نے شوز خرید کر پئمنٹ کردی تو وہ باکس اپنی گود میں رکھ لیا تھا وہ بہت خوشی سے اس باکس کو دیکھ رہی تھی۔۔

اس سے وہ جوتے مننان کے لیے خریدے تھے اور وہ شخص یہ سوچ کر غصے سے آگ بگولا ہورہا تھا کہ نسواء نے کسی اور کے لیے خریدے۔۔

۔

نسواء تھوڑی دیر میں شاپ سے نکل کر پھر ایک لفٹ کی طرف بڑھی تھی اسے آگے پارکنگ کے لیے جانا تھا جہاں گارڈ انتظار میں تھے  جو انڈر گراؤنڈ فلور پر تھی وہ  لفٹ کے زریعے جیسے ہی لاسٹ فلور پر گئی اسے دیکھتے ہی وہ شخص بھی اپنے سیکیورٹی گارڈ کے کان میں کچھ کہہ کر گراؤنڈ فلور کی طرف چل دیا تھا

"جب تک نہ بلاؤں کوئی میرے پاس نہیں آئے گا اور ان لوگوں کو سنبھالوں۔۔"

نسواء کے گارڈز کی طرف اشارہ کرکے وہ تو وہاں چلا گیا 

"سم باڈی پلیز کال فائر برگیڈ ارجنٹلی۔۔"

"فائر۔۔۔ فائر۔۔"

بہت سی آوازیں سن کر نسواء نے پیچھے دیکھا تھا۔۔

"میم آپ چلیں جلدی۔۔"

وہ گارڈ اسے گاڑی کی طرف لے جانے کو تھے جب نسواء نے انہیں منع کردیا

"آپ پلیز اوپر جا کر مدد کریں۔۔ وہاں بچے بھی ہیں۔ جلدی جائیں۔۔"

"ایم سوری میم ہماری ذمہ داری اس وقت آپ ہیں۔"

"اگر نہیں گئے تو میں خود چلی جاؤں گی۔۔"

اور تینوں چاروں لوگوں نے نسواء  کی طرف دیکھا تھا نسواء کی ضد اور اسرار پر وہ لوگ اوپر کی سائیڈ پر بھاگے اور پلر کے پیچھے چھپا ہوا شخص آہستہ قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا

نسواء کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھی شاید وہ پہچان گئی تھی ان قدموں کی آہٹ کو یا پھر اس کا دل۔۔ جو تیز تیز دھڑک رہا تھا

"نسواء۔۔۔"

پیچھے سے جیسے ہی اس نے چئیر ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر نسواء کے کانوں میں سرگوشی کی تو نسواء کی گرفت مظبوظ ہوئی۔۔

"نجیب۔۔۔"

نجیب چہرے کو اور پاس لے گیا تھا تھا بالوں کی مہک محسوس کرتے ہوئے نسواء کے کانوں کی لو کی اپنے لبوں سے جیسے ہی چھوا نسواء کی انگلیاں اس بٹن کو پریس کرنے لگی تھی جب نجیب نے کرسی کو اپنی طرف موڑ دیا تھا

"میرے قدموں کی آہٹ آج بھی محسوس ہوجاتی ہے تمہیں نسواء۔۔؟ دل آج بھی اتنی تیزی سے دھڑکتا ہے۔۔؟ آنکھیں اب بھی شرم سے جھک جاتی ہیں میرے قربت میں آنے کے بعد۔۔؟"

اسکے ہونٹوں نے چھو لیا تھا نسواء کی جھکی ہوئی پلکوں کو۔۔نجیب کی نزدیکی اسے آج بھی ویسے ہی دیوانہ کررہی تھی جیسے انکے بیڈروم میں کرتی تھی اور  وہ خاموشی سے اپنا آپ اسے سونپ دیتی۔۔

"نسواء۔۔۔"

لبوں نے آنکھوں سے ہونٹوں تک کا فاصلہ تہہ کیا تو نسواء نے جھکی آنکھوں کو اٹھا کر نجیب کی آنکھوں میں دیکھا جو اس قدر قریب تھا کہ ایک پل کو اسے خود پر شدید غصہ بھی آیا۔۔

"نجیب۔۔۔"

وہ مخاطب ہوئی مگر نجیب اسکی آواز اگنور کرکے اسکے ہونٹو ں کی طرف جھکا وہ انکے لبوں کے درمیان وہ فاصلہ بھی ختم کرنے والا تھا جب نسواء نے نجیب کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے اسکی جگہ پر روک دیا۔۔ مدہوشی میں بند آنکھیں کھول کراس نے نسواء کے ہاتھ اور پھر اسکی طرف دیکھا

"خوبصورت بیوی ہے خوبصورت بچے ہیں۔۔ پھر معذور عورت کی ہوس کیوں ہورہی۔۔؟"

"ہوس۔۔؟؟ ڈیم اِٹ یہ محبت ہے میری۔۔"

وہ چلاتے ہوئے پیچھے ہوگئے تھے 

"محبت۔۔؟؟ کتنوں لوگوں یا کتنی عورتوں سے محبت ہے آپ کو۔۔؟ آپ کی دوسری بیوی عمارہ یا آفس سیکریٹری۔۔؟ یا وہ ماڈل جس کے ساتھ راتیں رنگین کرتے آئے ہیں اتنے سالوں۔۔؟؟ سیریسلی محبت نجیب۔۔؟ محبت لفظ آپ جیسے بےوفا کے منہ سے سن کر اس لفظ سے نفرت ہورہی۔۔"

اس شخص کی ذاتی زندگی کے بارے میں بتا کر وہ اسے تو شاکڈ کرچکی تھی مگر نجیب کو غصہ اس بےوفا لفظ پر آیا تھا۔۔۔ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر نسواء کے کندھوں کو مظبوطی سے پکڑے اس بار وہ ان دونوں کے ہونٹوں کے درمیان کا فاصلہ ختم کرچکے تھے اتنے سالوں کے بعد۔۔۔ انکے اس بوسے میں بلا کی سختی تھی وہ غصہ اتارنے کی کوشش کررہے تھے پر ان سے ہو نہیں پایا۔۔ جیسے ہی نسواء کے ہاتھ انکےسینے پر ہاتھ مرنے لگے تو وہ مسکرا دئیے۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

انہوں نے جیسے ہی پیچھے ہوکر سانسیں بحال کی نسواء کے چہرے کو دیکھ کر وہ ایک بار پھر سے جھکے مگر اس پیچھے نہ ہونے کا ارادہ رکھ کر۔۔۔ان دونوں کے وہ لمحات وہ جو نجیب کو دنیا کے سب سے خوبصورت لمحے لگ رہے تھے انہی لمحوں کی چند قدموں کی آہٹ نے روک دیا تھا۔۔۔

"وہ رہا۔۔ پکڑو اور مار دو۔۔"

کسی نے نجیب کی طرف اشارہ کرکے کچھ لوگوں کو کہا تھا جو ہاتھوں میں ووڈن سٹیک پکڑےکھڑے تھے۔۔۔

"کون ہو تم۔۔"

نجیب نسواء کی ڈھال بن کرکھڑا ہوگیا تھا۔۔۔ مگر دوسری طرف سے آنے والے آدمی نے ہاتھ میں پکڑی ہاکی کا وار کردیا تھا نجیب کے سر پر۔۔۔

"آہ۔۔۔"

وہ سر پر ہاتھ رکھے گھٹنوں کے بل گرا۔۔

"نجیب۔۔۔"

وہ چلائی مگر نجیب کےبازو سے پکڑ کر وہ لوگ نسواء کی چئیر سے دور لے گئے تھے۔۔۔

"نجیب۔۔۔ وہ بےبسی سے چلائی جب ان لوگوں نے ایک بار پھر نجیب کی کمر پر اس سٹک سے وار کیا۔۔

"چھوڑ دو انہیں۔۔ کیوں مار رہے ہو۔۔حمید، جارج۔۔"

وہ اپنی گود سے وہ چادر اتارے قدم چئیر سے نیچے رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔۔

زمین پر گرنے کے بعد بھی وہ رینگتے ہوئے نجیب کے پاس پہنچ رہی تھی

"نجیب۔۔۔"

اب اسکی آواز پر نجیب نے سر اٹھا کر دیکھا تھا جو خون بہنے سے چکرانے لگا تھا۔۔۔

وہ ہاتھ آگے بڑھا رہا تھا جب کسی نے نسواء پر بھی وار کردیا تھا۔۔

"یو باسٹرڈ۔۔۔لئیو ہر۔۔"

اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی۔۔ نسواء کے ماتھے سے نکلتے خون دیکھ کر۔۔۔

"کیا کہا تھا مجھے مار دے گا۔۔؟؟ میں تجھے مارنے لگا ہوں۔۔"

وہ آدمی نجیب کے سر پر گن رکھ چکا تھا مگر نجیب کی نظر بس نسواء پر تھی جو باقی کے دو لوگوں سے خود کو بچا کر اسکی جانب بڑھ رہی تھی وہ کبھی نسواء کی ویل چئیر کو دیکھ رہا تھا

وہ اپنی بیوی کے اس روپ پر حیران رہ گیا۔۔ کچھ دیر پہلے تو اس نے عمارہ کی اپنے دوسرے بچوں کی تعریف کرکے جلانے کی کوشش کی تھی کچھ دیر پہلے تو اس نے معذور کہہ کر تذلیل کی تھی اور وہ اپنی حالت کو  بھی درگزر کرکے اسکی مدد کو آگے بڑھی تھی

نجیب نے سر نیچے کرلیا تھا جب اسکی آنکھیں بھر گئیں۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"جب مننان سر ایسے پاس سے گزر گئے تو میرے خاموش ہونٹوں سے ایک ہی بات نکلی ۔۔"

منیشہ نے بہت ڈرامائی انداز میں بتایا۔۔ریسیپشن میں سب کالیگ بریک میں ایسے ہی جمع ہوجاتے تھے جب آفس کے باس باسز نہیں ہوتے تھے

"کیا۔۔؟؟"

"کون ہے وہ جس نے دوبارا مڑ کے مجھے نہیں دیکھا۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔ "

ایک بار پھر سے وہ لوگ قہقے لگا کر ہنسے تھے۔۔

"اور پھر پھر کیا۔۔؟؟"

"پھر کیا ہونا تھا وہ کھڑوس میرا باس نکل آیا۔۔۔ بس خون چوس رہا ہے۔۔۔ دیکھا نہیں کتنی دبلی پتلی ہوگئی ہوں۔۔ اب تو بریک فاسٹ کے لالے پڑے ہوئے ۔۔

اور وہ۔۔سینہ چوڑا کئیے اس چڑیل کے ساتھ کہیں ریسٹورنٹ میں بیٹھے لنچ کررہے ہوں گے اور میں یہاں جل رہی۔۔"

وہ بڑبڑائی تو اور ہوٹنگ ہوئی۔۔ مگر ایک دم سے سب منیشہ کے پیچھے کھڑے مننان کو دیکھ کر اپنی اپنی سیٹ اور کیبن میں بھاگ گئے تھے

"یا اللہ۔۔ ایسا سانپ تب ہی سونگھتا ہے جب کھڑوس۔۔۔"

آنکھیں بند کئیے وہ پیچھے مڑی تھی 

"ایسا ممکن نہیں کہ آپ میری سیلری میں سے پانچ سو کاٹ لیں اور میری آنکھیں کھلنے سے پہلے اپنے کیبن میں چلے جائیں۔۔؟ پلیز پریٹی  پلیز۔۔۔"

وہ آگ بگولا ہورہا تھا اس لڑکی کی بدتمیزی اور اسکے لیے کھڑوس لفظ کے چناؤ پر۔۔

"یو۔۔۔"

مننان نے جیسے ہی انگلی اسکی طرف اٹھائی تو ساتھ کھڑا مننان کا پارٹنر ہنسنا شروع ہوا۔۔

"ہاہاہاہاہا سیریسلی کھڑوس۔۔؟ اور تو سننے دیتا۔۔ مزہ آرہا تھا۔۔"

"شٹ اپ۔۔ اینڈ یو مس منیشہ۔۔۔  بریک فاسٹ بریک بند آج سے آپ کی آپ اس وقت میں صرف  سٹور روم کی فائلز کو ترتیب دیا کریں گی۔۔"

"پر سر وہ تو ہزاروں کی تعداد۔۔۔"

شٹ اپ۔۔۔ میری ماں کی سفارش پر کچھ زیادہ ہی اچھل رہی ہو۔۔ ایک منٹ لگے گا تمہیں نکال باہر کرنے میں۔۔۔ یوز لیس۔۔۔"

وہ اونچی آواز میں کہتے ہی وہاں سے چلا گیا تھا اپنے کیبن میں۔۔

"مننان۔۔ہیے ریلیکس۔۔ ڈونٹ کرائی۔۔"

اس نے کوٹ کی پاکٹ سے رومال نکال کر دیا تھا منیشہ کو جو روتے ہوئے اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گئی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"وہ ٹھیک ہیں میم آپ بھی ریسٹ کیجئے ایسے تو آپ تھک جائیں گی۔۔میں ڈاکٹر حورب کو انفارم کردوں۔۔؟؟"

نسواء چونک گئی اچانک سے اب اس نے ہاسپٹل کا نام دیکھا تھا اور بےساختہ نفی میں سر ہلایا۔۔

"نہیں بالکل نہیں۔۔ مت بتانا دراصل یہ مجھے روڈ پرشاپنگ مال کی پارکنگ پہ ملے زخمی حالت میں۔۔۔"

"اور آپ کو یہ سرپر چوٹ کیسے آئی۔۔؟؟"

"وہ۔۔۔ایکچولی۔۔ "نسواء کو کچھ بھی بہانہ نہیں مل رہا تھا جھوٹ بولنے کے لیے۔۔

"اٹس اوکے میم۔۔میں بس فکر مند ہورہی تھی ۔۔ اینڈ ڈونٹ ورری ڈاکٹر حورب کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔۔یہ میڈیسن ٹائم پر لینی ہے آپ نے اگر جلدی ٹھیک ہونا ہے تو۔۔۔"

پریسکریپشن دے کر وہ ڈاکٹر وہاں سے چلی گئی اور جانے کے وہ پھر سے تنہا تھی اس شخص کے ساتھ۔۔ جو ابھی بھی بےہوش تھا۔۔۔

۔

"نجیب۔۔۔"

وہ ایک نظر اس زخمی ہرجائی کو دیکھ رہی تھی اور ایک نظر باہر اسکے گارڈ پر تھے جنہوں نے عین وقت پر ان دونوں کو ریسکیو کیا بلکہ نسواء کے اسرار پر اسکی ویل چئیر نجیب کے روم میں بھی لیکر آئے۔ اور نسواء کے کہنے پر منہ بھی بند رکھا اپنا مننان کے سامنے ورنہ اب تک مننان سارا شہر سر پہ اٹھا چکا ہوتا ماں کے زخمی ہونے کا سنن کر۔۔۔

۔

"وفا نہ راس آئی۔۔۔ تجھے او 'ہرجائی'۔۔۔"

۔

وہ لفٹ کا بٹن پریس کرکے وہاں سے چلی گئی تھی جاتے ہوئے اس کے دل میں ایک بار یہ ضرور آیا تھا وہ ایک آخری بار نجیب کا چہرہ دیکھ لے مگر اگلے ہی لمحے مننان کا چہرے اسکی آنکھوں کے سامنے آگیا تھا۔۔

۔

خدا حافظ۔۔۔

۔

"وعدوں کی لاشوں کو۔۔بول کہاں دفناؤں۔۔

خوابوں اور یادوں سے۔۔ کیسے تم کو مٹاؤں۔۔"

۔

۔

"میڈم پلیز اب چلیں مننان سر کی کال بار بار آرہی ہے۔۔"

۔

"میں اس سے بات کرلوں گی۔۔۔آپ بےفکر رہیں۔۔"

وہ لوگ ہاسپٹل سے جیسے ہی باہر آنے کو تھے ایمرجنسی روم سے حورب گلوووز اتارتے ہوئے باہر نکلی تھی اور جب ماسک اتار کر اس نے پاس سے والدہ کی چئیر کو گزرتے دیکھا تو اس کی نظر سیدھا ماتھے کی چوٹ پر پڑی تھی

"ماما۔۔۔؟؟"

"شٹ۔۔۔جلدی جلدی چلو۔۔۔"

وہ لوگ رکنے کے بجائے اور تیز ہوئے تھے

"سیریسلی ماما۔۔؟ پہچان لیا ہے میں۔۔"

وہ جلدی سے آگے آئی اور نسواء کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگی تھی

"حورب بیٹا میں ٹھیک۔۔"

"آپ نے جان بوجھ کر مکمل بینڈایج نہیں کروائی نہ۔۔؟ تاکہ ہمیں پتہ نہ چل جائے۔۔؟؟"

اسکی آنکھ سے آنسو کا قطرہ نکل کر نسواء کے ہاتھ پر گرا تھا۔۔

"ایم سوری میری جان۔۔اب میں ٹھیک ہوں "

حورب کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرے نسواء نے تسلی دی

"جی بالکل وہ تو نظر آرہا ہے۔۔ یہ ٹھیک ہیں آپ۔۔؟؟ اتنا ڈیپ کٹ لگا ہے۔۔اور یہ دیکھیں۔۔۔ کس ڈاکٹر سے ٹریٹمنٹ کروایا۔۔؟؟ آپ کو سر پر چوٹ آئی۔۔اور تم لوگ۔۔؟؟"

وہ جتنی مسکرائی تھی نسواء کی ویل چئیر دیکھ کر اتنا ہی وہ غصے سے لال ہورہی تھی ماں کے سر پہ زخم دیکھ کر۔۔۔

بنا کچھ کہے اس نے ویل چئیر کا رخ موڑ دیاتھا اور اپنے کیبن کی طرف لے گئی تھی نسواء کا پروٹیسٹ بھی کسی کام نہیں آیا تھا نہ ہی کوئی ریکوئسٹ۔۔۔

"حورب بیٹا پلیز۔۔۔مننان کو مت بتانا۔۔وہ غصہ ہوگا۔۔"

"مجھ سے زیادہ نہیں۔۔اب چپ چاپ بیٹھ جائیں۔۔"

پھر سے نسواء کے زخم کو ایگزیمن کرنے کے بعد اس نے دوا لگائی تھی

اور پٹی کرنا شروع کی۔۔

نسواء کی آنکھیں بھر گئیں تھی وہ جب حورب کے کیبن میں آتی تو ایسے ہی جذباتی ہوجاتی تھی اپنی بیٹی کو اس مقام پر دیکھ کر۔۔۔

"ماما آپ جانتی ہیں آُ ایسے روئیں گی تو مجھے بھی رونا آئے گا اور میں آن ڈیوٹی جذباتی نہیں ہوتی۔۔"

"ہاہاہاہا اچھا سوری۔۔۔"

پٹی کرکے حورب نے نسواء کے سر پر بوسہ دیا تھا۔۔

"اب آپ یہیں رہیں۔۔ میں جوس بھیج رہی ہوں اور ساتھ دوائی درد نہیں ہوگا۔۔

ہم ساتھ گھر چلیں گے۔۔۔"

حورب کے پیجر پر ایمرجنسی کا نوٹیفیکیشن جیسے ہی آیا تھا وہ ماں کا چہرہ چوم کر اچھے سے اجازت لیکر گئی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر آپ کی دادی کو کل رات ہی ہارٹ اٹیک آیا ہے پلیز ہمیں اب واپس چلنا چاہیے اس سے پہلے کہ گھر سے کوئی آئے۔۔"

نجیب نے نظریں اٹھا کر کمرے میں دیکھا تھا جہاں کوئی نام و نشان نہ تھا نسواء کا 

"دادی ٹھیک ہیں۔۔؟؟ اور نسواء۔۔۔نسواء کہاں ہے۔۔؟ وہ ٹھیک۔۔ ٹھیک تو ہے۔۔؟؟"

نجیب اٹھنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔۔اسکے لوگوں نے جو تھری پیس میں ملبوس تھے ایک دم سے اسے بازو سے پکڑ کر بٹھایا تھا

"سر وہ میڈم ٹھیک ہیں۔۔ کچھ دیر پہلے گئی ہیں۔۔"

"کہاں گئی ہیں۔۔؟ کس سے پوچھ کرگئی ہے۔۔ مجھے اسکے گھر کی اسکی زندگی کی سب انفارمیشن چاہیے۔۔۔"

۔

"سر۔۔ہمارے پاس انکی پراپر کوئی بھی تصویر۔۔"

"میں سینڈ کردوں گا۔۔ میں بھیج دوں گا اور جب میں پاکستان سے واپس آؤں تو مجھے سب معلومات چاہیے۔۔"

۔

نجیب کو سہارا دے کر وہ لوگ جیسے ہی اٹھانے کو تھے نجیب نے سب کا ہاتھ جھٹک دیا تھا

"ڈونٹ ٹچ مئ۔۔۔ٹانگیں نہیں ٹوٹی میری۔۔۔وہ لوگ کہاں ہے۔۔؟؟ جاوید پکڑا گیا یا نہیں۔۔؟؟ جس کی جرآت ہوئی میری بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی مجھے اسکے ہاتھ بیکار چاہیے۔۔"

"جی سر وہ سب ہماری گرفت میں ہیں آپ پاکستان سے واپس آجائیں تب تک انکے زخم روز تازہ کریں گے۔۔۔"

نجیب مطمئن ہوگیا تھا۔۔کچھ دیر میں اسکا پرائیویٹ جیٹ اسے وہاں سے لے جاچکا تھا۔۔

مگر اسکے دل و دماغ میں فقط ایک ہی چہرہ ایک ہی نام گردش کررہا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"یہ سیکیور کیا میری ماں کو۔۔؟ یہ حفاظت کی۔۔؟؟ اسکے لیے منہ بھرتا ہوں تمہارا۔۔؟؟"

وہ شرٹ کی آستین چڑھاتے ہوئے سرونٹ کواٹر میں داخل ہوا تھا۔۔

"سر میم نے۔۔۔"

"یو باسٹرڈ۔۔۔۔زیرہ سیکیورٹی۔۔ اوپر سے مجھے جواب دیتے ہو۔۔"

وہ تو وہ مننان تھا ہی نہیں جو کچھ منٹ پہلے اپنی ماں کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہا تھا۔۔

مننان کے پیچھے پیچھے اسکا دوست جو اسکا یہ روپ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا۔۔

"مننان۔۔۔"

"یو سٹے آؤٹ آف دس۔۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔"

مننان کا غصہ اسکا  ہر گارڈ خاموشی سے برداشت کررہا تھا اسکی مار وہ چپ چاپ سہہ رہے تھے۔۔۔

ایک لمحہ ایسا آیا جب اسکا جنون اسکی وحشت۔۔ ہاتھوں میں خون اور وہ زخمی لوگوں کے درمیان اس ماں کا غرور اسکا مان اسکا بھرم گرا پڑا تھا

"مننان۔۔۔"

مننان کے ہاتھ سے چوکیدار کا راڈ نیچے گرگیا تھا جو ایگزیکٹلی نسواء کی چئیر کے پاس جا گرا تھا۔۔

نسواء کے لبوں سے نکلی سرگوشی پر مننان میں ہمت نہیں تھی کہ وہ پیچھے مڑ کر دروازے کی جانب دیکھے۔۔

"یہ۔۔یہ میری تربیت نہیں تھی مننان۔۔۔ تم۔۔تم کیا بن گئے ہو۔۔؟ تم میرے بیٹے ہی ہو۔۔؟ اتنا ظلم۔۔؟ تم نے ہاتھ کیسے اٹھا لیا۔۔؟؟"

"کیونکہ انکی وجہ سے آپ کو چوٹ آئی ماں۔۔۔"

"مر تو نہیں گئی تھی میں۔۔؟؟ چوٹ آئی تو میری غلطی تھی۔۔ اگر یہ لوگ نہ بچاتے تو ضرور مر جاتی۔۔۔یہ اور تم نے کوشش تو پھر بھی کی نہ ماں کو مارنے کی اپنا یہ روپ دکھا کر۔۔؟؟"

انکی باتوں کے درمیان سب روم سے باہر جا چکے تھے۔۔

"ماں۔۔۔"نیچے سے اٹھا کر وہ راڈ مننان نے نسواء کی گود میں رکھ دیا تھا 

"آپ پلیز مجھے سزا دیں۔۔۔ مجھے ماریں مگر مجھ سے منہ نہ پھیریں ماں ۔۔۔ایم سوری معاف کردیجئے۔۔پلیز۔۔"

نسواء کے ہاتھوں کو ماتھے سے لگائے وہ سر جھکا چکا تھا اپنی ماں کے سامنے اسکے آنسو نسواء کے ہاتھوں کو مکمل بھگو چکے تھے وہ بچوں کے جیسے معافی مانگ رہا تھا نسواء اسے معاف کرنا چاہتی تھی لیکن اسکے اصول اسکی پرورش نے اسے مجبور کردیا تھا اپنے ہاتھ پیچھے کھنچنے پر۔۔

"یہ میری تربیت نہیں تھی مننان کسی کو نقصان پہنچانا سزا دینا۔۔ کسی کا بُرا سوچنا۔۔ کرنا تو دور کی بات ہے۔۔ تم تو ہر لمحہ میرے سامنے رہے تھے میرے بیٹا پھرتمہیں کیا ہوا۔۔؟ کب اتنے ظالم بن گئے۔۔"

"ماں۔۔۔"

"جب تک انکے زخم بھر نہیں جاتے تب تک میرے سامنے مت آنا۔۔۔"

۔

وہ یہ کہہ کر جیسے ہی اپنی چئیر کو باہر لے گئی تھی مننان نے شیشے کے دروازے پر ہاتھ مار کر مکمل توڑ دیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"۔۔۔کچھ ماہ بعد۔۔۔"

۔

"ماہیر چھا گیا ہے یار۔۔۔ اتنی زبردست پارٹی ۔۔۔مزہ آگیا۔۔۔"

"ماہیر آئٹم چیک کر۔۔۔ریڈ سلوار سوٹ میں۔۔"

وہ جس طرف دیکھ رہے تھے اسی ڈائیریکشن سے فائلز پکڑے منیشہ اس وینیو میں داخل ہوئی تھی جہاں کوئی پارٹی چل رہی تھی جب منیشہ نے مننان کو فون کیا تو اس نے سیکنڈ فلور 'ای-آئی-پی' سیکشن میں وہ ڈاکومنٹس لانے کا کہا تھا۔۔ اتنے ڈانس کرتے لوگوں کی بھیڑ سے بچتے بچاتے وہ سیڑھیوں تک پہنچی تھی جب کسی نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔۔

۔

"بچھی پڑی ہے عاشقی تیرے قدموں میں۔۔۔"

ماہیر نے اس کے دوپٹے کو ہونٹوں کے قریب لے جاکر سرگوشی کی تھی جو اتنے قریب ہونے پر منیشہ کو سنائی دی تھی اپنا دوپٹہ کھینچ کر وہ مڑ ی تھی اس بدتمیز کو سبق سیکھانے کے لیے۔۔۔

"وااا۔۔۔۔ نور ہے بس نور ہے ان نظروں میں۔۔۔"

"ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔ بدتمیز۔۔۔"

اس نے ہاتھ اٹھا دیا تھا جو ماہیر نے پکڑ لیا تھا

"بےبی۔۔۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے اتنا وائلڈ ہونے کی۔۔؟ رات باقی ہے۔۔ کیوں فرینڈز۔۔؟؟"

منیشہ کو کھینچ کر اپنے دوستوں کی طرف پھینکا تھا۔۔۔

"کم آن لیٹس ڈانس۔۔۔"

وہ اسکے گرد دائرے کی صورت میں ایسے ہوٹنگ کرنے لگے تھے منیشہ بار بار اوپر شیشے کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں مننان کی میٹنگ چل رہی تھی مننان بیٹھا ہوا نظر آرہا تھا۔۔۔

"پلیز سر نیچے دیکھیں۔۔"

مننان کی نظریں تو نیچے نہیں پڑ رہی تھی ماہیر کی نظریں اس سے ہٹ نہیں رہی تھی

"کم آن۔۔۔ ڈانس کرو۔۔۔"

یہ کہتے وہ اور آگے ہوا تھا۔۔۔

"روپ کے جلووؤں کی ہائے کیا بات ہے۔۔۔

اک گناہ کردوں گناہ کی رات ہے۔۔۔"

ماہیر کہتے ہی منیشہ کا منہ ہاتھ میں دبوچ لیا تھا۔۔

"کم آن۔۔ پیسے دوں گا ریٹ بتاؤ۔۔۔"وہ فاصلہ جو ماہیر کم کرنا چاہتا تھا وہ کسی اور نے مزید بڑھا دیا۔۔ جو کوئی اور نہیں مننان خود تھا۔۔۔

ماہیر کو ایک مکا مار کر وہ منیشہ سے بہت دور کرچکا تھا

"گاڑی میں جاکر بیٹھو۔۔۔"

"پر سر۔۔۔"

"ایک بار میں سمجھ نہیں آتا۔۔؟؟"

وہ چلایا تو منیشہ ڈر کے ایگزٹ کی طرف بڑحی جب ماہیر کے دوست نے اسکا ہاتھ پکڑا

"اتنی بھی کیا جلدی ہے تمہارا عاشق زیادہ دیر ٹک نہیں پائے گا۔۔۔کیوں ماہیر۔۔؟"

ماہیر نے مننان پر وار کیا تھا۔۔۔ ان دونوں کی مسلسل لڑائی رہی اور مننان پھر اس کے دوستوں کو بے رحمی سے مار رہا تھا جب مننان کا ہاتھ کسی نے پکڑ لیا تھا۔۔۔

"سرپلیز۔۔ چلیں یہاں سے۔۔۔آپ نہیں جانتے وہ کون ہے۔۔۔"

"کوئی بھی ہو مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔چلیں مس منیشہ۔۔۔"

وہ منیشہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے باہر لے جانے لگے تھا جب مینیجر نے نام لیا

"سر وہ نجیب آفندی کا بیٹا ہے ماہیر آفندی۔۔۔"

بس یہ سننے کی دیر تھی مننان شاک ہوا وہ کیسے نہ پہچان سکا اسے۔۔؟ شاید وہ ڈم لائٹ کی وجہ سے۔۔

مننان واپس زخمی ماہیر کی طرف بڑھا تھا سب کو لگا تھا وہ اس سے معافی مانگنے کے لیے ماہیر کے پاس جارہا ۔۔ مگر مننان کے ایکشن تو مخالف نکلے اس نے گریبان سے زخمی ماہیر کو اٹھا کر پھر سے مکے مار ے اور تب تک مارے جب تک وہ زخمی نہیں ہوگیا۔۔اور جب اس نے دیکھا لوگوں نے انکی ویڈیو بنانا شروع کردی تو اور غصے سے اس نے ماہیر کو انکے موبائل کیمرہ کے آگے پھینکا۔۔۔

"آج کے بعد کسی لڑکی کے بدتمیزی کرنے کی کوشش کی کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی اسکی مرضی کے بغیر تو ہاتھ توڑ دوں گا۔۔۔چاہے تم کسی منسٹر کی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔۔"

۔

اسکی باتوں نے سامنے والے کا امیج اس قدر ڈیمیجڈ کردیا تھا اپنی باتوں سے کہ وہ تالیوں کی گونج اپنی گاڑی تک سن رہا تھا

"گاڑی میں بیٹھو۔۔۔"

وہ منیشہ کو بٹھا کر اپنے پرسنل گارڈ کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

"اس واقعے کو میڈیا کی زینت بنا دو۔۔۔ مگر منیشہ کا چہرہ کسی کو نظر نہیں آنا چاہیے۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نجیب آفندی کے بیٹے کو ابھی تک ہوش نہیں آیا۔۔ کچھ دیر پہلے ہی وہ اپنی فیملی کے ساتھ ہاسپٹل میں داخل ہوئے ہیں ۔۔"

میڈیا کو پارکنگ سے ہٹا دیا گیا تھا۔۔

نجیب آئی سی یو کے باہر کھڑا پینٹ پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اس شیشے سے اپنے بیٹے کو آپریٹ ہوتے دیکھ رہا تھا۔۔

سب فیملی ممبرز رو رہے تھے اور اسکے چہرے پر بلا کا غصہ تھا۔۔

اسکا ہیڈ آف سیکیورٹی آفیسر جیسے ہی اسکے پاس آیا تھا نجیب نے کالر سے پکڑ کر اسے اس شیشے کی ونڈو کے ساتھ پن کردیا تھا

"کس نے میرے بیٹے کی یہ حالت کی ہے۔۔؟ مجھے اس باسٹرڈ کا نام چاہیے۔۔ مجھے وہ ماہیر سے بھی بُری حالت میں نظر آئے۔۔"

"سر۔۔یہ لڑائی کسی لڑکی کی وجہ۔۔"

"مجھے وجہ نہیں چاہیے وہ باسٹرڈ چاہیے۔۔ کس کی ہمت ہوئی نجیب آفندی کے بیٹے پر ہاتھ اٹھانے کی۔۔؟؟وہ یہاں کیوں نہیں ہے میرے قدموں کے نیچے۔۔؟؟"

نجیب نے اپنے ہی گارڈ کو بینچ پر پھینک دیا تھا

"نجیب بیٹا کنٹرول کرو خود پر۔۔۔"

نجیب کے والد نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو نجیب نے ان کا  ہاتھ بھی جھٹک دیا تھا

"کنٹرول کروں۔۔؟؟ اس حرام۔۔۔ نجیب گھر کی عورتوں کی طرف دیکھ کر چپ ہوگیا تھا گالی دیتے دیتے۔۔۔مجھے بس وہ چاہیے۔۔۔"

"کیسے لا دوں۔۔؟؟ وہ کوئی راہ چلتا شرابی نہیں ہے سر۔۔۔ میں بتا رہا ہوں اس لڑکی کے پیچھے ہوئی جس کو ماہیر سر حاصل کرنا چاہتے۔۔۔"

"تو وہ لڑکی 'بھی' لیکر آؤ اسکی فیملی لیکر آؤ۔۔۔ ماہیر کی آنکھ کھلنے سے پہلے وہ یہاں ہو۔۔

اگر وہ لڑکی ماہیر کی پسند ہے تو رشتہ کی بات کرو۔۔ ورنہ قیمت لگاؤ۔۔۔"

گارڈ نے ہونٹ سے خون صاف کرکے نجیب کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"آپ کو بیٹا نشے میں دھت اس لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کررہا تھا۔۔۔

وہ لڑکی سیکریٹری ہے اس کی جس نے آپ کے بیٹے کو اتنا زخمی کرکے ہسپتال پہنچا دیا۔۔

وہ بزنس کی دنیا میں آنے والا نیا نام ہے۔۔ اور اسکا نام کافی ہے اسکی کامیابی کی داستان بتانے کے لیے۔۔۔"

وہ گارڈ کہتے ہوئے جانے لگے تھے جب نجیب نے اسکو گریبان سے پکڑا تھا

"نام کیا ہے اس باسٹرڈ کا۔۔؟؟"

۔

"مننان آمین احمد۔۔۔' این اینڈ ایچ کو، جیسے مشہور برینڈ کمپنی کے 'سی ای او'۔۔۔"

۔

"میرے پاس لیکر آؤ اسے۔۔۔"

نجیب کو جو حیرانگی  نام  سن کر ہوئی تھی اس نے اگلے ہی لمحے وہ وہم یہ کہہ کر درگزر کردیا کہ اسکا بیٹا اتنا قابل کیسے ہوسکتا ہے۔۔ جس کی ماں ویل چئیر پر آگئی ہو۔۔۔"

"سر ہماری کمپنی پچھلے کچھ ماہ سے ان سے اپاؤنٹمنٹ لینے کی کوشش کررہی ہے جو ناممکن ہے اگلے سال تک۔۔۔"

"ڈیم اِٹ وہ مجھے میرے سامنے چاہیے۔۔۔ ہر حال میں۔۔ ایسے نہیں مانتا تو اسکی کمزوری پکڑو۔۔اور اسے۔۔۔"

"سر نیکسٹ منتھ ایک بال ایونٹ ہے۔۔ وہاں سب بزنس مین آرہے ہیں اور وہ بھی وہاں موجود ہوں گے۔۔۔"

"تو میں انتظار کروں اس کا۔۔؟ یہاں میرا بیٹا اسکی وجہ سے دیتھ بیڈ پر موجود ہے اور تم کہہ رہے ہو کسی پارٹی کے انتظار میں بیٹھوں۔۔؟؟"

ابھی انکی باتیں چل رہی تھی جب آفندی صاحب نے اپنے بیٹے کے کندھے پر پھر سے ہاتھ رکھا۔۔

"اس گھٹیا آدمی کو ہم پکڑ لیں گے بیٹا ابھی گھر کی خواتین  کے سامنے ایسے بات نہ کرو۔۔ عمارہ کی حالت دیکھو۔۔اسکے پاس جاؤ اسے تسلی دو۔۔"

۔

"ہاں جیسے میرے پاس اور کوئی کام نہیں  ہے اسکو تسلیاں دینے کے علاوہ۔۔؟؟

اور کر کیا رہی ہے وہ یہاں۔۔؟"

نجیب نے طیش میں آکر پوچھا تھا۔۔۔

"کیا مطلب کیا کررہی ہے۔۔؟ بہو ہے اس گھر کی بڑی بہو۔۔ اپنے بیٹے کے پاس۔۔۔"

"ہمارے خاندان کی بڑی بہو نسواء ہے۔۔۔"

نجیب آفندی کی آواز گونجی تو وہ سب کی توجہ حاصل کرچکی تھی

"نجیب۔۔۔"

"جی ۔۔ آپ نے ٹھیک سنا نسواء میری بیوی۔۔ آپ کی بڑی بہو۔۔ بہت جلدی واپس لے آؤں گا اسے۔۔۔"

"یہ کیا بکواس کررہے ہو نجیب۔۔؟ تمہارا بیٹا اس حالت میں ہے تمہاری بیوی رو رو کر ہلکان ہوگئی ہے اور تم اس عورت کی بات کررہے ہو جو تمہیں چھوڑ گئی تھی۔۔۔ٹھکرا گئی تھی۔۔"

نجیب کی والدہ نے اپنے بیٹے کو بازو سے پکڑ کر اپنی بات سختی سے کی۔۔

"وہ۔۔ میرا اور میری بیوی کا نجی معاملہ ہے آپ درمیان میں نہ آئیں۔۔ نسواء کے اور میرے درمیان کوئی بھی آیا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔"

۔

نجیب نے آخری بات عمارہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہی تھی

وہ شخص اسکا نہ ہوسکا وہ جانتی تھی۔۔ مگر اسکی محبت نسواء کے لیے آج اس نے نجیب کی آنکھوں میں دیکھی۔۔۔

"اور ماہیر پر جس نے ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی دیکھئیے گا میں اسکے ہاتھ توڑ کے رکھ دوں گا۔۔"

وہ اپنا موبائل نکالے وہاں سے چلا گیا تھا۔۔

۔

"نسواء۔۔ ہماری نسواء کی بات کررہا تھا نجیب۔۔؟؟ وہ زندہ ہے۔۔ مننان کیسا ہے کہاں ہے۔۔؟مجھے مننان کو دیکھنا ہے۔۔"

دادی کی بےچینی نے اور آگ بگولا کردیا تھا کچھ لوگوں کو۔۔ 

۔

"بھائی صاحب میری بات سنیئے گا ۔۔۔"

نجیب کے چچا جان نے دوسرے بھائی کے کان میں کچھ الفاظ کہے اور وہ دونوں آفندی صاحب کو تسلی دے کر چلے گئے تھے آفس واپس۔۔۔

۔

"یہ سب کیا ہورہا ہے ذیشان بھائی صاحب۔۔؟؟"

"میں خود حیران ہوں یہ تو سب کچھ برباد ہورہا ۔۔ ماہیر کی لاپرواہی پر جتنا مطمئن ہم تھے اب نجیب اپنے اور وارث ڈھونڈ ڈھونڈ کرلا رہا ہے۔۔"

"مننان بڑا بیٹا ہے اگر وہ ماہیر سے زرا سا بھی ہوشیار نکلا تو ہمارا کیا ہوگا۔۔؟ ہمارے بچوں کا کیا ہوگا۔۔؟ میرے بیٹے کب تک نجیب کے آگے جی جی کرتے پھیریں گے۔۔؟"

وہ دونوں ذیشان کے کیبن میں آبیٹھے تھے۔۔ دونوں بھائی ہی پریشان تھے دونوں آفندی صاحب سے چھوٹے تھے۔۔ 

"پہلے ابا جی نے ناانصافی کی بھائی صاحب کے نام سب کردیا ہمارا گارڈئین بنا دیا جو آگے اپنی اولاد کو اپنی گدی نشین کرچکے تھے۔۔"

"ظہیر فکر نہ کرو ماضی کو نہ کریدو۔۔ تم جانتے ہو بھائی نے ہمارے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا ہمیں پیار دیا اپنے جیسی زندگی دی۔۔۔"

"میں نہیں مانتا۔۔۔ نجیب کو جو ملا وہ میرے بیٹوں کو نہیں ملا۔ وہ نوکری بھی کررہے تو باہر کررہے ہیں۔۔اور جو کمپنی میں ہے انکی حالت کیا ہے۔۔؟؟"

"مجھے بس مننان کی وجہ سے انسیکیورٹی ہورہی ہے۔۔"

"مجھے یقین ہے نجیب بھائی کا بڑا بیٹا ماہیر سے بھی زیادہ نکما اور نکارہ ہوگا۔۔

عمارہ اور یہ گھر والے اسے عیاشی میں برباد کرچکے ہیں تو نسواء تو خالی ہاتھ گئی تھی غریب تھی وہ وہ کیسے اتنا لائق فائق کرسکتی ہوگی۔۔؟ مننان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔"

"ہاہاہا یہ بھی ٹھیک کہا آپ نے۔۔ ہمیں اب ہمارے بچوں کی جگہ گھر اور کمپنی میں مظبوط کرنی ہے۔۔"

۔

وہ دونوں آگے کی پلاننگ سوچ چکے تھے یہ جانے بغیر کے انکے آنے والے دنوں کو وہ عذاب بنا کررکھ دے گا انکی کمپنیز کی طرح۔۔

جسے وہ معمولی سمجھ رہے تھے۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سینے میں دل دل میں دھڑکن،، دھڑکن میں کیا ہے تیری پیاس ہے

ہر پیاس میں درد ہے صنم۔۔ یہ درد تیرا احساس ہے۔۔۔"

۔

"تم ٹھیک ہو۔۔؟"

مننان گاڑی چلاتے ہوئے بار بار پوچھ رہا تھا اس سے۔۔ وہ جو کھڑکی طرف منہ کئیے مسلسل روئے جارہی تھی

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں مس منیشہ۔۔"

"ڈونٹ ٹچ مئ ۔۔ اب احساس کرنے کی ضرورت ہے نہیں جب ضرورت تھی تب تو اس چڑیل کے ساتھ بیٹھ کر گپے لڑا رہے تھے۔۔"

"سیریسلی۔۔؟؟ وہ چڑیل بزنس پارٹنر ہے میری۔۔۔غلطی بھی تمہاری تھی۔۔"

"میری غلطی۔۔؟ میں نے اس گھٹیا شخص کو کہا تھا میرے ساتھ بدتمیزی کرے۔۔؟؟"

وہ جیسے ہی چلائی تھی اسکے آنسوؤں سے بھرے چہرے کو دیکھ  کر مننان نے آگے جواب نہ دیا کوئی اور خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا تھا

"میں پاکستان نہیں آنا چاہتی تھی مگر آپ لیکر آئے مجھے۔۔۔زبردستی۔۔۔"

"کیونکہ تم ہو میری پرسنل سیکریٹری۔۔ تم لندن میں اس پروجیکٹ کو فالو اپ کررہی تھی۔۔"

"آفس میں تو دانت چبا چبا کربےعزت کرتے ہیں مجھے اب وہ مراثی کہاں گیا جو آپ کا اسسٹنٹ بنا پھرتا ہے۔۔؟ ٹھنڈا لطیفہ۔۔۔"

وہ ناک پونچتی جیسے ہی بولی تھی شاکڈ سے مننان کی آنکھیں بڑی ہوگئی تھی اس لڑکی کی بدتمیزی اور طنز پر۔۔۔

۔

"غلطی ہوگئی تمہیں ساتھ لے آیا۔۔۔اب ہوٹل جاکر پیکنگ کرلینا۔۔"

"غلطی آپ سے نہیں مجھ سے ہوئی ہے سر ہے۔۔"

اب کی بار منیشہ نے آنکھوں سے پانی کا وہ آخری قطرہ بھی پونچھ لیا تھا

"گیٹ آؤٹ۔۔۔ غلطی سدھارو اپنی۔۔۔تمہاری فالتو کی بکواس کی وجہ سے رستہ بھول گئے۔۔۔"

"اوکے۔۔۔"

وہ خاموشی سے گاڑی سے اتر آئی تو مننان نے بھی آنا کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسے پھر بیٹھنے کا نہ کہا اور گاڑی چلا دی۔۔

"یوزلیس۔۔"

وہ بڑبڑایا تھا۔۔۔گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی تھی بھری ہوئی پلکیں جھلک گئی۔۔۔

۔

"تیری میری باقی ہے کہانی تیری میری آدھی ہے کہانی

آگئی وہ موڑ پر۔۔تو گیا چھوڑ کر۔۔ 

میرے دل کو توڑ کر کیا مل گیا۔۔۔"

۔

"اگر وہ لندن میں ہوتی تو شاید گھبرا جاتی ممکن تھا ڈر جاتی انجان ملک میں انجان شہر کی انجان گلی سے۔۔

مگر اس روڈ سے منیشہ کے قدم چلتے جارہے تھے۔۔۔

راستے جانے پہچانے لگ رہے تھے اسکے قدم ایک سوسائٹی کی طرف لے گئے تھے۔۔۔

چلتے چلتے وہ ایک بند گھر کی طرف آپہنچی تھی۔۔۔۔

نمبر پلیٹ پر لکھا نام۔۔۔اور اس نام پر لگی ہوئی مٹی کو اس نے اپنی انگلیوں سے صاف کرکے پڑھا تھا

'معاذ حیدر'

۔

"اس کے ہاتھ نے بےساختہ مٹی کے گلدان  کے پیچھے سے چابی نکالی تھی جب دروازہ کھولا تو وہ سمجھ گئی تھی یہاں کوئی نہیں آیا ہوگا اس دن کے بعد۔۔۔

وہ دن جب اس نے ماں باپ دونوں کو کھو دیا تھا۔۔۔

۔

مکڑی کے جالوں کو صاف کرتی وہ اندر گئی تھی سب فرنیچر سفید پردوں سے کور کیا ہوا تھا

"منیشہ۔۔۔"

منیشہ نے چونک کر پیچھے دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔۔۔

ماں کی آوازیں اسکی سماعتوں میں گونج رہی تھی

"ماما۔۔۔"

"فضا اگر تم نے دوبارا طلاق کی بات کی تو میں لحاظ نہیں کروں گا۔۔"

"تو مت کرو۔۔ احسان مت کرو مجھ پر جب زندگی دوسری بیوی کے ساتھ گزار رہے ہو تو یہ ڈرامہ کیوں۔۔؟؟"

"فضا۔۔۔"

"ماماما۔۔۔"

"بیٹا آپ اپنے روم میں جاؤ۔۔۔"

"کہیں نہیں جائے گی وہ۔۔ بیٹا یہیں رکو اور دیکھو اپنے باپ کی کرتوتیں۔۔"

"فضا۔۔۔"

تھپڑ کی گونج اسے اسکی دنیا سے واپس لے آئی تھی۔۔

۔

"رنجیشوں کی ماری میں۔۔ قسمتوں سے ہاری میں

کوئی آکے دیکھ لے ۔۔۔ہوں  ٹوٹی ساری میں۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر آپ کچھ لیں گے۔۔؟؟"

"تمہیں ایک بار میں سمجھ نہیں آرہا۔۔؟ دفعہ ہوجاؤ نظر نہ آئے مجھے کوئی یہاں پر۔۔۔"

وہ ڈب سٹوری گھر تھا جہاں نجیب ہاتھ میں کیک کا باکس پکڑے داخل ہوا تھا۔۔

وہ ووڈن ہوم تھا جو بہت یونیک ڈیزائن سے بنایا گیا تھا گھر دیکھنے میں اتنا خوبصورت لگ رہا تھا جیسے ہر چیز خود ہاتھوں سے  سجائی گئی ہو۔۔۔

کیک کا باکس وہ سیدھا بیڈروم میں لے گیا تھا۔۔۔بیڈروم بہت لارج تھا بیڈ کے سامنے ٹیبل اور دو چئیر رکھی ہوئی تھی ہر طرف کینڈل روشن تھی۔۔

اسکے آنے سے پہلے ملازمہ اسکی انسٹرکشن کے بعد یہ سب سیٹنگ کرکے گئی تھی جو ہر سال کی جاتی تھی۔۔۔

نجیب نے کیک ٹیبل پر رکھا تو ریموٹ پر کچھ پریس کرنے سے وہ سب فوٹو فریم روشن ہوگئے تھے جس میں اسکی اور نسواء کی تصاویر تھی

"ہیپی ویڈنگ اینیورسری نسواء۔۔۔"

بارہ بجنے کے بعد اس نے کیک کاٹا اور ایک بائٹ نسواء کی فوٹو فریم کی طرف بڑھائی تھی۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

اسکا لہجہ بھاری ہوا تو اس نے وہ بائٹ خود کھا لی تھی۔۔۔

"تمہیں یاد ہے ہم یہ رات کیسے مناتے تھے۔۔؟؟"

وہ بیڈ پر بیٹھ گیا تھا نسواء کی اور اسکی تصویروں سے پورا کمرہ بھرا پڑا تھا۔۔۔

۔

"کبھی جو بادل برسے۔۔ 

میں دیکھوں تجھے آنکھیں بھر کے

تو لگے مجھے پہلی بارش کی دعا۔۔۔"

۔

"ہاہاہاہا آپ مجھے پکڑ نہیں سکتے مسٹر نجیب بڈھے ہوگئے ہیں۔۔ہاہاہاہا۔۔۔"

"سیریسلی۔۔؟؟ نسواء کی بچی۔۔۔"

ٹھنڈی گیلی ریت پر قدم اور تیز ہوئے تو کچھ فاصلے کو بھی ختم کرکے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا تھا نسواء کو۔۔۔

"ہاہاہاہا۔۔۔ یہ چیٹنگ ہے نجیب۔۔۔پانی میں نہیں۔۔۔"

"میں تو ایسے ہی اپنا بدلا لوں گا۔۔۔"

نجیب نے پانی میں جیسے ہی نسواء کو پھینکا وہ خود پیچھے بھاگا تھا۔۔

"ہاہاہا۔۔۔مس نسواء۔۔۔کیسا فیل ہو رہا۔۔۔"

"آئی ہیٹ یو۔۔۔؟؟؟"

سمندر سے آتی لہروں کے کنارے نجیب نے پن کردیا تھا 

"نفرت۔۔۔نفرت۔۔بہت بڑا لفظ ہے نسواء ڈونٹ یو تھنک۔۔؟؟"

وہ اس طرح نسواء پر جھکا تھا نسواء کی سانسیں تھم سی گئی تھی۔۔

سمندر سے آتی لہریں انہیں اور بھگا رہی تھی تیز دھڑکنیں بھیگے وجود اور لہروں کا شور ایک الگ سما باندھ رہا تھا۔۔

"نسواء۔۔۔"

نجیب کی نزدیکی نے نسواء کو پلکیں جھکانے پر مجبور کردیا تھا۔۔

۔

"دیکھتی ہیں۔۔جس طرح سے۔۔تیری نظریں مجھے

میں خود کو چھپاؤں کہاں۔۔۔۔"

۔

"نجیب۔۔ ایم سوری میرا وہ مطلب۔۔"

"شش۔۔۔محبت کے لیے الفاظ نہیں ثبوت چاہیے مجھے۔۔۔ڈئیر وائفی۔۔"

نسواء کے ہونٹوں پر انگلی پھیرتے ہوئے نجیب نے اسکےچہرے کو پھر سے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔ آنکھوں میں ایک الگ ہی جنون تھا جب نسواء نے نظریں اٹھائی۔۔۔

چہرے پر غصہ دیکھ کر نسواء کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اسے وہ لفظ نہیں بولنے چاہیے تھے

نجیب کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے اس نے شرارت بھری نظروں سے اسے دیکھا

"اور ثبوت کیسے دوں۔۔؟؟ میں بہت کچی ہوں ان معاملات میں مسٹر نجیب۔۔ تھوڑا سا ٹیچ کردیں۔۔۔"

نجیب کے نک پر دونوں بازؤں کا ہار بنائے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو نجیب کے چہرے پر بےساختہ مسکراہٹ چھا گئی۔۔۔

"ایسے۔۔۔"

نجیب نے جلتے ہوئے ان وجود کے درمیان فاصلہ ختم کرتے ہوئے اپنے لب جیسے ہی نسواء کے ہونٹوں پہ رکھے تو وہ وقت تھم گیا تھا ان دونوں کے لیے۔۔۔

نسواء کی انگلیوں کی گرفت اور مظبوط ہوئی نجیب کے بالوں پر جب نجیب کے ہونٹوں نے لبوں سے گردن تک کا سفر تہہ کیا۔۔۔

۔

"بانہوں میں تیری۔۔۔یوں کھو گئے ہیں۔۔

ارمان دبے سے۔۔۔ جگنے لگے ہیں۔۔۔

جو ملے ہو آج ہم کو۔۔ دور جانا نہیں۔۔۔

مٹا دو ساری یہ دوریاں۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماما۔۔۔۔ موم۔۔۔ ممی۔۔۔ ماں۔۔۔ اماں جی۔۔۔؟؟

نہیں اماں جی کافی اولڈ ہوجائے گا نئی۔۔؟؟"

حورب روم کے باہر کھڑی جیسے ہی بولنا شروع ہوئی نسواء نے فوٹو فریم  کے اندر چھپی ہوئی فوٹو کو کور کرکے فوٹو فریم گود میں رکھی چادر کے نیچے چھپا لیا تھا

"ماما۔۔۔؟"

"حورب بیٹا میں ابھی بات۔۔"

"جانتی ہوں آج کا دن  آپ ایسے ہی گزارتی ہیں۔۔اکیلے تنہا۔۔ اس کمرے کے اندھیرے میں۔۔۔ ہر سال تو میں تنگ نہیں کرتی تھی کیونکہ مننان بھائی ہر بار کور کرلیتے تھے آپ کی غیر موجودگی۔۔۔پر ماں آج مننان بھائی بھی نہیں ہیں۔۔۔تو کیا ماں بیٹی کچھ باتیں کرلیں آج کے دن کو لیکر۔۔؟؟"

وہ ایک ساتھ بولتے ہوئے دروازہ کھول چکی تھی۔۔ کھڑکی سے آتی ہوئی چاند کی روشنی نسواء کے چہرے کو اور روشن کررہی تھی وہ ویل چئیر پر بیٹھی تھی ونڈو کے پاس۔۔۔ پورا کمرہ اندھیرے سے بھرا پڑا تھا۔۔

"حورب بیٹا۔۔ آج کا دن کچھ خاص نہیں۔۔"

"ماں خاص نہ کہہ کر تذلیل مت کیجئے آج کے دن کی۔۔۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنی ماں کو اس دن اپنی اولاد سے ہٹ کر دیکھا۔۔

یہ دن اتنا خاص ہے کہ آپ مننان بھائی اور مجھے دیکھتی بھی نہیں۔۔"

وہ کھانے کی پلیٹ رکھ کر نسواء کی چئیر کے پاس جا کر بیٹھ گئی تھی فرش پہ۔۔۔

"بیٹا یہاں نہ بیٹھو۔۔ بیڈ پر بیٹھ جاؤ۔۔ ہاسپٹل نہیں جانا کپڑۓے خراب ہوجائیں گے"

"آج ماں بیٹی باتیں کریں گی باقی سب گئے چھٹی پر۔۔"

نسواء کی گود پر سر رکھے اسکے ہاتھوں پر بوسہ لیا تھا حورب نے۔۔

"کیا بات ہے بوڑھی ماں پر بہت پیار آرہا۔۔؟"

حورب کے بال سہلاتے ہوئے پوچھا تھا نسواء نے۔۔۔

"بوڑھی۔۔؟؟ جائیں جائیں۔۔ آپ جب ساتھ چلتی ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں آپ بڑی بہن ہیں میری۔۔۔ ہاسپٹل کے سینئر ڈاکٹر کی امی کہہ رہی تھی اگر آپ سنگل ہیں تو رشتہ۔۔"

"ہاہاہاہا بدمعاش۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔توبہ ہے حورب۔۔۔"

نسواء کھلکھلا کرہنسی تو حورب بھی ہنس دی۔۔۔

"ہاہاہاہا۔۔۔ آپ کہاں سے بوڑھی ہیں ویسے۔۔؟؟ ماشاللہ مجھ سے زیادہ مینٹئینڈ تو آپ خود کو رکھتی ہیں ۔۔۔خیریت ہے نہ۔۔؟؟ حزیفہ انکل بھی کچھ کم۔۔۔"

"ہاہاہاہا شرم کرو لڑکی ماں سے بات کررہی ہو۔۔۔"

"اوکے اوکے۔۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔"

وپ دونوں پھر سے ہنس دئیے تھے۔۔۔

۔

"کیا آج کا دن پاپا سے ریلیٹڈ ہے ماں۔۔؟؟"

حورب کے اچانک پوچھے گئے اس سوال نے نسواء کے وجود کو ساکن کردیا تھا

"حورب۔۔۔"

"ماں بچپن سے محنت کرتے ہوئے دیکھا۔۔ بھائی کو مجھے سمجھاتے ہوئے آپ کو سنبھالتے ہوئے دیکھا۔۔ مجھے یاد نہیں کہ بچپن میں میں نے کبھی پاپا کا پوچھا ہو۔۔۔

مگر جب سے ہوش سنبھالا میں اتنا سمجھ گئی تھی کہ انکا پوچھنا آپ کو ہرٹ کرجائے گا۔۔

میں نے کبھی نہیں پوچھا۔۔۔ ماں۔۔۔ آپ کی سٹرگل مننان بھائی کی زندگی میرے لیے اس چیز کا ثبوت تھی کہ وہ جو کوئی بھی ہیں۔۔ آپ کے بےوفا ہیں۔۔۔؟؟"

"میرا ہرجائی ٹھہرا وہ شخص۔۔۔"

نسواء نے سرگوشی کی مگر حورب سن چکی تھی۔۔۔ اپنی ماں کے الفاظ میں چھپے درد نے اسکی آنکھیں بھگا دی تھی۔۔۔

۔

"ماں۔۔۔ ہرجائی۔۔؟؟"

"تم نہیں سمجھوں یہ ایک چھوٹا سا لفظ کافی ہے کسی بیوی کی  اجڑی ہوئی زندگی کو بیان کرنے کے لیے۔۔۔"

"تو پھر ہرجائی کے لیے آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں ماں۔۔؟؟ میں پورا سال آپ کو خوش دیکھتی ہوں مگر یہ ایک دن۔۔۔ اس میں کسر پوری ہوجاتی ہے نہ۔۔؟؟

وہ جو بھی ہیں۔۔ بہت خاص مقام رکھتے ہیں آپ کے دل میں۔۔؟؟"

حورب نے سر پہ نسواء نے اپنا سر رکھ دیا تھا دونوں ہی خاموش ہوگئے تھے

"سجدے میں ہم نے مانگا تھا۔۔ عمر بھی ہماری لگ جائے تم کو

خود سے ہی توبہ کرتے تھے۔۔۔ نظر نہ ہماری لگ جائے تم کو۔۔۔

ہم مگر ناگوارا تمہیں۔۔۔کس طرح ہوگئے۔۔۔

کہ تم سے جدا ہوکے ہم۔۔۔تباہ ہوگئے۔۔۔"

"بس یہ سمجھ لو اس دنیا میں ہم تینوں ہی ہیں ایک دوسرے کے اپنے اور کوئی نہیں بیٹا۔۔۔"

اس رات پھر کوئی اور بات نہ ہوئی تھی ماں بیٹی میں۔۔۔

حورب کے دل میں اتنے ہی زخم لگ رہے تھے نسواء جو خاموشی سے رو رہی تھی اسکے آنسو حورب کا چہرہ بھی بھگو رہے تھے۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"دی نہیں دعا بھلے نہ دی کبھی بددعا۔۔۔

نہ خفا ہوئے نہ ہم ہوئے کبھی بےوفا۔۔۔

تم مگر بےوفا ہوگئے۔۔کیوں خفا ہوگئے 

کہ تم سے جُدا ہوکے ہم تباہ ہوگئے۔۔۔"

"نسواء۔۔۔۔"

وہ ایک جھٹکے سے اٹھا تھا۔۔ ہاتھوں میں ڈرنک کی بوتل جیسے ہی گری تھی نجیب نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تھی سورج کی کرنیں اسکی نیند خراب کرچکی تھی وہ نیند واحد راستہ تھی جس میں بنا کسی رکاوٹ کے وہ نسواء کو اپنے قریب پاتا تھا۔۔

"نسواء۔۔۔"

نجیب کی نظر اس آدھے کیک پہ جاپڑی تھی۔۔۔ کمرے کی خوبصورت ڈیکیوریشن ایک نظر دیکھنے پر ہی وہ مسکرا دیا تھا اتنے سالوں میں پہلی بار۔۔۔

اور پھر پاؤں میں گری خالی ان بوتل اور سگار کے پیک پر وہ اٹھ کر واش روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔

کچھ دیر میں وہ جیسے ہی باہر آیا تو اپنا کوٹ پہن کر شیشے کے سامنے کھڑا ہوا آنکھیں سرخ ہوچکی تھی جیسے سوجھی ہوں رو رو کر۔۔ مگر نجیب آفندی ان کمزور مردوں میں سے نہیں تھا جو محض کسی عورت کی جدائی میں روئے۔۔

کیا وہ کمزور تھا۔۔؟؟۔

۔

"میں آپ کو واپس لے آؤں گا نسواء۔۔۔"

۔

ایک اور وعدہ کرکے وہ وہاں سے سیدھا ہاسپٹل گیا تھا اپنے بیٹے کو دیکھنے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مجھے ابھی تک کوئی خبر نہیں ملی ڈیم اِٹ وہ لڑکی اسسٹنٹ ہے میری ذمہ داری ہے جاؤ پتہ کرو وہ کل رات سے کہاں۔۔"

وہ ابھی ریسیپشن میں لوگوں کو آرڈر دے رہا تھا جب منیشہ ہوٹل میں داخل ہوئی تھی پورا وجود بارش میں بھیگا ہوا تھا۔۔ تب مننان کی نظر باہر موسم پہ گئی۔۔۔ اور وہاں کھڑے مردوں پہ جو بےشرمی سے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھ رہے تھے

۔

"وٹ دا ہیل۔۔۔ بیک ٹو ورک۔۔۔"

وہ چلایا تو سب نے نظریں نیچی کرلی تھی۔۔۔مننان جلدی سے اپنا کوٹ اتارے منیشہ کی جانب بڑھا اس نے جیسے ہی منیشہ کے کندھے پر کوٹ رکھنا چاہا وہ خود کو دس قدم دور کرچکی تھی۔۔

"یہ غیرت اس وقت یاد نہیں آئی جب مجھے سنسان روڈ پر اتار کر چلے گئے تھے مسٹر مننان۔۔؟؟ اب بہت مرد بن رہے ہیں۔۔ نہیں چاہیے ایسی عزت جو ذلت کے بعد ملے۔۔۔"

وہ لفٹ کی جانب بھاگی تھی۔۔۔اور اپنے روم میں چلی گئی تھی مننان کو لاجواب چھوڑ کر۔۔

۔

"مننان سر۔۔ آئی تھنک آپ کو منیشہ سے اکیلے میں بات کرنی چاہیے یہاں بہت تماشا ہوچکا ہے۔۔"

"اب تم بتاؤ گے۔۔؟ نوکر ہو میرے نوکر بن کر رہو۔۔"

اسکے کالر کر پکڑ کر کہا اور ایک جھٹکے میں پیچھے دھکیل دیا تھا ۔۔۔اور غصے سے وہ بھی منیشہ کے پیچھے گیا تھا۔۔۔

۔

"سمجھتی کیا ہو تم خود کو۔۔؟ اوقات کیا ہے تمہاری۔۔؟؟ نیچے کیا بکواس کرکے آئی ہو۔۔؟؟"

وہ دروازہ کھولنے کی کوشش کررہی تھی جب مننان نے کندھے سے پکڑ کر اسے دروازے کے ساتھ واال پر پش کیا۔۔ 

"آپ دور رہیں مجھ سے۔۔ واپس جانا ہے مجھے اس عذاب سے۔۔ ارو بار بار میری اوقات یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"

مننان کو ایک ہی دن میں دوسری بار جھٹک دیا تھا جومننان کی برداشت سے باہر تھا۔۔۔

اسکی گرفت اور مظبوط ہوئی تو منیشہ کی آنکھیں بھر آئی تھی

"ایک اور بدتمیزی میں تمہیں کمپنی سے نکال باہر کروں گا۔۔۔"

"کیجئے شوق سے کیجئے۔۔ میں بھی کوشش کروں گی آپ کو اپنے دل سے نکال باہر کروں مننان۔۔۔"

مننان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے آہستہ آواز میں کہا تھا اس بار غصے سے نہیں بہت آہستہ سے خود کو مننان کی گرفت سے آزاد کروا کر وہ کمرے کا لاک کھول کر داخل ہوگئی تھی ور دروازہ بند کرلیا تھا۔۔۔ مننان وہیں کھڑا اس خالی جگہ کو دیکھتا رہ گیا تھا۔۔

اس کا دل جو اسے لگتا تھا پتھر بن چکا وہ پہلی بار دھڑکا تھا۔۔

اور اسکی جیب میں پڑا اس کا موبائل ایک دم سے بجا تو مننان اس حصار سے باہر آیا جو منیشہ کے الفاظ نے اس پر طاری کردیا تھا۔۔۔

بےدھیانی میں اس نے کال اٹھا کر کان کے ساتھ موبائل لگایا ۔۔

"ہیے جان گیس وٹ۔۔؟ میں اپنے موم ڈیڈ کے ساتھ واپس آرہی ہوں۔۔ 

نجیب ماموں سے بات کروں گی تمہاری اور میری شادی کی۔۔۔۔"

اور بھی باتیں چل رہی تھی مگر اس ایک بات نے مننان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ بکھیر دی تھی

ایک شیطانی مسکراہٹ۔۔۔۔

"ماہیر۔۔۔"

نجیب جیسے ہی روم میں داخل ہوا سب لوگ پیچھے ہوگئے تھے عمارہ نے آنکھیں صاف کرکے نجیب کی طرف دیکھا جس نے اسکی طرف دیکھنا بھی گنوارا نہ کیا اور ماہیر کے پاس آکر بیٹھ گیا تھا

"میں میڈیا اور لوگوں کی باتوں پر یقین نہیں کررہا ماہیر۔۔ مجھے اپنے خون پر یقین ہے تم میرا نام میرے باپ دادا کا نام خراب کرنے کا سوچ نہیں سکتے پھر کیا ہوا بیٹا۔۔؟؟"

نجیب کی ہلکی اور سخت آواز نے ماہیر کے ساتھ ساتھ باقی سب کو بھی خوف میں مبتلا کردیا تھا

سب جانتے تھے نجیب آفندی کو ماہیر کی ایک غلط بات اور نجیب کا قہر کسی قیامت کی طرح آگرنا تھا۔۔۔

"ڈیڈ۔۔۔ڈیڈ وہ میں۔۔۔"

"کیا تمہیں وہ لڑکی پسند ہے۔۔؟ یا تم سچ میں زبردستی۔۔؟؟"

نجیب کی باتوں نے ماہیر کو ایک آسان راستہ دہ دیا تھا۔۔۔اور اس نے چہرے پر بےبسی کے تاثرات اور واضح کئیے تھے۔۔

"ڈیڈ۔۔ میں اس لڑکی سے بہت پیار کرتا ہوں۔۔ اس رات بھی۔۔ وہاں اسے منانےگیا تھا۔۔۔ڈیڈ مگر اس شخص نے۔۔۔"

۔

"وہ تمہیں ہی ملے گی۔۔  تمہاری شادی ہوگی اس سے بےفکر رہو۔۔۔"


"شام کو میٹنگ ہے امپورٹنٹ کوئی ڈسٹرب نہ کرے مجھے۔۔۔"

"اوکے سر۔۔ ہیو آ گڈ ڈے۔۔۔"

مننان کپڑے اتار کر واشروم میں چلا گیا تھا۔۔۔

۔

"میں بھی کوشش کروں گی آپ کو اپنے دل سے نکال باہر کروں مننان۔۔۔"

۔

"ڈیم اِٹ۔۔۔۔"

شاور آن کئیے وہ گرتے ہوئے پانی میں ایک ہی چہرے کو بار بار دیکھ رہا تھا۔۔

اور جب منیشہ کی بات اسکے دماغ میں گھومنا شروع ہوئی تو اس نے وال پر زور سے ہاتھ مارا۔۔

عین اسی وقت پیچھے سے کسی نےاسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا

"لیزا۔۔۔"

سینے پہ ٹیز کرتی ان انگلیوں کو مظبوطی سے پکڑے وہ اس وجود کو اپنے سامنے لا چکا تھا شاور کے نیچے وہ لڑکی بھیگ رہی تھی جس کی آنکھوں میں شرارت تھی مننان کو ایسے دیکھ کر

"لکنگ ہوٹ مسٹر۔۔۔"

وہ ہاتھوں کو مننان کے بالوں سے پھیرتے ہوئے گردن تک لے آئی تھی۔۔۔

"تم سے کم لگ رہا ہوں۔۔۔"

لیزا کے ہاتھ اپنے نک سے ہٹائے اس نے موڑ دئیے تھے اور قریب کرلیا تھا

"پلان تو پاکستان میں ملنے کا تھا۔۔؟؟"

مننان نے اسکے کندھے پر ہونٹ رکھتے ہوئے سرگوشی کی تھی۔۔

"اب اور دوری برداشت نہیں ہورہی تھی جان۔۔۔کس مئ۔۔۔"

اسکے ہونٹوں کی طرف دیکھےوہ ڈیسپریٹ ہوکر بولی تو اگلے ہی لمحے مننان نے اسکی یہ خواہش بھی پوری کردی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مننان صاحب نے منع کیا ہے ہے میم۔۔"

"انہوں نے کچھ بھی نہیں کھایا تم چاہتے ہو وہ بھوکے رہیں۔۔؟؟"

"پر منیشہ میم اندر جانا آپ کے لیے سہی نہیں۔۔"

مننان کے اسسٹنٹ نے ہڈن وارننگ دی تھی وہ جانتا تھا مننان کے بند کمرے میں کیا ہورہا ہوگا اس نے اس لڑکی کو فلا اتھارٹی کے ساتھ اس روم میں جاتے دیکھا تھا جو مننان کا پرائیویٹ روم تھا جس کا لاک پاسورڈ اس لڑکی کو آلریڈی معلوم تھا۔۔۔

۔

"منیشہ تمہارا اس وقت وہاں جانا ٹھیک نہیں۔۔"

ایگزیکٹ دوسری طرف روم کو دیکھتے ہوئے سینئر گارڈ نے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی تھی منیشہ کو وہ جو عمر میں بڑے تھے اور منیشہ کو بیٹی کی طرح ٹریٹ کرتے تھے آفس میں۔۔۔

سب کو ہی معلوم تھی منیشہ کی فیلنگس مننان کو لیکر۔۔۔

"دیکھو منیشہ۔۔۔"

"میں ایسے باز نہیں آنے والی ڈنر دے آؤں پکا۔۔"

وہ اپنی ناراضگی بھلا کر مننان کے لیے کھانا لے جارہی تھی وہ اپنی آنا بھول کر اس روم کی جانب بڑھی تھی

"منیشہ نے آہستہ سے ناک کیا تھا مننان کی غصے سے بھری آواز آئی تھی

"میں نے بکواس کی تھی کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے۔۔"

مننان باتھروب سوٹ کی نوٹ بند کرتے ہوئے دروازہ کھولتا ہے۔۔

وہ پہلی بار مننان کو کیچئول میں دیکھ رہی تھی اسکی چہرے پہ مسکان آئی۔۔ گالوں پر ہلکا ہلکا سا بلش ابھرا۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔ ایک الگ آواز آئی تھی اندر سے اور منیشہ کے چہرے کے رنگ اڑ گئے تھے جب ایک لڑکی مننان کی شرٹ پہنے بئیر لیگز کے ساتھ مننان کے پاس آکر کھڑی ہوگئی تھی

"ہنی اتنی دیر لگا دی بعد میں ڈانٹ لینا بیچاری کو۔۔۔"

وہ کھانے کی ٹرے ہاتھوں سے گر گئی تھی۔۔۔

"ایم۔۔۔ ایم سو سوری۔۔۔"

وہ جلدی سے نیچے جھکی تھی اور ٹوٹے کانچ کو اٹھا کر واپس اٹھانے لگی تھی

"تم جاؤ میں کسی سرونٹ سے صاف کروا لوں گا۔۔"

"اٹس اوکے سر آپ جائیے میں کرلوں گی۔۔"

اسے درد نہیں ہوا تھا اسکے ہاتھ پر کانچ چبھ گیا تھا خون بہہ رہا تھا جب مننان نے اسے کندھے سے پکڑ کر اٹھایا تھا

"جاؤ اپنے روم میں۔۔ پیکنگ کرو۔۔ اور اب۔۔۔ نظر مت آنا یہاں۔۔"

منیشہ کی بھیگی ہوئی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔

"جی۔۔۔"

وہ بازو چھڑا کر پیچھے ہوگئی تھی ایک نظر اس لڑکی کو دیکھ کر منیشہ مڑ گئی تھی۔۔۔

۔

"مننان۔۔۔"

وہ اسے جاتے دیکھ رہا تھا اور ان خون کے قطروں کو جو اسکے زخمی ہاتھ سے گررہے تھے

"کیا ہوا۔ کون تھی وہ۔۔؟تم دسٹریکٹ لگ رہے ہو کیا ون نائٹ سٹینڈ۔۔۔میرے مقابلے پر"

"اپنی بات مکمل مت کرنا۔۔۔"

مننان نے اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا تھا

"وہ میرا سٹینڈ نہیں ہے۔۔ نوکر ہے میری کمپنی میں۔۔اورتم  میرے دل کی مالک۔۔"

"آئی لوو یوو۔۔۔"

مننان کے لبوں نے اسکے ہونٹ جیسے ہی چھوئے تھے منیشہ اپنے روم کا دروازہ بند کرچکی تھی۔۔

بند دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے وہ زمین پہ بیٹھ چکی تھی گھٹنوں پہ سر چھپائے۔۔

اسکی روتی آواز اسی کمرے میں گونج اٹھی تھی۔۔۔

۔

"سو درد ہیں۔۔ سو راحتیں۔۔۔ 

سب ملا دلنشین۔۔۔

اک تو ہی نہیں۔۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"فضا۔۔۔ او مائی گاڈ تم کب آئی۔۔۔ جنید بھائی موسٹ ویلکم۔۔۔"

گھر والے گھر کی لاڈلی بیٹی کو دیکھ کر اتنا خوش ہوئے تھے۔۔۔

"نجیب بھائی کہاں ہے۔۔؟"

فضا نے سب کو ملنے کے بعد پوچھا تھا

"نجیب بھی یہیں ہے یہ بتاؤ لیزا کہاں ہے۔۔؟؟"

ناہید بیگم نے پھر سے فضا کے ماتھے پر بوسہ دے کر پوچھا تھا

فضا کی بیٹی کو سب اس سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے خاص کر نجیب۔۔۔

کیونکہ کچھ سال پہلے جو فضا کے ساتھ ہوا اسکا قصور وار نجیب خود کو سمجھنے لگا تھا اور اپنی دولت شہرت سے اس سے جو بن پڑا اس نے کیا فضا کی زندگی کو پھرسےسیٹل کرنے کے لیے۔۔۔

۔

"بھابھی کہاں ہیں۔۔؟ نظر نہیں آرہی۔۔؟؟"

"عمارہ ابھی اپنی دوست۔۔۔"

"موم میں عمارہ نہیں نسواء بھابھی کی بات کررہی ہوں۔۔ مجھے دادی نے جیسے ہی بتایا مجھ سے تو رہا نہیں گیا کہاں ہیں وہ۔۔؟"

ناہید کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ چھڑائے وہ ہال میں ہنستے ہوئے گھومی تھی۔۔۔ اور اوپر اسی کمرے کی طرف بھاگی تھی جو کبھی نجیب اور نسواء کا تھا

"اور مننان۔۔؟؟ ہمارا مننان۔۔۔؟ وہ کیسا ہے۔۔؟ بڑا ہوگیا ہوگا۔۔؟ نجیب بھائی پر گیا ہے۔۔؟ قد کاٹھ میں۔۔؟ اور ہینڈسم بھی۔۔۔"

وہ کہتی جارہی تھی کہتی جارہی تھی دادی کی آنکھیں بھیگ چکی تھی پر باقی سب افراد غصے سے دیکھ رہے تھے فضا کو۔۔۔

"وہ نہیں ہے۔۔اور کبھی واپس آئے گی بھی نہیں۔۔ تمہارا بھائی پاگل ہوگیا ہوا ہے اسے وہ چاہیے۔۔؟ جب وہ تھی تو نسواء چاہیے تھی۔۔ اور اب وہ ماڈل۔۔۔"

ناہید طیش میں کہنے لگی تھی یہ سوچے بنا کہ جنید بھی وہاں موجود تھا اور باقی ملازم بھی

"موم کوئی بھی آجائے۔۔۔ چلی جائے۔۔۔ مگر نجیب بھائی نسواء کے تھے ہیں اور رہیں گے آپ بھی جانتی ہیں۔۔۔کیا نہیں جانتی۔۔؟ پچھلے سالوں میں نجیب بھائی کی محبت نسواء بھابھی کے لیے۔۔۔"

"ہاہاہاہا محبت۔۔؟؟ میں نہیں مانتی نجیب کو محبت ہوگی۔۔؟ اگر ہوتی تو کسی اور کو بیاہ کر نہ لاتا بیٹا ناہید باجی ٹھیک کہہ رہی۔۔ ہمارا نجیب اس عمر میں بھی  دل لگی سے باز نہیں آیا۔۔

اور نسواء۔۔۔ وہ۔۔"

چچی کہتے کہتے چپ ہوئی تھی جب نجیب اپنی فیملی کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تھا جو سن چکا تھا چچی کی باتیں۔۔

نجیب نے ملازموں کو اشارہ کیا تھا جو ماہیر کی ویل چئیر نیچے والے فلور کے گیسٹ روم میں لے گئے تھے

"شزا جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔"

اسکی بیٹی خاموشی سے چلی گئی تھی بنا فضا اور جنید کو ملے یہی رویہ ماہیر کا بھی تھا۔۔

"بھائی۔۔۔"

وہ بھاگتے ہوئے نجیب کے گلے لگی تھی جبکہ نجیب کی نظریں ابھی بھی چچی اور اسکی ماں پر تھی

"آپ ایسے ویلکم کریں گے گھر کے داماد کا۔۔؟  جنید۔۔۔"

فضا کے ماتھے پر بوسہ دئیے انہوں نے جنید کو اپنے گلے سے لگایا تھا

"اور ہماری پرنسز کہاں ہے۔۔؟"

"ہاہاہا وہ بس شام کی فلائٹ سے آجائے گی لندن رک گئی اسکی دوست کا ایکسیڈنٹ  ہوگیا تھا"

وہ باتیں کرتے کرتے لیونگ روم کی طرف چل دئیے تھے

"لندن۔۔؟ مجھے بتا دیتی میں بھی وہی سے آیا ہوں میرے ساتھ آجاتی۔۔"

"آپ کیا کرنے گئے تھے وہاں۔۔؟؟"

نجیب کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔۔

"بس اپنی زندگی کو واپس لینے گیا تھا۔۔۔"

"اووہ۔۔۔"

عمارہ اٹھ کر جانا چاہتی تھی فضا کے آنے کے بعد اسکی عزت ویسے بھی دو کوڑھی کی رہ جاتی تھی مگر وہ نجیب کے غصے کا سبب بھی نہیں بننا چاہتی تھی تو وہ خاموشی کے ساتھ سب باتیں سنتی رہی۔۔

"بھابھی وہاں ہیں۔۔؟؟ اور مننان۔۔ وہ کیسا ہے۔۔؟"

"وہ کیسا ہوگا۔۔ اپنی ماں کی طرح ناکام۔۔ جیسے وہ شادی نبھا نہ سکی۔۔"

"موم۔۔۔"

"ماں ٹھیک ہی کہہ رہی ہیں فضا۔۔"

نجیب نے ناہید کی سائیڈ لی تھی اور چائے کا سیپ بھرا تھا۔۔

"بھائی۔۔۔مننان آپ کا بیٹا ہے شو سم ریسپیکٹ۔۔"

"میں نے کونسا اسکی بےعزتی کردی۔۔؟؟ اس نے ان سالوں میں کونسی دنیا فتح کرلی ہوگی۔۔؟؟ میں جانتا ہوں۔۔ جیسے نسواء ایک بند ڈبی  میں اتنے سال چھپ کربیٹھی رہی ویسے وہ بھی ہوگا۔۔ کسی چیپ سی جگہ پر ملازم۔۔۔"

نجیب کی بات نے اور شئے دہ دی تھی سب کو

"ہاہاہا ہ ہمارے ماہیر کو دیکھ لو نجیب کی چھوی ہے۔۔ باپ بیٹے ساتھ جاتے تو لوگ رک کر کر دیکھتے ہیں۔۔۔ مجھے تو شک ہے مننان  میں ایک کوالٹی بھی ہوگی نجیب والی۔۔۔"

"ہاہاہاہاہا۔۔۔ "

"ہاہاہاہا۔۔۔ مجھے بھی ہمارے تو ملازم بھی اتنے تعلیم یافتہ ہیں کیا مننان کو تعلیم دلوا سکی ہوگی نسواء۔۔۔"

"ہاہاہاہا وہ خود کونسا اتنا پڑھی لکھی تھی۔۔؟؟"

نجیب کی دونوں چچیاں باقی سب بڑوں کے ساتھ قہقے لگا کر ہنسی تھی۔۔۔

جو مذاق ہنسی ٹھٹہ نجیب نے شروع  کیا تھا جو کچھ سیکنڈ پہلے اینجوائے کررہا تھا اسے کیوں ایک دم سے اپنی فیملی کی تذلیل کا احساس ہونا شروع ہوا تھا۔۔

"نسواء کو تو ساری زندگی نجیب کے پاؤں دھو کر پینے چاہیے تھے جس شوہر نے اس سڑک سے اٹھا کر مالکن بنا دیا تھا۔۔کیوں ناہید بھابھی۔۔؟؟"

"وہ احسان فراموش ہی رہی تھی شروع سے۔۔ اسکو ایک ہی بات چاہیے تھی نجیب اور وہ بھی سارے کا سارا۔۔۔"

"ایکسکئیوز مئ۔۔۔"

نجیب اٹھ کر چلا گیا تھا۔۔۔

"نجیب بھائی۔۔۔"

فضا بھی نجیب کے پیچھے پیچھے اسکے روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔

"آپ نے کہا آپ لے آئیں گے۔۔ کیا وہ روڈ پر پڑے ہیں جنہیں دل چاہا پھینک دیا اور اٹھا لیا۔۔؟؟"

"فضا۔۔؟؟"

نجیب نے کوٹ اتار کر رکھ دیا تھا چئیر پہ وہ حیران ہوگیا تھا فضا کے طنز پر

"آپ نے نیچے ماں کی بات سنی۔۔؟ نسواء بھابھی کو وہ دولت شہرت پیسہ بڑا مکان نہیں آپ چاہیے تھے۔۔۔

آپ نے سب دیا مگر خود کو بانٹ دیا۔۔۔ اب بھی آپ دوسری عورتوں کے ساتھ ہیں اور خواہش نسواء بھابھی کی۔۔۔؟؟"

"وٹ ربیش۔۔۔ فضا یہ سب کیا بول رہی ہو۔۔۔ میں نے کہا تھا نسواء اور میرے معاملے میں کوئی نہ بولے۔۔"

"وہ اونچی آواز میں بولا تھا جس پر فضا کی آنکھیں بھر آئی تھی

"نجیب بھائی عورت سب شئیر کرسکتی ہے پر اپنا مجازی خدا نہیں۔۔اور آپ تو محبت بھی تھے نہ۔۔؟؟ وہ جو یہاں سب چھوڑ گئی تھی۔۔ دوسری بیوی کے آنے پر۔۔ کیا وہ اتنی گئی گزری ہوگئی ہے کہ آپ کے آفئیرز اور دوسری عورتوں کے ساتھ اٹیچمنٹ کے باوجود آپ کو اپنالے گی۔۔؟؟"

"گیٹ لوسٹ۔۔۔"

نجیب کا ہاتھ اٹھ گیا تھ مگر اس نے مارا نہ تھا فضا کو وہ خود پلٹ گیا تھا اور اسے روم سے باہر جانے کا کہہ دیا تھا

"بھائی۔۔ ۔میں نہیں چاہتی نسواء بھابھی واپس آئیں آپ بہت خود غرض ہیں آپ نے اپنی زندگی کے اتنے سال برباد کردئیے اب اگر وہ آپ کے ساتھ واپس آئی تو وہ عورت ذات کے ساتھ بےوفائی کریں گی۔۔۔"

۔

"ڈیم اِٹ۔۔۔۔"

شیشے کی کھڑکی پہ ہاتھ مارا تھا جو کچھ سیکنڈ میں ٹوٹ گئی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"بےجان دل کو تیرے عشق نے زندہ کیا۔۔۔

پھر تیرے عشق نے ہی اس دل کو  تباہ کیا۔۔۔"

۔

آج انکی واپسی تھی مننان کے پرائیویٹ جیٹ میں سب ویسے ہی تھا مگر اس بار منیشہ اسکے سامنے والی سیٹ پر نہیں بیٹھی وہ پیچھے لاسٹ والی سیٹ پر بیٹھی تھی مننان کوئی فائل مانگ بھی رہا تھا تو منیشہ وہ اسکے اسسٹنٹ کے ہاتھوں آگے بھیجتی تھی۔۔۔

۔

"مس منیشہ میں نے آپ سے یہ فائل منگوائی۔۔۔"

"سوری سر آپ کو فائل چاہیے کون لا رہا کون دے رہا اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے ایکسکئیوزمئ۔۔۔"

وہ اسسٹنٹ کے ہاتھوں سے فائل کھینچ کر مننان کے سامنے ٹیبل پر پٹک کر واپس پچھی سیٹ پر جاکر بیٹھ گئی تھی مننان نے ایک نظر اسے غصے سے دیکھا اور پھر اپنے سٹاف کو۔۔

"مس۔۔۔"

"اٹس اوکے سر۔۔۔ بار بار نہ بلائیں انکے ہاتھ بھی زخمی ہیں اور دل۔۔۔"

وہ کہتے کہتے رک گیا تھا

"تمہیں بڑا احساس ہورہا ہے اسکا۔۔۔؟؟ میرے سامنے بیٹھے کیا کررہے ہو۔؟ پیچھے دفعہ ہوجاؤ تیماداری اسکی۔۔۔"

"جی سر۔۔۔"

مننان کا اسسٹنٹ منیشہ کے سامنے والی سیٹ پر جاکر بیٹھ گیا تھا جس پر اور شدت سے غصہ آیا اسے مگر وہ گارڈ اور جیٹ عملے کے سامنے تماشہ نہیں بنانا چاہتا تھا کوئی۔۔

۔

"ہاہاہاہاہا۔۔۔ سیریسلی شام سر۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔"

اسکی سیکریٹری اور اسسٹنٹ کے قہقے اسے آگے تک سنائی دے رہے تھے۔۔

وہ سمجھ نہیں پارہا تھا اسے اتنا غصہ کیوں آرہا تھا منیشہ پر۔۔؟؟

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماما پلیز۔۔۔ تمام سینئر ڈاکٹرز کی کانفرنس ہے۔۔ میں بھی ان سپیشل ڈاکٹرز میں ہوں سو۔۔۔"

حورب نے سوپ کا باؤل اپنی گود میں رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ 

"بیٹا۔۔۔میں۔۔۔ جب تم دونوں ڈیسائیڈ کرچکے ہو تو پھر مجھ سے بار بار اجازت نہ مانگو۔۔

میں کون ہوں منع کرنے والی۔؟؟"

"موم پلیز۔۔۔"

"لئیو مئ آلون۔۔۔"

"آپ کیوں خوف زدہ ہوجاتی ہیں میرے یا مننان بھائی کے پاکستان جانے سے۔۔؟؟"

"میں تمہیں ہر بات کا  جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی ناؤ لئیو۔۔"

نسواء کے تلخ لہجے پر حورب نے گہرا سانس بھرا تھا اور سپون نسواء کے ہونٹوں کی جانب کیا تھا۔۔

"ماں منہ کھولیں۔۔۔پلیز۔۔۔"

حورب کی آنکھوں میں پانی دیکھ کر نسواء انکار نہیں کرپائی تھی اور جیسے ہی منہ کھولا تھا وہ سوپ پیلانا شروع ہوئی تھی۔۔۔اور جب باؤل ختم ہوگیا تو حورب نے نسواء کے ہاتھوں کو چوم کر ماتھے سے لگایا تھا

"ماں آپ فکر نہ کریں میں نہیں جاؤں گی انفیکٹ کبھی نہیں جاؤں گی۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر باہر چلی گئی تھی جب نسواء نے چہرہ دوسری طرف کیا تو شیشے میں خود کو دیکھا تھا

"کیوں خوفزدہ ہوں میں۔۔؟ کیوں میں نہیں چاہتی میرے بچے اس ملک اس شہر میں نہ جائیں جہاں سے مجھے بےآبرو کرکے نکال دیا گیا۔۔۔

کیا  حورب کا وجود کبھی نجیب پہ ظاہر نہیں ہوپائے گا۔۔؟ کیا وہ ڈیزرو کرتا ہے اپنی بیٹی۔۔۔"

وہ کہتے کہتے چپ ہوئی تھی۔۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مجھے ابھی تک انفارمیشن نہیں ملی ڈیم اِٹ۔۔ کہاں ہے وہ۔۔؟؟ مننان نجیب آفندی نسواء نجیب آفندی۔۔۔ دونوں کی انفارمیشن چاہیے لندن میں ہیں دونوں۔۔ اب اس سے زیادہ ہنٹ کیا دوں۔۔؟؟"

"سر پلیز اس کا کالر چھوڑ دیں وہ مکمل معلومات لائے گا۔۔۔"

"مسٹر شبیر سمجھا دیں اسے۔۔۔"

نجیب نے اسکا گریبان چھوڑ دیا تھا

"اور کیا بنا اس کا جس نے ماہیر پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔؟؟ کہاں ہے سب سب انفارمیشن۔۔؟؟

ابھی میٹنگ روم ریڈی کرو مجھے وہ لوگ چاہیے جو اس کی کمپنی اور اسکی انفارمیشن رکھتے ہیں۔۔۔"

وہ ڈسمس کرچکا تھا۔۔۔آفس ونڈو پر بھی پیچھے لگے بڑے سے فوٹو فریم کا عکس اسے نظر آرہا تھا وہ تصویر جو ایک کلک پر واضح ہوجاتی تھی نجیب جب اپنے کیبن میں قدم رکھتا تھا۔۔۔

وہ صرف ایک ہی تصویر تھی وہ ایک ہی چہرہ تھا جو حکومت کررہا تھا اسکی جاگیر پر اسکے دل پر۔۔۔

"نسواء۔۔۔ اگر آپ کا غرور توڑ کر آپ کی واپسی ممکن ہے تو وہی سہی۔۔۔ "

نجیب نے کچھ منٹ بعد میٹنگ روم کا رخ کیا تھا۔۔۔

۔

جہاں سب لوگ پہلے سے موجود تھے مگر نجیب حیران ہوا تھا صرف پانچ لوگوں کو دیکھ کر۔۔

"سب لوگ آگئے ہیں۔۔؟؟ یا کسی نے آنا ہے۔۔؟؟"

"سر سب آگئے ہیں یہ ہمارے بزنس پارٹنرز ہیں اور باقی دو ہماری کمپنی کے میجر بورڈ آف ڈائریکٹر ممبرز۔۔۔"

نجیب نے بنا نام پوچھے سب کو بیٹھنے کا کہا تھا

"میں گھما پھیرا کر بات نہیں کروں گا۔۔ مجھے 'مننان آمین احمد' کی ہر ایک انفارمیشن چاہیے اسکے بزنس اسکی کمپنی اسکی فیملی سب کی۔۔ آپ لوگوں میں سے کون کون ملا ہے اس سے۔۔؟؟"

"میں۔۔۔"

کچھ دیر خاموشی کے بعد ایک بزنس پارٹنر نے ہاتھ اٹھایا تھا

"کیسا دکھتا ہے وہ۔۔؟؟ کیسا لگتا ہے وہ۔۔؟ کیا کرتا ہے۔۔؟ "

"ہم۔۔ آپ کے جیسا۔۔۔ "

"وٹ۔۔۔"نجیب کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔

"میں یہاں مذاق نہیں کررہا مسٹر طلحہ۔۔۔"

"میں بھی مذاق نہیں کررہا میرا مطلب تھا۔۔۔ آپ جیسا تقریبا آپ کا ینگ ورژن لائک سٹریکٹ۔۔ سٹریٹ فارورڈ،،شریوڈ۔۔۔"

"اننف۔۔۔"

نجیب نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر مارے تھے۔۔۔

"کسی کے پاس اسکی تصویر ہے ۔۔؟؟"

"نوو سر۔۔۔ انکی سیکیورٹی میں اجازت نہیں اس لیے آپ کو نیوز پیپرز میں انکا سائیڈ پوز ہی نظر آئے گا۔۔۔"

"وہ کیا لینڈ لورڈ ہے جو اسکے لیے میڈیا اتنا سنجیدہ ہے۔۔؟؟ "

"سر۔۔وہ ینگ ہے مگر مینوپلیٹ کرنے والا۔۔ وہ رولز اور پرنسیپلز کے مطابق چلتا ہے۔۔وہ ابھی تک ڈیلز جیت رہا ہے ہارنے والوں کو اس طرح کراس کرتا ہے کہ پھر۔۔"

"بس۔۔۔مجھے اسکی اگلی ڈیلز اسکی ہر نقل و حرکت کی خبر چاہیے،،، میں اس سے ڈائیکٹ میٹنگ کرنا چاہتا ہوں۔۔"

"آپ کیوں ملنا چاہتے ہیں۔۔؟؟"

"اسے مارنے کے لیے۔۔۔ اس باسٹرڈ نے ہاتھ اٹھایا میرے بیٹے پر۔۔۔"

"تو آپ کا بیٹا کونسا نیک کام کررہا تھا۔۔؟ جیسے کام کرے گا پٹے گا۔۔۔ اور سر آپ کو اسے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔۔ جس ڈیل کے پیچھے ہماری کمپنی پچھلے دو مہینے سے ہے سنا ہے وہ ڈیل کے لیے اسکی کمپنی نے بھی بڈنگ لگائی ہے۔۔۔"

وہ پارٹنر تو چلے گئے تھے ایکسکئیوز کرکے مگر نجیب کو شاکڈ چھوڑ کر۔۔۔

مسٹر شبیر نے باقی سب کو بھی جانے کا کہہ دیا تھا نجیب اکیلا رہ گیا تھا ۔۔۔

وہ منجھا ہوا بزنس مین تھا یہاں کے ٹاپ بزنس مین میں سے ایک۔۔ وہ چاہتا تھا ماہیر کی ریکوری سے پہلے اس سرپرائز دے اس لڑکے کو زخمی حالت میں اپنے بیٹے کے قدموں پہ لے جا کر پھینک دے تاکہ وہ معافی مانگ سکے۔۔۔

مگر یہاں یہ انفارمیشن  نجیب کی بگ ٹائم ایگو کو ہرٹ کرگئی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ ہفتے بعد۔۔۔"

۔

۔

"نسواء۔۔۔ جو آج آپ نے میرے لیے کیا ہے میں سچ میں بھول نہیں پاؤں گا۔۔"

"حزیفہ انکل جذباتی مت کریں کیک کاٹے۔۔۔"

حورب حزیفہ کی والدہ کو حزیفہ کے ساتھ کھڑا کرچکی تھی۔۔۔ اس پارٹی میں گنے چنے لوگ تھے جتنے لوگ تھے وہ حزیفہ کے قریب تھے جو بزنس پارٹنز تھے اسکے دوست احباب۔۔۔

۔

"ماں۔۔۔"

حزیفہ نے پہلی بائٹ اپنی والدہ کو کھلائی تھی اور پھر نسواء کو کھلانے کے بجائے حورب کو کھلائی تھی

"اب یہ اپنی ماما کو کھلاؤ۔۔۔"

اتنے سالوں میں اتنی عزت اور احترام تو وہ کرتا ہی تھا اپنی حدودکو بخوبی جانتا تھا وہ۔۔۔

۔

"نسواء آؤ میں تمہیں اپنی بہن اور حزیفہ کی دادی سے ملواؤں۔۔۔"

کچھ دیر بعد نسواء کو بہت محبت اور عزت سے سب سے ملوا رہی تھی۔۔۔

عین اسی وقت ایک گاڑی باہر  رکی تھی جس میں سے نجیب باہر نکلا تھا

"افففو نجیب کبھی تومیرے لیے دروازہ کھول دیا کریں۔۔"

"ان بیکار کے چونچلوں کے لیے وقت نہیں ہے میرے پاس تم نے صرف پندہ منٹ  مانگے ہیں۔۔اسکے بعد میں یہ پارٹی سے لئیو کرجاؤں گا۔۔"

"شش۔۔۔شش۔۔ موڈ خراب مت کریں۔۔"

نجیب کے بازو میں بازو ڈالے وہ لڑکی اسے اندر وینیو میں لے گئی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

۔

۔

"میٹ مائی فیانسی نجیب آفندی۔۔نجیب یہ حزیفہ ہیں ڈیڈ کے بزنس پارٹنر۔۔۔اور برتھ ڈے بوائے۔۔۔"

ایلینا نے دونوں کو انٹرڈیوس کروایا تھا۔۔ مگر نجیب کی نگاہیں نسواء سے ٹکرائی تو وہ ایلینا کا ہاتھ چھوڑنے پر مجبور ہوگیا تھا۔۔

نفرت۔۔۔ اسے جس لفظ سے نفرت تھی جو لفظ وہ کبھی مذاق میں بھی  برداشت نہیں کرتا تھا اسکے لبوں سے آج اسی کی آنکھوں میں اپنے لیے بےشمار محبت دیکھ کر وہ شاکڈ ہوگیا۔۔۔

"اور یہ کون ہیں۔۔۔"

"ایکچولئ آج کا ایونٹ انہوں نے آرگنائز کیا خاص کر کھانا۔۔ اور سپیشل کیک۔۔۔

کیوں مس نسواء۔۔؟؟"

"ایکسکئوزمئ۔۔۔"

وہ جلدی سے چئیر ٹرن کرچکی تھی یہ پارٹی حزیفہ کے مینشن ٹیرس پر آرگنائز کی گئی تھی نسواء چاہتی تھی کھلے آسمان کے نیچے وہ ایک خاص دن کو حزیفہ کے لیے اور خاص بنا دے مگر۔۔ وہ خود سرپرائزڈ ہوگئی تھی

"نجیب آفندی۔۔۔رئیلی۔۔؟؟ بچوں کی شادی کی عمر ہے اور اس شخص کی آوارگی نہیں جارہی۔۔۔"

وہ اتنے رش اور گیسٹ کی چہل پہل میں خاموش جگہ ڈھونڈ رہی تھی جب نجیب جلدی جلدی اسی طرف آیا تھا اور نسواء کی چئیر پیچھے سے پکڑے ایک سائیڈ پر لے گیا تھا جہاں کوئی نہیں تھا۔۔

۔

"نسواء۔۔۔"

"اس عمر میں جسموں کی پیاس باقی ہے۔۔؟؟ عمر دیکھی ہے آپ نے۔۔؟؟"

وہ غصے سے چلائی تھی اپنے ایموشنز پر قابو نہیں رہا تھا اس کا۔۔

"عمر۔۔؟؟ وہ تو کہتی ہے میں بیڈروم میں بہت ینگ۔۔۔"

"شٹ اپ۔۔"

وہ پلٹ چکی تھی۔۔دل درد سے پھٹ رہا تھا اسکا۔۔۔ آنکھیں تھی کہ چھلکنے کو تیار تھی

"تمہیں غصہ کیوں آرہا ہے۔۔؟؟ وہ ینگ ہے اس لیے یا وہ بہت کامیاب ماڈل ہے اس لیے۔۔؟؟ مجھ سے محبت کرتی ہے عزت کرتی ہے۔۔۔۔۔ اور۔۔۔

بیڈروم میں بھی مجھے بہت خوش رکھتی ہے وہ۔۔۔"

"وہ جائے بھاڑ میں اور جائیں بھاڑ میں آپ۔۔ مجھے غصہ نہیں اور نہ ہی فرق پڑتا ہے۔۔"

"کیوں فرق نہیں پڑتا۔۔؟؟ تمہیں فرق پڑنا چاہیے۔۔ تم مجھ سے الگ ہو کر دو ٹکے کی ملازمت کررہی ہو لوگوں کے کھانے بنا رہی ہو۔۔ ۔ اور۔۔"

"یو نو وٹ ۔۔۔۔ مجھے جتنی نفرت آپ سے ہورہی ہے نجیب شاید ہی کبھی کسی سے ہوئی ہوگی۔۔۔آپ ڈیزرو نہیں کرتے تھے مجھے۔۔۔ آپ جیسا حسن پرست۔۔ ہوس پرست شخص کو کیا پتہ ہوگا۔۔۔آپ۔۔۔صرف قدر جانتے ہیں ان جسموں کی جو بستر کی شیٹس میں ملے آپ کو۔۔کیونکہ آپ۔۔۔"

وہ کہتے کہتے چپ ہوگئی تھی اسکی سچی کڑوی باتیں دل و دماغ پہ لگی تھی نجیب کے 

نسواء ہاتھ چھڑا کر چلی گئی تھی۔۔۔

"وہ سیڑھیوں سے بچتے ہوئے دوسری طرف جارہی تھی جب پیچھے سے ایک ہی دھکا لگنے پر اسکی کرسی نیچے گرنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔

اس سے پہلے وہ چند سیڑھیوں کے فاصلے سے وہ گرتی اسکی ویل چئیر کو دو ہاتھوں نے پکڑ لیا تھا۔۔۔

نیچے سے مننان کے دونوں ہاتھوں نے کرسی کو پکڑ لیا تھا اور پیچھے سے نجیب نے۔۔۔

ان دونوں کے چہرے کے رنگ اڑھ گئے تھے وہ دونوں ہی بھاگتے ہوئے آئے تھے نسواء کو بچانے۔۔۔

"آپ ٹھیک ہیں نسواء۔۔۔؟؟"

نجیب نے نسواء کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لئیے پوچھا تھا اور مننان چہرہ دیکھتا رہ گیا تھا اپنے باپ کا۔۔۔۔

۔

"باپ۔۔؟؟"

مننان نے خود سے سوال کیا تھا۔۔۔

۔

لائٹس ڈم ہونا شروع ہوئی تو ایک رومینٹک سونگ نے ماحول ٹوٹلی چینج کردیا تھا۔۔۔

"نسواء۔۔"

نجیب نے نسواء کی ویل چئیر کو کئیر فلی نیچے رکھا تھا اسے سہارا دیتے ہوئے۔۔۔

"تھینک یو ۔۔میں مینیج کرلوں گا۔۔۔"

مننان کو اگنور کردیا تھا نجیب نے جو ساکت تھا۔۔۔ اور نسواء۔۔۔ وہ شکر کررہی تھی وہاں موجود اندھیرے کا اسے یہ خوش فہمی تھی کہ مننان نے نجیب کا چہرے نہیں پہچانا۔۔۔ مگر مننان پیچھے ہٹ گیا تھا۔۔۔ وہ ہر مومنٹ کو نوٹ کررہا تھا اس شخص کی جو نسواء کو ایک کارنر پر لے گیا تھا

"نجیب آفندی۔۔۔"

مننان نے غصے سے اپنا فون نکالا تھا

"یو ایڈیٹ۔۔ نجیب آفندی لندن میں ہے تم نے بتایا نہیں۔۔"

"سوری سر لاسٹ مومنٹ پر پتہ چلا وہ اپنی منگیتر کے ساتھ پارٹی۔۔۔"

"منگیتر۔۔۔؟؟؟"

مننان نے سرگوشی کی مگر دوسری جانب سن لیا تھا۔۔

"جی سر وہ فیمس ماڈل ایلینا۔۔۔"

مننان فون کٹ کر چکا تھا۔۔۔اور جب واپس اس کارنر کی طرف دیکھا تو نہ نجیب تھا اور نہ ہی نسواء۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آخر ثابت کیا کرنا چاہتی ہیں آپ نسواء۔۔؟؟ گر سکتی تھی چوٹ لگ سکتی تھی مجھ سے کتنا بھاگے گی۔۔؟؟ سمجھ نہیں آتا میں ہوں مقدر آپ کا۔۔۔ نصیب آپ کا۔۔"

وہ کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہا تھا نسواء کو۔۔

"آپ مقدر تھے۔۔ نصیب تھے مگر اب آپ نہیں ہیں۔۔۔ پیچھا چھوڑ دیں اندر آپ کی منگیتر انتظار کررہی ہے۔۔۔"

"وہ انتظار کرلے گی کیونکہ محبت کرتی ہے مجھ سے۔۔۔ اور میں آپ سے کب سے انتظار میں ہوں۔۔۔۔"

مگر نسواء تو جیسے پتھر بنتی جارہی تھی۔۔۔

"آپ کو زرا شرم نہیں آتی۔۔؟؟ کس طرح کے مرد ہیں۔۔۔ میں نے آپ کی دوسری شادی برداشت نہیں کی آپ ایک اور بےحیائی والا ریلیشن میرے منہ پر مار کر اپنی محبت کا اظہار کررہے ہیں۔۔۔"

وہ چلائی تو نجیب نے یہاں وہاں نظر گھمائی تھی۔۔۔

"آہستہ بولیں۔۔کوئی سن لے گا تو۔۔۔"

"ڈر لگ رہا ہے آپ کی ینگ ماڈل نہ سن لے۔۔؟؟ اسے بھی پتہ چلنا چاہیے کیسے مرد کے ساتھ بستر شئیر کررہی ہے۔۔۔"

"نسواء۔۔۔۔بس میرا ہاتھ اٹھ جائے گا۔۔۔"

وہ پہلی بار اتنی سختی سے اس لہجے میں نسواء کے ساتھ بولا تھا۔۔۔۔

۔

"میں آپ کی دسترس میں نہیں ہوں نجیب۔۔۔ الفاظ اور ہاتھ دونوں سوچ سمجھ کر استعمال کیجئے گا۔۔۔"

وہ واپس جانے لگی تھی جب نجیب گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا اسکے سامنے۔۔۔

"نسواء۔۔۔ میں ایک پل بھی جدائی برداشت نہیں کرسکتا۔۔

میں عمارہ کو طلاق دہ دوں گا۔۔۔ ایلینا کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں آپ کے سوا کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا۔۔۔ پلیز واپس گھر چلیں۔۔۔"

نجیب نے اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر اپنا ماتھا نسواء کے ماتھے پر رکھ دیا تھا۔۔

نسواء کی آنکھیں بےساختہ بھر چکی تھی

"اگر یہ الفاظ اس وقت بولے ہوتے جب میں گھر چھوڑ کر جارہی تھی تو شاید کچھ ہوجاتا نجیب۔۔۔ شاید میں بدل جاتی رک جاتی مڑ جاتی۔۔۔"

نجیب نے اسکی آنکھوں کے آنسو صاف کرکے پلکوں پر بوسہ دیا تھا 

"میں۔۔۔۔ میں مننان کو دل سے اپناؤں گا۔۔۔ اسے بزنس میں حصہ دوں گا۔۔۔

میں اسے سب کچھ دوں گا۔۔۔ میں اسے اس قابل بناؤں گا کہ وہ میرے بیٹے ماہیر کے جیسا ویل ایجوکیٹڈ بن سکے۔۔۔ میں اسے۔۔۔"

"شٹ اپ۔۔۔"

"شٹ اپ مسٹر نجیب آفندی ایک لفظ نہیں۔۔۔"

"پلیز نسواء۔۔۔"

"کیا سمجھتے ہیں آپ۔۔۔؟؟ آپ کی بےوفائی کو بھلا کر وہ تذلیل بھلا کر وہ دھوکا بھلا کر میں واپس آجاؤں گی۔۔؟ "

"واپس نہ آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔۔۔"

وہ واپس اسی غرور میں آگیا تھا جب نسواء نے ویل چئیر کا رخ موڑا تھا

"اب یہ آپ بتائیں گے۔۔؟؟ کیا لگتا ہے ہم آپ کے بغیر جی نہیں رہے تھے۔۔؟؟ کیا لگتا ہے ہم ناکام رہے ہوں گے۔۔؟ کیا لگتا ہے اب آپ کی دوسری بیوی کا بیٹا میرے بیٹے کو سیکھائے گا۔۔؟؟ آپ کو کیا لگتا ہے۔۔۔"

اس نے بےرخی سے چہرہ صاف کرکے بفرت بھری نظروں سے نجیب کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

"لگتا نہیں ہے میں دیکھ رہا ہوں۔۔۔آپ اس حالت میں ہو۔۔۔ کسی جگہ انفارمیشن نہیں آپ دونوں کی اتنی لو لائف گزار رہے ہو ۔۔۔میں آپ کی محبت کے لیے فقط آپ کے لیے مننان کو واپس اپنانے کے لیے تیار۔۔۔"

"آپ جانتے ہیں آپ کے اپنانے یا نہ اپنانے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ میرا بیٹا آپ کو اپنانا نہیں چاہتا۔۔۔ میں آپ کو واپس اپنی زندگی میں لانا نہیں چاہتی۔۔۔

اگر شو آف کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کتنا کامیاب ہے تو آج سے میں اور میرا بیٹا ہر ایک مقام پر شو آف کریں گے۔۔۔

اور  آپ ہماری کامیابیوں کے دیکھ کر اتنا ہی شرمندگی کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔۔۔"

"میں نے پیار سے سمجھانا چاہا تھا نسواء۔۔۔ مگر اب میں دوسرے طریقے اپناؤں گا۔۔ اگر آپ ایسے واپس نہ آئی تو میں اس زندگی کو تلخ کردوں گا آپ پر اور مننان پر۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر جانے لگے تھے جب نسواء نے نجیب کا ہاتھ پکڑا تھا

"نجیب۔۔۔۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا میں کبھی یہ الفاظ ادا کروں گی۔۔۔

مگر۔۔۔۔"

نجیب کی سانسیں رکنے لگی تھی۔۔۔ اسکے دل میں ایک ڈر لاحق ہوگیا تھا۔۔۔ اسے لگ رہا تھا اس پل کہ اس کا سب سے بُرا خواب آج سچ ثابت ہونے کو تھا

"میں۔۔۔ علیحدگی چاہتی ہوں۔۔۔ آزادی چاہتی ہوں آپ سے۔۔۔ اس رشتے سے۔۔۔

نجیب۔۔۔ میں کسی اور کے ساتھ زندگی گزار۔۔۔۔"

نسواء کے چہرے پر نجیب کے ہاتھ کی گرفت اتنی مظبوط ہوئی تھی جب نجیب نے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے تھے۔۔۔

اس بوسے میں وہ اپنی محبت کی شدت اپنا غصہ ناراضگی سب ظاہر کررہا تھا۔۔۔

اور جب اسکی آنکھ سے وہ پانی کا قطرہ نکل کر نسواء کے گال پہ جاگرا نجیب پیچھے ہٹ گیا تھا

"آپ صرف نجیب آفندی کی ہیں۔۔۔ نسواء۔۔ میں مرتا مر جاؤں گا مگر آزاد نہیں کروں گا آپ کو۔۔۔یہ بات یاد رکھئیے گا۔۔۔"

"وی سلیپٹ ٹوگیدر بیفور میرج نسواء۔۔۔۔ وہ پریگننٹ ہوچکی تھی۔۔

نکاح سے پہلے چیٹ کیا تھا میں نے آپ کو۔۔۔ وہ افئیر نہیں تھا زنا تھا۔۔

میں۔۔۔۔"

ایک زور دار تھپڑ نے نجیب کا چہرہ دوسری طرف کردیا تھا

جس طرح نسواء کو یقین نہیں تھا اس سچ پر جو نجیب نے آج اتنے سالوں کے بعد بولا اسی طرح نجیب کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ نسواء نے اس پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔

وہ اس قدر مغرور اور آنا پرست مرد تھا کہ بیوی سے پڑنے والے اس تھپڑ نے اسکے تن بدن میں آگ لگا دی تھی اسکی آنکھیں پتھرا گئیں تھیں بےیقینی سے وہ طیش میں کھڑا ہو گیا تھا منہ پھیر لیا تھا

"آپ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا نسواء۔۔۔؟؟"

"بہت پہلے اٹھانا چاہیے تھا نجیب غلطی ہوگئی شوہر پہ اندھا یقین کرکے اسے کھلا چھوڑ کر کاش میں مر جاتی اس غلیظ سچ کو سننے سے پہلے۔۔۔

وہاں میں لڑتی رہی جینے کے لیے اور آپ مجھے مارنے کی تیاریاں کرتے رہے۔۔"

اس بلڈنگ میں بہت سے گارڈز نے ان دونوں کو کور کرلیا تھا

"میم آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟ چلیں سر آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں پلیز۔۔۔۔"

نسواء کے گارڈ اسے وہاں سے لے گئے تھے۔۔۔

جبکہ نجیب۔۔۔۔نجیب آفندی ابھی بھی اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے وہاں کھڑا تھا۔۔۔ نسواء نے اس پر ہاتھ اٹھاکر اسکی غیرت اسکی آنا کو للکارا تھا اس نے اس وقت قسم کھائی تھی وہ نسواء کے غرور کو چکنا چور کردے گا اسے واپس اپنی زندگی میں شامل کرکے۔۔۔۔

"نسواء آپ کو ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا آپ نے غلط کیا بہت۔۔۔"

اسے کیوں تکلیف ہورہی تھی۔۔۔؟

کیا اس لیے کہ جس بیوی نے کبھی نظریں اٹھا کر نہیں دیکھا تھا آج اس نے ہاتھ اٹھا دیا۔۔۔؟

اسے کیوں اتنا درد ہورہا تھا نسواء کی آنکھوں میں خود کو گرتے دیکھ کر۔۔؟ 

اسے کیوں اذیت پہنچی تھی جب بنا کچھ کہے وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

وہ تو بار بار اسے موقع دے رہا تھا واپس آنے کا۔۔۔

وہ تو احسان کررہا تھا اسکی معذوری کا جان کر بھی پھر بھی نسواء کی اکڑ نے نجیب کو طیش دلا دی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آفندی۔۔؟؟"

"ہاشمی۔۔۔"

اپنے بہت پرانے جگری دوست کو دیکھتے ہی اس نے اپنی ڈرنک کا گلاس دوسری طرف رکھ دیا تھا

"مجھے معلوم نہیں تھا دوبارا پینا شروع کردی۔۔؟؟"

ظہیر ہاشمی نجیب کے گلے ملتے ہی پوچھنے لگا تھا

"میں نے چھوڑی کب تھی۔۔؟؟ "

"ہاہاہا۔۔۔ کیا عمارہ نے لڑائی کی ہے۔۔؟"

وہ دونوں دوست واپس چئیر پر بیٹھ گئے تھے پیچھے سے لاؤڈ میوزک اور ڈانس کرتےلوگ  نجیب کو زہر لگ رہے تھے مگر مجبوری تھی اسکی بھی۔۔ وہ لندن میں رکا ہوا تھا اور وہ ناکام واپس لوٹ کرنہیں جانا چاہتا تھا۔۔

۔

"وہ کون ہے۔۔؟؟ "

"ہاہاہاہا اپنی بیوی بھول گئی نشہ چڑھتے ہی۔۔؟؟"

"دوسری بیوی۔۔۔"

نجیب نے پھر سے ویٹر کو اشارہ کیا تھا ویٹریس ڈرنک رکھتے ہی نجیب کے کندھے کی طرف جھکی تھی

"اینی تھنگ ایلس سر۔۔؟؟"

"گیٹ لوسٹ۔۔۔کیا کہہ رہے تھے تم۔۔؟؟"

نجیب نے روڈلی کہتے ہوئے واپس ظہیر کو دیکھا تھا

"وہ اب پہلی بیوی ہی ہوئی نجیب۔۔۔ کیونکہ جس طرح اس عورت نے تمہیں ذلیل کیا سب کے سامنے تمہاری مردانگی کو للکارا تم ابھی بھی اسے اپنا نام دئیے بیٹھے ہو۔۔"

نجیب نے منہ نیچے کرلیا تھا تب اور جوش سے ظہیر نے ہمدردی سے نجیب کے کندھے پر ہاتھ رکھا

"یو نو وٹ۔۔؟ تمہارے پاس ایک پرفیکٹ فیملی ہے بڑا بزنس ہے ماہیر کو اپنی سیٹ دے کر تمہیں اب ریسٹ کرنا چاہیے۔۔۔یہاں کا بزنس تو ویسے بھی میں سنبھال رہا ہوں۔۔"

"اسی لیے تمہیں بلایا ہے میں نے ہاشمی۔۔۔ میں یہاں کا بزنس واپس سنبھالنا چاہتا ہوں۔۔"

"وٹ۔۔۔؟؟"

ظہیر جتنی بری طرح شاکڈ ہوا تھا نجیب نے اسے ایک نظر دیکھا اور واپس گلاس بھر لیا تھا

"کیوں۔۔؟؟ یار تو آگے ہی پریشان رہتا ہے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جاؤ کہیں گھومنے پھیرنے۔۔۔ ویسے بھی تمہارے اس بدتمیز بیٹے مننان اور نافرمان بیوی کو ڈھونڈنے کے چکر میں تم نے کتنے سال برباد کردئیے۔۔۔"

نجیب نے غصے سے گلاس کو پکڑا تھا پر وہ کہہ نہیں پایا تھا اپنے دوست کو۔۔

وہ کیوں اپنی بیوی اور بیٹے کے خلاف بولنے والوں کو کچھ کہہ نہیں پاتا تھا۔۔؟؟ اسکی آنا کو کیا سکون ملتا تھا ان دونوں کی بےعزتی سن کر۔۔؟؟

اسکا جواب تو اسکے پاس بھی نہیں تھا۔۔۔

وہ اتنا جانتا تھا ظہیر اسکے بچپن کا ساتھی تھا اسکے خون سے بھی زیادہ اپنا تھا۔۔۔

اور وہ جانتا  تھا اس شخص کا بہت بڑا ہاتھ تھا نجیب کو اسکے بیٹے اسکی بیوی کت خلاف کرنے میں۔۔۔

"نجیب ۔۔"

"میں تیرے بزنس کی بات نہیں کرررہا اپنا بزنس واپس مانگ رہا ہوں جب تک میں یہاں ہوں۔۔۔ 'ویسے بھی اسے منانے میں وقت لگ جائے گا۔۔۔'

آخری بات نجیب نے خود سے کی تھی وہ عہد کرچکا تھا نسواء کو واپس لے جانے کا۔۔ جیسے پیس آف کیک ہو۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ہزاروں منزلیں ہوں گی۔۔ ہزاروں کارواں ہوں گے

نگاہیں ہم کو ڈھونڈیں گی۔۔ ناجانے ہم کہاں ہوں گے۔۔۔"

۔

"مس منیشہ۔۔۔"

"منیشہ کی کھوئی نظریں واپس سامنے کھڑے شخص پر آگئی تھی جو دوسرے ٹیبل پر بیٹھے ہنستے ہوئے کھانا کھلا رہا تھا لیزا کو۔۔۔

"منیشہ۔۔"

منیشہ نے نظر ہٹا لی تھی اورجاوید کی طرف دیکھا تھا

"تمہیں نہیں آنا چاہیے تھا منیشہ۔۔اس شخص کو کسی اور کے ساتھ ایسے خوش دیکھ کر جو تم پہ گزر رہی ہے میں وہ محسوس کرسکتا ہوں۔۔"

جاوید نے منیشہ کے ہاتھ پر جیسے ہی ہاتھ رکھا تھا مننان کی نظر لیزا سے ہٹ کر انکے ٹیبل پہ پڑی تھی

"آپ کیسے وہ محسوس کرسکتے ہیں جو آپ پر بیتی نہیں ہے سر۔۔؟؟ اور آپ کو لگتا ہے میں شوق سے آئی ہوں یہاں۔۔؟؟ مننان 'صاحب' کا حکم تھا میں اس میٹنگ میں رہوں۔۔۔"

منیشہ نے ہاتھ پیچھے کرلیا تھا۔۔

"تم ابھی واپس جاسکتی ہو۔۔ رکو میں مننان سر سے پرمیشن لے آؤں ساتھ چلتے ہیں میٹنگ ویسے بھی ختم ہوچکی ہے۔۔"

جاوید نے منیشہ کی بھری آنکھیں دیکھ کر کہا تھا اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا منیشہ کی یہ حالت اس لڑکی کو ہمیشہ ہنستے اور دوسروں کو ہنساتے دیکھا تھا سب نے۔۔۔

"مگر جاوید سر۔۔"

جاوید کا ہاتھ پیچھے سے جیسے ہی پکڑا تو مننان اپنے ٹیبل سے اٹھ کر انکی طرف بڑھا تھا

"جاوید تم ابھی تک گئے نہیں ہو۔۔؟ آفس کے کام ختم ہوگئے ہیں۔۔؟؟"

اس نے طنزیہ کہا تو منیشہ کرسی سے کھڑی ہوگئی تھی

"نہیں سر ہم جارہے ہیں چلیں مس منیشہ۔۔۔"

"منیشہ۔۔ مس منیشہ میرے ساتھ آجائیں گی۔۔"

مننان کہتے ہی ٹیبل کی جانب بڑھنے لگا تھا جب منیشہ نے اسے مخاطب کیا

"اٹس اوکے سر میں جاوید سر کے ساتھ جا رہی ہوں آپ ایزی ہوکر ڈنر کیجئے۔۔ چلیں سر۔۔"

اس نے اپنا پرس پکڑ لیا تھا۔۔اور مننان کے جواب کا بھی انتظار نہیں کیا تھا منیشہ نے۔۔

"سوری سر۔۔ منیشہ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔"

"مس سے سیدھا نام پر۔۔؟ نزدیکیاں کچھ زیادہ نہیں بڑھ رہی جاوید۔۔؟؟"

اپنے اسسٹنٹ کو غصے سے دیکھا تھا مننان نے۔۔

"سر ایسی بات۔۔"

"ایسی بات ہونی بھی نہیں چاہیے۔۔۔ آفس رولز کو توڑنے کی کوشش کی تو ساری زندگی نوکری کرنے کے قابل نہیں رہو گے۔۔"

اسکے الفاظ میں ایک پوشیدہ وارننگ تھی۔۔ جاوید کے جانے تک گاڑی تک پہنچنے اور منیشہ کے لیے دروازہ کھولنے تک مننان ان دونوں کو دیکھتا رہا تھا۔۔۔

۔

"یہ سمجھتی کیا ہے خود کو۔۔؟؟" 

اور شدید غصے کے عالم میں واپس لیزا کی طرف آیا تھا۔۔

۔

"مننان کیا ہوا غصے میں لگ رہے۔۔؟؟"

"نہیں۔۔ تم بتاؤ کیا کہہ رہی تھی۔۔؟ پاکستان کب جارہی ہو۔۔؟؟"

اس نے بات بدل دی تھی

"میں نجیب مامو ں کے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔ وہ بھی یہیں ہیں۔۔۔"

مننان کی گرفت  ہاتھ میں پکڑے موبائل پر مظبوط ہوئی اسکی آنکھوں میں وہی غصہ اتر آیا تھا جو اس رات حزیفہ کی برتھ ڈے پارٹی پر اس شخص کو دیکھ کر آیا تھا

"اووہ۔۔۔ویسے تمہارے نجیب ماموں بہت کلوز ہیں تمہارے۔۔ کیا کرتے ہیں۔۔؟"

"ٹاپ کے بزنس مین ہیں کامیاب ہزبنڈ پرفیکٹ فادر۔۔ اچھے بیٹے۔۔بھائی مامو۔۔ ہاہاہا۔۔"

وہ بتاتے ہوئے ہنس دی تھی 

"یہ تو وقت بتائے گا۔۔ کامیاب بزنس مین بیٹے باپ بھائی کتنے کامیاب۔۔"

"کچھ کہا تم نے۔۔؟؟"

"نہیں جلدی سے سب فنش کرو میری ضروری میٹنگ ہے۔۔"

"نہیں مننان تم نے وعدہ کیا تھا ماموں سے ملو گے۔۔پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔"

"لیزا میں۔۔۔"

"پلیز مننان۔۔۔"

"اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔جگہ اور وقت میں بتا دوں گا۔۔۔"

" تھینک یو تھینک یو۔۔۔ آئی لو یو سو مچ۔۔۔"

لیزا خوشی سے اٹھی اور مننان کے گلے لگی تھی 

"فائنلی مسٹر نجیب آفندی۔۔۔ ملاقات ہوگی پہلے اس روپ میں جس میں آپ دیکھنا چاہتے ہیں اور دوسرا اس روپ میں جو میں آپ کو دیکھانا چاہتا ہوں۔۔۔

لیٹس میٹ۔۔"

مننان لیزا کو ہوٹل ڈراپ کرنے کے بعد اپنے خاص ملازم کو فون کیا تھا۔۔۔

۔

"ہادی۔۔ میں نے جو کہا تھا سب انتظام ہوگیا ہے۔۔؟؟"

"جی سر۔۔ وہ لڑکا ڈھونڈ لیا ہے اور وہ کریمینل فائل بھی نجیب آفندی کے سامنے ہوگی۔۔ پر سر آپ کیوں چاہتے ہیں کوئی آپ بن کر انکے سامنے جائے۔۔؟؟"

"میں ان لوگوں کو خوش کرکے دھچکا دینا چاہتا ہوں۔۔۔اور بہت جلدی دوں گا۔۔"

مننان نے فون بند کردیا تھا۔۔۔وہ یہاں خوشی خوشی گھر جارہا تھا اسے کیا معلوم تھا گھر جاکر اسکی ساری خوشی ایک سوگ میں بدل جائے گی اپنی ماں کی اداس حالت دیکھ کر۔۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماما۔۔۔"

"مت جاؤ وہاں چھوٹی۔۔۔ ماں کو ابھی ہماری ضرورت نہیں ہے۔۔ وہاں مت جاؤ ابھی۔۔۔"

مننان جلدی میں اپنے روم میں چلا گیا تھا۔۔۔اور حورب پاؤں سمیٹے نیچے ہال میں ہی بیٹھ گئی تھی آہستہ آہستہ سب لائٹس بند ہونا شروع ہوگئی تھی۔۔

وہی دھن گونجی تھی جو وہ بچپن میں سنتی تھی۔۔۔ وہ اس دھن کو سن کراتنا سمجھ گئی تھی آج اسکی ماں پھر سے اتنی تکلیف میں ہیں جتنا وہ کچھ سال پہلے تھیں۔۔۔

۔

"وی سلیپٹ ٹوگیدر بی فور میرج۔۔۔"

وہ ایک بات گونج رہی تھی اسکے کانوں میں۔۔اس نے نظریں گھمائی تو اس کمرے میں وہی شخص تھا۔۔۔ وہ شخص جس سے اسے محبت ہوگئی تھی شادی سے پہلے۔۔۔

نجیب آفندی۔۔۔ جو اس کے لیے کسی پرنس چارمنگ سے کم نہ تھا۔۔۔

"نجیب۔۔۔"

آنکھیں بےساختہ بھر آئی تھی وہ اس روم کے سینٹر میں تھی ویل چئیر کو اس سائیڈ پر لے گئی تھی جہاں ایک کارنر پر اس نے انسٹرومنٹ رکھ دیا تھا اور قسم کھائی تھی پھر کبھی وہ یہاں نہیں آئے گی اس کمرے میں جو لاک پڑا تھا سالوں سے۔۔۔

پر۔۔۔ آج وہ شخص کامیاب ہوگیا تھا اسکے دل کے ارد گرد بنی ان ضبط کی دیواروں کو توڑنے میں۔۔۔

۔

"کیوں ہوگئے آپ ایسے۔۔؟؟ کیوں گر گئے میری نظروں سے۔۔ میں تو آپ کو شرعی حق نہیں اپنا پائی تھی میں دوسری شادی ایکسیپٹ نہیں کرپائی تھی نجیب۔۔

آپ نے یہ حقیقت کیونکر آشنا کردی مجھ پہ۔۔۔؟؟"

وہ وائلن اس نے جیسے ہی پکڑا تھا وہ ایک ہی دھن پر اسکے ہاتھ اور انگلیاں چلنا شروع ہوئی تھی جو وہ کالج کے ٹائم پر سیکھنے کے کوشش کرتی تھی

۔

"عورت بیوی کے روپ میں سب وار دیتی ہے مگر مرد شوہر کے روپ میں کیوں وہ سب نہیں دے پاتا جو ایک عورت کو چاہیے ہوتا وہ کیوں شراکت سے پاک رشتہ دے نہیں پاتا۔۔؟ کیونکہ وہ دل لگی کرنے کی بغاوت کر بیٹھتا ہے۔۔؟ کیوں کسی اور عور ت کو شریک بنا دیتا ہے۔۔؟

مرد شوہر کے روپ میں اتنا ظالم کیسے ہوجاتا ہے۔۔۔"

۔

"وہ دھن میں کیا درد پوشیدہ تھا کہ مننان سر جھکائے بیٹھ گیا تھا جیسے اسکی آنکھیں بھری ہوئی تھی ویسے ہی نیچے ہال میں بیٹھی حورب کا چہرہ بھی اسکے آنسوؤں سے تر تھا۔۔۔

اگر وہ لوگ یہاں وہاں دیکھتے تو جان جاتے گھر کا ہر ملازم اشکبار تھا۔۔۔

اس بیوی کا درد محسوس کررہے ہوں جیسے۔۔۔

۔

"کیوں کوئی شوہر سمجھ نہیں پاتا اپنی بیوی کا درد جب وہ کسی دوسری عورت کو مسلط کردیتا ہے پہلی بیوی پر۔۔؟

کیوں شوہر سمجھ نہیں پاتا بیوی کے اس نازک دل کو جس میں وہ خود اکیلا وارث ہوتا ہے مگر اپنے دل میں وہ کسی دوسری کو جگہ دہ دیتا۔۔؟

کیوں دوسری شادی کا نام آتے ہی مرد بےحس بن جاتا ہے۔۔؟"

"کیوں کیا میرے ساتھ ایسا نجیب۔۔۔ کیوں اتنے سالوں کے بعد اس سچائی سے پردہ اٹھایا۔۔۔ اب کیسے اس چہرے کو دیکھوں گی جس سے اتنی محبت کی میں نے۔۔۔"

۔

"شوہر جب سنگدل ہوجائے تو وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔۔۔

اور اگر بیوی سنگدل ہوجائے تو کیا ہوتا ہے آپ دیکھ لیں گے نجیب۔۔۔

جس معزوری کا طعنہ آپ مجھے دے رہے ہیں میں بہت جلدی اپنے پیروں پہ کھڑی ہوکر دیکھاؤں گی۔۔  جس بیٹے کو آپ نکما نکارا سمجھ رہے وہ جس دن آپ کے سامنے آئے گا آپ کی آنکھیں جھک جائیں گی اسکی عزت اسکی کامیابی دیکھ کر۔۔۔"

۔

وہ اور رو دی تھی آخری بات پر۔۔

"کس طرح کے باپ ثابت ہوں گے آپ۔۔؟؟ بیٹے کی کامیابی دیکھ کر باپ کا سینہ فخر سے چوڑہا ہوجاتا ہے اور آپ اپنی ہی باتوں پہ شرمندہ ہوجائیں گے۔۔۔

کیوں۔۔۔"

۔

شاید جواب نہیں تھا۔۔۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا وہ حورب کو اس کانفرنس میں جانے کی اجازت دہ دے گی جس پر جانے سے اس نے سختی سے منع کیا تھا۔۔۔

۔

اس نے فیصلہ کیا تھا اب وہ چھپ چھپا کر زندگی بسر نہیں کرے گی۔۔

اس نے فیصلہ کیا تھا اب وہ ہر ایک کا سامنا کرے گی سر اٹھا کر۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"پہلے میری ماں کا ٹریٹمنٹ ہوگا نظر نہیں آرہا انہیں چوٹ لگی ہے۔۔"

"دیکھیں میم ابھی سب ڈاکٹرز ایک ضروری کانفرنس اٹینڈ کررہے ہیں آپ انہیں سٹریچر پر لٹا دیں ہماری قابل نرس انہیں دیکھ لیتی ہیں۔۔"

"سیریسلی۔۔؟؟ ڈیڈ آپ کچھ کہتے کیوں نہیں ہیں انہیں۔۔ میری ڈیڈ ایک منٹ میں یہ ہاسپٹل بند کروا دیں گے۔۔"

"شزا بیٹا ریلیکس۔۔۔"

ان  لوگوں نے بہت تماشا کردیا تھا کہ لوگ اکٹھے ہوگئے تھے وہاں۔۔

"آپ نے جو کرنا ہے آپ کرلیجئے میں آپ کو اس سے زیادہ ریلیف نہیں دے سکتی۔۔۔"

وہ جیسے ہی جانے لگی تھی جب ماہیر نے اس کا بازو پکڑ کر واپس شزا کے سامنے کھڑا کردیا تھا

"ہمیں یہاں پر ڈاکٹر چاہیے دو ٹکے کی نرس نہیں۔۔ "

"سر میرا ہاتھ چھوڑیں۔۔"

ماہیر نے جتنی بےدردی سے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ریسیپشنسٹ کی آنکھیں بھر گئی تھی

"ماہیر چھوڑ دو چھوٹے لوگوں کے منہ نہیں لگتے بیٹا۔۔ میں ابھی اس ہاسپٹل کو بند۔۔"

نجیب آفندی بات مکمل نہیں کرپائے تھے جب پیچھے سے کسی نے تالیاں بجا کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا

"مجھے لگ رہا تھا انکی تربیت کرنے والے شاید سمجھدار ہوں گے اور آپ اپنے بیٹے کو قصوروار ٹھہرائیں گے۔۔۔مگر سر آپ تو اس سے زیادہ بگڑے ہوئے غرور میں چور لگ رہے ہیں۔۔۔آپ اپنی مسز کو لیکر کسی الگ ہسپتال چلے جائیں یہ چھوٹے لوگوں کے ہاسپٹل میں کیا لینے آئے ہیں۔۔؟؟"

"ڈاکٹر حورب جانے دیں پلیز۔۔۔"

"کیوں جانے دیں۔۔۔؟؟ انکے باپ کی جاگیر تھا۔۔؟؟ کتنی دیدہ دلیری سے آپ کو مس ہینڈل کیا یہ مرد ہے۔۔؟؟ اور آپ ۔۔۔ مسٹر "

نجیب کی طرف انگلی سے وارننگ کا اشارہ کیا تھا حورب نے جب نجیب صاحب نے پلٹ کر حورب کی جانب دیکھا تھا

وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہوئے تھے

"یو بچ یہ میرے ڈیڈ ہیں جن کے ساتھ بدتمیزی کررہی ہو تم اور ہم کون ہیں جانتی ہو۔۔۔"

شزا کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا تھا حورب نے اسکے چہرے پر بلا کا غصہ تھا وہ پھر سے ہاتھ اٹھانے لگی تھی جب سینئر ڈاکٹر نے حورب کو روک دیا تھا

"ہاؤ ڈیرھ یو۔۔۔ ہمت کیسے ہوئی مجھے گالی دینے کی۔۔۔ بدتمیز۔۔۔ تربیت نہیں سیکھائی گھر والوں نے۔۔ سر جتنے ویل ایجوکیٹڈ مجھے اس دن آپ لگے تھے آج مجھے سمجھ آرہی ہے آپ کی تہذیب۔۔۔ بچوں کو صرف دولت کی لت لگائی ہے بول چال کا ہنر دینا بھول گئے آپ۔۔؟؟"

نجیب ایک لفظ بھی بول نہیں پایا تھا۔۔ مگر اپنی تربیت پر بات آتے ہی وہ حورب کی جانب بڑھا تھا۔۔۔

"اس دن تم نے میری جان بچائی تھی اس لیے میں آج تمہارا لحاظ کررہا ہوں۔۔۔

تم جانتی نہیں ہو میں کیا کرسکتا ہوں تمہارے ساتھ تمہارے کیرئیر کے ساتھ۔۔"

وہ کہتے ہی واپس مڑنے لگے تھے شزا کے گال پر ہاتھ رکھے انہوں نے اپنا غصہ پینے کی کوشش کی تھی ایسا پہلی بار ہوا تھا انکے سامنے کسی نے انکی بیٹی کے سامنے ہاتھ اٹھایا اور وہ کچھ نہ کرپائے۔۔۔

"کیا کریں گے آپ۔۔؟؟ میرا کیرئیر دولت کی بنیاد پر نہیں ٹکا ہوا مسٹر۔۔ محنت کرکے یہاں تک پہنچی ہوں کیا برباد کریں گے آپ۔۔؟؟ جس شخص کو سہی غلط کا معلوم نہیں جو اپنے بچوں کو بدتمیز اور بےحیا۔۔۔"

نجیب کا ہاتھ اٹھ گیا تھا حورب پر۔۔۔۔

مگر وہ تھپڑ حورب کو محسوس نہیں ہوا تھا۔۔۔ حورب نے ایک خوف میں اپنی آنکھیں بند کرلی تھی۔۔۔اسے یقین نہیں تھا جس شخص کی زندگی اس نے اس دن بچائی وہ ایسے ہاتھ اٹھا دے گا۔۔۔

۔

اور جب کچھ سیکنڈ تک خاموشی چھائی رہی اسے کچھ محسوس نہ ہوا تو اس نے آنکھیں کھولی تھی۔۔۔

نجیب آفندی کا ہاتھ کسی نے سامنے سے پکڑا ہوا تھا۔۔۔

اور جب اپنے دوسری طرف نظر دہرائی تو اپنی ماں کو دیکھ کر حورب حیران رہ گئی تھی

"ماں آپ۔۔۔؟؟ آپ پاکستان میں کیا کررہی ہیں۔۔۔"

مگر نسواء نے تو کسی کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔ نجیب کا ہاتھ جھٹک دیا تھا اور ان دونوں کے درمیان صرف ایک قدم کا فاصلہ تھا۔۔۔ وہ اس قدر قریب ہوئی تھی اسکی ہائیٹ اتنی تھی کہ وہ نجیب آفندی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی تھی

"مسٹر نجیب آفندی۔۔۔ میری بیٹی پر دوبارا ہاتھ اٹھانے کی جرآت کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔"

۔

وہ حورب کا ہاتھ پکڑے اسے ایمرجنسی وارڈ سے لے جانے لگی تھی وہ نجیب کے پاس سے گزرے تھے جو کچھ بولنے سننے اور سمجھنے کی سلاحیت کھو چکا  ہو۔۔۔ اسکا وجود ایسے تھا۔۔ وہ ۔۔

"موم رکیں زرا۔۔۔ میری میٹنگ چل رہی تھی میں اٹینڈ کرکے آتی ہوں آپ تب تک ویٹ کیجئے پلیز۔۔۔"

حورب واپس نجیب کے پاس سے گزری تھی اور کانفرنس روم کی طرف بڑھی تھی۔۔۔

یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ شزا اور ماہیر غصے سے اس عورت کو دیکھتے رہ گئے تھے جس نے ابھی انکے ڈیڈ کا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔

"ڈیڈ آپ کہیں تو میں اس عورت اور اسکی۔۔۔"

"ڈونٹ۔۔۔"

نجیب کہتے ہی واپس اس سمت گیا تھا جہاں نسواء گئی تھی۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔۔۔"

نجیب نے موبائل واپس رکھ دیا تھا وہ لوگ ہاسپٹل سے واپس آگئے تھے۔۔۔ وہ بیڈروم میں کسی گھائل شیر کے جیسے چکر کاٹ رہا تھا جب روم کا دروازہ اوپن ہوا اور عمارہ کھڑی تھی ہاتھ میں چائے کا مگ لئیے۔۔

"کیا کررہی ہو یہاں۔۔؟؟ منع کیا تھا اس کمرے میں آنے سے۔۔۔"

نسواء اور نجیب کی شادی کی تصویر دیکھ کر وہ ہنس دی تھی

"آپ ابھی بھی اس کمرے میں سکون ڈھونڈنے آتے ہیں۔۔؟؟

آج تو اس کمرے میں آنے پر اذیت ہونی چاہیے تھی۔۔"

وہ مگ رکھ کر اسکے مقابل کھڑی ہوئی تھی۔۔نجیب نے اسے درگزر کردیا تھا کوٹ اتار کر چئیر پر رکھا اور پھر وہ موبائل پر نمبر ڈائل کرنے لگا تھا جب عمارہ نے اسے وہ بات کہہ دی تھی جسے سن کر اسکی روح تک کانپ اٹھی تھی

"آپ یہاں اسکے انتظار میں بیٹھے تھے اور وہ وہاں عیاشیاں کرتی رہی اسکی ناجائز بیٹی آپ کے سامنے تھی۔۔ اسکی بےوفائی کا جیتا جاگتا ثبوت۔۔۔ وہ وہاں کسی غیر مرد کے ساتھ راتیں رنگین۔۔"

عمارہ کو جتنی زور سے تھپڑ مارا تھا وہ بیڈ پہ جاگری۔۔

"ایک اور لفظ نہیں بے شرم عورت۔۔ وہ میری نسواء ہے میری بیوی۔۔ اونر ہے میرا۔۔

اسکے کردار پر آنکھیں بند کرکے یقین ہے مجھے۔۔ وہ ناجائز نہیں میری جائز اولاد ہے۔۔

میری بیٹی ہے۔۔۔ شرم کرو کچھ لحاظ کرلیتی۔۔ جی تو چاہتا ہے جان لے لوں تمہاری۔۔۔

نکل جاؤ میرے کمرے سے۔۔"

نجیب نے عمارہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر نکال دیا تھا جو دادی کے قدموں پہ جا کر گری تھی۔۔

۔

"اگر اتنی ہی محبت تھی تو کیوں کی میرے ساتھ شادی۔۔ کیوں لائے مجھے۔۔ کیوں عذادب بنا دی میری زندگی۔۔۔"

وہ دادی کے گلے لگ کر روئی تھی اور چلائی تھی۔۔۔

"کیونکہ عمارہ بیگم جس دلدل میں مجھے تم نے دھکیلا تھا اس میں دھنسنا تمہیں بھی تھا۔۔

زندگی عذاب کیسے بنتی ہے ابھی تمہیں معلوم نہیں ہوا گستاخ عورت اگر پھر میرے سامنے اونچی آواز میں بات کی تو طلاق دہ دوں گا۔۔"

نجیب نے دروازہ اسکے منہ پر بند کردیا تھا وہ گھر والوں کو حیران کرچکا تھا اپنی بات سے۔۔ اور عمارہ تو زاروقطار رونا شروع ہوگئی تھی طلاق کے نام پر۔۔۔

"عمارہ کو کمرے میں لیکر جاؤ بہو۔۔ یہ تو شکر ہے بچے گھر پہ نہیں ہیں۔۔جب سب آفس سے آجائیں تو میرے کمرے میں بھیج دینا نجیب کا غصہ حد سے تجاوز کررہا ہے اب۔۔"

دادی سختی سے کہتی ایک نظر بند دروازے پہ ڈالے واپس چلی گئی تھی۔۔

"میم آپ کا بہت بہت شکریہ آپ ہمارے ایونٹ میں تشریف لائی ہیں ہمیں بہت خوشی ہورہی ہے۔۔آپ پلیز ایوارڈ سیریمنی تک رکئیے گا ہم چاہتے ہیں مقابلہ جیتے والے تمام شیف کو ایوارڈ اور سرٹیفیکیٹ آپ دیں۔۔۔"

"اسکی ضرورت نہیں تھی شہناز۔۔۔سب سٹوڈنٹس نے بہت محنت کی مجھے سب کی ڈشز بہت پسند آئی۔۔۔ اور یہ میرے لیے بہت اونر کی بات ہوگی۔۔۔

میں نیچے آجاؤں گی۔۔۔"

۔

نسواء نے چئیر کو رئلنگ کی طرف کردیا تھا کچھ دیر میں سرونٹ ڈیکوریٹ کرنے کے بعد وہاں سے چلے گئے تھے شام کی ٹھنڈی ہوا اسے سکون بخش رہی تھی جب قدموں کی آہٹ پر وہ چونک اٹھی تھی شاید اسکے دل کی تیز دھڑکن نے اسے اس شخص کی موجودگی کا بتا دیا تھا۔۔۔

۔

"نسواء۔۔۔"

۔

"وہ شخص اپنے آپ کو جسٹیفائی کررہا تھا۔۔۔ خود کی بےوفائی کو  مجبوری بتانے کی کوشش میں تھا۔۔۔

وہ تو بےوفائی سے بھی بڑا دھوکا دے چکا تھا وہ تو زنا کرچکا تھا۔۔۔ اپنے آفس میں کام کرنے والی سیکریٹری کے ساتھ اس نے وہ سب کردیا تھا جو کوئی شوہر کرتے ہوئے ہزار بار سوچے۔۔۔

"وہ شخص مجھے بتا رہا تھا کہ اسے آج بھی کتنی محبت ہے اسے مجھ سے۔۔۔ وہ مجھے بتا رہا تھا ان راتوں کی داستان جو اس نے کسی غیر عورت کی دسترس میں گزاری وہ مجھے بتا رہا تھا کہ وہ میری غیر موجود گی میں بہت آسانی سے کسی کے حسن کا دیوانہ ہوگیا۔۔۔

اور میں۔۔۔ برداشت نہ کرپائی۔۔۔ ہاتھ اٹھ گیا میرا۔۔۔ جس پر کبھی میں نے نگاہیں نہیں اٹھائی اس پر میرا ہاتھ اٹھ گیا۔۔۔ وہ بیوی تڑپ اٹھی تھی۔۔

مجھ میں سکت نہ رہی تھی ۔۔۔

وہاں سے گھر تک کا راستہ کسی تپتے صحرا میں پیاسے مسافر سا تھا۔۔۔

اس دن پہلی بار مجھے میں مجرم لگی اپنے بچوں کی جب اس کمرے میں داخل ہوئی تھی اتنے سالوں کے بعد۔۔۔

"میں چاہے کتنی ہی دور رہ چکی اس شخص سے کتنے ہی درد سہہ لئیے اس رشتے میں۔۔

مگر میں میرے ہرجائی کو اس گناہ کے لیے کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔

میں فیصلہ کرچکی تھی اس دن اب اور نہیں۔۔۔ نجیب آفندی اب میں خود پر اپنی اولاد پر اور بوجھ نہیں ڈالوں گی انہیں دنیا سے چھپا کر ان لوگوں سے چھپا کر جو تماشہ دیکھنے کے منتظر ہیں جو نجیب آفندی کی طرح انتظار میں ہے کہ کب نسواء اپنے بیٹے مننان کے ساتھ انکے دروازے پر بھیک مانگنے جائے گی۔۔۔

میں فیصلہ کرچکی تھی اب میں اپنے بچوں کو فخر سے ان لوگوں کے سامنے لے کرجاؤں گی۔۔۔ میرے بچوں کی قابلیت انکی کامیابی دیکھ کر کوئی پچھتائے یا نہ نہ پچھتائے۔۔۔

پر میں نجیب آفندی۔۔۔ آپ کے چہرے پر پچھتاوا دیکھنے کی منتظر رہوں گی۔۔۔ یاد رکھئیے گا آپ۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماما ایک دم سے کیا ہوگیا ہے آپ کو۔۔؟؟ آپ اس طرح واک کریں گی تو مسلز میں سٹریس آجائے گا۔۔۔ اور یہ ہیوی ڈوس کھانے سے برڈن آپکے دماغ میں پڑۓے گا۔۔"

پر نسواء نے ویل چئیر سے اٹھ کر ان سٹکس کو پکڑ لیا تھا۔۔

"ماما۔۔۔"

"بس چھوٹی۔۔۔ ماں اگر یہ کرنا چاہتی ہیں تو یہی سہی۔۔۔ چلیں مننان کی ماما چل کر میرے پاس آئیے۔۔۔"

مننان اپنی چئیر سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔ 

دیکھتے ہی دیکھتے نسواء۔۔۔ مننان کی طرف بڑھی تھی ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا جب نسواء لڑکھڑا کر گرنے لگی تھی اور دونوں بچوں نے ماں کو تھام لیا تھا۔۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر میں نے بہت ضروری بات کرنی تھی۔۔۔"

"تمہیں نہیں پتہ مننان کے ساتھ میٹنگ ہے ابھی یہ فائلز مجھے ریڈی چاہیے مننان کو پسند نہیں ہے کوئی بھی غلطی۔۔۔"

سامنے کرسی پر بیٹھا وہ شخص ابھی انسٹرکشن دے رہا تھا جب اسکا اسسٹنٹ باہر سے ایک اور شخص کو بازو سے پکڑ کر اندر لایا تھا اور اسے اپنے باس کے سامنے ٹیبل پر پھینک دیا تھا"وٹ دا ہیل راشد۔۔۔یہ سب کیا بکواس ہے۔۔کون ہے یہ۔۔۔؟؟؟"

اسکا باس کرسی سے اٹھ گیا تھا

"شہیر سر۔۔۔ یہ نگرانی کررہا تھا نسواء میم کی۔۔۔ یہ دیکھیں انکی ایکٹویٹی کی فوٹوز موجود ہیں۔۔۔

راشد کی بات سن کر شہیر تو شاک ہوا تھا ساتھ کھڑا شخص بھی حیران ہوا تھا

"تم جانتے ہو تم جس کو فالو کررہے تھے وہ کون ہے۔۔؟؟ مننان تمہیں جان سے مار دے گا۔۔۔ کوئی نقصان پہنچانے کے لیے تم انہیں فالو کررہے تھے۔۔؟؟"

"نہیں۔۔۔ سر میں پرائیویٹ کمپنی کا ایک ڈیٹیکٹو ہوں۔۔۔ میں آپ لوگوں کے لیے کام کرچکا ہوں۔۔ جب نسواء میڈم کی فوٹو ملی تو میں سب سے پہلے آپ کے پاس آیا۔۔۔"

"کون کروا رہا ہے۔۔؟؟"

"نجیب آفندی۔۔۔"

شہیر نے ایک نظر دیکھا تھا اسے اور پھر اس نے راشد کو حکم دیا تھا کہ اسے لے جائے وہاں سے۔۔۔

"مننان کو معلوم ہوگا کہ وہ وہ لوگ نسواء آنٹی تک پہنچ رہے تو وہ بےحشر کردے گا ان سب کو۔۔۔اس تک بات نہیں پہنچنی چاہیے یہ۔۔۔ میں خود ہینڈل کرلوں گا یہ سب۔۔"

شہیر جس طرح گھبرا رہا تھا اسے کیا معلوم تھا یہ ساری پلاننگ تو مننان پہلے ہی کرچکا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

۔

۔

اور تم اسے روک نہیں سکی۔۔۔؟ بیوقوف عورت اتنی  محنت مٹی میں ملانا چاہتی ہو۔۔؟؟" بالوں سے پکڑے اس شخص نے عمارہ کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔۔۔

سر پر لگی چوٹ نے عمارہ کو اور تکلیف پہنچا دی تھی

"میری بات تو سنیں ظہیر۔۔۔ مجھ پر غصہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا جسے آپ نے نجیب کی زندگی سے دور کرنے کے لیے اتنے سال لگا دئیے وہ واپس آگئی ہے۔۔۔ اپنے بچے کے ساتھ نہیں بچوں کے ساتھ واپس آگئی ہے۔۔۔"

ظہیر نے غصے سے چیزیں پھینکنا شروع کردی تھی

"ان دونوں کو میں نے نجیب کی دنیا سے بہت دور کردیا تھا جب تم داخل ہوئی تھی اسکے کیبن میں۔۔بھول گئی عمارہ بیگم۔۔۔؟؟"

عمارہ کو بازو سے پکڑ کر ظہیر نے اپنے بہت پاس کیا تھا

"کوئی آجائے گا لئیو مئ ظہیر۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔یہ میرا آفس ہے۔۔۔ یہاں میری مرضی کے بغیر کوئی پر نہیں مار سکتا۔۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔ ابھی تک یہ آفس نجیب کے نام پر ہے ۔۔۔ جس دن اپنا کرلو گے اس دن بات کریں گے۔۔ میں ویسی بھی تمہاری بڑی بڑی پلاننگ سے تنگ آچکی ہوں ظہیر۔۔۔ نجیب کے ساتھ اس جہنم میں اب ایک پل نہیں گزار سکتی میں۔۔"

عمارہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا اور باہر چلی گئی تھی۔۔۔

۔

"کچھ دن اور میں ایک ڈیل سائن کرلوں اسکے بعد میں شئیر ہولڈر خریدوں گا۔۔۔

نجیب کو موقع نہیں دوں گا۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"یا اللہ رحم۔۔۔ نجیب آپ بھی نہ دیکھ کر نہیں چلا سکتے تھے۔۔۔

کتنی چوٹ لگی ہے۔۔۔"

دروازے پر کھڑے زخمی نجیب کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آئی اور بیڈ پر بٹھا دیا تھا۔۔۔

"میں فرسٹ ایڈ لیکر آئی۔۔۔یا پھر ڈاکٹر کے چلیں۔۔۔؟؟؟"

نجیب ایک دم سے ڈر کے اٹھ گیا تھا

"نہیں نسواء آپ پریشان نہ ہوں میں بس ابھی آیا۔۔۔"

نجیب جلدی سے فرسٹ ایڈ کا باکس چھین کر باتھروم کی طرف چلا گیا تھا

"انہیں کیا ہوا۔۔۔؟؟"

نجیب کے باتھروم جاتے ہی نسواء پیچھے چلی گئی تھی اور باتھروم ڈور ان لاک تھا اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا نجیب چہرے پر پانی ڈال رہے تھے اور نسواء کا دل گلے کو آیا نجیب کی تکلیف دیکھ کر مگر جیسے جیسے پانی پڑتا رہا وہ خون نما رنگ نیچے گرتا رہا چہرہ صاف ہوگیا تھا کوئی زخم نہیں تھا سامنے شیشے پر نجیب کا چہرہ دیکھے نسواء نے ایک نظر نجیب کو دیکھا جو شاکڈ ہوگئے تھے۔۔۔

اور نسواء خاموشی سے دروازہ بند کئیے باہر آگئی تھی۔۔۔

آنکھیں بھر چکی تھی نجیب کے جھوٹ پر وہ کھڑکی کے پاس ہاتھ باندھے کھڑی ہوگئی تھی تھوڑی دیر بعد باتھروم کا دروازہ کھلا تو نسواء نے جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کرلی مگر نظر ہٹا نہیں پائی تھا آسمان پر  نظر آتے اس خوبصورت چاند سے،،،،

"کیا وہ مجھ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگیا ہے وائفی۔۔۔؟؟ "

پر نسواء نے نجیب کو ایک نظر دیکھا اور بیڈ کی طرف بڑھی۔۔ اسکا درگزر کرنا نجیب کو بہت ناگوار گزرا نجیب نے اسکو بازو سے کھینچ کر واپس اسی جگہ لاکھڑا کیا تھا جب اس نے شیشے کی ونڈو کے ساتھ اسے پن کیا تھا

"معاف کردیں۔۔۔ آپ خفا مت ہوں نسواء۔۔۔"

نسواء کی ویسٹ پر دونوں ہاتھ رکھے نجیب اپنے حصار میں لے چکا تھا جب اس نے نسواء کے بالوں میں چہرے کو چھپائے تھا

"آپ نے جھوٹ بولا نجیب۔۔۔ کتنا پریشان ہوگئی تھی آپ جانتے ہیں۔۔اگر میں نہ دیکھتی تو آپ جھوٹی پٹی کرکے سامنے آجاتے۔۔؟؟ جیسے جھوٹی چوٹ لیکر آئے۔۔؟؟

میں خفا نہیں ہوئی ہرٹ ہوئی ہوں آپ کے جھوٹ پر۔۔۔"

نسواء نے خود کو نجیب کی گرفت سے چھڑانے کی لاکھ کوشش کی پر آزاد نہ کرپائی تھی

"میں شرمندہ ہوں سچ پوچھیں تو ڈر گیا تھا۔۔ پہلی بار وعدہ نبھا نہ سکا نسواء۔۔

اگر معلوم ہوتا میرے اس جھوٹ پر آپ کی آنکھیں بھیگ جائیں گی تو سچ مچ کا ایکسیڈنٹ کرلیتا اپنا۔۔"

نجیب کے ہونٹوں پہ اپنی انگلیاں رکھ کر نسواء نے خاموش کروا دیا تھا

"خدارا ایسی بات نہ کیجئے آپ۔۔۔"

"آگے سے ایسا ہی کروں گا۔۔ جھوٹ نہیں بولوں گا۔۔۔"

نسواء کی آنکھیں اور بھر گئی نجیب کے ارادے پر۔۔

"اب چلیں ڈنر پہ۔۔؟؟"

"ڈنر اہمیت نہیں رکھتا نجیب۔۔ آپ رکھتے ہیں۔۔ آپ کو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے تھا۔۔۔

جب آپ کو معلوم ہے کہ جھوٹ پکڑا جائے گا۔۔"

۔

"نسواء میری بات تو سنیں۔۔۔"

"نسواء۔۔۔"

نجیب کی آنکھیں کھل گئی تھی۔۔۔ آفس کا ڈور ناک ہوا تو اجازت ملنے پر نجیب کا 'پی اے' اندر داخل ہوا تھا۔۔۔

"سر یہ ہے وہ انفارمیشن۔۔۔وہ کچھ دیر میں ہاسپٹل سے واپس جائیں گی اس ایڈریس پر۔۔

یہ گھر علاقے کے پوش ایریا میں ہے جہاں بہت سیکیورٹی ہوتی آپ ہاسپٹل سے اس روڈ کے فاصلے تک انہیں فالو کرسکتے ہیں اس سے آگے سب سیکیورٹی ہے اور کیمرے بھی۔۔۔

"تم جا سکتے ہو۔۔۔"

نجیب نے فائل اوپن کی تو فرنٹ پیج پر ڈاکٹر حورب احمد نام پڑھ کر اس نے اوپر سے نیچے تک پیج دیکھا تھا کہ شاید اسے اپنا نام مل جائے مگر اس مغرور شخص کو وہ نام نہیں ملا تھا

'نجیب آفندی' جو اسکے بچے تو بہت غرور سے اپنے نام کے ساتھ لگائے پھرتے تھے پر۔۔۔

حورب کے نام پر نجیب نے انگلیاں پھیریں تو اسے وہی دن یاد آگیا تھا جب اسے اس انجان جگہ پر زخمی حالت میں اس لڑکی نے مدد کی تھی 

حورب۔۔۔۔"

نجیب نے سرگوشی کی تھی۔۔۔

۔

Dr. HURRAB Ahmed is an Internationally Renowned Cardiologist And epidemiologist whose Work over Years has substantially influenced prevention and treatment of cardiovascular disease..

The Leading North American clinical trialist in this field, 

Her epidemiologic work in more than countries shows the majority of risks of both cardiovascular and Cerebrovascular disease are attributable to the same few risk factors. Her large-scale studies involving several hundreds of thousands of individuals in dozens of countries have changed the way some of the world’s most deadly health conditions are prevented, treated and managed.

۔

"سر۔۔۔سر۔۔۔۔"

نجیب نے فائل سے سر اٹھا کر دیکھا توایک دم سے فائل کو لاکر میں رکھ کر وہ خود کوٹ پہنے جلدی سے کیبن سے نکل گیا تھا

"سلام سر میں آپ کے پاس۔۔۔"

وہ سٹاف کو ڈس مس کرکے آفس سے نکل گیا تھا۔۔۔ گاڑی سٹارٹ کرتے ہی اس نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تھا اور اسی راستے پر گاڑی چلا دی تھی جو کچھ دیر پہلے اسے معلوم ہوا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماما۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ کو نہیں لگتا آپ نے انکی کچھ زیادہ ہی ان سلٹ کردی۔۔؟؟

کیا آپ انہیں جانتی ہیں۔۔؟؟"

نسواء کے ہاتھ سے پانی کا گلاس گر گیا تھا جو کچھ دیر پہلے ہی دیا تھا اسے  حورب نے۔۔

"بیٹا میں نے اسی لڑائی میں سنا تھا۔۔ شاید وہ لڑکی کہہ رہی تھی یا وہ لڑکا۔۔۔

"بدتمیز لڑکی ماما۔۔۔ اور وہ اس شخص۔۔ کے بچے ہیں۔۔۔"

"شخص۔۔۔" نسواء نے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا۔۔ مٹھی مظبوطی سے بند کرلی تھی کہ کہیں وہ رو نہ دے اپنے ضبط کو وہ ایسے قابو کئیے بیٹھی تھی۔۔۔

اس نے فیصلہ کیا تھا وہ حورب کو مورل سپورٹ کرنے کے لیے یہاں آئے گی اپنی بیٹی کے ساتھ اور کانفرنس ختم ہوتے ہی واپس چلے جائیں گے دونوں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔ کچھ دن پہلے کانفرنس ڈیلے ہوئی اور آج۔۔۔ جس طرح سامنا ہوا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔

اپنےہرجائی کو اسکی فیملی کے ساتھ دیکھ کر۔۔ نسواء کے دل پر اتنے ہی تیر چلے۔۔۔

اور جو کمی باقی رہ گئی تھی وہ اپنی بیٹی کے منہ سے باپ کی جگہ اس شخص لفظ نے پوری کردی وہ تو اس سوچ سے ڈر گئی تھی کہ کیا وہ کبھی اپنی بیٹی کو کچھ بتا بھی پائے گی۔۔؟

"ماما۔۔؟؟؟آپ ٹھیک ہیں۔۔۔"

"ہاں۔۔۔ ہاں بیٹا۔۔۔ میں گھر جانا چاہتی ہوں تم ڈرائیور کے ساتھ آجاؤ گی۔۔؟؟"

"پر ہم دونوں نے تو آگے کا پلان بنایا تھا شاپنگ پر لے جانا تھا آپ نے ہمیں۔۔۔ حزیفہ انکل کی فیملی سے بھی ملنا تھا نہ۔۔۔"

حورب نے منہ بنا لیا تھا۔۔تو نسواء نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تھا

"بیٹا میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی شام میں چلے جائیں گے حزیفہ کے گھر۔۔۔پلیز ابھی مجھے گھر جانا ہے۔۔"

"ماما آپ ٹھیک ہیں۔۔؟؟"

حورب نے کانچ کے ٹکڑوں کو نظر انداز کرکے نسواء کو صوفہ پر بٹھایا تھا اور ساتھ خود بیٹھ گئی تھی

"آپ یہیں رکیں میں ڈاکٹر ذیشان سے ایکسکئیوز کرآتی ہوں ہم ساتھ چلتے ہیں۔۔"

"نہیں نہیں۔۔۔ تم یہیں اٹینڈ کرو گی۔۔۔ میرے لیے کچھ سکیپ نہیں کرنا اب کوئی بحث نہیں مجھے ڈرائیور چھوڑ آئے گا۔۔۔"

"پر ماما۔۔۔"

مگر نسواء کچھ دیر میں وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

حورب واپس میٹنگ میں جانے لگی تھی جب وہ اسی وارڈ کے پاس سے گزری تھی اب وہ لوگ وہاں سے جاچکے تھے وہ بھی میٹنگ اٹینڈ کرکے ہاسپٹل سے گھر کے لیے نکلی تھی۔۔۔

وہ گھر جو مننان نے خاص کر انکے سٹے کے لیے وہاں خریدا تھا۔۔۔

۔

حورب کی گاڑی جس روڈ سے گزر رہی تھی۔۔۔ عین کچھ منٹ پہلے دیکھتے ہی دیکھتے سامنے سے آتی تیز رفتار گاڑی ایک درخت کے ساتھ ٹکرائی تھی سڈن بریک پر حورب ڈرائیور کو حکم دے کر باہر کی طرف بھاگی تھی۔۔

"میم آپ اندر بیٹھے میں ایمبولینس کو بلاتا ہوں۔۔۔"

"ہیلپ۔۔۔"

حورب ڈرائیور کی بات کر اگنور کرکے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف پہنچی تو ڈور پہلے ہی اوپن تھا۔۔۔

"سر آپ ٹھیک ہیں۔۔؟؟"

نجیب نے جلدی سے آنکھیں بند کرکے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔

"ہیلپ۔۔۔"

اس نے حورب کی طرف جیسے ہی ہاتھ بڑھایا مدد کے لیے حورب سے رہا نہیں گیا نجیب کے چہرے کو سٹیرنگ سے اٹھا کر جیسے ہی اوپر کیا تھا ماتھے سے بہتے خون نے منہ بھر دیا تھا پر وہ اس چہرے کو پہچان گئی تھی اس شخص کو جس نے کچھ دیر پہلے ہاتھ اٹھایا تھا اس پر۔۔

"آپ۔۔۔چلیں باہر آنے کی کوشش کریں۔۔۔"

ایک پل کو اسے غصہ آیا تھا نجیب اس لڑکی چہرے کو نوٹ کررہا تھا آنکھیں کھول کر۔۔

ڈرائیور کی مدد سے وہ نجیب کو سہارا دیتی گاڑی تک لے آئی تھی۔۔۔

"آپ گاڑی ہاسپٹل۔۔۔"

"مجھے ہاسپٹل نہیں جانا وہاں میری فیملی۔۔۔ اور پریشان ہوجائے گی۔۔"

"پر سر۔۔۔"

"پلیز۔۔۔"

حورب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لئیے نجیب نے آنکھیں بند کرلی تھی حورب بھی بیک سیٹ پر بیٹھے ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا کہہ چکی تھی

"آپ گاڑی گھر کی طرف لے جائیں۔۔۔"

"پر میڈم۔۔"

"حورب کی ایک نظر پر ڈرائیور گاڑی سٹارٹ کرچکا تھا۔۔۔

۔

"غصہ۔۔۔ نسواء پہ گیا ہے۔۔۔"

نجیب کو اب سر میں درد ہونے لگی تھی۔۔۔ اسکی آنکھیں بلر ہورہی تھی۔۔۔

"آپ انہیں اٹھا کر اندر لے جائیں۔۔۔"

چار سیکیورٹی گارڈ نے نجیب کو اٹھایا اور جب اندر لیونگ روم کے صوفہ پر لٹایا تو نسواء بھی پریشانی کے عالم میں داخل ہوئی

"حورب بیٹا۔۔۔ یہ شرٹ پہ خون کیسا۔۔؟؟"

"ماما ریلیکس میں ٹھیک ہوں انہیں چوٹ آئی ہے۔۔انکا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔۔۔"

حورب جیسے ہی پیچھے ہٹی تو نسواء کی نجیب لیٹے ہوئے نجیب پر پڑی۔۔۔

"ماما آپ انکے پاس بیٹھے میں ابھی آئی۔۔"

وہ نسواء کا ہاتھ پکڑے نجیب کے پاس بٹھا گئی تھی۔۔

نہ چاہتے ہوئے بھی نجیب کے خون سے بھرے چہرے کو دیکھ کر نسواء کے دماغ میں وہ ایک ہی قصہ گھوم رہا تھا اس نے غصے سے اس زخم پر ہاتھ رکھا تھا

"آپ کیا سمجھتے ہیں یہ زخمی خون لگا کر چوٹ دیکھا کر آپ کیا کرلیں گے۔۔؟؟ دور رہیے مجھ سے میری بیٹی سے۔۔۔"

"وہ اٹھ کر جانے لگی تھی جب نجیب نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا 

"مجھ تک پہنچنے کے لیے آپ میری بیٹی کا استعمال کررہے ہیں۔۔۔؟ بدلہ لینے کے لیے۔۔۔؟؟ اور یہ زخم یہ جھوٹے زخم یہ ایکسیڈنٹ اور یہ خون کا رنگ۔۔۔۔"

نسواء نے ماتھے پر واضح زخم پر ہاتھ رکھ کر رگڑکر اس رنگ کو مٹانے کی کوشش کی تھی پر اسکے ہاتھوں میں اور خون لگ گیا تھا جو اسکے ناخن لگنے سے نکلنا شروع ہوا تھا نجیب کی آنکھیں پوری کھلی ہوئی تھی وہ اس طرح لیٹا تھا وہاں کہ اسکا سر نسواء کی طرف تھا

"جس دن میرے جھوٹے زخموں کی وجہ سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے میں نے سوچ لیا تھا اب چوٹ کا بہانہ بناؤں گا تو خود کو تکلیف بھی دوں گا تاکہ آپ کے سامنے شرمندہ نہ ہوسکوں۔۔۔۔"

وہ کہنا شروع ہوا تھا نسواء ہاتھوں میں لگے خون کو دیکھ کر پیچھے ہوگئی تھی۔۔۔

"ماما آپ یہیں بیٹھے پلیز۔۔۔ان کا سر آپ یہاں پکڑ کر رکھیں انہیں سٹیچز کی ضرورت ہے۔۔۔"

نسواء کے پوچھے بغیر ہی نجیب نے اپنا سر اسکی گود میں رکھ دیا تھا۔۔۔ گھٹنوں کے بل بیٹھے حورب نے نجیب کا چہرہ اپنی طرف کیا تھا

"آپ کو جس دن گولی لگی تھی میں نے پہلے بھی کہا تھا اتنا لاپروائی اچھی نہیں ہے سر۔۔

موم آپ انکا چہرہ صاف کردیں گی۔۔۔؟؟"

نسواء کے ہاتھ میں کاٹن پکڑائے وہ اپنی ہاتھوں میں گلوز پہننے لگی تھی

نسواء کے ہاتھ وہیں ساکن ہوگئے تھے اس نے نجیب کی طرف دیکھا تھا جو بہت معصوم سا منہ بنائے وہیں بیٹھا اسے دیکھنے لگا تھا

"ماما پلیز۔۔۔"

نسواء نے آہستہ آہستہ منہ صاف کرنا شروع کردیا تھا نجیب

"آؤچ دھیان سے مس۔۔۔"

نسواء کے چہرے پر درد ابھرا تھا جو اس نے بہت جلدی کور کرلیا تھا۔۔وہ چہرہ صاف کرچکی تھی نجیب کا۔۔اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے معلوم نہ ہوا کب وہ اسکی آنکھوں میں کھو گئی تھی اسکے ہاتھ رکے تھے نجیب کے ہونٹوں کے قریب آکر 

"ماما بس ہوگیا اب زرا سائیڈ پر ہوں میں انہیں سٹیچز لگا دوں۔۔۔سر تھوڑا سا درد ہوگا۔۔۔"

نجیب کے ہاتھ پر جیسے ہی ہاتھ رکھا تھا حورب نے اسکی نگاہیں نسواء سے ہٹ چکی تھی

اس نے بےساختہ اس لڑکی کو دیکھا تھا

"اٹس اوکے۔۔۔بیٹا۔۔۔"اسکا دوسرا ہاتھ نسواء کے گھٹنے پر اپنی گرفت بنا چکا تھا۔۔۔

بیٹا لفظ۔۔۔۔ جو اس نے پہلی بار بولا اپنی بیٹی کے لیے۔۔۔

"ایکسکئیوز مئی۔۔۔"

نسواء وہاں سے جلدی میں جانے لگی تھی جب حورب نے پیچھے سے آواز دی تھی

"کوئی خوبصورت سا ریڈ ڈریس پہنئیے گا موم حزیفہ انکل کی فیملی سے ملنا ہے۔۔۔

آپ کے ہونے والے سسرال۔۔۔"

نسواء رکی اور مڑ کر پیچھے دیکھا تھا وہ غصے سے حورب کو دیکھ رہی تھی جب اسکی آنکھیں نجیب غصے بھرے آنکھوں سے ٹکرائی تھی۔۔۔

"شٹ اپ لڑکی۔۔۔ ایسا کچھ نہیں۔۔"

حورب ہنسی تھی پر کچھ پل میں اس نے اپنا ٹریٹمنٹ شروع کردیا تھا

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میں شرمندہ ہوں سچ پوچھیں تو ڈر گیا تھا۔۔ پہلی بار وعدہ نبھا نہ سکا نسواء۔۔

اگر معلوم ہوتا میرے اس جھوٹ پر آپ کی آنکھیں بھیگ جائیں گی تو سچ مچ کا ایکسیڈنٹ کرلیتا اپنا۔۔"

۔

"جس دن میرے جھوٹے زخموں کی وجہ سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے میں نے سوچ لیا تھا اب چوٹ کا بہانہ بناؤں گا تو خود کو تکلیف بھی دوں گا تاکہ آپ کے سامنے شرمندہ نہ ہوسکوں۔۔۔"

۔

۔

اس کا گزرا ہوا کل اور آج ایک دائرےمیں اسکے سر کے گرد گردش کررہا تھا۔۔

وہ روتی کیا نہ کرتی۔۔ وہ اب خود کو کوسنا شروع ہوگئی تھی کہ وہ واپس کیوں آئی۔۔۔

سر پکڑے وہ بیڈ پہ جیسے ہی بیٹھی تھی موبائل فون بجنا شروع ہوا سکرین پر مننان کا نام دیکھ کر اسکے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح بہنا شروع ہوگئے۔۔

"مننان میرے بچے۔۔۔"

روتے ہوئے اس موبائل فون کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا اس نے۔۔۔

نجیب کا چہرے سامنے آتے ہی اسکی ہر وہ زیادتی اسے یاد آجاتی جواس نے اس چار سال کے چھوٹے بچے کے ساتھ کی۔۔۔

۔

"میم مننان سر کی کال آئی ہے ۔۔۔"

ملازمہ نے دروازہ ناک کرکے کہا تھا۔۔۔ نسواء جلدی سے منہ صاف کئیے دروازے تک گئی تھی اور دروازہ کھول کر موبائل پکڑ لیا تھا۔۔۔

"اففو۔۔ بیٹا کچھ دیر صبر نہیں کرسکتے تھے۔۔۔"

"نہیں جب میرا دل بےچین ہو۔۔ جب مجھے پتہ ہو کہ آپ کسی تکلیف میں ہے تو کیسے صبر کرلوں ماں۔۔؟؟"

"اووہ۔۔۔ مننان۔۔۔"

وہ ٹیک لگائے بیڈ پر بیٹھ گئی تھی اور دوسری طرف مننان نے گاڑی سٹارٹ کردی تھی

"آپ دونوں وہاں جاکر بھول گئی ہیں نہ مجھے۔۔؟؟ نہ حورب کا فون آیا نہ آپ کا۔۔"

"بیٹا ایسی بات نہیں بس کچھ مصروفیات تھی کہ ۔۔۔"

"ماں بھلانے والا ہوں ماں۔۔۔"

مننان کا لہجہ اداس ہوا تو نسواء کی ممتا بھی تڑپ اٹھی تھی

"میرے بچے ہماری کل کائنات تم ہو یہ بات یاد رکھنا۔۔۔ ہم تینوں ہی تو ہیں ایک دوسرے کے اور کون ہے ہمارا۔۔۔؟؟ اور کب آرہے ہو تم یہاں۔۔؟؟"

"ماں بس کچھ دن لگے گئے۔۔۔"

"تو ہم واپس آجائیں۔۔؟؟ حورب کی کانفرنس تو ختم ہوگئی ہے۔۔"

"نہیں۔۔۔۔" مننان ایک دم سے بولا تھا

"حزیفہ انکل کیا سوچیں گے ماں۔۔؟ آپ دونوں رات کا ڈنر تو اٹینڈ کریں میں بھی پرسو کی فلائٹ سے آجاؤں گا۔۔۔"

۔

کچھ دیر اور بات کرنے کے بعد نسواء نے فون بند کردیا تھا 

۔

"آپ کا کوئی جھوٹ کوئی فریب اب کچھ معنی نہیں رکھتا نجیب یہ بات یاد رکھئیے گا آپ۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماما وہ جو آپ دودھ میں ہلدی ملا کر ہمیں دیتی ہیں آپ پلیز وہ بنا لائیں گی۔۔؟؟ سر کو زرا سکون ملے گا۔۔۔"

حورب نے اونچی آواز میں کہا تھا۔۔

"نہیں بی۔۔۔ڈاکٹر صاحبہ میں اب چلتا ہوں۔۔۔ آپ ٹریٹمنٹ کے پیسے۔۔۔"

"شرمندہ مت کریں مسٹر۔۔۔ ہر چیز پیسے سے نہیں تولی جاتی۔۔۔"

وہ بات کرتے جیسے ہی لیونگ روم سے باہر آئے تھے نسواء نے دودھ کا گلاس  ٹیبل پر رکھ دیا تھا نجیب کے ہاتھوں میں پکڑانے کے بجائے۔۔

"بیٹا دودھ تو بنوا لیا زرا پئشنٹ سے پوچھ لیں انہیں پسند ہے۔۔؟؟"

نسواء نے ترچھی نظروں سے نجیب کی طرف کیا تھا یہ وہی جانتی تھی نجیب کو کتنی الجھن تھی ہلدی والے دودھ سے۔۔۔

"مجھے بہت پسند ہے۔۔ میری بیوی بنا کر دیتی تھی۔۔۔"

"اور آپ پیتے نہیں تھے ضائع کردیتے تھے۔۔۔"

یہ بات بار بار نسواء کے لبوں پر آئی تھی پر حورب کے سامنے اسنے اپنے لب بند رکھنا ضروری سمجھا۔۔۔

"سر اگر آپ کو نہیں پسند تو۔۔۔"

نجیب کچھ سیکنڈ میں گلاس ختم کرچکا تھا۔۔۔ شکریہ۔۔۔ محترمہ۔۔۔"

نسواء کی طرف دیکھتے ہوئے نجیب نے کہا تھا۔۔۔ اور جانے سے پہلے حورب کی سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

"ٹیک کئیر۔۔۔بیٹا۔۔۔"

وہ بیٹا لفظ اپنی بیوی کے سامنے اپنی ہی بیٹی کو بولتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔۔۔

"خدا حافظ۔۔۔"

وہ دروازے کی طر بڑھا تھا اس  امید میں کہ نسواء کچھ تو کہے گی اسے روکے گی کچھ بھی۔۔۔ پر جب دروازہ کھولتے ہوئے اس نے پیچھے دیکھا تو نسواء حورب کو کچھ کہتے ہوئے اپنے گلے سے لگا چکی تھی دونوں ماں بیٹی کسی بات پر ہنسی تھی۔۔

نجیب نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا تھا اور وہاں سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔

وہ باہر جیسے ہی کھڑا ہوا تھا اس نے ڈرائیور کو کال کی تھی جو اسے پک کرنے آگیا تھا۔۔۔

بیک سیٹ پر وہ جیسے ہی بیٹھا تو آنکھ سے ایک آنسو نکلا تھا جس ہاتھ میں لئیے نجیب نے آنکھیں بند کرلی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مننان یار یہ ٹھیک نہیں وہ لڑکی زات ہے۔۔ کیا ہوگا امیج اس سکینڈل کے بعد۔۔؟؟"

شہیر نے جیسے ہی مننان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا مننان نے اسکو گریبان سے پکڑ کر دروازے کے ساتھ لگا دیا تھا

"جب گیارہ سال کا تھا میں تب میری ماں کے ساتھ کچ غنڈوں نے بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تھی ان کا کیا قصور تھا۔۔؟؟ ایک امیر شوہر کی بیوی ہوتے ہوئے کتنے مردوں کے درمیان میں نے اپنی ماں کو کام کرتے دیکھا برتن دھوتے ہوئے دیکھا۔۔۔

اور وہ لڑکی نجیب آفندی کی بیٹی ڈرگز اڈیکٹ میں۔۔ میں نے تھوڑی کہا تھا نشہ کرے ۔۔

یہ سکینڈل تو باہر آنا ہی تھا۔۔۔"

مننان نے فون پر انسٹرکشن دہ دئیے تھے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ڈیڈ آپ کو دیکھ کر ڈرائیو کرنی چاہیے تھی آپ جانتے ہیں پہلے ماما کے ساتھ مسئلہ ہوا اب آپ۔۔۔"

نجیب کے گھر آتے ہی سب ایک جھرمٹ کی طرح اسکے ارد گرد تھے

"تمہیں شرم نہیں آتی۔۔؟ تمہارا باپ زخمی حالت میں آیا ہے اور تم فالتو باتیں کررہی ہو۔۔جاؤ کچن سے جوس لیکر آؤ۔۔۔"

ناہید بیگم نے  شزا کو ڈانٹ کر کچن کی طرف بھیجا تھا۔۔۔

"اٹس اوکے ماں۔۔۔شزا بیٹا یہاں میرے پاس آکر بیٹھو۔۔"

نجیب جو پیار حورب کو نہیں دے سکا شزا کو دیکھتے ہی اسکے دل میں نرمی آگئی تھی

شزا نجیب کے کندھے پر سر رکھے جیسے ہی بیٹھی تھی روم میں آفندی صاحب غصے سے آئے تھے

"شزا۔۔۔۔یہ سب کیا بکواس ہے۔۔۔؟؟"

"دادو۔۔۔ میں نے کیا کیا۔۔۔؟؟"

"گھر کی خاندان کی عزت مٹی میں ملانے کے بعد بکواس کرتی ہو کہ کیا کیا۔۔؟؟"

"ڈیڈ۔۔۔ انفف۔۔۔ آپ کو کوئی حق نہیں میرے بچوں سے اس لہجے میں بات کرنے کا۔۔۔"

نجیب آفندی صاحب کے روبرو کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔

"ٹی وی لگاؤ زرا۔۔۔دیکھو اپنی بیٹی کی کرتوت۔۔۔ پولیس نیچے آئی ہوئی ہے۔۔۔ یونیورسٹی میں جو ڈرگ سپلائی کرتی ہے اور جس لڑکی کی طبیعت زیادہ ڈوز لینے سے خراب ہوئی اس نے تمہاری بیٹی کا نام لیا ہے۔۔۔

نجیب۔۔۔ نیوز دیکھو۔۔۔"

نجیب آفندی نے مٹھی بند کرلی تھی اور جب ٹی وی نظر پڑی تھی ڈرگ لیتی اپنی بیٹی کو دیکھ کر انہوں نے شزا کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

"یہ تو بھلا ہوا اس شخص کا جس نے میڈیا والوں سے بات چیت کرکے اس کا نام اور چہرہ ہائیڈ کروا دیا تھا۔۔۔یہ۔۔۔ ہمارا خون ہے۔۔؟؟"

آفندی صاحب کی بات سن کر سب ششدر رہ گئے تھے اور نجیب نے شزا پر ہاتھ اٹھا دیا تھا۔۔اور پھر آفندی صاحب کی طرف دیکھا تھا

"آپ۔۔۔ نے اگر آئندہ میرے خون پر انگلی اٹھائی ڈیڈ تو میں ہر رشتہ ختم کردوں گا۔۔۔"

وہ زمین پر گری روتی ہوئی بیٹی اور شاکڈ فادر کو چھوڑ کر کمرے سے ہی نہیں گھر سے بھی باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔

اسکے سامنے دو چہرے گھوم رہے تھے نسواء اور حورب کے۔۔۔

آج کے اس سکینڈل نے نجیب آفندی کو ایک بہت بڑا دھچکا دہ دیا تھا۔۔۔

اسے کیا معلوم تھا یہ شروعات تھی۔۔۔ یہ وقتِ زوال تھا اس کا۔۔۔

"کیا کچھ نہیں دیا تھا۔۔؟؟ دولت عزت گھر آزادی پھر کیوں کیا یہ سب۔۔۔؟؟"

نجیب نے پھر سے ہاتھ اٹھایا تھا جب شزا روتے ہوئے بیڈ پر گری تھی

"پلیز ڈیڈ مجھے معاف کردیں پلیز۔۔۔"

"معاف۔۔۔تمہیں تو میں۔۔۔"

"بس نجیب۔۔۔ وہ بچی ہے۔۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔؟؟"

ناہید بیگم نے اپنے بیٹے کو پیچھے کیا تو آفندی صاحب نے بھی نجیب کا ہاتھ پکڑ کر روم سے باہر لےجانے کی کی تھی

"نجیب بس وہ بچی ہے غلطی ہوگئی اس سے۔۔ اب تم شزا کو کچھ نہیں کہو گے۔۔"

"نجیب کیا پتہ کوئی سازش ہو۔۔"

چچا نے بھی نجیب کو سمجھایا تھا۔۔۔ نجیب کا غصہ دیکھ کر سب ڈر گئے تھے۔۔

چچی نے جیسے ہی اپنے شوہر کو اشارہ کیا وہ لوگ ایک سائیڈ پر چلے گئے تھے

"آپ کو کیا ضرورت تھی نجیب کو چپ کروانے کی ذیشان۔۔؟؟ اب تو موقع آیا ہے ہمارےبچوں کی قدر ہو اس خاندان کو جب دیکھو نجیب کی بیٹی اس کا بیٹا۔۔"

"شازیہ۔۔ کیا ہوگیا ہے شزا بھی ہماری بیٹیوں۔۔"

"بس کردیں۔۔۔اب آپ اپنے بچوں کو آگے لیکر جائیں۔۔۔"

۔

دوسری طرف بہت لوگ یہ تماشا دیکھ کر خوش ہوئے تھے۔۔۔

آفندی صاحب نے نجیب کو صوفہ پر بٹھایا تو شزا کو بھی بلوایا تھا۔۔۔

ابھی وہ نجیب کو خاموش کروا رہے تھے جب انہیں یونیورسٹی سے کال ریسیو ہوئی تھی اور انہیں شزا کے ساتھ کل بلایا گیا تھا۔۔۔

"وہ ہوتے کون ہیں میری بیٹی کو نکالنے والے۔۔؟؟"

نجیب نے موبائل دیوار پہ دے مارا تھا۔۔وہ شدید غصے میں گھر سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔

گاڑی کسی سنسان جگہ پہ روکے کچھ پل کو سانس لیا تھا اس نے 

اسکی پرفیکٹ زندگی ایک دم سے خرا ب ہوگئی تھی۔۔۔ یا کبھی پرفیکٹ تھی ہی نہیں۔۔؟؟"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"بورڈ آف ڈائیرکٹرز نے یہ ڈیسیژن لیا ہے کہ ہم آپ کی بیٹی کو ریسٹیکیٹ کررہے ہیں۔۔"

"ہاؤ ڈیرھ یو۔۔۔"

نجیب نے ڈیسک پر ہاتھ مارے تھے اور وہ اٹھ گیا تھا اسکے سامنے ٹیبل پر پانچ بورڈ آف ڈائیریکٹر کے تھے پرنسپل اور ہیڈمسٹریس موجود تھے اور دوسری طرف آفندی صاحب اور ذیشان بیٹھے تھے

ابھی تک وہ تینوں بہت فخر سے بیٹھے تھے انہیں یقین تھا کہ کوئی انہیں انکار نہیں کرے گا۔۔۔مگر۔۔۔

"سر ہم نے باقی تین لڑکیوں کو بھی شزا کے ساتھ نکالا ہے۔۔"

"ڈیم اِٹ ان تینوں اور میری بیٹی میں زمین آسمان کا فرق ہے وہ شزا آفندی ہے۔۔"

"سر آواز نیچے رکھیں یہاں۔۔۔"

"میں بات کررہا ہوں آپ خاموش رہیں سب۔۔۔"

پرنسپل نے سب ممبران کو چپ کروا دیا تھا اسی وقت۔۔۔

"دیکھیں سر ہم یہ ایفورٹ نہیں کرسکتے۔۔۔ ہم ڈرگز ایدیکٹ ایفورڈ نہیں کرسکتے ایم سوری۔۔۔"

"یو باسٹرڈ۔۔۔ جانتے ہو میں کون ہو۔۔؟؟ میں اس یونیورسٹی کو تم سب سمیت ایک منٹ میں خرید سکتا ہوں۔۔ ایک منٹ میں برباد کرسکتا ہوں۔۔۔"

نجیب کی اس دھمکی پر پرنسپل نے باقی سب کی طرف دیکھا تھا جو ڈٹ گئے تھے اپنے فیصلے پہ۔۔۔

"سوری سر آپ نے جو کرنا ہے کریں مگر اس یونیورسٹی سے باہر جاکر ۔۔۔ ہمیں شزا آفندی کو نکال چکے ہیں۔۔۔ وہ ڈرگ لیتے اور سپلائی کرتی رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے۔۔۔

شکر کریں پولیس کیس نہیں بنایا ہم نے۔۔۔ ورنہ آپ کی بیٹی نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی باقی بچوں کو نشے کی لت لگانے میں۔۔۔"

ایک پیپر سائن کرکے ایک ممبر نے دوسرے اور دوسرے نے تیسرے کی طرف کیا تھا

ان تمام بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سائن کرکے وہ پیپر پرنسپل کو پکڑا دئیے تھے۔۔۔

"ایم سوری مسٹر نجیب۔۔۔"

"جسٹ شٹ اپ۔۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔۔"

نجیب اپنی بلیک گلاسز لگائے روم سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔ اور باہر کھڑی عمارہ اور شزا کو ایک نظر دیکھا تھا

"ڈیڈ۔۔۔ ایم سوری ۔۔مجھے ایک موقع۔۔۔"

"جسٹ شٹ اپ۔۔۔"

نجیب شزا کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے لے جانے لگے تھے اینٹرینس پر جب انکا راستہ روکا تھا سٹاف ممبر نے۔۔۔

"سر آپ گیٹ نمر 4 سے چلے جائیں یہاں میڈیکل کا ایک امپورٹنٹ سیمینار سٹارٹ ہوا ہے۔۔۔"

"راستہ چھوڑو۔۔۔ ایڈیٹ۔۔۔"

نجیب کے گارڈ نے راستہ صاف کرنا شروع کردیا تھا۔۔۔ وہ بلکل پاس سے گزر رہے تھے جب تالیوں میں ایک اناؤنسمنٹ نے نجیب کے قدم روک دئیے تھے

"میں بلانا چاہوں گی ہماری گیسٹ آف اونر ڈاکٹر حورب احمد کو۔۔۔"

"جن کو تعریف کی ضرورت نہیں ۔۔۔انہوں نے اپنے بیزی شیڈول سے ہمیں وقت دیا۔۔۔"

حورب جیسے ہی سٹیج پر گئی تھی گلاب کے پھولوں کا گلدستہ اسے دیا گیا تھا۔۔۔

اور وہ سب بورڈ آف ڈائیریکٹر احترام میں کھڑے ہوگئے تھے اپنی اپنی کرسی سے۔۔۔

نجیب کا وجود ایک پتھر بن گیا تھا جب اس نے حورب کو دیکھا تھا اسکے ہاتھوں سے شزا کا ہاتھ چھوٹ گیا تھا

اور اس نے پیچھے مڑ کر اپنے والد کو دیکھا تھا

"ڈیڈ۔۔۔۔"

نجیب نے اب کے آفندی صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور سٹیج کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔

"میری بیٹی۔۔۔ حورب۔۔۔"

اور ہاتھ اٹھا کر سٹیج کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔

"نجیب۔۔۔"

آفندی صاحب نے سٹیج کی طرف دیکھا تھا اور پھر عمارہ اور پھر نجیب کی طرف ذیشان صاحب بھی شاکڈ ہوگئے تھے۔۔۔

"ڈیڈ۔۔ میرا خون۔۔۔"

آفندی صاحب نے کبھی اپنے بیٹے کو اتنا فخر محسوس کرتے نہیں دیکھا تھا نہ کبھی مننان پر نہ کبھی شزا نہ کبھی ماہیر پر۔۔۔ جتنا اس وقت نجیب حورب کو دیکھ کر پراؤڈ فیل کررہے تھے

"یہ کیا کہہ رہے ہو نجیب۔۔۔"

"ابھی یہاں سے چلیں۔۔۔"ذیشان نے اپنے بھائی کو غصہ کرنے سے روکا تھا وہ سب کو وہاں سے چلنے پر راضی کرچکے تھے سوائے نجیب کے۔۔۔ نجیب پیچھے پڑی خالی کرسی پر بیٹھ گئے تھے باقی سب کے ساتھ۔۔۔

اور جب دوسری رو پر نسواء کو بیٹھے دیکھا تو ہمت کرکے ساتھ پڑی خالی کرسی پر بیٹھ گئے تھے

نسواء  حورب کی موٹیویشنل سپیچ میں اتنا کھو گئی تھی کہ پاس بیٹھے شخص کو دیکھ نہ پائی تھی

"ہاہاہا۔۔۔ ماں ہمیشہ کہتی تھی جتنی شرارتی میں ہوں میں کوئی کامیڈین بنوں گی۔۔۔ ہاہاہا

مگر ایک دن سب بدل گیا۔۔۔ جب انہوں نے مجھے پاس بٹھا کر کہا تھا کہ وہ مجھے اس مقام پر دیکھنا چاہتی ہیں جہاں وہ خود نہ پہنچ سکی۔۔۔"

حورب کی آنکھیں بھر آئی تھی۔۔۔

"ہنستے ہوئے بالکل آپ جیسی لگتی ہے۔۔۔"

نجیب نے جیب سے رومال نکال کر نسواء کے آگے رکھا تھا اسکی آواز پر نسواء حورب سے نگاہ ہٹا پائی تھی اور نجیب کو دیکھ کر چہرے کی ہنسی چلی گئی تھی

"سیریسلی۔۔؟؟"

"نسواء میں آپ سے بات۔۔۔"

"مجھے نہیں کرنی بات آپ کو سمجھ کیوں نہیں آرہی۔۔؟؟ کیوں تنگ کرنے آجاتے ہیں آپ۔۔؟؟ دور رہیں مجھ سے میرے بچوں سے۔۔۔"

وہ اٹھنے لگی تھی جب نجیب نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا اور اسی وقت حورب نے اپنی بات جاری رکھی تھی

"ماں کہتی تھی جو وہ خود نہیں کر پائی۔۔۔ مگر وہ سب کچھ کرسکتی ہیں۔۔ جو عورت اپنے بچوں کو اکیلی پال سکتی ہیں انہیں اس قابل بنا سکتی ہیں تو وہ کامیاب کیسے نہ ہوئی۔۔؟؟"

۔

گہرا سانس لئیے وہ واپس بیٹھ گئی تھی۔۔۔ جب تک حورب کی سپیچ چلتی رہی نسواء اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی رہی مگر نجیب نے ہاتھ نہیں چھوڑا تھا اس کا۔۔۔"

۔

"نجیب ہاتھ چھوڑیں سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔"

"دیکھنے دیں۔۔ میں نے کونسا کسی غیر کا ہاتھ پکڑا ہے۔۔؟؟ اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا ہے۔۔"

"ہاہاہاہا بیوی۔۔؟؟ یا رائٹ بیوی۔۔۔ مائی فٹ۔۔۔ جسٹ لئیو مائی ہینڈ۔۔۔"

اور نفرت بھرے لہجے کو سن کر نجیب نے ہاتھ کی گرفت نرم کی تو نسواء ہاتھ چھڑائے پیچھے ہوگئی تھی۔۔۔

۔

اور دیکھتے ہی دیکھتی حورب سٹیج سے نیچے آئی تھی۔۔۔ ایک طرف سے نسواء اسکے پاس پہنچی تھی دوسری سے سے حزیفہ داخل ہوا تھا۔۔۔ حورب باری باری دونوں کے گلے لگی تھی۔۔

اور نجیب آفندی خالی ہاتھ بیٹھے تکتا رہ گیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"وہ میری ماں میری بہن کی معلومات اکٹھی کررہے تھے اور تم مجھے ابھی بتا رہے ہو۔۔"

راشد کو دھکا دے کر وہ اندر روم میں داخل ہوا تھا۔۔ جہاں وہ آدمی رسیوں میں بندھا ہوا تھا

"تو نے اچھا نہیں کیا میری فیملی کے انفارمیشن آگے پہنچا کر۔۔۔میں تجھے نیست و نابود کردوں گا۔۔۔ اسکی فیملی کی معلومات اکٹھی کرو اور وہی سب کرو جو یہ لوگ میری ماں اور بہن کے ساتھ کرنے والے تھے۔۔"

"سر۔۔ سر مجھے پتہ نہیں تھا۔۔۔ یقین جانیں ہم نے بس کچھ تصاویر آگے بھیجی۔۔۔ آگے موقع نہیں ملا۔۔"

وہ معافیاں مانگ رہا تھا ہاتھ جوڑ رہا تھا اور مننان اپنا غصہ نکالے اس زخمی حالت میں چھوڑے اسکے سامنے بیٹھا تھا گن نکال کر۔۔۔

"کس نے بھیجا تھا۔۔؟؟"

"سر۔۔ میں۔۔۔"

"کس نے۔۔؟؟"

ایک فائر اسکی ٹانگ پر لگی تو زبان سے ایک ہی نام نکلا جس نے مننان کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔۔۔

"نجیب آفندی۔۔۔سر انہوں نے ہمارے باس کو بہت بڑی رقم دی تھی سب معلومات نکلوانے کے لیے۔۔۔"

۔

"نجیب آفندی۔۔۔"

وہ غصے سے چلایا تھا۔۔۔ اور گن کی بیک سائیڈ اسکے سر پہ مار کر روم سے باہر آگیا تھا۔۔۔

"سر۔۔۔ بات سنیں۔۔۔"

"مننان یار بات سن کہاں جارہا ہے غصے میں۔۔؟؟"

وہ دونوں نے زبردستی مننان کو پکڑ لیا تھا 

"نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔۔ جمعہ کی نماز نہیں پڑھنی۔۔؟؟"

وہ گن گارڈ کو دے کر وہاں سے سیدھا گھر گیا تھا۔۔۔

"مننان کبھی کبھی مجھے کنفیوز کردیتا ہے۔۔ وہ کون ہے۔۔؟ کبھی اتنا ظالم تو کبھی اتنا نرم۔۔؟؟"

"مننان سر  میں اپنی ماں کی اچھائی ہے ۔۔مگر نجیب آفندی کا خون ہیں۔۔ اندر اس شخص کی حالت دیکھی آپ نے۔۔؟؟ جس دن انکا یہ روپ انکی والدہ کے سامنے آگیا تو۔۔"

"اللہ نہ کرے کوئی ایسا دن نسواء آنٹی کے سامنے آئے۔۔۔ وہ ۔۔ وہ مر جائیں گی۔۔

مننان کی تربیت میں انہوں نے اپنا آپ بھلا دیا۔۔۔ لے دے کر انکے پاس یہ دونوں ہی تو ہیں۔۔۔"

۔

"میں آخری سانس تک آپ دونوں کی حفاظت کروں گا ماں۔۔ حورب۔۔"

مننان گھر میں جیسے ہی داخل ہوا تھا سامنے وال پر ان دونوں کی تصویر دیکھ  کر اسکے چہرے پہ بےساختہ مسکان چھا گئی تھی

"وقت آگیا ہے ایک اور سرپرائز دوں آپ کو مسٹر نجیب آفندی۔۔۔"

مننان نے فون نکالا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سوو درد ہیں۔۔۔ سو راحتیں۔۔۔

سب ملا دل نشین۔۔۔ ایک تو ہی نہیں۔۔۔"

۔

"مس منیشہ۔۔۔ مننان سر آپ کو بلا رہے ہیں۔۔"

منیشہ جلدی سے فائل رکھے مننان کے کیبن کی طرف بھاگی تھی

"یہ رپورٹ ریڈی کی ہے۔۔؟؟"

منیشہ جیسے ہی کیبن میں داخل ہوئی مننان نے فائل اسکی طرف پھینکی تھی۔۔

"مننان یار۔۔"

"جسٹ سٹے آؤٹ آف دس۔۔۔مس منیشہ میں  آپ کو کام کرنے کے پیسے دیتا ہوں یہ سب فضولیات کے نہیں۔۔۔کرکیا رہی تھی آپ صبح سے۔۔؟؟"

"وہ سر۔۔۔ دراصل۔۔"

"ڈونٹ سٹیمرنگ۔۔۔جسٹ انفف۔۔۔ دفعہ ہوجائیں میں اور برداشت نہیں کرسکتا آپ کو۔۔۔جسٹ گیٹ آؤٹ۔۔۔"

مننان نے کیبن کا دروازہ کھولا تھا اور منیشہ کو اونچی آواز میں نکال باہر کیا تھا۔۔۔ اور وہ بھی سر جھکائے وہاں سے اپنے ڈیسک کی طرف گئی تھی اپنا موبائل اور پرس اٹھائے وہ آفس سے روتے ہوئے چلی گئی تھی۔۔۔

۔

وہ جیسے ہی ایگزیٹ ہوئی تھی نسواء کی گاڑی رکی تھی۔۔۔

"مس منیشہ کو فالو کریں۔۔۔"

نسواءنے ڈرائیور کو کہا تھا وہ کچھ ضروری بات کرنے آئی تھی پر منیشہ کو اس طرح روتے ہوئے دیکھ نسواء کو اس کی فکر لگ گئی تھی

"اس لڑکے کا میں کیا کروں۔۔؟؟؟"

اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیا تھا اس نے اسے معلوم تھا مننان کا غصہ اس بچی پر۔۔۔

اسے منیشہ کی مننان کو لیکر ایٹریکشن کا بھی علم تھا اور اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا منیشہ کو اپنانے میں۔۔۔

مگر مننان کی نفرت اس بچی کے لیے نسواء کو فکر مند کررہی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

"میری لاڈلی بیٹی۔۔۔منیشہ۔۔۔"

"بابا آئی لوو یو۔۔۔"

"آئی لووو یو ٹو بچہ۔۔۔"

۔

"کیسے کہیں ہم۔۔ اپنی داستان۔۔

بہتے ہیں آنسو۔۔۔ چپ ہے زبان۔۔۔"

۔

وہ زمین پہ بیٹھ گئی تھی بچپن کی یادوں کو پاس لیکر۔۔آج مننان کی باتوں نے اسے پر ایک بار پھر یہ حقیقت آشنا کردی تھی کہ وہ اکیلی ہے بلکل اکیلی۔۔۔

۔

"کوئی ٹوٹا تارا مجھے غم دے گیا۔۔۔ اپنوں نے جو زخم دیا ہے۔۔

مولا کوئی سنتا نہیں میری دہائی۔۔۔چبھنے لگی ہے مجھے یہ تنہائی۔۔۔"

۔

"ماما ہم کہاں جارہے ہیں۔۔؟؟"

"ہم یہاں سے بہت دور جارہے ہیں بیٹا۔۔۔"

"میں اپنی بیٹی تمہارے ساتھ جانے نہیں دوں گا فضا۔۔۔"

"تم ہوتے کون مجھے روکنے والے۔۔؟؟ طلاق دے چکے ہو مجھے۔۔۔ سب ختم کردیا تم نےمعاذ۔۔۔"

"میں غصے میں تھا۔۔۔میں سب۔۔"

"ایک اور لفظ نہیں۔۔۔"

"منیشہ بیٹا۔۔۔"

منیشہ نے جلدی سے چہرہ صاف کیا تھا اور وہ سب تصویریں جلدی سے بیڈ کے نیچے پھینک دی تھی۔۔۔ اسکے کمرے کا دروازہ اچانک سے کھلا تھا

"نسواء میم آپ۔۔۔؟"

منیشہ بہت حیران ہوئی تھی نسواء کو دروازے پر دیکھ کر۔۔۔

"تمہاری آنٹی نے کہا تم روم میں ہو۔۔۔سو میں آگئی۔۔ آفس سے ایسے کیوں آگئی تھی بیٹا۔۔؟؟"

نسواء نے منیشہ کے چہرے پر جیسے ہی ہاتھ رکھا تھا اس کو محسوس ہوئی تھی منیشہ کے چہرے پہ وہ نمی نسواء نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا تو وہ حیران ہوئی تھی منیشہ کی سرخ آنکھیں دیکھ کر۔۔۔

"مننان نے کچھ کہا ہے۔۔؟؟ چلو میرے ساتھ میں ابھی اسے ڈانٹوں گی اسکی کلاس لوں گی۔۔"

"نووو۔۔۔ پلیز میم۔۔۔"

"آنٹی سے میم۔۔؟؟ ایک دن میں بیگانہ کردو گی۔۔؟؟"

"بالکل نہیں۔۔۔ ایک آپ ہی میں تو مجھے اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔۔۔"

نسواء کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھا دیا تھا اس نے۔۔

"آپ یہاں بیٹھیں میں کچھ لیکر آتی ہوں پلیز۔۔۔"

منیشہ جیسے ہی روم سے باہر گئی تھی نسواء کے نمبر پر کال آنے لگی تھی 

"وعدہ خلافی کردی نہ نسواء۔۔؟؟ میں بہت خفا ہوں آپ سے۔۔۔"

حزیفہ کی شکایت سن کر وہ بیڈ سے اٹھی تھی ہنستے ہوئے۔۔

"نہیں کی وعدہ خلافی۔۔۔ ابھی شادی کو کچھ دن ہیں مسٹر حزیفہ میں ضرور اٹینڈ کروں گی۔۔

اس لیے جلدی میں واپس آئی تاکہ یہاں کچھ پینڈنگ ورک مکمل کرکے واپس جاؤں۔۔

انشاللہ پاکستان واپس آؤں گی تو کچھ دن رکوں گی۔۔"

"پکا  وعدہ۔۔؟؟"

"جی سر پکا وعدہ۔۔۔"

وہ بات کرتے کرتے واپس بیڈ کی طرف آئی تھی جب اسکے پاؤں سے وہ فوٹو البم ٹکرایا تھا اور نسواء نے جب جھک کر اسے اٹھایا اور ٹیبل پر رکھنے لگی تب اسکی نظر اس پہلی تصویر پہ پڑی تھی جو فضا اور معاذ کی شادی کی تھی۔۔

"فضا۔۔۔"

نسواء نے آہستہ آہستہ وہ تصویریں دیکھنا شروع کی۔۔۔ اس کپل کے ساتھ اس بچی کی تصویریں دیکھ کر وہ اٹھ گئی تھی۔۔ ایک نظر اس نے اس پورے کمرے کو دیکھا اور پھر اسکی دروازے پہ کھڑی شاک منیشہ پر پڑی۔۔۔

"آپ۔۔۔آپ کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے تھی۔۔"

منیشہ نے جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔۔۔

"ایم سوری۔۔۔"

نسواء اسکے آگے کچھ بول نہ پائی اسے اب یہاں سے جانے کی جلدی تھی اسے جیسے آنے کی۔۔۔

"آپ۔۔۔ بھی چھوڑ کر جارہی ہیں۔۔؟؟ باقی سب کی طرح۔۔؟؟"

منیشہ کی درد بھری آواز نے اسکے قدم روک دئیے تھے وہ جیسے ہی پلٹی تھی منیشہ نے بھی منہ پھیر لیا تھا۔۔۔

"آپ بھی جا سکتی ہیں۔۔ آپ کا نفرت کرنا جائز ہے سو آپ کیجئے۔۔۔

پر بےرخی اتنی مت رکھئیے گا کہ میرا دل مکمل ٹوٹ جائے۔۔ میرے دل میں آپ کا مقام میری سگی ماں سے بھی زیادہ ہے۔۔۔"

"منیشہ۔۔۔"

نسواء کچھ قدم کا فاصلہ تہہ کئیے آگے بڑھی تھی اور منیشہ کو اپنے گلے سے لگا لیا تھا اس نے۔۔۔

"بیٹا۔۔۔ مجھے مت روکو میں کسی کا بھی سامنا نہیں کرسکتی۔۔"

"یہاں کوئی نہیں ہے جس کا سامنا آپ کریں گی۔۔ میرے ماں باپ نے مجھے بہت پہلے ایک یتیم خانے میں پھینک دیا تھا۔۔۔ آپ کو کسی کا سامنا کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔۔"

"اووہ۔۔۔۔"

وہ ہکی بکی رہ گئی تھی۔۔ منیشہ نے نسواء کو بیڈ پر بٹھایا تھا۔۔۔

"مجھے اتنا معلوم ہے آپ کی بربادی میں میری ماں کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا ان کا۔۔۔"

نسواء بہت کچھ کہنا چاہتی تھی بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی پر منیشہ کی معافی نے اسکے ہونکوں نے نسواء کی زبان بند کردی تھی۔۔ اس بچی کو اپنے سینے سے لگائے وہ کتنی دیر ویسے ہی کھڑی اسے چپ کرواتی رہ گئی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

کچھ ہفتے بعد۔۔۔۔۔"

۔

۔

"سر یہ پروجیکٹ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔۔۔"

"اور تم مجھے اب بتا رہے ہو اس پارٹی میں لانے کے بعد میری انسلٹ کررہے ہو۔۔۔"

نجیب نے اپنے پی اے کو کالر سے پکڑ کر اپنی اوڑھ کیا تھا

"سوری سر۔۔۔ مجھے بھی ابھی معلوم ہوا۔۔۔ "

"اسے خرید لو۔۔ اسکی کمپنی کو خرید لو۔۔ تم جانتے ہو یہ پروجیکٹ میں نے ماہیر کو دینا تھا

اسے کمپنی کا 'سی ای او' بنانے کے بعد۔۔۔"

نجیب کی بات پر اسکے دونوں چچا اور اور چچا کے دونوں بیٹے شاک ہوئے تھے اور غصے میں بھی آئے تھے۔۔

۔

"سر وہ بکنے والا نہیں ہے۔۔۔ یہ۔۔۔"

"مننان آمین احمد آچکے ہیں سر۔۔۔"پیچھے سے ایک آواز گونجی تھی 

"مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔ وہ سچ میں یہاں پاکستان میں آئے ہماری پارٹی میں۔۔۔

آؤ نجیب تمہیں اس سے ملواؤں جس نے اس پروجیکٹ کو ہم سب سے چھین لیا۔۔۔"

"ہاہاہاہاہ۔۔۔ "

باقی سب بزنس مین ہنسے تھے سوائے نجیب کے۔۔۔

اس نے ایک نظر پی اے کو دیکھا تھا اس کا نام سن کر۔۔۔

"کیا یہ وہی ہے جس نے ماہیر پر ہاتھ۔۔؟؟"

"جی سر یہ وہی ہے۔۔۔"

۔

نجیب اسے پیچھے پش کرکے باہر چلا گیا تھا۔۔۔جہاں تین گاڑیاں بیک وقت رکی تھی

"یہی ماڈل میں اپنے بیٹے کو گفٹ کرنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر لمیٹڈ ایڈیشن تھا۔۔۔نہیں ملا۔۔۔"

"یہ گاڑی خود ڈیزائن کی ہے انہوں نے۔۔ مینوفیکچر کنگ بولا جاتا ہے انہیں اس فیلڈ کا۔۔"

وہ لوگوں کی باتیں سن رہا تھا اس کا خون اور خول رہا تھا۔۔۔

نجیب کا بس نہیں چل رہا تھا وہ سینٹر والی گاڑی سے اس شخص کو نکال کر اتنا مارے کے اپنے بیٹے کے زخموں کا سبق سیکھا سکے۔۔

فرسٹ گاڑی سے گارڈ نکل کر وہیں کھڑے ہوگئے تھے اور لاسٹ گاڑی کے گارڈ نے دروازہ کھول سینٹر والی گاڑی کا دروازہ اوپن کیا تھا

"سب کلئیر ہے سر۔۔۔"

وہ جیسے ہی باہر آیا تھا اس نے سب سے پہلے اپنے کوٹ کے بٹن بند کئیے تھے اور ایک نظر اپنے گارڈز کو دیکھا تھا اور ایک اشارے میں وہ سب واپس کچھ قدم کے فاصلے پر چلے گئے تھے وہ تینوں گاڑیاں بھی آگے پارکنگ پر چلی گئی تھی

"مسٹر مننان موسٹ ویلکم سر۔۔۔ مجھے امید نہیں تھی آپ ہماری دعوت پر یہاں آئیں گے۔۔"

"مجھے سامنے والے کو سرپرائز دینا زیادہ اچھا لگتا ہے مسٹر چوہدری۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔ وہ تو کردیا آپ نے کیوں گائیز۔۔۔؟؟ میٹ مائی بزنس پارٹنر نجیب آفندی۔۔"

انہوں نے سب سے پہلے نجیب کو عزت دی تھی اور کندھے پر ہاتھ رکھے مننان سے انٹروڈیوس کروایا تھا۔۔۔

"مسٹر مننان۔۔۔"

"میں مجھ سے ہار جانے والے لوگوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔۔۔ مسٹر  آفندی۔۔۔"

اپنے ہاتھ اس نے اپنی پینٹ پاکیٹ میں ڈال لئیے تھے

"ہاہاہاہاہا۔۔۔ ہم سب کو ہرٹ کردیا یار۔۔۔"

چوہدری صاحب نے مذاق میں بات ٹال دی تھی پر نجیب آگے بڑھا تھا اور مننان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھی دونوں باپ بیٹے ایک ہی قد کاٹھ کے  برابر تھے

"ایک ڈیل جیت کر تم جن پروں کے ساتھ جن ہواؤں میں اڑنا سیکھ رہے میں سالوں سے ان ہواؤں کا رخ بدلتا ہوں۔۔۔ روز ہزاروں ڈیلز جتتا ہوں ایک تم جیت گئے ہو ہضم کرو۔۔ مجھے پسند نہیں میرے سامنے کوئی مجھ سے زیادہ غرور لئیے کھڑا رہ جائے۔۔؟؟"

"ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔"

مننان بے ساختہ ہنس دیا تھا۔۔۔ اور جس طرح وہ ہنسا تھا وہ ہنسی کسی خطرناک الارم سے کم نہ تھی مننان اب کے ہاتھ جیب سے نکال چکا تھا۔۔۔

"ویل مسٹرنجیب آفندی۔۔۔ اب عادت ڈال لیں۔۔۔ میں آگیا ہوں۔۔ بس گنتے جائیں اور کتنی ہار سے آشنا کرواتا ہوں میں آپ جیسے ہواؤں کے رخ بدلنے والے بزنس ٹائیکون کو۔۔۔ میں نے بتایا نہ مجھے سامنے والے کو سرپرائز کرنا اچھے سے آتا۔۔۔

چلیں مسٹر چوہدری۔۔"

نجیب کے کندھے کو مننان کا کندھے ٹچ کیا تھا جب وہ جان بوجھ کر ٹکرا کر اندر چلا گیا تھا۔۔۔۔

"ڈیٹ واز سوووو انٹینس نجیب۔۔۔ کیا کوئی پرانا دشمن ہے۔۔؟؟"

انکے دوست نے پوچھا تو نجیب نے واپس مننان کی بیک کو دیکھا تھا جو ویسے ہی سب کو مل رہا تھا جیسے وہ ان سب کا مالک اور باقی سب غلام ہوں۔۔۔"سمجھاؤ مجھے۔۔ تمہارے پیرنٹس میرے اور تمہارے رشتے کی بات کرنے آئے تھے ہانیہ۔۔پھر کیسے میرے کزن کو پسند کرلیا۔۔؟؟"

"شہاب۔۔پلیز ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔۔۔"

"نوو۔۔۔ یو ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔۔۔ ابھی چلو میرے ساتھ اور نیچے سب کو بتاؤ تم مجھ سے پیار کرتی ہو۔۔۔ چلو۔۔۔"

شہاب کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر ہانیہ نے سر جھکا لیا تھا

"ایم سوری شہاب۔۔ میں۔۔۔"

"سین کیا ہے۔۔؟؟ گھبرا کیوں رہی ہو۔۔؟؟ محبت کرتی ہو تم مجھ سے۔۔"

"شہاب۔۔۔ تمہاری فیملی ہمارے گھر تمہارا نہیں تمہارے کزن کا رشتہ لیکر آئی تھی۔۔۔ سب کو لگتا ہے تم لائف میں سیریس نہیں ہو۔۔۔ تم بزنس میں سیریس نہیں ہو۔۔۔ 

سب کو لگتا ہے۔۔۔"

"شش۔۔۔۔ سب گئے بھاڑ میں۔۔۔"

ہانیہ کی گردن پر ہاتھ رکھے شہاب نے اپنےقریب کیا تھا

"تمہیں کیا لگتا ہے۔۔؟؟ میں امیچور ہوں تمہیں خوش نہیں رکھ سکتا۔۔؟؟ تمہارے خواب پورے نہیں کرسکتا۔۔۔؟؟"

"شہاب۔۔۔ پلیز۔۔۔ میں۔۔۔"

"تمہارا بوائے فرینڈ بننے کے قابل تھا مگر ہزبنڈ نہیں۔۔؟؟"

شہاب چلایا تھا۔۔۔اسے ہانیہ کی خاموشی نے چپ کروا دیا تھا

"تھینکس ۔۔۔پچھلے تین سال سے مجھے محبتوں کے خواب دیکھانے اور پھر توڑنے کے لیے۔۔

تھینکس مجھے یہ بتانے کے لیے کہ تم نے مجھے ٹھکرا کر میرے کامیاب کزن کو ہاں کردی۔۔

تھینکس یہ بتانے کے لیے کہ عورت ذات پر اب کبھی یقین نہیں کرنا۔۔۔"

وہ اپنے کمرے سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔

"ارے شہاب بیٹا۔۔۔ تمہاری بیسٹ فرینڈ کے ساتھ ہم نے احمر کی بات پکی کردی ہے۔۔"

۔

"سیریسلی ڈیڈ۔۔۔؟؟"

وہ اپنے ہی والدین کو دیکھتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔

"سر آپ کو میری آواز سنائی دے رہی ہے۔۔؟؟"

"آئی تھنک پئشنٹ کو ابھی ٹھیک سے ہوش نہیں آیا ڈاکٹر حورب۔۔۔"

"آپ جائیں میں دیکھ لیتی ہوں۔۔۔"

حورب نے چارٹ کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے پئشنٹ کے سر پر ہاتھ رکھا تھا

"پان۔۔۔پانی۔۔۔"

"یہ لیجئے۔۔۔ لیکن آپ ایک ساتھ نہیں پی سکتے تھوڑا تھوڑا کرکے پینا ہوگا۔۔۔"

پئشنٹ کے سر پر ہاتھ رکھے دوسرے ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑے حورب نے جیسے ہی آگے کیا تھا اس شخص نے حورب کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"تھینک یو۔۔۔"

"اٹس اوکے سر آپ کا نام کیا ہے۔۔؟؟ فیملی نمبر بتائیے میں انہیں انفارم کردوں۔۔؟؟"

حورب نے ماتھے سے بالوں کو پیچھے کرکے بندھی ہوئی پٹی کو ایگزیمن کرتے ہوئے پوچھا تھا

"شہاب۔۔۔"

شہاب کو واپس لٹا دیا تھا۔۔۔۔ وہ ایک پل کو کھو گیا تھا حورب کی خوبصورتی میں آنکھوں کے سبز رنگ میں۔۔۔

"سر آپ کی فیملی۔۔؟؟"

"آر یو شئور میں زندہ ہوں اور ٹھیک ہوں۔۔؟؟ آپ کو دیکھ کر لگا جیسے مر چکا ہوں اور میرے سامنے کوئی حور کھڑی ہو۔۔۔"

اس نے حورب کے سوال کو اگنور کرکے پوچھا تھا جس پر حورب کی آنکھیں بڑی ہوئی تھی۔۔۔

اس نے لاکھ کوشش کی تھی بلش نہ کرنے کی۔۔۔ اور وہ کامیاب بھی ہوئی تھی جب اس نے شہاب کی طرف سٹریٹ فیس سع دیکھا۔۔

"ایکسکئیوز مئ۔۔؟؟"

"میں کوئی چیپ ساشخص لگ رہا ہوں گانئی۔۔؟؟ کچھ گھنٹے پہلے بریک اپ ہوا اور میں اپنی جان بچانے والی ڈاکٹر کے ساتھ فلرٹ کررہا۔۔"

شہاب نے کہتے ہوئے معذرت کی تھی اور ساتھ ہی دوسرے ڈاکٹر آگئے تھے۔۔۔

۔

"تھینک یو ڈاکٹر حورب میری جگہ فل اپ کرنے کے لیے۔۔۔"

"اٹس اوکے ڈاکٹر راٹھور۔۔ میں سنیئر ڈاکٹرز سے کچھ ضروری ڈسکشن کرنے آئی تھی مجھے اچھا لگا کسی کام آکر۔۔۔ٹیک کئیر مسٹر شہاب۔۔۔"

اور وہ ایک نظر شہاب کو دیکھے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

"ڈاکٹر حورب۔۔۔"

شہاب نے سرگوشی کی تھی۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

"مسٹر مننان۔۔۔"

"میں مجھ سے ہار جانے والے لوگوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔۔۔ مسٹر  آفندی۔۔۔"

اپنے ہاتھ اس نے اپنی پینٹ پاکیٹ میں ڈال لئیے تھے

"ہاہاہاہاہا۔۔۔ ہم سب کو ہرٹ کردیا یار۔۔۔"

چوہدری صاحب نے مذاق میں بات ٹال دی تھی پر نجیب آگے بڑھا تھا اور مننان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھی دونوں باپ بیٹے ایک ہی قد کاٹھ کے  برابر تھے

"ایک ڈیل جیت کر تم جن پروں کے ساتھ جن ہواؤں میں اڑنا سیکھ رہے میں سالوں سے ان ہواؤں کا رخ بدلتا ہوں۔۔۔ روز ہزاروں ڈیلز جتتا ہوں ایک تم جیت گئے ہو ہضم کرو۔۔ مجھے پسند نہیں میرے سامنے کوئی مجھ سے زیادہ غرور لئیے کھڑا رہ جائے۔۔؟؟"

"ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔"

مننان بے ساختہ ہنس دیا تھا۔۔۔ اور جس طرح وہ ہنسا تھا وہ ہنسی کسی خطرناک الارم سے کم نہ تھی مننان اب کے ہاتھ جیب سے نکال چکا تھا۔۔۔

"ویل مسٹرنجیب آفندی۔۔۔ اب عادت ڈال لیں۔۔۔ میں آگیا ہوں۔۔ بس گنتے جائیں اور کتنی ہار سے آشنا کرواتا ہوں میں آپ جیسے ہواؤں کے رخ بدلنے والے بزنس ٹائیکون کو۔۔۔ میں نے بتایا نہ مجھے سامنے والے کو سرپرائز کرنا اچھے سے آتا۔۔۔

چلیں مسٹر چوہدری۔۔"

۔

نجیب کے کندھے کو مننان کا کندھے ٹچ کیا تھا جب وہ جان بوجھ کر ٹکرا کر اندر چلا گیا تھا۔۔۔۔

۔

"ڈیٹ واز سوووو انٹینس نجیب۔۔۔ کیا کوئی پرانا دشمن ہے۔۔؟؟"

انکے دوست نے پوچھا تو نجیب نے واپس مننان کی بیک کو دیکھا تھا جو ویسے ہی سب کو مل رہا تھا جیسے وہ ان سب کا مالک اور باقی سب غلام ہوں۔۔۔

۔

"دشمن۔۔؟؟ نجیب آفندی دشمنوں کے انتخاب میں اعلی درجہ رکھتا ہے۔۔ یہ نیو کمر اس قابل کہاں۔۔؟؟ بچہ ابھی سیکھ رہا ہے۔۔۔"

نجیب باہر جانے کے بجائے اندر گیدرنگ میں چلا گیا تھا۔۔۔

نوڈاؤٹ اسے بھی اتنی ہی اٹینشن مل رہی تھی جتنی کہ مننان کو ہاتھوں میں ڈرنک کا گلاس لئیے وہ اسکے سامنے بیٹھ گیا تھا

"اسی خوشی میں ایک ایک جام ہوجائے۔۔۔"

"میں پیتا نہیں ہوں۔۔۔ "

"اوووہ۔۔۔۔"

ساتھ بیٹھے شخص نے جیسے ہی نجیب کی طرف دیکھا تھا نجیب نے اپنے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو ایک جھٹکے میں پی لیا تھا۔۔

"ہاہاہاہا میں نے کہا تھا بچہ سیکھ رہا ہے۔۔پانی کا گلاس چلے گا بیٹا۔۔؟؟"

نجیب نے طنزیہ لہجے میں جیسے ہی کہا تھا مننان نے ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی تھی۔۔

"اگر ڈرنک کرنے سے میں منجھا ہوا کھلاڑی ثابت ہونے لگا تو میرے اتنا دماغ اور محنت کا کیا فائدہ۔۔؟؟ میں بھی عیاش لوگوں کی طرح روز ایسی محفل میں ایک بوتل ہاتھ میں پکڑے یہ ظاہر کرنا شروع ہوجاؤ کہ میں سیکھ چکا ہوں۔۔۔؟؟"

مننان نے پانی کا گلاس اٹھا کر پینا شروع کیا تھا اسکی نظریں صرف نجیب آفندی پر تھی اور جب اس نے وہ گلاس ٹیبل پر رکھا اسکی گرفت میں وہ گلاس چکنا چور ہوگیا تھا

"دوسری بات دوبارہ مجھے بیٹا مت کہیے گا۔۔۔ ود ڈیو رسپیکٹ۔۔۔ اگر  پھر مجھے اس بیٹا  لفظ سے مخاطب کیا تو میں رسپیکٹ نہیں رکھوں گا۔۔"

۔

"مننان ب۔۔نجیب کو شاید آپ نہیں جانتے یہ فیمس بزنس مین ہیں۔۔ چوہدری صاحب اپنے بزنس پارٹنر کو زرا بات کرنے کی تمیز سیکھا دیں۔۔ چلو نجیب۔۔۔"

"وہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھانے میں لگ گئے تھے مگر مننان اپنی سیٹ سے ہلا تک نہیں وہ پلکیں نہیں جھپکا تھا جس طرح نجیب آفندی۔۔۔

"نجیب کم لیٹس گو۔۔۔"

"ارے تم لوگوں کو کیا ہوا یار میں ایکسکئیوز کررہا ہوں نجیب سے۔۔۔"

مگر چوہدری صاحب کی بات کو درگزر کرکے نجیب صاحب بھی اٹھ چکے تھے کوٹ کے بٹن بند کرکے جانے سےپہلے انہوں نے ایک نظر مننان کو دیکھا تھا اور پھر مننان کے زخمی ہاتھ کو جس پر سے خون کے قطرے شیشے کے میز پر گررہے تھے۔۔۔

مننان کی اتنی بدتمیزی کے بعد بھی نجیب آفندی نے ایک نظر مسکرا کر دیکھا تھا جیسے چیلنج کررہے ہوں اس کو۔۔۔

"مزہ آئے گا کھیلنے میں۔۔۔"

انکی بات مننان کو صاف سنائی دی تھی۔۔۔

۔

وہ وہاں سے جیسے ہی گئے تھے پارکنگ پر اپنے ہی دوست کا ہاتھ جھٹک دیا تھا انہوں نے۔۔۔

۔

"میں چلا جاؤں گا ۔۔۔"

"چل یار میں گھر چھوڑ دوں گا۔۔۔ تو نے زیادہ پی لی ہے۔۔۔"

"شٹ اپ۔۔۔ ہوش و حواس میں ہوں میں۔۔۔"

وہ لڑکھڑائے ضرور تھے مگر ڈگمگائے نہ تھے۔۔۔

گاڑی کی ریموٹ سے ڈور اوپن کرکے وہ بیٹھ گئے تھے جاتے جاتے ان لائن وائز کھڑی تین گاڑیوں پہ ان کی نظر اس منفرد گاڑی پر پڑی تھی جس کا ماڈل آج سے پہلے انہوں نے دیکھا نہ تھا۔۔ ایک پل کو انکے دل میں اس مغرور اور بدتمیز لڑکے لیے ریسپیکٹ ضرور آئی تھی۔۔۔

انہوں نے گاڑی گھما دی تھی پر اپنے گھر جانے کے بجائے وہ اسی روڈ کی طرف چل نکلے تھے جہاں وہ جا رہے تھے پچھلے ایک ہفتے سے۔۔۔ جہاں نسواء اور حورب رہتی تھی۔۔۔

۔

"نسواء۔۔۔"

گاڑی ایک کارنر پہ کھڑی کئیے بند کردی تھی اور آنکھیں بند کرکے وہ سو گئے تھے ایک سکون والی نیند اس گماں میں کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹی کے قریب ہیں۔۔۔

۔

کچھ دیر میں مننان کی گاڑی پاس سے گزری تھی۔۔ نہ وہ دیکھ پائے تھے اور نہ ہی مننان نے غور کیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ ابھی تک جاگ رہی ہیں ماں۔۔؟؟"

مننان نے زخمی ہاتھ کو چھپا لیا تھا جلدی سے۔۔وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تھا ہر طرف اندھیرا تھا جسے دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا تھا پر ایک دم سے نسواء اسکے سامنے کھڑی ہوگئی جب اس نے پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھا۔۔

"جب جوان بیٹا لیٹ نائٹ گھر رہے تو گھر میں ماں کو سکون کی نیند کیسے آسکتی۔۔؟؟"

مننان کی گال پر ہاتھ رکھے نسواء نے بہت پیار سے پوچھا تھا۔۔

"وہ ضروری میٹنگ تھی ماں۔۔۔ ایکچولئ میں نے ایک ڈیل سائن کی اور ان لوگوں نے انسسٹ کیا تھا کہ میں سیلیبریشن میں جوائن کروں انہیں۔۔۔"

"اٹس اوکے بیٹا کوشش کرو کی دس بجے سے پہلے گھر آجایا کرو اب جلدی سے جاؤ فریش ہوکر آجاؤ میں کھانا گرم کرتی ہوں۔۔۔"

مننان نے آگے بڑھ کر اپنی ماں کے گلے لگ گیا تھا

"آپ آرام کریں ماں میں کسی سرونٹ کو کہہ دوں گا۔۔پلیز۔۔۔"

"اچھا میں بھوکے پیٹ سو جاؤں۔۔؟؟ دس از نوٹ فئیر مسٹر مننان۔۔۔"

نسواء نے دونوں بازو پیچھے کرلئیے تھے چہرے پر خفا ہونے والے تاثرات نے مننان کو بےساختہ ہنسا دیا تھا۔۔ پر ایک د م وہ سیریس بھی ہوگیا تھا۔۔

"آپ یہیں بیٹھیں پلیز۔۔۔ اس کرسی سے اٹھیں گی نہیں میں ابھی آیا۔۔"

ڈائننگ چئیر پہ بٹھاتے ہی نسواء کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا اور جلدی سے روم میں چلا گیا تھا۔۔۔

نسواء مننان کو جاتے دیکھتی رہ گئی تھی۔۔۔ 

"بچے کتنے بڑے ہوگئے دیکھتے ہی دیکھتے۔۔۔"

۔

ٹیبل پر ہاتھ رکھے نسواء کے لبوں سے ایک ہی بات نکل رہی تھی گہری نیند میں جانے سے پہلے۔۔۔

"نجیب کبھی تو مننان کی یاد آتی ہوگی نہ۔۔؟؟ میری تو کمی آپ کی دوسری بیوی نے ختم کردی مگر مننان کی کمی۔۔۔؟؟ 

اووہ میں تو بھول گئی تھی آپ کے بیٹے نے وہ بھی پوری کردی ہوگی۔۔۔"

۔

آنسو صاف کئیے وہ آنکھیں بند کئیے کب سوگئی اسے معلوم نہ ہوا آنکھ تب کھلی جب مننان نے سب کھانا گرم کرکے ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔۔

"چلیں ماں جلدی سے اٹھ جائیں سب ٹھنڈا ہواجائے گا میں بس چائے لے آؤں۔۔"

"بنا بھی لی۔۔؟؟ "نسواء نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔

"جی ابھی ابھی بس ابھی لیکر آیا۔۔۔"

مننان واپس کچن میں چلا گیا تھا جلدی سے چائے دو مگ میں ڈالے ٹرے میں رکھے وہ واپس باہر آیا اور نسواء کو ہیڈ آف چئیر پر بٹھا کر خود ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

"آج بڑا پیار آرہا ہے ماں پر۔۔؟؟"

"ماں۔۔۔کھانا شروع کریں نہ۔۔۔چلیں میں اپنے ہاتھ سے کھلاتا ہوں۔۔"

مننان نے نسواء کے ہاتھ پر بوسہ دینے کے بعد پہلا نوالہ نسواء کی طرف کیا تھا۔۔ جسے کھاتے کھاتے اسکی آنکھیں بھر گئیں تھی۔۔

"شش۔۔۔ اب رولائیں گی کیا بچے کو۔۔؟؟"

"ہاہاہاہا بچہ۔۔؟؟ "

وہ دونوں ہنس دئیے تھے۔۔۔ کھانا کھلاتے ہوئے مننان نے اپنی روٹین بتانا شروع کردی تھی اور باتوں باتوں میں وہ نجیب آفندی کی بات کرکے اپنی ماں کے ری ایکشن کا منتظر ہوگیا تھا

"اچھا پورا دن پھر کیا مصروفیات رہی میرے ورک ہولک بیٹے کی۔۔؟؟"

"کچھ خاص نہیں۔۔ایک بہت مغرور شخص سے ملاقات ہوئی آنکھوں میں ایسا غصہ تھا کہ ابھی کھا جائیں مجھے۔۔۔چیلنج کررہے تھے"

"وٹ۔۔؟؟ ہاہاہاہاہا میرے بیٹے سے زیادہ غصہ اتنی ہمت مننان صاحب کے سامنے کھڑے ہوکر چیلنج کرنے کی۔۔؟؟ کون گستاخ ہیں وہ۔۔؟؟"

نسواء نے اب کی بار نوالہ توڑ کر مننان کی طرف کیا اور ہنستے ہوئے پوچھا تھا

"تھے کوئی 'نجیب آفندی' انکو جو ڈیل ملنے والی تھی وہ میری کمپنی کو مل گئی سو۔۔۔"

روٹی چباتے ہوئے اس نے بغور جائزہ لیا تھا اپنی ماں کے ری ایکشن دیکھ کر۔۔۔

پہلے نسواء کے چہرے کی ہنسی ختم ہوئی پھر چہرہ آفسردہ اور پھر سخت ہوگیا تھا اس ایک نام پر۔۔۔

"ماں اور کھلائیں نہ۔۔۔؟؟"

"مننان۔۔۔ بیٹا۔۔۔ دور رہو۔۔۔ میں حورب کے لیے واپس آئی ہوں اسکے پروفیشن پر اثر نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ دور رہو ان لوگوں سے جن کا کوئی تعلق نہیں۔۔۔"

نسواء وہاں سے تیزی میں چلی گئی تھی اپنے روم کی طرف۔۔۔

۔

"ماں دور۔۔۔؟؟ اتنے سالوں کے بعد تو سامنے آیا ہے آپ کا ہرجائی۔۔۔"

۔

پانی کا گلاس پیتے ہوئے مننان نے فون اٹھایا اور لیزا کی فون کال پھر سے اگنور کردی تھی اس نے۔۔۔

۔

"میں کس قدر بےبس کردوں گا مسٹر نجیب آپ کا غرور آپ کو گھمنڈ خاک میں مل جائے گا۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"گڈ مارننگ ہنی۔۔۔"

مننان کے کیبن ڈور کو اوپن کئیے لیزا اندر چلی گئی تھی۔۔

"لیزا۔۔؟؟ جب میں نے منع کردیا تھا تو تمہیں ایسے بن بتائے آنے کی ضرورت کیا تھی۔۔؟؟"

مننان پہلے حیران ہوا تھا اور پھر غصے سے پوچھا اسی وقت لیزا نے وہ فاصلہ بھی ختم کردیا تھا 

"سیریسلی۔۔؟؟ پاکستان میری وجہ سے میرے آئے ہو تم مننان میں وہاں مامو کے ساتھ انتظار کرتی رہی اور تم ایسے بےرخی دکھا رہے ہو۔۔؟؟"

لیزا نے مننان کے کالر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا

"لیزا میں بیزی۔۔۔"

"لئیو اٹ۔۔۔"

وہ ایگریسیولی مننان کے لبوں پر اپنے لب رکھ چکی تھی اور عین اسی وقت دروازہ کھل گیا تھا

"سر وہ شہیر سر نے یہ فائل۔۔۔"

منیشہ کے ہاتھ سے فائل گر گئی تھی۔۔۔پلکیں ایسے جیسے بھاری ہورہی تھی۔۔

"ایم۔۔۔ایم سو۔۔سوری۔۔"

"یہ تمہاری سیکریٹری کو زرا سی تمیز بھی ہے۔۔؟ ناک کئیے بغیر اندر داخل ہوگئی۔۔"

"وہ۔۔ میم۔۔۔"

گیٹ آؤٹ۔۔۔"

لیزا کی ویسٹ پر ہاتھ رکھے مننان منیشہ پہ چلایا تھا جو ہاں میں سر ہلائے نیچے جھکی تھی اور جلدی سے فائل اٹھا کر وہاں سے باہر چلی گئی تھی۔۔۔ایک نظر مننان کی آنکھوں میں دیکھے جس نے منہ پھیر لیا تھا

۔

"اکھیاں نے ہنجوؤں دی کیتی برسات سوہنے۔۔

درداں تے لون لایا تیرے غماں نے۔۔۔

پیار پیار کہہ کے لٹیا اے مہرماں۔۔

دل نوں دلاسے دیتے تیرے غماں نے۔۔"

۔

"سارا موڈ خراب کردیا۔۔۔ اب میں یہاں نہیں آؤں گی۔۔ اگر آج موم سے ملاقات نہیں کی تو مجھے بھول جانا۔۔"

وہ جیسے ہی جانے لگی تھی مننان نے پھر سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔

"اتنی دور ساتھ چل کر آئے اتنی جلدی ہاتھ سے کیسے جانے دوں یہ گونڈن چانس۔۔؟؟"

مننان کی آنکھوں میں ایک الگ ہی جنون تھا لیزا اسکی آنکھوں میں زیادہ دیر دیکھ نہیں پائی تھی۔۔

"مننان۔۔۔؟؟"

"مجھے ایڈریس سینڈ کردینا تمہاری موم کو کب ملنے آؤں۔۔۔"

"سچ میں۔۔۔؟؟ آج شاپنگ مال میں ہم گھر کی لیڈیز جارہی ہیں۔۔۔ماموں کے دوست کے بیٹے کی شادی ہے بس اسی تیاریوں میں لگے ہیں سب۔۔۔"

"ہممم۔۔۔ڈن ہوگیا۔۔۔ڈارلنگ میں وقت پر مال پہنچ جاؤں گا۔۔۔"

مننان کے گلے لگ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا اس نے اور پھر مننان نے منیشہ کو آرڈر دیا تھا ان دونوں کے لیے چائے کا جس پر اس نے ملازم کو چائے کے ساتھ کیبن میں بھیج دیا تھا

"مس منیشہ کو کہا تھا میں نے چائے لانے کے لیے۔۔"

"سوری سر وہ شہیر سر کے ساتھ میٹنگ پر جارہی ہیں۔۔"

"شہیر۔۔ کس کی اجازت کے ساتھ۔۔؟؟"

وہ لیزا سے ایکسکئوز کرکے جیسے ہی کیبن سے باہر آیا تھا شہیر منیشہ کو کسی بات پر ہنساتے ہوئے لفٹ تک لے گیا تھا اور وہ مننان کی آنکھوں کے سامنے آفس سے باہر چلے گئے تھے

"ڈیم اٹ۔۔۔"

وال پر ہاتھ مارے مننان نے پیچھے کھڑے سٹاف کو دیکھا تھا 

"کوئی کام نہیں ہے جب دیکھو کام چھوڑے یہاں وہاں ٹائم ضائع کرتے رہتے ہو۔۔؟؟ بیک ٹو ورک ناؤ۔۔۔"

۔

مننان واپس کیبن میں چلا گیا تھا۔۔۔غصہ ابھی بھی ناک پر تھا منیشہ کا شہیر کے ساتھ جانا اسے پسند نہیں آیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نجیب۔۔۔ نجیب۔۔۔"

"ظہیر بھائی۔۔؟؟"

"ظہیر بیٹا۔۔؟؟"

سب ہی ظہیر ہاشمی کو دیکھ کر حیران ہوئے تھے

"ماشاللہ ماشاللہ سب آئے ہوئے اور کسی نے مجھے یاد تک نہیں کیا۔۔؟؟"

ظہیر نے ایک نظر عمارہ کو دیکھا تھا اور سب سے ملنا شروع کردیا تھا۔۔۔

جب وہ آفندی صاحب کے گلے لگا تو اسکے ہاتھ سے وہ فائل اور ڈاکومنٹ نیچے گرگئے تھے

"ایم سو سوری بیٹا۔۔۔"

"اٹس اوکے انکل۔۔۔"

ظہیر نے کاغذات اٹھائے اور سب کے ساتھ بیٹھ گئے تھے۔۔

"اور فضا سب کیسے ہیں۔۔؟؟ بچے بہت بڑے ہوگئے دیکھتے ہی دیکھتے۔۔"

"جی ظہیر بھائی ایسا ہی ہے۔۔۔آپ کیسے ہیں۔۔؟؟

"ہاشمی تم کب آئے۔۔؟؟"

نجیب جیسے ہی اندر داخل ہوئے تھے ان سے آفس بیگ پکڑنے کے لیے عمار ہ آگے آئی پر انہوں نے وہ بیگ  ملازمہ کو پکڑا کر روم میں رکھنے کا کہہ دیا تھا۔۔

نجیب صاحب کا عمارہ کے ساتھ یہ برتاؤ سب کو تشویش میں ڈال رہا تھا

ظہیر ہاشمی نے عمارہ کو ریلیکس رہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔

"بس کچھ باتیں کرنا ضروری تھی نجیب۔۔ مجھے تو راتوں کو نیند بھی نہیں آرہی تھی۔۔۔"

نجیب کے گلے لگنے کے بعد انہوں نے سنسنی پھیلاتے ہوئے بات کہی تو سب ہی خاموش ہوگئے تھے

"ہاہاہاہا۔۔۔ ایسی بھی کیا پریشانی آگئی۔۔؟؟ ظہیر ہاشمی اور پریشان۔۔؟؟"

"اپنی کوئی تکلیف ہوتی تو برداشت ہوجاتی پر نجیب۔۔ یار تیرے لیے دکھی ہوں۔۔"

مطلب۔۔؟؟"

دادی نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا

"یہ فائل دیکھو۔۔۔"

"آہاں۔۔؟؟ کس کی انویسٹی گیشن کروا رہے تھے۔؟؟ اتنی تفصیل۔۔؟؟"

نجیب صاحب مذاق مذاق میں ورق ورق پلٹنے لگے تھے جب انکے سامنے کچھ تصاویر آئی جو کسی جیل کی تھی۔۔

"یہ تو کسی ریکارڈ مجرم کا ڈیٹا ہے۔۔؟؟"

"نام نہیں پوچھو گے کس کا ڈیٹا ہے۔۔؟؟"

"ہاہاہاہا۔۔۔ میرا کیا تعلق یار۔۔۔ دیکھ سب ہی پریشان ہورہے ہیں۔۔۔"

نجیب صاحب فائل واپس ٹیبل پر پھینک چکے تھے۔۔۔

"مننان۔۔۔ مننان آفندی۔۔۔تمہارا بیٹا۔۔۔ جو کوئی بہت اچھا انسان نہیں نکلا۔۔۔

ریکارڈ یافتہ مجرم بن گیا ہے۔۔۔ نسواء اچھی تربیت نہیں کرسکی۔۔۔

آج محسوس ہوتا ہے کہ ہم سہی تھے۔۔۔ تم نے اچھا کیا اس وقت ان لوگوں کو نکال کر جو بدنامی کا باعث بنتے۔۔۔"

۔

وہ فائل اٹھائے واپس نجیب کے ہاتھوں میں تھما گئے تھے۔۔۔اور نجیب آفندی سانس روکے جیسے پتھر بن گیا ہو۔۔

ظہیر اسکا دوست تھا مگر غیر تھا اور کسی غیر کے ہاتھوں اس طرح کی بےعزتی۔۔۔

انہوں نے فائل اٹھا کر پھر سے پڑھنا شروع کی تھی اور گھر والوں کے طنز و طعنے برداشت کررہے تھے

"مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا نسواء کسی قابل تھی ہی نہیں۔۔؟؟ اور وہ حورب جس کی تعریفیں تم کررہے تھے نجیب کیا پتہ حقیقت کیا ہو۔۔؟؟"

ناہید بیگم اپنے بیٹے کے پاس آکر بیٹھی تھی

"نجیب۔۔۔تمہارا ہر فیصلہ سو فیصد اچھا تھا عمارہ سے شادی کرنا اور نسواء کو اسکی جگہ دیکھانے کا۔۔۔"

"کم سے کم ہمیں بتا دیتی اگر تربیت اچھی نہیں کرسکتی تھی تو۔۔؟؟"

آفندی صاحب نے ایک نظر نجیب کو دیکھا تھا

"نجیب مننان کا نام اب تمہارے نام کے ساتھ جڑنا ہماری بدنامی کا باعث بنے گا۔۔۔

سرے سے ختم کردو۔۔۔ ڈائیورس دہ دو اس کو جس نے تمہیں ایک لمحے کی خوشی نہیں دی الٹا تمہاری اولاد کو اس قدر بگاڑ دیا۔۔۔"

ایک نظر فائل پر اس تصویر کو دیکھے وہ چلے گئے تھے۔۔۔

۔

"نجیب تمہارے ڈیڈ ٹھیک کہہ رہے۔۔۔اسے طلاق۔۔۔"

"فار گوڈ سیک ماں۔۔۔ نسواء کو ۔۔۔آئیند یہ لفظ منہ سے مت نکالئیے گا۔۔"

"نجیب نے بالوں میں ہاتھ پھیر ایک نظر سب کو دیکھا تھا

"نجیب وہ اور اسکا بیٹا اس قابل نہیں رہے۔۔"

"چچی۔۔۔ ماں۔۔آپ سب کو ہو کیا گیا ہے۔۔؟؟ نسواء بھابھی نے کیا بُرا کیا تھا آپ لوگوں کے ساتھ جو اتنا زہر اگل رہے ہیں آپ سب۔۔؟؟"

"فضا تم اس لہجے میں بات مت کرو۔۔ ہمارے گھر کے معاملات میں ٹانگ مت اڑاؤ۔۔۔"

چچی نے فضا کو ڈانٹ دیا تھا۔۔۔۔

"سیریسلی۔۔؟؟"

فضا منہ بنائے وہاں سے چلی گئی تھی

۔

"نجیب بیٹا۔۔؟؟"

سب کے جانے کے بعد دادی نے نجیب کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا

"دادی نسواء نے اس طرح بدلا لیا مجھ سے۔۔؟؟ میری اولاد کو مجرم بنا دیا۔۔ جب لوگوں کو رشتے داروں کو خبر ہوگی تو کیا بنے گا میری عزت کا۔۔؟؟"

نجیب کی بات نے دادی کو حیران کیا تھا۔۔۔

"تمہیں ابھی بھی عزت کی پڑی ہے۔۔؟؟ کمال ہے بیٹا۔۔۔"

۔

وہ اٹھ کر چلی گئی تھی وہاں سے۔۔

۔

"نسواء آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تمہیں یہ پسند ہے بیٹا۔۔۔؟" منیشہ کی نظر ہاتھ میں پکڑے اس لاکٹ سے ہٹی اور اس نے اس آواز پہ بے ساختہ پیچھے دیکھا تھا

وہ اس چہرے کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی مگر فضا اس سے نہیں اپنی بیٹی لیزا سے مخاطب ہوئی اور منیشہ کے پاس سے گزر کر لیزا کے ہاتھ میں ہیرنگ دیکھ کر خوش ہوئی تھی

"یس موم مجھے یہ ڈائمنڈ پرل بہت پسند آئے ہیں کیا یہ لے سکتے ہیں۔۔۔؟؟"

"افکورس میری جان کیوں نہیں۔۔۔؟؟؟"

لیزا کے چہرے پر شفقت سے ہاتھ رکھے بہت پیار سے کہا تھا۔۔۔ اسی وقت منیشہ اس سٹور سے باہر چلی گئی تھی۔۔۔

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار نظریں گھمائے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو سب خوش تھے۔۔۔۔وہ لوگ جن کا خون اسکی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔۔

اور وہ اکیلی کھڑی تھی۔۔۔

مننان کی نگاہ اسکے تعاقب میں تھی پر منیشہ کامیاب ہوگئی تھی اپنا دکھ اپنا درد چھپانے میں۔۔۔

"لیزا بہت خوبصورت لگ رہی ہے ماشاءاللہ۔۔۔"

شاپنگ مکمل کرکے وہ لوگ کھانے کے لیے جیسے ہی فوڈ کارنر داخل ہوئے مننان نے مسکراتے ہوئے چئیر پیچھے کی لیزا کے لیے۔۔۔ اور گھر کی خواتین ہش ہش کررہی تھی ان دونوں پر۔۔۔

"اللہ بری نظر سے محفوظ رکھے تم دونوں کو۔۔۔"

فضا پرس سے چیند نوٹ نکال کر ان دونوں کے سر پہ وارے اور جب کوئی ویٹر نظر نہیں آیا تو پاس کھڑی سرجھکاے کھڑی منیشہ کے ہاتھ میں پیسے تھما دئیے۔۔۔

"یہ رکھ لو۔۔۔"

"ما۔۔۔میم۔۔۔"

"اٹس اوکے رکھ لو وہ اتنے پیار سے دہ رہی تمہارے کام آئیں گے۔۔۔"

مننان نے آہستہ آواز میں کہا تھا وہ اس فیملی کو ایمپریس کررہا تھا اسے ہرٹ کرکے جو پہلے سے ہرٹ تھی۔۔۔

"وہ تمہاری اسسٹنٹ ہے مننان کوئی بھکاری نہیں۔۔۔"شہیر نے کال بند کرتے ہی منیشہ کو ڈیفینڈ کیا۔۔۔ وہ منیشہ کے ہاتھ سے پیسے کھینچ کرپھینکے لگا تھا جب منیشہ نے شہیر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔

"اٹس اوکے سر۔۔۔ مننان سر ٹھیک کہہ رہے ہیں میرا ہی بھلا ہوگا۔۔۔"

وہ کہتے ہی سر جھکا چکی تھی۔۔۔

"بیٹا کسی بات کا برا مت منانا۔۔۔"

"دادی وہ ملازم ہیں۔۔۔" فضا نے دادی کو چپ کروا دیا تھا۔۔۔

"مننان آفس میں بہت کام ہے مس منیشہ اور میری میٹنگ ختم ہوئے بھی آدھا گھنٹہ ہوگیا ہمیں چلنا چاہیے۔۔۔"

مننان کے جواب کا انتظار نہیں کیا تھا شہیر نے اور منیشہ کو باہر کا راستہ دیکھاتے ہوئے وہاں سے لے گیا تھا

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر یہ وہ پارٹی وینیو ہے ہماری رپورٹ کے مطابق۔۔۔"

نجیب نے موبائل پر اس ایڈریس کو دیکھا تھا۔۔

"یہی ایڈریس فضا نے سینڈ کیا تھا۔۔۔ یہاں نسواء کیا کررہی ہے۔۔؟؟ وہ کیسے شہر کے امیر ترین فیملی کو جانتی ہے۔۔۔؟؟"

وہ گاڑی پارک کئیے اندر داخل ہوئے تھے اور ایک کارنر پر انہوں نے نسواء کو کسی لیڈی سے بات کرتے دیکھا تو وہ ایک پل کو رک گئے تھے نسواء کو انکے فیورٹ رنگ کی ساڑھی پہنے دیکھ ۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

دھڑکنیں تیز ہوگئی تھی انکی کتنی دیر وہ ایسے ہی نسواء کو دیکھتے رہے اور جب نسواء اکیلی ہوئی تو وہ جلدی سے اسی طرف گئے اور نسواء کو بازو سے پکڑ کر ایک سائیڈ پر لے گئے۔۔

۔

"آپ نے اپنی آنا میں اپنی ضد میں کیا بنا دیا مننان کو۔۔ ایک مجرم۔۔؟؟ ایک ورک شاپ پر کام کرنے والا دو ٹکے کا ملازم۔۔؟؟"

نسواء کو بازع سے پکڑ کر کچھ دور لے گیا تھا نجیب۔۔۔

"وٹ۔۔؟؟"

نسواء نے حیرانگی سے دیکھا تھا نجیب کو اور نجیب نے اپنے کوٹ سےنکال نسواء کے سامنے رکھے اور جب نسواء نے کسی انجان چہرے کو دیکھا تو اس نے گہرا سانس بھرا وہ خود بھی ڈر سی گئی تھی جب نجیب نے مجرم لفظ استعمال کیا اس نے تو اپنا آپ مار دیا  مننان اور حورب کی اچھی تربیت اور پرورش کے لیے۔۔۔

"آپ اگر اسے اچھی تعلیم تربیت نہیں دے سکتی تھی تو کسی چائلڈ کئیر میں چھوڑ دیتی۔۔۔

میرے پاس واپس چھوڑ دیتی۔۔۔ باپ تھا اس کا دشمن نہیں کے اسے تمیز نہ سیکھا سکتا۔۔

اس سے زیادہ تعلیم یافتہ تو میرے گھر کے ملازم ہیں۔۔ اب کیسے میں انٹردیوس کرواں گا اسے سب سے۔۔؟؟ نسواء آپ نے مجھے مایوس کردیا ہے۔۔ مننان تو بگڑا ہوا بچپن سے تھا پر آپ تو سمجھدار تھی۔۔؟؟ میں فیمس بزنس مین ہوں۔۔ یہ میری پہلی اولاد ہے۔۔؟؟

ایک مجرم۔۔؟؟ جاہل۔۔؟؟ ورک شاپ پر کام کرنے والی۔۔۔؟؟"

نسواء نجیب کی آنکھوں میں دیکھتی رہ گئی تھی اسکی ممتا نے گنوارا نہ کیا تھا  اپنے بیٹے کی اور برائی سننا اپنے بازو سے نجیب کی انگلیوں کو چھڑائے وہ ایک قدم نجیب کے پاس ہوئی تھی

"مننان سے اتنی نفرت کیوں ہے۔۔؟؟ نجیب کوئی باپ کیسے اتنی نفرت اپنی اولاد سے کرسکتا کہ وہ منہ میں آتی ہر نیگٹو بات اپنے بیٹے پر تھوپ دے۔۔؟؟؟"

اسکی بات نے نجیب کو اتنا شاک نہیں کیا تھا جتنا اس سپوٹ لائٹ نے کیا تھا جو پہلے سٹیج پر گئی تھی اور مائیک پر آتی آواز نے۔۔۔

جو کسی اور کی نہیں نجیب آفندی کے نئے دشمن 'مننان آمین احمد' کی تھی

"حزیفہ انکل آپ  ماں کو بلانا بھول گئے ہیں۔۔؟؟ میں تو فرسٹ ڈانس انکے ساتھ ہی کرنا چاہوں گا۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر میں چاہوں گا ماں آپ یہاں سٹیج پر آئیں اور ہمیں وہ دھن سنائیں جس پر آپ کو ٹاپ ٹین وائلنسٹ میں فرسٹ ایوارڈ ملا تھا۔۔۔پلیز کم۔۔۔"

مننان مائیک حورب کو پکڑائے آگے بڑھا تھا۔۔ اور نجیب کو اگنور کرکے اس نے نسواء کے سامنے ہاتھ بڑھایا تھا

"کم ماں۔۔۔"

نسواء کے ماتھے پر بوسہ دئیے اس نے اجازت مانگی تھی اور اسی وقت نجیب کی آنکھوں میں دیکھا تھا اس نے۔۔ جیسے آنکھوں سے وہ بتا رہی ہو کہ یہ میرا خون میرا فخر ہے۔۔ وہ نہیں جس کی تصویر آپ کچھ لمحے پہلے دیکھا کر ذلیل کررہے تھے۔۔

"مننان سیریسلی۔۔؟؟ بیٹا وائلن اور میں ان سب میں۔۔؟؟"

نسواء نے جیسے ہی ہاتھ رکھا تھا مننان کے ہاتھ پر مننان واپس سٹیج پر لے گیا تھا جہاں حورب نسواء کے گلے لگ گئی تھی۔۔۔

"لوو یو ماں۔۔۔۔"

نجیب آفندی اس پارٹی میں اپنی فیملی میں اپنے لاڈلے بچوں ماں باپ رشتے داروں کے  ہوتے ہوئے بھی ایک دم اکیلا ہوگیا تھا جب اس نے ان تینوں کو ایک ساتھ دیکھا تھا۔۔۔

کامیاب کون رہا الگ ہوکر۔۔۔؟؟ وہ یا وہ جو ہنستے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔۔۔؟؟؟

"زرا دیر یہ کیا ہوگیا۔۔ نظر ملتے ہی کہاں کھو گیا۔۔۔

بھیڑ میں لوگوں کی وہ ہے وہاں۔۔۔۔

اور پیار کے میلے میں اکیلا۔۔۔ کتنا ہوں  میں یہاں۔۔۔"

"نجیب۔۔۔"

آفندی صاحب نے شاکڈ ہوکر اس طرف دیکھا تھا اور پھر نجیب کو مخاطب کیا تھا۔۔۔

۔

"یہ کون ہے۔۔؟؟ مننان آفندی۔۔؟؟ تو پھر وہ کیا تھا۔۔؟؟ کیا ہورہا ہے۔۔؟؟"

ناہید بیگم بھی نجیب کے آکر کھڑئ ہوئی تھی۔۔

"یہ مننان آمین احمد ہے۔۔۔ کچھ دن پہلے ۔۔۔میں جس رائیول کے ہاتھوں ڈیل ہارا تھا وہ یہی تھا۔۔۔؟؟

وہ واپس آگیا ہے۔۔۔

میرا زوال۔۔۔"

حزیفہ کو دیکھ کر انہوں نے نسواء کو دیکھا جو اپنے دونوں بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھی۔۔۔

اپنے دل میں درد محسوس ہوا تھا جس پر ہاتھ رکھے وہ وہاں سے باہر چلے گئے تھے۔۔۔

ٹائی اتارے وہ کھلی ہوا میں جیسے ہی آئے انکے سامنے وہ تین چہرے گھوم رہے تھے۔۔۔

نسواء مننان حورب۔۔۔

"وہ میرے بغیر کامیاب ہوگئی۔۔۔ میرے۔۔۔میرے بچوں کو اس لائق بنا دیا کہ باپ لفظ۔۔۔۔"

نجیب آفندی کی پلکیں بھاری ہوگئی تھی جب نظریں جھکائیں جو چھلک گئی تھی۔۔۔

"یہ کون ہے۔۔؟؟ مننان آفندی۔۔؟؟ تو پھر وہ کیا تھا۔۔؟؟ کیا ہورہا ہے۔۔؟؟"

ناہید بیگم بھی نجیب کے آکر کھڑئ ہوئی تھی۔۔

"یہ مننان آمین احمد ہے۔۔۔ کچھ دن پہلے ۔۔۔میں جس رائیول کے ہاتھوں ڈیل ہارا تھا وہ یہی تھا۔۔۔؟؟

وہ واپس آگیا ہے۔۔۔

میرا زوال۔۔۔"

حزیفہ کو دیکھ کر انہوں نے نسواء کو دیکھا جو اپنے دونوں بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھی۔۔۔

اپنے دل میں درد محسوس ہوا تھا جس پر ہاتھ رکھے وہ وہاں سے باہر چلے گئے تھے۔۔۔

۔

ٹائی اتارے وہ کھلی ہوا میں جیسے ہی آئے انکے سامنے وہ تین چہرے گھوم رہے تھے۔۔۔

نسواء مننان حورب۔۔۔

"وہ میرے بغیر کامیاب ہوگئی۔۔۔ میرے۔۔۔میرے بچوں کو اس لائق بنا دیا کہ باپ لفظ۔۔۔۔"

نجیب آفندی کی پلکیں بھاری ہوگئی تھی جب نظریں جھکائیں جو چھلک گئی تھی۔۔۔

۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"اس لڑکی کی معلومات چاہیے مجھے۔۔۔۔ اور وہ حرام.... نشے میں تھا ورنہ ہاتھ توڑ دیتا اسکے۔۔۔  مجھے دونوں کی انفارمیشن چاہیے۔۔"

ماہیر نے تاش کے پتوں کو روم میں جیسے ہی پھینکا تھا ٹیبل پر پڑی بوتل کو اٹھا کر وہ ٹیرس پر لے گیا تھا۔۔

"ماہیر۔۔۔ماہیر۔۔۔یہ واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا پھر اس بار کیوں اتنا اتاولا ہورہا ہے۔۔۔؟؟؟"

ماہیر کے دوست نے جیسے ہی کندھے پر ہاتھ رکھا ماہیر نے وہ ہاتھ جھٹک دیا تھا۔۔۔

بوتل کو کھولے منہ سے لگائے وہ دوسری طرف چلا گیا تھا چھت کے

"پہلی بار۔۔۔ پہلی بار کسی کسی لڑکی نے ماہیر آفندی کو ریجکٹ کیا ہے باسم۔۔۔ پہلی بار۔۔۔ جہاں جھگڑے ہوتے تھے وہاں ہم پنگے لیتے آئے یہ کون کمبخت تھا جو مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت کرگیا۔۔۔"

جیب سے سگریٹ نکالے لبوں پر جیسے ہی رکھا تھا باسم نے لائٹر جلا کر آگے کیا تو ماہیر نے ہنستے ہوئے اسکی طرف دیکھا تھا باسم کی آنکھوں میں بہت سوال تھے جو ماہیر اچھے سے سمجھ گیا تھا

"ہاہاہاہا زیادہ مت سوچ مجھے محبت نہیں ہوئی اس سے۔۔۔ بس دل کو بہلانے کا دل کررہا ہے اب۔۔۔ اس نے جو انکار کیا اسے اپنے قدموں پر لاؤں گا ورنہ برا حشر کردوں گا۔۔۔

میرے باپ کو تو جانتے ہی ہو نہ۔۔۔؟ میرے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔۔۔"

سگریٹ کے دھوئیں میں وہ اپنے گھنونے پلان کو مسکراتے ہوئے بتا رہا تھا۔۔۔

"وہ تو ٹھیک ہے باپ کو خوش کرنے کے لیے تمہارا اس فیملی فنکشن میں جانا ضروری ہے تمہاری موم کی بھی کال آئی تھی مجھے تمہارا موبائل آف جا رہا تھا"

"اوو شٹ۔۔۔ ڈیڈ کو سچ میں ایمپریس کرنا ہے۔۔۔ یہی تو فرسٹ سٹیپ ہے۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

""ویسے مجھے تم پر زرا سا یقین بھی نہیں تھا نسواء یہ سب کہتے تھے تم بہت محبت کرتی تھی نجیب سے۔۔۔پر محبت ایسی ہوتی ہے۔۔۔؟"

عمارہ نے جیسے ہی نسواء کا راستہ روکا تھا اسی وقت نجیب نے نسواء کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔

اتنے سالوں کے بعد وہ پھر خود کو وقت کے اسی دہرائے پر دیکھ رہی تھی جہاں نجیب نے اسے اور انکے رشتے کو سب کے سامنے بے آبرو کردیا تھا۔۔۔

اور آج وہی نجیب کے سامنے اسکی دوسری بیوی کررہی تھی نجیب کے گھر والے نسواء کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ مجرم ہو ان سب کی۔۔۔

نسواء سب کی باتوں کو اگنور کرکے آگے بڑھنا چاہتی تھی پر اسی ہال کے ایک کارنر پر اسکی نظر اپنے بیٹے مننان پر گئی اور پھر دوسری طرف حورب پر۔۔۔

وہ کیوں بھاگنا چاہتی تھی۔۔۔؟ وہ گناہ گا نہیں وہ مجرم نہیں اور وہ ڈرپوک بھی نہیں اسکی اولاد ہے اسکے ساتھ۔۔۔

گہرا سانس بھرے نسواء نے چہرے پر بکھرے بالوں کو جیسے ہی ہٹایا تھا وہ قیامت کی ادا لگی تھی پر نجیب آفندی اپنی دنیا سے باہر اس وقت آئے جب نسواء عمارہ کے کچھ پاس ہوئی تھی

"محبت۔۔۔؟؟ میں نے محبت کی اس کی گواہی میرا وہ رشتہ تھا جس میں میں آج تک بندھی رہی اس شخص کو ریپلیس نہیں کیا اور اسکی اولاد کو کسی غلط رستے نہیں لگایا اچھی تربیت دی وہ نہیں بنایا جو ان کا باپ تھا

ایک 'بےوفا' اپنے آفس سیکریٹری کے ساتھ آفئیر چلانے والے شخص سے جھے محبت نہیں رہی اس لیے تو چھوڑ دیا تھا۔۔۔"

سب لوگ ٹیبل سے اٹھ گئے تھے نجیب کی والدہ چچی سب نسواء بہت قریب ہوئی تو پیچھے کھڑے نجیب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے وہ بات کہی تھی شاید وہ نہ کہہ سکتی

"یہ محبت تھی تمہاری۔۔؟ نجیب کو چھوڑ کر تم سمجھتی ہو وہ تمہاری محبت تھی۔۔؟؟ "

"محبت شراکت قبول نہیں کرتی مس عمارہ۔۔ محبت خوددار ہوتی ہے۔۔۔ جب محبوب کے دل میں کسی اور عورت کے جسم کی ہوس آجائے تو محبت ایسے ہی چھوڑ جاتی ہے جیسے میں نے اسے چھوڑا۔۔۔

اب تم یہ بتاؤ تم کیسے گزارا کرتی ہو۔۔؟؟ سنا ہے کسی ماڈل کے ساتھ' چکر ' چل رہا ہے۔۔؟؟ تم نے کیا کبھی محبت کی نجیب آفندی سے۔۔؟؟ کیونکہ عورت اگر محبت میں اپنا مرد شئیر کردے تو محبت کیسی۔۔۔؟؟

محبت کرتی ہو تو خودداری سے کرو میری طرح۔۔۔ اور ایک بات اب مجھے محبت نہیں رہی۔۔۔

کبھی یہاں کبھی وہاں۔۔؟؟ یہ میری محبت کا معیار نہیں۔۔۔

ناؤ ایکسکئیوز مئ۔۔۔"

وہ عمارہ کے کندھے سے ٹچ نہیں ہوئی مگر شاکڈ کھڑے نجیب آفندی کے کندھے سے اپنے کندھے کو ٹچ کرتے ضرور گزری تھی۔۔۔۔

۔

"نسواء بھابھی۔۔۔"

فضا کی بات کا بھی جواب نہیں دیا تھا۔۔۔ باقی سب کو تو سانپ سونگ گیا تھا

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"

"نسواء۔۔۔۔بیٹا بہت بہت شکریہ اتنے کم وقت میں آپ سب آئے۔۔"

حزیفہ صاحب کی والدہ نے نسواء کو باقی سب رشتے داروں سے ملوانا شروع کردیا تھا

جب حورب  مٹھائی کی پلیٹ نسواء کے پاس لے آئی تھی

"سیریسلی حورب۔۔؟ میں نے منع کیا تھا زیادہ میٹھا کھانے سے۔۔"

نسواء نے جیسے ہی پلیٹ کھینچے کی کوشش کی دو گلاب جامن پھر بھی پکڑ لئیے تھے

"ماما۔۔۔ کوئی ایک موقع ہی تو ایسا ملتا ہے کوئی دادی آپ ہی کہیں زرا"

حورب کا حزیفہ کی والدہ کو دادی کہنا نسواء کے لیے عام بات تھی پر ان لوگوں کے لیے نہیں جو یہ سن رہے تھے

"ہاہاہاہا نسواء کھانے دو نہ۔۔"

"آپ نہیں جانتی اسے زیادہ میٹھا کھانے سے منع کیا گیا ہے۔۔"

"ماما۔۔۔۔"وہ تو پلیٹ لے گئی تھی حورب نے دوسرا گلاب جامن جیسے ہی کھانا شروع کیا اس کا فون بج گیا تھا

وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئی تھی موبائل کان کو لگائے وہ ابھی بھی مصروف تھی اپنے میٹھا کھانے پر۔۔۔

نجیب صاحب بھی کچھ ٹیبل دور ایک چئیر پر بیٹھ گئے تھے

"ہیلو۔۔۔ ہیل۔۔۔"

وہ کھاتے کھاتے لفظ مکمل نہیں کرپائی تھی جب دوسری طرف سے اسے قہقوں کی آواز سنائی دی

"کون صاحب بات کررہے ہیں۔۔؟؟"

حورب نے کسی مرد کی ہنسی کو سن کر منہ ایک دم سے بند کیا اور مکمل ختم کرنے کے بعد سختی سے پوچھا تھا

"مریض بات کررہا ہوں"

"کونسا مریض۔۔؟؟"

"دل کا مریض ڈاکٹر حورب"

"مگر میں دل کی ڈاکٹر نہیں"

"مگر میں آپ کا پئشنٹ ضرور ہوں"

"وٹ داہیل۔۔۔؟؟"

حورب کھڑی ہوگئی تھی اور نجیب صاحب کے پاس سے گزر گئی تھی

نجیب آفندی اس پورے وقت میں ان تین لوگوں کو دیکھ رہے تھے اور ان کا اس طرح ان تینوں کو دیکھنا ان کے گھر والوں کو شدید حسد اور نفرت میں مبتلا کئیے جارہا تھا

"نجیب بات سنیں شزا سے بات کیجئے دیکھیں ماشاللہ تیار ہوئے کتنی پیاری لگ رہی"

"میرے پاس وقت نہیں ہے بار بار میرا راستہ نہ کاٹا کرو۔۔۔کم سے کم باہر کی گیدرنگ میں تو مجھے تنہا چھوڑ دو عمارہ۔۔۔"

وہ اسکا ہاتھ جھٹک چکے تھے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"دل نے میرے تیرے دل سے کہا۔۔۔

عشق تو ہے وہی جو ہے بے انتہا۔۔۔" 

میں جلا دوں۔۔۔؟؟؟

حزیفہ نے نسواء کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔۔

یا شئیور۔۔۔۔"

ہاتھ میں پکڑی ہوئی میچ باکس نسواء نے جیسے ہی حزیفہ کی طرف بڑھائی حزیفہ صاحب بھی نیچے بیٹھ گئے تھے ٹیرس پر نیچے پڑی آدھی کینڈلز جو بجھ گئی تھی انہی نسواء پھر سے روشن کررہی تھی جو وہ دو لوگ اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔

ایک وہ جو نسواء کے قریب تھا اور ایک وہ جو سیڑھیوں پر کھڑا ہوگیا تھا کسی اور کو نسواء کے اتنا قریب دیکھ کر۔۔۔۔

نجیب آفندی آنکھوں میں بلا کا غصہ لئیے اس شخص کو دیکھ رہا تھا

۔

"تو نے کبھی جانا ہی نہیں۔۔۔

میں ہمیشہ سے تیرا۔۔۔۔تیرا ہی رہا"

۔

"ان چراغوں کی چمک مجھے آپ کی آنکھوں کی روشنی جیسی لگ رہی ہے جو سیاہ تنہا رات میں بھی روشنی سے لہلہا رہیں ہیں نسواء۔۔۔"

انکی باتوں نے نسواء کو اپنی گرفت میں جکڑ لیا تھا۔۔

۔

"کہ جب تک جئیوں میں۔۔۔جئیوں ساتھ تیرے۔۔۔

پھر چاند بن جاؤں تیری گلی کا۔۔۔"

"حزیفہ۔۔۔۔"

وہ ایک دم سے اٹھنے لگی تھی جب حزیفہ نے نسواء کا ہاتھ پکڑ واپس بیٹھنے پر مجبور کردیا تھا

۔

"نہ ٹھہرے گا کوئی آنکھوں میں میری۔۔۔

ہو نہ سکوں گا میں اور کسی کا۔۔۔"

۔

"ایک بار ہمیں موقع دو نسواء۔۔۔۔مجھے ایک موقع چاہیے "

"اور پھر کیا ہوگا حزیفہ۔۔۔؟ میاں بیوی کے رشتے کی کڑواہٹ ایک بار برداشت کرچکی ہوں۔۔۔ اس پاکیزہ رشتے کی بےوفائی سہہ چکی ہوں۔۔۔"

نسواء نے جیسے ہی اپنا ہاتھ چھڑالیا تھا اگلے پل وہ اٹھ گئی تھی۔

میں یقین دوں گا اپنے دل کے ساتھ آپ کو

میں ایمانداری دوں گا اپنی ذات کی میری روح کے ساتھ آپ کو

میں سکون نہیں سکون سے بھری زندگی دوں گا آپ کو نسواء۔۔

میں اپنی وفا لکھ کر دوں گا نکاح نامہ میں اپنے نام کے ساتھ"

۔

میں وہ خواب ہوں جو کسی نے نہ دیکھا۔۔

وہ قصہ ہوں میں جو۔۔بن تیرے تھا آدھا۔۔

۔

حزیفہ کی باتیں سن کر وہ بےساختہ پلٹی تھی حزیفہ اٹھ کر اتنا پاس کھڑا تھا کہ وہ خود کو اس شخص کی نظروں میں دیکھ رہی تھی جس نے سوائے عزت اور وفا کے اور کچھ نہ دیا تھا اسے اور اسکے بچوں کو

وہ کچھ نہ ہوتے ہوئے بہت کچھ بن گیا تھا اسکے لیے اسکے بچوں کے لیے۔۔۔

"پلیز نسواء۔۔۔"

نسواء نے نفی میں سر ہلایاتھا حزیفہ کی آنکھوں سے جیسے ہی پانی کا ایک قطرہ نکلا اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا وہ آنسو صاف کرنے کے لیے

پر وہ چہرے پر ہاتھ نہ رکھ سکی تھی وہ اپنی حدود جانتی تھی۔۔۔ نجیب کی گرفت سخت ہوئی تھی اس واال پر آنکھوں میں قیامت کاغصہ لئیے وہ خاموش کھڑا تھا

۔

"کاش تم پہلے میری زندگی میں آئے ہوتے حزیفہ۔۔۔ سب سے پہلے۔۔ اس شخص سے بھی پہلے۔۔اگر پہلے ملے ہوتے تو آج میں یوں پچھتا نہ رہی ہوتی اپنے غلط انتخاب پر۔۔۔

ایم سوری۔۔۔ میں اس بےوفا کے ساتھ ساتھ منسوب ہوں جو سوا میرے ہر ایک عورت کی پہنچ میں ہے۔۔ جو اپنے بچوں کا آئیڈیل تو بن گیا پر میرے بچوں کا باپ نہ بن سکا۔۔"

اسکی آنکھوں کے آنسو چھپانے کے لیے حزیفہ کے کندھے پر جیسے ہی اس نے سر رکھا تھا حزیفہ کے ہاتھ بھی اسی جگہ تھم گئے تھے وہ بھی نسواء کی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر ان حدود کو پار نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔

"ملا تو مجھے تووو۔۔۔ مگر دیر سے کیوں۔۔۔

ہمیشہ مجھے یہ شکایت رہے گی۔۔۔

لگا لے گلے سے مجھے بن بتائے۔۔۔

عمر بھر تجھے یہ اجازت رہے گی۔۔۔"

"ایم سوری۔۔۔"

وہ وہاں سے چلی گئی تھی جیسے ہی سٹئیرز کی طرف بڑھی تھی نجیب نے اس کا بازو پکڑ کر اسے ایک ڈارک کارنر کی طرف کھینچ لیا تھا۔۔۔

"نجیب ہاتھ چھوڑیں۔۔۔۔"

وہ اس لمس کو محسوس کرگئی تھی جس پر نجیب صاحب بہت حیران ہوئے تھے

"نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔"

"نجیب۔۔۔"

"نجیب ان لبوں کو خاموش کرچکا تھا اپنے لبوں سے۔۔۔ اسے اس لمحے فکر نہیں تھی کہ  نسواء کے رخصار پر گرتے اسکے آنسو اسکی امیج خراب کردیں گے اسے فکر نہیں تھی کہ وہ اس لمحے نجیب آفندی نہیں ایک کمزور مرد ثابت کررہا تھا

اسے فکر نہیں تھی۔۔

کچھ لمحے بعد نجیب نے اسکے ماتھے پر اپنا سر رکھ دیا تھا

"میں۔۔ آپ نے اپنے شوہر کو مجھے۔۔۔ اس غیر مرد کے سامنے  رد نہیں کیا ہمارے رشتے کو رد نہیں کیا نسواء۔۔۔ چاہے میں کرتا آیا۔۔ مگر وہ جو آپ نے وہاں کیا ہے۔۔۔

نجیب آفندی کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔۔۔ میرا سینہ فخر سے غرور سے چوڑا ہوگیا ہے۔۔۔" ماتھے پر بوسہ دئیے وہ آنکھ کو صاف کئیے بہت جلدی سے چلا گیا تھا۔۔۔

نسواء کو حیران چھوڑ کر۔۔۔

"گاڑی میں بیٹھو۔۔۔"

"سیریسلی مننان۔۔؟ موڈ سپوئل مت کرو۔۔۔وہ آجائے گی۔۔"

مگر مننان نے لیزا کی بات کو اگنور کردیا تھا وہ روڈ پہ کھڑی اس لڑکی کو ایسے چھوڑ کر نہین جا سکتا تھا خاص کر تب جب اس نے ہی اس فنکشن میں منیشہ کو آنے کا کہا تھا کیونکہ وہ خود بزنس کالز اٹینڈ نہیں کرسکتا تھا اپنی ماں اور بہن کے سامنے

"نو سر اٹس اوکے۔۔۔ میں نے ٹیکسی منگوائی ہیں۔۔"

"گٹ ان ناؤ۔۔۔"بیک سیٹ کا ڈور اوپن ہوا تو منیشہ نے ایک نظر  اس لڑکی کو دیکھا تھا اور پیچھے بیٹھ گئی تھی

"ہممم۔۔۔ اب ان ملازموں کو بھی لفٹ دینے جتنے دن آگئے تھے۔۔۔"

لیزا نے اتنی آہستہ آواز میں اونچی کہا تھا کہ منیشہ سن سکے۔۔۔

پر منیشہ نے سب درگزر کردیا تھا وہ کچھ پل کے لیے بھول گئی تھی کہ آگے بیٹھی اس حقارت اور نفرت سے دیکھنے والی لڑکی اس ہاف سسٹر تھی اسکی چھوٹی بہن۔۔

۔

منیشہ نے کھڑکی کی طرف منہ کرلیا تھا جب مننان کی تھائی پر لیزا نے اپنا ہاتھ رکھ کر اسکے کندھے پر سر رکھ دیا تھا

۔

"اب نہ دل کو کسی کی عادت ہو۔۔۔

اب نہ کسی سے محبت ہو۔۔۔"

رئیر ویو مرر سے مننان کی نگاہ بار بار اپنی سیکریٹری پر جارہی تھی جسے وہ پورے فنکشن میں ذلیل کرتا رہا جیلس کرتا رہا اور اب جب وہ کامیاب ہوگیا تھا اس لڑکی کو اسکی حیثیت بتانے میں پھر کیوں وہ اسے گم صم چپ چاپ بیٹھے دیکھ خوش نہیں تھا۔۔۔

۔

"مس منیشہ کیسا محسوس کررہی ہو اس لگثری کار میں بیٹھ کر۔۔۔؟"

لیزا کی آواز نے اسے ایک دم سے چونکا دیا تھا۔۔

"کیسا محسوس ہونا چاہیے میم۔۔؟"

اس نے شائستگی سے پوچھا لہجہ بہت دھیما تھا منیشہ کا

"ہاہاہاہا۔۔۔زمین پر چلنے والے کو آسمان پر بیٹھ جیسا محسوس ہوتا ہاہاہا۔۔"

اس نے اور قہقہ لگایا تھا پر منیشہ نے اگنور کردیا تھا اور پھر اسکی نظریں باہرکی دنیا پر تھی پر دھیان وہ تو اسی فنکشن پر جارہا تھا جہاں کچھ دیر پہلے اسکی اچانک کی دوسری ملاقات اسے پیدا کرنے والی ماں سے ہوئی تھی۔۔۔

"ماں۔۔۔"

"کیا وہ کرسی اٹھا کر یہاں لا سکتی ہو۔۔؟؟"

فضا کی آواز پر وہ ماں لفظ اسکی زبان پر اٹک گیا تھا

"یا شئور۔۔۔"

اور وہ کرسی جیسے ہی اس نے فضا کے پاس رکھی تھی فضا نے اپنے ہسبنڈ کے ساتھ رکھ لی تھی اور بیٹھ گئی تھی اپنی ہیپی فیملی کے ساتھ اور منیشہ کچھ دور جا کھڑی ہوئی تھی۔۔۔

وہ حیران تھی قسمت پر وہ حیران تھی اسے پیدا کرنے والی کی بےحسی پر۔۔

وہ حیران تھی خود پر اتنے سالوں کے بعد بھی اسے امید تھی اس ممتا کی۔۔؟

جو بچپن میں ہی مر گئی تھی

"آگے آکر بیٹھو۔۔۔"

مننان کی سخت آواز پر اسکی آنکھ کھل گئی تھی چہرے سے آنسو صاف کرکے اس نے آگے دیکھا تو گاڑی ایک بڑے سے مینشن کے آگے رکی ہوئی تھی لیزا اتر کر اندر جاچکی تھی اور اب مننان نے پھر سے منیشہ کو آگے آکر بیٹھنے کا کہا تھا

"اٹس اوکے سر میں یہاں ٹھیک ہوں آپ پلیز گاڑی سٹارٹ کریں۔۔۔"

"میں نے کہا آگے اکر بیٹھو میں تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں۔۔"

"میں نہیں بیٹھنا چاہتی آگے۔۔ آپ سٹارٹ کریں ہم لیٹ ہورہے ۔۔۔"

منیشہ کی آواز میں بھی اتنا ہی غصہ تھا

اور جب مننان گاڑی سے نکل کراسکی سائید کی طرف آیا اس نے دروازہ کھول کر بازو سے پکڑا تھا منیشہ کو اور باہر نکال کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تھا

"بیٹھو۔۔"

"میں نہیں بیٹھوں گی اپ زبردستی نہیں کرسکتے۔۔۔"

"اوکے۔۔ پھر یہیں رہو اور ڈھونڈو ٹیکسی گڈ بائے۔۔"

وہ کچھ سیکنڈ میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر کار سٹارٹ کرچکا تھا اور ایک منٹ میں گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی تھی

"اٹس اوکے منیشہ۔۔۔ خون کے رشتے بیچ راہ چھوڑ گئے انکے چھوڑ جانے سے کیا فرق پڑے گا۔۔؟؟"

وہ خود سے بات کرتے ہوئے چل دی تھی سننان سڑک پر۔۔۔

پر آنکھوں سے جاری آنسوؤں نے بتا دیا تھا کہ اسے فرق پڑ رہا تھا مننان کے اس طرح چھوڑ جانے پر۔۔۔

"فرق پڑ رہا ہے۔۔۔ وہ شخص میرے دل پی اثر انداز ہورہا ہے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کہاں جانا ہے میں چھوڑ دوں۔۔؟؟"

ایک بائیک بہت تیزی سے پاس سے گزری اور سڈن بریک سے وہ رکی اور ریورس ہوئی۔۔

"نو تھینکس۔۔۔"

بائیک والے نے ہلمٹ ابھی نہیں اتارا تھا نہ ہی بائیک کا انجن بند کیا تھا بس کچھ قدم کے فاصلے پر بائیک روکی تھی

"دیکھیں سر۔۔"

"یو کین ٹرسٹ مئ گھر تک باحفاظت پہنچاؤں گا۔۔ ویسے بھی یہ ایریا خطرناک ہے کوئی ٹیکسی آٹو نہیں ملنے والا۔۔۔"

"پھر بھی نو تھینکس۔۔۔"

"اوکے۔۔۔"

منیشہ جیسے ہی چلنا شروع ہوئی تو اس بائیک والے نے بائیک سے اتر کر اسکے ساتھ چلنا شروع کردیا تھا۔۔۔

"آپ فالو کیوں کررہے ہیں۔۔؟؟ مجھے نہیں جانا۔۔۔"

پر وہ اسکے پیچھے پیچھے بائیک کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا

"اففف۔۔۔"

"پلیز میڈم چلیں وقت ضائع ہورہا میرا۔۔۔"

کچھ سوچنے کے بعد وہ بیٹھ گئی تھی اور بائیک جیسے سٹارٹ ہوئی تھی منیشہ نے ایک نظر پیچھے دیکھا تھا

آج جس طرح مننان نے اسے ایک ویران جگہ بے آسرا چھوڑا تھا وہ اندر تک مایوس ہوئی تھی۔۔

ٹھنڈی ہوا میں اس نے جیسے ہی آنکھیں بند کئیے اس شخص کے کندے پر سر رکھا تھا وہ گہری نیند میں چلی گئی تھی

"میڈم ایڈریس۔۔؟؟"

ایڈریس بتانے کے بعد وہ بہت پیچھے ہوکر بیٹھی تھی اور خود کو بار بار کوسنے لگی تھی۔۔۔

کچھ دیر میں وہ اس رینٹ والی بلڈنگ کے سامنے تھی۔۔۔

"شکریہ۔۔۔"

مگر بائیک والے نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔۔۔ اور جب منیشہ اندر جانے لگی تھی تب اس نے پیچھے سے اسے پکارا تھا

"اگر شکریہ ادا کرنا ہے تو میری معافی کو بھی قبول کیجئے۔۔۔"

"معافی۔۔؟؟ وہ کس لیے۔۔؟؟"

منیشہ نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔اور تبھی اس نے اپنا ہلمٹ اتارا۔۔۔

اور منیشہ کے چہرے پر خود با خود غصہ آگیا تھا اسی پارٹی میں بدتمیزی کرنے والے اس شخص کو دیکھ کر۔۔۔

"یو۔۔۔۔"

"ماہیر آفندی۔۔۔ اگر ہوسکے تو معاف کردیجئے گا مجھے۔۔۔"

۔

وہ معصوم سا منہ بنا کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔منیشہ کو حیران چھوڑ کر۔۔۔

یہاں وہ روم میں داخل ہوئی تھی وہاں مننان کی گاڑی واپس اسی روڈ پر رکی تھی اور وہ پاگلوں کی طرح منیشہ کو اس سنسان روڈ پر ڈھونڈنے لگا تھا۔۔۔

"منیشہ۔۔۔۔"

"مس منیشہ۔۔۔؟؟"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسوا بھابھی۔۔۔"

"بھابھی پلیز بات سنیں۔۔۔"

پلیز۔۔۔"

نسواء کے قدم رک گئے تھے 

"موم چلیں بھائی ویٹ کررہے ہیں۔۔"

حورب نے فضا کو ایک نظر دیکھا سلام کرنے کے بعد نسواء کو کہا تھا اور واپس پارکنگ میں چلی گئی تھی

"بھابھی۔۔۔"

"بار بار مجھے یہ لفظ بول کر شرمندہ نہ کرو وہ جو اندر ہے وہ رائٹ فلی بھابھی ہے تمہاری۔۔"

"نسواء بھابھی میں آپ سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔۔ انفیکٹ ہم سب۔۔۔ بھابھی نجیب بھائی اپنے کئیے پر پچھتا۔۔"

"وہ اپنی شادی پر پچھتائے ہیں۔۔؟؟ معافی اس دن مانگنا جس دن نجیب آفندی اپنی دوسری شادی پر پچھتائے۔۔"

نسواء اسے لاجواب کئیے دو قدم آگے بڑھی تھی اور اسے کیا سوجھی کہ وہ واپس فضا کے سامنے کھڑی تھی

"مجھے لگا تھا آفندی خاندان بس غیروں کے لیے ایسا سنگدل ہے پر تم نے تو مثال بنا دی جو اپنی اولاد کے ساتھ کیا۔۔۔"

"بھابھی۔۔؟؟ ایسا کچھ نہیں ہوا میری بیٹی سے ملیں وہ یہیں تھی"

"کیا اولاد میں وہی ہے۔۔؟؟ تو مجھے افسوس ہے تمہارے ماں ہونے پر بھی۔۔"

اور نسواء وہاں سے چلی گئی تھی۔۔

۔

"بھا۔۔۔"

اپنے سر پہ ہاتھ رکھے فضا کچھ قدم پیچھے ہوئی تھی اسے حقیقت دیکھا گئی تھی نسواء۔۔۔

اس اولاد کے بارے میں جسے وہ بھول چکی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نجیب۔۔۔؟؟"

"آ پ جاگ رہی ہیں دادی۔۔؟؟ سو جائیں۔۔۔"

نجیب سیڑھیوں سے اوپر جارہا تھا جب ٹیبل سے اس کا پاؤں اٹکا تھا اور وہ لڑکھڑا گیا تھا

"میرے بچے۔۔۔"

گلدان ٹوٹ کر گرگیا تھا نجیب کی انگلیوں کو زخمی کرنے سے پہلے۔۔۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔"

"تم نے سب کچھ اپنی مرضی سے کیا نجیب پھر یہ ڈرنک کرکے آنا اپنی زندگی کیوں عذاب بنا رہے ہو۔۔۔"

دادی نے ملازم کو بلایا تھا وہ نجیب کو سہارا دے کر اسکے کمرے میں لے گئے تھے جس میں وہ نسواء کے ساتھ رہتا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"دادی زندگی عذاب ہی رہی ہمیشہ۔۔۔ نسواء کے جانے کے بعد بدترین ہوگئی۔۔۔"

دادی کمرے میں پانی کا گلاس لیکر جیسے ہی داخل ہوئی تھی

نجیب کروٹ کئیے لیٹا تھا دادی نے پانی کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر نجیب کے شوز جیسے ہی اتارنے کی کوشش کی وہ ایک  دم سے اٹھ گیا تھا

"دادی سو جائیں جا کر پلیز۔۔۔"

"نہیں سوو سکتی بیٹا۔۔۔ اب مجھے نیند نہیں آتی۔۔۔ آنکھیں بند کرتی ہوں تو بچوں کی ناکامیاں نظر آتی ہیں۔۔۔خاص کر تم۔۔۔

تم سب سے لاڈلے رہے میرے اپنے دادا کے۔۔۔اپنے دادا کے زیادہ۔۔۔"

"ہمم۔۔۔"

دادی جیسے ہی تکئیے والی سائیڈ پر بیٹھی نجیب نے دادی کی گود میں سر رکھ لیا تھا

"تم نے شاید کبھی غور نہیں کیا کہ اس فیملی میں کیوں کبھی کسی کو تمہاری دوسری شادی سے کوئی اعتراض نہیں ہوا کیوں عمارہ کو نسواء پر ترجیح دی گئی کیوں نسواء کو وہ سب  محبت اور عزت نہیں ملی۔۔"

نجیب کی سانسیں جیسے تھمنے لگی تھی دادی کی انگلیاں جیسے رکی تھی

"میں۔۔۔ میں نے کبھی نوٹ نہیں کیا دادی۔۔۔ایسا کیوں تھا۔۔؟؟"

"کیونکہ میں بھی دوسری عورت تھی تمہارے دادا کی زندگی میں۔۔۔ دوسری بیوی۔۔۔

یہ دوسری شادی تھی۔۔ میرے سارے بچوں کو معلوم تھا۔۔۔ "

"کیا دادا ابو اپنی پہلی شادی سے خوش۔۔۔"

"ہاہاہا خوش۔۔؟؟ بہت خوش تھے نجیب جیسے تم تھے اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ۔۔۔

تمہیں اتنا خوش میں نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔۔۔"

نجیب خاموش ہوگیا تھا مگر دادی چپ نہ ہوئی تھی۔۔

"اگر خوش تھے تو کیوں کی دوسری شادی انہوں نے۔۔؟؟"

"تم نے کیوں کی تھی دوسری شادی بیٹا۔۔؟؟"

نجیب کی خاموشی میں جواب مل گیا تھا دادی کو

"جیسے تمہیں کوئی اور پسند آنے لگا تھا ویسے ہی تمہارے دادا بھی میری طرف مائل ہوئے تھے۔۔۔

وہ چچا زاد تھے انکی پہلی شادی محبت کی شادی کی دھوم پورے خاندان میں تھی۔۔۔

کچھ سال ہی ہوئے تھے جب ایک فیملی فنکشن پر ہماری بات چیت شروع ہوئی۔۔۔

ہمم۔۔۔۔۔ مجھے وہ دن یاد ہیں جب نصیب کی پہلی بیوی نے میرے پرسر رکھے اپنے شوہر کو واپس مانگا تھا مجھے سو دوہائیاں دی تھی شادی نہ کرنے کی۔۔۔"

دادی کا چہرہ بھر آیا تھا آنسوؤں سے۔۔۔

"دادی۔۔۔"

"تمہارے دادا نے جیسے ہی دوسری شادی کی تمہاری انہیں چھوڑ کر جا چکی تھی۔۔

اپنے بچوں کو ساتھ لے گئی تھی۔۔۔"

"بچے۔۔۔؟؟؟کتنے بچے تھے دادی۔۔۔؟؟"

"تین بیٹے۔۔۔"

ہمممم۔۔۔۔

نجیب نے آنکھیں بند کرلی تھی

"آج جس مقام پر تم ہو بیٹا۔۔۔ تمہارے داد ا بھی ایسے ہی روتے تھے۔۔۔

جب تک زندہ رہے ڈھونڈتے رہے اپنی فیملی کو۔۔۔

اور پھر۔۔۔ جس دن انہوں نے یہ کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرکے جتنا پچھا رہے ہیں۔۔۔

اس دن انہوں نے آخری سانس لیا تھا۔۔۔

اور اس دن کے بعد سے میں پچھتا رہی ہوں نجیب۔۔۔ میں نسواء میں ہمیشہ اس عورت کو دیکھتی آئی جس کے ساتھ میں نے انجانے میں زیادتی کردی تھی"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"منیشہ۔۔۔"

رات کو تین بج رہے تھے جب منیشہ کی آنکھ کھلی دروازے پر کوئی پاگلوں کی طرح دستک دے رہا تھا بلکہ توڑ رہا تھا

"کون۔۔"

ابھی آدھی نیند میں دروازہ کھولا تھا جب مننان جلدی میں اندر داخل ہوا تھا

منیشہ کو سہی سلامت دیکھ کر اسکی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا

"بیوقوف لڑکی۔۔۔پچھلے چار گھنٹوں سے پاگلوں کو طرح میں تمہیں وہاں تلاش کررہا ہوں اور تم یہاں۔۔۔"

"وٹ۔۔۔؟؟"

"شیم آن یو۔۔۔ مجھے وہاں ٹیشن دے کر تم یہاں سو رہی تھی اور۔۔"

"شیم آن یو مسٹر مننان ایک سنسان سڑک پر مجھے تنہا چھوڑ کر آپ اگر بعد میں ڈھونڈنے بھی چلے گئے تو کوئی احسان نہیں کردیا۔۔۔ پیچھے ہٹئیے۔۔۔"

مننان کو خود سے پیچھے دھکا دہ دیا تھا اب اسے مننان کو دیکھ کر حیرانگی ہوئی تھی

شرٹ کے بٹن اوپن تھے بال بکھرے ہوئے اور تھکی ہوئی آنکھیں کچھ اور ہی بتا رہی تھی

"اگر میں وہاں کچھ پل کو بھی رک جاتی تو میں بھی کسی راہ چلتے غنڈ موالی کا شکار ہوجاتی کسی ریپ وکٹم کی طرح۔۔۔"

مننان نے گردن سے پکڑے منیشہ کو اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔

"جسٹ شٹ اپ۔۔۔"

مننان چلایا تھا پر منیشہ وہ آج جھکنے والی نہیں تھی

"کیوں سچ برداشت نہیں ہوا۔۔؟ یہی تو چاہتے تھے ورنہ کون مرد ایسے کرتا ہے رات کے اس پہر کون کسی لڑکی کو ایسے چھوڑتا ہے۔۔؟؟ آپ نے سوچا ہوگا پارٹی میں کم ذلیل کیا کم مشکلیں پیدا کی کہ اب اور کرو۔۔۔آپ کو کیا فرق پڑتا میں مرتا میرا ریپ۔۔۔"

مننان نے ان دونوں کے چہروں کے درمیان وہ فاصلہ ختم کردیا تھا کہ منیشہ کی آنکھیں شاک سے بڑی ہوگئی تھی جب مننان کے لب اسے خود پر محسوس ہوئے تھے۔۔۔

وہ لاکھ کوشش کررہی تھی مگر مننان کی گرفت مظبوط تھی اسکے کندھے پر۔۔

اور جب منیشہ نے اپنی پوری طاقت سے اسے خود سے پیچھے جھٹکا اور ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر مار ا تو مننان  بےیقینی سے پیچھے ہوگیا تھا

"جسٹ گیٹ آؤٹ مسٹر۔۔ میں لیزا نہیں ہوں جو ایسے حرام رشتے میں نامحرم کے ساتھ رہوں۔۔ دور رہیں مجھ سے۔۔۔"

مننان کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ دروازے تک لے گئی تھی جو خود بھ شرمندہ ہوا تھا پہلی بار۔۔۔

"منیشہ۔۔۔"

دفعہ ہوجائیں میری نظروں سے۔۔۔"

مننان کے چہرے پر دروازہ بند کئیے وہ ٹیک لگائے زمین پر بیٹھ گئی تھی

"کیا کروں میں آپ کا مننان آفندی۔۔۔"

گھٹنوں پر سر رکھے روتے ہوئے وہ وہی گہری نیند سو گئی تھی

اپنی ناکام زندگی سے کچھ پل کے لیے سکون کے لیے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ویلکم ٹو ہیل مسٹر نجیب آفندی۔۔۔"

"مسٹر مننان آمین احمد موسٹ ویلکم سر۔۔۔"

کانفرنس میٹنگ میں وہ جیسے ہی داخل ہوا تھا نجیب آفندی اور مسٹر آفندی کے علاوہ سب کھڑے ہوئے تھے مننان کے ویلکم میں۔۔

"تھینکس جنٹل مین۔۔۔ نائس ٹو میٹ یو مسٹر حاشر۔۔۔"

نجیب کے سامنے والی کرسی پر مننان جیسے ہی بیٹھا تھا اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا جس کے بعد اسکے اسسٹنٹ نے فائل کھول کر اسکے سامنے رکھ دی تھی

"ہم اس پروجیکٹ کی کوٹیشن اور آپ کے آئیڈیاز سے بہت ایمپریس ہوئے ہیں ۔۔۔"

"ویری گڈ۔۔۔اینڈ۔۔؟؟"

مننان ریلیکس ہوکر بیٹھا گیا تھا

"جس کی بات ہورہی تھی وہ یہ ہے۔۔؟؟"

آفندی صاحب نے اپنی ناپسنددیدگی کا اظہار کیا تھا

"جی۔۔۔ یہی ہیں وہ جن کی سب تعریف کررہے تھے ہماری کمپنی انکی کارز امپورٹ کرنا چاہتی ہے اور ہم لونگ ٹرم کانٹریکٹ۔۔۔"

"اور آپ کو لگتا ہے ہم ایکسیپٹ کرلیں گے۔۔؟؟ جسٹ لائک ڈیٹ۔۔۔؟؟

میں نے تعریف سنی ہے کام نہیں دیکھا مسٹر مننان۔۔۔ ؟؟ کیا نام بتایا آپ نے اپنا۔۔۔؟؟"

نجیب نے بہت معصومیت سے پوچھا تھا مننان کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر انکے ہونٹوں پر مسکراہٹ جھلکی تھی۔۔

"مسٹر نجیب اگر آپ نے میرا کام چیک کرنا ہے تو یہاں ان سب بزنس مینز سے پوچھئیے جو ابھی میرے احترام میں کھڑے ہوئے تھے۔۔۔اور۔۔"

"ایم سو سوری مسٹر مننان نجیب کی بات کا برا۔۔"

پر مننان نے ہاتھ کو ٹیبل پر مارا تھا

"دوبارا پھر میری بات کو کاٹئیے گا مت۔۔۔جب میں بول رہا ہوں تو سنئیے پوری طرح۔۔۔"

مسٹر حاشر تو ایک دم سے گھبرا گئے تھے مننان کی آہستہ آواز بھی گونج رہی تھی کہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے تھے نجب دیکھ رہا تھا سب کے چہرے جو مننان کے غصے پر سہم گئے تھے۔۔۔

"ڈونٹ بی مین مسٹر مننان۔۔۔ہم یہ ڈیل کرنے کو تیار ہیں۔۔"

"آپ سے کون ڈیل کرنا چاہتا ہے۔۔؟؟ میری کمپنی یہ ڈیل جسٹ مسٹر حاشر کی کمپنی کے ساتھ کرنا چاہتی کمپنی کولیبریشنز کمپنیز سے نہیں۔۔۔"

اب نجیب کو غصہ آیا تھا جب مننان نے اسکی بات کاٹی تھی۔۔۔ ایک بات تو  واضح ہوگئی تھی کہ یہ پہلی عادت مننان کی ان پر گئی

"اور تمہیں لگتا ہے حاشر میرے بغیر ایسا کرے گا۔۔؟؟"

"پوچھ لیں کرے گے۔۔؟؟ آخر کو  'این-ایچ گروپ آف انڈسٹریز کے ساتھ یہ گولڈن چانس کوئی کیسے مس کرسکتا۔۔؟ کیوں مسٹر حاشر۔۔؟؟ یہ میری ڈیل پروفیٹ کا آپ کی کمپنی کو جسٹ 30 فیصد ملے گا پروجیکٹ کے سب ڈیسیژن میری اجازت کے بعد فائنل ہوں گے۔۔۔ لاسٹلی۔۔۔ جب تک آپ میری کمپنی کے ساتھ کانٹریکٹ میں ہوں گے آپ کسی بھی کمپنی کے ساتھ کوئی نئی ڈیل سائن نہیں کریں گے۔۔ اگر میری شرائط منظور ہوں تو کل ان کاغذات کے ساتھ کمپنی میں آجائیے گا۔۔۔"

سب کو سانپ سونگ گیا تھا۔۔

"سیریسلی۔۔؟؟  "

نجیب صاحب جیسے ہی اٹھنے لگے تھے حاشر نے ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھا لیا تھا

حاشر صاحب کی خاموشی نے نجیب کو اور غصہ دلایا تھا۔۔۔

"اوکے مسٹر مننان میں آپ کو بتا دوں گا۔۔۔"

"آلرائٹ۔۔۔ کمپنی میں آنے سے پہلے اپاؤنٹمنٹ لے لیجئے گا۔۔ میں بنا  شیڈیول کے ملنے والوں کو اپنا وقت نہیں دیتا۔۔۔"

نجیب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مننان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ہوئی تھی

وہ یہ دوسری بازی جیتا تھا۔۔۔

"گڈ بائے مسٹر نجیب آفندی۔۔۔"

اٹھ کر کوٹ کے بٹن بند کرتے اس نے کہا تھا اور بنا حاشر سے ہاتھ ملائے وہ چلا گیا تھا وہاں سے۔۔

"وٹ دا ہیل حاشر۔۔؟؟ تم کیسے اک ڈیل کے پیچھے اسکی اتنی شرطیں مان سکتے ہو۔۔؟؟"

حاشر بیٹا مجھے تم سے یہ امید نہ تھی"

نجیب اور اسکے والد دونوں ہی بولے تھے

"میں سائن نہ کرتا تو ہمارا کوئی دشمن سائن کرلیتا۔۔۔ 'این اینڈ ایچ ' کمپنی اور یہ جو ابھی گیا یہ اپنے آپ میں برینڈ بن گئے ہیں۔۔ منافع تیس فیصد بھی ہو تو اربوں میں جائے گا۔۔ جتنی اوپر یہ کمپنی جارہی ہے۔۔ "

"اس میں غرور دیکھا۔۔وہ۔۔"

"انکل اس پر غرور جچتا ہے۔۔ وہ اس مقام پر کھڑا ہے کہ جو میٹنگ آج اس نے کی اس میٹنگ اور ڈیل کے بعد ہماری کمپنی کو دوسرے بزنس مینز بھی اپرووچ کریں گے ۔۔"

حاشر بولتا جا رہا تھا اور نجیب اس خالی جگہ کو دیکھتا رہ گیا تھا۔۔۔

"آئی ہیٹ یو ڈیڈ۔۔۔"

"مجھے بھی نفرت ہے تم سے سنا تم نے۔۔ یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہورہا ہے۔۔"

یہ دو باتیں اسے بارہا سنائی دے رہی تھی۔۔۔

جنہیں وہ بار بار بھلانے کی کوشش میں تھا۔۔۔

"ماہیر آفندی۔۔۔"

صبح کے چھ بج گئے تھے اسے جاگتے ہوئے اس دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے

ایک طرف اسے وہ چہرہ بھول نہیں رہا تھا جس نے اسکے ساتھ اس رات کو بدتمیزی کی اور اب اسے معلوم ہورہا تھا کہ وہ ماہیر آفندی ہے نجیب آفندی کا بیٹا۔۔

اور دوسری ترف مننان آفندی۔۔۔

"یا اللہ۔۔۔میں یہاں ایک اور دن نہیں رک سکتی۔۔"

وہ جلدی سے اٹھی تھی لیپ ٹاپ اٹھایا تھا اور لیٹر لکھنا شروع کردیا تھا اس نے۔۔۔

اور وہ لیٹر سیدھا مننان کو نہیں نسواء کی اسسٹنٹ کو گیا تھا جس نے فورا نسواء کو انفارم کردیا تھا

اور منیشہ کو فون آگیا تھا۔۔۔۔

"میم میں آج نہیں۔۔"

"تو میں آجاؤں۔۔۔؟؟ منیشہ بیٹا میں انتظار کررہی ہوں آفس نہیں گھر آنا ہے۔۔۔"

"پر میم۔۔"

"میں ڈرائیور بھیج رہی ہوں۔۔۔"

۔

"جی۔۔۔۔اچھا۔۔۔"

منیشہ نے گھٹنے ٹیک دئیے تھےکچھ دیر میں فریش ہوکر وہ بیگ اور موبائل اٹھائے جیسے ہی فلیٹ سے باہر نکلی پارکنگ میں ابھی بھی وہ ایک خاص گاڑی کھڑی تھی

"مننان۔۔۔"

مگر منیشہ میں ہمت نہیں تھی ونڈو پر ناک کرنے کی نسواء کی بھیجی گئی گاڑی جیسے ہی پاس سے گزری مننان نے بھی گاڑی سٹارٹ کردی تھی

اسے لگا تھا منیشہ سے آفس میں بات کر لے گا مگر جیسے جیسے وہ اس گاڑی کو فالو کرتا گیا گاڑی انکے گھر کی پارکنگ میں رکی تھی اور اب وہ سہی سے پہچان گیا تھا گھر کے ڈرائیور کو۔۔۔

"منیشہ۔۔۔"

مگر دروازہ کھلا اور نسواء منیشہ کو گلے لگائے اندر لے گئی تھی۔۔۔

۔

"ماں۔۔۔"

"ساری رات کہاں تھے۔۔؟؟"

نسواء نے ہاتھ باندھتے ہوئے مننان کی طرف دیکھا تھا جس کی نظریں منیشہ سے ٹکرائی تھی جو نظر بچاتے ہوئے اندر جاچکی تھی

"وہ ماں۔۔"

"وہاں دیکھنا بند کرو وہ اندر جاچکی ہے۔۔"

مننان کو حیران چھوڑ کر نسواء اپنی ہنسی دباتے ہوئے اندر چلی گئی تھی

۔

"تو ڈاکٹر حورب آج کچن میں شیف بنی ہوئی ہیں۔۔؟؟ یہ تو کمال ہوگیا بھئ۔۔۔"

"تووو ماما کی لاڈمی سیکڑیٹری کو وقت مل گیا چکر لگانے کا۔۔۔؟؟"

حورب آگے بڑھ کے منیشہ کے گلے لگی تھی اس نے منیشہ کو وہی عزت دی تھی جو نسواء دیتی آئی سوائے مننان کے منیشہ گھر کا فرد جیسی حیثیت رکھتی تھی

۔

"مس ڈاکٹر آپ کو تو وہ بھی فرصت نہیں ملتی کہتی تھی شفٹنگ میں ہیلپ کرو گی یہ ہیلپ کی۔۔؟؟ عین ٹائم پر میسج کردیا نہیں آسکتی نہ میں تم سے ناراض۔۔۔"

نسواء کو بتاتے ہوئے منیشہ نے منہ بنا لیا تھا

"ہاہاہا حورب میڈم جلدی سے ناشتہ بنا لیں میں منیشہ کے ساتھ سٹڈی میں ہوں کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔"

"پر آنٹی۔۔۔"

"حورب بیٹا منیشہ یہیں ناشتہ کرے گی اور جب تک فلیٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا"

مننان جاتے جاتے رکا تھا اور پھر تیز قدموں سے اپنے روم کی طرف چلا گیا تھا

"کم بیٹا۔۔۔"

"کچھ کچھڑی پک رہی ہے۔۔۔ ماں ورنہ کبھی کسی کو بھی گھر میں رکنے کا نہیں کہتی۔۔۔"

پیچھے آتی جلنے کی سمیل پر ملازمہ کی چیخ سے حورب جلدی جلدی واپس کچن میں داخل ہوئی دھیان ابھی بھی اوپر سٹڈی روم کی طرف جارہا تھا

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نجیب۔۔بیٹا بات سنو۔۔۔ ظہیر آیا ہے نیچے ۔۔اور وہ بہت شرمندہ۔۔"

"اسکی شرمندگی گئی بھاڑ میں۔۔۔اسے کہیں چلا جائے یہاں سے۔۔۔"

نجیب جیم سے سیدھا اپنے روم کی جانب بڑھا تھا

"نجیب وہ آپ کے دوست ہیں آپ ایک بار بات سن لیں۔۔"

عمارہ کے ہاتھ میں پکڑ جوس کے گلاس کو بھی جھٹک دیا تھا نجیب نے۔۔۔اور روم کا دروازہ بند کرلیا تھا

"ظہیر بیٹا وہ زرا غصے میں ہے۔۔"

"پر وہ غصے میں کیوں ہیں۔۔؟ مامو تو کبھی غصہ نہیں کرتے۔۔۔"

لیزا نے جیسے ہی سوال کیا باقی بچوں نے بھی تشویش سے آفندی صاحب کو دیکھا تھا۔۔

جو دانت پیستے رہ گئے ۔۔۔ ماضی کا کوئی راز کوئی بات بچوں کے سامنے نہیں آئی تھی۔۔

یہاں تک کہ بچوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا نسواء بھی تھی کچھ لگتی تھی۔۔

یہ خود غرضی ہی تو تھی اس خاندان کی بڑی بہو کا وجود تک چھپا دیا گیا تھا سب سے۔۔۔

۔

"بات سنو میری۔۔۔"

ظہیر شرمندہ ہوکر اٹھ کھڑا ہوا تھا اور جاتے جاتے عمارہ کے کان میں یہ کہتے ہی وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

عمارہ ایکسکئیوز کرکے جیسے ہی باہر گئی تھی وہ جتنی نزدیک کھڑی تھی ظہیر کے وہ  نجیب کی نظریں ونڈو سے اسکی ہر نقل و حرکت دیکھ رہی تھی

"یہ باہر کیا کررہی ہے۔۔۔؟؟"

نجیب اس وقت زیادہ شاکڈ ہوا تھا جب ظہیر نے بات کرتے کرتے عمارہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

اور اس وقت اسے ماضی کی ایک بات یاد آگئی تھی۔۔

۔

"فار گوڈ سیک۔۔۔ وہ میرا دوست ہے نسواء۔۔ جگری دوست۔۔۔"

"تو۔۔؟ اسکا مطلب کیا ہوا وہ میرا ہاتھ پکڑ سکتا ہے۔۔؟؟ حد ہوگئی ہے نجیب آپ بھی۔۔"

"نسواء وہ ظہیر ہے۔۔ ہمارے گھر کا ایک فرد ہے۔۔۔ اس نے معافی مانگی۔۔۔"

"یہ دوسری بار معافی مانگی۔۔۔ جب میں کہہ چکی ہوں مجھے پسند نہیں کسی غیر مرد کا میرا ہاتھ پکڑنا تو پھر کیوں آپ سمجھ نہیں رہے نجیب۔۔؟؟ "

"نسواء آپ میری بات کا غلط مطلب۔۔۔"

"نووو۔۔۔ مجھے کوئی صفائی نہیں چاہیے۔۔ میں کہہ چکی ہوں چاہے آپ کا دوست ہو کزن ہو۔۔ میں برداشت نہیں کروں گی اگر پھر سے اس نے میرا ہاتھ پکڑا۔۔۔ میں منہ توڑ دوں گی۔۔"

"ہاہاہاہا اچھا بابا۔۔۔ اگر ظہیر نے پھر سے ہاتھ پکڑا تو میں اس کا منہ توڑ دوں گا۔۔۔"

"ڈیٹس بیٹر مسٹر نجیب آفندی۔۔"

غصےسے بھری نسواء کو اپنی آغوش میں جیسے ہی لیا تھا نسواء خاموش ہوگئی تھی۔

۔

"نجیب۔۔۔"

"جی دادی۔۔۔"

"نسواء کو واپس اپنی زندگی میں لانا چاہتے ہو تو محنت کرو۔۔ ایسے ہاتھ میں ہاتھ رکھ کر مت بیٹھو۔۔۔"

"دادی۔۔۔ بہت دیر ہوگئی ہے۔۔۔ وہ لوگ خوش ہیں۔۔۔

میری حسرت ہی رہی کہ الگ ہوکر نسواء کو میری ضرورت پڑے گی۔۔۔"

۔

"نجیب۔۔۔ بیٹا ایک بات کہوں۔۔۔؟؟"

نجیب کہتے کہتے کپبرڈ سے سوٹ نکالنے لگا تھا آفس کے لیے جب دادی کی بات نے نجیب آفندی کے ہاتھ روک دئیے تھے

"تم ابھی بھی شرمندہ نہیں ہو۔۔؟؟ جو تم نے نسواء کے ساتھ کیا اپنے بیٹے مننان کے ساتھ کیا۔۔

نجیب۔۔۔ کوئی باپ اپنے بیٹے سے اتنی نفرت نہیں کرتا کیا نسواء نے چیٹ کیا تھا۔۔؟؟

کیا مننان تمہاری اولاد نہیں کیا وہ ناجائز۔۔۔"

"دادی۔۔۔۔"

وہ چلایا تھا۔۔۔اور دروازہ اتنی زور سے بند کیا تھا الماری کا کےپیچھے وال کے ساتھ لگی تھی سب چیزیں گرنے لگی تھی۔۔۔۔

"وہ۔۔۔ میرا جائز بیٹا ہے۔۔ دادی۔۔۔ میرا خون ہے مننان۔۔ نسواء کے بارے میں آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں۔۔؟؟"

"سوری بیٹا۔۔۔۔ پر جیسے تم نے کچھ سال پہلے اپنے بیٹے کو سب کے سامنے نفرت سے بلایا تھا ہم سب کو یہی لگا۔۔۔۔

تمہارے بعد گھر کی بہوؤں شک کرنے لگی تھی نسواء کے کردار پر۔۔۔

تم نے تاثر ہی ایسا دیا تھا کہ ہم سب کو لگنے لگا تھا کہ وہ تمہارا خون نہیں۔۔۔

اور ابھی بھی سب کو وہ ناجائز لگتا ہے اس لیے نسواء اور اسکے بچوں  کی کوئی عزت نہیں رہی اس خاندان میں۔۔۔

تمہارے کزن کے بچوں کو۔۔۔ تمہارے بچوں کو نہیں معلوم کون نسواء تھی کوئی مننان تھا۔۔۔

ایم سوری میری بات بری لگی ہو تو۔۔۔"

دادی  معافی مانگ رہی تھی مگرچہرے پر پشیمانی نہ تھی وہ آج نجیب آفندی کو اسکا گناہ دیکھانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔۔۔

۔

وہ کتنے منٹ کتنے گھنٹے اسی جگہ کھڑا رہا اسے خبر نہ ہوئی۔۔ بس جب سر کو ہاتھوں میں پکڑے وہ بیڈ پر بیٹھا تو اسے ایک احساس بہت سالوں کے بعد ہوا تھا کہ اس نے اپنی جائز محبت اپنی جائز اولاد کو دنیا اور گھر والوں کے سامنے ناجائز قرار دہ دیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میں کچھ سمجھی نہیں میم۔۔۔"

"پھر میم۔۔؟؟ آنٹی کہنے میں کیا حرج ہے۔۔۔؟؟"

"آپ۔۔۔"

"کل میں فضا سے ملی۔۔۔اور جب تمہیں فنکشن میں دیکھا دل کررہا تھا مننان کو جی بھر کے ڈانٹوں۔۔۔"

نسواء منیشہ کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر اپنے ساتھ بٹھا چکی تھی

"آپ کیا بات کررہی ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہی میم۔۔۔"

"میری طرف دیکھو۔۔۔اور پھر بولو۔۔؟؟ تم جانتی ہو تم نے اپنی ماں کو دیکھا تم مجھ سے شئیر کرسکتی ہو منیشہ میں تمہیں جج نہیں کروں گی میری بچی۔۔۔"

منیشہ نے سر اٹھا کر جیسے ہی نسواء کی آنکھوں میں دیکھا تھا ایک ایک کرکے آنسو پانی کی صورت آنکھوں سے بہنے لگے تھے

"میرے پاس شئیر کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ خالی ہاتھ ہوں۔۔ میں بس واپس جانا چاہتی ہوں۔۔۔ میں اب یہ نوکری اور نہیں کرسکتی پلیز۔۔۔"

وہ پھر سے منہ نیچے کرچکی تھی

"جسٹ لائک ڈیٹ۔۔۔؟؟ چلی جاؤ گی۔۔۔؟؟ ان خود غرض لوگوں کو ایک بار بھی آئینہ نہیں دیکھاؤ گی۔۔؟؟ ایک بار بیٹا۔۔اپنی ماں کا سامنا کرو۔۔۔"

"کیا آپ نے سامنا کیا ماضی کا۔۔؟؟ آپ بھی تو واپس جانا چاہتی ہے نہ آنٹی۔۔؟؟

ہم دونوں ساتھ چلتے ہیں پلیز۔۔۔ میں بہت اذیت میں ہوں خاص کرکل سے۔۔"

وہ کہتے ہی اٹھ کر باہر جانے لگی تھی جب نسواء نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"اس لیے بھاگ رہی ہو کہ سامنے ماضی ہے۔۔؟؟ یا اس لیے بھاگ رہی ہو کہ جس سے تم محبت کرتی ہو اسے تمہاری چھوٹی بہن پسند آگئی ہے۔۔؟؟ مننان سے بھاگ رہی ہو یا اپنی بہن لیزا اور مننان کی نزدیکیوں سے۔۔؟؟"

کچھ لمحوں میں منیشہ جیسے ہی اپنے گھٹنوں پر گری تھی اسکی سسکیاں پورے کمرے میں گونجی تھی۔۔۔

"میں سب سے بھاگنا چاہتی ہوں۔۔ نسواء ممامی۔۔۔ سب سے۔۔۔ میں اس ماں سے دور جانا چاہتی  ہوں جس نے مجھے لاوارث چھوڑ دیا۔۔ اس خاندان سے بھاگنا چاہتی ہوں۔۔۔

میں اس محبت سے دور بھاگنا چاہتی ہوں جس نے سوائے حقارت کے مجھے نہیں دیکھا 

میں اپنے آپ سے بھاگنا چاہتی ہوں۔۔۔ میں مننان سر سے دور جانا چاہتی ہوں۔۔۔"

"اوووہ۔۔۔۔ منیشہ۔۔۔۔"

"میں کل انکو دیکھتی رہ گئی۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اتنا خوش تھی۔۔۔ تو میں کون ہوں۔۔

انہوں نے مجھے مار کیوں نہیں دیا۔۔؟؟ مجھے کیوں زندہ رہنے دیا میرے ماں باپ نے۔۔؟؟"

نسواء بھی گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی تھی منیشہ کو اپنے سینے سے لگائے اسکا چہرہ بھی آنسوؤں سے تر ہوگیا تھا

"تم میں اور مجھ میں فرق کیا ہے جانتی ہو۔۔؟؟ تم اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہو۔۔ اور میں  بےبسی میں۔۔۔ منیشہ میں نے تمہیں یہاں اس لیے بلایا کیونکہ میں جانتی ہوں۔۔۔ میرے جانے کے بعد اگر مننان کو کوئی سنبھال سکتا ہے تو وہ صرف تم ہو۔۔۔"

"میں میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔"

"میرے پاس وقت بہت کم ہے۔۔۔ میں نہیں چاہتی جو غلطی مجھ سے ہوئی وہ میرے بیٹے سے بھی ہو۔۔۔ میں نہیں چاہتی مننان اس خاندان میں شادی کرے۔۔۔ اور تمہیں مننان کو روکنا ہوگا۔۔۔ جیسے بھی کرو جو بھی کرو۔۔۔"

نسواء منیشہ کے سوال کو اگنور کرکے اپنی بات سامنے رکھ چکی تھی

"آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔۔؟؟ کہاں جارہی ہیں آپ۔۔۔؟؟"

اور جب اس نے نسواء کا ہاتھ مظبوطی سے پکڑ لیا تو نسواء نے ایک رپورٹ ڈیسک سے اٹھا کر منیشہ کو پکڑا دی تھی اور خود کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔

"یہ۔۔۔کینسر۔۔۔۔مگر آپ تو بالکل ٹھیک۔۔۔"

"کچھ چیزوں کو آپ وقت طور پر گمراہ کرسکتے ہو ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔۔۔"

"آن۔۔۔آپ پلیز ابھی چلیں ہم حورب سے بات کرتے ہیں پلیز۔۔۔ہم سب سے بات کرتے ہیں آپ وقت ضائع مت کریں۔۔"

"کوئی فائدہ نہیں میرے پاس اتنا وقت ہے کہ اپنے بچوں کو واپس لے جا سکوں۔۔۔ تم مجھ سے وعدہ مننان کو اپنی محبت کا احساس دلاؤ گی منیشہ۔۔۔میں نہیں چاہتی وہ وہاں جائے پلیز۔۔۔۔"

نسواء نے جیسے ہی منیشہ کے  سامنے ہاتھ جوڑے تھے منیشہ نے ان جڑے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ماتھے سے لگا کر بوسہ دیا تھا۔۔۔

"آپ جیسا کہیں گی۔۔۔ ویسا ہوگا۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماہیر صاحب وہ لڑکی صبح ہی بلڈنگ سے آفس کے لیے نکل گئی۔۔۔کتنے گھنٹے سے انتظار کررہے تھے فضول میں۔۔"

ماہیر نے گلاسزز اتار کر بیک سیٹ پر بیٹھے دوست کو دیکھا تھا

"کیا۔۔؟؟ واچ مین کو پیسے کھلا کر پوچھ کر آیا ہوں۔۔۔"

"ہممم۔۔۔"

"ہمم کیا۔۔؟؟ آگے کیا۔۔۔؟؟"

"آگے کچھ نہیں بس اسے امپریس کرنا ہے۔۔"

"ہاہاہاہا دیکھتے ہیں۔۔۔ مار بھول گیا ہے۔۔۔؟؟"

"ہیے واجد واچ آؤٹ مین۔۔۔ کیوں ماہیر کو پمپ کررہا ہے۔۔؟؟"

دوسرے دوست نے ڈانٹا تھا

"میں کچھ نہیں بھولا اور بھولنے بھی نہیں دوں گا۔۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔ اس سے شادی کروں گا۔۔۔ اور وہ ایک تھپڑ جو اس نے مجھے مارا اسے ہر روز ذلیل کرکے دیا کروں گا۔۔۔"

۔

واپس گلاسزز لگائے اس نے گاڑی فل سپیڈ میں بھگا دی تھی۔۔۔

وہ دونوں دوست چپ چاپ بیٹھ گئے تھے وہ دونوں ہی جانتے تھے ماہیر کے غصے کو۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء۔۔۔ میری بات سن لیں۔۔۔"

آفس کے باہر کھڑے اس شخص نے بالآخر راستہ روک لیا تھا نسواء کا

"سر راستہ چھوڑیں ۔۔۔ اگر آپ ملنا چاہتے ہیں تو اپاؤنٹمنٹ لیجئے۔۔۔"

گارڈ نے جیسے ہی نجیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کرنے کی کوشش کی تھی نجیب آفندی نے اسے پیچھے دھکا دہ دیا تھا 

"ہاتھ مت لگانا۔۔۔"

"بس۔۔۔ آپ انتظار کیجئے میرا یہیں۔۔۔"

"پر میم۔۔۔"

نسواء کی ایک نظر نے گارڈز کو پیچھے کردیا تھا

"ہر جگہ تماشا کرنا ضروری ہے۔۔؟؟"

وہ نجیب کا بازو پکڑ ے ایک کارنر پر لے گئی تھی

"نسواء میری بات سنیں۔۔۔پلیز غصہ ختم کرکے گھر چلیں۔۔۔"

"ہاہاہا۔۔ گھر چلیں۔۔؟؟ کس لیے۔۔۔؟؟"

نسواء نے کچھ قدم خود کو پیچھے کیا تھا

"کونسا گھر۔۔؟؟ جہاں دوسری بیوی کے ساتھ اتنے سال گزار کر ایک الگ دنیا بسا کر نئی اولاد پیدا کرنے کے بعد بھی آپ میں ہمت ہے مجھے اس گھر میں بلانے کی جو میرے لیے اب جہنم سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔"

"نسواء آپ میری بیوی ہیں۔۔"

"آگے نہیں رہنا چاہتی۔۔۔ میں بہت جلدی اپنے وکیل کو آپ کے پاس بھیجوں گی ڈائیورس پیپرز سائن کرکے۔۔۔"

"نسواء۔۔۔؟؟ آپ یہ سب جھوٹ بول رہی ہیں۔۔۔ آپ محبت کرتی ہیں مجھ سے۔۔

پلیز۔۔یہ سب نہ کریں۔۔۔ میں آپ کو طلاق نہیں دوں گا۔۔۔ نسواء۔۔۔"

نجیب کی بھری ہوئی آنکھوں نے نسواء کے چہرے پر بےساختہ مسکراہٹ بکھیر دی تھی

"آپ سے طلاق کون مانگ رہا ہے۔۔؟؟ میں دوں گی۔۔ اور یہ قصہ ختم کردوں گی۔۔"

"اور ہمارے بچے۔۔؟؟"

"بچے۔۔؟؟ ہاہاہاہا بھول گئے میرے بیٹے کو گھر سے نکالنے سے پہلے کن الفاظ سے نوازا تھا۔۔؟؟ نجیب آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے مجھے روکنے کے لیے۔۔۔"

"میں محبت کرتا ہوں نسواء۔۔۔"

"محبت کا نام لیتے ہیں تو اور نفرت ہوجاتی ہے آپ سے نجیب۔۔۔ آپ صرف  جسموں سے محبت کرتے ہیں کبھی عمارہ تو کبھی کوئی اور۔۔۔ آپ کو محبت سے کیا غرض۔۔؟؟"

وہ جانے لگی تھی جب نجیب نے اسے اپنی اوڑھ کھینچا تھا۔۔۔ اپنے گلے سے زبردستی لگا لیا تھا

"نسواء میں پچھتا۔۔۔ رہا ہوں۔۔۔"

"آپ نہیں پچھتا رہے۔۔۔ یقین جانے جس دن نجیب آفندی آپ پچھتائیں گے۔۔ آپ میں ہمت نہیں رہے گی مجھ سے نظریں ملانے کی۔۔۔

جس دن آپ پچھتائیں گے آپ میرے پاس نہیں مننان کے پاس بھاگے گے۔۔۔

آپ ابھی پچھتا نہیں رہے بس پوانٹ سکور کررہے ہیں تاکہ آپ مجھے واپس اس جھوٹی دنیا میں قید کرسکے۔۔اور ایک ہی راگ آلاپتے رہے 'مجھے تم سے محبت ہے۔۔؟؟"

نسواء کی باتیں نجیب کو اور شاک کررہی تھی وہ جو پیچھے گاڑی کے ساتھ لگ گیا تھا۔۔۔ وہ حیران ہورہا تھا اپنی بیوی پر جو اتنی آگ بگولا تھی۔۔۔

"میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔؟؟ مجھے عمارہ بھی پسند آگئی۔۔

میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔ مجھے عمارہ کے ساتھ فزیکل ریلیشن بھی چاہیے

میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔۔۔ مجھے دوسری شادی بھی کرکے تمہاری برابری دوسری عورت کو لانا تھا

میں تم سے محبت کرتا ہوں مگر تمہارے ساتھ میرے بیٹے سے مجھے نفرت ہے۔۔۔

مجھ سے محبت تھی اور ہماری پیار کی نشانی سے نفرت۔۔۔؟؟

میں نے آپ سے بہت محبت کی ہے نسواء۔۔۔ مگر آپ کے ساتھ مجھے اولاد برداشت نہیں تھی۔۔۔

اور عمارہ جس سے محبت نہیں اس سے اولاد بھی پیدا کی اور اس اولاد سے محبت بھی بلا کی کی آپ نے وااہ آپ کی محبت۔۔۔؟؟

"کبھی کبھی جلن ہوتی تھی عمارہ کے نصیبوں سے۔۔۔"

نسواء نے نجیب کا گریبان پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا

"کبھی کبھی دل کرتا تھا کہ کاش میں دوسری عورت ہوتی آُ کی زندگی میں ۔۔۔تو مجھے بنا کسی محبت کے محنت کے اذیت کے وہ سب ملتا جو اس دوسری عورت کو ملا رہا۔۔۔

کبھی کبھی مجھے جلن ہوتی تھی اس دوسری بیوی سے اگر میں اسکی جگہ ہوتی تو آپ نجیب آفندی۔۔۔ اتنا ہی مان عزت اور پیار میرے بچوں کو دیتے۔۔۔

پر میں۔۔۔ میں دوسری عورت نہیں بن سکتی۔۔۔ اور میں ایسی محبت بھی نہیں چاہتی۔۔۔

اس لیے تو یہ رشتہ ختم کرنے کا سوچ لیا ہے میں نے نجیب آفندی۔۔۔ آپ کو آزاد کررہی ہوں۔۔۔ آپ ہمیشہ مننان اور مجھے دنیا سے میڈیا سے چھپاتے رہے۔۔۔ بدنامی کے ڈر سے۔۔۔

دیکھیں وہ بیٹا،،، بنا آپ کے نام کے اس مقام پر ہے کہ آپ لوگوں کو چلاتے ہوئے بھی اسے اپنا خون کہیں گے تو لوگ مانیں گے نہیں۔۔۔اور میرا آپ کا رشتہ۔۔۔ اب کاغذوں میں بھی نہیں رہنا چاہیے۔۔"

وہ منہ صاف کرکے وہاں سے چلی گئی تھی

"میں۔۔۔ میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ نسواء آپ میری پہلی اور آخری محبت ہے۔۔

میں آپ کو چھوڑ دوں گا تو مرجاؤں گا۔۔۔"

گاڑی کے روف ٹاپ پر جیسے ہی سر رکھا تھا انہیں ونڈو میں اپنا عکس دکھا تھا

جو نجیب آفندی نہیں تھا۔۔۔ وہ ایک کمزور ٹوٹا ہوا شخص نجیب آفندی نہیں تھا۔۔۔

آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے

وہ اس بات کا ثبوت تھے کہ آج ان کا وہ ایک ڈر جو انکے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔۔۔

سچ کہہ رہے تھے سب نجیب آفندی کو ابھی پچھتاوا نہیں ہوا تھا پر کون جانتا تھا کہ ماضی سے اٹھنے والے پردے نجیب آفندی کو اپنے ہر فیصلے پر پچھتانے پر مجبور کردیں گے۔۔۔

ایک وقت آنے والا تھا کہ پردہ جب اٹھے گا تو نجیب آفندی اپنی دوسری شادی کے فیصلے پر سب سے زیادہ پچھتانے والا تھا۔۔۔

اور وہ دن بہت تیزی سے انکے سامنے آنے والا تھا۔۔۔

"محبت شراکت نہیں مانگتی۔۔ تم محبت کرتی ہو تو کیوں ابھی تک ساتھ ہو۔۔؟ "

۔

"نجیب۔۔"

سٹڈی روپ کا دروازہ جیسے اوپن ہوا عمارہ اندر داخل ہوئی تھی ہاتھ میں چائے کا مگ تھا جو اس نے نجیب کے سامنے رکھا تھا

۔

"نجیب۔۔۔"

"ہمم۔۔"

سر جیسے ہی اٹھایا تو عمارہ کچھ پل کو وہیں رک گئی تھی پورا روم بکھرا ہوا تھا سب کچھ پیپرز بکھرے ہوئے تھے۔۔ ڈیسک کی ہر چیز نیچے گری ہوئی اس بات کا ثبوت تھی کہ اتنے گھنٹے سے وہ شخص کن چیزوں پر اپنا غصہ نکال رہا تھا۔۔۔

"نجیب۔۔۔"

نجیب عمارہ کی آنکھوں میں غور سے دیکھنے لگا تھا۔۔ بہت سالوں کے بعد عمارہ کو نجیب کا وہ دیکھنا نصیب ہوا تھا جو شادی سے پہلے تھا

۔

"عمارہ۔۔۔ یہاں آکر بیٹھو۔۔۔"

صوفے کے ساتھ والی جگہ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔۔

اور وہ بہت خوش ہوئی تھی اس وقت اور جلدی سے بیٹھ گئی تھی اور اب اسکی نظر نجیب کی گود میں رکھے نسواء کے فوٹو فریم پر پڑی۔۔ 

۔

"میں یوں خفا تو نہیں۔۔ مگر گلہ ہے مجھے

کیوں بےوفا سے۔۔۔ کوئی وفا کرے۔۔۔"

۔

"تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے۔۔؟؟"

"بہت محبت ہے۔۔نجیب بہت زیادہ۔۔"

"اتنی کہ تم شراکت برداشت کرتی رہی اتنے سالوں سے۔۔؟؟"

نجیب کی بات سن کر وہ شاک ہوئی تھی اور نجیب کے ہاتھ مٹھی کی صورت بند ہوگئے تھے۔۔

"نجیب۔۔۔"

"میرے لیے نسواء سے زیادہ محبت مجھے کسی نے نہیں کی عمارہ۔۔ کیونکہ اس کی محبت نے شئیرنگ پسند نہیں کی۔۔۔ اب مجھے شک ہونے لگا ہے تمہاری مجھ سے بہت زیادہ محبت پر۔۔"

"ہاہاہا۔۔ آپ کس پاگل کی باتوں پر یقین کررہے ہی نجیب۔۔؟؟ 

محبت کرنے والے محبوب کی خوشی کو آگے رکھتے ہیں اور وہ مطلبی عورت تھی وہ۔۔"

"گیٹ آؤٹ۔۔۔"

"نجیب۔۔۔"

"آؤٹ۔۔۔"

عمارہ واپس چلی گئی تھی۔۔

"اگر میں پچھتایا تو یہ نجیب آفندی کبھی اٹھ نہیں پائے گا نسواء۔۔۔"

۔

اسکی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس فوٹو فریم میں گر رہے تھے جب پھر سے دروازے پر دستک دی تھی کسی نے۔۔۔

۔

"کم ان۔۔۔"

اپنا چہرہ صاف کئیے جیسے ہی نجیب نے کہا ماہیر پرجوش انداز میں اندر داخل ہوا پر سٹڈی روم کی یہ حالت دیکھ کر حیران ہوا۔۔

"ڈیڈ یہ سب۔۔؟؟ آپ تو۔۔ بہت نیٹ اینڈ کلین پسند کرتے۔۔اور۔۔"

"کیا کہنے آئے ہو۔۔؟ کام کی بات کرو اور جاؤ۔۔۔"

"اوہہ۔۔ڈیڈ۔۔۔ میں آفس جوائن کرنا چاہتا ہوں۔۔ میں آپ کے کندھوں سے یہ بزنس کا بوجھ کم کرنا چاہتا ہوں۔۔۔"

ماہیر پاس جاکر بیٹھا تھا اور نجیب کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا

"ڈیڈ۔۔ میں ذمہ دار بننا چاہتا ہوں۔۔ سعی معنوں میں میں آپ کا بیٹا بننا چاہتا ہوں آپ کی طرح قابل۔۔۔"

نجیب کے غصے کو ماہیر کی باتوں نے نرمی میں بدل دیا تھا۔۔

"ہمم۔۔ ٹھیک ہے کل آفس چلنا میرے ساتھ۔۔۔"

"ڈیڈ۔۔۔ میں کمپنی کا 'سی ای او' بن کر آگے آنا چاہتا ہوں۔۔ جن لوگوں نے مجھے ڈی گریڈ کیا انہیں جواب دینا چاہتا ہوں۔۔۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نجیب آفندی کا بیٹا ہوں۔۔۔

پلیز ڈیڈ۔۔۔پلیز۔۔۔"

نجیب نے کچھ دیر سوچا اور پھر ہاں میں سر ہلا دیا تھا۔۔

"تھنک یو۔۔ تھنک یو سوو مچ ڈیڈ۔۔۔"

وہ نجیب کے گلے لگ گیا تھا۔۔ کچھ پل ہی سہی نجیب کے بےچین وجود کو سکون ملا تھا

۔

ٹیک کئیر ڈیڈ گڈ نائٹ۔۔۔"

اور وہ باہر چلا گیا تھا۔۔۔

"اپنے ایک بیٹے کو تو وہ نہ دے سکا۔۔ کم سے کم ماہیر کو وہ دہ دوں۔۔"

نجیب نے ظہیر کو فون ملایا تھا ۔۔۔اور جیسے ہی اس نے ماہیر کو 'سی ای او' بنانے کی خبر دی تھی ظہیر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔۔

اس نے اسی وقت عمارہ کو فون گھما دیا تھا۔۔۔اور  وقت طہ کیا تھا ملاقات کا۔۔۔

اتنے سالوں کے بعد وہ کامیاب ہورہے تھے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تھینک یو سو مچ میم آپ بہت شارٹ نوٹس پر آئی ہیں۔۔ہمیں بہت خوشی ہوئی۔۔"

"اٹس اوکے مس ہانیہ۔۔۔ آئی ہوپ میں لیٹ نہیں ہوئی۔۔۔"

نسواء کے دو گارڈ پیچھے رک گئے تھے اور دو اسکے ساتھ سٹیج پر چلے گئے تھے گیسٹ آف آنرز کے ساتھ اسے بھی بہت اونر سے بٹھایا گیا تھا۔۔

۔

کالج فنکشن جیسے ہی سٹارٹ ہوا تھا ایک نام نے  نسواء کے چہرے کی ہنسی کو غائب کردیا

"شزا آفندی۔۔۔"

وہ جیسے جیسے سٹیج پر آرہی تھی نسواء کی نظروں میں وہ ماضی گھوم رہا تھا وہ ماضی جس کو یاد کرتے ہوئے وہ پوری کوشش کررہی اپنے آنسو روکنے کی۔۔

اتنے میں موبائل وائبریٹ ہوا تھا۔۔

۔

"ماں میں ڈاکٹرز کی ٹیم کے ساتھ وزٹ پر جارہی ہوں۔۔ بھائی سے پرمیشن لے لی ہے۔۔"

"پر جا کہاں رہی ہو۔۔؟؟"

"اسلام آباد۔۔میں کل آجاؤں گی پکا۔۔۔ٹیک کئیر۔۔ خدا حافظ۔۔۔"

"ارے میری پرمیشن تو لی نہیں۔۔۔"

"ہاہاہا آپ جگہ کا تب پوچھتی جب آپ اجازت دینے کا سوچ لیتی۔۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔"

"لووو یو ماں ۔۔۔"

نسواء نے ہنستے ہوئے فون بند کیا تھا اور پھر اس کا نام لیا گیا اس نے اس لڑکی کو جیسے ہی میڈل پہنایا اس کی نظر سامنے رو پر بیٹھے لوگوں پر گی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"اور پچھلے کچھ سالوں سے تمہارے یہی بہانے سن رہا ہوں میں۔۔ ان تین لوگوں پر اپنی زندگی انویسٹ کردی اور اپنا نہ بنا سکے۔۔؟؟ حزیفہ نصیب آفندی"

ظہیر نے ہاتھ ڈیسک پر مارے تھے پر حزیفہ نے کچھ ری ایکٹ نہیں دیا تھا اس وقت۔۔

"میں۔۔۔ اب اس سب سے باہر نکلنا چاہتا ہوں۔۔ میں آپ کے اور ڈیڈ کی ٹویسٹڈ پلاننگ کا حصہ نہیں رہنا چاہتا۔۔"

"اور دادی کو کیا کہو گے۔۔؟؟ اگر اتنی ہی جرات ہے تو دادی کے سامنے جاکر انکار کرو۔۔

کہو انہیں کہ تم نے انکار کردیا۔۔ اور انہوں نے جو ساری زندگی اذیت میں گزار دی تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا حزیفہ۔۔"

"آپ کیسے بھائی ہیں ۔۔؟؟ ظہیر بھائی۔۔ میں اس سے پیار کرتا ہوں۔۔ وہ دونوں بچے اب میرے بچے ہیں۔۔ اپنے باپ سے زیادہ وہ مجھے عزت دیتے پیار کرتے۔۔"

"ہاہاہاہا اور ان بچوں کی ماں۔۔؟؟ وہ آج بھی نجیب کی ایک آواز پر چھوڑ جائے گی تمہارا یہ بھرم توڑ جائے گی۔۔"

"وہ مجھے پسند کرنے لگی ہے۔۔ ڈائیورس کی بات کی ہے اس نے۔۔"

"وٹ۔۔؟"

ظہیر کے لیے بہت شاکنگ تھی یہ بات وہ مان ہی نہیں سکتا تھا ۔۔

"کیا سچ میں۔۔۔ حزیفہ۔۔۔ یقین کرو اگر یہ سچ ہے تو نجیب آفندی کا زوال ہم سب دیکھیں گے۔۔۔

اتنے سالوں کے بعد ہم کامیاب ہوں گے اس گھر کی بربادی آنکھوں سے دیکھیں گے۔۔"

"آپ مجھ پر سارا ملبہ نہ ڈالے عمارہ کی بےوفائی نے اس شخص کو کسی قابل نہیں چھوڑا ہوگا۔۔"

"ہاہاہاہا عمارہ والا دھچکا اسے وہ تکلیف نہیں دے گا جو نسواء کی علیحدگی دے گی۔۔۔

قسم سے مزہ آجائے گا۔۔۔ دادی کو یہ خبر کب دینے جارہے۔۔؟؟"

حزیفہ کے نمبر پر جیسے ہی کال آئی تھی اس نے اپنے بڑے بھائی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا

"تو مسٹر حزیفہ۔۔ کیا پلان ہے ڈنر کا۔۔؟"

"مس نسواء کہیں میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا۔۔؟؟ سیریسلی۔۔؟؟"

حزیفہ بات کرتے کرتے اپنا کوٹ کرسی سے اٹھا کر پہننے لگا تھا اپنے بھائی کو مکمل درگزر کرکے وہ دروازہ کھول کر باہر جانے لگا تھا جب ظہیر نے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔

"آپ کا حکم غلام حاظر۔۔ کب اور کہاں آنا ہے۔۔؟؟"

"ہاہاہا وہ سرپرائز ہے مسٹر حزیفہ۔۔"

"اوکے بیوٹیفل۔۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔ بائے۔۔۔"

فون بند کرکے اس نے ظہیر کی گرفت سے اپنا بازو چھڑایا تھا

"ظہیر بھائی مجھے ابھی جانا ہے باقی باتیں بعد میں۔۔"

"اور دادی۔۔؟؟ انکو کب یہ خوش خبری سنا رہے ہو۔۔؟؟ دیکھو  حزیفہ اگر دادی نے کوئی قدم اٹھایا تو تم بھی جانتے کہ کیا کریں گی وہ۔۔۔"

"ہمم۔۔۔۔میں۔۔۔میں نسواء کو اور بچوں کو یہاں سے لے جاؤں گا۔۔ پھر آپ جانے اور وہ لوگ۔۔۔آپ نے وعدہ کیا تھا ظہیر بھائی۔۔"

"جانتا ہوں۔۔ اس لیے کہہ رہا ہوں دادی اور ڈیڈ کے آنے سے پہلے یہ سب مکمل کرو اور لے جاؤ ان تینوں کو۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

حزیفہ سے بات کرنے کے بعد اسکی اداسی تھوری سی کم ہوئی تھی۔۔ ابھی وہ وہاں سے جانے لگی تھی جب نجیب کی دادی نے اسکا راستہ روکا ۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

"مسز۔۔ آفندی۔۔۔"

دادی کہتے کہتے رکی تھی وہ۔۔۔

"دادی بھی نہیں کہو گی۔۔؟؟ کیا اتنی نفرت ہوگئی ہے مجھ سے۔۔ میری بچی۔۔"

بھری آنکھوں سے انہوں نے نسواء کے گال پر جیسے ہاتھ رکھا نسواء کا وجود نرم پڑ گیا تھا۔۔

"دیکھیں۔۔۔"

"میرے ہوتے ہوئے تمہارے ساتھ یہ ظلم ہوا نسواء۔۔ آخری وقت تک لگتا تھا میں سب ٹھیک کردوں گی۔۔ میں بھی سمجھنے لگی تھی کہ میرے پوتے کی خوشی دوسری شادی میں ہے پر نسواء۔۔۔"

نسواء کے دونوں ہاتھ پکڑ کر وہ معافی مانگنے لگی تھی جب نسواء نے انہیں روکا

"آپ بڑی ہیں۔۔۔ آپ پلیز۔۔ ایسے نہ کریں۔۔"

"بڑی ہی نہیں نسواء۔۔ میرے نجیب کو ٹوٹنے سے بچا لو۔۔ وہ بکھرا تو مر جائے گا۔۔اسے مرنے سے بچا لو۔۔ واپس آجاؤ۔۔۔"

"ایم سوری ۔۔ مجھے لگا تھا کہ اتنے سالوں کے بعد اب تو آپ کو میری تکلیف کا احساس ہوگا۔۔

مگر آج بھی آپ نجیب آفندی کی دادی ہیں۔۔"

وہ اپنے آنسو صاف کرتے کہتی ہے وہ دل برداشتہ ہوگئی تھی اس وقت۔۔

مڑ کر جیسے ہی جانے لگی تھی دادی نے ایک ہلکی سی آواز دی تھی اسے اور کچھ ہی سیکنڈ میں سینے پر ہاتھ رکھے دادی نیچے گر گئی تھی۔۔۔

"مس۔۔۔ دادی۔۔۔دادی۔۔"

نسواء انکی طرف بھاگی تھی۔۔ اس نے اپنے گارڈز کوکال ملائی۔۔

دادی کا سر اپنی گود میں رکھے دادی کے منہ پر آہستہ آہستہ ہاتھ مار کر ہوش میں لانے کی کوشش کی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"دوا بھی لگے نہ مجھے دعا بھی لگے نہ مجھے

جب سے میرے دل کو تو لگا ہے۔۔۔"

۔

"سووو اگین مس حورب۔۔ اوپسسس ڈاکٹر حورب۔۔۔؟؟"

"نوٹ اگین۔۔۔"

"اچھا جی۔۔۔ پھر تو میری خوش نصیبی ہوئی یہ۔۔؟؟"

وہ بائیک سے اتر کر اسکی طرف بڑھا تھا

"وہیں رک جائیں مسٹر شہاب۔۔"

"اوووہ۔۔ نام بھی یا د ہے میرا۔۔۔؟؟"

وہ اور پاس آیا تھا حورب کے۔۔ جو ایک قدم پیچھے ہوتے ہی کسی سے جا ٹکرائی تھی۔۔

"اووہ سوو سوری میم۔۔"

حورب نے اس لڑکی سے ایکسکئیوز کیا تھا

"وٹ دا ہیل دیکھ کر نہیں چل سکتی تھی کیا۔۔؟؟"

وہ لڑکی جیسے ہی چلائی شہاب نے حورب کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے پیچھے کھینچا تھا

"تو تم دیکھ کر نہیں چل سکتی تھی۔۔؟؟ اور تمیز سیکھو بات کرنے کی۔۔"

"شہاب۔۔؟؟"

"شہاب۔۔ تم میری منگیتر سے بات کررہے ہو۔۔"

"اور آپ کی منگیتر میری گیسٹ سے ایسے بدتمیزی سے بات نہیں کرسکتی ۔۔۔"

وہ اپنے کزن اور اس لڑکی کو ایک نظر دیکھے حورب کا ہاتھ پکڑے وہاں سے لے گیا تھا۔۔

۔

"سیریسلی۔۔؟؟ آپ کو اس سے ایسے بدتمیزی سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔"

"تو برداشت کرتا رہتا۔۔؟"

"غلطی میری تھی۔۔۔"

شہاب کچھ دیر تو اس لڑکی کو دیکھتا رہ گیا تھا

"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟میں اسے معذرت۔۔۔"

"تم کیوں معذرت کرتی۔۔؟ اور ایسے اس لیے دیکھ رہا ہوں کہ تم اتنی بڑی پوسٹ پر ہو پھر بھی تم ایسے جھک کر بات کررہی تھی اس سے۔۔ وہ انسلٹ کررہی تھی ۔۔۔"

"تو۔۔؟؟ جو جس ظرف کا مالک ہو وہ ویسے ہی پیش آتا۔۔ میری ماں کہتی ہیں ہمیں کسی کا لہجہ دیکھ کر اپنی پرورش نہیں بھولنی چاہیے۔۔۔

ناؤ ایکسکئیوز مئ۔۔۔"

وہ بیگ اٹھائے گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی جو ہاسپٹل کے ڈاکٹرز کے لیے ہائیر کی گئی تھی۔۔

"ایک منٹ۔۔ آپ یہاں کب تک ہیں۔۔؟؟"

"اگر آپ ڈنر کی بات کررہے ہیں تو سوری مسٹر۔۔ رات کی فلائٹ ہے۔۔۔"

"اووہ۔۔۔"

شہاب نے راستہ چھوڑ دیا تھا۔۔ وہ گاڑی کی طرف بڑھی تھی جیسے ہی بیٹھنے لگی تھی شہاب نے پیچھے سے آواز دی تھی اسے۔۔۔

"ڈنر نہ سہی ایک کپ کافی۔۔۔"

"میں کافی نہیں پیتی۔۔۔"

"تو پھر چائے۔۔؟؟"

"ایم سوری۔۔۔"

"اوکے تو پھر لسی سہی۔۔؟؟ سوپ سہی۔۔؟؟ آئس کریم سہی۔۔ یار کچھ تو مان جاؤ۔۔۔"

"ایڈیٹ۔۔۔ہاہاہا۔۔"

وہ ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔۔۔

"کچھ زیادہ ہی دانت نہیں نکل رہے شہاب۔۔؟؟ بہت جلدی بھول گئے ہماری محبت۔۔؟؟"

وہ لڑکی نے الزام لگایا تھا جس پر شہاب کی ہنسی توچلی گئی پر غصے سے بھر گیا تھا اس کا چہرہ۔۔۔

"محبت۔۔؟؟ میرے کزن کی منگیتر بن گئی ہو اور ابھی بھی الزام مجھ پر لگا رہی ہو۔۔؟ آئینہ دیکھو اور بتاؤ کون کس سے آگے بڑھا۔۔۔"

و ہ جلدی سے بائیک پر بیٹھ کر اس گاڑی کو فالو کرنے چلا گیا تھا جس پر ابھی ابھی حورب گئی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"دادی۔۔۔ دادی اب آپ ٹھیک ہیں۔۔؟؟'

نجیب بھاگتے ہوئے گھر آیا تھا آفندی صاحب کے ساتھ وہ جیسے ہی دادی کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔۔ دادی کی طبیعت سے زیادہ نسواء کو دیکھ کر گھر کے مرد شاک ہوئے تھے۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

"ڈاکٹر صاحب اب کیسی ہیں میری ماں۔۔۔"

آفندی صاحب دادی کا ہاتھ پکڑ کر پاس بیٹھ گئے تھے۔۔ دادی کا کمرہ اس وقت کسی ہسپتال کے آئی سی یو سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔

"دادی کو ہارٹ اٹیک آگیا تھا۔۔ اگر نسواء بھابھی وقت پر انہیں ہسپتال نہ لے جاتی تو دادی۔۔۔"

"نسواء۔۔۔"

وہ جو ایک خواب سمجھ رہا تھا نسواء کی موجودگی کو وہ دروازے سے آگے بڑھا تھا۔۔

"نسواء۔۔۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔"

"یہ میرا فرض تھا مسٹر نجیب۔۔۔ اب میں چلتی ہوں۔۔"

وہ اٹھی تھی جانے سے پہلے دادی کے ماتھے پر بوسہ دے کر اس نے آہستہ سے دادی کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا۔۔

وہ سب افراد کے درمیان سے وہاں سے باہر چلی گئی تھی۔۔۔ جس کے پیچھے پیچھے نجیب بھی روم سے باہر آئے۔۔

پر نیچے ایگزٹ جانے کے بجائے نسواء کی قدم اسے کوریڈور سے اس کمرے کی طرف لے گئے تھے جو اس نے اپنے ہرجائی کے ساتھ کبھی شئیر کیا تھا۔۔

۔

۔

"ہاہاہاہا۔۔۔ نجیب اب اتار دیں۔۔۔ہوگئی آپ کی فینٹسی پوری اپنی دلہن کو سب کے سامنے اٹھانے کی۔۔۔ہاہاہا۔۔۔"

"ابھی بیڈروم میں لے جا کر اتاروں گا۔۔ اور آپ کو کیسے معلوم یہ میری فینٹسی ہے۔۔؟؟"

"آپ کی آنکھوں میں شرارت دیکھ لی ہے میں نے۔۔ اب نیچے اتار دیں۔۔۔"

"ہاہاہا ۔۔ نہیں ابھی۔۔۔"

۔

ہینڈل پر ہاتھ رکھے اس نے دروازہ کھولا تھا۔۔۔

اور جب دروازہ کھولا اسے امید تھی بلکہ یقین تھا کہ اس روم کو پوری طرح بدل دیا گیا ہوگا۔۔

اسکی شادی کی خوبسورت یادوں کو تباہ کردیا گیا ہوگا پر ایسا کچھ نہیں تھا

کمرے میں اندھیرا تھا۔۔ سامنے بڑے سے فوٹو فریم کے اوپر ایک ڈِم لائٹ اسے اور روشن کررہی تھی اور اس کمرے کو بھی۔۔۔وہ عین سامنے کھڑی تھی اس فریم کے جب نجیب روم میں داخل ہوا تھا۔۔

اس نے نسواء کو بہت دھیرے سے اپنے حصار میں بھر لیا تھا۔۔۔

ہر سو خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔

اسکی آنکھوں کے آنسوں نجیب کے ہاتھوں کی انگلیوں پر گر رہے تھے جو نسواء کی ویسٹ پر مظبوطی سے تھے۔۔

"نسواء۔۔۔"

"کیوں اس کمرے کی ہرچیز ویسی ہی ہے جیسے میں چھوڑ گئی تھی۔۔؟؟

کیوں سب ویسا ہی ہے۔۔؟؟ "

"کیونکہ میں چاہتا تھا آپ  جب واپس آئیں تو سب ویسا ہی ہو جیسے آپ چھوڑ گئی۔۔"

"اب میں ویسی نہیں رہی نجیب۔۔۔ کیا فائدہ چیزوں کو سنبھالنے کا جب آپ رشتے کی قدر نہ کرسکے۔۔۔"

وہ نجیب کے ہاتھوں سے چھوٹ کر کچھ قدم پیچھے ہوئی تھی دروازے تک جاتے  جاتے رکی تھی

"نجیب اس کمرے کو آگ لگا کر راکھ کردیں جیسے ہمارے رشتے کو کیا تھا۔۔۔کیونکہ جو جیتے جاگتے لوگوں کو مار دیتے انہیں حق نہیں ان بےجان چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کا۔۔"

"نسواء۔۔ نہ اس کمرے کو کچھ ہوگا نہ ان چیزوں کا۔۔ اسی کمرے میں رہیں گے ہم دونوں پھر سے اپنی دنیا سجائیں گے۔۔۔"

"طلاق کے پیپرز کا کہہ دیا ہے میں نے وکیل کو نجیب میں۔۔۔"

نجیب نے نسواء کو پن کردیا تھا دور کے ساتھ۔۔ نجیب کے ہاتھ نسواء کی گردن پر تھے نسواء کے چہرے پر گرفت مظبوط تھی اسکی۔۔۔

"نسواء۔۔۔اب میں یہ لفظ نہ سنوں۔۔۔ میں مرتا مرجاؤں گا مگر طلاق نہیں دوں گا۔۔۔"

اسکی آنکھوں میں غصے کی شدت نے نجیب کا وہ روپ اسکے سامنے رکھا تھا جو شاید اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔

نجیب اور بہت باتیں کررہا تھا پر نسواء کے دماغ نے گھومنا شروع کردیا تھا۔۔۔

دوسرا ہاتھ اس نے اپنے سر پر رکھنے کی کوشش کی جب نجیب نے اسکے ہاتھ کو بھی دماغ کے ساتھ وال پر پن کردیا تھا

"نسواء میں کبھی طلاق نہیں دوں گا۔۔ میں کبھی آپ کو کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔۔سنا آپ نے۔۔"

نجیب نے اور مظبوطی سے نسواء کو جھنجھوڑا تھا۔۔ 

"نج۔۔۔"

وہ بےتاب ہوئی تھی سر کی درد نے اسے گم صم کردیا تھا۔۔۔ ہر چیز چکرا رہی تھی۔۔۔

اور جب نجیب نے اسکی بند آنکھیں دیکھی تو نسواء کے منہ سے خون نکل کر باہر آنے لگا تھا۔۔

"نسواء۔۔۔۔نسواء۔۔۔"

نجیب کے کندھے پر سر پھینک دیا تھا اس نے۔۔

"نجیب۔۔۔"

ایک ہی نام اسک لبوں پر تھا جب اس نے آنکھیں بند کی۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"وہ ابھی اوپر ہے۔۔کیوں ہے وہ اوپر اس کمرے میں۔۔؟؟ ماہیر اور شزا گھر ہیں سب حیران ہورہے۔۔۔"

"میں کرتی ہوں نجیب سے بات وہ جلدی ہی نسواء کو بھیج دے یہاں سے۔۔۔"

"بھابھی بچے لیونگ روم میں ہے سب کو بہانہ لگا دیا اب۔۔۔"

۔

"نسواء۔۔۔ آنکھیں کھولیں نسواء۔۔ آپ کو میری قسم آنکھیں کھولیں۔۔۔"

نجیب کی چلاتی ہوئی آوازوں نے سب کو الرٹ کردیا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ نسواء کو اپنی بانہوں میں اٹھائے کمرے سے سیڑھیوں کی طرف آیا تھا

"نجیب۔۔۔"

"ڈیڈ۔۔۔"

"ڈرائیور گاڑی نکالو۔۔۔ جلدی ڈیم اٹ۔۔۔"

وہ بار بار نسواء کے ماتھے کو چومتے ہوئے چلا رہا تھا۔۔ اور سب کے درمیان سے لے گیا تھا نسواء کو۔۔۔

۔

"وٹ دا ہیل۔۔۔؟؟ ڈیڈ کو کیا ہوا۔۔۔ کون عورت ہے وہ۔۔؟ جس کے لیے ڈیڈ اتنا پریشان ہوگئے۔۔۔"

ماہیر پیچھے جانے لگا تھا جب عمارہ سے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر اس حالت میں انہیں سٹریس سے دور رکھنا چاہیے۔۔ آپ لوگوں کو سمجھنا چاہیے۔۔"

"کس حالت میں۔۔ کیا رسک ہے۔۔؟ کیا ہوا ہے میری بیوی کو۔۔"

"کینسر۔۔ آپ کو معلوم نہیں۔۔؟؟انکی میڈیکل ہسٹری۔۔۔"

نجیب نے ایک مکا مار کر اس ڈاکٹر کو دور پھینک دیا تھا۔۔۔

"کیا بکواس کررہے ہو۔۔؟؟ کین۔۔۔ کینسر۔۔؟؟ بالکل ٹھیک ہے میری بیوی۔۔۔"

۔

"سر۔۔۔ پلیز۔۔۔ جانے دیں انہیں۔۔۔نہیں تو ہم سیکیورٹی کو بلا کر آپ کو ہاسپٹل سے باہر۔۔۔"

"میں ہوں اس ہاسپٹل کا ٹرسٹی۔۔۔ میری چیریٹی پر چلتا ہے۔۔"

جن لوگوں نے نجیب کو اس ڈاکٹر سے دور کیا تھا انہوں نے نجیب کو چھوڑ دیا تھا جو سر پکڑ کر بیچ پر بیٹھ گیا تھا

"میں نہیں مانتا۔۔۔ نہیں مانتا۔۔۔"

"دیکھیں سر ان کا علاج چل رہا ہے وہ یہاں اپنی سیکریٹری کے ساتھ آچکی ہیں۔۔اور میم نے منع کیا تھا کسی کو بھی بتانے سے۔۔"

"مجھے سرے سے یقین نہیں کہ وہ  اس بیماری میں مبتلا ہوگی۔۔۔ میں خود پتہ لگا لوں گا۔۔ میں خود اسکا علاج کرواؤں گا۔۔۔ "

فون نکالے نجیب نے اپنے اسسٹنٹ کو کال ملائی تھی اور پرائیویٹ انویسٹیگیشن کو ایک ٹاسک دے کر وہ نسواء کے پاس اندر چلا گیا تھا۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

نسواء  کے ساتھ وائرز اٹیچ دیکھ کر اسے ایک درد محسوس ہوئی تھی اس نے دروازہ بند کئیے بنا کسی شور کر نسواء کے بیڈ کر پاس جاکر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔۔۔

۔

"کچھ بھی نہیں ہوگا یہ سب غلط فہمی ہے نسواء۔۔۔"

گال پر ابھی بھی خون لگا ہوا جو اس نے اپنی انگلی سے صاف کرنے کی کوشش کی تھی

"نسواء۔۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔۔ میں کہیں نہیں جانے دوں گا آپ کو۔۔۔"

اسکے کندھے پر سر رکھےوہ جیسے ہی لیٹے لگا تھا وہاں ڈاکٹر آگئے تھے ہاتھ میں فائل لیکر۔۔

"سر یہ انکی میڈیکل ہسٹری۔۔ اور باہر آپ کے اسسٹنٹ آئے ہیں۔۔۔"

"ہممم۔۔۔میری بیوی کا خیال رکھنا اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔ میں یہیں ہوں باہر۔۔۔"

وہ اتنی سختی سے کہتے ہوئے باہر چلا گیا تھا۔۔

"سر۔۔۔"

"مجھے سب انفارمیشن چاہیے۔۔"

"سر ہم نے۔۔۔میں نے یہ کچھ انفارمیشن کلیکٹ کی تھی۔۔۔ مگر۔۔۔ آپ کے فادر نے آپ کو کچھ بھی بتانے سے منع کردیا تھا۔۔۔"

"کچھ بھی کیا۔۔؟؟"

"یہی کہ نسواء میم کو کینسر تھا۔۔۔اور۔۔۔"

فائل ہاتھوں سے کھینچ کر اس نے پیج جلدی جلدی میں پلٹنا شروع کردئیے۔۔۔

۔

"آپ نے مجھے میرے حقوق نہیں دئیے نسواء۔۔ اب اگر میں دوسری شادی کرنا۔۔"

۔

"میں وہاں دوسری شادی کو روتا رہا۔۔ اسے لاپرواہ کہتا رہا۔۔ وہ کینسر سے لڑتی رہی۔۔۔"

اس نے سرگوشی کی تھی

"سر کینسر کا علاج ہوگیا تھا اب وہ واپس۔۔ آگیا ہے۔۔۔اور چانسز۔۔۔"

"اپنی بات مکمل مت کرنا۔۔"

وہ باقی کی فائل کھینچ کر اندر لے گیا تھا

"اور مجھے اب کوئی ڈسٹرب نہ کرے کوئی بھی نہیں۔۔۔"

اندر سے دروازہ لاک کرلیا تھا اس نے۔۔۔

"نسواء۔۔۔۔"

اس ایک نام کے علارہ اسکے پاس اس وقت بولنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا معافی بھی نہیں۔۔۔

نسواء کے سینے پر سر رکھ کر ہو بیڈ پر لیٹ گیا تھا اسے فکر نہیں تھی کہ نسواء اٹھ جائے گی۔۔

اسکے آنسوؤں سے نسواء کی آنکھیں کھل گئی تھی۔۔۔ کچھ سیکنڈ کے لیے وہ خود کو ہاسپٹل کے کمرے میں دیکھ کر حیران ہوئی تھی اور نجیب کی رونے کی آوازوں نے اسے اور حیران کردیا تھا۔۔۔

"نجیب۔۔۔"

"مجھے بتایا کیوں نہیں نسواء۔۔۔؟؟"

نجیب نے اپنا سر نہیں اٹھایا تھا نسواء کی انگلیاں اسکے بالوں پر جیسے ہی محسوس کی اس نے ۔۔۔

اور مظبوطی سے وہ اسکے گلے لگ گیا تھا

"بتایا ان کو جاتا ہے جنہیں فکر ہو نجیب۔۔ "

اور آپکو لگتا ہے مجھے فکر نہیں۔۔؟"

سر اٹھا کر دیکھا تو چہرہ بھیگا ہوا تھا آنسؤں سے۔۔۔

"فکر کب تھی نجیب۔۔؟؟ ہوتی تو آج ہم ایسے نہ ہوتے۔۔۔"

"نہیں نسواء۔۔ کچھ نہیں ہوگا۔۔ پلیز۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ہم علاج کروائیں گے۔۔۔ ہم اچھے ڈاکٹر کو دیکھائیں گے۔۔۔"

"ابھی بس آپ اتنا وعدہ کیجئے کہ میرے بچوں کو کچھ پتہ چلنے نہیں دیں گے۔۔"

"ہمارے بچے نسواء۔۔۔"

"نہیں۔۔۔ بس میرے بچے۔۔۔نجیب۔۔۔ "

"کیوں دہ رہی ہو یہ سزا۔۔۔؟ نسواء یہ کینسر کی بات برداشت نہیں ہورہا میرا دل پھٹ رہا ہے۔۔۔پلیز خاموش ہوجائیں۔۔۔"

نسواء کے چہرے کو ہاتھوں میں لئیے درخواست کی تھی نجیب نے۔۔۔

"اور وہ واقع ہی خاموش ہوگئی تھی۔۔۔

"میں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ ہم لڑیں گے اس سے۔۔ سن لیں آپ۔۔۔"

اسکے چہرے پر بار بار بوسہ دئیے وہ تسلی دہ رہا تھا۔۔ اب کسی دہ رہا تھا وہ تسلی۔۔

کیوں کینسر لفظ پر نجیب کی آنکھیں بھرتی چلی جا رہی تھی۔۔۔ وہ نسواء کے ماتھے پر بوسہ دے رہا تھا تو کبھی چہرے پر۔۔۔

"نسواء ہم علاج کے لیے دوسری کنٹری جائیں گے۔۔۔"

"نجیب میں نے اپنی قسمت کو تسلیم کرلیا ہے۔۔ مجھے کوئی خوف نہین میری موت کا۔۔

میرے بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے ہیں۔۔اور حزیفہ ہے انکے پاس۔۔ میں سکون کی موت مر سکتی ہوں۔۔۔"

حزیفہ کا نام سن کر اس نے سر جھکا لیا تھا۔۔۔

"میری بیوی کو مجھ پر یقین نہیں ایک غیر شخص پر یقین ہے۔۔ نسواء کیا میں اتنا برا ہوں۔۔؟"

"آپ بہت اچھے ہیں پر اپنی بیوی کے لیے اپنے بچوں کے لیے۔۔ نجیب۔۔۔ مجھے تو  اب یاد بھی آتی تو آپ کی بےوفائی۔۔ آپ کی بےرخی ۔۔ وہ مطلب کی محبت وہ ضرورت کا رشتہ۔۔۔

آپ کی کوئی اچھائی یاد نہیں رہی مجھے۔۔۔اور اچھا ہوا کہ میرے بچے آپ سے اٹیچ نہیں ہوئے۔۔ مننان تو نفرت کرتا ہے۔۔ حورب انجان ہے۔۔ کل کو۔۔۔"

"بس کرجائیں۔۔ مجھے بہت تکلیف پہنچ رہی ہے۔۔۔"

"میری اذیت سے زیادہ نہیں۔۔میں۔۔۔"

نجیب نے باقی کا وہ فاصلہ ختم کردیا تھا۔۔۔

"نسواء اور نجیب کی کہانی اس بیماری پر ختم نہیں ہوگی نسواء۔۔۔ میں اس بیماری کو ختم کردوں گا۔۔۔ میرا وعدہ ہے آپ سے۔۔۔"

"نجیب۔۔۔"

اور باقی کا وہ فاصلہ بھی ختم کردیا تھا نجیب کے ہونٹوں نے۔۔۔

"آپ میرے حق نہیں دہ رہی تھی نسواء پچھلے ایک سال سے میں خاموش رہا سب برداشت کیا۔۔۔اب آپ مجھے شادی سے روک نہیں سکتی۔۔"

۔

"سر۔۔"

"اس وقت بھی یہ بیماری تھی۔۔ اور وہ خاموش رہی۔۔سب کچھ اکیلی برداشت کرتی رہی۔۔

اور میں۔۔میں کیا کرتا رہا۔۔؟؟ اسے سب کے سامنے بدنام کرتا چلا گیا۔۔

کیا سچ میں میری محبت صرف جسموں تک رہ چکی تھی۔۔؟ کیا میں نے اپنی بیوی کو اس قدر ذلیل کردیا تھا کہ وہ ایک پل مجھے دیکھنا گنوارا نہ کرسکی۔۔۔"

نسواء کو ڈاکٹرز پھر سے  ایک ڈوز دہ کر چلے گئے تھے اور وہ ایک ہی جگہ گم ہوگیا اپنی دنیا میں یہاں آئے بھی کچھ گھنٹے ہوگئے تھے۔۔موبائل بجنے کی آواز سے چونک اٹھا تھا نجیب۔۔

جب اپنے موبائل کو سائلنٹ پر دیکھا تو وہ یہاں وہاں دیکھنے لگا۔۔اور جب نسواء کے 

پرس کی جانب نظر گئی کچھ دیر سوچنے کے بعد نجیب نے موبائل نکال لیا تھا

اور جب سکرین پر حورب کا چہرہ نظر آیا تو اسکے چہرے پر ایک خوشی چھائی تھی اور عین اسی وقت آنکھوں سے آنسو جاری ہونا شروع ہوئے جب موبائل پر کال پک کرکے کان پر لگایا۔۔

"ماں۔۔۔ ماں اتنی جلدی بھول گئی ہیں۔۔؟ آپ تو ہر گھنٹے بعد کال کرکے معلوم کرتی ہیں میرا حال اب جب شہر سے دور ہوں تو آپ خاموش ہیں۔۔"

نجیب سے اور برداشت نہیں ہوا تھا۔۔ کال کاٹ کر اس نے ایک ٹیکسٹ لکھ دیا تھا اور سینڈ کرنے کے بعد موبائل آف کردیا تھا۔۔

اس خاموش رات میں اس عورت کے پاس جاکر بیٹھا تھا کہ خاموشی نے ایک طوفان برپا کردیا تھا وہاں اسکے دماغ میں اسکے دل میں۔۔۔

"کچھ بھی ہوجائے نسواء نجیب آفندی آپ مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتی۔۔ میں کبھی ایسے نہیں ہونے دوں گا۔۔کبھی بھی نہیں۔۔دنیا کے بیسٹ سے بیسٹ ڈاکٹر کو دیکھائیں گے۔۔

سب کچھ نچھاور کردوں گا آپ پر نسواء اپنی سانسیں بھی۔۔ جو آپ نے مجھے چھوڑ کر میرے ساتھ کیا وہ میں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں ہونے دوں گا۔۔ آپ سدا سلامت رہیں گی ان کر سروں پر۔۔"

۔

۔

"سر سیکیورٹی گارڈز۔۔ بہت غصے میں ہیں ایک منٹ باہر آئیں۔۔"

نجیب جیسے ہی روم سے باہر نکلا تھا وہ سب کی گن نجیب پر تھی۔۔

"اگر ہم چپ ہیں اور مننان سر کو کچھ نہیں بتایا تو صرف اور صرف نسواء میڈم کی وجہ سے۔۔

اگر پھر سے ہمیں خریدنی کی کوشش کی تو آپ سے بات ہم نے مننان صاحب کریں گے۔۔"

"میں بس ریکوئسٹ کررہا ہوں۔۔ پلیز۔۔۔ ابھی مننان کو کوئی انفارمیشن نہ دینا۔۔ میں نہیں چاہتا وہ بدگماں ہو۔۔۔یا پریشان ہو۔۔"

۔

"بےفکر رہیں نسواء میڈم کے حکم کے بعد ہی ہم فون کریں گے۔۔ہم سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے مسٹر نجیب۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

وہ نجیب آفندی ہے۔۔۔ مس نسواء۔۔۔ وہ رشتوں سے عاری محبت سے باغی شخص صرف جسموں کی بھوک رکھتا ہے۔۔۔

وہ تمہیں صرف اس ہوٹل روم تک محدود رکھے گا اور واپس پلٹ کر اپنی بیوی کے پاس جائے گا یعنی میرے پاس آئے گا۔۔۔"

پہلے تو وہ شاک ہوئی تھی پھر اس نے ٹھیک طرح آنکھیں کھول کر ارد گرد کا ماحول دیکھا تھا اور جب خود کو اوور سائز ٹی شرٹ اور جینز میں دیکھا تو وہ شرمندہ ہوئی تھی

پر عمارہ کی باتیں سن کر اسکی درد سر جیسے واپس آگئی ہو۔۔ وہ عمارہ کے چہرے پر جلن دیکھ کر ایک دم سے ہنس دی تھی

"تمہیں لگتا ہے وہ میرے پیچھے محض جسم کی ہوس بجھانے کے لیے آتے ہیں۔۔؟؟

نجیب آفندی میرے ہاتھوں پر کسی کٹ پتلی سے کم نہیں۔۔ اس لیے ڈرو اپنے انجام سے اگر مجھ میں بدلے کی آگ جاگ گئی تو تم لوگوں کی یہ اکڑ خاک میں مل جائے گی اور تمہیں سمجھ آجائے گی کہ تمہارے شوہر ناممدار میرے پیچھے کس لیے آتا ہے۔۔"

"ہاہاہاہا تمہاری خوش فہمی ہے نسواء وہ اب وہ نجیب نہیں رہا جو تمہارے پیچھے پیچھے بھاگے۔۔

اب اسکی اپنی زندگی ہے اسکے بچے ہیں جو اسکی جان ہے۔۔"

"اووہ۔۔۔ عمارہ ہنی۔۔ مجھے ایک نئے چیلنج کی بو آرہی تمہارے لہجے میں۔۔"

"چیلنج ہی سمجھ لو نسواء۔۔۔"

"پچھلے کچھ سالوں سے اتنے چیلنج ایکسیپٹ کئیے اور دینے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔۔"

"دیکھیں گے۔۔۔"

"اوکے دیکھ لینا۔۔۔"

۔

"عمارہ۔۔۔ کہاں رہ گئی ہو چلیں۔۔؟؟"

عمارہ کی دوست کی آواز پر  وہ تو انگلی کے اشارے سے وارننگ دہ گئی تھی عین اسکے جانے کے بعد نسواء نے دروازہ زور سے بند کردیا تھا

اور پھر ایک ناک ہوئی تھی

"ناؤ وٹ۔۔؟؟"

وہ غصے سے چلائی تھی دروازہ کھولنے سے پہلے اور جیسے ہی دروازہ کھولا نجیب صاحب ہاتھ میں بہت سے شاپنگ بیگ پکڑ کر کھڑے تھے

"باپ رے اتنا غصہ ۔۔؟؟ کیا ہوا ہے بیگم۔۔"

"یو۔۔۔ مسٹر نجیب آفندی کس لیے مجھے یہاں لیکر آئے۔۔؟؟ کس سے پوچھ کر میرے کپڑے چینج کئیے۔۔کس سے پوچھ کر۔۔۔"

اسکے دونوں ہاتھ نجیب کی شرٹ کے کالر پر تھے جو ایک دم سے بند دروازے کے ساتھ لگ گئے تھے۔۔۔

"میں یہاں نہ لاتا تو کہاں لیکر جاتا۔۔؟؟ میرے گھر جہاں آپ نے جانے سے منع کردیا بےہوشی میں بھی۔۔

آپ کے گھر جہاں آپ جانے سے ڈر رہی تھی کہ حورب یا مننان آپ کو ایسی حالت میں نہ دیکھ لے۔۔؟؟ یہاں لے آیا یہ ہوٹل۔۔۔"

"نہ آپ کوئی ۔۔۔۔ہیں نہ میں ہوکر۔۔ تو شرم آنی چاہیے ہوٹل میں لانے کی۔۔"

سب کچھ ایک ہاتھ میں پکڑ کر نسواء کو بازو سے پکڑ کر دروازے سے پیچھے کردیا تھا۔۔

بیڈ پر سب رکھ کر ایک نظر نجیب نے اسے دیکھا تھا

"فار گوڈ سیک اس حالت میں اونچی آواز میں نہ بولیں۔۔"

"کس حالت میں۔۔؟؟ میں ٹھیک ہوں زرا سا سردرد ہے۔۔"

"وٹ۔۔۔"

نجیب ایک دم سے پیچھے ہوگئے تھے۔۔ اب انہیں سمجھ آرہی تھی نسواء نے جو باتیں کی وہ خود بھی بھول گئی تھی۔۔

"نسواء آپ کو۔۔۔"

وہ کہتے کہتے رکے تھے اور گہرا سانس لیا تھا۔۔

"آپ نے ہسپتال میں مجھ سے بہت باتیں کی تھی آپ کو کچھ یاد ہیں۔۔؟؟"

"نہیں۔۔ کیا بات کی ہوگی۔۔؟ سوائے اس کہ کے مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔۔ اور آپ مجھے اس چیپ موٹل میں۔۔"

"یہ میرے ہوٹل کا گرینڈ سوئٹ ہے نسواء۔۔ یہ سب ہوسکتا پر چیپ نہیں۔۔۔

میں اپنی رائٹ فلی وائف کو کیوں کسی چیپ موٹل میں لے جاؤں گا۔؟؟ آپ میری بیوی ہی نہیں عزت بھی ہیں۔۔ غیرت بھی ہیں۔۔ اور یہ کپڑے چینج  میں نے نہیں کئیے تھے ہوٹل فی میل نے کئیے تھے۔۔۔"

کہتے کہتے آنکھیں چرا لی تھی۔۔ اور نسواء سمجھ گئی تھی اس جھوٹ کو۔۔ مارے شرمندگی اور غصے کہ وہ اور کچھ محسوس نہیں کررہی تھی اس لمحے۔۔۔

"میرا موبائل کہاں ہے میں اپنے گارڈ اور ڈرائیور کو۔۔۔"

"وہ باہر ہی ہیں۔۔۔ یہ کچھ کپڑے لے کر آیا ہوں جلدی سے چینج کر آئیں میں نے کھانے کا کہا ہے آتا ہی ہوگا۔۔"

"میں کھانا نہیں کھاؤں گی بس ڈرائیور سے کہہ دیں گاڑی ریڈی۔۔۔"

"یہ رہا دروازہ لاکڈ اور یہ رہا پہرے دار میڈم۔۔۔"

کرسی کو اٹھا کر دروازے کے ساتھ رکھ کر نجیب صاحب خود بیٹھ گئے تھے اس پر۔۔۔

"نجیب۔۔۔"

"یہ کپڑے اور وہ رہا باتھروم۔۔ کھانا کھائیں گی تو میں چھوڑنے جاؤں گا آپ کو۔۔چلیں شاباش۔۔۔"

ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر وہ موبائل نکال کرمصروف ہوئے تو نسواء بھی پاؤں پٹک کر باتھروم چلی گئی تھی کپڑے لیکر۔۔

"سیریسلی۔۔۔"

۔

"ہاہاہاہا۔۔۔۔ نسواء۔۔۔"

وہ باتھروم میں جیسے ہی جاکر ڈور لاک کرتی ہے کمرے سے نجیب کی ہنسی کی آواز نے اسے حیران کردیا تھا

"یہ سچ میں پاگل ہوگئے ہیں۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کون تھی وہ۔۔؟ اور نجیب بھائی اسے یوں اٹھا کر لے گئے آخر ماجرہ کیا ہے۔۔؟"

"نجیب کی پہلی بیوی ہے وہ۔۔"

"وٹ۔۔؟؟ وہ تو جا چکی تھی۔۔اتنے سال ہوگئے اب کونسی بیوی۔۔؟؟ تم تو کہتی تھی نجیب بھائی تمہاری مٹھی میں ہیں اور اب یہ سب۔۔؟ لگتا ہے تمہیں سائیڈ لائن کردیں گے۔۔"

"آنے والے کچھ دنوں میں میں اسے سائیڈ لائن کردوں گی دیکھ لینا نجیب طلاق دے کر اپنا نام بھی کھینچ لیں گے اس سے۔۔"

"جس طرح  بانہوں میں اٹھایا ہوا تھا ہمیں نہیں لگتا اب تم دیکھ لو جو کرنا ہے جلدی کرو۔۔"

"ہمم میں اور حسنہ آج کٹی پارٹی میں جارہے ہیں مسز چوہدری کی اگر آنا ہوا تو بتا دینا۔۔"

وہ دونوں فرینڈز اسے وارن کرکے چلی گئی تھی 

"نسواء تم نے واقع اب لمٹس کراس کی ہیں اب تم انجام دیکھنا اپنا اور اپنے بچوں کا۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ جانتی ہیں میں اکثر آفس جانے کے لیے لیٹ کیوں اٹھتا تھا نسواء۔۔؟؟"

وہ آہستہ سے کرسی سے اٹھے اور شیشے کے سامنے بال سکھاتی نسواء کے پیچھے کھڑے ہوگئے

"کیونکہ مجھے انتظار رہتا تھا کہ کب آپ اٹھے شاور لے کر ایسے ہی شیشے کے سامنے سنوارے خود کو۔۔ اور میں دیکھتا رہتا تھا۔۔۔"

نسواء کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جیسے ہی نجیب نے اپنی طرف کیا انہوں نے کسی رومینٹک مومنٹ کی  ترجمانی کرنا چاہتے تھے وہ جو کبھی شادی کے ان سالوں میں نہ کرسکے وہ جو کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے اپنی توہین سمجھتے تھے اب اتنا اوپنلی سب ظاہر کرتے جارہے تھے اپنی بیوی پر

۔

"تو جھوٹ شادی کے پہلے دنوں سے بولنا شروع کردیا تھا آپ نے نجیب۔۔؟؟"

"نسواء۔۔۔ میرے کہے کو غلط مت سمجھیں۔۔۔"

"ابھی تو سہی سمجھنا شروع ہوئی ہوں آپ کو مسٹر نجیب۔۔۔اور پلیز فاصلہ رکھ کر بات کریں۔۔ مجھے کوئی نزدیکی نہیں چاہیے۔۔۔"

جلدی میں ا س نے اپنا پرس اور سیل فون اٹھایا تھا اور تیز قدموں سے وہاں سے باہر چلی گئی تھی۔۔۔

اور کمرہ ایسے خالی ہوگیا تھا جیسے اس میں کوئی ہو ہی نہ۔۔۔

"وہ جو میرے منہ سے بےشمار باتیں سننے کے لیے بےتاب رہتی تھی اب میری باتیں اسے زہر لگتی ہیں۔۔ جھوٹ لگتی ہیں۔۔

اور مجھے احساس اس وقت ہورہا جب قسمت نے مجھے سے وقت چھین لیا۔۔۔

یا میں نے گنوا دیا۔۔؟؟"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ کا نمبر کیوں آف تھا۔۔؟؟ گارڈ بتا رہے تھے آپ کسی دوست کے گھر تھی۔۔

کونسی دوست ماں۔۔؟"

مننان کی کال جیسے ہی اٹھائی اس نے  لاتعداد سوال ایک ساتھ پوچھ لئیے تھے 

"گارڈز نے ٹھیک کہا بیٹا ڈاکٹر سحرش کے گھر گئی تھی میں۔۔"

"کیوں۔۔ سب ٹھیک ہے آپ ٹھیک ہیں ۔۔؟؟"

"میں ٹھیک ہوں میرے بچے۔۔۔ میری فکر کرنا چھوڑ دو میں نے اپنے حصےکی زندگی جی لی ہے۔۔"

"ماں ایسے کیوں کہہ رہی ہیں۔۔؟؟ آپ بالکل ٹھیک ہیں نہ۔۔؟؟"

"ہاں بچے۔۔۔ اب گھر جا کر بات کروں گی۔۔"

"پر ماں۔۔۔"

نسواء نے فون بند کردیا تھا وہ اور جھوٹ کیسے بولتی۔۔ اس میں ہمت نہیں تھی اپنے بیٹے سے اور جھوٹ کہنے کی۔۔

وہ جانتی تھی وہ موت کی آغوش میں جارہی ہے پر اتنی جلدی اسے اندازہ نہ تھا۔۔

اور اس میں ہمت بھی نہیں تھی بچوں کو خدا حافظ کہنے کی۔۔

"میم آپ سر کو بتا دیں آپ کی رپورٹس کا۔۔"

"آپ لوگوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔۔ "

"اس لیے خاموش ہیں ہم ورنہ ہم اس شخص کو آپ کے پاس بھی بھٹکنے نہ دیتے۔۔۔"

"ڈرائیور اور گارڈ کی باتوں نے اسے اور شرمندہ کردیا تھا

"میں کوشش کروں گی کہ اب کوئی ایسی صورت حال نہ ہو۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

"تم مجھ سے الگ کب ہو۔۔میں تم سے جدا کب ہوں۔۔

پانی میں کنول جیسے۔۔۔ رہتے ہو مجھ ہی میں تم۔۔۔"

۔

"مننان سر ناشتہ۔۔۔"

"کیا ویٹریس کی جاب بھی شروع کردی ہے مس منیشہ۔۔؟؟ویٹر لے آتا۔۔"

اس نے ٹرے رکھنے کے بجائے پٹک کر رکھی تھی پانی کا گلاس گرتے گرتے بچایا تھا مننان نے اور اپنی اسسٹنٹ کو ایک نظر دیکھا تھا باقی ٹیبلز کی طرف لوگوں کو دیکھتے ہوئے۔۔

"اب میں نے کیا کہہ دیا منیشہ۔۔؟؟"

وہ بالکل نارملی بی ہیو کرنے کی کوشش کررہا تھا منیشہ کے ساتھ پچھلے کچ دنوں سے۔۔

اور منیشہ اتنے ہی نخرے دکھا رہی تھی

"کہہ تو ایسے رہے ہیں جیسے پہلی بار میں آپ کے پرسنل کام کرررہی ہوں۔۔

اپنی منگیتر کے ساتھ جس پارٹی میں جانا ہو بطور سرونٹ مجھے ہی لے جاتے ہیں

اب دس لوگوں کے سامنے میرا ناشتہ لانا آپ کو برا لگ رہا۔۔؟؟"

"اففف ایک سانس میں کتنا بولتی ہو۔۔؟ سب دیکھ رہے چپ کرکے ناشتہ کرو پھر شاپنگ۔۔"

"پھر آپ کی منگیتر کو کمپنی دینی ہوگی۔۔؟؟ انکے شاپنگ بیگ پکڑنے کے لیے۔۔؟؟

سوو سوری سر میں فارغ نہیں ہوں۔۔"

وہ اٹھ کر جانے لگی تھی جب مننان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے واپس بٹھایا تھا

"لیزا کو میں نے اس ٹریپ پر انوائٹ نہیں کیا۔۔۔ ہم دونوں جارہے۔۔ تم نے یہاں سے کچھ نہیں خریدنا۔۔؟ اپنی فیملی کے لیے۔۔؟؟

میری ہیلپ کردینا ماں اور حورب کے لیے کچھ سپیشل لینے کے لیے۔۔"

وہ انکار کرنا چاہتی تھی پر وہ نسواء کا سوچ کر چپ ہوگئی۔۔

وہ نسواء کی التجا پر مننان کے قریب جانا چاہتی تھی پر لیزا اور مننان کی نزدیکیوں نے اسکے دل میں اس بھرم کو بھی چکنا چور کردیا تھا۔۔

اور وہ مننان کے ہر فیور کو اسکے منہ پر انسلٹ کرنے لگی تھی۔۔۔

۔

مگر اب مننان کا یہ نرم لہجہ اسکے والز کو توڑ رہا تھا جو اس نے اپنے دل کے قریب بنا دئیے تھے۔۔۔

۔

"منہ کھولو۔۔۔"

منیشہ کو اپنی سوچوں میں گم دیکھے مننان نے جیسے سینڈوچ کا پیس اسکی طرف بڑھایا اس نے تھوڑا سا منہ کھولا تھا۔۔۔

۔

"ہوش گنوانا۔۔۔یہی چاہت ہے۔۔۔

جان سے جانا یہی چاہت ہے۔۔۔"

۔

"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں مس منیشہ۔۔۔؟؟"

"کتنے روپ ہیں آپ کے مننان۔۔؟؟ مجھے کس روپ کو سچ مان کر پیچھے ہوجانا چاہیے۔۔؟؟"

مننان کے ہاتھ میں ابھی بھی اس کا ہاتھ تھا۔۔ اس لڑکی کی بات سن کر اس نے بےساختہ اسکی آنکھوں بھری ہوئی تھی۔۔

"تمہیں جو روپ اچھا لگتا ہے میرا۔۔"

اپنا دوسرا ہاتھ بھی منیشہ کے ہاتھ پر رکھ کر پوچھا تھا۔۔۔

وہ کھو گیا تھا منیشہ کی آنکھوں میں۔۔۔ وہ ایک پل جس نے قید کرلیا تھا مننان کے دل و دماغ کو۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تم تب سے یہاں انتظار کررہے ہو۔۔؟ پر کیوں۔۔؟؟"

"کیوں کیا کیوں۔۔ چائے پر لے جانا تھا آپ کو۔۔ "

"مجھے نہیں جانا۔۔ میری فلائٹ ہے بارہ بجے۔۔۔"

"اوکے ابھی چار گھنٹے ہیں۔۔۔ہوپ آن ڈاکٹرحورب۔۔۔"

"مسٹر شہاب۔۔۔"

"سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ایک کپ چائے میں کیا جاتا ہے۔۔؟ میری جان بچائی تھی آپ نے مجھے اچھے سے شکریہ ادا کرنے دیں۔۔۔"

"اوکے۔۔۔"

"اوکے۔۔؟؟ وٹ۔۔۔؟؟"

"ٹھیک ہے شہاب۔۔"

"یا اللہ۔۔۔ مجھے دل کا دورہ پڑ جائے گا۔۔۔ یہ ڈاکٹر مان گئی چائے پر جانے کے لیے۔۔۔ لوگوں یہ ڈاکٹر۔۔۔"

وہ چلانے لگا تھا جب حورب نے ہنستے ہوئے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔

"چپ ہوجائیں۔۔ اندر میرے کالیگ کیا سوچیں گے۔۔۔"

"ہاہاہا۔۔ مجھ سے زیادہ خوشی برداشت نہیں ہوتی نہ۔۔۔"

"تو میں واپس اندر جاؤں۔۔۔"

"نہیں۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ بیٹھیں پلیز۔۔۔"

۔

وہ جیسے ہی پیچھے بیٹھی تھی شہاب نے بائیک فل سپیڈ میں چلا دی تھی۔۔۔

"ہاہاہاہا۔۔۔ آپ کی جان بچانے کی سزا مجھے مار کر مت دیجئے۔۔ آہستہ کرلیں فرسٹ ٹائم بیٹھی ہوں بائیک پر۔۔۔"

"پھر تو میں بہت خوش نصیب ہوں۔۔۔"

اور اس نے بائیک آہستہ کردی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نجیب ماموں مننان کے گھر والے ابھی کچھ مصروفیات کی وجہ سے مل نہیں پائیں گے پلیز تھوڑے دن اور ویٹ کرلیں۔۔"

"اٹس اوکے بیٹا۔۔۔نجیب کو کوئی ایشو نہیں ہے۔۔۔"

"میں نیکسٹ ویک اس لڑکے سے ملنا چاہتا ہوں۔۔ ماہیر کو کمپنی کا 'سی ای او' بنانے ۔۔۔"

نجیب کی بات اسکے ہونٹوں پر ہی دم توڑ گئی تھی جب نسواء مین گیٹ سے اندر آتے دیکھائی دی تھی۔۔۔

اور وہ اس طرح اندر آرہی تھی جیسے رائٹ فلی مالکن ہو اس گھر کی 

"نسواء۔۔۔ بیٹی اور ساڑھی میں۔۔۔کیا میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں نجیب۔؟؟"

دادی نے نجیب کے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی کرسی سے اٹھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔

"یہ مجھے سچ مچ ہارٹ اٹیک کروا دے گی دادی میں بتا رہا ہوں۔۔۔"

نجیب دادی کے کان میں سرگوشی کرتے آلموسٹ نسواء کی جانب بھاگتے ہیں ڈائننگ ٹیبل پر سب کو شاک چھوڑ کر۔۔۔

"نسواء۔۔۔ آپ۔۔۔یہ۔۔۔میرے۔۔"

"آپ کے لیے نہیں ہیں دادی کے لیے ہیں۔۔پیچھے ہٹیں۔۔۔"

وہ نجیب کو سائیڈ کرکے راستے میں کھڑی عمارہ کو آنکھ مارتی دادی کے پاس چلی گئی تھی

"دادی۔۔۔ اب کیسی ہیں آپ۔۔؟؟"

"نسواء میری بچی۔۔ اب تم آگئی ہو میں ٹھیک ہوں۔۔۔آؤ بیٹھو۔۔۔"

دادی نسواء کا ہاتھ پکڑ کر لیونگ روم کی طرف لے گئی تھی۔۔

"یہ عورت کون ہے۔۔؟؟ میں نے دیکھا ہے کہیں۔۔۔"

لیزا نے جیسے ہی عورت کہہ کر نسواء کو مخاطب کیا فضا نے اپنی بیٹی کو غصے سے ٹوکا تھا

"وہ عورت  ممانی ہے تمہاری۔۔۔"

"وٹ۔۔۔"

"ڈیڈ۔۔۔"

۔

"نجیب بیٹا نسواء کو ایک دم سے کیا ہوگیا۔۔۔"

عمارہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔۔

"دادی کچھ نہیں ہوا بس زرا سے چکر۔۔۔"

"تو کس نے کہا تھا بستر سے اٹھنے کو نسواء۔۔؟؟ بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہے میں ابھی آپ کی طرف ہی آنے والا تھا۔۔۔ حد کرتی ہیں لاپروائی کی۔۔۔"

وہ نسواء کے کندھے پر ہاتھ رکھے انہیں لیونگ روم سے سیدھا سیڑھیوں کی طرف لے جارہے تھے

"ڈونٹ یو ڈیرھ مسٹر نجیب سب کے سامنے مجھے اٹھانے کی کوشش۔۔۔"

پر نجیب نسواء کو ایک بار پھر سے اٹھا کر اوپر کمرے میں لے گئےتھے۔۔۔

"یہ عورت کون ہے۔۔؟؟"

"اووہ یاد آیا یہ تو فیمس شیف ہیں۔۔ پر یہ ہمارے گھر۔۔۔"

"فائنلی۔۔۔ دادی۔۔۔"

فضا پرجوش انداز میں دادی کے گلے لگی تھی 

"یہ سب کیا ہورہا ہے موم۔۔؟؟ ڈیڈ کس عورت ایسے اٹھا کر لے جاسکتے ہیں۔۔؟؟

کیوں خاموش ہیں آپ۔۔۔؟؟ کون ہے وہ عورت۔۔؟؟"

"وہ عورت میری پہلی بیوی ہے۔۔ میری محبت ہے۔۔

دادی آپ نسواء کے پاس جائیں میں ابھی میڈیسن لیکر آیا۔۔۔"

۔

"نجیب میری بات۔۔۔"

"ایک لفظ برداشت نہیں کروں گا میں نسواء کے خلاف دونوں کو سمجھا دو۔۔"

دونوں سے مراد انکے دونوں بچے تھے جو والد کی سخت آواز پر خاموش ہوگئے تھے پر تب تک جب تک نجیب گھر سے باہر نہیں چلے گئے۔۔

"دادو آپ تو کچھ بولیں۔۔ یہ کونسی وائف تھی جس کا ہمیں معلوم نہیں تھا۔۔؟؟"

ماہیر نے ایک دم سے پوچھا تو وہ بڑے لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے انہوں نے تو پلاننگ کی ہوئی تھی ان دونوں کی طلاق کی پر یہ سب کیا تھا۔۔۔

"نجیب کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہے۔۔ ایک طرف بچے سیٹل ہوگئے اور بیوی بھی واپس آگئی۔۔۔ سونے پر سہاگا مننان کی کامیابی جو اسے پلیٹ میں رکھ کر ملی ہے۔۔۔

اب جو ہمارے بیٹے کو کمپنی ملنی تھی وہ بھی ماہیر کو مل جائے گی۔۔۔؟؟"

"چپ ہوجاؤ بیگم۔۔۔ نجیب ایسا کچھ نہیں کرے گا۔۔۔ دیکھ نہیں رہی بھائی صاحب کو۔۔ بیٹے کی اس حرکت نے انہیں کتنا غصہ دلا دیا ہے۔۔"

شزا اور ماہیر کو سمجھانے ناکام سا لگ رہا تھا عمارہ کو وہ تھک گئی تھی

"آپ دوسری عورت ہیں ڈیڈ کی زندگی میں۔۔؟؟ اس لیے وہ اس طرح سے بات کرتے تھے موم۔۔آپ۔۔۔"

"جسٹ شٹ اپ۔۔۔"

عمارہ شزا پر چلاتے ہوئے اوپر روم کی طرف بڑھی تھی جہاں نسواء تھی اس وقت۔۔۔

۔

"دادی آپ کو پاپا نیچے بلا رہے ہیں۔۔۔پلیز۔۔۔"

"پر بیٹا نسواء ابھی۔۔۔"

"آپ جائیں دادی میں ٹھیک ہوں۔۔۔"

دادی کے جاتے ہی نسواء نے کمفرٹ خود سے اٹھا کر دوسری طرف پھینک دیا تھا بیڈ کے۔۔۔

"دوسری عورت۔۔۔از اٹ مس عمارہ۔۔؟؟"

"یو۔۔۔بچ۔۔۔"

"بچ کون تھی کچھ سال پہلے سب نے دیکھ لیا۔۔ آج میں نے تمہیں تمہاری اوقات دیکھائی ہے۔۔۔

کیا کہہ رہی تھی۔۔؟؟ تم نے بہت بڑی غلطی کردی مجھے چیلنج کرکے عمارہ۔۔تم خود بھی نہیں جانتی میں تمہارے ساتھ کیا کروں گی۔۔"

"تم کچھ نہیں کرسکتی۔۔۔ نجیب تمہارے ساتھ کبھی وفادار نہیں رہ سکتے۔۔ یہ کچھ دن کی جیت میں ہار میں بدل دوں گی۔۔وہ حسن پرست مرد۔۔۔"

"کیا میں حسین نہیں لگ رہی تمہیں۔۔؟؟دیکھو مجھے۔۔ کامیاب ہوئی مشہور ہوں۔۔

اور خوبصورت بھی ہوں۔۔۔ ہاہاہاہا اور تمہارے شوہر کو انگلی کے اشاروں پر نچا بھی دیا۔۔ ڈیمو دیکھا نہیں۔۔۔؟؟

ابھی بھی میری حیثیت اور اپنی اوقات کا اندازہ نہیں ہوا۔۔؟؟"

وہ ابھی بات کررہی تھی جب عمارہ نے دروازے پر کھڑے نجیب کو دیکھ بات بدل دی تھی

"تو تم یہ سردرد کا ڈرامہ کررہی تھی۔۔؟؟ نسواء۔۔ پلیز میرا گھر برباد نہ کرو۔۔ نجیب کو ایسے دھوکا مت دو وہ تو تمہیں دل سے چاہتے ہیں۔۔۔اور۔۔۔ نجیب آپ آگئے۔۔۔

اچھا ہوا آپ نے سب باتیں سن لی۔۔۔ دیکھیں یہ اصلیت ہے۔۔"

عمارہ کو رونے لگی تھی پر نسواء کے چہرے پر کوئی گھبراہٹ نہیں تھی۔۔۔

"نجیب۔۔۔یہ عورت ایک مقصد سے یہاں آئی۔۔ آپ کو برباد کرنے ہمارے گھر کو۔۔۔"

"مجھے اس کے یہاں رہنے سے مطلب ہے۔۔۔ مقصد میری بربادی ہی سہی۔۔"

"نجیب آپ۔۔۔"

"عمارہ دوبارا ہمارے بیڈروم میں بنا اجازت کے مت آنا۔۔۔ اور نسواء کے قریب بالکل نہیں۔۔"

"نجیب۔۔۔"

"آپ اس عورت کی وجہ سے میری ماں کو بےعزت نہیں کرسکتے ڈیڈ۔۔ ابھی نکالیں باہر۔۔یہ۔۔۔"

نجیب نے تھپڑ مارتے ہی کالر سے پکڑا تھا ماہیر کو اور نسواء کے سامنے لے آیا تھا

"یہ عورت بیوی ہے میری۔۔۔ ڈیم اِٹ۔۔۔ وائف ہے میری۔۔۔ اگر میں یہاں سے اپنی زندگی سے کسی کو نکالوں گا تو وہ تمہاری ماں ہوگی۔۔۔ نسواء نہیں۔۔۔اب نکل جاؤ اس کمرے سے۔۔۔آؤٹ۔۔۔"

"آپ پچھتائیں گے نجیب اچھا نہیں کررہے۔۔۔"

"میں پچھتا رہا ہوں عمارہ۔۔۔ تم سے شادی کرکے۔۔۔"

عمارہ کا ہاتھ پکڑ کر روم سے باہر لے گئے تھے۔۔۔

اور جب روم کے باہر چلانے کی آوازیں آنا شروع ہوئی تو نسواء سر پکڑے بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔

کچھ اور منٹ شور شرابہ ہوا اور تھم گیا۔۔۔

اور ج نجیب صاحب روم میں داخل ہوئے تو نسواء کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے تھے

وہ آج ہر موقع ملنے پر نسواء کو شاک پر شاک دے رہے تھے 

"مجھے معلوم نہیں تھا میری نسواء عمارہ کو نیچا دیکھانے کے لیے یہ سب۔۔"

"دھوکا کھا کر ایسے ہی لگتا ہے جیسے آپ کو لگ رہا ہے نجیب۔۔ پر میں شرمندہ نہیں۔۔

آپ کی دوسری لاڈلی بیوی کو یہ باور کروانا ضروری تھا۔۔۔ اب میں چلتی ہوں۔۔۔"

"پلیز سٹے۔۔۔کچھ پل ٹھہر جاؤ پھر میں خود چھوڑ کر آؤں گا نسواء آپ کو۔۔۔"

نسواء کے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگائے وہ پاس بیٹھ گئے تھے۔۔

"کسی کو معلوم نہیں تھا میرا۔۔۔؟؟؟ مننان کی بھی کوئی پہچان نہیں ہوگی اس گھر کی نئی نسل میں۔۔۔ "نجیب نظریں چرا گئے تھے نسواء کے سوال پر۔۔۔

"آپ کو یاد ہے نجیب جب آخری بار ساتھ تھے یہاں اس کمرے میں ہمارے بیڈروم میں اور آپ ایسے میرے ساتھ نہیں میرے سامنے کھڑے مجھے اپنی دوسری شادی کا حتمی فیصلہ سنا رہے تھے۔۔"

"نسواء۔۔۔"

"مکافات عمل نجیب۔۔ کبھی سوچا نہیں تھا وہ شوہر نامدار جو جوانی میں دوسری شادی کے لیے اتنا تڑپ رہا تھا اب اس طرح پاس بیٹھا ہے۔۔"

"نسواء۔۔۔۔ایک بار مجھے۔۔۔ معاف نہیں کرسکتی۔۔بس ایک بار۔۔؟؟"

"وہ بیوی شاید معاف کردے پر وہ ماں نہیں کرسکتی جس کا بچپن چھن گیا۔۔ جس کی جوانی محنت میں گزر گئی۔۔ کتنی بار دل میں ملال آتا تھا کہ اس خاندان کا چشم و چراغ اگر باپ کی آغوش میں پلتا تو پھولوں کی طرح رہتا۔۔ جیسے آپ کی باقی اولاد رہی جیسے اس خاندان کے باقی بچے رہے۔۔۔"

"نسواء۔۔بس کرجائیں۔۔۔ پلیز۔۔۔"

نسواء کے آنسو صاف کرتے تو پھر آنکھیں بھر جاتی اسکی

"شاید یہ نصیب تھا میرے بچوں کا باپ کی محبت کے بغیر جینے کا۔۔اور اب یہی سزا آپ کی ہوگی نجیب ہمارے بغیر زندگی گزارنا۔۔ کیونکہ نہ میں واپس پلٹ کر آؤں گی اور نہ ہی میرے بچے۔۔۔"

۔

"اتنی بڑی سزا مت سنائیں مجھے میں نے اتنے سال آپ کے بغیر رہ کر دیکھ لیا زندگی کورے کاغذ کے سوا کچھ نہ تھی۔۔۔"

۔

"وہی ہے صورتیں اپنی وہی میں ہوں وہی تم۔۔۔

مگر کھویا ہوا ہوں میں۔۔ مگر تم بھی کہیں گم ہو۔۔۔"

۔

"اور میری زندگی آپ کے ساتھ کورے کاغذ جیسی ہے۔۔۔"

نسواء نے خود کو جدا کرلیا تھا یہ الفاظ کہہ کر جنہوں نے گھائل کردیا تھا نجیب آفندی کو۔۔

وقت کا پیہہ اتنے سالوں کے بعد اسی پٹری پر لے آیا تھا ان میاں بیوی کی زندگی کو۔۔

کچھ سال پہلے شوہر ایک الگ دنیا میں مگن ہوکر اپنا رشتہ خراب کرچکا تھا اور آج جب وہ اس رشتے کی قدر کو جان گیا تھا تو اسکے پاس واپس آنے کو تیار نہیں تھا وہ ایک رشتہ۔۔۔

۔

"محبت میں دغا کی تھی ۔۔سو کافر تھے سو کافر ہیں۔۔

ملی ہیں منزلیں پھر بھی۔۔۔ مسافر تھے مسافر ہیں۔۔۔"

۔

"میں انتظار کروں گا۔۔ لیکن اب ہمارے بچوں کو منا کر پھر آپ کو مناؤں گا۔۔ یہ میرا وعدہ ہے۔۔"

۔

"تیرے دل کے نکالے ہم۔۔ کہاں بھٹکے۔۔ کہاں پہنچے۔۔۔

مگر بھٹکے تو یاد آیا۔۔ بھٹکنا بھی ضروری تھا۔۔۔

محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا۔۔۔

تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ایک ماہ بعد۔۔۔۔"

۔

"مسٹر مننان میرے گریبان پکڑنے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔ پہلے اندر دیکھ لیں میں جھوٹ بول رہا یا آپ کی ماں۔۔"

"باسٹرڈ۔۔۔"

مننان نے اسے مکا مارتے ہی اپنی گن نکالی تھی جب اسکے گارڈ جلدی سے ان دونوں کو پیچھے کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔۔۔

"سر ہم اسے دیکھ لیں گے۔۔ آپ اندر جائیں۔۔کیا پتہ میم کی جان کو خطرہ ہو۔۔"

اور وہ جلدی سے اندر کی جانب بڑھا تھا آج اپنے ہی گھر میں داخل ہوتے ہوئے مننان کو گھبراہٹ ہورہی تھی

۔

"اور وہ جیسے ہی داخل ہوا ندر کا منظر اسکے تن بدن میں جیسے آگ لگا چکا تھا۔۔۔"

۔

اس نے ایک ہی لفظ پکارا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ کا دماغ ٹھیک ہے نجیب۔۔؟؟ حورب ابھی ہاسپٹل نہیں گئی ہےمننان کسی بھی وقت آسکتا ہے۔۔ خدا کے لیے میری  مشکلات اور مت بڑھائیں۔۔"

"میں بس ڈاکٹر کی پریسکرائبڈ میڈیسن لیکر آیا ہوں جب تک نہیں کھائیں گی میں نہیں جاؤں گا۔۔ اور بلڈ ٹیسٹ کے لیے بلڈ چاہیے۔۔سو۔۔۔"

سرنج دیکھ کر وہ دس قدم پیچھے ہوگئی تھی نجیب سے۔۔۔

"وٹ داہیل۔۔؟؟ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔ کس ڈاکٹر کی ادویات کھلا رہے ہیں  اور کونسے ٹیسٹ۔۔؟؟ میں پرفیکٹ۔۔۔"

"بلڈ دینے میں اور دوائی کھانی میں کوئی حرج نہیں۔۔۔"

"آپ کا کیا پتہ مجھے زہر دہ دیں۔۔اور۔۔"

"نسواء۔۔۔ اتنا بُرا سوچتی ہیں مجھے لیکر۔۔؟؟ میں زہر دوں گا۔۔۔؟؟"

نسواء کے کندھے پر ہاتھ رکھے انہوں نے جیسے اپنے قریب کیا تھا نجیب کے سینے پر ہاتھ رکھے اس نے وہ فاصلہ رکھنے کی کوشش کی تھی

"نسواء۔۔ میں نے کبھی آپ کا برا نہیں چاہا۔۔۔"

"اس لیے اس ملازمہ کو منع کردیا تھا کہ مجھے اور میرے بیٹے کو گھر میں پناہ نہ دے ورنہ آپ اسے نکال دیں گے نوکری سے۔۔۔

اور وہ ٹرین کتنے گھنٹے لیٹ کروائی تھی نجیب۔۔۔؟؟"

"آپ کو کیسے معلو۔۔"

"آپ کی بیوی بن کر چار سال آپ کے ساتھ گزارے نجیب ان سالوں میں اتنا تو سمجھ گئی تھی۔۔۔"

نجیب نے آنکھیں بند کرکے نسواء کے ماتھے پر اپنا سر رکھ دیا تھا

"اور کہتے ہیں کہ میں برا نہیں چاہتا تھا۔۔؟؟ آپ نے کچھ اچھا بھی نہیں چاہا ہمارا۔۔۔"

"ایم سوری نسواء۔۔۔ ایم سوری۔۔۔"

نسواء کی آنکھوں کے آنسو چُنتے ہوئے ماتھے پر جیسے ہی بوسہ دیا تھا دروازہ کھلنے پر ایک آواز نے ان دونوں کو ایک جھٹکے سے الگ کردیا تھا۔۔۔

اور مننان کی آنکھوں میں بےیقینی نے نسواء کے جسم کو جیسے بےجان کردیا ہو۔۔۔

۔

"اووہ۔۔۔ تو یہاں یہ چل رہا ہے۔۔۔"

"مننان ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔کچھ بھی نہیں ۔۔۔نجیب ابھی آئے۔۔ میں اکیلی تھی۔۔

مننان بیٹا۔۔۔"

مننان نے ہاتھ جھٹک دیا تھا نسواء کا۔۔۔

۔

"اکیلا تو میں رہ گیا نہ ماں۔۔ کیا ملا مجھے۔۔؟ پہلے باپ نے دھتکار دیا پھر ماں نے دھوکا دہ دیا۔۔؟ کیوں کیا آپ نے ایسا میرے ساتھ۔۔؟ جب اس شخص کے ساتھ رہنا تھا تو کیوں اتنے سال نفر ت کرنے کا ڈرامہ کیا۔۔؟ کیوں۔۔ "

"مننان میری بات سن لو۔۔۔"

"نہیں آپ مجھے جواب دیں۔۔ کیوں اتنا بڑا جھوٹ بولا۔۔؟ میرے پیچھے آپ ملتی رہی۔۔؟ بیوی بن کر رہتی رہی اور میں وہاں پریشان ہوتا رہا۔۔"

"بیٹا ایک بار اپنی ماں کی بات سن لو۔۔۔"

نجیب کا بازو جھٹک دیا تھا اس نے۔۔

"ہاتھ مت لگائیے مجھے۔۔ گھن آتی ہے آپ کے چھونے سے بھی مسٹر نجیب آفندی۔۔

کیوں آئے آپ ہماری زندگی میں۔۔؟ میری ماں کو بھی چھین لیا۔۔ دیکھیں دھوکا دہ رہی تھی مجھے۔۔۔ جھوٹ بول رہی تھی۔۔ جن کی ایک مسکراہٹ کے لیے میں نے اپنی ہستی مٹا ڈالی۔۔ کیوں ماں۔۔۔"

اسکے آنسوؤں سے بھرے چہرے نے نسواء کو اور بھی کمزور بنا دیا تھا۔۔ اسکی ممتا اسے مجبور کررہی تھی وہ اپنی بیماری کا بتا دے اپنی ہر مجبوری کھول کر رکھ دے اپنے بیٹے کے سامنے۔۔

پر اس میں ہمت نہیں تھی ۔۔

"مجھے پیدا کیوں کیا آپ نے۔۔؟ اگر میں اتنی بڑی غلطی تھا آپ دونوں کی تو۔۔"

نسواء کا ہاتھ اٹھ گیا تھا اور مننان نے بھی اپنی گن نکال لی تھی

"نہیں مننان بیٹا۔۔ وہ کام نہ کرنا جو۔۔۔"

وہ کہتے ہوئے نجیب کی ڈھال بن گئی تھی۔۔ جس پر مننان کی  آنکھیں پھر سے بھر آئی تھی

"بےفکر رہے آپ کے سہاگ کو میں کچھ نہیں کروں گا۔۔ یہ میں آپ دونوں کی غلطی ختم کرنے جارہا ہوں۔۔۔ سارے فساد کی جڑ میں ہی رہا۔۔ آپ کا یہ بیٹا۔۔ جس سے آپ کے شوہر کو نفرت ہی رہی۔۔

آپ جو چھپ چھپ کر ملتی تھی میرے مرنے کے بعد آپ کو چھپ کر ملنے کی نوبت نہیں آئے گی ماں۔۔۔

اور آپ وہ کسی کو نہیں دیں گی جو آپ کو ملا۔۔۔ "دھوکا۔۔"

میں نہیں چاہتا اپنے 'ہرجائی' کے پیچھے آپ کسی کی 'ہرجائی' بن جائیں۔۔۔"

اس نے گن خود پر تان دی تھی۔۔۔

"نجیب آفندی۔۔۔میں ہارا نہیں ہوں آپ سے۔۔ میری جیت چھین لی ہے آپ نے۔۔"

"مننان تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے۔۔ میں بھی مرجاؤں گی۔۔تم نہیں جانتی میں نے تم پر اپنی ساری دنیا وار دی بیٹا ان آخری لمحات میں مجھے اتنی تکلیف نہ دو۔۔ گن نیچے پھینک دو۔۔"

"آپ کو یہ گلہ بھی نہیں رہے گا ماں۔۔۔میں سب ختم کرجاؤں گا۔۔۔"

"نہیں میرے بچے۔۔ ماں مر جائے گی۔۔۔"

"ماں نے جیتے جی مجھے مار دیا۔۔ دھوکا دہ کر جھوٹ بول کر۔۔ آپ نے ایک بار بولا ہوتا۔۔ میں اس وقت اپنی سانسیں لینا چھوڑ دیتا ماں۔۔۔"

"تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ایک بار مجھے بولنے کا موقع تو دو۔۔۔"

"نہیں ماں اب کچھ فائدہ نہیں اب۔۔"

"مننان بھائی آپ اپنی مرضی ماں پر تھوپ نہیں سکتے۔۔ انکو ایسے بلیک میل نہیں کرسکتے۔۔۔"

حورب نسواء کو سنبھالتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

"تم کچھ نہیں جانتی گڑیا۔۔ اس شخص نے ماں کو ہم سے دور کردیا ورنہ وہ کیسے اس۔۔۔"

"مننان بس کر جاؤ ایسے لہجے میں بات مت کرو۔۔ یہ میری تربیت نہیں تھی۔۔۔ بس کرجاؤ۔۔۔"

وہ سر پکڑ کر جیسے مننان کی طرف بڑھنے لگی تھی چکر آنے کی وجہ سے کچھ قدم پیچھے ہوئی تھی 

"نسواء آپ اونچی بات نہ کریں۔۔ میں مننان سے بات۔۔"

"آپ کریں گے مجھ سے بات۔۔؟ آپ اس قابل ہیں۔۔؟؟ نکل جائیں میرے گھر سے۔۔سیکیورٹی۔۔۔ گارڈز۔۔۔ماں کہہ دیں اس شخص سے اگر یہ یہاں سے نہ گئے تو میں کچھ کرگزروں گا۔۔۔"

"مارو۔۔۔ مارنا چاہتے ہو۔۔؟ مارو۔۔ کسی مارو گے۔۔؟ اپنے باپ کو اپنی ماں کو۔۔؟؟

مارو مجھے۔۔۔ ہاں ملاقاتیں کرتی رہی میں۔۔ گولی مارو مجھے۔۔ تم میرے بیٹے ہو۔۔ میرے باپ نہیں۔۔ سنا تم نے میں آج بھی اتنا حق رکھتی ہوں کہ اپنے فیصلے خود کرسکوں۔۔ کبھی شوہر تو کبھی اولاد کی غلام۔۔۔ مارو مجھے۔۔۔"

وہ طیش میں آگئی تھی شوہر اور اولاد کو لاجواب کردیا تھا نسواء کے غصے اور باتوں نے۔۔۔

"نسواء میں جارہا۔۔۔ خاموش ہوجائیں۔۔حورب بیٹا۔۔ماں کو کمرے میں لے جاؤ۔۔۔پلیز۔۔۔یہ دوائی۔۔۔"

نجیب نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا پر نسواء کو چھونے کی بھی سکت نہیں رہی تھی۔۔۔ اپنے بچوں کے درمیان میں سے سر جھکائے وہ ہارا ہوا شخص خاموشی سے اس گھر سے چلا گیا تھا۔۔۔

"مننان سر آپ کو اب گھر۔۔۔"

"تم پر بھی بوجھ بن گیا ہوں میں۔۔؟؟ جو تم بھی نکالنا چاہتی ہو۔۔؟؟"

"نہیں۔۔۔ سر دراصل میں نے کہیں جانا تھا۔۔۔"

"اووہ۔۔۔"

منیشہ کا سیل بجنے لگا تھا

"ایکسکئوز مئ۔۔۔"

وہ کال پک کرکے ایک کارنر پر چلی گئی تھی۔۔۔

اور جیسے ہی ہارن کی آواز سنائی دی تھی مننان بالکونی کی طرف چلا گیا تھا جب اس نے نیچے دیکھا تو بلڈنگ کے سامنے روڈ پر ماہیر اپنی گاڑی لئیے کھڑا تھا اور فون کانوں کو لگایا ہوا تھا۔۔ وہ جلدی سے اندر گیا ارو منیشہ کے روم کے پاس جیسے ہی گیا اسکی آہستہ آہستہ آواز نے مننان کو شدید غصہ دلا دیا تھا۔۔۔

"میں کچھ دیر میں آجاؤں گی۔۔۔ ابھی میرے سر ۔۔۔"

"منیشہ۔۔۔"

وہ اپنی جگہ پر بیٹھ کر اسے آواز دیتا ہے۔۔

اور منیشہ جلدی سے فون بند کرکے باہر چلی گئی تھی اب کے وہ صوفہ پر بیٹھا نہیں تھا بلکہ اپنا کوٹ سائیڈ پر رکھ کر لیٹ چکا تھا

"سر آپ۔۔۔"

"میں ابھی کہیں نہیں جارہا میرے سر میں بہت درد ہورہا ہے مس منیشہ ہے پلیز ایک کپ چائے بنا دیں۔۔۔"

"پر ابھی تو پی آپ نے۔۔۔"

"تو۔۔؟؟ ایک اور بنا دیں۔۔۔ "

سر پر بازو رکھے ٹانگ پر ٹانگ رکھے وہ اس وقت اس اپارٹمنٹ کا مالک اور منیشہ اسکی ملازمہ لگ رہی تھی

"اففف۔۔۔"

وہ غصہ میں کچن میں جاچکی تھی۔۔۔

"ماہیر آفندی کے سامنے ہار گیا تو لعنت ہے مجھ پر منیشہ۔۔۔میری ماں کو چھیننے کے بعد نجیب آفندی نے میرے قہر کو اور للکار دیا ہے۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ پل تو ٹھہر جاؤ نہ۔۔۔ یا پھر لوٹ کے آؤ نہ۔۔۔

یوں کہتے نہیں الوداع۔۔۔ مُر جاؤ ادھر آؤ نہ۔۔۔"

۔

"ماں۔۔۔ "

لائٹس جیسے ہی آن کی تھی اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔

"ماں۔۔۔ مجھ سے بھی بات نہیں کریں گی۔۔۔؟؟"

حورب کمرے میں داخل ہوگئی تھی۔۔نسواء چپ چاپ اس دیوار کو دیکھی جارہی تھی آنکھوں کے آنسو بہہ رہے تھے اسے فکر نہیں تھی آج حورب کے سامنے ویسے بھی سچ آگیا تھا۔۔۔

وہ سچ جو وہ اپنے سینے میں دفن کرکے ساتھ لے جانا چاہتی تھی۔۔۔

۔

"حورب۔۔۔ ابھی میں کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی۔۔۔"

"ایسا ضروری ہے کہ دنیا کی رسمی اولادوں کی طرح میں بھی آپ سے سوال جواب کروں۔۔؟؟ 

ایسا نہیں ہوسکتا کہ میری خود مختار ماں کسی کو بھی جواب دہ نہ ہوں۔۔۔ چاہے وہ میں ہوں یا مننان بھائی۔۔۔

آخر کب تک مننان بھائی کے ڈر سے آپ اس کمرے میں بند رہیں گی۔۔؟؟

کب تک۔۔؟ آپ نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔ کسی کو اپنانا ٹھکرانا آپ کا اپنا فیصلہ ہے ماں۔۔۔

ہوسکے تو۔۔۔ وہ جو گھر سے دور ایک پارک ہے۔۔ وہاں وہ جو شخص روز اسی وقت آکر بیٹھ جاتا ہے۔۔۔ آپ انہیں ایک بات مل آئے۔۔۔"

یہ بات کہتے کہتے اسکی آنکھیں بھر آئی تھی اور نسواء وہ تو سر جھکا چکی تھی۔۔۔

"وہ میرا ہرجائی ہے۔۔۔ حورب۔۔۔ تمہارے۔۔۔ ڈیڈ۔۔ جنہوں نے۔۔۔"

"ماں۔۔۔ میں روایتی رسم نہیں نبھاؤں گی۔۔۔ اس بار مجھے مظلوم سے نہیں ظالم سے سچ سننا ہے۔۔۔اس بار آپ سے نہیں۔۔ ان سے ماضی جاننا ہے۔۔۔"

نسواء غصے سے اٹھی تھی آنسو جیسے ہی چھلکے پھر سے بھر گئی آنکھیں۔۔۔یہی تو ہورہا تھا اسکے ساتھ آنسو تھم نہیں رہے تھے اس نے ایک بار پھر چہرہ صاف کیا اور اسکے سامنے آکر کھڑی ہوگئی

"اور تمہیں لگتا ہے میں تمہیں اجازت دوں گی اس شخص کے پاس جانے کی۔۔؟؟"

کندھوں پر ہاتھ رکھے جب اپنی بیٹی کو زندگی میں پہلی بار جھنجھوڑا اس نے تو حورب نسواء کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے خود کو دوس قدم پیچھے کر چکی تھی۔۔۔

ہوا میں اپنے خالی ہاتھ دیکھے نسواء نے نے منہ پھیر لیا تھا۔۔

"سمجھ گئی میرے دونوں بچوں نے ٹھان  لی میری بات نہ ماننے کی۔۔۔

کوئی بات نہیں حورب میں نے مننان کی بدتمیزی برداشت کرلی تمہاری نافرمانی بھی سہہ لوں گی۔۔۔"

"ماں۔۔۔"

"جاؤ یہاں سے۔۔۔"

۔

اور وہ چلی گئی تھی سر جھکائے۔۔۔پر وہ اپنے کمرے میں نہیں گئی تھی اس شخص سے ملنے گئی تھی جو گھر سے تھوڑے قدموں کے فاصلے پر ایک بنچ پر بیٹھا تھا

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مجھے پیدا کیوں کیا آپ نے۔۔؟ اگر میں اتنی بڑی غلطی تھا آپ دونوں کی تو۔۔"

"مجھے پیدا کیوں کیا آپ نے۔۔؟ اگر میں اتنی بڑی غلطی تھا آپ دونوں کی تو۔۔"

"مجھے پیدا کیوں کیا آپ نے۔۔؟ اگر میں اتنی بڑی غلطی تھا آپ دونوں کی تو۔۔"

"مجھے پیدا کیوں کیا آپ نے۔۔؟ اگر میں اتنی بڑی غلطی تھا آپ دونوں کی تو۔۔"

"مجھے پیدا کیوں کیا آپ نے۔۔؟ اگر میں اتنی بڑی غلطی تھا آپ دونوں کی تو۔۔"

۔

ایک بات نے نجیب آفندی کا سانس لینا محال کردیا تھا اس لمحے۔۔ اسے لگا تھا نسواء کے قریب قریب اس جگہ پر واپس لوٹ آنے سے اسے سکون ملے گا مگر اسے تو سکون کا ایک لمحہ میسر نہ ہوا۔۔۔

اپنے بیٹے کا وہ سوال اسے پاگل کررہا تھا۔۔۔

کیا جواب تھا اسکے پاس۔۔؟؟

کوٹ اتارنے کے بعد ٹائی کو بھی کھینچ کر ساتھ رکھ دیا تھا اس نے۔۔ سر کو ہاتھوں میں لئے وہ خاموشی سے بیٹھ گیا تھا وہاں۔۔ اسکے شوز بھیگ رہے تھے اسکی آنکھوں سے گرتے پانی کی وجہ سے۔۔

نجیب آفندی۔۔۔"

اور اتنے میں جب اسکے پاس کوئی آکر بیٹھا تو اسے لگا تھا کہ نسواء آگئی۔۔۔اب اسکے بے چین دل کو سکون مل جائے گا۔۔

پر اس پاس بیٹھنے والے کے ایک سوال نے نجیب آفندی کو اور اذیت مین مبتلا کردیا تھا۔۔۔

۔

"کیا اتنی نفرت تھی آپ کو ہماری ماں سے۔۔؟؟ جب آپ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اس وقت اندازہ تھا آپ کو میرے آنے کا۔۔۔؟؟ "

نجیب آفندی میں سر اٹھانے کی ہمت نہ رہی تھی کندھے ہلتے ہوئے بتا رہے تھے وہ مظبوط شخص کتنی خاموشی سے رو رہا تھا۔۔۔

۔

"یہی زندگی کا تھا سفر۔۔۔ ہر نشان بے نشان رہا۔۔۔

پیروں میں زمین نہ رہی۔۔۔ سر پہ نہ آسمان رہا۔۔۔"

۔

"میری ماں میں ایسی کیا کمی رہ گئی تھی۔۔۔ کچھ تو بتائیں مجھے۔۔۔ آج میں میری ماں کے ہرجائی سے سچ سننا چاہتی ہوں۔۔۔"

وہ بار بار منہ کھول رہے تھے پر کچھ الفاظ ادا نہیں ہوپارہے تھے۔۔۔

آنسوؤں سے تر چہرے کو اٹھا کر حورب کو دیکھا تو حورب نے نظریں نیچی کرلی تھی۔۔۔

"جب آپ کو گولی لگی تھی ۔۔ آپ کا آپریٹ کرتے وقت ایک عجیب سا ڈر لگا تھا مجھے۔۔۔

تب آپ انجان تھے۔۔۔ شاید میرے دل و دماغ نے پہچان لیا تھا۔۔ نہ جانتے ہوئے بھی

۔

کیا آپ کو کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔۔ اپنے ہی بیٹے کو  بیوی کو چھوڑ دینے سے۔۔؟؟

آپ۔۔۔ کی شادی ماں سے زبردستی کی ہوئی تھی۔۔۔"

نفی میں سر ہلاتے ہوئے اپنی بیٹی کے چہرے کو ہاتھوں میں لئیے  وہ کچھ بتا نہیں پائے۔۔

۔

"حورب۔۔۔بیٹا۔۔۔"

"سچ کیا تھا۔۔۔"

"سچ یہ تھا۔۔۔ میں۔۔۔آپ کی ماما کی بے لوث محبت سے تنگ آچکا تھا۔۔۔ اپنی فرمانبردار بیوی سے بیزار ہوکر۔۔ میں نے ایک گناہ کردیا۔۔۔اور اس گناہ کو چھپانے کے لیے شادی کرلی۔۔۔

دوسری شادی کی ضد نے مجھ سے وہ عورت چھین لی جو میری بیوی تھی میرا مان تھی۔۔۔

دوسری شادی کے جنون نے مجھے اتنا اندھا بنا دیا کہ میں اپنے بیٹے کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھا۔۔۔

میں۔۔۔"

"آپ کی ساری ذمہ داریاں وہی بیٹا پوری کرتا رہا۔۔۔ایک بار۔۔۔سکول میں سر درد ہوا تو۔۔۔ میری ٹیچر نے مجھے گھر بھجوا دیا تھا۔۔ اور ہمارا گھر کونسا تھا جانتے ہیں۔۔

ایک ریسٹورنٹ کا سٹور روم۔۔۔

جب میں نے ان دونوں کو سرپرائز دینے کی غرض سے دروازہ کھولا تو۔۔۔ ماں تیز چولہے کے آگے کھانا بنا رہی تھی اور مننان بھائی۔۔۔ مننان بھائی برتن دھو رہے تھے۔۔۔"

اپنے چہرے سے نجیب کے ہاتھ ہٹا دئیے تھے اس نے۔۔۔

"آپ مجھے بیٹا نہیں کہہ سکتے۔۔۔ آپ نے باپ ہونے کا فرض پورا نہیں کیا کبھی۔۔۔

آپ میری ماں پر حق نہیں جتا سکتے۔۔۔ آپ نے گھر کی چار دیواری سے بے آبرو کرکے نکالا تھا انہیں۔۔۔آپ۔۔۔ چلے جائیں ہماری زندگیوں سے۔۔۔ میں آپ کو دیکھوں گی تو  بیس سال کی محنت مشقت مجھے سانس نہیں لینے دے گی۔۔۔

پلیز سر۔۔۔میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔"

ان جوڑے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر  وہ ہاتھ نیچے کردئیے تھے۔۔۔

"گھر جاؤ۔۔۔ بہت دیر ہورہی۔۔۔"

نجیب نے اپنا رخ بدل لیا تھا۔۔۔ حورب اٹھ کر گھر کی طرف چلنا شروع ہوئی تو واپس ضرور پلٹی تھی۔۔۔ اور پھر سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔۔۔

"جب بھی سوچتی تھی کہ میرے بابا کیسے ہوں گے۔۔ وہ زندہ بھی ہوں گے۔۔ تو مننان بھائی اور ماں کے چہرے کے رنگ اڑ جاتے تھے۔۔۔ آپ سے اتنی نفرت کے باوجود بھی ان دونوں کو خوف رہتا تھا۔۔۔

آپ نے کیوں ایسی محبت نہیں کی۔۔۔؟؟ اور اب کیا چاہیے ۔۔۔ اب کچھ نہیں ہے۔۔ کچھ بھی۔۔۔"

وہ وہ روتے ہوئے وہاں ے بھاگ گئی تھی۔۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میم یہ فلاورز آئے ہیں آپ۔۔۔"

۔

یہ دسویں دفعہ تھا جب اسے بکے ملا تھا اور اب تو نسواء کی ملازمہ کو بھی ڈر لگنے لگا تھا۔۔۔

"کیا پھینک دوں۔۔۔"

"نہیں یہاں رکھ کر جائیں۔۔۔"

وہ ملازمہ جیسے ہی گئی نسواء نے ایک ہی نام غصے سے لیا تھا

"نجیب آفندی۔۔۔"

وہ بکے اٹھائے اور گاڑی کی چابی پکڑے وہ کمرے سے باہر چلی گئی تھی اور پھر گھر سے۔۔۔

۔

اسکی گاڑی آفندی ویلا کے سامنے رکی وہ جیسے ہی اندر جانے لگی فضا کو باہر دیکھتے ہی اس نے ایک ہی سوال پوچھا۔۔۔

"کہاں ہے وہ۔۔۔؟؟"

"بھائی ۔۔۔ آفس کے لیے نکل گئے بھابھی۔۔۔"

"اچھا پاگل بنا رہی ہو۔۔؟؟ آج اتوار کو کونسا آفس کھلا ہے۔۔؟؟"

"دراصل ایک ضروری ڈاکومنٹ ۔۔۔"اور وہ واپس گاڑی میں بیٹھ کر سیدھا آفس کی طرف لے گئی تھی گاڑی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر آپ۔۔۔"

"تم اتنا گھبرا کیوں رہے ہو۔۔۔؟؟ اور مجھے لگا تھا آفس بند ہوگا۔۔۔ اس لیے میں اپنی چابیاں ساتھ لایا۔۔۔ پر یہ کیوں کھلا ہے۔۔؟؟"

"سر۔۔۔ وہ۔۔ آپ اس وقت یہاں کیوں آئے ہیں۔۔۔؟؟"

اسکی گھبراہٹ پر نجیب نے اسکا گریبان پکڑ لیا تھا۔۔۔

"اتنا گھبرا کیوں رہے ہو۔۔؟؟ کیا ہوا اندر۔۔؟؟ کون۔۔۔"

اور ایک دم سے اسکی نظر ایک بلو کار پر پڑی تھی اور اس نے ایک نظر گارڈ کو دیکھا تھا

"تمہارا موبائل کہاں ہے۔۔؟"

"سر ایم سوری مجھے ظہیر سر نے آرڈر۔۔۔"

موبائل کھینچ کر ایک تھپڑ مارا تھا نجیب نے اسے۔۔۔

"دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میں اب اور برداشت نہیں کروں گی ظہیر۔۔۔ یہ دیکھو اسکے بلینک سگنیچر کروا چکی ہوں جن کاغذات پر تم نے کہا تھا۔۔۔"

"عمارہ ۔۔۔ مجھے ابھی ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔۔"

"مجھے اب اس گھر میں اس کے ساتھ رہتے ڈر لگ رہا ہے ظہیر۔۔ ہم کب ایک ہوں گے۔۔ میں اب اسکے ساتھ نہیں رہ سکتی میں تھک گئی ہوں ظہیر۔۔۔"

"میری جان۔۔۔ میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔۔ بس کچھ وقت۔۔۔"

"نہیں ظہیر اب وقت نہیں رہا۔۔۔ اب نجیب کو سائڈ کرنا ہوگا اس سے پہلے وہ مجھے کچھ کردے۔۔۔"

"شش۔۔۔ پلیز۔۔۔ گھبراؤ مت میں ہوں۔۔۔"

وہ ظہیر کے کندھے پر سر رکھی تھی۔۔آگے کی پلاننگ میں وہ بہت آگے نکل چکے تھے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

اور وہ موبائل کو چیک کرتے ہوئے اندر داخل ہوگیا تھا۔۔۔

وہ پرائیویٹ ایلویٹر سے جیسے ہی اپنے کین والے فلور پر پہنچا اپنے کیبن کا ڈور اوپن دیکھ کر اور حیران ہوا۔۔۔ اور کھلے دروازے کے اندر جھانکتے ہوئے اپنی بیوی کو اپنے دوست کی آغوش میں دیکھ کر اسکے ہاتھ سے وہ گارڈ کا موبائل نیچے گر گیا تھا

۔

۔

"آپ نہیں پچھتا رہے۔۔۔ یقین جانے جس دن نجیب آفندی آپ پچھتائیں گے۔۔ آپ میں ہمت نہیں رہے گی مجھ سے نظریں ملانے کی۔۔۔"

۔

"میں نے تم جسی بد کردار عورت کے لیے اپنے گھر کا برباد کیا۔۔؟ تمہارے بدنماں باطل کے لیے میں نے نسواء کو مجبور کیا میری دوسری شادی کے لیے۔۔۔

میں نے تمہاری جیسی عورت کو بیوی بنانے کے لیے اپنے بیٹے کو پرایا کردیا اپنی خوشیوں کا دشمن سمجھ لیا عمارہ۔۔۔

اس لیے وہ سب کیا تھا کہ آج تمہیں اپنےدوست کے ساتھ ایسے دیکھ سکوں۔۔۔؟؟"

نجیب کو زندگی کا سب سے بڑا دھچکا اس لمحے لگا تھا۔۔۔

۔

نجیب آفندی بہت گھاٹے کا سودا کردیا تم نے۔۔۔""

وہ اس عورت کو درگزر کرکے ظہیر کی طرف بڑھا تھا۔۔

"وہ تو بےوفا تھی اس نے اپنا ایمان بیچنے کے بعد اپنا جسم بھی بیچ دیا۔۔

پر تم۔۔۔ تم میرے دوست میرے بھائی جیسے تھے تم نے کیا کردیا۔۔۔؟؟

اس کمرے سے باہر نکلے گے تو لوگوں کا یقین اٹھ جائے گا دوستی سے۔۔

تم۔۔۔"

"اس کمرے سے باہر جا کر کون بتائے گا۔۔۔؟ تم نجیب آفندی بتاؤ گے۔۔؟ لوگوں میں تماشا بن جاؤ گے۔۔۔

جس عورت کو ٹھکرایا وہ تو کامیاب ہوگئی اور تم اپنی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹو گے۔۔۔؟؟ نہیں میرے دوست میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گا۔۔۔"

وہ کہتے ہنسنے لگا تھا۔۔۔ اور کچھ سیکنڈ میں عمارہ کی آواز بھی گونجی تھی وہ دونوں اس دھوکہ کھائے شخص کے پیچھے تو ہنستے تھے آج سامنے ہنستے ہوئے زیادہ لطف اندوز ہورہے تھے۔۔۔

"مجھے پرواہ نہیں۔۔میں اب تمہارا سایہ بھی اپنے گھر اور بچوں پر دیکھنا نہیں چاہتا۔۔۔"

"بچے۔۔۔؟ تمہارے بچے۔۔؟ ماہیر شزا۔۔؟ ایز اٹ۔۔۔؟؟"

ظہیر کا گریبان چھوڑ کر نجیب نے عمارہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

"اسکی طرف کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔؟ یقین نہیں ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہے دیکھنا چاہو گے۔۔۔؟؟"

"بے غیرت بے حیا عورت۔۔۔میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔۔۔"

عمارہ کو جتنی زور سے تھپڑ مارا تھا وہ زمین پر جا گری تھی۔۔

اور نجیب نے ٹیبل پر پڑی گن کو جیسے اٹھانے کی کوشش کی پیچھے سے اسکی کمر پر ایک تکلیف ہوئی تھی وہ لڑکھڑا گیا تھا

اور جب اپنی شرٹ پر خون بہتے دیکھا اس نے وہ گن پکڑ کر ظہیر کو شوٹ کردیا تھا۔۔۔

"میں مرتا مر جاؤں پر تم دونوں کو کامیاب ہونے نہیں دوں گا۔۔۔"

"ظہیر۔۔۔۔"

عمارہ چلاتے ہوئے بھاگی تھی اسکی طرف۔۔۔۔

اس منظر نے نجیب آفندی کو ایک ایسا روگ دہ دیا تھا

"اس کے لیے میں نے اپنی جنت اپنے ہاتھوں سے اجاڑ دی۔۔۔"

وہ عمارہ کی طرف گن کرتا ہے۔۔۔

"محبت کا نہ سہی رشتے کا بھرم رکھ لیتی عمارہ۔۔۔ یہ سوچ لیتی کہ میں نے کیا کچھ ٹھکرادیا تمہیں اپنانے کے لیے۔۔۔"

گن اٹھاتے ہی پیچھے سر پر واار ہوا تھا اسکے۔۔۔

گرنے سے پہلے اس نے وہی لفظ دہرایا تھا جو اسکو کسی نے بہت سال کہہ کر نوازا تھا

"ہرجائی"

۔

"حزیفہ۔۔ یہ کیا کردیا تم نے۔۔؟؟"

"مجھے جو کاغذات چاہیے تھے مجھے مل گئے ہیں میں جارہا ہوں۔۔ اسکا جو کرنا ہے آپ لوگ کرسکتے ہیں۔۔۔باسٹرڈ۔۔۔"

نجیب کو ٹانگ مارے وہ کیبن سے نکل گیا تھا۔۔۔

۔

"ابھی کیا ہوگا۔۔۔ کتنا خون نکل گیا ہے۔۔ظہیر۔۔۔اسکے مرڈر کی بات نہیں ہوئی تھی۔۔"

۔

وہ دونوں ابھی بات کررہے تھے جب ایک آواز انہیں سنائی دی اور پھر دستک ہوئی کیبن کے دروازے پر۔۔

۔

"نجیب آفندی۔۔۔"

اسکی بند ہوتی آنکھوں نے نسواء کی آواز سن کر جیسے پھر سے کھلنے کی ہمت کی۔۔۔

"شٹ۔۔۔ نسواء یہاں کیا کررہی ہے۔۔؟؟"

"مار دو اسکو بھی۔۔۔ ظہیر اگر وہ بھاگ گئی تو ہم سب مریں گے۔۔"

"اوکے اوکے ریلیکس۔۔۔ اسے اندر۔۔۔"

نجیب لڑ کھڑاتے ہوئے اٹھ گیا تھا اور ظہیر کو پیچھے دھکا دے کر دروازے کی جانب بڑھا تھا دروازہ کھولنے کے بجائے اس نے اندر سے لاک کردیا تھا۔۔۔

ان لوگوں کے پاس گن تھی ہتھیار تھے۔۔۔

وہ کیسے نسواء کو انکا نشانہ بننے دیتا جبکہ یہ سزا اسکے لیے تھی قصور وار وہ تھا۔۔۔

۔

"نجیب آفندی۔۔۔"

"چلی جاؤ نسواء۔۔میں بیزی ہوں۔۔۔"

اس نے غصے سے کہا تھا۔۔۔یا کہنے کی کوشش کی تھی۔۔۔اسکا ایک ہاتھ عمارہ کی گردن پر تھا اور دوسرے سے اس نے اپنے زخم سے بہتے خون کو روکنے کی کوشش کی تھی

"بیزی مائی فٹ نجیب آفندی دروازہ کھولو۔۔۔"

نجیب کے درد بھرے چہرے پر ہنسی چھائی تھی نسواء کے غصے پر۔۔۔

"کچھ آخری کہہ دو اسے نجیب ۔۔۔اگر تم نے عمارہ سے ہاتھ نہیں اٹھایا تو میں گولی چلا دوں گا۔۔ اور تمہاری نسواء کو کیا کسی کو ایک آواز تک نہیں جائے گی۔۔۔"

"اپنے کوٹ سے جب اس نے وہ گن نکالی تو نجیب نڈر ہوکر عمارہ کو پیچھے دھکا دہ چکا تھا۔۔۔

"میں نہیں ڈرتا۔۔۔"

"آئی ہیٹ یو نجیب۔۔۔"

نسواء کے اس جملے نے اسکے جسم سے جیسے روح نکال دی ہو اسکے ہاتھ رکے تھے پر وہ گولی اسکے پیٹ پر لگ چکی تھی۔۔۔

"آئی ہیٹ یو نجیب آفندی۔۔ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی آپ سے پیار کرنا۔۔۔

آپ پر یقین کرنا۔۔۔آئی ہیٹ یو۔۔۔ اب کورٹ میں ملیں گے۔۔ کیونکہ مجھے آپ جیسے شخص کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا۔۔۔"

اور چلتے قدموں کی آواز پر وہ گھٹنوں کے بل گرگیا تھا

"ہاہاہا۔۔۔ مجھے نہیں پتہ تھا نجیب آخری وقت میں اتنے تلخ الفاظ سننے کو مل جائیں گے۔۔"

کندھے پر ٹانگ مارے وہ اسے نیچے گرا چکا تھا۔۔۔

"چلو یہاں سے اب ہم بیک ڈور سے جائیں گے۔۔۔ سی سی ٹی وی پہلے ہی سٹاپ کرچکا تھا۔۔۔ تم اپنی گاڑی کو نسواء کے جانے کے بعد لے کر جانا۔۔۔"

"ظہیر۔۔۔ ہمیں اسے ہسپتال۔۔۔"

"وہ مر چکا ہے ۔۔۔سانسیں بندہورہی چلو۔۔۔نہیں تو تمہیں بھی اسکے ساتھ بھیج دوں گا۔۔۔ مجھے بےوفائی پسند نہیں ہے۔۔۔"

عمارہ کا ہاتھ پکڑے وہ اسے لے گیا تھا۔۔۔

پر نسواء جو مین گیٹ تک پہنچ گئی تھی جانے دل میں کیاآئی وہ غصے سے مڑی۔۔

"آخر اندر کیبن میں ایسا کیا ہورہا تھا جو مجھے بیزی ہونے کا کہا۔۔۔ یہ کیبن اور آفس ہی فساد کی جڑ رہا۔۔۔

نجیب آفندی آج آپ کی بےوفائی دنیا کو دیکھاؤں گی اور اسی ثبوت پر طلاق حاصل کروں گی۔۔۔"

وہ سو بہانے بنا کر واپس اوپر چلی گئی۔۔

پر وہ جانتی تھی وہ دل کو تسلی دینا چاہتی تھی۔۔۔

اور اس بار جب ایلویٹر سے نکلی تو کیبن کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔

دروازے سے باہر آتے خون کو دیکھ کر وہ پڑے ہوئے اس وجود کو پہچان گئی تھی۔۔۔

"نجی۔۔۔نجیب۔۔۔۔"اندر بھاگتے ہوئے گئی تھی اس نے جلدی سے نجیب کو سیدھا کیا۔۔۔

زخم پر اسکا ہاتھ لگتے ہیں نجیب کے منہ سے آہ نکلی تھی

"نجیب۔۔۔ نجیب آنکھیں کھولیں۔۔۔نجیب۔۔۔"

وہ کبھی سانسیں چیک کررہی تھی تو کبھی نبض۔۔۔

کانپتے ہاتھوں سے نجیب کی جیب میں ہاتھ ڈالے اس نے موبائل فون ڈھونڈا تھا اور ایک ہی یاد آنے والے نمبر کو ملایا تھا۔۔۔

۔

"ہیو۔۔۔۔من۔۔۔مننان بیٹا۔۔۔ کہاں ہو۔۔۔ جلدی سے۔۔۔ جلدی سے آفس میں آؤ۔۔ بیٹا بابا کو ہاسپٹل لے جانا ہے۔۔۔خون بہت بہہ گیا ہے۔۔۔"

کانپتی ہوئی آواز سے اسکے ہونٹوں سے یہی لفظ ادا ہوپائے تھے۔۔۔

"میں آرہا ہوں ماں۔۔۔ آرہا ہوں۔۔"

فون بند ہوا تو موبائل ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا

"ابھی غصہ کررہے تھے نجیب۔۔۔ ویسے ہی غصہ کریں۔۔۔پلیز۔۔۔ آنکھیں کھولیں۔۔۔"

وہ چہرے گود میں لئیے ہلا رہی تھی اور تبھی شور شرابے نے اسکی توجہ حاصل کرلی۔۔

"ماں۔۔۔"

"بیٹا۔۔۔ بہت خون بہہ گیا۔۔۔پلیز۔۔۔ سیو ہم۔۔۔پلیز۔۔۔ مننان۔۔۔"

"کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ آپ۔۔ہمت رکھیں۔۔۔"مننان جلدی سے نیچے جھکا تھا۔۔۔

نجیب کی نبض چیک کرتے ہی اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

"پلیز بیٹا۔۔۔انہیں کچھ ہونا نہیں چاہیے۔۔۔۔"

"کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ نبض چل رہی ہے آپ پیچھے ہوں مجھے اٹھانے دیں۔۔۔"

مننان نے بہت آہستہ آواز میں کہا تھا اور۔۔ نسواء جیسے ہی پیچھے ہوئی تھی مننان نے جلدی سے نجیب کو اٹھانے کی کوشش کی تھی فرش پر گرے خون کو دیکھ کر اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی

"آپ کے ساتھ یہ جس نے بھی کیاہے میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔"

خود سے ایک نیا وعدہ کئیے وہ جلدی سے اس کیبن سے باہر لے گیا تھا۔۔۔ آفس کے باہر اسکے گارڈ پہلے ہی موجود تھے۔۔۔

بیک سیٹ پر جیسے ہی اس نے نجیب کو لٹایا نسواء جلدی سے پیچھے بیٹھ گئی تھی۔۔۔

"کچھ نہیں ہوگا نجیب آپ کو۔۔۔"

وہ گاڑی چلاتے ہوئے پورے راستے اپنی ماں کی آہ پکار سنتا چلا گیا۔۔۔

خاموشی سے۔۔۔

"کتنا فرق آگیا تھا ایک پل میں ان تینوں کے رشتے میں۔۔۔

حورب کی بات سچ ثابت ہوئی وہ دونوں ڈر جاتے تھے نجیب کو کچھ ہونے  کا خوف انہیں ہما وقت تھا۔۔۔

اور آج یہ ثابت ہوگیا تھا

"موت بھی کم ہے آپ کی سزا نجیب۔۔۔ شاید موت آسانی سے بچا لے سزا سے۔۔"

"کیا آپ سچ میں میری موت۔۔۔"

"ہم ہاسپٹل پہنچ گئے ہیں ماں۔۔"

مننان کب دروازہ کھول کر بیک سیٹ پر آیا  کب اس نے نجیب کو پھر سے اٹھایا اور وہاں سے لے گیا۔۔

نسواء اپنے خالی ہاتھ دیکھتے رہ گئی تھی

"میں نے آپ کی موت کبھی نہیں مانگی تھی نجیب کبھی بھی نہیں۔۔۔"

اور جلدی سے آنسو صاف کئیے وہ بھی مننان کے پیچھے اندر بھاگی تھی

۔

مننان تیز قدموں سے اندر جارہا تھا نجیب کو اٹھائے اسکے گارڈز لوگوں کو پیچھے کررہے تھے

دو بار گارڈ نے نجیب کو پکڑن کا کہا مگر مننان ایک نظر گارڈ کو دیکھتا اور تیز قدموں سے ایمرجنسی کی طرف بڑھتا چلا جاتا۔۔۔

پیچھے نسواء جتنے قدم اٹھا رہی تھی اس کا چلنا بوجھل ہوتا جارہا تھا اسکے لیے۔۔ جب نجیب کا بازو نیچے گرا اس وقت مننان کے قدم ہی نہیں نسواء ک قدم بھی رکے تھے۔۔۔

"نہیں۔۔۔کچھ نہیں ہوگا مننان بیٹا جلدی سے اٹھاؤ بابا کوہمت کرو۔۔۔انہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔"

وہ روتی ہوئی مننان کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہیں نجیب کے گرے ہوئے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا تھا نسواء نے۔۔۔

اور اتنے سالوں کے بعد مننان نے اپنی ماں میں اس بیوی کو دیکھا تھا اس بیڈروم میں اپنے شوہر کو روک رہی تھی منتیں کررہی تھی دوسری شادی نہ کرنے کے لیے۔۔۔

۔

"کچھ نہیں ہوگا ماں۔۔۔چلیں۔۔۔"

اور گارڈز پہلے ہی ڈاکٹر ز کو ایمرجنسی کے باہر جمع کرچکے تھے۔

۔

سٹریچر پر جیسے ہی نجیب کو لٹایا گیا تھا نرس نے زبردستی نسواء کا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی جس پر وہ نرس پر ہی جھپٹ پڑی تھی۔۔۔

"ڈونٹ ٹچ می۔۔۔بات کررہی ہوں میں اپنے شوہر سے۔۔۔"

چلتے پھرتے لوگ رک گئے تھے نسواء کے چلانے سے جیسے وہ گارڈز۔۔۔ اور مننان۔۔۔؟؟

اس نے ایک نظر دیکھا تھا اپنی ماں کو اور مایوس ہوگیا تھا وہ کچھ قدم جانے کے لیے پیچھے ہوا تھا۔۔۔

"ڈاکٹر حورب سرجری کامیاب رہی سارا کریڈٹ آپ کو جاتا ہے۔۔۔"

"نہیں ٹیم ورک تھا آپ سب نے بھی۔۔۔"

حورب کے قدم رک گئے تھے جب ماں اور بھائی پر نظر پڑی۔۔۔

اور قریب آنے پر جب اس شخص پر نگاہیں گئی تو اسکا بھی وہی ری ایکشن تھا جو نسواء کا۔۔۔

"ماں۔۔۔ یہ سب۔۔۔"

وہ نسواء کو لیکر جیسے ہی بنچ پر بیٹھ ڈاکٹر نجیب کو اندر لے گئے تھے۔۔۔

اور مننان۔۔۔ وہ تو چلا گیا تھا اس ہسپتال سے۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ اس لمحے کرے تو کیا کرے۔۔۔ اسے وقت طور پر تکلیف ہوئی تھی پر اس نے ہسپتال سے باہر قدم رکھتے ہی اپنا دل بھی پتھر کا کرلیا تھا اس وقت۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"خاموشیوں کی  زبان۔۔ 

کوئی نہ سمجھے یہاں۔۔۔"

۔

"ماں پلیز۔۔۔"

"ابھی کچھ نہیں جاؤ اندر بابا کو دیکھ کر آؤ۔۔۔ ہیلپ کرو ڈاکٹرز کی جاؤ۔۔۔"

"آپ یہاں بیٹھی ہمت ہار چکی ہیں بھائی یہاں سے چلے گئے ہیں خون میں لت پت دوسری بار دیکھ رہی ہوں انہیں اور آپ کہہ رہی ہیں میں اندر جاؤ﷽ں۔۔؟؟ نو نیور۔۔۔۔"

روتی ہوئی نسواء کو گلے سے لگا لیا تھا اس نے وہ لوگوں کا رش بھی ختم ہوچکا تھا وہ چہل پہل بھی تھم گئی تھی ان دونوں کی تیز دھڑکنوں کی طرح

۔

جیسے کوئی نرس باہر آتی نسواء ایک دم سے اٹھ جاتی تھی۔۔۔

وہ اس طرح کا ری ایکشن دہ گی کسے معلوم تھا۔۔ وہ اپنے کردار میں کبھی ایسی بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہوئی تھی خاص کر اپنے بچوں کے سامنے

جہاں مننان اس رد عمل پر مایوس ہوا وہیں حورب نے نسواء کو سمجھ کر سنبھالنے کی بہت کوشش کی تھی اس وقت۔۔۔

۔

"یہ سب ہوا کیسے ماں۔۔۔؟؟ کل تک تو وہ ٹھیک تھے۔۔۔"

اتنا کہنے کی دیر تھی اور نسواء کے چہرے پر اداسی کی جگہ غصے نے لے لی تھی اور اس نے بند مٹھی کھولی تھی جس میں ایک ہیرنگ تھا۔۔۔ وہ کوئی عام نہیں ڈائمنڈ کا تھا۔۔۔ اور نسواء نے یہ نجیب کے  پاس سے اٹھایا تھا۔۔ پر یہ بات بھی وہ کسی کو ابھی نہیں بتانا چاہتی تھی

اسے ابھی کسی کی فکر نہیں تھی سوائے اس شخص کے جو اندر بےہوش تھا

۔

"مجھے کچھ معلوم نہیں بیٹا۔۔ میں تمہارے بابا سے کچھ ضروری بات کرنے انکے آفس گئی تھی اور۔۔۔یہ سب۔۔۔"

"ماں آپ پلیز ابھی چپ ہوجائیں آپ کا پورا جسم کانپ رہا ہے۔۔ دیکھیں ابھی آپ گھر جائیں۔۔۔"

حورب باتیں کرتی جارہی تھی اور نسواء اسی کمرے کو دیکھتی جارہی تھی۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"بہو نجیب کہاں ہے کچھ معلوم کرو پتہ نہیں کیوں بے چینی ہورہی ہے۔۔"

"نجیب کوئی بچہ ہے بیگم۔۔؟؟ جب دیکھو یہی فکر رہتی آپ کو۔۔۔سب ڈنر شروع کریں۔۔"

آفندی صاحب نے جیسےہی کہا سب نے ڈنر شروع کردیا تھا

"دادا جان ۔۔۔ آپ کی بات سب مانتے ہیں  سب سمجھتے ہیں ایک بار اس بازاری عورت سے میرے بابا کی جان چھڑوا دیں۔۔۔"

"بازاری عورت کون۔۔۔؟؟"

دادی نے پوچھا تھا انکے لہجے کی کڑواہٹ نے سب پر ان کا غصہ عیاں کردیا تھا 

"وہی جسے بابا اٹھا کر باہر لے گئے تھے۔۔۔ کیا نام لے رہے تھے نسواء جی یہی نام۔۔۔

دادا جان آپ ہی۔۔۔"

"بس چپ کر جاؤ ماہیر۔۔"

"کیوں ماما۔۔؟؟ مجھے بولنے دیں دادا جی کا حکم تو سب مانتے ہیں ڈیڈ بھی۔۔۔"

"ماہیر بیٹا۔۔۔ ایک کام کرنا تم یہی سوال اپنے ڈیڈ سے کرنا جب وہ گھر آئیں۔۔۔ وہ بتائیں گے تمہیں کہ وہ بازاری عورت کون ہے۔۔۔"

فضا کرسی سے اٹھ گئی تھی اس نے ایک نظر حقارت سے اپنے ماں باپ کو دیکھا تھا ان دونوں کی خاموشی نے اسے اور طیش  دلا دی تھی۔۔

"کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلیں گی دادی۔۔۔ اس سے پہلے کہ کچھ برا ہو ۔۔

بچ جائیں۔۔۔  'بازاری عورت لفظ اس عورت کے ساتھ منسوب نہیں ہوتا۔۔۔

عمارہ بھابھی سمجھا دیجئے گا اپنے بیٹے کو۔۔۔"

۔

"انہیں کیا ہوا۔۔؟؟ ماہیر بھائی نے سچ ہی تو کہا۔۔۔"

شزا نے بھی اتنی ہی حقارت سے بولا تھا

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"انکے پیٹ پر گھاؤ گہرا تھا ہم نے سٹیچز لگا دئیے ہیں۔۔۔انہیں دو سے تین ویپن سے گھائل کیا گیا تھا۔۔۔"

وہ ڈاکٹر بتا رہے تھے پر نسواء سننے کے بجائے اندر چلی گئی تھی۔۔

۔

"نجیب۔۔۔"

کس نے سوچا تھا اس شخص کی یہ حالت اسکی پتھر دل بیوی کو اتنا موم بنا دے گی

اگر نجیب آفندی کو معلوم ہوجاتا تو وہ تو بہت پہلے یہاں پہنچ جاتا۔۔۔

۔

"ندیوں کو احساس ہے ساغر میں بھی پیاس ہے

مانا کہ ہے اندھیرا گھنا۔۔۔ کس نے کیا تجھ کو منع

تاروں کی شمع جلا۔۔۔ سچ ہوتے سپنے بھی۔۔۔

میں ہے ایسا سنا۔۔۔"

۔

"آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔"

چہرے سے بال پیچھے کئیے وہ بیڈ پر آہستہ سے بیٹھ گئی تھی۔۔۔

"نجیب آفندی۔۔۔"

سسکیوں کی آوازیں اس کمرے میں گونج اٹھی تھی حورب جو روم ڈور اوپن کرکے اندر آنا چاہتی تھی وہ دروازہ مکمل بند کرکے باہر بیٹھ گئی تھی۔۔۔

۔

"آپ بہت برے ہیں نجیب۔۔بہت تکلیف دی آپ نے۔۔۔اور اب جب میں سچ میں آپ کو چھوڑنا چاہتی ہوں تو آپ ایسے کررہے ہیں۔۔"

۔

نجیب کے کندھے پر سر رکھے وہ خاموشی سے رو دی تھی ۔۔اس شخص کے لیے جس نے سوائے درد کے کبھی کچھ نہ دیا تھا ان لوگوں کو۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"عمارہ نجیب کو وہ وقت پر ہسپتال لے گئے تھے"

"وہ لوگ کون ظہیر۔۔۔؟؟"

عمارہ اس گھر میں جیسے ہی داخل ہوئی تھی جہاں کچھ لوگ پہلے ہی موجود تھے

"نسواء اور اسکا بیٹا مننان۔۔۔ وہ لوگ نجیب کو عین ٹائم پر ہاسپٹل لے گئے تھے۔۔۔وہ بچ گیا ہے باسٹرڈ۔۔۔"

ظہیر نے شیشے پر ہاتھ مار کر توڑ دیا تھا اور اس پر پڑے کاغذ بکھر کر رہ گئے تھے

"وٹ۔۔؟؟ نجیب ہمیں چھوڑے گا نہیں۔۔۔سب سے پہلے وہ گھر سے نکال دہ گا مجھے اور میرے بچوں کو۔۔۔ ظہیر کچھ کرو۔۔۔"

"تو کیا میں یہاں جھک مار رہا ہوں۔۔ پاگل عورت یہ نجیب کے وکیل ہیں۔۔ میں پہلے ہی پراپرٹی کو ماہیر کے اور تمہارے نام کروا چکا ہوں۔۔۔ بزنس کے اور ڈائیورس پر سائن حزیفہ نے کروا لئیے تھے۔۔۔کیوں حزیفہ۔۔؟؟"

اور وہ کھڑکی پر سے جیسے ہی روشنی میں آیا تھا عمارہ نے سکون کا سانس بھرا تھا

"شکر ہے سائن کروا لئیے تھے۔۔ اب اگر نجیب نے گھر سے نکالنے کی کوشش کی تو۔۔"

"ایسے موقع نہیں آئے گا اسکے گھر پہنچے تک اسکی ملکیت ختم ہوچکی ہوگی۔۔۔"

"سر۔۔۔میری بات سن لیں۔۔۔"

"ہاہاہا تمہاری ہی سنیں گے آفٹر آل تم اسکے ٹرسٹ ورتھی جو ہو۔۔۔کم عمارہ بیٹھ کر بات کریں حزیفہ دادی کو فون کردو جب شام کو ہم آفندی مینشن میں جائیں تو دادی ساتھ ہوں گی اور۔۔"

"سر پہلے یہ کچھ ڈاکومنٹس دیکھ لیں۔۔۔ مسٹر نجیب کی نئی ول۔۔۔"

"نئی ول وٹ۔۔؟؟ نجیب نے جو ول بنائی تھی وہ اسکی بیوی اور بچوں کی تھی"

"جی سر۔۔۔پر۔۔۔"

"پر کیا۔۔؟؟"

"وہ بیوی اور بچے جن کا ول میں نام ہے وہ مس نسواء اور مننان کا تھا"

"کیا بکواس کررہے ہو۔۔۔"

حزیفہ نے اسکا گریبان پکڑ لیا تھا ایک دم سے۔۔۔

"مسٹر نجیب آفندی نے صرف دو ول بنوائی۔۔ ایک مجھ سے اور ایک اب کسی اور سے۔۔۔

جو مجھ سے بنوائی تھی اس میں انہوں نے اپنی جائیداد کا پچاس فیصد حصہ اپنی پہلی بیوی نسواء کے نام کردیا تھا۔۔۔اور چالیس فیصد مننان کے ۔۔۔ باقی دس فیصد میں کمپنی کے کچھ شئیرز اور ایک پراپرٹی اپنی بیٹی شزا اور بیٹے ماہیر کے نام کئیے۔۔"

"اور میں۔۔۔؟؟ اسکی بیوی عمارہ۔۔۔"

عمارہ نے چلاتے ہوئے پوچھا تھا

"سوری میم آپ کے نام کچھ نہیں تھا۔۔۔اور۔۔۔۔"

"دوسری ول سناؤ۔۔۔"

ظہیر نے عمارہ کو بٹھا دیا تھا واپس۔۔۔ انکی جیت ایک ناکام میں بدل چکی تھی مکمل۔۔۔

"اب کی ول میں انہوں نے اپنے بزنس کو مننان کے نام کردیا تھا اور کمپنی کا سی ای او بنانے کا لیٹر بھی جمع کروا دیا تھا۔۔۔ اور۔۔۔ شزا اور ماہیر کے نام وہی دس فیصد رہا۔۔۔

اس بار انہوں نے مس نسواء کے نام تیس فیصد کرکے باقی مننان اور حورب کے نام کردیا تھا اور یہ ول انہوں نے مجھ سے نہیں کسی اور سے بنوائی تھی۔۔ مجھے شک ہوا تو میں نے یہ کاغذات نکلوائے۔۔"

وہ کاغذات جیسے ہی دیکھائے ظہیر نے جلدی سے کھینچ کر پھاڑ دئیے تھے۔۔۔

"قصہ ختم وکیل جو سائن ہم نے دئیے ہیں تم اس پر کام کرو۔۔۔"

"یہ کاپی ہے اصل کاپی رجسٹرڈ ہوچکی ہے جائیداد بزنس سب ٹرانسفر ہوچکا ہے سر۔۔۔

اور اب مسٹر نجیب کے نام پر کچھ بھی نہیں میں ان سائن شدہ کاغذات کا کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ اب بزنس وغیرہ سب ان تین ناموں پر ہے اور ایک بات۔۔۔"

"ایک اور بات۔۔۔؟؟ تم ایک بار میں بتا کیوں نہیں دیتے کہ ہم تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔۔۔"

"مس نسواء کے سائن اور پرمیشن کے بعد ہی آپ کے دونوں بچوں کو وہ دس فیصد حصہ ملے گا یہ بھی لکھوایا ہے۔۔"

عمارہ کی آنکھیں بھر گئی تھی

"اس شخص کے پیچھے اتنے سال گال دئیے اور یہ صلہ ملا ہے مجھے۔۔؟؟

ظہیر اسی وقت اسے گولی ماردیتے تاکہ مر جاتا۔۔۔"

عمارہ جلدی سے اٹھ گئی تھی وہاں سے۔۔۔

۔

"اب تم گھر جاؤ اور پھر ہاسپٹل۔۔۔ ہم اسکے گھر پہنچنے سے پہلے اسکا کام تمام کرنا وگا۔۔۔

کم آن موو فاسٹ۔۔۔ حزیفہ تم دادی کو منع کردو پلیز۔۔۔ ڈیڈ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اتنے سال ہم پاگل بنتے رہے اور وہ بچ نکلا۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نجیب میرے بچے۔۔۔"

نسواء کی آنکھیں کھل گئی تھی دادی کی آواز سن کر اس نے جیسے ہی سر اٹھانے کی کوشش کی اسے کوئی مضبوط گرفت اٹھنے نہیں دہ رہی تھی اور جب آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو نجیب کی آنکھیں اس پر تھی۔۔

"آپ اٹھ گئے۔۔۔؟ نجیب آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟"

۔

پر نجیب آفندی کی فیملی نے اسے پیچھے دھکیل دیا تھا اسکی والدہ دادی اور عمارہ اسکی بیٹی شزا جیسے ہی نجیب کے پاس آئی تھی نسواء خاموشی سے باہر چلی گئی تھی۔۔۔

کمرے کے اس شیشے سے وہ صاف دیکھائی دہ رہی تھی وہ بنچ پر جیسے ہی جاکر بیٹھی تھی پورا وقت نجیب کی نظریں اس پر تھی

"نجیب بیٹا کیا ہوا ہے کچھ تو بتاؤ۔۔۔"

"نجیب کچھ تو بتائیں۔۔"

اور اس ایک پل اس نے عمارہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔ وہ اسکی ایک نظر میں نفرت کی تاب نہ لا پائی تھی اور خود اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا تھا اس نے 

"دوبارا مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو ہاتھ توڑ دوں گا تمہارے دفعہ ہوجاؤ۔۔۔"

"نجیب۔۔۔ سمجھ گئی اس عورت کے پیچھے آپ یہ سب کرررہے ہیں۔۔؟؟"

عمارہ نے جھوٹ موٹ کا رونا روتے ہوئے سمپتی کارڈ کھیلا جس میں وہ کامیاب بھی ہوئی جب ناہید بیگم نے غصے سے شیشے کے آگے پردہ کردیا تھا۔۔۔

"آپ سب کے سب چلے جائیں یہاں سے۔۔۔ مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔۔۔"

اس نے تھکن سے آنکھیں بند کرلی تھی

"تم سب جاؤ۔۔۔ میں یہیں ہوں۔۔"

دادی نے زبردستی سب کو گھر بھیج دیا ۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"رات ہوگئی ہے بیٹا اب تم بھی گھر چلی جاؤ۔۔۔"

"اور ویسے بھی اب نجیب کی بیوی ہے اسکے پاس۔۔اسکے بچے ہیں تمہیں یہاں رہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔"

آفندی صاحب نے جیسے ہی کہا تھا نسواء بھی اٹھ کھڑی ہوئی تھی جانے کے لیے۔۔۔ پر جاتے جاتے عمارہ کے پاس سے گزرتے ہوئے اسکی نظر عمارہ کے چہرے پر گئی جہاں اس نے ایک چیز نوٹ کی تھی۔۔۔

اور پھر اسکی مٹھی اور زور سے بند ہوگئی تھی۔۔۔

اب وہ سمجھ چکی تھی کہ نجیب آفندی کی خاموشی کے پیچھے کا راز

اور یہی وجہ تھی کہ کچھ دیر پہلے پولیس کو بیان میں بھی کچھ نہیں بتایا تھا اس نے۔۔۔

"میں نے جب جانا ہوگا میں چلی جاؤں گی آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں مسٹر آفندی۔۔۔"

اور وہ ان سب کے درمیان میں سے گزرتی ہوئی واپس وہیں بیٹھ گئی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

رات کے تین بج رہے تھے جب نسواء کے پاس سے کوئی بہت خاموشی سے ہوکر اندر نجیب کے روم میں چلا گیا تھا نہ کوئی ڈاکٹر راؤنڈ پر تھا نہ کوئی نرس آس پاس تھی باہر تھرڈ بنچ پر نجیب کے والد اور چچا جو ٹیک لگائے آنکھیں بند کرچکے تھے اور نسواء کے بنچ پر دادی جن کے کندھے پر نسواء سر رکھے سو رہی تھی۔۔۔

پر روم کا دروازہ جیسے ہی بند ہوا نسواء جاگ گئی تھی۔۔۔ اور اس نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔۔

اندر داخل ہوئی تو مانیٹر کی بیپ بیپ اسے الرٹ کرچکی تھی اس نے تیز قدموں سے اس ہاتھ کو روک لیا تھا جو نجیب کے بازو سے نیڈل آلریڈی نکال چکا تھا۔۔۔

۔

"حورب۔۔۔۔۔حورب بیٹا۔۔۔۔جلدی آو۔۔۔۔"

اندھیرے میں اس پرسن کو ایک دم سے پیچھے دھکا دیا تھا اس نے شور کی وجہ سے ایک نرس اندر داخل ہوئی اور اور حورب کو لینے چلی گئی جو بھاگتی ہوئی آئی تھی۔۔۔

۔

"وٹ دا ہیل۔۔۔ ماں آپ ٹھیک ہیں۔۔۔"

"بیٹا جلدی سے ٹھیک کرو مشین جلدی۔۔۔ کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔۔۔"

بس آدھی بات ہی کہہ پائی تھی اور نسواء نے عمارا کو بازو سے پکڑ کر زمین سے اٹھایا تھا۔۔۔

"کیا کررہی تھی کیا کیا نجیب کے ساتھ تم نے۔۔۔؟؟"

"یہ کیا ہورہا ہے عمارا تم یہاں۔۔؟؟"

دادی آگے بڑھی تو نسواء پیچھے ہوچکی تھی وہ نجیب کے پاس واپس چلی گئی تھی جسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تھی اور حورب کےچہرے پر گھبراہٹ چھا گئی تھی

"سسٹر سب کو باہر بھیجیں اور ڈاکٹر احمد کو جلدی لیکر آئیں فاسٹ۔۔۔"

"بیٹا کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟پلیز بتاؤ۔۔۔"

"پلیز ماں باہر جائیں پلیز۔۔۔"

حورب کی آنکھ سے جیسے ہی آنسو نکلا نسواء باہر چلی گئی تھی بنا کچھ کہے۔۔۔

۔

اندر کیا ہوا تھا۔۔۔؟؟ عمارا بیٹا تم وقت یہاں۔۔۔؟؟"

"جواب دو تمہارے سسر تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں تم اس وقت نجیب کے روم میں کیا کررہی تھی کیا کردیا جو ایک دم سے مانیٹر کے نمبرز آگے پیچھے ہوئے اور نجیب کی طبیعت خراب ہوئی۔۔۔"

"میرا ہاتھ چھوڑو۔۔۔"

پر نسواء کی گرفت مضبوط ہوئی تھی یہاں تک کہ عمارا کے بازو میں درد ہونے لگا تھا۔۔

"نسواء بیٹا پلیز۔۔۔ تم بیٹھ جاؤ میں بات کرتی ہوں۔۔۔"

نسواء نے دادی کی بات سن کر اسکا بازو تو چھوڑ دیا پر وہ بیٹھی نہیں تھی زخمی شیر کی طرح روم ک باہر چکر کاٹنے لگی تھی 

"دادی میں نجیب کو دیکھنے آئی تھی مجھ سے رہا نہیں گیا میں جیسے ہی نجیب کے پاس گئی تو اچانک سے نجیب کی طبیعت خراب ہوئی۔۔۔"

"ب۔۔۔"

نسواء گالی نکالتے نکالتے رہ گئی تھی۔۔۔

کچھ دیر میں حورب آئی اور حورب کی ایک بات نے نسواء کو اور جنونی بنا دیا تھا

"اندر مس گائیڈ کرنے ک کوشش کی گئی آکسیجن ماسک کو اتار کر انکی جان لینے کی ناکام کوشش کی گئی۔۔"

"جھوٹ۔۔۔ کون لے گا جان۔۔؟؟ تم دونوں ماں بیٹی جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔ملنے دو مجھے نجیب سے۔۔۔"

وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئی نجیب آفندی ب ہوشی کی حالت میں بھی ایک ہی نام لے رہے تھے 

"نسواء۔۔۔۔

نسواء۔۔۔۔

نسواء۔۔۔۔"

۔

"تمہیں تمہارا جواب مل گیا۔۔؟؟ اب جاؤ یہاں سے۔۔۔آؤٹ۔۔۔"

نسواء کی للکار نے عمارا ہی نہیں باقی سب کو بھی ایک وارننگ دہ دی تھی۔۔

۔

۔

اور اس دن کے بعد سے وہ سایہ کی طرح نجیب کے ساتھ ساتھ تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تھینکس۔۔۔یہاں تک آنے کے۔۔۔"

نجیب کی بات ادھوری رہ گئی تھی جب نسواء گاڑی سے اتری اور نجیب کی سائیڈ کا دروازہ کھولا 

"ہاتھ دیں۔۔۔نجیب۔۔۔"

اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نسواء نے جیسے ہی ہاتھ آگے بڑھایا نجیب نے فورا سے اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا اور وہ اسے سہارا دیتی ہوئی آفندی میشن میں داخل ہوئی۔۔۔

جہاں سب کے منہ کھلے کہ کھلے رہ گئے تھے۔۔۔

۔

"نجیب بیٹا تم تو کل ڈسچارج ہونے والے تھے۔۔۔"

"کیوں ماں آج دیکھ کر برا لگ رہا ہے۔۔؟؟"

ناہید بیگم شاک ہوئی۔۔

"ایسے کیوں کہہ رہے ہو بیٹا۔۔؟ عمارا بہو نجیب کو اوپر بیڈروم۔۔۔"

"ضرورت نہیں ہے نسواء ہے میرے ساتھ چلیں نسواء۔۔۔"

وہ جو باہر سے اندر تک نسواء کے سہارے آرہے تھے اب سب کے سامنے نسواء کے کندھے پر ہاتھ رکھ لیا تھا انہوں نے۔۔ اوپر جانے سے پہلے وہ سینٹر میں کھڑے ہوکر سب کی توجہ حاصل کرچکے تھے

۔

"یہ نسواء نجیب آفندی ہیں۔۔ میری پہلی بیوی۔۔ میری پہلی محبت۔۔ میرے دو خوبصورت  محنتی تعلیم یافتہ باشعور بچوں کی ماں۔۔"

۔

گھر کے بچوں تک یہ بات پہنچ چکی تھی

"یہ بازاری عوت۔۔۔"

ماہیر کو ایک زور دار تھپڑ مارا تھا نجیب نے۔۔۔

"تم۔۔۔ اپنی ماں سے پوچھو کون تھا بازاری۔۔۔"

"ڈیڈ۔۔۔"

نجیب نے ایک اور تھپڑ مارا تھا ماہیر کو۔۔۔

"آئندہ زبان سنبھال کر بات کرنا ورنہ بولنے لائق نہیں چھوڑوں گا۔۔"

ان سب میں ایک بار اس نے ماہیر کی آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا ایک بار بیٹا نہیں کہا تھا۔۔۔

وہ ان دنوں میں پہلی بار غصے میں آیا پہلی بار اس نے مکمل جملے بولے تھے

آج جو باتیں اس نے عمارا کو لیکر کر دی سب چپ ہوچکے تھے اس وقت۔۔۔

۔

"آپ اچھا نہیں کررہے۔۔۔"

"میں تمہیں۔۔۔۔"

نجیب کہتے کہتے چپ ہوگیا تھا۔۔۔ اس نے گہرا سانس لیا تھا پہلو میں کھڑی بیوی کے ہاتھوں کو پھر ہاتھ میں لیا تھا اور ایک بار پھر مڑ کر مخاطب ہوا تھا سب سے۔۔۔

۔

"میں وہ مرد ہوں جس نے جوانی کے نشے میں دولت کے نشے میں دوسری عورت کے نشے میں اپنی پہلی بیوی کی نا قدری کی مننان جیسی اولاد کو ٹھکرا کر نہ صرف خود کی تباہی کا آغاز کیا۔۔۔

میں نے ایک غلط فیصلہ لیا جس کا پچھتاؤا مجھے کبھی سکون سے جینے نہیں دے گا۔۔ اور وہ فیصلہ دوسری شادی کا تھا۔۔۔"

۔

وہ نسواء کا ہاتھ پکڑے اوپر چلا گیا تھا پر اپنے بیڈروم کی طرف نہیں اس کمرے کی طرف جو اس کا جو نسواء کا تھا جو بیڈروم تھا ان کا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مننان سر۔۔۔۔"

دروازے پر مننان کو اس حالت میں دیکھ کر اسکے ہاتھوں سے پرس گرگیا تھا۔۔۔

وہ ہاسپٹل جارہی تھی پر مننان کی حالت دیکھ کر وہ خود دو قدم پیچھے ہوگئی۔۔

"سر آپ ٹھیک ہیں۔؟؟"

"ٹھیک۔۔۔؟؟ میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔۔ یہ خون دیکھ رہی ہو۔۔؟؟ یہ میرے باپ کا خون ہے۔۔۔"

وہ کہتے ہوئے لڑکھڑایا تھا جب منیشہ نے اسے سہارا دیا تھا۔۔۔

"سر پلیز اندر آجائیں۔۔۔آپ۔۔ اتنے دن سے کہاں تھے۔۔؟؟ آپ نے اس دن سے کپڑے نہیں بدلے یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے۔۔"

وہ جیسے اسے پکڑ کر اندر لائی تھی اور صوفہ پر بٹھا دیا تھا مننان ن اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"میں اب تھک گیا ہوں منیشہ۔۔۔کوئی رشتہ مخلص نہیں۔۔۔کوئی بھی۔۔ ماں پچھلے چار دنوں سے اس شخص کے پاس ہیں خدمت کررہی ہیں پہرہ دہ رہی ہیں۔۔۔

ایک بار۔۔۔ ایک بار نہیں پوچھا میرا۔۔۔میں کہاں ہوں کیسا ہوں۔۔۔؟؟"

"سر۔۔۔ آپ کبھی خود کو اپنی ماں کی جگہ رکھ کر سوچیں۔۔ انہوں نے ساری زندگی اپنی اولاد پر وار دی اب اگر وہ اپنے شوہر کا ساتھ چاہ رہی ہیں تو گناہ کیا ہے۔۔؟؟"

"وہ شخص اس قابل ہے۔۔۔؟؟"

مننان نے ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچ کر پوچھا تھا جس کے چہرے کے درمیان بھی کچھ فاصلہ تھا

"یہ فیصلہ کرنے کا حق آپ کی ماں کا ہے۔۔"

"یا رائٹ۔۔۔ ماں کا حق ہے۔۔ وہ تو معصوم ہیں پھر سے انکی باتوں میں آجائیں گی۔۔۔دھوکا دہ دیں گے وہ ماں کو پھر سے۔۔۔"

"تو کھانے دیں دھوکا۔۔۔ وہ بیوی ہیں ان کی۔۔۔ اتنا شعور تو انہیں بھی ہے۔۔۔ اگر چند لمحوں کی قربت کے لیے دھوکا کھا نا چاہتی ہیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔ محبت کرنے والے اتنا کچھ برداشت کرجاتے وہ تو پھر بیوی ہیں انکی۔۔۔"

مننان نے منیشہ کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔۔۔

"میں کچھ لیکر آتی ہوں۔۔۔"

وہ جانے لگی تھی جب اس نے پھر سے بازو پکڑا تھا اس کا۔۔۔

"مجھ سے شادی کریں گے مس منیشہ۔۔۔؟؟ مجھے محبت ہوگئی ہے آپ سے۔۔۔

آپ کی باتوں سے۔۔۔"

"وٹ۔۔۔۔"

منیشہ نے جیسے ہی مڑ کر دیکھا مننان  کی آنکھیں بند ہونا شروع ہوگئی تھی۔۔۔

اس نے آہستہ سے ہاتھ چھڑا کر مننان کو پوری طرح لٹا دیا تھا صوفہ پر۔۔۔

"محبت۔۔؟؟ وہ بھی مننان  آفندی کو مجھ سے۔۔؟؟ کبھی نہیں۔۔ سنا تھا لوگ نشے میں سچ بولتے ہیں۔۔۔ آپ نے جھوٹ بول کر سنی سنائی بات کو ہی جھٹلا دیا۔۔۔"

"محبت کی امتحان اسکے جوبن میں ادا ہوں تو محبت کی شدت کا حق ادا ہوتا ہے

ساری زندگی گزر جانے کے بعد احساس جاگے تو کیا جاگے۔۔؟؟"

۔

"نسواء۔۔۔"

نجیب اسی بیڈروم کی طرف لے گئے تھے جو کمرہ کبھی ان دونوں نے شئیر کیا تھا

کمرے میں جاتے ساتھ ہی نسواء نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کا کیا

"بس کیجئے نجیب ۔۔ ایکٹنگ اچھی کرتے ہیں آپ۔۔ پر اس چار دیواری میں ضروری نہیں۔۔"

اور ساتھ ہی سیل فون سے ایک کال ملائی تھی

"ڈرائیور کے ہاتھ لگیج بھیج دو بیٹا تمہیں آنے کی ضرورت نہیں میں ایسے لوگوں کا سایہ بھی تم دونوں پر پڑنے نہ دوں۔۔"

نجیب کی آنکھوں میں دیکھتے ہی بات مکمل کی اور فون بند کردیا تھا۔۔

"نسواء۔۔۔ وہ سب ایکٹنگ نہیں تھی جو مجھے بہت سال پہلے کردینا چاہیے تھا  ۔۔"

"آرام کریں آپ کو اسکی ضرورت ہے۔۔۔"

بیڈ پر بٹھا کر وہ دوسری طرف جانے لگی تھی جب نجیب نے اسکا ہاتھ پکڑا

"مجھے آپ کی ضرروت ہے نسواء بیٹھ جائیں یہاں میرے پاس۔۔۔"

۔

اس لمحے کچھ تو تھا نجیب کی آواز میں وہ طلب تھی جس نے نسواء کو اسکے پاس بیٹھنے پر مجبور کردیا تھا۔۔

"نسواء کچھ وقت کے لیے ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں بس آپ کا نجیب بن کر رہوں ماضی کا ہرجائی نہیں۔۔؟؟"نسواء کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے بہت پیار سے پوچھا تھا

"نجیب آپ سے کچھ سال کی قربت  نے بس کچھ سال ہی اپنی نظر کئیے مگر  اس ہرجائی نے میری ساری زندگی کھا لی۔۔"

"نجیب بیٹا۔۔۔"

نسواء نے خود کو نجیب کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی نجیب نے جیسے ہی نسواء کے چہرے سے ہاتھ ہٹائے وہ اٹھ کر باتھ روم کی طرف چلی گئی تھی پر کپبرڈ سے جو ہاتھ آیا کپڑا تھا وہ لیکر۔۔

"نجیب آپ ٹھیک ہیں۔۔"

وہ اسی جگہ کو تکتا رہ گیا تھا جہاں نسواء بیٹھی تھی۔۔

"نجیب۔۔؟"

دادی کو والدہ کو سب کو چھوڑ کر اسکی نظر عمارہ پر گئی 

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس کمرے میں آنے کی۔۔؟ میں کیا لکھ کر دوں تمہیں کہ بے دخل کرچکا ہوں تمہیں دفعہ ہوجاؤ۔۔ نکل جاؤ۔۔۔بےشرم۔۔"

عمارہ کا ہاتھ پکڑ کر روم کے باہر پھینک دیاتھا اور پھر دروازے ایک جھٹکے سے بند کردیا تھا

"نجیب بیٹا تمہیں ہوکیا گیا ہے اس عورت کے پیچھے

"وہ عورت بہو ہے آپ کی میری بیوی ہے ماں۔۔ عزت نہیں دہ سکتی تو یہاں کرکیا رہی ہیں۔۔؟؟"

"نجیب بیٹا  گہرا سانس بیٹھو یہاں۔۔"

دادی نے بہو کو ایک نظر دیکھا تھا اور باہر جانے کا کہہ دیا تھا۔۔

نجیب کو جیسے ہی بیڈ پر بٹھایا تھا نسواء بھی فریش ہوکر باتھروم سے باہر آچکی تھی

"نسواء بیٹا۔۔ میرے نجیب کی زندگی بچانے کا بہت بہت شکریہ۔۔ میں جانتی ہوں تمہارے لیے ہم سب کو معاف کرنا بہت مشکل ہوگا مگر کوشش کرنا۔۔۔ اللہ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔۔"

جب نسواء نے کوئی جواب نہ دیا تو دادی چلی گئی تھی

"میں کھانا اوپر بھجوا رہی ہوں کھا کر سونا تم دونوں۔۔۔۔"

بالوں کو ٹاول سے صاف کئیے وہ جیسے ہی ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی تھی ہر ایک چیز اسکے سامنے گونجنے لگی تھی وہ شیشہ اس پر پڑی چیزیں وہ نائٹ گاؤن جو اس نے پہنا تھا۔۔

۔

"آپ کو یاد ہے یہ میرا فیورٹ نائٹ گاؤن تھا نسواء۔۔ میں بہت شوق سے لایا تھا۔۔"

پر نسواء نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔۔بال سنوارتے سنوارتے وہ ماضی کی تلخ یادوں میں دھنستی چلی گئی تھی

"نجیب آپ کو وہ سب یاد نہیں آتا جس نے ہمارے رشتے کو خراب کیا۔۔؟ وہ حوس۔۔؟ وہ آفئیر عمارہ کے ساتھ وہ ون نائٹ سٹینڈ۔۔؟ "

"آپ کبھی نہیں بھولیں گی۔؟"

"جب تک آپ کا چہرہ سامنے رہے گا میں یاد رکھوں گی۔۔"

"میں چہرہ کہیں نہیں لے جا سکتا نسواء۔۔ جب تک زندہ ہوں تب تک تو نہیں۔۔"

۔

"آپ بس باتیں۔۔"

وہ اٹھنے لگی تھی جب اسکے سر میں درد شروع ہوا تھا اور نجیب جلدی سے اٹھ کر اسکی طرف بڑھا اسکے جسم میں بھی تکلیف اٹھی تھی پر اس نے سب اگنور کرکے نسواء کی طرف قدم بڑھائے تھے۔۔

"نسواء۔۔ بس چپ کرجائیں۔۔۔ابھی لیٹ جائیں۔۔ میڈیسن نہیں کھائی۔۔؟

کتنی لاپروائی کرتی ہیں آپ۔۔"

"میں ٹھیک ہوں۔۔ بس چکر آگئے تھے۔۔"

پر نجیب نے کوئی بات نہ سنی تھی اور نسواء کو بیڈ پر لٹا دیا تھا پاؤں کی جوتی اتار کر ٹانگیں سیدھی کی تو نسواء کے پرس سے میڈیسن نکال کر جلدی سے ملازم سے دودھ کا گلاس منگوا کر اسکے ساتھ کھلا دی۔۔۔

"اچھا یہ گاؤن ابھی بھی فٹ آرہا۔۔؟؟"

نسواء کے منہ سے بےساختہ ہنسی نکلی تھی

"ہاہاہا آپ سائز کچھ زیادہ بڑا لے آئے تھے نجیب۔۔"

نجیب ٹانگوں کی طرف جیسے ہی بیٹھا نسواء نے سمٹنے کی کوشش کی  پر نجیب نے ٹانگیں اپنے گھٹنوں پر رکھ لی تھی

"نجیب بس کر جائیں۔۔"

"آنکھیں بند کریں اور سونے کی کوشش کریں۔۔"

پاؤں کی تلی پر اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے انہوں نے آہستہ سے کہا تھا کچھ دیر میں نسواء تو سو گئی پر نجیب آفندی۔۔۔ وہ سو نہیں پایا تھا۔۔

۔

"کیا زندگی بنا لی میں نے۔۔؟؟ میں یہاں اس حالت میں اور آپ اس بیماری میں نسواء۔۔

ایک عورت کے بہکنے سے چاہیں نسلیں خراب نہ ہوں مگر مرد کا بہکنا خاندانوں کے خاندان تباہ کردیتا۔۔۔

نہ میں آفئیر چلاتا نہ دوسری شادی کی ضد کرتا نہ بیٹے سے نفرت کرتا۔۔ 

نہ گھر سے جانے پر مجبور کرتا۔۔۔

تو آج سب کچھ الگ ہوتا نہ۔۔؟؟ آپ میں ہمارے بچے۔۔ نہ آپ کو یہ بیماری ہوتی اور نہ میں اس بدزات عورت کے شر میں پھنستا۔۔

اس عورت کے شر نے میری زندگی تباہ کردی نسواء۔۔۔"

نسواء کے پاؤں پرجیسے ہی نجیب کے آنسو گرے اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تھی پر نجیب جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے

"کہاں جارہے ہیں۔۔؟؟ آکر سوجائیں اور دروازہ لاکڈ کیجئے مجھے آپ کے گھر والوں پر یقین نہیں۔۔"

نجیب کا منہ کھلا رہ گیا تھا

"آپ جاگ رہی تھی نسواء۔۔؟؟"

پر نسواء کروٹ لیکر سو گئی تھی تھی

"نسواء۔۔۔آپ کبھی نہیں بدلیں گی۔۔"

۔

دروازہ لاکڈ کرکے وہ جیسے ہی دوسری سائیڈ پر آکر لیٹے تھے نسواء کے ماتھے پر آتے ہوئے بالوں کو پیچھے کردیا تھا انہوں نے۔۔

"نسواء۔۔۔میری جان جان تو بچا دی تھی پھر اس گھر میں میری زندگی میں واپس آکر مجھے ایک نئی امید کیوں دلا دی ۔۔؟ میں جانتا ہوں آپ چلی جائیں گی۔۔۔"

"نجیب۔۔۔"

نجیب کے ہاتھ کو تھامے تکیے پر رکھ دیا تھا اوپر اپنا ہاتھ نسواء نے

"میرے پاس گنتی کا گنا چنا وقت رہ گیا ہے نجیب اس میں بھی اگر اب آپ کا ساتھ چھوڑ دیتی تو شاید اس بیوی کے فرائض سے منہ موڑ لیتی۔۔

میری تو زندگی ختم ہونے کو ہے کیوں نہ میں جاتے جاتے یہ بھی کر جاؤں۔۔؟؟"

"یہی کرتی آئی ہیں آپ ساری زندگی۔۔ آپ کی اسی اچھائی نے مجھے بےوفا بنا دیا۔۔نسواء۔۔"

نجیب کی آنکھیں جیسے ہی بھری نسواء نے اپنی اوڑھ آنے کا اشارہ کیا تھا

"نجیب بیوی کی اچھائی شوہر کو اور وفا دار بناتی ہے باغی نہیں۔۔"

"پر میں نے تو کردی نہ بغاوت اور سب خراب بھی کردیا۔۔"

نسواء کے کندھے پر سر رکھے وہ آنکھیں بند کرچکے تھے

"کاش دوسری شادی کرتے وقت ہر شوہر ایک بار پہلی بیوی کے اس دکھ کو سمجھ سکے۔۔

آپ مردوں کا کیا ہے آگے بڑھ جاتے ہیں پر وہ بیوی بچوں کا ہاتھ پکڑے اسی جگہ کھڑی رہ جاتی کتنے سال تک یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ جانا کہاں ہیں۔۔"

۔

پر نجیب کی طرف سے کوئی جواب نہ تھا۔۔۔اور پھر نسواء بھی خاموش ہوگئی تھی وہ رات کی تنہائی میں ایک دوسرے کی دھڑکنے سنتے رہ گئے جو ہزار گلے شکوے کررہی تھی۔۔

اور دونوں ہی چپ تھے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ کو جانا نہیں ہے سر۔۔؟؟"

"کیوں میں باس ہوں۔۔"

"یہ تو سچ مچ جم گئے ہیں یہاں۔۔ انکے اسسٹنٹ کو کال کرتی ہوں۔۔"

"مس منیشہ سوچئیے گا بھی مت۔۔ ہم آج آفس نہیں سائٹ سئنگ پر جارہے ہیں۔۔"

"پر مننان سر وہ تو شہریار سر جاتے آپ کے ساتھ۔۔"

"آج سے آپ جائیں گی۔۔"

"وٹ۔۔۔؟؟؟"

"کم آن میں باہر گاڑی میں ویٹ کررہا ہوں ۔۔۔"

مننان صوفہ پر سے اٹھ کر اپنا کوٹ پہننے لگ جاتا ہے کوٹ بٹن بند کرکے وہ سیدھا اپارٹمنٹ سے باہر اور منیشہ ابھی بھی اسی جگہ۔۔

"اب اور کتنا برداشت کرنا ہوگا۔۔؟؟ نسواء میم کی خاطر کب تک خاموش رہوں گی۔۔؟؟"

۔

منیشہ جلدی جلدی میں چینج کرکے اپارٹمنٹ لاک کئی باہر چلی گئی تھی جہاں منیشہ کو آتے دیکھ مننان نے اسکی سائیڈ کا دروازہ کھولا تھا

وہ لڑکی اس شخص کی یہ سائیڈ دیکھ کر دنگ رہ گئی

"آپ نشے میں تو نہیں ہیں۔۔؟"

"میں صبح صبح ڈرنک نہیں کرتا۔۔۔"

"مطلب پورے انکاری نہیں ہیں آپ۔۔؟"

مننان کو چیلنج کرتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔

"میں پورا اقراری بھی نہیں ہوں مس منیشہ۔۔۔بیٹھ جائیں لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔"

اور وہ سیٹ پر جیسے ہی بیٹھی مننان اسکی طرف جھکا تھا

"سیٹ بلٹ مس منیشہ۔۔۔"

"یا۔۔ یا سوری۔۔"

اس نے بہت سا فاصلہ بڑھایا تھا اور منہ پیچھے کرلیا تھا اپنا سیٹ بلٹ لگا کر۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ایگزیکٹلی۔۔ نجیب۔۔ ایسی کیا وجہ تھی ابھی نیچے پولیس کو بھی بیان نہیں دیا کہ وہ عمارہ   تھی۔۔۔ بہت گہرا عشق ہے۔۔؟"

نسواء نے کمرے میں آتے ہی چلانا شروع کیا تھا۔۔۔

"نسواء۔۔ آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ۔۔"

"قسم کھائیں میری اور کہیں وہ عمارہ نہیں تھی۔۔؟"

نجیب کا ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر اس نے نجیب کی آنکھوں میں دیکھتے ہی پوچھا جس پر نجیب نے منہ پھیر لیا تھا۔۔

"نسواء آپ ان معاملات میں دخل اندازی مت کریں۔۔"

"کیوں نہ کروں۔۔؟ آخر ایسا کیا ہے اس عورت میں۔۔؟ کیوں کچھ بھی بول نہیں رہے لوگوں کے سامنے۔۔؟ ا س نے مارنے کی کوشش کی کیوں کی۔۔؟ 

جس شخص نے  اس کی خاطر اپنی بیوی کو ٹھکرا دیا اپنے بیٹے کو ٹھکرا دیا سب رد کردیا اسی شخص کو مارنے کی کوشش۔۔ بلکہ مار دیا تھا نجیب۔۔۔اگر وقت۔۔وقت پر آپ کو ہسپتال نہ لے جایا جاتا۔۔۔"

نجیب صاحب نے کچھ نہ نہ کہا بس ونڈو کی طرف چلے گئے

"نسواء کی ہر بات انہیں چبھ رہی تھی۔۔وہ کسی اچھی بیوی کی طرح نیچے دو گھنٹے تک تو سب کے سامنے چپ رہی اور جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے اسکا غصہ تھمنے کو ہی نہیں آرہا تھا۔۔

"اب چپ کیوں ہیں۔۔ کیوں اسکی سچائی سامنے نہیں لانے دی۔۔؟ کس چیز کا ڈر تھا دنیا کو بھی سچ پتہ چل جاتا کہ۔۔"

"کیا سچ پتہ چلتا دنیا کو۔۔؟ اس نے مجھے مارنا چاہا۔۔ پر کیوں مارنا چاہا نسواء۔۔ جانتی ہیں آپ۔۔؟؟"

نجیب کی آواز تھوڑی اونچی ہوئی تو وہ بھی ٹھہر گئی غصے سے نجیب کی آنکھیں بھی سرخ ہوچکی تھی۔۔  پر وہ غصہ انہیں نسواء پر نہیں خود پر تھا اپنے گناہوں پر تھا ان غلطیوں پر تھا۔۔

۔

"ظاہر ہے آپ کیوں لوگوں کے سامنے اپنی بیوی کی لالچ۔۔۔"

"نسواء وہ لالچی ہی نہیں بے حیا بھی ہے۔۔۔ لوگوں کے سامنے اسکی اصلیت نہیں میری غیرت آئے گی۔۔ جب دنیا کو یہ معلوم ہوگا کہ وہ دونوں بچے میرے نہیں کسی اور کے ہیں۔۔ میں اس بےغیرت کے لیے نہیں اپنی عزت کے لیے مررہا ہوں۔۔

اس لیے اس نے مجھے ختم کرنے کی کوشش کی تاکہ ایک ہی بار مار سکے۔۔"

۔

نسواء پانچ منٹ تک کچھ بول نہ سکی اسکا ایک دل چاہا دل کھول کر ہنسے اس شخص پر اسکے انتخاب پر اور ایک دل ترس کھانے لگا جب نجیب نے سر جھکایا۔۔۔ بستر پر بیٹھا وہ شخص نجیب آفندی نہیں لگ رہا تھا

"نسواء۔۔ آپ دیکھ لیں جو میں نے آپ کے ساتھ کیا اللہ نے میرے ساتھ کردیا۔۔

میں نے باوفا بیوی کو چھوڑ کر دوسری عورت کو  اہمیت دی اور اس عورت نے کسی اور کو۔۔

میں بھول گیا تھا کہ مکافات اٹل ہے میں نے اپنے بیٹے کو ٹھکرایا اور دیکھو یہ اولاد بھی میری نہیں۔۔

اب معافی مانگو گا تو اپنی نظروں سے نیچے گر جاؤں گا نسواء۔۔ اس لیے جتنی جلدی ہوسکے آپ چلی جائیں یہاں سے۔۔ "

وہ تو دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے بیٹھ گئے تھے نسواء آہستہ قدموں سے انکے پاس  آئی نجیب کے بالوں میں ہاتھ جیسے ہی رکھا وہ اپنے حصار میں بھر چکے تھے

وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی اپنے ہرجائی کو مگر کچھ نہیں تھا۔۔

"نجیب میں رات کی تنہائی میں اپنے بیٹے کے ساتھ اس گھر سے اتنے سال پہلے نکل گئی کہ کہیں دن کا اجالہ آپ کی شان و شوکت میں فرق نہ لے آئے۔۔

میں جہاں بھی گئی آپ کا نام نہیں جوڑا کہ آپ کی عزت پر حرف نہ آجائے۔۔

کسی کو آپ کا معلوم نہ ہونے دیا۔۔ بس زندگی میں چلتے رہے۔۔

اور آپ نجیب۔۔۔؟؟"

اپنی ویسٹ سے نجیب کا چہرہ اٹھائے اس نے اوپر کیا تھا

"نجیب یہ انتخاب تھا آپ کا۔۔؟ بہت گھاٹے کا سودا کیا آپ نے۔۔

اسکے لیے ہرجائی بن گئے اور سب داؤ پر لگا دیا۔۔؟؟"

نجیب کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے آہستہ سے پوچھا تھا

"بہت خسارے میں رہا ہوں نسواء۔۔۔دوسری شادی کے چکر میں سب داؤ  پر لگا دیا بہت خسارہ ک

"مجھے دھوکا دینے والے لوگوں کو ایک زندگی بھی پچھتانے کے لیے کم پڑ جاتی ہے مس منیشہ۔۔ابھی تمہارا پچھتاوا شروع ہوگا۔۔۔"

۔

"سر یہ وہ ڈیٹیکٹو کی انفارمیشن ہے۔۔جو آپ نے مانگی تھی۔۔"

"ہمم اب تم جا سکتے ہو۔۔۔اور اس ڈیٹیکٹو کو اندر بھیج دو۔۔اور مس منیشہ کو کہو دو کپ چائے لیکر آجائیں میرے کیبن میں۔۔"

وہ کانفرنس روم سے ڈائیرکٹ کیبن کی طرف چلا گیا تھا۔۔۔

۔

"سر آپ کو جو ڈاکومنٹس چاہیے تھے وہ یہ رہے۔۔ وہ بلڈ ریلیٹڈ ہیں مسٹر نجیب آفندی کے

انکی بہن کی پہلی اولاد۔۔ اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں مس منیشہ یہ سب جانتی تھی اور شاید وہ کسی پلان کے تحت۔۔"

ڈیٹیکٹو کی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ کیبن کا دروازہ ناک ہوا مننان نے اندر آنے کا کہا تو وہ منیشہ کو دیکھ کر حیران ہوا تھا اور پھر مننان کی طرف دیکھا

"آپ اپنی رپورٹ جاری رکھیں۔۔"

"سر۔۔ یہ کلائنٹ نے جو سب سے بڑی بات آپ سے چھپائی وہ جان کر آپ شاید اپنے غصے پر کنٹرول نہ کر پائیں۔۔۔اور وہ کیا ہے۔۔؟؟"

"سر شوگر کتنی۔۔؟؟"

"مس منیشہ اتنی کافی ہے اب آپ  جاسکتی ہیں۔۔"

مننان کو ایک دم سے جلدی ہوئی تھی وہ سچ جاننے کی

"یہاں تک میرا شک سہی ثابت ہواکیا ماں کو بھی دھوکا دہ رہی تھی یہ۔۔؟؟ کیوں ہے اتنی منافقت آفندی خون میں۔۔؟"

وہ اٹھ کر ونڈو کی طرف چلا گیا تھا

"کیا سچ ہے۔۔؟؟"

"سر۔۔ آپ کی موم۔۔۔  ان کا کینسر واپس آچکا ہے۔۔ اور یہ بات بھی مس منیشہ کو معلوم تھی وہ کافی بار میم کو ہسپتال لے کر جاچکی ہیں۔۔"

"بچ۔۔۔"

مننان نے ونڈو کے شیشے پر مکا مار کر توڑ دیا تھا۔۔۔

۔

سب کچھ یہاں رکھ کر چلے جاؤ۔۔۔"

کیبن کا دروازہ جیسے ہی بند ہوا تھا مننان نے دونوں ہاتھ ڈیسک پر مارے تھے وہ سب تصاویر سب ڈاکومنٹ پورے روم میں بکھر گئے تھے

۔

"میں جتنا سوچتا تھا کہ تم الگ ہو سب سے تم صاف دل کی ہے پر تم تو سب سے بدتر نکلی منیشہ۔۔ اب دیکھو تم کرتا کیا ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔

میری ماں کو انکی بیماری کا مجھ سے چھپانے کو بھی تم نے کہا ہوگا۔۔ کچھ تو ہے جو انہوں نے اپنے نام نہاد شوہر کو بتا دیا تمہیں بتا دیا پر مجھے اور حورب کو نہ بتا سکی وہ۔۔؟؟"

ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا۔۔ جب پھر سے کیبن کا ڈور ناک ہوا۔۔

"مجھے کسی سے بات نہیں کرنی جائیں مس منیشہ ابھی آپ کی ضرورت نہیں۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء۔۔۔"

بند آنکھوں سے جب بستر کی دوسر سائیڈ پر ہاتھ رکھا تو جگہ خالی تھی انکی آنکھ کھل گئی

"نسواء۔۔؟؟"

نہ وہ روم میں موجود تھی نہ انکا سیل فون سائیڈ ٹیبل پر تھا نہ ہی پرس اور وہ لگیج بھی نہیں تھا۔۔۔

۔

بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں بند کی تو انہیں ایک ایسی ہی رات یاد آگئی تھی جب وہ دوسری شادی کے لیے اپنی بیوی کو ایسے ہی سوتا چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔۔

اب وہی سب انکے ساتھ ہورہا تھا تو انہیں تکلیف ہورہی تھی

"وہ کونسا کسی اور کے لیے مجھے چھوڑ کر گئی ہے۔۔ میں اتنا پریشان کیوں ہورہا ہوں۔۔؟؟ نسواء میری ہیں۔۔پر حزیفہ۔۔؟؟"

حزیفہ کا نام ذہن میں آتے اسکی ساری نیند اڑ گئی تھی۔۔۔

وہ کمرے سے جیسے ہی نکلا باہر ایک گارڈ کھڑا تھا جس نے نجیب کو باہر جانے سے روک دیا تھا

"سر نسواء میم کا  حکم۔۔۔"

"اسے فکر ہے میری۔۔ میں اسے اس حیوان کے ساتھ ایسے نہیں چھوڑ سکتا ان تینوں سے بچانا ہوگا مجھے اپنے بچوں کو اپنی بیوی کو۔۔"

نجیب جلدی جلدی سے گارڈ کو پیچھے دھکیل کر نیچے اترا تھا اور جیسے ہی باہر جانے لگا جب والد نے نجیب کا راستہ روکا۔۔

"نجیب بیٹا ڈنر کرو ساتھ بیٹھ کر اس وقت باہر مت جاؤ،، آگے ہی تم اتنے بڑے حملے سے بچے ہو۔۔"

"ڈیڈ باہر سے زیادہ خطرہ مجھے یہاں ہے۔۔ اگر یہاں محفوظ ہوتا تو کبھی میری بیوی  اس گارڈ کی ڈیوٹی نہ لگا کر جاتی یہاں۔۔"

۔

"ڈیڈ رک جائیں۔۔"

اس بار شزا نے راستہ روکا تھا۔۔ ڈیڈ لفظ نجیب کیسے خود کو ایک وقت نسواء سے زیادہ کامیاب سمجھنے لگا تھا اور آج وہی لفظ وہی بچے اسے زہر لگنے لگے تھے

"آئندہ میرا راستہ نہ روکنا۔۔۔"

۔

۔

وہ ڈرائیور کو ساتھ لئیے نسواء کے گھر تو پہنچ گیا پر وہاں نسواء کو حزیفہ کی گاڑی میں جاتے دیکھ نجیب آفندی خود کو سب ہارتے دیکھا تھا۔۔۔

جسے کچھ گھنٹے پہلے تک یہ یقین تھا کہ وہ بیوی کو جیت گیا ہے بچے بھی پا لے گا۔۔۔

مگر حقیقت تو کچھ اور ہی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میم آپ پلیز مننان سر کو بتا دیں۔۔ ان سے مت چھپائیں۔۔ وہ ٹوٹ جائیں گے۔۔"

"میں نہیں بتا سکتی بیٹا۔۔ اور میں اس لیے آفس نہیں آئی کہ تم مجھے یہ باتیں کرکے ڈسٹرب کرو۔۔"

"ٹھیک ہے اگر آپ سر کو نہیں بتا سکتی تو آپ۔۔"

"میں نے کچھ بھی نہیں بتانا۔۔ اب جاؤ یہاں سے۔۔"

"میم۔۔"

نسواء کے اس لہجے پر منیشہ حیران ہوگئی تھی اتنے غصے سے پہلے کبھی اس نے ایسے بات نہ کی تھی اسکے ساتھ۔۔۔

"مس منیشہ جب انہوں نے کہہ دیا کہ آپ چلی جائیں تو جائیے۔۔میں ہینڈل کرلوں گا یہاں سے۔۔"

"جی۔۔"

وہ سر جھکائے چلی گئی تھی نسواء نے روکنے کی کوشش کی وہ شرمندہ ہوئی تھی اپنی اونچی آواز پر

"جانے دیں ماں۔۔۔ اب زرا ہم ماں بیٹے کی بات ہوجائے۔۔؟؟"

"مننان بیٹا۔۔"

"کب بتا رہی تھی اس بارے میں۔۔؟؟"

جب میڈیکل رپورٹ سامنے رکھی تو نسوا نے آنکھیں بند کر لی تھی

"آنکھیں بند لینے سے سچائی بدل نہیں جاتی۔۔ منہ پھیر لینے آپ مجھے جھٹلا نہیں سکتی ماں یہاں دیکھیں میری طرف۔۔۔

یہ دوسری بار ہوا ہے کیوں آپ یہ ثابت کرنے پر تلی ہیں کہ میں ایک نکما  بیٹا ہوں آپ کا۔۔؟"

"مننان بیٹا پلیز ایسا مت سوچو میں تمہیں اور حورب کو پریشان۔۔"

"جب خاموشی سے چلی جاتی تو کیا ہم پریشان نہ ہوتے ہم دونوں کوستے نہیں خود کو۔۔؟ ہم کیا زندہ رہ لیتے آپ کے بغیر ماں۔؟ ہم بھی مر جاتے۔۔"

"اللہ نہ کرے میرے بچے۔۔"

مننان کا چہرہ ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی تو مننان پیچھے ہوگیا تھا۔۔

"مننان بیٹا پلیز ماں کو معاف کردو۔۔ میں بتانے والی تھی۔۔"

"میں ایسے جانے نہیں دوں گا۔۔ بس بہت ہوگئی آپ کی من مانیاں۔۔"

"میں ٹھیک ہوں مننان۔۔۔"

"وہ تو ڈاکٹر ڈیسائیڈ کریں گے اسی ہفتے کی فلائٹ ہے آپ کی آپ یہاں سے جارہی ہیں۔۔

اگر چاہتی ہیں میں ناراض نہ ہوں تو آپ کو میری ہر بات کو ماننا ہوگا۔۔حورب ساتھ جائے گی آپ کے بس میں بھی کچھ ضروری کام نمٹا کر وہی آجاؤں گا۔۔"

نسواء کا منہ شاک سے کھل گیا تھا سب کچھ تو تہہ کر چکا تھا ان کا بیٹا۔۔ وہ جو علاج سے دور بھاگ رہی تھی وہ بھی تہہ کرلیا تھا اس نے۔۔۔انہوں نے گہرا سانس بھرا تھا۔۔مننان کیبن کے ڈور ہینڈل پر ہاتھ رکھے کھولنے لگا تھا جب ماں کی بات نے اسکے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی

"اگر تم چاہتے ہو میں خوشی خوشی علاج کرواؤں تو تم میری آخری خواہش سمجھ کر اس خواہش کو پورا کردو۔۔۔ منیشہ سے شادی کر لو۔۔"

"وٹ۔۔؟؟ اس مڈل کلاس اس خو۔۔۔"

وہ کہتے کہتے رکا تھا۔۔

"بس یہ شرط مان لو میں بھی جانے کو تیار ہوجاؤں گی۔۔۔"

"یہی آخری فیصلہ ہے تو یہی سہی ماں۔۔ آپ کے لیے میری جان بھی قربان ہے۔۔

وہ مان جائے گی۔۔تو اسی ہفتے منگنی رکھ دیں باقی آپ کے آنے کے بعد سہی ماں اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کرنے والا۔۔"

"تھینک یو سو مچ بیٹا تم نے مجھے بہت خوش کردیا ہے۔۔۔بہت خوش کردیا۔۔"

نسواء اٹھ کر بیٹےکے پاس گئی تھی ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔

۔

انہیں کیا معلوم تھا جب وہ واپس آئیں گی تو جتنی محبت آج بیٹے سے ہورہی اتنی ہی نفرت کل اس سے کرنے لگی گی۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ کو نہیں لگتا ابھی آپ ٹھیک نہیں آفس نہ آتے۔۔"

"میں ٹھیک ہوں آپ اندر آئیں نسواء کیا منگواؤں چائےجوس۔۔؟"

انہوں نے نسواء کا ہاتھ پکڑنا چاہا جس پر نسواء نے ایٹیٹوڈ دیتے ہوئے ہاتھ پیچھے کرلیا تھا

"میں جارہی ہوں یہاں سے نجیب۔۔ آج شام مننان کی منگنی ہے منیشہ کے ساتھ سوچا آپ کو بتا دوں۔۔"

نجیب کی خوشی مدھم پڑ گئی تھی

"کیا بیٹے کی خوشی۔۔"

"وللہ۔۔عالم ایسی بات نہیں۔۔ بیٹھیں۔۔"نسواء جس چئیر پر بیٹھی تھی سامنے والی چئیر پر نجیب بیٹھ گئے تھے

"مجھے لگا تھا خوش ہوں گے۔۔ آج غیر لوگ ہوں گے تو مجھے لگا باپ کو بھی بیٹے کی اس خوشی میں شریک ہونا چاہیے جب سب ہوں گے جب حز۔۔۔"

"جب وہ فادر فیگر ہوگا۔۔؟؟ نسواء کیا سچ میں آپ مجھے بلانا چاہتی ہیں یا آپ چاہتی ہیں میں اپنی بربادیوں کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔۔۔؟؟"

"آپ نے جو سوچنا ہے سوچیں۔۔"

نسواء اٹھ کر جانے لگی تھی جب نجیب نے بازو پکڑ کر کھینچا تھا اور نجیب کی گود میں آگری تھی۔۔

"نجیب۔۔۔آپ کو سٹیچز لگے ہوئے ہیں۔۔"

"درد نہیں ہورہا۔۔ بیرونی زخم کب درد دیتے ہیں جب اندر جب ناسور بن رہا ہو۔۔؟"

نسواء کی ویسٹ پر ہاتھ رکھے انہوں نے جیسے ہی اسکا چہرہ اپنی طرف کیا تھا نسواء نے پھر سے اٹھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔

۔

"یہ ناسور بننے سے پہلے زخم تھے نجیب انہیں بہت محبت اور وفا سے پالا آپ نے اب یہ ناسور بن گئے ہیں تو کیا ہوا۔۔؟؟ آپ کی محنت کی نشانیاں ہیں اور۔۔۔"

نسواء کے ہونٹوں پر انگلیاں رکھ کر چپ کروا دیا تھا نجیب نے

"آپ کو معلوم ہے بہت زیادہ بولنے کی عادت ہو گئی ہے آپ کو۔۔جب دیکھو۔۔۔

بولتی رہتی ہیں۔۔ تلخ بولتی ہیں خوبصورت عورت پر اتنی تیز زبان زیب نہیں دیتی۔۔"

نسواء کو چھیرتے ہوئے جیسے ہی کہا نسواء نے بھی آنکھیں دیکھا کر اٹھنے کی کوشش کی۔۔

"نجیب چھوڑیں مجھے جانا ہے۔۔"

"چھوڑ دوں گا۔۔ پر بتانا ہوگا کہاں جارہی تاکہ  میں بھی چھٹی کی لئیو دہ کر پیچھے پیچھے آسکوں۔۔۔"

"چھٹی کی لئیو۔۔؟؟ سیریسلی۔۔۔؟؟"

نجیب کے چہرے کی معصومیت دیکھ کر اسکا غصہ اڑا لے گئی تھی

"ہمم چھٹی۔۔۔ میڈم نسواء۔۔ باس بہت سخت ہیں۔۔"

"سیریسلی نجیب۔۔؟؟ ہاہاہاہا۔۔۔۔"

وہ ہنسی تو نجیب خود کو روک نہیں پایا تھا آگے بڑھنے سے

"نجیب اننف۔۔۔"

"ایم سوری۔۔۔ یہ کچھ لمحات ہی تو ہیں میرے پاس نسواء۔۔۔ جنہیں میں نے گنوا دیا اب جانے سے پہلے اسے تو مت چھینے۔۔۔"

"نجیب میری بات۔۔۔"

نجیب نے کوئی بات نہ سنی تھی۔۔۔ چہرے ک درمیان فاصلہ کم ہوتا گیا آنکھوں میں آنکھوں مرکوز تھی چہرے پر ہاتھ رکھے وہ نسواء کے لبوں پر اپنے لب رکھنے والے تھے جب ماتھے پر بوسہ دے کر انہوں نے نسواء کا سر اپنے سینے پر رکھ دیا۔۔۔

خود کو بھی حیران کیا تھا اور اپنی بیوی کو بھی

"آپ کی قربت میں گزرا ہر لمحہ قیمتی آپ کی آغوش میں لپٹے ہر پل انمول ہے نسواء۔۔

سمجھ نہیں پایا کہ اتنی خوبصورت باوفا بیوی کے ہوتے ہوئے میں ہرجائی کیسے ہوگیا۔۔۔

اور جب سمجھ آئی تو اتنی دیر ہوگئی تھی مجھے۔۔۔"

نسواء خاموشی سے سب سن رہی تھی۔۔ وہ جانے سے پہلے ان آخری لمحات کو اپنے دل میں قید کرنا چاہتی کیونکہ وہ جانتی تھی جس علاج کے لیے وہ جارہی اس میں شاید ہیاسکی واپسی ہو۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"واااہ۔۔۔ منیشہ بھابھی۔۔۔ آپ تو بہت خوبصورت لگ رہی ہیں۔۔مننان بھائی فلیٹ ہی نہ ہوجائیں۔۔"

منیشہ نے شرما کر سر جھکا لیا تھا۔۔

"مجھے ابھی بھی یقین نہیں آرہا حورب تمہارے بھائی نے اس شادی کے لیے ہاں کیسے کردی میرا مطلب ہے۔۔کہ کہاں میں ایک مڈل کلاس۔۔"

"شش۔۔۔ اب تم ایسی کوئی بات نہیں کرو گی اور یہ بھی مت سوچنا کہ انہیں کسی نے مجبور کیا۔۔ کیونکہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔ بھائی نے اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کیا۔۔۔"

۔

"چلو بیٹا جلدی سے منیشہ کو نیچے لے آؤ۔۔۔۔"

۔

منیشہ جیسے ہی حورب کے ساتھ سیڑھیاں اتر کر نیچے ارہی تھی مننان اپنی نگاہیں نہیں ہٹا پایا تھا اس پر سے۔۔ پر گیٹ پر نجیب آفندی کو آتے دیکھ اس نے ایک نظر اسے اور پھر ایک نظر منیشہ کو دیکھا تھا

"بہت جلدی آپ کو بہت بڑا سرپرائز دوں گا مسٹر نجیب آفندی بس میری ماں کو جانے دیجئے۔۔"

۔

"بیٹا پلیز ریلیکس۔۔"

"آپ نے بلایا انہیں۔۔؟؟ ماں میں نے ایک شرط مان لی اب۔۔"

"پلیز مننان۔۔"

مننان نے گہرا سانس بھر کر ہاں میں سر ہلایا تھا۔۔

"موسٹ ویلکم مسٹر نجیب آفندی۔۔۔"

حزیفہ ایسے خوش ہوکر نجیب سے ملا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور نجیب نے بھی کچھ ظاہر ہونے نہیں دیا تھا۔۔۔ جب تک اسکی بیوی بچے اس شخص کی دسترس میں تھے وہ تب تک منہ نہیں کھولنا چاہتا تھا اپنا۔۔۔

۔

"تھینک یو۔۔۔ یہ آپ کے لیے نسواء۔۔"

گلاب کے پھول نسواء کی جانب بڑھاتے ہوئے آہستہ سے کہا تھا۔۔

"آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں نسواء۔۔ اینڈ یو ٹو بیٹا۔۔"

حورب کے سر پر پیار دے کر وہ مننان اور منیشہ کی طرف بڑھے تھے۔۔۔

"بہت بہت مبارک ہو اللہ جوڑی سلامت رکھے۔۔"

"آپ میری ماں کے سامنے یہ ااچھے بننے کی ایکٹنگ کیا کریں سر وہ بیوقوف بن جاتی ہیں اس لیے تو ہر کوئی انکی محبت کا فائدہ اٹھا لیتا ہے۔۔ کیوں مس منیشہ۔۔؟؟"

منیشہ نے چونک کر مننان کو دیکھا تھا۔۔

"ایکسکئیوز مئ۔۔"

"ابھی کہاں۔۔؟؟ ابھی رنگ پہنانی ہ یہیں رک جاؤ۔۔ ۔۔"

"یہ کوئی طریقہ نہیں اپنی منگیتر سے بات کرنے کا۔۔بیٹا۔۔"

"ہونے والی منگیتر اور آپ رہنے دیں آپ نے جو عزتیں اپنی بیوی کو بخشی تھی میں واقف ہوں۔۔"

"ہممم ٹیک کئیر۔۔۔"

منیشہ کے سر پر پیار دئیے وہ واپس نسواء کی طرف بڑھے تھے۔۔اور جب نسواء کو حزیفہ اور اسکی فیملی کے ساتھ مشغول دیکھا تو وہ وہاں س باہر چلے گئے تھے۔۔

اس وعدے ک ساتھ کے وہ واپس ضرور آئیں گے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ ماہ بعد۔۔۔۔۔۔۔"

۔

"شہریار سر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔"

"آج مننان سر کی شادی ہے۔۔ منیشہ میرے ساتھ چلئیے اور روک لیجئے۔۔ نہ حورب میڈم کا فون مل رہا نہ نسواء میڈم کا۔۔۔"

وہ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی جلدی سے۔۔۔ گاڑی اس گھر کی طرف جارہی تھی جو روشنیوں سے سج دھج  رہا تھا۔۔ شہنائیوں کی آواز دور دور تک سنائی دہ رہی تھی جب گاڑی رکی تو مہمانوں کے جھرمٹ سے وہ  ہوتے ہوئے اوپر روم تک جانے لگی پر ہال میں ٹھیک اسی جگہ اسکے قدم رکے جہاں اسکی منگنی ہوئی تھی مننان سے اس نے بےساختہ سامنے وال پر اسی فوٹو کو دیکھنا چاہا جو انکی منگنی کی تھی اب وہ تصویر بھی وہاں موجود نہ تھی۔۔

۔

وہ روم میں داخل ہوتے ہی ایک ہی بات کہتی ہے۔۔۔

"آپ میرے ساتھ یہ سب کیسے کرسکتے ہیں مننان۔۔؟"

اسکے الفاظ دم توڑ گئے تھے جب مننان اپنی شیروانی کے بٹن بند کرتے ہوئے پیچھے مڑا تھا

منیشہ کا لہجہ دھیما پڑ گیا تھا

"کیوں نہیں کرسکتا میں یہ شادی۔۔؟؟ آفٹر آل لیزا میری محبت ہے۔۔میرا سٹیٹس ہے میرا لیول ہے۔۔۔"

"تو میں کیا ہوں مننان۔۔؟؟"

۔

"آپ یہ شادی مت کریں مننان۔۔۔ میری زندگی میں وہ واحد امید ہیں آپ جس نے مجھے لڑکھڑانے نہیں دیا۔۔۔

بہت محبت ہوگئی ہے مجھے آپ سے۔۔۔ پلیز یہ شادی مت کریں۔۔ میں ہاتھ جوڑتی ہوں بیچ منجدھاڑ میں چھوڑ کر مت جائیں مجھے۔۔۔"

وہ گھٹنوں کےبل جیسے ہی گری تھی مننان نے رخ موڑ لیا تھا

"کسی ڈسپریٹ با۔۔بازاری عورت سے زیادہ کچھ نہیں لگ رہی ہو تم مجھے اس وقت۔۔ چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔ میں آج ہی نکاح کررہا ہوں لیزا سے۔۔۔ اور۔۔۔ کل سے تمہیں آفس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"

۔

"میں آپ سے کیا کہہ رہی ہوں مننان آپ کو سمجھ نہیں آرہی۔۔؟؟"

پر مننان کو صرف اپنی نفرت نظر ارہی تھی منیشہ میں اس خاندان کی شکل اور دشمنی کے اس بدلے نے اسے پتھر بنا دیا تھا اس وقت منیشہ کا ہاتھ پکڑے وہ بیڈروم سے باہر لے گیا تھا۔۔۔

۔

نکل جاؤ۔۔ اور بھول جاؤ اس منگنی کو۔۔"

"اور وہ ملاقاتیں۔۔؟ آپ کی وہ باتیں۔۔وہ سب کچھ۔۔؟؟"

"تمہیں کیا لگا تھا۔۔؟؟ میں تمہیں اپنی زندگی کے پانچ منٹ بھی دوں گا۔۔؟؟ جان چکا تھاتمہاری سچائی کس کا خون دوڑ رہا تمہاری رگوں میں۔۔ تمہیں لگا تھا مجھے بیوقوف بنا دو گی۔۔؟؟

جیسے تمہاری ماں نے میری ماں کی زندگی برداشت کی اب وہ دیکھے گے تمہاری حالت۔۔۔اور۔۔۔"

اور وہ قہقہ لگا کر ہنس دیا تھا۔۔۔

۔

"آپ بہت پچھتائیں گے مننان۔۔۔ رک جائیے اپنے بدلے کی آگ میں اتنا مت جلیں کےت راکھ ہوجائیں۔۔۔

میں واپس نہیں لوٹ کر آؤں گی اگر چلی گئی تو۔۔۔ سوچ لیجئے۔۔۔"

"میں کبھی نہیں پچھتایا۔۔۔ تم میٹر نہیں کرتی۔۔۔"

"میں کہہ رہی ہوں۔۔ آپ پچھتائیں گے مننان آفندی۔۔۔ پچھتائیں گے آپ۔۔۔

مجھے کھونے پر پچھتائیں گے آپ۔۔۔ میرے لیے پچھتائیں گے مجھے لیکر پچھتائیں گے۔۔

میں کہہ رہی ہوں آپ کو۔۔۔"

"روکو۔۔ ابھی پانچ منٹ رک جاؤ میری اور لیزا کے نکال کے بعد چلی جانا پیچھے بیک یارڈ میں سب آچکے ہیں۔۔۔"

منیشہ کا بازو پکڑ کر اس نے زمین سے اٹھایا تھا اسے اور اپنے ساتھ بیک یارڈ کی لے گیا تھا

"اگر آپ نے یہ شادی کی تو میں بھی ماہیر آفندی سے شادی کرکے اپنے دل میں آپ کی محبت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردوں گی مننان رک جائیں۔۔"

"ہاہاہا۔۔ وہ پلے بوائے تم سے شادی کرے گا۔۔؟؟ دل بہلا رہا ہے تم اسے قابل ہو۔۔"

"تو ہاتھ چھوڑیں میرا۔۔"

اور جب مننان نے ہاتھ نہ چھوڑا تو منیشہ نے زبردستی اپنا ہاتھ چھڑوا کر مننان کو ایک زور دار تھپڑ مارا تھا۔۔

"اس میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں ہے مننان یاد رکھئے گا۔۔وقت کروٹ ضرور لے گا اور اج جس نجیب آفندی سے آپ سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں کل کو انکی جگہ پر خو د کو پائیں گے۔۔۔یہ بھی یاد رکھئیے گا۔۔"

"مننان بیٹا ہماری فیملی میں موسٹ ویلکم۔۔۔"

"نانو آپ نہیں ملیں گے مننان کو۔۔؟؟"

لیزا آفندی صاحب کو کھینچ کر مننان کے سامنے لے آئی تھی۔۔کیا وہ لوگ اتنے ناسمجھ تھے جو مننان کو پہچان نہیں پارہے تھے۔۔؟

کیا یہ بھی مننان کا پلان تھا۔۔؟ لیزا بھی ری ایکٹ نہیں کررہی تھی

یا سب جان بوجھ کر نسواء یا مننان کی فیملی کا پوچھ نہیں رہے تھے۔۔؟؟

۔

"میٹ مائی ہزبنڈ مننان امین احمد۔۔۔"

اپنے کزنز سے ملواتے ہوئے بہت فخر سے اس کا پورا نام لے رہی تھی۔۔

نکاح ہوئے ایک گھنٹہ ہوگیا تھا۔۔اور اس ایک گھنٹے میں جانے کتنی بار  مننان نے گیٹ کی جانب دیکھا تھا

۔

"میں ابھی آیا۔۔"

لیزا کے ماتھے پر بوسہ  دے کر وہ واپس گھر کی جانب گیا تھا اور ٹھیک اسی جگہ جہاں منیشہ کو چھوڑ کر گیا تھا۔۔

پر اب وہاں کچھ نہیں تھا۔۔ لیکن زمین پر ایک چمکداار چیز دیکھ کر وہ جھکا تھا۔۔اور وہ انگوٹھی دیکھ کر حیران ہوا تھا وہ جو اس نے منگنی والے دن اسے پہنائی تھی۔۔

۔

"ابھی اور بہت ہے مس منیشہ۔۔ ابھی تو میرا بدلہ شروع ہوا ہے جب تک تم اعتراف نہیں کرو گی اپنی سازش کا تب تک میں تمہیں سزا دیتا رہوں گا۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تم اس قابل نہیں ہو کہ کوئی تم سے شادی کر سکے۔۔"

مننان کی کہی باتیں گول دائرے کی طرح اسکے گرد گھومنے لگی تھئ

"میں اس قابل کیوں نہیں ہوں۔۔؟ میں کس قابل ہوں ماہیر۔۔؟؟"

ماہیر نے گاڑی اپارٹمنٹ کے سامنے روک دی تھی پر منیشہ کا رونا تھم نہ سکا

وہ بہت مشکل سے اسے یہاں تک لیکر آیا تھا۔۔ابھی تک اسے لگ رہا تھا کہ مننان اسکی کزن سے شادی نہیں کرے گا کوئی کیسے منیشہ جیسی لڑکی کو ٹھکرا سکتا ہے۔۔؟

پر آج شاید اس نے مننان کا اصل روپ دیکھ لیا تھا

"خبر دار ایسا کچھ سوچا تو۔۔ ابھی تم تھک گئی ہو ہم کل صبح بات کریں گے۔۔"

وہ اسے سہارا دیتے ہوئے اسکے اپارٹمنٹ میں لے گیا تھا اسکے پرس سے چابی نکالے جیسے ہی دروازہ کھولا وہ دیوار کے ساتھ لگ کر زمین پر بیٹھ گئی تھی۔۔

"میں نے اس سے بہت محبت تھی میری پہلی محبت اتنی ظالم کیسے ہوگئی وہ میرا منگیتر بھی تھا۔۔وہ۔۔"

"وٹ ربیش منیشہ۔۔۔ مننان اور تمہارا فیانسی۔۔؟ "

"یقین نہیں آرہا۔۔؟ کیوں آئے گا۔۔ اس شخص نے کسی کو خبر نہ ہونے دی اب سمجھ آئی مجھے۔۔ میں بس۔۔"

گھٹنوں میں سر چھپائے وہ روتے ہوئے ماہیر کی ہر توجہ کو حاصل کرچکی تھی

"منیشہ یہ وقت گزر جائے گا۔۔ میں کہہ رہا ہوں تم۔۔۔"

منیشہ جیسے اسکے گلے لگی تھی اسکی بولتی بند ہوگئی تھی۔۔کتنی دیر وہ سسکیاں لیتی اس لڑکی کو چپ کرواتا رہا۔۔جو کچھ دن پہلے اسے حاصل کرنے کے پلان بنا رہا تھا اب وہ اسکے اتنا قریب تھی تو اسکے دماغ میں کوئی پلان نہیں چل رہا تھا بلکہ دل میں ایک درد ہورہا تھا اس لڑکی کو تکلیف میں دیکھ کر۔۔

"میں اسے دیکھ لوں گا منیشہ۔۔ اس نے جان بوجھ کر تمہارے ساتھ یہ سب کیا۔۔

میں دیکھ لوں گا اسے۔۔"

منیشہ کی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر جب اسکے چہرے سے بال پیچھے کئیے تو اسے گہری نیند سویا ہوا پایا۔۔

"میرا وعدہ ہے میں اسکا سایہ بھی تم پر پڑنے نہیں دوں گا۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"منیشہ۔۔۔منیشہ۔۔۔"

وہ سب کمرے چھان چکا تھا مگر اس لڑکی کا نام و نشان نہ ملا آخر کار اس نے گیٹ کیپر سے پوچھا جس نے منیشہ کے ساتھ جانے والے اس شخص کا بتا کر مننان کو شاکڈ کردیا تھا

"اسکی اتنی ہمت کیسے ہوئی وہ۔۔"

"مننان بیٹا۔۔۔"

دادی کی آواز نے اس چونکا دیا تھا

"تم نسواء کے بیٹے ہو نہ۔۔؟ مننان میرے بچے۔۔"

مننان کے ماتھے پر بوسہ دینے لگی تھی جب مننان پیچھے ہوگیا تھا

"میں کسی کا بچہ نہیں ہو مسز آفندی۔۔ مجھ سے رشتے داری بنانے کی کوشش بھی مت کیجئے گا۔۔"

وہ انہیں لاجواب چھوڑ گیا تھا

"نسواء کہاں ہے۔۔؟؟ کہیں میرا شک سچ ثابت نہ ہواجائے کہیں بدلے کی آگ میں مننان سب برباد نہ کردے۔۔"

دادی نے آنکھیں صاف کرکے چشمہ پھر سے پہن لیا تھا۔۔۔

۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"لیزا کے ساتھ وہ اس وقت بہت خوش نظر آرہا تھا۔۔ اسکی فیملی کے ساتھ وہ خوش تھا۔۔

لیزا کی موم بار بار نظر اتار رہی تھی یہاں ایک جشن کا سما تھا

اور وہاں انہی کی بیٹی غیر کی بانہوں میں اپنی اجڑی دنیا کا رونا رو رہی تھی۔۔۔

۔

اور دوسری طرف وہ ماں جو خوشی خوشی اپنے علاج کی شروعاتکر چکی تھی

جو کھیل مننان نے شروع کیا تھا اگر اسکے بھیانک اختتام کی بھنک اسے لگ جاتی تو شاید۔۔ شاید وہ آج شادی جتنا بڑا قدم اٹھان سے پہلے سوچ لیتا۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تھینک یو سو مچ سر۔۔"

"آپ کی مدر نے ٹریٹمنٹ میں زرا سی دیر کردی ہے ڈاکٹر حورب ورنہ چانسز تو 70 فیصد تھے"

"پلیز ڈاکٹر ایسے نہ کہیں ہم بہت امید کے ساتھ یہاں آئے ہیں آپ نے وہ وہ کیس بھی حل کئیے جن میں چانسز صرف پانچ فیصد تھے"

"ڈونٹ ورری ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے بس میڈیسن آج سے شروع کریں۔۔ "

کچھ دیر اور انسٹرکشن دینے کے بعد ڈاکٹرز کی ٹیم وہاں سے چلی گئی تھی۔۔

حورب جلدی جلدی پرائیویٹ روم میں داخل ہوئی تھی جب نسواء بوکھلاہٹ میں پانی کا گلاس نیچے پھینک کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی پردے کے آگے

"بیٹا۔۔اتنی جلدی واپس آگئی۔۔؟ مجھے لگا تھا لیٹ ہوجاؤ گی۔۔اب ہم چلیں گھر۔۔؟"

وہ پردے کے آگے سے ہٹ نہیں رہی تھی جس پر حورب کا شک یقین میں بدل گیا تھا جب اس نےشوز دیکھے تھے جو بتا رہے تھے پردے کے پیچھے کسی کے چھپنے کا۔۔"

"جی ابھی کے لیے گھر جارہے ہیں آپ جلدی سے کپڑے چینج کرلیں۔۔"

نسواء آہستہ آواز میں کچھ کہہ کر گئی تھی جو حورب کو سمجھ نہ آئی پر پردے کے ہلنےپر اسکے منہ پر بےساختہ ہنسی چھا گئی تھی 

"اب آپ باہر آسکتے ہیں۔۔"

پر وہ شوز اور پیچھے ہوچکے تھے اور اندر چھپ چکے تھے باہر آنے کے بجائے۔۔

اور آہستہ آہستہ پردہ ہٹایا تو نجیب صاحب سر جھکا کر کھڑے ہوگئے تھے

"دیکھیں زرا کتنے جالے لگ گئے ہیں۔۔"

چہرے پر سے ٹشو سے ڈس صاف کرتے ہوئے اس نے ہاتھ پکڑ کر جیسے ہی نجیب کو اس جگہ سے باہر لائی نسواء بھی باتھروم سے باہر آچکی تھی

"میں نے کہا تھا جائیں۔۔پکڑے گے نہ۔۔"

"مجھے کیا پتہ تھا نسواء میں تو پوری کوشش کررہا تھا چھپنے کی۔۔"

"اسے چھپنا کہتے ہیں۔۔؟؟ بابون جیسے آپ اتنی سی جگہ میں چھپ سکتے تھے بھلا۔۔؟"

"آپ مجھے موٹا کہہ رہی ہیں نسواء۔۔؟؟ "

"اتنی باتوں میں آپ کو ایک ہی بات نظر آرہی ہے۔۔؟ اب وہ کیا سوچتی ہوگی۔۔؟"

بیٹی کو اگنور کئیے وہ دونوں اپنی بحث میں مصروف ہوچکے تھے جب حورب کی ہنسی نے ان دونوں کو چپ کروایا تھا

"ہاہاہاہاہاہا بابون۔۔؟؟ موم سیریسلی۔۔؟؟"

اور نسواء بھی قہقہ لگا کر ہنسی تھی اور نجیب صاحب منہ بنا کر بیڈ پر بیٹھ گئے تھے۔۔

"دیکھیں ابھی بھی جالے لگے ہیں۔۔ موم آپ صاف کیجئے میں ابھی آئی۔۔"

وہ ٹشو باکس نسواء کو دہ کر چلی گئی تھی

"سیریسلی نجیب۔۔؟ آپ یہاں کر کیا رہے ہیں۔۔؟؟ یہاں بھی لگا ہوا ہے۔۔"

نسواء نے ٹشو دیا تھا پھر نجیب نے پکڑا نہیں اور ویسے ہی منہ بنا کر بیٹھے رہے

نسواء نے ٹشو لیکر خود انکے پاس بیڈ پر بیٹھ کر انکا چہرہ اپنی طرف کئیے صاف کرنا شروع کردیا۔۔

"ویسے کہنا تو نہیں چاہیے۔۔ پر آپ ایسے ناراض بیٹھے بہت کیوٹ لگ رہے ہیں کسی معصوم بچے کی طرح۔۔"

"پہلے بابون کہا  پھر بچہ اور اب کیوٹ۔۔ نسواء آپ کرلیں تنگ جتنا کرنا ہے۔۔"

"ہاہاہاہاہا۔۔۔ یا اللہ۔۔۔"

ہنستے ہوئے کب انہوں نے نجیب کی ناک پر کس کرکے انہیں اور خود کو شاک دہ دیا۔۔۔

"نسواء۔۔۔"وہ نسواء کی آنکھوں میں کھو گئے تھے پر حورب کے گلہ صاف کرنے کی آواز نے ایک جھٹکے سے نسواء کو اٹھنے پر مجبور کردیا۔۔

"ایم سوری۔۔ پر یہ ہاسپٹل ہے اور میں سخت خلاف ہوں اوپن رومینس کے۔۔ اور پلیز۔۔اپنی ایج کا لحاظ کریں۔۔ جوان بیٹی آگے پیچھے گھوم رہی ہے اور آپ دونوں۔۔؟؟"

ہاتھ باندھے اس نے دونوں کی کلاس لے دی تھی جو کسی مجرم کی طرح کھڑے تھے۔۔۔

"ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔اوکے۔۔۔ ایم سوری۔۔۔۔ہاہاہاہا آپ دونوں اپنے فیس دیکھیں۔۔۔

ہاہاہاموم۔۔۔"

"حورب کی بچی۔۔۔"

وہ ماں بیٹی روم سے باہر چلی گئی تھی پیچھے مسکراتے ہوئے نجیب کو چھوڑ کر۔۔۔

"دوسری شادی کے چکر میں مرد سچ میں پاگل ہوجاتا ہے جو اسے اپنی بےپناہ خوشیاں بھی نظر نہیں آتی۔۔۔

پر اب نہیں نسواء۔۔ ساری زندگی آپ کے لیے جو نہ کر سکا وہ اب کروں گا۔۔

سب ٹھیک کرکے۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"منیشہ۔۔۔منیشہ اوپن دا ڈیم ڈور۔۔۔"

مننان کی آواز ہر سو گونج رہی تھی پر اندر سے کوئی جواب نہ ملا تھا

وہ رات کے اس پہر پچھلے تین گھنٹے سےایسے ہی دستک دہ رہا تھا پر کوئی جواب نہ تھا

"میں جانتا ہوں تم سن رہی ہو مجھے۔۔۔ منیشہ کیا لگ رہا ہے۔۔؟؟ تمہیں کیا لگا تھا میں بیوقوف بنتا جاؤں گا۔۔؟؟ تمہاری رگوں میں جس کا خون ہے وہ میرے دشمن جن کے ساتھ مل کر تم نے ابھی تک یہ سب ڈرامہ کیا۔۔

مس منیشہ آپ کی محنت تو بیکار چلی گئی دیکھو میری شادی ہوگئی ہے۔۔اور کل ہنی مون پر بھی جا رہا ہوں میں۔۔۔منیشہ۔۔۔۔"

وہ جو کانوں پر ہاتھ رکھے اسی دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی

مننان نے جس طرح اسکا نام پکارا ایسا لگا جیسے اسکے جسم میں پھر سے جان ڈال دی ہو۔۔

"منیشہ۔۔ میں نے تم سے کبھی پیار نہیں کیا تھا۔۔۔ میں نے لیزا سے محبت کی ہمیشہ۔۔ اور دیکھو شادی بھی اسی سے کی۔۔ اب تمہیں اپنی اوقات کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔۔؟؟"

اندر بیٹھی وہ ہاں میں سر ہلائے جا رہی تھی

"ہاں ہوگیا اندازہ۔۔۔ ماں باپ نے یتیم خانے پھینک دیا ایک بڑے خاندان نے پہچاننے سے انکار کردیا۔۔ اور آپ نے اپنانے سے مننان۔۔ مجھے اپنی اوقات کا اندازہ ہوگیا ہے"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ ماہ بعد۔۔۔۔"

۔

"ماں ابھی آپ واپس نہیں جاسکتی اسی ویک سرجری ہے۔۔"

"بیٹا میری بات نہیں ہوئی منیشہ سے۔۔ مننان بس ایک بار ملنے آیا تھا۔۔ وہاں کچھ تو گڑ بڑھ ہے جو منیشہ نے فون تک اٹھانا بند کردیا ہے میرا۔۔"

"موم میں بات کروں گی۔۔ بلکہ اسے یہاں لے آؤں گی۔۔۔"

"میرے وہاں جانے پر کیا مسئلہ ہے۔۔؟ میں۔۔"

"میم۔۔"

دروازے پر مننان کے اسسٹنٹ کو دیکھ کر نسواء کے دل میں ایک بےچینی ہوئی تھی

"شہریار بیٹا۔۔ آپ یہاں۔۔؟ سب خیریت ہے۔۔؟؟"

"میم۔۔۔ ایم سوری۔۔ میں بہت مجبور ہوکر یہاں آیا ہوں۔۔مننان سر نے انتہا کردی ہے اس لڑکی کی زندگی برباد کرنے میں۔۔ شادی کرنے کے بعد بھی وہ اسے۔۔"

"کونسی شادی۔۔؟؟ کیا بات کررہے ہو۔۔؟؟ مننان نے کیا کردیا ہے۔۔؟؟"

"آپ کو کچھ نہیں معلوم۔۔؟؟ مننان سر نے مس لیزا سے شادی کرلی تھی۔۔اور۔۔"

"ایک منٹ۔۔۔"

حورب نے اس شخص کو جلدی سے روک دیا تھا اپنی ماں کی حالت دیکھ کر

"مسٹر شہریار۔۔ماں بیمار ہے اسی ہفتے سرجری ہے اور آپ یہ سب جھوۓٹ باتیں بتا کر انہیں پریشان۔"

حورب نے آنکھ کے اشارے سے شہریا ر کو خاموش ہونے کا کہا تھا

"بس حورب بیٹا۔۔۔ روم سے باہر جاؤ۔۔۔آپ نہیں مسٹر شہریار آپ یہیں بیٹھیے اور بتائیں مجھے کیا کیا میرے بیٹے نے۔۔"

"موم آپ کی طبیعت۔۔"

"آؤٹ۔۔۔ناؤ۔۔۔"

غصے سے مٹھی بند کئیے نسواء نے جیسے ہی کہا حورب وہاں سے چلی گئی تھی پر جاتے ہی جلدی جلدی  نجیب صاحب کا ہاتھ کھینچ کر وہاں روم کے باہر چھوڑ گئی تھی

"اندر موم کے پاس جائیں پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔"

"پر بیٹا۔۔"

وہ اندر بھیج کر دروازہ بند کرچکی تھی۔۔۔ نسواء کا منہ دوسری طرف تھا اور وہ شہریار کو سب بتانے کا کہہ چکی تھی

۔

اور جو باتیں شہریار نے بتانا شروع کی تھی وہ اسکے ذہن و گماں میں بھی نہیں تھی کہ اسکا بیٹا ایسا بھی کرسکتا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مننان کہاں ہے۔۔؟؟"

"میم سر ایک ضروری میٹنگ میں ہیں آپ انکے کیبن میں بیٹھے۔۔"

نسواء تو جیسے مشن پر تھی۔۔۔ وہ سٹاف کو پیچھے کرتی ہوئی کانفرنس روم تک جا پہنچی تھی 

"ماں آپ۔۔؟؟ میں آج شام کی فلائٹ سے۔۔"

مننان انکے سامنے جیسے ہی آیا تھا ایک زور دار تھپڑ سے اسکا منہ دوسری طرف ہوگیا تھا۔۔

مننان کے اسسٹنٹ نے جلدی سے سب ممبرز کو روم سے باہر جانے کا کہہ دیا تھا کچھ منٹ میں بس وہ دونوں تھے اور دروازے پر نجیب جو نسواء کو روکنے آئے تھے

"ماں۔۔"

"مر گئی تمہاری ماں مار دیا تم نے اسے۔۔ تمہیں شرم نہ آئی اس یتیم بچی کے ساتھ ایسے کرتے ہوئے۔۔؟ کیا قصور تھا منیشہ کا۔۔؟؟"

"وہ ملی ہوئی تھی اس خاندان کے ساتھ آپ جانتی ہیں وہ کون ہے۔۔؟؟ وہ نجیب آفندی کی بھانجی ہے ماں۔۔ اس عورت کی بیٹی جس نے اس شخص کی دوسری شادی کو سب سے زیادہ سپورٹ کیا آپ کی زندگی تباہ کرنے میں اس عورت کا اتنا ہی ہاتھ تھا وہ بیٹی ہے اس عورت کی۔۔۔"

"ہاں تھی تو۔۔؟؟  جانتی ہوں پہلے دن سے میں اسے۔۔ پر کیا تم نے سچ جاننے کی کوشش کی۔۔؟ کوشش کی کیوں مجھے اس بچی کے ساتھ اتنا لگاؤ تھا۔۔؟؟"

وہ ماں بیٹے کے درمیان ایک نئی بحث چھڑ گئی تھی جب نجیب الٹے قدم اس روم سے باہر چلے گئے تھے۔۔۔ اس بچی کی تلاش میں جسے بچپن میں یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ وہ اس آدمی کا خون ہے جس نے انکی بہن کو دھوکا دیا۔۔۔

نجیب آفندی اس بچی کو ڈھوندنے کے لیے نکل گئے تھے مننان کے آفس سے۔۔

"آپ کچھ نہیں جانتی۔۔ معصوم ہیں آپ اس لڑکی نے فائدہ۔۔"

"پانچ سال کی عمر میں اس بچی کو ایک یتیم خانے میں چھوڑ دیا گیا تھا پانچ سال کی عمر میں۔۔۔

میں سمجھتی تھی یہ خاندان والے بس میرے لیے اتنے ظالم تھے۔۔۔انکے ظلم کی انتہا میں نے اس بچی کے روپ میں دیکھی۔۔۔تب سے اب تک وہ محنت کرتی رہی اپنا مقام بناتی رہی۔۔ اس نے۔۔۔ اس میں مجھے میں نظر آتی تھی۔۔ وہ اتنی اذیتوں بھری زندگی گزارتی رہی۔۔۔ میں چاہتی تھی اسکی شادی تم سے ہو مننان۔۔ تم اسکے غموں کا مداوا کرو مرہم رکھنا اسکے زخموں پر یہ میں چاہتی تھی پر تم نے۔۔۔

تم نے کیا کردیا۔۔؟؟"

ایک اور زور دار تھپڑ اپنے بیٹے کو مارا تھا انہوں نے۔۔۔

"وہ میری پسند سے جسے تم نے ٹھکرا کر ایک ایسی لڑکی کو اپنی پسند بنایا۔۔۔

تمہیں پتہ ہے منیشہ جانتی تھی اس خاندان کو پہچانتی تھی۔۔۔

اپنی چھوٹی بہن کی شادی اس شخص سے ہوتے دیکھ کیا گزری ہوگی۔۔؟؟ اسکی نظروں میں میں بھی جھوٹی مکار ثابت ہوگئی۔۔"

"ماں۔"

"مت کہو مجھے ماں۔۔ مر گئی تمہاری ماں تمہارے لیے۔۔۔ تم نے آج ثابت کردیا خون کی تاثیر نہیں بدلتی تم میں میری تربیت نہیں نجیب آفندی کا خون بول رہا ہے۔۔لے لیا بدلہ۔۔؟؟ اس بدلے میں تم نے سب کچھ پا کر اپنی ماں کو کھو دیا ہے۔۔۔

جو منیشہ کے ساتھ تم نے کردیا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی یاد رکھنا

مننان نجیب آفندی۔۔"

وہ میری پسند سے جسے تم نے ٹھکرا کر ایک ایسی لڑکی کو اپنی پسند بنایا۔۔۔

تمہیں پتہ ہے منیشہ جانتی تھی اس خاندان کو پہچانتی تھی۔۔۔

اپنی چھوٹی بہن کی شادی اس شخص سے ہوتے دیکھ کیا گزری ہوگی۔۔؟؟ اسکی نظروں میں میں بھی جھوٹی مکار ثابت ہوگئی۔۔"

"ماں۔"

"مت کہو مجھے ماں۔۔ مر گئی تمہاری ماں تمہارے لیے۔۔۔ تم نے آج ثابت کردیا خون کی تاثیر نہیں بدلتی تم میں میری تربیت نہیں نجیب آفندی کا خون بول رہا ہے۔۔لے لیا بدلہ۔۔؟؟ اس بدلے میں تم نے سب کچھ پا کر اپنی ماں کو کھو دیا ہے۔۔۔

جو منیشہ کے ساتھ تم نے کردیا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی یاد رکھنا

مننان نجیب آفندی۔۔"

۔

وہ غصے سے سیدھا گھر چلی گئی تھی ہر ایک کو اگنور کئیے اپنے بیڈروم میں بند کرلیا تھا انہوں نے۔۔

"جیت گیا کا خون نجیب۔۔۔ ہار گئی میری تربیت۔۔"

نسواء کی آوازیں سن کر حورب نے غصے سے اس بند دروازے کو دیکھا تھا

"مننان بھائی اگر ماں کو کچھ بھی ہوا تو میں آپ کو معاف نہیں کروں گی۔۔وہ جو علاج کروا رہی تھی آج انکی ساری انرجی ختم کردی آپ نے اتنا رولا دیا۔۔آخر کیوں کیا آپ نے منیشہ کے ساتھ یہ سب۔۔۔"

وہ بہن جو بھائی کی ہر غلط بات کو صحیح سمجھتی تھی آج اسے وہ بھائی ایک نظر نہیں بھا رہا تھا۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر آپ۔۔۔"

"منیشہ بیٹا۔۔۔؟؟"

نجیب اندر آگئے تھے جب منیشہ نے دروازہ کھولا تھا

"سر آپ یہاں۔۔؟ سب ٹھیک ہے۔۔؟ آپ لوگ واپس کب آئے نسواء میم ٹھیک ہیں۔۔؟؟"

"مامو۔۔۔ تمہارا مامو ہوں شاید تم بھول گئی ہو بیٹا۔۔"

انہوں نے اس بچی کو شاک کردیا تھا۔۔جس کے چہرے پر حیرانگی نمایاں ہوئی تھی پر کچھ سیکنڈ کے لیے۔۔

"ایم سوری سر میں سمجھی نہیں۔۔ کونسے مامو۔۔؟ مجھے یاد نہیں میری ساری زندگی ایک اورفینیج میں گزری ہے۔۔ میں پہچانی نہیں۔۔"

"منیشہ بیٹا۔۔"

وہ ایک قدم آگے بڑھے تھے اور منیشہ دس قدم پیچھے ہوئی تھی۔۔

"پلیز سر۔۔ آپ جا سکتے ہیں۔۔"

"منیشہ بیٹا۔۔"

"مجھے ان رشتوں میں نہ باندھے جن کی کوئی حیثیت نہیں آپ کی نظر میں۔۔

مسٹر نجیب میں جانتی ہوں۔۔ آپ کی حقارت اس پانچ سال کی بچی کو لیکر وہ نفرت۔۔

جس نے مجھے پیدا کرنے والی ماں سے دور کردیا تھا

اگر آپ یہاں اپنے کئیے۔۔"

"میں اپنے بیٹے کی گناہ کی معافی مانگے آیا ہوں بیٹا۔۔ مننان دل کا بُرا نہیں ہے۔۔ میری وجہ سے ہر ایک کو وہ تکلیف دہ رہا جو اسے میں نے دی۔۔ "

"ہاہاہا۔۔ آپ وکالت کرنے آیا ہیں۔۔؟؟ اور مجھے لگا کہ شاید خون سفید نہیں ہوا۔۔"

نجیب آفندی کو اس بچی میں وہ عورت نظر آئی تھی جسے انہوں نے جوانی میں دھوکا دہ کر ٹھکرا دیا تھا۔۔

وہ اب سمجھے تھے نسواء کی اٹیچمنٹ اس بچی کے ساتھ۔۔۔

کچھ پل منیشہ کو دیکھنے کے انہوں نے سرد آہ بھری تھی اور سر سے پاؤں تک اس بچی کو دیکھا تھا۔۔ جسے بچپن میں وہ بہت پیار کرتے تھے پر فضا کے شوہر کی دوسری شادی پر انہوں نے سارا غصہ اسی چھوٹی بچی پر اتارا تھا جب انہوں نے للکار کر کہا تھا کہ اس شخص کا خون انکی چھت تلے وہ برداشت نہیں کریں گے۔۔۔

"سر۔۔"

"ایم سوری۔۔ تمہارا بچپن میں نے برباد کردیا اور اب میرے بیٹے نے۔۔"

منیشہ کے سر پر ہاتھ رکھے وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔

۔

"آپ نے آخر مجھے وہیں لا کر کھڑا کردیا مننان جہاں میں کبھی نہیں آنا چاہتی تھی

لوگوں کی ترس بھری ہمدردی والی نگاہیں مجھے کبھی اچھی نہیں لگی تھی 

آپ نے تو مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔۔۔ کیا اتنا بڑا گناہ کردیا تھا آپ سے محبت کرکے۔۔؟"

آنکھیں صاف کئیے اس نے دروازہ بند کردیا تھا اور پھر سے پیکنگ شروع کردی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماں۔۔۔درواز ہ کھولیں۔۔پلیز ماں۔۔ ایک بار بات کیجئے مجھ سے۔۔"

"بس کرجائیں مننان بھائی۔۔۔ اب آپ خوش ہیں۔۔؟ ماں نے علاج کروانے سے منع کردیا ہے"

"حورب گڑیا میری بات سنو۔۔"

"اسی گھر میں شادی کی تھی نہ آپ نے اپنی بیوی سے۔۔؟ اوپر بیڈروم میں گئی تھی آپ کے ملازموں سے آپ کی ڈریم ویڈنگ کا سنا میں نے۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتی اب یہ فکر کرنے کا ڈرامہ کیوں۔۔"

"حورب۔۔؟"

مننان کا جسم ٹھنڈا پڑگیا تھا چھوٹی بہن کی منہ سے یہ سب باتیں سن کر۔۔وہ بُرے خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ اسکی بہن کبھی اس لہجے میں بات بھی کرسکتی ہے اس سے۔۔

۔

"آپ نے لوگوں سے بدلہ نہیں لیا ماں سے لیا ہے۔۔ اتنی عیاشیاں کرنی تھی تو کم سے کم انکی سرجری کا انتظار کرلیتے۔۔ اب خوش ہوجائیں وہ علاج سے انکار کرچکی ہیں۔۔۔"

"حورب بیٹا میری بات۔۔"

"پلیز۔۔۔"

"بس کرجاؤ حورب۔۔ بدتمیزی مت کرو۔۔"

نسواء نے دروازہ کھولتے ہی کہا تھا۔۔ وہ کسی صورت پسند نہیں کرتی تھی ایسی زبان درازی جس میں بڑۓ چھوٹے کا لحاظ نہ ہو

"ماں۔۔"

"بس حورب۔۔ اس معاملے کو پرسنل نہ لو۔۔ کم سے کم تم تو میری تربیت کا مان رکھ لو۔۔"

ماں کی آواز میں بےبسی محسوس کی تھی اس نے اور ایک نظر مننان کو دیکھا تھا

"ماں میری بات سن لیں پلیز۔۔"

"وہ ڈسپریٹ ہوکر نسواء کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے۔۔"

"مننان ہنی۔۔ مجھے وہاں چھوڑ کر یہاں ہو۔۔ میں تو۔۔اووہ۔۔۔ آنٹی۔۔۔ ہیلو۔۔۔ کیسی ہیں آپ۔۔۔"

لیزا شاپنگ بیگ نیچے رکھ کر نسواء کے گلے لگ گئی تھی

"حورب۔۔۔ بھی ہے۔۔ مننان بتایا نہیں آپ نے یہ دونوں آگئے۔۔ ہم گھر میں اچھے سے ویلکم کرتے۔۔۔اور گڈ نیوز بھی۔۔"

"گڈ نیوز۔۔؟؟"

مننان نے سب سے پہلے پوچھا تھا۔۔

"جی گڈ نیوز۔۔ آنٹی آپ دادی بننے والی ہیں۔۔ ایم پریگننٹ۔۔"

اور وہ ایک آخری راستہ بھی معافی کا بند کردیا تھا لیزا نے نے

"ابھی جاؤ میں بعد میں بات۔۔"

"مننان آپ ڈیڈ بننے والے ہیں اتنی بڑی خوش خبری پر آپ مجھے جانے کا کہہ رہے ہیں۔۔؟؟"

نسواء نے سر پر ہاتھ رکھ کر ایک نظر ااس لڑکی کو دیکھا تھا جو اسے ایک نظر نہیں بھا رہی تھی۔۔۔

"حورب اسے کہو اپنی بیوی کو لیکر چلا جائے یہاں سے۔۔ میں اب اسکی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔"

"وٹ۔۔؟؟ ماں آپ یہ۔۔"

"جسٹ شٹ اپ۔۔۔ میری پسند کو ٹھکرا کر اسے دنیا کا تماشا بنا کر اگر تمہیں لگتا ہے میں تمہاری پسند کو اپنا لوں گی تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔۔ دور ہوجاؤ میری نظروں سے۔۔"

"ماں ۔۔ میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔ مجھے خود سے الگ مت کریں۔۔"

مننان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر لیزا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے نسواء سے پیچھے کردیا تھا

"آپ دنیا کی پہلی ماں ہیں جوا پنے بیٹے کی خوشیاں برداشت نہیں کرپا رہی اس یتیم کے لیے۔۔؟؟

مننان کو کبھی اس منیشہ سے پیار نہیں تھا آپ زبردستی۔۔"

"اننف لیزا۔۔۔ ابھی جاؤ یہاں سے۔۔"

"نہیں مجھے بولنے دو۔۔ انہوں نے کٹ پتلی بنا کر رکھا ہوا تھا تمہیں مننان اب انکی زندگی سے نکل جاؤ میں دیکھوں گی یہ کیسے گزارا۔۔ کرتی ہیں۔۔ یہ بھی لالچی۔۔"

"لیزا کو ایک زور دار تھپڑ  پڑا تھا۔۔

پر مننان یا نسواء سے نہیں سامنے کوئی اور ہی کھڑا تھا

"مامو۔۔۔ آپ نے مجھ پر ہاتھ۔۔"

"اگر خاموشی کے ساتھ یہاں سے نہ گئی تو میں اس سے بھی بُرا پیش آؤں گا۔۔"

"مامو۔۔۔"

وہ روتے ہوئے وہان سے بھاگی تھی۔۔

"آپ کو ہمارے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے تھی نجیب۔۔ وہ پریگننٹ ہے جس پر ہاتھ اٹھایا آپ نے۔۔"

نجیب صاحب شاک ہوئے تھے پر انہوں نے نسواء کی باتوں کو درگزر کردیا تھا

"حورب بیٹا۔۔ سرجری اسی دن ہوگی۔۔ اگر تمہاری ماں نے زرا سی ضد بھی کی تو یہ نجیب آفندی کا قہر دیکھے گی۔۔ میں مننان سے لیکر لیزا تک ہر ایک کا وہ حال کروں گا کہ دنیا دیکھے گی۔۔۔ اگر میں چپ ہوں تو مجھے چھیڑا نہ جائے۔۔۔

اینڈ یو مسٹر مننان۔۔۔ تمہاری مان کی سرجری ک بعد بات کروں گا میں تم سے۔۔"

وہ ایک لاسٹ وارننگ دہ کر وہاں سے چلے گئے تھے

"دا ہیل انکی جرات کیسے ہوئی مجھے دھمکی دینے کی۔۔ انکے ساتھ تو میں وہ کرنے جارہا ہو۔۔"

مننان کہتے کہتے چپ ہوا تھا

"تم کبھی نہیں سدھر سکتے۔۔ دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔۔"

نسواء یہ کہتے ہی واپس اپنے بیڈروم میں چلی گئی تھی اور دروازہ لاک کرلیا تھا

"حورب۔۔"

"آُ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ماں کی سرجری ہونے تک انکے سامنے مت آئیے گا اور کوشش کیجئے گا آپ کی بیوی بھی سامنے نہ آئے۔۔۔"

۔

بھائی کو لاجواب چھوڑ گئی تھی حورب۔۔۔ وہ اکیلا کھڑا رہ گیا تھا۔۔ جسے ابھی بھی اپنا قصور دیکھائی نہیں دیا تھا اتنا سب کرنے کے بعد بھی۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نجیب بھائی آپ یہاں اچانک۔۔؟؟ مجھے بتاتے میں ۔۔"

"فضا۔۔۔۔ لیزا کی شادی میرے بیٹے کے ساتھ ہورہی تھی کیا تم جانتی تھی۔۔؟؟"

فضا نے ملازمہ کو لیونگ روم سے باہر بھیج دیا تھا۔۔

"بھائی آپ بیٹھے تو سہی۔۔"

"میں نے کچھ پوچھا ہے فضا۔۔۔"

"جی میں جانتی تھی مننان نسواء بھابھی کا بیٹا ہے اس لیے آنکھ بند کرکے میں نے ہاں کردی تھی بھائی۔۔"

وہ واپس صوٖےپر بیٹھی تھی جب نجیب سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گئے تھے

"فضا۔۔ کبھی ۔۔ اس بچی کا خیال نہیں آیا جسے ہم لوگوں نے اپنے غصے اور نفرت میں کسی یتیم خانے پھینک دیا تھا۔۔؟؟"

"بھائی۔۔۔"

فضا کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں تھی جیسے۔۔آنکھیں بھرنے لگی تو اس نے سر جھکا لیا تھا

"مجھے آج سمجھ آئی فضا میں اپنے بیٹے کا ہی نہیں تمہاری بیٹی کا بھی مجرم ہوں۔۔ میں نے نفرت میں کیا کردیا۔۔ اور تم۔۔ تم نے بھی اس بچی کے لیے آواز نہیں اٹھائی فضا۔۔"

"بھائی میں بےوفا شخص کے دھوکے سے اس قدر ٹوٹ گئی تھی کہ مجھے وہ جان سے پیاری بچی بھی بوجھ لگنے لگی تھی۔۔اس میں آپ کا قصور۔۔"

"میرا ہی قصور تھا۔۔ فضا وہ جوانی کا دور ایسا دور تھا جس میں میں خود کو بڑا اعلی سمجھنے لگا تھا۔۔

نہ میں نے اپنی بیوی کے جذبات کی اسکی محبت کی قدر کی نہ اس اپنے بیٹے کی۔۔ اور نہ ہی تمہاری بیٹی کی۔۔

ماضی میں جس جس کا دل دکھایا زیادتی کی وہ سب میرے سامنے آرہا ہے 

اور ایسے لگتا ہے میرے کئیے کی سزامیری بیوی کو مل رہی۔۔۔ نسواء کی سرجری ہے اور منع کردیا ہے انہوں نے۔۔۔ فضا میں۔۔"

بھائی کی آنکھوں سے آنسو صاف کئیے وہ پاس بیٹھ گئی تھی

"بھائی۔۔ میں ن کبھی سوچا نہیں تھا آپ کو اس طرح سے اتنا ٹوٹا ہوا اتنا کمزور بھی دیکھوں گی۔۔ میرے لیے آپ سب سے مضبوط شخص رہے ہیں۔۔۔

میں نے غلط کیا منیشہ کو روک سکتی تھی میں تو ماں تھی نہ۔۔؟ میری ممتا کہاں گئی تھی۔۔؟

میں غلط تھی جو اپنی بچی کو وہ حفاظت نہ دہ سکی۔۔ اور اب جب میرا دل ترستا ہے اسے دیکھنے کو اسے ملنے کو تو وہ میرے سامنے نہیں۔۔ کہاں نہیں ڈھونڈا اسے وہ۔۔"

"وہ ہمارے سامنے ہی رہی فضا۔۔۔ وہ۔۔ مننان کی سیکریٹری۔۔۔ وہ لڑکی منیشہ ہی ہماری منیشہ ہے۔۔ وہ تمہاری بیٹی ہے وہ۔۔۔"

۔

"کیا سچ میں بھائی۔۔؟ مجھے ابھی لے چلیں۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔وہ میرے سامنے تھے۔۔

یا اللہ۔۔ میں اسے سے کام کرواتی رہی میں۔۔"

یہ کہتے ہی فضا چکرکھاتے بےہوش گری گئی تھی وہاں۔۔۔

"فضا۔۔۔فضا آنکھیں کھولو۔۔۔"

۔

وہ جلدی سے فضا کو اٹھا کر صوفہ پر لٹا چکے تھے اور ملازمہ کو آواز دی تھی انہوں نے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تمہیں لگتا ہے تم بہت عظیم کام کرنے جارہی ہو۔۔؟؟ ڈرپوک کمزور اور ناکام انسان سے زیادہ کچھ نہیں لگ رہی۔۔

وہ خوش ہے تمہیں دھوکا دہ کر بھی وہ کامیاب ہوگیا۔۔ لیزا پریگننٹ ہے۔۔ اور تم بھاگ رہی ہو۔۔؟؟ "

منیشہ کے ہاتھ سے اس کا پاسپورٹ گرگیا تھا ماہیر کی آواز اسکی وہ باتیں سن کر وہ آخری لفظ نے جیسے قیامت ڈھا دی تھی اس پر۔۔۔

"پریگننٹ۔۔؟"

"ہاں پریگننٹ۔۔۔ منیشہ ایسے بھاگ کر جا رہی ہو اسے تم پر ہنسنے کا موقع دہ رہی ہو۔۔وپ جو کہتا رہا تم سچ کر کے دیکھا رہی ہو۔۔"

"وہ غلط نہیں کہتا تھا۔۔ سچ کہتا تھا میں دل بہلانے کے لیے ہوں۔۔ عزت سے گھر بسانے کے لیے۔۔۔"

"اننف منیشہ۔۔۔ تم ہر اس عزت کے قابل ہو جو اس شخص نے نہیں دی۔۔

تم پوجے جانے کے قابل ہو۔۔ تم گھر بسانے کے قابل ہو۔۔ اس نے تمہیں ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کی ہے منیشہ۔۔اسے کامیاب نہ ہونے دو ایک بار۔۔ بس ایک بار مجھے موقع دو۔۔"

"ہاہاہا۔۔ میں اب گرل فرینڈ بننے کے قابل رہ گئی ہوں جو آپ موقع مانگ رہے ہیں۔۔؟ میں اکیلی۔۔"

"میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں آج ابھی۔۔ اسی وقت۔۔۔ کرو گی مجھ سے نکاح۔۔؟؟ میں تمہیں اس پل دنیا جہاں کی ساری عزتیں دینا چاہتا ہوں۔۔ 

پر میں یہ بھی جانتا ہوں تم اس سے زیادہ ڈیزرو کرتی ہو۔۔۔بڑی سی گرینڈ ویڈنگ۔۔

جہاں سب کو میں خود دعوت دوں گا۔۔ ایک بڑا فنکشن رکھوں گا اور اس شخص کو دیکھاؤں گا کہ اس نے جو کرنے کی کوشش کی وہ کامیاب نہ ہوسکا۔۔

منیشہ بس ایک موقع۔۔۔ آج اگر تم نے اسے ایسے جانے دیا تو اپنی نظروں میں بھی اٹھ نہیں پاؤ گی۔۔۔"

ماہیر کی باتوں نے منیشہ کو اتنا شاک کردیا تھا کہ وہ کتنی دیر وہی کھڑی اسکے منہ تکتے رہ گئی تھی۔۔۔

اور جب منیشہ نے کوئی جواب نہ دیا تو ماہیر مایوس ہوکر جانے لگا تھا جب منیشہ نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا پیچھے سے۔۔۔

"اگر اس بار مجھے دھوکا ملا۔۔"

"تمہیں دھوکا دینے سے پہلے میں اپنی سانسیں ختم کرلوں گا۔۔ منیشہ۔۔ میں تمہیں کبھی دھوکا دینے کا سوچ نہیں سکتا۔۔۔ میں ہر خوشی تمہارے قدموں میں لاکر رکھوں گا یہ میرا وعدہ ہے۔۔۔"

"بانہیں میری تھامے ہوئے چل زرا زندگی۔۔

کچھ قرض ہے تجھ پہ میرے۔۔ کر ادا زندگی۔۔۔"

"ایک عورت دنیا سے لڑ کر جیت بھی جائے تو وہ ایک جنگ اپنے گھر سے ہار جاتی۔۔

اور میں ان بد نصیب عورتوں میں سے ہوں۔۔

منیشہ۔۔ میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی میرا رب جانتا ہے۔۔ میں نےاسے بہت مان سے مالا بہت اچھی تربیت کی۔۔۔ میں نے اسے محنت کرنا سیکھایا تھا محبت کرنا سیکھایا تھا

دھوکا دینا نہیں بدلہ لینا نہیں سیکھایا تھا۔۔۔ میری بچی۔۔مجھے معاف کردو۔۔"

منیشہ کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے تھے نسواء نے۔۔۔

"آپ جانتی ہیں اب مجھ میں اتنی برداشت بھی نہیں کہ میں آپ کے بیٹے کا نام سن سکوں۔۔

آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں۔۔؟ آپ کے ساتھ تو کسی نے بھی انصاف نہیں کیا میم۔۔

نہ شوہر نے نہ ہی بیٹے نے۔۔آپ چپ ہوجائیں۔۔"

نسواء کے آنسو صاف کرکے وہ اٹھ گئی تھی وہاں سے۔۔ منیشہ کی آنکھوں میں ایک قطرہ نہیں تھا اسکی یہ گہری خاموشی نے نسواء کو حیرت میں مبتلا کردیا تھا

"منیشہ میری بچی بات کرو مجھ سے۔۔"

"میم میرے پاس کچھ نہیں رہا بات کرنے کا۔۔ پر کچھ دینے کے لیے ضرور ہے"

وہ جلدی سے اپنے بیڈروم کی طرف گئی تھی اور الماری سے کچھ تحفے اور کپڑے لے آئی تھی

"آپ نے یہ جوڑا دیا تھا مجھے۔۔ آپ نے کہا تھا نکاح والے دن میں یہ جوڑا پہنو۔۔

اب مجھے اسے اپنے پاس رکھنے کا حق نہیں ہے آپ اسے لے جائیں۔۔"

"منیشہ بیٹا۔۔"

"پلیز۔۔ مجھے خیرات نہیں چاہیے میم۔۔ مجھے اب سمجھ آئی کہ مجھ جیسی بدنصیب کو ماں باپ نے نہیں اپنایا تو آپ سے کیا امید رکھتی۔۔آپ تو خود ایک جنگ لڑرہی ہیں آنٹی۔۔۔"

منیشہ نے نسواء کے ہاتھ پھر سے اپنے ہاتھوں میں لے لئیے تھے وہ بار بار نسواء کی آنکھوں سے آنسو صاف کررہی تھی اسے اس وقت بہت ترس آرہا تھا نسواء کی بکھری ہوئی حالت پر۔۔۔

"آپ سرجری کروا لیں۔۔"

"نہیں کرواؤں گی۔۔ اسے مجھے مرتے دیکھنے کی بہت جلدی تھی اس لیے اس نے انتظار بھی نہ کیا۔۔ اب وہ دیکھا مجھے مرتے ہوئے"

"آپ کیوں نہیں کروا رہی۔۔؟ غصہ نہ کریں محبت کے لیے انہوں نے کیا۔۔ مجھے لگتا تھا وہ بدلہ لینا چاہتے ہوں گے۔۔ مگر آنٹی بات بدلے کی نہیں انکی محبت کی تھی۔۔

اب آپ بھی انہیں تسلیم کرلیں اور سر جری  کروا لیں۔۔"

"نہیں کرواؤں گی۔۔ کبھی نہیں۔۔"

نسواء اپنا موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھا کر جانے لگی تھی جب منیشہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"میری شادی پر ضرور آئیے گا۔۔ اور اس تحفے کے ساتھ کے آپ اپنی سرجری کروائیں گی۔۔

نسواء آنٹی۔۔ میں نے اپنی ماں کی جگہ آپ کو رکھا ہے۔۔ ماں بن کر آئیے گا میرے سر پر ہاتھ رکھنے۔۔ آپ کی یہ ندنصیب بیٹی اپنے نصیبوں کا بہت بڑا فیصلہ کرنے جارہی ہوں۔۔

اور میں اپنی ماں کو سہی سلامت دیکھنا چاہتی ہوں۔۔"

۔

نسواء کچھ کہے بنا وہاں سے باہر آگئی تھی۔۔

وہ کیسے اس لڑکی کو کسی اور کا ہوتے دیکھ سکتی تھی جس لڑکی کو اپنے بہو بنانے کے خواب دیکھےاس نے۔۔

"مننان تم نے تو وہ کیا جو تمہارے باپ نے نہیں کیا تھا۔۔ پیٹھ پر خنجر کھونپ دیا میرے۔۔

میں نے تم سے مانگا کیا تھا۔۔ایک خواہش۔۔بس۔۔"

وہ گاڑی چلا کر وہاں سے چلی گئی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر مس منیشہ کا ریزیگنیشن لیٹر نہیں آیا۔۔۔پر انہوں نے لیو لیٹر بھیجا ہے۔۔"

"مننان کے ہاتھ رک گئے تھے وہ ایک دم سے الرٹ ہوا تھا۔۔

اسے لیو کی امید نہیں تھی جس طرح منیشہ نے ری ایکٹ کیا تھاوہ سمجھ رہا تھا کہ وہ سب کچھ الگ کردے گی پر لیو۔۔؟؟"

"لیو کس لئیے۔۔؟؟"

"سر انکی شادی ہورہی ہے۔۔ ویڈنگ کارڈ بھی بھیجا ہے۔۔ آدھا سٹاف تو جارہا ہے۔۔ اور آج انکی انگیجمنٹ ہے۔۔"

مننان کے ہاتھو ں سے وہ پن نیچے گر چکا تھا۔۔۔

جب کچھ رسپانس نہیں دیا تو اسکے اسسٹنٹ نے اور بات کی تھی

"سر یہ لیٹر اور یہ ویڈنگ کارڈ۔۔سر میڈم کے گروم کا نام۔۔"

"گیٹ آؤٹ۔۔۔چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔"

"بٹ سر۔۔اننف۔۔۔ کوئی کہیں نہیں جائے گا اس آفس سے۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔ کہہ دو سب کو منیشہ کو ابھی نوٹس بھیجو کمپنی لائر سے کہو ابھی لیگل نوٹس بھیجیں۔۔ کوئی لئیو نہیں مل رہی مس منیشہ کو۔۔۔"

دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ڈیسک کی ہر چیز کو نیچے پھینک دیا تھا اسسٹنٹ تو باہر چلا گیا تھا پر مننان کا غصہ وہ ڈبل ہوچکا تھا۔۔ کچھ منٹ میں وہ اہم سے اہم ترین کاغذ کو اپنے غصے کی بھینٹ چڑھا چکا تھا۔۔

"منیشہ۔۔۔"

ڈیسک پر دونوں ہاتھ رکھے جب اس نے گہرا سانس لیا تو زمین پر بکھرے ان کاغذات ک درمیان پڑے اس شادی کے کارڈ پر اسکی نظر پڑی اس نے نیچے جھک کر اس کارڈ کو اٹھایا اور جب کارڈ کھول کر اس نے اس شخص کا نام پڑھا جس سے منیشہ کی شادی ہونی تھی

اور وہ نام پڑھ کر مننان کا غصہ آسمانوں کو چھونے لگا

"ماہیر آفندی۔۔۔"

کارڈ کے چار ٹکڑے کرکے اس نے پیچھے شیشے کی ونڈو پر مکا مارا تھا ۔۔

۔

"منیشہ۔۔۔ میں تمہیں کسی اور کی ہونے نہیں دوں گا۔۔ اس ماہیر آفندی کی تو بالکل نہیں ۔۔

میں اب اس شخص کی اولاد کے آگے ہار نہیں مانوں گا۔۔۔تمہیں اسکی ہونے نہیں دوں گا۔۔"

وہ تیز قدموں سے آفس سے باہر نکلا تھا۔۔ اسکے غصے سے زیادہ اسکے زخمی ہاتھ کو دیکھ کر سب آفس سٹاف شاک ہوا تھا۔۔۔

۔

"شہریار سر۔۔ آپ نے ٹھیک پہچانا تھا۔۔ مننان سر تو منیشہ سے محبت کرتے ہیں۔۔ ورنہ شادی کا سن کر اتنا غصہ۔۔"

"کاش وہ پہلے پہچان جاتے۔۔ اب تو غصے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔"

"جب فائدہ نہیں تو آپ نے کیوں یہ خبر دی۔۔؟؟"

"کیونکہ مننان سر نے جو منیشہ کے ساتھ کیا انہیں اسکی سزا ملنی چاہیے۔۔ چاہے میری نوکری کیوں نہ چلی جائے میں مننان سر کو آخری حد تک ایسے ہی بتاؤں گا منیشہ کا اسکی شادی کا اسکے ہونے والے شوہر کا۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء آپ یہاں کیوں آئی ہیں۔۔ ڈاکٹر نے منع کیا ہے سٹریس لینے سے۔۔"

"یہاں بیٹھ جائیں مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔"

خالی ریسٹورنٹ کو دیکھ کر انہوں نے نسواء کو ڈانٹا تھا مگر وہ سر جھکائے کافی پی رہی تھی

آنکھوں پر لگی بلیک گلاسزز نے نجیب پر انکی حالت ظاہر کردی تھی

نجیب صاحب نے خاموشی سے ٹیبل پر رکھے نسواءکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔

"نسواء میں ہینڈل کررہا ہوں۔۔ منیشہ زرا غصے میں ہے پر میں اسے منا لوں گا۔۔اور گھر لے جاؤں گا۔۔"

"جیسے مجھے منا رہے تھے۔۔ میں تو ابھی تک مانی نہیں۔۔ اور نہ ہی گھر گئی۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے آپ سب ٹھیک کرلیں گے۔۔؟؟ اگر آپ میں اتنے گٹس ہوتے تو آپ سب سے پہلے اپنے بچوں کو مناتے اور جو آج ہو رہا اسے روکتے پر آپ۔۔۔ آپ کچھ نہیں کر پائے۔۔ اور کیا کیا ناکامیاں بتاؤں آپ کو آپ کی۔۔؟؟"

وہ چلائی تو دور ٹیبل پر بیٹھا ہوا کپل انکے ٹیبل کی طرف دیکھنے لگا ۔۔ نجیب شرمندہ ہوئے تھے پر نسواء کی کسی بات سے انکار نہیں کیا انہوں نے

"اب آپ کیا چاہتی ہیں نسواء۔۔؟؟ مجھے آپ نے یہاں کیوں بلایا ہے بتا دیجئے۔۔۔"

اور اس وقت نسواء نے سر اٹھا کر نجیب کی آنکھوں میں دیکھا تھا وہ ان آنکھوں میں چھپے درد کو مکمل اگنور کرکے اپنا ہاتھ پیچھے کرچکی تھی

"منیشہ نے کہا تھا وہ شادی کررہی ہے۔۔ نجیب آپ نے یہ پتہ کرنا ہے وہ لڑکا کون ہے کیسا ہے کہاں رہتا ہے کیا بیک گراؤنڈ ہے۔۔ اب پہلے سے زیادہ منیشہ کی فکر ہورہی ہے وہ بچی ہے اس وقت تکلیف میں ہے میں نہیں چاہتی وہ جلد بازی میں کوئی بھی فیصلہ کرے۔۔"

نسواء نے یہ کہتے ہی جلدی سے وہاں سے جانے کی کی۔۔۔

مگر نجیب نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔

"نسواء میں۔۔ کوشش کررہا ہوں۔۔مگر آسان نہیں ہے ماضی میں جو مرد ایک غلط قدم اٹھا لے اسکا بھگتان اسکی آنے نسلیں بھگتتی ہیں۔۔"

نسواء کے چہرے پر ہاتھ رکھے انہوں نے آنکھوں سے وہ گلاسزز اتاری تھی اور ان کا شک سہی نکلا نسواء کی آنکھیں سوجھی ہوئی سرختھی رو رو کر۔۔۔

نجیب اس اداس چہرے کی طرف جھکا تھا اور ایک ایک کرکے نسواء کی انکھوں پر اپنے لب رکھ دئیے تھے۔۔

اور بوسہ دیا تھا۔۔ نسواء اس احساس سے خود کو پرے نہ کر پائی تھی اسکے ہاتھوں کی گرت نجیب کے شرٹ کالر پر اور مضبوط ہوئی تھی۔۔۔

اور فائننلی نسواء کے ماتھے پر بوسہ دے کر وہ پیچھے ہوئے تھے۔۔

"نسواء۔۔میں ہوں آپ کے ساتھ۔۔ میں مننان کو اس رستے سے واپس لے آؤں گا۔۔۔

ایک باپ کا فرض پورا ضرور کروں گا۔۔ "

بس اتنا سننے کی دیر تھی نسواء نے نجیب کے سینے پر سر رکھ دیا تھااسکے آنکھیں نجیب کی شرٹ بھگو چکے تھے پر اسے فرق نہیں پڑ رہا تھا وہ کمزور پڑ گئی تھی اس ہرجائی کے سامنے۔۔

آج اسی تڑپتی ہوئی روح کو سکون مل رہا تھا۔۔ وہ الفاظ جو نجیب نے بولے انہوں نے نسواء کو بہت حوصلہ دیا تھا۔۔ مننان کے دھوکے نے انہیں مکمل نڈھال کردیا تھا۔۔

۔

"نسواء۔۔۔"

حزیفہ کی اواز سن کر نسواء سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جس کی آنکھوں میں شدید غصہ تھا نجیب اور اسے ایک ساتھ دیکھ کر۔۔۔

"نسواء میں نے آپ کو وقت دیا تھا اس لیے نہیں کی یہاں پیچ اپ ہوجائے۔۔؟؟"

"حزیفہ ایسی بات نہیں ہے۔۔۔"نسواء یک دم سے پیچھے ہوئی تھی اور نجیب کے ہاتھ خالی ہوگئے تھے ایک نظر اپنے اور نسواء کے درمیان وہ فاصلہ دیکھا تھا اور پھر حزیفہ کی طرف دیکھ کر ایک ہی سوال کیا تھا

"کس بات کا وقت دیا تھا۔۔؟؟مسٹر حزیفہ۔۔؟؟"

"یہی کہ آپ سے ڈائیورس لیکر نسواء مجھ سے شادی کریں گی ہمارے رشتے کو ایک موقع دیں گی۔۔۔"

"حزیفہ۔۔"

نسواء نے بات کاٹنے کی کوشش کی تھی پر حزیفہ نے بات مکمل کر دی تھی

"اوکے۔۔۔ لیٹس واچ۔۔۔ مسٹر حزیفہ۔۔۔ٹیک کئیر نسواء۔۔"

نجیب صاحب نے بہت ڈئیرنگ کیا تھا اگے بڑھ کر نسواء کے ماتھے پر بوسہ دے کر وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔۔

۔

"اکھیاں ہوں گی تیری۔۔۔ پھر پانی کا جھرنا۔۔

کچھ بھی ہوجائے یارا۔۔۔ مجھے تو پیار نہ کرنا۔۔"

"اسکی اتنی جرات۔۔"

حزیفہ نجیب کے پیچھے غصےسے جانے لگا تھا جب نسواء نے اس کا ہاتھ پکڑ۔۔

"مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی حزیفہ۔۔ میں نے آپ کو بتا دیا تھا میں نجیب سے طلاق نہیں لینا چاہتی۔۔۔ آپ مجھے فورس نہیں کرسکتے۔۔۔ناؤ ایکسکئیوز مئ۔۔"

۔

اور وہ ہاتھ چھوڑ کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

۔

"نسواء۔۔ فورس تو میں کروں گا۔۔ اور دیکھیں گی آپ۔۔۔بچوں کو تو نجیب سے دور کردیا اب آپ کو پوری طرح اس شخص سے جدا کردوں گا۔۔۔"

۔

فون نکالتے ہی اپنے بھائی ظہیر کو کال کرکے ایک اور پلان بنا لیا تھا مسٹر حزیفہ نے۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

جس وقت نجیب گھر آیا تھا۔۔ سب کھانے کی میز پر بیٹھے تھے اور وہ پاس سے گزر کر اوپر جانے لگے تھے جب ماہیر نے ان کا راستہ روک لیا تھا۔۔ 

"ڈیڈ۔۔ مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔"

"ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے ماہیر بعد۔۔"

ڈیڈ پلیز۔۔۔"

ماہیر کی آواز میں ڈیسپریشن دیکھ کر وہ چلتے ہوئے رکے تھے۔۔

"میرے بیڈروم میں آجانا آدھے گھنٹے بعد۔۔۔"

اور وہ اپنے کمرے کی طرف چلے گئے تھے۔۔

"ماہیر بیٹا ایسی کیا بات ہے جو تم نے مجھے نہیں بتائی۔۔؟؟"

"موم ابھی نہیں۔۔۔ دادی ڈیڈ کا کھانا بھی گرم کروا دیں میں اوپر لے جاؤں گا۔۔"

ماہیر نے جس گرم جوشی سے کہا تھا پہلی بار اس نے اپنے ڈیڈ کو لیکر اس طرح کی محبت شو کی تھی سب کے سامنے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"منیشہ۔۔۔منیشہ۔۔۔"

اسی زخمی ہاتھ کو ایک بار اور زور سے مارا تھا دروازے پر۔۔۔پر کوئی جواب نہ ملا تھا۔۔

"دروازہ توڑ دو۔۔"

مننان نے اپنے گارڈز کو کہا تھا جو کچھ سیکنڈ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے پھر مننان کے آرڈرز مانتے ہوئے وہ اس دروازے کو توڑنے لگے تھے جب بلڈنگ کا سیکیورٹی گارڈ جلدی سے انکے پاس آیا تھا

"سر دروازہ توڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔ مس منیشہ پچھلے ہفتے ہی یہاں سے شفٹ ہوگئی ہیں۔۔"

مننان شاک ہوا تھا اور اس بند دروازے کو دیکھا تھا

"شفٹ۔۔؟؟ شفٹ کہاں ہوگئی ہیں۔۔؟"

"سر سننے میں آیا ہے وہ اپنے منگیتر کے فلیٹ میں شفٹ ہوچکی ہیں۔۔ یہ اپارٹمنٹ بیچ دیا ہے انہوں نے۔۔۔"

اور سیکیورٹی گارڈ وہاں سے چلا گیا تھا۔۔ مننان کچھ دیر وہاں اس بند دروازے کو دیکھتا رہ گیا تھا۔۔

جاتے ہوئے بھی اسکا دل نہیں مان رہا تھا وہ مڑ مڑ کر اس بند دروازے کو دیکھ رہا تھا۔۔

"منیشہ۔۔۔"

ایک سرگوشی کی تھی اس نے اور موبائل نکال کر اس نے پھر سے منیشہ کے نمبر پر کال کی تھی جس پر بیل گئی تھی اور کال اینڈ ہوگئی تھی اسکی۔۔۔

اور وہ مایوس گاڑی کی طرف چل دیا تھا۔۔۔

۔

اسکی گاڑی جیسے ہی وہاں سے گئی تھی اس اپارٹمنٹ کی لائٹ ہوئی تھی۔۔۔

منیشہ دروازہ کھول کر باہر نکلی تھی اور سیکیورٹی کا شکریہ ادا کیا تھا اس نے۔۔

کچھ سیکنڈ میں ٹیکسی میں سامان رکھ وہ اس جگہ سے نکل گئی تھی۔۔۔

۔

"ماہیر میں راستے میں ہوں۔۔۔ مجھے پک کرلو۔۔۔"

۔

اور کال کاٹ دی تھی اس نے۔۔ وہ تمام کشتیاں جلا کر مووو آن کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی

وہ مننان نجیب آفندی کو اپنے دل و دماغ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکالنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ماہیر۔۔؟؟ تم اس بچی سے شادی کرو گے۔۔؟؟ کیا بدلہ لینا چاہتے ہو تم اس لڑکے سے۔۔؟؟ میں نہیں مانتا اس رشتے کو۔۔ تم ان کی لڑائی میں نہیں آؤ گے۔۔۔"

"ڈیڈ پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔ میں منیشہ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔۔ میں لاکھ بُرا سہی۔۔ میں منیشہ کے لیے خود کو چینج کرلوں گا۔۔ ڈیڈ پلیز۔۔"

"مجھے تم پر ایک لمحے کا یقین نہیں۔۔ میں۔۔"

ماہیر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر نجیب کے پاؤں پکڑ چکا تھا۔۔

"مجھے بھی یقین نہیں آرہا خود پر ڈیڈ۔۔ اس رات اس باسٹرڈ نے جیسے ہی "

"بکواس بند کرو ماہیر۔۔۔ایک لفظ اور کہا تو زبان کھینچ لوں گا۔۔"

وہ اپنے ہی کمرے سے جانے لگے تھے جب ماہیر جلدی سے ان کا بازو پکڑ چکا تھا

"ڈیڈ میں منیشہ نے بہت پیار کرنے لگا ہوں۔۔ اس شخص نے منگنی کی پیار کا ناٹک کرکے اس معصوم لڑکی کو دھوکا دیا مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا۔۔۔

ڈیڈ۔۔ میں اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ایک موت مرا ہوں۔۔ میں مرتا مرجاؤں پر اب منیشہ کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔

آپ مجھے عاق کرنا چاہتے ہیں کردیں۔۔ مجھے نکال دیں گے نکال دیں ڈیڈ۔۔پر یہ جان لیں میں بدلہ نہیں لے رہا۔۔۔ مجھے محبت ہوگئی ہے۔۔ اسکی آنسوؤں سے۔۔

اسکے درد سے۔۔ اس سے۔۔ اگر آپ میرے سر پر ہاتھ رکھ دیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی ڈیڈ۔۔۔"

پر نجیب وہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔

۔

و کب گھر سے باہر نکلے کب نسواء کے گھر کے پاس اسی پارک میں بیٹھ گئے انہیں پتہ نہیں چلا۔۔

وہ جانتے تھے ماہیر کو اسکی نشے کی عادت کو۔۔ وہ جانتے تھے کہ ماہیر کیسا ہے۔۔

اگر ماہیر ان کا اپنا خون ہوتا۔۔ تو وہ سوچ بھی لیتے ماہیر کا یقین کرنے پر۔۔

پر اب ماہیر پر یقین کرنا انکے بس کی بات نہیں تھی

اور منیشہ۔۔۔؟؟ اگر وہ انکی بیٹی ہوتی کیا وہ ماہیر جیسے لڑکے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے۔۔؟؟وہ۔۔۔"

"اچھا ہوا آپ مجھے یہاں مل گئے۔۔"

مننان کی آواز نے انہیں شاک نہیں کیا جتنا اسکی بکھری ہوئی حالت نے کیا تھا جو بالکل سامنے کھڑا تھا انکے۔۔وہ اٹھنے لگے تھے جب مننان ساتھ بیٹھ گیا تھا اس بنچ پر۔۔

"مننان بیٹا۔۔۔"

وہ ایک دم سے حیران ہوگئے۔۔۔

"بیٹا۔۔۔؟؟؟ اب باپ ہونے کا فرض بھی نبھائیں۔۔۔ پھر میں آپ کو وہ ساری غلطیوں پر ساری گناہوں پر میری ماں سے بےوفائی پر معاف کردوں گا۔۔۔"

"ہاں بیٹا۔۔۔ کیا چاہتے ہو۔۔۔؟؟ کیا کرنا ہے۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا۔۔"

لیفٹ آئی سے آنسو کا ایک قطرہ جیسے ہی نکلا تھا جب انہوں نے مننان کے چہرے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور مننان نے انکا ہاتھ جھٹکا نہیں تھا بلکہ نجیب کی آنکھوں میں ایک آس امید سے دیکھ رہا تھا

"آپ سے پہلی اور آخری بار کچھ مانگ رہا ہوں۔۔۔۔ بابا۔۔۔"

نجیب نے مننان کے ماتھے پر بوسہ دے کر اسے اپنے گلے سے لگا لیا تھا وہ آبدیدہ ہوگئے تھے اور کچھ کہا نہیں جارہا تھا ان سے۔۔ انہوں نے کبھی سوچا نہیں تھا انہیں جیتے جی اپنے بیٹے کو اپنےسینے سے لگانے کا موقع بھی ملے گا۔۔۔

"آپ کو ماہیر اور منیشہ کی شادی روکنی ہوگی ہر حال میں۔۔۔ منیشہ۔۔۔ وہ صرف میری ہے۔۔ میری محبت۔۔۔ میرا پیار۔۔۔ ماہیر یا کسی اور کی ہوتے ہوئے میں اسے دیکھ نہیں سکتا۔۔"

نجیب کے دونوں ہاتھ مننان کے کندھوں س نیچے گر گئے تھے

"میں پورے دل سے آپ کو اپنا لوں گا اگر آپ میری یہ خواہش پوری کردیں گے۔۔۔

اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر آپ بھی یاد رکھیں گے اور وہ آپ کا بیٹا بھی۔۔۔

وہ میری ہے بس میری۔۔۔"

وہ اٹھ کر جانے لگا تھا جب نجیب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا

"اگر میں نے ایسا نہ کیا تو۔۔؟؟ بیٹا یہ شرطیں رشتوں میں میں نے ایک بار رکھی تھی تب سے اب تک بے گھر ہوں کیونکہ میں نے اپنی انہی شرطوں کے پیچھے اپنی محبت کو کھو دیا ۔۔

تمہاری ماں کو گنوا دیا یہ شرطیں رشتوں کا برباد کردیتی ہیں بیٹا۔۔۔"

"برباد ہی سہی۔۔ مجھے معلوم ہوجائے گا میری کیا اہمیت ہے آپ کی زندگی میں اگر آپ یہ نہ کرپائے تو بھول جائیے گا کہ کوئی بیٹا تھا آپ کا۔۔"

اور وہ وہاں سے چلا گیا تھا تیز ہوا کی طرح جیسے آیا تھا۔۔کچھ دیر لگی تھی نجیب کو یہ سمجھنے کہ یہ حقیقت تھی۔۔۔

ان کا بیٹا الٹی میٹم دہ گیا تھا۔۔ وہاں انکی بیوی نے انہیں کہہ دیا تھا اس لڑکے کی معلومات کا جس کی شادی منیشہ سے ہونی ہے۔۔اور پھر ماہیر۔۔۔اور اب مننان نجیب آفندی سر کو ہاتھوں میں لیکر بیٹھ گئے تھے یہ انکے لیے ایک بہت مشکل فیصلہ تھا جو انہوں نے لینا تھا۔۔۔

"نسواء۔۔۔۔۔ہاتھوں سے دہ ہوئی گِٹھائیں مجھے منہ سے کھولنی پڑ رہی ہیں۔۔ جب آپ نے مجھے رکنے کی کوشش کی تھی مجھے رک جانا چاہیے تھا دوسری شادی کرنے سے۔۔"

"تم اس لڑکی سے شادی نہیں کرو گے میں نے کہہ دیا ہے ماہیر۔۔"

عمارہ کہتے ہی غصے سے کھڑی ہوئی اور ساتھ باقی سب لوگ بھی کھڑۓے ہوگئے

"ماہیر بہو کیا کہہ رہی ہے۔۔؟"

آفندی صاحب نے اس بار سختی سے پوچھا 

"میں منیشہ سے شادی کرنے کا فیصلہ کرچکا ہوں دادا جی۔۔"

"کیا۔۔؟؟ منیشہ۔۔؟؟"

فضا کے چہرے پر حیرانگی تھی اور وہ اٹھ کر ماہیر کی طرف آئی تھی

"تم باز نہیں آئے ماہیر اور کتنی لڑکیوں کی زندگیاں برباد کرو گے۔۔؟ منیشہ کو تو چھوڑ دو۔۔"

"فضا پھوپھو۔۔ میں اس سے پیار کرتا ہوں۔۔۔"

فضا کا ری ایکشن سب سے زیادہ حیران کن تھا جب اس نے ماہیر کے منہ پر تھپڑ دہ مارا تھا

"جھوٹ مت بولو۔۔ اس معصوم کو تو بخش دو۔۔"

"پر میں اس سے پیار کرنے لگا ہوں۔۔۔"

وہ چلایا تھا

"تمہیں پیار کرنے کے لیے وہ فٹیچر ہی ملی تھی ماہیر۔۔؟ بس کر جاؤ۔۔ پہلے تمہارے ڈیڈ اور اب تم۔۔؟؟ مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ لوگ ہی سمجھائیں۔۔"

"ماہیر میں اس شادی کی اجازت نہیں دوں گا۔۔ اور نہ ہی سٹیٹس سے نیچے کسی لڑکی کو اس گھر میں آنے کی اجازت دوں گا۔۔"

آفندی صاحب کے فیصلے پر سب نے ہاں میں سر ہلایا تھا جبکہ فضا اپنے والد کو دیکھتی رہ گئی تھی۔۔

سچائی جاننے سے پہلے وہ بھی تو اس بچی کو ایسے ہی ناموں سے پکارتی تھی۔۔آج جب معلوم ہوا کہ اپنا خون ہے تو ممتا جاگ گئی اسکی۔۔۔

۔

"آپ لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے پھوپھو آپ تو ہمیشہ مجھے سپورٹ کرتی آئی ہیں میں تو بیٹوں جیسا رہا آج کیوں اپنے بیٹے پر یقین نہیں کررہی ہیں آپ۔۔؟؟"

۔

اور فضا لا جی اس وقت چاہ رہا تھا کہ وہ ایک اور تھپڑ مارے ماہیر کو۔۔

"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی ماہیر۔۔؟ اور مجھ سے امید رکھ رہے ہو کہ میں تمہیں سپورٹ کروں گی۔۔؟"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ ایک بار پھر سوچ لیں نسواء۔۔ مجھے یہ سب غلط لگ رہا ہے۔۔"

"کمال ہے نجیب۔۔ جس بیٹے کو سینے سے لگا کر رکھا جسے پیار کیا۔۔ جو آپ کا لاڈلا رہا آج اپنی جائیداد دیتے ہوئے آپ اتنا گھبرا رہے۔۔"

"نسواء۔۔"

وہ اٹھ کر بالکونی کی طرف چلے گئے تھے۔۔ہوٹل کے اس سوئٹ میں وہ پچھلے ایک گھنٹے سے موجود تھے ٹیبل پر پڑا بھی کھانا ٹھنڈا پڑ گیا تھا

اور وہ بکھرے کاغذات اس بات کا ثبوت تھے کہ وہاں ان دونوں میں بحث مباحثہ حد سے زیادہ تجاوز کرگیا تھا۔۔

۔

"آپ جانتی ہیں وہ میرا بیٹا نہیں میرا خون نہیں ہے۔۔ ڈیم اِٹ پھر کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑک دیتی ہیں آپ۔۔"

۔

"نہیں میں بار بار کہہ کر اپنی حیرانگی کا اظہارکرتی ہوں نجیب۔۔۔ جو آپ کا خون تھا آپ کو بیٹا تھا اسے آپ نے دھتکار دیا۔۔ اور جس بیٹے کو سینے سے لگا کر رکھا معلوم ہوا کہ وہ تو خون ہی نہیں آپ کا۔۔

حیرت ہوئی نجیب پر پھر سمجھ آئی کہ مکافات اسے ہی تو کہتے ہیں نہ۔۔؟؟"

نسواء نجیب کے پاس جا کر کھڑی ہوچکی تھی اسکی بیک رئیلنگ کی طرف تھی اور اسکے ہاتھ نجیب کے چہرے پر جب اس نے آہستہ سے نجیب کے کالر کو ٹھیک کرتے ہوئے اسکی توجہ حاصل کی تھی

"مکافات اسے ہی کہتے ہیں نجیب بیوی کی وفا کی قدر نہ کی سوتن لاکر بٹھا دی

بیٹے کی محبت کو نفرت سمجھ لیا اور اپنے ہی خاندان کے سامنے اس پانچ سال کے بچے کو اپنی خوشیوں کا دشمن بنا دیا۔۔

آپ نے ہمیں ٹھکرا کر جنہیں اپنایا آج وہ آپ کے ہوکر بھی آپ کے نہیں۔۔۔

کیا یہ مکافات نہیں۔۔؟؟ یہی مکافات ہے نجیب۔۔ اور جب تک زندہ رہوں گی جب تک آپ سے سامنا ہوتا رہے گا کوشش کرتی رہوں گی کہ آپ کو یاد دلاتی رہوں۔۔"

وہ جانے لگی تھی جب نجیب نے اسے واپس وہیں اسی رئیلنگ کے ساتھ پن کردیا تھا۔۔

۔

"میں اپنے انجام کو پہنچ چکا ہوں نسواء۔۔ دوسری بیوی کی بےوفائی سے پہلے آپ سے جُدائی کے ان سالوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ میں سب پا کر بھی خالی ہاتھ ہوں۔۔

میرے اپنوں کا ہونا  بھی وہ خلش پوری نہ کرسکا جو آپ کے مننان کے جانے سے اس دل میں میری زندگی میں گھر کر گئی تھی۔۔

میں اپنے مکافات کو پہنچ گیا ہوں۔۔ سزا اس قدر مل چکی ہے اب اور کیا چاہتی ہیں آپ بتا دیجئے میں وہ بھی کر گزروں گا۔۔؟؟"

نسواء کے کندھے پر سر رکھ دیا تھا انہوں نے بات مکمل کرنے کے بعد۔۔۔

۔

"کمپنی کا ' سی ای او ' بنا دیں ماہیر کو۔۔ اپنی جائیداد منیشہ کے نام کردیں تاکہ آپ کی فیملی میں وہ ایک غریب یتیم نہ سمجھی جائے تاکہ آپ کا بیٹا ماہیر اسے سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھے۔۔

وہ اندر کاغذات پر سائن کردیں۔۔ مجھے بس یہی چاہیے۔۔۔"

وہ یہ کہہ کر خود کو نجیب کی گرفت سے آزاد کروا چکی تھی اس نے واپس جانے کے لیے قدم بڑھائے تو نجیب کی بات نے اسے شاک کردیا۔۔

"مننان ملا تھا مجھ سے۔۔ اس نےکہا وہ مجھے سب بھلا کر اپنا لے گا۔۔ اگر میں ماہیر سے شادی روک دوں منیشہ کی۔۔۔نسواء۔۔۔ میں۔۔ یہ شادی روکنا چاہتا ہوں۔۔ میں ماہیر کو سمجھا لوں گا۔۔آپ۔۔۔"

"پھر تو آپ کو جلدی اس شادی کو کروانا چاہیے۔۔۔ مننان نجیب آفندی کو اپنی اوقات سمجھ آجانی چاہیے کہ کسی عورت کی محبت ٹھکرا کر اسے ذلیل کروا کر اگر آپ اسکے واپس آنے کی امید رکھتے ہو تو انجام کیا ہوتا ہے۔۔۔

میں چاہتی ہوں ایسے مردوں کا انجام ایسا ہونا چاہیے کہ انکی محبت کوئی اور اپنا لے۔۔۔"

۔

وہ ایک ہی بات میں بیٹے اور باپ کو انکی جگہ دیکھا گئی تھی۔۔۔

۔

"میں برداشت نہیں کرپارہا آپ کی جُدائی نسواء تو میرا بیٹا کیسے برداشت کرسکے گا۔۔؟؟"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"دادا جان پلیز میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا مجھے ایسا کرنے پر مجبور نہ کریں۔۔"

"میں مجبور نہیں کررہا فیصلہ سنا رہا ہوں۔۔۔ماہیر تم اس لڑکی سے۔۔"

"ماہیر اسی لڑکی سے شادی کرے گا ڈیڈ۔۔ میں اجازت دیتا ہوں اس بات کی۔۔۔ اور

کمپنی کا 'سی ای او ' میں ماہیر کو بنا چکا ہوں۔۔۔ آپ سب تیاریاں کریں شادی کی۔۔۔"

وہ فائل ماہیر کے ہاتھ میں پکڑا کر نجیب صاحب اپنے روم کی طرف بڑھ گئے تھے۔۔

اپنے کزنز کو غصے میں اپنے والدین کو شاک چھوڑ کر۔۔

ماہیر وہیں کھڑا دیکھتا رہ گیا تھا۔۔اور بھاگتے ہوئے نجیب کے پیچھے بھاگا تھا

"تھینک یو۔۔۔ تھینک یو سو مچ ڈیڈ۔۔۔آپ گریٹ ہیں۔۔"

سیڑھیوں پر ہی نجیب کے گلے لگنے کے بعد گال پر بوسہ دے کر اس نے واپس فائل نجیب کو پکڑا دی تھی

"ڈیڈ بس منیشہ کا ساتھ چاہیے۔۔ تھینک یو۔۔ میں ابھی اسے بتا کر آیا۔۔۔"

وہ بھاگتا ہوا پرجوش انداز میں گھر سے باہر چلا گیا تھا۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"وہ جیسے ہی گھر داخل ہوئی گپ اندھیرا چھایا ہوا تھا ہال میں سینٹر ٹیبل پر ایک لیمپ آن تھا جس کی ہلکی سی روشنی اس شخص کی موجودگی پتہ دہ رہی تھی۔۔ نسواء پہچان گئی تھی اور اس کی موجود کو نظر انداز کر جب وہ اوپر اپنے روم کی طرف جانے لگی تو ایک دم سے ہال کی لائٹس آن ہوگئی تھی۔۔۔

"کہاں سے آرہی ہیں آپ ماں۔۔؟ پورا دن انتظار کرتا رہا میں۔۔"

"میں نے کہا تھا انتظار کرنے کو۔۔؟؟ راستہ چھوڑو۔۔"

"میں پریشان ہورہا تھا ماں۔۔آپ میرا نمبر بھی نہیں اٹھا رہی تھی حورب کوبھی معلوم نہیں تھا آپ کہاں ہیں۔۔"

نسواء کے ہاتھ پکڑنا چاہا تو وہ دو قدم پیچھے ہوگئی اور اب اس نے چلتی لائٹس میں اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا ٹائی گلے میں لٹکائی ہوئی تھی شرٹ کے پہلے دو بٹن اوپن تھے بال بکھرے ہوئے تھے آنکھیں ایسے تھی جیسے تھکن سے چور

اسکی ممتا نے جوش مارنے کی کوشش کی ہاتھ بھی اٹھا مننان کے چہرے پر رکھنے کے لیے پر منیشہ کا چہرہ سامنے آتے ہی ہاتھ پیچھے کرلیا تھا اس نے۔۔

"ماں۔۔ایسے کیا دیکھ رہی ہیں۔۔؟"

"دیکھ رہی ہوں تمہیں احساس بھی ہے میری غیرموجودگی کا۔؟ پریشان بھی لگ رہے ہو۔۔؟؟"

"آپ جانتی ہیں ماں میں کتنی کئیر۔۔۔"

"پلیز ڈونٹ کمپلیٹ دس سنٹینس مسٹر مننان۔۔ آپ کی کئیر احساس دیکھ لیا تھا جب اپنی ماں کی پسند کو ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا تھا۔۔۔

مجھے سب بتا دیا تھا آپکے ایکشنز نے۔۔۔اور اب آپ بھی سن لیں آپ نے منیشہ کو نہیں مجھے نکال باہر کیا تھا اپنی زندگی سے۔۔۔"

"ماں پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔"

مننان گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا تھا۔۔ماں کے ہاتھوں کو بار بار آنکھوں پر لگا کر وہ معافی مانگنے لگا تو نسواء کا دل بھی موم کی مانند پگھلنے لگا

"ماں میں اسے کسی اور سے شادی۔۔۔"

"ڈونٹ یو ڈیرھ۔۔۔تم جاؤ اپنی بیوی۔۔"

"اووہ تو آپ ہیں وہ گریٹ مدر جنہیں اپنے بیٹے کی زرا فکر نہیں ۔۔؟ پورا دن آپ کی وجہ سے مننان پریشان رہے اور ہمارے سارے پروگرام۔۔"

"شٹ اپ۔۔ لیزا روم میں جاؤ۔۔"

مننان نے زور سے اسکا کا بازو پکڑ کر کہا تھا

"کیوں۔۔؟ انہیں معلوم نہیں پورا پورا دن غائب رہتی کیا کرتی ہیں۔۔؟ کس کے ساتھ ہوتی ہیں۔۔ اور تم پریشان تھے۔۔؟ یہ تو ٹھیک ہیں۔۔اور آپ ۔۔ آپ کو زرا سی بھی شرم۔۔"

مننان کا ہاتھ اٹھ چکا تھا۔۔ مگر عین ٹائم پر نسواء نے اسکے ہاتھ کو روک کر ایک ہی نظر اسے دیکھا تھا

"میں کیا کرتی ہوں کیا نہیں یہ مجھے تمہیں یا تمہارے شوہر کو بتانے یا اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔۔ یہ میری چھت ہے جسکے نیچے تم دونوں ہو اس وقت۔۔۔

اس لیے کمرے میں جاؤ۔۔ مجھے بےوجہ کا شور شرابہ پسند نہیں۔۔"

"ماں۔۔"

پر نسواء اوپر روم میں جاچکی تھی۔۔

"وہ جیسے ہی وہاں سے گئی مننان نے غصے سے لیزا کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا تھا

"تم اپنی زبان بند نہیں کرسکتی تھی۔۔؟ لیزا مجھے کوئی سٹیپ لینے پر مجبور نہ کرو۔۔"

لیزا مننان کے غصے سے ڈر گئی تھی وہ جیسے ہی پیچھے ہوئے ٹیبل سے ٹکرائی تو لیمپ نیچے گر چکا تھا۔۔اور اسی وقت مین گیٹ اوپن ہوا۔۔ حورب فائلز اور لیب کوٹ اٹھائے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔

مننان کا غصہ تو جیسے چلا گیا چھوٹی بہن کو دیکھ کر پر لیزا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اس بات کا۔۔

"کیا کرو گے مارو گے مجھے۔۔؟؟ آئیں ڈاکٹر حورب دیکھیں میں کس حالت میں ہوں اور آپ کے بھائی صاحب مجھے دھمکی دہ رہے یہ دیکھیں نشان۔۔۔"

انگلیوں کے نشان ہاتھ پر واضح ظاہر ہورہے تھے۔۔ حورب مننان کی طرف دیکھتی ہے تو وہ انگلی کی وارننگ لیزا کو دہ کر چیزیں گراتے ہوئے گھر سے باہر نکل آیا تھا۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ دن بعد۔۔۔"

۔

"نسواء۔۔۔ جیسے آپ نے کہا تھا سب کچھ ویسے ہی ہوا ہے۔۔ میں پھر سے کہتا ہوں نسواء ایک بار کہیں یہ شادی اسی لمحے روک دوں گا۔۔"

گاڑی کا دروازہ کھولے جیسے ہاتھ آگے کیا تھا نجیب نے۔۔ نسواء نے ایک نظر انکی آنکھوں میں دیکھا اور پھر انکے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔

"نسواء ایک بار سوچ لیں۔۔۔"

پر نسواء نجیب کا ہاتھ مظبوطی سے پکڑے گاڑی سے باہر آگئی تھی وہ لوگ جیسے ہی اس ریڈ کارپٹ پر قدم سے قدم ملا کر چلنا شروع ہوئے بہت سے فلش روشن ہوئے تھے۔۔ 

اور جب نجیب صاحب نے نسواء کی ویسٹ پر ہاتھ رکھا تو سب کی نظریں ان دونوں کی کلوزنیس پر مرکوز ہوچکی تھی

"بس نکاح شروع ہونے والا ہے آپ بیٹھے میں کچھ جوس لیکر آیا۔۔ دوائی کھا لی تھی آپ نے۔۔؟؟"

نجیب جتنی احتیاط سے نسواء کو مین ہال میں لائے تھے سب حیران تھے انکی یہ سائیڈ دیکھ کر۔۔

"میں اس نکاح سے پہلے آپ کے بیٹے ماہیر سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں نجیب۔۔"

"نسواء۔۔ میں اس بات کی اجازت نہیں دوں گا۔۔ وہ بدتمیزی کرسکتا ہے۔۔اور پلیز میرا بیٹا مت کہیں اسے۔۔"

"اوکے فائن۔۔ میں خود ڈھونڈ لوں گی۔۔۔"

وہ جانے لگی تھی جب نجیب نے اپنی اوڑھ کھینچا اور ہیلز زرا سی سلپ ہوئی وہ اگلے لمحے نجیب کی بانہوں میں تھی۔۔

انکا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا جب نجیب صاحب نے انکے ماتھے سے بال پیچھے کئیے گال پر بوسہ دیا تھا۔۔۔

اور شیشے کا گلاس ٹوٹنے کی آواز پر نسواء اور شاک ہوئی تھی سب کی نظریں خود پر دیکھ کر۔۔

۔

"نجیب۔۔ سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔"

"اوپر جاکر رائٹ پر روم ہے۔۔ پر یاد رکھئے گا اگر ماہیر نے زرا سی بدتمیزی کی تو میں سارے وعدے بھول جاؤں گا جو آپ سے کئیے اور گھر جائیداد سے نکال باہر کروں گا۔۔۔"

"اوکے۔۔ اب چھوڑیں۔۔۔پلیز۔۔۔"

پر نجیب کی گرفت اور مضبوط ہوئی تھی نسواء کی ویسٹ پر۔۔۔

"مہرون کلر کی اس ساڑھی میں بہت خوبصورت۔۔ بہت ہوٹ لگ رہی ہو۔۔ کوئی دیکھے گا تو کہے گا سنگل ہو۔۔۔ اس لیے اپنے نام کی مہر لگا رہا ہوں نسواء۔۔۔"

ماتھے پر بوسہ دے کر وہ پیچھے ہوگئے تھے اور نسواء جلدی سے بھاگی تھی سب کی حیران کن نظروں سے دور۔۔۔

۔

"نسواء۔۔۔۔"

چہرے پر مسکراہٹ سجائے نجیب کی ہونٹوں نے سرگوشی کی تھی

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"موم آئی ایم شاکڈ لائک سیریسلی۔۔؟ آپ یہاں بھائی کو شادی سے روکنے آئی تھی"

"شزا میں نے اپنا فیصلہ بدل دیا ہے۔۔ تمہارے ڈیڈ نے ماہیر کے نام کمپنی کردی ہے۔۔

اب پھر سے ہم لوگوں کی حکمرانی ہوگی اس گھر میں ہمیں اور کیا چاہیے۔۔؟؟"

اور ایک ناک سے وہ لوگ خاموش ہوگئے تھے

"میں ماہیر سے اکیلے میں کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔۔۔"

"نسواء۔۔؟؟ میرے بیٹے سے کیا بات کرنی ہے اگر تم سوچ رہی ہو کہ یہ شادی رکوا دو گی تو تمہاری غلط فہمی ہے۔۔"

"موم پلیز۔۔ آپ دونوں جائیں یہاں سے۔۔۔ مجھے بھی کچھ بات کرنی ہیں ان سے۔۔"

شیروانی کا لاسٹ بٹن بند کرکے وہ ڈریسنگ سے پیچھے ہوگیا تھا۔۔۔

"ماہیر بیٹا تم جانتے نہیں ہو اس عورت نے کیسا جادو کیا تمہارے ڈیڈ پر اب تمہیں منع کرے گی ۔۔"

"موم۔۔۔"

آواز میں سختی آئی تو عمارہ منہ بنا کر اپنی بیٹی کو باہر لے گئی تھی

"مجھے تم سے۔۔"

"میں جانتا ہوں کیا بات کرنے آئی ہیں آپ۔۔ بے فکر رہے جو آپ کے بیٹے نے آپ کی بیٹی جیسی لڑکی ک ساتھ کیا میں ویسا کچھ نہیں کروں گا۔۔"

نسواء شاکڈ ہوگئی تھی

اور ماہیر نے ہاتھ پکر کر اسے بیڈ پر بیٹھنے کا کہا تھا۔۔

"آپ حیران ہورہی ہوں گی۔۔سوچ رہی ہوں گی کہ میں جائیداد کی لالچ میں یہ کررہا یا آپ کے بیٹے سے بدلہ لینے کے لیے کررہا۔۔؟؟

منیشہ سے نزدیکی میں نے بدلہ لینے کی غرض سے بڑھائی تھی۔۔۔پر جس طرح آپ کے بیٹے نے اسے ٹھکرایا۔۔ اسے خواب دیکھا کر ان خوابوں کا خون کردیا۔۔

وہ میری برداشت سے باہر تھا۔۔۔ اس رات مجھے اس لڑکی سے بےلوث محبت ہوگئی تھی۔۔۔اور میں نے قسم کھا لی کہ اب میں کسی کو بھی اسے تکلیف پہنچانے نہیں دوں گا۔۔"

وہ چپ چاپ سنتی رہ گئی تھی۔۔۔اسے آج وہ ماہیر عیاش بدتمیز بدلحاظ نہیں لگاتھا۔۔۔

اور جب ماہیر کی بات ختم ہوئی تو وہ بھی جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی

"میں جانتا ہوں آپ نے یہ سب کروایا یہ شاندار شادی یہ 'سی ای او' کی کرسی ورنہ ڈیڈ۔۔۔

میں ان کا بیٹا نہیں ہوں میں یہ بھی جان چکا ہوں۔۔شاید۔۔ یہی وجہ تھی کہ اب میں ان  رشتوں کے دھوکوں سے کوسوں دور جانا چاہتا منیشہ کے ساتھ جس کا دل چاند کی اس سفیدچاندنی کی طرح صاف ہے۔۔۔

اور میں یہ بھی جان گیا ہوں۔۔۔ کہ آپ نے منیشہ کو بیٹیوں کی طرح چاہا۔۔

اس لیے آپ کو اتنی تسلی دہ رہا ہوں کہ بےفکر ہوجائیں میری طرف سے۔۔

میں اللہ کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ میرا دل میری نیت میرے ارادے بالکل نیک ہے اسے لیکر۔۔۔"

۔

اور نسواء آنکھ سے آنسو صاف کئیے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

۔

"کاش مننان آج تم اس بچے کی جگہ ہوتے۔۔۔ کاش۔۔۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی ۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔"

مولوی صاحب کے دوسری بار پوچھنے پر بھی منیشہ کی طرف سے خاموشی تھی اس خاموشی میں ان دو لوگوں کی جان اٹکی ہوئی تھی ایک جو اسکے سامنے تھا ایک وہ جو دور کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا

"نوووو پلیز۔۔۔۔"

مننان کے دل میں ایک امید جاگی تھی

"منیشہ۔۔۔"

"قبول ہے۔۔۔"

ماہیر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے منیشہ نے ایک بار نہیں تین بار وہ دو بول دہرائے تھے۔۔۔

"مننان رک جاؤ بیٹا۔۔۔"

"زندگی میں پہلی بار کچھ مانگا تھا آپ سے ڈیڈ۔۔۔"

اسکے بھاری لہجے نے نجیب کے قدم روکے تھے

"مننان بیٹا۔۔۔میرے بس میں کچھ نہیں تھا۔۔"

"جب مجھے میری ماں کو گھر سے نکال رہے تھے تب بس میں سب کچھ تھا۔۔؟؟

پچھلے سال سے معافیاں مانگ رہے گڑگڑا رہے تب سب کچھ تھا بس میں۔۔؟؟

اب جب میں نے کچھ مانگ ہی لیا تھا تو بس میں نہیں تھا۔۔؟؟

یو نو وٹ۔۔؟؟

جو میں پہلے نہیں کرنا چاہتا تھا وہ اب کروں گا۔۔۔

مسٹر نجیب آفندی۔۔۔ دیکھیں گے آپ اور یہ دنیا والے۔۔۔"

وہ جاتے جاتے رکا تھا

"جس بیٹے کو وہ لڑکی دی ہے میں اس سے بھی چھین لوں گا۔۔ یہ میرا وعدہ ہے۔۔

پر اس قابل نہیں چھوڑوں گا آپ لوگوں کو۔۔۔ جائیں اپنے خاندان کے ساتھ یہ خوشیاں منا لیں۔۔

کیونکہ یہ آخری خوش ہوگی جو یہ آفندی گھرانہ دیکھے گا۔۔"

"مننان بیٹا وہ گناہ نہ کر بیٹھنا جو میں نے کئیے تھے۔۔۔پچھتاوے جتنا وقت بھی میسر نہیں آئے گا۔۔۔"

پر ان کی بات ان سنی کرکے مننان چلا گیا تھا وہاں سے۔۔

"آپ یہ شادی مت کریں مننان۔۔۔ میری زندگی میں وہ واحد امید ہیں آپ جس نے مجھے لڑکھڑانے نہیں دیا۔۔۔

بہت محبت ہوگئی ہے مجھے آپ سے۔۔۔ پلیز یہ شادی مت کریں۔۔ میں ہاتھ جوڑتی ہوں بیچ منجدھاڑ میں چھوڑ کر مت جائیں مجھے۔۔۔"

وہ گھٹنوں کےبل جیسے ہی گری تھی مننان نے رخ موڑ لیا تھا

"کسی ڈسپریٹ با۔۔بازاری عورت سے زیادہ کچھ نہیں لگ رہی ہو تم مجھے اس وقت۔۔ چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔ میں آج ہی نکاح کررہا ہوں لیزا سے۔۔۔ اور۔۔۔ کل سے تمہیں آفس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"

۔

"آپ بہت پچھتائیں گے مننان۔۔۔ رک جائیے اپنے بدلے کی آگ میں اتنا مت جلیں کےراکھ ہوجائیں۔۔۔

میں واپس نہیں لوٹ کر آؤں گی اگر چلی گئی تو۔۔۔ سوچ لیجئے۔۔۔"

"میں کبھی نہیں پچھتایا۔۔۔ تم میٹر نہیں کرتی۔۔۔"

"میں کہہ رہی ہوں۔۔ آپ پچھتائیں گے مننان آفندی۔۔۔ پچھتائیں گے آپ۔۔۔

مجھے کھونے پر پچھتائیں گے آپ۔۔۔ میرے لیے پچھتائیں گے مجھے لیکر پچھتائیں گے۔۔

میں کہہ رہی ہوں آپ کو۔۔۔"

۔

اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہہتا چلا گیا اور وہ اسے درگزر کرتا چلاگیا۔۔۔

۔

۔

"مسٹر مننان۔۔۔"

مننان ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا لیڈی ڈاکٹر جیسے ہی آئی سی یو سے باہر آئی تھی مننان کی نظریں بےساختہ روم کی طرف گئی تھی

"ڈاکٹر۔۔۔وہ منیشہ۔۔۔"

"ان کے ساتھ جو ہوا۔۔صاف واضح ہے زبردستی کی گئی۔۔۔ اور انکی خود سوزی کی وجہ بھی یہی لگ رہی ہے۔۔ ابھی بھی انکی حالت نازک ہے۔۔"

مننان ایک جھٹکے سے واپس گر گیا تھا جہاں وہ کچھ دیر پہلے بیٹھا ہوا تھا ڈاکٹر کی بات سن کر۔۔

"انکے ہزبنڈ مسٹر ماہیر کو انفارم کردیجئے۔۔ ہمیں نہیں لگتا یہ سروائیو کرپائیں گی۔۔۔"

۔

ڈاکٹر یہ کہہ کر ابھی ایک قدم بڑھی جب مننان نے ان کا راستہ روک لیا

"ڈاکٹر جو بات آپ میں مجھ میں ہوئی وہ ہم دونوں میں رہنی چاہیے۔۔ کسی تیسرے کو نہیں۔۔"

"پر پولیس کو فون کرچکی ہوں۔۔ "

"پولیس کو میں ہنڈل کر لوں گا اگر میڈیا تک یہ بات گئی تو یاد رکھنا میں پورے ہسپتال کو ختم کردوں گا۔۔۔یاد رکھنا۔۔۔"

وہ ڈاکٹر گھبراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔

"منیشہ۔۔۔ "

آج اسکی آنکھیں اشک بہا رہی تھی جیسے اس کے نکاح والے دن اس لڑکی کی۔۔

۔

"منیشہ۔۔۔"

منہ کو ہاتھوں میں لئیے وہ وہاں بیٹھ گیا تھا۔۔

"میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔ مار دوں گا منیشہ۔۔۔"

وہ اس ہسپتال سے سیدھا اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی شہریار کو کال ملا دی تھی

"سر آپ کی میٹنگ پچھلے پندرہ منٹ سے۔۔"

"سب کینسل کردو۔۔ ابھی سب چھوڑ کر یہاں لائف کئیر ہاسپٹل میں آؤ۔۔ابھی۔۔۔ اور۔۔۔ اور اپنے ساتھ۔۔۔مہک کو لے آؤ۔۔ یہاں۔۔ منیشہ ایڈمٹ ہے۔۔۔"

اور جب شہریار نے سوال پوچھنے کی کوشش کی تو سٹئیرنگ پر ہاتھ مار کر اس نے سپیڈ اور تیز کردی

"کیوں ہے کیسے ہے۔۔ کس لیے ہے میں تمہارے باپ کا ملازم نہیں ہوں جو سوالوں کے جواب دوں تم نوکر ہو میرے ہاں۔۔اب جو کہا وہ کرو۔۔۔ یہاں اسکے پاس رہو جب تک میں نہیں آجاتا۔۔۔پھر ہم اسے پاکستان شفٹ کردیں گے۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"پلیز ماہیر۔۔۔ تم یہ نہیں ہو۔۔۔رک جاؤ۔۔ ہمارے درمیان دوستی کے اس خوبصورت رشتے کو اس طرح برباد نہ کرو۔۔۔"

"دوستی۔۔؟ بیوی ہو تم میری منیشہ۔۔ ہمت کیسے ہوئی اپنا آپ کسی اور کو سونپنے کی۔۔ تم نے میرا یقین کیوں توڑ دیا۔۔ تم اس سے محبت کرتی تھی محبت دیتی جسم دینے کا گناہ کیوں کیا۔۔"

۔

"منیشہ۔۔۔"

سر پر ہاتھ رکھ کر وہ جیسے ہی اٹھا خود کو بالکونی پر پایا ہاتھ میں ڈرنک کی بوتل دیکھ کر اس نے ادھر اُدھر دیکھا اور سر پکڑ کر ان بیڈروم کی جانب بڑھا۔۔۔

ٹوٹی بکھری ہوئی چیزیں دیکھ کر اس نے ایک ہی سرگوشی کی تھی

"منیشہ۔۔۔ منیشہ۔۔۔"

کانچ پر چلتے ہوئے اسے اپنے پاؤں زخمی ہوتے محسوس نہ ہوئے تھے دروازے پر گرے ہوئے اس دوپٹے کو ہاتھوں میں لئیے وہ بستر پر بیٹھ گیا تھا۔۔

"منیشہ۔۔۔منیشہ۔۔۔۔"

وہ چلایا تھا۔۔۔ آنکھیں آنسوؤں سے تر تھی۔۔۔وہ ایک دم سے اٹھا تھا۔۔

شرٹ پہنے وہ باہر کی جانب بھاگا تھا۔۔۔اور ہوٹل سٹاف سے ٹکرایا تھا۔۔۔

"منیشہ۔۔ میری وائف۔۔ وہ کہاں ہے اندر نہیں ہے۔۔"

چہرہ صاف کرتے ہی پوچھا تھا اس نے۔۔۔

"سر وہ تو اپنا بیگ لے کر پاکستان چلی گئی ہیں۔۔"

سرونٹ نے بہت اسانی سے اتنا بڑا جھوٹ بول دیا تھا۔۔۔

اور ماہیر واپس روم سے اپنا پاسپورٹ اور دوسری اہم چیزیں لیکر باہر نکل آیا تھا۔۔

۔

اپنا پاسپورٹ لیتے ہوئے بھی اس کی نظر اس دوسرے پاسپورٹ کی طرف نہ گئی تھی۔۔

وہ جیسے ہی نکلا تھا اس سرونٹ نے نوکر کے کپڑے کپڑے اتار کر ایک ہی پرسن کو کال کی تھی

"عمارہ میم آپ کا کام ہوگیا ہے۔۔۔ اب میں واپس آجاؤں۔۔"

"ابھی ایک آخری کام کرو۔۔ اس ہاسپٹل سے اس لڑکی کا کام تمام کرکے یہ قصہ ہمیشہ کے لیے ختم کردو۔۔"

"جی بہتر۔۔۔"

اور وہ سرونٹ بھی وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء میں بس ابھی آیا۔۔آپ یہیں رہئے گا ابھی ایک اور سرپرائز باقی ہے۔۔"

نجیب یہ کہتے ہی وہاں سے چلے گئے۔۔وہ جیسے ہی گئے ہوٹل سٹاف نے خوبصورت پھولوں کا گلدستہ ٹیبل کے سینٹر پر رکھ کا نسواء کی پسندیدہ  ڈشز رکھنا شروع کردی تھی

رومینٹک نمبر چلنا شروع ہوا۔۔ وہ پورا سیکشن خالی تھا ہر طرف گلاب کی پتیاں جو اس پر اسکے ارد گرد گررہی تھی۔۔

اور پھر کچھ ہی پل میں نجیب واپس داخل ہوئے اور آتے ہی کوٹ پاکٹ سے وہ ریڈ روس نکال کر نسواء کو پیش کیا جو بہت شاک ہوئی تھی۔۔

"نجیب مجھے معلوم نہیں تھا یہ آپ کا سرپرائز ہوگا۔۔۔میں نے ایک ضروری بات کے لیے بلایا تھا آپ کو یہاں۔۔"

وہ پھول لینے سے بھی انکار کردیا تھا انہوں نے ایک قدم پیچھے ہوکر۔۔

"کیوں نسواء پسند نہیں آیا۔۔؟ کچھ کمی رہ گئی۔۔؟ آپ دو ماہ کے بعد مجھ سے ملنے کے لیے راضی ہوئی۔۔ میں ایسا موقع کیسے جانے دیتا۔۔؟؟

نسواء اب تو حورب نے بھی مجھے اپنا لیا ہے۔۔اور۔۔"

"جب میں گھر سے نکلی تھی تو حورب نہیں مننان کو ٹھکرایا تھا آپ نے۔۔ نجیب۔۔ ایک ہی بات کہتے ہیں آپ اور آج اسی بات کو ختم۔۔۔"

ڈور آرام سے کھلا ضرور تھا پر غصے سے بند بھی ہوا تھا جب حزیفہ تیز قدموں سے آگے بڑھا تھا

"تو یہ کہنے کے لیے بلایا تھا مجھے یہاں۔۔؟؟"

حزیفہ نے نسواء کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"حزیفہ میری بات۔۔"

"آپ نے اسے یہاں بلایا تھا نسواء۔۔؟؟مجھے لگا بس مجھے ہی یہاں۔۔"

نسواء نے ہاتھ آگے بڑھا کر ان دونوں کو چپ رہنے کا کہہ دیا تھا۔۔۔

۔

"نجیب اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں نے ہمارے درمیان سب اختلافات بھلا کر آپ کے ساتھ جانے کے لیے بُلایا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔۔"

نسواء کی آنکھوں اور لہجے میں زرا سی بھی نرمی نہیں تھی۔۔ لب زہر اگل رہے تھے اور آنکھیں غصہ۔۔۔

"نسواء میں نے معافی مانگی تھی۔۔"

نجیب آفندی کو اس وقت فکر نہیں تھی کہ وہ اپنے دشمن کے سامنے کمزور پڑ رہے تھے۔۔ انہوں نے اتنا ہی نرمی سے کہا نسواء کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسکی طرف جھکے تھے

"نسواء میں سب کرنے کو تیار ہوں دنیا کے سامنے سماج کے رشتے داروں کے سامنے معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔۔"

"معافی غلطیوں کی دی جاتی ہے گناہوں کی نہیں نجیب میرے لیے آپ کا پہلا گناہ ہمارے رشتے میں بےوفائی تھی۔۔۔زنا تھا جو آپ نے کیا۔۔ میں آپ کی سب غلطیوں کو بھلا کر معاف کربھی دوں پر ان گناہوں پر معاف نہیں کرسکتی۔۔"

"نسواء۔۔ اتنی ظالم نہ بنو گناہوں کی معافی تو رب بھی دہ دیتا ہے۔ میں انسان گناہوں کا پتلا ہوں مجھے ایک موقع۔۔"

اور نسواء نے ہاتھ چھڑا لیا تھا۔۔۔

"میں خدا نہیں ہوں میں بھی انسان ہوں۔۔ انسان شاید معاف کردے پر میں بیوی کے ساتھ ساتھ ماں بھی تو تھی۔۔؟؟ بیوی معاف کر بھی دے تو وہ ماں معاف کیسے معاف کر سکتی۔۔؟؟ چلے جائیں نجیب۔۔"

اور وہ نسواء کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک ایک قدم پیچھے جانا شروع ہوئے تھے

"ہاہاہاہاہا نجیب آفندی۔۔۔ناؤ گیٹ آؤٹ۔۔۔"

حزیفہ نے رہی سہی کسر نجیب کو پیچھے پش کرکے پوری کردی تھی اور وہ جانے سے پہلے اس ویٹر سے ٹکرائے تھے جو کیک لے کر اسی ٹیبل کی طرف آرہا تھا

وہ کیک نیچے گر گیا تھا۔۔ نجیب نے پلٹ کر ایک نظر دیکھا تھا۔۔۔

"سر یہ آپ کی ویڈنگ اینیورسری کا کیک تھا۔۔۔یہ تو خراب ہوگیا یو ایڈیٹ۔۔"

اسکے قدم رکے تھے اور نسواء کی سانسیں بھی۔۔۔یہ دن تو وہ بھول ہی گئی تھی۔۔۔

"مینیجر نے اپنے ہی ویٹر کو ڈانٹ کر بھیج دیا۔۔

"ایم سو سوری سر۔۔"

"اٹس اوکے ۔۔۔یہ بل ۔۔۔"

جیب سے سارے پیسے نکال کر مینیجر کو تھما دئیے تھے۔۔

"سب فلسفے سب باتیں سب یادیں ادھوری رہ گئی۔۔"

نجیب یہ کہتے ہی چلے گئے تھے۔۔۔

"نسواء آپ نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔فائننلی۔۔ آپ اس بوجھ سے آزاد ہونے لگی ہیں۔۔"

حزیفہ خوشی کے مارے آگے بڑھا تھا جب اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر نسواء نے اسے ویسے ہی پیچھے دھکیلا تھا جیسے کچھ دیر پہلے اس نے نجیب کو پیچھے پش کیا تھا

"نسواء۔۔۔"

"بیٹھ جائیں تھک گئے ہوں گے۔۔ بھائی کے پاس سے جو واپس آرہے ایک نئی پلاننگ کرکے۔۔۔ مسٹر حزیفہ آفندی۔۔۔"

اور نسواء خود بیٹھ کر سامنے والی خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔۔

حزیفہ اتنا شاک تھا کہ اسے کچھ دیر لگی بیٹھنے میں تب تک وہ اپنی آنکھوں سے وہ آخری آنسو بھی صاف کر چکی تھی اس شیشے سے نجیب کو گاڑی میں بیٹھتے جاتے دیکھ اسے وہی پرانی تکلیف محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔

جو اسکے دل میں ہمیشہ سے رہتی تھی

۔

"نسواء میں بتانے ہی والا تھا ۔۔ ہم لوگوں کا ان سے اس نام سے کوئی تعلق۔۔"

"کب بتانے والے تھے۔۔؟ نجیب کو مار دینے کے بعد۔۔؟؟ یا مجھے اور میرے بچوں کو مار دینے کے بعد۔۔؟؟"

"نسواء۔۔؟؟"

وہ نسواء کا ہاتھ پکڑنا چاہتا تھا پر وہ ہاتھ ٹیبل سے پیچھے کرچکی تھی اور حزیفہ نے گہری سانس بھری تھی

"وہ میرے بچوں جیسے۔۔ میرے بچے ہیں نسواء حورب کو مننان کو آپ کو میں نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔ آپ تینوں ک لیے کیا کچھ نہیں کیا میں نے۔۔۔اور۔۔"

"وہ سب کچھ اپنے مفاد کے لیے کیا حزیفہ۔۔ صرف اپنی لالچ میں اپنے بدلے میں کیا مجھے میرے بچوں کو بیچ میں مت لاؤ۔۔ اور اب بتاؤ کے آگے کی پلاننگ کیا ہے۔۔؟؟

اور تمہیں کیا لگا تھا کہ میں نجیب کو چھوڑ دوں گی۔۔؟ جسٹ لائک ڈیٹ۔۔؟؟"

نسواء کے اس روپ نے حزیفہ کو پوری طرح سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔ اسے تو بولنے کا موقع بھی نہیں دہ رہی تھی

"یہ سب کیسے معلوم ہوا۔۔؟ کیا نجیب نے بتایا۔۔؟؟"

"اس دن جب نجیب پر اٹیک ہوا۔۔ اس وقت عمارہ کے اس ایرنگ اور تمہارے پرفیوم نے بہت کچھ عیاں کردیا تھا مجھ پر۔۔۔"

"تو کیوں خاموش رہی۔۔؟ میری تماشا دیکھنے کے لیے۔۔؟؟ مجھے تڑپتا دیکھنے کے لیے۔۔؟؟"

اس نے طیش میں آکر ٹیبل پر ہاتھ مارا تھا

"نجیب کیوں خوش ہیں۔۔؟؟ کیوں سب کو نہیں بتا رہے اپنی بیوی عمارہ کی حقیقت۔۔؟؟

کیونکہ وہ جگ ہنسائی سے بچ رہے ہیں انکی غیرت یہ گنوارا نہیں کرتی۔۔ وہ باپ نہ ہوکر بھی 

ماہیر اور شزا کو دنیا کے طعنوں سے بچا رہے ہیں اسی طرح۔۔۔ حزیفہ۔۔

میں بھی چپ ہوں۔۔۔ دنیا کو معلوم ہوا تو کیا سوچیں گے۔۔؟؟

کہ یہ کتنی بدنصیب عورت ہے جس نے اپنی زندگی میں صرف دو مردوں کو اہمیت دی اور دونوں ہی دھوکے باز فریبی نکلے۔۔؟

پر یہاں بھی اپنی رسوائی کا ڈر نہیں۔۔۔حزیفہ۔۔۔"

اس نے بےرخی سے آنسو صاف کئیے تھے۔۔اور حزیفہ جس کی آنکھیں بھیگ چکی تھی نسواء کے منہ سے دھوکے باز کا لقب سن کر۔۔۔

"میں ڈرتی ہوں کہ میرے بچوں کا دل ٹوٹ جائے گا۔۔۔

خاص کر مننان۔۔۔حزیفہ اچھا ہوگا کہ تم بنا کچھ کہے ہماری زندگیوں سے نکل جاؤ۔۔

کیونکہ تم جو دو کام کرنے آئے ہو وہ میں تمہیں کرنے نہیں دوں گی۔۔۔"

اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی

"ایک نجیب کو جان سے مارنے کا دوسرا میری اور نجیب کی طلاق۔۔۔ کیونکہ اس زندگی میں تو یہ ہونے سے رہا۔۔۔"

۔

اور وہ اس ہوٹل سے جانے لگی تھی جب جاتے جاتے اسی کیک پر اسکی نظر پڑی تھی۔۔۔

اور وہ دل پر پتھر رکھ کر باہر نکل گئی تھی۔۔۔

پر جیسے ہی گاڑی پر بیٹھنے لگی تھی کسی نے اسکے سر پر وار کردیا تھا۔۔۔

اور وہ وہیں گرنے لگی تھی جب دو لوگ اسے اٹھا کر دوسری گاڑی کی سیٹ پر لٹا کر وہاں سے لے گئے تھے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"جب تک میں نہیں آجاتا وہیں رہو سیکیورٹی کے ساتھ۔۔ اور جیٹ تیار کرواؤ ہم آج ہی پاکستان کے لیے نکلیں گے۔۔۔"

۔

مننان نے  کال بند کرکے موبائل سیٹ پر پھینک دیا تھا۔۔

گاڑی ایک گرینڈ ہوٹل کے سامنے جیسے ہی رکی وہ بنا پارک کئیے اترا اور اترتے ہی ہوٹل میں داخل ہوگیا۔۔ اسکی جلد بازیاں دیکھ کر گارڈ نے اسے اندر جانے سے پہلے وزٹنگ کارڈ مانگا جسے ایک زور دار مکا مار کر وہ آگے بڑھا تھا۔۔

ریسیپشن پر جاتے ہی دوسری طرف کھڑی لیڈی کو اس نے ایک ہی سوال پوچھا

"ماہیر آفندی روم نمبر۔۔"

"سر ہنی مون سوئٹ پرائیویسی کی وجہ سے انفارمیشن ہائیڈ۔۔"

مننان نے شیشے پر ہاتھ مار کر مانیٹر کی سکرین اپنی جانب کرلی تھی اور فورا ہی نام لکھ کر سرچ کیا تھا۔۔اور جب تک وہ وہاں سے جانے لگا ایلویٹر کی طرف تو پیچھے سے پانچ چھ گارڈ آگے آگئے تھے۔۔

"سر شرافت سے باہر چلے ہمارے ساتھ آپ پہلے ہی رولز بریک کرچکے۔۔۔"

"میں اس باسٹرڈ کو یہاں سے مار کر جاؤں گا۔۔"

ایک گارڈ نے جیسے ہی اس پکڑنے کی کوشش کی اس نے لڑائی شروع کردی تھی۔۔

اسے اس وقت کچھ بھی دیکھائی نہیں دہ رہا تھا سوائے ماہیر کو مارنے کے۔۔۔وہ پاگلوں کی طرح اپنا غصہ ان لوگوں پر اتار رہا تھا۔۔۔اور جب کوئی لڑنے لائک نہ بچا تو ان بےہوش زخمی گارڈ کو پیچھے کرتے ہوئے وہ ایلویٹر کا ویٹ کرنے کے بجائے اوپر چلا گیا تھا۔۔۔

۔

"ماہیر۔۔۔ ماہیر آفندی کہاں چھپا بیٹھا ہے بے غیرت آدمی باہر نکل۔۔۔

تجھے تو مرد بھی نہیں بول سکتا۔۔۔ "

دروازہ توڑتے ہوئے وہ اندر تو داخل ہوگیا مگر اسے اپنے مطلب کا کچھ بھی نہیں ملا وہاں جس کو مار کر وہ اپنا غصہ نکال سکتا۔۔۔

۔

ٹوٹی ہوئی چوڑیوں نے اتنا واضح تو کردیا تھا کہ اسکی آنے والی زندگی اب پچھتاوے میں گزرنے والی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مو۔۔۔م۔۔۔۔ موم کو ایسے کہاں لے گئے ہیں۔۔؟؟ کون لوگ ہیں۔۔ یہ۔۔۔"

اس کیفے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر روڈ کے اس پار اس گاڑی کی طرف گئی تھی اور حورب الٹے قدم وہاں سے اپنی گاڑی کی طرف بھاگی تھی۔۔۔۔

"ارے میڈم۔۔۔ ایسے کیوں بھاگ رہی اتنا بڑا بھی نہیں لگ رہا ہماری فرسٹ ڈیٹ پر۔۔۔"

شہاب کی آواز سن کر وہ ایک دم رکی تھی۔۔

"شہاب۔۔۔ وہ۔۔ماما۔۔مجھے جانا ہوگا۔۔۔"

اسکا موبائل نیچے گر گیا تھا۔۔۔ گاڑی کو اسی گاڑی کے پیچھے لگا دیا تھا اس نے۔۔۔

"حورب۔۔۔"

شہاب کو کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔۔ جیب سے چابی نکال کر اپنی بائیک سٹارٹ کرکے حورب کو فالو کرنا شروع کیا تھا مگر جانے سے پہلے اس نے اس کا موبائل اٹھا لیا تھا

۔

حورب کی کار کو سننسان روڈ پر جاتے دیکھ وہ پریشان ہوا تھا ۔۔۔کچھ سپیڈ اور تیز کی تو اسے دور تلک حورب کی گاڑی اور وہ دوسری گاڑی نظر نہیں آئی تو اس نے  بائیک ہینڈل پر ہاتھ مارا تھا غصے سے۔۔۔

"اب کیا کروں۔۔۔ ان دو راستوں میں اسے ایک راستے پر حورب گئی ہے۔۔ کیا کروں ۔۔۔۔

کچھ سوچنے کے بعد اس نے جلدی سے حورب کا موبائل آن کیا اور ڈائل نمبر میں۔۔

مننان کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔اور پھر نسواء کا۔۔۔"

جو ایک بیل کے بعد آف ہوچکا تھا۔۔۔

"یہ دونوں نمبر نہیں مل رہے۔۔"

دن کی روشنی تو کب کی ڈھل گئی تھی۔۔۔ بنا کچھ سوچے اس نے نجیب کا نمبر ڈائل کردیا تھا

اسے اندازا تھا حورب کا اپنے ڈیڈ کے ساتھ اس کمزور رشتے کا پر وہ مجبور تھا۔۔

اس وقت وہ پولیس کو انفارم کرکے حورب اور اسکی موم کی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا۔۔

گہرا سانس لیکر اس نے نمبر ڈائل کردیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نجیب۔۔۔ آپ آگئے میں کھانا لگا دوں یا روم میں لے آؤں۔۔؟؟"

"کتنی بار بولا ہے مجھے چھوا مت کرو۔۔ مجھے تمہارے وجود سے بھی گھن آتی ہے عمارہ۔۔۔

بخش دو میری جان۔۔۔"

وہ سیڑیاں چھڑنے لگا تھا جب والد صاحب کی گرجتی ہوئی آواز نے اسے روکا

۔

"یہ کیا طریقہ ہے بیوی سے بات کرنے کا نجیب۔۔ کیا سیکھ دہ رہے ہو بچوں کو۔۔"

"میں اسے بیوی نہیں مانتا۔۔جس دن سے اسے بیوی بنایا میری زندگی عذاب بن گئی۔۔

نہ میں نسواء کا رہا نہ اپنے بچوں کا۔۔۔اسکی مکروفریب نے میری شادی شدہ زندگی خراب کردی۔۔۔عمارہ۔۔۔ تمہارے ساتھ وہ آفس کا آفئیر،، بس وہی تک اچھا تھا۔۔ تمہیں گھر کی عزت بنا کر میں نے اپنی پہلی بیوی کی عزت کو تار تار کردیا۔۔۔"

"نجیب۔۔۔"

عمارہ کا ہاتھ اٹھ چکا تھا جسے نجیب نے پکڑ لیا تھا۔۔

"یہ غلطی مت کرنا۔۔۔تمہارا کوئی تعلق نہیں رہا۔۔ میں یہاں سب کے سامنے تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔ طلاق دیتا ہوں۔۔۔ طلاق دیتا ہوں۔۔۔

 بس اب پرواہ نہیں۔۔ عزت کی خاندان کی۔۔۔

نکل جاؤ۔۔ "

اور نجیب اوپر روم میں چلے گئے تھے انکے جانے کے بعد بھی گھر والے ایک جگہ ہی کھڑے رہ گئے حیرانگی سے عمارہ کو دیکھ رہے تھے جس کی آنکھوں میں تو آنسو تھے اور ہاتھ غصے سے بند ہوگئے تھے وہ بھی روتے ہوئے اپنے روم کی طرف بھاگی تھی۔۔

"موم۔۔۔ مو۔۔۔ڈیڈ نے یہ اچھا نہیں کیا دادو۔۔۔ موم ہی نہیں ہم بھی یہاں سے چلے جائیں گے۔۔۔ نہیں چاہیے ہمیں یہ گھر۔۔اور ڈیڈ۔۔۔نہیں رہے وہ میرے ڈیڈ میں نہیں مانتی۔۔۔

پچھلے تین ماہ سے انکے اس ناجائز بیٹے نے کم تماشا لگایا جو اب انہوں نے یہ سب کردیا۔۔۔"

شزا عمارہ کے پیچھے گئی تھی۔۔جانے سے پہلے اس نے غصے سے جو منہ میں آیا بولنا شروع کردیا۔۔

اسے کسی نے بھی درست کرنے کی کوشش نہیں کہ اصل ناجائز کون ہے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء شاید یہ زندگی اب ساتھ نہیں چلنا چاہتی یا میں اس کے بوجھ تلے اور نہیں دب سکتا۔۔

اچھا ہے نجات لے لوں۔۔سب کچھ تو ہاتھوں سے پھسل گیا۔۔۔

آپ نہیں تو کچھ بھی نہیں نسواء۔۔۔ یہ نجیب آفندی بھی نہیں۔۔۔"

نجیب نے ہاتھ کی قید سے اس شیشی کو کھولا تھا۔۔منہ تک لے جانے لگے تھے جب ان کا موبائل اس خاموش کمرے میں کسی سائرن کی طرح بجا۔۔۔

جیب سے موبائل نکال کر دیوار پر مارنے ہی لگے تھے جب حورب کا نام سکرین پر فلیش ہوتے دیکھا۔۔۔

آنکھ بے ساختہ بھری انکی۔۔ 

"ایک آخری بار۔۔۔"

یہ کہتے ہی کال پک کی تھی پر حورب کی آواز سنائی نہیں دی ایک انجان آواز سن کر وہ الرٹ ہوئے۔۔

"السلام وعلیکم سر۔۔۔ آپ کی بیوی اور بیٹی اس وقت خطرے میں ہیں۔۔آپ بنا کسی کو بتائے اس جگہ پر آجائیں اور جلدی آئیں۔۔"

۔

"ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔کون بات کررہا ہے۔۔"

کال کٹ ہوتے ہی ایک میسج آیا تھا جس میں ایک ایڈریس تھا۔۔۔ نجیب جلدی سے اٹھے تھے۔۔۔کپبرڈ سے لاسٹ ڈراؤر سے اپنی گن نکال کر وہ روم سے نکل آئے تھے۔۔۔

"نجیب۔۔۔ "

والد کی بات اگنور کررکے وہ تیز قدموں سے گھر سے نکل آئے تھے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"بےغیرت بھاگ گیا۔۔ پر میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔"

مننان ہسپتال کے اس سیکشن میں جیسے ہی داخل ہوا تھا سیدھا اس روم میں گیا تھا۔۔

۔

"سر مس منیشہ کو ہوا کیا ہے۔۔؟ وہ تو اپنے ہسبنڈ کے ساتھ ہنی مون ٹور پر آئی تھی اٹلی۔۔

اس حالت میں کیسے۔۔؟؟ ہوا کیا ہے ڈاکٹرز نہ اندر جانے دہ رہے نہ ہی انکی حالت بتا رہے۔۔"

"شٹ اپ مس مہک۔۔ خاموش کھڑی رہیں نہیں تو واپس چلی جائیں شہریار کے ساتھ۔۔

بلکہ جائیں واپس۔۔ میں منیشہ کو لے آؤں گا۔۔۔"

وہ اندر روم میں تو داخل ہوگیا تھا پر دروازہ بند کرتے ہی اسکی ہمت جواب دہ گئی تھی دروازہ بند ہونے پر نرس نے ایک نظر مننان کو دیکھا تھا۔۔ ماور پھر روم سے باہر چلی گئی تھی۔۔

۔

اسکے جاتے ہی وہ آہستہ قدموں سے بیڈ کی جانب آیا تھا۔۔ ہاتھ پر لگی آئی وی آر بکھرے بال اور چہرے پر انگلیوں کے نشان نے اسکے اندر نہ ختم ہونے والی نفرت پیدا کردی تھی ماہیر کے لیے۔۔۔

"تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔ میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔ منیشہ اور تمہیں پھر اس شیطان کے پاس جانے نہیں دوں گا۔۔

میں اسے جان سے مار دوں گا۔۔۔"

منیشہ کے دوسرے ہاتھ کو ماتھے سے لگائے وہ وہیں بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔ 

"کچھ نہیں ہوگا منیشہ۔۔۔ تمہیں اتنا بڑا قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔۔ کم سے کم ایک بار کہتی۔۔

دیکھو تمہارے اس غرور نے تمہیں کہاں لاکر کھڑا کردیا۔۔۔

میں کہتا رہا اس پر یقین نہ کرو۔۔ تم مجھے جھٹلاتی رہی اب دیکھو انجام۔۔۔"

آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے پر اسکی باتیں۔۔۔ کسی طنز سے کم نہ تھی۔۔۔

وہ ابھی بھی خود کو سہی تسلیم کررہا تھا۔۔

کاش کوئی اسے شیشہ دیکھا سکتا۔۔ کوئی بتا سکتا کہ اسکےکہے جھوٹ نے منیشہ کو اس نہج پر پہنچا دیا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میری اجازت کے بغیر کون لایا نسواء کو یہاں۔۔؟؟آپ کو منع نہیں کیا تھا میں نے۔۔؟؟"

حزیفہ کی آواز سے نا صرف ظہیر اپنی چئیر سے کھڑا ہوا تھا بلکہ کرسی کے ساتھ بندھی ہوئی نسواء کی بھی آنکھیں کھل گئی تھی۔۔

"نسواء۔۔ آپ ٹھیک ہیں۔۔؟؟"

"ڈونٹ ٹچ مئ۔۔۔کیوں لائے ہو مجھے یہاں۔۔۔"

نسواء نے جیسے ہی نظریں پھیری تھی ظہیر حزیفہ کا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف لے گیا تھا

"حزیفہ۔۔ دادی اور بابا بس اتنا دور تھی اس عورت کو مارنے سے۔۔۔ بڑی مشکل سے بچایا ہے۔۔۔

اب یہ لو ڈائیورس پیپرز اس سے سائن کرواؤ اور لے کر جاؤ انہیں یہاں سے۔۔۔"

"مگر بھائی میں نسواء۔۔۔"

"تمہارے پاس فیصلہ کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ ہیں۔۔۔"

اور پیپرز کھینچ کر وہ واپس نسواء کی جانب بڑھا تھا

"اس پر سائن کریں نسواء ہم یہاں سے دور چلے جائیں گے۔۔"

"کیا ہے یہ۔۔؟ حزیفہ میرے ہاتھ کھولو۔۔ میں کسی پیپر پر سائن نہیں کرنے والی۔۔"

"ڈائیورس پیپرز ہیں یہ نسواء۔۔ آپ جب تک سائن نہیں کریں گی یہاں سے نہیں جاسکیں گی۔۔"

"آپ روکیں گے میری ماما کو۔۔۔ آپ ڈائیورس دلوائیں گے۔۔؟؟ آپ ہوتے کون ہیں میرے موم ڈیڈ کو الگ کرنے والے۔۔؟؟"

"حورب۔۔۔وٹ دا ہیل۔۔۔ جاؤ یہاں سے بیٹا گو۔۔۔"

نسواء نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی تھی۔۔حورب کو وارننگ دینے کے بعد بھی وہ آگے نہیں بڑھی تھی

"حورب بیٹا۔۔۔ا بھی آپ جاؤ ہم بعد میں بات کریں گے۔۔"

حزیفہ کو بھی اگنور کرکے وہ اپنی مدر کی جانب بڑھی تھی

"حزیفہ جو آگیا وہ واپس نہیں جا سکتا۔۔۔ ہم مجبور ہیں۔۔۔"

اور حورب کو دو لوگوں نے پکڑ کے نسواء کے ساتھ پڑی  کرسی پر زبردستی بٹھا کر باندھ دیا تھا

"چھوڑ دو میری بیٹی کو۔۔۔حزیفہ۔۔"

پر حزیفہ خاموش کھڑا سب دیکھتا رہ گیا تھا۔۔۔

"ایم سوری نسواء۔۔ اگر آپ سائن نہیں کریں گی تو میں کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔"

اور وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

"ہاہاہاہاہا۔۔۔ویل ویل ویل۔۔۔نسواء۔۔۔ نسواء بھابھی۔۔؟؟ کس سائیڈ سے کہوں۔۔؟؟

نجیب یا حزیفہ۔۔؟؟ میرے دونوں ہی بھائیوں کو دیوانہ بنا کر رکھ دیا۔۔ اور افسوس۔۔

اب دونوں ہی تمہیں حاصل نہیں کر پائیں گے۔۔۔"

اس نے گن نکالی تھی۔۔۔

"سر حزیفہ سر نے کیا کہا تھا۔۔ ہم انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے۔۔۔"

"یو ایڈیٹ۔۔۔ ہم نے کہاں نقصان پہنچایا۔۔؟؟ دونوں ماں بیٹی ہمیں مار کر بھاگنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔ہمارے دو لوگوں کو گھائل کردیا۔۔"

"پر سر ہم تو ٹھیک ہیں۔۔"

ظہیر نے دو لوگوں کو شوٹ کیا تھا حورب جلدی سے اپنی والدہ کی طرف جھکی تھی اور نسواء کی کوشش تھی اپنی بیٹی کو بچانے کی عین اسی وقت نجیب وہاں شہاب کے ساتھ آپہنچا تھا۔۔

آتے ہی اس نے ظہیر کے گن پکڑے ہاتھ پر فائر کیا تھا۔۔۔

اسکے بعد جو ہوا وہ ایک طوفان جیسا تھا۔۔۔

"تم ان دونوں کے ہاتھ کھول کر لے جاؤ یہاں سے۔۔میں دیکھتا ہوں اس بےغیرت کو۔۔"

نجیب نے شہاب کو دوسری طرف دھکا دیا تھا۔۔ اور خود  ظہیر کے پیچھے بھاگا تھا

۔

"آپ دونوں جلدی چلیں میرے ساتھ۔۔"

حورب اور نسواء کے ہاتھ کھولتے ہی شہاب نے کہا تھا۔۔۔ پر وہ ماں بیٹی باہر جانے کے بجائے اسی سمت جانے لگی تھی جہاں نجیب گیا تھا

"وہاں نہیں جانا۔۔۔ باہر جانا ہے چلیں۔۔۔"

"ڈیڈ اندر ہیں۔۔۔ تم ماما کو لیکر جاؤ میں ابھی آئی۔۔۔"

"اننف حورب تم باہر جاؤ میں لیکر آتی ہوں نجیب کو باہر۔۔۔"

"تم دونوں ابھی تک گئی نہیں۔۔؟ اور تم۔۔ میں تمہیں جتنا سمجھدار سمجھ رہا تھا تم اتنے ہی بیوقوف نکلے۔۔۔"

نجیب گن کو ویسٹ پر رکھے نسواء اور حورب کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گیا تھا اور شہاب وہیں اپنے آپ کو دیکھتا رہ گیا۔۔

"کیا فیملی ہے۔۔۔ ایک تو اتنا خطرہ موڑ لیا اوپر سے باپ بیٹی مجھے سنا رہے حد ہوگئی۔۔۔"

پیچھے سے گولی چلنے کی آواز سن کر وہ بھی باہر کی طرف بھاگا تھا

۔

"ابھی یہاں سے چلو باقی باتیں گھر چل کر ہوں گی۔۔"

نجیب نے گاڑی سٹارٹ کردی تھی بیک سیٹ پر شہاب اور حورب جیسے ہی بیٹھے تھے نسواء نے اپنے دوپٹے کو فولڈ کرکے نجیب کی کمر کے ساتھ لگا دیا تھا

"ہم گھر نہیں سیدھا ہاسپٹل جارہے ہیں تمہارے ڈیڈ کو چوٹ لگی ہے۔۔"

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔ نسواء۔۔ بس ہلکی سی خراش ہے۔۔ پلیز چھوڑ دیں۔۔"

انکے لہجے میں اب بےرخی تھی جب نسواء کا ہاتھ پیچھے کیا تھا انہوں نے۔۔۔

"ضد مت کریں نجیب۔۔۔"

"اب تو ضد کرنا چھوڑی ہے نسواء۔۔۔"

"تو چلیں ہاسپٹل اگر ضد نہیں کررہے تو۔۔۔"

پیچھے بیٹھے وہ دو لوگ کبھی گردن گھما کر نسواء کو دیکھ رہے تھے تو کبھی نجیب کو۔۔۔

"مجھے تو لگا تھا یہ دونوں الگ ہیں۔۔۔ پر یہ تو پکے پکے خوشگوار شادی شدہ جوڑے کی طرح لڑ رہے۔۔۔"

"شٹ اپ۔۔۔"

"اوکے۔۔۔"

شہاب نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔۔

"میں نہیں جارہا۔۔ تم دونوں گھر جارہے اور میں۔۔"

"اور آپ ہمارے ساتھ گھر جارہے ہیں۔۔۔"

"پر حورب انہیں چوٹ آئی ہے۔۔"

"اور میں ڈاکٹر ہوں موم۔۔۔ گھر میں بھی علاج کرسکتی ہوں۔۔۔ ڈونٹ ورری دو دو انجیکشن لگاؤں گی۔۔۔"

ماں کا موڈ چینج کرنے کی کوشش کی تھی پر نسواء تو نجیب کے چہرے کو دیکھتی رہ گئی جس نے ایک بار بھی نسواء کی آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔

میری بیٹی سے دور رہو۔۔ اگر تمہارے ارادے برے ہیں تو یاد رکھنا میں تمہیں پوری طرح برباد کردوں گا۔۔"

"آپ اس پوزیشن پر نہیں ہیں مسٹر نجیب ۔۔ لک سر آپ کی یہاں ویلیو وہ نہیں ہے کہ آپ مجھے آرڈر دہ سکیں۔۔ حورب کے لیے تو آپ نام کے باپ ہیں ۔۔

آپ کی کسی بات سے میرے اور اسکے رشتے پر۔۔"

"ہاؤ ڈیرھ یو۔۔۔ میرے پاپا سے اس طرح بات کرنے کی ہمت کیسے ہوئی شہاب۔۔"

شہاب کو دو قدم دور کردیا تھا نجیب سے۔۔ شاید اتنے غصے میں پہلی بار دیکھا تھا اسے کسی نے بھی

"حورب میں تو وہی کہہ رہا جو میں نے سنا۔۔ انکیشہا کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔"

"جتنی میری ماں کی اہمیت میری زندگی میں ہے اتنی ہی میرے ڈیڈ کی بھی ہے سنا تم نے۔۔

اگر انہوں نے تمہیں ناپسند کردیا تو سمجھ لو میں نے کردیا۔۔اب کل جاؤ یہاں سے۔۔ آؤٹ۔۔"

شہاب کو بازو سے پکڑ کر وہ دروازے کے باہر چھوڑ کر آئی اور دروازہ جونہی اسکے منہ پر بند

کیا تو سامنے نسواء کھڑی تھی جس کے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس تھا۔۔۔

"نجیب کو روم میں لے جاؤ۔۔۔"

"چلیں ڈیڈ۔۔۔"

حورب نسواء کو درگزر کرکے جیسے ہی نجیب کو سٹیرز کی طرف لے جانے لگی تھی نسواء نے پھر اسے پکارا تھا

"تمہارا روم اس طرف ہے حورب بیٹا۔۔"

"میں ڈیڈ کو آپ کے بیڈروم میں لیکر جارہی ہوں موم۔۔۔ پلیز۔۔ میں نہیں چاہتی کوئی بھی باہر والا منہ اٹھا کر ٹکے ٹکے کی باتیں کریں میرے ماں باپ ے رشتے پر۔۔۔"

پہلی بار نجیب نے آنکھیں اٹھا نسواء کی آنکھوں میں دیکھا تھا جو نظریں چرا کر کچن میں چلی گئی تھی

۔

کچن میں جاتے ہی دونوں ہاتھ کاؤنٹر پر رکھ کر سر جھکا لیا تھا

"کیوں آج میں قصوروار ہورہی ہوں حورب کی نظروں میں۔۔ اور وہ شخص جس نے میری جوانی میری شادی میرا سب کچھ چھین لیا وہ اچھا ہوگیا۔۔

کیونکہ ایک معافی مانگ لی تھی بس اب بیوی پر فرض ہوگیا ہے معاف کرنا۔۔؟"

آنکھوں سے آنسو صاف کئیے وہ پانی کی بوتل فریج سے نکالے گیسٹ روم میں چلی گئی تھی

۔

وہ اس شخص پر غصہ تھی غصہ اسے اپنی بیٹی پر بھی تھا۔۔

اور ان حالات پر بھی جن میں زندگی اسے لے آئی تھی۔۔

نہ وہ اس سے نفرت کرپارہی تھی نہ ہی اسے معاف کرپارہی تھی۔۔

پر آج جو کچھ نجیب نے اسکے لیے اسکی بیٹی کے لیے کیا کچھ تو بدل گیا تھا۔۔

گیسٹ روم میں آدھا گھنٹہ چکر کاٹنے کے بعد وہ فائننلی واپس کچن میں چلی گئی تھی۔۔

ملازمہ سے کھانے کی ٹرے میں فروٹس لیکر واپس روم میں لے گئی تھی پر اس بار اپنے بیڈروم میں گئی تھی۔۔۔

"موم ۔۔ڈیڈ کویہ میڈیسن ابھی دہ دیں اور یہ۔۔"

"صبح ہاسپٹل نہیں جانا۔۔؟؟ جاؤ روم میں۔۔ سو جاؤ۔۔ میں کرلوں گی مینیج۔۔"

اس کی بات نے حورب کو شاک کردیا تھا۔۔۔

"اٹس اوکے بیٹا میں جانے لگا ہوں گھرمیں سب پریشان ہورہے ہوں گے۔۔"

"بیوی کے پریشان ہونے کا بہت احساس ہورہا ہے مسٹر نجیب۔۔؟؟ میں بھی دیکھتی ہوں کیسے جاکر دیکھاتے ہیں۔۔"

ٹرے کو نجیب کر سامنے زور سے رکھا تھا جس پر باپ بیٹی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا

"میں ۔۔۔ میں جارہی ہوں گڈ نائٹ۔۔۔"

حورب جلدی جلدی سے دروازے تک ہی گئی تھی جب والد کی آواز نے اسے روک دیا

"میں اسے طلاق دہ چکا ہوں نسواء۔۔ وہ آخری عورت ہوگی جس کی فکر مجھے ہوگی۔۔

یہ آپ بھی جانتی ہیں۔۔ میں یہاں رک کر آپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتا جبکہ میں جان چکا ہوں آپ ڈائیورس لے کر حزیفہ سے شادی کرنا چاہتی تھی۔۔۔"

"شٹ اپ۔۔۔ جسٹ شٹ اپ۔۔ آپ کی یہی آدھی ادھورہی جانکاری اپنی فکر اپنے آپ کا آگے رکھنا باقی جائیں بھاڑ میں انہیں باتوں نے زندگی عذاب بنا کر رکھ دی میری۔۔۔"

"موم آہستہ ڈیڈ کو چوٹ۔۔"

"یو۔۔۔ڈاکٹر حورب۔۔ ابھی ایک سیکنڈ میں اپنے روم میں جاؤ۔۔اور۔۔"

حورب نے دونوں کان پکڑ کر نجیب کو دیکھا تھا اور جلدی سے چلی گئی تھی روم سے۔۔

۔

"اینڈ یو۔۔ختم کریں یہ۔۔"

"نسواء۔۔۔اگر خیال کرنا ہے تو ٹھیک سے کریں۔۔ میرے بازو میں درد ہے میں ٹھیک سے نہیں کھا سکتا۔۔ سو۔۔۔"

نجیب معصوم سی شکل بنا کر بیٹھا تو نسواء بھی پاس بیٹھ گئی تھی خاموشی سے۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"منیشہ۔۔۔ منیشہ۔۔۔منشیہ۔۔۔"

وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تھا اپنے روم کی طرف گیا تھا

"ماہیر بیٹا۔۔۔ کیا ہوا ایسے ہانپتے ہوئے کیوں آرہے ہو۔۔؟"

"ابھی کوئی سوال نہ پوچھیں منیشہ کہاں ہے وہ کب آئی۔۔؟وہ۔۔ چھوڑیں میں خود دیکھتا ہوں۔۔ منیشہ۔۔"

ایک ساتھ دو تین سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ اپور تک پہنچا تھا

"یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے باپ بیٹے نے۔۔؟؟ ایک نے بیوی کو طلاق دہ کر گھر سے نکال دیا

اور بیٹا بیوی کے ساتھ گھر گیا تھا اب اکیلا آکر گھر والوں سےپوچھ رہا۔۔"

آفندی صاح﷽ کی گونجتی ہوئی آواز نے ماہیر پر ایک قیامت گرا دی تھی

۔

"منیشہ۔۔۔؟؟ وہ گھر نہیں آئی۔۔؟؟ اور موم۔۔۔وہ۔۔۔"

ایک جھٹکے سے وہ پیچھے گرا تھا۔۔ آنکھوں سے پانی کے قطرے نم کر گئے تھے اسکے چہرے کو۔۔

"منیشہ کہاں گئی اگر گھر نہیں آئی تو۔۔؟؟ ڈیڈ کہاں ہیں۔۔وہ۔۔ میں جانتا ہوں وہ کہاں ہوگی۔۔۔"

ماہیر چہرہ صاف کرکے اٹھا تھا جیسے ہی دروازے کی طرف جانے لگا تھا دادی نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا

"منیشہ تمہارے ساتھ گئی تھی۔۔ تم اکیلے آئے ہو اس حالت میں۔۔ وہ بچی کہاں ہے۔۔؟

کیا لڑائی ہوئی تم دونوں میں۔۔؟؟"

"دادی۔۔مجھ سے۔۔۔ گناہ ہوگیا ہے۔۔ میں۔۔ منیشہ کے بغیر ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا میں۔۔مجھے جانا ہوگا۔۔"

ہاتھ چھڑا کر وہ وہاں سے سیدھا منیشہ کے اپارٹمنٹ کی طرف گیا تھا۔۔۔

جہاں اسے سوائے مایوسی کے اور کچھ نہ ملا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

دوائی کھا لیں۔۔ پھر آرام بھی کرنا ہے۔۔آپ۔۔"

"نسواء۔۔یہاں میرے پاس بیٹھ جائیں۔۔"

"نجیب۔۔۔"

"شاید یہ آخری بار ہو۔۔ میں بہت تھک چکا ہوں اس بھاگ دوڑ سے۔۔"

"اتنی جلدی تھک گئے۔۔؟؟ اتنے سال سے جس اذیت سے میں گزر رہی اس سے آپ چند دن چند ماہ نہ گزار سکے۔۔؟"

"یہاں بیٹھیں نسواء۔۔۔" 

نجیب کی آواز سخت ہوئی تو نسواء کے تیور بھی بدل گئے اب کے وہ کمرہ چھوڑ کر جانے والی تھی جب بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور نسواء بیڈ پر بیٹھنے کے بجائے نجیب کے اوپر آگری تھی۔۔

"نجیب۔۔۔"

"شش۔۔۔یہ تو دیکھ لیا کہ کچھ دن اذیت برداشت کی پر یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے جانے کے بعد کب اور کہاں اذیت میں نہیں رہا میں۔۔؟؟"

۔

"نجیب آپ۔۔۔"

"نسواء۔۔ میں گناہ گار ہوں جانتا ہوں میں نے دوسری شادی کرکے اپنی بیوی کی محبت ہی نہیں اسکےسارے خواب سارے ارمان مار ڈالے۔۔ اور میں جانتا ہوں معافی سے کچھ زیادہ نہیں ہوگا۔۔

ساری زندگی تو چلی گئی اب کیا رہ گیا۔۔؟؟ پر جو رہ گیا ہے میرے لیے وہی کافی ہے۔۔

میں جانتا ہوں حورب کے رویے نے آپ کو تکلیف پہنچائی۔۔ پر خدا جانتا ہے میں یہ سب نہیں چاہتا تھا۔۔آپ۔۔"

"نجیب۔۔ ابھی آرام کریں۔۔۔"

"میرے پاس لیٹ جائیں مجھے سکون کی نیند آجائے گی۔۔"

"نجیب۔۔۔"

نسواء کی ویسٹ پر انکی پکڑ مضبوط ہوئی تھی۔۔

"مجھے جانا ہے رات بہت ہوگئی ہے نجیب۔۔"

"کہاں جانا ہ۔۔؟؟ روم تو یہی ہے نہ۔۔؟؟"

نسواء کے پاس کوئی بہانہ باقی نہ رہا تھا جب نجیب نے اسکے ماتھے پر بوسہ دے کر خود کو پیچھے کرکے نسواء کے لیے بیڈ پر جگہ بنا دی تھی

"نجیب۔۔۔"

"گڈ نائٹ۔۔۔"

وہ کروٹ لیکر دیوار کی طرف منہ کرکے آنکھیں بند کرچکی تھی۔۔

"سب باتیں  بتا دی کیا یہ بتایا تھا کہ آپ کے جانے کے بعد ایک رات بھی سکون کی نہیں سویا تھا میں۔۔؟؟"

کندھے سے بالوں کو پیچھے کئیے نسواء کی گردن میں منہ چھپائے سرگوشی کی تھی نجیب نے۔۔

"مجھے یقین نہیں رہا نجیب سب باتوں پر۔۔"

"ہمم یہ تو ہے۔۔۔ میں یقین کے قابل نہیں ایسا مرد کیسے یقین کے قابل ہوسکتا جو بیوی کے ہوتے ہوئے آفئیر چلائے جو محبت کے باوجود ایک دوسری عورت لے آئے۔۔

یقین آنا بھی نہیں طاہیے نسواء۔۔ پر میں نے صرف آپ سے محبت کی تھی۔۔۔اور کرتا رہوں گا۔۔"

اس بار نسواء نے پلٹ کر نجیب کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"محبت کرنے والے اتنے ظالم کیوں ہوتے ہیں نجیب۔۔؟؟ محبت بھی کرتے ہیں اور درد بھی دیتے ہیں۔۔؟؟

محبت کرنے والے دغا کیوں کرتے ہیں نجیب۔۔؟"

نجیب کے چہرے پر جیسے ہی ہاتھ رکھے تھے نجیب کی انگلیوں نے اسکی آنکھوں کے آنسو صاف کئیے تھے

چہرے کے درمیان وہ تھوڑا سا فاصلہ بھی نجیب نے کم کردیا تھا

"جو محبت میں دغا کرتے ہیں ان کا انجام بھی تو مجھ جیسا ہوتا ہے نہ۔۔؟؟

تنہا ئی اکیلا پن نہ بیوی نہ محبت نہ اولاد۔۔میں۔۔۔ کچھ بھی نہیں رہا نسواء۔۔ شاید ہی طلاق تک سروائیو کرپاؤں۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ طلاق سے پہلے بیوہ ہو۔۔"

نسواء نے بےتحاشہ تلخ بولتے ہوئے ان ہونٹوں کو خاموش کردیا تھا اپنے لبوں سے۔۔

پھر اس کمرے میں کافی دیر تک انکی سانسوں کی سرگوشیاں گونجتی رہی تھی۔۔۔

وہ جو گمراہی کے بعد ایک ہوئے تھے۔۔۔ وہ جو آج جدائیوں کے بعد ملے تھے۔۔

۔

نسواء کے آنسوؤں نے نجیب کی سرگوشیاں نے روم ٹمپریچر کو اور ہائی کردیا تھا ۔۔۔

ان خوبصورت لمحات کی خاموشی نے انہیں آنے والے طوفان کا واضح پیغام پہنچا دیا تھا۔۔۔

کچھ ہفتے بعد۔۔۔۔

"ماہیر آفندی باہر نکل گھٹیا شخص باہر آ۔۔۔"

دروازہ اتنی زور سے کھلا تھا کہ دور پڑے ٹیبل کے گلدان نیچے گر گئے تھے

"مننان تم یہاں اتنی صبح۔۔ تم تو میٹنگ پر گئے تھے لندن۔۔"

شزا کے ہاتھ کرپیچھے جھٹکے وہ ہر کسی کو اگنور کرکے ماہیر ک روم کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

"نجیب کو بلاؤ فورا۔۔ سیکیورٹی بلائیں۔۔۔"

آفندی صاحب ک کہنے پر نجیب کے روم کی طرف گئی تھی فضا۔۔ اور اتنی ہی دیر لگی تھی مننان کو جو ماہیر کو مکے مارتے ہوئے اوپر سیڑھیوں سے نیچے پھینک چکا تھا

"ماہیر۔۔۔ یا اللہ۔۔ ماہیر بیٹا۔۔۔ اے لڑکے وہیں رک جا ورنہ پولیس کو بلا لوں گا۔۔"

"بلائیں پولیس کو۔۔۔ اسے میں جان سے مار کر جاؤں گا۔۔"

ماہیر کو گریبان سے پکڑ کر اس نے پھر شیشے کے ٹیبل پر پھینکا تھا

اسکے سر سے چہرے سے خون نکلنا شرو ہوچکا تھا۔۔

"مننان۔۔ مننان بیٹا۔۔۔"

"مننان پلیز رک جاؤ۔۔۔"

منان نے لیزا کو دھکا دیا تھا۔۔۔ جو نیچے گرنے ہی لگی تھی جب نجیب نے اپنی بھانجی کو سہارا دیا۔۔ اور غصے سے مننان کو دیکھا۔۔

"مننان یہ سب کیا ہورہا ہے۔۔ ماہیر۔۔"

اس سے کیا پوچھ رہیں ہیں مسٹر نجیب پوچھیں اس نے کیا غل کھلائیں ہیں کیا گناہ کرکے آیا ہے۔۔

آج اسکی وجہ سے منیشہ زندگی اور موت کی کشمکش میں جونچ رہی ہے اس بےغیرت کی وجہ سے۔۔"

"منیشہ۔۔۔ منیشہ کہاں ہے پلیز مجھے اسکے پاس لے چلو۔۔"

منہ سے آتے خون کو زمین پر تھوکتے ہوئے وہ مننان کے سمانے کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے جس ایک اور مکا مار کر وہی گرا دیتا ہے۔۔

"تجھے میں منیشہ سے بہت دور بھیجنے لگا ہوں۔۔ تو چاہ کر بھی واپس نہیں آسکے گا۔۔"

"اپنی گن نکال کر جیسے ہی تانی تھی نجیب صاحب اپنے بیٹے کے سامنے تھے

"مننان تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔۔ بتاؤ بات کیا۔۔اور یہ گن نیچے کرو۔۔"

"آفکورس۔ بیٹے کو ہی بچائے گے۔۔ مگر سوچا ہے وہ جو ہسپتال میں ہے وہ بھی خون ہے آپ کا۔۔

یا عادت ہوگئی ہے پیدا کرکے پھینکنے کی۔۔؟؟ بچوں کے نام پر ناجائز لیبل۔۔"

نجیب کا ہاتھ اٹھ گیا تھا۔۔

"بس کر جاؤ مننان میں پچھلے کچھ ماہ سے تمہاری ہر زیادتی ہر بدلہ برداشت کررہا ہوں۔۔

یہاں میں اس بیٹے کو نہیں تمہیں بچا رہا ہوں۔۔ تمہاری بیوی جسے تم دھکے دیتے پھر رہے ہو وہ ماں بننے والی ہے زرا سی لاپروائی تم سے تمہارا بچہ چھین سکتی ہے۔۔

اور یہ جو گن تان کرکھڑے ہو سوچا بھی ہے ان سب کا انجام کیا ہوگا۔۔"

"انجام جو بھی ہو آپ کے اس بیٹے کو مار دوں گا۔۔ اس نے جو منیشہ کے ساتھ کیا۔۔

اس کا قصور کیا تھا۔۔؟؟ بے قصور تھی وہ یو باسٹرڈ۔۔ جھوٹ بولا تھا میں نے۔"

۔

"جتنا میں ذمہ دار ہوں اتنا تم بھی ہو۔۔ میں منیشہ کو سب بتا دوں گا۔۔ پر میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔ تم نے۔۔ مجھے جیتے جی مار دیا۔۔ میرے ہاتھوں ہی میری بیوی میرا گھر تباہ کروا دیا۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔ بہت جلدی سمجھ آئی۔ اب پتہ چلا میری ماں کی تکلیف کا۔۔؟؟ ویل مسٹر ماہیر یہ شروعات۔۔"

ماہیر نے ایک مکا مننان کو مارا تھا اور ان دونوں کی لڑائی پھر سے شروع ہوگئی تھی۔۔۔ 

فضا نے ایک کال نسواء کو بھی ملا دی تھی جو مننان کو زبردستی وہاں سے لے گئی تھی۔۔

۔

"ماہیر اب بتاؤ گے یہ سب۔۔"

"ابھی نہیں ڈیڈ۔۔۔ منیشہ سے ملنا ہے ایک بار بس۔۔"

۔

نجیب کے کندھے کو چھوڑ کر اس نےکزن لیزا کی طرف دیکھا تھا

"میں بس منیشہ کو منا لوں پھر ہم مل کر تمہارے اس مغرور شوہر کو سبق سیکھائیں گے

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماں ہاتھ چھوڑ دیں۔۔۔"

"نہیں چھوڑوں گی۔۔ تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔۔ تم نے شادی کرنی تھی تم نے کی تم نےاس لڑکی کا دل توڑنا تھا تم نے توڑ دیا۔۔۔ سب کچھ تو کرلیا۔۔ اب کیوں تماشا بنا رہے ہو میری تربیت کا۔۔؟ کیوں جگ ہنسائی کروا رہے ہو کہ اکیلی ماں بیٹے کی اچھی تربیت نہ کرسکی۔۔"

باہر جاتے ہی گاڑی کی طرف دھکا دیا تھا نسواء نے۔۔ مننان کے گارڈز الرٹ ہوئے تو نسواء کی ایک ہی نظر نے انہیں بیک ہونے پر مجبور کردیا تھا

"ماں آپ سمجھ نہیں رہی منیشہ۔۔ کے ساتھ اس نے۔۔۔"

"اس نے کیا منان منیشہ کہاں ہے۔۔؟؟ تمہارے پاس کیا کررہی ہے۔۔؟؟"

"آپ نہیں جانتی۔۔۔ اس نے۔۔"

مننان کے پاس الفاظ نہیں تھے ماں کو بیان کرنے کے لیے اور نسواء نے پیسنجر سیٹ کا دروازہ اسکے اوپن کردیا تھا وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے لگی تھی جب مننان نے وہ لفظ دہرائے تھے

"اس نے فورس کیا خود کو اس پر۔۔۔ ری۔۔۔ اس نے زیادتی کی ہے ماں۔۔"

"میاں بیوی ہیں دونوں۔۔ جب تم نے اسے ٹھکرا کر کسی اور کو اس پر ترجیح دہ دی تھی تو اب کیوں ان دونوں کے رشتے کو خراب کررہے ہو مننان۔۔؟"

"ماں۔۔؟؟ مجھے یقین نہیں آرہا۔۔ آپ ۔۔ آپ سمجھ نہیں رہی منیشہ نے سوسائیڈ کرنے کی کوشش کی ۔۔۔وہ مر۔۔"

"وہ مرسکتی تھی پر مری نہیں زندہ ہے۔۔ اور مجھے سمجھ نہیں آرہا تمہارا کنسرن کون ہے۔۔؟

تم اسے زند  ہ   رکھنا چاہتے ہو تاکہ پھر کوئی تماشا لگا سکو۔۔؟

مننان 'بیٹا' بخش دو اس بیچاری کو۔۔۔ پلیز۔۔ چلو یہاں سے۔۔"

مننان کو زبردستی گاڑی میں بٹھا دیا تھا نسواء نے جو ابھی بھی شاک تھا

اس طرح کی باتوں نے اسے اس قدر ہرٹ کردیا تھا۔۔

"ماں۔۔۔"

پر اس نے میوزک آن کرکے اپنے بیٹے کو اور نیا صدمہ دہ دیا تھا

منیشہ۔۔۔ منیشہ۔۔ آنکھیں کھولو۔۔ پلیز۔۔"

سیکیورٹی کو کیسے دھوکا دہ کر ماہیر اندر روم میں داخل ہوا تھا اندر آتے ہیں لیب کوٹ اور منہ سے ماسک اتار کر دوسری طرف پھینک دیا تھا۔۔

"منیشہ۔۔۔"

منیشہ کے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگائے وہ بےتحاشہ رو دیا تھا۔۔ اس بےجان وجود سے کوئی حرکت محسوس نہیں ہورہی تھی اسے سوائے ہارٹ بیٹ کے۔۔

"منیشہ۔۔ بس ایک بار معاف کردو۔۔ میں پھر کبھی تمہارے پاس نہیں آؤں گا سب ویسے ہی چلتا رہے گا جیسے چل رہا تھا۔۔ اس رات کو۔۔۔ منیشہ مجھے اس کی بات نہیں سننی چاہیے تھی میں نے بہت بڑی غلطی کردی۔۔

تم۔۔۔معاف کردو مجھے۔۔"

"دور ہوجاؤ مجھے سے۔۔۔" مشین کی بیپ جیسے ہی تیز ہوئی منیشہ کی ٹوٹی ہوئی آواز نے ماہیر کو حیران کردیا تھا جس نے جلدی سے اپنا چہرہ صاف کرکے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔

"تم ٹھیک ہو۔۔ منیشہ۔۔ میں۔۔"

"دور ہوجاؤ۔۔۔"

وہ بہت کھانسی کرنا شروع ہوگئی تھی الارم بجنے پر ڈاکٹر اور نرس روم میں داخل ہوئے تھے

"کون ہیں آپ۔۔ ہم نے منع کیا تھا کسی کو بھی اندر انے کی اجازت نہ دی جائے۔۔"

ڈاکٹر نے نرس کو جیسے ہی ڈانٹا سیکیورٹی اندر آگئی تھی۔۔۔

"ماہیر سر۔۔ باہر چلیں۔۔"

شہریار نے باقی گارڈ کو پیچھے کیا تھا۔۔پر ماہیر تھا کہ منیشہ کی سائیڈ چھوڑنے کو  تیار نہ تھا

"منیشہ۔۔ بس ایک بار میری بات سن لو۔۔ میں کبھی اپنا چہرہ نہیں دیکھاؤں گا۔۔بس ایک بار۔۔"

اسکا ہاتھ پکڑ اسے کھینچتے ہوئے باہر لے جایا جارہا تھا جب منیشہ نے ہاتھ کے اشارے سے ان سب کو منع کیا

اور سب باہر چلے گئے تھے۔۔

"منیشہ۔۔۔"

"ماہیر۔۔ اگر تمہیں لگتا میں اس رات کے لیے تمہیں معاف کردوں گی تو تم غلط سوچ رہے ہو۔۔تم پر جتنا یقین کیا میں نے۔۔ تم نے سب کچھ ختم کردیا۔۔"

"منیشہ ایک بار میری بات۔۔"

"تم سب کا خون ایسا ہی ہے۔۔؟ ایک بھائی میرے دل میرے جذبات کے ساتھ کھیلا اور دوسرا میرے جسم کی لالچ۔۔۔

تم دونوں۔۔۔ میں اس زندگی میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔۔۔ میں واپس چلی جاؤں گی۔۔۔ تم جیسے گندے۔۔ گھٹیا لوگوں سے تم۔۔۔"

مشین پھر سے تیز ہوئی تھی اسکی سانسیں جیسے پھولنا شروع ہوئی تھی نرس جلدی سے اندر آئی تھی آکسیجن ماسک منیشہ کے منہ پر لگایا تھا۔۔

جس کی آنکھیں ماہیر کو دیکھتے ہوئے شاک سے بڑی ہوئی تھی جب ماہیر نے گن نکال کر خود پر پوائنٹ کی تھی۔۔۔

"میں نے تم سے بہت محبت کی منیشہ۔۔ میں سب چھوڑ چکا تھا۔۔میں نے یہ زندگی تمہارے ساتھ جینا تھی۔۔منیشہ۔۔ میں نے ہمارا گھر بننے کے لیے پیسے بھی جمع کئیے تھے۔۔ میں نے ایک جگہ نوکری کے لیے ایپلائی کیا تھا۔۔

میں نے دل سے دماغ سے مجھ میں جتنی ایمانداری باقی رہ گئی تھی منیشہ۔۔۔ میں نے تمہیں اور اس رشتے کو تسلیم کیا تھا۔۔

تم۔۔ اس رات کے لیے معاف نہیں کرسکتی۔۔ میں بھی کرسکتا خود کو معاف۔۔ میں نے تمہارا نہیں ہمارے اس رشتے کا پامال کیا۔۔۔ اس نشے نے ہی نہیں اس 'شخص' نے ہمارے رشتے پر گرہن لگا دیا۔۔۔ میں اسے معاف نہیں کروں گا۔۔۔

اس نے بھا۔۔۔"

اور ایک شوٹ کے بعد ہر طرف خاموشی ہوگئی تھی

"ماہیر۔۔"

آنکھیں بند کرنے سے پہلے اس نے ایک بار بولا تھا منیشہ نے۔۔۔۔

"ڈاکٹر۔۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔"

روم میں ایک طرف وہ مشین کی بیپ تھی اور دوسری طرف ڈاکٹر کی آواز

"ہی از نو مور۔۔"

"میں مرگیا ہوں نا، ،،

عشق بھی مر جائے گا"

"ایک پل کو لگا تمہیں مجھ سے چھین لیا جائے گا

ایک پل کو لگا یہ دل دھڑکتے ہو رک جائے گا

ایک پل کو میں چاہتا تھا دنیا رک جائے

اور میں تمہیں اس چھین کر لے جاؤں

ایک پل کو لگا تھا میں تمہیں کھو دوں گا۔۔۔

اور وہ اک پل بہت جان لیوا ثابت ہوا تھا۔۔۔

منیشہ۔۔۔۔"

وہ منیشہ کے سامنے گھٹنوں کے بل جیسے ہی بیٹھا تھا منیشہ کی دھڑکن رک گئی تھی۔۔۔

۔

"پھر اگر مجھے تو کبھی نہ ملے۔۔۔۔

ہمسفر تو میرا پھر بنے نہ بنے۔۔۔"

۔

"چھوٹا ہے گھر کرائے کا ہے مگر اپنا بھی ہوگا۔۔۔ مسز ماہیر۔۔کم آن۔۔۔ آجائیں۔۔"

ماہیر کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ اس نے جیسے ہی رکھا تھا ہاتھوں پر بوسہ دے کر وہ اٹھا تھا اور منیشہ کو اپنی بانہوں میں اٹھائے گھر میں داخل ہوگیا تھا۔۔۔ منیشہ کی چیخ پر وہ بھی ہنس دیا تھا۔۔

اس کا یوں بانہوں میں اٹھانا منیشہ کو حیران کرگیا تھا۔۔۔

۔

"فاصلوں سے میراا پیار ہوگا نہ کم۔۔

تو نہ ہوگا کبھی اب جُدا۔۔۔۔

دھڑکے گا تو مجھ میں سدا۔۔

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا۔۔۔"

"ماہیر نیچے اتار دو میں گر جاؤں گی۔۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔ نہیں گرنے دوں گا۔۔۔"

"ماہیر۔۔۔۔"

"ہی از نوو مور۔۔۔"

۔

"ماہیر۔۔۔۔"

۔

پورے کمرے میں ہر طرف خاموشی ملی تھی منیشہ کو۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"حورب بیٹا میں اب تھک گئی ہوں۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی اسے ہو کیا گیا ہے۔۔"

"اوہ رئیلی۔۔؟؟"

نسواء ابھی سر پکڑ کر بیٹھی تھی صوفہ پر جب لیزا نے طنزیہ انداز میں کہا تھا

"آپ ابھی جائیں یہاں سے دیکھ رہی ہیں نہ موم کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔"

"اچھی بات ہے۔۔۔ انہوں نے سب کی زندگی ڈسٹرب کردی ہے تو "

"شٹ اپ۔۔۔"

"اٹس اوکے حورب بیٹا۔۔۔میں ویسے بھی روم میں جارہی ہوں۔۔اگر وہ آئے تو اسے کہہ دینا مجھے اپنی شکل مت دیکھائے۔۔۔"

"آپ چلیں میں کھانے لیکر آتی ہوں۔۔"

لیزا کو ایک نظر غصے سے دیکھے وہ کچن میں چلی گئی تھی

"آپ کو دوبارا کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔ میں مننان کو بہت دور لے جاؤں گی یہاں سے۔۔"

نسواء درگزر کرکے اوپر سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی جب لیزا کے موبائل پر رنگ ہوئی تھی

اور اسکی ایک چیخ نے سب کو الرٹ کردیا تھا۔۔اگلے ہی لمحے وہ بےہوش ہوکر گر گئی تھی صوفہ پر۔۔۔

"لیزا۔۔۔حورب بیٹا۔۔۔ کال دا ایمبولینس۔۔۔ ۔۔ملازمہ کو بلاؤ۔۔ہم ہاسپٹل لے جاتے ہیں۔۔۔"

دو تین ملازمہ نے حورب کی مدد سے گاڑی کی بیک سیٹ پر لٹا دیا تھا لیزا کو۔۔

حورب اور نسواء اسے ہسپتال لے گئے تھے۔۔

اور ان چوبیس گھنٹو ں میں پہلی بار نسواء نے اپنے بیٹے مننان کے نمبر پر فون کیا تھا

"ماں۔۔ آپ ٹھیک ہیں۔۔؟ حورب ٹھیک ہے آپ نے اس وقت فون۔۔"

"تمہاری بیوی کو ہسپتال لے جارہے پہنچ جاؤ۔۔اگر تم اب اپنی زمہ داریوں سے بھاگے تو میں اسے اسکے ماں باپ ک گھر بھجوا دوں گی یاد رکھنا۔۔"

یہ کہتے ہی فون بند کردیا تھا اس نے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"یہ ہ تمہارے اس بیٹے کی کامیابی۔۔؟؟ ہمارا پانچواں پروجیکٹ چھین لیا ہے اس نے۔۔۔

کمپنی کے بورڈ آف ممبرز کے شئیرز خرید کر وہ ثابت کیا کرنا چاہتا ہے نجیب۔۔؟"

آفندی صاحب نے سب کے سامنے ٹیبل پر وہ پیپرز پھینکے تھے

"تو۔۔۔؟؟ بزنس مین ہے۔۔ جب میں کسی کمپنی کے شئیرز خریدتا تھا تب تو آپ ایسے نہیں کرتے تھے۔۔؟؟ شاباشی دیتے تھے مجھے۔۔ 

بزنس کا پہلا اصول ہی یہی ہے۔۔"

نجیب پانی کا گلاس اٹھانے لگے تھے جب آفندی صاحب نے ایک اور فائل پھینکی۔۔

اب کے سب اٹھ گئے تھے ڈائننگ ٹیبل سے۔۔

"تب تم غیر لوگوں کی کمپنیز فتح کرتے تھے۔۔یہ اپنوں کے ساتھ ایسا کررہا ہے۔۔

لوگ ہنس رہے ہیں نجیب اور جو تم نے اپنے بزنس پارٹنرز کو بتا دیا کہ وہ تمہارا بیٹا ہے۔۔

لوگ تمہارا مذاق اڑا رہے بول رہے ہیں بیٹا باپ کو مات دہ رہا۔۔۔"

"آپ نے کب سے مان لیا وہ بیٹا ہے میرا۔۔؟؟ جب آپ نے اسکی عزت نہیں کی تب مسئلہ نہیں تھا۔۔؟؟ اب کیوں ہورہا جب وہ عزت کروا رہا۔۔؟"

پانی کا گلاس پی کر وہ اٹھ گئے تھے۔۔

"نجیب۔۔ دیکھو۔۔ اسے کہو وہ بیٹھ کر بات کرے۔۔ وہ داماد بھی ہے اس گھر کا۔۔ میں اسے اپنا لوں گا اگر وہ یہ سب بند کردے گا معافی مانگ لے گا۔۔"

"معافی۔۔۔؟؟ ہاہاہاہاہا۔۔۔ بھول جائیں ڈیڈ۔۔ معافی کیوں مانگے وہ۔۔؟ کیا غلط کردیا۔۔؟

جو میں نے اس سے چھینا۔۔ وہ اپنی محنت سے حاصل کررہا۔۔"

"وہ کہتے ہی روم میں جانے کے لیے مڑے تھے

"وہ محنت سے حق نہیں بدلہ لے رہا ہے تم جانتے ہو تم سے بدلا لے رہا ہے وہ۔۔

اور اس جنون میں وہ سب برباد کردے گا

ہماری شان و شوکت عزت ہمارا بزنس۔۔۔اور۔۔"

"پاپا۔۔۔۔ پا۔۔۔

شزا بھاگتے ہوئے کمرے سے نیچے آئی تھی۔۔۔

"پاپا۔۔۔۔"

شزا بیٹا کیا ہوا۔۔۔"

عمارہ جلدی سے اپنی بیٹی کے پاس آئی تھی جس کا منہ آنسوؤں سے تر تھا

"وہ۔۔ ماہیر۔۔۔ ماہیر بھائی۔۔۔ پاپا۔۔ ماما۔۔۔ وہ۔۔۔"

"ماہیر کیا۔۔؟؟"

سب نے ہی ایک سوال پوچھا تھا سوائے نجیب ک جیسے انہیں ماہیر کی کسی بات سے کوئی غرض نہ ہو۔۔

"پھر کچھ کردیا۔۔؟؟ اب کونسے تھانے جا کر بیل کروانی ہوگی اسکی۔۔؟؟"

"پاپا۔۔۔؟؟"

نجیب کی بات پر شزا انکے گلے لگ گئی کر اور رونا شروع ہوئی تھی

"پاپا۔۔ اب کبھی تھانے جانا نہیں پڑے گا۔۔ ماہیر بھائی چلے گئے ہیں۔۔۔ اس دنیا سے۔۔

وہ۔۔۔"

۔

"ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ وہ تو منیشہ کے ساتھ ٹریپ پر گیا۔۔ فالتو بکواس نہیں کرو۔۔"

"موم۔۔۔ بھائی چلے گئے ہیں۔۔"

"نجیب۔۔ یہ دیکھیں کیا بکواس کررہی ہے ہمارا بیٹا ہمیں چھوڑ کر۔۔۔"

"تمہارا بیٹا۔۔۔ عمارہ۔۔ تمہارا بیٹا۔۔۔ وہ میرا بیٹا نہیں۔۔۔ تھا۔۔۔"

عمارہ کے ہاتھ کو کندھے سے پیچھے کئیے شزا کو پیچھے کئیے وہ واپس کمرے میں چلے گئے تھے

پر کمرے میں جانے سے پہلے آنکھ سے نکلے والے آنسو کو صاف کرتے ہوئے اس کمرے کو دیکھا تھا جو پچھلے چار ماہ سے بالکل بند ہوگیا تھا۔۔۔

ماہیر کا روم

۔

"نجیب آفندی۔۔ اگر یہ آپ کے بیٹے نے کیا ہوگا تو یاد رکھنا میں آپ کی اولاد کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گی۔۔۔"

وہ للکارتے ہوئے چلی گئی تھی شزا کے ساتھ۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ اندر نہیں جا سکتے سر ڈیڈ باڈی باہر آنے کا ویٹ کریں۔۔۔"

مننان کو زبردستی گارڈ نے پکڑا ہوا تھا

"ڈیم اِٹ وہاں اندر وہ اکیلی ہے مجھے دیکھنے دو اس نے کچھ نقصان نہ پہنچا دیا ہو۔۔

جانے دو۔۔"

اتنی دیر میں سٹریچر پر ماہیر کی باڈی پاس سے لے گئے تھے

وہ بےہوش ہوگئی ہیں۔۔ سر آپ اندر

نہیں جاسکتے۔۔۔"

نرس کو پیچھے دھکیل کر وہ اندر چلا گیا تھا۔۔

خون کو دیکھتے ہی تیزی سے منیشہ کے پاس گیا تھا۔۔

"منیشہ۔۔۔ تم ٹھیک ہو۔۔؟؟ تم۔۔"

"پلیز سر آپ اگر انکی فکر کرتے ہیں تو باہر چلے جائیں یہ گہرے صدمے میں انکے سامنے انکے شوہرنے خود کو شوٹ کرلیا۔۔۔آپ باہر جائیں۔۔۔"

وہ جو ماہیر پر غصہ تھا اسے لگ رہا تھا ماہیر نے پھر سے منیشہ کو نقصان پہنچانے کی مگر اب ڈاکٹر کی بات نے اسے چونکا دیا تھا۔۔

وہ جو جھکا تھا منیشہ کے ماتھے پر بوسہ دینے کے لیے وہ شوہر لفظ سن کر پیچھے ہوگیا تھا۔۔۔

ایک نظر منیشہ کے چہرے کو دیکھ کر وہ پیچھے جانے لگا تھا۔۔۔

۔

"اچھا ہوا خود مر گیا۔۔ "

اسکی بات نے ڈاکٹر کو اس نرس کو یہاں تک کہ باہر کھڑے گارڈز کو بھی ہکا بکا کردیا تھا

وہ ایسے باہر چلا گیا تھا۔۔یہ جانے بغیر کہ اسکی نفرت میں بوئے بیج مستقبل میں اسے ہی کاٹنے پڑ جانے تھے۔۔۔

آج جو زمین پر بکھرے خون کو دیکھ کر نرم نہیں پڑ ا جب آنے والے کل میں اس نے خون کے آنسو رونا تھا اور پھر کسی اپنا کا دل بھی نرم نہیں پڑنا تھا اسکے لیے۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"نجیب بیٹا۔۔۔ نیچے آجاؤ۔۔۔ وہ لوگ ماہیر کو لے آئے ہیں۔۔"

"آپ چلیں۔۔ میں آتا ہوں۔۔۔"

نسواء کی فوٹو فریم واپس ٹیبل پر رکھ دی تھی اس نے۔۔ کب رات ڈھلی کب دن ہوا اسے پتہ نہیں چلا کتنے ہی گھر کے لوگ اس کمرے میں آکر جا چکے تھے اسے بلانے کی غرض سے۔۔

اور اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کرے۔۔

ایک طرف عمارہ کا دھوکا اور ایک طرف ماہیر کی اچانک موت۔۔۔

ابھی وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب اسکے پاس آکر کوئی بیٹھ گیا ۔۔۔

اور بند آنکھوں سے بھی نجیب نے اسے پہچان لیا تھا

"نسواء۔۔۔"

"نجیب نیچے چلیں۔۔۔وہ آپ کا بیٹا۔۔۔"

"نہیں ہے۔۔ وہ بھی جان گیا تھا۔۔۔ اور میں بھی۔۔۔ میں ہمت نہیں جٹا پارہا۔۔۔

وہ میرا بیٹا نہیں تھا۔۔ نفرت کرنے لگا تھا اسکے وجود سے۔۔۔ اس عورت سے۔۔

اسکے ہر فریب سے۔۔سوچا تھا بس بہت ہوگیا اسکے واپس آتے ہی سب کو سب بتا کر

اس گھٹیا شخص کی ساری پلاننگ بتا دوں گا مگر وہ بھی نہ ہوسکا۔۔۔اور۔۔۔"

وہ بڑبڑائے جارہے تھے جب نسواء نے نجیب کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کیا تھا

"نجیب۔۔۔ اتنے سال وہ آپ کا بیٹا ہی رہا۔۔ آپ نے پالا اسے۔۔۔جوان کیا۔۔ 

اب وہ آخری سہارا چاہتا ہے۔۔ اسکے جنازے کو کندھا دہ کر وہ فرض بھی پورا کریں۔۔

میں جانتی ہوں آپ فہرے صدمے میں ہیں۔۔۔آپ۔۔۔"

نجیب اسکے گلے سے جیسے ہی لگے اسکے لب بند ہوگئے تھے

"مجھے یہی سمجھ نہیں آرہی۔۔ وہ نیچے اس شخص کو دیکھ رہا ہوں کیا ہوگیا نسواء

میرے ایک گناہ نے سب کچھ دھرم بھرم کردیا۔۔ وہ مرنے والا اسے تو زندگی میں اپنے اصل باپ کا نام نہ مل سکا۔۔آج میرے پاس موقع ہے ان لوگوں کو ذلیل کرنے کا۔۔۔

پر میں ماہیر۔۔"

"اپنے بچوں کو رسوا کردیں گے۔۔ چاہے آپ کے نہ ہوں۔۔

ہماری زندگی تو گزر گئی نجیب۔۔۔اب جو جیسے چل رہا ہے چلنے دیں۔۔۔"

نجیب کی آنکھوں سے آنسو صاف کئیے وہ کتنی دیر ان آنکھوں میں دیکھتی رہی تھی۔۔

۔

"نجیب جتنا غلط آپ نے میرے ساتھ کیا اس سے زیادہ بُرا آپ کے ساتھ ہوا۔۔

ابھی تو اس غم کو اس لیے محسوس نہیں کررہے کہ وہ آپ کا بیٹا نہیں۔۔۔

اگر ہوتا تو کیا برداشت کرپاتے۔۔؟

میں۔۔ آپ کو اس وقت اور اذیت میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی۔۔بس اتنا چاہتی ہوں۔۔

جیسے آپ نے مننان کے ساتھ کیا وہ ماہیر کے ساتھ نہ کریں نیچے چلیں اور۔۔۔"

نجیب کی آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھ وہ چپ ہوئی تھی۔۔

۔

"میرے غلط فیصلوں نے میری زندگی کو ایک دائرے میں لاکر چھوڑ دیا ہے نسواء۔۔

جب آنکھیں کھولوں تو ضمیر ملامت کرتا ہے۔۔ میں نے اپنے خون کو خود سے دور کردیا

اور دوسری کی اولاد پالتا رہ گیا۔۔۔ ابھی بھی دل ایسے ہے اور دماغ بغاوت کرنے کا کہہ رہا ہے مجھے۔۔۔"

۔

"نجیب یہاں دیکھیں میری طرف۔۔۔ وہ ابھی بھی آپ کا بیٹا ہے۔۔۔وہ۔۔"

"ماہیر۔۔۔ماہیر بیٹا آنکھیں کھولو۔۔۔"

ایک آواز نے ان دونوں کی توجہ حاصل کرلی تھی

"یہ بےغیرت یہاں کیا کررہا ہے میں آج اسے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔"

"نجیب رک جائیں۔۔۔"

مگر وہ غصے میں الماری سے اپنی گن پکڑے نیچے چلے گئے تھے۔۔۔

"ماہیر میرے بچے آنکھیں کھولو۔۔دیکھو۔۔۔"

"کونسا بیٹا۔۔۔؟؟ تیری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں داخل ہونے کی۔۔۔"

ظہیر کو کالر سے پکڑ کر اس نے دور پھینک دیا تھا اسے۔۔

"نجیب۔۔ تیری مجھ سے جو بھی دشمنی ہے ہم بعد میں کریں مجھے ابھی میرے بیٹے کو گلے لگانے دے۔۔"

ظہیر کی آواز اتنی ہلکی ہوگئی تھی جب اس نے بیٹا کہا تھا۔۔

"ظہیر۔۔ یہ تیرا بویا ہوا بیج ہے دیکھ آج تو دولت کی نشے اور بدلے کے جنون میں کہاں کھڑا ہے۔۔

اپنے بیٹے کو آخری بار گلے نہیں لگا سکتا اسکے مرنے کے بعد بھی۔۔۔

جیسے۔۔۔میں اپنے زندہ بیٹے کو۔۔"

ظہیر کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔۔

"نجیب اسے ملنے دو۔۔"

"ایک لفظ نہیں۔۔ آج شام کے بعد تمہیں بھی اس گھر میں نہ دیکھوں میں۔۔"

ظہیر کا بازو پکڑ کر وہ ہال سے لے گیا تھا۔۔سب ک روکنے کے باوجود بھی

"نجیب چھوڑ دو اسے۔۔ ماہیر اسکے بھی بچوں جیسا ہے اسکا حق ہے بچپن سے وہی تمہارے بچوں کے پاس رہا جب تم انہیں وقت نہیں دیتے تھے۔۔

"نجیب کے والد اور چچا نے اسکا راستہ روک دیا تھا۔۔

"آپ دونوں کو درمیان میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"

"بس کر جاؤ نجیب تمہارے بیٹے نے کم تماشا لگایا ہے جو تم بھی شروع ہوگئے دیکھو دنیا دیکھ رہی لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔"

"مجھے پرواہ نہیں اسے دفعہ کریں یہاں سے میرے گھر میں نظر نہ آئے۔۔۔

اور ظہیر۔۔۔ اس سے بڑی سزا کیا ہوگی۔۔؟ تم نے جو مجھ سے چھینا اللہ نے تم سے بھی چھین لیا۔۔۔ناؤ گیٹ آؤٹ۔۔۔"

"نجیب۔۔۔بس کرجائیں۔۔۔ اندر جوان بیٹے کا جنازہ پڑا ہے یہ وقت حساب برابر کرنے کا نہیں ہے سنا آپ نے۔۔"

وہ جو سب کا ہاتھ بار بار جھٹک رہا تھا نسواء کے لیے کتنا آسان تھا اس شخص کو قابو کرنا وہ کتنے لوگوں میں نجیب کا ہاتھ پکڑ کر واپس اندر لے گئی تھی عمارہ کی آنکھیں بھر گئیں تھی وہ ایک کونے پر بیٹھ گئی تھی گھٹنوں کے بل۔۔۔

"عمارہ۔۔۔"

"ظہیر۔۔۔ ہمارا۔۔بیٹا نہیں رہا۔۔ وہ چلا گیا۔۔ ظہیر۔۔۔"

ظہیر کے کندھے پر جیسے ہی سر رکھ کر وہ رونا شروع ہوئی تھی اس نے وہاں بہت لوگوں کو شاک کردیا تھا سب سے زیادہ اپنی بیٹی شزا اور اپنے سسر آفندی صاحب کو۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ہر روز اسی بات پر لڑائی ہو رہی ہے منیشہ۔۔ فار گوڈ سیک۔۔ ماضی کو بھول جاؤ ورنہ یہ تمہاری آنے والی خوشیاں نگل جائے گا۔۔"

"اب میں غلط ہوں۔۔ ہر وقت میں بیچ میں لیکر آتی ہوں اسے۔۔؟؟"

"میں نے ایسا نہیں کہا تھا۔۔۔"

"تو کیا کہا تھا ماہیر۔۔؟؟ کھانا نہیں کھاتی تو نام لیتے ہو اس کا سوتی نہیں ہون تب اسکا نام

ہر وقت تم مجھے ماضی یاد دلاتے ہو۔۔۔"

"تو کیا کروں۔۔؟؟ نہیں ہوتا برداشت شادی ہوئے ایک مہینہ ہوگیا اور تمہاری شکل ایسی ہے جیسے بیوہ ہو۔۔۔ کیا کروں تمہارے لیے۔۔؟ کیسے قابل بناؤں۔۔تم۔۔"

"السلام وعلیکم۔۔۔"

انکی اونچی آوازیں بند ہوگئیں تھی دروازے پر نسواء اور حورب کو دیکھ کر جو شاپنگ سے سیدھا یہیں آئی تھی منیشہ سے ملنے کے لیے۔۔۔

"وعلیکم سلام۔۔۔"

ماہیر کہتے ہی لیونگ روم سے چلا گیا تھا بیڈروم کی جانب۔۔

"آپ ۔۔ دونوں۔۔آئیں پلیز۔۔۔"

حورب تو منیشہ کے گلے لگی تھی پر نسواء۔۔ وہ اسکے ماتھے پر بوسہ دے کر اسی طرف بڑھی تھی جس طرف ماہیر گیا تھا۔۔۔ اور جب کمرہ پر دستک دی تو دروازہ کھل گیا تھا روم کی بکھری حالت اور کھڑکی کی طرف کھڑے ماہیر کو دیکھ کر اس نے گہرا سانس بھرا تھا

"ماہیر بیٹا۔۔۔"

"مت کہیں بیٹا مجھے بیٹا نہیں ہوں میں کسی کا۔۔۔بیٹا تو وہ ہے۔۔

جو نہ ہوکر بھی تھا۔۔اور میں ہوکر بھی نہیں۔۔نہ اپنے پالنے والے باپ کی محبت حاصل کرسکا نہ پیدا کرنے والے باپ کی۔۔۔"

"ماہیر بیٹا۔۔۔ منیشہ غلط نہیں ہے۔۔ جو بھی غلط فہمی ہے وہ مننان کی وجہ سے ہے میں معافی مانگتی ہوں۔۔"

اس سے پہلے وہ ہاتھ جوڑتی ماہیر انکے سامنے تھا۔۔

"ان سب میں اگر کوئی مظلوم ہے اگر کوئی بےگناہ ہے تو وہ آپ ہیں۔۔

میری ماں وہ شخص۔۔اور میرے ڈیڈ۔۔۔

میں بار بار ڈیڈ کہہ رہا ہوں۔۔۔پر و ڈیڈ نہیں میرے۔۔ مگر میرا غرور میرا فخر وہی رہے ہیں۔۔۔

نجیب آفندی۔۔۔"

نسواء کے ہاتھ پکڑے سر جھکا لیا تھا ماہیر نے۔۔

"منیشہ بہت اچھی لڑکی ہے میرے بیٹے یا کسی کو بھی درمیان میں آنے مت دو بیٹا۔۔

وہ اسے وقت دو۔۔ یہاں سے سب سے دور لے جاؤ کچھ وقت کے لیے۔۔ اپنا اعتماد دو اسے۔۔

اسے بھروسہ دو محبت دو۔۔"

ماہیر کے گال پر ہاتھ رکھے بہت پیار سے سمجھایا تھا نسواء نے۔۔

آج ماہیر میں اسے عمارہ کی پرچھائی نظر نہیں آرہی تھی آج اس کی آنکھوں میں نفرت نہیں تھی

بلکہ ماہیر کی آنکھوں میں وہ تنہائی دیکھ کر ہمدردی ہوئی تھی

"بس اپنے بیٹے سے کہیں دور ہوجائے میرے پاس منیشہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔۔

بچپن سے اب تک بس پیسہ ملا گھر ملا وہ عیش و عشرت ملی سوائے ڈیڈ کی محبت کے۔۔

آج عمر ک اس حصے میں پہنچ کر پتہ چلا کہ میں کون ہوں۔۔ اور میں اس حقیقت کو اپنا نہیں سکتا دنیا کے سامنے۔۔۔

بس منیشہ میری اپنی ہے۔۔ آپ پلیز بات کریں۔۔ میں منیشہ کو کھونا نہیں چاہتا۔۔۔"

"بیٹا میں۔۔"

"میں لڑائی بھی نہیں کرسکتا آپ کے بیٹے جتنا پیسے والا نہیں رہا میں چھوڑ چکا ہوں اپنے ڈیڈ کا گھر وہ آفس۔۔۔وہ پہچان۔۔"

"بس چپ کرجاؤ۔۔ میں بات کروں گی مننان سے۔۔ وہ تنگ نہیں کرے گا۔۔"

"وعدہ کیجئے۔۔۔"

"کلمہ شہادت۔۔۔۔"

نسواء اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔

چیخ و پکار میں اس بلکتی ہوئی ماں پر اسکی نظر گئی تھی جو ماہیر کا نام لے لر کر بے ہوش ہورہی تھی۔۔

جوان بیٹے کی موت کا دکھ سنتی آئی تھی آج دیکھتے ہوئے اسکا وجود کانپ گیا تھا۔۔

نجیب آفندی چاہے پتھر بنے  جنازے کو کندھا دہ رہے ہوں وہ جانتی تھی نجیب نے ان بچوں پر اپنی زندگی واری تھی نجیب چاہے مکر جائیں مگر وہ اس شخص کو جانتی تھی اسکی تکلیف نسواء کو بھی درد پہنچا رہی تھی۔۔۔

کبھی وہ روتے ہوئے ظہیر کو دیکھ رہی تھی تو کبھی وہ عمارہ کو اور پھر اپنے ہرجائی کو۔۔۔

سب کے سب خالی ہاتھ کیا حاصل ہوا آخر۔۔؟؟

کون جیتا۔۔؟؟ کون ہارا۔۔۔؟؟؟

بےوفائی کے اس کھیل میں۔۔ دوسری شادی کی ضد میں کون آباد ہوا اور کون برباد۔۔۔؟؟

"چلیں ماں ۔۔۔"

حورب  نسواء کے ہاتھ پکڑ کر انہیں سوگواروں کے درمیان سے باہر لے گئی تھی۔۔۔

"وہ نہیں آئی نہ۔۔؟ میں نے تمہیں شادی کرنے سے پہلے ہی روکا تھا نجیب بیٹا۔۔ تم نے ایک نہ سنی۔۔ دیکھو کیا ہوگیا ہے ایک بیوی کے لیے تم نے اپنے اتنے سال کے رشتے کو داؤ پر لگا دیا۔۔۔ اب بھگتو۔۔۔"

۔

"دادی کس نے کہا میں بھگتوں گا۔۔؟؟ نسواء نے غلطی کی ہے وہ بھگتے۔۔ اور شاید بھگت بھی رہی ہوگی۔۔ میں خوش ہوں۔۔ کم سے کم میرے پاس چاہنے والی بیوی ہے۔۔

اسکے پاس کون ہے۔۔؟؟"

مٹی ڈال کر وہ پیچھے ہوگیا تھا۔۔نجیب آفندی کی آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ نہیں تھا

مگر اسی کے سامنے ظہیر اس قبر کے پاس بیٹھ کر زارو قطار رو رہا تھا

۔

بھابھی وہاں ہیں۔۔؟؟ اور مننان۔۔ وہ کیسا ہے۔۔؟"

"وہ کیسا ہوگا۔۔ اپنی ماں کی طرح ناکام۔۔ جیسے وہ شادی نبھا نہ سکی۔۔"

"موم۔۔۔"

"ماں ٹھیک ہی کہہ رہی ہیں فضا۔۔"

نجیب نے ناہید کی سائیڈ لی تھی اور چائے کا سیپ بھرا تھا۔۔

"بھائی۔۔۔مننان آپ کا بیٹا ہے شو سم ریسپیکٹ۔۔"

"میں نے کونسا اسکی بےعزتی کردی۔۔؟؟ اس نے ان سالوں میں کونسی دنیا فتح کرلی ہوگی۔۔؟؟ میں جانتا ہوں۔۔ جیسے نسواء ایک بند ڈبی میں اتنے سال چھپ کربیٹھی رہی ویسے وہ بھی ہوگا۔۔ کسی چیپ سی جگہ پر ملازم۔۔۔"

نجیب کی بات نے اور شئے دہ دی تھی سب کو

"ہاہاہا ہ ہمارے ماہیر کو دیکھ لو نجیب کی چھوی ہے۔۔ باپ بیٹے ساتھ جاتے تو لوگ رک کر کر دیکھتے ہیں۔۔۔ مجھے تو شک ہے مننان میں ایک کوالٹی بھی ہوگی نجیب والی۔۔"

۔

"ماہیر میرے بچے۔۔۔اٹھو۔۔"

ظہیر کی دھارے مارتی آواز نجیب کو ماضی سے باہر لے آئی تھی۔۔

"دیکھ ظہیر اللہ کا انصاف۔۔۔ تو نے مجھ سے میرے بیوی بچوں کو دور کردیا۔۔

میرے بیٹے کے لیے میرے دل میں نفرت پیدا کی اور آج تو خود دیکھ کس مقام پر آپہنچا۔۔۔

جانتا ہے تیرے بیٹے نے جانے سے پہلے مجھے سے کیا کہا تھا۔۔؟؟"

نجیب اسکے لیول پر بیٹھ گئے تھے ظہیر کا گریبان پکڑ کر جیسے ہی جھنجھوڑا اس نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا

"تیرے بیٹے نے کہا تھا وہ تجھ سے نفرت کرتا ہے۔۔ اور وہ کبھی تیرے نام کو اپنے نام سے جوڑنا نہیں چاہے گا۔۔وہ مرتا مر جائے۔۔

وہ مجھے وہ جگہ دہ چکا تھا جو تیری تھی۔۔اب مکافات عمل پر یقین آیا۔۔؟؟"

حقارت سے اس کا گریبان چھوڑ کر وہ اٹھ گیا تھا

"تیرے اپنے خون نے کونسا تجھے اپنا لیا۔۔؟ تیرا بیٹا بھی ایسے ہی نفرت کرتا ہے نجیب۔۔

اور یہ جو جگہ خالی دیکھ رہا ہے کچھ دنوں میں اس میں تیرا بیٹا مننان ۔۔۔"

نجیب واپس پلٹا تھا اور اسے اتنے مکے اور تھپڑ مارے تھے

"تیری خواہش تیری ہی رہ جائے گی تو دیکھ میں ڈھال بن کر اپنی آخری سانس تک اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کروں گا۔۔"

وہ مارتا جارہا تھا اور ظہیر برداشت کرتا رہا۔۔

نجیب جیسے ہی وہاں سے گیا ظہیر نے موبائل سے حزیفہ کو کال ملا دی تھی

۔

"اب تمہارا لحاظ بھی نہیں کروں گا حزیفہ۔۔ میں اب ان لوگوں کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔"

۔

"ماہیر میں سب سے بدلہ لوں گا۔۔ انہیں بھی زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ماں کچھ تو کھا لیں آپ نے دوائی بھی کھانی ہے۔۔۔"

"حورب بیٹا مجھے بار بار تنگ مت کرو کہا نہ نہیں کھانا کچھ۔۔ چلی جاؤ۔۔۔"

حورب خاموشی سے جانے لگی تھی جب نسواء نے اسے آواز دی

"بیٹا۔۔ نج۔۔اپنے ڈیڈ کے نمبر پر کال کرو۔۔ پتہ کرو کہاں پر ہیں۔۔

اور پلیز وجہ مت پوچھنا۔۔ بس جو کہا وہ کرو۔۔۔"

"اگر آپ کو اتنی پرواہ ہے انکی تو آپ خود فون کیجئے انہیں موم۔۔پلیز۔۔۔"

۔

حورب چلی گئی تھی پر جانے سے پہلے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر نسواء کے بیڈ کے پاس رکھ دیا تھا۔۔

۔

"آنکھیں بند کرلی تھی اس نے دادی کے ساتھ ہوئی اسکی باتیں نسواء کو بار بار تنگ کررہی تھی۔۔۔

۔

"آج میرے نجیب کا وہ آخری سہارا بھی چھن گیا جس پر وہ غرور کرتا تھا نسواء بیٹا اب تو اسے معاف کردو۔۔میرے بچہ مر جائے گا"

"دادی یہ دن نجیب کی خوشی غمی کے لیے نہیں ہے۔۔آپ ہاتھ مت جوڑیں۔۔"

"نجیب کا گناہ اتنا بڑا تھا نسواء۔۔؟ کہ ایک بیوی اسے معاف نہیں کرسکتی۔۔؟"

"آپ دوسری بیوی ہیں نہ اس لیے۔۔ پہلی ہوتی تو معلوم ہوتا شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت سے آفئیر چلانا گناہ ہے یا غلطی۔۔۔"

۔

اپنی بات یاد آتے ہی وہ بیٹھ گئی تھی بیڈ پر۔۔۔

"نجیب۔۔۔ "

اپنے موبائل پر نمبر ڈائل کر کے کان پر موبائل جیسے ہی لگایا ایک کچھ بیل جانے کے بعد فون اٹھایا تھا نسواء نے۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

اس شخص کی بکھری ہوئی آواز نے نسواء کی آنکھیں بھی نم کردی تھی

"کہاں ہیں آپ۔۔؟؟"

نجیب نے جواب نہیں دیا تھا پر برستی بارش کی آواز نے نسواء کو اسکے سوال کا جواب دہ دیا تھا

وہ شال لپیٹے کمرے سے اور پھر گھر سے باہر نکل گئی تھی اسکے تیز قدم تیز بارش میں رکے تھے اور ایک دم سے گارڈ سر پر چھتری لیکر کھڑے تھے کچھ قدم اور چلنے پر اسکی نظر اس بنچ پر پڑی تھی جہاں وہ شخص بیٹھا ہوا نظر آیا تھا اسے۔۔

"میم۔۔۔"

"تم لوگ واپس جاؤ۔۔۔"

چھتری کو پیچھے جھٹک کر وہ پیدل چلنا شروع ہوگئی تھی سڑک کے اس جانب وہ چند قدم صدیوں جیسے تھے نسواء کے لیے۔۔۔

۔

"نجیب۔۔۔"

"نسواء۔۔۔دیکھیں نجیب آفندی۔۔۔ کبھی غرور سے بھرا بدن آج شکست کھائے وجود میں کیسے بدل گیا ہے۔۔"

وہ مکمل بھیگ چکے تھے اس بنچ پر بیٹھے بھیگ تو وہ بھی گئی تھی جب پاس آکر بیٹھی

"نسواء۔۔ میں ہمیں خوش ہوتا رہا۔۔ اپنے آپ پر غرورکرتا رہا میرے سامنے میرا غرور اللہ نے خاک میں ملا دیا۔۔

جو نعمت بیوی کی صورت مجھے ملی وہ میں نے ٹھکرا دی۔۔ آپ کو ٹھکرا دیا۔۔

نسواء۔۔۔آج خالی ہاتھ ہوں جو اپنا خون تھا اسے اپنایا نہیں اور جو نہیں تھا اسے سینے سے لگائے رکھا۔۔

یہ جان کر بھی وہ میرا خون نہیں نسواء۔۔ مجھے اسکے جانے پر بہت درد ہورہا۔۔میں۔۔"

نسواء نے نجیب کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا تھاپر وہ کسی بچے کی طرح نسواء کے گلے لگ گئے تھے

"ماہیر آپ کا خون نہیں تھا پھر بھی آپ نے دنیا کو نہیں بتایا یہ آپ کی اچھائی ہے نجیب۔۔"

"تو میں اتنا اچھا اپنے بیٹے کے ساتھ کیوں نہیں رہا نسواء۔۔؟؟ کیا گنا ہوگیا۔۔۔

نسواء۔۔۔"

ہونکوں کی لڑی بندھ گئی تھی جب آنسوؤں سے تر چہرے کو اوپر کئیے انہوں نے اپنی بیوی کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔

"نسواء۔۔ آج میں خالی ہاتھ ہوں کچھ نہی آیا۔۔ پہلی بیوی کو میں نے اس لیے زندگی س دور کردیا کہ مجھے دوسری بیوی چاہیے تھی۔۔ 

اپنی پہلی اولاد کا خوشیوں کا دشمن سمجھتا رہا جبکہ ہمارے بچے نے ہمارے رشتے کو اور مظبوط کردیا تھا۔۔۔

آپ کی محبتوں کو چاہتوں کی ناشکری کرتا رہا۔۔ سوچتا رہا بیوی ہے دوسری عورت برداشت کرلے گی۔۔۔

پر یہ احساس نہیں ہوا کہ رشتے میں تیسرا شخص برداشت نہیں ہوتا۔۔۔ چاہے مرد ہو یا عورت۔۔۔

نسواء میں آپ سے قربانی مانگتا رہا میں نے کیوں کچھ قربان نہیں کیا۔۔؟؟

میں تو محبت کرتا تھا نہ۔۔؟ کیوں سمجھ نہیں پایا کہ میری بیوی اگر میرے پاس نہیں آتی تو کوئی تو وجہ ہوگی نہ۔۔۔؟؟ نسواء۔۔ کینسر جیسی بیماری سے آپ لڑتی رہی۔۔اور میں۔۔"

نسواء کے ماتھے پر ہونٹ رکھے وہ چپ ہوگئے تھے پر انکی سسکیاں نہیں برستی بارش اور تیز ہوئی تھی

"نسواء اگر یہ نجیب آفندی کا انجام تھا تو اگر یہ میرا انجام تھا تو میں اپنے ماضی میں سب بدلنا چاہتا ہوں۔۔ ایک مرد کا ایک غلط فیصلہ کیسے خاندان برباد کردیتا ہے یہ کوئی مجھ سے پوچھے

وہ دوسری بیوی جس کے لیے میں آپ کو داؤ پر لگا آیا وہ کبھی بیوی نہ بن پائی نسواء۔۔

کبھی آپ نہیں بن پائی اور میرا بیٹا۔۔۔ مننان۔۔۔آج وہ جس حال میں ہے میں ذمہ دار ہوں۔۔میرا مننان چھوٹا سا۔۔ میری ایک توجہ کے لیے کیسے گھومتا تھا میرے سٹڈی روم کے باہر۔۔۔ آج نفرتیں کرتا پھیر رہا ہے ۔۔۔

نسواء میں نے نہ ہوکر بھی اپنے بیٹے کی زندگی میں زہر گھول دیا۔۔۔"

نسواء کی گود میں سر رکھے وہ زارو قطار رونا شروع ہوگئے تھے

"نسواء مجھے کبھی معاف نہ کرنا آپ۔۔ کبھی نہیں یہ میری سزا ہے۔۔

میرے جیسے مردوں کو یہی سزا ملنی چاہیے جو بیوی کی محبت کو گرانٹڈ لے لیتے ہیں۔۔

جو ایک نئی عورت کے لیے پورے گھر کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔۔۔

یہی سزا ہونی چاہیے مجھے تنہائی ملے یہ رسوائی ملے۔۔۔ مجھے معافی نہ ملے۔۔"

"میں نے آپ کو معاف کردیا ہے نجیب۔۔۔"

نجیب کے چہرے کو اٹھائے نسواء نے اپنے بہت پاس کرلیا تھا۔۔

"نجیب آپ کی بیوی نے اپنے ہرجائی کو معاف کردیا ہے۔ میں خود آپ کو تنہائی دوں تو دوں۔۔

پر دنیا کے درمیان آپ کو تنہا دیکھوں گی مر جاؤں گی۔۔

میں سزا دوں تو دوں پر میں ہمارے بیٹے کو حق نہیں دیتی آپ کو سزا دینے کا۔۔

میں نجیب آفندی آپ سے نفرت کروں تو کروں۔۔ پر کسی کو حق نہیں دوں گی کبھی نہیں۔۔"

نجیب کے ماتھے پر بوسہ دے کر اس نے نجیب کے سینے پر سر رکھ دیا تھا جو اپتھر بن چکا تھا۔۔۔

"نسواء آپ۔۔۔"

"کس مئ۔۔نجیب آفندی۔۔۔اس لمحے کے بعد میں ماضی کی ایک بات نہیں سننا چاہتی۔۔۔آپ میرے ہرجائی تھے آپ کی سزا جزا پر میرا حق ہے۔۔۔

آپ ٹوٹے نہیں بکھرے نہیں ہیں۔۔ میں ہوں آپ کو تھامنے کے لیے۔۔۔"

"اتنا سب ہونے کے بعد بھی نسواء۔۔؟؟"

آنکھوں سے اور آنسو آگئے تھے

"اتنا سب ہونے کے بعد بھی نجیب۔۔"

نجیب آفندی نے باقی کا فاصلہ بھی ختم کرنا چاہا تھا جب تیز بارش کے ساتھ زور کی بجلی چمکی تھی

نسواء ڈر گئی تھی۔۔اور نجیب بے ساختہ ہنس دیا تھا اور پھر ہنستے ہوئے افسردہ بھی ہوگیا تھا

"نسواء۔۔ ماہیر یہ ڈیزرو نہیں کرتا تھا وہ بدل رہا تھا اس عورت نے اس بچے کے دماغ کو پوری طرح منفی کردیا تھا۔۔۔ منیشہ کے ساتھ اس نے جو بھی کیا وہ۔۔۔"

"مننان کا ہاتھ۔۔۔"

"نہیں نسواء۔۔ مننان کا ہاتھ نہیں ہے اس میں۔۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔۔۔ میں جانتا ہوں۔۔"

نسواء اسکی آنکھوں میں مننان کے لیے یقین دیکھ کر خاموش رہ گئی تھی

"اللہ کرے مننان کا ہاتھ نہ ہو نجیب۔۔ ورنہ میں اپنے بیٹے کو کبھی معاف نہیں کرپاؤں گی"

"نسواء وہ ایسا کچھ نہیں کرسکتا ۔۔پلیز۔۔۔"

"چلیں اندر بیمار پڑ جائیں گے۔۔۔"

نجیب کی بات کو درگزر کردیا تھا اس نے اسکے دل میں شک کا بیج پہلے ہی بو دیا تھا مننان کی باتوں نے۔۔۔

نجیب جیسے  ہی اٹھے تھے اپنا ہاتھ نسواء کے سامنے رکھا تھا جسے تھامے وہ بھی اٹھ گئی تھی۔۔

ایک نئی شروعات کے لیے

انہیں کیا معلوم تھا میاں بیوی کے امتحان چاہے ختم ہوگئے ہوں مگر ماں باپ کے امتحان شروع ہوئے تھے ابھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میں اسے یہاں سے گھر شفٹ کرنا چاہتا ہوں۔۔"

"اور جو گھر میں آپ کی وائف ہیں ان کا کیا۔۔؟؟"

مننان چلتے چلتے رکا تھا

"ایکسکئیوز مئ۔۔؟؟ تم کون ہو مجھ سے سوال جواب کرنے والے۔۔؟؟

وہ میری  بیوی ہے وہ میرے گھر میں رہے ن رہے یہ میری مرضی ہے  تمہاری نہیں۔۔"

"سر میں جانتا ہوں ایک ملازم سے زیادہ میری حیثیت کچھ نہیں مگر آپ کا پرسنل اسسٹنٹ ہونے کی بناء پر میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں۔۔

مسٹر ماہیر کی دیتھ کے بعد سب بہت تکلیف میں ہیں۔

آپ کی وائف پریگننٹ بھی ہیں انہیں گھر سے نکالنے پر۔۔"

"ہاہاہاہاہا شہریار کس نے کہا میں اسے نکال رہا ہوں۔۔؟ میں تو اسے اسکے مامو نجیب آفندی ک گھر بھیج رہا ہوں۔۔

تاکہ انکی عقل بھی ٹھکانے لگے۔۔۔"

وہ جیسے ہی ہسپتال کے اس سپیشل روم میں گئے جہاں منیشہ ایڈمٹ ہے۔۔

مننان نے شہریار کو باہر رکنے کا اشارہ کیا تھا اور خود اندر چلا گیا تھا۔۔

اندر موجود ڈاکٹرز سے بات کرنے ک بعد وہ ڈاکومنٹس لیکر باہر آیا تھا

"اب میری بات دھیان سے سنو۔۔ منیشہ کے آنے سے پہلے اس گھر سے لیزا کا نام و نشاں مٹ جائے۔۔ ابھی ملازموں کو ہائیر کرو گرینڈ گیسٹ روم تیار کرواؤ۔۔ ماں اور حورب سے بھی کہہ دینا۔۔۔

میں شام تک منیشہ کو ڈسچارج کروا کر گھر لے آؤں گا۔۔"

شہریار بہت کچھ کہنا چاہتا تھا جب مننان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے ڈس مس کردیا۔۔

اور جب وہ خود اندر جانے لگا تو شہریار نے وہ ایک ہی سوال کیا

"منیشہ کو کس رشتے سے گھر لے کر جانا چاہتے ہیں۔۔؟ جب اس نے رشتہ بنانا چاہا تو آپ نے ٹھکرا دیا اور اب اسکی بہوشی میں اسے اپنے ساتھ لے جانے والے ہیں آپ۔۔؟؟

کیا کریں گے۔۔؟ شادی کریں گے۔۔؟؟ پر کیسے۔۔؟ وہ رشتے میں آپ کی بیوی کی بہن بھی لگتی ہے۔۔ اور ابھی اسکی عدت شروع ہوگئی ہے۔۔۔

میرے خیال سے اس زندگی میں اتنے گناہ بہت ہیں مننان سر۔۔ "

شہریار اسے شاک کرکے وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔

۔

"باسٹرڈ۔۔۔ حسیب۔۔۔حسیب۔۔۔ شہریار کو ابھی نوکری سے نکالو۔۔۔ اور نئے اسسٹنٹ کا انتظام کرو۔۔۔"

اس نے فورا سے فون ملا دیا تھا۔۔۔

یہ عورت اوپر تمہارے روم میں کیا کررہی ہے ظہیر۔۔؟"

"امی جان تو اور کہاں جائے گی وہ۔؟"

"کہاں جانا چاہیے اسے۔۔؟ اپنے شوہر کے جائے اپنے گھر جائے یہاں کیا کررہی ہے وہ۔۔؟

ایک کام ڈھنگ کا نہ کرسکی اب ڈرامے کررہی ہے۔۔"

انکی آواز اور اونچی ہوئی تھی ظہیر نے ملازم کو لیونگ روم  سے باہر جانے کا کہہ دیا تھا 

"امی آپ اب اس وقت یہ باتیں کررہی ہیں۔؟؟ میرے جوان بیٹے کی قبر کی مٹی بھی سوکھی نہیں ہوگی اور آپ پھر سے۔۔"

"جوان بیٹا۔۔؟؟ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہ تو نجیب آفندی کا بیٹا نہیں۔۔

اور دنیا والوں کے سامنے بھی۔۔۔ تم کون ہو۔۔؟؟ وہ کون ہے تمہارا کیا ثبوت ہے۔۔؟؟

یہ پلان تھا۔۔؟؟ اتنا گھٹیا گرا ہوا۔۔؟؟ لعنت ہے"

وہ اٹھ گئی تھی ظہیر خاموش بیٹھا دیکھتا رہ گیا تھا اپنی والدہ کو

"میرا بیٹا آپ کے اس بدلے کی بھینٹ چڑھا ہے اور اب کوئی پیٹھ پیچھے وار نہیں ہوگا میں اب سامنے سے برباد کروں گا مننان کو اس کے خاندان کو۔۔"

"آپ اسکو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے بھائی۔۔"

وہ جو ایک جگہ خاموش بیٹھا ہوا تھا بلآخر بول ہی پڑا۔۔

"بس حزیفہ بس۔۔ ایک لفظ نہیں ورنہ۔۔"

وہ دونوں بھائی جیسے ہی آمنے سامنے ہوئے بلقیس بیگم دیکھتی رہ گئی تھی

"ورنہ کیا۔۔؟ اپنا بیٹا اپنی کرتوں کی وجہ سے گیا ہے ،مننان کی کیا غلطی ہے۔۔؟؟

شرابی کہیں کا کہیں پی کر۔۔۔"

حزیفہ کو ایک ہی تھپڑ مارا تھا ظہیر نے جس پر حزیفہ نے گریبان پکڑ لیا تھا۔۔

"جس مننان کی طرف داری تم کررہے ہو حزیفہ وہ کوئی دودھ کا دھلا ہوا نہیں۔۔

پچھاڑ کر رکھ دیا اس نے ہم سب کو۔۔ نجیب آفندی کے بزنس کو کہاں سے کہاں لے آیا۔۔

اس گھر میں کیسے داخل ہوا نجیب کی بھانجی سے محبت اور پھر شادی کرلی۔۔

منیشہ کو تکلیف پہنچائی نجیب کو ڈائیریکٹ کیا میسج دیا اس نے۔۔؟؟ ابھی بھی تم کہتے ہو مننان کو کچھ نہ کہوں۔۔؟؟ میں تو اسے جان سے مار دوں گا۔۔"

اپنے گریبان سے  حزیفہ کے ہاتھ جھٹک دئیے تھے ظہیر نے۔۔۔

"آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔"

"بس کرجاؤ ظہیر حزیفہ۔۔ بس کرو۔۔"

مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں بھائی ایک دوسرے کو مارنا شروع ہوئے تھے کہ وہ خاتون حیرانگی سے دیکھتی رہ گئی تھی

"آج اتنے سال کے بعد جب ہم اپنی منزل کے اتنا قریب ہیں تو تم دونوں ایک دوسرے کی جان کے در پہ ہو۔۔؟

حزیفہ مت بھولو نسواء نے کیا کیا تمہارے ساتھ۔۔۔"

"میں کچھ نہیں بھولا۔۔ میں دوں گا سزا اسے۔۔ مگر ایک بار اسےمیرا ہونے تو دیں۔۔ میں ہار تسلیم نہیں کرسکتا ہوں۔۔

میں اس بار کوئی رسک نہیں لوں گا۔۔۔"

وہ تیز قدموں س نکل گیا تھا گھر سے۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"یہ لیجئے جلدی سے کپڑے چینج کریں میں گرما گرم سوپ لیکر آئی۔۔"

وہ دونوں جیسے ہی گھر میں داخل ہوے حورب نے دونوں کے ہاتھ میں ایک ایک ٹاول تھمادیا تھا اور بنا کچھ سوال پوچھے واپس کچن میں چلی گئی تھی۔۔۔

"نسواء۔۔۔ اوپر سیدھا جاکر لیفٹ روم ۔۔۔"

"گیسٹ روم۔۔؟؟

"میرا بیڈروم ہے۔۔۔"

"اوووہ۔۔۔۔"

نجیب نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا۔۔۔

"نجیب۔۔۔"

"ایک پل کو لگا آپ پھر سے وقت مانگے گی۔۔۔نسواء میں۔۔۔"

نسواء نے جیسے ہی نجیب کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا تھا نجیب نے اسکی ویسٹ پر ہاتھ رکھ کر باقی کا فاصلہ بھی ختم کردیا تھا اسے اپنے اتنا قریب کرلیا تھا۔۔

"آہم۔۔۔۔ آپ دونوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک جوان بیٹی ہے۔۔۔ بیشک میں ڈاکٹر ہوں۔۔ مگر گھر سے باہر۔۔۔ گھر میں مجھے معصوم اور جھلی سمجھا جائے۔۔۔ میرے سامنے ایسے سینسر والے سین نہ کئیے جائیں میں۔۔۔"

نسواء نجیب کو اوپر بھیج رہی تھی۔۔حورب کی ٹیزنگ سن کر خود اوپر کی جانب بھاگ گئی تھی۔۔

"ہاہاہاہاہا موم آہستہ سے گر جائیں گی۔۔۔ اب کے ڈیڈ کی محبت میں نہیں سیڑھیوں سے۔۔"

"ہاہاہا۔۔۔"

"میں۔۔۔"

آپ بھی جائیں میں روم میں کھانا لاتی ہوں۔۔۔"

"بیٹا میں۔۔۔"

"ابھی نہیں۔۔ آپ موم کو خوش رکھیں ہم سب بھی خوش رہیں گے۔۔۔

اور زندگی پڑی ہے اب تو ان باتوں کے لیے گلے شکووں کے لیے۔۔۔"

حورب کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہی وہ آگے جھکے تھے اسکے سر پر بوسہ دینے کے بعد وہ اوپر چلے گئے تھے۔۔۔۔

۔

"ابھی بہت لمبا سفر پڑا ہے بابا۔۔۔ موم وہ واحد نہیں تھی جن کا دل توڑا۔۔ مننان بھائی بھی ہیں جن کو اپنانا ہے آپ نے پھر سے۔۔۔"

۔

۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کچھ ماہ بعد۔۔۔۔"

۔

"تم کس کردار کی لڑکی نکلی منیشہ۔۔؟ میرا بھائی تم پر جان دیتا تھا اور آخر کار مر گیا۔۔

مار ڈالا تم نے اور تمہارے یار نے۔۔"

"بس بکواس بند کرو اپنی۔۔ گارڈ۔۔سیکیورٹی۔۔۔"

مننان نے منیشہ کو اپنے پیچھے کردیا تھا اور خود فضا کے سامنے کھڑا ہوا تو بجائے ڈرنے کے اسکی آواز اور تیز ہوگئی تھی۔۔

"تم جانتی بھی ہو تمہارے بھائی نے کیا کیا میرے ساتھ۔۔؟؟ وہ جانور تھا۔۔ وہ ایک ڈھونگ کررہا تھا ماہیر ایک جھوٹ تھا ایک فراڈ۔۔۔"

"منیشہ بیٹا۔۔۔"

نسواء نے جلدی سے منیشہ کو سہارا دیتے ہوئے صوفہ پر بٹھایا تھا۔۔۔

سب میں اگر کوئی چپ تھا وہ نجیب آفندی۔۔

"جھوٹ۔۔؟؟ میرے بھائی کا سچ جان کر تم نے مرجانا ہے منیشہ۔۔ وہ سچا تھا۔۔

اسے جانور کس نے بنایا۔۔؟ تمہارے اس سو کالڈ مننان نے۔۔ جس نے کیا کچھ نہیں کہا تھا۔۔

جانتی ہو۔۔، ماہیر کو کیا کہا تھا۔۔؟؟ تم میں سننے کی ہمت ہے۔۔"

فضا کی بات پر مننان نے گھبراتے ہوئے اپنے گارڈز کو دیکھا تھا جو جلدی سے بازو سے پکڑتے ہوئے اسے باہر کی طرف گھسیٹنے لگے تھے۔۔۔

"لے جاؤ اور میری پراپرٹی۔۔"

"اس نے ماہیر بھائی سے کہا تھا کہ تم شادی سے پہلے اس کے ساتھ راتیں گزار چکی ہو۔۔

اس نے تصویریں دیکھائی تھی۔۔۔

اس نے میرے بھائی کو جانور بننے پر مجبور کیا۔۔۔ منیشہ۔۔ جس کے گھر میں تم نے پناہ لی ہوئی ہے۔۔ یہ مجرم ہے۔۔ میرے بھائی نے اپنے گناہ کی سزا دہ دی خود کو مار کر۔۔

اب اسکی سزا کیاہے۔۔؟؟

یہاں اس گھر میں ایک گھر آباد ہے۔۔

سب خوش ہیں۔۔۔ ڈیڈ آپ۔۔۔ کیوں خوشیاں منا رہے ہیں آپ۔۔۔؟؟

منیشہ۔۔۔ یہ شخص مننان نجیب آفندی۔۔ اس نے خوب بدلہ لیا۔۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس سے بچاتا رہا میرا بھائی تمہیں۔۔

اس نے تمہیں ٹھکرایا۔۔ پھر برباد کیا۔۔ اور اب مسیحا بن رہا تمہارا۔۔۔؟؟

پوچھو جس شخص کا ذکر ماہیر بھائی نے کیا تھا وہ کون تھا۔۔؟؟

کون تھا اس ہوٹل میں۔۔ کس سے ملنے گئے تھے ماہیر بھائی۔۔۔"

اسکی آوازیں گونجنے لگی تھی اسے تو سیکیورٹی باہر لے گئی تھی مگر آوازیں اب بھی اندر آرہی تھی۔۔۔

۔

"مننان بیٹا۔۔۔"

"رک جائیں نجیب۔۔ آج اس نے سب حدیں پار کردی یہ۔۔۔"

"کیا یہ سچ ہے۔۔؟؟"

"منیشہ نے سرگوشی کی تھی۔۔۔

"منیشہ میری بات سنو۔۔۔"

"کب گزاری تھی راتیں تمہارے ساتھ۔۔؟؟ کب حرام رشتے باندھے تھے میں نے جواب دو۔۔۔"

مننان کا گریبان جیسے ہی پکڑا تھا نسواء نے مایوسی دیکھا تھا اپنے بیٹے کو اور اوپر روم میں چلی گئی تھی۔۔۔

جانے سے پہلے تھپڑ کی گونج انہیں سنائی ضرور دی تھی۔۔

آنکھوں سے آنسو صاف کرتے وہ باقی کی سیڑھیوں کو بھی ختم کرچکی تھی

"میری تربیت ہار گئی۔۔۔"

۔

"منیشہ میری بات۔۔۔"

"میں نے اپنی زندگی میں آپ جیسا گھٹیا شخص نہیں دیکھا ۔۔۔ سب کی خوشیوں کو نگل گئے مجھے بخش دیتے میں نے کیا بگاڑا تھا۔۔؟؟"

اسے اور جھنجھوڑا تھا اس نے۔۔۔

اور پھر پیچھے ہوتی گئی تھی

"غلطی آپ کی نہیں تھی۔۔۔ میری تھی مننان نجیب آفندی۔۔ آپ جیسا شخص اس قابل نہیں تھا کہ کوئی اس سے محبت کرتا۔۔۔ آپ صرف نفرت کرنے کے قابل ہیں۔۔آپ۔۔

صرف لوگوں کی نفرت کے قابل ہیں۔۔۔

ہر وقت بدلہ بدلہ بدلہ۔۔۔ کھا گیا آپ کا بدلہ میری زندگی۔۔۔ نگل لی میری خوشیاں آپ کے بدلے نے۔۔۔

میری بد دعا ہے آپ اپنی اس جیت کے ساتھ بھی کبھی خوش نہیں رہیں گے۔۔۔

ایسے ہارے ہوئے۔۔۔"

۔

وہ اس گھر سے روتے ہوئے باہر بھاگ گئی تھی۔۔۔اس اس بڑے سے ہال میں اب وہ دونوں باپ بیٹے کھڑے رہ گئے تھے۔۔

بیٹے کا سر جو آج تک کبھی جھکا  نہیں تھا اب وہ جھک چکا تھا ۔۔۔

اور نجیب آفندی اپنے بیٹے کو پہلی بار ویسے اکڑا ہوا کھڑوس دیکھنا چاہتا تھا 

۔

نجیب آفندی کی زندگی کی ساری فلم دہرا دی گئی تھی۔۔۔ آج انہیں وہ پچس سالہ جوان لڑکا نہیں پانچ سالہ چھوٹا سا بیٹا نظر آرہا تھا جسے گھر سے نکال دیا تھا انہوں نے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مجھے سمجھ نہیں آرہی ڈیڈ آپ کیوں اتنا غصہ کررہے ہیں۔۔؟ یہ شہر میں تو آپ پلے بڑے ہیں۔۔؟؟ کیوں موم۔۔"

بیک سیٹ پر بیٹھی اس خاتون نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے اپنے شوہر کو دیکھا تھا جن کے چہرے پر بلا کا غصہ تھا۔۔۔

"بس کرو اور ڈرائیو کرو فلائٹ لیٹ ہوجائے گی اور میں بتا دوں سنی یہ آخری بار آیا ہوں تمہاری سن کر ہم شادی کے سارے فنکشن۔۔۔"

"سنی بیٹا سامنے دیکھو۔۔۔"

والدہ کی آواز سے پہلے ہی گاڑی سے کسی کی ٹکر ہوگئی تھی۔۔۔

"او۔۔ شٹ۔۔۔"

"بس یہی ہونا باقی رہ گیا تھا۔۔۔۔"

"کیا ہوگیا ہے معاذ۔۔ جلدی باہر نکل کر دیکھیں سنی کی مدد کریں۔۔"

"میں نے کہا تھا۔۔ لاپروائی سے سڑک پر چلتے ہیں یہ لوگ۔۔"

والد کی باتوں کو درگزر کرکے سنی نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔۔

"موم۔۔ہیلپ کریں یہ کوئی لڑکی  ہے۔۔"

بیک سیٹ سے اٹھ کر والدہ بھی باہر چلی گئی تھی۔۔

کچھ سیکنڈ میں اس لڑکی کو اٹھا کر بیک سیٹ پر لٹا دیا تھا۔۔

"موم آپ انکے سر پر یہ کپڑا رکھیں خون بہہ رہا۔۔ڈیڈ آپ۔۔"

"ایمبولینس بلاؤ۔۔ ہم اب اسکی مرہم پٹی کرنے سے تو رہے۔۔"

"بس کرجائیں معاذ۔۔۔"

"سمیرا ہماری فلائٹ ہے۔۔ کچھ پیسے دے کر اسے ایمبولینس میں بھیج دیتے ہیں۔۔

ویسے بھی یہاں یہ ٹرینڈ ہے امیر لوگوں سے پیسے بٹورنے کا۔۔۔"

انکی اونچی باتوں سے بےہوش ہوتی اس لڑکی کی آنکھیں کھلنے لگی تھی

"پلیز بیٹا ریلیکس ہوجاؤ۔۔۔ سنی ہاسپٹل کی طرف لے چلو۔۔"

کچھ دیر میں انکی گاڑی ہسپتال کے باہر تھی۔۔۔

سنی نے سٹریچر بلوا کر جلدی سے اسے وہاں لٹا دیا تھا اور اندر لے گیا تھا

"معاذ اندر چلیں۔۔۔"

"میں یہیں ٹھیک ہوں تم دونوں کے پاس بس پانچ منٹ کا وقت ہے۔۔ورنہ میں چلا جاؤں گا۔۔۔"

پر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔۔۔

"ڈاکٹر وہ اب کیسی ہیں۔۔؟؟"

"شئ از پریگننٹ۔۔۔ خون بہت بہہ گیا ہے۔۔۔ او نیگٹیو کی اشد ضرورت ہے۔۔ آپ ارینج کردیں یہ ہمارے بلڈ بنک میں ابھی نہیں۔۔۔جلدی کیجئے گا۔۔"

"موم۔۔۔ڈیڈ۔۔۔"

"معاذ"

دونوں ماں بیٹے نے ایک ساتھ کہا تھا اور کچھ ہی منٹ میں معاذ کو مناتے ہوئے ہسپتال میں لے آئے تھے۔۔۔

اور پھر جو شخص اس لڑکی کو دیکھنے کو بھی راضی نہیں تھا وہ ساتھ والے بیڈ پر لیٹے اسے اپنا خون دہ رہا تھا۔۔۔

"نسواء آنکھیں بند نہ کرنا کچھ نہیں ہوگا آپ کو پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔"

نسواء کے بےجان وجود کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا نجیب نے۔۔۔

"ہاہاہاہا۔۔نجیب بہت دُکھ ہورہا ہے۔۔؟ نسواء اب واپس نہیں آئے گی۔۔ میرا بدلہ پورا ہوگیا۔۔۔ میرے بیٹے کو جیسے مارا میں نے بھی ویسے ہی مار دیا وہ دیکھو تمہارا بیٹا۔۔۔"

"مننان۔۔۔مننان بیٹا۔۔۔ "

نسواء کو اٹھائے وہ مننان کی جانب بھاگے تھے۔۔ 

مننان کی باڈی کو اٹھانے کی کوشش کی تھی جب قہقوں کی آواز اور بلند ہوئی تھی

سامنے گن لیکر کھڑے تھے وہ تین لوگ

عمارہ ظہیر حزیفہ

"اپنی بیٹی کو نہیں دیکھو گے۔۔اس بیچاری کی تو آخری سانسیں چل رہی ہیں۔۔"

"حورب۔۔ حورب۔۔"

اس سے پہلے نجیب اپنی بیٹی کی طرف جاتا پیچھے سے گولیاں لگنے سے وہ آخری سانسیں بھی بند ہوگئی تھی حورب۔۔۔

"نووو۔۔ نووو۔۔۔ نو۔۔۔ حورب بیٹا۔۔۔ مننان۔۔۔ نسواء۔۔۔"

وہ تینوں کو ایک ساتھ رکھ چکا تھا۔۔۔

"نسواء۔۔۔ آنکھیں کھولیں نسواء۔۔۔"

۔

"نجیب۔۔۔۔نجیب۔۔۔۔اٹھ جائیں۔۔۔"

"یا اللہ۔۔۔ رحم۔۔۔"

ایک دم سے کسی نے انہیں جھنجھورا تو وہ یہی کہتے اٹھے تھے۔۔ وہ جیسے ہی اٹھ کر بیٹھے نسواء نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر سامنے کیا مگر نسواء کا ہاٹھ جھٹک کر وہ اسے اپنی طرف کھینچ چکے تھے۔۔۔

"نجیب۔۔۔"

"اب کبھی آنکھوں سے اوجھل ہونے نہیں دوں گا۔۔"

نسواء کو اپنے سینے سے لگائے وہ ایک ہی بات دہرا رہے تھے بار بار۔۔۔

"نجیب کیا ہوا۔۔۔آپ ٹھیک ہیں۔۔؟؟"

"نہیں میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔۔مجھے ابھی حورب کو دیکھناہے مننان کو دیکھنا ہے۔۔"

نسواء کے ہاتھ پر بوسہ دے کر وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھ گئے تھے اور روم سے باہر چلے گئے تھے

"انہیں کیا ہوا۔۔؟؟"

وہ بھی ٹوٹے ہوئے گلاس کو دیکھتے ہوئے پیچھے گئی تھی۔۔۔

"میں تمہیں یہاں دیکھنا نہیں چاہتا نکل جاؤ۔۔۔"

"مننان ہوکیا گیا ہے۔۔۔؟؟"

لیزا اپنا ہاتھ چھڑاتی ہی رہ گئی تھی۔۔ مگر اوپر بیڈروم کا دروازہ کھلتا ہی دونوں رک گئے تھے

"مننان بیٹا۔۔۔"

"لو جی آگئے تمہارے طرف دار۔۔۔ آپ کو کہا نہیں تھا نکل جائیں میرے گھر سے۔"

"مننان۔۔۔"

نسواء جیسے ہی نیچے آئی مننان کی آنکھوں میں ایک دم سے نرمی آئی تھی مگر پھر سے ایک غصہ آگیا۔۔۔

"آپ انکو اپنے بیڈروم میں جگہ دہ چکی ہیں ماں۔۔؟؟ یہ شخص جو آپ کو نکال چکا تھا اپنے بیڈروم سے اپنے گھر سے۔۔۔"

"مننان میں تمہارے سوال جواب کی پابند ۔۔"

"کیوں پابند نہیں ہیں۔۔؟؟ میں نے آپ کے لیے اپنی زندگی۔۔۔"

"بس ایک اور لفظ نہیں مننان۔۔۔ میں نے کبھی۔۔۔ کبھی نہیں کہا تھا کہ ہم واپس آئیں گے بدلہ لیں گے۔۔ میں تو سامنا بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔"

وہ غصے سے بولی تھی

"جسٹ لائک ڈیٹ۔۔؟؟ سامنا نہیں کرنا تھا مجرموں کو سزا نہیں دینی تھی۔۔؟؟ سزا نہ دیتے تو کیا کرتے۔۔؟؟"

اور نسواء نے اپنے بیٹے کو اتنے دن کے بعد آج ان نظروں سے دیکھا تھا اور ایک ہی بات نے سب کو خاموش کردیا۔۔۔

"سزا دے کر کیا مل گیا۔۔؟؟ ایک جوان موت۔۔؟ ایک بیٹی کی آبرو چلی گئی۔۔۔

سزا دے کر تمہیں کیا مل گیا۔۔؟؟ تم نے۔۔۔ تم نے تو اپنی ماں کو بھی کھو دیا اس بدلے میں مننان۔۔۔"

یہ کہتے ہی پلٹ گئی تھی وہ نجیب کا ہاتھ پکڑ لیا تھا وہ لوگ دو سیڑھیاں ہی چڑھے تھے جب مننان نے لیزا کے دونوں کندھے پکڑ کر اپنی طرف کیا تھا۔۔۔

"تم جانتی ہو لیزا۔۔ مجھے کبھی تم سے محبت نہیں ہوئی تھی۔۔ میں نے دھوکا دیا۔۔ تمہیں استعمال کیا تاکہ تمہارے اس مامو کو تکلیف پہنچا سکوں۔۔"

"مننان بیٹا۔۔۔پلیز اسے کچھ مت کہو وہ پریگننٹ ہے۔۔ مجھے اکیلے میں جو کہنا ہے کہو۔۔۔"

مگر نجیب صاحب کی ہر بات کو اگنور کردیا تھا مننان نے۔۔ حورب اپنے روم سے باہر نکل آئی تھی ملازم جاگ گئے تھے لائٹس آن ہوگئی تھی۔۔۔

نسواء کی نظر ایک بار بھی پیچھے نہیں گئی کیونکہ اس نے اب ہار مان لی تھی وہ تھک چکی تھی اپنے بیٹے کو سمجھا سمجھا کر۔۔۔ تنگ آگئی تھی وہ سکون چاہتی تھی۔۔

اور وہ جان گئی تھی کچھ دنوں میں اسے وہ سکون مل جائے گا۔۔ اس کی بیماری اسے پہلے اتنی اچھی نہیں لگی تھی جتنا اب اسے احساس ہونا شروع ہوا تھا کہ اسکی بیماری اسے اسکی موت سے ملا کر وہ سکون دلا دے گی جو اس زندگی میں نہ مل سکا۔۔۔۔

'موت' لفظ دماغ میں آتے ہی اس نے سر جھکا لیا تھا اور جب اسکے آنسو اسکے اور نجیب کے بندھے ہاتھوں پر گرے نجیب صاحب بھی چہرہ واپس نسواء کی طرف کرچکے تھے

"میں اسے سمجھاؤں گا نسواء آپ پریشان۔۔۔"

"میں نے کبھی محبت نہیں کی۔۔ میں نفرت کرتا تھا تم سے۔۔شدید نفرت۔۔۔ اتنی نفرت کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ بچہ بھی میرا نہیں۔۔

اتنی نفرت کے جی چاہتا ہے تمہیں بھی ویسے برباد کردوں۔۔۔ 

اتنی نفرت کہ۔۔ میں اب اور برداشت نہیں کرسکتا تمہارے اس وجود کو۔۔۔

اور جاننا نہیں چاہو گی کہ مجھے کیوں جلدی ہورہی ہے تم سے پیچھا چھڑانے کی۔۔؟؟" مننان کی زیر آلودہ باتوں نے نجیب صاحب کے سارے حوصلوں پر پانی پھیر دیا تھا

اور لیزا۔۔۔ وہ تو پتھر بن گئی تھی مننان کے منہ سے یہ باتیں سن کر۔۔۔

"مننان۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔ میں جانتی ہوں تم مجھ سے بہت محبت۔۔"

"محبت میں تم سے نہیں کرتا۔۔۔ کسی سے نہیں کرتا سوائے اس کے۔۔۔

جاننا چاہو گی کون ہے وہ۔۔؟؟ تمہاری بڑی بہن۔۔ منیشہ۔۔ میں اس سے پیار کرتا ہوں بےپناہ پیار کرتا ہوں۔۔۔"

"تو پھر ۔۔۔ میرے ساتھ شادی کیوں کی۔۔؟؟"

اپنے کندھے سے مننان کے دونوں ہاتھ جھٹک دئیے تھے اس نے۔۔

"تاکہ اس شخص کو وہاں چوٹ پہنچا سکوں جہاں اس نے مجھے پہنچائی میری ماں کو پہنچائی۔۔۔

تمہیں بیٹی مانتے ہیں۔۔ اب تم۔۔ اس حالت میں طلاق لیکرجب میرے گھر سے نکلو گی تو حساب برابر ہوگا۔۔۔

جیسے میری ماں کو نکالا گیا تھا تب وہ بھی پریگننٹ تھی۔۔۔میں تمہیں۔۔"

"مننان۔۔۔۔"

وہ بے ساختہ پلٹے تھے۔۔۔ 

"تم منیشہ کے ساتھ جو کرچکے ہو مجھے وہیں تکلیف پہنچی ہے بیٹا اب بس۔۔"

"ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔ معافی مانگنی ہے تو گھٹنوں کے بل۔۔۔"

نسواء کا ہاتھ اٹھ گیا تھا۔۔۔

"مننان بس کرجاؤ میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔"

"ابھی نہیں۔۔ ایک منٹ۔۔۔"

مننان پیچھے ہوگیا تھا ٹیبل پر پیپرز اٹھائے تھے اور لیزا کے ہاتھوں میں رکھ دئیے تھے

"میں تمہیں طلاق دہ چکا ہوں سائن کرچکا ہوں ڈائیورس پیپرز پر ۔۔۔اب اسی وقت نکل جاؤ یہاں سے۔۔۔دفعہ ہوجاؤ۔۔۔"

اور پھر کسی کو کچھ سنائی نہیں دیا تھا۔۔۔ سوائے لیزا کے چلتے قدموں کے جو ان پیپرز کو اٹھائے دروازے کی جانب بڑھنے لگی تھی۔۔

ناہید مجھ سے بار بار ایک ہی سوال مت کرو مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہورہا ہے۔۔

ان رپورٹس کو دیکھ کر مجھے تو شرم آنے لگی ہے وہ عورت اس گھر کی چھت تلے رہی اور دھوکا دیتی رہے اور وہ بےغیرت۔۔۔ وہ تو دوست تھا نجیب کا۔۔۔"

اپنے ہی کمرے میں آفندی صاحب نے غصے سے بہت چیزیں توڑ دی تھی

"وہ سب جھوٹ بھی تو ہوسکتا ہے نہ۔۔؟؟ کیا پتہ عمارہ بیٹی۔۔"

"نام مت لینا بیگم۔۔۔ اس عورت کو اب میں اس گھر میں نہ دیکھوں۔۔۔ اور۔۔"

"خدا کے لیے وہ مت کہیے گا ۔۔۔شزا"

"وہ لڑکی بھی اب اس گھر میں نظر نہ آئے۔۔ وہ ہمارا خون نہیں ہے "

"آپ غصے میں غلط۔۔۔"

"غلطی تو ہوئی ہے ناہید۔۔۔ غلطی ہوئی ہے۔۔۔میرا نجیب۔۔۔وہ کیسے یہ سب برداشت کررہا ہوگا۔۔؟؟ اسکی تو اپنی اولاد اسکی نہ ہوئی اور جو تھی۔۔ وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتی۔۔"

"آپ بات کریں جاکر نسواء سے ماں جی کو لے جائیں۔۔"

وہ شوہر کے پاس بیٹھی تھی مگر وہ بھی جانتی تھی اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔

"نسواء۔۔۔۔۔ وہ جسے ہم برا بھلا کہتے رہے جس کے بچوں کو کبھی اپنا نہیں کہا۔۔

صحیح معنوں میں ہمارے خاندان کا نام اس نے اور اسکے بچوں نے روشن کیا۔۔

ناہید۔۔۔ مننان کبھی واپس نہیں آنے دے گا کسی کو بھی۔۔۔

ہمارا نجیب ادھوار رہ جائے گا۔۔"

۔

"بہت بڑی غلطی ہوگئی ہم سے۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

""ایک ماہ بعد۔۔۔"

۔

"میں اس مڈل کلاس لڑکی سے معافی کیوں مانگو گا سمیرا۔۔۔؟ فار گاڈ سیک اسے چلتا کرو یہاں سے اب تو اسکے زخم بھی بھر گئے ہیں۔۔۔"

معاذ نے اپنا ہاتھ سمیرا کی گرفت سے چھڑا لیا تھا۔

"معاذ بس کیجیئے وہ سن لے گی اور ابھی آپ ایکسکئیوز کریں گے ۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اتنی نفرت کیوں کررہے ہیں آپ اس سے۔۔۔ آپ نے اس سے پہلے کبھی کسی کا سٹیٹس دیکھ کر حقارت نہیں دیکھائی۔۔۔"

۔

"کیونکہ مجھے اس پر ابھی بھی یقین نہیں آرہا۔۔۔ نہ فیملی کا نام نہ خاندان کا۔۔ اس حالت میں آدھی رات کو کون باہر گھومتا ہے۔۔؟ اور اگر تم نے اسے یہاں سے نہ بھیجا تو میں پولیس کو رپورٹ کردوں گا۔۔۔ وہ اس سے پوچھ تاچھ کرلیں گی۔۔۔"

وہ منیشہ کے روم کے سامنے آگئے تھے کوئی شک نہیں کہ منیشہ نے سب باتیں سن لی تھی اور اس سے پہلے وہ کچھ کہتے منیشہ نے روم کا دروازہ کھول لیا تھا۔۔۔

اور معاذ صاحب کے فون پر اسی وقت رنگ ہوئی تھی جس سے انہیں بہانہ مل گیا تھا اپنی بیوی کی بات ماننے کا۔۔۔

وہ جیسے ہی کال پک کر کے کچھ قدم دور گئے۔۔ سمیرا نے شرمندگی سے دیکھا تھا۔۔۔

۔

"بیٹا معاذ اور میں تمہارے پاس آرہے تھے بیٹا وہ تم سے معافی مانگنا چاہتے تھے جو نیچے ہوا۔۔۔

ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ تم جاؤ۔۔۔جب تک۔۔۔"

"میں یہاں رہنا نہیں چاہتی۔۔۔اور آپ اپنے شوہر سے ایک بات کہہ دیجیئے گا جتنئ نفرت انہیں مجھ سے ہے اس سے کئی گنا زیادہ نفرت مجھے ہے ان سے۔۔۔"

منیشہ کی بات نہیں انہیں حیران کردیا تھا۔۔۔وہ نیچے جھک کر اپنا بیگ اٹھاتی ہے اور سمیرا کے پاس سے گزر کر جانے لگتی ہے جب سمیرا ہاتھ پکڑ لیتی ہے پیچھے سے۔۔

"منیشہ بیٹا۔۔ یہ نفرت۔۔۔"

"وہ کسی اور کے باپ ہونے سے پہلے میرے باپ رہ چکے ہیں۔۔۔وہ باپ جس نے کبھی باپ ہونے کا فرض نہیں نبھایا۔۔۔وہ باپ جو۔۔۔"

سمیرا کا ہاتھ نیچے گر گیا تھا اور منیشہ گہرا سانس بھر کر روم سے باہر نکل گئی تھی جاتے جاتے اس نے ایک بار مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا اس شخص کو جس کے ہاتھ سے موبائل نیچے گر چکا تھا۔۔۔اور وہ دیوار کے ساتھ جا لگے تھے۔۔۔۔

منیشہ سیڑھیاں اتر کر جیسے ہی نیچے گئی سمیرا معاذ کا نام چلاتے ہوئے روم سے باہر آئی تھی۔۔۔

"معاذ۔۔۔معاذ۔۔۔وہ لڑکی۔۔۔اپ کی بیٹی ہے۔۔۔جسے آپ اتنے سالوں سے ڈھونڈ رہے ہیں اسے روک لیں پلیز۔۔۔۔"

اور معاذ صاحب بیوی کی آواز سن کر اپنی کھوئی ہوئی دنیا سے باہر آگئے تھے اور ایک جھٹکے سے اپنی آنکھوں کے آنسو صاف کرکے وہ بھی نیچے کی طرف بھاگے تھے۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر عدالتی نوٹس بھیج دیا گیا ہے۔۔۔ انکی کمپنی کو۔۔۔ نجیب آفندی کے دونوں چچا زاد بھائی اس وقت پولیس کسٹڈی میں ہیں انکی فیکٹری میں وہ باکسز برآمد ہوگئے ہیں ۔۔۔۔"

"ہممم۔۔۔۔۔ نجیب آفندی نے کیا بیان دیا نیوز کو۔۔۔؟؟ ہرچینل پر اس خاندان کی خبریں چلنی چاہئے۔۔۔ہر جگہ۔۔"

سگریٹ کو جوتے کے نیچے کچل کر وہ گاڑی کی طرف بڑھا تھا جب ہانپتے ہوئے اسکے ایک گارڈ نے اسکا راستہ روکا۔۔۔

"مننان سر۔۔۔مننان سر۔۔۔۔" 

مننان اسے درگزر کردیتا مگر اس گارڈ کی شکل دیکھتے ہی مننان کے ہاتھ گاڑی کے کھلے ہوئے دروازے سے ہٹھ گئے تھے اور وہ خود تیز قدموں سے اسکی جانب بڑھا تھا اور ایک ہی سوال پوچھا تھا

"وہ مل گئی ہے۔۔۔کہاں ہے وہ۔۔۔" 

سر وہ اسٹیشن پر دیکھی گئیں ہیں ہمارے لوگ مس منیشہ پر نظر رکھیں ہیں آپ جلدی چلیں ٹرین کو آنے میں بیس منٹ۔۔۔"

"لیٹ کر دو۔۔۔ دو گھنٹے بس۔۔۔ایک اور کام کرکے میں وہیں ملوں گا تم خود جاؤ اور نظر رکھو۔۔۔"

وہ کہتے ہی واپس چلا گیا تھا گاڑی میں بیٹھ کر ایک اور اہم کام انجام دینے کے لیے۔۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"ایک پل کو تو میں یقین نہیں کرپایا تھا۔۔ باپ کا رُتبہ دہ بیٹھا تھا آپ کو حزیفہ انکل۔۔"

بند کمرے میں گپ اندھیرا تھا جب اس نے کرسی اس کرسی کے سامنے رکھی جس پر ایک شخص کو رسیوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔۔

"مننان بیٹا ایک بار میری بات سن لو۔۔۔"

"بات سن لوں۔۔۔؟؟ ایک واحد شخص جسے میں عزت دیتا رہا جس کی عزت کرتا رہا۔۔ 

اب معلوم ہوا کہ کہ سب کچھ ایک ڈھونگ۔۔"

"کچھ بھی جھوٹ نہیں تھا۔۔ میری محبت تمہیں لیکر میری عزت تمہاری ما ں کو لیکر۔۔"

حزیفہ چلایا تھا اور غصے میں خود کو ان رسیوں سے چھڑوانے کی ناکام کوشش بھی کی

"اور کتنے جھوٹ بولیں گے۔۔؟ آج آپ کی غداری کی وجہ سے میری ماں واپس اس شخص کے پاس چلی گئی۔۔ اگر آپ اچھے نکلتے تو میں خود علیحدگی کرواتا۔۔ مگر نہیں۔۔

آپ کو خون بھی وہی خون نکلا۔۔۔ آفندی ۔۔۔ اگر میں نے ان لوگوں کو نہیں بخشا تو آپ کو کیسے موقع دوں گا میری فیملی کو نقصان پہنچانے کا۔۔؟؟

آفٹرآل میری ماں کی یہ حالت کے ذمہ دار تو آپ بھی ہیں۔۔۔ اتنے سالوں سے منصوبے جو بناتے رہے۔۔اور اس دوٹکے کی عورت کو بھیج دیا میرے باپ کی زندگی میں۔۔۔

اور وہ اولاد۔۔۔ آپ لوگوں کا خون تو میرے باپ سے زیادہ گندا نکلا۔۔"

"مننان۔۔۔ میں تمہیں جان سے مار دوں گا اگر تم نے اب کچھ الٹا کہا۔۔"

"ناجائز خون کہا۔۔۔گندا خون کہا۔۔؟؟ بُرا لگ گیا۔۔؟؟ کمال ہے۔۔۔

آپ کے بھائی اور بھابی۔۔اوہ سوری بیوی تو وہ میرے باپ کی تھی۔۔۔"

حزیفہ نے پھر سے اونچی آواز میں بات کرنا چاہی جب مننان نے اپنے گارڈ کو اشارہ کیا جس نے پیچھے سے سر پر وار کرکے حزیفہ کو بےہوش کردیا

"تم جانتے ہو کیا کرنا ہے۔۔؟؟ "

اپنا کوٹ پہن کر وہ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا تھا اسکے پیچھے دو اور گارڈ بھی باہر نکلے تھے

"مننان سر۔۔ "

"ابھی نہیں ابھی ایک آخری اور ضروری کام کرنا ہے۔۔ اسکے بعد سکون سے سنوں گا سب کی۔۔۔"

مننان یہ کہتے ہی اس وئیر ہاؤس سے باہر نکل گیا تھا

"پر سر۔۔۔ جہاں آپ جارہے ہیں وہاں اب کچھ نہیں مس منیشہ تو وہاں سے غائب ہوگئی ہیں۔۔"

گارڈ نے پھر بھی اپنی بات مکمل کی جسے سن کر سب گھبرا گئے تھے اور پھر بلڈنگ سے باہر گئے تھے جہاں مننان گاڑی میں بیٹھ کر جاچکا تھا۔۔

۔

"منیشہ تمہیں لگتا ہے میں بہت سنگدل ہوں۔۔ مگر آج میں سب جھوٹ ثابت کردوں گا۔۔تمہیں یہ رنگ پہنا کر۔۔"

۔

کس کو معلوم تھا کہ تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرائے گی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"یو باسٹرڈ یہیں رہنے کا کہا تھا۔۔ نظر رکھنے کا کہا تھا پھر کہاں گئی وہ۔۔؟؟"

"ایم سوری سر۔۔۔ بس ایک پل کو نظر ادھر ہوئی اور وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔۔۔"

گیٹ لوسٹ۔۔۔ دفعہ ہوجاؤ۔۔۔ جتنی ٹرین جا چکی ہے سب کو رکوا دو۔۔سب۔۔"

وہ ابھی بات کررہا تھا کہ ایک پلر کے پیچھے سے چھپی ہوئی وہ پرچھائی سامنے آکھڑی ہوئی تھی مننان کے۔۔۔

"منیشہ۔۔۔"

"آپ سب جا سکتے ہیں۔۔۔ "

منیشہ نے جیسے ہی کہا تھا مننان کے اشارے پر وہ سب لوگ وہاں سے منٹوں میں غائب ہوگئے تھے۔۔

"منیشہ۔۔۔ منیشہ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔۔۔ڈرا دیا تھا تم نے۔۔۔"

وہ آگے بڑھا اور بڑھتے ہی اسے اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔۔

"تم نے ڈرا دیا تھا سچ میں اب میں تمہیں خود سے دور۔۔"

"میں جب جب سوچتی رہی کہ میں نے خود کو آپ کی پلاننگ سے آزاد کرلیا چھڑوا لیا

آپ تب تب میرے سامنے آجاتے ہیں کسی بُرے سائے کی طرح۔۔

مننان سر۔۔۔ ایسا کیوں ہے۔۔؟؟ اب تو مجھے محبت بھی نہیں رہی اب تو چاہت بھی نہیں رہی اب۔۔۔"

مننان کچھ قدم دور ہوا تھا۔۔ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کچھ ہوا ہو ایسا لگ رہا تھا جیسے کل کی بات ہو۔۔ سامنے وہ جھلی سی لڑکی کھڑی ہو اسکی ایک نظر کی منتظر۔۔۔

"ایسے کیسے محبت نہیں رہی۔۔؟؟ تمہیں یاد نہیں یہی محبت کے ہاتھوں مجبور تم میرے قدموں پر جھکی تھی منیشہ۔۔ آج جب میں دنیا اپنا دل سب کچھ تمہارے سامنے رکھ رہا ہوں تو تم ٹھکرا رہی ہو۔۔؟؟"

اسکی گرفت منیشہ کے کندھوں پر مظبوط ہوئی تومنیشہ کی آنکھوں میں ایک آگ جلتی دیکھائی دی مننان کو یہ تیور یہ غصہ اسے یقین دلا رہا تھا کہ وہ اسے پھر سے حاصل کر لے گا۔۔۔اس بار پورے حق سے۔۔۔

۔

"میں نے کب ٹھکرایا۔۔؟؟ میں نے تو بہت راتیں گزاری آپ کے ساتھ۔۔ محبت نہیں دہ رہی تو کیا ہوا۔۔؟؟ جسم تو دہ چکی تھی نہ۔۔؟؟ یہی بتایا تھا نہ میرے شوہر کو۔۔؟؟

کہ کیسے میں آپ کو اپنا جسم دینے آتی تھی۔۔؟؟ کتنی بار میں۔۔"

مننان کا ہاتھ اٹھ گیا تھا وہ پیچھے کی جانب گرنے لگی تھی جب مننان نے بازو سے پکڑے واپس اسے اپنی اوڑھ کھینچا تھا

"منیشہ۔۔۔"

"غصہ کیوں آرہا ہے۔۔؟؟ آپ کی کہی باتیں آپ کو بتا رہی ہوں۔۔

اور ایک اور بات بھی سن لیں۔۔ آپ کی باتیں سننے کے بعد میرے شوہر نے جو میرے ساتھ کیا۔۔۔"

مننان منہ پھیر چکا تھا۔۔۔ انکے ارد گرد ایک مجمع جمع ہوچکا تھا اس وقت سے جب منیشہ کو تھپڑ پڑا تھا۔۔۔ پر مننان کی ایک نظر نے ان سب کو جانے پر مجبور کردیا تھا۔۔

"منہ نہ پھیریں سن لیں اس رات جب میں اپنا آپ اپنی مرضی سے اپنے شوہر کو سونپنا چاہتی تھی۔۔۔ مجھے بھی لگنا شروع ہوگیا تھا کہ مجھے ماہیر سے محبت ہونے لگی ہے۔۔"

مننان کے دونوں ہاتھ مٹھی کی صورت بند ہوگئے تھے۔۔

۔

"میں اسے اپنے دل دینا چاہتی تھی اس نے بات جسم پر ختم کردی۔۔۔

اس رات۔۔۔اس نے مجھے حاصل نہیں کیا مجھے مار دیا تھا۔۔

مننان سر۔۔۔اس رات کے بعد آنے والی صبح سے پہلے میں اپنی زندگی ختم کرنا چاہتی تھی سوچتی تھی کہ آپ سے سامنا ہوا تو وہ طنز کیسے برداشت کروں گی جو آپ میرے شادی کے فیصلے کو لیکر کریں گے۔۔

سوچتی تھی اب کیا رہ گیا ہے۔۔؟؟ ایک عزت ہی تو تھی سب رشتے ناتے تو جھوٹے نکلے محبت فریبی نکلی تو۔۔۔"

وہ خاموش ہوئی تو مننان کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔۔۔

"میں۔۔ تمہیں اپنانے کو تیار ہوں اپنی آنکھوں میں بٹھا کر رکھوں گی۔۔"

"ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ سیریسلی۔۔؟؟ ہو دا ہیل آر یو۔۔؟؟ جو مجھے اپنانے کو تیار ہیں۔۔؟؟

ابھی تھوڑی دیر پہلے پھر سے ٹھکرا دیا۔۔کیا سمجھ کیا رکھا ہے۔۔؟؟

باقی سب کی طرح میری زندگی برباد کردی۔۔ بدلہ بدلہ اور بس بدلہ۔۔۔

مننان میری بد دعا ہے جب اپنے بدلے مکمل کرلیں تو مڑ کر دیکھئے گا۔۔۔ خود کو اکیلا ہی پائیں گے۔۔۔ بدلہ لینے آئے تھے تو آپ کی ماں ساتھ تھی آپ کی بہن ساتھ تھی۔۔۔

میں۔۔۔ میں ساتھ تھی۔۔۔ اور جب بدلہ لیکر جائیں گے تو بالکل تنہا ہوں گے۔۔ یہ میری بددعا ہے۔۔۔اور۔۔۔"

اس بار وہ مننان کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔

مننان کی آنکھوں میں دیکھ کر اس نے ایک ہی بات کہی تھی۔۔

"آپ ماہیر کے دل میں میرے لیے بدگمانی پیدا کرچکے تھے۔۔ مجھے ماہیر سے نفرت ہوگئی ۔۔۔مگر۔۔۔ میرے پیٹ میں پلنے والے ماہیر کے اس بچے کا کیا کریں گے۔۔؟؟

آپ ہوکر بھی کہیں نہیں رہے اور وہ جا کر بھی موجود ہے ہر جگہ۔۔۔"

مننان نے سر اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا آنکھوں سے آنسو بےتحاشہ بہہ رہے تھے۔۔

"من۔۔۔منیشہ۔۔۔ میں نے تم سے بہت محبت کی۔۔میں اس بچے کو بھی۔۔۔"

"آپ بس نفرت کرسکتے ہیں اپنا نہیں سکتے۔۔آپ اس قابل نہیں ہے کہ آپ کو دوسری بار دیکھا بھی جائے دوسرا موقع دینا تو دور کی بات ہے۔۔۔"

۔

وہ جانے  لگی تھی مگر جاتے جاتے اس نے ایک بار اس شخص کی آنکھوں میں آخری بار ضرور دیکھا تھا

"میں نے بہت پیار کیا تھا آپ سے مننان سر۔۔ پر۔۔۔ آپ نے سب برباد کردیا۔۔۔

خود کو بھی اور مجھے بھی۔۔۔"

۔

وہ آنکھوں کے سامنے اوجھل ہوگئی تھی۔۔اور وہ لڑکھڑاتا ہوا اس خالی بنچ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

وہ بربادی کی ایک نشانی جیسے بیٹھا تھا۔۔۔ اور دور کھڑا اس کا مجرم

نجیب آفندی۔۔ جو کچھ سال پیچھے چلا گیا تھا یہی جگہ تھی یہ عالم تھا جب اس نے اپنی بیوی بچے کو اپنی زندگی سے ایسےہی جاتے دیکھا تھا۔۔۔

اپنا کوٹ اتار کر وہ گاڑی مین رکھ چکا تھا اور شرٹ کی سلیو فولڈ کرتے ہوئے وہ آہستہ قدموں سے اس بنچ کی جانب بڑھنے لگا تھا جب وہ پاس آکر بیٹھا تو مننان نے سر اٹھا کر دیکھا تھا

"مننان۔۔۔"

"ڈیڈ۔۔۔ دیکھیں آپ کتنا کامیاب ہوئے ہیں۔۔۔"

ایک ساتھ دونوں نے بولا تھا اور پھر دونوں ہی سر جھکا کر بیٹھ گئے تھے مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔

"مننان بیٹا۔۔۔ تمہاری ماں کا آپریشن ہے کچھ دیر میں تم۔۔۔"

نجیب کی بات ادھوری رہ گئی تھی جب ایک گولی سینہ چیرتی ہوئی نکلی تھی اور خون کے چھینٹے مننان کے منہ پر گرے تھے۔۔۔

"ڈیڈ۔۔۔۔" اس نے بےساختہ پکارا تھا۔۔۔ اور بہت سی فائر شروع ہوگئی تھی۔۔۔ مننان کے گارڈز نے ان دونوں کو کور کر لیا تھا پر جس کا چہرہ مننان کے سامنے آیا تھا اس نے اپنی ویسٹ سے گن نکال کر اس ایک آدمی کے ہاتھ پر فائر کردیا تھا۔۔

"یہ مجھے زندہ چاہیے اس کی ہمت کیسے ہوئی میرے باپ پر حملہ کرنے کی۔۔۔"

اس نے ظہیر کی طرف جیسے ہی اشارہ کیا تھا اور بہت سی کراس فائر ہونا شروع ہوگئی تھی

"مننان بیٹا۔۔۔ اپنی ماں کے۔۔ پاس ہاسپٹل چلے جاؤ میں جانتا ہوں وہ سرجری نہیں کروائے گی۔۔ جب تک تمہیں دیکھ نہ لے۔۔۔ جاؤ۔۔۔"

"شش۔۔۔ چپ کرجائیں۔۔۔ پلیز۔۔۔" زخم پر جیسے ہی ہاتھ رکھ کر دبانے کی کوشش کی تھی اسکے دونوں ہاتھ خون سے بھر گئے تھے۔۔۔

"تم۔۔۔ تم نے سچ کہا۔۔ میں ذمہ دار ہوں۔۔۔  تم سب کی برباد زندگی کا۔۔۔

جس دن تمہاری ماں نے مجھے دوسری شادی کرنے سے منع کیا تھا مجھے منع ہوجانا چاہیے تھا۔۔۔ میرے ایک غلط فیصلے نے سب کچھ برباد کردیا۔۔۔"

یہ کہتے ہی انکی آنکھیں بند ہوگئی تھی۔۔

"ہم دونوں ہاسپٹل چلیں گے آپ ساتھ چلیں گے۔۔ پلیز آنکھیں کھولیں۔۔"

مگر بالکل خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ظہیر کا بے جان وجود زمین پر گرا ہوا پایا پولیس نے ہر طرف سے کور کرلیا تھا جگہ کو۔۔۔ اور بنا کسی کو دیکھے وہ نجیب کو اٹھا کر گاڑی تک لے گیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ کی نظریں جس کی تلاش میں ہیں۔۔۔ بابا انہیں ہی لینے گئے ہیں ماں۔۔"

نسواء نے آنکھیں نیچی کرلی تھی

"حورب بیٹا یہ سرجری ضروری ہے۔۔؟ میں نے اپنی زندگی جی لی ہے بیٹا۔۔ میں نے زندگی سے زیادہ امیدیں نہیں لگائی اس لیے تم بھی وعدہ کرو مجھ سے تم بھی اس سرجری کے بعد ہر رزلٹ کو  قبول کرو گی۔۔"

"ماں آپ ایسے۔۔۔"

"تم اپنی زندگی مکمل جینا۔۔ شادی کرنے سے پہلے پرکھ لینا۔۔ شادی کے بعد جہاں لگے کہ تمہاری عزت نفس تمہاری جگہ تمہارے شوہر کی زندگی میں کسی اور نے لے لی ہے تو تم بھی مکمل کنارہ کشی کرلینا۔۔

میری طرح انتظار کی سولی نہ چڑھنا۔۔ یاد رکھنا۔۔۔"

حورب نے ہاں میں سر ہلایا تھا نرس پاس سے نسواء کا سٹریچر آپریشن ٹھیٹر میں لے گئی تھی وہ اس خالی جگہ کو دیکھتی رہ گئی تھی۔۔۔

"آپ کہتی ہیں شادی سوچ سمجھ کر کرنا مگر میں کیسے بتاؤں مجھے اس لفظ سے بھی نفرت ہونے لگی ہے ماں۔۔"

وہ ابھی سوچ رہی تھی کہ ایمرجنسی سائرن نے اس راستے سے پیچھے ہونے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔ وہ تو لیب کوٹ سے اپنی پیجر نکال کر وارڈ میں جانے لگی تھی جب بڑے بھائی کی جرگتی ہوئی آواز اسکی سماعتوں کی نظر ہوئی۔۔۔ 

"راستے چھوڑو۔۔۔ ڈاکٹر۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ حو۔۔۔ گڑیا۔۔۔ یہ دیکھو۔۔ انہیں گولی لگی ہے۔۔ جلدی سے علاج شروع کرو۔۔۔"

حورب نے جیسے ہی خون میں لت پت سٹریچر پر دیکھا اسکی ایک نظر اپنی ماں کے اس کمرے پر گئی تھی۔۔۔

"حورب۔۔۔ بیٹا جلدی۔۔۔"

"انکی پلس بہت ویک ہیں سر۔۔۔ایم۔۔"

"سوری مت بولنا۔۔۔ یہ بالکل ٹھیک ہیں۔۔۔ پمپ کرو۔۔۔ الیکٹرک شاک دو۔۔۔ کچھ بھی کرو۔۔۔ ڈاکٹر حورب۔۔۔ سن رہی ہیں آپ۔۔۔"

وہ جیسے ہی چلایا تھا حورب نے ساتھی ڈاکٹر کو جلدی سے شفٹ کرنے کا کہا تھا۔۔۔

ابھی وہ اپنی ماں کی تکلیف سے باہر نہیں آپارہی تھی اور اب یہ غم بھی۔۔۔اس نے ایک نظر بھائی کی خون سے بھری ہوئی شرٹ کو دیکھا تھا اور پھر جلدی سے وہ بھی ساتھ چلی گئی تھی۔۔۔


"ماں اب کیسی ہیں۔۔؟؟"

"ویسی ہی ہیں ابھی بھی سرجری کے لیے ہاں نہیں کی جائیں یہ شرٹ پہن کر انکے پاس انکی نظروں کو جس کا انتظار ہے وہ آپ ہیں۔۔۔"

"حورب۔۔۔"

"پلیز۔۔ میری ماں کی زندگی بہت اہم ہے میرے لیے۔۔ جائیں یہ وقت بہت سخت ہے۔۔۔

بابا کی بات مت کیجئے گا ہوسکے تو ۔۔۔"

وہ اٹھ کر واپس نجیب کے کمرے میں چلی گئی تھی مننان نے گہری سانس بھری تھی اور شرٹ لیکر چینج کرنے چلا گیا تھا۔۔۔

اور کچھ دیر میں وہ روم میں داخل ہوا تھا۔۔

"نجیب آپ نے پتہ کیا وہ کہاں۔۔۔"

نسواء کہتے کہتے چپ ہوئی تھی۔۔۔

"اووہ تو تمہیں فرصت مل گئی آنے کی۔۔؟؟"

"ہمم۔۔۔"

وہ کچھ دوری پر تھا جب ماں کے چہرے کو دیکھ کر اس نے اپنے آنسو روکے تھے۔۔۔

"ماں۔۔۔"

آواز بھاری ہوئی تو نسواء نے پلٹ کر دیکھا تھا۔۔ آج اسے وہ نفرت غصے سے بھرا مننان نہیں لگ رہا تھا۔۔ آج اسے وہ اپنا پانچ سالہ بیٹا نظر آرہا تھا اس نے ہاتھ ہاتھ آگے بڑھایا تھا ۔۔مننان نے ہاتھ پکڑ کر ماتھے کے ساتھ لگا لیا تھا۔۔۔

"آپ ٹھیک کہتی تھی۔۔۔ کچھ نہیں رکھا اس بدلے میں۔۔"

"مننان بی۔۔بیٹا کیا ہوا۔۔؟؟"

"کچھ نہیں۔۔۔ میرا دعا ہے آپ سدا سہاگن رہیں۔۔ اس سرجری کو کروا کر جلدی سے ٹھیک ہوجائیں۔۔۔"

وپ نسواء کے ماتھے پر بوسہ دے کر جلدی سے اٹھ گیا تھا وہاں سے۔۔ اور روم سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"اس لڑکی کو بھی مار دو۔۔۔ پیچھا کرو۔۔۔"

سٹیشن سے باہر آتے ہی اس نے اس گاڑی کی ڈکی میں خود کو چھپا لیا تھا۔۔۔

"وہ شخص کبھی باز نہیں آئے گا۔۔۔"

منیشہ غصے سے کہتی ہے۔۔ مگر اسے معلوم نہ تھا اسے فالو کرنے والے مننان کے نہیں عمارہ کے غنڈے ہیں۔۔۔

جب وہ لوگ گاڑی کے پاس آئے تو ڈکی کا دروازہ آہستہ سے بند کرلیا تھا  اس نے۔۔۔

اور کچھ منٹ بعد جب گاڑی سے نکلنے کی کوشش کی تو گاڑی چل چکی تھی۔۔۔

"یا اللہ۔۔۔ کہاں پھنس گئی ہوں میں۔۔۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی مننان۔۔"

آنکھوں سے آنسو۔۔۔ جاری تھے۔۔۔ بند ڈکی میں اسکا سانس لینا دشوار تھا کہ ایک دم سے گاڑی رکی تھی۔۔۔

کچھ شور کے بعد خاموشی ہوگئی تھی وہ خود باہر آتی کہ کسی نے پیچھے سے ڈکی کا دروازہ کھولا تھا

"اب آپ باہر آسکتی ہیں میڈم۔۔۔سفر بہت لمبا ہے۔۔ اس چھوٹی جگہ میں دم نہیں گھٹ رہا۔۔۔"

"وہ۔۔ ایم سور۔۔۔"

باہر نکلتے وقت ہاتھ جیسے ہی پھسلا تھا اس شخص نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔۔۔

" سوری ایسے ایکسیپٹ نہیں ہوگا۔۔ ویسے کس ارادے سے چوری چھپے بیٹھی تھی۔۔؟؟"

"وہ میں نہیں بتا سکتی۔۔ایم سوری۔۔۔مجھے چلنا چاہیے۔۔۔"

"اوکے۔۔۔ اتنی اجاڑ اور ویران جگہ پر اگر آپ کو کوئی ٹیکسی مل جائے گی تو شوق سے جائیے۔۔۔ ورنہ میری گاڑی کی فرنٹ سیٹ تو حاضر ہے۔۔۔"

وہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے فرنٹ سیٹ کا دروازہ اوپن کرتا ہے۔۔ ایک نظر منیشہ کو دیکھنے کے بعد اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرلی تھی۔۔۔

گاڑی کو تب تک ریس دی تھی جب تک منیشہ فرنٹ سیٹ پر آکر بیٹھ نہیں گئی تھی۔۔۔

۔

"مجھے پاس ہی کسی ٹرین۔۔۔"

"فرحان ملک۔۔۔"

"میں نے نام نہیں پوچھا۔۔۔"

"کوئی بات نہیں۔۔ میں پوچھ لیتا ہوں مس۔۔؟؟ کیا نام ہے۔۔؟؟"

"دیکھیں۔۔"

"کس سے بھاگ رہی تھی۔؟؟"

"آپ کے سوال کا جواب۔۔"

کون تھے وہ لوگ۔۔؟؟ کچھ چرا کر بھاگ رہی تھی۔۔؟؟ شکل سے تو اچھے گھر کی لگتی ہیں۔۔"

"انفف۔۔۔"

"اوکے۔۔۔ اچھا نام بتا دیں۔۔۔"

منیشہ نے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔۔۔ وہ ہر سوال کو ری جیکٹ کررہی تھی اور وہ بار بار نیا سوال پوچھ رہا تھا۔۔۔

۔

"میں رپورٹ کر دوں گی پولیس میں گاڑی روکیں۔۔"

"کس میں اتنی جرات ہے مئیر کے بھانجے کی گاڑی روکنے کی۔۔

اور آپ میرے احسان کا بدلہ ایسے دیں گے۔۔؟؟ بیڈ گرل۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"بابا کو ہوش آگیا ہے آپ کو بُلا رہے ہیں۔۔۔ کچھ دیر میں ماں کی سرجری شروع ہوجائے گی۔۔۔"

"ان دونوں کا خیال رکھنا بچے۔۔۔"

حورب کے ماتھے پر ہاتھ رکھے وہ ہاسپٹل سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔

"یہ میری تربیت نہیں تھی مننان۔۔۔ تمہارے باپ کا خون حاوی ہوگیا میری تربیت ہار گئی۔۔۔"

"آپ نے کیا حاصل کرلیا مننان سر۔۔؟؟ بدلہ لیکر بھی آپ اسی جگہ کھڑے ہیں۔۔۔

بالکل اکیلے۔۔۔

اب تو ان دونوں لوگوں کو بھی کھو دیا جن کے ساتھ آئے تھے۔۔۔"

گہرا سانس بھرا تھا اس نے۔۔۔اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔

گاڑی کی سپیڈ جیسے ہی فل کی وہ اس جانب چل دیا تھا جہاں وہ اپنی ناکامیوں کے ساتھ سکون سے سانس لے سکے۔۔۔

"مننان نجیب آفندی۔۔۔۔ نسواء نجیب آفندی کا بیٹا۔۔۔ محنت سے اپنی پوزیشن کو حاصل کرنے والا۔۔۔

اپنی بہن کا ہیرو۔۔۔ 

اس جھلی لڑکی محبت۔۔۔ 

نوجوان نسل کا آئیڈیل۔۔۔

اب نہیں رہا۔۔۔۔ شہر سے دور اسکی گاڑی اس اونچائی سے نیچے جاگری تھی۔۔۔

دھکتے شعلوں نے اس چراغ کو ہمیشہ کے لیے بُجھا دیا تھا جسے کبھی قبول نہیں کیا گیا۔۔۔

جو بچپن میں باپ کی محبت کو ترستا رہا۔۔۔ اور جوانی ماں کو اس کا حق دلوانے میں اپنی پہچان بنانے میں لگا دی۔۔۔

مننان آمین احمد سے شروع ہونے والا سفر۔۔۔

اگلی صبح نجیب آفندی کے بیٹے کے نام سے آنے والی اسکی موت کی خبر پر ختم ہوا۔۔۔

ایک ہرجائی کا بدلہ لیتے لیتے وہ خود سب کا ہرجائی بنتا رہا۔۔۔

دوسری شادی کے ایک فیصلے نے جانے کتنے ہرجائی بنا دئیے اس ایک کہانی نے کتنے فسانوں کو جنم دہ ڈالا اور کتنی زندگیاں نگل ڈالی۔۔۔"آپریشن کامیاب ہوا بابا۔۔۔ ماں اب ہمیں چھوڑ کر نہیں جائیں گی کہیں نہیں جائیں گی۔۔۔"

نجیب کے گلے لگ کر اپنی بےپناہ خوشی کا اظہار کیا یہاں تک کہ روم میں موجود نرس اور ڈاکٹر بھی حورب کو اتنا خوش دیکھ کر مسکرا دئیے تھے

"میں نسواء کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ ان سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔"

"ابھی نہیں بابا۔۔ابھی آپ ٹھیک نہیں ہیں۔۔"

"نہیں بیٹا۔۔میں ٹھیک ہوں ایک بار نسواء کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔"

حورب نے نرس کو اشارہ کیا تھا اور وہ کچھ دیر میں ویل چئیر روم میں لے آئے تھے

"بس بیٹا میں چل لوں گا تمہارا باپ اتنا کمزور بھی نہیں ہے۔۔"

حورب نے مسکرا کر دیکھا تھا نجیب کو اور آنکھیں صاف کئیے ایک ڈاکٹر کی مدد سے نجیب کو ویل چئیر پر سہارا دے کر چئیر پر بٹھا دیا تھا

"میں جانتی ہوں آپ کمزور نہیں ہیں مگر یہ جسم کمزور ہے ابھی۔۔ آپ نے ماں کا خیال بھی تو رکھنا ہے نہ۔۔؟؟"

"میری بچی۔۔۔ مننان یہیں ہے وہ نسواء سے ملا۔۔؟؟"

"نہیں ابھی نہیں۔۔"

اور وہ ویل چئیر کو سہارا دئیے باہر لے گئی تھی۔۔

راستے میں ملنے والے کالیگ ڈاکٹر اسے مبارکباد دے رہے تھے اسکی تعریف کررہے تھے اور نجیب آفندی کا سینہ فخر سے اور چوڑہا ہورہا تھا

۔

کل کی رات بہت طویل ثابت ہوئی تھی مگر اب انہوں نے خود سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اب اپنی بیوی اور دونوں بچوں کو پھر سے اپنی زندگی میں ایک ساتھ لے آئے گے۔۔

وہ جانتے تھے نسواء انہیں قبول کرچکی ہے حورب انہیں تسلیم کرچکی ہے وہ یہ بھی جانتے تھے مننان نے کل جس طرح اسے بابا کہا وہ دن دور نہیں تھا جب مننان بھی اپنا لے گا۔۔۔

۔

مگر کیا پتہ تھا کچھ گھنٹوں کے بعد زندگی کا ہر پل ایک سال کی طرح کٹنا تھا ان کا۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تمہاری وجہ سے ہوا سب کچھ نکل جاؤ میرے گھر سے۔۔۔ میرا بیٹا مر گیا تمہاری اور تمہاری بیٹی کی اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔۔"

"مجھے ایک بار ظہیر کو دیکھ لینے دیں ماں جی میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔"

مگر ظہیر صاحب کی دادی نے دروازہ کھول کر باہر دھکا دہ دیا تھا عمارہ اور ساتھ شزا کو۔۔

انہیں کوئی فکر نہیں تھی لوگ کی نظروں کی انہیں تو بس غصہ تھا اور وہ غصہ دوبالا ہوا جب دروازے پر دادی کو دیکھا تھا اپنی سوتن کو دیکھ کر انہوں نے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی تھی مگر دادی کی چھڑی نے درمیان میں رکاوٹ کھڑی کردی تھی

۔

"اسکی کیا غلطی ہے بلقیس جب گناہ مجھ سے ہوا تھا تو مجھے سزا دیتی۔۔ کیوں بچوں کو درمیان میں لے آئی۔۔؟؟ کیوں تمہاری نفرت نے دو ہنستے بستے خاندانوں کو برباد کردیا ۔۔"

"تم کہہ رہی ہو یہ سب۔۔؟؟ خود سے پوچھو برباد کس نے کیا درمیان میں کون آیا تھا۔

میرا گھر برباد کیا تم نے تمہارے ہوس نے تمہاری ضد نے۔۔۔"

"اس لیے آئی ہوں معافی مانگنے تم سے تم کہو گی تو تمہارے قدموں میں گر جاؤ گی ۔۔

اب بس کردو یہ نفرتیں۔۔ وہ شخص کب کا چلا گیا جس کے پیچھے یہ سب ہوا۔۔"

"تمہارے لیے آسان ہے کہنا کیونکہ وہ شخص تمہارا ہوکر رہا تمہارے بچوں کا ہوکر رہا۔۔ مجھے کیا ملا۔۔؟ میرا جو تھا اب وہ بھی نہیں رہا۔۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔

تم جیسی عورتیں جو شادی شدہ مردوں کے ساتھ آفئیر چلا کر شادی کرلیتی ہیں یہ جانے بغیر کہ دوسری بیوی کے آجانے پر پہلی بیوی کی زندگی اور بچوں کی زندگی کسی جہنم سے کم نہیں ہوتی۔۔۔مگر پھر بھی تم جیسی باز نہیں آتی۔۔

تم دیکھ رہی ہو یہ بربادی۔۔؟؟ میری بددعا ہے تمہارے خاندان میں بھی جوان جنازے۔۔"

"ماہیر جاچکا ہے اس سے جوان موت کیا ہوگی۔۔؟؟ خدا کا واسطہ۔۔"

"ماہیر کونسا تمہارا خون تھا۔۔؟؟ یہی جوان جنازہ مننان کا ہوتا تب پوچھتی۔۔

میرا بدلہ کبھی ختم نہیں ہوگا کبھی نہیں۔۔تم۔۔۔"

انکے سینے میں درد اٹھی اور وہ پیچھے جاگری تھی۔۔۔

رشتے داروں نے دادی اور عمارہ کو بے عزت کرکے گھر سے نکال دیا تھا۔۔۔

گھر پہنچنے سے پہلے بلقیس بیگم کی موت کی خبر انہیں مل گئی تھی۔۔۔

۔

"میں خود کو کبھی معاف نہیں کرپاؤں گی آفندی صاحب اور آپ کو بھی نہیں۔۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء۔۔۔"

"میں ابھی آئی۔۔"

نجیب کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے جب وہ نسواء کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتے ہیں عین اسی وقت حورب ایکسئیوز کرکے وہاں سے چلی گئی تھی اور اپنے ساتھ نرسز کو بھی لے گئی تھی۔۔۔

باہر آتے ہی اس نے پہلا کام اپنے بھائی کو فون کرنے کا کیا تھا۔۔ جو آف جارہا تھا

"مننان بھائی کہاں ہیں آپ۔۔؟؟"

"ڈاکٹر حورب آپ کو ڈاکٹر سحر نے او ٹی میں رپورٹ کرنے کا کہا ہے۔۔"

نرس کی بات سن کر حورب نے ایک نظر شیشے کے اس پار اپنے پیرنٹس کو دیکھا تھا اور پھر وہ چلی گئی تھی وہاں۔۔

ڈیوٹی کے ہاتھوں وہ بھی مجبور تھی جانے سے پہلے ایک بار پھر بھائی کو کال ملائی تھی اس نے

۔

"یہ سب کیسے ہوا نجیب۔۔؟ آپ کوئی سپر ہیرو نہیں ہیں اس عمر میں کون کرتا ہے ایسے۔۔؟؟"

"ڈانٹنے کے بجائے جگہ دہ دیں نسواء۔۔ سکون کی نیند آجائے گی۔۔

نسواء کی بات ٹال دی تھی وہ مکمل بات نہیں بتانا چاہتے تھے ۔۔

"بس کچھ دن اور نسواء ہم پوری طرح نجات پا لیں گے ان گھٹیا لوگوں سے۔۔"

ویل چئیر سے جیسے ہی اٹھے نسواء نے ہاتھ آگے بڑھایا تھااور وہ پاس اسی بیڈ پر بیٹھ گئے تھے

"نسواء۔۔ بہت مبارک ہو آپ کا آپریشن کامیاب ہوگیا۔۔ اگر میں ٹھیک ہوتا تو یہی شکرانے کے نوافل ادا کرتا۔۔ اللہ نے آپ کو ایک نئی زندگی بخشی میری زندگی مجھے واپس مل گئی نسواء۔۔"

چہرے کی طرف جھک کر بوسہ لیا تھا نسواء کے ماتھے پر۔۔۔

"نجیب۔۔۔"

"شش۔۔۔ "

ان دونوں آنکھوں پر بوسہ لیا تو نسواء کی پلکیں جھک گئی تھی جب نجیب کے لب ان کے ناک سے ٹکرائے تھے آنکھیں شاک سے بڑی ہوئی تھی

"نجیب۔۔۔شرم کریں  حورب کسی بھی لمحے اندر آتی ہوگی۔۔نرس ڈاکٹر۔۔"

نجیب نے بے باکی دیکھاتے ہوئے وہ بھی کردیا تھا جس پر نسواء گھبرا رہی تھی

"سی اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔۔؟؟"

"شرم کریں۔۔"

شرماتے ہوئے چہرہ دوسری طرف کرلیا تھا اب نجیب کے چہرے پر ہنسی آئی تھی نسواء کے چہرے پر وہی ہنسی وہی رونق دیکھ کر۔۔۔

"نسواء۔۔۔زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے اور وہ آپ ہیں۔۔"

اور وہ پہلو میں لیٹ گئے تھے نسواء کے۔۔

"آپ کو درد ہورہا ہوگا میں حورب کو بلاؤں۔۔؟؟"

"نہیں اسکی ضرورت نہیں میرے تمام تر دردوں کو راحت مل جاتی آپ کے پہلو میں آکر نسواء۔۔ آپ کا ہونا میرا ہونا ہے۔۔۔"

"ہممم۔۔۔"

نسواء خاموش ہوگئی تھی وہ جانتے تھے ابھی بہت وقت درکار تھا نسواء کو پھر سے ویسا کرنے میں جیسی وہ پہلے تھی اپنی محبت کا اظہار کرنے والی  پیار نچھاوڑ کرنے والی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"یہ کیا بکواس کررہے ہیں۔۔۔ آفیسر میں تمہاری جان لے لوں گا اگر تم نے اب میرے بیٹے کو مرا ہوا کہا۔۔ سرچ کرو پورا ایریا سرچ کرو۔۔ ایک بھی جگہ نہ چھوٹے۔۔"

۔

پچھلے دو گھنٹے سے وہ اس جگہ پر موجود تھے زخم تازہ تھے تب بھی انہیں فکر نہ تھی

انہیں تو خبر بھی کسی نیوز چینل سے ملی تھی ہسپتال سے سیدھا یہیں آئے تھے وہ۔۔

۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہ دو گھنٹے کچھ گھنٹوں میں اور دن شام میں ڈھل چکا تھا۔۔

"کچھ نہیں ملا تو اس کا یہی مطلب ہوا مننان کی گاڑی تھی وہ نہیں تھا۔۔حورب بیٹا تم ٹھیک کہہ رہی تھی ہوسکتا ہے مننان کی گاڑی کسی نے چرا لی ہو ہو۔۔

ہوسکتا ہے گاڑی کوئی اور چلا رہا ہو۔۔۔"

"بابا آپ بیٹھ جائیں سٹیچز سے بلڈ نکلنا شروع ہوگیا ہے مننان بھائی کو کچھ نہیں ہوگا آپ بیٹھ جائیں۔۔"

"سر ایک ڈیڈ باڈی ملی ہے۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مجھے اپنا لینا چاہیے تھا نجیب۔۔۔ آپ کے دھوکے کو آپ کی دوسری شادی کو اس دوسری عورت کو اپنا لینا چاہیے تھا اگر اپنا لیتی تو آج میرا مننان اس بدلے کی آگ میں جل نہ جاتا۔۔۔ وہ تمہاری نفرت۔۔۔"

بات کرتے کرتے اس نے اس شخص کو وہ عزت نہیں دی تھی وہ جو آپ کہتی تھکتی نہ تھی وہ تم تمہیں کہہ کر مخاطب کر رہی تھی ۔۔۔

۔

"نسواء یہی فرق ہے ایک عورت اور مرد کی محبت میں۔۔

آپ میں کبھی کوئی کمی نہیں تھی۔۔ کمی مجھ میں تھی میری محبت میں تھی میری وفا میں تھی۔۔۔

میں نے بے وفا ہونا تھا تب نہ ہوتا تو کچھ سال بعد ہوجاتا۔۔۔ میں نے تو مکمل مستقبل سوچ رکھا تھا۔۔۔"

نسواء کا ہاتھ ہاتھوں میں بھر کر بہت چاہ سے دیکھا تھا نجیب نے۔۔۔

"میں اس وقت ایک شوہر ایک ہمسفر نہیں ایک مرد بن کر سوچتا رہا۔۔۔جسے دو عورتیں ایک ساتھ چاہیے تھی

نسواء میں نے تو مستقبل سوچ لیا تھا۔۔۔

دوسری شادی کرکے آپ پر مسلط کردینے کا مستقبل۔۔۔

عمارہ کو ہمارے گھر میں بیوی بنا کر لانے کا جس دن سوچا۔۔۔ تب یہ بھی سوچ لیا تھا کہ آپ کو زبردستی اپنانا پڑے گا مگر۔۔۔۔"

"مگر۔۔۔یہ کمبخت نسواء۔۔۔ جس نے دوسری بیوی کو کیا اپنانا تھا اس نے شوہر ہی ٹھکرا دیا۔۔۔"

نسواء نے بات مکمل کی تو گہری خاموشی چھا گئی تھی

"نجیب۔۔۔ مجھے اپنا لینا چاہیے تھا آپ کے فیصلے کو۔۔۔ میں اکیلی تھوڑی ہوں جس پر شوہر نے سوتن لاکر بٹھا دی۔۔۔؟

نجانے کتنی بیویوں پر یہ قیامت گزری ہوگی۔۔۔ نجانے کون کون سے بیوی یہ گھونٹ زبردستی پیتی ہوگی۔۔۔

مجھے بھی پی لینا چاہیے تھا۔۔۔

ایک بات بتائیں۔۔۔اگر میں اپنا لیتی تو کیا مننان کو آپ وہ محبت وہ رتبہ وہ باپ کا پیار دہ پاتے۔۔۔؟؟ جو نفرت آپ نے ہماری پیار کی نشانی کو ان پانچ سالوں میں دی تھی ۔۔"

۔

یہ وہی مدعا تھا یہی تو وہ اہم مرکز تھا۔۔۔

ان کا بیٹا مننان۔۔۔

"نسواء۔۔۔ آپ ابھی ٹھیک۔۔۔"

وہ گھٹنوں پر سے اٹھنے لگے تھے جب نسواء نے کندھے پر  ہاتھ رکھ کر انہیں واپس بٹھایا تھا۔۔۔

"کیا مننان کو آپ نے وہ محبت دینی تھی نجیب۔۔۔؟ آپ نے وہ محبت نہیں دینی تھی اسے۔۔ دوسری بیوی کے آنے پر آپ نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرے بیٹے کو نفرت کا نشانہ بنانا تھا نجیب۔۔۔۔

اور جب اولاد ہوجانی تھی تو سب نے مل کر اسے ٹارچر کرنا تھا۔۔۔۔

کہاں لے آیا نصیباں۔۔۔۔

جب وہ پاس تھا تو آپ دشمن تھے اور جب دور ہوا تو خود دشمن بن گیا خود کا۔۔۔  میری وجہ سے میرے لیے لیتا رہا وہ بدلہ۔۔۔۔

وہ کیوں بدلہ لیتا رہا۔۔۔؟

اسے سمجھ جانا چاہیے تھا جب ایک شادی شدہ رشتے میں شوہر باہر منہ مار لے تو بیوی میں کمی۔۔۔"

نجیب نے نسواء کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔

۔

"آپ ایک اچھی بیوی بنی نسواء میں ایک اچھا شوہر نہیں بن پایا۔۔ میرے بچوں کی تربیت اس بات کی گواہ ہیں۔۔ میں نے اپنی ہوس کو درمیان میں آنے دیا ہمارے ہنستے بستے گھر کو برباد کردیا۔۔

اگر آپ رُک بھی جاتی۔۔۔ رک جاتی تب بھی میں مننان ہمارے بیٹے کو وہ رتبہ نہ دے پاتا۔۔۔

سچ بات تو یہ ہے کہ۔۔۔ آپ کے چلے جانے کے بعد مجھے وہ قدر ہوئی آپ کی۔۔۔نسواء۔۔

اگر اس رشتے میں کوئی قصور وار ہے تو وہ 'میں ' ہوں نجیب آفندی

آپ کا شوہر جس نے دوسری شادی تو کرلی اپنی ضد تو پوری کرلی مگر وہ سب چلا گیا

میری دوسری شادی میری پہلی شادی کو مکمل تباہ کرگئی۔۔

میں آج خالی ہوں۔۔ مننان کے نہ ہونے نے میرے وجود کو بھی ختم کردیا۔۔"

اور نسواء کو وہ سب باتیں پھر سے یاد آگئیں تھیں مننان کی موت کی خبر جس نے سہمی ہوئی اس ماں کو پھر سے اتاولا کردیا تھا۔۔

اس بار کھڑے ہوتے ہوئے اسے نجیب کے سہارے کی ضرورت پڑی تھی جب وہ باہر نکلی تھی اپنے شوہر کے ساتھ۔۔۔

۔

کون تھا باہر۔۔؟؟ جنازے پر رونے والا کون تھا۔۔؟؟ حورب کی چیخنے چلانے کی آوازیں پورے ہال میں گونج رہی تھی

نجیب آفندی کا پورا خاندان ایک سائڈ پر تھا مگر کوئی بھی اس طرف دیکھنا نہیں چاہتا تھا کوئی بھی نہیں۔۔۔

"ماں۔۔۔ مننان بھائی۔۔۔"

وہ ماں کے سینے سے لگے رونے لگی تھی مگر ماں کہاں جاتی جس کی کل کائنات ہی اسکا بیٹا تھا

وہ پتھر بن کر بیٹھ چکی تھی وہیں لوگ تعزیت کرنے نجیب صاحب کی طرف بڑھ رہے تھے جنہیں کچھ سد بد نہ رہی تھی یہ دوسرا جوان جنازہ تھا۔۔ ماہیر کے وقت تو وہ بہانہ بنا چکے تھے کہ انکا بیٹا نہیں مگر اب کیا بہانہ بناتے۔۔۔

۔

"نجیب بھائی۔۔ یہ سب کیا ہوگیا۔۔آپ کے ایک فیصلے نے سب بکھیر دیا۔۔

میری بیٹی چلی گئی اور اب آپ کا بیٹا بھی چلا گیا۔۔اب۔۔۔"

فضا کی باتیں ادھوری رہ گئی تھی جب اسکی بیٹی اندر حال میں داخل ہوئی تھی ۔۔

"کہانی مننان پر ہی ختم ہونی تھی مامو۔۔۔ شروع بھی تو اسی کی وجہ سے ہوئی تھی نہ۔۔؟

سب کی زندگیوں کو جہنم بنا کر وہ خود کتنی خاموشی سے چلا گیا۔۔

تمہیں ایسے نہیں جانا چاہیے تھا مننان تم نے تو جیت کا جشن منانا تھا۔۔ دیکھو نجیب آفندی کے ہر چاہنے والے کو خوں کے آنسو رلا دیا تم نے۔۔

اب کیوں چپ ہو اٹھو۔۔ اور بتاؤ سب کو۔۔۔"

میت پر ہاتھ مارتے ہوئے سر رکھ دیا تھا۔۔ اور بے تحاشہ رو دی تھی وہ۔۔

"مننان ہمارا بچہ بھی باپ کی محبت کو ترستا رہے گا جیسے تم ترستے رہے۔۔۔"

نجیب صاحب منہ پلٹ گئے تھے ہال سے باہر چلے گئے تھے وہ۔۔۔

اب انکی برداشت سے باہر ہوگیا تھا سب کچھ۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"نسواء گھر چلیں۔۔ اس وقت قبرستان میں مت بیٹھیں گھر چلیں۔۔"

"کونسے گھر۔۔؟؟ کس کے گھر شوہر بہت پہلے گھر سے نکال چکا تھا۔۔۔

اور جس بیٹے نے چھت دی وہ خود چلا گیا۔۔ اب کس کے گھر چلوں۔۔"

ہاتھوں کو جھٹک کر وہ واپس مٹی پر بیٹھ گئی تھی ننگے سر ننگے پاؤں۔۔۔

وہ ماں پھر سے وہی اس قبر کے پاس بیٹھ گئی تھی۔۔

"ہمارے گھر۔۔ ہمارے بیٹے کے گھر نسواء۔۔ چلیں ہاتھ جوڑتا ہوں۔۔"

"میں نے بھی ہاتھ جوڑے تھے نجیب۔۔ اگر رک جاتے تو آج یہ نہ ہوتا۔۔۔

نجیب آفندی۔۔۔ کیا مل کیا گیا دوسری شادی کرکے۔۔؟؟ کیوں میرا گھر اجاڑ دیا آپ نے کیوں۔۔؟؟"

نجیب کا کالر پکڑ کر وہ اٹھی تھی اور وہ کسی مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑے رہ گئے

"نسواء مجھے سزا دیں جو کہنا ہے کہیں مگر گھر چلیں۔۔"

"میں اپنے گھر میں ہوں۔۔ یہ میرا گھر ہے۔۔۔ میرا بیٹا جہاں ہے وہاں میرا گھر ہے نجیب۔۔۔

میرا مننان جہاں ہے۔۔ وہاں میرا گھر ہے۔۔"

"بس کرجائیں نسواء۔۔۔ خدا کے لیے۔۔۔"

"آپ بس کرجائیں نسواء۔۔گھر چلیں۔۔"

اسکی چادر بھی کندھوں سے سرک کر نیچے گھر گئی تھی

"آپ نے سوچ بھی کیسے لیا نجیب کے میں اپنے بچے کو یہاں تنو تنہا چھوڑ جاؤں گی۔۔؟؟

میرا مننان جس نے مجھے ایک لمحے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا۔۔ جہاں جس جگہ میرے شوہر کو میرے ساتھ ہونا چاہیے تھا وہاں میرا بیٹا تھا۔۔

ہر حالت میں ہر حال میں۔۔میں کیسے چھوڑ جاؤں۔۔۔ مننان سن رہے ہو میرے بچے۔۔۔

تمہاری ماں تمہارے سوا کچھ نہیں ہے بیٹا۔۔ میرا وجود کچھ نہیں ہے۔۔ میں بھی مر جانا۔۔"

نجیب کا ہاتھ اٹھ گیا تھا۔۔ اور وہ گر گئی تھی زمین پر۔۔۔

"بس کرجائیں نسواء ایک اور جنازہ نہیں اٹھا سکتا یہ کندھا۔۔ رحم کھا لیں مجھ پر۔۔

کوئی تو رحم کھا لے مجھ پر میری زندگی پر۔۔"

سسکتی ہوئی آواز نے دم توڑ دیا تھا جب وہ نسواء کے کندھے پر سر رکھ کر رو دئیے تھے

"نسواء بس کرجائیں۔۔پلیز ہاتھ جوڑتا ہوں بس کرجائیں۔۔گھر چلیں۔۔"

"نہیں چل سکتی گھر۔۔ میں نہیں جاسکتی کہیں بھی میں نے جاکر بھی یہیں آنا ہے۔۔

میرا وجود میرے بیٹے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔۔ میں خاک ہوں نجیب۔۔ وہ خاک جسے اسے کے ظالم شوہر نے پاؤں کی دھول سمجھ کر اڑا دیا۔۔۔

میں وہ بدبخت ہوں جسے دوسری زندگی دی اسکے بیٹے نے۔۔ میں تو جی ہی اپنے مننان کے لیے رہی تھی۔۔

میں کچھ نہیں ہوں نجیب۔۔۔ میراوجود کچھ نہیں ہے۔۔

میں بس اسکے لیے جی رہی تھی وہ نہیں تو میں بھی نہیں یہ نسواء بھی نہیں۔۔۔"

سر اٹھا کر نجیب کی آنکھوں میں دیکھا تھا اب انہوں نے اپنے شوہر کی آنکھوں میں دیکھا تھا

"نجیب  میں مننان کے بغیر کچھ نہیں ہوں میری ممتا مر گئی میرے بیٹے کے ساتھ میں۔۔۔"

"نسواء۔۔۔یہ خون۔۔"

نسواء کے ناک سے بہتے خون نے انہیں پریشان کردیا اور اگلے ہی لمحے وہ بےجان گر پڑی تھی

"نسواء۔۔۔۔ نسواء۔۔۔"

نسواء۔۔۔"

اس وجود کو سینے سے لگائے چیخ اٹھے تھے وہ۔۔۔

"وقت بدلتا چلا گیا تھا۔۔۔زندگی چلنا شروع ہوگئی تھی مگر اس ہسپتال کے اس کمرے میں زندگی ٹھہر گئی تھی۔۔۔ رک گئی تھی تھم گئی تھی۔۔۔

کہیں زندگی خوبصورت تھی تو کہیں زندگی ویران

کہیں زندگی آباد تھی تو کہیں زندگی برباد

کہیں زندگی خوشیوں سے بھرا چمن

تو کہیں زندگی غموں کا قبرستان

۔

"او رے لمحے تو کہیں مت جا۔۔۔

ہوسکے تو عمر بھر تھم جا۔۔۔"

۔

نسواء۔۔۔"

آنکھیں صاف کرکے انہوں نے وہ نام پکارا تھا اور جواب میں صرف خاموشی ملی تھی انہیں۔۔

اشک تھے کہ آنکھوں سے جاری تھے وہ سوجھی ہوئی آنکھیں بوجھل ہوگئی تھی پانی کے ان قطروں سے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"یہ وہ میڈیسن نہیں تھی میں نے دی تھی آپ کو آپ یہ کب سے کھلا رہے ہیں پیشنٹ کو۔۔؟"

ڈاکٹر کے کہنے کی دیر تھی ایک ہی سانس بھرنے کی آواز سنائی دی تھی نجیب آفندی کے چہرے پر وہ غصہ تھا جو اس سے پہلی انکی بیٹی نے نہ دیکھا ہو۔۔

"ہاؤ ڈیرھ یو۔۔؟؟ تمہارا ہسپتال ہے دوائی دینے والے تم ہو یا تمہاری نرسز۔۔۔

لاکھوں روپے بھر رہا ہوں اس لیے کہ یہ سب کرو۔۔؟؟"

ڈاکٹر کا کالر پکڑ کر وہ روم سے باہر لے گئے تھے حورب کے منع کرنے کے باوجود بھی

"دیکھیں سر کالر چھوڑیں میں تو خود شاک ہوں۔۔مجھے اس بارے کچھ معلوم نہیں ہے۔۔"

مگر ایک تھپڑ مار کر ڈاکٹر کو پیچھے دھکا دہ دیا تھا اور ایک ہی للکار میں آواز بلند کی تھی

"وہ نرس وہ وارڈ بوائے وہ سب عملہ چاہیے جو اس کمرے میں دیکھ بھال کررہا تھا"

"بابا پلیز۔۔ آپ ریلیکس ہوجائیں۔۔"

مگر وہ وہ آپے سے باہر ہوگئے تھے جب وہ وارڈ بوائے اور نرس سامنے آئیں تھے

"یو باسٹرڈ۔۔۔ کیا دوائیاں دیتے رہے ہو۔۔؟ اور کس کے کہنے پر۔۔؟؟"

وہ نرس پر تو ہاتھ نہیں اٹھاتے۔۔مگر وارڈ بوائے کو چھوڑتے نہیں ہیں۔۔

"بس کردیں آپ کو ماں کی قسم ہے۔۔"

نجیب کا اٹھتا ہوا ہاتھ رک گیا تھا اس وارڈ بوائے کو بھی ڈاکٹر کی طرح دھکا دہ دیا تھا

"اب ان سے پولیس نمٹے گی۔۔۔"

انہوں نے جیسے ہی فون کیا تھا وہ نرس بھاگنے لگی تھی جسے اسی ڈاکٹر نے پکڑ لیا تھا

"اگر تم دونوں اس سب میں انوالوو ہوئے تو خود اپنے ہاتھوں سے سزا دوں گا۔۔۔"

نجیب آفندی تو پیچھے بیٹھ گئے تھے سرپر ہاتھ رکھ کر

"کیوں آرام نہیں ہے۔؟؟ کس حال میں ہے پھر بھی کسی نے اسے مارنے کی کوشش کی۔۔

کیوں ہے اسکی زندگی خطرے میں میرے ہوتے ہوئے بھی۔۔؟؟"

"بس کرجائیں ڈیڈ۔۔ آپ کے ہاتھ بھی زخمی ہوگئے ہیں۔۔۔"

"ہم اس ہسپتال میں یا کسی ہسپتال میں نہیں رہیں گے بیٹا۔۔ میں ابھی شفٹ کرتا ہوں۔۔ ڈاکٹرز گھر آکر ٹریٹمنٹ کریں گے۔۔۔"

پر حورب انکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر انہیں چپ کروا چکی تھی

"یہ سب اتنا آسان نہیں ہے بابا۔۔۔ آپ سمجھ نہیں رہے یہ ہسپتال ڈاکٹر ہمیں اسی ملک میں ملیں تھے۔۔ یہ سب مانیٹرز اکوئپمنٹ ہمیں گھر میں نہیں مل سکتے ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔۔"

"کیا تمہیں اپنے باپ پر یقین نہیں ہے بیٹا۔۔؟ یہ سب کچھ بھی نہیں ہیں۔۔ میں اسکے لیے  اس گھر میں ایک الگ ہسپتال بنا دوں گا اگر ضرورت پڑی تو۔۔"

۔

اور کچھ گھنٹے میں اس نے دیکھا بھی تھا۔۔ بہت گھروں کے درمیان وہ دو منزلہ مکان میں ایک گرینڈ روم میں ہر ضرورت کی مشین میں وہ ویک بستر۔۔۔

۔

اسے اس وقت یہ بات پتہ چل گئی تھی کی اسکی ماں کےلیے اسکے والد صاحب کسی حد تک جا سکتے ہیں۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ کیوں خود جارہے ہیں میڈیسن لینے۔۔؟؟ اتنے ملازم ہیں کسی سے بھی کہہ دیں میرا ویٹ کرلیں بس فلائٹ ۔۔"

"نووو۔۔۔ اور اتنی جلدی واپسی۔۔؟ پرسو ہی تو گئی تھی پاکستان۔۔ کیا وہ لوگ اتنی چھٹیاں دہ دیتے ہیں۔۔؟؟  ڈاکٹر کو تو ایک پل کی فرصت نہیں ہوتی لیزی بون۔۔۔"

"ہاہاہاہا ۔۔۔۔بابا۔۔۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔ اچھا فارمیسی آگئی ہے میں گھر جاتے وقت کال کرتا ہوں۔۔"

چند باتیں کرکے انہوں نے فون کاٹ دیا تھا اور جیسے ہی پلٹے تھے کسی سے ٹکڑا گئے تھے وہ۔۔

۔

"آپ رہنے دیں میں کرلوں گی سر۔۔"

"نہیں۔۔نہیں میری غلطی ہے بیٹا۔۔میں اٹھا دیتا ہوں۔۔"

وہ جیسے ہی جھک کر وہ سامان اٹھاتے ہیں انکی نظر اس لڑکی پر پڑتی ہے اور وہ سامان ہاتھ سے نیچے گر جاتا ہے

"منیشا بیٹا۔۔؟؟"

منیشا جو نجیب کو پہچان گئی تھی وہ کچھ قدم پیچھے ہوئی تھی جب نجیب صاحب نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔۔

"منیشا۔۔"

"بیٹا مت کہیے گا۔۔ایم سوری۔۔"

مگر نجیب صاحب اسکا بازو پکڑ چکے تھے

"تم اس وقت اس جگہ کیا کررہی ہو اس حالت میں۔۔؟؟ منیشا بیٹا میرے ساتھ چلو۔۔

ڈرائیور۔۔۔"

مگر وہ اپنا ہاتھ چھڑا چکی تھی

"آپ میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔۔ میں کچھ بھی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔۔"

بات کرتے کرتے اسکے پیٹ میں درد شروع ہوئی جس کی شدت اتنی تھی کہ وہ گھٹنوں کے بل گر گئی تھی۔۔

"میرا۔۔ میرا بچہ۔۔۔"

اپنے پیٹ کو پڑتے ہوئے چلائی تھی وہ۔۔

"کچھ نہیں ہوگا بیٹا۔۔ ہم ابھی ہسپتال چلیں گے۔۔"

انہوں نے جلدی سے ڈرائیور کو بلایا تھا جو گاڑی سڑک کے اس پار لے آیا تھا منیشا کو جلدی سے اٹھائے وہ گاڑی میں لٹا چکے تھے

۔

کچھ دیر میں ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے کچھ تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا جس پر نجیب صاحب کو غصہ بھی آیا تھا منیشہ پر

۔

"آپ کون ہوتے ہیں میرے فیصلے کرنے والے"

"کیا تم نہیں جانتی میں کون ہوں تمہارا۔۔؟؟ خون کا رشتہ نہیں مانتی تو انسانیت کے ناتے ہی مجھے میرا فرض پورا کرنے دو بیٹا۔۔"

"کونسا فرض۔۔؟؟ آپ بری ہیں ہر فرض سے۔۔ مجھے آپ سے کوئی احسان نہیں چاہیے۔۔"

"منیشا مجھے سختی کرنے پر مجبور نہ کرو۔۔"

"کریں سختی میں اس فیز سے پہلے بھی گزر چکی ہوں آپ کے بیٹے نے سختی کی تھی دیکھ لیں کیا نتیجہ نکلا۔۔"

اور وہ چپ چاپ روم سے جانے لگے تھے مگر نہ جا سکے۔۔ انہوں نے یہی تو سیکھا تھا اپنی غلطیوں سے کہ بھاگنا نہیں ہے سب ٹھیک کرنا ہے چاہے کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔۔

"میرا تم پر ہر طرح کا حق ہے بیٹا۔۔ اس ملک میں اس طرح کے قانون بہت ہیں جو تمہیں مجبور کردیں گے میری بات ماننے پر اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ تم چپ چاپ میری بات مانو

اپنا نہیں تو اپنے بچے کا سوچو ۔۔"

اور وہ چلے گئے تھے وہاں سے

"آئی ہیٹ یو نجیب مامو۔۔۔"

وہ زور سے بولی تھی بند دروازے کے اس پار نجیب نے وہ جملہ بھی اپنی یاداشت میں محفوظ کرلیا تھا جیسے باقی سب۔۔۔

۔

"سب کرتے ہیں۔۔ سب کررہے ہیں۔۔اب نفرت لفظ محبت لگنے لگا ہے مجھے

کم سے کم میرے اپنے کسی ایک جذبے سے تو یاد رکھے گے مجھے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"تو آپ مجھ سے شادی کرلینا پھر آپ ہمارے ساتھ رہیں گے۔۔"

اس بچی کے سوال پر سب ٹیچرز نے قہقہ لگا دیا تھا سوائے اس کے جو ایک دم سے چپ ہوگیا تھا

"ہاہاہاہا کیوں پروفیسر صاحب۔۔۔"

"باپ رے۔۔۔ مجھے شادی نہیں کرنی آپ کو کھانا بنانا بھی نہیں آتا۔۔۔"

"پر میں سیکھ لوں گی۔۔"

اس پر وہ کھلکھلا کر ہنس دیا تھا اس بچی کو گود میں اٹھائے گدگدی کرتے ہوئے ہوا میں کہرا دیا تھا اسے۔۔۔ جس پر اس بچی کے قہقے بھی ہواؤں میں گونج اٹھے تھے

"یہ آپ کے ساتھ بہت اٹیچ ہوگئی ہے پروفیسر صاحب۔۔۔"

"انکے ساتھ تو سب بچے ہی اٹیچ ہوگئے ہیں یہ سمر کیمپ واقعی ہی بہت اینجوائے کیا ہم سب نے۔۔"

اس شخص  نے اس بچی کو نیچے اتار دیا تھا

"مس ماہا اب جلدی سے اپنے کیمپ میں چلی جائیں نہیں تو پرنسپل سر نے پنش کردینا ہے۔۔"

پر ماہا بازو باندھے منہ پھیر کر کھڑی ہوگئی تھی

"پہلے میرا جواب دیں شادی مجھ سے ہی کریں گے۔۔۔"

"ہاہاہاہاہاہا۔۔ نہیں۔۔"

"اوکے میں آپ کی ماما سے بات کروں پھر۔۔؟؟"

مننان کے چہرے کی ہنسی غائب ہوگئی تھی ماں لفظ پر۔۔۔

"اپنے کیمپ میں جاؤ ماہا۔۔"

"پر۔۔۔"

"ناؤ۔۔۔"

وہ چلایا تھا۔۔ اسے غصہ نہیں نہیں آتا تھا۔۔کسی نے ان چار سالوں میں اسے غصے میں نہیں دیکھا تھا

اب جب اس بچی کو ڈانٹتے دیکھا تو مس سائرہ نے ماہا کو پیار سے سمجھایا تھا۔۔

سب بچے اپنے اپنے ٹیچرز کے ساتھ کیمپ میں چلے گئے تھے سائرہ نے ایک نظر منہ

پھیرے پروفیسر  کو دیکھا تھا وہ دور اس پہاڑی کے کنارہ پر کھڑا تھا۔۔

اس پرسکون ماحول میں اس شخص کے چہرے پر پڑتےبل اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ پرسکون نہیں ہے۔۔

"سرآپ۔۔"

"میں ابھی اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔۔ اس سکول کی ٹریپ کب ختم ہورہی ہے۔۔؟"

اس نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا

"نیکسٹ ویک۔۔۔ کیا آپ غصہ ہوگئے ہیں۔۔؟ لاسٹ ٹائم بھی جب غصہ ہوئے تو اس سکول کی ٹریپ آپ نے جلدی ہی ختم کروا دی تھی کیا اس بار بھی ان بچوں کو جلدی بھیج دیں گے۔۔؟؟"

"ہاہاہا۔۔ نہیں۔۔ اس بار میں جلدی جانا چاہتا ہوں۔۔ شہر میں کچھ کام ہے۔۔"

"اوہ۔۔۔"

دونوں کے درمیان پھر سے گہری  خاموشی چھا گئی تھی۔۔

سائرہ بہت سے سوال کرنا چاہتی تھی پر چپ تھی کیا کرتی۔۔۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی انہوں نے سمر کیمپ آرگنائز کروائے تھے

ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ اس شخص کو انہی چند ماہ دیکھ پاتی تھی باقی کوئی نہیں جانتا تھا وہ کب کہاں سے آتے اور چلے جاتے ہیں۔۔۔

مگر وہ یہ جانتی تھی یہ جگہ اور یہ بچے بے حد سکون دیتے ہیں اس لیے ہر وقت وہ انہیں بچوں میں مگن دیکھتی تھی وہ۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"سر اس بار ہماری انفارمیشن ٹھیک ہیں "

"پچھلی بار بھی یہی کہا تھا نہ تم نے۔۔؟ کڑوروں روپے کھا کر بھی تم پہ نہ لگا پائے۔۔"

"سر ایک بار یہ دیکھ لیں۔۔"

اور جب وہ لیپ ٹاپ کی سکرین اس ڈی ٹیکٹو نے نجیب کے سامنے کی تھی ہاتھوں سے وہ گلاس گر گیا تھا۔۔ اور یقین آگیا تھا انہیں کہ انکی تلاش ختم ہونے کو آئی۔۔

"یہ میرا۔۔۔میرا۔۔۔"

آفس چئیر پر بیٹھ گئے تھے سکرین پر انگلیاں پھیرتے ہوئے آنکھیں بھر گئی تھی انکی۔۔

"وہ یہی ہیں۔۔۔ مگر شہر سے دور ایک لینڈ جو پرائیویٹ پراپرٹی ہے انکی سیکیورٹی بہت ٹائٹ ہے وہاں کی۔۔ وہ جگہ بچوں کے سمر کیمپ کی جگہ جانی جاتی ہے۔۔

میں زیادہ تو کچھ نہیں کرسکا مگر میں یہ پاس لے آیا ہوں۔۔

آپ اس سکول کے پرنسپل بن کر وہاں اینٹر ہوسکتے ہیں اور یہ ظاہر کیجئے گا کہ آپ وہاں سمر کیمپ بکنگ کے لیے گئے ہیں۔۔"

ساتھ کھڑا وہ آدمی سب بتاتا جارہا تھا مگر نجیب صاحب کی آنکھیں ہٹ نہیں پارہی تھی اس ویڈیو سے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میں آج شام کو یہاں سے جارہا ہوں ۔۔ سنبھال لینا ۔۔ اس سکول کی ٹریپ کل کلوز ہوجائے گی اور۔۔"

"مننان۔۔۔ بیٹا۔۔۔"

میز پر بکھرے کاغذات سمیٹتے ہوئے وہ ہاتھ تھم گئے تھے۔۔۔ اس نے بےساختہ پیچھے مڑ کر دیکھا تھا

"۔۔۔"

مننان بیٹا۔۔۔"

وہ اندر داخل ہوئے تھے اور اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا

مننان بیٹا۔۔۔ میرے بچے۔۔۔ اتنی ضرورت سانسوں کی جسم کو نہ ہوگی جتنی ضرورت ہمیں تمہاری تھی بچے۔۔۔"

بیٹے کے چہرے کو ہاتھوں میں لئیے وہ چومتے ہوئے باتیں کررہے تھے۔۔

۔

یہ وہ محبت کی شدت تھی جسے وہ بچپن میں تلاش کرتا آیا تھا۔۔

اب اپنے باپ کو اس طرح دیکھ کر اسے وہ سکون وہ خوشی کیوں نہیں مل رہی تھی۔۔؟؟

"آپ یہاں کیوں آئے ہیں۔۔؟؟ کیسے معلوم ہوا۔۔؟ جائیں یہاں سے۔۔ اور پلیز کسی کو مت بتائیے گا کہ میں۔۔۔ میں زندہ بھی ہوں۔۔"

ہاتھ چھڑا کر وہ اس روم سے باہر چلا گیا تھا کمرے کے باہر کھلا آسمان تھا اس نے اس جگہ اپنا آفس وہ بلڈنگ کھڑی کی ہوئی تھی ان پہاڑوں پر۔۔۔ وہ جیسے ہی باہر آیا تھا آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا اسکے تیز دھڑکتے دل کو وہ آرام نہیں دہ پارہی تھی جو ہر روز ملتا تھا یہاں کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہوکر۔۔۔

۔

"مننان بیٹا۔۔"

"جائیں یہاں سے۔۔ مجھے زندہ میں شمار نہ کریں چلے جائیں۔۔"

"اور اسکا کیا جو زندہ ہوتے ہوئے بھی زندہ نہیں۔۔؟؟ مننان تمہاری ماں۔۔۔"

مننان کی مٹھی بند ہوگئی تھی

"کیا ہوا انہیں۔۔؟؟"

"جوان بیٹے کی موت کا سن کر کونسی ماں ٹھیک رہ سکتی ہے مننان۔۔؟؟ تمہاری ماں کچھ بھی نہیں رہی تمہارے بغیر۔۔۔

ایک بٹن۔۔۔ جو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ پریس کرکے اسے اس اذیت سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔۔

مننان ڈاکٹر کو لگتا ہے کہ وہ بہت پہلے جاچکی ہے۔۔۔

وہ مصنوعی سانس بس ہمارے لیے دلاسے ہیں۔۔"

"کہاں ہیں وہ۔۔؟؟"

والد کی آنکھیں سے گرنے والے آنسوؤں نے اسکا دل پسیج دیا تھا۔۔

ماں کا نہ ہونے اسکی روح تک کو گھائل کرگیا تھا اس لمحے۔۔

"لے چلیں۔۔۔ مجھے لے چلیں۔۔۔"

باپ کا ہاتھ پکڑے وہ تیز قدموں سے نکلا تھا اوہاں سے۔۔۔

کب گاڑی میں بیٹھا نجیب کی کب وہ اس چھوٹے سے گھر کے باہر رکی گاڑی سے اترا اور نجیب سے پہلے وہ اس گھر کے باہر تھا۔۔

زور سے دروازہ بجانے پر اسے جو آواز سنائی دی وہ اسے اور شاک کرگئی تھی

"افف مامو رک جائیں۔۔۔ آپ کی چابی کہاں ہے۔۔؟؟ "

وہ سب کچھ امیجن کرسکتا تھا مگر اپنے ماضی کو نہیں۔۔

منیشا جس طرح دروازہ کھولے اسکے سامنے کھڑی تھی

"منیشا بیٹا۔۔"

منیشا اس سے زیادہ شاک تھی مننان کو اپنے سامنے پاکر۔۔

جس کی موت پر ری ایکٹ نہیں کیا تھا اسکے زندہ وجود نے اسکی آنکھوں میں آنسو لا دئیے تھے

"ماں۔۔۔ ماں۔۔۔"

وہ اندر داخل ہوگیا تھا۔۔۔

"اس کمرے میں۔۔"

نجیب صاحب کے کہنے کہ دیر تھی اور وہ سیڑھیاں چڑھتے اس کمرے میں داخل ہوگیا تھا۔۔

۔

روم میں پہلے سے موجود ڈاکٹر اور نرس متوجہ ہوئے تھے

"سر ابھی ان کا معائنہ۔۔۔"

پر وہ ڈاکٹر کو پش کئیے بیڈ تک پہنچا تھا۔۔ سب کی آوازیں قدموں کی آہٹ دروازہ کھلنے اور بند ہونے کا شور دماغ سے اوجھل ہوگیا تھا جب اپنی ماں کو مشینوں کی قید میں گھیرے دیکھا تھا اس نے

"ماں۔۔۔میں آگیا ہوں۔۔ آپ کا مننان۔۔ ماں آگیا ہوں میں۔۔"

بہت آرام سے ماں کے ہاتھ کو ماتھے پر لگائے بیڈ پر بیٹھا تھا وہ۔۔۔

آنکھیں کھولو ماں۔۔۔ میں آگیا ہوں۔۔"

مانیٹر کی بیپ تیز ہوگئی تھی

"آپ باہر جائیں۔۔۔"

مگر وہ کسی صورت تیار نہیں تھا ہاتھ چھوڑنے کو۔۔

"انکی حالت خراب ہورہی ہے ہمیں انہیں ہاسپٹل شفٹ کرنا ہوگا۔۔"

"کچھ نہیں ہوگا آپ کو۔۔ میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا ماں۔۔"

۔

نسواء کو واپس ہسپتال شفٹ کردیا گیا تھا۔۔۔ایک ہفتہ حالت ویسی ہی رہی تھی

"انہوں امپرومنٹ دیکھائی ہے جو کہ بہت حیرانگی بات ہے۔۔ آپ جتنا ہوسکے ان سے باتیں کریں کوشش کریں کہ یہ ری ایکشن دیں۔۔"

ڈاکٹر کے جانے کے بعد ہی نجیب نے مننان کو اپنے گلے سے لگایا تھا

"تھینک یو سوو مچ بیٹا۔۔۔تم نے مجھے ایک نئی زندگی دہ دی ہے تھینک یو سو مچ۔۔"

مننان کے ماتھے پر بوسہ دئیے وہ واپس نسواء کے بیڈ پر بیٹھ گئے تھے

"نسواء ہمارا بیٹا واپس آگیا ہے۔۔۔اب آپ بھی واپس آجائیں۔۔ واپس آجائیں۔۔"

وہ اور بریک ڈاؤن نہیں دیکھ پا رہا تھا اپنے والد کا اپنی ماں کا روم سے جیسے ہی باہر جانے لگا تھا منیشا سے سامنا ہوا تھا اس کا۔۔۔

"یہ کھانا۔۔۔ مامو نے کچھ کھایا نہیں۔۔ کھلا دیجئے گا میں۔۔"

منیشا کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اس نے۔۔

"میں ۔۔ مجھے ضروری کام ہے۔۔ تم کھلا دو۔۔ "

ہاتھ ایک دم سے چھوڑ دیا تھا معذرت کرکے وہ چلا گیا تھا۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"بیٹا ڈنر کرلو۔۔۔"

ٹیرس پر کھڑے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا

"ابھی بھوک نہیں ہے۔۔ آپ۔۔"

"اٹس اوکے۔۔ نہیں کھانا مگر ہمیں کمپنی تو دہ سکتے ہو نہ۔۔؟؟ آج ڈنر تمہاری ماں کے پاس کریں گے۔۔"

انہیں انتظار تھا جیسے ہی مننان نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ باپ بیٹے نیچے آگئے تھے

۔

"ویسے آپ نے سہی گھر کے مردوں کو آگے لگایا ہوا ہے ماں۔۔ مامو بھی اور اب آپ کا بیٹا بھی۔۔

نوٹ فئیر  میں اکیلے ہینڈل کررہی ہوں سب کچھ۔۔ اور وہ شیطان اسکی شرارتیں دیکھیں تو سمجھ آجائے کہ کتنا مشکل ہے۔۔"

"لڑکی اتنا تنگ بھی نہیں کرتے ہم۔۔"

"جائیں مامو۔۔ بنے مت اب۔۔ جتنا تنگ آپ کرتے ہیں بچوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں"

"ہاہاہا دیکھ لیں نسواء۔۔۔"

منیشا اور نجیب کی بونڈنگ دیکھ کر اسکے قدم دروازے پر ہی رکے رہ گئے تھے

"اندر آجائیں کھانا لگ گیا ہے۔۔"

منیشا آہستہ سے کہہ کر باہر چلی گئی تھی

"بیٹا تم نہیں کھاؤ گی۔۔؟؟ "

"میں بس انتظار کررہی ہوں سکول بس کسی بھی وقت ڈراپ۔۔لو آگئی اب پورا گھر سر پہ اٹھا لے گی۔۔"

وہ کہتے ہی چلی گئی تھی کچھ دیر میں وہ صوفہ پر بیٹھ گئے تھے

"کس کی بات ہورہی تھی۔؟"

مننان نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا جس کا جواب دیتے ہوئے نجیب ہچکچا رہے تھے

"وہ بیٹا۔۔۔"

"مجھے معلوم تھا کسی کو میرا انتظار نہیں ہوگا۔۔ ابو آپ بھی بہت گندے بچے ہیں۔۔"

دروازہ جیسے ہی کھلا تھا وہ کمر پر ہاتھ رکھے نجیب کو گھور رہی تھی

"ہاہاہاہا۔۔ کیا بات ہے اتنا بڑا میں آج سب کو بچہ لگ رہا ہوں۔۔۔"

وہ اپنی جگہ سے اٹھے تھے اس بچی کی طرف بڑھے تھے

"او مائی گاڈ۔۔۔ پروفیسر ایم۔۔۔؟؟"

نجیب کو پیچھے چھوڑے وہ مننان کی طرف بھاگی تھی

"ماہا۔۔ بیڈ مینرز۔۔"

منیشا کی آواز نے بھی اس بچی پر کوئی اثر نہیں کیا تھا جو مننان کے گلے لگی تھی

"پروفیسر ایم۔۔ کیا آپ میری ماما سے شادی کی بات کرنے آئے ہیں۔۔؟؟"

"وٹ دا۔۔۔"

منیشا نے غصے سے کہا تھا مننان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے۔۔

"جی ماما۔۔ میں نے کہا تھا نہ میں پروفیسر ایم سے شادی کروں گی۔۔سمر کیمپ یاد ہے۔۔؟"

وہ سب چپ ہوگئے تھے پر ایک ہنسی نے ان سب کو شاکڈ کردیا تھا اور وہ ہنسی اس خاموش انسان کی تھی جو کب سے چپ تھا۔۔

"نسواء۔۔"

"ماں۔۔"

"نانو۔۔"

سب ہی بستر کی طرف بھاگے تھے۔۔۔

۔

"ہنستے ہنستے یار ہم تو روپڑۓے۔۔۔

آنکھیں پونچھوں۔۔ آنسو پھر سے نم کرے۔۔"

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"اب وہ بالکل فٹ ہیں اس وینٹی لیٹر کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔۔"

ایک ایک کرکے وہ مشین اس روم سے باہر چلی گئی تھی

"مننان بیٹا۔۔"

اسے پھر سے پکارے جانے کی ضرورت نہ تھی وہ ماں کی طرف لپکا تھا

"ماں۔۔۔"

ماں کے کندھے پر سر رکھے اسکی خاموش سسکیاں اس کمرے سے باہر تک سنائی دہ رہی تھی

"پروفیسر ایم کیوں رو رہے ہیں ماما۔۔؟"

"ماہا بیٹا ابھی آپ کے سونے کے ٹائم ہوگیا ہے چلیں۔۔"

"پر ماما۔۔"

"پلیز بیٹا باقی باتیں صبح سہی۔۔"

"اوکے۔۔ پر نانو سے تو ملنے دیں۔۔"

ماہا جلدی سے روم میں داخل ہوئی تھی

"مامو۔۔ سنبھالیں خود کو۔۔"

اندر سے آتی ہوئی آواز نے دونوں کو چپ کرا دیا تھا

"میں ہوں ماہا ماہیر آفندی۔۔۔"

بیڈ پر لیٹی نسواء سے ہاتھ ملاتے جیسے ہی اس نے اپنا نام بتایا اندر وہ ماں بیٹا ساکن ہوگئے تھے اور باہر نجیب آفندی۔۔۔ مننان کی فکر لاحق ہوگئی تھی انہیں۔۔

"ماہا بہت پیارا نام ہے۔۔"

"نسواء بھی بہت پیارا نام ہے ویسے۔۔"

نسواء پھر سے ہنسی تھی اور اس بچی کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔

ایک پل کو اسکی آنکھیں باہر کھڑے اس شخص سے ٹکرائی تھی مگر پھر وہ شخص اوجھل ہوگیا تھا آنکھوں سے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"بس کرجاؤ۔۔ بیٹا اور نہیں کھایا جائے گا۔۔"

"اب آپ کی منمانی نہیں چلے گی بھیا اور کھلائیں۔۔۔"

حورب کو دیکھتے ہی وہ کرسی سے اٹھی تھی

"حورب میری بچی۔۔"

"بس نام کی بچی تھی ماں۔۔ آخر کار آپ نے بھائی اور مجھ میں فرق کرہی دیا نہ۔۔؟

اتنے سال مجھے کس بات کی سزا ملی۔۔؟ اور بابا۔۔ آپ جانتی ہیں کیا گزری ان پر۔۔؟؟"

وہ ماں کے گلے لگ کر گلے شکوے کرتی ہے۔۔

"آپ دونوں نہیں آپ تینوں نے بہت امتحان لئیے میرے۔۔ ایک پل کو لگا تھا کہ اپنی جان لے لوں اور خود کو آزاد کرلوں اس روز روز کی اذیت سے۔۔"

حورب کی باتیں کڑوی مگر سچی تھی۔۔اور وہ آج بتانا چاہتی تھی کہ ان تینوں نے کتنی تکلیف دی اسے۔۔

۔

"گڑیا۔۔۔"

"مننان بھائی۔۔۔میں جانتی تھی آپ ٹھیک ہوں گے۔۔۔ کچھ نہیں ہوا ہوگا آپ کو۔۔

اتنا وقت لگا دیا واپس آنے میں بھائی۔۔۔"

بھائی کے گلے لگتے ہی اس کے شکایات دھری کی دھری رہ گئی تھی۔۔۔

۔

اپنوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مننان نے خود سے ایک وعدہ کیا تھا ان سب کے لیے جینے کا جنہوں نے اپنی زندگیاں روک دی تھی اسکے لیے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"مننان بیٹا ہم کہاں جارہے ہیں۔۔"

"۔۔۔ بابا کے پاس جارہے ہیں ماں۔۔"

"مننان۔۔"

"حیران مت ہوں۔۔ میں جانتا ہوں آپ کیوں ان کے سامنے نہیں جاتی کیونکہ آپ مجھے ناراض نہیں کرنا چاہتی۔۔۔"

"ایسی بات نہیں بیٹا۔۔یہ سب تمہارے بابا نے شروع کیا۔۔"

"انکی بھی وہی وجہ ہوگی جو آپ کی ہے۔۔ آپ دونوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرنا چاہتے تاکہ میں اداس نہ ہوجاؤں۔۔"

ماں کا ہاتھ پکڑے وہ ٹیرس پر لے آیا تھا پورا ٹیرس سجا ہوا تھا گلاب کے پھولوں سے روشن تھا موم بتیوں سے چراغوں سے۔۔۔درمیان میں ٹیبل اور دو کرسیاں رکھی گئی تھی مکمل انتظام کیا تھا ان بچوں نے اپنے والدین کی ڈیٹ کا۔۔۔

۔

"مننان۔۔۔"

"ماں انہیں بہت سزا مل گئی۔۔ بہت کچھ ہوگیا۔۔ دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں رہا انکے پاس

سوائے آپ کے۔۔ اب میرے لیے انکا وہ سہارا نہ چھینیں۔۔"

"بیٹا یہ نہ سوچو۔۔"

مگر وہ کرسی پر بٹھا چکا تھا نسواء کو۔۔

"ماں۔۔۔ اب بچوں کی فکر چھوڑ کر اپنی زندگی گزاریں۔۔ بس بہت کرلیا بچوں کے لیے۔۔

اب آپ دونوں کو ایک دوسرے کو اہمیت دینی ہوگی ایک دوسرے کو اہم سمجھنا ہوگا۔۔

میں نے جتنا ماضی میں آپ کو پل پل مرتے دیکھا۔۔ اب میں نے انکو تڑپتے ہوئے دیکھا ہے۔۔ایک بار۔۔ اس مننان کو درمیان سے ہٹا کر اپنے رشتے کو دیکھیں۔۔"

"اگر مننان ہٹ گیا تو کیا رہ جائے گا درمیان میں بیٹا۔۔؟؟"

نجیب صاحب بھی سامنے آچکے تھے

"تم ہمارے پیار کی نشانی۔۔۔ جس نے ہمیں جوڑے رکھا۔۔ اگر تم ہٹ گئے تو کیا وجود رہ جائے گا ہمارا۔۔؟؟"

مننان نے ان دونوں کے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا

"ویسے کیا غذب ڈھا رہی ہے آپ کی جوڑی۔۔ آپ اس مہرون ساڑھی میں اور آپ اس ٹکسیڈو میں۔۔میری نظر نہ لگ جائے۔۔ اور آپ دونوں بھی باہر نکل آئیں۔۔ میں نہیں چاہتا میرے ماں بابا کے رومینٹک سین کوئی دیکھے۔۔"

حورب منہ بناتے اور منیشا اسے آنکھیں دیکھاتے ہوئے اس چھپی ہوئی جگہ سے باہر نکلی تھی

"میں بھی تھی چھپی ہوئی"

"ہاہاہا آپ کو تو بھول ہی گیا تھا محترمہ۔۔"

ماہا کو گود میں اٹھائے خوب گدگدی کی تھی مننان نے۔۔۔

"چلو چلو۔۔ بھاگو نیچے۔۔۔"

وہ دونوں کو نیچے لے گیا تھا۔۔۔

"اور بابا۔۔ پلیز اپنی عمر کا لحاظ رکھئیے گا ہمیں کوئی بہن بھائی نہیں چاہیے ۔۔۔"

"ہاہاہاہاہا مننان بھیا۔۔۔۔"

وہ سب کے قہقے مسلسل سنائی دے رہے تھے انہیں جن کے منہ سرخ ہوگئے تھے مننان کی بات سن کر۔۔۔

"نسواء۔۔۔"

"اسے تو میں چھوڑوں گی نہیں۔۔۔"

پر وہ بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ چکے تھے۔۔اور وہ شرم کے مارے اپنی چہرہ نجیب کے سینے میں چھپا چکی تھی

"ہاہاہا۔۔ ارے اتنی شرم۔۔۔ میں نے کونسا سیریس لے لینا ہے۔۔ ڈونٹ وری۔۔"

"شٹ اپ۔۔"

"ہاہاہاہا آئیڈیا برا نہیں ہے نسواء۔۔۔ "

"نجیب۔۔۔ بس کریں۔۔"

نجیب کی ہنسی نے انہیں اور شرم سے پانی پانی کردیاتھا۔۔

۔

وہ رات انکی باتوں میں گزری تھی خوبصورت باتوں میں پرانی یادوں میں ۔۔۔

۔

"یہ دل ہمیشہ سے آپ کے لیے دھڑکا ہے نسواء۔۔کیا میں آئی لو یو نہ کہوں تو آُ سمجھ جائیں گی نہ کہ میں آپ سے بےحد محبت کرتا ہوں۔۔"

نجیب کے گالوں پر ہاتھ رکھ کر انکا چہرہ اپنے برابر کیا تھا نسواء نے

۔

"ان لفظوں کی ضرروت نہیں رہی نجیب آپ کی آنکھیں آپ کا ہر راز کھول رہی ہیں مجھ پر۔۔۔"

انکے ماتھے پر اپنا ماتھا رکھے ہاتھوں میں ہاتھ تھام چکی تھی نجیب کے۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"آپ  دونوں اب ایک کمرے میں سوئیں گے۔۔؟؟"

ماہا نے نجیب اور نسواء سے ایک ہی سوال پوچھا تھا جب وہ اگلے دن بریک فاسٹ کرنے آئے تھے۔۔۔

"اہاہاہاہا۔۔۔"

نسواء کو کھانسی آنا شروع ہوگئی تھی اور حورب کی ہنسی کنٹرول نہیں ہورہی تھی اس وقت

اور وہ بچی ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھے کسی ہیڈ ماسٹر کی طرح دیکھ رہی تھی نجیب اور نسواء کو

"باپ رے۔۔ اتنا تو کبھی ہمارے بچوں نے نہیں پوچھ گچھ کی تھی۔۔"

وہ بھی ہنسی چھپاتے ہوئے کہتے ہیں نسواء کے کان میں۔۔

"ماہا ۔۔ آج سکول نہیں جانا بیٹا۔۔ میں ڈراپ کردوں۔۔؟؟"

مننان نے بہت پیار سے پوچھا تھا۔۔

"اسکی کوئی ضرروت نہیں اسکی سکول وین آتی ہوگی۔۔"

منیشا نے جتنی بے رخی سے کہا تھا مننان کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی سنجیدہ ہوگئے تھے۔۔

یہ وہ معاملہ تھا جس پر کوئی بھی فرد کچھ نہیں کہنا چاہتا تھا نہ ہی مننان سے نہ ہی منیشا سے۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"کیا نام بتایا تھا شہاب۔۔ آپ بلا لیں اسکے پیرنٹس کو نجیب۔۔۔"

حورب نے والد کو دیکھا تھا اور پھر خاموشی سے والدہ کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی

"کیا ہوا بیٹا۔۔ تم تو جارہی تھی ہاسپٹل۔۔"

"ماں۔۔ یہ کس کی بات ہورہی ہے۔۔؟؟"

"بیٹا تمہارے بابا نے تمہارے رشتے کی با۔۔"

"مجھے نہیں کرنا۔۔ اس شخص سے تو بالکل نہیں۔۔"

اور وجہ جان سکتا ہوں میں۔۔؟؟"

"بابا پلیز۔۔۔"

"کیا تمہیں وہ پسند نہیں تھا۔۔؟؟ کیا تمہاری اس سے نفرت میں نہیں تھا۔؟؟

اس وقت سے اب تک وہ بس ایک موقع مانگ رہا ہے حورب بیٹا۔۔"

"اور میں اسے وہ ایک موقع نہیں دینا چاہتی۔۔ اس نے آپ کو غلط کہا تھا۔۔

میری نظر میں جتنی عزت ماں کی ہے بھائی کی ہے اتنی آپ کی بھی ہے بابا۔۔

میں کسی غیر کو اجازت نہیں دیتی کہ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرے۔۔

پسند ہو یا نہ ہو۔۔۔ "

ماں کے گال پر بوسہ دئیے وہ روم سے چلی گئی تھی۔۔ نسواء تو کھلے منہ کے ساتھ اپنی بیٹی کو دیکھتی رہ گئی تھی

"نسواء آپ ہی سمجھائیں اسے۔ اس لڑکے سے ایک غلطی۔۔"

"غلطی نہیں کہتے اسے۔۔ بابا اگر گڑیا اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو اسے فورس نہ کریں۔۔"

"ہوا کیا ہے ان دونوں کو۔۔؟؟"

"انہیں پیار ہوا ہے آپ سے نجیب آفندی۔۔ اب چپ کرکے بیٹھ جائیں۔۔۔

ہم حورب کے لیے کوئی اور اچھا سوٹ ایبل رشتہ تلاش کرلیں گے۔۔"

بازو سے کھینچ کر وہ اپنے ساتھ بٹھا چکی تھی نجیب کو۔۔۔

"آہم۔۔۔ خیر ہو۔۔ نسواء۔۔ "

"خیر ہے مسٹر نجیب۔۔۔"

نجیب کی گردن پر ہاتھ رکھے نسواء نے سرگوشی کی تھی۔۔

چہرے کے درمیان وہ فاصلہ بھی ختم ہونے کو تھا جب وہ ننھی شیطان کمر پر ہاتھ رکھے وہاں کھڑی تھی

"آپ دونوں کس کرنے لگے تھے نہ۔۔؟ بیڈ مینرز ہیں۔۔۔"

"یا اللہ ۔۔ اب منیشا کو منع نہیں کروں گا۔۔ اسے بوڈنگ میں جانا چاہیے۔۔"

نسواء کے کندھے پر سر رکھ چکے تھے وہ اور نسواء ہنس ہنس کر پاگل ہوئے جارہی تھی۔۔۔

۔

۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔

۔

"میں ڈراپ کردیتا ہوں منیشا گاڑی میں بیٹھو۔۔"

"نہیں میں چلی جاؤں گی۔۔ بس سٹینڈ پاس ہی ہے۔۔"

"اتنی بارش میں۔۔؟ فار گوڈ سیک گاڑی میں بیٹھو۔۔"

مگر منیشا تو زور سے اس کھلے دروازے کو بند کرکے آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔

وہ کچھ پل کو وہی رک گیا تھا پچھلے دنوں کی طرح وہ اب بھی درگزر کرنا چاہتا تھا اب بھی وہ چپ چاپ اپنے کام سے مطلب رکھنا چاہتا تھا۔۔

مگر اب اسکی لمٹ بھی کراس ہوتی جارہی تھی۔۔تیز بارش کو دیکھ کر اس نے اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولا تھا اور منیشا کے پیچھے قدم بڑھائے تھے

"تمہیں میری بات سمجھ کیوں نہیں آرہی منیشا۔۔؟ گاڑی میں بیٹھو۔۔"

بازو کو زبردستی پکڑے گاڑی کی طرف دھکیلا تھا

"لئیو مائی ہینڈ مننان۔۔ ہاتھ چھوڑیں۔۔"

اسکے چیخنے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔۔اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولے اس نے اندر پش کیا تھا منیشا کو۔۔

جو منہ بناتے ہی بیٹھ گئی تھی گاڑی میں۔۔۔

"ایم سوری۔۔۔ میں زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ اگر تم بیمار پڑجاؤ گی تو ماہا کا خیال کون رکھے گا۔۔؟؟"

اپنے رویے کا بہانہ بناتے ہوئے وضاحت دی تھی اس نے۔۔

"آپ کی عادت ہے پہلے کرلینا پھر معافی مانگ لینا۔۔ مگر خدارا میری بیٹی کو دور رکھے

میں نہیں چاہتی کہ اب آپ کے بدلوں میں وہ معسوم بچی آئے۔۔"

"منیشا۔۔ میں کسی بدلے کے تحت واپس نہیں آیا۔۔ کیا میں اس بچی کو نقصان پہنچا سکتا ہوں۔۔؟؟"

"آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔۔"

مننان نے پھر کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا اسے۔۔ گاڑی گھر کے باہر جیسے ہی رکی تھی وہ جلدی سے نکل کر اندر چلی گئی تھی اور جب مننان کار پارک کرکے اندر گیا تھا

تو سیدھا نسواء کی جانب بڑھا تھا جو ٹاول لئیے کھڑی تھی مسکراتے ہوئے بیٹے کے بالوں کو تولیے سے سکھانا شروع کیا تھا

"ماں۔۔۔ پچھلے ہفتے مس سائرہ کے آئے ہوئے رشتے کے بارے میں جواب جاننا تھا آپ نے میرا۔۔؟؟

میری طرف سے انکار کردیجئے گا۔۔۔

میں نے سوچ لیا ہے میری منزل کیا ہے۔۔۔ منزل مشکل ضرور ہے پر نا ممکن نہیں ہے ماں۔۔"

اسکی بات سن کر سیڑھیاں چڑھتے منیشا کے قدم رکے تھے

"مجھے فخر ہے تمہارے اس فیصلے پر بیٹا۔۔۔مگر۔۔"

"اس بار کوئی غلطی نہیں ہوگی۔۔ کوئی زور زبردستی نہیں ہوگی ماں۔۔ اس بار اگر میں اسے اپنی محبت سے نہ جیت سکا تو اسے قسمت کا فیصلہ سمجھ کر تسلیم کرلوں گا۔۔

میں اسکا ہرجائی بن کر نہیں جینا چاہتا ۔۔۔"

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

" نجیب۔۔۔ سو گئے۔۔۔؟؟ نجیب۔۔۔"

سینے سے سر اٹھائے نجیب کی بند آنکھوں کو دیکھا تھا اور واپس مایوسی سے سر نجیب کے سینے پر رکھے لیٹ گئی تھی

"میرے ہرجائی۔۔ ایکٹنگ بند کریں جانتی ہوں جاگ رہے ہیں۔۔۔"

اگلے لمحے اسے بیڈ کے ساتھ پن کردیا تھا نجیب نے آنکھوں میں بےپناہ غصہ تھا

"نسواء میں نے کتنی بار کہا ہے یہ لفظ مجھے زہر لگتا ہے۔۔"

"کونسا لفظ۔۔؟؟"

گلے میں بانہوں کا ہار ڈالے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا تھا

"ہرجائی۔۔"

"اووہ۔۔۔۔ برا کیوں لگتا ہے۔۔؟؟ کیا آپ میرے ہرجائی نہیں ہیں۔۔"

"نسواء۔۔پلیز۔۔۔"

"ہرجائی۔۔۔"

نجیب کی آنکھوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا تھا نسواء نے

"ہرجائی۔۔۔"

ماتھے پر بوسہ دے کر پھر سے دہرایا تھا

"میرا ہرجائی۔۔۔"

لبوں پر انگلی رکھتے ہوئے انہوں نے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا تھا

"نسواء۔۔۔"

"میرا ہرجائی۔۔۔۔"

اور وہ فاصلہ بھی ختم کردیا تھا نسواء نے۔۔۔

٭٭٭۔۔۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔۔٭٭٭

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mera Harjai Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mera Harjai written by Sidra Sheikh.Mera Harjai by Sidra Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages