Ishaq Zaade Season 3 Chand Aasmano Se Laapata Romantic Novel By Hina Asad Complete - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday, 8 October 2024

Ishaq Zaade Season 3 Chand Aasmano Se Laapata Romantic Novel By Hina Asad Complete

Isha Zaade Season 3 Chand Aasmano Se Laapata By Hina Asad Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishaq Zaade Season 3 Chand Aasmano Se Laapata  Romantic Novel By Hina Asad Complete 


Novel Name:Ishaq Zaade Season 3 Chand Aasmano Se Laapata                   

Writer Name: Hina Asad

Category: Complete Novel

3540میٹر کے فاصلے سے ایک انوکھا شاٹ پیش کیا ۔۔جس میں پہلے ٹریگر کو کھینچا ،جو ایک خاص فاصلے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔وہ

اپنی سنائپر رائفل پہ رائفل سکوپ کے بجائے عام آئرن سائٹس استعمال کرتا تھا تاکہ دھوپ میں رائفل سکوپ کے شیشے کی چمک سے اس کی پوزیشن دشمن نہ جان سکے۔

آج اسے ایک آدمی کو مارنے کا کام سونپا گیا تھا ۔۔۔جس کی قیمت لاکھوں میں ملنے والی  تھی ۔کیونکہ وہ خیبر پختونخوا کا ایک مشہور اور نیک سیاستدان تھا جو کچھ لوگوں کے کالے دھندوں میں رکاوٹ کا باعث بن رہا تھا ۔۔۔ان لوگوں نے ہی اسے یہ مشن دیا تھا ۔۔۔

جہاں سے اس پولیٹیشن نے گزرنا تھا۔اس نے پہلے اپنی پوزیشن تلاش کی اور اپنے ٹارگٹ کی لائنز کے سمت رخ کرکے اپنے رائفل سمیت نہایت مستعدی سے چوکس کھڑا تھا  ایک گھنٹہ یونہی بیت گیا لیکن اس پولیٹیشن کا کہیں نام و نشان تک نہ ملا۔

یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کا وقت قریب تھا تو کافی فاصلے سے محض ایک لمحے میں اسکی جھلک دکھائی دی تو اس نے اتنے فاصلے پہ ہونے کے باوجود ماہرانہ انداز میں اسکی پوزیشن جان کر اپنا شاٹ لگایا ۔۔۔ بنا آواز کی گولی نے ایک ہی شاٹ میں اس کا کام تمام کردیا۔وہ پولیٹیشن خون میں لت پت اب زمین پہ پڑا تھا ۔۔۔اسکے اردگرد لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا ۔۔۔اس کے باڈی گارڈز بھی سمجھ نہیں پائے کہ آخر یہ گولی چلی کہاں سے تھی ۔۔۔پل بھر میں وہاں بھگدڑ مچی گئی ۔۔۔۔

انڈر ورلڈ  میں اسے "سفید موت” کے نام سے جانا جاتا تھا ۔۔وہ نامعلوم فن سنائپر تھا جس کا آج تک کسی نے چہرہ نہیں دیکھا تھا ۔۔۔اس کا نشانہ کبھی چوکا نہیں تھا۔وہ کئی بڑے بڑے افسران کو مارنے کے باوجود بھی بےنشاں تھا۔آج تک کوئی اس سنائیپر کا سراغ نہیں لگا پایا تھا ۔۔۔۔آخر سب کو اپنے کمال مہارتی نشانے سے موت کی نیند سلانے والا یہ سنائیپر تھا کون "؟

اس سے پہلے کہ وہ اس مخصوص بلڈنگ سے اپنی رائفل لے کر نیچے اترتا ۔۔۔

اس کی عقابی نظر سامنے پڑی ۔۔۔۔

جہاں جدید اسلحے سے لیس پانچ سے چھ کار سواروں نے سی آئی ڈی سینٹر کی عمارت کے سکیورٹی گارڈز پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے جواب میں سکیورٹی اہلکاروں نے بھی فائر کھول دئے۔ دو طرفہ فائرنگ کا یہ سلسلہ تقریباﹰ دس منٹ تک جاری رہا۔

سامنے والی سڑک پہ ایک آدمی اور عورت جو اپنی  بیٹی کے ساتھ روڈ کراس کر رہے تھے ۔۔۔کہ اس بچی نے سامنے بنی بیکری سےکچھ لینے کی ضد پکڑی ۔۔۔۔اسکا والد دوسری سڑک پہ وہ لینے گیا ۔۔مگر اسکی اس بیکری  والے آدمی سے بحث ہوگئی ۔۔۔۔

اس لڑکی کی ماں بھی اپنی بیٹی کو ساتھ لیے اسی طرف بڑھی جہاں اس کا شوہر جھگڑ رہا تھا ۔۔۔۔ اسی دوران دھماکہ خیز مواد سے لدھا ایک ٹرک اس بلڈنگ کے اندر داخل ہوا اور اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ دھماکہ اس قدر زور دار تھا کہ اس کی شدت سے عمارت کا سامنے کا حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔

اس دھماکے کی زد میں وہ میاں بیوی موقع پہ موت کی آغوش میں چلے گئے ۔۔۔

عورت نے مرنے سے پہلے دھماکے کی آواز سن کر بچی کو بچانے کے لیے دور دھکا دیا ۔۔۔وہ دور جا گری ۔۔۔

شاید خدا نے اسکی ابھی مزید زندگی لکھی تھی ۔۔۔۔

ان میاں بیوی کے جسم کے چیتھڑے اڑ گئے اس دھماکہ خیز مواد سے۔۔۔۔

وہ لڑکی زخمی حالت میں سڑک پہ خون سے لت پت پڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔

وہ دھماکہ اتنی شدید نوعیت کا تھا کہ اس دھماکے کی شدت سے پشاور کے متعدد علاقے لرز اُٹھے۔ 

 جائے وقوعہ پر 15 سے 20 فٹ گہرا گڑھا بن گیا ہے۔ اس بلڈنگ کے ایک کلو میٹر کے علاقے پر قائم رہائشی مکانوں اور دفاتر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔وہ تیزی سے رائفل باکس لیے نیچے آیا اور اس سے پہلے کہ وہاں پولیس پہنچتی وہ وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا ۔۔۔

جیسے ہی وہ بلڈنگ سے نکل کر باہر آیا وہ چھوٹی لڑکی تقریبا دس سالہ بچی جس کے سر پہ گہری چوٹ لگی تھی اور خون کا فوارہ ابل رہا تھا ۔۔۔اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔

اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے کچھ سال پہلے کا منظر لہرایا ۔۔۔وہ بھی تو ایسے ہی بے یارو مددگار تھا ۔۔۔۔اسکی مدد کے لیے تب کوئی نہیں آیا تھا ۔۔۔۔

"مورے "!!!  (ماں )وہ ہولے سے پکاری۔۔۔

اس کی کرب ناک آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔۔

اس بچی کی ہری کانچ سی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں۔وہ شاید پٹھانوں میں سے تھی ۔۔۔

اسکے سرخ وسفید چہرے پہ اب خون کی دھاریاں نمایاں ہو رہیں تھیں۔۔۔۔وہ دس قدم اٹھا چکا تھا ۔۔۔۔مگر پھر نجانے اسکے دل میں کیا سمائی ۔۔۔

اس دیو ہیکل وجود نے واپس مڑ کر اس زخمی بچی کو ایک ہاتھ سے اٹھا کر کندھے پہ ڈالا ۔۔۔۔پھر تیز تیز قدم اٹھاتا اس چاروں طرف پھیلے ہوئے اندھیرے میں غائب ہوگیا ۔۔۔۔۔

*********

رات گہری ہوچکی تھی۔۔۔!

ہرطرف گہرا اندھیرا پھیل گیا باہر سڑکوں پہ جتنا اندھیرا تھا اس مشہور کوٹھے میں اتنی ہی روشنی اور جگمگاہٹ تھی ۔۔۔ وہاں تو اس وقت دن چڑھا تھا ۔۔۔اس وقت وہاں رنگ و نور کا سیلاب امڈ آیا تھا۔۔۔وہ نیلم باٸی کا بنگلہ نما کوٹھا تھا۔۔۔۔۔ آج کوٹھے کو خاص طور پر سجایا گیا تھا،یہ جگہ شہر سے دور اک پرسکون  کالونی میں تھی۔ یہ اس کالونی کا واحد بنگلہ تھا جو اتنا بڑا اور خوبصورت تھا،اس کے آس پاس صرف چند اک گھر ہی بنے تھے ۔۔۔رات کے وقت اس بنگلے کے باہر گاڑیوں کا رش بڑھ جاتا تھا اور تماش بین کا آنا جانا ساری رات ہی لگا رہتا تھا۔

اس بنگلے کا اندرونی منظر بھی بڑا دلکش تھا۔!ہر طرف گہماگہمی تھی۔۔رنگین آنچل ہر سو لہرا رہے تھے۔ کہیں سے چوڑیوں کی کھنک آرہی تھی تو کہیں گھنگھروں کی چھنکار ' کہیں سے طبلے کی زور دار تھاپ سناٸی دے رہی تھی '  ۔اس بنگلے کا مین ہال بھی بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔۔جہاں ہر رات محفل سجائی جاتی تھی ۔۔۔اس ہال میں فرش پہ دبیز قالین بچھا کر اس پہ گاٶ تکیے لگاۓگٸے تھے،درمیان میں رقص کے لیے جگہ خالی چھوڑ دی گٸی تھی۔۔

ہر کوٸی اپنے اپنے کام میں مصروف تھا کیوں کہ آج چاندنی جو کہ اس کوٹھے کی سب سے حسین لڑکی تھی نیلم بائی اس ہیرے کو حاضرین محفل کے سامنے پیش کرنے والی تھیں۔۔۔۔

وہ پچھلے دو ماہ سے اس نئی لڑکی پہ محنت کر رہی تھی ۔۔۔مگر وہ تھی کہ نیلم بائی کا دھندہ کرنے سے انکاری تھی ۔۔۔نیلم بائی کے ٹارچر کرنے کے بعد وہ صرف رقص کرنے پہ راضی ہوئی تھی ۔۔۔۔

ان دو ماہ میں اس نے رقص کی خوب پریکٹس کی تھی ۔۔۔

آج اس کی اس کوٹھے میں رونمائی تھی اس محفل میں سب کو مدعو کیا گیا تھا ۔۔۔

سب لڑکیاں اس کے حسن سے خائف ہوئے ،حسد اور جلن سے چاندنی سے مزید خوبصورت بننے کے چکروں  میں چہروں پہ میک اپ کی مزید تہیں چڑھا رہی تھیں۔۔۔۔کچھ لڑکیاں رقص کی پریکٹس کر رہی تھیں ان کے گھنگھروں کی جھنکار ، طبلے کی تھاپ اور گانے کی آوازیں اس کوٹھے کے کونے کونے میں پھیل رہی تھی ۔۔۔

نیلم باٸی درمیانے قد کی ، قدرے صاف رنگت اور مظبوط جسامت کی مالک عورت تھی جو اکثر منہ میں پان کی گلوری دبائے اگالدان میں پان کی پیک پھینکتی رہتی اور لڑکیوں پہ نظر رکھے ان پر حکم چلاتی رہتی تھی ۔۔۔غرارے میں ملبوس وہ عورت انتہائی شاطرانہ انداز سے یہ کوٹھا چلا رہی تھی ،۔ناچ گانا اس کا پیشہ تھا اس کے پاس کئی لڑکیاں تھیں۔جن میں چاندنی بھی شامل تھی، 

چاندنی نہیں جانتی تھی کہ وہ یہاں کیسے پہنچی ۔۔۔اسے اپنی پہلے کی زندگی کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔۔۔

بس اتنا ہی یاد تھا کہ جب اس کی آنکھیں کھلیں اس نے خود کو اس کوٹھے میں پایا ۔۔۔چاندنی بہت زیادہ خوبصورت بھی۔نیلم بائی کا دھندا پچھلے دنوں بہت ماند پڑ گیا تھا اسی لیے اس نے چاندنی کو بازار حسن کی زینت بنانے کے لیے آج محفل میں پیش کرنا تھا۔۔۔

رات ہوتے ہی کوٹھے پر مہمان آنا شروع ہوچکے تھے۔نیلم بائی نیلم بائی مہمانوں کا استقبال کر رہی تھی ۔اسے پتہ تھا کہ چاندنی اس سب کے لیے دل سے راضی نہیں مگر اس نے چاندنی سے اس بار منت سماجت کی تھی کہ اگر اس نے ایسا نا کیا تو اسکی وجہ سے وہاں موجود باقی ساری لڑکیاں بھی بھوکی مر جائیں گی ۔۔۔اس سے پہلے کہ نوبت فاقوں تک پہنچے ۔وہ اس کے ڈوبتے ہوۓ دھندے کو بچانے لے۔۔۔۔ 

چاندنی تیار ہو چکی تھی قندھاری انار جیسے سرخ  لہنگے میں اس کی گوری رنگت دمک رہی تھی۔اس نے آج پہلی بار اتنا ہیوی ڈریس پہنا تھا ۔۔۔اپنے بھورے گیسوؤں کو کرلز کیے پشت پہ کھلا چھوڑا ۔۔۔پھر اپنے یاقوتی لبوں پر سرخ رنگ کی لپسٹک لگائے ہوئے تیز بلش آن اور مسکارا لگا کر آج اتنا بھڑکیلا میک کیا تھا کہ وہ خود کو بھی پہچان نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔

تبھی نیلم بائی کی خاص اور پرانی لڑکیاں اندر آئیں تو اس کے نوخیز حسن کو دیکھ کر حسد بھری اور ستائشی نظروں سے دیکھنے لگیں۔

"نیلم بائی نے یہ گجرے بھیجے ہیں یہ بھی پہن لو "انہوں نے چاندنی کی طرف گجرے بڑھائے جن کو اس نے اپنے مومی بازوؤں میں پہن لیا ۔۔۔اور چل کر باہر کی طرف آئی ۔۔۔

اپنی مخصوص نشست پر

وہ ہال نما کمرے میں آکر ایک نشست پہ براجمان ہو گیا ۔۔۔ اس کا دھیان وہاں موجود رنگ برنگی سجی سنوری ہوئی طوائفوں پہ نہیں تھا ۔۔۔اسے انتظار تھا تو اس کا جس کی تلاش میں وہ آج اس گندگی میں پہلی بار آیا تھا گراہک بن کر ۔۔۔۔

جیسے ہی چاندنی دروازے کے اوٹ سے نمودار ہوئی اس مومی مجسمے کے وجود سے پھوٹتی چاندنی جیسے ہر سو بکھر گئی ۔۔۔ 

سب حاضرین کے منہ کھل گئے ۔۔۔انکے منہ میں سے رال ٹپکنے لگی اسے یوں سجا سنوارا دیکھ کر ۔۔۔۔ایک پل کے لیے تو امرام شیر بھی ٹھٹھکا ۔۔۔۔

امرام شیر نے ایک جانچتی ہوئی نگاہ اس پہ ڈالی ۔۔  اس کی گہری نظروں کی تپش تھی جو چاندنی نے نگاہ اٹھا کر اس سمت دیکھا جہاں امرام گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے براجمان تھا۔

اس کی نیلی آنکھوں کی وارفتگی محسوس کیے وہ پل بھر میں آنکھوں کا زاویہ بدل گئی ۔۔۔

"مسمرائزنگ " وہ سگریٹ کا مرغولہ ہوا میں اچھالتے ہوئے دبی آواز میں بولا

دھوئیں کے اس پار اسے چاندنی کا جگر جگر کرتا وجود دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔

وہ اپنے سرخ و سفید شفاف پاؤں جن میں خوبصورت پازیب بندھی ہوئیں تھیں وہ پہنے سہج سہج کر ادا سے قدم اٹھاتے ہوئے عین ہال کے  وسط میں آ کے رکی ۔

تمام حاضرین محفل کی  نگاہیں اس حسن کے شاہکار پہ جمیں تھیں, وہ ندیدے پن سے  اسے دیکھ رہے تھے۔

وہاں موجود طبلہ نواز استاد نے ساز چھیڑا ۔۔۔

"ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں ۔

ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں۔

چاندنی نے اپنی خوبصورت آواز میں سماں باندھ دیا۔۔۔

ساتھ ساتھ اسکا نازک جسم سازوں پہ تھرک رہا تھا ۔۔۔چاروں طرف گھنھرووں کا شور مچا ہوا تھا ۔۔۔

اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں میری رسوا 

اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں 

گانے کے بول ادا کرتے ہوئے وہ امرام کی طرف دیکھ کر آداب کرتے ادا سے پلٹ گئی ۔۔۔

اسکی مونچھوں تلے عنابی لبوں پہ مسکراہٹ بکھری ۔۔۔

اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں ۔

کہنے کو تو دنیا میں میں ،مے خانے ہزاروں ہیں ۔

سب شوقین آدمیوں نے چاندنی پہ نوٹوں کی برسات کردی ۔۔۔۔ 

**********

رمشا اپنے کمرے کے ٹیرس میں کھڑی گہری تاریکی میں چمکتے اس خوبصورت چاند کی آنکھوں کو خیرہ کردینی والی چمک دیکھ رہی تھی ۔جو اس گہری رات کے اندھیرے کو حسن بخش رہا تھا ۔ دروازہ ناک ہونے کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا تو زُخرف  اپنے مخصوص انداز میں دروازے کو ناک کیے کمرے میں داخل ہو رہی تھی.

" تمہیں ناک کرنے کی ضرورت کب سے پڑنے لگی.." وہ ہلکے پھلکے انداز میں مسکرائی تو زخرف بھی کھل کر مسکرائی  دی۔

" میں نے سوچا تم کہیں اپنے انہوں کی سوچوں میں مصروف نا ہو ۔اپنے آنے کی اطلاع دی تاکہ اپنے اُن کی سوچوں سے باہر نکل آؤ .." 

وہ "ُان پہ زور دیتے ہوئے بولی ۔۔۔

"اونہہہ۔۔۔۔رمشا نے اسے یوں چھیڑنے پہ سخت گھوری سے نوازا ۔۔۔

" کوئی کام تھا..؟" اب اس کا انداز نرم تھا .

"رمشا وہ مما کہہ رہی ہیں کہ آج تم یونیورسٹی سے چھٹی کرلینا اور اچھا سا تیار ہوجانا  "

"کیوں خیریت ؟

اس نے اچنبھے سے دیکھا ۔۔۔

"کل "ایان بھائی "کے گھر سے سب آ رہے ہیں "

وہ اسکے شانے پہ تھوڑی رکھ کر بولی ۔۔۔۔

"ہائے ۔۔۔۔رے میری شرمیلی سی بہنا ۔۔۔۔بنا دیکھے گال گلال ہوگئے کل آمنے سامنے تو تم نے ٹماٹر بن جانا "وہ شرارتی انداز سے رمشاء کو چھڑنے لگی ۔۔۔

"تمہارا وقت بھی قریب ہے ،پھر دیکھوں گی تمہیں بھی "وہ پیار بھری دھمکی دے رہی تھی ۔۔۔۔

"ہائے میں تو کہتی ہوں کل کا وہ آنے والا دن آج آ جائے اور میرا فوجی میرا رشتہ لے کر ۔۔۔۔نا۔۔نا۔۔۔بلکہ ڈائیریکٹ بینڈ باجا بارات لے کر جلد سے جلد آئے اور مجھے رخصت کروا کر اپنے سنگ لے جائے ۔۔۔۔

وہ حسرت بھری آہ بھر کر ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولی ۔۔۔۔

"کہیں آ ہی نا جائے تمہارا فوجی ۔۔۔۔۔۔۔۔رمشا اس کا مذاق اڑانے لگی ۔۔۔۔

اب کی بار گھورنے کی باری زُخرف کی تھی ۔۔۔

وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

"یار امرام شیر بھائی کے خواب دیکھنا بھول جاؤ ۔۔۔وہ تو تمہاری طرف دیکھتے بھی نہیں "رمشا نے اسے کڑوی سچائی سے روشناس کرایا۔

"رمشا تم ہی میری مدد کرو نا یار اس کھڑوس فوجی کو پٹانے میں "

"چل ہٹ !!!

تجھے کیا میں ایسی لگتی ہوں ۔۔۔؟وہ ڈپٹنے کے انداز میں بولی ۔۔۔

"دوست دوست نا رہا پیار پیار نا رہا ۔۔۔۔

زندگی ہمیں تیرا اعتبار نا رہا !! 

وہ درد بھری آواز میں گانا گانے لگی ۔۔۔

"زخرف۔ !! سدھر جا ۔۔۔

"تجھے کبھی کسی سے پیار نہیں ہوا نا اسی لیے تو میری فیلنگز سمجھ نہیں سکتی ۔وہ چہرے کے زاوئیے بگاڑ کر خفگی سے بولی ۔

"رمشاء اگر تیری شادی اس ایان سے نا ہو جس سے بچپن میں تیرا رشتہ طے ہوچکا ہے تو تیرا دل ٹوٹے گا نا ۔۔۔۔؟؟؟

اس نے رمشا کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔۔۔

رمشا نے بگڑے تیوروں سے اس کی طرف دیکھا ۔

"مجھے بھی بالکل ایسے ہی برا لگتا ہے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھے امرام شیر نہیں ملے گا "

وہ کہنے کیا آئی تھی اور لڑ جھگڑ کر پاؤں پٹختی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔۔

رمشا نے اسے جانے دیا ۔۔۔کیونکہ اسے پتہ تھا کہ دس منٹ بعد وہ واپس اسی کمرے میں ہوگی ۔۔۔دونوں کا ایک دوسرے کے بنا گزارہ جو نہیں تھا۔۔۔۔

چاند آسماں سے لاپتہ تھا،کیونکہ آج اماوس کی رات تھی ،چاروں طرف گہرا اندھیرا تھا ۔۔۔رات کا سناٹا چھا چکا تھا ۔سناٹے کو چیرتی جنگلی جانوروں کی آوازیں ماحول میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔

"ڈیڈ میں بھی آپ کے ساتھ آؤں گی "ماھی نے چہک کر کہا ۔۔۔

"ماھی بیٹا تم یہیں گاڑی میں اپنی مما کے پاس رکو ۔میں ابھی پانی کا بندوست کر کہ آتا ہوں "شاہ من نے کہہ کر گاڑی کا دروازہ بند کیا اور خود پانی کی تلاش میں گاڑی کی ڈگی سے بوتل نکال کر جنگل کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔

وہ لوگ اسلام آباد سے حویلی جا رہے تھے ۔۔۔کہ راستے میں ان کی گاڑی گرم ہوگئی اور اس میں پانی بھی ختم تھا ۔اسی کیے شاہ من پانی کی تلاش میں گیا ۔۔۔

دعا نے شاہ من کو جنگل کے درختوں اور جھاڑیوں میں گم ہوتے دیکھا ۔۔۔

وہ دونوں پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئیں اس کے واپس آنے کا انتظار کر رہی تھیں 

پندرہ منٹ گزر چکے تھے مگر اسکی واپسی کا کوئی پتہ نہیں تھا ۔۔۔سڑک پہ دور دور تک کوئی گاڑی دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔

"یہ گاڑی بھی کتنی عجیب جگہ پہ بند ہوئی ہے مما "ماھی نے بیزاری سے دعا کو کہا ۔۔۔

"مجھے تو تمہارے ڈیڈ کی فکر ہو رہی ہے ابھی تک واپس نہیں آئے ۔۔۔وہ فکرمندی سے بولی ۔۔۔

"مما میں ابھی دیکھ کر آتی ہوں ڈیڈ کو۔۔

"نہیں ماھی تم یہیں رکو باہر مت جاؤ "دعا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے روکا ۔۔۔

"مما کچھ نہیں ہوتا آپ کی بہادر بیٹی کو "

وہ مسکرا کر کہتے ہوئے باہر نکلی ۔۔۔

دعا ان دونوں کی حفاظت کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔۔۔

ماھی بھی اسی طرف بڑھنے لگی جہاں کچھ دیر پہلے شاہ من گیا تھا ۔۔۔۔

اس نے اپنے موبائل کی ٹارچ آن کی اور چلنے لگی ۔۔۔۔

"ڈیڈ !! 

"ڈیڈ!!! اس نے اونچی آواز میں پکارا ۔۔۔مگر اس کی اپنی آواز ہی وہاں کی خامشی میں گونجنے لگی ۔۔۔

ایک تیز ہوا کا جھونکا اس کے وجود سے ٹکرایا تو اس کے وجود میں کپکپکی سی پیدا ہوئی ۔۔۔

اس نے اپنے دونوں بازو اپنے گرد باندھ لیے ۔۔۔

جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی درجہ حرارت کم ہوتا جا رہا تھا ٹھنڈ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔ اسے یہ سب کچھ مافوق الفطرت لگا۔۔۔اچانک اس کے موبائل کی ٹارچ بند ہوگئی اور چاروں طرف اندھیرا پھیل گیا ۔۔۔

اس نے موبائل کی سکرین کو دیکھا ۔۔۔جہاں پہ لو بیٹری کا سگنل آ رہا تھا ۔۔۔

اس موبائل کو بھی ابھی بند ہونا تھا ۔۔۔اس نے جھنجھلا کر کہا ۔۔۔

"کچھ دن بس کچھ دن بچے ہیں !!  

"آج اماوسیہ ہے !!  

"آج چاروں اوڑھ اندھیرا ہوگا ۔۔۔!!!

"مگر وہ تمہیں دکھائی دے گی ۔۔۔جو تمہاری زندگی کو بڑھائے گی ۔۔۔!! 

"مگر میں اسے پہچانوں گا کیسے ؟؟؟

"اس کی چمک سے "

سرد ہوا کا تھپیڑا ماھی پہ پڑا ۔۔۔اس کے پشت پہ کھلے بال اس کے چہرے پہ پڑے ۔۔۔

اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال کان کے پیچھے اڑسے ۔۔۔

اور نظر اٹھا کر سامنے موجود گھنے درخت کی طرف دیکھا جہاں اسے ایک چمگادڈ بیٹھی دکھائی دی ۔۔۔

ماھی کی ڈائمنڈ کی نوز بن کی چمک اس چمگاڈر پہ پڑی ۔۔۔

وہ پنکھ پھیلا کر درخت کی شاخوں سے اٹھ کر ادھر ادھر اڑنے لگی ۔۔۔

ماھی نے پیچھے دیکھے بنا ڈرتے ہوئے واپسی کے راستے کی طرف دوڑ لگائی۔۔۔

"تم میری ہو !!!

"جلد تمہیں میرا ہونا ہی ہوگا !!  

کسی کی گھمبیر سرسراتی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔

اس کے دل کی دھڑکنوں کی آواز اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی ۔۔۔ 

اسے اندھیرے میں واپسی کا راستہ دکھائی نا دیا ۔۔۔

وہ پھولے ہوئے سانس سے ایک درخت سے ٹیک لگائے کھڑی ہوئی اور اپنی پھولی ہوئی سانسیں ہموار کرنے لگی ۔۔ ۔۔

کہ اچانک اسے اپنی گردن پہ کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا جیسے کسی کے تیز دانت ۔۔۔

اس نے سہم کر ادھر ادھر دیکھا مگر اسے کچھ دکھائی نا دیا ۔۔۔اس کی بڑی بڑی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں۔۔۔

شاہ من پانی لیے گاڑی تک پہنچا اور گاڑی سٹارٹ کی تو اس کی لائٹس بھی روشن ہوگئیں ۔۔۔

اس نے اسی لیے لائٹس جلائیں تھیں کہ ماھی اگر قریب ہوتا لائٹس دیکھ کر واپس آجائے ۔۔۔

ماھی کو دور سے روشنی دکھائی دی تو وہ اسی سمت بھاگنے لگی ۔۔۔

"میں نجانے کس راستے پہ آگئی ؟؟؟وہ بھاگتے ہوئے خود کلامی کرنے لگی ۔۔۔اس کا حلق خشک ہو رہا تھا ۔۔۔

"کبھی کبھی راستے انسان کو اس کی منزل پہ لے آتے ہیں"

اسے پھر سے اپنے کانوں میں وہی آواز سنائی دی ۔۔۔جیسے وہ اس کے بہت قریب ہو ۔

ماھی کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔سامنے گاڑی نظر آتے ہی وہ سرعت سے اسکی طرف بڑھی ۔۔۔

اور اندر بیٹھ کر فورا دروازہ بند کیا ۔۔۔اور سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر گہرے سانس لینے لگی ۔۔۔۔

"کہاں رہ گئی تھی ؟؟؟کیا ہوا ماھی بیٹا سب ٹھیک ہے نا "؟

شاہ من نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔

"ج۔۔۔جج۔۔جی ڈیڈ سب ٹھیک ہے ۔۔۔اس نے اپنے سوکھے لبوں پہ زبان پھیر کر بمشکل کہا ۔۔۔

اور پھر سے آنکھیں موند لیں ۔۔۔اسے ابھی بھی اپنی گردن پہ چبھن سے محسوس ہورہی تھی ۔۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اسے مسلا۔۔۔۔

شاہ من نے گاڑی راستے پر بڑھا دی ۔۔۔ 

********

مختلف سازوں کی آوازیں اس کوٹھے کی درودیوار میں گونج رہی تھیں۔رقص ختم ہوچکا تھا وہاں بیٹھی شہر کی مشہور شخصیات شراب کے نشے میں مست طبلے کے ساز پر سردھن رہی تھیں۔لیکن وہ خاموش سا بیٹھا سارے ہال کا جاٸیزہ لے رہا تھا۔وہ کبھی ایسی محفلوں میں نہیں آیا تھا ۔وہ کس مقصد سے آیا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔یہاں آکر وہ بہت حیران بھی تھا لوگوں کے اس روپ کو دیکھ کر،یہ وہ لوگ تھے جو بظاہر تودن کے وقت شرافت کا لبادہ اوڑھے پھرتے تھے لیکن ان کی اصلیت کیا تھی یہ رات کے اندھیرے میں اسے یہاں پتہ چلی تھی ۔۔۔

”آپا سکندر خان بھی اس محفل میں تشریف لا چکے ہیں۔وہاں لوگوں کو کہتے سنا ہے بڑی مالدار آسامی ہیں“

نیلم باٸی چاندنی کے کمرے سے نکل کر ہال میں موجود مہمانوں سے پیسے بٹور رہی تھی ، تب ہی اس کا ملازم خاص جاوید عرف جیدا جس کا تعلق تیسری صنف سے تھا۔وہ تیزی سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور سگریٹ کا لمبا سا کش لیتے ہوۓ اس کے کان میں سرگوشی نما آواز میں بولا ۔۔

”کیا تو سچ کہہ رہا ہے جیدے۔؟“اس نے پان چباتے ہوۓ خوشی سے باچھیں کھلاٸیں۔

”ارے خدا قسم آپا۔۔۔۔! سو فیصد سچ کہہ رہا ہوں۔ پہلے کبھی جھوٹ بولا آپ سے۔“اس نے بھی خباثت سے گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا اور پھر سے سگریٹ کا لمبا سا کش لگایا۔

”تو جا پھر جلدی مر ! اس کو ادھر علیحدگی میں لےکر آ حرام خور۔ادھر کھڑا میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے کمبخت کہیں کا“ اس نے اپنی مخصوص تیز زبان میں اس کو صلواتیں سناٸیں اور پھر اس کے کندھے پر زور سے چپت رسید کیے سکندر خان کو وہاں لانے کا کہا۔

”ارے آپا جا تو رہا ہوں اتنا بھڑک کیوں رہی ہو ۔۔؟“ اس نے برا سا منہ بنا کر پھر سے سگریٹ کا لمبا سا کش لے کر کہا اور دھواں فضا میں تحلیل کیا اور سرعت سے باہر نکل گیا۔

کچھ دیر بعد وہ ، بہت ہی خوبصورت دراز قد ، کشادہ پیشانی ، چوڑے شانے ، رعب دار اور مردانہ وجاہت سے مالا مال نیلی آنکھوں والے خوبرو نوجوان کے ساتھ ہال میں داخل ہوا۔وہ سکندر خان تھا ، جس کو نیلم باٸی بھی پہلی بار دیکھ رہی تھی۔وہ اسے سامنے سے آتے دیکھ چاپلوسانہ انداز میں ، پان چباتی اسکے استقبال کے لیے آگے بڑھی۔

”آداب ،آداب ! زہے نصیب خان جی۔ بہت خوشی ہوٸی آپ پہلی بار ہمارے غریب خانے پر تشریف لاۓ۔آپ کی آمد سے ہمارے اس کوٹھے کو چار چاند لگ گٸے۔ نیلم باٸی نے ہاتھ میں پکڑی پھولوں کی مالا آگے بڑھ کر خان کے گلے میں ڈالنے لگی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔۔۔

"اس کی ضرورت نہیں "

وہ گھمیبر آواز میں بولا۔۔۔۔اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔جس نے اس کی شخصیت کو اور ذیادہ رعب دار، مغرور اور باوقار بنادیا تھا۔سکندر خان (امرام شیر ) وہاں کس لیے آیا تھا یہ نیلم باٸی نہیں جانتی تھی بس وہ ہی جانتا تھا،وہ یہاں نیلم باٸی کے کہنے پر نہیں بلکے کسی کی تلاش میں آیا  تھا۔جو اسے وہاں مل بھی گئی تھی ۔۔۔۔

”آٸیے خان جی ہمارے اس غریب خانے کو رونق بخشیں !۔“اس نے سکندر خان کو ایک بہترین کمرے  میں لے جا کر بیٹھایا ۔۔۔اور اس سے کچھ فاصلے پر خود بھی بیٹھ گٸی۔وہ بہت خوش تھی۔اتنے بڑے آدمی کو پہلی بار اپنے سامنے دیکھ کر۔۔

اسے تو اپنی قسمت پہ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔

"زہے نصیب خان صاحب آپ خود تشریف لاےُ ہیں۔۔۔۔

سکندر خان جواب دئیے بنا بیٹھ گیا۔

شلوار قمیص پہنے شانوں پر شال اوڑھے وہ اپنی وجیہہ شخصیت سے مقابل کو زیر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔

"کیسا لگا آپ کو  مجرا ؟؟۔۔۔۔" اس نے بات کا آغاز کیا ۔

"مجھے اس کوٹھے سے وہ لڑکی چائیے ۔۔۔۔۔"

وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاےُ ٹیک لگا کر شاہانہ انداز میں بیٹھا تھا۔

"حکم کریں حضور بھلا اس ناچیز کی کیا مجال جو آپ کو انکار کرے۔۔۔۔۔"اس کا سانولا چہرہ مسرت کے باعث ِکھل اٹھا۔

"چاندنی۔۔۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔بارعب آواز میں بول کر اسکے اوسان خطا کرگیا ۔۔۔

اس کی خواہش سن کر نیلم بائی کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔۔۔ 

چہرے پر تفکر کے آثار نمایاں ہوئے ۔

"خان صاحب آپ کو انکار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی لیکن آپ شاید اس بات سے واقف نہیں کہ چاندنی ابھی اس دھندے میں نئی ہے۔وہ صرف گانا گاتی ہے اور رقص کرتی ہے۔۔۔۔۔" وہ آہستگی سے منمناتے ہوئے بولی یہ خان کی شخصیت کا رعب ہی تھا کہ وہ اسطرح سے بات کر رہی تھی ورنہ اس جیسی شاطر عورت تو ہزاروں کو اپنی انگلیوں پہ نچا چکی تھی ۔

"میں نے ایک بار کہہ دیا کہ مجھے چاندنی ہی  چائیے تو مطلب وہی چائیے۔۔۔۔۔ورنہ میں اس کوٹھے کو آگ لگا دوں گا"

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اونچی آواز میں دھاڑا ۔۔۔

نیلم تو اس کی گرجدار آواز سن کر تھوڑا خائف ہوئی اور پیچھے کھڑے جیدے کو دیکھا ۔۔۔

جیدے نے منہ پہ انگلی رکھ کر اسے فی الوقت چپ رہنے کا اشارہ دیا ۔۔۔

"یہ پیسوں کے چکر میں کس مصیبت میں پڑ گئی ہوں یہ خان تو گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا ہے نا اگل سکتی ہوں نا نگل سکتی ہوں ۔۔کیا کروں ؟وہ دل میں اس سے جان چھڑانے کا طریقہ سوچنے لگی ۔۔۔

"خان صاحب چاندنی یہ کام نہیں کرتی ۔۔اس کے علاوہ جس لڑکی پر ہاتھ رکھیں گے وہ آپ کی ۔۔۔۔"

"لگتا ہے تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی ۔۔۔۔

"میر پولیس کو کال ملاؤ ابھی بند کرواتا ہوں یہ سب "وہ اپنے ساتھ ایک ملازم کو دیکھ کر بولا جو اسکے ساتھ وہاں آیا تھا ۔۔۔

"جی سر "اس نے مؤدب انداز میں کہا اور پاکٹ سے فون نکال کر نمبر پریس کرنے لگا ۔۔۔

"ارے ۔۔۔ارے رکیے خان صاحب اتنی جلدی بھی کیا ہے ۔۔۔۔وہ بالآخر دانت پیس کر موقع کی نزاکت کے حساب سے پینترا بدل گئی ۔۔۔۔

۔

”نیلم بائی ۔۔۔! میں چاندنی سے اکیلے میں ملنا چاہتا ہوں ۔؟"وہ سپاٹ انداز میں بولا۔۔۔

نیلم بائی اور جیدے کے چہرے کی تو ہوائیاں اڑ گئیں۔۔۔۔وہ  تذبذب کا شکار ہوگٸی تھی۔۔کہ کیا کرے ۔۔۔چاندنی اسے اپنے کمرے میں دیکھ نجانے کیا کر بیٹھے ۔۔۔

”جج جی!مل سکتے ہیں آپ۔“ اس نے گڑبڑا کر کہا۔

نیلم باٸی کا جواب ہاں میں سن کر۔وہ پرسکون سا آگے بڑھا ۔۔۔

”تو پھر چلیں۔“وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔

نیلم بائی جو اپنی جگہ بت بنی کھڑی تھی۔۔۔چونک کر سیدھی ہوئی ۔۔۔

"جی ۔جی ۔۔۔۔

وہ ابھی بھی ویسے ہی کمرے کے وسط میں کھڑی تھی ہاتھوں سے گجرے اتار کر فرش پہ پھینک چکی تھی اب اپنی کمر سے کمربند اتار رہی تھی ۔۔۔

 جب اچانک ہی کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آٸی،لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ویسے ہی اپنے کام میں مشغول رہی ۔۔۔ نیلم بائی چلتی ہوٸی اس کے پاس آٸی اور اس کے چہرے کو اوپر کر کے اس کی بلاٸیں لینے لگی۔

”واہ! ماشا۶ اللہ آج تو میری چاندنی نے محفل لوٹ لی پہلی بار میں ہی ۔۔اللہ نظربد سے بچاۓ تجھے ۔۔“

"دیکھ تیرے سے خوش ہوکر آج تجھے کون ملنے آئیں ہیں۔۔۔

وہ عین ڈریسنگ کے سامنے کھڑی تھی جب نیلم بائی نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھ سے اوپر کیا تو اس کا عکس سامنے لگے آٸینے میں واضح نظر آرہا تھا، آٸینے کے بلکل سامنے چاندنی کھڑی تھی اور اس کے بلکل پیچھے وہ کھڑا دکھائی تھا ، جس کی نظریں چاندنی پوری محفل میں خود پہ جمیں ہوئی بخوبی محسوس کر رہی تھی 

دونوں نے آئینے میں ایک دوسرے کو دیکھا۔وہ وہی تو تھی جس کی تلاش میں وہ یہاں آیا تھا۔۔اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ جس کو ڈھونڈنے کے لیے پاگل ہو رہا تھا وہ اس کو ایسی جگہ سے ملے گی ۔اس کے قدموں نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا اور پھر وہ آگے بڑھنے کی بجاۓ اک جھٹکے  سے باہر نکل گیا۔۔

”ارے خان جی کو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔؟“نیلم بائی پریشان ہوکر  غرارہ سنبھالتی پان چباتی تیزی سے باہر کی طرف دوڑی۔

چاندنی نے حیران کن نظروں سے سارا منظر دیکھا ۔۔۔پھر سر جھٹک کر اپنے کام میں مشغول ہوگئی ۔۔۔

”کیا ہوا خان جی؟"نیلم باٸی ہانپتے بھاگتی ہوٸی اس کے پیچھے آٸی اور اپنی پھولی ہوٸی سانسوں کے ساتھ اس سے پوچھنے لگی۔

اسے ایک ایک بڑی آسامی ہاتھ سے جاتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ اس کے پیچھے لپکی ۔۔۔

”نیلم بائی تم چاندنی کو میرے حوالے کرنے کے لیے کتنا لو گی۔؟“وہ چاندنی کے کمرے سے نکل کر راہداری کی طرف جا رہا تھا جب اسے پیچھے سے نیلم بائی کی پریشان سی آواز سناٸی دی۔اس کے قدم وہیں رک گٸے اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔

وہ سیدھا مدعے کی بات پہ آیا ۔اس کے چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔جس کو دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ وہ فیصلہ کر کہ آیا تھا اسے ساتھ لے جانے کا ۔

”کیا مطلب ساتھ لے جانے کا؟“اس نے اچھل کر حیرانگی سے پوچھا۔

”تم نادان تو نہیں ہو ،سب کچھ اچھی طرح سمجھتی ہو۔آخر کو اس اب کی ماہر کھلاڑی ہو ۔۔۔

"آپ ایک رات کی بات کر رہے ہیں؟؟؟اس نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔۔۔

"نہیں مجھے وہ چاہیے ایک رات کے لیے نہیں جب تک میرا دل چاہے "

"ہائے صدقے جاؤں خان صاحب آپکے "وہ ان کے قریب آتے پان سے بھرے ہوئے منہ سے بولی ۔۔۔اور انکا صدقہ اتارنے لگی ۔۔۔

وہ نخوت سے دو قدم پیچھے ہوا ۔۔

"مجھ سے پیسوں کی بات کرو ۔۔۔میرے پاس زیادہ وقت نہیں ۔۔۔بولو کتنا پیسہ چاہٸیے تمہیں اس کو مجھے دینے کے لیے ۔میں منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہوں۔۔۔۔“ اس نے نیلم بائی کے چہرے کی طرف غور سے دیکھ کر منہ مانگی قیمت پر زور دے کر کہا۔اس کی بات سن کر نیلم بائی کی آنکھوں میں چمک اتر آٸی اور باچھیں کھل گٸی۔

”بولو میں تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔“اس نے اپنی کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔

وہ جلد سے جلد چاندنی کو وہاں سے لے کر جانا چاہتا تھا۔اس سے پہلے کہ کوئی اور اسے یہاں دیکھ لے ۔اس لیے اب وہ اور زیادہ دیر نہیں کرناچاہتا تھا۔

”منہ مانگی قیمت دو گے خان صاحب۔؟“ نیلم بائی نے شاطرانہ انداز سے آنکھوں کو گھما کر مسکراتے ہوئے ہوئے پوچھا ۔۔۔

”ہاں۔“ اس نے مختصر سا کہا۔کیونکہ اب وہ اٹل فیصلہ کرچکاتھااور وہ سامنے کھڑی اس عورت کی فطرت کو بھی اچھی طرح سے سمجھتا تھا ، کیونکہ وہ بہت ہی چالاک اورشاطر عورت تھی۔۔۔۔ وہ ہاتھ آیا موقع کیسے جانے دے سکتی تھی ۔

”تو پھر اتنی بھی کیا جلدی ہے خان صاحب!بیٹھ کر سارے معاملات سلجھا لیتے ہیں۔آپ تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ایسے جلد بازی میں تھوڑی نہ ایسے فیصلے ہوتے ہیں۔۔۔“ اس نے پان سے بھرے منہ سے بڑی مکاری سے مسکراتے ہوۓ آنکھیں گھما کر کہا اور پھر لہک لہلک کر چلتی اپنا غرارہ سنبھالتی ہوئی ہال کی طرف بڑھ گٸی۔اس کو پتا لگ گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے جو خان  اس کو ایسے کہہ رہا تھا اس لیے وہ سوچ سمجھ کر رقم مانگنا چاہتی تھی۔تاکہ اس کی اگلی ساری زندگی اچھے سے گزرے۔کیونکہ اگر چاندنی جیسا ہیرا اس کے ہاتھوں سے نکل گیا تو اس کا کاروبار ایک بار پھر سے ٹھپ ہو جائے گا ۔۔کتنی مشکلوں سے تو اس نے چاندنی جو یہ سب کرنے کی راضی کیا تھا ۔۔۔

خان بھی لب بھینچے اس کے پیچھے ہال میں ہی چلا آیا۔وہاں اس کے سیکریٹری میر اور جاوید عرف جیدا کے سوا کوٸی بھی موجود نہیں تھا۔جہاں کچھ دیر پہلے محفل سجی تھی وہاں اب خالی ہال سائیں سائیں کر رہا تھا ۔۔۔

”آپا سب لوگ جا چکے ہیں۔آج بڑا مال ہاتھ آیا ۔۔۔سب اپنی چاندنی کی وجہ سے ۔۔۔سب نے دل کھول کر اس پہ لٹایا ہے ۔“ 

جیدے نے فرش پہ بکھرے ہوئے نوٹ کو اکٹھا کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

”چلو اچھا ہوا دفعہ ہوگئے سب۔بڑا تھک گئی میں تو آج ۔“ اس نے پان چباتے ہوۓ ناگواری سے کہا اور غرارہ سنبھالتی اپنی مخصوص نشست پر براجمان ہوگٸی ۔

”اب بولو کتنا پیسہ چاہٸیے؟“خان نے اس کے پاس آکر پھر سے اپنا سوال دہرایا۔۔۔وہ بڑے تحمل کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

”بیٹھٸیے تو سہی خان صاحب اتنی جلدی بھی کیاہے ۔۔۔“اس نے بڑے نارمل انداز میں پان کی پیک اگالدان میں پھینکتے ہوۓ کہا۔۔۔

اس نے ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں ۔۔۔ورنہ اس کے فضول میں وقت برباد کرنے پہ اسے غصہ تو بہت آرہا تھا۔۔ 

” تم سے جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔“ اس نے اپنے غصے کو کنڑول کرتے ہوۓ، ناگواری سے کہا ۔

”مجھے ایک کروڑ روپیہ چاہٸیے۔اتنا پیسہ دے سکیں گے خان صاحب چاندنی کا ۔؟“ وہ خود ہی اٹھ کر چلتی اسکے پاس آگٸی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تمسخرانہ انداز میں مسکراتے ہوۓ بولی۔۔

”ٹھیک ہے ۔“ اس نے بھی بنا وقت ضائع کیے اٹل فیصلے کے ساتھ پختہ لہجے میں کہا۔

”سوچ لو ایک بار دے سکو گے ؟۔۔۔۔“ اس نے آنکھیں مٹکا کر پھر سے اسے سوچنے کا کہا۔وہ بڑی حیران بھی تھی اس بات سے کہ وہ اتنی جلدی ایک کروڑ کے لیے مان کیسے گیا۔اس نے سوچا تھا کہ اتنے پیسے مانگے گی تو وہ بھاگ جاۓ گالیکن وہ تو فوراً مان گیا تھا ،نیلم کو یقین نہیں آرہا تھا۔

”سوچ لیا! میں اپنے کہے سے پھرنے والا نہیں۔“کہتے ہوۓ اس کے چہرے پر چٹانوں کی سی سختی تھی اس نے بھی نیلم کو دیکھ کر جواب دیا ۔۔۔

”ٹھیک ہے پھر مجھے ابھی ایک کروڑ کیش چاہٸیے۔“اس نے اک نیاشوشہ چھوڑا ۔ان دونوں کی باتیں سن کر جیدا اور میر دونوں حیران اور خاموش سے کھڑے تھے ۔جیدا اس لیے حیران تھا کہ آج پہلی بار ایسا ہواتھا کہ کوٸی منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہوا تھا۔اور وہ بھی اتنی ساری

”ٹھیک ہے۔۔۔!مجھےکوٸی اعتراض نہیں۔

******

"ریلیکس یار.. اتنا کیوں گھبرا رہی ہو.." زخرف نے اکتاۓ ہوۓ انداز میں اسے دیکھا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے کمرے کا چکر کاٹ رہی تھی.. اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کتنی گھبرائی ہوئی اور پریشان ہے..

"مجھے یقین ہے کہ تم شیر دل بھائی کو منانے میں ضرور کامیاب ہوجاو گی .." اس نے مسکرا کر اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی بھرپور کوشش کی..

"یہ کوئی معمولی بات نہیں ذخرف جس کی تم ضد باندھ چکی ہو ۔میں نے کبھی شیر دل بھائی سے اتنی فرینکلی بات نہیں کی .." اس نے گھور کر اسے دیکھا اور دوبارہ سے کمرے کا چکر کاٹنے لگی.. اس کے ہر انداز سے اس کی گھبراہٹ ظاہر ہو رہی تھی.. کبھی وہ بےوجہ اپنے بالوں میں ہاتھ چلانے لگتی تو کبھی اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی..

"کیا تمہیں ان سے ڈر لگتا ہے ..؟" اس کے معصومیت سے پوچھے گئے سوال پر اس نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ کوئی پاگل ہو۔۔

" زخرف مسلہ تمہارا ہے اور تم مجھے پھنسا رہی ہو .. تم نے اس کے بارے میں بخوبی سن رکھا ہے.کہ وہ کتنے سخت طبعیت کے مالک ہیں."چڑچڑے انداز میں اسے یاد کرانے کی کوشش کی..

"یار رمشا ڈرو مت صرف تمہیں اتنا ہی تو کہنا ہے انہیں میری طرف سے کہ وہ اپنے جڑواں بھائی امرام شیر سے بات کریں کہ وہ مجھ سے شادی کرلیں ۔بھلا اب میں انہیں اپنے منہ سے اپنی شادی کا کہتے ہوئے اچھی لگوں گی ..؟تم بس ڈرنا مت ۔میں تمہارے ساتھ ہی ہوں مگر اندر نہیں جاؤں گی ۔مجھے اپنے دیور سے شرم آتی ہے " اس نے اپنی طرف سے ایک آسان سا حل پیش کیا تھا.. اس کے پاس ہمیشہ ہر سیچویشن سے نکلنے کا حل ہوتا تھا۔وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔

"دانت مت نکالو ۔۔۔اسوقت مجھے تمہارے یہ دانت زہر لگ رہے ہیں "وہ ڈپٹنے کے انداز میں بولی ۔۔۔

"پلیز انکار مت کرنا "

"ایک بار کوشش کرنے میں کیا قباحت ہے.." اس نے اپنی طرف سے ایک بےتکا جواز دیا تھا..

وہ سر جھٹک کر بلڈنگ کی طرف بڑھی اور دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہو گئی.. بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی انسانوں کے ایک ہجوم نے اس کا استقبال کیا جو اپنے کاموں میں مصروف ادھر اُدھر پھرتے ہوئے نظر آرہے تھے..  اپنے خوف کو قابو میں کرتے ہوئے وہ ریسیپشن کی طرف بڑھ گئی جس کے دوسری طرف موجود لڑکی کے چہرے پر میک اپ کی ایک دبیز چادر چڑھی ہوئی تھی.. 

"جی فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں.." لڑکی کے چہرے کے ساتھ ساتھ آواز میں بھی مغروریت اور چڑچڑاپن تھا..

"جی.. وہ میں شیر دل سے ملنے آئی ہوں.." اس نے ہمت کرکے جواب دیا..

" اوہو.. آپ جاب کے لیے آئیں ہیں ؟.." اس نے تراشیدہ ابرو اچکا کر اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا..

"نہیں میں ان سے ملنا چاہتی ہوں ...؟" 

"اگر آپ کے پاس اپائنٹمنٹ ہے تو بتائیں ۔۔۔؟

"نہیں وہ تو نہیں ہے دراصل میں ان کی کزن ہوں ۔ان سے کچھ ضروری کام ہے "بالآخر اس نے جھجھکتے ہوئے اپنی بات کی ۔۔۔

"تھرٹین فلور پر سیدھے جاکر لیفٹ سائیڈ پہ ان کا کیبن ہے .."

وہ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد کسرتی جسامت پر بلیک کلر کی چست سے شرٹ اور پینٹ پر بلیک کوٹ پہنے ۔کان میں بلو ٹوتھ لگائے تیز تیز چلتے ہوئے کسی سے بات کر رہا تھا اس کا سیکٹری جو ہاتھ ڈائری اور پین لیے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔۔۔۔شیر دل کی گہری نیلی آنکھیں بالکل سرد اور سپاٹ تھیں.. چہرہ سخت تھا.. جبڑے تنے ہوئے اور ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے۔۔۔وہ کال پہ بات کرتے ہوئے پلٹا اور اپنے سیکریٹری کی طرف ابرو اچکا کر دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہوکہ کیا مسلہ ہے ؟

"سر آج دس بجے آپکی عباسی کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ میٹنگ ہے ",اس نے یاد دلانا چاہا ۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔ 

**********

مختصر تعارف ،،،

ابتسام منت کے دو بچے ,احتشام اور ،زخرف 

حسام اور زائشہ کے  بچے  ،حذیفہ ،منساء ،رمشاء۔

زیان اور جنت کے بچے آیت اور اعیان ۔

عیش اور ضامن کے بچے مومن ۔ہانیہ 

شیر زمان اور ہیر کے تین بیٹے ۔

شیر آریان ،امرام شیر،شیر دل ،اور سنہری ۔

شاہ من کی بیٹی ماھی 

****

رمشاء نے نظر اٹھاکر پیچھے دیکھا تو وہ ایک بڑا سا دروازہ تھا جو کہ اب بند ہو چکا تھا..وہ نجانے تھرٹین فلور پہ جانے کی بجائے کہاں آگئی تھی ۔۔۔

"یہ کہاں پھنسا دیا تو نے مجھے زخرف تجھے اللّٰہ ہی پوچھے ",وہ دل ہی دل میں اسے صلواتیں سناتی ہوئے آگے دھڑکتے دل سے بڑھنے لگی  اس نے آگے بڑھ کر اس بند دروازے کو کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ ایسے بند ہو گیا تھا جیسے کبھی کھلا ہی نہ ہو.. اس نے تھک کر آس پاس نظریں دوڑائیں تو خود کو ایک اندھیری راہداری میں پایا.. عجیب سا خوف محسوس ہوا تھا اسے اس جگہ کو دیکھ کر۔۔  ہاتھ میں موجود کلچ پر اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے سہم کر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی وہ آگے بڑھنے لگی کہ واپسی کا کوئی راستہ ہی نہ تھا.. راہداری بالکل سنسان اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی.. راہداری کے آخر میں لفٹ کو دیکھ کر سکون کی سانس اس کے سینے سے خارج ہوئی تھی.. 

اس کے بٹن دباتے ہی لفٹ کا دروازہ دھیرے سے کھلا.. لفٹ بند ہونے سے پہلے ہی وہ جلدی سے اندر گھس گئی اور تیرھویں منزل پر جانے کی بٹن تلاش کرنے لگی لیکن اسے حیرانی ہوئی وہاں پر صرف ایک بٹن دیکھ کر جس پر انگریزی کا D لکھا ہوا تھا.. اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ وہ بٹن دبا دیا.. لفٹ کے حرکت میں آتے ہی اسے عجیب قسم کی گھبراہٹ ہونے لگی تھی.. اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے.. عجیب سے احساسات اسے چاروں طرف سے جکڑ رہے تھے.. ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ہے اس کے ساتھ۔

لفٹ کے رکتے اور دروازے کے کھلتے ہی وہ جلدی سے باہر آئی اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگی.. اس نے نظریں اٹھاکر اپنے چاروں طرف دیکھا.. یہ ایک عالیشان آفس تھا.. جس کی ہر شے قیمتی اور خوبصورت تھی.. دیواروں پر سجی پینٹنگز سے لے کر دیواروں سے لگے صوفے اور ٹیبل پر رکھی ایک چھوٹی سی پین تک اپنے قیمتی عمدہ تھی... دیوار اور ان سے لگے صوفے اور دبیز شیشوں کی کھڑکیوں کے آگے لگے پردے سے لے کر آفس ٹیبل اور اس پر رکھا لیپ ٹاپ، پین، نوٹ پیڈ سے لے کر چئیر اور دروازے تک ڈارک بلیو تھے.. 

چاروں طرف دیکھتی وہ اپنی سوچوں میں اتنی گم تھی کہ دروازہ کھلنے اور قدموں کی آواز پر اس کا دھیان ہی نہیں گیا.. ہوش تو اسے تب آیا جب پیچھے سے کسی نے اسے زوردار دھکا مار کر زمین پر گرا دیا.. اس سے پہلے کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھتی کوئی ٹھنڈی سی چیز اس کی کنپٹی سے آلگی.. وہ دیکھے بنا بھی بتا سکتی تھی کہ یہ ٹھنڈی سی چیز سوائے گن کے اور کچھ نہیں۔ . اسے نہیں پتا تھا کہ اس کے ساتھ یہاں کچھ ایسا ہونے والا ہے.

"کون ہو تم ؟؟؟

"اور یہاں پرائیویٹ آفس میں کیا کر رہی ہو؟؟

"اس آفس تک پہنچی کیسے تم ؟ 

"جلدی بتاؤ ورنہ اگلی سانس نہیں لے پاؤ گی .." گن کا دباؤ اس کی کنپٹی پر بڑھاتے ہوئے کوئی بہت سخت لہجے میں اسکے پاس غرایا تھا.. 

" میں.. وہ.. وہ.. میں ش۔۔شی شیر دل سے ملنے آئی ۔۔۔ اور۔۔ اور پتا نہیں کیسے یہاں آگئی.. مجھے جانے دو پلیز...." آنکھیں میچے خوفزدہ انداز میں وہ تیز تیز بول رہی تھی...

"ہٹ جاؤ فخر .." کسی نے سرد آواز میں حکم دیا تھا.. فخر نامی وہ شخص اس کی کنپٹی سے گن ہٹاکر لمحے میں پیچھے ہوا تھا.. 

" اٹھو..." 

ایک سیکنڈ بھی ضائع کئے بنا وہ جلدی سے اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی.. اسے اپنی زندگی بہت پیاری تھی۔۔ وہ بس یہاں سے جلدی سے باہر نکلنا چاہتی تھی..

"نام کیا ہے تمہارا..؟" وہی سرد آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی..

"ر۔۔۔رمشا .." اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔۔ اس کی ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی نظریں اٹھانے کی..وہ ہمت مجتمع کیے پلٹ گئی۔

"تم یہاں میرے آفس میں کیا کر رہی ہو ..؟"

"۔میں ۔۔۔وہ رمشاء نے نظر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔

 بلیک کلر کی شرٹ اور پینٹ پر بلیک کوٹ پہنے وہ شخص پورے آب و تاب سے اس کے سامنے کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا.. نیلی آنکھیں بالکل سرد اور سپاٹ تھیں.. چہرہ سخت تھا.. جبڑے تنے ہوئے اور ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے.. دونوں ہاتھ پشت پر موجود ٹیبل پر ٹکاۓ وہ پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ تھا...

خوف کے مارے رمشاءکو اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہوا تھا.. 

وہ شیر دل تھا ..! 

م۔۔مجھے آپ سے بات ۔۔۔

"میں بازار جا رہی تھی تو۔۔آپ کا آفس نظر آیا ۔۔۔میں ۔۔نے سوچا کہ آ۔۔ پ کا آفس دیکھ لوں بس اسی لیے ۔۔۔

خوف کی ایک تیز لہر اس کے پورے وجود میں دوڑی تھی...اس سے ٹھیک سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا ۔اس کے سامنے ۔۔۔اس کی پرسنالٹی ہی ایسی تھی کہ سامنے موجود بندہ نگاہ نہیں اٹھا پاتا ۔۔۔اس کی بھی بولتے ہوئے گھگھی بندھ گئی تھی ۔وہ اپنا یہاں آنے کا مقصد بھول گئی تھی اور نجانے کیا اول فول بولے جا رہی تھی۔۔۔

شیر دل کو سامنے دیکھ کر اس کے دل نے خوفزدہ ہو کر ایک بیٹ مس کی تھی.. اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کا دل بند ہی نہ ہو جائے..

شیر دل نے اپنی نیلی آنکھوں کو حرکت دے کر اس کے پیچھے کھڑے اپنے سیکرٹری فخر کو کچھ اشارے کیے تھے.. اور مضبوط قدم اٹھا کر ٹیبل کے پیچھے موجود اپنی کرسی پر جا بیٹھا تھا..

فخر وہاں سے باہر نکل گیا ۔۔۔کمرے میں اس وقت گھمبیر خاموشی کا راج تھا۔۔۔

کچھ دیر یونہی کھڑی رہی ۔۔۔شرمندہ سی ۔۔۔

"رمشاء تم  میرے لیے قابل احترام ہو ۔..." وہی سرد لہجہ اسے اپنی جگہ پر ساکت کرنے کے لیے کافی تھا..

" بیٹھ جاؤ.." نیلی آنکھیں خود پر مرکوز دیکھ کر  لرزتے قدموں کے ساتھ وہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی..

"میرے کزن اعیان کے ساتھ تمہارا بچپن سے رشتہ طے ہے ۔اس نے تمہیں یہاں بلاوجہ میرے آفس میں دیکھ لیا تو میں نہیں چاہتا کہ کوئی بات بنے ۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ تمہاری یا کسی بھی لڑکی کی  عزت پہ حرف آئے ۔اس لیے کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے ۔مجھے تم  سے اس قسم کی بے وقوفی کی قطعا امید نہیں تھی۔"

"یہاں کیوں آئی ہو سچ سننا ہے مجھے ..؟" بظاہر تو اس کی آنکھیں ٹیبل پر موجود فائل پر ٹکی ہوئی تھیں لیکن اس کی ساری حِسیں اپنے سامنے بیٹھی لڑکی پر جمی ہوئی تھیں..

"وہ۔۔وہ۔۔مم میں.." خوف کے مارے اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی..

" آرام سے بولو.." وہ سیدھا ہوتا ہوا پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ ہو گیا تھا..

" کیا تم مجھ سے خوفزدہ ہو..؟" آگے کو ہوتے ہوئے اس نے اپنی گردن کو بائیں جانب ہلکا سا جھکایا تھا..

"جج۔۔جی..نہیں " زبان کے ساتھ ساتھ گردن نے بھی جواب دیا تھا..

" رمشاء مجھے اپنی بات دہرانا ذرا بھی پسند نہیں ہے اس لیے آخری بار پوچھ رہا ہوں۔۔ یہاں کس لئے آئی ہو تم .؟" ایک ایک لفظ پر زور دے کر سختی سے پوچھا گیا.. غصے کی زیادتی سے آنکھوں کی پتلیوں کا رنگ گہرا ہوا تھا.. رمشاء نے خوفزدہ ہو کر تھوک نگلا تھا..

".. مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہاں میرے ساتھ ایسا کچھ ہونے والا ہے.. میں آپ کے آفس میں جان بوجھ کر نہیں آئی.. پلیز آئی ایم سوری.. مجھے زخرف نے بھیجا ہے وہ چاہتی ہے کہ میں آپ سے ب۔۔بات کروں کہ آپ ۔۔۔..اپنے بھائی امرام شیر سے اسکے لیے بات کریں ۔۔۔

شیر دل کے چہرے کے نقوش مزید تن گئے اس کی بات سن کر ۔۔۔۔

"آپ کیسے اس کی بچگانہ باتوں کو لے کر میرے پاس آگئیں .." وہ ہنوز اسی انداز میں بولا جیسے اس کی بات اسے پسند نہیں آئی تھی..

"آپ۔۔ آپ بہت اچھے ہیں.. پلیز یہ بات کسی اور کو مت بتائیے گا ۔.." اس نے گڑبڑا کر ِمنت بھرا  انداز اپنایا تھا..

" میں بالکل بھی اچھا نہیں ہوں.." اس نے دوبارہ ٹوکا تھا..

" نہیں شیر دل بھائی آپ پلیز گھر میں کسی کو مت بتائیے گا ۔۔ پلیز۔۔پلیز.واقعی مجھ سے غلطی ہوگئی ۔جو میں اس کے کہ کہنے پہ یہاں آگئی ."

"ٹھیک ہے آپ یہاں سے جا سکتی ہیں "

وہ سپاٹ انداز میں بولا ۔۔۔

اور انٹر کام اٹھا کر کسی سے کچھ کہا ۔۔۔

"آئیے میڈم "وہ وہی ریسیپشن والی لڑکی تھی ۔۔۔

رمشاء اس کے ساتھ مرے مرے قدموں سے چلتے ہوئے آفس سے باہر نکل گئی۔۔۔

"شکر ہے خدا تیرا ۔۔۔اس جلاد کے آفس سے صحیح سلامت باہر نکل آئی ۔۔۔۔تیری بات کبھی نہیں سنوں گی زخرف ۔۔۔آج تیری وجہ سے کتنی سبکی کا سامنا کرنا پڑا ۔۔۔وہ دوپٹے کے پلو سے اپنی پیشانی پہ آیا پسینہ پونچھتے ہوئے بڑ بڑائی ۔۔۔۔

*********

"رمشا ہم مارکیٹ شاپنگ کرنے جا رہے ہیں۔تم چلو گی؟"زخرف نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔منساء اور ہانیہ بھی اس کے ساتھ تھیں۔رمشاء نے ٹی وی سکرین  سے نظریں ہٹا کر انہیں دیکھا جو مارکیٹ جانے کے لیے بالکل تیار تھیں۔

"نہیں۔مجھے کچھ کام ہے تم لوگ چلی جاؤ۔"وہ دوبارہ سکرین پر نظریں جما کر بولی ۔

"پلیز رمشاء چلو نا ہمارے ساتھ "منساء نے ضد کی۔

"آج اعیان بھائی نے بھی شاپنگ پہ جانا ہے ۔کہیں ان سے ملاقات نا ہوجائے راستے میں "

"لگتا ہے اعیان بھائی کا سامنا کرنے سے ڈر گئیں ہیں رمشاء جی ۔"زخرف  نے شرارت سے مسکرا کر کہا ۔رمشاء نے جواباً خفگی سے اسے گھورا۔

"رمشاء کسی سے نہیں ڈرتی۔"وہ بہت فخر سے بولی تھی۔

(البتہ شیر دل سے بہت ڈری تھی )یہ بات اس نے کسی کو بھی نہیں بتائی تھی اور نا ہی بتا کر سب کے سامنے اپنی ہی سبکی کروانے کا ارادہ تھا ۔۔۔

"تو پھر چلو نا"ہانیہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بولی۔

"یار سچ میں۔مجھے بہت ضروری کام ہے۔اور منساء تمہاری طبیعت خراب ہے۔تھوڑا صبر کر لو کچھ دنوں بعد شاپنگ کر لینا۔"وہ بات کو خود سے ہٹا کر منساءپر لے آئی تھی۔

"مجھے نہیں پتہ۔میں نے بھی جانا ہے۔پلیز۔" آیت اور مومن کی شادی کو اب دن ہی کتنے بچے ہیں ؟چلو نا پلیز سب ایک جیسے ڈریس لیں گے شادی پہ ۔۔۔

"اچھا مما سے پوچھ کر آتی ہوں ۔۔۔کہہ کر رمشاء زائشہ کے پاس چلی گئی اور ان سے اجازت لی ۔۔۔

"اچھا دھیان سے جاؤ۔ڈرائیور کو ساتھ لے جانا۔"وہ بولی تو رمشاء خوشی سے مسکراتی ان کے گلے میں بازو حمائل کر گئی 

"آئی لو یو مما۔"وہ سرگوشی میں بولی تو زائشہ مسکرا دی۔

"آئی لو یو ٹو مما "منساء نے دور کھڑے ہی کہا ۔۔۔

"بس بس زیادہ مکھن نہ لگاؤ۔"زائشہ نے اپنی دوسری بیٹی کو مسکرا کر کہا ۔۔۔  تو منساء بھی ہنس دی۔

زائشہ کی دونوں بیٹیاں مسکرا کر باہر نکل گئی تو اس نے ان دونوں کے یوں ہی ہنسنے کی دعا کی تھی اس کے دل میں ایک سکون سا سرائیت کر گیا تھا۔

 ڈرائیور کے ساتھ وہ سب شاپنگ مال آ گئی تھیں ۔وہ کئی منزلوں پر مشتمل بڑے بڑے پلازے تھے جن میں ہر قسم کی چیزیں دستیاب تھیں۔ہزاروں لوگ یہاں وہاں آ جا رہے تھے۔۔پہلے انہوں نے نچلی منزل پر ہی ڈریسز کی شاپنگ کی تھی ۔قطاروں میں لٹکے خوبصورت ریشمی لباس  چمکتے ان کی نظروں کو خیرہ کر رہے تھے۔سب اپنی پسند کے   ڈھیروں کپڑے خرید کر اگلی پچھلی ساری کسر نکال دی تھی۔پھر دوسری منزل پر وہ لوگ جیولری کی خریداری کر رہی تھیں ۔

******

"شیر دل تم کیا خرید رہے ہو فنکشن کے لیے؟امرام نے پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے اسے پوچھا ۔۔۔

"لالہ تم ہی خرید لو مجھے کچھ خاص نہیں چاہیے اپنے لیے جو خریدو گے وہی میرے لیے بھی لے لینا ۔۔۔تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے اس شاپنگ سے کتنی چڑ ہے "وہ بیزاری سے گلاس ڈور کے پیچھے پڑے کرسٹل کے شو پیس کو دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"چلو میں ہی لیتا ہوں مگر کلر چینج لیں گے ۔پہلے ہی سب کو مسلہ رہتا ہے ہماری پہچان میں "امرام ہلکا سا مسکرایا۔

اسکی آنکھیں بھی مسکرائیں ۔۔۔

"کہاں لالہ میں نے اسی لیے اپنا ہئیر اسٹائل چینج رکھا ہے ۔کیونکہ تمہاری پہچان تمہارے آرمی ہئیر کٹ سے ہوتی ہے ۔

شیر نے اس کے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

"کاش آج آریان بھی ہمارے ساتھ ہوتا تو ہم تینوں ملکر ایک جیسی شاپنگ کرتے "شیر دل نے افسردہ سی سانس بھر کر کہا ۔۔۔۔

"ڈونٹ نو یار ۔۔۔وہ اس دنیا میں ہے بھی یا نہیں "امرام شیر نے شیر دل کے شانے پر ہاتھ رکھ کر ٹہرے ہوئے انداز میں کہا۔

شیر دل ،امرام شیر کو پیار سے لالہ کہتا تھا ۔کیونکہ وہ اس سے ایک منٹ بڑا تھا ۔ان میں سب سے بڑا آریان شیر تھا ۔۔۔

"لالہ میں زرا کیفے میں بیٹھتا ہوں ۔ایک کلائنٹ کو کال کرنی ہے ۔تم شاپنگ کرلو تو مجھے کال کردینا پھر ایک ساتھ واپس چلیں گے "شیر دل نے اسے کہا ۔

"اچھا ٹھیک ہے ۔بس یہ بتا دے کس کلر کا سوٹ لوں تیرا ۔۔۔؟امرام نے پوچھا ۔۔

"یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے "وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔۔شیر دل نے کہا ۔۔۔

"یار کبھی ڈارک بلیو سے ہٹ کر بھی کچھ پہن لیا کر "

"لالہ تو نے لینا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ رہنے دے "وہ منہ پھلا کر بولا ۔

"اچھا یار اتنا غصہ نا کر ۔۔۔لے لوں گا ۔۔۔

ویسے سن !!اس نے جاتے ہوئے شیر دل کو آواز دی ۔

"کسی لڑکی نے تو کہہ دیا کہ تجھ پہ غصہ بڑا سوٹ کرتا ہے ؟؟؟

امرام نے استہزایہ انداذ سے ہنس کر پوچھا ۔۔۔

"امرام لالہ !! اس نے اپنی نیلی آنکھوں کو بڑا کرتے ہوئے گُھرکا ۔۔۔

غصے میں ایک سیر تو دوسرا سوا سیر تھا ۔۔۔مگر ان دونوں کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی ۔

آج چاندنی اور کوٹھے کی کچھ لڑکیاں خریداری کے لیے باہر نکلیں ہوئیں تھیں۔۔۔

پھر جلد ہی چاندنی وہاں کے ماحول کے مطابق زرق برق لباس دیکھ کر تھک گئی تھی اور اس کا سانس بھی پھولنے لگا تھا۔وہ اسی مال کی نچلی منزل پر ایک کیفے ٹیریا میں آگئیں تھیں۔اس کے ساتھ آئیں باقی لڑکیاں  ذرا ہٹ کر ایک میز پر بیٹھیں تھیں جہاں زیادہ لوگ نہیں تھے چاندنی اپنے لیے اورنج جوس لینے کاؤنٹر کی طرف چلی آئی تھی۔وہاں اور بھی لوگ تھے جو آرڈر لکھوا کر اپنی چیزیں لینے کے انتظار میں کھڑے تھے۔سب سے آخر میں اس کی باری آئی تھی۔وہ تین اورنج جوس بتا کر کلچ میں سے پیسے نکالنے لگی۔کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے آدمی نے ایک ٹرے میں اورنج جوس کے گلاس رکھ کر اس کے سامنے رکھے۔وہ پیسے دے کر ٹرے اٹھانے ہی والی تھی کہ ایک آواز نے اس کے ہاتھوں کو رکنے پر مجبور کر دیا تھا۔

"سنو لڑکی !"یہ کسی لڑکے کی آواز تھی 

۔غصے کا شدید ابال اس کے دل میں اٹھا تھا۔یہ کس نے اسے یوں پکارا تھا ۔؟اس کی اتنی جرات!...جب بھی وہ باہر نکلتی تھی لڑکے یونہی اسے کے حسن سے مرعوب ہوکر اس سے فری ہونے کی کوشش کرتے  وہ تو اس چھچھورے پکارنے والے کو چھوڑے گی نہیں۔اس نے سوچا ۔۔وہ طیش میں آکر پلٹ گئی اور سامنے کھڑے اس خوبرو نوجوان کو دیکھ کر وہ چپ کی چپ رہ گئی تھی اور جو کچھ اس لڑکے کو سنانے کیلیے اس نے زہن میں اکٹھا کیا تھا وہ سب بھک سے اڑ گیا تھا۔وہ لڑکا اس سے چند قدم دور کھڑا دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

چاندنی نے ایک اچٹتی ہوئی نظر اس پر ڈالی۔

ٹھیک ہے... وہ لڑکا بہت ہینڈسم ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ اسے سر راہ چھیڑنے کی اجازت دے سکتی ہے ۔کتنے لوگوں نے سنا ہو گا ۔کیا عزت رہ گئی ہو گی اس کی۔دماغ کو کچھ ہوش آیا تو اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا لیکن شکر تھا کسی کا دھیان نہیں پڑا تھا۔اس سے پہلے کہ تماشا بنے اس نے لڑکے کو اگنور کر کے یہاں سے نکلنے کی کی تھی۔لیکن وہ لڑکا چلتا ہوا اس کے قریب آ گیا۔۔۔

"تمہارا نام کیا ہے؟......"اس لڑکے نے دو قدم کے فاصلے پر رک کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے سپاٹ انداز میں پوچھا۔چاندنی کو اس کی جرات پر مزید غصہ آیا تھا۔اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا جوس والا ٹرے   گلاس سمیت اس لڑکے کی جانب اچھال دیا۔وہ لڑکا اس کے ارادے کو بھانپ چکا تھا اس لیے بروقت ایک طرف ہو گیا۔۔ارد گرد چلتے لوگ ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔اب لڑکا اسے خشمگیں نظروں سے گھور رہا تھا جب کہ وہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہوئی تھی۔سب لوگوں کی نظریں اس پر تھیں۔بس وہ سب لوگوں کے سامنے اپنا تماشا نہیں بنوانا چاہتی تھی ۔۔۔  

"کیا ہوا مس؟.....یہ آپ کو چھیڑ تو نہیں کر رہا؟"ایک لڑکے نے اس کے قریب آتے ہوئے پوچھا۔

یہی کوئی بزرگ کو تنگ کر رہا ہو تو کوئی آگے نہیں آتا مدد کے لیے مگر حسین لڑکیوں کی مدد کے لیے سب دوڑے چلے آتے ہیں۔

"بھئی ایک شوہر اپنی بیوی کو کیوں چھیڑے گا ۔۔۔بھائی جاؤ یہاں سے یہ ہم میاں بیوی کے بیچ کا معاملہ ہے ۔ناراض ہے میرے گھر والی اسے ہی منانے کی کوشش کر رہا ہوں اور آپ ایسے خواہ مخواہ کباب میں ہڈی بننے آگئے"وہ لوگوں کی طرف دیکھ کر چہرے پر غصہ لاتے ہوئے کہہ رہا تھا اور چاندنی تو ہونقوں کی طرح منہ کھولے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔لوگوں کو جب سمجھ آئی کہ یہ لڑکی تو اس کی بیوی ہے تو ان کے چہروں کے تاثرات کچھ ڈھیلے پڑے تھے ورنہ آج اس لڑکی نے اس کی دھلائی کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔لوگوں کی طرف سے مطمئن ہو کر وہ چاندنی کی طرف متوجہ ہوا تھا جو ابھی تک بے یقین سی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

سارا ہجوم چھٹ گیا ۔۔۔

"یہ کیا بکواس کی تو نے چھچھورے ؟"وہ دانت کچکچاتے ہوئے اس کے سر پہ چڑھ دوڑی ۔

"کونسی بات ؟..... تمہیں اپنی  بیوی کہنا؟"امرام شیر نے سکون سے ابرو اچکا کر پوچھا تھا۔یعنی اتنا کچھ غلط کرکے بھی اسے کوئی ملال نہیں تھا۔

"خود کو سمجھنے کیا ہو تم ہاں؟....تم جو کچھ بھی کرو میں چپ کر کہ تمہاری بکواس سنتی جاؤں گی ۔؟ ۔"وہ انگلی اٹھا کر چلائی تھی۔اور لڑکے نے اپنی مسکراہٹ کو بمشکل روکا تھا۔

"میں نے کیا غلط کیا ہے جو تم اس طرح مجھ پر بھڑک رہی ہو؟.....مجھ پر جوس کا گلاس پھینک کر تم نے سب لوگوں کو متوجہ کر لیا تھا اب اگر میں وہ سب نہ کرتا تو سوچو تمہاری کتنی بے عزتی ہوتی۔"

"تم نا چھچھورے پن سے بعض آجاؤ  ۔۔۔۔وہ اور بھڑکی ۔۔۔

"دفعہ کر چاندنی تو بھی کس ایرے غیرے کے منہ لگتی ہے "

وہ سر جھٹک کر مڑی ۔۔۔سامنے ہی نیلم بائی کھڑی تھی ۔جو کب سے اس پہ نظر رکھے ہوئے تھی ۔۔۔۔چاندنی نے وہاں سے بھاگ جانے کا سوچا مگر نیلم بائی کی عقابی نظروں سے بچ کر نکلنے کا موقع ہی نہیں مل رہا تھا ۔۔۔

"میری بات تو سنو "امرام شیر نے چاندنی کو پیچھے سے ہانک لگائی۔۔۔۔وہ اس کے پیچھے بھاگا کہ کسی سے زوردار ٹکر ہوئی ۔۔۔۔

I am sorry"

امرام شیر نے ٹکر لگنے والے سے کہا ۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔۔

"مقابل نے بھاری آواز میں کہا ۔۔ 

امرام شیر نے اسے دیکھنا چاہا کہ وہ کون تھا ۔۔۔

مگر ٹکر لگنے والے انسان کی پشت تھی اسکی طرف اور وہ دیو ہیکل انسان  براؤن شال اپنے گرد لپیٹے وہاں سے سرعت سے نکل گیا ۔۔۔

 چاندنی امرام شیر کی آواز ان سنی کرتی ہوئی تیز رفتار قدموں سے چلتے ہوئے وہیں چلی گئی جہاں باقی لڑکیاں تھیں ۔۔۔اسے پتہ تھا کہ نیلم بائی اسے وہاں سے کسی صورت فرار ہونے نہیں دے گی ۔۔۔

"اے صاب تم اس لڑکی کا پتہ چاہتے ہو "؟

ایک ٹپوری ٹائپ لڑکے نے اس سے پوچھا جو اپنے فوجی ہئیر کٹ میں انگلیاں پھیر رہا تھا ۔۔۔

"ہممم بتاؤ ۔۔۔۔

"صاب پیسہ لگے گا "

اس نے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے خباثت سے کہا ۔۔۔۔

امرام شیر نے ایک نیلا نوٹ اسکی ہتھیلی پہ رکھا ۔۔۔

"اب بولو "وہ سپاٹ آواز میں بولا۔۔۔

"صاب یہ چاندنی ہے۔نیلم بائی کے کوٹھے پہ ملے گی ۔۔۔میرا چاچا اس کو ناچ سکھانے جاتا ہے "

"ہمممم ٹھیک ہے ۔۔۔"وہ آہستگی سے سوچتے ہوئے بولا ۔۔۔

اسے چاندنی سے پہلی ملاقات کا منظر اپنی آنکھوں کے سامنے گھومتا دکھائی دیا ۔۔۔

وہ اس لڑکے سے پتہ لے کر آج سکندر خان بن کے نیلم بائی کے کوٹھے پر آیا تھا ۔۔۔نیلم بائی کو کچھ دیر میں اس کی منہ مانگی قیمت مل چکی تھی لیکن پھر بھی وہ اسکے رویے سے ڈری اور سہمی  ہوٸی تھی۔ آج پہلی بار سہی معنوں اسکا سامنا کسی مرد سے ہوا تھا ورنہ اس سے پہلے جتنے بھی مرد آتے تھے وہ اس کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے تھے لیکن یہ پہلا شخص تھا جس کے سامنے وہ خود بھیگی بلی بی ہوٸی تھی ۔اسے اتنی رقم مل چکی تھی  جس سے وہ ساری عمر عیش کر سکتی تھی۔۔۔۔! 

"اب چاندنی کو میرے حوالے کردو "امرام شیر نے سپاٹ انداز میں کہا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

آج کا دن خان حویلی میں ہزاروں خوشیاں لے کر طلوع ہوا۔۔ خان حویلی میں جشن کا سماں تھا۔۔۔ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی رنگ برنگے ملبوسات پہن کر لڑکیاں ادھر سے ادھر گھومتے ہوئے ہنسی ٹھٹھولے کرتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی ۔اور لڑکوں کی تو مہندی کے فنکشن کے حساب سے جھب ہی نرالی تھی ۔۔۔۔

احتشام کو فوٹو گرافی کا بہت شوق تھا وہ ہر فنکشن کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرتا تھا آج بھی وہ اپنا کیمرہ لیے حویلی کے لان میں گھوم رہا تھا اور حسین مناظر کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں قید کر رہا تھا ۔۔۔۔

آیت تم تیار ہوگئی "؟

رمشاء نے دروازہ کھول کر  آیت سے پوچھا ۔۔۔

Wow you are looking so stunning.

اس نے ستائشی نظروں سے آیت کا دیکھ کر کہا ۔۔۔

 تاکہ پھر رسم بھی کرلی جائے۔

آج تو مومن بھائی آپ کو دیکھتے ہی فدا ہو جائیں گے یہ نا ہو آج ہی رخصتی کروا لیں "وہ اسے چھیڑتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔۔۔  

آیت نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔

"وہ جناب تو پتہ نہیں کونسے عشق کے پاٹ پڑھ چکے ہیں اور اب مجھے بھی پڑھانے کے چکروں میں کیا بتاؤں تمہیں لڑکی ) وه دل میں سوچنے لگی

"تم بھی کچھ کم نہیں لگ رہی میرے بھائی اعیان کی بھی نظریں تم سے ہٹیں گی نہیں "جوابا آیت نے بھی اپنی ہونے والی بھابھی کو شرارت سے کہا۔

"کہاں وہ تو میرے طرف ٹھیک سے دیکھتا بھی نہیں "رمشاء کے دل میں نا معلوم سی ہوک اٹھی  ۔۔مگر وہ خاموش رہی ۔۔۔۔

"اسلام و علیکم !

"شادی مبارک "

ماھی بھاگ کر اندر آئی اور آیت کے گلے لگی ۔۔۔شاہ من دعا اور ماھی ابھی ابھی پہنچے تھے ۔۔۔۔تو وہ سیدھا بھاگ کر آیت سے ملنے آئی ۔۔۔

"لڑکے والے بھی مہندی کے کر آگئے ہیں "چلو نا آیت آپی آپ بھی اپنی مہندی آتے ہوئے دیکھو ۔۔۔قسم سے مومن بھائی کیا لگ رہے ہیں "ماھی نے چہکتے ہوئے کہا ۔۔۔

"ڈانٹ پڑوانی ہے مجھے سب سے "آیت نے گھبرا کر کہا ۔۔۔

"اچھا آیت تم نا یہاں ونڈو سے چھپ کر دیکھ لو بھئی ہم تو چلے نیچے "رمشاء ، ماھی کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کی طرف بھاگی ۔۔۔۔

"ویلکم ٹو خان حویلی !

احتشام نے کیمرہ پکڑ ویڈیو بناتے ہوئے ساتھ ساتھ کمپیئرنگ کا کام بھی سر انجام دے رہا تھا ۔۔۔۔

یہ ہیں اس گھر کے سب سے بڑے بیٹے شیر زمان۔۔۔ہمارے بڑے پاپا جو اس فیملی کے موسٹ ہینڈسم نوجوان ہیں۔اور انکے ساتھ انکی حسین وائف ہیر انکی لٹل وائفی ۔۔۔

شیر زمان نے ابرو اچکا کر اسے دو انگلیوں سے کمیرہ پیچھے کرنے کا اشارہ دیا ۔۔۔

مگر ہمارے بڑے پاپا زرا کیمرے کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں ۔وہ اپنی سبکی مٹاتا ہوا بولا ۔

"ان سے ملیے یہ ہیں  زیان خان ہمارے چھوٹے پاپا ۔۔۔اور انکے ساتھ ہیں انکی سلجھی ہوئی زوجہ محترمہ جنت زیان جی ۔۔۔

زیان نے نرم سی مسکراہٹ سجا کر ہلکا سا ہاتھ ہلایا ۔۔۔

"یہ ہیں موسٹ فیورٹ اینڈ رومینٹک پرسن آف خان حویلی ضامن دی گریٹ ۔۔۔ان کے نام کے ساتھ بڑے یا چھوٹے پاپا لگانا سختی سے منع ہے ۔۔۔۔اور انکی عیش گینگسٹر ۔۔۔

ضامن نے آنکھ ونگ کرتے ہوئے  ۔۔۔مسکرا کر دیکھا ۔۔۔

آئیے دوستو ان سے ملیں یہ ہیں ہمارے سب سے چھوٹے پاپا شاہ من جی ۔۔۔جو اس خان حویلی کے سب سے شریف مردوں میں سے ایک ہیں "اور انکے ساتھ انکی پیاری سی بیوی دعا 

شاہ من نے کیمرے کی طرف دیکھ کر عاجزی سے ہلکا سا سر جھکا کر اٹھایا ۔۔۔ 

"اور ادھر آئیے یہ دیکھیں ہمارے موسٹ ہینڈسم پائلٹ حسام چچا جان ۔اور زائشہ چچی ۔۔۔

حسام نے کیمرے کی طرف دیکھ کر ایک مسکراہٹ اچھالی ۔۔۔۔

"ان سے ملیے جن کی وجہ سے ہم نے اس دنیا میں قدم رنجہ فرمایا ۔۔۔مائی ڈئیرسٹ مام اینڈ ڈیڈ ابتسام شہریار ۔۔۔۔اور 

اس نے اپنے ڈیڈ کے شانے پہ سر رکھ کر کہا پھر تینوں کا پوز بنایا ۔۔۔کر کمیرے کی آنکھ میں مقید کر لیا ۔۔۔

چلیں جی یہ تو ہوگئے سب بڑے بزرگ اب باری ہے آپ کو اس فیملی کی نیو جنریشن سے ملوانے کی ۔۔۔۔

یہ دیکھیں لڑکے والے مہندی لے کر آگئے ہیں۔اور لڑکی والوں نے پارٹی بدل لی ہے ۔۔۔اس کا اشارہ امرام شیر اور شیر دل کی طرف تھا جو اب مومن کے ساتھ اندر آرہے تھے ۔۔۔۔

مومن درمیان میں بلیک کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس گردن میں گول گھما کر زرد رنگ کا پٹکا پہنے ہوئے تھا ۔۔۔

جبکہ شیر دل ،امرام شیر تینوں نے ایک طرح کی شلوار قمیض پہن کر گلے میں پٹکے ڈال رکھے تھے ۔۔۔۔صرف پٹکوں کا رنگ مختلف تھا ۔۔۔۔

امرام کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔

شیر دل کا چہرہ سپاٹ تھا ۔۔۔جبکہ مومن کی خوشی کا اندازہ اس کے چہرے سے لگایا جا سکتا تھا اسکے چہرے سے مسکراہٹ ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔

"یہ ہیں ہمارے دلہا صاحب مومن دی گریٹ ۔۔۔۔

مومن نے کیمرے کی طرف دیکھ کر دو انگلیوں کو لبوں سے لگاتے ہوئے فلائنگ ِکس اچھالی ۔۔۔۔

سب اپنی اپنی نشستوں پہ براجمان ہوچکے تھے ۔۔۔۔

"یار تو کدھر غائب تھا ۔۔۔احتشام نے اعیان سے پوچھا ۔۔۔

"بس یار کیا بتاؤں "وہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے مسکرا کر بولا ۔۔۔

"سالے میری بہن سے تیرا رشتہ نا ہوا ہوتا تو تیرا منہ توڑ دیتا ۔۔۔۔احتشام نے اعیان کو موبائل میں مصروف دیکھا تو چڑ کر کہا ۔۔۔

"ابے سالا میں نہیں تو میرا بننے والا ہے ۔۔مگر میں ایک بات سوچ رہا ہوں ۔

اعیان موبائل سے سر اٹھا کر اب احتشام کے شانے پہ بازو رکھ کر بولا ۔۔۔

"سچ سچ بتا تیرے دماغ میں کیا خرافات چل رہی ہیں ؟

احتشام نے اس کا بازو جھٹک کر پوچھا ۔۔۔

"یار جلد ہی سب کو پتہ چل جائے گا ڈونٹ وری "

وہ احتشام کا شانہ تھپتھپاکر کر دوسری طرف بڑھ گیا جہاں لڑکیوں کا ہجوم جمع تھا ۔۔۔۔

منساء اور رمشاء آیت کو لے کر نیچے اتر رہی تھیں ۔۔۔ماھی اور زخرف بھی ان کے ساتھ ہوگئی ۔۔۔

ہانیہ جو اپنے بھائی مومن کی مہندی لے کر آئی تھی اپنی بھابھی کو دیکھ کر فورا آگے بڑھی اور اسے مومن کے ساتھ بٹھایا ۔۔۔۔

اعیان کی نظر جب ہانیہ ضامن  پہ پڑی تو پلٹنا بھول گئی ۔۔۔۔

وہ ہلکے پیلے اور ہرے رنگ کے شرارہ میں ملبوس لائٹ سے میک اپ میں اپنے جلوے بکھیر رہی تھی ۔۔۔۔

سب آکر باری باری مہندی کی رسم ادا کر رہے تھے ۔۔۔۔

سامنے سٹیج بنایا گیا تھا ۔۔۔

لان میں ایک طرف گدے بچھا کر ان پہ کشن رکھے گئے تھے اور دوسری طرف گول میز لگا کراسکے گرد کرسیاں لگائی گئیں تھیں کھانے کے لیے ۔۔۔۔

اعیان ایک کرسی پہ بیٹھ گیا اور کچھ سوچنے لگا ۔۔۔۔

سب لڑکیوں نے پیلے اور مختلف امتزاج کے شرارے پہن رکھے تھے ۔۔۔سبھی اپنی جگہ بہت پیاری لگ رہی تھیں ۔۔۔

آج مہندی کے ساتھ ہی نکاح کا فریضہ بھی سر انجام دیا جانا تھا تاکہ کل صرف رخصتی ہو جائے ۔۔۔۔

مولانا صاحب آ چکے تھے ۔۔۔

کچھ ہی دیر میں آیت اور مومن کے نکاح کا فریضہ انجام دیا گیا۔۔۔۔

سب نے ان دونوں کی دائمی خوشیوں کے لیے دعا کی ۔۔۔۔

وہ دونوں ایک ساتھ پھولوں سے سجے ہوئے جھولے پہ بیٹھے تھے۔۔۔آیت اپنے دونوں مہندی سے مزین ہاتھوں کو گود میں دھرے نظریں جھکائے ہوئے بیٹھی تھی ۔

"مبارک ہو جان مومن "سب ادھر ادھر ہوئے تو مومن نے موقع دیکھ کر آیت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔

ایک تو مومن کا یوں پہلی بار اسکا ہاتھ تھامنا اور پھر اسکا یہ انداز آیت کی جان نکال گیا ۔۔۔۔اس کی ہتھیلی پل بھر میں پسینے سے شرابور ہوئی ۔۔ 

جسم کپکپانے لگا ۔۔۔

آیت نے نظر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔مگر وہ نظر بھر کہ اسے دیکھ ہی نا پائی مومن کی آنکھیں جو جذبے لٹا رہی تھیں ۔۔۔ان کی تاب لانا آیت کے بس سے باہر تھا ۔۔۔۔

"کیسی ہو ؟اس نے آہستگی سے پوچھا ۔۔۔

"ممم۔۔م۔ ٹھیک ہوں ۔۔تم ۔۔۔میرا مطلب آ۔۔۔آپ کیسے ہیں "؟

اس نے ہچکچا کر پوچھا ۔۔۔

"یار اتنی فارمل کیوں ہو رہی ہو ؟؟؟

"ویسے ہی بات کرو نا جیسے پہلے رعب سے کرتی تھی ۔۔۔

"مومن اگر تنگ کیا نا تو تمہارا منہ توڑ دوں گی "وہ اسی کی نقل اتارتے ہوئے مسکرا کر بولا ۔۔۔

"مجھے کیا پتہ تھا کہ تم میرے بارے میں ایسا سوچتے ہو "وہ چہرے کا رخ پھیر گئی ۔۔۔

مومن اپنے انگوٹھے سے اس کے ہاتھ کی بیرونی سطح کو سہلا رہا تھا ۔۔۔

آیت کی تو جان ہوا ہو رہی تھی اسکے عمل سے ۔۔۔۔

"اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں ؟مومن نے سرگوشی نما آواز میں کہا۔۔

"نن ۔۔۔نہی۔ نہیں میں تو نہیں گھبرا رہی ۔۔۔

مومن اس کی کپکپاہٹ کو محسوس کر چکا تھا ۔۔۔

ہمیشہ اس پہ حکم چلانے والی آج اس کے سامنے بھیگی بلی بن بیٹھی تھی ۔۔۔

"ری لیکس آیت ۔۔۔ہم اب ایک دوسرے کے محرم بن چکے ہیں۔اور اس سے پہلے اچھے کزن اور دوست بھی تو ہیں۔

"میں نہیں جانتا کب یہ دل آپکے نام پہ دھڑکنے لگا ۔۔۔بس یہ آنکھیں آپ کے دیدار کو ترسنے لگیں ۔۔۔دل نے مچل مچل کر یہی کہا کہ اس آیت کو آیت کی طرح اپنے سینے سے لگا لوں "

مومن نے اس کے ہاتھ پہ دباؤ مزید بڑھایا ۔۔۔

اس کی بات سن کر آیت کا چہرہ تمتمانے لگا ۔۔۔۔

اس نے اپنا ہاتھ مومن کی گرفت سے آزاد کروایا ۔۔۔

مومن نے مسکرا کر اس کی جھجھک دیکھی ۔۔۔

آیت ابھی پہلی بات ہی ہضم نا کر پائی تھی کہ اسے اپنی کمر کے گرد پیچھے سے مومن کا سرسراتا ہوا ہاتھ محسوس ہوا تو اس کے تن بدن میں برقی رو دوڑ گئی۔۔۔۔

"جان مومن !بندہ خاکسار آپ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔اور آپ کو بھی خود سے محبت کرنے کی مجبور کردے گا ۔ایک بار ہماری ہمراہی میں آئی گی تو خودی محبت کرنا سیکھ جائیں گی "وہ خمار زدہ آواز میں اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔۔۔۔

آیت کا تو سارا خون سمٹ کر جیسے چہرے پہ اتر آیا ۔۔۔۔

"رات کو میرا انتظار کرنا "

آیت نے اسکی بات پہ حیرت انگیز نظروں سے اسے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔

"یہ۔۔۔آ۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟؟

"اب نکاح ہوا ہے تو سوچا ٹھیک سے مبارکباد تو دینی بنتی ہے ۔

"مم۔مگر ۔۔سب ۔۔۔

"کسی کی فکر مت کرو ۔میں ہوں نا "وہ انکھ ونگ کیے بولا ۔۔۔۔آیت سٹپٹا کر نظریں چرا گئی۔۔۔۔

وہ کھکھلا کر ہنسا اس کی غیر ہوتی ہوئی حالت پہ ۔۔۔

"میں نے سوچا رخصتی سے پہلے ایک ڈیمو ہوجائے ۔۔۔۔تاکہ کل میری شدتوں کے لیے آپ اپنے آپ کو ذہنی طور پر اچھے سے تیار کرلیں ۔۔۔۔کیونکہ کل میں کوئی بہانہ سننے نہیں والا ۔۔۔۔

آیت کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اسکی بے باک باتوں پہ ۔۔۔نجانے وہ اکیلے میں اس بے باک انسان کا سامنا کیسے کر پائے گی ۔۔۔۔

سوچ سوچ کر اسکا دماغ ابھی سے ماوف ہونے لگا ۔۔۔

""کیسی لگ رہی ہوں "؟

زخرف امرام شیر کے پاس آکر چہکتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔۔۔

وہ جو موبائل میں مصروف تھا ۔۔۔سرسری سی نظر اٹھا کر دیکھا وہ آنکھوں میں بے شمار جذبات لیے کھڑی تھی ۔۔۔

امرام شیر اپنی اس کزن کے جذبات سے بخوبی واقف تھا ۔۔۔مگر اس نے کبھی بھی اسے بڑھاوا نہیں دیا تھا ۔۔ 

"ہم ۔۔ٹھیک "وہ پھر سے موبائل پہ نمبر پریس کرنے لگا ۔۔۔

"ویسے آپ بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں اس شلوار قمیض میں۔۔۔سچی "وہ اٹھلا کر بولی ۔۔۔

امرام نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں دیکھا ۔۔۔

"آپ نے تو میری تعریف کی نہیں تو میں نے سوچا میں ہی آپ کی کردوں۔یہ دیکھیں میری مہندی کا رنگ کتنا گہرا آیا ہے ۔۔کہتے ہیں اس کا لائف پارٹنر کے گہرے پیار کی نشانی ہے مہندی کا گہرا رنگ آنا  "

"زخرف جاؤ یہاں سے ۔۔ اور اپنا کام کرو ۔۔۔کتنی بار سمجھاؤں کہ مجھے تمہاری یہ بچگانہ حرکتیں سخت نا پسند ہیں "

"اس سے پہلے کہ میں آؤٹ آف مائنڈ ہوجاوں ۔۔۔

Just go....

وہ کرخت آواز میں بولا۔۔۔

"Cool Lala....

شیر دل نے آکر امرام کے شانے پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔

زخرف کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔۔۔۔اپنی توہین کے احساس سے ۔۔۔وہ اپنا شرارہ سنبھالتے ہوئے اندر کی طرف بھاگ گئی ۔۔۔

"کیا کول یار ؟ 

"یہ لڑکی ہر وقت میرا دماغ چاٹنے پہنچ جاتی ہے۔کتنی دفعہ منع کر چکا ہوں مگر سمجھتی نہیں ۔۔۔۔

امرام شیر درشتگی سے بولا ۔۔۔

"پھر بھی لالہ آپ کو اس سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی ۔۔۔۔

"کیا کروں یار بس غصہ آجاتا ہے اس کی فضول باتوں پہ ۔وہ جھنجھلا کر بولا ۔۔۔

بچپن سے جس کے خواب دیکھے تھے وہ یوں اس کی ذات کی نفی کر کہ اسے ٹھکرائے گا یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔۔۔وہ اس کے روئیے سے بری طرح ٹوٹ گئی تھی اور روتے ہوئے ایک کمرے میں آئی ۔۔۔

روتے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔۔رویا ہوا متورنم  چہرہ شہابی گال ۔نم سیاہ غزالی آنکھیں ،سرخ و سفید رنگت،کمر پہ جھولتے ہوئے ریشمی بال ۔کمی تھی تو صرف اس کے قد کاٹھ میں کہاں وہ چھ فٹ سے نکلتا ہوا دراذقد کسرتی بدن والا امرام شیر ۔۔۔اور کہاں وہ پانچ فٹ دو انچ کی کمزور سی جسامت والی زخرف اسکے سامنے تو بالکل بچی معلوم ہوتی ۔۔۔کہیں سے بھی وہ اس کے ساتھ فِٹ نہیں ہوتی تھی ۔۔۔آج اس نے چار انچ کی ہیل بھی پہنی تھی مگر پھر بھی وہ بمشکل امرام شیر کے سینے تک پہنچ پائی تھی ۔۔۔

"تو کیا وجہ ہے۔ان کی ریجکشن کی ؟؟؟

کہ میں ان کے ساتھ میچ نہیں کرتی ۔۔۔ احساس کمتری سے اس کے رونے میں اور شدت آگئی ۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اس کا نام کھوجنے لگی ۔۔۔مگر آنسوں کی وجہ سے سب کچھ دھندھلا گیا ۔۔۔۔

ہانیہ مٹھائی لینے کچن میں آئی تو اچانک کسی نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے دیوار سے لگایا ۔۔۔

وہ اس افتاد کے لیے تیار نا تھی ۔۔۔اس لیے سراسیماں نظروں سے مقابل کو دیکھنے لگی ۔۔۔

"ا ۔ اعیان ۔۔۔بھائی آپ ؟؟.اس نے پھولی ہوئی سانسوں سے کہا ۔۔۔۔

"یار یہ بھائی کا ُدم چھلا لگا کر سارے موڈ کا ستیا ناس مار دیا ۔۔۔

"اچھا چلو چھوڑو جب رشتہ بدل جائے گا تو خودی بھیا سے سیاں جی بولنے لگو گی "

وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو دیوار سے لگائے مسکرا کر بولا ۔۔۔

"یہ ۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟؟.اس کی آواز میں حیرت واضح تھی ۔۔۔

"وہی جو مسسز اعیان ٹو بی نے سُنا "وہ اسکے چہرے پہ جھولتی ہوئی اکلوتی لٹ کو پھونک مار کر نرمی سے بولا ۔۔۔

"م۔۔۔مگر آپ کی شادی تو رمشاء سے ۔۔۔طے ہے "اس نے جھجھکتے ہوئے کہا اور اس کی گرفت سے اپنی کلائیاں آزاد کروانی چاہیں۔۔۔

"یہ اعیان کی گرفت ہے اتنی آسانی سے نہیں چھوٹے گی ۔۔۔تو یہ بودی سی کوشش بے کار ہے ۔۔۔۔میری بات دھیان سے سنو اور اسے اپنے اس ننھنے سے دماغ میں بٹھا لو ۔۔۔۔

وہ اس کی کنپٹی پہ انگلی رکھ سپاٹ انداز میں بولا۔

"تم صرف اعیان کی ہو ۔۔۔۔اعیان جسے اپنی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جسے جگہ دے گا وہ تمہارے علاؤہ کوئی اور نہیں ہوگا ۔۔۔مجھے صرف تم سے محبت ہے ۔اور مجھے اسے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں صرف تمہیں چاہتا ہوں ۔تمہیں حاصل کر کہ ہی رہوں گا اس کے لیے چاہے مجھے کسی سے بھی لڑنا پڑے یا کسی کی بھی مخالف مول لینی پڑے ۔۔۔۔اعیان تمہیں اپنا بنا کر ہی رہے گا ۔۔۔

"مگر ۔۔۔اعیان ۔۔۔بھا ۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے درمیان میں رکی ۔۔۔

"رمشاء ۔۔۔؟؟؟

"اسے چھوڑو ۔۔۔اپنی بات کرو مجھ سے "

تم کیا کہتی ہو میرے بارے میں  ؟؟؟

"کیسا لگتا ہوں میں تمہیں۔ٹھیک سے دیکھ کر بتاؤ نا یار؟؟؟ اب اتنا بھی برا نہیں ہوں میں  "

وہ اس کے بالوں کی لٹ کو انگلی میں گھما کر تھوڑا سا اپنی طرف کھینچتے ہوئے فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔

اعیان کا چہرہ اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ اپنی سانسیں روک گئی ۔۔۔۔

"سسس۔۔۔ہانیہ ضامن کے منہ سے ہلکی سی سسکی نکلی ۔۔۔

اس نے ایک تفصیلی نگاہ سامنے کھڑے ہوئے اعیان پہ ڈالی ۔۔۔۔مناسب قد ،مناسب مردانہ رنگت ،پرکشش نقوش،ایک بہترین ڈاکٹر ،

ہانیہ کو اسکی سانسوں کی تپش سے اپنا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہوا ۔وہ چاہ کر بھی اس کی نظروں کی  گرفت سے آزاد نہیں ہو پا رہی تھی ۔۔۔۔

"میرے دل نے کہا ۔۔۔بس بہت ہوگیا !

"آج موقع بھی ہے اور دستور بھی تو کیوں نا اپنی محبت سے کچھ باتیں کر لیں جائیں "

"کچھ ان کی سنیں کچھ اپنے دل کی سنائیں ۔وہ اس کے کان کے قریب آتے سرگوشی نما آواز میں بولا۔اسکے لب ہانیہ کے کان سے مس ہوئے تو اسکے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔

"آپ ۔۔۔آپ جائیں یہاں سے پلیز کوئی دیکھ لے گا "اس نے اپنے دونوں ہاتھ اعیان کے سینے پہ رکھ کر اسے پیچھے دھکیلنا چاہا ۔۔۔۔

"بس اتنا بتا دو کہ اگر میں ہمارے لیے سٹینڈ لوں تو کیا تم اس میں میرا ساتھ دو گی ۔۔۔۔

اعیان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔

ہانیہ کشمکش میں مبتلا ہو کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔ایک طرف اس کی کزن رمشاء کا مستقبل تھا ۔۔۔اور ایک طرف اعیان کی محبت کا اظہار ۔۔۔

اس نے کبھی اعیان کو اپنے کزن سے بڑھ کر کچھ اور نہیں سوچا تھا ۔۔۔مگر آج اس کے اظہار محبت نے اس کے دل میں سرشاری سی بھر دی تھی ۔۔۔۔وہ مخمصے کا شکار ہوئی۔۔۔۔

"اعیان اس کا انجام پتہ نہیں کیا ہوگا "وہ گھبرا کر بولی ۔۔۔

"جب پیار کیا تو ڈرنا کیا؟وہ بے خوفی سے بولا ۔۔۔

"میں نہیں کرتی آپ کرتے ہیں "وہ ادا سے بولی ۔۔۔

"میں تو کرتا کی ہوں جلد ہی تم سے بھی اظہار کروا کہ رہوں گا ۔۔۔مسسز ٹو بی ۔۔۔وہ دلکشی سے مسکرایا ۔۔۔۔

"ہم سے اظہار کروانا اتنا آسان ٹاسک نہیں "وہ اٹھلا کر بولی۔

"آسان ٹاسک ہمیں بھی پسند نہیں ۔۔۔انداز چیلنجنگ تھا ۔۔۔

"اسی لیے تو آپ کے لیے زمانے سے ٹکر لینے کو تیار بیٹھے ہیں۔صرف اک آپ کی ہاں کی دیری تھی ۔۔۔۔۔

"تو پھر ہاں سمجھوں ؟؟؟

وہ ابرو اچکا کر پوچھنے لگا ۔۔۔

"میں نے ایسا کب کہا "؟وہ بھی اسی کے انداز میں بولی ۔۔۔۔

"منساء لگتا ہے احتشام بار بار تمہاری ہی تصویریں لے رہا ہے "رمشاء نے اپنی بڑی بہن منساء کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔

"ہاں یار اب میں اتنی خوبصورت لگ رہی ہوں کہ اس کا کیمرہ بار بار میری طرف ہی متوجہ ہوتا ہے "منساء نے بھی شرارت سے جواب دیا ۔۔۔دونوں بہنیں کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔۔

منساء زرد اور سرخ رنگ کے شرارے میں ملبوس لائٹ سے میک اپ میں بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھی ۔خود پہ وہ کافی دیر سے احتشام کی نظروں کی تپش محسوس کر رہی تھی اور اب رمشاء نے اسے بتا کر اس کے وہم پہ سچ کی مہر لگا دی تھی۔اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا سامنے ہی کچھ فاصلے پہ احتشام اپنی بھوری آنکھوں سے اسے ہی دیکھنے میں محو تھا ۔منساء کا دل عجب تال پہ دھڑکا ۔۔۔اس نے فورا نظروں کا زاویہ بدل دیا۔۔۔

اس کے یوں نگاہیں چرانے پہ احتشام نے نظریں سکوڑ کر اسکی حرکت ملاحظہ کی ۔پھر مبہم سا مسکرایا ۔۔۔۔

منساء کے لیے اس کے دل میں جو عقیدت تھی وہ کسی کو نہیں بتا پایا تھا اب تک ۔۔۔مگر اب دوری ممکن نہیں تھی ۔۔۔وہ جلد از جلد اسے اپنا بنانے والا تھا ۔۔۔۔

"یہ زخرف کہاں گئی ۔۔۔۔"ماھی نے اسے نا پا کر رمشاء سے پوچھا ۔۔۔

"پتہ نہیں کافی دیر سے دکھائی نہیں دی ۔۔۔رمشاء اور منساء نے بیک وقت جواب دیا ۔۔۔

"اچھا میں اندر دیکھ کر آتی ہوں ۔۔۔۔

"ارے اعیان بھائی آپ اور ہانیہ یہاں اندر کیا کر رہے تھے "

ماھی جو اپنا شرارہ سنبھالتے ہوئے زخرف کو دیکھنے اندر جا رہی تھی ۔۔۔اعیان اور ہانیہ کو ایک ساتھ باہر نکلتے ہوئے دیکھ کر بولی ۔۔۔

"وہ ۔۔۔وہ ہم دونوں اندر سے مٹھائی لینے آئے تھے ۔۔۔ہانیہ نے بمشکل بات بنائی ۔۔۔۔

"تم کدھر جا رہی ہو ؟اعیان نے ماھی سے پوچھا ۔۔۔

"وہ میں زخرف کو دیکھنے جا رہی ہوں شاید اندر کسی روم میں ہو "

"اچھا "اعیان سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے ہانیہ کے پیچھے پیچھے چل دیا ۔۔۔

زخرف منہ ہاتھ دھو کر اپنا حلیہ درست کر چکی تھی ۔۔۔

"تم کہاں رہ گئی تھی ؟؟اور یہ منہ کیوں دھو لیا یار اتنی پیاری تو لگ رہی تھی ؟ماھی نے اسکی تھوڑی سے چھو کر کہا ۔۔۔۔

"آؤ باہر آیت کو مبارکباد دیں نکاح کی ",وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی ۔۔۔

"ماھی !! زخرف نے اسے ہولے سے پکارا ۔۔۔

"آیت اور مومن بھائی کتنے خوش قسمت ہیں نا ان کو ان کی محبت مل گئی ۔۔۔۔

وہ افسردگی سے چور آواز میں بولی۔

'ہاں یہ تو ہے "

ورنہ میری طرح بہت سے لوگ خالی دامن رہ جاتے ہیں جنہیں اپنی محبت نہیں ملتی "

"بابا مجھے ایک آفیشل کام سے جانا ہے رات میں لوٹ آؤں گا "امرام شیر نے میر کی کال ریسیو کرنے کے بعد شیر زمان سے کہا ۔۔۔

تو اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔

شیر زمان نے امرام شیر کو مین گیٹ سے باہر جاتے ہوئے دیکھا ۔۔۔

اس کی نیلی آنکھوں میں اک آس بھری تھی ۔۔۔۔کاش اسی دروازے سے کبھی آریان شیر زندہ سلامت لوٹ آئے ۔۔۔۔

فضا میں ہلکا سا میوزک سنائی دے رہا تھا ۔۔۔۔

کہ اعیان نے ڈی جے کو میوزک کی آواز اونچی کرنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

لڑکے والوں کی طرف سے امرام شیر۔شیر دل اور ہانیہ ہی تھے ۔۔۔۔

امرام تو اپنے کام سے نکل گیا تھا ۔۔۔شیر دل نے ڈانس کرنے سے معذرت کر لی ۔۔۔۔

بچی ہانیہ تو وہ میدان میں آئی اور لڑکی والوں کی طرف سے اعیان ۔۔۔۔

مہندی لگا کہ رکھنا ڈالی سجا کہ رکھنا ۔

لینے تجھے اوگوری آئیں گے تیرے سجناں ۔۔۔

سہرا سجا کہ رکھنا 

چہرہ چھپا کہ رکھنا 

یہ دل کی بات اپنے دل میں دبا کہ رکھنا ۔۔۔

اعیان اور ہانیہ دونوں اس گانے پہ ڈانس سٹیپس لینے لگے ۔۔۔سب لوگوں نے تالیوں کے زریعے ان کے ڈانس کو سراہا ۔۔۔۔

میں اک جوان لڑکا 

تو اک حسین لڑکی یہ دل مچل گیا تو میرا قصور کیا ہے ۔

رکھنا تھا دل پہ قابو یہ حسن تو ہے جادو ۔

جادو یہ چل گیا تو میرا قصور کیا ہے ...

مومن آیت کا ہاتھ پکڑ کر سٹیج سے نیچے اترا ۔۔۔

آیت نے اس سے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا ۔۔۔

اور نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔مگر مومن اسکے انکار کی پرواہ کیے بنا اسے درمیان میں لے آیا ۔۔۔

نکاح تو ہوچکا تھا اب ڈر کس چیز کا تھا اس نے اپنے مقام کا بھرپور فایدہ اٹھاتے ہوئے اسے سب کے سامنے پورے حق سے لے آیا ۔۔۔

راستہ ہمارا تکنا 

دروازہ کھلا رکھنا 

لینے تجھے او گوری 

آئیں گے تیرے سجناں۔

کچھ اور اب نہ کہنا ۔

کچھ اور اب نہ کہنا 

یہ دل کی بات اپنے دل میں دبا کہ رکھنا ۔۔۔

آیت نے شرما کر اپنے چہرے پہ دونوں ہاتھ رکھے ۔جبکہ مومن نے اس سب کے سامنے بانہوں میں بھر کر گول گھما دیا ۔۔۔

سب اس ینگ پارٹی اس کی جراءت پہ ہوٹنگ کرنے لگے ۔۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥

نہایت دقت سے آنکھیں وا کئیں۔۔۔ کچھ پل لگے تھے اسے ماحول سے مانوس ہوتے۔۔۔  لیکن سب یاد آتے ہی وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔ اسنے ہراساں نگاہوں سے ارد گرد دیکھا وہ اس جگہ کو دیکھا جس میں ایک خستہ ہال اور سیلن زردہ دیواروں کے حامل  کمرے میں وہ سخت پتھریلی زمین پر موجود تھی وہاں ایک پانی کا گھڑا موجود تھا جس پہ الٹا گلاس رکھا گیا تھا اس کمرے میں ایک بھی کھڑکی نہیں تھی جس سے ہوا اندر آجا سکے ۔۔۔  

وہ خوفزدہ نگاہوں سے کسی سہمی ہوئی ہرنی کی مانند  اردگرد دیکھ رہی تھی۔اسے وہ منظر یاد آیا جب ۔۔۔۔

چاندنی کو نیلم بائی نے ایک کروڑ روپے میں  بیچ دیا تھا۔۔۔ چاندنی تک جب یہ خبر پہنچی تو اس کے ہوش اڑ گٸے تھے۔وہ جو سمجھی تھی کہ سب ٹھیک ہوگیا تھا لیکن یہ اس کی بھول تھی۔۔۔۔۔۔وہ بِک چکی ہے یہ خبر سن کر وہ پھر سے پتھر بن گٸی تھی۔صدمے کا مارے وہ۔۔۔ روتے روتے ڈھے گٸی۔۔”اس کے احساسات و جذبات یہاں تک کے جسم بھی کسی اور کا ہو چکا تھا۔جس عورت کو اُس نے اپنی ماں سمجھا تھا اُسی نے ہی اِس کی بولی لگا کر اس کے احساسات و جذبات کی پرواہ کیے بغیر اس کی عزت نفس کو بیچ دیا تھا۔“اسے گھن آرہی تھی نیلم بائی جیسی مفاد پرست عورت سے جس کو اس نے کبھی ماں کا درجہ دیا تھا۔۔ کچھ دیر پہلے وہ بہت پرسکون تھی لیکن اب پھر اپنی قسمت پر ماتم کر رہی تھی۔۔!

”چاندنی! تم بہت خوش قسمت ہو۔۔جو یہاں سے نکل جاٶ گی،ہم تو پتا نہیں کتنی صدیاں یہاں پر اور سڑیں گی۔“ 

اس نے سوچا کہ ایک بار نیلم بائی کے کوٹھے سے باہر نکل جائے گی تو اس خریدار کے ہاتھوں سے بھی بچ کر کہیں دور چلی جائے گی ۔۔۔کسی ایسی جگہ جہاں لڑکیوں کے جسم کو نوچنے کھسوٹنے والے بھیڑئیے نا ہوں ۔۔۔۔

چنبیلی ہی اس کو پکڑ کر باہر لے آٸی تھی۔لیکن اس کے قدم من من بھاری ہوگٸے تھے،اس کو کوٸی ہوش نہیں تھا وہ تو بس اس کے ساتھ پتھر کی مورت کی طرح کھنچتی جا رہی تھی۔۔۔ ہال میں پہنچنے تک تو اس کے حواس بھی اس کا ساتھ چھوڑ گٸے تھے اس سے پہلے کہ وہ بے ہوش ہو کر زمیں بوس ہوتی، سکندر خان نے آگے بڑھ کر اس کو اپنی دونوں بانہوں میں بھر لیا۔اور

ایسے ہی اٹھا کر گاڑی تک لے کر آیا۔ میر نے جلدی سے بیک ڈور کھولا ۔۔ اس نے چاندنی کے بیہوش وجود کو سیٹ پر لٹایا اور پھر خود ہی ڈراٸیونگ سیٹ سنبھال کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔!

کمرے کا دروازہ کھلا چاندنی نے نظریں اٹھا کر دیکھا وہی شخص تھا ۔۔۔وہی جو اسے شاپنگ مال میں ملا تھا ۔۔۔وہی جو رات مجرے میں اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔کیا اس نے مجھ سے اس جوس گرانے کا بدلہ لینے کے لیے ایسا کیا ؟

"یا کوئی اور بات ہے ۔۔۔۔

"کیوں لائے ہو مجھے یہاں ؟؟؟" تکلیف دہ لہجے میں چیختے ہوئے بولی

سامنے موجود شخص پورے جاہ و جلال سمیت ایک ہاتھ پاکٹ میں پھنسائے کھڑا تھا ۔۔۔اس کی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔۔۔

میر اس کے پیچھے کھڑا تھا ۔۔۔

"آخر کیا دشمنی ہے تمہاری مجھ سے۔۔۔۔کیوں کیا تم نے ؟؟۔۔۔۔کون ہو تم۔۔لوگ ۔"؟؟

مسلسل اسکی خاموشی سے تنگ آکر چاندنی اونچی آواز میں چیخی۔۔۔

"اگر ہمارے سوالوں کا جواب ٹھیک دیا تو بچ جاؤ گی !!!"

"اگر جھوٹ بولا تو ۔۔۔۔

اسی سیل میں تڑپ تڑپ کر مرو گی ۔۔۔میر نے اسے سپاٹ انداز میں باور کروایا ۔۔۔

"کون ہو تم ؟اس سے پہلے کہ وہ امرام پہ غصے میں جھپٹتی ۔۔

امرام نے ایک زور دار طمانچہ اس کے سرخ متورم گالوں پہ دے مارا ۔۔۔

چاندنی لہراتی ہوئی اس پتھریلے فرش پہ گری ۔۔۔

اور حیرت زدہ نظروں سے سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

"یہ ہیں ہمارے میجر امرام شیر"

پیچھے سے میر کی استہزایہ آواز اس کے کانوں میں سنائی دی۔۔۔۔ 

"امرام !!!! 

اسکے لبوں کی پھڑپھڑاہٹ اتنی ہلکی تھی کہ وہ خود بھی اپنی آواز نہ سن سکی۔امرام شیر کہ چہرے پہ تمسخر اڑاتی مسکراہٹ تھی،

رات کے قریباً تین بج چکے تھے اور وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔فون پر کچھ دیر پہلے ہی مہندی کی ساری تصاویر احتشام نے اسے واٹس ایپ کی تھیں۔ جس میں آیت اور مومن دونوں ایک ساتھ بیٹھے بہت حسین دِکھائی دے رہے تھے ۔

چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے وہ کروٹ کے بل لیٹی فون کی سکرین پر نظریں جمائے ہوئے اسے ہی دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ اس کو کمرے کا  دروازہ کھلنے کی آواز بھی سنائی نہیں دی ۔۔۔

اس نے کہا تھا کہ وہ رات میں اسے ملنے آئے گا لیکن ابھی تک آیت کو اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔اسےاب شدت سے اس کی یاد آنے لگی تھی۔وہ سامنے ہوتا تھا تو ہر پل حسین لگتا تھا اور اس کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی وہ اداس سی ہو جاتی تھی۔وہ آج پہلی بار مان چکی تھی کہ مومن کے نہ ہونے پر وہ اسے مس کرتی ہے۔پہلے جب اس نے رشتہ بھجوایا تھا وہ بہت حیران ہوئی تھی کہ مومن آخر ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔وہ تو مجھ سے عمر میں چھوٹا ہے ۔وہ جب بھی اس سے پیار کا اظہار کرنے لگتا وہ بڑی بن کہ اسے ڈپٹ دیتی تھی ۔لیکن یہ بات تو اس نے سوچی ہی نہیں تھی کہ اگر پتھر پہ بھی مسلسل پانی پڑتا رہے تو اس میں بھی سوراخ ہوجاتا ہے۔۔۔بالکل اسی طرح مومن کی محبت نے اس کے دل میں بھی آہستہ آہستہ اپنے پنجے گاڑھ لیے ۔۔۔اس کے چلے جانے سے وہ اداس ہو جاتی اور پاس آنے سے گھبرا جاتی ۔۔۔یہ کیسی عجیب سی کیفیت تھی وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔ لیکن اب وہ بے بسی سے اعتراف کر رہی تھی کہ اس کے دل کو تبھی سکون ملے گا جب وہ مومن کو اپنے سامنے دیکھے گی اور وہ تھا کہ آ کے ہی نہیں دے رہا تھا۔نہ اُس سے پوچھ سکتی تھی کہ کب آؤ گے اور نہ کسی اور  سے شرم  کے باعث پوچھ سکتی تھی۔اگر وہ ایک دفعہ بھی مومن کو فون کر کہ پوچھتی کہ کب آؤ گے تو وہ اسے بہت تنگ کرتا ۔یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی تو پھر وہ کیا کرے۔دل بھی کہیں سکون لینے نہیں دے رہا تھا۔۔۔

اس کا رخ دوسری طرف تھا اور اس کے پیچھے ہی دروازہ تھا۔اس لیے وہ مومن کو کمرے میں داخل ہوتا نہیں دیکھ پائی ۔۔ وہ اپنی اور مومن کی مہندی کی تصویریں دیکھنے میں محو تھی ۔جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مومن اس کے قریب پہنچ گیا اور فون پر اپنی تصویر دیکھ کر بے اختیار اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔پھر کچھ سوچ کر فون اس کے ہاتھوں سے اچک لیا اور آیت تو اس اچانک افتاد پر بوکھلا کر رہ گئی ۔۔وہ جھٹپٹا کر پلٹی اور مومن کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔۔۔"اگر مومن کو پتہ چل گیا کہ میں اسے ہی یاد کر کہ اسکی تصویریں دیکھ رہی تھی تو ؟"یہ سوچ کر ہی وہ شرم سے پانی پانی ہوئی ۔۔۔

اور اب وہ فون مومن کے ہاتھ میں تھا لیکن اسے لگا کے مومن نے ابھی تک وہ تصویر نہیں دیکھیں ہوں گی اسی لیے اس نے مومن کے ہاتھ سے اپنا فون واپس کھینچنا چاہا ۔۔۔

"مومن میرا فون دو "

"ایسے نہیں خود آکر لے لو "مومن آگے بھاگا اور آیت اسکے پیچھے ۔۔۔۔وہ بیڈ کی دوسری طرف گیا تو آیت اسکے پیچھے گئی۔۔۔

مومن بیڈ پھلانگ کر دوسری طرف سے ہوکر واپس جانے لگا ۔۔۔آیت نے اس کے ہاتھ سے موبائل پکڑنے کے لیے اسکی 

 شرٹ کو پکڑنا چاہا ۔۔۔۔دونوں اس وقت بیڈ پہ کھڑے تھے ۔۔۔اسی دھینگا مشتی میں ان دونوں کا توازن بگڑا ۔آیت کمر کے بل گری تھی اور اس ڈر سے آنکھیں بند کر لیں کہ ابھی مومن بھی اس پر گرنے ہی والا ہے لیکن مومن نے اس کے دائیں بائیں بیڈ پر دونوں ہاتھ جما کر خود کو اس پر گرنے سے روک لیا تھا ۔۔۔

مومن کی گرم سانسیں اسے اپنے چہرے کے بہت قریب محسوس ہوئی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔وہ ریڈ شرٹ  جس کے پہلے دو بٹن کھلے تھے ۔۔۔وہ پہنے ہوئے تھا اس کے سیاہ بال پیشانی پہ بکھرے ہوئے تھے۔۔۔ وہ اسے آج بھی ہمیشہ کی طرح ہینڈسم لگا تھا۔وہ کچھ دیر بے یقینی سے اسے  دیکھتی رہی تھی اور وہ دلفریب سا مسکرا دیا تھا اور تب جا کر اسے کچھ ہوش آیا۔اس نے سٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھا۔

"تم مجھے ہی یاد کر رہی تھی۔؟"وہ فسوں خیز آواز میں اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے پوچھنے لگا تھا۔

"م۔۔۔میں ۔۔۔تو نہیں ۔۔میری یہ مہندی آپکا بہت  تابی سے انتظار کر رہی تھی ۔۔۔آپ نے کہا تھا نا کہ میں مہندی میں اپنا نام ڈھونڈھنے آؤں گا ۔"اس نے مہارت سے بات گھمائی ۔۔۔مگر سامنے بھی مومن تھا ۔۔۔

"آگر آپ کو میری یاد نہیں آئی اس مہندی کو آئی ہے تو میں اس مہندی بھرے بازوؤں سے ہی پیار کر کہ کام چلا لیتا ہوں۔"وہ اس کے بازوں کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے انہیں اپنے چہرے کے قریب کیے ان سے پھوٹتی حنائی مہک کو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا۔۔۔

مومن کا چہرہ اس سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اور اس کی کئی ہارٹ بیٹس مس ہوئیں  مومن کی جذبے لٹاتی ہوئی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ کچھ دیر کیلیے ایک الگ جہان میں پہنچ گئی ۔۔۔جہاں ان دونوں کے شوریدہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔

"نکاح مبارک "وہ سحر انگیز آواز میں بولا۔۔۔

اس مارکباد وصول کرتے کی آیت کی گھنی مژگانیں شرم سے جھک گئیں ۔۔۔

آیت نے خود کے جذبات پہ قابو پاکر اسے خود سے دور کیا ۔۔۔۔

اور موقع کا فایدہ اٹھاتے ہوئے اپنا موبائل چھین لیا۔۔۔۔ اور اسے آف کردیا ۔۔۔

مومن اس کے عمل پر مسکرا دیا تھا لیکن اسے پتہ تو چل ہی گیا تھا کہ وہ اُسی کی تصویریں دیکھ رہی تھی ۔۔۔

"آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ۔۔کسی نے دیکھ لیا تو سب کیا سوچیں گے ایک رات .."وہ بولتے بولتے اچانک رک گئی۔

"کہ ایک رات کا بھی صبر نہیں ہوا مجھ سے ؟"مومن  نے ابرو اچکا کر شرارت سے پوچھا تو وہ سٹپٹا گئی۔

"ہمممم"وہ نظریں چراتے ہوئے بولی ۔

"مجھے پتہ تھا تم مجھے مس کر رہی ہوگی اسی لیے آگیا "

وہ گردن ترچھی کیے  سٹائل سے بولا ۔۔۔

"خوش فہمی ہے جناب کی "وہ ہلکا سا مسکرائی کہہ کر ۔۔۔

"یار مجھ سے ایک رات تو کیا اب ایک لمحے کا بھی صبر نہیں۔ ہوتا ۔۔۔دل چاہتا ہے اپنی اس آیت کو تعویذ بنا کر اپنے گلے کا ہار بنا لوں جو ایک لمحے بھی مومن کے سینے سے جدا نا ہو "

وہ محبت سے چور آواز میں بولا اور اس کے گرد اپنی بانہوں کا حصار بنایا ۔۔۔

"ایسا کیا تھا تمہارے فون میں جسے دیکھ کر اتنی گم تھی کہ میرے آنے کا بھی پتہ نہیں چلا ۔"وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے جھٹکے سے اپنے ساتھ لگاتا ہوا پوچھنے لگا ۔۔۔

"پلیز۔۔۔دور ہٹ۔۔۔ہٹو ۔۔۔

چھوڑو مجھے ....وہ اسکی آہنی گرفت میں پھڑپھڑانے لگی۔۔۔۔

"جان ِ مومن آپ کومیری بے بسی دیکھ کر سکون ملتا ہے؟"

 وہ اس کے خوبصورت چہرے کے ہر نقش کو آنکھوں میں جذب کرتے ہوئے دھیمے سے لہجے میں بول رہا تھا اور آیت کا چہرہ شرمگیں مسکان سجائے ِکھل کر گلال ہوا ۔۔۔۔پلکیں لرزتی ہوئی جھک گئیں اور اب اسے اس بات کا کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔مومن اس کی حالت سے محظوظ ہوتا اس کے دہکتے ہوئے سرخ عارضوں پر اپنے عنابی لبوں سے چھو گیا ۔۔۔

وہ اسکی گرفت میں بری طرح کپکپا رہی تھی ۔۔۔

"جان ِمومن آپ پہ یوں بھیگی بلی بننا سوٹ نہیں کر رہا ۔۔۔۔"وہ اس کو پھر سے وہی بننے پہ مجبور کر رہا تھا جیسے وہ ہمیشہ اس سے پیش آتی تھی ۔۔

"جان ِمومن آپ مجھے دھمکیاں دے کر رعب جماتے ہوئے ہی اچھی لگتی ہیں ۔"وہ اس کی ٹھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر اس کا جھکا ہوا چہرہ اوپر کرتے ہوئے معنی خیز انداز میں بولا تو وہ ہلکا سا مسکرا دی۔

""آپکی اسی مسکان کو ہمیشہ یونہی سلامت دیکھنا چاہوں گا تاعمر ۔کبھی یہ مسکان ان لبوں سے جدا مت ہونے دیجیے گا۔"وہ اس کے گال پر لب رکھتے  ہوئے بولا ۔

آیت نے شرما کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا ۔۔۔

"جان مومن آج رات ہے آپکے پاس ساری شرمیں اسی کمرے میں کسی الماری کے خانے میں چھپا جائیے گا ۔۔۔کیونکہ میرے کمرے میں آنے کے بعد اس شرم و حیا کا کوئی کام نہیں رہے گا ۔۔۔۔"وہ سرگوشی نما آواز میں بول کر اسے مزید چھپنے پہ مجبور کرگیا ۔۔۔

تھوڑی دیر بعد جب اس کے مختل حواس بحال ہوئے تو اس نے کمرے میں دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔جس خاموشی سے وہ یہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔مگر جاتے ہوئے اپنا احساس چھوڑ گیا تھا ۔۔۔۔

وہ دل سے مسکرائی ۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥

"اپنی اصلیت بتاؤ مجھے کون ہو تم ؟"

امرام شیر نے سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔۔

"کیوں بتاؤں میں تمہیں "وہ اپنے سر سر کرتے جلتے ہوئے گال پہ ہاتھ رکھ کر غصے میں بھڑک کر دوبدو بولی ۔۔۔۔

"بلاؤ سدرہ کو "

امرام نے پیچھے کھڑے ہوئے میر سے بارعب آواز میں کہا۔۔۔

کچھ ہی دیر میں ایک اونچی لمبی قدرے بھاری جسامت کی عورت ہاتھ میں ایک مخصوص ڈنڈا لیے اس کمرے میں آئی ۔۔ 

چاندی پھٹی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

"میڈم کو خاطر مدارت کی ضرورت ہے۔

"ان کی اچھے سے خاطر کرو ۔۔۔مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی بھی کسر نہیں رہنی چاہیے"

اس بار امرام شیر استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔

سدرہ نے وہ ڈنڈا اس کی پشت پہ پورے زور سے مارا ۔۔ 

چاندنی کی درد بھری چیخوں سے وہ کمرہ بھی بھی دہل اٹھا ۔۔۔ 

اس نے بھیگی ہوئی خالی  خالی انکھوں سے اس سامنے کھڑے سفاک انسان کی طرف دیکھا ۔۔ ،آنکھیں صرف اس ظالم کے چہرے کا طواف کررہی تھیں۔اس کے جسم پہ پڑنے والے ڈنڈے اسے ہوش و حواس سے بیگانہ کر رہے تھے ۔۔۔۔

"۔۔ک۔۔۔ک۔کیوں لائے ہو مجھے یہاں ۔۔۔

وہ فرش پہ گرے ہوئے بمشکل الفاظ ادا کر پائی ۔۔۔

"یہ بھی جلد ہی پتہ جل جائے سویٹ ہارٹ ۔فلحال تم سے ابھی انویسٹیگیشن میں جو پوچھا جائے صرف اسی کا جواب دینا اچھے سے ورنہ یہ سدرہ میڈم بہت اچھے سے خاطر داری کرتی ہیں ۔۔۔"

اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے امرام شیر نے جھٹکے سے چھوڑا ۔۔۔


 ڈنڈوں کی ضرب سے اسے یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کی پشت کی چمڑی اُدھڑ گئی ہو،اس کی شرٹ بھی گیلی محسوس ہو رہی تھی جیسے اب خون نکلنے لگا تھا ۔۔۔،درد بڑھنے پر اس نے لب سختی سے بھینچے اوپر کی طرف دیکھا جہاں سدرہ اپنے ہاتھ میں ایک ڈنڈا لیے تمسخر زدہ سا مسکرارہی تھی،

"اب بول لڑکی !! 

"نہیں تو اور بھی مار کھائے گی "وہ کرخت لہجے میں بولی ۔۔۔۔

"میں کیا بتاؤں ؟؟؟میں کسی بھی بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔تم لوگ چاہتے کیا ہو مجھ سے ؟؟؟وہ کرب زدہ آواز میں بولی۔۔۔

"اپنے بارے میں بتا ورنہ اس بار بھیجے میں دوں گی "وہ اس کی کنپٹی پہ ڈنڈا رکھ کر درشتگی سے بولی ۔۔۔

"م۔۔۔مجھے اپنے بارے میں بھی کچھ یاد نہیں ۔۔۔۔

وہ بے بسی سے بولی ۔۔۔

"جھوٹ بولتی ۔۔۔وہ بھی مجھ سے ۔۔۔۔تیری تو ۔۔۔

اس نے ڈنڈا گھما کر پھر سے اس پہ وار کیا ۔۔۔۔ ٹارچر سیل چاندنی کی دردناک چیخوں سے گونجنے لگا تھا،دوسری طرف کمپیوٹر روم میں موجود امرام شیر اور میر اسے دیکھ رہے تھے جو اتنی مار کھانے کے بعد بھی سچ بتانے سے انکاری تھی ۔۔۔۔

امرام شیر کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔۔۔مگر یہاں دل سے نہیں دماغ سے کام لینا تھا ۔۔ 

فرض اور محبت میں سے اسے ہر صورت فرض کو ہی چننا تھا ۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

"ماھی تم اٹھ رہی ہو یا نہیں دیکھو میں آخری بار پوچھ رہی ہوں تم سے ''

اس کی مما دعا اسکے سر پر کھڑی تیز آواز میں چلائیں تھی جس پر ماھی کسمسا کر کروٹ بدل چکی تھی '

'' تم بھول گئی شاید آج اس نئے شہر کے نئے کالج میں پہلا دن ہے تمہارا ۔۔۔اور پہلے دن ہی لیٹ ہوجاو گی ۔۔۔اسی لیے کہہ رہی ہوں بار بار تم نے تاکید کی رات کو کہ مجھے لازمی اٹھا دینا ۔۔۔اٹھ جاؤ ماھی کالج کے لئے دیر ہو رہی ہے ''

' اس بار وہ تھوڑا پریشانی سے بولی تھی پچھلے ایک گھنٹے سے وہ اسکو اٹھانے کی اپنی سی کوشش کر رہی تھیں۔ مگر وہ تھی کہ ٹس سے مس تک نہ ہوئی تھی 

''پلیز مما سونے دیں نا رات مہندی کے فنکشن سے تھک گئی تھی ابھی آنکھیں کھل ہی نہیں رہی ہیں۔۔میں کیا کروں ؟؟؟

"میں ڈرائیور کے ساتھ بھی جا سکتی ہو اس لئے مجھے سونے دیں تھوڑا سا  ''

'وہ روشنی سے بچنے کے لیے تکیہ اپنے منہ پر رکھتی ہوئی بےزاری سے بولی ایک تو ابھی کچھ گھنٹے پہلے ہی وہ سونے کے لئے لیٹی تھی ۔اس نئی جگہ پہ اسے نیند بھی نہیں ا رہی تھی ٹھیک سے ۔۔۔کیونکہ پہلے وہ اسلام آباد میں مقیم تھے ۔مگر اب اس کے بابا شاہ من نے بزنس لاہور میں ہی شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔اسی لیے اسے یہاں آنا پڑا ۔یہاں کہ بہترین کالج میں اس کا ایڈمیشن کروا دیا تھا اور آج اس کا پہلا دن تھا کالج میں ۔

"ماھی بیٹا ابھی تو آپ کی آنکھیں نہیں کھل رہی مگر جب وقت دیکھیں گی تو اپنے آپ کھل جائیں گی ۔۔۔

آج گھر میں بارات کا فنکشن ہے۔میں کبھی آپ کو جانے نہیں دیتی ۔۔۔۔

"مما بارات تو رات کو ہے میں جلدی واپس آجاؤں گی ۔۔۔۔

"ماھی !!!!!

It's 9'o clock.

ان کے منہ سے وقت کا سن کر اسکی آنکھیں صدمے سے پٹ سے کھلیں ۔۔۔وہ تکیہ پیچھے پھینکتے ہوئے بستر سے باہر نکلی اور سوفٹی پاؤں میں اڑستی ہوئے بھاگم بھاگ واش روم میں بند ہوئی ۔۔۔۔

دس منٹ میں وہ نک سک تیار باہر نکلی ۔۔۔

'' ماھی بیٹا رکو ناشتہ تو کر کے جاؤ ''

' وہ اپنا بیگ اور سکوٹی کی چابی پکڑے تیزی سے باہر نکل رہی تھی کہ دعا نے اسکو دیکھ کر پکارا تھا '

'' رہنے دیں مما ۔۔میں کالج میں ہی کچھ کھا لوں گی ''

" پہلے ہی بہت لیٹ ہوگئی ہوں "

شہرِ لاہور کی سڑکوں پر معمول سے زیادہ ٹریفک تھی۔کیونکہ یہ آفس ٹائم تھا ۔۔۔

ماھی ہیڈ فون کان میں لگا کر گانے سنتے ہوئے تیز سپیڈ سکوٹی چلا رہی تھی۔اسے جلد سے جلد کالج پہنچنا تھا ۔۔فاسٹ میوزک سن کر اس کے کام میں تیزی آجاتی تھی اسی لیے میوزک لگا رکھا تھا ۔۔۔اس نے پنک رنگ کی شارٹ فراک اور جینز پہن رکھی تھی ۔سر پہ سکارف لیے ،آرام دہ سنیکرز پہنے ہوئے تھے۔ سفید نرم و ملائم سے شہابی گال ،بڑی بڑی بھوری چشم آہو جن پر چلمن کی گھنی باڑ تھی، ستواں ناک ۔،گلابی بھرے بھرے یاقوتی ہونٹ ،براؤن رنگ کے بال تھے جو سکارف میں اچھے سے مخفی تھے ۔

وہ ایک سو بیس کی سپیڈ سے سکوٹی چلا رہی تھی کہ دور سے ہی ٹریفک وارڈن نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو وہ جھنجھلا کر رہ گئی ۔۔۔

سکوٹی روکتے ہوئے وہ ہیڈ فون اتار کر قدرے بیزاری سے بولی ۔۔۔

"مجھے کیوں روکا ہے ؟ "

ٹریفک وارڈن ایک نظر اس چھوئی موئی سی لڑکی کو دیکھ کر ٹھٹکا اور پھر اسے سخت تاؤ آیا۔

"آپ نے ہیلمٹ نہیں پہنا اسی لیے ۔۔۔

"پلیز انکل جانے دیں نا میرا پہلا دن ہے کالج کا "اس بار اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔

"بی بی آپ کینٹ ایریا میں کھڑی ہیں۔اور یہاں کے رولز ایسے ہی ہیں۔واپس پلٹ جائیں ہیلمٹ پہن کر آئیں ۔۔۔

"پلیز انکل آج جانے دیں نا جل سچی پہن کر آؤں گی ۔۔۔

"No mam rule is rule ...

اس نے سختی سے کہہ کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔ماھی تو رونے والی ہی ہوگئی تھی ۔۔۔۔

ماھی نے ُبجھے ہوئے دل سے اپنی سکوٹی واپس موڑی ۔۔۔

ہی تھی کہ ایک تیز رفتار ہیوی بائیک زن سے اسکے پاس آکر رکی ۔۔ 

ماھی سے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔

بلیک اور ریڈ ہیوی بائیک پہ سوار انسان نے ہیلمٹ اتارا ۔۔۔

ماھی جو نظریں ہٹانے لگی تھی ۔۔۔پلکیں جھپک کر دوبارہ اسے دیکھا ۔۔۔۔

اور پھر اس سے نظریں ہٹا ہی نا سکی ۔۔۔۔اسکی بھوری اور گولڈن شیڈڈ آنکھیں،ستواں مغرور ناک۔کٹاو دار تھوڑی اور باریک لب،بھورے بال جو جیل لگا کر سیٹ کیے گئے تھے ،بلاشبہ وہ دنیا کے گِنے چُنے وجیہہ مردوں میں سے ایک تھا ۔۔۔۔

"What happened?

اس نے اپنی گھمبیر آواز میں پوچھا ۔۔۔

ماھی اسکی سحر انگیز آواز سن کر ہوش میں آئی ۔۔۔

"م۔۔۔مجھے کالج جانا تھا مگر یہ وارڈن انکل مجھے آگے جانے نہیں دے رہے ۔۔۔

If you don't mind....

 تو میرے ساتھ آجاؤ اپنی سکوٹی کو لاک لگا دو واپسی پہ لے لو ۔۔۔میں بھی یہیں کے کالج میں جا رہا ہوں ۔۔۔

ماھی اس کی بات سن کر مخمصے کا شکار ہوئی۔۔۔۔اب اس انجان پہ اعتبار کر کہ جائے یا نہیں ۔۔۔۔

🔥🔥

"تھینکس "ماھی نے اسکی مدد کی پیشکش کو موقع غنیمت جانا،اور اسکے پیچھے بیٹھ گئی ۔۔۔مگر اسے پکڑنے کی بجائے بائیک کی سیٹ اور کرئیر کو زور سے پکڑ لیا ۔۔۔دس منٹ میں وہ دونوں کالج کے گیٹ پہ تھے ۔۔۔

ماھی بائیک سے اتر کر بنا کچھ بولے کالج گیٹ کے اندر بھاگی ۔۔پھر اپنی کلاس میں داخل ہوئی ۔۔۔

لڑکی اور لڑکوں کے کچھ گروپس آپس میں باتیں کر رہے تھے کچھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ کھڑے ہوئے ہنسی ٹھٹھولے۔۔۔

وہ پہلی رو میں بیٹھی ہوئی ایک لڑکی کے پاس آئی۔۔۔

"ہیلو !اس نے خوشدلی سے کہا ۔۔۔

"ہائے !آؤ نا بیٹھو ۔۔۔اس نے ماھی کو اپنے ساتھ بیٹھنے کے لیے کہا تو ماھی وہیں بیٹھ گئی ۔۔۔

"میرا نام پارس ہے اور تمہارا ؟؟؟ماھی نے اپنا تعارف کروایا ۔۔۔

"ابھی تک کلاس شروع نہیں ہوئی ۔۔میں تو پریشان ہوگئی تھی کہ آج پہلے ہی دن لیٹ نا ہو جاؤں "وہ فکر مندی سے بولی ۔۔۔

"ارے کہاں ۔۔۔پہلا دن ہے ۔ابھی تو ہمارے ٹیچر تک بھی نہیں پہنچے ۔۔۔۔کلاس میں ۔۔ 

ابھی وہ مزید باتیں کرتی کہ کلاس میں کالج کے پرنسپل صاحب عاصم باجوہ داخل ہوئے سب اپنی اپنی نشستوں پر سے فورا اٹھے  ۔۔۔کمرے میں ان کی آمد سے خاموشی چھا گئی ۔۔۔

ان کے پیچھے ہی کوئی کلاس میں داخل ہوا ۔۔۔سب نے نظر اٹھا کر اس آنے والے شخص کو دیکھا۔۔۔۔

بلیک جینز ،پہ بلیک شرٹ اور اس پہ بلیک لیدر جیکٹ پہنے،بالوں کو نفاست سے جیل سے سیٹ کیے ،ہاتھ میں فولڈر پکڑے وہ اپنی مخصوص شاہانہ چال چلتے ہوئے اندر آیا ۔۔۔۔

"ان سے ملیے کلاس یہ ہیں آپکے نیو انسٹرکٹر مسڑ لکی ۔۔۔

"Wow ۔۔۔۔

"So Handsome

"Can't believe...he is in real ....

کلاس میں مختلف جملے سنائی دئیے اسے ۔۔۔۔

"مجھے شکایت کا موقع بالکل بھی نہیں ملنا چاہیے "

انہیں ایک ضروری کال آئی تو پرنسپل صاحب کال سننے کلاس سے باہر نکلے ۔۔۔تو پرروفیسر لکی ڈائس کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔

وہ ناگوار نظروں سے کلاس کا ڈسپلن دیکھ رہا تھا ۔۔۔

"سٹ ڈاؤن "اس نے اپنی بھاری آواز میں کہا تو سب فورا بیٹھ گئے ۔۔۔  

"خاموش !! وہ دھاڑا ۔۔۔

سب لڑکے اور لڑکیوں کی اسکی پرسنالٹی کو لے کر چہ مگوئیاں بند ہوگئیں ۔۔۔

"میں آپکا نیو انسٹرکٹر Lucky .اور مجھے اپنی کلاس میں ڈسپلن چاہیے ۔

Understand ??

Yes sir ۔۔۔۔

سب نے جوابا کہا ۔۔۔

"آج فرسٹ ڈے ہے اسی لیے چھوڑ رہا ہوں ۔۔۔

Next time be careful۔۔۔

یس سر ۔۔۔۔ماھی کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق تھی ۔۔او ۔۔۔۔تو ابھی کچھ دیر پہلے میں اپنے ٹیچر کے ساتھ کالج آئی تھی ۔۔۔ اس نے دل میں سوچا ۔۔۔

 مگر مقابل کے چہرے پہ نو لفٹ کا بورڈ تھا جیسے وہ اسے جانتا ہی نا ہو ۔۔۔

سب سٹوڈنٹ سے اس نے ان کا انٹروڈکشن لیا ۔۔۔پھر اپنا لیکچر سٹارٹ کیا ۔۔۔۔

سب اپنے ہینڈسم اور بارعب قابل  ٹیچر کے پہلے دن ہی گرویدہ ہو گئے ۔۔۔۔

وہ لیکچر ختم کیے ایک اچٹتی سی نظر ماھی پہ ڈال کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔

"ہائے کتنے ہینڈسم تھے ۔۔۔اور کم عمر بھی ۔۔زیادہ سے زیادہ پچیس چھبیس سال کے لگتے ہیں ۔

کہیں سے لگتا ہی نہیں کہ یہ ٹیچر ہوں گے "ماھی کے ساتھ بیٹھی ہوئی پارس بولی ۔۔۔

"اپنے ٹیچر کے بارے میں کوئی ایسا کہتا ہے کیا ۔۔۔؟؟وہ ہمارے روحانی استاد ہیں۔ہمارے لیے قابل احترام ہیں ۔ماھی اسے سمجھانے لگی ۔۔۔

"او ماھی یار تم کس صدی کی باتیں کر رہی ہو ۔۔ ؟ٹیچر ہی تو آج کل لڑکیوں کے کرش ہوتے ہیں ۔وہ مسکرا کر لاپرواہی سے بولی اور اگلے لیکچر کے لیے دوسری کتاب نکال کر اگلے پروفیسر کا انتظار کرنے لگی ۔۔ 

🔥🔥🔥🔥🔥

سب لڑکیاں پارلر سے تیار ہوکر میرج ہال پہنچ چکی تھیں۔اور اب ہال کے برائیڈل روم میں موجود تھیں ۔۔۔۔

سب لڑکیوں نے آج کے فنکشن کے لیے میکسی کا انتخاب کیا تھا ۔۔۔سب کی ایک جیسی تھیں صرف رنگ مختلف تھے ۔۔۔

ان سب کی آپس میں بہت گہری دوستی تھی ۔۔۔

 ماھی نے لائٹ پنک کلر کی ،ہانیہ نے سی گرین کلر کی ،منساء نے برگنڈی کلر کی اور رمشاء نے ڈارک بلیو کلر کی میسکی پہن کر نازک سی جیولری اور لائٹ میک اپ کے ایک سے بڑھ کر ایک دکھائی دے رہی تھیں ۔۔۔زخرف نے بلیک کلر کی میکسی پہنے 

سنہرے شہد رنگ کے سٹریٹ بال جو آدھی کمر تک آتے تھےانہیں کرلز کیے ،ہوئے تھی اس کا سڈول اور نازک سا مرمریں جسم،  گہری جھیل سی آنکھیں، ستواں ناک،چھوٹے چھوٹے خوبصورت سے گلابی ہونٹ،سفید ملائی جیسے چہرے اور بھرے بھرے سے سرخ گالوں کے ساتھ وہ موم سے بنی نازک سی گڑیا لگتی تھی ۔

 منساء اور رمشاء کی خوبصورتی میں بس انیس بیس کا ہی فرق تھا ۔

زخرف کے چہرے سے معصومیت جھلکتی تھی لیکن وہ بہت شرارتی تھی۔ ابتسام  کے لاڈ پیار کی وجہ سے ابھی تک اس کا بچپنا نہیں گیا تھا۔اس کی شرارتیں بھی اس کی طرح معصوم سی تھیں۔ 

رمشاء جتنی سنجیدہ لڑکی تھی یہ اتنی ہی غیر سنجیدہ اور فضول گو تھی ہر وقت ہنسی مذاق سے اس کا دل خوش رہتا تھا ۔لیکن منساء بھی کسی سے کم نا تھی وہ بھی بہت اچھی عادات کی مالک تھی بڑوں کا احترام کرتی تھی ۔۔۔

زخرف خاص کر  اپنی مما سے بہت ڈرتی تھی کیونکہ منت کو اگر پتہ چلتا کہ اس سے کچھ غلط ہوا ہے تو وہ اس کی ٹھیک ٹھاک کلاس لے لیتیں تھیں البتہ بابا اس کی سائیڈ لیتے تھے۔زبان سے کبھی کسی کےلیے برا نہیں کہا نہ کسی پر طنز کیا۔اگر کوئی غصے میں اسے برا بھلا کہہ دے تو مجال ہے جو آگے سے کچھ کہہ دے۔۔۔

ہانیہ بھی اخلاق کے لحاظ سے بہت اچھی لڑکی تھی۔

ماھی ان سب میں سے کم عمر تھی وہ ان سب لڑکیوں کے برعکس جسمانی لحاظ سے کمزور تھی لیکن پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔اسے کتابوں سے پڑھائی سے بہت محبت تھی ۔۔۔ اس میں خود اعتمادی کی کمی تھی۔بہت جلد نروس ہو جاتی تھی اور ہر چیز سے ڈرتی تھی۔نازک مزاج بھی بہت تھی۔اسے ناول پڑھنے کا بہت شوق تھا۔خاص کر رومینٹک سینز اسے بہت پسند تھے۔لیکن وہ بے حد شرمیلی تھی۔

"تمہارے ہاتھ کیوں اتنے ٹھنڈے ہو رہے ہیں "؟

منساء نے آیت کے مہندی سے رچے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر پوچھا ۔۔۔ 

"کہیں مومن بھائی سے ڈر کی وجہ سے تو نہیں "؟ہانیہ نے مسکرا کر کہا ۔۔۔

"ہیں بھئی ہماری آیت آپی کیوں ڈرنے لگیں بھلا مومن بھائی سے ؟؟؟ذخرف نے حیرانگی سے استفسار کیا،۔۔۔

"بہت ہی نالائق ہو تم "ہانیہ نے پیشانی پہ ہاتھ مار کر کہا ۔۔۔

"تم مجھے نالائق سمجھتی ہو۔......"وہ صدمے سے بولی۔"مستقبل کی سافٹ ویئر انجنیئر ہوں ۔مجھے ایویں ای نا سمجھ لینا"زخرف تو برا ہی منا گئی۔

"وہ تو رزلٹ آئے گا تو پتہ چلے گا نا کہ تم نے کونسے تیر مارے ہیں"ماھی نے لقمہ دیا

"پیپر تو میں نے اچھے ہی دیے تھے لیکن رزلٹ کا پتہ نہیں کیا بنے گا"اسے رزلٹ کی فکر لگ گئی۔

"یار اب تو جو ہونا تھا وہ ہوگیا آگے کا کیا سوچا تم لوگوں نے"منساء نے سب سے پوچھا

"میں تو بزنس وومن بنوں گی" رمشاء بولی۔

"اور تم ماھی " ؟

"میں لیکچرار  بنوں گی "

"اور تم ہانیہ  " ؟

"یار میں تو اکتا گئی ہوں اس پڑھائی سےمجھے ایف اے ہی بہت ہے۔ اس سے زیادہ مجھے ہضم نہیں ہوں گی یہ مزید کتابیں قسم سے پڑھ پڑھ کر اب تو آنکھیں بھی جواب دے گئیں ہیں "

"اچھا تو اب شادی کرنے کا موڈ تو نہیں ویسے اگر ہو تو مجھے ضرور بلانا تمہارے جانے کی اتنی خوشی مناؤں گی جیسے سر سے بلا ٹلنے کی خوشی ہوتی ہے" زخرف نے اسے چھیڑا تو سب کا قہقہہ بلند ہوا اور ہانیہ بے چاری خجل سی ہو کر رہ گئی۔ 

"بلاؤں گی تم سب کو اپنی شادی میں بس تیاری پکڑ لو "

وہ اٹھلاتے ہوئے بولی ۔۔۔

"سچی ؟؟؟رمشاء نے مسکرا کر پوچھا ۔۔۔

ہانیہ اسکے یوں پوچھنے پہ گڑبڑا سی گئی ۔۔ 

اور اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

"منساء ویسے آیت کے بعد تمہارا نمبر ہے "ہانیہ نے اسے چھڑا ۔۔۔

"ایکسکیوز می اب میں شادی کے لیے اتنی بے صبری بھی نہیں ہو رہی۔تم سے تو بعد میں ہی ہو گی میری شادی۔۔کیونکہ مجھ سے زیادہ تو تم بے صبری ہوئی پڑی ہو شادی کے لیے "منساء نے دوبدو جواب دیا ۔۔ 

"اچھا لیکن مجھے پتہ ہے اگر آج ہی تمہارا رشتہ آ جائے تو تم نے ذرا دیر نہیں لگانی شادی کرنے میں۔"ہانیہ نے بھی آج کھری کھری سنانے کا موڈ بنا لیا تھا۔

"یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں تم سے پہلے شادی کر لوں"منساء بولی۔

"اگر ہو جائے تو"ہانیہ نے ابرو اچکایا۔

"اچھا شرط لگاؤ جس کی پہلے ہوئی وہ سزا کیلیے ریڈی رہے"

"اوکے"ہانیہ نے ہاتھ آگے بڑھایا

"اللّٰہ کرے تم دونوں کی اکٹھی ہو جائے دو بلائیں ہماری جان چھوڑیں ۔۔۔

زخرف نے ان کی فضول کی لڑائی سے تنگ آتے ہوئے  جھنجھلا کر کہا ۔۔۔

منساء،رمشاء،زخرف،ماھی ،

ہانیہ اور آیت کے یکلخت قہقہے چھوٹے۔۔۔۔

"او دلہنیا میڈم آپ تو کم ہنسیں ۔۔۔یاد ہے نا بیوٹیشن نے کیا کہا تھا ۔۔۔

جیسے ہارر مووی میں ڈرنا منع ہے ۔۔۔

ویسے شادی سیریز میں ہنسنا منع ہے ۔ورنہ یہ منہ پہ جو باراں کلو کی بیس کی تہہ چڑھائی ہے۔وہ پھٹ جاے گی اور ہارر مووی کی ہیروئین لگو گی ۔۔۔بجائے مومن بھائی کی ہیروئن لگنے کی ۔۔۔۔ہانیہ مسکرا کر شرارت سے بولی تو آیت نے اپنی نند کو گھوری سے نوازا۔۔۔

"میں دیکھ کر آتی ہوں کہ بارات آئی یا نہیں۔ ۔۔۔

منساء اپنی میکسی سنبھالتے ہوئے باہر نکلی ۔۔۔

"ایک تو یہ رمشا نے اپنے ساتھ مجھے بھی ہائی ہیل کا عذاب ڈال دیا ۔۔۔اب یہ میکسی سنبھالوں یا ہیل کو "وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہوئے جیسے ہی سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگی ۔۔۔اس کی ہائی ہیل سے اسکا پاؤں رپٹ گیا ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ سیڑھیوں سے نیچے گرتی کسی کی مضبوط بانہوں نے اسے بچا لیا ۔۔۔۔

منساء نے گرنے کے ڈر سے آنکھیں میچ لیں تھی ۔۔۔مگر جب اپنی کمر پہ مضبوط گرفت محسوس کی تو جھٹ سے اپنی آنکھوں کو کھولا ۔۔۔

"دھیان سے "احتشام تفکر بھرے انداز میں بولا ۔۔۔

وہ سرعت سے اسکے حصار سے باہر نکلی۔۔۔

احتشام نے اسے کے سجے سنورے سراپے کو نظر بھر کر دیکھا ۔۔۔

"تم جانتی ہو ؟؟؟

احتشام فسوں خیز آواز میں کھوئے ہوئے لہجے میں بولا ۔۔۔

"کیا ؟اس نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔

"قصور آنکھیں کرتی ہیں اور خسارہ دل کے حصے میں آتا ہے "

وہ کہتے ہوئے گہرا سانس بھر گیا ۔۔۔

"کیا کہہ رہے ہیں آپ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آئی ۔۔۔

وہ اکتا کر بولی ۔۔۔

"ان سوالوں کے جواب عشق کی راہوں پہ چلنے سے ملتے ہیں۔وہ مبہم سا مسکرایا اور واپس پلٹ گیا ۔۔۔

"کیا کہہ رہے تھے میرے تو کچھ بھی پلے نہیں پڑا "

منساء نے لاپرواہی سے شانے اچکائے ۔۔۔اور نیچے اتر آئی ۔۔۔

شام کے سائے رات کی تاریکی میں گم ہونے لگے تھے۔ہلکی ہلکی چلتی ہوا اور میوزک ماحول میں عجیب سا فسوں پیدا کر رہا تھا ۔میرج ہال مہمانوں سے بھر چکا تھا۔بارات کے آنے کے بعد دلہن کو سب کزن مل کر نیچے لے آئیں بڑے سے سٹیج پر لگے صوفے پہ آیت اور مومن بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔مومن نے آیت سے سرگوشی میں کوئی بات کی تو آیت خود میں سمٹ کر رہ گئی ۔۔۔آیت نے سرخ رنگ بیش قیمتی دیدہ زیب کام والا لہنگا پہن رکھا تھا۔جبکہ مومن بلیک ڈنر سوٹ میں ملبوس تھا ۔دونوں پر آج ٹوٹ کر روپ آیا تھا۔آیت تو آسمان سے اتری ہوئی حور  لگ رہی تھی ،اور مومن بھی کچھ کم نہیں تھا ۔امرام شیر اور شیر دل بھی تھری پیس سوٹ میں ملبوس شہزادے لگ رہے تھے۔

  برگنڈی رنگ کی ہلکے سے کام والی میکسی میں ملبوس منساء جب سٹیج پر آئی تو احتشام نے بمشکل اس پر سے نظریں ہٹائیں تھیں۔وہ جب بھی اس کے سامنے آتی تھی پہلے سے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتی اسے ۔منساء بھی اسے ایک نظر ہی دیکھ سکی تھی اور پلکوں کی باڑ جھکا گئی تھی۔کیونکہ وہ کافی دیر سے احتشام کی پرتپش نظریں خود پہ جمیں دیکھ رہی تھی۔۔۔

"شیر زمان،شیر دل اور امرام شیر تینوں ایک ساتھ سٹیج پہ آئے اور نیولی میرڈ کپل کو مبارکباد دیتے ہوئے گفٹس دے کر نیچے اتر گئے ۔۔۔۔

زخرف دور کھڑی ترسی ہوئی نگاہوں سے امرام شیر کو دیکھ رہی تھی ۔مگر امرام شیر نے ایک نظر بھی اس پہ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔

"Looking so pretty"

سب کھانا کھانے لگے تو اعیان ہانیہ کے ٹیبل پہ آیا ۔۔۔

اور ٹشو پیپر پہ لکھ کر اسکی طرف وہ ٹشو بڑھایا ۔۔۔

ہانیہ نے ٹشو پکڑ کر کھولا تو اس میں یہ لکھا تھا ۔۔۔

ہانیہ کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھو لیا۔۔۔۔

"تھینکس "وہ آہستہ آواز میں بولی۔۔۔۔

اسکی آواز بہت مدھم تھی کہ صرف ساتھ والی چئیر پہ بیٹھے ہوئے اعیان نے سنی ۔۔۔

سٹیج پہ دودھ پلائی کی رسم شروع ہوئی تو سب اسی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔

"میں مام سے بات کرتا ہوں ہمارے بارے میں ۔۔۔اعیان نے ہانیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے تسلی آمیز انداز میں کہا ۔۔

ہانیہ نے پلکیں جھپک کر اسے اپنے ساتھ کا احساس دلایا۔۔۔

"Love you a lot Honey" .

وہ دھیمے آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔

اس سے پہلے کہ انہیں کوئی یوں بات کرتے دیکھتا وہ موقع کی مناسبت دیکھ وہاں سے اٹھ گیا ۔۔۔

"مام آپ سے ایک بات پوچھوں ؟احتشام اپنی والدہ منت کے پاس آکر ان کے شانے پہ تھوڑی رکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"پوچھو بیٹا "منت نے محبت بھرے انداز میں اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔

"مما آپ کو منساء کیسی لگتی ہے ؟؟؟

"بیٹا منساء اور رمشاء بے شک زائشہ آپی کی بیٹیاں ہیں۔مگر وہ مجھے بالکل ذخرف کی طرح ہی لگتی ہیں۔میری بیٹی کی طرح ۔۔۔

"ویسے تمہارا یہ سوال پوچھنے کا کیا مقصد ہے ۔۔۔؟وہ اسے اپنے سامنے کرتے ہوئے پوچھنے لگیں ۔۔۔

"مما آپ کا بیٹا اس معاملے میں تھوڑا شائے ہے۔آپ خود سمجھ جائیں نا ۔۔ وہ نگاہیں چراتے ہوئے مسکرایا ۔۔۔

"او۔وووو۔۔ اچھا ۔۔ 

"تو یہ بات ہے '''منت کے دماغ میں فورا کلک ہوا تو وہ سمجھتے ہوئے بولیں ۔۔۔

"مجھے بھی منساء بہت اچھی لگتی ہے۔بہت پیاری اور سلجھی ہوئی بچی ہے۔سوٹ کرے گی میرے سلجھے ہوئے بیٹے کے ساتھ ۔۔ ویسے بھی گھر کی دیکھی بھالی ہے۔سب کی نیچر سے واقف ہے۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔

"مگر بابا ؟؟؟احتشام نے سر کھجاتے ہوئے ابتسام کی بات کی ۔۔۔

"ابتسام کو بھلا کیوں برا لگے گا ۔۔۔؟

منساء ان کے سگے بھائی کی بیٹی ہے۔تم فکر مت کرو ۔۔ تمہاری مما ہے نا ۔۔۔میرے بیٹے کی خواہش پوری کرنا اب میری ذمہ داری کے ۔۔۔۔وہ مسرت بھرے انداز میں بولی۔ ۔۔۔

I love you sooooooo much mom.

You are really very great ...

وہ منت کے ہاتھ کی پشت پہ عقیدت بھرا بوسہ لے کر بولا ۔۔۔

ہمیشہ خوش رہو ۔۔ وہ دعائیہ انداز سے بولی۔ ۔۔۔

کچھ ہی دیر میں رخصتی کا شور اٹھ گیا ۔۔۔۔

قرآن پاک کے سائے میں آیت کی رخصتی کی گئی ۔۔۔

"اف کب گھر آئے گا اور کب یہ گھونگھٹ کی دوری ختم ہوگی !

مومن جو گاڑی میں آیت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔۔۔

"اچھے بچوں کی طرح صبر کریں ۔۔۔کوئی سن لے گا "

وہ آہستہ آواز میں بولی۔

"بچہ سمجھنے کی غلطی مت کیجیے گا اب تو خیر سے شادی شدہ ایک عدد بیوی والا ہوگیا ہوں ۔

وہ آیت کا ٹھنڈا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بولا ۔۔۔

"مجھ سے چھوٹے ہیں آپ تو بچے ہی ہوئے نا "

"تو اس میں میرا کیا قصور آپ کو ہی اپنے مجازی خدا سے پہلے اس دنیا میں آنے کی جلدی تھی ۔۔۔

مومن اب کی بار اسکی کمر میں پیچھے سے بازو گزار کر اسکے قریب ہوا ۔۔۔

"مومن کیا کر رہے ہو پلیز ۔۔۔"

"بڑا بے صبرا ہوا پڑا ہوں اور یہ منحوس راستہ ہے جو آج ختم ہونے میں نہیں آ رہا "وہ کوفت زدہ آواز میں بولا۔۔۔

آیت اسکی بیچارگی پہ ہلکے سے مسکرا اٹھی۔۔۔

کچھ رسموں کی ادائیگی کے بعد آیت کو مومن کے روم میں پہنچا دیا گیا ۔۔۔

مومن کے بارے میں سوچتے ہوئے ہی آیت کے اوسان خطا ہو رہے تھے ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کمرے میں آتا آیت نے اس بھاری زرق برق لباس سے آزادی حاصل کرنے کا سوچا ۔۔۔

اس نے عروسی لباس کا دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھا ۔۔۔

اور خود آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی ابھی اپنے آویزے کو چھوا ہی تھا اتارنے کے لیے کہ مومن دروازہ کھول کر اندر آیا۔۔۔موتیے اور گلابوں کی محسور کن مہک نے اس کا استقبال کیا۔۔اور سامنے ہی اس کی من پسند دلہن اس کے من پسند انداز میں کھڑی تھی ۔۔۔خود کو دوپٹے سے بے نیاز دیکھ کر آیت نے فورا رخ تبدیل کیا ۔۔۔اور ہاتھ بڑھا کر بستر پہ سے اپنا دوپٹہ اٹھانا چاہا مگر مومن سرعت سے اسکے قریب پہنچ کر دوپٹے کو اسکی پہنچ سے دور کر گیا ۔۔۔۔

"آپکی آمد سے اس کمرے میں چار چاند لگ گئے ہیں ۔"وہ آیت کو پشت سے اپنے حصار میں لیے بولا ۔۔۔

آیت کی پشت مومن کے سینے سے لگی تھی ۔۔۔دل کی دھڑکنوں نے شور مچایا۔۔۔

مومن نے اس کی صراحی دار نازک سی گردن پر اپنے لب رکھے۔۔۔

"It's cheating"

 "پہلے منہ دکھائی ۔۔۔۔آیت نے اپنی حنائی ہتھیلی پھیلائی ۔۔۔

مومن نے پاکٹ سے جڑاؤ کنگن نکال کر اسکی کلائی میں پہنا دئیے ۔۔۔

"اب خوش "؟

"تو پھر منہ بھی دکھائیں "اس نے آیت کو بازوؤں سے تھام کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔۔۔

"میری ان آنکھوں نے دنیا کا سب سے حسین منظر آج دیکھا ہے "

وہ فسوں خیز آواز اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر بولا ۔۔۔

وہ اس کے چہرے کے ہر نقش کو اپنے لمس سے مہکانے لگا ۔۔۔

"مومن بس ۔۔۔۔میں پاگل ہو جاؤں گی"

وہ سٹپٹاتے ہوتے ہوئے اسے خود سے دور دھکیل کر بولی۔

"ابھی تو شروعات ہیں جان مومن !!!ابھی تو آپ کو میری حسرتوں ،چاہتوں ،اور خواہشوں کو سننا ہے اور محسوس کرنا ہے ۔۔۔

وہ خمار زدہ آواز میں اسکے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔۔۔

"میں آپکی حسرتوں ،چاہتوں اور خواہشوں کو پورا کرنے میں آپ کا ساتھ دوں گی "

وہ آنکھیں موندے بولی ۔۔۔

اسکے الفاظ نے مومن کے دل میں سرور سا بھر دیا ۔۔۔جیسے اسے اسکی زندگی مل گئی ۔۔۔

"Than prove it."

مومن ابرو اچکا کر بولا۔۔۔

آیت کے لیے یہ اک امتحان تھا ۔۔۔وہ جھجھکتے ہوئے اس کے گلے میں بانہیں ڈالے پلکیں جھکا گئی ۔۔۔

مومن تو اسکی ادا پہ صدقے واری ہوا۔۔۔

"Jaan e Momin you nailed it"

وہ پرجوش آواز میں کہتے ہوئے اسے بازووں میں بھر کہ بستر پہ لایا ۔۔۔

"مومن پلیز میری ایک بات سنیں گے ؟ "

وہ جو اس میں پوری طرح خود کو کھو دینا چاہتا تھا ۔۔۔اسکی بات سن کر اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا ۔۔۔

جان ِمومن ایک کیا ہزار سنائیں .....ہم ہمہ تن گوش ہیں.

"مومن میں آپ سے بڑی ہوں تو لوگ آپ کو باتیں سنائیں گے نا ۔۔۔جب مجھے آپ کے ساتھ دیکھیں گے تو "وہ اپنے دل کا ڈر اس پہ ظاہر کرنے لگی ۔۔۔

"جان ِمومن لوگوں کا تو کام ہی باتیں بنانا ۔آپ اپنے شوہر پہ توجہ دیں "

وہ اسکے لبوں پہ جھکا ہی تھا کہ اس کے موبائل پر آتی ہوئی کال نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔۔۔

وہ ناگواری سے پیچھے ہوا ۔۔۔

"اس وقت کس کو مسلہ ہے "

وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور موبائل اٹھا کر دیکھا ۔۔۔

"آیت تم چینج کر کہ فریش ہو جاؤ میں کال اٹینڈ کر کہ آتا ہوں "

وہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا تو آیت کے کب سے رکے ہوئے سانس بحال ہوئے وہ اپنا آرام دہ سوٹ نکال کر واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

آیت باہر آئی تو اتنی دیر مومن بھی چینج کر چکا تھا ۔۔۔اور شوز پہن رہا تھا ۔۔۔

"آپ کہیں جا رہے ہیں ؟وہ حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

"ہممم ۔۔۔سوری آیت مجھے حکومت کی طرف سے دوسرے ملک بھیجا جا رہا ہے۔ہمارے ایک مسلم ملک میں حادثہ ہوا ہے ،وہاں کی ہنگامی صورت حال میں ڈاکٹرز کی اشد ضرورت ہے۔تو حکومت کچھ ڈاکٹرز کو وہاں بھیج رہی ہے۔اور میرا نام بھی اس فہرست میں ہے ۔۔۔

"لیکن مومن ؟

"آپ ایسے کیسے مجھے شادی کی پہلی رات ہی چھوڑ کر جا سکتے ہیں "

وہ جھنجھلائے ہوئے انداز میں بولی۔۔۔

"آیت ڈاکٹرز کو اپنا فرض نبھانا ہوتا ہے۔مریض کی مسیحائی کرکہ ۔۔۔وہاں میری ضرورت ہے۔ہمارے مسلم بھائیوں بہنوں اور بچوں کو ۔۔۔

اس نے آیت کی پیشانی کو اپنے لبوں سے چھو کر سمجھایا ۔۔۔

"مگر وہاں فسادات ہورہے ہیں۔اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ۔۔۔یہ سوچ بھی نہیں پا رہی ۔۔۔مومن یہ سوچنے سے پہلے ہی مر جاؤں گی میں ۔۔۔

"جان ِمومن ! ادھر دیکھیں ۔۔۔

وہ اسکی تھوڑی کو اپنی پوروں سے اوپر اٹھا کر بولا ۔۔۔

"اپنے خدا پہ بھروسہ ہے نا ؟؟

"ہمممم۔۔۔۔

"تو پھر اس نے جیسے ہمیں ملایا ہے ویسے ہی پھر سے جلدی ملادے گا ۔۔۔اور رہی بات ہماری ویڈنگ نائٹ کی تو جب میں واپس آؤں گا تو یہیں سے شروعات ہوگی ۔۔۔وہ اس کے لبوں کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے کان میں سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔

اس کی آخری بات پہ آیت کا چہرہ کھل کر گلنار ہوا ۔۔۔

"یار میری پیکنگ میں ہیلپ کرواؤ پلیز "

آیت نے اس کے ساتھ ملکر تیزی سے ساری پیکنگ کی ۔۔۔

"آپ مما سے مل کر جائیں گے ؟؟؟اس نے عیش کے بارے میں پوچھا ۔۔۔

"نہیں ۔۔ ان کی نیند خراب ہو جائے گی تم صبح انہیں بتا دینا ۔۔۔

مومن بیگ لیے روم سے نکلنے لگا تھا کہ آیت نے بھاگ کر  پیچھے سے اس کی کمر میں بازو ڈال دئیے ۔۔۔

"یا اللّٰہ اس خوشی سے کہیں میں مر ہی نا جاؤں "

مومن مسکرا کر بولا ۔۔۔

"کیسی فضول باتیں کر رہے ہیں ؟؟؟

مومن نے اسکی طرف دیکھا جا کے گال رونے کے باعث نم تھے ۔۔۔

"یار مجھے پتہ نہیں تھا نا کہ میری اکلوتی بیوی مجھ سے اتنا پیار کرتی ہے۔بس یہی جان کر خوشی کی انتہاوں کو چھو رہا ہوں ۔۔۔مگر تمہارے یہ آنسو مجھے کمزور کردیں گے ۔۔۔

پلیز مجھے کمزور مت کرو آیت ۔۔۔

وہ اس کے سینے میں منہ چھپائے رونے لگی ۔۔۔۔

"اب تو دل چاہتا ہے اپنی بیوی کے پلو سے بندھ جاؤں ۔۔۔مگر ہائے رے مجبوریاں ۔۔۔

وہ شرارت سے بولا۔۔۔

اس کے آنسو پونچھ کر اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔۔۔۔

"Love you"

اپنا خیال رکھنا میرے لیے ۔۔۔

اسکا گال تھپتھپاکر کر وہ باہر نکل گیا ۔۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

"مر جائے گی میجر امرام وہ "

میر نے امرام کو کال پہ اس کی نازک حالت سے آگاہ کیا ۔۔۔

"کچھ بتایا ُاس نے ؟وہ میر کی بات کو رد کرتے ہوئے اپنا سوال داغ گیا ۔۔۔

"سدرہ نے بہت اُگلوایا ۔۔۔سب حربے استعمال کر لیے۔۔ایسے سب ٹرکس جو بڑے سے بڑا گینگسٹر بھی بھی سچ اگل دے ۔۔۔مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ۔۔۔اس کا یہی مطلب ہے وہ بے قصور ہے۔کچھ نہیں جانتی ۔۔۔۔

"میجر امرام جو آپ اسے سمجھ رہے ہیں ۔شاید چاندنی وہ نا ہو ۔۔۔اور اگر ایسا ہوا تو آپ ایک معصوم کو کسی اور کے گناہوں کی سزا دے رہے ہیں "اس نے دب لفظوں سے  باور کروایا۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔وہ چند سیکنڈز خاموش رہا۔۔۔

"سدرہ سے کہو اسے اپنے کواٹر میں  لے جائے اور اس کی مرہم پٹی کرے ۔۔۔

میں نے پلان بدل لیاہے۔۔۔وہ گھمبیر آواز میں بولا۔۔۔

"اور وہ کیاہے ؟؟میر نے پوچھا ۔۔۔

"ملکر بات کریں گے "وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے کال بند کرگیا ۔۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ٹھک ۔۔ٹھک ۔۔۔ٹھک ۔۔۔

دروازے پر دستک ہوئی تو جنت جو ڈریس تبدیل کیے ابھی لیٹنے ہی لگی تھی ۔۔۔

زیان کو تفکر بھرے انداز میں دیکھنے لگی ۔۔۔

"اس وقت کون ہو سکتا ہے ؟؟؟

"جاؤ دیکھو "زیان نے کمفرٹر پاؤں پہ درست کرتی ہوئے کہا ۔۔۔

جنت نے دروازہ کھولا تو سامنے اعیان کو کھڑے پایا ۔۔۔

"سب ٹھیک تو ہے اعیان ؟"

"تم اس وقت کیا بات ہے ؟"

"مما سوری اس وقت آپ کو ڈسٹرب کرنے کے لیے مگر مجھے آپ سے اور ڈیڈ سے ایک ضروری بات کرنی تھی اسی لیے یہاں آیا ۔۔۔

اس نے اپنے آنے کی بابت بتائی ۔۔۔

"اچھا آؤ اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔۔۔جنت نے پیچھے ہو کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا ۔۔۔

"ہممم بتاؤ کیا بات ہے ؟"زیان نے سنجیدگی سے سوال کیا ۔۔۔

"ڈیڈ ۔۔۔وہ ۔۔۔میں۔۔۔

وہ حوصلہ کر کہ تو آیا تھا ان سے بات کرنے کا ۔۔۔مگر اب ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔

"یہ تمہیں اپنی بات کرنے کے لیے اتنی تمہید کب سے باندھنی پڑ گئی ۔۔۔صاف صاف بتاؤ کیا بات ہے "جنت نے سادہ سے انداز میں پوچھا ۔۔۔

"مام ڈیڈ میں رمشاء سے نہیں ہانیہ سے شادی کروں گا ",

اس نے ہمت جُٹا کر ایک ہی سانس میں اپنی بات کہہ دی ۔۔۔۔

"جنت !! 

اعیان کی بات سن کو زیان اس سے مخاطب ہونے کی بجائے جنت پہ گرجا ۔۔۔۔

"اسے کہو اپنا بوریا بستر سمیٹے اور اس گھر سے دفعہ جائے "

زیان رعب دار آواز میں غرایا ۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

"زیان ایک بار اس کی پوری بات تو سن لیں آرام سے وہ کہنا کیا چاہتا ہے ،شاید جو آپ سمجھ رہے ہیں وہ اعیان کا مطلب نا ہو ۔۔۔ "

"ہیں نا اعیان ؟"وہ مصالحتی انداز میں بولیں ۔۔۔

"مما ڈیڈ جو سمجھ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک سمجھ رہے ہیں۔میں پھر سے ایک بار کہہ دیتا ہوں مجھے رمشاء میں کوئی انٹرسٹ نہیں ۔۔۔میں ہانیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔آخر میری ساری زندگی کا سوال ہے۔وہ جھٹپٹا کر بولا ۔۔۔

"اور جو میں نے اپنی بہن زائشہ کو زبان دے رکھی ہے۔اس کا کیا ؟؟؟زیان نے تلخ انداز میں پوچھا ۔۔۔

"ڈیڈ میں نے تو نہیں کہا تھا آپکو زبان دینے کے لیے "

"ذلیل انسان زبان چلاتا ہے میرے سامنے ۔۔۔۔انہیں ہاتھوں سے تجھے پال پوس کر بڑا کیا کھانا کھلایا تیری پڑھایا لکھایا ۔۔۔۔اس دن کے لیے ۔۔۔؟؟

کہ تو میرے منہ پہ آئے ؟؟؟

زیان تو اسکی زبان درازی پہ آپے سے باہر ہوا ۔۔۔

"آپ نے مجھ پہ کوئی احسان نہیں کیا کھلا پلا کر یا پڑھا کر ۔۔۔۔ہر ماں باپ ایسے ہی کرتے ہیں۔"وہ دوبدو بولا ۔۔۔

"جنت اپنے لاڈلے سے کہو کہ میری نظروں کے سامنے سے دور ہو جائے ورنہ آج میرا ہاتھ اٹھ جائے گا اس پہ "

زیان غصے سے آگ بگولہ ہو چکا تھا۔۔۔

"زیان پلیز ۔۔آ۔۔۔آپ بیٹھیں ۔۔۔زیادہ غصہ کرنا ٹھیک نہیں۔۔۔میں اسے سمجھاؤں گی ۔۔۔

بچہ ہے سمجھ جائے گا "

وہ زیان کو شانے سے پکڑ کر بیٹھنے کے لیے بولی ۔۔۔

"کیا خاک سمجھے گا ؟

"بچہ لگتا ہے تمہیں یہ ؟؟؟

"ڈاکٹر بن چکا ہے ۔اور عقل گھٹنوں میں ہے۔"

وہ پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا کر بولا ۔۔۔

"اس کی خاطر اب میں اپنی بہن سے ناراضگی مول لوں ۔۔۔اور وہ بچی رمشاء جو بچپن سے اسے اپنا سب کچھ مان کر اسکے نام پہ بیٹھی ہے۔اس سے کیسے نظریں ملا پاؤں گا میں ۔۔۔۔؟

"یہ سوچا ہے کبھی تم نے ؟؟."مگر تمہیں کیا ؟؟تم تو اپنے دل کی کرو "

"ڈیڈ رمشاء آپکی بہن کی بیٹی ہے ۔۔تو ہانیہ آپکے بھائی ضامن چچا کی بیٹی ہے۔میں کونسا آپ کو خاندان سے باہر کی لڑکی سے شادی کرنے کا کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔بس لڑکی ہی بدلنی ہے "

وہ تندہی سے بولا۔

"گڈے گڑیا کا کھیل ہے نا ایک گڑیا پسند نہیں تو دوسری سے شادی رچا لی ۔۔۔۔

انسان ہے رمشاء اس کے بھی احساسات ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کے دل کو توڑ کر کوئی کبھی بھی خوش نہیں رہ پاتا سمجھے تم  "

جنت نے آج اتنے عرصے بعد زیان کو یوں غصے میں دیکھا تھا ۔۔۔

"اعیان تم جاؤ یہاں سے ۔۔۔ہم پھر بات کریں گے "جنت نے فی الوقت اعیان کو وہاں سے جانے کے لیے کہا ۔۔۔

"نجانے کن گناہوں کی سزا مل رہی ہے مجھے ایسی گندی نا فرمان اولاد کی صورت میں ۔۔۔

 زیان دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھام کر چہرہ جھکا گیا ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

"گڈ مارننگ سر !

لکی کلاس میں اینٹر ہوا تو ساری کلاس یکدم الرٹ ہوئی اور اسے سلام کیا۔

اس کا پہلا پیرڈ تھا ۔اسی لیے سب وقت سے پہلے ہی اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہوچکے تھے ۔۔۔

"ہممم۔۔۔گڈ مارننگ!

وہ سنجیدگی سے بول کر ڈائس کی طرف بڑھا ۔۔۔

"اس کلاس میں ہائیسٹ مارکس کس سٹوڈنٹ کے ہیں ؟

اس نے سوال کیا ۔۔۔

سب نے اپنے اپنے مارکس بتائے ۔۔۔

"You stand up"

اس نے ابرو اچکا کر کہا ۔۔

"سر میں ؟؟

"جی آپ سے ہی کہہ رہا ہوں "وہ برفیلے لہجے میں بولا۔۔۔

تو ماھی جو پہلے اس کی پرسنالٹی کے زیر اثر سہمی رہتی اسکے مخاطب کرنے پہ جھجھکتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔

"آج سے آپ اس کلاس کی سی_ آر ہوں گی ۔۔۔

ماھی نے اتنی بڑی ذمہ داری مل جانے پہ فق نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔

"مگر سر !اس نےدھیمی آواز میں کہنا چاہا ۔۔۔

Any problem?

اس کے سپاٹ سوالیہ انداز پہ ماھی نے جھٹ نفی میں سر ہلایا۔۔۔

"N....No....Sir ...

وہ سر جھکا گئی ۔۔۔

"آئیں آج کا ٹاپک شروع کرتے ہیں "لکی وائٹ بورڈ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

ماھی بے دلی لب بھینچ کراپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

"تم مجھے یہ کہاں لے کر آئی ہو اور وہ تمہارا منحوس مارا میجر کہاں ہے؟؟ 

سدرہ کمرے میں داخل ہوئی ہی تھی کہ وہ بیڈ سے اُٹھتی بولی- نقاہت کے باعث آواز بہت مدھم تھی- کمرا کافی کشادہ تھا- فرنیچر بھی میچنگ کا، مگر لکڑی کا تھا- ڈارک میرون رنگ پردے لگے تھے- ایل ای ڈی بلب کی روشنی بھی کافی تیز تھی- جو اسکے سامنے دیورا پر لگا تھا- بیڈ پر لیٹی چاندنی اب اُٹھ بیٹھی تھی-

"آجائیں گے سر بھی ، آپ یہ جوس پی لیں۔ سدرہ نے جوس کا گلاس اسے تھمانا چاہا۔ مگر وہ ٹانگیں سمیٹ کر آلتی پالتی مارے بستر پہ بیٹھی ۔۔۔

"اے موٹی سانڈ "تو اتنی جلدی بدل گئی ۔۔۔

"کیسے مار مار کر میرا بھرکس نکال دیا۔۔۔اور اب اتنی خاطر مدارت ؟؟؟

"سب خیر تو ہے۔نا ؟؟؟

"کہیں تیرا دماغ تو نہیں چل گیا ؟؟؟

"یا پھر میں جاگتی اکھیوں سے کوئی خواب شواب دیکھ رہی ؟؟؟

وہ آنکھیں دونوں ہاتھوں سے ملستے ہوئے بولی ۔۔۔

"اوووو۔۔۔۔

"کہیں اس جوس میں کچھ ملا تو نہیں دیا ۔۔۔۔

"اور مارنے سے پہلے مجھے کھلا پلا رہی ہے تو "

چاندنی نے اپنی قیاس آرائیاں جاری کیں ۔۔۔

"سر نے کہا تھا کہ آپ کا خیال رکھوں ۔۔باقی باتیں وہ آئیں گے تو ان سے پوچھ لیجیے گا۔۔۔ ابھی آپ اسے پی لیں " سدرہ نے جوس کا گلاس پھر اسکی جانب بڑھایا- چاندنی  نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا- سدرہ نے نظریں چرا لیں- 

"سچ سچ بتاؤ بکری حلال کرنے سے پہلے اس کا خوب خیال رکھا جا رہا ہے ۔۔۔ہے نا ؟؟؟ 

"ایساکچھ نہیں ہے سدرہ نے اس بار اس کے سوالوں سے تنگ آکر سنجیدگی سے کہا ۔۔۔ورنہ دل تو کر رہا تھا اسے دو لگا دے اسے موٹی سانڈ کہنے پہ ۔۔۔

"پہلے وہاں بند کر کہ مجھے مارا ۔۔۔اور وہاں سے مجھے چھڑوایا کیوں ؟ تمہاری کیا دشمنی ہے مجھ سے ؟ مجھے  کیوں بیچ میں گھسیٹ لیا ہے؟ آخر میرا کیا قصور ہے؟ کس چیز کی سزا مل رہی ہے مجھے ؟ 

"یا خدا !!!!  یہ کیسی زندگی ہے ؟؟؟

ایک گندی جگہ سے نکل کر دوسری ذلالت بھری جگہ پہنچ گئی ، ایک قید سے رہائی ملی تو ان لوگوں کی قید میں آگئی ۔۔۔ایسا کون سا گناہ کرڈالا ہے میں نے جس کی سزا مجھے ایسے مل رہی ہے "

 وہ زور شور سے روتے ہوئے اپنے رب سے شکوے کر رہی تھی ۔۔۔

 سدرہ نے گہری سانس لے کر خود کو ریلکس کیا-

ابھی آپ کو سب سچ پتا چل جائے گا۔ کچھ انتظار کریں۔ سدرہ نے خلاف معمول دھیمے لہجے میں کہا ۔۔کیونکہ وہ ہمیشہ کرخت انداز میں بات کرتی تھی ۔۔مگر میر کی ہدایت تھی کہ اس کے ساتھ اب نرم رویہ اختیار کیا جائے ۔۔۔۔

"سدرہ اس نے کھانا کھایا ؟؟"

میجر امرام شیر کی بارعب آواز پشت سے سنائی دی تو چاندنی اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔۔

"نہیں سر دو دن سے کچھ بھی نہیں کھایا "

"جاؤ کھانا لاؤ ۔۔۔اس نے سدرہ کی طرف دیکھ کر سپاٹ انداز میں کہا۔

"جی سر "

"کیوں لائے ہو اب یہاں مجھے ؟؟؟

"اب کونسی نئی چال ہے یہ تمہاری 

مجھے اذیت دینے کی ؟؟؟

وہ چلا کر بولی ۔۔۔مگر نقاہت حد سے سوا تھی ۔۔۔وہ مزید بول نا سکی ۔۔۔

تو ٹیبل پہ پڑا لیمپ اٹھا  کر اس کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

"میں تمہاری جان لے لوں گی ۔۔۔جانے دو مجھے یہاں سے "

امرام شیر سینے پہ بازو باندھے خاموش کھڑا اسے ہی ملاحظہ فرما رہا تھا۔۔۔یک ٹک ایسے کھڑا تھا جیسے اسکی دھمکی پر کوئی فرق نہ پڑا ہو-

"سب پتہ چل جائے گا سویٹ ہارٹ اتنی جلدی بھی کیا ہے ۔" وہ بات کرتے کرتے کب چاندنی کی طرف آیا۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا ۔۔۔

اسکے ہاتھ سے لیمپ لے کر اس نے جوس کا گلاس تھما دیا-

"نہیں پینا مجھے جوس ۔۔۔یاکچھ بھی بس مجھے جانے دو "وہ بضد ہوئی ۔۔۔

"میری اجازت کے بغیر تو پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا تو تم کیا چیز ہو "

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔

"چھوڑو میرا ہاتھ ورنہ منہ توڑ دوں گی ",وہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری ۔۔۔

"پہلے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ تو نکال لو ۔۔۔میرے منہ تک پہنچنا تو دور کی بات ہے "امرام شیر کی گرفت مضبوط تھی ۔۔۔وہ کمزور چڑیا کے مانند پھڑپھڑا رہی تھی ۔۔۔اور دانت پیستے ہوئے اپنا ہاتھ  اسکی آہنی گرفت سے آزاد کروانا چاہتی تھی ۔۔۔مگر بے سود ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ کمزوری اور نقاہت سے گرتی ۔۔۔امرام نے اسے تھامنے کے لیے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا ۔۔۔

چاندنی نے فرش پہ لہرا کر گرتے ہوئے بھی نخوت سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔

"مر ۔۔۔۔بھی رہی ہوں گی۔۔۔نا تو تمہاری مدد نہیں چاہیے مجھے "

"اٹھو "امرام نے دوزانو بیٹھ کر اسے دیکھا ۔۔۔جو اسے قہربار نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

 وہ اس وقت اس حد تک اس کے قریب تھی کہ میجر امرام شیر اسکی آنکھوں میں اپنا عکس واضح طور پر دیکھ سکتا تھا ۔۔۔اس کے انداز اسے بہک جانے کومجبور کررہے تھے-

"کھانا کھاؤ پہلے ہمت پیدا کرو مجھ سے نپٹنے کی پھر آگے کی بات کریں گے ۔

امرام شیر اٹھ کر کھڑا ہوا،۔۔۔

سدرہ ہاتھوں میں کھانے کا ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔

"اسے کھانا کھلا دو ۔۔۔

مجھے ایک ضروری میٹنگ میں جانا ہے۔کل بات ہوگی ۔۔۔

اور ہاں اسے ڈھنگ سے بات کرنا بھی سکھاؤ "وہ سدرہ کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

"یار ماھی کل نا میری ایک کزن کی انگیجمینٹ ہے ۔سمجھ نہیں آرہا کیا پہنوں ۔تم کچھ مشورہ دو نا "پارس نے کہا ۔۔۔

"پارس تم اتنی پیاری ہو کچھ بھی پہن لو تمہیں اچھا لگے گا ۔۔۔

"ماھی تم خود اچھی ہو اسی لیے تمہیں میں بھی اچھی لگتی ہوں ۔۔۔وہ اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر بولی ۔۔۔

"اچھا چلو یہ بتاؤ تمہاری کزنز ہیں ؟؟؟

"ہاں نا میری ڈھیر ساری کزنز ہیں ۔اور سب کی بہت اچھی ہیں ۔ماھی نے مسکرا کر بتایا ۔

"یار میری کزنز تو ایک نمبر کی جل ککڑیاں ہیں۔

وہ سر جھٹک کر بولی۔۔

"کیوں کیا ہوا ؟ماھی نے حیرانگی آنکھیں واہ کیے پوچھا ۔۔۔

"یار جب بھی کوئی نئے کپڑے پہنو ۔۔۔وہی اگلے دن وہ خرید لیتی ہیں ۔ایک تو میرے کپڑوں کی ڈیزائننگ چوری کر لیتی ہے ۔چورنی کہیں کی ۔۔۔میں نیٹ سے اتنی مشکل سے ڈیزائن سرچ کر کہ سوٹ سلواتی ہوں اور وہ لوگ چوری کرلیتی ہیں۔اور ایک کو تو مجھ سے مانگنے کے سوا کوئی کام نہیں ہر دوسرے دن مانگنے پہنچ جاتی ہے ۔۔۔پارس اپنا اچھا سا ڈریس دے دو پلیز آج مجھے یہاں جانا ہے وہاں جانا ہے ۔۔پارس اس کی نقل اتارتے ہوئے بولی ۔۔۔

تو ماھی کھکھلا کر ہنسنے لگی ۔۔۔۔اسے مسکراتا ہوا دیکھ پارس بھی ہنسنے لگی ۔۔۔

"کیا بتاؤں یار ساری کی ساری واقعی سڑیل ماسیاں ہیں ",

پارس اسے مزید ہنسنے پہ مجبور کرگئی ۔۔۔ان کی ہنسی کو بریکس تب لگے جب ۔۔۔ 

"ماھی !اس کلاس کی سی-آر کہاں ہے "؟سیکنڈ ائیر کا فہد کلاس روم کے دروازے سے جھانک کر بولا ۔۔۔

"میں ہوں "ماھی جو بکس بیگ میں ڈال رہی تھی ۔فورا سر اٹھا کر بولی ۔۔۔

"تمہیں سر لکی کمپیوٹر لیب میں بلا رہے ہیں "

"ممم۔۔۔مجھے کیوں ؟اس آنے استہفامیہ انداز سے پوچھا ۔

فہد نے شانے اچکائے اور واپس مڑ گیا ۔۔۔

"پارس تم بھی میرے ساتھ چلو نا "

ماھی ڈرتے ہوئے اپنی بکس سمیٹ کر ساتھ بیٹھی پارس سے بولی ۔۔۔

"ماھی سر نے تمہیں بلایا ہے میں کیسے جا سکتی ہوں ؟

"جاؤ یار سر تمہیں کھا تھوڑی نا جائیں گے ",وہ لاپرواہی سے ہنستے ہوئے بولی مگر ماھی کا تو خون خشک ہوا پڑا تھا ۔۔۔

"ماھی دھیان سے جانا اتنے ہی ہینڈسم سر کے ساتھ اکیلے میں ملنے جا رہی ہو کہیں ان کی وجاہت کے جلوے دیکھ کر بیہوش نا ہو جاؤ ۔۔۔

ماھی نے اسے شرارت سے چھیڑا ۔۔۔

ماھی دھڑکتے دل سے وہاں سے نکلی ۔۔۔۔

بالآخر وہ ہمت کیے کمپیٹر لیب میں داخل ہونے سے پہلے اس کے دروازے پہ ناک کیا ۔۔۔

"May I come in Sir 

"Yes "

ماھی اندر آکر ادب سے کھڑی ہوگئی ۔۔۔

"آج میں کمپیوٹر پر کچھ ڈیٹا سیو کررہا ہوں ۔کل سنڈے ہے تو پرسوں منڈے کو کلاس میں ٹیسٹ لوں گا ۔۔۔

"جی ۔۔سر "وہ ہچکچاتے ہوئے بمشکل بولی ۔۔

"سر مگر ٹیسٹ کس یونٹ کا ہوگا ؟

"آپ مجھے اپنا نمبر دیں "؟

"مگر وہ کیوں "؟

ماھی نے حیران کن نظروں سے سامنے بیٹھے لکی سر کو دیکھا جس کی مخروطی انگلیاں کی بورڈ کی ماہرانہ انداز میں ٹائپنگ کر رہی تھیں۔یکلخت اس کی انگلیوں کی حرکت رکی اور اس نے خشمگیں نگاہوں سے ماھی کو دیکھا ۔۔۔۔

"رات کو آپکے ساتھ پرسنل باتیں کروں گا "

لکی سر کی اتنی غیر متوقع بات پہ ماھی کے اوسان خطا ہوگئے۔۔۔۔

"حد ہوگئی۔۔۔بھئی آپکو ٹیسٹ سے آگاہ کروں گا رات میں ٹیسٹ بنا کر تاکہ آپ باقی کلاس کو بتا دیں ۔کلاس فیلوز کے نمبر لے کر فون پہ ایڈ کرلیں ۔پھر جو میں آپ کو واٹس ایپ کروں گا آپ سب کو بتا دیجیے گا "

"جی سر "

اس نے مؤدب انداز میں کہا ۔۔۔

"نمبر ؟؟؟

"جی سر وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ماھی نے اپنا نمبر لکھوا دیا ۔۔۔

لکی نے ماھی کو اپنے فون سے واٹس ایپ پہ بلینک میسج سینڈ کیا ۔۔۔

اس کے شانے پہ ڈالے ہوئے بیگ میں موجود موبائل پہ میسج نوٹیفکیشن موصول ہوئی ۔۔۔

"میرا نمبر سیو کر لیں ۔۔۔"

ماھی نے بیگ سے موبائل نکالا ۔۔۔

اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔۔۔۔

لکی نے اس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں سے موبائل پکڑ کر اپنا نمبر لکی کے نام سے سیو کردیا ۔۔۔

پھر موبائل ماھی کے ہاتھ میں پکڑایا ۔۔۔

"اب آپ جا سکتی ہیں ۔۔۔

ماھی موبائل لے کر مرے مرے قدموں سے باہر نکلی ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

وہ ڈریسر کے سامنے کھڑی اپنے بال جوڑے کی صورت میں لپیٹ رہی تھی ۔۔کہ

رمشاء کے موبائل پہ کال آنے لگی ۔۔۔اس نے تیزی سے ہاتھ چلا کر جوڑا بنایا اور لپک کر موبائل اٹھایا ۔۔۔اس پہ اعیان کا نمبر دیکھ کر اسے خود اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا ۔۔۔اعیان کا نمبر اسکے موبائل میں سیو تھا مگر اس نے کبھی کال نہیں کی تھی ۔۔۔آج پہلی بار اسکی کال دیکھ کر رمشاء کو پریشانی نے آگھیرا ۔۔۔

"سب ٹھیک ہے "اس نے خود کلامی کی اور کال ریسیو کی۔۔۔

"اسلام وعلیکم!

"ہممم۔۔۔وعلیکم اسلام !

اس نے روکھے پھیکے انداز میں کہا ۔۔

"کیسی ہو ؟

اس نے بات کا آغاز کیا ۔

"ج۔جی میں ٹھیک ۔۔۔وہ بس اتنا ہی بولی ۔اور فون کو دیکھنے لگی ۔۔۔پھر واپس کان سے لگایا ۔۔اس کی اگلی بات سننے کی خواہاں تھی ۔۔۔کہ اس نے کس مقصد کے لیے کال کی ہے ۔۔۔

"رمشاء تم ہمارے رشتے کے بارے میں کیا کہتی ہو "

"یہ کیسا سوال ہے ؟

"میرا مطلب ہے کہ تم اس شادی سے خوش ہو ؟

"اعیان یہ رشتہ میرے والدین نے اپنی خوشی سے طے کیا ہے وہ خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں ۔رمشاء نے سادگی سے کہا ۔

"ہممم۔۔۔مگر میں خوش ۔۔نہیں ۔۔۔۔میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔اس کی بات سن کر رمشاء کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔۔۔۔

"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟

اس کے دل و دماغ میں جھکڑ چلنے لگے ۔۔۔کچھ دیر بعد وہ ہمت مجتمع کیے بولی ۔۔۔

"دیکھو رمشاء میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا میرے دل میں تمہارے لیے کوئی جذبات نہیں ۔۔۔ہم ایک ساتھ کبھی بھی خوش نہیں رہ پائیں گے ۔۔۔

رمشاء کا نازک سا دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگیا۔۔۔آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے اس کے شہابی گال بھگونے لگے ۔۔۔۔

مگر اس نے اعیان کو محسوس نہیں ہونے دیا ۔۔۔

"آ۔۔۔آپ کیا چاہتے ہیں اب ؟وہ سیدھا مدعے کی بات پہ آئی ۔۔

"تم مجھ سے محبت کرتی ہو ؟؟؟؟

"اتنا کچھ سننے کے بعد کون لڑکی اپنی محبت کا اظہار کرے گی ۔۔۔جبکہ مقابل اسے دھتکار چکا تھا ۔۔اس نے دل میں سوچا ۔۔۔

"میرے پاس آپکے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ۔۔۔۔

"اچھا بس اتنا بتاؤ کہ تمہاری نظر میں محبت کیا ہے ؟

اس نے ایک اور جان لیوا سوال داغ دیا ۔۔۔

رمشاء نے گہرا سانس لیتے ہوئے بات شروع کی ۔۔۔

میری نظر میں محبت تو یقین، اعتماد کا نام ہے

مجبوریوں، کمزوریوں، بے بسیوں، مایوسیوں کا نام نہیں

محبت تو قربانی کا نام ہے۔محبت میں سود و زیاں کا حساب نہیں ،،،محبت 

خود غرضیوں، انا پرستیوں، گمراہیوں کا نہیں نام نہیں ۔

محبت تو عزت و احترام کا نام ہے

سودے بازیوں، شرطوں، رنگ بازیوں کا نہیں."وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔۔۔

"تم نے کہا ہے نا کہ محبت قربانی کا نام ہے ۔۔۔

اعیان نے اسفسار کیا ۔۔۔

وہ اسکے تمام احساسات کو بھولے اپنے مطلب کا لفظ اس میں سے اخذ کر گیا ۔۔۔

"ہممم۔۔۔'وہ دھیما سا بولی ۔۔۔

"تو پھر اگر تمہیں کبھی مجھ سے محبت ہوئی ہے تو اس کے لیے تمہیں قربانی دینی ہوگی رمشاء ۔۔۔

"کیسی قربانی ؟؟

"مام اور ڈیڈ میرا ہانیہ سے رشتہ جوڑنے پہ نہیں مان رہے ۔۔۔۔اور نا ہی وہ میرا تم سے رشتہ توڑنا چاہتے ہیں۔

ہانیہ کا نام سن کر ساتوں آسمان قیامت بن کر اس پہ ٹوٹ پڑے ۔۔۔کیا اس کی ذات اتنی ارزاں تھی کہ اعیان نے ہانیہ کو اس پہ ترجیح دی۔۔۔

ایسا کیا تھا اس میں جو اعیان نے مجھے چھوڑ کر ہانیہ کو چُنا ۔۔۔وہ کرب زدہ نظروں سے اس فون کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔جیسے اعیان اس فون میں اسے دیکھ رہا ہو ۔۔۔

رمشاء !!!

وہ پکارا ۔۔۔

"جی !! سن رہی ہوں ۔

"اپنی چاہت کی چاہت کے لیے قربانی دو ۔۔۔اسے اس کی چاہت سے ملادو "

"اب یہ تم پہ ہے ۔تم کیسے اپنی چاہت کی چاہت کو اسکی چاہت سے ملاتی ہو "

کہتے ہی اس نے کال بند کردی ۔۔۔

رمشاء کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر کارپٹ پہ گرا ۔۔۔

وہ شکستہ وجود لیے بستر پر ڈھ سی گئی ۔۔۔

 وہ اسکی محبت کو سودے بازی کی بھینٹ چڑھانا چاہ رہا تھا ۔۔۔

"یا اللّٰہ پاک !!!

"مجھے صبر و ہمت عطا فرما ۔۔۔

میں اب صبر کا وہ درجہ پانا چاہتی ہوں کہ ؛ جب تُمھارا نام میرے سامنے لِیا جاۓ تو نہ میری آواز مدھم ہو ، نہ میرا لہجہ بِھیگے اور نہ ہی میری آنکھیں نم ہوں ۔ 

جس کے دل میں میری قدر نا ہو اس کے لیے مجھے رونا نہیں ۔۔۔رمشاء دستبردار ہو جا ایسے ناقدرے انسان سے !

اس کے دل نے شدت سے آواز لگائی۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

رات گئے وہ بستر پہ دراز تھی ۔۔۔اپنی کتابیں اپنے گرد پھیلائے پڑھائی میں محو تھی کہ موبائل پر میسج نوٹیفکیشن موصول ہوئی۔۔۔

ماھی نے ہاتھ مار کر تکیے کے ساتھ پڑا اپنا موبائل اٹھا کر دیکھا سکرین روشن تھی ۔۔۔

اور واٹس ایپ پر لکی نام سے میسج آیا ہوا تھا ۔۔۔

ماھی نے بنا ایک بھی لمحہ ضائع کیے اسے کھولا ۔۔۔

وہاں ٹیسٹ کے متلق یونٹ اور کچھ سوالات پوائنٹ آؤٹ کیے گئے تھے ۔۔۔

اس نے وہ ساری تفصیل کلاس کے واٹس ایپ گروپ میں سینڈ کردی۔۔۔۔

اور خود پھر سے پڑھنے لگی ۔۔۔یہ یونٹ تو اسے بہت اچھے سے آتا تھا ۔۔۔سب پڑھ کر بور ہوچکی تھی ۔۔۔وہ کلاس ٹیچر کے پڑھانے سے پہلے ہی کچھ یونٹ کی ڈیٹیل نیٹ پہ سرچ کر کہ پڑھ لیتی تھی ۔۔۔وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی ہر وقت کتابوں میں سر دئیے رکھتی ۔۔۔ہمیشہ ایکسڑا سٹڈیز کرتی ۔۔۔

"کیوں نا فریش اپ ہونے کے لیے کوئی رومینٹک ناول پڑھا جائے ۔۔۔ناولز پڑھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔۔۔۔کبھی کبھار فارغ وقت میں وہ رومینٹک ناول بھی پڑھتی تھی۔۔۔

اس نے فیس بک لاگ ان کی ۔۔۔

مختلف ناولز نظر سے گزرے ۔۔۔

ایک حنا اسد کے ناول محرماں وے کی آخری قسط اسکی نظروں کے سامنے سے آئی ۔۔۔

"چلو لاسٹ قسط پڑھ لیتی ہوں سارے ناول کی سمجھ آ جائے گی ۔۔۔سارا ناول اب کون پڑھے ۔۔۔اس میں تو بہت وقت لگ جائے گا صبح مجھے جلدی اٹھنا بھی ہے ۔اس نے سوچتے ہوئے وہ ناول درمیان سے پڑھنا شروع کردیا ۔۔۔۔

"قاسم شاہ جب اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اس کی نئی 

نویلی کمسن دلہن کمرے میں ٹہلنے کا شغل فرما رہی تھی۔

اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی طرف مڑی۔

"سر دیکھیں پلیز آپ اکیلے میں مجھے ڈانٹ نہیں سکتے 

اس نے ڈرتے ہوئے قاسم کی طرف دیکھا

قاسم شاہ نے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔

وہ اس کے قریب آرہا تھا ۔۔۔۔۔

وہ الٹے قدموں چلتی ہوئی دیوار سے جالگی۔۔

"آپ مجھے ڈرا کیوں رہے ہیں؟اس نے ایک آنکھ میچ کر 

دوسری آنکھ سے اسے دیکھ کر کہا۔

وہ وہیں رکا۔"

ماھی کا یہ لائنز پڑھتے ہوئے انٹرسٹ اور بڑھا ۔۔۔

ابھی تو میں نے آپ سے بہت سی باتیں منوانی تھیں۔وہ اپنی ازلی خود اعتمادی میں واپس لوٹی۔

قاسم شاہ نے ابرو اٹھا کر دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ کیا؟

جب بھی ٹیسٹ ہو گا آپ مجھے اس میں پورے مارکس دیں گے۔

پیپرز میں مجھے امپوٹینٹ کوئسچن کے گیس بھی دیں گے۔

اور اگر میں فیل بھی ہو گئی میتھس میں آپ مجھے پاسنگ مارکس دیں گے 

اور میں گھر میں آپ سے بالکل بھی نہیں پڑھوں گی۔

مجھے آپ کی بالکل بھی سمجھ نہیں آتی۔

اور آپ یہ مجھے گھور گھور کر ڈرانا بند کریں۔اس نے بے خوفی سے کہا۔

۔۔۔پڑھتے ہوئے ماھی کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔

یہ سب خرافات اپنے اس ننھے سے ذہن سے نکال دو کہ میں تمہاری کوئی بھی بات مانوں گا۔اس نے گھمبیر لہجے میں کہا

"ناول کے ہیرو کے جواب پہ ماھی کا دل دھڑکا ۔۔۔نجانے وہ کیا کرے گا ۔۔۔

اور پھراس نے اپنا رخ پاس پڑے کارٹ کی طرف کیا جس 

میں سکندر خواب خرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف تھا۔

قاسم نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔

اپنا کوٹ اتار کر ایک سائیڈ پر رکھا اور ٹائی کی ناٹ کو 

ڈھیلا کرتے ہوئے خود بستر بیٹھا ایک ہاتھ کی مدد سے اپنے شوز اتارنے لگا۔

انعمتہ آکر اس کی گود میں بیٹھی ۔آپ کو میری باتیں ماننا 

ہی ہوں گی۔ورنہ میں۔۔۔۔ اس نے قاسم شاہ کو دھمکی دی۔

قاسم شاہ کو انعمتہ سے اس بے باکی کی بالکل بھی امید نہ 

تھی۔مگر اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود سے قریب کیا۔

ورنہ کیا۔؟؟؟؟قاسم شاہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔

اتنی نزدیکی پر اس کی دھڑکنوں کی رفتار نے تیزی پکڑی۔

م مم ۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا اس کی آواز حلق میں اٹکنے لگی۔

وہ اس قسم کی باتوں سے غصے میں آ جایا کرتا تھا مگر آج 

خلافِ معمول اس معصوم مگر بےوقوف لڑکی کی حرکتوں پر اس کا انداز کافی نرم تھا۔

قاسم شاہ کی قربت سے اس کے چہرے پر آتے جاتے حیا کے 

رنگ اس سے مخفی نہ رہ سکے۔رخساروں پر پھوٹتی 

سرخی،لبوں کی کپکپاہٹ،عارضوں کی لرزاہٹ۔چند ہی 

لمحوں میں اس کے اتنے رنگ دیکھ چکا تھا کہ دل اپنے آپ 

ہی اس کے قرب کا خواہاں ہوا۔اس کے چہرے پر پھیلے حیا 

کے رنگ اسے اپنے اسیر بنا رہے تھے۔اس نے اپنی پچھلی 

زندگی فراموش کیے نئی زندگی کی شروعات کا سوچا۔۔۔

اور بے اختیار ہو کر اس کی پیشانی پر نرمی سے لب رکھتے ہوئے اپنا پہلا حق استعمال کیا۔

انعمتہ نے شرم سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔

سر اور ہزبینڈ میں ڈفرینس پتہ چلا یا سمجھانے کی 

ضرورت ہے۔؟قاسم شاہ نے اس کے کان کے پاس اپنا چہرہ لے جا کر کہا۔

انعمتہ نے اٹھنے کی کوشش کی تو قاسم نے اس کے فرار کی تمام راہیں مسدود کیں۔

"ہوووووو"

ماھی نے موبائل اپنے سینے پہ رکھ لیا ۔۔۔اور شرما کر آنکھیں موند لیں ۔۔۔وہ ناول پڑھتے ہوئے کبھی کبھی خود کو ہیروئین کی جگہ رکھ کر پڑھتی تو یونہی رومینٹک سین پڑھ کر شرما جاتی ۔۔۔آج بھی وہ آنکھیں موند کر میٹھے خواب دیکھنے لگی ۔۔۔

کبھی میری زندگی میں بھی ایسا رومینٹک انسان آئے گا ۔۔۔

پڑھائی کے دوران وہ اتنا تھک چکی تھی کہ اسے پتہ نہیں چلا کہ کب وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔۔۔

گزرتے وقت میں شیر زمان اور ہیر کی زندگی میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ان کی بیٹی سنہری کی شادی ہوچکی تھی ۔وہ شماس بن ضماد کے ساتھ جا چکی تھی ۔سال میں ایک بار کی ملنے آتی تھی ۔شیر زمان اور ہیر کے ٹرپلز ،آریان شیر جو سب سے بڑا تھا ۔وہ ایک حادثے میں کھو چکا تھا۔امرام شیر آرمی میں میجر کے عہدے پر فائز تھا۔سب سے چھوٹا شیر دل اب شیر زمان کے بزنس کو سنبھال رہا تھا ۔۔۔سب ہی اپنی اپنی زندگی میں مگن تھے ۔بظاہر تو وہ سب کو مطمئن دکھائی دیتے مگر ۔ان دونوں کے دل میں اپنے سب سے بڑے بیٹے کی جدائی کا غم پل رہا تھا ۔۔۔۔

اس گزرے وقت میں زریار ،زیگن ،زمارے سب اللّٰہ کو پیارے ہوچکے تھے ۔۔۔اب اس حویلی کا سربراہ شیر زمان تھا ۔۔۔۔ 

ہیر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھے سٹول پہ بیٹھے شیر زمان کے فیورٹ ریشمی گاؤن میں ملبوس اپنے بازوؤں پہ نائٹ کریم لگا رہی تھی ۔

شیر زمان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ہیر کی حرکات و سکنات کو مفصل طور پر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔وہ اسے افسردہ دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔

جب ہیر اس کی زندگی میں آئی تو پندرہ سال کی تھی اور اب وہ چالیس کے لگ بھگ تھی ،مگر ان سالوں میں وہ شیر زمان کی قربت میں مزید خوبصورت اور دلکش دکھائی دیتی ۔شیر زمان اور بھی گریس فُل ہوچکا تھا ۔۔۔شیر زمان کی محبت میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافہ ہی  ہوا تھا۔۔۔

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ اسے اپنی گردن پر شیر زمان کے لبوں کا لمس محسوس ہوا ۔۔۔وہ آنکھیں موند گئیں ۔۔۔شیر زمان جب بھی اس کے قریب آتا وہ سب غم بھول جاتی اسکی قربت میں سکون محسوس کرتی ۔۔۔اسے بھی اپنے محرم سے جان لیوا عشق تھا ۔۔ دونوں کی جوڑی مثالی تھی ۔۔۔

"بس کریں پلیز ۔۔۔آپ اکتائے نہیں مجھ سے اتنے سال ہوگئے...."ہیر نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔۔۔

"میری لٹل وائفی ہر نئے دن مجھے اور بھی پیاری لگتی ہے ۔ میں اس سے کبھی اکتا نہیں سکتا ۔۔۔

"اچھا کافی وقت ہوگیا ہے اب سوجائیں "

ہیر نے شانے سے کھسکا ہوا گاؤن درست کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

"کیا یار سارا دن تو اپنے بچوں اور گھر کے کاموں میں گزار دیتی ہو اور رات کو مجھے سونے کے مشورے ۔۔۔

"کچھ تو احساس کرو مجھ مظلوم کا بھی ",شیر زمان نے اپنی اوشن بلیو آئیز میں شرارت لیے کہا ۔۔۔

وہ اس عمر میں بھی اپنے سٹائل سے اس کا دل دھڑکانے  کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔

"آپ بڈھے ہوگئے ہیں "وہ اسکے سینے پہ پیار بھرا مکا برسا کر بولی ۔۔۔

"اب اتنا بھی بڈھا نہیں ہوا۔۔تمہاری اجازت درکار ہے ۔ابھی بھی ہمارے ٹرپلز کے کم ازکم ڈبلز تو آ ہی سکتے ہیں۔وہ ہیر کو اپنے حصار میں قید کرتے ہوئے بولا ۔۔۔

"بہت ہی کوئی وہ ہیں آپ "ہیر نے نظر اٹھا کر شیر زمان کی طرف دیکھا ۔۔۔

وہ آج بھی اس کی نیلی چکمتی ہوئی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ کر دنیا جہاں بھول جاتی ۔۔۔شیر زمان نے اسے اپنی بے پناہ محبت دی ۔۔۔وہ خود کی قسمت پہ نازاں تھی ۔۔۔اتنا پیار کرنے والا ہمسفر جو ملا تھا ۔۔۔۔

"وہ "کیا "؟شر زمان نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔

ہیر اسے جواب دینے کی بجائے اس کی گردن پہ بنے ہوئے شیر کے ٹیٹو کو پوروں سے چھونے لگی ۔۔۔۔

شیر زمان جان گیا کہ وہ پریشان ہے ۔۔۔وہ جب بھی اداس ہوتی یونہی کرتی تھی ۔۔۔۔

"کیا ہوا ہیر ؟"

"بتاؤ مجھے "

"کچھ نہیں۔ "وہ آہستگی سے بولی ۔۔۔

"آؤ پھر سو جاؤ "شیر زمان نے اسکے لیے جگہ بنائی ۔۔۔

ہیر تکیے پہ سر رکھے ہوئے لیٹی ۔۔۔مگر آج بھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔

"ہیر سونے کی کوشش کرو پلیز ۔۔۔میں تمہیں نیند کی گولیوں پہ نہیں لگانا چاہتا ۔۔۔اسی لیے نہیں دیتا ۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ تم خود سے نیند لو "شیر زمان اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔۔۔۔

"میں نے نہیں پڑھا تھا کہ جن کی نیند پوری نہیں ہوتی ان کا دماغ آہستہ آہستہ خود کو کسی دیمک کی طرح چاٹ کر ختم کرنے لگ جاتا ہے ،

مجھے برسوں گزر گئے ہیں ،میں ٹھیک سے سوئی نہیں ہوں ،پھر کیوں میرا دماغ دیمک زدہ نہیں ہورہا ؟

کیوں مجھے کچھ بھولتا نہیں ؟؟؟

کیوں میرے سامنے وہ گزرا ہوا پل رہتا ہے ؟

"کیوں مجھے اس اذیت سے چھٹکارا نہیں مل رہا ؟

کیوں آریان کی چیخ اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے ؟

وہ چیخ اب بھی میری روح کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔کبھی تو میرا دماغ دیمک زدہ ہوگا میں سب بھول جاؤں گی ۔۔۔بس یہی سوچ کر چپ ہوں ۔وہ کرب زدہ آواز میں اپنی حالت اس سے بیاں کر رہی تھی ۔۔۔

"ہیر زیادہ مت سوچو تمہاری صحت کے لیے بالکل بھی اچھا نہیں ۔۔۔میرے پیار کو یاد رکھو ۔۔۔شیر دل اور امرام کو سوچو ۔۔۔مجھے اور  انہیں تمہاری بہت ضرورت ہے۔ہم سے پیار نہیں تمہیں "؟

شیر زمان نے ہیر کی تھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر پوچھا ۔۔۔

"ہے "وہ فقط اتنا ہی بولی ۔۔۔

شیر زمان نے اسے اپنی آغوش میں بھر کر پر سکون کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شیر دل  مغرور  چال چلتا ہوا جیسے ہی آفس میں داخل ہوا تو ...

وہاں کام کرتے سبھی ورکرز اسکے آنے پر اپنی سیٹ سے کھڑے ہو کر اسکو سلام کرنے لگے جسکا جواب وہ سر کے اشارے سے دے رہا تھا ....

اسکے آفس میں کام کرتے سبھی ورکرز  اسکے غصے سے پناہ مانگتے تھے  ...اسکے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہ ہلتا تھا ۔۔۔سب کے سانس خشک ہوجاتے اسے دیکھ کر ۔۔۔سٹاف اس کے آنے کے بعد صرف کام پہ توجہ دیتے ۔۔۔

 اسکی پرسنالٹی ہی ایسی تھی کی سب اسکے سامنے بولنے سے پہلے سوچتے تھے اوپر سے اسکی غصیلی عادت سے سب واقف تھے کیونکہ  وہ غصے میں سب کچھ بھول جاتا تھا ..اسکو اپنا ہر  کام وقت پہ چاہیے ہوتا تھا ۔ایک منٹ کی بھی دیری سامنے والے پہ بھاری پڑتی  .....وہ اپنے کام میں کوئی بھی غلطی برداشت نہیں کرتا تھا۔۔ یہی بات سب کو ہر وقت ایکٹو رکھتی ۔۔۔۔جیسے وہ خود ہمہ وقت ایکٹو رہتا ۔۔۔

وہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے سیدھا اپنے روم میں آکر رکا تھا اسکے آفس کی عمارت  بھی اسی کہ طرح شاندار تھی  ۔۔

"کیا حال ہے دل " ...اسکو بیھٹے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب وسیم صدیقی اسکا دوست اور بزنس پارٹنر اسکے روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا ..

"تم کب آئے  ....شیر دل جو لیپ ٹاپ پر امپورٹینٹ میلز چیک کر رہا تھا ،وسیم کی آواز سن کر اپنی چیئر  سے اٹھتے ہوئے خوش دلی سے بولا تھا ...

کام کے وقت وہ سٹرکٹ تھا مگر یاروں کا یار تھا ۔۔۔

اور گھر میں بھی اپنے والدین سے بہت پیار سے پیش آتا تھا ۔۔۔

"یار میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی دبئی سے آیا ہوں اور وہاں سے واپس آتے ہی سیدھا تیرے آفس چلا آیا  ....وسیم اسکے سامنے والی چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولا ....

"وہاں کی میٹنگ کیسی رہی تیری  ....؟"شیردل نے لیپ ٹاپ کا ِلڈ بند کرتے ہوئے اس  سے پوچھا جو ایک اہم کانٹریکٹ کے لئے  دبئی گیا ہوا تھا ....

"ڈیل ڈن ہوگئی "اس نے مسکرا کر بتایا ۔۔۔

"Congratulations"

شیردل نے ہلکا سا مسکرا کر اسے مبارکباد دی۔۔۔

تھینکس یار ۔۔۔

"چل اب اسی خوشی میں پارٹی تو بنتی ہے "شیر دل نے اسے کہا ۔۔۔

"چل یار آج میرا بھی کچھ کھانے پینے کا موڈ ہے ۔دونوں چلتے ہیں۔کام تو ہوتے رہیں گے ..."

"چل "وہ دونوں ایک ساتھ آفس سے باہر نکل گئے ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

دو ہفتے ہوچکے تھے ماھی کو اس کالج میں آتے ہوئے ۔۔۔اس نے لکی سر کا بخوبی مشاہدہ کیا ۔۔۔جب وہ سر جھکائے پڑھ رہی ہوتی تو اسے خود پہ کسی کی پر تپش نگاہوں کا احساس ہوتا ۔۔۔۔جیسے ہی وہ سر اٹھا کر دیکھتی لکی سر اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیتے ۔۔۔۔ایسا ایک بار نہیں ماھی نے کافی بار محسوس کیا تھا ۔۔۔۔مگر وہ چپ رہی ۔۔۔

اسے اندر ہی اندر لکی سر کی خود پہ مرکوز نظریں کھٹکنے لگیں ۔۔۔اسے بہت برا فیل ہوتا تھا ۔۔۔ مگر وہ کسی کو بھی کچھ بتا نہیں سکتی تھی ۔۔۔ساتھ بیٹھی ہوئی اسکی دوست پارس کو بھی نہیں ۔۔۔وہ تو مجھے کی غلط سمجھے گی ۔۔۔ماھی نے دل میں سوچا ۔۔ بظاہر تو لکی نے اسے کچھ بھی نہیں کہا ۔۔۔مگر لکی کی نظریں ماھی کو اپنے وجود کے آر پار محسوس ہوتیں ۔۔۔وہ اسکے یوں دیکھنے سے بہت گھبرانے لگی تھی ۔۔۔اندر ہی اندر اس کی نظروں کے ارتکاز سے سہم چکی تھی ۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے یا پھر اس بارے میں کس سے بات کرے ۔۔۔اس کی کلاس ختم ہوئی تو وہ اپنا بیگ اٹھا کر باہر آئی ۔۔۔۔

"ارے ذخرف تم یہاں بیٹھی ہو اور میں کب سے تمہیں پورے کالج میں ڈھونڈتی پھر رہی ہوں" 

 ماھی اس کے پاس آتے ہی بولی تھی کلاس ختم ہونے کے بعد  وہ پارس کے بلانے پہ اس سے بات کرنے لگی تھی اور پھر باتیں کرتے ہوئے اس وقت کا خیال آیا ۔۔۔اور بھاگ کر زخرف کی کلاس میں آئی مگر اسکی کلاس خالی تھی ۔۔۔ زخرف وہاں کہی۔ بھی  موجود نہیں تھی ماھی اسکو ڈھونڈتی پھر رہی تھی جب وہ اسکو لان میں اداس سی بیٹھی  ملی تھی....

"تم پارس سے بات کر رہی  تھی تو میں یہاں آ کر بیٹھ گئی ..زخرف اداس لہجے میں بولی ۔۔۔ اپنے ہاتھ میں موجود کتاب کو گھور کر دیکھنے لگی ...

"زخرف میں نے تمہیں ماھی کی کزنز کے بارے میں بتایا تھا نا وہ ان کے ہی قصے سنا رہی تھی ۔۔۔ تم جانتی نہیں ہو پارس کو بہت مزے کی باتیں کرتی ہے وہ ....ماھی بھی اپنا بیگ لیے دھپ سے گھاس پہ اسکے برابر میں بیٹھ گئی  ....اس نے ذخرف کی خاموشی کو بخوبی محسوس 

کیا۔۔۔۔

"زخرف تم کسی بات پر اداس ہو تو بتاؤ مجھے ؟...ماھی نے پوچھا ۔۔۔

"نہیں ایسی بات نہیں ۔۔۔چلو آؤ چلتے ہیں گھر ۔۔۔زخرف اداسی سے بولی ۔۔۔اور وہاں اسے اٹھی ۔۔۔

",زخرف آج کہیں کچھ اچھا سا باہر کا کھاتے ہیں "

"ہمم۔ چلو "وہ اپنی اس پیاری سی کزن کو انکار نا کرسکی ۔۔۔پھر وہ دونوں ساتھ ساتھ کالج سے باہر نکل گئیں ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

"سب ٹھیک جا رہا ہے سدرہ ؟"امرام شیر نے پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے اس سے استفسار کیا ۔۔۔

"سر بہت کی ٹیڑھی کھیر ہے۔"

"جان کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے چار دنوں سے "سدرہ کوفت زدہ آواز میں بولی۔۔۔

"لگا ۔۔۔لگا ۔۔۔جتنی مرضی میری شکایتیں لگا ۔۔۔۔تو ڈرتی ہوگی اس میجر سے ۔۔۔میں کونسا ڈرتی ہوں اس سے "

چاندنی پیچھے سے آکر کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے لڑاکا انداز میں بولی ۔۔۔

اس نے سدرہ کے کپڑے پہن رکھے تھے جو چاندنی سے جسامت میں دوگنا تھی ۔۔۔

اسکے ڈھیلے کپڑوں میں چاندنی بہت عجیب لگ رہی تھی۔۔۔

”اوہ شٹ۔۔۔! کتنا کیر لیس ہوں میں۔۔۔“

"اگر اسکی زمہ داری لی تھی تو پورا بھی کرنا چاہیے تھا ۔۔۔وہ خودی سے بڑبڑایا ،

امرام نے اس کی حالت دیکھ کر لبوں کو باہم پیوست کیا ۔۔۔

"چلو میرے ساتھ "

"میں کہیں نہیں جاؤں گی اور وہ بھی خاص کر تمہارے ساتھ"

وہ تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے بولی۔

"سدرہ اسے چادر لا کر دو "وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔

"میں نے کہا نا میں نے نہیں جانا "وہ بضد ہوئی ۔۔۔

"یہ لو "سدرہ نے چادر اسکی طرف بڑھائی ۔۔

 چار دن ہو گٸے تھے ، چاندنی  اسی ایک سوٹ میں پھر رہی تھی۔۔۔

 "سدرہ اسے کہو کہ میں نا سننے کا عادی نہیں"

” جی سر ۔۔“ 

”دیکھو سر کی بات مانو ورنہ اس دن کو یاد کرو ۔۔“سدرہ نے جلے پہ نمک چھڑکا ۔۔۔

چاندنی دانت کچکچا کر رہ گئی۔۔۔

امرام ٹیبل پہ رکھی اپنا والٹ، سیل اور کیز اٹھاٸیں اور تیزی سے باہر کی طرف لپکا۔۔

"میں کچھ دیر کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں "

”تھینک یو سو مچ سر۔۔۔۔“ خوشی سے سدرہ کی باچھیں کھل گٸی۔ایسے جیسے کسی عذاب سے چھٹکارا ملا ہو ۔۔۔

لیکن امرام شیر اس کی بات سنے بغیر لمبے لبمے ڈگ بھرتا دروازے سے باہر نکل گیا۔۔۔

چاندنی کے پاس جانے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا ۔۔۔اسی لیے وہ پاؤں پٹختی ہوئی اسکے پیچھے باہر آئی ۔۔۔امرام شیر  نے شرمندگی سے نظریں چراٸیں اور فرنٹ ڈور کھول کر اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ بھی خاموشی سے بیٹھ کر گاڑی کا دروازہ دھاڑ سے بند کر گئی ۔۔۔یہ اس کی خفگی کا انداز تھا ۔۔۔۔

"اپنے کاموں میں  اسقدر مصروف ہوگیا تھا ۔۔۔کہ چار دن میں مجھے اس کا  بلکل بھی خیال نہیں آیا تھا اب اس کو رہ رہ کر غصہ آ رہا  تھا خود پر ، اس نے پارکنگ سے گاڑی نکال کر روڈ پر ڈالی،اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی اور گاڑی کا مین روڈ کی طرف موڑ دیا ،

”کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے ۔۔؟“ وہ پریشان ہو رہی تھی ،کچھ دیر بعد بالآخر بول پڑی ۔۔۔

”اب منہ سے کچھ پھوٹو گے بھی یا گونگے کا گڑ کھا کر آئے ہو  میجر ۔۔۔؟“وہ پھر سے تُنک کر  بولی۔

”اپنی زبان اور لہجہ درست کر کہ بولو گی تو ضرور جواب ملے گا “ اس نے سختی سے کہا ، چاندنی کی زبان کو وہیں بریک لگ گٸے وہ سر جھٹک کر خاموش ہوتے شیشے سے باہر کے مناظر دیکھنے لگی ، اس کی آنکھیں بہنے کو تیار تھی 'نجانے اب یہ کہاں لے کر جا رہا ہے یہی سوچ کر ۔۔۔ لیکن پھر وہ اپنے آنسو اندر ہی اتار گٸی ، کچھ دیر کے بعد امرام شیر  نے گاڑی بہت بڑے شاپنگ مال کے سامنے روکی لیکن وہ پھر بھی کچھ نہیں بولی، امرام شیر نے دوسری طرف سے آ کر گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ خاموشی سے باہر نکل آٸی، امرام  کو بھی اپنے سخت رویے کا احساس ہوگیا تھا، 

”آو باہر ۔۔ “ اب کی بار وہ نرمی سے پیش آیا ، چاندنی  نے اک نظر امرام شیر  کے شرمندہ سے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر سے نظروں کا رخ پھیر لیا ۔

”چلیں اب۔۔۔۔؟یا یہیں کھڑے رہنے کا ارادہ ہے ؟“

وہ چاندنی کو ایک ہی جگہ پر کھڑی دیکھ کر سپاٹ انداز میں بولا ۔۔۔

”ہممممم۔۔۔۔۔“

وہ لاپرواہی سے شانے اچکا کر چلنے لگی ۔۔۔امرام شیر نے  مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور پھر شاپنگ مال کے اندرآ گیا،

"میجر چھوڑ میرا ہاتھ "وہ اسکی مضبوط گرفت میں سے اپنا ہاتھ آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

مگر امرام شیر نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا اور نا ہی اس کے جھٹپٹانے کو خاطر میں لایا ۔۔۔

مختلف شلوار قمیص اور فراک شال جوتے ،غرض یہ کہ ۔۔۔

ساری شاپنگ امرام نے ہی کی تھی۔اس کو لیڈیز شاپنگ کا کوٸی خاص تجربہ نہیں تھا۔۔بس کچھ دفعہ اپنا مما ہیر کے لیے کچھ نا کچھ خریدتا تھا ۔۔۔ لیکن پھر بھی اس نے کے لیے بہت اچھی شاپنگ کی تھی ، اس کی یہ دلی خواہش تھی کہ وہ کبھی اپنی واٸف کے ساتھ آکر ،شاپنگ کرتا ۔۔۔

پھر سوچ کر ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا ۔۔۔۔اتنی زیادہ شاپنگ دیکھ کر چاندنی تو دنگ ھی رہ گٸی، 

”بس کردو میجر کیا ساری مارکیٹ خریدو گے ۔۔ “ کب سے وہ خاموش تھی آخر کار صبر کا پیمانہ چھلکا اور وہ  بول ہی پڑی۔

”کیوں کیا ہوا۔؟“ وہ ہلکا سا مسکرا کر حیرانی سے بولا کیونکہ وہ اتنی دیر کے بعد جو بولی تھی۔

”اب اس خریداری میں کیا چال ہے ؟ امرام شیر ٹکٹکی باندھے اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔ جو بہت خفا خفا اور سادہ سی اس سے باز پرس کرتے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھی۔

"چال تو نہیں پیار ہے ،اگر تم سمجھو "وہ مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔

چاندنی نے رخ موڑ لیا اور ایسے ادھر ادھر دیکھنے لگی جیسے اس کے کانوں نے کچھ سنا ہی نا ہو ۔۔۔

چاندنی کی نظر سامنے ایک جیولری شاپ میں گئی ۔۔۔۔جہاں وال گلاس میں سے جدید ڈیزائن کی رنگز دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔

امرام شیر نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اسے وہیں چھوڑ کر خود اندر چلا گیا ۔۔۔

چاندنی اب نظروں کا زاویہ بدل کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔۔

"بھاگ جاؤں یہاں سے ۔۔۔؟؟؟

"یہ نا ہو میجر میرا امتحان لے رہا ہو ۔۔۔یہاں میں بھاگوں اور ادھر میرے پیچھے اپنے بندے لگا کر مجھے واپس پکڑ لے ۔۔۔۔۔۔۔

کہیں پھر سے یہ درندہ وحشی میجر میری کھال نا ۔۔۔ادھیڑ دے "

اس نے ڈرتے ہوئے جل کر سوچا ۔۔۔۔

"نا۔۔۔نا ۔۔۔اب ایسا خطرہ مول نہیں لینا ۔۔۔

"اتنا تنگ کر ۔۔۔۔سب کو کہ یہ خود تجھے چھوڑ دیں ۔۔۔۔دیکھ آخر یہ میجر تجھ سے چاہتا کیا ہے "اس نے دل میں سوچا ۔۔ کہ وہ چند لمحوں میں اس کا پاس پھر سے کھڑا تھا ۔۔۔۔ 

"میجر واپس چل "

”اچھا ٹھیک ہے۔۔! 

” میں بھی بہت تھک گٸی ہوں ' اب گھر چلتے ہیں ۔“ چاندنی نے کہا ، وہ واقعی  تھک چکی تھی۔۔

”لیکن میں تو سوچ رہا تھا ہم کچھ کھالیں ، ویسے بھی آج پہلی بار میں کسی لڑکی  کے ساتھ شاپنگ پر آیا ہوں، کیوں نہ ڈیٹ بھی ہو جاۓ۔۔“ وہ دھیرے سے مسکرا کر شرارت سے بولا ، اب وہ بہت اچھے موڈ میں تھا۔۔

”تو پہلے آپ کس کے ساتھ آتا تھا میجر ۔۔۔؟“ وہ مصنوعی غصے سے تیوری چڑھا کر بولی۔

”ہاہاہاہاہاہا۔۔۔! ارے واہ بیویوں والا ایٹی ٹیوڈ۔۔؟" 

"میں اپنے بھائی کے ساتھ آتا تھا ۔۔۔۔وہ بڑی زور سے قہقہ لگا کر ہنس پڑا،اِدھر اُدھر سے گزرنے والے لوگوں نے بڑے تعجب سے ان کی طرف دیکھا لیکن وہ تو جیسے اپنی ہی دنیا میں مست کھڑے تھے۔۔

” میجر  چل۔۔۔ یہاں سے سب ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں۔۔“ وہ بہت شرمندہ ہو گئی تھی اور پھر اس کو بازو سے پکڑ کر باہر کی طرف مڑی۔ 

"اچھا پہلے تم ان میں سے ایک ڈریس تبدیل کرو "

"ارے وہ کیوں ؟؟؟

"ان کپڑوں میں تجھے ۔۔۔مجھے اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے بیعزتی محسوس ہوتی ہے ؟

وہ گھور کر بولی۔۔۔

"ارے نہیں ۔۔۔تمہیں ایک ہوٹل میں لنچ کرواتا ہوں وہاں ایسے جانا مناسب نہیں لگے گا ۔۔۔

"اچھا پر میں چینج کہاں کروں گی ۔۔۔۔

"ارے یہاں مال میں چینجنگ  روم بھی ہوتے ہیں ۔۔۔آو دکھاؤں ۔۔۔

وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا ۔۔۔

چاندنی ان کپڑوں میں سے ایک ڈریس لیے چینجنگ روم  میں چلی گٸی،کچھ دیر بعد وہ چینج کر کے آٸی تو امرام شیر اس کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اس کے خریدے ہوۓ سوٹ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔اس کو انجانی سی خوشی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔

وہ دونوں اس وقت ایک ہوٹل میں تھے ۔۔۔امرام شیر نے ویٹر کو کھانے کا آرڈر دے دیا تھا ۔۔۔

 سامنے سے ہی شیر دل اور وسیم صدیقی اندر آئے ۔۔۔

امرام کی نظر ان پہ اٹھی ۔۔۔

بیک وقت شیر دل نے بھی اسے وہاں دیکھا تو اس کی طرف آیا ۔۔۔

"لالہ ! آپ یہاں ؟"شیر دل نے اس کے پاس آکر پوچھا ۔۔۔

پھر اسکی نظر امرام شیر کے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک صنف مخالف پہ پڑی ۔۔۔

وہ چند لمحوں کے لیے ساکت رہ گیا ۔۔۔۔

اس نے اپنی لائف میں بہت سی حسین لڑکیاں دیکھیں تھیں۔مگر اس طرح کی پہلی بار دیکھی تھی ۔۔۔۔

اس کے دل نے اک بیٹ مس کی ۔۔۔۔

"یہ کون ہے لالہ ؟

اس نے ہلکا سا مسکرا کر پوچھا ۔۔۔

اور پھر امرام کے کان کے پاس جا کر سرگوشی نما آواز میں پوچھا ۔۔۔

"کہیں میری بھابھی بنانے کا تو نہیں سوچ رہے ؟اس نے ابھی کلئیر کرنا چاہا ۔۔۔

"نہیں ۔۔۔جسٹ فرینڈز "

امرام شیر نے فورا جواب دیا

"چلیں تو پھر اپنے بھائی کے بارے میں ضرور سوچئیے گا "شرارت سے کہتے ہوئے چاندنی کی طرف مڑا ۔۔۔

"Hello pretty lady"

شیر دل نے میز پہ رکھے چھوٹے سے گلدان سے گلاب کی کلی نکال کر چاندنی کی طرف بڑھائی ۔۔۔

چاندنی نے اخلاقا اس کے ہاتھ سے پھول لے لیا ۔۔۔

اور جوابا آہستگی سے سر ہلایا ۔۔۔

"Nice to see you"

وہ کہتے ہوئے چاندنی پہ اک اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر وسیم کے ساتھ دوسری ٹیبل پہ بڑھ گیا ۔۔۔

چاندنی کی نظر جب شیر دل پہ پڑی تھی ۔ تو وہ کچھ دیر کے لیے اپنی جگہ جامد رہ گئی تھی ۔۔۔

امرام شیر نے چاندنی کی آنکھوں میں نظر آتی ہوئی  حیرت محسوس کرلی تھی ۔۔۔

"یہ میرا بھائی ہے ۔شیر دل "

ہم بالکل ایک جیسے ہیں۔بس ہئیر سٹائل کا فرق ہے۔"

"فرق تو اور بھی بہت ہے "وہ جل کر بولی ۔۔۔

"وہ کیا "؟

ویٹر ٹیبل پہ کھانا لگا رہا تھا۔۔۔

امرام شیر نے اپنا سیل اپنے پاکٹ میں رکھا اور اس میں سے ایک مخملیں کیس نکال کر سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔۔۔

"وہ تمہاری طرح درندہ نہیں لگ رہا ۔۔چاندنی نے کہتے ہوئے پھول کو اپنی ناک کر قریب لے جاتے ہوئے اسکی دلفریب تازہ محسور کن مہک کو اپنی سانسوں میں اتارا ۔۔۔۔

"ہا۔۔ہا۔۔۔ہا ۔۔۔امرام شیر کُھل کر ہنسا ۔۔۔

بے شک اسکی ہنسی بہت پیاری تھی ۔مگر اس وقت وہ چاندنی کو ہنستے ہوئے زہر لگا ۔۔۔ 

عین اسی لمحے زخرف اور ماھی ہوٹل میں داخل ہوئیں ۔۔۔

ماھی بیٹھنے کے لیے ٹیبل تلاش کر رہی تھی ۔۔۔جبکہ زخرف کی نظر ہنسنے کی آواز سن کر فورا امرام شیر پہ پڑی ۔۔۔۔

زخرف نے آج اسے پہلی بار اتنا کُھل کر ہنستے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔وہ وہیں کھڑی اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

وہ جہاں کھڑی تھی امرام شیر کو با آسانی دیکھ سکتی تھی ۔۔۔۔

"آؤ زخرف "

ماھی اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک ٹیبل پہ بیٹھ گئی ۔۔۔اس نے نجانے کیا آرڈر کیا تھا زخرف کو کچھ ہوش نہیں تھا ۔۔ اسکی نظریں تو امرام شیر سے ہٹنے سے انکاری تھیں ۔۔۔اس کے ساتھ ایک لڑکی بیٹھی تھی ۔۔۔مگر اس لڑکی کی پشت تھی ذخرف کی طرف ۔۔۔وہ چاہ کر بھی اس لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہی تھی ۔۔۔

امرام شیر نے مخملیں کیس سے ایک خوبصورت رنگ برآمد کی اور چاندنی کا نازک سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسکی مخروطی انگلی میں رنگ پہنا دی ۔۔۔

چاندی پھٹی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

"یہ کیا حرکت ہے "؟

وہ خونخوار لہجے میں غرائی۔۔۔۔اور اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالتے ہوئے وہ انگوٹھی اتارنے ہی لگی تھی کہ ۔۔۔امرام شیر نے اس کا ہاتھ واپس اپنی آہنی گرفت میں لیا۔۔۔۔

چاندنی اپنا ہاتھ اسکی فولادی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

"چھوڑو میرا ہاتھ "

"I will kill you....

"You ....

وہ دانت پیس کر بولی ۔۔۔

اب کی بار جھٹکا کھانے کی باری امرام شیر کی تھی ۔۔۔ اچانک اسکی انگلش اور بولنے کے انداز پہ حیران کن نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔

"جب یہ سب آتا ہے تو وہ بیہودہ لینگوئج استعمال کرنے کی کیا ضرورت ؟

وہ سپاٹ انداز میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔

چاندنی تو خود حیران تھی کہ اس کے منہ سے یہ الفاظ کیسے نکلے ۔۔۔۔تو وہ اسے کیا جواب دیتی ۔۔۔۔چاندنی کو کچھ لمحوں کے لیے اپنا دماغ سن ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام کر رہ گئی۔۔۔

"اسے اتارنا مت ۔۔۔اور کھانا کھاؤ بھوک سے چکر آرہے ہیں"وہ تنبیہی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

چاندنی نے کچھ دیر بعد خود کو کچھ بہتر محسوس کیا تو اس نے سامنے رکھے کھانے کی طرف دیکھا ۔۔۔پھر بے دلی سے سر جھکائے چند لقمے زہر مار کرنے لگی ۔۔۔

زخرف جو امرام شیر کو اس انجان لڑکی کو انگوٹھی پہناتے ہوئے دیکھ چکی تھی ۔۔۔اس سے اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہوا ۔۔۔۔اس کے آنسو اسکے پھولے ہوئے گالوں پر پھسلنے لگے ۔۔۔۔دل ٹوٹ کر کرچیوں میں بٹ گیا ۔۔۔۔وجود چھلنی ہوتا ہوا لگ رہا ۔۔۔ 

"ماھی چلو یہاں سے "وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف بڑھی کیونکہ اب مزید وہاں رک کر اپنی آنکھوں کے سامنے وہ سب ہوتا نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔وہ باہر روڈ کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

"زخرف کہاں جا رہی ہو ادھر ٹریفک بہت زیادہ ہے "

ماھی نے اسے روڈ کے درمیان میں جاتے دیکھ اسے اونچی آواز میں ہانک لگائی۔۔۔۔مگر وہ اپنے آپے میں ہوتی تو سنتی نا ۔۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تو وہی جان لیوا منظر کسی فلم کی مانند چل رہا تھا ۔۔آنسووں کی وجہ سے سامنے کا منظر دھندلا گیا ۔۔۔

وہ بنا سوچے سمجھے آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔ کہ ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے ٹکر لگا کر اچھالتے ہوئے دور پھینکا ۔۔۔۔

ماھی تو اسے یوں گرتا دیکھ اپنی جگہ ُسن کھڑی ہوئی۔۔۔

پھر بھاگتی ہوئے اس کے پاس پہنچی ۔۔۔۔

"زخرف !!  "

وہ اس خون سے لت پت ذخرف کو جھنجوڑنے لگی ۔۔۔جس کی آنکھیں اپنے آپ بند ہورہی تھیں ۔۔۔۔

ماھی مدد کے لیے زور سے چِلّانے لگی ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

"آؤ چلیں "وہ ویٹر کو بل ادا کرتے ہی چاندنی سے بولا ۔۔۔اور اپنا والٹ پاکٹ میں رکھتے ہوئے وہاں سے اٹھا ۔۔۔۔

چاندنی خاموشی سے اسکی تقلید میں باہر نکلی ۔۔۔ابھی وہ ہوٹل سے نکل کر پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں ان کی گاڑی پارک تھی کہ راستے میں ایک فقیر جس نے اپنے سر اور شانوں پہ بڑی سی بوسیدہ براؤن رنگ کی شال اوڑھ رکھی تھی ۔۔۔۔اس کے براؤن بال جو شانوں سے نیچے تک آرہے تھے ۔۔۔سر جھکائے ہوئے ہاتھوں میں خالی کشکول لیے بیٹھا تھا ۔۔۔

اس نے چاندنی کے پاس سے گزرتے ہی اپنا خالی کشکول اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔

چاندنی وہیں رکی ۔۔۔اور اپنے ہاتھ کی انگلی میں امرام شیر کی کچھ دیر پہلے پہنائی گئی انگوٹھی اتار کر اس فقیر کے خالی کشکول میں ڈال دی ۔۔۔

"بابا میرے لیے دعا کرنا !!!!مجھے سب غموں سے رہائی مل جائے "

وہ غمزدہ لہجے میں بولی ۔۔۔

امرام شیر نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اس کی دی ہوئی انگوٹھی اس فقیر کو دے رہی تھی ۔۔۔جس کا چہرہ شال میں ڈھکا ہوا تھا ۔۔۔ 

امرام کے چہرے کے نقوش تنے۔۔۔۔وہ پیشانی پر شکنوں کا جال بچھائے اسے قہربار نظروں سے دیکھنے لگا ۔۔۔

چاندنی چلتے ہوئے اس کے پاس آئی ۔۔۔۔

"یہ کیا حرکت تھی ؟وہ جبڑوں کو بھینچ کر بولا ۔۔۔غصے سے اسکے ماتھے کی رگیں پھولیں۔۔۔۔

"میجر ابھی مجھے تیرا وہ تھپڑ بھولا نہیں   "وہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھ کر تنفر زدہ آواز میں بولی۔۔۔۔

"تجھے کیا لگتا ہے مجھ پہ پہلے ظلم کے پہاڑ توڑے گا پھر مجھے شاپنگ کروا کہ مجھے کھلا پلا کر ان زخموں کی بھرپائی کردے گا "

"چاندنی اپنا بدلہ بھولتی نہیں ۔۔۔اور رہی بات اس انگوٹھی کی تو ۔۔۔

"بے شک وہ مجھے پسند آئی تھی ۔۔۔مگر اس انگوٹھی کو دینے والا انسان اپُن کو پسند نہیں "

"آئیندہ سے میرے ساتھ فری ہونے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔۔سمجھا ۔"

وہ ایڑیوں کے بل گھوم کر گاڑی کی طرف پلٹی ۔۔۔اور جاکر اندر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

امرام شیر نے اس کی حرکت پہ خود کو نارمل کرنے کے لیے اپنی مٹھیوں کو زور سے بھینچ لیا ۔۔۔ورنہ اس وقت اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔

اس نے واپس اس فقیر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔جس کو چاندنی نے اسکی دلائی گئی انگوٹھی دی تھی ۔۔۔مگر اب اس جگہ کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔امرام شیر نے اپنی کنپٹیوں کو اپنی پوروں سے سہلایا ۔۔۔۔

اور سر جھٹک کر گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کیا ۔۔۔

"ماھی بھاگتے ہوئے زخرف کے پاس پہنچی ۔۔۔۔اس کے سر سے نکلتے ہوئے خون پہ اس نے اپنا سکارف رکھا ۔۔۔۔

ان دونوں کو دیکھتے ہوئے دو خواتین رکشہ میں سے باہر نکل آئیں ۔۔۔۔اور ماھی نے ان سے مدد طلب کی تو وہ انہیں ہسپتال چھوڑ گئیں ۔۔۔

زخرف اب کچھ بہتر تھی ۔۔۔اس کی پیشانی پہ چار سٹیچز لگے تھے ۔۔۔۔ڈاکٹر نے ٹریٹمنٹ کردی تھی ۔۔۔۔

شکر ہے کہ حادثہ زیادہ بڑا نا تھا ۔۔۔زخرف کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اک اندوہناک حادثے کا شکار ہوتے ہوئے  بچ گئی ۔۔۔

آدھا گھنٹہ ہسپتال میں گزارنے کے بعد ماھی اسے سہارا دیتے ہوئے اسکے گھر تک لائی ۔۔۔

"کیا ہوا ذخرف ؟؟"

احتشام اور حذیفہ دونوں بھائی زخرف کے ماتھے پہ بینڈیج دیکھ کر اسکی طرف تیزی سے بڑھے ۔۔۔

"کچھ نہیں احتشام بھائی ۔۔۔بس ایک چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا ۔۔۔

"کیسا حادثہ "

حذیفہ نے ماھی سے پوچھا۔۔

"حذیفہ بھائی ہم دونوں کالج سے نکل رہے تھے ٹریفک زیادہ تھی ۔۔۔بس ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکر ہوگئی ۔۔۔

اسے سٹیچز لگے ہیں ۔ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ ایک دو دن میں ٹھیک ہوجائے گی ۔۔۔

احتشام زخرف کے شانے کے گرد بازو پھیلائے اسے اپنے ساتھ لگاتا ہوا اندر بڑھا ۔۔۔

"یہ کیا ہوا ذخرف ؟منت نے بھی اپنی لاڈلی بیٹی کے سر پہ بندھی ہوئی پٹی کو دیکھ کر پریشانی سے پوچھا ۔۔۔

"مما آپ آرام سے بیٹھ جائیں پریشانی والی بات نہیں "حذیفہ نے اپنی والدہ کو تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔

"زخرف تم ٹھیک تو ہو نا میری بچی "وہ اسکے پاس آکر صوفے پہ بیٹھیں اور اسکا گال چھو کر تفکر بھرے انداز میں پوچھنے لگیں ۔۔۔۔

"اب ٹھیک ہوں مما ",زخرف نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔اور ان کے شانے پہ سر رکھ کر آنکھیں موند لیں ۔۔۔آنکھوں کے سامنے پھر وہی رنگ والا منظر چلنے لگا ۔۔۔

اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں ۔۔۔

"اب میں چلتی ہوں زخرف تم اپنا خیال رکھنا۔

"ماھی بیٹا بیٹھ جاؤ کچھ دیر منت نے ماھی سے کہا ۔۔۔

"مما گھر میں انتظار کر رہی ہوں گی اور پھر میرے لیٹ ہونے پہ پریشان نا ہوجائیں ۔پھر آؤں گی تو زیادہ دیر بیٹھوں گی "وہ خوش اخلاقی سے پیش آئی ۔۔۔

۔۔۔کل آؤ گی نا کالج "

ماھی نے پوچھا ۔۔۔

"ہاں آؤں گی "ماھی نے سر اٹھا کر کہا ۔۔۔

"جاؤ حذیفہ بہن کو حویلی چھوڑ آؤ "منت نے اپنے بیٹے حذیفہ سے کہا ۔۔۔۔

"حذیفہ ماھی کے لیے لفظ بہن سن کر برا سا منہ بنا گیا ۔۔۔اسے اپنی یہ پڑھاکو کزن پسند تھی ۔۔۔۔مگر ابھی وہ پڑھ رہی تھی ۔۔۔اسی لیے حذیفہ بھی مناسب وقت کے انتظار میں تھا ۔۔۔۔

"آؤ ماھی میرے ساتھ ", حذیفہ نے کہا ۔۔۔

"نہیں حذیفہ بھائی آپ تکلیف مت کریں ۔۔۔آج ہم کالج وین سے نہیں آئے ۔۔۔ہاسپٹل سے رکشہ لیا تھا ۔۔۔میں رکشہ ڈرائیور کو رکنے کا کہہ کر آئی تھی وہ باہر میرا انتظار کر رہے ہوں گے ۔۔۔میں انہیں کے ساتھ چلی جاتی ہوں "

کہتے ہوئے وہ سب کو خدا حافظ بول کر باہر نکل گئی ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

امرام شیر چاندنی کو سدرہ کے فلیٹ میں بحفاظت چھوڑ کر خود ہیڈ کوارٹر رپورٹ پیش کرنے کے لیے نکل گیا ۔۔۔

وہ اپنے اپنی ٹیم کے ساتھ اپنے سینئرز کے سامنے بیٹھا تھا ۔۔۔

میٹنگ روم میں پروجیکٹر پہ سارے مناظر چل رہے تھے ۔۔۔وہ اپنے سنئیر کو حاصل کردہ معلومات فراہم کر رہا تھا ۔۔۔

ایک مشترکہ میٹنگ جاری تھی ۔۔۔۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک مسجد میں خودکش دھماکوں میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

یہ دھماکے حیات آباد کے فیز فائیو میں پاسپورٹ آفس کے قریب واقع شیعہ مسلک کی امامیہ مسجد و امام بارگاہ میں اس وقت ہوئے جب لوگ وہاں نمازِ جمعہ کے لیے جمع تھے۔خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس ناصر درانی نے جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد تین سے چار تھی جو امام بارگاہ کے باہر لگی باڑ کاٹ کر اور دیوار پھاند کر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک حملہ آور نے خود کو مسجد کے برآمدے میں دھماکے سے اڑایا جبکہ ایک حملہ آور کی باقیات مسجد کے ہال سے ملی ہیں۔

ناصر درانی کا کہنا تھا کہ مسجد کے صحن میں موجود افراد نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیسرے حملہ آور کو دھماکہ نہیں کرنے دیا اور وہ فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔

پشاور بم ڈسپوزل یونٹ کے سربراہ نے بی بی سی اردو کو ایک پیغام میں بتایا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چار تھی جن میں سے تین کے جسموں کے باقیات اور ایک کی لاش ملی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی ڈی یو نےجائے وقوع سے ملنے والے تین دستی بم بھی ناکارہ بنائے ہیں۔

دھماکے کے فوری بعد امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی تھیں اور لاشوں اور زخمیوں کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور خیبر ٹیچنگ ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات نے اس حملے میں 20 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں رش کی وجہ سے زخمیوں کی صحیح تعداد بتانا ممکن نہیں۔

تاہم حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ڈپٹی میڈیکل سپرٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ 40 سے زیادہ زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں۔

زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔۔۔۔

"یہ خودکش دھماکہ کروانے والا اور کوئی نہیں وہی سفید موت کے نام سے جانے والا سنائیپر ہے۔"میر نے کہا ۔۔۔

"اس کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے کافی ایجنٹس لگا رکھے تھے ۔۔۔

انہوں نے مجھے یہ معلومات فراہم کیں ہیں ۔۔۔امرام شیر نے کہا ۔۔۔

افغانستان کا نام منشیات کے کاروبار کے ساتھ بہت عرصے سے جڑا ہے۔ طالبان کی موجودہ حکومت کے دور میں بھی کاروبار عروج پر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک پوست کی کاشت اور ہیروئن کی برآمد کے لیے اہم سمجھے جانے والے ملک میں اب ایک نئے اور خطرناک نشے کے دھندے کا اضافہ ہو چکا ہے جس کا نام کرسٹل میتھ ہے۔

بی بی سی نے افغانستان کے جنوب میں واقعے ایک دیہی علاقے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں درجنوں پلاسٹک بیگوں میں چکمتے ہوئے سفید کرسٹل دیکھے۔ یہ میتھفیٹامین ہے۔ آّسٹریلیا جیسے دور دراز ممالک میں پہنچ کر اس کے 100 کلو کے ایک تھیلے کی قیمت تقریبا دو ملین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔

میتھ کی تجارت کرنے والے ایک شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمارے ایک جوان کو بتایا جو سول کپڑوں میں تھا ۔۔۔ 

 افغانستان کے اس جنوب مغربی ضلع میں تقریباً 500 عارضی فیکٹریاں روزانہ کی بنیاد پر 3000 کلوگرام کرسٹل میتھ تیار کرتی ہیں۔

منشیات کے اس نئے دھندے کی پیچھے حال ہی میں ہونے والی وہ دریافت ہے جس کے مطابق ایفیڈرا نامی ایک عام اگنے والی بوٹی (جسے مقامی زبان میں اومان کہا جاتا ہے) میتھ کے بنیادی جزو ایفیڈرین کو بنانے کے لیے کام آ سکتی ہے۔

اس وقت یہ کاروبار اتنا چمک رہا ہے کہ وہی منشیات ڈیلر جو پہلے خفیہ طور پر کرپٹ افغان اہلکاروں کو رشوت دے کر مال فروخت کرتے تھے اب کھلے عام بازاروں میں سٹال لگائے موجود نظر آتے ہیں۔

نوجوان کوکین کلیکٹرز جو پورے ایشاء میں منشیات کا کاروبار کرتے ہیں۔وہ یہ سارا نشہ پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پہ سمگل کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں ۔۔۔یہ مشتبہ گینگسٹر جس کا اب بھی باکسنگ کی دنیا میں اثر و رسوخ ہے۔وہی یہ سب کرنے والا ہے اس نے سنجیدگی سے ساری بات بتائی ۔۔۔

"اس کو پکڑنا اب تمہاری ذمہ داری ہے۔

 "امرام شیر"

"مجھے تو یہ مسلمان ہی نہیں لگتا جو مساجد پہ خود کش  حملہ کروا رہا ہے "

انہوں نے تفکر بھرے انداز میں کہا۔۔۔

آج سے اس کیس کو تم ہی ہینڈل کرو گے "آرمی آفیسر نے کیس کی فائل اسکی طرف بڑھائی "

 "اس کے علاؤہ کیا معلومات ہیں ۔؟آفیسر نے پوچھا ۔

"سر اس سفید موت کے نام سے مشہور سنائیپر کے بارے میں اسی کے ایک آدمی سے انفارمیشن ملی تھی کہ اس کے ساتھ ایک لڑکی رہتی تھی ۔۔۔

He doesn't know"

کہ اس لڑکی کا اس سفید موت سے کیا کنکشن تھا ۔۔۔پر وہ اس کے ساتھ رہتی تھی ۔۔۔

اس سنائیپر کا چہرہ آج تک کسی نے نہیں دیکھا ۔۔۔اس کے آدمیوں نے بھی نہیں ۔۔۔

مگر اس لڑکی کو دیکھ رکھا ہے ۔۔۔اور مجھے وہ لڑکی مل بھی گئی ۔۔۔۔

آفیسر نے گہری سانس لی اور ابرو اچکا کر امرام کی طرف دیکھا۔۔۔

"پر سر ۔۔۔وہ لڑکی وہ نہیں تھی ۔۔۔مگر ۔۔۔۔وہ اس لڑکی کی ہم شکل ہے ۔۔۔۔

"مطلب ؟انہوں نے سپاٹ لہجے میں پوچھا ۔۔۔

"مطلب جو لڑکی چاندنی نامی مجھے ملی ہے ۔وہ بالکل اسی لڑکی کی طرح ہے ۔۔۔۔

"میں نے ہر طرح سے اس سے اس سفید موت کے بارے میں اگلوانا چاہا ۔۔۔مگر اس نے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔۔

اس کا مطلب وہ اسکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی ۔۔۔

"اب میں نے کچھ اور سوچا ہے اس سفید موت کو سامنے لانے کے لیے ۔۔۔۔

"ہم اس لڑکی میں ٹریکنگ ڈیوائس لگا دیں گے ۔۔۔

وہ جہاں بھی ہوگی ہمیں اسکی آواز اور لوکیشن ملتی رہے گی ۔۔۔۔

"امرام !

"مگر وہ لڑکی اس سفید موت کے پاس پہنچے گی کیسے ؟؟؟

"سر اس کے لیے بھی میں نے پلان سوچ لیا ہے ۔۔۔۔

"وہ کیا "؟

اس کے سنئیرز جو سامنے چئیرز پہ بیٹھے تھے ۔۔۔ان میں سے ایک نے پوچھا ۔۔۔

"سر کل ڈائمنڈ ایگزیبیشن ہے۔"

اور کسی نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو پہلے ہی تھریٹ بھیج دیا کہ ۔۔۔جتنی مرضی ٹائٹ سکیورٹی کر لو وہ ڈائمنڈ کل اس ایگزیبیشن میں چوری ہو جائے گا ۔۔۔۔

اس مسجد میں ہوئے خود کش حملے کے کیس کا ہینڈل کرنے والے آفیسر کو بھی تھریٹ ملا ہے ۔۔۔اور وہی آفیسر اس ڈائمنڈ ایگزیبیشن کی نگرانی کر رہا ہے ۔۔۔وہی وہاں کا سیکورٹی انچارج ہے ۔۔۔۔امرام شیر نے کہا ۔۔۔۔

"پھر ۔؟؟.

"مجھے پوری امید ہے وہ سنائپر یا تو اس سکیورٹی انچارج کو مارنے یا پھر ڈائمنڈ چوری کرنے ۔۔۔دونوں میں سے کسی ایک کام کر سر انجام دینے تو ضرور آئے گا ۔۔۔

"تم نے کیا پلان کیا ہے مجھے وہ بتاؤ "

امرام شیر نے اپنے ساتھ بیٹھے میر کی طرف دیکھا ۔۔۔

پھر گہری سانس لی۔۔۔

"میں اس لڑکی چاندنی کو وہاں لے کر جاؤں گا ۔۔۔

اسے دیکھ کر سنائیپر اپنے دونوں ارادوں کو بھول جائے گا ۔۔۔۔

جیسے ہی وہ چاندنی کی طرف آئے گا ۔۔۔ہم اسے چاندنی کے زریعے اپنی گرفت میں لے لیں گے "

امرام شیر نے اپنے ارادوں سے آگاہ کیا ۔۔۔۔

"امرام اپنے دشمن کو کبھی خود سے کمزور سمجھنے کی غلطی مت کرنا ۔۔۔۔

"ایسا بھی توسکتا ہے۔کہ  وہ اس لڑکی کو وہاں سے نکال کر لے گیا تو ہم کیا کریں گے ؟؟؟

"سر اسی کے لیے تو آپ کو پہلے بتایا تھا کہ اس لڑکی میں ٹریکنگ ڈیوائس لگا دیں گے تو ہم اس کی لوکیشن ٹریس کرسکیں گے ۔۔۔۔"

"ہمممم ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔

"But be careful"

"یس سر "اس نے مؤدب انداز میں کہا۔۔۔۔

اور فائلز لے کر ان سے اجازت چاہی ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"سنیں ابتسام ! منت نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔۔۔تو ابتسام نیوز پیپر ایک طرف رکھے منت کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔

"جی سنائیں بیگم !وہ مسکرا کر بولا ۔۔۔

"احتشام کی شادی کی عمر ہے آپکے ساتھ آفس کا کام بھی اچھے سے سنبھال رہا ہے تو کیوں نا اسکاگھر بھی بسا دیا جائے ۔۔۔

"ایسا نیک خیال صرف آپ کو ہی آسکتا ہے مسسز ابتسام ۔۔۔ویسے بہت ہی نیک خیال ہے۔چلیں تو پھر لڑکی ڈھونڈھنا شروع کردیں ۔۔۔"

"جب لڑکی گھر میں ہی ہو تو ڈھونڈھنا کیسا ؟؟؟منت نے مبہم سا مسکرا کر جوابا کہا ۔۔۔

"مطلب "آپ نے لڑکی دیکھ بھی لی ؟وہ حیران کن نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

",میں نے تو سوچا ہوا تھا ۔۔۔مگر اس رشتے میں احتشام کی رضامندی بھی شامل ہے ۔"

"اوہ تو ماں بیٹے نے پہلے ہی ملکر کچھڑی پکا لی ہے ",ابتسام نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔

"چلیں اگر ہم نے کچھ سوچ بھی لیا تو کیا ہوا ۔۔۔آپ کی مرضی کے بغیر تو کچھ نہیں ہوگا نا "

مسسز ابتسام ۔۔۔اب پہلیاں مت بھجوائیں۔۔۔اور جلدی سے مجھے میری بہو کا نام بتائیے ۔۔۔"

"منساء ۔۔۔!!

منت نے بتایا ۔۔۔

اس کا نام سن کر ابتسام کے چہرے کی رونق مزید ہوا ۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔بہت اچھی سوچ ہے ۔۔۔منساء گھر کی بچی ہے۔۔۔

ہم آج ہی حسام اور زائشہ سے منساء کے رشتے کے لیے بات کرتے ہیں۔

"یعنی کہ آپکو کوئی اعتراض نہیں "منت نے استفسار کیا۔

"نہیں بھئی بھلا مجھے کیوں اعتراض ہوگا "؟

"چلیں ٹھیک ہے تو پھر ہم آج ہی بات کرتے ہیں ان سے ۔۔۔۔آئیں ۔۔۔

وہ دونوں اپنے کمرے سے باہر نکل گئے ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

"عیش !! ابتسام بھائی اور حسام بھائی ود فیملی حویلی آ رہے ہیں انہیں کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔ہیر نے آکر اطلاع دی ۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہونے والا ہے تو پھر تیاری کرلیتے ہیں لنچ کی "دعا نے ان دونوں سے کہا ۔۔۔

"بچے بھی آجائیں گے تھوڑی دیر تک "ہیر نے کہا تو وہ سب تیاریوں میں لگ گئے ۔۔۔۔

"رمشاء تم تیار نہیں ہوئی ابھی تک "منساء نے اسکے کمرے میں داخل ہوکر پوچھا ۔۔۔

"مجھے تو یاد ہی نہیں رہا بلکل بھی اب کیا کروں ۔۔۔۔"

رمشاء نے پریشانی سے کہا۔۔۔۔۔

"تم دو منٹ لگاؤ اور جلدی سے تیار ہوجاو ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

"آیت بیٹا ! عیش نے اسے آواز دی ۔۔۔

جی ! اس نے جلدی سے کبرڈ بند کی اور انہیں جواب دیا ۔۔۔

"بیٹا مومن کی کوئی کال آئی ؟؟؟

"نہیں مما انہوں نے ایک کال بھی نہیں کی وہاں جا کر ۔۔۔

میں بہت پریشان ہوں ۔میں آپ سے کہنے ہی والی تھی کہ آپ ان کا پتہ کروائیں ۔۔۔آیت نے تفکر بھرے انداز میں کہا۔۔۔

"اچھا میں ضامن سے کہتی ہوں مومن کا پتہ کروائے ۔۔۔

کہتے ہی عیش واپس پلٹ گئی۔۔۔۔

"بھابھی جی آپ نے تو دکھایا ہی نہیں کہ میرے بھائی نے آپکو منہ دکھائی میں کیا گفٹ دیا تھا ؟

ہانیہ نے شرارت سے پوچھا ۔۔۔۔

"یہ کنگن دئیے تھے ۔۔۔۔آیت نے اپنی کلائی دکھائی ۔۔۔

"اور پھر کیا ہوا تھا ؟"اس نے آیت کو چھیڑا ۔۔۔۔

"ہانیہ انسان بن جاؤ ۔۔۔۔ورنہ مما کو شکایت لگاؤں گی ۔۔۔کہ بچی خراب ہوگئی ہے ۔۔۔۔"اس نے دھمکی آمیز انداز میں کہا۔۔۔۔

"اور اسکی شادی کروائیں ۔۔۔

"ارے میں بھی یہی چاہتی ہوں بھابھی قسم سے ۔۔۔۔نجانے کوئی کچھ سمجھتا کیوں نہیں ۔۔۔"وہ شرارتی انداز میں ٹھنڈی آہ بھر کر بولی ۔۔۔۔

"اچھا نیچے آجائیں ۔۔۔وہ ذخرف لوگ اب آ رہے ہیں "

"اچھا تم چلو میں بس ابھی آئی ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"شکر ہے تم لوگ بھی آگئے اتنا لیٹ کردیا آنے میں مجھے تو لگ رہا تھا کہ تم دونوں ہی  نہیں آؤ گے۔۔۔۔۔"

ابتسام نے باہر سے آنے والے امرام شیر اور شیر دل کو دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔۔

"میری ایک ضروری میٹنگ تھی ۔۔۔اسے پوسٹ پون کردیا ۔۔۔شیر دل نے کہا ۔۔۔بس لاہور کی ٹریفک کا تو آپکو پتہ ہے اسی وجہ سے لیٹ ہوا ۔۔۔اس نے اپنے لیٹ آنے کی وجہ سے آگاہ کیا ۔۔۔

جبکہ امرام شیر خاموشی ہیر کے ساتھ سے صوفے پہ بیٹھ گیا ۔۔۔۔وہ خود تو یہاں آگیا تھا مگر دماغ کسی اور ہی سوچوں میں غلطاں تھا ۔

"اور آپ دونوں کیسی ہو ؟۔۔۔۔"ہیر نے منساء اور رمشاء کو پیار کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔

"جی بلکل ٹھیک۔۔۔۔۔"

وہ دونوں مسکرا کر بولی۔۔۔۔۔

"اور میری زخرف کیسی ہے ؟۔۔۔۔" ان سے ملنے کے بعد ہیر نے زخرف کو مخاطب کیے کہا ۔۔۔

زخرف تو ہیر کے گلے لگ گئی ۔۔۔

سب نے سٹپٹا کر اسے دیکھا ۔۔۔

خاص کر امرام شیر نے اس اپنی مما سے ملنے کے التفات کو نخوت سے دیکھا ۔۔۔

زخرف ،ہیر کے اسی لیے گلے لگی کہ امرام شیر اسکے وجود کا حصہ ہے۔کیا ہوا جو امرام شیر کو محسوس نہیں کرسکی ۔۔۔اس نے اسے پیدا کرنے والی کو محسوس کر کہ دلی سکون حاصل کیا ۔۔۔

"پہلے چائے پئیں گے یا پھر کھانا ؟عیش نے پوچھا ۔۔۔

"نہیں ابھی کچھ بھی نہیں۔اپنا ہی گھر ہے تکلف کیسا ؟؟کچھ بھی چاہیے ہوگا ہم خودی لے لیں گے تم بیٹھو ہمارے ساتھ  "زائشہ نے مسکرا کر عیش سےکہا۔۔۔

"دراصل ہم نے ایک باہمی مشورہ کیا ہے ۔مطلب ایک فیصلہ"

اور آپ سب کی بھی رائے چاہیے "ابتسام نے کہا ۔۔۔

"ہمممم بتاؤ ",ضامن نے کہا ۔۔۔

شیر زمان صوفے کی پشت پر ٹیک لگائے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے اپنے مخصوص شاہانہ انداز میں براجمان تھا۔

"ہم نے احتشام اور منساء کا رشتہ طے کردیا ہے۔ابتسام نے اپنے چھوٹے بھائی حسام کی طرف کر کہا ۔۔۔

"ہممم ابتسام بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں "حسام نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔

منساء جو خاموش کھڑی سب سن رہی تھی ۔۔جب احتشام سے اپنے رشتے کی بات سنی تو زرا کی زرا نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

وہ تو جیسے اسکی ایک نظر کا ہی منتظر تھا ۔۔۔

احتشام ۔۔۔اسے دیکھ کر مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔

"منساء سٹپٹا کر نظریں چرا گئی۔۔۔۔اور کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

"ویسے تو میرے دل میں بھی کچھ ہے ۔۔۔جو ابھی تک میں نے کسی سے بھی شئیر نہیں کیا ۔۔۔آپ سب کی خوشی میں اپنی خوشیاں بھی ڈھونڈھنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ہیر نے ٹہرے ہوئے انداز میں کہا۔۔۔

شیر زمان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔

"میں چاہتی تھی کہ ۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

"ماھی سارے ٹیسٹ کلیکٹ کر کہ سر لکی کو کمیونٹی روم میں دے آؤ سر وہیں ہیں ۔"

مس ماریہ کا پیریڈ شروع ہوگیا تھا ۔۔۔

لیکن سٹوڈنٹس نے سر لکی سے دس منٹ ایکسٹرا مانگے تھے ٹیسٹ کمپلیٹ کرنے کے لیے کیونکہ ٹیسٹ بقول سٹوڈنٹس کے کافی لینتھی تھا ۔۔۔۔

تو سر لکی نے مس ماریہ سے ریکوئسٹ کی کہ وہ اپنے پیریڈ سے دس منٹ سٹوڈنٹس کو ایکسٹرا دے دیں ۔۔۔

جب وقت ختم ہوا تو مس ماریہ نے کلاس کی سی آر ماھی سے کہا ۔۔۔

'

"مممم۔۔۔مگر مس ۔۔۔میں ؟اس نے جھجھکتے ہوئے کہا ۔۔۔

"جی آپ سے ہی کہا ہے "مس

ماریہ نے تند و تیز آواز میں کہا۔۔۔۔

ماھی وہ ٹیسٹ پکڑے مرے مرے قدموں سے کمیونٹی روم کی طرف آئی ۔۔۔

جیسے ہی اس نے اندر قدم رکھا ۔۔۔۔کمیونٹی روم کے دروازے کے ساتھ ایک لکڑی کی الماری بنی تھی جہاں شیشے کے مختلف ڈیکوریشن پیس لگے تھے ۔۔۔جن پہ کالج کا لوگو بنا تھا ۔۔۔۔

وہ اچانک ماھی کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹیسٹ سے لگ کر چھناکے کی آواز سے نیچے گرا ۔۔۔

لکی جو ٹیبل پہ سر جھکائے دوسری کلاس کے ٹیسٹ چیک کرنے میں محو تھا ۔۔۔اس نے نظریں اٹھا کر ماھی کودیکھا۔ 

ماھی نے ٹیسٹ الماری میں رکھے اور خود اس ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹنے لگی ۔۔۔۔

کہ شیشہ اس کے ہاتھ پہ ِپھر گیا اور ہاتھ سے خون کی بوندیں رسنے لگیں ۔۔۔

لکی کی گولڈن شیڈڈ آنکھیں یکلخت اپنا رنگ تبدیل کر گئیں ۔۔۔۔

ماھی کے ہاتھ سے نکلتا ہوا خون دیکھ کر لکی کی آنکھوں کا رنگ بھی خون کی مانند سرخ دکھائی دینے لگا ۔۔۔

جیسے کی ماھی نے نظر اٹھا کر لکی سر کو دیکھا ۔۔۔وہ نظریں جھکا گیا ۔۔۔لکی نے اپنی پلکوں کو جھپکا ۔۔۔اپنی مٹھیوں کو زور سے بھینچ کر خود کو نارمل کیا ۔۔۔۔

اسکی آنکھوں کا رنگ واپس گولڈن شیڈڈ ہوگیا ۔۔۔۔

"سر ۔۔۔یہ ٹیسٹ "ماھی نے اسکے قریب آتے ہی اسکے سامنے ٹیبل پہ ٹیسٹ رکھے ۔۔۔

"ہممم۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔

"سر میں جاؤں ؟؟؟ماھی نے اس سے اجازت لینا چاہی ۔۔۔

"آپ نے اندر آنے سے پہلے اجازت لی تھی ؟؟؟

لکی نے سرد و سپاٹ انداز میں پوچھا ۔۔۔

"N...no....Sir ...

S..Sorry ....Sir....

وہ جھجھکتے ہوئے لرزتے لہجے میں بولی ۔۔۔

"یہاں آئیں "لکی نے چہرے پہ برفیلے تاثرات سجائے کہا ۔۔۔

ماھی سہم کر اس کے پاس آئی ۔۔۔۔

لکی نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا ۔۔۔۔

وہ اس افتاد کے لیے تیار نا تھی اسی لیے کچی ڈال کے مانند اس کے سینے سے آلگی ۔۔۔۔

لکی نے اپنی تھائی پہ بٹھایا ۔۔۔

"Hey !!!

Lucky 's Luck ..."

 لکی نے اسکا سکارف اتار کر ٹیبل پہ رکھا ۔۔۔۔

"سر یہ ۔۔۔آ۔۔۔۔آپ ۔۔کی۔۔۔کیا کر رہے ہیں "

ماھی سہمی ہوئی ہرنی کے مانند اس کی تھائی پہ بیٹھی پوری طرح کپکپا رہی تھی ۔۔۔

اس نے لرزتی پلکوں اور لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بمشکل لفظ ادا کیے ۔۔۔

"اس تجوری کی چابی ڈھونڈھ رہا ہوں "

اس کی بھاپ اڑاتی ہوئی گرم سانسیں ماھی کو اپنی گردن پر محسوس ہو رہی تھیں اس کارواں رواں کپکپا رہا تھاLucky کی نظریں اس کے ڈیپ گلے سے اس کے نشیب و فراز میں الجھی ہوئیں تھیں ۔۔۔

 "سر ۔۔۔بہ۔۔۔بہت دیر ہوگئی ہے ۔۔۔با۔۔باہر ۔۔میر۔۔۔میری کزن ۔۔ان۔انتظار کر رہی ہوگی ۔۔وہ کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کیے خشک لبوں پہ زبان پھیر کر بولی ۔۔۔

"میری پیاس بجھانے کے بعد ہی رہائی مل سکتی ہے "

"ادھر دیکھو ۔۔۔وہ اس کی خمدار تھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر اسکا رخ اپنی طرف موڑتے ہوئے سوالیہ انداز سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

ماھی نے آنکھیں کھول کر جیسے ہی نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔

اس کی براؤن اور گولڈن شیڈڈ آنکھوں سے عجب سی روشنی پھوٹ رہی تھی ۔۔۔جو اسے اپنے سحر میں جکڑ رہی تھی ۔۔۔۔

مگر دل تو اس کی اتنی قربت پہ اچھل کر حلق میں آپھنسا تھا۔۔۔

"س۔۔ سر ۔۔۔پلیز ۔۔۔مجھے ۔۔۔جانے دیں ۔۔۔ماھی نے اسکی تھائی سے اٹھنا چاہا ۔۔۔

مگر وہ ایسا نہیں کر پائی جانے کونسی کشش تھی اس میں کہ ماھی اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نا ہل پائی ۔۔۔Lucky کے لب جیسے ہی ماھی کی صراحی دار گردن سے مس ہوئے ماھی کا سانس ساکن ہوا ۔۔۔اس نے اپنی فراک کو مٹھیوں میں زور سے جکڑ لیا ۔۔۔۔ 

اسے ماھی کے تازہ تازہ خون کی مہک آرہی تھی ۔۔۔جو اس کے حواس سلب کر رہی تھی ۔۔۔لکی چاہ کر بھی خود پہ قابو نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔

ماھی کی آنکھیں ڈر سے بند تھیں ۔۔۔

لکی کے منہ سے دو نوکیلے دانت باہر نکلے ۔۔۔۔جو ماھی کی گردن کو چھونے کو بے قرار تھے ۔۔۔۔

اسکی آنکھوں کا رنگ بدل چکا تھا ۔۔۔۔اور نوکیلے تیز دانت ماھی کی صراحی دار نازک سی گردن پر تھے ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

"س۔۔س۔۔۔سر پلیز "وہ ملتجی انداز میں آنکھیں میچیے بولی۔۔۔

یکلخت لکی ہوش میں آیا۔۔۔

اس نے اپنی سرخ آنکھوں کو بند کر کہ کھولا ۔۔۔

اب اسکی سرخ آنکھیں واپس گولڈن شیڈڈ ہوچکی تھیں ۔۔۔

اس نے دیکھا ماھی اسکی تھائی پہ بیٹھی بری طرح سے کپکپا رہی تھی ۔۔۔

"یہ تو کیا کرنے لگا تھا لکی ۔۔۔

"She is lucky's Luck"

اور اپنی خوش قسمتی کو اپنے ہاتھوں سے گنوانے لگا تھا تو "اس نے بغیر آواز کے خود کلامی کی ۔۔۔

"ماھی جاؤ یہاں سے "

وہ اپنے ازلی سرد و سپاٹ انداز میں لوٹ آیا تھا ۔۔۔

کچھ دیر پہلے جو اسکی آواز میں رومانیت اور جذبات سے چور آواز کا عنصر تھا ۔۔۔اب کی بار اس کا زرا سا شائبہ تک نا تھا ۔۔ ۔

"I said go"

وہ برفیلے لہجے میں دھاڑا ۔۔۔

ماھی جھٹ اسکی تھائی سے اچھل کر کھڑی ہوئی ۔۔۔۔

اور بنا رکے اور پیچھے دیکھے باہر کی سمت دوڑ لگادی ۔۔۔۔

اس نے باہر آکر سانس لیا ۔۔۔۔

وہ پھولی ہوئی سانسوں سے ہانپتے ہوئے وہاں پہنچی ۔۔۔

"کیا ہوا ماھی "؟

زخرف نے ماھی کا زرد پڑتا ہوا چہرہ دیکھا تو حیرانگی سے استفسار کرنے لگی ۔۔۔

"ک۔۔۔کچھ ۔۔۔نہیں ۔۔۔چلو یہاں سے "وہ ذخرف کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے کالج کا بیرونی گیٹ عبور کر گئی ۔۔۔۔

وہ دونوں کالج سے سیدھا حویلی آئیں ۔۔۔

کیونکہ آج سب کو حویلی میں اکٹھا ہونا تھا ۔۔۔

جیسے ہی زخرف اور ماھی  حویلی میں آئی سب کو لاونج میں موجود پایا ۔۔۔سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔۔

"بتاؤ نہ ہیر ....کیا کہہ رہی تھی "؟ زائشہ نے پوچھا ۔۔۔

"وہ میں چاہتی تھی کہ ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ ہیر اپنا جملہ مکمل کرتی ۔۔۔۔شیر زمان نے اسے درمیان میں ٹوک دیا ۔۔۔

"ہیر باتیں تو ہوتی رہیں گی ۔۔۔تم ایسا کرو کھانا لگواو "

"جی اچھا "وہ شیر زمان کے چہرے کے سرد تاثرات دیکھ کر خاموش ہوگئی اور وہاں سے اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

"باہر آؤ "وہ کچن میں ملازمہ کے ساتھ مل کر کھانا ڈشز  میں نکال رہی تھی کہ اسے پیچھے سے شیر زمان کی آواز سنائی دی تو اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔

پھر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اسکی تقلید میں باہر نکل آئی ۔۔۔۔

"کیا ہوا ؟ہیر نے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"تم سب کے سامنے کیا کہنے والی تھی ؟"شیر زمان نے اسکے سوال کو نظر انداز کیے اپنا سوال داغ دیا۔

"میں وہ امرام اور زخرف کے رشتے کی بات کرنے والی تھی ۔ہیر نے بالآخر اسے بتایا کہ وہ کیا سوچ رہی تھی ۔

"پہلے امرام سے اس کی مرضی پوچھ لینا پھر ہی کوئی سٹیپ لینا ۔۔۔

"مگر "

"ہیر اگر امرام اس رشتے کے لیے راضی نا ہوا تو ؟؟؟

"اور یہ سوچا ہے کہ اگر امرام سب کے سامنے اس رشتے سے انکار کردے گا تو اس بچی کے دل کو برا محسوس نہیں ہوگا ۔۔۔۔تم ابھی بھی بچی ہی ہو کبھی دماغ سے بھی کام لے لیا کرو ۔۔۔"اس کے لہجے میں ہلکی سی ڈانٹ کا عنصر نمایاں تھا ۔۔۔

"آ۔۔۔آپ۔۔۔مجھے اب اس عمر میں آکر ڈانٹیں گے ۔۔۔؟ہیر کی آنکھوں میں فورا نمی اتر آئی ۔۔۔۔

"نہیں لٹل وائفی ڈانٹ نہیں رہا سمجھا رہا ہوں ،اگر میری لٹل وائفی کو برا لگا تو ابھی اپنے طریقے سے سوری کرلیتا ہوں ۔۔۔شیر زمان نے ہیر کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔

"ی۔۔یہ ۔۔۔کیا کر رہے ہیں ؟؟؟وہ یکدم اسکے انداز و اطوار پہ بوکھلا گئی ۔۔۔

"سب یہیں ہیں کوئی دیکھ لے گا تو کیا سوچے گا ؟؟؟

وہ ادھر ادھر نظریں دوڑا کر خفگی سے منہ پھلا کر بولی۔۔

"یہی سوچے گا کہ ہم اس عمر میں کتنے رومینٹک ہیں "

"امرام تم ؟"ہیر نے کہا تو شیر زمان نے جھٹ سے اسے چھوڑا ۔۔۔۔

ہیر مسکرانے لگی اور واپس کچن میں چلی گئی۔۔۔

شیر زمان اسکی شرارت پہ مسکرا کر واپس لاونج میں چلا گیا جہاں سب موجود تھے ۔۔۔۔سب نے ملکر کر پر تکلف لنچ کیا ۔۔۔

زخرف اور ماھی برتن سمیٹ رہی تھیں ۔۔۔

"زیان  !۔۔۔۔

حسام نے اسے مخاطب کیا تو ضامن اور زیان اسکی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔

"میں چاہ رہا تھا کہ منساء کے ساتھ ساتھ اگر رمشاء کے فرض سے بھی سبکدوش ہوجاوں ۔۔۔۔

تم کیا کہتے ہو؟"

"زیان اسکی بات سن کر کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا ۔۔۔اور ایک اچٹتی ہوئی نظر اپنے بیٹے اعیان پہ ڈالی ۔۔۔جو اسے دیکھ کر نفی میں سر ہلا رہا تھا ۔۔۔۔

اس کی باغی نظریں زیان کو کچھ بھی بولنے سے پہلے سوچنے کی مجبور کر رہی تھیں ۔۔۔

"ہممم ۔۔۔حسام ٹھیک کہہ رہا ہے ۔منساء اور احتشام کی شادی کے ساتھ اعیان اور رمشاء کی بھی ہو جائے تو ٹھیک رہے گا ۔ویسے بھی رمشاء کی تعلیم مکمل ہوچکی ہے ۔۔۔۔

ہانیہ نے چور نظروں سے اعیان کو دیکھا ۔۔۔تو اعیان نے اسے آنکھوں کے اشارے سے تسلی دی ۔۔۔۔

"رمشاء کے ہاتھ میں موبائل تھا ۔۔۔اس پہ میسج نوٹیفکیشن موصول ہوئی تو اس نے دیکھا وہ اعیان کا میسج تھا ۔۔۔اور وہ اسے آگے بڑھ کر بولنے کے لیے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔

رمشاء نے ایک گہری سانس لی اور ہمت مجتمع کیے صوفے کی پشت کو ہاتھوں میں زور سے جکڑ کر کھڑی ہوئی ۔۔۔

"بابا مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے "وہ سر جھکائے ہوئے بولی تو سب نے اسکی طرف دیکھا ۔۔۔

"بولو بیٹا کیا بات ہے "؟حسام نے نرمی سے پوچھا ۔۔۔

"بابا م۔۔۔۔میں ۔۔۔وہ ۔۔۔اع۔۔اعیان نے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔

"رمشاء یہ تم کیا کہہ رہی ہو "؟بیٹا سوچ سمجھ کر بولتے ہیں ۔۔۔حسام نے اپنے ازلی نرم خو انداز میں کہا ۔۔۔۔اسکے لہجے میں تنبیہہ شامل تھی ۔۔۔

"بابا ۔۔۔۔اعیان بھی یہ شادی نہیں کرنا چاہتے ۔۔۔انہوں نے مجھ سے خود کہا ہے "

"ان چاہے اور زور زبردستی سے جوڑے گئے رشتے زیادہ دیر تک نہیں چلتے "

اور میں نہیں چاہتی کہ میں اپنا ان چاہا وجود لے کر کسی پہ زبردستی مسلط ہوجاوں ۔۔۔پلیز بابا ۔۔۔

I request you....

Plz ...

Don't do it....

وہ التجائیہ انداز میں بولی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔۔۔

حسام نے زیان کی طرف دیکھا تو زیان شرمندگی کے باعث نظریں جھکا گیا۔۔۔۔ اپنے بیٹے اعیان کی وجہ سے آج اسے سب کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔۔۔۔

"تم میری بیٹی کے کندھے پہ بندوق رکھ کر چلا رہے ہو ۔۔۔اگر تمہیں یہ رشتہ منظور نہیں تھا تو خود سامنے سے کہتے "زائشہ جو خاموش تھی ۔۔۔۔ساری بات جان کر غصے میں آکر تلملاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"میں بہت معزرت خواہ ہوں زائشہ ۔۔۔۔اعیان واقعی غلطی پہ ہے ۔۔۔ہیرے جیسے رمشاء سے منحرف ہو رہا ہے ۔۔۔۔جنت نے معزرت خواہانہ انداز میں کہا۔۔۔

"جب بات سامنے آ ہی چکی ہے تو میں بتا دیتا ہوں خودی ۔۔۔اعیان جو کب کا خاموش تماشائی بنا سب دیکھ رہا تھا بالآخر بول اٹھا ۔۔۔۔

"بچپن کا رشتہ طے کرنا ہمیشہ سے ہی غلط قدم رہا ہے والدین کا ۔۔۔

بڑے ہوکر ہر ایک کی اپنی پسند اپنی ترجیح ہوتی ہے ۔ہر کسی کو اپنی پسند سے لائف پارٹنر منتخب کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے ۔۔۔کیونکہ زندگی ہم نے گزارنی ہے ۔۔۔ہم کیسے ایک ناپسندیدہ انسان کے ساتھ سسسک سسسک کر ساری زندگی گزار سکتے ہیں ۔۔۔وہ بھی صرف اس لیے کہ ہمارے والدین ایسا چاہتے ہیں یہ ان کی خواہش ہے ۔ان پرورش اور تربیت کا احسان مند ہونا ظاہر کرنے کے لیے......... اپنی زندگی کو داؤ پر لگا لیں " اور سب سے اہم بات میں رمشاء سے نہیں ہانیہ سے شادی کرنا چاہتا ۔۔۔ہو۔۔۔ں ۔۔۔

"اعیان !!!!

زیان اسکی باتیں سن کر اشتعال انگیز ہوا ۔۔۔اور سرعت سے اسکی طرف لپکا ۔۔۔

شیر زمان نے زیان کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر اسے اعیان کو سب کے سامنے تھپڑ مارنے سے روک دیا ۔۔۔

"زیان نہیں !

"اعیان اب بچہ نہیں رہا کہ تم اسے یوں سب کے سامنے ۔۔۔۔

"زیان بیٹھ جاؤ ۔۔۔یوں غصے میں فیصلے نہیں کیے جاتے ۔۔۔ضامن نے صلح جو انداز میں کہا ۔۔۔

ابتسام اور حسام دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔

رمشاء تو اس سچویشن پہ دل ہی دل میں ڈھیروں ڈھیر آنسو بہا چکی تھی ۔۔۔جبکہ بظاہر خود کو مضبوط ظاہر کیے کھڑی تھی ۔۔۔۔سب کے سامنے اپنی ذات کے ٹھکرائے جانے پہ کرب زدہ تھی ۔۔۔

امرام شیر اور شیر دل خاموش تھے ۔۔۔کیونکہ ان کے ڈیڈ شیر زمان کی یہ تربیت تھی کہ جب بڑے آپس میں بات کرتے ہوں تو بچوں کو درمیان میں نہیں بولنا چاہیے ۔۔۔اسی لیے وہ خاموش بیٹھے تھے ۔۔۔۔

ورنہ دل تو دونوں کا تھا کہ اعیان کی عقل ٹھکانے لگادیتے ۔۔۔ مگر وہ ایسا کر نہیں پا رہے تھے ۔۔۔اپنی جگہ پر بیٹھے تلملا رہے تھے۔۔۔۔

"ماموں جان  پلیز آپ اعیان سے کچھ مت کہیے بات میں نے شروع کی تھی ۔۔۔قصوار وار میں ہوں ۔۔۔مجھ میں ہی کوئی کمی ہوگی ۔۔۔

"نہیں میری بچی تم میں کوئی کمی نہیں ۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ زیان رمشاء کے آگے ہاتھ جوڑتا ۔۔۔۔رمشاء نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ تھام لیے ۔۔۔

آپ بڑے ہیں ماموں جان پلیز ایسا مت کریں ۔۔۔۔

اگر آپ مجھے اپنی بیٹی مانتے ہیں تو میری ایک بات مانیں گے "وہ ان کے پاس بیٹھ کر مان بھرے انداز میں بولی ۔۔۔

"بتاؤ بیٹا ۔۔۔۔

"ماموں جان آپ اعیان اور ہانیہ کی شادی کروادیں ۔۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔۔یہ وہی جانتی تھی کہ اس کے منہ سے یہ الفاظ کیسے نکلے ۔۔۔۔اسے اپنا آپ کسی گہری کھائی میں گرتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔

حسام نے اپنی بیٹی کی طرف شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔

تو وہ اٹھ کر انکی طرف آئی ۔۔۔

"I am sorry Baba ...

پلیز مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا ۔۔۔سمجھیے اسی میں میری خوشی ہے ۔۔۔۔

حسام نے اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی رمشاء کے شانے سے ہاتھ گزار کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا پھر اسکے سر پہ محبت بھرا بوسہ دیا ۔۔۔۔

"چلیں ماموں جان اب منساءاور احتشام بھائی کی شادی کے ساتھ اعیان اور ہانیہ کی شادی بھی طے کردیں ۔۔۔رمشاء نے اپنا غم بھلا کر دل بڑا کیا اور خودی بات کی ۔۔۔۔

ماحول میں چھائی ہوئی سنجیدگی اور تلخی چھٹ گئی ۔۔۔۔

آہستہ آہستہ سب نارمل ہوگئے ۔۔۔۔اعیان نے مشکور نگاہوں سے رمشاء کو دیکھا مگر رمشاء نظریں پھیر گئی ۔۔۔

"جاو بھئی کوئی چائے بناؤ "شاہ من نے کہا ۔۔۔

"اب تو ماھی چائے بنائے گی "احتشام نے اسے چھیڑا ۔۔۔

"اوہہہو ۔۔۔احتشام بھائی آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ مجھے چائے بنانا نہیں آتی ۔۔۔

وہ منہ پھلا کر بولی۔۔۔

"تو جاؤ اس ذخرف کو لے جاؤ ۔۔۔۔

حذیفہ نے اسے پھنسایا ۔۔۔۔

"بھائی یہ نا انصافی ہے ۔۔۔خود تو آپ یہاں مزے سے بیٹھے ہیں اور ہم کچن میں جائیں ۔۔۔یہ کہاں کا انصاف ہے ؟؟ابھی ہم چھوٹی ہیں دونوں اور کالج سے تھکے ہارے واپس آئیں ہیں اور آپ معصوم بچیوں کو کام پہ لگا رہے ہیں ۔۔۔کچھ تو ترس کھائیں ہم پہ "زخرف نے اپنے اور ماھی کے حق میں آواز بلند کی۔۔۔۔

تو سب مسکرانے لگے ۔۔۔

"میں بناتی ہوں چائے "منساء اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

"زخرف بچے تم زرا ایپل کاٹ کر لاؤ شاہ من کے لیے وہ چائے نہیں پیتا ۔۔۔اسکا معدہ خراب ہوجاتا ہے ۔۔۔اسے ڈاکٹر نے منع کررکھا ہے ۔۔چائے سے ۔۔۔۔دعا نے اسے کہا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔۔۔

ہاں جاؤ بیٹا شاباش اور جلدی آنا وہیں سو مت جانا ۔۔۔"منت نے زخرف سے کہا ۔۔۔تو وہ برا سا منہ بنا کر کچن میں آئی ۔۔۔ اور وہاں سے ایپل واش کرکہ پلیٹ میں رکھے پھر چھری سمیت باہر آئی ۔۔۔

"مام مجھے ایک ضروری کام ہے ۔۔۔میں چلتا ہوں "امرام شیر وہاں سے اٹھ کر جانے لگا تو ہیر اسکے پیچھے باہر تک آئی ۔۔۔

"امرام مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔

زخرف جو امرام شیر کو باہر نکلتا دیکھ چکی تھی پلیٹ وہیں رکھتے ہوئے باہر نکلی ۔۔۔

"کوئی کام تھا آپ کو "؟

امرام شیر نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔

"ہممم تھا تو ۔۔۔چلو رہنے دو "

"مما آپ آگئی ہیں تو پوچھ لیں نا  ۔۔۔ورنہ پھر مجھے ٹینشن لگی رہے گی کہ نجانے آپ نے کیا بات کرنی تھی ۔۔۔

"میں چاہتی تھی کہ میرے بیٹوں میں سے بھی ایک کی شادی ہوجائے "

وہ مبہم سا مسکرا کر بولیں ۔۔۔

"مام آپ نا شیر دل کی شادی کردیں میرا ابھی دور دور تک شادی کا کوئی پلان نہیں "

"تم بڑے ہو پہلے تمہاری ہی  ہوگی "

"مام ایک منٹ بڑا ہونے سے کیا ہوتا ہے ۔۔۔آپ پلیز اسکی کردیں ۔۔وہ بیزاری سے بولا۔

"امرام لڑکی میں نے تمہارے لیے پسند کی ہے اسکے لیے نہیں ۔۔۔

"مام آپ نے کونسی لڑکی پسند کرلی بیٹھے بٹھائے ؟"

"امرام ۔۔۔زخرف تمہارے لیے بیسٹ رہے گی ۔۔۔جیسے تم ہو سنجیدہ مزاج اور زخرف چلبلی سی لڑکی ۔۔۔

Opposite  attarcts...

مما آپ کو ساری دنیا میں ایک وہی بیوقوف ملی تھی اپنی بہو بنانے کے لیے ۔۔۔اس نے تاسف سے سر ہلا دیا ۔۔۔

"امرام ۔۔۔۔ہیر نے اسے تنبیہی نظروں سے گُھرکا۔۔۔

"امرام ۔۔۔زخرف """

"او۔۔۔پلیز مام میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔

مجھے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں ۔۔۔ دنیا میں وہ آخری لڑکی بھی بچی نا تو میں کبھی بھی اس سے شادی نہیں کروں گا ۔۔۔۔ دوبارہ اسکے بارے میں مجھ سے کوئی بھی بات کر کہ مجھے مجبور مت کرئیے گا ۔۔۔۔وہ دو ٹوک انداز میں برجستگی سے بولا ۔۔۔۔

ماھی تو اپنے آپ کو یوں رد کیے جانے پہ انتہائی حساس نہج پہ پہنچ گئی ۔۔۔کہ اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھری سے اپنی کلائی کاٹ لی ۔۔۔۔اسکی کلائی پہ لگے کٹ سے خون ابل ابل کر باہر نکل رہا ۔۔اسے اپنے زخم میں تکلیف بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی یہ تو تکلیف تو کچھ بھی نہیں تھی درد دل کے آگے ۔

یکدم اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔ اسے اپنا وجود بے دم ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔پہلے چھری اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر گری ۔۔۔پھر وہ خود ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتے ہوئے لہرا کر فرش پہ گری ۔۔۔۔

دھڑام سے گرنے کی آواز پہ امرام شیر اور ہیر دونوں نے بیک وقت فق نگاہوں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

انہیں علم ہوگیا کہ زخرف ان دونوں کی باتیں سن چکی تھی۔۔۔۔امرام تیز رفتاری سے اسکی طرف بھاگا ۔۔۔

اور اسے اپنی بازوؤں میں بھر کر باہر کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

ضامن بھائی !!!

زیان !!!

ابتسام بھائی !!!ہیر نے اونچی آواز میں بوکھلا کر ان سب کو آواز دی ۔۔۔سب ہیر کی پریشان آواز سن کر ٹھٹھکے پھر سرعت سے باہر کی طرف آئے ۔۔۔۔

وہ مزید وہاں ٹھہر نہیں سکی اور دوڑتی ہوئی اندر کی طرف بھاگی ۔۔۔ سب اسکو یوں  بھاگ کر آتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ جس طرح پریشانی کے عالم میں وہ ناہموار سانسیں لے رہی تھی ۔۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ کوئی بڑی بات ہو گئی ہے۔ 

"ہیر!" شیر زمان نے اسے مزید بھاگنے سے روکنا چاہا مگر وہ اپنے حواس کھو بیٹھی تھی شاید اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔وہ خود کو ذخرف کی حالت کا موردالزام ٹہرا رہی تھی ۔۔اسی لیے حواسوں میں نا تھی ۔۔۔

"ہیر !!!!" شیر زمان نے اسکی کلائی تھام لی وہ ابھی تک کہیں کھوئی ہوئی تھی ۔

"ہیر ۔۔۔کیا ہوا ہے؟ سب ٹھیک تو ہے؟"

"وہ ۔۔۔۔وہ۔۔۔" اسکے منہ سے الفاظ نکل نہیں پا رہے تھے۔

"کیا ہوا ہے بولو نا...!"

"ز۔۔زخ۔ذخرف !" اسکا سانس رکنے لگا۔۔۔آواز اسکی گلے میں رہ گئی۔شیر زمان اسکی یہ حالت دیکھ کر  گھبرا گیا ۔۔۔

"بتاؤ مجھے ۔۔۔کیا ہوا ہے ؟"شیر زمان نے ہیر کو شانوں سے ہلکا سا جھنجھوڑ کر پوچھا ۔

ہیر کی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھیں اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور زبان تو ایسے تھی جیسے زنگ آلود ہوچکی ہے ۔۔۔

"بولو بھی ہیر کیا ہوا ہے؟" ضامن نے گھبرا کے پوچھا کیونکہ وہ اسکی حالت دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ بات کوئی چھوٹی موٹی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

وہ ! زخرف نے اپنی کلائی کاٹ لی ہے ۔" اس نے روتے ہوئے شیر زمان کی طرف دیکھا۔۔۔۔

"یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ تو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو سیب کاٹنے لگی تھی میرے لیے شاہ من نے کہا ۔" 

ابتسام تو اپنی بیٹی کے بارے میں سن کر جیسے سکتے میں آگیا تھا ۔۔۔

حسام نے اپنا سر تھام لیا۔پہلے اپنی بیٹی رمشاء کی وجہ سے پریشان تھا اب ابتسام کی بیٹی ذخرف بھی ۔۔۔۔ 

"کیا ۔۔کیوں اور کیسے جیسے سوالات پوچھنے کا ابھی فی الحال وقت نہیں تھا ۔۔۔۔

"جلدی چلو سب ! ہمیں فورا ً امرام کے پیچھے  جانا ہوگا!"شیر زمان تیز رفتاری سے گاڑی کی طرف بڑھا تو سب گھر کے مردوں نے اس کی تقلید کی ۔۔۔۔

شیر دل گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔

راستے میں ابتسام کے ساتھ ساتھ حسام بھی شدید اضطراب کا شکار تھا۔ مگر اُس نے اپنی پریشانی کو اپنی ازلی ہمت کے پیچھے چھپا لیا اور ابتسام جو زخرف کی وجہ سے شدید ذہنی انتشار کے باعث اپنی پیشانی کو مسل رہا تھا ۔۔۔ 

شیردل بیٹا پلیز ! گاڑی تیز چلاؤ ۔۔ ۔" ایک باپ  کے لہجے کا خوف اور بےبسی شیر دل  واضح طور پر محسوس کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسنے اسٹیرنگ سے پہ اپنی گرفت مضبوط کیے سپیڈ مزید بڑھائی ۔۔۔

"ابتسام بھائی حوصلہ رکھیں ذخرف کو کچھ نہیں ہوگا‘ حسام کو ایک تو ذخرف کی فکر ستائے جا رہی تھی اسکا دل بھی تو خوفزدہ تھا مگر اس سے اپنے پیارے بھائی کی حالت بھی تو دیکھی نہیں جا رہی تھی اس نے ابتسام کا  شانہ تھپتھپاکر اسے تسلی دی۔۔۔۔۔۔

"حسام مصیبتوں نے ہمارے گھر کا راستہ کیوں دیکھ لیا ہے ؟؟؟وہ بے بسی سے بولا ۔۔۔

 "تسلی رکھیں بھائی ۔۔۔

شیر دل نے ہاسپتال کے آگے گاڑی روکی تو ابتسام  فوراََ گاڑی سے اترا اور اسکے پیچھے پیچھے حسام بھی ہسپتال کے اندر داخل ہوا۔ لوگوں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے وہ دونوں پریشانی کے عالم میں وہ لوگ ایمرجنسی کہ طرف بڑھے ۔۔۔

"زخرف کہاں ہے "؟ابتسام نے وہاں کھڑے ہوئے امرام شیر سے پوچھا ۔۔۔۔اس نے ہاتھ سے آئی سی یو کی طرف اشارہ کر دیا وہ سب ایمرجنسی روم کے باہر کھڑے آپریشن تھیٹر کی لائٹس بند ہونے کا انتظار کرنے لگے ۔۔۔لیکن ان کے لیے یہ انتظار کسی عذاب سے کم نہ تھا ۔ابتسام پریشانی کے عالم میں ٹہل رہا تھا۔ اسکا دل بیٹھا جا رہا تھا۔اور اسکے ساتھ کھڑا حسام خود بھی زخرف کی حالت جاننے کیلئے منتظر کھڑا تھا۔ ۔۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹرز آئی سی یو سے نکل کر باہر کی جانب کو آئے ۔۔۔سب لوگ فورًا ڈاکٹر کی طرف بڑھے۔۔۔

"آپ پیشنٹ کے فادر ہیں ؟" "ڈاکٹر نے آتے ہی کہا۔

"جی میں ہی زخرف کا فادر ہوں۔" کیسی کنڈیشن ہے اس کی؟ وہ ٹھیک تو ہے نا ڈاکٹر ؟ 

ابتسام نے پریشانی سے سوال کیے ۔۔۔

۔ڈاکٹر نے سر جھکا کر ایک طویل سانس اندر کھینچا اور ابتسام کے کندھے کو تھپک کر اسے حوصلہ دیا۔۔۔ابتسام کو اب اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔ ۔ وہ اسوقت اپنی بیٹی ذخرف کے لیے کوئی بھی بری خبر سننے کا متحمل نہیں تھا۔۔۔۔

"سر انکا کافی خون بہہ چکا ۔ آپ جلد ازجلد خون کا بندوبست کریں۔ میں آپ جو زیادہ امید نہیں دے سکتا بس اتنا کہوں گا اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ سب سے بڑا کارساز ہے "یہ خبر سن کر امرام کے سر پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔۔۔جانے انجانے میں وہ اس لڑکی کا دل توڑنے کا باعث بن گیا تھا ۔۔۔  پشیمانی سے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا ۔۔۔ اس نے گہرا سانس ہوا کہ سپرد کیا اور خود کو گِلٹ سے آزاد کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔

"ڈاکٹر میری بیٹی کو کچھ ہو گا تو نہیں؟ وہ بچ جائے گی نا"؟ابتسام نے آس بھری نظروں سے انہیں دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

"پلیز ۔۔۔ آپ بس جلد از جلد خون کا بندوبست کریں۔"وہ اسکے کندھے کو تھپکتے ہوئے تیزی سے آگے کی طرف نکل گئے۔

"ابتسام  حوصلہ رکھو!  تمہیں ابھی منت کو بھی سنبھالنا ہے ۔۔۔۔ 

"منت !  تم پلیز ذخرف کیلئے دعا کرو!  کہ اسے کچھ نہ ہو۔۔اللہ تعالیٰ ایک ماں کی فریاد کبھی رد نہیں کرتا ۔۔"زائشہ نے منت کو حوصلہ دیا ۔۔۔

"میری ہر دعا میری بچی کے ساتھ ہے۔ مجھے میرے اللّٰه سےاچھے کی امید ہے میرا پروردگار مجھے کبھی مایوس نہیں کرے گا ۔" 

اس وقت وہ کرب سے گزر رہی تھی۔ وہ خود اسکی 

زندگی کیلئے دعا کر رہی تھی۔ وہ کیسے نہ کرتی اسکے لیے دعائیں؟ ۔وہ کیسے نا رب سےاسکی زندگی مانگتی آخر ذخرف اور احتشام ہی تو اسکے دونوں بچے اسکی کل کائنات تھے ۔۔

احتشام بھی اپنی بہن کی صحت کے لیے دعاگو تھا۔ اسکو وہ لمحات وہ باتیں ،وہ شرارتیں یاد آنے لگیں۔۔ جو ان دونوں بہن بھائیوں نے ملکر کیں تھیں ۔۔۔اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔

۔۔

"کچھ گھنٹوں بعد ڈاکٹر نے ذخرف کی سلامتی کی خبر سنائی تو سب کی جان میں جان آئی ۔۔۔

زخرف کو آئی- سی- یو سےاب وارڈ میں منتقل کیا جانا تھا ۔۔مگر ابتسام نے اسکے لیے ایک پرائیویٹ روم لیا ۔۔۔اب ذخرف وہیں تھی ۔۔۔مگر ابھی تک ہوش میں نہیں آئی تھی ۔۔۔سب باری باری جا کر اس کو دیکھ آئے ۔۔۔۔

آخر میں امرام شیر کمرے میں داخل ہوا تو وہ آنکھیں بند کیے ہاسپٹل کے بستر پہ لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔بازو پہ پٹی بندھی تھی ۔۔۔۔

کچھ گھنٹوں میں اس کا سرخ سفید چہرہ زردی مائل دکھائی دینے لگا ۔۔۔ایسے جیسے جسم کا سارا خون کسی نے نچوڑ لیا ہو ۔۔۔

وہ اسکے پاس آکر کھڑا ہوا ۔۔۔لب باہم پیوست تھے ،جبڑے بھنچے ہوئے،پیشانی پہ تفکر بھری شکنوں کا جال بچھا ہوا تھا۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ ہوش میں آکر اسے اپنے سامنے دیکھ کر کوئی الٹی سیدھی امید باندھ لیتی ۔۔۔  امرام شیر نے واپسی کا رخ کیا ۔۔اس سے پہلے کہ وہ باہر نکل جاتا ۔۔۔ ذخرف کی نرم و نازک مخروطی دو  انگلیوں  نے امرام شیر کی شہادت کی انگلی کو اپنی گرفت میں لیا ۔۔۔

امرام شیر نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔

"اپنے کمرے میں کسی فالتو سامان کی طرح سجالینا ۔۔۔"

اس کی نقاہت زدہ آواز  اور خواہش سن کر  امرام کے وجود میں برقی رو دوڑ گئی۔۔۔

مگر وہ بظاہر سنجیدہ رہا ۔۔۔

"آپ ۔کے۔۔ بنا ۔۔۔مر۔۔۔ جاؤں۔۔ گی "

وہ اسے آس بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھی ۔۔۔

 "اپنا خیال رکھو "

اور ۔۔۔

وہ بولتے ہوئے چند لمحوں کے لیے رکا ۔۔۔پھر گھمبیر آواز میں بولا۔۔۔

"فضول سوچوں کو دماغ سے نکال کر اپنی صحت اور پڑھائی پہ توجہ دو ۔۔۔یہ عمر نہیں ان خرافات سوچنے کی ۔۔۔اس بار لہجہ نرم تھا ۔۔۔مگر الفاظ سخت تھے ۔۔۔جو زخرف کے دل کو بری طرح چھلنی کر گئے ۔۔۔

امرام نے اپنی انگلی اسکی نازک انگلیوں سے آزاد کروائی اور بنا اسکی طرف دیکھے باہر نکل گیا ۔۔۔

زخرف نے دل مسوس کر آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔

آنکھوں کے ساتھ دل بھی رو رہا تھا ۔۔۔۔

رات کو ذخرف کو ڈسچارج کروا کر ابتسام اپنے گھر لے گیا ۔۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

نیا دن طلوع ہوا تو شمس نے نے اپنی روشنی چہار سو پھیلا کر زمین و آسمان کو روشن کردیا ۔۔۔۔

"ماھی اٹھو بیٹا آج کالج نہیں جانا کیا ؟"

دعا نے اسے آواز لگائی ۔۔۔

مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی ۔۔۔

"ایسا تو کبھی نہیں کرتی ماھی ۔۔۔خودی روازنہ وقت پہ اٹھ جاتی ہے ۔۔۔آج کیا ہوا اسے ۔۔۔۔؟"

"کہیں اس کی طبیعت تو خراب نہیں ۔۔۔"؟

دعا نے پریشانی سے سوچا ۔۔۔

پھر آگے بڑھ کر ماھی کے چہرے سے کمفرٹر ہٹایا ۔۔۔

سرخی مائل چہرہ ۔۔۔متورم رونے کے باعث سوجی ہوئی آنکھیں ۔۔۔سوں سوں کرتی سرخ ستواں ناک،وہ درزیدہ نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"کیا ہوا ماھی تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟",دعا نے اسکی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کر بخار چیک کیا ۔۔۔

"بخار تو نہیں ۔۔۔پھر کیا بات ہے ؟؟؟کہیں درد تو نہیں ؟؟"

بولو بھی ماھی ۔۔۔اب تم مجھے پریشان کر رہی ہو ؟؟؟ماھی کو خاموش دیکھ کر دعا نے جھنجھلا کر پوچھا ۔۔۔

"مما ۔۔۔وہ ۔۔۔مما ۔۔۔۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔

"بولو ماھی "وہ سخت لہجے میں بولیں اس بار ۔۔۔

ماھی اٹھ کر بیٹھی اور دعا سے لپٹ کر دھواں دھار رونے لگی ۔۔۔دعا رو اسکے ہوں رونے پہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ۔۔۔

"مما وہ ۔۔۔میرے سر ۔۔۔۔

سر لکی "

وہ اسکے بارے میں بتاتے ہوئے ہچکیوں سے رونے لگی ۔۔۔

"کیا کہا سر لکی نے ؟"

"بتاؤ بیٹا مجھے ؟؟؟کہیں اس نے تمہیں ڈانٹ تو نہیں دیا ۔۔۔ساری کلاس کے سامنے ۔۔۔۔

انہوں نے من میں آیا خدشہ ظاہر کیا ۔۔۔

ماھی خود بھی فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ اپنی مما کو سچ بتائے یا نہیں ۔۔۔۔

"پتہ نہیں مما میری بات کا یقین کریں گی یا نہیں "۔۔۔؟

"کہیں وہ مجھے ہی نا قصوروار سمجھیں ؟"

وہ دل میں ہی عجیب و غریب سوچوں کے تانے بانے بن رہی تھی ۔۔۔

"مما ۔۔۔یہ ۔۔دیکھیں ۔۔۔یہ سر لکی نے ۔۔۔لکھا ہے "

وہ ڈرتے ہوئے بولی ۔۔۔اور اپنا ٹیسٹ پیپر آگے کیا ۔۔۔جو چیک شدہ تھا ۔۔۔

"I love you"

دعا نے ایک ہی بار میں پڑھا ۔۔۔اور حیرانگی سے کبھی ان الفاظ کو دیکھتی تو کبھی ماھی کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو ۔۔۔۔

"چلو ماھی میرے ساتھ ۔۔۔

"ماھی ۔۔۔۔ اٹھو "وہ کرخت آواز میں بولی۔۔۔

تو ماھی ہڑبڑا کر بستر سے باہر نکلی۔۔۔

"میں شاہ من سے کہتی ہوں چلیں ہمارے ساتھ تمہارے کالج کے پروفیسر کی طبیعت صاف کروائیں پرنسپل سے "وہ درشت لہجے میں بول کر چادر لینے باہر نکل گئیں ۔۔۔

شاہ من اور دعا اپنے ساتھ ماھی کو لیے کالج میں پرنسپل کے آفس میں داخل ہوئے ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم!

شاہ من نے رسمی سلام دعا کا فریضہ نبھایا ۔۔۔

"وعلیکم السلام !

"آئیے بیٹھیے پلیز ...."

"پرنسپل صاحب نے انہیں اپنے سامنے موجود چئیرز پہ بیٹھنے کے لیے کہا تو شاہ من اور دعا دونوں سنجیدگی سے وہاں براجمان ہوگئے ۔۔۔

ماھی ان کے پیچھے سر جھکائے کھڑی تھی ۔۔۔۔

"آپ کے کالج میں اس قسم کے پروفیسرز کو رکھا جاتا ہے ۔۔۔جو بچوں کو تربیت فراہم کرنے کی بجائے انہیں غلط راستہ دکھائیں ۔۔۔انہیں حصول تعلیم کے راستے سے بھٹکائیں ؟؟؟

ان کے دماغوں میں علم کی بجائے غلاظت بھریں "

شاہ من تو پرنسپل کے سامنے  پھٹ ہی پڑا ۔۔۔۔

پرنسپل صاحب تو فق نگاہوں سے ان کی بات سن رہے تھے ۔۔۔

"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟؟؟

"ہمارے کالج کا بھی ایک  سٹینڈرڈ ہے ۔۔۔آپ اسطرح بنا بات اور ثبوت کے ہمارے اساتذہ پہ الزام نہیں لگا سکتے ۔۔۔۔"جب بات ان کے کالج کی ریپوٹیشن کی آئی تو پرنسپل صاحب نے جوابا زرا کرخت آواز میں کہا ۔۔۔

"یہ ہے ثبوت ہے....... آپ کے قابل پروفیسر کی بیہودہ حرکت کا "

شاہ من نے وہ ٹیسٹ پیپر ٹیبل پر رکھ کر زور سے اس پہ ہاتھ مارتے ہوئے درشت آواز میں کہا ۔۔۔۔

"میری بیٹی کو یہ لکھ کر دیا ہے آپ کے پروفیسر نے "

ایک بار تو پرنسپل صاحب کا رنگ پھیکا پڑ گیا وہ لائن پڑھ کر۔ ۔۔۔۔مگر انہوں نے فورا سے بیشتر کال ملا کر سر لکی کو اپنے آفس میں طلب کیا ۔۔۔۔

کچھ دیر میں ہی پروفیسر لکی آفس میں اینٹر ہوئے ۔۔۔

بلیک جینز پہ ڈارک بلیو اور بلیک لاننگ والی شرٹ اس پہ بلیک لیدر جیکٹ پہنے ۔۔۔بالوں کو سلیقے سے سیٹ کیے ،اپنے جاذب نظر تیکھے نقوش سمیت وہ آکر کھڑا ہوا ۔۔۔

دعا بھی ایک پل کے لیے اسکی پرسنالٹی سے مرعوب ہوئی ۔۔۔مگر اسکی حرکت سوچ کر نخوت سے سر جھٹک گئی ۔۔۔

"جی پرنسپل صاحب آپ نے بلایا تھا ۔۔۔لکی نے سپاٹ انداز میں پوچھا ۔۔۔

"جی پروفیسر لکی ۔۔۔یہ دیکھیں یہ آپ نے لکھا ہے ۔ماھی شاہ من کے ٹیسٹ پیپر پہ "؟انہوں نے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔اور پیپر اسکی طرف بڑھایا ۔۔۔

لکی نے ٹیسٹ پیپر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔تو لائن پڑھ کر نظریں پیچھے کھڑی ماھی پہ جمائیں ۔۔۔۔

وہ نظریں چرا گئی ۔۔۔

لکی نے ایک گہری سانس ہوا کے سپرد کی ۔۔۔۔

پھر پرنسپل صاحب کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔

"سر میں اپنی صفائی کے لیے کچھ بھی نہیں کہوں گا ۔۔۔بس ایک ریکوئسٹ ہے "

وہ سنجیدگی سموئے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔

پرنسپل صاحب اسکی بات پہ ہمہ تن گوش تھے ۔۔۔

شاہ من اور دعا بھی ساری کاروائی دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

"یہ بلینک پیپر ہے ۔۔۔۔اس پہ ماھی کو کہیں ۔۔۔

"I love you"

لکھے ۔۔۔

یہ الفاظ اس نے ماھی کی طرف دیکھ کر چبا چبا کر بولے ۔۔۔۔۔

ماھی سہمی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

"اس کا کیا مطلب ہے ۔۔۔؟

"آپ کہنا اور کرنا کیا چاہ رہے ہیں "؟

انہوں نے چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔۔۔

"سر پلیز ۔۔۔

It's a request.

"ماھی بیٹا لکھو "

پرنسپل صاحب نے اسے نرمی سے کہا ۔۔۔

ماھی نے لکھنے کی بجائے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔

"لکھو ماھی "اس بار پرنسپل صاحب نے تھوڑا سخت گیر لجہے میں بولا۔

تو ماھی نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پین پکڑ کر وہی الفاظ لکھ دئیے ۔۔۔۔

"یہ لیں سر "

لکی نے ماھی کے ہاتھ سے پین اور وہی پیپر پکڑا ۔۔۔۔

اور اس پہ 

"I love you".

تیزی سے لکھ دیا ۔۔۔۔

"اب دیکھیں سر "

لکی نے وہ پیپر جس پہ لکی اور ماھی دونوں نے 

I love you

لکھا تھا۔۔۔اور ماھی کا ٹیسٹ پیپر جس کو ثبوت بنا کر لکی کے خلاف پرنسپل صاحب کو پیش کیا تھا ۔۔۔دونوں پیپرز کو سامنے رکھا ۔۔۔۔

"اس میں کس کی ہینڈ رائٹنگ میچ کر رہی ہے ۔؟؟؟

لکی نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔۔

اور جو سچائی سامنے آئی تھی پرنسپل صاحب نے دیکھ کر وہی دونوں پیپرز شاہ من اور دعا کے سامنے لہرائے ۔۔۔

شاہ من اور دعا دونوں ششدر رہ گئے ۔۔۔۔

اس ٹیسٹ پیپر پہ جو رائٹنگ تھی وہ ماھی کی رائٹنگ سے میل کھا رہی تھی ۔۔۔جبکہ لکی کے ہاتھوں سے لکھے گئے الفاظ کی رائٹنگ بالکل تبدیل تھی ۔۔۔

"ماھی ؟؟؟

شاہ من نے اپنے پیچھے کھڑی ہوئی اپنی اکلوتی جان سے پیاری بیٹی کی طرف شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھ کر کرخت لہجے میں کہا۔اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن اسکی بیٹی ہی اسے یوں شرمندہ کروا دے گی ۔۔۔

ماھی زارو زار روتے ہوئے سر جھکائے کھڑی تھی ۔۔۔بالکل کسی گہنگار ،،، مجرم کی طرح ۔۔۔ 

جبکہ لکی شان و شوکت سے کھڑا باعزت بری ہوچکا تھا اس الزام سے ۔۔۔

"دیکھیں مسڑ شاہ من اپنے بچوں کی غلطی کسی اور پہ ڈالنا اور ہمارے کالج کا نام بدنام کرنے کے لیے میں آپ کو برا بھلا سنا بھی سکتا تھا۔۔مگر میں اسے بچی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں ۔۔۔ورنہ اپنے پروفیسر پہ جھوٹھا الزام لگانے پہ میں اسے کالج سے ریسٹیکیٹ بھی کر سکتا تھا  ۔۔۔۔

"اب ماھی کا اپنے پروفیسر سے سوری کرنا بنتا ہے ",پرنسپل صاحب نے سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔

شاہ من اور دعا تو چپ کے چپ ہی رہ گئے ۔۔۔وہ بولتے بھی تو کیا ۔۔۔۔شاہ من ہارے ہوئے جواری کی طرح وہاں سے باہر نکل آیا ۔۔۔

دعا نے ماھی کو گھور کر دیکھا ۔۔۔۔

ماھی بنا کسی کی طرف دیکھے ان کے پیچھے بھاگی ۔۔۔

"I am sorry....

بابا ۔۔۔۔مما ۔۔۔۔

وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو مڑوڑتے ہوئے ان کے پیچھے آ کر شرمندہ انداز میں بولی ۔۔۔۔

مگر دونوں ماھی کی بات ان سنی کرتے ہوئے تیزی سے گاڑی میں بیٹھ گئے ۔۔۔

ماھی بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئی ۔۔۔۔

وہ سارا راستہ آنسو بہاتی رہی ۔۔۔اور ان دونوں سے معافی مانگتی رہی مگر اس کے والدین کی چپ نہیں ٹوٹی ۔۔۔۔

"میں نے سر لکی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سوچا تھا کہ میں مما بابا سے کہوں گی کہ وہاں کے پروفیسر اچھے نہیں ہیں۔اسطرح کے ہیں ۔تاکہ وہ میرا کالج ہی بدل دیں ۔۔۔اسی لیے خود سے وہ سب لکھا ۔۔۔۔مجھے کیا پتہ تھا میرا جھوٹ اس طرح سے کھل جائے گا ۔۔۔۔"

اس نے دل میں سوچا ۔۔۔۔نا تو سر لکی سے چھٹکارا ملا ۔۔۔اور اوپر سے میرے مما بابا بھی ناراض ہوگئے مجھ سے ۔۔۔۔

یا اللّٰہ میں کیا کروں "؟

وہ دل میں مخاطب تھی ۔۔۔

ماھی نے جو بچکانہ پلان بنایا تھا لکی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ خود اسی میں پھنس کر بیعزت ہوگئی ۔۔۔۔

دوبارہ کالج جا کر سر لکی سے معافی مانگنے کا سوچ کر ہی اس کی جان نکلی جا رہی تھی ۔۔۔۔اسے سر لکی کی وہ سرد نگاہوں کا تاثر ہی نہیں بھول رہا تھا جو انہوں نے ماھی کے لکھے گئے الفاظ پڑھ کر دیا تھا ۔۔۔۔ماھی کو اپنے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔۔

"میں کیسے سر کااور اپنے پیرنٹس کا سامنا کروں گی ؟"یہی سوچ سوچ کر اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا ۔۔۔۔

وہ اپنے چکراتے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر گاڑی کی پشت سے ٹیک لگا گئی ۔۔۔اور شکستہ وجود لیے آنکھیں موند گئی۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

آج ڈائمنڈ ایگزیبیشن تھی ۔۔۔۔بلڈنگ کے چاروں اطراف میں سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔۔۔۔باہر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔۔۔اور اندر بھی ۔۔۔۔

سب داخل ہونے والی عوام کو چیک کر کہ اندر بھیجا جا رہا تھا ۔۔۔۔

امرام شیر اور چاندنی دونوں ایک ساتھ اندر داخل ہوئے ۔۔۔

امرام شیر نے بلیک ڈریس پینٹ اور سکائی بلیو شرٹ پہن رکھی تھی۔۔۔جبکہ چاندنی نے پرپل کلر کا شارٹ فراک اور جینز پہنے گلے میں سکارف ڈال رکھا تھا ۔۔۔ہائی ہیلز کی ٹک ٹک ماربل کے فرش پہ پڑتے ہوئے ارتعاش پیدا کر رہی تھی ۔۔۔ 

جب چاندنی کے زخموں کے علاج کے لیے سدرہ اسے جیل سے ہاسپٹل لے کر گئی تھی تب ڈاکٹر نے چاندنی کی گردن کے پیچھے ایک مائیکرو چپ لگادی تھی ۔۔۔جس اس چاندنی کی لوکیشن ٹریس کی جا سکے ۔۔۔۔اسی لیے امرام شیر مطمئن تھا اور پوری طرح تیار تھا اسے مشن پہ بھیجنے کے لیے ۔۔۔۔

"اس سیکورٹی آفیسر کو تھریٹ مل چکا ہے ۔۔۔۔"امرام شیر نے چاندنی کے تھوڑا سا قریب ہوتے ہی چاندنی کو سامنے کھڑے ہوئے یونیفارم میں ملبوس آفیسر کی طرف اشارہ کر کہ بتایا ۔۔۔۔

"تو میں کیا کروں ",وہ بیزاری سے بولی ۔۔۔۔

"ایک سنائپر ہےجسے سب (سفید موت ) کے نام سے جانتے ہیں ۔۔۔سنا ہے وہ اس آفیسر کو مارنے والا ہے ۔۔۔

اور اس نے سوشل میڈیا میں اپنی آواز میں  کھلے عام چیلنج دیا تھا کہ وہ اس ڈائمنڈ کو بھی چرا کر لے جائے گا ۔۔۔ 

"تو "وہ ابرو اچکا کر سپاٹ لہجے میں بولی۔۔۔

"اسکی گرل فرینڈ یا پھر پتہ نہیں بہن ۔۔۔۔وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔اور پینٹ کی جیب میں ہاتھ پھنسائے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔

"اس کی شکل ہو بہو تم سے ملتی ہے ۔۔۔۔"وہ رازدارنہ انداز میں بولا ۔۔۔

تو چاندنی نے نخوت سے سر جھٹکا ۔۔۔

"میجر تو سٹھیا گیا ہے سالا ۔۔ تیرا تو دماغ خراب ہے ہی اپن کا بھی کر کہ چھوڑے گا ۔۔۔۔اچھا چل بتا یہاں کچھ کھانے کو بھی ملے گا یا نہیں ۔۔۔"وہ بیزاری سے ادھر ادھر نظریں دوڑا کر بولی ۔۔۔

"میری بات سنو پہلے پھر کچھ کھانے کو بھی لا دوں گا ۔۔۔

"میں تمہیں اس ڈائمنڈ ایگزیبیشن میں اس لیے لایا ہوں کہ اس سنائپر کی نظریں تم پہ پڑیں ۔۔۔۔اور ہم اسے تمہارے زریعے پکڑ لیں گے "

"اچھا تو تم نے مجھے استمعال کیا ہے "؟وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں پیش آئی ۔۔۔

"تم ہماری اس میں مدد کرو گی تو ہم تمہیں بعد میں آزاد کردیں گے "امرام شیر نے اسے لالچ دیا ۔۔۔

"سچی کرو گے نا آزاد ؟اس نے دونوں کو کو ملا کر پرجوش آواز میں پوچھا ۔۔۔۔

امرام شیر نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔

"پر ۔۔۔۔وہ بول کر توقف کے لیے رکا ۔۔۔

"پر کیا میجر "؟وہ ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں بولی۔۔۔

"پر تم اس سے دور رہنا ۔۔۔سمجھ رہی ہو نا "

"میں کیا تیری پرائیویٹ پراپرٹی ہوں .؟؟؟

"میری مرضی جس کے پاس مرضی جاؤں نا جاؤں ۔۔۔تجھے کیا ؟؟"

"اب تو میں اس سنائپر کے ساتھ دیکھنا۔۔۔ وہ وہ۔۔۔ کرتی کہ تو نے جل کر کوئلہ بن جانا ہے "وہ پوری بتیسی نکال کر ہنسی ۔۔۔مگر اپنی بات سے  امرام شیر کے دل کو جلا کر بھسم کر دیا۔۔۔۔

"میں نہیں جانتا یہ وقتی تمہاری خوبصورتی کی وجہ سے اٹریکشن ہے ۔۔۔یا محبت ۔۔۔ اگر اٹریکشن ہوئی تو تمہارے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی ختم ہو جائے گی ۔۔۔۔اور اگر محبت ہوئی تو تمہارے جانے کے بعد بھی اپنا آپ منوا لے گی ۔۔۔۔

"اچھا اب باتیں ہی بگھارتے رہو گے میجر یا کچھ پیٹ پوجا بھی کرواؤ گے ۔۔۔قسم سے بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔صبح بھی ہڑبونگ مچا رکھی تھی ۔۔۔جلدی جلدی کی ۔۔۔کچھ کھایا نہیں میں نے ۔۔۔۔

Plz major I request you....I want a big burger ... 

وہ دونوں بازو پھیلا کر بولی ۔۔جیسے واقعی اتنا بڑا برگر وہ اسے لاکر دے گا ۔۔۔

امرام شیر اسکی انگلش پہ کبھی کبھی چونک جاتا تھا ۔۔۔کہاں تو وہ اتنے برے طریقے سے بات کرتی تھی اور کہاں انگلش ۔۔۔ اس لڑکی کی  شخصیت بھی امرام شیر کے لیے ایک پہیلی سے کم نہیں تھی ۔۔۔ 

وہ اس کے کھانے کے لیے کچھ لینے کے لیے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙

وہ اس بلڈنگ کی بیک والی بلڈنگ کے ایک روم میں موجود تھا ۔۔۔۔جہاں ڈائمنڈ ایگزیبیشن لگی تھی ۔۔۔

پہلے اس نے ٹیلی سکوپ سے ساری جگہ کا جائزہ لیا ۔۔۔

سورج سوا نیزے پر تھا ،اس نے کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی پہ نظر ڈالی ۔۔۔پھر

اپنی گن کو نشانے پہ رکھنے لگا تھا ۔۔۔۔اس پہ سائلنسر ِفٹ تھا ۔اتنی بھیڑ میں اسے اپنے ٹارگٹ آفیسر کو ڈھونڈھنے میں تھوڑی مشکل پیش آئی ۔۔۔

مگر اسکی عقابی نظروں سے کوئی چیز کبھی بچ نہیں پائی ۔۔۔اسکی نیلی سرد آنکھوں میں بلا کی وحشت ٹپک رہی تھی ۔۔۔سرخ ڈورے نمایاں تھے ۔۔۔۔جو اسکی وحشت زدہ نظروں میں رقصںِ موت کے گواہ تھے ۔۔۔

اس کے ہدف اور اسکے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا ۔۔۔اتنے فاصلے سے ہدف کو نشانہ بنانا اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔۔۔وہ تو فاصلوں کو مٹانے اور ہدف کو نشانہ عبرت بنانے پر عبور حاصل کرنے والا بازیگر تھا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اس آفیسر کو اپنا نشانہ بناتا ۔۔۔سامنے موجود آفیسر اپنی جگہ تبدیل کرگیا ۔۔۔اپنے ماتحتوں کو آرڈر دیتے ہوئے اس نے اپنی پوزیشن تبدیل کی ۔۔۔۔

ایگزیبیشن ابھی تک جاری تھی ۔۔۔۔مگر وہ آفیسر اپنی جگہ سے ہٹ کر نجانے کہاں گم ہوگیا تھا۔۔۔

اسکی آنکھوں میں اشتعال عود کر آیا ۔۔۔ 

ایک بار پھر سے کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی پہ نظر ڈالی ۔۔۔۔انتظار کرتے اب سورج غروب ہونے والا تھا ۔۔۔ اور ایگزیبیشن بھی ختم ہونے والی تھی ۔۔۔

اس نے مزید آدھا گھنٹہ وہیں انتظار کیا ۔۔۔جیسے ہی رات کا سرمئی اندھیرا چھانے لگانا ۔۔۔وہ آفیسر واپس ایگزیکٹ اسی جگہ پہ آکر کھڑا ہوا جہاں اس نے نشانہ سیٹ کر رکھا تھا ۔۔۔

اس نے پاس پڑا ہوا گلاس اپنے عنابی لبوں سے لگایا اور غٹاغٹ ایک اسے ایک ہی سانس میں ختم کرڈالا ۔۔۔۔

اس نے ایک مضبوط رسی کے ایک سرے پر لگی ہُک کو اپنے ہوٹل روم کے باہر لگی ٹیرس کے اوپر لگایا ۔۔۔

اور دوسری ہُک اس نے سامنے ڈائمنڈ ایگزیبیشن والی بلڈنگ کے اوپری فلور پر ڈالی ۔۔ اب اس بلڈنگ سے سامنے والی بلڈنگ میں با آسانی داخل ہونے کا راستہ بن چکا تھا ۔۔۔

وہ واپس اپنی سیٹ کی گئی گن کی طرف آیا ۔۔۔وہ آفیسر اسے یہاں سے اب با آسانی نظر آ رہا تھا ۔۔۔اس نے اپنا نشانہ سیٹ کیا ۔۔۔اور ٹریگر دبا دیا۔۔۔ایک تیز رفتار بے اواز بُلٹ اس سیکورٹی آفیسر کے دماغ کے آر پار ہوگئی ۔۔۔۔

اسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع نہیں ملا ۔۔۔

سر سے خون کا فوارہ ابل پڑا۔۔۔

وہ لہراتے ہوئے نیچے گرا تو سارے ماتحت سرعت سے  اسکی طرف لپکے ۔۔۔۔

ایک پولیس افسر کو زخمی دیکھ وہاں بھگدڑ مچ گئی ۔۔۔

وہ چہرے پہ سیاہ  ماسک چڑھائے  اس رسی کو مضبوطی سے ہاتھوں سے پکڑ پکڑ کر اب ایگزیبیشن والی بلڈنگ میں گھس گیا ۔۔۔

جیسے باہر رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا بالکل ویسے ہی اس بلڈنگ کو بھی یک بیک  گہرے اندھیرے نے اپنی لپیٹ میں لیا ۔۔۔۔

پہلے ہی بھگدڈ مچی ہوئی تھی اوپر سے اندھیرا چھانے سے ساری سیکورٹی آفیسر مزید الرٹ ہوئے ۔۔ 

چاندنی نے اندھیرے میں اپنی پوری آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہا اپنے ارد گرد ۔۔۔ اس نے سامنے  دیکھا ۔۔چہرے پہ بلیک رنگ کا ماسک لگائے کوئی مضبوط جسامت کا مالک مرد اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔۔

"پہچانا ؟؟؟"

مخصوص بھاری آواز میں پوچھا گیا

"نہیں "..

چاندنی  نے جواب دیا... وہ  وہاں سے جانے لگی مگر اس آدمی نے چاندنی کا بازو جکڑتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لیا تھا،اس سے پہلے کہ چاندنی  کچھ سمجھتی کہ وہ اسے سمجھنے کا موقع دئیے بغیر ہی زبردستی اسکی کمر کے گرد اپنی آہنی گرفت باندھ گیا ۔۔۔۔

"چ۔۔چھ۔۔۔چھوڑو مجھ۔۔۔۔مجھے ۔۔۔۔

وہ اسکی فولادی گرفت میں پھڑپھڑانے لگی ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید احتجاج بلند کرتی ۔۔۔اسکی نظر اچانک اس ماسک مین کی آنکھوں پہ پڑی تو الفاظ جیسے گنگ ہوگئے، وحشت زدہ نیلی سرخ ڈوروں والی آنکھیں دیکھ اسکی روح تک کپکپا گئی ۔۔۔۔خوف سے آنکھیں پھیلائے وہ یک ٹک اسے تکنے لگی ۔۔۔

 اس کی آنکھوں  وہ اپنی آنکھوں کے زریعے  ناجانے کیسا طلسم پھونک رہا تھا کہ وہ ٹرانس کی کیفیت میں اسکے ساتھ قدم سے قدم ملانے لگی ۔۔۔وہ دونوں ہجوم کو چیرتے ہوئے اسی جگہ پہ آئے جہاں سے وہ رسی کہ زریعے اندر آیا تھا ۔۔۔

اس نے رسی کی ہُک کو الگ کیا ۔۔۔۔اور اس رسی کو اپنے مضبوط فولادی رگوں سے پھولے ہوئے ہاتھ کے گرد لپیٹا ۔۔۔

 اس نے اپنی حد سے زیادہ تیز ہوتی دھڑکنوں پر مقابل موجود شخصیت کو دیکھا ۔۔۔چاندنی نے حقیقت میں لوٹتے وہاں سے فرار ہونا چاہا ہی تھا کہ اس نے چاندنی کے کان کے پیچھے ایک مخصوص رگ کو دبایا ۔۔اس سے پہلے کہ وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کے گرتی ۔۔۔مقابل نے اسکی کمر کے گرد اپنے ایک بازو کا حصار بنایا اور دوسرے رسی سے لپیٹے ہوئے ہاتھ سے بلڈنگ سے جمپ لگادی ۔۔۔۔

وہ دونوں ہوا میں معلق لہراتے ہوئے ۔۔۔۔عین اسی ٹیرس پہ گرے جہاں رسی کی دوسری ہُک بندھی تھی ۔۔۔۔

مقابل موجود دیو ہیکل انسان نے اسے اپنے اوپر سے اٹھایا اور لے جا کر ہوٹل کے بیڈ پر لیٹا دیا ۔۔۔۔

وہ اپنے تینوں ہدف میں فاتح ٹہرا۔۔۔

سیکیورٹی آفیسر کا پتہ صاف کیا ۔۔۔

"اپنی عزیزم ہستی کو بنا دنیا کی نظروں میں آئے اپنے پاس لے آیا ۔۔۔ 

آخر میں اسکی نیلی سرد آنکھیں اس بیش بہا قیمتی ڈائمنڈ پہ تھیں ۔۔۔جو اسکی چوڑی ہتھیلی پہ پورے آب و تاب سے جگمگا رہا ۔۔۔۔

اس کا استہزایہ قہقہ ہوٹل کے روم میں ایسے گونجا ۔۔۔۔

کہ وہاں کے در و دیوار بھی کانپ اٹھے ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

آج رات بہت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔آسمان پہ گہرے بادلوں نے بسیرا کیا ہوا تھا۔ایسے میں وہ اپنے کمرے میں بستر پہ لیٹ کر ایک دلچسپ کتاب کا مطالعہ کر رہی تھی ۔سردی میں مزید اضافہ محسوس ہوا تو اسنے کمفرٹر کھول کر اپنی ٹانگوں پہ پھیلا لیا ۔۔۔ چہرے پہ بکھری آوارہ لٹیں کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہونے والی ہوا کے باعث  بار بار اسکے گالوں پہ اٹھکیلیاں کر رہی تھیں۔آیت نے کمرے میں موجود دیوار گیر کلاک پہ نظر ڈالی جس کی سوئیاں رات کہ بارہ بجنے کی نشاندھی کر رہی تھیں ۔۔۔آیت نے کتاب بند کیے تکیے کے ایک طرف رکھی ۔۔۔پھر اپنی گرم شال اتار کر بستر پہ رکھتے ہوئے کروٹ کے بل لیٹ کر اچھے سے خود کو کمفرٹر میں کور کرلیا ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں نیند نے اس پہ غلبہ حاصل کر لیا۔۔۔۔

"جان ِمومن !!!!

ابھی وہ کچی نیند میں ہی تھی کہ اسے اپنے نزدیک سے جانی پہچانی آواز سنائی دی ۔۔۔اس نے جھٹ آنکھیں کھول کر چونکتے ہوئے تکیے سے سر اوپر اٹھایا تو سامنے مومن دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔

آیت نے اپنی آنکھوں کو ہاتھوں سے زور سے مسلا پھر پوری آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہا ۔۔۔معاً یہ واقعی سچ ہے یا اسکا کوئی خواب ۔۔۔ 

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی طرف آئی ۔۔۔اور مومن کے گال کو اپنی پوروں سے چھو کر محسوس کیا ۔۔۔یہ واقعی سچ تھا ۔۔ وہ حقیقت میں اسکے سامنے موجود تھا ۔۔۔ 

"اب کیوں آئے ہیں ؟؟؟

"جائیں وہیں جہاں سے آئے ۔۔۔اسی جگہ جائیں جہاں آپ کو میری ایک بار بھی یاد نہیں آئی ۔۔۔وہ ناراضگی سے کہتے ہوئے رخ موڑ گئی ۔۔۔

مومن نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے دور جانے سے روکا ۔۔۔۔

"میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔۔ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔میں نہیں بولتی آپ سے ۔ایک بار  کال بھی نہیں کی  ۔۔۔

آیت غصے سے تلملاتے ہوئے دانت پیس کر کہا اوراس کی مضبوط گرفت سے اپنی کلائی آذاد کرانی چاہی لیکن وہ تو جیسے اسکی کسی بات کو خاطر میں نا لانے کا ارادہ کیے ہوئے تھا ۔۔۔۔

"ورنہ کیا اچھا نہیں ہوگا ؟؟؟جان مومن دھمکیاں آپکے منہ سے سوٹ نہیں کرتی "

وہ زبردستی  اسے  بانہوں کے گھیرے میں لئیے اس پہ اپنی جذبات سے چور آنکھیں گاڑھتے ہوئے دھیمے آنچ دیتے لہجے میں بولا ۔۔۔۔

"شادی کی پہلی رات ہی مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔۔۔اور اب لوٹے ہیں اتنے دنوں بعد ۔۔۔وہ فاصلے آپ نے بنائے تھے ۔۔۔اب اتنے فاصلے میں بناؤں گی تو پتہ چلے گا یہ وقت میں نے کیسے کاٹا ہے آپ کے بنا ۔۔۔۔ اگر اپنی جان کی امان چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ میرے سے فاصلے  قائم رکھیں ۔"

اس نے  تنبیہی لہجے میں انگلی اس کی جانب دکھاتے ہوئے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔

"I am sorry"

وہ ُاسی کا ہی ایک کان اپنی دو پوروں میں دبا کر شرارت سے مسکراتے ہوئے بولا ۔۔۔

اسے یوں اتنے عرصے بعد اپنے سامنے مسکراتے ہوئے دیکھ کر آیت کی ساری ناراضگی ہوا ہوئی ۔۔۔

"میری چاہتوں کو یوں فاصلوں کی نذر مت کرو۔مومن کی سحر انگیز آواز اسکے کانوں میں رس گھول رہی تھی ۔۔۔

"آپکی آمد سے تو دل کے در پہ رونقوں کی دستک ہوئی ہے ،فاصلہ کہاں ہے ؟"آیت  کھنکتی آواز میں اِٹھلا کر بولی ۔۔۔

مومن نے اسے راضی دیکھ کر اسے اسے خود میں شدت سے بھینچ لیا۔۔۔

آیت تو اس افتاد پہ بوکھلا کر رہ گئی۔۔۔مگر پھر اس کے دل کی دھڑکنوں کو اپنے دل کی دھڑکنوں سے میل کھاتے ہوئے محسوس کر کہ آسودگی سے مسکرا دی ۔۔۔۔

کتنی محفوظ پناہ گاہ تھی اس کے شریک حیات کی ۔۔۔

"مومن !وہ آہستگی سے بولی۔۔۔اسکی آواز نے مومن کے دل کر تاروں کو چھوا ۔۔۔تو اس نے اپنی پرتپش نگاہیں آیت کے نازک وجود پہ جمائیں ۔۔۔۔

"جان مومن آپکے مخملیں لبوں سے اپنا نام سنتا ہوں تو دل چاہتا ہے کہ ان لبوں کو خود میں قید کرلوں "وہ معنی خیز آواز میں بول کر اسکے ہوش اڑا گیا ۔۔۔

آیت جو غور سے اسکی بات سن رہی تھی ۔۔۔ اسکی لو دیتی نگاہوں سے سٹپٹا کر  نظریں چرا گئی ۔۔۔

"مجھے نیند آرہی ہے "وہ خود کو مومن کی ڈھیلی پڑتی ہوئی گرفت سے آزاد کروانے کے بعد بستر کی طرف بڑھی ۔۔۔

"بڑی نیندیں پوری کرلیں ۔۔۔جان مومن آپ نے میرے جانے کے بعد ۔۔۔ان سب راتوں کا قرض چکانے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔۔۔۔وہ فسوں خیز آواز میں بولا ۔۔۔

آیت اسکے ارادے بھانپ کر واش روم میں پناہ لینے کے لیے دوڑی ۔۔۔

مگر مومن نے پھرتی دکھاتے ہوئے ۔۔۔۔اسے اپنی گرفت میں بھر لیا ۔۔۔۔

"چھوڑو مومن "کمرے میں اسکی ہنسی کی جلترنگ گونجنے لگی ۔۔۔۔

"ابھی تو پینڈنگ ویڈنگ نائٹ بھی رہتی ہے "وہ اسکے کان کی لو کو دانتوں تلے دبا کر بولا ۔۔۔۔

"مومن پلیز "وہ مسکراتے ہوئے التجائیہ انداز میں بولی ۔۔۔

"یہ پلیز لفظ آج تک میں نے نہیں سُنا ۔۔۔یہ کیا ہوتا ہے ؟؟وہ اسکی صراحی دار نازک سی گردن پر اپنے لب رب کرتے ہوئے بولا ۔۔۔تو آیت کو اپنی دھڑکن معمول سے زیادہ تیز محسوس ہوئی ۔۔۔

اس نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔ 

کالج میں قدم رکھا تو سب سٹوڈنٹس اسے عجیب و غریب نظروں سے گھور رہے تھے ۔۔۔ماھی چلتی ہوئی اپنی کلاس میں آرہی تھی کہ کوریڈور کے بورڈز پہ لڑکے اور لڑکی کے  کارٹونز بنے ہوئے تھے ۔۔۔اور بڑے حروف میں ان پر آئی لو یو لکھا ہوا تھا ۔۔۔ 

وہ فق نگاہوں سے سب دیکھ رہی تھی۔۔۔جیسے ہی کلاس روم میں داخل ہوئی وہاں کے وائٹ بورڈ پہ بھی ماھی اور سر لکی کے کارٹون بنا کر اس پہ بھی آئی لو یو لکھا ہوا ۔۔۔۔

اسے تو امید نہیں تھی کہ پوری کالج میں یہ بات پھیل چکی ہوگی ۔۔۔۔اسکے کلاس فیلوز بھی اسے استہزایہ نظروں سے دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کے  کانوں میں سرگوشیاں کررہے تھے ۔۔۔نجانے کس نے پرنسپل کے آفس میں ہوئی سب باتیں سن کر پورے کالج میں پھیلا دیں تھیں۔۔۔ماھی کا سر تو شرم سے جھک گیا اور پھر اٹھنے سے انکاری ہوا ۔۔۔۔

آنکھوں سے آنسو بھل بھل بہنے لگے۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کلاس روم سے باہر بھاگی ۔۔۔۔اور بھاگتے ہوئے کالج کے پچھلے گراؤنڈ میں جا کر ایک بینچ پہ بیٹھ گئی ۔۔۔

روتے ہوئے وہ اپنی ہی غلطی کی وجہ سے اپنی زندگی میں آئے ہوئے بھونچال کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔۔

وہ کتنی دیر سے کسی غیر مرکزی نقطے کو گھور رہی تھی

آنکھوں میں خالی پن اسکی زندگی میں موجود ویرانی کو ظاہر کر رہا تھا

کچھ بھی تو نہیں رہا تھا ۔۔اسکے پاس اسکی اپنی غلطی کی وجہ سے اسکے والدین اس سے روٹھ گئے ۔۔۔کالج میں الگ بدنامی ہوگئی ۔۔۔وہ کالج میں بھی کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی ۔۔۔اسی نقطے کے بارے میں سوچتے ہوئے اسکی نظر اب اسکے ہاتھوں پہ جا ٹھہری تھی

خالی ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ بھی تو نہ تھا۔۔ آنکھوں میں اب دکھ کے آنسو بھی نہ رہے تھے آخر روتی بھی تو کس کے سامنے کس کو جا کر درد سناتی۔۔ یہاں پہ صرف تمسخر اڑانے والے تھے جن سے درد بانٹا جا سکتا تھا وہ ان ہستیوں کو تو خود سے ناراض کر بیٹھی تھی ۔۔۔

سوچیں تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی بال چہرے پہ بکھرے تھے تھک کر اس نے بینچ کی ٹیک سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لی تھی

ایک ایک منظر فلم کی مانند اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا

"رونا اچھی بات ہے یوں رو لینے سے غم ہلکا ہوجاتا ہے ۔اگر یہ آنسو پچھتاوے کے ہوں تو بہت ہی قیمتی ہیں پھر تو "۔۔

وہ بند آنکھوں سے رونے میں مگن تھی جب اسے اپنے قریب وہی سحر انگیز آواز سنائی دی۔۔۔جس نے اسے اس نہج تک پہنچایا تھا ۔۔۔

 ماھی نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تھی اسکے بینچ کے تھوڑے سے فاصلے پہ اس کے ساتھ سر لکی بیٹھے تھے، جو دیکھ تو سامنے پودوں کو رہے  تھے لیکن بات اسی سے کی تھی۔

"یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا "۔ اسے یوں اپنی سوچوں میں لکی سر کا مخل ہونا سخت نا گزیر گزرا تھا جس کا اظہار اس نے رخ موڑ کر بخوبی کیا تھا۔

"میں نے تو نہیں آپ کو مشورہ دیا تھا مجھ پہ غلط الزام لگانے کا  "۔ وہ بھی شاید مستقل مزاج تھا جو اسکے اتنے ٹھنڈے ٹھار لہجے پہ بھی مسکرا کر جواب دے رہا تھا۔

"ہونہہ !مجھے آپکے کسی مشورے کی ضرورت بھی نہیں ہے "۔

"اگر مجھ سے مشورہ لیا ہوتا تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑتا "

"اپنے پاس رکھیں اپنے مشورے ۔۔۔جیسے آپ گندی حرکتیں کرتے ہیں ویسے ہی گندے مشورے بھی دیں گے مجھے۔انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں آپ میں  "۔وہ دکھ اور درد سے بلبلاتے ہوئے اس پہ پھٹ پڑی ۔۔۔

"اگر بات انسانیت کی ہے تو میں بتا دوں کہ میں انسان ہی نہیں تو انسانیت کیسے نبھاؤں گا "

"اور دوسری بات پیار میں گندگی نہیں ۔۔ویسی چھوٹی موٹی گستاخیاں تو چلتی ہیں ۔۔وہ مبہم سا مسکرا کر بولا۔۔۔ماھی نے اسکی بے سروپا بات سن کر نخوت سے چہرہ پھیر لیا۔۔۔اور وہاں سے جانے کے لیے اٹھی ۔۔۔

اپنی طرف سے تو وہ بات ختم کر کے اٹھ کھڑی ہوئی تھی لیکن اک دم اپنا ہاتھ یوں سر لکی کے ہاتھ کی گرفت میں محسوس ہوا مڑ کر دیکھا تو وہ اسکا ہاتھ تھامے اب کھڑا ہو چکا تھا ان کی ہمت پہ تو وہ ایک دم سکتے میں آ گئی تھی

"جب کوئی آپ کو اپنا سمجھتا ہو اور آپ کا درد سننے کا متمنی ہو تو اس سے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔کیونکہ اگر کسی کے دل میں آپ کے لیے محبت ہو تو وہ آپ کا تمسخر نہیں اڑائے گا۔۔ بلکہ آپ کے درد کو اپنا درد سمجھ کر کم کرنے کی کوشش کرے گا اور ہو سکتا ہے۔اپنی محبت سے آپ کا غم دور بھی کر دے"۔

اسکی بات پہ ماھی نے مڑ کر حیرت سے اسکی طرف دیکھا ۔۔لفظ "محبت "اس کے دماغ میں گھومنے لگا۔۔۔

"یہ آ۔۔۔آ۔۔۔پ ۔۔کیا کہہ رہے ہیں سر ۔۔۔۔

اس کے چہرے کا رنگ یکدم پھیکا پڑ گیا۔۔۔۔وہ پھٹی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

"ایک بات بتاؤں،،میرا یقین کرو گی  "؟لکی اپنی سحر انگیز آواز میں بولا۔۔۔

ماھی اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی۔۔۔۔مگر سماعت سر لکی کی طرف متوجہ تھی ۔۔۔

اس کا ایک ایک عضو کان بن گیا تھا اسکی بات سننے کے لیے ۔۔۔

"لکھے تو تم نے تھے وہ لفظ مگر وہ الفاظ میرے دل کی آواز تھے ۔۔۔"وہ فسوں خیز آواز میں بول کر ماھی کا دل دھڑکا گیا ۔۔۔

"ممم۔۔۔مگر ۔۔۔سر ۔۔۔آپ ۔۔۔میرے سر ہیں ۔۔۔میں آپ ۔۔سے کیسے ۔۔۔مطلب آپ ۔۔۔مجھ سے کیسے ؟؟؟وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بے یقینی سے بولی ۔۔۔

وہ اسکی بات پہ یقین کرنے سے انکاری تھی ۔۔۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہے اس بارے میں ۔۔۔۔وہ تو اسے اپنے ٹیچر کے سوا اور کچھ نہیں مانتی تھی ۔۔۔اسکے تو خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ سر لکی اس کے بارے میں کچھ ایسا سوچتے ہیں ۔۔۔۔

استاد اور شاگرد کو رشتہ بس کلاس اور کالج تک محدود ہے ۔۔وہاں سے باہر بھی ایک دنیا ہے ۔۔۔جہاں اس رشتے کے علاؤہ بھی رشتے بن سکتے ہیں اگر تم چاہو تو ۔۔۔۔

اسکی بات پہ ماھی کے حلق میں سانس کا گولہ اٹک گیا ۔۔۔

وہ کھانسنے لگی ۔۔۔۔

"ماھی !!! 

تمہیں صرف میرے لیے لیے بنایا گیا ہے ۔۔۔

میں صرف تمہارے لیے یہاں آیا ہوں "۔۔۔۔

لکی اس کا نازک سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے کہا ۔۔۔تو پہلی بار ماھی کو اپنی دھڑکنوں کا شمار کر مشکل لگا ۔۔۔دل کی دھڑکنوں نے ادھم مچا دیا ۔۔۔۔

اس نے پلکیں جھپک کر سامنے کھڑے ہوئے سر لکی کا جائزہ لیا ۔۔۔۔طلسمی گولڈن شیڈڈ آنکھیں،ستواں ناک ،باریک ہونٹ ،بالوں کا ہئیر اسٹائل تو دیکھنے کے لائق تھا ۔۔۔کتنے ہی لڑکے سر لکی کے ہئیر اسٹائل کی کاپی کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔ جینز اور شرٹ پہنے اوپر سے لیدر جیکٹ پہن کر وہ اپنے ازلی لاپرواہ انداز میں ایک ہاتھ سے اپنی ہیوی بائیک کی چابیاں ہوا میں اچھالتا اور کبھی تو کبھی ہاتھ میں واپس کیچ کرتا ۔۔۔بالکل اسی طرح وہ ماھی کا دل بھی اسکی جگہ سے اچھال چکا تھا ۔۔۔

"ماھی میری بن جاؤ "

"بنو گی ؟؟؟

"میرا دل تمہیں دیکھ کر دھڑکتا ہے ۔۔۔تمہارے ساتھ کا تمنائی ہے۔

جیسے اس نے اچھالی ہوئی چابی کو اپنی مٹھی میں بھرا تھا ۔۔۔اسی طرح ماھی کے زوروں سے دھڑکتے دل کو بھی قید کر دیا ۔۔ 

وہ اس کے چہرے پہ جھولتی ہوئی لٹ کو پھونک مار کر نرمی سے آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا ۔۔۔تم مجھے نا ملی تو یہ دل دھڑکنا بھول جائے گا ۔۔۔

صرف تمہاری رضامندی چاہیے 

"Lucky's Luck...

تمہارا لکی دنیا سے لڑ جائے گا تمہیں پانے کے لیے ۔۔۔

"میری روح کو ،جسم کو ،دل کو ،دھڑکنوں کو ،صرف تمہاری ضرورت ہے "

"میری دنیا میں آجاؤ ۔۔۔میری زندگی میں شامل ہوجاو ۔۔۔۔سب غموں سے رہائی مل جائے گی۔۔۔۔"

ماھی لرزتے ہوئے وجود سے بمشکل وہاں کھڑی تھی ۔۔۔وہ اس قدر شاکڈ تھی اسکی باتوں پہ کہ کبھی بھی زمیں بوس ہوسکتی تھی ۔۔۔۔

ماھی کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔اس سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔۔۔وہ کہتی بھی تو کیا ۔۔۔

"اس دن کی حرکت کے لیے معذرت خواہ ہوں،میں ویسا کچھ کرنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔

"بتاؤ پہلے کبھی کچھ برا کیا تمہارے ساتھ ۔؟وہ ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں بولا ۔

"بولو ماھی "

اس نے ماھی کو خاموش دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

"ن۔۔نہیں ۔۔۔اسکے گلے میں سے اٹک اٹک کر الفاظ نکلے ۔۔۔

"تمہیں اپنے اتنے قریب دیکھ کر سب بھول گیا تھا ۔۔۔بس یاد تھا تو اتنا کہ تم صرف میری ہو تم پہ صرف میرا حق ہے ۔۔۔

سورج کی روشنی ماھی کی نوز بن سےمنعکس ہوکر لکی کہ چہرے پہ پڑ رہی تھی ۔۔۔

"اس چمک کو اپنے لمس کی شدتوں سے مہکانا چاہتا ہوں ۔۔۔"وہ اسکی ستواں ناک میں چمکتی ہوئی نوز بِن کو محسور کن سا دیکھ کر بولا ۔۔۔

اس چمک کو دیکھتے ہوئے لکی کی آنکھوں میں عجب سی چمک پھوٹ رہی تھی ۔۔۔

ماھی اسکی گولڈن شیڈڈ آنکھوں کو دیکھ کر جیسے مسمرائز ہوئی ۔۔۔۔

ماھی ! مجھے بعد میں احساس ہوا کہ تمہیں پانے کے لیے ابھی مجھے بہت سے امتحانات سے گزرنا ہوگا ۔۔۔۔

ماھی نے پلکیں جھپک کر معصومیت سےاسے دیکھا۔۔۔

"ہماری شادی ہوجائے گی تو ہمارے درمیان حائل سب دوریاں ۔۔۔یہ فاصلے مٹ جائے گے "

وہ اپنے اور اسکے درمیان فاصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔

"جب تم میرے نام سے جانی جاؤ گی پھر کسی کو تمہارا تمسخر اڑانے کا موقع نہیں ملے گا"

ابھی شاید وہ کچھ اور بھی کہتا ۔۔۔ماھی اسکی بولتی نگاہوں سے نظریں چرائیں ۔۔پھر اہنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کرواتے ہوئے بنا پلٹ کر دیکھے تیز قدموں سے وہاں سے بھاگ گئی ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

اسکی "پری "اسکی نظروں کے سامنے تھی ۔۔۔۔اسکے اتنے پاس کہ وہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتا تھا ۔۔۔وہ سلیپنگ بیوٹی بنے اس وقت ہوش و خرد سے بیگانہ تھی ۔۔۔اس کے کھلے بال تکیے پہ بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔

اسکے بالوں کو دیکھتے ہی اک پچھلا گزرا ہوا منظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔۔

"شیرو ۔۔۔۔شیرو !!!!

وہ اٹالین طرز کے بنے خوبصورت سے کچن میں موجود اپنی پری کے لیے ناشتہ تیار کررہا تھا ۔۔۔کیونکہ اسکی پری کو صرف اسی کے ہاتھ کا کلب سینڈوچ پسند تھا ۔۔۔اور وہ صبح کے سات بجے وہی بنانے میں مصروف تھا کہ دروازے سے پری کی آواز سن کر اسکی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔

"کیا بات ہے پری ؟",

اس نے نرمی سے پوچھا ۔۔۔

"شیرو دیکھو نا میرے بال ہی نہیں بن رہے ۔۔۔پلیز بنا دو نا "

وہ فرمائشی انداز میں بولی۔

فادیہ خالہ سے کروا لو پری میں تمہارے لیے سینڈوچ بنا رہا ہوں  "

اس نے اپنے ہاتھ تیزی سے چلاتے ہوئے اسے جواب دیا ۔۔ 

"آپ تو سپر پاور ہیں شیرو ۔۔۔مجھے پتہ ہے آپ ایک وقت میں بہت سے کام کر سکتے ہیں ۔۔۔پلیز بنا دیں نا "

"اگر آپ نے میرے بال نہیں بنائے نا تو سچی اس بار ہاسٹل جا کر واپس آؤں گی تو دیکھنا میں ان بالوں کے عذاب سے جان چھڑوا کر آؤں گی ۔۔۔بالکل شولڈر تک کٹ کروا لوں گی ۔۔۔"وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی۔۔۔

اسے پتہ تھا کہ شیرو اسے بال کٹوانے سے ہمیشہ منع کرتا تھا ۔۔۔اسی لیے وہ جان بوجھ کر بولی ۔۔۔۔

"اگر ان بالوں کو ہاتھ بھی لگایا تو یاد رکھنا پری بہت برا پیش آؤں گا "

وہ گھمبیر آواز میں بولا۔۔۔

پھر اسکے ہاتھ سے برش لے کر نرمی سے اسکے بالوں میں پھرنے لگا ۔۔۔ انہیں سمیٹ کر پونی ٹیل بنائی جو پری کی پشت پہ لہرانے لگی ۔۔۔

"ویسے مجھے یہ بتاؤ ۔۔ہاسٹل میں تمہارے بال کون بناتا ہے ؟؟؟یہاں آکر میرا دماغ کھاتی ہو "

"ہی۔۔۔ہی۔۔۔ہی ۔۔۔وہاں تو خودی بناتی ہوں ۔۔۔۔اب یہاں اتنی دیر بعد آتی ہوں ۔۔۔اتنا حق تو میرا آپ پہ بنتا ہے نا ۔۔ وہ اسکی مغرور ناک کو اپنی پوروں سے چھو کر مسکراتے ہوئی بولی اور اسکے ہاتھ سے برش لے کر باہر کو بھاگی ۔۔۔

وہ تاسف سے سر ہلانے لگا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ کوئی اس تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا اس نے اپنا سارا سامان سمیٹا ۔۔۔۔

اور اسے بستر سے اٹھانا چاہا ۔۔۔جیسے ہی اسکی گردن میں ہاتھ ڈالا اسے اٹھانے کے لیے اسے پری کی گردن کی جلد میں کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔اس نے بیہوش پری کو کمر میں ہاتھ ڈال کر اٹھایا ۔۔۔پھر انگلی اسکی گردن کی ہڈی سے نچلے حصے پر سہلا کر اس چبھتی ہوئی چیز کو محسوس کیا۔۔۔پل بھر ہی لگا اسے سارا ماجرا جاننے میں ۔۔۔۔وہ اسے وہیں لیٹا کر واپس اپنے سامان کی طرف آیا۔۔۔اس میں سے ایک تیز دھار چمکتا ہوا بلیڈ نکالا ۔۔۔

"میں جانتا ہوں پری اپنی پری کو خود اپنے ہاتھوں سے تکلیف دینے لگا ہوں ۔۔۔مگر یہ ضروری ہے ۔۔۔ورنہ بعد میں ہم دونوں کو تکلیف ہو گی "کہتے ہوئے اس نے پری کی گردن پہ بلیڈ پھیر کر وہ مائکرو چپ نکال کر فرش پہ پھینکی ۔۔۔پری کی آنکھیں درد سے واہ ہوئیں ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ شور مچاتی ۔۔۔اس نے کلورفارم والا رومال اسکے منہ پہ رکھتے اسکی چیخوں کا گلہ گھونٹ دیا ۔۔۔۔

اور رات کی تاریکی میں اسے کسی گڑیا کے مانند اپنے شانے پہ ڈالے ہوئے رات کی تاریکی میں ہی گم ہوگیا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

حویلی میں اور شہریار ہاؤس دونوں میں شادی کی تیاریاں اپنے عروج پہ تھیں ۔۔۔۔

ہر کوئی شاداں و فرحاں دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔سوائے زخرف اور ماھی کہ ۔۔۔۔

رمشاء بظاہر خوش دکھائی دینے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔مگر دل میں کہیں نا کہیں کوئی پھانس باقی تھی ۔۔۔۔جسے اس نے اپنی تک کسی کو نہیں بتایا تھا ۔۔۔

ماھی نے اس دن کے بعد سے کالج جانا بند کردیا تھا ۔۔۔دعا اور شاہ من اسکی غلطی کی وجہ سے اس سے ناراض تھے ۔۔۔

"منساء یہ دیکھو یہ ڈریس کیسا ہے ؟زائشہ نے اسے موتیوں کے کام سے مزین میرون رنگ کا ایک دیدہ زیب فراک دکھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"مما آپکی پسند ہمیشہ لاجواب رہی ہے ۔۔۔بہت بہت پیارا ہے ۔۔۔

"رمشاء تمہارے لیے بھی بالکل ایسا ہی لیا ہے ۔۔۔

"مما میں اتنے ہیوی ڈریسسز کہاں پہنتی ہوں ۔۔۔؟پلیز مما میں نہیں یہ پہنوں گی ۔۔۔وہ اتنا بھاری کامدار سوٹ دیکھتے ہوئے جھنجھلا کر بولی ۔۔۔

"رمشاء بیٹا اچھا لگے گا تم پہ ویسے بھی تمہاری بہن کی شادی ہے ۔۔اتنا تو چلتا ہے "

"پر مما یہ ریڈی میڈ ہے ،پتہ نہیں اسکی فٹنگ کیسی ہو ؟"

"اچھا رکھ لو بارات پہ پہن لینا ۔۔۔

"جی ٹھیک ہے مما ۔۔۔"اس نے سر جھکا کر مان لیا ۔۔۔حالانکہ دل نہیں تھا اسے پہننے کا ۔۔۔مگر اپنی مما کی بات مزید ٹالنے کی جراءت نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

آیت نے اپنی نیند سے بوجھل  آنکھیں کھول کر سامنے لگے دیوار گیر کلاک پر نظر ڈالی۔۔۔۔

جو صبح کے آٹھ بجا رہی تھی۔

"اف اتنا وقت ہوگیا ۔۔۔نجانے سب باہر کیا سوچیں گے "؟

اس نے پریشان کن تاثرات سمیت سرعت سے اٹھنا چاہا۔۔۔مگر مومن کی بھاری ٹانگ اپنے اوپر محسوس کرتے فورا ذہن میں جھماکا ہوا اور رات کے سارے پل اسکی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے ۔۔۔اسکے لبوں پہ اک شرمیلی سی مسکان نے بسیرا کیا۔۔آیت کے پہلو مومن آنکھیں موندے سو رہا تھا ۔۔۔اسکے چہرے پہ گہرے سکون کا رنگ تھا ۔۔۔آیت نے مومن کی ٹانگ اٹھا کر پیچھے کرنی چاہی مگر اسکا وزن اتنا زیادہ تھا کہ وہ اپنی کوشش میں ناکام ہوگئی ۔

"مومن۔"

وقت کا احساس کرتے آیت نے مومن کو شانے سے جھنجھوڑ کر اٹھانا چاہا ۔۔

مگر دوسری طرف وہ اپنی حالت سے ٹس سے مس نا ہوا ۔۔۔۔وہ تو ایسے گدھے گھوڑے بیچ کر سویا تھا ۔۔۔جیسے اٹھنے کا ارادہ ہی نا ہو ۔۔۔

"مومن پلیز ۔۔۔۔۔"اب کی بار آیت نے اسے نا اٹھتے دیکھ پہلے تو منت کی ۔۔۔مگر پھر تنگ آکر اس نے غصے سے اس کے بازو پہ زور سے چٹکی بھر دی ۔۔۔

اسکی سرخی مائل آنکھیں یکدم کھلیں ۔۔۔اور تھوڑا سا سیدھا ہوا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ آیت سے بدلا لیتا وہ بھاگ کر واش روم میں بند ہوگئی ۔۔۔

مومن اسکی پُھرتی دیکھ کر ہنسنے لگا پھر اٹھ کر وارڈروب کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔اپنے ہینگ کیے گئے کپڑوں میں سے ایک سوٹ نکالا ۔۔۔۔آج اس نے ہاسٹل جا کر اپنی حاضری لگوانی تھی ۔۔۔۔  

تقریباً دس منٹ بعد وہ خوشبوؤں میں نہائی ہوئی  فریش ہو کر باہر آئی 

اپنی طرف مومن کے بڑھتے ہوئے قدموں اور اسکی نظروں میں چھپے شرارت کے مفہوم کو وہ بخوبی بھانپ گئی ۔۔۔

آیت نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔

مومن مدھم سا مسکرا کر واش روم میں بند ہوگیا ۔۔۔۔

آیت آئینے کے سامنے کھڑی ہوتے اپنے بالوں کو برش سے  سلجھا رہی تھی کہ مومن باہر آیا ۔۔۔۔

آیت کے بالوں سے گرتی ہوئی اوس کی مانند پانی بوندیں اسکے دل کا قرار لُوٹ رہی تھیں ۔۔۔۔مومن نے قریب آتے ہی اسکے نم بالوں کو شانے کے ایک طرف کرتے ہوئے اسکی صراحی دار نازک سی گردن پر اپنے لب رکھے۔۔۔۔

"مومن ہمیں پہلے ہی دیر ہوگئی ہے "آیت نے اپنے گرد  اسکی پیچھے سے واہ کی گئیں بانہوں کے حلقے میں کسمساتے ہوئے کہا ۔۔۔

 اس کی مونچھوں کی چبھن سے محسوس کرتے آیت کے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔۔

"یار ابھی تک گولڈن نائٹ بھی منانے نہیں دی نیند نیند کا بہانہ بنا کر ۔۔۔اور اب اس سے بھی روکو گی ؟۔"

مومن نے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔۔۔۔

"مومن باہر سب کیا سوچیں گے ۔"وہ صلح جو انداز میں پلٹ کر مومن کے گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

جوابا مومن نے اسے گھور کر دیکھا اور رخ پلٹ گیا ۔۔۔سنجیدگی سے اپنے اوپر پرفیوم کا چھڑکاؤ کرنے لگا ۔۔۔

"اچھا نا پلیز ناراض تو نہیں ہوں نا ""

"میری جان نکل جاتی ہے ۔۔۔یہ سوچ کر کہ آپ مجھ سے خفا ہیں ۔۔۔قسم سے اس ایک لمحے ایسا لگا کہ اگر آپ روٹھے تو میرا سانس مجھ سے روٹھ جائے گا "

مومن میں بتا رہی ہوں ۔۔۔آپکی ناراضگی نہیں جھیل سکتی میں ۔۔۔

"میں مر جاؤں گی ........قسم سے " وہ رندھے لہجے میں بولی۔۔۔تو مومن نے اپنی مصنوعی ناراضگی کا خاتمہ کیا اور جان مومن کی طرف پلٹا ۔۔۔۔

"یار مجھے کسی سے کچھ لینا دینا نہیں ۔۔۔کوئی کیا سوچتا ہے کیا نہیں ۔۔۔تم بھی میری طرح بن جاؤ ۔۔۔ٹینشن فری ۔۔۔جسے دوسرے کی سوچ کی پرواہ نا ہو ۔۔۔۔یار میری فیلنگز کو بھی سمجھو نا ۔۔۔اتنا عرصہ ہوگیا شادی شدہ ہونے کے بعد بھی کنوراہ ہی پھر رہا ہوں ۔۔۔وہ جھنجھلا کر بولا ۔۔۔

آیت اسکی بات سن کر روتے ہوئے مسکرا دی ۔۔۔۔

مومن پھر وہیں سے شروع ہوا جہاں رکا تھا ۔۔۔۔آیت کے قرب سے اٹھتی صندلی محسورکن مہک اسے پاگل کیے دے رہی تھی ۔۔۔۔

"یار رات کو کرنے والے کام تم مجھے صبح کرنے پہ مجبور کر رہی ہو "وہ ذومعنی انداز میں کہتے ہوئے اسکی شفاف گردن پہ جھکا ۔۔ 

اس سے پہلے کہ آیت اسکی بات پہ کوئی ردعمل ظاہر کرتی ۔۔۔۔

 گردن پر اس کی شیو کی چبھن کے احساس سے وہ جھٹپٹائی ۔۔۔

زخرف تمہارا کیا خیال ہے تمہارا دلہا کیسا ہونا چاہئے..

وہ دونوں اس وقت کالج سے واپسی پہ وین میں بیٹھی ہوئیں تھی جب ماھی نے اچانک ہی سوال کیا ۔کیونکہ ابھی کچھ دیر پہلے کی گئی لکی سر کی باتیں اسکے دماغ میں گھوم رہی تھیں .

"اس میں بھلا پوچھنے کی کیا بات ہے ماھی تم میری بیسٹ فرینڈ ہو اور تمہیں ابھی تک اپنی سہیلی کے دل کی بات کا نہیں پتہ چلا ۔۔۔بہت ہی کوئی بیوقوف ہو تم "اس چلتی ہوئی گاڑی کے باہر کے مناظر سے نظر ہٹاتے ہوئے ماھی کی طرف دیکھ کر کہا۔۔

"یہ بیوقوف کسے کہا ۔۔۔؟؟؟؟بیوقوف ہوگی تم ".. 

"اصل میں تم بیوقوف نہیں گھنی پلس میسنی ہو ۔خود مجھے ہوا تک لگنے نہیں دی ۔۔۔اور کہتی ہو مجھے پتہ نہیں ۔۔۔۔اب پھوٹو منہ سے اس اپنی پسند کا نام "ماھی نے اپنا سارا غبار اس پہ نکالا ۔۔۔۔

"Hey attitude???

یہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے ۔۔۔ماھی میں ایٹیٹوڈ ۔۔۔انٹرسٹنگ ۔۔۔۔زخرف نے اسکے بدلے تیور دیکھ کر کہا ۔۔۔

"اب بتا بھی دو کیوں چنے کے جھاڑ پہ چڑھ رہی ہو "

"ارے یار مجھے فوجی پسند ہیں ۔۔۔آگے سمجھ جاؤ ۔۔۔اب اپنے منہ سے ان کا نام لیتے ہوئے مجھے شمیاں (شرم )آتی ہے ۔۔۔وہ اپنے دوپٹے کے پلو کو انگلیوں میں لپیٹتی کبھی تو کبھی اسکا کونہ دانتوں تلے دبا کر شرمانے کی ادکاری کرتی ۔۔۔

ماھی تو اس کی شرمانے کی ایکٹنگ پہ عش عش کر اٹھی۔۔۔

اچانک اس کے زہن میں جھماکا ہوا۔۔۔۔

"ایک۔۔۔۔منٹ ۔۔ایک منٹ ۔۔یہ ۔۔تم ۔۔۔کہیں ۔۔۔امرام شیر بھائی کی بات تو نہیں کر رہی ؟"

اس نے استہفامیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسفسار کیا۔۔۔

زخرف نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

"ہائے اللّٰہ !

"پوری دنیا میں تمہیں وہی ملے تھے پسند کرنے کے لیے ۔۔۔۔

"کیوں بھئی میری پسند کو کیا ہوا ؟؟؟

وہ آنکھیں نکال کر اسے گھورتے ہوئے لڑاکا انداز میں بولی ۔۔۔۔

"ارے انہیں کچھ نہیں ہوا ۔۔۔

"میں تو یہ کہہ رہی تھی ۔۔۔۔

کیا کہہ رہی تھی تم ؟وہ فل لڑنے کے موڈ میں تھی ۔۔۔

ماھی نے اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کیا۔۔۔

"کچھ بھی نہیں ۔۔۔ویسے ہی مذاق کر رہی تھی ۔۔۔تمہیں پتہ ہے آج میں کتنی ٹینشن میں تھی مگر تم سے بات کر کہ سارا ڈیپریشن اڑن چھو ہو گیا ۔۔۔سچ کہتے ہیں دوست خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک ہے ۔

"ہمممم۔۔۔وہ تو ہے ۔زخرف نے بھی تائیدی انداز میں کہا۔

"چلو اب تم مجھے اپنی پسند بتاؤ ۔۔۔۔

"ممم۔۔۔میری پ۔۔پسند ۔۔ ؟؟

زخرف کے سوال پہ ماھی بوکھلا کر رہ گئی۔۔۔

"ہاں بھئی تمہیں کیسا دولہا چاہیے ؟

ماھی کی آنکھوں کے سامنے لکی سر کا وجیہہ سراپا لہرایا ۔۔۔۔مگر وہ آنکھوں کو میچ کر اس اثر کو زائل کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

"ماھی ۔۔۔میں اپنی زندگی کو  کو امرام شیر کے ساتھ کُھل کر جینا چاہتی ہوں.. آنکھوں کو میچتی وہ خیالوں میں اپنے بازو پھیلا رہی تھی یوں جیسے ابھی سے بادلوں پہ اڑ رہی ہو..

لیکن اسکے خوابوں اور خیالوں کو ماھی نے اسکے بازو پہ چٹکی کاٹ کر حقیقت کا روپ دے دیا۔۔۔۔

آئیییی.. کیا مصیبت ہے بھئی..ابھی تو میں امرام کی بانہوں میں جھوم رہی اس سے پہلے کہ سپیشل موومینٹ ہوتا ۔۔۔تم نے تو سارا موشن توڑ دیا ۔۔۔۔کیسی دوست ہو تم ؟؟؟؟ اپنے بازو کو مسلتی وہ ماھی کو کچاچبانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی..

"میری پیاری سی دوست پلس بہنا ہوش کی دنیا میں لوٹ آو .. کیونکہ وین رکے کافی وقت ہوگیا ۔۔۔ڈرائیور انکل ہمارے باہر نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔وہ اپنا بیگ اور فائل سمیٹتے ہوئے اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی ۔

"اووو میری ظالم دوست اللّٰہ کرے تمہارے رومینس کا بھی ایسے ہی ستیا ناس ہو جیسے تم نے میرے خوابوں میں ہونے والے رومینس کا مارا ہے ۔۔۔" . اب وہ بھی اپنا بیگ اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی..اور اتر کر گھر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

"آج اتنی دیر لگادی ؟؟؟.. وہ ابھی اندر داخل ہوئی ہی تھی کہ منت نے اسکے لیٹ ہونے کی وجہ کرخت آواز میں پوچھی ..

"ہائے اللّٰہ مما آپ نے تو مجھے  ڈرا ہی دیا.... ننھا سا دل ہے میرا چڑیا جتنا.. ایویں ہارٹ اٹیک سے بند ہو گیا تو.کتنی بھی کوشش کرلیں .اتنی حسین و جمیل بیٹی دوبارہ نہیں ملنے والی تھی ۔۔۔۔ دل پہ ہاتھ رکھے وہ ڈرے رہنے کی ایکٹنگ کر رہی تھی..

"شرم کرو کچھ زخرف ڈراتی تو تم مجھے ہو لیٹ ہوکر ۔۔۔نجانے کون کونسے وہم آنے شروع ہوجاتے ہیں تم ایک منٹ بھی لیٹ ہوتو اور کتنی بار کہا ہے کہ یہ فضول کی اوور ایکٹنگ میرے سامنے تو مت ہی  کیا کرو .. وہ اسکی کمر پہ دھپ رسید کرتی وہ کرختگی سے بولی ..

"ہائے او ربا ایسی ظالم ماں اللّٰہ دشمن کو بھی نا دے ۔۔۔اپنی نازک پھولوں جیسی بچی پہ ظلم ۔۔۔ایک تو صبح سے بھوک کے مارے میں پیٹ میں چوھوں نے اودھم مچا رکھا ہے اوپر سے خالی پیٹ ماں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے .. دہائیاں دیتی وہ بیگ وہی پھینک کر صوفے پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھی..

"آجائیں تمہارے بابا جنہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کہہ کر تمہیں سر چڑھا رکھا ہے ۔۔۔۔ 

"مما میری دوستیں بتاتی ہیں جب وہ لوگ کالج  سے  گھر جاتی ہیں تو انکی مائیں انہیں پیار سے ٹھنڈا شربت کا گلاس پیش کرتی ہیں.. اور ادھر میں ہوں آتے ساتھ ہی بس بیعزتی ۔۔لو بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہوئی ...

"زخرف اگر اس لیپ ٹاپ کو ہاتھ بھی لگایا نا تو اسے توڑ دوں گی ۔۔۔۔جب دیکھو اس منحوس لیپ ٹاپ کے آگے بیٹھی رہتی ہو ۔۔۔۔انہوں نے اسے گُھرکا۔۔۔۔

"اوووو ۔۔۔۔نوووووو مما ۔۔۔اسے کچھ مت کرنا ۔۔۔

"میرے بابا نے دلایا تھا مجھے ۔۔۔اور دوسری اور سب سے اہم بات آپکی بیٹی سافٹ وئیر انجینئر ہے ،اور آپ اسکی اسطرح سے عزت افزائی کر رہی ہیں ۔!!!!

"یہ تو وہی بات ہوئی گھر کی مرغی دال برابر ...

"آپکی بیٹی نے اتنے سافٹ وئیر ایپ بنا ڈالیں ۔۔۔اور آپکو علم ہی نہیں ۔۔۔۔

"ہائے ربا کوئی قدر نہیں اتنی جینئس بچی کی ۔۔۔۔

""دیکھنا ایک بار شادی کرکہ چلی گئی نا دوبارہ اپنا منہ نہیں دکھاؤں گی ۔۔۔۔

بس کر دو ڈرامے بازیاں یہ ساری خوبیاں اور چونچلے اور  جاکر اپنے شوہر کو دکھانا.. 

مجھ سے تو برداشت نہیں ہوتی ۔۔۔

"ہائے سچی مما !!!

"کب آئے گا وہ دن ۔۔۔؟

زخرف پرجوش آواز میں انکے شانے پہ چہرہ ٹکا کر بولی

"زخرف !!! 

انہوں نے پلٹ کر اسے سخت گھوری سے نوازا۔۔۔۔

"جاؤ جلدی چینج کر کہ آؤ تب تک کھانا لگاتی ہوں ۔

انہوں نے اسے ڈپٹ کر کہا۔۔۔۔

وہ بادل ناخواستہ اٹھ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

ماھی جب سے کالج سے آئی تھی کمرے میں اندھیرا کیے لیٹی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اسکی ساری کتابیں اسکے بستر پہ ہی بے ترتیبی سے پھیلیں ہوئی تھیں ۔

اس دن کے واقعے سے شاہ من اور دعا دونوں ناراض تھے ماھی سے اس سے بات ہی نہیں کر رہے تھے اس نے بہت بار انہیں منانے کی کوشش کی مگر انہوں نے اسکی بات نہیں سنی وہ دونوں اسکی حرکت سے بہت دلبرداشتہ ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی تو وہ اس بات کو لے کر پریشان تھے کہ کہیں کالج میں تو نہیں ماھی کا کارنامہ پھیل چکا ۔۔۔یہی پوچھنے کے لیے دعا نے شام کے وقت  ذخرف کو گھر بلایا تھا ۔۔۔

"جی پھپھو بات تو کافی حد تک پھیل چکی ہے ۔اور ماھی کا کافی مذاق بھی بنایا جا چکا ہے کالج میں ۔۔۔وہ کافی دکھی ہے ۔پلیز آپ اسے معاف کردیں ۔۔۔ادھر کالج میں بھی سٹوڈنٹس کی عجیب و غریب باتیں سنتی ہے ،اور ادھر آپ بھی اس سے ناراض ہیں ۔میں جانتی ہوں ماھی نے غلطی کی ہے ۔مگر بڑے تو بچوں کو انکی غلطیوں کے لیے معاف کر دیتے ہیں ۔۔۔پلیز پھپھو اسے ایک موقع دے دیں ۔آئندہ وہ آپکو کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں دے گی ۔۔۔۔

ابھی وہ دونوں باتوں میں ہی مشغول تھے کہ باہر ڈور بیل بجی ۔۔۔تو شاہ من جو لان میں موجود تھا اس نے دیکھا دو اجنبی لوگوں کو اندر داخل ہوتے ۔۔۔۔

"اسلام و علیکم !

آدمی نے مؤدب انداز میں سلام کیا تو جوابا شاہ من نے بھی وعلیکم السلام کہا ۔۔۔

وہ سوٹڈ بوٹڈ شخص اور اسکی ساتھ کھڑی باوقار خاتون چہرے پر سنجیدگی لیے کھڑے تھے ۔۔۔

"سوری میں نے آپکو پہچانا نہیں "شاہ من نے کہا۔

"آپ پہچانیں گے کیسے جبکہ ہم ملے ہی پہلی بار ہیں ۔۔

"میرا نام اسعد ہے۔۔۔ اور میری وائف مسسز اسعد ۔

دراصل ہم آپ سے ایک گزارش کرنے آئے ہیں ۔اگر اجازت ہوتو کچھ دیر آرام سے بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں ۔انہوں نے تمہید باندھی ۔۔۔

"جی بالکل آئیے "

وہ دونوں شاہ من کی معیت میں اندر آئے ۔۔۔۔

دعا اور زخرف دونوں اپنی جگہ سے اٹھی اور انہیں سلام کیا ۔۔۔۔

"دعا چائے کا انتظام کرو "

شاہ من نے مہمانوازی کے فرائض نبھاتے ہوئے دعا سے کہا ۔۔۔

"ارے نہیں بہن آپ بھی پلیز بیٹھیے ۔۔۔۔چائے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

اس خاتون نے دعا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بیٹھا لیا ۔۔۔

"دراصل ہم اپنے بیٹے لکی کے لیے ماھی کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں "اسعد صاحب سیدھا مدعے کی طرف آئے ۔۔۔

شاہ من اور دونوں نے چونک کر فورا ایک دوسرے کو حیرت انگیز نظروں سے دیکھا ۔۔۔

"لکی نے ہمیں ساری بات بتا دی ہے ،ماھی ہمیں اپنی بیٹی کی طرح عزیز ہے ۔اسکی اور آپکی عزت ہماری عزت ۔۔۔۔

"مگر ایسے کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔؟؟؟

ابھی ماھی بہت چھوٹی ہے ۔صرف انیس سال کی ہے ۔اور اسکی پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی ۔۔۔دعا نے اس رشتے کی مخالفت کی۔۔۔

شاہ من نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں فی الوقت اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

"لکی تو ہمارا بیٹا ہے ۔اسے تو کوئی مجبوری نہیں ۔مگر لڑکیوں کی عزت ایک بار کھو جائے تو پھر واپس نہیں آتی ۔۔۔اس سے پہلے کہ ماھی کے کردار کو لے کر کوئی باتیں پھیل جائیں ہمیں ان دونوں کا نکاح کر کہ ساری باتوں کو سلجھا دینا چاہیے ۔۔۔....تاکہ کسی کو بات کرنے کا موقع نہیں ملے "اسعد صاحب نے بردباری سے سمجھانے کی کوشش کی ۔۔۔۔

شاہ من خاموشی سے اس بات پہ غور و فکر کر رہا تھا ۔۔۔۔

"کیا لکی اس رشتے پہ راضی ہے ؟"

شاہ من نے سوال کیا ۔۔۔

"جی ہم اسکی مرضی کے بنا کیسے اتنا بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

"تو پھر آپ کا کیا جواب ہے ؟"

مسسز اسعد نے دعا سے پوچھا ۔۔۔۔

"میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔۔۔فیصلہ تو ماھی کے بابا ہی کریں گے "

اس نے سارا بوجھ شاہ من کے کاندھوں پہ ڈال دیا۔۔۔۔

شاہ من سر جھکائے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔

"سب کیا کہیں گے ۔۔۔اکلوتی بیٹی کو اتنی جلدی کیا تھی بیاہنے کی ۔۔۔۔اتنی جلدی شادی کرنے پہ بھی تو سب باتیں بنائیں گے "

"لیکن اگر کوئی الٹی سیدھی باتیں سارے خاندان میں پھیل گئیں تو سب کو کیا منہ دکھاؤں گا ۔۔۔

اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا سوچ سوچ کر ۔۔۔بالاخر اسنے گہری سانس کھینچ کر خود کو سنبھال لیا۔۔۔۔

"ٹھیک ہے مجھے منظور ہے ۔مگر نکاح کے بعد ماھی اپنی پڑھائی جاری رکھے گی ۔جب تک پڑھائی مکمل نہیں ہوجاتی وہ یہیں رہے گی ۔۔۔۔

"ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔بس ایک گزارش ہے ۔نکاح کے بعد ہم اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائیں گے ۔صرف اپنا گھر دکھانے کے لیے اپنے رشتے داروں سے ملوانے کے لیے ۔۔۔اگلی صبح اسے واپس چھوڑ جائیں ۔۔۔۔نکاح کے بعد آخر وہ ہماری بہو بن جائے گی تو ہمارا بھی تو کچھ حق ہوگا نا اس پہ "اسعد صاحب نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔۔۔

"جی ٹھیک ہے "

"تم کیا کہتی ہو دعا ؟

شاہ من نے اسکی رائے کو بھی اہمیت دی ۔۔۔۔

"جیسا آپ کو مناسب لگے ۔۔۔۔

"اچھا ہمیں ہماری بیٹی سے تو ملوائیں "مسسز اسعد نے کہا ۔۔۔

"جاؤ ذخرف جا کر ماھی کو نیچے لاؤ اپنے ساتھ "دعا نے کب سے پیچھے خاموش تماشائی بنی کھڑی ذخرف سے کہا ۔۔۔۔

"جی پھپھو "وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے اوپری منزل کی سیڑھیوں پہ چڑھنے لگی ۔۔۔۔

"ماھی اٹھو "

زخرف نے اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی سوئچ بورڈ پہ انگلی رکھ کر لائٹس آن کیں تو سارا کمرہ روشنیوں سے بھر گیا ۔۔۔۔

مگر ماھی منہ پہ تکیہ رکھے بت سدھ لیٹی رہی ۔۔۔۔

ماھی اگر تم نہ اٹھی نہ پھر میں نے پانی کی پوری بالٹی بھر کر تم پہ الٹا دینی ہے ۔۔۔۔۔۔۔!!

زخرف اسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر کڑھتے ہوئے  بولی۔۔۔۔۔۔۔

"ماھی اٹھی ہے ؟دروازے کے باہر سے دعا کی آواز آئی ۔۔۔

ماھی اپنی مما کی آواز سن کر فورا تکیہ پیچھے پھینکتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔

جی جی ماما۔۔۔۔۔۔۔!! اٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔اتنے دنوں بعد تو اسکی مما نے اسکا نام لیا تھا ۔اسکی خوشی کی کوئی انتہا نا رہی ۔۔۔۔

دعا اندر آئی ۔۔۔۔

"زخرف بیٹا کھانا میں پہلے ہی بنا چکی ہوں تم زرا کچن میں جا کر فروٹ ٹرائفل بنا لینا۔۔۔۔۔۔۔میں بس ابھی آئی ۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے ذخرف کو نیچے بھیج دیا ۔۔۔۔

"جلدی منہ ہاتھ دھو کر کپڑے تبدیل کرو اور چلو میرے ساتھ نیچے ۔۔۔۔

اسکے روئے ہوئے سُتٓے ہوئے چہرے کو دیکھ کر انہوں نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔

"ممم۔۔۔۔مگر کیوں مما "؟

اسنے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"نیچے لکی کے پیرنٹس آئے ہیں تمہارا رشتہ لے کر "

انہوں نے گویا اسکے سر پہ دھماکہ کیا ۔۔۔۔وہ فق نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگی۔

"مگر مما ایسے کیسے ؟؟وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔

"جو لکھا تھا وہ پورا ہو رہا ہے اور کیا چاہیے "؟

انہوں نے درشتگی سے کہا۔۔۔۔

"اسی سے شادی ہو رہی ہے "

وہ اسے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے بولیں ۔۔۔

"مگر وہ سب جھوٹ تھا میری غلطی تھی ۔۔۔۔اس کی اتنی بڑی سزا نا دیں مما ۔۔۔۔پلیز ۔۔۔اس نے ان کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔۔

"ماھی وقت ضائع مت کرو نیچے سب انتظار کر رہے ہیں تمہارا ۔۔۔۔

مما مجھے یہ شادی نہیں کرنی تو بس نہیں کرنی "

وہ بستر پہ بکھری ہوئی کتابوں کو ہاتھ مار کر نیچے پھنکتے ہوئے زخمی ناگن کی طرح پھنکاری ۔۔۔۔

"ماھی !!!  

"ساری تمیز و لحاظ بھول گئی ہو ؟؟؟

"اور یہ کتابیں کیوں نیچے پھینکیں ۔۔۔؟"

"اچھی طرح جانتی ہوں نا ان پہ بسمہ اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہوتی ہے ۔"

"ایک منٹ سے پہلے اٹھاؤ انہیں ۔۔۔۔

"ہماری نرمی کا پہلے ہی بہت ناجائز فایدہ اٹھا چکی ہو تم "

ماھی نے سرعت سے اٹھ کر فرش پہ بکھری ہوئی کتابیں سمیٹتے ہوئے چونک کر دیکھا ۔۔۔

 "مما مگر وہ میرے ٹیچر ہیں "اسنے ایک اور نکتہ نظر بیان کیا ۔۔۔۔

"یہ تو تمہیں سوچنا چاہیے تھا نا ۔۔۔

" ناول پڑھ پڑھ کر جو تمہارا دماغ خراب ہوا ہے.. یہ سب انہیں کی کرامات ہیں بھگتو اب .. وہ کبرڈ میں سے اسکے لیے ڈریس نکالتے ہوئے مسلسل بڑبڑا رہی تھیں ..

ماھی اور دعا سیڑھیوں سے نیچے ا رہی تھیں کہ زخرف بھی ان کے پاس آئی ۔۔۔۔

"ارے ماھی ۔۔۔۔۔۔یہ تمہارے ہاتھ اتنے ٹھنڈے کیوں ہو رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔!!؟

زخرف نے ماھی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پریشانی سے بولی۔۔۔۔۔۔۔

"زخرف مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا میری زندگی کس طرف جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔!!

 روہانسی ہو کر بولی۔۔۔۔۔۔۔

اسے تو سمجھ ہی نہیں لگ رہی تھی کہ ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور آگے کیا ہونے والا ہے ۔۔۔

"ماھی پریشان مت ہو بڑوں کے فیصلے ہمیشہ ٹھیک ہوتے ہیں ۔میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں دیکھنا ان شا اللّٰہ سب بہتر ہوگا ۔۔۔۔۔۔

زخرف نے آہستہ آواز میں ماھی کو پچکار کر تسلی دیتے ہوئے  کہا۔۔۔۔۔۔۔

ماھی نے اندر جاکر سب کو سلام کیا تو مسز اسعد نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔۔۔۔۔۔۔

"ماشااللہ بہت پیاری بچی ہے ہم تو اب ذرا سی بھی دیری نہیں کرے گے کیوں بھئی اسعد صاحب ۔۔۔۔۔۔۔؟"

مسسز اسعد نے انہیں مخاطب کیا۔۔۔۔۔۔۔

"بالکل ٹھیک کہا ۔اس ماہ کی پندرہ تاریخ کیسی رہے گی ۔۔۔۔۔۔"؟انہوں نے پوچھا 

"میں ایک منٹ دیکھتی ہوں "

دعا نے موبائل سے دیکھا ۔۔۔۔

"کیا دیکھ رہی ہیں مسسز اسعد نے پوچھا ۔۔۔

"میں چاند کی تاریخ دیکھ رہی ہوں ",دعا نے موبائل سے نظر اٹھا کر جوابا کہا ۔۔۔

"دراصل ہم میں چاند کی پہلی تاریخوں میں سے کوئی تاریخ رکھتے ہیں نکاح کے لیے اسے اچھا تصور کیا جاتا ہے ۔۔۔۔

دعا نے تفصیلی جواب دیا۔۔۔

"میں بتاتی ہوں پندرہ تاریخ کو اماوس کی رات ہوگی ",مسسز اسعد نے سادگی سے کہا ۔۔۔۔

"ہم میں تو کوئی ایشو نہیں چاند کی تاریخوں کا ۔۔۔۔سب دن اور رات اللّٰہ کے بنائے ہوئے ہیں ۔مجھے تو پندرہ تاریخ ٹھیک لگی ۔۔۔ہم سادگی سے نکاح کرلیں گے "

"ٹھیک ہے پندرہ تاریخ ہی ۔"شاہ من نے بحث ہی ختم کی ۔۔۔۔

اسی دوران کھانا سرو ہوا۔۔۔۔۔۔۔

انہی سب باتوں میں وہ لوگ رخصت ہوئے۔۔۔۔۔۔۔

ان کے جانے کے بعد زخرف  ماھی کے کمرے میں آئی ۔۔۔۔۔۔

"ماھی تم اتنی چپ کیوں ہو ۔۔۔۔۔۔۔!!؟"

زخرف ۔۔۔ ماھی کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔

"کچھ نہیں بس ویسے ہی ۔۔۔تم ابھی تک گھر واپس نہیں گئی ؟ماھی نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

"میں تم سے یہ پوچھنے کے لیے رکی تھی کہ تم اس رشتے سے  خوش ہو۔۔۔۔۔۔۔"

زخرف نے اسکا پسینے سے تر بتر ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔

"میں نہیں جانتی جو بھی ہو رہا ہے شاید یہی خدا کی رضا ہو ۔۔۔۔اور اب مزید انکار کر کہ میں اپنے والدین کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ۔اس لیے خوش تو ہونا پڑے گا نا ۔۔۔!!

 وہ بظاہر مسکرا کر بولی۔۔۔۔۔۔۔ 

"ماھی تم دیکھنا جو اپنے والدین کی بات مانتے ہیں نا ان کے ساتھ سب اچھا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

"سب ٹھیک ہو جائے گا  انشااللہ۔۔۔۔۔۔۔!!

"اور ایک میں ہوں اپنی مما کی بگڑی ہوئی بچی ۔۔۔اسی لیے شاید میری دعا قبول نہیں ہو رہی اس کھڑوس امرام شیر کے لیے ۔۔۔۔۔وہ گھمبیر صورت حال کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے بولی تو اسکی بات سن کر ماھی کے افسردہ چہرے پہ بھولی بسری ۔۔۔پھیکی سی مسکراہٹ آن ٹہری ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

آج مہندی کا کمبائنڈ فنگشن شہر کے ایک مشہور ہوٹل کے لان میں ہی کیا گیا تھا۔۔۔ سب کچھ بہترین تھا ۔مہندی کی تھیم کے مطابق گیندے کے پیلےپھولوں اور لائیٹنگ سے ڈیکوریشن کی گئی تھی۔۔ 

دونوں کپلز منساء اور احتشام ،اعیان اور ہانیہ کی مہندی کا فنکشن اکھٹے ہی کئے جانے کا پروگرام فائنل ہوا تھا۔دونوں کپلز کے لیے الگ الگ سٹیج بنایا گیا تھا ۔۔۔

منساء اور ہانیہ دونوں پارلر  میں مہندی کی تھیم کے لحاظ سے تیار ہوچکیں تھیں ۔بس آخر میں رمشاء ہی بچی تھی ۔۔۔۔

سب لوگ ہال میں پہنچ چکے تھے ۔۔۔

منت نے پارلر میں کال کر کہ ان سب لڑکیوں سے پوچھا کہ وہ تیار ہوچکیں ہیں تو آجائیں ۔کیونکہ مہمان آچکے تھے ۔۔۔

"انہیں جب پتہ چلا کہ آخر میں تیار ہونے والی صرف رمشاء ہی بچی ہے تو انہوں نے فون پاس کھڑی زائشہ کو پکڑایا ۔۔۔۔

"رمشاء بیٹا آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئی "؟

انہوں نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔

"مما میں نے آپکو کہا بھی تھا کہ یہ ڈریس میں نہیں پہنوں گی ۔یہ سمال سائز کا ہے جبکہ مجھے میڈیم آتا ہے ۔بہت ٹائٹ ہے ۔۔۔اسکی فٹنگ سے میرا دم گھٹنے لگا ہے ۔۔۔۔

"رمشاء میں نے کہا بھی تھا کہ پہن کر ایک بار چیک کر لو ۔۔۔

"ابھی وقت نہیں ان سب باتوں کا ایساکرو دوپٹہ اچھے سے سیٹ کر لو ۔۔۔میں گھر سے تمہارا کسی سے دوسرا ڈریس منگوا لیتی ہوں ۔

زائشہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

"ان سب کو ڈرائیور کے ساتھ بھیج دو ۔۔۔میں تمہیں لینے کے لیے دس منٹ بعد کسی اور کو بھیج دوں گی ۔۔۔۔

"جی مما "اس نے بے دلی سے کہتے ہوئے کال بند کردی ۔۔۔

منساء ڈیزائنر کے بہترین مہندی رنگ پر سرخ و پیلے امتزاج  دیدہ زیب کام سے مزین شرارہ اور شارٹ کرتی پر شیڈڈ ڈائی دوپٹہ سیٹ کیے پھولوں کے زیورات پہنے۔۔۔۔ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے، سادگی میں بھی وہ آسمان سے اتری کوئی حور ہی لگ رہی تھی ۔۔۔

احتشام  اس کی سادگی کا ہی تو دیوانہ تھا۔۔۔

وہ جو کب سے اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے بے تاب تھا اسے گھونگھٹ اوڑھے باہر آتے دیکھا تو سخت بدمزہ ہوا۔۔۔۔۔

اتنے مہمانوں کے سامنے آخر اور کر بھی کیا سکتا تھا۔۔۔۔وہ منساء کی اس حرکت پر دانت پیس کر رہ گیا۔۔۔۔

"سارے مظالم کا حساب لیا جائے گا منساء احتشام ۔۔۔

اس نے خودی سے ہمکلامی کی۔۔۔۔

دوسری طرف ہانیہ یلو اور سی گرین لہنگا چولی پہنے ،ہلکے پھلکے میک اپ بہت حسین دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔اعیان کی نظریں اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔۔۔احتشام اور اعیان  نے بلیک کلر کا کرتا اور شلوار پہن کر اس پر یلو کلر کے پٹکے گلے میں ڈال رکھے تھے۔۔۔جس میں وہ بہت شاندار لگ رہے تھے ۔۔۔۔

دونوں دلہنوں کے لیے جھولے کو قدرتی پھولوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔۔۔

منساء اور ہانیہ اسی پر براجمان تھیں۔۔۔

جبکہ احتشام اور اعیان  کے لیے سٹیج پر صوفہ سیٹ کیا گیا تھا۔۔۔

"مومن اور حذیفہ نے انہیں خوب تنگ کر رکھا تھا ۔۔۔

"شیر دل بیٹا سب یہاں آچکے ہیں آپ کہاں ہو ؟

ہیر نے اس سے کال پہ دریافت کیا ۔۔۔

"مما بس ایک امپورٹینٹ میٹنگ تھی ۔اسے ختم کیے ابھی آفس سے باہر نکلا ہی ہوں ۔۔۔بس سیدھا ادھر ہی آتا ہوں ۔

"بیٹا پر مہندی کے فنکشن کے حساب سے جو کپڑے لیے وہ تو چینج کرلو ۔۔۔۔

"اوہ نوووو مام ۔۔۔اب پہلے گھر جاؤں پھر وہاں آؤں ۔۔۔بہت لیٹ ہو جائے گا ۔۔۔تب تک پھر آپکو ہی شکوہ ہوگا ۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے آجاؤ ۔۔۔

"ہیر کس سے بات کررہی ہو ؟"

زائشہ جو اسکے پاس سے گزر رہی تھی رمشاء کو پارلر سے لانے کے لیے کسی کو ڈھونڈھ رہی تھی تو اس نے ہیر کو بات کرتے دیکھ اس سے  پوچھا ۔۔۔

"میں شیر دل سے ۔۔۔

ہیر نے فون کان سے ہٹاتے ہوئے بتایا ۔۔۔

"ہیر اسے کہو آتے ہوئے رمشاء کو پارلر سے لیتا آئے ۔۔۔۔

"زائشہ نے کہا تو اسکی آواز فون پہ موجود شیر دل نے سن لی تھی ۔۔۔

ہیر نے فون کان سے لگایا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ ہیر شیردل سے کہتی ۔۔۔

"مام میں لے آؤں گا "س نے کہہ کر کال کاٹ دی ۔۔۔

'شیر دل نے گاڑی گاڑی پارلر کے باہر روکی اور اندر پیغام بھیجا کہ رمشاء کو بھیج دیں تو کچھ دیر بعد وہ سہج سہج کر چلتی ہوئی باہر آرہی تھی ۔۔۔۔

شیر دل نے اس پہ زیادہ غور نہیں کیا ۔۔۔

"بیلٹ باندھ لو "اسکے ساتھ بیٹھتے ہی شیر نے سپاٹ انداز میں کہا تو رمشاء نے اسکی بات پہ عمل کیا ۔۔۔۔

وہ سٹئرنگ پہ ہاتھ رکھے وند سکرین پہ نظریں جمائے خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔

اس نے ایک اچٹتی ہوئی نظر ساتھ بیٹھی رمشاء پہ ڈالی جو سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔۔۔۔

"آپکو اعیان سے محبت تھی ؟"

رمشاہ نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔

"اس کے ساتھ  بچپن سے میرا نام جڑا تھا ۔۔۔لگاوٹ تو ہو ہی جاتی ہے ۔اور جہاں تک محبت کی بات ہے ،وہ انسان کو شادی کے بعد اپنے محرم سے ہی ہونی چاہیے ۔۔۔۔ایسا میرا ماننا ہے ۔جب وہ میرا محرم بنا ہی نہیں تو محبت ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔وہ انتہائی سنجیدگی سے گویا ہوئی۔۔۔ 

"اعیان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔۔۔مجھے بہت برا لگا سب ۔۔۔ شیر دل نے ماحول میں چھائی ہوئی خاموشی کو توڑا ۔۔۔

"یہ تو قسمتوں کے کھیل ہیں ،کس کی کہاں شادی ہوگی کون کس کے نکاح میں ہوگا ،ہم کسی نا کسی کے ساتھ رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں ۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شخص آپکے نصیب میں بھی ہو ۔۔۔نصیب کبھی الٹے بھی ہوجایا کرتے ہیں ،

"آپ ! بہت گہری باتیں کرتی ہیں "شیردل نے ابرو اچکا کر سنجیدگی سے کہا ۔

"کیا واقعی میری باتیں گہری تھیں؟

"میری نظر میں توگہرے وہ دکھ ہوتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتے ۔۔۔

گہرے تو روح پہ لگے وہ زخم ہوتے جسے کوئی پیوند نہیں لگا سکتا ۔۔۔

"گہری تو وہ دکھ بھری رات ہوتی ہے،جسکی کوئی روشن صبح نا ہو "

"گہرا تو دل کا درد ہوتا ہے جو ہر احساس اپنے اندر دفن کرلیتا ہے ،

"کیا باتیں بھی کبھی گہری ہوتی ہیں ؟وہ بولتے ہوئے سانس لینے کو لحظہ بھر کو تھمی ۔۔۔

شیر دل نے استہفامیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا جسکی آنکھوں میں درد ہلکورے لے رہا تھا ۔۔۔  

 چاند آسمانوں سے لاپتہ ہوگیا 

چل کہ میرے گھر میں آگیا ۔

میں خوش قسمت ہوں باخدا اسطرح 

ہو جائے پوری اک دعا جس طرح 

تیرے بن میری جاناں کبھی 

اک پل بھی گزارہ نہیں ۔

تیری آرزو نے خود سے بیگانہ کردیا ۔۔۔

اسکی انگلیاں تیزی سے پیانو کیز پریس کرتی ہوئی مخصوص دلکش دُھن بجا رہی تھیں اور اسکی سحر انگیز آواز سارے گھر میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔

چاندنی وہ آواز سن کر بیدار ہوئی ۔۔۔اور اسی آواز کے تعاقب میں بستر سے باہر نکل کر ننگے پاؤں چلتے ہوئے باہر نکل آئی ۔۔۔۔

چاند آسمانوں سے لاپتہ ہوگیا 

چل کہ میرے گھر میں آگیا۔۔

آگیا ۔۔۔

میں نے تجھے تحفے میں 

یہ دل دیا ۔

تو نے مجھے بدلے میں یہ جہاں دیا ۔۔۔

میں ہی جانوں 

تو ہی جانے ۔۔۔

تو ہے درمیاں 

تجھ سے ہے میری جاناں گھر یہ آشیاں ۔۔

پیانو کے پیچھے وہ ساحر موجود تھا جس نے اپنی طلسمی آواز سے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا ۔۔۔

نجانے کیسی کشش تھی اسکی آواز میں وہ اپنے آپ اسکی اوڑھ کھنچی چلی آرہی تھی ۔۔۔مگر اس انسان کا چہرہ وہ ابھی تک دیکھ نہیں پائی تھی ۔۔۔۔

تیرے بن میری جاناں کبھی 

اک پل بھی گزارہ نہیں ۔

تیری آرزو نے خود سے بیگانہ کردیا ۔۔۔

چاندنی نے جھک کر اسکا چہرہ دیکھنا چاہا ۔۔۔۔

چاند آسمانوں سے لاپتہ ہوگیا ۔۔۔

مگر اسکے شخص کے شانوں تک آتے بھورے بال اسکے پیانو کیز پہ جھکے چہرے پہ گرے ہوئے تھے جس سے اسکا چہرہ واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔

چل کہ میرے گھر میں آگیا ۔۔۔

آگیا ۔۔۔۔

جبکہ وہ اپنی پری کی یادوں میں بری طرح ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔۔

اس دن باہر چھاجوں چھاج بارش برس رہی تھی ۔۔۔۔پری  کی آنکھ باہر ہونے والی بارش کی آواز سے کھلی تھی۔۔بمشکل اس نے اپنی بند آنکھوں کھولتے ہوئے  ارد گرد کا جاٸزہ لیا۔۔۔

باہر اپنے گرد شال لپیٹ کر باہر نکلی ۔۔۔۔

لاونج میں آریان شیر اپنی گن کو پھونک مار کر صاف کرتے ہوئے اسکی آئلنگ کر رہا تھا ۔۔۔۔

" باہر کیا بارش ہو رہی ہے اور آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں ؟۔۔ اس نے شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ 

"اب اس میں بتانے والی کیا بات تھی ۔کچھ نیا تھوڑی نا ہے ۔۔۔ اپنی مختلف قسم کی پسٹل کو صاف کرتے ہوئے  پہ اس کے ہاتھ بہت اسپیڈ سے چل رہے تھے ۔۔یقینا وہ بہت ماہر تھا اس کام میں ۔۔۔

"آپ کو تو پتہ ہے مجھے بارش کتنی پسند ہے ۔۔۔اور ایسے موسم میں تو میری جان بستی ہے ۔۔۔۔کیا تھا جو مجھے اٹھا دیتے تو "

"اٹھا دیتا تو وہی بات ہوتی آ بیل مجھے مار والی ۔۔۔۔

وہ بنا اسکی طرف دیکھے اپنے کام میں مگن رہا ۔۔۔

"بہت ہی کوئی ڈیش انسان ہیں آپ ۔۔۔بھئی اتنے دنوں بعد ہاسٹل سے یہاں آتی ہوں آپکے ساتھ وقت گزارنے اور آپ مجھے بالکل بھی وقت نہیں دیتے ۔۔۔۔ایک دن ان سب گنز کو ایک ساتھ رکھ کر آگ لگا دوں گی ۔۔۔۔جن کے ہوتے ہوئے آپ مجھے دیکھتے بھی نہیں ۔۔۔۔

وہ تُنک کر بولی ۔۔۔۔

"دماغ مت کھاؤ یہ بتاؤ چاہتی کیا ہو "اب کی بار اس نے اپنی نظریں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔

"مجھے آئس کریم کھانی ہے ۔۔۔"اس نے فرمائشی انداز میں کہا ۔۔۔

"کوٸی ضرورت نہیں۔۔ سردی کا موسم ہے ۔ خوامخواہ ٹھنڈ لگ جاۓ گی۔۔ آریان نے تھوڑا رعب سے کہا پر وہ پہلے کبھی آٸی تھی اس کے رعب میں جو اب آتی۔۔

"میں شوز پہن کر آرہی ہوں ۔جلدی سے اٹھیں ۔ویسے بھی اگر مجھے ٹھنڈ لگ گئی یا گلہ خراب ہوگیا تو۔ آپ ہے نا میری خدمت کرنے کے لیے۔۔اب میرے لیے اتنا بھی نہیں کریں گے تو کس کے لیے کریں گے "

"اففف آپ مجھ سے بدلہ لے رہے ہیں نا ساتھ لانے کا ؟؟؟

بندہ جیپ نکال لیتا ہے ۔۔۔پر نا ۔۔۔۔آپ نے تو بدلہ لینا ہے مجھ سے  ساتھ لانے کا ۔۔ تب سے مجھے پیدل چلا رہے ہیں ۔۔ آج تو آئس کریم کھانے کے چکر میں میری ٹانگیں ضرور ٹوٹ جائیں گی ۔۔ وہ دہائی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔

"ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے ۔۔۔اپنی صحت کا خیال رکھا کرو..... "

"روزانہ واک کیا کرو "

وہ نا صحانہ انداز میں بولا ۔۔۔۔وہ تو رونے والی ہوگئی تھی ۔۔۔

"مجھے بالکل ضرورت نہیں واک کی ۔۔۔۔میرا وزن پینتالیس کلو ہے ۔۔۔اپنا دیکھیں ضرور دو ٹن ہوگا ۔۔۔۔اسکا غصہ عود کر آیا۔۔۔

"پری بچے  یہ میری فٹنیس ہے ۔ایسی باڈی کسی کسی کی ہوتی ہے ۔وہ اپنے مضبوط بائسیپس والے بازو پہ ہاتھ رکھ کر بولا ۔۔

""مگر بندر کیا جانے ادرک کا سواد "

وہ بولتے ہوٸے اسکا مذاق اڑا کر ہنستے ہوئے خود تو آگے نکل گیا تھا پر وہ وہیں اسی جگہ  منہ بناٸے کھڑی رہی۔۔ کچھ قدم چلنے کے بعد آریان نے اپنی جینز کی پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے اسے مڑ کر دیکھا اسے لگا تھا کہ شاید وہ ساتھ چل پڑے ہی ار وہ ہونٹ باہر نکالے اسے وہی کھڑی دیکھ رہی تھی۔۔ چہرے سے ناراضگی صاف چھلک رہی تھی۔۔

"کیا ہوا ؟؟؟اس نے وہیں کھڑے کھڑے اس نے سوال کیا۔۔ اور بس اس کے سوال کرنے کی دیر تھی۔۔ پری نے دھاڑیں مارتے رونا شروع کر دیا۔۔

ارے پری کیا ہوا بچے؟۔۔اس کے یوں رونے پہ وہ واقعی پریشان ہو گیا تھا۔۔ اس لیے بھاگ کر اس کے قریب آیا۔۔ اور اس کے چہرے سے اس کے ہاتھ ہٹاٸے۔۔

ہاتھ ہٹاتے ہی پری بنا سوچے سمجھے اس کے گلے لگ گٸی۔۔

"پری مجھے بتاؤ تو صیحیح کہ ہوا کیا ہے ۔۔۔ کچھ بتاٶ گی تو ہی۔۔پتہ چلے گا ۔۔۔ ایسے رو کر  تم مجھے پریشان کر رہی ہو۔۔ آریان نے اسے خود سے پیچھے کیا ۔۔۔۔اب وہ بڑی ہوچکی تھی آریان سب تقاضوں کو اچھے سے سمجھتا تھا اسی لیے داری بنا گیا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔آپ کو پتہ ہے ایک دن جب میں بابا کے ساتھ آئس کریم لینے گئی تھی تو کیا ہوا تھا ؟؟؟؟میری مورے  اور بابا ۔۔دونوں مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے ۔۔۔پھر وہ واپس کبھی نہیں آئے ۔۔۔۔

"مجھے نہیں لینی کوئی بھی  آئس کریم آپ واپس چلیں ۔۔۔میں آپ کو کھونا نہیں چاہتی ۔۔۔آپ کے سوا میرا دنیا میں اور ہے ہی کون ؟"

اس کی شرٹ کے بازوؤں کو وہ زور سے مٹھیوں میں جکڑے اس کے سینے پہ سر رکھے اسکی شرٹ کو اپنے آنسوؤں سے بھگو رہی تھی۔۔ آریان تو اسکی بات سن کر کچھ لمحے شاکڈ سا ہو گیا۔۔ سے زرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ پری ابھی تک وہ حادثہ بھلا نہیں پائی ۔۔۔

اس نے پیار سے اسکے بالوں کو سہلایا ۔۔ مگر خود خاموش کھڑا رہا اور اسے یونہی رونے دیا ۔۔۔تاکہ وہ اپنے اندر کا غبار ایک بار اچھی طرح نکال لے ۔۔۔

"پری اب بس بھی کرو ۔۔ روتے روتے اب پری کی ہچکیاں بندھ گٸیں تو آریان نے اسے پھر سے خود سے پیچھے دھکیلا۔

"پری اب تم بڑی ہوگئی ہو ۔ایسے ٹھیک نہیں ۔۔۔بات کو سمجھو ۔۔۔۔اور دیکھو اب لوگ بھی ہمیں عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ نجانے میں نے تم پہ کون سے ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے ہیں ۔۔۔

اسے پھر سے وہی دن یاد آیا جب ۔۔۔۔

"  مجھے نہیں جانا واپس ہاسٹل " جب سے پری صبح سوئی ہوئی اٹھی تھی اس کی ایک ہی ضد تھی۔۔ 

آریان نے زبردستی میڈ سے کہہ کر اسکو فریش اپ کروایا ۔۔۔

اور اب جب وہ حسب عادت  اس کے بالوں میں برش پھیر رہا تب سے اس کی ایک ہی رٹ  تھی کہ آج مجھے اس بار واپس ہاسٹل نہیں جانا۔۔

"پری بچے بتاؤ کہ یوں نہیں جانا۔۔آخر کوئی وجہ تو ہوگی ؟؟۔ اس کے بالوں کی ہائی ٹیل بنا کر وہ اسے آئینے میں سے دیکھنے لگا ۔۔۔

"اب بتا بھی دو کہ کیا مسٸلہ ہے تمہارے ساتھ۔۔ ویسے تو تمہاری زبان کبھی رکتی نہیں آج یہ چپ کا روزہ کیوں رکھا ہوا ہے ۔۔۔

آریان نے اسکا فیورٹ ناشتہ تیزی بناتے ہوئے اس سے استفسار کیا جو منہ پھلائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔

"تمہارا دھیان ہے کدھر ہے پری ؟؟؟"

"تمہارا فیورٹ ناشتہ تمہارے سامنے پڑا ٹھنڈا ہو رہا ہے اور تم یہ کن خیالوں میں گم ہو ؟۔۔ آریان شیر نے نوٹ کیا تھا کہ صبح سے ہی اس کا دماغ حاضر نہ تھا۔۔وہ کسی سوچ میں گم تھی اور بتا بھی نہیں رہی تھی ۔

"پری !!!!

"جلدی بتاؤ مجھے وہ بات جس نے تمہیں پریشان کر رکھا ہے ۔۔۔

"ک۔۔۔کوئی بات نہیں ۔۔۔وہ بوکھلا کر بولی ۔۔۔

"میں تمہاری  رگ رگ سے واقف ہوں میں۔۔ بتاٶ مجھے کیا بات ہے۔۔ جب سے ہاسٹل سے واپس آئی ہو تب سے ہی کوئی بات تمہیں پریشان کر رہی ہے ۔۔۔۔ہاسٹل میں کوٸی بات ہوٸی ہے کیا؟۔۔ بتاٶ بچے ۔۔۔

آریان نے پیار سے اسکے بال سہلا کر پوچھا ۔۔۔۔

وہ۔۔ اس کے اتنے پیار سے پوچھنے پہ گڑبڑا سی گئی۔۔۔

"وہہہہہ۔۔۔وہ ۔نا ۔۔۔۔ کہتے ہوئے اسکی زبان لڑکھڑا کر رہ گئی۔۔۔

"کیا وہ ۔۔۔پری ؟"

 آریان نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں پوچھا ۔

"مجھے شادی کرنی ہے ۔۔

"آریان نے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھا۔۔ یقینا یہ بات اس کے اپنے ننھے دماغ میں نہیں آ سکتی تھی۔ایسی خرافات ضرور کسی نے اسکے ذہن میں ڈالیں تھیں ۔۔۔۔

"پری !!!

اس کی دھاڑ سن کر کچن کے در و دیوار بھی جھجھنا اٹھے ۔۔۔۔

"کیا بکواس کی تم ؟؟؟

"شرم نہیں آتی ایسی فضول باتیں کرتے ہوئے؟؟؟

"میں تمہیں وہاں یہ پڑھانے سکھانے بھیجتا ہوں "؟

"اپنی عمر دیکھو پہلے تھوڑا زمین سے نکل تو لو پھر بات کرنا شادی کی ۔

"کیا ہوا میری عمر کو ۔۔۔۔میری جتنی عمر کی لڑکیوں کی شادی ہوسکتی ہے تو میری کیو نہیں "؟

وہ تنک کر بولی۔

"خبردار جو دوبارہ ایسی باتیں تمہارے منہ سے نکلیں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔ لگاتا ہوں تمہارے ہاسٹل کا چکر۔۔۔دیکھتا ہوں وہاں کون تمہارا دماغ خراب کر رہا ہے۔۔۔

"نہ۔۔۔نہیں ۔۔۔پلیز آپ سویرا کو کچھ مت کہنا ۔۔۔وہ تو میں نے اس سے پوچھا تھا سب ۔۔۔۔

آریان کے انداز سے ڈرتے ہوئے وہ جھٹ سچائی بیان کرنے لگی ۔۔۔۔

"سویرا نے اسے اپنے نیے شاندار مہنگے ترین موبائل پہ اپنے نکاح کی پکچرز دکھائیں اور بتایا کہ یہ نیا موبائل اسکے شوہر نے اسے گفٹ کیا ہے ،رخصتی پڑھائی ختم ہونے کے بعد ہوگی ۔۔۔۔۔۔ پری  تمہیں پتہ ہے وہ مجھے ہر ہفتے نیو گفٹ دیتے ہیں اور ۔ہم گھومنے پھرنے جاتے ہیں تو وہ مجھے بہت پیار بھی کرتے ہیں ۔سویرا نے اسے شرماتے ہوئے بتایا تو پری نے حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔

"واؤ سویرا تم کتنی خوش قسمت ہو " پری کے پاس صرف ایک رشتہ تھا آریان شیر بس ۔نا ماں باپ ،نا بہن بھائی۔۔۔۔وہ رشتوں اور پیار کی ترسی ہوئی لڑکی کو جب محبت کا لالچ دیا جائے تو اس نے تو حسرت بھری نگاہوں سے ہی دیکھنا تھا اسے ۔۔۔ 

"پری میری طرح تم بھی خوش قسمت بن سکتی ہو ۔۔ تم بھی شادی کروا لو میری طرح ۔۔ تم تو ہو بھی اتنی پیاری ۔دیکھنا تمہیں تو اور ابھی زیادہ چاہنے والا ملے گا ۔۔

اسکی دوست کی باتیں اسکے دماغ میں تب سے گھوم رہی تھیں ۔

دیکھو پری ابھی ان باتوں کی عمر نہیں تمہاری ۔۔۔تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو "

وہ ہنوز کھڑی تھی جبکہ وہ اسے آرام سے کھڑا ہو کر اس کا ہاتھ پکڑے اب اسے پیار سے  سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔

"میں نے کہا مجھے شادی کرنی ہے "وہ اپنی بات پہ بضد ہوئی ۔۔۔

"پری میرے پیار کا ناجائز فایدہ مت اٹھاؤ ۔۔۔اس بار وہ بھی اسکی ضد پہ تھوڑا ہارش ہو گیا ۔۔

"مجھے آپ سے  شادی کرن۔۔۔۔۔ اس کی بات بیچ میں ہی رہ گٸی کیونکہ آریان شیر کا فولادی ہاتھ اس پہ اٹھا اور اسکے گال پہ نشان چھوڑ گیا۔۔۔۔

آریان کے بھاری ہاتھ کے زوردار تھپڑ پڑنے سے وہ لہراتی ہوئی   زمیں پہ گری تھی۔۔ اور کیوں نہ گرتی یہ اس کی زندگی میں پڑنے والا پہلا تھپڑ تھا۔۔

گال کے ساتھ کان بھی ساٸیں ساٸیں کر رہے تھے۔۔ 

اس نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے آریان شیر کو دیکھا جس کی نیلی سرد آنکھیں اس وقت خون چھلکا رہی تھیں ۔

آپ نے مجھے مارا ہے مجھے مارا ۔۔۔مجھے ۔۔۔؟؟؟؟۔۔اس کی بھیگی آواز میں شکوں کا انبار تھا ۔۔تھپڑ پڑنے کے درد  سے زیادہ اس بات کا دکھ ہوا کہ آریان جو ہمیشہ اسے اپنے ہاتھوں کا چھالہ بنائے رکھتا ۔اس کی ہر چھوٹی سی چھوٹی خواہش کو کہنے سے پہلے پورا کردیتا آج اس نے اس پہ زندگی میں پہلی بار ہاتھ اٹھایا تھا۔۔

دنیا کہ لیے چاہے وہ کتنا کٹھور سنگدل واقع ہوا تھا مگر اسکے لیے وہ ہمیشہ نرم دل رہا ۔۔۔مگر آج جو روپ اس نے آریان شیر کا پہلی بار دیکھا وہ اپنے سنسناتے ہوئے گال پہ ہاتھ رکھے بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوئے ڈبڈبا گئیں ۔۔۔۔

"ہاں میں نے مارا ہے تمہیں تھپڑ۔۔ اور سچ جانو مجھے اس تھپڑ پہ کوٸی شرمندگی نہیں۔۔ اپنی بات کو سوچو کہ تم نے کیا بکواس کی ہے ۔اپنی اور میری عمر میں فرق دیکھو میں تمہیں بچی سمجھتا رہا ۔۔۔مگر یہ میری ہی سب سے بڑی بھول تھی ۔۔۔۔اتنا ہی شادی کرنے کا شوق ہوچلا ہے تو کرواتا ہوں اب میں تمہاری شادی ۔۔"وہ غراتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

شیردل نے میرج ہال کے گیٹ پہ گاڑی روکی تو رمشاء اپنا دوپٹہ لپیٹ کر اندر کی طرف بڑھ گئی اور شیردل پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرنے چلا گیا ۔

مہندی کا فنکشن پورے عروج پہ تھا ،سب بڑے دونوں کپلز کو مہندی لگا چکے تھے ،ڈی جے نے مہندی کی تقریب کے حساب سے مدھم سا میوزک لگا رکھا تھا۔نیو جنریشن ہنسی ٹھٹھولوں میں مگن تھی ،جبکہ بڑے اپنی الگ سے محفل جمائے ہوئے تھے ۔

منساء نے سب بڑوں سے بات کی تھی کہ وہ مہندی کی رسم ہانیہ کے ساتھ بیٹھ کر کرے گی اور احتشام اور اعیان ایک ساتھ بیٹھ کر کریں گے ۔اکٹھے کپلز نہیں بیٹھیں گے ۔۔۔

یہ بات سن کر اعیان اور احتشام دونوں کی امیدوں پر پانی پڑ چکا تھا ۔ان دونوں نے دور سے ہی ترسی ہوئی نگاہوں سے اپنی ہونے والی بیویوں کو دیکھا ۔۔۔ 

ان کی بے بسی پہ حذیفہ اور مومن نے خوب ریکارڈ لگایا ۔۔۔

"ماھی تو کیا بڈھی روح بنی بیٹھی ہے "

زخرف نے خاموش بیٹھی ماھی کو دیکھا تو اسکے پاس آتے ہوئے کہا ۔۔۔

"کیا کروں اٹھ کر "؟

اس نے تندہی سے جواب دیا ۔۔۔

"تیری یہ زبان میرے سامنے ہی چلتی ہے ۔مجال ہے جو اپنے والدین کے سامنے تو اپنے منہ سے کچھ پھوٹ لے ۔۔۔۔

بتا دے ان کو سر لکی کے بارے میں اگر وہ تجھے نہیں پسند تو ۔۔۔۔میں تیرا ساتھ دوں گی ۔۔۔۔سچی ۔۔۔۔

"اپنے لیے تو تم کچھ کر نہیں سکی آئی بڑی میرا ساتھ دینے والی ۔۔۔۔ماھی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔

"سوری زخرف میں ہمیشہ اپنا غصہ تجھ پہ نکال دیتی ہوں "پہلے ماھی نے اسے ڈانٹ تو دیا تھا پھر خودی کے الفاظ کی سختی ہو محسوس کیے فورا سے بیشتر معافی مانگ لی ۔۔۔

"یار ماھی دوست ہوتے کس لیے ایک دوسرے سے اپنا غم بانٹنے کے لیے تو مجھ سے اور میں تجھ سے اپنی بات اپنا دکھ شئیر نہیں کریں گے تو اور کس سے کریں گے ۔۔۔اس سڑیل کھڑوس امرام شیر سے ۔۔۔۔

"دیکھ فوجی کیسے سڑا ہوا بوتھا بنا کر گھوم رہا ہے "

زخرف نے ماھی کی توجہ مرد حضرات میں کھڑے ہوئے امرام شیر کی جانب دلائی ۔۔۔

جو ہاتھ میں گلاس پکڑے گھونٹ بھرتے ہوئے سنجیدگی سے کسی آدمی سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔

"سیریس تو ایسے ہے جیسے اس نے ہی کل کشمیر آزاد کروانا ہے ۔۔۔۔

وہ جل کر بولی ۔۔۔۔

"زخرف انگور کھٹے ہیں "ماھی اپنی سنجیدگی کا لبادہ اتار کر پھینکتے ہوئے واپس اپنے ازلی نرم خو انداز میں لوٹ آئی ۔۔۔اور شرارت سے زخرف کو چھیڑتے ہوئے بولی 

"وہ فوجی تجھے نہیں ملنے والا ۔۔۔

"بکواس نا کر ظالم سہیلی تیرا کچومر میں نے اپنے ہاتھوں سے نکالنا ہے ۔۔منہ سے کوئی بدشگونی والی بات نکالی تو ۔۔۔

اور چاہے جتنے مرضی انگور کھٹے ہوں ۔۔۔۔اس کھٹے انگور کو چبا جاؤں گی ۔۔۔ وہ امرام شیر کی جانب دیکھتے ہوئے دانت پیس کر بولی ۔۔۔۔

"یار ذخرف  تجھے نہیں لگتا یہ انگور کا درخت تیری پہنچ سے بہت اوپر ہے ۔۔۔۔۔انگور تیرے ہاتھ کیسے آئیں گے ؟"

وہ امرام شیر اور زخرف کی ہائیٹ کو لے کر شرارت سے بولی ۔۔۔۔

زخرف اسکی بات میں سمجھ کر اسکی طرف غصے سے دیکھنے لگیں ۔۔۔پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے کھکھلا کر ہنسنے لگیں۔ ۔۔۔۔

رسموں کے بعد 

کھانے کا دور چلا ۔۔۔

"رمشاء مجھے زرا کھانا تو ڈال کر یہیں لا دو "زائشہ نے وہیں ٹیبل پہ بیٹھے ہوئے کہا ۔

"جی مما ابھی لائی ۔۔۔۔

رمشاء آرام سے اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔

اور کھانے کے سٹال کی جانب بڑھی ہی تھی کہ اسکا موبائل اسکے ہاتھ سے اچانک چھوٹ کر نیچے گرا ۔۔ وہ تو نیچے کارپٹ بچھا تھا اسی لیے فون ٹوٹنے سے بچ گیا ۔۔۔

رمشاء نے جھک کر فون اٹھایا ۔۔۔

شیر دل جو سامنے ہی ٹیبل پہ موجود تھا ۔۔۔رمشاء کو نیچے جھک کر فون پکڑتے ہوئے دیکھ چکا تھا ۔۔۔ 

رمشاء کو دیکھ کر اس نے فورا نظروں کا زاویہ بدل دیا۔۔۔

مگر نظریں دوبارہ پلٹنے پہ مجبور ہوگئیں ۔۔۔

پھر اسکی حالت دیکھ کر خود بخود باعث عزت جھک گئیں ۔۔۔

مگر یہ وقت نہ تھا کہ وہ وہیں اپنی جگہ خاموش بیٹھا رہتا ۔۔ 

اس نے اپنے فرض کو نبھانے کے لیے آنکھیں میچ کر گہرا سانس لیا پھر ہمت مجتمع کیے وہاں سے اٹھ کر رمشاء کی طرف بڑھا ۔۔۔ 

ایک لڑکی کی عزت کرنا اور بچانا اسکے فرائض میں شامل تھا ۔۔۔

"رمشاء !!!!

اس سے پہلے کہ وہ آگے سٹال کی جانب بڑھتی ۔۔۔۔

شیر دل سرعت سے اسکے پاس آیا۔۔۔

اور اسکے دونوں شانوں سے تھام کر اسے پیچھے موجود دیوار کے ساتھ لگا گیا ۔۔۔۔

"یہ۔۔۔۔یہ ۔۔۔آپ کیا ۔۔۔۔کر ۔۔رہے ہیں "؟؟؟

وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹوں ،اور فق نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بمشکل بولی۔۔۔۔

"ششششش۔۔۔۔۔

شیردل کا سرسراتا ہوا ہاتھ اپنی پشت پہ محسوس کیے رمشاء کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔ 

شیردل نے اسکی پشت پہ ہاتھ ڈال اسکی ادھ کھلی ہوئی زپ بند کرنی چاہی ۔۔۔ 

مگر زپ شاید فٹنگ کی وجہ سے خراب ہوچکی تھی ۔۔۔ جو بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔۔ 

شیر دل کے ہاتھ کا گرم لمس اپنی پشت پہ محسوس کیے وہ شرمندگی کے باعث زارو زار رونے لگی ۔۔۔ 

شیردل نے زپ بند کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے اس کے شانے پہ موجود دوپٹہ پیچھے سے لاکر دوسرے شانے پہ رکھتے ہوئے اسکی کمر کو اچھے سےکور کر دیا ۔۔۔ 

"اب جاؤ "

شیردل گھمبیر آواز میں کہتے ہوئے ایک طرف ہوا اور اسے جانے کا راستہ دیا ۔۔۔

رمشاء سے تو شرم کے مارے سر ہی نہیں اٹھایا جا رہا تھا ۔۔۔۔

وہ نظریں جھکائے تیزی سے واپس اسی ٹیبل پر چلی گئی جہاں زائشہ بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔

"کیا ہوا رمشاء ؟"

انہوں نے نم آنکھوں سے اسے خالی ہاتھ واپس آتے دیکھ کر حیرانی سے پوچھا۔

"مما میرا ڈریس خراب ہوگیا ہے ۔۔۔ میں ۔۔۔کیا کروں "

اس نے موقع محل دیکھتے ہوئے خود کو سنبھال لیا ۔اور نارمل انداز میں ان سے مخاطب ہوئی کیونکہ اسوقت سب اس ٹیبل پہ موجود تھیں جن میں ہیر ،جنت ،دعا ،اور منت شامل تھیں ۔

"رمشاء یہ میں نے تمہارا ڈریس گھر سے منگوا لیا تھا ۔۔۔انہوں نے ٹیبل کے نیچے رکھے بیگ میں سے اسے ایک شاپنگ بیگ تھما کر کہا ۔۔ 

"ایسا کرو اس ہوٹل کے برائڈل  روم میں جا کر چینج کر لو "

"جی مما "اس نے ان سے وہ بیگ لیا اور برائڈل  روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔ 

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

رمشاء ڈریس تبدیل کر کہ باہر آئی تو شیر دل اسکے بدلے ہوئے ڈریس پہ ایک سرسری سی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گیا ۔۔۔

جہاں امرام شیر کھڑا تھا ۔۔۔

"لالہ کہاں ہیں آج کل گھر میں بھی بہت کم دکھائی دیتے ہیں آپ  "شیر دل نے امرام سے استفسار کیا ۔

"بس یار آج کل کام کا لوڈ بہت بڑھ گیا ہے ۔"

"کام کا یا پیار کا ؟"شیر دل نے اسے تنگ کیا ۔۔۔

"جیسا تو سوچ رہا ہے ویسا کچھ بھی نہیں "

"اس دن ریسٹورینٹ میں تو بڑے فلاورز پیش کیے جا رہے تھے "

شیردل نے اسے چاندنی کو گلاب دیتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔۔۔

"بہت چالاک لڑکی ہے وہ اسکے بارے میں سوچنا بھی مت "

امرام شیر نے ہلکا سا مسکرا کر کہا ۔۔۔

"کیا لالہ ۔۔۔اس لڑکی کو دیکھ کر میرے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی ۔۔۔۔اور میں نہیں جانتا تھا کہ ایسا کیوں ہوا ۔۔۔

لیکن میرے دل میں کوئی فیلکنگز نہیں تھیں اور نا ہی ہیں ۔شیر دل نے تفصیلی طور پہ اپنی فلینگز بتائیں ۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو ۔۔۔اسے دیکھ کر میرے دل نے بھی ایسا ہی محسوس کیا تھا۔مگر اسکے آنکھوں کے سامنے سے چلے جانے کے بعد کوئی احساس محسوس نہیں ہوتا ۔۔۔اس کا یہی مطلب ہوا کہ مجھے بھی اس سے پیار ویار نہیں تھا ۔۔۔۔امرام شیر نے اس سے اپنے محسوسات شئیر کیے ۔۔۔۔وہ دونوں بھائی ایک دوسرے کے بہت قریب تھے ۔اپنی ہر بات ایک دوسرے سے کھل کر شئیر کرتے تھے ۔

"لالہ اگر آج آریان بھائی بھی ہمارے ساتھ ہوتے تو کیا پتہ اس لڑکی کو دیکھ کر انکی بیٹس بھی مس ہوتیں ۔۔۔۔شیر دل نے مسکرا کر کہا ۔۔۔

تو اسکی بات پہ امرام شیر نے قہقہہ لگایا۔۔۔۔

زخرف نے پہلی بار امرام شیر کو قہقہہ لگاتے ہوئے دیکھا ۔۔۔

اسکے گال میں پڑنے والے ڈمپل پہ زخرف کا دل ڈوب کر ابھرا ۔۔۔۔

 آریان شیر ،امرام شیر ،شیردل تینوں ایک ساتھ اس دنیا میں آئے تھے ایک جیسی شکل و صورت لیے ایک جیسا دل لیے اسی لیے ان کا دل ایک ساتھ دھڑکا تھا ۔۔۔۔

"لالہ آپ نے وہ انڈین مووی دیکھی ہے ۔۔۔؟شیردل نے پوچھا ۔۔۔

"وہ کونسی "؟

امرام شیر نے سوالیہ لہجے میں پوچھا ۔

"وہ جس میں پانچ بھائیوں کی ایک ہی بیوی ہوتی ہے "

"توبہ استغفار "

امرام شیر کے منہ سے بے ساختہ نکلا ۔۔۔

اس بار قہقہہ لگانے کی باری شیردل کی تھی ۔۔۔۔

دور کھڑی ہیر نے اپنے مسکراتے ہوئے ہوئے دونوں بیٹوں کی نظر اتاری اور دل میں ان کے لیے دائمی خوشیوں کے لیے دعا کی ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"آج رات کیا موڈ ہے میڈم ؟"

مومن نے آیت کے کان کے پاس ہوتے ہوئے سرگوشی نما آواز میں کہا۔۔۔

"مومن فصول باتیں نا کریں ماحول دیکھیں "

اس نے ارد گرد موجود لوگوں کی طرف اسکی توجہ دلائی ۔۔۔۔

"آیت تم نا تو تنہائی میں سنتی ہو نا ہجوم میں ۔۔۔قسم سے آج میں اس پلیٹ سے اپنا سر پھاڑ لوں گا۔۔۔وہ اپنے ہاتھ میں پکڑی خالی پلیٹ اٹھا کر ناراضگی سے بولا ۔۔ 

"ہاہاہا پھاڑ کے دیکھائیں۔۔۔"

"سوچ لو جان مومن شادی شدہ ہوکر بھی کنواری رہتے ہوئے بیوہ ہو جاؤگی۔۔۔

"اب آپ بھی فضول باتیں نہ کریں آیت نے فورا  اس کو ٹوکا۔۔۔

"اوہو یعنی ۔۔۔۔فرق پڑتا ہے میری جان کو بھی ۔۔۔

مومن اس پہ نظریں جمائے  ہنسنے لگا۔۔۔

"مومن اگر آپ نے مجھے تنگ کیا تو میں آج رات مما لوگوں کے ساتھ چلی جاؤں گی ",اس نے دھمکی آمیز انداز میں کہا۔۔۔

"جا کر دکھاؤ ۔۔۔

"میں بھی اگر اکیلا رہا تو اس تنہائی کے ڈر سے تنگ آکر زہر کھا لوں گا "اس نے بھی اسے اسی کے انداز میں دھمکی دی ۔۔۔

مومن کی بے تکی بات سن کر آیت کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں ۔۔۔

"کیا کہا آپ نے ڈاکٹر صاحب ؟"وہ لڑاکا انداز میں گھورتے ہوئے بولی ۔

"یہی کہ آج رات تم مجھے چھوڑ کر چلی گئی ۔۔۔اور تم نے مجھے خود کو پیار نا کرنے دیا تو میں زہر کھا لوں گا "وہ اٹل بہادری سے گویا ہوا ۔۔۔

"شرم کریں ڈاکٹر صاحب دوسروں کو زندگی دیتے ہیں اور خود مرنے کی بات کرتے ہیں ۔۔۔

"کیا کروں محبت ہی اتنی ظالم لڑکی سے ہوئی ہے ۔جس نے بات مرنے مارنے پہ پہنچا دی ہے ۔اب بتاؤ راضی ہو یا نہیں ؟"۔۔

مومن نے ابرو اچکا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

آیت اپنے دونوں ہاتھوں کی  انگلیاں چٹخاتے ہوئے چُپ کھڑی  رہی۔۔۔

"ٹھیک ہے تم جاؤ اپنی مما کے گھر۔۔۔آرام سے صبح تمہیں خبر مل جائے گی۔۔۔اس بار وہ سنجیدگی سے بولا ۔

 "مومن پلیز یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔۔۔۔ایسا مت کہیں آیت  کے دل کو کچھ ہوا اس کی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔

"یار میں بھی تو بیوی کے پاس ہوتے ہوئے اس کی جدائی میں مر رہا ہوں کچھ میرا بھی خیال کرو اگر مجھ سے پیار کرتی ہو تو ۔۔۔کرتی ہو نا پیار مجھ سے ؟

"آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں آپ سے پیار کرتی ہوں ؟

آیت نے نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

"جانِ مومن  پتہ چل جاتا ہے اب بول دو نہ پلیز۔۔کہ آج رات ۔۔۔۔وہ شرارتی انداز میں بولا ۔۔۔

"مومن پلیز مجھ سے ایسی باتیں مت کریں مجھے شرم آتی ہے۔ ۔۔۔

آیت نے شرم سے دوہری ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔۔۔

یار۔۔۔

پلیز۔۔۔

آیت میرا دل  بہت بے صبرا ہو رہا ہے آج۔۔۔

سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں چپ چاپ پیچھے کے راستے سے گھر نکل لیتے ہیں ۔۔ 

"شادی پہ بھی اس مہندی بھرے حنائی ہاتھوں کی خوشبو اپنے اندر نہیں اتار سکا ۔۔۔۔اس کے لہجے میں حسرت تھی ۔۔۔۔

وہ آیت کے مہندی سے مزین ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے بولا ۔۔۔۔

"چلو گی ؟مومن نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر مان بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

مہندی کا فنکشن بخیر و عافیت اپنے اختتام کو پہنچا تو سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہونے لگے ۔۔۔

مومن اور آیت تو پہلے ہی گھر جا چکے تھے ،

امرام شیر بھی ایک ضروری میٹنگ کے سلسلے میں نکل گیا ۔۔۔

ایک گاڑی میں حذیفہ شہریار ہاوس کے بڑوں کو لے گیا ۔ جن میں منت ،ابتسام ،حسام اور زائشہ تھے ، جبکہ دوسری گاڑی جسے  احتشام ڈرائیو کر رہا تھا اس میں ضامن اور عیش ،دعا مومن ،ماھی تھے ،

ایک گاڑی میں شیر زمان اور ہیر ،کے ساتھ ہانیہ تھے وہ بھی نکل گئے ۔۔۔

شیر دل نے باقی سب کو لے کر جانا تھا ۔۔۔

یار نیوڈ (Nued) ویڈیو بن گئی اور میں نے سینڈ بھی کردی ۔"

"تو دیکھے گا فری میں ؟"

"بڑی مست آئیٹم ہے "

وہ اپنے ساتھ کھڑے ہوئے شخص کے شانے پہ ہاتھ مار کر خباثت سے ہنستے ہوئے پوچھ رہا تھا کہ ۔۔۔۔

وہ ۔۔۔۔جو ان کے پاس سے گزر کر اندر میرج ہال میں جا رہا تھا ۔ان کی باتیں سن کر وہیں ٹھٹھک کر رکا ۔۔۔

"دِکھا یار فری میں ملی کون چھوڑتا ہے ؟"دوسرا شخص مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے بولا تو اس انسان نے اپنے موبائل سکرین پر چلتی ہوئی ویڈیو اسکے سامنے کی ۔۔۔۔

ان دونوں کے ہاتھ میں موجود فون پہ چلتی ہوئی ویڈیو دیکھ اسکا خون خول اٹھا ۔۔۔

اسے اپنی آنکھوں پہ یقین کرنا ناممکن لگا ۔۔۔۔

اس پاکباز ،معصوم لڑکی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوچکا تھا اور آگے کیا ہونے والا تھا ۔

وہ سب سے لاعلم تھی ۔مگر سب دیکھ کر شیردل کا فشار خون بلند ہوا ۔

وہ اپنا کوٹ اتار کر پھینکتے ہوئے جارہانہ تیوروں سے ان کی طرف بڑھا ۔۔۔

"تم جیسے بیغیرتوں کو تو زندہ  زمین میں گاڑھ دوں گا آج "

وہ گرجدار آواز میں دھاڑا ۔۔۔

تو وہ اسکی آواز سن کر پلٹے ۔۔۔

"اے اپنے کام سے کام رکھ۔۔۔ہم سے پنگا از ناٹ چنگا ۔۔۔دور رہ ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔اپنے پاؤں پہ سلامت ۔۔۔ واپس نہیں جا پائے گا ۔۔۔۔

وہ اسے وارننگ کرتے ہوئے طاقت کے نشے میں چور آگے بڑھے ۔۔۔۔

اس نے اپنی ٹانگ اٹھا کر سامنے موجود شخص منہ پہ ماری ۔۔۔پھر گھومتے ہوئے دوسرا بھاری بوٹ والا  پاؤں اس لڑکے کے سینے پر مارا۔۔۔دوسرا شخص بھی اچانک پڑنے والی اس کک سے سنبھل نا پایا اور  زور سے پیٹھ کے بل نیچے گرا تھا ۔

اس نے ایک پاؤں پہلے سے گرے ہوئے آدمی کے پیٹ میں مارا ۔۔۔وہ درد سے کراہتے ہوئے ہوا میں اچھل کر زمین پہ پڑا رہ گیا ۔۔۔  دوسرے آدمی نے اسکی توجہ دوسری طرف دیکھ کر اس کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی پشت پہ وار کیا ۔اس سے پہلے کہ وہ شخص اس پہ وار کرتا اسکی نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا۔۔۔

وہ چہرے پہ بلا کی سختی لیے بھنچے ہوئے جبڑوں اسکی طرف پلٹا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ آدمی اس کے پیٹ میں وار کرتا۔۔۔  اس نے اسکا وار اپنے بازو پر روکا ۔۔۔

پھر اسے دھکا دیا ۔۔ تو وہ لڑکھڑا کر رہ گیا۔۔۔

اب وہ دونوں اٹھ کر ایک ساتھ اس پہ وار کرنے کے لیے تیار تھے ۔۔۔۔مگر مقابل موجود وہ ایک کی انسان ۔۔۔۔

ان دونوں پہ بھاری تھا ۔۔۔اس نے  پے در پہ ان دونوں پہ ایک ساتھ وار کیے ،ایک تو اسکے گھونسوں اور لاتوں کی تاب نہ لاتے ہوئے نیچے گرا ۔۔۔اور اس نیچے فرش پہ گرے ہوئے  آدمی  نے اس کا پاؤں کھینچ کر اسے  گرانے کی کوشش کی لیکن وہ گرنے کی بجائے اپنا ایک پاؤں  اس آدمی  کی گردن پر ٹکا گیا ۔۔۔۔اس آدمی کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ایسی عقل مندی کا مظاہرہ کرے گا۔ہاتھوں سے وہ سامنے موجود آدمی سے لڑ رہا تھا جبکہ پاؤں تلے ایک کی گردن دبا رکھی تھی ۔۔۔۔وہ اس کے پاؤں کے نیچے سے بمشکل نکلا ۔۔۔مگر اس نے اسے کوئی موقع دیے بنا اسکی کمر اپنی ٹانگ کو بینڈ کیے گھٹنے سے ایک ایسا وار کیا کہ وہ کئی لمحے اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔۔

ان دونوں کی آنکھوں پہ زوردار مکے رسید کیے کہ وہ دونوں آپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بلبلا اٹھے۔۔۔۔

اس نے دونوں کو فرش پہ گرا کر  ان کی پاکٹ سے موبائل نکالا ۔۔۔ پھر اس موبائل کو زمین پہ زور سے پھینکا ۔۔۔کہ وہ ٹکروں میں بٹ گیا ۔۔۔اس نے اپنے بھاری بوٹ سے اس موبائل کی سکرین کو کرچی کرچی کردیا۔۔۔ ۔۔۔۔پھر سینے پر بازو باندھے تمسخرانہ انداز میں مسکرایا ۔۔۔۔

"زیادہ اُچھل مت ۔۔۔

کیا ہوا جو تو نے میرا موبائل توڑ دیا ۔۔۔تو نہیں جانتا اس لڑکی کی نیوڈ ویڈیو ایسی جگہ بھیج چکا ہوں جہاں ساری دنیا اسے ۔۔۔۔دیکھے گی ۔۔۔۔

"کس کس کو روکے گا ؟؟؟

"کس کس کے موبائل توڑے گا ؟؟؟

"کس کس کی آنکھیں نکالے گا ؟؟؟؟

ایک ادھ موا شخص درد سے کراہتے ہوئے بولا ۔۔۔

تو اس نے اپنے جبڑوں کو زور سے بھینچ لیا ۔۔۔

اپنی مٹھی کو زور سے بند کرتے ہوئے ایک بار پھر وہ اشتعال انگیزی سے ان پہ ابل پڑا۔

زخرف ،منساء ،رمشاء ،تینوں باہر کھڑی تھیں ،اس کے انتظار میں وہ ہوٹل کے مینجر سے کل بارات کے فنکشن کے لیے ڈیکوریشن کی تبدیلی کے لیے بات کرنے گیا تھا مگر ابھی تک باہر نہیں آیا تھا ۔۔ وہ تینوں اس کی گاڑی میں بیٹھے اسی کا انتظار کر رہی تھیں ۔۔۔۔

"شیردل نے اپنے دوست ایس پی فرزام کو کال ملائی ۔۔۔

اور اسے ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔۔۔

"یار ایک ویڈیو ہے اسے سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کروانا ہے جلد سے جلد ۔۔۔اب حل بتا کیا ِکیا جائے ؟"

اسکی صبیح پیشانی پہ بل نمودار ہوئے ۔۔۔

اس نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔

"یہ مسلہ تو سائبر کرائم والے حل کریں گے "

"نہیں فرزام ۔۔۔۔مختلف لوگ دیکھیں گے اس ویڈیو کو "

"نہیں کچھ اور سوچ "

اسکے جبڑے سختی سے بھنچے ہوئے تھے ۔۔۔

"کیا بتاؤں اور ؟؟؟وہ سوچنے لگا ۔۔۔۔

"جلدی بتا فرزام ۔۔۔۔!!!!

"وقت نہیں ۔۔۔۔پتہ نہیں کہاں تک پھیل چکا ہوگا سب "وہ ازحد پریشانی سے اپنی پیشانی کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوتے بولا ۔۔۔

ٹینشن سے اسکی پیشانی کی رگیں پھولیں ہوئی تھیں ۔۔۔

"کسی ہیکر سے جان پہچان ہے تو اس سے بات کر "

اس نے اپنے تئیں سمجھداری سے مشورہ دیا ۔۔۔

"ٹھیک ہے تو بات مت کرنا کسی سے "

اس نے کہتے ہی کال کٹ کی اور باہر کی طرف لپکا اس دوران وہ ون فائیو پہ کال ملا کر ان دونوں کو اریسٹ کروا چکا تھا ۔۔۔ 

شیردل لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر آیا تو ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا ۔۔۔ اور چابی اگنیشن میں لگاتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی ،سٹئیرنگ پہ ہاتھ رکھے وہ گہری سوچ میں گم تھا ،گاڑی کی رفتار ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی ،تینوں ،رمشاء ،منساء اور زخرف نے ایک دوسرے کو حیران کن نظروں سے دیکھا کہ اچانک اسے کیا ہوا۔۔۔۔

منساء نے لاپرواہی سے شانے اچکا دئیے ۔۔ رمشاء دل ہی دل میں خیرو عافیت سے گھر پہنچنے کی دعائیں کرنے لگی ۔۔۔

جبکہ ذخرف نے ہمت دکھاتے ہوئے بالآخر اس سے بات کرنے کی ٹھان لی ۔۔۔

"کیا ہوا بھائی ؟"

شیر دل نے ونڈ سکرین سے نظر ہٹا کر چونکتے ہوئے اسے دیکھا ۔۔ 

"مطلب "؟

وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔

"میں پوچھنا چاہتی تھی کہ کوئی مسلہ ہے ،میرا مطلب کہ آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔۔آپ اتنی فاسٹ اور خطرناک ڈرائیونگ کیوں کر رہے ہیں ؟

زخرف کی طرف دیکھ کر اچانک اسکے مشتعل دماغ میں ایک خیال بجلی کی مانند کوندا ۔۔۔۔

"زخرف تم کسی ویب سائٹ کو ہیک کرسکتی ہو ؟؟؟

اس نے نہیں سنا کہ زخرف نے اس سے کیا کہا تھا ۔۔۔وہ تو بس اس معاملے کا حل نکالنے کا کوئی طریقہ سوچ رہا تھا ۔۔۔۔اس لیے بنا اسکی بات سنے اپنا سوال داغ گیا ۔۔۔

"افکورس بھائی بھلا ایسا ہو سکتا ہے ،مستقبل کی ورلڈ بیسٹ سافٹ ویئر انجنیئر ہوں اور اتنا نہیں کر پاؤں گی ۔۔۔یہ کام  تو میرے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے "

وہ فرضی کالر اچکا کر بولی۔۔۔

"ہممممم۔۔۔۔کہتے ہی اس نے گاڑی کی رفتار مزید بڑھا دی ۔۔۔۔رات ہونے کے باعث سڑکوں پہ اتنا زیادہ رش نہیں تھا مگر ہیوی ٹریفک تھی ،جن میں مختلف سامان سے لدے ہوئے ٹرک تھے ۔۔۔۔وہ ٹینشن میں ریش ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔۔۔سب نے دل میں اپنی جان کی امان کے لیے دعائیں مانگنا شروع کردیں ۔۔۔۔

جیسے ہی گاڑی گھر کے باہر مین گیٹ پہ رکی وہ تینوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے باہر نکلیں کہ آئیندہ کبھی شیردل کے ساتھ نہیں سفر کریں گی گاڑی میں ۔۔۔۔

"آج اللّٰہ ہی تھا جس نے مجھے بچا لیا ۔ورنہ شیر دل بھائی نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مجھے امرام شیر سے شادی کیے بنا اوپر پہنچانے میں ۔۔۔۔

قسم سے میں مر جاتی نا تو چڑیل بن کر چمڑ جاتی اپنے امرام شیر ۔۔۔کو ۔۔۔مر کہ بھی نہ پیچھا چھوڑتی اس کا "وہ منہ میں بڑبڑاتے ہوئے منساء اور رمشاء کے پیچھے پیچھے اندر بڑھ رہی تھی کہ اسے اپنے پیچھے شیر دل کی گھمبیر  آواز سنائی دی 

"زخرف !!!!

اس نے دہل کر پیچھے دیکھا ۔۔۔

"ج۔۔۔جی بھائی ۔۔۔

وہ سہمی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

"مجھے تم سے کچھ کام تھا ۔تھوڑی دیر رکو۔۔ یہیں۔۔۔ بات کرنی ہے "

اس کے اندر جاتے قدم وہیں رک گئے۔۔۔

"تم لوگ جاؤ میں بھائی کی بات سن کر آتی ہوں ",

زخرف نے منساء اور رمشاء سے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اندر چلی گئیں ۔

"جی بھائی "وہ اسکے پاس آتے سادگی سے بولی ۔۔

شیر دل چند ساعتوں کے لیے خاموش رہا ۔۔۔۔

اس سے کیسے بات کرے ۔۔۔یہی سوچ رہا تھا ۔۔۔۔

"باہر بھی تو کسی غیر شخص سے معاملہ سورٹ آؤٹ کروانا تھا ،یہ تو اپنی ہے ،اور رمشاء کی بہن جیسی ،اور پھر لڑکی ہے ،اسے بتانے میں کوئی حرج نہیں اسکے دماغ نے اسے مختلف دلائل پیش کیے تو گہرا سانس فضاء میں خارج کرتے ہوئے اپنی بھاری آواز میں بولا۔

"زخرف بات ہمارے درمیان رہے گی کسی تیسرے کو یہ بات پتہ نہیں چلنی چاہیے ۔۔۔

Got it....

اس نے تنبیہی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

"جی بھائی "

وہ بھی اس کے تشویش بھرے انداز پہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔

"رمشاء کی کسی نے ۔۔۔۔

بولتے ہوئے اسکی زبان گنگ ہوگئی ۔۔۔۔ایسا وقت زندگی میں پہلی بار آیا تھا کہ وہ بااعتماد بزنس مین جو مقابل سے ڈیل حاصل کرنے کے لیے اس کو اپنی باتوں میں الجھا کر زیر کرلیتا تھا آج اسکے پاس بات کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ گئے تھے ۔۔۔

اسکے لب باہم پیوست ہوئے ۔۔پھر وہ بولا ۔۔۔

رمشاء کی کسی نے خراب ویڈیو ۔۔۔میرا مطلب ہے نیوڈ ویڈیو بنا کر ویب سائٹ پہ ڈال دی ۔۔۔اسے ڈیلیٹ کرنا ہے ،

"ی۔۔۔یہ ۔۔۔کیا ۔۔۔کہہہ رہے ہیں آ۔۔۔آپ ۔۔۔ "؟

زخرف منہ پہ ہاتھ رکھے فق نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔۔

"زخرف ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ۔۔۔مزید وقت برباد مت کرو ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ ویڈیو زیادہ لوگ دیکھیں ،اور رمشاء کی بدنامی ہو اسے ہٹاؤ وہاں سے ۔۔۔۔

"بھائی ۔۔۔۔مگر کون سی ویب سائٹ پہ ڈالی ہے ویڈیو ؟؟؟

"مجھے کیا پتہ ؟

"بھائی آپ کو نہیں پتہ ؟؟؟

"نہیں "

"اچھا میں کچھ کرتا ہوں تم جاؤ اپنا لیپ ٹاپ لے کر باہر لان میں آجاؤ ۔۔۔اندر آنا اور سب کے سامنے یہ سب کرنا مناسب نہیں ۔۔۔اندر کسی کو کچھ پتہ نہیں چلنا چاہیے "اس نے پھر سے باور کروایا ۔۔۔

"جی "کہتے ہوئے زخرف بھاگتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف گئی ۔۔۔وہ تو شکر تھا کہ مہندی کے فنکشن سے تھک کر اس وقت سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے ۔۔۔وہ اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر باہر آئی ۔۔۔۔

"فرزام کس ویب سائٹ پہ ہوگی ویڈیو ۔۔۔اس کا نام بتاؤ "؟

شیردل نے اس سے پوچھا ۔۔۔۔

"شیردل یہ میں کیسے بتا سکتا ہوں ۔۔۔آج کل ان کاموں کے لیے ہزاروں ویب سائٹس ہیں ۔

اس کے جواب پہ شیر دل پریشانی سے سر نفی میں ہلایا ۔۔۔

"اچھا "

وہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسائے کشمکش میں مبتلا تھا کہ آخر وہ کرے تو کیا کرے ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

وہ اس وقت شدید گھبراہٹ کے عالم میں کمرے میں آتے ہی ٹیرس میں آکر کھڑی ہوگئی تھی کچھ دیر پہلے مومن اس سے رومینٹک گفتگو کرکے اس کو بلش کرنے پر مجبور کررہا تھا یہاں تک کہ آیت اسکی رومانوی باتوں سے شرم کے مارے مہندی کے فنکشن میں کھانا تک صحیح سے کھا نہیں پائی۔

  "آیت روم میں آؤ " وہ اسکی سنجیدہ آواز سن کے ٹیرس کا دروازہ بند کرتے ہوئے روم میں آئی ۔۔۔

اسے سامنے سے آتا دیکھ کر وہ بیڈ سے اٹھ کر چلتا ہوا آیت کے قریب آیا کیونکہ مومن کے تیور دیکھ کر آیت کے قدم وہیں جم گئے تھے گھبراہٹ اس کے چہرے پر عیاں تھی۔۔۔۔

"جان مومن  ۔۔۔آپ تو ایسے گھبرا رہی ہیں مجھ سے جیسے میں انسان نہیں کوئی جن زاد ہوں ۔جو آپ کو سالم نگل جائے گا نروس مت ہوئیے مجھ پہ اعتبار کیجیے "

مومن نرمی سے اس کے گرد اپنے دونوں بازو حائل کرکے سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"مومن کیا شادی کے بعد یہ سب ضروری ہوتا ہے ؟آپ مجھے جانے نہیں دے سکتے ؟؟؟"

آیت اسکی بانہوں کے گھیرے میں گھبراتی ہوئی بولی

"پچھلے کئی ماہ سے شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوں ۔اور میڈم آپکو چھوڑے ہوئے ہی ہوں ۔مگر بندہ بشر ہوں ۔بھٹک بھی سکتا ہوں ،جب اتنی حسین اور من پسند بیوی دسترس میں ہو تو شرافت بھی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی ۔۔۔میرا مزید امتحان مت لو ۔۔۔یہ دوریاں بلاجواز ہیں انہیں سمٹ جانے دو آج "

مومن آیت  کے کٹاؤ دار لبوں کو فوکس کرتا فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔۔پھر اس کے ہونٹوں پر جھکنے لگا تو آیت اپنی گردن ٹیڑھی کرتے ہوئے پیچھے ہوئی ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی یا مزاحمت کرتی ۔۔۔

اک مدت سے تمنا ہے تجھے چھونے کی ،

آج بس میں نہیں جذبات قریب آجاؤ ،

مومن نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں آیت  کے بالوں میں پھنسا کر اسکے ہونٹوں پر جھک کر خود کو سیراب کرنے لگا جب آیت کو محسوس ہوا کہ وہ اب سانس نہیں لے پائے گی تو  بگڑا ہوا تنفس بحال کرنے لگی،، مومن  مدہوشی کے عالم میں اس کو دیکھتا ہوا دوبارہ اس کے قریب آیا اور آیت کی گردن پر جھک گیا وہ ابھی سنبھل نہیں پائی تھی مومن کو دوبارہ اپنے قریب دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔۔۔

وہ اسے اپنی بانہوں میں بھر کر بستر کی طرف لایا ۔۔۔

اسے آہستگی سے لیٹاتے ہوئے اب مومن  کے دونوں ہاتھ آیت کے شانوں کےدائیں بائیں جانب  رکھے ہوئے تھے آیت اسکے ارادے بھانپ چکی تھی کہ وہ چاہ کر بھی اسکا حصار توڑ نہیں پائے گی ۔۔۔۔دل اس نزدیکی پہ دل رہا تھا کہ جیسے اچھل کر حلق میں آپھنسا تھا۔۔ جانتی تھی کہ وہ اس کے حصار سے چاہے بھی تو نکل نہیں پائے گی، مومن کی آنکھوں میں جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔اسکے  کے جذبات میں شدت در آئی تو آیت دھڑکتے دل سے ایک بار پھر مومن کو پیچھے ہٹاتی ہوئی خود اپنا رخ شرم کے مارے  تکیے میں چھپا گئی ۔۔۔

اسکی بے ترتیب سانسیں ابھی تک ہموار نہیں ہوں پائیں تھیں کہ مومن نے اسکی پشت پہ بکھرے بالوں کو سمیٹ کر ایک طرف کیا ۔۔۔ اسکے لب شانوں سے سے ہوتے ہوئے کمر کا رخ کر رہے تھے ۔۔۔۔

"مومن "

"اسکے دہکتے ہوئے لبوں کا لمس اس کی جان مشکل میں ڈال رہا تھا ۔۔۔وہ اسکے جذبات کی آنچ میں سلگنے لگی ۔۔۔تو تڑپ کر بولی ۔۔۔

"فرمائیں جان مومن "اس نے

جذبات کی شدت سے چور  بہکی بہکی آواز میں کہہ کر اسکی کان کی لو کو دانتوں تلے دبایا ۔۔۔تو آیت کی سسکی نکل گئی ۔۔۔۔

"بس پلیز !!!!

اس نے التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔

"Don't disturb me jaan e Momin"

وہ آیت رخ موڑے اسکی  مخروطی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسائے اب تکیے سے لگا چکا تھا ۔۔۔۔

"مومن مجھے ڈر لگ رہا ہے "

بالآخر وہ دل کا ڈر لبوں پہ لائی ۔۔۔۔

"ڈاکٹر مومن کے پاس تمہارے ہر ڈر کا علاج ہے جان !اس نے  ذومعنی انداز میں ہلکا سا مسکرا کر کہا۔۔۔۔

"آنکھیں بند کر لو جسٹ فیل یار تمہارا دیوانہ تمہیں کتنا چاہتا ہے ۔۔۔اس سے محبتوں کا خراج وصول کرو ،تمہارے پور پور کو اپنے محبتوں بھرے لمس سے مہکا دوں گا "

وہ آیت کو مدھوش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔،پھر اسکے حنائی ہاتھوں کی محسور کن مہک کو اپنی سانسوں میں اتارتے ہوئے ان پہ جا بجا اپنا لمس چھوڑنے لگا ۔۔۔۔آیت نے ڈر کے باعث اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں ۔۔۔

 مومن کی قربت اور بڑھتی ہوئی بےباکی پر آیت کی صحیح معنوں میں جان پر بن آئی تھی ،اس کے کہلاتے ہوئے لب ،اور لرزتی پلکوں کا دلکش رقص اسے بہت دلکش لگا ۔۔۔۔ اس نے نرمی سے اسکی لرزتی ہوئی گھنی مژگانیں چھو لیں ۔۔۔

"ڈرنے کی ضرورت نہیں ،جو پیار کرتے ہیں وہ اپنی محبت کو کبھی درد میں نہیں دیکھ دیکھ سکتے ۔مومن تم سے بے انتہا محبت کرتا ،تمہیں تکلیف دینے کا تو میں کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا ۔۔۔اس لیے  تمام ڈر اپنے دماغ سے نکال دو ،مجھ پہ بھروسہ رکھو ۔تمہیں ہلکی سی گزند بھی نہیں لگنے دوں گا ۔پھولوں کی طرح نرمی سے سمیٹ لوں گا "

مومن نے اس کی تھوڑی کو چھو کر مخمور لہجے میں کہا تو آیت آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"I listen to you with my eyes.

Feel you with my lips.

Talk to you with my hands.

And taste you with my soul .

My skin remember you.

And my mind shivers to touch your touch.

I love you in ways no other ever will ❤️ 

مومن بوجھل آواز میں بولا۔۔۔

آیت آنکھیں موندے اسکی رس گھولتی آواز سن رہی تھی ۔۔۔کچھ دیر بعد جب اسے اپنے وجود پر  مومن کے وجود کا وزن محسوس ہوا تب وہ بری طرح بری طرح کپکپا کر رہ گئی،، 

"آیت ہم دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں ،گھبراو مت "

مومن اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی کیفیت کا اندازہ لگا چکا تھا تبھی اس سے نرمی  سے بولا

تھوڑی دیر بعد اسے اپنی شرٹ کندھے سے سرکتی ہوئی محسوس ہوئی،وہ اسکے سرسراتے ہوئے ہاتھوں کی گستاخیاں بخوبی محسوس کر رہی تھی ،مگر خاموش رہی ۔۔۔وہ اسکی گردن پر جھکتا ہوا اپنی محبت کی چھاپ چھوڑنے لگا وہ آیت کو مکمل طور پر اپنے حصار میں لئے اسے محبت سے اپنی شدتوں کا احساس دلانے لگا اس کا ہر عمل ہر انداز نرمی اختیار کئے ہوۓ تھا جس کے بعد آیت کے چہرے پر گھبراہٹ کی بجاۓ شرم و حیا کے دھنک رنگ بکھرنے لگے ۔۔۔۔ مومن اسے اپنی محبت اور نئے رشتے کا مان بخشے اب پرسکون نیند میں جا چکا تھا ،آیت نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھوں سے قریب لیٹے  مومن کا طمانیت زدہ چہرہ دیکھا ،کچھ دیر تک وہ یونہی اسے دیکھتی رہی پھر نجانے کب وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی اسے خود بھی خبر نہیں ہوئی ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

جب سے آریان شیر اسے چھوڑ کر گیا تھا وہ یونہی اسی پوزیشن میں فرش پہ بیٹھی تھی۔۔ تھپڑ سے گال میں سوجن ہو گٸی تھی۔۔

لیکن اس سے زیادہ آریان کی بے رخی اسے مار رہی تھی۔۔ وہ تب سے گیا تھا۔۔اور اب رات کے دو بج گۓ تھے پر وہ ابھی تک نہ آیا تھا۔۔

آنسو کب سے ٹپ ٹپ آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ آریان کا لہجہ اسکے لیے بیگانگی لیے ہوئے تھا ۔۔ اس وقت اس کے زہن میں کچھ بھی نہیں چل رہا تھا۔۔ 

نہ ہی کوٸی سویرا  کی بات نہ ہی کوٸی شادی کی خواہش۔۔ فکر تھی تو بس ایک چیز کی۔۔۔وہ۔یہ کہ آریان شیر اس سے ناراض ہو کر گیا تھا اور اب تک واپس نہیں آیا تھا۔۔۔۔

وہ ہمت کیے اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنا موبائل پکڑا ۔۔۔یہ موبائل اور استعمال کی ایک ایک چیز تو آریان کی دی گئی تھی ۔۔ اسکے ماں باپ کے چلے جانے کے بعد اس فرشتہ صفت انسان نے ہی تو اسے پالا اسکی ہر ضرورت پوری کی ۔۔۔اس کا نمبر ملاتے ہوئے پری کے ہاتھ کانپ رہے تھے پر وہ سوچ چکی تھی کہ اسے رو رو کر بھی اپنے لہجے کی معافی مانگنی پڑی تو وہ مانگ لے گی ۔ مگر اسکی ناراضگی نہیں سہہ سکتی تھی ۔۔۔۔

اس نے نمبر ملایا مگر فون پاور آف جارہا تھا ۔۔۔ شاید اسے پتہ تھا کہ وہ کال کرے گی۔۔ لیکن وہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔

ایک دفعہ دو دفعہ کتنی ہی دفعہ کال کی پر فون آن ہوتا تو وہ اٹینڈ کرتا نا۔۔ وہ تو فون بند کیے بیٹھا تھا۔۔

کہاں چلے گۓ ہیں آپ ۔۔ پلیز فون اٹھاٸیں۔۔ آپ کو پتہ ہے ،میرا آپ کے سوا اس دنیا میں اور کوئی نہیں ۔ آپ کی پری آپکی محبت کی عادی ہے۔۔ آپ کا یہ رویہ نہیں سہہ سکتی۔۔وہ اپنے سرخ گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

جس پہ ابھی بھی اسکے تھپڑ کا نشان تھا۔۔ 

اس کی پانچوں انگلیاں چھپ چکی تھیں اسکے سرخ وسفید چہرے پہ ۔۔۔۔ وہ فون کو صوفے پہ پھینک کر چیخ چیخ کر رو پڑی۔۔۔

صبح اس کی آنکھ پاس پڑے چیختے الارم پیس سے کھلی تھی۔۔ اس نے مشکل۔سے مندھی آنکھوں سے الارم بند کر لے ٹاٸم دیکھا۔۔

کلاک کی سوٸیاں سوا چھ کے ہندسے کو کراس کر رہی تھی۔۔ رات رونے کی وجہ سے اس کا سر دکھ رہا تھا۔۔

دکھتے سر کو سنبھالتے وہ اٹھ بیٹھی۔۔ پر اپنے آپکو بیڈ پہ موجود دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔۔

رات وہ یونہی باہر لاونج میں فرش پہ بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی ۔۔۔ 

اس کا مطلب ہے کہ۔۔۔ وہ واپس آگئے ۔۔ یہ سوچتے ہی اس نے بیڈ سے چھلانگ لگاٸی اور بھاگتے ہوۓ باہر کی طرف بڑھی۔۔

پر یہ کیا۔۔ خالی کچن اس کا منہ چڑا رہا تھا۔۔ اس نے سارا گھر چھان ماراگر اسے آریان شیر کہیں دکھائی نہیں دیا ۔۔۔۔

اس نے وہاں موجود آریان شیر کے آدمیوں سے اسکے بارے میں پوچھا مگر کسی نے منہ سے ایک لفظ نہیں بتایا ۔۔۔۔

"یہ کہتے ہوئے کہ آریان شیر کا حکم نہیں ۔۔۔ 

پری دانت پیس کر رہ گئی ۔۔اج  اس کی چھٹیاں ختم ہوگئیں تھیں اور اسے ہاسٹل واپس جانا تھا ۔۔۔۔

"پری جی !!!!

سر کا حکم تھا کہ آپ کو آج ہاسٹل چھوڑ آؤں ۔ان آدمیوں میں سے ایک نے مؤدب انداز میں سر جھکائے اسے مخاطب کر کہ کہا ۔۔۔۔

پری بادل ناخواستہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ اور اپنی پیکنگ کرنے لگی ۔۔۔۔پژمردگی سے وہ اپنا سامان لیے واپس ہاسٹل کی طرف روانہ ہوگئی ۔۔ 

مگر جلد واپس آنے کے لیے ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

منساء نے روم میں آتے ہی اپنا ڈریس تبدیل کیا اور آرام کرنے کے لیے ابھی بستر پہ لیٹی ہی تھی کہ اسکے موبائل پر کسی کی کال آنے لگی ۔۔۔اس نے موبائل کی روشن سکرین پہ دیکھا جس پر احتشام کا نام جگمگا رہا تھا،

اس نے ابرو سکیڑ کر حیرت زدہ نظروں سے دیکھا،پھر یس کو ٹچ کرتے ہوئے کال اٹھائی ۔

"اسلام وعلیکم !احتشام کی بوجھل آواز اسے سنائی دی ۔۔۔

"جی کچھ کام تھا آپ کو "

منساء سپاٹ انداز میں بولی۔

"آپ کے ہاں سلام کرنے کا رواج کب سے ختم ہوا ۔۔۔؟"

"وعلیکم اسلام !

منساء نے لڑنے کی بجائے سہولت سے بات ہی ختم کی ۔

"جی بتائیں کیا کام تھا ؟

"کیوں کوئی کام ہی ہوگا تو آپ سے بات کی جا سکے گی ؟؟

منساء خاموش ہوئی اسکی بات پہ۔

"ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں،ایسی کیا بات تھی جو آپ نے اتنی رات گئے کال کی ۔منساء کچھ لمحوں کے بعد بولی ۔

"بات تو بہت خاص ہے ،آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ۔مگر کمرے الگ الگ ہیں۔کل جب آپ رخصت ہو کر میرے کمرے میں آجائیں گی ۔چلیں تو پھر  سب خاص باتیں کل کے لیے اٹھا رکھتے ہیں  ۔صرف اتنا کہنا تھا کہ ۔۔۔احتشام ادھوری بات کیے خاموش ہوا ۔۔۔

"کیا کہنا تھا؟"منساء نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔

"کہنا یہ تھا کہ میرے کمرے میں میرا راج چلتا ہے،میرے کمرے میں آکر آپکو بنا کوئی چوں چراں کیے میری ہر بات ماننی ہوگی ۔تو کل تیار رہیے گا میری دسترس میں آنے کے لیے ۔۔۔وہ ذومعنی انداز میں بول کر اسکا سانس خشک کر گیا ۔۔۔۔

منساء تو اسکی باتوں پہ سر تا پا سرخ رنگ میں رنگ گئی ۔۔۔

اسکے حلق میں سے آواز نکلنے سے انکاری ہوگئی ۔۔۔

"کیا ہوا ابھی تو آپ اپنے کمرے میں ہیں ،تو ،آواز نہیں نکل رہی کل جب میری سانسوں سے بھی قریب ہوں گی۔ تو کیا بنے گا آپ کا "؟

وہ خمار زدہ آواز میں بولا ۔۔۔

"ج۔۔جی۔۔۔ی۔ی۔

اسکے حلق سے پھنسی ہوئی آواز نکلی ۔۔۔

اسکی لڑکھڑاتی ہوئی آواز سن کر دوسری طرف فون پہ موجود احتشام کا قہقہہ چھوٹ گیا ۔۔۔

منساء کے کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر تکیے پہ گرا ۔۔۔

اس نے لرزتے ہاتھوں سے کال کٹ کر کہ موبائل بستر پہ پھینکا اور چہرہ تکیے کے نیچے چھپا لیا ۔۔۔۔

اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ احتشام اس سے کبھی اس قسم کی باتیں بھی کرسکتا ہے ۔

اسکے پسینے چھوٹ گئے ۔۔۔۔اور دل زوروں سے دھڑکنے لگا ۔۔۔

شرم کے باعث وہ خود کا بھی سامنا نہیں کرپا رہی تھی ۔۔۔

دوسری طرف احتشام خیال میں منساء کا شرماتا ہوا چہرہ سوچتے ہوئے مسکرانے لگا ۔۔۔اور فون سینے پہ رکھے اس پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔

"آج آپ سینے سے لگ جائیں ۔کل سے اس سینے سے لگنے والی آجائے گی "

وہ اپنے موبائل سے ایسے  مخاطب تھا ۔۔۔جیسے وہ حقیقت میں اسے سن رہا ہو ۔

🌙🌙🌙🌙🌙

رات کی سیاہی ہر سو اپنے پر پھیلا چکی تھی ۔۔۔ آسمان پہ چمکتے ہوئے ستارے اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھے۔

مدھم مدھم چلتی ہوئی ہوا سے حویلی کے اوپری منزل کے ایک کمرے کی کھلی ہوئی کھڑکی کے پردے ہوا کے دوش پر پھڑپھڑا  رہے تھے ۔۔۔۔۔

وہ اپنے مخصوص سیاہ لباس بلیک جینز اور بلیک ہڈی میں ملبوس اس کے پیروں کی طرف کھڑا حقیقیت میں موجود مگر سوچوں کا سفر طے کر آیا تھا ۔۔۔۔۔

مستقبل میں وہ کیا کرنے والا تھا اس کے ساتھ۔۔۔۔

اس کی نظر سوئی ہوئی ماھی کے شفاف بے داغ چہرے پر تھی جو اس وقت کمفرٹر سے باہر تھا ۔۔۔۔۔باقی کا وجود کمفرٹر میں چھپا ہوا تھا ۔

ماھی ابھی مہندی کے فنکشن سے آکر کچھ دیر پہلے ہی آنکھیں بند کیے ہوئے لیٹی تھی ابھی وہ کچی نیند میں ہی تھی کہ مخصوص محسور کن مہک اسے اپنی سانسوں میں تحیل ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔

ماھی نے پٹ سے آنکھیں کھولیں ۔

"جی بھائی بتائیں ویب سائٹ کا نام "؟

زخرف نے اس سے پوچھا اور لان میں رکھی ہوئی کین کی چئیر پہ بیٹھ کر لیپ ٹاپ اپنے گود میں رکھ کر آن کیا ۔

اتنی دیر میں شیر دل اپنے موبائل سے کچھ ویب سائٹ دیکھ چکا تھا کہ ان ویڈیوز کے لیے استعمال ہونے والے مشہور ترین ویب سائیٹس کون سی ہیں ۔

ان ویب سائٹس پہ نظر آنے والے نادیدہ ،فحش کلپس دیکھ کر اس نے زخرف سے نظریں چرائیں ۔کتنا عجیب وقت تھا یہ اس کے لیے کہ اپنی بہن جیسی لڑکی سے اس قسم کی مدد لینی پڑ رہی تھی ۔دل ہی دل میں وہ خوب شرمندہ ہوا ۔۔۔

"زخرف بیشک ہم حقیقی بہن بھائی نہیں مگر دل سے میں تمہیں اپنی چھوٹی بہن مانتا ہوں ،یہ سب دیکھنا بھی گناہ ہے۔مگر ہم یہ سب اچھے کے لیے کر رہے ہیں ۔کسی کی عزت پامال ہونے سے بچانے کے لیے ۔اس وقت یہ بھول جاؤ کہ ہم میں کیا رشتہ ہے۔ہماری کیا جنس ہے،بس یہ یاد رکھو کہ تم پروفیشنل لحاظ سے کسی کی مدد کر رہی ہو ۔سب ڈھونڈھنے میں ۔"شیردل نے شرمندگی کم کرنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

"زخرف لاسٹ دو گھنٹے میں جتنی بھی نئی ویڈیوز اس ویب سائٹ پہ اپلوڈ ہوئی ہے وہ دیکھو ۔کہیں ان میں تو نہیں ۔۔۔یہ یہاں کی سب سے مشہور ویب سائٹ ہے ۔

زخرف بھی کلپس کے فرنٹ پیج دیکھ کر شیر دل سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی ۔وہ سر جھکائے تھوک نگلتے ہوئے اپنے کام میں مصروف رہی ۔۔۔ "بھائی ساراچیک کیا مگر اس میں رمشاء کی ویڈیو کوئی نہیں ۔۔۔

"پھر کونسی ویب سائٹ ہوگی ؟؟؟؟

شیردل نے پاس پڑے کین کے ٹیبل کو پریشانی اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں پاؤں کی ٹھوکر ماری تو وہ دور جاگرا ۔۔۔

"بھائی پلیز آپ پریشان مت ہوں ۔۔۔ہم ملکر ڈھونڈھتے ہیں نا "وہ دل میں خود ڈری ہوئی تھی ۔آواز میں بھی کپکپاہٹ تھی ۔مگر اسکے سامنے بظاہر خود کو مضبوط ظاہر کر رہی تھی ۔۔۔۔

بیہودہ کلپس دیکھ کر اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا ،

"یہاں دیکھو "شیردل  نے ورلڈ فیمس ویب سائٹ پہ کلک کیا ۔۔۔۔

یہ ایک ۔۔۔۔۔ملک کی ویب سائٹ تھی جہاں ایک گھنٹے پہلے تین ویڈیوز اپلوڈ کی گئی تھیں ۔ان میں دوسرے نمبر پہ جو ویڈیو کلپ اسے دکھائی دیا ۔۔۔

وہ دیکھ کر زخرف کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔جبکہ شیردل نے لیپ ٹاپ کی سکرین سے نظریں ہٹا لیں ۔۔۔۔

"بھائی اس پہ ایک لاکھ ویوز آچکے ہیں،اور سیکنڈز کے حساب سے ویوز بڑھتے جا رہے ہیں ۔۔۔کیا کریں ؟؟"

زخرف کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔۔۔۔

اس کا چہرہ زرد پڑا ۔۔۔۔

وہ ویڈیو دیکھ کر جہاں رمشاء برائڈل روم کے ملحقہ واش روم میں کپڑے تبدیل کر رہی تھی ۔

"بھائی میں مر جاؤں گی ۔۔۔یہ سب دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔

وہ دھواں دھار رونے لگی ۔۔۔۔

"یہ کیا ہوگیا ؟؟؟"

وہ روتے ہوئے تڑپ کر بولی ۔۔۔

"زخرف یہ وقت رو کر برباد کرنے کا نہیں ،

"ہوش کے ناخن لو ،جتنا وقت گزرے گا زیادہ سے زیادہ لوگ یہ دیکھیں گے ۔اس واہیات ویب سائٹ کو اُڑا دو ۔ہیک کرلو اسے اور سارا ڈیٹا ڈیل کردو۔۔۔

"ج۔۔۔جہ۔جی بھائی "

وہ بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی ۔۔۔

اس کی انگلیاں کی بورڈ پہ تیزی سے حرکت کر رہی تھیں ۔

نظریں ہنوز سکرین پہ جمیں تھیں ۔۔۔۔

شیردل وہاں کھڑا  اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسائے کشمکش میں مبتلا تھا۔۔۔۔

"ڈن "

کچھ ساعتوں بعد زخرف نے اسے جو خبر سنائی ۔وہ سن کر تھوڑا ری لیکس ہوا ۔اور گہری سانس لی۔۔۔۔

جیسے سر سے کچھ بوجھ ہلکا ہوا ہو ۔۔۔

"بھائی سب ٹھیک ہوگیا۔ ۔۔۔آپ بیٹھ جائیں ۔

میں آپ کے لیے پانی لاتی ہوں ۔

وہ لیپ ٹاپ ایک طرف رکھے اپنی جگہ سے اٹھی۔

"زخرف تھینکس فار ہیلپ ۔

"بھائی تھینکس کس لیے ۔یہ تو ہم دونوں کا فرض ہے ۔ہماری فیملی کے لیے ۔۔۔جو آپ سے بن سکا آپ نے کیا اور جو مجھ سے بن پڑا وہ میں نے کیا ۔۔۔شکر ہے سب ٹھیک ہوگیا ۔۔۔

"یہاں سے تو سب ختم ہوگیا ذخرف مگر ابھی بھی بات یہاں ختم نہیں ہوئی ۔۔۔۔

وہ سپاٹ انداز میں بولا تو ذخرف نے چونک کر اسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"جن لوگوں نے یہ ویڈیو اپلوڈ کی ہوگی ابھی ان کے پاس تو موجود ہوگی ۔یہ ویب سائٹ ہم نے ہیک کرلی ۔مگر اس ویڈیو کو مجھے ان لوگوں کے پاس سے ہمیشہ کے لیے ختم کروانا ہوگا ۔۔۔جن کے پاس ابھی بھی یہ موجود ہے،

"مگر بھائی ان لوگوں تک آپ کیسے پہنچیں گے "؟

وہ حیرت زدہ رہ گئی اسکی بات پہ واقعی یہ بات تو اس نے سوچی بھی نہیں تھی ۔۔۔

"وہ سب تم مجھ پہ چھوڑ دو اس معاملے کو اب میں خود سورٹ آؤٹ کر لوں گا ۔

"تم بس اتنا دھیان رکھنا اس بات کا کسی کو پتہ نہیں چلے ۔۔۔خاص طور پہ رمشاء کو ۔۔۔وہ پہلے ہی اعیان کی وجہ سے کافی ڈس ہارٹ ہوگی ۔۔۔۔

"جی بھائی ۔۔۔۔مجھ آپ کا فیملی کو لے کر کنسرن بہت اچھا لگا "

زخرف اسکی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکی ۔۔۔وہ توصیفی انداز میں بولی۔۔۔

"زخرف اب آرام کرو رات بہت ہوگئی ہے "

وہ سادگی سے کہتے ہوئے باہر نکل گیا ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

آ۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔یہاں ۔۔۔۔؟؟؟

"میرے کمرے میں ۔۔۔۔کیسے ؟؟؟؟

وہ اپنے خوف سے فق نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بمشکل بولی  ۔۔۔۔

مگر وہ اسکے بستر پہ ہنوز ساکت بیٹھا رہا ۔۔۔

ماھی نے ہاتھ بڑھا اسکے وجیہہ چہرے کو چھو کر محسوس کرنا چاہا خواہ وہ سچ میں وہاں موجود تھا یا صرف اس کا وہم و خیال تھا ,,,

جیسے کی ماھی کی مخروطی انگلیوں نے اسکے بئیرڈ والے گال کو ہولے سے چھوا تو اسے سو والٹ کا جھٹکا لگا۔۔۔

اس نے جھٹ سے ہاتھ پیچھے کھینچا ۔وہ سچ میں وہاں موجود تھا ۔۔۔

 اس کے ہاتھوں کی لرزش واضح محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔

"سر آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا "

وہ سرجھکائے بولتی لکی کے دل کی تاروں کو چھیڑ رہی تھی۔۔۔۔۔

اسے اتنے قریب بیٹھے دیکھ ماھی بستر سے نکل کر نیچے اتر گئی ۔۔۔۔

"کیسی ہو ؟؟؟

"آج کالج بھی نہیں آئی ۔۔۔۔

"مسڈ یو آلاٹ!!! 

"رہا نہیں گیا تو تمہیں دیکھنے آگیا "

وہ دھیمے آنچ دیتے لہجے میں بولا۔

"آ۔۔۔۔آپ جائیں یہاں سے "

"پلیز ۔۔۔۔وہ التجائیہ انداز میں بولی

"اگر نا جاؤں تو "؟

وہ بضد ہوا 

"تو پھر میں یہاں سے چلی جاؤں گی "

اس نے کمرے سے باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف اپنے قدم بڑھائے ۔۔۔

"اوراگر میں تمہیں یہاں سے نا جانے دوں تو ؟۔۔۔۔"

لکی نے ماھی کا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے روکا ۔۔۔

"ماھی !!!!

وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔

ماھی نے اس کی مضبوط ترین گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کروانا چاہا ۔۔۔۔مگر لکی نے اسے پکڑ کر کھینچا اور اسکی دونوں کلائیوں کو اپنے مضبوط ہاتھ میں لیکر دیوار سے قید کرلیا ۔۔۔۔۔

"یہ۔۔۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں۔۔آپ۔۔۔۔در۔۔۔۔دور ۔۔رہیں مجھ سے ۔۔ماھی اسکی گرم سانسوں کو اپنے اوپر محسوس کرتی گھبراتی اس سے خود کے ہاتھوں کو آزاد کروانے لگی ۔۔۔جس میں ناکام رہی۔۔۔۔۔

"دور رہنا ہی تو ناممکن ہے اب  

Lucky 's luck .

۔۔۔۔۔گھمبیر لہجے میں کہتے وہ ماھی کو سانسیں روکنے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔۔لکی کی حد درجہ قربت پر وہ پسینہ ہورہی تھی۔۔۔۔۔مجھے ج۔۔جانے دیں ۔۔۔۔پپ۔۔پلیز۔۔۔۔۔سر !!!!

وہ منمنائی اور اسکی گولڈن شیڈڈ آنکھوں میں ڈرتے دیکھ کر التجا کرنے لگی۔۔۔۔۔۔

"سر کہنا چھوڑ دو اب ۔۔۔۔

"ہمارا نیا رشتہ بننے والا ہے ،مجھے میرے نام سے بلاؤ ۔۔۔۔تمہاری آواز میں اپنا نام سننا چاہتا ہوں ،کب یہ نوازش کرو گی ؟؟؟؟

وہ اسکے چہرے پر جھولتی ہوئی آوارہ بکھری ہوئی بالوں کی لٹوں کو پھونک مار کر بولا ۔۔۔۔۔

"یہ۔۔یہ کیا کر رہے ہیں۔۔آ۔۔پ ۔۔لکی کی انگلی کو اپنی نوز بن پر پھیرتے دیکھ کر وہ گھبرا کر کہتی اس کے ہاتھ کو جھٹکنے لگی۔۔۔۔۔۔

"لکی کی لک !!!! اس چکمتی ہوئی نوز بن کو چھو کر محسوس کر رہا ہوں ،،،جس کی وجہ تم میری زندگی میں شامل ہونے جا رہی ہو ۔۔۔۔ 

"سچ بتاؤں یہ وجہ ہے ،ہمارے ملنے کی "

ماھی نے اسکی بے سروپا بات سن کر اسے اچنبھے سے دیکھا مگر کچھ بھی اسکے پلے نہیں پڑا۔۔۔۔

" تم صرف میری ہو۔۔۔۔۔۔تمہیں صرف میرے لیے بنایا گیا ہے۔۔۔۔۔تم پر صرف میرا حق ہے ۔۔۔۔۔۔ ماھی صرف لکی کی ہے۔۔۔۔۔تم صرف میری بن کر رہو گی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔۔

وہ جنونیت سے کہتا ماھی کو کوئی سائکو لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکی جنونی باتیں اسے خوفزدہ کر رہی تھی۔۔۔ایک ہی پوزیشن میں تب سے کھڑے کھڑے اسکی ٹانگیں کانپنے لگی ۔۔۔۔۔

لکی کو اسے سامنے دیکھ کر خود پہ قابو پانا مشکل ہوگیا تھا  ۔۔۔۔۔

"دل چاہتا ہے تمہیں اپنے پروں میں چھپا کر کہیں دور لے جاؤں اک ایسی دنیا میں جہاں 

۔ایسی دنیا میں جہاں صرف تم ہو اور میں "

اسکی آنکھوں کا رنگ سرخی مائل ہوا پھر گولڈن ۔۔۔۔ماھی کو ایسا لگا ۔۔۔مگر اسے خودی یقین نہیں آیا کہ ایسا ہوا بھی ہے یا اسکا گمان ۔۔۔۔وہ ہنوز ساکت کھڑی رہی ۔۔۔اس میں ہلنے کی سکت نہیں بچی تھی ۔۔۔۔

لکی اسکے چہرے کے دلکش نقوش کو نہارنے میں اس قدر محو تھا کہ اسے دنیا و مافیہا کی خبر نا تھی ۔۔۔۔

اور ان سب میں کھویا۔۔۔

"بہت جلد تم میری ہوگی صرف میری ۔۔۔۔وہ انتہائی جنونیت سے بول کر اسکی سانسیں ناہموار کرگیا ۔۔۔۔۔۔  ماھی آنکھیں میچیں لرزتی کپکپاتی ہوئی دیوار سے لگی تھی اس کے پیچھے ہوتے ہی اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کیا۔۔۔۔

لکی نے اسکے ڈرے سہمے زردی مائل چہرے کو دیکھا جو اب ٹپ ٹپ آنسو بہانے میں مشغول تھی ۔۔۔۔۔۔

Iam Sorry Lucky's Luck ......

"میں نا چاہتے ہوئے بھی ہر بار تمہیں ہرٹ کردیتا ہوں ،

"مجھے غلط مت سمجھنا۔۔۔ میری محبت کے اظہار کا یہی انداز ہے"

"آ۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔ب۔۔بہت۔۔برے ہیں۔۔۔میں۔۔آپ سے ۔۔۔کبھی ۔۔۔شادی نہیں ۔۔۔کروں گی ۔۔۔۔

"کبھی نہیں ۔۔۔۔وہ اسکے ہاتھ جھٹکتی پہلی بار اسکے سامنے ہمت دکھاتے ہوئے غصے ۔۔۔۔سے بولی ۔

"I h...h...hate you...

اس کا اشتعال عود کر آیا اور وہ اپنے الفاظ اور انداز سے لکی کو ساکت کر گئی۔۔۔۔۔۔اسکی آنکھیں ماھی کے لفظوں پر غصے کی زیادتی سے خون چھلکانے لگیں ۔۔۔ایک جھٹکتے سے سختی سے اسکی کہنی  سے پکڑ کر ماھی کواپنے قریب کیا پھر وہ سرد آواز میں غرایا ۔۔۔۔

"کیا بولا تم نے ؟؟؟

"نفرت ہے تمہیں مجھ سے ۔۔۔

"ٹھیک ہے پھر نفرت تو نفرت کی سہی ۔۔۔۔

"اب چاہے تم نفرت کرو یا محبت رہنا تو تمہیں میرے ساتھ ہی ہوگا ۔۔۔ تمہارے سامنے انسان بنا ہوا ہوں تو انسان ہی رہنے دو مجھے ۔حیوان بننے پر مجبور ناکرو ۔۔۔اگر میرے اندر کا حیوان جاگ گیا تو سوچ لو  تمہارے لیے ہی اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔۔

۔۔۔۔اسکا لہجہ ایسا تھا کہ ماھی کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ پھیل گئی اور آنکھیں پھٹنے کے قریب ہی ہوگئی۔۔۔۔اسکا معصوم سا دل سکیڑنے لگا ۔۔۔۔ہاتھ پاوں سرد پڑ گئے۔۔۔۔۔

"آئیندہ اگر مجھ سے دور جانے کی بات کی تو اپنے ان ہاتھوں سے جان لوں گا تمہاری ۔۔۔سمجھی تم "

"جاکر آسمانوں میں چھپ جاؤ یا سمندر کی گہرائیوں میں وہیں سے نکال لاؤں گا تمہیں ۔۔۔۔کسی غلط فہمی میں مت رہنا کہ لکی سے دور جا پاؤ گی تم ۔۔۔۔

اسے ایک جھٹکے سے چھوڑتا ہوا وہ پیچھے ہوا ۔تو ماھی لہرا کر رہ گئی ۔۔۔۔

اس کی جنونی باتوں پہ ماھی کو اپنا دماغ سن ہوتا ہوا محسوس ہوا ۔وہ سہمی ہرنی کی مانند اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

وہ جیسے کھڑکی سے کود کر اندر آیا تھا ویسے ہی باہر نکل گیا ۔۔۔۔ماھی اسکے باہر جاتے ہی بستر پہ ڈھ سی گئی۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

"نہیں کرنی نہیں کرنی نہیں کرنی۔۔۔۔ مجھے اس مروان سے شادی نہیں کرنی۔۔۔ 

اس مروان کو تو میں اپنے ہاتھوں سے مار ڈالوں گی ،جو وہ ہم دونوں کے درمیان آیا "

وہ ِچّلاتے ہوئے بولی ۔

"بجائے اس کے کہ آپ ہمیشہ کے لیےمیری ذمہ داری اٹھاتے  ، الٹا خود سے دور بھیجنے میں لگے ہیں ، 

"مجھے اس مروان سے شادی کرنے پہ راضی کرنے میں لگے ہیں۔۔۔

" میں پوچھتی ہوں آپ نے کیا سوچ کے اس مروان کو ایسے پٹ سے ہاں کہہ دی؟

"کیا میری مرضی آپکے لیے کوئی اہمیت کی حامل نہیں ؟"

 "دیکھو پری تم اب بچی نہیں رہی  ۔۔

اور یہ بات میں تمہاری شادی کی فرمائش پر اچھے سے جان گیا ہوں ،

"مگر جو تم چاہتی ہو وہ ناممکن ہے ،"

"تم سب سمجھتی ہو۔۔۔صحیح غلط، فائدہ نقصان۔۔۔۔ اس لئے میں اس فضول کی بحث کو یہیں ختم کرتا ہوں۔۔۔۔انکار کا کوئی مضبوط جواز تمہارے پاس نہیں ہے، بس ضد ہےتمہاری ۔۔۔جو کبھی پوری نہیں کروں گا "

"تمہیں مروان سے شادی کرنی ہو گی ، کیونکہ میں رشتہ طے کر چکا ہوں تو بہتر ہے رونا دھونا چھوڑ کر خود کو ذہنی طور پہ تیار کر لو۔۔

"میں نے ایک بار کہہ دیا تو کہہ دیا کہ مجھے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنا ہے ،آپ سمجھتے کیوں نہیں ،،،،

"نہیں دور جاسکتی آپ سے آپ کو دیکھ کر جیتی ہوں ،آپ کی عادت ہوگئی ہے ،جب آپ مجھے میرا فیورٹ ناشتہ بنا کردیتے ہیں ،تو دن بن جاتا ہے ،

جب آپ اپنے ہاتھوں سے میرے بالوں میں برش پھیرتے ہیں میرے بال سنور جاتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے آپ نے ایک یتیم کی زندگی کو سنوارا....

"پہلے اپنے اتنے قریب رکھ کر اپنا عادی بنا ڈالا کہ میں نے کبھی کسی اور کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا ۔۔۔۔

اور ہاں یاد رکھنا کبھی کروں گی بھی نہیں ۔۔۔۔وہ دھمکی آمیز انداز میں انگلی اٹھا کر درشتگی سے بولی ۔۔۔

"اور اب خود سے دور بھیجنے کی بات کرتے ہیں ۔

"شیرو ۔۔۔۔!!!! 

وہ رندھی ہوئی آواز اور بھیگی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھ کر ملتجی انداز میں بولی۔۔۔۔

آریان شیر نے چونک کر اسکی طرف دیکھا ۔

آج سے پہلے کبھی پری نے اسے اس نام سے نہیں پکارا تھا ،آج پہلی بار اس نے آریان کو ایسے مخاطب کیا تھا۔

"میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ،مجھے خود سے دور نا کریں ،مجھے آپ سے شادی کرکہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنا ہے ,

"پری تم سمجھتی کیوں نہیں ،میری زندگی موت کا کوئی بھروسہ نہیں ،ایسے میں تمہاری زمہ داری نہیں لے سکتا ،تمہیں کسی باعزت گھرانے اور مضبوط ہاتھوں میں سونپ دینا چاہتا ہوں ،یہی تمہارے لیے بہتر ہے "

"چلو میرے ساتھ "

آریان شیر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے چلنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

اور دروازے کی سمت بڑھنے لگا ۔۔۔۔۔

اس نے آریان شیر کو جب اپنے اٹل ارادوں سے ٹس سے مس ہوتے نہیں دیکھا تو وہ بھڑک اٹھی۔۔۔۔

یکلخت اس نے اپنے انداز و اطوار بدلے ۔۔۔۔

 "چھوڑ۔۔۔۔۔۔۔میرا ہاتھ نہیں کروں گی میں یہ شادی ۔۔۔۔

وہ اسکی گرفت میں پھڑپھڑانے لگی۔۔۔۔

آریان شیر نے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے اپنے قدموں کی رفتار بڑھا دی ۔۔۔

"ٹپوری بھائی لوگ تم ہی میری مدد کرو نا مستقبل کی شیرنی کی "

اس کا ہاتھ آریان شیر کے فولادی ہاتھ میں تھا۔وہ سرخ عروسی لباس میں ملبوس پری کو اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے باہر کی جانب کے جا رہا تھا ۔راستے میں اس کے آدمی سر جھکائے مؤدب انداز میں کھڑے تھے ۔اس کے سامنے بولنے کی کسی کی ہمت نہ تھی سوائے پری کے ۔

"چھوڑ نا شیرو "

وہ تڑخ کر بولی بنا اسکی گھوری کی پرواہ کیے ۔

"جو تیرے لیے تین جمعے جا کر جامع مسجد میں نمازیں پڑھیں اس کا کیا ؟؟؟

"وہ جو تیرے لیے اس سڑے ہوئے مولوی کے خطبے سنے اس کا کیا "؟

"وہ جو تیرے لیے پرانے کپڑے پہن کر ایک غریب اور نیک انسان ہونے کا ناٹک کیا اس کا کیا ؟؟؟

"میری ساری محنت پہ پانی پھیرے گی ؟

وہ اس کی کلائی کو جھنجھوڑ کر بولا ۔۔۔

اس وقت اسکا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا ۔

"کتنی مشکل سے پٹایا سالا اس مولوی کو "

"آج وہ تجھ سے اپنے شریف بیٹے کی شادی کے لیے راضی ہوا تو ۔۔۔اب تو آنا کانی کر رہی ہے ۔۔دو ڈالوں گا نا بھیجے میں.......... تو سالا سارا سٹکا ہوا بھیجا اپنی جگہ پہ آ جائے گا "

وہ درشتگی سے اس کی کنپٹی پہ دوسرے ہاتھ سے گن رکھے دھاڑا ۔۔۔آج وہ اپنے غنڈوں والے اصل سٹائل میں لوٹ آیا ۔جسے وہ پری کے سامنے کم ہی لاتا تھا ۔۔۔۔

پری کو اپنے کان کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے اسکی گرجدار آواز سن کر ۔۔۔

"دیکھ شیرو اپُن کو تجھی سے مِنگل ِشنگل کرنا ہے "

وہ ِبلاجھجھکے بولی ۔۔۔

"تجھے اسی لیے پڑھایا ہے کہ تو بدتمیزی کرے مجھ سے ۔۔یہ تُو کیا ہوتا ہے ؟؟؟

"کتنا بڑا ہوں میں تجھ سے ؟؟؟

"دیکھ شیرو تو غنڈوں کی طرح بولے گا تو میں بھی بولوں گی ۔۔۔۔وہ تنک کر بولی 

"تو غنڈہ تو اپُن غنڈی "

وہ کہہ کر مسکرائی ۔۔۔

"اُپن کا ٹیم کھوٹا نا کر شادی کرکہ کسی نیک لڑکے کے ساتھ زندگی گزار "اس نے اپنے تئیں اسے سمجھانا چاہا۔

"میں اس مولوی کے سامنے چیخیں مار مار کر انکار کردوں گی "

وہ اسی کے انداز میں دھمکی دے کر بولی ۔۔۔پھر اس نے آریان شیر کی کمر کے گرد اپنی بازو باندھنی چاہیں ۔۔۔

جسے آریان شیر نے بری طرح پیچھے جھٹک دیا ۔۔۔۔

پری برا سا منہ بنا کر رہ گئی ۔۔۔

آریان شیر نے ایک اچٹتی ہوئی نظر اپنے سب آدمیوں پہ ڈالی جو اسکے حکم کے بنا سانس نہیں لیتے تھے ۔مگر اس جونک کی طرح چمٹی ہوئی لڑکی کی وجہ سے وہ دھیمے دھیمے ہنس رہے تھے ۔۔۔

دس سالہ پری جسے آریان شیر اسکے والدین کے مرنے کے بعد اپنے ساتھ لے آیا تھا ۔وہ لڑکی اب انیس سال کی ہوچکی تھی ،ان نو سالوں میں آریان شیر جو خود ایک سنائپر تھا ،ایک بڑے گینگ کے سربراہ کا رائیٹ ہینڈ کے رتبے پہ فائز تھا ،اپنے ماسٹر کے کہنے پہ وہ بہت سے لوگوں کو اپنے نشانے سے موت کی آغوش میں سُلا چکا تھا ، قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا،چوڑے شانے،ورزشی جسامت،تعلیم صرف پانچویں تک اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہوئے حاصل کی۔اس نئی دنیا میں آنے کے بعد ُاسے سیاہ دنیا میں رہنے کی تعلیم دی گئی تھی ، اس کی نیلی آنکھوں میں ہمہ وقت سرد تاثر دکھائی دیتا،مگر پری وہ واحد ہستی تھی،جسے دیکھ کر اسکی سرد آنکھوں میں نرمی اتر آتی ۔بھنچے جبڑے،تنی ہوئی رگیں،اسکا نشانہ کبھی نا چوکا ، جب وہ اپنے کام کے لیے نکلتا چہرے پہ ماسک چڑھائے ہوئے ہوتا ،دنیا اسے سفید موت کے نام سے جانتی تھی ۔اس کی سیاہ دنیا میں آج تک کسی نے اسکا چہرہ نہیں دیکھا تھا،

جب سے پری نے اس سے شادی کی بات کی تھی اس کا خون خول اٹھا تھا ،پری کو اس کے ہاسٹل واپس بھیج دینے کے بعد وہ اسکی شادی کے معاملے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا ۔۔۔وہ اس بچی کی شادی کسی اچھی جگہ کرنا چاہتا تھا جہاں وہ پرسکون اور باعزت زندگی گزارے ۔اسی لیے آریان شیر نے ان گزرے ماہ میں مسجد جانا شروع کردیا ،وہاں ایک معتبر شخص سے اسکے بیٹے مروان سے پری کی شادی طے کردی تھی ،اور پھر جب پری اس بار چھٹیوں میں ہاسٹل سے واپس آئی تو آریان شیر نے میڈ سے کہہ کر اسے تیار کروایا ۔۔۔۔۔

مگر پری کا انکار سن کر اسے تو گویا پتنگے ہی لگ گئے وہ سارا لحاظ بھلائے اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا نکاح کے لیے ۔۔۔۔کیونکہ سب وہاں ان کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔ 

🌙🌙🌙🌙🌙

🌙🌙🌙🌙🌙

ہانیہ اور منساء دونوں پارلر میں تیار ہونے جاچکی تھیں ۔۔۔۔انکے ساتھ ماھی بھی تھی ۔۔۔زخرف کو گھر میں ہی تیار ہونا تھا ۔۔۔۔ اس لیے وہ پارلر نہیں گئی۔۔۔

شیردل نے ایک ہی رات میں بارات کا وینیو تبدیل کردیا تھا ۔۔۔

سب اس بات کو لے کر کافی حیران بھی تھے اور سوال بھی کر رہے تھے کہ راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ شیردل نے بارات کے فنکشن کے لیے ہوٹل کی بجائے حویلی کے لان میں ہی سارے انتظامات کروا دئیے ۔۔۔مگر وہ فی الحال خاموش تھا اور سپاٹ انداز میں اپنے کام میں مگن تھا ۔سب ملازمین سے وہ ساری تیاریاں مکمل کروا چکا تھا ۔۔۔۔

 ویسے بھی یہ حویلی کافی بڑی تھی اور اسکا لان  بھی کافی وسیع تھا ۔۔۔خاندان کے مہندی کے بہت سے فنکشن لان میں کیے گئے تھے تو بارات کیوں نہیں ۔۔۔یہی سوچ کر اس نے اس حساب سے ہی سارے انتظامات کروائے  ۔۔۔ شادی میں اس کے حلقہ احباب میں اور حسام ،ابتسام کے بھی ملنے والے  بڑے بڑے بزنس مینز اور آفیسرز آرہے تھے ۔۔۔۔

"واؤ برو آپ نے کمال کردیا ۔۔۔لان کو بدل کر رکھ دیا ۔۔۔لگ ہی نہیں یہ ہمارا وہی لان ہے ۔۔۔اعیان بارات کے لیے تیار ہونے جانے سے پہلے لان میں آکر پرجوش آواز میں بولا ۔۔۔ جہاں شیردل انتظامات کروا رہا تھا ۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔وہ فقط اتنا ہی بولا ۔۔

"کوئی ناراضگی ہے برو ؟؟؟

آپ مجھ سے بات نہیں کر رہے ٹھیک سے "

اعیان نے اسکے لیے دئیے انداز کو دیکھ کر پوچھا ۔

"اعیان کسی سے ملنا ہے نا تو دل سے ملو ۔۔۔

دل میں بغض رکھ کر چہرے پہ پیار کا جھوٹھا مکھوٹا چڑھا کر ملنے والے زہر لگتے ہیں مجھے ۔۔۔۔

"آج تمہارے لیے خوشی کا دن ہے۔جاکر انجوائے کرو ۔

میں تمہاری خوشیوں میں اپنی ناراضگی کی وجہ بتا کر تمہیں ڈس ہارٹ نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔

اس لیے اس بات کو یہیں دفن کردو ۔۔۔۔

"فاضی یہ لائٹ ٹھیک سے لگاؤ !!!

شیردل کہتے ہی لائٹس مین کی طرف متوجہ ہوگیا تو اعیان لاپرواہی سے شانے اچکا کر آگے بڑھ گیا ۔۔۔

" اگر تم اُس شادی سے انکار نہیں کرتے تو شاید آج سب مختلف ہوتا ۔۔۔

"نہیں میں کچھ زیادہ ہی سوچنے لگا ۔۔۔۔شاید یہ سب ہونا لکھا تھا ۔۔۔نہیں یہ بھی غلط ہے ،

"یہ میں کیا کیا سوچے چلا جارہا ہوں "؟

وہ خودی سے مخاطب ہوا ۔۔۔

پھر گہری سانس کھینچ کر لحظہ بھر کے لیے آنکھیں بند کر گیا ۔۔۔

احتشام نے میرون کلر کی خوبصورت سی شیروانی زیب تن کر رکھی  تھی ۔۔۔سر پر سہرا سجائے۔۔۔وہ کوئی ریاست کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا۔۔۔

اعیان نے بھی آف وائٹ شیروانی اور کلاہ میں بہت ہی ہینڈسم اور سمارٹ دکھائی دے رہا تھا ،

بارات شہریار ہاؤس سے حویلی آئی ۔۔۔امرام شیر کی تو آج ڈھب ہی نرالی تھی ،بلیک کلر کے تھری پیس سوٹ میں اسکی شاندار  پرسنالٹی کو چار چاند لگ گئے تھے ،اپنے فوجی ہئیر کٹ میں سب سے منفرد دکھائی دے رہا تھا ، وہ بھی بارات کے ساتھ آیا تھا ،منساء اور ہانیہ نے حویلی سے رخصت ہونا تھا ۔

بارات حویلی میں داخل ہوئی تو ہر طرف شور سا مچ گیا۔۔۔۔سب اندر آئے تو ان پر پھولوں کی بارش کی جارہی تھی ۔۔۔مووی میکر نے بھی مووی بنانی شروع کردی تھی انکی ۔۔۔

اعیان اور احتشام دونوں سب کے ساتھ شان سے چلتے اسٹیج پر آئے اور اپنی جگہ پر بیٹھ کر دلہنوں کا انتظار کرنے لگے ۔۔۔

حذیفہ ہاتھ میں کیمرہ لیے آج احتشام کی فوٹو گرافی کی ڈیوٹی نبھا رہا تھا۔

ہیر کی امید بھری نظریں آج بھی حویلی کے دروازے پہ تھیں،جب بھی گھر میں اس طرح کا کوئی موقع ہوتا ہیر اور شیر زمان کو اپنے کھوئے ہوئے بیٹے آریان شیر کی یاد اور بھی شدت سے آتی ۔۔۔۔۔۔ان دونوں کے چہروں پر پریشانی کے عنصر نمایاں تھے ۔۔۔۔دور کھڑے ہوئے شیردل نے افسوس سے ان کے یاسیت سے گھلے چہروں کو  دیکھا ۔۔۔۔۔تو چلتا ہوا ان کے پاس آیا ۔۔۔

"مام ڈیڈ میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ دونوں کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل جائے ۔۔۔

اس نے ان دونوں کے درمیان کھڑے ہوتے ہوئے ایک ہاتھ شیر زمان کے شانے پہ رکھا تو دوسرا ہیر کے ۔۔۔

"ایسا کیا کرنے والا ہے میرا بیٹا ؟؟ہیر نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے اسکے گال پہ ہاتھ رکھے پوچھا ۔۔۔۔

"میں بتاتا ہوں ،موصوف کے چہرے پہ صاف لکھا ہے،انہوں نے بھی گھوڑی چڑھنے کی تیاری کرلی ہے "

شیر زمان نے کہا تو شیردل نے چونک کر اپنے والد کو دیکھا ۔۔۔

"آ۔۔۔آپ کو کیسے پتہ چلا "؟

وہ حیران کن نظروں سے انہیں دیکھ کر استفسار کرنے لگا ۔۔۔

"بیٹا جی ساری عمر کچی گولیاں نہیں کھیلیں ،ہم بھی ان حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں،تمہارے چہرے پہ صاف لکھا ہوا ہے،کہ تم کیا چاہتے ہو ،،،ابھی تم اس میدان میں نئے ہو ،آہستہ آہستہ سب سمجھنے لگو گے "

شیر زمان نے اسکا شانہ تھپتھپاکر کر کہا ۔۔۔

شیردل کھسیانا سا ہو کر سر کھجانے لگا ،

اس وقت وہ ہمیشہ کی طرح اپنے فیورٹ  ڈارک بلیو کلر کے فور پیس سوٹ میں ملبوس بہت ہینڈسم دکھائی دے رہا تھا ۔

ہیر نے نظروں ہی نظروں میں اسکی بلائیں لے ڈالیں ۔۔۔

"مام پلیز ایک ریکوئسٹ ہے "شیردل نے بالآخر دل کی بات زبان پہ لائی جسے کل رات سے وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوچکا  تھا ۔۔ اسے بس یہی راہ سجھائی دی اس لیے اس نے اسی پہ عمل پیرا ہونے کا سوچا ۔۔ 

"مما صدقے قربان جائے اپنے بیٹے پہ ریکوئسٹ کیوں ؟میرے بیٹے کے دل میں جو بھی بات ہے بلا جھجھک اپنے والدین سے کر سکتا ہے ،

"وہ ۔۔۔۔وہ ۔۔۔میں چاہتا تھا کہ ۔۔۔

"شیر دل ایسی کیا بات ہے کہ جس کے لیے آپکو اتنی تمہید باندھنی پڑ رہی ہے "؟

ہیر نے اسے شش و پنج میں مبتلا دیکھا تو پوچھا ۔۔۔جبکہ شیر زمان خاموش کھڑا  اپنے بیٹے کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہا تھا  

"میں چاہتا ہوں کہ آج ہی اعیان اور احتشام کے ساتھ میرا نکاح بھی ہوجائے "

اس نے تیزی سے الفاظ ادا کیے ۔۔۔۔

ہیر مسکرانے لگی ۔۔۔

"میرے بیٹے نے تو میرا دل ہی خوش کردیا ۔۔۔بھئی میں ایسے ہی امرام کے پیچھے لگی ہوئی تھی کب سے کہ شادی کرلو ۔۔۔مجھے کیا پتہ تھا کہ میری بہو لانے کی خواہش سب سے پہلے میرا سب سے چھوٹا بیٹا پورا کردے گا "ہیر کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا ۔۔۔۔

"میری بہو کا نام بھی بتاؤ ؟

ہیر نے اسے سر جھکائے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔۔۔

"ہاں بھئی شادی کی بات کی ہے ،اور وہ بھی ارجنٹ ۔۔۔لڑکی بھی جناب نے ڈھونڈھ رکھی ہوگی جو ابھی اسی وقت نکاح کے لیے ریکوئسٹ کی جا رہی ہے ،شیر زمان نے ہیر کو مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔

شیردل نے اپنے والدین کو اتنے عرصے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تو اسے اپنے دل میں سکون اترتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

جس اولاد کی وجہ سے اس کے والدین کے چہروں پہ مسکراہٹ آئے اس سے خوش نصیب انسان اس دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا ۔۔۔

"مما ۔۔۔بابا۔۔میں رمشاء سے شادی کرنا چاہتا ہوں آج ہی نکاح اور رخصتی ،پلیز کچھ بھی کریں ۔۔۔مگر آج ہی ہوجائے یہ سب "

"کیا ہوگیا ہے شیردل ؟؟؟

"پہلے تو کبھی شادی کا ذکر نہیں کیا تم نے اور اب ایک ہی بار میں اتنے اتاولے ہوگئے کہ ہتھیلی پہ سرسوں جمانے لگے ۔۔۔

بچے یہ شادی بیاہ کے معاملات ہیں ۔اتنی جلدی اور آسانی سے طے نہیں ہوتے ۔۔۔اس کے لیے لڑکی کے والدین سے بات کرنی پڑتی ہے ،لڑکی کی رضامندی ہونی ضروری ہے ،ایک دم سے کیسے ہوسکتا ہے ،تم کچھ دن صبر کر جاؤ ۔یہ دونوں شادیاں آرام سے نپٹ جائیں تو ہم بات کریں گے۔ حسام سے رمشاء کے لیے ۔۔۔شیر زمان نے اپنے تئیں اسے سمجھانا چاہا ۔۔۔۔

"مما بابا کیا آپ میرے لیے اتنا نہیں کر سکتے ۔۔۔پلیز ۔

"میں نہیں جانتا یہ سب کیسے ہوگا ۔۔۔۔یہ آپ دونوں کو کرنا ہے ۔جیسے بھی کریں ۔۔۔آپ نہیں جانتے کچھ بھی ۔۔۔۔جب وہ میری ذمہ داری بن جائے گی ،تو کوئی اسے کچھ نہیں کہہ پائے گا ۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو شیردل مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کُھل کر بتاؤ  "شیر زمان نے اسے سوالیہ نشان سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

"پلیز ابھی کچھ نہیں بتا سکتا ۔۔۔بلکہ کبھی بھی کچھ بھی نہیں بتا سکتا ۔۔۔اس بات کو آپ چھوڑیں ۔۔۔

"بس ۔۔۔پلیز آج ہی یہ نکاح کروادیں ۔

It's a request.

"اچھا ۔۔۔۔شیر زمان نے گہری نگاہوں سے کچھ سوچ کر حامی بھر لی۔۔۔

"آؤ ہیر میرے ساتھ۔ "شیر زمان اپنے ساتھ ہیر کو لیے اسی طرف بڑھا جہاں سٹیج پہ حسام اور ابتسام اور ضامن موجود تھے ۔۔۔۔

ضامن اور حسام مولانا صاحب کو نکاح کے پیپرز کے لیے معلومات لکھوا رہے تھے تھوڑی دیر میں نکاح کا فریضہ انجام دیا جانا تھا ۔۔

اس نے نکاح کا اچانک فیصلہ کر تو لیا تھا اسے پروٹیکٹ کرنے کے لیے ۔۔۔مگر نجانے یہ بات سن کر رمشاء کا کیا ریکشن ہوگا اب وہ اس بارے میں سوچ رہا تھا اس کی بے چین نگاہیں رمشاء کی ہی تلاش میں سرگرداں تھیں ۔۔۔ وہ اسے ہر طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔

پھر اچانک ایک جگہ پر اسکی نظریں جیسے ساکت سی ہوگئی ۔۔۔

اس کی گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر اپنے آپ مسکراہٹ ابھر آئی ۔۔۔۔

کیونکہ پلر کے ساتھ ہی وہ اپنے قیامت خیز حسن کے ساتھ ڈارک بلیو کلر کی میکسی پہنے  جس پر سفید چمکتے نگینوں کا کام نفاست سے کیا گیا تھا  گلے میں فراک سے میچ ڈارک بلیو شیفون کا دوپٹہ جسکا بارڈ پہ چمکتے نگینوں کے کام سے مزین تھا وہ پہنے آسمان سے اتری ہوئی کوئی اپسراء دکھائی دے رہی تھی   ۔۔۔۔آج سے پہلے تو اس نے کبھی رمشاء کو ایسے نہیں دیکھا تھا یا اس نظر سے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔جیسے ہی اس نے رشتہ بدلنے کا سوچا اچانک سے اسکے دل کی دنیا بھی بدل گئی اور دل میں میٹھے میٹھے احساسات و جذبات بھی نمو پانے لگے ۔۔

لائٹ پنک کلر کی نیچرل لپسٹک اسکے کٹاؤ دار لبوں پہ لگی اسے مزید دلکش بنا رہی تھی ۔۔

وہ کسی بات پر پاس کھڑی ماھی کو دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسنے لگی تو یوں لگا جیسے نقرئی گھنٹیوں کی جلترنگ گونجنے لگی،شیر دل کو اپنا دماغ سن ہوتا ہوا محسوس ہوا وہ مسمرائز سا اسے دیکھا گیا ۔۔۔

"میرے دل کا دل کہاں کھو گیا ہے ؟  اچانک امرام شیر نے اسے ساکت کھڑا دیکھ کر کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہوش میں لایا ۔۔۔۔شیردل نے اسے کے دیکھتے ہی نظروں کا زاویہ بدل دیا ۔۔۔۔۔

"ک۔۔کہیں ۔۔۔کہیں نہیں  ۔۔۔۔اپنی چوری پکڑی جانے پہ وہ سٹپٹا کر رہ گیا ۔۔۔

امرام نے اسکی بوکھلاہٹ کا حذ اٹھاتے ہوئے زوردار قہقہہ لگایا۔۔۔۔

ہاں میں بھی سمجھ گیا بس یہیں کہیں ۔۔۔۔امرام شیر نے اسکی نظروں کے تعاقب میں  رمشاء کو دیکھ لیا تھا ۔۔

"پہلے تو ایسا کچھ نہیں تھا یہ اچانک کیا ہوا ؟؟؟

امرام شیر نے جو محسوس کیا وہ فورا کہا ۔۔۔۔

"لالہ ۔۔۔۔!!!!

"کبھی کبھی پیار کو جاننے کے لیے ایک لمحہ بھی کافی ہوتا ہے ،اور کبھی کبھی ساتھ رہتے ہوئے صدیاں بیت جاتی ہیں مگر پیار نہیں ہوتا ،

میرے ساتھ پہلے والا معاملہ ہوا ۔۔۔۔

وہ اپنے سلکی سیاہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے مسکرا کر بولا۔۔۔۔

"صرف دیکھنے سے کام چلے گا یا آگے بھی بات بڑھانی ہے "

امرام شیر نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا ۔۔۔

"بات تو بہت آگے بڑھ چکی ہے،نکاح کے چھوارے کھانے کے لیے تیار رہیں لالہ !!!

شیردل اپنے ازلی با اعتماد روپ میں لوٹ چکا تھا اسی لیے جوابا اٹل انداز میں نظریں اس پہ جماتے ہوئے بولا ۔۔۔

"واہ کیا بات ہے ! 

"تم نے تو بڑی سپیڈ دکھائی سچ میں ۔۔۔۔

"دکھانی پڑتی ہے،لالہ ۔۔۔

"مام ڈیڈ گئے ہیں نکاح کی بات کرنے ۔۔۔۔آپ کہیں تو آپکی کی بات ہوسکتی ہے ۔۔۔اب اسے چھیڑنے کی باری شیردل کی تھی ۔۔۔۔

"خدا کی پناہ ۔۔۔مجھے شادی وادی کے چکر میں پڑ کہ ذلیل نہیں ہونا ۔۔۔۔نری ذلالت ہے،وہ بیزاریت سے بولا ۔۔۔

"لالہ آپ نے کس کی ذلالت دیکھ لی ہماری فیملی میں تو سبھی سویٹ اور لونگ کپلز کی مثالیں ہیں ،مام اور ڈیڈ کو ہی دیکھ لیں کتنی اچھی بونڈنگ ہے ان دونوں کی ،شیردل نے اسے کہا ۔

"ہممم ۔۔وہ تو ہیں ہی ورلڈ بیسٹ مام ڈیڈ "

امرام شیر نے۔ سٹیج پہ موجود ہیر اور شیر زمان کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھ پیار بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔

"آپکی اور ذخرف کی جوڑی بھی خوب جمے گی ۔میں نے دیکھا ہے،اسے آپکو گھورتے ہوئے ۔۔۔۔

"کیا یار سارا موڈ خراب کردیا اس بیوقوف لڑکی کا نام لے کر ایک دم بچکانہ حرکتیں ہیں اسکی ۔۔۔۔مجھے میچور اور خاموش طبع ، سینسیبل لڑکیاں پسند ہیں ،

She is not my type....

"لالہ پیار ہو جائے تو آئیڈیل وغیرہ سب بھول جاتا ہے ۔۔۔۔

شیردل نے شرارت سے کہا ۔۔۔

"چلو جب پیار ہوگا تب دیکھا جائے گا ۔۔۔۔اس نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا ۔۔

دلہنوں کو پارلر سے لینے کے لیے حذیفہ گیا ہوا تھا  ۔۔

کچھ ہی دیر میں پھر دلہنیں آگئی کا شور مچا ہر طرف ۔۔۔۔سب انکے طرف ہوئے ۔۔۔

ہانیہ نے گولڈن کلر اور ریڈ کلر کا خوبصورت لہنگا پہنا تھا اس سے میچنگ جیولری ۔۔۔۔دلہن میک اپ میں اسکے حسن میں چارچاند لگ گئے تھے۔۔۔

منساء  نے میرون اور گولڈن امتزاج کا بھاری کامدار لہنگا زیب تن کر رکھا تھا وہ بھی قیمتی زیور اور میرون میک اپ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔

اور انکے ساتھ مسکراتی ہوئی ماھی تھی ،۔۔۔۔۔پستہ کلر کے شارٹ فراک اور پلازو  میں پارلر کے میک اپ نے اسکی خوبصورت اور  کمسن حسین و معصوم چہرے کو اور بھی پیارا بنا دیا تھا ۔۔۔۔۔جس کی بھی نظریں پڑتی پلٹنے کا نام نا لے رہی تھیں ۔۔۔۔۔

پہلے احتشام اور منساء کے نکاح کی رسم ادا کی گئی پھر اعیان اور ہانیہ کی ۔۔۔

 پھولوں کی بارش میں ان دونوں دلہنوں کو سٹیج رک لایا گیا ۔۔۔

احتشام اور اعیان نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا پھر ان دونوں نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے جن کی مدد سے وہ دونوں سٹیج پہ آئیں اور ان دونوں کے ساتھ بیٹھ گئیں ۔۔۔۔۔مووی میکر انکی مووی بنانے لگے تھے ۔۔۔۔

"آج تو آپ میرے اس معصوم سے دل پہ بجلیاں گرا رہی ہیں ۔۔۔۔احتشام نے منساء کے قریب بیٹھتے ہی زرا سا اسکے کان کے پاس جھکتے ہوئے سرگوشی نما آواز میں کہا  کی ۔۔۔جس پر منساء کے جھکے ہوئے چہرے پہ باعث شرم  سرخ روشنائی پھیل گئی ۔۔۔۔

 احتشام نے بنا لوگوں کی پرواہ کیے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔

وہ جیسے خود ہی سمٹنے لگی اس کے ہاتھ پکڑنے پر ۔۔اسکا ہاتھ پسینے سے تر ہونے لگا ۔۔۔

"حسام مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔"

کسی کو اپنی طرف متوجہ نا پا کر شیر زمان اس  کو مخاطب کیا۔۔۔

"ہممم کیا بات ہے ؟۔۔۔۔"

اس نے حیرانی سے شیر زمان اور پھر ہیر کی طرف دیکھا جو  کافی سنجیدہ نظر آرہے تھے۔۔۔۔۔

"امممم ۔۔۔یہاں سٹیج پہ نہیں ہم زرا سائیڈ پہ چل کر بات کر لیں میں زائشہ آپی کو بھی بلا لیتی ہوں آپ دونوں سے ایک   ساتھ ہی بات ہوجائے وہ مناسب ہے۔۔۔"

ہیر نے کہا ۔۔۔

پھر وہ زائشہ کو اپنے ساتھ لیے اسی طرف آئی جہاں شیر زمان حسام کھڑے تھے۔  

"ہمیں آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی ابھی اسی لیے ایسا کرنا پڑا۔۔۔ 

انہوں نے گویا بات کرنے کی تمہید باندھی 

 "جی بتائیں بھائی ؟"زائشہ نے شیر زمان سے کہا ۔۔۔

حسام  بھی حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔کہ وہ دونوں آخر کیا بار کرنے والے ہیں ۔

"حسام میں جانتا ہوں کہ  یہ بات اچانک اس موقع پر کرنا مناسب نہیں ۔۔۔ آرام سے بیٹھ کر کرنی والی بات ہے،مگر اپنی اولاد کی خوشی کے لیے ہمیں ایسا کرنا پڑ رہا ہے،

"تم صاف صاف بتاؤ کہ کیا بات ہے "حسام نے اپنائیت سے پوچھا ۔۔۔

"حسام بھائی اور زائشہ آپی میں  آج آپ سے کچھ مانگنا چاہتی ہوں اور پوری امید ہے آپ انکار نہیں کرینگے بلکہ میری بات کا مان رکھیں گے۔۔۔۔۔"

یہ کہتے ہیر رکی اور ان دونوں    کو ایک نظر دیکھا۔۔۔۔

"ہیر تم بلا جھجھک کہو ۔۔",زائشہ نے کہا 

"وہ میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں کہ آج شیر دل اور رمشاء کا نکاح بھی کر دیں۔شیردل آپ سب کا دیکھا بھالا گھر کا بیٹا ہے،آپ سب جانتے ہیں کہ میرے بیٹے  میں کوئی برائی نہیں ۔۔۔۔۔۔میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسی بات اس طرح اتنی جلدی میں کروں گی ۔مگر کرنی پڑ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔"

حسام اور زائشہ اس کی بات سن کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔۔۔

"گھر کی سب بچیوں کو ہمیشہ میں نے اپنی بیٹی سنہری کی طرح ہی سمجھا ہے ، رمشاء بھی میرے لیے بالکل میری بیٹی جیسی ہے،اسے ہماری یا میرے بیٹے کی وجہ سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی "

"لیکن اتنی جلدی اچانک سے یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔۔۔سب لوگ کیا کہیں گے کہ نجانے ایسا کیا ہوا جو ایسے جھٹ پٹ لڑکی بیاہ دی  "حسام نے افسردگی سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ۔۔۔۔

پہلے ہی وہ رمشاء کا اعیان سے رشتہ ٹوٹ جانے پہ رنجیدہ تھے ۔۔۔

"میں جانتا ہوں بہت مشکل ہے، یوں اچانک اتنا بڑا فیصلہ لینا ۔۔۔حسام دنیا کا تو کام ہے باتیں کرنا ۔وہ کسی حال میں خوش نہیں ہوتی ۔انہیں خوش رکھنے کے لیے کیا ہم اپنے بچوں کی خوشیوں کو داؤ پہ لگا دیں ۔۔۔۔

"میرے بیٹے کی خوشی ہے اس رشتے میں اسی لیے تم سے بات کی ۔۔۔۔رمشاء کو ایک قابل پیار کرنے والا اسکی عزت کرنے والا ہمسفر مل جائے گا ۔بچے ساتھ خوش رہیں گے تو اگر ہم اپنے بچوں کی خوشحال زندگی کے لیے لوگوں کی دو باتیں سن بھی لیں گے تو کیا جائے گا ہمارا ۔۔۔۔"شیر زمان نے اپنے تئیں اسے سمجھانا چاہا۔۔۔۔۔۔۔

زائشہ نے حسام کے شانے پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔حسام نے اسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔۔حسام نے فیصلے پہ پہنچ آہستگی سے حامی بھر لی۔۔۔۔

زائشہ اور ہیر آسودگی سے مسکرا دیں ۔جواب ہاں میں سن کر ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے پھر رمشاء سے بات کر لیں۔۔"

شیر زمان نے حسام سے کہا ۔۔۔

"رمشاء میری مؤدب اور پیاری بیٹی ہے ، مجھے پتہ ہے اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا،اس نے ہر بار اپنے والدین کے کہنے پہ سر جھکایا ہے ،مجھے امید ہے اس بار بھی وہ اپنے بابا کا مان رکھے گی ۔۔۔۔ رمشاء بہت خوش قسمت ہے جسے شیر دل جیسا سلجھا ہوا لائف پارٹنر مل رہا ہے۔۔۔۔۔"

حسام کے چہرے پہ اس فیصلے کے بعد طمانیت تھی۔۔۔اسے اس بات پہ آج یقین آیا کہ رب اگر کسی سے کچھ بہتر واپس لیتا ہے تو وہ اسکی جگہ بہترین عطا کرتا ہے ، بیشک ۔۔وہ بڑا مہربان اور شفیق ہے ،

"چلیں آپ جلدی بات کر لیں رمشاء سے میں باقی سب سے بات کرتی ہوں ۔۔۔۔وہ حسام اور زائشہ سے کہتے ہوئے ہیر تو اپنے بیٹے کی شادی کا سن کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

"جی بابا آپ نے بلایا مجھے ؟"

حسام اور زائشہ دونوں اس وقت حویلی کے نیچے والے پورشن کے ایک کمرے میں موجود تھے ۔رمشاء ان کا پیغام ملتے ہی اندر آئی اور ان سے پوچھا ۔۔۔

"جی میری بیٹی کو میں نے ہی بلایا تھا "حسام نے آگے اپنا ہاتھ بڑھایا ۔تو دروازے میں رکی ہوئی رمشاء اپنی لانگ میکسی سنھبالتے ہوئے ان کے پاس آئی اور اپنے بابا کے ہاتھ پہ اپنا رکھا ۔۔۔

اور صوفے پہ ان کے ساتھ بیٹھ گئی ۔۔۔۔زائشہ کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی ۔۔۔

حسام کے ہاتھ میں رمشاء کا ہاتھ تھا ۔۔۔انہوں نے اسکے ہاتھ پہ اپنا دوسرا ہاتھ بھی رکھ دیا ۔۔۔۔

"مجھے اپنی بیٹی سے ایک بات پوچھنی ہے ۔۔۔۔

"جی بابا ضرور پوچھیں۔ "وہ دھیمے لہجے میں بولی۔

"بابا کی پری کے لیے بابا نے ایک فیصلہ لیا ہے ،میری بیٹی کو منظور ہوگا ۔۔۔اور اگر میرا فیصلہ پسند نہیں آیا تو بلا جھجھک مجھے بتا دینا بچے ۔۔۔میں تم سے کوئی زور زبردستی نہیں کرنا چاہتا ۔۔ہمارے مذہب میں بھی لڑکی کی رضامندی کو اہمیت دی گئی ہے ۔۔۔

رمشاء نے انکی بات پہ چونک کر انکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔

"بابا آپ کو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت کب سے پڑنے لگی ۔۔۔۔جو اپنی جان سے زیادہ اپنی بیٹی کو پیار کرے بھلا وہ کبھی اپنی جان کے لیے کوئی برا فیصلہ لے سکتا ہے ؟؟؟

"مجھے اپنے بابا پہ فخر ہے،آپ حق رکھتے ہیں ۔میرے لیے کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے کا ۔۔۔۔آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر"وہ پیار بھرے انداز میں بول کر ان کا مان بڑھا گئی ۔۔۔۔

"اپنے بابا کا غرور ہو تم "حسام نے رمشاء کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔۔۔۔

رمشاء نے نم آنکھوں سے اپنی مما زائشہ کو دیکھا تو وہ چلتے ہوئے ان دونوں کے پاس آئیں ۔

اور رمشاء کے سر پر ہاتھ رکھے باعث مسرت رونے لگیں ۔۔۔۔

اس کے خوشحال مستقبل کے لیے دل میں دعا گو ہوئی ۔۔۔

"زائشہ تم رمشاء کے سر پہ دوپٹہ اوڑھا دو ۔۔۔۔

میں شیر زمان اور باقی سب کے ساتھ مولانا صاحب کو اندر لے کر آتا ہوں ۔"

حسام کہتے ہوئے رمشاء کا گال پیار سے تھپتھپاکر کر باہر نکل گیا۔

کچھ ہی دیر میں مولانا صاحب کے ساتھ باقی سب بھی اندر آئے ۔۔۔۔

"رمشاء بنت حسام آپ کو شیردل ولد شیر زمان بعوض سکہ رائج الوقت پچاس لاکھ روپے اپنے نکاح میں قبول ہے!!!

گھونگھٹ تلے رمشاء کے چہرے پر شیر دل کا نام سن کر ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔۔۔۔

اسکی آنکھوں کے سامنے شردل کا سنجیدہ چہرہ لہرایا ۔۔۔

اس نے تو کبھی خیال میں بھی نہیں سوچا تھا۔بقول اس کے ،،، سنجیدہ مزاج شیردل ،،،سے اس کی شادی ہوگی ۔۔۔۔

مولانا صاحب نے دوبارہ اپنے الفاظ دہرائے تو پاس کھڑے حسام نے رمشاء کے جھکے ہوئے سر پہ اپنا مشفق ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔

رمشاء نے گہری سانس کھینچ کر آنکھیں موند لیں۔۔۔

پھر پھڑپھڑاتے لبوں سے" ق۔۔۔قب۔۔ قبول ہے "کہا ۔۔۔۔

تیسری بار پوچھنے پہ جواب دیا تو مولانا صاحب نے نکاح کے پیپرز اسکے سامنے کیے تو اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے پین پکڑا ۔۔۔۔اس کے آنسو ٹپ ٹپ  نکاح نامے کے پیپرز پہ گرے ۔۔۔۔۔منظر دھندھلانے لگا ۔۔

اس نے نکاح نامے  پہ اپنے دستخط کردئیے ۔۔۔۔

دونوں طرف سے ایجاب و قبول کا فریضہ انجام دیا گیا تو چاروں طرف مبارکباد کا شور بلند ہوا ۔۔۔۔

سب شیردل کو گلے لگائے اسے اس اچانک ہونے والے نکاح کی مبارکباد پیش کر رہے تھے ۔۔۔جبکہ وہ خوشدلی سے دھیما سا مسکراتے ہوئے سب سے وصول کر رہا تھا ۔۔

نکاح کے بعد  زائشہ اور ہیر دونوں رمشاء کو لے کر سٹیج کی طرف آئیں ۔۔۔

تو امرام شیر نے شیر دل کو اشارہ کیا تو وہ بھی سٹیج کی طرف آیا ۔۔۔۔

شیردل نے اس کے پاس آتے ہی  اپنی چوڑی ہتھیلی اسکی طرف بڑھائی تو رمشاء نے بلیو شیفون کے باریک دوپٹے کہ گھونگھٹ سے زرا کی زرا نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔

شیردل کی نظروں کے بدلے تیور دیکھ کر وہ سٹپٹاتے ہوئے وہ سرعت سے نظریں جھکا گئی ۔۔۔

ہیر نے رمشاء کا ہاتھ پکڑ کر شردل کے ہاتھ پہ رکھا تو شیردل نے اسکے نازک سے ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ میں قید کر لیا۔۔۔۔

اور قدم سٹیج کی طرف بڑھائے ۔۔۔

دونوں ایک ساتھ سٹیج پہ بیٹھے ۔۔۔

فوٹو گرافر نے ان کے کپل کی پکچرز کلک کرنے کی کوشش کی تو انہیں پوز بنانے کے لیے کہا  ۔۔۔۔

رمشاء کو اپنی کمر کے گرد شیردل کا سرسراتا ہوا ہاتھ محسوس ہوا تو وہ کپکپا کر رہ گئی ۔۔۔۔

شیردل کے ملبوس سے پھوٹتی مردانہ پرفیوم کی محسور کن مہک اسے اپنی سانسوں میں اترتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ۔۔۔۔

ایک لمحے میں وہ اسکے کتنے قریب بیٹھ گیا تھا ،اسکے وجود سے ٹچ ہوتا ہوا اسکی جان نکال رہا تھا ۔۔۔۔

کھانے کا وقت ہوا تو سب پرتکلف کھانا کھانے میں مشغول ہو گئے۔۔۔کیمرہ مین کے جاتے ہی اس نے رمشاء کو ری لیکس کرنے کے لیے ان دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ بنایا ۔۔۔

رمشاء نے اسکے پیچھے ہوتے ہی سکون بھرا سانس لیا ۔۔۔

مگر آگے کا سوچ سوچ کر اسکی جان ہوا ہو رہی تھی ۔۔۔

بالآخر تمام رسموں کے بعد رخصتی کا فریضہ انجام دیا گیا۔۔۔۔

ہیر اپنے ساتھ رمشاء کو اندر لے گئی تاکہ وہ ڈریس تبدیل کرلے ۔۔۔۔رخصتی کی رسم کے لیے ۔۔۔۔

ہیر نے اپنی بہو کے لیے ایک بیش قیمتی ڈریس خرید رکھا تھا ۔۔۔اس نے سوچا تھا کہ ذخرف کو دے گی ۔مگر یہ ڈریس شاید رمشاء کی قسمت کا تھا اس نے وہ ڈریس رمشاء کو دیا تاکہ وہ تبدیل کرلے پھر رخصتی کی رسم ہو ۔۔۔

سب سے پہلے منساء کی رخصتی کی رسم ادا کی گئی ۔۔۔۔

احتشام اسے اپنے گاڑی میں لیے   گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔۔۔

پھر ہانیہ کی رخصتی ہوئی تھی ۔

"بھائی آپ نے کچھ کیا "؟

شیردل جو لاونج سے گزر کر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا فریش ہونے ،،،زخرف کی بات سن کر وہیں رک گیا ۔۔۔۔

"میں کر رہا زخرف تم پریشان نا ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

اس نے تسلی آمیز انداز میں کہا۔

"زخرف !!!

"یہ باتیں بڑوں کی سمجھانے والی ہیں،مگر میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں ،آج کل زمانہ بہت خراب ہے ،کہیں بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے،

شاپنگ مالز میں ہڈن کیمرا لگے ہوتے ہیں،لڑکیاں بے دھڑک ہوکر وہاں کے چینجنگ رومز میں ڈریس تبدیل کرتی ہیں ،

انہیں معلوم نہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے ،اور آگے جا کر کیا ہوگا ان کے ساتھ ۔۔۔۔لڑکی کی عزت نازک آبگینے کے مانند ہوتی ہے،ایک گزند بھی پہنچے تو دوبارہ سنوارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے،

اس دن کسی نے شادی ہال کے ڈریسنگ روم میں بھی ہڈن کیمرا لگا رکھا تھا ،

میں نے وہاں کی انتظامیہ سے بات کی مگر وہ اپنی غلطی ماننے سے انکاری ہیں ۔

"ایسے کون مانتا ہے ؟"

"کوئی بھی نہیں "

"بچیوں کو اسطرح کی جگہ پہ احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔۔۔

"میں جانتا ہوں اس میں رمشاء کی کوئی غلطی نہیں جو بھی ہوا انجانے میں ہوا ۔۔۔۔لیکن 

"اگر میں پولیس کے پاس جاؤں اس ہوٹل کی انتظامیہ کے خلاف رپورٹ درج کرواؤں تو مجھے ان کو ثبوت کے طور پر وہ نیوڈ ویڈیو دینی ہوگی ۔۔۔۔

میں مزید رمشاء کی بدنامی نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔"

وہ اٹل انداز میں بولا ۔۔۔۔

اچانک کسی کے دھڑام سے گرنے کی آواز سن کر شیر دل اور زخرف دونوں نے بیک وقت پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔تو ان دونوں کی نظریں ساکت رہ گئیں۔۔۔۔۔

رمشاء جو ڈریس پہن کر ہیر کو دکھانے آ رہی تھی کہ یہ ڈریس ٹھیک لگ رہا ہے یا نہیں ۔۔۔۔اس نے شیردل اور زخرف کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو سن لی تھی ۔۔۔۔

اپنے بارے میں سوچتے ہوئے ۔۔۔۔اس پہ صدمے کی کیفیت طاری ہوگئی۔۔۔اور وہ لہراتی ہوئی زمیں بوس ہوئی۔۔۔۔

شیردل نے زخرف کی طرف فق نگاہوں سے دیکھا۔۔۔

زخرف کی بھی وہ حالت تھی ۔۔۔کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔۔

دونوں یکلخت اسکے بیہوش وجود کی طرف لپکے ۔۔۔۔

"زخرف رمشاء کہاں ہے "؟

ہیر جو رمشاء کو رخصتی کی رسم کے لیے لینے آئی زخرف کو سامنے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

کیونکہ ہیر اسے جس کمرے میں تیار ہونے کے لیے چھوڑ کر گئی تھی وہ کمرہ خالی تھا ۔۔۔

"وہ۔۔۔وہ ۔۔۔رمشاء ۔۔۔۔

وہ بوکھلا گئی ۔۔۔

"یہ ۔۔۔وہ ۔۔۔وہ کیا ہے ،ذخرف مجھے ٹھیک سے بتاؤ کدھر ہے رمشاء باہر سب انتظار کررہے ہیں ،ہیر نے چہرے پہ پریشان کن تاثرات سجائے کہا۔۔۔۔

"اسے شیردل بھائی لے گئے ؟؟؟

وہ تیزی سے بولی ۔۔۔

"کیا ؟؟؟"

"شیردل !!!!

"وہ کیوں لے گیا ؟؟"

ہیر حیران کن سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔۔

"زخرف میں رمشاء کو پچھلے دروازے سےاپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں ،اگر رمشاء ہوش میں آگئی تو سب کے سامنے خود پہ قابو نہیں رکھ پائے گی ،اس کے ردعمل سے جو سب سے چھپا ہوا ہے وہ منظر عام پہ آجائے گا ،ابھی یہ اپنے حواسوں میں نہیں ،کچھ بھی کرسکتی ہے،"

شیردل نے فکرمندی سے رمشاء کی طرف دیکھ کر کہا جو اس وقت شیر دل کہ بانہوں میں تھی ،اسکی ایک بازو بے جان سی جھول رہی تھی ۔

"مگر بھائی رمشاء ؟؟؟

"تم اس کی فکر مت کرو میں ہوں نا سب سنھبال لوں گا "

"پر بھائی !!! سب آپ کے بارے میں پوچھیں گے تو کیا کہوں گی "؟زخرف نے الجھن کا شکار ہوئے استفسار کیا ۔۔۔۔اور رمشاء کی جھولتی ہوئی بازو کو اس پہ رکھا ۔۔۔

"کہہ دینا میں رمشاء کو اپنے ساتھ لے گیا "

کہتے ہی وہ تیزی سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔ذخرف کے دماغ میں ابھی کچھ دیر پہلے کی باتیں گھوم رہی تھیں ۔مگر اس نے ساری بات اپنے تک ہی محدود رکھی ۔

"پہلے تو کبھی شیردل نے ایسا اتاولے پن کا مظاہرہ نہیں کیا آج کیا ہوگیا اسے رخصتی کے بعد رمشاء نے اسکے ساتھ ہی ہونا تھا ۔یہ کس قسم کی حرکت کی اس نے "ہیر نے دل میں سوچا ۔۔۔

"سب کے سامنے سبکی کروائے گا یہ لڑکا ۔۔۔"

"ہیر کہاں ہے،رمشاء ؟"لاکیوں نہیں رہی اسے باہر ؟"زائشہ نے آکر پوچھا اسکے پیچھے حسام بھی تھا ۔وہ دونوں رمشاء کی رخصتی کی رسم ادا کرنے کے لیے اندر آئے تھے ۔

"زائشہ آپی آپ کو تو پتہ ہے،آج کل کے بچوں کا ،لگتا ہے، بچوں نے کوئی فن کرنے کا پروگرام بنا لیا ہوگا ۔۔۔۔شیردل رمشاء کو اپنے ساتھ لے گیا ۔۔۔۔

ہیر نے جھجھکتے ہوئے چہرے پہ زبردستی کی مسکراہٹ سجائے بتایا ۔۔۔

"ایسے کیسے خودی رخصتی کروا لی ۔۔۔۔"؟

حسام کا لہجہ پہلی بار زرا تلخ ہوا ۔۔۔۔

"لگتا ہے وہ اپنے چھوٹے دادا ذمارے پہ چلا گیا ہے،انہوں نے بھی تو خودی رخصتی کروا لی تھی ۔

ضامن نے آکر ٹکڑا لگایا ۔۔۔۔

سب وہ بات یاد کر کہ مسکرانے لگے ۔۔۔ماحول میں چھائی ہوئی سنجیدگی یکدم مسکراہٹوں میں بدل گئی ۔۔۔۔

ماحول ہلکا پھلکا ہوگیا ۔۔۔۔

حسام اور زائشہ دونوں گھر کی طرف نکل گئے ۔۔۔۔۔کیونکہ وہاں منت اور ابتسام اسکی دوسری بیٹی منساء کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے ۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

منت اور ابتسام نے اپنی بہو کا بہت اچھے سے استقبال کیا ،منت نے منساء اور احتشام کی بلائیں لیں اور صدقہ اتارا ۔چند ایک رسموں کی ادائیگی کے بعد زخرف اپنی بھابھی کو  احتشام کے کمرے میں لے آئی ۔۔۔

"لیجیے بھابھی جی اب کرئیے ہمارے بھیا مگر اپنے سئیاں کا انتظار ۔۔۔وہ مسکرا کر اسے چھیڑتے ہوئے بولی ساتھ ساتھ اس کا کامدار لہنگا بستر پہ پھیلا رہی تھی ۔۔۔

منساء نے اسے گھوری ڈالی ۔۔۔

مگر زخرف بنا اسکی گھوری کی پرواہ کیے پٹ پٹ اپنی زبان کے جوہر دکھا رہی تھی ،

"بہت چپ کر رہ درد برداشت کرلیا ،اپنی کم مائیگی کااحساس،میرے رونے سے کیا وہ مجھے مل جائے گا نہیں نا ۔۔۔تو کیوں نا ہنسی خوشی رہ کر اسے پانے کی تمنا کروں ۔قسمت میں اسے لکھوا کر رہوں گی میں"یہ اس کی سوچ تھی،اور اٹل ارادے  ۔۔۔جو اس نے وقت کے ساتھ بدل ڈالے تھے اور اب اس پہ عمل پیرا بھی تھی ۔۔۔۔

"بھابھی جی میرے لیے بھی دعا کیجیے گا ۔۔۔اللہ ہمارے بھی نصیب میں سئیاں کا ساتھ لکھ دے "

وہ کمرے کا دروازہ بند کرنے سے پہلے اپنا من موہنا چہرہ نکال کر بولی تو ۔۔۔۔خاموش بیٹھی منساء کے چہرے پہ دھیمی سی مسکان امڈ آئی ۔۔۔

وہ بستر کے درمیان لہنگا ارد گرد پھیلائے بیٹھی تھی۔ہاتھ گود میں رکھے وہ انگلیاں چٹخا رہی تھی۔بیٹھ بیٹھ کر کمر درد کرنے لگی  لیکن وہ اب بھی سیدھی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔دل ڈر کے مارے دھک دھک کر رہا تھا۔کل جو احتشام نے کال پہ باتیں کیں تھیں انہیں یاد کیے منساء کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے تھے۔۔۔۔تقریب کے دوران بھی وہ مسلسل اسکا ہاتھ تھامے ہوئے تھا ۔احتشام کے بدلے رومانوی انداز اسکی جان نکال رہے تھے۔۔۔نجانے کتنی ہی دیر وہ اضطراب میں گھری سر جھکائے بیٹھی رہی تھی۔پھر آخر کار دروازہ کھلا تھا۔اس نے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ چہرہ اس قدر جھکا لیا تھا کہ ٹھوڑی سینے سے لگ گئی تھی۔احتشام نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر آہستہ سے چلتا ہوا اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

منساء نے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔

مگر سامنے سے کوئی آواز نا سنی تو ۔۔۔

اس نے آنکھیں کھول کر کن اکھیوں سے احتشام کو دیکھا۔وہ بالکل اس کے سامنے کھڑا تھا۔منساء اس کا چہرہ تو نہیں دیکھ سکی البتہ اندازہ کر رہی تھی کہ وہ اسے خمار زدہ نظروں سے گھور رہا ہے۔لیکن وہ کچھ بول کیوں نہیں رہا؟اسے اب یہ ٹینشن لگ گئی۔پھر یکدم اس کے زہن میں جھماکا ہوا۔کہیں وہ اس کے بیڈ پر بیٹھنے پر تو غصے نہیں ہو گیا۔اس نے کہا تھا کہ اس کے کمرے میں اس کا راج چلتا ہے۔یہ کمرہ تو احتشام کا ہے،کہیں وہ مجھ پہ پہلے ہی دن غصہ نا ہو جائے ۔۔۔مما نے تو سمجھایا تھا کہ شوہر کی سب باتیں ماننی ہیں،جیسا وہ کہے ویسا ہی کرنا ۔۔۔۔

"ہائے اللہ اب کیا کروں "وہ دل میں سوچ کر انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔

پھر کچھ سوچتے ہوئے ، ایک جھٹکے سے بستر سے نیچے اتر کر اس کے سامنے ہی سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔پھولوں کی پتیاں جو بیڈ پہ ہارٹ شیپڈ میں سجی تھیں۔ اس کے بستر سے اٹھنے کی وجہ سے نیچے گر گئیں ۔

احتشام اس کے یوں اچانک اٹھنے پر حیران ہوا تھا۔اگلے ہی پل احتشام نے اس کی ٹھوڑی کو پکڑ کر چہرہ اونچا کیا۔

اسکی آنکھیں بند تھیں ،مگر گھنی مژگانیں گالوں پہ لرزتی ہوئی انہیں چھو رہی تھیں ۔۔۔۔

احتشام اسکی دلکش پلکوں کے رقص کو دیکھ کر مسکرایا ۔۔۔۔

 پھر اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتا اس کے چہرے پر جھکا تھا۔اپنے ہونٹوں پر احتشام کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر منساء کے جسم میں ایک سنسی کی لہر دوڑ گئی تھی۔دل رکنے لگا تھا۔اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں لیکن احتشام پر اس کی حالت کا کوئی اثر نہیں تھا۔وہ اس کی گرفت میں سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگی تھی ۔کچھ دیر بعد منساء کی بوجھل سانسیں محسوس کیے وہ ہوش میں آیا تھا اور جلدی سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔منساء اسکی بے خودی دیکھے گرتے گرتے بچی تھی۔اس کا چہرہ اتنا سرخ ہو رہا تھا جیسے قندھاری انار۔پیشانی پر پسینہ چمکنے لگا تھا دھڑکنوں کی آواز اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی ۔۔۔۔

احتشام نے اس کے نا۔۔نا کرنے کے باوجود بھی  اسے جیولری اتارنے میں مدد کی۔۔۔

"منساء !!!وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔

منساء نے اپنی لرزتی ہوئی پلکوں کو اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔

"میں ہمیشہ تمہیں خوش رکھوں گا،کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا تم پہ ،تمہاری ہر خوشی کو اہمیت دوں گا،تمہاری ضرورتوں کا خیال رکھوں گا،تمہیں پیار اور عزت دوں گا ۔بدلے میں مجھے صرف تمہارا پیار ،تمہارا ساتھ ،اور وفا چاہیے ،،،،

"ملے گی "؟

اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو منساء نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اسکی ہتھیلی پر اپنا ہاتھ دھر دیا ۔۔۔

احتشام نے اسے کھینچ کر خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔

منساء نے آسودگی سے اپنا آپ اپنے محرم کے حوالے کردیا ۔۔۔

ان دونوں کی نئی زندگی کے لیے چاند تارے بھی دعا گو تھے ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

آیت اور ماھی دونوں ظالم بہنوں کا کردار ادا کرتی ہوئیں اعیان کے کمرے کے دروازے کے باہر پہرہ دار بنی کھڑی تھیں ۔

اعیان نے اپنے کمرے کے دروازے سے انہیں ہٹانے کے لیے منہ مانگی قیمت دی۔۔۔۔

 اندر جانے کے لیے ۔۔۔کیونکہ وہ دونوں اسے کچھ لیے دئیے بغیر اندر نہیں جانے دے رہی تھیں ۔۔۔۔

ہانیہ کی بیٹھ بیٹھ کر کمر اکڑ گئی تھی ۔ باہر انکی لینے دینے کی لڑائی بمشکل ختم ہوئی ۔۔ جب آہستہ سے دروازہ کھلا ۔۔۔۔اسکی نیند سے خمارزدہ آنکھوں میں شرم گھبراہٹ پھیل گئی تھی ۔۔۔۔اور اعیان کے دروازہ بند کرنے پر وہ سمٹ سی گئی خود میں ۔۔۔۔

اعیان آہستہ سا قدم اٹھائے خوشی سے سرشار بیڈ پر آکر سلام کرتا اسکے مقابلے بیٹھا ۔۔۔۔ 

جس کا جواب ہانیہ نے آہستگی سے دیا ۔۔

کیسا لگ رہا ہے مسسز اعیان بن کر ؟؟؟۔۔۔۔اسنے خاموشی اور اسکی گھبراہٹ کو دور کرنا چاہا ۔۔۔۔تو خوشدلی سے بولا 

اعیان آپ نے اتنی دیر لگادی قسم سے مجھے تو بہت نیند آرہی ہے،ایک تو اتنا بھاری ڈریس ۔۔۔اوپر سے یہ جیولری ۔۔۔صبح سے اکڑ کر بیٹھے ہوئے میری تو کمر تختہ ہوگئی ۔۔۔۔

 "میں چینج کرنے لگی ہوں اب بس "

وہ بے دلی سے کہتے ہوئے اس سے پہلے کہ بستر سے نیچے اترتی اعیان نے اسے جانے سے روکا اور اسکی کلائی پر گرفت جما کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔وہ کچی ڈال کے مانند اس کے سینے سے آ لگی ۔۔۔

"ابھی تو میں نے تمہیں ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں اور تم ۔۔۔وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"ساری زندگی پڑی ہے ،دیکھتے رہنا "

"آج کی رات جو دیکھنے کا موقع ہے وہ ساری زندگی نہیں ملتا "وہ کہتے ہی اسے اپنے ساتھ لیے بیڈ پہ گرا ۔۔۔

 ہانیہ اس کے اس اچانک حملے پر بوکھلا سی گئی ۔۔۔۔بے ساختہ منہ سے نکلا ۔۔۔۔

اعیان  ۔۔۔۔

جی مسسز اعیان  ؟؟۔۔۔وہ کہتے اس پہ جھکنے لگا تو ہانیہ گھبرائے بولی ۔۔۔

اعیان  مم۔۔میری منہ دکھائی ۔۔۔وہ خود کو بمشکل اسکے حصار سے نکال کر بولتی اس سے دورہونے لگی ۔۔۔

اففف یار میں تو بھول گیا ۔۔۔۔وہ فورا اٹھتے ہوئے پریشان آواز میں بولا ۔۔۔

کیا ؟؟ آپ میری منہ دکھائی نہیں لائے ۔۔حد ہوگئی ویسے  ۔۔۔۔وہ پہلے حیرت پھر غصے سے بولی۔۔

میں نے کب کہا نہیں لایا میں تو کہہ رہا تھا دینا بھول گیا۔۔۔ پر اب خیر کس بات کی منہ دیکھائی ۔۔۔یہ منہ تو میں نے بہت پہلے سے دیکھ رکھا ہے اس میں انوکھا کیا ہے  ۔۔۔

وہ شرارت سے بولا۔۔۔

"ٹھیک ہے میرے پاس بھی تب ہی آنا جب منہ دکھائی لائیں گے "

وہ مصنوعی خفگی سے کہتے ہوئے وہاں سے اٹھنے لگی ۔۔۔

"یہ لیجیے مسسز اعیان آپکی منہ دکھائی ۔۔۔"

اعیان نے کہتے ہوئے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل میں سے ایک میرون رنگ کا مخملیں کیس نکال کر اس میں سے ایک نازک سا پینڈٹ نکالا ۔۔۔۔پھر اسے ہانیہ کی گردن کی زینت بنا دیا۔۔۔۔

ہانیہ اپنی پوروں سے اسے چھو کر دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"کیسا لگا ؟اعیان نے اسکی گردن پہ اپنے لب رکھے پوچھا ۔۔۔

"بہت ۔۔۔اچھا ہے "وہ سادگی سے بولی ۔۔۔۔

"تم سے کم !اعیان نے اسے اپنے حصار میں لیا اور اس پہ اپنی شدتیں لٹانے لگا ۔۔۔

"بس اعیان !!! 

ہانیہ نے اسے خود سے پیچھے دھکیلا۔۔۔۔

"کیا ہوا ہانیہ ؟"

"یار ہم لوگ اب شرعی حیثیت سے میاں بیوی ہیں ،اس میں یہ سب تو چلتا ہے ،"

اعیان کو اس کے جھٹکنے پہ غصہ تو بہت آیا مگر وہ پہلی ہی رات کوئی بدمزگی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔اسی لیے خود کو نارمل کیے وہیں سے سلسلہ دوبارہ شروع کیا جہاں سے ختم ہوا تھا ۔۔۔۔

"ہنی تمہیں بچے پسند ہیں ؟

وہ اسکی ستواں ناک کو ہلکا سا دبا کر پیار سے پوچھنے لگا ۔۔۔

"اعیان میری بات ایک بار صاف صاف سن لو دھیان سے میں بار بار نہیں کہوں گی ۔۔۔

"میں ابھی بچے پالنا نہیں چاہتی ۔۔۔۔تین  چار سال تک ہم گھومیں پھریں گے ۔خوب انجوائے کریں گے ۔۔۔ویسے بھی میں نے جم جوائن کیے کرنی محنت سے اپنا فگر مینٹین کیا ہے ۔۔۔سب خراب ہو جائے گا "

ہانیہ کی بے سروپا بات سن کر یکلخت اعیان کی پیشانی بل نمودار ہوئے ۔۔۔۔

اسے ہانیہ کی بے سروپا بات سن کر اپنی ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

"ہانیہ میرے ساتھ فضول باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ،تمہیں پتہ ہے نا کہ صبح ہمارا ولیمہ ہے،جب ہمارا رشتہ حلال ہوگا اسی سلسلے میں ہم ستر لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں ،

اب تم اتنی بھی نا سمجھ نہیں ہو "کہتے ہی اس نے اپنی شیروانی کے بٹن کھولتے ہوئے اسے صوفے پہ اچھال دیا ۔۔۔

ہانیہ پھٹی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

"اعیان تم میری مرضی کے بغیر ایسا نہیں کرسکتے "

"مسسز اعیان اور آپ کو کیوں لگتا ہے کہ میں آپکی بات سنوں گا ۔۔۔۔ابھی جورو کا غلام بننے کے دن نہیں آئے ۔۔۔۔آپ نے میرا ساتھ دیا اور میری بات مانی تو شاید کبھی زندگی میں ایسا وقت آ جائےگر فی الحال نہیں ۔۔۔۔۔

کہتے ہی اس نے ہانیہ جو سہمی ہوئی بیڈ کے کراؤن سے لگی ہوئی تھی اس کو ٹانگ سے کھینچ کر بستر پہ گرایا ۔۔۔

"اعیان نہیں میں چیخوں گی "

اس نے دھمکی آمیز انداز میں کہا۔۔۔۔

"اس کا علاج بھی ہے میرے پاس ۔۔۔۔اس نے ہانیہ کا دوپٹہ اس کے منہ پہ باندھ دیا ۔۔۔

"اب جی بھر کر چیخو۔۔۔چلاو ۔۔۔۔

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔

ہانیہ دائیں سے بائیں نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔

مگر اعیان نے اسکی ایک نا سنی ۔۔۔۔

کچھ وقت گزر گیا ۔۔۔۔تو ۔۔۔۔

"دفعہ ہوجاو میرے کمرے سے 

You bloody used girl "!!!!

اعیان نے اسے بیڈ سے دھکا دے کر نیچے فرش پر پھینکا ۔۔۔

وہ دھڑام سے ننگے فرش پہ گری ۔۔۔۔

فق نگاہوں سے اپنے مجازی خدا کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ جس نے پہلے اسے اپنی مردانگی دکھائی اور اب اس پہ یہ گھٹیا الزام لگا رہا تھا ۔۔۔

دھوکا دیا تم نے مجھے !!!!

"کس کے ساتھ رشتہ بنا چکی تھی تم ؟؟؟.

ہانیہ نے اپنے منہ پہ بندھا دوپٹہ کھولا ۔۔۔

"یہ ۔۔۔ک۔۔۔کیا بکواس کر رہے ہو تم ؟؟؟

"بکواس میں کر رہا ہوں یا تم ۔۔۔۔"؟

اعیان بستر سے اتر کر اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑتے ہوئے غرایا ۔۔۔۔

"آہ ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔ہ۔ہ۔۔اس کے پھڑپھڑاتے ہوئے لبوں سے سسکی برآمد ہوئی ۔۔۔

"Ayyan !!!

Leave me ....

مجھے درد ہو رہا ہے "وہ اسکے مٹھی سے اپنے بال آزاد کروانے کے لیے جھٹپٹاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"چھوڑ ہی رہا ہوں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔کیونکہ تم جیسی استعمال شدہ لڑکی میرے قابل ہے نہیں ۔۔۔۔

"بولو کس کے ساتھ منہ کالا کرچکی تھی ۔۔۔مجھ سے پہلے ۔۔۔۔وہ اسکی تھوڑی کو اپنے ایک ہاتھ میں جکڑتے ہوئے دھاڑا ۔۔۔۔

"اچھا ۔۔۔۔تو اسی لیے مجھے منع کر رہی تھی کہیں تمہارا راز نا فاش ہوجائے ؟

"ارے تم تو بہت شاطر عورت نکلی ۔۔۔۔۔

"مگر اعیان کو بیوقوف بنانا اتنا آسان نہیں "

اعیان نے اسے جھٹکا دے کر چھوڑا تو اس کا سر پیچھے موجود دیوار سے جا لگا ۔۔۔

وہ اپنے چکراتے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر رہ گئی۔۔۔دھندھلائی ہوئی نظروں اسے دیکھتے ہوئے ۔وہ دونوں بازوؤں سے خود کو سمیٹتی ہوئی دیوار کے ساتھ لگی کپکپا رہی تھی  ۔۔۔۔

"اعیان تم کیسے مجھ پہ جھوٹھا الزام لگا سکتے ہو ؟؟؟

وہ بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

اسے لگا کہ آج اس کی محبت کی دھجیاں اڑا دی گئی ہوں ،اسکے شوہر کے الفاظ خنجر بن کر اسکے سینے میں پیوست ہوئے ۔۔۔۔جو شاید زندگی بھر اسکی روح کو بھنبھوڑ کر رکھنے والے تھے ۔۔۔

وہ جیسے اسے غصے اور بے یقینی سے اسے گھور رہا تھا اسے ایسا لگا کہ آج وہ جیتے جی مر گئی تھی ،

"ٹھیک ہے تمہیں لگتا ہے نا کہ میں تم پہ جھوٹھا الزام لگا رہا ہوں تو چلو میرے ساتھ آج ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا "

اعیان نے کبرڈ کھول کر ایک سادہ سا ڈریس ہانیہ کی منہ کی طرف اچھال دیا اور خود واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

گھر میں سب سو چکے تھے ،اعیان نے گاڑی نکالی اور 

کچھ ہی دیر میں وہ دونوں اعیان کے ہی ہسپتال میں تھے ،وہاں اعیان کے جاننے والی ایک ماہر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر عینی شاہ موجود تھیں ،جو نائٹ شفٹ کر رہی تھیں ۔

"ڈاکٹر ان کا چیک اپ کروانا ہے،

"کس سلسلے میں ؟میرا مطلب مسلہ کیا ہے "

انہوں نے اپنے ماہرانہ پیشہ ورانہ انداز میں پوچھا ۔۔۔

پہلے تو اعیان کچھ دیر کے لیے خاموش رہا پھر گہری سانس لی۔۔۔اور سر جھکائے ہچکیوں سے روتی ہوئی ساتھ والی چئیر پہ بیٹھی ہوئی ہانیہ کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔۔۔

"ڈاکٹر چیک کریں کہ یہ کب سے ۔۔۔۔۔

اس نے اپنی بات ڈاکٹر کے سامنے رکھ دی ۔۔۔۔

ڈاکٹر عینی شاہ اپنی جگہ سے اٹھی اور ہانیہ کے پاس آئیں ۔۔۔

"آئیں آپ میرے ساتھ میں آپ کا چیک اپ کرلیتی ہوں "

وہ ہانیہ کو اپنے ساتھ لے گئیں ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ پردے کے پیچھے سے ہانیہ کو اپنے ساتھ واپس لائیں ۔۔۔۔

"دیکھیں ڈاکٹر اعیان آپ بیشک آئی سپیشلسٹ ہیں،مگر کئی بار آنکھوں دیکھا بھی سچ نہیں ہوتا ،

کئی وجوہات ہوتیں ہیں ،جسے کوئی بھی سخت فیصلہ لینے سے پہلے جاننا ضروری ہوتا ہے ،

ہانیہ ڈاکٹر کو اعیان کے بارے میں بتا چکی تھی کہ وہ اسے کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔

اس نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ میں نے خود کو ٹھکرایا ہوا محسوس کیا، اور مجھے ایسے لگا جیسے میں ایک ملزم ہوں جو بس فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔ شادی سے پہلے ہم بہت ساری چیزوں کے بارے میں بات کرتے رہتے تھے، حتیٰ کہ اپنی شب عروسی کے بارے میں بھی بات کرتے تھے۔ وہ رات جو ہماری زندگی کی بہترین رات ہونا تھی۔‘

’میرا خیال تھا کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن یہ تمام چیزیں اس وقت یکدم ختم ہو گئیں جب اس کے خیال میں ’کنوار پن کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی۔‘

اب سوں سوں کرتی ہانیہ سر جھکائے خاموشی سے بیٹھی تھی ۔۔۔۔

"آپ کو ایسا کیوں لگا کہ آپکی بیوی کنواری نہیں ہے "ڈاکٹر نے سنجیدگی سے سامنے بیٹھے اعیان سے سوال کیا ۔۔۔

"There was no bleeding"

 "وہ بلا جھجھک بولا ۔۔۔۔

دیکھیں مسڑ اعیان !! اگرچہ یہ باتیں ایک عورت کسی مرد سے کرتی ہوئی آکوورڈ محسوس کرے گی مگر میرا پیشہ کی ایسا ہی کہ مجھے آپ کو ہر بات کھل کر بتانی پڑے گی ۔

آج کل ہمارے معاشرے میں طلاق عام ہوگئی ہے،

ابھی چند دن شادی کو نہیں گزرتے اور میاں بیوی میں طلاق ہوجاتی ہے،یہ اسی طرح کے معاملات ہوتے ہیں ،جو لڑکیاں کسی کو بتا نہیں سکتیں ۔۔۔اور مرد ان پہ الزام لگا کر انہیں چھوڑ دیتے ہیں ،لڑکیاں ایسی باتیں نا تو اپنے والدین سے کر سکتی ہیں اور نا کسی اور سے ۔۔۔۔اور وہ معاشرے میں سب کی نظر میں بری بن جاتی ہیں ،

حالانکہ ان بیچاریوں کا قصور بھی کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔مگر کیسے وہ اتنی ڈھکی چھپی بات کسی کو بتائیں گی ۔۔۔۔

لوگ تو لڑکیوں کو ہی برا سمجھتے ہیں ،کہ ضرور اسی کی کوئی غلطی ہوئی ہوگی جو اسے جاتے ہی طلاق ملی ۔۔۔۔

میں مردوں کو برا نہیں کہہ رہی ۔۔۔بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ مردوں میں تعلیم کی کمی ہوتی ہے ،وہ ظاہری طور پہ سب دیکھ کر جلدبازی میں فیصلہ لے لیتے ہیں ۔جیسا آپ کر رہے ہیں اپنی بیوی پہ الزام لگا کر ۔۔۔۔حالانکہ آپ خود ڈاکٹر ہے ،صاحب علم ہیں ،مگر ان پوائنٹس سے لاعلم ہیں۔جو میں آج آپ کو بتانے جا رہی ہوں ۔ہر کسی کی بصارت پرچیز دیکھنے کا ہنر نہیں رکھتی ۔۔۔"

"ایک لڑکی کا پردہ بکارت ٹوٹنے پر زیادہ ترخواتین کا خون نکلتا ہے، اور خون کی مقدار کم زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن ڈاکٹروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام خواتین کے خون نکلے۔

ضروری نہیں کہ ہرخاتون کا پردۂ بکارت ایک جیسا ہو۔ کچھ خواتین کے پردۂ بکارت تک رسائی صرف آپریشن کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے، کچھ خواتین کے معاملے میں یہ اتنا نازک ہوتا ہے کہ خون نکلے بغیر ٹوٹ جاتا ہے، اور کچھ لڑکیوں کی پیدائش کے وقت یہ ہوتا ہی نہیں یا بچپن میں زرا سی چوٹ لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔

میں نے آپ کو سب اس لیے اتنی تفصیل سے بتایا کہ آپکی بیوی کی اس میں کوئی غلطی نہیں ۔۔۔۔جیسا آپ سوچ رہے ہیں اس کے بارے میں ویسا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔

گائنا کالوجسٹ نے کہا کہ اس کے پردۂ بکارت کی موٹائی زیادہ ہے اور یہ تب ہی پھٹے گا جب وہ بچے کو جنم دیں گیں۔

وہ بالکل کنواری ہی تھیں اب سے کچھ دیر پہلے ۔۔۔۔

اعیان نے شرمندہ نگاہوں سے ہانیہ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

مگر ہانیہ نے حد درجہ نفرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے رخ موڑ لیا ۔۔۔۔

"وہ ڈاکٹر سے اجازت لیتے ہوئے واپس گھر آئے ۔۔۔

ہانیہ تو شکستہ وجود لیے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے یوں چل رہی تھی جیسے ایک ذندہ لاش !!! 

ڈاکٹر سے اس نے جو کچھ سنا تھا وہ سن کر اعیان نے سکھ کا سانس لیا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ تب تک ہانیہ کا ذہن بن چکا تھا اور اس نے طے کر لیا تھا کہ جس قدر جلدی ممکن ہوا، وہ اعیان  سے طلاق لے لے گی۔

"مجھے تم سے طلاق چاہیے اعیان !!! 

وہ اٹل انداز میں اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

ہانیہ سے اب مزید برداشت کرنا مشکل ہوا تو اس نے اعیان سے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔۔

 "Are you mad silly girl ???

آج ہی ہماری شادی ہوئی ہے اور آج ہی تم طلاق کا مطالبہ کرنے لگی ۔۔۔۔

Are you in sences ???

"ہاں ابھی تو آئیں ہوں سینس میں ۔۔۔۔ میرے لیے آج ایک کی منحوس رات کا تجربہ کافی ہے ۔۔۔۔۔مزید راتیں میں تم جیسے دوغلے اور گھٹیا ترینذہنیت والے انسان کے ساتھ نہیں گزار سکتی ۔۔۔

جو پہلے تو اپنی محبت کا دم بھرتا نہیں تھکتا تھا اور جب وقت پڑا تو میری عزت کی دھجیاں بکھیرتے ایک لحظے کو  نہیں ڈرا ۔۔۔۔۔

اس پہلی منحوس رات کے تجربے کے بعد میرے دل میں نہ تو کوئی پیار بچا ہے اور نہ ہی کوئی جذبہ۔ختم کرڈالا تم نے سب کچھ "

"اس بے عزتی اور تحقیر کرنے کے بعد بھی تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ رہوں ؟

وہ اسکی شرٹ کا کالر جھنجھوڑتے ہوئے زخمی ناگن کی طرح پھنکاری ۔۔۔

 وہ اس کے شدید ردعمل پہ ہکا بکا رہ گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ایک مرد ہونے کے ناطے یہ پوچھنا اس کا حق تھا کہ آیا اس کی بیوی کنواری ہے یا کسی کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات رہ چکے تھے۔ 

"اپنے باغیانہ روئیے پہ غور کرو ۔۔۔۔یہ نا ہو کہ میرا ہاتھ اٹھ جائے تم پہ مجھ سے رشتہ توڑ کر ’مایوسی اور پچھتاوے‘ کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا تمہارے "

وہ ہانیہ کو اپنے سے پیچھے دھکیل کر غرایا  ۔۔۔

"ہمارے معاشرے میں تم جیسےمردوں کے جنسی معرکوں کی تعریف کی جاتی ہے اور انھیں اس پر شاباشی دی جاتی ہے، لیکن جب عورتوں کی بات ہوتی ہے تو انہی باتوں پر عورتوں کو معاشرہ مسترد کر دیتا ہے اور انھیں تم جیسے مردوں کے ساتھ رہنے کی سزا  اس کی موت کی شکل میں دی جاتی ہے۔‘

"تمہارے ساتھ رہنا میری موت کے برابر ہے ،

روزانہ ایک شکی مزاج انسان کے ساتھ ایک ساتھ ایک چھت تلے رہنا روزانہ مرنے کے برابر ہے ،میں قطعا تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی "

"کیا ۔۔۔ہممممم۔۔۔کیا۔۔۔ بتاؤ گی سب کو وجہ شادی کے اگلے ہی دن طلاق کی ؟؟؟

وہ اسکی گردن سے دبوچ کر اشتعال انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا 

"چ۔۔چھ۔۔چھو۔۔چھوڑو ۔۔۔۔"ہانیہ کے منہ سے گھٹی گھٹی بے ترتیب آوازیں نکلنے لگیں ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

"بولو قبول ہے "آریان نے پاس بیٹھی ہوئی پری کے بازو پہ اپنی گرفت مضبوط کرتے دانت پیس کر کہا ۔۔۔۔

"یہ آپ اچھا نہیں کر رہے میرے ساتھ زبردستی کر کہ ۔۔۔۔

"دیکھنا ایک دن آپ پچھتائیں گے "

"مگر تب میں آپ کے پاس نہیں ہوں گی ۔۔۔۔

"ابھی آپ کو اپنے پیار کا احساس نہیں،لیکن جب ہوجائے گا تب یہ پری واپس نہیں آنے والی آپکے پاس "

پری نے ڈبڈبائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے رندھے لہجے میں کہا ۔۔۔۔

"پری مولوی صاحب کی بات کی توجہ دو کیا پوچھ رہے ہیں وہ انکا جواب دو "

آریان شیر نے زرا سا کرخت انداز استعمال کیا۔۔۔۔

"قبول ہے "پری کے کہتے ہی مروان نے بھی شادی کے لیے اپنا اقرار سنایا ۔۔۔

دونوں طرف سے ایجاب و قبول کا فریضہ انجام دیا جا چکا تھا ۔۔۔آریان پری کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے تیز قدموں سے چلتے ہوئے وہاں سے باہر نکل گیا کیونکہ اس سے پری کے آنسو مزید دیکھیے نہیں جا رہے تھے ۔۔۔۔۔

مروان ، اسکے بھائی اور والد ابھی پری کے ساتھ مسجد میں ہی تھے ،وہ وہاں موجود لوگوں میں کھانا تقسیم کر رہے تھے ۔۔۔

جیسے ہی آریان اپنی جیپ میں بیٹھ کر اسے ڈرائیو کرتے ہوئے تھوڑا سا آگے بڑھا۔   تب ہی مسجد میں ایک زوردار دھماکا خیز آواز بلند ہوئی اور پل بھر میں سارا منظر بدل گیا ۔۔۔۔۔

آریان شیر کی گاڑی کے ٹائر چرچرائے ۔۔۔۔ٹائرسں کی چرچراہٹ کی آواز سڑک پہ گونجی ۔۔۔۔

اس نے بریکس لگائیں ۔۔۔اور سرعت سے گاڑی سے باہر نکل کر واپس مسجد کی طرف بھاگا ۔۔۔۔

اس کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون منجمد ہوگیا ۔۔۔

دماغ سائیں سائیں کرنے لگا ۔۔۔

 وہاں ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔۔۔۔ہر طرف آگ ہی آگ نمازیوں کے ادھ جلے وجود روتے تڑپتے گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھ کر اسکی اپنی آنکھوں کے سامنے ایک دم اندھیرا چھا گیا۔۔۔

مگر اسے پری کو ڈھونڈھنا تھا اس ہجوم میں ۔۔۔۔

وہ زخمیوں میں اپنی پری کی تلاش کر رہا تھا ۔۔۔مگر اسے وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔۔وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈھنے میں سرگرداں تھا ۔۔۔۔

"پری !!  

"پری کہاں ہو تم ؟؟؟؟

",میں نے تمہیں اس لیے تو خود سے دور نہیں کیا تھا کہ تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور چلی جاؤ "

"واپس آجاؤ پری ۔۔۔۔

"واپس آجاؤ !!  

وہ سر اوپر اٹھائے آسمان کی طرف دیکھ کر چلایا ۔۔۔۔

پچھلی سائیڈ سے ہوتے ہوئے وہ اپنی گاڑی تک پہنچا ۔۔۔۔پھر فرنٹ ڈور کھولتے احتیاط سے اس نازک وجود کو بٹھایا اور سیٹ کو ایزی بناتے ہوئے اسے پیچھے کی طرف کیے اسے  آرام لٹادیا۔۔۔پھر اسکی طرف کا  دروازہ آہستگی سے بند کرتے سرعت سے گاڑی کی دوسری جانب کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور اگنیشن میں چابی گھماتے زن سے گاڑی آگے کی جانب بڑھادی۔حویلی کافی پیچھے چھوٹ چکی تھی ۔۔۔اب وہ اپنے اس نئے گھر کی طرف جانے والے راستے پہ گامزن تھا جو اس نے اپنے لیے علیحدہ سے خرید رکھا جب کسی میٹنگ کے سلسلے میں رات زیادہ ہوجاتی تو وہ اپنے اسی گھر میں رکتا تھا ،۔شیردل کی نظریں ونڈ سکرین سے بھٹک کر بار بار اس ساتھ لیٹے مومی وجود پہ آن ٹہرتیں ۔۔۔۔اس نےایک گہری لو دیتی نگاہ اپنے ساتھ سوئے بےخبر وجود پہ ڈالی۔۔تقریباً دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اس کی گاڑی شیر دل کے "دل مینشن" کی حدود میں داخل ہوئی ۔۔۔وہ اپنی طرف کا دروازہ کھولے باہر نکلا پھر دوسری جانب سے آکر اسکی طرف کا دروازہ کھولا ،تھوڑا سا جھک کر اس اس نرم و نازک وجود کو اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے اندر کی جانب بڑھنے لگا ۔۔۔۔

اس میں داخل ہوتے ایک طرف شاندار قسم کا کئی فٹ گہرا شفاف پانی سے بھرا سوئمنگ پول تھا ،جس پہ چاند کی روشنی اپنی چاندنی بکھیر رہی تھی ،جو اس گہرے شفاف پانی کی چمک میں مزید اضافے کا باعث بن رہی تھی ،

وہ اسے بانہوں میں بھرے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے مخصوص کمرے کی طرف بڑھا ۔۔۔۔بھاری بوٹ کی ٹوہ سے اس نے دروازہ کھولا ۔۔۔جس  کمرے میں وہ داخل ہوا وہاں رکھی ہر چیز اس کے اعلیٰ ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ہر چیز میں اسکے فیورٹ کلر کی جھلک تھی ۔جیسے آفس میں ڈارک بلیو اس کا ڈریس ڈارک بلیو ویسے ہی اس کمرے کو بھی ڈارک بلیو تھیم دے کر خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔بس وہاں کمی تھی تو ایک چیز کی اور وہ تھی ۔۔۔۔۔

۔

"تمہارے سب دکھ آج سے میرے ۔"

"میری سب خوشیاں آج سے تمہاری۔ "

اس نے جھک کر اسے مخملیں بستر پہ لٹاتے اس کے کانوں میں دھیمی سی سرگوشی نما آواز میں کہا ۔۔۔۔

اس کی گھنی چلمن کی باڑ گالوں کو سلامی پیش کر رہی تھیں ۔۔۔شیردل نے اپنا پہلا حق استعمال کرتے ہوئے اسکی پیشانی کو اپنے نرم گرم لمس سے مہکایا ۔۔۔۔

اسکے گھنی مونچھوں تلے کٹاؤ دار عنابی لبوں پہ مسکراہٹ پھیلی۔۔۔۔

 وہ چند ساعتیں اسے نظر بھر کر دیکھتا رہا ۔۔۔۔پھر اپنا کوٹ اتارتے صوفے کی طرف اچھالتے  فریش ہونے چل دیا۔۔

کچھ لمحوں کی توقف کے بعد وہ تولیے سے اپنے سیاہ بھیگے بالوں کو رگڑتا باہر آیا ۔

تو اسے یاد آیا کہ فون کر کہ گھر اطلاع دے دے ۔۔۔۔

مگر جیسے ہی کوٹ کی پاکٹ میں سے موبائل نکال کردیکھا جو رات کا ایک بجا رہا تھا 

۔۔۔

"مام کو فون کروں ؟؟

"وقت کافی ہوگیا ہے ،کہیں سب سو نا گئے ہوں ؟"

"اسوقت ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں انہیں "

"نہیں "

"وہ پریشان نا ہوں میرے یوں چلے آنے پہ "اس نے سوچا ۔۔۔

پھر سوچتے ہوئے اس نے کال ملائی ۔

وہ ہلکے سے دروازہ بند کرتے ہوئے ٹیرس کا دروازہ کھول کر وہاں آگیا ۔۔۔۔

تاکہ اسکے بولنے کی آواز سن کر رمشاء کی نیند میں خلل نہ پڑے ۔۔۔

تقریباً تیسری بیل کے بعد فون پہ اسے اپنی مما کی نیند سے بوجھل آواز سنائی دی 

۔۔۔ شاید انہیں زخرف بتا کر مطمئن کرچکی تھی ۔

"مما آپ ٹھیک ہیں ۔"

"ہممم میں ٹھیک ہوں ۔مگر تم نے کیا حرکت کی آج "

شیردل  کے پرسکون انداز پہ ہیر کو اپنی سبکی کا خیال آیا تو وہ زرا سختی سے بولیں ۔ ۔

"سوری مام کرنا پڑا ضروری تھا کسی کے لیے ۔ "

شیردل نے ٹیرس سے پلٹ کر اندر کمرے میں جھانکا اور ایک گہری پرتپش نگاہ بیڈ پہ سوئے ہوئے مومی مجسمے پہ ڈالی ۔۔۔۔وہ کسمسانے لگی جیسے ہوش کی دنیا میں لوٹ آنے والی ہو ۔۔۔۔

اس نے واپس ٹیرس پہ اپنا بازو جماتے ہوئے ری لیکس انداز میں انہیں تسلی دی کہ وہ کل شام ولیمے سے پہلے اسے اپنے ساتھ واپس لے آئے گا "

پھر فون واپس ٹیرس پر رکھتے ہوئے کھڑا رہا ۔۔۔۔موسم میں تبدیلی آچکی تھی ،بنا شرٹ کہ وہ وہیں کھڑا رہا ۔۔۔بادلوں نے آسمان پہ طرح اپنا ڈیرہ جمالیا تھا۔ہر جانب تاریکی چھائی ہوئی تھی۔آسمان پہ بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا ہوا روشن چاند بادلوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا کبھی وہ اپنی جھب دکھلاتا تو کبھی اوٹ میں چھپ جاتا ۔۔۔ آسمان کی سیاہ تنی چادر پہ جھلملاتے ہوئے تارے سحر انگیز دکھائی دے رہے تھے .

ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے سینے کو چھو کر گزرتا ۔۔۔۔

مگر اسکے فولادی وجود پہ رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔

جب جب اس کی آنکھوں کے سامنے وہ ویڈیو کے مناظر گھومتے اسکی آنکھیں جلنے لگتیں ،اور جو اگ سینے میں بھڑکتی محسوس ہوتی اسے یہ ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے بھی بجھا نہیں پا رہے تھے ۔۔۔۔

اسکی آنکھیں خون رنگ ہوئیں جیسے شعلے اگلنے لگیں ۔۔۔۔

اس نے واپس فون اٹھا کر کسی کو کال ملائی ۔۔۔

اس سے بات کرتے ہوئے اسکے جبڑے سختی سے بھنچے ہوئے تھے اور پیشانی کی رگیں پھولی ہوئی تھیں۔۔۔

جیسے ہی اس نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں کھولیں ،اسے کچھ دیر لگی اپنے ارد گرد کے ماحول کو پہچاننے میں ۔۔۔وہ ایک شاندار روم تھا ،نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔۔

وہ اپنی حد سے زیادہ درد ہوتے ہوئے بھاری سر کو اپنی انگلیوں کی سے ملستے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔

اور دروازہ کھول کر باہر نکلی ۔۔۔۔

جیسے جیسے وہ حواسوں میں لوٹی ۔۔۔اس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر لہرانے لگے ۔۔۔

شیردل اور زخرف کی باتیں اسکے کانوں میں گونجنے لگیں ۔۔۔۔

اتنا بڑا شاندار گھر تھا ۔۔۔۔مگر ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا بالکل ویسا سناٹا جیسا اسکی زندگی میں چھا چکا تھا ۔۔۔۔

یہی سوچ سوچ کر اس کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا کہ جب مجھے برہنہ اتنے لوگوں نے دیکھا ہو گا تو ؟؟؟.

"نہیں !!! 

"نہیں !!!

وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ۔۔۔۔

"میں کسی سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی !!!

"کیسے کروں گی میں سب کا سامنا ؟؟.

"اپنے بابا کا ۔۔۔ماما کا ...!!! ۔

"مجھے مر جانا چاہیے ،ایسی زندگی سے بہتر تو "

"مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں !!! ۔

اس وقت وہ بے بسی کی انتہا پہ تھی ،دماغ برا بھلا سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا تھا ۔۔۔۔

وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی ۔۔۔

سامنے ہی شفاف پانی سے بھرا سوئمنگ پول نظر آیا ۔۔۔۔

آنکھوں کے سامنے آنسوؤں کی  دبیز دھند چھانے لگی ۔۔۔

اسے پانی کا فوبیا تھا ،ہمیشہ اسے گہرے پانی سے ڈر لگتا تھا ۔۔۔۔مگر آج جو رسوائی اور ذلت کا ڈر اس پہ حاوی تھا اس ڈر کے سامنے اسکے باقی تمام ڈر چھوٹے پڑ گئے تھے ۔۔۔

وہ اپنا بھاری کامدار عروسی لباس دونوں ہاتھوں سے اٹھائے  اندھا دھند بھاگتے ہوئے دھڑام سے گہرے پانی کے پول میں جاگری ۔۔۔۔۔پانی کے چھینٹے پول سے باہر گرے ۔۔۔۔

شیردل جو اوپری منزل کے ٹیرس میں موجود تھا ۔دھڑام سے کسی کے سوئمنگ پول میں گرنے کی آواز سن کر چونکا ۔۔۔

اس نے ابرو اچکا کر غور کیا ۔۔۔

چاند کی روشنی اس کے سوئمنگ میں ڈوبتے ابھرتے ہوئے عروسی لباس میں ملبوس وجود پہ پڑی تو پلٹنا بھول گئیں ۔۔۔

دھڑکنیں ساکن ہوئیں ۔۔۔۔

رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی گردش رک گئی ۔۔۔۔جیسے لحظہ بھر کو ۔۔۔

وہ موبائل وہیں پہ پھینک کر بھاگا ۔۔۔

اور کمرے سے ہوتا ہوا سیڑھیاں پھیلانگتا  بھاگنے کے انداز میں تیزی سے نیچے اترا ۔۔۔۔

اور سوئمنگ پول تک پہنچا ۔۔۔

"رمشاء !!  

"ہاتھ دو "

اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔

مگر رمشاء کے منہ میں سے پانی کے بلبلے نکلنے لگے ۔۔۔۔جیسے اسکے منہ اور ناک میں پانی گھس چکا ہو ۔۔۔

وہ پول کی سطح کی بجائے اب  ڈوبنے لگی ۔۔۔

تو شیردل نے کھڑے ہوکر پول میں جمپ لگائی ۔۔۔۔

اور گہرا سانس بھر کر پول کی نچلی سطح تک گیا ۔۔۔

ڈوبتی ہوئی رمشاء کے نازک وجود کو اپنی ایک بازو میں جکڑ لیا ۔۔۔۔

رمشاء اسکے بازو کی گرفت پہ جھٹپٹانے لگی ۔۔۔۔

اور غصے میں ُاس سے خود کو آزاد کروانے لگی ۔۔۔مگر شیر دل کی گرفت مضبوط تھی،

وہ اسے اپنے ساتھ لیے پول کی اوپری سطح پر آیا ۔۔۔

"چ۔۔۔چھو ۔۔۔چھوڑ ۔۔۔د۔و ۔۔۔

"مجھے ۔۔۔مرجانے دو ۔۔۔

"ن۔۔نہیں رہنا مجھے زندہ ۔۔۔

وہ اسکے سینے پہ زور سے ہاتھ مار کر اسے خود دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بمشکل بولی ۔۔۔۔۔

"تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہیں مرنے دوں گا ؟؟؟

وہ اس کا بھیگا ہوا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر درشتگی سے بولا ۔۔۔

"بھول گئی؟؟؟

"کچھ دیر پہلے ہی تم نے اپنے سارے حقوق میرے نام کئیے تھے !!!!

"تم پر ....

"تمہاری سانسوں پر ....

"تمہارے اس وجود پر ....

"تمہارے اس پور پور پر کس کا حق ہے ؟؟؟

"تمہارا خود کا بھی نہیں ۔۔۔

"صرف اور صرف شیردل کا ۔۔۔

سمجھیں تم ؟؟؟

"صرف شیردل کا "

"اور شیردل اپنی چیزوں کو نقصان پہنچانے والوں کا وہ حشر کرتا ہے کہ دنیا بھی کانپ جاتی ہے ،اور تم کوئی چیز نہیں ، جیتی جاگتی محبت ہو شیردل کی ،

وہ جنونیت آمیز انداز میں کہتے ہوئے اسکے چہرے کے رنگ اڑا گیا ۔۔۔

وہ فق نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"مرنا ہے نا تمہیں ؟؟؟

"بولو مرنا ہے نا ؟؟؟

شیردل اسکی آنکھوں میں اپنی وحشت زدہ نظریں گاڑھتے ہوئے دھاڑا ۔۔۔۔

رمشاء نے بنا بولے بے بسی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

 "تو آج پھر میں اپنے انداز میں تمہاری جان نکالتا ہوں ،

"آگے سے کبھی مرنے کی خواہش کرنا بھول جاؤ گی ۔"

اسکے انداز میں جو جنون چھلک رہا تھا رمشاء اسے دیکھ ساکت رہ گئی ۔۔۔۔

اس کی بھاپ اڑاتی گرم سانسیں رمشاء کے ٹھنڈے پڑتے ہوئے چہرے کو جھلسا رہی تھیں ۔۔۔۔

شیردل نے اسکے بھرے بھرے گلابی لبوں پہ جھکتے ہوئے انہیں اپنے لبوں سے قید کرلیا ۔۔۔۔

رمشاء کو اس سے اسطرح کے ردعمل کی قطعا امید نہیں تھی۔۔۔

وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکی آہنی گرفت میں پھڑپھڑانے لگی۔۔۔۔

خود کو اسکی گرفت سے آزاد کروانے کے لیے اسکے بائیسپس والے بازوؤں پہ اپنے ناخن گاڑھے ۔۔۔۔مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔

آج وہ صیحیح معنوں میں اسکے سانس نکالنے کے در پہ تھا ۔

رمشاء کی سانسیں  مدھم پڑتی ہوئی محسوس ہوئی تو اسے رہائی دی ۔۔۔

وہ سر جھکائے کھانستے ہوئے گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے لگی ۔۔۔۔

رمشاء نے اسکی حرکت پہ زہر خند نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے خود سے پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ پھر سے ایک بار پول میں ڈوب جاتی شیردل نے اسے اپنی بانہوں میں بھر کر پول سے باہر بنی جگہ پہ بیٹھا دیا ۔۔۔۔

وہ اس کا دماغ بھٹکانے میں کامیاب ہوا۔۔۔

پھر خود باہر نکلا ۔۔۔

رمشاء اٹھ کر وہاں سے جانے لگی ۔۔۔۔تو شیردل نے ایک ہاتھ سے اسکی کلائی کھینچ کر اسے جانے سے روکا اور دوسرے ہاتھ سے اپنی پیشانی پہ آئے بھیگے بالوں کو انگلیوں کی مدد سے پیچھے کیا ۔۔۔۔

"چھوڑیں مجھے ۔۔۔۔آپ اپنی ان واہیات حرکتوں سے مجھے اپنے آپ سے نفرت کرنے پہ مجبور کرنے کہ سوا اور کچھ نہیں کر رہے ۔۔۔۔

وہ تلخ انداز میں پلٹ کر بولی ۔۔۔

"چلو محبت نا سہی نفرت ہی سہی "

"کوئی تو جذبہ پیدا ہوا میرے لیے آپکے دل میں "

وہ اسکے چہرے پہ چپکی بھیگی ہوئی لٹ کو اسکے کان کے پیچھے اڑستے ہوئے فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔

رمشاء نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔

شیردل کی نیلی سمندر جیسی  آنکھیں لو دینے لگی وہ والہانہ نگاہوں سے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔

۔چاند کی چاندنی نے ماحول پہ ایک فسوں سا طاری کردیا تھا۔چاند تاروں میں اتنی چمک نہیں تھی جتنی چمک اسکے گالوں پہ گرے آنسوؤں کی صورت میں  موتیوں میں تھی ۔۔۔اسے اس کے دلکش،اداس حسن کے سامنے چاند تاروں کا حسن ماند پڑتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔

کرلی نا آپ نے اپنی مرضی ؟۔"

وہ لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھتے زہرخند لہجے میں دھیمی آواز میں غرائی تو شیردل  نے اس کے تنفر آمیز لہجے پہ بےیقینی سے اس کی جانب دیکھا۔۔اس کی آنکھوں میں کرب کی ایک لہر دوڑی۔

"یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟۔"

وہ بے یقین نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولا۔

"کونسی مرضی کی میں نے اپنی ؟؟"

اس بار اس نے سپاٹ انداز میں استفسار کیا ۔

"مجھ سے بات ہی مت کریں آپ "

وہ بھیگی نگاہوں سے اسے دیکھتے تھوک نگل کر اپنے خشک پڑتے حلق کو تر کرتے سہمتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی ۔۔۔۔

شیر دل سے اسکی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو دیکھنا دنیا کا سب سے مشکل ترین امر لگا ۔۔۔اس نے رمشاء کے گالوں پہ لڑھکنے والے موتیوں کو اپنی پوروں سے ُچنا ۔۔

"مجھ سے ہمدردی میں شادی کرنے کا شوق پورا ہوگیا ہو تو 

خدارا !!!!

"چھوڑ دیجیے مجھے میرے حال پہ "

"رمشاء تم جیسا سوچ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ۔۔۔

"تم میری ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا ۔۔۔

"میری اس ارزاں ذات  میں بھلا کیا دلچسپی ہوسکتی ہے،کسی کو ؟؟؟

"مہربانی کر کہ مجھے کسی بھی قسم کی خوش فہمیوں میں مبتلا کرنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا ۔۔۔

"مجھ جیسی لڑکی سے آپ کو کچھ نہیں ملنے والا سوائے تکلیفوں کے ۔۔۔"

وہ دونوں ہاتھوں کو اس کے سامنے جوڑتے ہوئے التجائیہ انداز میں چلائی ۔۔۔۔

شیردل نے آنکھوں میں حیرت لیے اس سنگدل کی جانب دیکھا جس کے سیاہ نم سی آنکھوں میں کوئی جذبہ نہیں تھا۔۔۔ایک درد تھا جو اس کی آنکھوں میں ہلکورے کھارہا تھا۔ 

باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں

باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں تم کو

جی میں آتا ہے کہ تعویز بنالیں تم کو

پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھیں

کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو

جیسے بالوں میں کوئی پھول چُنا کرتا ہے

گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجالیں تم کو

اس قدر ٹوٹ کے تم پر ہمیں پیار آتا ہے

اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو

کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو

کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو

ہے تمھارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں

اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھالیں تم کو

جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو

ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو

جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور

اپنے تاریخ مکانوں میں سجالیں تم کو

اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم

ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو۔

"تمھیں پتہ ہے رمشاء ان چند گھنٹوں میں کس قدر اہم ہوگئی ہو ؟؟؟

میرے پاس الفاظ نہیں اپنے احساسات بیان کرنے کے لیے بس اتنا جان لو میری قیمتی متاع ہو تم ۔"وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے حصار میں لے گیا ۔۔۔۔

 رمشاءنے حیرت زدہ نظروں سے سے اس کے چہرے پہ بکھری مسکراہٹ دیکھی جو کسی کو بھی زیر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔آج پہلی بار اس نے اتنے قریب سے پہلی بار شیردل کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا ،ورنہ وہ تو اپنی سنجیدگی سے ہمیشہ اس کا خون خشک کیے رکھتا تھا ۔۔۔۔ 

رمشاء کے دل کی دنیا بھی ایک لمحے کیلیے اتھل پتھل ہوئی۔۔۔

"مممم۔۔۔مگر ۔۔۔"

رمشاء کے لب پھڑپھڑانے لگے ۔۔۔اسے کچھ جواب نہیں سوجھ رہا تھا ۔۔۔۔

آخر کیسے اور کیوں اسکے جذبات بدل گئے ۔۔۔۔

کیا واقعی وہ سچ کہہ رہا تھا؟؟؟

شیر دل مبہوت سا اس کے شگرفی لبوں کی پھڑپھڑاہٹ کو دیکھ رہا تھا۔جس پہ نیچرل کلر کی لپسٹک کے مٹے مٹے نشانات موجود تھے ۔۔۔۔

"میں آپ کے قابل نہیں "

وہ چند ساعتوں کے بعد بولی تو اس کے لہجے میں ٹوٹے کانچ کی کرچیاں تھی آنکھیں شدت گریہ سے سرخ ہورہی تھیں۔اسکے صبر کا باندھ ٹوٹ چکا تھا ۔۔۔۔

"رمشاء تمہیں کس چیز کا ڈر ہے ؟؟؟

وہ ساکت کھڑی رہی ۔۔۔

"اپنے اس ڈر کو دور بھگا دو ،

میرے پیار کو اپنے ان سب خوف پہ حاوی کرلو ۔۔۔

اتنا حاوی کہ تمہیں مجھے سوچنے کے سوا اور کچھ سوچنے کا وقت نا ملے ۔۔۔۔"وہ محبت سے چور آواز میں بولا۔۔۔

رمشاء نے ٹھٹھک کر اسکے  معنی خیز انداز پہ غور کیا ۔۔۔

اس نے رمشاء کے دل سے اس خوف کو نکالنا تھا ،اسے سنبھالنا تھا ،واپس نارمل زندگی کی طرف لانا تھا ،تبھی شگفتگی اور نرمی سے گویا ہوا پھر رمشاء کے چہرے پہ نگاہ دوڑاتے اس کے تاثرات جانچنے چاہے جو اس کے بالکل سامنے سر جھکائے کھڑی اضطراب کے عالم میں اپنے گیلے عروسی لباس کو تلخی سے جھٹکنے میں مصروف ۔

"ابھی تو اس نے وہ ویڈیو دیکھی نہیں ۔۔۔تو یہ عالم ہے ،

اگر دیکھ لیتی تو نجانے کیا کرتی خود کے ساتھ "

شیردل نے دل میں کرب سے سوچا ۔۔۔

"روم میں چلو باہر سردی ہے "

شیردل نے اسے تنبیہی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ اتنا نارمل کیسے ہوسکتے ہیں ؟؟؟

"آپ کو پتہ بھی ہے ؟؟؟

"کہ ہوا کیا ہے میرے ساتھ ؟؟؟

وہ کرب زدہ آواز میں چلائی ۔۔

جانے کتنے لوگوں نے مجھے اس حالت میں دیکھا ہوگا ۔۔۔

کیا کیا باتیں کیں ہوں گی ؟؟؟

"لیکن آپ کو کیا ؟؟؟

"جس پہ بیتتی ہے وہی جانتا ہے ۔دوسرا کوئی نہیں۔۔۔

"مجھے گھن آ رہی ہے اپنے اس وجود سے ۔۔۔۔

"میں مٹا دوں گی اس وجود کو ہی "

وہ پلر کی طرف بھاگی ۔۔۔اس وقت وہ بالکل پاگل ہوچکی تھی ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنا سر زور سے اس پلر سے مار کر خود کو کوئی نقصان پہنچاتی ۔۔۔شیردل تیزی سے اسکی طرف بڑھا اور اسے ایسا کرنے سے روک دیا ۔۔۔

"رمشاء سنبھالو خود کو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔

سب تمہارے اپنے ہیں تمہیں سمجھیں گے ۔۔۔۔کوئی تمہیں غلط نہیں سمجھے گا ۔۔۔سب پیار کرتے ہیں تم سے۔  میں کسی کے سامنے وہ سب آنے سے پہلے کی مٹا دوں گا ۔۔۔کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا ۔۔۔۔

"I promise"

  اسکا انداز اٹل تھا ۔

"بے شک میں تمہارا درد محسوس نہیں کرسکتا مگر اسے بانٹ تو سکتا ہوں نا ۔۔۔

"خود کو مجھے سونپ دو ،

دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔کرو گی مجھ پہ اعتبار ؟؟؟

رمشاء کی آنکھوں میں اسوقت  خوف ناچ رہا تھا۔۔۔

"رمشاء سب بھول جاؤ ۔۔۔

"صرف مجھے سوچو ۔۔۔۔

"یقین جانو اب اگر تمہاری ان آنکھوں سے آنسو بہے تو دنیا ہلا دوں گا ۔۔۔۔"

وہ شدت پسندی سے کہتے ہوئے اس کے بھیگے ہوئے سراپے سے نظریں چراتا ہوا اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اندر کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔

"  آج تم شیر دل کی دنیا میں آچکی ہو اور شیردل کی اس دنیا میں، ہم دونوں کے علاؤہ کسی تیسرے زی روح کا نام و نشان تک نہیں ہوگا ۔۔۔بھول جاؤ کسی تیسرے کو خدا کے سوا ۔۔۔

جس نے ہمیں مضبوط اک اٹوٹ بندھن  میں باندھ دیا ۔۔۔۔

واقعی اس کے بدلے تیور دیکھ کر رمشاء کچھ دیر کے لیے سب بھول گئی اور اسکی طسم زدہ  باتیں سننے لگی ۔۔۔۔جو اسے دھیرے دھیرے اپنے سحر میں جکڑ رہی تھیں ۔۔۔

شیردل نے اسے واپس کمرے میں لاکر ڈور لاک کیا ۔۔۔۔

پھر چلتا ہوا کبرڈ کی طرف بڑھا ۔۔۔

اس کا لاک کھول کر اندر سے اپنی ایک وائٹ کلر کی شرٹ اور ٹراؤزر نکال کر اسکی طرف بڑھایا ۔۔۔

"چینج کر لو ٹھنڈ لگ جائے گی تمہیں۔ "وہ فکر مندی سے بولا ۔

"بہت سخت جان ہوں ۔۔۔اتنا کچھ ہوجانے پہ نہیں مری تو اب بھی نہیں مرتی "

وہ یاسیت سے گھلے لہجے میں بولی ۔۔۔

"رمشاء !!!!

شیردل  زرا سی کرخت آواز میں بولا

"ٹھیک ہے،اب تم ضد پہ اتر آئی ہو تو میری ضد بھی شوق سے دیکھنا ۔۔۔۔

رمشاء نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔۔

شیردل دوقدموں کا فاصلہ ایک جست میں طے کیے اسکے قریب آیا ۔۔۔۔

اور رمشاء کے سمجھنے سے پہلے اسکا بھیگا دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھا،

"ی۔۔یہ ۔۔۔آپ کیا کر رہے ہیں "

اسے اپنی شرٹ کی پشت کی ڈوریوں سے شیردل کی انگلیاں الجھتی ہوئی محسوس ہوئیں تو وہ کپکپا کر رہ گئی ۔۔۔

اس کی دھڑکنوں نے الگ ہی شور برپا کیا ہوا تھا وہ اسے اور اپنے نئے رشتے کو کچھ وقت دینا چاہتا تھا ،لیکن اسکا بنا دوپٹے کا ہوشربا سراپا دیکھ  اسے اپنی ملکیت ہونے کا احساس اس کے وجود میں سرائیت کرگیا۔

دل اسے اسکے ارداوں پہ قائم رہنے سے بھٹکا رہا تھا ،،وہ اسے سرگوشیوں میں دلیلیں دے رہا تھا ۔۔۔ وہ تمہاری ملکیت ہے،اس پہ تمہیں پورا حق حاصل ہے اسے یوں خود میں سمیٹ لو کہ وہ دنیا بھلا دے تمہاری قربت میں ۔۔۔۔

اسکی نظر اسکی صراحی دار نازک سی گردن پر پڑی۔۔۔۔

رمشاء کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی ۔۔۔۔اسکے دیکھنے کے انداز پہ ۔۔۔۔

شیردل نے اسے کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے گڑیا کی مانند زرا سا اوپر اٹھایا پھر اسکی شہ رگ پہ اپنے لب رکھے ۔۔۔۔

وہ اسکی شدت پہ لرز کر رہ گئی۔۔۔۔

ماحول میں چھایا فسوں اسے سب کچھ بھلانے پہ مائل تھا ۔۔۔

وہ اسکی گردن سے چپکے نم بال ہٹاتے ہوئے ۔۔۔ اس میں چہرہ چھپاگیا۔

رمشاء نے اسے خونخوار نگاہوں سے دیکھا اور خود کو چھڑانے کی جدوجہد کرنے میں اسکے سینے پہ ہاتھ رکھے تو فورا واپس کھینچ لیے ۔۔۔پہلی بار اس نے غور کیا تھا کہ وہ تب سے شرٹ لیس اسکے سامنے گھوم رہا تھا ۔۔۔اسکی پلکیں شرم کے بوجھ تلے خود بخود جھک گئیں ۔سانسیں باقاعدہ خشک ہوگئی تھی۔وہ کیسے اسے سب کے درمیان سے اٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا اور اب اس پہ اپنا تسلط جما رہا تھا ۔۔۔۔

"م۔۔۔میں کرتی ہوں چینج ",

وہ اسے بازووں سے پیچھے دھکیلے کپڑے لیے سرعت سے واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

اور اندر جاتے ہی دروازہ بند کرکہ اسکے ساتھ لگی گہرے سانس لینے لگی۔۔۔۔

شیردل اسکی تیزی پہ مسکرا کر رہ گیا ۔۔۔۔

جب وہ کچھ دیر بعد باہر آئی تو کمرے میں کافی گرمائش محسوس ہوئی ۔۔۔

شیردل ہیٹر آن کر چکا تھا ،

وہ اسکی شرٹ جو اسکے گھٹنوں تک آرہی تھی اور ٹراؤزر جسکو نیچے سے فولڈ کر لیا گیا تھا پہنے باہر آئی ۔۔

شیردل نے اسکی آنکھیں دیکھیں جو حد سے زیادہ سرخ ہورہی تھیں ۔اس کا مطلب ہے محترمہ اندر بھی رونے کا شغل فرما کر آئی ہیں ۔وہ زیر لب بڑبڑایا ۔۔۔۔

پھرکبرڈ کی طرف بڑھ کر اس میں سے ہیئر ڈرائر نکالی ۔۔۔

"یہاں آؤ "وہ سوئچ بورڈ میں ڈائیر کا سوئچ لگاتے اسے اپنے پاس بلا رہا تھا ۔۔۔

"گیلے بالوں سے کپڑے پھر سے گیلے ہو جائیں گے '

اس نے وجہ بتائی ۔۔۔

رمشاء نظریں جھکائے اسکی بات کا احترام کرتی اسکے پاس آئی ۔۔۔پہلے بھی وہ دوبار دیکھ چکی تھی کہ اسکی بات نا ماننے کا کیا انجام ہوتا ہے اسی لیے چپ چاپ آکر اسکے پاس کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔

شیردل نے اپنے لبوں پہ بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو دبا لیا ۔۔۔  

"چلیں اتنی دیر میں تم اتنا تو مجھے جان ہی گئی ہو میری بات نا ماننے پہ کیا انجام ہوگا "

وہ سپاٹ انداز میں بولا ۔۔۔

"اور ڈرائیر سے اسکے بال سکھانے لگا ۔۔۔

"میں کر لوں گی "وہ منمناتے ہوئے بولی۔۔۔

"اونہہہہہہہ۔۔۔۔۔

اس نے تنبیہی انداز میں اسے گُھرکا۔۔۔

شیردل کی سرسراتی ہوئی انگلیاں اپنے بالوں میں محسوس کیے اسکی وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔

شیردل نے اسکی ہچکچاہٹ محسوس کیے ۔ڈرائیر بند کیے واپس کبرڈ میں رکھ دی ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ واپس پلٹتا ۔۔۔۔رمشاء جو دوسری طرف سے ہوکر بستر کی طرف جا رہی تھی اسکا پاؤں رپٹ گیا ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ گرتی شیردل نے اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیا ۔۔۔۔

رمشاء کے بالوں سے پھوٹتی شیمپو کی تازہ اوربھینی بھینی محسور کن مہک شیردل کو اپنی سانسوں میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔

"چاہتے کیا ہیں آپ ؟؟؟

وہ اس کے قریب آنے پہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری۔۔۔۔

ایک بار پھر سے وہ اجنبی بن گئی ۔۔۔۔

"اس جسم کو چھو کر دیکھنا چاہتے ہیں نا ۔۔۔

جسے نجانے کن کن لوگوں نے دیکھا ۔۔۔۔

شیردل کو اپنی ساری محنت اکارت جاتی ہوئی لگی ۔۔۔۔

"آپ بھی ان ہوس پرستوں میں سے نکلے ۔۔۔۔

وہ اپنے سر کے بالوں نوچ کر چیخی ۔۔۔

جہاں سب نے دیکھ لیا تو دیکھیں آپ بھی دیکھیں ۔۔۔

اس نے اپنی شرٹ کے کالر کو پکڑ کر پوری قوت سے کھینچا۔۔۔۔

جس سے اوپری دو بٹن ٹوٹ کر گرے ۔۔۔۔

وہ چلا چلا کر بول رہی تھی ساتھ دھاڑیں مار کر کر روتی چلی جا رہی تھی ۔۔۔۔

درد ایسا تھا جو مٹائے نہیں مٹ رہا تھا ۔شیر دل نے اس پہ اپنی محبت و عقیدت کے جتنے پھاہے رکھے سب سوکھ گئے ۔۔۔

"شٹ اپ رمشاء !! 

"جسٹ شٹ اپ "

شیردل نے اپنا ہاتھ اٹھایا ۔۔۔۔

مگر راستے میں ہی روک لیا ۔۔۔۔

"رکے کیوں ؟؟؟

"مارئیے نا مجھے ۔۔۔میں اسی قابل ہوں ۔۔۔۔میری غلطی ہے سب ۔۔۔۔سب میری غلطی ہے ۔۔۔"

شیردل نے ہوا میں معلق ہاتھ کو مٹھی میں بھینچ لیا ۔۔۔

"تمہیں کیا لگا تم مجھے خود سے دور کرو گی ۔۔۔مجھ پہ چیخو گی چلاؤ گی ۔۔۔تو میں تمہیں ماروں گا ۔۔۔۔"؟

"نہیں ۔۔۔۔۔رمشاء "

"تم ایک بار غصہ کرو گی میں تم سے ڈبل پیار کروں گا ،تم دوبار غصہ کرو گی میں تم سے اتنی شدت سے پیار کروں گا کہ تم کبھی غصہ کرنے سے پہلے سو بار سوچو گی "

وہ اسکے چھلے ہوئے زخموں پہ اپنے الفاظ کے پھاہے رکھ کر انہیں مندمل کر رہا تھا ۔۔۔

"تم جتنی بار بھی ٹوٹ کر بکھرو گی میں یونہی تمہیں اپنی چاہت اور توجہ سے سمیٹوں گا "وہ اسکی تھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر بولا ۔۔۔۔

"جانتی ہو تم اس وقت کیا لگ رہی ہو اس وائٹ شرٹ میں "؟

وہ رمشاء کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے حصار میں لیے ذومعنی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

رمشاء نے بھیگی ہوئی پلکیں جھپک کر اس کی جانب دیکھا ۔۔۔

"Broken Angel"

ایک ایسا فرشتہ جس کا دل اس وقت ٹوٹا ہوا ہے ،

اپنا ٹوٹا ہوا دل ۔۔۔

اس دل کو دے دو ....

وہ رمشاء کا ہاتھ اپنے دل کے مقام پہ رکھ کر فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔۔

اور اس شیردل کا دل اپنے سینے میں چھپا لو ،،،

وہ اسکی کان کی لو کو دانتوں تلے دبا کر خمار زدہ آواز میں بولا۔۔۔

"I am so lonely ...Broken Angel....

"I am so lonely.... Broken Angel....

"Listen to my ❤️ heart...

"You ...you are the one...

"I miss you Soo much...

"Now that you gone...

"Don't... Don't be Soo afraid ...I will be by  your side...leading the way...

وہ اسے گول گول گھماتے ہوئے ایک بار پھر سے تھام گیا ۔۔۔

"I am so lonely ...Broken Angel....

"I am so lonely.... Broken Angel....

"Listen to my ❤️ heart...

رمشاء ٹرانس کی کیفیت میں گڑیا کے مانند اسکے ہاتھوں میں اسکے اشاروں پہ اپنے آپ گھوم رہی تھی ۔۔۔

And one and Only "Broken Angel....

"Come and save me before, I fall a part...

"I wish that I could touch

Touch you again.

Feeling in love...

Don't want it to end...

Oooo....ooo....ooo.

Two ..two worlds apart.

Less in a dream...

شیردل کی سحر انگیز آواز نے نجانے کیسا طلسم پھونکا تھا اس پہ ۔۔۔۔

It's breaken my ❤️ heart

I am so lonely.... Broken Angel....

"Listen to my ❤️ heart...

And one and Only "Broken Angel....

وہ آخر میں رمشاء کا سر اپنے سینے سے لگائے اپنی زوروں سے دھڑکتی ہوئی دھڑکنوں کا شور اسے سنانے لگا ۔۔۔۔

وہ واقعی اسکی قربت میں سب بھولنے لگی تھی ،اس کی دھڑکنوں کا شور اتنا بلند تھا کہ اسے خود میں مچا شور سنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔

شیردل اسے اپنے ساتھ لیے گھماتے ہوئے بستر پہ گرنے کے انداز میں لیٹا ۔۔۔۔

۔وہ سختی سے اپنے لب کچل رہی تھی۔دراز پلکیں عارض پہ بسیرا کیے ہوئی تھی۔

شیردل  نے اس کا دلکش چہرہ آنکھوں میں بساتے ہوئے اسکے نرم روئی جیسے گالوں پہ اپنے لب رکھے تو وہ گہرا سانس بھرتی اس کی اس حد درجہ قربت پہ اس کے بائیسیپس پہ ناخن گاڑھ گئی ۔

رمشاء نے دھندلی نگاہوں سے اسے دیکھا ۔۔ایک بار پھر سے سب یاد آنے پہ اس کےحلق میں آنسوؤں کا گولہ سا اٹکا۔

"کیا تم مجھ پہ اعتبار کرکہ ہمارے رشتے کو مان بخشو گی ۔۔۔۔تمہارا ساتھ مجھے معتبر کردے گا "

"مگر میں آ۔۔۔آپ کے قابل ۔۔

"ششششش۔۔۔۔

وہ اسکے بولتے لبوں پہ اپنی انگلی رکھ کر اسے خاموش کرا گیا ۔۔۔۔

"آپ کس قابل ہیں ،اس کی اہمیت مجھ سے پوچھیے ۔۔۔

وہ محبت بھرے انداز میں کہتے اب اس کے لبوں کو انگلی سے سہلا رہا تھا۔۔۔

"آپ میرے لیے فرشتوں جیسی پاکیزہ ہیں "

"اور رہی بات ہمدردی کی ۔۔۔

تو اس بات کا آپ خود فیصلہ کریں ۔۔۔۔میری آنکھوں میں آپکو اپنی لیے ہمدردی نظر آتی ہے یا آپکے لیے کچھ بھی کرجانے کا جنون "

وہ اس پہ جھکا ہوا اسکی مدھم چلتی ہوئی سانسوں کو منتشر کر گیا ۔۔۔۔

اس کی پرتپش جذبے لٹاتی ہوئی نگاہیں خود پہ مرکوز دیکھ اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ۔۔۔۔اور آسودگی سے آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔ہمدردی کی آخری پھانس جو اسکے گلے میں اٹکی ہوئی تھی اسے بھی وہ نکال چکا تھا ،تو پھر کیوں اسے اس کے حق سے محروم رکھتی ۔۔۔۔شیردل نے اس کی سپردگی کا انداز دیکھا تو مسکرا کر اسے خود میں بھینچ لیا۔۔۔ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل پر موجود لیمپ آف کیا ۔۔۔چہار سو اندھیرا چھا گیا ،مگر رمشاء کی تاریک زندگی میں شیردل کے آنے سے اجالا ہو گیا ۔۔۔۔ کھڑکی سے جھانکتا ہوا چکمتا چاند مزید روشن ہوگیا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙

 جیسے ہی صبح کا سورج طلوع ہوا اس کی آنکھ اپنے مقررہ وقت پہ کھل گئی ۔۔۔

اپنی بازو پہ سر رکھ کرآسودگی سے گہری نیند میں ڈوبی ہوئی اپنی اینجل پہ پڑی ۔۔۔۔

 اس کی گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ۔۔۔۔اوشن بلیو آنکھوں کی چمک ابھری ۔۔۔وہ اس کے رنگ میں رنگی اس کے کشادہ سینے سے لگی پرسکون نیند سورہی تھی۔اس کے چہرے پہ طمانیت تھی ۔۔۔ایسے جیسے اب اسے کسی بھی چیز کا خوف نہ تھا۔۔۔۔کیونکہ شیردل نے اپنی محبت سے اس کا پور پور مہکا کر اس کے سارے سارے خدشات دور کردئیے تھے ۔۔۔۔

وہ محویت سے اس کے چہرے کے من موہنے نقوش کو اپنی آنکھوں کے ذریعے دل میں اتار رہا تھا اسکی محویت میں  موبائل کی رنگ ٹون نے خلل ڈالا ۔۔۔رات کا موبائل ٹیرس پہ ہی کہیں گر گیا تھا،اس کی رنگ ٹون کی آواز سن کر اسے پتہ چلا کہ وہ ابھی تک سلامت ہے ۔

شیردل نے آہستگی سے اس کے سر کے نیچے سے اپنی بازو نکال کر اٹھنے کی کوشش کی،،

وہ کسمسا کر اٹھی اور آہستگی سے اپنی مندی ہوئی آنکھوں کو کھولا۔۔۔تو اسے اپنے بالکل قریب معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے پایا ۔۔

رمشاء کی پلکیں یکلخت جھکیں ۔۔۔ شرمگیں مسکان چہرے پہ سجائے لرزنے لگیں ۔۔۔۔اس کے گال کل رات اسکی جسارتیں اور شدتیں یاد آتے دہک کر اناری ہوئے۔۔۔۔

"Sweet Good morning my Angel."

وہ اسکی گردن میں چہرہ چھپائے گستاخیاں کرنے لگا تو رمشاء کی جان لبوں پہ آئی ایک بار پھر اسے رات والے موڈ میں دیکھ کر ۔۔۔

"بس پلیز !!!!

وہ شرم سے کپکپاتے روہانسے لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔

شیردل نے اسکی پیار بھری التجاء پہ اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا تو وہ بنا اس کی طرف دیکھے شانے سے شرٹ درست کرتے ہوئے واش روم کی طرف ببھاگ گئی ۔۔۔۔

شیردل اپنے مخصوص انداز میں بالوں میں انگلیاں پھیر کر مسکرانے لگا ۔۔۔۔

رمشاء فریش ہوکر باہر آئی ۔۔۔تب تک شیر دل اس کے لیے اپنا کرتا اور ٹراؤزر نکال کر بیڈ پہ رکھ چکا تھا ۔۔۔

رمشاء نے کمرے میں نظریں دوڑائیں کمرہ خالی تھا ۔۔۔اس نے گہری سانس لی۔۔۔۔

پھر کپڑے تبدیل کیے ۔۔۔کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔۔۔۔یہاں ضرورت کی تمام چیزیں موجود تھیں ۔سوائے آئینے کے ۔۔۔۔

اس نے برش اٹھا کر اپنے گیلے بال سلجھانے لگی ۔۔۔

شیردل دوسرے واش روم سے فریش ہوئے ۔۔۔کال اٹینڈ کیے واپس آیا تو دبے پاؤں کمرے میں آیا ۔۔۔۔

"آپ مجھے گڈ مارننگ کا جواب دئیے بنا ہی بھاگ گئی تھیں "

وہ اس کے قریب آتے ہی سرگوشی نما آواز میں بولا تو رمشاء نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔

وہ اس کی بے سروپا بات کو نظر انداز کرنے کی لیے وجہ تلاشنے لگی ۔۔۔۔

"اس گھر میں آئینہ نہیں "؟رمشاء نے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"اس بےجان آئینہ کی تلاش کیوں ہے ؟؟جو بولتا نہیں ،،، 

"ان بولتی نگاہوں میں دیکھو ،جو اپنی پتلیوں میں تمہارا عکس بھی دکھائیں گی اور ستائش کے ساگر بھی چھلکائے گیں۔

وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے حصار میں لیے مدھم آنچ دیتی آواز میں بولا۔

"چلیں کچن میں ؟"

شیر دل نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔۔

"جی "وہ کہتے ہوئے اسکی تقلید میں چلنے لگی ۔۔۔۔

شیردل نے فریج سے فروزن سٹابیریز نکالیں اور دودھ کا پیک بھی ۔

"آپ سٹابیری شیک بنانے لگے ہیں ؟

رمشاء نے اسکے ہاتھ میں موجود چیزوں کو دیکھ کر اندازہ لگاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔اس وقت کچھ خاص موجود نہیں یہاں اس کے علاؤہ ۔۔۔

اگر تم کہو تو باہر سے کچھ آرڈر کرلوں ؟"

"ن۔نہیں اس کی ضرورت نہیں ۔۔۔میرا ابھی دل نہیں چاہ رہا کچھ بھی کھانے کو "

وہ اس سے نظریں ملائے بغیر بول رہی تھی ،تب سے چہرہ جھکائے ہوئے تھی ۔

"لیکن اس دل کا دل تو چاہتا ہے ،اس دل پہ حکومت کرنے والی کے قدموں میں دنیا کی ہر آسائش کا ڈھیر لگا دے "

رمشاء سلیب کے ساتھ کھڑی تھی ۔وہ اسکے قریب آتے اس کے ارد گرد بازو پھیلائے سلیب پہ رکھے اس پہ جھکے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

رمشاء نے نظریں اٹھا کر اس کے وجیہہ چہرے کو دیکھا جس پہ الوہی چمک کا بسیرا تھا ۔۔۔۔

"ممم۔۔م ۔۔میں بناؤں شیک ؟",

وہ بوکھلا کر بولی۔

"میرا بس چلے تو ان ہاتھوں سے خود کو چھونے کے علاؤہ کبھی کسی کام کو ہاتھ نا لگانے دوں " 

وہ اس کی ہتھیلی پہ لب رکھتے ہوئے خمارآلود لہجے میں بولتے جیسے اسے باور کروارہا تھا۔کہ وہ اس کے لیے کتنی اہم ہے ۔۔۔

"ویسے بھی میری شدتوں کو سہنے کے لیے آپکا تندرست ہونا لازم ہے "

شیردل کو اس کے چہرے پہ پھیلے قوس قزح کے رنگ بہت بھلے محسوس ہوئے تھے جس کا اظہار اس نے باقاعدہ رمشاء کے چہرے پہ جھکتے اس کے شرمگیں گالوں کو چھو کر کیا ۔۔۔وہ اسے یوں نرمی سے  چھوتا تھا جیسے نازک آبگینہ ،کہ وہ کانچ کی گڑیا اسکے زور سے چھونے سے ٹوٹ نا جائے ۔۔۔۔

"سٹابیری پسند ہے ؟"

شیردل نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔

"جی "

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

شیردل نے ایک سٹابری نکال کر اس منہ میں رکھی ۔۔۔۔

"مجھ سے تو تم نے پوچھا نہیں کہ مجھے سٹابری پسند ہے یا نہیں ۔۔۔۔

اس کی بات سن کر رمشاء نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"چلو میں خودی بتادیتا ہوں ۔۔۔

وہ اسکے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسائے اس پہ مزید جھکا ۔۔۔

"مجھے یہ والی سٹابیریز زیادہ پسند ہیں ،ریڈ ریڈ ،فریش فریش ۔۔۔۔

رمشاء نے اسکی نظریں اپنے ہونٹوں پر مرکوز دیکھیں تو اس کے حلق میں سٹابیری آپھنسی ۔۔۔۔اس سے سٹابیری نگلنا مشکل ہوئی ۔۔۔۔اس کے گلے میں کھانسی کا پھندہ لگا ۔۔۔

وہ بری طرح کھانسنے لگی ۔۔۔

"کیا ہوا اینجل "

"لو پانی پیو "

اس نے فٹافٹ پانی کا گلاس بھر کر اس کے منہ سے لگایا ۔۔۔

تو اس نے گھونٹ بھرا ۔۔۔

وہ اس کی کمر سہلانے لگا ۔۔۔

"اب ٹھیک ہے  ؟

وہ تشویش بھرے انداز میں بولا۔

"ہممم "اس نے اثبات میں جواب دیا۔

 "تم یہاں آرام سے بیٹھو "

شیردل نے رمشاء کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے سلیب پہ بٹھا دیا ۔اور خود کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پہ نظر ڈالی۔

"اوہ نو میٹنگ کا وقت تھا ۔۔۔

اس نے جھنجھلا کر کہا اور تیزی سے گرینڈر کی جگ میں دودھ اور سٹابیریز ڈالیں شوگر ڈالی آئس کیوبز ڈالے ۔۔۔

شیک بنا کر دو گلاسوں میں انڈیلا ۔۔۔ایک گلاس رمشاء کی طرف بڑھایا ۔۔۔

رمشاء خاموشی سے وہاں بیٹھی اس کی پھرتیاں اور کام کرنے کی مہارت دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اس نے زرا سا بھی کچن میں پھیلاوا نہیں پڑنے دیا ۔۔۔۔وہ دل ہی دل میں اسکی خوبیوں کی متعرف ہوئی ۔۔۔

"کس سوچ میں ہو "؟

ہممم۔۔۔نہیں کچھ نہیں "اس نے چونک کر کہا ۔

"چلو اسے جلدی ختم کرو ۔۔۔

"جی ",کہتے ہی اس نے گلاس لبوں سے لگایا ۔۔۔

"میری ایک امپورٹینٹ میٹنگ ہے ۔مجھے کچھ وقت لگ جائے گا ،تم ایسا کرو کچھ دیر آرام کرو پھر ان ہاتھوں سے میرے لیے کچھ بنانا پسند کریں گی ؟

وہ سوالیہ انداز میں بولا۔۔۔۔

وہ اس سے کام کروانا نہیں چاہتا تھا ،مگر اسے پتہ تھا کہ وہ ایک تو اکیلی ہے،دوسرا فارغ رہی تو پھر سے وہی سب یاد کر کہ خود کو ہلکان کرتی رہے گی ،اسی لیے وہ اسے مصروف کرنے کے لیے سوچ کر بولا ۔۔۔

",جی کیا بناؤں ؟

"جس پہ زیادہ وقت لگے ۔۔۔

اب کے بار حیران ہونے کی باری رمشاء کی تھی ۔۔۔۔

"جی ۔ی۔۔ی۔ی۔۔۔"اس نے جی کو لمبا کیے کہا ۔۔۔

"میرا مطلب جو اچھا ہو ۔۔۔جسے پکنے میں زیادہ وقت لگتا ہو ۔۔۔۔بتاو کس ریسیپی میں زیادہ وقت لگتا ہے ؟

شیردل نے پوچھا۔

"امممم۔۔۔۔پائے ۔۔۔بنانے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے ۔۔۔

"نو ۔۔۔نو ۔۔۔نو ۔۔۔۔وہ نہیں مجھے پائے ،نہاری وغیرہ پسند نہیں ۔۔۔۔آئلی چیزیں نہیں ۔

Something else....

"اچھا چلو تم اپنی پسند کی بنالینا ۔۔۔جو بھی جی چاہے ۔۔۔

یہاں کیبنٹ میں سامان موجود ہے ،اسی حساب سے کچھ بنا لینا ۔۔۔۔

"اوکے میں چلتا ہوں ۔۔۔۔

وہ کہتے ہوئے باہر نکلنے لگا ۔۔۔

"او ِشٹ ...میری ٹائی !! 

 وہ۔ تو میں لگانا بھول گیا ۔۔۔

کہاں رکھی تھی ۔

ہاں بیڈ پہ ۔۔۔۔وہ خودی سے مخاطب ہوا ۔۔۔

"میں لاؤں ؟"

رمشاء نے پوچھا ۔۔۔

"اوکے ۔۔۔۔میں اتنی دیر والٹ اور موبائل دیکھوں کدھر رکھا میں نے ۔۔۔۔

"یہ لیں آپکی ٹائی "رمشاء جتنی تیزی سے گئی تھی اتنی جلدی سے واپس آئی اور ٹائی اسکی طرف بڑھا کر کہا ۔۔۔

"اب لائیں ہیں تو لگا بھی دیں "

وہ اپنا کوٹ پہن کر اسکے سامنے آتے ہوئے فرمائش کرنے لگا ۔۔۔۔

"م۔۔مگر مجھے ٹائی باندھنا نہیں آتی ۔۔۔۔

"سچ میں ؟؟؟

اس نے سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔۔۔

"سچی " 

"چلیں ٹھیک کر لیا یقین ۔۔۔اس نے ٹائی اسکے ہاتھ سے لے کر باندھنا شروع کی ۔۔۔

"کبھی فرصت میں آپکو رومینس کا جواب رومینس میں دینے اور ٹائی باندھنے کے متعلق سب تفصیل سے سمجھائیں گے "

وہ اس کا گال تھپتھپاکر کر بولا ۔۔۔۔

"میں جلدی واپس آؤں گا ۔پھر گھر واپس چلیں گے ۔۔۔اوکے اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔

وہ جاتے ہوئے واپس مڑا اور رمشاء کو خود میں بھینچ گیا ۔۔

"میرے لیے "

وہ اس کی پیشانی پہ لب رکھے آہستگی سے بولا ۔۔۔

پھر سرعت سے اپنی گاڑی کی چابی لیے باہر نکل گیا ۔۔۔

اس کے جاتے ہی اسے یوں لگا جیسے گھر ایک دم خالی سا ہوگیا ۔۔۔۔

رمشاء وہیں لاونج میں موجود صوفے پہ بیٹھ گئی۔۔۔۔

کل سے لے کر اب تک جو بھی ہوا اس کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔ایک رات میں اس کی زندگی کتنی بدل گئی تھی ۔۔۔۔

اسے اپنے وجود سے شیردل کے مخصوص پرفیوم کی مہک آرہی تھی ۔۔۔وہ اچانک اس کے کتنے قریب آگیا تھا ،اسے اپنے رنگ میں رنگ کر اسے اپنے پیار کی مہک سے مہکا گیا تھا ۔۔۔اس کی اب تک کی گئیں جسارتیں یاد آتے ہی رمشاء کے گال تمتمانے لگے ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

گزری ہوئی حسین رات کے بعد صبح سورج کی سنہری کرنیں کھڑکی سے چھن چھن کر اندر آرہی تھیں ۔۔۔۔

جیسے ہی سورج کی کرنوں نے اسکی مندی ہوئی آنکھوں کو چھوا ۔۔۔۔اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں۔۔۔۔

احتشام جو اسکے برابر لیٹا ہوا تھا اسے اٹھتے ہوئے دیکھ  ہاتھ بڑھا کر اسے خود سے قریب کر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جیسے جیسے پل پل بیت رہا تھا اسکے جاذب نقوش میں احتشام کی جسارتوں پہ سرخی گھل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ 

احتشام نے رات کو اپنے سارے  جذبے اس پر لٹائے تھے ۔۔۔۔۔۔رات اس نے اپنی تمام حسرتیں بیان کیں تھیں ،جسے  اس نازک موم کی گڑیا نے بہت ہمت سے سہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ واقعی ایک با ادب اور اور منفرد لڑکی تھی جس نے بنا چوں چراں کیے اسکی تمام باتوں کو مانا اور آگے بھی ہر بات ماننے کا وعدہ کر چکی تھی،

اور اسکا رواں رواں احتشام کی محبت کی بارش میں مہک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

احتشام نے اسکے سرخ لبوں پر سجی مسکان پہ فدا ہوئے اسکی لرزتی پلکوں کو دھیرے سے چھوا ۔۔۔

"ہماری نئی زندگی کی پہلی خوبصورت صبح مبارک ہو میری خوبصورت سی وائف کو  ۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ اس کے بکھرے ہوئے گیسوؤں میں چہرا چھپائے بولا تو منساء اسکی خمارزدہ آواز پر ہڑبڑا کر اپنی جگہ سے اٹھی  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"بہت وقت ہوگیا ہے ",

وہ دیوار گیر کلاک پہ نظر ڈال کراپنے بالوں کو جوڑے کی صورت میں لپیٹتے ہوئے روانی سے بولی ۔۔

"واپس آؤ ۔۔۔سو جاو ابھی ۔۔سب کو پتہ ہے نیولی میرڈ کپل دیر سے سوتے اور دیر سے اٹھتے ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اسے کھینچ کر خود پہ گراتے ہوئے   کمفرٹر لینے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

",پلیز اٹھ جائیں باہر سب کیا سوچیں گے ۔۔۔وہ بدحواس ہوکر خود کو اسکی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

",مجھے تو ابھی نیند آرہی ہے۔رات بھی تم نے سونے نہیں دیا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتا اسے خود میں مدغم کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"کیا میں نے ؟؟؟"

منساء تو اس کے الزام پہ تڑپ اٹھی ۔۔۔۔

"ہٹیں پیچھے جھوٹھے ہیں آپ ۔۔۔مجھے جانے دیں ۔۔۔۔

"پہلے ٹھیک طرح سے واپس آئیں پھر جانے بھی دوں گا "

اس سے پہلے کہ وہ کوئی جسارت مزید کرتا کمرے کے دروازے پہ دستک کی آواز سن کر دونوں نے ایک ساتھ دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔

احتشام کی گرفت زرا ڈھیلی ہوئی تو وہ موقع سے فایدہ اٹھاتے ہوئے آہستگی سے کھسک گئی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ احتشام اسے جانے سے روکتا ۔۔۔وہ تیزی سے خود کو واش روم میں گم کرچکی تھی ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

"مجھے کچھ بنانے کا کہا تھا انہوں نے ۔۔۔مگر کیا بناؤں ؟؟؟

وہ وہاں سے اٹھ کر کچن میں آئی ۔۔۔ پہلے فریج کھول کر اس کا جائزہ لیا کہ کیا پکایا جاسکتا ہے ۔۔پھر کیبنٹ کھول کر دیکھا ۔۔۔۔

فریج سے اسے دہی ملا تو کیبنٹ سے بیسن اور باقی سامان بھی تقریبا مل ہی گیا اس نے کڑھی چاول بنانے کا سوچا ۔۔۔۔پھر اپنے کام میں مشغول ہوگئی ۔۔۔۔

اسے کڑھی چاول بنانے میں دو گھنٹے لگ گئے ۔۔۔

پھر وہ گھوم کر گھر کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔وہاں دنیا کی ہر آسائش موجود تھی سوائے آئینے کے ۔۔۔

وہ چلتے ہوئے اسی سوئمنگ پول کے قریب آکر اس میں پاؤں لٹکائے بیٹھ گئی ۔۔۔

ٹھنڈ میں ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔پھر سے وہی اذیت اسکے دل و دماغ پر چھانے لگی ۔۔۔۔۔جب جب وہ اپنے بارے میں سوچتی اس پہ پژمردگی چھا جاتی ۔۔۔۔۔آنسو اسکی پلکوں کی باڑ توڑ کر اسکے گالوں کو بھگونے لگے ۔۔۔۔

اسکی نظر سوئمنگ پول کے پانی  میں دکھائی دیتے اپنے چہرے پہ پڑی ۔۔۔۔

"اس ویڈیو میں میرا چہرہ میرا وجود نظر آیا ہوگا "

وہ پھر سے رنجیدہ ہو گئی۔۔۔

"مرنا ہے نا تمہیں ؟؟؟

"بولو مرنا ہے نا ؟؟؟

شیردل اسکی آنکھوں میں اپنی وحشت زدہ نظریں گاڑھتے ہوئے دھاڑا ۔۔۔۔

رمشاء نے بنا بولے بے بسی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

 "تو آج پھر میں اپنے انداز میں تمہاری جان نکالتا ہوں ،

"آگے سے کبھی مرنے کی خواہش کرنا بھول جاؤ گی ۔"

اسکے انداز میں جو جنون چھلک رہا تھا رمشاء اسے دیکھ ساکت رہ گئی ۔۔۔۔

اس کی بھاپ اڑاتی گرم سانسیں رمشاء کے ٹھنڈے پڑتے ہوئے چہرے کو جھلسا رہی تھیں ۔۔۔۔

شیردل نے اسکے بھرے بھرے گلابی لبوں پہ جھکتے ہوئے انہیں اپنے لبوں سے قید کرلیا ۔۔۔۔کل سوئمنگ پول کا منظر یاد آتے رمشاء کا ہاتھ بے ساختہ اپنے لبوں کو چھو گیا تو ساری تلخ یادیں پل بھر میں اڑن چھو ہو گئیں ۔۔۔

شیردل کے ہونٹوں کا نرم گرم  لمس اسے ابھی بھی اپنے لبوں پہ محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔

اسکے سمٹے ہوئے لب مسکراہٹ میں ڈھلے ۔۔۔۔ 

شیردل میٹنگ اٹینڈ کیے واپسی پر شاپنگ مال سے رمشاء کے لیے ریسیپشن کے لیے اور فی الحال پہننے کے لیے ڈریس خرید کر لایا ۔۔۔۔

وہ ڈور ان لاک کیے گھر میں آیا تو اسے پول کے قریب بیٹھے مسکراتے ہوئے دیکھ کر اسکے دل میں سکون اترا ۔۔۔کے اس کی کاوشوں سے وہ نارمل ہو چکی ہے ۔۔۔۔

"اینجل کیا ہو رہا ہے ؟

"کچھ نہیں "

اس نے پیچھے سے شیردل کی آواز سنی تو مڑ کر دیکھا پھر  بشاشت لاتے کہا ۔۔۔

"Do you miss me?

وہ اسکے قریب آتے ہوئے بولا۔

تو رمشاء وہاں سے اٹھ کر کھڑی ہوئی ۔۔۔۔

"م۔۔میں  نے آپکے لیے کھانا بنایا ہے "وہ اسکی بات کا جواب گول کیے اپنی بات کرنے لگی ۔۔۔

"صبح سے وہی شیک پیا ہے،بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔کیا بنایا کھانے میں ؟؟؟

"کڑھی چاول "

رمشاء نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے آہستگی سے بتایا ۔۔۔معا کہیں اسے یہ ڈش پسند بھی تھی یا نہیں ۔۔۔پتہ نہیں وہ کھائے گا بھی یا نہیں وہ اسی شش و پنج میں مبتلا تھی۔

"یار اینجل وہ تو بہت کھٹی ہوتی ہے ،"

"اب اتنی بھی کھٹی نہیں بنائی میں نے "وہ لہجے میں تھوڑی خفگی سموئے بولی ۔۔۔

شیردل کو اسکی ناراضگی کا اظہار بہت کیوٹ لگا ۔۔۔اسے رمشاء کو چھیڑنے میں مزہ آنے لگا ۔۔۔

"مگر مجھے تو کھانا کھانے سے پہلے سویٹ ڈش کھانے کی عادت ہے "

وہ ذومعنی انداز میں اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

جبکہ رمشاء اسکی نظروں کا مفہوم جانے بنا ۔۔۔کوئی اور ہی مطلب اخذ کرگئی ۔۔۔

"مگر میں نے تو سویٹ ڈش بنائی ہی نہیں ۔۔۔۔

"ڈئیر اینجل آپ کو بنانے کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔۔۔کیونکہ آپکے پاس سویٹ ڈش پہلے سے ہی موجود ہے "

وہ اسکے پاس آتے ہی اسکی گردن میں ہاتھ ڈال کر خمار زدہ آواز میں بولا۔۔۔

رمشاء کو اسکی انداز و اطوار سے خطرہ محسوس ہوا ۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اس سے دور ہوتی وہ اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں سے قید کر گیا ۔۔۔۔اسکی غیر ہوتی حالت پہ ترس کھاتے ہوئے اس کی حالت کے پیشِ نظر اپنے سینے میں بھینچتے اس کے کھلے ہوئے پشت پہ بکھرے ریشمی گیسووں کو سہلایا تھا جیسے وہ اسے پرسکون کرنا چاہ رہا تھا۔اور ہولے سے اسکے بالوں پہ لب رکھے  وہ گہرے گہرے سانس بھرتی ہوئی اسی کے سینے میں ہی چھپتے جیسے پناہ تلاش کررہی تھی۔کتنی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کی قربت محسوس کیے یونہی اسی حالت میں کھڑے رہے ۔۔۔۔

Are you ok ....

شیردل نے اسے خود کے حصار سے نکال کر پوچھا ۔۔۔

رمشاء نے سر اثبات میں ہلایا مگر پلکیں شرم کے باعث اٹھنے سے انکاری تھیں ۔وہ بار بار ایسی کوئی جسارت کرجاتا تھا کہ وہ اس سے نظریں ہی نہیں ملا پاتی تھی ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

"چلو ایک ہی گھر میں رہنے کا کچھ تو فایدہ ہوا ۔۔۔۔لوگوں کی بیویاں ولیمے کے بعد میکے چلی جاتی ہیں اپنے نئے نویلے دلہا کو چھوڑ کر ۔۔۔۔مگر میری بیوی تو میرے پاس رہے گی ۔۔۔۔میرے کمرے میں ۔۔۔۔تو پھر آج کا کیا پلان ہے ،ڈارلنگ !! 

اعیان اسکے شانوں پہ زرا سا زور ڈال کر اس پہ اپنی حاکمیت دکھاتے ہوئے بولا ۔۔۔

"مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی مت کرنا مسٹر اعیان "

وہ انگلی اٹھا کر بولی ۔۔۔

"مجھ پہ تم ایک بار پھر اپنا تسلط جما لو گے تو بہت بڑی بھول میں ہو تم "

اس نے دھمکی آمیز انداز میں کہا۔۔۔

"میں اپنی وجہ سے باقی سب کی خوشیاں برباد نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔اسی لیے ابھی تک خاموش ہوں ورنہ تمہارے یہ سو کالڈ  کردار کی دھجیاں بکھیرنے میں ایک لمحہ نہیں لگتا مجھے ۔۔۔۔

اعیان اسکی جراءت پہ دانت کچکچا کر رہ گیا۔۔۔۔

پہلے ہی میں رمشاء کا دل دکھا چکی ہوں ۔۔۔۔مجھے تمہاری صورت میں سزا ملی ہے اس بیچاری کا دل دکھانے کی ۔۔۔۔

"تم میرے لیے میری سزا ہو ۔۔۔۔اور کچھ نہیں۔۔۔۔

صحیح کہتے ہیں کہ کسی کی بنائی گئی دیواروں پہ اپنا محل تعمیر کرو گے تو وہ زیادہ دیر نہیں ِٹکے گا ،جلد یا بدیر وہ ریت کا ڈھیر بن جائے گا ۔۔۔

میں نے بھی کسی کا گھر توڑ کر اپنا بنانے کی کوشش کی۔۔۔اسی لیے خسارہ اٹھایا تمہاری صورت میں ۔۔۔۔

وہ حدردجہ تلخی سے بولی ۔۔۔

"بکواس بند کرو ۔۔۔۔کچھ زیادہ ہی زبان چلنے لگی ہے تمہاری "

اس نے کرختگی سے کہا  ۔۔۔

"میں آج ہی  ریسیپشن کے بعد مما کو بتاؤں گی تمہاری بیہودگی ۔۔۔اور جلد از جلد تم سے علیحدگی لے لوں گی ۔۔۔۔

وہ اٹل انداز میں بولی ۔۔۔

"کسی خوش فہمی میں مبتلا مت ہو ۔۔۔میں تمہیں کبھی طلاق نہیں دوں گا ۔۔۔۔اور آج رات کے لیے تیار رہنا ۔۔۔۔کل بھی تمہاری بیوقوفی کی وجہ سے سب خراب ہوگیا "

وہ دھاڑ سے دروازہ بند کرتے اپنی بات مکمل کیے باہر نکل گیا ۔۔۔۔جبکہ وہ حیرت کی مورت بنی وہیں ساکت کھڑی رہ گئی اسکے الزام پہ ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"آؤ تمہیں ڈریس دکھاؤں ۔۔۔دیکھ کر بتانا کیسا ہے "؟

اس نے اپنے ساتھ لائے ہوئے شاپنگ بیگز کھولے اس میں سے ڈریس نکال کر اسے دکھائے ۔۔۔۔

"بہت پیارے ہیں دونوں "

وہ ستائشی انداز میں دیکھ کر بولی ۔۔۔۔

"اچھا یہ بتاؤ تمہیں کون سا کلر پسند ہے ؟"

بھئی بیوی کی پسند پتہ ہونی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔جب بندہ شاپنگ کرے تو۔۔۔ اپنی بیوی کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کرے "

"مجھے بلیو کلر کے علاؤہ سب پسند ہیں "

رمشاء اسکی چاہت اور توجہ سے کافی حد تک سنبھل چکی تھی اسی لیے جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کے لیے بولی ۔۔۔

وہ جان چکی تھی کہ شیر دل کو ڈارک بلیو کلر بہت پسند ہے ،وہ جب اس کے آفس گئی تھی۔ تو وہاں بھی سب بلیو تھا ،اب یہاں بھی آئی تو ہر چیز بلیو تھی ،اس کے ڈریس بھی زیادہ تر بلیو ہی ہوتے تھے ۔۔۔۔اس لیے اسے چھڑنے لگی ۔۔۔۔

"واقعی ؟"اسے جیسے یقین نہیں آیا ۔۔۔۔

"تمہیں واقعی بلیو کلر پسند نہیں ۔۔۔۔"وہ حیرت سے استفسار کرنے لگا ۔۔۔

رمشاء کو اسے مزید تنگ کرنا مناسب نہیں لگا ۔۔۔۔اس لیے وہ اس کے پاس گئی ۔۔۔۔

"اچھا لگتا ہے،بلیو کلر ،آپکی آنکھوں اور ڈریس کا ایک جیسا ۔۔۔اور آپ کو سوٹ بھی کرتا ہے " 

"اور میں ؟وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے فسوں خیز آواز میں پوچھنے لگا ۔۔۔۔

وہ کچی ڈال کے مانند اسکے سینے سے آلگی ۔۔۔۔

"آپ بھی "وہ آہستگی سے مدھم لہجے میں بولی ۔۔۔

"کیا میں بھی ؟

وہ اس سے کچھ سننے کا خواہاں تھا ۔۔۔۔جو وہ بولنے سے انکاری تھی ۔۔۔۔

 "آپ کیا سننا چاہتے ہیں ؟وہ اپنی نگاہیں اسکے چہرے پر جمائے پوچھنے لگی ۔۔۔۔

"جو آپ کہنا نہیں چاہتی ،کہہ دو نا اینجل اس دل مضطرب کی چھوٹی سی خواہش ہے  "

اس کی انگلیاں اسے اپنی کمر پہ رینگتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔

"کیا کہہ دوں "؟

وہ ہچکچا رہی تھی اتنی جلدی سب کہنے کو دل میں سے آتی ہوئی صداؤں کو ڈپٹ کر ُسلا رہی تھی ۔۔۔۔اس کے کوٹ پہ اپنی پوروں سے نادیدہ مٹی جھاڑتے یوئے بولی۔

"That's you love me too"

وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے آنچ دیتے لہجے میں بولا۔۔

"م..مجھے بہت بھوک لگی ہے آئیں کھانا کھائیں پھر واپس گھر بھی جانا ہے "

وہ ان لمحات میں چھایا فسوں ختم کیے کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

شیردل مسکرا کر رہ گیا ۔۔۔

"اف پہلے کیسے ہر وقت سنجیدہ مزاج بنے رہتے تھے ،مجھے کیا پتہ تھا ،اتنے رومینٹک ہوں گے،تو۔۔۔ توگئی رمشاء ۔۔ "

وہ منہ میں بڑبڑاتے  ہوئے سر پہ ہاتھ مار کر تیزی سے کچن میں آئی ۔۔۔۔

رمشاء نے شیردل کا لایا گیا قدرے سادہ سا ریڈی میڈ ڈریس پہن لیا ،اس کا ہم رنگ دوپٹہ سر پہ اوڑھے وہ باہر آئی تو شیردل وہیں کھڑے اس کے کی انتظار میں تھا ۔۔۔۔

اس نے رمشاء کے چہرے پہ سوچ کی پرچھائیاں دیکھ لیں ۔۔۔۔

رمشاء کو  یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گھر جاکر وہ سب کی نگاہوں کا سامنا کیسے کریں گی۔اسے یہی سوچ سوچ کر جھرجھری لی۔۔۔۔

"اینجل ڈونٹ وری ۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔ری لیکس یار ۔۔۔

"میں ہوں نا تمہارے ساتھ ۔۔۔۔

اس نے رمشاء کا ہاتھ پکڑ کر اسے تسلی آمیز انداز میں کہا۔

رمشاء کی آنکھوں میں آنسو اترنے لگے ہی تھے ۔۔۔۔

"Don't Angel !!! 

شیردل نے اسے تنبیہی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

رمشاء آنکھوں میں اترے ہوئے آنسو پیچھے دھکیلنے لگی ۔۔۔

جو بہت مشکل ترین امر تھا ۔۔۔

"کسی کو کچھ نہیں پتہ اور کسی کو بتانے یا اس بارے میں کسی سے بات کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔میں نے وعدہ کیا ہے نا سب ختم ہو جائے گا تو مجھ پہ اپنا اعتبار ہمیشہ قائم رکھنا "

باتیں کرتے ہوئے اسی اثنا میں وہ دونوں گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے شیردل نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے لیے فرنٹ ڈور کھول کر اسے اندر بیٹھایا پھر دوسری جانب آتے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی۔اگنیشن میں چابی گھماتے ہی گاڑی اس دل مینشن کی حدود سے نکل کر حویلی کے راستے پر گامزن ہو گئی ۔تقریباً دو گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد اس کی گاڑی حویلی میں داخل ہوئی۔۔۔۔ شیردل باہر نکلا اور رمشاء کے لیے دروازہ کھولا تو وہ بھی باہر نکل آئی ۔۔۔۔اس نے رمشاء کا ہاتھ پورے حق سے تھام لیا۔۔۔۔

رمشاء کا ہاتھ اس کے ساتھ چلتے پسینے سے بھیگنے لگا ۔۔۔پہلے کبھی وہ سب کے سامنے شیر دل کے ساتھ کبھی اتنا قریب نہیں ہوئی تھی ۔۔۔سب کیا سوچیں گے ۔۔۔۔میرا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیکھ کر ۔۔۔۔وہ ابھی انہیں سوچوں میں گم تھی ۔۔۔۔

"کوئی کچھ کہہ کر تو دیکھے ۔۔۔سب کے سامنے تم سے نکاح کیا ہے ،کوئی بھگا کر نہیں لے گیا تھا "

وہ اٹل بہادری سے بولا ۔۔۔

رمشاء نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں کیا سوچ رہی تھی ۔۔۔۔وہ حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔

"بے شک آپ نے لفظوں سے اقرار نہیں کیا مگر حقیقت یہی ہے کہ آپ اپنا دل اس شیردل کو دے چکی ہیں ،اور آپکا دل چپکے سے میرے کان میں سب کہہ جاتا ہے "

وہ مدھم سا مسکرا کر بولا۔۔۔

تو رمشاء نے اسکی بات سمجھ میں آتے ہی نظروں کا زاویہ بدل لیا ۔۔۔۔

وہ ڈارک اور لائٹ ڈبل شیڈڈ  بلیو لانگ کا فراک اور چوڑی دار پاجامہ پہنے،مناسب ہیلز پہنے،بمشکل شیردل کے شانے تک پہنچتے ہوئے اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اندر آرہی تھی ۔۔۔۔شیردل کی ہمراہی نے اسے نیا نکھار بخشا تھا جس سے وہ کھل سی گئی تھی اور بنا میک اپ کے بھی دلکش دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔ اس کے ساتھ چلتا ہوا شیردل  معمول کے مطابق اپنی سحر انگیز شخصیت سمیت ڈارک بلیو پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا ۔۔۔

اندر داخل ہوتے ہوئے ایک بار رمشاء کے قدم پھر سے ڈگمگائے مگر  اس بار بھی شیردل نے اسے سہارا دے کر اس کا نازک کپکپاتا پاتھ مضبوطی سے تھام لیا تھا

آج ولیمہ کے لیے بھی حویلی کے باہر لان میں ہی انتظام کروانا تھا ۔اسی لیے شیردل وہاں وقت پہ پہنچ گیا تھا ۔۔۔شہریار ہاؤس میں سے بھی 

سب لوگ حویلی پہنچ چکے تھے ولیمے کی تقریب کے لیے ۔۔۔۔

وہ سب اس وقت لاونج میں موجود تھے ۔۔۔۔

زائشہ جو منساء  کو پارلر بھیجنے کے لیے کسی کو کہہ رہی تھی ،اچانک ان کی نگاہ اندر آتے ہوئے شیردل اور رمشاء پہ اٹھیں تو ایک لمحے کیلیے اس کے چہرے کو دیکھتے ساکت رہ گئی انہوں نے اس کے جھکے سر اور حیا سے لبریز چہرے کو دیکھتے دل ہی دل میں اس کی نظر اتارنا نہ بھولیں ۔۔۔۔رمشاء دوڑنے کے انداز میں تیزی سے اپنی مما کے نزدیک آئی تو زائشہ نے محبت سے اسے اپنے ساتھ لگایا۔

"کیسی ہے میری بیٹی۔۔"

رمشاء اپنی مما سے ملنے کے بعد پاس کھڑے اپنے بابا حسام کے پاس آکر انکے گلے لگی ۔۔۔۔۔حسام  نے اس کی پیشانی پہ محبت بھرا بوسہ دیتے ہوئے استسفار کیا تو حویلی کے  باقی سب مکین بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔

"بابا !!!!

اس سے مزید برداشت کرنا مشکل ہوا تو اس نے ان کے گلے لگے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا ۔۔۔۔

 سب اپنا کام روک کر پریشانی سے رمشاء کو روتا ہوا دیکھنے لگے ۔۔۔۔

"کیا ہوا رمشاء ۔۔۔تم رو کیوں رہی ہو "؟

رمشاء کی نظر سامنے کھڑے ہوئے شیردل پہ پڑی جو اسی تنبیہی نظروں سے دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا رہا تھا ۔۔۔

"ک۔۔کچھ نہیں بابا "وہ اپنے گالوں پر موجود آنسو اپنے دوپٹے سے پونچھ کر رندھی ہوئی آواز میں بولی ۔۔۔۔

"کچھ نہیں چچا جان آپ پریشان مت ہوں یہ رخصتی کے آنسو ہیں ،کل رات سے اس نے سنھبال کر رکھے ہوں گے ،کل تو اسے شیردل بھائی نے بہانے کا موقع نہیں دیا تو اس نے سوچا ادھار کیوں رکھنا اب بہا لوں "

زخرف نے آگے بڑھ کر بات کو ہنسی مزاح کا رنگ دے دیا ۔۔۔۔تو ماحول میں چھائی ہوئی سنجیدگی یکلخت سکون میں بدل گئی ۔۔۔۔

وہ دونوں سب سے ملکر بیٹھ گئے ۔۔۔۔

"کیسے لگے شیردل بھائی "؟

زخرف جو رمشاء کے ساتھ بیٹھی تھی اسے شرارت سے چھیڑتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"اچھے ہیں "وہ سادگی سے بولی ۔۔۔۔

"اور ۔۔۔۔۔"زخرف کو شرارت سوجھی ۔۔۔۔

 کل گزری رات اور آج پورے دن کے مناظر ایک فلم کی مانند اس کے آنکھوں کے پردوں پر لہرانے لگے تو اس کے گال دہکنے لگے ۔۔۔۔

"اوئے ہوئے ۔۔۔۔ایسا کیا ہوا کل رات جو اتنا شرمایا جا رہا ہے ۔۔۔۔وہ اس کے بازو پہ اپنی کہنی مارکر مسکراتے ہوئے بولی

جوابا رمشاء نے اسے گھوری ڈالی۔۔۔۔

"زخرف انسان بن جاؤ  !!!وہ ڈپٹ کر بولی 

"چلا لو ابھی جتنا حکم چلانا ہے تم نے مجھ پہ ۔۔۔۔جب میں تمہاری جیٹھانی بن گئی دیکھنا سارے کام کرواؤں گی تم سے "

وہ اپنے نیلز پہ پھونک مار کر ادا سے بولی ۔۔۔۔

رمشاء نے نا سمجھی سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

"کیا کہہ رہی ہو "؟

بالآخر اس نے پوچھ ہی لیا۔۔۔

"زرا اپنے شوہر نامدار سے بات کرو نا ۔۔۔۔انہیں کہنا کہ تھوڑی سی عقل اس کھڑوس امرام شیر کو بھی دے اور تھوڑا سا رومینس کرنا بھی سکھا ۔۔۔دیں ۔

ورنہ تو میں اس کھڑوس فوجی کو دیکھتے ہوئے ہی رہ جاؤں گی ۔۔۔ہائے میری قسمت مجھے بھی اس ہر وقت سڑا ہوا منہ بنا کر رکھنے والے خشک مزاج انسان سے ہی پیار ہونا تھا ۔۔۔

وہ دہائی دینے کے انداز میں بولتے ہوئے رمشاء کو مسکرانے پہ مجبور کر گئی ۔۔۔۔

زخرف دل میں اس کے لیے بہت خوش تھی ،کہ رمشاء کے چہرے پہ کل والی بات کا ہلکا سا شائبہ بھی نہیں تھا ۔۔۔وہ اس سے اس واقعہ کے متعلق بات کر کہ اس کے زخموں کو ادھیڑنا نہیں چاہتی تھی ،اس لیے اپنی ادھر ادھر کی مارنے لگی ۔۔۔

رمشاء نے خود کو کسی کی نظروں کے حصار میں پایا تو نگاہیں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔شیردل کی نیلی آنکھیں اسے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھیں ۔۔۔۔

"جاؤ رمشاء چینج کر لو پھر پارلر بھی جانا ہے ",زائشہ نے کہا ۔۔۔

"نہیں اس کی ضرورت نہیں میں نے زخرف سے کہا تھا اس نے بات کرلی ہے بیوٹیشن سے ۔۔۔۔بیوٹیشن گھر ہی آ جائے گی سب کو تیار کرنے کے لیے "

شیردل نے زائشہ کو آگاہ کیا ۔۔۔

"اچھا کیا ۔۔۔بچیاں آنے جانے کی خواری سے بچ جائیں گی "

وہ کہتے ہوئے باقی کی تیاریاں دیکھنے لگیں ۔۔۔ شیردل اٹھ کر باہر نکل گیا تقریب کے حساب سے سجاوٹ دیکھنے کے لیے ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

آج پری کو اس کی زندگی سے گئے ایک سال ہوگیا تھا ۔۔۔

وہ سچ کہتی تھی ،وہ میرے لیے بنی تھی ،میں نے اسے خود سے دور کر کہ اسے بھی سزا دی اور خود کو بھی ۔۔۔۔

اس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ بھی اس سے پیار کرتا تھا ۔۔۔اسکی شرارتوں میں ہی تو اسکی جان بستی تھی ،اس کی فرمائشوں میں تو زندگی تھی ،

درد ہے یا تیری طلب ۔

جو بھی ہے،مسلسل ہے ،

اسکے بنا جو دن اور راتیں کٹی سب بے معنی لگنے لگی تھیں ۔۔

آریان اسے ڈھونڈھ نہیں پایا تھا ۔۔۔

وہ جب پری کو مسجد میں چھوڑے باہر نکل گیا تھا،پری اسکے پیچھے آنے کے لیے باہر نکلی۔۔۔۔

تبھی زوردار دھماکہ ہوا۔۔۔۔

اس کا شوہر مروان اور اسکے بھائیوں اور والد سمیت سب اس حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملے۔۔۔۔مگر پری اس زوردار دھماکہ خیز مواد کی وجہ سے اچھل کر دور جاگری ۔۔۔۔

کسی نیک صفت انسان نے جب عروسی لباس میں ملبوس ایک لڑکی کو زخمی حالت میں دیکھا تو اپنے ساتھیوں سے ملکر اسے ہسپتال چھوڑ آیا ۔۔۔۔

آریان اس وقت مسجد واپس پہنچا تھا جب وہ لوگ پری کو ہسپتال لے جا چکے تھے ۔۔۔۔

پری کا علاج اس سرکاری ہسپتال میں ایک ماہ چلتا   رہا۔۔۔ایک دن نیلم بائی اپنے کسی گاہک سے وہاں ملنے کے لیے آئی تو اس نے ایک خوبصورت ترین لڑکی کو وہاں لیٹے ہوئے دیکھا تو اس کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔۔۔۔

"ارے یہ تو ہیرا ہے ہیرا ۔۔۔۔نیلم بائی کے کوٹھے پہ چمکے گا تو اسے چار چاند لگا دے گا "

اس کے منہ سے رال ٹپکنے لگی۔۔۔اس نے اپنے تئیں اس کی ساری معلومات اکٹھا کیں ۔۔۔۔جب اسے پتہ چلا کہ وہ لاورثوں کی طرح ایک ماہ سے یہاں پڑی ہے،تو اس کی تو مراد بر آئی ۔۔۔۔

اس نے راتوں رات اپنے آدمیوں سے کہہ کر اسے وہاں سے نکلوا لیا ۔۔۔۔۔

پری کو جب ہوش آئی تو اس نے خود کو ٹرین میں پایا ۔۔۔

"آپ کون ؟"پری نے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"ارے تم مجھے بھول گئی چاندنی ۔۔۔میں تیری خالہ ہوں ۔۔۔۔تیرے ماں باپ بیچارے ایک حادثے میں اللّٰہ کو پیارے ہوگئے تو اب تو میرے ساتھ رہتی ہے،ہم اپنے گھر جارہے ہیں ۔۔۔تو بتا تجھے بھوک لگی ہے تو کچھ لے کر دوں کھانے کو ؟؟؟وہ پری کو کہتے ہوئے ٹرین میں موجود پھیری والے سے مخاطب ہوئی ۔۔۔

اس عورت جس کے منہ میں پان تھا ۔۔۔۔وہ اسے اپنی بھانجی بتا رہی تھی ۔۔۔پری نے ذہن پہ بہت زور ڈالا مگر اسے سوچنے کے باوجود بھی کچھ یاد نہیں آیا ۔۔۔۔

یوں پری نے چاندنی بننے کا سفر طے کیا ۔۔۔۔

وہ نیلم بائی کے کوٹھے پر آگئی اور وہاں رہنے لگی ۔۔۔نیلم بائی نے اسے ایک کوٹھے والی کی ادائیں انکی زبان سکھائی ۔۔۔ان کا ادب و آداب سکھایا ۔۔۔اسے ناچنے میں مہارت دلوائی ۔۔۔۔پری عرف چاندنی نے نیلم بائی کی ہر بات مانی سوائے جسم فروشی کے ۔۔۔۔۔

"تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ماھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ زخرف نے اسے بستر پہ لیٹے تکیے میں منہ چھپائے روتے ہوئے دیکھ سرعت  سے اسکی جانب لپکی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے شانے پہ ہاتھ رکھ کر اٹھانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ 

زخرف نے ناسمجھی سے اس کے یاسیت سے گھلے چہرے کو دیکھا ۔۔۔۔۔وہ بوجھل آنکھیں کھولے اپنے بھاری محسوس ہوتے سر کو تھامے اٹھ کر بیٹھی ۔۔۔۔۔۔۔ 

"لو پانی پیو  ۔۔۔۔۔۔۔زخرف نے اسکی حالت کے پیش نظر سائیڈ ٹیبل پر موجود جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر اسے پکڑایا ۔۔۔ ماھی نے اپنے سوکھے لبوں سے پانی گلاس لگایا پھر اسے ایک ہی سانس میں پی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی پی کر گلاس ذخرف کو تھما دیا اور خود گہرا سانس لے کر خود کو نارمل کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔

دفعتاً  اس کی اپنے بستر پہ موجود چیزوں پہ پڑی جو ابھی ماھی اپنے ساتھ اندر لے کر آئی تھی ۔۔۔۔

جگر جگر کرتا ڈائمنڈ جیولری سیٹ ،اور اس کے ساتھ پڑی بلیک کلر کی چکمتے ہوئے نگینوں کے کام سے مزین بیش قیمتی میکسی ۔۔۔۔۔دیکھ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔۔

دماغ میں اُس رات کا واقعہ کسی فلم کی طرح چلنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ساکت بیٹھی آنسو بہانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"آ۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔ب۔۔بہت۔۔برے ہیں۔۔۔میں۔۔آپ سے ۔۔۔کبھی ۔۔۔شادی نہیں ۔۔۔کروں گی ۔۔۔۔

"کبھی نہیں ۔۔۔۔وہ اسکے ہاتھ جھٹکتی پہلی بار اسکے سامنے ہمت دکھاتے ہوئے غصے ۔۔۔۔سے بولی ۔

"I h...h...hate you...

اس کا اشتعال عود کر آیا اور وہ اپنے الفاظ اور انداز سے لکی کو ساکت کر گئی۔۔۔۔۔۔اسکی آنکھیں ماھی کے لفظوں پر غصے کی زیادتی سے خون چھلکانے لگیں ۔۔۔ایک جھٹکتے سے سختی سے اسکی کہنی  سے پکڑ کر ماھی کواپنے قریب کیا پھر وہ سرد آواز میں غرایا ۔۔۔۔

"کیا بولا تم نے ؟؟؟

"نفرت ہے تمہیں مجھ سے ۔۔۔

"ٹھیک ہے پھر نفرت تو نفرت کی سہی ۔۔۔۔

"اب چاہے تم نفرت کرو یا محبت رہنا تو تمہیں میرے ساتھ ہی ہوگا ۔۔۔ تمہارے سامنے انسان بنا ہوا ہوں تو انسان ہی رہنے دو مجھے ۔حیوان بننے پر مجبور ناکرو ۔۔۔اگر میرے اندر کا حیوان جاگ گیا تو سوچ لو  تمہارے لیے ہی اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔۔

۔۔۔۔اسکا لہجہ ایسا تھا کہ ماھی کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ پھیل گئی اور آنکھیں پھٹنے کے قریب ہی ہوگئی۔۔۔۔اسکا معصوم سا دل سکیڑنے لگا ۔۔۔۔ہاتھ پاوں سرد پڑ گئے۔۔۔۔۔

"آئیندہ اگر مجھ سے دور جانے کی بات کی تو اپنے ان ہاتھوں سے جان لوں گا تمہاری ۔۔۔سمجھی تم "

"جاکر آسمانوں میں چھپ جاؤ یا سمندر کی گہرائیوں میں وہیں سے نکال لاؤں گا تمہیں ۔۔۔۔کسی غلط فہمی میں مت رہنا کہ لکی سے دور جا پاؤ گی تم ۔۔۔۔

"ماھی تم شاور لے لو تو خود کو فریش فیل کرو گی ۔۔۔جاو شاور لے کر آو تو میں پھر تمہیں ریڈی کروں۔دعا پھپھو نے تمہیں تیار کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی ہے۔۔۔

ماھی سپاٹ انداز میں اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ 

"دیکھو ماھی مجھ پہ غصہ مت ہونا میں نے تو پھپھو کو کہا تھا کسی بیوٹیشن کو بلا لیتے ہیں ،مگر آپکے ہونے والے انہوں کا حکم نامہ جاری ہوا تھا کہ انکی ہونے والی مسسز کو سادہ ہی رکھا جائے ۔۔۔۔وہ اس کے اداس چہرے پہ مسکراہٹ لانے کے لیے زرا سا شرارتی انداز میں پیش آئی ۔۔۔

مگر آنے والے وقت کے بارے میں سوچ سوچ کر ماھی خود اپنی بھی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔۔۔۔۔ 

مج۔۔۔مجھے ان سے شادی ۔۔۔نہیں ۔۔۔.  کرنی ۔۔۔۔کبھی نہیں کروں گی ۔۔۔شادی ۔۔۔۔ وہ چیخی اور ہاتھ مار کر بیڈ سے سب کچھ نیچے گرا لیا ۔۔۔۔۔۔۔ زخرف حیران کن نظروں سے اس کا شدید ردعمل دیکھنے لگی ۔۔

وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی لرزتی ٹانگوں کا بوجھ نا سہہ پانے کی وجہ سے نیچے بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور گھٹنوں میں سر دئیے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔

جیسے ہی دعا اسکے کمرے میں داخل ہوئی اس نے اپنی بیٹی کو یوں دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا تو اتنے دنوں سے ان کا پتھر بنا دل موم ہوا ۔۔۔۔

وہ اپنی ناراضگی اس سے زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکی آخر کار وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی ۔۔۔۔

شاید میں نے اس سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ کر لیں تھیں ۔۔۔۔میری بیٹی انسان ہے،کوئی فرشتہ نہیں جو کوئی غلطی نا کرے ،اور انسان تو خطاوں کا پتلا ہے،ٹھوکر لگتی ہے تو ہی سیکھتا ہے،دعا نے دل میں سوچا اور اسکے مقابل فرش پہ بیٹھتے ہوئے اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اسکی پسینے سے تر پیشانی پہ پیار بھرا بوسہ دیا ۔۔۔۔

اپنی ماں کی اس ممتا بھرے لمس  اور آغوش میں جانے کے لیے وہ کتنے دنوں سے تڑپ رہی تھی ۔۔۔چھپ چھپ کر رو چکی تھی ،انکا لمس پاتے ہی ماھی کے غمزدہ چہرے پہ خوشی چھا گئی۔۔۔۔

وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آنسو رگڑ کر صاف کرتے ہوئے انہیں دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ نے مجھے معاف کردیا ۔۔۔۔؟.وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

دعا نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ خوشی سے جھوم کر انکے گلے لگی ۔۔۔۔

کتنا بڑا بوجھ تھا جو اسکے دل سے سرک گیا تھا آج ۔۔۔۔

"مما مگر بابا ؟؟؟ماھی نے اپنے بابا کے بارے میں پوچھا ۔۔۔کہ کیا وہ اسے معاف کردیں گے ؟؟؟

"ماھی !!! 

"تم اپنے بابا کو منانا چاہتی ہو ؟؟.انہوں نے سوالیہ لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔

تو ماھی نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

"تو پھر جلدی سے تیار ہوکر نکاح کے لیے نیچے آجاؤ ،وہ اسعد صاحب کو نکاح کے لیے زبان دے چکے ہیں ،اور فیملی میں سے بھی سب بڑے آچکے ہیں ،نکاح سے انکار کر کہ انہیں سب کے سامنے مزید شرمندہ مت کروانا ۔۔۔۔ورنہ تم پھر سے ایک بار انکی ناراضگی مول لے لو گی ۔۔۔۔

"میں بات کروں گی ان سے وہ بھی معاف کردیں گے تمہیں ۔۔۔

انہوں نے تسلی آمیز انداز میں اسکا ہاتھ دباتے ہوئے کہا ۔۔ 

"سچ مما آپ کریں گی بات ؟؟؟

"ہممم کروں گی ۔۔۔۔

"چلو شاباش جلدی سے تیار ہوکر آؤ "

"میں زرا نیچے کے انتظامات دیکھ لوں "وہ اسے کہتے ہوئے باہر نکل گئیں ۔۔۔۔

ماھی نے مسکراتی ہوئی نظروں سے پیچھے خاموش کھڑی زخرف کو دیکھا ۔۔۔۔

"زخرف !!  

"مما بابا نے مجھے معاف کردیا ۔۔۔۔میں کتنی خوش ہوں ۔۔۔۔تمہیں بتا نہیں سکتی ۔۔۔۔۔وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی اپنی بیسٹ فرینڈ زخرف کے گلے لگی ۔۔۔۔

"آگے کیا ہونے والا ہے زخرف میں نہیں جانتی ،میں نے اپنی زندگی کا فیصلہ اپنے والدین پہ چھوڑ دیا ۔۔۔۔مجھے انکی ہر بات قبول ہے ۔اب میں انہیں ناراض نہیں کروں گی ،

"ڈونٹ وری ماھی تم بہت اچھی ہو ،اور اللّٰہ تعالیٰ اچھے لوگوں کے ساتھ کبھی کچھ برا نہیں ہونے دیتا ۔۔۔۔ان شا اللّٰہ سب ٹھیک ہوگا تمہارے ساتھ میرا دل کہتا ہے "

وہ اپنی دوست کے جذبات سمجھ سکتی تھی اسی لیے اس کی ہمت بندھانے کے لیے بولی ۔۔۔۔

 اور ڈریس تھام کر بغیر کسی چوں چراں کے باتھ روم میں بند ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔

"ماھی تم نے بتایا نہیں تمہیں لکی سر کیسے لگتے ہیں "؟

وہ اس کے ریشمی بالوں کے پرمز بنا کر انہیں پشت پہ یونہی کھلا چھوڑے ہوئے اب اس کے سر پہ دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔۔

ماھی کی نظروں کے سامنے لکی کا وجیہہ سراپا لہرایا ۔۔۔۔

حد سے زیادہ سفید رنگت،کہ اسکی سبز رگیں بھی واضح دکھائی دیتی تھیں ،اسکے بالوں کا مخصوص ہئیر اسٹائل ،اور سب سے اٹریکٹو اسکی پر اسرار سی گولڈن  شیڈڈ آنکھیں،،،جن میں چھایا ہوا وحشت و جنون اسے یاد آیا تو ماھی کی جان ہوا ہوئی ۔۔۔۔

ماھی بمشکل اس کے سینے تک پہنچ پاتی ہوگی ۔۔۔۔

"کیا ہوا ماھی بولو نا ؟زخرف نے اسے خاموش دیکھ کر ٹہوکا مار کر پوچھا ۔۔۔

تو وہ چونک کر جیسے ہوش میں آئی ۔۔۔۔

"بتاؤ نا ماھی "

"زخرف سچ بتاؤں تو بظاہر تو بہت اچھے ہیں مگر مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔

"وہ ۔۔۔پتہ نہیں کیسے دیکھتے ہیں مجھے "

وہ خوفزدہ انداز میں بولی ۔۔۔۔

"ارے ماھی تو بھی نا ....کچھ نہیں ہوسکتا تیرا ۔۔۔۔وہ اپنی پیشانی پہ ہاتھ مار کر بولی ۔۔۔۔

اب وہ تیرے ٹیچر نہیں تیرے ہونے والے "وہ "بننے جا رہے ہیں تو ویسی ہی نظروں سے دیکھیں گے نا ۔۔۔۔

تو بھی بالکل پاگل ہے اور اپنے ساتھ عنقریب مجھے بھی کردے گی ۔۔۔۔

ہائے او ربا یہ مجھے کن کم عقلوں میں بھیج دیا تو ایک یہ کم عقل دوست اور دوسرا وہ کم فہم میجر ۔۔۔۔

جن دونوں کو رومینس کی اے۔ بی ۔سی ۔ڈی ہی نہیں پتہ ۔۔۔نا نظروں کی زبان سمجھ آتی ہے ۔۔۔۔

"لو بھئی لکی سر آپ کو بھی جو سوئی ہوئی روح ملنے والی ہے ۔۔۔آپ کی نیا تو لگ گئی پار ۔۔۔۔وہ لکی سے بھی ہمدری محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔ماھی کو لے کر ۔۔۔۔

"زخرف ۔۔۔۔!

ماھی تیار کر کھڑی ہوئی ۔۔۔

"ہممم بولو "

"ماھی وہ مجھ سے کتنے بڑے ہیں "

اس نے ایک اور خدشہ ظاہر کیا۔۔۔۔

"یار تو کیا ہوا ،دلہا لڑکیوں سے بڑے کی اچھے لگتے ہیں ۔

اب دیکھ میں کتنی چھوٹی یوں مگر اپنا دلہا کتنا بڑا ڈھونڈ رکھا ہے ،اب اس میں میرا کیا قصور کہ اللّٰہ نے میرا آدھا قد بھی اسے ہی دے دیا ۔۔۔۔

چل کوئی نہیں کمپرومائز کرلوں گی "

زخرف کی باتیں سن کر سنجیدہ کھڑی ماھی بھی مسکرائے بنا نہیں رہ سکی ۔۔۔۔

"زخرف ماھی کو شال اوڑھا دو مولانا صاحب آرہے ہیں ۔

آیت نے اندر آکر کہا ۔۔۔۔

"ایک منٹ ایک منٹ مجھے بھی دیکھنے دو ہماری چھوٹو سی ماھی کیسی لگ رہی ہے دلہن بنی "

منساء نے اندر آکر کہا تو اسکے پیچھے پیچھے رمشاء بھی اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔

How cute Mashallah"

رمشاء نے اسے دروازے میں کھڑے توصیفی انداز میں کہا ۔۔۔۔

کچھ دیر میں دونوں طرف سے ایجاب و قبول کا فریضہ انجام دیا گیا۔۔۔۔

آیت اور زخرف دونوں ماھی کو لے کر نیچے آئیں ۔۔۔۔

بلیک کلر کی  میکسی جس پہ جھلملاتے ہوئے نگینوں کا نفیس کام کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی دمکتی رنگت پر وہ خوب  کھل رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ 

اس سیاہ میکسی میں اس کا گورا مکھڑا یوں لگ رہا تھا جیسے سیاہ بادلوں پہ پوری آب و تاب سے جگمگاتا ہوا چاند  ۔۔  کھلے لمبے گیسو ، سرخ آنکھیں سرخ چھوٹی ناک ۔۔۔۔۔ پنکھڑیوں جیسے کپکپاتے ہونٹ ۔۔۔۔

سامنے صوفے پر پورے طمطراق سے براجمان لکی جو اس وقت سیاہ ڈنر سوٹ میں ملبوس اپنی سحر انگیز پرسنالٹی سمیت سب پہ بھاری تھا۔۔۔۔۔اپنی لک پہ نظریں اٹھا کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔۔۔۔آج وہ بالکل اسکی پسند میں ڈھلی کوئی خوشنما کلی لگ رہی تھی ،جسے اس نے اپنے پیار کی خوشبو سے معطر کیے کلی سے گلاب میں بدل دینا تھا ۔۔۔۔

وہ سہج سہج کر قدم اٹھاتی لکی کے سامنے آئی ۔۔۔۔

"واؤ "لکی کے ہونٹ سے بلا اختیار نکلا ۔۔۔۔

مگر اسکی آواز سرگوشی نما اتنی ہلکی تھی کہ بمشکل اسکے خود کے کانوں تک پہنچی ۔۔۔۔

معصوم سی ماھی  دلہن کے روپ میں ۔۔۔۔ آسمان سے اتری کوئی اپسراء  لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ آیت اور زخرف دونوں اسے لکی کے ساتھ صوفے پر بیٹھا کر چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ 

اب وہ چپ چاپ ساکت بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ 

نکاح میں فیملی کے سب بڑے افراد شامل تھے ،جس میں ہیر شیر زمان،ضامن عیش ،زیان جنت ،احتشام منت ، حسام زائشہ ۔نیولی میرڈ کپل جن میں احتشام ،منساء ،رمشاء اور شیردل ،امرام شیر بھی پہنچ چکا تھا ۔صرف اعیان اور ہانیہ ہی وہاں موجود نہیں تھے ۔۔۔ جیسے ہی اس دن ولیمے کی تقریب ختم ہوئی تھی اعیان اور ہانیہ دونوں کہیں چلے گئے تھے ۔۔۔۔اور جب اعیان سے صبح کال کر کہ سب نے ان دونوں کی یوں اچانک غائب ہونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا ۔۔۔

کہ وہ دونوں نے سرپرائز ہنی مون ٹرپ پلان کررکھا تھا تو وہ ہنی مون کے لیے نکل گئے ہیں ۔اس لیے سب مطمئن ہوگئے  ۔۔۔۔۔۔۔ 

لکی کی طرف سے صرف اسکے والدین ہی شامل تھے جن میں اسعد صاحب اور انکی مسسز تھیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

سب نے جب لکی کو نکاح ہونے کے بعد ماباکباد دی اور اسکی تصویر اتارنی چاہی تو اس نے ہاتھ اٹھا کر سب کو منع کردیا ۔۔۔۔

"میں تصویر نہیں بنواتا ۔۔۔۔

اسلام میں تصویر اتارنے اور اتروانے والے کے بارے میں اچھا نہیں کیا گیا ۔۔۔۔

اس نے مذہبی نقطہء نظر سے کہا تو سب نے اس سے بحث کرنے کی بجائے خاموشی سادھ لی ۔۔۔۔

حالانکہ اس بات پہ سامنے موجود حذیفہ کو شدید قسم کا غصہ آیا مگر وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا ۔۔۔ 

وہاں کی صورت حال دیکھ کر حذیفہ الٹے قدموں سے چلتا ہوا باہر آگیا اور گاڑی کے بونٹ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تو ابھی تک سکتے کی کیفیت میں تھا اس نے ایسا تو کچھ نہیں چاہا تھا۔۔۔

"میں نے اپنے پیار کا اظہار کرنے میں بہت دیر کردی میں نے تو سوچا تھا کہ تمہاری تعلیم مکمل ہونے تک کا انتظار کروں گا ۔۔۔مگر مجھے کیا پتہ تھا ۔مجھ سے پہلے کوئی اور تمہیں اپنا بنالے گا ۔۔۔۔

"یہ بات میں ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں ہی دفن کرلوں گا "

"اب تم کسی اور کی امانت ہو،اے میرے پروردگار میرا دل بدل دے ،اگر اسے میرے مقدر میں نہیں لکھا تو اس کی یاد بھی میرے دل سے نکال دینا ۔۔۔۔

اس نے ٹوٹے بکھرے لہجے میں دعائیہ انداز میں کہا ۔۔۔

"میری وجہ سے کبھی بھی جانے انجانے میں بھی تمہاری عزت پہ کوئی حرف نہیں آئے گا ۔۔۔"

وہ آنکھیں میچ کر کرب زدہ آواز میں خودی سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔۔۔

آج وہ اذیت کی انتہاؤں پہ پہنچا تھا ۔۔۔اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی محبت کو کسی اور کا ہوتا دیکھنا اسکے لیے کڑا امتحان تھا ۔۔۔۔

وہ شکستہ وجود لیے گاڑی کی طرف بڑھا کیونکہ اس میں مزید سکت نہیں بچی تھی کہ اسے کسی اور کے ساتھ رخصت ہوتے ہوئے بھی دیکھتا ۔۔

وہ اپنی آنکھیں رگڑ کر صاف کرنے لگا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ گاڑی میں بیٹھتا احتشام کی آواز کی سن کر اس کی سمت متوجہ ہوا۔۔۔۔

احتشام اسے دروازے کے پاس  سے آواز دیتا ہوا اس کی طرف آ رہا تھا۔۔۔

"حذیفہ تم ٹھیک ہو نا ۔۔۔۔"

احتشام نے اسکی سرخی مائل آنکھوں میں دیکھ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔

"جی میں ٹھیک ہوں بھائی "اس نے چہرہ نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

لیکن احتشام اسکے چہرے پہ لکھی تحریر پڑھ چکا تھا ۔

"تم چھپا رہے ہو مجھ سے ؟"

"نہیں احتشام بھائی۔۔ میں کیوں چھپاؤں گا آپ سے کچھ میں بالکل ٹھیک ہوں۔

"بس کچھ ضروری کام یاد آگیا تھا ۔۔۔۔میں آپ سے گھر میں ملتا ہوں ۔۔۔

وہ جلد از جلد وہاں سے دور چلے جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔

احتشام اسے جاتے دیکھ واپس اندر آیا ۔۔۔جہاں باقی سب موجود تھے ۔

 ماھی کو اپنی پشت پہ اس کے سرسراتے ہوئے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا تو اس کا دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کے لئے مچلنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر کی گھبراہٹ سے ہتھیلیاں بھیگنے لگی ۔۔۔۔۔۔ 

اسنے سختی سے آنکھیں میچ لی ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے اپنے پاپا اور مما کا چہرا گھومنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ کتنے خوش ہیں وہ دونوں اس  کے نکاح پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان دونوں کے ساتھ پورا خاندان بھی ۔۔۔۔۔ 

 ۔۔۔۔ایسے لگ رہا تھا کہ وہ اک ظالم خوبصورت دیو ہے ۔۔جو اس کے ساتھ بیٹھا ہے ، اور ایک خود تھی ۔۔۔ اکیلی بےبس پنچھی کی طرح اسکی قید  میں ۔۔۔۔۔۔ 

اسے اپنے قریب اس جنونی  انسان کے قرب سے اٹھتی ہوئی محسور کن مہ  آئی تو وہ پوری سمٹ سی گئی خود میں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں کی کپکپاہٹ واضح تھی ۔۔وہ سر  جھکائے  غائب دماغی سے بیٹھی اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔

گھر میں اس  چھوٹی سی تقریب میں سب نے شرکت کی ۔۔۔۔شاہ من اب حویلی کی بجائے اپنے الگ گھر میں رہ رہا تھا ۔۔۔سب کو جب اچانک اس ہونے والے نکاح کا پتہ چلا تو اس سے سب سے پہلے شیرذمان نے سوال کیا ۔۔۔

"شاہ من اتنی جلدی کیا تھی تمہیں ماھی کی شادی کی ؟

"ابھی تو وہ بہت چھوٹی ہے۔اور اسکی تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی۔

"بھائی رشتہ بہت اچھا تھا میں اسے گنوانا نہیں چاہتا تھا ،انہوں نے کہا ہے کہ انہیں ماھی کی تعلیم جاری رکھنے میں کوئی اعتراض نہیں ۔تو مجھے منع کرنا مناسب نہیں لگا ۔۔۔۔

ویسے بھی یہ رخصتی وقتی ہے،اسعد صاحب ماھی کو ایک رات کے لیے اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں،اہنے عزیز و اقارب سے ملوانے کل ماھی واپس آ جائے گی ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد رخصتی ہوگی ۔پوری طرح ۔۔۔۔

شاہ من نے اپنے بڑے بھائی شیرذمان کو اپنے تئیں تسلی بخش جواب دیا۔۔۔

باقی سب جو اسی شش و پنج کا شکار تھے کہ اتنی جلدی کس بات کی تھی ۔اس سے سوالات کرنا چاہتے تھے مگر شاہ من کا جواب سن کر سب خاموش ہوگئے ۔۔۔

دعا نے گھر میں ہی پرتکلف کھانے کا اہتمام کیا تھا ۔۔۔۔سب نے ملکر کھانا کھایا تو قرآن پاک کے سائے میں رخصتی کا فریضہ انجام دیا گیا۔۔۔۔

 ینگ پارٹی جب رخصتی کے بعد وہاں سے نکلی تو سب نے آئس کریم کھانے کا پلان بنایا ۔۔۔

شیردل ،رمشاء،منساء احتشام ،امرام ،ذخرف،آیت ،اور مومن سب ملکر آئس کریم پارلر کی طرف روانہ ہوگئے ۔۔۔جبکہ سب بڑے افراد گھر چلے گئے ۔۔۔

"آرڈر کون کرے گا ۔۔۔۔"

زخرف نے سب کو خاموش بیٹھے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔

یہاں کیا ایک دوسرے کا منہ دیکھنے آئے ہیں "؟

"صیحیح کہا زخرف نے ۔۔۔مومن آپ ہی کردیں آرڈر ابھی آنے میں بھی وقت لگے گا ۔۔۔۔آیت  نے بھی زخرف کی تائید کی۔۔۔۔۔

"مومن سب کی پسند پوچھ کر انکی پسند کا فلیور آرڈر کرنے لگا ۔۔۔۔۔

"امرام شیر تم بتاؤ ؟"

وہ جو آر جھکائے موبائل میں مصروف تھا،چونک کر سر اٹھایا۔۔۔۔

"میرا بلکل دل نہیں ہے مومن  تم لوگ کھاؤ۔۔۔۔۔میں صرف تم لوگوں کو کمپنی دینے کے لیے یہاں آگیا " 

امرام شیر کچھ ٹائپنگ کرتے ہوئے سنجیدگی سے  اسے ٹالتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

"امرام جب یہاں تک آہی گئے ہو تو کھانے میں کیا حرج ہے ۔۔۔۔۔"

احتشام نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

"کھالیں۔۔۔ جس طرح  آئس کریم پگھلتی ہے،ویسے آپکا دل بھی پگھل جائے شاید اسے کھا کر ۔۔۔

سامنے بیٹھی ذخرف نے آہستگی سے کہا ۔۔

سب اپنی اپنی باتوں میں مشغول تھے ۔۔۔کسی نے اسکی بات پہ توجہ نہیں دی ۔۔۔مگر  امرام شیر کے کانوں سے مخفی نہیں رہ سکی ۔۔۔

اس نے کاٹ دار نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے نخوت سے سر جھٹکا اور دوبارہ سے موبائل میں مصروف ہوگیا ۔۔۔

۔۔۔۔

"طلب کا دائرہ جو کہ۔

محیط ارض و انجم تھا۔

سمٹ کر صرف "تم"ٹہرا ۔۔۔۔

شیردل نے اپنے ساتھ بیٹھی رمشاء کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھے پیار بھرے انداز میں کہا ۔۔۔

رمشاء کا ہاتھ جو اسکی تھائی پہ تھا۔ٹیبل کے نیچے ۔۔۔۔شیردل نے اسے اپنے ہاتھ میں قید کر لیا ۔۔۔۔

رمشاء نے اسکی مضبوط گرفت میں سے اپنا ہاتھ آزاد کروانا چاہا۔۔۔

اس نے تنبیہی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے منع کیا ۔۔۔

مگر شیردل کی گرفت اور مضبوط ہوگئی ۔۔۔۔

"کوئی دیکھ لے گا "وہ دانت کچکچا کر آہستہ آواز میں بولی۔۔۔۔مگر شیردل ٹس سے مس نا ہوا ۔۔۔۔

زخرف کو اپنے پاؤں پہ کچھ ٹچ ہوتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔

مگر اس نے دھیان نہیں دیا ۔۔۔اسکی نظریں تو آج سامنے بیٹھے امرام شیر کو جی بھر کر دیکھ لینا چاہتی تھیں ۔۔۔

اس کی محویت میں پھر سے کسی نے خلل ڈالا ۔۔۔

زخرف کے دماغ میں جھماکا سا ہوا۔۔۔

"ہائے کہیں امرام شیر تو نہیں مجھے ٹیبل کے نیچے سے پاؤں مار رہا ۔۔۔اس کے ذہن میں فورا کلک ہوا۔۔۔تو اس نے بہانے سے ٹشو پیپر نیچے گرایا پھر اسے اٹھانے کے لیے جھکی تو دیکھا ۔۔۔۔۔کہ وہ کس کا پاؤں جو اسے بار بار ٹچ ہورہا تھا ۔۔۔

"احتشام بھائی ۔۔۔۔یہ میرا پاؤں ہے ۔۔۔

آپ رونگ وے پہ ہیں ،"

زخرف نے بنا سب کا خیال کیے اپنے زبان کے جوہر دکھاتے ہوئے گوہر افشانی کی ۔۔۔۔

احتشام سب کے سامنے سبکی کے خیال سے کھسیانا سا ہو کر کان کھجانے لگا ۔۔۔

تو مومن نے اسکا خوب ریکارڈ لگایا ۔۔۔۔

"ایکسکیوز می !!! میں ایک امپورٹینٹ کال ریسیو کر کہ آتا ہوں "امرام شیر فون کان سے لگاتے ہوئے اٹھ کر باہر کی طرف چل دیا ۔۔۔۔

جیسے ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوا ذخرف کو سب لایعنی لگنے لگا ۔۔۔۔

"مجھے نا میجر ۔۔۔مطلب ۔۔۔۔

اسکی زبان میں کھجلی ہوئی مگر اپنی پھسلتی ہوئی زبان کو بروقت قابو کیے ۔۔۔بولی ۔۔۔

میں امرام سے بات کر کہ آتی ہوں "

وہ رمشاء کو اشارے سے کہتی ہوئی اسکے۔ پیچھے باہر نکل گئی ۔

"یہ کدھر گئی ؟"احتشام نے فکر مندی سے  پوچھا ۔۔۔۔

"مجھے نہیں پتہ "

منساء شانے اچکا کر رہ گئی ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"ہمیں بس یہی اتار دیں ۔"

لکی نے سپاٹ انداز میں اسعد صاحب سے کہا ۔۔۔۔

اسعد صاحب خود ڈرائیونگ کررہے تھے جبکہ مسسز اسعد انکی برابر والی سیٹ پہ بیٹھی ہوئی تھیں ۔لکی اور ماھی دونوں پچھلی طرف بیٹھے تھے ۔۔۔دو ڈھائی گھنٹوں کا سفر طے ہوچکا تھا ۔کہ ایک جگہ پہ آکر لکی نے اسعد صاحب کو گاڑی وہاں روکنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

ماھی جو گھونگھٹ اٹھا چکی تھی ۔۔۔۔رات کے اس پہر اچانک گاڑی گھنے جنگل کے قریب رکتے دیکھ کر پہلے تو حیران ہوئی پھر پریشان کن تاثرات سجائے گاڑی سے باہر دیکھنے لگی ۔۔۔۔

وہ ساکت آنکھوں سے گھنے جنگل کو گھور رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے پلٹ کر دیکھا لکی بھی خاموش سا اسکی خوفزدہ پھیلی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ 

ماھی کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے دوچند ہوئیں ۔

"آؤ باہر  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "

لکی جانے کب گاڑی سے نکل کر دوسری طرف سے ہوتے ہوئے اس کے سامنے آرکا اسے خبر بھی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔

اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور لکی کا ہاتھ تھام کر باہر نکلی ۔۔۔۔

لکی کے دروازہ بند کرتے اسعد صاحب گاڑی زن سے آگے بڑھا لے گئے ۔۔۔۔

ماھی ان کی جاتی ہوئی گاڑی دیکھتی رہی ۔۔۔۔جب تک وہ اندھیرے میں غائب نہیں ہوگئی ۔۔۔۔

"ہم یہاں کیوں آئے ہیں ؟"

اسکی رنگت گلابی سے زردی مائل ہونے لگی ۔۔۔ڈر کے باعث ۔۔۔۔۔ سرگوشی میں وہ اپنے یہاں رکنے کی وجہ پوچھنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"سب پتہ چل جائے گا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سرگوشی میں سرد آواز میں بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے گھنے درختوں کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔ماھی کو یہ جگہ کچھ جانی پہچانی سی لگی ۔۔۔۔

رات کے اس پہر گہری خاموشی کا راج تھا،اچانک موسم بدلنے لگا ۔۔۔۔

تیز ہوا کے باعث درختوں کے پتے سرسر کرتے ماحول میں عجیب سا ارتعاش پیدا کرنے لگے ۔۔۔۔عجیب سی سنسناہٹ تھی اس ماحول میں ۔۔۔۔تیز ہوا کا جھونکا آیا اور اسکے پشت پہ کھلے بال اڑ کر اسکے چہرے پہ بکھر گئے ۔۔۔۔وہ اس  ماحول سے وحشتزدہ ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنے قریب دیکھ کر خوف سے اسکا وجود سرد پڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔خون کی گردش جسم میں تیز ہونے لگی  ۔۔۔۔۔۔ 

کہ چمگادڑوں کا جھنڈ عجیب و غریب سی آوازیں نکالتا ہوا اس کے سر پہ سے گزرا ۔۔۔۔

وہ ان کے قریب ہونے پر چیخنا  چلانا چاہتی تھی مگر آواز حلق سے نکلنے سے انکاری تھی ، 

 بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔ کہ وہ اسے یہاں کیوں لے کر آیا ہے ، پر اسکی گولڈن شیڈڈ آنکھوں میں دہشت و حشت دیکھ کر اسکی زبان گنگ ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ دماغ فریز ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔

آنسوں روانی سے بہتے اسکے گالوں کو بھگونے لگے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی حالت دیکھ کر  وہ اس کے قریب ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا ارادہ یہ بالکل بھی نہیں تھا کہ وہ اس سے خوفزدہ ہو۔۔۔۔۔۔ یا اسکی وحشت سے ڈر کے  دور بھاگے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب وہ ہر قیمت میں اس کے دل میں خوف ختم کرکے وہاں اپنی جگہ بنانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کہ ایک لمحہ بھی وہ اس سے دور نا رہ سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہر دم صرف اسکے نام کی مالا جپے  ۔۔۔۔۔۔۔

"تمہیں پتہ یہ وہی جگہ ہے،جب پہلی بار تم مجھے ملی تھی ،اور تمہارے ملتے ہم سب کو زندگی کی نئی امید ملی تھی ۔۔۔۔۔

 وہ اپنی سانسیں حلق میں روکتی سہمی ہرنی کی طرح ساکت  کھڑی تھی ۔۔۔

"آج سے ایک ماہ پہلے جب اماوس کی رات تھی ،تمہاری اس چکمتی ہوئی نوز بن نے مجھے تمہارا ۔۔۔۔میرے لیے بنا ہونے کا اعلان کیا۔۔۔۔

"دیکھو آج بھی اماوس کی رات ہے،اور آج ہم ایک ساتھ ہیں ۔

"آج ہمارے درمیان سب دوریاں مٹ جانے کی رات ہے،

وہ وہ دونوں بانہیں پھیلائے آسمان کی طرف دیکھ کر پراسرار سا مسکرایا۔۔۔۔

تیز ہوا اچانک تیز آندھی میں بدلنے لگی ۔۔۔۔چاروں اوڑھ جھکڑ چلنے لگے،،،ماھی نے فق نگاہوں سے اچانک موسم کے بدلے تیور دیکھے ۔۔۔۔

اس کے بال اڑ اڑ کر اسکے چہرے پہ آرہے تھے ۔۔۔۔۔طوفانی ہوا سے اس کا نازک سا بدن ڈولنے لگا ۔۔۔۔

وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے اردگرد دیکھنے لگی ۔۔۔۔اس کی شال تیز ہوا کے باعث اڑ گئی ۔۔۔۔ آنکھوں میں مٹی کے ذرات پڑنے سے اسے ٹھیک سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔

درختوں سے ٹوٹ کر گرے ہوئے سوکھے پتے اس تیز طوفان میں شامل ہونے لگے ۔۔۔۔

لکی نے کوٹ اتار کر ہوا میں اچھالا ۔۔۔پھر قریب کھڑی ہوئی ماھی کے گلے سے دوپٹہ نکال کر ہوا میں اچھال دیا ۔۔۔۔

اور ماھی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔۔

ماھی نے پلکوں کو جھپکتے ہوئے لکی کو دیکھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ 

مگر اس سے پہلے کہ وہ لکی کی آنکھوں کا بدلا ہوا رنگ دیکھ پاتی ۔۔۔۔

وہ اس کے کٹاؤ دار لبوں پہ اپنے لب رکھ کر اس کی رہی سہی سانسیں بھی روک گیا ۔۔۔

ماھی کے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔۔

اس نے لکی کی شرٹ کے کالر کو زور سے اپنی مٹھیوں میں بھینچ لیا ۔۔۔۔

رچرڈ کو جب پتہ چلا کہ آریان شیر (سفید موت)کے نام سے جانا جانے والا سنائیپر جو اس کا رائٹ ہینڈ تھا ،اسکی کمزوری "پری "اس دنیا سے چلی گئی ہے ،اور وہ اسکے جانے کے غم کو برداشت نہیں کر پایا ۔۔۔وہ سب کام چھوڑے کمرہ نشین ہو کر رہ گیا ہے ،تو اس نے خود آکر پہلے کی طرح آریان شیر کی برین واشنگ کی ۔۔۔اسے مسلمانوں اور خاص کر مساجد میں موجود نمازیوں کے خلاف بھڑکایا اور انہیں دہشت گرد بتاتے ہوئے انکے خلاف ورغلایا ۔۔۔۔وہ مذہبی طور پر ایک انگریز تھا جو دل میں مسلمانوں سے نفرت رکھتا تھا ۔اور اس نے آریان شیر کو شروع سے مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے انکے خلاف استعمال کیا تھا،اسے ٹاسک دیا گیا تھا مسجد میں خودکش دھماکا کروانے کا ۔اسی لیے وہ آریان شیر کو اسکے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہا تھا،ہمیشہ کی طرح آریان شیر نے اپنے ماسٹر رچرڈ کا حکم بجا لاتے ہوئے،پری کا بدلا لینے کے لیے  مسجد میں خود کش دھماکا کروا دیا ۔۔۔۔

وہ پوری طرح پاگل ہوچکا تھا ،سب  صیحیح غلط بھول چکا تھا ،اس کے سر پہ سوار تھا تو صرف بدلا ۔۔۔۔

انہیں دنوں اسے اس کے ایک آدمی نے اطلاع دی کہ اس نے پری کو زندہ دیکھا ہے ،

وہ دن آریان شیر کے لیے سب سے بڑا خوشی کا دن تھا،وہ پری کو دیکھنے اپنا حلیہ بدل کر سر پہ بڑی سی چادر اوڑھے چہرے چھپائے اسے دیکھنے گیا ۔۔۔۔جیسے کی اسے پری زندہ نظر آئی ۔۔۔۔اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی وہ اسکے پاس جانا چاہتا تھا سب کی نظروں سے بچ کر مگر جب اس کی نظر پری کے ساتھ کھڑے اس کے اپنے ہی بھائی امرام شیر پہ پڑی تو اس کی سرد آنکھوں میں یکدم نمی اتر آئی۔۔۔

جسے وہ پلکیں جھپک کر خود میں واپس مدغم کر گیا ۔۔۔۔

وہ اس وقت وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا اسی لیے تیزی سے نکلا پھر اچانک امرام شیر سے ٹکرا گیا ۔۔۔۔  مگر وہ بنا خود کو ظاہر کیے سرعت سے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔پری سے پھر کبھی ملنے کا سوچتے ہوئے ۔۔۔۔

فی الوقت اسے اپنے ماسٹر کے ایک اور پلان پہ عمل کرنا تھا ۔۔۔

اسے پری کے ٹھکانے کی ساری  معلومات مل چکی تھیں ،جیسے کی وہ اسے لینے جانے والا تھا ،اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے امرام شیر اسے وہاں سے لے گیا ،،،،،

آریان شیر تلملا کر رہ گیا ،جب اسے کچھ دنوں پری کی خبر نہیں ملی ۔۔۔۔

پھر اس نے ایک دن پری کو امرام شیر کے ساتھ ہوٹل میں جاتے ہوئے دیکھا ۔۔۔وہ ہوٹل کے باہر فقیرانہ حلیے میں بیٹھ گیا اور اسکے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔

جیسے ہی پری اس کے قریب سے گزری اس نے آریان شیر کے پاس رکھے ہوئے کاسے میں امرام شیر کی دی ہوئی انگوٹھی ڈال دی ۔۔۔۔

آریان شیر کے جھکے ہوئے چہرے پہ مغرورانہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔

اس کی پری آج بھی اس کے علاؤہ کسی سے محبت نہیں کرتی اس بات کا اسے پختہ یقین ہوگیا تھا ۔۔۔۔

اس نے پری پہ پوری نظر رکھی ہوئی تھی ،اپنے ماسٹر رچرڈ کے پلان کے تحت اس نے وہ ڈائمنڈ چرانا تھا ،اسے پتہ نہیں تھا کہ پری بھی وہاں آنے والی ہے ،اس نے جس بلڈنگ میں  ہیرے کی نمائش ہونے والی تھی اس کی بالکل سامنے والی بلڈنگ میں کمرہ بک کیا تھا ۔۔۔

وہ اپنے مخصوص آلے سے سامنے والی بلڈنگ کی سب حرکات و سکنات دیکھ رہا تھا،اس کا ٹارگٹ وہ سیکیورٹی آفیسر تھا ۔اسی کی جان لینے کی سپاری ملی تھی اسے ۔۔۔،پہلے اس نے اس کا کام تمام کیا ۔۔۔پھر ڈائمنڈ چرا کر پری کو بھی اپنے ساتھ گھر واپس لا چکا تھا ۔۔۔۔

آج وہ دل سے خوش تھا کہ اس کی پری اس کی زندگی میں اسکے گھر میں واپس آ کی ہے ،بس اس کے ہوش میں آنے کا انتظار تھا ۔۔۔۔

وہ اس کے آنے کی خوشی میں اس کا فیورٹ سونگ پیانو پہ بجانے لگا ۔۔۔

چاند آسمانوں سے لاپتہ،،

چل کر میرے گھر میں آگیا ۔۔۔

تیرے بن میرے یارا کہیں ۔۔۔

میں خوش قسمت ہوں باخدا اسطرح 

ہو جائے پوری اک دعا جس طرح 

تیرے بن میری جاناں کبھی 

اک پل بھی گزارہ نہیں ۔

تیری آرزو نے خود سے بیگانہ کردیا ۔۔۔

اسکی انگلیاں تیزی سے پیانو کیز پریس کرتی ہوئی مخصوص دلکش دُھن بجا رہی تھیں اور اسکی سحر انگیز آواز سارے گھر میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔

جیسے ہی پری نے اس کے چہرہ اٹھاتے اسے پہ نظریں جمائیں وہ اپنی جگہ ساکت رہ گئی ۔۔۔۔

"تممم۔۔۔۔تمم۔۔تم ۔۔۔۔

وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں فق نگاہوں سے بولی ۔۔۔

"پری !! 

آریان شیر اٹھ کر کھڑا ہوا تو چہرے پہ ازلی سنجیدگی کی بجائے نرمی تھی ۔۔۔۔

"میجر تم یہاں کیوں لائے ہو مجھے ۔۔۔۔اب یہ کیا نیا ڈرامہ ہے ۔۔۔۔

"پری تم نے مجھے پہچانا نہیں "؟اب کے بار حیران ہونے کی باری آریان شیر کی تھی ۔جس کی جدائی میں وہ اتنا تڑپا تھا ،جسکی دوری نے اسے اپنی محبت کا احساس کروایا تھا آج وہ اسے پہچاننے سے انکاری تھی ۔۔۔۔اسے بہت بڑا دھچکا لگا ۔۔۔۔

"اور یہ تم نے اپنی کیا حالت بنائی ہوئی ہے ،؟؟؟

"کہیں پاگل واگل تو نہیں ہوگئے میرا انکار سن کر ۔۔۔۔

وہ اس دن کے انگوٹھی پھینک دینے والا واقع یاد کر کہ بولی ۔۔۔۔

آریان شیر کی بڑھی ہوئی شیو اور اسکے شانے تک آتے بھورے بال ،اس نے صرف ویسٹ اور ٹراؤزر پہن رکھا تھا گلے میں پلاٹینم کی چین تھی ۔۔۔

اس نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں پری کو دیکھا ۔۔۔۔

اس کے تیز ترین دماغ میں فورا کلک ہوا ۔۔۔۔

کہ پری اسے امرام شیر سمجھ رہی ہے ،

اب اس نے پری کو اپنے طریقے سے ٹیکل کرنے کا سوچا اور اسکی طرف بڑھا ۔۔۔

"بھول گئی اپنے شیرو کو "

وہ اسکی کمر پہ ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

اس کا ٹھٹھرا دینے والا لہجہ سن کر پری کے وجود میں برقی رو دوڑ گئی۔۔۔

اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے دوچند ہوئیں۔۔۔۔

"اپنے پیار کا اظہار کر کہ پہلے مقابل کو پاگل بنا دینا پھر اسی کے وجود سے انکاری ہونا یہ کہاں سے سیکھا ہے ؟؟؟

"میں نے تو تمہیں ایسا کچھ نہیں سکھایا "

وہ کہتے ہوئے اس کو اپنے ساتھ واپس کمرے میں لے جا چکا تھا ۔۔۔۔اور اسے اٹھا کر ڈریسر پہ بٹھاتے ہوئے وہاں سے برش اٹھایا ۔۔۔۔

"یاد ہے ،تم ہر روز یونہی مجھ سے اپنے بال برش کرواتی تھی ۔۔۔۔۔

اب وہ اس کے بالوں میں نرمی سے برش پھیر رہا تھا ۔۔۔۔

اسکے انداز میں بہت نرمی تھی ۔۔۔ پری نے نظریں اٹھا کر ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

اسے یاد کرنے پہ بھی کچھ یاد نہیں آیا ۔۔۔۔

"تم فیس واش کر کہ باہر آؤ ۔۔۔میں تمہارے لیے تمہارا فیورٹ بریک فاسٹ بناتا ہوں "

کہتے ہوئے وہ باہر نکل گیا ۔۔۔

"یہ میجر کو کیا ہوگیا ہے ۔۔۔کسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے مجھ سے ۔۔۔ 

بڑی بھوک لگی ہے ۔زرا پہلے پیٹ پوجا کر لوں پھر کام دوجا ۔۔۔۔

بھئی چاندنی پیٹ بھرے گا تو ہی دماغ بھی کام کرے گا ۔۔۔

ناشتہ کرلوں پھر اس میجر کا دماغ ٹھکانے لگاتی ہوں ،وہ فیصلہ کن انداز میں کہتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ باہر آئی تو اس کے پاؤں اپنے آپ کچن کی طرف اٹھنے لگے ۔۔۔اتنے بڑے گھر میں مجھے کیسے پتہ کہ کچن اس طرف ہے "وہ خودی حیران ہوئی اپنے آپ پہ کچن کے دروازے پہ پہنچ کر۔ 

پھر سر جھٹکتے ہوئے اندر داخل ہوئی ۔۔۔

وہ دلجمعی سے کچھ کرنے میں مشغول تھا ۔۔۔

"لیجیے آپکا فیورٹ ناشتہ حاضر ہے ،

آریان شیر نے اسکے سامنے ٹیبل پہ ناشتہ رکھتے ہوئے کہا تو اس کی بھوک چمک اٹھی ۔۔۔

وہ جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔دل ہی دل میں اس ناشتے کے ذائقے کی متعرف بھی ہوئی مگر منہ سے ایک لفظ بھی نہیں بولی ۔۔۔

"تمہیں کیسے پتہ میجر مجھے یہ پسند ہے "وہ آخری بائٹ منہ میں ڈالتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھنے لگی ۔۔۔

اس کے گلے میں بولنے سے پھندہ سا لگا تو آریان شیر نے اسکی طرف پانی کا گلاس بڑھایا ۔۔۔۔

"لو پانی پیو ۔۔۔

وہ پانی کا گلاس اسکے منہ سے لگاتے ہوئے اسکی کمر سہلانے لگا ۔۔۔

"پہلی تو یہ کہ میں میجر نہیں ،دوسری بات سالوں سے انہیں ہاتھوں سے تمہاری پسند کا کھانا بناتا آیا ہوں "

پری لاپرواہی سے شانے اچکا کر رہ گئی ۔۔۔۔

"اور بھی بتا سکتا ہوں تمہیں کیا کیا پسند ہے "

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد مہری سے بولا ۔۔۔

پری نے بے ساختہ نگاہ اس کے چہرے پہ ڈالی ۔۔۔

"تمہیں بارش کا موسم بہت پسند ہے ۔۔۔بارش میں جانے کے لیے تم کچھ بھی کرسکتی ہو ۔۔۔

کھانے میں تمہیں میرے ہاتھ کا ناشتہ پسند ہے ،

اور سب سے فیورٹ آئس کریم ۔۔۔

پری کے دل نے اک بیٹ مس کی ۔۔۔۔یہ واقعی سب چیزیں اسے پسند تھیں ۔۔۔تو اسے کیسے پتہ چلا ۔۔۔

اس کے لب تو خاموش تھے مگر اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے آریان شیر اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے ۔۔۔

"سب یاد آجائے گا ۔۔۔۔جاو ریڈی ہوکر آؤ آج تمہیں آئس کریم کھلانے لے کر چلوں گا '

وہ کھڑے ہوتے ہوئے اپنی گھٹنوں سے پھٹی ہوئی جینز کی پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے بولا ۔۔۔

پری آئس کریم کے لیے منع کیسے کرتی ۔۔۔وہ بلا کوئی بھی چوں چراں کیے اٹھ گئی اور تیار ہونے چل دی ۔۔۔۔

جیسے ہی اسنے کبرڈ کھولی اس کے بیش بہا قیمتی اور رنگے برنگے ڈریسز اس میں ہینگ تھے ۔۔۔۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک شارٹ شرٹ اور ٹراؤزر نکالا اس کا ہم رنگ دوپٹہ بھی ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ تیار ہوئے لاونج میں آئی تو سامنے ایک بزرگ کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔۔۔۔

"اے کون ہو تم ؟؟؟"

"اور اندر کیسے آئے ۔۔۔۔؟؟؟

"نکلو باہر یہاں سے ""

"تم ابھی جانتے نہیں اس گھر کے بڑے بڑے ڈولے شولے ہیں ،تمہیں اس کا ایک پنچ پڑا تم نے اس دنیا سے اٹھنا نہیں ہمیشہ کے لیے اٹھ جانا ہے ".

وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی۔۔۔

"چلو پری آؤ "

"تم ہو "؟

پری اس بزرگ کے منہ سے آریان شیر کی آواز سن کر حیرت زدہ آواز میں بولی۔۔۔

وہ اسے واقعی اس بدلے ہوئے روپ میں بالکل بھی پہچان نہیں پائی ۔۔۔۔

اس کی سفید داڑھی اور سفید بال تھے ،آنکھوں پہ بڑے بڑے نظر کے چشمے لگا رکھے تھے ،بوسیدہ سا پینٹ کوٹ پہنے کوئی ساٹھ سال کا بڈھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔

"یہ کیا حالت بنائی تم نے ۔۔۔

جب سے آنکھیں کھولیں تب سے تمہارے کتنے روپ دیکھ چکی ہوں ۔۔۔

"دیکھو مجھے صاف صاف بتاؤ آخر تم ہو کون "؟

وہ درشتگی سے وارننگ جاری کرتے ہوئے بولی۔

"اپنے دل سے پوچھو ۔۔۔۔"

"کون ہوں میں "

وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔

"اگر پھر بھی اپنے دل کی زبان سمجھ نا آئے تو میرے دل سے کان لگا کر سننا جو ہر دھڑکن پہ تمہارے نام کی مالا جپتا ہوا ملے گا ۔۔۔۔"

"میں باہر کسی کے سامنے اپنی اصل شناخت یا چہرہ ظاہر نہیں کرتا ۔۔۔اسی لیے گیٹ اپ تبدیل کیا ۔۔۔۔

"لاٹھی پکڑ لوں ؟

"یا تم میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے سہارا دینا چاہتی ہو ؟

وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تو پری نے سٹپٹا کر نظریں چرائیں ۔۔۔

"آئیں "

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔

"یہ ایک دم سے تبدیلی کیسے ؟

آریان شیر نے چشمے کو آنکھوں سے ذرا سا ناک کے نیچے کیے پوچھا ۔۔۔

"کیسی ؟

وہ چونک کر بولی ۔۔۔

"آؤ کی بجائے آئیں "

وہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔پہلی بار ۔۔۔

پری کو اس کی ہنسی بہت انمول لگی ۔۔۔۔

"پتہ نہیں کیوں منہ سے پھسل گیا "

وہ لاپرواہی سے کہتی ہوئی چلنے لگی۔ تو آریان شیر اسکے ساتھ باہر نکل گیا ۔۔۔۔

دونوں چلتے ہوئے کافی دور آگئے تھے ۔۔۔۔

"آئس کریم کھلانی تھی ،یا میری ٹانگیں توڑنے کا ارادہ ؟؟؟

وہ پلٹ کر کڑے تیوروں سے اسے گھورتے ہوئے بولی۔

"ایسا کیوں لگا ؟

وہ اسکا ہاتھ کا سہارا لیے بالکل کسی بزرگ کی طرح کپکپاتے ہوئے چل رہا تھا ۔۔۔

"پتہ نہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے جیسے میں پہلے بھی ان راستوں پہ یونہی چلتے ہوئے تھک گئی تھی ۔۔۔۔

اس خود اپنی بھی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔۔

آنکھوں کے سامنے سب دھندلا دھندھلا سا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔کچھ بھی واضح طور پر دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔

"تمہیں اب بھی یاد نہیں آیا کہ میں کون ہوں ؟؟؟

آریان شیر نے اب کی بار چشمہ ایک انگلی سے مزید آنکھوں پہ چڑھایا ۔۔۔۔

پری کی نظر روڈ کے اس پار کھڑے ہوئے فون پہ گفتگو کرتے ہوئے امرام شیر پہ پڑی ۔۔۔۔۔

"تمہیں تو میں ابھی تک پہچان نہیں پائی ۔۔۔

"مگر کوئی اور ہے جسے میں اچھے سے پہچان چکی ہوں ۔۔۔

اس میجر نے میرے ساتھ وہ کیا جو بندہ کبھی اپنے دشمن سے بھی نا کرے ۔۔۔

جانے کونسے جنم کا بدلہ لیا اس میجر نے مجھ سے ۔۔۔۔۔

"بڑے حساب نکلتے ہیں اس سے ۔۔۔۔آج نہیں بچے گا یہ میجر میرے ہاتھوں سے "

وہ دانت کچکچا کر غصے سے لال انگارہ ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔

وہ اپنے سامنے امرام شیر کو دیکھ کر  جان چکی تھی کہ وہ میجر امرام شیر ہی تھا ۔۔۔اور جو اس کے ساتھ تھا وہ کوئی اور ہی ہے ،ان دونوں کی بس شکلیں ملتی جلتی ہیں۔

ساتھ موجود انسان سے بعد میں نپٹنے کا سوچتے ہوئے اس نے ایک قہر بار نگاہ امرام شیر پہ ڈالی ۔۔۔۔اس نے آریان شیر کو گن اپنے کوٹ کے نیچے موجود پوشیدہ ہولڈر میں لگاتے دیکھ چکی تھی ۔۔۔

"بابا جی !!!

"اپنا صدقہ دے دو ۔۔۔

یا 

اللّٰہ کے نام پہ کچھ دے دو ۔۔۔

اللّٰہ تمہیں حج کرائے گا !!!

ایک ہٹا کٹا فقیر آریان شیر کو بزرگ کے حلیے میں دیکھ کر اس کے پاس آتے اس سے بھیک مانگنے لگا ۔۔۔۔

تو وہ اس فقیر کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔

"یہ ادھر مجھے دو آج اس کا وہی ہاتھ ضائع کروں گی جس سے اس نے مجھے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔۔چاندنی کبھی بھی کسی کا ادھار نہیں رکھتی "

وہ حدردجہ پھرتی سے آریان شیر کے گن ہولڈر سے اسکی گن نکال کر سامنے کھڑے کال پہ مصروف امرام شیر پہ تانے نشانہ سادھ چکی تھی ۔۔۔۔

آریان شیر اس فقیر کو فٹافٹ پیسے دے کر پری کی طرف آیا ۔۔۔

"نہیں پری ۔۔۔۔

آریان شیر نے اسے روکنا چاہا جو گن لیے آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔کیونکہ دوسری طرف ۔۔۔۔

زخرف جو امرام شیر سے بات کرنے کے لیے اسکے پیچھے باہر آئی تھی ۔۔۔۔

روڈ کی دوسری طرف وہی لڑکی کو امرام شیر کی طرف گن کیے کھڑے دیکھا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔۔۔۔

"میجر !!!!

زخرف نے امرام شیر کو اسکی جگہ سے پیچھے دھکیلا۔۔۔

دوسری طرف سے جب پری نے امرام شیر پہ گولی چلانے کے لیے آگے بڑھی تو اپنے قریب آتی ہوئی تیز رفتار گاڑی کو دیکھ نا سکی ۔۔۔۔

بجلی کے مانند تیز رفتار گولی امرام کی بجائے زخرف کو لگی ۔۔۔

امرام شیر کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر گرا ۔۔۔۔

وہ حیران ہوا اچانک اس حادثے پہ ۔۔۔

زخرف کو خون سے لت پت سڑک پہ گرتے دیکھ ۔۔۔۔

اس نے گولی چلانے والے کے تعاقب میں دیکھا ۔۔۔

اصل میں حیران ہونے کی باری تو اب تھی ۔۔۔۔

وہ جس کے لیے اس نے پہلی بار اپنے دل میں کچھ محسوس کیا تھا ۔۔۔۔

آج اسی نے اس کی جان لینی چاہی ۔۔۔۔اس سے بڑھ کر دھچکا اس کے لیے اور کیا ہوسکتا تھا ۔۔۔۔

وہ چاندنی کو یک ٹک دیکھنے لگا ۔۔۔

جسے ایک تیز رفتار گاڑی ہوا میں اچھال کر دور گرا چکی تھی ۔۔۔اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی گن بھی دور جاگری ۔۔۔

ایک بزرگ جو اسکی طرف آرہا تھا ۔۔۔۔وہ چاندنی کا چہرہ تھپتھپانے لگا ۔۔۔۔

"پری اٹھو ۔۔۔۔

"اٹھو پری ۔۔۔۔

"کیوں کیا تم نے ایسا ؟"

"اب جا کر تو ملی تھی ۔۔۔۔

"مجھ سے دور مت جانا "

وہ کرب زدہ آواز میں بولا ۔۔۔

امرام شیر نے بنا ایک بھی لمحہ ضائع کیے ہوئے ۔۔۔زخرف کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا ۔۔۔

آئس کریم پارلر میں موجود باقی سب گولی چلنے کی آواز سن کر باہر نکل آئے ۔۔۔۔

زخرف کو خون میں لت پت دیکھ کر سب کے رنگ زرد پڑ گئے ۔۔۔۔

"شیردل جلدی گاڑی سٹارٹ کرو ۔۔۔۔

امرام شیر نے اسے کہا تو وہ برق رفتاری سے گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کرنے لگا ۔۔۔

امرام شیر بیہوش ذخرف کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا کر اس کے ساتھ بیٹھا تو شیردل نے گاڑی فل سپیڈ سے قریبی ہاسپٹل کی طرف بڑھائی ۔۔۔۔

دوسری گاڑی میں باقی سب بھی بیٹھ کر انکے پیچھے روانہ ہوئے جسے احتشام چلا رہا تھا ۔۔۔۔اپنی اکلوتی بہن کو اس حالت میں دیکھ کر وہ خود پہ قابو نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔

وہ جلد از جلد وہاں پہنچنا چاہتا تھا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"لکی !!!! آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں ؟ ۔"

اس نے مشکل اپنے کپکپاتے لہجے پہ قابو پاتے اضطراب کے عالم میں استسفار کیا۔

"پیار کرنے کے لیے "

 لکی نے خمارآلود نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ کر کہا ۔

م۔۔۔م۔۔۔مگر مجھے یہاں ڈر لگ رہا ہے "

"سب دوریاں مٹا دو ڈر اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔"

"جس کے ساتھ تم اس وقت موجود ہو ،ڈر بھی اس سے ڈر کر دور بھاگ جائے گا "

درختوں کے پتوں نے زمین پہ دبیز چادر سی بچھا دی ۔۔۔

وہ اسے اپنے لیے ان پتوں پہ گرا ۔۔۔۔اور ماھی اسکے سینے سے آلگی ۔۔۔

ایسا کرنے سے ماھی کے بھورے بال آبشار کی مانند اس کی کمر پہ پھیلے ہوئے تھے۔اس کے چہرے پہ گرے ۔۔۔۔لکی اس کے  بالوں سے اٹھتی مہک کو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا ۔اس نے ماھی کے بال اسکے کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے شدت بھرے انداز میں اس کی گردن پہ اپنے سلگتے لب رکھے تو ماھی نے خوفزدہ  آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا اور خود کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔وہ اسے گھر لے جانے کی بجائے اس خوفناک جنگل میں لے آیا تھا اور اب بنا جگہ دیکھے ، اس کے وجود  پہ چھاپ چھوڑ رہا تھا۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ لکی کا پکڑا جو اب اس کی میکسی کی زپ پہ تھا ۔۔۔۔

"نہیں پلیز "

"شششششش۔۔۔"

لکی نے گہری تپش بھری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ کر اسکے لبوں پر انگلی رکھتے اسے بولنے سے روکا ۔۔۔ تو ماھی نے اس کی نگاہیں خود پہ محسوس کرتے اپنا حلق تر کرتے اپنا رخ موڑ گئی۔۔۔

"آج صرف محسوس کرنے کی رات ہے ۔۔۔

Lucky's Luck"

وہ اسکی تھوڑی کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر بولا ۔۔۔

وہ مضطرب انداز میں اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

لکی اس کے معصومیت سے بھرے نقوش کو آنکھوں کے زریعے دل میں اتارتے ہوئے ۔۔۔

اس کے شانوں سے میکسی سرکا چکا تھا ۔۔۔

"ماھی !!! 

"یاد رکھنا میں تمہیں کبھی خود سے دور نہیں ہونے دوں گا پہلے تم میری ضرورت تھی مگر اب تم میری چاہت میرا جنون بن چکی ہو ۔تمہاری محبت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔تم مجھے نشے کی مانند لگنے لگی ہو ۔جس دن تمہیں نا دیکھوں دن نہیں گزرتا۔اس  رات کا سویرا نہیں ہوتا ۔اگر تمہاری دید کا نشہ نہ ملے تو میں کسی اڈکٹ کی طرح تڑپنے لگتا ہوں ،تمہاری چاہت کا خمار میری رگ رگ میں اتر چکا ہے  ۔"

لکی نے سرگوشی نما آواز میں کہا۔لکی کے لب اسکے کان کی لو سے مس ہوئے تو اسکے وجود میں پھریری سی دوڑ گئی ۔۔۔۔

"میں اپنے اس جنون کو تم میں انڈیل کر تمہیں بھی اس جذبے سے آشنا کروانا چاہتا ہوں ۔۔۔تمہیں بھی تو پتہ چلے جس عشق کی آگ میں لکی جل رہا ہے،اس میں جھلسنا کیسا ہوتا ہے ،اس کی آنچ تم تک بھی تو پہنچے ۔۔۔۔"لکی کی  سرسراتی ہوئی انگلیاں اب اپنے  پیٹ پہ محسوس کرتے ماھی کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوئے ۔۔۔۔۔

"ماھی جسطرح میں تمہیں پیار کر رہا ہوں تم بھی میرے پیار کا جواب پیار سے دو گی ؟۔"

وہ اس کے پیٹ پہ لب رکھتے فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔

ماھی نے اسکے جان لیوا لمس پہ تڑپ کر سختی سے اپنی آنکھیں میچ لی۔

"م۔۔۔۔مجھے نہیں آتا ۔۔۔پ۔۔۔پیار کرنا ۔

وہ بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔۔ 

"پھر مجھے اجازت دو خود میں ڈوب جانے کی ۔۔۔اجازت ہے ؟؟"

اس کی فرمائش پر ماھی کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔

لکی کو یہ منظر بہت بھایا تو اس نے ماھی کی شہ رگ پہ اپنے سلگتے لب رکھے ۔۔۔۔

ماھی کی سانسوں کی رفتار مدھم ہوئی ۔۔۔۔

"ماھی میں تمہیں عنقریب سب بتا دوں گا مجھ پہ بھروسہ رکھنا ۔تمہارا لکی کبھی بھی غلط نہیں ہوگا۔بس کبھی مجھ سے منہ مت پھیرنا ورنہ ساری دنیا کو آگ لگا دوں گا ۔"

ماھی نے آنکھیں کھول کر اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔۔وہ اس کی طلسم زدہ نظروں میں ڈوبنے لگی ۔۔۔۔اپنی نظروں کے حصار میں لیے وہ اسے جیسے اسے کسی اور دنیا میں لے جارہا تھا۔

ماھی نے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دیا ۔وہ اب اس کے وجود پہ جابجا اپنا محبت بھرا لمس چھوڑرہا تھا۔۔۔۔

اس کی شدت بھری جسارتوں پہ ماھی کا چہرہ شرم سے خون چھلکانے لگا ۔

چاہا جانا کبھی کسی کو برا لگا ہے کیا ،،یہی ماھی کے ساتھ بھی ہوا ۔۔۔وہ اس کے روئے روئے کو اپنے عقیدت بھرے لمس سے چھو کر معتبر کر رہا تھا ۔۔۔۔ماھی اس کی قربت میں خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔پہلے وہ اس ماحول سے ڈری ہوئی تھی مگر جب لکی نے اسے اپنے ساتھ کا مان بخشنا شروع کیا ماھی سب بھلائے مسرور ہوئی ۔۔۔۔اسے بالکل بھی برا نہیں لگ رہا تھا لکی کا چھونا ۔۔۔۔شاید یہ نکاح کے پاکیزہ بولوں کا اثر تھا کہ اسے اس کی قربت میں سکون محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔

"بہت جلد تم بھی مجھ سے ایسا ہی عشق کرنے لگو گی جیسا مجھے تم سے ہے ۔"

وہ پریقین لہجے میں بولا تھا

ماھی حیرت انگیز نظروں سے  سانس روک کر اس کا یقین بھرا انداز دیکھا۔

"مجھے تمہارا ساتھ چاہیے ،یقین رکھنا ،تمہیں کچھ بھی نہیں ہونے دوں گا ۔"

وہ اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی لگائے فسوں خیز آواز میں بولا۔

دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کو جھلسا رہی تھیں ۔۔۔

لکی نے اسکے مخروطی انگلیوں میں اپنی انگلیاں الجھائیں پھر ان پہ اپنے لب رکھے ۔۔۔۔

ایک بار پھر تیز ہوا چلی درختوں کے پتوں نے ان دونوں کے وجود کو ڈھانپ دیا ۔۔۔۔

ماھی کی مدھم سی سسکیاں ہوا کے چلنے کی سرسراہٹ میں مدغم ہورہیں تھیں ۔۔۔۔چاروں طرف اندھیرا مزید گہرا ہوگیا تھا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

ذخرف کی بازو میں گولی لگی تھی , بروقت ہسپتال پہنچنے کی وجہ سے ڈاکٹرز نے بلٹ اسکے بازو میں سے نکال لی تھی۔ ۔۔اب وہ خطرے سے باہر تھی۔ 

زخرف کو اب پرائیویٹ روم میں منتقل کردیا گیا تھا ۔۔۔

احتشام زخرف کے پاس کافی دیر بیٹھا۔۔۔۔پھر سب کو گھر اطلاع دی اور بتایا کہ وہ سب کچھ دیر میں واپس آجائیں گے کیونکہ ذخرف کی طبیت اب سنبھل چکی ہے ،وہ باہر کوریڈور میں کھڑا فون پہ سب سے بات کررہا تھا,

شیر دل امرام شیر کے کہنے پہ سب لڑکیوں کو گھر چھوڑنے کا چکا تھا ۔۔۔۔

زخرف کو ہوش آچکا تھا۔۔۔۔

اس نے آنکھیں کھولیں تو خود کو ہاسپٹل کے بستر پر لیٹے ہوئے پایا ۔۔۔۔

"اچھا ہوا فسادن ،نظر باز ،لڑکی گاڑی کے نیچے آگئی ۔۔۔۔

میرے امرام شیر کو تاڑتی تھی ،

اگر آج وہ گاڑی کے نیچے نہ آتی تو میں نے اسے گلا دبا دینا تھا ۔۔۔۔

دھوکے باز گھٹیا لڑکی ۔۔۔میرے میجر کو مارنے چلی تھی اسے پتہ نہیں  میجر کی دیوانی اس کی بوٹیاں نوچ لے گی ۔۔۔۔"

وہ دانت پیس کر جلن سے بولی ۔۔۔۔

"ہائے او ربا ذخرف !! 

"تو اچھی بچی ہے ،یہ کیسی باتیں کر رہی تھی ،کسی کو موت کی آغوش میں دیکھ کر اسے صلواتیں سنا رہی ہے ،یاد رکھ تو خود بھی ہسپتال کے بستر پہ پڑی ہے "

اس نے خود کو ڈپٹا ۔۔۔۔

وہ منہ میں بڑبڑا رہی تھی کہ دروازے سے امرام شیر اندر آیا ۔۔۔۔

"کیا ضرورت تھی اتنی ہیروئن بن کر بیچ میں آنے کی "؟

امرام شیر نے بنا لگی لپٹی رکھے اس کے منہ پہ ہی اسکی بیعزتی کی ۔۔۔

"اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ؟"

امرام شیر نے کڑے تیوروں سے اس کو گھورتے ہوئے تلخ انداز میں کہا۔۔۔

"اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو ؟؟؟

"کیا فایدہ ایسی زندگی کا جو اپنے پیار کے کام نا آسکے۔۔۔۔"

وہ نقاہت زدہ آواز میں بولی۔۔۔

"زخرف ہر وقت بچکانہ باتیں مت کیا کرو "

"میں بچکانہ کرتی ہوں تو تم  بڑوں والی کرلو ۔۔۔۔

"Control your tongue"

وہ درشت آواز میں بولا۔۔۔

"ایسا کیا کہا میں جو اتنی آگ لگی ",؟

"تم نا !!!

وہ مٹھی بھینچ کر خود پہ ضبط کرنے لگا ۔۔۔۔

"تم کبھی سدھر نہیں سکتی ۔۔۔۔

"کتنا بڑا ہوں تم سے یہ "تم کیا ہوتا ہے ؟؟؟

"مجھے بدتمیزی پسند نہیں "

وہ اسکے تم کہنے پہ تلملایا ۔۔۔

"بھئی جس رشتے سے میں نے تمہیں تم بولا ہے ۔۔۔۔وہ رشتہ برابری کا ہے ۔اس میں تم بھی چلتا ہے ۔۔۔۔

وہ کیا ہے نا زرا اپنا اپنا سا فیل ہوتا ہے "

وہ اتنی تکلیف میں بھی دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

",ایسا کونسا رشتہ ہے زرا مجھے بھی بتانا پسند کریں گی ۔۔۔۔"

وہ ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں بولا

"پیار کا !

وہ کہہ کر مسکرانے لگی ۔۔۔۔

اور اسکی مسکراہٹ نے امرام شیر پر جلتی ہوئی پہ تیل کا کام کیا ۔۔۔

وہ مزید بھڑکا ۔۔۔

زخرف نے اس آگ بگولہ ہوتے ہوئے شیر کی دھاڑ سے بچنے کے لیے فورا لہجہ بدلا ۔۔۔

"آپ بتائیں مجھے کچھ ہوجاتا تو آپ کو برا لگتا ؟؟"

وہ مان بھرے انداز میں پوچھنے لگی ۔۔۔۔

"میرے پاس تمہارے فضول سوالوں کا کوئی جواب نہیں "

وہ سپاٹ انداز میں بولا ۔

"میں بتاتی ہوں اگر آپکو کچھ ہوجاتا تو میں تو جیتے جی مر جاتی ۔۔۔۔میں نے ایک لمحہ بھی آپکے بغیر زندہ رہنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا اور نا کبھی کرنا چاہتی ہوں "

وہ ہمت مجتمع کیے بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی حالانکہ زخم ابھی تازہ تھا اسے درد ہو رہا تھا۔۔۔۔

"میں تمہارا حال پوچھنے آیا تھا ۔۔۔۔

وہ سپاٹ انداز میں بولا۔

"تو پوچھیں پھر ۔۔۔۔مگر پیار سے ۔۔۔۔اتنے لٹھ مار انداز میں آپ کے سوا اور کوئی حال پوچھ بھی نہیں سکتا میرا ۔۔۔

وہ اس کے روڈ انداز میں حال پوچھنے پہ جل کر بولی ۔۔۔

"کیسی ہو ؟

"زیادہ درد تو نہیں ہو رہا؟

وہ اسکی حالت کے پیش نظر تشویش بھرے انداز میں بولا۔

"کیسی ہوسکتی ہے اس کی حالت جس کو کو نظر بھر کر دیکھتا نا ہو ۔۔۔۔

اس کے دل کا درد تم کیا جانو رمیش بابو ۔۔۔۔؟؟؟؟

امرام شیر جو اسکی ساری بات کو غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے سن رہا آخری لفظ پہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنی مسکراہٹ کو روک نہیں پایا  ۔۔۔۔

اسے پتہ تھا وہ مویز کی شوقین نے ضرور کسی مووی کا ڈائلاگ اپنے انداز میں بولا تھا ۔۔۔۔

"دیکھ لیا اپنی اس ہوتی سوتی کو جسکے آگے پیچھے کبھی پھول لے کر گھومتے تھے کبھی انگوٹھیاں پیش کی جارہی تھیں ۔۔۔بدلے میں اس نے گولیاں چلائیں ۔۔۔۔

زخرف نے بھی ہاتھ آیا ہوا موقع جانے نہیں دیا اس کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ۔۔۔۔

امرام شیر تو حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھنے لگا کہ اسے کیسے پتہ چلا یہ سب ۔۔۔

زخرف نے جیسے اسکی آنکھوں میں سوال پڑھ لیے تھے ۔۔۔

اسی لیے وہ خود بولی ۔۔۔

",میں نے اس دن ہوٹل میں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔

"اور تم کیا کر رہی تھی اس وقت اس ہوٹل میں ؟؟؟

"زرا وہ بتانا مجھے ۔۔۔

وہ اپنی شرٹ کے بازو فولڈ کرتے ہوئے مزید دو قدم اسکے قریب آیا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ مجھے ایسے ڈرا نہیں سکتے ۔۔۔۔آپ کو کیا میں جو بھی کرتی اس ہوٹل میں "

وہ اس سے بچنے کے لیے پیچھے تو نہیں ہٹ سکتی تھی لیکن ڈر سے آنکھیں میچ گئی۔۔۔

"میں کوئی نہیں ڈرتی آپ سے سمجھے آپ ؟

وہ اسے دھمکی آمیز انداز میں بولی۔۔۔۔

"اچھا !!! 

"ڈرتی نہیں تو آنکھیں کیوں میچ لیں ۔۔۔۔؟

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔

زخرف نے اسے ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر اسے دیکھا ۔۔۔اسے ہنستے ہوئے دیکھ کر جھٹ پوری آنکھیں کھول دیں۔۔۔

"ہائے صدقے اگر میری گولی لگوانے سے روزانہ ایسی مسکراہٹ دیکھنے کو ملے تو روزانہ شوق سے ہزاروں گولیاں 

کھا لوں "

وہ پرجوش انداز میں بولی ۔۔۔

You are such a mad girl....

"وہ اپنی ہنسی کو بریکس لگاتے ہوئے سادہ انداز میں بولا ۔۔

"ہمممم پاگل تو ہوں مگر آپ کے پیار میں "

امرام شیر نے اس کی فضول گویائی پہ اسے گھوری ڈالی۔۔۔

"ویسے پاگل میں نہیں آپ ہیں ۔۔۔اچھی خاصی سویٹ سی لڑکی آپ پہ مرتی ہے ۔۔۔پر مجال ہے جو آپ کے سر پہ جوں بھی رینگتی ہو ۔۔۔

"ایکچولی وہ کیا ہے نا مجھے جوئیں پسند نہیں "

وہ ہلکا سا طنز و مزاح کا پہلو لہجے میں لائے بولا تو ذخرف کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں ۔۔۔۔اور منہ تو کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔۔۔مذاق اور وہ بھی امرام شیر ۔۔۔۔

"بونٹ تو بند کر لو ورنہ مکھی چلی جائے گی ۔

وہ اسکی تھوڑی کو چھو کر اس کا منہ بند کرتے ہوئے ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں بولا ۔۔۔

"بہت بڑی ایکٹر ہو تم "

وہ تاسف سے سر دائیں سے بائیں ہلائے بولا ۔۔۔۔

"شکریہ شکریہ اس تعریف کے لیے ۔۔۔۔مگر آپ بھی کچھ کم ایکٹر نہیں ۔۔۔۔مجال ہے جو کبھی اپنے چہرے کے تاثرات سے پتہ لگنے دیا ہوکہ آپکے دل میں کیا چل رہا ہے "۔

"چھوڑو یہ سب فضول کی باتیں ۔۔۔۔میں اصل میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا واقعی آج اگر تم نا ہوتی تو ضرور مجھے بلٹ لگ جاتی ۔۔۔میرے حصے پہ آنی والی مصیبت تم نے خود پہ لے لی ۔۔۔۔

"اچھا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں نا تو کریں پھر شکریہ ۔۔۔۔

"کر تو رہا رہوں اور کیسے کروں تم بتا دو "

"آپکے خیال میں ایسے شکریہ ادا کیا جاتا ہے ؟؟؟

وہ الٹا اسی سے سوال پوچھ گئی ۔۔۔

"بتاؤ کیسے کروں ؟

زخرف نے اپنا کینولے والا ہاتھ آگے بڑھایا اور امرام شیر کا فولادی پھولی ہوئی رگوں والا  ہاتھ اپنے نازک سے ہاتھ سے تھام لیا ۔۔۔۔

"مجھے اپنی زندگی میں ہمیشہ کے لیے شامل کرکہ ۔۔۔۔

وہ آنکھیں میچ کر بولی ۔۔۔۔

کیونکہ اپنی آنکھوں کے سامنے اس کا انکار کرنا وہ برداشت نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔۔

آج اسنے اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر اپنی خواہش کا اظہار کر دیا ۔۔۔۔

صرف پیار و محبت ہی ایسا جذبہ ہے جس میں انا کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔۔ اس میں عزت بیعزتی محسوس نہیں ہوتی بس محبوب کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے ،

کئی لوگ چپ چاپ محبت کرتے ہیں ،اور اپنی خاموش محبت کو ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں دفن کرلیتے ہیں ۔

مگر زخرف ان لوگوں میں سے تھی جس کی سوچ یہ تھی کہ زندگی ایک بار ملتی ہے ،تو اسے چپ رہ کر سسک سسک کر کیوں گزاریں ایک بار کوشش تو کرکہ دیکھیں ۔۔۔۔تاکہ بعد میں پچھتاوا نا ہوکہ میں نے تو کوشش بھی نہیں کی تھی ،اگر کوشش کرتی تو آج وہ میرا ہوتا ۔۔۔

"اس لیے اس نے اپنے تئیں ایک آخری مرتبہ کوشش کرنی چاہی ۔۔۔۔اگر آج وہ انکار کردیتا تو اسے اپنا مقدر سمجھ کر خود کو سمجھا لیتی ۔۔۔۔

زخرف کا رواں رواں کان بنا اس کی آواز سننے کا اسکے جواب سننے کا متمنی تھا ۔۔۔

اسے اپنے ہاتھ میں سے امرام شیر کا ہاتھ نکلتا ہوا یوں لگا جیسے ہاتھ میں سے ریت پھسل گئی۔۔۔۔

اور اسکا ہاتھ خالی رہ گیا ۔۔۔

زخرف نے جب کچھ دیر تک کوئی آواز یا قریب کوئی ہلچل محسوس نہیں کی تو اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔

روم کا دروازہ ہل رہا تھا ۔۔۔جیسے وہ کچھ لمحے پہلے اس دروازے سے خاموشی سے باہر نکل گیا ہو ۔۔۔

زخرف کی آنکھوں میں سے آنسو نکل کر اسکے گالوں کو بھگونے لگے۔۔۔۔۔

اس نے واپس زور سے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔اور اپنے دل میں اٹھتے ہوئے درد کو دل میں دبانے لگی ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

سورج کی روشنی چہار سو پھیل چکی تھی ۔۔۔

کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی نے اس کی گہری نیند میں خلل ڈالا تو ماھی نے آنکھیں کھول کر دیکھا ۔۔۔

سارا منظر اس کا دیکھا بھالا تھا ۔۔۔۔

وہ اپنے چکراتے ہوئے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اٹھی ۔۔۔۔

اور ارد گرد نگاہ دوڑائی وہ اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھی ۔۔۔۔اپنے بستر پہ ۔۔۔۔

وہ یہاں کب اور کیسے آئی ۔۔۔

اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔۔۔

مگر رات کے مناظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگے ۔۔۔۔

اس کے لبوں پہ دلکش مسکراہٹ آن ٹہری۔۔۔۔

وہ واپس بستر پر لیٹے ہوئے اپنا مسکراتا ہوا چہرے تکیے میں چھپا گئی ۔۔۔

اس کا رواں رواں کپکپا رہا تھا لکی کی شدتیں یاد کیے  اس کے جذبات سے لبریز انداز،اس کی میٹھی میٹھی کانوں میں رس گھولتی ہوئی مدھم سرگوشیاں ۔۔۔۔اس کا چہرہ سرخ روشنائی سے نہا گیا ۔۔۔

"آپ اتنی محبت کرتے تھے مجھ سے ۔۔۔۔

مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا ۔۔۔

وہ آہستہ آواز میں خودی سے مخاطب ہوئی۔۔۔

"آپ ظاہری طور پہ جتنے پیارے ہیں،اندر سے اس بھی کہیں زیادہ ۔۔۔۔

"آپکا ہر انداز مجھے مغرور بنا رہا ہے ،،،آپ جیسا انسان مجھے اتنا پیار بھی دے سکتا ہے ،

وہ اسکے بارے میں سوچنے لگی ۔۔۔۔

"مگر آپ مجھے بنا ملے یہاں کیوں چھوڑ گئے ؟؟؟

اس نے چہرے سے تکیہ ہٹا کر سوچا ۔۔۔۔

"زخرف کیسی ہے ہیر ؟۔۔۔"شیر زمان نے فکرمندی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

وہ اس وقت سے پریشان تھا جب سے اس نے ذخرف کو گولی لگنے کا سنا تھا ۔۔۔

"آپ جانتے ہیں اسے گولی کیوں لگی ؟؟۔۔۔"

"کیوں ہیر "؟

"شیردل نے بتایا مجھے کہ وہ گولی امرام کو لگنے والی تھی مگر زخرف سے اسے بچا لیا ۔۔۔

"میں تو اس کی ساری زندگی احسان مند رہوں گی "

ہیر آنکھوں میں آئی نمی اندر اتارتے ہوئے بولی۔۔۔

امرام اور شیردل کے سامنے تو ہمت دکھا دی تھی لیکن اب تنہائی میں یہی سوچ سوچ کر کہ اگر گولی لگنے سے امرام شیر کو کچھ ہوجاتا تو یہ سوچ کر کی اسکی روح کانپ جاتی ۔۔۔شیر زمان کو سامنے دیکھ کر اسکے حوصلے پست ہورہے تھے۔۔۔۔۔وہ اس کے سامنے رو کر اپنے اندر کا درد ہلکا کرنے لگی ۔۔۔۔

"مائی لٹل وائفی !!!

آپکو پتہ بھی آپکے یہ آنسو مجھے کتنی تکلیف دیتے ہیں ،پھر بھی آپ جان بوجھ کر انہیں میرے سامنے بہاتی ہیں ۔۔۔۔وہ ہیر کے آنسو اپنی پوروں سے پونچھ کر بولا ۔۔۔

ہیر جو کافی دیر سے ایک بات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔ اس نے دل کی وہ بات زبان پہ لانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔ جس پر انہوں نے فوری عمل کرنے کا سوچا ۔۔۔

"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی "ہیر نے شیرذمان کے سینے پہ سر رکھے آہستگی سے کہا ۔۔۔

"ایک چھوڑ ہزار باتیں کریں ۔۔۔بندہ حاضر ہے ،مگر اس کے بعد آپکو میری بھی بات سننی پڑے گی "

"اس عمر میں بھی آپ ایسی باتیں کریں گے اب "ہیر خفگی بھرے انداز میں چہرہ اٹھا کر بولی ۔۔۔۔

"ارے عمر کو کیا ہوا ہے ،دل جوان ہونا چاہیے ۔۔۔۔

"اچھا نا چھوڑیں یہ سب پہلے میری بات سنیں ۔۔۔

"سنائیں "

"میرے ذہن میں ایک بات کافی عرصے سے ہے ،میں نے پہلے بھی آپ سے اس سلسلے میں بات کی تھی ۔۔۔لیکن اس بار میں اور دیر نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔اپنے اس فیصلے پہ میں جلد از جلد عمل کرنا چاہتی ہوں۔۔۔"

"کہیں تم ذخرف اور امرام کے رشتے والی بات تو نہیں کر رہی ۔۔۔"

انہوں کے اب کے تشویش سے پوچھا۔۔۔

""آپ کو کیسے پتہ چلا ؟

ہیر نے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"اچھا میں چاہ رہی تھی کہ ہم امرام شیر کا نکاح ذخرف کے ساتھ کردیں میں تو پہلے بھی ایسا چاہتی تھی ،مگر امرام نہیں مانا ۔۔۔مگر اس بار ذخرف نے اپنے عمل اور بہادری سے ثابت کردیا کہ وہ کتنا پسند کرتی ہے امرام کو ۔۔۔میں نے اسکی آنکھوں میں امرام شیر کے لیے پسندیدگی دیکھی ۔۔۔"

انہوں نے اپنی بات مکمل کرکے شیرذمان  کی طرف دیکھا جو کسی گہری سوچ میں نظر آرہے تھے۔۔۔

"لیکن مجھے لگتا ہے کہ امرام شیر نہیں مانے گا ۔مجھے تو پہلے بھی کبھی کوئی اعتراض نہیں تھا اس رشتے سے ۔۔۔میرا خیال ہے کوئی بھی سٹیپ لینے سے پہلے ایک بار امرام سے پوچھ لو ۔۔۔

"یہ تو میں نہیں جانتی کہ امرام شیر اس رشتے کے لیے  کیسے مانے گا۔۔۔ لیکن میں ایک بار پھر سے کوشش ضرور کرنا چاہتی ہوں اور اس بار مجھے پوری امید ہے کہ وہ میری بات نہیں ٹالے گا۔۔۔"

انہوں نے پر یقین انداز میں کہا ۔۔۔

" جی مام۔۔۔۔۔۔بلایا آپ نے "؟

" جی بیٹا جی آپکو ہی بلایا تھا کہاں غائب ہیں آج کل ۔"؟.

ہیر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

"میں یہیں گھر پہ ہی ہوں اس ویک ۔۔۔ نیکسٹ ویک واپسی ہے ۔کیوں کوئی کام تھا آپکو۔۔۔۔۔"

امرام شیر تھوڑا حیران ہوتے ہوئے استفسار کرنے لگا ۔۔۔۔

"ہاں اندر آؤ مجھے اور تمہارے بابا کو کچھ ضروری  بات کرنی ہے تم سے۔۔۔۔۔۔"

امرام شیر کا ماتھا ٹھنکا ۔انکے بات کرنے کے انداز پہ ۔۔

"آپ بات کریں گے یا میں بات کروں ؟

ہیر نے شیر زمان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"کیا ہوا بابا ۔۔۔۔"؟

شیرذمان کو تذبذب کا شکار ہوتے دیکھ کر امرام شیر نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔۔۔۔

"کچھ خاص بات ہی ہے ۔۔۔۔"۔

شیر زمان نے اسے کلو دیا ۔۔۔

"امرام ہم نے تمہارے لیے ایک فیصلہ لینے کا سوچا ہے ۔۔۔

امرام شیر انکے انداز و اطوار پہ ٹھٹھکا ۔۔

"وہ میں نے تمہارا نکاح ذخرف سے کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔۔۔"

انہوں نے بغیر کسی تہمید کے سیدھا بول دیا۔۔۔

"واٹ مام یہ کیا کہہ رہی ہے آپ۔۔۔۔"

امرام شیر ماتھے پہ بل ڈال کر پریشانی سے بولا۔۔۔۔۔

یہ ٹھیک تھا کہ زخرف اسے اپنی بچکانہ حرکتوں کی وجہ سے کچھ خاص پسند نہیں تھی ۔۔۔۔مگر جب سے اس نے اپنی انا کو بالائے طاق رکھ اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا ۔اپنی جان کی پرواہ کیے بنا اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوگئی تھی ،،،اس وقت امرام شیر کے دل میں بھی ایک بیٹ مس ہوئی ۔۔۔۔مگر وہ اسے نظر انداز کر رہا تھا ۔۔۔۔

جس (چاندنی ) لڑکی کے لیے اس نے کچھ عرصہ سوچا تھا اسی نے دغا دیا ۔۔۔۔

وہ اب زخرف کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا تھا ۔۔۔۔وہ اس دن وہاں سے خاموش نکل آیا تھا ۔۔۔زخرف کو بنا جواب دئیے ۔۔۔

یہ اس کی عادت نجانے کس پہ گئی تھی کہ وہ اپنی فیلنگز کا کبھی بھی کھل کر اظہار نہیں کرتا ۔۔۔۔

ابھی وہ خود بھی اندازہ نہیں لگا پارہا تھا اپنے دل کی حالت کا ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم مام ڈیڈ ۔۔۔

"کیا ہوا مام ڈیڈ آج لالہ کہ پیشی کیوں لگی ہے آپکی عدالت میں ۔۔۔"

شیردل جو انکے کمرے میں داخل ہوا تو انہیں سلام کیے  ان سب کے سنجیدہ چہرے دیکھ کر بولا۔۔۔۔

"میں اسے شرم دلا رہی ہوں تم سے چھوٹے کی شادی ہوگئی ہے تم بھی کچھ عقل سے کام لو ۔۔اور زخرف کے بارے میں اپنی رائے دو ۔۔"

"کیا ذخرف ؟"

شیردل جو شیرذمان کے قریب بیٹھ کر اب  ان کے پاؤں دبا رہا تھا ۔۔۔چونک کر بولا۔۔۔

"ارے مام آپ سے پہلے میں بھی لالہ کو یہ مشورہ دے چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔"

"شیردل تم تو چپ ہی رہو اس معاملے میں "

امرام شیر اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے تنبیہی  انداز میں دانت کچکچا کر  بولا۔۔۔۔

"امرام تم اسے کچھ مت کہو۔ مجھے صاف صاف جواب دو ۔۔۔۔"

انہوں نے پریشانی سے استسفار کیا۔

"مام آپ کو اچھی طرح پتہ ہے ۔۔۔میں کیسے۔۔۔اس بیوقوف لڑکی سے " 

اس سے پہلے کے امرام شیر اپنی بات مکمل کرتا ۔۔۔ہیر بول اٹھی ۔۔۔۔

"اپنی ماں کی خواہش کو پورا کرنا تمہارے بس میں ہے مگر تم کرو گے نہیں ۔۔۔۔یہی بات ہے نا ؟؟؟

وہ دکھ بھرے انداز میں نم آنکھوں سے بولی۔۔۔۔

۔۔۔

"مام آپ اب مجھے جذباتی بلیک میل مت کریں '

وہ بے بسی سے بولا ۔۔۔اب اپنی مام کو روتے ہوئے بھی تو نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔

"ٹھیک ہے ۔مجھے منظور ہے "وہ ڈھیلے سے انداز میں بولا ۔

"لالہ بارات گھوڑی پہ جائے گی یا گاڑی میں ۔۔۔۔؟؟؟آپ کہیں تو بگھی کروا لوں ؟؟؟۔۔۔"

شیردل پرجوش آواز میں شرارت سے بولا۔۔۔

"لالہ بولیں بھی ۔۔۔۔کہیں شادی کی خوشی میں زبان تو گنگ نہیں ہوگئی ۔۔۔۔"

"شیردل !!!"

امرام شیر نے اپنے چھوٹے بھائی کو تند نگاہوں سے دیکھتے ہوئے گُھرکا۔۔۔۔

"چلیں اب جب امرام نے رضامندی ظاہر کردی ہے تو میں  بالکل بھی دیری نہیں کروں گی اسی ہفتے نکاح کرلیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔"

"لٹل وائفی آپ خودی سارے منصوبے بنا رہی ہیں پہلے لڑکی کے والدین سے تو پوچھ لیں "

شیرذمان نے اصل مدعے کی طرف اسکی توجہ دلائی۔۔۔۔

"ابتسام بھائی اور منت بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔

اور ماشاءاللہ سے میرا بیٹا لاکھوں میں کیا بلکہ کروڑوں میں ایک ہے ،

چراغ لے کر بھی ڈھونڈھیں گے نا تو میرے بیٹے جیسا داماد نہیں ملنے والا ۔۔۔۔

وہ خاموش کھڑے اپنی جان سے پیارے بیٹے کو دیکھتے ہوئے محبت بھرے انداز میں بولی ۔۔۔ 

"دنیا کی سب ماؤں کو انکے بیٹے یونہی قابل لگتے ہیں "

شیرذمان نے اسے چھیڑا۔۔۔

"آپ پلیز چلیں نا میرے ساتھ ہم ابھی چل کر ان سے بات کرتے ہیں ۔۔۔وہ شیرذمان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بستر سے اٹھنے کے لیے بولی ۔۔۔

"لٹل وائفی صبح تو ہو لینے دو ۔۔۔۔

"آپ مجھے تنگ مت کریں اور ابھی چلیں میرے ساتھ ۔۔۔وہ بستر سے اٹھ کر چپل پاؤں میں اڑستی ہوئی بولی ۔۔۔۔

"اچھا رکو ۔۔۔

ہیر اور شیر زمان دونوں باہر نکل گئے تو ۔۔۔۔

"تیرے گھر آیا ۔۔۔

"میں آیا تجھ کو لینے ۔۔۔

دل کے بدلے میں دل کا نذرانہ دینے ۔۔۔۔

میری ہر دھڑکن کیا بولے ہے سن سن سن ۔۔۔

شیردل اس کے شانے سے اپنا شانہ مارتے ہوئے شرارت آمیز نظروں سے اسے تنگ کرتے ہوئے گنگنایا ۔۔۔۔

"اپنی بیوی کے پاس سلامت واپس جانا ہے آج رات ؟'

امرام شیر نے شیردل کو سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔بھائی دراصل مجھے کسی ضروری کام کے سلسلے میں کہیں جانا ہے کچھ دنوں کے لیے ۔۔۔۔

شیردل اپنے ازلی سنجیدہ انداز میں واپس لوٹ آیا ۔۔۔۔

"کیا بات ہے ؟

اس نے سوال کیا شیردل کے سپاٹ انداز کو دیکھ کر ۔۔۔

"کچھ خاص بات نہیں آپ پریشان مت ہوں ۔۔۔ایک مسلہ ہے مگر میں اسے خودی حل کرلوں گا "

"شیر دل اگر کوئی ٹینشن والی بات ہے تو مجھے بتاؤ ہم ملکر اس کا سولوشن ڈھونڈھ لیں گے ۔۔۔امرام شیر اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر بولا ۔۔۔۔

"نہیں لالہ ۔۔۔ایسی کوئی خاص بات نہیں ۔۔۔۔اگر ہوئی تو ضرور بتاؤں گا ۔۔۔

شیردل نے یہ بات اس سے کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔۔

"آپ اپنے نکاح کی تیاری کریں ۔۔۔۔

"مام تو چاہے کل ہی یہ نکاح کروادیں جتنی وہ ایکسائیٹڈ ہیں ۔۔۔۔امرام نے کہا ۔

"ہممم ہو بھی سکتا ہے ،میں دو تین دن کے لیے زرا آؤٹ آف کنٹری جا رہا ہوں "

"اچھا ۔۔۔کب تک نکلنے کا ارادہ ہے ۔۔۔

"لالہ پرسوں صبح نکلوں گا "

"اچھا ٹھیک ہے ،آو باہر چلتے ہیں اور کبھی بھی کوئی مسلہ ہوتو بلا جھجھک مجھ سے شئیر کر لینا "

جی لالہ آپ سے نہیں کہوں گا تو اور کس سے کہوں گا "

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

آج صبح سے ہی اسکی طبیت کچھ گری گری سی تھی ،،،جی متلا رہا تھا ۔۔۔۔

صبح سے کتنی بار وہ واش بیسن پہ جھکی ہوئی وومٹنگ کر چکی تھی ۔۔۔۔

پھر ہانپتی ہوئی واپس بستر پہ آکر گر جاتی ۔۔۔۔

دعا اور شاہ من اسے یوں صبح اچانک اپنے روم میں دیکھ کر بہت حیرت زدہ ہوئے کہ وہ اتنی جلدی واپس کیسے آگئی اور کیوں ۔۔۔۔

ماھی نے انہیں پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا اس لیے اس نے کہا کہ لکی اسے صبح ہوتے ہی خود واپس چھوڑ کر گیا تھا ۔۔۔۔شاہ من اور دعا مطمئن تو نہیں تھے ۔۔۔۔مگر خاموش رہے ۔۔۔اور اس بارے میں سوچ بچار کرنے لگے ۔۔۔۔

دعا صبح کی دو بار اسے ناشتے کے لیے پھر دوپہر کے کھانے کے لیے بلانے آچکی تھی ۔۔۔۔مگر ماھی بستر پہ لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔

"کیا ہوا ماھی ؟؟؟

تم صبح سے باہر نہیں آ رہی ۔۔۔۔۔طبیعیت ٹھیک ہے نا ۔۔۔۔

دعا نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"جی مما سب ٹھیک ہے ۔۔۔بس سانس لینے میں تھوڑی دشواری ہو رہی ہے ۔۔۔۔

"ماھی بیٹا کمرے سے باہر نکلو ۔۔۔ٹھنڈی ہوا میں سانس لو بہتری محسوس کرو گی ۔۔۔

دعا نے اسے مشورہ دیا ۔۔۔

"اچھا ایسا کرو چھت پہ چلی جاؤ تھوڑی دیر کے لیے ۔۔۔۔

"جی مما "وہ کہتی ہوئی کسلمندی سے وہاں سے اٹھی اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی ۔۔۔۔

چھت پہ کھلی فضا میں اسے کافی بہتر محسوس ہوا ۔۔۔

ساتھ والوں کے چھت پہ ڈھیروں کبوتر تھے ۔۔۔۔

انہوں نے کبوتروں کو اڑان بھرنے کے لیے کھلا چھوڑا ہوا تھا ۔۔۔۔

وہ لوگ روزانہ یونہی کرتے تھے ۔۔۔۔کبوتر کچھ دیر کے لیے آسمان میں  اڑتے پھر واپس آجاتے ۔۔۔۔

انہیں کبوتروں میں سے ایک کبوتر زخمی ہوکر انکی چھت پہ آبیٹھا ۔۔۔۔

ماھی جو بنیرے پہ کھڑی آس پاس کا جائزہ لے رہی تھی اس کی نظر جیسے ہی اس کبوتر کے زخمی ہوئے پاؤں پہ پڑی ۔۔۔

جس میں سے خون کو بوندیں ٹپک رہی تھیں ۔۔۔وہ کبوتر زخمی ہونے کی وجہ سے شاید ان کی چھت پہ آگیا تھا ۔۔۔۔

ماھی کی نظریں یکدم بدلیں ۔۔۔۔

اس نے اس زخمی کبوتر کو اپنی مٹھی میں دبوچ لیا۔۔۔

پھر اسکے زخمی ہوئے پاؤں کے ساتھ اپنا منہ لگائے اس کے خون کو پینے لگی ۔۔۔۔

وہ کبوتر ماھی کی مضبوط ترین گرفت میں پھڑپھڑانے لگا تھا اور شور مچانے لگا تھا ۔۔۔مگر ماھی اپنے کام میں مشغول رہی ۔۔۔۔

"یہ کیا کر رہی ہو ماھی ؟؟؟..

پیچھے سے آتے ہوئے حذیفہ نے جب ماھی کو عجیب و غریب سی حرکت کرتے دیکھا تو اسے زور سے جھٹکا دے کر ہوش میں لانا چاہا ۔۔۔

حذیفہ نے اسکے ہاتھ میں سے زخمی کبوتر کو پکڑا ۔۔۔۔

مگر وہ کبوتر اپنی آخری سانس لیتے ہوئے وہیں دم توڑ گیا ۔۔۔۔

حذیفہ نے حیرت انگیز نظروں سے ماھی کا خون آلود چہرہ دیکھا تو بھونچکا رہ گیا۔۔۔۔

"کیا کر رہی تھی تم ؟

وہ درشت آواز میں بولا۔۔۔۔

"میں ۔۔۔۔میں نا ۔۔۔وہ ۔۔۔۔

وہ اپنا منہ اپنے دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے آہستگی سے بولی ۔۔۔

مگر ماھی ہوش میں ہوتی تو کچھ ٹھیک سے بولتی نا ۔۔۔

وہ لہرا کر چھت کے فرش پر گری ۔۔۔۔

حذیفہ نے دعا اور شاہ من کو آوازیں دینا شروع کیں تو وہ پلک جھپکتے ہوئے فورا اوپر آئے ۔۔۔۔

"کیا ہوا ماھی کو "؟

شاہ من نے حذیفہ سے غصے میں پوچھا ۔۔۔۔

"میں نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔وہ ماھی خود ہی بیہوش ہوگئی ۔۔۔۔

جو اس نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا تھا ابھی تک وہ خود بھی یقین نہیں کر پا رہا تھا تو انہیں کیا بتاتا ۔۔۔۔

"آج وہ ماھی سے ملکر اسے دل سے اس کے مستقبل کے لیے دعا دینا چاہتا تھا ۔۔

شاہ من اور دعا دونوں ماھی کو سہارا دئیے اسے نیچے لے گئے ۔۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

میری پری وہاں اندر زندگی کی بازی ہار رہی ہے اور میں کتنا بے بس ہوں اسکے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہا ۔۔۔۔ پری نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس نے  اذیت و تکالیف دیکھیں ۔۔۔۔ اتنی مصیبتیں اسی کی زندگی میں کیوں لکھی گئیں تھیں ۔۔۔ آریان شیر اسے اس حالت میں۔ کہاں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔ وہ تو سے اپنی زندگی کا اثاثہ لگتی تھی ۔۔۔ اسے کچھ ہوجائے گا یہی سوچ اسکی جان نکال رہی تھی ۔۔۔

ڈاکٹر آئی سی یو سے نکل کر باہر کی جانب کو آیا ۔آریان شیر فورا ڈاکٹر کی طرف لپکا ۔۔۔

"آپ کیا لگتے ہیں پیشنٹ کے ؟ "ڈاکٹر نے آتے ہی پوچھا 

"مجھے پیشنٹ کا گارڈین ہی سمجھیں 

"آپ یہ بتائیں پری ٹھیک تو ہے ۔۔۔اسے کچھ ہوا تو نہیں نا ۔۔۔ڈاکٹر اسے کچھ ہوگا تو نہیں پلیز بتائیں ۔۔۔

اس نے کئی سوال ایک ہی سانس میں کر ڈالے۔ڈاکٹر نے سر جھکا کر ایک طویل سانس اندر کھینچا اور آریان شیر کے کندھے کو تھپک کر اسے حوصلہ دیا۔۔۔۔۔آریان شیر کو اب اپنی زندگی ختم ہوتی محسوس ہوئی۔ اسکے اردگرد ہر شے اسے گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وہ اسوقت پری کے لیے کوئی بھی انتہائی خبر سننے کا متحمل نہیں تھا۔۔۔۔

"پیشنٹ کا بہت سیریس ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔اور انکا کافی خون بہہ چکا ہے اور تو اور سر پرکافی سیرئیس چوٹیں آئیں ہیں۔ فلحال ہم نے انہیں خون لگا دیا ہے مگر مزید خون کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ آپ جلد ازجلد بندوبست کریں۔ میں آپ جو زیادہ امید نہیں دے سکتا بس اتنا کہوں گا اللّٰہ سے دعا کریں "یہ خبر سن کر آریان شیر پر پہاڑ ٹوٹا تھا۔ شہریار کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔۔

"میری پری کو کچھ ہو گا تو نہیں؟ ‘‘آریان شیر نے پھر ایک امید سے پوچھا

" آپ حوصلہ رکھیں ۔۔۔ابھی اس بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا ۔۔۔ آپ بس جلد از جلد خون کا بندوبست کریں۔"وہ اسکے کندھے کو تھپکتے ہوئے ایک طرف سےنکل کر آگے چلے گئے۔اس کے چہرے پر آئے سنجیدہ تاثرات در آئے ۔۔۔۔

دو دن بیت چکے تھے مگر ڈاکٹرز کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں مل پا رہا تھا۔ آریان شیر دو دن سے مسلسل کاریڈور کے میں موجود کبھی اندر کبھی باہر بے چینی سے گھوم رہا تھا ۔ سر پر گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے پری  کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔ جبکہ دو خون کی بوتلیں چڑھا چکے تھے ۔۔۔اور ابھی ایک لگی ہوئی تھی ۔۔۔ آریان شیر سے اسکی بند آنکھیں دیکھی نہیں جاتیں اسے پل پل ماضی یاد آتا ہے۔وہ تمام باتیں یاد آتی اور گزارے لمحات یاد آتے جو انہوں نے ساتھ گزارے تھے " اس نے پہلی بار تب اتنے آنسو بہائے تھے جب وہ اپنے والدین سے جدا ہوا تھا ،اور ایک ان دو ِدنوں میں ۔۔۔۔

وہ سجدے میں گر گیا ۔۔۔۔

اسکا ماسٹر رچرڈ جس نے اس کے دماغ میں ڈالا تھا کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے اسکی پری کی جان لینے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔

رچرڈ نے آریان کو مسلمانوں کے خلاف ورغلا کر اس سے مساجد میں خود کش دھماکے کروائے ۔۔۔۔

آریان شیر اس وقت پری کی موت پہ ٹوٹ کر رہ گیا تھا ۔۔۔اس نے بند آنکھوں سے اپنے ماسٹر کی باتوں پہ عمل کیا ۔۔۔۔

وہ پری کی موت پہ ہی اسلام کا دشمن بنا ۔۔۔

اور آج وقت پڑنے پہ وہی آریان شیر اپنے یکتا خدا کے حضور سر بسجود ہوا ۔۔۔

بے شک وہ ہر چیز پہ قادر ہے ۔

وہ جس کا چاہے دل بدل دے ۔۔۔۔جسے چاہے ہدایت عطا فرمائے۔۔۔۔

جس طرح اللہ تعالٰی کسی کو زبردستی ہدایت نہیں دیتا بالکل اسی طرح گمراہ بھی نہیں کرتابلکہ سب سے پہلے غافلوں اور گناہگاروں کو بذریعہءپیغمبر انکے سوءِ اعمال پر متنبہ کرتا ہےایسا نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کوایک یا دو بار نصیحت کرنے اور اسکو قبول نہ کرنے کے نتیجے میں انکے دلوں پر اسی وقت مہر ثبت کر دیتا ہےبلکہ ایک خاص مدت تک ان کو اپنے آپ کی اصلاح کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کرتا ہے اور اگر ایسے لوگ کسی شک و شبہ کا شکارہوتےہیں اور پیغمبر سے اسکی نبوت ورسالت کی کسی دلیل یا معجزے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی اپنی حکمتِ کاملہ کے تحت انکے اس مطابے کو بھی پورا کردیتا ہے تاکہ ان پر حجت پوری طرح سے قائم ہو جائےاور وہ مزید کسی شک میں مبتلاء نہ ہوں اگر پیغمبر کی طرف سے اسکی نبوت ورسالت کی دلیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد بھی وہ حق کو قبول کرنے اور اپنی سابقہ غلط روش کو بدلنے کی بجائے اسی پر جمےرہیں یا بے جا شک کریں تو اللہ تعالٰی ایسے شکی مزاج لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے یہ خود تو اللہ تعالٰی کے راستے سے ہٹے ہوتے ہی ہیں دوسروں کوبھی راہ ِ ہدایت کو قبول کرنے سے روکتے ہیں پھر جب انکی گمراہی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی کی آیات کو نیچا دکھانےیا ان سے ناحق جھگڑنے لگیں تو گویا یہ بات پوری طرح کھل جاتی ہےکہ اب ان میں حق کو قبول کرنے کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی اورانکا ضمیر بالکل مردہ ہو چکا ہے تب اللہ تعالٰی کا ان کے حق میں آخری فیصلہ ان کے دلوں پر مہر کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے۔

مندرجہ ذیل آیات میں بھی اللہ تعالٰی نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے :-

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ ﴿٣٤﴾ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ﴿٣٥﴾

اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لے کر آئے، پھر بھی تم ان کی لائی ہوئی (دلیل) میں شک و شبہ ہی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہو گئی تو کہنے لگے ان کے بعد تو اللہ کسی رسول کو بھیجے گا ہی نہیں اسی طرح اللہ گمراه کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے والا شک و شبہ کرنے والا ہو جو بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں، اللہ کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی ناراضگی کی چیز ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح ہر ایک مغرور سرکش کے دل پر مہر کردیتا ہے۔

قرآن ، سورت غافر ، آیت نمبر 35-34

 آج کئی سالوں بعد اس نے وہ ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے تھے۔ آج کتنے برسوں بعد اس کا دل ایک بار پھر کرب سے گزر رہا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔وہ اپنے دین سے غافل ہوچکا تھا مگر خدا نے اسے موقع دیا مغفرت کا ۔۔۔۔

اور اس نے صدق دل سے گڑگڑا کر اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کی ۔اس کے بہتے ہوئے اشکوں میں فریاد تھی کسی کی زندگی کے لیے بھیک تھی ایک تڑپ تھی ایک آس تھی

"یا اللّه یہ امتحان نہ لینا مجھ سے۔میں تو ایک ادنی سا گنہگار انسان ہوں ،آپ تو بن مانگے عطا کرتے ہیں ،مجھے بھی اسکی زندگی عطا کردیں ،،، اب اسکو مجھ سے جدا نہ کرنا۔ اب مجھ میں اتنی ہمت باقی نہیں رہی میرے مالک کے اس کے نازک وجود کو یوں زخموں سے چور دیکھوں۔۔۔۔اللّه رحم فرما دے اپنا ۔۔" 

آریان شیر نے بھیگی پلکوں کو صاف کرنا چاہا۔

ابھی اس نے دعا ختم کر کے اٹھنا چاہا ہی تھا کہ سامنے سے آتی ہوئی نرس نے اسے خبر دی۔

"سر ! آپکے پیشنٹ کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ انہیں ہوش بھی آ گیا ہے۔"

"اے میرے پروردگار تو بہت رحیم و کریم ہے،تو اپنے گنہگاروں کی بھی اتنی جلدی سنتا ہے ،تو اپنے پرہیزگاروں کی کتنی سنتا ہوگا ۔۔۔

اے میرے مولا مجھے بھی ہدایت دے اور اپنے خاص بندوں میں سے کردے ۔۔۔۔

 اس نے سجدے میں جھک  فوراََ سے اللّٰہ تعالیٰ  کا شکر ادا کیا اور پھر ڈاکٹر سے ملکر اسکی حالت کے بارے میں جاننے کے لیے ان کے کیبن کی طرف بڑھا۔۔۔۔

"ڈاکٹر پری کے بارے میں بتائیں مجھے "

"آپکے پیشنٹ کے ریکوری پراسیس میں ایک یہ خوش آئند بات ہوئی ہے کہ ان کی جو میموری لاس ہو چکی تھی ۔۔۔

وہ اب بالکل ٹھیک ہے ،انہیں نئی باتوں کے ساتھ پچھلی سب باتیں بھی یاد آجائیں گی ۔۔۔

اب پیشنٹ ہوش میں آچکی ہیں آپ ان سے مل لیں "

ڈاکٹر نے آریان شیر کو تسلی بخش جواب دیا۔۔۔۔

تو وہ پری سے ملنے اسے دیکھنے کے لیے تیز رفتار قدموں سے چلنے لگا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

”خبردار جو تم نے ایک قدم بھی آگے بـڑھایا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔“ ہانیہ کسی ناگن کی طرح پھنکاری تھی۔ وہ اس وقت اپنے ریسیپشن کے کپڑوں  میں ملبوس تھی۔سکن اور سی گرین امتزاج کی دیدہ زیب میکسی میں وہ ہم رنگ ہی دوپٹہ جو کندھے پر جھول رہا تھا ۔ بالوں کا ہئیر سٹائل بنایا گیا تھا جو اب وقت گزرنے کے ساتھ چڑیا کا گھونسلا بنا ہوا لگ رہا تھا ۔۔۔ اس کے دونوں  ہاتھوں کی کلائیوں میں چوڑیاں تھی۔ جبکہ کانوں میں چھوٹے چھوٹے سے ڈائمنڈ کے  آویزے نمایاں تھے۔ اسکے چہرے پر پھیلا خوف اور غصہ چہرے کو سرخ بنا رہا تھا۔

اعیان کا شدت سے دل چاہا تھا کہ وہ اسے خود میں سمو لے اس کا چہرہ رنجیدہ اور حزن و ملال کی کیفیت میں بھی غضب ڈھا رہا تھا ۔۔۔۔ اعیان اس پہ اپنی ملکیت کے احساس سے بہکنے لگا ۔۔۔ 

”میری ایک بات یاد رکھنا اعیان  تم چاہ کر بھی مجھے حاصل نہیں کر سکتے، اور اگر تم نے ایسی ویسی کوئی کوشش بھی کی تو یاد رکھنا میں خود کو ختم کرلوں گی ۔۔۔مجھے گھن آتی ہے تم سے تمہارے وجود سے ۔۔“ وہ شدت جذبات سے کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔ 

اعیان اسکی باتیں سن کر اشتعال میں آیا ۔۔۔۔

اس کے دماغ میں ہانیہ کے بولے گئے الفاظ ہتھوڑے کی مانند بجنے لگے ۔۔۔۔ 

مجھے گھن آتی ہے تم سے تمہارے وجود سے ۔۔“ 

باہر تیز طوفان آنے کا اندیشہ تھا ۔۔۔۔اور اندر اعیان کے دل و دماغ میں تیز طوفان آچکا تھا ۔۔۔۔

”تم میری ہو ہانیہ ۔۔میں تمہیں خود سے کبھی بھی دور نہیں جانے دوں گا ۔۔۔۔

میری محبت ہو تم ۔۔۔۔میرا طریقہ غلط تھا ۔۔۔مگر دیکھو نا کوئی بھی انسان اپنی محبت میں شراکت داری برداشت نہیں کرسکتا ۔۔۔تو میں کیسے کر لیتا ۔۔۔۔مجھے تم چاہیے تھی اسی لیے تو سارے زمانے سے لڑ کر تمہیں اپنا بنایا ۔۔۔۔ساری دنیا سے چھپا کر تمہیں یہاں کے آیا ۔۔۔۔اس فارم ہاؤس پہ ۔۔۔تم مجھے موقع دو میں سب ٹھیک کردوں گا ۔۔۔۔“ اس نے اپنی جسم کی بچی کھچی طاقت کو جمع کیا اور الفاظ اسکے خشک ہونٹوں سے الفاظ پھڑپھڑا کر نکلنے لگے ۔۔۔

"مجھے معاف !!!

اس سے پہلے کہ اعیان کچھ کہتا ہانیہ نے اسے وہیں روک دیا ۔۔۔

"دور رہو مجھ سے اعیان ۔۔۔تم جب جب مجھے چھوتے ہوئے میرا دل کرتا ہے اپنے اس وجود کو آگ لگا دوں ۔۔۔۔

اسی وجود کے لیے تم نے میری عزت کی دھجیاں بکھیر دیں ،مجھے میرے پیار کو میری ہی نظروں میں بے مول کردیا ۔۔۔۔مجھے احتجاج کرنے کا موقع بھی نہیں دیا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں سب گھر والوں پہ تمہاری یہ گھناؤنی حرکت ظاہر کرتی تم مجھے بیہوش کیے چپکے سے یہاں لے آئے ۔۔۔۔

"تمہیں کیا لگتا تمہاری قید میں رہ کر میں تمہارے سامنے گڑگڑاوں گی ۔۔۔۔تو یہ بھول ہے تمہاری ۔۔۔۔

"ایسی زندگی جینے سے بہتر تو مار دو مجھے اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔۔

کیونکہ اگر میں زندہ رہی تو تمہارے ساتھ تو قطعا نہیں رہوں گی ۔۔۔۔

"ہانیہ ۔۔۔۔ہانیہ ۔۔۔میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔

میں شوہر ہوں تمہارا میں نے کچھ انوکھا نہیں کیا تمہارے ساتھ ۔۔۔۔سب ایسا ہی کرتے ہیں ۔۔۔۔ہوگئی غلطی اب کیا جان دے دوں ؟؟؟؟

وہ اس کے جبڑے کو اپنی مٹھی میں دبوچ کر جھٹکا دیتے ہوئے دھاڑا ۔۔۔۔

"اللّٰہ کرے مر جاؤ تم اعیان ۔۔۔۔"

اس نے روتے بلکتے ہوئے اسے ٹوٹے دل سے بدعا دی ۔۔۔۔۔

اعیان اسکی تھوڑی کو جھٹکے سے چھوڑتے ہوئے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔

اور باہر نکلتے ہوئے دروازہ دھاڑ سے بند کرگیا ۔۔۔۔

آیت سناؤ صبر کی کوئی قرآن سے ۔

ورنہ الجھ پڑوں گا میں سارے جہاں سے ۔۔۔

وہ شام آج تک میرے سینے پہ نقش ہے ،

اک شخص جب پھر گیا تھا اپنی زبان سے ۔

وہ اسے ولیمے کی رات وہاں سے بیہوش کیے اپنے فارم ہاؤس پہ لے آیا ۔۔۔اسے پتہ تھا کہ ہانیہ ضرور سب گھر والوں سے اسکی بات کرے گی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اس کا پول کھولتی وہ اسے سمجھا بجھا کر راضی کرنے کے لیے اپنے فارم ہاؤس لے آیا تھا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"آنًا فانًا نکاح کی ڈیٹ فکس ہوگئی کیونکہ اگلے ہفتے امرام شیر نے واپس ڈیوٹی جوائن کرنی تھی ،اس کی چھٹیاں اسی ہفتے ختم ہونے والی تھیں ۔۔۔۔

زخرف تو اس وقت ہواؤں میں اڑ رہی تھی ۔۔۔۔

اس کے تو خوشی کے مارے پاؤں ہی زمین پر نہیں پڑ رہے تھے ۔۔۔۔

بالآخر اسکی دیرینہ خواہش پوری ہونے جا رہی تھی ۔۔۔۔

اس نے اپنی پسند کی ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کرڈالی ۔۔۔۔

اور آج وہ خوش قسمت دن اسکی زندگی میں آہی گیا تھا جب وہ امرام شیر کی زندگی میں داخل ہونے جا رہی تھی ۔۔۔

اس وقت وہ ڈیپ ریڈ دیدہ زیب بھاری کامدار لہنگے میں ملبوس ڈیپ ریڈ میک اپ کیے ۔۔۔۔کندن کی جیولری پہنے ۔۔۔۔سر کے ایک طرف جھومر لگائے ۔۔۔اپنی ستواں ناک میں بڑی سی نتھ پہنے ۔۔۔

بالوں میں چھوٹی چھوٹی گلاب کی کلیاں لگائے ہاتھوں میں بھر بھر کر سرخ چوڑیاں پہنے اور گجرے بھی پہن رکھے تھے ۔۔۔۔اسکے دونوں ہاتھ ۔۔۔ہورے بازوؤں تک مہندی کے ڈیزائن سے بھرے ہوئے تھے ۔۔۔پاوں پہ بھی مہندی کے دلفریب ڈیزائین بنائے گئے تھے ۔۔۔۔

اس نے اپنی ساری خواہشات پوری کیں ۔۔۔کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اپنی تیاری میں ۔۔۔۔۔شہر کے سب سے اعلی بیوٹی سیلون سے تیار ہو کر آئی تھی ۔۔۔۔

میک اپ آرٹسٹ نے اس کے دلکش نقوش کو اپنے آرٹ سے مزید خوبصورت بنا دیا تھا ۔۔۔

اس کا دو آتشہ روپ دیکھنے والے کی نظروں کو خیرہ کر رہا تھا۔۔۔۔

انہوں نے گھر میں کی ایک چھوٹی سی تقریب رکھ کر نکاح کا پاکیزہ فریضہ انجام دیا۔۔۔۔۔سب اس اچانک شادی اور رخصتی پہ ابھی تک شاک کی کیفیت میں مبتلا تھے ۔۔۔۔مگر خوش بھی بہت تھے ۔۔۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسے ہیر امرام شیر کے کمرے میں بیٹھا کر گئی تھی ۔۔۔۔

زخرف نے گھونگھٹ اٹھا کر اس کمرے کا جائزہ لیا ۔۔۔۔

کتنی خواہش تھی اس کمرے میں اسکی دلہن بن کر بیٹھنے کی اور آج اسکی یہ خواہش پوری ہوگئی تھی تو وہ خود پہ اپنی قسمت پہ نازاں تھی۔۔۔۔

وائٹ بے داغ بیڈ شیٹ ،وائٹ پردے ۔۔۔۔وائٹ سنگ مرمر کا چکمتا ہوا فرش ،،،

ڈریسر اور فرنیچر بھی وائٹ تھا ۔۔۔۔

یہاں تک کہ دیوار پہ لگا کلاک بھی ۔۔۔۔

زخرف نے ناک سکوڑی۔۔۔۔

"ہائے یہ بندہ خود جتنا خشک مزاج اور روکھا پھیکا ہے ،اس کا کمرہ بھی اسی کے جیسا بے رنگ ۔۔۔۔

"میں نے بھی اس کے بے رنگ کمرے اور زندگی میں رنگ نا بھر دئیے تو میرا نام بھی زخرف نہیں "

وہ اٹل انداز میں ارادہ باندھ کر خود سے مخاطب ہوئی ۔۔۔۔

باہر سے کمرے کے دروازے کے ہینڈل سے اس کے کھلنے کی آواز سنائی دی تو اس نے جھٹ سے گھونگھٹ اوڑھ لیا۔۔۔۔

اور سیدھی ہوکر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

امرام شیر دروازہ کھول کر اندر۔ داخل ہوا اور دروازے کو بند کردیا ۔۔۔۔

وہ ڈریسر کے پاس کھڑا اپنا موبائل اور والٹ نکال کر اس پہ رکھنے لگا ۔۔۔۔پھر کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی اتار کر رکھی ۔۔۔۔اب وہ اپنا کوٹ اتار کر کبرڈ کے ساتھ لٹکے ہوئے ہینگر میں ہینگ کرنے لگا ۔۔۔

وہ بہت اصولوں ضوابط کا پابند تھا ۔۔۔۔کمرے میں زرا سی بھی بے ترتیبی اسے پسند نہیں تھی ۔۔۔اس کی سلجھی ہوئی زندگی کتنی الجھنے والی تھی اس بات کا اندازہ اسے آگے چل کر ہونے والا تھا ۔۔۔۔

زخرف سے اتنی دیر کی خاموشی کچھ ہضم نہیں ہوئی ۔۔۔۔

بالآخر اس نے روایتی دلہنوں والا دلہناپے کا چولا اتار پھینکا۔۔۔۔اپنا گھونگھٹ اٹھا کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔

اور خودی بات کی شروعات کی ۔۔۔۔

"آپ میں سلام کا رواج نہیں "

امرام شیر جو اپنے آرام دہ سوٹ نکال کر واش روم کی طرف بڑھنے لگا تھا اپنی نئی نویلی دلہن کی آواز سن کر وہیں رکا ۔۔۔۔

اور رک کر اپنے بستر کی طرف دیکھا جہاں وہ اپنا ہوشربا سراپا لیے پورے طمطراق سے براجمان تھی ۔۔۔۔

اسکے حسین چہرے کو دیکھ کر امرام شیر کچھ لمحوں کے لیے ساکت رہ گیا ۔۔۔مگر وہ اپنے حواسوں پہ قابو پانا اچھے سے جانتا تھا ۔۔۔۔وہ واپس اپنے خول میں سمٹ گیا ۔۔۔۔

"تم نے کیا خاص ِکیا جو تمہیں سلام پیش کرتا پھروں "؟

وہ کپڑے جارہانہ تیوروں سے صوفے کی اتار پھینکتے ہوئے ۔۔۔اب اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

اور سینے پہ ہاتھ باندھے اسکے جواب کا منتظر تھا ۔۔۔۔

"سلام پیش کریں بلکہ آپ تو میجر ہیں سیلوٹ پیش کریں ۔۔۔۔ 

"اس ناچیز میں ہی یہ حوصلہ تھا جو آپ جیسے کھڑوس ،بدمزاج ،سڑے ہوئے انسان کے ساتھ محبت کی ۔۔۔۔

کتنے سالوں سے آپکی بے رخی کو جھیلا۔۔۔۔

اور اب آگے بھی مجھے پوری امید ہے کہ آپ بدلنے والے نہیں تو پھر بھی ۔۔۔۔سب جانتے ہوئے آپ سے شادی کی ۔۔۔۔

میرے حوصلے کو داد دینے کے لیے سلامی پیش کرنا تو بنتی ہے نا ۔۔۔۔وہ ہنستے ہوئے ابرو اچکا کر بولی ۔۔۔۔

امرام شیر جارہانہ تیوروں سے اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

 "بہت چلتی ہے نا زبان تمہاری۔۔۔۔انہیں لگامیں لگانا اچھے سے جانتا ہوں ۔۔۔۔ ابھی ساری سلامیاں ایک ساتھ نا پیش کیں تو میرا نام بھی امرام شیر نہیں  ۔۔۔۔

"آپ بہت بڑے جھوٹھے ہیں کچھ کر ہی نہیں سکتے صرف باتیں بنانا آتیں ہیں آپکو ۔۔۔

وہ پنجابی میں محاورہ ہے نا "گلاں دی لہر بہر تہ ہتھاں دی ہڑتال .." تیکھے لہجے میں بولتی وہ اس کے اشتعال کو ہوا دینے لگی ۔۔۔۔

"اچھا پنجابی سمجھ نہیں آئی تو اردو میں بھی ایک محاورہ ہے میرے پاس ایسی سوچویشن کے لیے ۔۔۔۔

",جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں "...

وہ اسکے پاس آکر اسے  خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، نیلی شفاف پانیوں سی آنکھوں کی چمک آج بالکل منفرد ہی تھی..

"میں جھوٹ نہیں بولتا اور نہ ہی میں وعدہ خلاف ہوں، اس کا احساس میری سنگت میں رہ کر بہت جلد ہو جائے گا.."وہ بستر پہ اسکے قریب بیٹھتے ہوئے ذومعنی انداز میں بولا۔

"جائیں جائیں کچھ نہیں ہونے والا آپ سے ۔۔۔"

زخرف کہتے ہوئے بستر سے پاؤں نیچے کیے اٹھ کر کھڑی ہوئی ایسا کرنے سے اسکی چوڑیوں کھنک  اور پائل کی جھنکار سے پورا کمرہ جھنجھجنا اٹھا۔۔۔۔

سارے کمرے میں پھیلی گلاب اور موتیے کی محسور کن مہک نے فسوں خیز سماں باندھ رکھا تھا ۔۔۔

"You silly girl.....!!!!

Are you challenging me ????""

وہ اس کا دوپٹہ اپنے ہاتھ میں لیے لہجے میں زبردستی درشتگی لائے بولا ۔۔۔

تو زخرف نے اٹیٹیوڈ دکھاتے ہوئےایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے اپنے دوپٹے کو کھینچا اور اپنا بھاری ڈریس سنبھالتی آگے بڑھنے لگی ..

"کہاں ؟؟؟؟

"اب کہاں بھاگ رہی ہو آگ لگا کر ۔۔۔۔جو آگ لگائی ہے ،اس آگ میں جھلسے بنا یہاں سے ایک قدم آگے بڑھا کر تو دکھاؤ .."

 خلافِ معمول آج اس کا انداز کافی نرم تھا، عموماً تو وہ ایسی باتوں پر غصے سے آگ بگولہ ہو جایا کرتا تھا، لیکن اپنے سامنے کھڑی اس عروسی لباس میں ملبوس سجی سنوری ہوئی بھاری کامدار دوپٹے کو مضبوطی سے تھامے اس معصوم سی ضدی لڑکی کو دیکھ کر اس کا سارا غصہ کافور ہو گیا تھا، وہ اس لڑکی پر غصہ کرنے کی ہمت خود میں مفقود پا رہا تھا، اس کی مسکراتی ہوئی گہری آنکھیں اس کی ناک میں جھولتی سادہ سی نتھلی پر ٹکی ہوئی تھی جو اس کے بولنے یا حرکت کرنے پر اس کے سرخ لپ اسٹک سے رنگے ہونٹوں سے مس ہو جاتی، اس کی نتھلی اور ہونٹوں کا یہ ملن اس کے جذبات کو اتھل پتھل کر رہا تھا، اس کا دل کیا ہاتھ بڑھا کر اس کی حرکت کرتی نتھلی کو چھو کر محسوس کرے ، پہلی بار اس کا دل اسے دیکھ کر باغی ہو رہا تھا، وہ بھی اس لڑکی کو دیکھ کر جسے وہ ہمیشہ نظر انداز کرتا آیا تھا اس کے بچکانہ روئیے کی وجہ سے مگر اب وہ اس پہ اپنا پورا حق رکھتا تھا، ایک لمبی سانس کھینچ کر اپنے باغی دل کو لگام لگانے کی کوشش کی،..

"میں چینج کر کہ آؤں .." اس کی نظروں کی تپش سے خود کو بمشکل آزاد کراتی وہ واش روم کے دروازے کی طرف مڑنے لگی تھی کہ امرام شیر نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پانے کی وجہ سے اس کے اوپر لڑھک گئی، یہ حملہ بالکل اچانک ہوا تھا، اسے امرام شیر سے ایسی کسی حرکت کی امید نہیں تھی..

"یہ ۔۔۔ک۔۔۔کہ۔۔۔۔۔کیا کر رہے ہیں آپ..؟" اسے اتنے قریب دیکھ کر وہ گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی..

"اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں.." یونہی بستر پہ لیٹے ہوئے اس کی کمر پر اپنے بازوؤں کا گھیراؤ مزید تنگ کیا تو مزید اس کے قریب ہوگئی تھی،

پہلی بار وہ امرام شیر کے اتنا قریب تھی کہ اس کے سینے میں تیزی سے دھڑکتے دل کی آواز وہ باآسانی سن رہی تھی۔۔۔

 وہ بیوقوف سی لڑکی اسکے عشق مبتلا۔اسکے پیار کی دعوے دار  اس کے اتنے قریب تھی کہ وہ اسکی بےترتیب سانسوں کے زیر و بم کو بخوبی ِگن سکتا تھا،

امرام شیر اس کے اتنا قریب تھا کہ اس کے وجود سے اٹھتی کلون کی مہک اپنی سانسوں میں اترتی ہوئی محسوس کررہی تھی ۔۔۔۔اس کے سانسوں کی تپش اس کے وجود کو جھلسا رہی تھی۔۔

وہ اس کے اتنا قریب تھا کہ اس کے ناک سے جھولتی نتھلی کو اپنے ہونٹ کی ذرا سی حرکت سے چھو سکتا تھا، اس کی قربت کی وجہ سے اس کے چہرے پر آتے جاتے حیا کے رنگ اس سے چھپے نہ رہ سکے تھے،اس نازک سی صنف نازک کی گھنی پلکوں کی لرزش، ہونٹوں کی کپکپاہٹ، رخساروں پر پھوٹتی حیا کی لالی، نیز کچھ ہی منٹوں کی قربت میں وہ اتنا کچھ دیکھ چکا تھا کہ تا زندگی وہ اس کے اتنے ہی قریب رہنے کی تمنا کر بیٹھا تھا، یہ وہ پہلی لڑکی تھی جو، اس کے اتنا قریب آئی تھی،

اتنا قریب کہ وہ اپنے ہوش و حواس گنوانے لگا تھا ۔ وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ کیسے اتنی جلدی اس کے احساسات ،محسوسات، بدل گئے ۔۔۔۔ جس کے سامنے وہ ہر وقت سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے رکھتا تھا ، آج اس کے چہرے پر پھیلے حیا کے رنگ مزید اس کا اسیر بنا رہے تو کیا یہ نکاح کے پاکیزہ بولوں کا اثر تھا کہ اسکا دل  اس بیوقوف سی لڑکی کا اسیر ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ اسکے قرب کا خواہاں ہونے لگا تھا 

اس کے جھکے سر کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے بے اختیار ہو کر امرام شیر نے اپنا پہلا حق اس پر استعمال کیا..

اپنے ہونٹوں پر اس کے گرم ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے ذخرف نے شرم سے آنکھیں میچ لیں، امرام شیر کے چوڑے سینے پر جمے  اس کے نرم مخملیں ہاتھوں نے بےاختیار ہو کر اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں قید کر لیا، اس کا تیزی سے دھڑکتا دل جیسے باہر نکلنے کو بےتاب تھا، وہ کسی طور بھی ان لمحوں سے آزاد نہیں ہونا چاہتی تھی، بس تاعمر اس کی دلنشین قید میں رہنا چاہتی تھی..مگر سانسیں زیادہ دیر متحمل نہ رہیں ،،،وہ مدھم پڑنے لگیں ۔۔۔۔

اتنی شدت اتنا جنون ۔۔۔اسے امرام شیر کی اس جنونیت آمیز انداز کا قطعا اندازہ نہیں تھا ۔۔۔۔اس کا تنفس بگڑنے لگا تو اس نے امرام شیر کے سینے پہ اپنے حنائی ہاتھوں سے دھاوا بول دیا ۔۔۔اور پوری قوت سے مکے برسانے لگی تاکہ وہ اسے اپنی جنونیت آمیز قید سے رہائی دے ۔۔۔۔

جتنا وہ احتجاج کر رہی تھی اسکی گرفت میں مزید سختی در آئی ۔۔۔۔

"چھوڑو ۔۔۔۔!!!

"اب کیا بچی کی جان لو گے "

وہ اپنے جلتے ہوئے لبوں پر انگلی رکھ کر بولی ۔۔۔کبھی اپنی انگلی پہ لگی خون کی بوند کو دیکھتی تو کبھی امرام شیر کے چہرے کو ۔۔۔۔

"یہ بچی اب اتنی بھی بچی نہیں   ۔۔۔۔

وہ اسکے چہرے پہ جھولتی ہوئی لٹ کو اپنی انگلی پہ گھمائے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"مجھ جیسے انسان کو بہکایا ہے تم نے ،اپنے اس ہوشربا سراپے سے ورغلانے کی کوشش کی ۔۔۔جان بوجھ کر چیلنج کیا نا تاکہ تمہارے حسن کو خراج و تحسین پیش کرسکوں ۔۔۔

اور خراج چاہیے کیا ۔۔۔۔یا یہیں پہ دم نکل گیا ۔۔۔۔"؟

وہ اسکے گلال پھوٹتے گلابی رخساروں پہ اپنے لب شدت سے رگڑتے ہوئے بولا تو ۔۔۔۔

ذخرف کی سانسیں ساکن ہوئیں۔۔۔۔

اس کے ہونٹ اب اس کے رخسار سے پھسل کر شہ رگ پر پہنچ گئے تھے ۔۔۔

وہ اسے بستر پہ گرائے اس پہ جھکا ۔۔۔ ایک ایک کر کہ اسکے آویزے نکالے پھر نیکلس ۔۔۔۔ایک بازو اس کی گردن کے نیچے تھا جبکہ دوسرا اس کی کمر کے گرد.. وہ اس کی قید میں سسک اٹھی.. اس کی گردن میں منہ گھساۓ اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگا .. اس کے نرم ملائم ہونٹ لرز رہے تھے... 

اس کے گالوں پہ آنسو پھسلنے لگے  وہ یک ٹک اسے دیکھتا رہا.. اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ رو کیوں رہی ہے..

"پلیز مجھے جانے دیں.." اس کی سرگوشی کو  نظرانداز کر اس نے اپنے ہونٹ اس کی آنکھوں پر رکھ دئیے.. اس کے آنسو اور اس کا دل بخوبی جانتے تھے کہ وہ صرف اس کی ہے.. اس پر صرف اس کا حق ہے..

"پلیز امرام .!" اس بار اس کی آواز سرگوشی سے زیادہ تھی.. وہ تھوڑی دیر اس کی میچی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کو دیکھتا رہا پھر  غصے سے ایک مکا بیڈ کراؤن  پر اتنی زور سے مارا کہ بیڈ لرز اٹھا۔۔۔

 اور جھٹکے سے اٹھ کر اس کو چھوڑتا ہوا بیڈ سے اتر گیا.. 

ذخرف نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر اس کی غیر موجودگی کو محسوس کیا اور جلدی سے اٹھ بیٹھی.. اسے پتہ تھا وہ غصے میں ہے اور اس کا انداز اس کے غصے کو صاف ظاہر کر رہا تھا.. اسے امید نہیں تھی کہ وہ اسے اتنی آسانی سے چھوڑ دے گا... اس نے گہری سانس لے کر اپنی تیز چلتی سانسوں کو ہموار کیا اور ڈرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا جو اسے ہی گھور رہا تھا..

"تم ہی چاہتی تھی نا یہ سب تو پھر یہ فضول کا رونا دھونا کس لیے ؟.."

وہ اسکی حرکت پہ سخت برہم ہوا ۔۔۔۔

"آپ نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں ۔۔۔۔آپ مجھے میرے چیلنج کی سزا دے رہے تھے نا "

وہ خوفزدہ ہرنی جیسی نم  آنکھوں سے بولی ۔۔۔

"تمہیں لگا کہ یہ سب جو بھی ہوا یہ میری فیلنگز نہیں چیلنج تھا ؟؟؟

You are such a silly girl....

اب تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہا ۔۔۔۔

ذخرف نے اپنے آنسو صاف کئے اور بالوں پر ہاتھ پھیرتی وہ بیڈ سے اتر گئی اور بستر  پر سے دوپٹہ اٹھا کر اپنے ارد گرد اچھے سے لپیٹ کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور آئینے میں خود کا جائزہ لینے لگی.. آنسؤوں کی وجہ سے کاجل بری طرح پھیل گیا تھے.. ٹشو اٹھاکر اس نے اپنی آنکھوں اور چہرے کو صاف کیا اور باقی بچی جیولری اتارنے لگی.. بالوں کو برش کرکے جوڑے کی شکل میں باندھا اور اٹھ کر وارڈروب کی طرف آگئی اور اس میں سے امرام شیر کا ڈھیلا ڈھالا کرتا اور ٹراؤزر نکال کر باتھروم میں گھس گئی.. تھوڑی دیر بعد وہ نکلی. اس نے حیرت سے کمرے میں  اٹھتے ہوئے سیگریٹ کے دھوئیں کو دیکھا ۔۔۔امرام شیر سامنے رکھے صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ جمائے بیٹھا ۔۔۔سگریٹ کے گہرے کش  لیتا پھر دھوئیں کے مرغولے بناکر فضاء میں خارج کر رہا تھا .. 

"I am sorry "

زخرف نے اس کی طرف دیکھ کر اسے دھیرے سے کہا...امرام شیر نے ایک گہرا کش لے کر کچھ سیکینڈ کے  لئے اپنی نیلی شعلہ بار آنکھوں سے اسے دیکھا پھر نظریں پھیر لیں...

زخرف اس کے انداز سے سمجھ  گئی کہ وہ اسے سن چکا ہے..

اسے جیولری ڈریسر کے ڈراور میں رکھتے ہوئے دیکھ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا اور اسے لاک کر دیا،

"منہ دکھائی لی تھی تو دینے کا رواج نہیں ۔۔۔۔وہ امرام شیر کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی تھی جب سے اسکا خفا چہرہ دیکھا تھا ۔۔۔دل اسے ڈپٹ رہا تھا اسکی تھوڑی دیر پہلے کی گئی کاروائی پہ ۔۔۔۔

اس لیے اس نے ہی اپنے روٹھے ہوئے شوہر کو منانے میں پہل کی ۔۔۔

"سارے رواج "تم "مجھے سکھانے آئی ہو ؟؟؟

"تم سے زیادہ بہتر طریقے سے جانتا ہوں سب ۔۔۔۔

وہ سیگریٹ کو زمین پہ پھینک کر اسے جوتے کی ایڑی سے رگڑ کر بجھاتے ہوئے کرخت انداز میں بولا ۔۔۔

"پہلے خود میں ہمت پیدا کرلو ۔۔۔۔مجھ سے نپٹنے کی ۔۔۔

بندے کو اتنے ہی بڑے پنگے لینے چاہیے جتنی اس میں بھگتنے کی سکت ہو "

اس نے زخرف کے ہاتھ میں موجود مخملیں جیولری باکس اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔

"اچھا زیادہ باتیں نا بنائیں چلیں کچھ کر کہ بھی دکھائیں !!!

اس کا اشارہ اس جیولری باکس کو کھول کر اسے منہ دکھائی دینے کا تھا ۔

"کچھ کر ہی رہا تھا ۔۔ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی تھا ۔۔اتنا ہی شوق چڑھا تھا ۔۔تو پہلے روکا کیوں ؟؟؟

وہ ابرو اچکا کر بولتے ہوئے اسے بار بار حیران کر رہا تھا ۔۔۔

زخرف نے شرم سے لال پیلے ہوتے ہوئے چہرے سے اسکو دیکھا ۔۔۔۔

 اس نے باکس کھول کر اندر سے ایک لاکٹ نکالا جس میں ہیرے کا خوبصورت سا پینڈینٹ لٹک رہا تھا، لاکٹ ہاتھ میں پکڑے وہ اس کی طرف بڑھا جو آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی..

"ٹرن .."

امرام شیر کی آواز اسے بہت قریب سے سنائی دی ۔

"میں.. میں خود پہن لوں گی.."وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی..

"میں نے کہا پیچھے گھومو..پہلے شکوے ختم نہیں ہوتے بعد میں نخرے ۔۔۔" تحکم بھرے لہجے میں بولا تو وہ چار و ناچار پیچھے گھوم گئی، ہاتھ میں پکڑا لاکٹ اس کے گلے میں ڈال میں سامنے آئینے میں اس کے عکس کو دیکھا، وہ بھی آئینے میں اسے ہی دیکھ رہی تھی، لمحے بھر کو نظروں کا ملن ہوا، پھر اس نے نظریں جھکا لیں..

زخرف نے پلٹ کر امرام شیر کو دیکھا ۔۔۔۔

وہ اپنے انداز میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی ۔۔۔

زخرف نے اپنا چہرہ اس کے قریب کیا ۔۔۔

تو امرام شیر نے اپنے چہرے کا رخ دوسری طرف موڑ لیا ۔۔۔

"یہ کیا بات ہوئی خود چاہے جو مرضی کریں ۔۔۔۔اور میری باری ۔۔۔۔

وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں بولتے ہوئے اسے بہت پیاری لگی ۔۔۔۔

اپنے کرتے میں دیکھ کر(جو اسے پاؤں تک آرہا تھا ۔۔۔) اس کی ہنسی جسے وہ کب سے ضبط کیے ہوئے تھے آخر کار نکل ہی گئی ۔۔۔۔

وہ قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے اسے اپنے سینے میں بھینچ گیا۔۔۔۔

"جاؤ جا کرکے سو جاؤ.."  مسکرا کر کہتے ہوئے اپنے بازوؤں کی قید سے اسے آزاد کیا ۔۔۔

"اب آرام سے سو جاؤ، کوئی ڈرامہ مت کرنا ۔۔۔مس ڈرامہ کوئین ۔۔۔

وہ جو کمفرٹر اور تکیہ اٹھا کر صوفے کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔جاتے ہوئے رکی ۔۔۔ 

" صوفے پر سونے کی کوشش بھی مت کرنا ورنہ میں بہت بری طرح سے پیش آؤں گا.."

"ارے آپ کو کیا لگا یہ تکیہ میں اپنے لیے لے کر جارہی تھی ؟؟؟

"ہائے او ربا اننننننی۔۔۔۔۔۔خوشفہمیاں !!!!!

",مائی ہینڈسم ہزبینڈ ،اوہ سوری مائی کھڑوس میجر !!!

وہ نچلا لب دانتوں تلے دبا کر بولی ۔۔۔۔

"یہ تکیہ آپکے لیے صوفے پہ رکھ رہی تھی ۔۔۔۔

"یہ میرا بستر ہے ،تو میں بھلا اپنا بستر چھوڑ کر پاگل ہوں جو صوفے پہ جاکر لیٹوں گا ؟"

وہ تن کر سامنے آیا ۔۔۔

"سلی گرل !!!

اوہ سوری بونی میڈم !!

یہ صوفہ خاص کر آپ جیسے چھوٹے قد والے لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے ۔۔۔میری تو ٹانگیں بھی پوری نہیں آنے والی ۔۔۔

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔

ذخرف کے تو سر پر لگی پیروں پر ُبھجی ۔۔۔

اسکے چھوٹے قد پہ چوٹ کر کہ وہ اسے غصہ دلا گیا تھا ۔۔۔۔

"ہاں نا اگر میں بونی ہوں تو آپ  لمبے بالکل زرافے کی طرح ۔۔۔۔"

وہ بنا سوچے سمجھے بولی تو  امرام شیر کے ماتھے پر شکنوں کا جال بچھا۔۔۔۔

"میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اپنی بچکانہ حرکتوں پہ قابو کرو ۔۔۔۔خاص کر اپنی زبان بند رکھا کرو ۔۔۔۔

"لیکن ۔۔۔میری ۔۔۔بات ۔۔۔تو۔۔۔

اسے لگا کہ واقعی اس بار اس نے کچھ زیادہ ہی بول دیا ہے تو اس نے معافی مانگنے کا سوچا ۔۔۔۔

"مجھے فضول لوگوں کے منہ لگنے کا کوئی شوق نہیں"

وہ ہاتھ اٹھا کر اسکی بات درمیان میں کاٹ کر بولا ۔۔۔

"ابھی تھوڑی دیر پہلے جو کیا تھا وہ کیا تھا ۔۔۔

وہ سر جھٹک کر منہ میں بڑبڑائی ۔۔۔کیونکہ اونچی آواز میں بول کر وہ اپنی شامت نہیں بلانا چاہتی تھی ۔۔۔

"یہ مجھے منہ لگانا پسند نہیں کرتے نا دیکھنا ایسی چیز کو منہ لگواوں گی ۔۔۔دوبارہ کسی چیز کو منہ لگانا بھول جائیں گے "

وہ چٹکی بجاتے ہوئے دماغ میں نیا آئیڈیا سوچنے لگی۔۔۔

امرام شیر اپنا آرام دہ سوٹ لیے واش روم کی طرف بڑھنے لگا تو وہ راستے میں آئی ۔۔۔

"ایک منٹ۔ ایک منٹ پہلے مجھے جانے دیں ۔۔۔

"تم ابھی تو چینج کر کہ آئی تھی تو اب کیا ؟؟

وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا۔۔

"وہ نا اندر میری کچھ پرسنل والی چیزیں رہ گئیں ہیں ۔۔۔

"سمجھتے ہیں نا آپ ؟؟؟

وہ شرارتی انداز میں ہنستے ہوئے اندر چلی گئی ۔۔۔

وہ باہر کھڑا تاسف سے سر دائیں سے بائیں ہلانے لگا ۔۔۔

کتنی دیر ہوچکی تھی اسے اندر ۔۔۔۔مگر وہ باہر آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔

"زخرف باہر آؤ گی یا میں آؤں ؟؟؟

وہ دانت پیس کر درشت آواز میں بولا۔۔۔۔

اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں زخرف نے دروازہ کھولا۔  ۔۔

اور سر جھکائے ہوئے خالی ہاتھ باہر آئی ۔۔۔۔امرام شیر نے اس کا سرتا پا جائزہ لیا۔۔۔

"کہاں ہیں تمہاری پرسنل چیزیں ۔۔۔جنہیں ڈھونڈھنے میں تمہیں اتنی دیر لگی ۔۔۔۔

"بہت ہی Naughtyہیں آپ !!!

وہ اسکے گال پہ انگلی رکھ کر بولی ۔۔۔

پھر سر جھٹکتے ہوئے جا کر ۔اس بیڈ پہ لیٹی اور سر تک کمفرٹر اوڑھ لیا ۔۔۔

امرام شیر اسے گھورتے ہوئے واش روم میں چلا گیا ۔۔۔

اس نے فریش ہوکر چینج کیا ۔۔۔امرام شیر کی یہ عادت تھی وہ روزانہ رات سونے سے پہلے برش کرکہ سوتا تھا ۔۔۔

اب بھی وہ حسب عادت برش پکڑ کر اس پہ پیسٹ لگاتے ہوئے ۔۔۔شیشے میں دیکھ کر گنگنا رہا تھا ۔۔۔اور کچھ دیر پہلے کے مناظر یاد کیے اس کے لبوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی ۔۔۔

مگر اسکی مسکراہٹ زیادہ دیر قائم نا رہ سکی ۔۔۔۔

اس کے ہنستے ہوئے لب فورا سمٹے ۔۔۔۔

جب اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی ۔۔۔۔

اس نے برش نل کے نیچے رکھ اور فل ٹیب کھولے اسے دھونے لگا ۔۔۔مگر اس میں سے جھاگ ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھی ۔۔۔پھر اس نے بیسن میں برش زور سے پھینکا اور منہ میں مٹھی بھر کر پانی ڈالے کلی کرنے لگا ۔۔۔مگر منہ کی بھی وہ حالت تھی جو کچھ دیر پہلے برش کی تھی ۔۔۔

اسکا منہ جھاگ سے بھر چکا تھا ۔۔۔۔

جو ختم ہونے کو نہیں آرہی تھی ۔۔۔منہ حدردجہ کڑوا ہوچکا تھا ۔۔۔

اسے مخصوص مہک آئی ۔۔۔

اس نے تھوک پھینکی ۔۔۔

پھر اسکی نظر ٹوتھ پیسٹ پہ گئی ۔۔۔

اس پہ نظر پڑتے ہی اس کی نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔۔۔

اس ٹوتھ پیسٹ کو پیچھے سے کاٹ کر اس میں کچھ ڈالا گیا تھا پھر اسے فولڈ کردیا گیا تھا ۔۔۔۔اسکی جہاندیدہ نظریں فورا سے بیشتر سب پہچان گئیں ۔۔۔۔کہ یہ کس کی حرکت ہے ۔۔۔۔

اس نے ٹوتھ پیسٹ کو کھول کر سونگھا ۔۔۔۔

وہی ہوا جو وہ سوچ رہا تھا ۔۔۔

اس نے ٹوتھ پیسٹ میں سے پیسٹ نکال کر اس میں پیچھے سے شیمپو بھر دیا تھا ۔۔۔

اب اسے پتہ چلا کہ یہ مخصوص مہک پیسٹ کی نہیں شیمپو کی تھی ۔۔۔۔

"زخرف !!!!

وہ چلاتے ہوئے واش روم سے باہر آیا ۔۔۔۔

مگر وہ اپنی جگہ ساکت لیٹی رہی ایک انچ بھی نہیں ہلی ۔۔۔

"ڈرامے بند کرو ۔۔۔اٹھو ۔۔۔

یہ تمہیں نے کیا ہے نا "

وہ اس کے اوپر سے کمفرٹر کھینچ کر اتار چکا تھا ۔۔۔وہ آنکھیں بند کیے لیٹی رہی ۔۔۔

"اب تم ایسے اٹھو گی ۔۔۔

وہ غصے میں آکر واپس واش روم میں گیا اور پانی سے بھری ہوئی بکٹ لاکر سونے کا ڈرامہ کرتی ہوئی ذخرف پہ انڈیل دی ۔۔۔۔

وہ ٹھنڈا پانی پڑتے ہڑبڑا کر اٹھی ۔۔۔۔

"یہ کیا بدتمیزی ہے ؟

وہ اونچی آواز میں چلائی ۔۔۔

"اور وہ جو تم نے کیا وہ کس زمرے میں آتا ہے ۔۔۔

وہ بدتمیزی نہیں ۔۔۔

"کیا ِکیا ہے میں نے ہے ؟

وہ کمر پہ ہاتھ رکھے لڑاکا انداز میں بولی ۔۔۔

"ابھی بتاتا ہوں کیا کیا ہے تم نے ؟"

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ واش روم میں لے گیا 

"یہ پیسٹ میں شیمپو تم نے ڈالا ؟؟؟

وہ اسکا ہاتھ چھوڑ کر دھاڑا ۔۔۔

"ہاں ڈالا تو کیا کرلیں گے ۔۔۔

وہ لاپرواہی سے شانے اچکا کر بولی ۔۔۔

آپ نے ہی کہا تھا میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔

یہ اسی کا بدلہ تھا ۔۔۔

وہ مسکرا کر کہتے ہوئے باہر نکلنے لگی ۔۔۔

"میرے منہ لگنے کا اتنا شوق ؟؟؟؟وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے ساتھ لگا چکا تھا ۔۔۔۔

زرخرف کی پشت اسکے سینے سے لگ رہی تھی ۔۔۔۔

"میں نے ایسا تو نہیں کہا "

وہ اسکی مضبوط گرفت میں پھڑپھڑانے لگی ۔۔۔

امرام نے ایک ہاتھ سے شاور کھول دیا ۔۔۔اور دوسرے سے اسکے بالوں کا بنا رف سا جوڑا۔۔۔

"یہ۔۔۔یہ۔۔ک۔۔۔کیا ۔۔۔کررہے ہیں ؟؟؟اسکے گلے سے گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔

وہ اسے کھینچ کر دیوار سے پن کرگیا ۔۔۔

شاور سے پانی ان دونوں پہ گر رہا تھا ۔۔۔

"اپنی بیوی سے پیار !!!

"زرا تمہیں بھی تو پتہ چلے اس شیمپو کا ذائقہ جو تم نے مجھے چکھایا ۔۔۔

اب تمہاری چکھنے کی باری ۔۔۔'

وہ اسکے لبوں کو فوکس کیے انہیں اپنے لبوں میں مقید کرگیا ۔۔۔۔

زخرف نے نفی میں سر ہلانا چاہا ۔۔۔۔

مگر اسکی گرفت مضبوط تھی ۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ اس پہ ترس کھاتے ہوئے اسے چھوڑ گیا تو پھر جھک کر اسکی گردن پر اپنے لب رکھے۔۔۔

پھر اسے یاد آیا کہ وہ اسے کس مقصد سے اندر لایا تھا ۔۔۔

اس نے اپنے دانت اسکی گردن پہ گاڑے تو زخرف کے منہ سے بلا ساختہ چیخ نکلی ۔۔۔

آہ ۔۔۔۔!!! 

"ہائے او ربا آپ تو پورے کے پورے جنگلی نکلے ۔۔۔۔

وہ اسے خود سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی ۔۔۔

اور اپنی گردن کو ہاتھ سے رگڑنے لگی ۔۔۔جہاں اب جلن محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔وہ باہر جانے کے لیے پر تولنے لگی ۔۔۔

"اور جو جنگلی پن تم نے دکھایا اس کا کیا ؟؟؟

"انہہہہ۔۔۔۔

وہ اسکے دونوں ہاتھ  اپنے  ہاتھ میں لیے اسکی پشت پہ باندھ گیا ۔۔۔

اور دانتوں سے اسکا کرتا شانے سے ہٹایا ۔۔۔۔

"یہ۔۔۔۔کیا ۔۔۔۔۔نہیں پلیز ۔۔۔۔

وہ اسکے بھیگے ہوئے نشیب و فراز میں کھونے لگا ۔۔۔۔

"تمہاری پرسنل چیزیں ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہا ہوں شاید یہیں کہیں سے مل جائیں ۔۔۔۔

"پھپھو آپ  !!!

وہ زور سے چلائی ۔۔۔

امرام شیر نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔

یہی موقع اسے لمحہ ِ غنیمت لگا ۔۔۔۔وہ اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے واش روم سے باہر بھاگی ۔۔۔۔اور دوسرے کپڑے لیے ڈریسنگ روم میں بند ہوگئی ۔۔۔۔

اسے اپنے بھیگے شانوں اور لبوں پہ اسکے جان لیوا  لمس ابھی تک محسوس ہو رہے تھے ،وہ ڈریسنگ روم کی دیوار سے لگے گہرے سانس لینے لگی۔۔۔۔

گیلے کپڑے تبدیل کیے باہر آئی اور وہیں کھڑی انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔۔۔

اگر وہ سیر تھی تو مقابل سوا سیر ۔۔۔۔

"آکر اپنی جگہ پہ لیٹو "آگے سے مجھ سے بدلہ لینے سے پہلے اسکا انجام بھی سوچ لینا "

 سخت لہجے میں تنبیہہ کرتا وہ دوبارہ اپنی طرف بیڈ پر جا بیٹھا تو وہ بھی صوفے سے تکیہ لیے واپس بیڈ کی طرف آئی  ۔۔۔۔پھر تکیے پہ سر رکھے لیٹ گئی ۔۔۔۔ اس کی بات نہ ماننے کی صورت میں وہ کیا کچھ کر سکتا ہے اس کا ٹریلر وہ کچھ دیر پہلے ہی دیکھ چکی تھی، مزید فلم دیکھنے کی اس میں اتنی ہمت نہیں تھی۔ابھی کے لیے اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا اس نے جسے چاہا پا لیا ۔۔۔آج وہ اس کے پہلو میں تھا ۔۔۔اسکے قریب تھا ۔۔۔۔اس پہ کچھ دیر پہلے اپنی چھوٹی موٹی شدتیں نچھاور کر چکا تھا ۔۔۔

وہ مسرور انداز میں مسکراتے ہوئے آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔

دعا کی بھابھی کا اچانک ہارٹ اٹیک آجانے کی وجہ سے انتقال ہوگیا ۔۔۔دعا اور شاہ من کو وہاں جانا تھا ۔۔۔مگر ماھی کی طبیعت پچھلے ایک ہفتے سے خراب تھی ۔۔۔فوتگی پہ جانا بھی ضروری تھا ۔۔۔

انکے گھر کی انیکسی میں انہوں نے گھر کے کاموں کے لیے ایک بیوہ عورت کو رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔وہ انہیں کے حوالے ماھی کو کیے خود کراچی چلے گئے ۔۔۔۔

مگر وہاں جا کر کسی ریلی نکلنے کی وجہ سے روڈ بلاک ہوگئے اس لیے ان کی واپسی میں تاخیر ہوگئی ۔۔۔۔

ماھی اپنے بستر میں پژمردگی سے لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔

اچانک اس کے پیٹ میں شدید درد اٹھا ۔۔۔۔

وہ جو اپنے نکاح کے بعد ایک دن بھی ٹھیک نہیں رہی اسی دن سے کالج بھی نہیں گئی ۔۔۔

ہر وقت اپنے بستر میں لیٹی رہتی ۔۔۔دعا اسکے لیے کھانا اسے کمرے میں ہی دے جاتی ۔۔۔کہ شاید اسے ویکنیس ہوگئی ہے ۔۔۔کچھ دن آرام کرے گی کھائے پیئے گی تو ٹھیک ہو جائے گی ۔۔۔۔

مگر ماھی کی حالت سدھرنے کی بجائے مزید بگڑنے لگی  ۔۔۔۔ماھی کو کچھ عجیب سا لگا کہ ایسا کیوں ۔۔۔وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی اپنے وجود کی تبدیلی کی وجہ ۔۔۔۔اپنی مما سے اور وہ آنٹی جو اسکی انیکسی  میں رہتی تھی وہ ان کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہی اپنے اوپر کمفرٹر درست کرلیتی خود کو اس میں چھپا لیتی ۔۔۔اب تک کسی نے اس کے وجود کی تبدیلی کو نہیں دیکھا تھا ۔۔۔

لیکن اب جب اس کے پیٹ میں شدید قسم کا درد اٹھا تو اس نے خود سے کمفرٹر اتار کر پیچھے کیا ۔۔۔۔

اور پیٹ پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔

ایسے لگا کہ جیسے پیٹ میں کچھ زور زور سے گھوم رہا تھا ۔۔۔ماھی سے یہ سب برداشت کرنا مشکل ہوا ۔۔۔وہ بے آواز رونے لگی ۔۔۔۔

اس کی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگیں ۔۔۔۔

"مما !!!!

بابا !!!!

"وہ درد سے کراہ رہی تھی۔۔۔

کہ اسے پھر سے متلی ہونے ہوگی وہ واش روم کی طرف جانے لگی تو کمزوری کے باعث چلا ہی نہیں جا رہا تھا وہ دیوار کا سہارا لیے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اندر گئی اور واش بیسن پہ جھک گئی ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد چہرہ دھو کر اوپر اٹھایا اور خود شیشے میں دیکھا۔۔۔۔

سرخ و سفید رنگت میں زردیاں گھل چکی تھیں ،آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے جو اب گالوں تک آرہے تھے ۔۔۔۔آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی ۔۔۔بکھرے ہوئے بال نجانے کتنے دنوں سے اس نے بالوں میں برش نہیں کیا تھا ۔۔۔۔ملگجا سا حلیہ وہ صدیوں کی بیمار لگی ۔۔۔۔

وہ دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگی وہ تو پہلے ہی کمزور سی تھی ،اس دھان پان سی لڑکی کے وجود میں جو تبدیلی آئی تھی اسے سہارنے کی ہمت اس میں نہیں تھی ۔۔۔۔وہ اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھے باہر نکلی تو وہیں دروازے میں گر گئی ۔۔۔۔

"لکی !!!!

وہ زور سے چلائی ....

"ماھی !!!!

لکی جو دروازے کے راستے اندر آیا تھا اسے باتھ روم کے دروازے کے پاس گرا ہوا دیکھا تو دوڑتے ہوئے اس کے قریب آیا ۔۔۔ 

"تم ٹھیک ہو نا ماھی ؟"

وہ اس کا گال تھپتھپاکر کر بولا ۔۔۔۔

ماھی نے اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔

لکی نے اسی اپنی مضبوط بانہوں میں بھرتے ہوئے بستر پہ لیٹا دیا ۔۔۔۔

"چلو جلدی سے اٹھو۔اپنے حواس بحال کرو ،،،مجھے تم سے بہت اہم بات کرنی ہے ۔۔"

"کیوں چلے گئے مجھے چھوڑ کر ۔۔۔کتنا یاد کیا میں نے آپکو ۔۔۔۔ایسا کیا گناہ کیا میں جسکی سزا آپ نے مجھے جدائی کی صورت میں دی ۔۔۔۔

"اس سب کی ایک وجہ تھی وہی بتانے آیا ہوں "

وہ فسوں خیز آواز میں کہتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لے گیا ۔۔۔۔

وہ اس کے وجود پہ اپنی چھاپ چھوڑ چکا تھا۔جسکی صورت میں ایک نیا وجود دنیا میں آنے والا تھا ۔۔۔

"آپ نے یہ سب ٹھیک نہیں کیا۔میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔"

وہ  سب کچھ یاد کرتے ایک جھٹکے سے اس کا حصار توڑتے  ہوئے سسک کر بولی ۔

"لکی نے ماھی دھنسی ہوئی آنکھوں پہ لب رکھے اسے اپنے ساتھ کا احساس دلایا ۔۔۔۔

"نہیں چاہیے آپکا پیار "

"نہیں چاہیے ؟؟؟وہ اسکے گالوں کو اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر مدھم آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا ۔۔۔۔

اس کی گولڈن شیڈڈ آنکھیں لو دینے لگی۔جبکہ اس کی موجودگی اپنے آس پاس محسوس کرتے ماھی کا چہرہ شرم سے تپ اٹھا تھا۔ہاتھوں کا لرزنا لکی کی نگاہوں سے مخفی نہیں تھا۔ماھی کو خود پہ شدید غصہ آرہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے کچھ کرڈالے ۔۔۔۔

لکی کو تو وہ ایک ہی رات میں اتنا جان چکی تھی کہ وہ اپنی چلانے کے معاملے میں وہ کس قدر ضدی اور اکھڑ مزاج ہے لیکن وہ خود جو اس سے نفرت کے دعوے کرتی پھررہی تھی اس کی شکل نہ دیکھنے کی قسم کھائی تھی ،کیوں وہ سب ارادے  دھرے کے دھرے رہ گئے ۔کیوں وہ کسی قسم کی سخت مزاحمت نہیں کرپا رہی تھی اس کی قربت حاصل ہونے پہ ۔۔۔ اس کے مخصوص پرفیوم کی خوشبو اپنے اردگرد محسوس کرتے ماھی کی سانسیں خشک ہوگئی جبکہ گردن میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔

پیٹ میں ایسا لگا جیسے اندر سے کسی نے زور سے لات ماری ۔۔۔۔ماھی نے تڑپ کر پیٹ پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔

وہ درد کی شدت پہ زور سے چلائی ۔۔۔۔

"ماھی ۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔ 

"تم چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔اب یہاں رہنا تمہارے لیے ٹھیک نہیں ۔۔۔۔

"چلو گی نا میرے ساتھ ؟

"م۔۔۔مگر ۔۔کہاں "؟

وہ اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر بمشکل بولی۔۔۔

"اتنا بتاؤ میرے بنا رہ سکتی ہو ؟؟؟

ماھی نے فورا نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

"اگر میں تمہیں اپنی سچائی بتاؤں تو کیا تم مجھے چھوڑ دو گی ماھی ؟؟؟

",یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔میں آپ کے نکاح میں ہوں ،کیوں علیحدگی لوں گی بلاوجہ "

وہ ٹوٹے ہوئے شکستہ آواز میں بولی۔۔۔۔نقاہت کے باعث اس سے بولا نہیں جا رہا تھا ۔۔۔

"میری بات پہلے پوری سننا پھر ہی کوئی فیصلہ کرنا ۔۔۔میں تمہارے فیصلے کا احترام کروں گا "

وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بولا تو ماھی نے چونک کر اسکی طرف دیکھا نجانے وہ ایسا کیا بتانے والا ہے ۔۔۔۔

"تم نے ویپمائر کے بارے میں سنا ہوگا "

"سنا ہے نا ..؟وہ سوالیہ نظروں سے اس سے پوچھنے لگا 

"ہممم۔۔۔جی ۔۔۔سنا ہے .

"میں ویمپائر ہوں "

"جو زندگی بچانے کے لیے خون پیتے ہیں "

اسکے انکشاف پہ ماھی کی درد سے بند ہوتی ہوئی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں۔ ۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟؟؟

"ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟؟

"آ۔۔۔آپ ۔۔۔مذاق کر رہے ہیں نا میرے ساتھ ؟؟؟

وہ روہانسی آواز میں بولی ۔۔۔

دونوں ہاتھوں سے کمفرٹر کو مٹھیوں میں زور سے بھینچ لیا ۔۔۔۔

"یہ مذاق نہیں ماھی جلد از جلد تمہیں سب سچ بتا کر اس درد سے آزادی دلانا چاہتا ہوں ۔۔۔ 

ماھی نے درد سے بلبلاتے ہوئے آنکھیں موند لیں ۔۔۔

"ماھی میں انسان ہوں یا ویمپائر سب بھول جاؤ بس اتنا یاد رکھنا تم سے بے پناہ عشق کرتا ہوں ۔۔۔۔خود کو مٹا دوں گا اگر تم نا ملی ۔۔۔۔"

وہ جنونیت آمیز انداز میں بولا۔۔۔

ماھی کے منہ سے گھٹی گھٹی سسکیاں نکلیں جسے اس نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر روکنے کی کوشش کی ۔۔۔۔وہ اتنی جلدی اتنا بڑا سچ سننے کی حالت میں نہیں تھی ۔۔۔۔

دل حدرجہ گھبرا رہا تھا ۔۔۔۔دماغ سب ماننے سے انکاری تھا ۔۔۔

"ماھی میرے فادر ایک ویمپائر ہیں ۔اور میری ماں تمہاری طرح ایک انسان ۔۔۔

جب ویپمائر اور انسان کا ملن ہوتا ہے تو ان سے ایک امورٹل ویپمائر جنم لیتا ہے ۔

جیسے کہ میں ہوں ۔۔۔۔

"میرے فادر نے اپنے قبیلے سے تعلق ختم کر لیا وہ سب رات کی تاریکی میں انسانوں کا خون پیتے تھے ۔۔۔

مگر میرے فادر کسی انسان کا خون نہیں پیتے ۔۔۔۔

ہمارا اب ایک الگ قبیلہ ہے ۔جو صرف جانوروں کا خون پیتے ہیں زندہ رہنے کے لیے ۔۔۔۔

جنگل میں جانوروں کی تعداد نا ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔ہمارے قبیلے والوں کو شکار کی تلاش میں دن کے وقت بھی باہر نکلنا پڑتا ہے ۔۔۔

لیکن وہ نہیں نکل سکتے ۔۔۔

کیونکہ سورج کی روشنی ان کے لیے جان لیوا ہے ،اس لیے وہ صرف رات کو نکلتے ہیں ۔۔۔

میں امورٹل ہوں ۔اس لیے دن کی روشنی مجھ پہ اثر نہیں کرتی ۔۔۔۔

مجھ میں پاورز ہیں ۔

مجھے میرے قبیلے نے بتایا تھا کہ اماوس کی رات کو جب چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہوگا تب چاند کے مانند چکمتی روشنی مجھ پہ پڑے گی ۔اور جس کے باعث یہ روشنی مجھ پہ پڑے گی ،وہہی انسان میرے لیے بنی ہے،اور ہمارے قبیلے کے لوگوں کے لیے اہم کردار ادا کرے گی ۔۔۔۔

"۔۔۔م۔۔۔مگ۔۔گر می۔۔ممم۔۔میں ۔۔۔کیسے ۔۔۔۔؟؟

وہ حیرت زدہ رہ گئی اسکی باتوں کو سن کر تو لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں استفسار کرنے لگی ۔۔۔

"ہمارابچہ جو اس دنیامیں آنے والا ہے ،اسکے زریعے ۔۔۔

لکی نے اسکے پیٹ پہ اپنا ہاتھ رکھا تو ماھی کو درد سے تھوڑا سا سکون ملا ۔۔۔

اس نے فق نگاہوں سے اپنی بدلتی حالت دیکھی ۔۔۔۔

"اسکی خالی خالی نظروں میں چھپے سوالوں کو وہ پہچان چکا تھا اسی لیے وہ مزید اسے بتانے لگا ۔۔۔۔

"میں اپنے قیبلے والوں کو روزانہ اپنی طاقت دیتا ہوں تاکہ وہ دن کی روشنی میں نکل کر اپنا شکار تلاش کرسکیں اور انسانوں کا خون نہیں پیئیں ۔۔۔

مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ہمارے ویپمائر قبیلے کی تعداد میں اضافی ہوتا جا رہا ہے اور میری طاقت ان سب کے لیے ناکافی ہوتی جا رہی ہے،

ہمارا بیٹا اور میں ملکر ان سب کی زندگی بچا سکتے ہیں ۔۔۔

"تم سب کی زندگی کو بچانے کے لیے ہمارا ساتھ دو گی ماھی ۔۔۔ ؟"

وہ التجائیہ۔۔۔مگر مان بھرے  انداز میں بولا۔۔۔

اس نے ہاتھ ہٹایا تو ماھی ایک بار پھر سے تڑپنے لگی ۔۔۔۔

"ماھی میرا مقصد نیک تھا مجھے کبھی غلط مت سمجھنا ۔۔۔۔تمہی وہ پہلی لڑکی ہو جس نے لکی کے دل میں اپنی جگہ بنائی ہے ۔اور تمہاری یہ جگہ نا تو کبھی کوئی لے سکتا ہے ۔اور نہ میں کبھی کسی کو دوں گا ۔۔۔۔

"Lucky ۔۔۔۔Really love you۔۔۔ so much۔۔۔"

"دو گی میرا ساتھ ۔۔۔۔؟؟؟

"میری دنیا میں چلو گی میرے ساتھ ؟؟؟

"آپ کی محبت نے نجانے کیسا جادو کیا ہے مجھ پہ اب آپ اپنے ساتھ آگ میں جلنے کو بھی کہیں گے تو ہنسی خوشی۔۔۔۔جل جاؤں گی ۔۔۔۔

وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔۔

پتنگا جو ہوجائے آگ میں فنا،

یہ اس کی ادا ہے یا آگ کا گناہ ،

لکی نے جوابا مدھم لہجے میں کہا۔۔۔

کوئی آگ سے بھی تو پوچھے اسکے دل کی ،

جسے پیار سے چھوا اس کی بس راکھ ہی ملی ،

"اگر تم انسان رہی تو کبھی ایک ویمپائر کے بچے کو پیدا نہیں کر پاو گی ۔۔۔۔

"یہ ویمپائر کا بچہ ہے جو مہنیوں کی بجائے دنوں میں پیدا ہو رہا ہے ،تمہاری سوچ سے بھی تیز اور ذہین ہوگا ۔۔۔بہت طاقتیں رکھتا ہوگا وہ ۔۔۔

"مممم مجھے چکر آرہے ہیں "

ماھی نے اپنے چکراتے ہوئے سر کو تھام کر کہا ۔۔۔۔

"یہ کمزوری کی وجہ سے ہیں کیونکہ تم نے خون نہیں ۔۔۔۔پیا ۔۔۔

وہ رک رک کر بولا ۔۔۔۔

"مگر میں تو انسان ہوں میں کیسے خون پی سکتی ہوں ۔۔۔۔؟

ماھی نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔

"خون پینے کی طلب تمہاری نہیں ہمارے بچے کی ہے "

"کیونکہ وہ ایک ویمپائر ہے۔

اس نے تمہارے جسم کا سارا خون چوس لیا ہے،اسی لیے تمہیں کمزوری ہو گئی ہے۔۔۔۔

اگر وقت رہتے تم نے خون نہیں پیا تو تمہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔میں تمہارے لیے خون لایا تم اسے پی لو ٹھیک ہوجاو گی ۔۔۔۔

"نہ۔۔۔نہیں ۔۔۔میں ۔۔۔ایسا نہیں کروں گی ۔۔۔۔

وہ گھبرا کر نخوت سے بولی ۔۔۔

"ماھی اگر تم خون پی لو گی تو انسان رہو گی ۔۔۔۔یہ تمہیں تب تک پینا ہے جب تک ہمارا بچہ اس دنیا میں نہیں آجاتا۔۔۔۔

"تم انسانوں کی زندگی جیو گی اور انسانوں کی موت ۔۔۔

اس سے آگے بولا نہیں جا رہا مجھ سے ۔۔۔۔

وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولا ۔۔۔

لیکن اگر تم مجھے اجازت دو تو میں تمہیں اپنے اور ہمارے بچے کی طرح امورٹل بنا سکتا ہوں ۔۔۔جو کبھی نہیں مرتے "

"اس کے لیے کیا کرنا ہوگا ؟

وہ سہمی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔

"اس کے لیے مجھے اپنا خون تم میں منتقل کرنا ہوگا ۔۔۔"

"کیا جواب ہے تمہارا ؟؟؟

وہ اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"جتنی عمر ملے اس کا ہر لمحہ بس آپ کے ساتھ گزرے اور کچھ صیحیح غلط میں نہیں جانتی "

وہ تھکاوٹ ذدہ انداز میں اسکے شانے پہ اپنا سر رکھ گئی ۔۔۔

لکی نے اس کا سر بیڈ کراؤن سے لگایا ۔۔۔

"تھوڑی سی تکلیف ہوگی ،برداشت کرلینا ۔۔۔

اتنی سی تکلیف ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک کردے گی "

فسوں خیز آواز میں کہتے ہوئے وہ اس کی گردن پہ جھکا ۔۔۔

لکی کے دو نوکیلے دانت باہر نکلے۔۔۔۔

وہ ماھی کی صراحی دار نازک سی گردن پہ گاڑھ گیا ۔۔۔۔

ماھی کی چیخ نکلی ۔۔۔۔

لکی نے دوسرے ہاتھ سے اسکی پشت کو سہلایا ۔۔۔

کچھ ہی دیر میں ماھی طاقتور خون کے اثر سے بیہوش ہوچکی تھی ۔۔۔۔

لکی نے اس کے بیہوش وجود کو اپنی بانہوں میں بھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔۔

 (نوٹ !!!ہم سب مسلمان ہیں ایک بار کی زندگی اور فانی زندگی پہ یقین رکھتے ہیں۔صرف آخرت کی زندگی لافانی ہوگی )یہ صرف فینٹسی بیسڈ ہے اس لیے سب لکھا ۔اسے ناول سمجھ کر پڑھئیے )

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

صبح کے سورج نے جب چہار سو اپنی کرنیں بکھیریں تو ہر ذی روح،اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا ،پنچھی اڑان بھرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے ،ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی ،کھلی ہوئی کھڑکی میں سے ہوا اور روشنی اندر آرہی تھی ۔۔۔۔کھڑکی کا پردہ پھڑپھڑا رہا تھا۔۔۔

آنکھ کھولتے ہی جو پہلا منظر اس نے دیکھا ،اس منظر کو دیکھنے کی اس نے نجانے کتنی دعائیں کیں تھیں۔کہ جب بھی اسکی آنکھیں کھلیں تو وہ سامنے ہو اور جب اسکی آنکھیں بند ہوں تب بھی وہی ۔۔۔آج اسکی خواہش پوری ہوچکی تھی ،وہ اپنے پروردگار کا جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا ۔۔۔  اس کے مخملیں لب خوبصورت مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔آنکھوں کے سامنے اپنے من پسند شخص کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسکی آنکھوں میں الوہی  چمک امڈ آئی ۔

اسکی ستواں چمکتی ہوئی ناک ،اسکی مونچھوں تلے عنابی لب،اسکی صبیح پیشانی پہ بکھرے بال ،ہلکی سی بئیرڈ اسکی نیلی آنکھیں اس وقت بند تھیں ۔۔۔جو کل رات اسکی من پسند کہانی سنا رہی تھیں ۔۔۔

اسے دیکھتے ہی زخرف کا شرارتی موڈ آن ہوچکا تھا ۔۔۔

وہ صبح فجر کی نماز ادا کر کہ سویا تھا ،،اسی لیے ابھی تک اٹھا نہیں تھا ۔۔۔

زخرف نے آہستگی سے اپنے پاؤں بستر سے نیچے اتارے پھر دبے قدموں سے چلتے ہوئے کھڑکی کے پاس پہنچی جسکے پردے پہلے ہی ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے ۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر سفید رنگ کے پردوں کو ہٹادیا۔چھن سے پڑتی دھوپ نے سوئے ہوئے امرام شیر کی نیند میں خلل ڈالا تھا۔زخرف اسے تنگ ہی تو کرنا چاہتی تھی ۔مگر اسکی رات والی دھمکی یاد آئی ۔۔۔۔

تو اس نے جھرجھری لی  بستر پہ موجود امرام شیر کی آنکھوں میں چبھتی ہوئی دھوپ اور روشنی پڑی تو اس نے ناگواری سے بنا آنکھیں کھولے دوسری جانب کروٹ لے لی ۔۔۔۔ 

زخرف دھیمی سی مسکان لیے اسکے قریب آئی ۔۔۔ اور تکیے پہ ہاتھ رکھے اس پہ جھکی پھونک مار کر اسکے بالوں کو اسکی صبیح پیشانی سے پیچھے کیا پھر آہستگی سے اس پہ اپنے لب رکھے ۔۔۔

",صبح بخیر !!!

وہ ہلکی سرگوشی نما آواز میں بولی۔۔۔

 اسکی ستواں ناک کو اپنی پوروں سے دبا کر اسکی چلتی ہوئی مدھم سانسوں کو روک کر اسے نیند سے جگانا چاہا  ۔۔وہ کسمسایا اور جھٹ سے اپنی نیند سے بوجھل نیلی آنکھیں کھولیں 

اس سے پہلے کہ وہ پیچھے ہوتی ۔۔۔

امرام شیر نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے بستر پہ گرا لیا ۔۔۔۔وہ اس افتاد کے لیے تیار نا تھی ۔۔۔گرتے ہی فق نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

"ہمت ہے تو جاگتے میں کرو پیار نہیں تو کرنے دو "

وہ اس کے چہرے کے نقوش کو نرمی سے اپنی لبوں سے مہکا رہا تھا ۔

"ہائے او ربا !!!۔"

اپنی گردن پہ اس کی چبھتی ہوئی شیو سے اسکی چیخ نکل گئی ۔۔۔۔

"زرا سا پیار کیا کر لیا میجر صاحب آپ تو شوخے ہی ہوگئے ۔۔۔"

وہ گھورتے ہوئے بولی ۔۔۔

اسکی بات سن کر امرام شیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔۔

زخرف نے حیرت بھری نگاہوں سے اسے کھل کر ہنستا ہوا دیکھا تھا،تو دل میں اسکی مسکراہٹ پہ صدقے واری جانے لگی ۔۔۔۔۔

جیسے ہی اسکی جسارتوں میں اضافہ ہونے ہونے لگا ذخرف تو بوکھلا کر رہ گئی ۔۔۔

"ہائے اللہ ۔۔۔یہ آپ میں صبح صبح کون سا رومینس کا کیڑا پھڑکنے لگا ؟

ذخرف کے چہرے سے مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوئی ۔وہ خود میں سمٹتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

پلکیں شرم سے لزرتے عارض پہ سایہ فگن تھیں ۔۔۔۔

"یہ بدلا تھا میری نیند خراب کرنے کا "

وہ ایک بار پھر سے اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپا گیا ۔۔۔

"میجر پیچھیں ہٹیں ۔"

وہ شرم سے کپکپاتے روہانسے لہجے میں گویا ہوئی۔پلکیں حیا سے بوجھل ہورہی تھیں۔

"میجر اس بار کاٹا نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں گا ۔۔۔"

"قسم سے ایسا بدلا لوں گی نا یاد رکھیں گے "

وہ اسکی بڑھتی ہوئی شدتوں بے حال ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔

"لو بدلہ ۔۔۔۔وہ چہرہ اٹھا کر بولا ۔۔۔۔

"کھڑوس میجر م۔۔۔میں ۔۔۔آ۔۔۔آپ کو اتنا بے شرم نہیں سمجھتی تھی ۔۔۔۔"

اسکے چہرے پہ بکھرے ہوئے قوس قزح کے رنگوں نے اسکا چہرہ دہکا رکھا تھا ۔۔۔

"اب کیا بدلہ بدلہ ہی کھیلتے رہنا ہے یا اٹھنا بھی ہے ۔۔۔

"وقت دیکھیں سات بج گئے ہیں سب باہر ناشتے پہ انتظار کر رہے ہوں گے "

ذخرف نے اسے دیوار پر لگا ہوا وال کلاک دکھا کر وقت کا احساس کروایا ۔۔۔۔

"ہم سے بڑھ کر وقت کی پابندی اور کسے آتی ہے"

"لیکن ابھی وقت کسی اور کام کا ہوا چاہتا ہے ،اس پہ توجہ دیں "

"نہیں میجر صاحب پلیز یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں صبح ہوچکی ہے "

وہ اس خود سے پیچھے دھکیلتے ہوئے بولی ۔۔۔

"پیار کرنے کے لیے کوئی بھی وقت مقرر نہیں ہوتا ۔۔۔

اور رہی بات صبح کی تو اسے رات میں بدلنا میرا کام ہے ۔۔۔"

وہ کہتے ہوئے بستر سے اٹھا کھڑکی کے پٹ بند کیے اور پردے برابر کیے ۔۔۔جاکر کمرے کی لائٹس آف کیں تو کمرے میں ملگجا سا اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔

"اسے کہتے ہیں دن کو رات میں بدلنا "

کیوں کیسی رہی "؟

وہ ابرو اچکا کر ذو معنی نظروں سے دیکھتے ہوئے جیسے جیسے اسکی طرف قدم بڑھا رہا تھا زخرف کو اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔

وہ بیڈ کے کراؤن کے ساتھ لگی اپنے خرافاتی دماغ میں بچنے کے لیے کوئی طریقہ سوچنے لگی ۔۔۔۔اور کچھ سمجھ نہیں آیا تو پاس پڑا تکیہ امرام شیر کی طرف اچھال دیا ۔۔۔۔اسکے ارادے اس پہ تکیہ پھینک کر اسے چھٹکارہ پاتے ہوئے واش روم میں جانے کا تھا ۔۔۔مگر امرام شیر نے حد درجہ پھرتیلے انداز میں تکیہ کیچ کیے نیچے پھینکا اور بیڈ پہ گرنے کے انداز میں لیٹ کر اسکی گود میں سر رکھ لیا ۔۔۔

"کیا ارادے ہیں "؟

اس نے ذخرف کی تھوڑی سے چھو کر چہرہ اٹھاتے اس سے استفسار کیا۔۔۔۔

"میرے ارادے تو بہت نیک ہیں باہر جانے کے لیکن آپ کے ارادے بہت خطرناک "

"اب فوجیوں سے پنگا لو گی تو مہنگا تو پڑے گا نا ۔۔۔ہمارے ہاتھوں سے بچ کر نکل لانا ناممکن ہے ،  میڈم ۔۔۔

وہ اسکی نچلے ہونٹ کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے خمار زدہ آواز میں بولا ۔۔۔۔

"آپ اپنے ارادے موقوف نہیں کرسکتے "؟

وہ جھنجھجلا کر بولی ۔۔۔

"مجھے اپنے ٹارگٹ سے آج تک کوئی نہیں ہٹا سکا ۔۔۔

"میں بھی آخر اسی میجر کی بیوی ہوں ٹکر برابر کی ہوگی ۔۔۔

وہ فرضی کالر اچکا کر بولی ۔۔۔

"Let's see"

وہ اسکا بازو کھینچ کر اسے گراتے ہوئے اس پہ جھکا ۔۔۔

"ن۔۔۔نہیں ۔۔۔۔وہ  مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگی کیونکہ اسکی بئیرڈ کی چبھن سے  اب اسے ہنسی آنے لگی تھی ۔۔۔

 جہاں اس نے اپنے ہاتھ رکھتے زخرف کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔۔۔۔وہ خود کو خود سے چھپا لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔تنفس تیز تیز چل رہا تھا۔اس کی خجالت اور شرمانا امرام شیر کو اپیل کر رہا تھا ۔۔۔۔

زخرف کی کوئی بھی مزاحمت کام نہیں آئی اس دیو ہیکل وجود کے سامنے وہ خود کو ہار گئی اسکے سامنے دل تو بہت عرصہ پہلے ہی ہار چکی تھی اب اپنا آپ بھی وار گئی اس پہ ۔۔۔۔۔

زرخرف کروٹ بدلے کمفرٹر میں چہرہ چھپائے ہوئے تھی ۔۔۔

"میری شیرنی جو اس وقت بالکل بھیگی بلی بن کر چھپی ہوئی ہیں،کیا فائدہ چھپنے کا ۔۔۔۔ اب تو جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔"

وہ اس سے کمفرٹر کھینچ کر اس میں اپنا  چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔۔

"بہت ہی کوئی ڈیش انسان ہیں آپ "

وہ شرم کے باعث آنکھیں کھول ہی نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔

"ہا۔ہا۔۔ہا۔۔۔۔اس کا قہقہ چھوٹا ۔۔۔

"اب اس ڈیش میں کیا ہے "؟

وہ اسکی پشت پہ اپنی انگلی پھیر کر اس پہ انگلی سے اپنا نام لکھ رہا تھا امرام شیر ۔۔۔۔زخرف نے بخوبی محسوس کیا ۔۔۔۔

"آپکے ہاتھ نا بہت فضول جگہوں پہ پہنچتے ہیں "

وہ دانت پیس کر بولی ۔۔۔

"قانون کے ہاتھوں کی پہنچ ہے یہ ۔۔۔۔۔اور سنا تو ہوگا ،قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں ۔اور کسی کو روکنے کی ہمت بھی نہیں ۔۔۔۔

اگر کسی میں ہمت  ہے تو اپنا چھپا ہوا چہرہ دکھائے وہ "

وہ اسے کھینچ کے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے مدھم آواز میں بولا ۔۔۔

"آپ نے چہرہ دکھانے لائق چھوڑا کہاں ہے "

وہ میچی ہوئی آنکھوں سے ہی لرزتے ہوئے بولی ۔۔۔

"ایسا بھی کیا کردیا یار ۔۔۔۔وہ ذومعنی انداز میں بولا ۔۔۔تو ذخرف کا سارا خون جیسے  چہرے پر سمٹ آیا ۔۔۔

وہ مسمرائز ہوا ۔۔۔۔

"ایک ہی رات میں تم میرے لیے اتنی لازم و ملزوم ہو جاؤ گی میں نے کبھی سوچا نہیں تھا "

وہ اس کے نازک ہاتھ کی مخروطی  انگلیوں پہ لب رکھتے ہوئے خمارآلود لہجے میں بولتے جیسے اسے باور کروارہا تھا۔

زخرف نے اس کی طرف سے پہلی بار اظہار محبت کا الفاظ سنے تو ساکت رہ گئی ۔۔۔۔ اس نے پلٹ کر امرام شیر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"میں تم سے کوئی دھواں دھار عشق ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا مگر تم میرے لیے بہت اہم ہوتی جا رہی ہو ۔۔۔ میرے اتنے قریب آچکی ہو کہ تم سے دور جانے کا تصور ہی مجھے سوہان روح لگنے لگا ہے ۔۔۔۔

زخرف کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھریں۔۔۔۔اس اظہار پہ ۔۔۔۔

وہ اسکے لبوں کو نرمی سے چھو کر بولا تو ذخرف نے دوبارہ کمفرٹر میں اپنا چہرہ چھپایا ۔۔۔

"پہلے تو بڑے کھلم کھلا بلند و بانگ محبت کے دعوے کیے جاتے تھے ۔۔۔۔اب جب وقت آیا تو زبان کیوں بند ہوگئی ۔"

ذخرف کی جان سرے سے ہوا ہوئی تھی اسکے انداز پہ ۔۔۔

 "آئی ہیٹ یو "

وہ خفگی بھرے لہجے میں بولتی اپنی بائیں جانب سے تکیہ پکڑتے اس کے چہرے پہ اچھال گئی۔

امرام شیر نے اسے زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔وہ مشکل اپنا قہقہہ ضبط کیے اس کے ہاتھ سے تکیہ کیچ کر گیا ۔۔۔

"ارے اتنی جلدی اپنی محبت سے منحرف ہوگئی ۔"

"کوئی بات نہیں اس بار آپ کو واپس پیار کرنے پہ مجبور کر دیں گے ۔۔۔۔وہ اسکا موڈ پھر سے آن دیکھ کر بوکھلا کر رہ گئی۔۔۔۔

"ن۔۔۔نہیں میجر ۔۔۔۔۔"

وہ اسکی منمانیاں دیکھ کر جھٹپٹانے لگی ۔۔۔

"اوکے جسٹ ری لیکس وہ اسے اپنی بانہوں میں بھینچ کر اسکی کمر کو سہلانے لگا۔۔۔جیسے اسے پرسکون کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ وہ مزید اس کے سینے میں ہی چھپتے جیسے پناہ تلاش کررہی تھی۔

"اب باہر جانے کا ہوش نہیں ؟؟؟وہ اسکی توجہ وال کلاک کی طرف دلاتے ہوئے بولا ۔۔۔

زخرف نے وقت دیکھا تو نیند سے بند ہوتی آنکھیں پٹ سے کھل گئیں ۔۔۔

جاؤ فریش ہوجاو "تھوڑی دیر بعد وہ اسے آزادی بخشتے ہوئے بولا۔۔۔۔

"ایسے کیسے جاؤں "

اسکی بات پہ زخرف کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں ۔۔۔۔

"مطلب ؟",

وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔

"بڑے معصوم ہیں نا آپ ؟وہ دانت پیس کر گھورتے ہوئے تیکھے لہجے میں بولی۔

"ہممم میری اس خوبی کو تم نے بالکل ٹھیک پہچانا ".وہ اسکی ناک کو اپنی پوروں سے دباتے ہوئے بولا ۔۔۔

امرام شیر نے اپنی شرٹ اٹھا کر اسکی طرف بڑھائی ۔۔۔۔

"برائے مہربانی اپنی ان بہکی ہوئی نظروں کا زاویہ تبدیل کریں بلکہ چہرہ دوسری طرف کریں ۔۔۔

"یہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔

یہ آنکھیں اور چہرہ پورا حق رکھتا ہے ،سب دیکھنے کا ۔۔۔اسے ابھی کل ہی نکاح نامے کی صورت میں سارے حقوق مل چکے ہیں ۔۔۔

"شرم کرلیں کچھ "اس نے گھرکا ۔۔۔

"شرم کرنا آپ کا کام ہے ۔میرا نہیں "

"صیحیح کہا تھا میں آپ بہت ڈیش انسان ہیں"

وہ اسکے بائیسیپس والے بازو پہ زور سے چٹکی کاٹ کر بولی ۔۔۔

"آہ ۔۔۔۔۔جنگلی بلی "وہ کراہ کر بولا ۔۔۔ 

اس بار ذخرف ہنسنے لگی۔۔۔۔

دونوں کی خوشگوار زندگی کی شروعات ہوچکی تھی ۔۔۔

واشروم سے فریش ہو کر باہر آئی تو ذخرف کمرے میں تفصیلی نگاہ دوڑائی مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہیں دیا ۔۔۔

وہ دوپٹہ بستر پہ رکھے اب اپنے گیلے بالوں کو سلجھانے لگی ۔۔۔ڈریسر سے لپ گلاس اٹھا کر لبوں پہ لگایا ۔۔۔کمرے سے ملحقہ ڈریسنگ روم کا دروازہ کھلا تو ذخرف  چونک  کر پلٹی ۔۔۔امرام شیر اپنا آرمی  یونیفارم پہنے جانے کو تیار تھا ۔۔۔۔

"آپ ایک ہی رات میں مجھ سے تنگ آگئے ۔۔۔ بڑی جلدی ہےآپ کو مجھ سے دور بھاگنے کی۔"

وہ خفگی بھرے انداز شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔

"ایسی بات نہیں ۔۔۔۔یار ۔۔۔۔آج ڈیوٹی جوائن کرنی ہے۔۔"

وہ شیشے میں دیکھا کر اپنے سر سے  یونیفارم کیپ ٹھیک کرتے ہوئے بولا ۔۔۔

زخرف نے اسے نظر بھر کر اپنی آنکھوں کے راستے دل میں اتارا ۔۔۔۔۔وہ تھا ہی اتنا ہینڈسم مگر آرمی یونیفارم میں تو بات ہی الگ تھی ،ایسا لگتا تھا کہ یہ یونیفارم بنا ہی اسکے لیے تھا ۔۔۔۔

"یونہی دور دور سے آنکھوں کی پیاس بجھانے کا ارادہ ہے یا قریب آکر ان رسیلے ہونٹوں سے ۔۔۔۔۔وہ ذومعنی انداز میں کہتے ہوئے خاموش ہوا مگر نگاہوں میں چھپا جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔۔وہ دھیرے دھیرے اس کے قریب ہی آرہا تھا۔زخرف کی سانسیں خشک ہوگئی۔اس نے باقاعدہ اپنی مومی انگلیاں چٹخائیں۔

"اب ڈر کس بات کا ؟

وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے حصار میں لیے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے بولا ۔۔۔

"میں کوئی ڈرتی ورتی نہیں کسی سے ۔۔۔۔ناراض ہوں میں "

وہ امرام شیر کے سینے پہ سر رکھ کر بولی ۔۔۔۔

اسکے اتنے قریب آکر دور چلے جانے کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کی جان جا رہی تھی ۔۔۔۔

"یہ کیسی ناراضگی ہے ؟؟؟

"جس میں خود سپردگی کے بعد بھی شکوے ہیں '

"یہ ذخرف کا سٹائل ہے "

وہ سر اٹھا کر بولی ۔۔۔۔

"چلیں نیچے ؟"امرام شیر نے گھڑی پہ لگے وقت کو دیکھتے کہا ۔۔۔

"چلتے ہیں ،،،، ورنہ سب نے کہنا زخرف نے میجر پہ نجانے کیسا جادو کیا ۔۔۔جو ایک ہی رات میں اسکے گھٹنے سے لگ کر بیٹھ گیا ۔۔۔کہ ابھی تک باہر ہی نہیں آیا ۔"

ڈرامائی اندازمیں کہتے زخرف نے اس کے تاثرات دیکھے جو مسکراتی ہوئی نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا ۔

"میں شکل سے زن مرید لگتا ہوں ؟؟؟

"لگتے تو نہیں ،بن بھی جائیں تو مضائقہ ہے ۔۔۔ ۔"

اس نے بستر پہ پڑا اپنا دوپٹہ اٹھا کر اپنے شانوں پہ پھیلایا ۔۔۔۔تو وہ متبسم سا مسکرایا اسکی مزاحیہ باتوں پہ ۔اور ایک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کھینچتے اپنے حصار میں لیا اور اس کے چہرے پہ ایک پرشدت لمس چھوڑا۔وہ شرم سے کپکپا کر رہ گئی۔

"اگلی بار میں واپس آؤں تو کچھ ایسا کرنا جس سے میں زن مرید بننے پہ مجبور جاؤں ۔"

وہ اسکے دوسرے گال کو چوم کر دھیمے آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔

ذخرف نظریں چرانے لگی ۔۔۔۔

امرام  وقت کا خیال کرتے اس کا ہاتھ تھام کر دروازے کی جانب بڑھا  ہی تھا کہ ذخرف رکی ۔۔۔

"ادھر آئیں "زخرف نے اسے جھکنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

اس نے ناسمجھی سے دیکھا ۔۔۔

پھر اسکے اشارہ کرنے پہ جھکا ۔۔۔

زخرف نے اسکی گردن میں دونوں بانہیں ڈال دیں ۔۔۔۔اور اسکے ساتھ چپک گئی ۔۔۔

"یہ کیا تھا ؟"

وہ واپس اوپر ہوا تو زخرف کے پاؤں زمین سے اوپر ہوگئے ۔۔۔

"چلیں اب "

"یار پاگل ہو ایسے جائیں گے باہر ؟؟؟

"تو کیا ہوا اگر آپ مجھے اٹھا کر لے گئے باہر ۔۔۔

"اچھا تو تم چاہتی ہو میں تمہیں اٹھا کر لے کے جاؤں "

"جی بالکل"

اچھا تو پھر بازوؤں میں اٹھا لیتا ہوں ۔۔۔یار یہ کیا طریقہ ہوا باہر جانے کا "؟

"مجھے ایسے ہی جانا ہے باہر "وہ بضد ہوئی ۔۔۔

"کچھ نہیں ہوسکتا زخرف تمہارا ۔۔۔وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔

"اگر آپ نے میری بات نہیں مانی تو میں نیچے ہیر پھپھو کو آپکی شکایت لگاؤں گی ۔۔۔کہ آپ نے مجھے کتنا تنگ کیا اور یہاں گردن پہ کاٹا بھی "

وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی ۔۔۔۔

"میرے پاس آپکے دانتوں کے نشان بھی ہیں ثبوت کے طور پہ ۔۔۔۔

"اچھا تو میں بھی تمہارا کارنامہ شیمپو والا بتاؤں گا سب کو ۔۔۔میرے پاس بھی ابھی تک وہی ٹوتھ پیسٹ موجود ہے ثبوت کے طور پہ "

"چلو نا یار ابھی سب سے ملنا بھی ہے ،بہت وقت ہوگیا ۔۔۔

"اچھا چلیں چھوڑیں۔۔۔آپ بھی کیا یاد کریں گے کس سخی دل سے پالہ پڑا آپکا "

وہ فرضی کالر اچکا کر بولی ۔۔۔

تو دونوں ایک دوسرے کی ہمراہی میں دروازہ کھول کر نیچے اترنے لگے ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"گھبرانے کی بات نہیں ،،،پری  جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔۔ وہ اس وقت جسمانی کمزوری اور کسی  دماغی کنڈیشن کی وجہ سے ابھی تک بےہوش ہے۔۔ بخار بھی ہے۔ میں نے انجیکشن لگادیا ہے ان شاء اللہ وہ جلد ٹھیک ہوجائے گی ۔۔۔

 آپ ان کے کھانے پینے میڈیسن اور ذہنی سکون کا خیال رکھیں۔۔" ڈاکٹر نے پری کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد پریشان  کھڑے ہوئے آریان شیر  سے کہا تھا جو اپنی پری کی بند آنکھوں کو دیکھ اندر سے ٹوٹ چکا تھا ۔ نجانے کب وہ آنکھیں کھول کر اسے پہچانے گی ۔۔۔

"کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے نا ڈاکٹر۔۔؟"آریان  نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا تھا۔ 

"نہیں پریشانی والی بات نہیں ہے۔اگر انکی یاداشت واپس نہیں آتی تو ہمیں ان کے کچھ ٹسیٹ کرنے پڑیں گے۔۔" ڈاکٹر نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو آریان نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ 

"بہت بہت شکریہ۔۔" وہ اخلاقاً زبردستی مسکرانے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔مگر مسکراہٹ نے اسکا ساتھ نا دیا ۔۔۔۔

ڈاکٹر چیک اپ کرنے کے بعد وہاں سے چلے گئے تو آریان شیر نے پری کی جانب دیکھا جو آنکھیں موندے گہری بےہوشی کے زیراثر تھی ۔ 

"میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا پری ۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔تم نے کہا تھا تمہارے جانے کے بعد مجھے تمہاری محبت کا احساس ہوگا ۔۔۔لو ہوگیا احساس ۔۔۔۔اب بار بار مجھے چھوڑ کر چلی جاتی ہو کیوں سزا دے رہی ہو اتنی !!!!؟" اس نے پری کا  کینولہ لگا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔

 یہ لمحات قیامت خیز تھے اسکے لیے ۔۔۔۔

اس کی زندگی میں رشتے تو بہت تھے مگر وہ اپنی وجہ سے انہیں کسی مصیبت میں نہیں ڈال سکتا تھا ۔۔۔

اس لیے ان سے دوری اختیار کی ہوئی تھی ۔۔۔۔

فی الوقت اسکے پاس ایک ہی قریبی رشتہ پری کے صورت میں تھا جسے وہ کسی بھی حال میں خود سے دور نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔

"جلدی سے ہوش میں آجاؤ مجھے شیرو کہہ کر پکار لو ایک بار ۔" 

کان ترس گئے ہیں یہ الفاظ سننے کو ۔۔۔

          پری کی آنکھیں آہستگی سے کھلیں ۔۔۔

اس نے اپنے بستر کے قریب پڑے سٹول پہ آریان شیر کو آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑاتے ہوئے پایا ۔۔۔۔

"ش۔۔۔ش۔۔شیرو ۔۔۔۔"

وہ نقاہت زدہ آواز میں بولی۔۔

 جیسے ہی پری کو تھوڑا ہوش آیا اسکی زبان سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ایک جملہ برآمد ہوا تھا۔  

"پری ۔۔پری تم ٹھیک ہو۔۔نا ؟" اسکی آواز  سن کر آریان  نے آنکھیں کھولیں اور  اسکا گال تھپتھپاکر پوچھا 

"شیرو ۔۔۔میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ 

"شیرو مجھے وہ شادی نہیں کرنی تھی ۔ "

"پری وہ سب ایک برا خواب سمجھ کر بھول جاو۔۔۔

"سب ختم ہوچکا ہے ،مروان بھی ۔۔۔۔

"اب جو تم چاہو گی وہی ہوگا ۔۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں ۔۔۔

وہ اسکا ہاتھ تھام کر اسے یقین دلانے لگا ۔۔۔

آریان شیر نے اس کا خوبصورت  چہرہ دیکھا جو اس حادثے میں خون بہہ جانے کی وجہ سے پیلا پڑ چکا تھا ۔

ایک انسان کیلیے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہوسکتی ہے کہ اس کا محبوب اسکے سامنے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو۔۔۔۔

"مجھے آپ کا ساتھ چاہیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔میری خواہش پوری کرنے کا وعدہ کر رہے۔۔۔ ہیں۔۔۔ آپ ۔۔کریں گے نا پوری ؟؟" اس نے مان بھرے انداز میں التجا کی تھی۔

"ہمممم۔۔ وہ مدھم آواز میں بولا۔۔۔

"سچی "

اسکی آواز میں جو نقاہت تھی آریان شیر کی ہاں سن کر پرجوش آواز میں بدل گئی ۔۔۔۔۔۔"  

"پری آرام سے ابھی تمہیں اپنا اچھے سے خیال رکھنا جلدی سے ٹھیک ہوجاو پہلے ۔۔" اب کی بار آریان شیر کا لہجہ سخت ہوگیا تھا ۔۔۔

پری کے چہرے سے مسکراہٹ ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔

یہ مسکراہٹ کتنی دیر تلک قائم رہنے والی تھی یہ تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلنا تھا ۔۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"کہو کس لئے بلایا ہے..؟" ریسٹورنٹ کے قدرے علیحدہ حصے میں موجود ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے اس نے بےچینی سے فرزام کی طرف دیکھا جو آرام سے بیٹھا کافی کے سپ لے رہا تھا..

"میں نے بلایا ہے تمہیں..مجھ پہ توجہ دو ؟" 

شیردل نے اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔۔۔

فرزام نے اسے ایک نظر دیکھا پھر دوبارہ اپنے کام میں بزی ہو گیا..

"فرزام زیادہ اٹیٹیوڈ مت دکھاؤ ، مجھے بتاؤ کیا پتہ چلا اسکے اڈے کا .." وہ ضبط سے بولا، اگر وہ ریسٹورنٹ میں نہ ہوتا تو کب کا اس کے منہ پر دو تین مکے جڑ چکا ہوتا..

اے ۔ایس۔پی فرزام اسکا بچپن کا دوست تھا ۔

"کیا یار فرزام کیوں بیچارے کو پریشان کر رہے ہو، نئی نئی شادی ہوئی ہے جناب کی، انجوائے کرنے دو، آخر یہی تو دن ہیں انجوائے کرنے کے..جو میں نے بتایا بتا بھی دو اسے تاکہ وہ اپنا مسلہ سلجھا کر واپس اپنی بیوی کے پاس جائے " اپنے پشت سے آتی جانی پہچانی آواز پر اس نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا پھر حیرت سے کھڑا ہو گیا..

"علی تم..؟ اس وقت..؟ تم تو اسلام آباد میں تھے .." آگے بڑھ کر مسکراتے ہوئے اسے گلے سے لگایا..

"ہاں وہیں تھا ،لیکن فرزام نے بتایا تو آنا پڑا ۔۔۔۔علی کا تعلق سائبر کرائم برانچ سے تھا ۔۔۔

"تم نے جس ویب سائٹ کا نام بتایا تھا اس کو کری ایٹ کرنے والا رچرڈ جانسن ہے ۔۔۔۔"

علی نے اسے رچرڈ کے بارے میں کافی کچھ کلئیر کیا ۔۔۔

"شیردل ! میں نے رچرڈ کے بارے میں ساری معلومات لیں ہیں ۔۔۔وہ کبھی پاکستان میں ہوتا ہے ،اور کبھی امریکہ ۔۔۔

مختلف کالے دھندوں میں اسکا ہاتھ پایا گیا ہے ۔مگر کبھی بھی کوئی ثبوت اسکے خلاف نہیں ملا ۔۔۔۔

کافی چالاک ہے وہ اس کام کا ماہر کھلاڑی ۔۔۔

"تمہیں اس ویڈیو کو اس سے حاصل کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا "

فرزام نے تشویش بھرے انداز میں کہا۔۔۔

"تم پریشان مت ہو میں سب سنبھال لوں گا.خودی." وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولا، انداز ٹالنے والا تھا..

"ہاں جیمس بانڈ جو ٹھہرے.." فرزام  منہ بنا کر بولا..

"اسے کیا ہوا ہے، یہ کیوں منہ پھلائے بیٹھا ہے..؟" علی نے حیرانی سے پہلے فرزام کو پھر اسے دیکھ کر کہا۔۔۔

اس کی بیوی نے اسے گھر سے نکال دیا ۔۔۔اس کا غصہ مجھ پہ نکال رہا ہے "شیردل نے مسکرا کر کہا ۔۔۔

تو فرزام نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔

"میں نے اسے بتایا بھی ہے کہ وہ رچرڈ کا گینگ بہت خطرناک ہے ۔اس کی جان کو خطرہ ہے۔۔۔۔مگر شیردل صاحب کو اکیلے ہی ہیرو بننے کا شوق ہوا ہے ۔۔۔۔میری مدد لینے کو تیار نہیں ۔۔۔۔فرزام ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولا ۔۔۔

علی ان دونوں کو دیکھ کر سنجیدہ ہوا ۔۔۔

شیردل واقعی فزام ٹھیک کہہ رہا ہے ۔۔۔تمہیں اسکی مدد لینی چاہیے ۔۔۔۔

"اس نے جتنی مدد کی ۔۔۔اتنا ہی کافی ہے ۔میں اپنی وجہ سے اپنے دوست کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا ۔۔۔اگر فرزام کو میری وجہ سے کچھ ہوا تو میں زندگی بھر خود کو معاف نہیں کر پاؤں گا ۔۔۔۔اگر مجھے ضرورت محسوس ہوئی تو تم دونوں کو کال کروں گا ۔۔۔تھینکس تم دونوں کا ۔۔۔۔

"اگر اب تھینکس کہا تو ایک گھونسہ ماریں گے تیرے منہ پہ۔  ۔۔۔علی اور فرزام دونوں نے ایک ہی وقت میں پنچ بنا کر شیردل کے منہ کی طرف کرتے ہوئے کہا تو وہ تینوں بیک وقت ہنس دئیے ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"کس نے ہیک کی ہماری ویب سائٹ ؟؟؟." 

لیپ ٹاپ پہ آج اپنی ویب سائٹ کو نا پا کر وہ غصے سے دہاڑا تھا..

اور ایک ہاتھ مار کر ایپل کا لیپ ٹاپ زمین بوس کردیا ۔۔۔

"جانتے بھی ہو اس ویب سائٹ سے کتنا کماتے تھے ہم ؟؟؟

"تم جیسے کتوں کے آگے اسی کے پیسے کا گوشت ڈالتا تھا میں ۔۔۔۔

"اور تم ۔۔۔۔۔(گالی )، ایک کام بھی تم (گالی ) سے ڈھنگ سے نہیں ہوتا، ایک ہیکر کا پتہ نہیں لگا پائے اور وہاں وہ آریان شیر اس لڑکی سے عشق معشوقیاں  لڑا رہا ہے ، مجال ہے اس لڑکی کے ہوتے اسے کسی کام کا ہوش ہو ۔۔۔۔

سارا کام چوپٹ ہورہا ہے صرف اور صرف تم لوگوں کی کاہلی کی وجہ سے.." قہرآلود نظروں سے اس نے ایک نظر اپنے ان آدمیوں کو دیکھا جو پرسنالٹی سے غنڈے کم دھرتی کا بوجھ زیادہ لگ رہے تھے..

"ہماری کیا غلطی ہے باس، ہم تو آپ کے غلام ہیں، آپ جیسا کہتے ہیں ویسا کرتے ہیں.." ایک آدمی نے ہمت کرکے منہ کھولا تو وہ غصے سے اس کی طرف بڑھا اور جاندار لات اسکے سینے میں ماری ..

"صرف ٹھونسنے کا کام تم لوگوں سے ڈھنگ سے ہوتا ہے، میرا آرو شیر ۔۔۔۔صحیح کہتا ہے، میں نے غنڈوں کی نہیں بے وقوف گدھوں کی فوج پال رکھی ہے جو ہر وقت کھانے کے ہی بارے میں سوچتے رہتے ہیں.."

"اب ایسا بھی نہیں ہے باس، ہم کام بھی بہت کرتے ہیں.."

"اچھا، کیا کام کیا ہے اب تک، کوئی ایک کام ایسا بتا دو جو میرے فائدے کے لئے کیا ہو.."

"اس لڑکی پری کو ہم نے ہی خودکش بم دھماکے میں اڑانے کی کوشش کی تھی ۔تاکہ آریان شیر کا دھیان اس لڑکی سے ہٹ کر صرف کام پہ لگے ۔۔۔۔

لیکن وہ تو اسکے مرنے پہ مجنوں کی اولاد بن گیا ۔۔۔

مگر اس لڑکی کی قسمت اچھی تھی بچ گئی سالی ۔۔۔۔یہ سب ہم نے ہی کیا تھا آپ کے کہنے پہ ۔۔۔ آپ شاید بھول رہے ہیں باس.."

"کہتے ہیں تو ایک بار پھر سے ٹپکانے کی کوشش کرتے ہیں سالی کو "

"تو کیا تمہاری گولی سے وہ مر گی ۔۔۔۔؟؟،نکمے کہیں کے سارے کے سارے ۔۔۔۔

" اگر وہ اس دن مر جاتی تو آج آریان سنبھل کر صرف کام پہ توجہ کرتا ۔۔۔۔

اگر اب آریان کو پتہ چلا کہ یہ سب تم لوگوں کا کیا دھرا تھا تو وہ لوگوں کو اوپر پہنچانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگائے گا ۔۔۔۔"

"باس آپ آریان شیر کی اس لڑکی سے شادی کروا دو خود پھر دیکھنا وہ کتنا خوش ہوگا اور آپکا ہر کام کرے گا "

اس کے دوسرے آدمی نے اسے مشورہ دیا ۔۔۔

"اگر تجھے ایسا لگا تھا تو مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا.." وہ اس کے منہ پر زوردار طمانچہ مار کر بولا ۔۔۔

 اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح آریان شیر کو شوٹ کر کے قصہ ہی ختم کر دے، کیونکہ آریان شیر اس کے لئے سب سے بڑی پریشانی تھا..

ہمیشہ باس آریان شیر کو زیادہ قابل سمجھتا تھا اس پہ فوقیت دیتا تھا ۔۔۔

"ارے باس میں بھی تو دماغ رکھتا ہوں ."وہ اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا ۔۔۔

"اچھا، اتنی سمجھداری والی بات تو کب سے کرنے لگا، "وہ گن کی نال پہ پھونک مار کر بولا ۔۔۔۔

"باس ابھی تک جتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا وہ کیا تھے، تیرے دشمن، نا ۔۔۔۔

آیا بڑا فلسفہ جھاڑنے والا،

آخری الفاظ وہ دل میں بولا ۔۔۔

 "ایک سیاستدان کو مارنے کی سپاری ملی ہے یہ کام تجھ سے تو کروانے سے رہا " رچرڈ  اس کو گھور کر اسے دیکھتاہوا  کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا..

"کیوں غصہ کرتے ہیں باس، جس طرح باقیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے اسی طرح اس سیاستدان  کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیں گے نا، ٹینشن کیوں لیتے ہیں، سب آپ کی مرضی کے مطابق ہی ہوگا.."

"تم سے نہیں ہوگا یہ کام آریان شیر ہی کرے گا میرے لیے "

رچرڈ نے فیصلہ کن انداز میں کہا ۔۔۔۔

تو سامنے کھڑا فیاض جو کب سے اپنی جگہ بنانے کے لیے اسکی چاپلوسیاں کر رہا تھا دانت پیس کر رہ گیا ۔۔۔۔ 

رچرڈ باس کے وہاں سے اٹھ کر جاتے ہی فیاض نے کرسی کو زوردار ٹھوکر ماری۔۔۔کرسی الٹ کر دور جاگری ۔۔۔۔

 دوسرے آدمی نے اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی..

"مرضی کے مطابق، ہاں مرضی کے مطابق ہی ہونا چاہئے اب سب کچھ، اور اس بار میں خود میدان میں اتروں گا اور اس بار جیت میرے یعنی فیاض کے مقدر میں ہوگی اس آریان شیر کے نہیں ۔۔۔۔آج اس کو میرا سامنا کروں گا، بہت شاطر سمجھتا ہے نا خود کو، دیکھتے ہیں میرے سامنے کیسے اس کی چالاکی چلتی ہے.." اندر ہی اندر وہ کسی زبردست پلان کو ترتیب دیتے ہوئے شاطرانہ انداز میں بولا، آنکھوں میں مخصوص درندگی تھی..

🌙🌙🌙🌙

رمشاء بہت خوش تھی وہ شیردل کے بارے میں سوچ سوچ کے ہی گلنار ہورہی تھی۔۔

جبکہ شیرذمان  اور ہیر ،دونوں رمشاء کو خوش دیکھ کے خوش تھے۔۔

ہیر نے پیار بھری نظروں سے رمشاء کو دیکھا جو دھیرے دھیرے ان کے بیٹے کی زندگی بنتی جارہی تھی۔۔

"مما آج ڈنر میں میں بناؤں ؟"

رمشاء نے دھیمے لہجے میں ہیر سے کہا ۔۔۔

"بالکل کیوں نہیں بیٹا اگر تمہارا دل ہے تو ضرور بناؤ ہم بھی تو دیکھیں ہماری بہو کم بیٹی کیسا کھانا بناتی ہے۔۔

ہیر نے محبت سے رمشاء کا گال چھو کے کہا۔۔

"چلو شکر ہے کچھ اچھا کھانے کو ملے گا "شیر زمان نے مسکرا کر کہا تو اسکے ڈمپل ظاہر ہوئے ۔۔۔۔

"کیا میں نے کبھی آپ کو اچھا کھانا بنا کر نہیں کھلایا ؟"

ہیر منہ پھلا کر خفگی بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے تیکھے لہجے میں بولی ۔۔۔

"میری لٹل وائفی کے ہاتھ میں تو جادو ہے "

شیرذمان نے اسکے روٹھے ہوئے انداز کو دیکھ کر کہا ۔۔۔

"رہنے دیں ۔۔۔پہلی بار زبان سے جو بھی نکلتا ہے وہ سچ ہوتا ہے ۔۔۔۔

ان دونوں کی ہلکی پھلکی نوک جھوک جاری تھی ۔۔۔۔

"مما کیا بناؤں ڈنر میں ؟"

رمشاء نے صلح جو انداز میں کہا ۔۔۔تاکہ انکی بات زیادہ بڑھے نہیں ۔۔۔

"بیٹا جو مرضی بنا لو "ہیر نے اسے پیار سے کہا تو ۔۔۔

"جی ٹھیک مما "

رمشاء خوش ہوکر بولتے ہوئے کچن کی طرف چل دی۔۔

کچن میں آکر اسنے سامان چیک کیا جو جو منگوانا تھا اسکی لسٹ بنا کر اسنے ہیلپر  کو دی سامان لانے کیلئے پھر خود باقی کام کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔۔

کچھ گھنٹوں کی مسلسل محنت کے بعد رمشاء نے بریانی  کے ساتھ شامی کباب بنائے ،سالن میں نرگسی کوفتے،

چائنیز رائس ،کے ساتھ منچورین بھی بنالیا ۔۔۔

میٹھے میں اسنے فروٹ ٹرائفل بنایا اور سلاد رائتہ بھی تیار کرکے وہ وہ کاؤنٹر ٹیبل پر رکھ دیا تھا ۔۔۔

اب وہ روٹیاں بناکر ہاٹ پاٹ میں رکھنے لگی ۔۔۔۔

سب جب ڈائیننگ ٹیبل پر آئے تو کھانے کے لوازمات دیکھ کے تھوڑا حیران رہ گئے۔۔

"آج یہ دعوت کس سلسلے میں ؟ذخرف نے حیرانگی سے سب لوزامات دیکھتے ہوئے پوچھا  ۔۔

شیردل جو ابھی واپس آیا تھا رمشاء کو اپنے مشترکہ کمرے کے میں نا پایا تو واپس الٹے قدموں نیچے آیا ۔۔۔

اور ارد گرد نگاہیں دوڑائیں اسے ڈھونڈھنے کے لیے ۔

"بھائی آپکی نظروں کو جسکی تلاش ہے وہ کچن میں ملیں گی ...زخرف کا اسے دیکھ شرارتی موڈ آن ہو چکا تھا۔۔۔

"میں ابھی پانی پی کر آیا "

وہ ہیر اور شیر زمان سے نظریں چرائے سادہ انداز میں کہتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

وہ پانی پینے کے بہانے کچن میں گیا جہاں رمشاء جگ میں پانی بھر کر ٹرے میں رکھ رہی تھی اب گلاس بھی رکھنے لگی۔

شیردل نے اسکے ٹرے میں سے جب اٹھا کر ایک گلاس میں پانی ڈال کے پینے لگا جبکہ نظریں رمشاء پر مرکوز تھیں۔۔

وہ سر جھکائے کھڑی تھی مگر شیردل کی نظروں کا ارتکاز خود پہ بخوبی محسوس کر رہی تھی۔

اسکے پسندیدہ ڈارک بلیو اور یلو امتزاج کے لانگ فراک اور چوڑی دار پاجامہ میں ملبوس وہ تھکی ہوئی لگی ۔۔

اسکی پیشانی پہ پسینے کی بوندیں نمایاں تھیں ،سفید گال کچن میں کام کرنے سے حرارت کی وجہ سے سرخی مائل دکھائی دے رہے تھے۔۔۔

شیردل کا دل کیا کے ہاتھ بڑھا اسکی عرق آلود پیشانی کو صاف کرے۔۔۔مگر کچن میں ملازمین کی موجودگی دیکھ کر خاموش رہا ۔۔۔

پھر اسکے ساتھ چلتے ہوئے باہر آیا ۔۔۔۔

"آؤ شیر دل ہمارے ساتھ کھانا کھالو ۔۔۔۔ہماری بہو نے پہلی بار کھانا بنایا ہے "ہیر نے محبت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔

",نہیں مام ابھی بھوک نہیں "

سب لوگوں نے کھانا شروع کیا تو سبھی گھر والے کھانے کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے سبھی کھانے ایک سے بڑھ کر ایک ذائقے دار تھے 

"مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے۔۔

شیردل نے بات کا آغاز کیا تو سبھی اسکی طرف متوجہ ہوگئے بس رمشاء نے اسے نہیں دیکھا۔۔کیونکہ وہ شیردل کے یہاں بیٹھ کر کھانا نا کھانے کی وجہ سے ناراض ہوگئی تھی ۔۔۔۔

"ہمممم بتاؤ ۔۔

شیرذمان  نے اسے بولنے کا کہا۔۔

 "میں ایک ہفتے کیلئے آؤٹ آف کنٹری جا رہا ہوں  مجھے کام ہے۔

"بھائی آپ کہیں رمشاء کو ہنی مون پہ تو نہیں لے کر جارہے ؟؟؟زخرف چہک کر بولی ۔۔

"نہیں ۔۔۔میں وہاں کام سے جارہا ہوں گھومنے نہیں۔۔۔

اور ویسے بھی کچھ پتا نہیں مجھے وہاں کچھ زیادہ دن بھی لگ سکتے ہیں۔

شیردل نے بات کرتے ہوئے کن آنکھیوں سے رمشاء کو دیکھا جس کے چہرے پر ایک سایہ سا آکر گزر گیا تھا۔۔

جو چہرا اسے کھانا بناتے وقت اتنی تھکن کے باوجود بھی کھلا ہوا لگ رہا تھا وہ ایک دم مرجھا گیا تھا۔۔

شیردل کو اسکے محسوسات کا احساس ہوا ۔۔۔مگر وہ سب کے سامنے اسکی چارہ جوئی نہیں کرسکتا تھا ۔۔۔

"شیردل ایسے جانا مناسب نہیں اپنی نئی نویلی دلہن کو اکیلے چھوڑ کر ۔۔۔۔

ہیر نے رمشاء کا بجھا چہرہ دیکھ کر شیردل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

"مام شادی کو ایک ماہ ہوگیا ہے ۔۔۔اب اتنی بھی نئی شادی نہیں ۔۔۔ میرا جانا ضروری ہے۔۔واپس آکر ہنی مون ٹرپ پلان کریں گے ۔۔۔سو ڈونٹ وری ۔۔۔

وہ کہتے ہوئے اٹھ کر روم میں چلا گیا ۔۔۔

اسے پتہ تھا وہ جاننے کے لیے ضرور کمرے میں اسکے پیچھے  آئے گی کہ وہ کہاں جا رہا ہے ۔۔۔اسی لیے مطمئن تھا ۔۔۔۔

اس ایک ماہ میں وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے تھے کہ بنا کہے ایک دوسرے کے دل کی بات سمجھ لیتے تھے ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"ہم گھر واپس جا رہے ہیں ہانیہ .. "

"امید ہے تم خاموش رہو گی ،جو ہوا اسے بھول جاؤ ،نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں ،"

 ہانیہ اس فارم ہاؤس میں سے نکل کر اسکی تقلید میں باہر آئی ۔۔اورسر اٹھاکر تاروں بھرے   سیاہ آسمان کو دیکھا پھر چاروں طرف پھیلی ویرانی میں نظریں گاڑدیں.. گاڑی کے داہنے سمت دیکھنے پر دور دور ویرانی تھی جبکہ بائیں جانب تھوڑے فاصلے پر ایک بڑی سی فیکٹری نما بلڈنگ کھڑی دکھائی دے رہی تھی جو روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی.. یہ فیکٹری انڈر کنسٹرکشن تھی جس وجہ سے اکا دکا مزدور اندر باہر کرتے ہوئے نظر آرہے تھے.. کچھ مزدور اور ایمپلائز اپنی ڈیوٹی ختم کرکےگھر جانے کی تیاری کر رہے تھے.. 

اس نے اپنے ساتھ کھڑے اعیان کے موبائل کی چکمتی ہوئی سکرین پہ نظر ڈالی جہاں رات کے نو بج رہے تھے ..یہ پہلی مرتبہ تھا جب وہ گھر سے اتنا عرصہ باہر رہی،،، وہ جس کے رحم و کرم پر یہاں تھی ..وہ آج اس پہ ترس کھاتے ہوئے واپس لے جا رہا تھا ۔۔۔۔

کافی دیر سے بجتے فون کو اس نے جھنجھلا کر دیکھا، جنت کا فون تھا، اسکرین پر دکھتے سبز رنگ کے دائرے کو انگلی سے اوپر کی طرف کھسکایا اور موبائل کان سے لگا لیا..

"اعیان تم ابھی تک آئے نہیں ۔میں کب سے تم دونوں کا  انتظار کررہی ہوں ،تم نے تو کہا تھا کہ آج تمہاری واپسی ہے " جنت کی جھنجھلائی ہوئی پریشان کن آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی .

"مام مجھے معاف کر دینا ۔۔۔

"آئی لو یو سو مچ ",

وہ دل میں بولا ۔۔۔

نجانے کیوں اس نے وہ الفاظ دل میں ادا کیے ۔۔۔۔شاید اسکے دل کو کسی انہونی کا احساس ہوچکا تھا ۔۔۔

"اب کچھ بولوگے بھی اعیان  ..؟" دوسری طرف سے جنت نے ٹوکا..

"مام ..میں بس آرہا ہوں "

اعیان جلدی آجاؤ نجانے کیوں صبح سے میرا دل پریشان ہے ، ٹائم دیکھا کتنا زیادہ ہو گیا ہے، مجھے تمہارے ساتھ ہانیہ کی بھی فکر ہے جلدی آو .."اپنا اور اسکا خیال رکھنا وہ تمہاری ذمہ داری ہے بیٹا .."

انہوں نے تاکید کی 

"جی مام !....."

فون رکھ کر جب وہ گاڑی کی طرف مڑا تو ہانیہ کو گاڑی کے ساتھ لگے کھڑا پایا ..

"مجھے جتنی گالیاں دینے کا دل کر رہا ہے اچھی طرح دے لو آج ،یہیں سب ختم کر کہ جانا گھر اپنے دل سے سارے گلے شکوے دور کر دو .." گاڑی کا دروازہ اس کے لیے کھولا تو ہانیہ خاموشی سے اندر بیٹھ گئی ۔۔۔

"چلق گاڑی میں بیٹھ کر، باقی باتیں راستے میں کرتے ہیں.." ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ اندر بیٹھ گیا ۔۔۔

 اس کی کہی گئی بات ہانیہ کےذہن میں گونج رہی تھی ..

اعیان نے گاڑی سٹارٹ کی اور زن سے آگے بڑھا دی ..

"ہانیہ تم میرے ساتھ نئی شروعات کرو گی نا .." گاڑی میں پھیلی خاموشی کو اعیان  نے ہی توڑا کیونکہ ہانیہ کے لبوں پہ تو قفل لگ چکے تھے ۔۔..

"مجھ سے نہیں جی جائے گی یہ دوغلی زندگی ،میرے دل میں تمہارے لیے کچھ نہیں بچا اعیان " سوچ سوچ کر دھیمے انداز میں بولتے ہوئے ڈرائیونگ کرتے اعیان  کو دیکھا جو ونڈ اسکرین پر نظریں جمائے بہت سکون سے اس کی بات سن رہا تھا، چہرے کی سرد مہری خلافِ معمول آج غائب تھی..

"میں شاید نہیں  سمجھ سکتا  لیکن کبھی کبھی سیچویشن ایسی ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے بہتر مستقبل کے لیے بیتی باتوں کو بھلا دینا پڑتا ہے ۔۔۔۔ایک بار سب بھلا کر تو دیکھو یقین جانو سب ٹھیک ہو جائے گا  دھیمی آواز میں بولتا وہ اسے یقین دلا رہا تھا..

"مجھے تم پہ تمہاری کسی بھی بات پر بھی بھروسہ نہیں ہے.." اس کی بات پر اعیان  نے ونڈ اسکرین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا جس نے بظاہر عام سے لہجے میں بہت بڑی بات کہہ دی تھی..

"گھر میں کسی کو مت بتانا وہ سب جو ہمارے درمیان ہوا اس میں ہم دونوں کی بیعزتی ہے .." ذہن میں کوئی بات ترتیب دیتا وہ پرسوچ انداز میں بولا..

"اور جو بیعزتی تم نے میری کی شادی کی پہلی رات ڈاکٹر کے پاس لے جاکر ..کیا میری بیعزتی نہیں ہوئی اسکے سامنے میں تو خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی" وہ تلخ انداز میں بولی .

"تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہاری باتوں میں آکر وہ سب بھول جاؤں ۔۔۔کیا سب بھول جانا اتنا آسان ہے ..؟" 

 اس کا لہجہ کڑوا تھا..

گاڑی میں دوبارہ سے وہی خاموشی چھا گئی جو ان دونوں کے بیچ ہمیشہ ہوتی تھی، اس نے گردن موڑ کر اعیان کو دیکھا جو ہونٹ بھینچے ونڈ اسکرین پر نظریں جمائے ڈرائیونگ کر رہا تھا, ہمیشہ کی طرح وائٹ شرٹ اورسیاہ پینٹ میں ملبوس، آستین کہنیوں تک چڑھائے، کھڑکی سے آتی ہوا سے پیچھے کی طرف سیٹ کئے گئے بال اب بکھر کر پیشانی اور آنکھوں پر گرے ہوئے تھے، گلابی ہونٹ اس بات کی گواہی تھے کہ وہ کسی بھی طرح کے نشے کا عادی نہیں ہے..

"بتاؤ تمہیں اپنے کیے کا زرا بھی پچھتاؤا نہیں ..؟"

اس کے سوال پر اعیان  نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر دوبارہ نظریں اپنے سامنے گزرتے منظروں میں گاڑھ دیں..

"تمہیں کیا لگتا ہے .." 

اس کے مختصر جواب پر ہانیہ  نے ناسمجھی سے اسے دیکھا جو اس کی طرف متوجہ نہیں تھا..

"مجھے کیسے پتہ ہوگا ..؟"

"میرے انداز و اطوار سے کیا لگتا تمہیں .." وہی سرد انداز جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھا..

"مجھے کوئی ابہام کا علم نہیں..؟"

 اس نے ہونٹ بھینچ کر خود کو مزید بولنے سے روکا..

 وہ دونوں ہی اپنی اپنی سوچ  میں کھوئے ہوئے تھے اس بات سے بے خبر کہ ایک گاڑی کافی دیر سے ان کی گاڑی کے پیچھے ہے..

"آئی ایم سوری ہانیہ.." اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتا پیچھے موجود گاڑی نے ان کی گاڑی کو ایک زوردار ٹکر دی جس سے ہانیہ کا سر ڈیش بورڈ سے جا ٹکرایا..

"ہانیہ تم ٹھیک ہو..نا " وہ پریشانی سے اس کی طرف مڑا.. ایک نظر بیک ویو مرر سے پیچھے آتی گاڑی کو دیکھا پھر سر جھٹک کر گاڑی کی اسپیڈ تیز کر دی.. لیکن کچھ دور جاکر اسے احساس ہوا کہ انہیں ٹریپ کر لیا گیا ہے کیونکہ ایک گاڑی ٹھیک ان کے سامنے بیچ روڈ پر ایسے کھڑی تھی کہ ان کے نکلنے کا راستہ بلاک ہو گیا تھا..

"یہ کون لوگ ہیں اعیان ..؟" ہانیہ نے ڈرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا جس کے ہونٹ سختی سے آپس میں پیوست تھے جبکہ چہرے پر پریشانی کی جھلک نمایاں تھی .

"میں نہیں جانتا ہوں یہ کون لوگ ہیں.." غصے سے اس کے ہاتھ کی رگیں تن گئی تھیں..کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو انہیں یوں روک رہے تھے ۔۔۔

" باہر نکل آؤ، تم پوری طرح سے ہمارے جال میں پھنس چکے ہو.." ایک کرخت آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی جو سامنے والی گاڑی سے آرہی تھی..

"یہ آپ کو جانتے ہیں.." اس نے حیرانی سے اسے دیکھا..

"مجھے نہیں پتہ .." اس کی نظریں سامنے کھڑی گاڑی پر جمی ہوئی تھیں..

"اب ہم کیا کریں گے؟؟.." وہ ڈرتے ہوئے بولی..

"تم انکی بات سن رہی ہو نا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ہمیں ویسا ہی کرنا پڑے گا کیونکہ فی الحال ہم نہتے ہیں .." ہانیہ  نے فق نگاہوں سے اسے دیکھا..

"تم پاگل تو نہیں ہو گئے، ہم غنڈوں کی بات کیوں مان کر گاڑی سے باہر نکلیں ؟.."

"باہر نکل آؤ دونوں .." دوبارہ وہی آواز سنائی دی..

 وہ دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ اس نے جھپٹ کر اعیان کو بازو سے  پکڑ لیا..

"نہیں تم باہر نہیں جاؤ ، وہ غنڈے ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں..." وہ ڈرتے ڈرتے بولی..

جیسا بھی تھا وہ اس کا شوہر تھا ۔۔۔جسے فی الوقت وہ ماننے سے انکاری تھی ۔۔۔شوہر کے علاؤہ وہ اس کا کزن بھی تھا ۔بچپن ان دونوں نے ساتھ گزارا تھا ،شوہر کی محبت دل میں نا رہی ہو مگر کزن کی حیثیت سے انسیت تو تھی نا ۔۔۔وہ کیسے اسے خود موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھ سکتی تھی ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ اعیان اسے کچھ کہتا کسی شخص نے دوسری طرف سے گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے بےدردی سے پکڑ کر باہر کھینچا..

"چل ادھر.." وہ ایک بدصورت اور سیاہ  سا آدمی تھا جو اندھیرے کی وجہ سے اور بھی زیادہ سیاہ لگ رہا تھا..

"اے!  چھوڑ..اسے " اعیان غصے سے اس کی طرف بڑھنے ہی لگا تھا کہ تین آدمی اسے مضبوطی سے پکڑ کر واپس گاڑی کی طرف لے جانے لگے..

"چھوڑو مجھے.. اعیان !!!!!!.." روتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ اس مضبوط آدمی کی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی..

"میں کہہ رہا ہوں میری بیوی ہے وہ ۔۔۔ چھوڑ دو اسے ۔۔۔تم جو کہوگے میں وہ دینے کو تیار ہوں.."

".. کیا ہوا ساری اکڑ باہر نکل گئی کیا..؟؟؟؟

چل پیسے نکال سارے " وہ آدمی کینہ توز نظروں سے اعیان کو گھورتا ہوا بالکل اس کے سامنے جا کھڑا ہوا..

"لڑکی کو گاڑی میں ڈال آج رات رنگین کریں گے .." اپنے لیڈر کا حکم سن کر وہ آدمی جس نے ہانیہ کو پکڑ رکھا تھا اسے کھینچتا ہوا گاڑی کی طرف لے جانے لگا..

"اعیان .. مجھے بچا لو ۔۔۔۔

"نہیں پلیز.. مجھے جانے دو.. چھوڑو میرا ہاتھ.." ہانیہ ،،،اعیان سے کہتی ہوئی  احتجاج کرتی چیخے جا رہی تھی..

"اسے ہاتھ بھی لگایا نا تو تم سب کی جان لے لوں گا .." اتنا کہہ کر اعیان نے پوری قوت سے اپنا دایاں پاؤں اس کے پیٹ میں مار دیا, حملہ اتنا اچانک ہوا تھا کہ اس آدمی کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا اور وہ چھٹک کر دور جا گرا..

وقت ضائع کئے بنا اعیان  نے اپنے داہنے طرف موجود بندے کے پیٹ میں زوردار کوہنی مار کر اپنا بازو اس سے آزاد کرایا اور جھک کر پاس پڑا ڈنڈا پھرتی سے اٹھا لیا.. اب وہ تھا اور اس کے ہاتھ میں موجود ڈنڈا، جو بھی اس کے راستے میں آتا اسے توڑ کر رکھ دیتا.. اتنے میں زمین پر گرے ہوئے ان کے لیڈر  نے اپنے پینٹ کی جیب سے گن نکال کر اعیان کا نشانہ لیا اور شوٹ کر دیا..

"اعیان .!"ہانیہ کی دلخراش چیخ پوری فضا میں گونج اٹھی..

تیزی سے لیڈر کے چمچوں کو مارتے ہوئے  اعیان  کا ہاتھ لمحے بھر کو رکا، پھر وہ لڑکھڑایا، ڈنڈا چھوٹ کر زمین پر گر گیا، اس نے سر جھکا کر اپنے آپ کو دیکھا شرٹ پر پھیلتا ہوا خون جو تیزی سے بہتا ہوا اب  سینے سے نیچے کی طرف آرہا تھا..

" اب بول، کس نے کس کی جان لی ؟؟؟.." وہ خباثت سے ہنسا۔۔۔اور تمسخرانہ انداذ سے بولا ۔۔۔

اعیان نے نظروں کا زاویہ بدل کر کچھ فاصلے پر موجود کھڑی ہوئی ہانیہ کو دیکھا جو آنسوؤں سے تر بتر چہرہ لئے ساکت نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی، اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس کا سارا وجود بھی ساکت و جامد تھا..اس نے لمحے بھر کو آنکھیں بند کیں..

"ہانیہ تمہاری ذمہ داری ہے اعیان .." کچھ دیر پہلے بولا گیا جنت  کا جملہ اس کے ذہن میں گونجا، اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں..

"اب کیسے بچائے گا تو اپنی بیوی کو.." خباثت سے کہہ کر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا..

اعیان  نے جبڑا بھینچ کر غصے سے اس کے گن  والے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں مضبوطی سے لے کر جھٹکا دیا جس سے گن  پر اس کی گرفت ڈھیلی ہو گئی، پھر ایک زوردار دھکے سے اسے زمین پر گرا کر اس کے ہاتھ سے گن جھپٹ لی، پھر اپنا بایاں گھٹنا اس کی پسلی کی ہڈی میں اتنی زور سے مارا کہ کراہ کر زمین پر دہرا ہونے لگا..

"چھوڑ دو اسے ورنہ تمہارا بھی یہی حشر ہوگا.." ہاتھ میں پکڑی بندوق سے ایک فائر کیا جو ہانیہ کو پکڑے آدمی کے پیٹ میں لگا.. وہ کراہتا ہوا زمین پر گر گیا اور ہانیہ اپنا ہاتھ آزاد ہونے پر تیزی سے  اعیان کی طرف بھاگی..جو خون سے لت پت ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔

"تم .. آپ ٹھیک ہو نا.." خون سے داغدار ہوتی اس کی شرٹ کو اس نے سہم کر دیکھا..

"ہانیہ مجھے معاف کر دینا پلیز ." ..

"ہانیہ م۔۔۔میں س۔۔۔سچے د۔۔۔د ل سے تم سے م۔۔۔م ۔۔عافی مانگت۔۔۔تا ہو۔۔۔ں۔۔۔

وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بمشکل بولا ۔۔۔۔

"مجھے معاف ۔۔۔۔

",اعیان اٹھو ۔۔۔ہم ہسپتال چلتے ہیں ۔۔۔تم ٹھیک ہوجاو گے ۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا تمہیں ۔۔۔۔

وہ مدد کے لیے کبھی ادھر ادھر دیکھتی تو کبھی زخمی اعیان کو ۔۔۔۔

وہ سب غنڈے ابدی نیند سو چکے تھے ۔۔۔۔

اعیان زندگی اور موت کی کشمکش  میں جھول رہا تھا ۔۔۔۔

"اعیان اٹھو "وہ اسکی بند ہوتی آنکھوں کو سیکھ کر اس کی شرٹ کو جھنجھوڑتی ہوئی چلائی ۔۔۔۔

"مجھے معاف !!!!

اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

"میں نے تمہیں معاف کیا اعیان ۔۔۔۔۔وہ کرب زدہ آواز میں روتے ہوئے تڑپ کر بولی۔۔۔۔

اعیان کی آنکھ سے پچھتاوے کا آنسو نکل کر اسکے گال پہ پھسل گیا ۔۔۔۔

"لاالہ الااللہ محمد رسول اللّٰہ"

یہ آخری کلمات تھے جو اسکے پھڑپھڑاتے ہوئے لبوں سے نکلے ۔۔۔۔

ساتھ ہی اسکی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوگئیں ۔۔۔۔

ہانیہ اس کے جامد وجود پہ سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔۔۔

وقت وہیں تھم سا گیا ۔۔۔۔

ہانیہ کے سارے گلے شکوے اعیان کی زندگی کے ختم ہوتے ساتھ ہی ختم ہوگئے ۔۔۔

رات کی تاریکی میں وہ اس سنسان جگہ پر دھاڑیں مارتے ہوئے رو رہی تھی ۔۔۔۔

اس ایک ماہ میں اس نے کیا کیا نہیں دیکھا تھا۔۔۔ اسکی زندگی شروع ہونے سے پہلے آج ختم ہوگئی تھی ۔۔۔۔

یہ لو رمشاء "

رمشاء جو کمرے میں جانے کے لیے پر تول رہی تھی ۔ہیر کی آواز سن کر وہیں رک گئی ۔۔۔

"جی مما " ۔۔

"ادھر آؤ میرے پاس "

رمشاء چلتے ہوئے ہیر کے پاس آئی۔۔۔ 

ہیر نے باکس سے دو جڑاؤ  کنگن نکالے اور رمشاء کو پہنانے لگی۔۔

"یہ کس لئے مما ؟۔۔ رمشاء نے ان خوبصورت کنگنوں کو دیکھ کے چونک گئی۔۔تو پوچھا 

بیٹا تمہاری شادی اچانک ہوئی اور پھر خیر سے تمہارے شوہر نامدار تمہیں بغیر رخصتی کروائے غائب ہوگئے تو کوئی  رسم  ہوئی ہی نہیں تھی اسی لئے۔۔ہیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

ہیر نے پیار سے رمشاءکو کنگن پہنائے ۔۔۔

"تم نے پہلے بار کھانا بنایا ہے تو اسی لیے یہ کنگن دئیے ۔۔۔

"مما مجھے بھی کیا کنگن لینے کے لیے رمشا کی طرح اتنی محنت کر کہ کھانا بنانا پڑے گا ۔۔۔۔وہ بیچارگی سے بولی ۔۔۔

"نہیں بھئی ہماری اس بیٹی کو بالکل بھی کھانا بنانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ابھی آپ پہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے ،آپ پڑھائی پہ توجہ دیں ۔۔۔

کھانا بنائیں یا نا بنائیں ان کنگنوں پہ آپ کا اتنا ہی حق ہے ۔۔۔"

آؤ زخرف تم بھی میرے پاس "

ہیر نے کہتے ہوئے اسے بھی اپنے پاس بلا کر اسکے ہاتھوں میں بھی دو کنگن پہنائے ۔۔۔

ہیر نے اپنی تینوں بیٹوں کی دلہنوں کے لیے ایک جیسے چھ کنگن بنوائے تھے ۔۔۔۔

"مما یہ باقی دو آریان بھائی کی وائف کے لیے ؟؟؟

زخرف نے پوچھا ۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔ہیر نے آہستگی سے کہا اسکی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے ۔۔۔۔آریان شیر کو یاد کرتے ہوئے۔۔۔۔

رمشاء کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی ہیر کے پیار بھرے انداز کو دیکھ کر جسے وہ چھپا گئی ۔۔۔مگر  دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کر رہی تھی اتنے محبت کرنے والے رشتے دینے کیلئے۔۔۔

رمشاء نے دروازہ کھولا تو شیردل نک سک تیار ہو کر شیشے کے سامنے کھڑا اپنی تیاری کو جانچتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

رمشاء کو اندر آتے دیکھ وہ واپس اپنی نظریں شیشے میں خود پہ مرکوز کر چکا تھا ۔۔۔

وہ خلاف معمول آج اپنے تھری پیس ڈارک بلیوسوٹ کی بجائے بلیک جینز اور شرٹ کے اوپر لیدر جیکٹ پہنے ہوئے تھا ۔۔۔آج وہ بالکل مختلف دکھائی دے رہا تھا "وہ اس دلکش و وجیہ شخص کو سرتا پا محویت سے دیکھنے لگی ۔۔۔

"مجھے دیکھنے آئی تھی "؟

بغیر اسکی طرف دیکھے شیردل شرارت سے بولا۔۔

"مجھے آپ سے بات کرنی تھی ۔۔۔"

رمشاء لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔۔

شیردل اپنی جیکٹ کو سیٹ کرتا ہوا اس کی طرف بڑھا جو کہ دروازے پر کھڑی تھی۔۔

"میں کیا کوئی جن بھوت ہوں جو قریب آنے کی بجائے دروازے سے چپک گئی ہو "

رمشاء کو دروازے پر ہی جما دیکھ کے شیردل مسکرا کے بولا۔۔

رمشاء بس شیردل کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے لگی ۔۔۔

شیردل نے اسے کھویا ہوا دیکھا تو رمشاء کو کندھوں سے تھام کر تھوڑا آگے کیا اور دروازہ بند کر کے رمشاء کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔۔

میں جانتا ہوں میں بہت ہینڈسم ہوں مگر تمہارا ہی شوہر ہوں اب اس طرح تو مت دیکھو کہ کہیں جا ہی نا پاؤں "

شرارتی مسکراہٹ لئے اب وہ رمشاء  کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا جو اب گھبرا رہی تھی ۔۔۔۔

رمشاء نے پیچھے دیکھا تو شیردل دروازہ بند کر چکا تھا ۔۔۔

رمشاء نے ہمت مجتمع کر کے شیردل کے سامنے اسنے بولنا شروع کیا

"آپ اس ویڈیو کے لیے جا رہے ہیں نا "

"اگر آپکو میری وجہ سے کچھ ہوا تو میں خود کبھی معاف نہیں کر۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ جملہ مکمل کرتی۔۔۔شیردل نے اس کی کلائی سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا ۔۔۔

جس میں دو کنگن تھے ۔۔۔۔

" یہ کنگن مجھے مما نے دئیے ہیں ۔۔۔

شیردل  نے گہری نظروں سے رمشاء کو دیکھا پھر کنگن کو

دوسرے ہاتھ سے رمشاء کا چہرا تھوڑی سے پکڑ کے اوپر کیا تو رمشاء کا چہرا ضبط سے سرخی مائل دکھائی دے رہا تھا۔

اپنے لبوں کو باہم پیوست کیے وہ اپنے احساسات چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔

"تمہاری عزت باقی رہے اسکے صدقے میری جان بھی چلی جائے تو کوئی غم نہیں "

وہ جذبات سے لبریز انداز میں کہتے ہوئے اپنے لمس سے اسکی عرق آلود پیشانی کو مہکا گیا ۔۔۔

"اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر انہیں اپنے لمس سے روشناس کرانے لگا ۔۔۔

 رمشاء نے اسکی شدت بھرے لمس پہ اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔۔

"میں آپ کا شکریہ ادا۔۔۔۔

وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولی۔۔۔

رمشاء کو اپنے حصار میں لے کر شیردل نے اپنا منہ اسکے بالوں میں چھپا لیا ۔

"مجھے تمہارا شکریہ نہیں  چاہئے اگر کچھ دینا چاہتی ہو تو اپنی محبت بھرے الفاظ کے چند سکے میری جھولی میں ڈال دو ،،، گر ،،،

میں مر بھی جاؤں تو 

وہ الفاظ میرے لیے میری زندگی بن جائیں "

بول کر شیردل  نے رمشاء کو خود سے دور کیا تو رمشاء نے ناراض نظروں سے اس کو دیکھا۔۔۔

شیردل سمجھ گیا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے کیونکہ اس نے رمشاء کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا نہیں کھایا تھا۔۔

ایک بات بولوں مانو گی۔۔

شیردل نے اب اسکے بالوں کی کو کان کے پیچھے اڑس دیا  جو اسکے گالوں پہ اٹھکیلیاں کر رہے تھے ۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔

"پریشان ہونا چھوڑ دو ۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا ۔اپنا خیال رکھنا ۔جلد واپس آؤں گا ۔۔۔

وہ تو یہاں کسی اور مقصد سے آئی تھی مگر شیردل کی قربت پر تو اس کے لب ہی سل گئے تھے۔

"مجھے خالی پیٹ بھیجنے کا ارادہ ہے ۔۔۔؟

یا اپنے ان مخملیں ہاتھوں سے بنا کچھ کھلانا پسند کریں گی ؟؟؟ 

شیردل نے شوخ نظروں سے رمشاء کو دیکھ کے کہا۔۔

"مگر باہر تو آپ نے کہا تھا کہ آپکو بھوک نہیں ۔۔ 

وہ حیرت سے بولی ۔

"آج میری اینجل نے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا تھا تو سوچا اسکے ہاتھوں سے اکیلے میں کھایا جائے '"

 اسکی نظریں اسے بہت کچھ کہہ رہی تھیں مگر وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔رمشاء نظریں چرانے لگی ۔۔۔۔

"م۔۔میں ۔۔ابھی لائی ۔۔۔وہ سرعت سے اسکے پاس سے نکل کر دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔اس کی پھرتیاں دیکھ  کے شیردل کے چہرے پر تبسم پھیل گیا۔۔

آج لکی اور ماھی کی زندگی میں بھی وہ دن آیا جب انکی پہلی اولاد اس دنیا میں آنے لگی۔۔

لکی روم کے باہر کھڑا اپنی ماھی اور اپنے ہونے والے بچے کیلئے دل ہی دل میں دعائیں کر رہا تھا۔۔

پچھلے 4 گھنٹوں سے وہ اندر روم میں تھی اور اب تک کوئی خبر نہیں آئی تھی۔۔۔

لکی کے ساتھ اس وقت اس کے قبیلے کے تمام لوگ بھی تھے جو باہر کھڑے اسکے بچے کے لیے دعا گو تھے ۔۔۔

لکی کی مدر باہر آئیں تو وہ انکی طرف بڑھا ۔۔ مام  میری ماھی ٹھیک ہیں نا۔۔ ایک انجانا ڈر تھا لکی کے دل میں جسے وہ نہ کسی کو بتا پارہا تھا نہ چھپا پارہا تھا۔۔

" مبارک ہو تمہارا بیٹا آگیا ہے ،ہم سب کا مسیحا ۔۔۔۔

سب لوگ یہ سنتے ہی خوش ہوگئے مگر لکی کے چہرے پر اب بھی پریشانی تھی۔۔

مام میں نے آپ سے ماھی کا پوچھا ہے وہ ٹھیک ہے نہ۔۔

"لکی ۔۔۔وہ ماھی ۔۔۔۔

وہ بولتی ہوئی رکیں تو لکی کو ایسا لگا جیسے اسکا سانس بند ہونے لگا ہے۔۔

"وہ  کیا۔۔مام ۔۔۔۔ لکی کی آواز کافی بوکھلائی ہوئی اور  طیش بھری تھی۔۔

"اپنے بیٹے کو پیدا کیے وہ بیہوش ہوگئی ہے ۔۔۔بہت کمزور ہے ،،،مگر وہ جلد ہی ٹھیک ہوجائے گی۔۔

"ماھی کہاں ہے مجھے اس سے ملنا ہے۔۔لکی نے ضبط سے کہا اور آواز بھی تھوڑی نیچی رکھی،اپنی مام کے ادب کا خیال کیے مگر اسکے لہجے میں سختی تھی جسے وہ کنٹرول نہیں کر پارہا تھا۔۔

لکی کمرے میں آیا تو اس کی والدہ  نے اس کے بیٹے کو اس کے ہاتھوں میں تھما دیا ۔۔۔

لکی نے اس ننھی سی جان کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پیار کیا تو دیکھا اسکا بیٹا اسے ہی دیکھ رہا ہے۔۔وہ بالکل لکی کی ڈکٹو کاپی تھا ،مگر کچھ نقوش ماھی سے چرائے تھے ،گولڈن شیڈڈ آنکھیں بالکل 

لکی کی طرح ،جبکہ ناک بالکل ماھی جیسی تھی ۔۔۔

اسی پل لکی کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کے گرا تو دوسری طرف ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔۔اور دھیرے سے اس ننھے سے وجود کی ناک کو چھو لیا ۔۔۔

اسے واپس بستر پہ لیٹا کر لکی  ماھی کی طرف آیا ۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہوسکتا luck's luck کو کچھ نہیں ہوگا تم  میری خوش قسمتی ہو میری میں زندگی میں صبح کا اجالہ بن کر آئی ہو ۔۔۔ میری محبت ہو تم  میری زندگی ہو تم ،جب رک میری سانسیں چلیں گی تمہاری بھی چلیں گی ۔۔۔۔تمہیں کچھ بھی نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔

لکی منہ میں آہستگی سے بڑبڑاتے ہوئے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا ہوگیا اور یک ٹک اسے دیکھنے لگا۔۔۔ پچھلے کئی گھنٹوں سے وہ باہر کھڑا تھا ایک لمحے کے لیے بھی بیٹھا نہیں مگر ابھی بھی بیٹھنا نہیں چاہتا تھا بس یونہی کھڑا ماھی کو دیکھنا چاہتا تھا۔۔جب تک کہ وہ آنکھیں کھول کر اسے اپنی تندرستی کی نوید نا سنا دے ۔۔۔۔

وہ دیوانہ وار اسے دیکھنا لگا ۔۔۔

مبارک ہو میرے لکی ۔۔۔۔تمہارا ساتھ دینے والا تمہارا بیٹا آگیا ہے۔۔۔۔اسعد نے لکی کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو لکی اپنے ڈیڈ کے مابارکباد دینے پہ  ہلکے سے مسکرا دیا کیونکہ سامنے اسکی مام کھڑی تھی جو کہ مسلسل لکی کے بجھے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔

کیا ہوگیا ہے لکی کیوں پریشان ہو  ۔۔ اس کی والدہ  نے اسکی پھیکی سی مسکراہٹ دیکھ کے پوچھا ۔

کچھ نہیں بس ماھی سے مل لو ایک بار ۔۔ لکی نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔۔

فکر مت کرو لکی ،ماھی کو کچھ نہیں ہوگا ۔۔

انہوں  نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو لکی نے دیکھا اسکے والد  وہاں دکھائی نہیں دئیے ۔۔۔لکی نے انہیں دروازے سے باہر جاتے ہوئے دیکھا ۔۔ان کے ساتھ لکی نے دیکھا کہ اس کا بیٹا چل کر جا رہا تھا ۔۔۔

لکی نے حیران نظروں سے اپنی مام کو دیکھا ۔۔۔۔

"کیا ہوا لکی ۔۔۔۔؟

"بھول گئے سب ؟؟؟

"اگر بچہ دو ہفتوں میں پیدا ہوسکتا ہے تو کیا دو گھنٹوں میں چل کر نہیں جا سکتا ؟؟؟

"تم نے بھی تو بالکل ایسا ہی کیا تھا ۔۔۔پھر یہ بھی تو تمہارا ہی بیٹا ہے ۔۔۔"

کیسی ہو تم ۔۔ ماھی کے پاس بیٹھتے ہوئے لکی نے تشویش بھرے انداز میں استفسار کیا۔

ٹھیک ہوں میں کہاں تھے آپ۔۔ ماھی نے مسکرا کے جواب دیا۔۔

"یہ لو اپنے بیٹے کو دیکھو "اسعد صاحب ان کے بیٹے کو انہیں دئیے ۔۔۔۔خود باہر نکل گئے ۔۔۔۔انکے پیچھے مسسز اسعد بھی باہر چلی گئی۔تاکہ وہ کچھ دیر اکیلے میں گزار سکیں ۔۔

"ماھی نے ہمارا بیٹا دیکھا۔۔ لکی نے اپنے بیٹے کے پیشانی پر اپنے لب رکھ کے کہا۔۔اور اسے ماھی کے سامنے کیا ۔۔۔۔

کہاں کسی نے دکھایا ہی نہیں ۔۔ ماھی نے اپنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔۔

"تم نے پہچانا نہیں یہ ہے ہمارا بیٹا "لکی نے اس تقریبا ڈیڑھ سالہ بچے کو اسکے سامنے کیا جو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔اور مسکرا کر ماھی کو دیکھ رہا تھا۔

ماھی نے اس بچے کو حیرت انگیز نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔

وہ سرخ و سفید رنگت کا گول مٹول سا بچہ اسکی آنکھیں بالکل لکی کی جیسی تھیں ۔

"مگر ۔۔۔۔وہ کہچھ کہنے کی کنڈیشن میں نہیں تھی ۔۔۔۔

اسکے لب باہم پیوست ہو گئے۔۔۔

"یہی ہمارا بیٹا ہے ،دیکھنا کچھ ہی دنوں میں یہ جوان ہوجائے گا ۔۔۔بالکل میری طرح "

ماھی ہونق بنی دیکھنے لگی ۔۔۔

"بیٹا یہ آپکی مما ہیں ملو ان سے "لکی نے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ بچہ ماھی کے ساتھ لپٹ گیا ۔۔۔۔

اس کے ساتھ لپٹتے ہی ماھی نے اسے اپنی بازوؤں میں سمیٹ لیا ۔۔۔جیسے اسے دنیا کے ہر سرد و گرم سے بچالینا چاہتی ہو ۔۔۔اتنی کم عمری ہونے کے باوجود بھی اس میں ممتا کا احساس بھر گیا ۔۔۔

اسے اپنے آغوش میں چھپائے وہ سکون محسوس کرنے لگی ۔۔۔

پھر اسکے چہرے پہ محبت بھرا بوسہ دیا تو گویا دل میں طمانیت بھر گئی ۔۔۔ دل کو ڈھیروں سکون ملا۔۔ اور ساتھ میں آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔۔

"کیا نام رکھیں اپنے بیٹے کا ؟؟

"جو آپکے مام ڈیڈ رکھیں گے ۔۔۔۔میں  چاہتی ہوں وہی اسکا نام رکھیں کیونکہ آپ کا نام بھی انہیں  نے رکھا تھا میں چاہتی ہوں میرا بیٹا بلکل آپ کے جیسا بنے اسی لئے اسکا نام بھی وہ ہی رکھیں گی۔۔

ماھی نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگایا ۔۔۔

"آپ کا حکم سر آنکھوں پر ۔۔ لکی ایک ہاتھ سے اپنے بیٹے کے گرد حصار بنایا اور دوسرا ماھی کے نازک وجود کے گرد لپیٹ کر اس کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

سمندر کی سطح غروب آفتاب  کی کرنوں سے چمک رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا لہروں سے کھیلتی کراچی میں داخل ہو رہی تھی۔ساحل سمندر کے قریب بڑی بڑی عمارتوں کے شیشے دھوپ سے منعکس ہو رہے تھے۔ ہوا میں خنکی نے سردی کو مزید بڑھا دیا تھا۔سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھی اور سب لوگ شام ہونے کے باعث اپنے گھر واپسی کے سفر پر رواں دواں تھے ۔۔۔ 

وہ دونوں کل شام چھ بجے یہاں پہنچے تھے۔پرل کانٹینٹل  ہوٹل میں پہلے سے ہی بکنگ کروا چکے تھے۔اس لیے ائیر پورٹ سے سیدھا وہیں آئے تھے۔سولہویں منزل پر انہیں ایک لگژری کمرہ دیا گیا تھا۔آج ہی ان دونوں نے کورٹ میرج کی تھی ،اور رچرڈ کا ایک اہم کام نپٹانے کے لیے وہاں آئے تھے ۔۔وہ دونوں اتنے تھکے ہوئے تھے کہ کمرے میں آتے  ہی سو گئے جب ان کی آنکھ کھلی تو شام کے سائے گہرے ہورہے تھے ۔۔

وہ دونوں یادگار وقت ساتھ گزارنے کے لیے سی ویو آگئے ۔۔۔

پری نے گول گھیردار  کرتی اور پٹیالہ شلوار ،پاوں میں کھسہ پہنے،بالوں کو ڈھیلا سا پکڑ کر کیچر لگایا گیا تھا ۔۔۔چہرہ کسی بھی میک اپ سے ممبرا تھا ،،،اس کے چہرے پہ بکھرے رنگ اسکے اندر کی خوشی کو بیان کر رہے تھے ،آج وہ بہت خوش تھی آریان شیر کا نام اسکے نام کے ساتھ جڑ چکاتھا ۔۔۔وہ اس کا ہوچکاتھا ۔۔۔

دوسری جانب آریان شیر جو جینز اور ٹی شرٹ پہنے،جینز کی پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے،گیلی ریت پہ اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہا تھا ۔۔۔۔

پری کو یہاں سے دور دور تک صرف سمندر نظر آ رہا تھا اور اسکا کا دل بری طرح کانپ رہا تھا اتنے گہرے پانی کو دیکھ کر ۔۔۔

وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دور تک نکل آئے ۔۔۔۔سمندر کی موجیں ماحول میں الگ سا سماں باندھ رہی تھی ۔

اچانک ایک تیز لہر اچھل کر ان کے قریب آئی تو پری نے سختی سے اپنے ساتھ کھڑے آریان شیر کا آہنی ہاتھ تھام لیا ۔۔۔۔

وہ  ساکن کھڑی تھی جیسے اگر ہلی تو پانی میں گر جائے گی۔ڈر کے مارے وہ آریان شیر کے شانے سے لگی ۔۔۔

"شیرو ....مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"وہ کانپتی آواز میں بولی۔کئی دنوں بعد اس نے آریان شیر کے سامنے اس کا نام لیا تھا۔اسے اچھا لگا تھا۔

"میں تو کچھ کیا بھی نہیں ،پھر ڈر کیوں ؟"آریان  نے شرارت سے کہا لیکن وہ اس کا دل پہلے ہی ڈر کی وجہ سے تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔اسکی ذومعنی انداز سے تو کپکپا کر رہ گئی۔۔۔

"میں پانی میں گر تو نہیں جاؤں گی نا ؟"اس نے خوفزدہ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا

"نہیں۔۔ایسا کیوں لگا تمہیں کہ میرے ہوتے ہوئے تمہیں کبھی کچھ ہوجائے گا "۔

"شیرو آپ کو سچ مچ مجھ سے پیار ہوگیا ؟"

وہ آنکھیں پٹپٹا کر بولی ۔۔۔

"کوئی شک "؟

وہ گھمبیر آواز میں بولا۔

"پھر اظہار کیوں نہیں کرتے ؟"

وہ شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔

"لفاظی ضروری ہے کیا ؟؟؟

وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔

"تم سے نکاح کرلیا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا میرے حلال عشق  کا "

وہ سینے پہ ہاتھ باندھے گردن ترچھی کیے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔

"سنو !!!!

وہ مدھم لہجے میں اسے پکارا تھا ۔۔۔

پری کا رواں رواں اسکی سماعت کا منتظر تھا ۔۔۔

مجھ سے نہیں ہوتا ،،،

دلیلیں دوں ۔

مثالیں دوں ،

میری آنکھوں میں دیکھو،،،ان میں  میری زندگی کا سب سے خوبصورت فیصلہ تمہاری صورت میں نظر آئے گا ۔۔۔

ہاں وہی عشق و محبت کی جلا ہوتی ہے 

جو عبادت در جاناں پہ ادا ہوتی ہے 

جو گرفتار محبت ہیں یہ ان سے پوچھو 

ناز کیا چیز ہے کیا چیز ادا ہوتی ہے 

ان کی نظروں کی حقیقت کو کوئی کیا جانے 

ان کی نظروں میں ہر اک غم کی دوا ہوتی ہے 

کیوں نہ چہرے پہ ملوں خاک در یار کو میں 

یہی وہ خاک ہے جو خاک شفا ہوتی ہے 

رائیگاں سجدے بھی ہو جاتے ہیں مقبول کرم 

شامل حال اگر ان کی رضا ہوتی ہے 

جانے کیا چیز چھپی ہے ترے جلووں میں صنم 

ساری دنیا تیرے جلووں پہ فدا ہوتی ہے 

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر کا طالب 

تیرے کوچے میں مریضوں کو شفا ہوتی ہے 

ان کے میخانے کو چھو آتی ہے جب فصل بہار 

پھول کھل جاتے ہیں مستی میں ہوا ہوتی ہے 

اے فناؔ ملتا ہے عاشق کو بقا کا پیغام 

زندگی جب رہ الفت میں فنا ہوتی ہے۔

وہ سحر انگیز لہجے میں بولا ۔۔۔

پانی کی لہریں انکے پاؤں کو چھو کر گزر رہی تھیں ۔۔۔

ٹھنڈک کا یہ احساس بہت خوشنما لگ رہا تھا۔۔۔

"بہت شکریہ شیرو ۔۔۔"

"بس ایک بات ہے جو مجھے اندر کی اندر کھائے جا رہی ہے ۔۔۔بول دوں کیا ؟؟؟

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا بولی ۔۔۔

"بول دو میں نے نا بھی کہا تو تم نے کون سا میرے منع کرنے سے رک جانا ہے ،

وہ دھیما سا مسکرا کر بولا۔

پری نے اتنے عرصے بعد اسکے چہرے پہ مسکراہٹ دیکھی تو دل میں اس مسکراہٹ کے ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کرنے لگی ۔۔۔۔

"تم یہ سب کام چھوڑ کیوں نہیں دیتے ۔"

"پہلے وجہ نہیں تھی چھوڑنے کی آب چھوڑ دوں گا اتنی پیاری وجہ جو مل گئی ہے "

اسکی نظر سمندر کی آتی جاتی موجوں پہ جمی تھی ۔۔۔

"سچ شیرو تم سب چھوڑ دو گے ؟"

وہ خوشی سے چیختی اس کے گلے میں بازو ڈال کر جھول گئی۔

"جانتی ہو نا سب کتنا مشکل ہے ،مجھے کھو بھی سکتی ہو ہمیشہ کے لیے "

 آریان شیر نے اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں لیتے ہوئے چہرہ اس پر جھکایا ۔۔۔۔

آج پہلی بار وہ اسے اپنی نصف بہتر ہونے کی حثیت سے حق سے قریب لایا تھا ۔۔۔

ورنہ وہ ہمیشہ پری کو خود سے دور رکھتے آیا تھا ،کیونکہ یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف تھا ۔۔۔

"میں آپکو کہیں کھونے نہیں دوں گی ۔۔۔خدا سے مانگ لاؤں گی ۔۔۔۔"وہ اسکی حصار میں چہک کر بولی ۔۔۔اسکی ہوا کے دوش پہ پھڑھڑاتی ہوئی آوارہ لٹیں اڑ اڑ کر اسکے چہرے سے اٹھکیلیاں کر رہی تھیں ۔۔۔

اسکی نزدیک آنے پہ شام کا یہ منظر اور بھی طلسم زدہ دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔

آریان شیر اسکے دلکش چہرے پہ جھکا ۔۔۔

تو اسے خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی۔بوکھلا کر وہ اس کی گرفت میں مچلی تھی۔لیکن وہ اسے کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔اس کی سانسیں چہرے پر محسوس کرتے ہوئے پری کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھیں اور سمندر  کی لہروں کی طرح شور مچاتیں کسی انوکھی سی لے پر بہنے لگی تھیں۔

اسکی جھکی نظریں لرزتی بوجھل پلکیں ،گلال بکھیرتے رخسار ،محبت کی انوکھی داستان سنا رہے تھے ۔۔۔۔

"آؤ واپس ہوٹل چلتے ہیں ،آج رچرڈ نے ہماری شادی کی خوشی میں ایک پارٹی ارینج کی ہے ،ابھی تیار ہونے میں بھی وقت لگے گا "

آریان شیر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے چلنے لگا ۔۔۔۔

"شیرو !! 

وہ آہستگی سے بولی

"ہمممم۔۔۔۔

وہ بھی ان لمحات کے زیر اثر کھویا سا بولا ۔۔۔

"دیکھو نا ہمارے پاؤں کے نقش جو پیچھے چھوٹ رہے ہیں مٹتے جا رہے ہیں ۔۔۔۔

وہ افسردگی سے بولی ۔۔۔

"نشانات مٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں "

وہ گہری سانس بھر کر بولا ۔۔۔

"ہمارے پیار بھرے لمحات ان نشانات کی طرح مٹ تو نہیں جائیں گے نا "؟

اس کے دل میں جو ڈر سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا تھا اس نے اسے زبان پہ لایا ۔۔۔

"ہونی کو کون ٹال سکا ہے "

جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے ۔۔۔۔

"خدا نے ہمیں اور ہمارے پیار کو مہلت دی تو نئی یادیں بنائیں گے ۔۔۔

نہیں تو ان چند بیتے ہوئے لمحوںآنکھوں میں بسائے مر جائیں گے "

"یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ؟؟؟؟

"ابھی تو میں نے آپکی سنگت میں سے صرف ان چند پلوں کو کشید کیا ہے ،،،

"ساری زندگی جینی ہے ابھی ہمیں ایک ساتھ "

وہ اسکے لبوں پہ ہاتھ رکھ کر بولی ۔۔۔

امرام شیر بنا بولے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا واپسی کے راستے پہ چلنے لگا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙

چاند کی چاندنی آفس روم کی کھڑکی سے چھن کر اندر آتی ہر چیز روشن کیے ہوئے تھی ۔کھڑکی ایک کونے میں تھی اور دوسرے کونے میں فائلز سے بھرا ریک پڑا تھا۔دائیں دیوار میں دروازہ تھا ۔بائیں دیوار کے ساتھ لگی ٹیبل پر ایک کمپیوٹر پڑا تھا۔پچھلی دیوار پر بھی ایک فائل ریک تھا۔درمیان میں ایک گول میز تھی جس کے گرد کرسیاں پڑیں تھیں۔

کمپیوٹر آپریٹر اور امرام شیر دونوں ساتھ تھے ۔۔۔آپریٹر کمپیوٹر کو آپریٹ کر رہا تھا جبکہ امرام شیر اسکی پشت پہ کھڑا کمپیوٹر سکرین پہ نظریں جمائے ہوئے تھا ۔۔۔۔رچرڈ کے فارم ہاوس سے لائیو آڈیو سٹریمنگ ان تک پہنچ رہی تھی۔رات کے گیارہ بج چکے تھے لیکن انہیں ابھی کچھ خاص نہیں ملا تھا۔پارٹی اپنے عروج پہ تھی مگر ابھی تک اس پارٹی کا مین کپل نہیں آیا

تھا جن کے اعزاز میں یہ پارٹی رکھی گئی تھی۔۔۔امرام شیر کو اسی سفید موت کی اصل چہرہ  دیکھنے کا انتظار تھا ۔۔۔

اسکے سینئیرز نے اسے اس کیس کی فائل بھجوا دی تھی ۔۔۔۔۔وہ اس فائل کو سٹڈی کرنے لگا ۔۔۔

"ہمیں ایک آڈیو بگ اس کے فارم ہاؤس میں لگوانی چاہیے تھی  "امرام  نے مایوسی سے کہا۔

"ہممم سر کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں ۔۔مگر رچرڈ اپنے کالے دھندوں کا اس پارٹی میں ذکر کیونکر کرے گا ۔۔۔۔۔وہ خفیہ میٹنگز کبھی بھی اس فارم ہاؤس میں کرنے کا رسک نہیں لے سکتا۔وہاں بہت سے لوگ ہیں ۔۔"آپریٹر  نے یقین سے کہا تھا۔

"اچھا تو پھر تم دیکھو میں ذرا اسے ہر ایک پہ نظر رکھو ۔۔۔۔مین گیسٹ آجائے تو مجھے فورا بتانا ۔۔۔میں کافی پی  آؤں۔"وہ اسکا شانہ تھپتھپاکر کر کہتے ہوئے آفس سے باہر نکلا ۔۔۔

"میرے لیے بھی منگوا دیجیے گا پلیز "اس نے کمپیوٹر سکرین سے نظر ہٹا کر کہا ۔۔۔

"اچھا ۔"وہ کہہ کر باہر چلا گیا ۔

"ہممم کچھ پتہ چلا ؟

امرام شیر نے واپس آکر پوچھا ۔۔۔۔

" جی سر......میں اس کا انتظار کر رہا ہوں......ابھی تک تو نہیں پہنچاوہ ............ آپ بے فکر ہو جائیں اس پہ نظر رکھنا میری میری ذمہ داری ہے۔....."

سر باہر فارم ہاؤس کے گیٹ پہ کوئی ایک شخص ابھی آیا ہے ۔۔۔۔اسے وہیں روک لیا گیا ہے ۔۔۔۔شاید اسکے پاس پارٹی میں جانے کا پاس یا دعوت نامہ نہیں ہے ۔۔۔۔اس لیے اسے وہیں روک لیا گیا ہے ۔۔۔۔

"کون ہے وہ شخص ؟

امرام نے بے چینی سے پوچھا ۔۔۔

",سر اسکی پشت ہے کیمرے کی طرف ۔۔۔چہرہ واضح دکھائی نہیں دے رہا ۔۔۔۔

اندر سے ایک غنڈہ ٹائپ آدمی باہر نکلا ۔۔۔۔

جب اس نے باہر کھڑے ہوئے شخص کو دیکھا تو خباثت سے۔ مسکرایا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ باہر کھڑا ہوا شخص اسے کچھ کہتا ۔۔۔۔

اس غنڈے نے اس پہ فائر کردیا ۔۔۔۔

مقابل موجود شخصیت اپنی جان بچانے کے لیے پیچھے ہٹا مگر اتنی دیر میں فائر اسے لگ چکا تھا ۔۔۔۔

چاروں طرف اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔

کیمرہ سکرین بھی اندھیری ہوگئی ۔۔۔۔

"او شٹ "

اس لائٹ کو بھی ابھی جانا تھا ۔۔۔۔

امرام شیر اپنی ہتھیلی پہ دوسرے ہاتھ سے مکا مار کر درشتگی سے بولا۔۔۔۔

آریان شیر اور پری کیب سے نکل کر فارم ہاؤس کے دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے ۔۔۔

وہاں فیاض کو کسی پہ فائر کرتے دیکھ آریان شیر بنا اک لمحہ ضائع کیے ان تک پہنچا ۔۔۔

اور جس شخص کو اس نے فائر لگے زخمی حالت میں زمیں بوس ہوتے دیکھا اسکی نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔۔۔۔

اسکی پیشانی پہ اشتعال انگیزی سے رگیں پھولنے لگی ۔۔۔جبڑے آپس میں بھنچے ہوئے تھے۔وہ مٹھی بھینچ کر ایک ہی جست میں فیاض  پہ ابل پڑا ۔۔۔۔

پری فق نگاہوں سے کبھی آریان شیر کو دیکھتی تو کبھی زخمی ہوئے زمیں بوس شخص کو ۔۔۔۔

"سر دیکھیں یہاں "

کمپیوٹر آپریٹر نے امرام شیر کی توجہ سکرین پہ دلائی ۔جو اب روشن ہوئے فارم ہاؤس کے باہر کا منظر بخوبی دکھا رہی تھی ۔۔۔

امرام شیر نے خون آشام نظروں سے وہ مناظر دیکھے پھر کیپ اٹھا کر بنا ایک لمحہ بھی ضائع کیے باہر کی طرف دوڑ لگا دی ۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙

آریان شیر نے پہ در پہ اس پہ وار کیے ۔۔۔۔

وہ اس افتاد کے لیے تیار نہیں تھا ۔۔۔۔لہرا کر فرش پہ گرا ۔۔۔

کبھی وہ اس زخمی شخص کو دیکھتا تو کبھی سامنے موجود شخص کو ان دونوں میں رتی برابر بھی فرق نہیں تھا ۔۔۔

فیاض کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں ۔۔۔۔

اگر اس نے کچھ دیر پہلے آریان شیر کو مارا تھا تو یہ کون تھا جو اسے بری طرح پیٹ رہا تھا ۔۔۔۔

"ک..ک۔۔.کون ہو تم؟"

وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولا۔۔۔

"جو بھی ہوں تمہیں اس سے مطلب نہیں ہونا چاہیے۔تمہیں اگر اپنی جان کی پرواہ ہے ،تو اپنے ساتھیوں سے کہو ہتھیار پھینک دیں۔"فیاض  کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ آریان شیر کا ہم شکل کہاں سے ٹپک پڑا۔جو اس فارم ہاؤس تک پہنچ گیا تھا ۔اور اسے ہتھیار ڈالنے کا کہہ رہا تھا۔

"زیادہ مت سوچو تمہاری اپنی جان اس وقت میرے ہاتھوں  میں ہے۔میرا نشانہ تم پر  ہے۔اگر کہو تو یقین دلا دوں؟"اس کے لہجے میں اعتماد اور درشتگی تھی۔

"مم.....میں کیسے یقین کر لوں؟"وہ ہکلایا۔

"ایسے؟"آریان شیر نے ہولڈر سے گن نکال کر ٹریگر دبا دیا اور گولی اڑتی ہوئی فیاض کے دائیں بازو میں پیوست ہو گئی۔وہ درد کی شدت سے بلبلا اٹھا ۔۔

آریان کی گن میں چھ گولیاں تھیں جبکہ اس وقت فیاض کے تقریبا تیس چمچے اسکے پیچھے تھے جو آریان شیر پہ گن تانے کھڑے تھے ۔۔۔

"سب ہتھیار پھینک دو۔ورنہ اسے مارنے میں ایک لمحہ بھی بھی نہیں لگاؤں گا  ۔"ان کے ہتھیار ڈالنے کی دیر تھی کہ آریان نے اپنی پسٹل اپنے پیچھے کھڑی پری کے ہاتھ میں دی ۔۔۔۔پری اسکی آنکھ کا اشارہ سمجھ چکی تھی ۔۔۔

اب پری فیاض پہ گن تانے کھڑی تھی ،

آریان شیر ،اپنے چھوٹے بھائی زخمی شیردل کو اٹھا کر واپس باہر کھڑی کییب میں ڈال چکا تھا ۔۔۔۔اس ڈرائیور کو وہ شیردل کو ہاسپٹل لے جانے کا بول کر واپس آیا ۔۔۔جہاں پری فیاض پہ گن تانے کھڑی تھی۔۔۔۔

آریان شیر نے پری کو اپنے پیچھے کیا اور فیاض کے دل کے مقام پہ نشانہ لیا ۔۔۔

یہی وہ انسان تھا جس نے مساجد میں خود کش دھماکے کروائے ۔۔۔۔

جو اپنے کارندوں کے زریعے لڑکیوں کی نیوڈ ویڈیو بنوا کر رچرڈ کو اسکی ویب سائٹ کے لیے دیتا تھا ۔۔۔۔

دنیا کا ہر برا کام کرنے والے کو آج آریان شیر نے ابدی نیند سلا کر دھرتی سے گناہوں کا بوجھ کچھ ہلکا کر دیا تھا۔۔۔

فیاض کے آدمی اب بوکھلا گئے تھے۔اپنے بچاؤ کیلیے انہوں نے  گرائے ہوئے ہتھیار واپس اٹھا لیے تھے۔۔۔

ان سب نے پری اور آریان شیر پہ گن تان لیں ۔۔۔

مگر آریان شیر کی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی۔جب پری نے مردہ فیاض کے پاس پڑی رائفل اٹھا کر ان لوگوں پہ اندھا دھند فائرنگ کردی ۔۔۔۔

اس کہاں فائرنگ کرنی آتی تھی ۔۔۔۔وہ بنا دیکھے فائر کھول چکی تھی ۔۔۔۔

گولیوں کی تڑتڑاہٹ  پورے فارم ہاؤس کے باہر خاموشی  میں گونج رہی تھی۔

آریان نے پری کے  ٹریگر دبانے والے انگلیوں پہ اپنی انگلیاں رکھیں ۔۔۔

پری نے مڑ کر آریان شیر کو دیکھا ۔۔۔۔جو بالکل اسکے قریب تھا دونوں کا چہرہ ایک دوسرے سے مس ہو رہا تھا ۔۔۔

آریان شیر کی نظریں اپنے شکار پہ تھیں ۔۔۔

جنہیں وہ چند سیکنڈز میں ڈھیر کر چکا تھا ۔۔۔۔

آریان نے دیوار کے پیچھے کھڑے ایک شخص کو گولی ماری وہ دیوار  کے پیچھے ہو گیا۔۔۔۔۔

پری نے آریان شیر کو وہاں سے بھاگنے کے لیے کہا کیونکہ اب رائفل کا میگزین خالی ہونے والا تھا ۔۔۔۔

پری آگے بڑھی ہی تھی کہ دیوار کے پیچھے چھپے ہوئے شخص نے اس گولی چلائی۔۔۔

آریان شیر نے پیچھے مڑ کر اس پہ فائر کیا جو ٹھیک نشانے پہ لگا ۔۔۔۔

پری نے ڈر سے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور اپنا چہرہ اس کے چوڑے سینے میں چھپا لیا تھا۔جب اسے سمجھ آئی کہ وہ مرنے سے بچ گئی ہے تو آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔آریان کا چہرہ اپنے قریب دیکھ کر اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔ آریان نے پری کی آنکھوں میں بے یقینی، حیرت، خوف، اور خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے۔

یہ وہی تھا ، جس نے سب کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا۔وہ وہی تھا جس نے اس کی طرف آنے والے ہر دشمن کو گرا دیا تھا۔

وہ کتنی ہی دیر اسے اپنے بازوؤں میں لیے اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا تھا۔پری بھی اس کی آنکھوں میں اپنے لیے ڈھیروں پیار کی چمک دیکھ رہی تھی۔اس کا چہرہ اس کے سینے کے قریب ہی تھا اور اس کے شاندار ملبوس کی خوشبو اس کی دھڑکنوں کو اتھل پتھل کر رہی تھی۔لیکن وہ جلد ہی سنبھل گئی۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

آریان شیر پری کو اپنے ساتھ لیے ہاسپٹل کیںطرف جارہا تھا غصے سے اسکا جسم لرز رہا تھا

سانسیں رک سی رہی تھیں بس کیسے بھی کرکے اسے اپنے بھائی کی زندگی چاہیے تھی۔شیردل میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔

تم ۔۔۔۔۔ تم بہت جلد ٹھیک۔ہو جاؤ گے  ۔۔۔۔ میں تمہیں کچھ بھی نہیں ہونے ۔۔۔۔۔۔ دوں۔۔۔۔۔گا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

"شیرو وہ آپکا بھائی ؟

"بالکل آپ کے جیسا ہے ؟۔

"وہ میجر بھی ۔۔۔۔کیا ۔۔۔۔آپکا بھائی ہے ۔۔۔۔؟

پری کے زہن میں مختلف سوالات گردش کرنے لگے ۔۔۔جنہیں وہ زبان پہ لائی ۔۔۔

"ہاں وہ دونوں میرے بھائی ہیں "

وہ دلگرفتگی سے بولا ۔۔۔

پتہ نہیں کس حال میں ہوگا میرا بھائی ۔۔۔۔۔۔!!!

پری  ۔۔۔۔۔۔میرے اس چہرے کی وجہ سے آج میری وجہ سے میرے بھائی کی جان ۔۔۔۔

میں وجہ ہوں اسکی اس حالت کا ۔۔۔۔

میں کبھی بھی اپنی وجہ سے کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔

پھر بھی وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا ۔۔۔

آاااااااہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سر کو دونوں ہاتھوں سے جکڑے کرب زدہ آواز میں بولا۔۔۔

"کچھ نہیں ہوگا اسے ۔۔۔۔"

وہ تسلی آمیز انداز میں بولی ۔۔

بادل زور سے گرجنے لگ گئے تھے تیز ہو آئیں چل رہیں تھیں ہر طرف جیسے طوفان سا اٹھ رہا تھا آریان شیر کے دل کی دنیا کی طرح۔۔۔۔۔

رچرڈ اب وقت آچکا ہے تمہاری موت کا ۔۔۔۔جو میرے ہاتھوں لکھی گئی ہے ۔۔۔۔

 تمہیں تو میں چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔۔ چاہے قبر میں ہی کیوں نہ چلے جاؤ تم وہاں سے بھی کھینچ نکالوں گا میں موت سے بدتر سزا دوں گا تمہیں کہ خود اپنے منہ سے موت کی بھیک مانگو گے تم تباہ کردوں گا میں تمہیں ۔۔۔۔

 تمہارا نام و نشان صفحہ ہستی سے نہ مٹا دیا تو میرا نام بھی آریان شیر نہیں ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

آرمی کی چار گاڑیاں رچرڈ کے فارم ہاؤس کے سامنے مین سڑک پر رکی تھیں۔امرام شیر اپنے آرمی یونیفارم میں ملبوس بھاری بوٹوں سے قدم اٹھا کر چلتے  ہوئے اپنے ماتحتوں کو ہدایات دے رہا تھا ۔ان کی کل تعداد پینتیس  تھی۔جن میں آئی ایس آئی کے بندے پانچ تھے ،دس رینجر کے لوگ تھے۔باقی آرمی کے ۔۔۔امرام شیر کی ہدایت پر انہوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے تھے۔

فارم ہاوس سے باہر نکلنے والے  دونوں راستوں کو بلاک کر دیا گیا تھا۔

لوگ جو پارٹی اٹینڈ کرنے کے لیے اندر جا رہے تھے  ۔۔۔۔حیرت سے رک کر انہیں دیکھ رہے تھے۔اور باہر گری لاشوں کو بھی ۔۔۔۔

آرمی نے انہیں اندر جانے سے روک دیا اور ایک طرف کھڑا کردیا۔۔۔۔

لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ۔۔۔۔

ایک آدمی جو بظاہر اپنی گاڑی میں بیٹھے واپس جا رہا تھا وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر رچرڈ کو کال کرنے لگا۔

"رچرڈ فوج یہاں پہنچ گئی ہے۔کسی بھی وقت اندر آسکتی ہے ۔آپ جلدی سے نکلنے کی کوشش کریں یہاں سے ۔"اس کا اتنا ہی کہنا تھا کہ رچرڈ ہڑبڑا کر اٹھا ۔۔۔۔۔وہاں موجود کچھ لگ شراب نوشی میں مشغول تھے اور کچھ لوگ ایک طرف  بیٹھے جوا کھیل رہے تھے۔

"Oh basterd stop this nonsense....

اس نے ڈی جے کو لاؤڈ میوزک بند کرنے کا کہا ۔۔

میوزک اتنا تیز تھا کہ انہیں باہر کا کچھ بھی سنائی نہیں دیا ۔۔۔

ورنہ کچھ دیر پہلے چلنے والی گولیوں کی آوازیں سن کر وہ ضرور چوکنا ہوکر بھاگ سکتے تھے۔۔۔۔

"سب اٹھو جلدی......باہر فوج آ چکی ہے۔اپنے اپنے اسلحے پکڑو اور ان کا مقابلہ کرو۔.....جلدی کرو میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو۔"وہ حواس باختہ سا کہتا ایک کمرے کی جانب بھاگا ۔۔۔۔

 پاکستانی فوج کا سن کر اس کے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔پاکستانی فوج کی دلیری سے وہ واقف تھا ۔وہ جلدی سے اٹھ کر باہر بھاگا۔جوا کھیلنے والے لوگ اب اسلحہ لے کر اوپر چلے گئے تھے۔وہ جلدی سے اپنا سامان پکڑ کر تہ خانے کی طرف آیا ۔۔۔ اسے اب گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔وہ خفیہ راستے سے سیڑھیوں کی طرف بھاگا ۔۔ایمرجنسی کے لیے اس نے باہر نکلنے کا خفیہ راستہ بنا رکھا تھا ۔دائیں طرف پہ دروازہ تھا جو فارم ہاؤس سے دور ایک خالی مکان میں کھلتا تھا ۔اس کے ساتھ ہی ایک دیوار تھی جس کے دوسری طرف ایک فیکٹری تھی۔وہ جلدی سے اس مکان کے دروازے سے نکل کر دیوار سے دوسری طرف فیکٹری میں کود گیا۔لوگ گولیوں کی وجہ سے ادھر ادھر چھپ گئے تھے۔وہ بھی بچتا بچاتا فیکٹری میں آ گیا اور وہاں کھڑکی سے اس نے پاکستانی فوج کے جوان دیکھے تھے۔وہ ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے۔اس کے پاس پسٹل تھی لیکن وہ یہاں سے کسی پر حملہ نہیں کر سکتا تھا۔کیونکہ پھر انہوں نے اس فیکٹری کو بھی گھیر لینا تھا۔اب وہ اکیلا تو کچھ نہیں کر سکتا تھا سوائے بھاگنے کے۔اس لیے وہ فیکٹری کے پچھلے دروازے سے نکلا ۔۔۔۔

دوسری طرف رینجرز نے اس فارم ہاؤس کو پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔۔ ۔ایک بھی فوجی زخمی نہیں ہوا تھا جبکہ رچرڈ کے تین آدمی ہلاک ہو گئے تھے۔۔

"رچرڈ کہاں ہے؟"

امرام شیر نے رچرڈ کے ایک آدمی کو زوردار پنچ مار کے فرش پہ گرایا اور اسکی گردن پہ اپنا بھاری بوٹ رکھتے ہوئے اسکی سانسیں بند کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔

"وہ ۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔

"وہ ۔۔۔بھاگ ۔۔۔گیا ۔۔۔ہے۔"اس نے امرام شیر کو بوٹ اپنی گردن سے پیچھے ہٹانے کی سعی کرتے ہوئے بمشکل کہا ۔۔۔

"کہاں گیا ہے ؟

اس بار اس کا جبڑا اپنی مٹھی میں دبوچ کر غرایا ۔۔۔۔

"وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔  

مگر وہ کچھ نہیں بولا تو ۔۔۔

امرام شیر نے ایک مکا اس کے منہ پر مارا تو وہ لہرا کر نیچے گرا۔باقی ارمی کے لوگ اندر جا کر مختلف کمرے چیک کرنے لگے تھے جنہیں امرام ہی لیڈ کر رہا تھا۔۔

"وہ شاید اپنے گھر بھاگ گیا ہے۔"اس نے دو تین مکے کھانے کے بعد جلدی سے کہا۔دوسرے لوگوں نے بھی ہر جگہ چیک کر لیا تھا لیکن یہاں کوئی اور نہیں تھا۔

"ڈیم اٹ۔"وہ جھنجھلا کر رہ گیا ۔۔۔۔

"پتہ بتاؤ اسکے گھر کا ؟"

امرام شیر نے اسکا کالر دبوچ کر جھٹکا دیا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

"آہ !!!

بھاری لرزتی آنکھیں دھیرے سے کھولتے شیر دل نے بے ساختہ کراہ لی تھی اسے اپنا بازو  اکڑا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ شدید درد محسوس ہو رہی تھی اس وقت اسے ۔۔۔

آہ ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیردل  نے پوری آنکھیں کھولیں تو چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔۔۔

یہ۔۔۔۔۔۔۔ مم۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ کہاں ہوں۔۔۔۔۔ میرا بازو ۔۔۔

شیردل کو پہلے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آئی مگر جیسے ہی حواس بحال ہوئے اسے آہستہ آہستہ سب یاد آنے لگا ۔۔۔

وہ آج رچرڈ سے ملکر اس سے وہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لیے قیمت پوچھنے آیا تھا تاکہ آرام سے یہ معاملہ نپٹا سکے ۔۔۔

مگر رچرڈ کے آدمی نے بنا اسکی کوئی بات سنے اس پہ فائر کردیا ۔۔۔

شیردل تو حیران رہ گیا بھلا بنا بات کیے اس سے کسی کی کیا دشمنی تھی جو یوں اسے مارنے کی کوشش کی گئی ۔۔۔

ابھی وہ اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اسے روم میں کوئی آتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔۔شیردل کے بازو میں سے گولی نکال لی گئی تھی اسکی حالت اب پہلے سے بہتر تھی ۔اسے ہوش آچکا تھا ۔۔۔اسی لیے آریان شیر اسے ہاسپٹل سے اپنے ہوٹل میں لے آیا ۔۔۔۔

شیردل نے کمرے میں داخل ہونے والی شخصیت کو دیکھا تو حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتا ہی رہ گیا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔ر۔۔یان لالہ آپ ؟؟؟

"آپ ۔۔۔ہی ہیں نا ۔۔۔۔؟"

وہ اپنے اندر کی بے چینی کو کم کرنے کے لیے تصدیق کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔وہ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔

"لیٹے رہو ",وہ گھمبیر آواز میں بولا۔۔۔۔مگر ایک بار جیسے شیردل میں خواہش تھی اسکے سینے سے لگنے کی ویسے ہی خواہش آریان شیر کے سینے میں بھی ہلچل مچا رہی تھی ۔۔۔

آریان شیر نے آگے بڑھ کر اسکے بازو کو بچاتے ہوئے اسے سینے سے لگایا ۔۔۔۔

"اب کیسے ہو ؟"

"میں ٹھیک ہوں "وہ گہرا سانس لیتے ہوئے بولا ۔۔۔

اسکے پیچھے پری کھڑی تھی ۔۔۔

شیردل اسے آریان شیر کے ساتھ دیکھ کر چونک گیا۔۔۔

"بھابھی ہے تمہاری !

آریان شیر نے اسکی سوالیہ نظروں کا ارتکاز دیکھ کر جوابا کہا ۔۔۔۔

"تم وہاں کیا کر رہے تھے ؟"

آریان شیر نے شیردل سے فارم ہاؤس پہ آنے کی وجہ دریافت کی ۔۔۔۔

"پتہ بھی ہے وہ رچرڈ کتنا خطرناک ہے ،تم اکیلے اسکے غنڈوں سے مقابلہ کرنے نکلے تھے ۔۔۔۔؟

"نہیں لالہ میں مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔میں تو بس اس سے ملکر کچھ لے دے کر ایک ویڈیو ڈیلیٹ کروانا چاہتا تھا ۔۔۔

"کونسی ویڈیو ؟"

اس نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں پوچھا ۔۔۔

"لالہ نیوڈ ویڈیو تھی اسکے پاس ۔۔۔یہ نہیں بتا سکتا کس کی تھی "

وہ نظریں چرا کر بولا ۔۔۔

"تم بزنس میں ہو ،لین دین اور پیسوں کے زریعے لوگوں کو خرید کر اپنا کام کروانا جانتے ہو ۔۔۔اور یہاں بھی وہی فارمولا آزمانے آئے ۔۔۔۔مگر تمہیں پتہ نہیں رچرڈ کتنی ٹیڑھی چیز ہے ۔۔۔۔وہ لاتوں کا بھوت ہے باتوں سے نہیں مانتا "

"بس بہت ہوا ۔۔۔۔آج اسکی زندگی کا آخری دن ہے میرے ہاتھوں "

وہ جبڑے سختی سے بھینچ کر بولا ۔۔۔

اسکی پیشانی کی رگیں پھولیں ہوئی تھیں۔۔۔۔

"لالہ پر آپ کہاں چلے گئے تھے ۔۔۔اور کبھی لوٹ کر کیوں نہیں آئے ؟"

شیردل اب اٹھ کر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔

آریان شیر نے گہرا سانس لیتے ہوئے اسے دیکھ کر بولنا شروع کیا ۔۔۔پری بھی پورے انہماک سے اسکی بات سننے لگی ۔۔۔

اسے بھی بہت دلچسپی تھی آریان شیر کے ماضی کی ۔۔۔۔کہ اسکے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنے دونوں بھائیوں اور گھر والوں سے بچھڑ گیا ۔۔۔۔

",یہ اس دن کی بات ہے شیر دل جس دن ڈیڈ ہمیں اپنے فارم ہاؤس لے کر گئے تھے اور ہم تینوں بھائیوں کو گن سے نشانہ لگانے کی پریکٹس کروا رہے تھے ۔۔۔۔۔

وہ چاہتے تھے کہ ہم سیلف ڈیفنس کرنا سیکھیں ۔۔۔۔

"ہممم ۔۔۔یاد آیا لالہ ۔۔۔۔

میرا نشانہ سب سے خراب تھا بلکہ لگا ہی نہیں ۔۔۔

امرام لالہ کا ٹارگٹ سے تھوڑا سا دور لگا ۔۔۔مگر لگ گیا ۔۔۔

لیکن آپکا نشانہ بالکل پرفیکٹ لگا ۔۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔اسی دن رچرڈ بھی شکار کھیلنے اس فارم ہاؤس کے قریب آیا ہوا تھا اس نے کہیں ہمیں پریکٹس کرتے دیکھ لیا تھا ۔۔۔

میں سو رہا تھا ،کہ اچانک کسی کا بھاری ہاتھ میرے منہ پہ محسوس ہوا ۔۔۔میری سانسیں رکنے لگیں ۔۔۔

میں نے اپنے آپ کو اس سے چھڑوانے کے لیے بہت کوشش کی مگر ناکام رہا ۔۔۔

وہ میرا منہ بند کیے مجھے رات کے اندھیرے میں فارم سے لے گیا ۔۔۔۔

اسے لگتا تھا کہ میں اس کے دھندے میں اسکے بہت کام آسکتا ہوں ۔۔۔

میں نے اسکے بتائے کام کرنے سے انکار کیا تو اس نے مجھے دھمکی دی کہ وہ میرے گھر والوں کو اچھے سے جانتا ہے ،اگر میں نے اسکی بات نہیں مانی تو وہ میرے گھر والوں کو ختم کردے گا ۔۔۔۔

میں اس سے ڈرتا تو نہیں تھا مگر بات جب تم سب کی آئی تو خاموش رہ گیا ۔۔۔

اور اسکے کام سر جھکائے کرنے لگا ۔۔۔۔

وہ مجھے اپنے دھندوں کے بارے میں سکھانے لگا ۔۔۔۔

ایک دن اس نے مجھے کسی برگیڈیئر آصف کو مارنے کے لیے بھیجا ۔۔۔۔

شاید اسے پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی ۔۔۔وہ چوکنا تھا ۔۔۔

میرے فائر کرنے سے پہلے ہی وہ مجھے پکڑ چکا تھا ۔۔۔

اس نے مجھے پکڑ کر میری گن چھین لی ۔۔۔۔ مجھ پہ ٹارچر کرنے کی بجائے ،مجھ سے پیار سے بات کی ۔۔۔

اتنے عرصے میں پہلی بار کسی نے مجھ سے پیار سے بات کی تھی ۔۔ورنہ رچرڈ تو مجھ سے کام کرواتا اور کھانے کو دوڑتا تھا چوبیس گھنٹے۔۔۔۔

"انہوں نے مجھے صحیح غلط کی پہچان کروائی ۔۔۔۔تب میری آنکھیں کھلیں ۔۔۔۔

میں واقعی ملکی دشمنوں کا ساتھ دے رہا تھا ۔رچرڈ کا حکم مان کر ۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ مجھ میں ہنر ہے اور اس ہنر کو ملک کی حفاظت کے لیے استعمال کرو ۔۔۔۔

انہوں نے مجھے اپنی گن دی اور میرا نشانہ دیکھنا چاہا ۔۔۔۔

انہوں نے ایک ٹارگٹ سیٹ کردیا ۔۔۔۔اگر میری اپنی گن ہوتی تو یہ ہدف نہایت آسان تھا مگر کسی دوسرے کی گن  سے ہدف کو نشانہ بنانا نہایت مشکل تھا  ۔تین سو گزکا فاصلہ ایک سنائپر کے لیے نہ ہونے کے برابر ہے لیکن گن نشانہ بازی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے  ۔نشانہ لینے کے لیے جہاں ایک سنائپر کا مہارت یافتہ ہونا ضروری ہے ویسے ہی اس کی گن کا ماڈل کا جدید ہونا بھی ضروری ہے  ۔ہمیں ہتھیار کو ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے تاکہ گولیاں صحیح نشانے پر لگ سکیں  ۔ ۔یقینا ایک اچھے نشانہ باز کے لیے ٹارگٹ کی پوزیشن کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہوتا ۔ مجھے اپنے آپ پر بھروسا تھا ۔میں نے ان کے سیٹ کیے گئے ٹارگٹ پہ نشانہ باندھا اور سانس روکتے ہوئے ٹریگر دبا دیا ۔گولی عین ٹارگٹ پہ لگی ۔۔۔۔

میرے لیے اس وقت سب سے اچھی بات یہ تھی۔ہوا نہیں چل رہی تھی ،ورنہ ہوا کارخ میرے نشانے پہ اثرانداز ہوسکتا تھا ۔۔۔میرے ہاتھ میں آرمی میں استعمال ہونے والی رائفل جی تھری تھی جس کی رینج تین سو میٹر تھی  ۔اگر اسی جی تھری کے ساتھ ٹیلی سکوپ سائیٹ لگا دیں تو اس کی رینج چھ سو میٹر ہو جاتی ہے ۔میرا پرفیکٹ نشانہ لگانے پہ وہاں موجود آرمی آفیسرز کے  لبوں سے تحسین آمیز آوازیں بلند ہوئیں  ۔

”شاباش  !“برگیڈئیر آصف نے جذبات سے بوجھل آواز میں کہا۔

انہوں نے مجھے پاک آرمی میں۔بھرتی کرلیا ۔۔۔دورانِ ٹریننگ ہی میری نشانہ بازی کی صلاحیت کھل کر سامنے آ گئی تھی ۔یونٹ میں جانے کے بعد نشانہ بازی کے مقابلوں میری اس صلاحیت میں مزید نکھار پیدا ہوگیا  اور پھر اسی صلاحیت کو دیکھ کرمجھے سنائپر کورس کے لیے جانا پڑا ۔ وہ کورس میں نے شاندار نمبروں سے پاس کیا اور اس کورس میں اچھی پوزیشن لینے کی وجہ سے مزید ٹریننگ کے لیے مجھے سپیشل سروس گروپ میں بھیج دیا گیا ۔وہاں بھی میرے نشانہ بازی کی صلاحیت نے دوسروں کو متاثر کیے رکھا ۔اور پھر اس کورس میں بھی نمایاں پوزیشن حاصل کرنے بعد مجھے خصوصی سنائپر ٹیم کی زیر نگرانی تربیت دی جانے لگی  ۔ اس کورس میں بھی میری کارکردگی پچھلے کورسوں کی طرح شاندار رہی اور مجھے اپنے اساتذہ کے ساتھ ہی پیشہ ور سنائپر بننے کا موقع مل گیا ۔اور پھر ایک دن مجھے اپنے پہلے مشن کے لے چنا گیا ۔۔۔۔

جس میں امریکہ کا وہی  شخص رچرڈ تھا ۔جو اصل میں میرا ہی دشمن تھا جس نے مجھے میرے والدین سے دور کردیا تھا ۔پاک فوج کو بھی اسکی تلاش تھی ۔۔۔۔ جو پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا ۔۔۔اسکی یہاں پھیلیں ہوئیں جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ۔۔۔۔۔میں ایک مشن کے تحت اس گینگ کے سرغنہ رچرڈ کا رائیٹ ہینڈ بن گیا ۔۔۔

اسے بتایا کہ اس نے جس کام سے مجھے بھیجا تھا (ایک برگیڈئیر کو مارنے کے لیے )اس برگیڈیئر نے مجھے اتنے سال اپنی قید میں رکھا ۔اور جب کوئی ثبوت اسے میرے خلاف نہیں ملا تو میں واپس آگیا ۔۔۔

رچرڈ نے میری بُنی ہوئی کہانی پہ یقین کرلیا ۔۔۔۔اور مجھے واپس اپنے گینگ میں شامل کرلیا ۔۔۔میں آہستہ آہستہ اسکے سارے کالے دھندوں کو جاننے لگا تاکہ سب جڑ سے اکھاڑ دوں ۔۔۔۔ 

بقول اسکے میں اسکا کام کرتا تھا ۔۔۔مگر اسکی پیٹھ پیچھے میں اپنے ہی ملک میں چھپے دشمنوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت ختم کررہا تھا ۔۔۔۔

مساجد میں دھماکے بھی اس رچرڈ نے کروائے ۔۔۔۔

میں نے انہیں بہت روکنا چاہا مگر اس نے وہ کام میری بجائے فیاض سے کروائے ۔مگر نام میرا لیا جو لوگ مجھے سفید موت کے نام سے جانتے تھے وہ میری دہشت سے خاموش رہ جاتے ۔۔۔

اس دن جب ایگزیبیشن میں سیکیورٹی آفیسر کو مارا تھا وہ بظاہر تو سیکورٹی آفیسر تھا مگر اصل میں وہ ایک کرپٹ آفیسر تھا ،جو معلومات دشمنی عناصر تک پہنچا رہا تھا ۔۔۔۔اس لیے اسے ختم کرنا پڑا ۔۔۔۔وہ کام مجھے رچرڈ نے نہیں دیا تھا ۔آئی ۔ایس آئی نے دیا تھا ۔۔۔۔

ہم سب رچرڈ کے خلاف ملکر کام کرتے ہیں ۔

"لالہ آپ ہم سے ایک بار ملنے تو آتے ۔۔۔۔!!!

"جانتے ہیں مام کتنا تڑپتی ہیں آپکو یاد کر کہ ۔۔۔۔

وہ رنجیدہ لہجے میں بولا ۔

"تم سب تو ساتھ تھے ۔۔۔میں تو اکیلا تھا ۔۔۔میری تنہائی کا اندازہ لگا پاؤ گے ۔۔۔۔؟؟؟

"میں نے اکیلے زندگی کیسے گزاری ؟؟؟؟

"میں بھی اتنا ہی تڑپا ہوں جتنا تم سب "

اس نے گہری سانس بھر کر فضا میں خارج کی ۔۔۔

"میں تم سب کو اپنی وجہ سے کسی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔۔۔ایک بار اس رچرڈ کا کام تمام کرلوں پھر آؤں گا واپس "

وہ شیردل کے شانے پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے بولا ۔۔۔

"سچ لالہ آپ آئیں گے نا "؟

وہ پرجوش آواز میں بولا۔

"ہمممم۔۔۔۔

"میں جا کر آتا ہوں تم ریسٹ کرو "وہ شانہ تھپتھپاکر کر بولا ۔۔۔۔

"لالہ مجھے اس رچرڈ سے وہ ویڈیو چاہیے کسی بھی صورت میں "۔

"میں جا رہا ہوں تمہارا کام بھی کردوں گا "

"نہیں لالہ میں اپنا کام خود کروں گا "

وہ بضد ہوا اور بستر سے نیچے اترنے لگا ۔۔۔۔

"شیردل تم اس حالت میں نہیں ۔۔۔۔رکو یہیں ۔۔۔

"نہیں لالہ مجھے بھی جانا ہے ۔

ابھی اتنا بھی کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔شیر کا دل ہے ،مجھ میں ۔۔۔۔اور جن کا دل شیروں کا ہو وہ کبھی تھک کر ہارا نہیں کرتے ۔۔۔

"Let's go...."

آریان شیر اور شیر دل دونوں ایک ساتھ باہر نکلے ۔۔۔۔

پری نے ان دونوں کے جاتے ہی دروازے کو لاک کرلیا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

رات کا سوا ایک بج چکا تھا ۔رچرڈ کے عالیشان بنگلے کے کئی رومز کی لائٹس بند تھی۔۔اسکے اندر جانا اتنا آسان نہیں تھا۔اسکے بنگلے کا سیکورٹی سسٹم بہت پاور فل تھا۔جگہ جگہ پر گارڈ کھڑے نظر آتے تھے۔ان کے حملہ کرنے پر انہوں نے بھی جواب دینا تھا اور اس طرح آرمی کے لوگ بھی نشانہ  بن سکتے تھے۔اسے کچھ ایسا کرنا تھا کہ وہ کوئی ہنگامہ کیے بنا خاموشی سے رچرڈ تک پہنچ جائیں ۔اور زیادہ خون خرابا نا ہو ۔امرام شیر نے کچھ  لوگوں کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔  اس نے سب کو خود سے اتنا  دور  رہنے کا کہا ۔۔۔ کہ کسی کو ان پر شک نہ ہو۔ایک دفعہ وہ اندر داخل ہوجائگ گا تو باقی سب بھی اسکی تقلید میں اندر داخل ہو جائیں گے۔۔ان لوگوں کی تعداد پندرہ تھی۔

چار لوگوں کو امرام شیر کے پیچھے اندر جانا تھا۔باقیوں کو اس بنگلے کو اپنے محاصرے میں لینا تھا۔امرام شیر کا پہلا کام تھا گارڈز کو راستے سے ہٹانا۔۔۔۔۔

وہ بکتر بند گاڑیوں کی بجائے دو وینز میں وہاں پہنچے تھے۔وینز کو اس کے بنگلے کے سامنے کھڑی کرنے کی بجائے سڑک کے دوسرے کنارے تھوڑا دور ہی کھڑا کر دیا تھا۔تاکہ کسی کو شک نا ہو ۔۔۔امرام شیر نے باہر کھڑے گارڈز پہ پیچھے سے حملہ کیا ۔۔۔اور انکے منہ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ۔۔۔

انکے کان کے پیچھے مخصوص رگ دبائی تو وہ بیہوش ہوکر باری باری گرتے چلے گئے ۔۔۔۔۔ 

جیسے ہی امرام شیر نے اندر قدم رکھا ۔۔۔

اندر موجود سیکورٹی پہلے سے ہی بیہوش ملی۔۔۔۔

اس نے چونک کر دیکھا ۔۔۔کہ یہ اندر موجود سیکورٹی گارڈز کیسے بیہوش ہوئے ۔۔۔۔۔

شیردل اور آریان شیر جو پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔ وہ دونوں جینز اور شرٹس میں ملبوس تھے۔اوپر جیکٹس بھی تھیں جن کی اندرونی جیبوں میں پسٹلز موجود تھی۔آریان اور شیردل کے کانوں میں آڈیو ڈیوائس بھی تھیں جس سے وہ دور ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بات کر سکتے تھے۔

"ریڈی؟"آریان  نے کہا ۔۔۔

"یس ریڈی ۔"وہ داخلی دروازہ عبور کیے راہداری میں آئے ۔۔۔۔

"سامنے ہی انیکسی میں جاتے دائیں جانب کے پہلے روم میں رچرڈ نے نیٹ ورک لگا رکھا ہے ،جہاں سے وہ اپنی ویب کو آپریٹ کرتا ہے ،اسکے نیٹ ورک کو اڑا دو ۔۔۔ساری بیہودہ سائیٹس  ختم ہو جائیں گی ۔۔۔۔

سب کچھ اسی کمرے میں موجود ہے "

آریان شیر کی بھاری آواز شیردل کو آڈیو ڈیوائس کے ذریعے اپنے کان میں سنائی دی ۔۔۔۔اسے اپنے راستے میں دو گارڈز کھڑے نظر آئے۔                                                              

"ارے آریان تم یہاں کیسے ؟"انہوں نے اسے آریان سمجھ کر خوشدلی سے پوچھا ۔۔۔۔کیونکہ وہ رچرڈ کا خاص آدمی جو تھا ۔۔۔۔

""ایسے "

شیردل نے گن نکال کر ان پہ  فائر کرنے کی بجائے ۔۔۔ان کے سر پہ گن کو زور سے مارا ۔۔۔۔

وہ درد سے بلبلاتے ہوئے نیچے گرے ۔۔۔۔

اس بنگلے میں جگہ جگہ کیمرے لگے تھے ۔۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے رچرڈ اس آپریٹر کو تاکید کر کہ گیا تھا کہ ہر جگہ نظر رکھے ۔۔۔۔

کنٹرول روم میں بیٹھے آپریٹر  نے آریان شیر کو اپنے سامنے لگی سکرین میں دیکھا تو دوسری طرف بالکل آریان شیر کے ہمشکل کو دوسرے کیمرے میں کسی کمرے میں داخل ہوتے دیکھا ۔۔۔۔

اور اس کے جیسے بالکل تیسرے کو بنگلے کے اندر آتے  یکدم بوکھلا گیا۔

وہ ان تینوں ہم شکل کو دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ کچھ نا کچھ گڑبڑ ضرور تھی ۔۔۔۔

وہ سب رچرڈ کیلیے بہت خطرناک ثابت ہونے والے تھے ۔

"سر آریان  یہاں پہنچ چکا ہے۔اور اس کے ساتھ اسکے دو ہم شکل بھی ہیں "اس نے بتایا تو رچرڈ  کی حالت بھی غیر ہوئی تھی۔اس کی چھٹی حس نے کہا تھا کہ ضرور کچھ نہ کچھ غلط ہونے والا ہے .

"باقی دونوں کون ہیں ؟"

"سر میں نہیں جانتا مگر وہ ہو بہو آریان شیر کی کاپی ہیں ۔"

"نہیں ۔۔۔۔ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔

کہیں آریان کے باقی دو بھائی تو نہیں مل گئے اسے ۔۔۔۔۔؟اس کے ذہن میں یکلخت جھماکا سا ہوا۔۔۔۔ماضی یاد آتے ۔۔۔۔

آریان شیر کے پاس وقت کم تھا اسے جلد از جلد اندر پہنچنا تھا۔وہ مسلسل آگے بڑھتے ہوئے اب وہ دوسری منزل کی کھڑکیوں کو دیکھنے لگا ۔ایک کھلی کھڑکی نظر آ گئی تھی اور اندر کمرے کی لائٹ بھی آن تھی۔وہ کچھ سوچے بنا نیچے والی کھڑکی کی نچلی سطح پر چڑھا۔اس کی اوپر والی شیڈ پر ہاتھ ٹکائے اور پاؤں کھڑکی کی جالی دار لوہے کی ڈیزائننگ میں پھنساتے ہوئے  شیڈ کے اوپر چڑھ گیا ۔پھر احتیاط سے دیوار پر ہاتھ جما کر اندر کودگیا ۔۔وہ رچرڈ کا ہی بیڈ روم تھا۔جو تیزی سے اپنا سامان کبرڈ سے نکال رہا تھا ۔۔۔۔کسی کو اندر کودتے دیکھ کر چند لمحوں کے لیے تو حیران رہ گیا اور اگلے پل وہ کبرڈ کا دروازہ دھاڑ سے بند کیے ۔۔۔اس میں سے گن نکال کر آریان شیر کی طرف بڑھا ۔۔۔

آریان شیر نے ایک ہی جاندار پنچ مارا کہ گن رچرڈ کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جاگری ۔۔۔

"سالا ۔۔۔۔جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے نمک حرام ۔۔۔۔

",وہ تنفر زدہ آواز میں بول کر دروازے کی طرف بھاگا ۔۔۔۔

کیونکہ وہ آریان شیر کی آگ اگلتی نظروں میں بغاوت دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔

"اپنی موت کو سامنے دیکھ کر بھاگ کیوں رہا ہے "

اوہ !!

"یاد آیا انگریزوں ڈرپوک دل میں اتنا دم نہیں کہ مسلمان فوجی کا مقابلہ کرسکیں ۔۔۔۔

وہ استہزایہ انداذ سے ہنکارا بھر کر بولا۔۔۔۔

آریان شیر نے تیزی سے پلٹ کر اس کا بازو پکڑ گرفت میں لے کر اسکی بازو کو  یوں گھمایا کہ اسکی بازو چٹخ گئی اور کڑک کی آواز سے اسکے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔۔۔۔

"مجھے چھوڑ دو ۔۔۔۔

وہ درد سے بلبلاتے ہوئے چیخنے لگا ۔۔۔

۔اس نے مٹھی زور سے بھینچی اور اپنا پورا زور لگا کر اس رچرڈ کے ناک پر دے مارا۔اس کی انگلی میں موجود پلاٹینم  کی انگوٹھی نے رچرڈ کے ناک کی ہڈی ہلا کر رکھ دی۔ وہ درد کو سہارنے کیلیے ہاتھ ناک پر رکھ کر کراہا تھا۔۔ 

"میں چاہوں تو میری ایک بلٹ کی مار ہوتم "

مگر اپنے ملک کی ہڈیاں کھوکھلی کرنے والے کی جب تک ساری ہڈیاں توڑ نہیں دیتا ۔۔۔ سکون نہیں ملے گا ۔۔۔

"مجھے مارے گا ۔۔۔۔",

رچرڈ اپنی ناک چھوڑ کر اس پر جھپٹا۔

آریان شیر پھرتی سے گھوم کر پیچھے ہٹا۔۔۔۔۔۔۔

اور  تمسخر سے رچرڈ ک دیکھا رچرڈ ایک بار پھر طاقت کے نشے میں چور آگے بڑھا تھا۔مگر آریان شیر نے اپنی ٹانگ اٹھا کر ایک جاندار کک اسکے سینے پہ ماری ۔۔۔۔۔رچرڈ پیٹھ کے بل نیچے گرا تھا ۔

آریان نے ایک پاؤں اس کے سینے پر ٹکایا اور دوسرا زمین پر رکھا۔۔اس کے سینے پہ اپنی کہنی سے ایسا وار کیا کہ وہ کئی لمحے اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا ۔

وہ چھ فٹ کا کڑیل جوان اتنا  طاقتور تھا کہ مقابل کو ایک منٹ میں اپنے سامنے ڈھیر کر دیتا تھا۔۔۔

آریان شیر نے بنا ایک بھی لمحے کی دیری کیے اپنی جیکٹ کے نیچے موجود گن ہولڈر میں سے گن نکالی ۔۔۔

اور اسکی نال کا رخ اسکی طرف کیا ۔۔۔۔۔

تب ہی کمرے کا دروازہ دھاڑ کی آواز سے کھلا ۔۔۔۔

امرام شیر جو آرمی یونیفارم میں ملبوس تھا ۔۔۔۔

"رک جاؤ مجھے اسے زندہ پکڑنے کے آرڈر ملے ہیں ؟

میجر امرام شیر دھاڑا ۔۔۔۔

"ہنہہ۔۔۔۔آرڈر ۔۔۔۔۔!!!!

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔

"لیفٹیننٹ کرنل آریان شیر ۔۔۔۔۔کے  پاس اسے مارنے کی اتھارٹی ہے "....

امرام شیر نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔جو رچرڈ کو ایک ہی پرفیکٹ شاٹ سے جہنم واصل کر چکا تھا۔۔۔۔

اب اسکا وجود ساکت پڑا تھا ۔۔۔۔

باہر ایک زور دار دھماکے کی آواز سن کر امرام شیر اور آریان شیر دونوں نے بیک وقت کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھا ۔۔۔۔

سامنے انیکسی کے کمرے میں سے آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے ۔۔۔۔

یعنی کہ شیردل اس کمرے کی ہر چیز کو تہس نہس کیے ہر ثبوت مٹا چکا تھا ۔۔۔۔

اس نے رمشاء کے ساتھ ساتھ ان بے گناہ لڑکیوں کی عزت کو بھی پامال ہونے سے بچا لیا تھا جن کی ابھی تک ویڈیوز لیک نہیں ہوئیں تھیں ۔اور اس نیٹ ورک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ کردیا تھا ۔۔۔ 

”اعیان کے ساتھ حادثہ ہو گیا  ہے اس کی جان اس وقت شدید خطرے میں ہے۔۔“ مومن مزید بھی کچھ بول رہا تھا لیکن جنت کے ہاتھ سے موبائل  چھوٹ کر نیچے جا گرا تھا۔ اسے حویلی کی چھت اپنے اوپر گرتی محسوس ہوئی تھی۔ اسکے چہرے کی رنگت ایک پل کے اندر زرد رنگ ہوگئی ۔۔۔

”جنت کیا ہوا؟“ اسکی حالت دیکھ کر زیان اسکی جانب آیا ۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے ہوش کھو کر نیچے گر جاتی زیان نے اسے اپنی مضبوط بانہوں میں سمیٹ لیا ۔۔۔

"زیان ۔۔۔وو۔۔وہ ۔۔۔میرا اعیان .....وہ شکستہ لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔۔

اعیان کے ساتھ ہوئے حادثے  کی خبر حویلی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تھی۔ جنت کی دلدوذ چیخیں ساری حویلی میں گونج اٹھی تھیں۔ ہیر ،عیش دونوں تو اس خبر پر گنگ رہ گئی تھی۔ ۔۔۔ہانیہ نے موقع پہ ہی اعیان کا فون اٹھائے اپنے بھائی مومن کو کال کی تو وہ ایمبولینس لیے جائے حادثہ پہ آیا ۔۔۔اعیان اور ہانیہ کو اپنے ساتھ اپنے ہاسپٹل لے گیا۔۔۔۔۔ہانیہ تو اعیان کی حالت دیکھ کر بےہوش ہو چکی تھی۔ 

اسکے بے اختیاری میں منہ سے نکلے الفاظ آج سچ ثابت ہو رہے تھے ۔۔۔۔

"اللّٰہ کرے تم مر جاؤ اعیان "

اسکے اپنے ہی بولے گئے الفاظ اس کے کانوں میں سنائی دینے لگے ۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں پہ رکھے ۔۔۔۔روتے ہوئے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی ۔۔۔

”یا اللہ رحم کر میرے بیٹے پر اسکو صحت و تندرستی والی زندگی عطا کردے ۔اس سے اگر کوئی غلطی ہوگئی ہو تو میں معافی مانگتی ہوں ۔۔۔۔۔یا اللّٰہ ایک دکھی ماں کے دل کی فریاد سن لے  “ جنت دونوں ہاتھوں کو دعا کی صورت اوپر اٹھائے گریہ و زاری کر رہی تھی۔ 

”آپ سب پریشان مت ہوں،اللہ تعالیٰ سب بہتر کریں گے ۔۔۔کچھ نہیں ہوگا اعیان کو پلیز جلدی چلیں میرے ساتھ ہمیں ابھی ہسپتال کیلیے نکلنا ہوگا۔۔“ احتشام  انکے کندھے کو زور سے دباتا انہیں حوصلہ دے رہا تھا جبکہ دماغ سخت الجھن میں مبتلا تھا ۔۔۔

شیرذمان اور ضامن بھی چیخیں سن کر باہر نکلے اور پھر پریشانی کے عالم میں ایک ساتھ گھر سے ہاسپٹل کے لیے روانہ ہوگئے ۔۔۔۔

اعیان کو بری حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔ وہ اس وقت شدید زخمی تھا اسکا کافی خون بہہ گیا تھا۔ ابتسام ،حسام اور شاہ من کو جب ضامن سے خبر ملی تو وہ بھی فورا ہاسپٹل کے لیے نکلے ۔۔۔۔۔ 

جنت اور زیان پہ وقت تو قیامت ٹوٹنے جیسا تھا۔ 

ہانیہ اپنی مما عیش کے گلے لگتے پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگی ۔۔۔۔اس کا دل پھٹنے کو تھا۔ عیش تو اپنی جوان بیٹی کے سر پہ منڈلاتے ہوئے غم کے بادلوں کے چھٹ جانے کے لیے دعا گو تھی ۔۔۔

ہانیہ اپنا لرزتا وجود لیے ہاسپٹل لے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔جہاں اعیان موجود تھا ۔۔۔سب اس سے ملکر گھر واپس جا چکے تھے ۔۔۔۔صرف ہانیہ اور زیان ہی وہاں رکے تھے ۔۔۔زیان میڈیسن لینے گیا تو ہانیہ پرائیویٹ روم میں چلی آئی ۔۔۔۔ اسکے وجود میں کپکپاہٹ واضح تھی جبکہ چہرہ جذبات کی حدت سے سرخ  تھا۔۔ بے شک اعیان نے اسکے ساتھ جو بھی کیا بھلایا نہیں جا سکتا تھا ،مگر اس نے جب آخری وقت میں اس سے معافی مانگی تھی ،ہانیہ اسکی وہ سچے دل سے مانگی گئی معافی کے الفاظ اور جذبات کو بھلا نہیں۔ پا رہی تھی ۔۔۔

اسے اپنا غم تھوڑا ہلکا ہوتا محسوس ہوا۔۔۔۔ابھی وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں لے پا رہی تھی ۔۔۔مگر دل اسکی زندگی بچ جانے پہ مطمئن تھا ۔۔۔۔

دروازے پہ آہٹ محسوس کیے اعیان نے آنکھیں کھول کر دیکھا ۔۔۔۔۔ ہانیہ سہمی دروازے کے قریب کھڑی تھی۔ وہ جذبے لٹاتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔ 

ہانیہ نے پلکیں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔ہر چیز دھندلی سی دکھائی دینے لگی ۔۔۔۔کیونکہ آنکھوں میں آنسو جو بھرنے لگے تھے ۔۔۔۔۔

"اگر میں مرجاتا تو۔۔؟ 

"ہانیہ کا خیال کون رکھتا "؟

یہ خیال ہی اسکے لیے جان لیوا تھا ۔۔۔۔سوچتے ہوئے اعیان کی آنکھوں میں بھی نمی اترنے لگی ۔۔۔۔ 

”بے شک میرے کیے کے لیے مجھے ساری زندگی معاف نا کرنا ۔۔۔۔میں تمہیں معاف کرنے کے لیے مجبور نہیں کروں گا ۔۔۔۔مگر دور رہ کر مجھے اذیت نا دو ۔۔۔میں جیتے جی مر جاؤں گا ۔۔“ وہ اپنی پوری ہمت مجتمع کیے بولا ۔۔۔

ہانیہ ڈبڈبائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے شکستہ قدموں سے آگے بڑھی اور بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ 

”کاش میں مر ہی جاتا ۔۔اتنی بے رخی کیسے برداشت کروں گا ۔؟“ وہ بےساختہ شکوہ کرگیا تھا۔ ہانیہ نے تڑپ کر اسکی جانب دیکھا تھا جو نم آنکھیں لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

”آپ ٹھیک ہیں اعیان ۔۔“ ہانیہ اس کے قریب کھڑی ہوکر پوچھنے لگی ۔۔۔

”ہانیہ ۔۔میں تمہیں خود سے دور جاتے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔میرے ہوتے ہوئے اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کرپاتا ۔جانتا ہوں غلطی کی میں نے ،مگر جہاں تک میرے سوچنے کی صلاحیت تھی اسی سے کام لیا میں نے اپنے حقوق کا ناجائز فایدہ اٹھایا ۔۔۔۔مگر غلطیاں بھی تو انسانوں سے ہی ہوتی ہیں،انسان خطاوں کا پتلا ہے ۔جب ٹھوکر لگتی ہے تب ہی سیکھتا ہے مجھے جدائی کا غم مت دینا ۔بے شک مجھے معاف مت کرنا ۔۔“ وہ گہری اذیت سے کہہ رہا تھا۔ 

”مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہانیہ مجھے معاف کردینا ۔میرا فرض ہے کہ میں تم سے بار بار معافی مانگوں ۔۔آگے یہ تم پہ منحصر ہے تم مجھے معاف کرو یا نہیں ۔۔“ 

اعیان نے اپنے دونوں ہاتھ ہانیہ کے آگے جوڑ دئیے ایسا کرنے سے اسکو شدید قسم کی تکلیف ہوئی اور اسکے آثار اسکے نقاہت زدہ چہرے پہ بھی نمایاں تھے ۔۔۔۔

ہانیہ نے اپنے نازک سے دونوں ہاتھوں اسکے ہاتھ تھام لیے ۔ وہ رودی تھی۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر بہنے لگے تھے۔ 

”روتے ہوئے تو اور بھی حسین ہوجاتی ہو ۔۔“ اعیان نے شرارت سے کہا تاکہ ماحول میں چھائی ہوئی تلخی کم ہو جائے ۔۔۔۔

”کیسے ہیں آپ۔۔؟“ اسکے بےساختہ سوال پر وہ مسکرادیا تھا۔ 

”کیسا ہوں گا بھلا  ،جسکی اتنی حسین بیوی سامنے ہو اور بندہ کچھ کر بھی نہیں سکتا ہو ۔۔؟“ وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"آپ نہیں سدھر سکتے۔۔۔بیماری کی حالت میں بھی ہری ہری سوجھ رہی ہیں "

ہانیہ نے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا تھا۔

۔۔

وہ کچھ کہہ نہ پائی بس آنسو آنسو ٹپ ٹپ گرتے رہے تھے۔ 

”میں نے بہت دکھ دئیے نا تمہیں ۔۔۔ایک موقع دو ان تمام دکھوں کا مداوا کر دوں گا "

اعیان نے ہاتھ بڑھا کر اپنی پوروں سے اسکے آنسو پونچھے ۔۔۔

”آپ ٹھیک ہوجائیں پھر ہی ایسا ممکن ہے ۔۔“ وہ روتے روتے حامی بھر گئی تھی۔

 اعیان کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔

”مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہانیہ کہ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں ۔۔وہ پرجوش آواز میں بولا۔۔۔اسکے لہجے میں خوشی کا عنصر نمایاں تھا۔۔۔۔

"مجھے آج ہی گھر لے چلو پھر اچھے سے شکریہ ادا کروں گا "

وہ اپنے ازلی موڈ میں واپس آچکا تھا ۔۔۔۔

”خبردار جو ایک بھی لفظ اور بولا تو۔لیٹے رہیں یہیں چپ کر کہ ابھی لے کر جاتی ہوں اچھے آپ کو گھر ۔“ ہانیہ نے غصے سے اسکی بات کاٹی تھی۔ اور اسے گھورنے لگی ۔۔۔ 

"ہائے قربان جاؤں ایسی پیار بھری سختی پہ "

وہ ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے لبوں سے لگاگیا تو ہانیہ جھینپ سی گئی۔۔۔۔

اعیان کے چہرے پہ آسودہ سی مسکراہٹ بکھر گئی ۔۔۔۔

بلاشبہ آنے والی زندگی ان کے لیے بہت بہترین ثابت ہونے والی تھی سارے گلے شکوے مٹ گئے تھے ،ان کی جگہ خوشیاں اپنے ڈیرے جمانے والی تھیں ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

"ماھی کہاں ہے "؟

دعا اور شاہ من گھر آئے تو ماھی کا کمرہ خالی دیکھا ۔۔۔

وہ بوکھلا کر رہ گئے جب انہیں پورے گھر میں میں ماھی کہیں بھی دکھائی نہیں دی ۔۔۔

صغراں !!!

"آؤ صغراں !!! 

دعا بےچینی سے اپنے گھر میں موجود ملازمہ کو آواز دینے لگی ۔۔۔۔

""جی بی بی جی !

وہ اس کے پاس آکر مؤدب آواز میں بولی ۔۔۔۔

"ماھی کہاں ہے ۔۔۔؟"

"میں اسے تمہارے حوالے کر کہ گئی تھی۔۔۔نا ۔۔۔

"تمہیں اسکا خیال رکھنے کی ذمہ داری سونپی تھی ۔۔۔

"تو بتاؤ اب کہاں ہے ماھی ؟؟؟."تمہیں میں نے بتایا بھی تھا نا کہ دو ہفتے ہوگئے وہ نا تو ٹھیک سے کچھ کھا پی رہی تھی ۔نا کالج جا رہی تھی ۔۔۔۔اس کا اچھے سے خیال رکھنے کی تاکید کر کہ گئی تھی نا میں دو دن میں واپس نہیں آئی اور ماھی کہاں چلی گئی ۔۔۔۔

یہ خیال رکھا تم نے ماھی کا ؟"

وہ تلخ انداز میں پیش آئیں تو صغراں آر جھکائے ہوئے کھڑی رہی ۔۔۔

"بی۔بی۔جی ۔۔۔وہ ۔۔۔وک ۔۔مجھے نہیں پتہ کہ ماھی جی کدھر گئیں ۔۔۔

کل تک تو کمرے میں ہی تھی ۔۔۔آج صبح ان کے کمرے میں گئی تو وہ کہیں بھی نہیں تھیں ۔۔۔میں نے سارے گھر میں انہیں تلاش کیا مگر وہ کہیں بھی نہیں ملیں ۔۔۔

"اس نے ساری بات ان کے سامنے گوش گزار کی ۔۔۔

دعا اور شاہ من اسے لے کر بہت پریشان تھے ۔۔۔۔

انہوں نے لکی کے دئیے گئے نمبر پہ کال کی ۔۔۔

مگر وہ نمبر مسلسل بند آرہا تھا ۔۔۔۔انہوں نے سوچا کہیں لکی تو نہیں اسے اپنے ساتھ لے گیا گھمانے پھرانے ۔۔۔مگر اسکا مسلسل آف نمبر دیکھ کر وہ مزید پریشانی میں مبتلا ہوگئے ۔۔۔

دعا اور شاہ من نے لکی کے دئیے گئے ایڈریس پہ جانے کا سوچا ۔۔۔وہ بنا وقت ضائع کیے اسکے دئیے گئے ایڈریس پہ پہنچے ۔۔۔

مگر یہ کیا وہاں سوائے جنگل کے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔

ایک کھنڈر نما پرانا سا گھر تھا جو کہ آس پڑوس کے لوگوں سے پوچھنے پہ پتہ چلا کہ نجانے کتنے سالوں سے وہ بند پڑا ہے ۔۔۔

وہ تھک ہار کر خالی ہاتھ  پریشان واپس لوٹ آئے ۔۔۔۔

"شاہ من ہم نے بہت بڑی غلطی کردی ۔۔۔۔

اپنی اکلوتی بیٹی کا رشتہ  کسی انجان کے ساتھ جوڑ کر "

دعا نے رنجیدہ لہجے میں کہا۔

"ہمممم۔۔۔۔شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو ہم نے جذبات میں آکر اتنا بڑا قدم اٹھا لیا ۔۔۔۔نجانے ہماری بچی کہاں ہوگی اس وقت نجانے کس حال میں ہوگی ۔۔۔۔شاہ من افسردہ آواز میں بولا ۔۔۔

"میں پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرواتا ہوں ماھی کی گمشدگی کی  "

"یہی ٹھیک رہے گا ۔۔۔۔"وہ آہستگی سے بولا ۔۔۔۔

شاہ من میری بیٹی !!!

"بہت بڑی بھول ہوگئی مجھ سے ۔۔۔ایک ماں ہوکر بھی میں نے اپنی بیٹی کا اعتبار نہیں کیا ۔۔۔۔کیسی ماں ہوں میں اپنی بیٹی کے دل کی بات نہیں جان سکی ۔۔۔

"میں اسکے بغیر کیسے رہوں گی ۔۔۔؟

مجھے نہیں پتہ ۔۔۔جہاں سے مرضی اسے ڈھونڈھ کر لائیں ۔۔۔میں مر جاؤں گی اپنی بچی کے بغیر ۔۔۔۔

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔

"آپ حویلی سے پتہ کریں شاید کسی کو پتہ ہو ۔۔۔زخرف کو یا کسی اور کو "

دعا نے شاہ من کو ایک نئی راہ سجھائی۔۔۔

"کیا منہ لے کر جاؤں گا سب کے سامنے ۔۔۔ ؟؟؟

"سب نے مجھے کتنا منع بھی کیا تھا ماھی کا رشتہ طے کرنے پہ ۔۔۔۔

"شاہ من اب تو جو ہونا تھا ہوگیا ۔۔۔نا ۔۔۔

جائیں جا کر پتہ کریں اس کا کہیں سے بھی مرضی ڈھونڈھ کر واپس لائیں میری بیٹی کو ۔

وہ تڑپ کر بولی۔۔۔۔

شاہ من اپنا نڈھال وجود لیے باہر نکلا تو دعا سے اکیلے گھر میں رہ کر صبر کرنا مشکل ہوا وہ بھی شاہ من کے پیچھے پیچھے باہر نکل گئی۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"بھائی آپ اندر چلیں ہم  سامان لے کر آتے ہیں "

امرام شیر نے آریان شیر سے کہا  ۔۔۔۔

امرام شیر گاڑی کی ڈگی کھولے اس میں سے سامان باہر نکال رہا تھا جبکہ شیردل اپنا بازو سنبھالے اب گاڑی کو لاک لگانے لگا ۔۔۔۔

پری اپنا کلچ اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹا سا سفری بیگ پکڑ کر باہر نکلنا چاہا ۔۔۔

"لاؤ مجھے دو میں پکڑ لیتا ہوں "

امرام شیر نے پری کے ہاتھ میں بیگ دیکھا تو پیشکش کی ۔۔۔

"اوہو ۔۔۔و۔۔۔بھابھی کی اتنی خدمتیں !!!

"خیر تو ہے ۔۔۔۔کہیں پرانے بدلے چکانے کا ارداہ تو نہیں "

پری نے دل جلانے والی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالتے ہوئے کہا ۔۔۔

تو پیچھے کھڑا شیردل بھی مسکرایا امرام شیر کے غصے سے لال پیلے چہرے کو دیکھ کر ۔۔۔ 

"شٹ اپ "

کئی لوگوں کو واقعی عزت راس نہیں ہوتی "

وہ دانت پیس کر خود پہ ضبط کیے بولا ۔۔۔

"اوئے ۔۔۔زرا تمیز سے ۔۔۔۔بڑی بھابھی ہوں ۔۔۔

وہ انگلی اٹھا کر دھمکی آمیز انداز میں بولی ۔۔۔

"ابھی سکھاتا ہوں تمیز "وہ  اس کی طرف بڑھا ۔۔۔

"لالہ ۔۔۔۔!!!!

سٹاپ اٹ پلیز ....

شیردل نے درمیان میں آکر صلح جو انداز میں کہا ۔۔۔

امرام شیر بیگ اٹھا کر اندر کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

"آئیں بھابھی اندر چلیں "

شیردل اسے اپنے ساتھ اندر لے جانے لگا ۔۔۔

زخرف جو گاڑی رکنےکی آواز سن کر سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آرہی تھی ۔۔۔

لاونج میں امرام کو داخل ہوتے دیکھ اسکے چہرے پہ خوشیوں بھرے رنگ بکھر گئے ۔۔۔

اس نے ادھر ادھر دیکھا لاونج میں اس وقت اسکے اور امرام شیر (بقول زخرف کے )کوئی نہیں تھا ۔۔۔

وہ تیزی سے سیڑھیاں پھیلانگتے ہوئے نیچے آئی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ بھاگتی ہوئی آریان شیر کے گلے لگتی۔۔۔۔

"Wait ... Wait.... Wait..."

امرام شیر جو بیگ اٹھائے پیچھے سے داخل ہوا ۔۔۔

ذخرف کو آریان شیر کی طرف دوڑتے دیکھ تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے ان دونوں کے بیچ حائل ہوا ۔۔۔۔

آریان شیر نے نا سمجھی سے ان دونوں کو دیکھا ۔۔۔

"بھائی یہ غلطی سے میری وائف ہے ۔۔۔

وہ چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے بولا ۔۔۔

مگر زخرف کو کھا جانے والی نظروں سے گھورنا نہ بھولا  ۔۔۔

امرام شیر کے پیچھے جیسے ہی پری اندر داخل ہوئی ۔۔۔

زرخرف کی تو سر پہ لگی تلوں پہ بجھی ۔۔۔

وہ پری کو خون آشام نظروں سے گھورتے ہوئے ۔۔۔۔

امرام شیر کی طرف مڑی ۔۔۔

اسکی آنکھوں میں تنبیہ تھی ۔۔۔مگر زخرف کو کون سمجھائے جس پہ اسکی وقت حسد کا بھوت سوار ہوچکا تھا ۔۔۔

"ہائے او ربا !!!  

"میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی ۔۔۔۔

وہ زمین پہ آلتی پالتی مارے بیٹھی اور پیشانی پہ ہاتھ رکھے اونچی آواز میں دہائی دینے لگی ۔۔۔۔

"کرلی نا اس خوبصورت چڑیل فسادن سے دوسری شادی ۔۔۔۔

کیا کمی تھی مجھ میں ؟؟؟

میں پوچھتی ہوں کیا کمی تھی مجھ میں ایک زرا سا قد کیا چھوٹا تھا ۔۔۔

مجھے چھوڑ کر  ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید گل افشانیاں کرتی ۔۔۔۔امرام شیر نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔۔

"ایک آواز بھی نا نکلے تمہارے منہ سے ۔۔۔۔ورنہ دوبارہ بولنے کے قابل نہیں رہو گی ۔۔۔اندر چل کر بات کریں گے "

وہ اسکے کان کے قریب چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔۔

ذخرف اٹھ کر کھڑی ہوئی اور ناک سکوڑی۔۔۔۔

پری کی طرف تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔

"ماں !!!

"ماں !!! 

آریان شیر کی بھاری آواز ساری حویلی میں گونجی ۔۔۔۔

ہیر جو اپنے کمرے میں تسبیح پڑھ رہی تھی۔

چونک گئی۔۔۔۔

اس آواز اور اس بلانے کے انداز کو تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی ۔۔۔امرام شیر اور شیردل دونوں ہیر کو مام کہتے تھے مگر آریان شیر اسے بچپن سے ماں کہتا آیا تھا ۔۔۔

اس کے کان کتنے سالوں سے یہ لفظ سننے کے لیے ترس گئے تھے یہ بس اسکا دل جانتا تھا یا خدا ۔۔۔۔

وہ تسبیح کو چوم کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر نکلی ۔۔۔۔

اسکی پیاسی آنکھیں سیراب ہوتے ہوئے ساکت رہ گئیں ۔۔۔

وہ وہیں کھڑی رہ گئی۔۔۔

"ماں !!

آریان شیر کی آواز سن کر ہوش میں آئی ۔۔۔

”یا الــلّــہ تیرا شکر۔۔۔۔“ ہیر نے اسے اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر سب سے پہلے اس خداوند کا شکر بجا لایا ۔۔۔۔

 ممتا کی پیاس آج بجھی تھی جا کر ۔۔۔۔ہیر کو درد سے  اپنا سینا پھٹتا محسوس ہوا تھا۔۔۔

وہ کسی طرح اسے اپنے سینے سے لگا کر اپنی ممتا کو قرار دینا چاہتی تھی ۔۔۔

آریان شیر ،ہیر کی طرف بھاگا جو اسے دیکھ پتھر کی مورت بنی کھڑی تھی ۔۔۔

آریان شیر نے اپنی ماں کو اپنی بانہوں میں بھر کر گول گول گھمایا ۔۔۔۔

ہیر تو اپنے بیٹے کے گال پہ ہاتھ رکھ کر اسکی موجودگی کو محسوس کر رہی تھی ،خواہ کہیں یہ اسکا خواب تو نہیں ،

مگر وہ حقیقت میں تھا ۔۔۔

"Miss you Maaaaaa.....

" Love you sooooooo much"

وہ پرجوش بھاری آواز میں بولا۔۔۔۔

"مجھے اتارو آریان میں گر جاؤں گی "

ہیر نے اسکے دونوں چوڑے  شانوں کو اپنے ہاتھوں سے زور سے پکڑ رکھا تھا گرنے کے ڈر سے ۔۔۔۔

"ماں آپکے بیٹے میں اتنا دم ہے کہ اپنی ماں کو ساری زندگی اٹھائے رکھوں "

وہ ہیر کے ڈر کو سمجھتے ہوئے اسے صوفے پہ بیٹھانے لگا ۔۔۔

آریان کی آواز سن کر سب وہاں اکٹھا ہونے لگے ۔۔۔۔

"میں زرا آتا ہوں کچھ لوگوں کی زبان پھسل رہی ہے اسے کنٹرول میں کرنا ہے "

وہ زخرف کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے کی طرف لے جانے لگا ۔۔۔

زخرف سب کی موجودگی کی وجہ سے چپ چاپ اسکے ساتھ چلتی رہی ۔۔۔

امرام شیر نے کمرے میں لاکر اسکا ہاتھ چھوڑا ۔۔۔

اور دروازے کو اندر سے لاک لگایا ۔۔۔

"آنکھوں کی جگہ کیا ٹچ بٹن فٹ کیے ہیں جو ٹھیک سے دکھائی نہیں دیا ۔۔۔

ویسے تو بڑے بڑے دعوے کرتی نہیں تھکتی تھی اپنی محبت کے ۔۔۔ اب چلی تھی کسی اور کو اپنا شوہر مان کر ۔۔۔

وہ سر جھٹک کر غصے سے آگ بگولہ ہوا ۔۔۔

زخرف کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔۔۔

وہ شرمندگی سے سر جھکائے  اپنے ہاتھوں کی انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔۔۔

واقعی اس سے غلطی تو ہوگئی تھی ۔۔۔

مگر زخرف نے اپنی غلطی ماننا سیکھا کہاں تھا ۔۔۔

"ہاں تو میں کیا کرتی ان کے بال بھی آپ جیسے تھے فوجی ہئیر کٹ،ویسی آنکھیں سارا ناک نقشہ ویسا ۔۔۔اب اس میں میرا کیا قصور؟؟

بتائیں بھلا ؟"وہ اپنی کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں بولی۔۔۔

"یہ کیا فضول ہانک رہی تھی باہر ؟؟؟

وہ کڑے تیوروں سے اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔

زخرف نے پیچھے کی جانب الٹے قدم لیے ۔۔۔

"ہاں تو کیا غلط کہا میں نے کیوں لے کر آئے اسے یہاں "؟

وہ اپنے ازلی انداز میں واپس آکر بولی ۔۔۔

"وہ آریان بھائی کی بیوی ہے "امرام شیر نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا ۔۔۔

زخرف کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑے سچائی سن کر ۔۔۔

"اچھا ۔۔۔

وہ پژمردگی سے بولی ۔۔۔

امرام شیر نے کوٹ اتار کر صوفے پہ پھینکا اب وہ کبرڈ کھول رہا تھا آرام دہ سوٹ نکالنے کے لیے ۔۔۔

"لائیں میں نکال دیتی ہوں "

وہ اسکے پاس آکر نرمی سے بولی ۔۔۔چہرے پہ ابھی بھی شرمندگی کے آثار نمایاں تھے۔۔

"دور رہو مجھ سے میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔چھوڑ دو مجھے میرے حال پہ ۔۔۔اپنا کام میں خود کرسکتا ہوں ۔۔۔میرے ہاتھ سلامت ہیں ابھی "

وہ تلخ انداز میں بولا۔۔۔

"اچھا سوری نا۔۔۔۔

وہ معصومیت سے کان پکڑ کر بولی ۔۔۔

امرام شیر نے لبوں پہ آتی ہوئی مسکراہٹ کو زبردستی پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔

اور چہرہ سنجیدہ رکھنے کی پوری کوشش کی۔۔۔۔

کپڑے لیے کھٹاک سے کبرڈ بند کرتے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

"ابھی بتاتی ہوں دور رہنے کا کہا ہے نا ۔۔۔۔ایسا چپکاوں گی ۔۔۔کہیں دور نہیں جا پائیں گے "وہ چٹکی بجاتے ہوئے ذہن میں نیا پلان ترتیب دینے لگی ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

شیردل جو تب سے کھڑا اپنے بھائی اور ماں بابا کے ملن کا منظر دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

رمشاء ٹرے میں پانی کا گلاس لیے اسکی طرف آئی ۔۔۔

اور اسکی بازو اور گردن میں کالر دیکھ کر پریشان ہوئی ۔۔۔

"اسلام وعلیکم!

وہ پانی کا گلاس آگے کیے بولی ۔۔۔

"وعلیکم السلام! 

"آپکے بازو کو کیا ہوا ؟؟؟

سب ٹھیک تو ہے نا ؟؟؟

وہ کشمکش میں مبتلا ہو کر پوچھنے لگی ۔۔۔

ہیر کی نظر بھی اچانک اسی وقت شیردل پہ پڑی ۔۔۔

"یہاں آؤ شیردل ۔۔۔

کیا ہوا ہے ؟

اس نے بےچینی سے پوچھا ۔۔۔

"کچھ نہیں مام زیادہ پریشانی کی بات نہیں ایک چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا۔۔۔اب ٹھیک ہوں "

ہیر نے بازو پھیلائی تو شیردل ان کے پاس گیا اور انکے شانے سے لگا ۔۔۔

"شیر ہے میرا اسے کیا ہوگا "

ساتھ بیٹھے ہوئے شیر زمان نے اسکا شانہ تھپتھپاکر کر کہا ۔۔۔

"بیٹا تم میڈیسن لے کر آرام کرو ۔۔۔۔تھک جاؤ گے بیٹھ کر ۔۔۔

ہیر نے متفکر لہجے میں کہا۔۔۔

"جی مام میں واقعی تھک گیا ہوں پھر صبح ملاقات ہوگی ۔۔۔

وہ انکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تو رمشاء اس کے پیچھے پیچھے اندر آئی ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

آریان شیر نے سب سے پری کا اپنی بیوی کی حیثیت سے تعارف کروایا ۔۔۔

سب اس سے خوشدلی سے ملے ۔۔۔۔عیش ،ضامن،جنت زیان ،ہانیہ ،اعیان ،مومن اور آیت ،سب وہیں موجود آپس میں ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے اور آریان شیر سے اسکے ساتھ ہونے والے واقعات دلچسپی سے  سننے لگے 

"کافی رات ہوگئی ہے میرے خیال میں اب بچوں کو آرام کرنے دینا چاہیے "

شیر زمان نے ہیر سے کہا ۔۔۔

"ہم ٹھیک ہے پھر صبح ملتے ہیں ۔جاو آریان اپنی دلہن کو اپنے روم میں لے جاؤ ۔۔۔

تم نہیں بھی تھے تب بھی تمہارے روم کی روزانہ صفائی کرواتی رہی ہوں ۔تمہاری ایک ایک چیز وہیں رکھی ہے ۔جہاں تم رکھ کر گئے تھے ۔۔۔

ہیر نے پیار بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بتایا ۔۔۔

"Thanks...love you maaa....

وہ انکے ہاتھ کی پشت پہ بوسہ لے کر اٹھا ۔۔۔

"آئیں ماں پہلے آپ کو آپکے روم میں چھوڑ دوں ۔۔۔

"ارے بھئی ابھی تمہاری ماں کو اٹھا کر لے جانے والا موجود ہے ۔۔۔تم جاؤ ۔۔۔میں خودی دیکھ لوں گا اپنی لٹل وائفی کو"شیر زمان ہلکا سا مسکرایا۔۔۔

آریان شیر اپنے بابا کے گلے لگا ۔۔۔۔ 

نجانے کونسی تشنگی تھی جو مٹنے نہیں پا رہی تھی۔۔۔

شیرذمان نے پیار سے اسکے بال بگاڑے ۔۔۔

وہ پیچھے ہوتے ہوئے مسکرا کر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا پری نے اسکی تقلید کی ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

امرام شیر باہر آیا تو ٹراؤزر اور شرٹ میں ملبوس تھا ۔۔۔

زخرف کو کمرے  میں بے چینی سے ادھر ادھر چکر لگاتے ہوئے پایا ۔۔۔

مگر اسے نظر انداز کیے بستر پہ بیٹھ گیا ۔۔۔

پھر اپنا موبائل لیے نیم دراز ہوا اور میسجز چیک کرنے لگا ۔۔۔

زخرف چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اسکے قریب آئی ۔۔۔

"جان جی ۔۔۔سوری ۔۔۔

وہ معصومیت کی انتہا کرتے ہوئے آنکھیں پٹپٹا کر بولی ۔۔۔

امرام شیر  اسکے طرز تخاطب پر چونکا ۔۔۔

اور نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔

"جاؤ مجھے آرام کرنے دو ابھی تم سے مزید دماغ لڑانے کی ہمت نہیں مجھ میں "

"میں کیوں جاؤ ؟؟

میرا کمرہ ...میرا بستر ...میرا پرسنل شوہر ...

"کون نکالے گا مجھے یہاں سے ۔۔۔

بلکہ کون مائی کا لعل اٹھائے گا مجھے یہاں سے "

زخرف ایک کی جست میں اسکے پیٹ پہ آلتی پالتی مارے کر بیٹھی ۔۔۔

"مارنے کا ارادہ ہے "؟

امرام شیر اسکے یوں اپنے اوپر بیٹھ جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔

"ایک تو ویسے ہی پیٹ میں چوہے دوڑ ہیں ۔۔۔۔آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں اوپر سے تم بیٹھ گئی ۔۔۔

",نہیں کچھ ہوتا آپکو اب اتنا بھی وزن نہیں میرا ۔۔۔پھول سی تو ہوں "

ہاں پھول سی نہیں دس من پھولوں کا وزن "

وہ دانت کچکچا کر بولا۔۔۔

"توبہ توبہ جھوٹ کی بھی کوئی اخیر ہوتی ہے میجر صاحب۔۔۔۔آپکو یہ پھولوں سی لڑکی دس من می لگتی ہے "

وہ اسکی شرٹ کا بٹن کھولنے لگی ۔۔۔

امرام شیر نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر اسے روکا ۔۔۔

"یہ کیا کر رہی ہو ؟؟؟

"آپ نے کہا تھا نا کہ اپنے شوہر کو زن مرید بنانا ۔۔۔تو اسی لیے یہ ٹرک لگارہی۔۔۔۔

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ اسطرح کرنے میں زن مرید بن جاؤں گا ۔۔۔

"اچھا تو پھر کیسے بنیں گے ؟.

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔

"پیچھے ہٹو مجھے سانس نہیں آرہی "

اس نے زخرف کو خود سے پیچھے دھکیل کر اٹھنا چاہا۔۔۔

مگر وائے رے قسمت وہ ایسا کر نہیں پایا ۔۔۔

اسکے کپڑے بستر سے چپک چکے تھے ۔۔۔۔

اس نے حیرت سے اپنے کپڑوں کو بستر پہ چپکا دیکھا تو واپس بیٹھ گیا ۔۔۔

"میری فوٹو کو سینے سے یار چپکا لے سئیاں فی وی کول سے ۔۔۔۔

یہ گلو ایسے چپک گئی ہے جیسے میجر سے زخرف ۔۔۔

وہ اسکی گود میں بیٹھ کر شرارت سے گنگناتے ہوئے بولی ۔۔۔

"اب دور جاکر دکھائیں۔۔۔

"زخرف میرا دل کر رہا ہے کہ اس وقت میں ۔۔۔۔

وہ مٹھیاں بھینچ کر اپنے آپ پہ ضبط کیے  دانت پیس کر بولا ۔۔۔

"آپ رہنے دیجیے ۔۔۔میں بتاتی ہوں کہ میرا دل کیا کر رہا ہے ۔۔۔

وہ اسکی بئیرڈ پہ اپنی انگلی پھیر کر ذومعنی انداز میں بولی۔۔۔۔

"دل چاہتا ہے آپکے دل میں نا ایک مائیکرو چپ لگادوں۔۔۔۔

"وہ کیوں "؟

امرام شیر نے ابرو اچکا کر اسکی بے تکی بات سن کر پوچھا ۔۔۔

"بھئی مجھے سننا ہے نا آپکا دل کتنی بار میرا نام لیتا ہے ۔۔۔

امرام اسکی بات سن کر مسکرائے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔اس لڑکی کی ہر بات ہمیشہ انوکھی ہی ہوتی تھی ۔۔۔ 

"ٹھیک ہے تو پھر تم مجھے چپ لگادو ۔۔۔میں تمہیں چپ لگادوں گا ۔۔۔

"امرام شیر اسکے گلے میں سے دوپٹہ نکال بستر پہ رکھتے ہوئے شرٹ شانوں سے کھسکانے لگا ۔۔۔

"یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔یہ ۔۔۔کیا ۔۔۔کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔

اس کی گھگھی بندھ گئی۔۔۔۔

"چپ فٹ کر رہا ہوں ۔۔۔۔

"ہٹیں پیچھے۔۔۔۔

"کوئی چپ نہیں آپکے پاس ۔۔۔وہ اسکی تھائی سے اٹھنے لگی تو امرام شیر نے اس کی کلائی سے کھینچ کر اسے خود پہ گرا لیا ۔۔۔۔

"اب سنو دل کی دھڑکنوں کو کس کا نام لے رہی ہیں ؟

وہ اسکا سر اپنے سینے سے لگائے بولا ۔۔۔

"مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا ۔۔۔

وہ اسکی قربت پہ پگھلنے لگی ۔۔۔تو انکاری ہوئی ورنہ اسکی  دھڑ دھڑ کرتی دھڑکنیں کانوں میں سنائی دے رہی تھیں ۔۔۔

"اچھا چلو یہ بتاؤ اور کیا سوچا تھا مجھے زن مرید بنانے کے لیے ۔۔۔

وہ اسکے چہرے پہ آئے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے اسکے ریشمی گیسووں میں انگلیاں چلانے لگا ۔۔۔

"وہ نا میں نے سنا ہے لڑکیاں اپنے شوہر کو اپنی اداؤں سے رجھاتی ہیں "

"اچھا جی تو پھر رجھائیں!!!

زخرف نے اٹھنا چاہا مگر اس نے زخرف کی کمر کے گرد اپنی بانہوں کا گھیرا تنگ کر دیا۔۔۔۔

"You are mine ".!!!!

وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔

ذخرف جو اسکی گرفت میں پھڑپھڑا رہی تھی ،اسکی آواز میں اتنی نرمی اور ٹہراؤ محسوس کیا کہ وہ اپنا سارا غصہ بھول گئی ۔۔۔۔

"ویسے ایک بات پوچھوں ؟وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔

کیا ؟


وہ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھے بولی ۔۔۔

"تم پری سے جلیس ہوتی ہو ؟؟؟

وہ اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ گیا ۔۔۔

"ہاں اگر یہ جیلسی کے زمرے میں آتا ہے تو میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں جیلس ہوتی ہوں ۔

میں جانتی ہوں کہ میں کسی کو زبردستی اپنے ساتھ باندھ کر نہیں رکھ سکتی ،میں آپ کو اپنے ساتھ رہنے پہ مجبور نہیں کر سکتی ،کہ آپ میرے علاؤہ کسی کو نا سنیں یا کسی سے بات نا کریں ،ایسا ممکن نہیں ۔مگر یہ جاننے کے باوجود بھی میرا دل چاہتا ہے کہ آپ میرے سوا کسی سے اپنے دل کی بات نہ کریں ،میں آپکی سب سے بہترین دوست بننا چاہتی ہوں ،جب آپکو اپنا دکھ  شئیر کرنا ہو مجھے ایک بہترین دوست سمجھ کر شئیر کریں ،

جب محبت کی ضرورت ہوتو مجھے محبوب سمجھ کر محبت کریں ۔

یہ میرے دل کی ننھی سی خواہشیں ہیں ،

اگر !!!

یہ خواہشات جیلسی کے زمرے میں آتی ہیں تو میں برملا اعتراف کرتی ہوں ہاں میں جیلس ہوتی ہوں ۔

امرام شیر ہولے سے مسکرایا ۔۔۔

اسکے واضح بیان پہ۔

"دیکھا لے آئی نا میں آپ میں انقلاب "

وہ اپنی آوارہ لٹ کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے  اسکی گرفت میں مچل کر بولی ۔۔۔

"کیسا انقلاب ؟"وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔

"یہی جو ہر وقت کھڑوس بنے رہتے تھے اب میری طرح شرارتی بن گئے ہیں ،میری ہر شرارت کا بدلہ لیتے ہیں ،وہ بھی ذخرف کے سٹائل میں ۔۔۔۔

"کیونکہ اب میں ،میں نہیں رہا تم بن گیا ہوں ،یہ دل تمہارے بن اب دھڑکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔۔۔

"میری بونی باس "

وہ اسکی چھوٹی سی ناک کو ہلکا سا دبا کر مسکرایا۔۔۔

"میجر یہ روٹھنا منانا شرارتیں سب اپنی جگہ ۔۔۔

مگر خدارا ہماری محبت میں کوئی تیسرا جس دن شریک ہوا نا وہ دن میری زندگی کا آخری دن ہوگا ۔۔۔۔"

وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔۔۔

اس وقت وہ امرام شیر کو جنونی لگی ۔۔۔۔جو اپنی محبت میں شراکت داری برداشت نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔۔

"زخرف تم میری حیات کا وہ خوبصورت عنوان ہو 

جسے میں نے روح کے صفحات میں درج کیا ہے ،

یہ جسم مٹی سے ملکر مٹی ہوجانا ہے ۔مگر روح تو آخرت کی لافانی زندگی تک رہنی ہے نا ۔۔۔

میری اس روح نے تمہیں اس لافانی زندگی کا ساتھی چن لیا ہے ۔

ہمارا ساتھ دونوں جہانوں میں برقرار رہے گا ۔۔۔

تمہارا ساتھ پانے کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی طلب یا تشنگی باقی نہیں رہی ۔۔۔۔وہ محبت سے چور آواز میں بولا۔

"شکر ہے میرے کھڑوس میجر کو بھی محبت بھری باتیں آئیں ورنہ میں نے سوچا تھا ہمیشہ یہ منہ پھلا کر گھومنے والا سڑیل میجر کہاں اتنی رومینٹک باتیں کریں گے ۔۔۔انہیں تو گن اور گولیوں کے علاؤہ کچھ سوجھتا ہی نہیں ہوگا ۔۔۔

کہاں آپ گولہ باری کرنے والے ۔۔۔اور،،،

میں ٹہری چوڑیوں کی شوقین ،

گجروں کی اسیر ،،،

جھمکوں کی دیوانی ،،،

وہ اٹھلا کر بولی ۔۔۔

"میری محبت !!!

"میری بھی اک خواہش ہے ،،،

تمہیں اپنے ہاتھوں سے گجرے پہناؤں ۔۔۔

وہ اسکی کلائی کو اپنے لبوں سے چھو کر بولا ۔۔۔

"چلیں پھر پہلے گجرے لائیں گے تو میرے پاس آئیے گا "

وہ اسکا حصار توڑ کر اٹھی ۔۔۔

امرام شیر اسے پکڑنے کے لیے اٹھا ۔۔۔مگر اسکے کپڑے بیڈ شیٹ کے ساتھ چپکے تھے ۔۔۔

زخرف کی کھکھلاہٹ سارے کمرے میں گونجی ۔۔۔

امرام شیر نے اسکے مذاق کا بدلہ اپنا اپنے انداز میں لینا تھا ۔۔۔اسکی ہنسی کو بریکس لگانے کے لیے ۔۔۔

اس نے سائیڈ ٹیبل پر موجود لیمپ آف کیا اور اسکی طرف بڑھا  ۔۔۔

ذخرف کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔۔۔اس سے پہلے کے وہ کمرے سے بھاگتی ۔۔۔

امرام شیر نے ایک جھٹکے سے بیڈ شیٹ کھینچ کر پھینکی ۔۔۔اور اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اسکی بولتی بند کردی اپنے جان لیوا انداز میں ۔۔۔۔

اب زخرف کی کھکھلاہٹ اور دھمکیوں کی آوازیں تھیں اور امرام شیر کے محبت بھرے بدلے تھے ۔۔۔۔

"سنو نا جاناں ۔۔۔!!!میں خاموش تھا ہونٹوں پہ باتیں نہیں تھیں۔وہ اسکے لبوں کو سہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔کوئی نہیں تھا میرا من اکیلا تھا ۔۔۔تم ملی ہو تو چاروں طرف پیار کا جادو چھا گیا ،واقعی تم نے مجھے میرے من کو بدل دیا ۔۔۔

تمہارے آجانے سے مجھے جینا آگیا ۔۔۔ہے۔۔۔

تم ملے تو ہم گئے کام سے ۔۔۔"وہ آنکھ ونگ کیے شرارت سے بولا ۔۔۔۔

"اب تمہاری باری کام سے جانے کی ۔۔۔

Baby !!!!

 my sweet heart ....

Romance in air ....

Let's break all the boundaries"

وہ اسے اپنے ساتھ رومینس کی ایک الگ دنیا کی سیر کروانے کے جا چکا تھا ۔۔۔۔

جہاں زخرف جیسی ہر وقت پٹر پٹر بولنے والی لڑکی کی کبھی زبان گنگ ہوگئی تھی۔۔۔

دونوں ایک دوسرے کی ہمراہی میں خوش اور مطمئن تھے ۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

شیردل کمرے میں آیا تھا چینج کرنے کی غرض سے واش روم کی طرف بڑھ گیا واپس 

کمرے میں آیا تو رمشاء بیڈ پر بیٹھی بری طرح رو رہی تھی۔

شیردل کے بازو پہ چوٹ لگے دیکھ وہ چاہ کر بھی اپنے آنسو نہیں روک پارہی تھی۔"یہ سب میری وجہ سے ہوا ۔۔۔وہ خود کو اسکا ذمہ دار ٹہرا رہی تھی ۔۔۔

 اُسے یوں دھواں دھار روتے دیکھ کر شیر دل کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ 

”اینجل ۔۔“ اُس نے جانے کتنے دنوں بعد اُسے پکارا تھا۔ رمشاء نے چونک کر اُسے دیکھا اور پھر اُسکے رونے میں شدت آگئی تھی۔ شیردل چلتا ہوا اُسکے قریب آیا تو رمشاء اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔

”میری وجہ سے پریشان ہو تو مت ہو ،میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔“ شیردل نے اپنی گردن اور بازو پہ لگا کالر اتار کر ایک طرف رکھا ۔۔۔بس احتیاط کے لیے پہنا تھا ،اب ٹھیک ہوں ،اس نے تسلی آمیز انداز میں بولا کر اُسکا ہاتھ تھام لیا  رمشاء ساکت رہ گئی تھی۔ اُس نے رونا چھوڑ کر سرخ آنکھوں سے شیردل کی جانب دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

”م۔۔۔میں ۔۔ہی ۔۔وجہ ہوں ۔۔نا ۔۔“  کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ہچکیوں کے درمیان الفاظ پھنس کر رہ گئے تھے۔ 

”میں ٹھیک ہوں اینجل تم صرف میری محبت کی وجہ ہو اور کسی کی نہیں ۔مت الزام دو خود کو ،۔“ شیردل  نے اُسے اپنے ساتھ لگایا۔

رمشاء چاہ بھی کر اپنے آنسوؤں پر ضبط نہیں کر پارہی تھی۔ اس کا وجود ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔

"میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ،مجھے پتہ ہوتا کہ وہاں ایسا کچھ ہو رہا ہے تو میں کبھی وہاں ڈریس چینج نہیں کرتی ۔۔۔خود بھی تذلیل اٹھائی اور آپ کو بھی خوار کیا ۔۔۔۔

 وہ روتے ہوئے اپنی صفائی پیش کر رہی تھی۔ 

”ریلیکس رمشاء۔۔ میں نے کچھ کہا کیا۔۔؟“ شیردل کے دل میں ملال اترا تھا۔ اب اُسکا ضبط جواب دے گیا تھا۔وہ زیادہ دیر تک چپ نا رہ سکا ۔۔۔

"میں نے کہیں پڑھا تھا ۔۔۔

"اے بنت حوا !!!! اپنی عزت کی چادر میں ہلکا سا سوراخ بھی نا ہونے دو ۔۔۔

اس سوراخ کو فورا رفو کرو ۔۔۔

ورنہ ,,,,

دنیا اس سوراخ کو شگاف میں بدلنے میں دیر نہیں لگائے گی "

"میں تمہارا سائبان تھا ،تمہارا لباس تھا ،تو کیا ہوا جو وہ پیوند تمہاری جگہ میں نے لگادیا ۔۔۔

”میں آپکا یہ احسان نہیں اتار سکتی آپ نے مجھے کسی کے بھی سامنے رسوا ہونے سے بچا لیا ،اگر سب کو پتہ چل جاتا تو کیا ہوتا ؟۔“ 

کتنا خوف تھا اُسکی آنکھوں میں اپنی عزت نفس مجروح ہو جانے کے بارے میں سوچ کر ۔۔۔

”ششش۔۔چپ بالکل چپ۔۔“ شیردل نے اُسکے لبوں ہر شہادت کی انگلی رکھ کر اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ 

”آج کے بعد یہ بات تمہاری زبان پر نہ آئے،اس قصے کو یہیں دفن کردو ،سب بھول جاؤ ،کیونکہ میں سب ختم کر چکا ہوں ۔۔۔۔ میں کبھی تمہیں خود سے الگ نہیں کروں گا سمجھ آئی۔۔ سایہ بن کر ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا ۔۔“ وہ لبوں پر دھیمی مسکراہٹ سجائے بولا تو رمشاء اسکی دریا دلی پہ ساکت رہ گئی تھی۔ 

”کیا تم میرے ساتھ خوش نہیں تو مجھے بتا دو ،میں تم پہ زور زبردستی نہیں کروں گا تمہاری خوشی کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں ، وہ رمشاء کو خاموش کھڑے ہوئے دیکھ کر گویا ہوا۔۔۔۔

"میں ہر کھو جانی والے چیز 

چھوڑ جانے والے انسان ،

اور لوگوں سے ملی تکلیف پہ صبر کرچکی ہوں ،

اب مجھے نا تو کسی کھو جانے والی شے کی طلب ہے ،

نہ چھوڑ جانے والے انسان کی۔

اور نہ ہی لوگوں سے کوئی گلہ ۔

اللہ پاک نے میری دل میں سکون و اطمینان سے بھر دیا ہے آپ کو مجھے عطا کرکہ ۔اور میرے لیے وہی میری زندگی ہے ۔۔۔"وہ نظریں جھکائے بولی ۔۔۔

"اینجل !!!!

"میں اتنا مضبوط ہوں کہ پہاڑوں کا سینہ چیر دوں ،

"مگر کمزور اتنا کہ لہجوں اور لفظوں سے ٹوٹ جاؤں "

اپنے لہجے کی مارنا کبھی  ۔۔۔

"رمشاء !!!

"محبت توجہ چاہتی ہے ،

یہ نظر انداز ہونا برداشت نہیں کرتی ،

محبت چاہے کتنی پرانی ہو جائے اسے تائید تازہ کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے ،محبت کو اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے ،

"اگر تمہارے دل میں میرے لیے محبت ہے تو اسکا اظہار کرو ۔۔۔میرے انتظار کی گھڑیاں تمام کردو ۔۔۔۔

وہ اسکا ہاتھ تھام کر امید بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"ہمیشہ اس انسان کو چننا چاہیے جو آپ کو عزت دے ،

کیونکہ میری نظر میں عزت محبت سے زیادہ خاص ہوتی ہے "

آپ نے مجھے عزت کے ساتھ محبت دی ،تو میں کیسے آپکی محبت سے منحرف ہوسکتی ہوں ؟"

"آپ میری زندگی میں تب آئے جب مایوسیوں اور ناکامیوں نے مجھے چاروں اطراف سے گھیر رکھا تھا ،ہر چیز سے دل اُچاٹ ہوچکا تھا ۔

پھر آپ نے کتنی شگفتگی سے ہاتھ آگے بڑھایا،میں نے بھی کسی سزا یافتہ قیدی کی طرح موقع غنیمت جان کر بنا کچھ سوچے سمجھے  آپکا ہاتھ تھام لیا ،آپ میرے ہر زخم پہ مرہم بنے ،میرے ہر درد ہر دکھ تکلیف کو ماہرانہ انداز میں دور کرتے چلے گئے ۔۔۔

وقت گزرتا چلا گیا ۔۔۔مجھے خبر ہی نہیں ہوئی کب زندگی کا وہ حصہ میری عادت بن گیا ،جب آپ مجھے اکیلا چھوڑ گئے تو مجھے لگا ،کہ زندگی مجھ سے روٹھ گئی ،میں انہیں اندھیروں میں ِگھر گئی جہاں سے آپ نے مجھے نکالا تھا ۔۔۔

آپ کے بنا میری زندگی ویران ہے ۔۔۔

حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے۔

تمہیں نکال کر دیکھا تو سب خسارہ ہے ۔

شیردل سینے پہ بازو باندھے منہمک انداز میں اسکا ایک ایک لفظ اپنے دل میں اترتا ہوا محسوس کر رہا تھا ،آج پہلی بار تو اس نے اپنے جذبات بیان کرنے کا ارادہ کیا تھا ۔۔۔شیردل کا ایک ایک عضو آلہِ سماعت بنا ہوا تھا ۔۔۔

رمشاء نے بولنا جاری رکھا ۔۔۔

"میرا من کرتا ہے ،ہر روز آپ سے اپنی محبت کا اظہار کروں،

لغت تمام ہوجائے تو کسی نئی زبان میں اظہار کروں ،زبانیں ختم ہو جائیں تو اشاروں سے محبت کا اظہار کروں ،یہاں تک کہ آپ میرے ایک ایک قدم پہ اپنے لیے محبت محسوس کریں ،میری پلکوں کی جنبش میں محبت تلاش کریں،یہاں تک کہ میری ہر سانس آپکو محبت لگے ،میں چاہتی ہوں آپ  میری محبت کو ہر روز اک نئے زاوئیے میں دیکھیں ،

یہاں تک کہ محبت امر ہو جائے اور میری ذات فنا ،

اتنے خوبصورت ترین اظہارِ محبت سن کر شیردل سرشاری سے اسکی جانب بڑھا ۔۔۔

مگر اپنی بازو پہ ہاتھ رکھے کراہ کر رہ گیا ۔۔۔۔

"کیا ہوا ؟"۔رمشاء تشویش بھرے انداز میں اسکی طرف آئی اور اسکے بازو پہ ہاتھ رکھ کر استفسار کرنے لگی ۔۔۔

"درد ہو رہا ہے"

اسکے چہرے پہ درد کے آثار نمایاں تھے۔۔۔

"بہہہہہہہہت"اس نے کھینچ کر کہا ۔۔۔

"آپ نے میڈیسن لیں ؟"

"ہاں لیں تھیں مگر درد کم نہیں ہورہا "

وہ چہرے پر معصومیت سجائے بولا ۔۔۔

"کیا کروں "؟

رمشاء بے چارگی سے بولی ۔۔۔

"آپ یہاں چوٹ پہ اپنے لب رکھیں درد اڑن چھو ہو جائے گا"

شیردل شرارت سے بولا ۔۔۔مگر چہرے پہ سنجیدگی تھی ۔۔۔

رمشاء کا رنگ پھیکا پڑا اسکی بات پہ ۔۔۔

وہ لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"کیا سوچنے لگیں ۔۔۔۔اینجل بینڈج پہ ہی لب رکھنے ہیں ،اس میں اتنی سوچ بچار کیسی ؟

وہ ابرو اچکا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

رمشاء نے ہمت مجتمع کیے اسکے بینڈج والے بازو پہ اپنے لب رکھے ۔۔۔

شیردل مسکرایا مگر رمشاء کے دیکھتے ہی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیا۔۔۔

"آہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔"وہ مصنوعی درد سے کراہا ۔۔۔

"اب کیا ہوا ؟"

رمشاء نے حیرانگی سے استفسار کیا۔۔۔

"یہاں بھی درد ہوا "

وہ دل کے مقام پہ ہاتھ رکھ کر بولا ۔۔۔۔

"دیکھیں لاپرواہی ٹھیک نہیں ہم ہاسپٹل چل کر چیک اپ کروا لیتے ہیں ۔۔۔پلیز آپ چلیں میرے ساتھ "

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی ۔۔۔

"نہیں ۔۔۔اینجل میرے اس درد کا علاج ہاسپٹل والوں کے پاس نہیں ۔۔۔۔شیردل کے دل میں درد ہے اور اس درد کو وہی ٹھیک کر سکتا ہے ،جس کے پاس شیردل کا دل ہے ،

"مجھے سمجھ نہیں آئی"وہ نا سمجھی سے اسے دیکھ کر بولی ۔۔۔۔اسکے درد کا سن کر وہ بوکھلا چکی تھی تبھی شیردل کے الفاظ پہ غور نہیں کر سکی ۔۔۔

"اینجل تم نے ابھی یہاں لب رکھے نا تو درد ٹھیک ہوگیا ۔۔۔

اب یہاں بھی رکھ دو ٹھیک ہو جائے گا "

وہ اپنے دل کے مقام پہ انگلی رکھ کر بولا ۔۔۔

رمشاء نے چونک کر اسکی خمار آلود آنکھیں دیکھیں تو اسکی فرمائش سمجھ میں آئی ۔۔۔

وہ خفگی سے اسے گھورتے ہوئے مڑی ۔۔۔۔

"پلیز اینجل !!!.

وہ فرمائشی انداز میں بولا ۔۔۔

تو رمشاء نے دھڑکتے ہوئے دل سے اسکی جانب دیکھا جسکی آنکھوں میں اس وقت جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔۔

رمشاء نے اسکی بولتی نگاہوں پہ اپنے ہاتھ رکھے ۔۔۔۔تاکہ وہ اسے دیکھ نا سکے ۔۔۔

پھر دھیرے سے اپنے لب اسکے دھڑکتے دل کے مقام پہ رکھ دئیے ۔۔۔۔

شیردل کے عنابی لبوں پر مسکراہٹ ابھری ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اس سے دور ہوتی ۔۔۔۔

"یہاں بھی درد ہے "

رمشاء نے اسکی جانب دیکھا جسکی انگلی اس بار اپنے مونچھوں تلے عنابی لبوں پر تھیں ۔۔۔۔

رمشاء کا دل یکبارگی سے دھڑکا ۔۔۔۔

وہ شرم سے دوہری ہوئی اسکی عجیب و غریب فرمائش پہ ۔۔۔۔

"اس درد کا علاج نہیں میرے پاس "وہ رخ موڑ گئی ۔۔۔

"میری اینجل تو ہر درد کی دوا ہے ۔۔۔۔علاج کرنے میں آپکا کیا جائے گا اس مریض ِدل کو شفا مل جائے گی ۔۔۔۔

شفا ملتے ہی بدلے میں یہ مریضِ دل آپکو ڈھیروں بچوں سے نوازے گا "

وہ ذومعنی انداز میں بول کر اسے شرمانے پہ مجبور کر گیا ۔۔۔

اسکی بات سن کر رمشاء کے چہرے پہ گلال ٹوٹ کر بکھرا ۔۔۔

لبوں کو لبوں پہ سجاؤ 

کیا ہو تم ۔۔۔مجھے اب بتاؤ 

وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے طلسم زدہ آواز میں بولا۔۔۔

توڑ دو خود کو تم 

بانہوں میں ۔۔۔میری بانہوں 

میری بانہوں میں ۔۔۔میری بانہوں میں ۔۔۔۔ہو ۔۔۔و۔۔۔و ۔۔۔

اپنی دونوں بانہیں پھیلائے اسے ان میں سماجانے کا اشارہ کیا تھا ۔۔۔

تیرے احساسوں میں 

بھیگے لمحاتوں میں 

مجھ کو ڈوبا تشنگی سی ہے۔

وہ اسکے پاس آتے ہی اسکے رخساروں کو مہکاتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔اس کی بوجھل پلکیں شرم سے لرزنے لگیں ۔۔۔

تیری اداؤں سے ۔

دلکش خطاؤں سے 

ان لمحوں میں زندگی سی ہے ۔

وہ میسمیرائز ہوا ۔۔۔

حیا کوزرا بھول جاؤ ۔

میری ہی طرح پیش آؤ ۔۔۔

اسے انگلی سے قریب آنے کے لیے بلا رہا تھا ۔۔

اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔

کھو بھی دو ۔۔۔

وہ دیوار کی طرف مڑی اسکی مخمور نگاہوں کی تاب نا لاتے ہوئے ۔۔۔۔

راتوں میں ۔۔۔میری راتوں میں میری راتوں میں ۔۔۔

وہ اسے پشت سے دیوار سے پن کر گیا ۔۔

شیردل اس کا

لبوں کو لبوں پہ سجاؤ ۔۔۔

کیا ہوتم مجھے اب بتاؤ ۔۔۔

تیرے جذباتوں میں 

مہکی سی سانسوں میں یہ جو مہک صندلی سی ہے ،

اسکی پشت پہ بکھرے ریشمی  گیسوؤں کی مہک اپنے سانسوں میں اتارتے ہوئے ۔۔۔

وہ کپکپانے لگی ۔۔۔۔

دل کی پناہوں میں بکھری سی آہوں ۔۔۔سونے کی خواہش جگی سی ہے۔

اس کے لرزتے وجود کو اپنی بانہوں میں بھرے بستر کی اوڑھ بڑھا ۔۔۔

اسے نازک آبگینے کی طرح لیٹاتے ۔۔۔۔

چہرے سے چہرہ چھپاؤ ۔۔۔

اسکے چہرے سے اپنا چہرہ مس کرتے ہوئے ۔۔۔

سینے کی دھڑکن سناؤ ۔۔۔

اسکے سینے پہ اپنا کان لگا کر اسکی زوروں سے دھڑکتے دل کی رفتار سننے لگا ۔۔۔وہ آنکھیں موندے شرم سے خود میں سمٹ رہی تھی ۔۔۔۔

دیکھ لو خود کو تم ۔۔۔

اسکی تھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر اوپر اٹھایا تو اس نے دھیرے سے اپنی آنکھیں واہ کیں ۔۔۔

آنکھوں میں تم ۔۔۔آنکھوں میں تم ۔۔۔۔آنکھوں میں ۔۔۔تم ۔۔۔

لبوں کو لبوں پہ سجاؤ 

کیا ہو تم ۔۔۔مجھے اب بتاؤ ۔

اسکے نازک گلاب پنکھڑیوں پہ اپنے لب رکھے وہ اپنی تشنگی مٹانے لگا ۔۔۔

رمشاء سانس روکے اسکے جنون کی بارش میں بھیگنے لگی ۔۔۔۔

وہ اس پہ جھکا ہوا اس کے وجود کے ہر پہلو پہ اپنی محبت بھری چھاپ چھوڑنے لگا ۔۔۔۔۔

رمشاء کی سانسیں دھونکنی کے مانند چل رہی تھیں ،دل ایسے جیسے ابھی نکل کر حلق میں آ جائے گا ۔۔۔۔

شیردل نے اسکے نازک پاؤں کو اپنے لبوں سے چھونا چاہا تو ،،،

رمشاء نے اپنا پاؤں پیچھے کھینچ لیا ۔۔۔

"نہیں "

اس نے منع کیا ۔۔۔۔

"کوئی بھی شوہر اپنی بیوی کے پاؤں کو یوں لبوں سے نہیں چھوتا "

"مگر میں چھونا چاہتا ہوں ،یہ ایک شوہر کی خواہش نہیں ،

میرے اس جنون کی خواہش ہے جو مجھے تمہارے عشق میں اسقدر اگے لے جا چکی ہے ،جس میں سب حدود مٹ چکی ہیں ،"

شیردل نے اسکے پاوں پہ اپنے لب رکھے ۔

رمشاء نے آنکھیں موندے اس قدر عزت بھرے لمس پہ دنیا میں خود کو سب سے زیادہ خوش قسمت تصور کیا۔۔۔۔

"کیا کوئی شوہر اپنی بیوی سے اسقدر  جنون کی حد تک محبت کرسکتا ہے،اس نے دل میں سوچا۔

"تمہارے پاؤں کو چومنے کی ضد اس لیے کی تھی کہ جب تم چار قدم پیچھے ہٹاؤ یا مجھ سے دور جاؤ ،تو تمہیں یہ میرا پیار بھرا بوسہ یاد آجائے۔

کہ ان پیروں کو چوم کر شیردل نے تمہاری تمام راہیں صرف خود تک مسدود کردی تھیں ۔۔۔۔"

رمشاء نے بستر سے اٹھ کر شیردل کا وجیہہ چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھرا ۔۔۔

اس نے خود سے پہلی بار پیش قدمی کی تھی ۔۔۔شیردل کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔۔۔

رمشاء نے آنکھیں میچ کر شیردل کی صبیح پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے ۔۔۔۔

Really Very bad ....

میں نے سوچا تھا اس بار تو ٹھکانے پہ کس کرو گی مگر یہ کیا تھا ؟؟؟

"میرے اتنے اچھے اظہار محبت کرنے کے بعد کس ملی وہ بھی پیشانی پہ ۔۔۔۔

Not fair Angel"

وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

کمرے میں مشاء کی مدھر ہنسی کی جلترنگ گونجنے لگی۔چند لمحے وہ اسکی شفاف  ہنسی میں کھو گیا ۔۔۔۔

"اصل جگہ پہ چاہیے ۔۔۔۔

وہ واپس اسے تکیے پہ گرائے اس پہ جھکا ۔۔۔۔

"نہیں !!!

رمشاء نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔

اس نے تکیے میں چہرہ چھپایا ۔۔۔۔

مگر شیردل نے اسکی تمام مزاحمتوں کے باوجود اسے اپنی محبت بھری بوجھل پناہوں میں لے لیا ۔۔۔۔

رمشاء اسکی پیار بھری پناہوں  میں خود بھی ہمیشہ کے لیے  پناہ چاہتی تھی ۔کیونکہ وہی پناہ تو اسکے لیے دل کا سکون تھی ۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

"پری میرے کپڑے نکال دو زرا بیگ سے میں کبرڈ میں سیٹ کرلوں "آریان شیر نے بیگ کھولا ۔۔۔

"صبح نکال کر سیٹ کرلیں گے نا ابھی میں بہت تھک گئی ہوں ،

"پری کام چوری مت کرو "

وہ ڈپٹ کر بولا ۔۔۔

"یہ کام چور کس کو بولا آپ نے ؟؟؟وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑکا انداز میں بولی ۔۔۔ساری تھکن اڑن چھو ہوگئی ۔۔۔

"ایک تو آپ کی مدد بھی کی تھی ۔۔۔۔

آریان شیر نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں اسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"ارے بھول گئے ۔۔۔سالے اس فنٹر کو گولیوں سے بھون ڈالا ۔۔۔اور اپن کا ایک بار بھی شکریہ نہیں کیا تو نے "

"پری یہ کس لینگویج میں بات کر رہی ہو ؟؟؟

"کنڑول !!!!

وہ اس نے سختی سے گُھرکا۔۔۔

"کتنی بار منع کیا ہے ایسی لوز لینگوئج یوز کرنے سے "

"ابھی تو شکر ہے باہر سب گھر والوں کے سامنے تمہاری اس زبان کے جوہر نہیں کُھلے ۔۔۔۔

"اب اتنی بھی سٹھیائی ہوئی نہیں میں ۔۔۔۔پتہ ہے مجھے کس کے سامنے کیسے بات کرنی ہے ۔

وہ کچھ عرصہ نیلم بائی کے ساتھ گزارے تھے نا تو وہاں سے ہی سیکھا ایسے بولنا ۔۔۔

اور آپ بھی تو اس رچرڈ کے ٹپوریوں کے ساتھ اسی لہجے میں بات کرتے تھے ۔۔۔

آپ سے تو سیکھا سب ۔۔۔۔

وہ اسکے پاس آکر بولی ۔۔۔

",اچھا ۔۔۔سب غلط ہی سیکھا وہ جو میں نے تمہیں کالج میں پڑھانے بھیجا وہاں سے کچھ نہیں سیکھا "

وہ اپنی پینٹ میں سے بیلٹ نکال کر صوفے پہ پھینکتے ہوئے بولا ۔۔۔

"کیا شیرو ہر وقت بس مینرز سکھانے ،اور سمجھانے کی کلاس ہی لیتے رہتے ہیں ۔۔۔

"کبھی کوئی رومینس کی کلاس بھی دے دیا کریں "

وہ اسکے بالکل قریب کھڑے اسکی شرٹ کے بٹنوں سے کھیلتے ہوئے بولی ۔۔۔

وہ کبھی بٹنوں کو کھول رہی تھی تو کبھی بند کر رہی تھی ۔۔۔۔

"رومینس کی کلاس دوں ؟؟؟"

وہ اسکی تھوڑی کو چھو کر بولا ۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔۔پری نے جھٹ سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔۔۔

"بعد میں کلاس چھوڑ کر بھاگنے کا کوئی چانس نہیں ملے گا "

اس نے باور کروایا۔۔۔۔

آریان شیر شرٹ اتار کر دور پھینکتے اس کے قریب آیا ۔۔۔

"میں تیار ہوں اجنبیت کی تمام دیواریں گرانے کے لیے ۔۔۔۔

پری نے نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

آریان !!!!!

"میں بہت تھک گئی ہوں اس محبت کے سفر میں تنہا چلتے چلتے ۔۔۔۔

آپ کا ساتھ چاہیے ۔۔۔۔جب سے ہوش سمبھالی آپ کو اپنا سب کچھ مانا ۔۔۔۔آپ سے بہت سی امیدیں وابستہ کرلیں ۔۔۔۔سوچا یہ زندگی آپ سے شروع ہوئی ہے تو یہ زندگی آپ کے ساتھ ہی ختم ہوگی ۔۔۔۔مگر آپ نے مجھے خود سے دور کردیا ۔۔۔

"یہاں بیٹھ کر بات کرو "

وہ پری کر بستر پہ لے آیا اور خود اسکے پہلو میں بیٹھ گیا۔ ۔۔

"میں نے آپکے لہجے میں !!!

"اجنبیت کی سرد مہری دیکھی ہے !!!

"میری آپ سے جڑی امیدوں کے سرخ گلابوں کو سفید ہوتے دیکھا ہے !!!!

"آپکی بے رخی پہ اپنی سانسیں جمتے دیکھی ہے !!!

مجھے اپنی محبت کا احساس بخش دیں ۔میرے بے چین دل کو قرار بخش دیں ۔اس پیاسے دل کو اپنے اظہار سے جل تھل کردیں ورنہ میرے دل کا صحرا یونہی اکیلے رہ کر جھلساتا چلا جائے گا ۔۔۔۔"وہ تڑپ کر اسکے بئیرڈ والے گال پہ اپنا نازک سا ہاتھ رکھ کر  بولی ۔۔۔

"پری تم میرے لیے خدا کا دیا گیا تحفہ تھی ،میری تنہائیوں میں تم نے میرا ساتھ دیا ۔۔۔میں اپنے گھر والوں سے دور ہوتے ہوئے بھی تمہارے ساتھ رہتے انکی کمی کو زیادہ محسوس نہیں کرسکا ۔۔۔۔

ہم دونوں ایک دوسرے کی تنہائی کا ساتھی بنے ۔۔۔

تم بہت چھوٹی تھی مجھ سے ۔۔۔بس یہی سوچ کر کبھی تمہارے طرف قدم نہیں بڑھائے کبھی خود کو تمہارے قابل نہیں سمجھا ۔۔۔۔

"اب اتنی بھی چھوٹی نہیں میں "

وہ خفگی سے منہ پھلا کر بولی ۔۔۔

"ہمممم۔۔۔وہ تو پتہ چل گیا ہے مجھے ۔۔۔۔وہ نچلا لب دانتوں تلے دبا کر شرارت آمیز انداز میں بولا۔۔۔۔

"پری۔۔۔۔۔!!!!

کسی سے محبت ہوجانے سے زیادہ خطرناک ہے کسی کی عادت ہوجانا ۔۔۔۔تم میری عادت بن چکی تھی ۔۔۔کیسے دور رہ پاتا تمہارے بنا ۔۔۔

تمہارے جانے کے بعد احساس ہوا مجھے میری محبت کا ۔۔۔

تمہیں پاگلوں کی طرح ڈھونڈھتا رہا ۔۔۔

اور آخر کا تمہیں اپنے پاس لاکر اور اپنا بنا کر ہی دم لیا ۔۔۔

میری الجھی ہوئی سانسوں میں تمہاری آواز کا لمس وہ دوا ہے جسے سنتے ہی میں تمام تکلیفوں سے خود کو آزاد محسوس کرتا ہوں ۔

وہ اسے اپنی مضبوط بانہوں کے گھیرے میں لئیے جزبات سے لبریز انداز میں بولا۔۔۔

پری کے جلتے ہوئے وجود پہ ٹھنڈی پھوار سی پڑنے لگی اسکی قربت کی چھاؤں میں ۔۔۔

مگر وہ ہنوز خاموش رہی ۔۔۔ہمیشہ وہی بولتی آئی تھی ہمیشہ وہی اپنے پیار کا اظہار کرتی آئی تھی ،آج وہ اسی لیے خاموش تھی کہ وہ اسے سننا چاہتی تھی ۔۔۔۔مگر شاید وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ پری ناراض ہو چکی ہے ۔۔۔۔

"روٹھ جانا تمہارا حق ہے کیونکہ تم میری بیوی ہو ،

لیکن میرے شوہر ہونے کا تقاضا ہے کہ تمہیں مناؤں ۔۔۔"

تمہاری ہتھیلی پہ صنف نازک کی نزاکت پہ اپنے لب رکھوں "

وہ اسکے نرم و ملائم ہاتھ کی مخروطی انگلیوں کو اپنے لبوں سے چھو کر بولا ۔۔۔

"میری مردانگی ہے کہ تمہاری نزاکتوں کا پاسباں بنا رہوں،

تم شرم و حیا کی مٹی سے گوندھا گیا وجود ہو ،

میرا مردانہ وجود اسکا لباس بنے اسے زمانے کی نظر سے بچائے رکھے گا ،

تمہیں ہر بری نظر ،

کڑوی باتوں ،سے تحفظ دینا ہی تو میری ذمہ داری ہے کیونکہ میں تمہارا شوہر ہوں ۔

میرا فرض ہے کہ تمہاری بے شمار محبت کے بدلے تمہیں اپنی وفا کی ٹھنڈی چھاؤں دوں کہ تمہارا دامن تنگ پڑنے لگے میری وفاؤں کو سمیٹتے ہوئے۔۔۔۔

وہ اسکے شانے سے بال کھسکاتے ہوئے اسکی صراحی دار نازک سی گردن پر اپنے لب رب کرنے لگا ۔۔۔

اسکی مونچھوں کی چبھن سے پری کے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی ۔۔۔۔

اسکی جسارتیں بڑھنے لگیں ۔۔۔

پری کی پلکیں لرزنے لگیں ۔۔۔

"ش۔۔۔شی۔۔۔۔شیرو ۔۔۔

"مم۔م۔۔۔م۔۔۔مجھے نیند آ ۔۔رہی ہے "

وہ اسکی آہنی گرفت میں پھڑپھڑاتے ہوئے بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

"اب اس حصار محبت سے رہائی ملنا نا ممکن ہے ،سوئے ہوئے شیر کو جگا کر سونے کی بات کرنا ۔۔۔۔یہ ناممکن ہے اب "

وہ بوجھل خمار زدہ آواز میں اسکے کان کی لو کو اپنے دانتوں میں دبا کر بولا ۔۔۔

تو پری کے لبوں سے سسکی برآمد ہوئی۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔۔اسکی شدتوں کی تاب نا لاتے ہوئے پری نے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دھکیلنا چاہا ۔۔۔مگر اسکے شرٹ لیس چوڑے سینے پہ ہاتھ لگتے ہیں واپس کھینچ لیے ۔۔۔

آریان شیر کے ڈمپلز گہرے ہوئے اسکی حرکت پہ ۔۔۔۔

"ابھی تو تم رومینس کی کلاسز لینے کی بات کررہی تھی ابھی تو کلاس ٹھیک سے شروع بھی نہیں ہوئی اور تم اسے بنک کرنے کی باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔

"آریان شیر ایک بار کوئی بھی کلاس شروع کرلے تو اسے ختم کر کہ ہی سٹوڈنٹ کو جانے دیتا ہے "

تو کہاں تھے ہم وہیں سے کنٹینو کرتے ہیں "

وہ اسکی انگلیوں میں اپنی انگلیاں الجھائے اسے تکیے سے لگا گیا ۔۔۔

پری نے زور سے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔

اسکے لبوں کا لمس اسے اپنی گردن سے سرکتے ہوئے اب اپنے وجود کے پور پور پہ محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔

اسکا ہر شدت بھرا لمس پری کی جان نکال رہا تھا ،اسکا چہرہ دہک اٹھا اسکی بے باکیوں پہ ۔۔۔۔

"شیرو !!!

وہ تڑپ اٹھی اسکے ہاتھوں کا سرسراتا ہوا لمس اپنی پشت پہ محسوس کرتے ۔۔۔

"بہت تڑپا ہوں تمہارے لیے ،آج اسی تڑپ میں تمہیں بھی تڑپتا دیکھنا چاہتا ہوں ،جو بھی کرلو آج مجھے نہیں روک پاؤ گی ۔۔۔۔"

وہ اسکی کمر پہ ہونٹ جماتے ہوئے فسوں خیز آواز میں بولا تو پری کے اوسان خطا ہوگئے۔۔۔

وہ مچل کر پلٹی اور اسی سے بچنے لے لیے اسکے سینے میں چہرہ چھپا گئی ۔۔۔۔

اسے پتہ نہیں تھا اسکی کلاس لینا اسی کی بھاری پڑنے والا تھا ۔۔۔۔

شیرو ۔۔۔

ہم یہ کلاس پھر لے لیں گے نا "وہ اسکے سینے میں چہرہ چھپائے سہم کر بولی ۔۔۔

مگر وہ اسکی گردن پہ جھکا اپنی منمانیاں کر رہا تھا ۔۔۔

وہ سسک کر رہ گئی ۔۔۔

اسکی بائیٹس پہ ۔۔۔۔

آج وہ صحیح معنوں میں اسکی جان نکالنے کے در پہ تھا ۔۔

"تم بن ادھورا ہوں آج مکمل کردو "

آج رات ساری دوریاں ختم ہو جانے دو تم بھی تو یہی چاہتی تھی نا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب آجائیں کہ ایک دوسرے کی سانسوں کو چھو سکیں تو پھر یہ مزاحمت کیوں "؟

وہ اسکے بالوں کو مٹھی میں بھر کر شدت پسندی سے بولا ۔۔۔

پری کا چہرہ اسکے چہرے سے مس ہو رہا تھا اسکی  بھاپ اڑاتی گرم سانسوں سے اسے اپنا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

"میں آپکی ہوں "

وہ دھڑکتے دل سے بمشکل بولی ۔۔۔

"تو پھر ؟؟

وہ اسکے نچلے ہونٹ کو اپنے دانت سے دبا کر بولا ۔۔۔۔

"آہ۔۔۔!!!!

"صبح تک سب بھول تو نہیں جائیں گے ؟؟؟"

وہ تڑپ کر اپنا ڈر زبان پہ لائی۔۔۔

"عشق کا نشہ کبھی اترا ہے صبح ہونے پر ؟؟؟

یہ جام عشق تو تاعمر چھلکے گا۔۔۔۔ تمہارے اس دلکش حسن پہ"

وہ جنونیت آمیز انداز میں کہتے ہوئے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالے سارے فاصلے مٹانے کے در پہ تھا ۔۔۔

پری کو اسکی آہنی ہاتھوں کی انگلیاں اپنی کمر میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

"آج اس مچلتے دل کو قرار چاہیے ۔۔۔۔پہلی بار تم سے کچھ مانگا ہے ،میرے دل کے قرار منع مت کرنا ۔۔۔

پری نے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔

"تو پھر دو گی قرار ؟؟"

وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔زبان کو تو جیسے اسکی دھڑکتی نگاہوں کے سامنے قفل لگ چکے تھے ۔۔۔۔

"تو پھر نچھاور کرو کچھ اپنی شدتیں ۔۔۔کرو عنایتیں ۔۔۔۔کرو نوازشیں ۔۔۔برسا دو اپنی محبت کی بارشیں !!!!

وہ اسکے گال پہ اپنی بیرڈ رب کیےاسکی آنکھوں میں دیکھ کر استفسار کیا ۔۔۔

پری نے اسکی گردن میں دونوں بازوں ڈالے اسکے شرٹ لیس شانے پہ اپنے لب رکھے ۔۔ وہیں سر ٹکائے گہری سانس لینے لگی ۔۔پھر خود کو اسکے سپرد کردیا ۔۔۔۔

آریان اسکے خود سپردگی کے انداز پہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔

تو اپنا بوجھ اس نازک وجود پہ ڈالتے ہوئے اسے اپنے رنگ میں رنگ گیا ۔۔۔۔

پری کا رواں رواں مہکنے لگا اسکے انداز محبت پہ ،،،،

جیسے جیسے رات گزرتی گئی اسکی شدتوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔۔۔۔۔اک نئی خوشیوں بھری زندگی ان کی منتظر تھی ۔۔۔

کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے چاند تارے بھی ان دونوں کی خوش آئند زندگی کے لیے دعا گو تھے ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙🌙

آج ایک سال گزر چکا تھا خان حویلی میں خوشیوں بھری کھکھلاہٹیں عروج پہ تھیں ۔۔۔

ہیر اور شیر زمان کی ویڈنگ اینورسری تھی سب نے اس موقع کو سیلیبریٹ کرنا چاہا ۔۔۔

آج سبھی وہاں موجود تھے ۔۔۔

شیرذمان بلیک سوٹ میں ملبوس آج بھی ویسا ہی وجاہت کا شاہکار اور دلوں پہ راج کرنے والا تھا بس کنپٹیوں پہ زرا سی چاندی جھلکنے لگی تھی اور ہیر جو اس سے میچنگ سیاہ نیٹ کی ساڑھی میں ملبوس لائٹ سی نفیس جیولری اور  میک اپ میں اسکے ساتھ قدم سے قدم ملاتے سیڑھیوں سے  نیچے آرہی تھی ۔

آریان شیر،پری اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے ایک طرف کھڑے تھے ۔پری کی گود میں اسکا سنجیدہ مزاج چھوٹو آریان شیر جسکا نام اس نے احان شیر رکھا تھا ۔خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا ۔۔

امرام شیر ،زخرف دوسری طرف کھڑے تھے ۔جہاں رنگ برنگے بلونز لگے تھے ،امرام کے ساتھ ذخرف تھی اور اسکی گود میں انکی بیٹی زخرخ جو بالکل زخرف جیسی نٹ کھٹ شرارتی سی وہ بلونز کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔۔۔۔

سیڑھیوں کے  بالکل ساتھ شیردل اور رمشاء کھڑے تھے ،رمشاء اپنی سرخ ساڑھی کو بمشکل سمبھالے ہوئے تھی جو اس نے شیردل کی فرمائش پہ باندھی تھی ۔۔۔۔شیردل اپنے لٹل ماسٹر دل آریز کو سنبھال رہا تھا ۔۔۔جو اچھل اچھل کر زخرخ کی طرف جانے کو مچل رہا تھا ۔۔۔۔

اس کا بس نہیں چل رہا تھا کسی طرح اسکے پاس پہنچ جائے ۔۔۔

مومن اور آیت کو بھی اللّٰہ تعالیٰ نے ایک بیٹی حورین سے نوازا تھا ۔ان دونوں کے چہروں پہ بھی آسودگی تھی ۔

احتشام اور منساء بھی اپنی بیٹی اریج کے ساتھ بہت مطمئن دکھائی دے رہے تھے ۔

اعیان اور ہانیہ کے دو جڑواں بچے ۔ہادی اور ہادیہ تھے ۔جہنوں نے تنگ کیے ہانیہ کو تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا ۔۔۔

سب اپنی اپنی زندگیوں میں خوش تھے ۔۔۔

ہیر شیر زمان،ابتسام ۔منت،حسام زائشہ ،ضامن عیش،سب اپنی اپنی فیملی کے ساتھ خوش تھے ۔۔۔۔صرف دعا اور شاہ من ہی افسردہ دکھائی دے رہے تھے ،انکی بیٹی کو ان سے دور ہوئے ایک سال بیت چکا تھا ،مگر کہیں سے بھی اس کی کوئی خیر خبر نہیں ملی ۔۔۔۔

حذیفہ کی آنکھیں بھی ایک سال سے کسی کی متلاشی تھیں ،مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہیں دی ۔۔۔

"بھول جا اسے اور نئی زندگی کی شروعات کر "

احتشام جو کب سے حذیفہ کو دروازے پہ نظریں جمائے ہوئے دیکھ رہا تھا اسکے پاس آکر شانے پہ ہاتھ رکھے آہستہ آواز میں بولا۔۔۔

حذیفہ نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔

"آپکو کیسے پتہ چلا ؟"

"بھائی ہوں اتنا بھی نہیں جان سکتا"؟

وہ الٹا اسے ہی سوال داغ گیا۔۔۔

حذیفہ کو سہارا ملا تو اس نے بھی چپ کا روزہ توڑتے ہوئے اس سے اپنا درد بانٹنا چاہا ۔۔

احتشام بھائی !!!

"جسکی محبت پوری ہوئی مجھے اسکی ہتھیلی دیکھنی ہے ،کیسی ہوتی ہے وہ لکیر جو میرے ہاتھوں میں نہیں تھی ۔

وہ یاسیت گھلے لہجے میں بولا۔۔۔

"میری ہتھیلی دیکھ لے "وہ اسکے دکھ کو ختم کرنے کے لیے مسکرا کر بولا تاکہ اسکی سنجیدہ بات کا اثر زائل ہوجائے ۔۔۔

بھائی !!!

کوئی بھی کسی کی ملکیت نہیں ہوتا مگر پھر بھی ہم یہ سب جانتے ہوئے بھی چاہت میں اسقدر پاگل ہوجاتے ہیں اور خواہش کرنے لگتے ہیں کہ وہ صرف میرا ہو ۔

"یہ بات جب تو جانتا ہے تو پھر خود کو کیوں اس سراب کے پیچھے خوار کر رہا ہے ،وہ تیرے مقدر میں نہیں ۔میری بات سن اسے بھول جا میرا مخلصانہ مشورہ ہے،وہ اپنی لائف میں آگے بڑھ چکی ہے ،تو بھی بڑھ جا ۔۔۔

"بھائی میرا دل کرتا ہے، چیخیں مار مار کر روؤں ۔۔۔مگر 

مرد روتا اچھا نہیں لگتا ۔

اس جملے نے آدھے مرد پاگل کردئیے ہیں،

اور مردوں کا یہ ضبط عورتوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر گیا ہے کہ اسے واقعی درد نہیں ہوتا ۔۔۔"

ہمیشہ کندھے کی ضرورت ایک عورت کو نہیں ہوتی مرد بھی کسی کے گلے لگ کر اپنے اندر کا غم ہلکا کرنا چاہتا ہے،وہ بے بسی سے بولا۔۔۔

"آ۔۔۔ تو میرے گلے لگ جا "

حذیفہ زبردستی کی محبت سے ۔

سکون کی دوریاں بنا لینا بہتر ہے۔

"خدا جب بہتر چھین لیتا ہے تو اس کا ارادہ بہترین عطا کرنے کا ہوتا ہے ،میری بات یاد رکھنا  جیسا میرا بھائی شہزادہ ہے ،اس کے لیے بھی خدا نے کسی شہزادی کی سی آن بان رکھنے والی لڑکی کو بھیجنا ہے۔دیکھنا وہ کیسے تیری جھولی میں آگرتی "

آخری بات پہ وہ شرارت سے مسکرایا ۔۔۔

گھر کی اینٹرینس سے پہ جب سب نے دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے ۔۔۔آج اتنے سالوں بعد شماس بن ضماد اور سنہری کو وہاں سے داخل ہوتے دیکھ کر ۔۔۔۔

آج بھی شماس بن ضماد اپنی طلسم زدہ پرسنالٹی کی وجہ سے چھا رہا تھا اسکی گرے آنکھیں چمک رہی تھیں۔سنہری اسکے ساتھ سبک روی سے چلتے ہوئے بیش قیمتی ملبوس پہنے اندر آ رہی تھی ۔۔۔

ان دونوں کے پیچھے ان کا بیٹا 

عالیان بن شماس اور شمائل بن شماس انکی چھوٹی نازک سی بیٹی تھی جو خوبصورتی میں بالکل شماس بن ضماد کی طرح ڈکٹو کاپی تھی ۔ 

وہ سنہری رنگ کی فراک میں ملبوس اپنے سنہرے گھٹنوں تک آتے سنہری بالوں کی چوٹی کو شانے کے ایک طرف رکھے ،شماس بن ضماد کی طرح گرے بڑی بڑی آنکھوں والی نازک سی گڑیا جو پہلی بار یہاں آئی تھی ،سب کو دیکھ کر گھبرا رہی تھی ،اور انگلیاں چٹخاتے ہوئے اپنے والدین کے پیچھے چلتے ہوئے آ رہی تھی ۔۔۔

سنہری تیز قدموں سے آگے بڑھی۔ ۔۔جبکہ شماس اسکے پیچھے تھا ۔۔۔۔

اچانک شمائل کے اپنے ہی فراک میں اسکا پاؤں رپٹ گیا ۔۔۔

اور وہ اپنا توازن برقرار نا رکھ سکی ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ گرتی کسی کی مہربان بانہوں نے اسے سہارا دے کر گرنے سے بچا لیا ۔۔۔

شمائل نے اپنی گھنی خمدار مژگانیں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔

کسی کا سنجیدہ سا چہرہ دیکھ کر شرمندگی سے سر جھکا گئی ۔۔۔

"ہم معزرت چاہتے ہیں "

وہ سر جھکائے معزرت خواہانہ انداز میں پیش آئی۔۔۔

حذیفہ جو راستے میں کھڑا تھا اسے گرتے دیکھ سنبھال گیا تھا ۔۔ اس کے خود کو"ہم "کہنے پہ جز بہ جز ہوا ۔۔۔

"It's ok "

سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے پیچھے ہوا ۔۔۔

تو وہ جہاں اسکی ماں سنہری گئی تھی ان کے پیچھے چلی گئی ۔۔۔

"دیکھا میں نے کہا تھا نا جلد کی کوئی تیری لائف میں بھی آجائے گا "احتشام جو اسکے پاس کھڑا تھا اسے چھیڑتے ہوئے بولا ۔۔۔

"بات تو ایسے کر رہی تھی جیسے کہیں کی شہزادی ہو "

حذیفہ سر جھٹک کر بولا ۔۔۔

"اگر کہیں کی شہرذادی نہیں تو اپنے دل کی شہزادی بنانے میں کوئی حرج نہیں "

وہ اسکے شانے سے شانہ مارتے ہوئے شرارت سے مسکرا کر بولا ۔۔۔۔

"بھائی آپ بھی نا "

وہ تاسف سے سر ہلانے لگا ۔۔۔

مگر نظریں نجانے کیوں اسکی متلاشی ہوئی ۔۔۔

وہ سنہری کے پیچھے ایسے ڈری سہمی سی چھپی ہوئی تھی جیسے باقی سب اسے کچا چبانے والے تھے ۔۔۔

حذیفہ کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے ۔۔۔۔اس سہمی ہوئی ہرنی جیسی لڑکی کو دیکھ کر ۔۔۔

سب نے تہہ دل سے ان کی فیملی کا استقبال کیا ۔۔۔۔

ہیر نے اپنے چاروں بچوں کو اپنے سامنے دیکھا تو خوشی سے اسکی آنکھیں چھلک پڑیں ۔۔۔

آریان ،امرام ،شیردل ،سنہری چاروں آگے بڑھے اور اپنی مام کے ساتھ لگ گئے ۔۔۔۔

آج کتنے عرصے بعد انکی فیملی مکمل ہوئی تھی ۔۔۔

دعا اور شاہ من کی آنکھیں نم ہوگئیں اس منظر پہ ۔۔۔۔دل میں اک ہوک سی اٹھی ۔۔۔۔

ویڈنگ اینورسری بخیرو عافیت اپنے انجام کو پہنچی۔۔۔سب نے ملکر خوب ہلہ گلہ کیا ۔۔۔۔

تھک ہار کر جب سب سونے کے لیے اپنے اپنے بچوں کو لے کر اپنےکمروں میں چلے گئے تو بس شیرذمان ہیر ،دعا شاہ من اور شماس بن ضماد ،اور سنہری ہی وہاں رہ گئے ۔۔۔

"ماھی کا کچھ پتہ چلا "؟

شیرذمان نے  اپنے چھوٹے بھائی شاہ من کا اترا ہوا چہرہ دیکھا تو استفسار کیا ۔۔۔

"نہیں بھائی کچھ پتہ نہیں چل رہا ۔۔۔۔اور لکی کا بھی کچھ پتہ نہیں چلا ۔۔۔۔

"چاچو اگر آپ کہیں تو شماس استخارہ کر کہ پتہ کرلیں گے وہ کہاں ہے "سنہری نے معاملہ سمجھتے ہوئے اپنی رائے پیش کی ۔۔۔اور سوالیہ نظروں سے شماس بن ضماد کی طرف دیکھا ۔۔۔

اس نے سنہری کو آنکھ سے مثبت اشارہ کیا ۔۔۔

"ٹھیک ہے بیٹا آپ مجھے صبح بتا دینا ۔۔۔مجھے انتظار رہے گا ۔شاہ من نے افسردہ لہجے میں کہا اور پھر واپس اپنے گھر جانے کے لیے نکل گیا ۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

"ماھی کہاں ہے "؟

شماس بن ضماد سپاٹ انداز میں مخاطب ہوا ۔۔۔

"تم سے مطلب ؟

"میری بیوی ہے وہ ،تم اسکے بارے میں جاننے والے کون ہوتے ہو۔ ؟

لکی سرد مہری سے جوابا بولا ۔

"مجھے اسکی والدین نے بھیجا ہے ۔۔۔اسے لینے "

"تو واپس چلے جاو وہ نہیں آنے والی تمہارے ساتھ "

"مجھے وہ یہ بات خود کہے گی تو چلا جاؤں گا ۔۔۔

"وہ تم سے ملے گی تو کہے گی گا ۔۔۔

"دیکھو لکی تم مجھے روک نہیں سکتے "

"میں روک سکتا ہوں ۔۔۔

کیونکہ یہاں تمہارا نہیں میرا راج چلتا ہے "

"میں یہاں تک پہنچ سکتا ہوں تو ماھی تک بھی پہنچ جاؤں گا "

شماس بن ضماد کف فولڈ کرتے غرایا ۔۔۔

"ظاہر سی بات ہے ،یہاں کوئی عام انسان تو پہنچ نہیں سکتا ۔۔۔۔میں جانتا ہوں کہ تم کوئی انسان نہیں "

لکی نے سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔

"جب جان کی چکے ہو تو بحث میں وقت ضائع مت کرو "شماس بن ضماد نے ٹہرے ہوئے انداز میں کہا۔

"وقت تو تم ضائع کر رہے ہو اپنا "

"ماھی کبھی نہیں جائے گی تمہارے ساتھ واپس "

لکی اٹل انداز میں بولا ۔۔۔

ایک کا لہجہ برفیلا تھا تو دوسرے کا حد سے زیادہ سرد ۔۔۔

'وہ بیوی ہے میری میرے ساتھ رہے گی "

اور یہ حقیقت ہے "

"ٹھیک ہے کہ وہ تمہاری بیوی ہے مگر کسی کی بیٹی بھی ہے،اسکے والدین کو کس چیز کی سزا دے رہے ہو ۔۔۔ایک بار ان سے ملادو ماھی کو "

"انہیں کہو بھول جائیں اسے "

وہ رخ پلٹ گیا وہاں سے جانے کو ۔۔۔

وہ ماھی کو اسکے والدین سے ملانا چاہتا تھا ۔۔۔مگر شماس بن ضماد کی باتیں اسے طیش دلا گئیں ۔۔۔۔

",لکی بات سنو ۔۔۔۔اگر تم پیار سے نہیں مانے تو مجبورا مجھے زبردستی کرنی پڑی گی ۔۔۔۔شماس بن ضماد کے صبر کا پیمانہ چھلکا تو وہ دانت پیس کر دھاڑا ۔۔۔۔

"انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کردی نا ۔۔۔۔؟؟؟

"کردی نا ؟؟؟

"تو شادی کے بعد بیٹیاں اپنے سسرال میں رہتی ہیں،

سمجھ لیں وہ اپنے سسرال میں ہے ،

"ایک بار سوچ لو "اس نے کہا ۔۔۔

"ٹھیک ہے میں تمہاری بات اسی لیے مان رہا ہوں کہ ماھی کے دل میں بھی نہیں نا کہیں اپنے والدین سے ملنے کی خواہش ہوگی ۔۔۔۔

وہ میرے ساتھ جائے گی اور ان سے ملکر ہم واپس آجائیں گے ۔۔۔۔

میں ہر سال اسے ان سے ملوانے لے کر جاؤں گا کچھ دیر کے لیے ۔۔۔۔

میں ماھی کو وہاں نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔۔

کیونکہ ماھی بھی اب میری دنیا کا حصہ بن گئی ہے ،وہ امورٹل ویپمائر بن چکی ہے،اس میں آئی تبدیلیاں اسکے والدین برداشت نہیں کر سکیں گے ۔۔۔

اسے خون پیتے دیکھ لیں گے کیا ؟؟؟

"میں اسے لے کر تمہارے ساتھ چلوں گا ۔۔۔مگر شام ہونے سے پہلے ہم واپس آجائیں گے "

لکی اٹل انداز میں بولا 

"ٹھیک ہے چلو "شماس بن ضماد نے حامی بھر لی ۔۔۔وہ دعا اور شاہ من سے انکی بچھڑی ہوئی بیٹی کو ملانا چاہتا تھا ۔۔۔۔اسی لیے اس کی بات مان گیا ۔۔۔۔

🌙🌙🌙🌙🌙

" ماھی میری بچی  !!!!

دروازے کی دہلیز پر ماھی کو کھڑا دیکھ دعا نے اونچی آواز میں فرط مسرت سے لبریز آواز میں پکارا ۔۔۔۔

ماھی بھاگ کر آتے ہوئے دعا کے گلے لگی ۔۔۔۔

"کیسی ہو ؟"

وہ بھیگی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں ۔۔۔

"میں ٹھیک ہوں مما "

وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی۔

"بابا ۔۔۔۔!!!!

"I  am sorry."  

وہ شاہ من کے گلے لگی معزرت خواہانہ انداز میں بولی۔۔۔

سوری تو مجھے کہنا چاہیے اپنی بیٹی سے ۔۔۔میں اس کی رائے جانے بنا اس پہ اپنا فیصلہ تھوپ دیا ۔۔۔

"نہیں بابا ایسی بات نہیں آپکا فیصلہ میرے حق میں بہتر تھا ۔۔۔۔ماں باپ کبھی اپنی اولاد کے لیے برا نہیں چاہتے ۔۔۔میں بہت خوش ہوں لکی کے ساتھ ۔۔۔اور آپکے فیصلے سے مطمئن بھی ۔۔۔

وہ آسودگی سے انکی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

"پھر اپنے ماں باپ کو خود سے اتنی لمبی جدائی کی سزا کیوں دی "؟

شاہ من کے لبوں سے شکوہ پھسلا ۔۔۔

"بابا وہ ہم ابروڈ شفٹ ہوگئے ہیں،اس لیے جلدی یہاں آنا مشکل ہو جاتا ہے ،میں ہر سال  آپ دونوں سے ملنے آیا کروں گی ۔۔۔۔

اس نے تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔وہی جو لکی نے یہاں آنے سے پہلے اسے سمجھایا تھا ۔۔۔

تو شاہ من اور دعا کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے۔۔۔۔

وہ تھوڑا پرسکون ہوگئے ۔۔۔

"لیکن لکی تم اچانک سے ماھی کو یہاں سے بنا پوچھے کیوں لے گئے "؟

لکی انکا سوال سن کر کچھ لمحوں کے لیے خاموش رہا ۔۔۔

"ہمارا نکاح ہوچکا تھا ،آپ ان دنوں گھر نہیں تھے ،ہمیں ارجنٹ ابروڈ شفٹ ہونا پڑا ۔۔۔

اسی لیے بنا پوچھے ہی لے گیا ماھی کو ۔۔۔۔

وہاں جا کر سب سیٹ کرنا تھا ۔اس میں مصروف ہوگئے ۔۔اسی لیے آپکو بتانے کا وقت نہیں ملا ۔۔۔میں معزرت خواہ ہوں "

وہ ماھی کے والدین سے  ادب و احترام سے پیش آیا ۔۔۔۔

کیونکہ وہ بڑوں کی عزت کرنا جانتا تھا ۔۔۔

"ماھی تم خوش ہو نا لکی کے ساتھ "؟

دعا جو ماھی کے ساتھ صوفے پہ بیٹھی تھی اس سے دھیمی آواز میں پوچھنے لگی۔۔۔

"جی مما میں بہت خوش ہوں ۔۔یہ بہت اچھے ہیں میرا بہت خیال رکھتے ہیں،

جب ہم دونوں میں کوئی ناراض ہوجاتا ہے تو میں مان جانے یا منانے میں دیر نہیں کرتی ،

تاکہ !

وہ میرے بغیر تھوڑی دیر رہنا بھی نا سیکھیں ۔

میں نے انہیں اپنا عادی بنا لیا ہے۔اب وہ ایک لمحہ بھی میرے بغیر نہیں رہتے ۔وہ میری پرواہ کرتے ہیں میرا حد سے زیادہ خیال رکھتے ہیں،میری خواہشات کا احترام کرتے ہیں ۔

ماھی نے پریقین انداز میں کہا تو دعا نے اسے ڈھیروں دعاؤں سے نوازا ۔۔۔۔

اپنے والدین کے ساتھ ایک اچھا دن گزار کر وہ واپس چلے گئے ماھی اپنے بیٹے زارون کو ساتھ لے کر نہیں آئی تھی،کیونکہ اسے دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرتا کہ ایک سال میں اس کا بیٹا اتنا بڑا کیسے ہوگیا ۔۔۔۔

"تھینک یو سو مچ لکی "

وہ اسکے بالوں میں نرمی سے انگلیاں چلا رہا تھا کہ ماھی جو اسکے سینے پہ سر رکھے لیٹی تھی ۔۔۔زرا سا چہرہ اٹھا کر اسکی طرف ممنون نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

"وہ کس لیے ؟"لکی نے سوالیہ نظروں سے اس سے پوچھا ۔۔۔

"مجھے وہاں سب سے ملوانے لے کر جانے کے لیے "

"یہ تمہارا حق تھا ماھی ۔۔۔مگر اپنے قبیلے کے لیے بھی ہم دونوں کے کچھ حقوق ہیں،بس اسی لیے کچھ دیر ہوگئی ۔۔۔

اگر شماس بن ضماد نا بھی آتا تو میں سوچ ہی رہا تھا اس معاملے میں تم سے بات کرنے کو ۔۔۔۔

بس زارون کو سب سکھانے میں روزانہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا "

"ہممم ۔۔.....ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ "

"ماھی آج پتہ ہے کون سی رات ہے "؟

"کونسی ؟وہ جوابا پوچھنے لگی ۔۔۔

"جب چاند آسمانوں سے لاپتہ ہوجاتا ہے "

وہ گہرے تاثرات سجائے فسوں خیز آواز میں  بولا 

"اماوس کی رات "؟

ماھی نے استفسار کیا۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔

لکی  اسکے دلکش چہرے کو نگاہوں میں بسائے ہوئے تھا ۔۔۔۔

اس اندھیری رات میں ماھی کی جگر جگر کرتی ہیرے کی نوز بن اسے حواس مختل کیے دے رہی تھی ۔۔۔

یہ چمکتی نوز بن ہمیشہ اسے اپنا اسیر کیے اپنی اوڑھ متوجہ کرتی تھی ۔۔۔

وہ دونوں رات کے تیسرے پہر ایک گھنے جنگل میں درخت کے نیچے لیٹے تھے ۔۔۔۔

لکی کی بازو پہ ماھی کا سر تھا ۔۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی پھوار پڑنے لگی تھی ۔۔۔۔

موسم خوابناک ہوا چاہتا تھا ،،،

"ماھی دیکھو موسم کیا کہنا چاہتا ہے ہمیں "

ماھی جو وہاں قریب سے گزرتے ندی کے پانی کو دیکھ رہی تھی چونک کر اسکی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔

"کیا کہنا چاہتا ہے "؟

وہ دھیمی آواز میں گویا ہوئی۔۔۔

"یہ بوندیں کہہ رہی ہیں کہ دو دلوں کو آج پھر سے قریب آجانا چاہیے ۔۔۔۔

ماھی کی چلتی ہوئی سانسوں پر اسے قابو پانا اسے مشکل لگا ۔۔۔

"ماھی !!!!!

"اگر کہو تو دھیرے دھیرے زرا سا قریب آکر تمہیں بس اتنا یقین دلاؤں کہ اک ننھی سی نوز بن نے تمہارے چہرے پہ اتر کر سورج کا رتبہ پا لیا ہے "

لکی نے فسوں خیز آواز میں کہتے ہوئے ماھی کی جھلمل کرتی نوز بن پہ اپنے عنابی لب رکھے ....

ماھی کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔

وہ اسکی مدھوش کن قربت میں موم کے مانند پگھلنے لگی ۔۔۔

"پاس آنا چاہو گی ؟"وہ آنچ دیتے لہجے میں اجازت طلب کررہا تھا ۔۔۔

"آپ کو کیا لگتا ہے "؟

وہ نچلا لب دانتوں تلے دبا کر شرارت سے بولی۔۔۔

وہ اسکی ادا کا اسیر ہوا ساکت رہ گیا ۔۔۔

لکی نے اپنی گولڈن شیڈڈ آنکھیں اسکے مخملیں لبوں کو پہ گاڑھیں۔۔۔

اسکی آنکھوں میں خمار اتر آیا ۔۔۔

"Lucky's 

وہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھیر کر گہرا سانس لیتے ہوئے بولا ۔۔۔

تمہاری ان قاتل اداؤں نے مجھے گھائل کردیا ہے۔

سمجھ نہیں آرہا تمہیں جی بھر کر دیکھوں یا پیار کروں ؟

اسکی اٹھتی گرتی چلمن کا دلکش رقص ،اسکی بہکی ہوئی سانسیں،لکی کو اس میں ڈوب جانے پہ مائل کر رہی تھیں ۔۔۔

وہ اسکے دانتوں تلے دبے لب کو آزاد کرواتے اپنے لبوں کی قید میں لے گیا ۔۔۔۔

کن من پھوار نے اب جل تھل بارش کا روپ دھار لیا تھا ۔۔

باہر ٹھنڈی پھوار پڑ رہی تھی مگر عشق کی آگ نے انہیں اپنی لپیٹ میں لیے انکے وجود اور دلوں میں اک غضب کا طوفان برپا کر رکھا تھا ۔۔۔وہ اپنی شدتیں لٹاتے ہوئے اسکے کانوں میں  اپنی مدھم سرگوشیوں سے رس گھول رہا تھا ۔۔۔۔

"آج چاند آسمانوں سے لاپتہ ہے کیونکہ آج وہ زمین پر اتر کر  میری بانہوں میں جو آگیا ہے،

ختم شد  

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write abou

 Chand Aasmano Se Laapata Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Chand Aasmano Se Laapata written by Hina Asad Chand Aasmano Se Laapata  by Hina Asad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages