Mehka Jaisay Rawan Rawan By Hina Asad Novel Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading..
Mehka Jaisay Rawan Rawan Novel By Hina Asad Complete Romantic Novel |
Novel Name: Mehka Jaisay Rawan Rawan
Writer Name: Hina Asad
Category: Complete Novel
سرخ زرتار عروسی لباس میں ملبوس ننگے پاؤں دونوں ہاتھوں سے اپنا بھاری ملبوس اٹھائے سر پٹ بھاگتی ہوئی بنا پاؤں میں آنے والے پھتروں کی فکر کیے بس کسی بھی طرح وہاں سے غائب ہو جانے کے لیے سرگرداں تھی ۔۔۔دوڑتے ہوئےپیچھے مڑ کر ایک بار اسی گھر پر آخری نگاہ ڈالی جہاں اس کا کل سرمایہ تھا۔۔۔۔
بی ۔ایم ۔ڈبلیو میں سے اپنی شاندار وجاہت سمیت برینڈڈ ڈارک بلیو تھری پیس سوٹ پہنے سکائی شرٹ پر ڈارک بلیو کلر کی ٹائی لگائے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے شرٹ کی بازوؤں پر امپورٹڈ کف لنکس لگائے مہنگی ترین خوشبو میں بسا بسایا وجود اپنے چمچاتے ہوئے جوتوں سمیت اس بیک ورڈ ایریا کے مین روڈ پر اتر چکا تھا۔۔۔۔
"سر گاڑی آگے نہیں جائے گی "ڈرائیور کی مؤدب سی آواز آئی ۔۔۔۔
"تم رکو ادھر ہی ۔۔۔۔میں تھوڑی دیر میں آیا۔۔۔۔
وہ گاڑی سے باہر نکل کر اپنے کوٹ کا درمیانہ بٹن بند کرتے ہوئے گھمبیر آواز میں بولا۔
اور شاہانہ چال چلتا ہوا گلی میں داخل ہوا ۔۔۔
وہ جو پچھے دیکھتے ہوئے آگے کو دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔اچانک کسی زور دار ٹکر لگنے پر خود کو سنبھال نا پائی ۔۔۔۔
مقابل نے اسے بچانے کے لیے تیزی سے اس کے گرد اپنا ہاتھ ڈالا۔۔۔۔
جو سیدھا اس کی کمر پر رکھا گیا۔۔۔۔
حنا کو اپنی برہنہ کمر پر کسی کے گرم ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا تو جی جان سے کانپ کر رہ گئی۔۔۔۔۔
بظاہر تو عروسی لباس کے بڑے سے دوپٹے میں خود کو کور کیے ہوئے تھی مگر اس موالی کاشی نے ایسا بیہودہ عروسی لباس اسے پہننے پر مجبور کیا تھا ۔۔۔۔۔جس سے اس کی کمر اور پیٹ عریاں ہورہا تھا اسی لیے وہ خود کو چھپائے ہوئے تھی۔۔۔۔۔
اس نے ایک نظر اس سجی سنوری ہوئی دلہن کے لباس میں ملبوس اس حسین مورت کو دیکھا ۔۔۔۔فورا نظروں کا زاویہ پھیر لیا۔۔۔۔
ہاتھ اس کی کپکپاتی ،لرزتی ہوئی مرمریں گداز کمر سے فورا ہٹائے ۔۔۔۔
مگر اس کے وجود سے اٹھتی ہوئی صندلی مہک اسے پل بھر میں اپنے حصار میں لے گئی۔۔۔
وہ خود کو سرزنش کرتے ہوئے اس سے ایک پل میں دوری بنا گیا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کے وہ پھر سے بھاگتی ۔۔۔۔
زیدان تغلق نے اس کی کلائی پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔۔۔
"شرم نہیں آتی اپنے بوڑھے باپ کی عزت کو مٹی میں ملاتے ہوئے ۔۔۔۔وہ دھاڑا۔۔۔۔
"مجھے جانے دو ۔۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔وہ منت بھرے انداز میں اپنی سیاہ غزال چشماں سے آنسو جاری کیے بولی ۔۔۔۔۔
مگر وہ ان سنی کیے اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا واپس وہیں لے جانے لگا جہاں سے وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی تھی۔۔۔۔
"مجھے وہاں واپس نہیں جانا۔۔۔چھوڑو مجھے ۔۔۔۔"
وہ اس کی مضبوط ترین گرفت سے اپنے دوسرے ہاتھ سے زور لگا کر چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے ساتھ گھسٹتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
غنیہ نے دیکھا کہ کافی وقت ہو گیا اور زیدان ابھی تک واپس نہیں آیا تو وہ احتیاط سے اپنا آپ سنبھال کر گاڑی سے باہر نکلی ۔۔۔۔۔
"میڈم جی صاحب ناراض ہوں گے ۔۔۔۔۔ڈرائیور نے جھجھکتے ہوئے مودبانہ انداز میں کہا۔
"کوئی بات نہیں میں دیکھتی ہوں ۔۔۔وہ شال اپنے گرد لپیٹے ہوئے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے اسی گلی میں آئی جہاں زیدان تغلق گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
گھر کے باہر لوگوں کی بھیڑ تھی ۔۔۔۔
"بہت اچھا کیا جو تو اسے لے کر آ گیا ۔۔۔۔
"بڑا پھڑپھڑا لیا تو نے ۔۔۔موالی کاشی زیدان کے ہاتھ سے حنا کا ہاتھ چھڑوا کر اپنی گرفت میں لیتا ہوابولا ۔۔۔۔چل بے ۔۔۔۔مولوی نکاح پڑھا۔۔۔۔۔۔
زیدان نے جب دیکھا کہ سامنے ہی اس کی پارٹی کا اہم ترین ورکر گولی لگنے کے باعث خون میں لت پت پڑا زندگی کی بازی ہار چکا ہے تو اسے چند پل ہی لگے اس سچویشن کو سمجھنے کے لیے ۔۔۔۔۔
"چھوڑ دو اس لڑکی کو "زیدان تغلق کی غراہٹ گونجی ۔۔۔۔۔
کاشی بدمعاش اس وقت اپنے گینگ کے ساتھ موجود تھا۔۔۔۔
"اوئے شہری بابو ۔۔۔۔اپنی خیریت چاہتا ہے تو چپ چاپ نکل جا یہاں سے ۔۔۔۔
اپنے لفڑے میں پڑنے کا نہیں۔۔۔۔۔۔
اس نے ہاتھ میں موجود گن زیدان پر تانی ۔۔۔۔
ورنہ ۔۔۔۔وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولا۔۔۔۔
"چل بے مولانا داڑھی ۔۔۔۔۔تجھے کیا فارسی سمجھ میں آتی ہے ؟؟؟؟
وہ کڑے تیوروں سے مولانا صاحب کو دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
نور العین بیٹا اُٹھ جاؤ یونیورسٹی نہیں جانا کیا آج ؟؟
ماما جانی بس پانچ منٹ اور۔۔۔۔۔
اُف کیا کروں میں تمہارا پھر تم مجھے ہی کہو گی کہ میں نے اُٹھایا نہیں ٹائم سے۔۔۔۔۔ نگہت بیگم اس کے اوپر سے کمفرٹر ہٹاتے ہوئے بولی تھیں۔۔۔
"اوہ ۔۔۔ میری پیاری ماما اُٹھ گئی میں"۔۔۔۔۔ وہ آنکھیں مسلتے ہوئے اُٹھی تھی۔
اب جلدی سے فریش ہو جاو میں ناشتہ لگاتی ہوں ٹیبل پہ۔۔۔۔وہ کمرے سے باہر جاتے بولی تھیں۔۔۔
اوکے ماما...میں ابھی آئی۔۔۔۔۔۔ وہ ان کے پیچھے سے آواز لگاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
دس منٹ بعد وہ فریش سی ڈائنینگ ٹیبل پہ بیٹھی تھی۔۔۔نگہت بیگم اُس کے سامنے پراٹھا اور آملیٹ رکھ رہی تھیں
صبح بخیر ۔۔۔۔۔۔۔شہباز تغلق نے چئیر پہ بیٹھتے ہی سب کو مشترکہ طور پر کہا۔۔۔۔
"صبح بخیر" !!!۔۔۔۔۔۔۔وہ پراٹھا کھاتے بولی تھی۔
"فرزام اُٹھ گیا ؟۔۔۔۔شہباز تغلق نے نگہت بیگم سے پوچھا تھا۔۔۔
"نہیں آج پولیس اسٹیشن نہیں جانا اُس نے اسی لیے اب تک سو رہا ہے"۔۔۔۔نگہت بیگم اُن کو ناشتہ سرو کرتے بولی تھیں۔
"یارق تم نور کو اس کے ڈیپارٹمنٹ میں چھوڑ کر پھر اپنے ڈیپارٹ میں جانا ۔۔۔۔جی دادا جان جیسے آپ کا حکم ۔۔۔۔وہ ادب سے بولا۔۔۔۔۔
ناشتے سے انصاف کرنے بعد وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔۔۔
"چلو نور "وہ اسے کہتا باہر کی طرف نکلا۔۔۔۔۔
***************
شہباز تغلق خاندان کے سربراہ تھے وہ ایک باوقار اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔خاندان میں ان کے فیصلوں کو حرف آخر مانا جاتا ،ایک بار جو بات انہوں نے کہہ دی سو کہہ دی ،کسی دوسرے کو جراءت بھی نہیں تھی کہ وہ انہیں ٹوک پاتا ۔۔۔۔
سب سر جھکائے ان کے فیصلوں پر سرخم تسلیم کرتے۔۔۔۔
شہباز تغلق کے تین بیٹے عماد تغلق اور فرہاد تغلق،ضماد تغلق تھے، اُن تینوں کی شادیاں شہباز تغلق نے اپنی پسند سے کیں تھیں، اور وہ سب اپنی اپنی زندگی میں خوش بھی تھے کیونکہ تینوں کی شریکِ حیات بہت اچھی تھیں۔۔۔۔
سب سے بڑے بیٹے عماد تغلق کا ایک ہی بیٹا زیدان تغلق ،جو گھر کی پہلی اولاد اور سب کا لاڈلا تھا۔۔۔۔۔شہباز تغلق تو اس پر اپنی جان چھڑکتے تھے۔۔۔۔
دوسرے بیٹے فرہاد تغلق کے دو بیٹے فرازم تغلق اور یارق تغلق تھے۔
جبکہ تیسرے بیٹے ضماد تغلق کی ایک بیٹی نور العین تھی ۔۔۔۔۔
ضماد اور نگہت بیگم نور العین کے سر پر سلامت تھے مگر باقی بچوں کے والدین ایک خطرناک حادثے سےجانبر نہ ہو سکے اور آگے پیجھے اس شدید ایکسڈنٹ کی تاب نا لاتے ہوئے اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔۔۔۔
تب سے ان سب بچوں کے دادا جان شہباز تغلق ہی سب بچوں کی کفالت کر رہے تھے ۔۔۔
زیدان ،فرزام اور یارق تینوں کی پرورش کی ذمّہ داری شہباز تغلق نے خوب اچھے سے نبھائی ۔۔۔۔
ضماد تغلق نے کبھی بزنس پر توجہ نا دی ،فرہاد اور عماد ہی بزنس سنبھالتے تھے ،مگر ان کے چلے جانے کے بعد ضماد نے ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
"ابے رک تیری تو " اس نے سٹرک پر پڑا پتھر اٹھا کر اس کی پشت پر مارا۔۔۔۔۔
"وہ جو عبائے میں ملبوس تازہ تازہ مال روڈ میں داخل ہوتی ایک امیرذادی کا کلچ اس کے شانے سے کھینچ کر بھاگی تھی ۔۔۔۔
ایک لفنگا اس کا تعاقب کرنے لگا۔۔۔۔۔
"شرم نہیں آتی تجھے عورت ذات پر ظلم کرتے ہوئے "وہ رکی ۔۔۔۔پھر مڑی ۔۔۔۔اور پھرتی سے چلتی ہوئی زبان کے جوہر دکھانے لگی۔۔۔۔
"تجھے شرم نہیں آئی چوری کرتے ہوئے تو مجھے کیوں آئے گی لا۔۔۔۔ادھر دے پرس۔۔۔۔
"کیوں باپ کا مال ہے ؟؟؟؟
وہ تلخی سے غرائی۔۔۔۔۔
"میرے نہیں تو کونسا تیرے باپ کا مال ہے ؟؟؟جلدی دے اپُن کا ٹیم کھوٹا نہ کر چل۔۔۔۔جلدی دے وہ ایک ہاتھ کے اشارے سے اس سے کلچ مانگ رہا تھا۔۔۔۔
"کیوں حصہ چاہیے کمینے تجھے؟؟؟؟
"میری محنت کی کمائی ایسے کیسے دے دوں تجھے کیا بہن بیاہی ہے؟؟؟؟
یہ لے ابھی دیتی ہوں تجھے حصہ وہ پاؤں میں موجود چپل کا اس کی طرف پورا نشانہ تاک کر پھینکتے ہوئی چلائی۔۔۔۔۔
اور آؤ دیکھا نہ تاؤ کہ چپل نشانے پر لگی بھی ہے یا نہیں ۔۔۔۔اپنا عبایا اٹھائے سر پٹ دوڑ لگادی ۔۔۔
شکر کہ نشانہ چوکا ۔۔۔۔
وہ دگنی تیزی سے اس کے تعاقب میں دوڑا۔۔۔۔
اور ایک ہی جست میں اسے جا لیا۔۔۔۔۔
اس نے تیزی سے ہاتھ میں پکڑا کلچ عبائے کے اندر شرٹ کے گلے میں گھسایا۔۔۔۔۔
"بڑی محفوظ جگہ تلاش کی ہے چھپانے کی ۔۔۔۔وہ معنی خیز نظروں سے دیکھتا ہوا کمینے پن کی انتہاؤں کو چھوتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
"اپنے آپ نکال دے ۔۔۔۔ورنہ میں نکالوں گا تو مجھے بھی مزہ آئے گا اور شاید تو بھی ۔۔۔۔۔یہی چاہتی ہے ۔۔۔۔۔وہ آنکھ مار کر بولا
"شٹ اپ "وہ اس کی بکواس پر چلائی ۔۔۔۔
"واہ آج کل کے چوروں کو انگریزی بھی آتی ہے ۔۔۔۔تمسخرانا انداز میں کہا گیا۔۔۔۔۔
وہ دھپ سے سڑک پر بیٹھی ۔۔۔۔
"بس ہو گئی اتنے تیری میں ؟؟؟؟وہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے لوفرانہ انداز میں بولا
"بس تو تیری کرواؤں گی چھچھورے ۔۔۔۔۔وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو مٹی سے بھر کر اس کی آنکھوں کی طرف کر کہ اچھالتے ہوئے نخوت سے بولی ۔۔۔۔۔
ایک دم سے آنکھوں میں پڑی مٹی سے سارے منظر دھندھلا گئے ۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں ہونے والی درد اور خارش سے نجات پانے کے لیے اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔۔۔۔۔
"عمر کدھر مر گیا ہے ؟"اس نے پاکٹ میں سے موبائل نکال کر کانسٹیبل عمر کو کال کی۔۔۔۔۔
"جی سر "اس نے جھٹ سے کہا ۔
"جی سر کے بچے بائیک لے کر روڈ کی دوسری طرف پہنچ ۔۔۔۔
"جی سر بس ابھی آیا ۔۔۔اس نے جلدی سے فون پاکٹ میں ڈالا ،پھرکوک کا آخری بڑا سا گھونٹ اندر انڈیل کر دکان سے باہر کو بھاگا ۔۔۔اور بھاگتا ہوا بائیک پر بیٹھا۔۔۔۔
"یہ سر کو بھی عید کے دن سکون نہیں نا خود آرام کرتے ہیں نا کسی اور کو عید منانے دیتے ہیں۔۔۔۔یہی تو دن ہے چوروں کا ۔۔۔۔انہیں بھی چوری کر کہ عید منانے دیں اور مجھے بھی ۔۔۔۔پر نا جی ۔۔۔۔۔وہ جلے دل کے پھپھولے پھوڑتا بائیک کو کک مار کر سٹارٹ کرتے ہوئے بیزاری سے بولا ۔۔۔۔۔۔
"آئیے سر بیٹھیں "جیسے ہی فرزام بائیک پر بیٹھا ۔۔۔۔
اچھل کر نیچے اترا ۔۔۔۔
" بائیک کیا دھوپ میں کھڑی کی تھی ؟؟؟؟
"جی سر ۔۔۔وہ کھسیاتے ہوئے دانت نکال کر بولا۔۔۔۔
"جاہل انسان سارا کچھ جلا ڈالا ۔۔۔۔۔"وہ جل کر تیز آواز میں بولا۔۔۔۔
گلے میں موجود گرہ لگے سکارف کو کھول کر سیٹ پر بچھایا ۔۔۔۔
پھر اس پر بیٹھتے ہوئے اس کے شانے پر ہاتھ مارا ۔۔۔۔۔
"چل اب "...
عمر نے بائیک سٹارٹ کی۔۔۔۔
"سر جان کی امان پاؤں تو ایک بات پوچھوں ؟؟؟؟
بولو ....اس نے سخت آواز میں کہا۔
"سر آج بہت غصے میں ہیں کیا ہوا ؟؟؟؟
"ہونا کیا تھا ایک چھٹانک بھر کی لڑکی مجھے ۔۔۔۔۔مجھے یعنی ایس ۔پی فرزام تغلق کو چونا لگا گئی ۔۔۔۔۔
عید الاضحی کے موقع پر مجھے ہی بکرا بنا گئی ۔۔۔۔بکری کہیں کی ۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ مل جائے پھر دیکھنا تم۔۔۔۔اسی کی قربانی کروں گا ۔۔۔۔۔وہ اس کے بارے میں سوچتا ہوا ایک بار پھر سے پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔۔۔۔۔
پہلی بار ہوا تھا کہ کسی لڑکی کو دیکھ کر جانے کس کونے میں چھپا اس کا ٹھرک پن باہر آیا تھا۔۔۔۔۔اسے یاد کر کہ خود ہی ہنسی آئی ۔۔۔۔۔۔
لاہور کے مال روڈ پر واقع چمن کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی نظر فٹ پاتھ پر بیٹھی ہوئی اسی لڑکی پر پڑی ۔۔
وہی سیاہ بڑی بڑی آنکھیں جن پر گھنی خمدار پلکیں سایہ فگن تھیں ۔۔۔۔وہی سیاہ عبایا۔۔۔۔
رک یار "فرزام نے عمر کو بائیک روکنے کے لیے کہا ۔۔۔۔
ایس ۔پی فرزام تغلق عید کے دن حلیہ تبدیل کر کے ایسے ہی چوروں کی تلاش میں سرگرداں تھا ۔۔۔۔
کھڑکی میں کھڑے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھتی وہ خود بھی گھری سوچ میں ڈوبی اسی منظر کا حصہ معلوم ہو رہی تھی ۔ ۔پرندے قطار در قطا ر اپنے آشیانوں کی جانب رواں دواں تھے مگر شاید اس کی ہی زندگی جمود کا شکار ہو کر رہ گئی تھی ۔وہ جب کبھی بھی سورج غروب ہوتا دیکھتی تھی تو ایک بے نام سی اداسی اسے اپنے گرد محسوس ہوتی ۔کچھ ویسا ہی کرب اسکی خوبصورت آنکھوں میں بھی آن بسا ۔جو شاید اب اسکی ذات کا حصہ بنتا جا رہا تھا ۔
"حنا کیا بات ہے بیٹا کس گہری سوچ میں گم ہو ؟"۔اپنے جان سے پیارے بابا کی آواز سنتی وہ چونک کر پلٹی ۔۔۔پیچھے کھڑے اس کے بابا کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔ان کے چہرے پر پریشانی کے سائے نمایاں ہو رہے تھے ۔۔۔۔وہ کبھی بھی انہیں اپنی وجہ سے پریشان نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔۔"کچھ نہیں بابا میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔وہ چہرے سے اداسی ہٹانے کی پوری کوشش کرتے ہوئے ہلکا سا مسکا کر بولی ۔۔۔۔۔
تو رحیم بخش کے چہرے کے اتار چڑھاؤ میں نرمی بکھری ۔۔۔۔۔۔۔اور بس یہی ایک لمحہ تھا جب اس کے گزرے ماہ وسال کا ہر غم غلط ہو جاتا تھا ۔کچھ دیر پہلے تک جو چہرہ اداس تھا، اپنے بابا کو خوش دیکھ کر زندگی سے بھرپور مسکان لئے جگمگا اٹھا تھا ۔
وہ بھاگ کر اپنے بابا کے سینے سے لگی ۔۔۔۔۔
"بابا کی جان اگر آپ حمزہ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو بتاؤ مجھے ؟"محبت سے اسکا ماتھا چوم کر وہ نرم آواز میں بولے ان کی آواز بھی ان کی شخصیت جیسی تھی نرم اور مہربان تھی ۔۔۔۔حد درجہ حلاوت سمیٹے ہوئے ۔۔۔۔۔۔
"بابا آپ کی خوشی میں میری خوشی ۔۔۔۔بس مجھے ایک بات کا غم ہے ابھی صرف میٹرک کے پیپرز دئیے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ابھی اور پڑھنا تھا ،کالج جانا تھا پھر یونیورسٹی بھی ۔۔۔۔مگر یہ سب ایک خواب ہی رہ جائے گا شاید۔۔۔۔اس نے یاسیت سے کہا۔
"بیٹا میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔۔۔۔اور اس موالی کاشی نے ہم دونوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے ۔۔۔۔
میں تیرے لیے کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تجھے جلد سے جلد ایک مضبوط سائباں فراہم کر دینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔
ورنہ اس کاشی سے تو کچھ بعید نہیں ۔۔۔۔۔
جو دن دیہاڑے یہاں آکر ہمیں دھمکیاں دے سکتا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔۔۔
ایک بار تمہارا نکاح حمزہ سے ہو جائے گا تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکے گا ۔۔۔۔
"ٹھیک ہے بابا آپ پریشان مت ہوں جیسا آپ مناسب سمجھیں۔۔۔۔۔وہ گلوگیر لہجے میں بولی ۔۔۔۔
رحیم بخش نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے۔۔۔۔اس کے سر پر دست شفقت رکھا ۔۔۔۔۔۔
رحیم بخش کی ایک ہی بیٹی تھی حنا ،اس کی بیوی کچھ سال پہلے ہی داغ مفارقت دئیے اس دنیا سے کوچ کر چکی تھی ،اب رحیم بخش ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں اپنی بیٹی کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا،پھل کا ٹھیلا لگاتا ،جس سے بمشکل ہی گزر بسر ہو رہا تھا،گھر کے بل کھانے پینے کا خرچ اور پھر اس کے سکول کی فیس ،اور اب اس موالی کاشی نے ان دونوں کا جینا حرام کر دیا تھا۔۔۔۔۔
وہ اپنے میٹرک کے بورڈ کے پیپرز دینے جا رہی تھی کہ راستے میں اس محلے کے مشہور بدمعاش کاشی نے اس کا راستہ روکا ۔۔۔۔گلی محلے کے سب لڑکے دور کھڑے اپنی اپنی جگہ پر موجود تماشہ دیکھ رہے تھے مگر کسی میں بھی ہمت نا تھی کہ وہ اسے موالی کاشی سے بچاتے ۔۔۔۔
وہ ہونقوں کی طرح اردگرد دیکھنے لگی،جہاں ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ موجود تھا۔ ۔۔۔۔ اتنی بن ٹھن کے تو وہ کبھی بھی کہیں بھی نہیں گئی تھی،سادہ سے کپڑوں میں ملبوس وہ ہاتھ میں جیومیٹری باکس پکڑے دم سادھے کھڑی تھی۔ اسکے وہم گمان میں بھی نہ تھا۔۔۔۔۔کہ ایسا کچھ ہو گا۔۔۔
اس کے بابا نے کہا بھی تھا کہ میں چھوڑ آتا ہوں مگر وہ ان کے کام کی وجہ سے ۔ وہ انہیں منع کر گئی ۔۔۔۔اس کے بابا رحیم بخش فروٹ کی ریڑھی لگاتے تھے ۔۔۔صبح صبح منڈی جا کر تازہ پھل لاتے تھے ۔۔۔بس اسی وجہ اس نے انہیں منع کر دیا کہ ان کے کام میں خلل نا پڑے ۔۔۔۔اور انہیں منع کر دیا کہ وہ خود ہی پیپیر دینے چلی جائے گی مگر واقعی آج آ کر پچھتانے لگی ۔۔۔۔۔
وہ اپنے ہی دھیان میں چلی جا رہی تھی کہ چاروں طرف سے اس موالی کاشی کے غنڈوں نے اسے چاروں طرف سے گھیرا ۔۔۔۔۔
" کدھر جا رہی ہو چھمک چھلو "
کاشی جو شکل سے ہی آوارہ لگ رہا تھا ، اسکی طرف جھکتا ہوا بولا۔
جبکہ اس بن بلائی مصیبت کو دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ۔۔۔۔۔
" دیکھیں مجھے جانے دیں ۔۔۔میرا پیپر ہے ۔۔۔وہ ہمت باندھ کر بولی ۔۔۔
" اے لڑکی تم جانتی نہیں ہو ہمارے کاشی بھائی کو ۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ان میں سے ایک لڑکا اسے باور کروانے لگا۔۔۔
اگلے ہی پل وہ ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اسکاہاتھ پکڑ کر پیچھے کی طرف موڑ گیا۔۔۔ جس سے اس کے منہ سے درد کے مارے چیخ نکلی تھی۔
محلے والےمحض خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے ، کسی میں بھی اس بِھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ تھی۔۔
بے بسی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آئے تو اس نے ہاتھ چھوڑا ۔۔۔۔۔
وہ جان چھوٹ جانے پر بھاگتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔۔۔۔۔
پھر ہر بار ایسا ہونے لگا۔۔۔وہ روز اس کا پیچھا کرتا۔۔۔۔
کچھ کہتا نا مگر اس کو گھر سے سکول اور سکول سے گھر پہنچنے تک اس کا پیچھے پیچھے رہتا۔۔۔۔۔
اور آخری پیپر والے دن تو گھر آکر اس کے بابا رحیم بخش کو دھمکا کر گیا تھا کہ وہ اس جمعہ کو اس سے نکاح کرنے آئے گا ۔۔۔۔۔
"بابا آپ کسی سے بات کریں نا وہ اس موالی سے ہمارا پیچھا چھڑوائے ۔۔۔
"بیٹا ہم غریب لوگوں کی بات کون سنے گا۔۔۔پولیس بھی ان غنڈوں سے ڈرتی ہے ۔۔۔ہماری کیا اوقات ؟؟؟کون سنے گا ہماری فریاد ۔۔۔؟؟؟۔
بابا آپ جن جماعت میں کام کرتے ہیں ۔۔ان سے بات کریں ۔۔۔۔
"نہیں بیٹا وہ بڑے لوگ ہیں ۔۔۔ہم جیسے چھوٹے لوگوں کے جھگڑوں میں کیوں پڑیں گے ؟
بابا آپ بھی تو ان کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کیے بنا پر جلسے جلوس میں پیش پیش رہتے ہیں ۔۔۔تو کیا وہ اپنے کارکنان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ؟؟؟
"ایسی بات نہیں ہمارے ایم ۔پی۔اے زیدان صاحب بہت نیک اور رحم دل انسان ہیں،
وہ ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے ۔۔۔
تو ان سے بات کریں نا ۔۔۔وہ ضرور ہماری مدد کریں گے ۔۔۔۔۔
زیدان تغلق ایم ۔پی۔اے کے عہدے پر فائز ایک مشہور ترین سیاسی لیڈر تھے ،رحیم بخش ان کے ہر جلسے جلوس میں شرکت کرتا ۔۔۔اور فعال کردار ادا کرتا اسی لیے وہ زیدان تغلق کی نظروں میں تھا ،کبھی کبھار راستے سے گزرتے ہوئے وہ گھر کے لیے اپنے ڈرائیور سے کہہ کر رحیم بخش کے ٹھیلے سے پھل خرید لیتا،اس طرح غریب عوام بھی اس کے عاجزانہ انداز سے متاثر تھی اور جب بھی کوئی جلسہ ہوتا بنا سوچے جوش و خروش سے اس میں حصہ لیتے ،زیدان تغلق اپنے سٹیٹس میں تو زبان زد عام تھا ہی بلکہ ان کے علاؤہ عام عوام کے دلوں میں بھی جگہ بنا چکا تھا ۔۔۔۔
"نہیں بیٹا ان جیسے بدمعاشوں سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔بس تم جلد از جلد بخیرو عافیت اس گھر سے رخصت ہو جاؤ ۔۔۔مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔۔
تب ہی رحیم بخش نے اپنے محلے کے ایک جاننے والے کے بیٹے حمزہ سے اس کا رشتہ طے کر دیا اور ایک دن پہلے جمعرات کے روز نکاح طے ہو گیا۔۔۔۔
آج وہ دن بھی آن پہنچا جب اس کا نکاح طے تھا ۔۔۔۔
اس کے سسرال سے اس کے لیے نکاح کا جوڑا آیا ۔۔۔۔
محلے کی ہی ایک لڑکی جو اس کی سکول کی دوست بھی تھی اس تیار کرنے آئی تھی ۔۔۔جب وہ تیار ہونے لگی تو لہنگے کے ساتھ مختصر سی چولی دیکھ ٹھٹھکی ۔۔۔۔
آنکھیں حیرت سے دو چند ہوگئیں۔۔۔۔
اپنی سہیلی کے سامنے شرم سے پانی پانی ہو گئی۔۔۔۔۔
"بابا بتا رہے تھے کہ وہ لوگ بہت شریف لوگ ہیں ۔۔۔وہ کبھی بھی ایسا لباس نہیں بھیج سکتے ۔۔۔۔بالاخر اس کے منہ سے خاموشی کا قفل ٹوٹا۔۔۔۔۔
"پہن لو جیسا بھی ہے ۔۔۔ورنہ وہ لوگ ناراض ہو جائیں گے میں تمہارا دوپٹہ اچھے سے سیٹ کر دیتی ہوں کچھ دکھائی نہیں دے گا۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔۔وہ گہرا سانس بھر کر بولی ۔۔۔۔۔
کچھ اگر مگر کا وقت نہیں جلدی سے تیار ہو جاؤ تمہارے سسرال والے پہنچنے والے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔انہوں نے ہی بھیجنا ہے اور کون بھیجے گا ۔شادی کا جوڑا ؟
وہ دل پر پتھر رکھے وہی لباس پہننے لگی ۔۔۔۔۔
سرخ عروسی لباس نے اس کے نوخیز حسن کو دو آتشہ بنا ڈالا تھا اوپر سے سرخ میک اس کی سفید رنگت پر عجب جھب دکھلا رہا تھا۔۔۔۔پریوں کے حسن کو مات دیتی ہوئی وہ سادہ سے میک اپ میں بھی وہ غضب ڈھا رہی تھی۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
باتھ لینے کے بعد وہ ٹاول کمر کے گرد لپیٹے ڈریسر کے سامنے کھڑا اپنے گیلے بالوں میں برش پھیر رہا تھا ،آنکھوں میں اسکا عکس دکھائی دیا ،لبوں پردھیمی سی مسکراہٹ بکھری ۔۔۔
"یارق تمہاری شرٹ "نور نے جھٹ سے دروازہ کھولتے ہی کہا اور شرٹ والا ہاتھ آگے کیا ۔۔۔
مگر اسے شرٹ لیس دیکھ فورا نظروں کا زاویہ پھیر لیا
"زرا ایٹیکیٹس نہیں تم میں کسی کے روم میں آنے سے پہلے بندہ ڈور ناک کر لیتا ہے "وہ اچانک اس کے وارد ہونے پر جھنجھلا کر غصے سےبولا۔
"سوری "وہ منمنا کر رہ گئی۔۔۔۔۔
"تم جلدی سے تیار ہو جاؤ یونی کے لیے لیٹ ہو رہے ہیں ۔وہ اس کی طرف دیکھے بنا بولی ۔
"کتنی بار کہا ہے بھائی بولا کرو بڑا ہوں تم سے ۔۔۔۔وہ اس کے ہاتھ سے شرٹ کھینچ کر غصیلے لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
وہ کوئی بھی جواب دئیے بغیر ہی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
۔اور اپنے دھڑ دھڑ دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھے اپنی دھڑکنوں کا شمار کرنے لگی ۔۔۔۔
پھر تیزی سے سیڑھیاں اتر گئی۔۔۔۔
جبکہ یارق تغلق نے اپنی شرٹ کے اوپری دو بٹنوں کو کھلا رہنے دیا ۔۔۔جس میں اس کی سفید باڈی جھلک رہی تھی ۔۔۔۔بالوں کو پیشانی پر بے نیازی سے بکھرا رہنے دیا۔۔۔ لبوں پر الوہی مسکراہٹ سجائے ایک شاندار سیلفی بنانی۔۔۔۔
انسٹا پر بنے اپنے اکاؤنٹ پر اپلوڈ کردی ۔۔۔۔
پھر باقی کی تیاری مکمل کرتے ہوئے کمرے سے نکلنے سے پہلے اپنے موبائل پر آخری نگاہ ڈالی ۔۔۔۔چند منٹوں میں اس کی سیلفی پر ہزاروں کی تعداد میں لائکس کی بھرمار ہو چکی تھی ،جس میں زیادہ تعداد صنف مخالف کی تھی ،اس کی سٹائل کی ہی تو لڑکیاں دیوانی تھیں۔۔۔۔۔مگر وہ صرف ایک کا دیوانہ تھا ۔۔۔۔جو اسے گھاس ہی نہیں ڈالتی تھی ۔۔۔۔۔۔
شانے کے ایک طرف بیگ ڈالے وہ یونی جانے کے لیے سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
الارم کلاک کی آواز سے کمفرٹر میں لپٹے وجود میں حرکت آئی ۔۔۔۔اگلے ہی لمحے دلبرا کمفرٹر سے ہاتھ باہر نکال کے الارم بند کر کے دوبارہ سو چکی تھی۔ یہ سلسلہ دو بار چلا مگر تیسری بار جونہی الارم کی آواز آئی فورا سے بیشتر آنکھیں کھولیں اور ایک ہی جست میں بیڈ سے چھلانگ لگاتی واشروم میں بند ہو گئی ۔ اور جلدی سے شاور کے کر نکلی۔مگر یہ کیا یونی میں صرف 40 منٹ رہ گئے تھے جن میں سے آدھا گھنٹہ تو جانے میں ہی لگ جانا تھا۔۔
تیزی سےبال سنوارنے کے بعد وہ ایک نظر بیگ میں موجود چیزوں پر ڈالتی ، کمرے سے باہر جانے لگی۔ مگر کچھ سوچتی ہوئ مڑی اور ایک نظر آئینے میں خود کا جائزہ لینے لگی ۔ شارٹ فراک اور کیپری میں ملبوس سر میں سٹالر لپیٹے بغیر کسی آرائش کے بھی حسین لگ رہی تھی۔ دل خود کو ایک نظر آئینے میں دیکھتی وہ یونی میں آنے والی لڑکیوں کی متوقع ڈریسنگ کا سوچتی بے اختیار جھرجھری لے گئی تھی۔۔۔۔اپنے آپ کو دیکھ کر اس کے لبوں پر زخمی سی مسکراہٹ بکھری ۔۔۔۔۔۔
آنکھیں بند کیں تو اپنی ماں کا چہرہ دکھائی دیا ۔۔۔۔۔ان کا چہرہ دکھتے ہی آنکھوں کو تراوٹ ملی ۔۔۔۔۔
پھر تیزی سے چلتی ہوئی ہاسٹل کے دروازے سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔
ابھی وہ گیٹ سے اینٹر ہواا تھا کہ سامنے ہی اسے وہ کسی لڑکی کے ساتھ باتیں کرتی ہوئی نظر آئی۔۔ وہ چہرے پر شرارتی مسکان سجائے بڑے بڑے قدم اٹھاتا اگلے لمحے اسکے پاس پہنچ چکا تھا۔۔۔
"" اوےےےے ہوئےےےے ، پرنسس!!! کیسی ہو؟؟ ""
دل جو فاطمہ سے باتوں میں مگن تھی اسکی آمد اور اسکے الفاظ پر سخت شرمندہ ہوئی۔ ۔۔۔۔۔
جبکہ نور تو یارق کی دل سے بے تکلفی پر دل مسوس کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔
"" یارق کتنی بار کہا ہے مجھ سے حد میں رہ کر بات کیا کرو ۔۔۔۔فضول ناموں سے مت بلایا کرو ""
وہ تیکھیے چتونوں سے گھورتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
کچھ لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔۔۔۔
دل چلو کلاس کا وقت ہونے والا ہے ۔۔۔۔
ان دونوں کو خاموش کھڑا دیکھ کر نورا لعین خود ہی بول پڑی۔۔۔۔۔
سمجھ جاؤ یارق دوبارہ کسی کے سامنے مجھ سے بلا وجہ فری ہونے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔۔۔۔۔
وہ اسکو جھاڑ پلاتی ، نور کا ہاتھ پکڑ کر چلتی بنی ۔
یارق تغلق اب یہ دن بھی آنے تھے کہ صبح صبح اتنی بے عزتی وہ بھی ایک لڑکی کے ہاتھوں۔۔۔۔۔
وہ افسوس ذدہ سا اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔
جبکہ دوسری طرف یارق کی دل کے ہاتھوں بے عزتی دیکھ نور کے رگ و پے میں ڈھیروں ڈھیر سکون اترا ۔۔۔۔۔۔
حمزہ کے گھر کے چند افراد سادگی سے نکاح کی رسم ادا کرنے کےلئے رحیم بخش کے گھر پہنچ چکے تھے،اس سے پہلے کہ نکاح شروع ہوتا جانے کس نے اس سب معاملے کی خبر کاشی کو دے دی کے وہ ان کے سروں پر کسی انہونے عذاب کی طرح وارد ہوا ۔۔۔۔
"میں نے تجھے اور تیری بیٹی کو اچھے سے سمجھایا بھی تھا کہ مجھ سے زیادہ شان پٹی دکھائی نا تو تیری خیر نہیں ۔۔۔۔وہ گن نکال کر رحیم بخش پر تانے ہوا غضبناک آواز میں دھاڑا۔۔۔۔۔
"ابے چھچھوندر کی اولاد چل پھوٹ لے جلدی ورنہ تیرا تو دما دم مست قلندر ۔۔۔۔۔۔وہ حمزہ کو گن سے ڈرا کر باہر نکلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
حمزہ اور اس کے رشتہ دار تو اس بدمعاش سے ڈرتے ہوئے اپنی جان بچا کر فورا وہاں سے رفو چکر ہوئے ۔۔۔۔۔
کاشی کی بلند آواز سن کر وہ کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔۔
"واہ ری میری چھمک چھلو ۔۔۔میرے بھیجے ہوئے کپڑوں میں تو ایک دم پٹاخہ لگ رہی ہے قسم سے ۔۔۔۔وہ بیہودہ انداز میں اس کو ایکسرے کرتی نگاہوں سے دیکھ کر بولا۔۔۔۔اور چلتے ہوئے اس کے قریب آنے لگا۔۔۔۔۔
"بکواس بند کرو کاشی ۔۔۔۔اور دور رہو میری بیٹی سے ۔۔۔۔۔۔۔
نکاح میں شمولیت کے لیے آئے چند محلے دار اور ان کی عورتیں ایک طرف کھڑےچپ چاپ کھڑے سب دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔
"زیادہ اچھل مت بڈھے۔۔۔۔۔ہم دونوں کا نکاح ہونے دے پھر بات کریں گے ۔۔۔۔۔۔
رحیم بخش نے کوئی راہ سجھائی نہیں دیتے ہوئے حنا کو وہاں سے بھاگ جانے کا اشارہ دیا۔۔۔
جو کاشی کی نظروں سے مخفی نا رہ سکا۔۔۔۔
اس نے رحیم بخش پر گن تان کر بولٹ چڑھایا۔۔۔۔۔
"میری پرواہ مت کرنا ۔۔۔۔تمہیں میری قسم ۔۔۔۔کہیں دور بھاگ جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔
رحیم بخش نے زور سے چلا کر کہا۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے باپ کی آواز میں چھپا کرب اور آنکھوں میں لکھی درد اور بے بسی کی تحریر پڑھے بنا سوچے سمجھے وہاں سے بھاگ نکلی ۔۔۔۔۔۔
استاد آپ کی دلہن بھاگ رہی ہے "کاشی کے ایک چیلے نے اسے آگاہ کیا۔۔۔۔۔
"بھاگنے دو اسے ۔۔۔آج بھاگنے کا شوق بھی پورا کر لے ۔۔۔۔یہ نا سوچے کاشی نے شوق نہیں پورے کرنے دئیے ۔۔۔۔یہ علاقہ کاشی کا ہے ۔۔۔جائے گی بھی تو کدھر کاشی سے بچ کر وہ رعونت آمیز انداز میں مسکرا کر بولا۔۔۔۔۔
پھر گولی کی ایک تیز آواز اس چھوٹے سے گھر میں گونجی ۔۔۔۔۔
"لے چھمک چھلو تیرا آخری سہارا بھی گیا۔۔۔اب مجھ سے تجھے کون بچائے گا ۔۔۔۔۔۔وہ گن کی نال پر پھونک مار کر بولا۔۔۔۔۔
رحیم بخش کا خون سے لٹھڑا وجود لمحوں میں زمین بوس ہوا۔۔۔۔
وہاں موجود ہر شخص ڈر سے سہم کر کھڑا ہوا دیوار سے چپک گیا۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر داخل یوا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چل بے مولوی داڑھی نکاح شروع کر ۔۔۔۔۔۔
"ہیلو ایم ۔پی۔اے زیدان تغلق سپیکنگ ۔۔۔۔۔اس نے پاکٹ میں موجود اپنا آئی فون نکال کر نمبر پریس کیا ۔۔۔۔اور سپاٹ لہجے میں کہا۔
"اوئے ایم پی اے ویم پی اے تو جو بھی ہے میرے پھڈے میں نا پڑ ۔۔۔۔۔نکل یہاں سے ورنہ ۔۔۔۔۔اس نے زیدان کو دھمکی آمیز انداز میں کہا ۔۔۔۔
"ورنہ ؟؟؟؟وہ اپنی بھاری آواز رعب دار آواز میں غرایا۔۔۔۔۔
اور اپنا کوٹ اتار کر دور پھینکا۔۔۔۔۔
"دیکھ ایم ۔پی۔اے تو ابھی مجھے جانتا نہیں ۔۔۔۔وہ بھی زیدان کے انداز سے پل بھر کو دہلا۔۔۔۔۔جو اب شرٹ کے کف موڑے اسی کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔
"دیکھ تو دور رہ مجھ سے۔۔۔۔۔
وہ اسے جارہانہ طریقے سےاپنی طرف بڑھتا پا کر دو قدم پیچھے ہوا۔۔۔۔
"کیوں ابھی سے نکل گئی ساری غنڈہ گردی ؟؟؟؟
وہ کاشی کو کالر سے دبوچ کر گھمبیر آواز میں بولا۔۔۔۔
پانچ فٹ کے کاشی بدمعاش کی چھ فٹ کے حامل لمبے چوڑے ورزشی جسامت کے مالک زیدان تغلق کے سامنے ہوا نکل گئی۔۔۔۔
زیدان تغلق کا ایک ہی پنچ اس کے حواس اڑا گیا۔۔۔۔۔
وہ لہراتا ہوا دروازے کے پاس گرا۔۔۔۔۔
جہاں سے غنیہ اندر آرہی تھی ۔۔۔۔
اس کے ساتھ ہی پولیس بھی تیزی سے اندر آئی ۔۔۔۔۔
زیدان تغلق کا ایک اشارہ سمجھتے ہی پولیس کاشی اور اس کے چمچوں کو اپنے ساتھ لے گئی ۔۔۔۔۔۔
"تمہیں میں نے منع بھی کیا تھا اس حالت میں باہر آنے سے ۔۔۔۔۔زیدان تغلق نے اپنا کوٹ اٹھا کر اپنے سفید رنگ کے بازو پر رکھا جہاں سے سبز رگیں اُبھری ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔
"آپ نے آنے میں دیر کردی بس آپ کو دیکھنے آئی تھی ۔۔۔غنیہ دھیمی آواز میں اپنا ساڑھی کا پلو سنبھال کر بولی ۔۔
۔اور اپنے گرد لپیٹی ہوئی شال کو درست کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔
حنا یک ٹک اپنے بابا کے مردہ وجود کو دیکھ رہی تھی جو اسکی وجہ سے اس دنیا سے ہی چلے گئے ۔۔۔۔
وہ گھٹنوں کے بل فرش پر ان کے قریب بیٹھی ہوئی دھاڑیں مار کر رونے لگی ۔۔۔۔
غنیہ نے سارا منظر دیکھا تو اس سے رہا نا گیا ۔۔۔۔اس نے حنا کے شانے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔
اور اسے تسلی دی ۔۔۔۔۔
"یہ پیسے رکھ لیں اور ان کی تدفین کا انتظام کریں ۔۔۔
۔زیدان نے ایک آدمی کو مخاطب کیے ہوئے والٹ سے روپے نکال کر کہا اور پیسوں والا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔۔۔
"جی بہتر "وہ کہتے ہی پیسے لے کر باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔
اس سچوئیشن میں وہاں سے جانا بھی مناسب نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔اس لیے تدفین کے عمل سے فراغت کے بعد ہی وہ لوگ جب وہاں سے نکلنے لگے تو ۔۔۔۔۔
"اسے بھی یہاں سے لے جائیں ۔۔۔ورنہ ہم اسے یہاں سے نکال دیں گے ۔۔۔۔
ایک محلے دار عورت نے طنزیہ انداز میں کہا
"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ غنیہ نے حیران ہوتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا۔
"ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔وہ موالی جب جیل سے چھوٹے گا اسے ڈھونڈھنے یہاں پھر سے آئے گا ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ ہم سے کسی کی جان کا دشمن بنے اس کی وجہ سے ہم اسے یہاں رہنے ہی نہیں دیں گے ۔۔۔ویسے بھی یہ کون سا ان کا اپنا گھر ہے یہ میرے کرایہ دار ہیں ۔میں اب اسے مزید یہاں نہیں رکھوں گی ۔۔۔۔۔اے لڑکی اپنا سامان اٹھا اور نکل جا یہاں سے ۔۔۔۔۔
حنا نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس عورت کو دیکھا جو ابھی اپنے باپ کی موت کے صدمے سے نڈھال تھی پوری طرح سنبھل بھی نا پائی تھی کہ ایک اور طوفان برپا ہو گیا ۔۔۔۔۔
"میں ۔۔۔میں ۔۔۔۔۔کہاں جاؤں گی میرا کوئی بھی نہیں بابا کے سوا "
وہ گلوگیر لہجے میں بولی ۔۔۔۔
"اپنا جو بھی ضروری سامان ہے وہ لے لو آج سے تم میرے ساتھ رہو گی ۔۔۔میری چھوٹی بہن بن کر ۔۔۔۔۔۔غنیہ نے اسے اپنے ساتھ لگا کر محبت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔۔
"مگر میں آپ کے ساتھ کیسے ؟؟؟؟؟نم آنکھیں اور رندھا لہجہ ۔۔۔۔۔
غنیہ نے اس چھوٹی سی لڑکی کو ترحم بخش نگاہوں سے دیکھا۔۔۔۔۔
حنا نے بھرائی ہوئی تشکر آمیز نظروں اس رحمدل خاتون پر ڈالی ۔۔۔۔۔۔
"یہ کیا کہہ رہی ہو غنیہ ؟؟؟زیدان نے کاٹ دار نظروں سے اسے دیکھ کر کہا۔
"پلیز زیدان "وہ منت بھرے انداز میں بولی ۔۔۔۔
وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا ۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
یہ آج سے ڈیڑھ سال پہلے ایک لاؤنج کا منظر تھا یہاں کاہال ہی اس ولاکے مکینوں کے بہترین ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھا تین نہایت قیمتی فانوس اس ہال کے وسط میں تھے جو کہ ہمہ وقت روشن رہتےخوبصورت اور نفیس صوفے ،
اور ڈیکوریشن پیس،پرانےجنگی آلات غرض ہر چیز اپنی مثال آپ تھی۔یقینا اس کئی کنال پر مبنی محل نما گھر کا چپاچپا اسی طرح نفیس اور خوبصورت آرائش سے مزین تھا کہ
دیکھنے والے اسے " تغلق ولا " کم اور محل زیادہ کہتے تھے
آخر کو یہ کسی عام شخص کی رہائش گاہ تو نہیں تھی بلکہ یہ تو ملک کے نامور بزنس مین شہباز تغلق کی رہائش گاہ تھی جو اپنی بے تحاشا دولت اور شہرت کے باعث مشہور و معروف تھے
اس وقت شہباز تغلق اپنے رعب و دبدبے سمیت پوری شان و شوکت سے اپنے پوتوں کے ساتھ ہال میں موجود تھے آج انہوں نے کسی اہم فیصلے سے سب کو آگاہ کرنا تھا جس بنا پر سب وہاں موجود تھے ،
اسی اثناء میں زیدان تغلق ہال میں داخل ہوا بلیک جینز پر بلیو شرٹ پہنے سیاہ بال جیل سے سیٹ ہوئے چہرے پر نہایت سنجیدگی ، ہلکی سی بئیرڈ ، اس کی پروقار شخصیت کو چار چاند لگا رہی تھی
اپنے مخصوص مغرورانہ انداز میں چلتا ہوا وہ شہباز تغلق کے دائیں جانب آکر بیٹھا تو ضمادتغلق نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا
" زیدان میں نے نور کا رشتہ تمہارے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔ تمہیں کوئی اعتراض ۔۔۔۔۔؟؟۔۔"
شہباز تغلق نے اٹل انداز میں اپنا فیصلہ سنایا
" دادا جان آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں نور سے ۔؟
"وہ مجھ سے چھوٹی ہے ۔۔۔
"یہ تو کوئی قابل قبول اعتراض نہیں اس رشتے سے مناہی کے لیے "وہ اس کی بات پر بولے۔
"مگر دادا جان میں نے اسے ہمیشہ اپنی چھوٹی بہنوں کی طرح مانا ہے "زیدان نے اپنے تئیں ایک اور اہم وجہ پیش کی ۔
"شادی سے پہلے سب بہنیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔انہوں نے جیسے بات کا حل نکالا۔۔۔
مگر دادا جان میں ۔۔۔۔۔
ان کے چہرے پر مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوئی اور اس کی جگہ پیشانی پر شکنوں کا جال بنا۔۔۔۔۔۔
" میں کچھ خاص حق میں نہیں ہوں اس رشتے کے ضماد نے کہا ۔۔۔۔۔
لیکن بابا۔۔۔۔ ضماد نے بولنا چاہا۔
وہ اپنے لاڈلے پوتے کے لیے فرمابردار بیوی چاہتے تھے ۔۔۔ضماد میں نے تمہارے لیے ابھی اچھا فیصلہ کیا تھا اب تمہاری بیٹی کے لیے بھی اچھا ہی فیصلہ کیا ہے ۔۔۔۔خود بھی سمجھو اور اپنی بیٹی کو بھی سمجھا دو اچھے سے ۔۔۔۔۔
" ٹھیک ہے بابا جان ۔۔۔پر نور ابھی نا سمجھ ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ سوچتے ہوئے بولے ۔
"لیکن آپ فکر نہ کریں وہ شکایت کا کوئی موقع نہیں دے گی آپ کو ۔۔۔۔۔ بس ایک بار نور سے بات ہو جاتی اس بارے میں ۔۔۔۔۔ ، نور کافی حساس ہے ۔۔۔۔ یہ تو پھر اس کے رشتے کا معاملہ ہے ۔۔۔۔۔"
ضماد تغلق باپ کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئے
" بابا جان ۔۔۔۔۔پلیز آپ فکر نہیں کریں ۔۔۔۔مجھے پوری امید ہے کہ نور انکار نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔"ضماد تغلق اب کے زرا مسکرا کر بولے
" بابا آپ نے بلایا ۔۔۔۔۔"
وہ دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوئی تو ضماد تغلق جو بیڈ پر لیپ ٹاپ لیے بیٹھےآفس کے کام میں مصروف تھے۔۔۔
" ہاں آؤ نور۔۔۔۔۔ بیٹھو ۔۔۔۔۔"
لیپ ٹاپ ایک طرف رکھتے ہوئے وہ اب اپنے سامنے بیٹھی اپنی پیاری سی بیٹی نور کی طرف متوجہ ہوئے
" بیٹا ایک بات کرنی ہے آپ سے ۔۔۔۔۔ "
نور نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو ضماد تغلق نے بغیر تمہید باندھے زیدان سے نکاح کی بات کر دی
" بابا مجھے زیدان بھائی سے شادی نہیں کرنی ۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔"
نور نے تو سنتے ہی صاف انکار کر دیا
صرف اس کے بابا ہی تھے جو اس کے لاڈ اٹھاتے ،جن سے وہ بے دھڑک اپنے دل کی ہر بات کر لیتی تھی۔۔۔۔
اب وہ اپنے سامنے بیٹھے اپنے باباکے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کی بات سن کر اس کے بابا کا کیا ردعمل ہوگا
" ہممم اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کیوں نہیں کرنی میری نور کو زیدان سے شادی ۔۔۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔"
ضماد تغلق کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی اس کی چھوٹی سی بیٹی جانے کب اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ اس کی شادی کا وقت آن پہنچا۔۔۔۔
وہ اب انہیں یہ کیسے بتاتی کہ اسے بچپن سے ہی یارق پسند ہے ۔۔۔اسی کا ہم عمر اسی سے جھگڑنے والا اس پر رعب جمانے والا ۔۔۔اس کے بچپن کا ساتھی ۔۔۔۔۔چاہے وہ جتنا بھی فرینک تھی اپنے بابا سے مگر انہیں یہ بات اپنے منہ سے کیسے بتاتی ۔۔۔۔۔ابھی وہ اسی کشمکش میں تھی کہ بتائے یا نہیں ۔۔۔باہر سے شورو غل کی آوازیں آئیں۔۔۔۔
وہ دونوں ہی یکمشت ہی باہر کو لپکے ۔۔۔۔۔۔
جہاں زیدان تغلق ہاتھ میں سوٹ کیس اٹھائے باہر نکل رہا تھا ۔۔۔فرزام اور یارق دونوں اسے جانے سے روک رہے تھے ۔۔۔۔۔
"جانے دو اسے "شہباز تغلق کی کڑک آواز سن کر فرزام اور یارق پیچھے ہٹے ۔۔۔۔۔
"میں ہر گز آپ کا یہ فیصلہ نہیں مانوں گا ۔۔۔
شہباز تغلق کی بات پر اس کا خاندانی غصہ در آیا وہ سرد لہجے میں بولا انداز نہایت سنجیدہ تھا عموما وہ ٹھنڈے مزاج کا انسان تھا لیکن بے حد سنجیدگی اس کی شخصیت کا حصہ تھی وہ اپنے دادا جان سے بے حد نرمی اور محبت سے بات کرتا تھا باقی دنیا کے لیے وہ ہمیشہ لیے دیے انداز میں رہتا تھا
لیکن غصہ کم ہی آتا تھا لیکن جب آتا تھا تو اپنے خاندانی انداز میں آتا تھا۔
آپ اگر اپنی ضد کے پکے ہیں تو میں بھی اپنی ضد کا پکا ہوں آپ ہی کا پوتا ہوں آپ پر ہی گیا ہوں ،میں اپنی مرضی سے شادی کروں گا ۔۔۔۔۔مجھے اس گھر میں ایک پل بھی نہیں رہنا ۔۔۔۔جہاں میری زندگی کے اتنے اہم فیصلے پر میری رائے کی کوئی بھی اہمیت نہیں ۔۔۔۔
"تم جا سکتے ہو "شہباز تغلق نے بنا اس کی بات مکمل ہوئے ہی اسے ہاتھ سے مزید بولنے سے روکتے ہوئے اشارہ کیا۔۔۔۔
وہ اپنا سامان اٹھائے آخری نظر اس گھر کے مکینوں پر ڈالتا ہوا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
" انسپکٹر صائم آپ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ان پر نظر رکھیں گے اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے میں میری مدد کریں گے ۔۔۔اس مقصد کے حصول کے لیے چاہے ہمیں کوئی بھی روش کیوں نا اختیار کرنی پڑے ۔۔۔۔
فرازم اس وقت بے حد سنجیدگی سےاپنی ٹیم کو ہدایات دے رہا تھا
" سر ہم اپنے مشن میں ضرور کامیاب ہوں گے۔۔۔۔۔ "
فہیم کی آواز میں بھی ملک کے غداروں سے نپٹنے کے لیےجوش تھا
" میں اپنی ٹیم میں موجود ایک ایک کو وارن کر رہا ہوں ،سب اپنی اپنی ڈیوٹی پورے ہوش و حواس میں سر انجام دے گے ۔۔۔۔
فرزام کے چہرے پہ بے حد سختی تھی ۔۔۔رات کو ان کا سامان سے بھرا ٹرک ۔نیجی روڈ سے گزرنے کی پکی انفارمیشن ملی ہے۔۔۔سب کو ان کا کام سمجھا دیا گیا ہے کہ اسے کیا کرنا ۔۔۔اس میں زرا سی بھی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا میں ۔۔۔۔۔
" Got it ۔۔۔۔۔۔۔۔ "
فرازم نے بلند آواز میں بولا
" yes sir ۔۔۔۔۔۔۔ "
سب کی ایک ساتھ آواز آئی تھی
" آپ سب جا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ "
فرزام کے کہتے ہی سب نے اپنی اپنی پوزیشن سنبھالنے کے لیے وہاں سے نکل گئے۔۔۔۔
فرزام تغلق ایک نہایت قابل پولیس آفیسر تھا دشمن اس کا نام سن کر ہی کانپتے تھے بہت کم وقت میں اس نے بہت ترقی حاصل کرلی تھی جس کی وجہ اپنے ملک سے محبت اور کام میں دلچسپی تھی
فرزام تغلق کا مزاج کافی سخت اور رعب دار تھا جس کی وجہ سے ہر کوئی اس سے ڈرتا تھا یہ اس کی جاب کا تاثر تھا کہ ہر وقت اس کے چہرے پہ سختی رہتی تھی
چھبیس سالہ فرزام ۔۔۔۔۔۔جس کی خاندانی سفید رنگت ۔۔۔۔ اونچی قدوقامت کا حامل شخص۔۔۔۔ اس کے چہرے پر ہر وقت سنجیدگی طاری رہتی۔۔۔ وہ ایک شاندار پرسنیلیٹی کا حامل تھا ۔۔۔اپنی ڈیوٹی پورے دل سے نبھاتا اس کے لیے چاہے اسے خود کو بھی وقت کے مطابق کیوں نا ڈھالنا پڑے ۔۔۔۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے،چہار سو اندھیرا چھا چکا تھا ،شہباز تغلق رات کے کھانے کے بعد شام کی واک کرنے کے لیے باہر نکلے ۔۔۔۔
"کہاں چلے اکیلے اکیلے ؟؟؟"
ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ ساتھ والے مولوی اقبال صاحب جو ان کے قریبی دوست تھے ان کی آواز سن کر رکے ۔۔۔اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔
اسلام وعلیکم! اقبال صاحب بولے
وعلیکم السلام! شہباز تغلق نے خوشدلی سےجواب دیا ۔۔۔
"کیسے ہیں تغلق صاحب ؟؟؟
"شکر الحمد للّٰہ بالکل ٹھیک ۔۔۔
تم سناؤ ؟؟؟
شکر ہے اللّٰہ کا میں بھی ٹھیک ہوں ۔۔۔۔
آپ کو کچھ بتانا تھا ۔۔۔۔
"کیا ؟شہباز تغلق نے اچنبھے سے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
"جمعہ کے روز جامعہ اسلامیہ لاہور میں اجتماع تھا وہاں ایک میرے جاننے والے مولانا کے ساتھ رسمی سی گفتگو میں آپ کا ذکر چل نکلا ۔۔۔۔
تو انہوں نے بتایا کہ آپ کا پوتا زیدان تغلق ان کے محلے میں ایک غریب کے گھر اس کی بیٹی کے نکاح میں شرکت کے لیے گیا تھا اس کی مدد کے لیے ،آپ کا پوتا بھی آپ کی طرح خدمت خلق کے جذبے سے سر شار ہے ،مگر نیکی اسی کے گلے پڑ گئی ۔۔۔۔وہ ورکر تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ،مگر اس کی تنہا بیٹی کو اس کی بیوی نے سہارا دیا اور اپنے ساتھ لے گئے ہیں ۔۔۔۔۔
شہباز تغلق نے ان کی ساری باتیں سنیں مگر خاموش رہے ۔۔۔۔۔
سوچوں کے دھارے زیدان کی طرف مڑ گئے ۔۔۔۔
ٹھنڈی آہ بھر کر راستے پر چلنے لگے ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
تغلق ولا میں کچھ دنوں سے سنجیدہ ماحول تھا،پیپرز شروع ہوچکے تھے اور نوجوان پارٹی سب کچھ بھلاںٔے پڑھائی میں مگن تھی سوائے نورالعین کے، وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ روٹین کے مطابق یارق کا اسی طرح سے خیال رکھ رہی تھی جیسے پہلے رکھتی تھی،،،
البتہ یارق کی روٹین میں تھوڑا چینج آگیا تھا۔وہ پیپرز کی تیاری کے ساتھ دلبرا کی یادوں کو بھی وقت دینے لگا تھا،شروع میں تو وہ اسے وقت جذبہ سمجھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر آہستہ آہستہ وہ احساس اس کی جڑوں میں گھسنے لگا،اور اب۔۔۔۔۔۔اسے وہ بولڈ اور منہ پھٹ لڑکی اچھی لگنے لگی تھی۔۔۔اور پیپرز کے بعد وہ دل کو اسکے بارے میں بتانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
اس کے باباکےانتقال کو تین دن ہو گئے تھے۔
سائڈ بلب کی مدہم روشنی میں اسکے ماتھے اور چہرے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں واضح دکھائی دے رہی تھیں ۔ رونےآوازیں اب بند ہو چکی تھیں، مگر اسکے چہرے پر ابھی بھی ذہنی کرب اور اذیت کی داستان رقم تھی۔ اسکا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔
یہ روز کا معمول تھا ۔ کبھی کبھی تو وہ اٹھ کر زاروقطار روتی اور کبھی کبھی بولتے بولتے نیند کی وادیوں میں چلی جاتی۔
آنسو اسکے چہرہ لگاتار بھگو رہے تھے۔
چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے۔ وہ تو ہر وقت بابا کے ساتھ رہنے کے بہانے ڈھونڈتی تھی۔
وہ نڈھال ہو چکی تھی۔ انہیں یاد کرتے ہوئےاسکے رونے میں پھر سےشدت آئی ۔ زندگی کے گزرے لمحے یاد کرتے وہ اذیت کی انتہا کو پہنچی تھی۔
کافی دیر بعد وہ آنسو صاف کرتی سر اٹھا چکی تھی۔ سرخ آنکھیں ، چہرے پر آنسوؤں کے نشان ، وہ ہونٹ کچلتی اس وقت واقعی حسن کا مجسمہ لگ رہی تھی۔ وہ اس وقت ایک کمرے میں بیڈ سے سر ٹکائے بیٹھی تھی،
اسکا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ آپ چلےگئے مجھے تنہا کر گئے، یادیں چھوڑ گئے، قدم قدم پر آپ کی یادیں ہیں، آپ کی مشفقانہ مسکراہٹ ، آپ کا ساتھ آپ کا پیار یہ مجھے سانس نہیں لینے دے رہا ،اس بھری دنیا میں خود بہت اکیلا محسوس کر رہی ہوں۔۔آنسو تواتر اسکا چہرہ بھگو رہے تھے، ذہن بار بار ماضی میں بھٹک رہا تھا ،وہ پل جو ساتھ بتائے تھے، اتنی جلدی مجھے چھوڑ کر کیسے جا سکتے آپ ۔۔۔ وہ ایک بار پھر سسکی۔۔ آنکھوں کے سامنے کچھ روز پہلے کا منظر لہرایا تھا۔۔
ایسے لگا کہ زندگی واقعی یہاں ٹھہر چکی ہے،
غنیہ دروازہ کھول کر اندر آئی اور سوئچ بورڈ پر انگلی رکھ کر سوئچ آن کیے تو تاریک کمرہ لمحے میں روشنیوں میں نہا گیا ۔۔۔۔۔
حنا کی نم آنکھیں چندھیا گئیں۔۔۔۔۔
وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے سیدھی ہو کر بیٹھی ۔۔۔۔
"کیسی ہو ؟؟؟
"آئیں نا آپ پلیز ۔۔۔۔وہ سمٹ کر بیٹھتی ہوئی اسے بستر پر جگہ دینے لگی ۔۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں "سوں سوں کرتی سرخی مائل ناک کو دوپٹے سے رگڑ کر بولی ۔
"میں جانتی ہوں تمہارے بابا ہی تمہارے لیے سب کچھ تھے ،تمہاری کل کائنات تھے ۔تمہاری زندگی ان سے شروع کو کر انہیں پہ ختم ہو جاتی ہے ،انہیں کھو دینے کا صدمہ بہت بڑا ہے ،ان کی جگہ کوئی بھی نہیں لے سکتا ۔۔۔۔
مگر اپنے آس پاس نظر دوڑاو تو تمہیں برے لوگوں کے ساتھ ساتھ چند مخلص لوگ بھی ملیں گے ۔۔۔۔۔۔
حنا نے ڈبڈبائی آنکھوں سے غنیہ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
"بہت شکریہ آپ کا آپی ۔۔۔۔
وہ نم لہجے سے بولی ۔۔۔۔
"سوری ۔۔۔۔آپ کو برا تو نہیں لگا میں نے آپ کو آپی کہا ۔۔۔۔
"مجھے بہت اچھا لگا ۔۔۔۔غنیہ نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔۔
"اب جب تم نے مجھے آپی مان لیا ہے تو اپنی آپی کی بات بھی مانو ۔۔۔۔۔
وہ مسلسل غنیہ کی جانب ہی دیکھ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
جی بتائیں آپی ۔۔۔میں آپ کی ہر بات مانوں گی ۔۔۔۔۔آپ نے ایک بے سہارا کو بنا سوچے سمجھے بنا جانے اس پر اعتبار کر کہ اسے سہارا دیا ۔۔۔۔۔میں آپ کی بہت ممنون ہوں ۔۔۔وہ تشکر آمیز لہجے میں بولی۔۔۔۔
"مجھے دوبارہ شکریہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں شاید اسی میں میرے خدا کی کوئی مصلحت تھی جو اس نے مجھے وہاں بھیج دیا ۔۔۔۔۔وہ حنا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بولی ۔۔۔۔۔۔
"باہر نکلا کرو روم میں سے ہمارے ساتھ بیٹھو کھانا کھاؤ ۔۔۔باتیں کرو تمہارا دل بہل جائے گا ۔۔۔۔
اچھا یہ بتاؤ کون سی کلاس میں ہو ؟
ٹینتھ کے پیپرز دئیے ہیں ابھی رزلٹ آنا باقی ہے ۔۔۔
"ہممممم صحیح۔۔۔۔
اچھا یہ بتاؤ کون سے سیجبکٹ تھے ؟سائنس یا آرٹس ؟
"مجھے تو سائنس کا شوق تھا ۔ڈاکٹر بننے کا مگر ہمارے حالات مجھے اجازت نہیں دیتے تھے ایسے شوق پورا کرنے کی ۔۔۔۔۔بابا کہاں میری ایف۔ایس ۔سی کے اخراجات اٹھا پاتے ۔۔۔اسی لیے میں نے آرٹس ہی رکھی ۔۔۔۔
پڑھائی تو پڑھائی ہوتی ہے چاہے سائنس میں ہو یا آرٹس میں ۔۔۔۔مجھے بس پڑھنے کا شوق ہے اتنا زیادہ ۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں چمک آئی ۔۔۔۔۔
ان باتوں میں محو وہ فی الوقت اپنا درد بھول چکی تھی ۔۔۔۔۔
"چلو تم آرام کرو میں زرا شام کا کھانا دیکھ لوں ۔۔۔۔۔
"میں بناؤں کھانا ؟؟؟وہ جھجھکتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
"ارے نہیں کھانا بنانے کے لیے ملازمین ہیں ۔وہی بنائے گی۔۔۔میں بس اپنے لیے دیکھ لوں کہ کیا بنوانا ہے ۔۔۔۔دراصل میں اپنے لیے علیحدہ کھانا بنواتی ہوں اور زیدان کے لیے الگ ۔۔۔۔۔
"ایسا کیوں آپی؟؟؟بے اختیار اس کے منہ سے نکلا ۔۔۔۔
"دراصل مجھے پیر صاحب نے ایک کھانے کا چارٹ دیا ہے میں اسی کے حساب سے کھانا بنواتی ہوں ۔۔۔۔۔
حنا نے حیرانی سے دیکھا ۔۔۔جیسے اسے کچھ سمجھ میں نا آیا ہو ۔۔۔۔
غنیہ اس کی حیران نظروں کو دیکھ کر مسکرائی ۔۔۔۔۔
"پریشان مت ہو میں بتاتی ہوں ۔۔۔۔
"دراصل شادی کے ایک سال تک ہمارے ہاں کوئی بے بی نہیں ہوا تو میرے والدین کے جاننے والے پیر صاحب کے پاس گئی ان کے دم کرنے کی وجہ سے اب ہمارے ہاں خوشخبری آ گئی ہے ۔۔۔۔۔
یعنی کہ تم خالی بننے والی ہو ۔۔۔۔۔
بات سمجھ میں آتے ہی حنا مسکرانے لگی ۔۔۔۔
واؤ سچی ۔۔۔۔آپ کو پتہ ہے مجھے چھوٹے بچے کتنے پسند ہیں ؟؟؟وہ فرط مسرت سے لبریز لہجے میں بولی۔
"آپی اس کا نام میں رکھوں گی ۔۔۔۔۔پلیز ۔۔۔
"ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔۔
چلیں میں بھی آپ کے ساتھ باہر چلتی ہوں آپ کی مدد کے لیے ۔۔۔۔۔
"چلو آؤ مل کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔غنیہ نے دوستانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔
پھر دونوں مل کر باہر نکل گئیں۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
پیپرز کے بعد یونیورسٹی میں فئیرویل پارٹی منعقد کی گئی۔جس میں نور العین نے جانے سے صاف انکار کردیا اور یارق نے بھی اسے زیادہ ضد نہیں کی ، وہ جانتا تھا کہ نور العین کو یونی کی پارٹیز اٹینڈ کرنے کی اجازت نہیں ملنی تھی دادا جان سے کیونکہ انہیں لڑکیوں کا رات گئے باہر پارٹیز اٹینڈ کرنا پسند نہیں تھا۔۔۔اسی لیےیارق اکیلا ہی پارٹی میں گیا۔۔
یونیورسٹی میں چاروں طرف رنگ و بو کا سیلاب امڈ آیا تھا ۔۔۔ہر طرف لڑکیاں جدید طرز کے لباس میں ملبوس اپنے جلوے بکھیر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
بس کر کمینے۔۔نظریں ہٹا بھی لے ۔۔۔۔۔
وہ دونوں پارٹی میں ایک کارنر پر کھڑے باتیں کررہے تھے جب یارق نے احمرکو لڑکیوں کو گھورتے دیکھ غصے سے ٹوکا
یارق کے ٹوکنے پر احمر نے زوردار قہقہہ لگایا
یار دیکھنے دے۔۔۔آج تو قیامت لگ رہی ہیں یہ حسین تتلیاں۔۔۔آخر کو ہمیں دکھانے کے لیے ہی تو اتنا سج دھج کہ آئیں ۔۔۔۔
احمر نے لڑکیوں کو گھورتے دیکھ لوفرانہ انداز سے کہا۔۔۔۔۔
"تم انجوائے کرو میں ابھی آیا ۔۔۔۔۔یارق کو اپنی من پسند ہستی دکھائی دی تو وہ احمر کو چھوڑ دوسری طرف آیا۔۔۔۔۔۔
ہیلو!
یارق کی آواز پر لڑکیوں نے پلٹ کر دیکھا۔۔
مجھے دل سے بات کرنی ہے ایکسکیوز اسّ پلیز ۔۔۔۔۔
دلبرا نے اس کے کھلے ڈھلے انداز پر سب کے سامنے سبکی کے خیال سے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔۔۔
مگر وہ مسکرا کر ابرو اچکا گیا۔۔۔۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی وہ ماحول کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لی۔۔۔۔۔۔
"کرو بکواس "
وہ غراتے ہوئے کھا جانے والے انداز میں بولی ۔۔۔
دلبرا کو سر تا پا دیکھتے ہی یارق کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی،،بلیک نفیس سی میکسی میں مہارت سے کیے گئے نیچرل میک اپ میں وہ باقی دنوں سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔
یارق اسے یونی کے بیک سائیڈ ایریا میں لے آیا تھا ۔۔وہاں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔
مجھے کس خوشی میں یہاں لائے ہو ؟
دل نے یارق کو سوالیہ نظروں سے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
کچھ پل کی خاموشی کے بعد یارق نے بولنا شروع کیا۔۔۔۔۔
"بات تو خوشی کی بن ہی جائے گی اگر تم اقرار کر دو ۔۔۔۔وہ ذو معنی انداز میں بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
میں نہیں جانتا یہ سب کیسے ہوا۔۔۔۔کب ہوا۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیسے بولوں۔۔۔۔
بولتے ہوئے وہ رکا پھر گہری سانس لی۔
میں بس اتنا کہوں گا کہ پہلے میں تم سے دوستانہ انداز میں بات کرتا تھا مگر اب میری فیلینگز تمھارے لیے بدل چکی ہیں۔۔
یارق نے آخری جملہ کہا ۔۔۔پھر ساتھ ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دلبرا کو شاکڈ کر گیا۔
Will you marry with me ?
یارق نے اسی طرح بیٹھے ہی اپنی دائیں ھتھیلی دلبرا کے آگے پھیلائی۔
دلبرا کچھ دیر اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر آہستگی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا ہونے کا اشارہ کیا۔
سوری یارق ۔۔۔۔میں تمہارا دل نہیں دکھانا چاہتی مگر جن راستوں پر تم چل نکلے ہو اس کی کوئی منزل نہیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی بات جو دل نے کہی ۔۔۔۔۔۔
یارق کا ہاتھ دل کے ہاتھ سے چھوٹا ۔۔۔۔۔
اوربے جان سا ہو کر ہوا میں لہرا گیا۔۔۔۔
دل نے زخمی سی مسکراہٹ اچھال کر اسے دیکھا ۔۔۔۔۔
"بس اتنے میں ہی ہوا ہو گئی نا تمہاری محبت ۔۔۔۔
دھرے کے دھرے رہ گئے نا محبت کے دعوے ۔۔۔۔۔جاو یارق تغلق کسی اپنی جیسی کو تلاش کرو۔۔۔۔۔
لب مسکرا رہے تھے مگر لہجے میں اور آواز میں ٹوٹے ہوئے کانچ کی سی کیفیت جھب دکھلا رہی تھی۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
پورے گھر میں رات کے دوسرے پہر سناٹا چھایا ہوا تھا ،سب لوگ ڈنر سے فراغت کے سو چکے تھے ،یارق ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔۔۔۔ وہ پریشان سی اکیلی لاؤنج میں بیٹھی تھی عادت کے مطابق یارق کے بارے میں سوچتے ہوئے اپنی مخروطی سرخ و سفید انگلیوں کومڑوڑ رہی تھی۔۔جبکہ نظریں دروازے پر تھیں۔۔۔۔
قدموں کی چاپ سن کر اسے دیکھا جو جیکٹ اتار کر اپنے ایک بازو پر ڈالے ہوئے۔بلیک شرٹ کے ساتھ بلیک جینز کی پینٹ پہنے ہوئے،ہلکی داڑھی اور کشادہ پیشانی پر بکھرے بال۔۔سفید رنگت ،وہ واقعی شاندار پرسنالٹی کا مالک تھا۔
"اتنی دیر کہاں لگا دی ؟
"زیادہ اماں بننے کی کوشش مت کرو ۔۔۔۔جان چھوڑو میری ۔۔۔۔۔۔
اس کے سوالیہ انداز پر یارق نے خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھ کر کہا۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
ہیلو۔۔۔۔۔وہ اس کے فون اُٹھاتے ہی بولا تھا
سر میں عمر بول رہا ہوں۔۔۔۔۔ اس نےکہا ۔
جانتا ہوں کام کی بات کرو کُچھ پتہ چلا اُس کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔ وہ تیکھے لہجے میں بولا ۔۔
نہ نہیں سر ابھی کُچھ بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ہر جگہ ڈھونڈا مگر کہیں کوئی سراغ نہیں ملا ۔۔۔۔۔۔ڈرتے ڈرتے جواب دیا گیا ۔۔۔۔۔
تو تمہیں پیسے کس کام کے ملتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک سراغ نہیں ڈھونڈ سکتے تم ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بولا نہیں دھاڑا تھا ۔۔
ؑسر کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ عمر منمنایا تھا ۔
کوشش نہیں رزلٹ چاہئیے مجھے ,۔۔۔۔۔۔۔۔وہ حتمی لہجے میں بولا تھا ۔
جی سر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر دھیمے سے بولا تھا
وہ بے بسی سے فون رکھ چکا تھا۔۔۔۔
اس ملک کے غداروں کو میں چن چن کر ماروں گا ایک بار میرے ہاتھ لگ جاؤ ۔۔۔۔(گالی )۔۔۔۔ اس کے انداز میں ایک جنون اور وحشت سی تھی ۔۔۔
مختصر خلاصہ پچھلی اقساط کا۔
"شہباز تغلق کے تین بیٹے ۔۔۔۔پہلے بیٹے کی اولاد زیدان تغلق۔دوسرے بیٹے میں سے فرزام تغلق اور یارق تغلق۔ان تینوں کے والدین ایکسڈنٹ میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ان کی پرورش شہباز تغلق نے ہی کی۔
تیسرے بیٹے ضماد تغلق کی بیوی نگہت بیگم ہے اور ان کی ایک بیٹی نورا لعین ہے ۔جو یارق کو پسند کرتی ہے۔
جبکہ یارق دلبرا اپنی یونیورسٹی فیلو کو پسند کرتا ہے۔
فرزام تغلق پولیس میں ہے۔
زیدان تغلق سیاسی لیڈر ہے۔اس کی بیوی غنیہ ہے۔ایک حادثے میں غنیہ ،حنا کو اپنے گھر لا چکی ہے ۔۔۔۔۔زیدان کو اس کے دادا نور العین سے شادی نا کرنے پر گھر سے باہر نکال چکے پیں۔
اب آگے پڑھیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
دو ماہ بعد .........
"" انٹرویو کب سٹارٹ ہو گا ؟۔۔۔ ""
زیدان تغلق اسٹوڈیو میں داخل ہوتے ہوئے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر سرسری سی نظر ڈالتے ہوئےبولا ۔۔۔۔جہاں پروڈیوسر تیزی سے موبائل پر نمبر پریس کرتے اینکر کو فون پر فون ملا رہا تھا۔۔۔۔
میک اپ آرٹسٹ،ڈائرکیٹر ،ہیلپرز تک سب اٹینشن تھے۔۔۔۔
کیمرہ مین بھی اس پر فوکس کیے ہوئے تھا۔
علی جو اینکر کیلئے اہم نکات لکھ رہا تھا شور محسوس کرتا کیمرہ مین سے پوچھ بیٹھا ۔۔۔۔
"" مس آئمہ نہیں آئی ابھی تک ۔۔؟"
اور ہمارے نئے ایم ۔این۔اے کا انٹرویو ہے۔جو ایم۔پی۔اے سے ایم ۔این ۔اے بنے ہیں عوام کی خواہش اور بھرپور ووٹوں سے منتخب ہوئے ۔۔۔۔
چینل کا سی ای او (CEO ) بھی پہنچنے والا تھا۔۔۔۔۔ڈائریکٹر نے پروڈیوسر کو مخاطب کیے آگاہ کیا۔۔۔۔
"" یہ چائے لیں سر ۔۔۔ ""پروڈیوسر پیون سے خود چائے لے کر زیدان تغلق کے سامنے پیش کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
پیون کی ٹرالی میں چائے کے نام پر ڈھیروں لوازمات دیکھے تو شرمندہ ہوا ۔۔۔۔
"اس سب کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔آپ پلیز یہ سب کسی ضرورت مند کو دے دیں ۔۔۔۔۔وہ نہایت عاجزانہ انداز میں بولا۔۔۔۔۔
وہاں موجود سارے سٹاف نے اسے متعرف نگاہوں سے دیکھا۔بلاشبہ وہ صورت میں جتنا حسین تھا ،سیرت میں بھی اعلیٰ ترین تھا۔
اینکرکو فون کر دیا گیا تھا اور وہ قریباً آنے کو تھی۔۔۔
"" علی !ایم ۔این ۔اے صاحب کے لیے جو سوالات لکھے ہیں وہ جلدی لاؤ اینکر بھی بس پہنچنے والی ہے ۔۔۔ ""
پروڈیوسر کی آواز پر علی جلدی سے کیبن کی طرف مڑا۔۔۔
"" جی سر۔۔۔ ""
وہ سر ہلاتا اگلے دو منٹ میں ایک فائل کے ساتھ حاضر ہوا تھا۔۔۔۔
آئمہ پینٹ کوٹ نک سک سا تیار ہوئے سٹوڈیو میں پہنچ چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔
میک اپ مین اسکے بال بنا رہا علی نے اس کے قریب کھڑے ہو کر مائیک سیٹ کیا۔۔۔۔
زیدان تغلق کا لائیو انٹرویو آج جیو نیوز سے براہ راست نشر کیا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔
"حنا جلدی آو یہ دیکھو آج زیدان کا انٹرویو ہے ۔۔۔۔"غنیہ نے اسے آواز دے کر بلایا۔۔۔۔
وہ غنیہ کی آواز سن کر تیزی سے اس کے پاس آئی ۔۔۔۔
"جی آپی ؟"
"بیٹھو یہاں دیکھو ٹی ۔وی پر پہلی بار زیدان کا انٹرویو آ رہا ہے ،سب نے انہیں بہت بار کہا تھا انٹرویو کے لیے مگر انہوں نے سب کو منع کر دیا۔۔۔۔
کہتے تھے کہ پہلے اس قابل بن جاؤں کہ ٹی وی پر آسکوں تب ہی جاؤں گا۔۔۔۔۔
اتنے دنوں سے حنا ان کے گھر رہ رہی تھی مگر کبھی بھی زیدان کا اس سے سامنا نہیں ہوا۔۔۔
الیکشن کے سلسلے میں وہ رات گئے گھر لوٹتا اسی لیے ابھی تک اس سے مڈ بھیڑ نا ہو پائی ۔۔۔۔۔
انٹرویو شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔
سر آپ اس شعبے میں کیوں آئے جبکہ آپ کی تعلیمی قابلیت تو ایم ۔بی۔اے ہے ؟
"مجھے اپنے ملک کے پسماندہ طبقات کی خوشحالی کے لیے کچھ کرنے کا جنون ہے ،اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ہی میں نے اس راہ کا انتخاب کیا۔۔۔۔۔
وہ ٹہرے ہوئے بردبار انداز میں بولا۔۔۔۔
اس کے پہلے جواب پر ہی اس چینل کی ریٹنگ بلند ترین اونچائیوں کو چھونے لگی۔۔۔۔
سر آپ کی کامیابی کا سہرا کس کہ سر ہے ؟؟؟؟"ہماری معلومات کے مطابق تو آپ کے والدین حیات نہیں۔۔۔۔
اس کے سوال پر پہلے تو زیدان تغلق کی پیشانی کی رگیں اُبھریں۔۔۔۔مگر پھر وہ لمحوں میں خود کو سنبھال گیا۔۔۔۔۔
میرے دادا جان ہی میری کل کائنات ہیں ،جب سے ہوش سمبھالی انہیں ہی اپنا سب کچھ پایا۔۔۔۔اور آج بھی وہی میرے والدین کی جگہ میرا سب کچھ ہیں ۔۔۔وہ تحمل سے بولا۔۔۔۔۔
دوسری طرف کو شہباز تغلق ٹی وی لاؤنج میں موجود اپنی نظریں اور کان دونوں ٹی۔وی سکرین پر مرکوز کیے ہوئے تھے ۔۔۔۔اپنے لاڈلے پوتے کا جواب سن کر آبدیدہ ہوگئے۔۔۔۔۔
اور آنکھوں کے گیلے کونے اپنی پوروں سے صاف کرنے لگے۔۔۔۔مگر ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ رینگی۔۔۔۔۔۔
"سر مگر ہماری اطلاع کے مطابق تو آپ ان کے ساتھ نہیں رہتے اور نا ہی ان سے ملتے ہیں ایسا کیوں ؟؟؟؟
اس بار اس کا خاندانی غصہ عود کر آیا۔۔۔۔
مگر وہ سکرین پر کوئی تماشا کری ایٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔اس سے پہلے کہ اس کی ضبط کی طنابیں ٹوٹتی۔۔۔۔وہ مٹھیاں بھینچ کر خود کو سنبھال گیا۔۔۔۔
"یہ میرا پرسنل میٹر ہے ،میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔وہ قطعی انداز میں زرا تلخ لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔۔
آئمہ کا چہرہ سبکی کے احساس سے سرخی مائل دکھائی دینے لگا۔۔۔۔
مگر یہ سب تو اس کی جاب کا حصہ تھا۔۔۔وہ خون کے گھونٹ پیتے ہوئے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے ہوئے ایک بار پھر سے ہمت مجتمع کر کہ بولی ۔۔۔۔۔
سر آپ عوام کے لیے سب سے پہلے کیا کرنا چاہیں گے ؟
"میں اپنی عوام کے سروں پر لٹکتی ہوئی اس مہنگائی کی تلوار کو کاٹ کر پھینک دوں گا۔۔۔
جتنا ہوسکے گا ان کے لیے آسانیاں پیدا کروں گا۔۔۔۔انہیں بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔
بچوں کی مفت تعلیم کا بندو بست کروں گا۔۔۔خیر خواب تو بہت سے دیکھ رکھے ہیں ،دیکھیں اللّٰہ پاک کتنی مہلت دیتا ہے انہیں پورا کرنے کی ۔۔۔۔۔
سر آپ اتنے ہینڈسم ہیں ،آپ کو تو شوبز میں ہونا چاہیے تھا ؟؟؟؟
اینکر نے مسکرا کر ماحول میں چھائی ہوئی گھمبیر صورتحال کے باعث اسے ہلکا پھلکا کرنا چاہا۔۔۔۔۔
پہلی بار اس کی ترشی ہوئی مونچھوں تلے عنابی باریک لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔۔۔۔۔
کمیرہ مین نے اس کے چہرے کے اس پوز کو فوکس کیے بہت قریب سے دکھایا۔۔۔۔۔
ہزاروں افراد جو اپنی ٹی وی سکرین پر اس خوبرو شہزادے کی سی شان رکھنے والے زیدان تغلق کو دیکھ رہے تھے پل بھر کو اس کی دلکش مسکراہٹ کے اسیر ہوئے۔۔۔۔۔
ہر وقت سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ رکھنے والا جب ہلکا سا مسکرایا تو کئی دل دھڑک اٹھے ۔۔۔۔
اور ان دلوں میں ایک دل تو اس کی بیوی غنیہ کا تھا۔جو دل میں ہی اس کی نظر اتار رہی تھی ۔۔۔۔
حنا کی نظریں بھی اس منظر پر جم گئیں۔۔۔۔
سفید لٹھے کی برانڈڈ شلوار قمیض پر بلیک واسکٹ پہنے قمیض کے کف کہنیوں تک موڑے نفاست سے بال جیل سے سیٹ کیے ،کلائی پر مہنگی ترین گھڑی پہنےوہ ادائے بے نیازی سے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے پوری آن بان سجائے اپنی زیر کر دینے والی پرسنالٹی سمیت براجمان تھا۔
بھوری آنکھوں میں کچھ کر دینے کا جنوں ہلکورے لے رہا تھا ،کھڑی ستواں ناک سرخ وسفید پرکشش جاذب نظر شخصیت پر خوب جچ رہی تھی ،
اس نے یلکدم اپنے دل پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔
"استغفر اللہ"اس نے جلدی سے اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا ۔۔۔اور شرمندگی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔
"اللّٰہ تعالیٰ مجھے معاف کر دینا ۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں دیکھا پلیز اور نہیں ہی ایسا کچھ ہے۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ آپ آپی اور سر کی جوڑی ہمیشہ سلامت رکھیے گا۔۔۔۔
اور ہو سکے تو مجھے معاف کردینا۔۔۔اچانک اس بری نظر سے دیکھنے کے لیے۔۔۔۔۔سچی اللّٰہ میاں جی بس ویسے ہی مجھے اچھے لگے وہ اس کے علاؤہ میرے دل میں اور کچھ نہیں ۔۔۔۔وہ دل میں اللّٰہ تعالیٰ سے مخاطب ہوئے صدق دل سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔
"میں کبھی بھی ان کے سامنے نا آئی ہوں اور نا ہی کبھی آؤں گی ۔۔۔۔وہ مصصم ارادہ کرتے ہوئے کمرے کی طرف بھاگی ۔۔۔۔
"ارے حنا کہاں جا رہی ہو ؟غنیہ نے اسے ہوں اچانک سے اٹھ کر جاتے ہوئے دیکھا تو پیچھے سے آواز دی۔۔
مگر وہ ان سنی کرتے ہوئے کمرے میں بھاگ گئی۔۔۔۔
عصر کی اذان ہو چکی تھی ،وہ با وضو ہوئے جائے نماز بچھائے عصر کی نماز ادا کرنے لگی ۔۔۔۔
آخر میں اپنے رب سے اپنے بابا کی مغفرت کی دعا مانگنے لگی ۔۔۔۔۔
مجھے معاف کردیں اللّٰہ تعالیٰ آپ تو دلوں کے بھید خوب جانتے ہیں میرا کوئی غلط ارادہ نہیں تھا ،جانے کیوں میرے دماغ میں وہ غلط خیال آیا ۔۔۔۔مجھے معاف کردیں اللّٰہ تعالیٰ میں دوبارہ کبھی ایسا گناہ نہیں کروں گی ۔۔۔
پلیز اللّٰہ تعالیٰ مجھے معاف کردیں پلیز ۔۔۔۔ایک بار ۔۔۔پلیز ایک بار ۔۔۔۔وہ مسلسل روتے ہوئے گڑگڑا کر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے دعا مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
دسمبر کی سرد راتوں میں سے ایک سرد رات اپنے پر پھیلا چکی تھی ہر طرف اندھیرا چهایاسکونت کا راج تھا لیکن رات کے اس پہر ایک جگہ آباد تھی یا یوں کہے کہ وہاں کا دن ہی ابھی چڑھا تھا۔۔۔۔۔
لاہور کی ایک مشہور آبادی میں دور کوٹها آباد تها جہاں رات کے دس بجے ہی رنگین محفلوں کا آغازہوا تھا۔۔۔ دور دور سے بھانت بھانت کے لوگ یہاں تشریف فرما تھے..
یہ کوٹها اس لے زیادہ مشہور تها اس کو چلانے والی فیروزہ بائی سب کچھ بہت اچھے سے سنبھال رہی تھی ۔سب آنے والوں کی خواہشات کو پورا کرتی۔دور سے یہ کوٹها دیکهنے میں بلکل ایک محل نما تھا ، عالیشان پرانے پتهروں سے بنی عمارت جس کے سامنے سٹیل کے بڑے دو دیوار نما دروازے تهے......اس کے اندر ایک بہت وسیع لان تها جس کے دونوں طرف باغیچے میں ہر طرح کے رنگا رنگ پهول لگے تهے ۔۔۔
راہداری سے گزار کر اس کوٹهے کے بیرونی دروازے پر دو بڑے خوبصورت لکڑی کے دروازے تهے جس سے گزار کر لوگوں کو لگتا یہ کوئی محل ہی ہر طرف سفید چمکتے ماربل کا کام تها سامنے دو بڑی سیڑھیاں جن پر سرخ مخملی قالین ڈالاگیا تھا....
مدھم جلتی بجھتی روشنیوں نے وہاں کا ماحول خوابناک بنا رکھا تھا،
میوزک کے ساز پر تھرکتی ہوئی حسینائیں اپنے خوبصورت رقص سے وہاں موجود گاہکوں کے دلوں کو لبھا رہی تھیں ۔۔۔۔
ان کی رنگینیاں جلوہ افروز ہوئے حاضرین ِ محفل کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھیں۔
وہاں موجود افراد مہ نوشی کیے جھومتے ہوئے سرور کی محفل میں طوائفوں پر پیسے لٹاتے ہوئے ان کے ساتھ برابر جھوم رہے تھے۔۔۔
باہر سے آتی ہوئی گھنگھروں کی آوازیں اس کے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔وہ دونوں کانوں پر ہاتھ رکھے خود کو اس عجیب و غریب ماحول کا حصہ بننے سے کیسے روک سکتی تھی۔۔۔۔۔۔
چررررررررر۔۔۔۔۔کی آواز سے بوسیدہ دروازہ واہ ہوا تو اس نے نظر اٹھا کر اندر آنے والوں کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
فیروزہ بائی ایک نئے مالدار مرغے کو گھیرے
اندر لائی ۔۔۔۔۔
"بڑی ہو گئی پڑھائی وڑھائی۔۔۔۔چل اب کام سنبھال ۔۔۔۔
وہ پان کی پیک گردن موڑے ایک کونے میں پھینکتے ہوئے استہزایہ انداز میں بولی ۔۔۔۔
"کتنی دفعہ کہا ہے میں یہ کام نہیں کروں گی ۔۔۔۔پھر کیوں منہ اٹھا کر ہر بار یہاں چلی آتی ہے۔لے جا اپنے اس الو کے پٹھے کو بھی اپنے ساتھ ۔۔۔۔۔
وہ تیز آواز میں اپنی جگہ سے اٹھ کر چلّاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
"تجھ پر تو پڑھائی نے بھی اثر نہیں کیا۔۔۔۔
میں نے تو تجھے اس لیے پڑھنے کی اجازت دی تھی کہ تو پڑھ لکھ کر امیرزادوں پر اپنی دھاک بٹھائے گی ۔تو مجھے دوگنی کمائی کر کہ دے گی۔۔۔۔مگر تو نے تو ُلٹیا ہی ڈبو دی ۔۔۔۔
"یہ لو جی گئی بھینس پانی میں ۔۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں کی تالی مار کر حقارت آمیز انداز میں بولی ۔۔۔۔
"مجھے زیادہ نخرے دکھانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔تیری پڑھائی پر اتنا پیسا لٹایا ہے ۔۔۔اب اس کی وصولی کا وقت آیا ہے ۔۔۔چل اسے اچھے سے خوش کر ۔۔۔۔۔
اس نے پاس کھڑے ایک آوارہ دکھنے والے شخص کو اس کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔۔۔۔
دیکھ فیروزہ بائی اگر اس کی اور اپنی خیریت چاہتی ہے تو فورا نکل جا یہاں سے ورنہ آج قسم سے تیرا سر پھوڑ دوں گی ۔۔۔۔
وہ پاس پڑا ہوا گلدان اٹھا کر اس کی طرف بھوکی شیرنی بنی لپکی ۔۔۔۔۔
"چل پڑے ہٹ "۔۔۔۔۔
تو ایسے نہیں مانے گی نا آرام سے اب تیرے پر دوسرا حربہ آزماوں گی ۔۔۔وہ دھمکی آمیز انداز میں اسے انگلی سے وارن کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
پھڑپھڑا لے آج کی رات تیری آخری سکون کی رات ہے کل تیرا کوئی پکا بندوبستی کرتی ہوں ۔۔۔۔۔
تیری ماں تو بڑی شریف تھی میری ہر بات مانتی تھی ،ایک امیر مرغے کو پھنسا کر مجھے خوب۔ مالا مال کر گئی۔۔۔۔۔
مگر تو کسی کام کی نہیں ۔۔۔۔۔۔
دراز قد،پتلی کمر، جاذب نظر نقوش ،کمر پر جھولتے بالوں کی چٹیا،مگر نخرہ اور غرور حد سے بڑھ کر تھا۔۔۔۔یا شاید اس پیشے سے منسلک نا ہونے پر احتجاجاً رویہ اختیار کیے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔
چل سیٹھ یہاں یہ چھوری تیری دال نہیں گلے دے گی۔ تجھے کوئی اور مال دکھاتی ہوں ۔۔۔۔
وہ اسے باہر کا راستہ دکھانے لگی ۔۔۔۔
اور ہاں وہ پلٹ کر پیچھے دیکھنے لگی ۔۔۔پھر بولی ۔۔۔۔
میں نے ایک سیٹھ سے تیری بات کی تھی ،اسے تیری تصویر دکھائی تو وہ مجھے تیرے لیے پچاس لاکھ دینے کو تیار ہے ۔۔۔۔
کل اس کے آدمی آئیں گے خودی تجھ جیسی اڑیل گھوڑی کو اٹھا کر لے جائیں۔۔۔۔
دیکھنا کیسے ایک رات میں وہ تیرے کس بل نکالتا۔۔۔۔۔
"کس بل تو میں تیرے نکالوں گی ۔۔۔۔وہ حلق کے بل چلائی ۔۔۔۔۔
بس ہفتے کی بات ہے ،ایک ہفتے کے پچاس لاکھ ۔۔۔۔ہائے میں تو رات و رات امیر ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔
یہی سوچتے ہوئے اس کی باچھیں خوشی سے کھل اٹھیں۔۔۔۔
بھئی مجھے کوئی اعتراض نہیں تو آج رات آرام کر اچھی طرح سے کل سے تو پھر تو نے نئے کام پر لگنا ہی ہے ۔۔۔۔وہ خباثت چہرے پر سجائے کمینی ہنسی ہنستے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
اے راشد جلدی سے دروازے کو تالا لگا ۔۔۔۔
کہیں چڑیا پُھر نا ہو جائے ۔۔۔۔۔وہ آنکھیں مٹکا کر اسے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے تیز آواز میں بولی ۔۔۔۔۔۔
فیروزہ بائی کی باتیں سن کر اس کا وجود شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔۔۔۔آنکھوں میں سختی عود آئی تھی ۔۔۔۔۔
مجھے کیسے بھی کر کہ یہاں سے نکلنا ہی ہوگا ۔۔۔۔وہ یہاں سے بھاگ جانے کے لیے راستہ تلاشنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
حنا ، غنیہ کو سہارا دئیے کمرے میں چھوڑ کر اب اپنے کمرے کی جانب بڑھی گئی۔۔۔زیدان تو کچھ دیر پہلے ہی کمرے میں جا چکا تھا ۔۔۔
غنیہ کو کچھ یاد آیا تو لب اپنے آپ مسکرائے تھے
دروازے کے سامنے پہنچ کر جانے کیوں اس کی حالت غیر ہونے لگی تھی کپکپاتے ہاتھوں سے دروازہ کھولتی وہ اندر داخل ہوئی تو۔۔۔۔۔
بے ساختہ نگاہ صوفے پر بیٹھے ٹانگ پر ٹانگ رکھے زیدان پر پڑی جو ایک ہاتھ میں موبائل تھامے سکرین پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں آدھا جلا سگریٹ دبائے ہوئے تھا، کمرے میں سگریٹ کی بو ہر سو پھیلی ہوئی تھی بے ساختہ غنیہ نے اپنے ناک پر ایک ہاتھ رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے دروازہ بند کر کے مڑی تھی ۔۔۔
اب اس کے قدم زیدان کی طرف تھے۔زیدان اس کی جانب متوجہ ہوا تھا غنیہ کو اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھتا دیکھ کر زیدان نے فوراً سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دی جہاں پہلے ہی کئی سگریٹ راکھ بنی پڑیں تھیں اور پھر فورا اٹھ کر کھڑکی کی جانب بڑھا اور پردے ہٹا کر کھڑکی کھولنے کے بعد وہ دوبارہ موبائل پر نگاہیں جمائے صوفے پر آ بیٹھا تھا غنیہ اس کی ساری کاروائی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
" کتنی بار آپ سے کہا ہے سموکنگ مت کیا کریں مگر اس بارے میں آپ میری ایک نہیں سنتے ۔۔۔وہ منہ پھلائے خفگی سے بولی ۔۔۔۔۔
زیدان موبائل میز پر رکھتا مکمل طور پر غنیہ کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔
غنیہ اپنی آنکھیں ذیدان کے دلکش چہرے پر پر جمائے ہوئے تھی۔۔۔۔۔
" کیا بات ہے آج مجھ پر اتنا غور کیوں فرمایا جا رہا ہے ۔۔ ؟؟"
زیدان نے نگاہیں غنیہ کے شفاف چہرے پر جمائے پرشوق نگاہوں سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔۔۔
میں کتنی خوش قسمت ہوں نا جو مجھے آپ کا ساتھ ملا۔۔۔۔
میں نے صرف ایک بار کہا تھا کہ مجھے آپ کے ساتھ ساری زندگی گزارنی ہے اور آپ نے بنا کہے میری بات مان لی۔۔۔۔مجھے جو مان دیا اپنے گھر میں دل میں جو مقام دیا اس کا قرض میں چاہ کر بھی نہیں اتار پاؤں گی ۔۔۔۔
زیدان کا ہاتھ ابھی بھی غنیہ کے ہاتھوں میں تھا ۔زیدان کو اس کا نرم لمس تقویت پہنچا رہا تھا۔۔۔۔
احسان کس بات کا ؟
تم نے میری زندگی میں آکر اسے آباد کر دیا ۔۔۔۔ایسی فضول باتیں مت سوچا کرو ۔۔۔زیادہ سے زیادہ خوش رہنے کی کوشش کیا کرو ۔۔۔میں کوشش کرتا ہوں کہ نا پیوں مگر کبھی کبھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے اسے اپنا ساتھی بنانا پڑ جاتا ہے ۔۔۔۔۔
"کیوں میں آپ کی ساتھی نہیں آپ مجھ سے اپنی ساری پریشانیاں شئیر کر لیا کریں۔۔۔۔
"تم اپنی حالت دیکھو اس حالت میں تمہیں پریشان کروں ؟؟؟
میں ہوں نا ۔۔۔۔خود اب سنبھال لوں گا تم بس اپنا خیال کرو اور ہمارے لٹل چیم کا ۔۔۔۔
"آپ کو کیسے پتہ کہ لٹل چیم ہو گا ؟؟؟
لٹل ڈول بھی تو ہو سکتی ہے ۔۔۔۔
جو بھی ہوگا ۔۔۔۔ہوگا تو ہمارے وجود کا حصہ ہی نا ۔۔۔۔
زیدان اس کے سراپے کو مکمل اپنے حصار میں لیتا بولا تھا جبکہ غنیہ بے یقینی کے عالم میں اسے تکنے لگی تھی وہ کتنا حسین مرد تھا کیا مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جیسا اس کا ہمسفر تھا وہ ہمیشہ اس کا نیا روپ دیکھتی تھی جو پہلے سے زیادہ حیران کن ہوتا تھا جبکہ غنیہ کو اپنی جانب تکتے پا کر زیدان نے سوالیہ انداز میں بھنویں آچکا کر پوچھا۔۔۔
" کیا ہوا غنیہ ۔۔؟؟ "
غنیہ کی ایک دم غیر ہوتی حالت دیکھ کر زیدان پریشان ہوتا ہوا پوچھ رہا تھا جبکہ غنیہ نفی میں سر ہلاتی اب اس کےبازو سے لگی۔۔۔۔چہرے پر درد کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔۔۔۔۔
" پپ پتہ نہیں طبیعت کچھ عجیب سی ہو رہی ہے ۔۔ "
وہ بوجھل آواز میں بولی تھی زیدان نے فکرمندی سے اس کی جانب دیکھا۔۔۔۔
اگر طبیعت ٹھیک نہیں تو ہم ابھی ہاسپٹل چلتے ہیں ۔۔۔۔۔
"نہیں اب اتنی بھی خراب نہیں ۔۔۔۔۔
"اچھا چلیں ٹھیک ہے آپ بستر پر آرام کریں مجھے آپ کو کچھ دکھانا ہے ۔۔۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ تھامے بستر پر لایا ۔۔۔۔
پھر کمر کے پیچھے تکیہ رکھ کر اسے ٹیک لگا کر بیٹھنے میں مدد دیتے ہوئے سیدھا ہوا۔۔۔۔
پھر وارڈروب میں سے ایک پیکٹ نکالا۔۔۔۔
"یہ تمہارے لیے "
اس نے وہ پیک غنیہ کی جانب بڑھایا۔۔۔۔
اس میں کیا ہے ؟؟؟وہ حیرانی سے بولی ۔۔۔
"خود ہی دیکھ لو ۔۔۔۔۔
غنیہ نے پیک کھولا تو اس میں بلیک نیٹ کی خوبصورت ترین ساڑھی تھی ۔۔۔۔۔
"زیدان میرے پاس تو پہلے سے ہی اتنی زیادہ ساڑھیاں ہیں۔آپ کو ساڑھی پسند ہے اسی لیے میں وہی پہنتی ہوں مگر اب اپنی حالت کی وجہ سے یہ کھلے گاؤن پہنے ہوئے ہوں ۔۔۔وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔۔
"میں کون سا کہہ رہا ہوں کہ ابھی پہنو ۔۔۔
اسے تم ہماری دوسری ویڈنگ اینیورسری پر پہننا۔۔۔۔۔
"تھینکس ۔۔۔۔بہت پیاری ہے سچ میں ۔۔۔۔وہ اس پر ہاتھ پھر کر متعرف انداز میں بولی ۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
پڑھائی مکمل ہوتے ہی یارق ، ضماد تغلق کے ساتھ بزنس میں انوالو ہو گیا تھا۔۔۔۔
اپنے خاندانی بزنس کو سنبھالنے ان کی مدد کے لیے ہی تو آخر کو اس نے اپنی تعلیم مکمل کی تھی ۔۔۔۔۔
صبح گیا رات کو تھکا ہارا گھر واپس آتا۔۔۔۔
نور کی بھی اس کے ساتھ ہی تعلیم مکمل ہو چکی تھی ۔۔۔۔
فی الحال وہ بھی اپنی والدہ نگہت بیگم سے گھر داری سیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اور آئے دن نت نئے تجربات سے مختلف کھانے بنا کر دادا جان شہباز تغلق کو لطف اندوز کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
وہ ملازمین کے چلے جانے کے بعد کچن سمیٹ کر اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز سن کر اس کے قدم وہیں رکے ۔۔۔۔۔
"تمہارے لیے پانی لاؤں ؟
یارق جو کاندھے کے ایک طرف لوٹ ڈالے دو انگلیاں پھنسانے ہوئے ہاتھ میں لیپ ٹاپ والا بیگ تھامے اندر آرہا تھا ۔۔۔۔
نور العین کو راستے میں ایستادہ دیکھ کر رکا۔۔۔۔
"نہیں اس کی ضرورت نہیں "
وہ سرد مہری سے کہتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔۔
نور العین دل مسوس کر رہ گئی۔۔۔۔
"کھانا لاؤں تمہارے لیے "؟
وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
"خواہ مخواہ میرے گلے پڑنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔اپنے کام سے کام رکھا کرو ۔۔۔۔
میں نے مانگا ہے کھانا تم سے ؟؟؟
وہ ابرو اچکا کر درشت لہجے میں بولا کم دھاڑا زیادہ۔۔۔
وہ آنکھیں جھپکاتے ہوئے دو قدم پیچھے کو ہوئی ۔۔۔۔۔
وہ سر جھٹک کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔
وہ نم آنکھوں سے جاتے ہوئے یارق کی پشت کو یاسیت سے دیکھ کر رہ گئی۔۔۔۔۔
کیا سوچا تھا کہ اس عید کے موقع پر وہ یارق کے ساتھ جاکر ڈھیر سی شاپنگ کرے گی ۔۔۔۔۔مگر اس کے تو مزاج ہی کچھ مہینوں سے سوا نیزے پر تھے ،کچھ خواہشیں ایسی ادھوری ہی رہ جاتی ہیں۔۔۔وہ بے دلی سے دیوار سے ٹیک لگا کر سوچنے لگی ۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
کل عید پر ڈیوٹی پوری دینی ہے ۔۔۔۔
فرازم تغلق نے اپنے جونیئرز کو مخاطب کیے ہوئے کہا۔
سر مگر عید والے دن تو ؟؟؟؟عمر نے منمنا کر التجائیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔
مگر فرازم تغلق کی گھورتی نگاہوں سے خائف ہوتے ہی نظریں جھکا گیا ۔۔۔۔اور زبان پر بھی خاموشی کا پہرہ لگا دیا۔۔۔۔
اسے پتہ تھا اگر اب زبان کو بریک نا لگائے تو یہ زبان وہ کاٹ کر پھینک دے گا۔۔۔۔
وہ اٹینشن ہوئے مؤدب انداز میں کھڑا تھا۔۔۔۔۔
جن جگہوں پر رش ہوتا ہے عید کے موقع پر انہیں جگہوں پر زیادہ وارداتیں ہوتی ہیں۔۔۔
فرازم نے سب کی مختلف جگہوں پر ڈیوٹی لگا دی ۔۔۔۔
عمر تم میرے ساتھ رہو گے ۔۔۔۔
کل ہم بنا یونیفارم کے حلیہ تبدیل کر کہ ڈیوٹی نبھائے گے۔۔۔ورنہ چور وردی دیکھ کر ایکٹو ہو جاتے ہیں۔۔۔۔
ہم انہیں کھلے عام واردات کرنے کاموقع دیں گے ۔۔۔
اور پھر اسی موقعے کا فائدہ اٹھا کر چوکا ماریں گے ۔۔۔۔
"جی سر "عمر نے جھٹ تابعداری کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اس نے وضو کیا اور کمرے میں آ کے تہجد کی نماز پڑھنے لگی ۔۔ نماز میں بھی رو رہی تھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھے تو اس کا دل سوکھے پتے کی مانندکانپنے لگا " میرے رب ۔۔میرے پروردگار ۔۔۔ اے تمام جہانوں کے پالنے والے ۔۔ میں آپ کی گنہگار ہوں ۔۔ بہت گنہگار ۔۔
میرے گناہوں کو معاف فرما دے میرے مولا ۔۔ مجھ پہ اپنا رحم فرما دے ۔۔ میرا ماضی میری زندگی کے سیاہ ورق ہیں میرے پروردگار ۔۔ میں انھیں ہر روز پلٹتے پلٹتے تھک گئی ہوں ۔۔ میں تھک گئی اے میرے رب میری مدد فرما ۔۔ میری بخشش فرما ۔۔ مجھ پہ اپنا رحم فرما " وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے روتی رہی دیر تک اللہ کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلائے وہ اللہ سے بخشش مانگتی رہی ۔۔ اللہ کی پناہ مانگتی رہی ۔۔جانے کب اس کی آنکھ لگی۔۔۔۔۔
دروازے پر ہلکی سی کھڑکے کی آواز سن کر وہ کچی نیند سے جاگی تھی ۔۔ اس کا چہرہ ۔۔ پورا وجود پسینے سے بھرا ہوا تھا اس کی نظر گھڑی پہ پڑی رات کے دو بج رہے تھے ۔۔ وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔ گھنگھروؤں کا شور اب بھی اس کے کانوں میں سنائی دے رہا تھا ۔۔ رقاصاؤں کی اداؤں کو سراہتی آوازیں ۔۔۔ اس نے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیے۔۔۔ اس کا پورا وجود لرز رہا تھا ۔۔وہ کیسے یہاں سے بچنے کے لیے راہ نکالے ۔۔۔۔
خالہ سلمیٰ کو اندر آتے دیکھ اس کی جان میں جان آئی ۔۔۔۔
سلمیٰ دبے پاؤں سے تالا کھول کر اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔
"خالہ آپ "اس وقت ؟؟؟
وہ حیران کن نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
"اگر اس منحوس فیروزہ بائی نے دیکھ لیا تو آپ کا جینا حرام کر دے گی ۔۔۔۔۔
خالہ کہا ہے تو خالہ کو اپنا فرض بھی نبھانے دو ۔۔۔۔۔
وہ عمر رسیدہ عورت مشفقانہ انداز میں بولی۔
تمہاری ماں یاقوت بھی بہت نیک تھی مگر اس فیروزہ بائی نے اسے مجبور کردیا یہ اب کرنے پر ۔۔۔۔اوپر سے تمہارا باپ ۔۔۔۔۔
وہ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے حقارت آمیز انداز میں بولی ۔۔۔۔لہجے میں کڑواہٹ گھلی تھی ۔۔۔۔۔
خالہ آج مجھے سب سچائی جاننی ہے ۔۔۔پلیز بتائیں نا کیا ہوا تھا میری ماں کے ساتھ ؟؟؟وہ کرب زدہ آواز میں بولی ۔۔۔۔
سلمیٰ نے اسے شروع سے لے کر آخر تک ساری باتیں بتائیں ۔۔۔۔۔
جنہیں سن کر وہ اپنا آپا کھو دینے کو تھی۔۔۔
"یہ رکھ لو تمہارے باپ کی نشانی ہے۔۔۔۔اسی سے تمہیں اپنے باپ کا سراغ مل سکے گا۔۔۔۔
انہوں نے ایک بیش قیمتی انگوٹھی جس میں یاقوت ہی جڑا ہوا تھا ۔۔۔۔اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔۔
"یہ لو عبایا ۔"یہ پہن کر کسی بھی طرح یہاں سے نکل جاؤ اس سے پہلے کہ اس نئے سیٹھ کے ہاتھ لگو ۔۔۔۔میں نے سنا ہے وہ بہت ظالم و جابر انسان ہے۔۔۔۔
اللّٰہ تمہیں اس کے اور اس کے علاؤہ ہر انسان نما درندوں کے شر سے محفوظ رکھے ۔۔۔۔
وہ اسے تہہہ دل سے دعا دینے لگی ۔۔۔۔
اس نے جلدی سے وہ عبایا زیب تن کیا ۔۔۔۔۔
پھر اس نے نظر بچا کر بڑے سے ہال نما کمرے میں بھانت بھانت کے مرد اور رقص کرتی دوشیزائیں اپنے ہوش ربا حسن سے ہر مرد کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنی ہوئی تھیں۔ ۔
وہاں موجود ہر مرد اپنی اپنی ہوس مٹا نے کو بیٹھا تھا ۔۔
پورے ہال کمرے میں خوبصورتی بکھری پڑی تھی۔۔۔۔۔
ناچ گانا گھنگروُں کی جھنکار پورے ماحول میں گونج رہی تھی ۔۔
روبی اور تارا پاؤں میں گھنگرو پہنے گانے کے بولوں پر مدہوش ایک ایک تال پر بڑے ماہرانہ اندازمیں تھرک رہی تھیں ۔۔
اپنے جسم کی نمائش کرتی وہ دونوں وہاں بیٹھے تمام عیاش مردوں کی راتیں رنگین کرنے میں بڑی مہارت سے مصروف تھیں۔ ۔
بازار حسن کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں۔۔۔
فیروزہ بائی چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہوئے تھی۔۔۔۔۔
سونا پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بھاگتی ہوئی فیروزہ بائی کے پاس آئی تھی ۔۔
وہ جو بڑے مزے سے وہاں موجود مردوں سے جسم کی نمائش کے ذریعے روبی اور تارہ کے اوپر وارنے والے نذرانے بٹورنے میں مصروف تھی
۔۔
جب سونا نے آہستہ سے اس کے کان میں آ کے کہا ۔۔
فیروزہ بائی نے منہ میں خوشبودار پان رکھتے ہوئے اپنے مخصوص شاطرانہ انداز میں سونا سے آنکھ
کا اشارہ کر کے بغیر کچھ کہے پوچھا ۔۔
وہ بھاگ گئی۔۔۔۔۔۔
فیروزہ بائی کے اوسان خطا ہوگئے۔۔۔۔۔
اس نے اپنے دلال اور غنڈوں کو اس کا پیچھا کرنے کے لیے روانہ کیا۔۔۔۔۔
اور سلمی کے دکھائے گئے چور راستے سے آخر کار فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔۔۔۔۔۔
جاتی بار سلمی نے اسے جھلملاتی ہوئی آنکھوں سے دیکھ کر دعا دی ۔۔۔۔۔
آج اس کے پروردگار نے اس کی سن لی تھی ۔۔۔۔وہ بھاگتے ہوئے گاؤں کی حدود سے باہر نکل آئی تھی ۔۔۔۔
صبح کا سورج طلوع ہوئے ہر طرف روشنی بکھیر چکا تھا۔۔۔۔۔
سڑک پر چلتے چلتے اس کی بس ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
وہ تھک کر روڈ کے قریب پتھر پر بیٹھی اور سانسیں ہموار کرنے لگی ۔۔۔۔۔
ایک جگہ نل نظر آیا تو اس کے پاس جا کر پانی سے پیٹ بھرا ۔۔۔۔۔
یونہی سڑکیں ناپتے ہوئے اسے دن سے رات ہو چکی تھی ۔۔۔۔
جاؤں تو جاؤں کہاں ؟؟وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر سوچنے کے انداز میں خود سے بولی ۔۔۔۔
رات ایک پارک میں گزارنے کا سوچا مگر وہاں کے واچ مین نے اسے وہاں سے بھی نکال دیا۔۔۔۔
وہ اس کے وہاں سے جانے کے ہی انتظار میں تھی۔۔۔اس کے جاتے ہی وہ جنگلے سے چھلانگ لگا کر اندر کود گئی ۔۔۔۔
اور ساری رات پارک کے بینچ پر گزار دی ۔۔۔۔
رات کو مچھروں نے اس کا برا حال کردیا ۔۔۔کہ ایک لمحے کے لیے بھی آنکھ نا لگی ۔۔۔۔
اگلا سارا دن یونہی سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے گزرا ۔۔۔۔اور رات پھر سے ویسے ہی پارک میں گزری ۔۔۔۔
دوسرے دن بھوک اور کمزوری کے باعث اس کا برا حال تھا۔۔۔۔۔
شدید بھوک سے آنتیں قل ہو واللہ پڑھ رہی تھیں۔۔۔
پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے اس کے خرافاتی دماغ میں ایک ترکیب آئی ۔۔۔۔
اسی پر عمل کرنے کا سوچتی ہوئی وہ رش والی جگہ پر پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔۔
کئی عورتیں اور لڑکیاں عید کی مناسبت سے سجے سنورے ہوئے وہاں سے گزر رہی تھیں۔۔۔
"ابے رک تیری تو " اس نے سٹرک پر پڑا پتھر اٹھا کر اس کی پشت پر مارا۔۔۔۔۔
"وہ جو عبائے میں ملبوس تازہ تازہ مال روڈ میں داخل ہوتی ایک امیرذادی کا کلچ اس کے شانے سے کھینچ کر بھاگی تھی ۔۔۔۔
ایک لفنگا اس کا تعاقب کرنے لگا۔۔۔۔۔
"شرم نہیں آتی تجھے عورت ذات پر ظلم کرتے ہوئے "وہ رکی ۔۔۔۔پھر مڑی ۔۔۔۔اور پھرتی سے چلتی ہوئی زبان کے جوہر دکھانے لگی۔۔۔۔
"تجھے شرم نہیں آئی چوری کرتے ہوئے تو مجھے کیوں آئے گی لا۔۔۔۔ادھر دے پرس۔۔۔۔
"کیوں باپ کا مال ہے ؟؟؟؟
وہ تلخی سے غرائی۔۔۔۔۔
"میرے نہیں تو کونسا تیرے باپ کا مال ہے ؟؟؟جلدی دے اپُن کا ٹیم کھوٹا نہ کر چل۔۔۔۔جلدی دے وہ ایک ہاتھ کے اشارے سے اس سے کلچ مانگ رہا تھا۔۔۔۔
"کیوں حصہ چاہیے کمینے تجھے؟؟؟؟
"میری محنت کی کمائی ایسے کیسے دے دوں تجھے کیا بہن بیاہی ہے؟؟؟؟
یہ لے ابھی دیتی ہوں تجھے حصہ وہ پاؤں میں موجود چپل کا اس کی طرف پورا نشانہ تاک کر پھینکتے ہوئی چلائی۔۔۔۔۔
اور آؤ دیکھا نہ تاؤ کہ چپل نشانے پر لگی بھی ہے یا نہیں ۔۔۔۔اپنا عبایا اٹھائے سر پٹ دوڑ لگادی ۔۔۔
شکر کہ نشانہ چوکا ۔۔۔۔
وہ دگنی تیزی سے اس کے تعاقب میں دوڑا۔۔۔۔
اور ایک ہی جست میں اسے جا لیا۔۔۔۔۔
اس نے تیزی سے ہاتھ میں پکڑا کلچ عبائے کے اندر شرٹ کے گلے میں گھسایا۔۔۔۔۔
"بڑی محفوظ جگہ تلاش کی ہے چھپانے کی ۔۔۔۔وہ معنی خیز نظروں سے دیکھتا ہوا کمینے پن کی انتہاؤں کو چھوتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
"اپنے آپ نکال دے ۔۔۔۔ورنہ میں نکالوں گا تو مجھے بھی مزہ آئے گا اور شاید تو بھی ۔۔۔۔۔یہی چاہتی ہے ۔۔۔۔۔وہ آنکھ مار کر بولا
"شٹ اپ "وہ اس کی بکواس پر چلائی ۔۔۔۔
"واہ آج کل کے چوروں کو انگریزی بھی آتی ہے ۔۔۔۔تمسخرانا انداز میں کہا گیا۔۔۔۔۔
وہ دھپ سے سڑک پر بیٹھی ۔۔۔۔
"بس ہو گئی اتنے تیری میں ؟؟؟؟وہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے لوفرانہ انداز میں بولا
"بس تو تیری کرواؤں گی چھچھورے ۔۔۔۔۔وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو مٹی سے بھر کر اس کی آنکھوں کی طرف کر کہ اچھالتے ہوئے نخوت سے بولی ۔۔۔۔۔
ایک دم سے آنکھوں میں پڑی مٹی سے سارے منظر دھندھلا گئے ۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں ہونے والی درد اور خارش سے نجات پانے کے لیے اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔۔۔۔۔
"عمر کدھر مر گیا ہے ؟"اس نے پاکٹ میں سے موبائل نکال کر کانسٹیبل عمر کو کال کی۔۔۔۔۔
"جی سر "اس نے جھٹ سے کہا ۔
"جی سر کے بچے بائیک لے کر روڈ کی دوسری طرف پہنچ ۔۔۔۔
"جی سر بس ابھی آیا ۔۔۔اس نے جلدی سے فون پاکٹ میں ڈالا ،پھرکوک کا آخری بڑا سا گھونٹ اندر انڈیل کر دکان سے باہر کو بھاگا ۔۔۔اور بھاگتا ہوا بائیک پر بیٹھا۔۔۔۔
"یہ سر کو بھی عید کے دن سکون نہیں نا خود آرام کرتے ہیں نا کسی اور کو عید منانے دیتے ہیں۔۔۔۔یہی تو دن ہے چوروں کا ۔۔۔۔انہیں بھی چوری کر کہ عید منانے دیں اور مجھے بھی ۔۔۔۔پر نا جی ۔۔۔۔۔وہ جلے دل کے پھپھولے پھوڑتا بائیک کو کک مار کر سٹارٹ کرتے ہوئے بیزاری سے بولا ۔۔۔۔۔۔
"آئیے سر بیٹھیں "جیسے ہی فرزام بائیک پر بیٹھا ۔۔۔۔
اچھل کر نیچے اترا ۔۔۔۔
" بائیک کیا دھوپ میں کھڑی کی تھی ؟؟؟؟
"جی سر ۔۔۔وہ کھسیاتے ہوئے دانت نکال کر بولا۔۔۔۔
"جاہل انسان سارا کچھ جلا ڈالا ۔۔۔۔۔"وہ جل کر تیز آواز میں بولا۔۔۔۔
گلے میں موجود گرہ لگے سکارف کو کھول کر سیٹ پر بچھایا ۔۔۔۔
پھر اس پر بیٹھتے ہوئے اس کے شانے پر ہاتھ مارا ۔۔۔۔۔
"چل اب "...
عمر نے بائیک سٹارٹ کی۔۔۔۔
"سر جان کی امان پاؤں تو ایک بات پوچھوں ؟؟؟؟
بولو ....اس نے سخت آواز میں کہا۔
"سر آج بہت غصے میں ہیں کیا ہوا ؟؟؟؟
"ہونا کیا تھا ایک چھٹانک بھر کی لڑکی مجھے ۔۔۔۔۔مجھے یعنی ایس ۔پی فرزام تغلق کو چونا لگا گئی ۔۔۔۔۔
عید الاضحی کے موقع پر مجھے ہی بکرا بنا گئی ۔۔۔۔بکری کہیں کی ۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ مل جائے پھر دیکھنا تم۔۔۔۔اسی کی قربانی کروں گا ۔۔۔۔۔وہ اس کے بارے میں سوچتا ہوا ایک بار پھر سے پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔۔۔۔۔
پہلی بار ہوا تھا کہ کسی لڑکی کو دیکھ کر جانے کس کونے میں چھپا اس کا ٹھرک پن باہر آیا تھا۔۔۔۔۔اسے یاد کر کہ خود ہی ہنسی آئی ۔۔۔۔۔۔
وہ جو بھاگتے ہوئے ہانپنے لگی تو ایک دکان کے آگے رکی ۔۔۔۔۔
بھائی کچھ کھانے کو جلدی ڈال دو ۔۔۔
مگر میڈم جی آپ کیا لیں گی ؟؟؟؟
کیا کا کیا مطلب ۔۔۔۔؟وہ زرا تیز آواز میں کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں بولی۔
برگر، شوارما جو بھی جلدی مل جائے جلدی دو بس ۔۔۔۔۔
وہ حکم جاری کیے سڑک پر نظریں دوڑانے لگی ۔۔۔۔۔
ایک عمر رسیدہ عورت شدید گرمی میں اپنے بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ہاتھ پھیلائے مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
"بہت بھوک لگی ہے صاب ۔۔۔۔ایک روٹی کھلا دو ۔۔۔۔۔
وہ ملتجیانہ انداز میں ہر گزرتے ہوئے آدمی اور عورت سے منتیں کر رہی تھی ۔۔۔مگر سب بے حس بنے قریب سے ایسے گزر رہے تھے جیسے کسی نے کچھ سنا ہی نا ہو ۔۔۔۔۔
بھوک کے باعث کیا حال ہوتا ہے وہ ان دو دونوں میں بخوبی جان چکی تھی ۔۔۔۔۔
دکاندار سے دو برگر لیے وہ اس عمر رسیدہ عورت کا ہاتھ پکڑے گلی کی ایک نکڑ پر بیٹھی ۔۔۔۔۔
اور چہرے کے اوپر نقاب کو تھوڑا سا سرکا کر کھانے لگی ۔۔۔۔۔
چند لقمے حلق میں اترے تو بلبلاتی ہوئی آنتوں کو سکون ملا۔۔۔۔۔
وہ بوڑھی عورت اس کو دعائیں دینے لگی ۔۔۔۔۔
سامنے بلڈنگ میں کھڑا لڑکا اسے وہاں سے کھڑا گھور رہا تھا ۔۔۔۔۔
اس کی نظر اچانک اس اوپر اٹھی تو ایک لوفر کو اپنی طرف متوجہ پا کر تیوریاں چڑھیں ۔۔۔۔۔
لاہور کے مال روڈ پر واقع چمن کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی نظر فٹ پاتھ پر بیٹھی ہوئی اسی لڑکی پر پڑی ۔۔
وہی سیاہ بڑی بڑی آنکھیں جن پر گھنی خمدار پلکیں سایہ فگن تھیں ۔۔۔۔وہی سیاہ عبایا۔۔۔۔
رک یار "فرزام نے عمر کو بائیک روکنے کے لیے کہا ۔۔۔۔
ایس ۔پی فرزام تغلق عید کے دن حلیہ تبدیل کر کے ایسے ہی چوروں کی تلاش میں سرگرداں تھا ۔۔۔۔
"یہ وہی بکری ۔۔۔۔میرا مطلب لڑکی ہے جس نے مجھے بے وقوف بنایا ۔۔۔۔۔
اس نے پاس پڑا پتھر اٹھا کر اس لوفر لڑکے کی طرف اچھالا ۔۔۔۔۔
جو سیدھا اس کی پیشانی پر لگا۔۔۔۔۔
اسے کہاں توقع تھی اس اچانک حملے کی ۔۔۔۔وہ تو اسے بھی عام لڑکیوں کی طرح تاڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔
اسے کیا پتہ تھا کہ اس کا پالہ کس شیرنی سے پڑا تھا۔۔۔۔۔
وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کراہتا ہوا ٹیرس سے پیچھے ہوا۔۔۔۔۔
فرازم تغلق نے سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔۔۔تو لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔۔۔۔۔۔
اس لڑکے کے انجام پر ۔۔۔۔۔
اس نے آنکھیں بند کر کہ گہری سانس لی۔۔۔۔
مگر جب آہستگی سے آنکھیں کھولیں تو وہ دوشیزہ اسے پھر سے چکما دئیے جانے کہاں روپوش ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔
"کبھی نا کبھی تو ہاتھ آؤ گی چورنی "وہ دل میں اس سے مخاطب ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
"چلو عمر "
اس کے اشارے پر عمرنے بائیک رش والی جگہ سے نکال کر سڑک پر ڈال دی ۔۔۔۔۔اب ان کی اگلی منزل فی الحال پولیس اسٹیشن ہی تھا ۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
حنا کچن میں ناشتہ بنوا رہی تھی جبکہ غنیہ اور زیدان ڈائنگ پر ناشتے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔۔
زیدان اخبار پکڑے سرخیوں پر نظریں دوڑانے میں محو تھا۔۔۔۔۔
ز۔۔۔زیدان ۔۔۔۔۔غنیہ پیٹ پر ہاتھ رکھے کراہنے لگی۔۔۔۔۔
"کیا ہو غنیہ؟؟؟؟
وہ اس کی درد بھری آواز سن کر جھٹ اخبار چھوڑے اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
م۔۔۔۔مجھے درد ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔وہ کراہتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔۔
"ابھی تو سات ماہ ہوئے ہیں ۔۔۔پھر جانے کیوں ایسا ہو رہا ہے ......
"غنیہ اٹھو میرے ساتھ فورا ہوسپٹل چلیں ۔۔۔۔
ن۔۔۔نہی۔۔۔۔نہیں زیدان مجھے ہاسپٹل نہیں جانا ۔۔۔۔
پیر صاحب نے منع کیا تھا کوئی بھی ڈاکٹری علاج کروانے سے یا کوئی بھی میڈیسن لینے سے ۔۔۔۔۔۔۔
میں کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔آپ نسیم (ملازمہ)سے کہہ کر زبیدہ (دائی )کو بلا دیں وہ آکر دیکھے ۔۔۔۔۔
"غنیہ اتنی ایجوکیٹیڈ ہونے کے باوجود تم کیوں ایسی فرسودہ باتوں پر عمل کر سکتی ہو ۔۔۔۔میں نے اب تک سب تمہاری مانی ہیں ۔۔۔۔
مگر اب بات تمہاری جان کی ہے ۔۔۔۔۔
میں تمہیں اس حال میں تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔۔فورا چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔تم سے اہم میرے لیے دوسرا کچھ نہیں ۔۔۔۔وہ نہایت تفکر سے بولا۔۔۔۔
وہ ڈائننگ ٹیبل کو پکڑ کر کھڑے ہونے کی کوشش میں تھی کہ وہاں کارنر پر پڑے ہوئے کانچ کے گلاسوں میں سے ایک نیچے گرا ۔۔۔۔
باہر سے آتی چھناکے کی آواز سن کر حنا کچن سے باہر نکلی ۔۔۔۔۔
غنیہ درد سے دوہری ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچی ۔۔۔۔۔
کیا ہوا آپی ؟؟؟؟وہ حیرت اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہو کر بولی ۔
اتنی دیر میں زیدان وقت ضائع کیے بنا غنیہ کو بازوؤں میں بھر کر باہر کی جانب بھاگا ۔۔۔۔۔
حنا بھی اس کے پیچھے بھاگی ۔۔۔۔۔
ڈرائیور ابھی تک پہنچا نہیں تھا اس کا وقت آٹھ بجے کا تھا جبکہ ابھی سات بجے تھے ۔۔۔۔
زیدان نے غنیہ کو پچھلی سیٹ پر لٹایا۔۔۔۔وہ درد سہتے سہتے تقریبا نیم بے ہوش ہو چکی تھی ۔۔۔۔
خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔۔۔۔حنا جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کرغنیہ کے پاس بیٹھی اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔۔۔۔
آپی ہمت کریں ۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔
وہ اس کا گال تھپتھپاکر کر غمزدہ لہجے میں بولی۔۔۔۔۔۔
مگر اسے ہنوز بے ہوش دیکھ کر اس کی حفاظت کے لیے آیت الکرسی پڑھ کر اس پر پھونکنے لگی ۔۔۔۔۔
زیدان نے برق رفتاری سے گاڑی چلاتے قریبی ہسپتال کا رخ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپریشن تھیٹر کی لائٹ جو مسلسل دو گھنٹے سے جل رہی تھی ۔بند ہوئی تو زیدان جو مسلسل مضطرب انداز میں باہر کھڑا تھا ۔۔۔۔وہاں سے باہر نکل کر آتی ہوئی لیڈی ڈاکٹر کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر بتائیں سب ٹھیک تو ہے نا ؟
اتنے کڑے وقت میں بھی وہ چٹان سا مضبوط بنا دل پر جبر کیے کھڑا تھا۔
جسم کا ہر عضو کان بنا کھڑا اس کی بات سننے کا منتظر تھا،
ڈاکٹر بتائیں غنیہ ٹھیک ہے نا ؟دل میں جو خود کنڈلی مارے بیٹھا تھا آخر کار لبوں پر مچل اٹھا ،مقابل کھڑی لیڈی ڈاکٹر کے سپاٹ اور کچھ کچھ افسردہ چہرے کو دیکھ کر ۔۔۔۔
آپ کی مسسز نے ایک بہت ہی پیارے بیٹے کو جنم دیا ہے ۔
ڈاکٹر مجھے غنیہ کا بتائیں ۔۔۔۔۔
وہ بے چینی سے بولا۔۔۔۔۔
دیکھیں سر پلیز تحمل سے میری بات سنیے گا ۔۔۔۔۔
"یہ جو بھی ہوا اس میں سراسر آپ کی غلطی ہے ۔"
ڈاکٹر کے اس الزام پر وہ آنکھیں پھاڑے تڑپ کر رہ گیا۔۔۔۔۔
"آپ مجھے صاف صاف بتائیں آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ؟؟؟؟
وہ سرد لہجے میں بولا
دراصل آپ لوگوں نے پیشنٹ کا ایک بار بھی الٹرا ساؤنڈ نہیں کروایا ۔۔۔۔
اگر ایک بار بھی آپ ان کا چیک اپ کروا لیتے تو ہم آپ کو بتا دیتے کہ ان کے بچے کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔۔وہ تھوڑا سا رکی پھر بولی ۔۔۔آپ کو صاف الفاظ میں بتاتی ہوں کہ ایک رسولی بھی پیٹ میں تھی ۔
جس طرح بے بی کی گروتھ ہو رہی تھی اس رسولی کی بھی گروتھ ہوتی گئی ۔۔۔۔
اگر آپ وقت رہتے اس کا علاج کروا لیتے تو آج یہ نوبت نا آتی ۔۔۔۔
ڈاکٹر کی اس بات پر اس کا دل ایک بار سکڑ کر پھر پھیلا۔۔۔۔۔
آپ کے بچے کو تو ہم نے بچا لیا مگر ۔۔۔۔۔
I am extremely very sorry......
ہم آپ کی مسسز کو نہیں بچا پائے ۔۔۔۔۔
رسولی کے پھٹ جانے کی وجہ سے زہر پھیل گیا اور وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔
آپ کا بے بی پری میچور ہے نرسری میں ہے۔اسے ایکسٹرا کئیر کی ضرورت ہو گی ۔
زیدان کی آنکھوں میں ملال ہلکورے لے رہا تھا،بھوری آنکھیں سرخی مائل دکھائی دیتے ہوئے اس کی اندرونی توڑ پھوڑ اور اذیت کی گواہی دے رہی تھیں،دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیے وہ نیچے چمکتے ماربل کو گھوررہا تھا،
ذہن میں جس قدر جھکڑ چل رہے تھے اس کے بلکل برعکس وہ ہارے ہوئے جواری کے مانند خاموش سا تھا،باریک لب ایک دوسرے میں اس سختی سے بھنچے تھے،آج اس نے اپنی متاع حیات اپنی شریک حیات کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کھو دیا تھا کتنا مختصر تھا یہ ساتھ مگر ہمیشہ یاد رہ جانے والا۔۔۔۔۔
ابھی تک وہ نا قابل یقین تھا گومگوں کی کیفیت میں مبتلا کہ کیا سچ میں ایسا ہو چکا ہے دل اس سچ کو ماننے سے انکاری تھا۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
وہ آفس سے واپس آیا تو پورچ میں گاڑی کھڑی تھی جسے وہ پہچان چکا تھا کہ فرزام بھی آچکا ہے ۔
لاونج میں ہی سب موجود تھے ایک صوفے پہ اس کے ضماد چاچو اور نگہت بیگم بیٹھے تھے جبکہ دوسرے ڈبل سیٹر صوفے پہ اس کے شہباز تغلق اور فرزام بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔
جب کہ نور العین تھی اس وقت کچن میں ملازمین کی ہیلپ کے ساتھ ساتھ دنیا جہان کی باتیں بھی کر رہی تھی۔۔۔۔۔
اسلامُ علیکُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے زور سے سب کو مشترکہ سلام کیا ۔۔۔
جس کا سب نے اکٹھے ہی جواب بھی دیا ۔۔۔۔
آج سب ابھی تک جاگ رہے ہیں خیر تو ہے ؟یارق نے حیرانی سے کہا۔۔۔
آج ویک اینڈ ہے اس لیے سوچا کیوں نا مل کر ڈنر کریں تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے شہباز تغلق نے کہا۔۔۔۔
"جی ٹھیک ہے دادا جان۔۔۔وہ لہجے میں نرمی لائے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
یارق بیٹا پہلے فریش ہو جاو جا کہ پھر ڈنر کے بعد باتیں کریں گے۔۔۔۔۔نگہت بیگم نے کہا۔۔وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا
وہ کمرے کی طرف بڑھا اس کے کمرے میں بھی ویسا ہی سناّٹااور وحشت تھی جیسی اس کے دل میں تھی۔۔۔
وہ جب فریش ہو کہ باہر آیا تب تک سب ہی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے۔۔۔۔۔
وہ اپنی سیٹ پہ بیٹھ گیا، جو کہ فرزام کہ دائیں طرف تھی جب کہ اس کے بلکل سامنے نور العین بیٹھی تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی نگہت بیگم بیٹھی تھیں۔۔۔۔
نور العین نے بریانی کی پلیٹ اس کے آگے کی کیونکہ یہ یارق کی فیورٹ تھی ،
یارق نے اسے نظر انداز کیے سامنے موجود بھنڈی والا باؤل اٹھا کر پلیٹ میں تھوڑی سا بھنڈی کا سالن نکالا۔۔۔۔اور ہاٹ پاٹ میں سے وقت اس روٹی نکال کر چہرہ جھکائے بے دلی سے کھانے لگا۔۔۔۔
فرازم نے نور کا آگے بڑھا ہوا ہاتھ دیکھا ۔۔۔
نور کا بجھا ہوا چہرہ دیکھ کر فرزام نے اسے آنکھوں کے اشارے سے تسلی دی۔
سب جانتے تھے کہ یارق کو بھنڈی بالکل بھی پسند نہیں ۔۔۔۔سب نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
اس کے منہ کے زاویے صاف واضح تھے کہ وہ خود پر جبر کیے کیسے کھا رہا تھا ۔۔۔۔
یارق یہ تو تمہیں پسند نہیں فرزام نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
اور بہن کو بھی ہرٹ کردیا ۔۔۔۔اس نے خاص تمہارے لیے اپنے ہاتھوں سے بریانی بنائی تھی۔
"بہن "لفظ سن کر نور العین کو اچھا لگا ۔۔۔۔
وہ بری طرح سے کھانسنے لگی۔۔۔۔۔۔
"بھائی کئی بار ایسی بہت سی چیزیں کرنی پڑ جاتی جو ہمیں پسند نہیں ہوتی ۔۔۔۔
میں ہر چیز کا یوز ٹو ہونا چاہتا ہوں۔۔۔۔وہ سرد مہری سے بولا۔۔۔۔۔
آدھی روٹی بھی نہیں کھائی گئی ۔۔۔پانی کا پورا گلاس غٹاغٹ اپنے اندر انڈیل کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔۔
سوری ایوری ون ۔۔۔۔۔پلیز ڈونٹ مائنڈ مجھے آفس کی ایک ضروری پریزنٹیشن تیار کرنی ہے۔۔۔۔
پھر ملاقات ہو گی ۔۔۔۔
یارق نے روکھے انداز میں کہا۔
یارق صبح چھٹی ہے صبح کر لینا ابھی بیٹھو ہمارے ساتھ ۔۔۔۔
ہر وقت مسکراتے رہنا والے یارق کاایک دم سے سنجیدہ ہو جانا سب کو بری طرح کھِل رہا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت ہسپتال کے کاریڈور میں موجود تھے ، دوپٹے کو نماز کے سٹائل میں لپیٹے ہوئے کھڑی زارو قطار آنسو بہا رہی تھی۔۔۔گال بھیگے ہوئے تھے،،،
حنا نے پتهرائی نظروں سے غنیہ کا بےجان وجود دیکھا تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کے ابھی سے کچھ گھنٹوں پہلے تک اس سے باتیں کرتی اسکی بڑی بہن اب اسکے ساتھ نہیں۔وہ چلتی ہوئی اس روم میں آئی۔۔۔
نم نگاہیں سامنے موجود اس معصوم وجود پر تھیں۔۔۔۔ جو کچھ دیر پہلے ہی اس دنیا میں آیا تھا ،اُس نے باہر دیکھا جہاں آئی ۔سی ۔یو کے شیشے سے سر لگائے زیدان تغلق کھڑا تھا ۔۔۔۔ اس وقت وہ شخص اسے بہت ہارا ہوا لگا،،
سب کچھ کھو جانے کا خوف اسکے چہرے پر با آسانی پڑھ سکتی تھی۔۔۔۔وہ ننھے فرشتے کے پاس بیٹھی۔۔۔۔۔۔اپنی آپی اپنی مسیحا اپنی دوست کے یوں اچانک چلے جانے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی ۔۔۔۔
پہلے اس کے بابا اسے چھوڑ کر چلے گئے پھر اس کی آپی ۔۔۔۔کیا میرا کوئی نہیں اس دنیا میں ؟وہ خودی سے مخاطب ہوئے بولی ۔۔۔۔
ننھے فرشتے کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں سنائی دی تو اس کا دھیان غنیہ سے ہٹ کر اس پر پڑا۔۔۔۔۔
جو شاید اس کی توجہ کا منتظر تھا۔۔۔۔
وہ جھک کر اسے اٹھائے اپنے سینے سے لگائے بری طرح رو دی۔جیسے اپنا غم اس سے بانٹ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔
زیدان کے پاس فرازم ،یارق اور ضماد تغلق آئے ۔۔
غم کا پہاڑ تھا جو زیدان پر ٹوٹا ۔۔۔۔زیدان تغلق کی بیوی آئی ۔سی ۔یو میں دم توڑ چکی ہے یہ خبر میڈیا کے زریعے پھیل چکی تھی ۔۔۔۔
یہ سنتے ہی وہ تینوں زیدان کے غم میں شریک ہونے ہاسپٹل پہنچ گئے۔۔۔ آئی۔سی۔یو کےاسٹریچر پر پڑے بےجان وجود کو بےیقینی سے دیکھا پھر تیز قدموں سے اس کے پاس گیا۔۔۔
غنیہ اٹھو دیکھو ہمارے گھر ایک ننھا فرشتہ آیا ہے ۔۔۔۔مجھے تمہاری ضرورت ہے اور اسے بھی ۔۔۔۔۔وہ مضبوط اعصاب کا مالک شخص اس وقت مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا۔۔۔۔
اسنے بےیقینی سے بستر پر سکون سے لیٹے اس معصوم کو دیکھا تھا جو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کے سر سے ممتا کا سایہ اس کے دنیا میں آتے ہی چھن چکا تھا۔۔۔
فرزام نے آکر زیدان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔۔۔۔
شہباز تغلق کی کل سے ہی طبیعت ناساز تھی۔انہیں مائنر ہارٹ اٹیک آیا تھا اس لیے انہیں کسی نے بھی بتایا نہیں ۔۔۔۔ڈاکٹرز نے انہیں کسی بھی قسم کی پریشانی سے دور رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔۔۔۔۔
سب نے اس برے وقت میں زیدان کا ساتھ دیا اور تدفین کے معاملات اچھے سے نبٹا دئیے ۔۔۔۔
کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا صرف کھڑکی سے روشنی چھن کے اندر آرہی تھی۔۔۔۔ راکنگ چئیر پہ بیٹھا جھولتا ہوا ہاتھ میں سگریٹ پکڑے وہ گہرے کش لیتا دھواں فضا میں تحلیل کر رہا تھا جس سے کمرے میں گُھٹن بڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔
غنیہ کے انتقال کو تین دن ہو گئے تھے وہ اس وقت اپنے کمرے میں تھا اسکا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ آپ چلی گئیں غنیہ، یادیں چھوڑ گئیں ہیں، قدم قدم پر آپ کی یادیں ہیں، آپ کی یادیں کسی سُو مجھے چین نہیں لینے دیتی ۔
چہرے پر کرب کے آثار نمایاں تھے، ذہن بار بار ماضی میں بھٹک رہا تھا کتنے حسین پل بیتائے تھے اسنے غنیہ کی سنگت میں ۔۔ آہ غنیہ اتنی جلدی ساتھ چھوڑ دیا آپ نے وہ ایک بار پھر سسکا تھا۔۔ آنکھوں کے سامنے کچھ روز پہلے کا منظر لہرایا تھا۔۔
زیدان کتنی دفعہ کہا ہے مت کیا کریں سموکنگ ۔۔۔۔۔۔۔ کتنی بار کہوں مجھے آپ کا یہ سیگریٹ پینا پسند نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کی غصّے بھری آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی تھی ۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔کتنا ترس گیا تھا وہ اس آواز کو سُننے کے لیے ۔۔۔۔
آ جاؤ بس ایک بار آ جاؤ ایک بار یہ سگریٹ چھین کے پھینک دو۔۔۔ حق سے روکو مجھے بسس ایک بار آ جاؤ پھر کبھی نہیں پیوں گا دیکھو تمہارے بغیر کیا حالت ہو گئی ہے میری اس گھر میں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔۔۔۔۔
ایک بار لوٹ آو پھر کبھی نہیں پیوں گا۔۔۔پلیز خدا کے لیے آجاؤ۔۔۔۔۔۔
آج آخری بار تھا یہ ۔۔۔۔۔
کمرے میں دھواں بھرا تھا اور دھویں کی وجہ گلاس وال کے سامنے کھڑا تھا سیاہ شلوار قمیض میں اپنے عام حلیے میں وہ ماحول پر چھایا ہوا تھا لبوں میں دبا سیگریٹ گہری بھوری آنکھوں میں سوچ کی نمودار ہوتی پرچھائیاں پیشانی پر بکھرے بال ایک ہاتھ گلاس وال پر ٹکائے کسی گہری سوچ میں گم تھا آنکھوں میں موجود ڈورے تین راتوں کی بے خوابی کے گواہ تھے ۔۔۔۔۔
آنکھوں کے پردوں پر سراپا روشن ہوا،جس کی سیاہ آنکھیں اس کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتی تھیں۔
اسی بے چینی میں اس نے جلتا سیگریٹ مٹھی میں دبوچ لیا ۔۔۔
اس درد کے آگے یہ جلن کا احساس تو کچھ بھی نا تھا۔
اس نے مٹھی کھول کر بجھا سیگریٹ نیچے پھینکا۔۔۔۔
اب کبھی نہیں پیوں گا ۔۔۔بخدا لوٹ آؤ ۔۔۔۔۔۔
وہ مدھم آواز میں بولا مگر لہجے میں بلا کی جنوں خیزیاں تھیں ۔۔۔۔
وہ کافی دیر سے حنان کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔ پر وہ مزید رونےلگ گیا۔ رو رو کے اسکا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ بلآخر تھک ہار کر وہ اسے لے کے سرونٹ کوارٹر کی طرف گئی جہاں نسیم( ملازمہ) تھی۔غنیہ کو بچے کے بارے میں اس سے معلومات لیتے کئی بار اس نے دیکھا تھا۔۔۔
ہلکی سی دستک سے ہی دروازہ کھل گیا تھا وہ اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی بستر پہ بیٹھی شاید قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی حنان کے رونے کی آواز سن کر وہ حنا کی طرف متوجہ ہوئی۔
حنا نے خود ہی اپنی پسند سے اس کا نام حنان رکھ لیا تھا ۔۔۔۔
"کیا ہوا حنان کو حنا جی یہ اس طرح رو کیوں رہا ہے؟"اسنے فوراً ہی حنان کو حنا کی گود سے لیا تھا۔
مگر وہ کسی طور چپ نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
"پتہ نہیں نسیم باجی کب سے رو رہا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں ۔۔۔
وہ بوکھلاہٹ میں رونے لگی ۔۔۔۔۔
"ارے ۔۔۔ارے آپ کیوں رو رہی ہیں ؟؟؟؟
یہ رو رہا ہے ۔۔۔۔نا۔۔۔۔۔
پتہ نہیں اسے کوئی درد نا ہو ۔۔۔۔
میں کیا کروں ؟پلیز اسے دیکھیں نا کیا ہوا ہے ۔۔۔۔میں اسے کچھ بھی نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔ورنہ غنیہ آپی کو کیا منہ دکھاؤں گی کہ میں اس کا خیال بھی نہ رکھ سکی ۔۔۔وہ نم آنکھوں اور گلوگیر لہجے میں بولی۔
"ابھی تو آپ خود چھوٹی سی ہیں ،آپ کو کیسے آئے گا بچوں کو سنبھالنا ۔۔۔مگر آپ روئیں مت دیکھنا کتنی جلدی آپ سب سیکھ جائیں گی ۔۔۔۔نسیم نے اسے تسلی آمیز انداز میں کہا
اس نے دودھ پیا ہے کہیں بھوک سے تو نہیں رو رہا ؟
"جی ابھی دس منٹ پہلے ہی پیا تھا ۔۔۔۔
کہیں اس کے پیٹ میں نا درد ہو رہی ہو۔۔بازاری دودھ سے اکثر بچوں کو پیٹ میں گیس ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
"پھر اس کے لیے کیا کروں میں وہ پریشانی سے بولی ۔۔۔
"آپ صاب جی سے کہہ کر اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ۔۔۔۔
"نہیں ۔۔۔۔۔وہ گھبرا کر بولی ۔۔۔۔
"آپ پلیز کچھ اور بتائیں نا ۔۔۔۔۔۔
"ہمممم۔۔۔۔۔وہ سوچنے کے انداز میں بولی ۔۔۔۔
آپ اسے سونف والا پانی بنا کر پلائیں یہ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔
"آپ اسے مجھے دیں ۔۔۔۔اس نے روتے ہوئے حنان کو واپس اپنی گود میں لیا ۔۔۔۔۔
"آپ پلیز بنا دیں میں اسے چپ کروانے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔۔
وہ اس کا نرم نرم روئی جیسا سرخ وسفید گال چوم کر اسے پچکارنے لگی ۔۔۔۔
میرا پارا بیٹا ۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔۔
نا روئے نا ۔۔۔۔ورنہ مما بھی رو دے گی ۔۔۔۔۔بے اختیاری میں اس کے منہ سے الفاظ نکلے ۔۔۔۔۔
اس کے رونے پر وہ خود بھی برداشت نا کرتے ہوئے اس کے ساتھ برابر کا رونے لگی ۔۔۔۔۔۔
نسیم نے سونف والا پانی ٹھنڈا کر کہ تین چار قطرے اس کے منہ میں ڈالے ۔۔۔۔
مگر دس منٹ گزرنے کے بعد بھی وہ گلا پھاڑ کر اور بھی زوروں سے رونے لگا۔۔۔۔۔
نسیم باجی یہ تو ابھی بھی چپ نہیں کر رہا ۔۔۔۔وہ اسے کاندھے سے لگائے تھپکتے ہوئے حد درجہ پریشانی سے بولی ۔
اور کیا ہو سکتا ؟
اس کا پیمپر چینج کیا تھا ؟
وہ تو دوپہر کو کیا تھا ۔۔۔حنا یاد آنے پر بولی ۔۔۔
بس یہ اسی وجہ سے رو رہا ہے ۔۔۔۔
حنا نے جلدی سے اسے بستر پر لٹا کر اس کا پیمپر اتارا۔۔۔۔
"اوہ ۔۔۔۔۔اسے تو نیپی ریشز ہو گئیں ہیں ۔۔۔۔
اس کی سکن شاید نازک ہے ۔۔۔۔وہ خود اندازہ لگاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
اب کیا کروں ؟
آپ صاب جی سے کہیں کہ ڈاکٹر سے کوئی کریم لکھوا کر لا دیں۔۔۔۔
"اوفو۔۔۔۔نسیم باجی آخر آپ کی سوئی بار بار سر پر کیوں اٹک جاتی ہے ۔۔۔
میں ان سے کچھ کہنے والی نہیں ۔۔۔۔وہ گھر نہیں ابھی کچھ دیر پہلے میں نے انہیں گھر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔۔۔۔کچھ اور حل بتائیں ۔۔۔۔
میں نے سنا ہے کسی سے اگر کسی بچے کو کچھ ایسا ہو جائے تو اسے کارن فلور لگا دیں پھر دیکھنا کچھ ہی دیر میں ٹھیک ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
جائیں پھر جلدی سے لے کر آئیں میں اس کا دوسرا پیمپر نکال لیتی ہوں ۔۔۔۔
وہ اسے پھر سے کمفرٹر میں لپیٹے ہوئے اپنی گود میں اٹھا کر اپنےکمرے کی طرف بھاگی ۔۔۔۔
زیدان کا کمرہ اوپری منزل پر تھا جبکہ حنا کا نیچے ہی تھا ۔
کچھ دیر میں نسیم اس کے کمرے میں ہی کارن فلور لے کر پہنچ گئی ۔۔۔۔
چینج کرنے کے بعد حنا نے جلدی سے اس کا دوسرا فیڈر بنایا ۔۔۔۔خود بستر پر بیٹھ کر اسے گود میں لیا اور دودھ پلانے لگی ۔۔۔۔۔
دودھ پیتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔۔جیسے اسے کچھ سکون ملا ہو ۔۔۔۔۔
جیسے ہی حنان پر سکون ہوا اس کی بھی جان میں جان آئی ۔۔۔۔
بہت شکریہ نسیم باجی آپ نے میری مدد کی ۔۔۔۔اس نے مشکور نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اس میں شکریہ کس بات کا ؟
آپ بھی تو بنا کسی غرض کے اس معصوم سے فرشتے کو سنبھال رہی ہیں ۔۔۔ساری ساری رات جاگتی ہیں ۔اس کی زرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتی ہیں ۔بالکل ایک حقیقی ماں کی طرح ۔۔۔۔۔وہ اس کے حنان کے لیے پیار کو دیکھ کر رشک بھرے انداز میں بولی۔۔۔
وہ غنیہ کی قبر پر بیٹھا اس سے باتیں کر رہا تھا۔
" آپ کو پتا ہے غنیہ ہمارا بیٹا آپ کے لیے روتا ہے ۔۔۔۔اس کی آوازیں میرے کانوں میں پڑتی ہیں مگر میں خود کو اس کے سامنے جانے سے روک لیتا ہوں ۔۔۔۔
کیا کہے گا وہ مجھ سے ۔۔۔۔
اگر اس نے میری آنکھوں میں دیکھ کر مجھ سے پوچھ لیا کہ میری ماں کہاں ہے تو میں اسے کیا جواب دوں گا ۔۔۔۔غنیہ ۔۔۔۔۔
بولو کیا جواب دوں گا ۔۔۔۔۔۔
کیا جواب دوں گا ؟؟؟؟وہ روہانسے لہجے میں بولا
وہ اس کی قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیر کر کر بولا۔۔۔۔۔
لوٹ آؤ غنیہ میرے لیے نہیں تو اس معصوم کے لیے ۔۔۔۔۔۔
کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔
زیدان نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔
اس کی آنکھیں بھی نم ہوئیں اپنے بھائی کی حالت دیکھ کر ۔۔۔۔
زیدان کھڑا ہوا۔۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔۔۔۔
بھائی صبر کریں ۔۔۔ایک بار جانے والے پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے ۔۔۔۔سنبھالیں خود کو ۔۔۔۔۔
آپ کو اپنے بیٹے کے لیے جینا ہے ۔۔۔۔ایسی خواہشیں مت کریں ان کے لوٹ آنے کی یہ ممکن نہیں ۔۔۔۔اس سے آپ کو ہی اذیت ملے گی ۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں کسی کو بھلانا نا ممکنات میں سے ہے ۔۔کسی کے چلے جانے سے زندگی رکتی نہیں ۔۔۔
اس ٹراما سے باہر نکلنے کی کوشش کریں ۔۔۔۔
دادا جان کو ہم میں سے کسی نے نہیں بتایا اس بارے میں ۔۔۔۔۔ان کی طبیعت ناسازی کی وجہ سے ۔۔۔۔فرزام نے اسے بتایا۔۔۔
کیا ہوا دادا جان کو ؟
وہ اپنی پریشانی میں بھی ان کی فکر لیے بولا۔۔۔۔
تو فرزام نے ساری بات بتائی ۔۔۔۔۔
آپ گھر چلیں گے ؟؟؟؟
"نہیں "زیدان بھی ضد کا پکا تھا۔۔۔۔
اس کا انکار سن کر فرزام نے گہرا سانس بھرا ۔۔۔۔۔
سوچیے گا ضرور بھائی ۔۔۔۔آپ اکیلے ہیں ہم سب ساتھ رہے تو اب کچھ بے شک پہلے جیسا نا ہو پائے مگر حالات کچھ نا کچھ تو سنور ہی جائیں گے۔۔۔۔۔
فرزام کہتے ہوئے اس کے ایک بار پھر گلے لگتا ہوا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔
زیدان نے ایک بار غنیہ کی قبر کو دیکھا جو تازہ پھولوں کی چادر سے ڈھانپی ہوئی تھی ۔۔۔۔پھر شہر خموشاں میں سے نکل گیا۔۔۔۔
آج وہ حنا کو دیکھ کر آوازیں بھی نکال رہا تھا اور ہنس بھی رہا تھا ۔۔۔۔
حنا جی حنان آپ کا عادی ہو گیا ہے آپ کو پہچاننے لگ گیا ہے اب تو یہ میری گود میں آتے ہی رونے لگتا ہے"
۔
حنا جو حنان کو گود میں لئے اس سے باتوں میں مگن تھی۔۔ نسیم کی بات سن کر اتنے دنوں بعد بھولی بھٹکی مسکان اس کے لبوں سے لپٹی ۔۔۔۔۔۔۔
مگر پھر غنیہ کی یاد آتے ہی اس کی آنکھیں جھلملانے لگی۔۔۔۔۔۔
"میں آپ کی مما کی کمی تو کبھی پوری نہیں کر پاؤں گی ہنی ۔۔۔۔مگر آپ کو بہت سا پیار کروں گی ۔۔۔۔بہت سا ۔۔۔وہ اس کا ننھا سا ہاتھ چوم کر بولی پھر اس کا نرم سا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگایا۔۔۔۔۔
اس کی کلائی میں سیاہ موتیوں والا چھوٹا سا بریسلٹ پہنایا ہوا تھا جو غنیہ اس کے لیے لائی تھی۔۔۔۔۔
وہ انگوٹھے سے اسے سہلانے لگی ۔۔۔۔۔
"آپ کو پتہ ہے ہنی یہ آپ کی ماما کو بہت پسند تھا،وہ آپ کے لیے لائی تھیں۔۔۔تاکہ آپ کو نظر نا لگے"۔
وہ ہنی سے اس کی باتیں کرتی ،اس معصوم کو کہاں سمجھ آنی تھیں ،مگر وہ اپنے دل کا بوجھ اس سے یونہی بانٹ لیتی ۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹
ڈھائی سال بعد ۔۔۔۔۔۔۔
دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی سرد رات کا وہ پہرتھا جب اندھیرا چہارسو اپنے پَر پھیلاۓ ہوۓ تھا ۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا،وہ
اس وقت سٹریٹ لائٹس کے علاوہ اس سڑک کو روشن کرنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا ۔
سڑک پر اکا دکا گاڑیاں ہونے کے برابر تھی۔
اچانک ہی موسم نے انگڑائی لی اور آسمان دیکھتے ہی دیکھتے سرخی مائل بادلوں سے بھر گیا۔۔۔۔
بجلی کی کڑک نے سب کے دل دہلا دئیے۔۔۔۔
ے
اس نے اپنے گِرد سیاہ چادر لپیٹ رکھی تھی جس سے اسکا چہرہ پوری طرح نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
فیروزہ بائی کے لوگ اسے دیکھ چکے تھے اور اس کا پیچھا کر رہے تھے وہ سڑک پر بنا کچھ دیکھے بس بھاگتی جا رہی تھی خود کو ان کی پہنچ سے دور کرنے کے لیے۔۔۔۔
یکدم برستی بوندوں نے تیزی پکڑی ۔۔۔۔
چھم چھم برستی بارش اب بوچھاڑ کی صورت اختیار کر گئی تھی ۔۔۔۔۔
وہ پچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے آگے کو بھاگ رہی تھی ۔۔۔بھاگتی ہوئی وہ ایک پوش علاقے میں پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔
بارش کا زور بڑھا۔۔۔۔وہ پوری طرح سے بھیگ چکی تھی۔۔۔۔
وقتی طور پر سر ڈھانپنے کے لیے جگہ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔۔۔۔
ایک بنگلے کی سائیڈ کی دیوار زیادہ اونچی قدوقامت کی نا لگی تو وہ ہاتھ اونچے کیے اس پر اپنی پکڑ بنائے اندر کو کود گئی۔۔۔۔
اس موسم کی بارش ،
کچھ بھی نہیں،
لیکن ،،،،،
تیری یاد کی بارش،
ہر پل ،،،،،
مجھے بھگوتی رہتی ہے،
میری آنکھوں سے ،
مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے ،
وہ لان میں چئیر پر بیٹھا بارش میں بھیگتے ہوئے اس کی یادوں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔
آسمان پر بجلی کی گرج چمک میں اضافہ ہوا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی چوڑی ہتھیلی پھیلائی ۔۔۔۔
بارش اس کی ہتھیلی پر گرنے لگی ۔۔۔۔۔
اتنی ٹھنڈ میں دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی سرد رات میں سرد بارش میں وہ خود اذیتی کے مراحل سے گزر رہا تھا۔۔۔۔۔
ہاتھ نیلا اور کہیں کہیں سے سفید پڑ گیا تھا ۔۔۔۔ایسے جیسے کسی نے اس کے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا ہو ۔۔۔۔۔
محبت بارش ہے،
جسے چھونے کی خواہش،
میں ہتھیلیاں تو گیلی ہو جاتی ہیں۔
مگر ہاتھ ہمیشہ خالی رہ جاتے ہیں،
دھم کی آواز سے اس نے لان کی بیک سائیڈ پر دیکھا ۔۔۔۔
رات کے اندھیرے میں کوئی صنف مخالف سیاہ چادر میں لپٹے ہوئے گھاس پر گری ہوئی تھی ۔۔۔۔
وہ بھاگ کر اسی طرف بڑھا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کھڑی ہوتی ۔۔۔اس نے اپنے قریب سوفٹی میں مقید سرخ پاؤں دیکھے تو نظریں اٹھا کر اوپر کہ جانب دیکھا ۔۔۔۔
کودنے کی وجہ سے چادر چہرے سےڈھلک چکی تھی۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ ساکت ہوئے ۔۔۔۔
کیا دعائیں یوں بھی پوری ہو جاتی ہیں بارش میں بھیگتے ہوئے یارق نے جب اسے اپنے سامنے ڈھائی سالوں بعد اتنے قریب سے دیکھا۔۔۔۔
"دل ۔۔۔۔"
لبوں سے اس کا نام بلا اختیار پھسلا۔۔۔۔۔
یارق نے ہاتھ بڑھایا تو دل نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر سہارا لے کر کھڑی ہوگئی۔۔۔۔
تھینکس۔۔۔اس نے مشکور نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بول پاتی مین گیٹ سے ایک گاڑی اینٹر ہوئی ۔۔۔۔
گاڑی کی ہیڈ لائیٹس کی تیز روشنی سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں۔۔۔۔
فرازم تغلق جو ڈیوٹی آورز ختم کیے گھر لوٹا ۔۔۔۔
لان میں یارق کو کسی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر اس پر غور کیا۔۔۔۔۔
دل نے جلدی سے کسی اجنبی کو گاڑی سے نکلتے دیکھ منہ کو چادر سے ڈھانپا۔۔۔۔
جوں جوں وہ ان دونوں کے قریب آ رہا تھا ۔۔۔۔
تیز یاد داشت کی وجہ سے فورا اس کی آنکھوں کے سامنے وہی آنکھیں لہرائیں جو کچھ سال پہلے دکھائی دیں تھیں۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟
وہ اس کے سر پر پہنچ کر دھاڑا۔۔۔۔
تینوں تیز برستی بارش میں کھڑے بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
"میں نے پوچھا تم یہاں کیا کر رہی ہو چورنی کہیں کی ؟
تیز برستی بارش میں اس کی تیز آواز دب کر رہ گئی ۔۔۔۔۔
بھائی آپ غلط سمجھ رہے ہیں اسے ۔۔۔۔۔یارق نے ان دونوں کے درمیان مداخلت کی۔
یارق تم خاموش رہو ۔۔۔۔۔تم جانتے نہیں اسے میں نے اسے خود چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔۔۔۔بہت شاطر ہے یہ ۔۔۔۔تم نہیں سمجھو گے ۔۔۔۔۔فرزام یارق کو سمجھانے کے انداز میں بولا۔
"بھائی ایسا نہیں ہے آپ غلط سمجھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔
دلبرا جو فرزام کو پولیس یونیفارم میں دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ اس نے اسے کہاں دیکھا ہے ۔۔۔۔۔
چوری کرنے والی بات سن کر اسے وہی موالی یاد آیا۔۔۔۔
اوہ تو یہ پولیس والا تھا ۔۔۔۔۔
"کیا دل تجھے بھی ان بدمعاشوں سےچھپنے کے لیے اسی دو نمبر ٹھرکی پولیس والے کا گھر ہی ملا تھا ۔۔۔۔۔
وہ افسوس ذدہ سا چہرہ لیے اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر اتنی آہستگی سے بولی کہ اسے بمشکل ہی اپنی آواز خود کو سنائی دی ۔۔۔۔
"ابھی کہ ابھی نکلو گھر سے باہر ۔۔۔۔ورنہ پولیس والے گھر چوری کرنے کے الزام میں ایسے ایسے کیس ٹھوکوں گا ۔۔۔تاعمر سلاخوں سے باہر نہیں نکل پاؤ گی ۔۔۔۔۔
اس نے ملتجی نگاہوں سے یارق کی طرف دیکھا۔۔۔۔
"بھائی اس موسم میں یہ کہاں جائے گی ۔۔۔۔
پلیز بھائی ۔۔۔۔وہ منت بھرے انداز میں بولا۔
"ایسے موسم کا فائدہ اٹھا کر ہی تو ایسے لوگ گھروں میں وارداتیں کرتے ہیں ۔۔۔۔
مگر تم نے سمجھو گے ۔۔۔۔۔
بھائی اب اتنا بچہ بھی نہیں ہوں جو سمجھ نا سکوں ۔۔۔۔
"فرزام نے یارق کے نیلے ہونٹوں اور سفید چہرے کو دیکھا جو شاید اس ٹھٹھرا دینے والی بارش میں جانے کب سے بھیگ رہا تھا ۔۔۔۔
یارق اندر جاؤ ۔۔۔۔۔اور جا کر چینج کرو ورنہ بیمار ہو جاؤ گے ۔۔۔۔
مگر بھائی ۔۔۔اس نے دل کے حق میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔۔۔۔
فرزام نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روکا ۔۔۔۔۔
دل جو خاموش تماشائی بنی ان دونوں کی باتوں کو سننے پر اکتفا کر رہی تھی ۔۔۔۔
وقت گزار رہی تھی کہ باہر سے فیروزہ بائی کے غنڈے اسے ڈھونڈتے ہوئے واپس چلے جائیں ۔۔۔۔
فرزام نے دل کی کلائی کو اپنے مردانہ ہاتھ کی مضبوط ترین گرفت میں جکڑا۔۔۔۔پھر گھسیٹتا ہوا باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔
دل نے مڑ کر یارق کی طرف دیکھا۔۔۔۔
یارق نے اسے آنکھوں کے اشارے سے تسلی دی۔۔۔۔۔
گیٹ سے باہر جھٹکا دے کر چھوڑتے ہوئے۔۔۔۔۔
"آئندہ پولیس والے کے گھر چوری کرنے کے لیے پہلے سے سوچ لینا ورنہ انجام کی ذمہ دار تم خود ہو گی ۔۔۔۔۔وہ کڑے تیوروں سے اسے وارن کرتا ہوا بولا کم دھاڑا زیادہ۔
اور اس کے منہ پر گیٹ بند کرتا ہوا اندر آیا ۔۔۔جہاں یارق ابھی بھی اسی جگہ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔
وہ مزید دل کی طرف داری کر کہ اپنے بھائی کی نظروں میں اپنا کریکٹر مشکوک نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔
یارق کیا ہو گیا ہے یار تم بالکل بچوں جیسی حرکتیں کرتے ہو ۔۔۔بھلا کیا تُک بنتی ہے ایسے ٹھنڈے موسم میں بھیگنے کی ۔۔۔۔چلو اندر جا کر فورا سے چینج کرو۔۔۔۔
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔۔۔
"جی بھائی ۔۔۔۔۔
وہ دھیمے سے بولا۔
پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
اسے اپنے روم میں جاتے دیکھ فرزام کو تسلی ہوئی تو وہ بھی جو بھیگ چکا تھا یونیفارم چینج کرنے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔
یارق نے پانچ منٹ بعد دروازہ کھول کر باہر دیکھا میدان صاف تھا۔۔۔۔کسی کو بھی باہر موجود نا پا کر وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر باہر نکلا۔۔۔۔
مین گیٹ کو کھولنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا کیونکہ فرزام کے کمرے کی کھڑکی سے بیرونی مین گیٹ کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا ۔۔۔۔وہ کچن سے ہوتا ہوا گھر کے بیک سائیڈ کے دروازے سے باہر نکلا ۔۔۔۔ادھر ادھر اس کی تلاش میں نگاہ دوڑائی ۔۔۔۔۔
وہ سامنے گھر کی شیڈ کے نیچے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے گھٹری بنی بیٹھی ٹھنڈ سے بری طرح کانپ رہی تھی ۔۔۔۔۔
"دل میرے ساتھ اندر چلو ۔۔۔۔وہ اس کے پاس پہنچ کر بولا۔۔۔۔۔
مگر وہ تمہارا ٹھرکی ۔۔۔۔میرا مطلب ہے وہ پُلسیا بھائی ۔۔۔۔۔؟
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔۔
بھائی روم میں چلے گئے ہیں تم ان کی فکر مت کرو ابھی چلو یہاں سے ۔۔۔۔
اس خراب موسم میں یارق کی مدد لینے کے سوا اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا روڈ بھی بارش کے ٹھنڈے پانی سے بھر چکی تھی ۔۔۔۔
وہ اٹھی تو یارق نے گھر کی طرف قدم لیے۔۔۔
وہ بھی اس کی تقلید میں چلنے لگی ۔۔۔۔
بالآخر یارق اسے اپنے روم میں لانے میں کامیاب ہوا۔۔۔۔۔
یہ لو ٹاول ڈرائے کر لو ۔۔۔۔۔یارق نے دور کھڑے ہی اس کی طرف ٹاول پھینکا ۔۔۔۔۔
پھر کبرڈ سے اپنے کپڑے لیے واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
جاتے جاتے ان ورٹر کو ہیٹر موڈ پر آن کرنا نا بھولا۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد گرم پانی سے شاور لیے چینج کر کہ باہر آیا تو خود کو بہتر محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
اس کی نظر دل پر پڑی جو نیچے قالین پر سکڑی سمٹی بیھٹی ہوئی صوفے کی ٹیک لیے شاید تھکاوٹ کی وجہ سے سو چکی تھی ۔۔۔
کمرے میں ہیٹر کی ہلکی پھلکی گرمائش سے شاید سکون ملتے ہی وہ اتنی جلدی سو گئی تھی ۔۔۔۔
یارق نے کمفرٹر اٹھا کر اس پر ڈالا ۔۔۔۔۔اور پھر بستر پر جا کر لیٹ گیا۔۔۔۔۔
چہرہ دل کی طرف کیے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔
آج اس کی خوشی کی کوئی انتہا نا تھی ۔۔۔۔جسے کب سے چاہا آج وہ اس کے سامنے تھی اتنی قریب کہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتا تھا ۔۔۔۔
مگر کسی بھی مضبوط رشتے کے بغیر نہیں ۔۔۔۔
"میں صبح ہی دادا جان سے ہمارے بارے میں بات کروں گا ۔۔۔۔۔
وہ دل میں عہد کیے اس کے دلکش نقوش کو نظروں میں قید کیے جانے کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا اسے خود بھی خبر نہ ہوئی۔
فجر کی اذان نے اس کے کانوں میں رس گھولا تو وہ نیند سے بیدار ہوا۔۔۔۔
نظر سامنے پڑی جہاں وہ ابھی تک اسی حالت میں سوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔
بنا کمفرٹر کے تھا ۔۔۔سردی محسوس ہونے پر اور اذان کی آواز سن کراس کی آنکھ کھلی
وہ بستر سے پاؤں نیچے رکھے ہوئے اٹھا اور اس کے قریب آیا ۔۔۔۔
"دل اٹھو "وہ اسے تھوڑا دور کھڑے ہوئے آواز دے کر اٹھانے لگا ۔۔۔۔
"دل اٹھو "پھر سے کوشش کی۔
وہ دوسری آواز پر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔۔
اور اپنی چادر سر پر ٹھیک کرتی ہوئی کھڑی ہوئی اور خود پر لیا ہوا کمفرٹر ایک طرف رکھا ۔۔۔۔۔
"سوری تمہاری نیند خراب کی ۔۔۔۔وہ معزرت خواہانہ انداز میں بولا ۔۔۔
"دراصل اب فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے اٹھنے والے ہیں ۔۔۔۔چاچی روز سب کو اس وقت جگانے آتی ہیں ۔۔۔۔۔انہوں نے اگر تمہیں یہاں دیکھ لیا تو ۔۔۔۔۔
"کیا کروں وہ سوچنے کے انداز میں بولا ۔۔۔
تمہیں کوئی ضرورت نہیں اب مزید کچھ بھی کرنے کی تم نے میری آگے ہی اتنی مدد کی ہے میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی ۔۔۔۔۔وہ ممنون لہجے میں بولی ۔
ویسے ایک بات کہوں ۔۔۔۔تم نے یہ عجیب و غریب قسم کی لینگوئج کہاں سے سیکھی ۔؟وہ مسکرا کر اس کی رات والی باتیں فرزام کے بارے میں لفظ "پُلسیا "اور "ٹھرکی " یاد کر کہ پوچھنے لگا۔
"زندگی بہت کچھ سیکھا دیتی ہے ۔۔۔ایک اکیلی عورت کا اس ظالم معاشرے میں سروائیو کرنا تم کیا جانو ۔۔۔۔؟
لہجے میں سرد پن اور آواز میں چھبن تھی ۔
دل میں نے بہت سوچا ۔۔۔۔بس آج ہی دادا جان سے بات کروں گا ہماری شادی کی ۔۔۔۔
فرزام جو یارق کی رات والی حالت کو لے کر فکرمند تھا کہ کہیں اسے خدانخواستہ بخار نا ہو گیا ہو ۔۔۔۔وہ ایک لمحہ بھی چین سے نا گزار پایا ۔۔۔۔اسی لیے اس کا حال پوچھنے اور نماز کے لیے اٹھانے کی وجہ سے اس کے کمرے کی طرف آرہا تھا ۔۔۔۔یارق کے کمرے میں سے آتی باتوں کی آواز سن کر دروازے کے باہر رکا۔۔۔۔
"کیوں کیا ہوا ؟؟؟ایک طوائف زادی سے شادی ۔۔۔۔اتنا حوصلہ کہاں سے لائے ؟؟؟؟وہ طنزیہ انداز میں بولی۔۔۔۔۔
مگر یارق کی طرف دیکھ کر تھوڑا نرم ہوئی ۔۔۔۔جو اشتیاق بھری نگاہیں اس پر جمائے ہوئے تھا۔۔۔۔
تم کبھی بھی ایک طوائف سے شادی کر کہ خوش نہیں رہو گے ۔۔۔۔۔
گھر میں بھی ذلیل ہو جاؤ گے اور زمانے میں بھی رسوا ۔۔۔۔۔
طوائف کبھی عزت کی زندگی نہیں گزراتی۔۔۔۔
نگہت بیگم جو یارق کو اٹھانے سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آرہی تھیں ۔۔۔۔ان کے قدموں کی چاپ سن کر فرزام پیچھے ہوا ۔۔۔۔۔اور راہ داری کے دوسری طرف چھپ گیا۔۔۔۔۔
"دیکھو یارق میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا میں تم سے شادی نہیں ۔۔۔۔
یارق شاید دروازے کو لاک کرنا بھول چکا تھا ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتی ۔۔۔۔۔
نگہت بیگم دروازہ کو کھول کر اندر داخل ہوئی۔۔۔۔
اور اندر کا منظر دیکھ کر آنکھوں کی پتلیاں وہیں ساکت ہوئیں ۔۔۔۔۔
ان کی نگاہیں یارق کو ایک اجنبی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔۔۔۔۔
یارق دل سے بات کرنے میں اتنا محو ہو چکا تھا کہ اسے اٹھانے کا مقصد تو سرے سے بھول چکا تھا ۔۔۔۔۔
وہ دونوں بھی نگہت بیگم کو سامنے دیکھ شاکڈ ہوئے ۔۔۔۔۔
اب گھر میں جو طوفان برپا ہونے والا تھا اس کا انجام کیا ہونے والا ہے اس سے ہر کوئی بے خبر تھا ۔۔۔۔
وہ بنا کچھ بولے جس تیزی سے روم میں آئی تھی اسی تیزی سے کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔۔۔
نگہت بیگم سب سے پہلے ضماد اور پھر شہباز تغلق کو اٹھا چکی تھی کو وضو کیے نماز پڑھنے کے لیے مسجد جانے کے لیے کمروں سے باہر نکلے ۔۔۔۔۔
"ابا جان ۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔وہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔
وہ پھولی ہوئی سانسوں سے بولی ۔۔۔۔۔
"کون لڑکی "؟
شہباز تغلق نے اچنبھے سے اسے پوچھا ۔
اب چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں یارق دل کے ساتھ کمرے سے باہر لاؤنج میں آیا ۔۔۔۔
فرزام بھی تقریبا ان کے ساتھ ہی وہاں پہنچا ۔۔۔۔
شہباز تغلق کی جب واقعی نظر انجان لڑکی پر پڑی تو بھونچکا رہ گئے ۔۔۔۔
"اے لڑکی کون ہو تم ؟
اور یہاں کیا کر رہی ہو ؟
وہ عالم طیش میں آکر بولے ۔
"میں بس جا ہی رہی تھی ۔۔۔
وہ ان کی بلند آواز اور رعب و جلال سے خائف دھیمی آواز میں بولی۔
"یہ لڑکی یارق کے کمرے میں تھی ۔۔۔۔۔
نگہت بیگم نے اس کا بیچ چوراہے میں بھانڈا پھوڑا۔۔۔۔۔
"یارق "شہباز تغلق کی جاندار قسم کی آواز سے در و دیوار بھی کانپ اٹھے ۔۔۔۔
ہمیشہ کی بولڈ دلبرا بھی ان کی آواز سے سہم کر رہ گئی ۔۔۔۔۔
یارق جو اپنے اور دل کے بارے میں ان سے بات کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔اس قسم کی سچوئیشن کے لیے بالکل بھی تیار نا تھا ۔۔۔۔
کیسے صفائی دے اور کیا بتائے وہ دل کے بارے میں ابھی وہ اسی کشمکش میں تھا ۔۔۔۔
فرزام کی نظر اپنی جان سے پیارے بھائی پر تھی ۔۔۔۔اس کے چہرے کے الجھے ہوئے زاوئے دیکھ کر اس نے ساری غلطی کا الزام اپنے سر لینا چاہا ۔۔۔۔۔آخر وہ کیسے یہاں موجود ہوتے ہوئے بھی اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائی کی درگت بنتے ہوئے دیکھ لیتا ۔۔۔۔۔
دادا جان یہ لڑکی یارق کے نہیں میرے کمرے میں تھی ۔۔۔۔
یارق اور دل دونوں نے بیک وقت نظر اٹھا کر فرزام کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
"یہ جھوٹ بول رہا ہے ۔۔۔۔نگہت بیگم نے شہباز تغلق سے کہا ۔۔۔۔
تم خاموش رہو ۔۔۔ضماد تغلق نے اپنی نصف بہتر کو گُھرکا۔۔۔۔۔
"اے لڑکی سچ سچ بتاؤ ۔۔۔۔۔تم کس کے ساتھ تھی ؟؟؟؟
شہباز تغلق نے سرد آواز میں پوچھا ۔۔۔۔
وہ تو بری طرح پھنسی ۔۔۔۔۔
پہلے یارق کی طرف دیکھا ۔۔۔۔جس کے چہرے کے رنگ پھیکے پڑ چکے تھے ۔۔۔۔
"نہیں میں سچ نہیں بتاؤں گی ۔۔۔یارق نے میری مدد کی مجھے سہارا دیا ۔۔۔۔میں اس کی نیکی کا صلہ اسے بے عزت کروا کر نہیں دوں گی ۔۔۔۔۔
پھر اس نے فرزام کی طرف دیکھا جو سپاٹ انداز میں اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
اس دن کا بھی اور آج باہر نکالنے کا بدلہ لینے کا یہ اچھا موقع ہے ۔۔۔
اچھا ہے نا اس ٹھرکی پُلسیے (پولیس والے) کی بھی درگت بنے ۔۔۔۔اس کی سیاہ آنکھوں میں یہ سوچتے ہوئے چمک ابھری ۔۔۔۔۔
"وہ دادا جان اس ٹھرکی ۔۔۔۔میرا مطلب یہ پولیس والا مجھے یہاں زبرستی لایا تھا ۔۔۔۔اور میرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
فرزام نے دانت پیس کر زخمی نگاہوں سے اس کی مکاری کو دیکھا ۔۔۔۔
جو اسے بے عزت کروانے کے لیے لہجے میں معصومیت لیے رونے کے انداز میں سر جھکائے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
شہباز تغلق چل کر اس کے پاس آئے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔
رو مت بچی ۔۔۔۔۔ہم کسی کے ساتھ بھی زیادتی ہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔۔تمہیں بھی انصاف ملے گا ۔۔۔۔اور
تمہارے ساتھ زبردستی کرنے والے کو اس کی سزا ۔۔۔۔۔وہ اٹل لہجے میں بولے ۔
سب دھڑکتے ہوئے دل اور بے یقینی سے شہباز تغلق کے اگلے عمل پر نظریں جمائے ہوئے تھے ۔۔۔۔
ماحول میں گہرا سناٹا چھا گیا ۔۔۔۔۔۔
جاؤ ضماد ساتھ والے مولانا اقبال صاحب کو بلا کر لاؤ ۔۔۔۔
ابھی کہ ابھی اس بچی کا نکاح ہو گا ۔۔۔۔۔وہ بپھری ہوئی آواز میں دھاڑے۔۔۔۔
فرزام نے قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
یارق نے کا دل ڈوب کر ابھرا کہ آخر دادا جان کیا فیصلہ کرنے والے ہیں ۔۔۔۔۔
"م۔۔۔۔۔میں یہ شادی نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔وہ شہباز تغلق کے اس فیصلہ پر ہراساں ہوئی تو ان کے فیصلے کی نفی کرنے لگی ۔۔۔۔۔
م۔۔۔مجھے کسی سے بھی شادی نہیں کرنی ۔۔۔۔
وہ چلائی ۔۔۔۔۔
خاموش لڑکی ۔۔۔۔۔تمہیں عزت دے رہے ہیں ۔۔۔جو تمہیں راس نہیں آ رہی ۔۔۔۔تغلق خاندان کی بہو بنو گی ۔۔۔۔اور کیا چاہیے ؟
"اور تم .........ہمیں تم سے اس سب کی قطعاً امید نہیں تھی ۔۔۔۔۔
وہ فرزام کی طرف شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھ کر بولے ۔۔۔۔
گھر میں تمہاری ایک بہن بھی ہے ۔۔۔اگر اس کے ساتھ خدا نخواستہ کوئی اس طرح کرتا ۔۔۔۔تو ؟
وہ سیڑھیوں سے اترتی ہوئی نور العین کی طرف دیکھ کر بولے جو شاید فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد نیچے اتر رہی تھی ۔۔۔۔۔
دل کو یوں سب کے بیچ و بیچ کھڑے سب کی مرکز نگاہ بنے دیکھا تو اپنے سہمے ہوئے دل پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔
"یا اللّٰہ میرے ساتھ کچھ برا مت کرنا ورنہ میں زندہ نہیں رہ پاؤں گی ۔۔۔۔۔وہ دل ہی دل میں دعا مانگتی ہوئی اتر رہی تھی ۔۔۔۔۔
"دادا جان مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے ۔۔۔یارق نے بالآخر ہمت کیے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
دروازے سے ضماد تغلق ساتھ والے مولانا اقبال صاحب کو اپنے ساتھ لیے اندر آرہے تھے ۔۔۔۔۔۔
انہیں ہاتھ میں رجسٹر پکڑے اندر آتے دیکھا تو سب کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی۔۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
روز کی طرح آج بھی سورج اپنے وقت پر طلوع ہوئے اپنی روشنیاں بکھیر چکا تھا ۔مگر اس گھر میں رہنے والے مکینوں کا تو جیسے روشنیوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا ۔۔
۔غموں میں ڈوبا ہوا گھر آج بھی بنجر اور ویران دکھائی دیتا ۔۔۔۔بس کبھی حنان کی قلقاریاں یا میٹھی میٹھی باتیں اس ویران گھر میں جان ڈال دیتی ،اور جب وہ سوتا تو یوں لگتا کہ یہ گھر نہیں کھنڈر ہے جہاں کسی ذی روح کے نشان بھی نہیں ۔۔۔۔۔
ضروری تو نہیں کہ غموں کے بادِل ہمیشہ ہی ہماری زِندگی پہ قائم رہیں۔ یہ غم کے بادل کب چھٹے گے اس کھنڈر نما گھر سے یہ کون جانتا تھا ۔۔۔۔۔
غموں کے بادِل اِن خُوشیوں پہ ہاوی نہیں ہو پاتے اور وہ ہماری زِندگی سے کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم خُدا پہ یقین رکھیں اور صبر سے کام لیں تو شاید ہماری زِندگی بھی سہل ہو جائے۔ وہ کمرے کے ملحقہ ٹیرس میں کھڑے باہر روڈ پر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی۔شہر کی سڑک رواں دواں تھی۔ ۔۔۔۔پر سوچ نگاہیں اسی منظر پر جمی تھیں ۔۔۔۔
"ماما۔۔۔ ماما۔" بیڈ پر بیٹھا حنان اپنے آگے رکھے ہوئے بلاکس سے کچھ بنانے میں محو تھا۔۔۔۔ اپنی ماں کو نا پا کر زاروقطار رونے لگا تھا۔
"ماما کی جان! ماما کے پارے بیٹے کوکیا ہوا؟
مما ادھر ہی تھی ۔۔۔۔ وہ بھاگ کر اندر آئی اور اُس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اُسے اپنی گود میں لیے تھپکنے لگی تو اُس کے رونے میں کمی آئی ۔
"ماما پاس آنا " وہ اب اُس کی گردن میں منہ دیتا لاڈ سے بولا۔
"ہنی! میری جان ۔۔۔۔مما آپ کے پاس ہے ۔۔۔آپ کو چھوڑ کہ جا سکتی ہے کیا؟؟؟
وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھ سے پیار سے چھو کر پوچھ رہی تھی۔۔۔۔
حنان نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔۔۔
حنا نے اسے خود میں بھینچ لیا ۔۔۔۔
مما پارک ۔۔۔۔۔اس نے اپنی ماں کو پیار لٹاتے دیکھ فرمائش کردی ۔۔۔۔
میرے پرنس کو پارک جانا ہے ؟وہ اس کی تھوڑی کو چھو کر پوچھ رہی تھی ۔۔۔
حنان نے اپنے موتیوں جیسے دودھ کے دانتوں
کی نمائش کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔
ہنی مما پار ِانا زادا۔۔۔۔۔۔(ہنی مما سے پیار اتنا زیادہ )وہ اپنی توتلی زبان میں دونوں چھوٹی چھوٹی سی بانہیں پھیلائے بولا۔۔۔۔
مما بھی اپنے ہنی سے سب سے زیادہ پیار ۔۔۔۔
وہ اس کا گال چوم کر اسے اٹھاتے ہوئے بولی ۔۔۔
"یہ کیا بنایا میرے ہنی نے ؟؟؟وہ بلاکس کا کچھ عجیب و غریب سا نقشہ بنا دیکھ پوچھ رہی تھی ۔۔۔
" ہنی۔۔۔مما ۔۔۔بابا ۔۔۔۔گھر ۔۔۔
وہ اسے سمجھانے لگا ۔۔۔۔۔
مما بابا ؟؟؟؟؟وہ اس سے زیدان کے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
آج آپ لیٹ اٹھے تھے نا آپ کے بابا آفس چلے گئے ۔۔۔
اچھا چلو جلدی سے شوز پہنو پارک چلیں ۔۔۔
وہ اسے شوز پہناتے ہوئے باہر نکلی ۔۔۔۔
نسیم باجی ہم قریبی سوسائٹی کے پارک میں جا رہے ہیں ۔۔ابھی تھوڑی دیر میں آجائیں گے ۔۔۔آپ پلیز ہمارے ساتھ چلیں ۔۔۔۔۔
وہ ہنی کا ہاتھ پکڑ کر سر پر دوپٹہ اوڑھے باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔نسیم بھی ان کے ساتھ ساتھ تھی ۔۔۔۔۔
زیدان تغلق نے صبح کا نکلا رات گئے گھر آتا ۔۔۔
اس عرصے میں وہ سیاست میں پوری طرح قدم جما چکا تھا ۔۔۔حکومت سے اپنے علاقہ کے لیے فنڈز اپروول کروا کافی تعمیراتی کام کروائے تھے ۔۔۔۔
سارا دن غریب عوام کی خدمت میں سر گرم عمل رہتا ۔۔۔۔۔
اس نے اپنے بابا کے حصے میں ملی رقم سے لیدر انڈسٹری خرید لی تھی ۔۔۔جہاں امپورٹ ایکسپورٹ کا کام ہوتا ۔۔۔باقی کا وقت وہ وہاں کا کام دیکھنے میں گزارتا۔۔۔۔
صرف سنڈے کو ہی کچھ وقت حنان کے ساتھ گزار پاتا ۔۔۔۔وہ اپنے آپ کو پوری طرح مصروف کر چکا تھا ۔۔۔۔۔
دادا جان لیکن میری بات تو سنیں ......یارق نے آگے بڑھ کر کہا ۔۔۔۔۔
"مجھے کسی کی کوئی بات نہیں سننی ۔۔۔میرے ہوتے ہوئے ایک بے بس لڑکی کے ساتھ زیادتی ۔۔۔۔کیا منہ دکھاؤں گا میں سوسائٹی میں ۔۔۔۔۔
تم چاہتے ہو کہ باہر ساری دنیا مجھ پر تھو تھو کرے ۔۔۔۔
وہ گھمبیر آواز میں بولے ۔
لیکن میں یہ نکاح نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔۔وہ غصے میں غرایا۔۔۔۔اور پاس رکھے ہوئے میز پر سے شیشے کے واز کو ہاتھ مار کر نیچے پھینک دیا۔۔۔۔جو چھناکے کی آواز سے گر کر ٹوٹ گیا۔۔۔۔
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔
اسے یقین تھا کہ اس کے دادا جان یا اس کا بھائی دونوں میں سے ضرور کوئی نا کوئی منانے آئے گا۔۔۔۔۔
رکو یارق ۔۔۔۔۔۔فرزام نے اسے پیچھے سے آواز دی ۔۔۔۔۔
مگر وہ تن فن کرتا ہوا نکل گیا۔۔۔۔۔
نور اسے غصے میں دیکھ اس کے پیچھے باہر نکلی ۔۔۔۔۔۔
یارق میری بات سنو پلیز ۔۔۔۔۔وہ اونچی آواز میں کہتے ہوئے اسے جانے سے روکنے کے لیے بولی ۔۔۔۔
وہ راہداری عبور کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔
بنا مڑے وہیں رکا ۔۔۔۔۔
وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچی اور سامنے کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔
یارق میں جانتی ہوں تم دل کو پسند کرتے ہو ۔۔۔تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو ۔۔۔۔
یارق کو باہر نکلتے دیکھ شہباز تغلق کے دل کو کچھ ہوا ۔۔۔۔۔
وہ اپنی داہنی بازو کو بائیں ہاتھ سے زور سے جکڑتے ہوئے نزدیکی صوفے پر ڈھ گئے ۔۔۔۔۔
فرزام جو یارق کے پیچھے جانے والا تھا ۔۔۔شہباز تغلق کی حالت دیکھ تیزی سے ان کے پاس آیا۔۔۔۔۔
م۔۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔اقبال تم نکاح پڑھواو۔۔۔۔وہ پاس کھڑے ہوئے مولانا اقبال صاحب کو دیکھ کر بولے ۔۔۔۔۔
مگر دادا جان میں یہ نکاح نہیں ۔۔۔۔۔فرزام عجب کشمکش میں مبتلا تھا ۔۔۔۔کیسے میں ایک طوائف سے ؟؟؟؟؟
جو ایک رات میرے بھائی کے کمرے میں گزار چکی ہے ۔۔۔۔۔
کسی صورت نہیں ۔۔۔۔وہ دل میں مصمم ارادہ کیے ہوئے انکار کرنے لگا ۔۔۔۔
مگر شہباز تغلق کے چہرے پر درد کے آثار دیکھ کر دل پر پتھر رکھے وہ اپنے دماغ میں اٹھتے سوالوں کو نظر انداز کرتے دل کی سنتے ہوئے جو اپنے دادا جان کی جان کی حفاظت کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا اسکی مانتے ہوئے لمحوں میں خود کے کیے گئے فیصلے سے منحرف ہوا۔۔۔۔۔
شہباز تغلق جیسے سانسیں روکے بیٹھے اپنے اندر اٹھتے ہوئے درد سے خاموشی سے نبرد آزما ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔
آپ کے والد کا نام ؟وہ دلبرا کی طرف دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھے تھے ۔
"کوئی نام نہیں میرے باپ کا ۔۔۔۔وہ زہریلی ناگن کی طرح پھنکاری ۔۔۔۔۔
اقبال صاحب نے شہباز تغلق کی طرف دیکھا ۔۔۔
شاید غصے کی وجہ سے نہیں بتا رہی ۔۔۔۔شہباز تغلق نے کہا ۔۔۔۔
بتاؤ بیٹا نکاح نامے پر لکھنا ہے ۔۔۔۔۔
"کہا نا مجھے میرے باپ کے نام کا نہیں پتہ ۔۔۔۔میں چھوٹی تھی تب ماں مر گئی۔۔۔۔
اب کیا مری ہوئی ماں کو قبر سے نکال کر پوچھ کہ آؤں باپ کا نام ۔۔۔۔وہ حدر درجہ بیزاری سے بولی ۔۔۔۔۔
شہباز تغلق نے آنکھیں زور سے میچ کر صوفے کی پشت سے سر لگایا۔۔۔۔
اقبال جلدی نکاح پڑھاؤ ۔۔۔۔۔میں جانے سے پہلے اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
دلبرا بیٹا کیا آپ کو فرزام بن فرہاد تغلق بعوض حق مہر سکہ پانچ لاکھ روپے رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے ۔۔۔۔۔۔۔
وہ ٹس سے مس نا ہوئی ۔۔۔۔۔۔
ضماد اور نگہت بیگم خاموشی سے کھڑے سارا تماشا دیکھ رہے تھے ۔۔۔کسی میں بھی ہمت نا تھی شہباز تغلق کے فیصلے پر انگلی اٹھانے کی ۔۔۔۔۔
مولانا صاحب نے تین بار اپنے الفاظ دہرائے ۔۔۔۔
مگر وہ خاموش رہی ۔۔۔۔۔۔
فرزام جو دور کھڑا تھا چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔۔۔۔۔۔
چپ چاپ سائن کرو اس پر.....وہ اس کی ڈھٹائی پر دھیمی آواز میں دانت پیستتے ہوئے غرایا۔۔۔۔۔
"نہیں کروں گی جاؤ جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لو۔۔۔۔۔
"چپ چاپ سائن کرو ورنہ اور بھی بہت سے طریقے آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے مجبور مت کرو وہ حربہ آزمانے پر جو تمہیں ناگوار گزرے۔۔۔۔۔وہ اپنی بئیرڈ کو انگلیوں سے سہلاتا ہوا اسے مخمصے میں ڈال گیا۔۔۔۔۔۔
یہ دلوں کے معاملے ہیں ،مگر تم کیا سمجھو گے؟
کہ کسی کو زبردستی خود تک محدود کردینا مقابل کے لیے کتنی درد ناک اذیت ہے،
تم مجھ پر اپنا آپ تھوپ کر گھٹ گھٹ کر مرو گے فرزام تغلق وہ ایک ایک لفظ کرب ذدہ لہجے میں چبا چبا کر بولی۔۔۔۔۔۔
کانچ جیسی آنکھوں سے لپکتے شعلے سامنے کھڑے وجود کو بھسم کر دینے کے لیے کافی تھے۔۔۔۔۔
"تمہیں تو میرے پاؤں دھو دھو کر پینے چاہیے ۔۔۔۔دلبرا۔۔۔۔۔۔۔۔
جو تم جیسی طوائف زادی کو اپنا نام دینے چلا ہوں جس کا بھگوڑا باپ اس کی ماں کو بن بیاہے تم جیسی نشانی دے کر چلا گیا۔۔۔۔۔
"اس کی باتیں تھیں یا گویا پگھلا ہوا سیسہ جو اس کے کانوں میں انڈیل دیا گیا تھا۔۔۔۔
اس کا سارا وجود جھنجھنا اٹھا۔۔۔۔۔۔
کان سائیں سائیں کرنے لگے۔۔۔۔
تو گویا اس تک بھی اس کی سچائی پہنچ چکی تھی ۔
"تم جیسی گھٹیا سوچ رکھنے والے شخص کا منہ توڑنا دلبرا بخوبی جانتی ہے ۔۔۔۔۔
مگر کیا ہے پہلی بار کسی نے میری طرف داری میں اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے ۔۔۔۔مجھے ترس آگیا تمہارے اس بڈھے دادا پر تو۔۔۔۔جاو احسان کیا میں نے تم پر ۔۔۔۔۔
وہ نکاح نامہ اقبال صاحب کے ہاتھ سے کھینچ کر ان پر سائن کرتے ہوئے دوبارہ سے میز پر پٹخ کر اس کے پاس آئی ۔۔۔۔۔
"بہت شکریہ تمہارا ایک طوائف سے نکاح رچانے کا ۔۔۔۔بہت جلد اس کا انجام بھگتو گے جب سب کو پتہ چلے گا کہ میں کون ہوں ۔۔۔تو فخر سے بتانا انہیں ۔۔۔۔۔۔
فرزام کے سائن کرتے ہی شہباز تغلق کی آنکھیں پوری طرح بند ہوئیں ۔۔۔۔۔۔
دادا جان ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بلند آواز میں کہتا ہوا ان کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔۔ضماد تغلق بھی اپنے باپ کی حالت پر بھونچکا رہ گئے۔۔۔۔۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی اپنے اندر ہمت مجتمع کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔
یارق میں دادا جان سے بات کروں گی کہ دل کا نکاح تم سے کردیں ۔۔۔۔
"ہہہنہ۔۔۔تمہاری کون سنتا ہے بڑی آئی میری خیر خواہ ۔۔۔۔۔۔
اپنا ڈرامہ بند کرو اور جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔
اندر سے آتی فرزام کی بلند آواز پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے تیزی سے اندر کی طرف بھاگے ۔۔۔۔۔
شہباز تغلق ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔
فرزام اور یارق دونوں نے مل کر شہباز تغلق کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا ۔۔۔۔ضماد تغلق نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ۔۔۔۔۔
چند منٹوں کا سفر طے کیے وہ شہر کے اچھے ہاسپٹل میں تھے ۔۔۔۔۔
آپریشن تھیٹر میں شہباز تغلق کو لے کر گئے ہوئے دو گھنٹے بیت چکے تھے ۔۔۔۔۔
وہ تینوں جلے پیر کی بلی کی مانند وہیں آپریشن تھیٹر کے اردگرد ہی چکر کاٹ رہے تھے ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر باہر آئے تو وہ تینوں لمحہ ضائع کیے بنا ان کی طرف لپکے ۔۔۔۔
ڈاکٹر دادا جان ٹھیک تو ہیں ؟یارق نے بے چینی سے پوچھا ۔۔۔۔۔
اس کے دل میں تب سے یہ گلٹ چل رہا تھا کہ کہیں نا کہیں دادا جان کی اس حالت کا ذمہ دار وہ ہے ۔۔۔۔
اگر آج انہیں کچھ ہو جاتا تو وہ خود کو کبھی معاف نا کر پاتا۔۔۔۔۔
وہ بجھے دل سے تب کا اسی بارے میں سوچ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
پیشنٹ کو سوئیر ہارٹ اٹیک آیا ہے ۔پہلے بھی انہیں ایک بار مائنر ہارٹ اٹیک آیا تھا۔۔۔۔آپ کو بتایا بھی تھا کہ انہیں پریشانیوں سے دور رکھیں ۔۔۔۔۔
وہ اپنے ماہر پیشہ ورانہ انداز میں اسٹیتھوسکوپ کو گلے سے نکال کر ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولے ۔
"ہم ان سے مل سکتے ہیں ۔۔۔۔۔؟
فرزام نے پوچھا ۔۔۔۔۔
ابھی نہیں کچھ دیر بعد ۔۔۔۔وہ کہہ کر آگے بڑھ گئے ۔۔۔۔۔
فرزام شیشے کے پاس جا کر باہر سے انہیں دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔
نکاح تو نہیں ہوا نا؟؟؟؟
کچھ یاد آنے پر اس نے پاس کھڑے ہوئے اپنے چچا ضماد تغلق سے پوچھا
ہہہم۔۔۔۔۔فرزام کا اس لڑکی سے نکاح کروا دیا بابا نے ۔۔۔۔۔
کوئی جواب تھا یا کوئی بم تھا جو اس پر گرا اور اس کے وجود کو ریزہ ریزہ کیے مسمار کرتا چلا گیا۔۔۔۔
وہ الٹے قدم لیتا ڈھیلے وجود سے پیچھے دیوار سے جا لگا ۔۔۔۔
اور آنکھیں بند کیے شکستہ جسم اور چٹختے ہوئے اعصاب سے جونجنے لگا۔۔۔۔
دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس وقت دھاڑیں مار مار کر روئے ۔۔۔۔
اپنے اندر کا سارا غبار نکال لے۔۔۔۔۔اندر کی گھٹن نا قابل برداشت لگی ۔۔۔۔۔
دل چاہ رہا تھا ہر چیز کو آگ لگا دے تہس نہس کر دے ۔۔۔
پھر،
ایک پل کو تو دل نے کہا یہاں سے کہیں دور چلا جا۔۔۔۔۔
مگر دماغ نے کہا ۔۔۔۔
کیا تو اپنی پرورش کرنے والے کے احسانات بھول جائے گا ؟
اپنے دکھ میں اس کا درد بھول جائے گا ؟
انہیں تکلیف میں دیکھ کر بھی یہاں سے جانے کی ہمت ہے تجھ میں ؟
کیا اتنا خود غرض ہے تو یارق کہ اپنے غم کو خود پر حاوی کر کہ اپنے پیار کرنے والوں سے
غفلت برتے گا ؟؟؟؟
ذہن میں امڈتے ان سارے سوالوں کا جواب پاتے ہی وہ قریب پڑے بینچ پر بیٹھ گیا ۔۔۔
اور شہباز تغلق کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔
شام کو تک شہباز تغلق کی حالت سنبھل چکی تھی ،سب ان سے ملنے ان کے روم میں گئے ۔۔۔۔۔۔
فر۔۔۔فرزام م۔مجھے زیدان سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔آخر کار انہوں نے دل میں سر ابھارتی ہوئی خواہش کو لفظوں کا جامہ پہنا ڈالا۔۔۔۔
میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔۔۔۔میں اس سے ایک بار ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
کیا آئے گا وہ ؟؟؟وہ امید بھری نظروں سے پوچھ رہے تھے۔
"کیوں نہیں آئیں گے بھائی ؟؟؟
انہیں پتہ چلے گا کہ آپ نے بلایا ہے تو ضرور آئیں گے ۔۔۔۔وہ ان کا جھریوں زدہ ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے تسلی آمیز انداز بولا۔
ویسے بھی بھائی اکیلے ہیں ڈھائی سال پہلے ان کی بیوی کی وفات ہو چکی ہے ،آپ کی طبیت ناسازی کی وجہ سے آپ کو بتایا نہیں ۔ان کا ایک بیٹا بھی ہے ۔۔۔
سچ کہہ رہے ہو ہمارے خاندان کا وارث آچکا ہے ؟؟؟ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ۔۔۔۔۔
مجھے ملنا ہے اس سے جلدی بلاؤ اسے ۔۔۔۔
کتنے سال بیت گئے تغلق ولا میں قلقاریاں گونجے ہوئے ۔۔۔۔۔اب مجھ سے صبر نہیں ہو رہا ۔۔۔۔۔وہ فرط جذبات سے لبریز لہجے میں بولے ۔
ضماد اور یارق دونوں ان کے پاس بیٹھے ان کی خیریت دریافت کرنے لگے ۔۔۔۔۔
فرزام باہر نکل کر زیدان کو کال ملانے لگا۔۔۔۔
تیسری بیل پر کال ریسیو کرلی گئی ۔۔۔
اسلام وعلیکم!
وعلیکم السلام !
کیسے ہو فرزام ؟
دوسری طرف سے گھمبیر آواز میں پوچھا گیا ۔۔۔۔۔
میں تو ٹھیک ہوں بھائی مگر دادا جان ہاسپٹل میں ۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ فرزام اپنی بات مکمل کر پاتا ۔۔۔۔دوسری طرف سے کال کٹ چکی تھی۔۔۔۔
زیدان تغلق جو اس وقت پارٹی کے ایک اہم میٹنگ میں شریک تھا ۔۔۔
Excuse me.....
معزرت کیے فورا وہاں سے نکلا ۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا کہا ۔۔۔۔
فرزام نے اسے ہاسپٹل کا نام سینڈ کیا تو اس نے ڈرائیور کو مخصوص ہاسپٹل چلنے کی ہدایت دی ۔۔۔۔
وہ وارڈ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔۔۔
اتنے سالوں بعد آج وہ پھر روبرو تھے ۔۔۔۔۔
شہباز تغلق کی پیاسی نظریں اسے سامنے دیکھ سیراب ہو رہی تھیں ۔
سفید کھدر کے سوٹ میں ملبوس بلیک واسکٹ پہنے ،بالوں کو جیل سے سیٹ کیے پروقار شخصیت سمیت وہ انہیں دیکھ اپنی ناراضگی بھلائے ان کی طرف بڑھا ۔۔۔۔
کیسے ہیں ؟؟؟اس کے لہجے میں تفکر کی جھلک واضح دکھائی دی ۔۔۔۔
اور ان کے گال پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
اتنے برسوں بعد اسے محسوس کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے ۔۔۔۔
زیدان نے اپنے ہاتھ سے ان کے آنسو پونچھے ۔۔۔۔
میں آ گیا ہوں نا آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔
اور آپ نے یہ اپنا کیا حال بنا رکھا ہے ۔۔۔؟
وہ ان کی پہلے سے زیادہ کمزور جسامت کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔
شہباز تغلق نے اپنے سب سے زیادہ خوبرو پوتے کو دیکھا جس کے ہر انداز میں شان اور تمکنت نمایاں تھی جو کبھی جوانی میں ان کا خاصہ ہوا کرتی تھی ۔
وہ نظریں پھیر گئے ۔۔۔۔کہیں اسے ان کی نظر ہی نا لگ جائے ۔۔۔۔۔
کیا ہوا دادا جان ؟؟؟ابھی بھی ناراض ہیں ؟
وہ ان کو رخ پھیرتے دیکھ پریشانی سے پوچھ رہا تھا۔
میری ناراضگی تم دور کر سکتے ہو ۔۔۔۔
وہ اس کی طرف دیکھ کر بولے
وہ کیسے ؟زیدان کی بھوری آنکھوں میں حیرانی تھی ۔۔۔۔
اپنے دادا کی خواہش پوری کرو گے ؟؟؟؟
آپ حکم کریں ۔۔۔۔۔وہ مؤدب انداز میں بولا۔
میری آج بھی وہی خواہش ہے جو کچھ برس پہلے تھی ۔
تمہاری اور نور کی شادی ۔۔۔۔۔۔۔
ان کی بات سنے وہ بھوری آنکھیں کچھ پل کے لیے موند گیا۔۔۔۔
گہرا سانس اندر کھینچ کر جیسے خود کو نارمل کیا۔۔۔۔۔
یہ صرف وہی جانتا تھاکہ ان پلوں میں وہ کیسے جیا ہے ۔۔۔۔۔
شاید ان کے حکم عدولی کی وجہ سے اسے یہ سزا ملی کہ غنیہ اس سے دور چلی گئی ۔۔۔۔
یہ سوچتے ہوئے اس کے مضبوط اعصاب بھی جھنجھنا گئے۔۔۔۔
دادا جان پہلے بات الگ تھی اب میرا ایک بیٹا بھی ہے کیا نور العین اسے سنبھال پائے گی ۔۔۔
کیا وہ اسے ایکسیپٹ کرے گی ؟؟؟
وہ دھیمے لہجے میں گویا ہوا ۔۔۔۔شاید حقیقت سے انہیں آگاہ کروانا چاہتا تھا ۔۔۔۔
کیوں نہیں سنبھالے گی ۔۔۔آخر کو اس خاندان کا وارث ہے وہ ۔۔۔۔۔
تم اس کی فکر مت کرو ۔۔۔۔اسے میں سمجھا دوں گا ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے دادا جان مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہے۔۔۔۔وہ دل پر جبر کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ لمحے ٹہرا پھر بولا ۔
کیا ہوا ؟؟؟
دادا جان دراصل مجھ پر ایک ذمہ داری ہے ،غنیہ وفات سے پہلے ایک بچی کو گھر لائی تھی ،وہ ہی حنان کی دیکھ ریکھ کر رہی ہے ۔۔۔۔۔
میں چاہتا تھا کہ اس کے فرض سے بھی سبکدوش ہو جاؤں۔۔۔۔وہ متفکر انداز میں بولا۔
ہممممممم۔۔۔۔۔۔۔میں جانتا ہوں سب اس بارے میں ۔۔۔۔۔اقبال نے بتایا تھا مجھے کہ کس طرح تم نے اس بچی کی مدد کی ،سارا واقعہ میرے علم میں ہے ۔۔۔۔۔
شہباز تغلق نے کہا۔
تم اس کی فکر نا کرو ۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے یتیم کی کفالت کرنے کا بہت بڑا اجر رکھا ہے ۔اسے بھی ہم اپنے گھر کی بہو بنا کر یہ ثواب کما لیں گے ۔۔۔۔۔
میں سمجھا نہیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟
وہ حیران کن نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولا ۔
جس دن تمہارا اور نور کا نکاح ہوگا اسی دن اس بچی کے ساتھ ہم یارق کا نکاح کردیں گے ۔۔۔۔۔وہ تو جیسے ہتھیلی پہ سرسوں جمائے بیٹھے تھے۔
دادا جان ہاسپٹل کے بیڈ پر آپ نے ساری پلانگ کر لینی ہے ۔۔۔۔
آج اتنے عرصے بعد اس کے عنابی لب ہولے سے مسکرائے تھے ۔۔۔۔۔
اسے مسکراتے دیکھ شہباز تغلق کی خوشی بھی دیدنی تھی۔۔۔۔۔
اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔دیکھنا پہلے سے بھی زیادہ صحت مند ہو جاؤں گا ۔۔۔
آپ ایک بار یارق سے اس کی رائے ضرور جانیے گا ۔۔۔۔عمر بھر کی بات ہے ۔میں نہیں چاہتا کہ اس پر یہ فیصلہ زبردستی مسلط کیا جائے ۔۔۔۔۔اگر اسے اس فیصلے سے اعتراض ہوا تو کچھ اور سوچ لیں گے ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے وہ میری ڈسچارج سلپ بنوانے گیا ہے ،گھر جا کر اس سے تحمل سے بات کروں گا۔۔۔۔۔
یہ فرزام کدھر گیا ؟
زیدان نے نظریں ادھر ادھر دوڑاتے ہوئے کہا ۔
وہ فارمیسی سے میڈیسن لینے گیا ہے بس آتا ہی ہوگا ۔۔۔۔۔
وہ دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
نگہت بیگم تو اپنے کمرے میں نماز ادا کرنے چلی گئی ۔جبکہ دل وہیں لاؤنج میں خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
نور بھی اس کے سامنے بیٹھی تھی ۔۔۔۔
ایک وقت تھا کہ وہ دونوں بہت اچھی دوست ہوا کرتی تھیں۔۔۔۔۔
دونوں کےوہاں موجود ہونے کے باوجود بھی گہری خاموشی تھی ۔۔۔
خاموشی کا قفل تب ٹوٹا جب لینڈ لائن پر ضماد تغلق کا فون آیا ۔۔۔
اسلام وعلیکم بابا ۔
دادا جان کی طبیعت اب کیسی ہے ؟
نور العین نے چھوٹتے ہی پوچھا ۔
یہی بتانے کے لیے ہی فون کیا تھا وہ ٹھیک ہیں پریشانی والی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔
یہ خبر سن کر اس کے سانس میں سانس آیا ۔۔۔۔
فون رکھے وہ واپس بیٹھی ۔۔۔۔
کیسے ہیں تمہارے دادا جان ؟
دل نے ہی آخر بات کرنے میں پہل کی ۔۔۔۔
ٹھیک ہیں اب ۔۔۔۔وہ آہستہ آواز میں بولی۔
دل میں جانتی ہوں کہ یارق آپ کو پسند کرتا ہے اور تم بھی ۔۔۔۔۔
یہ خرافات کس نے بھری تمہارے دماغ میں ؟؟؟
میرے دل میں یارق کے لیے نا پہلے کچھ تھا اور نا اب ہے ،
نور نے حیرانی سے دیکھا اسے ۔۔۔۔
بلکہ تمہاری آنکھوں میں صاف نظر آتا ہے کہ تم یارق کے لیے کیا جذبات رکھتی ہو ۔۔۔۔
دل نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بنا لگے لپٹے کہا۔۔۔
ویسے بھی اب ان باتوں کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ۔۔۔۔۔
میرا نکاح زبردستی تمہارے اس پولیس والے ٹھرکی ،بد دماغ بھائی سے ہو چکا ہے ۔۔۔۔
کیا ؟؟؟؟آپ کا نکاح ہو گیا ؟؟؟وہ حیرانگی سے بولی ۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
"آپ کی قِسمت بالکُل میرے جیسی ہے حنان ! مُجھے بھی ماں کا پیار نصیب نہیں ہوا اور آپ کو بھی ۔ مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے گا آپ کی ماما آپ سے بہت مُحبّت کرتی ہیں۔ بس اللّٰہ تعالیٰ سے یہی دُعا ہے کہ میں اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاؤں ۔۔۔
میں آپ سے کبھی دور نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔" وہ حنان کے معصوم ، گول مٹول سرخ وسفید چہرے کو دیکھتے ہوئے دِل میں بولی پھر جُھک کر اُس کی چھوٹی ننھی سی پیشانی کو چوما جِس پہ وہ ہلکا سا مسکرایا ۔
وہ اس کے ساتھ اپنی باقی زندگی کے خواب بُن رہی تھی مگر کوئی اور اس کے لیےکچھ اور ہی فیصلہ کیے ہوئے تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ حنان کے نرم بالوں میں انگلیاں چلانے لگی ۔۔۔۔
پیار بھری نظریں ابھی بھی حنان کے سوئے ہوئے معصوم چہرے پر ٹکی تھیں ۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
رات ڈھل گئی اور شہباز تغلق ہاسپٹل سے گھر واپس آ چکے تھے ،
سب لاؤنج میں جمع تھے ۔۔۔۔شہباز تغلق کے گرد ڈیرہ جمائے ہوئے تھے۔
فرزام جو آج کی سچویشن کی وجہ سے پولیس اسٹیشن نہیں جا پایا تھا فون کر کہ اپنے وہاں نا آنے کی اطلاع کر چکا تھا ۔۔۔۔
فرزام نور العین تمہاری بیوی کو میرے کہنے پر تمہارے کمرے میں چھوڑ آئی ہے ۔۔۔جاو تم بھی آرام کرو ۔۔۔۔
مجھے یارق سے کچھ اکیلے میں بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔
انہوں نے صاف جھنڈی دکھائی کہ سب یہاں سے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔
سب اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔
سوائے نور کے ۔۔۔۔جو دروازے کی اوٹ میں کھڑی تھی ۔۔۔۔
لاؤنج میں یارق اور شہباز تغلق کے سوا کوئی دوسرا فرد نا تھا ۔۔۔۔۔
یارق میں نے تمہارے لیے ایک فیصلہ کیاہے ۔۔۔۔
وہ جو ماربل کے فرش پر نظریں جمائے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم تھا ،چونک کر ان کی طرف دیکھا ۔۔۔
ایک لڑکی ہے ،اس کانام حنا ہے ،بہت خوب سیرت بچی ہے ،میں چاہتا ہوں تمہارا اور اس کا نکاح کر دیا جائے ۔۔۔۔
زیدان اور نور کا نکاح اس ماہ کے اندر اندر کسی تاریخ میں رکھ لیں گے ۔۔۔۔۔دونوں نکاح اکٹھے ہی ہو جائیں۔۔۔۔
خیر سے اب تم بھی سارا بزنس سمبھال رہے ہو ، اس بچی کے سارے حقوق و فرائض پورے کرنے کے قابل ہو ۔۔۔۔
فرزام کا ولیمہ بھی ساتھ ہی کردیں گے ۔۔۔۔
یہ تو تھی میرے دل کی بات ۔۔۔۔اب تم بتاؤ ۔۔۔
میرے دل کی تو آپ نے سنی ہی نہیں وقت رہتے ۔۔۔۔اب تو دل ویراں ہو گیا۔۔۔
اور ویران دل میں کب کوئی چاہت نمو ہو پائی ہے ۔۔۔۔
وہ دل میں خود سے مخاطب ہوئے بولا۔۔۔۔
اگر کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے اُسے ایک بار دیکھنا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔
"مجھے نہیں دیکھنا کسی کو "وہ اپنے سوکھے ہوئے لبوں کو واہ کیے بمشکل یہ الفاظ ادا کرپایا ۔۔۔۔۔
"کیا ہوا جو میری چاہت ادھوری رہ گئی ۔۔۔۔آپ کی چاہت ادھوری نہیں رہے گی ۔۔۔۔۔
میری چاہت کو پورا کرنا شاید میرے بس میں نا تھا مگر آپ کی خواہش کو پورا کرنا تو میرے بس میں ہے وہ دل میں سوچنے لگا۔
جب دل نہیں تو کوئی بھی ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟؟؟؟؟
"مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہے دادا جان جیسے آپ کو ٹھیک لگے "اس کے لبوں پر زخمی مسکراہٹ رینگی ۔۔۔۔۔۔
دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی نور العین کے قدم ڈگمگائے ۔۔۔۔جسم جیسے زلزلوں کی زد میں تھا ،،،،،
وہاں کھڑا ہونا دوبھر ہو گیا۔۔۔۔۔
آنکھیں چھم چھم برسنے لگیں۔۔۔۔
دھندھلائی ہوئی آنکھوں سے اس دشمن جاں کو دیکھا جو اسے جھٹکوں کی زد میں جھونکے کتنی آسانی سے اس کے وجود کو سرے سے نظر انداز کرتا بری الزمہ ہوا ۔۔۔۔۔۔
اسے لگا شاید وہ اس کے حق میں بولے ۔۔۔۔
مگر وہ تو اپنی بات ختم کیے کب کا وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔۔۔
خالی لاؤنج اس کا منہ چڑا رہا تھا ۔۔۔۔
اس کی نظر اوپر پڑی جہاں وہ شہباز تغلق کو بازو سے پکڑ کر اوپر کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
تاکہ انہیں ان کے کمرے میں جانے کے لیے مدد دے سکے ۔۔۔۔۔
فرزام صبح کا تھکا ہارا سا کمرے میں آیا… تو دلبرا کو دیکھے ٹھٹھک کر رہ گیا….
آنکھوں میں حیرت اتر گئی…اس کے پسندیدہ نیوی بلیو لباس میں… شارٹ شرٹ اور پلازو پہنے بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے کانوں میں موجود آویزے اتار کر رکھتے ہوئے اب گلے میں موجود نازک سا نیکلس اتارنے میں اتنی محو تھی کہ ۔۔۔۔ فرزام کی موجودگی کو محسوس نہ کر سکی جبکہ اس کا شفاف چہرہ سرخ لپسٹک سے سجا تھا..اور سیاہ دلکش آنکھیں کاجل کی دھار سے لبریز تھیں فرزام تغلق کا دماغ جیسے.. سٹک ہو گیا…
وہ بلا اختیار اپنے بھاری... قدموں سے.. اس حسن کی دیوی… کے.. قریب آنے لگا….
نور العین اسے دادا جان کے کہنے پر اپنا نیا ڈریس اور میچنگ جیولری پہنا کر گئی تھی ،کیونکہ دل کے پاس کچھ بھی نا تھا ۔
آج صبح اس کا نکاح ہوا تھا اسی لیے اسے نکاح کی مناسبت سے تھوڑا بہت تیار کر کہ گئی تھی ۔۔۔۔
وہ اپنی دوست واپس ملنے پر اس کی دوبارہ ناراضگی مول نہیں لینا چاہتی تھی اسی لیے چپ چاپ اس کے ہاتھوں تیار ہو گئی تھی سوچا تھا کہ فرزام کے اندر آنے سے پہلے ان خرافات سے آزاد ہو جائے گی ۔۔۔۔اسے فرزام کے اتنی جلدی کمرے میں آنے کی امید نہیں تھی ۔۔۔۔۔
وہی سیاہ سحر انگیز آنکھیں جو گھنی خمدار پلکوں سے سجی تھیں ۔۔۔۔۔انہیں چھو کر دیکھنے کی خواہش کب سے من میں تھی ۔۔۔۔
وہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے حصار میں لے گیا ۔۔۔۔۔
وہ فرزام تغلق کے اس عمل پر حق دق رہ گئی ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اپنا آپا کھو کر کوئی جسارت کرتا ۔۔۔۔
دل نے ٹانگ اونچی کیے گھٹنا اس کے پیٹ میں کک کی طرح مارا ۔۔۔۔۔
اے ٹھرکی پولیس والے ۔۔۔۔۔۔
خبردار جو مجھے ہاتھ بھی لگایا تو ۔۔۔۔
وہ کہاں اس نازک سی لڑکی سے اس حرکت کی امید رکھتا تھا۔۔۔۔
وہ جھٹکے سے ہوش میں آیا۔۔۔۔
ایسی کک سے اس دیو قامت شخص کو کہاں فرق پڑنے والا تھا یہ تو معمول کی بات تھی ۔۔۔مگر وہ اس کی حرکت پر عش عش کر اٹھا۔۔۔۔۔۔
"تم طوائف کے ساتھ ساتھ چورنی بھی ہو اور وہ بھی پوری طرح ٹرینڈ ۔۔۔۔۔
سچ سچ بتاؤ کس گینگ کے لیے کام کرتی ہو ؟؟؟وہ اب پولیس والوں کی طرح تفتیش کرنے پر اتر آیا۔۔۔۔
"دماغ تو تیرا بڑا کام کرتا ہے موالی کہیں کے ۔۔۔۔۔
بکواس بند کرو ۔۔۔۔۔۔
تھوڑا سا پروٹوکول کیا دے دیا تم تو سر پر ہی چڑھ گئی۔۔۔۔۔
یہی تو طوائفوں کی خاصیت ہے ہم جیسے معصوم مردوں کو سج سنور کر اپنے دام میں پھنسانا ۔۔۔۔۔
تم نے بھی وہی داؤ کھیلا ہے مگر ۔۔۔۔۔
چچچچچچچہ۔۔۔۔۔صد افسوس میں وقت رہتے بچ گیا ۔۔۔۔۔
"ہنہہہہ ۔۔۔۔وہ ہنکارا بھر کر بولی ۔۔۔
"تم اور معصوم ۔۔۔۔۔تم جیسے معصوم مرد ہی ہم جیسی طوائفوں کے کوٹھے پر اپنی راتیں رنگین کرنے آتے ہیں ،اور انہیں ہم جیسی نشانیاں دے جاتے ہیں ،طوائف اکیلی تو ایک طوائف کو جنم نہیں دیتی ۔۔۔وہ تم جیسے ہی بے غیرت مرد ہوتے ہیں جو گھر میں بیویوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنی مردانہ تسکین کے لیے وہاں آتے ہیں ۔۔۔تمہیں جیسے مردوں کی وجہ سے طوائفیں جنم لیتی ہیں ۔۔۔۔اکیلی طوائف کیسے جنے گی طوائف۔۔۔۔؟؟؟؟
بکواس بند کرو ۔۔۔۔وہ دھاڑا ۔۔۔۔۔
اور اس کے جبڑے کو اپنی مٹھی میں دبوچ کر اسے گھسیٹتے ہوئے دیوار سے لگا گیا۔۔۔۔۔
کیوں سچ کڑوا لگا کیا ؟؟؟؟
"چھوڑو مجھے ۔۔۔۔مجھ پر اپنی طاقت مت آزماؤ ۔"
وہ حلق کے بل چلائی ۔
"مجھے بھی میری برداشت سے زیادہ مت آزماؤ ۔۔۔۔"
وہ بھی اسےخونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے غرایا ۔۔۔۔۔
مجھے مفت کا مال سمجھ کر چھوا تو میں ہاتھ توڑ دوں گی تمہارے ۔۔۔۔۔
اور تم کیا سمجھتے کہ میں ان عام گھریلو ڈری اور سہمی عورتوں میں سے ہوں جو چپ چاپ تمہاری کسی بھی زیادتی کو سہہ لوں گی ۔۔۔۔
تو مسٹر پولیس والے تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے بھول کر بھی ایسی بھول کرنے کی کوشش مت کرنا ۔۔۔۔۔
وہ اسے وارننگ دینے لگی ۔۔۔۔۔
چند پیسوں کے لیے بکنے والی طوائف کے یہ انداز ۔۔۔۔۔واہ ۔۔۔۔۔۔
تم جیسی ہزاروں طوائفیں میرے پیروں کی دھول ہیں ۔۔۔۔ابھی نوٹ پھینکوں ابھی ہزاروں گریں گی میرے آگے ۔۔۔۔۔
وہ تمسخرانا انداز میں مسکرا کر بولا ۔۔۔۔
دنیا میں ہر عورت ایک بکنے والی چیز ہے ،وہ چاہے گھر میں بکے چاہے بازار میں،
کبھی پیسے کے لیے بکتی ہے تو کبھی گھر گرہستی کے لیے ،
کہیں وہ خود بکتی ہے اپنی مرضی سے ،کہیں وہ بیچ ڈالی جاتی ہے ۔۔۔۔
وہ تلخ لہجے میں بولی۔۔۔۔
"تم جیسی گری ہوئی لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ۔۔۔۔۔جو دھڑلے سے ایک رات میرے بھائی کے کمرے میں گزار کر کتنی آسانی سے الزام مجھ پر لگا گئی ۔۔۔۔۔۔
جانے کتنوں کے کمرے میں ایسی راتیں گزار چکی ہو ۔۔۔۔۔
میں بھی کس سے بات کر رہا ہوں ،یہی تو طوائفوں کا کام ہے ۔۔۔۔۔
خود کو آئینے میں دیکھو تو پھر تمھیں پتا چلے کہ تم کس قدر گرے ہوئے نیچ انسان ہو ۔۔۔۔۔۔
ارے تمہاری اصلیت دیکھے تو آئینہ بھی چٹخ جائے ۔۔۔۔۔
دلبرا نے چلاتے ہوئے کہا ۔۔
جیسے فرزام نے سنا اسنے دل کوبازو سے پکڑا اوراپنی طرف کھینچا میں اس سے بھی زیادہ گرا ہوا انسان ہوں کیونکہ تم جیسی مکار لڑکیوں کے لیے گرنا پڑتا ہے تاکہ تم جیسی بدچلن لڑکیوں کو اپنی اوقات پتا چل سکے ایک بات یاد رکھنا میں فرزام تغلق ہوں ۔۔۔ میں ہر بار تمہاری بکواس سنوں ۔۔۔ایسی امید مت رکھنا مجھ سے ۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں غصے کی وحشت چھائی تھی دفعان جاو یہاں سے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔۔
"چلو پہلی بار سچ بولا ۔۔۔۔واقعی تم سے برا کوئی ہوگا بھی نہیں "وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تنفر سے پھنکاری ۔۔۔۔۔
پھر سامنے رکھے ٹشو باکس میں سے ٹشو پیپر نکال اپنے رنگے ہونٹوں کو بے دردی سے صاف کرتے ہوئے بستر کی طرف بڑھی ۔۔۔۔
"اے کدھر ؟؟؟؟
وہ ابرو اچکا کر درشت لہجے میں بولا ۔۔۔۔
"اس بستر پر تم جیسی عورت کا وجود مجھے ایک پل کو گوارا نہیں ۔۔۔۔۔
"یہ عورت کس کو بولا ۔۔۔وہ اس کے قریب آئی اس کے کالر کو دبوچ کر غصے سے بولی ۔۔۔
"کیوں تم کوئی تیسری صنف ہو ؟وہ مذاق اڑانے کے انداز میں بولا ۔۔۔
اسے تو جیسے کسی نے جلتی آگ میں جھونک دیا ہو ۔۔۔۔
شٹ اپ ۔۔۔۔۔
وہ اس کا کالر جھٹک کر اسے دھکا دے کر پیچھے کرنے لگی ۔۔۔۔۔
بڑی زبان چلتی ہے تمہاری ۔۔۔۔۔پچھتاو گی جب میں نے تمہیں اپنے انداز سے شٹ اپ کروایا ۔۔۔۔۔وہ ذومعنی انداز میں بولا
اس کی بات اسے مزید آگ بگولہ کرنے کے لیے کافی تھی ۔۔۔۔۔
اور ہاں نیچے بستر کر لو اپنا ۔۔۔۔
فرزام اس کے چہرے پر غصے کے باعث آنے والی سرخی دیکھ طنزیہ مسکراہٹ اچھال کر واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔
"تم جانتے نہیں ابھی دلبرا کو۔۔۔۔۔
ابھی پتہ چلے گا دل سے پنگا لینے کا انجام ۔۔۔۔
بستر پر سونا ہے نا تمہیں ابھی سلاتی ہوں تمہیں بستر پر ۔۔۔۔۔۔۔
وہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا گیا پانی بھرا جگ پورے بستر پر اچھی طرح انڈیل چکی تھی کہ تھوڑی سی بھی جگہ خشک نا تھی ۔۔۔۔۔
ابھی وہ اس کارنامے سے فارغ ہوئی تھی کہ وہ آرام دہ سوٹ پہنے ہوئے باہر آیا تو گیلا بستر دیکھ اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔
بڑی بڑی واہیات ہستیاں ہوگی اس دنیا میں مگر تم سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔۔۔۔۔
وہ خود پر قابو پاتے ہوئے دانت پیس کر بولا ۔۔۔۔
وہ سینے پر ہاتھ باندھے اس کے تاثرات کا جائزہ لیتے ہوئے حذ اٹھا رہی تھی ۔۔۔۔
فرزام نے تاسف سے سر ہلایا ۔۔۔۔سارے دن کی تگ و دو کے بعد اب تھکان اس پر حاوی ہو چکی تھی ۔۔۔۔مزید جنگ کا ارادہ ترک کیے وہ کبرڈ سے اپنا کمفرٹر نکال کر نیچے قالین پر تکیہ رکھے لیٹا اور پاؤں سے سر تک کمفرٹر اوڑھے سو گیا ۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر کھڑی رہی ۔۔۔۔
پھر تھک کر بیٹھی ۔۔۔۔۔کافی دیر تک جاگتی رہی ۔۔۔۔۔۔جوں جوں رات گزر رہی تھی ماحول میں خنکی بڑھ رہی تھی اسے اس باریک شیفون کے سوٹ میں اب اچھی خاصی ٹھنڈ لگنے لگی ۔۔۔۔۔۔
کیا کروں ؟بستر بھی گیلا ہے ۔۔۔۔
اٹھ کر کبرڈ میں دیکھا مگر کوئی بھی دوسرا کمفرٹر نہیں ملا ۔۔۔۔۔
اب تو ٹھنڈ سے وہ کانپنے لگی ۔۔۔۔۔۔
نیچے سوئے ہوئے اس وجود کو دیکھا۔۔۔۔تو کچھ سوچتے ہوئے دوسرا تکیہ اٹھا کر اس کے پاؤں والی سائیڈ پر رکھا ۔۔۔۔
اور اس کے گرد لپٹا ہوا کمفرٹر کھینچ کر تھوڑا سا اپنے اوپر کیا ۔۔۔۔۔
گرمائش ملتے ہی جسم کو سکون ملا تو وہ کچھ دیر میں ہی نیند کی وادیوں میں اتر گئی ۔۔۔۔
بالخصوص فجر کی اذان سن کر فرازم کی جاگ کھلی ۔۔۔۔
اسے اپنا ہاتھ کسی نرم گرم چیز سے پر محسوس ہوا تو وہ اندھیرے میں ٹٹول کر دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔کہ یہ کیا ہے ؟
دل جس کی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی اپنے پیروں پر اس کا ہاتھ محسوس ہوا تو اپنے پاؤں کو زور سے جھٹکا ۔۔۔۔
اور اٹھ کر بیٹھی ۔۔۔۔
فرزام جو ابھی سمجھنے کی کوشش میں ہی تھا ۔۔۔۔۔سب سمجھ میں آتے ہی ہوش میں آیا اور اٹھ کر بیٹھا۔۔۔۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟؟
تو اور کیا تمہارے سر پر سوتی ؟؟؟وہ خمار زدہ آواز میں بولی۔۔۔نیند سے ابھی بھی آنکھیں بوجھل اور سرخی مائل تھیں جیسے کسی نے کچی نیند سے جگا دیا ہو ۔۔۔۔
"ویسے میری بانہوں میں سونے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔۔
صحیح اندازہ لگایا تھا میں تم ٹھرکی پولیس والے کسی بھی وقت ٹھرک پن جھاڑنے سے باز نہیں آتے۔۔۔۔۔
رات کو تو بڑی بڑی باتیں سنا رہے تھے اب ایک دم سے رومینس کا کیڑا کیسے پھڑکنے لگا ۔۔۔۔
ویسے وہ کیا کہتے ہیں ہندو ۔۔۔۔ہاں صبح صبح اٹھ کر اپنے بڑوں کے پیر چھو کر آشرواد لیتے ہیں ۔۔۔۔
تم بھی میرے پیروں کو چھو کر وہی لے رہے تھے شاید ۔۔۔۔وہ اس کے کیے پر طنز بھرے تیر برسانے لگی ۔۔۔۔
"جاؤ ٹھرکی اور گھٹیا پولیس والے تمہارا آج کا سارا دن منحوس گزرے ۔۔۔۔یہ میرا آشرواد ہے تمہیں ۔۔۔۔وہ بالکل ہندوؤں کی نقل اتارتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
سچ سچ بتانا کہیں تم کسی ہندو کی اولاد تو نہیں ۔۔۔۔۔
وہ بھی اس کی زبان کے جواہر پر اپنا بدلہ جھٹ اتار گیا ۔۔۔۔۔
شٹ اپ ۔۔۔۔وہ اس انگلی سے وارن کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
"انگلی نیچے ۔۔۔۔وہ اس کی انگلی میں اپنی انگلی پھنسائے اسے شدت سے مروڑتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
کتنی بار کہا ہے میرے سامنے زبان نہیں چلایا کرو ۔۔۔۔۔
میری زبان ہے جتنی مرضی چلاؤں ۔۔۔۔
تم سے تو بحث کرنا ہی فضول ہے ۔۔۔۔تمہیں دیکھ لیا صبح صبح سارا دن واقعی منحوسیت میں گزرنے والاہے ۔۔۔۔۔
وہ کمفرٹر ہٹائے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وضو کر کہ واپس آیا تو وہ خود کو کمفرٹر میں چھپائے شاید پھر سے سو چکی تھی ۔۔۔۔
"اٹھ کر نماز پڑھو ۔۔۔۔وہ اسے بارعب آواز میں بولا ۔
مجھے نہیں پڑھنی جاؤ یہاں سے دماغ خراب مت کرو ۔۔۔۔۔وہ کمفرٹر میں منہ دئیے چلائی ۔۔۔
دماغ تو تم میرا خراب کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ایک منٹ سے پہلے اٹھ جاؤ ورنہ ۔۔۔۔۔
ورنہ کیا ۔۔۔۔؟؟؟وہ چہرہ باہر نکال کر ہمیشہ کی طرح اس سے لڑنے کو تیاری پکڑتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
ورنہ تمہیں اٹھا کر واش روم کے ٹب میں پھینک آؤں گا جس میں منفی ڈگری تک ٹھنڈا پانی ہے ۔۔۔۔اور جو میں کہتا ہوں وہ کرتا بھی ہوں ۔۔۔۔
میرے آنے تک تم مجھے نماز پڑھتی نظر آؤ ورنہ انجام کی ذمہ دار تم خود ہو گی ۔۔۔۔
وہ سر پر نماز والی ٹوپی پہن کر اسے دھمکاتا باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔
اس کے جاتے ہی وہ پاس پڑا تکیہ جس پر وہ سویا تھا اسے اٹھا کر غصے سے دور پٹخ چکی تھی جیسے کہ وہ فرزام تغلق ہو ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
نسیم میرا گرم پانی جم میں پہنچا دینا ۔۔۔وہ سپاٹ انداز میں کہتا ہوا ۔۔۔۔۔جم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔
حنا جی !!!!
نسیم کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئی ۔۔۔۔
جی کیا بات ہے ؟وہ جو ڈریسر کے سامنے اپنے بال بنا رہی تھی ۔جلدی جلدی انہیں لپیٹ کر میسی سا جوڑا بنایا ۔۔۔
باہر صاحب جی کے دادا جان آئے ہیں ۔۔۔۔آپ کو صاحب جی دونوں کو بلا رہے ہیں ۔۔۔۔
پہلے تو وہ حیران ہوئی کہ آج سے پہلے تو کبھی اس نے زیدان کے کسی رشتہ دار کو یہاں آتے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں آتی ہوں ۔۔۔۔آپ چلیں ۔۔
حنا جی آپ ایسا کریں یہ پانی صاب جی کو دے دیں وہ اس وقت جم میں ہیں اور ساتھ انہیں ان کے دادا جان کے آنے کی اطلاع بھی دے دیجیے گا ۔۔۔میں زرا کچن میں ان کے لیے ناشتے یا چائے پانی کا انتظام کروں ۔۔۔۔۔
م۔ممم۔میں ۔۔۔۔وہ بوکھلا کر بولی ۔
مگر نسیم اسے بوتل پکڑاتی ہوئی تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔۔۔۔
پیچھے مڑ کر دیکھا حنان ابھی سویا ہوا تھا وہ ایک نظر اس پر ڈالتی ہوئی باہر نکلی اور جم کی طرف قدم بڑھانے لگی ۔۔۔۔
غنیہ کی وفات کے بعد گنی چنی دو یا تین بار ہی وہ زیدان کو دیکھ پائی تھی ۔۔۔۔وہ بھی دور سے ۔۔۔
کیونکہ اس کا سارا کام نسیم کے زمہ تھا ۔
وہ ناشتہ کیے جوں گھر سے نکلتا دیر رات گھر لوٹتا تب تک وہ حنان کو لیے کمرے میں سو چکی ہوتی ۔۔۔۔۔
آج پہلی بار تھا کہ وہ خود سے اس کے پاس جا رہی تھی ۔
'زیدان پچھلے ایک گھنٹے سے مسلسل کان میں ہیڈ فونز لگائے رننگ مشین پر فل سپیڈ سے آنکھیں بند کیے دوڑ رہا تھا اس وقت وہ بلیک ویسٹ میں تھا جو پسینے سے پوری طرح سے بھیگ کر اسکے کسرتی جسم پر چپک چکی تھی۔گھنی مونچھوں تلےعنابی لب آپس میں بھینچے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔
پسینے کی بوندیں ٹپک کر نیچے گر رہی تھیں۔
' گلاس وال سے آتی سورج کی روشنی اسکے اوپر پڑ رہی تھی جس سے اسکے سفید جسم پر پسینے کی بوندیں واضح طور پر نظر آ رہی تھی خوبصورت کشادہ روشن پیشانی پر بھورے بال بکھرے پڑے تھے '
حنا اسے جم کی دہلیز پہ کھڑی یک ٹک دیکھ رہی تھی ، اس حسن کے دیوتا کی شخصیت میں جانے کیسا سحر تھا کہ اس کے قدم اس منظر پر جم کر رہ گئے ۔۔۔۔۔
اسے جیسے ہی محسوس ہوا کہ اس کے سوا بھی یہاں کوئی موجود ہے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔
حنا اسے اپنی طرف تکتا پا کر بوکھلاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہوئی ۔
'' وہ ایک پل میں اس مشین سے اترا ۔۔۔ہیڈ فونز اتار کر ایک طرف رکھ کر ٹاول سے اپنے چہرے کا پسینہ صاف کرتا اس کے پاس آیا ۔۔۔۔۔
ایک ہاتھ سے ٹاول اچھال کر سٹینڈ پر پھینکا ۔۔۔
وہ اس کے قریب آنے پر ڈرتے دل سے نظریں جھکا گئی۔۔۔
نسیم کہاں ہے ؟وہ اس کے ہاتھ میں موجود بوتل پکڑے ڈھکن کھول کر منہ سے لگا کر ایک گھونٹ بھرنے کے بعد بولا ۔۔۔
وہ کچن میں ہے ۔۔آپ کے دادا جان آئے ہیں ۔۔
یہی بتانے آئی تھی ۔۔
کہتے ہی وہ پلٹنے لگی ۔۔۔۔
رکو ۔۔۔۔۔اس کی سرد آواز پر اس کے قدم وہیں تھمے ۔۔۔۔۔
تم دادا جان کے پاس جاؤ میں چینج کر کہ آتا ہوں ۔۔۔۔
"جی "وہ بس اتنا ہی کہہ پائی ۔۔۔۔
جانے کیوں اس کے سامنے زبان گنگ ہو گئی تھی ۔۔۔۔
وہ تیز قدموں سے وہاں سے نکل گئی ۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!باریک سی آواز سن کر شہباز تغلق نے جو اخبار پڑھ رہے تھے سراٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
دلکش نین نقش ،سفید اور گلابی رنگت کی حامل کمر عمر لڑکی سر پر سلیقے سے دوپٹہ جمائے ہوئے انہیں ادب سے سلام کر رہی تھی ۔
اس کے چہرے سے ہی معصومیت جھلک رہی تھی ۔
وعلیکم اسلام !
وہ وہیں کھڑی انگلیاں آپس میں پیوست کیے نروس سی کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
ادھر آؤ ہمارے پاس ۔۔۔۔۔وہ اسے اشارہ کرتے ہوئے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے بول رہے تھے ۔
وہ تھوک نگلتے ہوئے سہم کر ان کے پاس بیٹھی ۔۔۔۔۔
نسیم چائے کے ساتھ لوزامات لے کر آئی اور میز پر چننے لگی ۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں زیدان بھی تیار ہو کر وہاں پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔
بیٹا جی ہم زیدان کے دادا جان ہیں ۔۔۔۔
ان کے بڑے ۔۔۔۔تو کیا آپ بھی ہمیں اپنا بڑا مانتی ہیں ۔۔۔۔
"جی "وہ محض اتنا ہی کہہ سکی ۔۔۔۔
تو ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ اس جمعہ آپ کا نکاح کر دیا جائے ۔۔۔۔۔
وہ ان کی بات پر ٹھٹھک کر اپنا جھکا ہوا سر اٹھاتے ہوئے زیدان تغلق کو دیکھنے لگی ۔۔۔
جو شاید اس کے جواب کا منتظر تھا ۔۔۔۔
اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھنے کی مزید سکت خود میں نا پاتے ہوئے وہ دوبارہ نظریں جھکا گئی ۔۔۔۔
دل عجب تال پر دھڑکنے لگا ۔۔۔۔۔
کیا کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟؟؟؟
وہ خود سے سوال کرنے لگی ۔۔۔۔۔
"نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی غنیہ آپی کیا سوچیں گی ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔
مگر حنان ۔۔۔۔جس میں میری جان بستی ہے ایسا ہوا تو میں اس کے پاس ہی رہوں گی ہمیشہ ۔۔۔۔وہ سوچنے لگی ۔۔۔۔
"تو بیٹا جی آپ نے بتایا نہیں کہ آپ راضی ہیں ؟؟؟
وہ بنا بولے سر اثبات میں ہلا گئی ۔۔۔۔
ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔میری بچی ۔۔۔۔تم نے تو میرا مان رکھ لیا ۔۔۔۔۔
بس اب تیاری کرو زیدان اس جمعہ کو تمہارا اور نور کا نکاح اور حنا کا یارق کے ساتھ ۔۔۔۔
وہ خوشی سے لبریز لہجے میں بولے۔۔۔۔
یہ بات سنتے جیسے ساتوں آسمان اس کے سر پر ٹوٹ پڑے۔۔۔۔
وہ تو کچھ اور سوچ کر مثبت جواب دی تھی۔۔۔
مگر وہ تو کچھ اور ہی سمجھے ۔۔۔۔
یا پھر میں نے ہی سمجھنے میں غلطی کی۔۔۔۔
حنا تف ہے تم پر ۔۔۔۔۔تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ وہ تم سے ۔۔۔۔۔۔
کہاں تم اور کہاں وہ ۔۔۔۔۔وہ خود کو ملامت کرنے لگی ۔۔۔۔۔
ایک قیامت تھی جو اس پر آکر گزر گئی ۔۔۔۔
گلے میں آنسوؤں کا گولہ اٹکنے لگا ۔۔۔۔۔
مگر وہ خود کی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔کیسے وہ رو کر خود کو ان کے سامنے ارزاں کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔
"حنان اٹھ گیا ہو گا میں اسے دیکھتی ہوں ۔۔۔وہ بہانہ بنائے اٹھ کر وہاں سے جانے لگی ۔۔۔۔۔
"مجھے بھی ملاؤ میرے شیر سے ۔۔۔۔۔شہباز تغلق کی آواز سن کر وہ مڑی ۔۔۔۔
جی ابھی لاتی ہوں ۔۔۔۔ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ نسیم حنان کو گود میں اٹھا کر لا رہی تھی ۔۔۔۔
وہ کمرے میں حنا کو نا پاکر جوں رونے لگا کہ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔۔
نسیم اسی لیے اسے باہر لے آئی ۔۔۔۔
مما ۔۔۔۔وہ حنا کو سامنے دیکھ زور سے بولا۔۔۔
حنا نے آگے بڑھ کر اسے گود میں لیا ۔۔۔
وہ اس کے ساتھ چپکا ہوا تھا ۔۔۔۔
وہ اسے لیے واپس صوفے پر بیٹھی ۔۔۔۔
"ہنی ان سے ملو ۔۔۔۔یہ آپ کے دادا جان ہیں ۔۔۔۔
وہ ہنی کو شہباز تغلق کا تعارف کروانے لگی ۔۔۔
بھئی دادا نہیں پردادا ۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولے ۔۔۔۔
ادھر آؤ میرے پاس ۔۔۔وہ دونوں ہاتھ پھیلائے اسے اپنے پاس بلانے لگے ۔۔۔۔
مگر حنان نفی میں سر ہلانے لگا ۔۔۔اور خود کو اپنی مما کے دوپٹے میں چھپانے لگا ۔۔۔۔
"زیدان یہ تو بہت اٹیچ ہو گیا ہے بچی سے ۔۔۔۔
زیدان نے حنا کہ طرف دیکھا اور اس نے زیدان کی طرف ۔۔۔پل بھر کو آنکھیں ملیں ۔۔۔پھر زیدان نے نظروں کا زاویہ پھیر لیا۔۔۔۔
وہ دل مسوس کر رہ گئی ۔۔۔۔۔
آنکھوں میں اٹکے ہوئے آنسوؤں کو پیچھے دھکیلنا دنیا کا مشکل ترین کام لگا اسے اس وقت ۔۔۔۔۔۔
"زیدان میں اب تم سب کو پھر سے ایک ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
شادی کے بعد تم واپس تغلق ولا میں شفٹ ہو جاؤ ۔۔۔۔
اس طرح حنان بھی اس بچی کے ساتھ رہے گا ۔۔۔
حنا آہستہ آہستہ نور کو اس کی پسند نا پسند سمجھا دے گی ۔۔۔۔۔
اور حنان کا ذہن بھی ڈسٹرب نہیں ہوگا ۔۔۔ایک دم اس کے دور جانے سے ۔۔۔
یہ دونوں مل کر اس کا خیال رکھ لیں گی ۔۔۔۔
"جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔وہ ان کی بات پر متفق ہوا ۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
نور یہ بار بار اس یارق کا نام میرے سامنے لینا چھوڑ دو تمہیں میری قسم ہے.... تمہارا نکاح میں کبھی بھی یارق سے نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔
اس کو میں نے خود اس لڑکی کے ساتھ تنہا کمرے میں رنگے ہاتھوں پکڑا ہے ۔
آنکھوں دیکھی مکھی کون نگلتا ہے؟
تم خود تو ہو پاگل اور مجھے بھی یارق یارق کر کہ پاگل بنا دو گی ۔۔۔
ایک جھٹکے سے اسکے پیروں تلے زمین نکل گئی جب نگہت بیگم نے اسے جھنجھوڑ کر ایک ہی سانس میں بولتے ہوے حقیقت سے آگاہ کیا...
یہ.. یہ... آپ کیا کہ رہی ہیں آپ ؟یارق ایسا نہیں ہوسکتا میں یارق کے علاوہ کسی اور سے نکاح کیسے کر سکتی ہوں امی آپ جانتی ہیں آپ میرے دل سے میرے جذبات سے اچھی طرح واقف ہیں اس دل میں بچپن سے یارق کے سوا کوئی اور نہیں امی خدا کے واسطے مجھے اتنی بڑی سزا نہ دیں..مجھے بچا لیں ۔۔۔آپ دادا جان سے کہیں نا مجھے یارق سے دور کر کہ جدائی کی اتنی بڑی سزا نا دیں۔۔۔۔امی میں مر جاؤں گی اس کے بنا ۔۔۔
وہ رندھے لہجے میں چیخ چیخ کر بول رہی تھی ۔
اسکی یہ حالت نگہت بیگم سے دیکھی نہیں جا رہی تھی انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا اور سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی نور العین کی آواز سسکیوں میں بدل گئیں..وہ ہچکیوں سے رونے لگی ۔
کچھ نہیں رکھا اس یارق کے پاس ۔۔۔۔اپنے باپ دادا کا بنا بنایا بزنس سمبھال رہا ہے ۔
خود کچھ کرنے کے قابل نہیں ۔۔
ارے کرے گا تو تب نا جب عشق معشوقی سے فرصت ملے گی ۔۔۔۔
زیدان کو دیکھو خود کے بل بوتے پراس نے چند سالوں میں اپنا نام اس طرح بنایا ہے کہ آج اسے سارا ملک جانتا ہے ۔
کیا نہیں ہے اس کے پاس تم عیش کرو گی اس کے ساتھ ۔۔۔
مجھے تو شروع سے ہی زیدان پسند تھا تمہارے لیے آج میں بہت خوش ہوں کہ میری خواہش پوری ہونے جا رہی ہے ۔
مما مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں سوائے یارق کے ۔۔۔۔۔
پلیز مما میرے دلی جذبات کو سمجھیں۔۔۔۔
نور بند کرو یہ یارق نامہ ۔۔۔اب میں تمہارے منہ سے ایک لفظ نہ سنو اس بارے میں ۔۔۔
کچھ ہی دنوں میں تمہارا نکاح ہے زیدان کے ساتھ ۔۔۔
یہ دیکھو تمہارے لیے کچھ ڈریسز بنوائے ہیں ۔۔۔۔
"" وہ اسکو ایک ریڈ کلر کی خوبصورت سی ساڑھی دکھاتے ہوئے بولی تھی ..
' " مجھے ساڑھی نہیں پسند اور نا ہی میں یہ پہنوں گی ..اگر یہ سب یارق کے نام پر ہوتا تو وہ خوشی یہ سب لے لیتی ۔۔
' " کیا ہوا پکڑو اسے ایسے کھڑی کیوں دیکھ رہی ہو ؟مجھے پہن کر دکھاؤ فٹنگ ٹھیک ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔
' " اسکو ایسے ہی خاموش کھڑا دیکھ کر وہ اس سے پھر سے مخاطب ہوئی تھی ..
' "مما میں یہ ڈریس نہیں پہن سکتی ۔
' " انکی سرد آواز پر نور بمشکل بول پائی تھی .
' "" کیوں ؟
' "" کیوں نہیں پہن سکتی تم یہ ڈریس
کیا کمی ہے اس میں ؟
" ' نگہت بیگم کا لہجہ یکدم سے سخت ہوا تھا
' " مما آپ جانتی ہیں کہ میں اس طرح کے کپڑے نہیں پہنتی ہوں ..
' " وہ آہستہ آواز میں انکو اس ڈریس کی خامی بتا رہی تھی
جبکہ نگہت کی نظر میں یہ کوئی کمی نہیں تھی بلکہ اس ڈریس کی خوبصورتی تھی ..
' " میں سب جانتی ہوں مگر تم بھول رہی ہو کہ تم اب زیدان کی بیوی بننے والی ہو
خود کو اس کی پسند میں ڈھالو"
' "نگہت اسکو جتانے والے انداز میں سمجھا رہی تھی جس پر نور بس خاموشی سے انکو خالی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ ..
یہ دن کیسے گُزرے پتہ ہی نہیں چلا ۔نگہت بیگم کے تو بازار کے چکر ہی ختم نہیں ہورہے تھے۔۔
ضماد تغلق نے شکر ادا کیا تھا کہ نگہت بیگم کے بازار کے چکر تو ختم ہوئے ۔۔۔۔۔
نور العین ،دلبرا ،اور حنا تینوں کے لیے ڈریسز نگہت بیگم اپنی مرضی اور پسند سے لائیں تھیں نور اور دل کو بازار لے جانے کی زحمت نہیں دی تھی ۔
یارق نے خاموشی سادھ لی تھی ،رات گئے گھر آتا جب سب سو چکے ہوتے ،
نور بھی زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتی ۔
دلبرا اور فرزام کے بیچ بھی فی الحال خاموشی تھی ،اس دن کے بعد سے ان میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی ،کیونکہ فرزام اپنے کسی کام میں بزی تھا ۔
صرف اتنی تبدیلی آئی تھی کہ فرزام نے ایک دوسرے بلینکٹ کا انتظام کر لیا تھا اپنے لیے
وہ دونوں سوتے تو ایک ہی بستر پرمگر الگ الگ ۔۔۔۔دل نے بھی اسے خاموش دیکھ کر چھیڑنے کی کوشش نہیں کی ۔
فرزام کے گھر سے چلے جانے کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے نور العین کے پاس چلی جاتی ۔۔۔۔
آج مہندی تھی اور یارق ابھی تک نہیں آیا تھا ۔۔۔۔
دلبرا بے دلی سے تیار ہو کے بیٹھی تھی لان میں ہی جھولا لگا کے سیٹ اپ کیا گیا تھا جس پہ نور اور دلبرا دونوں بیٹھی تھی جب کہ باقی سب کے لیے نیچے گدے بچھا کرگاؤ تکیے لگائے گئے تھے دلبرا نے اورنج اور شاکنگ پنک کلر کا لہنگا زیب تن کیا تھا اور اوپر پھولوں کی جیولری پہن رکھی تھی فنکشن کی مناسبت سے ہلکا سا میک اپ کیا گیا تھا ۔۔۔۔
نور العین زرد اور سبز رنگ کا جوڑا پہنے موتیے اور گیندھے کے پھولوں کا زیور پہنے ہاتھوں کو مہندی لگائے. لمبے بالوں کی چٹیا بنائے اس میں چھوٹے چھوٹے پھولوں کی کلیاں پروئی ہوئے تھی ..
پھولوں کے گجرے پہنے.. قدرتی پھولوں میں واقعی ایک پھول لگ رہی تھی ،آنکھوں کے نیچے رت جگے کے حلقوں کو میک اپ نے مہارت سے چھپا دیا تھا ۔۔۔۔۔
آج نور العین کے ساتھ ساتھ دلبرا کی بھی مہندی تھی.. دنوں دوستیں سادگی میں بھی بلا کی خوبصورت لگ رہی تھی..
سارے مہمان گھر میں ہنگامہ برپا کیے ہوئے تھے لڑکیاں ڈھولکی پر ٹپے ماییے طرح طرح کے گیت گا رہی تھیں..
بیچ بیچ میں دونوں کو چھیڑ بھی رہی تھی..
.
عشا کا وقت ہونے والا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی.. دسمبر کی رات تھی ُکہرا چھانے لگا ۔۔۔سب مہمان اس موسم کو کشمیری چائے کے ساتھ خوب انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔۔
مہندی خصوصاً لڑکیوں کے فنکشن ہوتا ہے اس لیے اس میں صرف عورتیں ہی شامل تھیں ۔۔۔۔شہباز تغلق نے زیدان کو کہا تھا کہ حنا کو بھی یہاں چھوڑ جائے تاکہ تینوں دلہنوں کی مہندی مشترکہ طور پر ہو جائے ۔۔۔۔
مگر زیدان کو اپنے کسی سیاسی جماعت کے کام سے آؤٹ آف سٹی جانا پڑ گیا ۔۔۔۔
اور نگہت بیگم نے جب سنا کہ یارق کی ہونے والی دلہن بھی یہاں آئے گی تو وہ اپنے سسر شہباز تغلق سے بولی کہ دلہن کا یوں ایک دن پہلے منہ اٹھا کر اپنے سسرال آجانا معیوب لگتا ہے لوگ کیا کہیں گے ۔۔۔۔اسے آپ رہنے دیں ۔۔۔۔۔تو کچھ سوچتے ہوئے شہباز تغلق نے زیدان سے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا۔۔۔۔۔
لڑکوں کا مہندی کا فنکشن ہونا ضروری نا سمجھا شہباز تغلق نے ۔۔۔۔اسی لیے یارق صبح سے غائب اور فرزام اپنی ڈیوٹی نبھانے پولیس اسٹیشن میں تھا ۔۔۔۔۔۔آج اس کی کوئی ضروری میٹنگ تھی ۔۔۔۔۔
یار نور تم مجھے یہ بتاؤ آخر اور کتنے دن تک اپنا موڈ خراب رکھنے کا ارادہ ہے تمہارا ''
دل جھولے پر نور العین کے برابر میں بیٹھی ہوئی بولی جو پچھلے کچھ دنوں سے اپنا موڈ خراب کئے ہوئے تھی
'' کیوں تمھیں تو خوش ہونا چاہئے ورنہ تمھیں ہی مجھ سے شکایات رہتی ہے کہ میں ہر وقت بولتی رہتی ہوں '
'' تو اب کیا ہوا ؟
وہ نور کی طرف خفگی سے دیکھتی ہوئی بولی
"تم سب جانتے ہوئے بھی یہ سوال کرو گی ۔۔۔۔
دونوں ایک دوسرے سے بلکل مختلف تھی نور العین نرم مزاج تھی تو دوسری طرف دلبرا شوخ چنچل طبیعت کی مالک تھی 'بولڈ سی لڑکی اپنے حق میں لڑنے والی ۔۔۔۔شاید وہ بچپن سے جس جگہ پر رہی تھی یہ اسی ماحول کا اثر تھا ۔۔۔۔سچ کہتے ہیں ماحول انسان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے ۔۔۔۔
'' ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود بھی انکی دوستی قائم تھی ۔۔۔۔۔
'' یار تم اپنی شادی یارق سے نا ہونے کی ناراضگی مجھے مت دکھاؤ اس میں مجھ بیچاری معصوم کا کیا قصور ہے ''؟
دل معصومیت سے بولی تو اسکی شکل دیکھ کر نور العین کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھری جو اسکی شخصیت کا حصّہ تھی '
'' تم تو میری دوست ہو یار اس کی وجہ سے میں تم سے ناراض کیوں ہوں گی بھلا''؟
وہ زور سے اسکے نرم گال کھینچتی ہوئی
بولی۔۔۔۔
تم میرے ہینڈسم بھائی کے ساتھ خوش تو ہو نا ۔۔۔۔۔۔نور نے دل سے فرزام کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔
وہ بندر ۔۔۔۔۔۔دلبرا ۔۔۔۔استزائیہ انداز میں بولی ۔۔۔
تو نور العین نے اسکے ہاتھ پر چپت لگائی تھی ۔۔۔
'' کیا مطلب اب تمہارا وہ واقعی ہینڈسم کزن پلس بھائی ہیں میرے ۔۔۔۔اور وہ بندر ہو گئے ہے تمہارے لئے ''
نور بےیقینی سے اسکی طرف دیکھتی ہوئی بولی '
"تمہیں کیا بتاوں بھائی کزن سب ٹھیک ہوتے ہیں پر جب وہی انسان کسی کے شوہر کا روپ دھار لیتا ہے تو ڈریکولا بن جاتا جو روز اپنی حرکتوں سے بیوی کا خون چوستا ہے ۔۔۔۔۔
بس وہی سمجھ لو میرے ساتھ بھی ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔وہ دل مسوس کر بولی ۔۔۔۔
میں جانتی نہیں جیسے تمہیں دل تم بھی کچھ کم نہیں ہو ۔۔۔۔نور کو فرزام کے بارے میں دل سے ایسے الفاظ سن کر برا لگا ۔۔۔۔
وہ فرزام کو ہمیشہ اپنا بڑا بھائی مانتی تھی ۔
تمہارے دادا جی سچ میں ضرور ہٹلر کے جانشینوں میں سے ایک ہیں ۔۔۔۔۔
تمہارے چہرے کی تحریر نہیں پڑھ سکے ۔۔۔۔دل افسوس ذدہ لہجے سے بولی ۔۔۔۔
تمہیں تمہارا ہونے والا شوہر پسند ہے ؟؟؟
'' ہرگز نہیں مجھے کبھی وہ کھڑوس اور سنجیدہ سا شخص پسند آ ہی نہیں سکتا بات بھی کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ابھی ایک دو تھپڑ لگا دیں گے اس لئے مجھے یارق پسند ہے جو ہر وقت ہنستے مسکراتا رہتا تھا ۔۔۔مگر اب اس کی ہنسی جانے کہاں کھو گئی ۔۔۔۔۔
زیدان کا ذکر آتے ہی اس نے برا سا منہ بنایا جسے دیکھ کر دلبرا کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی
"نور العین کل شادی ہے تمہاری اب شاید کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔کاش میں کچھ کر سکتی تمہارے لیے ۔۔۔۔۔
دلبرا اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پیار بھرے انداز میں بولی۔۔۔۔۔
نور العین کی آنکھوں میں نمی اتری ۔۔۔۔۔دل نے اس کے آنسو امڈنے سے پہلے اسے اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔۔
دونوں کے ہاتھوں اور پاؤں مہندی کے دلکش ڈیزائن سے مزین تھے ۔۔۔۔دونوں نے ہی مہندی کے ڈیزائن میں اپنے ہونے والے شوہروں کا نام نہیں لکھوایا ۔۔۔۔۔
لڑکیاں ڈھولکی بجانے کے ساتھ گانے گا رہی تھیں اور کُچھ لڑکیاں ڈانس کر رہی تھیں یہاں پہ کوئی مرد موجود نہ تھا ان کے سب مرد رشتہ دار باہر موجود تھے کہ یہ صرف عورتوں کا فنکشن ہے۔
رات کے بارہ بجے سب رسم ختم کر کےسو گئے تھے۔۔۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹
یس سر !وہ سلیوٹ کیے مؤدب انداز میں اندر آکر کھڑئے بولا ۔۔۔
سٹ ہئیر جینٹلمین !انہوں نے سامنے رکھی گئی چئیر پر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔
آج پریس کانفرنس تھی ۔۔۔۔جس میں ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ایس ۔پی۔فرزام تغلق بھی شامل تھا ۔۔۔۔۔
ایک خاص کیس پر فرزام تغلق اور علی عمران کام کر رہے تھے ،،،،کل رات ہی علی عمران کا کسی نے بے دردی سے قتل کردیا تھا ۔۔۔
میڈیا نے اس بات کو لے کر کافی ہنگامہ مچا رکھا تھا کہ اس کی قتل کی وجہ ابھی تک سامنے کیوں نہیں لائی گئی ۔۔۔۔۔
انہیں کے سب سوالوں کے جوابات دینے وہ وہاں آئے تھے ۔۔۔۔
اس نے بیٹھ کر اپنی بات کا آغاز کیا ۔۔۔۔۔
ہمیں اپنے ملک میں اپنوں میں ہی چھپے ہوئے دشمنوں کو بے نقاب کرنا ہے ۔
ہمارے ملک کے اصل دشمن وہ لوگ ہے جو اسی زمین پر رہ کر اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہے ہیں اپنے غیر قانونی کاموں کے زریعے غلط دھندوں کے زریعے ... ڈرگز اور .. ہتھیاروں کا کاروبار یہ سب آج کل بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے جسے روکنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہو رہی ہے
اس سب کے پیچھے کچھ جانی مانی ہستیوں کا ہاتھ ہے (جو میں فی الحال پوائنٹ آؤٹ کر کے انہیں کُلو نہیں دینا چاہتا )یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے رتبے اور پیسے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر یہ کام کرتے ہیں انہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا کیونکہ ان کے منہ پہلے ہی پیسوں سے بند کر دیے جاتے ہیں اور کوئی ایماندار آفیسر آگے بڑھ کر شروعات کرتا بھی ہے تو یا اسے ڈرا دھمکا کر روک دیا جاتا ہے یا اس کی زندگی چھین لی جاتی ہے اور ایسے ہی ایماندار اور جانباز افسر تھے ،
علی عمران صاحب جن کا کل رات بے دردی سے قتل کردیا گیا انہوں نے ایک پہل کی تھی اس جرم کی تہہ تک پہنچنے کی اس کے اصل گناہ گاروں کو ان کے انجام تک پہنچانے کی جس سے کئی سارے سفید پوشوں کے بھید سامنے آئے، شاید اسی لیے ان کی آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا لیکن مرتے مرتے بھی انہوں نے اپنا فرض پورا کرنا نہیں چھوڑا ان کے زریعے سے کچھ ایسے ثبوت ہاتھ لگے ہیں جن کی وجہ سے کئی سارے لوگ بے نقاب ہوۓ ہیں پولس نے انہیں ہتھیاروں اور ڈرگس کے ساتھ گرفتار کیا ہے کئی الیگل فیکٹریوں پر تالے لگاۓ گۓ ہیں اور ان کے مالکوں کو حراست میں لئےان سےڈ تفتیش جاری کی ہے.
لیکن یہ تو صرف پیادے ہیں اس سب کے پیچھے اصل گناہ گار تو کوئی اور ہی ہے جنہیں اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے لیکن وہ اب بھی آزاد ہوا میں سانس لے رہے ہیں
ہم نے ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے سچائی کو سامنے لانے کی اور انشاء اللہ بہت جلد ہم اس کے اصل گناہ گاروں تک بھی پہنچ جاۓ گے امید ہے آپ سب اس میں ہمارا ساتھ دینگے
فی الحال کے لیے مجھے اجازت دیجیے۔۔۔۔
تو ناظرین یہ تھے ایس پی فرزام تغلق امید ہے آپ کو آپ کے سوالات کے جوابات مل چکے ہوں گے۔۔۔۔ اگلی بار پھر حاضر ہونگے ایک نئی رپوٹ کے ساتھ جو کچھ اور چہروں کو بے نقاب کرے گی کیونکہ سچ دکھانا ہمارا فرض ہے خدا حافظ
ڈپٹی کمشنر وہاں سے جا چکے تھے ۔۔۔۔
رپورٹر نے مسکرا کر خدا حافظ کہتے ہوۓ اپنی بات ختم کی اور سامنے سے اٹھ گیا سامنے کھڑے شخص نے اسے انگوٹھا دکھاتے ہوۓ ڈن کہا کیمرہ اور ساری لائٹس بند ہوگئیں۔۔۔۔سارا میڈیا وہاں سے نکل گیا ۔۔۔
فرزام سر ..... آپ کو سر نے بلایا ہے
عمر نے آکر اسے اطلاع دی ۔۔۔۔
کیوں ...خیریت ہے ...؟
اس نے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔
پتہ نہیں....سر ۔۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
مے آۓ کم ان سر....
دروازے کو تھوڑا سا وا کرکے اس نے اجازت چاہی
آؤ فرزام ...
میں نے ابھی ابھی تمہاری اور عمران کی تیار کردہ فائل دیکھی.....
انہوں نے بلیک رنگ کی فائل کو دیکھتے ہوۓ کہا
آۓ ایم امپریسڈ....... تم نے جس طرح سے یہ رپورٹ تیار کی ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا تم سچ میں اسے مکمل کرنا چاہو گے ۔۔۔۔۔
کیونکہ یہ بہت رسکی کام ہے جس طرح علی عمران ۔۔۔۔۔اسی طرح تمہیں بھی خطرہ ہے ۔۔۔۔
انہوں نے اس بات پر فرزام کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو غور سے دیکھتے ہوۓ کہا کیونکہ وہ ان لوگوں کے خلاف کام کر رہا تھا جو اندر ہی اندر اپنے ملک کی جڑیں کاٹ کر غلط کاروبار چلا رہے تھے امن کا مقصد ان سب کے خلاف ثبوت اکٹھا کر کے انہیں سزا دلوانے کا تھا
بلکل سر میں یہ کرونگا........ .مجھے کچھ بھی کرنا پڑے میں ان مجرموں کے خلاف ثبوت اکٹھا کرکے ان کے اصل چہرے بے نقاب کر کہ عوام کو دکھاؤں گا۔۔۔۔
اس نے مکمل سنجیدگی اور جوش سے کہا تو مقابل موجود شخصیت نے مسکراکر سر اثبات میں ہلا دیا
گڈ....
یہ اتنا آسان نہیں ہوگا فرزام ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا .... اس کا انجام جانتے ہو نا تم.... وہ لوگ بہت پاورفل ہے کچھ بھی کرسکتے ہے تمہیں بہت سنبھل کر رہنا پڑے گا
انہوں نے اسے آگاہ کرتے ہوۓ کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جہاں پیسے کا زور نہیں چلتا وہاں وہ لوگ جان کے دشمن بن جاتے ہیں
انجام کا ڈر ہوتا تو کبھی اس فیلڈ میں قدم نہیں رکھتا سر اگر یہ راستہ چنا ہے تو خود سے وعدہ بھی کیا ہے کہ اپنا کام پوری محنت اور ایمانداری سے کروں گا بناء انجام کی پرواہ کیے۔۔۔۔
اوکے سر....
ٹھیک پھر اپنے طریقے سے جو کرنا ہے کرو میری طرف سے پرمیشن ہے تمہیں ......اور اگر کوئی پرابلم ہوئی تو میں دیکھ لوں گا ۔۔۔
ایک اہم ڈیوائس جو ہاتھ لگی ہے اس کیس کے اہم ثبوت کے طور پر وہ ہمیں کل مل جائے گی ۔۔۔۔اس کی حفاظت کرنا اب تمہاری ذمہ داری ہے ورنہ بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔۔۔۔
جی سر ڈونٹ وری میں خیال رکھوں گا ۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹
سب لوگ ہال پہنچ چکے تھے ۔۔۔ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب تھا۔۔۔ضماد تغلق ہر کام خود دیکھ رہے تھے۔۔کہ کسی چیز میں کوئی کمی نہ رہے۔۔۔ انہوں نے سفید کلر کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔۔۔۔نگہت بیگم بھی نفیس سا جوڑا زیب تن کیے انتظامات دیکھ رہی تھیں ۔جبکہ شہباز تغلق سٹیج پر رکھے صوفوں میں سے ایک پر پوری شان و شوکت سے براجمان تھے ۔۔۔
اور ہر آنے والا مہمان باقاعدہ طور پر ان سے ملنے وہاں آرہا تھا ،ان کے دور کے تمام بزنس مین ،ضماد تغلق کے تمام دوست اور سوسائٹی کے جاننے والے سب مدعو تھے ،ایک بہت بڑی تعداد تھی گیسٹ کی ۔
دلبرا اور فرزام کا ریسپیشن بھی ساتھ تھا ۔۔۔دونوں دلہنیں پارلر سے تیار ہوکہ آ چکیں تھیں۔۔۔۔
نور العین نے ڈیپ ریڈ کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا جس پر گولڈن کلر کا دیدہ زیب کام کیا گیا تھا اور اس کا پرس بھی گولڈن کلر کا تھا ،ڈیپ ریڈ میک میں گولڈ کی جیولری پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
جبکہ دلبرا نے بلیو کلر کا شرارہ پہنا ہوا تھا اور بالوں میں پرمز کر کے کھلے چھوڑ دیئے تھے،دوپٹہ اچھے سے سیٹ کیے مانگ ٹیکا لگائے شاکنگ پنک کلر کے میک اپ میں غضب ڈھا رہی تھی۔دونوں ایک ساتھ برائیڈل روم میں موجود تھیں ،
فرزام اور یارق دونوں ایک جیسے تھری پیس بلیک کلر کے سوٹس میں ملبوس تھے بس شرٹس اور ٹائی کا رنگ الگ تھا ،فرزام کا بلیو اور یارق گرے تھا ،
نگہت بیگم نے یارق۔فرزام اور زیدان تینوں کے لیے ایک جیسے تھری پیس سوٹ آرڈر کیے تھے ،زیدان اور حنا کو اُن کے ڈریسز بھیج چکی تھیں۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹
السلام علیکم سر !
وعلیکم السلام!
زیدان نے فون کرنے والے کو جوابا کہا۔
سر فیکٹری میں ورکرز نے سٹرائیک کر دی ہے ،آپ فورا یہاں پہنچیے۔۔۔۔ہم کنٹرول سے باہر ہے سچویشن ۔۔۔انہوں نے گیٹ کے سامنے ٹائرز جلا کر ہنگامہ کھڑا کررکھا ۔۔۔۔
نعرے بازی اور پتھراؤ کر رہے ہیں تنخواہیں بڑھانے کے لیے ۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں ۔۔۔۔زیدان نے اپنے فیکٹری کے مینجر سے کہا ۔۔۔۔
اس نے فون پر وقت دیکھا ۔۔اس وقت سات بج رہے تھے ۔۔۔
""ہممممم ۔۔۔ابھی ایک گھنٹہ ہے نکاح کے وقت میں اتنی دیر میں واپس آ جاؤں گا ۔۔۔۔
وہ خودی سے مخاطب کیے بولا ۔۔۔۔
نسیم سنو ۔۔۔۔۔
جی صاب !
وہ کدھر ہے ؟؟؟
کون صاب ؟؟؟
وہی بچی ۔۔۔۔
صاب کون سی بچی ؟؟؟
یار ۔۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا ۔۔۔۔۔وہ پیشانی کو مسلتے ہوئے پریشانی سے بولا ۔۔۔۔
ہاں یاد آیا حنا کہاں ہے ؟
صاب اب وہ بچی نہیں ہیں بڑی ہو گئیں ہیں ۔۔۔۔
اسے بلاؤ پارلر چھوڑ دوں جاتے ہوئے ۔۔۔۔
ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے ۔۔۔۔۔
صاب جی ڈرائیور کی بیوی بیمار ہے ہاسپٹل میں ہے وہ آج نہیں آسکے گا ۔۔۔۔اس نے کہا تھا کہ آپ کو پیغام دے دوں ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے تم حنا سے کہو پانچ منٹ تک چیزیں سمیٹ کر باہر آئے ۔۔۔۔
جی صاب ۔۔۔۔
"ایسا کرتا ہوں ریڈی ہو جاتا ہوں ،فیکٹری سے ہو کر سیدھا ہال میں پہنچ جاؤں گا ۔۔۔۔
سوچتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
حنا اپنا ڈریس اور میچنگ چیزیں لیے باہر کھڑی تھی ۔۔۔
وہ اوپر سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔۔۔۔
بلیک کلر کے تھری پیس سوٹ میں بلیک شرٹ اور بلیک ہی ٹائی لگائے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ،چمکتے ہوئے شوز ،
حنا نے اسے دلچسپ نگاہوں سے دیکھا۔۔۔۔
کھڑی ستواں ناک جیسے اس کی وجہہ شخصیت کو مغرور بنا رہی تھی ،چہرے پر تازہ شیو کی وجہ سے سفید رنگت میں ہری رگیں نمایاں تھیں۔مونچھوں تلے لب پیوست کیے وہ ساحر اس کے حواس ہلا گیا ۔۔۔۔
حنان کدھر ہے ؟؟؟اس نے براہ راست حنا سے سوال کیا ۔۔۔۔
وہ سو رہا ہے ،
یہ کون سا وقت ہے سونے کا ؟؟؟
وہ میں باتھ لینے گئی تھی ،کھیل رہا تھا جانے کب کھیلتے کھیلتے سو گیا ۔۔۔۔
"وہ تیار ہے ؟؟؟
نہیں ابھی تیار نہیں کیا تھا اسے ۔۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔۔ایسا کرو میں تمہیں پارلر چھوڑ دیتا ہوں ۔واپسی پر تمہیں پک کر لوں گا ۔۔۔۔
نسیم گھر میں حنان کا دھیان رکھے گی ۔
نسیم ۔۔۔۔وہ اسے آواز دے کر بلانے لگا ۔
جی صاب !!!
نسیم حنان گھر میں ہے ،آپ اسے تیار کر دینا جب بھی اٹھے ،
مجھے کچھ کام ہے ،اور یہ پارلر جا رہی ہیں۔واپسی پر میں انہیں لیتے ہوئے گھر آؤں گا پھر حنان کو ساتھ لے کر میرج ہال چلے جائیں گے۔تب تک آپ بھی تیار ہو جائیں۔۔۔
صاب جی میں بھی ۔۔۔وہ حیرت سے بولی ۔
کیوں کیا ہوا تم شادی میں شریک نہیں ہو گی ۔۔۔۔
بہت شکریہ صاب آپ نے مجھے اس قابل سمجھا ۔۔۔۔وہ ممنون لہجے میں بولی۔۔۔
وہ اسے پارلر چھوڑ کر خود فیکٹری کے راستے پر گامزن ہوا۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹
آٹھ بجکر تیس منٹ ہو چکے تھے مگر زیدان اور حنا کا کوئی اتہ پتہ نا تھا ،
سب مہمان اب نکاح کا انتظار کرنے لگے ۔۔۔۔بار بار پوچھ رہے تھے کہ رسم کب شروع ہو گی ۔۔۔۔شہباز تغلق پریشان تھے ۔۔۔۔۔
ضماد بات سنو ۔۔۔۔انہوں نے انہیں آواز دے کر اپنے پاس بلایا ۔۔۔۔
جی بابا ۔۔۔۔
ضماد ایسا کرو پہلے فرزام کو کہو وہ اپنی دلہن کے ساتھ سٹیج پر آئے ۔۔۔۔ان کے ریسپیشن کی تقریب ہو جائے اتنی دیر میں زیدان بھی آجائے گا ،پھر نکاح کرلیں گے ۔۔۔۔
جی بابا جان میں کہتا ہوں اسے ۔۔۔۔
ضماد تغلق نے نگہت بیگم سے بات کی تو وہ دلبرا کو تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔
چلو روم سے باہر ۔۔۔فرزام باہر آرہا ہے ۔اس کے ساتھ جا کر سٹیج پر بیٹھو ۔۔۔۔
دلبرا برائیڈل روم سے باہر نکلی تو فرزام جو اسے ہی لینے آرہا تھا ۔۔۔اسے یوں سجے سنورے ہوئے دیکھ کر ٹھٹھکا۔۔۔۔
غیر معمولی حسن کی ملکہ کا حسن آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا ۔۔۔
پھر سر جھٹک کر بنا کچھ کہے اس کے ہاتھ کی انگلیاں اپنے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسائے ہوئے ۔۔۔۔ساتھ لیے سٹیج کی طرف آیا۔۔۔۔
سب اس شاندار کپل کو دیکھ کر سراہنے لگے جو ایک جیسے بلیو کلر میں ملبوس چاند سورج کی جوڑی کے مترادف لگے ۔۔۔۔
وہ ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے بالآخر سٹیج پر جا کر بیٹھے تو مہمان باری باری وہاں آکر انہیں وشز اور تحائف دینے کرنے لگے ۔۔۔۔۔
اس کاروائی میں بھی ایک گھنٹہ گزر گیا ۔۔۔
یارق اپنے آفس کے ورکرز کے ساتھ پیچھے بیٹھا تھا ۔۔۔۔تاکہ نمایاں نا ہو ۔۔۔۔
اب تو شہباز تغلق کو بھی پریشانی نے آن گھیرا ۔۔۔۔۔
زیدان کو کال پہ کال ملا رہے تھے مگر فون ان ریچ ایبل آرہا تھا۔۔۔۔
گھر لینڈ لائن پر فون کیا تو وہاں بھی کوئی فون بج بج کر خاموش ہو جاتا مگر کوئی ریسو نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
ضماد اور شہباز تغلق دونوں ہی کافی بار ٹرائی کر چکے تھے ۔۔۔۔
مہمان باری باری آکر پوچھنے لگے کہ نکاح کیوں نہیں ہو رہا ۔۔۔۔۔ہمیں واپس بھی جانا ہے بہت دیر ہو گئی ہے ،اور کچھ لوگ تو وہاں کھڑے طرح طرح کی باتیں بنانے لگے ۔۔۔۔۔
جو شہباز تغلق کے کانوں سے مخفی نا رہ سکیں ۔۔۔۔۔
وہ اب کی بار لوگوں کی باتیں سن کر آگ بگولہ ہوئے ۔۔۔۔
چہرے پر ضبط کی سرخی چھائی تھی ۔۔۔۔
یہ تم نے اچھا نہیں کیا زیدان ۔۔۔۔۔اگر شادی نہیں کرنی تھی تو اتنے لوگوں کے سامنے میرا تماشا تو نا بنواتے ۔۔۔۔۔وہ تلخ انداز میں بولے ۔۔۔
فرزام سٹیج سے اتر کر ان کے پاس آیا ۔۔۔
کیا ہوا دادا جان؟
فرزام یارق سے بولو سٹیج پر آئے ۔۔۔۔
مگر دادا جان اس کی دلہن تو ابھی تک آئی نہیں ۔۔۔۔
اقبال صاحب ۔۔۔۔آپ نکاح نامہ پر دلہن کا نام تبدیل کریں ۔۔۔۔۔
مولانا اقبال صاحب نے اچنبھے سے شہباز تغلق کی طرف دیکھا کہ اب وہ کون سا نیا فیصلہ لینے والے ہیں ۔۔۔۔۔
ضماد یارق کا نکاح نور سے ہو گا ابھی اور اسی وقت ۔۔۔۔شہباز تغلق سپاٹ لہجے میں بولے ۔۔۔۔
مگر بابا جان نور کا تو زید۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ ضماد بات مکمل کرتے انہوں نے ہاتھ اٹھا کر انہیں مزید بولنے سے روکا ۔۔۔۔۔
زیدان کی کوئی بات نہیں ہوگی مزید ۔۔۔۔۔
وہ قہر برساتی نظروں سے دیکھ کر سرد لہجے میں بولے ۔
بابا جان آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔۔۔میں اپنی بیٹی کی شادی ہر گز یارق سے نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔۔بالاخر نگہت بیگم ان کے اس فیصلے پہ چپ نا رہتے ہوئے ہمت جُٹا کر بول اٹھی ۔۔۔۔
"ہم نے کب اختیار دیا ہے گھر کی عورتوں کو مردوں کے فیصلوں میں بولنے کا ۔۔۔۔؟وہ اکھڑ لہجے میں بولے ۔۔۔۔
یہاں بات میری بیٹی کی ہے میں چپ نہیں رہوں گی ۔۔۔۔۔وہ چلائی۔۔۔تو کچھ مہمان ان کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔
"بہو خاموش رہو ۔۔۔۔وہ آنکھیں دکھا کر بولے ۔۔۔
ٹھیک ہے میری بھی ایک شرط ہے اگر نور کا نکاح یارق سے ہوگا تو حق مہر میں ایک کروڑ لکھنا ہو گا ۔۔۔۔
"کیا فضول ہانک رہی ہو ۔۔۔۔ضماد تغلق نے نگہت بیگم کو گُھرکا۔۔۔۔
"ٹھیک ہے ،وہ بنا چوں چراں کیے اس کی بات مان گئے ۔۔۔میرا سب کچھ یارق کا ہی ہے ۔۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔۔۔
اقبال صاحب کے ساتھ شہباز تغلق اور ضماد تغلق تینوں برائیڈل روم میں گئے ۔۔۔۔
جہاں نور العین تھی ۔۔۔۔نگہت بیگم بھی ان کے پیچھے گئی ۔۔۔۔
نور العین بنت ضماد تغلق کیا آپ کو یارق تغلق ولد فریاد تغلق بعوض حق مہر ایک کروڑ سکہ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے ۔۔۔۔
نور العین جو دم سادھے بیٹھی تھی ۔۔۔
یارق کا نام سن کر گھونگھٹ میں اس کی آنکھیں پوری طرح سے کُھلیں ۔۔۔اور رواں رواں کان بن گیا ۔۔۔۔
جب یہی الفاظ مولانا صاحب نے دوسری طرف دوہرائے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا۔۔۔۔
کیا دعائیں یوں بھی قبولیت کا درجہ پاتی ہیں ۔۔۔اسے یقین کرنا مشکل لگا ۔۔۔۔
ضماد تغلق نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اس نے قبول ہے کہا ۔۔۔۔
دوسری طرف جب یارق سے بھی نکاح کے کلمات دہرائے تو وہ بھی ایک پل کے لیے شاک ہوا نور کا نام سن کر ۔۔۔۔مگر شہباز تغلق کے تنے نقوش دیکھتے ہوئے، وقت کی نزاکت اور اتنے مہمانوں کو دیکھ کر وہ حامی بھر گیا۔۔۔
دونوں طرف سے ایجاب و قبول کا سلسلہ ختم ہوا تو سب نے ہاتھ اٹھا کر ان کی آنے والی زندگی کے لیے اجتماعی دعا کی ۔۔۔۔
ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا ۔۔۔نکاح کی رسم ادا ہوتے ہی سب ڈنر سے محذوذ ہونے لگے ۔۔۔۔
نور العین کو نگہت بیگم اپنے ساتھ سٹیج پر لائی اور یارق کے ساتھ بٹھا دیا۔۔۔۔
یارق نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اسے نہیں دیکھا ۔۔۔۔نظریں سٹیج کے قالین پر ٹکی تھیں ۔۔۔۔۔
قرآن کریم کے سائے میں پیچھے سے آڈیو اللّٰہ تعالیٰ کے نام پڑھے جا رہے تھے ۔۔۔۔تو نور العین کی رخصتی کی رسم ادا کی گئی۔۔۔۔
وہ اسی گھر سے رخصت ہو کر اسی گھر میں واپس آگئی بس بدلا تو صرف کمرہ ۔۔۔۔
وہی کمرہ جس میں آنے کا اس نے بچپن سے خواب دیکھا تھا ۔۔۔۔
زیدان تغلق فیکٹری پہنچا تو باہر ورکز کی بھیڑ لگی تھی جن میں سے کئی نے ہاتھوں میں ہاکی اور بیٹ پکڑ رکھے تھے جبکہ کچھ لوگ پتھراؤ سے سارے بیرونی شیشے توڑ چکے تھے ۔۔۔۔۔
زیدان کو گاڑی سے نکلتے دیکھ سب وہیں رکے ۔۔۔۔۔
اس نے باہر نکل کر ایک سرسری سی نظر فیکٹری کی حالت پر ڈالی پھر ورکرز کی طرف دیکھا۔۔۔۔
"ہماری مانگیں پوری کرو ۔۔۔
ہماری مانگیں پوری کرو کی نعرہ بازی کرنے لگے ۔۔۔۔۔
اس نے ہاتھ اٹھا کر انہیں خاموش ہونے کے لیے کہا ۔۔۔۔۔
آپ لوگوں کی جو بھی ڈیمانڈز تھی آپ وہ مجھے تحمل سے بھی بتا سکتے تھے ۔
میں نے کب انکار کیا ۔۔۔۔؟
مگر یوں میری فیکٹری کا نقصان کر کہ آپ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار چکے ہیں۔
میں چاہوں تو ایک لمحے میں یہ فیکٹری بند کر کہ آپ سب کو فارغ کردوں ۔۔۔۔
میرے لیے یہ نقصان کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔
نقصان آپ لوگوں کاہو گا آپ لوگ جاب سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔۔۔۔
اس فیکٹری کو شروع کرنے کا مقصد غریب عوام کو روزگار مہیا کرنا تھا ۔۔۔۔
آپ پہلے چاہے کسی بھی قسم کی فیکٹریوں کے تجربات سے گزر چکے ہوں ۔۔۔۔یہاں ایسا نہیں ہوتا ۔۔۔۔یہاں حالات زرا مختلف ہیں۔
میں کسی کا حق غصب نہیں کرتا۔میں اسے بات پر عمل کرتا ہوں "اپنی طاقت کا زور وہاں دکھاؤ جہاں اس کی ضرورت ہو "
ابھی تو فیکٹری کو شروع ہوئے کچھ عرصہ ہی ہوا ہے ۔کچھ کام بڑھ جائے تو آپ لوگوں تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔۔۔۔
باقی آپ لوگوں کی مرضی جیسا آپ چاہیں۔۔۔
اگر یہاں کام نہیں کرنا چاہتے تو شوق سے جا سکتے ہیں۔"
وہ سب اس کی باتیں سن کر خاموشی سے سر جھکا گئے ۔۔۔۔
ہر جگہ ایک قسم کے لوگ نہیں پائے جاتے۔۔۔
وہ کہہ کر مڑا ہی تھا ۔۔۔۔کہ پیچھے سے مختلف آوازیں سنائی دیں۔۔۔۔
سوری سر آئندہ نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔
وہ پلٹ کر تھوڑا سا مسکرایا ۔۔۔۔
آپ لوگوں نے سمجھا یہی بہت بڑی بات ہے معزرت کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔
آپ لوگوں کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کرتا ہوں ۔۔۔۔۔
سب خوشی سے جھوم کر اس کی طرف بڑھے اور تشکر آمیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے ہاتھ ملا کر شکریہ ادا کرنے لگے ۔۔۔۔
اس نے موبائل پر وقت دیکھا جو ساڑھے آٹھ دکھا رہا تھا ۔۔۔۔
وہ جلدی سے وہاں سے نکلا اور گاڑی پارلر کے راستے پر ڈالی ۔۔۔۔
ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ پارلر کے باہر پہنچا ۔۔۔۔باہر کھڑے گارڈ کو اپنا نام بتا کر حنا کو اندر سے آنے کے لیے پیغام بھیجا ۔۔۔۔۔
وہ اپنے نازک وجود پر سجا بھاری بھرکم سنہری لہنگا سنبھالتی ہوئی سہج سہج کر قدم اٹھاتے ہوئے اس طرف آ رہی تھی ۔۔۔۔رات ہونے کی وجہ سے زیادہ روشنی نا تھی ۔۔۔زیدان نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا ۔۔۔۔
"ابھی حنان اور نسیم کو بھی گھر سے لینا ہے نو بج گئے۔۔۔۔وہ حنا کے اندر بیٹھتے ہی سٹئرنگ گھمائے گاڑی کا رخ موڑ چکا تھا ۔
اور گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی پانچ منٹ میں وہ گھر کے سامنے تھے ۔۔۔۔۔۔
"تم یہیں رکو میں حنان اور نسیم کو لے کر آتا ہوں وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے ہوئے بنا اسے دیکھے کہہ کر اندر چلا گیا ۔۔۔۔۔
گھر کی ابتر حالت دیکھ وہ پریشانی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔۔۔
سارے شوپیس ٹوٹے ہوئے ۔۔۔۔کانچ بکھرے ہوئے ۔۔۔جیسے کسی نے جان بوجھ کر سب توڑا ہو ۔۔۔۔۔
وہ بھاگ کر ہر کمرہ چھاننے لگا ۔۔۔۔۔
مگر حنان اور نسیم اسے کہیں بھی نظر نہیں آئے ۔۔۔۔۔
وہ انہیں ڈھونڈتے ہوئے لان کے پچھلے حصے کی طرف گیا ۔۔۔۔
جہاں نسیم زخمی حالت میں گھاس پر گری ہوئی تھی ۔۔۔۔
پیشانی سے خون رس رہا تھا ۔۔۔۔۔جسم پر تشدد کے نشانات تھے جیسے اسے بری طرح پیٹا گیا تھا ۔۔۔۔۔
زیدان نے فورا آگے بڑھ کر اسے سہارا دئیے اٹھایا ۔۔۔۔
نسیم حنان کہاں ہے ؟؟؟وہ بے چینی سے بولا ۔
صاب وہ لوگ حنان کو لے گئے ۔۔۔
کون لوگ تھے وہ ۔۔۔۔بتاو مجھے ۔۔۔۔۔؟
صاب مجھے نہیں پتہ وہ دس بارہ کوئی غنڈے تھے۔۔۔۔۔۔
وہ اسے مجھ سے چھین کر لے گئے ۔۔۔۔۔
کہاں لے گئے ۔۔۔۔۔؟
صاب یہ تو مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔وہ بے بسی سے بولی ۔۔۔۔
زیدان نے غصے میں پاؤں کی ٹھوکر سے پاس پڑا ہوا پتھر ہوا میں اچھالا ۔۔۔۔
اس کی پاکٹ میں موجود موبائل رنگ کرنے لگا ۔۔۔۔۔
اس نے فورا وہ اٹھا کر کان سے لگایا ۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔۔
"اوئے ایم۔این۔اے ۔۔۔۔یہ ہیلو شیلو بعد میں کرنا پہلے اپنے مشوم (معصوم )سے بچے کو تو ڈھونڈھ لے۔۔۔۔استہزائیہ انداز میں کہہ کر وہ قہقہہ لگایا تھا ۔۔۔۔
کون ہے تو باسٹرڈ۔۔۔۔۔
سامنے آ۔۔۔۔۔۔
اس کا غصے سے سرخ چہرہ فشار خون اگلتا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔۔
ابے ۔۔۔۔انگریجی بابو اپن کو ضرور تو انگریجی میں گالیاں دے رہا ہو گا ۔۔۔۔
چل دے لے ۔۔۔۔
بکواس بند کر ۔۔۔اور بتا میرا بیٹا کہاں ہے ؟؟وہ مٹھیاں بھینچ کر غرایا۔۔۔۔
جیسے اس کا بس نہ چل رہا تھا کہ فون سے نکل کر اس انسان کا منہ توڑ دے ۔۔۔۔
جگہ بھیج رہا ہوں ۔۔۔۔پچاس لاکھ لے کر اس جگہ پہنچ ۔۔۔۔تیرے پاس اس کام کے لیے صرف دس منٹ ہیں ۔۔۔۔۔ورنہ گیارہواں منٹ تیرے بچے کا اس دنیا میں آخری منٹ ہوگا ۔۔۔۔
وہ اسے دھمکاتا ہوا فون بند کر گیا۔۔۔۔۔
نسیم آپ پلیز ہمت کر کہ کسی قریبی ہسپتال چلی جائیں اپنا علاج کروائیں ۔۔۔۔اس وقت میرا حنان کے پاس جانا زیادہ ضروری ہے۔۔۔۔وہ کوٹ کے بٹن کھول کر اسے اتار کر وہیں پھینکتے ہوئے گیٹ کی طرف بھاگا۔۔۔۔
پورے جسم وقت شعلوں کی لپیٹ میں تھا ۔۔
ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا وہ گاڑی سٹارٹ کیے اسے بھگا چکا تھا۔۔۔۔
حنا جو پیچھے بیٹھی ان سب کے انتظار میں آنکھیں موندے ہوئے تھی ۔۔۔۔
گاڑی پھر سے چلتی دیکھی تو حیرانی سے ارد گرد دیکھا۔۔۔۔
گاڑی میں اس کے اور زیدان کے علاؤہ اور کوئی نہیں تھا۔۔۔۔
آپ حنان کو نہیں لائے؟ ۔۔۔۔وہ ہمت جٹائے بالآخر پوچھ بیٹھی جو ایک ہاتھ سے خطرناک ڈرائیونگ کرتے ہوئے دوسری ہاتھ سے گلے میں موجود ٹائی کو جھنجھلا کراتارتے ہوئے دوسری سیٹ پر پھینک چکا تھا۔۔۔۔
گاڑی تیزی سے سڑک پر بھاگتی ہوئی بری طرح ڈول رہی تھی۔۔۔۔۔
وہ گاڑی کے دروازے کے ساتھ چپک کر اس کو زور سے پکڑ گئی۔۔۔۔
زیدان نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔۔۔
جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔۔۔۔اس کا دماغ کھول رہا تھا اس وقت ۔۔۔۔
موبائل پر وقت دیکھا وہ پورے آٹھ منٹ میں اس بتائے گئے پتے پر پہنچ چکا تھا۔۔۔۔
باہر نکل کر اس نے اسی نمبر پر کال بیک کی۔۔۔پہلی بیل پر کال ریسیو کر لی گئی۔۔۔۔
جیسے جیسے کہوں ویسے ویسے آگے بڑھتے جاؤ ۔۔۔۔وہ زیدان کو فون پر ہدایات دینے لگا
زیدان کچھ یاد آنے پر فون کے سپیکر پر ہاتھ رکھے تھوڑا سا نیچے جھکا ۔۔۔۔
یہیں رکنا گاڑی اندر سے لاک کر لو۔۔۔۔جب تک میں باہر نا آؤں ہلنا مت یہاں سے۔۔۔۔
اندر آنے کی کوشش نا کرنا۔۔۔
حنا حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔آخر بات کیا ہے وہ کیوں اسے نہیں بتا رہا ۔۔۔۔۔
زیدان چلتا ہوا ایک خالی بلڈنگ کے اندر داخل ہوا جو شہر سے زرا سی دوری پر تھی ۔۔۔جہاں عام لوگوں کی موجودگی بہت کم تھی ۔۔۔۔
وہ ہال نما کمرے کےدروازے میں قدم رکھنے لگا تو کسی نے پیچھے سے اس پر وار کیا۔۔۔۔
موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرا۔۔۔۔
وہ پل میں خود کو سنبھال گیا۔۔۔۔۔
"آگئے اپنی موت کو گلے لگانے ۔"وہاں موجود آدمی مغرور لہجے میں بولتا ٹریگر دبا گیا تھا اور زیدان لمحے کے ہزارویں حصے کے اندر نیچے ہواتھا۔
حنان کی بے ساختہ چیخیں گونجیں ۔۔۔
زیدان نے حنان کی چیخیں سن کر اسے ڈھونڈا ۔۔۔
ان ظالموں نے اس ننھی سی جان کو اتنی ٹھنڈ میں ننگے بدن الٹا لٹکا رہا تھا ۔۔۔۔
پیروں میں رسیاں باندھے الٹا لٹکا تھا ۔۔۔۔
اور وہ درد کی شدت اور خوف کے باعث دھاڑیں مارتے ہوئے رو رہا تھا ۔۔۔۔
زیدان کا دل اسے اس حالت میں دیکھ کر چلنا بند ہوا۔۔۔۔
وہاں موجود آدمی گولی کے نشانے کو خالی جاتے دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب چکے تھے۔ان کی غفلت کا یہی لمحہ زیدان نے ضائع کیے بنا نیچے گرے ہوئے لکڑی کے ڈنڈے کو جھک کر اچکتے ہوئے اوپر اٹھا۔۔۔ اور سامنے کھڑے شخص کی طرف نشانہ تاکتے ہوئے پھینکا ۔۔۔۔
گن اس کے ہاتھ سے نیچے گری۔۔۔۔وہ تیر کی تیزی سے بھاگ کر اس گن کو اٹھا چکا تھا ۔سب آدمی اس کی طرف بڑھے ۔۔۔۔۔
زیدان نے ایک ہاتھ سے پسٹل کو دائیں طرف کھڑے آدمی پر تان کراس کے بازو پر گولی ماری ۔۔۔۔پھر اپنی طرف بڑھتے ہوئے دوسرے آدمی کو بھی ۔۔۔۔۔بازو پر گولی لگی تھی جس سے اس نے پسٹل پکڑی تھی۔۔۔۔یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ وہ سب بوکھلا کر رہ گئے تھے۔ایک تو ویسے ہی گر چکا تھا جبکہ دوسرا حواس باختہ ہو کر زیدان کو دیکھا رہا تھا۔زیدان چل کے اس آدمی کے قریب آیا۔۔۔۔۔
"آئیندہ یاد رکھنا جس کی موت جس وقت مقرر ہو اسی وقت آتی ہے۔تم جیسے گیدڑ خدا نہیں جو کسی کی موت کا وقت تعین کرو۔"وہ دھاڑا ۔۔۔اپنی طاقت کے استعمال کا وقت آتے دیکھ وہ ان پر ابل پڑا۔۔۔۔۔
زور دارا کک مار کر سامنے سےآتے شخص کو گرایا اور گھوم کر اس کے سینے پر اپنا پاؤں اٹھا کر مارا۔۔۔۔وہ دور جا گرا۔۔۔
اس کے ساتھیوں میں سے ایک کا بازو پکڑ کر مروڑ گیا ۔۔۔وہ باری باری اس کے سامنے آ رہے تھے ۔۔۔۔زیدان نے کسی پر زور دار پنچ سے پے در پہ وار کرتا چلا گیا ۔۔۔تو کسی کے بازو یا پاؤں پر گولی چلائی ۔۔۔۔وہ بھی جوابا اس پر وار کر رہے تھے ۔۔۔
اس کے جسم پر کافی گھاؤ آئے ۔۔۔مگر اپنے بیٹے کے آگے یہ کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔
کاشی نے جب دیکھا کہ وہ اکیلا سب پر بھاری پڑ رہا ہے تو اس نے رسی کو ڈھیل دیتے ہوئے زیدان کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔۔۔
"چھوڑ دو سب کو ورنہ نیچے دیکھو ۔۔۔تیزاب کا ڈرم اس میں پھینک دوں گا۔۔۔۔
ہڈیاں بھی نہیں ملیں گے تمہیں اپنے بیٹے کی ۔۔۔۔۔وہ زیدان کو دھمکاتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
زیدان سے حنان کی چیخیں برداشت کرنا دوبھر ہو گیا۔۔۔۔۔
جانے کیسے وہ ان سب سے مقابلہ کر رہا تھا ۔۔۔
اپنے بیٹے کو کیسے بچائے ان سے اس نے ارد گرد نظر دوڑائی۔۔۔۔
کچھ راہ سجھائی نہ دیتے ہوئے اس نے گن میں موجود آخری گولی کاشی کی طرف چلائی ۔۔۔اپنے بیٹے کو اتنی اذیت دینے والے کو وہ کسی طور بخشنے کو تیار نا تھا ۔۔۔
اس نے نہیں دیکھا کہ نشانہ کہاں لگا ہے ۔۔۔۔
بس اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر چلا دی ۔۔۔۔
گولی کاشی کے دائیں بازو پر لگی ۔۔۔۔
درد کی شدت سے رسی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی ۔۔۔۔۔
اوپر کھڑے کاشی کا پاؤں سلپ ہوا تو وہ اوپری منزل سے نیچے گرا۔۔۔۔
حنان ہوا میں جھولتا ہوا ۔۔۔۔نیچے گر رہا تھا۔۔۔۔۔
زیدان کی آنکھیں ساکت ہوئے اور دل بھی ۔۔۔۔
وہ بجلی کی رفتار سے بھاگ کر اپنی جگہ سے تھوڑا اوپر کودا اور نیچے گرتے ہوئے حنان کو اپنے مضبوط ہاتھوں سے پکڑ لیا۔۔۔۔
اس نے حنان کو اپنے ساتھ لگایا۔۔۔۔۔اور خود میں زور سے بھینچ لیا۔۔۔۔اس کا رونا کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔وہ بنا سانس لیے مسلسل چیخ رہا تھا ۔۔۔ڈر پوری طرح اس میں سرائیت کر چکا تھا۔۔۔۔۔وہ صدمہ سے باہر ہی نہیں نکل پا رہا تھا۔۔۔۔۔
ٹھنڈ کے باعث سارا جسم نیلا پڑ چکا تھا۔۔۔۔
زیدان نے اپنے شرٹ اتار کر اس کے گرد لپیٹی ۔۔۔۔۔
حنا جو کب سے اس کے باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
اب اور صبر نا کر سکی تو بلڈنگ کے اندر آئی۔۔۔جوں جوں قریب آ رہی تھی ۔۔۔۔حنان کی چیخوں کی آواز سن کر سہم گئی۔۔۔۔
اسے بے قراری سے ادھر ادھر ڈھونڈھنے لگی ۔۔۔
جہاں سے اس کی آواز آرہی تھی ۔۔۔۔۔
وہ اسی کے تعاقب میں تیز رفتاری سےبڑھنے لگی ۔۔۔۔۔
سامنے ہی زیدان حنان کو بازوؤں میں بھرے کھڑا تھا اور اس کے چہرے پر پیار کر رہا تھا۔۔۔۔
اس کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر پھیلیں۔۔۔۔سارا ماحول سمجھ میں آتے اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔۔۔۔
زیدان کا یوں تیزی سے بھاگنا ۔۔۔۔اس کے چہرے کا تناؤ سب کچھ اسے یاد آیا۔۔۔
زیدان کے جسم پر گھاؤ دیکھ کر ۔۔۔۔
وہ لہنگا اٹھا کر بھاگتی ہوئی ۔۔۔تیزی سے ان کی جانب آئی ۔۔۔۔۔
حنان اور زیدان کی دونوں کی طرف دیکھ کر وہ بلا اختیار ان دونوں سے لپٹ گئی۔۔۔۔
اس کا جسم پوری طرح لرز رہا تھا۔۔۔
اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی کچھ ہو جاتا یہ سوچ ہی اس کی جان نکالنے کو کافی تھی۔۔۔۔
زیدان نے اس کو اپنے ساتھ لپٹے ہوں کپکپاتے ہوئے دیکھا تو اسے بچی سمجھ کر تسلی دینے کے لیے اس کے گرد اپنے دوسرے بازو کا حصار بنایا۔۔۔۔
حنا نے بھیگی نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
"سب ٹھیک ہے "زیدان نے اس کی طرف دیکھ کر اسے تسلی دی ۔۔۔۔
حنا نے اس کی گود میں سے حنان کو لے کر اپنے سینے سے لگایا۔۔۔۔۔اور اتنی ٹھنڈ میں گرمائش پہنچانے کی کوشش کی
وہ حنا کو سامنے دیکھ تھوڑا چپ ہوا۔۔۔۔مگر ابھی بھی ہچکیاں لے رہا تھا۔۔۔۔۔
زیدان اور حنا کو باہر جاتے دیکھ کاشی کے کے ساتھی ان کے تعاقب میں جانے لگے تو اس نے انہیں باہر جانے سے روکا۔۔۔
۔
"جانے دو انہیں ان سے اب کاشی نے بدلہ لینے کے لیے پلان بدل دیا ہے ۔۔۔۔۔
دوسال جیل میں کاٹے ہیں ان دونوں کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ایسے کیسے جانے دوں گا ۔۔۔۔
وہ درد میں بھی مسکرایا ۔۔۔اپنے موبائل کو دیکھ کر ۔۔۔۔
زیدان ان دونوں کو اپنے ساتھ لے کر گاڑی میں آیا۔۔۔
"اس کا جسم گرم ہو رہا ہے ۔۔۔۔
اسے بخار ہے پلیز اسے ہاسپٹل لے کر چلیں ۔۔۔
زیدان نے گاڑی کا رخ ہاسپٹل کی طرف کر دیا۔۔۔۔
وہ دونوں جب تک حنان کو ہسپتال لے کر پہنچے وہ نیم بیہوشی میں تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اس کا چیک اپ کیا ۔۔۔۔
"اسے دیکھ کر تو نمونیے کے علامات لگ رہی ہیں ۔۔۔۔
انہوں نے اس کی ٹریٹمینٹ شروع کردی ۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
وہ گھر آنے کے بعد کمرے میں آئی تو کمرہ عجب جھب دکھلا رہا تھا۔۔۔سارے کمرے میں پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔سرخ گلاب کے پھولوں کی پتیوں کی ایک تہہ بستر پر بکھیر دی تھی۔دلبرا کا دل تیزی سے دھڑکا ۔۔۔۔
وہ کوئی بھی لمحہ ضائع کیے بنا فرزام کے آنے سے پہلےچینج کر لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔آخر کو سجاوٹ کی کیا وجہ ؟؟؟؟اس کے دل سوچ کر ہی جھنجھلا گیا ۔۔۔۔وہ چلتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل تک آئی۔دوپٹے کو بڑی مشکل سے اتارا۔پھر ایک ایک کر کے ساری جیولری اتاری۔جوڑا کھولا۔بال برش کیے۔پھر وارڈروب میں سے نور کے دئیے ہوئے کپڑوں میں سے ایک سوٹ نکال کر جلدی سے واشروم میں گھس گئی۔
منہ پر فیس واش سے رگڑ رگڑ کر میک اپ صاف کیا اور کپڑے بدل کر باہر آ گئی۔ٹائم دیکھا تو ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔اس کا سانس اور ہاتھ پاؤں پھولتے جا رہے تھے۔اتنی ٹھنڈ کے باوجود پسینے آ رہے تھے۔اس نے ایک طرف لیٹتے ہوئے جلدی سے کمبل اپنے اوپر اوڑھ لیا۔
دو منٹ میں ہی سارا جسم پسینے میں ڈوب گیا تو گھبرا کر اس نے کمبل کو سینے تک اتار دیا۔۔۔"میں کیوں ڈر رہی ہوں اس سے ؟؟؟اس نے خود سے ہی سوال کیا ۔۔۔مجھے ہاتھ لگا کر تو دکھائے اس پولیس والے کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گی ۔۔۔وہ خود کو ہمت دیتی ہوئی بولی ۔۔۔شاید کمرے میں چھایا فسوں اور تازہ پھولوں کی مہک اسے ڈرا رہی تھی ۔۔۔
ابھی اس نے ایک گہرا سانس بھی نہیں لیا تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔اس کے دل نے ایک کی بجائے کئی بیٹس مس کی تھیں۔وہیں کروٹ کے بل لیٹے، سینے تک کمبل اوڑھے اس نے آنکھیں بند کر لیں اور سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔فرزام کے قدموں کی آواز اس کے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔۔۔
باہر مین گیٹ پر بیل ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔سب شاید فنکشن کے اختتام کے بعد اپنے اپنے کمروں میں تھکان کے باعث آرام کی غرض سے جا چکے تھے ۔۔۔۔۔یارق چھت پر تھا۔۔۔۔آج کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کا دماغ شل ہو گیا۔۔۔۔۔بالاخر وہ نیچے اترا تو بیل کی آواز سن کر گیٹ کی طرف آیا ۔۔۔۔
گیٹ کھولا تو ۔۔۔۔۔ایک شخص کو ایستادہ پایا۔۔۔۔
جی ....
سر یہ فرزام تغلق کے لیے ایک پارسل ہے ۔۔۔۔
لائیے مجھے دے دیں میں ان کا بھائی یارق تغلق ہوں ۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے سر آپ یہاں سائن کردیں۔۔۔۔
اس نے پیپر نکال کر اس کے سامنے کیا تو یارق نے اس پر سائن کر کہ اسے وصول کیا۔۔
سر اس میں کچھ اہم چیز ہے انہیں لازمی دے دیجیے گا۔۔۔۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔۔وہ صرف اتنا ہی بولا اور اندر کی طرف آیا۔۔۔۔۔
فرزام کی نظر اندر قدم رکھتے ہی بستر میں چھپے ہوئے وجود پر پڑی تو دروازہ بند کرنا بھولا ۔۔۔۔۔۔اسے اتنی جلدی کمبل اوڑھے لیٹے دیکھ کر ٹھٹکا۔پھر آہستہ سے چلتا ہوا اس کی طرف آیا تو اس کی بند آنکھوں پر لرزتی پلکوں کی جھالر کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
وہ جان چکا تھا کہ وہ سونے کی ایکٹنگ کر رہی ہے۔وہ وہیں گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اور فرصت سے اسے دیکھنے لگا۔سارے فنکشن میں بھی وہ اپنی خوبصورتی سے اس کی جان نکالنے کے در پہ تھی ۔۔۔اب شفاف دودھیا ملائی جیسے چہرے پر سرخی چھائی ہوئی تھی۔پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں اورخمدار گھنی لرزتی ہوئی پلکیں اس کے حسن کو مزید بڑھا رہی تھی۔وہ بے خود سا اس کے ایک ایک نقش کو دیکھ رہا تھا۔جیسے اس کے چہرے کو آنکھوں میں جذب کر لینا چاہتا ہو۔اس کا دل کیا کہ اس کے چہرے کو چھوئے لیکن اس سر پھری لڑکی سے کچھ بعید نہیں تھا کس پل کیا کر گزرے۔۔۔۔
نظریں بھٹک کر اس کے کٹاؤ دار لبوں سے الجھیں۔۔
وہ دل کے ہاتھوں بے بس ہوئے سب بھلائے اس پر جھکا ۔۔۔۔
اور اس کی دھیمی چلتی ہوئی سانسیں روک دیں۔۔۔۔
دلبرا تو اس کے جارہانہ عمل پر جھٹ پوری آنکھیں کھولے ۔۔۔۔تڑپ اٹھی ۔۔۔۔۔
اسے کہاں امید تھی۔فرزام سے اتنے زیادہ۔۔۔۔۔۔ کی ۔۔۔۔۔
وہ اسے پورا زور لگا کر دھکا دیتے ہوئے خود سے ہٹا گئی ۔۔۔۔
گہرے سانس لیتے ہوئے اٹھ کر بیٹھی ۔۔۔۔
گھٹیا ۔۔۔ٹھرکی ۔۔۔لوفر ۔۔۔ پولیس والے ۔۔۔تم۔۔۔۔تم نا نہایت ہی ۔۔۔۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھ کر جارہانہ طریقے سے بولی ۔۔۔۔۔
"رومینٹک ہو "وہ اس کا جملہ اچک کر مسکراتے ہوئے ایک آنکھ ونگ کیے بولا۔۔۔۔
"ایک طوائف سے عشق کا بھوت کیسے سوار ہوگیا ۔۔۔۔۔؟ظالم انسان کتنی درد ہو رہی ہے مجھے ہونٹوں پر ۔۔۔۔جنگلی ۔وحشی ۔۔۔۔۔کمینے ۔۔۔۔اس نے لبوں پر انگلی رکھی جہاں درد محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔انگلی پر نظر پڑی تو خون کی بوند دکھائی دی ۔۔۔۔۔
"لوگ تو دل بہلانے کوٹھے پر جاتے ہیں ۔۔۔جب گھر پر سارا سامان موجود ہے تو میں نے سوچا کیوں نا فائدہ اٹھا لیا جائے ۔۔۔۔۔
اس کی بات تو دل کے تن بدن میں آگ لگا گئی ۔۔۔۔۔
وہ فورا اپنی جگہ سے اٹھ کر ڈریسر کی طرف آئی اور آئینے میں دیکھا ۔۔۔۔جہاں اچھا خاصا زخم سا دکھائی دینے لگا تھا ۔۔۔
صبح سب مجھ سے پوچھیں گے اس بارے میں ۔۔۔۔۔ہائے اللّٰہ اب کیا کروں ؟؟؟
وہ جھنجھلا کر بولی ۔۔۔۔
کہہ دینا میرے شوہر کے پیار کی نشانی ہے ۔۔۔۔۔
وہ مسکرا کر بولا۔۔۔۔
مائی فٹ پیار کی نشانی ۔۔۔۔۔
وہ تیز قدموں سے اس کی طرف آئی اور اس کا کالر دبوچ کر ایڑیوں کے بل اونچی ہوئی ۔۔۔۔
اور اس کے ہونٹوں پر اپنے دانت گاڑے ۔۔۔۔۔
یارق جو پارسل دینے اس کے کمرے کی طرف آیا کھلا دروازہ دیکھ کر سامنے کا منظر دیکھا۔۔۔۔۔
پارسل اس کے ہاتھ سے چھوٹا ۔۔۔۔۔۔
آنکھیں مزید اس منظر کو دیکھنے سے انکاری ہوئیں۔۔۔۔۔وہ دلگرفتگی سے واپس پلٹا ۔۔۔۔۔
دروازہ کے تھوڑا سائیڈ پر رکھا ہوا گملا اس کے پاؤں کی ٹھوکر سے ٹوٹا ۔۔۔۔۔
وہ تیز قدموں سے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔۔
کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز سن کر فرزام نے اسے پیچھے دھکیلا۔۔۔۔جنگلی بلی تمہارے دانت کتنے تیز ہیں۔۔۔فرزام کے لب سے خون نکلتا دیکھ اسے سکون ملا ۔۔۔۔
وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی ۔۔۔۔۔
اب ہوا نا بدلہ پورا ۔۔۔۔۔
میں تو صرف گھر والوں کے سامنے جوابدہ ہوں ۔۔۔
تم گھر والوں کے علاؤہ تھانے میں بھی سب کو اپنی بیوی کے پیار کی نشانی دکھانا ۔۔۔۔وہ اس کا مذاق اڑانے کے انداز میں بولی۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کی طرف خونخوار لہجے میں بڑھتا ۔۔۔۔دلبرا کمال ہوشیاری اور پھرتی سے واش روم میں گھس گئی۔۔۔۔
وہ تاسف سے سر ہلاتا ہوا اپنے انگوٹھے سے ہونٹ سہلا کر ۔۔۔کمرے کا دروازہ بند کرنے کے لیے وہاں تک آیا تو اس کی نظر اینویلپ پر پڑی ۔۔۔۔۔
وہ اسے جھک کر پکڑتا ہوا سیدھا ہوا۔۔۔۔اس پر اپنا نام دیکھ کر اندر لے آیا ۔۔۔۔اور کبرڈ کا ڈراور کھول کر اندر رکھا ۔۔۔
ابھی تھکاوٹ کے باعث اس کو صبح دیکھنے کا ارادہ کیے ۔۔۔کوٹ اتار کر ہینگ کیا اور آرام دہ سوٹ نکال کر دل کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
"چلو بھئی زیدان تغلق اب دیکھتے ہیں تم میرا کیا بگاڑ لیتے ہو ۔
اگر میں سامنے سے تمہارا مقابلہ نہیں کر سکا اس تو کیا ہوا۔چھپ کر پیچھے سے وار کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں ۔۔
وہ سکون سے سوچتا ہوا ہاسپٹل کےبیڈ پرٹیک لگا گیا تھا ۔اس کے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ آ چکی تھی۔
کاشی ان لوگوں میں سے تھا جو پلان سوچ کر ہی سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو بھی چکے ہیں۔
بنا انجام جانے ہی انہیں لگتا ہے کہ بس اب تو دنیا ان کی مٹھی میں آ چکی ہے۔ یقیناً ایسے لوگ بہت ہی خوش فہم ہوتے ہیں۔اور کاشی بھی انہیں میں سے ایک تھا
رات کا ایک بج چکا تھا ۔۔۔۔نائٹ شفٹ کےڈاکٹرز اسکی ٹریٹمنٹ کر رہے تھے ۔۔۔
حنا دلہن بنی روتے ہوئے اس کا ننھا سا ہاتھ تھامے اس کے پاس کھڑی تھی ۔۔۔۔
جبکہ زیدان اس وقت پینٹ اور بلیک ویسٹ میں بنا اپنی پوزیشن کی پرواہ کیے بنا وہاں کھڑا حنان کے کملائے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اس وقت وہ دونوں سب بھلا چکے تھے کہ انہیں کہاں جانا تھا ۔۔۔
فکر تھی دونوں کو تو بس حنان کی ۔۔۔۔
صبح فجر تک حنان کی حالت میں کچھ بہتری دکھائی دی تو زیدان کو دادا جان کا خیال آیا ۔۔۔۔۔
اس نے پینٹ کی پاکٹ میں سے موبائل ٹٹول کر نکالنا چاہا۔۔۔مگر ندارد۔۔۔۔
اسے یاد آیا کہ وہ تو ہاتھا پائی میں وہیں گر گیا تھا۔۔۔۔۔
وہ ریسپیشن کی طرف گیا اور وہاں سے تغلق ولا کال کی ۔۔
لینڈ لائن پر کسی نے فون اٹینڈ نا کیا۔۔۔۔
پھر اس نے شہباز تغلق (اپنے دادا جان)کو کال کی ۔۔۔۔
انہوں نے غصے میں موبائل بند کر رکھا تھا ۔۔۔۔شاید ۔۔۔۔جو ان ریچ ایبل آرہا تھا۔۔۔
آخری بار اس نے فرزام کو کال ملائی جو تیسری بیل پر ریسو کر لی گئی۔۔۔۔۔
فرزام کو زیدان نے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔۔۔۔تو اس نے پہلے تو پریشانی ظاہر کی پھر اسے تسلی دیتے ہوئے صبح ہوتے دادا جان سے بات کرنے کا کہہ کر تسلی دی۔۔۔۔۔
ہاسٹل کی نرسری سے گرم بلینکٹ لیے وہ حنان کو لپیٹ چکی تھی،،،،
ڈاکٹرز نے انہیں میڈیسنز لکھ دیں،،، اور کچھ ضروری ہدایات بتائیں ۔۔۔۔اب وہ دونوں حنان کو ساتھ لیے گھر کے لیے نکل گئے ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
سارے کمرے میں تازہ گلابوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔نورالعین بیڈ کے درمیان لہنگا پھیلائے بیٹھی تھی۔ہاتھ گود میں رکھے وہ انگلیاں چٹخا رہی تھی۔
بیٹھ بیٹھ کر کمر دُکھ گئی تھی ۔دل ڈر کے مارے زوروں سے دھک دھک کر رہا تھا۔ یارق کی خفگی کا ڈر دل میں آن سمایا تھا۔ساری تقریب کے دوران اسے منہ پھلائے دیکھ کر وہ پریشان ہوئی تھی ۔یہ بات وہ جان چکی تھی اور اب ڈر رہی تھی کہیں اس کی باتیں ہی نہ سننی پڑ جائیں۔
غصہ بھی تو بہت جلدی آ جاتا تھا اسے۔نجانے کتنی ہی دیر وہ اضطراب میں گِھری سر جھکائے بیٹھی رہی تھی۔پھر آخر کار دروازہ کھلا تھا۔اس نے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ چہرہ جھکا لیا۔۔۔۔نور نے آنکھیں بھی بند کر لیں تھیں۔
بس ابھی پڑنے ہی والی ہے ڈانٹ۔۔۔۔ ابھی وہ غصہ دکھائے گا۔وہ پورے یقین کے ساتھ سوچ رہی تھی لیکن کافی دیر تک کوئی آواز نہیں آئی۔اس نے آنکھیں کھول کر کن اکھیوں سے یارق کو دیکھا۔۔۔۔
وہ دروازہ بند کیے اسی دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا آنکھیں موندے ہوئے تھا۔
وہ کچھ بول کیوں نہیں رہا؟اسے اب یہ ٹینشن لگ گئی۔پھر یکدم اس کے زہن میں جھماکا ہوا۔کہیں وہ اس کے بیڈ پر بیٹھنے پر تو غصے نہیں ہو گیا۔وہ ایک جھٹکے سے نیچے اتر کر اس کے سامنے ہی سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔پھولوں کی پتیاں اس کے اٹھنے سے نیچے گریں اور خوشبو میں اضافہ ہوا تھا۔اس کی چوڑیوں اور پائل کی جھنکار سے سارا کمرہ جھنجھنا اٹھا۔۔۔۔
نور العین نے اس کے چہرے کے تاثرات پر غور کرنا چاہا۔۔۔۔
"سوری..... اگر آپ کو برا لگا کہ میں آپ کے بستر پر بیٹھی ۔"وہ جھجھکتے ہوئے بولی تو یارق کی آنکھیں کھلیں جو ضبط کی شدت سے خون چھلکاتے ہوئے سرخی مائل دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔
نورالعین نے ایک نظر اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے پھر جلدی سے بولی۔
"میں نیچے سو جاؤں گی۔آپ مجھے معاف کر دیجیے۔مگر ناراض مت ہوئیے گا"
"اگر آپ کہتے ہیں تو میں واپس اپنے روم میں چلی جاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔
یارق خاموش رہا ۔۔۔۔آخر کہنے کو تھا ہی کیا اس کے پاس ۔۔۔۔۔
"میں آپ کے دوسرے کپڑے نکال دوں؟"وہ اس کے خالی نظروں سے دیکھنے پر وہ جزبز سی ہوتی بولی تھی۔
نئے رشتے کے تحت وہ اسے یارق کی بجائے آپ کہہ رہی تھی معا کہیں اسے یہ بات بھی بری نا لگ جائے کہ وہ اسے نام لے کر کیوں بلا رہی ہے ۔۔۔۔نورالعین کو اس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔اگر اس کے سامنے کھڑی رہی تو ڈانٹ پڑنے کے زیادہ چانسز ہو سکتے تھے۔
اس لیے اس نے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔جب وہ یارق کے قریب سے گزر کر کبرڈ کی طرف بڑھنے لگی تو یارق نے اس کی کلائی زور سے پکڑ لی۔
"آہ!"ڈر کے مارے اس کے منہ سے کراہ نکلی اور حیرت سے چہرہ موڑ کر یارق کی طرف دیکھا۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا کلائی کو کھینچ کر اسی طرح اپنے سامنے لے آیا جیسے وہ پہلے اس کے سامنے کھڑی تھی۔
نور العین کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔وہ سرخ پڑتے چہرے کو جھکا گئی تھی۔اب تو یارق کے تاثرات دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی تھی۔یارق نے اس کی کلائی چھوڑی تو اس نے شکر کا سانس لیا لیکن اگلے ہی پل یارق نے اسے کسی قیمتی متاع کی طرح خود میں شدت سے بھینچ لیا۔۔۔۔۔۔
۔وہ ابھی ٹھیک سے حیران بھی نہیں ہو پائی تھی۔۔۔۔۔
"میں بکھر گیا ہوں مجھے سمیٹ لو ۔۔۔
میں بگڑ گیا ہوں مجھے سنوار دو ۔۔۔۔
اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس کے اندر کے کرب کی آگاہی دے رہے تھے ۔۔۔۔
وہ سرگوشی نما دھیمی آواز میں اس کے کان کے قریب چہرہ کیے بولا۔۔۔۔۔
یارق کے لب اس کے کان کی لو سے مس ہوئے ۔۔۔۔۔
وہ ہربڑا کر بولی ۔۔۔
"میں۔۔۔میں ۔۔ آپ کے ساتھ ہوں "
آپ خود کو تنہا مت سمجھیے ۔۔۔۔میں زندگی کے ہر موڑ پر آپ کا ساتھ دوں گی ۔۔۔یقین رکھیے ۔۔۔۔۔
یارق کا شکستہ سا ڈھیلا پڑتا وجود دیکھ کر وہ اسے سہارا دئیے اپنے ساتھ بستر پر لائی ۔۔۔
"آپ یہاں بیٹھیں "
بھاری بھرکم لہنگا اور اور اوپر سے زرتار آنچل مزید سنبھالنا مشکل ہوا تو خود ڈریسنگ کی طرف بڑھی تیزی سے دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھا پھر خود کو جیولری سے آزاد کیا۔۔۔۔
پہلے سے کچھ بہتری محسوس ہوئی تو واپس یارق کی طرف آئی۔۔۔جو گومگوں کی کیفیت میں ویسے ہی سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔
اس نے قالین پر بیٹھ کر اس کے پاؤں جوتوں سے آزاد کیے ۔۔۔۔پھر اس کا کوٹ اتار کر ایک طرف رکھا۔۔۔۔
"آپ پلیز لیٹ جائیں آپ کو آرام کی ضرورت ہے ۔۔۔۔کہتے ہوئے وہ سائیڈ لیمپ روشن کیے کمرے کی مین لائٹ آف کر گئی۔۔۔۔اس کے آرام کے خیال سے ۔۔۔۔۔
کارپٹ سے اس کے جوتے اٹھا کر شوز سٹینڈ میں رکھنے کے لیے نیچے جھکی تو یارق نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔۔۔
"مجھے سکون چاہیے ۔۔۔۔۔ملے گا ؟؟؟؟
اس کی گھمبیر آواز سن کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنا ہٹ ہوئی ۔۔۔۔
یارق کا سرسراتا ہوا ہاتھ اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔
وہ اس کے چہرے پر جھکا تھا۔اپنے ہونٹوں پر یارق کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر نور کے جسم میں ایک سنسی کی لہر دوڑ گئی تھی۔دل رکنے لگا تھا۔اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں لیکن یارق پر اس کی حالت کا کوئی اثر نہیں تھا۔
وہ اس کی گرفت میں سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگی تھی ۔۔پیشانی پر پسینہ چمکنے لگا تھا دھڑکنوں کی آواز کانوں میں سنائی دینے لگی۔
وہ خود کو کسی اور ہی دنیا میں پہنچا ہوا تصور کر رہی تھی۔ جبکہ یارق اس کے بالوں کو جوڑے سے آزاد کرتا اس کی گردن میں چہرہ چھپا گیا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد جب نور کو اپنی گردن بھیگی ہوئی محسوس ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ رو رہا ہے ۔۔۔۔۔
نور نے اسے رونے دیا ۔۔۔۔۔آج وہ اپنے اندر کا سارا غبار نکال باہر کرے ۔۔۔۔۔
جب غبار چھٹے گا تو ہی اس کے لیے نئی جگہ بن پائے گی ۔۔۔۔۔
وہ اس کے سلکی بکھرے ہوئے بالوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں چلانے لگی ۔۔۔۔۔
یارق شاید ہوش میں نہیں تھا یا آنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔۔یارق کی لو دیتی گرم سانسیں اسے جھلسائے دے رہی تھی ۔۔۔۔۔
یارق نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ لیمپ بھی آف کر دیا اور نور العین کو اس کی گرفت میں کچھ بھی سمجھنے کا موقع نہیں ملا ۔۔۔۔۔
فجر کی آذان نے کانوں میں رس گھولا تو وہ نیند سے بیدار ہوئی ۔۔۔۔چہرے پر کسی کی گرم گرم سانسیں محسوس کر کے اس نے جھٹ پوری آنکھیں کھولیں۔۔۔۔
چونک کر اس نے دیکھا تو یارق کا چہرہ اس کے بالکل پاس ہی تھا۔پھر اسے احساس ہوا کہ وہ اس کے بائیسیپس والے بازو پر سر رکھے لیٹی ہے۔دل نے ایک بیٹ مس کی تو وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی تھی۔وہ ہلکا سا کسمسایا تھا۔لیکن جاگا نہیں تھا۔
نور العین سوچنے لگی کہ وہ کیسے ایک دم اس کے اتنے قریب چلی گئی۔۔۔کہ ۔۔۔۔۔۔لیکن کچھ سمجھ نہ آئی۔نظر بھٹکتی ہوئی یارق کے وجہیہ چہرے پر پڑی اور پھر کتنی ہی دیر ہٹ نہ سکیں۔۔۔۔
رات کی وہ یاد پھر سے زہن میں آئی تھی تو ایک دفعہ پھر اس نے اپنے لبوں کو انگلیوں کی پوروں سے چھوا تھا۔نظریں یارق کے ہونٹوں پر جم گئی تھیں۔کچھ لمحے مزید سرکے تو وہ اپنی بے خودی پر چونکی ۔ لبوں پر شرمگیں مسکان بکھری۔دل تو پھر سے اسے دیکھنے کی خواہش کرنے لگا تھا لیکن وہ دل کو ڈپٹتی اٹھ کھڑی ہوئی۔فجر کی اذان ہو رہی تھی۔وہ شاور لینے واشروم میں گھس گئی۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ واش روم سے باتھ لے کر باہر آئی تو سادہ سے کپڑوں میں ملبوس تھی۔
پورے خشوع و خضوع سے نماز ادا کی اور شکرانے کے نوافل ادا کئے۔۔۔۔۔
پھر جائے نماز تہہ کیے ایک طرف رکھی ۔۔۔۔
خوشی کے آنسو اپنے آپ ہی اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔لیکن اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔آج یارق نے اسے اتنی بڑی خوشی دی تھی کہ اس سے سنبھالنی مشکل ہو رہی تھی۔اس نے کب سوچا تھا کہ ایک دن اس کی خواہش پوری ہو جائے گی۔
ایک وقت تھا جب وہ چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے ترستی رہتی تھی۔اس کی ایک نظر کو ترستی تھی اورآج رات وہ سب ۔۔۔۔یہ تو سب سے بڑی خواہش تھی جو بن مانگے پوری ہوئی تھی ۔۔۔ آج یارق کی محبت پا کر وہ خود کو دنیا کی سب سے زیادہ خوش قسمت لڑکی تصور کرنے لگی تھی۔
کتنی ہی دیر وہ شیشے میں اپنا عکس دیکھتی رہی اور عجیب سی کیفیت میں گھری لبوں کو چھونے لگی تھی جہاں ابھی بھی یارق کے ہونٹوں کا لمس محسوس ہو رہا تھا۔
وہ واپس اپنی جگہ پر آکر لیٹ گئی۔۔۔جانے کتنے پل اس کے چہرے کو دیکھنے میں بیت گئے ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد وہ دوبارہ سے نیند کی وادیوں میں محو سفر ہوئی ۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
زیدان کوساری رات جاگنے کے باوجود بھی ایک لمحے کے لیے نیند نہیں آئی ۔۔۔۔
وہ فریش ہونے کے بعد نماز ادا کرتا جم میں چلا گیا ۔۔۔۔وہاں دو گھنٹے گزارے۔۔۔پھر۔۔۔۔۔۔
ایک نظر حنان کے کمرے کا دروازہ کھول کر اس پر ڈالی ۔۔۔حنا اور حنان دونوں بستر میں سو رہے تھے ۔۔۔حنا کا ہاتھ اس کے سینے پر تھا ۔۔۔جبکہ حنان اس کے گلے میں بازو ڈالے پرسکون نیند میں تھا۔۔۔۔۔
وہ انہیں آرام کرنے دیتا ۔۔۔۔
باہر نکلا ۔۔۔۔۔
حنا کی دروازہ بند ہونے کی ہلکی سی آواز سے آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔۔
"کہیں انہیں کچھ چاہیے نا ہو نسیم باجی پتہ نہیں آئی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔۔
وہ منہ دھو کر باہر جانے کا ارادہ باندھنے لگی ۔۔۔۔
زیدان خود ہی کچن میں آیا اور اپنے لیے چائے تیار کی ۔۔۔۔۔
چائے بنانے کے بعد ٹی وی لاؤنج میں آکر صوفے پر براجمان ہوا۔۔۔۔
اور ریموٹ سے ایل ۔سی ڈی۔ آن کی۔۔۔۔
نیوز چینل سرچ کیا ۔۔۔۔۔
بریکنگ نیوز ۔۔۔۔۔۔
اس کا ٹائٹل دیکھ وہ ریموٹ ایک طرف رکھے سامنے پڑے مگ کو اٹھا کر ایک گھونٹ چائے کا بھر کر نظریں سکرین پر نمودار ہوتے منظر پر جمائے ہوئے تھا۔۔۔۔۔
وہاں جو منظر دکھائی دیا ۔۔۔۔اس کی بھوری آنکھیں شرارے اگلنے لگیں ۔۔۔۔
حنا جو فریش ہوئے باہر آئی تھی سکرین پر چلتی ہوئی تصویر دیکھ کر اس کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت رہ گئیں۔۔۔۔۔
زیدان بلیک ویسٹ بنا شرٹ کے دلہن بنی حنا کو اپنے ساتھ لگائے ہوئے تھا۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
کسی ماہر ایڈیٹر نے حنان کو ان میں سے غائب کر دیا تھا ۔۔۔تصویر میں وہ دونوں ہی نظر آرہے تھے ۔۔۔۔۔۔
زیدان کا دماغ کھولنے لگا ۔۔۔۔کنپٹی کی رگیں ابھرنے لگیں۔۔۔۔۔
"ہمارے بظاہر شریف دکھنے والے مشہور سیاسی لیڈر زیدان تغلق ایم ۔این۔اے صاحب رات گئے اپنے بیٹے کی کئیر ٹیکر کے ساتھ رات کے پہر رنگ رلیاں مناتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔"
سکرین پر چلتی لائنز اور کمینٹیٹر کی آواز ۔۔۔۔اس متحمل مزاج شخصیت کے مالک کو حددرجہ مشتعل کر چکی تھی ۔۔۔۔۔
بھوری آنکھیں سرخی مائل ہوئیں ۔۔۔۔۔
چلتی سکرین پر خون آشام نظریں جمائے ۔۔۔۔ فون اٹھا کر نمبر ملایا ۔۔۔۔
دوسری جانب سے فون اٹھانے پر ۔۔۔۔۔
ہمت بھی کیسے ہوئی تمہاری ہاں!میں تمہارے میڈیا ہاؤس کو آگ لگادوں گا اگر یہ بکواس خبر چلانا بند نہ کی تو۔۔
زیدان کی آنکھوں میں قہر ہلکورے لے رہا تھا۔
"اگر یہ خبر مزید چلی تو تمہارا میڈیا ہاؤس جھوٹی خبریں پھیلانے کے جرم میں بند کروا دوں گا ۔۔۔۔ایک لمحہ بھی چلنے نہیں دوں گا بتارہا ہوں میں ۔۔"اس کے لہجے میں اژدھوں کی سی پھنکار تھی ۔۔۔۔۔
"میں تم پر کیس کر دوں گا ۔۔۔۔۔وہ اسے دھاڑتے ہوئے وارننگ دیتے بولا۔۔۔۔۔
"نہیں چلائیں گے ہم سر پلیز غلطی ہوگئی ۔۔زیدان سر ۔"
"پلیز معاف کردیں """وہ سر سر کی تکرار کرتا ہوا معزرت خواہانہ انداز میں بولا۔
مگر اب کیا ہو سکتا تھا تیر کمان سے نکل چکا تھا۔۔۔۔۔
زیدان نے غصے سے چائے بھرا مگ ایک ہاتھ مار کر نیچے پھینکا ۔۔۔۔۔
جو ماربل کے فرش پر گرا اور چکنا چور ہو گیا۔۔۔۔۔۔
حنا اس کے غصے سے خائف سہم کر کمرے کی طرف بھاگی ۔۔۔۔۔
کمرے میں آکر دروازہ بند کیے اسی کے ساتھ لگی ۔۔۔۔۔
ٹی وی پر چلتا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔۔۔
تو آنکھوں میں وہ منظر نظر آتے ہی اس کے چہرے پر سرخی چھائی ۔۔۔۔۔
وہ بے خودی میں کل ان کے کتنے قریب تھی ۔۔۔۔ بھلے ہی یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ وہ کچھ سوچ بھی نا سکی ۔۔۔۔۔
مگر ابھی بھی ان کا لمس ،،،اُن کی مخصوص مسحور کن مہک محسوس کیے ۔۔۔ اس کا رواں رواں سا مہک اٹھا ۔۔۔۔۔۔
چہرے پر مسکراہٹ جھب دکھلانے لگی ۔۔۔۔دل عجب تال پر دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔
یہ مجھے کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔؟؟؟
دل اتنی زور سے کیوں دھڑکنے لگا ہے ان کے بارے میں سوچتے ہوئے ۔۔۔۔۔
کیوں بے قابو ہو جاتا ہے ہر بار انہیں دیکھ کر ۔۔۔۔اسے اپنی سانسیں کم پڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔وہ خود کو سنبھالتی ہوئی سوئے ہوئے حنان کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔
وہ لاونج میں غصے سے بھرا ادھر ادھر چکر کاٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔باہر پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آئی تو اس نے باہر دیکھا۔۔۔۔۔
شہباز تغلق اور فرزام کے ساتھ ۔۔اقبال صاحب بھی اندر کی طرف آ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم دادا جان !
اس نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا۔
وعلیکم اسلام !!!وہ سرد مہری سے کہتے ہوئے اندر کی طرف آئے ۔۔۔۔
نظریں دوڑا کر سارے گھر کا جائزہ لیا۔۔۔۔۔
"تم یہی سب کرنے والے تھے تو مجھے جھوٹھی امید کیوں دلائی "؟۔۔۔۔۔وہ خائف مگر بلند آواز میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر استفسار کرنے لگے ۔۔۔۔۔
"میں سمجھا نہیں "وہ حیران کن نظروں سے انہیں دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔
"تم خود اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے ۔۔۔؟؟؟
نہیں دادا جان ۔۔۔۔یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔وہ جھنجھلا کر بولا۔۔۔۔
"یہ میں نہیں ساری دنیا باتیں کر رہی ہیں ۔۔۔۔
ٹی۔وی پر ساری دنیا دیکھ چکی ہے سچائی کیا ہے ......
"میں بات کر کہ سب بند کروا چکا ہوں ۔۔۔۔ ساری دنیا دیکھ چکی ہے ۔۔۔۔کس کس کا منہ بند کرواؤ گے ۔۔۔۔۔؟؟؟
"دادا جان مجھے آپ سے امید نہیں تھی اس بات کی ۔۔۔۔۔وہ بھرائے دل سے بولا۔۔۔۔
"امیدیں تو تم نے میری توڑیں ہیں ۔۔۔۔وہ بھی ایک بار نہیں ۔۔۔۔بار بار ۔۔۔۔۔
دیکھو میں پھر بھی تمہاری محبت میں سب بھلائے ہوئے یہاں خود چل کر آیا ہوں ۔۔۔۔۔
بہت شکریہ دادا جان اس عزت اور مان کا ۔۔۔۔وہ مشکور لہجے میں بولا۔
نسیم جو میڈیسن لے کر اندر آرہی تھی ان سب کو مشترکہ سلام کیے کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
"اب تم بھی میری بات کا مان رکھو ۔۔۔۔
اس نے شہباز تغلق کی طرف اچنبھے سے دیکھا۔۔۔۔۔جیسے ان کی بات سمجھ نا آئی ہو ۔۔۔۔
اتنے میں باہر سے مختلف آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔
فرزام جو اس وقت کا خاموش تھا اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر دیکھنے لگا ۔۔۔۔
زیدان بھائی باہر میڈیا اکٹھا ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔
"ان میڈیا والوں نے تو میری جان عذاب بنا دی ہے ۔۔۔۔۔اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔وہ اشتعال انگیزی سے باہر کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔
فرزام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر جانے سے روکا۔۔۔۔۔
"میں دیکھتا ہوں انہیں "
بھائی باہر سب کو کیا جواب دیں گے ؟؟؟
آپ کے پاس فی الحال اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ۔۔۔۔فرزام نے اسے اس وقت کی سچائی سے روشناس کروایا۔۔۔۔
آپ کی سیٹ بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔۔۔۔
"مجھے کوئی پرواہ نہیں کسی بھی چیز کی ۔۔۔۔وہ تلخ انداز میں بولا
"میں مولانا اقبال صاحب کو اپنے ساتھ لایا ہوں ۔۔۔۔تم اس سے نکاح کر لو ۔۔۔۔یہ دو دن پہلے کی تاریخ ڈال دیں گے ۔۔۔۔۔
سب کو ثبوت کے طور پر نکاح نامہ دکھا دینا کہ تم پہلے سے شادی شدہ ہو ۔۔۔۔
"دادا جان پلیز یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔وہ بوکھلا کر رہ گیا ۔۔۔۔۔
"آپ صرف مجھے ایک بات کا جواب دیں ۔۔۔۔
کیا آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں؟؟؟
کیا میں ایسا کچھ کر سکتا ہوں ؟؟؟
مجھے دنیا کی پرواہ نہیں ۔۔۔۔۔صرف آپ کے منہ سے سننا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔وہ مان بھرے انداز میں بولا۔۔۔
"تم اس سے نکاح کرو گے یا نہیں ؟؟؟؟ وہ پوچھ رہے تھے۔۔۔۔
زیدان بیٹا آپ کے دادا جان جہانداد انسان ہیں انہوں نے دنیا دیکھی ہے ،ان کی زمانہ شناسی اور دور اندیشی کی دنیا مثال دیتی ہے ۔۔۔۔وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔۔۔اقبال صاحب زیدان کو ضد پہ اڑے ہوئے دیکھ کر بولے ۔۔۔۔۔
زیدان کل رات بھی میں تمہاری وجہ سے ذلیل ہوتے ہوئے بچا ۔۔۔۔۔
تم چاہتے ہو ایک بار پھر سے آج تمہاری وجہ سے زمانے کے سامنے رسوا ہو جاؤں ؟؟؟؟
اپنی نہیں تو میری عزت کا خیال کر لو ۔۔۔۔
میرے اتنے سالوں سے کمائی عزت تم یوں ایک لمحے میں دو کوڑی کا نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔
"تو آپ کو لوگوں کی پرواہ ہے میری نہیں "وہ بولا تو تمیز کے دائرے میں ہی مگر لہجے میں تھوڑی تلخی کا شائبہ ضرور تھا ۔۔۔۔۔
حنا جو لاؤنج میں سے آتی مختلف آوازیں سن کر دروازے کی اوٹ سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔
پہلے مجھے میرے سوالوں کا جواب دو۔۔۔۔۔شہباز تغلق بولا۔۔۔۔
"بچی ہے وہ ۔۔۔۔۔۔
میں دو دو بچوں کو سنبھالوں گا ؟؟؟؟
زیدان جھلا کر تیز آواز میں بولا۔۔۔۔
"صاب جی آپ کب سنبھالتے ہیں ۔۔۔۔بی بی جی سنبھالتی ہیں حنان کو ۔۔۔۔نسیم جو ان سب کے لیے گلاسوں جوس بھر کر ٹرے میں رکھے باہر آئی تھی۔۔۔ بلا اختیار درمیان میں بول پڑی۔۔۔۔
"آپ چپ رہیں گی ؟؟؟؟زیدان نسیم کو درمیان میں مداخلت کرتے دیکھ اکھڑ لہجے میں بولا ۔۔۔۔
اتنی ہی بچی تھی تو اس کی شادی کیوں کروا رہے تھے ؟؟؟؟شہباز تغلق نے جرح کی۔۔۔
اس کی اور یارق کی عمر میں زیادہ فرق نہیں تھا اسی لیے ۔۔۔۔۔
تم یارق کی بات چھوڑو ۔۔۔۔میں نے اس کا اور نور کا نکاح کروا چکا ہوں ۔۔۔۔۔
اپنی بات کرو ۔۔۔۔۔
ہماری عمر میں بہت فرق ہے ۔۔۔۔اس نے اپنے تئیں ایک اور جواز پیش کیا۔۔۔۔
"عمر کی تو تم بات ہی مت کرو ۔۔۔۔میری اور تمہاری دادی کی عمر میں بھی بارہ سال کا فرق تھا ۔۔۔۔۔
"میں پہلے سے شادی شدہ ہوں ۔۔۔۔
وہ مجھ سے شادی کیوں کرے گی ؟؟؟
وہ بلاشبہ مجھ سے کوئی اچھا ڈیزرو کرتی ہے ۔۔۔۔
میں کیسے کسی پر اپنا آپ زبردستی ان چاہے وجود کی طرح مسلط کردوں ؟؟؟؟
"زیدان اس میں تمہارا ہی بھلا ہے بات کو سمجھو ۔۔۔۔۔حنان کو ماں کی ضرورت ہے ۔۔۔۔وہ سمجھانے لگے۔۔۔
"میں سمبھال لوں گا اسے ۔۔۔۔مجھے کسی کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔
میری زندگی میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔۔۔وہ حتمی انداز میں بولا
"تم سے آخری بار پوچھ رہا ہوں نکاح کرو گے یا نہیں ؟؟؟اگر میری بات سے اختلاف کیا تو یاد رکھنا مرتے دم تک تمہاری شکل نہیں دیکھوں گا ۔۔۔۔۔
اور وصیت کر کہ مروں گا کہ میری صورت بھی تمہیں کوئی دیکھنے نا دے کوئی ۔۔۔۔۔
"ٹھیک ہے آپ کی بات مان لیتا ہوں ۔۔۔۔
مگر میں بھی کبھی اس تغلق ولا میں قدم نہیں رکھوں گا ۔۔۔۔۔آپ بھی میری صورت دیکھنے کو ترس جائیں گے ۔۔۔۔۔
ایک سیر تو دوسرا سوا سیر ۔۔۔۔
دونوں اپنی ضد کے پکے ۔۔۔۔
دونوں کی رگوں میں ایک ہی خون دوڑ رہا تھا۔۔۔۔۔
تو کوئی کسی سے کم کیسے ہوتا ۔۔۔۔۔
نسیم جا کر بلا لاؤ اس بچی کو ۔۔۔۔شہباز تغلق نے کہا ۔۔۔۔۔
حنا زیدان کے منہ سے اپنے لیے الفاظ سن کر کم مائیگی کے احساس کے تحت دلگرفتہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔
اتنی دیر سے وہ حنان کی ذمہ سنبھالے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔کیا وہ اتنے عرصے سے اتنی بھی جگہ نہیں بنا پائی تھی ۔۔۔۔۔
کہ وہ اسے کم از کم اپنے لیے نا سہی حنان کے لیے ہی اپنے دل میں کچھ جگہ دے دیتا ۔۔۔۔۔
اس کی روشن آنکھیں ۔۔۔۔۔آنسووں سے بھرنے لگیں ۔۔۔۔۔
نسیم کو اندر آتے دیکھ وہ جلدی سے اپنے دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھیں رگڑ کر پونچھنے لگی ۔۔۔۔۔
حنا جی آپ کو باہر بلا رہے ہیں ۔۔۔۔
جی میں آتی ہوں ....
وہ نسیم کی ہمراہی میں دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی بجھے دل سے باہر آئی ۔۔۔۔۔
یہاں بیٹھو بیٹا ۔۔۔۔شہباز تغلق نے اسے اپنے پاس بٹھایا ۔۔۔۔۔۔
اقبال صاحب نے شہباز تغلق کے اشارے پر نکاح کے پاکیزہ کلمات پڑھنے شروع کیے۔۔۔۔۔
بیٹا ان کے پیچھے دُہراو ۔۔۔۔شہباز تغلق نے اس کے سر پر دست شفقت دراز کیے نرم لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
اس سے کسی نے اس کی رائے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی ۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ پل خاموش رہی ۔۔۔۔۔اس کے دماغ میں انا کے پرچم نے سر اٹھایا۔۔۔۔۔
"انکار کردو ۔۔۔۔تمہاری حثیت اس کی نظر میں کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔
مگر دل نے معصوم حنان کا واسطہ دیا۔۔۔۔
کہاں وہ ایک پل بھی اس کے بغیر گزار سکتی تھی ۔۔۔۔۔
اسی راستے سے وہ ہمیشہ ساتھ رہ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
وہ پیچھے پیچھے دہرانے لگی ۔۔۔۔۔
حنا بنت رحیم بخش کیا آپ کو زیدان تغلق ولد عماد تغلق بعوض حق مہر پچاس لاکھ سکہ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے ؟
"میں آپ کے تمام دکھوں کا مداوا کر دوں گی ۔۔۔۔"جی قبول ہے "
حنا بنت رحیم بخش کیا آپ کو زیدان تغلق ولد عماد تغلق بعوض حق مہر پچاس لاکھ سکہ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے ؟
"میں آپ کی روح میں حلول ہو کر آپ کو پور پور اپنی محبت میں ڈبو دوں گی ۔۔۔"جی قبول ہے "
حنا بنت رحیم بخش کیا آپ کو زیدان تغلق ولد عماد تغلق بعوض حق مہر پچاس لاکھ سکہ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے ؟
"اے اللّٰہ ہم دونوں کی سانسیں چلیں تو ایک ساتھ ۔۔۔۔۔جان نکلے تو ایک ساتھ ۔۔۔۔۔۔
(اس نے سنا تھا نکاح کے وقت جو دعا مانگو وہ قبول ہوتی ہے ،اسی لیے تینوں بار اس نے دل سے دعا مانگی )"جی قبول ہے "آخری بار اس نے جھکا سر اٹھا کر سامنے بیٹھے زیدان تغلق کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔
جو اس کی طرف کھا جانے والے انداز میں دیکھتا ہوا ۔۔۔۔رخ پھیر گیا ۔۔۔۔۔
پھر ویسے ہی کلمات زیدان تغلق نے بھی سپاٹ اور سرد ترین انداز میں دہرائے ۔۔۔۔
وہ سب اس کے گلے لگے اسے مبارکباد دینے لگے ۔۔۔۔مگر وہ چہرے پر سرد تاثرات سجائے خاموش رہا ۔۔۔۔۔
دل و دماغ میں اٹھنے والا لاوا اگلتا تو وہ سیال اپنے ساتھ سب بہا کر لے جاتا ۔۔۔۔
اس نے خود پر ضبط کے کڑے پہرے لگائے ۔۔۔۔
مگر چہرے پر چھلکتی غصے کی سرخی کسی کی آنکھوں سے مخفی نا رہ سکی ۔۔۔۔۔
"فرزام میں اور اقبال صاحب دونوں ڈرائیور کے ساتھ جا رہے ہیں ۔۔۔
جی ٹھیک ہے آپ جائیں ۔۔۔۔میں بھی یہاں سے سیدھا پولیس اسٹیشن کے لیے نکل جاؤں گا ۔۔۔۔
وہ الوداعی کلمات ادا کرتے ہوئے وہاں سے نکلے۔۔۔۔
شہباز تغلق کو پورا یقین تھا کہ زیدان کا جب غصہ ٹھنڈا ہو گا وہ خود ہی ان سے ملنے آئے گا ۔۔۔۔۔
کوئی نہیں آئے گا زندگی میں میری تیرے سوا
اک موت ہی ہے جس کا ہم وعدہ نہیں کرتے ،
نسیم !
جی صاحب!!!!
میڈم کو ان کے کمرے کی واپسی کا راستہ دکھائیں ۔۔۔۔۔
زیدان شہباز تغلق اور اقبال صاحب کے جاتے نسیم سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔جو فرش پر بکھرے ٹوٹے ہوئے چائے کے مگ کے ٹکرے اٹھا کر وہاں سے صفائی کر رہی تھی ۔۔۔۔
اپنی بے عزتی کے احساس کے تحت اس کا سفید چہرہ سرخی مائل دکھائی دینے لگا۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے اٹھ جاتی ۔۔۔۔
"بھابھی جی پلیز بیٹھیں نا ۔۔۔۔مجھے کچھ کام تھا آپ سے ۔۔۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
زیدان نے اسے وہاں روکنے پر فرزام کو قہر بار نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔۔
وہ اس کے بھابھی جی کہنے پر جز بہ جز ہوئی ۔۔۔۔۔
پلیز ادھر آکر بھائی کے ساتھ بیٹھیں نا ۔۔۔کیوں نا آپ کی ایک یادگار تصویر بنا کر انسٹا پر اپلوڈ کی جائے ۔۔۔۔
Mr.and Mrs.Zaydan Taghluq on their first date .....
فرزام شٹ اپ۔۔۔۔۔وہ تند و تیز آواز سے بولا۔
کیا یار بھائی ایس۔پی کی گھر میں کوئی عزت نہیں ۔۔۔۔
گھر میں بیوی اور یہاں آپ ۔۔۔۔یہ شٹ اپ میرے لیے ہی کیوں ۔۔۔؟
کیوں کہ تم فضول کی ہانک رہے ہو ۔۔۔
مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
حنا انہیں آپس میں بات کرتے دیکھ وہاں سے جانے لگی ۔۔۔۔
"بھابھی بیٹھیں نا۔۔۔وہ پھر سے بولا۔۔۔۔
فرزام جانے دو ۔۔۔۔۔زیدان نے اسے روکنے پر منع کیا۔۔۔
میں آپ کا کام تب تک نہیں کروں گا جب تک آپ میری بات نہیں مان لیتے ۔۔۔۔
دادا جان اور تم مجھے بلیک میل کرنے کا منصوبہ بنا کہ گھر سے نکلے تھے ؟؟؟وہ تیکھے لہجے میں ابرو اچکا کر پوچھا۔
فرزام دھیما سا مسکرایا۔۔۔۔
گھر گیا تو نور اور دل دونوں بھابھی کو دیکھنا چاہیں گے تو ان کے لیے بنا رہا ہوں ۔۔۔
ویسے بھائی میڈیا کا منہ بند ہو جائے گا ۔۔۔
آپ کے نکاح نامے کے ساتھ اچھی سی نئی تصویر اپلوڈ کرنے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھیں نا پلیز ۔۔۔۔۔
اس کے اصرار کرنے پر نا چاہتے ہوئے بھی وہ زیدان کے ساتھ ٹو سیٹر صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔مگر ایک کونے پر چپک کر ۔۔۔۔۔
"ارے بھابھی جی ہمارے بھائی کوئی اژدہا تھوڑی نا ہیں جو آپ کے پاس جاتے ہی آپ کو سالم نگل جائیں گے ۔۔۔۔زرا ساتھ ہو کر بیٹھیں نا ۔۔۔۔ایسا لگ رہا ہے ۔۔۔بیوی کی بجائے ناراض پڑوسن دور ہو کہ بیٹھی ہے ۔۔۔۔
"کسی اژدہے سے کم بھی نہیں ۔۔۔آنکھوں سے نگل لیتے ہیں "کہنا تو چاہتی تھی مگر زبان ساتھ دینے سے انکاری تھی ۔۔وہ تھوڑی سی دوری سمیٹ کر ساتھ ہوئی ۔۔۔ابھی بھی درمیان میں کافی فاصلہ تھا ۔۔۔۔
بھابھی جی ابھی تازہ تازہ میرے بھائی نے اپنا آپ۔۔۔ آپ کے نام لکھ دیا ہے پورا حق ہے آپ کے پاس ۔۔۔۔حق سے ساتھ جم کر بیٹھیں ۔۔۔۔وہ اسے بھڑکا رہا تھا ۔۔۔۔
زیدان کو فرازم کی بات سر پر لگی تلووں پر بجھی ۔۔۔۔
"بھائی بھابھی تو شرما رہی ہیں ۔۔۔پلیز آپ ہی ساتھ ہو جائیں ۔۔۔۔
فرزام ۔۔۔وہ اسے گھور کر دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔بھائی پلیز ۔۔۔۔۔
مجھے پتہ ہے آپ کو کیا کام ہے ۔۔۔۔آپ کہ کہنے سے پہلے ہی ساری ڈیٹیلز مجھے صبح ہی مل چکی ہیں ۔سب جاننا چاہتے ہیں تو جلدی سے تصویر بنوائیں ۔۔۔۔
بہت ڈھیٹ ہو تم ۔۔وہ دانت پیس کر بولا ۔۔۔۔
"صحیح کہا۔۔۔اپنےبڑوں پر گیا ہوں ۔۔۔۔وہ دانت نکال کر بولا۔۔۔۔
زیدان اس کی بے جا ضد پر دانت کچکچا کر رہ گیا ۔۔۔۔۔
اور تھوڑا سا اٹھ کر اس کے ساتھ بیٹھا ۔۔۔۔۔
اس نے موبائل پر تصویر کلک کرنا چاہی تو رکا۔۔۔۔
یہ کیا بھائی ۔۔۔۔؟
اب کیا مسلہ ہے جلدی لو اور جان چھوڑو ۔۔
وہ حدردجہ بیزاری سے بولا۔
بڑے ہی کوئی بیزار اور سڑے ہوئے منہ آ رہے ہیں ۔۔۔
زرا کوئی مسکراہٹ تو لائیں ۔۔۔اور زرا اچھا سا پوز بنائیں ۔۔۔۔۔
اس کے مشورے پر وہ جل بھن گیا ۔۔
جلدی کھینچو ۔۔ایک منٹ بھی لیٹ ہوا تو تمہارا سر پھوڑ دوں گا ۔۔۔۔۔
ساتھ بیٹھی حنا کے شانے کے گرد ہاتھ رکھے اس اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔۔اور چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے ۔۔۔۔۔بولا۔۔۔۔
حنا نے اپنے شانے پر اس کے بھاری ہاتھ کی گرفت دیکھی تو حیران کن نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
اس کی گرفت اس قدر سخت تھی کہ اسے اپنا شانہ درد کے باعث ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔
زیدان نے اس کی حالت کے پیش نظر دباؤ مزید بڑھایا۔۔۔۔
"یہ نکاح کے لیے حامی بھرنے کا ایک چھوٹا سا ٹریلر ہے ۔۔(وہ دل میں بولا )۔اسے امید تھی کہ وہ نکاح سے انکار کردے گی مگر اس کے حامی بھرنے سے جو غصہ اندر ابل رہا تھا ۔۔۔۔اس کے قریب آتے عود کر آیا ۔۔۔۔
حنا کو اس کی انگلیاں شانے میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں نمی اتری۔۔۔
مقابل زبردستی کی مسکراہٹ سجائے اس کی طرف لمحہ بھر کو دیکھا تھا۔۔۔۔
یہی لمحہ فرزام نے موبائل میں قید کر لیا ۔۔۔۔
"ڈن"فرزام نے کہا تو وہ اس سے دور ہوئی ۔۔۔۔
بھائی آپ نے نا تو نکاح کے چھوارے کھلائے اور نا ہی منہ میٹھا کروایا ۔۔۔۔
چلیں بھابھی کے ہاتھ کی میٹھی سی چائے ہی پلا دیں ۔۔۔۔صبح صبح دادا جان بنا ناشتہ کیے یہاں گھسیٹ لائے ۔۔۔۔۔
"اسے کہاں آتی ہو گی ۔۔۔۔۔
نسیم جاؤ فرزام کے لیے چائے بناؤ ۔۔
صاب جی آپ حنا جی کو ہلکے میں لے رہے ہیں ۔۔۔۔جب سے میڈم جی اس دنیا سے گئی ہیں سارا کھانا یہی بناتی ہیں آپ کے لیے جوس اور چائے تک ۔۔۔بس میں تو صرف آپ کو دینے آتی تھی ۔۔۔۔نسیم نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا ۔۔۔۔۔
اس سے اب اور زیدان کا ہتک آمیز انداز برداشت نا ہوا تو وہ اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔
اس نے کب سے رکے ہوئے آنسوؤں کو بہنے دیا ۔۔۔۔۔
کیوں رو رہی ہو تم ؟؟؟؟
اپنے دل سے پوچھو ۔۔۔۔کیا تمہارے دل نے تمہیں مجبور نہیں کیا یہ قدم اٹھانے پر ۔۔۔۔؟
جب قدم اٹھا ہی لیا ہے تو حوصلہ بھی کرو سب برداشت کرنے کا ۔۔۔۔یہ تو فطری عمل ہے ،
جو زیدان نے کیا ۔۔۔۔۔۔
اُس کی بیوی ہو تم اب۔۔!
جس نے تمہارے دل میں اس کے لئے محبت جیسا پاک جذبہ ڈال دیا۔۔
یقیناً وہ دلوں کا حال جاننے والا رب اُس کے دل میں بھی تمہارے لیے عنقریب یہ جذبہ ڈال دے گا۔۔۔۔مگر اُس جذبے کو باہر نکالنا تمہارے اوپر منحصر ہے ۔۔۔ دل کے کسی کونے سے آواز باہر آئی ۔۔۔۔۔
اپنے دل کی آواز پر حنا نے بھیگی آنکھیں صاف کیں اس کے لب مسکراۓ تھے۔
بلآخر اس نے اپنے دل کی سنی تھی۔۔اور اس کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو اس حقیقت کو ماننے پر قائل کیا تھا کہ وہ اُسے پسند کرنے لگی ہے۔
آج اُسے اپنی بے چینی، دل میں محسوس ہونے والے نئے احساس کا جواب مل چکا تھا۔
اُسے اُس انسان سے محبت ہوگئی تھی جس کی نظر میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔
وہ بہت اچھے ہیں ۔۔۔بس وقت کی دھول میں کہیں کھو گئے ہیں ۔۔۔۔مجھے انہیں وہاں سے واپس لانا ہوگا۔۔۔۔۔ان کے احساسات کے گرد جمی دھول کو ہٹانا ہوگا ۔۔۔۔وہ تو کبھی کسی کا دل نہیں توڑتے ۔۔۔۔۔
آج اُس کا دل خود زیدان تغلق کے حق میں وکیل بنا ہوا گواہی دے رہا تھا۔۔۔۔
اور وہ اپنے دل سے جیتنے میں ناکام ہوچکی تھی۔۔
کیا واقعی نکاح کے دو بول میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ جو انسان مجھے ایک نظر دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا۔۔۔۔۔آج وہ پورے طمطراق سے میرے دل پر اپنا تسلط قائم کر چکا ہے۔۔۔۔۔
آج وہ میرے لیے اسقدر اہم ہوگئے ہیں۔۔کہ مجھے ان کا ناگوار نظروں سے دیکھنا بھی برا نہیں لگ رہا ۔۔۔۔۔
آپ نے میرے دل میں ان کی محبت ڈالی ۔۔۔۔ورنہ میں نے تو کبھی سوچا نا تھا ۔۔۔۔محبت کیسا بے اختیار جذبہ ہے خود بہ خود ہی دل پر اپنا قبضہ جما لیتا ہے ۔۔۔۔اتنے پرسکون طریقے سے ہمارے دلوں پر واردات کرتا ہے کہ ہمیں خود بھی خبر نہیں ہوتی کہ یہ کب ہمیں اپنے حصار میں لے گیا ۔۔۔۔
میں چاہ کر بھی اُس کی ان آنکھوں میں ڈوبنے سے خود کو روک نہیں پائی۔
بیشک وہ پروردگار ہر چیز پر قادر ہے۔وہ بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہترین ہے ۔۔۔اس میں بھی اس رب کی ہی کوئی مصلحت ہو گی ۔۔۔۔۔وہ شیلف سے ٹیک لگائے سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
نسیم حنان کا سارا سامان اوپر میرے کمرے میں شفٹ کردو ۔۔
مگر صاب جی وہ جنا جی کے بغیر کیسے رہے گا ؟؟؟پھر حنا جی کا سامان بھی شفٹ کر دوں ۔۔۔
نسیم جتنا کہا ہے اتنا کرو بس ۔۔۔۔وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔۔۔۔۔
جی صاب جی ۔۔۔وہ سر جھکائے چلی گئی۔۔۔۔
فرزام ایک غنڈہ ہے ۔۔کاشی نام ہے اس کا ۔۔۔۔زیدان نے کہا
آپ جانتے ہیں اسے ؟؟؟؟
اسی کا کارنامہ ہے سارا ۔۔۔۔۔
زیدان نے فرزام کو تفصیل سے ساری بات بتائی ۔۔۔۔۔
اس کی آپ فکر مت کریں ۔۔۔۔وہ جیل سے فرار مجرم ہے ۔۔۔کئی کیس بنتے ہیں اس پر جلد ہی پکڑ میں آنے والا ہے ۔۔۔کئی ایجینسیوں کا ہاتھ ہے اس میں ۔۔۔۔۔
اسے صبح یہاں آنے سے پہلے کا واقع یاد آیا جب۔۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی اس نے وہ پارسل کھولا اور اس میں موجود یو۔ایس۔بی نکال کر چیک کیں۔۔۔پاشا گینگ کے تمام افراد کے کانٹیکٹس اور ان کی آپسی گفتگو کا ریکارڈ،ای میلز،سوشل میڈیا کا ریکارڈ ، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اور ان تمام خفیہ اڈوں کی معلومات تھی جسے فرزام اور علی عمران ڈھونڈھ رہے تھے ،
اسی سلسلے کی ایک کڑی کی تلاش میں علی عمران جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ان سب لوگوں کی تفصیلات تھیں جو پاشا کے حکم پر غیر قانونی کام کرتے تھے۔اس کے علاوہ کچھ سیاستدان اس کے دوست تھے اور پولیس میں موجود کچھ غدار لوگ بھی اس کے ساتھ تھے۔
ان سب سے ہونے والی گفتگو بھی تھی جو ان لوگوں کے خلاف ثبوت تھی۔
لیکن سب سے ضروری چیز پاشا اور کاشی کے درمیان کوئی بھی لنک انہیں نہیں ملا تھا۔پاشا بہت محتاط بندہ تھا۔کاشی سے اس کے خفیہ تعلق کا کوئی بھی ثبوت نہیں تھا۔وہ اس سے فیس ٹو فیس بات کرتا تھا تاکہ اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ ملے۔۔
ہتھیاروں کے کاروبار کے سلسلے میں صرف ایک کال میں پاشا اور کاشی کی آپسی گفتگو میں کچھ کلو ملے تھے۔۔۔ یہ ثبوت ناکافی تھا جس سے ان دونوں کا تعلق واضح ہوتا تھا۔خفیہ ادارے میں بھی پاشا کا نام آ چکا تھا اور اب جلد ہی اس کا کھیل ختم ہونے والا تھا۔اور ساتھ ہی اس کے گینگ میں شامل افراد کا بھی ۔۔۔آپ پریشان مت ہو اس بارے میں۔
وہ تسلی آمیز انداز میں بولا
🌹🌹🌹🌹🌹🌹
یارق کے کمرے کا دروازہ کھلا اور نگہت بیگم عجلت میں اندر داخل ہوئی۔
"نور ابھی تک تم سوئی ہوئی ہو ؟؟"
وہ اپنی مما کی آواز سن کر نیند سے بیدار ہوئی ۔۔۔۔
اس نے اپنے ساتھ جگہ دیکھی جو خالی تھی ۔۔۔۔یعنی کہ وہ جا چکا تھا ۔۔۔۔
وہ اس کے ردعمل کے انتظار میں تھی ۔۔۔۔
مگر وہ اسے شادی کی پہلی صبح تنہا چھوڑے جا چکا تھا ۔۔۔۔۔"اللّٰہ تعالیٰ اسے بدلنے مت دینا ۔۔۔۔۔وہ دل میں بولی ۔۔۔۔۔
" جلدی سے اپنا حلیہ درست کرو۔تمہارے دادا جان واپس آ چکے ہیں انہوں نے بھی ناشتہ نہیں کیا ،،،اب ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ایک ساتھ ہی کریں گے اچھے سے کپڑے نکال کر پہن لو کہیں سے بھی پہلے دن کی دلہن نہیں لگ رہی ۔
"اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا ۔اس نے سر ہلاتے ہوئے جی کہا اور واشروم میں چہرہ دھونے چلی گئی۔جب وہ باہر آئی تو دلبرا بھی دروازے تک آئی ۔
"نور العین اٹھ گئی ؟۔"وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھ رہی تھی۔
ہممممم۔۔۔۔۔تم چلو ڈائننگ پر ہم آتے ہیں ۔۔۔۔
نگہت بیگم نے دلبرا کو رُکھائی سے جواب دیا۔۔۔
میز پر انواع و اقسام کے کھانے موجود تھے ۔۔۔۔۔
گھر کی خواتین اور شہباز تغلق نے کھانا کھایا ۔۔۔۔
یارق کدھر گیا ؟؟؟
انہوں نے سیدھا نور العین کو مخاطب کیے پوچھا ۔۔۔
وہ ان کے براہ راستہ پوچھنے پر سٹپٹا گئی ۔۔۔
وہ شاید ۔۔۔۔۔آفس ۔۔۔۔وہ لقمہ منہ میں ڈالتی ہوئی اٹک اٹک کر بولی ۔۔۔۔
ایسا بھی کیا ضروری کام جو آج کے دن بھی چلا گیا ۔۔۔۔۔
بابا جان ضماد بھی صبح جلدی چلے گئے تھے آفس ۔۔۔۔لگتا ہے کوئی ضروری کام ہوگا وہاں ۔۔۔۔نگہت بیگم نے کہا ۔۔۔۔
ہہمممممم۔۔۔۔وہ کہہ کر کھانے کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔۔
رات کے کھانے پر سب اکٹھا تھے ضماد تغلق،فرزام دلبرا نور العین اور یارق بھی گھر آچکا تھا۔۔۔۔یارق کا رویہ اس سے نارمل تھا۔لیکن نورالعین کو یارق کا رویہ کھٹک رہا تھا۔یارق کھانے پر دلبرا کو سامنے بیٹھےدیکھ کر بے اختیار نظریں چرا گیا۔دلبرا نے تو اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔۔۔
بابا جان اسلام آباد میں ہم ایک واٹر پلانٹ لگا رہے ہیں اسی کے کام کے سلسلے میں مجھے وہاں جانا ہوگا ۔۔۔۔کل نکلوں گا ۔۔۔ضماد تغلق نے انہیں کھانے کے دوران آگاہ کیا ۔۔۔۔۔
ضماد اتنے بڑے ہوگئے ہو ۔۔۔اب تو تمہاری بیٹی کی بھی شادی ہوگئی ہے پر تمہارا بچپنا ابھی تک نہیں گیا ۔۔۔۔۔
ہمیشہ سمجھایا ہے کہ کھانے کے دوران بولا مت کرو ۔۔۔۔۔
لیکن اس عمر تک تمہیں سمجھ نہیں آئی ۔۔۔شہباز تغلق نے انہیں لتاڑا۔۔۔۔
بچوں کے سامنے اپنی بے عزتی پر منہ بنا کر رہ گئے ۔۔۔۔۔
پھر کھانے کے دوران خاموشی رہی یارق بے دلی سے سر جھکائے کھانا کھا رہا تھا۔۔۔۔
کھانا ختم ہوتے ہی گھر کی سب عورتیں برتن اٹھا کر واپس کچن میں رکھنے لگیں ۔۔۔۔۔
دادا جان مجھے کچھ کہنا ہے ....
یارق نے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔
آخر اتنے دنوں بعد اس کی خاموشی کا قفل ٹوٹا۔۔۔۔
ضماد ،فرازم اور شہباز تغلق تینوں متوجہ ہوئے ۔۔۔۔
میں اس پروجیکٹ کے سلسلے میں اسلام آباد جانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔اگر آپ اجازت دیں ۔۔۔۔
مگر یارق وہاں دنوں کا نہیں مہینوں کا کام ہے اور تم اتنا عرصہ گھر سے دور رہو گے ؟؟؟
کوئی بات نہیں مگر میں اس کام میں انٹرسٹڈ ہوں ۔۔۔۔۔
یارق میں تو چاہ رہا تھا تم دونوں کی ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے کچھ دن کہیں گھوم پھر آؤ ۔۔۔یہی دن ہوتے ہیں گھومنے پھرنے کے کام تو زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں ۔۔۔۔شہباز تغلق نے کہا ۔۔۔۔
دادا جان اسلام آباد کافی اچھی جگہ ہے وہیں گھوم بھی لیں گے ۔۔۔۔۔بلا اختیار اس کے منہ سے پھسلا ان کے سوال پر ۔۔۔۔
نور جو برتن رکھ کر واپس آئی اس کے اسلام آباد چلے جانے کی خبر سے افسردہ ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
اس کی آخری بات سن کر خوشی اس کے چہرے سے چھلکنے لگی ۔۔۔۔۔
یعنی وہ اسے بھی اپنے ساتھ لے کر جائے گا ۔۔۔۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
"" تم سوئی نہیں ؟؟؟""
"نہیں بادشاہ سلامت کا انتظار فرما رہی تھی کب کمرے میں قدم رنجہ فرما کر ہمیں اپنے سڑے ہوئے چہرے کا دیدار کروائے گے ،،،
وہ طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے بستر پر لیٹی اور اوپر تک کمفرٹر لیا۔۔۔۔۔
بہت شکریہ اس عزت افزائی کا۔۔۔۔۔۔
"" اب جب جاگ ہی رہی ہو تو اپنے مجازی خدا کو گڈ نائٹ وشز ہی دے دو ""
"اللّٰہ کرے بھوتنیاں تمہارے خوابوں میں آئیں ۔۔۔۔تمہیں سکون کی نیند نا آئے ۔۔۔۔تم ساری رات ڈرتے رہو۔۔۔۔
اتنی وشز کافی ہیں یا اور بھی دوں ؟؟؟
وہ ابرو اچکا کر تیکھے لہجے میں بولی۔
یار خوابوں کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔بھوتنی ہی
دیکھنی ہے تو وہ کھلی آنکھوں سے ہی دکھائی دے رہی ہے ۔۔۔۔وہ بھی اپنی جگہ پر لیٹتا ہوا کمفرٹر کھول کر رکھتا ہوا بولا۔۔۔۔
"" ویسے میں سیکھ رہا ہوں ""
"" وہ کیا ؟؟؟ ""
جمائی کو روک کر وہ سوالیہ انداز میں بولی۔۔۔۔۔۔
"" رومینس کرنا ""
اس پر جھک کر دائیں طرف ہاتھ رکھے اسے اپنے گھیرے میں لیتے بولا
دل نے آنکھیں سکیڑیں۔۔۔۔
"" ٹھرکی ""
ایک لفظ کہ کر وہ اسے پیچھے دھکیلنے لگی جب وہ دوسری طرف بھی ہاتھ رکھ۔۔۔۔کر اس کے فرار کے راستے مسدود کرنے کی کوشش میں تھا۔۔۔۔۔۔
"" میں نے سوچا کہیں تمہیں کوئی شکوہ نا رہے کیسا روکھا سا بندہ ہے رومینس نہیں کرتا ،،،، تو میں نے سوچا سیکھ لوں،،،،،
اسلیے رومینٹک موویز دیکھیں،،،، تھوڑا بہت آ گیا ہے لیکن فکر نہ کرو آہستہ آہستہ رومینس میں بھی ماسٹر ہو جاؤں گا ۔۔۔۔۔
اپنی یہ ہیڈ ماسٹری اپنے پاس رکھو ۔۔۔اور اپنا بیہودہ رومینس بھی ۔۔۔۔۔۔
وہ تنک کر بولی ۔۔۔۔۔
تم پولیس اسٹیشن کام کرنے جاتے ہو یا موویز دیکھنے ۔۔۔۔تم جیسا نکما پولیس والا ہو جہاں۔۔۔۔ اس ملک کی سمجھ لو نّیا ہی پار ۔۔۔۔۔
گھر کی مرغی دال برابر۔۔۔۔۔
باہر پوچھو کسی سے جا کر ایس۔پی فرزام کی دہشت ۔۔۔۔۔۔
وہ اکڑ کر بولا ۔۔۔
ویسے ابھی تک تو کس کرنا ہی سیکھا ہے،،، تم چاہو تو کر سکتا ہوں پھر سے ایک بار ""
اپنے چہرے پر اسکی سانسیں محسوس کرتی وہ کنفیوز ہوئی،،، اور اوپر سے اسکی باتیں،،،، دل کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی۔۔۔۔۔۔لیکن اگلے ہی لمحے اس کو گردن سے دبوچے خود سے پیچھے ہٹا گئی ۔۔۔۔۔۔
"" شکل دیکھی ہے اپنی،،، بڑا آیاعمران ہاشمی بننے""
کل کی درگت لگتا بھول گئے جو پھر سے دماغ خراب ہوا ہے ۔۔۔۔۔
"" یہ تو بڑی نا انصافی ہوئی اپنے نئے نویلے شوہر کے ساتھ ""
مسکینوں والی شکل بنا کر بولا۔۔۔۔۔۔
"" اگر تم نے دوبارہ کوئی بدتمیزی کی نا تو میں شور مچا دوں گی،،،، کہ دیکھو دیکھو لوگو،،،، حسین اور اکیلی لڑکی کو اکیلا دیکھ کر فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے یہ ٹھرکی پولیس والا ۔۔۔۔
چلو تو آج یہ شوق بھی پورا کر لو ۔۔۔۔۔
"اوہ ۔۔۔۔۔ایک منٹ ۔۔۔ایک منٹ ۔۔۔۔یہ حسین کس کو بولا ۔۔۔۔؟؟؟؟
کہیں اپنے آپ پر غلط فہمی تو نہیں ہو گئی یہ حسین والی ؟؟؟؟وہ مذاق اڑانے کے انداز میں ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولا۔۔۔۔
"جی نہیں۔ میری آنکھیں سلامت ہیں اور میں روز آئینہ دیکھتی ہوں ۔۔۔۔۔
"ارے واہ پھر تو اس آئینے کی ہمت کو سلام جو ایسی صورتوں کو برداشت کرتا ہے ۔۔۔۔
ٹھرکی پولیس والے تم سوتے ہو یا تمہارے ہی بدبودار جوتے سونگھا کر تمہیں بے ہوش کروں ۔۔۔۔سونے بھی دو اب ۔۔۔۔چلو پرے ہٹو ۔۔۔۔
"گڈ نائٹ"
ایک نظر اسکو دیکھتا وہ جلدی سے اسکے گال پر زوردار کس کر کہ اپنی جگہ لیٹا۔۔۔۔۔۔
" ویسے زبان تو کڑوے کریلے کی طرح ہے ۔مگر باقی کافی سویٹ ہو تم،،،،، سویٹ ہارٹ ""
وہ اسے فلائنگ کس کرکہ آنکھ ونگ کرتا ہوا مزید آگ بگولہ کر گیا۔۔۔۔۔۔
دلبرا بظاہر توخود کو مضبوط ظاہر کرتی مگر اندر سے اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسوں کے ساتھ اسکی حرکت پر کافی دیر منہ کھولے لیٹی رہی ،،،،،، وہ رخ بدلے لیٹ چکا تھا۔۔۔۔۔۔
اس سے بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔
خود کے لبوں پر مسکراہٹ آئی دیکھ کر اپنے آپ کو گالیوں سے نوازا۔۔۔۔
اسکو سوچتا وہ مسکرائے جا رہا تھا۔۔۔۔ اسکا بلش کرتا چہرہ،،،، فرزام کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ شرما بھی سکتی ہے۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر اُسے یونہی ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔۔تھوڑی دیر میں وہ سو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ اُس کی شریکِ حیات تھی، اُس کی روح کا حصہ، اُس کا سکون۔
جتنی پیاری اور خوبصورت وہ ظاہراً تھی۔۔۔کیا اس سے بھی زیادہ خوبصورت اُس کا دل تھا؟
اُس کی سب سے اچھی عادت سچ کہنے کی تھی۔۔ کوئی بھی بات بنا دل میں رکھے منہ پر کرتی تھی ۔۔۔۔ایسے لوگ جو دل کی بات منہ پر لے آئیں وہ کھرے ہوتے ہیں اور جو لوگ چپ رہ کر دوسروں کے خلاف دل میں بغض رکھیں ،وہ بہت خطرناک ہوتے ہیں ۔۔۔یہ اس کا سوچنا تھا ۔۔۔۔یہی خوبی دلبرا کی تھی جو فرزام کو اُس کی طرف جھکنے پر مجبور کر رہی تھی۔
چاند کی روشنی میں اُس کا چمکتا چہرہ اُسکی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔
وہ فرزام جو شاید اِس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
اب اُس کا دل اُسے دل پر بھروسہ کرنے کے لیے اُکسا رہا تھا۔۔۔ اُس کا دل اُن سرد مہری کی دیواروں کے درمیان یہ چیخ چیخ کر اعتراف کر رہا تھا کہ۔۔۔ وہ جیسا دکھاوا کرتی ہے ویسی ہے نہیں ۔۔۔۔۔
وہ اسی کے بارے میں سوچتا ہوا محوِ سفر خواب ہوا۔۔۔۔
مگر ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پسینے سے شرابور وجود میں مسلسل جنبش ہو رہی تھی ،غلافی آنکھیں اس وقت بند تھیں ،شاید خواب میں کچھ برا دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔گردن دائیں سے بائیں ہل رہی تھی ۔۔۔۔"نہیں "وہ اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔
کمرہ اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔
وہ ہاتھ مار کر اپنے ساتھ اسے ٹٹول رہی تھی ۔۔۔مگر ساتھ تو کوئی بھی نا تھا ۔۔۔۔
ذہن کے کونے میں بجلی سی کوندی۔۔۔۔آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹا تو آہستہ آہستہ آنکھیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئی۔۔۔۔۔
کمرے کی ملگجی سی روشنی میں وہ ہاتھ بڑھا کر اپنا دوپٹہ ڈھونڈھنے میں ناکام رہی۔۔۔
ایک تو اس برے خواب نے اسے ڈرا دیا دوسرا اوپر سے آتی اس کے رونے کی آواز سن کر وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھی اور بنا سوچے سمجھے باہر کی جانب دوڑ لگا دی ۔۔۔۔
آواز اوپر زیدان کے کمرے سے آ رہی تھی ۔۔۔۔
حنان خاموش ہو جاؤ ورنہ اب تھپڑ پڑے گا ۔۔۔۔زیدان کی مشتعل آواز آئی۔۔۔۔
وہ تیز قدموں سے چلتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔۔۔
نائٹ بلب کی روشنی میں حنان زیدان کے ساتھ لیٹا مسلسل رو رہا تھا۔۔۔۔
حنا کو سامنے دیکھتے ہی زیدان کے پاس سے اٹھ کر اس کی طرف لپکا ۔۔۔۔
مما بابا گندے ہیں ۔۔۔۔۔وہ روتا ہوا ۔۔۔۔سوں سوں کرتا اس کے سینے سے لگا۔۔۔۔
حنا نے کسی قیمتی متاع کی طرح اس کو اپنے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔۔
مما بابا نے مارا ۔۔۔۔۔وہ اس کی شکایتیں لگانے لگا ۔۔۔۔
زیدان نے کی تیوریاں چڑھیں۔۔۔۔ایک گھنٹے سے حنان نے اسے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے ۔۔۔سلانے کی پوری کوشش کی مگر وہ تھا کہ ایک ہی ضد لگائے بیٹھا تھا ۔۔۔۔
مما پاس جانا ۔۔۔۔مما پاس جانا ۔۔۔۔
حنان واپس آؤ ۔۔۔۔۔
زیدان زرا تیز آواز میں بولا۔۔۔۔۔
وہ اس کی بلند آواز سے سہم کر اور بھی زور سے حنا کہ ساتھ چپکا۔۔۔۔
ہنی میری جان کچھ نہیں ہوا مما آپ کے پاس ہے نا ۔۔۔۔وہ اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے پیار بھرے انداز میں بولی۔
اور اسے اپنے ساتھ لیے باہر نکلنے کو تھی ۔۔۔۔
وہ تو اس کی جرات پر دنگ رہ گیا ۔۔۔۔
کیسے دھڑلے سے بنا دستک دئیے اس کے کمرے میں گھس آئی اور کیسے حق سے اسے اٹھا کر اپنے ساتھ نکلنے لگی تھی ۔۔۔۔۔
رکو ۔۔۔۔زیدان کی بھاری آواز سن کر اس کے قدم وہیں رکے ۔۔۔۔۔
"پہلی بات میرے کمرے میں کس کی اجازت سے داخل ہوئی ہو ؟؟؟؟
میں نے تمہیں اندر آنے کی اجازت دی ؟؟؟؟
آئندہ مجھ سے پوچھے بغیر میرے کمرے میں داخل ہونے والے کو ۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا۔۔۔۔
مما میں بابا کو کہا تھا ۔۔۔۔۔سونو کی مما اس کے پاپا ساتھ سوتی ہیں تو وہ آپ کو بھی یہاں لائیں۔۔۔۔
مما پاپا نے کہا ۔۔۔۔آپ میری مما نہیں ۔۔۔۔
میری مما اللّٰہ پاس گئی ۔۔۔۔۔وہ اس کی گود میں سنبھل چکا تھا تو اسے بتا رہا تھا۔۔۔۔
زیدان کو اس کی بات پر جھٹکا لگا ۔۔۔۔
اس کا بیٹا ہو کر وہ ایک غیر کو اپنے باپ کی ساری باتیں بتا رہا ہے ۔۔۔۔۔
ہنہہ۔۔۔مما کا چمچہ ۔۔۔اس نے تاسف سے سوچا ۔۔۔۔
مما بابا کہتے آپ پاس نہیں جانا ۔۔۔۔مما گندی ہیں۔۔۔۔
وہ تھا تو ڈھائی سال کا مگر بہت تیز اور ذہین ہر بات کو دماغ میں بٹھا لیتا اور حرف بہ حرف بیان کرتا۔۔۔۔
زیدان کو تو اس کی اس کوالٹی کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ اس طرح ہر بات کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا۔۔۔۔۔
آخری بات سن کر تو وہ تڑپ اٹھی ۔۔۔۔
بے شک وہ اس کی سگی ماں نہ تھی ،مگر اس نے اسے پہلے دن سے پالا تھا ۔۔۔۔
جب وہ خود بھی ماں کے جذبات سے انجان تھی ۔۔۔۔
اس نے خود بھی ہمیشہ اپنی ماں کی کمی محسوس کی تو فیصلہ کیا کہ جو کمی اس نے محسوس کی وہ کبھی حنان کو محسوس نا ہونے دے گی ۔۔۔۔
وہ خود بھی کم عمر ہونے کے باوجود بھی حنان میں ماں کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔جو بن پڑا اس نے کیا۔۔۔۔
اور آج اس کی اتنے عرصے کی بے غرض بے لوث محبت کو پل بھر میں بھلا کر اسے غیروں کی صف میں کھڑا کردیا۔۔۔۔
حنان کی ایک رات کی دوری نے اس کو بتا دیا تھا کہ وہ اب ایک پل بھی اس کے بنا نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔
تو کیا ہوا کہ وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں اس کا خون نہیں ۔۔۔۔اس نے اسے اپنی جان سے بڑھ کر چاہا تھا اسے ۔۔۔۔۔
اس کے تو سر پر لگی تلووں پر بجھی۔۔۔۔
بات اس کی ہوتی تو وہ چپ چاپ برداشت بھی کر لیتی مگر یہاں بات اس کی ممتا پر آئی تو اپنے آپ کو قابو میں رکھنا اس کے لیے دوبھر ہوا ۔۔۔۔
حنان میں نے کیاکہا آپ کو سنائی نہیں دیا ۔۔۔۔واپس آؤ ۔۔۔۔
زیدان بستر سے اٹھ کر اس کے پاس آیا ۔۔۔۔
وہ حنا کے گلے میں دونوں بانہیں ڈالے اسے زور سے پکڑے ہوئے تھا ۔۔۔۔
اور نفی میں سر ہلانے لگا ۔۔۔۔
"مما پاس رہنا ۔۔۔۔۔وہ صاف الفاظ میں بولا۔۔۔
"ڈھائی سال پہلے آپ کو یاد تھا کہ آپ کا ایک بیٹا بھی ہے ؟؟؟؟
جو دن رات اپنوں کے لمس کے لیے روتا ہے ۔۔۔۔
آپ کو پتہ ہے یہ کتنی راتیں جاگا کتنی سویا ؟؟؟؟
یہ پہلی بار کب ہنسا۔۔۔۔؟
یہ پہلی بار کب رویا۔؟
آپ کو پتہ ہے پہلی بار اس نے کب بولا ؟؟؟؟
اور کیا بولا ؟؟؟؟
یہ پہلی بار کس کی انگلی تھام کر چلا ۔۔۔۔
یہ کیا کھاتا ہے کیا پیتا ہے ؟؟؟
یہ کب اٹھتا ہے ۔؟
یہ کب سوتا ہے ؟؟؟
اسے کیا پسند ہے ؟؟
کیا نا پسند؟
"نہیں نا ؟؟؟؟
تو پھر آج اتنے سالوں بعد آپ کو یاد آ گیا کہ آپ کا ایک بیٹا بھی ہے ۔۔۔۔۔
آج ایسا کیا ہوا جو آپ کو احساس ہوا کہ اسے بھی آپ کے پیار کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔
کھوئے رہیں اپنی دنیا میں جیسے پہلے رہتے تھے ۔۔۔۔۔
"اس کے الفاظ زیدان کو نشتر کی طرح لگے ۔۔۔۔
جیسے اسے حقیقت کا آئینہ دکھا کر آسمان سے زمین پر لا پٹخا ہو ۔۔۔۔
خبردار جو میرے بیٹے کو مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔اس وقت وہ اپنے حواس میں نہیں تھی جو شاید اس کے سامنے اتنا دیدہ دلیری کا مظاہرہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔
"آپ اس کے ننھے سے دماغ میں میرے لیے لیے نفرت بھر کر اسے پریشان کر رہے ہیں ۔۔۔۔
اس میں اس بی بیچارے کا کیا قصور ؟؟؟
اپنی حد میں رہو لڑکی ۔۔۔۔۔
وہ تلخ لہجے میں غرایا اس کی باتوں پر ۔۔۔۔
"میں اپنی حد میں ہی ہوں اور رہوں گی بھی مگر اپنے بیٹے کے معاملے میں کسی کی بھی نہیں سنوں گی ۔۔۔۔۔
آئندہ اس کے ذہن میں کوئی بھی الٹی سیدھی باتیں مت ڈالیے گا ۔۔۔۔۔
"میرے بیٹے کے لیے کیا اچھا ہے کیا برا اب مجھے یہ تم سیکھاو گی ؟؟؟؟
وہ ایک قدم اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔
وہ الٹے قدم لیتے ہوئے دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔۔۔
زیدان نے ایک نظر نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی میں اس کے سراپے پر ڈالی ۔۔۔۔
درازقد پرکشش ڈیل ڈول،ڈھیلے ڈھالے سادہ سے کپڑوں میں ملبوس،سفید چہرہ اندھیرے میں بھی نمایاں ہوکر اپنی روشنیاں بکھیر رہا تھا ، کمر پر کھلے بالوں کا آبشار چہرے پر بے پرواہی سے جھولتی لٹیں ۔۔۔بڑے بڑے سیاہ غلافی نین کٹورے ،کٹاو دار لب ،سایہ فگن گھنی خمدار پلکیں،بھرے بھرے گال ،وہ فورا نظریں پھیر گیا ۔۔۔۔۔
"آپ میرے کیے کا بدلہ مجھ سے لیں ۔۔۔اس میں اس معصوم کا کیا قصور ؟؟؟
اس نے چونک کر دوبارہ اپنے سامنے کھڑی اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو اسے زندگی کے کسی نئے احساس سے روشناس کروانے کے در پہ تھی ۔۔۔۔
اس کے لبوں سے نکلتے ہوئے الفاظ اور اس کی آنکھوں میں موجود احساس اسے پل بھر میں ساکت کر گیا ۔۔۔۔۔
"میں نے تو کبھی اسے اپنے کسی عمل سے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی پھر یہ کیسے ؟؟؟
اس کا حنان کو اور اسے لے کر احساس اور جذبات اسے ساکن کر گئے ۔۔۔۔
وہ اس وقت کو پچھتانے لگا جب وہ غنیہ کی موت کے غم میں ڈوبا ۔۔۔۔اور حنان سے غافل ہوا۔۔۔۔۔وہ خود کو فیکٹری کے اور سیاست کے جھمیلوں میں اس قدر الجھا چکا تھا کہ اپنے بیٹے کو نظر انداز کر گیا ۔۔۔۔
اسی وقت اس لڑکی نے میرے بیٹے ہر اپنا قبضہ جما لیا ۔۔۔۔
اور آج وہ اسی سے اس کے بیٹے کو چھینے پورے استحقاق سے اس کے مقابل کھڑی تھی ۔۔
کیوں کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ ایسا ۔۔۔؟
حنان کو کیوں دور کر رہے ہیں ؟؟؟
تمہارے انداز و اطوار سے تو لگ رہا ہے کہ اب تم اتنی بھی بچی نہیں رہی ۔۔۔۔۔کہ میری باتوں کو سمجھ نا سکو۔۔۔۔
وہ تیکھے نقوش لیے طنزیہ انداز میں بولا
اس کے اس قدر استحقاق کو دیکھ کر دل تو کیا اس لڑکی کا منہ توڑ کر رکھ دے جو اس کی زندگی پل بھر میں تہہ و بالا کر چکی ہے ۔۔۔۔پہلے زبردستی اس کی زندگی میں داخل ہو کہ پھر اس سے اس کا بیٹا چھین کر ۔۔۔۔
"کہیں انہیں میری فیلنگز کے بارے میں پتہ تو نہیں ۔۔۔۔۔۔اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے سوچا ۔۔۔
دوبارہ نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے کی غلطی نہیں کی ۔۔۔۔کہیں وہ اس کی آنکھوں میں چھپی ہوئی تحریر کو پڑھ نا لیں ۔۔۔۔۔
جب سے نکاح ہوا تھا ۔۔۔زیدان کا رویہ سے سخت ہتک آمیز تھا ،صبح سے ہی وہ حنان کو اس سے لے کر اپنے ساتھ باہر لے گیا ۔۔۔۔اور شام گئے لوٹا ۔۔۔۔
یہ وہی جانتی تھی کہ سارا دن اس نے حنان کے بغیر کیسے کاٹا ۔۔۔۔
اس کی شرارتیں اس کی پیار بھری باتیں یاد کرتی رہی ۔۔۔۔
اور گھر آنے کے بعد وہ اسے اپنے ساتھ روم میں لے گیا ۔۔۔۔
وہ دل پر پتھر رکھے اس کے بغیر لیٹ تو گئی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔۔۔حنان سے ایک پل کی بھی دوری سوہان روح ثابت ہوئی ۔۔۔۔
میری بس آپ سے ایک گزارش ہے ۔۔۔۔آپ حنان کو میرے پاس رہنے دیں ۔۔۔اس کا معصوم ذہن دو حصوں میں بٹ جائے گا ۔۔۔۔
جب سے حنان اس دنیا میں آیا ہے میں نے اسے سنبھالا ہے ،میں اس کے بنا نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔ہو سکے تو مجھ پر یہ آخری احسان کردیں مجھے اس سے جدا مت کریں ۔۔۔۔بالاخر کب سے رکے آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر آئے ۔۔۔۔۔اور تسبیح کے دانوں کی طرح ٹپ ٹپ گر کر اس کے گال بھگونے لگے ۔۔۔۔
وہ اس کے شفاف چہرے کو غور سے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔
صبح نکاح کے وقت اس لڑکی کی آنکھوں میں اپنے لیے ایک عجب دہکتی ہوئی آگ سی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔
حنان اس کے ساتھ چپک کر سو چکا تھا ۔۔۔۔
وہ اسے ساتھ لیے کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔
اور وہ اسے چپ چاپ جاتا دیکھنے لگا ۔۔۔۔
اس کی پشت پر بکھرے ہوئےگیسو رات کی طرح گہرے لگے ۔۔۔۔۔
وہ اس کے وہاں سے جاتے ہی دروازہ بند کرتا اپنی جگہ پر آکر لیٹا ۔۔۔۔۔
اور پیشانی کو انگلیوں کی پوروں سے مسلتے ہوئے گہری سوچ میں گم ہوا۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
وہ باہر لان میں کھڑی صبح صبح پودوں کو پانی دے رہی تھی کہ اچانک مڑنے سے سامنے سے آتے فرزام سے بری طرح ٹکرائی۔۔ اس سے قبل وہ گرتی اس نے اس کی کلائی تھام کر خود کی طرف کھینچا جس سے ایک بار پھر وہ اس کے چوڑے سینے سے ٹکرائی اور اس کا بایاں ہاتھ بے ساختہ اس کی ٹی شرٹ کو جکڑ چکا تھا۔۔ وہ جو جاگنگ سے واپس لوٹا تھا ، اس کے سلکی بال ماتھے پر پسینے سے چپکے ہوئے تھے، وہ سپاٹ چہرہ لیے اس کی آنکھوں میں سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا۔
جبکہ دل نے اسے خود کو یوں دیکھتے ہوئے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور سٹپٹاتے ہوۓ اس سے دور ہوکر اپنی نظریں پھیر کر دوسری طرف جانے لگی۔۔
"لگتا ہے بہت شوق ہے تمہیں اس طرح ٹکرانے کا؟
سچ بتاو یہ انجانے میں ہوا ۔۔۔۔یا جان بوجھ کر مجھ سے ٹکرانے کا بہانہ ہے ۔۔۔۔
"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔میں نے نہیں کہا تھا کہ مجھے پکڑو۔۔۔اور میں ایسا کبھی چاہوں گی بھی نہیں۔۔۔تمہاری مدد لینے کے بجائے میں سو بار زمین پرگرنا پسند کروں گی سمجھے تم ۔۔
آئندہ تم نے رات والی حرکت کی یا میرے قریب آۓ مجھے ہاتھ بھی لگایا تو میں تمہارا منہ توڑ دوں گی۔۔۔"
اس کی بات سن کر دلبرا کا خون کھول اٹھا تھا تبھی وہ غصے سے دھمکی آمیز لہجہ میں اسے اُنگلی دکھاتے ہوئے جتاکر بولتے ہوئے پانی والا پائپ ایک طرف پھینک کر نل بند کرنے لگی ۔۔۔۔
وہ اس کے پاس آیا ہاتھ اس کی ٹھوڑی تلے نرمی سے ہاتھ رکھ کر اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف موڑا ۔۔۔۔۔
دلبرا ۔۔۔۔او دلبرا اپُن کی تو اپُن تیرا۔
تجھ سے دل لگاؤں میں بھی
فیملی بناؤں
بس یہی ہے ارادہ اب میرا ۔۔۔۔
وہ سریلی آواز میں موالی سٹائل میں اس کا کان کے قریب گنگنایا۔۔۔۔۔
"لگتا ہے کوئی دیوانہ تو
کرتا ہے حسیں بہانہ تو
کیسے تجھے میں یہ دل دے دوں ؟
ہے انجانا تو
کل تجھے بتاؤں گی میں
کل فیصلہ سناؤں گی ۔
سوچنے دے مجھ کو تو زرا ۔۔۔
وہ بھی اسی کے انداز میں مسکرا کر گنگنائی ۔۔۔۔
اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھتی اس نے ہی جھک کر ایک پل کے لیے اپنے لب اس کے لبوں پر رکھے۔دوسرے ہی پل وہ پیچھے ہٹ گیا لیکن دل کی سانسیں تھم چکی تھیں۔گلنار ہوتے چہرے کے ساتھ اس کے دل کی دھڑکنیں کسی اور لے میں بہنے لگی تھیں۔کچھ پل کیلیے اس نے فرزام کو حیرت سے دیکھا تھا لیکن جلد ہی اس کی نظروں کا تاب نہ لا سکی اور پلکیں جھکا گئی۔
۔اب کوئی بھی تمہیں مجھ سے جدا نہیں کر سکتا۔یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لو جنگلی بلی۔۔۔ ۔"وہ گھمبیر لہجے میں کہتا سارے ماحول پر چھا سا گیا تھا۔وہ سٹپٹا کر نظریں چرا رہی تھی لیکن راہ فرار دکھائی نہیں دے رہی تھی۔فرزام دلچسپی سے اس کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
"تم.....تم نہایت ہی ٹھرکی انسان.... تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی؟.....میں تمہیں کچا چبا جاؤں گی۔"اور کچھ نہ بن پڑا تو مصنوعی خفگی سے اس کے کندھے پر مکے برسانے لگی۔وہ ہنستے ہوئے اپنا بچاؤ کرنے لگا ۔۔۔۔
یہ تمہارا کمرہ نہیں فضول انسان ۔۔۔۔
"اگر کوئی دیکھ لیتا تو؟.......بدتمیز جان نکال کے رکھ دی میری۔"کہیں بھی شروع ہو جاتے ہو ۔۔۔۔۔
" نکلو یہاں سے ۔"اسے دھکیلتے ہوئے بولی۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
"کیا سوچ رہے ہو اب ؟آگے کیا ارادہ ہے ؟۔"
"سر ہم آج رات اس کے ایک ہوٹل اور دوسرے اڈوں پر ایک ساتھ ریڈ کریں گے۔"اس ہوٹل میں نچلے فلور پر ریسٹورنٹ ہے اور اوپر والے چار فلورز پر کمرے ہیں۔دن کے وقت وہاں بہت رش ہوتا ہے ۔۔۔ایسے میں ریڈ کرنا بہت مشکل تھا۔شہری حملے کی زد میں آ سکتے تھے۔رات کو بھی رش ہوتا تھا لیکن دوپہر کی نسبت کم ہوتا ہے۔زیادہ تر لوگ اپنے کمروں میں ہوتے تھے۔۔۔اس لیے اتنا نقصان نہیں ہوگا۔
"ابھی کیوں نہیں؟"
"ابھی ہوٹل میں بہت سے لوگ ہوں گے وہاں۔رات دس بجے کا وقت ٹھیک رہے گا۔"
"ٹھیک ہے فرازم جیسے تم ٹھیک سمجھو ۔۔۔مجھے اس کیس میں تم سے بہت سی امیدیں ہیں ۔۔۔۔
عمر بولا۔۔۔۔
"میں بھی ساتھ جاؤں گا۔"
"پوچھ رہے ہو یا بتا رہے ہو؟"
"بتا رہا ہوں۔میں بھی اپنے ملک کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دوں گا۔اور اس دفعہ اسے چھوڑوں گا نہیں اس پاشا کو ۔۔۔۔
عمر مجھے وہاں تمہاری زرا سی بھی لاپرواہی برداشت نہیں ہوگی ۔۔۔۔ اور تمہیں تو پتہ ہے میں قانون کے معاملے میں بہت سٹریٹ فاروڈ ہوں۔"فرزام نے کہا۔
"یس سر "وہ با ادب انداز میں بولا ۔۔
مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہوں آپ کو ۔۔۔کب سے آپ کے ساتھ ہوں ۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
وہ دونوں اپنا کچھ ضروری سامان لیے سب سے مل کر آج ہی اسلام آباد آئے تھے ۔۔۔۔
سارا راستہ گاڑی میں خاموشی چھائی رہی ۔۔۔۔یارق کی خاموشی اسے کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ لگ رہی تھی ۔۔۔
وہ ترچھی نگاہوں سے اسے سارا راستہ دیکھتی رہی مگر اس کا چہرہ بے تاثر تھا ۔۔۔
وہ اسے چھیڑ کو طوفان کا رخ اپنی جانب موڑ نا نہیں چاہتی تھی اسی لیے خاموشی میں ہی عافیت جانی ۔۔۔۔۔
راستے میں۔ ایک جگہ گاڑی روک کر انہوں نے ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا ۔۔۔انہیں یہاں پہنچتے ہوئے شام ہو چکی تھی ۔۔۔۔
نورالعین کا سامان ایک کمرے میں رکھ کر وہ خود باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔
وہ فریش ہوئے بستر پر لیٹی تو تھکان کی وجہ سے جلد ہی نیند کا غلبہ چھایا۔۔۔۔۔
رات کا نجانے کونسا پہر تھا جب وہ سیگریٹ پھونکتا کسی کی یاد میں تصویر دیکھنے میں مگن تھا۔ وہ لان میں لگے جھولے پر آڑا ترچھا لیٹا ہوا تھا۔ آنکھیں شدتِ ضبط سے لال ہورہی تھیں۔ پتا نہیں کیا خیال آیا اور سیگریٹ زمین پر پھینک دی۔ وہ شایدکبھی میری تھی ہی نہیں ۔۔۔
جانے کب سے اسے سگریٹ نوشی کی لت لگی تھی ۔۔۔۔۔
کھلے آسمان کے نیچے بیٹھا وہ موبائل فون میں دلبرا کی پارٹی والے دن کی بےشمار تصویریں دیکھنے میں محو تھا۔
"کیا کروں میں ؟۔ کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا ؟ ۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی کے لیے اتنا رویا تھا۔
یارق چہرہ بار بار رگڑ رہا تھا اور چہرہ بار بار بھیگ رہا تھا۔ "دیکھو آج میں کتنا بےبس ہوگیا ہوں"
میں چپ ہوں تو اپنے بھائی کی وجہ سے ۔۔۔
اگر تم میرے بھائی کے علاؤہ کسی اور کے ساتھ ہوتی تو قسم سے چھین لاتا تمہیں میں ۔۔۔۔۔مگربات یہاں میرے بھائی کی ہے ۔۔۔
میں بھلا دوں گا تمہیں ۔۔۔۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔۔
اپنے دل و دماغ میں سے نکال دوں گا تمہیں بھی اور خود سے جڑی تمہاری یادوں کو بھی ۔۔۔۔۔
اس نے خود سے تہیہ کیا تھ۔۔۔۔
دیکھو تم سے دور ہونے کے لیے میں سب سے دور ہو گیا ۔۔۔۔
جب تک میں اپنے دل کو مضبوط نہیں کر لیتا تمہارے معاملے میں تمہارے سامنے نہیں آؤں گا ۔۔۔۔
گیلری میں موجود تصویروں کا ڈھیر دیکھ کر آل ڈیلیٹ کے آپشن پر انگلی رکھی ۔ یہ کام اس کے لیے بہت مشکل تھا۔ آنکھیں آنسو بہا رہی تھی اور دل یہ سب کرنے سے انکاری تھا۔
ایک پریس کی دیر تھی ۔۔۔۔سب کچھ ختم ہو گیا ۔۔۔۔۔
"تمہیں دیکھنے کا آخری سہارا بھی ختم"۔ وہ کرب سے خود سے ہی بول رہا تھا
وہ اسے بھول جانے کی اپنے رب سے دعا مانگنے لگا۔۔ جھولے سے اترنے کے لیے قدم زمین پر رکھے تو ایک ٹھنڈ کی لہر پورے بدن پر دوڑ اٹھی۔ ۔
تمہاری طرح میں بھی تنہا اے چاند !
"بس یہیں تک ساتھ تھا دل میرا اور تمہارا!"۔
اس نے کہہ کر لب بھینچے تھے۔ "اب ایک بار بھی اور تمہیں نہیں سوچوں گا"۔
آنکھیں سختی سے میچ کر کھولیں اور لائیٹر جیب میں رکھتے ہوئے وہ واپس کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔
نورالعین سردی اور گہری نیند میں لحاف سے خود کو محفوظ کیے سورہی تھی۔
یارق نے ہاتھ بڑھا کر اس کے گداز وجود کو خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔۔
جیسی ساری تھکان اس پر اتارنے کا ارادہ ہو ۔۔۔۔
حنان کو وہ ان کے کمرے میں سے لے تو آئی تھی مگر دل و دماغ ادھر ہی چھوڑ آئی تھی ۔
حنان کب کا سو چکا تھا مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔
وہ خود ہی اپنی ہمت پر حیران تھی کیسے وہ اتنا کچھ بول گئی تھی انہیں ۔۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور دوپٹہ اپنے گرد لپیٹ کر باہر آئی ۔۔۔آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے قدم لڑکھڑائے مگر وہ ہمت کیے دروازے تک آئی ۔۔۔۔
ناب کھول کر ان کی حالت دیکھنے کی ہمت خود میں مفقود پائی ۔۔۔
تو ناب کے سوراخ سے اندر جھانکا ۔۔۔۔
وہ بستر پر چت لیٹے چھت کو گھور رہے تھے ۔۔۔۔موذن نے اذان دینا شروع کی تو وہ اپنے بستر سے اتر کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
"شکر ہے ٹھیک ہیں۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ وضو کر کہ باہر آتا ۔۔۔
وہ تیزی سے دبے پاؤں نیچے اتری اور خود بھی وضو کر کہ نماز ادا کرنے لگی ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد زیدان قریبی مسجد سے نماز ادا کرنے کے بعد واپس آیا تو چینج کیے روزانہ کے معمول کے مطابق جم میں چلا گیا ۔۔۔۔
وہ کچن میں موجود تھی اس کے لیے گرم پانی کی بوتل بنا کہ رکھتے ہوئے اب اس کے لیے فریش جوس بنانے کی تیاری کررہی تھی ۔۔۔۔۔
"نسیم باجی آپ یہ سر کو دیں آئیں ۔۔۔۔
حنا جی اب تو سر کہنا چھوڑ دیں ۔۔۔۔وہ مذاق اڑاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
پھر کیا کہوں ؟؟؟وہ سیب کے چھلکے اتارے ہوئے پوچھنے لگی ۔
زیدان کہا کریں ۔۔۔۔اور کیا ۔۔۔۔
اور جائیں اب یہ آپ خود دے کر آئیں۔۔۔۔
"نہیں آپ ہی دے آئیں وہ مجھ سے ناراض ہوں گے ۔۔۔۔
"بی بی جی آپ انہیں ان کے حال پر مت چھوڑیں ۔۔۔۔انہیں اپنی موجودگی کا احساس دلائیں ۔۔۔۔۔ان کے آگے پیچھے پھریں ۔۔۔۔
یوں ہر وقت کمرے میں چھپ کر رہیں گی تو کیسے انہیں آپ کی ذمے داری کا احساس ہو گا ۔۔۔۔
انہیں اپنی طرف متوجہ کریں ۔۔۔۔
وہ اسے مشورہ دینے لگی ۔۔۔۔
"کتنی بری بات ہے ۔۔۔۔نسیم باجی کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا ۔۔۔۔۔
"اس میں کیا برائی بھلا ۔۔۔۔آپ اپنے شوہر کو متوجہ کر رہی ہیں کسی غیر کو تھوڑی نا ۔۔۔جو برا لگے گا ۔۔۔۔۔
اُف نسیم باجی کیسی باتیں کرتی ہیں آپ ۔۔۔۔مجھ سے نہیں ہوگا یہ سب ۔۔۔۔۔
چلیں شروعات اسی بوتل سے کریں ۔۔۔۔۔
جائیں دے کر آئیں ۔۔۔۔۔
"نہیں ۔۔۔۔وہ جم میں ہیں ۔۔۔اور اس حالت میں ان کے سامنے نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔
آپ دے آئیں نا پلیز ۔۔۔۔
ناشتہ پکا میں لے کر جاؤں گی ۔۔۔۔۔
ابھی میں حنان کو دیکھ لوں اسے تیار کر کہ لاتی ہوں ناشتے کی میز پر۔۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے بی بی جی ۔۔۔۔
آپ پلیز مجھے بی بی جی کہنا بند کریں ۔۔۔۔مجھے اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔۔
ارے بی بی جی آپ اب زیدان صاحب کی بیوی ہیں تو اسی حساب سے کہنے لگی ۔۔۔۔
آپ مجھے میرے نام سے ہی بلائیں ۔۔۔۔
اچھا چلیں ٹھیک ہے ۔۔۔جیسے آپ خوش ۔۔۔۔
زیدان فریش ہوئے باہر آیا تو نک سک سے تیار تھا ۔۔۔۔۔
ٹی ۔وی لاونج میں بیٹھا تھا ۔۔۔۔صبح سات بجے کی خبریں دیکھنا اس کے معمول میں شامل تھا ۔۔۔۔ارد گرد نگاہ دوڑائی تو ایل ۔ای۔ڈی کا ریموٹ دور پڑا تھا ۔۔۔۔۔
نسیم ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگا رہی تھی ۔۔۔۔
حنا ,حنان کو تیار کر کہ اپنے ساتھ باہر لے کر آئی تو زیدان کو اخبار میں منہ دئیے پایا۔۔۔
وہ منہمک انداز میں اخبار پڑھنے میں محو تھا ۔۔۔۔
"ریموٹ پکڑاو "
اس نے اپنے پاس چہل پہل محسوس کی تو کہا ۔۔۔۔
وہ سمجھا نسیم ہے ۔۔۔۔۔
حنا نے ریموٹ اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔
"ایل ۔ای۔ڈی آن کرو ۔۔۔۔۔اگلا حکم ملا ۔۔۔۔
"ز۔۔۔۔زیدان مجھے اسے آن کرنا نہیں آتا ۔۔۔۔۔
اس نے اخبار سے نظر اٹھا کر سامنے موجود ہستی کو دیکھا ۔۔۔۔۔
اس کی کہی بات ذہن میں آئی ۔۔۔
مجھے آن کرنا نہیں آتا ۔۔۔۔۔
کیا تمہیں اسے آن کرنا نہیں آتا ۔۔۔۔وہ بے حد حیرانگی سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔
اس نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔۔
وہ بابا کے گھر یہ تھا ہی نہیں ۔۔۔۔پہلے غنیہ آپی ہوتی تھیں تو وہی لگاتی تھیں۔۔۔اس کے بعد میں نے کبھی لگایا ہی نہیں ۔۔۔۔وہ سر جھکائے ہوئے اسے شرمندگی سے بتانے لگی ۔۔۔۔
بابا آج پارک جانا ۔۔۔۔وہ حنا کا ہاتھ چھڑوا کر اس کے پاس آیا ۔۔۔۔۔
زیدان اس کے اپنے پاس آنے پر حیران ہوا ۔۔۔۔
حنا اسے باہر لانے سے پہلے سمجھا کر لائی تھی کہ وہ اس کے بابا ہیں اس سے بہت پیار کرتے ہیں اس لیے وہ ان کے ساتھ بھی باتیں کیا کرے ان سے بھی فرمائش کیا کرے جیسے وہ اس سے کرتا ہے ۔۔۔۔۔
اسی لیے وہ زیدان کے پاس جا کر بیٹھا ۔۔۔۔
"ہمممممم۔ٹھیک ہے آج میں گھر جلدی آؤں گا پھر چلیں گے ۔۔۔۔۔
وہ اس کے گال چھو کر پیار بھرے انداز میں بولا ۔۔۔
زیدان نے اس کے ہاتھ سے ریموٹ کنٹرول کے کر ایک طرف رکھ دیا ۔۔۔۔
آج نیوز دیکھنے کا ارادہ ملتوی کیے حنان کے ساتھ وقت گزارنے کا سوچتے ہوئے ۔۔۔۔۔
وہ دونوں ڈائننگ پر آئے تو حنا بھی آج پہلی بار ان دونوں کے ساتھ بیٹھی ۔۔۔۔نسیم نے ناشتہ سرو کیا۔۔۔۔
خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا گیا ۔۔۔۔
ناشتے کے دوران وہ چور نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔
جس کے چہرے پر آج اتنے عرصے بعد طمانیت دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔
جبکہ اس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
سورج کی روشنی سے لان کا سبزہ بھی اجلا اجلا سا دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔یارق نے بستر سے اٹھ کر کھڑکی کے پردے ہٹائے تو سامنے کا منظر دیکھا۔۔۔۔
دل کو بدلنے کی کوشش کی تو سب کچھ نکھرا نکھرا سا لگا ۔۔۔۔
وہ فریش ہوئے تیار ہوا پھر کچن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
ٹوسٹ بنائے پھر ایگ فرائی کیے۔۔۔اور ایک طرف کافی بیٹ کرنے لگا ۔۔۔۔
اسے پتہ تھا نور کو کافی پسند ہے ۔۔۔۔
گرما گرم بھاپ اڑاتا کافی کا مگ ۔فرائی انڈہ اور ٹوسٹ ایک ٹرے میں رکھے ۔۔۔
وہ روم میں آیا ۔۔۔جہاں نور ابھی تک سردی کی وجہ سے کمبل میں دبکی پڑی تھی ۔۔۔۔
اس کے چہرے پر کتنی معصومیت تھی ۔۔۔
یارق ٹرے ںیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اس کی طرف پلٹا ۔۔۔۔
اور بستر پر جگہ بناتا ہوا اس کے پاس بیٹھا ۔۔۔۔
اس کی مڑی گالوں کو چھوتی ہوئی پلکوں کو پھونک مار کر ہلایا۔۔۔۔۔
اس کی مخصوص مہک اور پھونک دونوں نور کو جھٹ پٹ اٹھنے پر مجبور کر گئی ۔۔۔۔
وہ حق دق سی اسے پوری آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی ۔۔۔۔
صبح بخیر!!!!!!
وہ دھیرے سے مسکرا کر بولا۔۔۔۔۔
نور نے بستر میں چھپا ہوا اپنا ہاتھ باہر نکالا اور دھیرے سے یارق کے گال کو چھوا۔۔۔۔۔
"خواب نہیں دیکھ رہی حقیقت ہے یہ "وہ مسکرا کر بولا۔۔۔۔۔
نور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔
اور شرمندہ سی سر جھکا گئی ۔۔۔۔۔
یارق نے کھانے والا ٹرے اٹھا کر اس کے سامنے پیش کیا۔۔۔۔
ناشتہ کر لو ۔۔۔۔
وہ گنگ سی اس کی کایا پلٹ پر دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔
وہ تو کبھی خود اٹھ کر ایک گلاس اپنے لیے پانی بھی نا لینے والا انسان تھا کحجا کہ ناشتہ بنانا ۔۔۔۔۔
یہاں کہ آفس میں پہلا دن ہے لیٹ نا ہو جاؤں ۔۔۔شام کو ملتے ہیں ۔۔۔۔اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔وہ اس کے دائیں گال کو ہولے سے تھپتھپاتا ہوا ۔۔۔اٹھا اور لیپ ٹاپ والا بیگ اور موبائل اٹھائے باہر نکل گیا۔۔۔۔
نور بے یقینی سے ٹرے میں موجود ناشتے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
پھر اپنے گال پر ہاتھ رکھا جہاں اس کا لمس ابھی بھی محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔
اس پیار بھرے واقعے کو حقیقت کے پیراہن میں لپٹے ہوئے دیکھ اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
وہ پولیس یونیفارم میں ملبوس تیار ہوئے سر پر کیپ جمائے باہر نکلا تو سب ناشتے پر اس کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔
دلبرا نور کے جانے کے بعد نگہت بیگم کے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹانے لگی تھی ۔۔۔۔
باقی کا کام تو ہیلپرز کرتے تھے مگر کچن کا کام گھر کی خواتین کے زمہ داری تھا ۔۔۔۔
نگہت بیگم اور دل بھی ناشتہ میز پر ُچنے خود بھی اپنی اپنی جگہ پر بیٹھی ۔۔۔۔۔
یارق نے یہاں کے آفس کا بہت کام سنبھالا ہوا تھا ۔۔۔اس کے چلے جانے سے مجھ پر پھر سے کام کا بہت برڈن آن پڑا ہے ۔۔۔۔
ضماد تغلق کے لہجے میں پریشانی کی جھلک تھی ۔۔۔۔۔
_انکل اگر آپ برا نا منائیں تو میں کچھ کہنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔
"اس میں برا منانے والی کیا بات ہے ۔۔۔۔تم بتاؤ کیا کہنا چاہتی ہو ؟؟؟
میں نے بھی ایم ۔بی۔اے کیا ہوا ہے ۔۔۔۔اگر آپ چاہیں تو میں بزنس میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں ۔۔۔۔
"بیٹا جی مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔تم بڑوں اور اپنے شوہر سے پوچھ لو ۔۔۔۔انہوں نے شہباز تغلق اور فرزام کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔
"یہ آفس چلی جائے گی تو کچن کے کام میں میری مدد کون کروائے گا ؟
نگہت بیگم نے تلخ لہجے میں کہا۔
"اتنے سارے ملازم ہیں گھر میں کسی سے بھی مدد لینا ۔۔۔۔
"ٹھیک ہے بچی کی اگر خوشی اسی میں ہے تو میری طرف سے اجازت ہے ۔۔۔۔مگر اصل فیصلہ تو فرزام کا ہی ہو گا ۔۔۔۔شہباز تغلق نے کہا۔۔۔۔
بولو تم کیا کہتے ہو؟؟؟؟
دلبرا نے مدد طلب نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
"میں کام ختم ہوتے ہی جلدی واپس آجایا کروں گی ۔۔۔۔وہ تیزی سے بولی ۔۔۔۔
"ہممممم۔۔۔۔ٹھیک ہے چلی جاؤ ۔۔۔۔۔
وہ جوس کا گھونٹ بھر کے بولا ۔۔۔۔۔
تھینک یو ایوری ون ۔۔۔۔
انکل آپ کا بھی بہت شکریہ میرا خواب تھا بزنس وومین بننے کا ۔۔۔جو صرف آپ کی وجہ سے پورا ہوا۔۔۔۔۔
"ایک ہی وعدے پر تمہارا شکریہ قبول کروں گا ۔۔۔۔۔
وہ کیا انکل ؟؟؟وہ اچنبھے سے انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔۔
"تم مجھے انکل کی بجائے بابا بولو ۔۔۔۔نور کی طرح ۔۔۔۔
وہ یہاں نہیں تو اس کی کمی تم پوری کردو۔۔۔۔۔
I am really very sorry uncle .....
مگر میں ایسا نہیں کہہ سکتی ۔۔۔۔
مجھے نفرت ہے بابا لفظ سے ۔۔۔۔
وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی ۔۔۔۔۔
فرزام کے ساتھ ساتھ سب نے اس کا بدلا ہوا رویہ نوٹس کیا ۔۔۔۔
اس وقت فرزام لیٹ ہو رہا تھا ۔۔۔آکر اس سے بات کرنے کا ارادہ کیے وہ پولیس اسٹیشن جانے کے لیے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
یہ ایک عالیشان ہوٹل کا منظر جہاں بیس مینٹ میں بنی بار میں ادھ برہنہ حلیے میں صنف نازک ڈی ۔جے کے تیز میوزک پر ناچ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
پاشا وہاں موجود شراب اور شباب کے نشے میں چور ان کے ساتھ ہاتھ میں وائن کا گلاس لیے جھوم رہا تھا ۔۔۔۔
اس کے آدمی ارد گرد پھیلے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔
اتنے میں بیک ڈور سے ایک لڑکی اندر آئی تو پاشا نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور ایک جاندار مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی ۔۔۔۔
وہ لڑکی بلیک لیدر جیکٹ اور پینٹ میں ملبوس ،ہاتھوں پر بلیک گلوز چڑھائے ۔۔۔۔
چہرے پر ڈیزائنڈ ماسک پہنے ۔۔۔۔سنہری بالوں کی ہائی ٹیل کیے،،،،باریک پینسل ہیل والے کور شوز پہنے اندر آئی ۔۔۔۔۔ٹک ٹک کی آواز نے سب کو اس کی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔
فرزام جو وہاں حلیہ تبدیل کیے ایک کسٹمر کا روپ دھارے ان کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔۔۔۔
پاشا کی طرف بڑھتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر غور کرنے لگا ۔۔۔۔۔
کہ یہ کون ہے جس کے بارے میں یو ۔ایس۔بی میں بھی کچھ سراغ نہیں ملا تھا ۔۔۔۔۔
شاید پاشا کی کوئی ساتھی ۔۔۔۔
مگر کون ؟؟؟؟
فرزام نے ماسک میں سے اس کی آنکھوں پر غور کیا ۔۔۔۔
وہ پاشا کے ساتھ ہاتھ ملانے لگی ۔۔۔۔
اور ہاتھ ملانے کے دوران اس نے کچھ پاشا کے ہاتھ میں بہت مہارت سے تھمایا ۔۔۔کہ کسی کو کوئی شک نا ہو ۔۔۔۔مگر وہ عمل فرزام کی زیرک نگاہوں سے مخفی نا رہ سکا ۔۔۔۔۔
وہ آنکھیں تو ۔۔۔۔۔
ایک سایہ سا اس کے پاس آ کر گزرا ۔۔۔۔۔
اس کی آنکھیں شک ہونے پر پوری طرح کھل گئیں۔۔۔۔
"دل "
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔وہ خود کو ہی تسلی دینے کے انداز میں ہلکے سے بولا ۔۔۔۔۔
شام کے سائے میں پولیس کی تین گاڑیاں اس سیکٹر کے سامنے مین سڑک پر رکی تھیں۔فرزام اور عمر کے علاوہ باقی سب پولیس یونیفارم میں ملبوس تھے۔ان کی کل تعداد چوبیس تھی۔۔فرزام کی ہدایت پر انہوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے تھے ۔فرزام خود اندر تھا اور وہیں بیٹھے ہوئے آہستہ آواز میں انہیں انسٹرکشنز دے رہا تھا ۔ارد گرد کی گلیوں کو بلاک کر دیا گیا تھا۔لوگ حیرت سے رک کر انہیں دیکھ رہے تھے۔ایک آدمی جو بظاہر فقیرانہ حلیے میں تھا وہ جلدی سے سر نیچے جھکائے کسی کو کال کرنے لگا ۔۔۔۔۔
"سر پولیس یہاں پہنچ گئی ہے۔ابھی تھوڑی دور ہے۔آپ جلدی سے نکلنے کی کوشش کریں۔"اس کا اتنا ہی کہنا تھا پاشا نے اس لڑکی کو کوئی اشارہ دیا ۔۔۔۔
فرزام اپنی جگہ سے تیزی سے اٹھا اور اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے اسے رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہا۔۔۔۔وہ اس سے صرف دس قدم کی دوری پر تھا ۔۔۔۔۔
ساری لائٹس اچانک بند ہوئیں تو ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔۔
"سب اٹھو جلدی......باہر پولیس آ چکی ہے۔اپنے اپنے اسلحے پکڑو اور ان کا مقابلہ کرو۔.....جلدی کرو میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو۔"پاشا اندھیرے میں حواس باختہ سا کہتا ایک جانب بھاگا۔۔۔۔
وہاں بھگدڑ مچ گئی۔۔۔۔۔
"کاشی جلدی نکلو یہاں سے پولیس کی ریڈ پڑ گئی ہے ۔۔۔۔پاشا نے فون پر کاشی کو بھی مطلع کیا ۔۔۔۔۔
"باہر سے انہوں نے ہمیں گھیر لیا ہے ۔۔۔زیر زمین کا خفیہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا یہاں سے نکلنے کے لیے آؤ میرے پیچھے ۔۔
ہوٹل کی بیس مینٹ میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔۔لوگ گولیوں کی وجہ سے ادھر ادھر چھپ گئے تھے۔کچھ آدمیوں نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر وہ پکڑے گئے ۔۔۔۔ پولیس کے سپاہی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے۔۔۔۔۔
انہیں میں سے ایک آدمی جو کہ پاشا کا چمچہ تھا ۔۔۔۔
فرزام نے جھک کر اسے گریبان سے پکڑا اور اپنے سامنے کھڑا کیا۔
"پاشا کہاں ہے؟"اس نے سخت لہجے میں پوچھا۔وہ کچھ بول نہیں سکا۔فرزام نے ایک زور دار پنچ اس کے منہ پر مارا تو وہ لڑکھڑا کر نیچے گرا۔باقی سپاہی بھی بیسمینٹ میں بنےمختلف کمرے چیک کرنے لگے تھے جنہیں فرزام ہی لیڈ کر رہا تھا۔۔۔
"وہ بھاگ گیا ہے۔"اس نے دو تین مکے کھانے کے بعد جلدی سے کہا۔دوسرے لوگوں نے بھی ہر جگہ چیک کر لیا تھا لیکن یہاں کوئی نا ملا۔۔۔۔
سب فرار ہونے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
"ڈیم اٹ۔"وہ جھنجھلا کر کہتا واپس مڑا ۔سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ کان کا آلہ دباتے ہوئے اپنے ہیڈ کو پاشا کے بھاگنے کی اطلاع دے رہا تھا۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
شام کو زیدان وقت رہتے واپس آگیا ۔۔۔۔
آج موسم کافی خوشگوار تھا ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی آسمان پر گہرے بادلوں نے بسیرا کر لیا تھا ۔۔۔۔اسی حساب سے حنا نے آج پکوڑے بنانے کا سوچا ۔۔۔۔
ایک طرف کڑاھی میں تیل گرم کیے پکوڑے بنا رہی تھی دوسری طرف ہری مرچ کی چٹنی بنا رہی تھی ۔۔۔۔
اپنے پاس حنان کو شیلف پر بٹھا کر اسے ساتھ ساتھ نوڈلز کھلا رہی تھی ۔۔۔۔۔
اچانک ہون دستے میں ہاتھ سے چٹنی پیستے ہوئے ہری مرچ کا دانہ اس کی آنکھ میں گیا ۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔ہ۔۔۔۔۔ایک زور دار چیخ اس کے گلے سے برآمد ہوئی ۔۔۔۔۔
زیدان جو فریش ہوئے اپنے قمیض کے کف موڑتے ہوئے نیچے آ رہا تھا ۔۔۔اس کی چیخ سن کر تقریبا بھاگتے ہوئے کچن میں آیا ۔۔۔۔
وہ آنکھ پر ہاتھ رکھے چلا رہی تھی ۔۔۔۔
حنا جی آنکھ میں پانی کے چھینٹے ماریں ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔
نسیم اسے مشورہ دے رہی تھی ۔۔۔۔
آہ ۔۔۔۔۔بہت جلن ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔
وہ جلن سے دوہری ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
ادھر آؤ ۔۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑے کھینچ کر سنک کے پاس لے گیا ۔۔۔۔۔
اور ہاتھ میں پانی بھر کر اس کو تھوڑا سا اوندھا کیے اس کی آنکھ میں چھینٹا پھینکنے لگا ۔۔۔۔
مگر وہ آنکھ کھول ہی نہیں رہی تھی اور جلن سے کراہ رہی تھی ۔
"بے وقوف لڑکی آنکھ کھولو گی تو ہی پانی اندر جائے گا اور جلن دور ہوگی ۔۔۔۔
وہ اس کی حالت سے چڑ کر غصے سے بولا ۔۔۔
"نہیں کھل رہی کیا کروں ۔۔۔۔آہ سچی بہت جلن ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔
زیدان نے ایک ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس کی آنکھ کے پردے کو کھولا ۔۔۔۔
اور دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں پانی بھر کر اس کی آنکھ میں چھینٹا مارا ۔۔۔۔
کئی دفعہ یہ عمل دہرایا ۔۔۔۔
"اب ٹھیک ہوا ؟؟؟؟وہ پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
کچھ کچھ ۔۔۔۔مگر ابھی بھی آنکھ نہیں کھل رہی ۔۔۔۔۔
نسیم سوپ لاؤ ۔۔۔۔ہری مرچ کی جلن صرف پانی سے نہیں جائے گی ۔۔۔۔
سوپ لگا کر دھوو۔۔۔۔
وہ حکم جاری کیے بولا ۔۔۔۔
حنا نے سوپ سے چہرہ دھویا ۔۔۔۔
آنکھ کھلی تو مگر سرخی مائل ہو چکی تھی ۔۔۔۔اور اس آنکھ سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا ۔۔۔۔
سٹوپڈ گرل ۔۔۔۔۔اسےکھانا بنانا آتا ہے ۔۔۔۔یہی کہہ رہی تھی تم ؟؟؟ وہ نسیم کی طرف دیکھ کر تاسف سے سر ہلا کر بولا ۔۔۔۔
بابا مما کو درد ہے ۔۔۔۔انہیں پھونک ماریں۔۔۔۔
جب مجھے درد ہوتا ہے مما مجھے لا الہ الااللہ پڑھ کہ پھونک مارتی ہیں پھر پیار کرتی ہیں ۔۔۔۔آپ بھی کرو نا ماما کو پھر مما ٹھیک ہو جائیں گی ۔۔۔۔حنان شیلف پر بیٹھا کب سے حنا کی حالت دیکھ کر پریشان تھا ۔۔۔۔
زیدان سے بولا۔۔۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں ہنی ۔۔۔۔وہ اپنی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر بولی ۔۔۔۔۔
ادھر دکھاؤ ۔۔۔۔۔وہ حنا کے شانے سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب گھماچکا تھا ۔۔۔۔
"تمہیں تو ہوا بھی اپنے ساتھ اڑا کر لے جائے ۔۔۔۔وہ اس کی سمارٹنیس پر چوٹ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
حنا نے آنکھ سے ہاتھ ہٹا کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
وہ اس کی آنکھ میں پھونک مارنے لگا ۔۔۔۔
حنان دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجانے لگا ۔۔۔۔
بابا مما پیار ۔۔۔۔۔ہا۔ہا۔۔ہا۔۔۔۔۔وہ کھلا کر ہنسا۔۔۔۔
حنان تمہیں پارک جانا ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔؟
زیدان چلتے ہوئے اس کے پاس آیا ۔۔۔۔
جانا ہے بابا ۔۔۔۔
چلو پھر آؤ ۔۔۔۔وہ اسے شیلف سے اٹھا کر نیچے اتارتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
بابا مما بھی ۔۔۔۔۔
وہ حنان کی پھر سے بے کا خواہش پر تلملا کر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔
مگر اس کی خوشی کے لیے یہ کڑوا گھونٹ بھی بھرنا پڑا ۔۔۔۔۔
"چلو ۔۔۔۔یا تمہیں کوئی خاص انویٹیشن دینا پڑے گا ۔۔۔۔۔وہ لٹھ مار انداز میں بولا۔۔۔۔
حنان کے چہرے کی خوشی کو ماند پڑتے نہیں دیکھ سکتی تھی اسی لیے باوجود اس کے درشت روئیے کے بھی وہ ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔۔۔۔۔
نسیم تم بھی چلو ۔۔۔۔حنان کے لیے پانی کی بوتل بھی لے لو اور فٹ بال بھی لے آؤ ۔۔۔۔
وہاں میرا لٹل چیم فٹ بال سے کھیلے گا ۔۔۔۔
کھیلے گا نا ؟؟؟
جی بابا ۔۔۔۔وہ اثبات میں سر ہلا کر خوشی سے بولا ۔۔۔۔۔
پھر وہ سب کالونی کے قریبی پارک میں داخل ہوگئے ۔۔۔۔۔
نسیم اور حنا بینچ پر بیٹھ کر ان دونوں کو فٹ بال کھیلتا ہوا دیکھنے لگیں ۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں تھک کر ان کے پاس آئے ۔۔۔۔۔
بابا مجھے پارپ کارن لینے ہیں ۔۔۔۔وہ دور لگی پارپ کارن کی مشین کی طرف اشارہ کر کہ بولا ۔۔۔۔۔
آؤ لے کہ دیتا ہوں ۔۔۔۔زیدان نے اسے کہا ۔۔۔۔
صاحب جی آپ تھک گئے ہوں گے آپ ادھر بیٹھیں میں لے کر آتی ہوں ۔۔۔۔۔نسیم نے کہا۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے تم لے آؤ ۔۔۔۔وہ اسے والٹ سے پیسے نکال کر دیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
حنا کے ساتھ حنان بیٹھا تو زیدان دوسری خالی جگہ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
بابا وہ دیکھیں ۔۔۔۔
زیدان نے اس کی توجہ کسی جانب کروائی ۔۔۔
زیدان نے اس کی انگلی کے اشارے پر دیکھا تو ۔۔۔دو بچے اپنے والدین کے ساتھ موبائل پر سیلفی لے رہے تھے ۔۔۔۔۔
بابا ہم بھی بنائیں ؟؟؟؟
اوکے ۔۔۔۔وہ اپنی پاکٹ سے آئی فون نکال کر اسے سیلفی موڈ پر کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
ایک منٹ بابا ۔۔۔۔ایسے نہیں ۔۔۔۔۔
آپ مجھے کس کریں اور میں مما کو کروں گا ۔۔۔۔پھر آپ تصویر بنانا ۔۔۔۔
تصویر نہیں سیلفی ۔۔۔۔۔
وہی بابا ۔۔۔۔۔
زیدان نے تینوں کو کیمرے میں سیٹ کیا ۔۔۔۔
اور لب حنان کے گال پر رکھنے لگا تو وہ فورا نیچے ہوا۔۔۔۔۔
حنا جو اپنا گال حنان کے آگے کر رہی تھی ۔۔۔۔
اچانک اس پر زیدان کے لبوں کے ساتھ ساتھ اس کی مونچھوں کی چبھن بھی محسوس کی تو جھٹ آنکھیں میچ گئی ۔۔۔۔
سیلفی کیپچر ہو چکی تھی اس منظر کی ۔۔۔۔
زیدان تو خود ساکت رہ گیا ۔۔۔۔حنان کی شرارت پر ۔۔۔۔
اور شرمندہ سا رخ پھیر گیا۔۔۔۔۔
جبکہ حنا کا تو جیسے پورے بدن کا لہو چہرے پر چھلک آیا تھا۔۔۔۔چہرہ خفت کے باعث سرخ ہوا ۔۔۔۔۔
کانوں کی لوئیں دہکنے لگیں ۔۔۔۔۔۔
اچانک موسم نے انگڑائی لی ۔۔۔۔سیاہ بادلوں نے برسنے کا موڈ بنا لیا۔۔۔۔۔
بارش کی ننھی ننھی بوندیں ٹپکنے لگیں ۔۔۔۔
نسیم پارپ کارن لے کر واپس آئی ۔۔۔۔
حنان جو اکیلا فٹ بال کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔۔۔اس نے فٹ بال کو کک ماری تو وہ لڑھکتے ہوئےدور جا گرا ۔۔۔۔۔
نسیم اس سے پہلے کہ بارش تیز ہو جائے ۔۔۔۔
تم حنان کو لے کر گھر چلو میں بال کے کر آتا ہوں ۔۔۔۔۔
نسیم اسے بارش سے بچاتے ہوئے تیزی سے لے کر گھر کی طرف بڑھی ۔۔۔۔۔
زیدان بال لے کر واپس لوٹا تو وہ ابھی بھی وہیں ساکت سی بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔
محترمہ یہیں رہنے کا ارادہ ہے یا گھر چلنا ہے ۔۔۔۔وہ اس کے سر پر کھڑا تیز لہجے میں بولا ۔۔۔۔
مگر وہ جانے کس دنیا میں گم تھی ۔۔۔۔۔جیسے اس نے کچھ سنا ہی نا ہو ۔۔۔۔۔
اے لڑکی چلنا ہے یا یہیں چھوڑ جاؤں ؟؟؟وہ اسے گم سم دیکھ کر اس بار اونچی آواز میں بولا۔۔۔۔
وہ جیسے حواسوں میں لوٹی ۔۔۔۔
اور اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی ۔۔۔۔کپڑے کافی حد تک بھیگ چکے تھے ۔۔۔۔۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ گھر کی طرف چلنے لگے ۔۔۔۔۔
آنکھوں کے سامنے بار بار کچھ دیر پہلے والا منظر لہرا رہا تھا۔۔۔۔راستے میں پڑا ہوا پتھر بھی دکھائی نا دیا۔۔۔۔
ایک زوردار ٹھوکر لگی ۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ گرتی کسی نے اس کی کمر سے اس تھام کر گرنے سے بچایا ۔۔۔۔۔
وہ اس کے اتنے قریب تھی کہ اس کی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر پا رہی تھی ۔۔۔۔۔
زیدان نے اسے یک ٹک اپنی طرف دیکھتا پا کر جھٹکا دے کر چھوڑنے لگا۔۔۔۔
وہ ہوش میں آئی مگر خود کا توازن برقرار نا رکھ سکی ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی زیدان نے اسے پھر سے پکڑ کر کھڑا کیا۔۔۔۔
یہ شاید اس کا حنا کو ہوش میں لانے کا ِٹرک تھا۔۔۔۔
سردیوں کی سرد ٹھٹھرا دینے والی شام جب کُہرا چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔ہوا میں خنکی حد درجہ بڑھ چکی تھی ،،وہ گاڑی لاک کر کہ اندر آیا تو گھر کے اندر کا ماحول خوابناک بنا ہوا تھا ۔۔وہ یہ دلکش ماحول دیکھ کر ٹھٹکا۔۔۔۔
کوٹ ایک طرف رکھ کر وہ آگے آیا۔۔۔۔
ڈائننگ ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھانے موجود تھے ،ساری لائٹس آف کیے بس کینڈلز کی مدھم روشنی میں ڈنر سیٹ کیاگیا تھا ۔۔
وہ خود جینز اور لانگ سوئیٹر پہنے گلے میں مفلر لیے۔۔۔لائٹ سے میک اپ میں ۔۔اوپر سے نیچے اتر رہی تھی ۔
یارق اسے دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم! نورالعین نے دھیرے سے کہا
وعلیکم السلام!اس نے جواب دیا ۔۔۔
آپ ہینڈ واش کر لیں ۔پھر ڈنر کرتے ہیں۔
ہممم۔۔۔۔ٹھیک ہے ابھی آتا ہوں ۔کہہ کر وہ واش بیسن کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد واپس آیا ۔۔۔۔۔
وہ چئیر پر بیٹھا تو نور العین نے پلیٹ اس کے آگے رکھ کر سب ڈشز پر سے کور ہٹائے ۔۔۔۔۔
سارا چائینز کھانا دیکھ اسنے حیرت سے نور العین کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
"مجھے پتہ ہے آپ کو چائینز کھانے پسند ہیں اسی لیے بنایا ۔۔۔۔۔
مگر تمہیں کیسے پتہ ؟؟؟
مجھے تو آپ کے بارے میں سب پتہ ہے ۔آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے اور کیا نا پسند ۔۔۔۔اور بھی بہت کچھ۔۔۔۔۔
مثلاً۔۔۔۔وہ اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
اور وہ اس کے چھوٹے چھوٹے سوالوں کے جواب دے رہی تھی ۔۔۔۔
"تم نے تھک گئی ہو گی ۔۔۔۔اتنا اہتمام کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟؟
آپ کے لیے کچھ بھی کرنا مجھے سکون دیتا ہے ۔۔۔مجھے اچھا لگتا ۔۔۔۔سب کرنا ۔۔۔۔
ہلکی پھلکی باتوں کے دروان ڈنر کا اختتام ہوا تو وہ کچن میں برتن سمیٹ کر آئی ۔۔۔۔
"آپ کافی پئیں گے ؟؟؟
نہیں کافی کا موڈ نہیں ۔
"تم آئیس کریم کھاؤ گی ؟؟؟
آپ کو کیسے پتہ کہ اس موسم میں آئس کریم کھانا مجھے پسند ہے ۔۔۔۔۔
سچ کہوں ؟؟؟یارق نے پوچھا
ہممممم۔۔۔۔وہ بولی ۔
ویسے اندازہ لگایا ۔۔۔۔
اچھا چلو آؤ آئس کریم کھا کر آتے ہیں۔
"لیکن آپ تھک گئے ہوں گے ۔۔۔۔آپ آرام کریں ۔۔خواہ مخواہ آپ کو پریشانی ہو گی ۔
تم نے بھی تو میرے لیے تھکان کی پرواہ کیے بنا اتنا کیا ۔۔تو کیا میں تمہارے لیے اتنا نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔
چلو نا باقی کی باتیں راستے میں پوچھ لینا ۔۔۔۔
وہ پورچ میں سے گاڑی نکالنے لگا ۔۔
رکیں ۔۔۔۔۔وہ اسے گاڑی کھولتے ہوئے دیکھ کر بولی ۔
کیا ہوا ؟؟؟
ہم پیدل چلیں ۔۔۔۔؟
اوکے ۔۔۔
آؤ ۔۔۔۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے ۔۔۔۔
آئس کریم پارلر گھر سے کچھ دوری پر تھا دس منٹ پیدل چلنے کے بعد وہ وہاں پہنچ چکے تھے ۔۔۔
"کپ یا کون ؟
کون چاکلیٹ فلیور ۔۔۔۔
اوکے ابھی لاتا ہوں ۔۔۔۔
کچھ دیر میں ہی وہ کون لاکر اسے تھما چکا تھا۔۔۔۔
"آپ اپنے لیے نہیں لائے ؟
"نہیں میرا گلہ خراب ہو جاتا ہے جلد ہی ۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں واپسی کے راستے پر چلنے لگے ۔۔۔
"آپ بھی کھائیں نا۔۔۔۔اکیلے کھانا اچھا نہیں لگ رہا ۔۔
اس نے یارق کی طرف کون بڑھائی ۔۔۔۔
اس نے مسکرا کر تھوڑی سی کھالی ۔۔۔
آئس کریم کھانے کے بعد اسے اور بھی ٹھنڈ محسوس ہونے لگی ۔۔
یارق پینٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا ۔۔
نور نے اس کی ایک بازو میں اپنے دونوں ہاتھ ڈالے۔۔۔۔۔
یارق نے اس کا چہرہ دیکھا جو ٹھنڈ کے باعث نیلا اور سرخی مائل دکھائی دے رہا تھا۔۔
اس نے نور کے شانے کے گرد اپنا بازو رکھ کر اسے نرمی سے اپنے حصار میں لیا۔۔۔۔
نورالعین اس کے ساتھ لگی آسودگی سے سڑک پر چل رہی تھی ۔۔۔رات کافی ہو چکی تھی اس کُہرے میں دور دور تک کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔
بس دو سائے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے ۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
آج کی اتنی بڑی ہار کے باعث وہ تنتناتا ہوا گھر واپس آیا ۔۔۔۔۔
کمشنر نے اسے صبح اس یو ۔ایس۔بی کے ساتھ حاضر ہونے کا کہا تھا ۔۔۔۔
کمرے میں قدم رکھا تو وہ کمفرٹر میں منہ چھپائے پورے استحقاق کے ساتھ بیڈکے بیچ و بیچ سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔
اس پر ایک بھی نظر ڈالے وہ سیدھا الماری کی طرف گیا تھا اور کپڑے لے کر واشروم میں چلا گیا۔۔۔۔
وہ واشروم سے نکلا تھا اپنے گیلے ہئیر کٹ میں انگلیاں چلاتے ہوئے۔۔۔ کبرڈ کا خفیہ دراز کھول جہاں اس نے یو۔ایس ۔بی سیو کی تھی۔۔۔۔۔
مگر یہ کیا خالی دراز اس کا منہ چڑا رہا تھا ۔۔۔۔
وہ سب چیزیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ۔۔۔سارا دراز چھان مارا مگر کہیں بھی اسے وہ نظر نہیں آئی ۔۔۔۔۔
شِٹ کدھر گئی ؟؟؟؟
غصے کے عالم میں اس نے کبرڈ پر زور سے پنچ مارا ۔۔۔۔۔زوردار آواز سے دلبرا کی آنکھ کھلی ۔۔۔۔
وہ ٹیبل سے اپنی گاڑی کی چابی لے کر والٹ جیب میں ڈالتے ہوئے باہر نکلنے لگا ہی تھا کہ ۔۔
کہا ں جا رہے ہو ؟
ہٹو سامنے سے۔۔۔اس کی طرف دیکھے بغیر کہا تھا۔۔۔۔
نہیں ہٹوں گی۔۔۔اس نے ہٹ درمی دکھائی تھی۔۔
ہٹو۔۔ ۔غصے سے کہتے اس نے اسے ہاتھ سے پرے کرتے قدم اگے بڑھائے تھے۔۔۔
اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمہاری بات سنوں تو میری بات کا سچ سچ جواب دو گی ؟؟؟؟
"بولو کیا پوچھنا ہے ؟؟؟؟
"آج شام میں تم کہاں تھی ؟؟؟؟
"یہ کس قسم کا سوال ہے ؟؟؟؟
مجھے سیدھا سیدھا جواب دو ۔۔۔
"میں انکل کے ساتھ ان کے آفس گئی تھی ۔۔
اور ان کے ساتھ واپس آگئی تھی ۔۔۔۔
ادھر کبرڈ میں میری ایک ضروری یو۔ایس۔بی پڑی تھی ۔۔۔۔وہ بھی اب وہاں نہیں ۔۔۔۔۔
وہ سوالیہ انداز میں ابرو اچکا کر سپاٹ لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔
"مجھے کیا پڑی ہے تمہاری چیزوں سے چھیڑ خانی کرنے کی ۔۔۔
میں تو سارا دن گھر نہیں تھی آفس تھی ۔۔مجھے کیا پتہ وہ کہاں گئی ۔۔۔۔
دیکھو دل مجھے سچ بتانا ۔۔۔۔تمہیں پتہ سے جھوٹ سے مجھے سخت نفرت ہے ۔۔۔۔
وہ اس کے سر بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے غرایا۔۔۔
چھوڑو مجھے درندے ۔۔۔۔۔
"تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں؟؟؟؟
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔
دل تو چاہتا ہے تم پر اعتبار کروں ۔۔مگر دماغ کہتا ہے نہیں ۔۔۔
"دیکھو دل مرد کے لئے سب سے قیمتی شے ہوتی ہے اعتبار ۔۔۔۔۔۔
آج میں تم پر اعتبار کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔میرے اعتبار کو مت توڑنا ۔۔۔۔۔۔۔
اگر کبھی تم نے میرا اعتبار توڑا تو ۔۔۔۔میں اپنے ہاتھوں سے تمہاری جان لے لوں گا ۔۔۔۔
اس نےسرد لہجے میں اس کی طرف دیکھے بنا لفظ ادا کیے تھے۔۔دیکھتا تو شاید کمزور پڑ جاتا۔۔۔
"ایسا کیا کروں جو تمہیں مجھ پر اعتبار آجائے؟؟؟؟
وہ اس کی شرٹ کا کالر دبوچ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے لگی ۔۔۔۔
"آج اپنی سب سے قیمتی شے مجھے سونپ دو......
وہ طنزیہ انداز میں فرمائش کر رہا تھا۔۔۔
اسے پوری امید تھی دل ایسا کبھی نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دماغ کی سننے کی بجائے آج اپنے دل کی سنی ۔۔۔ وہ ان چند گنے چنے دنوں کو اپنی زندگی سمجھ کر ان کے سہارے ساری زندگی گزار دینا چاہتی تھی ۔۔۔ وہ ہار گئی تھی اس کے سامنے۔۔۔۔۔جانے کیوں؟
وہ اپنے درد کو چھپانا چاہتی تھی۔۔۔۔ دل میں کہیں سلگتی ہوئی چنگاری آج اس کے جذبات سے ہار گئی۔۔۔۔
آج اسے شدت سے اپنی ماں کی یاد آئی ۔۔۔۔ باپ کا ان چاہا رشتہ یاد آیا تھا کے کیسے وہ انسان اس کی ماں کی زندگی رول گیا تھا۔۔۔ کیسے اس کی ماں نے تل تل مرتے ہوئے زندگی کا آخری سفر گزارا تھا۔۔۔ پوری زندگی کیسے وہ اپنی زندگی کے عذابوں سے لڑی تھی ۔۔۔۔
اپنی ماں کی موت کا دکھ اس کے سینے میں ناسور بن کر دوڑ رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ اپنی منزل کے بہت قریب تھی ۔۔۔۔اپنے زخموں کو بخوبی پال رہی تھی ۔۔مگر ان ناسوروں پر مرہم فرزام تغلق نے اس کی زندگی میں آکر رکھا تھا۔۔۔۔کیوں وہ سب بھلانے دینے کو مجبور ہو رہی تھی اس کے سامنے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے دیکھ کر اسے جان کر وہ زندگی میں پہلی بار اپنی زندگی مکمل کرنے کی خواہش مند ہو رہی تھی ۔۔۔کیوں یہ دل دغا بازی پر اتر آیا تھا ؟
کیوں دل مچل مچل کر اس کے سنگ زندگی گزارنے کا خواہاں تھا ؟؟؟
کیوں فرازم تغلق اس کے دل میں چھائی وحشتوں اور محرومیوں کا ازالہ کرنے پر تُلا تھا ؟؟؟؟
کیوں وہ بار بار اس کے قریب آکر اس کے دل کو دھڑکا جاتا تھا ۔۔۔
کیوں وہ اسے اس کی زندگی کے مقصد سے بھٹکانے پر ِمصر تھا۔۔۔۔
دلبرا مجھے اعتماد کے بدلے میں صرف وفا اور اعتبار چاہیے ۔۔۔۔
اس نے اسے خود سے الگ کرتے اس کے بالوں میں انگلیاں پھنساتے اس کی شہہ رگ پر انگوٹھا پھیرتے کہا تھا۔۔۔۔
دل نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا ۔۔۔
"دل تم چوری کرنا کب چھوڑو گی ؟ "
"میں نے کب چوری کی ؟
"دل میرا دل چرا کر پوچھتی ہے کونسی چوری ؟؟؟؟.
دل اس کے گرد اپنے نازک بازو باندھ کر اس کے سینے سے لگی ۔۔۔
فرزام اس کی پیش رفت پر پہلےتو حیران ہوا پھر مسکرا کر اسے خود میں بھینچ لیا۔۔۔
لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نا ہو،
شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نا ہو ،
ہمکو ملی ہیں آج یہ گھڑیاں نصیب سے ،
جی بھر کہ دیکھ لیجیے ہمکو قریب سے ،
پھر آپ کے نصیب میں یہ رات ہو نا ہو ،
پاس آئیے کہ ہم نہیں آئیں گے بار بار ،
بانہیں گلے میں ڈال کہ ہم رو لیں زار زار ،
آنکھوں سے پھر یہ پیار کی برسات ہو نا ہو ،
وہ نم آواز میں بولی ۔۔۔۔پل بھر میں اس کی نم آنکھوں میں دیکھتا وہ اسے اپنے ساتھ لیے بستر تک آیا اور اسکے لبوں پہ جھکا تھا پوری شدت سے اور وہ اس اچانک افتاد پر وہ بری طرح کانپی تھی۔۔۔۔ بے حال ہوئی تھی۔۔۔ اور وہ۔۔۔۔۔۔ اور اس کی شدتیں اس کے لبوں پر بڑھتی جا رہیں تھیں۔۔۔۔اس نے اس بار مزاحمت نہیں کی تھی مگر وہ بے حال ہو رہی تھی۔۔۔۔ اس کی شرٹ کومٹھیوں میں جکڑے ہوئے۔۔ اس کے وجود اور اس کی سانسوں کو بے جان ہوتا دیکھتے وہ بڑی نرمی سے اس سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔
وہ آنکھیں میچ کر چہرے کا رخ پھیر گئی ۔۔۔۔
میری طرف دیکھو۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ اس کے دائیں بائیں سائیڈ تکیے پر رکھے اس کی جھکی پلکوں پر باری باری لب رکھتے کہہ رہا تھا۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ اس نے اپنی پلکیں جھکائے شرم سے لال ہوتے چہرے کو نفی میں ہلایا تھا۔۔
مجھے میری جنگلی بلی واپس چاہیے ۔۔۔
جو ہر وقت مجھے نوچنے کو ناخن تیز کیے رکھتی ہے۔۔۔۔اس ڈری سہمی بھیگی بلی سے رومینس کا مزہ نہیں آ رہا ۔۔۔۔
ٹھرکی پولیس والے تمہارے رومینس پر ابھی پانی پھیرتی ہوں ۔۔۔وہ تکیہ اٹھا کر اس کو مارتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
مگر فرزام پہلے سے ہی اندازہ لگاکر اس تکیے کو اس کے ہاتھ سے دبوچ کر پھینکتے ہوئے اس پر جھکا ۔۔۔۔۔
اب حامی بھر کر پیچھے مت ہٹو ۔۔۔۔
میں چھوڑنے والوں میں سے نہیں ۔۔۔۔
اور اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی سرگوشیاں کرنے لگا۔۔۔ اور وہ ان سرگوشیوں میں مدہوش ہورہی تھی۔۔۔۔فرزام کی شدتیں اور گستاخیاں مزید بڑھنے لگیں ۔۔۔۔
اور وہ اس کی شدتوں میں بھیگ رہی تھی۔۔۔۔
آنے والے پل کس نے دیکھے ہیں ۔۔۔۔جو پل اس کے ہاتھ میں تھا آج وہ انہیں جی بھر کر جی لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔
فرزام مدھوش تھا ،اس بات سے بے خبر کہ یہ اعتبار اسے کس امتحان میں ڈالنے والا تھا۔۔۔
اس اعتبار کے نتائج میں وہ کیا بھگتنے والا تھا ۔۔۔۔وہ اپنی پریشانی کی اصل وجہ تک کو بھول چکا تھا ۔
🌼🌼🌼🌼🌼🌼
زیدان جانے کے لیے نک سک تیار ہو کر نیچے آیا تو بالکل خاموشی تھی ،
لاونج میں صرف حنا موجود تھی ،بالاآخر اسے حنا سے ہی پوچھنا پڑا ۔۔۔۔
حنان کہاں ہے ؟؟؟
ہنی سویا ہوا ہے ۔۔۔۔
وہ تو روز صبح اٹھ جاتا ہے ۔۔۔۔
ساری رات ٹھیک سے سویا نہیں اسی لیے ابھی تک سویا ہوا ہے ۔اس کے گلے میں خراش تھی ساری رات کھانسی کرتا رہا ۔۔۔۔۔
میں نے اسے کف سیرپ دیا ہے ،اب تھوڑا بہتر محسوس کر رہا تھا تو سوگیا۔۔۔۔۔
"اگر تم ساری رات جاگتی رہی ہو تو تم بھی آرام کر لیتی،اٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟ "وہ یہ کہنا تو چاہتا تھا مگر کہہ نا سکا۔۔۔۔
نسیم میرے لیے چائے لے کر آؤ ۔۔۔۔
اس نے بنا اسے کوئی جواب دئیے کچن کی طرف چہرہ کیے نسیم کو ہانک لگائی ۔۔۔۔
وہ کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔
اور زیدان نیوز چینل لگا کر ڈائننگ کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ چائے پکڑے اس کے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔۔
حنا نے چائے اس کے سامنے رکھی ۔۔۔
"آپ ناشتہ نہیں کریں گے ؟؟؟
"نسیم کہاں ہے ؟
وہ حنا کا سوال اگنور کرتے ہوئے اپنے سوال داغ گیا ۔۔۔۔
وہ اپنی بیٹی کے گھر ان سے ملنے گئی ہیں شام تک آجائیں گی۔۔۔۔
وہ اپنا جگہ سے اٹھا ،والٹ ،کیز اور موبائل اٹھائیں۔۔۔۔
اوکے خدا حافظ ۔۔۔۔۔وہ کہتے ہی جانے کے لیے مڑا ۔۔۔۔۔
"جب تک ایک کپ چائے نہیں پی لیتے نا خدا آپ کی حفاظت کرے گا نا میری "
زیدان تغلق نے خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
وہ ان سنی کر کہ بڑھنے لگا۔۔۔۔
"پلیز "اس کی ملتجی نگاہوں سے دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔
جانے کیا من میں سمائی وہ واپس اپنی جگہ پر بیٹھا ۔۔۔۔
اور چائے کا کپ منہ سے لگا کر ایک گھونٹ بھرا۔۔۔۔۔
پھر موبائل نکال کر مسڈ کالز اور میسجز چیک کرنے لگا ۔۔۔۔
ایسے لگا کہ وہ کسی کی نظروں کے حصار میں ہے ۔۔۔۔زیدان نے سر اٹھائے بنا ترچھی نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔۔
وہ سامنے والی چئیر پر موجود ڈائننگ ٹیبل پر بازو رکھے تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منہمک انداز میں اسی پر یک ٹک نظریں جمائے ہوئے تھی ،جیسے آج ہی اس کے سارے نقش ازبر کر لینے کا ارادہ کیے ہوئے ہو ۔۔۔۔۔
"دل چاہتا ہے ہاتھ بڑھا کر چھو لوں ،آپ سچ میں اتنے خوبرو ہیں یا مجھے لگتے ہیں ؟
سب لڑکیوں کے حسن کے قصیدے پڑھتے ہیں ،مگر مجھے تو آپ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ خدا نے آپ کو صحیح فرصت میں بنایا ہوگا ۔۔۔۔وہ دل میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔
زیدان اس کا انداز دیکھ کر ٹھٹھکا۔۔۔۔۔
"میں نے آج تک کبھی اس لڑکی کو بڑھاوا نہیں دیا۔۔۔۔۔
پھر اس کو میرے کس عمل سے لگا کہ ۔۔۔۔۔۔۔
وہ سوچتے ہوئے اٹھا ۔۔۔۔
اور باقی کی چائے وہیں چھوڑے باہر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔
حنا نے مڑ کر زیدان کی پشت کو دیکھا ۔۔۔۔
اور آیت الکرسی پڑھ کر اس کی حفاظت کی دعا کی ۔۔۔۔۔
پھر اس کا چھوڑا ہوا چائے کا کپ اٹھا کر اپنے سامنے کیا ۔۔۔۔۔
وہیں سے اسے اپنے لبوں سے لگایا جہاں سے اس کے گھونٹ بھرنے کا نشان تھا ۔۔۔۔۔
اسے پہلی بار چائے کا ذائقہ اتنا اچھا لگا ۔۔۔۔۔
زیدان جو ایک ضروری فائل لینے واپس آیا تھا اس کے عمل کو دیکھ کر رہ گیا ۔۔۔۔
اور بنا محسوس ہوئے واپس مڑ گیا ۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
کمشنر واصف درانی اپنے آفس میں چيئر پہ بیٹھے تھے،ان کے چہرے پہ اس وقت مکمل سنجیدگی چھائی تھی......
ایس۔پی فرزام تغلق ان کے سامنے مؤدب انداز میں کھڑا تھا اور سارے انڈر انکوائری کیسز کی ڈیٹیل سر کو دے رہا تھا جسے وہ انتہائی سنجیدگی سے سن رہے تھے ۔۔۔۔۔
" سر یہ فائل 'دی پاشا'گینگ کی ہے،
فرزام نے فائل ان کی جانب بڑھائی تھی۔
"ان لوگوں نے جرائم کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے اور سارے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی نیندیں اڑا رکھی ہیں"
"فرزام مجھے اس فائل کے ساتھ وہ اہم ثبوت یو۔ایس۔بی بھی چاہیے ۔۔۔۔۔
"وہ خاموشی سے سر جھکائے کھڑا تھا ۔۔۔
آج پہلی بار وہ شرمندہ نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔جو ہر بار سر اٹھا کر رکھتا تھا۔۔۔۔۔
"کہاں ہے وہ ثبوت ؟
سوری سر وہ نہیں مل رہی ۔۔۔۔
What do you mean by....
کہ نہیں مل رہی ۔۔۔۔
میں نے آپ پر بھروسہ کیا ۔۔۔۔۔کیونکہ آپ اس کیس کو لے کر بہت اچھے سے چل رہے تھے ۔۔۔ ۔
کل بھی آپ کی ایک پل کی غفلت کی وجہ سے ریڈ کے دوران پولیس کے تین نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔۔۔۔۔
میں نے وہاں کی ساری فوٹیج خود دیکھی ہے ،
آپ جانے کن خیالات میں کھوئے تھے جب وہ لڑکی چکما دے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی ۔۔۔۔
آپ جانتے ہیں آپ کی زرا سی چوک ،زرا سی لاپرواہی نے ہمیں کس قدر نقصان سے دوچار کیا ہے ؟؟؟؟؟
پہلے کل کا واقعہ ۔۔۔۔اور آج اس کسی کی سب سے اہم کڑی وہ یو ۔ایس ۔بی ہم سب سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔۔۔۔
یہ سب صرف و صرف آپ کی ناکارہ کارکردگی کی وجہ سے ہوا ۔۔۔۔
سوری سر پلیز ایک موقع دیں ۔۔۔۔۔۔۔
No argument.......
You are suspended.....
وہ ہاتھ اٹھا کر اسے بات کرنے کا موقع دئیے بنا سسپینڈ کرنے کا فیصلہ سنا چکے تھے ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
زیدان تغلق اپنے آفس میں موجود عام عوام کے خطوط اور درخواستیں پڑھنے میں محو تھا ۔۔۔۔
کچھ لوگ باہر کھڑے اس سے ملنے کے لیے ویٹنگ ایریا میں موجود تھے ۔۔۔۔۔
پہلے ایک بزرگ اندر آئے اور انہوں نے بتایا کہ انہیں ریٹائرڈ ہوئے دو سال ہو چکے ہیں ،مگر ابھی تک انہیں پینشن نہیں مل رہی ۔۔۔۔۔گھر کا خرچ بہت مشکل سے چل رہا ہے ۔وہاں کے لوگ ان کی ایک نہیں سن رہے اس سلسلے میں ان کی مدد کی جائے ۔۔۔۔۔
زیدان نے وہاں کے آفس فون کر کہ ان کے کاغذات میں کو بھی مسلہ آ رہا ہے اسے ٹھیک کر کہ جلد از جلد انہیں پینشن دینے کا کہا ۔۔۔۔
تو وہ بزرگ اسے دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے چلے گئے ۔۔۔۔۔
پھر ایک عورت اندر آئی ۔۔۔۔
صاب جی ۔۔۔۔میرا خاوند ہارٹ اٹیک کی وجہ سے پچھلے سال فوت ہوگیا تھا ۔۔میری پانچ بیٹیاں ہیں ۔۔۔۔میں لوگوں کے گھر کام کر کہ گزارہ کرتی ہوں ۔۔۔۔میرے پاس کل جمع پونجی میرا چھوٹا سا گھر ہے اسے بھی میرے دیور قبضہ کرنا چاہتے ہیں میں بہت پریشان ہوں میری مدد کریں ۔۔۔۔۔
اس سلسلے میں آپ کو پولیس کی مدد لینی چاہیے ۔۔۔۔
صاب جی مجھ غریب کی کون سنتا ہے ۔۔۔۔بڑی مہربانی ہو گی آپ مدد کر دیں۔۔۔۔۔
وہ جیسے رندھی ہوئی آواز میں بولی زیدان سے رہا نا گیا ۔۔۔۔تو اس نے اپنے ،پی۔اے کو اس عورت کے ساتھ نزدیکی پولیس اسٹیشن بھیج کر رپورٹ درج کروانے میں اس کی مدد کے لیے کہا ۔۔۔۔۔
آج لوگوں کی بہت بھیڑ تھی ،سب کے مسلے سلجھاتے ہوئے وہ ذہنی طور پر تھک گیا ۔۔۔۔۔
تو ریوالنگ چئیر کی پشت پر اپنا سر رکھ کر آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد پیون چائے کا کپ اس کے سامنے رکھ گیا ۔۔۔۔۔
زیدان کی نظر سامنے رکھے کپ پر پڑی تو اس نے گہرا سانس لے کر چائے کا ِسپ لیا۔۔۔۔
اور بے دلی سے کپ کو تھوڑا پیچھے کھسکایا ۔۔۔
پہلی بار ہوا تھا کہ اسے چائے کا ذائقہ پسند نہیں آیا۔۔۔۔۔
اسے صبح والی چائے کا ذائقہ یاد آتے ہی لبوں پر مسکراہٹ بکھری ۔۔۔۔۔
مگر فورا ہی لب بھینچ گیا۔۔۔۔۔
"میں کیا کروں غنیہ ؟؟؟؟
"میں تم سے بے وفائی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔
مگر وہ لڑکی اپنی الٹی سیدھی حرکتوں کی وجہ سے میرے دل و دماغ پر چھانے لگی ہے ۔۔
"مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔میں پوری کوشش کرتا ہوں اس سے دور رہوں ۔۔۔۔۔مگر وہ بار بار میرے سامنے آتی ہے ۔۔۔۔
میں کیا کروں ؟؟؟؟
وہ پھر سے آنکھیں بند کیے ٹیک لگا گیا ۔۔۔۔۔
پیشانی پر سوچ کی لکیریں ابھری ہوئی تھیں اور چہرہ ابھی بھی اضطراب کا شکار لگا۔۔۔۔
دو ماہ بعد!!!!!!
وہ یارق کے آفس جانے کے لیے کپڑے نکال رہی تھی۔۔۔جب اسے چکر آیا تھا۔۔۔کبرڈ کا سہارا لیے وہ وہی بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔۔
کیا ہوا نور تم ٹھیک ہو۔۔۔یارق جو شاور لیے واش روم سے باہر نکلا تھا ٹاول ایک طرف پھینکے،،،، ایک دم اس کی طرف متوجہ ہواتھا۔۔۔
پتا نہیں جب سے اٹھی ہوں چکر سے محسوس ہو رہے ہیں۔۔۔اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ویکنیس ہو گی یار کچھ کھایا پیا کرو۔۔۔ابھی وہ اس کو کہہ ہی رہا تھا کہ نور کو متلی سی محسوس ہوئی تھی اور وہ واش روم کی طرف بھاگی تھی۔۔۔
آر یو اوکے۔۔۔ وہ بھی اس کے پیچھے گیا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں وومٹ کی وجہ سے ائے آنسو دیکھ کر اسے اس کی فکر ہوئی تھی۔۔۔
ٹیب کھول کر اس نے اس کا منہ خود صاف کیا تھا۔۔۔اور اسے تھام کر واش روم سے باہر آیا تھا۔۔۔اور ٹاول سے چہرہ صاف کیے۔۔۔۔بولا
چلو ڈاکٹر کے پاس چلیں۔۔۔اس نے الماری سے شال نکال کر اس کی طرف بڑھائی تھی۔۔۔
میں ٹھیک ہوں اس نے تکیے پر سر گراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
کہیں سے بھی ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔اٹھو چلو۔۔۔
اس نے اسے اٹھا کر بٹھاتے ہوئے کہا۔۔
میں نہیں چل سکوں گی۔۔۔میرا سر بہت گھوم رہا ہے۔۔۔
پلیز۔۔۔اس نے دوبارہ تکیے پر سر گرا لیا تھا۔۔۔
ندی بی پی لو ہوا ہو گا یا فوڈ پوائزننگ ہوئی ہو گی ایک بار چیک اپ کروا لو پلیز مجھے ٹینشن ہو رہی ہے۔۔۔ پھر واپس آ کر آرام کرنا۔۔۔
اس نے اسے اٹھا کر بٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔اب وہ اس کے کاندھوں پر شال پھیلا رہا تھا۔۔۔۔پھر اس کے پاؤں کے پاس چپل کی جسے اس نے پہن لیا تھا۔۔۔
وہ خود تیزی سے چینج کیے تیار ہوا۔۔۔۔
یارق اسے تھامے گاڑی تک آیا تھا۔۔۔ اسے گاڑی میں بٹھا کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔۔۔۔
اب وہ اسے ڈاکٹر کے سامنے لیے بیٹھا تھا۔۔۔
کب سے ہے یہ کنڈیشن آپ کی؟۔۔۔۔ڈاکٹر نے تفصیلی چیک اپ کے بعد پوچھا تھا۔۔۔
کل سے ہلکے ہلکے چکر آ رہے تھے مگر آج زیادہ فیل ہو رہے ہیں۔۔۔ اور صبح سے وومٹ بھی ہو رہی ہے۔۔۔اس نے بتایا تھا۔۔۔
یہ آپ کے ہسبینڈ ہیں۔۔۔
جی میں ہسبینڈ ہوں انکا سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔
یارق نے پریشان ہوتے پوچھا۔۔
جی سب ٹھیک ہے۔۔۔ایکچوئلی آپ کی مسز ایکسپکٹ کر رہیں ہیں۔۔۔یو بوتھ آر کمنگ ٹو پیرنٹس۔۔۔بہت بہت مبارک ہو آپ کو ۔۔۔وہ دونوں کی طرف دیکھ کر بولیں ۔
لیکن آپکی مسسز کافی ویک ہیں۔۔۔میں کچھ ٹیسٹ لکھ کر دے رہی ہوں۔۔۔وہ آپ لاززمی کروا لیں اور یہ میڈیسنز ریگولری یوز کروائیں۔۔۔اور فریش جوسز کا زیادہ استعمال کریں یہ انٹرنلی بہت ویک ہیں۔۔۔ان کی ڈائیٹ کا آپ کو خاص دھیان رکھنا ہوگا ۔۔۔۔کچھ وٹامنز لکھ رہی ہوں یہ ضرور وقت پر لیں۔۔۔
ڈاکٹر نے اپنے پیشہ ورانہ انداز میں کہا۔۔۔۔
جی بہتر تھینک یو سو مچ۔۔۔ یارق کی خوشی کی تو کوئی انتہا ہی نہیں تھی۔۔۔۔
وہ کلینک سے نکل آئے تھے اسے بڑے پیار سے آرام سے اس نے گاڑی میں بٹھایا تھا۔۔۔۔خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے اس کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کی تھی۔۔۔
تھینکیو سو مچ۔۔۔نور تم نہیں جانتی تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے ۔۔۔۔
اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔۔۔ سمجھو جیسے ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔۔۔۔اتنے عرصے بعد نور نے اس کے چہرہ خوشی سے تمتماتا ہوا دیکھا۔۔۔۔
یارق کو خوش دیکھ کر اس کی خوشی میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا۔۔۔۔۔
آج وہ دونوں مکمل ہونے جا رہے تھے ،،،یہ دو ماہ اس نے یارق کی سنگت میں اپنی زندگی کے حسین ترین دن گزارے تھے ،ایسے جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو ۔۔۔۔
وہ آنکھیں موندیں دل میں اس خواب کے کبھی بھی نا ٹوٹ جانے کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
"ہم گھر فون کر کہ بتائیں ؟؟؟نور نے یاد آنے پر آنکھیں کھول کر یارق سے پوچھا ۔۔۔۔۔
یارق نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
"یہ لو کال کر کہ بتاؤ ۔۔۔۔اس نے ڈیش بورڈ پر پڑا فون اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
"میں کیسے بتاؤں ؟؟؟
کیوں کیا ہوا ؟؟؟
م۔۔۔مجھے شرم آئے گی ۔۔۔۔
اس کی بات سن کر گاڑی میں یارق کا قہقہ گونجا ۔۔۔۔۔
وہ خجل ہوکر چہرے کا رخ دوسری طرف پھیر گئی جہاں باہر کے مناظر تیزی سے گزر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
اس سے پہلے کہ فجر کی اذان ہوتی وہ اپنی آنکھیں بند کیے بستر میں سے نکلی اور پاؤں میں چپل اڑستے ہوئے وہ چادر اپنے گرد لپیٹ کر باہر نکلی ۔۔۔۔سیڑھیاں چڑھ کر اوپری منزل کے پہلے کمرے کے دروازے پر رکی ۔۔۔۔
آنکھیں ہنوز بند تھیں۔اب تو اسے یہ راستہ ازبر ہو چکا تھا،،،کتنے قدم اٹھائے گی تو یہاں پہنچے گی ۔۔۔۔اس نے دروازے کی ناب میں آنکھیں کھول کر اندر دیکھا ۔۔۔۔وہ کروٹ کے بل لیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔چہرہ واضح دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔جس دن سے اس کا نکاح ہوا تھا وہ بلا ناغہ یہ فریضہ سر انجام دیتی ۔۔۔۔۔
ہر روز اپنے دن کا آغاز وہ سب سے پہلے اس کا چہرہ دیکھ کر کرتی ۔۔۔۔
یہ کام اس کے معمولات میں شامل ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
اس پر نظر پڑتے ہی آنکھوں میں سکون سرائیت کرنےگا۔۔۔۔
اذان ہونے لگی ۔۔۔۔وہ کسمسایا ۔۔۔
اس سے پہلے کہ زیدان اٹھتا وہ تیر کی تیزی سے نیچے اتر کر اپنے کمرے میں واپس آئی۔۔۔۔
نظر سوئے ہوئے حنان پر ڈالی اور وضو کے لیے بڑھ گئی ۔۔۔۔۔
ناشتے سے فراغت کے بعد زیدان لاونج میں صوفے پر بیٹھے ہوئے حنان کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔
کیا کر رہا ہے ہمارا بیٹا ؟؟؟اس نے وہیں بیٹھے ہوئے حنان سے پوچھا ۔۔۔۔
وہ جو ہاتھ میں ڈرائنگ نوٹ بک لیے اس پر پینسل اور کلرز سے کچھ طبع آزمائی کرنے میں محو تھا۔۔۔۔
سر اٹھا کر زیدان کی طرف دیکھا۔۔۔۔
"بابا میں ڈرائنگ بنا رہا ہوں ۔۔۔آپ دیکھیں گے ؟؟؟
کیوں نہیں میں بھی ضرور دیکھوں گا ۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آیا ۔۔۔۔
حنا اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھی تھی اور ہاتھ میں فروٹ کسٹرڈ کا باؤل پکڑے اسے ساتھ ساتھ کِھلا رہی تھی ۔
زیدان ان کے ساتھ آکر بیٹھا ۔۔۔درمیان میں حنان تھا اور وہ دونوں اس کے اطراف میں بیٹھے تھے ۔۔۔۔
"یہ دیکھیں بابا کیسی ہے ؟؟؟وہ اشتیاق سے پوچھنے لگا۔۔۔
زیدان نے جب ایک نظر اس ڈرائینگ پر ڈالی پہلے تو خاموش ہوا ۔مگر پھر اس کی آنکھوں میں چمکتی ہوئی خوشیوں کے رنگوں کو ماند پڑتے نا سکا۔۔۔۔
"بہت بہت بہت زیادہ پیاری ہے "زیدان نے مسکرا کر اس کی تعریف کی ۔۔۔۔۔
اس ڈائننگ میں زیدان اور حنا اور حنان نے خود کو بنانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔
امیج اتنے واضح نہیں تھے مگر زیدان نے پل بھر میں اندازہ لگایا تھا کہ وہ کیا بنانا چاہتا ہے ۔۔۔۔
زیدان نے اپنی کشادہ ہتھیلی حنا کے آگے کی ۔۔۔وہ حیران کن نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
"ہاتھ دو "وہ حنان کے سامنے اپنے لہجے میں تھوڑی نرمی لائے بولا ۔
اس نے جھجھکتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا ۔۔۔۔۔
اس کے ہاتھ رکھنے کی دیر تھی حنان نے اپنا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔۔۔۔
"بابا آپ کو کیسے پتہ چلا میں نے یہ بنایا تھا ۔۔۔وہ اپنی تیز آواز میں پر جوش لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
زیدان نے دوسرے ہاتھ سے پیار سے اس کے سر کے بال بگاڑے ۔۔۔۔۔
بابا کو سب پتہ چل جاتا ہے ۔۔۔۔۔
بابا ۔۔۔۔اس سے پہلے حنان کوئی اور بات کرتا زیدان کے فون پر رنگنگ ہونے لگی ۔۔۔۔
فون پر شہباز تغلق کا نمبر دیکھ کر فورا چہرے کے زاوئیے بدلے ۔۔۔۔
ناراضگی میں چاہتے ہوئے بھی وہ کال ریسیو کر گیا ۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!
وعلیکم السلام!
کیسے ہو زیدان ؟
"جی ٹھیک ہوں "
"میرا اپنے پڑ پوتے حنان سے ملنے کا بہت دل ہے تم آجاؤ اسے مجھ سے ملوا دو ۔۔۔۔۔وہ دل میں سوچ رہے تھے حنان کے بہانے وہ زیدان سے بھی مل لیں گے ۔۔۔۔۔
دراصل مجھے آج اسمبلی میں جانا ہے ۔۔۔وزارتوں کا فیصلہ ہونے والا ہے ۔دیکھیں کون سی وزارت میرے حصے میں آتی ہے ۔۔۔۔۔
میں حنان اور اسے (زیدان نے حنا کا نام لینے سے گریز برتا )ڈرائیور کے ساتھ بھیج دوں گا ۔۔۔۔آج رات وہ دونوں آپ کے پاس رکے گے ۔۔۔مجھے پتہ نہیں اسلام آباد سے واپسی پر کتنا وقت لگ جائے ۔۔۔۔۔
"چلو ٹھیک ہے انہیں بھیج دو ۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔زیدان نے کہا۔
زیدان !!!وہ اسے مخاطب کیے بولے ۔۔۔
جی ۔۔۔۔وہ پوچھ رہا تھا۔
"کب واپس آؤ گے اپنے گھر ہمیشہ کے لیے ۔۔۔
کب مجھے معاف کرو گے ؟؟؟
یا یونہی ناراض رہنے کا ارادہ ہے ؟؟؟
"آپ اپنا خیال رکھیے گا ۔۔۔میں جلد آؤں گا۔۔۔
کہہ کر فون ایک طرف رکھ دیا ۔۔۔۔
آپ دونوں تیار ہو جائیں پھر ڈرائیور آپ کو تغلق ولا چھوڑ آئے گا ۔۔۔۔وہ حنا کو مخاطب کیے بولا ۔۔۔۔
مگر میں کیسے ؟؟؟؟وہاں ۔۔۔۔
اکیلی ۔۔۔۔میں وہاں ۔۔۔کسی کو جانتی نہیں ۔۔۔۔
وہ رک رک کر بولی ۔۔۔۔
"جانتی تو آپ یہاں بھی کسی کو نہیں تھیں ۔۔۔۔اب جان چکی ہیں ۔۔۔۔آپ کے لیے اجنبی ماحول میں ایڈجسٹ ہونا کون سا مشکل کام ہے ۔۔۔۔۔وہ طنز کا تیر بھگو کر مارا تھا اسے ۔۔۔۔۔
وہاں بھی جان جائیں گی ۔۔۔۔
اس کی بات سن کر اس کی آنکھوں میں فورا نمی اتری۔۔۔۔
زیدان جان بوجھ کر اسے خود سے بدظن کرنے کے لیے تپا رہا تھا ۔۔۔۔
جلدی تیار ہو کر آئیے ۔۔۔۔۔پھر مجھے بھی اسلام آباد کے لیے نکلنا ہے ۔۔۔۔وہ سپاٹ انداز میں بولا۔
حنا اپنے ساتھ حنان کو لیے اندر چلی گئی اور
کچھ دیر میں تیار ہو کر باہر آئی ۔۔۔۔
زیدان نے ایک سرسری سی نگاہ اس کے حلیے پر ڈالی ۔۔۔۔سادہ سی پرانی سی شلوار قمیض میں ملبوس سر پر اچھے سے دوپٹہ جمائے کے بے شکن لباس تھا ۔۔۔۔۔
البتہ حنان کے کپڑے بہترین تھے ۔۔۔۔
"آپ کے پاس کوئی ڈھنگ کا ڈریس نہیں ۔۔۔۔
بے شک وہ اسے اپنی بیوی نہیں مانتا تھا مگر دنیا کی نظر میں تو وہ اس کی بیوی ہی تھی ۔۔۔اس کے گھر والے اسے اس طرح دیکھ کر ناجانے کیا سوچیں ۔۔۔۔
آج پہلی بار اس نے حنا کے لباس پر توجہ دی تھی ۔۔۔۔اور شرمندہ ہوا۔۔۔۔
شاید آج سے ڈھائی سال پہلے جب وہ یہاں آئی تھی تو جو کپڑے اپنے ساتھ لائی تھی وہی پہن رہی تھی ۔۔۔۔قمیض بھی اس کی شاید ہائیٹ بڑھنے کی وجہ سے تھوڑی شارٹ لگ رہی تھی ۔۔۔اس نے کبھی بھی اس سے فرمائش نہیں کی کسی بھی قسم کی ۔۔۔۔
شاید اس نے کبھی اسے اتنا فری ہی نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ کچھ مانگتی ۔۔۔۔
وہ ہر ماہ نسیم کو رقم دے دیتا ضروری چیزوں کے لیے ۔۔۔اور نسیم ہی حنان کےلیے دودھ، پیمپرز،کپڑے ،گھر کی گروسری وغیرہ لے آتی ۔
"میں باہر سب کی مدد کرتا رہا۔۔۔کتنا غافل رہا کہ گھر میں بھی ۔۔۔۔۔۔وہ سوچنے لگا ۔۔
یہی ٹھیک ہیں ۔۔۔وہ منمنا کر بولی ۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے آپ دونوں جائیں ۔۔۔میں نے ڈرائیور سے کہہ دیا ہے ۔۔۔۔
حنا ،حنان کا ہاتھ پکڑے باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔
آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ ایک محل نما گھر کے سامنے رکے ۔۔۔۔۔
اندر داخل ہوئے تو سامنے ہی شہباز تغلق صوفے پر براجمان تھے ۔۔۔۔۔
ضماد تغلق اور نگہت بیگم بھی وہیں موجود تھے ،نگہت بیگم سیب کی قاشیں کاٹ کر ضماد تغلق کی طرف بڑھا رہی تھیں ۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!حنا نے سب کو مشترکہ سلام کیا ۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔سب نے جوابا کہا۔۔۔۔۔
دل اور فرزام بھی اپنے روم سے تیار ہو کہ نکلے ۔۔۔۔۔
سب ایک دوسرے سے ملے ۔۔۔۔۔
دل اور ضماد تغلق تھوڑی دیر بعد آفس جانے کے لیے نکل گئے ۔۔۔۔
فرزام گھر پر ہی تھا۔۔۔سسپینڈ ہونے کے باوجود بھی وہ پاشا گینگ پر نظر رکھے ہوئے تھا۔۔۔۔
وہ جلد ہی سب میں گُھل مِل گئی ۔۔۔کافی دیر تک آپسی خوش گپیوں کا سلسلہ چلتا رہا۔۔۔۔گفتگو کا موضوع زیادہ تر زیدان ہی تھا۔۔۔۔سب اسے اس کے بچپن کے قصے سنا رہے تھے ۔۔۔۔
باتوں ہی باتوں میں پتہ چلا کہ کل زیدان کی برتھ ڈے ہے ۔۔۔۔
نگہت بیگم دوپہر کے کھانے کی تیاری کے لیے کچن میں جانے لگی تو حنا بھی ان کے پیچھے چلی گئی ۔۔۔۔
حنان شہباز تغلق کے ساتھ باہر لان میں کھیل رہا تھا ۔۔۔۔ساتھ والے اقبال صاحب کے پوتے پوتیاں جو حنان کے ہم عمر تھے وہ بھی وہاں آچکے تھے ۔۔۔۔سب بچوں کے ساتھ مل کر کھیلتا ہوا حنان آج بہت خوش نظر آ رہا تھا۔
نگہت بیگم کے منع کرنے کے باوجود بھی حنا نے کھانا بنانے میں ان کی مدد کی ۔۔۔۔
آنٹی آپ مجھے کیک بنانا سیکھائیں گی ؟؟؟وہ جھجھکتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔
ہممممم۔آتا ہے ۔۔۔تم زیدان کے لیے بنانا چاہتی ہو ؟
جی ۔۔۔وہ سر جھکائے ہلکا سا مسکرا کر بولی ۔۔۔۔
آؤ ۔۔۔میں تمہیں سیکھاوں ۔۔۔
پھر ان دونوں نے مل کر کیک بیک کیا ۔۔۔۔۔
دن گزرنے کا پتہ ہی نا چلا کب دن سے رات میں بدل گئی۔۔۔۔
دلبرا اور ضماد تغلق بھی آفس سے واپس آ کے تھے ۔۔۔۔
نگہت بیگم نے حنا کو باتوں ہی باتوں میں نورالعین اور دلبرا دونوں کے گھر خوشخبری کے بارے میں بتایا ۔۔۔۔
وہ ان دونوں کا سن کر بہت خوش ہوئی ۔۔۔۔
کہ ان کے گھر بے بی آنے والے ہیں ۔۔۔۔
مگر اندر ہی اندر تھوڑا ڈر بھی رہی تھی ۔۔۔۔
رات دس بجے کے قریب فرزام گھر آیا تو وہ جو لان میں موجود تھی ۔۔۔۔اسے واپس آتے اس کی طرف بڑھی ۔۔۔۔
بھائی آپ سے کچھ کہنا تھا ۔۔۔
وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑ کر جھجھکتے ہوئے بولی ۔۔۔
جی بتائیں کیا بات ہے بھابھی ؟
وہ مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔آپ چھوڑ آئیں گے ۔۔؟
کیوں خیریت اتنی رات گئے واپسی ؟
دادا جان نے تو کہا تھا کہ آپ کی کل واپسی ہو گی ۔۔۔
وہ نا حنان پہلی بار گھر سے کہیں باہر رات رکا ہے اسے یہاں نیند نہیں آ رہی ابھی تک جاگ رہا ہے ۔۔۔حنان لان میں رکھی گئی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھا ہاتھ میں موجود چھوٹی سی بال کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔۔
"اور تو کوئی بات نہیں ؟؟؟کہیں کسی سے ناراضگی ؟؟؟وہ اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے بولا۔۔۔
"نہیں نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں دراصل وہ ان کی سالگرہ ہے اسی لیے ۔۔۔۔
وہ اسے معصومیت سے اصل بات بتا گئی ۔۔۔۔
اوہ ۔۔۔۔تو بھیا کو سرپرائز دینے کا ارادہ ہے ۔۔۔وہ خوشی سے چہک کر بولا ۔۔۔۔
وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلا گئی ۔۔۔۔
آئیں حنان کو لے آئیں میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔۔
وہ حنان کی طرف آئی اور اسے ساتھ لیے فرزام کے ساتھ گھر روانہ ہوئی۔۔۔
گھر واپس آئی تو گارڈ نے دروازہ کھولا۔۔۔۔
پچھلے واقع کے بعد زیدان نے گیٹ پر گارڈ کا مستقل انتظام کر لیا تھا ۔۔۔۔
وہ فرزام کو شکریہ ادا کرتے ہوئے اندر آئی تو نسیم اسے دیکھ کر سرونٹ کوارٹر سے باہر نکل آئی ۔۔۔۔
اس نے ایک ہاتھ میں کیک والا ہینڈ کیری اٹھا رکھا تھا تو دوسرے سے حنان کی انگلی پکڑ رکھی تھی ۔۔۔۔۔
ارے حنا جی آپ واپس بھی آ گئیں۔۔۔۔
نسیم نے حیرت زدہ آواز میں پوچھا ۔
جی ۔۔۔
اس گھر کے بنا آپ کا دل نہیں لگتا نا کہیں اب ؟؟؟
نہیں ایسی بات نہیں ۔۔۔۔
یہ اس میں کیا لائی ہیں ؟؟؟وہ اس کے ہاتھ میں موجود ہینڈ کیری کو دیکھ کر پوچھ رہی تھی ۔
وہ آج رات بارہ بجے ان کی سالگرہ ہے ان کے لیے بنایا ہے ۔۔۔۔وہ تھوڑا شرماتے ہوئے بتا رہی تھی ۔۔۔۔
"یہ تو بہت اچھا کیا آپ نے ۔۔۔۔۔اب خود بھی اچھا سا تیار ہو جائیں ۔۔۔۔۔
"مگر میرے پاس تو کوئی ڈھنگ کے کپڑے ہی نہیں ہیں۔۔۔وہ اداسی سے بولی ۔۔۔
کیا حنا جی صاحب کے کمرے کی الماری میں بی بی جی کے اتنے کپڑے موجود ہیں ان میں سے کوئی پہن لیں ۔۔۔۔
مگر وہ غنیہ آپی کے ہیں ۔۔۔میں کیسے پہن سکتی ہوں ؟؟؟
نہیں نہیں ۔۔۔وہ غصہ ہو جائیں گے ۔۔۔۔رہنے دیں۔۔۔
کچھ نہیں کہتے صاحب اب آپ بھی تو ان کی بیوی ہیں ۔۔۔بھلا آپ پر غصہ کیوں ہوں گے ۔۔۔۔
"آپ سچ کہہ رہی ہیں نا کہ وہ غصہ نہیں ہوں گے ؟؟
آپ فکر نا کریں ۔۔۔کچھ نہیں کہتے ۔۔۔نسیم نے اس کی ہمت بندھائی۔۔۔۔
حنان کی نیند سے بھاری آنکھیں دیکھ کر وہ اسے ساتھ لیے اندر آئی اور زیدان کے کمرے کا رخ کیا۔۔۔۔
حنان بستر پر لیٹتے ہی کچھ دیر میں وہ سو چکا تھا ۔۔۔
اس نے اس پر کمفرٹر اوڑھا دیا ۔۔۔۔
اور نائٹ بلب روشن کیا۔۔۔۔حنان کو تیز روشنی میں سونے کی عادت نہیں تھی ۔۔۔۔
وہ اسے سلانے کے بعد کبرڈ کی طرف بڑھی ۔۔۔
ایک طرف کا ڈور لاکڈ تھا ۔۔۔
دوسرا کھولا تو اس میں زیدان کے کپڑے ہینگ کیے گئے تھے ۔۔۔۔
ایک بڑا سا پیکٹ سامنے نظر آیا تو اس نے وہ باہر نکال کر ڈور بند کر دیا۔۔۔۔
پیک کو کھولا تو اس میں بلیک کلر کی دیدہ زیب ساڑھی تھی ۔۔۔۔۔
"یہ پہن لوں ۔۔۔۔غنیہ آپی بھی ایسے کپڑے ہی پہنتی تھیں۔۔۔۔
مگر مجھے تو اسے پہننا ہی نہیں آتا اس نے خود کلامی کی۔۔۔۔
ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ سب سے نیچے والے حصے میں شال پڑی نظر آئی اس نے وہ کھینچ کر نکالنی چاہی کیونکہ ساڑھی کا بلاؤز کافی مختصر لگا اسی لیے ۔۔۔۔
مگر اس شال کے ساتھ ایک ڈائری بھی نیچے گری ۔۔۔۔
حنا نے اسے اٹھا کر کھولا ۔۔۔
اور غنیہ کا نام تھا ۔۔۔۔
یعنی یہ غنیہ آپی کی ڈائری ہے ۔۔۔
وہ شال ایک طرف رکھ کر کمرے کا دروازہ کھول کر زرا باہر کو ہوئی تو باہر جلتی ہوئی لائٹ میں اسے سب صاف صاف دکھائی دینے لگا ۔۔۔۔ڈائری کے شروع کے آدھے صفحات خالی تھے ۔۔۔۔درمیانی صفحات میں سے ایک پر اسے کوئی عبارت نظر آئی ۔۔۔۔
وہ پڑھنے لگی ۔۔۔۔
"میری پیاری ڈائری ۔۔۔۔۔
آج میں اپنے دل کی ساری باتیں تم سے شئیر کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔تم سنو گی نا ؟؟؟
میں غنیہ الطاف ۔۔۔۔میرے والدین نے پسند کی شادی کی تھی تو انہیں گھر سے بے دخل کر دیا گیا ۔۔۔۔۔
انہوں نے شہر میں آ کر اپنی نئی دنیا بسائی۔۔۔میں ان کی اکلوتی اولاد ۔۔۔۔۔
میں اور زیدان ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے ۔۔۔۔مجھے پہلے دن سے ہی وہ بہت اچھا لگا ۔۔۔۔ان کی پرسنالٹی ہی ایسی ہے ۔۔۔۔
آگے ایک ہنسی والی ایموجی بنائی گئی تھی ۔۔۔
ایک کار حادثے میں میرے والدین مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس بھری دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔۔
میں نے ایک لڑکی ہو کر خود زیدان کو شادی کے لیے پیشکش کی ۔۔۔
پہلے تو وہ خوب بھڑکا ۔۔۔۔کہ وہ مجھے صرف ایک اچھا دوست سمجھتا ہے ۔۔۔۔
مگر بعد میں اسے جب میرے حالات کا علم ہوا تو اس نے میری مدد کرنے کے لیے مجھے اکیلا دیکھ کر سہارا دینے کے لیے اپنے گھر والوں کی مخالفت مول لے کر مجھ سے نکاح کر لیا ۔۔۔۔
جب سے وہ میری زندگی میں آئے ہیں مجھے اپنی زندگی مکمل لگنے لگی ہے ۔۔۔۔
انہوں نے کبھی مجھے طعنہ نہیں دیا کہ میں نے انہیں پرپوز کیا تھا۔۔۔انہوں نے کبھی مجھے کسی چیز کی کمی محسوس ہونے نہیں دی ۔۔۔۔وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔۔۔آہستہ آہستہ وہ بھی مجھ سے انسیت رکھنے لگے ہیں۔۔۔۔۔
میں نے ان سے وعدہ لیا ہے کہ وہ مجھ سے کبھی بے وفائی نہیں کریں گے ۔۔۔مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔۔
تم ان کے وعدے کی گواہ رہنا پیاری ڈائری ۔۔۔۔
اور ہمارے لیے دعا کرنا جلد ہی ایک پیارا سا بے بی ۔۔۔ہماری زندگی میں آ جائے اور ہمارا رشتہ مضبوط ہو جائے ۔۔۔۔میں ان سے کبھی الگ نہیں ہونا چاہتی ۔۔۔۔۔ان کو خوش ہمیشہ دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں لکھا تھا ۔۔۔۔
تمہاری بیسٹ فرینڈ غنیہ ۔۔۔۔۔
ڈائری میں لکھے گئے الفاظ پڑھتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔۔۔۔ساتھ ساتھ گال بھی۔۔۔۔
"غنیہ آپی میں آپ کی ادھوری خواہش کو ضرور پورا کروں گی ۔۔۔۔میں انہیں ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کروں گی۔
وہ آنکھیں صاف کیے واپس کمرے میں آئی اور ڈائری واپس پیچھے کر کہ بحفاظت رکھ دی ۔۔۔۔
پھر ساڑھی اٹھا کر واش روم میں چلی گئی اور شاور لے کر باہر آئی۔۔۔۔۔
بالوں کو ہلکا سا سکھائے شانے کے ایک طرف رکھا ۔۔۔۔جو ابھی بھی نم تھے ۔۔۔۔
اس نے وہ بلیک ساڑھی زیب تن کر تو لی تھی مگر اس کے بلاوز سلیو لیس تھے۔۔۔آگے کا گلا بہت گہرا تھا۔۔۔ جبکے پچھلا حصہ نا ہونے کے برابر تھا۔۔۔۔پورے بلاوز کو پیچھے سے ایک نازک سی ڈوری سے باندھا گیا تھا۔۔۔ اور پورا بلاوز اس ایک واحد ڈوری کے سہارے تھا ۔۔۔۔۔
پیچھے سے کمر اور آگے سے پیٹ بھی برہنہ ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔گلہ ڈیپ ہونے سے آگے کا جسم بھی رعنائیاں بکھیر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اس نے بمشکل ساڑھی کی فال بنا کر پلو آگے سے اٹھا کر شانے پر رکھا ۔۔۔۔۔
ہلکی سی آواز سے دروازہ کھلا ۔۔۔۔
پلو جو وہ شانے پر ٹِکانے کی کوشش کر رہی تھی سرک کر نیچے گرا ۔۔۔۔۔
کمرے میں پھیلی ہوئی ملگجی سی روشنی میں زیدان کو اس کی بیک سائیڈ ہی دکھائی دی ۔۔۔۔۔
وہ اسلام آباد سے واپسی پر گاڑی کی بجائے فلائٹ سے آیا تھا ۔۔۔اسی لیے جلدی پہنچ گیا ۔۔۔۔
"غنیہ "اس کے منہ سے بلا اختیار نکلا ۔۔۔۔
وہ ایک ہی جست میں اس کے قریب پہنچا اور اس کی کمر سے ہاتھ گزارتے ہوئے اسے پیچھے خود میں بھینچا ۔۔۔۔۔
"بہت اچھا کیا تم واپس آگئی ۔۔۔۔"
زیدان اسے غنیہ سمجھ کہہ رہا تھا ۔۔۔
جبکہ دوسری طرف حنا سمجھی کہ وہ اس کے واپس آ جانے پر خوش ہے ۔۔۔۔
زیدان نے اسے خود میں شدت سے بھینچ رکھا تھا ۔۔۔۔
اتنی قربت پر اسے لگا کہ آج اس کا دل پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا ۔۔۔۔
اس کا رواں رواں کانپنے لگا۔۔۔۔۔وہ اس کی نم زلفوں کی مہک کو خود میں اتارتے ہوئے بے خود ہوا ۔۔۔۔
بلاؤز کی ڈوری کو ایک ہی وار سے کھولا۔۔۔۔
اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔
وہ اپنے لبوں کے لمس اس کی کمر پر چھوڑنے لگا ۔۔۔۔۔اور آہستہ آہستہ نیچے کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔۔اس کا سارا جسم بری طرح کپکپا رہا تھا۔۔اس کے شدت سے بھرپور عمل پر اس نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں ۔۔۔۔۔پہلی بار خود کو اتنی مشکل میں گِھرا پایا ۔۔۔۔سانس جیسے حلق میں اٹک چکا تھا ۔۔۔۔حنا نے تو سوچا نا تھا کہ ایسا بھی کچھ ہو جائے گا ۔۔۔۔
وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا۔۔۔۔
اور اسے گُھما کر اس کا رخ اپنی جانب کیا ۔۔۔
اس کے عمل پر تو اس کی صحیح معنوں میں جان پر بن آئی ۔۔۔۔کیوں آج وہ اس کی جان نکالنے کے در پہ تھا۔
دونوں ہاتھوں اس کی کمر کے گرد رکھ کر اس کے پیٹ کی نرمائی محسوس کرتے ان پر ابھی اپنے لب رکھنے ہی لگا تھا کہ وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے اسے پیچھے دھکیل گئی ۔۔۔
سینے پر ہاتھ رکھ کر گہری سانس لی۔۔۔۔اور بستر پر پڑی شال اٹھا کر باہر بھاگی۔۔۔۔
ساڑھی کا کھلا پلو اس کے پاؤں میں اٹک رہا تھا۔۔۔۔وہ اسے ہاتھوں میں لپیٹے گرتے پڑتے باہر کو بھاگی ۔۔۔۔۔
زیدان اپنی جگہ ساکت رہ گیا ۔۔۔۔
اس کے بھاگنے سے شانے کی ایک طرف رکھے بال پشت پر بکھرے۔۔۔۔
"یہ غنیہ نہیں ۔۔۔۔بمشکل وہ خود سے بولا۔۔۔۔
اس کے بال تو شانے تک تھے ۔۔۔۔اتنے لمبے بال اس کے نہیں ۔۔۔۔(اس نے بہت بار غنیہ سے کہا تھا کہ بال لمبے کرے)
کون تھی یہ ؟؟؟؟
وہ حواسوں میں لوٹا۔۔۔۔
اور کمرے کے ماحول کو جانچا ۔۔۔۔
سائیڈ ٹیبل پر ٹرے میں کیک موجود تھا جسے خوبصورت طریقے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔
اور اس پر H.B.D.Z.(ہیپی برتھ ڈے زیدان )
چاکلیٹ کریم سے لکھا گیا تھا ۔۔۔۔
بستر پر حنان سویا ہوا تھا ۔۔۔۔
اسے سب سمجھنے میں لمحہ لگا ۔۔۔۔
وہ اس کے پیچھے باہر نکلا ۔۔۔۔
یہ واپس کب اور کیسے ؟؟؟؟
وہ ساتھ والے خالی کمرے میں دروازے کے ساتھ لگی اپنی اُکھڑی ہوئی سانسیں بحال کر رہی تھی کہ جھٹکے سے دروازہ کھلا اور وہ دھکا لگنے سے گرتے گرتے بچی ۔۔۔۔۔
"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری اجازت کے بغیر میرے کمرے میں جانے کی اور غنیہ کی چیزوں کو چھونے کی ۔۔۔۔
وہ اس کی طرف بڑھتا ہوا دھاڑا ۔۔۔۔
"اگر تم اس سوچ میں ہو کہ کبھی میری زندگی میں غنیہ کی جگہ لے پاؤ گی تو بھول ہے تمہاری ۔۔۔۔ایسا ہونا نا ممکن ہے۔۔۔۔
"بخدا اگر غنیہ آپی اس دنیا میں ہوتی تو میں کبھی ان جگہ لینے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں ۔۔۔۔وہ اپنے گرد شال لپیٹ چکی تھی ۔۔۔۔۔
مگر آپ یہ بات مان کیوں نہیں لیتے کہ اب وہ ہم میں نہیں ۔۔۔۔۔
دوسری بات میں کسی کی جگہ نہیں لینا چاہتی اپنی خود کی جگہ بنانا چاہتی ہوں ۔۔۔۔بس آپ کے دل میں تھوڑی سی جگہ چاہتی ہوں ۔اپنی خوشیاں آپ پر وار کر آپ کے درد سے جُڑ جانا چاہتی ہوں ۔۔۔۔
وہ رندھی آواز میں بولی۔۔۔۔آواز میں ابھی بھی کپکپاہٹ کا عنصر نمایاں تھا ۔۔۔۔۔
"تم کبھی بھی اپنے کسی بھی عمل سے میرے دل میں جگہ نہیں بنا سکتی ۔۔۔۔۔
"اس دل کے قلعے کے گرد کی دیواریں بہت اونچی ہیں ۔۔۔۔۔جنہیں کوئی بھی پھیلانگ کر اندر نہیں آ سکتا ۔۔۔۔۔وہ پتھریلے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
اور آنکھوں کے زریعے اسے اپنا خیالات کا اظہار کر رہا تھا ۔۔۔۔
"آپ دل کے قلعے کے گرد جتنی مرضی اونچی دیواریں بنا لیں ۔۔۔۔۔
"میں بھی اس تک رسائی پانے کے لیے ایک کھڑکی بنا کر رہوں گی ۔۔۔۔
وہ بھی اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کی نظروں کے وار کا جواب نظروں سے دے رہی تھی ۔۔۔۔
زبان چپ تھی دونوں کی آنکھیں بول رہی تھیں۔۔۔۔۔
میرے ہر دن کی شروعات آپ کو دیکھ کر ہوتی ہے اور رات کا اختتام بھی آپ کو سوچ کر ۔۔۔۔۔میری ہر ہر دھڑکن نے ہر ہر سانس نے آپ کے نام کے موتیوں کی مالا پروئی ہے ۔۔۔۔
"جانتے ہیں آپ ۔۔۔۔آپ پہلے دن سے ہی مجھے چاہتے ہیں ،کسی غریب اور مجبور کو محبت کا احساس دینا ،بنا کسی رشتے کے بنا کسی تعلق کے احساس کرنا بس یہی محبت ہے ۔۔۔۔"
وہ دل میں بولی ۔۔۔۔
میری زندگی میں کسی کی کوئی جگہ نہیں ۔۔۔خاص کر تمہاری ۔۔۔۔۔
"جب آپ کی زندگی میں میری کوئی جگہ ہی نہیں ۔۔۔۔اپنے بیٹے کو بھی آپ پال سکتے ہیں ۔۔۔۔تو میرا کیا کام اس دنیا ۔۔۔۔
جب میری کسی کو ضرورت ہی نہیں تو کیوں میں زندہ ہوں ۔۔۔۔اس بار وہ اس کی آنکھوں کی زبان سمجھ کر آنکھوں سے جواب دینے کی بجائے زبان سے بولی ۔۔۔۔۔
اس نے کمرے میں نظریں دوڑائیں ۔۔۔۔۔
سامنے اسے ایک باسکٹ میں چھری نظر آئی ۔۔۔اس نے لپک کر اسے اٹھایا ۔۔۔۔
اور ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا اپنی کلائی پر رکھ کر اپنی نس کاٹ لی ۔۔۔۔
زیدان تغلق اس کے روح فراساں عمل پر انگشتِ بدنداں رہ گیا۔۔۔۔۔
اسے کہاں امید تھی اس کے اتنے شدید رد عمل کی ۔۔۔۔۔۔۔
اس کی کلائی سے خون فوارے کی طرح نکلا ۔۔۔۔۔
"جتنی چاہت میں نے آپ سے کی ہے "زیدان تغلق"اتنی اگر اپنے خدا سے کی ہوتی تو وہ بھی مل جاتا "کتنے کٹھور اور سنگدل ہیں آپ۔۔۔
وہ بے جان مورت کی طرح ٹوٹ کر بکھرتے ہوئے اس کے پیروں میں گری ۔۔۔۔۔
جائیں ۔۔۔اب میں آپ کے پیچھے نہیں آؤں گی ۔۔۔۔
میں جا رہی ہوں اپنے خدا کے پاس ۔۔۔اسی مانگ لوں گی آپ کو ہمیشہ رہنے والی زندگی میں ۔۔۔۔۔اس دنیا میں نہیں تو کیا ہوا اس جہاں میں آپ کا ساتھ اپنی تقدیروں میں لکھواوں گی ۔۔۔۔
فرش پر جابجا اس کا خون بکھر چکا تھا۔۔۔۔
یہ سب بس چند لمحوں میں ہوا۔۔۔۔وہ خود بھی سمجھ نا سکا ۔۔۔۔۔
زیدان اسے بانہوں میں بھر کر تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے آیا ۔۔۔۔
حنا نے اپنی نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔
آنکھیں اپنے آپ بند ہوتی جا رہی تھیں۔
"سِلی گرل (بے وقوف لڑکی )زیدان نے اسے غصے سے دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔
نسیم حنان میرے کمرے میں ہے اس کا دھیان رکھیے گا ۔۔۔۔
سرونٹ کواٹر کے قریب سے گزرتے ہوئے ہانک لگائی ۔۔۔۔۔
نسیم جب باہر آئی زیدان اسے گاڑی میں ڈال کر گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔۔۔۔۔
وہ اسے لیے ہاسپٹل پہنچا تو ڈاکٹرز نے پہلے تو سو سائیڈ اٹیمپٹ کی وجہ سے پولیس کیس کا کہا ۔۔۔مگر پھر زیدان کی وجہ سے اس کیس کو ہینڈل کرنے لگے ۔۔۔۔۔
اس کی ٹریٹمینٹ شروع کردی گئی۔۔۔۔۔
صبح کی پہلی کرنوں کے کھڑکی میں داخل ہوتے ہی اس کی آنکھ کھلی تھی۔وہ ہسپتال کے جس کمرے میں تھی اس کی کھڑکی سے باہر کامنظر واضح نظر آتا تھا۔وہ اس منظر کو کئی لمحے دیکھتی رہی۔آہستہ آہستہ اس کی ساری حسیں بیدار ہوتی گئیں اور درد کا احساس جاگنے لگا۔سارا جسم تکلیف میں مبتلا تھا لیکن بازو سب سے زیادہ درد کر رہا تھا۔ڈاکٹرز نے اسے بے ہوشی کی دوا دے دی تھی۔۔اس نے نظریں ادھر ادھر پھیریں لیکن اسے کہیں بھی کوئی نظر نہیں آیا ۔درد کی شدت برداشت نہ ہوئی تو وہ بے آواز رونے لگی۔زیدان کمرے میں داخل ہوا تو اسے روتے دیکھ کر بے اختیار اس کی طرف بڑھا۔
"کیا ہوا ؟"وہ اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بولا تھا۔حنا نےجلدی سے آنسو پونچھے اور نظریں پھیر گئی۔زیدان کو اس کی ناراضگی کی وجہ یاد آئی۔۔۔۔۔
"میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتا ہوں۔"وہ کہتا ہوا مڑا تھا۔
(مجھے اس وقت آپکی ضرورت ہے زیدان ۔مگر آپ کا یہ رویہ میرے دل کو چھلنی کر رہا ہے۔)وہ اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔لیکن کہہ نہ سکی۔وہ کچھ دیر بعد ڈاکٹر کے ساتھ آیا تو حنا نے ڈاکٹر کے سامنے درد کا اظہار کیا ۔۔۔۔۔
"کس نے کہا تھا کلائی کاٹنے کو۔اب بھگتو "زیدان نے غصے سے کہا۔
حناکو اس کے انداز پر دکھ ہوا۔
اس نے زیدان کی کسی بھی بات کا جواب نہیں دیا اور آنکھیں موند لیں ۔۔۔
درد کی شدت کا اندازہ اس کے کرب زدہ چہرے سے لگایا جاسکتا تھا ۔۔۔۔
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا ۔۔۔۔
کیسے اس کا چہرہ ایک ہی رات میں زردی مائل دکھائی دینے لگا۔۔۔آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ،وہ اس کی حالت پر پشیمان ہوا ۔۔۔۔
ڈاکٹر کے پین ِکلرلگانے کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے تو زیدان نے تسلی دینے کے لیے پہلی بار خود سے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا ۔۔۔۔۔
جیسے ہی زیدان کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے مس ہوا ۔۔۔۔اس نے آنکھیں کھول کر جس سفاکیت سے زیدان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔وہ حیرت زدہ رہ گیا۔۔۔۔۔
کیا نا تھا ان آنکھوں میں ،شکوہ ،غم یا غصہ ،
اس نے زیدان کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔۔۔
اور رخ پھیر گئی ۔۔۔۔۔
"مجھ سے پیار کے دعوے کرنی والی آج مجھ سے اتنی بدظن اور خفا ہو گئی کہ اسے میرے ساتھ کی بھی ضرورت نہیں رہی ۔۔۔۔
زیدان تم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی گنوا دی ۔۔۔دل میں سے اک آواز آئی ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
انکل میٹنگ آدھے گھنٹے بعد شروع ہوگی ۔دلبرا نے آگاہ کیا ۔۔۔۔
۔۔۔۔
بیٹا میٹنگ سٹارٹ ہونے میں آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے اور تم مجھے ابھی یہ بات بتا رہی ہو ؟
سب تیاری بھی تو کرنی تھی ۔۔۔۔
پلیز انکل آپ مجھ پر ٹرسٹ کریں ان شا اللہ سب ٹھیک ہو گا ۔۔۔۔۔
اوکے بیٹا۔۔۔۔
تمام بورڈ ممبرانز کو اطلاع کر دو میٹنگ آدھاگھنٹے بعد سٹارٹ ہو گی۔۔انہوں نے اپنی پی اے کو ہدایت دیں۔۔۔
ابھی وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی تھئ کے چکرا کر دوبارہ سیٹ پر گری۔۔۔یا اللہ پلیز تھوڑی ہمت دے دیں۔۔۔وہ دوبارہ اٹھی تھی۔۔۔
بیٹا آپ کو منع بھی کیا تھا کہ آپ اس حالت میں گھر آرام کریں ۔۔۔۔مگر آپ نے سنی ہی نہیں ۔۔۔۔میں سب سنبھال لیتا نا آفس کا کام ۔۔۔۔
نہیں انکل آپ اکیلے ہیں ۔۔۔کس طرح سنبھالیں گے سب ۔۔۔۔جب تک یارق نہیں آجاتا میں آپ کی مدد کروں گی ۔۔۔۔
بیٹا آپ نے ہی تو سارا اکاؤنٹس اور فنانس ڈیپارٹمنٹ سنبھال رکھا ہے ۔۔۔۔مجھے تو کچھ کرنے ہی نہیں دیتیں۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔تو پھر ہلکا سا چکر آتا محسوس ہوا۔۔۔
بیٹا آپ کیوں اٹھی ہیں۔۔۔آرام کریں۔۔۔میٹنگ میں خود ہی اٹینڈ کر لوں گا۔۔۔ڈاکٹر نے آپ کے آرام کی سخت تاکید کی تھی ۔۔
واٹ آپ کیسے اٹینڈ کریں گے؟۔۔۔اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔۔۔
اس پروجیکٹ کی ساری ڈیٹلز تو میرے پاس ہیں ۔۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد میٹنگ ہال میں تمام ہی بورڈ آف ڈائیرکٹرز موجود تھے
وہ اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔۔۔
آئی تھنک میٹنگ سٹارٹ کرنی چاہیے۔۔۔خان صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔
جی اس پروجکٹ کے بارے میں کیا رائے ہے آپکی۔۔۔ انہوں نے اپنا چہرہ ضماد تغلق کی طرف موڑا۔۔
خان صاحب میرے خیال میں ہمیں پہلے ان کی ریٹ لسٹ چیک کرنی ہوگی۔۔۔۔۔
پھر ہی ہم اس کے مطابق بہترین لسٹ کو لیکر کچھ فائنلائز کریں گے۔۔۔
خان صاخب ہمیں پہلے مارکیٹ میں سامان کا ریٹ ملے گا ۔۔۔اس حساب سے دیکھیں گے کہ ہمیں اس پروجیکٹ کو کرنے سے کیا پرافٹ ملے گا ۔۔۔۔
یہ نا ہو یہ پراجیکٹ کرنے سے ہم محنت بھی کریں اور دوگنا میٹریل استعمال کرنے کے بعد خود اس پر پیسہ لگائیں اور اپنے لیے ہی گھاٹے کا سودا کریں ۔۔۔۔۔
میں نے کچھ آئیڈیاز فائنلائیز کیے ہیں۔۔۔دلبرا نے پروجیکٹر کے پاس کھڑے ہو کر بریفنگ دینی سٹارٹ کی تھی۔۔۔۔
تمام بورڈ آف ڈائیریکٹرز نے دل سے تعریف کی تھی۔۔ اور تالیاں بجا کر اسے سراہا تھا۔۔۔وہی ضماد تغلق نے بھی بے ساختہ اسے تالیاں بجا کر تحسین بخشی تھی۔۔۔۔۔
میٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ دونوں ہی بورڈ روم میں موجود تھے باقی سب جا چکے تھے ۔۔۔۔۔
آج تو تم نے میرا دل جیت لیا ۔۔۔۔لگتا ہے مجھے ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔۔۔۔۔اور سب تمہیں سونپ دینا چاہیے ۔۔۔۔
"تو سونپ دیجیے نا دیر کس بات کی بابا ؟۔۔۔۔اس کے لبوں پر پراسرار سی مسکراہٹ رینگی ۔۔۔۔
وہ حیران کن نظروں سے اسے دیکھنے لگے ۔۔۔۔
"آج پہلی بار تم نے مجھے بابا کہا ہے ۔۔۔اسی خوشی میں آج میں اس تغلق کنسٹرکشنز کی پاور آف اٹارنی تمہارے نام کرتا ہوں ۔۔۔
آج سے اس سارے بزنس کو تم سنبھالو گی ۔۔۔یہاں کا ہر فیصلہ لینے کا اختیار صرف تمہارے پاس ہو گا ۔۔۔۔۔وہ پر مسرت انداز میں بولے ۔۔۔
اور اٹھ کر وہاں کی لاکڈ کبرڈ کو کھول کر اس میں سے ایک نیلے رنگ کی فائل کھول کر میز پر رکھی ۔۔۔۔
انہوں نے اس پر سائن کیے اور پھر وہ فائلز اور پین دلبرا کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔
تو دلبرا کی آنکھوں میں عجیب سی چمک ابھری ۔۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ بابا ۔۔۔۔وہ سائن کیے بولی ۔۔۔۔
آج اسی خوشی میں آپ کو میں ایک کہانی سناؤں گی ۔۔۔۔
"اس عمر میں بچوں کی طرح میں کہانیاں سنتا اچھا لگوں گا بھلا ؟؟؟
ویسے یہ مجھے کہانی سنانے کا خیال تمہارے من میں کیسے آیا ۔۔۔۔
سنیں نا بابا سچ میں آپ کو بہت مزہ آنے والا ہے کہانی سن کر یہ ایک سچی کہانی ہے ۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے مگر ہم اسے راستے میں سنیں گے ۔۔۔۔گھر پہنچنے میں کافی وقت لگ جائے گا ۔۔۔وہ گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے بولے ۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی ۔۔۔۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گاڑی تک آئے ۔۔۔۔
"انکل آج کار میں ڈرائیو کروں گی ۔۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔
ضماد تغلق فرنٹ ڈور کھول کر سیٹ پر بیٹھے تو دلبرا نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔۔۔۔
"بابا آپ کبھی کراچی گئے ؟؟؟
یہ کیسا سوال ہے بیٹا ؟؟
بتائیں نا بابا پلیز ۔۔۔۔وہ منت بھرے انداز میں بولی۔
ہاں بہت بار ۔۔۔۔۔
بابا آپ کیا کبھی وہاں کے ریڈ لائٹ ایریا میں گئے ۔۔۔۔۔؟
وہاں ایسا کوئی علاقہ نہیں ۔۔۔۔وہ صاف مکر گئے ۔۔۔۔
ہمممم۔کئی بار پوش ایریا میں بھی اس قسم کے کاروبار ہوتے ہیں ۔۔۔۔جو باہر سے دکھائی نہیں دیتے مگر اندر سے اسی طرح کے کام ہو رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔
"یہ آج تم کس قسم کی باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو ؟؟؟وہ اس ٹاپک سے جھنجھلاتے ہوئے بولے ۔۔۔۔
اچھا چلیں چھوڑیں۔۔۔۔یہ دیکھیں ۔۔۔۔
یہ کیا ہے میرے پاس ۔۔۔۔۔
اسے تو آپ جانتے ہی ہوں گے ۔۔۔۔
اس نے گلے میں موجود بلیک ڈوری میں ایک انگوٹھی ڈال رکھی تھی ۔۔۔۔
اسے نکال کر ان کے سامنے کیا ۔۔۔۔۔
وہ اس انگوٹھی کو دیکھ حیرت زدہ ہوئے ۔۔۔
"یہ۔۔۔۔یہ تمہیں کہاں سے ملی ۔۔۔۔؟
وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولے ۔۔۔۔
"اوہ تو آپ کو یاد آگیا کہ یہ آپ کی انگوٹھی ہے ۔۔۔۔
وہ کیا ہے نا جب میں اس گھر میں آئی تھی تو تغلق ولا کے ڈرائنگ روم کے باہر جو آپ سب فیملی کی پرانی انلارج سائز کی تصویر لگی ہوئی ہے میں نے اس میں دیکھا تھا ۔۔۔۔
اس تصویر میں آپ نے یہ اپنے ہاتھ میں پہن رکھی تھی ۔۔۔۔۔
پھر آپ سے یہ انگوٹھی کیسے کھو گئی ؟؟؟
وہ ساتھ ساتھ سٹرئینگ گھمائے ڈرائیونگ پر بھی توجہ دئیے ہوئے تھی ۔۔۔۔
"وہ اس کے سوال پر سٹپٹا کر ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگے ۔۔۔۔
پیشانی پر پسینے کی بوندیں واضح چمکنے لگیں ۔۔۔۔۔
اوہ تو آپ بھول گئے چلیں میں یاد کروا دیتی ہوں ۔۔۔۔
آپ نے یہ انگوٹھی یاقوت بیگم کو دی تھی ۔۔۔۔اپنے پیار کی نشانی کے طور پر۔۔۔۔
اب یاد آیا کچھ ؟یا اور بتاؤں ؟؟؟؟
وہ طنزیہ مسکراہٹ اچھال کر بولی ۔۔۔۔
ضماد تغلق کی آنکھوں کے پردوں پر ماضی کے پل جھلملانے لگے۔۔
جب وہ اپنے کچھ کراچی کے رہنے والے دوستوں کے ساتھ کچھ دن بتانے وہاں گئے تھے وہ سب انہیں اپنے ساتھ اس جگہ لے گئے جہاں ہر روز رات کو حسن کی نمائش ہوتی تھی ۔۔۔۔ان دنوں وہاں ایک نئی لڑکی آئی تھی ۔۔۔۔جسے وہاں کی مالکن فیروزہ بائی نے رقص کرنے میں ماہر بنا ڈالا تھا ۔۔۔۔
اس لڑکی کا اصل نام پہچان چھین کر اسے یاقوت کا نام دے دیا گیا تھا ۔۔۔۔
وہ ماہرانہ انداز میں گانا گاتے ہوئے رقص کرتی اور فیروزہ بائی کو ایک رات میں ہزاروں میں رقم کما کر دیتی ۔۔۔۔مگر جسم فروشی کے لیے وہ منع کر چکی تھی ۔۔۔۔
جب فیروزہ بائی کو ویسے ہی وہ اتنی رقم کما کر دے رہی تھی تو اس نے بھی یاقوت کو زیادہ تنگ نہیں کیا ۔۔۔۔
مگر جس دن سے ضماد تغلق نے یاقوت کو دیکھا تھا وہ اس پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا ۔۔۔۔
کسی بھی طرح وہ اسے حاصل کر لینے کا ٹھان چکا تھا ۔۔۔۔۔
بالاناغہ وہاں جانا اور اس کے رخ روشن کا دیدار کرنا اس کے پسندیدہ مشاغل میں سے ایک تھا ۔۔۔۔۔
جب تک وہ اسے دیکھ نا لیتا اسے چین نہیں آتا۔۔۔۔۔
پہلے پہل تو یاقوت اس سے اکیلے میں ملنے سے گریز برتتی رہی مگر پھر روز روز کے اظہار محبت سے اس کے پتھر دل پر بھی چوٹ لگنے سے بالآخر وہ پگھلنے لگا ۔۔۔۔۔
"آپ کی تشریف آوری کے لیے نوازش کرم ۔۔۔۔
وہ ادا سے بولی ۔۔۔۔جو ادائیں اسے فیروزہ بائی نے سیکھائیں تھیں ۔۔۔۔۔
اس امیر زادے کو گھیر لیا تو لاکھوں میں کھیلے گی ۔۔۔۔وہ ہر روز اسے نئے نئے گُر سکھاتی ۔۔۔۔۔مگر یاقوت بھی سچے دل سے اسے چاہنے لگی تھی ۔۔۔۔وہ فیروزہ بائی کی ایک نا مانتے ہوئے ضماد تغلق سے دلگی کرنے کی بھول کر بیٹھی ۔۔۔۔۔اسے کیا خبر کہ ایک لڑکی جب طوائف کے کوٹھے پر آ جاتی ہے تو محبت کرنے کا بیوی بننے کا حق کھو دیتی ہے ۔۔۔۔مگر اس نے سب جانتے بوجھتے بھی یہ کوشش کی ۔۔۔شاید وہ ان خوش قسمت لڑکیوں میں سے ہو جنہیں کچھ فرشتہ صفت انسان یہاں سے نکال لیتے ہیں ۔۔۔۔۔
گھنگھروؤں کی چھن چھن میں ۔۔ اس کا نازک سا وجود میوزک کی لہہ پہ تھرک رہا تھا ۔۔آج وہ صرف اپنی محبت ضماد تغلق کے لیے رقص کے ذریعے اپنا عشق ظاہر کر رہی تھی ۔۔ وہ عشق جو اسے ضماد تغلق سے ہو چکا تھا ۔۔ بنا کسی لالچ کے وہ ضماد تقلق کے عشق میں پور پور ڈوبی ہوئی تھی ادھر دوسری جانب ضماد تغلق کو اس سے عشق تھا یا نہیں تھا وہ لاعلم تھا ۔۔ شاید کھبی سوچا بھی نہیں تھا کہ اسے عشق ہے کہ نہیں ۔۔ یا عشق کہتے کسے ہیں اسے بس یاقوت کی قربت میں سکون ملتا تھا ۔۔ یاقوت رقص چھوڑ کے اس کے پاس آ کے بیٹھ گئی ۔۔ ضماد تغلق اپنی انگلی کی پور سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کوچھونے لگا وہ آنکھیں بند کیے اس کے لمس کو محسوس کر رہی تھی ۔۔اور اندر تک سرشار ہو رہی تھی۔۔۔۔
"ِمٹھل سائیں !آپ کی انہیں اداؤں نے ہمیں آپ کا دیوانہ بنا رکھا ہے 'یونہی تو نہیں کھنچے چلے آتے ہیں روز یہاں"
وہ اپنے ہاتھ میں لپٹے موتیے اور گلاب کے ہار کی مہک کو سانسوں میں اتارتے ہوئے مخمور آنکھیں لیے اس ملکہ ء حسن کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے۔۔۔۔۔
"حسنِ نظر ہے جناب کی ورنہ ورنہ کنیز ِ خاکسار اس قابل کہاں ؟؟؟
وہ ایک ہاتھ کو اپنے چہرے کے قریب لے جائے آداب کی سی رسم نبھاتے ہوئے ادا سے بول کر مسکائی۔۔۔۔۔۔
"ہائے آج تو لوٹ ہی لیا یاقوت بیگم آپ نے "
انہوں نے سرد آہ بھر کر سرخم کیا ۔۔۔۔۔۔
"آج آپ کے حسن کے نام یہ ایک چھوٹا سا نظرانہ ۔۔۔۔انہوں نے اپنی انگلی سے وہ انگوٹھی نکال کر اس کی انگلی کی زینت بنائی ۔۔۔۔اس کی نازک سی مخروطی انگلی میں وہ کسی طور فِٹ نہیں تھی ۔۔۔بہت کُھلی تھی ۔۔۔مگر یاقوت نے اسے لبوں سے چھو کو پھر کسی معتبر چیز کی طرح آنکھوں سے لگایا ۔۔۔۔۔
آپ سے ایک خصوصی بات کرنا چاہتی تھی ۔۔۔وہ تھوڑا جھجھک کر بولی ۔۔۔
ضماد تغلق مدھوش سا اس کی آنکھوں کے جام پینے میں محو تھا ۔۔۔۔
اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھرے خود کے قریب کر چکا تھا ۔۔۔۔
بولیں۔۔۔جان ِ ادا ۔۔۔۔۔
"ہم امید سے ہیں ۔۔۔۔۔آپ کب ہمیں اپنے نکاح میں لیں گے ؟؟؟آپ نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔۔۔۔
اس کے چہرے پر پریشانی کے سائے لہرا رہے تھے ۔۔۔۔
ضماد تغلق کا نشہ پل بھر میں غارت ہوا۔۔۔۔
"یہ کیا کہہ رہی ہو تم ۔۔۔۔۔
ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔
تم کسی اور کا گناہ میرے سر نہیں تھوپ سکتی ۔۔۔۔
وہ پل بھر میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا اسے جھٹکا دے کر خود سے دور کر گیا ۔۔۔۔
اس دن کا نکلا پھر وہ کبھی واپس وہاں نہیں گیا ۔۔۔۔۔
اسے لگا کہ اس کے والد شہباز تغلق کو اگر اس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ایسی جگہ کی کسی عورت سے تعلق بنا بیٹھا ہے تو وہ اسے کبھی زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔۔
وہ وقتی تعلق تو بنا بیٹھا تھا ۔۔۔۔مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ اس تعلق سے وہ کسی کی ہنستی بستی زندگی برباد کر چکا ہے ۔۔۔۔
یاقوت جو اس کی محبت میں اپنا سب کچھ وار چکی تھی ۔۔۔۔
وہ اسے دھتتکار کر ایسا غائب ہوا کہ کبھی مڑ کر نہ دیکھا ۔۔۔۔
فیروزہ بائی نے اسے کئی بار اس کے پیار کی نشانی کو گرانے کے لیے زبردستی بھی کی ۔۔۔مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہی ۔۔۔۔۔
اور ایک دن اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا ۔۔۔۔
اس سارے عرصے میں وہ خود کو ضماد تغلق کے غم میں مٹا چکی تھی ۔۔۔۔
اس کی صحت رفتہ رفتہ گرتی رہی ۔۔۔۔
اور جس دن اس نے بیٹی کو پیدا کیا اس دن وہ اپنے غموں کو سمیٹے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔۔۔۔
اس کی دوست اس کی ہم عصر سلمی اس کے بارے میں سب جانتی تھی ۔۔۔۔اپنے آخری وقت میں اس نے سلمی کو ضماد کی انگوٹھی دے کر کہا تھا کہ اس کی بیٹی کو یہ انگوٹھی دے دے وہ خود ہی اپنے باپ کو ڈھونڈھ لے جو اس بھری دنیا میں اس کی ماں کو تنہا کر گیا ۔۔۔۔۔
سلمی نے اس بچی کا نام دلبرا رکھا ۔۔۔۔
فیروزہ بائی نے اس بچی کی سرپرستی حاصل کر لی اور اسے تعلیم دلوائی تاکہ وہ آج کل کے حساب سے مالدار مرغوں کو پھانس سکے ۔۔۔۔۔
مگر دلبرا نے اس کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا ۔۔۔۔اور وہاں سے فرار ہو گئی ۔۔۔۔۔۔
وہ تغلق ولا آئی تو کسی اور منصوبے کے تحت تھی مگر اگلے دن صبح جب شہباز تغلق نے لاونج میں سب کی عدالت لگائی تھی وہ وہاں کی دیوار پر لگی تصویر دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔جس میں ضماد تغلق نے وہ انگوٹھی پہن رکھی تھی ۔۔۔۔۔
اس نے آہستہ آہستہ ضماد تغلق کو اعتماد میں لینا شروع کیا ۔۔۔۔اس کے ساتھ آفس تک پہنچ گئی ۔۔۔۔اور آج نہایت ہوشیاری سے اس کی کمپنی بھی اپنے قبضے میں لے چکی تھی ۔۔۔۔۔
آپ کو پتہ ہے میں کون ہوں ؟؟؟وہ زہر خند انداز میں ان کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگی ۔۔۔۔
وہ حیران کن نظروں سے اسے دیکھنے لگے ۔
"میں آپ کا خون اسی طوائف سے ۔۔۔۔۔
اب سمجھ آیا میری "بابا "لفظ سے نفرت کی وجہ ۔۔۔۔۔
ہا۔ہا۔ہا۔۔۔۔۔وہ استہزایہ انداذ میں ہنسنے لگی ۔۔۔
ضماد تغلق کسی انہونی کے احساس کے تحت اس کے انداز و اطوار سے خوفزدہ ہوئے ۔۔۔۔۔
"آپ نے میری ماں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ان سے ان کے جینے کی وجہ چھین لی ۔۔۔۔انہیں اس دنیا میں تنہا تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا ۔۔۔۔
آج آپ کو بھی میں نے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔۔۔۔
وہ مسلسل تلخ ہنسی ہنس رہی تھی ۔۔۔۔
ایک دم گاڑی نے تیزی سے رخ موڑا ۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے ہل کر رہ گئے ۔۔۔۔
گاڑی کی رفتار خطرناک حد تک تیز دیکھ کر وہ سراسیماں نظروں سے باہر دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
بیٹا مجھے معاف ۔۔۔۔
وہ اس کی طرف دیکھ کر بولنے ہی لگے تھے کہ دلبرا نے بیچ میں بات اچک لی ۔۔۔۔
"خبردار !!!!"
جو ایک لفظ بھی کہا ۔۔۔۔
"دلبرا کی ڈکشنری میں لفظ معافی کی کوئی گنجائش نہیں "
وہ پھنکاری تھی ۔۔۔۔
سامنے سے آتے ایک بڑے سے ٹرک کی ٹکر سے ان کی گاڑی لڑکھڑاتی ہوئی گول گول گھومتے ہوئے لڑھک کر سڑک سے نیچے درختوں کی طرف ڈھلان میں گرنے لگی ۔۔۔۔۔۔
ضماد تغلق اس افتاد پر خود کو سنبھال نا پائے ۔۔۔۔اور چند لمحوں میں ہی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئے ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
گھر جب ریسکیو والوں نے فون کر کہ اطلاع دی تو پورے گھر میں جیسے بھونچال آگیا۔۔۔
سب مل کر ہسپتال کی طرف گئے ۔۔۔۔
ضماد تغلق کا بہت برا ایکسڈنٹ ہوا تھا ۔۔۔
گاڑی دلبرا ڈرائیو کر رہی تھی وہ بھی ان کے ساتھ تھی وہ کہاں گئی ۔۔۔۔۔
سب یہی سوچ سوچ کر پریشان تھے ۔۔۔۔
پولیس کو سارے معاملے کی اطلاع کردی گئی تھی ۔۔۔۔
فرزام اسے خود ان کے ساتھ مل کر ڈھونڈھ رہا تھا ۔۔۔۔قریبی تمام ہسپتال چیک کر چکا تھا اور وہ سارا علاقہ بھی جہاں ایکسڈنٹ ہوا تھا ۔۔۔۔مگر دلبرا کا کہیں کوئی اتہ پتہ نا ملا ۔۔۔۔۔
وہ ایک تو دلبرا کی گمشدگی پر پریشان تھا ۔۔۔اور دوسرا جو دلبرا کی کنڈیشن تھی ،ابھی صرف ایک ڈیڑھ ماہ ہی ہوا تھا اسے خوشخبری ملے ۔۔۔۔ڈاکٹر نے اسے سخت پرہیز اور بیڈ ریسٹ کا مشورہ دیا تھا۔۔۔۔
فرزام دن رات اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈھ رہا تھا مگر اس کا کہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا ۔۔۔۔۔
اسی کشمکش میں ایک ہفتہ بیت گیا ۔۔۔۔ضماد تغلق کی حالت کا سن کر نورالعین اور یارق واپس آ چکے تھے ۔۔۔۔
ضماد تغلق مکمل طور پر پیرالائزڈ ہو چکے تھے ۔۔۔۔
فرزام اور یارق انہیں گھر لا چکے تھے ۔۔۔باقی کا علاج ان کا گھر پر ہو رہا تھا ۔۔۔۔
ان کے لیے ایک الگ کمرے کا انتظام کردیا گیا جہاں پر نگہت بیگم اور ایک نرس چوبیس گھنٹے ان کی دیکھ ریکھ کر رہی تھیں ۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
حنا کی طبیعت بھی ٹھیک ہو چکی تھی تو وہ بھی گھر آچکی تھی ۔۔۔۔
مگر وہ اب اپنے کمرے تک ہی محدود رہتی اس نے باہر نکلنا ترک کردیا تھا ۔۔۔زیدان تغلق سے مکمل لا تعلقی اختیار کر لی تھی ۔۔۔۔
جیسے وہ یہاں موجود ہی نہیں ۔۔۔۔۔
"نسیم کھانا لگا دو ۔۔۔۔
جی صاحب ۔۔۔۔وہ مودبانہ انداز میں کہتے ہوئے کچھ ہی دیر میں ڈائننگ پر کھانا کھانے لگی ۔۔۔۔
حنان اس کے ساتھ بیٹھا کھانے لگا ۔۔۔۔
آپ کی مما کہاں ہیں ؟زیدان نے ہلکی آواز میں حنان سے پوچھا ۔۔۔۔
"مما روم میں ہیں ۔۔۔۔
کیا کر رہی ہیں ؟؟؟
وہ ۔۔۔۔اممممممم۔۔۔۔وہ سوچنے کے انداز میں بولا ۔۔۔
وہ لیٹی ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔۔اچھا ۔۔۔۔
ابھی پہلی بائیٹ ہی لی تھی ۔۔۔۔
نسیم یہ کس طرح کا کھانا بنا رہی ہو آج کل بالکل ذائقہ نہیں ۔۔۔۔۔زیدان نے برا سا منہ بنا کر کہا ۔۔۔۔
صاب جی اب حنا جی کھانا نہیں بناتی میں بناتی ہوں ۔۔۔۔آپ کو ان کے ہاتھ کے کھانے کی لت لگ گئی ہے ۔۔۔اب میرے ہاتھ کا کیسے پسند آئے گا ۔۔۔وہ رسانیت سے کہہ کر کچن میں چلی گئی اور اسے اپنے تئیں سوچنے پر مجبور کر گئی ۔۔۔۔۔
اس نے دوسرا لقمہ واپس پلیٹ میں رکھ دیا ۔۔۔
بھوک جیسے مر گئی تھی ۔۔۔۔۔
وہ حنان کو خود اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے لگا اور اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگا ۔۔۔۔
نظریں بار بار بھٹک کر اس کے کمرے کی طرف جا رہی تھیں مگر وہاں کا دروازہ ہمیشہ کی طرح بند تھا ۔۔۔۔۔
وہ دو بار ہسپتال جا کر ضماد تغلق کا حال دریافت کر چکا تھا ۔۔ اور مزید کال پر پوچھتا رہتا ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
آج ایک عالیشان ہوٹل میں ایک سیاسی پارٹی منعقد کی گئی تھی ۔۔۔۔۔
جہاں ملک کے نامور شخصیات اور سیاسی لیڈر موجود تھے ۔۔۔۔۔
فرزام جسے خبری سے خبر ملی تھی کہ اس پارٹی میں پاشا اور اس کے ساتھ کوئی ہنگامہ کرنے والے ہیں ۔۔۔۔اور ان کا اگلا ٹارگٹ زیدان تغلق ہے ۔۔۔۔
کیونکہ حال ہی میں زیدان تغلق وزیر ِ صنعت و تجارت منتخب ہوا تھا ۔۔۔۔۔
وہ پاشا گینگ کے اسلحے کی ترسیل میں کافی رکاوٹیں کھڑی کر رہا تھا ۔۔۔ اسی لیے وہ ان کی ہِٹ لسٹ پر تھا۔۔۔۔۔
ایک تو فرزام ۔۔۔پاشا گینگ کو پکڑ کر اپنی جاب بحال کرنا چاہتا تھا ۔۔۔اپنے ملک کے غداروں کو پکڑنا چاہتا تھا ۔۔۔دوسری طرف اپنے بھائی زیدان تغلق کی سیفٹی کے لیے وہ بھیس بدل کر اس پارٹی میں شامل ہونے آیا تھا ۔۔۔۔
ضماد تغلق تو بیمار تھے یارق کی واپسی کے بعد اب وہ اس پارٹی میں ضماد تغلق کی نمائندگی کرنے کے لیے آیا تھا ۔۔۔۔
تقریبا اب سیاسی لیڈر پہنچ چکے تھے ۔۔۔
زیدان تغلق سفید کھدر کے سوٹ میں ملبوس اس پر بلیک واسکٹ پہنے کلائی میں برانڈڈ کھڑی پہنے جیل سے بال سیٹ کیے اپنی مردانہ وجاہت سمیت ساری محفل کی توجہ سمیٹ رہا تھا ۔۔۔
ہر نظر ستائش بھری اس پر اٹھ رہی تھی اتنی کم عمری میں اس نے یہ مقام حاصل کر لیا تھا ۔۔۔۔
اس کے ساتھی سیاسی لیڈر کافی عمر کے تھے جبکہ وہ صرف تیس کا ۔۔۔۔اسی لیے سب سے منفرد دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔
جہاں جہاں اس کے لیے کچھ ستائشی نظریں تھیں وہیں کچھ نظروں میں جلن اور حسد بھی تھا ۔۔۔۔اور کچھ کی نظر میں غصہ ۔۔۔۔۔
یارق بھی تھری پیس سوٹ میں تھا ۔۔۔وہ بھی آکر زیدان سے ملا اور اسے مبارکباد دی۔۔۔جسے اس نے مسکرا کر وصول کیا۔۔۔۔۔
پارٹی کی رونق اپنے عروج پر تھی ۔۔۔۔
وہاں چند صنف مخالف بھی موجود تھیں جو اس شعبے سے منسلک تھیں ۔۔۔۔۔
۔اس ہوٹل کے تین فلور تھے۔گراؤنڈ فلور پر ریسٹورنٹ تھا۔بڑے سے ہال میں کرسیاں میز لگے ہوئے تھے۔ہر ٹیبلز پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ایک طرف ریسیپشن کاؤنٹر اور کچن تھا۔ایک طرف دو راہداریاں تھیں جہاں کمرے تھے۔سامنے سیڑھیاں تھیں۔اس ہوٹل کی ڈیزائننگ کچھ ایسی تھی کہ اوپر والی منزل کی ہال وے کسی ٹیرس کے طرح چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی جس کے ایک طرف کمرے اور راہداریاں تھی جبکہ دوسری طرف ریلنگ تھی جس سے نیچے کا سارا ریسٹورنٹ ہال نظر آتا تھا۔اور نچلی منزل سے سیکنڈ فلور کی چھت نظر آتی تھی۔اس چھت کو چار ستون سہارا دیتے ہوئے تھے جن کی بنیاد گراؤنڈ فلور پر تھی۔وہ ستون ریلنگ کے قریب ہی کھڑے تھے۔
عمر آن ڈیوٹی ہوتے ہوئے فرزام کو ہوٹل کا سارا نقشہ سمجھا چکا تھا ۔۔۔وہ اپنے سنئیر آفیسر سے اس کے سسپینڈ ہونے کے باوجود بھی رابطے میں تھا ۔۔۔۔فرزام اور وہ دونوں مل کر پاشا کے خلاف ثبوت اکٹھے کر رہے تھے ۔آج عمر کی یہاں ڈیوٹی لگی تھی ۔۔۔۔۔
ہیل کی ٹک ٹک کی آواز نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔
فرزام ،یارق زیدان ،تیںوں نے مڑ کر اندر آنے والی شخصیت کو دیکھا ۔۔۔۔
وہی بیلک پینٹ وہی بلیک جیکٹ اور ہاتھوں پر گلوز چڑھائے ۔۔۔چہرے کو ماسک سے چھپائے ۔۔۔۔اس کی گہری آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں ۔۔۔۔وہی سنہری بالوں کی ہائی ٹیل کیے منہ میں چیونگ گم چباتی ہوئی ہوئی شاہانہ چال چل کر اندر آ رہی تھی ۔۔۔۔
پاشا جو چہرے پر نقلی داڑھی مونچھیں لگائے حلیہ بدلے وہاں سب کی نظروں سے بچا ہوا تھا ۔۔۔اس کی تیز نظر سے بچ نا سکا ۔۔۔۔
اس نے پاشا کی طرف دیکھ کر ایک طنزیہ مسکراہٹ اچھالی ۔۔۔۔
عمر جو پولیس یونیفارم میں ملبوس تھا فورا اپنی گن نکال کر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔
"کون ہو تم؟"
اور بنا پاس کے اندر کیسے آئی ؟؟؟
وہاں موجود باقی نفری نے بھی اس پر ہتھیار تان لیے ۔۔۔۔۔
"میں جو بھی ہوں تمہیں اس سے مطلب ؟؟؟۔تمہیں اگر اپنا یہ لیڈر زندہ سلامت چاہیے تو اپنے ساتھیوں سے کہو ہتھیار پھینک دیں۔
"عمر کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ لڑکی کہاں سے ٹپک پڑی۔جو اتنی سیکیورٹی کے باوجود کھلے عام یہاں تک پہنچ گئی۔اور انہیں ہتھیار ڈالنے کا کہہ رہی ہے۔یارق بھی تعجب سے عمر کے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا۔
فرزام یہ آنکھیں تو ہزاروں میں بھی پہچان سکتا تھا ۔۔۔۔
وہ بجلی کی رفتار سے اس کے قریب آیا اور اس کا چہرے پر لگا ماسک نوچ پھینکا ۔۔۔۔
اور قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔
یارق کو تو اسے سامنے دیکھ غصے میں آگ بگولہ ہوا ۔۔۔۔
گھٹیا عورت میں تیری اصلیت جان چکا ہوں ۔۔۔۔
وہ آگے بڑھ کر دلبرا کے منہ پر ایک جاندار قسم کا تھپڑ مارا تھا کہ وہ اپنا توازن برقرار نا رکھ پائی اور لہراتی ہوئی گرنے ہی لگی تھی کہ فرزام نے اسے تھاما ۔۔۔۔
اس نے جھٹکے سے اپنا آپ فرزام کی گرفت سے چھڑوایا ۔۔۔۔۔
"بھائی اس نے ہماری کمپنی ہمارے arrivalsکو بیچ دی ۔۔۔آپ نہیں جانتے اس نے اور کیا کِیا ہے ۔۔۔۔یارق نے فرزام کو اس کی اصلیت سے آگاہ کرنا چاہا ۔۔۔۔
زیدان کے چہرے پر سوچ کی لکیریں دیکھ کر وہ بولی ۔۔۔۔
"زیادہ مت سوچو تمہاری اپنی جان بھی خطرے میں ہے۔میرا نشانہ تم پر سیٹ ہے۔اگر کہو تو یقین دلاوں؟"دل کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا لیکن لہجے میں اعتماد اور بلا کی سختی تھی۔
اس نے فورا گن نکالی ۔۔۔۔ ٹریگر دبا دیا اور گولی اڑتی ہوئی زیدان تغلق کے دائیں بازو میں پیوست ہوئی ۔۔۔اس کی بازو میں سے خون رسنے لگا ۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے لمحوں میں اس کا سفید سوٹ خون سے بھرنے لگا ۔۔۔۔
پاشا نے نظروں ہی نظروں میں اسے داد دی ۔۔۔۔
جسے دلبرا نے مسکرا کر وصول کیا۔۔۔
جلدی ہتھیار رکھو ورنہ دوسری گولی اس کے سینے پر ماروں گی ۔۔۔۔وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی ۔۔۔۔
عمر نے سب کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دے دیا
۔وہاں بھگدڑ مچ گئی۔۔۔۔سب کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔
فرزام اس کی طرف اشتعال انگیز انداز میں بڑھا ۔۔۔کہ اس نے گن کا رخ پاشا کی طرف کیا ۔۔۔۔۔
اور دوسری گولی سیدھی بنا چونکے پاشا کے سینے میں لگی ۔۔۔۔۔
ہال کی لائٹس آف ہوتے ہی وہ ان سب کو کاشی کی مدد سے چکما دینے میں کامیاب ہو گئی ۔۔۔۔
جب ہال کی روشنی واپس لوٹی تو وہ کہیں بھی دکھائی نا دی ۔۔۔۔
دلبرا ہوٹل کی راہداریاں کراس کرتی تیزی سے سیڑھیاں عبور کرتی ہوئی ہوٹل کے ٹاپ فلور پر پہنچ چکی تھی ۔۔۔کاشی اس کا پیچھا کرتا ہوا اس تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔۔۔
ہوٹل کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی جس وجہ سے اس نے باہر بھاگنے کی بجائے اوپر جانے کو ترجیح دی۔۔۔۔
"تم کیا سمجھی؟؟؟؟
"کہ تم پاشا کو مار کر اس پاشا گینگ کی لیڈر بن جاؤ گی ؟؟؟؟
تو ایسا کبھی خواب میں بھی مت سوچنا ۔۔۔کیونکہ کاشی کبھی بھی ایسا ہونے نہیں دے گا ۔۔۔۔
وہ پینٹ کی پاکٹ میں سے گن نکال کر اس پر تان چکا تھا ۔۔۔۔۔
پاشا تو گیا ۔۔۔۔۔
"اب تیری باری ۔۔۔۔دلبرا نے تنفر زدہ آواز میں کہا ۔۔۔۔۔
"مجھے تو تب مارے گی جب تو خود ذندہ بچے گی" ۔۔۔۔۔ہا۔ہا۔ہا ۔۔۔
وہ طنزیہ ہنسی ہنسا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ دلبرا اس پر گولی چلاتی کاشی اسے ٹاپ فلور سے نیچے دھکا دینے لگا تاکہ دلبرا نیچے گرے اور پولیس کی توجہ اس کی لاش پر ہو ۔۔۔۔اور وہ سب کا دھیان بھٹکانے کے بعد وہاں سے نکل جائے ۔۔۔۔۔
اس نے اچانک دلبرا کو دھکا دیا ۔۔۔ہائی ہیل کی وجہ سے وہ لڑکھڑاتی ہوئی نیچے کو گری ۔۔۔۔
مگر اس کا ہاتھ ٹیرس کی ایک ریلنگ سے اٹک گیا ۔۔۔۔۔
وہ اسے مضبوطی سے پکڑ چکی تھی ۔۔۔۔
کاشی نے آگے بڑھ کر دیکھا ۔۔۔۔
اس کا دھڑ نیچے ہوا میں معلق تھا۔۔۔۔
دلبرا نے ایک ہاتھ سے ریلنگ پکڑ رکھی تھی تو دوسرے میں گن ۔۔۔۔
اس نے کاشی کو جھکے دیکھا تو اس پر ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا فائر کیا ۔۔۔۔۔
فرزام جو اسے ڈھونڈھتا ہوا اوپر کی طرف آ رہا تھا ۔۔۔۔فائر کی آواز سن کر تیزی سے ٹاپ فلور پر پہنچ گیا ۔۔۔۔
کاشی لہرا کر خون سے لت پت بے جان ہوتا ہوا نیچے گرا ۔۔۔۔
اس نے ارد گرد گولی چلانے والے کو ڈھونڈا ۔۔۔
کوئی بھی نظر نہیں آیا ۔۔۔۔آس پاس کی بلڈنگز پر نظریں دوڑائیں ۔۔۔۔مگر کوئی نظر نہیں آیا ۔۔۔
نیچے سڑک پر دیکھتے ہوئے اس کی نظر وہاں کی ریلنگ سے لٹکتی ہوئی دلبرا پر پڑی تو آگے بڑھا ۔۔۔۔
"ہاتھ دو اپنا "وہ چِلایا ۔۔۔۔
"کیوں بچا رہے ہو مجھے مر جانے دو ۔۔۔۔"
"جاؤ یہاں سے "وہ اس سے دگنی قوت میں چلائی ۔۔۔۔
ہاتھ ریلنگ سے پھسل رہا تھا ۔۔۔۔۔
"اصل میں تو تم جیسی لڑکی کو مر جانا چاہیے "
"تو پھر مر جانے دو کیوں بچا رہے ہو ؟؟؟
"گناہ تو تم نے کیے ہیں اس بیچارے معصوم کا کیا قصور جو ابھی تک اس دنیا میں آیا بھی نہیں ۔؟"
"تم تو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے میں ان کی جان لینے میں ماہر کھلاڑی ہو تمہیں کیا فرق پڑتا ہے کوئی جئیے یا مرے ۔۔۔۔تمہاری بلا سے ۔۔۔۔
مگر میں کسی کا نا حق قتل کر کہ اس کا ذمہ خود کے سر نہیں لینا چاہتا ۔۔۔۔
میں تمہیں بچا رہا ہوں تو صرف اپنے بچے کے لیے "ورنہ تم تو اس قابل بھی نہیں۔۔۔۔
فرزام کی بات سن کر اس کی آنکھوں میں نمی اتری۔۔۔۔
"مت دیکھو مجھے اپنی ان فریبی آنکھوں سے۔۔۔۔بہت دھوکہ کھایا ہے ان سے اب اور نہیں ۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ دلبرا کا ہاتھ ریلنگ سے چھوٹتا۔۔۔وہ اسے اوپر اپنی طرف کھینچ چکا تھا ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
یارق زخمی زیدان کو اپنے ساتھ ہاسپٹل لے گیا ۔۔۔۔
ڈاکٹرز کی بروقت ٹریٹمنٹ کی وجہ سے زیدان کے بازو میں لگی ہوئی بُلٹ نکال لی گئی تھی ۔اب زیدان کافی بہتر محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
تغلق ولا میں تو سوگ کا سماں تھا ،ایک ہفتہ قبل ضماد کا ایکسیڈینٹ ہوگیا اور اب زیدان کی یہ حالت ۔۔۔۔شہباز تغلق تو خود صدیوں کے بیمار دکھائی دینے لگے اپنے بیٹے اور پوتے کی حالت دیکھ کر ۔۔۔۔۔
وہ زیدان سے ملنے ہسپتال آئے اور اسے منا کر تغلق ولا اپنے ساتھ لے آئے ۔۔۔۔کہ یہاں سب کے بیچ اس کی زیادہ اچھی دیکھ بھال ہو سکے گی ۔
نور اور یارق زیدان ہاؤس میں سے حنا اور حنان دونوں کو اپنے ساتھ تغلق ولا لا چکے تھے ۔۔۔۔۔
زیدان کی حالت کا سن کر تو حنا کافی دیر صدمے سے باہر ہی نا نکل سکی ۔۔۔۔مگر اب اس کی بہتر حالت کا سن کر اس کی جان میں جان آئی ۔۔۔۔۔
زیدان ساری رات دوائیوں کے زیر اثر سوتا رہا ۔۔۔۔
زیدان تغلق ولا میں اپنے پرانے کمرے میں واپس آ چکا تھا ۔۔۔۔۔
وہ اس کے پاس بیٹھی ہوئی اس کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہوئے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو نہار رہی تھی ۔۔۔۔
"آپ میری ذات کے حصار سے باہر نہیں نکل سکتے ،کوشش کر لیں ۔۔۔۔
جب تھک جائیں تو لوٹ آنا۔۔۔
کیونکہ دروازہ میں نے اندر سے بند نہیں کیا اسے باہر سے آپ نے اپنے ہاتھوں سے بند کیا ہوا ہے ۔ساری رات وہ اس کے سرہانے بیٹھی رہی کہ اسے کسی چیز کی ضرورت نا ہو۔
کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی نے اسے اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔
اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو حنان اس کے ساتھ بستر پر سو رہا تھا ،جبکہ حنا بیڈ کے ساتھ نیچے قالین پر بستر بچھا کر دیوار سے ٹیک لگائے نیم دراز سی تھی ۔۔۔۔
اسے اپنا حلق خشک سا محسوس ہوا تو وہ خود اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔
سائیڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اس کے ہاتھ کی پکڑ سے چھوٹ کر نیچے گرا ۔۔۔۔
چھناکے کی آواز سن کر وہ ہڑبڑا کر اٹھی ۔۔۔۔
"کچھ چاہیے تھا آپ کو ؟
وہ سر پر اپنا دوپٹہ درست کرتے ہوئے بولی ۔۔۔
زیدان خاموشی سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔
حنا نے یک ٹک اسے اپنی جانب متوجہ پایا تو گھبرا کر نظریں پھیر گئی ۔۔۔۔
ہائیڈ اینڈ سیک (چھپن چھپائی ) ختم ہوئی یا ابھی اور کھیلنا ہے ؟؟؟؟
وہ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا ۔۔۔۔
وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔
میں سمجھی نہیں ۔۔۔۔
کافی دنوں سے آپ نے پردہ نشینی اختیار کر رکھی تھی ۔۔۔۔
میری طبیعت کی وجہ سے سامنے آئی ہیں یا کوئی اور بات ہے ؟؟؟؟
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔۔
وہ اس کی بات سمجھنے کے بعد بھی نظر انداز کر گئی ۔۔۔اور نیچے سے گرا ہوا گلاس اٹھا کر ایک طرف رکھا ۔۔۔۔
"میں دوسرا گلاس لے کر آتی ہوں ۔۔۔وہ باہر نکلنے کے لیے پر تولنے لگی ۔۔۔۔
پہلے مجھے میرے سوال کا جواب چاہیے۔۔۔۔
اسے اپنے پیچھے زیدان کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔
"یہ آپ کا گھر نہیں ہے ۔۔۔یہ دادا جان کا گھر ہے اور یہاں پر رہنے والے سب مکینوں کی نظر میں ہم میاں بیوی ہے ۔۔۔
آپ چاہیں مانے یا نا مانیں ۔۔۔۔
اسی لیے مجبوراً مجھے اس روم میں آپ کے ساتھ رکنا پڑا ۔۔۔
ورنہ مجھے کوئی شوق نہیں یہاں رکنے کا۔۔۔۔
وہ روکھے انداز میں بولی ۔۔۔۔
"ناراض ہو ابھی تک "؟
اس بار زیدان کے سوال پر وہ پلٹ کر اسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔
مجھے آپ سے ناراض ہونے کا کیا حق ہے ؟؟؟
آخر ہم آپ کے ہیں کون ؟؟؟؟بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔۔۔۔
وہ اس کی بات پر مبہم سا مسکرایا ۔۔۔۔
"آپ تو کہتی تھیں کہ آپ کے گھر ٹی ۔وی نہیں تو پھر یہ موویز دیکھنے کا شوق کہاں سے ہوا ۔۔۔۔۔اور ویسے بھی یہ بہت پرانی مووی ہے آپ نے کب دیکھی ؟؟؟
وہ شرمندہ ہوئی اپنے الفاظ پر ۔۔۔۔
وہ ۔۔۔۔وہ میرے سکول کی ایک دوست نے سٹوری سنائی تھی ۔۔۔۔بس ایسے ہی ۔۔۔۔
وہ اپنے دوپٹے کے پلو کو مروڑنے لگی ۔۔۔۔
"اِدھر آئیں میرے پاس "۔۔۔۔۔وہ اپنا ہاتھ اس کے آگے کیے لہجہ بدلتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
وہ حیران رہ گئی اس کی بات پر ۔۔۔۔۔
م۔ممم۔میں۔۔۔۔۔وہ ہکلا کر بولی ۔۔۔۔
جیسے اس کے کانوں نے شاید کچھ غلط سن لیا ہو ۔۔۔۔۔
"جی یقیناََ آپ ہی یہاں ہیں تو آپ سے ہی کہوں گا نا ۔۔۔۔۔۔
"میں آپ کے لیے پا۔۔۔۔پانی لے کر آتی ہوں ۔۔۔۔
اس کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔
مجھے پانی نہیں چاہیے ۔۔۔۔اس وقت کسی اور چیز کی طلب ہے ۔۔۔۔وہ خمار زدہ آواز سے بولا ۔۔۔۔
"جی "وہ فقط اتنا ہی کہہ پائی ۔۔۔۔
بڑی بڑی روشن آنکھیں مزید پھیلیں ۔۔۔۔
وہ دل میں اس کی حالت کا لطف لینے لگا ۔۔۔۔مگر چہرے پر ظاہر نا ہونے دیا ۔۔۔۔۔
"میرا سر دبا دو ۔۔۔۔سر میں بہت درد ہے ۔۔۔۔۔
(چوٹ تو بازو میں لگی ہے درد سر میں ہے ۔۔۔جھوٹھے ہیں آپ )وہ سوچ کر رہ گئی۔۔۔۔مگر اس کے سامنے کہنے کی ہمت خود میں مفقود پائی ۔۔۔۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے پاس آئی اور کھڑے ہوئے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔
حنا کو اس کا ٹمپریچر بالکل نارمل لگا ۔۔۔۔
جبکہ اس کے نرم ہاتھ کا لمس اپنی پیشانی پر محسوس کیے اس کے رگ و پے میں سکون سرائیت کرنے لگا ۔۔۔۔
کتنی دیر یونہی کھڑی رہو گی بیٹھ کر دباؤ ۔۔۔۔ورنہ تھک جاؤ گی ۔۔۔۔وہ اس کے خیال سے بولا ۔۔۔۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔وہ قطعی انداز میں بولی۔۔۔۔
زیدان نے اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کی کلائی اپنی طرف کھینچی کہ وہ اس کے نزدیک بیٹھ جائے ۔۔۔۔
مگر وہ اس اچانک افتاد پر سنبھل نا پائی اور لڑکھڑاتی ہوئی اس پر گری ۔۔۔۔۔
"اتنا پیار نا کریں مجھ سے کہ میں نا جی سکوں آپ کے بغیر اور نا مر سکوں ۔۔۔۔"وہ بالوں کی جھولتی ہوئی آوارہ لِٹ کو اس کے کان کے پیچھے اڑستے ہوئے آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا ۔۔۔۔
دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے بہت قریب تھے ۔۔۔۔زیدان کی پر حدت سانسیں اسے اپنے چہرے پر بخوبی محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔۔
وہ اٹھنے لگی تو زیدان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے جانے سے روکا ۔۔۔۔
"یہ کیا کر رہے ہیں چھوڑیں پلیز ۔۔۔۔وہ روہانسے لہجے میں بولی۔۔۔۔
آنکھیں چھم چھم برسنے کو تیار تھیں ۔۔۔۔
آپ نے دل دکھانے والی باتوں کی کیا پی۔ایچ۔ڈی کر رکھی ہے ۔۔۔؟
"میں نے کیا کہا ؟؟؟وہ حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔
یہ مرنے والی باتیں میرے سامنے مت کیا کریں ۔۔۔۔۔
وہ اسے پیچھے دھکیل کر کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
کہاں جا رہی ہو ؟؟؟
پتہ نہیں ۔۔۔۔کہہ کر وہ باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔۔اس کی نظروں کی تپش سہارنا اس کے بس میں نا تھا ۔۔۔۔
کچن میں آکر اپنے دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔
کیا ہوا حنا کچھ چاہیے تھا ؟؟؟؟
ن۔۔۔نہیں آنٹی ۔۔۔۔وہ میں حنان کے لیے فیڈر بنانے آئی تھی وہ اٹھنے والا ہے نا اور جگ میں پانی لینا تھا ۔۔۔۔وہ نگہت بیگم کو جواب دینے لگی ۔۔۔جو منہ میں آیا بنا سوچے سمجھے بولنے لگی ۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
یہ منظر تھا پولیس اسٹیشن کا جہاں دلبرا کو انویسٹیگیشن کے لیے لایا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
اس نے فرزام کو وہ یو ۔ایس۔بی واپس لوٹا دی تھی ۔اور اس نے کمشنر کو ۔۔۔۔۔
دلبرا نے پاشا گینگ کے تمام افراد کے بارے میں انہیں ساری معلومات دے دیں ۔۔۔۔اس کے علاؤہ ملک کی کافی نامور ہستیاں پاشا گینگ کے زریعے اپنے کالے دھندے چلا رہے تھے ان کے بارے میں بھی دلبرا نے سب سچ بتا دیا ۔۔۔۔۔
فرزام اور عمر نے اس کیس کو بہت اچھے سے سولو کیا اسی لیے فرزام تغلق کو اس کی جاب واپس مل گئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فرزام اور عمر دونوں کی پرموشن بھی ہو گئی ۔۔۔۔۔فرزام ابھی بھی عمر سے رینک میں بڑے عہدے پر فائز ہوا۔۔۔۔
دلبرا نے پاشا اور کاشی جیسے غنڈوں اور ملک کے دشمنوں کو ختم کیا مگر اس کا طریقہ غلط تھا ،لیکن اس نے پولیس کو ساری معلومات فراہم کیں اس لیے اس کی سزا میں کمی کر دی گئی ۔۔۔۔۔
مگر اسے کچھ عرصہ کی سزا ہو گئی ۔۔۔۔۔
فرزام کی پرموشن کے ساتھ ساتھ پوسٹنگ بھی دوسرے شہر ہو گئی ۔۔۔۔۔
مگر وہ جانے سے پہلے ایک بار دلبرا سے ملنے گیا ۔۔۔۔۔
وہ جیل میں فرش پر بیٹھی تھی ۔۔۔
"کیسی ہو ؟وہ اسکے پاس کھڑا پوچھ رہا تھا۔
دلبرا نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے ؟وہ الٹا اسی سے کہنے لگی ۔۔۔۔
"مجھے تو تم ۔۔۔۔۔
کیا بولو ؟؟؟؟میں تمہیں سننا چاہتی ہوں ۔۔۔۔
"نہیں دل آج میں تمہیں سننا چاہتا ہوں ۔۔۔آج اپنے دل میں دبے تمام راز کھول دو ۔۔۔۔
وہ جیل کی دیوار سے سر ٹکا گئی ۔۔۔۔اور گہرا سانس بھرا ۔۔۔۔۔
تمہیں تو پتہ ہے کہ میں ایک طوائف کی بیٹی ہوں مگر ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔۔
میری ماں بھی باقی تمام عام لڑکیوں کی طرح ایک شریف گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔۔۔۔۔
مگر ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا ۔۔۔۔سفید پوش لوگ جو اپنی غریبی کا بھرم رکھتے ہیں اور کسی کے سامنے کبھی اظہار نہیں کرتے ۔۔۔۔میری مما بھی انہیں میں سے تھیں ۔۔۔۔ایک دن وہ کالج سے واپس آ رہی تھی بس میں سوار ہوتے ہوئے جانے کیسے اس حرامی پاشا کی نظر ان پر پڑی ۔۔۔۔
اسے تو گویا ایک آسان شکار مل گیا ۔۔۔۔۔
اس کمینے نے میری مما کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اغوا کیا اور پھر انہیں فیروزہ بائی کو بیچ کر ان کی قیمت وصولی۔۔۔۔
وہ یہ کام نہیں کرنا چاہتی تھیں مگر ان پر اس کام کو سیکھنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ۔۔۔۔کیسے کیسے ظلم نہیں سہے میری مما نے اس ذلیل پاشا کی وجہ سے وہ اندھیروں میں ڈوب گئیں ۔۔۔۔صرف اس کی وجہ سے ۔۔۔۔۔اسچ اس درندہ صفت انسان نے میری ماں کی زندگی برباد کر کہ رکھ دی ۔۔۔۔
جب وہ فیروزہ بائی کے ہاں تھیں تو انہوں نے جسم فروشی سے انکار کر دیا ۔۔۔وہ صرف گانا بجانا اور رقص کیا کرتی تھیں ۔۔۔۔
ایک دن آپ کے چچا ضماد تغلق وہاں آئے ۔۔۔۔اور میری ماں کو اپنی محبت کا یقین دلایا۔۔۔۔وہ انکی محبت کے دعوے دار بنے ۔۔۔۔
میری ماں سمجھی کوئی فرشتہ آیا ہے،انہیں اس دلدل سے نکالنے ۔۔۔۔۔
انہوں نے جھوٹھا وعدہ کیا میری ماں سے نکاح کا ۔۔۔۔
میری ماں ان کے فریب میں آکر اپنا سب کچھ بنا سوچے سمجھے ان پر وار گئی ۔۔۔۔
اور جب انہیں پتہ چلا کہ میں ان کی اولاد اس دنیا میں آنے والی ہوں تو وہ اس طرح وہاں سے میری ماں کو تنہا چھوڑ کر غائب ہوئے کہ کبھی دوبارہ دکھائی نہیں دئیے ۔۔۔
میری ماں ان کے غم میں مبتلا بالآخر سب کی مخالفت مول لیے مجھے پیدا کر کہ زندگی کی بازی ہار گئی ۔۔۔۔۔
یہ سب سچائی سلمی خالہ جانتی تھیں وہ میری ماں کے بہت قریب تھیں ۔۔۔انہوں نے مجھے پالا ۔۔۔۔۔فیروزہ بائی نے مجھے تعلیم دلوائی تاکہ میں اس کام میں اس کی اچھے سے مدد کر سکوں ۔۔۔جب میں تعلیم مکمل کر کہ واپس گئی تو اس نے مجھے بھی وہی کام پر لگانا چاہا ۔۔۔۔
مگر میں سلمی خالہ کی مدد سے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی ۔۔۔۔۔
کتنے دن بھوکی رہی مختلف جگہوں پر سوتی رہی کبھی پارکوں کے بینچز پر تو کبھی کسی درخت کے نیچے ۔۔۔۔انہیں دنوں میں سے ایک دن میری تم سے ملاقات ہوئی ۔۔۔۔
ابھی بھی وہ دن یاد آتا ہے تو ہنسی آ جاتی ہے ۔۔۔کتنا ٹھرک پن جھاڑا تھا نا تم نے ۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے اس کی لبوں پر بھولی بسری مسکراہٹ ابھری ۔۔۔۔
مگر فرزام خاموش کھڑا اس کو سن رہا تھا ۔۔۔۔
ہاں تو پھر آگے کیا ہوا ؟وہ سوچ کر بولی ۔۔۔۔
اسی طرح ایک دن پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیےچوری کرتے ہوئے کاشی نے مجھے دیکھ لیا ۔۔۔۔
تو اس نے مجھے چھوٹی موٹی چوری کرنے کی بجائے بڑا ہاتھ مارنے کی صلاح دی ۔۔۔۔
اسی سے باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ وہ پاشا کے لیے کام کرتا ہے ۔۔۔۔۔
میرا کون سا ارادہ تھا بڑی چوریاں کرنے کا میں تو بس اس کی مدد سے پاشا رک پہنچنا چاہتی تھی ۔۔۔۔کیونکہ مجھے میرا مقصد نظر آ گیا تھا ۔۔۔۔
اس منحوس پاشا کو ختم کرنا جس نے میری ماں کو اس دوزخ میں دھکیلا تھا ۔۔۔
بس پھر کچھ وارداتوں کے بعد کاشی مجھے پاشا کے پاس لے گیا ۔۔۔۔
پاشا نے مجھے پہلا کام ہی یہ دیا کہ "مجھے تم سے وہ یو۔ایس۔بی ۔کسی طرح لانی ہو گی اس کے لیے چاہے مجھے کچھ بھی کیوں نا کرنا پڑے ۔۔۔۔
مجھے پاشا کا اعتماد جیتنا تھا ۔۔۔۔اس لیے میں اس برستی بارش والی رات ایک منصوبے کے تحت تمہارے گھر آنے والی تھی کہ فیروزہ بائی کے غنڈوں نے مجھے دیکھ لیا ۔۔۔۔
ان سے بچتی ہوئی میں تمہارے گھر میں کود گئی ۔۔۔۔۔یہ گھر میں پہلے سے دیکھ چکی تھی کاشی کے ساتھ ۔۔۔۔بس یہاں سے میرا کام شروع ہوا ۔۔۔۔۔
تمہارے اس بے وقوف بھائی نے میرے پلان کو اور بھی آسان کر دیا ۔۔۔۔۔مجھے گھر میں پناہ دے کر ۔۔۔۔۔
صبح جب تمہارے دادا شہباز تغلق نے عدالت لگائی تو میں نے وہاں دیوار پر لگی ضماد تغلق کی پرانی تصویر دیکھی جس میں اس نے وہی انگوٹھی پہن رکھی تھی جو اس نے میری ماں کو تحفتاً دی تھی ۔۔۔۔۔
مجھے تو گویا ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ۔۔۔۔یک شد نا دو شد
میرے دونوں دشمن میرے سامنے تھے ،مجھے یاد تھا تو صرف اپنا بدلا ۔۔۔۔۔جو مجھے ضماد تغلق اور پاشا سے لینا تھا ۔۔۔۔
مگر ان سب کے بیچ قسمت نے تمہیں میرے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ۔۔۔۔
قسمت کی ستم ظریفی دیکھو ۔۔۔۔۔وہ ہولے سے مسکرائی ۔۔۔۔۔
مجھے تم سے پیار ہو گیا ۔۔۔۔۔
میں نے کتنا تم سے دور رہنے کی کوشش کی مگر تم اتنا ہی میرے قریب آتے گئے ۔۔۔۔
فرزام نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا کہ اس کے چہرے پر ایک سایہ آکر گزر گیا ۔۔۔۔۔
"مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔۔اور ہمیشہ کرتی رہوں گی ۔۔۔۔میں نے تمہیں دھوکہ دیا بہت برا کیا تمہارے ساتھ تمہیں پورا حق ہے بے شک مجھے کبھی معاف نا کرنا ۔۔۔۔۔
وہ بھرائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔
اور اٹھ کر اس کی طرف آئی ۔۔۔۔۔
سلاخوں پر ہاتھ رکھے اسی سے سر لگائے کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
فرزام نے اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے ۔۔۔۔
دلبرا نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں جذبات کا جہاں آباد تھا ۔۔۔۔
"کیا میری سزا میں کمی ہو سکتی ہے ؟؟؟
مجھے معافی مل سکتی ہے ؟
فرزام میں نے پوری کوشش کی کہ تمہیں کبھی کوئی نقصان نا پہنچاؤں اپنے بدلے میں مگر بھی ۔۔۔۔مجھ سے وہ سب ہوا ۔۔۔۔
ہو سکے تو مجھے معا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی فرزام نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔۔۔
"تمہاری حالت کے پیش نظر میں درخواست دیتا ہوں کہ تمہاری سزا میں اور کمی کی جائے ۔۔۔۔مجھے اپنے بچے اور اس کی ماں کا خیال رکھنا ہے ۔۔۔۔وہ محبت بھرے انداز میں بولا ۔۔۔۔۔
دلبرا نے تشکر آمیز نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے ندامت کے بھل بھل آنسو بہنے لگے ۔۔۔۔
فرزام نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو پونچھے ۔۔۔۔
تم میری ہمسفر ہو میں نے تمہیں موقع دیا ہے اپنی بات کہنے کا ۔۔۔۔۔ہمیں خود کی سوچ کے مطابق فیصلہ کرنے کی بجائے دوسرے کی ایک بار بات سن لینی چاہیے۔۔۔۔پھر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے ۔
میں نے تمہیں سنا ۔۔۔۔تمہیں جانا ،پرکھتا ۔تمہارا انتقام لینے کاطریقہ غلط تھا ۔مگر میرے لیے تمہارے جذبات سچے ہیں۔
میں تمہیں معاف کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
ایک ہفتہ مزید گزر گیا ۔۔۔۔
ضماد تغلق کی حالت میں کافی سدھار آچکا تھا ،جبکہ زیدان کی طبیعت بھی ٹھیک ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔
وہ جتنا حنا سے بات کرنے کی کوشش کرتا وہ کترا کر نکل جاتی ۔۔۔۔
سب کے سامنے کھانے کی میز پر نارمل برتاؤ رکھتی مگر کمرے میں آتے ہی اجنبیت شروع ۔۔۔۔۔
آج سنڈے تھا زیدان کی آفس اور فیکٹری دونوں سے چھٹی تھی ۔۔۔۔
حنان باہر لان میں اقبال صاحب کے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔۔
جبکہ باقی سب لان میں موجود کرسیوں پر شام کی چائے پینے میں مشغول تھے ۔۔۔۔
حنان جانے کس بات سے ان سے لڑ کر روتا ہوا واپس آ رہا تھا ۔۔۔۔
حنا اسے روتا دیکھ بے چینی سے آگے بڑھی ۔۔۔
کیا ہوا میرے ہنی کو ؟؟؟کسی نے کچھ کہا آپ کو ؟؟؟
وہ اسے گود میں اٹھا کر پیار بھرے انداز میں پوچھ رہی تھی
مما تامی گندا ہے ۔۔۔۔۔وہ مجھے اپنی بہنا سے کھیلنے نہیں دیتا ۔۔۔ مجھے میری بہنا چاہیے ۔۔۔۔مجھے میری بہنا لا کہ دو ۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے فرمائش کرنے لگا ۔۔۔
جبکہ حنا نے سٹپٹا کر نظریں ادھر ادھر دوڑائیں ۔۔۔۔
زیدان اس کی حالت پر خوب حذ اٹھا رہا تھا۔۔۔۔
بھئی زیدان ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے ہمارا پڑپوتا۔۔۔۔۔ اس کے کھیلنے کے لیے کوئی چھوٹا بہن بھائی تو ہونا ہی چاہیے ۔۔۔۔
شہباز تغلق نے کہا ۔۔۔۔
نور نے مسکرا کر حنا کی طرف دیکھا جو غصے سے لال پیلی ہوتی حنان کو وہیں اتارے اندر کی طرف بھاگ گئی ۔۔۔۔۔
نور نے یارق کی طرف دیکھا ۔۔۔۔کہ اسے کیا ہوا ؟
یارق کندھے اچکا کر رہ گیا ۔۔۔۔
جیسے کہہ رہا ہو کہ مجھے کیا پتہ ۔۔۔۔
حنان وہیں کھڑے اپنی مما کو اندر جاتا دیکھنے لگا ۔۔۔۔
زیدان بھی حیران ہوا اس کے روئیے پر۔۔۔۔
ادھر آؤ حنان میرے پاس ۔۔۔۔اس نے اپنی بانہیں واہ کیے اسے اپنے پاس بلایا ۔۔۔۔
حنان اس کے پاس گیا ۔۔۔۔
"حنان دیکھو آپ کے یارق چچا اور چچی کے گھر بھی بے بی آنے والا ہے وہ بھی آپ کا ہو گا اور فرزام چاچو کے گھر بھی بے بی آنے والا ہے وہ بھی آپ کا بہن یا بھائی ہو گا ۔۔۔آپ ان دونوں سے کھیلنا ۔۔۔ان سے پیار کرنا آپ کو کوئی نہیں منع کرے گا ۔۔۔
"نہیں مجھے میرا ہی بھیا یا بہن چاہیے ۔۔۔۔
وہ پاؤں پٹخ کر حنا کے پیچھے اندر بھاگ گیا ۔۔۔۔
زیدان تاسف سے سر ہلا کر رہ گیا ۔۔۔۔
"بہت ضدی ہو گیا ہے "وہ دھیمی آواز میں بولا ۔۔۔۔۔
"اس کی ضد پوری کردو ۔۔۔اب ایسی بھی بے جا ضد نہیں اس کی ۔۔۔۔۔شہباز تغلق مسکرا کر بولے ۔۔۔۔۔
یارق اور نور تو اس بات پر زیدان کی حالت دیکھ کر مسکرا اٹھے ۔۔۔۔۔
دادا جان آپ اس عمر میں بھی بچوں کو مات دے رہے ہیں ۔۔۔۔وہ جھنجھلا کر بولا ۔۔۔۔
اور پاس پڑا چائے کا کپ اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا جو اب ٹھنڈی ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔
پھر اسے ایک طرف رکھے کچھ سوچ کر موبائل اٹھایا اور قدرے دور جا کر فون پر کسی سے کچھ بات کرنے لگا ۔۔۔۔۔
زیدان رات گئےاندر کمرے میں آیا تو وہ کمرے میں کہیں دکھائی نہیں دی ۔۔۔۔
حنان بھی وہاں موجود نہیں تھا ۔
وہ کمرے سے باہر نکلا تو میڈ سے پوچھا ۔۔۔۔
حنا کہاں ہے ؟
"وہ نگہت میڈم کے کمرے میں ہیں ۔۔۔زیدان نے ان کے کمرے کے باہر آ کر ڈور ناک کیا ۔۔۔
آجاؤ ۔۔۔۔نگہت بیگم کی آواز آئی ۔۔۔
زیدان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔
وہ نگہت بیگم کے بستر پر ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟
وہ ۔۔وہ میں نے سوچا آنٹی کے پاؤں دبا دوں بس اسی لیے یہاں آ گئی ۔۔۔۔
حنان بھی یہاں سو گیا ہے ۔۔۔۔
آپ آرام کر لیں ۔۔۔میں یہاں آنٹی کے پاس سو جاؤں گی ۔۔۔۔انکل تو دوسرے کمرے میں سو رہے ہیں ۔۔۔۔اس نے ضماد تغلق کے بارے میں کہا ۔۔۔۔
ہاں بیٹا خواہ مخواہ ہی حنان کی بھی نیند خراب ہو گی اسے یہاں سے اٹھایا تو ۔۔۔۔
سونے دو یہیں ۔۔۔۔نگہت بیگم نے کہا ۔
"ٹھیک ہے چچی جان ۔۔۔۔
زیدان نے حنا کو آنکھوں سے اشارہ کیا کمرے سے باہر آنے کا ۔۔۔۔
وہ اس کا اشارہ سمجھ کر نفی میں سر ہلا گئی اور پھر دوبارہ اس کی طرف دیکھنے سے گریز برتا ۔۔۔۔
زیدان کو اس کی حرکت پر سخت تاؤ آیا ۔۔۔۔
وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا ۔۔۔۔
چچی جان اگر آپ برا نا منائیں تو حنان آج آپ کے ساتھ یہیں سو جائے ۔۔۔۔
ہاں ہاں بیٹا مجھے بھلا کیا اعتراض ہو گا۔۔۔۔
سویا رہے یہیں ۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے تو پھر آپ آج رات زرا اس کا خیال رکھیے گا مجھے زرا میری بیوی سے ایک ضروری کام ہے ۔۔۔۔
آؤ باہر ۔۔۔۔اب کی بار وہ سیدھے سے بولا ۔۔۔۔
"مجھے نہیں ۔۔۔۔۔
وہ انکار کرنے ہی والی تھی کہ ۔۔۔۔
جاؤ بچے شوہر کی بات سنتے ہیں اسے ناراض نہیں کرتے ۔۔۔۔۔تم تو بہت اچھی بچی ہو ۔۔۔۔نگہت بیگم اسے کہنے لگی ۔۔۔۔
مگر وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ جائے یا نہیں ۔۔۔۔
زیدان چلتے ہوئے اسکے پاس آیا اور اس کی کلائی پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے اپنے ساتھ باہر نکلا ۔۔۔۔
تھوڑا سا چلتے ہوئے وہ اسے بازوؤں میں بھر چکا تھا ۔۔۔۔
وہ تو اس کے عمل پر حق دق رہ گئی ۔۔۔۔
کیا کر رہے ہیں ؟؟؟
پلیز نیچے اتاریں مجھے ۔۔۔۔۔کوئی دیکھ لے گا تو کیا سوچے گا ؟؟؟
وہ اس کی مضبوط گرفت میں پھڑپھڑانے لگی ۔۔۔۔
سب کی پرواہ کرنا ۔۔۔وہ کیا سوچے گا۔۔۔
میری پرواہ کرنا کب سے بھول گئی ۔۔۔ پہلے تو بہت دعوے کیا کرتی تھی اپنی محبت کے ۔۔۔
اب کہاں گئی وہ محبت ؟
وہ چلتے ہوئے اس بانہوں میں بھرے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
پہلے آپ مجھے نیچے اتاریں ۔۔۔۔
زیدان نے اسے باہر لا چکا تھا گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر بٹھایا ۔۔۔۔
"یہ آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں؟
کچھ دیر میں پتہ چل جائے گا ۔۔۔۔
وہ گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا ۔۔۔۔۔
اس نے سارے راستے ایک بار زیدان کی طرف نہیں دیکھا ۔۔۔۔
بس باہر کے مناظر پر نظریں جمائے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔
ایک گھنٹے کی مسافت طے کیے بالآخر وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔۔۔۔۔
دور دور تک خاموشی تھی ۔۔۔۔۔پانی کی لہروں نے شور مچا رکھا تھا ۔۔۔۔
چاند کی چاندنی رات کے حسن میں اضافے کا سبب بن رہی تھی ۔۔۔۔
پانی پر پڑتی ہوئی چاند کی روشنی ایک عجب سماں باندھ رہی تھی ۔۔۔۔
راستے کے دونوں اطراف میں پول لائٹس لگائی گئیں تھیں ۔۔۔۔جیسے دونوں اطراف میں چاند جگمگا رہے ہوں ۔۔۔۔دور تک ریت دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔
زیدان اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ رہا تھا ۔۔۔
مخصوص راہداری سے گزرتے ہوئے وہ ایک ہٹ میں پہنچے ۔۔۔۔۔
وہ زیدان کے ساتھ اندر داخل ہوئی تو وہاں موجود ہر شے کی خوبصورتی دیکھ چونک گئی ۔۔۔۔۔
فرش پر تازہ گلابوں کی پتییاں بکھری ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔
کمرے کے بیچ و بیچ گول بیڈ پر وائٹ بیڈ شیٹ بچھا کر اس پر تازہ گلابوں سے بڑا سا ہارٹ بنایا گیا تھا ۔۔۔۔
بیڈ کے چاروں اطراف میں سفید ریشمی پردے لگائے گئے تھے ۔۔۔۔
جابجا کینڈلز لگا کر کمرے کو روشن کیا گیا تھا ۔۔۔۔
کمرے میں گلابوں نے محسور کن مہک بکھیر رکھی تھی ۔۔۔۔
وہاں کا فسوں خیز ماحول دیکھ کر وہ ٹھٹھرا کر رہ گئی ۔۔۔۔۔
"آ۔۔۔۔آپ مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہیں ؟؟؟وہ اٹک اٹک کر بولنے لگی ۔۔۔۔
آواز حلق سے نکلنے سے انکاری ہو رہی تھی ۔۔۔۔
زیدان نے مخمور نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
وہ نظریں چرا گئی ۔۔۔۔
کہاں تو وہ اسے ہمہ وقت کھانے کو دوڑتا تھا اور اب اس کی اچانک کایا پلٹ اس کے لیے حیرانگی کا سسب تھی ۔۔۔۔
"آپ کو اپنے جذبات سے آشنا کروانے کے لیے ۔۔۔۔
"یہ لیں یہ پہن کر آئیں ....زیدان نے وہاں پہلے سے موجود ایک شاپنگ بیگ اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔
"یہ کیا ہے ؟
زیادہ سوال جواب پر پلیز زیادہ وقت ضائع مت کریں جلدی سے یہ پہن کر آئیں ۔۔۔
یہ سمجھیں آپکی شادی کا ڈریس ہے ۔۔۔۔زیدان نے کہا ۔۔۔
"اگر یہ شادی کا ڈریس ہے تو میں بالکل بھی نہیں پہنوں گی ۔۔۔۔پہلے بھی دو بار شادی کا ڈریس پہن چکی ہوں دونوں بار ہی بہت برا ہوا ۔۔۔۔اب میں یہ نہیں پہننے والی ۔۔۔۔
"اس بار کچھ برا نہیں ہوگا سب اچھا ہونے والا ہے ۔۔۔۔۔
"اب کی بار یہ میں خصوصاً آپ کے لیے لایا ہوں ،
وہ اس کی بولتی ہوئی نظروں سے جھجھکتے ہوئے اس شاپنگ بیگ کو کھول کر دیکھنے لگی ۔۔۔۔
ریڈ کلر کی نیٹ کی ساڑھی دیکھ اس کے رہے سہے حواس بھی مختل ہوئے ۔۔۔۔
"م۔مجھے ساڑھی پہننا نہیں آتی ۔۔۔۔۔
"اس دن تو پہنی تھی "وہ اسے اپنی سالگرہ کی رات یاد دلا رہا تھا ۔۔۔
وہ شرم سے لال نیلی پیلی سب ہوتے ہوئے خود کو زمین میں گڑتا ہوا محسوس کرنے لگی ۔۔۔۔
"میں آپ کی ہیلپ کروا دوں گا ۔۔۔آپ پہن کر آئیں ۔۔۔۔
وہ ساڑھی لیے ملحقہ واش روم میں گئی ۔۔۔۔
اور خود کے گرد ساڑھی لپیٹے ہوئے باہر آئی ۔۔۔۔
زیدان نے اسے ایک نظر دیکھا تو دیکھتا رہ گیا ۔۔۔
پرکشش جسمانی خدو خال پر ساڑھی خوب جچ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کی دودھیا رنگت پر سرخ رنگ غضب ڈھا رہا تھا۔۔۔۔
بالوں کا میسی سا جوڑا بنائے چہرے کے اطراف میں بے نیازی سے جھولتی ہوئی آوارہ لٹیں ۔۔۔۔وہ اپنے پلو کو سیٹ کرتے ہوئے آ رہی تھی ۔۔۔۔
فال ٹھیک سے نا بنے دیکھ زیدان اس کے پاس گیا اور ساڑھی کی فال درست کرنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔۔۔۔
وہ حیرت زدہ رہ گئی اس کی مہارت پر ۔۔۔۔
جب اس نے فال سیٹ کرکہ پھنسائی تو اس کی انگلیوں کے لمس اسے اپنے پیٹ پر محسوس ہوئے ۔۔۔
اس نے زیدان کا ہاتھ جھٹک کر پیچھے کیا ۔۔۔۔
"آپ مجھے بار بار یہاں کیوں چھوتے ہیں ؟
وہ حیران ہوا اس کی بات پر ۔۔۔۔
"یہاں کہاں ؟"
پیٹ پر اور کہاں وہ غصے سے پھٹ پڑی ۔۔۔۔
"آپ مجھے مارنا چاہتے ہیں تو صاف صاف بتائیں ؟؟؟؟
"اب اس میں مارنے والی بات کہاں سے آ گئی ؟؟؟؟
وہ غصے سے اس کی بات کا جواب دئیے بنا رخ موڑ گئی ۔۔۔۔
"آخر مسلہ کیا ہے کچھ بتاؤ گی تو پتہ چلے گا نا ۔۔۔۔
وہ اس کے پیچھے آکر بولا ۔۔۔۔
مجھے نہیں پتہ ۔۔۔۔
تمہیں نہیں پتہ تو کسے پتہ ہے ؟؟؟
آپ کو ۔۔۔
یار بتاؤ مجھے الجھاؤ مت ۔۔۔۔
وہ اس کا رخ واپس اپنی طرف موڑ کر بولا۔۔۔۔
آ۔۔۔۔۔آپ مجھے یہاں مت ٹچ کیا کریں ورنہ ۔۔۔۔۔
ورنہ کیا ؟
ورنہ میرے پیٹ میں بھی بے بی آجائے گا اور میں بھی غنیہ آپی کی طرح مر جاؤں گی ۔۔۔۔
میں ابھی مرنا نہیں چاہتی میں آپ کے ساتھ اور حنان کے ساتھ بہت زیادہ والا جینا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔
" Silly girl.....
وہ اس کی بات پر قہقہہ لگا گیا ۔۔۔۔۔
پہلے پہل تو وہ زیدان کی خوبصورت ہنسی میں کھو گئی ۔۔۔۔مگر جب اس کے الفاظ یاد آئے تو پھر سے منہ پھلا لیا ۔۔۔۔
آپ نے پہلے بھی مجھے سلی گرل کہا تھا ۔۔۔۔
اسی وجہ سے میں آپ سے ناراض تھی اور اب پھر سے آپ نے وہی کہا ۔۔۔۔۔
"اب تم حرکتیں ہی ایسی کرتی ہو سلی گرل نا کہوں تو اور کیا کہوں ؟؟؟
وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کر چکا تھا ۔۔۔۔
وہ ہنوز منہ پھلائے ہوئے تھی ۔۔۔
بے بی ایسے تھوڑی نا آجاتاہے ۔۔۔۔ابھی تمہیں بتاؤں گا کیسے آتا ہے وہ اس کے کان کے قریب جا کر سر گوشی نما آواز میں بولا اور ہولے سے اس کی کان کی لو کو دبایا ۔۔۔۔۔
"مجھے نہیں جاننا ۔۔۔ اور نا چاہیے ۔۔۔۔میرے لیے بس حنان ہی کافی ہے ۔۔۔۔
"ارے میں کب کہہ رہا ہوں مجھے بے بی چاہیے یہ تو تمہارے لاڈلے بیٹے کی فرمائش ہے ۔۔۔۔اسے چاہیے ۔۔۔۔۔
"میں اسے سمجھا دوں گی ۔۔۔۔
"اسے تو سمجھا دو گی مگر مجھے کیسے سمجھاؤ گی ؟؟؟
یوں ہی نہیں آپ پہ میرا دل فدا ہوا
آپ کی یہی معصومانہ باتیں اور آپ کے سب سے جدا انداز ۔۔۔۔
مجھے آپ کی محبت کا اسیر بنا گئے۔۔۔۔
بس اب میرے دل کی یہی خواہش ہے کہ کبھی بھی آپ سے دور نا جاؤں ۔۔۔آپ نے ہمیں اپنی انہیں اداؤں سے اپنا دیوانہ بنا دیا ہے۔وہ جوں جوں چلتا ہوا اس کے قریب آ رہا تھا وہ الٹے قدم لیتے ہوئے دیوار سے جا لگی ۔۔۔۔
"اس دن بھی آپ ۔۔۔۔۔وہ بات ادھوری چھوڑ گئی ۔۔۔۔
زیدان اس کی بات یاد کر کہ مسکرایا ۔۔۔۔
"اوہ تو اس وجہ سے آپ بھاگی تھی۔۔۔۔
وہ مسکرایا ۔۔۔۔
"اچھا چلیں ادھر آئیں ۔۔۔۔وہ حنا کو اپنے ساتھ لیے ڈریسنگ تک آیا۔۔۔۔
اور ایک خوبصورت باکس میں سے جھلملاتا ہوا نازک سا ڈائمنڈ سیٹ نکالا۔۔۔
پہلے نرمی سے ٹاپس اس کے کانوں میں پہنائے پھر نازک سا پینڈٹ اس کی صراحی دار گردن کی زینت بنایا ۔۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کو آئینے میں دیکھ رہے تھے،زیدان کی آنکھوں میں جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا ،،،
اس نے نظر بھر کر زیدان کو آئینے میں دیکھا بلیک کلر کی شلوار قمیض میں وہ اپنی سحر انگیز شخصیت سے اس کے دل پر چھا رہا تھا۔۔۔۔۔
اس کے گالوں پر سرخیاں گُھلنے لگیں ۔۔۔۔
آپ کو کسی مصنوعی تزین وآرائش کی ضرورت ہی نہیں،۔۔میری قربت آپ کے حسن میں چار چاند لگا رہی ہے ۔۔۔۔۔
باقی کی بچی سرخی بھی ابھی لگا دوں گا ۔۔۔۔وہ ذومعنی انداز میں بولا۔۔۔۔۔
آپ یہ بار بار مجھے آپ کہہ کر کیوں بلا رہے ہیں ؟؟؟وہ اس کی لو دیتی نگاہوں کی تپش سے بچنے کے لیے اس کا دھیان بھٹکانے کو بولی ۔
"میرا ماننا ہے کہ بیوی کے لیے جتنا اہم پیار ہوتا ہے اتنی ہی اہم ریسپیکٹ بھی ہوتی ہے ۔
آپ کو میں پیار کے ساتھ عزت بھی دینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
وہ اس کے جواب پر لا جواب ہوئی ۔۔۔اور ممنون انداز میں سے دیکھنے لگی۔
اسے خاموش دیکھ کر زیدان نے کہا ۔۔۔۔
آپ بھی اپنے سلے ہوئے نازک لبوں کو تھوڑی جنبش دیں۔۔۔۔۔اورکچھ کہیں نا ۔۔۔دو الفاظ محبت کے۔۔۔۔آج اتنی خاموشی کیوں ؟؟؟موقع بھی ہے اور ماحول کی نزاکت بھی ۔۔۔۔زیدان نے کی بولتی نگاہیں اسے سمٹنے پر مجبور کر رہی تھیں ۔۔۔۔
زیدان اسے ساتھ لے کر بستر پر آیا ۔۔۔۔۔
"چلیں ایک گیم کھیلتے ہیں جو ہارا اسے جیتنے والے کی شرط ماننی پڑے گی ۔۔۔۔۔
"ٹھیک ہے "
آپ گیم بتائیں ۔۔۔۔وہ فی الوقت جان چھڑوانے کے لیے بولی ۔
ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں جس نے پہلے پلک جھپکائی وہ ہار گیا ۔۔۔۔
"یہ کونسا مشکل ہے ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔
پانچ منٹ ہو چکے مگر دونوں نے ابھی تک پلک نہیں جھپکائی تھی ۔۔۔زیدان کی بھوری آنکھوں میں پانی بھرنے لگا ۔۔۔۔۔
اس کی نظر حنا کی آنکھوں سے ہوتے ہوئے ہونٹوں پر گئی ۔۔۔۔۔۔
کٹاؤ دار لب پھڑپھڑا رہے تھے ۔۔۔۔۔
زیدان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے نچلے لب کو انگوٹھے سے سہلایا ۔۔۔۔۔
وہ اس کے عمل پر گھبرا کر پلکیں جھپک گئی ۔۔۔۔۔
"یہ چیٹنگ ہے میرے ساتھ ۔۔۔۔۔
وہ دہائی دینے لگی ۔۔۔
"کوئی چیٹنگ نہیں تھی ۔۔۔۔بس اب اپنی ہار کو قبول کرو اور میرا کہا مانو ۔۔۔۔۔
میں کیوں مانوں ؟جب میں ہاری ہی نہیں ۔۔۔۔
"ایسے کیسے نہیں مانو گی ۔۔۔۔۔چلو شاباش جلدی سے پوری کرو ۔۔۔۔ورنہ جو میں چاہتا ہوں وہ خود کر لوں گا ۔۔۔۔۔
وہ اسے دھمکانے لگا ۔۔۔۔
"اچھا بتائیں کیا کرنا ہے ؟وہ ہار مانتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
زیدان نے اپنے گال پر انگلی رکھی ۔۔۔۔
یہاں پر ۔۔۔۔۔۔وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر سٹپٹا کر رہ گئی۔۔۔
بہت بے شرم ہیں آپ۔۔۔۔وہ لجاتے ہوئے بولی ۔۔۔
"اس میں بے شرمی والی کیا بات ؟حنان کو بھی تو پیار کرتی ہو ۔۔۔نا مجھے کردیا تو کیا ہوا ۔۔۔۔۔
"حنان کی اور بات ہے ۔۔۔۔۔
"یارا جلدی سے کرو نا ورنہ میں اپنے طریقے سے کروں گا ۔۔۔۔۔
وہ اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے خود سے قریب کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں کا جوڑا کھولا ۔۔۔۔۔تو وہ آبشار کی مانند کمر پر لہرا گئے۔۔۔۔۔۔
"You know I like your hairs.....
وہ اس کے ریشمی گیسوؤں میں چہرہ چھپائے مدھوشی بھرے انداز میں کہنے لگا ۔۔۔۔۔
"پلیز ز۔۔۔زید۔۔۔۔ان ۔۔۔۔۔میرا دل بند ہو جائے ۔۔۔۔
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔
وہ اس کی گردن پر اپنے پر حدت لب رکھے اپنی تشنگی مٹا رہا تھا ۔۔۔۔۔
"نا ۔۔۔کریں پلیز ۔۔۔۔۔مجھے سانس نہیں آ رہا ۔۔۔۔اسے اتنی قربت پر اپنی سانسیں تھمتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔۔۔۔اس کی مونچھوں کی چبھن محسوس ہوتے سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔
ابھی سانس روک دینے والا عمل تو کیا ہی نہیں تم پہلے ہی ڈر گئی۔۔۔۔
وہ اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی لگائے ہوئے خمار آلود لہجے میں بولا۔۔۔
دونوں کی سانسیں ایک دوسرے میں منتقل ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔
"سُن یارا !!!!!حنا کی بند آنکھیں دیکھ وہ اسے پیار بھرے انداز میں پُکارا تھا ۔۔۔۔۔
"آپ نے تو اس عمر میں ہمیں عشق کرنا سکھا دیا ۔۔۔۔۔کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہم بھی ایسا کچھ کریں گے ۔۔۔۔۔یہ سب آپ کی عنایت ہے ۔۔۔۔
"کیا ہوا آپ کی عمر کو ؟
عشق کرنے کی بھی کوئی عمر ہوتی ہے بھلا ۔۔۔۔
وہ کبھی بھی کسی سے بھی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔وہ بولی ۔۔۔
اچھا چلیں اسی بات پر آپ کی سزا میں آسانی کیے دیتے ہیں ۔۔۔۔
آج مجھے اپنے دلی جذبات سے آگاہ کریں ۔۔۔۔
"نہیں ۔۔۔۔وہ نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔۔۔
"اچھا یہ نہیں تو پہلے والی شرط کو کنٹینیو کرتے ہیں ۔۔۔۔تو کہاں تھے ہم ۔۔۔۔۔وہ اپنے لب پر انگلی رکھ کر بولا ۔۔۔۔۔
"اچھا رکیے ۔۔۔رکیے میں بتاتی ہوں ۔۔۔۔۔
کچھ لمحوں کے توقف کے بعد ۔۔۔۔۔
میرے دل کی عجیب حالت ہوتی ہے جب ایک لمحہ بھی آپ کو دیکھ نا پاؤں۔۔۔۔نظروں کو آپ کے چہرے کے علاؤہ اور کوئی نظارہ بھاتا ہی نہیں ، جانے کیا کشش ہے آپ میں۔جب بھی آپ کے چہرے کی زیارت ہوجاتی ہے ،،،،نظریں پرسکون ہو جاتیں ہیں ۔۔۔۔آنکھوں کے لیے وہ سماں جشن کا سماں ہوتا ہے جب انہیں آپ دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ کہہ کر شرمگیں مسکان سجائے سر جھکا گئی ۔۔۔۔
میرا دل مجھے کہنے لگا ہے کہ کبھی جو میں نے خواب دیکھا تھا میرے ہمسفر کے لیے آج وہ آپ کی صورت میں پورا ہو گیا ۔۔۔۔کیا کبھی خواب بھی یوں حقیقت ہوجاتے ہیں ۔۔۔
بلاشبہ غنیہ کی میری زندگی میں بہت اہمیت ہے اور ہمیشہ رہے گی بھی ۔اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ۔۔۔۔
مگر آپ نے میرے دل تک رسائی حاصل کی ہے ۔۔۔۔کیوں کیا اتنا غلط میرے ساتھ ؟؟؟
وہ خمار زدہ آواز میں اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
مجھے کیا سے کیا بنا دیا آپ نے ۔۔۔۔۔۔؟
م۔۔۔مجھے نیند آ رہی ہے ۔۔۔۔
آپ بھی سو جائیں ۔۔۔۔
وہ تھوڑا پیچھے ہوئی ۔۔۔۔
نیند کہاں آئے گی ۔۔۔۔
آپ کو یوں قریب دیکھ کر پلکیں چھپکنے سے انکاری ہیں ۔۔۔۔کحجا کہ سونا ۔۔۔۔
زیدان نے ایک بار پھر سے اپنا چہرہ اس کے قریب کیا ۔۔۔۔
وہ سائیڈ پر لگا ریشمی پردہ پکڑ کر اس کے اور اپنے چہرے کے درمیان کر گئی ۔۔۔۔۔
"او۔۔۔نہہنوں ۔۔۔۔۔
اب یہ پردے بھی ہمارے درمیان حائل ہونے کے مجاز نہیں۔۔۔۔
اس نے ایک ہاتھ سے پردہ پیچھے کیا ۔۔۔۔
اور اس بار سچ میں اس کی سانسیں روک گیا ۔۔۔۔۔۔
اس کے دل کی دنیا تہہ و بالا ہوئی ۔۔۔۔
اس کی شدت برداشت کرنا اس کے بس سے باہر ہوا ۔۔۔۔
مگر وہ ہوش بھلائے مگن تھا ۔۔۔۔
جب تھوڑی دیر بعد اس میں مزاحمت نا دیکھی تو اسے چھوڑا ۔۔۔۔وہ اس کی بانہوں میں جھول گئی ۔۔۔۔۔
کیا یارا۔۔۔۔۔اتنی سی جسارت برداشت نہیں کرپائی۔۔۔۔وہ خفیف سا مسکرایا ۔۔۔۔
اسے سیدھا کر کہ بستر پر لٹایا ۔۔۔۔
اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا گیا پانی کا جگ اٹھا کر اس میں سے تھوڑا مٹھی میں بھرا ۔۔۔
اور کچھ چھینٹے اس کے چہرے پر مارے ۔۔۔۔
وہ ہڑبڑا کر آنکھیں کھول گئی۔ ۔۔۔۔
شرم سے مژگانِ چشم لرزنے لگیں ۔۔۔۔۔
کینڈلز کی مدھم روشنی میں اس کا لرزتا رعنائیاں بکھیرتا وجود اسے اپیل کر رہا تھا ۔۔۔۔وہ مسمرائز ہوا اس کی حیا پر ۔۔۔۔۔
وہ کروٹ بدل گئی ۔۔۔۔
وہ اسے اپنے حصار میں لے کر اسے اپنی محبت کی بارش میں پور پور بھگونے لگا ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
"اٹھو یارا ۔۔۔۔۔دھوپ سر پر آ چکی ہے ۔۔۔۔
"سونے دیں نا پلیز ابھی تو سوئی تھی ۔۔۔۔
وہ کان پر تکیہ رکھے بولی ۔۔۔۔
واپس نہیں جانا کیا ۔؟؟؟
وہ پھر سے سو چکی تھی ۔۔۔۔
حنان تمہیں یاد کر کہ رو رہا ہے "چچی کا فون آیا تھا ۔۔۔۔
وہ حنان کا سن کر جھٹ سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔
"آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟؟؟
فون ابھی آیا تھا تو پہلے کیسے بتا دیتا ۔۔۔۔
آ۔۔۔۔آپ روم سے باہر جائیں ۔۔۔۔
وہ کیوں ؟؟؟؟
پلیز جائیں نا ۔۔۔۔۔وہ کمفرٹر میں منہ چھپائے بولی ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد دونوں واپسی کے راستے پر گامزن ہوئے ۔۔۔۔
Heyادھر دیکھو ۔۔۔۔۔
زیدان نے اسے محبت پاش نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
وہ نفی میں سر ہلا گئی۔۔۔۔
وہ مسکرا کر رہ گیا اس کی جھجھک سے ۔۔۔۔
"آپ نے مجھ سے اپنی محبت کا اظہار تو کیا ہی نہیں "اس کے لبوں سے شکوہ پھسلا۔۔۔۔
"بڑے ہی کوئی ویسے افسوس کی بات ہے ساری رات کیا جھک مار رہا تھا ۔۔۔۔
وہ اظہارِ محبت ہی تھا ۔۔۔۔
مجھے لفاظی نہیں آتی ۔۔۔عملاً کرتا ہوں ۔۔۔ابھی بھی میری محبت پر یقین نہیں آیا تو واپس چلتے ہیں ۔۔۔وہ سٹرئینگ گھمائے کہنے لگا ۔۔۔۔۔
"نہیں نہیں ۔۔۔۔وہ اس کی بازو پر ہاتھ رکھے روک گئی ۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷
آج سب فارم ہاؤس پر اکٹھا ہوئے تھے ۔۔۔۔مل کر پکنک منانے ۔۔۔۔
زیدان اور حنا دونوں باربی کیو بنا رہے تھے ۔۔۔۔
شہباز تغلق پاس رکھی گئی چئیر پر بیٹھے تھے ۔۔۔۔
حنان اپنے دونوں چھوٹےجڑواں بہن بھائی ۔۔۔۔منان اور منیٰ کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔۔۔
حنان آگے آگے اور وہ دونوں اس کے پیچھے پیچھے ۔۔۔۔۔
یارق اور نور العین دونوں گھاس پر میٹرس بچھائے اپنے گرد کھانے پینے کا سارا سامان رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔
پاس ہی گھاس پر سب بچے کھیل رہے تھے ۔۔۔۔
یارق پیار بھرے انداز میں نور العین کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔محبتوں سے گندھی ہوئی لڑکی نے اسے اصل محبت سے روشناس کروایا ۔۔۔
وہ بنا کسی صلے کے زندگی کے ہر موڑ پر اس کے ساتھ چٹان بن کر کھڑی رہی ۔۔۔۔وہ خود کو جتنا بھی خوش قسمت تصور کرتا کم تھا۔۔۔
یارق کے روئیے پر وہ ایک بار بھی لب پر حرف ِ شکایت نہیں لائی ۔۔۔۔
"میرے ساتھ بھی کچھ ٹھیک نہیں ہوا ۔۔۔۔مگر تم نے کبھی مجھے طعنہ نہیں دیا میرے روئیے کا ۔۔۔۔ہمیشہ صبر کا دامن تھامے رکھا۔۔۔۔
مجھے حوصلہ دیا ۔۔۔۔جب میں پوری طرح سے ٹوٹ چکا تھا ۔۔۔تم نے مجھے سنبھالا مجھے سہارا دیا ۔۔۔۔۔وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بولا ۔۔۔
یارق تغلق آج دل سے تمہارا شکریہ ادا کرتا ہے ۔۔۔۔۔تم نے مجھے اور میری زندگی دونوں کو سنوار دیا ۔۔۔۔مجھے حقیقی خوشی سے نوازا ۔۔۔میں تمہارا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے ۔۔۔۔"پلیز آپ ایسا مت کہیں ۔۔۔۔
آج مجھے کہہ لینے دو نور ۔۔۔۔
زندگی میں ایک بے وفا عورت سے محبت کی جنگ جیت جانے کی بجائے ایک وفادار عورت کی محبت میں خود کو ہار جانے کا احساس کتنا خوشنما اور روح پرور ہوتا ہے یہ میں اچھے سے جان چکا ہوں ۔
مجھے آج یہ کہنے میں عار نہیں کہ مجھے اپنی شریک حیات سے محبت ہے ۔۔۔۔۔
نور العین اس کے اظہار محبت پر آسودگی سے اس کے شانے پر اپنا سر رکھ گئی ۔۔۔۔۔
حور العین ان دونوں کی بیٹی انہیں ساتھ لگا دیکھ فورا ان کے پاس آئی ۔۔۔۔۔
مما پاپا ۔۔۔۔یہ آپ کے لیے ۔۔۔۔وہ پارک میں سے خوبصورت دو سفید رنگ کے پھول توڑ کر لائی ۔۔۔۔
کیسے ہیں ؟؟؟
بہت پیارے بالکل ہماری بیٹی کی طرح ۔۔۔۔
یارق نے اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
میری چاہت کی انتہا دیکھنی ہے ،تو میرے دل سے دل لگا کر دیکھ ،
تیرے دل کے ساتھ یہ دل نا دھڑکے تو سزائے موت دے دینا ۔۔۔۔۔
دلبرا نے فرزام کو دیکھتے ہوئےترنگ سے شعر پڑھا ۔۔۔۔۔
یہ نمونہ میرے حوالے کر کہ تم واقعی مجھے سزائے موت ہی دے چکی ہو ۔۔۔۔
وہ جازم کو دلبرا کے حوالے کیے وہ تلملاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
تمہارے ٹھرک پن کی نشانی ہے ۔۔اب سنبھالو اسے ۔۔۔۔۔
وہ دانت پیس کر بولی ۔۔۔۔۔
مجھے اور نشانیاں چاہیے ۔۔۔۔مگر تم ہو کہ ہاتھ ہی نہیں آتی ۔۔۔۔ہمیشہ اس نمونے کو پٹی پڑھا کر میرے پیچھے لگا دیتی ہو۔۔۔۔ماں کا چمچہ نا ہو تو ۔۔۔۔وہ پاس کھڑے ہوئے جازم کے کان کھینچ کر بولا ۔۔۔۔۔
"اے ٹھرکی پولیس والے۔۔۔خبردار جو میرے بیٹے کو ہاتھ بھی لگایا ۔۔۔۔میری فائٹنگ سکلز تو تم جانتے ہی ہو ۔۔۔۔سب کے سامنے اپنا تماشا نا بنوا لینا ۔۔۔۔۔
وہ اسے دھمکاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
آج رات اس نمونے کو تو کسی ٹھکانے لگاتا ہوں پھر تم سے نپٹوں گا ۔۔۔۔وہ بھی اسے اسی کی زبان میں دھمکا رہا تھا ۔۔۔۔۔
دلبرا کے بارے میں یارق اور زیدان کو سب پتہ تھا ۔۔۔۔کیونکہ زیدان بھی اپنے ساتھ ہوئے حادثے میں دلبرا کو دیکھ چکا تھا کہ اس پر گولی چلانے والی وہی تھی ۔۔۔۔بعد میں فرزام نے یارق اور زیدان کو اعتماد میں لے کر ساری سچائی بتائی ۔۔۔۔اور ان دونوں سے اس بارے میں کسی کو بھی نا بتانے کا وعدہ لیا ۔۔۔۔
خاص کر یارق سے ۔۔۔۔۔کہ وہ نور کو مت بتائے ضماد تغلق کی اصلیت کہیں وہ اپنے بابا سے بدظن نا ہو جائے ۔۔۔۔۔
گھر میں نگہت بیگم اور شہباز تغلق کو بھی ضماد تغلق کے ماضی سے بے خبر رکھا گیا ۔۔۔۔
اگر نگہت بیگم کو ان کا ماضی پتہ چلتا تو وہ ضرور ضماد تغلق سے لڑتی جھگڑتی یا علیحدگی اختیار کر لیتیں۔۔۔۔اس وقت ضماد تغلق کی جو حالت تھی انہیں دیکھ بھال کی ضرورت تھی ۔۔۔۔یارق ،فرزام اور زیدان تینوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ ان کی سچائی کسی کو بھی نہیں بتائیں گے ۔۔۔ورنہ اس گھر کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا ۔۔۔۔
پچھلے چند سال فرزام اور دلبرا نے دوسرے شہر گزارے ۔۔۔۔۔
اسی ماہ اس کی واپس اپنے شہر ہی پوسٹنگ ہو گئی۔۔۔۔
دلبرا انہیں معاف کر دو ۔۔۔۔۔
اس نے خائف نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
دلبرا میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔تم نے ہی تو بتایا تھا کہ تمہاری مما ان سے کتنا پیار کرتی تھیں ۔۔۔۔اور وہ انہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔۔۔۔انہوں نے جو بھی کیا اپنے حصے کی سزا وہ بھگت چکے ہیں ۔۔۔اپنے لیے نا سہی مگر اپنی ماں کی خوشی کے لیے انہیں معاف کر دو۔۔۔۔۔
ضماد تغلق وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔
وہ فرزام کے ساتھ چلتے ہوئے ان کے پاس گئی ۔۔۔۔
"کیسے ہیں آپ بابا جان ؟"وہ رندھے لہجے میں بولی ۔۔۔۔
ضماد تغلق کی خالی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے تر ہوئیں۔۔۔۔۔
انہوں نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ ۔۔۔۔۔بمشکل اٹھا کر اس کے سر پر رکھا ۔۔۔۔۔
وہ مسرور انداز میں مسکرائے ۔۔۔۔۔
آج دلبرا کے معاف کر دینے سے انہیں اپنے دل پر پڑا بوجھ سرکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
ایسے مت دیکھو یارا پہلے ہی کسی کام کا نہیں چھوڑا۔۔۔۔
وہ سیخوں پر کباب لگاتی حنا سے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
آپکے چہرے سے نظریں ہٹتی ہی نہیں اس میں میرا کیا قصور ؟
نا تو آپ کو دیکھنے سے دل بھرتا ہے اور نا ہی آپ کے اظہارِ محبت سے ۔۔۔۔۔
اس کی معصومیت اور بھولپن اس کا دل سینے سے نکال کر ہتھیلی پہ دھر گئی۔۔۔۔
یہ جن نظروں سے تم مجھے دیکھتی ہو نا قسم سے گھائل کر جاتی ہو ۔۔۔
زیدان تغلق نے کوئلوں کی انگیٹھی کے پاس کھڑی حنا کے دہکتے ہوئے سرخ گال دیکھے تو دل بے ایمان ہوا ۔۔۔۔
سب کو اپنے آپ میں مگن دیکھ اس نے موقعے کا فائدہ اٹھا لیا۔۔۔۔
اور اس کے گالوں پر اپنے لمس کی مسیحائی بخش گیا۔
سرورِ عشق کسے کہتے ہیں یہ آج کوئی زیدان تغلق سے پوچھتا۔۔۔
جس کی نس نس میں حنا زیدان تغلق کی محبت نشہ بن کر سرائیت کر چکی تھی ۔۔۔
"اُف سب کے سامنے ۔۔۔کوئی دیکھ لیتا تو ؟؟؟
سب کی بات چھوڑو اپنا بتاو کیسا لگا؟؟؟
وہ نچلا ہونٹ دانت تلے دبا کر سٹائل سے ابرو اچکا کر پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
وہ بھی ہولے سے مسکا کر بولی ۔۔۔۔
"مہکا جیسے رواں رواں"
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Mehka Jaisay Rawan Rawan Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mehka Jaisay Rawan Rawan written by Hina Asad. Mehka Jaisay Rawan Rawan by Hina Asad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment