Intezar E Ishq By Maryamah Sheikh Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Intezar E Ishq By Maryamah Sheikh Complete Romantic Novel |
Novel Name: Intezar E Ishq
Writer Name: Maryamah Sheikh
Category: Complete Novel
آج بھی نیند اسکی آنکھوں سے کوسو ں دور تھی۔۔۔ اس نے برابر میں سوۓ وجود کو دیکھا۔۔۔
ایک ہاتھ اسکے سر کے نیچے رکھے وہ دنیا سے بےخبر سو رہے تھے۔۔۔۔ انکی نیند کو دیکھتے اسے ایک الگ سے رشک و حسد نےآ گھیرا۔۔۔۔
وہ جھنجھلا کر بیڈ سے اترنے لگی اسی اثنا میں کسی نے اسکا بازوں تھام کر اسے ایسا کرنے سے روکا۔۔۔
"کیا پریشانی ہے۔۔۔؟ کب سے بے چین ہو۔۔۔، سو کیو نہیں رہیں۔۔۔؟ " وہ اسے اپنی خمار آلود نگاہوں سے تکتے بولے۔۔۔"
نیند نہیں آرہی۔۔۔" وہ بے بسی گویا ہوئی ۔۔۔
انہو نےاسے شانو سے تھام کر واپس لیٹا دیا۔۔۔۔
"ماضی کی راکھ کریدتی رہو گی تو کیسے آے گی نیند۔۔۔؟
آج میں جینا سیکھو آنکھیں بند ہو بس اب۔۔۔" اس پر چادر برابر کرتے اسکے ماتھے پر بوسہ دے کرحکم صادر کیا وہ بھی مجبورا ًہی سہی آنکھیں موندھ گئی۔۔۔۔
💖--** -** -** -** --💖
وہ ابھی حویلی کے پچھلے حصے میں بنے باغیچہ سے لوٹی تھی کہ ۔۔۔ برآ مدہ میں تخت پر جاہ و جلال سے بیٹھی بی جان کے عتا ب کا شکار ہوگئی۔۔۔۔
بہت خوب بڑی دلہن۔۔۔ شو ہر کے گھر آنے کا وقت ہے۔۔۔ اور یہاں آپ کو آپنے اللے تللو ں سے ہی فرصت نہیں حلیا تو دیکھیں۔۔۔ حو یلی کی بڑی سرکار ہیں آپ۔۔۔" انہونے لتاڑ نے کے ساتھ اسکے سادہ کپڑوں اور بن میں لپیٹے بالوں کو نشانہ بنایا۔۔۔
"اب جائے اور جا کر حلیہ سدھاریں کتابیں پڑھا نے نہیں لاۓ آپ کو "
"تو کیوں لائے تھےمجھے کس نے منت کی تھی یہ یاد رکھیے بی اماں کے۔۔۔ میری یہاں موجود گی میں عمل دخل آپ لوگو کا آپ کی غلطیوں کاآپ کی فرسودہ روایتوں اور زہنیت کاہے"
وہ بھی بنا لگی لپٹی رکھے کہتی چلتی بنی۔۔۔ جبکہ بی اماں کھولتی رہ گئیں اگر حیدر کا لحاظ نا ہوتا تو اسے انکے عتاب سے کوئی نابچا پاتا۔۔۔
💖--** -** -** -**--💖
"کیوں الجھتی ہو بڑی نندہے مگر ساس کے جیسا رتبہ ہے ،احترام فرض ہے انکا"
آمنہ بھابھی جو اپنے چھوٹے کو لیکے برآمدے میں جا رہی تھی۔۔۔ اسے بکتا جھکتادیکھ ٹو ک بیٹھیں جواب میں اسنے سب انکے گوش گزار دیا۔۔۔
"غلطی تمھاری بھی ہے پتاہے بڑے سرکار آنے والے ہیں۔۔۔ اوریہ اصول ہے کہ شوہر کے لیے سج دھج کی جائے توتم کیو یہ اولجلول حلیہ لیے پھررہی ہو"
آپ بھی ایسا کہیں گی ا ب جب میرے دل ہی نہی کرتا تو کیسے تیار ہوں۔۔۔ وہ بھی ان کے لیے جن کی وجہ۔ ۔۔۔" وہ جھنجھلائی جبکہ آمنہ نے اس کی بات بیچ میں ہی روک دی۔۔
"ہاں انکے لیے سجو سنوروں اور زندگی کوایسے ہی قبول کرلوتمھارے اپنے اختیا ر میں کچھ نہی۔۔۔ توسمجھوتا ہی کرلو۔۔۔ ویسے بھی تمہاری ساری وقعت یہاں انہی کےکارن ہے۔۔۔ ورنہ بی اما کسی کی اتنی نہیں برداشت کرتیں۔۔۔،
یہ سب کوئی خواب نہیں ہے حقیقت ہے جسے جتناجلدی قبول کرلو بہتر ہوگا۔۔۔"
آمنہ اسکا شانہ تھپکتی تصویر کااصل رخ واضح کرتی چلتی بنی۔۔۔۔
💖----** -**--💖
" یار آخر میں آلم شاہ مر جاتا ہے۔۔۔ قسم سے بڑا دکھ ہوتا ہے۔۔۔ " چپس کچر کچر کھاتی لڑکی دکھ سے بولی۔۔۔
"اسے ناول کےاسٹارٹ میں ہی مرنا چاہءے تھالےکرضوفی کی زندگی خرابکی" بھورے سیدھےبال پونی میں قید کرتی نمکین رنگت اور معصوم چہرے والی لڑکینے دوٹوک تجزیہ دیا۔۔۔
"ابے یار تم بھی نا بڑی کوئی بہت ہی ان رومنٹک لڑکی ہو بھئی جب ضوفی کواس سے محبت ہو گئ تو تم کیو اپسیٹ ہو" دوسری جھنجھلائی۔۔۔
"ویسے سوچو کوئی تمہیں ایسے اپنانا چاہےپھر۔۔
"چپس کھاتی لڑکی شرارت سے بولی جواب میں پونی والی لڑکی نےاسےکتاب کھینچ ماری۔۔۔
"خدا نا کرے ویسے بھی یہ وڈیرے چٹی حسین صورتوں پہ آتے ہیں ہم تو بچے ہیں۔۔۔ ان سب جھمیلوں سےمجھے ویسے بھی فیوڈل سیسٹم نہیں پسند ایک دن بھی نہیں رہ سکوں میں تو" وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی صاف گوئی سے گویاہوئی۔۔۔
"اگر آپ کا رویو ہوگیا تو کلاس میں چل سکتے ہیں"
موبائل میں مگن لڑکا اب بیزاری سےٹوک بیٹھا۔۔۔ جبکہ اسکی بات پہ حہاں وہ تینوں تپ گیئں وہیں۔۔۔ دوسرا لڑکا ہنس پڑا پھر سب اٹھ کر کلاس کی جانب چل دیے۔۔۔۔
💖-------💖
"سلام بی اماں " وہ آتے ہی ان کے آگے جھکے اور سر پر پیار لیا۔۔۔
"جیتے رہو رکہھی سرکار کے لیے پانی لا اور سن کھانے کا بھی انتظام کر۔۔۔ بڑی سرکار کہاں ہیں تیری بتا جا کے سرکار آگئے ہیں "
انہونے رکھی کو دوڑایا بھائی کی نگاہیں کسے تلاش رہی تھی وہ سمجھتی تھیں بس ایک وہ کمبخت نہی سمجھتی تھی۔۔۔ آمنہ اور دوسری بھاوج گل رخ بھی اپنے شوہروں کی خاطر میں لگی تھی ایک وہی تھی جسے ڈنڈے کے زور پہ چلانا پڑتا تھا۔۔۔
ابھی بھی انکے بلانےپہ وہ آ گئی تھی۔۔۔ حلیہ بھی قدرے بہتر تھا۔۔۔
اسے دیکھ کر وہ جانے کیوں وہ نا چا ہتےہوئے بھی۔۔۔ پوری جان سے اسکی جانب متوجہ ہوگئے۔۔۔ مگر وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ ان کے لیے چا ئے کپ میں نکالنے لگی۔۔۔ اس کے انداز میں نا آ منہ والی اطاعت تھی۔۔۔ نا گل رخ جیسی نو بیہاتا والا لاڈ۔۔۔ بس مارے باندھے کا کا م تھا۔۔۔ انکی خود پر مرکوز گہری نگاہوں سے گھبراتے
اسنے چائے کاکپ ان کی طرف کہسکایہ۔۔۔۔ وہ چند لمہے اسکی حرکت پر گھورتے رہے پھر جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوے۔۔۔
" میں فریش ہونے جا رہاہوں بی اماں ، کپڑےنکالو" بی اماں سے رخصت لیتے اسے حکم صا در کیا مرتا کیا نہ کرتا کے تحت وہ مرے مرے قدم اٹھا تی انکے پیچھے چل پڑی اور کوئی چارہ بھی نا تھا۔۔۔
وہ انکے پیچھے چلتی کمرے میں آئی۔۔۔
کافی کشا دہ قیمتی سامان سے سجا یہ کمرہ اس کے لئے کسی کشش کا باعس نہیں تھا۔۔۔
اس نے دیکھا وہ آج اس کو کچھ بھی کہے بغیر اپنا کوٹ اتار کر سنگھار میز کے سامنے رکھی کرسی پر ڈال چکے تھے۔۔۔
اس نے ان کی الماری سے شب خوابی کا لباس نکال کر آگے بڑھایا تو وہ چند لمہے اسے گھورتے رہے پھرسخت لہجے میں گویا ہوئے۔۔۔
اسے بھی رکھ دو کہسکادو اور اگر پھر بھی سکون نا ملے تو پھینک کر دو مجھے۔۔۔" اسکے ہاتھ سے کپڑے جھپٹنے کے انداز سے لیتے غسل خانہ کی جانب مڑے۔۔۔ جبکہ رائنا نے اپنی غلطی کا احساس کرتے انکا راستہ روکا۔۔۔
"سوری حیدر۔۔۔ میرا ایسا کوئی مقصد نا تھا آئی دونٹ نو مجھے کیا ہوجاتا ہے۔۔۔" وہ سچ میں شرمندہ تھی اسے اندازہ تھا کہ کبھی کبھی اسکا انداز بلاوجہ ہی ہتک آمیز ہوجاتا ہے۔۔۔
اسے روہانسا دیکھ وہ نرم پڑ گئے۔۔"
اچھا بس ریلکس آئندہ خیال رکھنا" وہ گہری سانس بھرتے اسکا سر تھپکتے آگے بڑھ گئے
جانے کیو وہ ایسے ہی بے بس تھے اس کےمعاملے میں۔۔۔
💖------**--💖
وہ دو گھنٹےسے فائل کھولے حساب کتاب میں مگن تھے۔۔۔
اسکے باوجود اسکی بے چینی سے بار بار اٹھتی نظروں سے واقف تھے۔۔۔
کام ختم ہوتے ہی وہ اسکی جانب متوجہ ہوئے۔۔۔ جو صوفہ پر دراز کتاب پڑھنے کی اداکاری کر رہی تھی۔۔۔۔
"یہ کتاب رکھو اور یہاں آؤ۔۔۔
میں تم سے کچھ کہ رہا ہوں۔۔۔"
اس کے نا سنے پر وہ کچھ خفا ہوئے تو وہ چپ چاپ اپنی جگہ پر آگئی۔۔۔۔۔
جو بھی تھا انکے سامنے اسکی ساری جرات ہوا ہوجاتی تھی۔۔۔۔
جس شخص کے رعب میں سارا گاوں ہو اس کے آ گے وہ کیا شہ تھی۔۔۔
مگر انکے آگے تھوڑی بہت مزاحمت کی جراءت بھی اسکی ہی تھی۔۔۔
وہ بھی انکی ہی بخشش تھی یہ الگ بات کے وہ مانتی نہی تھی۔۔۔
"کیا بات ہے کچھ کہنا ہے۔۔۔؟" وہ اسکو بازو سے تھام کر قریب کرتےگویا ہوئے۔۔۔
"مجھے کراچی جانا ہے۔۔۔" وہ جو انکی قربت میں سٹپٹا گئی تھی حوصلہ کرتی بولی۔۔۔
"کراچی۔۔۔؟ کس خوشی میں۔۔۔؟ کیا چاہیے بول دو آجائے گا۔۔۔ جا نہیں سکتی یہ اصول ہے۔۔۔"
"میں جانا چاہتی ہوں گھر والے ہیں میرے۔۔۔ باقی بھی تو جاتی ہیں (اس کا اشارہ حیدر کی بھابھیوں آمنہ اور گلرخ کی طرف تھا) تو میں کیوں نہیں جاسکتی۔۔۔۔" وہ بضد ہوئی۔۔۔
"وہ برادری سے ہیں۔۔۔ غیر خاندان میں نہیں جاتیں ہماری عورتیں۔۔۔
"آپ بھول رہے ہیں۔۔۔ میں بھی وہیں سے ہوں۔۔۔ انہی غیروں میں سے۔۔۔" وہ ایک ایک لفظ چبا تی ہوئی بولی۔۔۔
" تھی۔۔۔۔ تم تھی ان میں سے اب مجھ سے ہو جڑی ہو۔۔۔ اور کچھ عرصے سے یا یوں کہوں شادی ہوئی تب سے۔۔۔۔
تم ناراض ہو ان سے پھر اب یہ شوق کیوں۔۔؟ " وہ اسکی آنکھو میں جھانکتے ہوۓ بولے۔۔۔
جبکہ وہ انکی بات کا جواب دئیے بنا لیٹ کر کروٹ بدل گئی۔۔۔ اور اب انگلیاں چٹخا رہی تھی۔۔۔
وہ اسکی اضطراب کی وجہ سمجھتے تھے۔۔۔ وہ لاکھ پردے ڈالتی۔۔۔ مگر حیدر مختصر عرصہ میں ہی اسکو پوری طرح سمجھ چکے تھے۔۔۔
رائنا نامی کتاب حیدر کے دل و دماغ کو ازبر ہوگئی تھی۔۔۔
"مت تھکاو خود کو سوجاؤ۔۔۔ "
اسکو بےچین دیکھ وہ اسکا سر تھپکتے ہوئے بولے۔۔۔
اور سونے کی تیاری کرنے لگی۔۔۔۔ جبکہ اسکی آنکھوں سے نیندآج بھی دور تھی۔۔۔۔
💖-------💖
"رائناکوٹ۔۔۔ ؟
یہ تمہاری آنکھوں کوکیا ہوا۔۔۔؟
وہ اسکی سوجی آنکھیں دیکھ ٹھٹک گئے۔۔۔
"انھیں بھی میری طرح نصیب پہ صبر نہیں آتا۔۔۔" وہ کوٹ پہنا تی کڑواہٹ انڈ یل گئی۔۔۔
"تمھارے احتجاج میری سمجھ سے پرے ہیں جو چاہتی ہو میسر کر دیا جاتا ہے کیسا رونا دھونا ہے۔۔۔؟
اسے بازو سے پکڑ کر سختی سے گویا ہوئے۔۔۔
" آپ مجھےمین ہینڈل کر رهے ہیں"وہ انکی سخت گرفت پر مچلتے ہوے بولی
اسکی بے چینی اور بےبسی اور اس پر اکڑ دیکھ کے وہ ہنس پڑے اور گرفت ڈھیلی کردی۔۔۔
"ڈرو اس وقت سے جس دن میں نے حقیقتاًً man handle کرا آپ کو۔۔" انہو نے اسکا چہرہ ہاتھو کے پیالے میں لیکر پیشانی پی بوسہ دیا اور چلتے بنے۔۔۔
جبکہ وہ سن سی کھڑی ان کے لفظوں کے معنی تراشنے لگی۔۔۔
💖-------💖
وہ چاروں اس وقت کیفے میں بیٹھے تھے جبھی وہ بھورے بالو ں والی دوڑتی آئی۔۔۔
"کیا بات ہے رائنا اوليمپیك جتنی ہے "یہ ارشد تھا جو اسے ہانپتا دیکھ ٹوک بٹھا "
"یار یہ ایاز کے ساتھ یہ لمبا سا رعب دار آدمی کون تھا۔۔۔؟ میں اور ایاز بک شوپ سے آرہے تھے۔۔۔ انھیں دیکھ کر ایاز نے مجھے چلتا کیا"ارشد ک تبصرہ نظر انداذ کئے ایک ساتھ سوال پہ سوال کئے گئ۔۔۔
"ایازکے تایا زاد ہونگے ابھی ملا ہوں بڑے پاور فل ہیں۔۔۔ اور رعبدار بھی عمراتنی نہیں ہے۔۔۔ پھر بھی بہت رعب دبدبہ ہے انکا۔۔۔ ایاز بتا تا تھا کے چھوٹی عمر سے گاوں کی پنچائیت کا حصہ بنے۔۔۔ اب سر پنج بنے والے ہیں اور الیکشن میں بھی کھڑے ہونے والے ہیں "
"ایاز نے تمہیں ملوایا مجھے نہیں۔۔۔ جبکہ میرے یا تم لوگ کے گھر سے کوئی بھی آتا ہے۔۔۔ ہم سب دوستوں سے ملواتے ہیں۔۔۔ اور کیا ایاز بھی ایم بی بی ایس کرکے ان کے کلچر کا حصہ بن جا ئے گا۔۔۔ ہم سب کا ہی آخری سال ہے یہاں "وہ ایک سانس میں سب پوچھ گئی۔۔۔
"ہاں جائے گا تو وہ گاوں ہی۔۔۔، اورانکا ماحول مختلف ہے۔۔۔ اسیلئیے ایازنےتمہیں نہیں ملوایا ہوگا۔۔۔ چھوڑو یہ سب تم بتاونا اپنے بارےمیں کیا ارادے ہیں۔۔۔ کیا کرنا ہے ڈگری کے بعد۔۔۔۔؟"
ارشد اسکا دھیان بٹاتے بولا اور کامیاب بھی ہوگیا
رائنا بہت کیریئر اورینٹد تھی۔۔۔ اسلئے یونیورسٹی کے پانچ سال میں اسنے کسی قسم کی کوممٹمنٹ کسی سے نہیں کی تھی۔۔۔
اب بھی وہ جوش و خروش سے اسے اپنے مستقبل کے پلانز بتانے لگی۔۔۔
💖-------💖
وہ ہمیشہ کی طرح اپنے چھوٹے سے باغ میں تھی۔۔۔۔ جو حویلی کے پچھلی جانب بنا تھا۔۔۔ یہ بھی اسکے حویلی کے باہر کھیتوں میں چہل قدمی کرنے جا نے کی فرمائش کا نتیجہ تھا کہ بڑے سرکار نے حویلی کے پچھلی جانب پڑے حصے کو برو ے کار لاتے ہوئے مختلف خوبصورت پودے اور ایک خوب صورت جھولا نما تخت جسکے اطراف میں پھول سجے تھے۔۔۔ اور ایک خوبصورت ٹیبل سیٹ سے سجوايا تھا۔۔۔
وہ حسب توقعہ وہاں پر جھولے پہ استراحت فرماے کتاب میں مگن تھی۔۔۔ جبھی کسی نے اسکے ہاتھ سے کتاب لی۔۔
وہ چونک کے اٹھ بیٹھی تو نظر سامنے کھڑے بلند وجود پہ گئی۔۔۔
"آپ۔۔۔؟" وہ چونکی اور سمٹ گئی جبکے وہ اسکے برابر ہی بیٹھ گئے۔۔۔
"اپنا سامان باندھ لو ،کل نکلنا ہے "
"کہاں جاینگے ۔۔۔؟ اور کیو۔۔۔؟ "
" کراچی۔۔۔ پارٹی کے کچھ معاملات ہیں۔۔۔ صبح نکلنا ہے تیار رہنا "
"میں نہیں جاؤنگی کہیں آپ جائیے " .
وہ جو کراچی کا سن کر کھل اٹھی تھی بدگمانی سے بولی۔۔۔
"تمہیں پوچھا نہیں بتایا ہے تیار رہنا۔۔۔" وہ کتاب اس کو دیتے ٹھنڈے لہجے میں بولے۔۔۔
"ہمم اب خود جانا ہے تو ۔۔۔۔ جب میں کہ رہی تھی تب انکار تھا "
وہ تھوڑا اور بدگمان ہوتے انھیں جاتا دیکھنے لگی۔۔۔
میں کل کچھ دنوں کے لیئے کراچی جارہا ہوں۔۔۔" انہوں نے حقہ گڑگڑاتی بی ماں کو اطلاع دی۔۔۔"
رائنا میرے ساتھ ہی جائے گی۔۔۔" انکی اگلی اطلاع پر وہ چونکیں۔۔۔
"خیریت۔۔۔؟"
"شادی کے بعد سے اپنے والدین سے بھی نہیں ملی۔۔۔۔ اور کچھ اسکی ڈگری کے معاملات ہیں جس میں اسکی موجودگی ضروری ہے۔۔۔" اب کے انھونے تفصیل سے جواب دیا۔۔۔
"وہ وہاں کیسے جاسکتیں ہیں۔۔۔؟ آپ کے نکاح میں ہیں غیر برادری میں نہیں جاتی ہماری عورتیں اور یہ ڈگری شگری کی کیا حاجت نوکری کریں گی کیا۔۔۔؟" بی ماں ناگواری چھپاتیں بولیں۔۔۔۔
"اس کے والدین ہیں وہ ان سے اس طرح الگ رکھنا ظلم ہے۔۔۔ غیر برادری سے ہم لائے ہیں اسے۔۔۔ خود سے چل کر تو نہیں آئیں۔۔۔ نکاح میں ہے وہ میرے میری غلامی میں تو نہیں ہے۔۔۔ جہاں تک بات ہے ڈگری کی تو سالوں کی محنت ہے اسکی۔۔۔ مناسب حدود میں رہ کر کام کاج میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔ اور تب تو ویسے ہی مقدس پیشہ ہےجائز کام ہے۔۔۔۔ ،اپنی بیوی کی خوشی کا خیال رکھنا میرے فرائض اور آپ جانتی ہے میں اپنے فرائض سے چوکتا نہیں ہوں۔۔۔"
"اور بیوی اس کے فرائض کے بارے میں کیا کہیں گے۔۔۔؟ وہاں تو مجھے کوئی فرائض کا خیال نظر نہیں آتا۔۔۔"
وہ طنزا ًبولی۔۔۔
"وہ اس تبدیلی سے پریشان ہے فلحال۔۔۔ اور جواب تو مجھے اپنے اعمال کادینا ہے۔۔۔ مجھے بس آپ کی دعائیں درکار ہیں بی اماں۔۔۔" وہ انکا ہاتھ تھام کر لگاؤ سے گویا ہوئے۔۔۔۔ انکا یہ انداز ہمیشہ بی اماں کی مخالفت بہا لے جاتا تھا۔۔۔۔ ابھی بھی وہ بھائی کی محبت میں موم ہوگئیں۔۔۔۔
"بہرحال عورت زات کو اتنی اہمیت دینا خطرے سے خالی نہیں بڑی شاطر مخلوق ہے۔۔۔"
"آپ کا ارشاد سر آنکھوں پر۔۔۔ مگر گستاخی معاف یہاں اختلاف ہے۔۔۔۔ مجھے آپ سے برسوں پہلے جب اپنی بیوہ بہن کو حویلی کے ویران کمرے سے نکال کر عزت بخشی تھی۔۔۔ جو کے حق تھی آپ کا تب بھی لوگوں نے مجھے یہی کہا تھا۔۔۔ مگر خدا کا فضل ہے کے میری کھری نیت کا صلہ آج میری بہن میرے لئیے فخر کا باعث ہے۔۔۔" وہ بہن کو اعتماد سے دیکھتے مان بھرے لہجے میں بولے۔۔۔۔
بی اماں لاجواب ہو گئی تھیں۔۔۔ حیدر نے فیصلہ کر لیا تھا وہ جان گئی تھیں۔۔۔ وہ دلیلوں میں انھیں مات نہیں دے سکتی تھی۔۔۔۔ نا ہی دینا چاہتی تھیں۔۔۔۔ وہ بس اپنے بھائی کی خوشی چاہتی تھیں۔۔۔۔
"ایاز۔۔۔! راینا کے ڈاکومنٹ کا جو کام کہا تھا کہاں تک ہوا وہ۔۔۔۔؟ "
" جی بھائی بس بھابھی کے سائن رہتے ہیں۔۔۔۔ ڈاکومنٹ بننے میں مشکل آتی بٹ آپ کے بات کرنے سے سلجھ گیا معاملہ۔۔۔"
"ہمم۔۔۔!! ٹھیک اورباقی۔۔۔؟"
"باقی بھی سب خیر خیریت سے ہے۔۔۔ رائنا مطلب بڑی سرکار کے گھر والے بھی اور۔۔۔" وہ بھی۔۔۔" ایاز وہ پر زور دیتا بولا۔۔۔
"کہاں ہے وہ۔۔۔۔؟"
"حیدرآباد"
"ہمممم۔۔۔۔ دھیان رہے ایاز کوئی چوک نہ ہو۔۔۔"
"جی بڑے سرکار بہتر۔۔۔۔"
"اب کس کی زمین کھینچ رہے ہیں۔۔۔۔؟" کمرے میں آتی رائنا نے صرف آخر کی بات سنی تھی۔۔۔۔
"اس فضول لغو سوال کا مقصد۔۔۔؟" وه تیوری چڑھائے اسے دیکھنے لگے۔۔۔
"تو اس میں لغو بھلا کیا بولا آپ فیوڈل لارڈز ایسے ہی تو ہوتے ہیں۔۔۔۔" وه مزید زہر خند ہوئی۔۔۔
اسکے زہر اگلنے پر وہ پہلے تو دیکھ کر رہ گئے پھر اسکے قریب آ کر دونو ہاتھ اسکے شا نوں پہ رکھے۔۔۔
"مقام کا تعین کرکے بات کیا کرو رائنا ہر جگہ تمہارے بولنے کی نہیں ہے تم پیکنگ کرو وہ کرو جوکر سکتی ہو۔۔۔"
اسکی آنکھوں میں دیکھتے آخر میں انکی سنجیدگی کی جگہ دل جلانی والی مسکراہٹ نے لے لی۔۔۔۔۔
اسے ایسے ہی جلتا بھنتا چھوڑ کر وہ با ہر کی جانب چل دیے۔۔۔۔
💖------------💖
اسنے نشے میں دھت پڑے اپنے مجازی خدا کو دیکھا اچھا تو ووہ کبھی نا تھا۔۔۔۔ لیکن جب سے یہ کوٹھے اور شراب کی لت لگی تھی۔۔۔۔ تب سے جانوروں سے بدتر ہوگیا تھا۔۔۔۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی کے اسے اسی کے ساتھ رہنا تھا۔۔۔ کہ طلاق جائز ہوتے ہوئے بھی معاشرے نے حرام کی ہوئی تھی اسکے لئے۔۔۔۔ پر اس شخص کا زنا سے گناہ ہوتے ہوئے بھی سب نے نظریں پھیری ہوئی تھیں۔۔۔
وہ تھوڑا سا ہوش میں آگیا تھا وہ ڈری کے اب کہیں ہمیشہ کی طرح نشے میں دھت اسے پیٹ نا دے ۔۔۔۔ وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا اسنے غورکیا تو وہ اسے آپنے قریب بلا رہا تھا۔۔۔
آمنہ جان گئی وہ کیا چاہ رہا ہے۔۔۔۔ ہر وقت با وضو رہنے والی آمنہ کےلئے اب اسکی قربت ازیت ناک تھی۔۔۔ اسنے ایک نفرت انگیز نگاہ اس پر ڈالی جو اب گالیوں پر اتر آیا تھا۔۔۔۔ وہ ایک فیصلہ کرتی کمرے سے منسلک چھوٹے کمرے میں جا کر دروازہ لاک کرگئی۔۔۔۔ وہ اسکی اس حرکت پر حیرت زدہ ہوا پھر طیش سے بکتا جھکتا اٹھا مگر پی اتنی رکھی تھی کے سہہ نا سکا اور واپس بستر پر گر گیا۔۔۔۔
آمنہ نے کمرے میں بند اپنی سسکی روکی۔۔۔۔ آخر آج اسنے اپنے لئے قدم اٹھانے کی کوشش کر ہی لی تھی۔۔۔۔
💖------------💖
گاڑی سبک رفتار سے رواں دواں تھی۔۔۔۔
ایک گاڑی میں وہ دونو تھے جبکے پیچھے دو گاڑیوں میں گن لئے گارڈ زتھے۔۔۔۔
وہ عموماً خود ڈرائیو نہیں کرتے تھے پر آج نا جانے کیوں یہ کر بیٹھے۔۔۔۔ انہوں نے ایک نظر ساتھ بیٹھے وجود پہ ڈالی۔۔۔۔
بے ساختہ مسکراہٹ نے لبوں کا احاطہ کیا۔۔۔۔ زہن کے پردے پہ کچھ گھنٹے قبل کا منظر روشن ہوگیا۔۔۔
"تم تیار ہو۔۔۔؟" وہ کمرے میں داخل ہوتے ٹھٹکے وہ سفید سادہ فراک میں پونی باندھے بنا میک اپ ( نو میک اپ لک کا کمال) دمک رہی تھی مگر کسی طور حویلی کی بڑی بہو نہ ہی نو بیاہتا لگ رہی تھی۔۔۔۔
"کونسا سوگ منا رہی ہو آج۔۔۔؟
"مطلب ! "وہ انکا طنز نہ سمجھی۔۔۔
جواب میں انہوں نے شانوں سے پکڑ کر اسکا رخ شیشہ کی جا نب کیا۔۔۔۔
"میں ہمیشہ ایسے ہی تیا ر ہوتی ہوں۔۔۔" اس نےکندھے اچکائے۔۔۔۔
"نہ تم ہمیشہ شادی شدہ تھی نہ ہی بڑی سرکار تھی" وہ بھی ترت بولے۔۔۔
"آپ کو مجھ میں بہت خامیاں دیکھتی ہیں۔۔۔ پر باندھے رکھے ہیں اپنے ریت رواج کی خاطر۔۔۔۔ یہ بد لو وہ بدلو کتنا اورکیا کیا بدلوں۔۔۔۔ نہ کبھی میرے امبیشنز کا سوچا بس اپنے رنگ میں رنگنے کی فکر ہے کیوں آخر۔۔۔؟ صرف اس لیے کے آپ کی انا کی تسکین ہو سکے۔۔۔۔؟ پھر بھی چار مہینوں میں اتنا بدل ڈالا مجھے۔۔۔۔ مگر خود آپ وہیں کھڑ ے ہیں میں آپ کی پسند کا اوڑھوں پہنوں آپ جو دل کرے پہنیں جو دل کرے کریں رشتہ بنائیں۔۔۔۔
آپ اپنی ریت رواج کے لئے اور نبھاؤں میں سر پنج بنے والے ہیں آپ اور یہ ہے اپکا انصاف۔۔۔"
وہ روتی ہوئی بولتی چلی گئی یہ پہلی بار تھا کے انکے آگے اتنا بولی۔۔۔۔۔ ورنہ حویلی کے ہر شخص کے آگے چلتی زبان کو انکے آگے تالے لگ جاتے تھے۔۔۔۔
اسکو روتا دیکھ کر انہونے اسے قریب کرا ایسے کے وہ سینے سے آلگی
"صبر۔۔۔۔ صبر بیوی۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائےگا اتنی بدگمانی رائنا۔۔۔؟ رہی بات انصاف کی تو وہ اپنے وقت پہ ہوگا اپنے پلڑے کا خیال کرو رائنا کون جانے کس کی خطا زیادہ ہو۔۔۔"
وہ اسے الگ کرتے اسکے آنسو پوچھ کر گویا ہوئے۔۔۔۔
تو وہ بھی خود کو سمبھال کے دوپٹہ سیٹ کرنے لگی۔۔۔
حویلی کی عورتیں خاندانی مخصوص کڑھائی والی چادر لیتی تھی۔۔۔ رائنا کا لباس پورا اور باوقار تھا۔۔۔۔ دوپٹہ بھی لمبا تھا اور باوقار انداز میں سر اور شانوں پر تھا۔۔۔۔ وہ غلط نہیں تھی اسنے بہت سی باتوں کو کہے بغیر خیال کیا تھا۔۔۔۔ اب بھی کانو میں انکے دیے ڈائمنڈ ٹاپس ڈال لے تھے۔۔۔ ایک کلائی میں نازک گھڑی تھی۔۔۔۔
وہ خود اور خاندان کے دوسرے مرد جدید انداز سے تیار ہوتے۔۔۔۔ خصوصا جب شہر کا کام ہو یا میٹنگ ہو مگر ملک کے نوے فیصد کی طرح انہیں بھی یہی لگتا تھا کہ ۔۔۔۔ روایت اور شرع کی پاسداری صرف عورت کی ذمداری ہے۔۔۔۔ آج رائنا کے دیکھائے
آئینے میں انہیں اپنا آپ بہت غلط لگا تھا۔۔۔ اسی لیے خاموش ہورہے۔۔۔
"غلطی مجھ سے ہوئی ہے تو تلافی بھی کرونگا تم ٹھیک کہتی ہو رائنا۔۔۔ شادی دو فریق نبھاتے ہیں اکیلے پر بوجھ ڈالا جائے تو ٹوٹھ جاتا ہے میں تمہیں ٹوٹنے نہیں دونگا رائنا۔۔۔"
وہ گاڑی ڈرائیو کرتے سوچے گئے۔۔۔۔
💖------------💖
"رونا بند کر آمنہ وہ مرد ہے سارے اختیار رکھتا ہے بھلے چار عورتیں رکھے۔۔۔" بی جان روتی آمنہ کو گھر کتے ہے بولیں۔۔۔۔
"بی اماں آپ جانتی ہے میں تو سوکن تک سہہ گئی تھی کے شرعاً اجازت ہے یہ سوچ کر سوکن کی اولاد کو اسکی وفات کے بعد اپنی اولاد کی طرح رکھا۔۔۔۔ مگر میرا نصیب دیکھیے سائیں کو طوائف لبھانے لگی۔۔۔،
بی جان یہ تو اللہ کا فرمان ہیں نا پاک عورت کے لئے پاک مرد انکی اس حرکت نے تو مجھے خود پہ مشکوک کردیا۔۔۔۔ وہ بچوں کے سامنے پیٹ ڈالتے ہیں اور گندی فحش گالیاں تک دے دیتے ہے۔۔۔۔ ان بدنام علاقے سے تعلق رکھنے والیوں کے قصیدے پڑھتے ہیں اولاد پر کیا اثر پڑے گا۔۔۔۔"
"زبان سمبھال کر بول آمنہ نیک بیبیياں ایسی بکواس نہیں کرتی۔۔۔۔ خبردار جو اب کوئی آواز کی بڑے سرکار تک تیری چوں بھی پہنچی تو یاد رکھنا۔۔۔۔ کاری کرا دونگی تجھے۔۔۔۔ چل اٹھ اور ایسی ہوجا جیسے کچھ نا ہوا ہو۔۔۔"
وہ سنگ دلی سے کہتی اسے جانے کا اشارہ کرنے لگیں۔۔۔
اپنے اشک پوچھتی آمنہ اپنے دل میں اٹھتی ٹیسوں کو دباتی اٹھ گئی۔۔۔
"جو حق مجھے مذہب دے چکا تھا صدیوں پہلے
وہ آج کے مسلمان نے پھر چھین لئے۔۔۔"
وہ دو دن سے اپنے میکے میں تھی۔۔۔ وہ خود اسے خوشی خوشی چھوڑ گئے تھے وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبوں سے ہمکنار تھی۔۔۔۔
ماں باپ سے ملتے ہی اسکے شکوے دم توڑ گئے تھے۔۔۔ یاد تھا تو بس اتنا کے عرصہ بعد اپنوں میں آئی تھی اسے خود پر غصہ آ یا جو اتنے پیار کرنے والے ماں باپ سے خفا تھی۔۔۔ جو کیا تھا اس کے لیے ہی کیا تھا۔۔۔ ان کا اپنا تو کوئی مفاد نا تھا یہ دو دن اسکی پچھلی زندگی کے دوران جیسے تھے۔۔۔۔
وہ وہی پہلے والی رائنا بن گئی اسے لگا جیسے کوئی خواب تھا۔۔۔ وہ ماہ جو اسنے حویلی میں گزارے تھے اب وہ اس خواب سے حقیقت میں اپنے گھر آ گئی۔۔۔ مگر تیسرے ہی دن اسکا خواب حقیقتاً ٹوٹ گیا۔۔۔
صبح ہی حیدر کی کال آ گئی تھی وہ آ ج شام اسے لینے آ رہے تھے۔۔۔ وہ لب بھینچے فون کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
"کیا ہوا رائنا۔۔۔۔؟
کسکی کال تھی۔۔۔؟"
سائرہ (رائنا کی والدہ)اسے یوں ایستادہ دیکھ پوچھ بیٹھیں۔۔۔۔
"وہ آ رہے ہیں شام تک لینے "وہ افسردہ مرے مرے لہجے میں بولی۔۔۔۔۔
"کون حیدر۔۔۔؟ یہ تو اچھی بات ہے تم نے بولا انہیں کے کھانا ہمارے ساتھ کھائیں آ ج۔۔۔۔۔
"اس نے ان کے سوال پر شرمندہ ہوکر نا میں سر ہلایا۔۔۔۔"
بہت بری بات ہے رائنا۔۔۔ ایسا شوہر قسمت سے ملتا ہے۔۔۔ بھول جاؤ کے کیسے ملے تم لوگ حال میں جیو گڑیا اب دیکھو وہ تمہارے ماں باپ کا ہی کتنا کرتے ہیں۔۔۔"
"کیا کیا کرتے ہیں امی۔۔۔۔؟"وہ چونکی۔۔۔۔۔
کوئی ایک چیز ہو تو بولوں بھی۔۔۔۔ کبھی گاؤں کی سوغاتیں۔۔۔۔ کبھی کچھ۔۔۔۔ ابھی تو ایک لڑکا بھی بھیجا اسنے۔۔۔ سہولت کے لیئے۔۔۔۔ بل وغیرہ جمع کرانے تمہارے ابو کو ڈاکٹر کے ہاں لانے لیجانے کے کام کے لئیے۔۔۔۔
داماد ہے۔۔۔۔۔ اچھا نہیں لگتا میں نے روکا تو بولا جب رائنا میرے گھر اور گھر والوں کو اپنا سکتی ہے۔۔۔۔ تو اپکا بھی حق بنتا ہے۔۔۔۔ مگر میں بھی ماں ہوں تمہاری جانتی تھی۔۔۔۔ وہ صرف میری تسلی کے لیئے بول گئے تھے۔۔۔۔ اور اب میرے شک پر مہر لگ گئی تم وہیں اسی ناسمجھی اور غیر یقینی کی کیفیت میں ہو۔۔۔۔ جب سے آ ئی ہو میں نے ایک بار بھی تمہیں حیدر کو یاد کرتے کال کرتے نا دیکھا۔۔۔۔ یہ اچھی بات نہیں ہے رائنا شوہر ہے تمہارا۔۔۔۔ جو عورت شوہر کو ستاتی ہے نا تو جنت میں بیٹھی حور اسے کوستی ہے۔۔۔۔ اپنے شوہر کو دل سے اپناؤ خیال رکھو اسکا۔۔۔۔۔
"وہ مکمل طور پر اس کی برین واشنگ کررہی تھیں۔۔۔"
"آپ پر ایسی بوجھ تھی میں کہ جیسے ہی موقع دیکھا کسی کے پلے باندھ دیا۔۔۔۔"
اب بھی مجھے وقت نہیں دے رہیں آ پ سنبھلنے کا۔۔۔۔ امی مجھے میرے ماں باپ سے ایسی امید نا تھی کہ آپ لوگ روایتی ماں باپ کی طرح مجھ سے شادی کے بعد آ نکھیں پھیر لیں گے۔۔۔۔"وہ رونکھی ہوئی۔۔۔۔
"رائنا تمہیں لگتا ہے کہ ہم بوجھ سمجھتے تھے تمھیں۔۔۔۔ اس لئیے تمہں حیدر سے بیاہ دیا۔۔۔۔ اس وقت حل ہی کیا تھا بولو۔۔۔۔ اپنی عزت یا اس ڈر سے تمہیں رخصت نہیں کیا کے کہیں اس در پر نا بیٹھی رہ جاؤ۔۔۔ بیٹی ہم تو عمر بھر تمہیں سینے سے لگا کر رکھ لیتے۔۔۔۔ اگر تمہاری زندگی کو خطرہ نا ہوتا۔۔۔۔ ایک صورت میں ہی تمہں محفوظ کر سکتے تھے سو کردیا۔۔۔۔ اپنا نہیں صرف تمہارا سوچا اور ابھی بھی صرف تمہاری بھلائی کے لیئے کہہ رہی ہوں۔۔۔۔۔ اچھا بتاؤ سچ سچ کیا حیدر نے شادی کے بعد تم سے برا برتاؤ کیا۔۔۔۔؟ یا کسی اور نے تمہیں مارا یا تنگ کیا۔۔۔۔ ،تمہیں عزت نہیں دی۔۔۔؟"انہوں نے پوچھا تو اسنے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
"پھر تمہیں بھی انہیں عزت دینی چاہیئے۔۔۔۔ ورنہ یہ تو کم ظرفی ہوگی نا اور ہاں ہم نے حیدر کو تمھارا سائبان سمجھ کر تمہیں محفوظ چھاؤں میں رخصت کیا ہے،۔۔۔۔ لیکن اگر کبھی یہ چھاؤں تپتی دھوپ بن جائے تو تمہارے ماں باپ کے دروازے کھلیں ہیں تم پر۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں میری بیٹی اس کا غلط فائدہ نہیں اٹھائے گی۔۔۔۔" وہ آ خر میں آبدیدہ ہوگئیں تو وہ ان کے سینے سے لگ گئی۔۔۔۔
امی کی باتوں نے اسے شرمندہ کردیا تھا۔۔۔۔ اسنے اس گھر کو دل سے کہاں اپنایا تھا۔۔۔۔ بس مارے باندھے بندھی تھی سب سے۔۔۔
حیدر بخت وہاں کےسردار تھے۔۔۔۔ انکی بیوی کی حیثیت سے اسکا فرض تھا کہ وہاں کی عورتوں کے اور حویلی کے زنان خانے کے مسئلے سنے۔۔۔۔۔ انھیں حل کرے پر اسنے کبھی توجہ نا کی۔۔۔۔ اسلئے یہ اختیار ابھی بھی حیدر کی بڑی بیوہ بہن بی اماں کے ہاتھ تھا۔۔۔۔
ایک بار آمنہ کے دبے لفظوں میں احساس دلانے پر وہ صاف بولی تھی۔۔۔۔۔۔
"میں نے ان کا ٹھیکہ نہیں لیا۔۔۔۔۔ جس کا گاؤں اسے ہی مبارک ہو "
آج امی کی باتوں نے اسے آ ئینہ دکھایا تھا۔۔۔۔ وہ شرمندہ سی فون پر حیدر کو کھانے کی دعوت دینے لگی۔۔۔۔
شام کو حیدر کے آ نے پر وہ اچھا سا تیار ہوئی۔۔۔۔۔ اور وہ اس کے ماں باپ سے بہت عزت سے ملے۔۔۔۔ ان کے ساتھ خوشگوار ماحول میں کھانا کھا کر چل دیئے۔۔۔۔۔
وہ وقت رخصت اپنی والدہ کو اپنی طرف سے اطمینان دلا کر واپس گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
💖------------💖
گاڑی سبک رفتار سے چل رہی تھی حیدر نےپچھلی سیٹ پر بیٹھے اپنے برابر بیٹھی رائنا کو بغور دیکھا۔۔۔ ہلکے سبز رنگ کے چکن کاری کے سوٹ میں کانو میں چھوٹے مگر خوبصورت ڈائمنڈ ٹاپس پہنے ہلکا سا میکپ کیے روایتی چادر اوڑھے وہ انھیں اپنے دل کے قریب لگی۔۔۔۔۔
والدین سے ملنے کی خوشی اسکے وجود سے جھلک رہی تھی۔۔۔ تبھی اسکا سنولاہٹ مائل گندمی مخروتی انگلیوں سے سجا نازک خوبصورت ہاتھ اپنے مظبوط سفید کا لے روئےسے بھرے ہاتھ میں لے لیا۔۔۔۔ وہ اس بے تکلفی پر سٹپٹائی مگر وہ سکون سے بیٹھے رہے۔۔۔۔
"کیسا گزرا وقت آ ثار تو اچھے لگ رہیں ہیں کافی۔۔۔۔" وہ اسکی تیاری کو دیکھتے متبسم لہجے میں اسکا ہاتھ سہلاتے بولے گرم پر حدت گرفت ان کے دل کا حال بیان کر رہی تھی۔۔۔۔۔
رائنا نے ایک لمحہ کو سوچا کے اپنا ہاتھ چھڑا لے پھر امی کی باتیں یاد آ ئی۔۔۔۔۔ اس نے سمجھوتے کی راہ پر قدم بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔۔ وہ اب خود بھی اس رشتے کو موقع دینا چاہتی تھی۔۔۔"
اچھا گزرا کافی آ پ کا کیسا گزرا۔۔۔۔ آپ پارٹی کے کام میں مصروف تھے نا کیسا ہوا سب۔۔۔۔" وہ اسکے اس طرح اپنے معاملے میں دلچسپی لینے پر خوشگوار حیرت میں مبتلاء ہوگئے۔۔۔۔۔۔
"فینٹاسٹک سب اچھا گیا۔۔۔۔" انہونے خوش دلی سے جواب دیا۔۔۔۔
اگر میں اچھا برتاؤ رکھوں تو شاید یہ مجھے میرا پروفیشن کنٹنیو کرنے کی اجازت دے دیں۔۔۔۔ اسنے دل میں سوچا اسے اپنی سوچ پر ہنسی بھی آ ئی وقت کا ہیر پھیر تھا اپنے کام کے لیئے اسے ایک ایسے شخص کی اجازت درکار تھی جو کچھ عر صہ پہلے اسکی زندگی میں کہیں نہیں تھا۔۔۔۔ اس کے والد صاحب کہتے تھے کے لڑکیوں کے لیئے آ ج کل کے دور میں فائننشلی اسٹیبل ہونا ضروری ہے۔۔۔۔ تا کہ برے وقت میں مظبوطی سے قدم جمائے رہیں وہ اسے ہر مردوں زن کا بنیادی حق کہتے تھے۔۔۔۔ مگر حیدر روایتی تھے جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے انکے نزدیک یہ چیزیں اتنی کہاں اتنی اہمیت رکھتی ہوگیئں۔۔۔۔
خیر اس نے سر جھٹکا ان سوچوں سے جان چھڑائ بھلا کیا فائدہ ان باتوں کا اب تو یہ سوچنا تھا کہ حیدر کو قائل کیسے کیا جائے۔۔۔۔۔ اسے حیدر سےاپنے والدین کے بارے میں بھی چند باتیں کر نی تھی ابھی وہ تانے بانے ہی بن رہی تھی کہ انہونے اسکا ہاتھ کو ہلکا دبایا۔۔۔۔۔
"کیا الجھن ہے۔۔۔؟ جو پوچھنا چاہتی ہو پوچھ لو۔۔۔"
وہ اتنے درست اندازے پر دنگ رہ گئی پھر سنبھل کے گویا ہوئی۔۔۔۔
"آپ میرے پیرنٹس کے لئے اتنا کچھ کرتے رہے لیکن مجھے کبھی نہیں بتایا "
"اتنا کچھ۔۔۔" انہوں نے ہنستے ہوئے اسکے لفظ دوہراے۔۔۔۔
"وہ مجھ سے جڑے رشتے ہیں۔۔۔۔ تمہیں اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔۔۔"
بڑا ہی دو ٹوک جواب تھا کہ وہ چند لمحے چپ رہ گئی۔۔۔
" پھر مجھے کیوں روکا ملنے سے جب میں نے کراچی آنے کو کہا تھا "
"میرا ایک بار کا منع کیا یاد ہے۔۔۔۔ مگر خود کتنی بار فون تک پہ بات کرنے سے انکاری ہوئی۔۔۔ کیسے مارے باندھے ان سے بات کرتی تھی۔۔۔۔ وہ شاید تم بھول گئی تم اس شادی کہ کارن ان سےخود ناراض تھی۔۔۔۔ پھر یہ کہ میں کیسے مان لیتاتمہاری بات۔۔۔۔؟ تمہیں احساس کیسے ہوتا کہ وہ کتنی اہمیت رکھتے ہیں تمہارے لئیے۔۔۔؟"
"پر آپ نے تو کہا تھا یہ آپ کے رواجوں کے خلاف ہے پھر کیسے۔۔۔۔؟" وہ الجھی۔۔۔۔
"وہ بھی ایک سچ تھا۔۔۔۔ مگر یہ تمھارے سوچنے کی باتیں نہیں ہیں۔۔۔۔ ویسے اپنے دستاویزات لیے تم نے۔۔۔۔"؟
انکی بات پر وہ دنگ رہ گئی۔۔۔
"جانتا ہوں تم اپنی ڈگری کے لیے بے چین ہو کام ایاز کے سپرد کردیا تھا میں نے اب بس کچھ چیزوں پر دستخط چاہیے" وہ اس کے حیران تاثرات سے محفوظ ہوتے بولے۔۔۔
جس کام سے تمہیں کراچی آنا تھا میں جانتا ہوں بٹ نیکسٹ ٹائم بی کیرفل۔۔۔۔ مجھ سے سیدھے سبھاو سے بات کرنا تمہیں کھولی کتاب کی طرح پڑھ چکا ہوں تمہاری ہر جنبش سے واقف ہوں۔۔۔۔"
وہ شرمندہ سی چپکی بیٹھی رہی۔۔۔۔
*-*-*-*************************
"اٹھو !رائنا گھر آگیا ہے۔۔۔"
"سوری آنکھ لگ گئی تھی۔۔۔۔" انکے شانے سے سر اٹھا تے وہ خفت زدہ ہوئی جانے کب وہ ایسی دھت ہوئی۔۔۔۔
"آؤ اندر چلیں۔۔۔"
وہ نرمی سے کہتے آگے بڑھ گئے۔۔۔۔
جبکے رائنا پوش علاقے میں بنے سادہ مگر خوب صورت گھر کو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
"آ و ,ہم یہاں کم ہی آتے ہیں۔۔۔ پر دیکھ بھال کے لیئے چند ملازم ہیں یہاں۔۔۔" وہ اسے گھر دیکھاتے بولے یہ گھر چھوٹا تھا مگر ہر سہولت سے آ راستہ پیراستہ ویل فرنشڈ صاف ستھرا تھا۔۔۔۔
حیدر کے بلا نے پر ملازم بچہ کواٹر سے ایک درمیانہ عمر کی عورت کو بلا لایا۔۔۔۔
"رائنا یہ کبرا ہے یہاں کام کرتی ہے اور کبری یہ تمھاری بڑی سرکار ہیں۔۔۔۔ ابھی کچھ دن یہاں ہیں ہم دھیان رکھنا کوئی پریشانی نا ہو انھیں۔۔۔۔۔"
"رد بلائیں دور بلائیں کبرا ہے نا کوئی پریشانی نہیں ہوگی میری بڑی سرکار کو۔۔۔۔ ہائیں کتنی سوہنی بنائی ہے مولا سائیں نے مولا سائیں سلامت رکھے۔۔۔۔"
وہ عورت خوشی سے بلائیں لیتی کہنے لگی۔۔۔۔۔
"آ مین "
حیدر نے خوشدلی سے کہتے اسے بخشیش تھمائی تو دعاوں کا سلسلہ کچھ اور بڑھ گیا۔۔۔۔"
اچھا اب رحیم سے کہو ہمارا سامان گاڑی سے نکال کر ماسٹر بیڈروم میں پہنچا دے۔۔۔۔" وہ رائنا کے شانوں پر بازو پھیلاتے اسے لئیے کمرے کی اور بڑھ گئے۔۔۔
💖------------💖
وہ اس سے اگلے دن کی صبح تھی۔۔۔۔۔
"ہم یہاں کب تک ہیں۔۔۔۔؟"
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑی بال سلجھا رہی تھی چار ماہ میں کافی کچھ بدلہ تھا ااسکے شانو سے تھوڑا نیچے آنے والے بال اب کمر چھونے لگے تھے۔۔۔۔
اسکی بات پہ وہ جو فائل میں مگن تھے اسے دیکھنے لگے انکے ایسے مبہوت ہونے پر وہ گڑ بڑائی۔۔۔۔۔
"کیا دیکھ رہےہیں۔۔۔۔"
"اپنی بیوی کے بال۔۔۔۔ اب کم سے کم یہ حق تو اپنا نظر انداز نہیں کرونگا میں۔۔۔۔ نا انصافی اپنے ساتھ بھی نہیں برتنی چاہیے"
انکا لہجہ متبسم تھا جبکہ رائنا انکی معنی خیز بات کے معنی پا چکی تھی۔۔۔۔۔
اسکی حجاب آ لود خاموشی کو محسوس کرکے وہ مسکراے پھر بولے۔۔۔۔
"ایک ہفتے یا شاید دو ہفتہ قیام ہو۔۔۔۔ تم کل ریڈی ڈاکومنٹ بھی رکھ لینا۔۔۔ تاکے تمہاری ڈگری کے کام بھی نپٹا دیے جائیں "
انکے کہنے پر وہ جانے کیوں انہیں دیکھنے لگی آج پہلی بار اسے اپنے شوہر کی وجاہت کا اندازہ ہوا۔۔۔۔۔
"کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔۔؟ چلو دیکھ لو آخرحق ہے تمہارا فرض نا سہی حق ہی سہی "
وہ ایک بار پھر طنز سے باز نا آئے۔۔۔
رائنا نے واک آؤٹ کرنے کو ہی غنیمت جانا۔۔۔۔۔
وہ نشے میں دھت پڑا تھا۔۔ شہرینہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے اسکی بکواس سن رہی تھی۔۔۔ یہ اس کا نا شوق تھا نا ہی خوشی بس مجبوری تھی۔۔۔ برسوں پہلے اس کے سوتیلے باپ نے اسےاور اسکی بہن کو بیچ دیا تھا۔۔۔ جب وہ محض 18 اور اسکی بہن سولہ برس کی تھی۔۔۔
وہاں کوٹھے پر ہی شرجیل بخت کی نگاہ اس پر پڑی پھر پلٹنا بھول گئی۔۔۔ اس نے اسے اپنے لئے مخصوص کرا لیا تھا۔۔۔ وہ نائیکہ کے لئیے سونےکا انڈہ دینے والی چڑیا تھی۔۔۔۔
خود بھی یہ بات جانتی تھی۔۔۔ یہ زندگی بہت ازیت ناک تھی اس نے نائیکہ سے منتیں کیں کے وہ شرجیل کے ساتھ رہ لے گی۔۔۔ مگر وہ اسکی بہن کو پڑھنے دے ورنہ وہ کبھی اس درندے کے ساتھ نہیں جائے گی۔۔۔۔ بلآخر اس نے ہامی بھر لی تو وہ شرجیل کے ساتھ چلی گئی۔۔۔
وہ انسان نہیں درندہ تھا یہ اسے گزرے دو سالوں میں اچھے سے سمجھ آ گیا تھا۔۔۔۔ وہ اکثر اسے مطلب پورا ہونے کے بعد بے تحاشہ مارتا پیٹتا تھا۔۔۔۔ ملغظات بکتا وہ اس کے سامنے اکثر اپنی بیوی کے بارے میں بھی ملغظات بکتا۔۔۔ وہ اس شخص سے شدید نفرت کرتی تھی۔۔۔ جو بنا کسی مجبوری کے اس غلاظت میں ڈوبا تھا۔۔۔ نفرت تو وہ خود سے اور اس کوٹھے پر بسنے والی ہر عورت سے بھی کرتی تھی۔۔۔ مگر سب سے زیادہ نفرت اسے ان خریداروں سے تھی۔۔۔۔ جن کیلئے یہ بازار سجےتھے۔۔۔۔
وہ سر جھکائے انھیں سوچوں میں تھی کہ اس نے اسکا منہ اپنے پنجے میں دبوچا۔۔۔
"گالی کیا سوچ رہی ہے تجھے سوچنے لایا ہوں چل اٹھ ناچ کے دکھا چل۔۔۔" وہ اسے بیڈ سے دھکا دیتے چیخا وہ آ نسو ضبط کرتی اس کے حکم کی تعمیل کر نے کے لئیے کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔۔ یہ سب وہ مجبوری میں کر رہی تھی۔۔۔ اس کی بہن اٹھارہ برس کی ہوگئی تھی اسے اسکے لئیے پیسا جمع کرنا تھا۔۔۔۔ اور شرجیل پیسے کے معاملے میں بہت فراغ دل تھا۔۔۔
اوریہ سب کرنا تو ویسے بھی اس کی مجبوری تھی مگر جو پیسے شرجیل اس پر الگ سےلٹاتا تھا۔۔۔۔ وہ اس سے کم از کم اپنی بہن کو ہی اس غلاظت سےبچا سکتی تھی۔۔۔
💖------------💖
وہ لوگ یونی پہنچ گئے تھے۔۔۔ رائنا کے ذہن میں گزرے دن گردش کرنے لگے۔۔۔
پانچ سال اس جگہ پر دوستوں کے ہمراہ گزارے تھے۔۔۔ اس نے اسکی زندگی کے خوبصورت پانچ سال ایک ایک کونے سے بے شمار یادیں تھی۔۔۔۔ اسکی آنکھیں بھر آئیں پر پھر وہ خود کو کمپوز کر گئی۔۔۔۔
ڈاکومنٹ کا کام لمبا تھا۔۔۔ اور عمومی طور پر اس میں کئی چکر لگتے ہے۔۔۔ پر اول تو وہ کافی کام ایاز کے ذریعے سے کراچکے تھے۔۔۔ جس میں انکے اثر رسوخ کا بھی عمل دخل تھا۔۔۔۔ آج بھی انکی موجودگی کےکارن وہ جلد فری ہوگئے۔۔۔۔
"آپ کو پرابلم نا ہو تو میں اپنے کچھ فرینڈز سے مل لوں وہ یہیں ہاؤس جاب کرتے ہیں یونی سے ملحق ہسپتال میں۔۔۔"
"اوکے بٹ جلدی ،چلو پھر۔۔۔۔" وہ دونوں ہسپتال کی جانب چل دیے۔۔۔۔
💖------------💖
واپسی میں وہ بہت خوش تھی۔۔۔ وہ شادی کے بعد پہلی بار اسے اتنا خوش دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
وہ اپنے ماحول میں آکر خوش تھی۔۔۔ ماحول انسان کے مطابق نا ہو تو وہ مرجھا جاتا ہے۔۔۔ جیسے رائنا مرجھا گئی تھی۔۔۔۔
"کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔؟" وہ اپنے دھیان میں تھے جب رائنا کے سوال نے گاڑی میں چھایا سکوت توڑا۔۔۔۔
"تمہیں کب سے میرے سوچنے سے فرق ہونے لگا۔۔ جو سوال پریشان کر رہا ہے وہ پوچھو۔۔۔"
وہ اس بات پر دنگ رہ گئی۔۔۔ در حقیقت من ہی من وہ پریشان تھی کے اسکے دوستوں سے مل کر وہ کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔
وہ آج ربیعہ اور ارشد سے ملے تھے۔۔۔ ربیعہ ہائی سوسائٹی کی پرورش تھی۔۔۔ سو اسکے لباس میں بھی وہی نظر آتا تھا یہ الگ بات ہے کے ربیعہ بہت اچھی لڑکی تھی جبکے ارشد لڑکا تھا تو اسے لگا وہ متعرض ہونگے۔۔۔ گو وہ سب دوست ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔۔۔۔ اور کبھی کوئی حد سے بڑھی بےتکلفی کسی نے نا دکھائی تھی۔۔۔ پھر بھی وہ حیدر کا ردعمل جاننا چاہتی تھی۔۔۔۔
"آپ کو میرے دوست کیسے لگے۔۔۔۔" آخر اسنے پوچھ ہی لیا اسے بےچینی تھی جاننے کی بظاہر تو وہ سب سے اچھے سے ملے تھے۔۔۔۔ اور اپنے ہاں مدعو بھی کیا تھا۔۔۔ اس نے اپنے دوستوں کو ولیمہ کا عندیہ نہیں دیا تھا۔۔۔ اسے لگا تھا وہ جتائیں گےاس بات کو مگر وہ دونوں نارمل ہی رہے تھے۔۔۔۔ شاید ایاز پہلے ہی بات سنبھال چکا تھا۔۔۔
"ایک ملاقات میں کسی کو کیا جج کروں۔۔۔ بظاہر تو اچھے تھے ارشد سے میں پہلے بھی مل چکا ہوں ویسے۔۔۔" انہوں نے ابرو اچکائے۔۔۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔؟" اسکے منہ کھولے دیکھنے پر وہ مسکرائے۔۔۔۔
"کسی کا لباس انداز ہماری حدود کے مطابق نا ہو تو اسکا مطلب یہ نہیں کے ہم اسے غلط سمجھیں۔۔۔۔،مذہب پر ہم چاہے کتنا عمل کرلیں اسکا قطعً مطلب نہیں کہ ہمیں دوسروں کو جج کرنے کا حق ہے۔۔۔۔ ہمیں کیا پتا کون اللہ کے زیادہ قریب ہے۔۔۔ کس کی کونسی بات اللہ کو زیادہ پسند ہے۔۔۔" وہ اب کے واضح کرتے ہے بولے۔۔۔
واقعی آپ نے درست کہا۔۔۔
" one should not judge a book by its cover"
اسنے بھی دل میں اعتراف کیا
💖------------💖
وہ باقی کے دن بہت مصروف رہے تھے۔۔۔۔ رائنا کا سارا دن ملازموں کے بیچ گزرتا۔۔۔ یا کبھی وہ اسے ڈرائیور اور گارڈ کے ہمراہ اسکی والدہ کے ہاں بھیج دیتے۔۔۔
اس دوران ان پر رائنا کی کافی خوبیاں آشکار ہوئیں وہ کافی سمجھ دار سلجھی ہوئی پریکٹیکل لڑکی تھی۔۔۔ اسنے انھیں کام کے دوران ذرا نا تنگ کیا نا بار بار حویلی یا۔۔۔ اپنے والدین کے ہاں جانے کا تقاضا کیا۔۔۔ نا کوئی اور فرمائش کرکے تنگ کیا۔۔۔۔
وہ پڑھی لکھی تھی اسی لئے کام کی اہمیت سمجھتی تھی۔۔۔۔ آج وہ فارغ تھے انہوں نے رائنا کو تیار ہونے کا کہہ دیا۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد وہ شاپنگ مال میں تھے۔۔۔۔ رائنا نے تو بس ضرورت کی چند چیزیں لیں اور اپنےاور حیدر کی فیملی کے لئے گفٹس لئیے جب کہ حیدر نے کافی خریداری کی۔۔۔ خصوصا رائنا کلیئے کافی دریسز اور آرائش کی دوسری چیزیں لی۔۔۔ وہ وہاں سے فارغ ہوکر نکلے ہی تھے۔۔۔۔ جب سامنے سے گزرتی ایک لڑکی پر رائنا کو اس کا گمان ہوا۔۔۔
اس سے پہلے کے وہ اس کے پیچھے لپکتی حیدر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔۔۔"
کیا ہوگیا کہاں جا رہی ہو کچھ چاہیے کیا۔۔۔۔؟ وہ فکرمندی سے پوچھ رہے تھے تبھی انکی نگاہ سامنے پڑی ایک سایہ سا انکے چہرے پر لہرایا مگر انہوں نے فوراً ہی قابو پالیا۔۔۔۔
"حیدر وہ سامنے۔۔۔" وہی تھی۔۔۔" رائناا زور دے کر بولی۔۔۔
"کم آ ن نہیں تھا کچھ بھی ایسا وہم ہوگا تمہارا۔۔۔ چلو بس گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔" وہ اسے ساتھ لگاتے گاڑی میں بیٹھ گئے۔۔۔۔
اسکے بعد پورا ٹائم وہ الجھی ہی رہی۔۔۔ ڈنر کے دوران بھی وہ اسی کیفیت میں تھی ۔۔۔
"کیا ہوگیا رائنا ٹھیک سے کھاؤ ۔۔۔ پسند نہیں آیا کیا۔۔۔۔" وہ اسکو دیکھتے فکر مندی سے گویا ہوئے۔۔۔
وہ دونوں اس وقت شہر کے سب سے معروف ریسٹورنٹ میں تھے حیدر نے ایک پرائیویٹ ایریا بک اور ڈیکوریٹ کرایا تھا۔۔۔ یہ اوپن پلیس تھی سامنے خوبصورت سا سمندر نظر آرہا تھا۔۔۔۔ سب کچھ بہت خوبصورت تھا۔۔۔۔ ایک لمحےکو تو وہ سحر زدہ ہوگئی۔۔۔"
اچھا لگا تمہیں۔۔۔ حیدر نے اسے مگن سا پایا تو پوچھا۔۔"
جی بہت اچھا ہے سب۔۔۔" وہ مسکرا کر بولی تو حیدر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر ڈائمنڈ کی خوبصورت سی رنگ پہنائی اس رنگ کا ڈیزائن بہت یونیک تھا۔۔۔۔
"خوب صورت ہے بہت۔۔۔" وہ دل سے بولی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوبصورت وقت گزار کر واپس گھر چلے آئے کل انہوں نے حویلی کے لئے نکلناتھا ۔۔۔۔
💖------------💖
وہ بستر پر دراز آج کے دن کو سوچ رہی تھی۔۔۔ آج کا دن واقعی بہت خوبصورت تھا۔۔۔
اسنے اپنے ہاتھ میں پہنائی حیدر کی رنگ کو دیکھا پھر برابر میں سوئے حیدر کو۔۔۔ اونچا قد چوڑے شانے،صاف رنگت پر گھنے کالے بال کھڑی ناک گھنی مونچھوں تلے عنابی لب بے بہا دولت رتبہ وہ کسی طور نظرانداز نہیں کیے جا سکتے تھے۔۔۔۔
مگر رائنا علی کا دل اسنے کبھی ان چیزوں کی خواہش نا کی تھی۔۔۔ اسے تو سیدھی سادی زندگی جینی تھی۔۔۔ اس کہ تو الگ ہی خواب تھے۔۔۔ محنت کر کے اپنامقام بنانے کے۔۔۔ وہ تو محنت سے راستہ بنانے والی لڑکی تھی۔۔۔ اسے اپنے مقدس پیشے سے عشق تھا۔۔۔۔
"اگر یہ سب نا ہوا ہوتا تو۔۔۔۔ زندگی کتنی الگ ہوتی وہ سوچنے لگی سوچتے سوچتے اسے وہ یاد آئی اور ساتھ ساتھ آج کا واقعہ۔۔۔"
میں نے خود اسے دیکھا تھا کیا پتا حیدر نے بھی دیکھا ہو پر وہ کیوں چھپائیں گے وہ مضطرب ہو کر اٹھ بیٹھی ۔۔۔"
اسکے جھٹکے سے اٹھنے نے حیدر کو بھی جگا دیا۔۔۔
"کیا ہوگیا۔۔۔ کیا سوچ رہی ہو۔۔۔؟" وہ نیند بھری آواز میں بولے پھر اسکا چہرہ بغور دیکھا
"ابھی تک اسی بارے میں سوچ رہی ہو۔۔۔؟
"وہ وہی تھی حیدر۔۔۔" وہ بےبس لہجہ میں گویا ہوئی۔۔۔
"رائنا تمہیں پہلے بھی کہہ چکا یہ ہر وقت ماضی کی راکھ کریدنا چھوڑ دو۔۔۔ ہر وقت یہی سوچو گی تو یہی لگےگا۔۔۔ ،کہہ چکا ہوں وہم تھا تمہارا۔۔۔" وہ سختی سے گویا ہوئے۔۔۔۔
"آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔۔۔،میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسے۔۔۔۔""" وہ بھی جھنجھلا ئی۔۔۔
" بات ختم ہوچکی رائنا بس اب تم بھی ختم کردو سو جاؤ۔۔۔" وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے سرد لہجے میں اسے چپ کرا گئے۔۔۔۔
"شاید میرا وہم ہی ہو اگر وہ وہی ہوتی تو حیدر کیوں چھپاتے۔۔۔"
وہ خود کو یقین دلاتے دل میں سوچنے لگی۔۔۔۔۔
💖------------💖
کراچی کے وزٹ نے ان دونوں کی زندگی پر خوش گوار اثر چھوڑا تھا۔۔۔۔
ان دونوں نے ہی ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں سمیت قبول کر لیا تھا۔۔۔
رائنا کے برتاو میں بہت مثبت تبدیلی آئی تھیں۔۔۔ حویلی کے ریت رواج کو اس نے آہستہ آہستہ قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔
بی جان سے تلخ کلامی کرنا بندکر دی تھی۔۔۔۔ ہاں انکی غلط باتوں پہ سر وہ اب بھی نہیں جھکاتی تھی۔۔۔۔
حیدر بخت کے اچھے برتاو سے اسکے دل میں جگہ کر دی تھی۔۔۔۔ ان کےکام تو وہ پہلے بھی کرتی ہی تھی۔۔۔ مگر مارے باندھے مگر اب وہ یہ سب کام باخوشی بجا لاتی۔۔۔۔
وہ گھر آتے تو ان کے دن کا احوال سننا ان سے باتیں کرنا۔۔۔۔ اب اسکی روٹین کا حصہ بن گیا تھا۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ان کے لیۓ بدگمانی اور بے اعتباری کی جگہ احترام نے لے لی تھی۔۔۔۔
اس کی ان تبدیلیوں نے جہاں حیدر کو سرشار کیا تھا۔۔۔۔ وہیں بی ماں بھی قدرے مطمئن تھیں۔۔۔۔ ان کے بھائی کی زندگی صحیح ڈگر پر آگئی تھی۔۔۔۔
"کافی خوش نظر آرہی ہو۔۔۔۔؟" آمنہ نے اسے فریش پا کر پوچھا۔۔۔۔
"یہ دیکھیں ڈاکومنٹس میرے۔۔۔، خیر سے ڈگری یافتہ ڈاکٹر ہوگئی۔۔۔۔" اسنے فخر سے انہیں ڈاکومنٹس دیکھائے جوصبح ہی کوریر سے وصول ہوئے تھے۔۔۔۔۔
"ماشاءالله ماشاءالله۔۔۔۔ بہت مبارک ہو منہ کب میٹھا کرا رہی ہو۔۔۔۔"
"بس اب ہاؤس جاب لگے پھر دیکھیے گا "
"جاب۔۔۔۔؟" آمنہ نے تشویش سے پوچھا۔۔۔
"بڑے سرکار اجازت دینگے۔۔۔۔؟ دیکھو رائنا میں تمہیں بہن سمجھ کے صلح دونگی اتنے بڑے خواب نا دیکھو ایسا نا ہو تمہیں ہی نقصان ہو۔۔۔۔"
آمنہ اسکا ہاتھ تھام کے تشویش سے بولی۔۔۔۔
جبکے رائنا دکھ سے چپ رہ گئی یہ اسکا بچپن کا خواب تھا۔۔۔۔ جس کے لئے اتنے قیمتی سال لگے تھے پیسے خرچ کئے تھے۔۔۔۔ محنت کی تھی اب جب صلہ ملنے کا وقت تھا۔۔۔۔ تو اسکا حق زندگی میں چند ماہ پہلے آنے والے شخص کو مل گیا تھا۔۔۔۔
💖------------💖
"مجھے میرے ڈاکومنٹس مل گئے ہیں۔۔۔۔" وہ لیپ ٹاپ میں مصروف تھے جب رائنا نے اطلاع دی۔۔۔۔
"ہم اچھا۔۔۔۔" انہونے ہنوز توجہ نہ دی۔۔۔۔
مگر اسنے ہمت نا ہاری۔۔۔۔، وہ حویلی کے ریت رواج قبول کرنے کی پوری کوشش کررہی تھی۔۔۔۔ اس نے اپنا پہناوا تک بدل لیا تھا۔۔۔۔ بس اس ایک بات پر وہ ہار نہیں ماننا چاہتی تھی۔۔۔۔ وہ زمانہ طالب علمی میں تھی۔۔۔۔ جب اکثر ٹیچرزطعنہ دیتے کےفیمیل ڈاکٹرز صرف اچھے رشتے کے لئے ڈاکٹر بنتی ہے۔۔۔۔۔ اور سیٹ کاضیاع کرتی ہیں۔۔۔۔ جبکہ آ ئے دن کتنے ہی لوگ یہی سیٹ حاصل نا کرنے کے غم میں ہاتھ سے جاتے ہیں۔۔۔۔ وہ اس بوجھ تلے دب کر نہیں رہ سکتی تھی اس نے حیدر کو منانے کا سوچ لیا۔۔۔۔
"بس اب ہاؤس جاب کے لئے جانا ہے۔۔۔۔" اسنے دوبارہ سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا۔۔۔۔۔
وہاں اب بھی خاموشی تھی وہ مزید حوصلہ جمع کرتی ان کے سامنے جا بیٹھی۔۔۔۔۔
"حیدر۔۔۔۔؟
انھونے آبرو آچکا کر اسے دیکھا وہ سنجیدگی سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
"میں جانتی ہوں یہ آ پ کی روایت کے خلاف ہے۔۔۔۔ پر یہ ضروری ہے میرے لئیے۔۔۔"
وہ ابھی بولی ہی تھی کے انھونے ٹوک دیا۔۔۔۔۔
"کیوں ضروری ہے تمہارے لیئے۔۔۔۔؟ میں مانتا ہوں کے عورت کے پاس تعلیم ہونی چاہیئے۔۔۔۔ تاکے برےوقت میں کام آ سکے۔۔۔۔ اور یہ بھی جانتا ہوں کے جاب آسانی سے نہیں ملتی۔۔۔۔ خصوصی طور پر جب آ پ لمبے عرصے تک جاب نا کریں۔۔۔۔ انٹرن شپ وغیرہ ضروری ہوتی ہے۔۔۔۔ جابز کیلیے مگر یہ سب ان کے لئیے ہے جن کی واحد سیکیورٹی یہی ہو۔۔۔۔ تمہارا معاملہ تو بلکل الگ ہے تم کسی عام سے متوسط طبقے کے شخص کی نہیں۔۔۔۔ حیدر بخت کی بیوی ہو۔۔۔۔ میں نے نکاح کے بعد ہی تمہارے نام فارم ہاؤس کر چکا ہوں۔۔۔۔ میں اس کے علاوہ بھی میں تمہیں ایسے ہی نہیں رہنے دونگا۔۔۔۔
اتنا فائننشلی سیکیور کر دوں گا کے میرے بعد تمہیں میری اولاد پر بھی نربھر نا رہنا پڑے۔۔۔۔ اور باخدا میں یہ کسی غرور یا زعم میں نہیں کہہ رہا۔۔۔۔ صرف تمہاری تسلی کیلیے بتا رہا ہوں۔۔۔۔ اب بتاؤ کیوں ضروری ہے جاب کرنا؟"
وہ بےحد تفصیل سے کہتے اب اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔ جس کی آنکھیں ڈبڈبا چکی تھیں۔۔۔۔
اس کے چہرے پر مایوسی تحریر تھی اس کے کان اپنے خوابوں کے ٹوٹنے کی آواز شاید پہلے ہی سن چکے تھے۔۔۔۔
"میں 6 کلاس میں تھی جب میری دادو کو بریسٹ کینسر ہوا کافی عرصہ وہ چھپاتی رہیں۔۔۔۔ یہ سوچ کر کے انہیں کسی نامحرم کے سامنے بے پردہ ہونا پڑے گا۔۔۔۔ مگر کب تک چھپتا آ خر سامنے آ گیا۔۔۔۔ ڈھونڈ کر ایک اچھی ڈاکٹر بھی مل گئیں کافی علاج ہوا اور بالآخر دادو کی حالت میں بہتری آ گئی۔۔۔۔
وہ بڑی متاثر تھی اپنی ڈاکٹر کے کس طرح وہ انکی پرائیویسی کا دھیان رکھتی ہے۔۔۔۔ دن رات دعائیں دیتی اور تب مجھے ایک لیڈی ڈاکٹر کی حیثیت پتا چلی۔۔۔۔ کتنی ضروری ہے وہ ہماری زندگی میں بلکہ ہر فیلڈ میں کتنی ڈھارس دیتی ہے۔۔۔۔ ایک عورت کی موجودگی دوسری عورت کو۔۔۔ چاہے آپ بنک میں کسی کام سے جاؤ وہاں زیادہ تر مردوں کے بیچ میں چند کام کرتی عورتوں کی موجودگی کتنا حوصلہ دیتی ہے۔۔۔۔ بس میں چڑھو تو اپنے کام پے نکلی ہوئی غریب عورت کی موجودگی اس مردوں کی بھیڑ میں ڈھارس دیتی۔۔۔ اسکول کالج میں فی میل اسٹاف کی موجودگی سے کیسا حوصلہ ملتا ہے یہ آپ نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔ کیونکہ آپ مردوں کو اتنے خطرات نہیں ہیں۔۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہی مرد کی زندگی سونے کی سیج ہوتی بس یہ کہہ رہی ہوں کے آپ یہ مسئلے نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔
خیر بات ہورہی تھی۔۔۔ میرے لئے یہ جاب وغیرہ ضروری ہونے کی۔۔۔ تو فیصلہ ہوگیا اسی 6 کلاس میں رائنا علی نے ڈاکٹر بننا ہے۔۔۔ جس وقت میرے ہم جولی کھیلتے کودتے۔۔۔۔ میں پڑھتی اور اسی طرح کالج بھی ختم ہو گیا۔۔۔۔ آئے دن رشتے آتے امی ابو مناسب الفاظ میں منع کردیتے۔۔۔۔ کچھ بات سمجھ جاتے کچھ باتیں بناتے۔۔۔
آ ئم شیور آپ کو ایسا سب نہیں جھیلنا پڑا ہوگا۔۔۔۔ خیر چھوڑیئے دن رات پڑھا میں نے کےجانتی تھی میرے ابو بہت محنت کرکے بھی صرف میرٹ پر ہی پڑھا سکتے تھے۔۔۔ آخر ایڈمیشن ہوگیا گھر سے کافی دور روز دو دو بسیں بدلنی پڑتیں۔۔۔ بہت ذہین نہیں تھی ہاں محنتی تھی۔۔۔ ہر وقت پڑھتی کوئی کہتا پڑھ پڑھ کر رنگ خراب ہو جائے گا۔۔۔ یا اتنا پڑھ کر کیا کروگی پر جب ضرورت پڑھتی یہی لوگ پوچھتے۔۔۔۔ بچہ بیمار ہے کونسی دوا دے یا کچھ نہیں تو بلڈ پریشر چیک کرلو۔۔۔۔ میں سوچتی اگر تعلیم اتنی ہی بے بنیاد ہے تو تعلیم یافتہ سے مشورہ کیوں۔۔۔۔؟
مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی جو لوگ کہتے ہیں پڑھ کر کیا ملے گا۔۔۔؟ وہ ضرورت پڑنے پر انہیں لوگوں کے پاس کیوں جاتے ہیں۔۔۔ کبھی ٹیچر کے پاس کبھی ڈاکٹر کے پاس۔۔۔۔ کبھی اکاؤنٹنٹ کے پاس تو کبھی وکیل کے پاس۔۔۔۔ یہ کیسا دہرا رویہ ہے نا۔۔۔۔۔
یونی میں ٹیچرز اکثر کہتے کے خواتین گھر بیٹھ جاتیں ہے۔۔۔۔ سیٹ کا ضیاع کرتیں ہیں۔۔۔۔ اور اکثر بچے انہیں سیٹس کے نا ملنے پر خودکشی کرلیتے ہیں۔۔۔۔ وہ ہم لوگوں سے وعدہ لیتے کے ہم ایسا نہیں کرینگے اور ہم بیوقوف ہامی بھرتے۔۔۔۔ یہ باتیں لوگ لڑکیوں سے کیوں کرتے ہیں۔۔۔۔ اپنے اپنے اردگرد کے لوگوں کو کیو نہیں سمجھاتے۔۔۔۔ ہمیں بتاتے جیسے یہ قصور بھی ہمارا ہو ہاہاہا۔۔ گویا یہ ہمارے اختیار میں ہو۔۔۔ میں نے خود سے عہد لیا تھا کے یہ سیٹ ضائع نہیں کرونگی۔۔۔۔ پر تب میں اپنے والد کے گھر تھی جو پرایا ہوتے ہوئے بھی میرا تھا۔۔۔۔ اور اب آپ کے گھر میں ہوں تو وہی کرنا ہوگا جو آپ چاہیں گے۔۔۔۔ ہیں نا ورنہ لوگ کہیں گے کے علی نے بیٹی کو پڑھایا دیکھا گھر نا بسا سکی میں تو ہر صورت خسارے میں ہوں۔۔۔۔ پر خیر کر ہی کیا سکتی ہوں۔۔۔ غلطی میری ہے مجھے خواب نہیں دیکھنے چاہیئے تھے۔۔۔۔۔
مجھے اپنی زندگی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیئے تھا۔۔۔۔ مجھے تو جیتی جاگتی کٹھ پتلی جیسا ہونا چاہیئے تھا۔۔۔۔"
وہ ایک دکھ کی کفیت میں اپنے دل کا سارا غبار نکال گئی۔۔۔۔۔ اور اب لب بھینچے آ نسو صاف کرہی تھی۔۔۔۔ وہ روتی نہیں تھی وہ تب بھی نہیں روئی تھی۔۔۔۔۔
مگر آ ج آنسو جانے کہاں سے اس کے گال تر کر گئے۔۔۔۔ جو اس نے بولا وہ ایک ایک لفظ سچ تھا۔۔۔۔۔ معاشرے کا دہرا معیار ،حیدر نے لب بھینچے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اسکے گال سے اشک چنے لگے کہ اچانک اسنے ان کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔
"بس ایک آ خری بات کیا آپ میرے لئیے بی اماں کے لئیے یا اس حویلی کی کسی بھی عورت کو کسی بھی علاج کے لیے کبھی ہسپتال لے کر جائیں گے تو آ پ کیا ان کیلیے لیڈی ڈاکٹر نہیں ڈھونڈیں گے۔۔۔۔؟ اگر نہیں تو آ پ جیتے میں ہاری اور اگر ہاں تو غور کیجیے گا میری باتوں پر۔۔۔۔
وہ کہتی اٹھنے لگی تو انہوں نے اسکے شانوں پر ہاتھ رکھے دوبارہ بیٹھا دیا اور ایک ہاتھ سے اسکا چہرہ اونچا کیا اور اسکے آ نسو صاف کئیے۔۔۔
"ساری آ نکھیں سجا دیں تم نے اب اپنی کہہ چکیں تو میری بھی سن لو۔۔۔ ایاز سے پہلے ہی بات کر چکا ہوں روز کراچی جانا مشکل ہے۔۔۔۔ مگر یہاں قریبی علاقے میں ایک ہاسپٹل ہے۔۔۔ ہے تو گاؤں میں بھی مگر وہاں سے لائسنس نہیں مل سکتا سو اس لئیے اس کا پتا کروایا ہے۔۔۔۔
تم کل ریڈی رہنا اپنی سی وی وغیرہ کے ساتھ"وہ نرمی سے کہہ رہے تھے۔۔۔۔ اور وہ حیران پریشان سی انھیں سن رہی تھی۔۔۔۔
"اگر آ پ خود پتا کروا رہے تھے تو پھر مجھ سے کیوں وہ سب کہا۔۔۔۔؟ وہ الجھ ہی تو گئی تھی۔۔۔۔
" کیا کہا۔۔۔۔؟ صرف یہی تو بتایا کے تم سے غافل نہیں ہوں۔۔۔ اور بس یہ جاننا چاہا کے تمہارے لئے کتنا ضروری ہے یہ پیشہ۔۔۔"
"آ پ تنگ کر رہے تھے مجھے۔۔۔؟"
"نہیں تمہیں سننا تمہیں جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔ تاکہ یہ سفر آسانی اور خوبصورتی سے کٹے۔۔۔۔ بہت لمبا ساتھ ہے ہمارا اور ساتھ چلنا ہے۔۔۔ ہمیں ہم قدم ہوکر تم میری بیوی ہو میرے زندگی کے اندھیروں اجالوں کی ساتھی۔۔۔ میرے دکھ سکھ کی ساتھی۔۔۔۔ میں تمہارا شوہر ہوں رائنا تمہارا محرم تمہارے راستوں میں پتھر نہیں اٹکاوں گا۔۔۔۔ بلکہ ان اونچے نیچے راستوں پر تمہارا سہارا بنوں گا بس وہ راستہ جائز ہو۔۔۔" وہ اسے پیار سے سمجھانے لگے۔۔۔۔
"حیدر۔۔۔؟" وہ جانے لئیے اٹھے تو اسنے پکارا۔۔۔
"ہمم۔۔۔۔" انہوں نے ہنکارا بھرا۔۔۔
"تھینک یو میری راہ کا ساتھی بنے کے لئیے۔۔۔" وہ ممنونیت سے بولی اسکے انداز میں ان کے لئے عزت تھی احترام تھا اور حیدر کو یقین تھا کے ایک دن محبت بھی ہوگی۔۔۔
"یور ویلکم۔۔۔ بس اب جاؤ اپنی سی وی وغیرہ دیکھو مجھے کام کرنا ہے۔۔۔" وہ گھڑی دیکھتے مصروف سا بولے اور واپس لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوگئے۔۔۔ رائنا اس بات پر انہیں گھورتے اٹھ کھڑی ہوئی پھر کچھ سوچ کر گہری سانس بھرتے بولی۔۔۔۔
"میں چائے لے آتی ہوں آپ کیلیے"
آج اسکا انکی کوئی بات مائنڈ کرنے کا موڈ نا تھا
جبکہ لیپ ٹاپ میں مصروف حیدر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سج گئی۔۔۔
💖------------💖
یہ اسکی ہاؤس جاب کی پہلی صبح تھی وہ جلدی جلدی تیار ہوئے نکلنے کو تھی۔۔۔۔، جب اسنے شیثے میں خود کو ااروور آل میں دیکھا۔۔۔۔" ہاے کاش کوئی اسس وقت میری خوشی بانٹنے والا ہوتا۔۔۔۔" اسنے دل ہی دل میں سوچا۔۔۔"
رائنا بیگم زیادہ ڈیمانڈنگ نابنو ابھی تو بی اماں کا سامنا بھی کرنا ہے ناشتہ پر۔۔۔" اسے تشویش ہوئی۔۔۔۔
"السلام و علیکم۔۔۔" وہ مرتا کیا ناکرتا کے مصادق صدر کرسی پر براجمان حیدر بخت کے بائیں طرف رکھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھی۔۔۔۔۔
"آگیی بنو۔۔۔۔! تو اب شوہر کو بھی دیکھ لو تھوڑا خود سے فرصت ہو تو۔۔۔۔" دا ئیں جانب بیٹھی بی اماں نے سلام سے فارغ ہوتے ہی گھرکا۔۔۔۔
"عجیب اب یہ چھوٹے بچے ہے۔۔۔۔ جو میں ناشتہ کراؤں۔۔۔۔ یا اللہ لگتا ہے مجھے بھوکے پیٹ ہی جانا ہوگا۔۔۔۔ اگر میں پہلے ہی دن لیٹ ہوگئی تو۔۔۔۔"
وہ دل ہی دل میں پریشان ہوتی حیدرکے لئے چائے کپ میں بنا کر پراٹھے پر مكهن لگانے لگی ہی تھی کہ حیدر نے ہاتھ سے دونوں چیزیں لے لی۔۔۔"
دیر ہورہی ہے تمہیں۔۔۔۔ میں خود لے لونگا جو چاہیے ہوگا۔۔۔۔" انہوں نے کہا اور ساتھ ساتھ ڈبل روٹی پر جیم لگا کے اسکےآگے رکھا۔۔۔۔
اس منظر کو سب نے ہی دیکھا۔۔۔۔
آمنہ اور گلرخ نے رشک سے زاہد نے متاثر ہو کر جبکے شرجیل نے ناگواری سے۔۔۔۔ اور بی اماں نے صدمے سے۔۔۔۔ حیدر نے اب انکے پراٹھے پر بھی مکھن لگا کر ان کے آگے رکھا۔۔۔۔
مقصد صرف ان دونوں خواتین کو جتانا تھا کے وہ دونوں ہی الگ الگ طور پر اہم ہیں۔۔۔۔ ان کے لئیے مگر بی اماں کا صدمہ ہنوز قائم تھا وہ جان گئی تھی۔۔۔۔ کے اب وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتیں۔۔۔
حیرت اور شرم کے باعث رائنا سے کھانا دوبھر ہوچکا تھا مگر حیدر کےخیال سے جلدی جلدی فارغ ہوئی۔۔۔۔
دوسرا جھٹکا تب لگا جب چھوڑنے جانے ڈرائیور کے ساتھ ساتھ حیدر بھی تھے۔۔۔ وہ بھی درجن بھر گارڈز کے بغیر۔۔۔۔
راستہ لمبا تھا لیکن اپنی ایکسایٹمنٹ میں اسے کب منزل آئی پتا نا چلا۔۔۔۔
"رکو۔۔۔" اسے پہلے وہ اترتی حیدر نے روکا انہوں نے پیچھے رکھا شاپنگ بیگ اٹھا کر اسکی جانب بڑھایا۔۔۔۔
"یہ کیاہے۔۔۔۔؟" وہ حیران ہوئی
"کھول کے دیکھو "
اسنے کھولا تو اندر litman کا لیٹیسیٹ stethoscope تھا۔۔۔۔۔
"واو یہ کس لئے پر۔۔۔۔" وه نا چاہتے ہوئے بھی اپنی خوشی چھپا نا سکی۔۔۔۔
"تم ہمارے خاندان کی پہلی ورکنگ لیڈی بنے جا رہی ہو اسلئے تحفہ تو بنتا ہے۔۔۔" وہ مسکرائے۔۔۔۔
"تھنک یو۔۔۔ بہت خوبصورت تحفہ ہے اور اب تو اسکی ضرورت بھی تھی"
وہ بھی خوش دلی سے بولی تو انہوں نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا وہ جھینپ کر رہ گئی۔۔۔
وہ دونو گاڑی سے اترے تو اچانک اسے خیال آیا۔۔۔۔
"حیدر!کیا آپ میری ایک پک لے سکتے ہیں ایسے اوور آل میں۔۔۔" اسنے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔۔۔
"حیدر نے ہنسی ضبط کی" ضرور۔۔۔"
اور پیچھے بیٹھے حیدر کے دست راست بہادر کی آنکھیں پھٹنے کو ہوئی جب انہوں نے حیدر کو ایک کے بعد دوسری پھر تیسری پک کلک کرتے پایا آخر چوتھی تصویر رائنا کے حسب منشاء آئی اور حیدر کی جان خلاصی ہوئی۔۔۔۔
"تھنک یو۔۔۔۔ یہ آپ واٹس اپ کردے پیلز اللہ حافظ۔۔۔۔"
"اللہ حافظ۔۔۔۔ اینڈ بیسٹ آف لک ڈاکٹر رائنا "
کہتے وہ گاڑی میں جا بیٹھے۔۔۔۔
"احمق "راستے میں اسکی تصویر دیکھتے ان کے لب مسکرا اٹھے۔۔۔۔
💖------------💖
واپسی پر اسے لینے ڈرائیور ہی آیا تھا۔۔۔۔ اسکا شدّت سے دل کسی کو اپنے دن کی رواداد سنانے کا تھا۔۔۔۔
بی اماں صبح کہ حیدر کے برتاؤ کے بعد سے چپ ضرورتھی پر موڈ انکا ابھی بھی برہم تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے گل رخ تو گل رخ آمنہ بھی اس سے کٹی کٹی تھی۔۔۔۔ وہ جانتی تھی آمنہ کی مجبوری تو مبرا بھی نا مانا باہر آکر امی کو اور ربیعہ کو کال کک کوشش کرنے لگی یہاں وافی دیوائس تھی پر آج سگنل کا بھی مسئلہ تھا۔۔۔۔
وہ مایوس ہوکے باغ میں ٹہلنے لگی جب اسے ایاز آتا دکھائی دیا۔۔۔۔
"السلام و عليكم بیبی سرکار۔۔۔۔" وہ مودب سا ہاتھ میں پکڑا سامان آگے کرتا بولا۔۔۔۔ جب سے وہ حیدر کے نکاح میں آئی تھی۔۔۔۔ وہ ایسے ہی مخاطب ہوتا تھا۔۔۔۔ پہلے تو رائنا نے اپنی خفگی میں کوئی توجہ نا دی مگر آج جب ماضی کا غصہ کم ہوا تو۔۔۔
وہ ٹوک بیٹھی"
ہم دوست رہ چکے ہیں۔۔۔ اور اس وقت تو بی جان بھی نہیں کے تمہیں ٹوکے پھر اتنا فارمل "
"میں بی جان کے ڈر سے نہیں حیدر بھائی کی دل سے عزت کرتا ہوں۔۔۔ اور اسلئے آپ کو آپ کے رتبہ کے مطابق بلاتا ہوں "
"میں نے یہ نہیں کہا کے انکی عزت نا کرو مجھے بس ایسے بھاری بھرکم طرز مخاطب پسند نہیں میں تمہاری رشتے میں بھابھی بھی تو بنتی ہوں جیسے آمنہ ہے"
"رائنا ٹھیک کہہ رہی ہےایاز تم میرے لئے شرجیل جیسے ہی ہو۔۔۔ اور جب مجھے بھائی بلاتے
ہو تو رائنا کو بھی اسی رشتے سے بلا سکتے ہو۔۔۔۔"
وہ جانے کب آئے مگر انھیں رائنا کا ایاز کو خود کو بھابھی کہنا اچھا لگا مطلب وہ انکے رشتےکومانتی ہے۔۔۔۔
"اور بہت شکریہ سامان لانےکا۔۔۔"
"حیدر بھائی شرمندہ نا کریں میں ذرا بی جان کو سلام کر آوں۔۔۔۔" ایاز مسکرا کے کہتا چلا گیا۔۔۔
"ضرور۔۔۔" حیدر بھی مسکرائے۔۔۔
رائنا بھی اندر کی طرف مڑی۔۔۔۔
"تم کہا جا رہی ہو۔۔۔؟
"رکھی کو چائے کا کہنے۔۔۔"
"ہمم۔۔۔ یہی منگوانا۔۔۔"
وہ سر ہلاتی سامان کا شوپر پکڑ تی اندر گئی کمرے میں آکر شوپر دیکھا تو اس میں اسکے میڈیکل کے بیسک equipment تھے جو اسنے آج خریدنے کاسوچا تھا۔۔۔۔ پیسے ویسے تو حیدر ہر مہینہ بنا مانگے اسکی سنگھار میز کی دراز میں رکھتے تھے۔۔۔۔ جو وہ بہت مجبوری میں ہی استعمال کرتی تھی۔۔۔۔ ارادہ تھا کے تنخواہ ملتے ہی حیدرکا قرض چکائے گی مگر انکی مہربانیاں اسکی تنخواہ سے کہیں زیادہ تھیں۔۔۔۔"
یا اللّہ اتنا قرض۔۔۔" وہ اکثر سوچتی اور پریشان ہوتی وہ نادان اس بات سے بے خبر تھی کے اصل قرض تو اس پہ انکی محبت کا انکے انتظار کا چڑھ رہا ہے۔۔۔۔
"بڑی سرکار چائے لگ گئی۔۔۔۔" رکھی
نے مودب سااطلاع دی۔۔۔۔
تو وہ باہر چل دی۔۔۔۔۔
💖------------💖
وہ مسلسل اسے ادھر سے ادھر ٹہلتا دیکھ رہے تھے۔۔۔ چائے کے وقت اور ڈنر پہ بھی وہ بےچین تھی۔۔۔۔ ابھی فون ہاتھ میں لیئے سگنلز ڈھونڈنے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔
کافی تگ و دو کے بعد تنگ آکر صوفے پہ بیٹھ گئی
وہ بظاہر کام میں مصروف تھے مگر اسی کا جائزہ لے رہے تھے۔۔۔۔
"کیا ہوتا اگر حیدر مجھ سے پوچھ لیتے کہ میرا دن کیسا گزرا۔۔۔؟ اپنے گھر تھی تو امی ہر پرچے کے بعد ساری تفصیل سنتی تھیں۔۔۔ ابو فون کر کے دریافت کرتے تھے۔۔۔۔۔
ابھی وہاں ہوتی تو دونوں کتنا خوش ہوتے یہ تو ہم تینوں کا خواب تھا۔۔۔۔
میں حیدر سے کچھ زیادہ ہی توقعات رکھ رہی ہوں۔۔۔۔ وہ جس ماحول کے پروردہ ہے۔۔۔۔ وہاں عورت کا کام صرف کٹھ پتلی جیسا ہے۔۔۔۔ اس میں بھی وہ کچھ ڈھیل دے رہے ہیں یہی بہت ہے۔۔۔۔" وہ دل ہی دل خود ہی سے شکوے خود ہی کو سمجھا بھی رہی تھی۔۔۔۔۔
جب اچانک کسی نے اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلایا۔۔۔۔
اس نے چونک کر دوسری سمت دیکھا تو برابر حیدر کو بیٹھے پایا۔۔۔۔ وہ کب ادھر آکر بیٹھے اسے خبر نا ہوئی۔۔۔۔
"دن کیسا گزرا تمہارا۔۔۔۔؟ کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی۔۔۔۔
"نہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی" وہ آہستہ سے مروتا مسکرائی۔۔۔
زہن ہنوز فون میں اٹکا تھا۔۔۔ اس نے دوسری بار دیکھا سگنلز نا آنے تھے نا آئے۔۔۔۔
"کیا الجھن ہے آخر۔۔۔۔"
"سگنلز کیوں نہیں آرہے۔۔۔؟"
"کبھی کبھی ہو جاتا ہے مسئلہ اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے"
وہ ٹوک کر بولے پھر اس کا چہرہ بغور دیکھا اور اسکے ہاتھ سے سیل فون لے کر رکھا۔۔۔ اور دونوں ہاتھ تھامے۔۔۔۔
"جو فون پر آنٹی سے کہنے کو بےچین ہو وہ مجهے بتادو۔۔۔ یقین کرو بہت اچھا سامع ثابت ہونگا۔۔۔۔
،i know it was your1st day and i do want to know how it went "
"رئیلی۔۔۔؟ وہ خوشکن لہجے میں پوچھنے لگی۔۔۔
"آف کورس بھئی روز تم مجھ سے پوچھتی ہو آج میں پوچھ لیتا ہوں نو بگ ڈیل۔۔۔" وہ مسکرائے۔۔۔۔
وہ مسکرائے تو رائنا بھی مسکراتے انھیں پورے دن کی رواداد بتانے لگی۔۔۔۔۔
💖------------💖
آج اسے سیلری ملی تھی۔۔۔ جو امید سے تھوڑی کم تھی پر وہ خوش تھی۔۔۔۔ واپسی میں اسنے ڈرائیور کو مال جانےکو بولا۔۔۔۔
مگر اسے پہلےصبح ہی اسنے حیدر سے اجازت ضرور لی تھوڑا مشکل سےسہی مگر وہ مان گئے۔۔۔۔ مگر ساتھ میں بہادر کو بھی ساتھ کیا۔۔۔ اس طرح گن مین کے ساتھ گھومنا اسکے لئے مشکل تھا۔۔۔۔ بٹ سہہ گئی کے حیدر نے بتایا تھا کے انکے پولیٹکس میں آنے اور سر پنج بنے کے بعد سیکورٹی ساتھ لینا ضروری ہے۔۔۔۔
اسنے امی کے لئے سوٹ ابو کے لئے کف لنکس اور آمنہ زر گل اور بی جان کے لئےشال لئے۔۔۔ بی جان اور یہ لوگ بہت مہنگی چیزیں استمال کرتی تھی۔۔۔ اسلئے اسنے حیدر کے دیے پیسے بھی اس میں خرچ کئے تاکہ انکے شایان شان لے سکے۔۔۔ آخر میں اسکا دل کیا کے حیدر کے لئے صرف اپنی سیلری میں سے کچھ خریدے۔۔۔۔ مگر جانتی تھی کے وہ بہت مہنگا امپورٹڈ برانڈ کی ہر چیز استعمال کرتے ہیں جو اسکی سیلری میں آنے سے رہا۔۔۔۔۔
آخر بہت سوچ بچارکر اسنے ایک اچھی خاصی مہنگی گھڑی لی جسکے بعد اسکی 30000 کی سیلری میں کچھ نا بچا۔۔۔۔
💖------------💖
گھر آکر اسنے بی جان اور آمنہ اور زر گل کو ڈرتے ڈرتے گفٹ پیش کئے۔۔۔ جسے آمنہ اور زرگل نے بہت شوق سے وصول کیا۔۔۔۔ جبکے بی جان نے بھی خلاف ِتوقع تعریف کی۔۔۔۔
اور سرپر پیار دیا اب بےچینی سے حیدر کا ریکشن دیکھنا تھا۔۔۔۔
💖------------💖
"یہ آپ کے لئے "
"میرے لئے۔۔۔۔؟"
وہ حیران ہوئے اور گفت کھول کر دیکھا۔۔۔۔
"زبردست۔۔۔۔ اچھی ہے شکریہ تم میرے اورسب کے لئے تحفہ لائی۔۔۔۔" انہوں نے سراہا۔۔۔
مگر اسے پھیکا لگا۔۔۔۔" لاکھ روپے کی گھڑی والے یہ کہاں پہنے گے۔۔۔۔ ہائے میرے دس ہزار
"اسنے دل ہی دل دکھڑا رویا۔۔۔۔
"شکریہ کس بات کا آپ بھی تو لاتے ہیں اور آپکا کافی قرض ہے میں وہ بھی آہستہ آہستہ چکا دونگی۔۔۔"
"قرض کیسا قرض۔۔۔؟" وہ الجھے
تو اس نے دراز کی جانب اشارہ کیا۔۔۔۔
"اگر تم چاہتی ہو تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں تمہاری جاب بند کردیتا ہوں۔۔۔۔ تاکے تمہارے دماغ سے یہ فضولیات نکلے۔۔۔۔ تمہاری جاب تمہارے شوق کے لئے ہے یہ فرار کا راستہ نہیں ہے۔۔۔۔" لہجہ اور لفظ دونوں ہی سرد تھے انکی سیاہ بھنورا آنکھوں میں وہ نرم سا تاثر نہیں تھا۔۔۔ جو اسے دیکھ ابھرتا تھا وہ ایک لمحہ کو سہم گئی۔۔۔۔
"میں نے ایسا کیا کہا ہے یہ سوچ تو میرے زہن تک سے نہیں گزری۔۔۔۔ میں آپ کو راستہ چھڑانے والی لگتی ہوں۔۔۔۔" وہ نہایت افسوس سے دیکھتی بولی
اسکے تاثرات دیکھ وہ پگھلے اور انھے اپنے سخت الفاظ کا اندازہ ہوا۔۔۔۔
"ادھر آؤ۔۔۔" انہوں نے ہاتھ بڑھا یا پر وہ جھٹک گئی۔۔۔۔
"رائنا۔۔۔" انہوں نے اسے دونو بازو سے تھام کرقریب کیا۔۔۔۔
"سوری میری جان۔۔۔"
"میں تو صرف اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتی تھی۔۔۔۔ اچھا ہوا آپ نے یہ بول دیا جن پیار بھری نگاہوں سے ہر وقت دیکھتے ہیں ان کے پیچھے کتنی بدگمانی چھپی ہے۔۔۔"
وہ ایک بار پھر دکھ سے بولی اس کا زخمی لہجہ انہیں گھائل کر گیا۔۔۔ انہوں نے آہستہ سے اسے قریب کیا اور ساتھ لگا لیا۔۔۔۔
"سوری جان حیدر۔۔۔ دیکھو بوجھ کیسا بھلا بیوی ہو تم میری۔۔۔۔ میری نصف بہتر۔۔۔ میرا حصہ ہو تم۔۔۔ بوجھ کیسا رائنا۔۔۔ جو میرا ہے وہ تمہارا ہے۔۔۔ میری بیوی ہو تم۔۔۔۔ جانتا ہوں بہت سخت بول گیا۔۔۔۔ پر تم نے بات ہی ایسی کی تھی۔۔۔۔ جیسے میں کوئی غیر ہوں۔۔۔ تمہارا محرم ہوں ایسے بےاعتنائی برتی ہو تو برا لگتا ہے۔۔۔۔"
وہ ہنوز خفا تھی جھٹکے سے پیچھے ہوئی۔۔۔۔
"آپ کے الفاظ سخت نہیں تھے بدگمان تھے حیدر"
"بدگمان ! نہیں ہو میں تم سے میں نے تمہیں کہا تھا نا۔۔۔ تمہاری ہر جنبش سے واقف ہو چکا ہوں جانتا ہوں منافقت نہیں ہے تم میں تمہارا چہرہ تمہاری معصومیت کا آئینہ دار ہے یہ الفاظ محض غصہ کا نتیجہ تھے۔۔۔۔
چلواب بس یار کتنا معافی منگواو گی۔۔۔ بس مسکراوں تھوڑا۔۔۔۔" انہوں نے پچکارا وہ اس سے زیادہ معافی نہیں مانگ سکتے تھے یہ بھی غنیمت تھی۔۔۔۔
وہ چپ کرتی جانے کو مڑی جب انہوں نے روکا۔۔۔۔
"ارے کدھر یہ تو پہناوؑں۔۔۔" انہوں نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔
"پہن لیجیئے خود آپ۔۔۔" وہ آف موڈ سے بولی۔۔۔۔
"جب تحفہ دیتے ہیں تو پہناتے بھی ہیں" وہ بضد ہوئے وہ گہری سانس بھرتے آگے ہوئی اور ان کی چوڑی سیاہ روئے سے سجی کلائی پر گھڑی باندھی۔۔۔۔
"اچھی لگ رہی ہے جانتی ہو تمہارے دئیے گئےاس تحفہ کی قیمت میرے لئے ہر شہ سے زیادہ ہے۔۔۔ آج سے بس یہی گھڑی پہنوں گا۔۔۔ یہ میری نصف بہتر کا تحفہ جو ہے۔۔۔۔" وہ نرم نگاہوں سے تکتے محبت سے چور لہجے میں بولے تو وہ انکے لفظوں کی صداقت محسوس کرتے مسکرادی اسے اتنی خوبصورت پذیرائی کی امید نا تھی۔۔۔۔
"مسکراتی رہا کرو اچھی لگتی ہو۔۔۔۔"
اسے مسکراتا دیکھ وہ بھی مسکرادیے۔۔۔۔۔
💖------------💖
وہ اب زندگی کے اس موڑ سے مانوس ہو چلی تھی۔۔۔ اب نا اسے حیدر برے لگتے نا حویلی یہ زندگی اس کی پسندیدہ نا سہی پر اب قید بھی نالگتی۔۔۔۔
حیدر نے خودکو بہت تبدیل کیا تھا یہ انکا ساتھ تھا جبھی وہ سکون سے ہاؤس جاب کر رہی تھی۔۔۔۔
وہ اس کی جانب قدم بڑھا چکے تھے اب اسکی باری تھی مگر ماضی بار بار ضیاع کا احساس دلاتا رہتا تھا آج بھی۔۔۔۔
ماضی کی یاد نے آگھیرہ تھا۔۔۔۔
💖------------💖
"یہ کون ہے۔۔۔؟" اسنے ایاز کے ساتھ ایک لڑکی کودیکھا تو ربیعہ سے پوچھا اسنے بھی جواب میں کندھے اچکائے۔۔۔۔
لڑکی نے اچھا دیدہ زیب لباس اور کڑھائی والی چادر کاندھو پے لی تھی۔۔۔ جب کے سر پر کپڑو کے ہم رنگ دوپٹہ تھا۔۔۔ صاف کھلی ہوئی رنگت پر عام سا ناک نقشہ کل ملا کے اچھی خاصی لڑکی تھی۔۔۔۔
رائنا نے پورا جائزہ لینے کے بعد دل ہی دل میں اچھے خاصی بھی قرار دے دیا اتنے میں ایاز اسے لئے انکے قریب آگیا۔۔۔۔
"رائنا ربیعہ اس سے ملو یہ ہماری تایا زاد ہے سندس ابھی فارمیسی میں داخلہ لیاہے۔۔۔۔"
"اہ نائیس آؤ جوائن اس پلیز۔۔۔" ربیعہ اور رائنا نےگرم جوشی سے ویلکم کیا۔۔۔۔
💖------------💖
سندس کلاس میں جا چکی تھی جبکے ان کی کلاس آف تھی۔۔۔۔
"ایاز تم نے بتایا تھا تمہاری فیملی اجازت نہیں دیتی عورتوں کی تعلیم کی پھر یہ کیسے ۔۔۔؟" رائنا سندس کے جاتے ہی دل کا سوال زبان پر لے ہی آئی۔۔۔
"پچھلےکچھ سال سے تایا سرکار کی بیماری اور انتقال کے باعث سب کچھ ان کے بڑے بیٹے حیدر بخت بھائی کے ہاتھ میں آگیا ہے۔۔۔۔
حیدر بھائی بڑے انصاف پسند اور تھوڑے سے انقلابی ذہن کے ہے گاؤں میں اسکول بھی انہی کی کوشش سے تعلیم کی بنیاد پڑی۔۔۔ اور اب آہستہ آہستہ عورتوں کی تعلیم کی بنیاد بھی انہی کی کوشش کا پھل ہے سندس کی بڑی بہن بہت اچھی تھی پڑھائی میں پرائیویٹ B.A کیا ہے انہوں نے۔۔۔۔ سندس نے بھی انٹر کے پرائیویٹ امتحان دیے تھے اچھے گریڈ تھے اسکے اب بڑے سرکار کی عنایت پر اسے یونیورسٹی آنے کا موقع مل گیا۔۔۔۔
"ایاز نے بڑے فخر سے اپنے تایا زاد کے کار نامے بیان کئے جن سے رائنا تو ذرا متاثر نا ہوئی الٹا افسوس ہوا کے آج بھی عورت کی بنیادی ضرورت تعلیم کے لئے مردوں سے اجازت کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔۔
"گریٹ۔۔۔! اسکا مطلب حیدر بخت گاؤں کے کرتا دھرتا ہے۔۔۔۔؟ ربیعہ نے سوال کیا۔۔۔۔
"ہاں ایک طرح سے بٹ اصل اختیار تب ملیں گے جب وہ سردار بنیں گے اور سچ یہ ہے کے وہ ڈیزرو بھی کرتے ہیں۔۔۔" ایاز نے مزید تفصیل بتائی۔۔۔
"ارے ہاں! ربیعہ سندس تمھارے ہوسٹل میں شفٹ ہو گی میں وارڈن سے بات کرکے اسکو تمہارے روم میں شفٹ کروا دوں۔۔۔۔ اگر تمہیں اور رائنا کو اعتراض ناہو۔۔۔۔" (رائنا آخری سال میں ہوسٹل شفٹ ہوگئی تھی ربیعہ کے ساتھ تاکے ڈھنگ سے پڑھائی کر سکے )
"ہاں ہاں کیوں نہیں ہمیں کیا پرابلم ہوگی۔۔۔" دونوں نے اسے اطمینان دلایا۔۔۔۔
💖------------💖
"رائنا آپ مارکیٹ جا رہی ہے۔۔۔؟ "رائنا بیگ لے کے نکل رہی تھی کے سندس آگئی۔۔۔۔
"ہاں" وہ مرے مرے انداز میں بولی۔۔۔۔
"میں بھی چلوں۔۔۔؟ سامان چاہیے۔۔۔"
"آجاؤ۔۔۔" رائنا کو مجبوراً ساتھ رکھنا پڑا۔۔۔۔
وہ اور ربیعہ دونوں سندس کے طور طریقوں پر نالہ تھی وہ اکثر میس جاتیں اور واپس آتیں تو روم اندر سے لاک ہوتا چاہے جتنا نوک کرتی سندس ہمیشہ 15 \10 منٹ بعد کھولتی۔۔۔۔ اور ایک ہی گھسی پٹی وضاحت کے آنکھ لگ گئی تھی یا کپڑے بدل رہی تھی۔۔۔۔ اکثر رات کو بھی چپکے چپکے فون پہ بات کرتی ہوتی ملتی۔۔۔۔
وہ ایاز کی کزن ہی نہیں منگیتر بھی تھی۔۔۔ اسلئے دونوں اسکا تھوڑا زیادہ لحاظ کرتیں۔۔۔ ابھی بھی رائنا اسے لے جانے مانی حالاں کے جانتی تھی۔۔۔ سندس اچانک سے بیچ میں سے غائب ہوجاے گی۔۔۔۔ پھر بڑا ڈھونڈنے بعد ملے گی یہ بھی اسکا ہمیشہ کا تھا۔۔۔
اور اسکی وجہ وہ یہ دیتی کے اسے شہری لڑکیوکی طرح پھرنے کی عادت نہیں۔۔۔ اور راستوں کی سمجھ نہیں اسلئے وہ کھو جاتی ہے۔۔۔۔ اسکی انہی باتوں سے وہ دونوں چڑتی تھی مگر بس دوست کا لحاظ آڑے آجاتا۔۔۔۔
آج بھی mall پہنچنے کے بعد وہ غائب تھی۔۔۔ اور رائنا اسےکالز کی جا رہی تھی۔۔۔ کوئی آدھے گھنٹے کی خواری کے بعد سندس بیبی ملی اپنے گھیسے پٹے ایکسکیوز کے ساتھ۔۔۔۔۔
💖------------💖
وہ پائے باغ میں جھولے پر دراز ماضی کے یادوں میں کھو کر کب سوئی اسے خبر نا ہوئی۔۔۔۔ نیند میں اچانک اسے کسی کے ہاتھ کا لمس اپنے گال پر محسوس ہوا وہ یکایک چونک کر اٹھ بیٹھی۔۔۔۔
اسے اٹھتا دیکھ اپنا ہاتھ چہرے سے ہٹایا اور سیدھے ہوئے۔۔۔
وہ بھی دیکھتی سمٹی۔۔۔
"آپ کب آئے۔۔۔؟"
"ابھی آیا تھا۔۔۔۔"
وہ ریڈ کاٹن کے کڑھائی والے سوٹ میں دمک رہی تھی۔۔۔۔ کانوں میں خوبصورت سے جھمکے اور لمبے بالوں میں سوفٹ کرلز ڈالے تھے۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں یہ اہتمام بی اماں کے کہنے پر کیا گیا تھا۔۔۔۔ آج ان کے گھر خاندان کی کچھ خواتین ملنے آئی تھی۔۔۔ بی اماں نے اسے تاکید کی تھی کے اسکی تیاری اچھے سے ہو وہ لوگ چلی گئی تو وہ یہاں آگئی۔۔۔۔ ارادہ تھا کے چینج کرے گی مگر ماضی کی راکھ کریدتے کر یدتے جانے کب نیند نے آگھیرا۔۔۔۔
"ابھی ابھی آیا تھا۔۔۔یہاں کیوں سو رہیں تھیں" کہنے کے ساتھ ہی انہوں نے اسکا گال ہاتھ سے چھوا وہ انکی لو دیتی اپنے سراپے پر مرکوز نگاہوں سے سمٹی۔۔۔۔۔
"آپ فریش ہو جائیے میں کپڑے نکال دیتی ہوں۔۔۔" وہ جلدی سے اٹھی اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔
حیدر اس کی ہڑبڑاہٹ اور شرم ملا حظہ کرتے فریش ہونے چل دئیے۔۔۔
وہ آئینہ کے آگے کھڑی چوڑیاں اتار رہی تھی جب وہ واپس آئے اسے پرشوق نظروں سے تکتے قریب چلے آئے اور کندھوں سے تھام کر اپنی طرف کیا۔۔۔۔
"بہت اچھی لگ رہی ہو ایسے ہی رہا کرو۔۔۔" رائنا کے لبوں پر خودبخود حجاب آلود مسکراہٹ در آئی۔۔۔ اس نے سائیڈ سے جانا چاہا جب حیدر نے پکارا۔۔۔۔
ایسا کب تک چلے گا جان حیدر۔۔۔؟ تمہیں وقت درکار تھا میں سمجھ سکتا ہوں اس بات کو مگر کتنا رائنا۔۔۔؟" انہونے اس کے کندھے پر ہاتھ دھرے اس کا رخ اپنی طرف موڑا۔۔۔
"میں ہر بار تمہاری طرف بڑھتا ہوں مگر تم ابھی بھی وہیں کھڑی ہو اس طرح تو ساری عمر نہیں گزر سکتی۔۔۔۔
کچھ تم میرے ساتھ چلو کچھ میں چلتا ہوں۔۔۔ بھروسہ کر کے دیکھو تمہیں سنبھالا نہیں تو شکوہ کرنا۔۔۔۔" رائنا نے حجاب آلود نگاہیں اٹھائے دیکھا سامنے کھڑا شخص قول میں سچا تھا۔۔۔ وہ جان چکی تھی۔۔ اسکی housejob شہر میں اسکے والدین سے ملانے لے جانا۔۔۔، یہ سب صرف اس ایک شخص کی وجہ سے تھا۔۔۔۔ جو ساری مخالفت خود سہ کر اسے محفوظ رکھ رہا تھا۔۔۔ اسکااحساس ہونے پر اب وہ باہر جاتے دوپٹہ سر پر لینے کےساتھ سائیڈ پر روایتی چادر بھی لینے لگی تھی۔۔۔ ساتھ ساتھ چھٹی کے دن بی جان کے ساتھ عورتوں کے مسائل سننے بھی بیٹھنے لگی تھی۔۔۔ جس سے بی جان بھی خوش تھی۔۔۔۔
یہ سب سمجھوتے کی جانب قدم بڑھا نے کا ہی عندیہ تھا۔۔۔۔
اسنے دوبارہ انکی جانب دیکھا جو ہاتھ بڑھاے منتظر تھے اس کا ذہن ابھی بھی کشمکش میں تھا۔۔۔ مگر اسکی بیتاب دھڑکنیں کچھ اور ہی گیت گا رہی تھیں۔۔۔ اسے انکی باتیں بری نہیں لگ رہی تھی۔۔۔اس نے آہستہ سے ہاتھ انکے ہاتھ میں دے دیا۔۔۔
اسکے اس عمل پہ خوشی سے چور حیدر نے اسکے ہاتھ پہ گرفت کرتے مہرِ محبت ثبت کی۔۔۔۔"
تم دیکھنا رائنا تمہیں مایوسی نہیں ہوگی تم نے مجھ پر اعتبار کیا ہے۔۔۔۔ میں اس اعتبار کو قائم رکھونگا۔۔۔
"اسے یہ عقیدت و محبت سے گندھا لمس بہت اپنا سا لگا آج اس نے دل کی رضامندی سے اپنا آپ اپنے محرم کو سونپ دیا۔۔۔
💖------------💖
"نشان کیساہے۔۔۔۔؟
آمنہ بی کو سلام کرنے آئی تو اسکے چہرے پر لال نشان دیکھ وہ چونکیں۔۔۔۔
"شرجیل سایؑں کی سوغات ہے بی اماں۔۔۔۔" آمنہ زہرخند ہوئی۔۔۔۔
"اوقات میں رہ آمنہ اور یہ اشتہار کیا لگا رہی ہے توچاہتی ہے بڑے سرکار دیکھے تاکے تو مظلوم بنے جا چھپا اسے۔۔۔۔" بی بی ماں نے بری طرح لتاڑا اسی لمحہ حیدر بخت نے نوک کیا۔۔۔۔"
ارے میرے چندہ اجازت کیسی آؤ۔۔۔۔ وہ شہد ہوئیں۔۔۔۔
آمنہ منہ چھپاتی سلام کہتی رخصت ہوئی تو حیدر نے اسکے انداز کو تعجب سے دیکھا۔۔۔۔
"بھابھی آمنہ کو کیا ہوا یہ چہرہ کیوں چھپا رہی ہے۔۔۔؟
"ارے چھوڑو اسے میرے چاند وہی عورتوں کی حرکتیں منہ پہ تھوپا تھا کوئی بازاری کریم اسی سے چہرہ جل گیا تھوڑا "
بی بی ماں نے بات گھمائی۔۔۔
"اہ رائنا آے تو دیکھا لیں اسے۔۔۔۔"
"چھوڑو اسے رائنا کا کیا سوچا تم نے۔۔۔؟"
"رائنا کا۔۔۔؟"
"ہاں بھائی کب تک نوکری کا شوق پورا کرے گی میں صرف تمہاری خاطر خاموش ہوں برسوں بعد میرا بھائی بھی دوسروں کی طرح زندگی جی رہا ہے۔۔۔۔ بہن ہوں سوتی
وہ منہ نقاب سے ڈھکے رکشہ کرتی ہاسٹل جانے لگی۔۔۔ وہ بے چینی سے اپنی منزل کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔ کب وہ وہاں پہنچے اور اپنی بہن سے مل سکے۔۔۔۔
اسے مہینوں میں ایک آدھ بار ہی یہ موقع ملتا تھا۔۔۔ جب شرجیل نامی عزاب گاؤں جاتا۔۔۔ اسے اس کے وہاں جانے کے اپنے لئے جہاں خوشی ہوتی وہیں اس کے بیوی بچوں کا سوچ کر برا لگتا۔۔۔ ایسا غلیظ شخص جو انکا سرپرست ہے۔۔۔۔
آج وہ نائیکہ کی بہت منتیں کرکے اس قید خانے سے نکلی تھی۔۔۔۔
وہ ہاسٹل پہنچ چکی تھی سر سے پاؤں تک ڈھکے چہرہ چھپائے اندر گئی۔۔۔۔ رسمی کاروائی کے بعد وارڈن نے اسکی فلک کو بھیج دیا۔۔۔ اسے دیکھ فلک دوڑ کے اس کے گلے لگ گئی۔۔۔۔"
اتنے عرصے بعد آ ئی ہو اپیا۔۔۔" وہ روتے بولی شہرینہ نے نم آنکھوں سے اسے الگ کیا اور پچکارتے بولی۔۔۔۔
" اپیا کی جان تم سے دوری بھی ضروری ہے۔۔۔ ورنہ میری زات سے منسلک سیاہ ناگ تمھیں ڈس لیں گے۔۔۔۔ تم بس پڑھائی کرو کوشش کرو کے اسکولر شپ حاصل کرو۔۔۔ تاکہ یہاں سے باہر جا سکو۔۔۔" وہ اسے سمجھاتی بولی۔۔۔
"ہم دونو جائیں گے اپیا۔۔۔" فلک امید سے بولی ۔۔۔۔
"میں جاؤ یا نا جاؤ تمہیں جانا ہوگا فلک۔۔۔" وہ اسے خود میں بھینچتے عزم سے بولی۔۔۔ پھر الگ ہو کر اسکی آنکھیں صاف کی۔۔۔
" یہ لو کچھ پیسے ، مگر سارے خرچ نا کرنا بلکہ جمع کرنا تاکہ بعد میں آسانی ہو۔۔۔"
اس کی بات پر فلک نے اثبات میں سر ہلایا فلک 18 برس کی تھی۔۔۔۔ اپنی بہن کے رازوں سے خوب واقف تھی۔۔۔۔ اسے اپنی بہن سے بہت محبت تھی۔۔۔۔ وہ اسے اب بھی عزت دار ہی سمجھتی تھی۔۔۔۔ کیونکہ جانتی تھی اسکی بہن مجبور ہے۔۔۔۔ وہ ان سفید کالر والے منافقوں سے لاکھ درجے بہتر ہے۔۔۔ جو دن میں کچھ رات میں کچھ ہوتے ہیں۔۔۔ جو ویسے تو لوگوں کو دن رات حیا کے لیکچرز دیتے ہیں۔۔۔ اسکی بہن جیسیوں کو دھتکارتے ہیں۔۔۔ اور رات کے اندھیروں میں انہیں کے پاس جاتے ہیں۔۔۔۔
اسکی بہن تو قسمت کی ستائی تھی لیکن اب اسے بچانے کیلیے کیسے سرگرم تھی۔۔۔ وہ بہن کے بارے میں سوچتے آبدیدہ ہوگئی۔۔۔
💖------------💖
"حیدر اس دن بھی تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے۔۔۔۔ شہر میں کام کے بہانے تم کس کام میں ہو۔۔۔ سب سمجھتی ہوں یہ تو حیدر کا اندھا اعتماد ہے مجھ پر جو بچ جاتے ہو۔۔۔ تھوڑا خود کو لگام ڈالو شرجیل سائیں ورنہ جس دناسے پرا لگا حیدر کا عتاب آئے گا۔۔۔ اور نشانہ ہوگے تم اس کا غصہ جانتے ہونا آئے دن آمنہ زخمی رہتی ہے کیسے کیسے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں مجھے۔۔۔"
بی اماں شرجیل کو گھرکتے بولیں۔۔۔
"آپ نہیں بچائیں گی مجھے ،ارے نہیں میں کہاں چہیتا ہوں آپ کا چہیتے تو وہ ہیں آپ کے سوتیلے بھائی۔۔۔" وہ ہمیشہ کی طرح انہیں جزباتی طور پر گھیرتے بولا۔۔۔
"سوتیلا ہوا تو کیا باپ تو ایک ہی ہے ،میرے لئیے دونو سگے ہو بلکہ تینوں ہی کیو ایسی باتیں کرتے ہو۔۔۔"
"نہیں کروں گا بس یہ چھوڑنے کا نا بولا کیجئے آپ ایسے چھوڑ دینگی مجھے۔۔۔" اس نے پھر پتا پھینکا۔۔۔
اور سمجھدار سی بی ماں بھائی کی محبت کے دام میں پھنس گئی۔۔۔۔
"ایک تو تم نا سمجھنا کبھی میرے دل کا سکون ہیں۔۔۔ میرے بھائی تم تینوں کو اکھٹا رکھنا ہی میرامقصد اب چاہے اس کے لیے تمہاری شخصیت کے راز چہپانے کلیے حیدر سے جھوٹ ہی کیو نا بولنا پڑے۔۔۔۔" وہ یہ سب بول محبت میں رہی تھیں یہ جانے یہ سوچے بغیر کے ایک بھائی کا اعتبار توڑ رہی ہیں۔۔۔ دوسرے کی خراب اخرت مزیدخراب کر رہی ہیں۔۔۔۔
بے جا لاڈ پردہ داریاں صرفتباہ ہی کرتیں ہیں۔۔۔ یہ مرد عورت کی تفریق سزا و جزا دیتے معاشرہ کرتا ہے۔۔۔ خدا نہیں اس کے لیے مرد کا گناہ بھی گناہ ہے اقر عورت کا بھی بے شک وہ سب سے بہتر منصف ہے وہ دونوں اس بات کوبھولے بیٹھےتھےمگر فرشتے سب حساب لکھ رہےتھے۔۔۔۔ حیدر کاعتاب اتا نا اتا اللہ کا عتاب کوئی نہیں ٹال سکتا۔۔۔
💖------------💖
ماضی۔۔۔!
وہ اسے کہاں لے گئے وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔ جو وہ جانتی تھی تو وہ یہ کے وہ اغواہ ہوچکی ہے۔۔۔ اور یہ لوگ کوئی عام لوگ نہیں ہیں۔۔۔ وہاں وہ دو آدمی اسے مارتے گالیاں دیتے وہاں دو عورتیں بھی تھی۔۔۔ جو اتنی ہی پتھر دل تھیں ان سب میں سب سے خطرناک وہ لمبا چوڑا شخص تھا۔۔۔
بظاہر عزت دار دکھنے والا خطرناک انسان۔۔۔ رائنا کو اس گھپ اندھیرے سے بھری کوٹھری میں رکھاگیا تھا۔۔۔ طرح طرح کے کیڑے مکوڑوں سے بھری اس کوٹہری میں پاؤں میں بندھی زنجیروں کے ساتھ وہ بہادر لڑکی انسانو سے خوفزدہ تھی کے۔۔۔ انسان سے بڑا حیوان کوئی نہیں اسے اپنی عزت کا خطرہ تھا۔۔۔ جو فلحال محفوظ تھی،کئی بار اسے ایاز کے باہر لڑنے کی آوازیں آئیں وہ امید باندهتی مگر جلد ہی اندازہ ہوگیا کے وہ بےبس ہے۔۔۔۔
💖------------💖
حال۔۔۔!!
وہ اس وقت گاڑی میں بیٹھے ہسپتال کی جانب رواں دواں تھے۔۔۔ وہ ماضی کے اندھیروں میں گم تھے جب ڈرائیور نے پوچھنے کی خبر کی۔۔۔۔ وہ رائناکے آنے کا انتظار کرنے لگے۔۔۔
"کال کی ہے کیا۔۔۔؟" انہونے ڈرائیور سے پوچھا۔۔۔
"جی سرکار، انہونے کہا تھا کے آرہی ہیں۔۔۔۔" ڈرائیور مودب سا بولا۔۔۔۔
"ہمم !"انہونے ہنکارہ بھرتے ہاتھ میں بندھی گھڑی کی جانب دیکھا۔۔۔ تو یکا یک مسکراہٹ نے عنابی
لبوں کا احاطہ کر لیا یہ گھڑی بھی رائنا نے اس بار کی اپنی تنخواہ سے انکے لئے خریدی تھی۔۔۔۔ باقی کی تنخواہ وہ اپنی والدہ کے اکاؤنٹ میں جمع کراتی تھی۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ کو جانتی تھی۔۔۔۔
اسکے والد عرصے پہلے ریٹائر ہوچکے تھے انہیں پیسوں کی کمی نا ہو۔۔۔ اس کے لئے وہ یہ پیسے انکے اکاؤنٹ میں جمع کراتی تھی شروع میں اس کے والدین خفا ہوئے پھر اسکی ضد کے اگے سریندر کردیا۔۔۔
وہ اس کے بارے میں سوچ رہے تھے۔۔۔۔ جب وہ آتی دکھائی دی ساتھ میں گورے رنگ کا فربا سابرگر ٹائپ لڑکا تھا۔۔۔ جو مسلسل کچھ بول رہا تھا جو وہ عدم دلچسپی سے سن ررہی تھی۔۔۔ اور آس پاس نگاہ ڈوراتے گاڑ ی ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔ ڈرائیور اسے بلانے اترنے لگا تو حیدر روک کر خود باہر آئے اور اس کی جانب بڑھے۔۔۔
"آپ۔۔۔" وہ انہیں دیکھ انکی طرف لپکی وہ چپکو بھی ساتھ آگے بڑھا۔۔۔۔
"ارے مس رائنا یہ آپنے بتایا نہیں کے آپ کا تعلق پولیٹیکل فیملی سے ہے (اشارہ حیدر کے ابھرتے پولیٹیکل کریر کی جانب تھا")
" وہ لڑکا سعود جو اس ہسپتال کا نیا انٹرن تھا۔۔۔ اور فطرط بے تکلف بھی تھا اور باتونی بھی حیدر کو پہچان کر جوش سے بولا۔۔۔
"ویسے آپ تو نہیں لگتی فیوڈل ،اب تعارف توکرادیجے مس رائنا۔۔۔" رائنا نے ایک نظر اس چپکو کو دیکھا وہ حیدر کی نا گواری محسوس کر گئی تھی پر اب تعارف تو کرانا تھا۔۔۔۔
"یہ سعود ہے انٹرن ہے میرے ساتھ اور سعود یہ حیدر بخت میرے "
"رائنا کا ہسبنڈ ،سوری ہم ذرا جلدی میں ہیں پھر کبھی ملینگے آپ سے۔۔۔" رائنا کا جملہ مکمل کرتے سعود سے ہاتھ ملایا اور رائنا کے شانو کے گرد بازو حمائل کرتے آگے بڑھ گئے۔۔۔
ڈرائیور کو پیچھے جانے کا اشارہ کیا اور کیز لےلی فرنٹ سیٹ کا دوڑ کھولااور رائنا کو بٹھا یا خود ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی۔۔۔۔
وہ بہت ریش ڈرائیونگ کر رہے تھے۔۔۔ رائنا نے غور سے انکا چہرہ دیکھا چہرہ ضبط سے لال ہونٹ بھیچے ہوے۔۔۔
"یہ کس بات پر اتنے خفا ہیں۔۔۔۔" وہ دیکھتی سوچنے لگی۔۔۔
💖------------💖
وہ بہت ریش ڈرائیونگ کر رہے تھے۔۔۔ رائنا نے غور سے انکا چہرہ دیکھا چہرہ ضبط سے لال ہونٹ بھینچے ہوئے۔۔۔۔
"یہ کس بات پر اتنے خفا ہیں، یہ کہیں شک تو نہیں کر رہے ایسے کیسے شک کر سکتے ہیں اگر شک کیا تو میں کوئی وضاحت نہیں دونگی جب میرا کردار صاف ہے تو۔۔۔۔" وہ دیکھتی سوچنے ہی لگی تھی کہ۔۔۔
"اسٹاپ لوکنگ ایٹ می۔۔۔۔ شک نہیں کر رہا تم پر۔۔۔
اسکے ٹکٹکی باندھنے پر انہوں نے ٹوکا وہ انکی بات پر دنگ رہ گئی۔۔۔۔ یہ شخص اس کا زہن پڑھ لیتا تھا کچھ اس کا اپنا چہرا اس کے دل کی عکاسی کر تا تھا۔۔۔
"واٹ میکس یو سو فیوریس (furious) حیدر۔۔۔؟" اس نے سنبھل کے سوال کیا۔۔۔
"میری بیوی اپنا میرٹل (marital) سٹیٹس چھپائے اور اس پرخوش ہوں میں۔۔۔؟" اب کے ان کی زبان پر شکوہ آ ہی گیا۔۔۔
"میں نےکیوں چھپانا ہے بھلا۔۔۔؟ ہر جگہ میرڈ ہی ظاہر کرتی ہوں۔۔۔ اب وہ نیا آیا ہے نا اسنے پوچھا نا ایسی کوئی بات ہوئی۔۔۔
he himself assumed me un married its not my fault just a misunderstanding
آپ اتنی سی بات پر اوور رییکٹ کر گئے۔۔۔۔" اسکی لمبی وضاحت پر انکا تناوّ کم ہوا۔۔۔
"اب یہ اتنی سی بات بھی نہیں ہے پر تم یہ نہیں سمجھ سکتی۔۔۔ اپنی ملکیت کے لئے انسان خصوصی طور پرمرد کتنا جنونی ہوتا ہے۔۔۔"
وہ جو بڑے غور سے سن رہی تھی۔۔۔ لفظ ملکیت پر حلق تک کڑوی ہوگئی۔۔۔۔
"ملکیت نہیں ہوں میں آپ کی۔۔۔"
اسکے تصیح کرنے والے انداز پر وہ چونکے ماتھے پر بیشتر سلوٹیں پڑگئی انہونے سرد نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز کیں۔۔۔۔
"ملکیت نہیں ہوں عزت ہوں بیوی ہوں چلتی پھرتی سوچتی بولتی انسان ہوں زمین کا بے جان ٹکڑا تو نہیں ہوں۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو دل نا ہوتا میرے پاس جذبات نا ہوتے۔۔۔ آپ کے پیار کو محسوس کرنےکی صلاحیت نا ہوتی۔۔۔۔ آپ شوہر ہیں میرے آپ کا خیال میرا فرض ہے۔۔۔ کوتاہی کی صورت میں جوابدہ ہوں گی۔۔۔ اسی طرح میرے بھی کچھ فرائض آپ پر لاگوں ہیں۔۔۔۔ جس کے آپ جوابدہ ہوں گے۔۔۔ ہم دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں کم یا زیادہ پر ہیں۔۔۔ جب دونو کا ہی حق ہے ایک دوسرے پر۔۔۔ تو یہ تو ایک خوبصورت رشتہ ہوا لفظ ملکیت تو اس کا سارا حسن ہی کھا جاتا ہے۔۔۔۔ رنگ برنگے رشتے کو بے رنگ سمجھوتے کی شکل دیتا ہے۔۔۔ تو بتائیے اب کے کیا ہوں میں۔۔۔"
وہ زرا نا گھبرائی اور انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنی بات مکمل کی۔۔۔ وہ جو نگاہوں میں تندی لیئے دیکھ رہے تھے۔۔۔ اسکی باتوں پر اس تندی کی جگہ نرم گرم محبت بھرے تاثر نے لے لی۔۔۔ جس طرح رائنا نے انکے رشتے کو خوبصورت مانا بنا ڈرے اپنی بات رکھی اپنا حق جتایا۔۔۔۔
اس نے حیدر کو ایک انوکھی خوشی سے سرشار کردیا۔۔۔ رشتے کا حسن تو اسی مان جتانےمعصومانہ شکوے شکایتیوں میں ہوتا ہے۔۔۔۔ نا کے صرف ایک فریق کے حکم چلانے اور دوسرے کے سر تسلیم خم کرنے میں۔۔۔ ایسا رشتہ تو قید لگتا ہے اور ایسا ساتھی صیاد اور حیدر کو رائنا کا ہم سفر بننا تھا۔۔۔ صیاد نہیں کے صیاد کو بھگتا جاتا ہے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔۔ جبکے ہم سفر کے ساتھ کیا زندگی کے ہر رنگ کوجیا جاتا ہے۔۔۔ ایک دوجے کا ہاتھ تھامے زندگی کے ہر نشیب و فراز کو عبور کیا جاتا ہے۔۔۔۔
"جان حیدر ہو تم۔۔! یہ یاد رکھنا کے میری بیوی ہوتم۔۔۔ میرا نصف ہو تم۔۔۔ میری خوشی تمہاری مسکراہٹ سے ہے۔۔۔ کسی ایسے لفظ سے نہیں جسسے تمہیں تکلیف یا دکھ پہنچے۔۔۔" وہ آنکھوں میں محبت کی نرمی لئے حق جتاتے لہجے میں بولے رائنا کے گالوں پر سرخی دوڑ گئی۔۔۔۔
" آگے دھیان دیجئے گاڑی چلا رہے ہیں آپ۔۔۔" وہ انکی لاپرواہی پر ٹوک بیٹھی۔۔۔۔
"ہمم۔۔۔" انہوں نے گھیرا سانس بھر کر ساتھ بیٹھی رائنا کا جائزہ لیا وہ بہت کم عمر اور کنواری ہی لگتی تھی۔۔۔۔
اچھے قیمتی مگرسادہ سٹائلش لباس میں چھوٹے چھوٹےڈائمنڈ ٹاپس پہنے پونی بناے وہ فریشیر ہی لگ رہی تھی۔۔۔۔
"ہمم۔۔۔ یہ تو مسئلہ ہے۔۔۔ تم میرڈ لگتی ہی کہاں ہو۔۔۔ خیر اسکا بھی حل سوچنا ہوگا۔۔" وہ سوچتے ہوئے گویا ہوئے۔۔۔۔
"سندور لگا لوں اور تو کوئی حل نہیں۔۔۔" وہ جل کربولی۔۔۔
"حد ہے ایک بات پر اٹک جاتے ہیں۔۔۔۔" وہ کڑھی دل ہی دل میں اتنی ساری باتوں کے بعد بھی یہ موضوع دماغ سے نکلا نہیں تھا۔۔۔۔
"ہاہاہا۔۔۔ دیکھتے ہے۔۔۔" وہ ہنس دیے۔۔۔
" یہ اچانک آپ نے کراچی کا کیوں پروگرام بنایا کوئی کام ہے کیا۔۔۔"
"میرا سب سے ضروری کام میری بیوی کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔۔۔ جو کافی دنوں سے ملتوی پڑا تھا۔۔۔ اب تمہارا آف بھی ہے تو سوچا یہ کام بھی ہوجائے۔۔۔"
وہ خوش گوار لہجہ میں کہتے اب سڑک پر موڑ لے رہے تھے۔۔۔۔
"حیدر کیا آپ ایک بار اور نہیں سوچ سکتے۔۔۔ میں سچ میں جانا چاہتی ہوں۔۔۔"
رائنا کے سارے ہاؤس آفیسرز نے پکنک کا پلان کیا تھاکہ مریض آج کل نا ہونے کے برابر تھے۔۔۔
مگر رائنا کو حیدر نے سنتے ہی منع کردیا۔۔۔ اب بھی وہ ایک آخری کوشش کر رہی تھی۔۔۔
"پوچھو گی نہیں کہاں جا رہے ہیں۔۔۔"
جسکا صاف مطلب تھا کے وہ اس موضوع کو بند کرچکے ہیں۔۔۔۔
پھر اسکا اترا چہرہ دیکھ کر بولے۔۔۔
"میں تمھارے ساتھ اچھا وقت گزارنے نکلا ہوں یہ ہمارا وقت ہے۔۔۔ اس میں ایسے اداس نا ہو جان حیدر۔۔۔ چیر اپ مجھے مسکراتی ہوئی رائنا چاہئے۔۔۔۔"
وہ پیار سے اسکا گال کھینچ کر بولے۔۔۔۔ رائنا بھی ہلکا سا مسکرادی روٹھ کر کوئی فائدہ ہی نہیں تھا۔۔۔۔
"چلو تم نا بھی پوچھو خود ہی بتا دیتا ہوں۔۔۔ یہ فارم ہاؤس ہے کراچی میں ہی اپنا۔۔۔ پہلے تو سوچا ہوٹل میں ٹہرے پر پھر سوچا تم نے اپنا فارم ہاؤس دیکھا ہی نہیں۔۔۔" وہ لفظ اپنا پہ چونکی۔۔۔۔
"حیران کیوں ہو پہلے بتایا تھا تمہارے لئے خریدا تھا۔۔۔ ابھی وکیل کو پیپرس کا بولا ہے۔۔۔ جلد مکمل ہو جائے گا۔۔۔" وہ تفصیل سے بولے۔۔۔۔
"مگر اسکی کوئی ضرو۔۔۔"ابھی وہ کچھ بولتی کے انہوں نے بات کاٹ دی۔۔۔۔
"تمہیں ہو نا ہو مجھے تھی اسکی ضرورت مجھے حق ہے کہ میں اپنی بیوی کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش کروں تاکہ مجھے بھی اطمینان رہے۔۔۔"
وہ کچھ لمحہ اس شخص کو دیکھتی رہ گئی۔۔۔ جو اپنے ہر رشتے سے مخلص اور ہر رشتے کو نبھانا والا تھا۔۔۔
"تھینک یو حیدر گو کہ میں یہ مانتی کے مردوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے جو چیز ضروری ہے۔۔۔ وہ ہے تعلیم۔۔۔ خودکفیل ہونااور اس کے خاندان کا ساتھ اور اعتماد آپ کی فکر آپ کا ساتھ میرا اصل تحفظ ہے۔۔۔" وہ ممنونیت اور خوشی کے ملے جلے تاثر سے بولی اسے اس فارم ہاؤس میں دلچسپی نا تھی۔۔۔۔ بلکہ اپنے شوہر کے اس قدر خیال نے اس کو ممنون کر دیا تھا۔۔۔ اور یہ بات حیدر بھی خوب سمجھتے تھے۔۔۔
💖------------💖
"یہ اپنی منہوس شکل گم کر بڈھی پھونس عورت"
27 سالہ آمنہ جو آج دو بیٹوں کے بعد بھی اتنی ہی حسین تھی۔۔۔ اپنے مجازی خدا کے منہ سے شادی کے دوسرے سال سے ہی ایسے القابات کی عادی تھی 18 سال کی بالی عمر میں ہی اسے بے کشش بڈھی کا خطاب ملا اس کے بعد اس پر سوکن کو لا بٹھایا گیا۔۔۔
اسے اپنی سولا سالہ سوکن پر بھی ترس ہی آتا تھا جو شادی کے دوسال میں دودفعہ مسکیرج کا شکا ر ہوکر تیسرے سال ایک بچے کو جنم دیتے اس فانی دنیا سے کوچ کر گئی۔۔۔
جو عمر اس کے پڑھنے لکھنے کی تھی اس میں اسے عورت بنا دیا گیا تھا۔۔۔
آمنہ خود اس ازیت سے گزری تھی اس لیئے سوتن کی اولاد کو بھی کلیجہ سے لگا کر پالا اس کے صبر کا پیمانہ لبریز تب ہوا جب شرجیل نے کوٹھوں پر جانا شروع کیا۔۔۔
وہ اس کا اعتراف اس کے سامنے کھلم کھلا کرتا اکثر اسے پاس بلاکر اسے مارتا پیٹتا اور اپنی عیاشیوں کے قصے سناتا۔۔۔۔
آمنہ نے اپنی بقا کے لیے اس کی موجودگی میں کمرے سے منسلک چھوٹے کمرے کو اپنی حفاظت گاہ بنا لیا وہ اب اسکی وحشت کا نشانا نہیں بنتی تھی وہ خود اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔۔۔
اب آمنہ نے کئی بار شرجیل کی حرکتوں کو بے نقاب کرنے کا سوچا مگر ہر بار بی اماں کی کاری قرار دینے والی دھمکی اس کے قدم روک لیتی اسی لیے وہ چپ کر گئی۔۔۔
ابھی بھی وہ گالیاں سنتے کمرے سے باہر چلی گئی کیونکہ شرجیل اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا تھا وہ شہرینہ کے پاس جا رہا تھا جب بی اماں نے روک لیا۔۔۔
"کدھر جانے کو پر تول رہے ہیں شرجیل سائیں۔۔۔" وہ چتون تیکھے کیے اس سے مخاطب ہوئی
"شہر جا رہا ہوں بی اماں بہت ضروری کام ہے۔۔۔" وہ پر تولتے بولا۔۔۔۔
"حیدر کو شک ہے شرجیل وہ اس بار مطمئن نہیں لگا مجھے اسی لیے گھر پر ٹکو اور یہاں کے کام پر دھیان دو ،فیکٹری جاؤ اور وہاں جانے سے گریز کرو کم از کم دو ماہ "
"سرکار تو نہیں ہیں نا یہاں بعد میں۔۔۔" وہ کچھ بولا ہی تھا کے بی ماں نے پھر ٹوک دیا۔۔۔
"نہیں ہے پر زاہد تو یہاں ہے حیدر اگر مشکوک ہوا تو زاہد تو گواہ ہوگا نا جیسا میں کہہ رہی ہوں کرو ورنہ اس بار شاید نا بچا سکوں"
ان کے فوٹون کہنے پر وہ تپ کر پاؤں پٹختا اندر کی جانب بڑھ گیا تب سے ہی سب کی کمبختی آئی ہوئی تھی خصوصاً آمنہ کی
💖------------💖
وہ اپنی انٹرن شپ کے لیے پاکستان آیا تھا اس کے گھر والے امریکہ میں برسوں سے مقیم تھے تب سے جب سے اس کے والد نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی اور ان کے والد نے انہیں بےدخل کردیا تھا تب سے وہ لوگ پاکستان مقیم تھے اس کے والد اپنے گھروالوں سے سخت ناراض تھے اسی لیے عرصہ سے رابطہ نہیں تھا مگر پچھلے چند سال سے انہیں انکی بہن خواب میں آرہی تھی جس کا انتقال کافی پہلے ہوچکا تھا اس کی دو بچیاں تھی انکی بہن نے کافی تکلیفات جھیلی تھیں اس نے ہی ان سے بعد میں بھی رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے شوہر ایک بار دونو کو فون پر بات کرتا پا کر ان کو خوب زلیل کیا ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بہن نے فون واپس جھپٹ کر بھائی سے سب رشتے توڑنے کا عندیہ دیا وہ اس وقت غیض و غصب میں نہیں سمجھے اسکی مجبوری مگر اس کے انتقال کی خبر نے ان کی اکڑ کو توڑ دیا تھا اور اب اتنے سال بعد اس کے خواب میں آکر رونے نے ان کے اندر کے بھائی کو جگا دیا انہیں ان معصوم بچیوں کی یاد آئی جو انکی بھانجیاں تھی کیسے جی رہی ہوں گی کہاں ہوگی یہ سوچے اب ان کو سونے نہیں دے رہیں تھیں وہ خود تو اس قابل نہیں تھے کے سفر کرتے بیٹے کو بھانجیوں کی خبر کرنے کی زمیداری سونپ دی اور چند ضروری معلومات بہنوئی کے بارے میں جو ملی تھی وہ بھی اسے بتا دیں وہ معلومات بلکل بھی حوالہ افزا نہیں تھیں سعود باپ کے دیے اس مشن پر سر دھنتے یہی سوچ رہا تھا اس گتھی کا کوئی سرا فلحال اس کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا
💖------------💖
وہ دونوں ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھی تھی ابھی نائیکہ نے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا اسے شرجیل نامی ملعون کی طرف سے دوماہ کی چھٹی نصیب ہوئی تھی دوماہ بعد وہ اسے اپنے گاؤں کے ہی قریبی علاقے میں شفٹ کرانے والا تھا۔۔۔
اگر وہ یہاں سے چلی جاتی تو اپنی بہن کو کیسے بچا سکے گی وہاں سے نکلنا تو اس کے لیے ناممکن ہی ہونا تھا۔۔۔۔
"دو مہینے شہرینہ دو مہینے میں ہی تو نے اپنی بہن کے لیے کوئی نا کوئی بندوبست کرنا ہے " وہ ادھر سے ادھر ٹہلتی خود سے ہمکلام تھی
💖------maryamah shiekh writes ------💖
ماضی۔۔۔!
اسے جانے قید ہوئے کتنے ہی دن بیتے تھے۔۔۔ اسے نا یہ معلوم تھا کونسی تاریخ ہے۔۔۔۔ نا ہی یہ جانتی تھی کے کب دن ہے کب رات۔۔۔ وہ بس یہی جانتی تھی کے وہ قید میں ہے۔۔۔۔ اس جرم کےلیے جو اس سے سرزد نہیں ہوا تھا۔۔۔ باہر سے اس وقت کسی کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔
"ایک مظلوم لڑکی کو پکڑ کے کونسی غیرت دکھا رہے ہو۔۔۔ سب سندس کا کیا دھرہ ہے اس نے سب کا دھیان اپنے پر سے ہٹانے کلئے رائنا کا فون استعمال کیا تا کہ ہم ادھر لگ جائیں۔۔۔"
یہ ایاز کی آواز تھی وہ روز ان سب کو سمجھاتا کئی بار ہاتھا پائی تک ہوئی پرکوئی فائدہ ناہوتا۔۔۔ رائنانے تھک ہار کر سر دیوار سے لگایا۔۔۔
"جب وہ پہلی بار اس سے ملنے یہاں آ یا تھا تب رائنا نے اس سے بھی منہ موڑ لیا تھا۔۔۔ وہ ان سب کو ایک صف میں کھڑا سمجھنے لگی تھی۔۔۔ ایاز خود بھی اس کی حالت کلئیے شرمندہ تھا۔۔۔ مگر ان لوگوں پر بس نہیں تھا اسکا۔۔۔ باہر سے اب بھی دھینگا مشتی کی آ وازیں آ رہی تھیں۔۔۔
اچانک باہر خاموشی چھا گئی پھر کسی کے منمنا نے اورکسی کے دھاڑ نے کی آواز آئی۔۔۔ جس کے بعد دروازہ کھلا قدموں کی چاپ پر رائنا کا دل دھڑکا۔۔۔"
یا اللہ اب کون سا عذاب باقی ہے۔۔۔" اسکی عزت محفوظ تھی اور ہر لمحے اسکا دل یہی دعا گو تھا۔۔۔ کہ اسکی عزت محفوظ ہی رہے۔۔۔ قدموں کی بڑھتی آہٹ پر اسکے حواس گم ہوئے۔۔۔ وہ ایک لمبا تڑنگا آ دمی تھا۔۔۔ جو اسکے قریب آ کر رکا اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔ آنےوالے نے اسکا چہرہ اوپر کیا۔۔۔ وہ اب اسکے چہرے پر پڑے زخم ملاحظہ کیئے۔۔۔ جبکہ رائنا نے بے حد کمزوری کے باوجود اپنا سر جھٹک کر اس کے ہاتھ سے پرے کیا۔۔۔ اور بغور دیکھنے کی کوشش کرنے لگی اسے یہ چہرہ دیکھا دیکھا لگا۔۔۔ وہ جانے کتنے دن کی بھوکی پیاسی تھی کے اچانک اس کا سر چکرایا اور وہ حواس کھو بیٹھی۔۔۔
"کس نے مارا ہے اسے۔۔۔" حیدر بخت کی بلند گونجدار بارعب آواز گونجی سوالیہ نظریں ان دو آدمیوں پر تھی وہ دو آدمی یعنی سندس کے بھائی جواب میں بلکل خاموش تھے۔۔۔
وہ ان دونوں کی طرف بڑھتے ایاز کو بولے۔۔۔
"ایاز تم لڑکی کو دیکھو ٹھیک نہیں لگ رہی حالت اسکی۔۔۔" انہوں نے ایاز کو اشارہ کیا۔۔۔
"چابی دو۔۔۔" اب کے وہ اس لمبے چوڑے ظالم وحشی سے آدمی سے مخاطب تھے۔۔۔
"ہاشم چابی دو۔۔۔" وہ اب کے دھاڑے جس سے ہاشم سمیت سب لرز گئیے۔۔۔ اس کے چابی دینے کے بعد وہ ہاشم کی جانب بڑھے۔۔۔ جبکے ایاز رائنا کو آزاد کرانے لگا زنجیروں کی قید سے۔۔۔۔
"جواب دو کیوں مارا اسے کس سے پوچھ کر لائے۔۔۔۔" وہ دھاڑ ے اور ساتھ ھی اس کا گلہ پکڑ کر دیوار سے لگایا۔۔۔
"حیدر سرکار ہمیں۔۔۔۔ نہیں۔۔ پتا۔۔۔ تھا یہ۔۔۔بے۔۔ بےقصور ہے۔۔۔۔" بڑے بھائی کی درگت بنتی دیکھ دوسرا پھنسی پھنسی آواز میں اٹکتا بولا۔۔۔۔
"بکواس بند بلکل بند۔۔۔" وہ دھاڑے اور گلے پر دباؤ بڑھا دیا۔۔۔۔
بی اماں اور سندس کی والدہ بھی آ گئی تھی وہ دونوں حیدر کو روک رہی تھی۔۔۔
"چھوڑ دے حیدر خون ہے۔۔۔ اپنا ہوگئی غلطی۔۔۔"
"غلطی ہوگئی یہ غلطی ہے۔۔۔ یہ ظلم ہے بی ما پھوپھی بیگم وہ لڑکی انسان نہیں لگی آپ کو جو یہ حال کیا۔۔۔ اپنی جگہ آپ کو گدی دے کر گیا تھا۔۔۔ یہ تھا اپکا انصاف بی ماں۔۔۔" وہ دھاڑ ے اور ساتھ ہی سندس کے دوسرے بھائی کو لات دے ماری۔۔۔
جسسے وہ دور جا گرا پھوپھی بیگم کا رونا بڑھ گیا۔۔۔ بی ماں ہل گئی حیدر کے اس روپ سے سب ہی کانپتے تھے۔۔۔۔
تب تک ایاز رائنا کو ہوش میں لا چکا تھا گو وہ اب بھی نیم بےہوشی کی کفیت میں تھی۔۔۔
" حیدر بھائی یہ نیم غنودگی میں ہے کافی کمزوری ہے۔۔۔"
حیدر بخت نے ایک نگاہ رائناکو دیکھا پھر ہاشم کے گلے پہ مزید دباؤ ڈ الا اور جھٹ کے سے پھینکا اسکو ایک زوردار لات رسید کرتے۔۔۔ وہ رائنا کی جانب ہوئےاور اسے بازو میں اٹھا لیا۔۔۔
" تم سب ایک جیسے ہو۔۔۔" جو بیہوشی میں بھی ان پر اپنی بدگمانی عیاں کر گئی تھی۔۔۔
"حیدر بھائی ہمیں پہلے ضروری ٹریٹمنٹ دینا ہوگا پھر ہی ہسپتال لے جا سکیں گے۔۔۔"
" بڑے سے بڑا ڈاکٹر بلاؤ ایاز باقی سب میں سنبھال لوں گا۔۔۔۔"
"جی "
وہ دونو اسے لئے وہاں سے چل دئے جب کے بی ما نے گہری نگاہ سے حیدر کو دیکھا جو رائنا کو اٹھائے تھے۔۔۔
💖------------💖
فارم ہاؤس کراچی کے ملير كينٹ کے علاقہ میں تعمیر شدہ تھا کافی دیر ڈرائیو کرنے کے بعد آخر کار حیدر نے ڈرائیور کو چابی سونپ دی اور خود رائنا کے ساتھ پیچھے بیٹھ گئے تھے۔۔۔۔
آخرکار سفر تمام ہوا اور وہ لوگ منزل مقصود کو پہنچے۔۔۔۔
"چلو اٹھو رائنا پہنچ گئے ہیں ہم "انہونے اپنے کندھے پر سر رکھے سوئی رائنا کو جگایا تو وہ جھومتی جانتی اٹھی۔۔۔۔
وہ اسے اپنی ہمراہی میں اندر لے گئے یہاں پہ بھی ایک ملازم اپنی بیوی کے ساتھ موجود تھا۔۔۔۔ لپک جھپک کر آگے آیا اور ان دونوں کا چھوٹا سا بیگ لے کر اندر بڑھ گیا۔۔۔۔
رائنا اب آنکھیں پھیلائے جائزہ لینے میں مگن ہو گئی۔۔۔۔
بڑا سا سوئمنگ پول جو صاف ستھرا دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔ اور تھوڑا گہرا بھی اس کا کٹ بیضوی تھا ،گو کے یہ جگہ درختوں سے بھری تھی۔۔۔۔ مگر ایک خصوصی ایریا ایک طرف کونے میں بنا تھا جہاں خوبصورت سبزہ تھا اطراف میں درختوں کی چھاؤں نے پر سکون ماحول بنا دیا تھا۔۔۔۔ وہاں ایک سفید رنگ کا خوبصورت جھولا بھی تھا جس پر پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔۔۔۔
ایک طرف نہایت ہی خوبصورت فوارہ تھا جس میں بنی ہوئی سفید مرمری ہنس کی چونچ سے پھوار کی صورت پانی نکل رہا تھا اسے یہ سب بہت پسند آیا۔۔۔۔
ابھی وہ جائزہ ہی لے رہی تھی کے اسے کندھے پر جانے پہچانے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔۔۔ وہ بنا پلٹے بھی جانتی تھی کے یہ کون ہے۔۔۔۔
"کیسا ہے سب۔۔۔؟" وہ اسے اپنی طرف گھماتے بولے "
بہت خوبصورت،سب سے شکر کی بات یہ ہے کے یہاں پہ بطخیں نہیں ہے۔۔۔۔" وہ ہنستے بولی تو وہ بھی ہنس دیے یہ بھی ایک ہی قصہ تھا۔۔۔ جب حیدر نے حویلی میں باغ نما حصہ تعمیر کرایا تھا۔۔۔۔ تب وہاں بطخیں بھی رکھوائی گئی تھیں اور رائنا کو ہر پرندے سے شدید قسم کا خوف آتا وہ کاکروچ کو خود مارنے والی اور پرندوں سے گھبرانے والی ایک نرالہ ہی لڑکی تھی۔۔۔۔ ان دونوں کو ہی وہ دن نہیں بھولتا تھا جب چیختی چلاتی رائنا آگے آگے تھی اور بطخیں اس کے پیچھے ابھی بھی یہ منظر یاد کرکے وہ دونوں ہی ہنس پڑے۔۔۔۔۔
وہ اپنی پرشوق نظریں اس پر جمائے اسکی شفاف جھرنے کی سی ہنسی میں کھو گئے۔۔۔۔ وہ انہیں اس طرح دیکھتا پا کر گھبرا سی گئی کونفیڈنت آؤٹ اسپوکن رائنا کو حیدر بخت کی نظریں شرمانے پر مجبور کر دیتی تھی۔۔۔۔۔
"حیدر ہمیں سب کو لانا چاہیے تھا فیملی پکنک ہوجاتی نا کتنا مزہ آتا۔۔۔" وہ دھیان بٹانے کی کوشش کرتی بولی۔۔۔۔
"ہمم بلکل مگر پھر کبھی فلوقت میں صرف تمہارے سے وقت گزارنے کا خواہ ہوں تمہارے ساتھ صرف تمہاری اور میری باتیں کرنے کا خواہشمند ہوں۔۔۔۔" وہ اس کے بلش کرتے گھبرائے چہرے کو دیکھتے بولے جبکہ وہ اپنے طور پر کونفیڈنٹ نظر آنے کی کوشش میں مصروف تھی۔۔۔۔۔
"تمہیں یہ بات میرے منہ سے سن کر اچھا لگ رہا ہے نا۔۔۔"
"کیا۔۔۔۔؟" وہ انکی اس بات پر چونک گئی۔۔۔
"اسی لیے تو بار بار مجھ سے کہلوارہی ہو۔۔۔۔" وہ آبرو آچکاتے متبسم لہجے میں ہلکے سے اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکراتے بولے۔۔۔۔
"اچھا چلو اب اندر چلو کھانا لگوا دیا ہے۔۔۔۔" وہ اسے لئے اندر بڑھ گئے۔۔۔۔
💖------------💖
وہ آج اپنی ہاسپٹل کی جانب سے ملی چھٹی بروئے کار لا کر اپنے پھوپھا کے ایڈریس پر جا پہنچا۔۔۔۔
لوئر مڈل کلاس سے بھی نیچے کے طبقے کا علاقہ تھا وہ ڈھونڈتا ہوا نیلے رنگ کے چھوٹے سے گیٹ پر پہنچا زنگ لگے دروازے پر کالا موٹا تالہ اس کا منہ چڑا گیا وہ کافی دیر وہیں گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا رہا اس امید پر کے شاید کوئی سجائے پھر تھک ہار کر واپس جانے لگا تبھی نگاہ اپنے گھر کے پردے سے جھانکتے عورت پر پڑی نظریں ملنے پر اسنے اسے اپنی اطراف بلایا وہ الجھتا سوچتا اس کی جانب بڑھ گیا
" رشیدے کے رشتدار ہو"؟ اس نے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
اب وہ حیرت سے ناک پر انگلی رکھے اسے سر تا پیر گھورنے لگی جیسے یقین کرنے کی کوشش میں ہو۔۔۔
"او تے اب نہیں رہندا یہاں"
"تو کہاں رہتے ہیں "وہ پر امید سے پوچھ بیٹھا۔۔۔
"تو ہے کون اس دا" ایک بار پھر جائزہ لیتے مشکوک لہجے میں پوچھا گیا۔۔۔
تبھی پیچھے سے ایک مزدور نما شخص نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے پلٹتے مجبور کیا۔۔۔۔
"کون ہو بھائی۔۔۔" اب وہ شخص مشکوک ہورہا تھا سعود کو کوفت ہوگئی۔۔۔۔
"اجی یہ رشیدا کا پوچھ رہیا سی" عورت جھٹ بولی۔۔۔
"تسی کون ہو صاحب"
"میں ڈاکٹر سعود ہوں اور رشید صاحب کی مرحومہ بیگم کا بھانجا ہوں "
اسنے ان لوگوں کے شک وشہبات کو لگام ڈالتے اپنا تعارف بمعہ شبہ بتا دیا اب وہ دونوں شدید متاثر تھے۔۔۔
"تو آونا صاحب بیٹھ کے بات کرتے ہیں اندر آو"وہ اسے لیے اندر بڑھے تو وہ بھی ساتھ ہولیا۔۔۔
اب وہ دونوں ہی بڑے متاثر سے دیکھائی دے رہے تھے انہوں نے اسے شربت کا گلاس پیش کیا مگر امریکا پلٹ سعود نے وہ کہاں منہ سے لگانا تھا مروت کا مارا ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔
"جی تو کیا آپ بتا سکتےہیں رشید انکل اور انکی بیٹیاں کہاں ہیں اب؟ "
"انکےمنہ سے ان لوگوں کے غائب ہونے کا سن کر وہ قدرے مایوس ہوا تھا۔۔۔
"نا جی اے رشیدا کوئی سیدھا بندا نہیں تھا بڑا کوئی ظالم تھا ،وہ تمہاری پھوپھی کوئی بڑی نیک عورت تھی بچیاں بھی ایڈھی کوئی حسین پر قسمت کی وڈی کوئی ماڑی تھی اے رشیدا نکھٹو مارتا الگ کماتا ڈھیلا نا اور نشہ الگ کرتا پیا سی تیرے نانکو نے کی وكهیيا جو کڑی بیياه دی کڑیا وڈی پولی ہوندیا ہیں ایسے نا رولا کرو دھیاں نو "
اس ان پڑھ آدمی کی بات پر سعود جی بھر کے شرمندہ ہوا۔۔۔
اس آدمی کی بیوی بچی کو دیکھنے اٹھی تو وہ مونڈھا اس چارپا ئ کے قریب كهسكا لایا جس پر سعود بیٹھا تھا ۔۔۔
اس کا انداز رازدارانہ تھا
"صاب یہ رشیدا بڑا نشہ کرتا تھا اور وہاں بھی جاتا تھا مینو اک بندے نے دسیا تے اے رشیدا وڈا مال اکھٹا کیا ہے ہورے کوئی نہیں جانتا کیسے بچیاں بھی اب اودے نال نا ہیں پہلے سانو لگا رشتداروں نال ہونگی پر اب سانو شک ہے کے ۔۔۔
"وہ فکر مندی سے بتاتے آخر میں ہاتھ جھاڑتے اشارتا جو بولا سعود سمجھ گیا۔۔۔
وہ جلد ہی وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اس آدمی کی بیٹی کے پاس اسکی پھپھو کی بڑی لڑکی کی تصویر تھی جو خراب کمیرے کے پھٹے پھٹے پکسل کی وجہ سے بہت اچھی نا تھی مگر شکل بہرحال سمجھ آرہی تھی وہ آدمی شیدا جس بدنام زمانہ جگہ پر جاتا تھا ویاں کاپتا بھی بتا چکا تھا۔۔۔
جب سعود وہاں سے نکلا تو دو کیفیات کا شکار تھا اایک طرف اسے اپنی پھوپھی زاد کی فکر تھی اور یہ فکر تھی کے بیمار باپ کو کیا بتائے گا دوسری جانب وہ سرا ملنے پر پرامید تھا۔۔۔
💖------------💖
رات جانے کس وقت اسکی آنکھ کھلی اسنے برابر میں سوئے حیدر کو دیکھا۔۔۔۔ انکی نیند خراب نا ہونے کے خیال سے وہ دبے پاؤں چلتی باہر لاؤنج میں آگئی گلاس وال سے بلاینڈز ہٹایں تو باہر کا خوبصورت منظر نگاہ کو تراوت پہنچا گیا گہرے نیلا تاروں سے بھرا آسمان چاند کی چاندنی ہر سو منور کر رہی تھی وہ اس منظر کو دیکھ خود کو روک نا سکی اور باہر چلی آئی۔۔۔۔
سوئمنگ پول کےساتھ بنی ماربل کی روش پربیٹھ کر اس نےپاوں ٹھنڈے پانی میں ڈالے ایک جھرجھری سی اسکے بدن میں دوڑگئی ابھی اسے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب بالوں پر جانا پہچانالمس محسوس ہوا مزید تصدیق بھاری گمبھیر آواز نے کردی۔۔۔۔
"یہاں کیوں آگئی طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔۔؟" وہ اب اس کا ماتھاچھوتے بولے۔۔۔
"ٹھیک ہوں میں بس آنکھ کھل گئی تھی تو باہر آگئی "
"آنا ہی تھا تومجھے جگا دیتی موسم میں خنکی ہے شال بھی نہیں اوڑھی تم نے۔۔۔" وہ اس کے برابر میں بیٹھ اس کو حصار میں لیتے اپنی شال اسکے کندھے پر پھیلادی۔۔۔۔
وہ اس قربت پر سمٹ سی گئی۔۔۔ حیدر کا ایک بازو اس کے شانو پر تھا۔۔۔ جبکے دوسرے ہاتھ سے اسکے ہاتھ پر گرفت جمائی ہوئی تھی۔۔۔ ان کے ایسے حصار میں لینے پر اس کا سر ان کے کندھے پر ٹک گیا۔۔۔
حیدر نے اسکے بلش ہوتے چہرے کو دیکھا اور جاندار مسکراہٹ نے لبوں کا احاطہ کر لیا۔۔۔
"ایک بات بتاو ،یہ تم مجھ سے کیوں اتنا شرماتی ہو ویسے تو کافی پراعتماد ہو"
وہ اسے چھیڑتے بولے۔۔۔
"حیدر ! تنگ نا کریں پلیز دیکھے کتنا خوبصورت ماحول ہے۔۔۔۔ اچھا بتایں آپ کو اس سب میں کیا سب سے اچھالگ رہا ہے۔۔۔"
وہ مکمل طورپر ماحول کی خوبصورتی میں کھوئی تھی۔۔۔
"تم"
ایک لفظی جامع جواب اس کا دل دھڑکا گیا۔۔۔
"میں اپنی زندگی کا سب سے حسین وقت جی رہا ہوں وہ اس کے گال پر ہاتھ پھیرتے بولے۔۔۔۔
"بہت قیمتی ہو میرے لیے میرےساتھ رہو میری ہو کر تمہارا کوئی خواب رائیگاں نہیں جائے گا ،میں اپنے وعدوں میں بہت کھرا ہوں رائنا ،آس دینے پر نہیں عمل پر یقین رکھتا ہوں تم اپنے دل کی ہر بات کہ سکتی ہو میں تمہیں سنوں گا۔۔۔۔" اس نے ان کا چہرہ دیکھا کسی قسم کی کوئی ریاکاری نا تھی۔۔۔ محظ محبت تھی وہ بھلا کیسے نا یقین کرتی وہ اب انکے حصار میں ریلکس ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔۔
"میرا آج جانتے ہیں کیا دل چاہ رہا ہے۔۔۔" انکے دیکھنے پر وہ رکی۔۔۔
"آپ کو جاننے کا "
"کیا جاننا چاہتی ہو تمہارے سامنےتو ہوں "
" ایسے نہیں مطلب آپ کی بھی تو کوئی خواہشات ہونگی۔۔۔۔؟"
"میری خواہش تو میرے پاس ہے باقی ہے اولاد کی وہ بھی اللہ جلد کرم فرماے گا " انکی بات پر وہ جھینپ گئی۔۔۔
"آپ مٹال رہے ہیں"
"جان حیدر سچ کہہ رہا ہوں "وہ یقین دلاتے بولے۔۔۔
ہاں ایک اور مقصد بھی ہے کے یہ جو سرداری مجھے سونپی گئی ہے اس میں کھرا اتروں یہ بظاہر اعزاز ہے پر در حقیقت امتحان ہے "
"آپ بہت سنجیدہ ہیں ان معملات میں ،خصوصی طور پر اپنے گاؤں سے آپکا لگاوں اور فکر واضح طور پردیکھتا ہے"
"جانتی ہو رائنا میں نے آج تک یہ باتیں کسی سے نہیں کی ،مگر تم سے کر رہا ہوں "
وہ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں قید کیے بولے۔۔۔
بہت كهلتی تھیں ہمیشہ سے مجھے یہ فرسودہ روایاتیں میں نے اپنی ماں کو باپ سے دبتا دیکھا۔۔۔۔ ہمیشہ پھر جب میں پڑھائی کے سلسلے باہر گیا لوگو سے ملا باہر کی دنیا دیکھی مختلف دوست بناے تب مجھے احساس ہوا کہا ں کیا کیا غلط ہے۔۔۔۔ جب ہم بیوی کو دبانے کے چکر میں ہوتے ہیں در حقیقت ہم اپنی نسل خراب کرتے ہیں۔۔۔۔
جس عورت کو نچلا درجہ دیتے ہے اسسے اولاد کی تربیت کیسے ہوگی۔۔۔۔ جو خود کے حقوق نھیں جانتی ہوگی وہ حق دینا اور لینا کیسے بتا ے گی میں اپنے دوستوں کے والدین کی زندگی دیکھتا اور اپنے والدین کی دیکھتا اور سمجھتا کے ہم کہاں غلط ہیں۔۔۔۔ ،ہم مزاروں کو تعلیم نا دے کر ان پر کیسا ظلم کررہے ہیں۔۔۔۔ اسکا اندازہ بھی مجھے تعلیم کے دوران ہوا فلحال میری زندگی کا ایک مقصد میرے گاؤں کی ترقی ہے بہت مسائل ہے بس میں ہمّت نہیں ہارنا چاہتا "
آخر میں ان کالہجہ تھکا تھکا سا تھا۔۔۔
رائنانے انکے ہاتھ پر اپنے دوسرے ہاتھ سے گرفت کی۔۔۔۔
"آپ نے ہی کہا تھانا حیدر راستہ لمبا ہو مگر ہمراہی ساتھ ہو تو سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے آپ کے ہر سفر میں میں آپ کے ساتھ ہوں کبھی جو آپکے ارادے تھکن سے ٹوٹنے لگے
میرے شانے پر سر رکھے سستا لیے گا "
وہ کتنی خوبصورتی سے اپنی وفاؤں کا عہد کر گئی تھی اظہار ِ محبت نا سہی اظہار وفا ہی سہی وہ مسکرائے۔۔۔۔
"تمہیں دیکھ کر آج مجھے ایک خوبصورت غزل سنانے کا دل چاہ رہاہے۔۔۔۔
"وہ اسکے گال پر پیار سے ہاتھ رکھتے سیاہ بھنورا انکھوں میں جزبات لیے آہستہ سے گویا ہوئے۔۔۔"
تجھ کو معلوم ہی نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے یہ سادہ سے اچھوتے سے نقوش
میرے تخیل کو کیا رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زلفیں تیری آنکھیں تیرے عارض تیرے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصوم خطا کرتے ہیں
خلوت بزم ہو یا جلوت تنہائی ہو
تیرا پیکر میری نظروں میں اتر آتا ہے
کوئی ساعت ہو کوئی فکر ہو کوئی ماحول
مجھ کو ہر سمت تیرا حسن نظر آتا ہے
چلتے چلتے جو قدم آپ ٹھٹھک جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہیں تو نے پکارا تو نہیں
گم سی ہو جاتی ہیں نظریں تو خیال آتا ہے
اس میں پنہاں تیری آنکھوں کا اشارہ تو نہیں
دھوپ میں سایہ بھی ہوتا ہے گریزاں جس دم
تیری زلفیں میرے شانوں پر بکھر جاتی ہیں
تھک کہ جب سر کسی پتھر پی ٹکا دیتا ہوں
تیری بانہیں میری گردن میں اتر آتی ہیں
سر بالیں کوئی بیٹھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
میرے بکھرے ہوئے الجھے ہوئے بالوں میں کوئی
انگلیاں پھیرتا جاتا ہے بڑے پیار کے ساتھ
کس کو معلوم ہے میرے خوابوں کی تعبیر ہے کیا
کون جانے میرے غم کی حقیقت کیا ہے
میں سمجھ لوں بھی اگر اس کو محبّت کا جنوں
مجھ کو اس عشق جنوں خیز سے نسبت کیا ہے"
انہونے غزل ختم کی تو رائنا غور سے سنتی کچھ کچھ سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔
اسکا چہرہ گواہ تھا کے رائنا علی کے پلے شاعری کا پڑنا مشکل تھا۔۔۔۔
"اچھی ہے پر آپکا لہجہ اور تلفظ بہت اچھا ہے۔۔۔"
وہ کچھ نا سمجھتے بھی یہ سمجھ گئی کے کی تو غزل میں تعریف ہی ہے۔۔۔
اسکا چہرہ پڑھتے وہ گہرا سانس بھرتے مسکراے۔۔۔۔ اور اسکے ماتھے پر محبت ثبت کی۔۔۔۔
"چلو بہت رات ہوگئی ہے اب آرام کرتے ہیں دوپہر کو شاپنگ کے لئے چلیں گے۔۔۔۔" وہ اسے لئے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔۔۔۔
💖-----maryamah shiekh writes-------💖
اسکے اگلے دن وہ فارم ہاؤس سے رائنا کے والدین کی طرف روانہ ہوے وہاں سے خریداری کے لئے نکل کھڑے ہوے اگلے دن انکی واپسی تھی۔۔۔۔
یہ وقت بہت اچھا تھا اسے حیدر کا دوسرا رخ دیکھنے کو ملا وہ واپسی کے لئے نکلے تھے جب حیدر نے جیولری شاپ کے آگے گاڑ ی روک وادی۔۔۔۔
"اب کیا لینا ہے سب کچھ تو ہے " وہ حیران ہوئی ابھی کل تو شاپنگ کی تھی۔۔۔
"مجهے دلانا ہے کچھ آؤ "وہ اسے تھام کر اندر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔
وہاں پیرسنگ بھی ہوتی تھی حیدر کاؤنٹر پر گئے۔۔۔۔
"مجهے اپنی وائف کی نوس پیرسنگ کروانی ہے مگر دھیان رہے درد کم سے کم ہو۔۔۔""
"آپ اطمینان رکھیے سر آئیے میم "
"حیدر مجهے نہیں کرا نی۔۔۔۔" وہ اٹھتی جانے لگی کے حیدر نے اسے دوبارہ تھام کر بٹھا یا اور رائنا کے لاکھ مچلنے انکار کرنے کا کوئی فائدہ نا ہوا۔۔۔۔
حیدر نے ہی اسکے لئے نوز پن لی اور پے کرنے کے بعد اسے لئے باہر آئے باہر آتے ہی رائنا نے انکا ہاتھ جھٹکا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔
راستہ بھر وہ دوسری طرف رخ کیے بیٹھی رہی حیدر نے اسے ا بھی کے لیے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔۔۔
حویلی پہنچ کر بھی مارے باندھے بی اماں سے مل کر کمرے میں آگئی۔۔۔۔
جب حیدر آئے تو وہ شیثہ کے سامنے بال سنوارتی اشک بہا رہی تھی۔۔۔۔
وہ چلتے اسکے پیچھے آ کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اسکے کندهوں پر جما دیئے۔۔۔
رائنا نے جھٹکنا چاہا پر انہوں نے گرفت سخت کرتے اسکا رخ اپنی طرف موڑا ۔۔۔۔
"حیدر پلیز آپ بہت من مانی کر چکے اکیلا چھوڑ دیجیے مجهے "
"کتنی حسین لگ رہی ہو کم از کم یہ تو دیکھلو میری آنکھوں میں جان حیدر۔۔۔" ان کے ایسے بولنے پر بھی اس نے انہیں نا دیکھا تو وہ اسکا رخ واپس شیثہ کی جانب کرتے بولے۔۔۔۔
اچھا چلو آئینہ ہی دیکھ لو وہ بھی بتا دے گا کے کتنی حسین لگ رہی ہے یہ تم پر "
"آپ انتہائی خودغرض ہیں ہر چیز ہر بات میں اپنی چلاتے ہیں۔۔۔۔ پہلے بال نہیں کاٹنے دیئے پھر پکنک سے منع کر دیا۔۔۔۔ گارڈ لے کر باہر جاؤ ،اور اب یہ نوز پن۔۔۔ صرف اس لئے کے ایک شخص مجهے ان میرڈ سمجھا۔۔۔ اب سمجھی کراچی بھی آپ مجهے اسلئے لے گئے تھے تاکے گھما پھرا کے رام کر سکیں جیسے بکری کو قربانی سے پہلے کرتے ہیں "
وہ انکی ان رومانوی باتوں پر چڑ گئی بیحد غصّے سے بولتی چلی گئی اور خاموشی سے تیوری چڑھائے سنتے حیدر کی آخری بات پر ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔
"ہاہاہا ۔۔۔ تو تمہیں لگتا ہے مجهے یہ کرانے کے لئے تمہیں بہلانے پسلانے کی ضرورت تھی۔۔۔۔ کتنی نادان ہو تم بیوی۔۔۔۔ کراچی لے جانے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔۔ میری جان ویسے بھی جانتی تو ہو میں جو کرتا ہو کر ہی لیتا ہوں "
وہ شرارت سے بولے تو رائنا نے حیرت سے دیکھا وہ محض ضرورتاً مسکرایا کرتے تھے کجا کے یہ انداز۔۔۔۔
"آپ کو پتا ہے کے آپ دن بدن "وہ کچھ کہتے کہتے جھجکی۔۔۔
"دن بب۔۔۔
دن بدن کیا رک کیوں گئیں بولو "
"آپ بچے بنتے جا رہے ہیں۔۔۔۔ جیسے ٹینجر ہوتے ہیں عجیب سے۔۔۔۔" صداکی ان رومینٹک رائنا کے لیے یہ کوئی قابل ہضم صورتحال نا تھی۔۔۔۔
اسکی بات پر وہ پہلےتو حیران ہوے پھر بے ساختہ اونچا سا قہقہہ لگایا۔۔۔۔
رائنا انھے قہقهہ لگاتا دیکھ دانت کچکچا کے رہ گئی۔۔۔۔۔
💖------------💖
حیدر غیض وغضب کی تصویر بنے عدالت لگائے بیٹھے تھے اور پھوپھی اماں ان کے سپوت بی اماں زاہد ایاز سب موجود تھے۔۔۔۔
"ہمیں جب دوسرے قبیلے والوں نے اطلاع دی ان دونو کے بھاگنے کی تب انہونے بتایا کے وہ لڑکا یعنی ان کا بھائی اپنا فون یہں چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔ جس میں آخری دو ہفتوں کے کال ریکارڈز کے مطابق صرف ایک ہی نمبر سے رابطہ کیا گیا تھا۔۔۔ اور وہ اس لڑکی رائنا علی کا تھا۔۔۔ اور رائنا ہوسٹل کے نام سے محفوظ تھا وہ لوگ اس لڑکی کو پکڑنا چاہتے تھے۔۔۔۔ اور ہر جانے کے طور پر اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
مگر ہم نے ان سے ایک معاہدہ کیا کے پہلے ہم اس لڑکی سےپوچھ گچھ کرینگے۔۔۔۔ اور سندس کا پتا چلانے کے بعد لڑکی ان کی پھر جوچاہے۔۔۔۔"
ابھی ہاشم کے الفاظ منہ میں ہی تھے۔۔۔۔ کہ ایک زوردار لات سے حیدر نے اسے دور پھینک دیا۔۔۔۔
پھر بالوں سے پکڑ کر اٹھایا ساتھ بہادر کو آواز لگائی جو انکا دست راز تھا۔۔۔
"یہ ہاشم سائیں اور فرہاد دونوکو لے جاو اور کوٹھری کی سیر کراؤ۔۔۔۔ اور ایسے ہی کرانا جیسے مجرمو ں کو کرائی جاتی ہے۔۔۔۔" ایک ایک لفظ پر زور دیتے بولتے دوبارہ پٹخا گیا۔۔۔
"پھپھی اما اور بھابھی صاحبہ آپ انہیں لےکر جاؤ رضیه حویلی کے کسی کمرے میں نظر بند کر دو اور یاد رہے کے کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں کمرے میں بان کی چارپائی ایک پنکھا بہت ہے اس سے زیادہ کچھ نا ہو پنچایت بیٹھنے تک جاری رہے یہ "
"حیدر۔۔۔" بی اما نے ٹوکنا چا ہا۔۔۔
"بات اصول کی ہے بی اما۔۔۔" وہ قطیعت سے بولے۔۔۔
"کچھ سوال تو آپ کے لئے بھی ہیں۔۔۔ آپ کو نائب رکھا آپ کی سمجھ بوجھ پر بھروسہ کیا پھر یہ سب کیوں ہوا ؟"
"مجھے بتاے بنا میری آنکھوں میں دھول جھونک کر لے آئے تھے۔۔۔ وہ تو مجھے شک ہوا کے کہاں گئی ان کی غیرت کیسے خاموش ہے۔۔۔ بہن کے کارنامے پر جاسوسی کرائی تو راز کھلا لڑکی کو اپنی چھوٹی حویلی کے تےخانے میں رکھاہے۔۔۔۔ پر تب تک معملا الجھ چکا تھا اب لڑکی کو چھڑاتی تو مخالف قبیلہ ٹوٹ پڑتا اس پر"
"اسے حبس بے جا میں کیوں رکھا "
"تم اس کے چہرے کی معصومیت پر نا جاؤ ،بہت کوئی تیز چیز ہے اتنی قید ظلم تشدد کے باوجود اکڑ دیکھنے والی تھی،مجھے لگا اسے چھوٹ دی تو اکڑ جائے گی میڈیا تک نا پہنچ جائے۔۔۔۔ گو کے اس میڈیا کو مٹھی میں رکھنا جانتے ہیں ہم مگر کسی کو اتنا سر اٹھانے ہی کیوں دے۔۔۔۔ مگر اس کے بعد تشدد رکوادیا تھا میں نے جو اس پے روا تھا اس کی عزت کی حفاظت کی ورنہ ہاشم تو۔۔۔۔"
حیدر نے دکھ سے رعونت ملاحظہ کی ۔۔۔
"مجھے نرمی سکھا نے والی کا دل ایسا پتھر کب ہوا اتنی رعونت" دل ہی دل میں سوچا۔۔۔
"بہرحال ! یہ ظلم اس لڑکی پر ہوا ہے اور یہ ہاشم اور اس قبیلے کا گھٹیا پن تھا۔۔۔۔ ورنہ لڑکی صاف بےقصور ظاہر تھی سب نظر آرہا تھا کہ اسکو پھنسا کے گئے ہیں ورنہ ایسے ثبوت کون چھوڑتا ہے۔۔۔"
اب کے زاہد نے لب کشائی کی۔۔۔
"ہمم ایسے ان میں سے کوئی نہیں بچے گا مگر غلطی بی اما سے بھی ہوئی ہے۔۔۔۔ آج کے بعد سے تین ماہ تک آپ کوئی معاملے میں دخل نہیں دینگی۔۔۔۔ نا ہی عورتوں کی بیٹھک کے مسائل دیکھیں گی۔۔۔۔ میری غیر موجود گی پنچائت بیٹھ سکتی ہے۔۔۔ وقتی بے ضرر سزا دے سکتی ہے۔۔۔۔ مگر آخری فیصلہ میرا ہوگا میرے آنے پر ہوگا۔۔۔"
وہ کہتے وہاں سے نکلتے چلے گئے۔۔۔۔
💖------------💖
رائنا کو ہسپتال سے واپس حویلی لے جایا گیا۔۔۔۔ وجہ وہ مخالف قبیلہ تھا بھابھی آمنہ اسکی کافی دیکھ بھا ل کر رہی تھی۔۔۔ دوسری جانب مخالف قبیلے نے طوفان برپا کیا تھا۔۔۔ انکی ڈیمانڈ تھی کے رائنا کو انکے حوالے کیا جائے دوسری جانب رائنا کے والدین الگ بحال تھے۔۔۔۔ ایاز نے انسے معذرت کے ساتھ ساتھ رائنا کی حویلی میں موجودگی اور مخالف قبیلے کی ڈیمانڈ بھی بتا دی تھی۔۔۔۔ حیدر خود معذرت کرنے گئے تھے وہ بےبس اور مجبور لوگ تھے۔۔۔۔ انکے لیے یہی بہت تھا کے انکی بیٹی زندہ ہے۔۔۔۔ عزت سے ہے اور محفوظ ہاتھوں میں ہے۔۔۔
"مجهے میری بیٹی کا قصور بتاؤ بیٹا کیا عزت رہ گئی اسکی۔۔۔ کیسے سامنا کرے گی سب کا کس کس نے وہ تماشا نہیں دیکھا کیا کیا رشتےدار بول کے گئے میری معصوم بچی کے بارے میں۔۔۔"
رائنا کے والد علی صا حب رو پڑے۔۔۔۔
حیدر بھاری دل لئے وہا سے اٹھے۔۔۔۔
مخالف قبلے نے پنچا یت کا مطالبہ کیا انکا کہنا تھا کے رائنا انکے حوالے کی جائے انکا نقصان ہوا ہے انکا بیٹا ایک لڑکی کے پیچھے چلا گیا۔۔۔۔
پنچآیت بیٹھی رائنا کے والد بھی شامل تھے۔۔۔
"میں کسی صورت لڑکی انکے حوالے نہیں کرونگا" حیدر دو ٹوک بولے۔۔۔
"ٹھیک ہے پھر آپ لڑکی کو آزاد کردیں یہ جانے اور لڑکی کے گھر والے۔۔۔" مخالف قبیلے سے ہی کسی نے تجویز پیش کی۔۔۔
"دیکھے حیدر آپ سر پنچ ہے مگر فیصلے میں پنچا یت کے باقی ارکان کی رضا مند ی شامل ہونی ضروری ہے۔۔۔۔"
"شرع کی رو سے بھی آپ کو اسے تحو یل میں رکھنا ٹھیک نہیں "
" کیا شرع کی رو سے لڑکی کو حبس بے جا میں رکھنا جائز ہے یہ کس شرع کے تحت لے جانا چاہتے ہیں "
حیدر کی آواز بلند ہوئی تو ایک منٹ خاموشی چھا گئی۔۔۔۔
"ہمم نکاح کرایں گے اسکا اپنے بڑ ے بیٹے سے۔۔۔۔" مخالف قبیلے نے اپنے بڑ ے سپوت کو پیش کیا جو رائنا سے دگنی عمر اور دو بیویوں والا تھا۔۔۔۔
،"بولئے حیدر سرکار کیا جواب ہے اپکا اگر نا ہے تو آپ کرینگے نکاح اس لڑ کی سے بولئے۔۔۔" وہاں سے پتا پھینکا گیا۔۔۔۔
"علی احمد صاحب میں آپ سے اس پنچایت کے سامنے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگتا ہوں۔۔۔" حیدر نے ایک نگاہ سب پر ڈالی۔۔۔
علی صاحب نے ایک نظر حیدر کو اور دوسرے لوگو کو دیکھا۔۔۔"
منضور ہے۔۔۔۔ وہ جانتےتھے کے اگر پنچا یت جانے بھی دے تب بھی مخالف قبیلہ انہیں نہیں چھوڑے گا انکی رائنا اب صرف حیدر کے ساتھ ہی محفوظ تھی۔۔۔
💖------------💖
آناً فانا ً نکاح کی تیاری ہوئی رائنا نے بہت احتجاج کیا۔۔۔"
وہ سب ایک جیسے ہے امی یہ کیسا انصاف ہے ہم رپورٹ کرینگے "
"کوئی فائدہ نھی رائنا وہ مخالف قبیلا نہیں چھوڑے گا تمہیں ،وہ لوگ بہت طاقتور ہم نہیں کر سکتے مقابلا۔۔۔۔ ہاں حیدر ضرور کر سکتا ہے۔۔۔ مکھیا ہے وہاں کا کوئی آنکھ نھیں اٹھاۓ گا۔۔۔۔ دیکھو رائنا تمہارا باپ نے حامی بھرلّی اب انکار کی صورت میں انسے بھی دشمنی نہیں۔۔۔ بچی ہاں کردو ہم اور حیدر دونو نے یہ قدم تمہاری حفاظت کے لئے اٹھایا ہے "
وہ بےبس مجبور ہوگئی تھی یہ تو وہ بھی جان گئی تھی کے یہاں سے بچے تب بھی وہ دوسرا قبیلہ اسے نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔
"بابا آپ کیسے مان گئے " اس نے شکوہ کناں نظروں سے باپ کو دیکھا پھر انکے چہرے پر لکھی مجبوری پڑھ لی۔۔۔۔
اسکے سر جھکانے نے علی صاحب کے کندھے جھکا دئے اگر اسکو خطرہ نا ہوتا تو وہ کبھی حامی نا بھرتے بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھے انہونے آنسو ضبط کیے
💖------------💖
حیدر نے بی اماں کو کیسے منایا یہ ایک الگ کہانی تھی ایک تو وہ خود اس قصے میں شامل تھیں پھوپھی اماں نے اپنے بیٹوں کو رائنا کو لانے کے بعد انہیں خبر کی تھی۔۔۔ وہ حیدر کی آمد سے قبل یہ معاملہ نپٹانا چاہتی تھیں۔۔۔ دوسرے وہ حیدر کی چاہ دیکھ چکی تھیں اسلئے مخمل میں ٹاٹ کے پیوند پر رضامند ہوگئیں(ان کی دانست میں) ان کے بھائی کی پہلی شادی بیس سال میں ہوئی تھی اور ایک سال بعد ہی ہی اہلیہ وفات پاگئیں۔۔۔
وہ بیچاری دل کی مریضہ تھی گو کے حیدر کو اس سے ایسی محبت نا تھی مگر وہ رشتوں کو نبھانے والے شخص تھے۔۔۔۔ اس سے مخلص تھے اس کے بعد سے انھونے پھر کسی کو شامل نہیں کیا مگر آج انکی آنکھوں میں اس لڑکی کے لئیے فکر دیکھ وہ ٹھٹکی تھی۔۔۔۔ حیدر نے پھوپھی اور انکے بیٹوں کو گاؤں بدر کر دیا تھا۔۔۔
خاندان کے سرپرست کی حثیت سے سب کو پابند کردیا گیا تھا انکی مدد کرنے سے پنچآ یت نے انکی دو زمینے بھی ضبط کی تھیں جن میں ایک رائنا کے والد کو کفارہ کے طور پر دی گئی تھی علی صاحب راضی نہیں تھے مگر حیدر کے کہنے پر ماننا پڑا۔۔۔
رائنا قسمت سے روٹھی ما ں باپ سے نالا حیدر کے نکاح میں حویلی آگئی۔۔۔۔
💖------------💖
درجًا بھر رسمیں ہوئیں اسکے بعد اسے حیدر کی خواب گاہ میں لے جايا گیا۔۔۔۔
سب کے جانے کے بعد اسنے اس شاندار کمرے کا جائزہ لیا کافی کشادہ کمرہ تمام سہولیات سے آراستہ پیراستہ تھا۔۔۔ بلیک اینڈ وائٹ کی تھیم سے سجا یہ کمرہ قیمتی جدید فیشن کے فرنیچر سے سجا تھا سامنے کی دیوار پر بڑا سا lcd تھا۔۔۔ دیواروں پر خوبصورت پینٹنگ تھی مختلف نواردات نے کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کیا تھا۔۔۔
وہ جائزہ ہی لے رہی تھی جب دروازہ کھلا اور بھاری قدمو کی آہٹ ہوئی۔۔۔
حیدر دھیمی چال چلتے اس کے قریب جا بیٹھے۔۔۔ جو ڈیپ ریڈ اون ریڈ کومبینشن کے عروسی لباس میں سلیقے سے کیے گئے میک اپ جس میں سرخ لپ کلر ہی نمایاں تھا۔۔۔ اس کے بال بمشکل کندھو تک اتے تھے۔۔۔ اس نے ایکسٹینشن بیوٹیشن کو لگانے دی نہیں تھی۔۔۔ تو اس نے بلو درائے کرکے اس کے فل لیرز میں کٹے بالوں کو سیٹ کر کے آگے کے بالو کا فرینچ ہیڈ بینڈ بنادیا جو اس پر بہت سوٹ کررہا تھا۔۔۔ بھاری طلائی زیور نے اس کو چاند لگا دیے تھے۔۔۔ گھونگٹ وہ پہلے ہی ہٹا کے بیٹھی تھی۔۔۔ اب ان کی نظریں اس کے چھکے چھڑا رہی تھیں۔۔۔ اس نے بمشکل ان کے سلام کاجواب دیا۔۔۔
حیدر نے ایک ہاتھ سے اس کا چہرہ اٹھایا
"بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔" گمبھیر اواز میں بولتے وہ اب اس کا ہاتھ تھا م چکے تھے۔۔۔ اب اس کے ہاتھ کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔۔۔
"مہندی نہیں لگوائی تم نے۔۔۔" وہ سرسریسا پوچھ رہے تھے۔۔۔۔ رائنا کو اس نارمل برتاو نے مشکوک کر دیا اسے گھبراہٹ نے آ گھیرا اس نے بے چینی سے۔۔۔۔ ہاتھ کھینچا تو انہونے گرفت مظبوط کرتے اس کو تھوڑا قریب کیا۔۔۔
"اس میں اتنا گھبرانے کی کیا بات ہے۔۔۔ شادی کی پہلی رات ہے۔۔۔ ہماری اپنی بیوی کو نہیں تو کسے سراہوں گا۔۔۔۔" پھر اس کی متحوش شکل دیکھی تو مزید گویا ہوئے۔۔۔۔
"شادی جیسے ہوئی اسے بھول جاو اب ہوگئی یہ یاد رکھو اب میرے ساتھ ہی رہنا ہے۔۔۔ یہ شادی نا کوی کونٹریکٹ ہے نا سمجھوتا باقاعدہ نکاح ہوا ہے ہمارا۔۔۔۔ جب تمہیں پہلے دیکھا تھا تب سے میرے دل میں تمہاری تصویر ہے۔۔۔۔ اور تب تم سے دستبردار ہوگیا تھا۔۔۔ ہمارے بیچ موجود فرق کو سوچ کر تمہارے لیے۔۔۔ مگر اب جب خدا نے خود تمہیں سونپ دیا تو اب دستبرداری کا سوال نہیں ہے"
"مجھے وقت چاہیے ،اس ۔۔۔ اس رشتے کو سمجھنے کا بہت الگ الگ ہے سب" وہ آخر کار بول پڑی۔۔۔۔
"آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نا حیدر۔۔۔"
"حیدر " زیر لب دہرا کے وہ چونکے۔۔۔۔
یہاں بیویاں سائیں بلاتی ہے شوہر کو۔۔۔ تمہارے لبو پر میرا نام مگر خوب جچ رہا ہے۔۔۔ جان حیدر۔۔۔۔" اور اس کے ہاتھ کو ہلکا سا دبا یا۔۔۔
"باقی باتیں بعد میں میں ذرا فریش ہو لوں "
اسکی فرمائش کو اگنور کرتے وہ باتھ لینے چل دیے۔۔۔۔
وہ پہلے تو کافی دیر ہکا بكا رہ گئی یہ ایمرجنسی شادی پھر یہ محبت کا اظہار اس کا دماغ ماؤف کر گیا۔۔۔ وہ خود کو سنبھالتی اٹھی پھر چلتی ڈریسنگ ٹیبل تک آئی سامنے آئینہ میں اپنا سجا سنور ہ وجود اسے اپنا منہ چراتا لگا اسنے غصے سے ہاتھ بڑھا کر earrings اتار نے لگی کے اچانک حیدر باتھ روم سے واپس آگئے وہ اسے نگاہ میں قید کیے اسکے قریب آئے۔۔۔
اور اسکا earrings اتارتا ہاتھ تھام لیا۔۔۔
"ایسی بھی کیا جلدی ہے "اسکے گال پر ہاتھ پھیرتے گویا ہوئے۔۔۔
"پلیز "رائنا نے مزاحمت کرتے ہوئے انکا ہاتھ ہٹانا چاہا۔۔۔
"آیندہ میرا ہاتھ نہیں جھٹکو گی تم۔۔۔" وہ اسکا ہاتھ پکڑتے قدرے سخت لہجے میں بولے۔۔۔۔ پھر اس کی سراسیمگی کا ملاحظہ کیا تو اسے آہستہ سے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھی کرسی پر بٹھا دیا اور خود اس کے سامنے دوزانو ہوئے رائنا مزید سٹپٹائی۔۔۔۔۔
"جانتا ہوں پریشان ہو سب کچھ الگ ہے غیر متوقع ہے تمہیں سمبھلنے کو وقت درکار ہے۔۔۔ نو پرابلم بس یہ یاد رکھنا کے جتنا جلدی سمجھو گی اتنا بہتر ہے تمھارے لئے۔۔۔ تم میرے لئے کیا ہو بتا چکا ہوں قدر کرو گ تو فائد میں رہو گی۔۔۔۔ میری محبت کا جواب محبت سےنا سہی مگر وفا سے دینا دل میں جگہ دی ہے۔۔۔ تمہیں زندگی کے ساتھ ساتھ۔۔۔ "
وہ اب اسکا گال سہلا کر کہتے اسے آہستہ سے گرفت سے آزاد کر گئے۔۔۔
اور آگے بڑھ کر اسے خوبصورت سا ڈائمنڈ لاکٹ پہنایا۔۔۔
" یہ پہنے رکھنا ،جاؤ چینج کرلو" انہونے اسکا گال چھوتے کہا اور پیچھے ہٹ گئے۔۔۔۔
رائنا کی رکی سانسیں بحال ہوئیں وہ چینج کرکے آئی تو وہ سلیپنگ سوٹ میں بیڈ براجمان تھے۔۔۔۔ اسنے بیڈ سے تکیہ اٹھایا
"کدھر جا رہی ہو، تمہیں اس لئے نبھلنے کلئیے وقت دیا ہے رشتہ کمزور کرنے کیلیے نہیں اسلئے اپنی جگہ پر آؤ "
انہونے اسے ہاتھ سے پکڑ کر بٹھا لیا رائنا پیچ و تاب کھاتی لیٹ گئی وہ اس قید کے بعد سے اکثر ڈرتی جاگتی رہتی تھی۔۔۔ یا کبھی سوتی امڈر کر اٹھ جاتی تھی اس لئیے نیند کی گولیاں لیتی تھی یہ بات انہیں بھابھی آمنہ نے بتائی تھی ابھی بھی ان کے آنکھیں بند کرکے لیٹ جانے کے بعد وہ گولیاں ڈھونڈ نے اٹھنے لگی کے تبھی حیدر نے اس کا ہاتھ تھام کر روکا۔۔۔
:کیا چاہئیے۔۔۔؟"ان کی بھاری آواز گونجی۔۔۔
"ٹیبلیٹس۔۔۔"یک لفظی جواب آیا۔۔۔
"کیو۔۔۔؟"انہونے آبرو اچکائے اسے دیکھا۔۔۔
"نیند نہیں آرہی "وہ اتنے سوال جواب پر بیزار ہوئی۔۔۔
"آج جائے گی "
کہتے اچانک انہونے اسکے سر کے نیچے ہاتھ ڈال کر قریب کیا۔۔۔
ریلکس !سو جاؤ۔۔۔" بھاری آواز میں حکم صادرکیا گیا۔۔۔
"ایسے نہیں سو پاؤں گی "وہ بچارگی سے بولی ۔۔۔
" تم ویسے بھی نہیں سو پا رہی تھیں ایسے ڈرو گی نہیں اور سو بھی پاؤ گی آنکھیں بند کرو اور عادت ڈال لو۔۔۔" کہتے انہوں نے آنکھیں مونڈھ لی۔۔۔
گزرے دنوں میں اسے اندازہ ہوا کہ اپنی خواہش کے بغیر سمجھو تا کرنا کتنا مشکل ہے۔۔۔۔ بی ما اسے اکثر آڑے ہاتھو لیتی کے اسکا ناخو ش روٹھا انداز انہیں کھلتا تھا۔۔۔ وہ آمنہ اور گل رخ کی طرح اطاعت گزار نا تھی۔۔۔ نا ہی حیدر اسکی زندگی کا محو ر تھے۔۔۔ صرف حیدر کی وجہ سے وہ اسے زیادہ ٹف ٹائم نا دے سکتی تھی۔۔۔۔
وہ حویلی کے رواجو ں سے گھبراتی تو کبھی حیدر کی گہری نگاہوں سے۔۔۔ اس کا دل اس محبت پر اعتبار کے لیے تیار نا تھا۔۔۔ وہ گو مگو کی كفيت کا شکار تھی اسے اب تک اس جگہ کے تقريبن ہر شخص سے خوف آتا تھا۔۔۔
یہاں کے لوگو نے اسے نقصان ہی تو پہنچا یا تھا سندس سے لے کر بی اما تک نے کیسے بھروسہ کرتی اسکی زندگی الٹ گئی تھی اسکے خواب ٹوٹ گئے تھے ذہن اندیشوں سے پر تھا ایسے میں اسکا رویہ جائز تھا۔۔۔
حیدر فطرا تا ً بھی ڈومینیٹینگ تھے جس کی وجہ سے وہ اور گھبرا تی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان دونو ں نے ہی ایک دوسرے کو سمجھنا شرو ع کیا اور ایک دوسرے کی جانب قدم بڑھاے۔۔۔
حیدر کی برتاؤ نے اسے حوصلہ دیا بھروسہ دیاجس کی وجہ سے وہ انکا ہاتھ تھام کر رشتے میں آگے بڑھ گئی۔۔۔۔
رشتےکی بقا ء دونوں فریقین کے ہاتھ میں ہوتی ہے دونوں کو ہی ایک دوسرے کی خواہئش کا ا حترا م کرنا لازم ہوتا ہے صرف ایک فریق کی کوشش سے رشتہ رشتہ نہیں سمجھوتہ بن جاتا ہے وہ دونو ہی اس رشتے کو جی کر گزا رنا چاہتے تھے
💖------------💖
حال۔۔۔
شرجیل بی اما کی باتوں کو کانوں میں اڑاکر وہاں پہنچ گیا تھا اسنے شہرینہ کی رہایش کا انتظام اپنے گاؤں سے دو گھنٹے دور ایک علاقےمیں کر لیا تھا شہرینہ کے اعصاب پر بجلی گری تھی وہ بد بخت اپنی بہن کو بھی نا بتا پائی اور وہ درندہ اسے لے کر چلتا بنا وہ اس وقت گاڑی میں تھے۔۔۔۔
"جانتی ہے شہری تجھ سے محبت میں اپنی بی اما کی نا سنی بڑی عورتیں آئی بڑی عورتیں برتی مگر تجھ سا نا دیکھا کوئی ،یہ ماتمی شکل ٹھیک کر
" وہ اسکا دکھی چہرہ دیکھ آگ بگولہ ہوا اسکی تھوڑی کو سختی سے پکڑ کر جھٹکا۔۔۔
"کوئی خریدا ر اتنا لاڈ نہیں کرتا سمجھی ،مسکرا۔۔۔
"اسکے دھا ڑنے پر وہ مسکرائی انسو انکھوں کے گوشے بگھونے لگے دل اپنی حرماں نصیبی پر ماتم کناں تھا جبکے دماغ فرار کے تانےبانے بن رہا تھا۔۔۔۔
💖------------💖
وہ ان سے پیرسنگ والی بات پر خفا تھی ،وہ واپسی کے بعد سے مصروف تھے ہزار طرح کے مسائل تھے جنھے حل کرنا تھا مگر ایسے بھی دن نہیں آے تھے کے وہ اسکے بظاہر نارمل رویے کے پیچھے چھپا ناراض انداز نا جان پاتے ناشتے سے فارغ ہو کر وہ کمرے سے بیگ اٹھاتی نکل رہی تھی جب انہوں نے بازو تھا ما۔۔۔
"واپسی کب تک ہے آج ؟"وہ سیاہ بھنورہ آنکھیں اس پر مرکوز کیے پوچھ رہے تھے۔۔۔۔
"نائٹ ڈیوٹی ہے " ہنوز روٹھا روٹھا لہجہ۔۔۔
"ایسے ناراض جاؤ گی ؟"قریب کرتے پوچھا گیا۔۔۔
"ناراض نہیں ہوں " وہی انداز قائم تھا۔۔۔
"جھوٹ نہیں بولتے جا نم وہ بھی تب جب بولنا آتا نا ہو " طنزیہ مسکراہٹ سجاے بولے۔۔۔
پھر اسکا نروٹھا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔۔۔
"یہ مجھ پر سوٹ نہیں کر رہی۔۔۔" دکھڑا رویا گیا۔۔۔
"یہ تم سے زیادہ کبھی کسی پر اتنا نہیں جچی ہوگی میری جان۔۔۔" پرحدت لہجے پر اسکے گالوں پر سرخی دوڑ گئی۔۔۔
"ہمم بس اب صلح ہوگئی۔۔۔ اپنا خیال رکھنا بہادر ساتھ رہے گا باہر گاڑی کھڑی رہے گی موبائل چارج رہے اور ہاتھ میں رہے سمجھی ،کال کرونگا تمہیں "
انہوں نے اسکے ماتھے پر محبت ثبت کیے ڈھیروں ہدایت دیں۔۔۔
وہ بھی ناراضی ختم کیے سر ہلاتی گئی۔۔۔۔
"یا میرے اللہ یہ سب کیا ہے ،ہر مریض کے وائٹلز کیسے اتنے مختلف ہیں۔۔۔"
وہ مریضوں کی فائلز چیک کر رہی تھی۔۔۔ جب اس نے غور کیا کے روز دن کے پانچ وقت چیک کیے جانے وائٹلز میں ایک وقت کے سب مریضوں کے حد سے زیادہ الگ ہیں۔۔۔۔
وہ شش و پنج میں تھی کے کیسے اتنے الگ ہیں اس نے ڈاکٹر کا سائن چیک کیا وہ سعود تھا۔۔۔ کیونکہ وہ سائن کی جگہ نام لکھا کرتا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ لمحہ بھر میں پہچان گئی۔۔۔
وہ اٹھی اور ہاؤس آفیسرز کے لیے بنے کومن روم پہنچ گئی ،جہاں سعود صاحب چند اور ڈاکٹر کے درمیان بیٹھے ان کا دماغ چاٹ رہے تھے۔۔۔۔
یہ تحریر وہ سب کے چہرے پر باآسانی پڑھ سکتی خدا ہی جانے سعود کو کیوں نہیں دیکھتا تھا۔۔۔ یا دیکھتا تھا تو شاید وہ اسے غیر ضروری گردانتہ تھا۔۔۔
"اوہ بھائی بھائی کلاشنکوف زرا دھیرے صبر بیچاری ڈاکٹر رائنا کب سے کچھ کہنے کلیے کھڑی ہے تو سانس لے لے تھوڑا "
آخر کار ڈاکٹر صبیح کی نگاہ رائنا پر پڑی اور سعود کو چپ کرایا۔۔۔۔
"سعود یہ وائٹلز آپ نے چیک کیے تھے۔۔۔؟ زرا ان پر غور کریں ،اور دھیان رکھیں "وہ جلدی جلدی کہتی فائلز بڑھا گئی۔۔۔
"اوہ مائی گاڈ ،واٹ آئی ہیو ڈن۔۔۔؟" وہ اپنے امریکی ایکسینٹ میں بولا۔۔۔
آئی ایم سو سوری ایکچولی ڈاکٹر مجھے مائیگرین ہوتا ہے مے بی اس لیے آئی ہوپ یو ول مینج"
سب نے بیزاری سے ڈرامہ دیکھا ایک دو نے ہمدردی بھی کردی اب وہ اپنے مائیگرین کے قصے سنا رہا تھا۔۔۔
"ڈاکٹر سعود آپ جب ٹھیک ہو جائے اپنا کام کر لیجئے گا۔۔۔ اور یاد رہے ڈاکٹر صابر کے راؤنڈ سے پہلے ہو ورنہ آپ تو جانتے ہیں انہیں۔۔۔"
وہ ٹھنڈے لہجے میں اسے سینئر ڈاکٹر کی دھمکی بھی لگا گئی سعود کو اس بھولی شکل سے ایسی صاف گوئی کی امید نا تھی۔۔۔
وہ اس کو جاتا دیکھ منہ بسور گیا جبکہ باقیوں نے دل ہی دل رائنا کو سراہا۔۔۔۔
💖------------💖
وہ وارڈ میں مصروف تھی جب حیدر کی کال پر کال آنے لگی اس نے وقت دیکھا دن کے دوبجے تھے۔۔۔۔"
کہا تو رات کا تھا پھر ابھی کیوں کال کر رہیں ہیں۔۔۔؟سب خیر ہو"
اس نے فون واپس پاکٹ میں ڈالا ،کام سے جیسے ہی فارغ ہوئی اس نے کامن روم میں جا کر حیدر کو کال ملائی۔۔۔۔
"سوری حیدر میں وہ کام۔۔۔۔" سلام دعا کے بعد اس نے وضاحت دینی چاہی۔۔۔۔
"کوئی بات نہیں جانم۔۔۔۔ اچھا سنو میں زرا جا رہا ہوں کام کے سلسلے میں کل رات کو واپسی ہوگی۔۔۔ ٹھیک ہے"
"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔" وہ بھلا کیا کہتی پھر کچھ خیال آنے پر بولی۔۔۔
"خیال رکھیے گا اپنا۔۔۔"
"پوچھ تو لو کہاں جا رہا ہوں۔۔۔؟"
وہ متبسم بولے آواز میں شرارت تھی پھر خود ہی جواب دیا"
ایک دوست باہر سے آیا ہے اس سے ملنا ہے۔۔۔"
"ر کنے کی کیا وجہ ہے۔۔۔؟" وہ حیران ہوئی۔۔۔
"جانم پارٹی کے کام ہیں تم پریشان نا ہو۔۔۔۔ اور یہ ہاسپٹل میں بھی زیادہ کام نا کرنا۔۔۔ کھانا ٹھیک سے کھانا اور موبائل چارج رہے۔۔۔ میں پھر کال کروں گا۔۔۔"
"کس سے ٹاک شاک چل رہی تھی۔۔۔"یہ اس کی کولیگ رودابہ تھی۔۔۔
"ان کے ہسبینڈ ہوگے آئی جسے میٹ ہم ٹو ڈیز بیک۔۔۔"
سعود کی زبان پر خارش ہوئی۔۔۔
"رائنا میرڈ ہو۔۔۔" رودابہ نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔
"الحمداللہ۔۔۔" رائنا پر اعتماد نظر آنے کی کوشش میں لگی۔۔۔
"بڑے رچ اور شاندار ہیں ان کے ہسبینڈ۔۔۔" سعود نے لقمہ دیا۔۔۔
رائنا کو گھبراہٹ ہونے لگی اب سب اس سے سوال کر رہے تھے۔۔۔ کہ وہ اور حیدر اتنے مختلف بیک گراؤنڈ سے تھے تو کیسے ملے۔۔۔۔
رائنا کے لیے یہ موضوع تکلیف دہ تھا یہ اسے وہ سب یاد دلا دیتا تھا جو وہ بھولنے کی کوشش کرتی تھی۔۔۔
"ویسے ایج دیفرنس کافی دکھ رہا تھا آپ دونوں کا,کتنا ہے ویسے۔۔۔۔"
سعود کے سوال نے ایک اور شش وپنج میں ڈالا اسے تو حیدر کی عمر نا پتا تھی۔۔۔
"ایج از جسٹ آ نمبر آپ یو ایس سے ہوکر ایسے سوال کیسے کرلیتے ہیں۔۔۔" اس نے خود پر خول چڑھاتے ہنس کر ٹالا اور کام کا بہانہ کیے وہاں سے چلی گئی۔۔۔
💖------------💖
وہ پارٹی آفس میں تھے جب ایاز کی کال آئی۔۔۔۔
"حیدر بھائی وہ آپ سے ملنا چاہ رہی ہے۔۔۔" وہ سلام دعا کے بعد مدعے پر آیا۔۔۔
"اسے جتنی ڈھیل دے سکتے تھے دے دی ایاز اسے کہو غنیمت سمجھے۔۔۔ اس دن بھی میری بیوی نے اس عورت کو دیکھ لیا تھا۔۔۔ دوبارہ وہ اس کی وجہ سے پریشان ہوئی تو میں باقی سب رشتے بھول جاؤں گا۔۔۔" وہ تیوری چڑھا کر بولے۔۔۔۔۔
"جی بجا ہے آپ کی بات مگر بھائی اس کی حالت وہ آپ کو نرمل بجیا کا واسطہ دے رہی ہے۔۔۔ آپ ایک بار۔۔" ایاز کچھ کہتے کہتے روکا۔۔۔
"بے شرموں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔۔۔ بول دو آ جائے مگر آخری بار اس کے بعد کوئی آئیندہ نہیں نرمل کے نام پر بھی نہیں ,وہ سامان دے دیا۔۔"
"نہیں بھائی"
"ہمم لے آنا وہ بھی آج سارے قصے ختم ہوں گے اس کے۔۔۔" انہوں نے حتمی لہجے میں کہا اور جگہ طے کرنے لگے۔۔۔
"یہ عورت پھر واپس نہیں آنی چاہیے۔۔۔ اتنی مشکل سے سب کچھ جگہ پر آیا ہے۔۔۔"
وہ رائنا سے ڈرتے نہیں تھے۔۔۔ وہ جانتے تھے وہ چاہے کتنی بھی باغی ہوجائے۔۔۔ ان کی پہنچ کے آگے نہیں ہے۔۔۔
مگر کٹھ پتلی رائنا ان کو نہیں چاہیے تھی۔۔۔ انہیں تو مختلف رنگوں سے گندھی رائنا چاہیے تھی۔۔۔ جو بھلےان سے محبت نا کرتی۔۔۔ پر ان کی وفادار تھی۔۔۔ ان سے اکتاہٹ نہیں رکھتی تھی ان کے خلاف نہیں تھی وہ اسی نہج پر سوچتے طے کر چکے تھے کے کیا کرنا ہے۔۔۔۔
💖------------💖
"کیا حال ہے وڈیرے صاحب۔۔۔" یہ شازر تھا حیدر کا دوست جو تعلیمی دور سے ساتھ تھا۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے انگلینڈ منتقل ہو گیا تھا۔۔۔ ابھی بھی عزیز کی شادی پر آیا تھا۔۔۔
حیدر کی دوستی بہت کم لوگوں سے تھی۔۔۔ چھوٹی عمر میں رتبے اور زمداریوں نے انہیں ان سب چیزوں سے دور کردیا تھا۔۔۔ شاہزر ہی وہ دوست تھا جس کے ساتھ نے حیدر کو نئی سوچ دی تھی۔۔۔ شاہزر کے علاوہ رائنأ تھی جو ان کے آگے تھوڑا بولتی تھی۔۔۔
"میں بلکل ٹھیک۔۔۔ تم سناؤ۔۔۔" وہ ہشاش بشاش بولے۔۔۔۔
"شادی پر بھی نہیں بلایا یار۔۔۔ ویسے یہ اچانک کیسے دل میں پھول کھل گئے۔۔۔۔؟
حیدر نے اسکو رائنا کو پہلی بار دیکھنے اور پسند کرنے کا واقعہ بتایا۔۔۔ باقی حصہ انہیں مناسب نا لگا تھا بتانا۔۔۔
"بہت خوش ہوں کے تجھے ایک ہمسفر مل گیا۔۔۔ پر بھابھی کیلیے ماحول وغیرہ نیا ہوگا۔۔۔ تیری نرمی اور کوآپریشن سے ہی انہیں آسانی ہوگی۔۔۔" وہ سالوں بعد ملنے پر بھی نصیحت کرتا بولا
"چل اب گھور مت۔۔۔" ان کے مصنوعی گھوری پر بولا تو دونوں ہنستے اندر چل دیے۔۔۔
💖------------💖
"بتا کب سے کب سے تھا یہ گند۔۔۔؟
"وہ اسے بالوں سے پکڑے گھسیٹتا حقارت سے دیکھتا بولا۔۔۔
Baqi aaendah.......💞
[#Kidnapping_Feudal_System_Romantic_Based_Novel]
[#Intzar_E_Ishq]💞
[#Maryama_Shaikh](💞
[#Episode_13]💞
Please don’t copy paste without my permission📌📌
-------------------------------------
"بول ۔۔۔(گالی) میں تجھ سے بک رہا ہوں کچھ۔۔۔ کب سے تھا یہ گند۔۔۔" وہ اب اسے بے دردی سے بالوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہا تھا۔۔۔
"سس۔۔سا۔ئیں ۔۔ننن۔نہں ۔۔پپپ۔۔پتا۔۔۔معا۔۔فی۔۔۔۔" ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں نا کردہ جرم کی معافی مانگتی شہرینہ اب اس کی لاتوں کی زد پر تھی۔۔۔۔
یہاں تک کے وہ بے ہوش ہو گئی وہ اسے مار مار کر تھک گیا۔۔۔ تب اس نے بے ہوش شہرینہ پر توجہ کی۔۔۔ معاملہ سمجھ میں آتے ہی وہ اسے لیے گاڑی میں ہسپتال بھاگا۔۔۔۔
"سرکار یہاں قریبی جو ہسپتال ہے وہاں جائیں گے۔۔۔۔" ڈرائیور نے پوچھا۔۔۔
"نہیں تو کیا اس(گالی)کا اشتہار لگائے گا وہاں چل مڈل کلاسیوں کا عام سا ہسپتال ہے۔۔۔ ہمارے جاننے والے وہاں کون ہوں گے بھلا۔۔۔۔" وہ جھٹک کر بولا۔۔۔۔
"اٹھ جا شہری جلدی ٹھیک ہونا جان۔۔۔" وہ اب بے ہوش شہرینہ کی جانب متوجہ تھا وہ اس کا من پسند کھلونا جو تھی۔۔۔۔
💖------------💖
وہ آج یہ قصہ مکمل طور ختم کرنا تھا۔۔۔ وہ اس وقت شہر کے ایک متوسط علاقے میں بنے کیفے میں تھے۔۔۔۔
ایک فیملی کمپارٹمنٹ بک کیا تھا وہ کوئی خطرہ نہیں چاہتے تھے۔۔۔
جس سے ان کی ازدواجی زندگی کو اور ان کے پولیٹکس میں مستقبل کو ان کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔۔۔
جلد ہی وہ ایاز کے ساتھ براے میں چھپی آتی دیکھائی دی۔۔۔۔
ان کے پہنچنے پر حیدر نے ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
"تم مجھ سے کیو ملنا چاہتی تھی۔۔۔؟ اب کیا باقی ہے ماضی سے۔۔۔؟ اب تک تمہیں متعدد مواقع فراہم کیے گئے۔۔۔
تمہیں ایک نشئی سے بچا کر تمہارا رشتہ ایاز سے کرایا۔۔۔ تمہیں تعلیم کا سنہرا موقع دیا۔۔۔۔ تمہیں اس حرکت کے بعد بھی جب تمہیں وہ شخص جسے سب مان کر ہر شے کو ٹھوکر پر رکھ کر گئی تھی۔۔۔
تمہیں دھول چٹا گیا تب جب تم نے ایاز سے رابطہ کر اپنے بھائیوں کے عتاب سے بچنے کلیے پناہ مانگی۔۔۔۔
تب بھی ایاز نے تمہارا حیدرآباد میں بندوبست کیا مگر تم ویسی کی ویسی رہیں۔۔۔ تم کراچی چلی آئی جانے کہاں رہیں کیسے رہیں۔۔۔ کہ نشے کی لے لگالی۔۔۔
تمہاری بہن نے ایک بار وعدہ لیا تھا کے جب تمہیں مصیبت ہو تمہاری مدد کی جائے۔۔۔ اس بیچاری کو تمہارے بھائی خطرناک لگتے تھے۔۔۔ جبکہ اصل خطرہ تو تم خود تھی اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔۔۔
یہی موقعے تم سے بڑی بہن کو دیے جس کو اس نے تمہاری طرح گنوایا نہیں۔۔۔ مگر تم نے اپنی خواہشات کے ہاتھوں ہر موقع گنوا دیا۔۔۔"
وہ غصے سے بھرپور بنا لگی لپٹی رکھے بے نقط سنا گئے۔۔۔۔ نقاب میں ملبوس سندس نے رونا شروع کردیا۔۔۔۔
"میں بدنصیب کبھی نا سمجھیں کچھ نا سمجھیں سب۔۔۔ سب گنواہ دیا۔۔۔ کھودیا۔۔۔ سب کی مجرم ہوں میں۔۔۔ کراچی گئی تھی میں کیو کے تھک گئی تھی چھپتے چھپتے۔۔۔
وہ میرے بھائی جو میرے خون کے دشمن ہیں۔۔۔ مجھے ڈھونڈتے ہیں۔۔۔ جو پیسے ایاز نے دیے وہ بھی ختم ہوگئے۔۔۔۔
زندگی میں سب ختم ہوگیا۔۔۔ اب اگر ان لوگوں نے ڈھونڈ لیا تو جان سے بھی جاؤں گی۔۔۔"
"یہ سب تمہارے زاتی مسائل ہیں۔۔۔ جو بویا وہ کاٹ رہی ہو۔۔۔۔ اپنے گھروالوں مجھے ایاز رائنا سب کو دھوکہ دیا تھا۔۔۔ تو دھوکہ ہی تمہارا نصیب تھا۔۔۔"
وہ رکے اسے دیکھا پھر دوبارہ گویا ہوئے۔۔۔۔
"یہ نرمل کے زیورات ہیں۔۔۔ جو اس نے مجھے دیے تھے۔۔۔۔ اپنی بیماری کی وجہ سے وہ ہمیشہ اسی اندیشے کا شکار تھی کے وہ زیادہ نہیں جی سکے گی۔۔۔۔
یہ زیورات کی اس نے مجھے وصیت کی تمہیں دینے کی۔۔۔ تمہارے بھائیوں کی بدفطرتی سے ڈرتی تھی وہ۔۔۔ اور تمہارے سے لاعلم تھی بےچاری۔۔۔۔ یہ تمہیں ایازسے تب ملیں گے جب تم رہیبیلیشن سینٹر میں علاج مکمل کراؤں گی۔۔۔۔ اور ڈرگز سے جان چھڑاؤ گی۔۔۔ اور شاید یہ آ خری موقع جو زندگی تمھیں دے رہی ہے۔۔۔ پھر ملے نا ملے اور یہ آخری بار ہے اس کے بعد مجھ سے کوئی امید نا رکھنا۔۔۔"
وہ کہتے اسے روتا چھوڑ اٹھ گئے۔۔۔ گو کے سندس نے اپنی داستان سناتے ڈرگز کا حصہ غائب کردیا تھا۔۔۔۔
مگر ایاز کے زریعے وہ جان چکے تھے پہلے ہی کے سندس ڈرگز کی کے کا شکار بھی ہوگئی۔۔۔
"مج۔۔مجھے رائنا ۔۔۔بڑی۔۔بڑی سرکار ۔۔سے معافی۔۔۔۔"
"ضرورت نہیں ہیں میری بیوی کے سامنے آنے۔۔۔ اس کے زخم کریدنے کی۔۔۔ جب مناسب ہوگا پیغام خود دے دونگا اسے۔۔۔۔ پھر اسکی مرضی وہ معاف کرے یا نہیں۔۔۔ تم سامنے مت آنا۔۔۔"
وہ غصے سے سرد انداز میں کہتے وہاں سے نکلتے چلے گئے۔۔۔۔
پیچھے سندس اپنی حرماں نصیب پر روتی رہی۔۔۔ اور ایاز افسوس سے دیکھتا رہ گیا۔۔۔
وہ اس کی محبت نہیں تھی بچپن کی ساتھی تھی۔۔۔ اس سے چار سال چھوٹی دوست اس کے دھوکے پر وہ ٹوٹا تھا۔۔۔ مگر بکھرا نہیں تھا وہ اسے معاف کر چکا تھا اسے اپنی زندگی میں آگے بڑھنا تھا اور وہ بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
💖------------💖
وہ ہسپتال پہنچ چکے تھے۔۔۔۔ شرجیل ساتھ تھا۔۔۔
شہرینہ کا جو معاملہ تھا ورنہ ایسے کئی کام وہ کئی بار گھر بیٹھے بیٹھے نپٹاتا تھا۔۔۔۔
شہرینہ اس کا من پسند کھلونا تھی۔۔۔ جسے ٹوٹتا جڑتا دیکھنا اس کا مشغلہ تھا۔۔۔
"تم نے وہ کیس دیکھا بےچاری لڑکی کا مس کیرج ہوا ہے۔۔۔۔ مگر اتنے زخم ہیں اور کچھ نئے ہیں کچھ پرانے جیسے کوئی جانے کب سے اسے ہوس کا نشانہ بنا رہا ہو۔۔۔۔ جو لوگ لائے ہیں وہ ان کی فیکٹری میں کام کرتی تھی۔۔۔۔ بقول ان کے ساتھیوں کے سیڑھیوں سے گر گئی ایڈمٹ کیا ہے۔۔۔"
"یہ تو پولیس کیس بنا۔۔۔۔؟" رائنا نے پوچھا۔۔۔
ہائے بڑے لوگوں کی فیکٹری تھی۔۔۔ جہاں کام کرتی تھی یہ وہ خرچا اٹھا رہے ہیں۔۔۔ اور ہسپتال والوں کی بھی جیب بھردی۔۔۔ ایک کال ہی کافی ہوتی ہے ایسوں کی۔۔۔۔ ابھی تم زرا اس کے ریکارڈز وغیرہ دیکھلو۔۔۔۔ کل تو تم رات سے یہاں تھی جلدی چلی جانا بس یہ دیکھ کر۔۔۔"
ڈاکٹر شہزاد جو سینئر تھیں رائنا کو تفصیلات بتاتی روم نمبر 8 میں بھیج چکی تھی۔۔۔۔
وہ ناک کر کے اندر داخل ہوئی تو سامنے موجود شخص جو دیکھ بھونچکا رہ گئی۔۔۔۔
"آپ۔۔۔؟ آپ یہاں کیسے۔۔۔؟"
رائنا کو دیکھ شرجیل کی زمین ہی قدموں سے سرک گئی۔۔۔۔
"آپ بڑی سرکار۔۔۔؟ یہاں یہاں ہوتی ہے آپ کی جاب۔۔۔۔؟" وہ سنمبھلتا بولا اسے اپنی بے خبری پر افسوس ہورہا تھا۔۔۔۔
"جی۔۔۔۔" وہ الجھے لہجے میں بولی پھر پرسوچ نظروں سے اسے دیکھتی پوچھنے لگی۔۔۔۔
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟ "وہ ایک نگاہ بے ہوش شہرینہ کو دیکھتے بولی جو فلوقت دوائیوں کے زیر اثر تھی۔۔۔۔
"یہ یہ لڑکی بھابھی سرکار ہمارے فیکٹری میں کام کرتی ہے۔۔۔۔ اولاد ہونے والی تھی شاید پتا نہیں۔۔۔۔ ہسپتال والوں نے بتایا ابھی بے چاری کا شوہر بھی ظالم ہے۔۔۔۔ اب اس حال میں آئی فیکٹری جانے کیسے گر گئی۔۔۔۔ یہاں کہاں علاج ہونا تھا۔۔۔۔
پولیس کیس بننا تھا یہ غریب پس جاتی۔۔۔ اسی لیے معاملہ سنبھالنے چلا آیا۔۔۔۔ چلتا ہوں اب بھابھی سرکاراللہ حافظ۔۔۔۔" وہ کہتا نکل گیا۔۔۔۔
اسکی اتنی لمبی وضاحت نے اسے شش و پنج میں مبتلا کردیا۔۔۔۔"
یہ کب سے اتنے ہمدرد ہوگئے فیکٹری کی ایمپلاوئی کلیے وہ بھی۔۔۔ گھر کے حالات تک پتا ہیں اپنے بیٹوں کا اسکول بھی شاید نا پتا ہو عجیب معاملہ ہے۔۔۔"
وہ اسی نہج پر سوچتی کام نپٹانے لگی۔۔۔
💖------------💖
سعود نے اس لڑکی محض ایک جھلک ہی دیکھی تھی۔۔۔ مگر اسے یہ وہی لگ رہی تھی جس کو کب سے ڈھونڈھ رہا تھا۔۔۔
رات کو اس شخص نے (رشیدکا پڑوسی) اسے فون پہ بتایا کے اس کا جاننے والا جو شیدے کا دوست تھا۔۔۔
اس نے پتا لگایا ہے کے شیدا دو سال پہلے ہی لڑکیا بیچ چکا تھا۔۔۔ پھر سارا پیسا جوا میں اڑا کر اب شاید کسی ہسپتال میں بھرتی ہے۔۔۔۔
جانے اس کے ساتھ کیا ہوا ہے حالت خراب ہے۔۔۔"
یہ خبر سعود کے قدم اکھیڑ چکی تھی اب کیسے ملنی تھی۔۔۔ بھلا وہ لڑکیاں وہ مایوس تھا مگر آج امید پکی کرن نظر آگئی تھی۔۔۔ اس کی یاداشت بہترین تھی اور چہرے وہ کبھی نہیں بھولتا تھا۔۔۔
💖------------💖
رائنا گھر آگئی تھی۔۔۔ وہ کافی تھکی ہوئی تھی بی اماں سے مل کر اس نے پہلا کام سونے کا کیا تھا۔۔۔
حیدر کی آمد رات کومتوقع تھی۔۔۔ اور وہ سونا چاہتی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر تاکہ فریش ہو ان کی آمد تک۔۔۔ اسے اچھا لگتا تھا ان کے لیے تیار ہونا۔۔۔۔ ان کی توجہ ،سن کر تعریف ،دل کا طرز بدل گیا تھا۔۔۔ اور وہ ہنوز لاعلم تھی۔۔۔۔
💖------------💖
"رائنا نے دیکھا تمہیں تمہیں ضرورت ہی کیا تھی جانے کی۔۔۔۔" بی اماں پریشان تھیں رائنا گل رخ یا آمنہ نہیں تھی جسے بہلایا یا ڈرایا جاتا۔۔۔
پریشان وہ بھی تھا آج ویسے بھی حیدر نے آنا تھا۔۔۔ اور اگر رائنا نے بتا دیا تو۔۔۔؟ مگر اس کے پاس حل تھا شیطانی حل۔۔۔۔
اس نے موبائل میں ویڈیو لگا کر بی اماں کو دی جس میں رائنا ایک نہایت سوکھے سے مریض کی جنرل ایگزامنیشن کر رہی تھی۔۔۔۔
"اس میں کیا ہے ایسا علاج کر رہی ہے وہ حیدر کو بھی پتا ہے۔۔۔" بی اماں بے زار ہوئیں۔۔۔
"ہاہاہا۔۔۔ جانتا ہوں مگر عورت کو جب توڑنا ہو تو پہلا حملہ اس کے کردار پر کرو۔۔۔۔ یہ آ خری ہوتا ہے۔۔۔ ابھی حیدر سرکار دیکھیں گے۔۔۔ تو جاننا کے علاج کرتی ہے۔۔۔ الگ بات ہے اور دیکھنا الگ۔۔۔ پھر اس پر آپ کا میرا تڑکا۔۔۔ اور خاندان کی عزت کے داؤ پے لگنے کا مصالحہ۔۔۔ بڑی سرکار کے پر کاٹ دے گا۔۔۔ کچھ نا بھی ہو تب بھی اس کے بعد اگر وہ میرے بارے میں کچھ بتائیں گی۔۔۔ تو سرکار یہی سمجھے گے عورت زات بغض نکال رہی ہے۔۔۔"
وہ اپنا شیطانی پلان سناتا انہیں دیکھنے لگا۔۔۔۔
"بس بس زیادہ مت اڑو شرجیل سائیں۔۔۔ کرو جو کرنا ہے۔۔۔ بس حیدر کی خوشیوں کو آنچ نا آئے۔۔" وہ تنبیہہ کرتی بولیں تو شرجیل سر ہلاتا ہنسنے لگا۔۔۔
💖------------💖
وہ سب اس وقت بی اماں کے گرد جمع تھے۔۔۔ شام کی چائے کا اہتمام تھا۔۔۔ کافی دیر سب خوشگوار ماحول میں بیٹھے۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ رخصت لیتے اپنے اپنے کمرے میں چل دیے۔۔۔۔
اس دوران شرجیل بھائی کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو تناؤ کا شکار تھے۔۔۔۔ اس کے دل کا چور دھڑکا لگا گیا۔۔۔ اس نے میاں بیوی کے درمیان شیطان بننے کی ٹھان لی۔۔۔۔ اب بس تیلی لگانی تھی۔۔۔
سب اٹھ چکے تھے بس شرجیل حیدر اور رائنا تھے۔۔۔ بی اماں کے ساتھ رائنا بی اماں کا بلڈ پریشر دیکھ رہا تھی۔۔۔ حیدر نے فخر سے اسے دیکھا۔۔۔
شرجیل نے پتا پھیکینے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔۔
"بھابھی سرکار کافی اچھی معالج ہیں۔۔۔ مگر ہر چیز رتبے کے حساب سے جچتی ہے۔۔۔"
اس کی بات پر جہاں حیدر کی تیسری چڑھی وہیں۔۔۔ رائنا کے اپنا سامان سمیٹتے ہاتھ۔۔۔۔ رکھ بی اماں کا دل ہولا۔۔۔۔ سوچا روک دے آنکھ کا اشارہ بھی کیا مگر وہ کہاں سنے والا تھا۔۔۔۔
"اب دیکھے بڑے سرکار کی بیگم اور ایسے کام شرم کا مقام ہے۔۔۔۔ خاندان کے لیے کہتے اس نے موبائل پر ویڈیو لگائی۔۔۔ جس میں رائنا ایک سوکھے سے مریض کی گردن کی گھٹلیاں ہاتھ سے چیک رہی تھی۔۔۔۔ دیکھا جائے تو صاف پتا لگ رہا تھا کے وہ محض کام کر رہی ہے۔۔۔۔ مگر ایک گندا زہن گندگی اگل چکا تھا۔۔۔۔ رائنا حیدر کے ہاتھ میں موجود موبائل کو دیکھا جو بنا کسی تاثر کے دیکھ رہے تھے ویڈیو۔۔۔۔
"حیدر کیا ہے اس میں۔۔۔۔" وہ پریشان ہوئی تھوڑا سا اتنا تو سمجھ گئی تھی کے اس کی زات پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔۔۔
"تم نے بی اماں کو چیک کر لیا۔۔۔۔"؟ ان کے اس سوال پر وہ مزید الجھی۔۔۔
"جی پر۔۔۔"
"بس تم اب جاؤ کمرے میں اور صبح ہوسپٹل کی تیاری کرو۔۔۔"
'مگر۔۔۔"
"جاؤ شاباش" سرد لہجہ اسے جانے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔
شرجیل نے حیدر کا تنا چہرہ دیکھا جو ضبط سے سرخ ہو رہا تھا۔۔۔۔ اسے پلان کامیاب ہوتا لگا اب بھابھی سرکار کے پر کٹیں گے۔۔۔۔
"حویلی کی بڑی سرکار سچ ،کہہ رہا ہوں یہ کام مناسب نہیں ہے۔۔۔" وہ مزید تیل چھڑکتا بولا بی اماں خاموشی سے حیدر کا جائزہ لے رہیں تھیں۔۔۔ جن کی نظریں تو شرجیل کے آ ئیفون پر تھیں چہرہ غصے کی شدت سے سرخ یقینا رائنا کی شامت آنی تھی انہیں زرا دکھ ہوا مفت میں بیٹھے بیٹھے" ۔۔
چچ بیچاری۔۔"
"ٹھاہ " زوردار آواز آئی حیدر نے پوری قوت سے سیل فون کھینچ کر اس دیوار پر مارا تھا۔۔۔ جس کے آگے شرجیل کی کرسی رکھی تھی۔۔۔ بی اماں سکتے میں چلی گئیں ،وہ اب آگے بڑھے اور شرجیل کے کھلے گریبان والے کاج میں انگلی پھنساتے اسے کھڑا کیا اور کھینچا۔۔۔۔
" ہر عورت کو ایک ہی ترازو میں تولنا چھوڑ دو ،وہ عورت جس کی تم بات کررہے ہو میری بیوی ہے۔۔۔ تمہاری جرات کیسے ہوئی اس پر جاسوسی کرنے کی کیا کر رہے تھے وہاں۔۔۔" وہ دھاڑے۔۔۔
"بھائی سرکار میمم۔۔میں بس فیکٹری کے ملازم کی خیریت۔۔۔"
"فیکٹری کے ملازم کی خیریت اور تم۔۔۔۔؟"وہ استہزایہ بولے۔۔۔۔
"زبان اور دماغ کا استعمال صحیح سے کیا کرو یہ نا ہو کہ ۔۔۔مجھے بھولنا پڑے کے تم سے میرا رشتہ کیا ہے۔۔۔۔"
وہ ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتے بولے وہ بدحواس سا کرسی پر گر گیا بی اماں تک کو چپ کا روزا لگ گیا تھا۔۔۔
"یہ گریبان بند رکھا کرو شریفوں کے طور طریقے اپناؤ
تمہاری معزرت کا انتظار کریں گی تمہاری بھابھی سرکار۔۔۔"
وہ جاتے جاتے پھر رک کر اس کے شانے پے دباؤ ڈالتے بولے شرجیل کو ہڈی ٹوٹتی لگی۔۔۔
"ججی ۔۔بھائی سرکار۔۔۔" وہ کہلایا تو وہ کمرے سے نکلتے چلے گئے۔۔۔
دروازے پر کسی کام سے آئی آمنہ نے سب دیکھا وہ ہکا بکا کھڑی تھی۔۔۔ بی اماں سر ہاتھوں میں دیے بیٹھے تھیں شرجیل نے آمنہ کو دیکھا تو کھسیانی ہوئے گریبان صحیح کرتا اٹھا اور باہر چلا گیا۔۔۔
آمنہ کو رائنا کی قسمت پر رشک کے ساتھ ترس بھی آیا۔۔۔۔
کے کہاں وہ اچھی خاصی پرسکون زندگی سے یہا ں کی سیاستوں میں پھنس گئی۔۔۔ رشک اس لیے کے اس کے ساتھ اس کے ہمسفر کا ساتھ تھا۔۔۔۔
💖------------💖
وہ پل پل ازیت میں تھی اس پر کسی نے اس کے مقدس پیشے کو نشانہ بنا کر کیچڑ اچھالا۔۔۔۔ اور اس کے ہمسفر نے کسی وضاحت کے بنا اسے جانے کو کہہ دیا۔۔۔۔
اسے رونا پسند نہیں تھا مگر شاید یہ حویلی کے درودیوار کو پسند تھا۔۔۔۔ روتی ہوئی حویلی والیوں کو دیکھنا۔۔۔
اس نے آنسو صاف کیے ڈریس چینج کیا اور سونے لیٹ گئی۔۔۔۔ اس کا کوئی ارادہ نا تھا حیدر کو دیکھنے کا۔۔۔
💖------------💖
سعود نے آج دوبارہ ڈاکٹر رودابہ سے کہہ کے نائٹ ڈیوٹی لگوائی تھی۔۔۔
اس کا ارادہ آج ہی اپنے شک کی تصدیق کرنے کا تھا۔۔۔ وہ اب اس پرائیوٹ کمرے کی جانب بڑھا جس میں وہ لڑکی تھی۔۔۔
"ڈاک ڈاکٹر صاب کہاں جارہے رہے ہو۔۔۔؟ ادھر پردہ ہے صرف لیڈی ڈاکٹر ہی آسکتی ہے۔۔۔" وہ ایک گنوار سی ملازمہ تھی جو اس لڑکی کی اٹینڈینٹ تھی۔۔۔
"بی بی تمہاری بی بی کو ضرورت ہے ویکسین کی اور لیڈی ڈاکٹر تو ہیں نہیں کوئی۔۔۔"
"کوئی نہیں ہیں، اتنی سار ی ابھی دیکھی ہیں۔۔۔"
"ہیں پر وہ دوسرے وارڈ کی ہیں یہاں کا میں ہوں اماں فکر مت کریں۔۔۔ میں آپ کی بیبی کا علاج کرنے آیا ہوں۔۔۔ آپ ایسا کرو یہیں بیٹھ جاؤ میں دیکھوں گا تب تک بی بی کو۔۔۔"
وہ باتو کا شیر تھا گول جلیبی جیسی گفتگو میں ملکہ حاصل تھا۔۔۔ وہ عورت شیشے میں اتر گئی اور مان گئی لڑکی نیند میں تھی۔۔۔ کافی دیر وہ ایسے برتاو کرتا رہا جیسے بڑا کام کر رہا ہو فائلز میں منہ چھپائے کھڑا تھا۔۔۔
عورت مطمئن ہوگئی تو اس نے ایک اور پتا پھینکا"
اماں صبح سے یہاں ہو ،کچھ کھایا پیا ہے ایسا کرو کچھ کھاؤ پیو بی بی کے اٹھنے سے پہلے۔۔۔
"ہمدردی کا چارہ ہو اور سامنے غریب مظلوم انسان نا پھنسے ممکن نا تھا صبح کی تھکی ہاری عورت کیسے نا پھنستی بھلا۔۔۔
"ہائے پت سچ کب سے بھوکی ہوں پر بیبی اٹھ گئی تو ؟" وہ تذبذب کا شکار تھی۔۔۔۔
"ارے آپ جاؤ بی بی اٹھی تو میں کہہ دوں گا کام سے میں نے بھیجا ڈاکٹر کے آگے نہیں کہے گا کوئی کچھ۔۔۔"
ایسا ہمدردانہ لہجا عورت نہال ہوگی۔۔۔
"جیوندا رہ میں گئی اور آئی۔۔۔" وہ بلائیں لیتی رخصت ہوئی سعود فاتحانہ مسکرایا
"ٹیلنٹڈ آدمی ہوں میں۔۔۔" خود کو سراہتے لڑکی کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔
اسے اٹھایا ہاتھ سے ہلاکر۔۔۔
شہرینہ نے آنکھیں کھولتے ہی جو ایک ڈاکٹر کے لبادے میں شخص کو اتنی رات کو کھڑے پایا تو ڈر گئی۔۔
جانتی تھی یہاں اس کمرے مرد منع ہیں۔۔۔
اس سے پہلے وہ چیختی یا کچھ بولتی اس نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے موبائل میں تصویر نکال کر دیکھائی۔۔۔
"یہ تم ہو نا۔۔۔؟ رشید احمد کی بیٹی سائرہ خاتون کی بیٹی۔۔۔ میں افضل تمہارے ماموں کا بیٹا ہوں۔۔۔ انہوں نے بھیجا ہے مجھے تمہیں اور تمہاری بہن کو ڈھونڈنے۔۔۔" وہ ایک ہی سانس میں سب بتاتا چلا گیا اسے اس عورت کے لوٹنے کی فکر تھی۔۔۔
اس نے اب شہرینہ کے منہ سے ہاتھ ہٹایا۔۔۔
" بڑے جلدی ہوش آیا ماموں جان کو جب ہماری ماں گزر گئی ہم بک گئے بازار کی زینت بن گئے۔۔۔۔" وہ زہرخند ہوئی۔۔۔۔
"چھوڑو یہ شکوے یہ وقت نہیں ہے کس نے خر۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں میرا مطلب۔۔۔ " وہ لفظ زبان پر لاتے جھجکا۔۔۔۔
"شرجیل بخت بہت طاقتور ہے۔۔۔ جانور ہے۔۔۔ یہ جو یہاں پہنچی ہوں نا اس حال میں ٹوٹتی ہڈیوں کے ساتھ یہ دو سالوں میں کئی بار ہوا ہے۔۔۔" وہ بہت مظبوطی سے بولی۔۔۔
"اسی لیے بھاگ جاؤ یہ معاملے ایسے نہیں سنمبھلنے۔۔۔۔"
"تم بچنا نہیں چاہتی کیا۔۔۔" وہ زچ ہوا۔۔۔
"میری فکر چھوڑو تکے نہیں مارتا میں یواس نیشنل ہوں ایمبسی میں پناہ لے لوں گا۔۔۔۔"
"تم بتاؤ کیا تمہاری بہن بھی۔۔۔؟"
"نائیکہ نے مجھے شرجیل کو بیچا تھا تب میں نے منت کی تھی۔۔۔ کہ فلک کو پڑھنے دے وہ ہوسٹل میں ہے۔۔۔"
شہرینہ نے اسے فلک کے ہوسٹل کا نام بتایا۔۔۔
"تم اسے یہاں سے لے جاؤ میں بس اب مر کر ہی نکل سکتی ہوں۔۔۔"
" وقت سے پہلے باتیں کرنا بے وقوفی ہوتی ہے یہ میرا نمبر پکڑو کوئی آرہا ہے۔۔۔ سوتی بن جاؤ جلدی سے۔۔۔"
وہ آہٹ محسوس کرتا بولا تو شہرینہ سوتی بن گئی۔۔۔
"آگئیں اماں۔۔۔ "وہ عورت کو دیکھ خوشدلی سے بولا۔۔۔
"ہاں الحمدللہ کھانا کھایا پیٹ بھر کر جیوندا رہ اتنی ڈاکٹر آئے صبح سے کسی کو اماں کا خیال نا آیا بڑا ہی نیک ہے۔۔۔"
"ارے اماں جب تک ہو بتانا جب ضرورت ہو۔۔۔ تمہاری بی بی کو ٹیکا لگا دیا ہے کب کا بس تمہاری وجہ سے رکا تھا۔۔۔"
وہ اب اسے احسان مند کر رہا تھا جو وہ ہوگئی اور اب دعا ختم ہونے کا نام نا لے رہی تھیں۔۔۔
💖------------💖
وہ کمرے میں آئے تو وہ رات کا لباس پہنے سوتی بن رہی تھی۔۔۔
وہ جانتے تھے وہ جاگ رہی ہے۔۔۔ بدگمان ہے ناراض ہے مگر فلحال انہونے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔۔
"اپنے وکیل پر تھوڑا اعتبار کرو جان حیدر۔۔۔" کہتے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا کوئی جنبش نا پاکر گہرا سانس بھرتے کروٹ بدل لی۔۔۔
انہیں یقین تھا صبح کا اجالا اس کی بدگمانی کے اندھیرے کو بھی چھٹا دے گا۔۔۔
جب کے رائنا یہ لاپرواہی دیکھ مزید بدگمان ہوگئی۔۔۔
💖------------💖
وہ صبح اٹھے تو وہ تیار کھڑی تھی۔۔۔ ان کی تیاری کے دوران بھی وہ ہاتھ جھاڑے دور کھڑی تھی۔۔۔
"رائنا کوٹ دو۔۔۔" وہ آخر بول پڑے۔۔۔
اس نے میکانکی انداز میں ان کی جانب ہینگر بیڈ سے اٹھا کر بٹھا دیا۔۔۔
"یاداشت کمزور ہے۔۔۔؟
پہناؤ۔۔۔" حکمیہ لہجا اسے آگ لگا گیا۔۔۔۔ پھر کچھ سوچ کر آگے بڑھی اور پہنا دیا۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ کوئی اور فرمائش کرتے وہ فوراً سے پیشتر باہر نکل گئی۔۔۔۔
حیدر کا دماغ سلگ گیا مشکل سے قابو پاتے وہ باہر گئے۔۔۔۔
💖------------💖
وہ ناشتے کے بعد بی اماں کے پاس بیٹھے تھے۔۔۔
رائنا روز بی اماں کا بلڈ پریشر چیک کرکے دوائی دے کر ہی ہوسپٹل جاتی تھی۔۔۔ وہ دونوں وہیں تھے بی اماں خاموش تھی کل والے واقعے نے انہیں محتاط کردیا تھا۔۔۔
تبھی شرجیل چلا آیا رائنا جلدی جلدی سامان سمیٹ اٹھنے لگی تھی کہ۔۔۔۔
حیدر نے ہاتھ تھام کر روک دیا وہ شکوہ کناں نظروں سے دیکھ کر رہ گئی۔۔۔
"بھابھی سرکار۔۔۔! میرا کل مطلب آپ پر انگلی اٹھانا نہیں تھا۔۔۔ میں بس کہہ رہا تھا کے آپکی شان زیادہ ہے ان کاموں سے۔۔۔" شرجیل دل پر پتھر رکھ کر گویا ہوا وہ حیدر کی خفگی افورڈ نہیں کرسکتا تھا یہ اس کی مجبوری تھی۔۔۔۔
"میں غلط تھا آپ قابل احترام ہیں معز۔۔معز۔۔معزرت چاہتا ہوں۔۔۔۔" کسی عورت سے معذرت کرنا شرجیل کو بے غیرتی لگتی تھی۔۔۔۔ ہائے مجبوری سامنے کھڑی عورت سے معذرت ضروری تھی۔۔۔۔
رائنا جو سر جھکائے لب بھینچے تھی چونک کر سر اٹھایا۔۔۔ اس نے حیدر کو دیکھا جو لاتعلق سے بیٹھے تھے۔۔۔ وہ جان گئی تھی کہ یہ یقیناً حیدر کی بدولت ممکن ہوا ہے۔۔۔۔۔
"اس کا مطلب کل جو رات کو وکیل والی بات ۔۔۔
اوہ۔۔۔" وہ سوچتی اب سب سمجھ گئی تھی۔۔۔۔ اچانک اس نے چونک کر دیکھا حیدر کی گرفت اس کے ہاتھ پر بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
وہ سمجھ کر گہرا سانس بھرتی گویا ہوئی۔۔۔
"جو جو ہونا تھا ہوگیا ،ڈاکٹر مرد عورت دیکھ کر علاج نہیں کرتا۔۔۔ مریض دیکھ کر کرتا ہے ،کسی پر تہمت لگانا بہت بڑا گناہ ہےصد شکر آپ کو احساس ہوا شرجیل بھائی دھیان رکھیے گا۔۔۔"
وہ کہتی کھڑی ہوئی تو حیدر بھی کھڑے ہوئے صم بکم بیٹھی بی اماں سے پیار لیا شرجیل کا کندھا تھپکا (جو پیچوتاب کھا رہا تھا پہلی بار ایک عورت کی اتنی سنی تھی ) اور رائنا کو چلنے کا اشارہ کرتے سگے بڑھ گئے۔۔۔
رائنا نے خود سے آگے چلتے اکھڑے اکھڑے" وکیل " کو دیکھا جس کے کام باتیں طریقے سب اس کی سمجھ سے پرے تھے۔۔۔۔
💖------------💖
وہ آمنہ کی باتوں کے زیر اثر تھی دماغ دہری کفیت کا شکار تھا بہرحال آرام کرکے حالت بہتر ہوئی تو اس نے بڑا سوچتے آمنہ کی بات پر عمل کرنے کا سوچ ہی لیا۔۔۔۔
اب وہ ڈارک گرین اور بلیک کومبینیشن کے جوڑے میں ہلکا ہلکا سا نو میک اپ لک کیے ریڈی تھی کانوں میں وہ آویز ے جو شاید حیدر کو پسند تھے۔۔۔ کیونکہ وہی لائے تھے جو بھاری ہونے کی بنا پر اسے پسند نا تھے مگر آج پہن ہی لیے۔۔۔
بال کھولے وہ ریڈی تھی ،تبھی رکھی اطلاع دینے آئی "بیبی سرکار بڑے سرکار آگئے بی اماں بلارہیں ہیں"
"ہاں آئی ،تم نے سب سامان تیار کر لیا چائے کے ساتھ "
"جی جو آپ نے بولا تھا کرلیا"
وہ گہری سانس بھرتی چل دی۔۔۔
💖------------💖
وہ کمرے میں آکر کوٹ اتارنے آگے بڑھی تو انہونے ہاتھ سے روک دیا اور اس کے نکالے کپڑے چھوڑ کر خود کپڑے نکال کر باتھروم میں گھس گئے۔۔۔
رائنا نے ہار مان لی پورا وقت باہر بھی اسے نظر انداز کیا تھا۔۔۔ اور اب بھی یہی حال تھا۔۔۔
"ناراض وکیل کو کیسے مناؤں"وہ سوچتی پریشان ہوئی۔۔۔۔
وہ باہر آگئے تھے مگر اس پر کوئی توجہ نا تھی
آخر وہ دل کڑا کر کے آگے بڑھی۔۔۔
"ناراض ہیں آپ " کوئی جواب نا آیا۔۔۔
"حیدر " اب پھر پکارا وہ نظر انداز کرتے آگے بڑھے۔۔۔
"حیدر پلیز" اب کے آگے آگئی پریشان پریشان چہرہ سجا سنورا سراپا سب منانے کی ہی کوشش تھی۔۔۔۔
"حیدر ناراض نا ہو میں نہیں سمجھی تھی "
۔۔۔۔۔۔۔بھول جائیں پلیز ۔۔۔"
انہوں نے ایک لمحہ دیکھا اور پھر ہاتھ سے پکڑ کر قریب کیا۔۔۔۔
"اس سب کا فائدہ نہیں رائنا جب رشتے میں یقین ہی نا ہو ،محبت نہیں کرسکتیں اعتبار تو کرو ،اتنا بےغیرت سمجھتی ہو مجھے کے کوئی میری بیوی پر کیچڑ اچھالے گا میں چپ رہوں گا۔۔۔ نہیں مانگی تھی میں نے تم سے وضاحت اور وجہ صرف اعتبار تھی جو مجھے تم پر ہے "
وہ اسے قریب کیے کہہ رہے تھے۔۔۔
"میں سمجھی نہیں تھی حیدر آپ کا طریقہ پر اعتبار تھا کے آپ نہیں یقین کریں گے سچ میں "وہ وضاحت دیتی بولی۔۔۔۔
"پورا دن سوچتی رہی کے آپ کو کیسے مناؤں مجھے نہیں آتا منانا میں کیا کروں۔۔۔
"وہ روہانسی ہوئی حیدر کے دل نے ہتھیار پھینکے اور اسے قریب کرلیا۔۔۔۔
وہ اس اچانک اقدام پر سٹپٹائی۔۔۔۔
"آئیندہ تم نے اس طرح مجھے رد کیا نا رائنا پھر دیکھنا"
نرم لہجے کی دھمکی پر وہ دور ہوتی شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔۔
"اا آپ ہاتھ اٹھائیں گے ؟" اس کے لیے یہ تصور ہی محال تھا۔۔۔۔
اس کا ہراساں چہرہ حیدر کے لبوں پر مسکان لے ہی آیا۔۔۔
انہوں نے اسے بازوں تھام کر بیڈ پر بٹھایا اور ہاتھ تھام لیے۔۔۔۔
"تم پر ہاتھ تو کیا آواز بلند نہیں کرتا میں کر ہی نہیں سکتا۔۔۔ اور کبھی کروں تو بےشک چھوڑ جانا۔۔۔ ایسے خیالات کہاں سے لاتی ہوں جان من "
گمبھیر لہجہ سچ کہہ رہا تھا کبھی ضرورت پڑنے پر انہونے سختی کی بھی تھی تو بڑی نرمی سے کی تھی ،رائنا نے ان کی وارفتہ نگاہوں سے گھبرا کر نگاہ چرائی۔۔۔۔
"بہت حسین لگ رہی ہو "وہ خمار آلود نگاہیں مرکوز کیے بولے اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔
"مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے رائنا ،اعتبار کا دعوا ہے نا تو بھولنا مت "
اسے یقین دہانی کراتے اسے آہستہ سے سندس کا معاملہ گوش گزار دیا وہ لب بھینچے بیٹھی رہی وہ خود اپنی کفیت سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔
یہ محسوسات عجیب سے تھے اس نے اس شخص کو دیکھا جسے وہ بلکل نہیں جانتی تھی۔۔۔ جو اس کا شوہر تھا اسے اپنا دل اس شخص کی طرف کھینچتا محسوس ہوا۔۔۔
کون سندس کیسی سندس سب کہیں فضا میں تحویل ہوگیا وہ غصہ کرنا چاہتی تھی ان کے اس کی مدد کرنے پر جس نے اسے نقصان پہنچایا تھا۔۔۔ اسے خدشات تھے کیا اس کے ہر گناہگار کو معافی دی جائے گی۔۔۔ اس کے باوجود وہ خود کو ان کی طرف کھینچتا محسوس کر رہی تھی۔۔۔ اس نے اس چہرہ کفیت سے گھبرا کر اٹھنا چاہا۔۔۔ پر حیدر نے اس کے ہاتھ مظبوطی سے تھامے تھے وہ جا نا سکی جا نا چاہتی بھی نہیں تھی بس یہ بات وہ خود بھی جانتی نہیں تھی۔۔۔
"تمہارے ساتھ جو اس نے کیا اس کی کرنی بگھت چکی وہ دھوکے کا جواب دھوکے سے ہی ملا ہے اسے۔۔۔۔ ایک وعدہ تھا جو پورا کیا میں نے وہ وعدہ جو مرحوم بیوی سے کیا تھا۔۔۔ امانت تھی جو لٹائی بس اور کوئی ہمدردی نہیں مجھے اس سے۔۔۔" وہ پہلی بار کسی کو وضاحت دے رہے تھے ،کافی مشکل امر تھا۔۔۔
"کل کو اس کے بھائی آئیں گے معافی مانگیں گے پھر"
وہ خدشات کو زبان دے کر بولی۔۔۔
"تمہیں لگتا ہے ان لوگوں نے واپسی کی کوشش نہیں کی۔۔۔ درخواستیں نہیں آئی۔۔۔۔ سفارشیں نہیں ہوئیں۔۔۔ تمہاری سوچ سے زیادہ شور ہوا۔۔۔ مگر نا فیصلہ بدلا ہے نا بدلے گا۔۔۔ یہ میرے سنبھالنے کی چیزیں جان من مت ہلکان ہو ان میں۔۔۔ تم پر اب کوئی آنچ نہیں آئے گی۔۔۔" وہ اس کے آنسو صاف کرتے بولے۔۔۔۔
"آپ کو بہت پسند تھیں وہ "لہجہ حسد سے پاک تھا بس سوال تھا پھر بھی حیدر کے چہرے پر مسکان لے آیا۔۔۔
"جان حیدر مت پڑو اس سب میں عشق ہو تم میرا مت ہلکان کرو خود کو۔۔۔" وہ اس کے شانوں پر بازو پھیلاتے بولے۔۔۔
"جل نہیں رہی میں بس پوچھ رہی تھی۔۔۔ یہ بات یہ ٹوپک ختم کرتے ہیں حیدر مگر آپ آئیندہ اس سے نہیں ملیں گے۔۔۔ آپ بے شک مدد کیجیے پر ہمدردی نہیں ملاقات نہیں۔۔۔" وہ اچانک عجیب صدی لہجے میں حق جتاتے بولی۔۔۔
"حکم دے رہی ہو۔۔۔"رعب سے پوچھا گیا۔۔۔
"آپ نہیں ملیں گے مانیں گے نا بات۔۔۔" وہ ہنوز اسرار کر رہی تھی بڑی آس سے ہاتھ پھیلائے مان سے حق جتا رہی تھی۔۔۔ حیدر کے دماغ نے کہا چھوڑو عورت ہے سر چڑھ جائے گی دل اس کی وکالت پر اتر آیا۔۔۔ عشق ہے تمہارا تم سے چاہ سے کہہ رہی ہے۔۔۔ رد کرو گے اسے اور دل جیت گیا حیدر نے ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ رضامندی دے دی۔۔۔
وہ مسکرائی نم آنکھوں سے کتنا بھلا منظر تھا وہ بے اختیار ہوئے اور ہاتھ بڑھا کر لٹ کان کے پیچھے اڑس دی۔۔۔
"آہ کون کسے منانے آیا تھا کون کسے منا بیٹھا "وہ سرد آہ بھر کر بولے تو وہ ہنس دی۔۔۔۔
"ہاں تو ٹھیک ہے نا آپ کی زمداری زیادہ ہے"
"وہ کیسے"عجیب منطق تھی بچپن سے سنا تھا شادی نبھانے کی زمداری عورت کی ہے۔۔۔
"دیکھے مرد کو اس رشتے عورت پر فضیلت ہے ،ہے نا، کیو صرف نان ونفقہ کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کے وہ فزیکلی مظبوط ہے عورت سے سمجھدار ہے کیسے ؟ پتا ہے آپ کا بلڈ مجھ سے زیادہ ہے،قوت مدافعت زیادہ ہے،دماغ کی ایک لیئر بھی زیادہ ہے،اپ کی کاٹھی مجھ سے زیادہ مظبوط ہے یعنی پریشر جھیلنے کی طاقت زیادہ ہے ،جبکہ مجھے اللہ نے جزباتی بنایا دماغ کا وہ حصہ جو جزباتی فیصلے کرتا ہے میرا کام کرتا ہے میرے ایموشنز زیادہ ہیں تو اس سب سے پتا چلا کے صبر برداشت کام کرنے کی صلاحیت اللہ نے آپ کو دی ہیں اسی لیے حکمران بنایا اور حکمران کے لیے بڑے سخت رولز بھی دیے اب اتنا سب کچھ ملا ہے تو زمداری بھی زیادہ ہوگی نا حکمرانی پھولوں کی سیج تھوڑی ہے یہ تو کانٹوں سے بھرا رستہ ہے اس لیے میاں بیوی کے رشتے کو نبھانے میں مرد کی زمداری زیادہ ہے ،جیسے اولاد کے معاملے میں عورت کو یعنی ماں کو فضیلت ہے اس کی زمداری باپ سے زیادہ ہے ایسے شوہر کو بیوی پر ایک درجے فضیلت ہے اسی لیے رشتے کو نبھانی کی زمداری بھی اس کی زیادہ ہے" وہ دانشوری سے دلائل سے بات کررہی تھی۔۔۔
وہ دل ہی دل میں کچھ متفق بھی تھے مگر تسلیم صرف دل میں ہی کیا۔۔۔
"تم تو بہت چلاک نکلی رائنا خاتون "وہ اس کی ناک دبا کر بولے۔۔۔
اس نے گھور کر دیکھا اتنی تقریر پر یہ تعریف پھر ان کو مسکراتے دیکھ خود بھی ہنس دی دودن سے چھایا مطلع صاف ہوگیا تھا بدگمانی کے بادل چھٹ ہی گئے تھے۔۔۔
💖------------💖
سعود نے فلک سے قریبی کتب خانے آنے کو کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کے وہ اپنے ڈاکومنٹس لے کر آئے مگر وہ گھنٹہ ہوا لاپتہ تھی اس نے کئی بار کال ملائی مگر کوئی نتیجہ برآمد نا ہوا ،
" واٹ دا ہیل از شی کریزی؟(کیا مصیبت ہے کیا یہ پاگل ہے)
"وہ سخت جھنجھلایا پھر اس کو ٹیکسٹ میسج بھیجا
"پک اپ دا فون اف یو لو یور سسٹر " (فون اٹھاؤ اگر بہن سے پیار ہے تو)
اس کے بعد دوبارہ کال ملائی جو صد شکر اٹھا لی گئی ۔
"شکریہ لیڈی ڈیانا آپ نے کال تو اٹھائی"وہ دانت پیس کر بولا۔۔
"آپ کون ہیں کیو پیچھے پڑے ہیں میرے کیسے جانتے ہیں مجھے میری بہن کو"
"سن ستر کی ہیروئن صاحبہ میں ڈاکٹر سعود آپ کے ل پرانے لاپرواہ اور نئے نئے پرواہ کرنے والے ماموں کا 25 سال پرانا بیٹا ہوں انہونے مجھے آپ کے اور آپ کی بہن کے ریسکیو کے لیے بھیجا جہاں جوب کرتا ہوں وہاں اللہ کے کرم سے آپ کی بہن سے ملاقات ہوئی وہ وہاں ٹوٹی پڑی ہیں اور فکر آپ کی زیادہ ہے ان کا کہنا ہے پہلے آپ کو فرار کرایا جائے اب اگر اطمینان ہوگیا ہو تو آجاؤ ڈاکومنٹس سمیت تاکہ تمہیں روپوش کرانے کی کوشش کر سکوں
"وہ حد سے زیادہ چڑا ہوا تھا "ایک تو یہ کسی کام کو ادھورا نا چھوڑنے کا مرض مجھے کہیں کا نہیں چھوڑے گا"وہ دل میں کلسا۔۔
"میں کیسے مان لوں؟"وہ ہنوز مشکوک تھی
"اب کیسے یقین دلاؤں ؟"
"آپی کہاں ہے"
"بتایا تو ہے ہسپتال میں ہے نہیں کرسکتی کال ٹوٹی پڑی ہے"
"کتنا بے حس ہے" اس کے ایسے بولنے پر وہ سوچ کر رہ گئی
"تمہاری بہن تمہیں اسکولرشپ پر باہر بھیجنا چاہتی ہے "ان "لوگوں سے دور,ہیں نا"
"ہاں آپ کو سچ میں آپی نے ہی بھیجا ہے"اسے اب کے تھوڑا یقین آ ہی گیا کیو کے یہ بات اس کے اور شہرینہ کے ہی درمیان تھی
"ہاں ہاں ہاں "وہ سڑ چکا تھا
"میں ابھی آئی"وہ جھٹ بولی،اور عبایا پہنتی باہر نکلی
💖------------💖
" کیا بنا اس گالی کا ،اب تک بیمار ہے"وہ بدمزہ ہوا شہرینہ کو دیکھنے نہیں جا سکتا بی اماں نے اسے شہرینہ کو وہاں سے نکالنے پر منع کیا تھا اور جانے سے بھی رائنا کے ساتھ ساتھ حیدر بھی مشکوک تھے وہ کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا۔۔
اس نے چڑ کر فون رکھا شہرینہ کو دل ہی دل گالیاں سنائی۔۔
تبھی سامنے سے آتی آمنہ دکھی گورا۔
رنگ ،سوہنے نین نقش ،سڈول سراپا اسے اچھے سے سر تا پیر دیکھنے کے بعد وہ کڑیلے جیسا منہ بنا گیا
"بڈھی"
آمنہ کو اس شخص کے کسی خطاب سے اب فرق نا پڑتا وہ اسے حشرات العرض سے بدتر لگتا تھا جس میں کسی چیز کی کوئی تمیز نہیں تھی حشرات العرض اس شخص سے زیادہ مہذب ہوگے کچھ تو اصولوں ضوابط ہوںگے ان کے وہ اکثر سوچتی
وہ اسے حقارت سے تکتا نکل گیا آج اس کا ارادہ ہیرا بائی کی طرف جانے کا تھا۔۔۔
آمنہ سر جھٹکے فون کی طرف بڑھ گئی اس کے گیارہ سالہ بیٹے کا ہاسٹل سے فون آنا تھا دونو بچے گھر آرہے تھے تیسرا تو اس کے پاس ہی ہوتا تھا وہ چار سال کا تھا اس کی سوکن کا بیٹا مگر آمنہ کے لیے تینوں ایک برابر تھے۔۔
"وعلیکم اسلام ماں کی جان کیسے ہو تم دونوں ماں بیتاب ہے دیکھنے کو"وہ آواز سنتے ہی تڑپی
"ہم ٹھیک ہیں اماں بس کل ڈرائیور کو جلدی بھیجیے گا ،بہت بے چین ہیں آپ سے ملنے کو"اب وہ باری باری متانت بھری آواز میں سب کی خیریت پوچھ رہا تھا
"بیٹا اپنے بابا کا نہیں پوچھو گے"
"ہاں کیسے ہیں وہ"لاتعلقی سے پوچھا گیا وہ پوری کوشش کرتی کے بچے نا جان پائیں مگر اس کی پہلی اولاد بہت سے رازوں کی ہمراز تھی بہت وہ یہ بات ماں پر ظاہر نا کرتا تھا پر قسمت کی ستم ظریفی سے بہت کچھ جان چکا تھا۔۔۔
وہ باپ سے دور رہتا تھا گو کے شرجیل نے خود بھی بچوں پر کبھی ایک جھپی دوپپی سے زیادہ مہربانی نہیں کی تھی۔۔۔
حالانکہ اسی اولاد کے لیے اس نے اپنی سولہ سالہ بیوی کو موت کے گھاٹ چڑھا دیا اس کے تین مسکیرج ہوئے تھے اور ڈاکٹر کی بات کانوں میں اڑادی گئی تھی چوتھی بار وہ جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی تھی اب انہیں بیٹوں کے لیے اس کے پاس وقت ناتھا یہ بھی غنیمت تھا ورنہ تو کہیں بچے باپ ہی کا رنگ نا پکڑ لیتے
اب وہ ماں کو ٹالے دوسری باتوں میں لگا گیا تھا
💖------------💖
فلک سعود کی ہدایت کے مطابق عام سے طریقے سے چلتی بک شاپ پہنچ گئی تھی وہاں پر پہنچ کر اس نے سعود کے قریب شیلف پر کتابیں دیکھنی شروع کی چند ایک باسکٹ میں ڈالیں پھر منصوبے کے مطابق دو تین کتابوں کا سیٹ کاؤنٹر پر دکاندار کو واپس کردیا مہنگا ہونے کا بہانہ کرکے اس نے سعود کی ہدایت کے مطابق اس میں سامان چھپا دیا تھا اب وہ وہاں سے جا چکی تھی سعود نے موقع تاکتے وہ گھٹل خرید لیا گو کے شہرینہ کے مطابق ان دونوں پر کوئی خاص پابندی یا نظر نا تھی کے نائیکہ اور شرجیل دونوں کے مطابق وہ لڑکیاں نہتی اور تنہا تھیں شہرینہ کے سریندر پر وہ پورے مطمئن تھے ان کی جانب سے مگر سعود کے خیال میں ایسے شاطر لوگوں کو ہلکا نا لے کر احتیاط سے کام۔لینس ہی عقلمندی تھی
💖------------💖
آج بچے آرہے تھے رائنا نے دیکھا بھابھی آمنہ نہال تھی پر وہ باپ سرے سے غایب تھا گو کے اسے آمنہ بتا چکی تھی مگر اسے متلق پرواہ نا تھی وہ عیاشی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تھا
دونوں بچے اچکے تھے ایک گیارہ سال کا تھا دوسرا آٹھ سال کا دونوں بہت اچھے سلجھے ہوئے تھے رائنا سے جلد ہی گھل مل گئے انہیں یہ تائی سرکار بڑی پسند آئی تھیں رائنا نے ان کے لیے خود سے اسپیگھٹیس اور پاستا بنایا تھا وہ سب ہنستے کھیلتے ماحول میں بیٹھے تھے کے حیدر چلے آئے شیراز (بڑا بیٹا) اور فراز (چھوٹا)بھاگ کر ان کی طرف گئے اور گلے لگے انہوں نے ایک باپ کی طرح ان سے ان کے معمول دریافت کیے ،شیراز جب سے آیا تھا باپ کو نگاہیں تلاش رہیں تھی گو منہ سے نا کہتا تھا مگر ۔۔۔باپ کو یاد کرتا تھا اس کا جی چاہتا تھا اس کے ابو بھی اس کے ساتھ وقت گزاریں اس کی ماں کی عزت کریں وہ نارمل خاندان جیسے ہوں، مگر قسمت ،اب حیدر کی بھرپور توجہ سے وہ کھل اٹھا ابھی بھی وہ تیسرے کو گود میں چڑھائے باقی دونوں کوگھیرے میں لیے حال احوال پوچھا رہے تھے
رائنا نے اس خوبصورت منظر کو دل کے ساتھ ساتھ تصویر کی صورت میں بھی محفوظ کر لیا ،وہ عقیدت سے حیدر کو دیکھ رہی تھی ،اسے اپنی ماں کی بات یاد آئی جو وہ اکثر کہتی تھی کہ شادی اس سے کرنی چاہیے جو "فیملی مین " ہو جو رشتے نبھانے اور ان کی قدر کرنا جانتا ہو اس کے والد بھی ایسے تھے آج اسے حیدر کو دیکھ بھی یہی خیال آیا اس نے اپنے "فیملی مین " کی سلامتی کی دعا کی۔۔۔۔
💖------------💖
نیا نیا یونی میں ایڈمیشن ہوا تھا ڈی فارمیسی کے پہلے سال میں وہ ہوا میں اڑ رہی تھی ،حجاب باندھیں چال میں اعتماد لاتی وہ یہ نئی دنیا دریافت کرنے نکلی تھی وہ پڑھائی میں بہت تیز نہیں تھی مگر لگن تھی اس کے چچا نے خرچا اٹھانا کا عندیہ کیا اس کی اسی لگن کو دیکھ کر مگر وہ بھی میرٹ پر ہی پڑھا سکتے تھے اور میرٹ پر نا اس کا ایم بی بی ایس میں ہوا نا بی دی ایس میں وہ اداس تو ہوئی پر چچا اور چچی نے ہمت بندھائی کے یہ نہیں تو فارمیسی میں لے لو کراچی یونیورسٹی کا ٹیسٹ دیا اور چن لی گئی ابا پریشان تھے خاندان میں صرف چچا ہی روشن خیال تعلیم پسند تھے انہونے جب لڑکی میں لگن دیکھی تو پڑھائی کا خرچا اٹھانے کا فیصلہ کیا اور گھر میں جگہ بھی ۔اس نے بھی یہ سنہری موقع نا گنوانا چاہا اور ابا کو منا ہی لیا اولاد کا راشن مستقبل کسے کھلتا ہے بھلا ابا نے بھی کمر کس لی مگر خاندان اللہ کی پناہ ایسی کاوں کاوں مچی کے حد نہیں مگر یہ دنیا تو بڑے بڑے مثالی رہنماؤں کو نابخشتی تو یہ کونسے کھیت کی مولی تھے ،اگے بڑھنے کا جذبہ سب سیکھا دیتا ہے خصوصاً جب نیت نیک ہو اللہ ایسے نادر موقع سب کو نہیں دیتا تو بس سکینہ عمر آگئی یونیورسٹی
💖------------💖
اس کے دن بہت اچھے گزرے رہے تھے یونی کا ۔احول بھی اچھا تھا چند ایک گندے مینڈک تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں کیا شہر کیا گاؤں وہ بہت حیران تھی یہ دنیا اس دنیا سے مختلف تھی جو اکثر ڈراموں کہانیوں میں دیکھاتے تھے نا تو وہ کلاس کی واحد حسین لڑکی تھی گو کے وہ تھی حسین نا ہی اب تک کوئی لڑکا اس کے راستے میں آیا نا ہی کسی نے حد سے بڑھی ریگنگ کی نا ہی کسی نے اس کے حجاب کا مزاق بنایا اور ناہی وہ واحد حجابی تھی وہاں ۔سب زیادہ تر اپنے کام سے کام رکھ رہے تھے ایک آدھ گروپ بھی لوگوں نے قائم کیے تھے۔۔وہ فلحال سب کچھ بغور دیکھنے کی کوشش کررہی تھی بہرحال وقت اچھا گزر رہا تھا۔اج جب وہ یونی کے بعد باہر نکلی تو کسی لڑکے سے ٹکرا گئی ان دونو ں نے ہی خجالت سے معزرت طلب کی اور اس نے سکینہ کی کتابیں اٹھا کے دیں اور دونوں اپنے اپنے راستے ہو لیے ،مگر دو آنکھوں نے یہ منظر اپنے طریقے سے لیا وہ ابھی آگے پہنچی ہی تھی کے کسی نے خود کو تھڑد کلاس فلم کا ہیرو سمجھتے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا وہ ہڑبڑائج چلاتی اس سے پہلے ہاتھ منہ پر رکھ کر آواز کا گلا گھونٹا اور جیپ میں پھینکنے کے انداز سے ڈالا
"یہ کیا بدتمیزی ہے دانیال بھائی میں کوئی زرخرید ہوں آپ کی ایسے کون سلوک کرتا ہے بھلا ،اور آپ یہاں آئے کیو ؟"وہ چیخی
"آواز ہلکی کرو وہ چیخا عورت ہو عورت ہوکر چیخی کیسے؟"وہ دھاڑا
"گلے سے چیخی آپ مجھے ایسے ماریں گے پھینکے گے تو چیخوں بھی نا"وہ آنسوں پیتی بولی
"ہاں کروں گا ایسا اور خبردار جو تم کچھ بولی تو کیا سوچ کر انکار کیا رشتے سے لنگڑا ہوں لولا ہوں ،عیاش ہوں کھاتا کماتا نہیں ہوں بولوں وہ اب اس کامنہ دبوچے بول رہا تھا
"مجھے پڑھائی کرنی ہے اور آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی میں آپ کیو نہیں سمجھتے"
وہ بمشکل دکھتے منہ سے بولی
دانیال نے اپنی سحر انگیز آنکھیں اس پر گاڑیں "ادھر دیکھو پہلی بار جب تمھیں خالہ نے گود میں دیا تھا نا تب سے سب تمہیں میری گڑیا کہتے ہیں تمہاری آنکھیں ،وجود ،سب میرا ہے "وہ اسے چھوتا بولا اور یہ لمس اس کے وجود میں انگارے بھر گیا وہ کلستی پیچھے ہوتی گئی اور دانیال وہ ہنسا "ہائے تمھاری ادا جانم"اس کی دلکش ہنسی سکینہ کو رلا گئی
"میں گڑیا نہیں ہوں انسان ہوں مجھے بھی حق ہے پسند کا آپ کی پسند کا احترام اپنی جگہ مجھے بھی اپنی زندگی پر حق ہے اس میں جبر جائز نہیں"وہ ڈر بھگاتے سسکیاں ضبط کرتے بولی اور جوبولی برحق بولی "چٹاخ !میرے علاوہ کسی کو نا سوچنا یہ جو گل چھڑے اڑاتی آرہی ہو نا دیکھ چکا ہوں میں ،میری ہو تم میری محبت ،نا کرو مجھ سے محبت بنوگی میری ہی بیوی ااور بچو کی ماں "وہ زبردستی ہاتھ تھامتا چھوتا اسے ہراساں کر رہا تھا اس کے نزدیک یہ محبت تھی مگر درحقیقت یہ محض جنسی طور پر ہراساں کرنا تھا
وہ اس کے ہاتھ پرے کرتی رخ موڑ کے بیٹھی
"یہ محبت نہیں زیادتی ہے یہ محبت ہے جس میں محب کی مرضی کی کوئی اہمیت نہیں "
"عورت ایک بار جس کی پوری طرح سے ہو جائے پھر شریف ہو تو کہیں نہیں جاتی تم بھی ایک ہی رات کی مار ہو میری جان"وہ معنی خیزی سے بولتا اسے مزید ہراساں کر گیا وہ دل ہی دل ورد کرنے لگی
وہ اسے ایسے دیکھتے خود کو طرم خان سمجھے ہنسنے لگا
"جان بس چند دن اور ہاں اماں کو بھیجوں گا اب کے ہاں ہو "
وہ چچا کے گھر کے قریب اتارتا اسے پھر اسی غلیظ احساس سے دوچار کرتا امر کی ہوس کو محبت کے لبادے سے ڈھانپتا بولا وہ متحوش ہوکر بگٹٹ بھاگی اور گھر کی طرف بڑھ گئی اسے اپنے ہی وجود سے بے تحاشہ گھن آرہی تھی
💖------------💖
وہ کئی گھنٹے سے باتھ روم میں بند تھی فرحین چچی کتنی بار دروازہ بجا چکی تھیں وہ خود سے مل مل کر نادیدہ غلاظت صاف کرہی تھی ،اس کی وجہ سے وہ زہنی مرض میں مبتلا ہوگئی تھی بار بار ہاتھ دھونا اس کا معمول ہوگیا تھا ہر مرد یہاں تک کے باپ اور چچا سے بھی خوف آتا یونی میں الگ ہراساں ہرنی جیسی رہتی
وہ اپنے جائز حق کو استعمال کرنے پر ہراساں کی جارہی تھی وہ سوچتی باپ کو بتائے تو ڈر لگتا کے پھر تو وہ دوبول پڑھا کر اسی شخص کے ساتھ باندھ دیں گے ہوگا وہ اچھا پر اسے نہیں لگتا تھا پھر اس کارویہ جیسے سکینہ انسان نہیں کوئی کھلونا ہو یہ صورتحال اسے خوف سے مارے ڈال رہی تھی
💖------------💖
وہ چاروں کوئی گھنٹے سے سعود صاحب کو ہینڈز اون ایگزمینیشن سکھانے میں مصروف تھے پر نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات اب بھی ڈمی پر وہ غلط ہی ایگزمین کر رہا تھا ،
"نا بھائی معافی اسے نہیں آنے کا میری توبہ میں بھول جاؤں گا "سب سے پہلے اشعر تو کٹ ہی لیا
"ہم کل کل کوشش کریں گے "روحی بھی بھاگی
"چلو کچھ نہیں ہوتا لیٹس ٹرائی اگین"رائنا نے پھر کمر کس لی دانیال نے بھی سکھانے کی بھرپور کوشش کی مگر سعود جتنا اچھا تھیوری میں تھا اس سے دگنا برا ہینڈز اون میں اتنے دنوں کی ہاؤس جاب میں مجال ہے جو ایک بھی فولی پاس کیا ہو ،یا سویلنگ ڈیٹیکٹ کی ہو
"سعود چھوڑو بس "دانیا تھک کر بولی
"ہاں کل کریں گے"رائنا نے ٹالا
"آج کا کام کل پر نہیں چھوڑتے دیکھو اب صحیح ہاتھ میرا ایسے ہی پیلپیٹ (palpate)کریں گے نا liver"
وہ پھر متوجہ ہوئیں
ہوا یہ تھا یہ جاننے کے بعد کے سعود صاحب نے یوایس کا میڈیکل کا ایگزیم زبردست اسکور سے پاس کیا ہوا ہے بس آخری پڑاؤ رہتا ہے جسے وہ ہاؤس جاب کے بعد پار کریں گے ان لوگوں اپنے پاکستان کے لیے دیے جانے والے ایگزم کے لیے سعود سے ٹیوشن لی مگر سعود نے بھی فیس کے طور پر ان کی۔ خدمات طلب کی جس پر فوراً سے ہامی بھری گئی مگر اب ناکوں چنے چبانے پڑ رہے تھے
کہ ایک تو وہ اناڑی تھا اس پر ہار مانتا نہیں تھا اب بھی لگا ہوا تھا اور انہیں بھی خوار کیا ہوا تھا
💖------------💖
"آپ کی رپورٹس نارمل ہیں آپ کے ایکس رے بھی ٹھیک آئے ہیں بس کچھ دن اور پھر آپ کو چھٹی دے دی جائے گی "ڈاکٹر فریدہ پروفیشنل انداز سے کہہ رہیں تھی
"کیا ! مطلب مطلب اتنے جلدی"وہ پریشان ہوئی پھر سے اس جہنم میں اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ابھی تو فلک کا کام ہونے میں بڑا عرصہ لگنا تھا وہ سر پکڑ گئی
"آپ ٹھیک ہیں ؟"ڈاکٹر فریدہ کو تشویش ہوئی
"جی"وہ بمشکل بولی
"اوکے ٹیک ریسٹ "وہ مشکوک سی باہر چلیں گئی
"کتنی عجیب لڑکی ہے"وہ بٹائیں
💖------------💖
وہ گھر آئی تو فریش ہوئے کتابیں لیے مخصوص کمرے میں چلی گئی جو اسی مقصد کے لیے تھا چھوٹا سا لائیبریری نما یہ حیدر کے بچپن سے تھا وہ اب بھی اکثر وہاں کام کرتے تھے کبھی زاہد بھی استعمال کرتا تھا آج کل رائنا کا اور آمنہ کے بچو کاڈیرہ تھا رائنا ان کی بھی مدد کردیتی تھی ہوم ورک میں اکثر ابھی گئی تو دیکھا کے وہ دونوں بیٹھے ہیں اور شیراز فراز کو ڈانٹ رہاتھا
"کیو بڑے میاں کیو تاو کھارہیں ہیں "وہ شیراز کے بال بگاڑتی بولی
"تائی سرکار دیکھے بار بار غلط کر دیاہے یہ مار کھا کے ہی پڑھے گا"وہ معصومیت بھری سنجیدگی سے بولا
"پر مار کھا کر پڑھائی تو نہیں ہوتی"وہ ٹوکے بنا نا رہ سکی
"مگر ٹیچرز تو ایسےہی۔۔"وہ سوچ میں پڑ گیا
"شیراز سب سے بڑے ٹیچر کے اپنے سیکھنے کا واقعہ سناؤ سنو گے"
"سب سے بڑے؟،سنائیے"
"سب سے بڑے ٹیچر ہمارے پیارے نبی ہیں محمد صل اللہ علیہ وسلم جانتے ہو جب ان پر وحی نازل ہوئی تو وہ نہیں جانتے تھے پڑھنا جبرئیل علیہ السلام ان کے پاس اللہ کا پیغام لائے وہ پہلی وحی تھی انہوں نے فرمایا "اقرا"مطلب پڑھیے پیارے نبی نے کہا مجھے نہیں آتا میں نہیں جانتا ،جبرئیل پھر بولے پڑھیے ,آپ نے پھر وہی فرمایا تب جبرئیل علیہ السلام نے ان کو اپنے ساتھ لگا یا اور پھر فرمایا "اقرا"پھر پتا ہے کیا ہوا اللہ کے فضل سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کے پیچھے دہرایا ,اس واقعے سے ہمیں سیکھ ملتی ہے کے علم پیار سے احترام سے سکھایا جاتا ہے سختی یا جبر سے نہیں "
وہ اب خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی ،جو سب سمجھ رہا تھا
"پر تائی سرکار یہ ٹیچرز کو نہیں پتا کیا؟؟"معصومانہ سوال چکر میں ڈال گیا
"دیکھو شیراز شاید پتا ہو شاید بھول گئے ہو اب ہم انہیں تو نہیں سکھا سکتے خود سیکھ سکتے ہیں نا سب کو نہیں بدل سکتے خود کو بدل سکتے ہیں جو کر سکتے ہیں وہ تو کرنا چاہیے نا"
وہ سمجھاتے بولی تو وہ متانت سے سر ہلانے لگا
"میں سمجھ گیا تائی سرکار ,آپ بہت اچھی ہیں "
"تم دونوں بھی چلو اب چھٹی کرو شام میں دیکھوں گی ہوم ورک تھوڑا کھیلوں کودوں،ابھی میں بھی تھوڑا پڑھ لوں"
"اوکے تائی سرکار"وہ دونوں چلے تو اس نے بھی لیپٹاپ اور کتاب کھولیں۔۔۔۔
وہ حسب معمول کام میں مصروف تھے ،جب شازر چلا آیا
"تم حقیقتا اتنے ہی فارغ ہو؟"وہ طنزیہ بولے
"وڈیرے صاحب یہ میں آپ کو اپنی بہن کی شادی کا کارڈ دینے آیا تھا سائیں لیجیے نا شرف بخشی گا ہم کو" وہ نوٹنکی کرتا بولا
"ماشاءاللہ،مبارک کو ضرور آئینگے میں اور رائنا,پھر تم واپس جاؤ گے باہر؟
"ہاں بھئی چھٹیاں الموسٹ ختم ہیں"
"تمہیں کہا تھا کے ایک بار ہماری طرف بھی آنا فیمیلی کے ساتھ مگر لے دے کر میرے دفتر آجاتے ہو"
"یار بڑا کام ہوتا ہے شادی کے گھر میں تھوڑی دیر یہاں آنا الگ بات ہے ویسے تم تھکتے کبھی گاؤں کبھی یہاں نئی نئی شادی ہوئی ہے بھابھی کو تو وقت دو ایم شیور تم لوگ ابھی کہیں گھومنے پھرنے بھی نہیں گئے ہوگے "
"یہ کام تو پچھلے کئی سالوں سے ساتھ ہے اب ہاں گاؤں کی سرپرستی کی زمداری کا اضافی ہوا ہے ،باہر تو نہیں گئے ہم لوگ پر ویسے اکثر لاتا ہوں اسے کراچی اپنے ساتھ"وہ سرکاری سا بولے"بڑے غریب امیر آدمی ہو دت گھر کی باندی اور بے چاری بیوی کو محض کراچی پر ٹرخا رہے ہو،یار یہ خواتین بڑی خوابوں خیالوں کی فینٹیسی میں ہوتیں ہیں رومانوی کہانیوں کے خمار میں ایسے خشک رویے سے ٹوٹ جاتی ہیں "وہ ناصحانہ انداز میں بولا کے حیدر کی خشک فطرت جانتا تھا مگر یہ نہیں "جانتا تھا کے اب معاملہ پلٹ چکا ہے اب حیدر خود کسی کی رومانس پروف فطرت کا شکار ہیں انہیں شازر کی باتوں پر رک کر ہنسی آئی جبکے وہ بچارا ہکا بکا تھا
"عجیب ہی آدمی ہو "وہ بڑبڑایا جبکے وہ ہنوز ہنس رہے تھے
تبھی سیل فون کی گھنٹی بجی انہوں نے دیکھا تو رائنا کی کال تھی ا نہوں نے فورا سے پیشتر کال بیک کی
" اسلام علیکم !حیدر ؟"
"جان حیدر بولو ہمہ تن گوش ہوں "وہ سلام کا جواب دیتے بولے لہجہ محبت سے بھرپور تھا وہ اس وقت شازر کی موجودگی فراموش کر بیٹھے تھے
"آپ ۔۔اپ آئیں گے نا گھر آج رات کو ؟"وہ جھجھکتے پوچھ رہی تھی
"میری جان کہے گی تو ابھی آجاؤں گا "وہ پھر رومینٹک ہوئے اس کی آواز وجود میں توانائی بھر دیتی تھی کوئی کام بھاری نا لگتا پھر
"میں بس ۔۔بس پوچھ رہی تھی "وہ خجل سی ہوئی
"رات کو آؤں گا انشاء اللہ ،اور کچھ؟"
"نہیں بس یہی معلوم کرنا تھا بی اماں پوچھ رہی تھی،انہیں کوئی کام ہے شاید" جواب ارمانوں پر اوس گرا گیا
"ٹھیک ہے رکھتا ہوں "وہ سنجیدہ تھے اب
"فی امان اللہ ،سنیں "
"ہمم بولو"
"رات سے پہلے نکلیے گا پلیز اندھیرا ہو جانے سے پہلے"
"کیا یہ بھی بی اماں نے کہا ہے کہنے کو؟"
"نہیں میں تو بس ۔۔۔فکر ہورہی تھی تو کہہ دیا"وہ سرد لہجے پر خجل سی ہوئی جبکے ان کے چہرے پر رونق بحال ہوئی
"ٹھیک ہے جا ن من ،چلو خیال رکھنا اللہ حافظ"
وہ متبسم لہجے میں بولے اور فون کاٹ دیا
"واہ "شازر کی آواز انہیں بد مزہ کر گئی اس نے ون سائیڈڈ گفتگو بڑی انجوائے کی تھی
"فارغ آدمی "وہ بڑبڑائے
"ویسے وڈیرے تم نے بھابھی کو پریکٹس کرنے کی ہامی تو دے دی مگر یہ بتاؤ کے آگے مسائل نہیں ہوں گے "
"مطلب"وہ ماتھے پر شکنے ڈالے پوچھنے لگے
"بھئی ایک سال کی ہاؤس جاب الگ چیز ہے آگے ریزیڈنسی وغیرہ میں 4-5سال لگیں گے دو گھنٹے کا سفر کیسے مینج کریں گی"
"یار جب اسے اجازت دی تھی نا میں نے تو یہ سوچ کر دی تھی کے تھک کر خود چھوڑ دے گی یا تھوڑا شوق پورا کر لے تو میں ہی منع کردوں گا مگر جتنی لگن اس کی ہے پیشے سے متعلق اور جیسے وہ سنجیدہ ہے اس کام سے میرا ارادہ مکمل طور پر ساتھ دینے کا ہے ,مل جل کر حل نکال ہی لیں گے کوئی نا کوئی"
"کرنا بھی یہی چاہیے یار مجھے جب میرے ابا نے ایم بی اے کے بعد دکان سنمبھالنے بولا تھا تو بڑی آگ لگی تھی مجھے یہ لوگ خواتین بھی انسان ہوتی ہے ان کے بھی کچھ ایمبیشنز ہوتے ہیں یا تو بندہ نہیں پسند کرتا جاب کرانا تو جاب والی نا ڈھونڈے کئی ہے ایسی جو واجبہ تعلیم رکھتی ہیں ان سے شادی کرے ،اب میں تو ابا کی مخالفت کر نکل گیا لوگوں نے حمایت ہی کی مگر یہی حرکت کسی عورت کی ہوتی تو وہ شور مچتا کے حد نہیں طلاق ہاتھ میں دیتے یا اتنا زچ کرتے کے وہ منہ سے مانگ لے اور نام تعلیم اور عورت پر دھرتے خود کو نا دیکھتے "وہ کافی صاف گوئی سے بولا
"ویسے تمہارے معاملے کا حل ہےایک ،تم ویسے بھی ایک پاؤں شہر ایک پاؤں گاؤں میں پہنچائے بیٹھے ہو اکثر یہیں رکتے بھی ہو بھابھی گاؤں ہوتیں ہیں تو ایسا کرو تم یہاں شفٹ کرادو ان کو "
"یہ کیسے ممکن ہے بیوی ہے وہ میری جہاں میں رہوگا وہیں رہے گی "وہ قطیت سے بولے
"بھائی وہاں بھی جب آپ یہاں موجود ہوتے ہیں تمہارا انتظار کرتیں ہیں ،تو جب یہاں ہوں گی تو بس اس کا الٹ ہوگا ،ایک ہی بات ہے"
"دیکھتیں ہیں ،ختم کرو یہ موضوع"وہ ایک بار پھر قطیت سے کہتے چپ کرا گئے
💖------------💖
وہ آج پھر نائٹ ڈیوٹی پر تھا اور اب آدھی رات کا انتظار کر رہا تھا تاکہ چہل پہل کم ہو اور وہ شہرینہ کے پاس جائے ،اخر موقع مل ہی گیا ملازمہ کو چکما دے کر وہ اندر پہنچ گیا شہرینہ بھی جاگ رہی تھی ،
"کہاں غایب تھے فلک کا کیا بنا "
"گیا تھا وہاں ایسے ہی ویزا نہیں ملتے ،اور پھر میرے دماغ میں دوسرا راستہ آیا ہے دونوں پر عمل کریں گے تاکہ ایک میں تو کامیابی ہو"
"مطلب "وہ چونکی
"مجھے بتاؤ یہ شرجیل کے بارے میں کیا کیا جانتی ہو تم"
"کیا مقصد اس کا "
"اس کا خاندان کچھ تو پتا ہوگا"
"تھوڑا بہت وہ کسی گاؤں کے جو شاید یہاں سے دو گھنٹے دور ہے کیو کے جب وہ یہاں لایا تب اس نے کہاتھا کے اب وہ مجھ سے صرف دو گھنٹے دور کے فاصلے پر ہے نام نہیں پتا گاؤں کا مجھے ،وک وہاں کوئی سردار ہے یا کسی سردار کا بیٹا ہے بہت پہنچ ہے
اکثر ایک عورت کی کال آتی ہے جسے "اماں "یا شاید "بی اماں "کہتا ہے اور ہاں ایک ہے اس کے خاندان میں کوئی بھائی ہے یا باپ نہیں معلوم بڑے سرکار کہتا ہے وہ آدمی جب کال کرتا ہے یہ بلکل بدل جاتا ہے "وہ سوچتی زہن پر زور ڈالے بولی
"یہ آدمی تمہارے سامنے یہ باتیں کر لیتا ہے؟تمہیں فون بھی دیا ہے؟ آجا بھی سکتی ہو؟اسٹرینج شک نہیں کرتا"
"نہیں کیو کے اسے پتا ہے بے یارو مددگار ہوں کبھی بھاگی نہیں وہاں سے کہیں رابطہ نہیں کیا شروع میں کرتا تھا پھر مکمل تحقیق کرکے یقین آگیا اسے کے یہ کھلونا کہیں نہیں جا سکتا "وہ زہرخند ہوئی تو سعود کو بھی اپنے ایسے سوال پر شرمندگی ہوئی
"بائی دی وے یہ معلومات کافی کم ہے ایسے تو اس کو چیک میٹ نہیں کر سکتے"
"کیو کیو کرنا ہے چیک میٹ بس فلک کو نکالو میں بھی کچھ بندوبست کر لوں گی"وہ زچ ہوئی
"کیا کرلو گی ؟اور یہ آ ج تم کل کوئی اور کوئی اینڈ بھی ہونا چاہیے اس کا یا نہیں,عجیب ہی لوگ ہو،فلک کو ویزا ملے گا یہ کنفرم ہے کیا اتنا آسان ہے دو راستے ہونے چاہیے کم سے کم سیف وے کون بندھ کرتا ہے بھلا اپنا "وہ بولتا گیا پھر رکا"میں نے ایک دوست کو شرجیل کی معلومات نکالنے بولا ہے وہ رپورٹنگ میں بھی رہ چکا ہے کچھ پتا چلے گا تو آگے کا پلان کریں گے تب تک تم لنگڑا کے چلو جب فزیوتھراپی کرائی جائے تاکہ یہاں قیام کر سکو میں تمہیں ایک فون اور سم لادوںگا اس سے رابطہ رکھیں گے کیونکے کیا پتا تمہارا فون ٹریس کیا جا رہا ہو "
وہ سمجھانے لگا
"ٹھیک ہے پر مہربانی ہوگی تمہاری مجھے غلط مت سمجھو میں احسان مند ہوں تمہاری مگر جلدی جو کرو جلدی فلک اٹھارہ کی ہوگئی ہے یہ وقت بھی بائی نے میری منت سماجت اور پیسہ بھرنے پر دیا تھا اب وہ اسے لانچ کرنا چاہے گی "وہ روتے بولی
سعود گہری سانس بھر کر رہ گیا وہ تسلی بھی نا دے سکا بھاری دل لیے وہاں سے نکلا
💖------------💖
اسے آج بھی ہلکا سا ٹیمپریچر تھا تھکن الگ وہ ہوسپٹل سے گھر آکر سوئی نہیں تھی اب بھی بستر پر کروٹ بدل رہی تھی سر درد ہورہا تھا ،اس کی بےچینی پر حیدر بھی متوجہ ہوا ,لیپٹاپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور اس سے مخاطب ہوئے
"جانم کیا ہوا ؟ٹھیک ہو تم ؟"وہ پیار سے اس کے بال سہلاتے بولے وہ اٹھ بیٹھی "ہمم بس سر میں درد ہے"
"چچ دوائی لی پھر؟"وہ تشویش سے بولے
"لی ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے اثر کرنے میں وقت تو لے گی "وہ کہتی اٹھ بیٹھی
"لیٹو واپس میں سکھاں کو بلاتا ہوں تمہارا سر دبا دے گی "وہ اٹھنے لگے
"حیدر ٹائم تو دیکھیے "
"کچھ نہیں ہوتا ٹائم کو "
"ایسی ہی فکر ہے تو آپ دبا دیجے سر تھوڑی دیر"
"میں!میں سر دباوں ؟"وہ انتہائی حیرت جس میں ناگواری ہلکورے لے رہی تھی اس سے سوال کر رہے تھے
"میں بھی دباتی ہوں آپ کا سر "اس نے جیسے یاد دلایا
"وہ الگ بات ہے "وہ الجھے اب کیا بتاتے ان کے والد سردار تھے اور وہ ان کے پہلے بیٹے یعنی مستقبل کے سردار بچپن سے ہی سب کو اس رتبے کا احترام کرتے پایا یہ خدمت تو کبھی ان کے ماں باپ نے نا لی ان سے اور اب یہ لڑکی جو انتہائی عام سے انداز میںفرمائش کر رہی تھی
"الگ بات ہے؟"وہ حیرانی سے بولی"ٹھیک ہے سمجھ گئی کوئی بات نہیں خود ہی ٹھیک ہوجاوگی"وہ سمجھ کر گیری سانس لیتی کروٹ بدل گئی اختلاف کے باوجود اس کا ارادہ نہیں تھا کچھ کہنے کا
حیدر نے اسے دیکھا جو ہنوز بےچین تھی "کوئی بات نہیں ایک ہی دن کی تو بات ہے" انہونے سوچا پھر ہاتھ بڑھا کر آہستہ سے اس کی پیشانی پر رکھا
"رہنے دیں حیدر"وہ نرمی سے بولی
"چپ کرکے آنکھیں بند کرو اور سو جاؤ "وہ ٹوک کر بولے
رائنا نے سکون سے آنکھیں بند کرلیں تھوڑی دیر میں ہی وہ گہری نیند میں تھی انہونے دیکھا تو چہرے پر مسکراہٹ در آئی ہاتھ کھینچتے سونے لیٹ گئے زہن میں شازر کی باتیں گونج رہی تھیں انہوں نے ایک ہاتھ سوتی رائنا کے سر کے نیچے رکھا اور تھوڑاقریب کیا فیصلہ مشکل تھا پر کرنا تو تھا وہ فلحال کے لیے سب سوچیں جھٹکے آنکھیں موندھ گئے،
💖------------💖
"سکینہ تم نے یونی ورسٹی سے کل گاؤں جانا ہیں نا ؟"
چاچی پوچھ رہی تھیں
"ہاں چاچی سامان بھی باندھ لیا ہے"وہ اداسی سے بولی
"ارے اداس کیو ہے چند دن کی بات ہے ماں راہ تکتی ہو گی تیری"چاچی نے سمجھایا تو وہ مسکرا کر رہ گئی
اس کا دل بھی چاہتا تھا کے گھر جائے ابھی بھی چھٹیاں تھی ہفتے بھر کی تو ماں نے بلا لیا وہ خوش تھی پھر ساری خوشی کافور ہوگئی جب یاد آ یا کے وہاں کیا ہو گا یقینا خالہ پھر رشتہ ڈالے گی ،وہ سکینہ عمر ،منشی عمر اکرم کی بیٹی تھی جو کے سردار خاندان کے منشی تھے
سکینہ کے علاوہ ان کے دو بیٹے تھے ،بڑا عرصہ پہلے بیوی کو لے کر الگ ہو چکا تھا اسی گاؤں کا رہائشی تھا چھوٹا جبکے کالج کا طالب علم تھا اور شہر میں رہتا تھا اس سے بڑی سکینہ تھی جو کے اب بی -فارمیسی کے پہلے سال میں تھی گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول پہلے پرائمری تک تھا پھر چھوٹے سردار نے جگہ سنمبھالی اور اب گاؤں کی ترقی کا دور شروع ہو چکا تھا پرائمری اسکول اب سیکینڈری اسکول بن چکا تھا ڈسپنسری چھوٹے سے ہسپتال میں تبدیل ہوگئی تھی یہ دوسال میں ہی کافی ترقی کی گئی تھی
منشی جی ترقی پسند تھے پڑھے لکھے تھےتھوڑا بیت تعلیم کو ضروری گردانتے تھے بڑے لڑکے نے تو خیر پڑھ کر نا دیا البتہ چھوٹے دونوں اچھے نکلے سکینہ کو بھائی نے پڑھانے کا کہا وہ شہر میں چھوٹا سا جنرل اسٹور چلاتا تھا تو وہ خاندان کی مخالفت مول کر سکینہ کو شہر روانہ کر بیٹھے ۔ دانیال سکینہ کا خالہ زاد تھا اس سے 8 سال بڑا جب بچپن میں ہی سکینہ کو اس کی گود میں دیا گیا تو ضد کر بیٹھا کے یہ تو گھر لے کر جاؤں گا اور اتنا رویا کے حد نہیں تب ماں نے سمجھایا کے ابھی تو گڑیا چھوٹی ہے بعد میں لے آئیں گے اس وقت وہ بہل گیا مگر اڑیل گھوڑے کے دماغ میں بات کہیں پھنس گئی تھی اس کی ماں نے بچپن میں ہی جب رشتہ ڈالا تب منشی جی نے صفا بٹ انکار کردیا"ابھی تو بچے ہیں بڑے ہوں گے پھر آنا "
"تو بھائی زبان دو پہلے پھر آؤں گی تو سکینہ میرے دانیال کو ہی دو گے"
"اماں ! کوئی کھلونا ہے جو ہر صورت دوں گا"منشی جی ہنسے"بی بی بیاہ کا معاملہ ہے ٹھوک بجا کر رہی طے کرتے ہیں "انہوں نے سمجھایا بیوی اور سالی دونوں ناراض ہوئی برادری الگ چڑی مگر وہ ٹس سے مس نا ہوئے دانیال اور اس کی ماں نے مشہور کردیا کے سکینہ ہے دانیال کی سب کو یقین بھی آگیا کیا کمی تھی دانیال میں ڈنگر ،زمین،مناسب تعلیم ،اچھی شکل ،خاندان سب تو تھا ،سکینہ کے لیے صورت حال مختلف تھی دانیال نے اس کا بچپن ہی کھا لیا تھا وہ سات سال کی تھی باہر کھیل رہی تھی جب پندرہ سالہ دانیال ہاتھ سے پکڑ کر گھسیٹتا لایا "ماسی دیکھ اس کو کیسے کھیل رہی ہے باہر اتنے مرد لڑکے گزرتے ہیں سب دیکھیں گے اسے "
"سوہنے ابھی بچی ہے کھیلنے دے "سکینہ کی ماں دلار سے بولی اور چولہے کی طرف بڑھی اس نے کھانا چڑھانا تھا
"ماسی تم بھی نا"وہ چڑا اور پاؤں پٹختا چلا گیا
رات کو وہ آنگن میں بیٹھی کھیل رہی تھی اماں ابا اندر تھے تب وہ اندر کودا اسے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا وہ کسمسائی اور چلانا چاہا اس نے ہاتھ کر منہ بند کردیا
"زیادہ مچل مت ! بچی نہیں ہے اتنی ،سن اب باہر نا دکھنا
میری غیرت جاگتی ہے سمجھی اتنی سوہنی ہے جیسے ملائی کی بنی ہو تیرے اوپر میرا حق ہے ،ابھی میں پندرہ کا ہوں تین سال میں اٹھارہ کا ہوجاو گا تو تجھے بیاہ کے جاؤں گا"وہ اس کے منہ سے ہاتھ ہٹاتا کو دیتی نگاہوں سے تکتا بولا
"ممم۔ممیں ۔۔ابب۔ابا ۔۔ککو بببتاوں گی"وہ سسکتے بولی تو وہ پھر اس کا منہ بندھ کرتا بولا
"بتا دے پھر جو تین سال بعد ہونا ہوگا وہ آج ہی ہوجا ئیے گا میں تو بس تیری کم عمری کی وجہ سے رکا ہوں ,چل آ بتادے آ"
وہ ہنستا بولا اور اس کا گال چھوتا چلا گیا وہ اس کے ہاتھ کا لمس چہرے سے ہٹا نے لگی یہ کوئی ایک واقعہ نا تھا درجنوں تھے جس سے اس کا بچپن جوانی بھرا تھا
وہ اٹھارا سال کا ہوا تو خالہ چلی آئی ابا نے کہاعمر دیکھو میری بیٹی کی ابھی نہیں جب اٹھارہ کی ہوگی تب دیکھوں گا
وہ دل ہی دل دعا کرتی کبھی اٹھارہ کی نا ہوئی پر یہ بھی کوئی ممکن تھا وہ منحوس دن آگیا اور چند دن بعد خالہ بھی
اب کے ابا نے بھی سوچنا شروع کیا اور ماں اور خالہ نے بیاہ کی تیاری تک شروع کردیں اس سے کوئی نا پوچھتا آخر ابا کو ہی خیال آیا کے وہ کیو پیلی پڑیبہے کیو بیمار ہے
"ادھر دھی رانی کیا چیز کھا رہی ہے تجھے "باپ نے ساتھ لگایا تو لاڈو کی آنکھوں سے دریا بہہ گیا
"ابا پڑھنا ہے مجھے دیکھا تھا نا میرے نمبر کتنے اچھے آئے تھے "وہ دکھی ہوئی بولی
"دھی دانیال کہتا ہے نہیں روکے گا تجھے پڑھنے دے گا"
وہ کلسی جس نے بچپن میں کھیلنے نا دیا وہ کیا پڑھنے دے گا
"ابا دل نہیں مانتا دل ڈوبتا ہے"وہ بے بس ہوئی اس دن تو منشی جی نے بہلادیا مگر گزرتے دن سوکھ کے کانٹا ہوتی پیلی پھٹک بیٹی کو دیکھ خود کا دل بھی ڈوبا کونسی عزت کیسی برادری سب بھول گئے اور نا کہلا دی
مگر دانیال کو یہ ہتک عزت لگا اس کی ماں نے بھی شور کیا مگر منشی جی اٹل رہے
"یہ میرا میری دھی کا حق ہے کوئی زبردستی ہے کیا "
آخر انہوں نے سکینہ کو پڑھنے بھائی کے ہاں بھیج دیا وہ سمجھے معاملہ ختم ہوا مگر معاملہ ابھی ختم ہوا ہی کہاں تھا
💖------------💖
وہ ابھی بھی ہیرا بائی کے کوٹھے پر تھا اور آج واپسی کا قصد تھا
"تیرے کوٹھے پر اب کوئی ہیرا رہا نہیں ہیرا بائی اب"وہ اس سے بولا جو پان پر کتھا لگا رہی تھی
"آپ جو لے گئے سائیں "اشارہ شہرینہ کی طرف تھا
"ایکسپائر ہوگیا وہ ہیرا اب کچھ نیا لا"وہ کہتا پان چباتا اٹھا۔
"سارے ہیرے انہیں دے دوں پھر یہ مخصوص کر لیں دھندا چوپٹ کر دوں اپنا "وہ منہ بناتی رہگئی پیچھے
💖------------💖
"کیا بات ہے منشی جی اتنی غلطیاں آپ سے پہلے تو کبھی نہیں ہوئیں "وہ حیرانی سے الجھے الجھے منشی جی کو دیکھ رہے تھے
"بس سرکار میں ٹھیک ٹھیک کر دیتا ہوں "وہ بےچارے گھبرا گئے
"آرام سے گھر لے جائیں سکون سے کر لیجے گا"
"شکریہ سرکار وہ بچی کو بلوادیجے بڑی سرکار سے متاثر ہے پہلے بھی ملی تھی آپ کو یاد ہوگا آج پھر ضد کی نادان ہے آپ کی اور بڑی سرکار کی مہربانی ہے بس"منشی جی ماتھے پر سے پسینہ پوچھتے بولے حیدر کے کہنے پر ملازمہ سکینہ کو لے آئی تھی وہ آج بھی حجاب میں ہی تھی پہلے ایک بار ایڈمیشن ہونے پر منشی فخریہ لے کر آئے تھے حیدر تعلیم کی اور تعلیم یافتہ لوگوں کی قدر کرتے تھے انہونے سراہا اور سکینہ کو رائنا سے بھی ملوایا آج جب منشی آنے لگے تو وہ پھر شہری بڑی سرکار کو دیکھنے کی فرمائش کرنے لگی منشی جی جانتے تھے حیدر تو سلجھے ہوئے ہیں مگر بی اماں یقینا اسے ہتک عزت جیسا سمجھیں گی مگر پھر لے ہی آئے رائنا تو اس سے اچھے سے ملی وہ خوب متاثر ہوئی اس سے ۔
منشی جی اب سامان سمیٹتے چل دیے حیدر کی پرسوچ نظریں ان پر تھیں جب بی اماں آئیں وہ اٹھے تعظیم دی اور بٹھایا "کیا سوچ رہے تھے اپ؟
"منشی جی کیو پریشان ہیں "
"برادری مخالف ہے پریشان کیو نا ہو ،اولاد کی محبت میں سب کو ناراض کر بیٹھے "
"وجہ؟"
"رشتہ دیا تھا سالی نے اچھا بھلا لڑکا مگر انکار بیٹی پڑھنا چاہتی ہے ایسی اولاد کی محبت میں کیا برادری کو خفا کرنا اب بھگتیں خود"
"کوئی غلط بات تو نہیں ہے،اولاد کی خوشی رضامندی ضروری ہے اور بس پھر لوگوں کا کیا ہے ،اولاد کی محبت میں بس اللہ ناراض نہیں کرنا چاہیے دنیا کی خیر ہے"وہ مسکرا کر بولے تو بی اماں ہونٹ بھینچے رہ گئیں
💖------------💖
منشی اور سکینہ باہر نکلے تو شرجیل سے ٹاکرا ہو گیا
"سلام سائیں "منشی جی مؤدب ہوئے
"ہاں ہاں ٹھیک "وہ لاپرواہی سے بولا پھر حجاب میں لپٹی لڑکی کو دیکھا جس کی خوبصورت آنکھیں نقاب سے بھی سحر طاری کرہی تھیں
"یہ لڑکی ہے تیری ؟"
"جججی سائیں "
"یہاں کیو لائے ؟"
"بڑی بڑی سرکار سے ملنے۔۔"
"اچھا اچھا وہ بات کاٹ کر اندر مڑ گیا اسے ان لوگوں کی تفصیلات میں کوئی دلچسپی نا تھی
منشی جی کی سانس میں سانس آئی سکینہ حیرت زدہ ایک گھر کے دومختلف مردوں کا موازنہ کرنے لگی
💖------------💖
وہ صحن میں کپڑے دھوتی تھی جب کوئی اندر کودا
"جان من "وہ اسے گھسیٹتا دیوار سے لگا گیا اب اسے دیوانہ وار تک رہا تھا وہ بدحواس ہاتھ پیر مار رہی تھی
"کیسا سحر انگیز حسن ہے اس پر آنکھیں ،پہلی نگاہ میں گھائل کردیں انسان کو"وہ اور قریب ہوا سکینہ نے اس کے ہاتھ پر زور سے کانٹا اور بھاگی وہ پیچھے کھڑا ہنسنے لگا
"بس چند دن جان من پھر میرے پاس ہوگی تم۔۔۔۔
"جان من "وہ اسے گھسیٹتا دیوار سے لگا گیا اب اسے دیوانہ وار تک رہا تھا وہ بدحواس ہاتھ پیر مار رہی تھی
"کیسا سحر انگیز حسن ہے اس پر آنکھیں ،پہلی نگاہ میں گھائل کردیں انسان کو"وہ اور قریب ہوا سکینہ نے اس کے ہاتھ پر زور سے کانٹا اور بھاگی دانیال پیچھے کھڑا ہنسنے لگا
"بس چند دن جان من پھر میرے پاس ہوگی "
اندر جاتی سکینہ نے اس شخص کو دیکھا حس نے محبت کے نام پر اس کا جینا حرام کر رکھا تھا جو اسےبنا اجازت بنا کسی رشتے کے چھوتا اور کہتا کے کیا ہوا تو تو میری عزت بنے گی جیسے عورت کی عزت اس کی اپنی نا ہو اس سے وابسطہ مردوں کی ہو وہ دکھ سے سوچتی
وہ باقی سارا وقت کمرے میں چٹخنی چڑھائے پڑی رہی گو اس کی ماں کو چٹخنی چڑھانے پر غصہ چڑھتا تھا اس کے خیال میں جوان لڑکیاں الگ کمروں میں بند رہے تو بگڑ جاتیں ہے اب وہ کیا سمجھاتی کے جب گھروں میں ہی راہزن گھس جائیں تو چٹخنیاں ضروری ہوتیں ہیں
اسنے آنکھیں بند کی تو چھم سے وہ بارعب بلند وجود آنکھوں میں اترا مرید عشق تو وہ تب سے تھی جب اس کے باپ نے اسے کالج بھیجنا چاہا تب حیدر کے والد سردار تھے اور کمیوں اور عورتوں کی تعلیم کے مخالف پر حیدر میں ان کی جان تھی حیدر نے ہی گاؤں میں اسکول کھلوایا کمیوں کی تعلیم کو بڑھاوا دیا ،پھر دل اصل ان کے قدموں تب جا بیٹھا جب ایک بار وہ کالج سے گھر آرہی تھی وین اسے بڑی دور چھوڑتی تھی اس دن اسے تانگہ تک نا ملا تھا جس کی بدولت وہ پیدل ہی روانہ تھی تب گاؤں کے اوباش اس کا راستہ روکنے کے درپے ہوئے،لیکن تب ایک بڑی سی گاڑی سے ایک بلند قامت شخص نکلا اس کی ایک للکار نے اوباشوں کے حوصلے پست کر دیے حیدر نے اسے نا قصوروار ٹھہرایا نا کچھ بھلا برا کہا نا ہی ہمدردی جتائی ان لوگوں کو بھگا کر اپنی راہ کوہولیے تب سکینہ کا دل حیدر کے قدموں میں جا بیٹھا اسے یاد تھا وہ وقت جب بڑے سرکار کا ولیمہ تھا سارا گاوں جمع تھا تب حیدر نے روایت شکنی کرتے رائنا پر اپنی چادر ڈالتے اسے بڑی سرکار کا لقب دیا تھا ورنہ یہ رتبہ محض خاندانی بیوی کو دیا جاتا تھا تب سکینہ کو حیدر کے عشق سے عشق ہوگیا تھا حاصل کرنے کی ہوس سے پاک عشق محبوب کے محبوب تک سے عقیدت رکھنے والا عشق وہ رائنا سے مل کر خوش تھی بڑی سرکار کتنی اچھی تھی بنا نخرے والی نرم سی وہ سوچے گئی جانے کب نندیا اس پر مہربان ہوگئی
💖------------💖
وہ صبح صبح نکلنے کی تیاری میں تھے اور رائنا کے نام کی پکاریں جاری تھی
"آگئی بس "وہ جلدی سے چینج کرکے آتی انہیں کوٹ پہنانے لگی
"گھڑی تو پہن لیتے آپ خود "وہ چڑی
"تم سے پہنتا ہوں جانتی ہو نا "وہ پیار سے اسے دیکھتے بولے جو ان کی چوڑی کلائی پر گھڑی باندھ رہی تھی بھوری لٹیں کومل چہرے پر رقصاں تھیں انہونے دل کی آواز پر لبیک کہتے دوسرے ہاتھ سے انہیں کان کے پیچھے اڑسا
وہ ان کی بولتی نظروں سے گھبرائی "کیا دیکھتے رہتے ہیں آپ ؟"
"تمہیں کیا پتا محبوب کو دیکھنا کیسا فرحت بخش ہوتا ہے ،کیسا سکون ملتا ہے "
"عجیب منطق ہے ،محبوب کو اتنا تنگ کون کرتا ہے اتنے کام کون کرواتا ہے"وہ چھیڑتے بولی
انہوں نے گہری سانس بھرتے دونوں ہاتھ اس کے شانوں پر دھرتے قریب کیا اور سر سے سر ٹکرایا
"میری جان یہ بھی محبت کی ایک قسم ہے ،کتنی پیاری لگتی ہو جب میرے آس پاس پھرتی ہو سارے دن کے کام اسان لگتے ہیں ،اتنا سکون بخشتی تمہاری موجودگی مجھے "وہ ان کے گہرے لہجے میں کھو گئی
"حیدر"
"بولوں جان حیدر"
"آپ بلکل ۔۔۔" وہ ہچکچائی
"کیا بلکل بولو"انہوں نے اکسایا
"بلکل میرے بابا جیسے ہیں وہ بھی ایسی ہی باتیں کرتے تھے ان فیکٹ وہ بھی یہی کہتے تھے کے مجھے دیکھ ان کی آنکھوں کو سکون پہنچتا ہے "
حیدر کا دماغ بھک سے اڑا تھا یہ کونسا وقت تھا والد صاحب کو یاد کرنے کا انہوں نے اس کا چہرہ دیکھا جو سنجیدہ تھا کوئی شرارت نا تھی اگر یہ رومینس کی کوشش تھی تو بڑی بھونڈی کوشش تھی
"رائنا "انہوں نے بیچ میں ٹوکا
"دیر ہورہی ہے"وہ کہتے آگے بڑھ گئے وہ بھی کندھے اچکاتی چلی
💖------------💖
وہ صبح صبح سلینڈر پر ناشتہ بنا رہی تھی تب ہی وہ اپنی ماں کے ساتھ چلا آیا اور تھوڑی دیر اندر بیٹھنے کے بعد باہر آٹھ آیا اسے پیچھے سے پکڑ کر دیوار سے لگا دیا
"مت بھاگ اتنا دور سکینہ دل کڑھتا ہے میرا عاشق ہوں تجھ پر کیو ناشکری کرتی ہے ایک بار میری ہوجا تجھے تخت پر بٹھا کے رکھوں گا "اسے مزاحمت ترک کرتے دیکھ نرمی سے کہتے دانیال نے ہاتھ اس کے منہ سے ہٹا یا اب وہ دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ بھرے آگے ہوا سکینہ نے آزاد ہاتھ سے تھلے پر پڑا مرچی کاڈبا اٹھایا اور اسکے چہرے پر انڈیل دیا
دانیال کلبلا گیا آہوں بکا شروع کردی وہ گالیاں دیتا اس سے پانی مانگ رہا تھا وہ زہریلی مسکراہٹ سے دیکھتی باہر بنے ڈربے نما کمرے میں بھاگ گئی دانیال کی بے بسی نے اسے وہی لطف بخشا تھا جو دانیال کو اسے ہراساں دیکھ ملتا تھا
وہ جلد سے جلد حویلی جانے کی تیاری میں تھی بڑی سرکار (رائنا) نے اس کا احوال سن کر اسے شیراز اور فراز کی وقتی ٹیوٹر رکھ لیا تھا اس کی اماں تپی تو پر بڑی سرکار کو کیسے ٹالتی اب سکینہ کا کم سے کم سامنا ہونا تھا دانیال سے
رائنا نے حیدر کو بڑی مشکل سے قائل کیا تھا بی اماں الگ سلگ رہی تھیں رائنا کی نیت صاف تھی وہ صرف ایک محنتی لڑکی کی مدد کرنا چاہتی تھی اسے دلدل سے نکالنا چاہتی تھی دیا روشن کرنا چاہتی تھی اب یہ تو آنے والے وقت نے بتانا تھا کے دیے نے روشنی بکھیرنی ہے یا دامن جلانا ہے
💖------------💖
"خیر سے زرگل امید سے ہے تائی سفورا کی بیٹی بھی امید سے ہے آپ کے بعد شادی ہوئی تھی "
بی اماں اپنا پسندیدہ موضوع کھولیں بیٹھی تھیں وہ ان کا بی پی چیک کرکے سامان سمیٹ رہی تھی اور پیچ وتاب کھا رہی تھی
"ماشاءاللہ"حیدر نے کہا اب اور کیا بولتے بھلا
"ہممم , انشاء اللہ ہمیں بھی نصیب ہوگی یہ خوشی" بی اماں بولیں تو دونوں نے ہی امین کہا رائنا نے دل میں جبکے حیدرکی آواز بلند تھی
"اب خوش قسمت تو بہت ہیں بہو بیگم جو ایسا خیال کرنے والا شوہر ہے سب کو کہاں نصیب ہوتا ہے ایسا شوہر جو بیوی کی خواہشات کا سوچے ایسے چونچلے تو بس باپ ہی اٹھاتیں ہیں "بی اماں سنا تو رائنا کو رہی تھی لگ حیدر کو گیا "حد ہے باپ باپ ۔۔"وہ پیچوتاب کھاتے اٹھے "بی اماں اجازت دیجیے دیر ہورہی ہے" کہتے باہر کی جانب ہو لیے
💖------------💖
وہ آفس میں تھے جب شازر آیا۔۔۔۔
"آج بھی سکون نہیں تھا رات کو آئینگے تمہاری طرف بھئی"وہ خوشگواریت سے بولے
"ہاں یار بس گزر رہا تھا تو سوچا تمہیں یاد کرادوں "
اسی وقت حیدر کی سیل پر کال آئی
"جسٹ آ سکینڈ "انہوں نے دیکھا "رائنا کالنگ " سکرین چمک رہی تھی ٹائم دیکھا "اس وقت کیسے"
وہ پریشان ہوئے "سب ٹھیک ہو خیریت ہو "وہ کہتے فکر مندی سے نمبر ملانے لگے
"فکر دیکھو ابا میاں کی"شازر کی چلبلی طبیعت باز نا آئی
اور حیدر وہ نئے سرے سے کھول گئے بس اس کی کسر تھی،انہیں سسر صاحب سے پرخاش نہیں تھی مگر بیوی کے باپ سے ملائے جانا بھی قبول نا تھا"بھئی شوہر شوہر ہوتا ہے "وہ دل ہی دل جھنجھلائے
انہوں نے اسے گھورا وہ حقیقتا سہم گیا تب ہی رائنا نے کال اٹھالی اور شازر کی جان خلاصی ہوئی۔۔۔۔
انہوں نے اسے گھورا وہ حقیقتا سہم گیا تب ہی رائنا نے کال اٹھالی اور شازر کی جان خلاصی ہوئی
وہ فون لیے اٹھے ورنہ وہ لقمے دیتے رہتا
"ہاں بولو "
"حیدر مجھے دو ہفتے آف ملا ہے ہاسپٹل کے ایک حصہ ڈیمج تھا چھت گر گئی وہاں کی آب کنسٹرکشن کی وجہ سے آف ہوگا ،باہر گاڑی ہی نہیں ہے آج آپ نے ڈراپ کیا تھا تو،اور ڈرائیور کا سیل آف ہے "
"تم باہر مت جانا اکیلی نا رہنا کسی کولیگ کو روک لو تھوڑی دیر بس میں بھیجواتا ہوں گاڑی حویلی کال کرکے "
"جی ٹھیک ہے پر حیدر سب کولیگز لنچ پر قریبی میک ڈونلڈ جا رہیں ہیں میں بھی…"
"رائنا؟"انہوں نے ٹوکا"نو تم وہیں رکو گاڑی اجائے گی " لہجہ نرم تھا مگر انداز میں قطیعت تھی
"جی ٹھیک ہے" وہ آہستہ سے بولی
"ڈیٹس گڈ جانم ،اور فون ان رہے ہاتھ میں رہے "
"جی "
"اللہ حافظ"انہوں نے اس کا بھجا بھجا سا انداز نوٹ کیا مگر ان کا ارادہ اس معاملے میں نرمی کا نا تھا
شازر تھوڑی دیر بیٹھا پھر چلا گیا وہ بھی کام میں لگ گئے کچھ ضروری فائلز تھیں جن پر تحقیق ضروری تھی۔۔۔۔
💖------------💖
وہ لوگ ہوسپٹل کی ہفتہ بھر کی چھٹی پر حیران تھے اور خوش بھی ماسوائے رائنا کے اور سعود کے سب نے باہر پر جانے کا سوچا رائنا تو حیدر کے صاف جواب سے بڑی تھی پر بظاہر کمپوزڈ تھی اور سب کو ہسبنڈ کے ساتھ پروگرام ہے کہہ کر ٹال دیا تھا ورنہ وہ سب ترس بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے تھے جو اسے قبول نا تھا ، جبکہ سب سے زیادہ پریشان سعود تھا جو ان لوگوں کی سمجھ سے اوپر تھا کے اسے ایسا کیا غم ہے ہوسپٹل بند ہونے کا "تم تو ایسے بیٹھے ہو جیسے تمہاری ناکارہ اولاد عمر بھر کی پونجی لٹا آئی " ڈاکٹر صبیح طنزیہ بولے
"ہاں تو دو ہفتے نا کوئی اوپی ڈی نا کوئی وارڈ نا ہی کوئی سرجری کیسے گزری گی بھائی"وہ ماتم کناں انداز میں بولا تو وہ سب کڑے تیور لیے اسے گھورنے لگے
"سرجری جسے اسسٹ (assist)کرنا تو دور آپ ہاتھ باندھ کر پیچھے کھڑے آئی اوئی کرتے ہیں"رائنا نے طنز کیا
"اوپی ڈی جہاں آپ پلس(pulse)تک غلط لیتے ہیں "اب کے ڈاکٹر رودابہ نے حملہ کیا
"اور وارڈ میں روز اپنے پیشنٹس کے سامنے سینئر سے راؤنڈ پر آپ بارے سنتے ہیں واٹ از سو فسینیٹنگ فار یو" ڈاکٹر صبیح نے بھی سنایا
"اوہ چھوڑو تم لوگ "وہ کوفت سے اٹھا رائنا کی آنکھیں اسی پر تھیں وہ اس دن اسے چوری چھپے شہرینہ کے روم سے نکلتا دیکھ رہی تھی پہلے شرجیل پھر سعود ٹرائینگل سمجھ نہیں آرہا تھا پھر بھی اس نے سعود کی اس روم سے نکلنے کی ویڈیو ریکارڈ کر لی تھی کیونکہ وہاں فریدہ کے علاوہ جانا منع تھا تو جو سعود نے کیا وہ آفیشل مس کنڈکٹ تھا رائنا کسی کا کیرئیر برباد نہیں کرنا چاہتی اسی لیے تصدیق سے پہلے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی تھی اب شہرینہ کی ہسپتال سے چھٹی اور سعود کی پریشان حالت معاملہ مزید الجھا رہیں تھیں
💖------------💖
"ڈیم اٹ ڈیم اٹ !گاڈ وائے می ؟ڈیڈ کو بھی ابھی پاکستان آنے کا سوچنا کب سے سب سے چھپ کر بزنس وائنڈ آپ کر رہے تھے تبھی تو اچانک سو کالڈ سرپرائز دیا اب انہیں شہرینہ کی رئیلٹی پتا چل جائے گی پھر ؟اوہ نو
اور یہ شہرینہ کی بھی چھٹی کرادی گئی فون بھی نہیں لگ رہا کیا کروں اب اس پنکی کے ڈاکومنٹس سبمٹ کرانے کا فایدہ ڈیڈ خود یہاں آرہے ہیں نیکسٹ منتھ واٹ ٹو ڈو "وہ سر نوچتا پاگل یوریا تھا
اسے اب تک اس کے رپورٹر دوست نے کچھ خبر نا دی تھی شہرینہ کو میڈیکل ایڈوائس کے خلاف چھٹی دلوادی گئی تھی "یقینا یہ اس شرجیل کا کام ہوگا"وہ بھی پر یقین تھا مگر اب اسے بلکل سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے اس کے ڈیڈ نے کچھ وقت میں اسے یو ایس آنے کا بھی بولا تھا وہ سب سمیٹ پاکستان آکر بسنا چاہتے تھے سعود کو گھیرا تنگ سے تنگ ہوتا محسوس ہوا ڈیڈ کو اگر شہرینہ کی اصلیت پتا چلتی تو وہ پیچھے ہٹ جاتے مگر سعود اب اس لڑکی کو ایسے نہیں چھوڑ سکتا تھا اس کے اندر بیٹھا انسان زندہ تھا دل پر قفل ابھی نہیں لگا تھا
"کوئی نا کوئی وے آؤٹ ضرور ہوگی ،ائی کین دو اٹ" وہ خود کو ہی یقین دلانے لگا
💖------------💖
وہ گھر آئی تو موڈ خراب تھا اس کے کولیگز ہوسپٹل بند ہونے کی خوشی میں اسٹنگ پر جا رہے تھے مگر اس کے کال پر پوچھنے پر حیدر نے سختی سے منع کردیا رائنا کو سب کے سامنے سبکی سی ہوئی تھی "کیا سوچتے ہوں گے سب میرے ہسبنڈ کیسے شکی ہیں "یہ سوچ اس کا دل خراب کر رہی تھی وہ سر جھٹکتے آمنہ کی طرف چلی وہاں سکینہ آئی تھی اس نے سکینہ کو آمنہ کو بھی اردو سکھانے کا بولا تھا آمنہ بھی خوش تھی شرجیل نے اس پر ہر خوشی بند کی ہوئی تھی وہ اس کی غیر موجودگی میں سجنا سنورنا دور کوئی کڑھائی والا یا شوخ رنگ لباس نہیں پہن سکتی تھی باہر اکیلے جانا تو دور وہ خود بھی اسے کہیں لے کر نا گیا تھا آمنہ تو اپنے گاؤں سے بھی ناواقف تھی بس کبھی کبھار ر خاندان میں شادی ہی اس کی تفریح تھی ،ٹی وی ،موبائل ،کی بھی پابندی تھی ناپاکی میں غوطہ زن شرجیل اپنی نصف بہتر پر زندگی تنگ کیے جانے کو جنت کمانے کا ذریعہ سمجھے بیٹھا تھا رائنا سے آمنہ کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی اس نے سوچ لیا تھا آمنہ کی زندگی میں بہتری لانے کا سکینہ کو اس نے وقتی طور پر اسی لیے رکھا تھا کے بچوں کے بہانے آمنہ کو بھی اردو سکھانے محض دو ہفتے میں یہ نا ممکن تھا پر اس نے بعد کی بعد پر اٹھا رکھی وہ وہاں بیٹھی سب پر غور کرتی رہی بھولی سی آمنہ کے چہرے پر بڑی معصوم سی لگن اور اشتیاق تھا رائنا کو سکون سا محسوس ہوا
💖------------💖
"بڑی سرکار !"
"ہاں بولو "
"آپ کا بڑا احسان ہے جو آپ نے میری بات سنی میری مدد کی وہ کل بھی آیا تھا اور صبح بھی ، بچے پڑھ چکے اور بیبی بھی کیا میں تھوڑا اور وقت رک جاؤں بس گھر میں کم سے کم رہ کر ہی اس سے بچ سکتی ہوں "وہ ملتجی ہوئی
" اچھا ٹھیک ہے ،ویسے تم اپنے والدین کو کیو نہیں بتاتی کے وہ آدمی تمہیں تنگ کرتا ہے "
"بس کیا کریں بڑی سرکار یہاں ماحول ہی ایسا کوئی رشتہ مانگ لے پھر ہر صورت دینا ہوتا ہے میری اماں تو ویسے بھی اسے اچھا سمجھتی ہے سب سے اچھی شکل نوکری سب کچھ تو نہییں نا ہوتی وہ آج میری مرضی کے بغیر مجھے چھیڑتا ہے شادی کے بعد کیسے رکھے گا بھلا ،اماں ابا کو بتایا تو پہلی صورت میں مجھے اسی سے بیاہ دیں گے دنیا سے بچنے کے لیے"
"ہممم ٹھیک "کیسا افسوس کا مقام ہے دنیا کی باتیں اولاد سے بڑھ کر ہوجاتیں ہیں اسے اپنا وقت یاد آیا اس نے بھی تو مجبوری میں رضامندی دی تھی مگر پھر اس کے ابا اس کے پاس چلے آئے وہ ماضی میں کھو گئی
"رائنا بچے !تم خوش نہیں ہو گڑیا؟"
"نکاح میں ایک دن ہے ابا اب کیا فائدہ"
"نا میرے بچے دنیا کے ڈر سے نہیں بیاہ رہا تمہیں نا اس ڈر سے بیاہ رہا ہوں کے لوگ کیا کہیں گے یا بعد میں رشتہ نہیں ہوگا جو اللہ اب سبب بنارہا ہے تب بھی بنا دے گا ،مگر وہ دوسرے قبیلے والے کافی ظالم ہیں وہ اپنی دوکوڑی کی آنا کی تسکین کے لیے ہر صورت شک پہنچائیں گے جبکہ حیدر صاحب نا آنا میں اپنا رہیں ہیں نا مجبوری میں وہ خود جب بتانے آئے تھے تمہاری وہاں موجودگی کارشتہ دے کر گئے تھے اپنا "ابا رسان سے بتاتے بولے
"کیا؟" وہ انگشت بداناں رہ گئی
"میں نے یہی کہا۔کے آپ بہت اچھے ہوںگے مگر ماحول الگ ہے اللہ میری بیٹی کا کہیں اور سبب بنادے گا تب بھی اس اتنی بڑی پوزیشن والے نے آنا کا مسئلہ نا بنایا ہماری پھر بھی مدد کی پھر یہ فتنہ پرور آگئے بیٹی اب مجھے لگا کے تمہیں ان سے صرف ایسے ہی بچا سکتا ہوں مگر تم اولاد ہو میری تمہارے لیے تمہارا باپ کھڑا رہے گا ہمیشہ نہیں چاہتی میری بیٹی تو نا سہی میں ساتھ ہوں تمہارے جھوٹی آنا عزت دنیاداری پر اولاد قربان کرنے کے لیے نہیں دیتا اللہ"وہ آنسو پوچھتے بولے۔ باپ کا شفیق چہرہ رائنا کا دل پسیج گیا وہ تڑپ ہی اٹھی ان کی شفیق آغوش میں آزمائی
"ابا آپ کو یقین ہے ؟اپ کو یہ فیصلہ صحیح لگتا ہے ؟"
"گڑیا یقین صرف اللہ پر ہے اس کی کامل زات پر ،دل کو کہیں فیصلہ صحیح بھی لگتا ہے "وہ اس کا سر سہلاتے بولے
"مجھے بھی آپ کے یقین پر یقین ہے پھر ابا آج تک آپ کے یقین پر یقین کیا ہے آج بھی وہی کرنا چاہوں گی"اس نے ان سے لگے لگے حامی بھری
مگر بعد میں اس واقعہ کے اثرات بی اماں کے طعنوں تشنوں اسے اگلے دن میکے نا جانے دینے اور ماں باپ کی خاموشی نے منتفر کردیا مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس کفیت سے نکل ہی آئی اسے اپنے ابا پر فخر تھا جنہون نے اس وقت بھی اولاد کو دنیا پر قربان نا کیا تھا آج سکینہ کی باتوں نے اسے ماضی میں پھر گھسیٹ لیا تھا مگر اب ماضی کی یاد اتنی تکلیف دہ نہیں لگی تھی اسے
"بڑی سرکار " اس کی آواز نے رائنا کو سوچوں سے باہر نکالا
"ہاں "وہ چونکی
"میں پھر کہاں بیٹھوں ؟"
"ایسا کرو تم یہیں بیٹھ جاؤ" وہ سوچتی بولی اسے ڈر تھا بی اماں شور نا کریں تو سکینہ کو اپنے کمرے میں ہی روک لیا ،یہاں کوئی حویلی کی عورت ان لوگوں پر ایسی مہربان نا تھی یہاں تک کے آمنہ بھی الگ تاؤ سے بات کرتی مگر رائنا کی نرم گوئی اور خیالات سے سکینہ رائنا سے متاثر ہوئی وہ اسکے پناہ دینے پر ممنون تھی اس نے اس دن بڑے ڈرتے یہ سب رائنا کو بتا کر ایک طرح سے جوا کھیلا تھا نہیں جانتی تھی رائنا مدد کرے گی یا نہیں مگر صد شکر اسے مدد مل ہی گئی
💖------------💖
رائنا کمرے سے منسلک بالکونی میں تھی اور پودوں کی کانٹ چھانٹ میں لگی تھی جب حیدر چلے آئے اس کے دکھی ہونے کا اندازہ تو تھا وہ ساتھ ہی اس کے لیے گفٹ بھی اٹھا لائے بڑے خوشگوار موڈ سے کمرے میں داخل ہوتے دھچکا سا لگا سامنے حجاب لپٹے سے سفید گلابی رنگت لیے گرے آنکھیں بوٹے سے قد کے ساتھ جو لڑکی کھڑی تھی وہ ان کی بیوی تو نا تھی تو پھر وہ ان کے بیڈروم میں اس اطمینان سے کیو تھی بھلا حیدر کا چہرہ لال ہونے لگا وہ ناک کرتے اندر آئے سکینہ بھی ہڑبڑا گئی جھٹ سے نقاب لگائی "سسس سرکار سلام۔ "وہ کہلاتی سلام کرنے لگی
"رائنا رائنا "وہ بلند آواز میں اس کو پکارے۔
"رائنا رائنا "وہ بلند آواز میں اس کو پکارے۔ رائنا جلدی سے باہر آئی وہ سمجھ گئی تھی انہیں سکینہ کی بیڈروم میں موجودگی کھلی ہے
"وہ حیدر میں نے کام سے روکا تھا,تم جاؤ سکینہ "سکینہ نے بھی دوڑ لگائی
" یہ کیا فضولیات ہے رائنا کیو کیو تھی یہ اس کمرے میں ,"میرے کمرے میں" " وہ اس کا بازو تھامے پوچھنے لگے آواز اونچی نا تھی پر انداز میں ناگواری ضرور تھی
"سوری مجھ سے غلطی ہوگئی تھی میں سمجھی میرا بھی تھوڑا حق ہے اس کمرے پر "وہ دکھ سے سنجیدہ چہرے کے ساتھ کہتی پیچھے ہوئی اس کے لہجے پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑی تو وہ وہاں سے انہیں کوئی موقع دیے بغیر چلی گئی
جبکے حیدر کو بھی اپنے الفاظ کے غلط ہونے کا انداز ہوا مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا
باقی سارا وقت وہ ان سے اکھڑی رہی خاموش رہی یہاں تک کے شازر کے ہاں جانے کے لیے بھی دونوں تیار ہوگئے پر اس کی چپ نا ٹوٹی آخر کر جب وہ فائنل ٹچ دیتی ڈوپٹہ سیٹ کرہی تھی تب حیدر نے پیچھے اس کے سر پر اوڑھنی سیٹ کی وہ کہسکتی اس سے۔پہلے ہی انہونے راستہ روک دیا اور شانوں سے تھام لیا
"بیوٹی فل "وہ اسے پیار سے دیکھتے بولے پھر اس کا رخ شیشہ کی جانب کرتے وہ چین پہنانے لگے جو آج ہی آرڈر کرکے منگوائی تھی
وہ پلٹی "اس کی کیا ضرورت تھی؟"انداز سرد تھا
"بس کرو رائنا کسی غیر کے لیے آپس میں کیسی ناراضی"
"حیدر آپ کو کیا لگتا ہے یہ چیزیں سب کچھ ہے، میری سیلف ریسپیکٹ کوئی ہے ہی نہیں، آپ کو اس طرح آگ بگولہ دیکھ وہ گئی ہے اسے پتا چل گیا ہوگا کے میری حثیت آپ کے دل میں محض ایک من پسند کنیز کی سی ہے"اس کی بات پر حیدر کا غصہ عود آیا بازو سے پکڑے قریب کیا
"دماغ درست ہے تمہارا کچھ اندازہ بھی ہے کیا الفاظ استعمال کیے ہیں بیوی ہو میری بہت عزت ہے تمہاری فضول باتیں کیو کرتی ہو؟
"پھر کیا بولوں آپ نے کیا بولا وہ یاد ہے "میرا کمرہ " اور اگر وہ تھی یہاں تو اس میں اشتعال کی کیا بات ہے حیدر"
"ادھر دیکھو میری طرف میں باہر سے آکر اس کمرے میں صرف ایک عورت کو دیکھنا چاہتا ہوں رائنا وہ عورت جو میری بیوی ہے تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں اور بیڈروم میں ایسے کسی کی موجودگی صحیح نہیں ہے ,اور جہاں تک بات ہے کمرے کی ملکیت کی تو جب کمرے والا تمہارا ہے تو کمرہ کیا حثیت رکھتا ہے "
وہ پیار سے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیتے بولے
وہ ہنوز منہ بنائے تھی
"اب بس کرو جانم "
"آپ ہر چیز پر اپنی چلاتے ہیں ہر معاملے میں میں نے باہر جانے کو بولا پوری بات بھی نہیں سنی منع کردیا"
"یہ میں پہلے بھی منع کر چکا ہوں اور آگے بھی منع ہی رہے گا"وہ سنجیدہ ہوئے
"حیدر آپ پوچھ تو لیتے میں نے کیا پہلے آپ کے منع کرنے پر حجت کی تھی ؟نہیں نا ابھی سب متوجہ تھے اور سیرسلی ایسے دیکھ رہے تھے جیسے مجھ پر ترس آرہا ہو کیسے ہینڈل کیا یہ سب میں نے آپ نہیں۔ سمجھیں گے"
"ادھر دیکھو کچھ معاملات پر میں لچک نہیں دیکھا سکتا وجہ آہستہ آہستہ خود سمجھ جاؤ گی تم ، جاناں جہاں بھی جانا ہو مجھے بولو ،دیکھو رائنا ہم ہر جگہ نہیں جا سکتے پر جدھر ممکن ہوا تمہاری تفریح کا اہتمام کروں گا گارڈز کے بغیر ایسے ہی بنا جان پہچان والوں کے ساتھ تمہیں نہیں بھیج سکتا میں ,اس معاملے میں تمہیں کمپرومائز کرنا ہوگا"
"اوکے؟"وہ پھر پوچھنے لگے
اس نے بجھے دل سے گردن ہاں میں ہلادی
"اور یہ جو حق جتانے کی بات ہے تو تم جو میری چائے میں زبردستی چینی نہیں ڈالتی میرے کپڑے نکالتے وقت زرا نہیں پوچھتی کونسے کیسے ،یہ سب حق جتانا نہیں ہے ہمم ؟" وہ اب کے موڈ فریش کیے پوچھ رہے تھے
"اتنے مظلوم نہیں ہیں آپ "وہ۔ ٹھنکی
"موڈ صحیح کرو,پلیز "
"ایک شرط پر ہم کراچی جا رہیں آپ نے کچھ دن رکنے کا بھی بولا تھا تو میں۔ امی ابو کے ہاں رکوں گی تین دن"
"تین بہت زیادہ ہی۔ چار دن کا ہی اسٹے ہے بس اس میں تین دن چچ ظلم ہے یہ "
"اور جو مجھے یہاں چھوڑ کر خود آپ ہفتے ہفتے باہر رہتے ہیں آپ ے کام سے وہ میں مینج کرتی ہوں کولیگز سے نائٹ ڈیوٹیز سوئچ کرکے"وہ بولی تو حیدر کے دماغ میں پھر شازر کی بات گونجی
"تم آدھا وقت یہاں آدھا وہاں ہوتے ہو تو بھابھی یہاں انتظار کریں یا وہاں کوئی فرق تو نہیں ہاں یہاں وہ کمفرٹیبکی پریکٹس بھی کرسکیں گی" انہیں اب اس کی بات خاصی موزوں لگی۔ جبکہ رائنا انہیں خاموش دیکھ دوبارہ گویا ہوئی
اچھا دودن"وہ بارگینگ شروع کر چکی تھی حیدر کو ہنسی سی آئی
"چلو ٹھیک ہے بس اب مسکرادو تھوڑا " مان ہی گئے وہ آخر اور اس کے ماتھے پر مہر محبت ثبت کرتے رضامندی دے دی
تو وہ بھی مسکرا اٹھی
"ریڈی ہو پھر ،سامان رکھا ؟"
"جی پیک ہے چلیں " وہ مصنوعی گھوری سے نوازنے لگے
"گڈ سب طے تھا یعنی؟, چالاک "
"دور اندیشی کہتے ہیں اسے چلیں اب"وہ ہنستی بولی تو بھی مسکرا دیے
اور سے لیے باہر کی جانب ہو لیے اور ملازم کو کمرے سے سامان جو کے وہ پہلے ہی پیک کر کی تھی لے کرگاڑی میں رکھنے کو بولا
💖------------💖
اشازر کے ہاں ان کا پر تپاک استقبال ہوا ،وہ کافی خوش ہوئی شازر کی وائف سے مل کر اسے اچھا لگا واپسی کے وقت وہ اسٹیک پر دلہن کو ملنے جا رہی تھی حیدر جگہ پر ہی بیٹھے شازر کے ساتھ بات کر رہے تھے تب اس کا کسی سے ٹکراؤ ہوا سنمبھلنے پر سامنے موجود لڑکی کو دیکھ رائنا کا دل چاہا زمین پھوٹے اور وہ اس میں اس لڑکی کو ڈال دےوہ اس کی یونی فیلو تھی جو اس سے بہت بغض برکھتی تھی کٹر دشمن تھی اور اس تماشے کی گواہ بھی تھی جو ہوسٹل میں اس دن ہوا تھا
آج جب وہ اس سی ٹکرائی تو رائنا کو حقیقتاً لگا
کے اس کے ستارے ہی گردش میں ہیں بمشکل وہ اس سے مسکرا کر ملی مگر وہ کہاں باز آنی تھی
"یار بڑا افسوس ہوا تمہاری شادی آئی مین ٹریجڈی کا سندس کی فیملی میں ہی شادی ہوئی ہے کڈنیپر سے ہی ہوئی کیا؟تمہارے دوست بڑا کور کر رہے تھے ایسا نہیں ہے کڈنیپر کو سزا دلوائی گئی ہے بٹ وہ آل بنو فیوڈل سسٹم "وہ استہزایہ بولتی چلی گئی
"اقرا تم انٹرسٹد کس میں ہو یار میری لائف میں یا فیوڈل لارڈز میں آر یو ریگریٹنگ کے اس دن تم کیو نہیں تھی میری جگہ کیونکہ سب ہی جانتے ہے کے تم کتنی انٹرسٹد ہو فیوڈلز میں ،اور ناولز میں کڈنیپنگ اور ریپ تمہارا فیورٹ جینر تھا رائٹ؟"
"اور تمہیں کتنی چڑ تھی ہیں نا اب دیکھو چچ بٹ یار تم دیکھو رسی جل گئی بل نا گیا " اقرا اس کا پر اعتماد وہی پرانا شکست دینے والا انداز دیکھ سلگ اٹھی تھی
"کہاں جلی ہے وہ دیکھو میرے ہسبنڈ اسے جلنا کہتے ہیں ؟"وہ مجال ہے جو گھبرائی ہو
اقرا چند مزید کوششوں کے بعد چلی گئی مگر رائنا کا موڈ تباہ ہوگیا تھا اس نے اقرا کو وضاحت نہیں دی تھی کے اس کی شادی اغواکار سے نہیں ہوئی وہ جانتی تھی وہ مانے گی ہی نہیں
کسی کے سامنے باہمت بننا الگ ہے مگر بلاوجہ کی تحضیک انسا ن کو ازیت دیتی ہے وہ بھی اسی اذیت میں تھی شادی میں مختلف لوگوں نے مختلف سوال کیے ہی تھے کہاں ملے کیسے ملے وہ تھک گئی تھی کہانیاں بناتے سناتے اس کا پریشان ہونا حیدر نے بھی محسوس کیا واپسی وہ دونوں کافی لیٹ ہوگئے تھے تو حیدر نے اپنے ہی کراچی والے گھر جانے کا بولا وہ اس وقت جاتے تو رائنا کے والدین بھی ڈسٹرب ہوتے وہ بھی سمجھ کر مان گئی وہ اس کی بے کلی ملاحضہ کر رہے تھے پوچھا بھی پر وہ ٹال گئی وہ گھر پہنچ کر بات کرنے کا سوچتے خاموش ہوگئے
💖------------💖
وہ کوئی پچیسویں کافی تھی جو وہ پی چکا تھا پرانی عادت تھی ٹینشن میں کافی پینے کی اے چند دنوں میں یو -ایس جانا تھا تھوڑے وقت کے لیے وہ جانے سے پہلے شہرینہ کو ہر چیز سے آگاہی دینا چاہتا تھا ،اسی وقت اس کا فون رنگ ہوا یہ اس کا وہی دوست تھا جس سے اس نے شرجیل کی معلومات پوچھیں تھی وہ فورا الرٹ ہوا اور رسمی گفتگو کے بعد سیدھا مدے پر آیا
" یار یہ شرجیل بخت خود سوائے(فرضی گاؤں)کے سردار کے بھائی ہونے کے خود کوئی خاص انفلینوس نہیں رکھتا بھائی ہاں البتہ کافی پاورفل ہے وہ پارٹی ہیں نا (فرضی نام) اس سے اپنے علاقے کا ٹکٹ ملا ہے اسے فسٹ ٹائم ہے"
سعود علاقے کا نام سن کر چونکا'کہیں یہ وہی تو نہیں ڈاکٹر رائنا کا ہسبنڈ"
"نام نام کیا ہے اس کا؟"
"سردار حیدر بخت,وائٹ کالر آدمی ہے یا تو کچھ غلط کرتا نہییں ہے یا شاید بڑا چلاک ہے کے کوئی سرا چھوڑتا نہیں ہے یہ شرجیل بخت البتہ متنازع ہے مگر کبھی کوئی ٹھوس ثبوت ویڈیو یا خاتون کا کیس ابتک تاحال سامنے نہیں آیا "
"اوہ ٹھیک سن انفرمیشن ڈھونڈتے رہنا"
"کیا چکر ہے برو ؟"
"سب بتاؤں گے سب پتا چل ہی جائے گا "اس نے کہہ کر ٹال دیا اور کال کاٹ دی
"پوور (poor)ڈاکٹر رائنا چچ واٹ از شی ایون میری ان ٹو(what is she even marry into) "اسے حقیقتاً دکھ تھا
شہرینہ کا فون ہنوز بند تھا اب اس نے فلک سے بات کرنے کا سوچا
💖------------💖
"ہڈیاں تو تیری بلکل ٹھیک ہیں "وہ شہرینہ کا منہ پنجے میں دبوچے بولا حالانکہ شہرینہ کی ٹانگ میں ہنوز لنگراہٹ تھی
"بہت آرام پسند ہوگئی ہے تو شہری "وہ بے تاثر چہرے سے بیٹھی تھی اس نے ایک زور دار لات رسید کی شہرینہ نے اسکی دبائی یہی سسکیاں تو اس زہنی بیمار احساس برتری کے شکار مریض کے سکون کا باعث تھیں اور وہ اسے سکون پہنچانے کی خواہشمند نا تھی اسے اسی بے بسی کی حالت میں دیکھنے کی منگنی تھی جس میں وہ دوسروں کو دیکھنا پسند کرتا تھا
"چل آٹھ زرا ناچ کے دیکھا "وہ سسکیاں دباتی بمشکل اٹھی اور اس کی خواہش پر نا چاہتے ہوئے بھی عمل کیا
"خوب بہت خوب بس رک جا"گھنٹے بعد اسے ترس آیا اور روکا شہرینہ نے ڈیک آف کردیا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ سمجھ گئی ایک اور بڑی آزمائش منتظر ہے
کمرے کی لائٹ آف کردی گئی تھی اس کے نصیب کی طرح اندھیرا چھا گیا تھا
💖------------💖
وہ بہت آف موڈ کے ساتھ کمرے میں گئی حیدر کو کچھ کام تھا تو وہ اسے انتظار کرنے کا کہہ کر باہر ہی رکے
وہ روم میں آئی جلدی سے چینج کیا اور سو نے لیٹ گئی اقرا کی باتیں ہتھوڑے کی طرح سر پر بھی رہیں تھیں اس کی زندگی کیا محض لوگوں کی تفریح کا سامان ہے یہ سوچ اسے کرلا رہی تھی اس وقت وہ سب سے خفا اپنے خول میں بند ہوگئی تھی نیند اسے سب سے بہتر آپشن لگی
حیدر کمرے میں۔ آئے تو اسے بنا کوئی بات چیت کیا اس طرح منہ لپیٹے سوتا دیکھ خون کھول سا گیا "یعنی کے میں اور میری بات دونوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ "وہ اسے سوتا دیکھ چڑ کر سوچنے لگے دل کیا کے جھنجھوڑ کر اٹھا دیں مگر غصہ ضبط۔ کرتے اس پر کمفرٹر ٹھیک کیا اور۔ کمرے سے نکل گئے اتنا تو سمجھ ہی گئے تھے کے کوئی بات ضرور ہوئی ہے مگر رائنا سے نالاں بھی تھے
💖------------💖
وہ آج پھر ادھمکا تھا ڈھیٹ لفظ شاید ایجاد ہی اس کے لیے ہوا تھا
وہ اب اس کا راستہ روکے تھا وہ رات کے برتن دھو رہی تھی اور یہ آفت نازل ہوگئی وہ دل ہی دل کلسی
"کیا بات ہے بڑا تپڑ ہیں زرا حویلی میں کام کیا مل گیا اوقات ہی بھول گئی"
"راستہ چھوڑ دانیال بھائی"
"بھائی نہیں ہوں تیرا سمجھی "اس نے منہ پنجے میں دبوچا "کیا کرے گی راستہ نہیں چھوڑا ابا کو بتائے گی چل جا بتا خود عزت کے ڈر سے تجھے میرے حوالے کردے گا اور میری چڑیا سی جان تو کسی اور سے بیاہی جا بھی نہیں سکتی تو تو صرف میرے لیے تخلیق ہوئی ہے "
"میں بڑی۔ بڑی سرکار کو۔۔"وہ کانپتے بول بھی نا پائی کے وہ ہنسا
"ہاہا ہاہا۔۔۔۔یہ بھی کر پھر وہ تیرے گھر والوں کو سرکار کو بتائیں گی اور غیرت کے تقاضے کے طور پر تو میرے ہی کھاتے میں آئے گی بچنا چاہتی ہے مجھ سے؟"اچانک اس نے پوچھا
سکینہ بنا سوچے سمجھے اثبات میں گردن ہلاگئی
دانیال مسکرایا پھر طنز سے بولا
"ایسا کر سرداروں کے خون کے آدمی کی بیوی بن جا ، چچ بن کیسے سکتی ہے کیونکہ تو تو کمیں کی بیٹی ہے۔چچ بیاہی۔ تو مجھ سے جائے گی یا تبا ہ ہوگی "وہ اس کے گال تھپتپاتا اسے لرزتا کانپتا چھوڑ چلا گیا وہ منہ پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھتی گئی کیا بے بسی تھی کیا تھی وہ موم کی گڑیا جسے بھا جائے وہ خرید لے کھلونا جو ایک صدی بچہ مانگ بیٹھا تھا،عطر کی بوتل جو جس کو بھا گئی وہ چھڑکنے کو لے گیا ،زمین کا ٹکڑا جس کی اپنی کوئی مرضی نا تھی بس دوسروں کاتسلط وہ سسکتے سوچنے لگی۔ کیا عورت کی یہی زندگی ہے کے جسے محبت ہو جائے پسند آجائے وہ اپنانے پر تل جائے کیا اس کی کوئی پسند کوئی رضا نہیں کیا یہ دین ہے نہیں یہ دین تو نہیں ہے پھر کیو یہ لوگ اس کو پوج بیٹھے ہے جو دین ہی نہیں ہے سکینہ کی بے بسی عرش پر جا رہی تھی اور فرش والے بے خبری کے نشے میں مست تھے
💖------------💖
وہ پیاس کی وجہ سے اٹھی تو برابر میں حیدر کو نا پایا
"کہاں گئے؟یا آئے ہی نہیں تھے ؟"وہ حیران ہوئی پھر اسے یاد آیا حیدر نے اسے انتظار کرنے کو کہا تھا اور وہ اقرا کی باتوں پر اپ سیٹ ہوکر سو گئی تھی "اف "وہ سر پکڑ کر رہ گئی اور اٹھ کر باہر کی جانب چلی وہ لاونج میں ہی دکھ گئے تھے ٹی سی کھولے سنجیدہ سے انداز سے ہی لگ رہا تھا تیش میں ہیں
وہ ان کے برابر ہی صوفے پر جا بیٹھی "کیا دیکھ رہیں ہیں؟،مل کر دیکھتے ہیں مجھے بھی نیند نہیں آرہی "وہ بات بنا تے گویا ہوئی
ریموٹ اس کی طرف کہسکا کر وہ کمرے کی طرف چل دیے رائنا نے ہاتھ پکڑ کر روکا "آئی ایم سوری حیدر"
"یو شڈ بی(you should be)"درشتی سے کہتے اس کا ہاتھ ہٹا یا
وہ اچانک سے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے بری طرح سسک اٹھی تھی اس کا اس طرح رونا اس کے زہنی سکون کے درہم برہم ہونے کی نشانی تھا اتنا تو اس کے ساتھ رہ کر وہ بھی جان گئے تھے کے وہ اس طرح بات بات پر دل چھوڑنے والی نا تھی
اور آج وہ جس طرح سسک رہی تھی حیدر حقیقتاً پریشان ہوگئے تھے
وہ اس کے برابر آگئے اور اسے کندھوں سے پکڑے کمرے میں لے گئے اور بیڈ پر بٹھا دیا وہ ایسے ہی روتی رہی وہ اس کا سر سہلاتے رہے انہیں چند ہفتوں پہلے کی فون کال یاد آئی جو رائنا کی دوست ربیعہ کی تھی وہ اس وقت آفس میں تھے
"سردار حیدر بخت بات کر رہے ہیں؟"
"جی آپ کون خاتون؟"وہ حیران تھے
"میں ربیعہ رائنا کی دوست آپ سے ملی تھی پہلے بھی رائنا سے ریلیٹڈ بات کرنی تھی ایاز سے نمبر لیا آپ کا"
وہ تھوڑا جھجھکتے بولی
"فرمائیے " ان کی بھاری آواز ایر پیس پر ابھری
"وہ دکھیے پلیز آرام سے بات سمجنے کی کوشش کیجیے رائنا کی مینٹل ہیلتھ اس واقعے سے ڈسٹرب ہوئی ہے پہلے نہیں تھی وہ ایسی ،بہت سوشل تھی ہنس مکھ بھی ،اب وہ کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نہیں ہے میرے علاوہ کسی۔ بھی پرانی دوست سے بات نہیں کرتی وہ جیسے کسی کا بھی سامنا کرنے سے کتراتی ہے اسے۔۔"
"ایک منٹ خاتون ٹھریے آپ کی فکر کی قدر کرتا ہوں مگر رائنا بلکل ٹھیک ہے مینٹلی فٹ ہے وہ بس ڈسٹرب ہے جو کافی معقول ہے ایسی کنڈیشن میں ،رہی بات سوشل ہونے کی وہ اب بلکل آرام سے نئی جگہ نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہے نئے کولیگز ہیں اس کے ،اپ اوور تھنک کررہی ہیں،اسے سائیکیٹرسٹ کی ضرورت نہیں ہے" وہ کافی بے لچک لہجے میں بولے تھے ایک پل خاموشی چھا گئی
"سردار صاحب میں صرف اپنی دوست کے لیے کنسرن ہوں بس ،اپ کی بات ٹھیک ہے کے وہ نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہورہی ہے ہر پر ماضی سے وابستہ کسی بھی شخص سے سامنا کرنے سے خوفزدہ ہے، میرے اور اپنے پیرنٹس کے علاوہ،اپ اور وہ لاکھ اووائیڈ کریں تب بھی اچانک سامنا کہیں بھی ہو سکتا میں یہ نہیں کہہ رہی اسے سائیکٹرسٹ کو دیکھائیں مگر اگر ایسی سیچویشن ہو تو پلیز آپ میں بس ۔۔۔کیا بولوں سوری میں بس رائنا کے لیے فکر مند ہوں "وہ تھک کر بولی
اس کی آواز میں بے بسی اور فکر تھی وہ کچھ نرم ہوئے بات رائنا کی تھی آخر
"ٹھیک خاتون آپ کی کفیت سمجھ سکتا ہوں رائنا بیوی ہے میری میں اس کا خیال بہتر رکھ سکتا ہوں اور رکھوں گا آپ کی فکر کی قدر کرتا ہوں "
"تھینک یو پلیز رائنا کو نہیں بتائی گا پلیز"
"ہوں "انہوں نے ہنکارا بھر کر ہامی بھر لی
وہ اس لڑکی ربیعہ کی جرات اور بےغرض دوستی پر حیران تھے یہ دوسری بار تھا پہلی بار تب جب رائنا ہاشم کی تحویل میں تھی ایاز کو الگ بے بس کر رکھا تھا ہاشم نے حیدر ملک سے باہر تھے تب ربیعہ اور ارشد نے کیسے کیسے جتن کرکے رابطہ کیا تھا وہ اس وقت بھی اپنی دوست کے ساتھ تھے جب اسے سب مشکوک ٹہرا رہے تھے یہی وجہ تھی جو حیدر رائنا کے ان سے ان ٹچ رہنے پر رضامند تھے
آج رائنا کی یہ حالت دیکھ انہیں ربیعہ کی بات یاد آئی وہ صحیح تھی رائنا کو اپنے ماضی سے وابستہ لوگوں سے وقتاً فوقتاً ان ٹچ رہنے کی ضرورت تھی ایسے چھپ کر تو زندگی نہیں گزر سکتی تھی وہ اب بھی رو رہی تھی حیدر نے اسے بھڑاس نکالنے دی وہ ابھی اسے وقت دے کر دیکھنا چاہتے تھے سائیکٹرسٹ کے پاس لے جانا نہیں چاہتے تھے ورنہ وہ مزید دکھی ہوتی ہاں اگر بہتری نا آئی تب وہ ضرور سائیکٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ سے رابطہ کریں گے یہ انہونے سوچ لیا تھا ،اخر وہ روتے روتے تھک سی گئی تب حیدر نے ہاتھ بڑھا کر اس کے اشک سمیٹے
"یہ اتنی پیاری آنکھیں کیو سجاتی ہو بیوی "ایسی محبت پر وہ پیاری آنکھیں پھر بھر آئیں
"چچ رائنا دیکھو ادھر بتاؤ مجھے کس نے ستایا بولو"وہ اسے پیار سے پچکار رہے تھے
"ائیم سوری حیدر ،میں نے بہت تنگ کر دیا آپ کو "وہ سنمبھلتی آنسو صاف کرتی بولی
تو انہونے اس ساتھ لگالیا اور اس کا سر سہلانے لگے
"رو لو جتنا رونا ہے ،ارام سے کوئی حرج نہیں ، آ ج سب بھڑاس نکال لو تاکہ آئیندہ ایسے نا رونا پڑے"وہ رسان سے کہہ رہے تھے وہ کافی دیر ایسے ہی اشک بہاتی رہی پھر دل ہلکا ہوا تو سیدھی ہوئی اور خود ہی آنکھیں صاف کرنے لگی
"بس یہ لاسٹ ٹائم اب میں کوئی بات کسی کے طنز طعنے پر اپنی اور آپ کی زندگی ایسے نہیں مشکل کروں گی ،اب میں فیس کروں گی جب میں غلط ہوں ہی نہیں تو
۔۔۔میں کیو شرمندہ ہوں "وہ ایک عزم سے بولی تو حیدر نے ہاتھ بڑھا کر اسے خود سے لگایا کبھی کبھی ہاتھ پکڑنا گلے لگانا رومینس کرنا نہیں ہوتا ساتھ دینا ہوتا جذباتی سہارا دینا ہوتا یہ بتانا ہوتا ہے کے ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم قدم ہیں تم ڈرو نہیں ہم سنمبھال لیں گےاور اسی سہارے کی رائنا کو ضرورت تھی جو حیدر نے پوری کردی تھی تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ہی ہاتھ پکڑے نیند کی وادی میں تھے آنے والی صبح یقینا روشن ہونی تھی رائنا نے اپنے ایک اور ڈر کا سامنا کر لیا تھا ماضی کی ایک اور کیل نکل گئی تھی ماضی کے سب تلخ باب بند ہو گئے تھے انسان جب اپنے اندرونی خوف کا سامنا کر لیتا ہے تو وہ وقتی طور پر ٹوٹ جاتا ہے یہ ٹوٹنا اسے مضبوط کردیا ہے اس ڈر کو نکال پھینکتا ہے جو اسے اندر ہی اندر کھا رہا ہوتا ہے یہی رائنا کے ساتھ ہوا تھا اب کوئی ڈر نا بچا تھا جو ماضی سے منسلک ہوتا ۔اب سب کیلیں نکل گئیں تھی گڑیا کیلوں سے آزاد ہوگئی تھی
💖------------💖
صبح وہ حیدر سے پہلے ہی اٹھ گئی تھی ،جلدی سے فریش ہوکر کچن میں گئی اور ان کے اور اپنے کیے ناشتہ بنا یا تبھی کبرا(ملازمہ )ہوسکتی جولتی آئی
"ہائے صدقے جائے کبرای بیبی سرکار کے، بیبی آپ سلامت رہیں آباد رہیں کبرا ہیں نا یہ سب کاموں کو میری بیبی کیو تھکیں "اس کی خوشامدانہ لن ترانی نے رائنا کو بے زار کردیا
"کبرای جاؤ کواٹر میں ضرورت ہوئی تب بلا لوں گی"
وہ ایسے تاؤ سے بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی پر اب یہ اس کی ضرورت تھی وہ بڑی سرکار تھی اس نے اسی رتبے کے لحاظ سے رویے کا تعین کرنا تھا
"جی جی بیبی جو حکم "وہ کھسیانی ہو کر چلی گئی
وہ روم میں گئی تو حیدر وہاں نا تھے ملازم نے بتایا لان میں ہیں
وہ لان میں رکھی کرسی پر دراز کسی سے کال پر مصروف تھے"ملو اس سے بتاؤ اس کو حیدر بخت سے دشمنی اس کو کتنی مہنگی پڑے گی ،نسلیں بھگتیں گی ،عبرتناک حال ہوگا " رائنا کو دیکھ وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ہاتھ تھام کر اپنے برابر والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔"جانے کس کی بات ہورہی تھی مگر ایسا سرد اور سفاک لہجہ تھا کہ اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنا ہٹ دوڑ گئی ہاتھ ہنوز حیدر کے ہاتھ کی قید میں تھا دل کیا چھڑا کر اندر چلی جائے اس کے کانپنے پر حیدر نے دیکھا زرد پڑی تھی وہ کال ختم کر کے اسکی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی کرسی گھسیٹ کر اپنی طرف کی اب وہ ان کے سامنے تھی
حیدر نے اس کے چہرے پر پیار سے ہاتھ رکھا "کیو پریشان ہو ، تمہیں کیا ضرورت ہے گھبرانے کی ،میری ساری سختی دوسروں کے لیے ہے اور ساری نرمی "وہ رکے پھر نرم نگاہوں سے اسے دیکھا اور جملہ مکمل کیا "تمہاری لیے ہے بس" "وہ اس کے گال کو پیار سے سہلاتے اسے بہلاتے پسلاتے بولے تو وہ پھیکا سا مسکرا دی بزدل نہیں تھی وہ مگر اسے سیدھی سادھی زندگی پسند تھی اور زندگی کو اس کے لیے یہ جنجال پورہ پسند تھا وم
دل کہیں الجھا تھا اور دماغ وہ الگ ہی بین بجا رہا تھا اسے الجھن میں دیکھ حیدر نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی "اے کیا ہوا ؟,کہاں کھو گئیں؟"
"حیدر کیا یہ سب یہ سب ٹھیک لگتا ہے آپ کو؟"
وہ بول بیٹھی "یہ عجیب سے دھاگوں میں الجھی گنجلک سی زندگی "
"زندگی ایسی ہی ہوتی ہے جاناں ہر کسی کی اپنی خواہشات اپنی باؤنڈریز اپنی فکریں اپنی اسٹرگل ہوتی ہے ہر کوئی اپنی کہانی لیے پھرتا ہے کوئی پھولوں کی سیج پر نہیں سوتا جاناں"
"بڑا فلسفیانہ جواب ہے"وہ مسکرائی پھر گویا ہوئی"کیا یہ لوگوں کو ڈرانے.."
اس کی بات حیدر نے بیچ سے ہی اچک لی
"یہ برادری کے مسائل ہیں پنچائیت کے معملات کبھی سیاسی باتیں بھی ہوتی ہے تم مت الجھو ان میں میں تمہیں زیادہ نہیں یقین دلاؤں گا آج آخری بار وضاحت کروںگا پھر تمہیں یقین کرنا ہوگا حق الیقین ویسا یقین۔ جو مجھے تم پر ہے پھر کوئی کچھ بھی بولے تم مجھ پر اعتماد کرو گی بولو کروگی ایسا ؟اگر جواب ہاں میں ہے صرف تب بات ہوگی اس معاملے پر"وہ ہاتھ بڑھائے منتظر تھے اس نے آہستگی سے منظورہ دے دی کے نا دینے کا فایدہ کیا تھا اس صورت میں وہ اسے کچھ بھی نہیں بتاتے
"فلحال جسکے بارے میں بات کر رہا تھا وہ سیاسی مسائل میں سے ہے اپوزٹ جو پارٹی ہے وہ مسلسل بیٹھنے پر زور دے رہی کبھی دھن کی لالچ دے کر کبھی زن کی لالچ اب دھمکیوں پر اترے ہیں خیر ہے یہ سب آنی جانی چیزیں "انہونے سرسری سا بتا کر اخر میں لاپرواہ انداز اختیار کیا
"اور۔ جو یہ پنچائیت کے مسائل ہوتے ہیں کیا وہ خطرناک نہیں؟"وہ پھر بولی
"ہیں بھی نہیں بھی یہ زیادہ تر وقتی جوش کھائے زمیندار ہوتے ہیں جنھیں وقتا فوقتاً ڈوز کی ضرورت پڑتی ہے ،ڈوز ملتے واپس اپنے دائرے میں گھومنے لگتا ہیں"وہی سرسری سا انداز
"آپ ۔۔"وہ کچھ بولتی اس سے پہلے حیدر نے روک دیا
"سنو میری بات رائنا !میں یہ ماحول بدلنا چاہتا ہوں اپنے گاؤں کی ترقی میری دیرینہ خواہش ہے تمہیں پتا ہے چینج آتا کیو نہیں ہے حالات میں ملک میں کیو جو چینج لا سکتے ہیں وہ راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں پرخار راہ سے ڈر کر اور جو بچتے ہیں وہ خود ان حالات پر شیر و شکر ہوتے ہیں تو کیو کوشش کریں گے سدھار کی میں اپنے گاؤں کو ایسے ہی لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑوں گا ،جانتی ہو تمہیں کیو بتا رہا ہوں کیو کے پہلے میں اکیلا تھا مگر اب تمہارا نام مجھ سے جڑا ہے تمہیں یہ سب جاننا ضروری ہے ،میرے لیے تمہارا ساتھ ضروری ہے تو کیا میں امید رکھوں تمہارے ساتھ کی؟"
"اسٹرینج سردار حیدر کو ایک عورت کا ساتھ چاہیے"اس نے پرانی بات کا حوالہ دیا جب بھی وہ حیدر کے ساتھ دینے کی بات کرتی وہ ہنستے اسے عجیب لگا تو پوچھ لیا ان کے جواب نے اس کا دل دکھایا تھا"بھئی یہ مردوں کے معملات ہیں تم کیا ساتھ دوگی "لہجہ تلخ نا تھا پھر بھی لفظ غلط تھے وہ اس وقت چپ رہ گئی تھی مگر آج جب وہ اس کے ساتھ دینے کا پوچھ رہے تھے تو وہ خاموش نا رہ پائی اور جتا دیا
وہ تھوڑی دیر اسے ایسے ہی گھورتے رہے پھر ہاتھ پکڑ کر ہلکا سا کھینچا "سردار حیدر کو کسی عورت کے ساتھ کی ضرورت نہیں سمجھی"وہ زور دیتے بولے"سوائے اسکی اپنی عورت کے اسکی بڑی سرکار کے آئی سمجھ "وہ اس کی کنپٹی پر انگوٹھے سے ٹیسکا دیتے مسکراتے بولے
تو وہ پہلے تو حیران رہ گئی پھر ہنس پڑی "ناشتہ کر لیں سردار صاحب ڈائیلاگز کافی ہوگئے "
وہ بھی ہنس دیے
"ناشتے کے بعد ریڈی رہنا آج پورا دن تمہارا باہر بھی جائیں گے اور واپسی میں تمہارے میکے بھی "وہ بولے تو وہ خوش ہوگئی
💖------------💖
وہ گھوم پھر کر واپس ہوئے تو شام ہوچکی تھی رائنا نے گاڑی میں بیٹھے امی ابو کو فون کرکے اپنے اور حیدر کے آنے کی اطلاع دی
"ہاں بچے یاد آگئی میری اولاد کو ،تمہاری خالہ دادی بھی آگئی واپس انگلینڈ سے گھوم پھر کر کچھ عرصہ رکیں گی"
ابا نے خوشی خوشی بتایا
"سچی ؟"وہ خوش بھی تھی اور حیران بھی خالہ دادی کو انگلینڈ اپنے بیٹے کے پاس گئے سال ہونے کاتھا اب وہ واپس آئیں اس کی شادی جو امی ابا نے کیسے ہر جگہ سنمبھالا تھا وہ ایک الگ ہی کہانی تھی مگر خالہ دادی کو تھیں تو اس کے ابو کی خالہ پر رہی کافی عرصہ ان کے ساتھ تھیبڑی دلچسپ خاتون تھی بڑھاپے نے البتہ کچھ گڑبڑے کردیں تھیں کے وہ کچھ بھی بول دیتی تھی کبھی بے حد سمجھدار برتاؤ کرتیں اور کبھی ۔مسامنے والے کو زچ کردیتیں رائنا ان کی لاڈلی تھی وہ سوچنے لگی حیدر اور خالہ دادی کا ٹکراو کچھ گڑبڑ نا کردے پر اب ان کو کیا کہہ کر روکتی
"حیدر تھک گئیے ہیں آپ تو گھر چلیں ؟"
"نہیں میں ٹھیک ہوں "
"مگر"
"کیا بات ہے رائنا اب اطلاع بھی دے چکے ہیں "انہونے ٹوکا اس کی کال پر کی گئی باتوں سے سمجھ چکے تھے کے کوئی مہمان ہے وہاں اب وہ اس کے کترانے کو الگ ہی سمجھ رہے تھے
آخر منزل آہی گئی اور وہ دونوں اترے
"ایک بار پھر سوچ لیں,خالہ دادی آئی ہیں وہ کچھ بھی بول سکتیں ہیں"اس نے وارن کرنا ضروری سمجھا
آگے بڑھو شاباش "وہ اسے گیٹ میں آگے جانے کا کہتے بولے اس نے بھی کندھے اچکادیے
💖------------💖
"یار ایک بڑے مزے کی خبر ملی ہے"سعود کا کارن فلیکس میں چمچ چلاتا ہاتھ رک گیا کل ہی تو فلک سے بات ہوئی تھی شہرینہ کو شرجیل کے گیا تھا اور ابھی فلک کا بھی اس سے کونٹیکٹ نہیں تھا ایسے مایوسی کے عالم میں حمزہ (رپورٹر)کی پرجوش آواز نے امید باندھ دی
"ہاں بول ؟"جلدی بول"
"وہ ہیں نا تیرا حیدر بخت اس کے وائٹ کالر پر کچھ کچھ کلنک ملا ہے مجھے ایک پارٹی نے بھی آفر کی ہے ایسے کلنک ڈھونڈنے کی پر کنفرم کچھ نہیں ہے "
"ابے ہے کیا ،ڈونٹ جسٹ بیٹ اراونڈ دا بش کم ٹو دی دی پوائنٹ مین(don't just beat around the bush come to the point man)(معنی:بات کو گھماؤ مت مدے پر آؤ)"سعود اسکی لن ترانی سے زچ ہوا
"یار دیکھ ابھی نا سب ہوائی بات ہے پر کام کی ہے تھوڑی یہ فیوڈلز کا تو پتا ہے نا تجھے کیسے ہوتے ہیں یہ حیدر کے شاید کسی کزن وغیرہ نے کسی غلط فہمی کی بنا پر لڑکی اٹھائی کسی کی کس کی یہ نہیں پتا بات بڑی دبائی ہے حیدر نے اس کا نام آیا ،اس کے کزن کا نام آیا پر بھائی لڑکی نہیں پتا چلی شاید وہ اس لڑکی کے ذاتی جان پہچان والے کو پتا ہو میڈیا میں نہیں پھیلا یہ معاملہ
بہرحال کزن تو شاید بھیج دیا کیا کیا انہوں نے پتا نہیں۔ لڑکی بھی نہیں پتا مگر اس واقعے کے تھوڑے عرصے میں حیدر بخت کا نکاح ہوگیا اب دیکھ سنا یہ ہے شہری لڑکی سے ہوا تو مجھے لگتا ہے کے حیدر نے کیا ہوگا سب اغوا وغیرہ اور بلی چڑھادیا کزن کو لڑکی عام سے گھرانے کی ہوگی وہ کیا کرسکتے ہوں گے اس کے ،بس یہ بات تھی دیکھ کوئی ثبوت کوئی گواہ نہیں ہے آئی کڈ بی رونگ تو دیکھیے خود باقی میں بھی تلاشی میں ہوں اچھی رقم ملے گی حیدر بخت کی مخالف پارٹی سے"
"یہ تو بہت ہوائی بات ہے یار پھر بھی شاید واقعی ایسا ہو پر تو بتا یہ صحافت کو ایسے بیچنا ٹھیک ہے"
"بھائی پیٹ بھرنا ٹھیک ہے میں کوئی ریپ کیڈنیپنگ یا چوری ڈکیتی نہیں کر رہا حق حلال کی کما رہا ہوں"
اسی فیصد ابادی کی طرح حمزہ کو بھی حرام صرف وہی کمائی لگتی تھی جو جسم فروخت کرنے والے کی ہو چوری کی ہو یا ڈکیتی کی حالانکہ غیر قانونی کام ،کم تولنا ،ورک پلیس پر ہراس کرنا ،کسی کا حق مارنا ،کام کو کم وقت دینا بھی حلال تنخواہ کو حرام کی طرف لے جاتا ہے پر کون پڑے ان گہرائیوں میں سعود نے بھی سر جھٹک کر ان سوچوں سے جان چھڑائی ۔
وہ اب فون رکھے سوچوں میں گم تھا جب یکلخت زہن میں جھماکا ہوا "ڈاکٹر رائنا "
"یس اٹ کس بی پوسبل "اسے رائنا سے اس کے اور حیدر کے ایک ڈیفرنس کا پوچھنا اور رائنا کا ٹالنا یاد آیا ،وہ آفیشل نیم فائلز پر بھی رائنا علی کے نام سے تھی
"ایج ڈیفرنس نہیں پتا ہونا دو باتوں میں آتا ہے ایک لاپرواہی دوسرا نکاح کے وقت یہ بات نوٹ ہی نہیں کی ہو اس نے مگر شادی ارینج ہو یا لو ایج تو بتائی ہی جاتی ہے بھئی پھر اپنی شادی کے ٹاپک پر کترانا،نیم رائنا علی ہی رکھنا بیٹا دال میں کچھ تو کالا ہے یا ساری دال ہی کالی ہے مگر ڈاکٹر رائنا کسی آؤٹ اسپوکن کیریر اورینٹڈ لڑکی اپنے گنہاگا ر کو سر کا تاج کیو بنائے گی مجبورا یہ مجبوری سب کراتی ہے "وہ خود ہی سوال کرتا ان کے جواب ڈھونڈتا تھوڑی کھجاتا تانے بانے جوڑ رہاتھا
💖------------💖
"اے چڑیا کیا روپ رنگ ہے تیرا ہیرا بائی صدقے جائے ایسے حسن کے "ہیرا بائی نے فلک کو ہاسٹل سے نکلوا دیا تھا شرط کے مطابق وہ فلک کے ایگزامز ہوتے ہی اسے کوٹھے پر لے آئی تھی شہرینہ سے کوئی رابطہ نا تھا شرجیل بھی آخری بار جب آیا کچھ نا بتایا تھا
فلک مجبورا طوعاً کرہا گھنگھورے باندھے ناچنا سیکھ رہی تھی
"ہیرا بائی ہیرا تو واقعی قیمتی تراشنے کے بعد دگنا قیمتی ہوجائے گا وہ بخت صاحب (شرجیل)کے لیے مخصوص کرے گی"
استاد نواز نے ٹوہ لینی چاہی
"نا استاد صاحب بخت صاحب دیالو ضرور ہیں مگر ہیرے پر تسلط جما لیتے ہیں پھر یاد ہے نینا مخصوص کرائی تھی پھر شہرینہ اب نینا بیچاری فارغ پڑی ہے کسی کو نا دے سکوں اسے شہری بھی یہی حال سے گزرے گی نقصان کس کا ہیرا کا نا ہیرا نے یہ ہیرا (فلک)اب انہیں نا دینی اس کے تو دام کھرے کروں گی بار بار کھرے کروں گی وہ انگریجی میں کہتے ہیں نا کیا زرا ہاں ری سیل (re sale) ویلیو ہے اسکی "اس کی عیار آنکھوں میں چمک بڑھ بڑھ گئی تھی لب پر شاطرانہ مسکراہٹ تھی
"اور بخت کی کو پتا لگا پھر"
" انہیں فلحال میں کوئی اور اچھا کھلونا دے دوں گی جس سے نا میرا نقصان ہو نا ان کا اور اسے چپا دوں گی بعد میں پتا لگ بھی گیا تو طوائف کی پہنچ سے زیادہ کسی کی پہنچ نہیں ایک بخت جی کیا یہاں تو کئی بڑے بڑے پولیٹیشنز ہمارے منتظر ہیں کبھی وہ ہمیں استعمال کرتے ہیں کبھی ہم انہیں بخت کی کیا کر لیں گے بھلا ویسے بھی ڈر عزت کا ہوتا ہے چاہے نقلی ہو یا اصلی اور ہم تو بدنام زمانہ ہیں ہمیں کیا ڈر "وہ مکروہ قہقہہ لگا کر بولی تو استاد صاحب اسکی سوجھ بوجھ پر آر دھننے لگے دوسری طرف فلک کا زہن شہرینہ میں اٹکا تھا سعود سے بات ہوئی تھی وہ جانے والا تھا کچھ عرصے کے لیے اس نے فلک کو یہاں نارمل رہنے کو بولا تھا تاکہ کوئی شک میں نا پڑے ابھی بائی کی باتیں سن کر اسے اتنا تو حوصلہ ہوا تھا کے فلحال وہ اسے کسی کو پیش نہیں۔ کرے گی بخت صاحب کی وجہ سے
💖------------💖
رائنا کے میکے میں ان کا پر تپاک استقبال ہوا تھا ،وہ اندر گئے ہی تھے کے ایک وہیل چیئر پر کالر والا سفید کرتا پہنے سفید ہی ٹراؤزر تھا گلے میں اسٹالر چند بالوں کا جوڑا بنائے خاتون چلی آئیں
صاف شفاف گلابی جلد جس پر جھریاں تھی آنکھیں سکیڑیں ان کا معائنہ کر رہیں تھی رائنا آگے بڑھی اور گلے لگی "خالہ دادی کیسی ہیں "جوابا خالہ دادی نے اسے بھینچا اور خوب روئی اغواہ کاروں کو صلواتیں سنائی پھر آنسو پوچھ کر ایسی نارمل ہوگئی جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو "چھوڑو اب بچی میاں کہاں ہے تمہارا ؟اللہ !"وہ اچانک دل پر ہاتھ رکھے بولیں :" بیڑا غرق ہو ،علی احمد میری پھول سی بچی کے لیے تم ایسے پکی عمر کے بدشکل آدمی کے لیے مان کیسے گئے "رائنا کو کوئی موقع دیے بغیر وہ شروع ہوچکی تھیں حیدر کا خون کھول اٹھا ان لوگوں نے انکی(خالہ دادی) نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو نشانہ حیدر کا ملازم تھا جو بیچارا ان کی لائی سوغاتیں رکھ رہا تھا اندر لاکر اب خون خشک ہوئے کھڑا تھا حیدر الگ تپے سردار حیدر بخت کی بیوی کو کیسے کسی اور کی بیوی سمجھ سکتی ہیں یہ خاتون سامنے ہی تو کھڑے تھے وہ ان کے آخر
"نہیں نہیں خالی دادی یہ تو"علی احمد اور رائنا دونو بولنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کے وہ پھر ریس پکڑ چکی تھیں "ائے ہائے اب یہ موا شوہر ہے تو ہے علی میاں جیسا ہے داماد ہے کام کیو کرا رہے ہو اس طرح "
وہ اور بولتیں اس سے پہلے رائنا نے غصے سے سرخ پڑتے حیدر کا ہاتھ تھاما جو سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بھی خالہ دادی کو نادکھے جانے کیو۔"خالہ دادی بس کریں سن بھی لیجیے یہ یہ ہیں میرے شوہر "حیدر بخت""اب خالہ دادی صدمے سے خوشی میں چھلانگ لگا چکیں تھیں "اچھا ہے، پر کیا بخت نام ہے تو تختے کی طرح اکڑا رہے گا تمہارے سسر کی خالہ ہوں تمہاری ساس کی ساس تو تمہاری بھی ساس ہوئی (حیدر کو دل میں سلجھی ہوئی ساس پر جی بھر کر ترس آیا) "سلام نہیں کرو گے"وہ بمشکل خود کو کمپوز کیے آگے بڑھے اور ان کو سلام کرکے سر جھکا یا اور سر آگے کیا جب کے خالہ دادی نے ہاتھ آگے کیا وہ دونو ہی حیران تھے جب علی صاحب بیچ میں آئے
"خالہ پیار لے رہا ہے آپ سے داماد "
"ہاں تو میں بھی پیار ہی دے رہی ہوں" وہ ابھی بھی ہاتھ بڑھائیں تھی "وہ تو ناسمجھ سکتی تھیں علی صاحب داماد کی طرف متوجہ ہوئے"بیٹا جی بات یہ۔ ہے کے خالہ دادی ترکی کے ڈراموں کی رسیا ہیں وہاں بزرگوں کا ہاتھ چومتے ہیں "
"اوہ "("اچھے خاصے نارمل خاندان میں یہ ایسی کیو ہیں")وہ دل میں سوچتے چڑتے محظ ان کی بزرگی کاحاظ کرتے ان کی خواہش کی تکمیل کی تب انہوں نے سر پر ہاتھ رکھ دعائیں دی
رائنا نے ان کو جتاتی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہی "اور نا مانیں میری"
وہ دل کڑا کرتے آگے بڑھے ابھی خالہ دادی سے ملاقات ہونے کے اور بھی امتحان تھے وہ سسرال کے خوشگوار ماحول کو پسند کرتے تھے اور دیگر کمپلیکس مردوں میں سے نا تھے جو بیوی کے میکے میں گیڈر سے شیر بنتے ہیں بلکہ وہ تو عزت دینے والے مان دینےوالے داماد تھے ساس سسر بھی ان کے سونے میں تولنے والے تھے مگر کہتے ہیں نا ہر پھول کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں تو خالہ دادی وہی کانٹا تھیں
چائے پر کافی اہتمام تھا وہ سسر صاحب سے حالت حاضرہ پر گفتگو فرما رہے تھے رائنا والدہ کے ساتھ کچن میں تھی اور خالہ دادی معائنہ میں حیدر کے معائنے میں غرق تھیں تبھی رائنا اور سائرس خاتون ٹرالی لے آئیں اور کانچ کی میز پر سب چن دیا سب ہی متوجہ ہوگئے
دوران چائے اچانک رائنا جو نگٹز کو کیچپ لگا کر کھا رہی تھی ہاتھ پر لگ گئی اور ہاتھ سے چہرے پر حیدر نے اسے اشارہ کر کے بتایا مگر وہ نا سمجھی اور ان سے صاف کرنے کو بولا تو وہ ٹشو کے کر آنکھ کے پاس لگی کیچپ صاف کرنے لگے منٹوں یاسین تھا کوئی خاص متوجہ نا تھا مگر خالہ دادی تو تھیں دل ہی دل بلائیں لیں لاڈلی کے لاڈ آٹھ رہے تھے آخر
"بھئی علی میاں رائنا اپنی ہے نصیب والی"وہ ان دونو کو دیکھتے بولیں سب ہی مسکرائے مگر ان لوگوں کے مسکراتے لب ان کی انگلی بات پر سکڑ گئے
"سارے ہی مرد لاڈ اٹھانے والے ہیں اس کے "
اس قدر متنازع بیان وہ بھی داماد کے سامنے جی کیا ٹیپ لگادی خالی ساس کے منہ پر اور رائنا باپ اور شوہر کے سامنے اس بات پر اس کا دل چاہا کانو پر ہاتھ رکھ دے(اپنے نہیں حیدر کے کانو پر)حیدر نے مٹھیاں بھیچے اٹھنا چاہا کے رائنا نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ ملتجی نظروں سے دیکھا گہری سانس بھر کر انہوں نے سسر صاحب کی طرف دیکھا وہ بے بس دیکھائی دیے "آپ یہ کہنا چاہتیں ہیں کے زندگی میں آنے والے مرد یعنی باپ اور شوہر رائٹ"انہوں نے چبا کر کہتے خاتون کو احساس دلانا چاہا
"ظاہر ہے بھئی کوئی پہلی جماعت کے بچے ہیں یہاں جو ہر بات کو وہ وہ کہتے ہیں نا "اب زہن پر زور ڈالا جا رہا تھا" ڈیفائین ہاں یہی تو لفظ تھا ڈیفائین کروں"
"یا اللہ مجھے صبر دے)وہ دل ہی دل دعا گو تھے وہی نہیں خالہ دادی کے علاوہ سب یہی دعا کر رہے تھے کے اللہ حیدر کو صبر دے
💖------------💖
وہ سسر صاحب کے ساتھ بیٹھے شطرنج کی بازی میں مصروف تھے جب دوبارہ چائے کا سیشن چلا اور رائنا ٹرے لیے آئی اب وہ دونوں کی چائے میں اپنے حسب منشاء دودھ ڈال رہی تھی اور چینی اس نے دونو کی پیالہ میں نہیں ڈالی تھی دونوں داماد سسر اپنی اپنی جگہ گھور کر رہ گئے اب وہ اپنی پیالہ میں چائے کا چمچ بھر کر چینی ڈال رہی تھی گھر پر تو حیدر بھی بدلے کے طور پر روک دیتے تھے یہاں پیچ وتاب کھا کر رہ گئے یہی حال سسر صاحب کا تھا "حیدر میاں آپ نے معصوم منافقت دیکھی ہے"وہ بیٹی کی حرکت کو نظر میں رکھتے داماد سے مخاطب ہوئے
"میرے سامنے ہورہی ہے جناب "وہ بھی سمجھ گئے کس معصوم منافقت کی بات ہورہی ہے
"ہائے اب کیا کریں معصوم منافقت سے بھرے صیاد کی قید میں ہیں اور کوئی ااج سے نہیں 24 سالوں سے"پدرانہ شفقت سے بھرے لہجے میں علی صاحب نے مزاح کے پیرائے میں بات کی مگر اس میں بھی ہر ٹیپکل باپ کی طرح اولاد کی عمر ایک سال پیچھے کرنا نا بھولے بیگم نے بیٹی کے پیدائش سے ہی اس کے باپ کو یہ گھٹی دی تھی
ان کی اس مشفقانہ چالاکی نے حیدر کو خوب لطف اندوز کیا مگر بظاہر ظاہر نا کیا
"اب تو آپ تھوڑے آزاد ہیں ہے نا؟"
علی صاحب نے داماد کے سوال پر انہیں ایسے دیکھا جیسے کہہ رہے ہو "میاں تم نہیں سمجھو گے"
پھر نگاہوں کو زبان بھی دے دی
"میاں اس قید سے کون آزاد ہونا چاہتا ہے اس قید میں گرفتار ہونے کو اس صیاد کو تو دعاؤں میں مانگتے تھے ہم "وہ ہلکے سے آبدیدہ ہوگئے حیدر نے رشک سے باپ بیٹی کو دیکھا انہیں اپنی بہن کا باپ سے رشتہ یاد آیا
جو والد سرکار سے ہوکر جو حکم سرکار تک محدود تھا کیسے بد نصیب باپ ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی کی محبت کی قید سے آزاد ہوتے ہیں چچ
رائنا کپ لے کر والدہ اور خالہ دادی کے پاس جا چکی۔ تھی اس گفتگو سے لاعلم تھی اب وہاں ان دونوں خواتین کے ساتھ بیٹھی داماد اور سسر کی جاری کو گھور رہی تھی
"اپنے باپ کو دیکھو زرا" خالہ دادی چھریا تیز کیے ریڈی ہوئیں سائرہ نے سر پکڑا
"ہاں "رائنا نے منہ بنایا
"داماد میں ہی گھس گئے ہیں جیسے خون ہو"
"یہی تو" رائنا نے ان کی گل افشانی پر ہاں میں ہاں ملائی
"بھلا یہ بھی کہیں ہوتا ہے "وہ مزید گویا ہوئیں
"کیا خالہ دادی آپ بھی منفی پہلو نا ڈھونڈا کریں اور رائنا شکر ادا کرو کے تمہارا شوہر تمہارے خاندان کے ساتھ اچھا ہے ورنہ تو ساری عمر گزر جاتی ہے دامادوں کی گردن کا سریا نہیں نکلتا اور عورت بیچاری دو پاٹوں میں پس جاتی ہے پھر گھر خراب ہو تو الزام عورت پر "سائرہ نے منافق معاشرے کو برہنہ کردیا
"صحیح کہہ رہیں ہیں آپ امی میں تو بس مذاق کر رہی تھی اور خالہ دادی کتنی بری بات ہے ایسے آگ میں گھی نہیں ڈالتے"وہ اب خالہ دادی کو چڑا رہی تھی
"ائے ہائے بنو تم تو بے پیندے کا لوٹا ہو " وہ سخت تپیں
اب وہ وہیل چیئر چلاتی وہاں چلیں رائنا نے ان کی مدد کی جہاں حیدر اور ابا تھے ابا کال آنے پر اٹھے تو وہ پنجے تیز کر بیٹھیں
رائنا انہیں اپنی اور آمنہ کے بچو کی تصویریں دیکھا رہیں تھی
"یہ یہ اس آدمی کے ہیں؟"انہیں نیا صدمہ لگا
"نہیں بھئی یہ میرے بھتیجے ہیں خالہ دادی " حیدر نے اس کی طرف دیکھا کیسے مان سے میرے بھتیجے کہا تھا ،وہ پہلے دن سے بی اماں تک کو بی اماں کہتی تھی اور وہ علی صاحب کو انکل دل نے کہیں دور ان کو کوسا
"اللہ کی پناہ یہ کب ہوا سائرہ تم نے بتایا نہیں یہ گنجے سرتاج نے کیا چن چڑھایا تمہارے"اب توپوں کا رخ علی صاحب پر تھا جو ابھی واپس آئے تھے اور ہونق تھے
"رائنا کا مقصد میرے میرے بھتیجے میرے بھائی کے بیٹے تھا خالہ دادی ابا کے پوتے نہیں "
وہ انہیں سمجھاتے بولے یکلخت علی صاحب چونکے داماد د نے پہلی بار ابا کہا تھا بزرگ دل خوشی سے کھل اٹھا کبھی کبھی ہمارا چھوٹا لفظ کسی کو بڑا مان بخشتا ہے مگر اکثر یہ بڑی سی خوشی ہم اپنے ہی آنا کے دائرے میں چکر لگاتے گنوادیتے ہیں اور بعد میں دکھی ہوتیں ہیں کے کوئی ہمیں اپنا نہیں مانتا یا مان نہیں دیتا
رائنا دل ہی دل حیدر کی اس قدم پر خوش ہوئی تھی
اچانک زور دار الارم بجا اور خالہ دادی اچھلی گلے میں دوڑی سے لٹکا ہے ٹکی پیک موبائل کو آنکھیں سکیڑے دیکھا پھر شور مچایا "سائرہ سائرہ جلدی جاؤ جلدی جاؤ میرا کینو لے کر آؤ اور ہاں سیب بھی "انہوں نے وہ شور مچایا کے حد نہیں
حیدر نے سوالیہ نگاہیں رائنا کی جانب کی "خالہ بی ہیلتھ کونشس ہیں صرف صحت کو فایدہ پہچانے والی چیزیں کھاتیں ہیں باقاعدہ الارم لگا کر " وہ بے حد دھیمی آواز میں سرگوشی کرتے بولی۔
حیدر کو اپنا سر گھومتا محسوس ہوا
"کسی دن یہ خاتون پکا مارننگ شو میں آئیں گی"وہ دل ہی دل پر یقین تھے
💖------------💖
"یہ شیراز کیو اداس ہے آمنہ ؟"بی اماں نے بھتیجے کا اترا چہرہ دیکھا تو پوچھ بیٹھیں
"بابا کو یاد کر رہا ہے کہتا ہے بابا کو مجھ سے ملنے کا شوق نہیں "آمنہ نے منوعن بتایا
"تو تو کس لیے ہے بول باپ مصروف ہے "وہ اسے ہی ڈپٹتی بولیں
"بولا ہے پر بڑے ہورہے ہیں بچے نہیں بہلتے اب ان بہلاوں میں "وہ عاجز ہوئی
"تیرا لہجہ دیکھ لگتا نہیں تو نے سمجھایا ہوگا یاد رکھ آمنہ تجھے کاری کرا دونگی اگر میرے بھائی پر آنچ بھی آئی تو نے زرا زبان جھولی سرکار کے آگے یا اپنی کچھ لگتی بڑی سرکار کے آگے اس دن دیکھنا حشر اور اگر میرے۔۔"آمنہ کی چٹیا دبوچے وہ مزید بولتیں تبھی شیراز جو کب سے باہر چھپا کھڑا تھا تڑپ کر اندر آیا
"چھوڑیں میری اماں کو چھوڑیں "وہ روتا زور سے بولا
"نہیں ہوں گی کاری میری اماں نہیں ہیں وہ ایسی"وہ چھوٹا تھا مگر ایسے ماحول بچوں کو وقت سے پہلے بڑا کردیتے ہیں "نہیں کہا اماں نے کچھ "
"شیراز تم اس عورت کے لیے مجھ سے گستاخی کر رہے ہو پھوپھی سرکار سے اپنی ,یہ ہے تربیت تمہاری آمنہ "
وہ آمنہ کو چھوڑ کر اب جاہ جلال سے شیراز کی طرف متوجہ تھیں
"اماں اماں کا رتب
وہ امی سے سر میں تیل لگواتے باتیں کر رہی تھی "امی مجھ سے میرا بھی تو پوچھے کیسی ہوں کیسے رہتی ہوں حیدر کے علاوہ بھی باتیں ہیں "وہ چڑ کر بولی
"تم رچ بس گئی ہو وہاں یہ تمہاری باتوں سے دکھتا ہے اب ،اور حیدر کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کے کیوں رچ بس گیں اتنے جلدی ایسے مختلف ماحول میں اور جس کئ وجہ سے میری بیٹی کو آسانی ہوئی اسکا خیال کرنا نہیں چاہیے کیا "سائرہ بولیں
وہ محظ مسکرا کر رہ گئی اب کمرے میں آکر اسی نحج پر سوچنے لگی کیا واقعی میں خوش ہوں ،ہاں مجھے اچھا لگتا ہے حیدر کا ساتھ انکی محبت انکا احساس کرنا مگر خوشی صرف یہی نہیں ہوتی ، اگر حیدر سے وہ جگہ وابستہ نا ہوتی تو زندگی کتنی حسین ہوتی آپ نے ٹھیک کہا امی میں وہاں رچ بس گئی ہوں اور وجہ حیدر کا ساتھ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کے اگر زندگی میں یو -ٹرن ہوتا تو میں یو ٹرن کا ہی انتخاب کرتی مگر زندگی میں یو ٹرن نہیں ہوتے زندگی میں بس وقت آگے بڑھتا ہے جو اسکے ساتھ آگے بڑھتے ہے کامیاب ہوتے ہیں جو بار بار پیچھے دیکھتے ہیں یا یو ٹرن ڈھونڈھتے ہے وہ زندگی کئ تیز رفتاری میں وقت کئ دوڑ میں کھو جاتے ہیں اور میں کھونا نہیں چاہتی اسلئے آگے بڑھ گئی ہوں
وہ انہیں سوچوں میں تھی جب خالہ دادی چلی آئیں "کیا بات ہے یہ کیو نچڑی ہوئی بلی بنی بیٹھی ہو "اشارہ اس کے تیل سے لپے سر پر تھا بال ہلکا تھا اس کا تیل لگا کر پتلے لگتے تھے
"خالہ دادی کبھی میٹھی بات بھی کر لیا کریں "وہ بیزار ہوئی
"اچھا اچھا یہ بتاؤ وہ تمہارا میاں کیسا ہے ؟"تجسس سے پوچھنے لگیں
"اچھے ہیں کا فی "وہ بولی تو وہ پہلے تو اسے گھورتی رہیں
"تم کہہ رہی ہو تو مان لینا پڑے گا ورنہ مجھے پسند نہیں آیا "
"کوئی بات نہیں اچھی بات ہے میں چاہتی بھی نہیں میرے شوہر کسی اور خاتون کو پسند آئیں "وہ مطمئن انداز سے آگ لگا گئی
"خالہ دادی نے قریب پڑی کتاب سر پر دے ماری(رائنا کے سر پر) "بہت بان چل رہی ہے ہاں"
"اچھا اچھا سوری" اسے ہنسی آگئی
"یہ بتاؤ مارتا تو نہیں ہے"رائنا نے نفی میں سر ہلایا ،"جلاتا ہے"اگلے سوال پر وہ قہقہہ ضبط نا کر پائی
" نہیں خالہ دادی ایسا کچھ نہیں ہے ,اور اللہ نا کرے مسئلہ ہوا تو میری خالہ دادی ہیں نا "وہ انہیں بہلاتے بولی خالہ دادی کی اپنی کہانی تھی دو بیٹے تھے،بڑے بیٹے کی بیوی کم عمری میں۔ چل بسی بیٹا اس کے غم میں مدہوش رہنے لگا اکلوتی بیٹی تھی اسکی جس کو خالہ دادی نے پالہ تمیز تہذیب سلیقہ اچھا جہیز سب دیا نصیب نا دے سکیں وہ روز ظلم سہ کر آتی یہ ہر ٹیپکل روایتی ماں کی طرح ضبط کرنے کا کہہ کر پھر بھیج دیتیں ۔اور ایک دن وہی ہوا وہ توپلٹ کر نا آئی اور جنازہ آگیا اس کا ۔اس دن نے خالہ دادی کے زہن پر بہت اثرات مرتکب کیے وہ بیٹیوں کے معاملے میں بہت نازک ہوگئیں تھی اور وہ بیٹی کا بھید بھاؤ نہیں کرتی تھی کون اور کس کی ان کے لیے بیٹی جس کی بھی ہو بیٹی ہوتی تھی اب رائنا انہیں دیکھ سوچنے لگی حیدر نے ٹھیک کہا تھا ہر کسی کی اپنی کہانی ہے کوئی پھولوں کی سیج پر نہیں سوتا
💖------------💖
وہ شام میں فریش ہو کر ابا کے ساتھ ٹیبل ٹینس کھیل رہی تھی جب ربیعہ چلی آئی وہ ویسے بھی آتی جاتی رہتی تھی وہ دونوں ایک دوسرے کی وہ دوستیں تھی جنہیں ایک دوسرا کا پورا خاندان جانتا ہوتا ہے
دکھ سکھ میں ساتھ دینے والے دوست ہم نوالہ و ہم پیالہ۔
وہ ابا کو ہرا کر ربیعہ کے پاس چلی آئی ابا ہنوز ہار ماننے پر تیار ہی نا تھے
"آپ کیا بچوں سے الجھے ہیں ایسا کریں مٹھا ئی لائیے رائنا کو بتانا بھی تو ہے گڈ نیوز "
سائرہ بیگم نے بولا تو سب چونکے "ہاں ہاں صحیح کہا میں بھی باتوں میں لگ گیا لاتا ہوں ابھی"
وہ سر دھنتے سب کو شش وپنج میں چھوڑ چلے گئے
'کیسی نیوز امی "رائنا نے پوچھا
"بھئی صبر کرو تھوڑا "وہ مزید پر اسرار بنیں
"تم سیٹل ہونا رائنا "ربیعہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تنہائی ملتےہی
"ہاں یار ،حیدر اچھے ہیں پر زیادہ اچھا ہوتا اگر وہ حیدر ہوتے سردار حیدر نہیں "وہ گہری سانس بھر کر بولی"مجھے کبھی کبھی دم گھٹتا لگتا ہے جب مجھے احساس ہوتا ہے کے اسی حویلی میں ایک عورت بنا کسی خواب کسی رنگینی کسی انسانیت کے جی رہی ہے ،جہاں ایک عورت دوسری عورت کی زندگی اجیرن کیے ہے ،جہاں ہر دوسرے بچے بچی کی شادی اس کی پیدائش پر ہی کسی شخص سے منسوب کردی جاتی ہے ،ہر دوسری لڑکی تعلیم سے محروم ہے ،تعلیم یافتہ عورت کو ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے وہ کوئی کرپٹ عورت ہو ،ایوری تھنگ از سو پرابلمیٹک یار "
وہ بےبسی سے بولی "میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف اپنے بھرے پیٹ کو دیکھ کر کہتے ہیں کے ملک میں خوشحالی ہے،میں ان میں سے بھی نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں کیا ہوا جو ہمارے ملک میں مسئلے پڑوسی ملک کے حالات دیکھو یعنی اپنے گھر میں آگ لگی ہے اور خوش ہیں کے دوسرا گھر بھی تو جل ہی رہا ہیں نا "
"ہوا کیا ہے ؟کوئی۔ خاص بات ؟"ربیعہ جانتی تھی کوئی بات ضرور ہے جو اسے کھا رہی ہے
جوابا اس نے سکینہ کا حال سنا یا
"یہ تو واقعی غلط ہے ظلم ہے "ربیعہ نے افسوس کیا
"اسی لیے میں نے سوچا ہے اس کی مدد کروں,اسکی ایڈوکیشن کی فیس وغیرہ کے معاملے میں ،ویسے بھی میری اپنی سیلری ہے اور حیدر الگ جیب خرچ دیتے ہیں جو سیرسلی کم ہی استعمال ہوتا ہے تو بہتر ہے اسے کسی اچھے کام پر خرچ کروں"
"ہاں اچھا آئیڈیا تمہیں کوئی ہیلپ چاہیے ہو تو ڈو لیٹ می نو"
"ارے ہاں ربیعہ یہ بتاؤ تم اب اپارٹمنٹ میں اکیلی رہتی ہو ،ربیعہ کی فیملی اسلام آباد میں تھی پر وہ جاب کی وجہ سے یہاں تھی ارادہ اس کا بھی ایک دو سال میں وہیں جانے کا تھا بس چھوٹی بہن کے لاسٹ ایر کا سیٹ تھا پھر دونو بہنیں ساتھ ہی جاتیں
"ہاں فلحال میں اور ثناء ساتھ ہی رہ رہے ہیں اور ایک اور لڑکی ہے ثناء کی کلاس فیلو ایک روم خالی ہے "
اس نے بتایا تو رائنا نے سر ہلا دیا
یکایک اس کا فون رنگ کرنے لگا
"حیدر کی کال ہے آتی ہوں میں" وہ کہتی اٹھی
"اسلام وعلیکم !"
"وعلیکم سلام کیسی ہو جانم!"وہی مخصوص محبت سے گندھا لہجہ اسے گلنار کر گیا
"ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟"
"ٹھیک بس تھوڑی دیر میں آؤں گا ریڈی رہنا "
"خیریت؟"وہ حیران ہوئی پروگرام تو رات کا تھا
"ہاں خیریت کام ختم میرا تقریبا رات کو واپس جائیں گے "
"اوہ اوکے "اس نے اداسی چھپاتے کہا پھر چند باتوں کے بعد فون رکھ دیا
اور امی کو اطلاع دینے چلی گئی
💖------------💖
وہ تیار تھی سامان پیک کیے بیٹھی تھی ،ابا چلے آئے
"اتنے جلدی جا رہا ہے میرا بچا "وہ پیار سے بولے اور بانھ پھیلائی وہ باپ کے سینے سے لگے شفقت کے حصار میں قید ہوگئی
"آپ یاد آتے ہیں ابا!"آنسو ضبط کیے "حیدر اچھے ہیں خیال رکھتے ہیں پر آپ جیسا کوئی نہیں ہے ابا جیسا آپ چاہتے ہیں کوئی چاہ ہی نہیں سکتا جیسی بے لوث محبت ماں باپ کی ہوتی ہے کوئی کر ہی نہیں سکتا ویسی بے لوث محبت "ان کی آنکھیں بھیگ گئی پر اسکی پونچھنی ضروری تھیں ان کے لیے
"ابا کی جان کوئی ابا سے پوچھے کس دل سے اپنے دل کا ٹکڑا جدا کیا ہے ,مجھے پتا ہے وہ جگہ وہاں کا ماحول میرے بچے کے لیے مشکل ہے ،میرے بچا صرف اپنی خوشیوں میں مست رہنے والا نہیں ہے دوسروں کے درد محسوس کرنے والا ہے،میری جان تم وہاں چراغ کی حثیت رکھتی ہو جو اندھیروں میں روشنی کردے ،مایوسیوں کو چھٹا دے، اور تبدیلی بغیر بغاوت کے آرام آرام سے بھی لائی جا سکتی ہے ایک دم سے ہوگی تو دشمن بڑھیں گے آہستہ آہستہ قطرہ قطرہ سوراخ کر نے سے جہالت کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں گی ،سمجھ رہی ہونا بچے"
"جی ابا سمجھ رہی ہوں بلکل سمجھ رہی۔ ہوں "وہ حوصلے سے مسکرائی اسے شمع رو شنی کرنی تھی اسے دیپ جلانے تھے جہالت کی جڑیں کھوکھلی کرنی تھی اور وہ سخت محنتی تھی لگن سے جس کام میں جت جاتی اسے کرکے دم لیتی اپنی اس خوبی سے بخوبی واقف تھی
💖------------💖
" مکرم ،شرجیل پر گہری نظر رکھو ثبوت کے ساتھ میرے پاس آؤ ،صرف شک و شبہے سے کام نا چلے "وہ اپنے ورکر سے مخاطب ہوئے "فیکٹری میں نئے ملازم نا رکھنا وہ محتاط ہو جائے گا پرانے ملازمین کو وفادار بناؤ سمجھے"
شرجیل سے وہ ہمیشہ واقف تھے ابھی شک فیکٹری کے نقصان میں جانے پر ہوا پھر رائنا والا واقعہ وہ مشکوک ہوگئے مگر ہر بار ثبوت نا ملتااب وقت اسٹرٹیجی بدلنے کا تھا
"سائیں وہ جو احمر رندھاوا دھمکیا دے رہا ہے اس کا کیا سوچا آپ نے "
کرنے دو رسی ڈھیلی چھوڑ دو اسکی اسکی دھمکیاں میں نے ریکارڈ کرائی ہیں وہ ایک آدھ صحافی بھی پکڑے جائیں گے جو یہ خرید رکھے بیٹھا ان کو خرید کر اس کی بے ایمانیوں کے۔ کچے چڑھے کھولوں گا,یہ اپنی قبر آپ کھودے گا اپنے پولیٹیکل کیریر کی قبر خود خود کھو دے گا"
"سائیں جو اس نے حملہ کروادیا تو"مکرم وفادار تھا ان سے مخلص بھی
"پوری سیکیورٹی کا دھیان رکھیں گے ہر چیز کا ،مجھے یقین ہے وہ حملہ کرے گا اور یہ اس کے پولیٹیکل کیریر کی۔ اگر میں آخری کیل ہوگی"
"جی سائیں پلین اچھا پر "وہ ان کے لیے فکر مند تھا
"سیکیورٹی بھرپور رکھوں پیشگی رپورٹ بھی جمع کرادو رسک تو لینا پڑتا ہے "وہ حتمی لہجے میں بولے مکرم کو خاموش ہونا پڑا۔۔۔۔
💖------------💖
وہ سعود کے فون سے بہت مایوس ہوئی تھی
"ہنہہ میںہی پاگل تھی جو مرد سے امید لگا بیٹھی جس کا باپ اس کا اپنا نا ہو سکا اس کا کوئی اور کیا مددگار بنے گا ،میں خود کروں گی جو کرنا ہوگا"
اس نے بیگ کھولا اسے سیڈیٹوو(sedative)کی پرچی ملی "یہ دوائی کم مقدار میں دی جاتی ہے زیادہ مقدار میں نقصان دہ ہے "اسے ڈاکٹر فریدہ کے الفاظ یاد آئے جب اس درد کی وجہ سے یہ دیے گئے تھے تب اس ڈاکٹر نے نرس کو بتائی تھی یہ بات بعد میں شہرینہ نے جھوٹی سچی کہانی بنا کر اس سے پرسکرپشن لکھوائی تھی تاکہ میڈیکل اسٹور سے خرید سکے ۔
اب اسے باہر جانے کے لیے شر جیل کو رام کرنا تھا۔۔۔۔
💖------------💖
وہ نیم عریاں لباس میں تھی اسے اپنا آپ غلیظ لگ رہا تھا یہ اس کی مجبوری تھی وہ آچکا تھا شہرینہ نے اسے حرام مشروب دلفریب انداز سے پیش کیا
"واہ ۔۔۔۔(گالی)بڑی ترنگ میں ہے تو تو آج "وہ اپنی آنکھوں میں حوس بھرے اسے دیکھتا نگاہوں سے چھلنی کرتا بولا
"آپ جو آئے ہیں سرکار "وہ ادائے دلربائی سے گویا ہوئی ضمیر نے کوڑے مارے دل گھائل ہوگیا مگر اس نے خود کو ڈھیٹ کر کیا
"چل باتیں نا بنا ٹانگیں دبا"وہ رام ہو گیا تھا بس باہر سے آکر دکھا رہا تھا بڑی بڑی گہرائیوں میں نہیں پڑتا تھا وہ جانوروں جیسا بے لگام سطحی سا شخص تھا
"میں ہوں وہ ننگ فلک جسے کہتی ہے خاک
اس کو بنا کے کیو میری مٹی خراب کی
"سائیں باندی کے پاس نا اچھے کپڑے ہیں اب نا زیور آپ کے لیے سج دھج کیسے کیا کروں "وہ اسے پھنسا کر مدے پر آئی وہ نشے میں غرق تھا
"ہیں ہیں تو کس نے روکا ہے جا جا ک کر جی بھر کر خرید "وہ سخی بنا
"آپ کی اجازت ہے ؟"
"ہیں ہاں (گالی )کم سنائی دیتا ہے تجھے ،اور سن تو میری خریدیں ہوئی چیز ہے صرف میں دیکھ سکتا ہوں تجھے پیسے میں خرچ کروں تفریح سب کو نہیں نہیں سمجھ گئی نا "
"جج جی چھپ کر جاؤنگی"
اسے اس مقصد کے لیے پردہ کرتے خود سے شرم آتی تھی اس شخص کو جانے کیو کسی چیز سے شرم نہیں آتی تھی۔۔۔۔
💖------------💖
وہ مال میں شرجیل کے چمچے کے ساتھ آئی تھی وہ بھی ماسک سے منہ ڈھکے تھا کے کہیں کوئی پہچان نا لے وہ خریداری کرتی کسی طرح اسے چکما دیتی مال میں بنے چھوٹے سے فارمیسی ایریا میں جا پہنچی اور مطلوبہ دوائی خرید لی اور پھر مزید ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد واپسی کا قصد کیا۔۔۔۔
💖------------💖
وہ آگئے تھے اور فلحال ابا کے ساتھ محو گفتگو تھے وہ ربیعہ کے ساتھ ٹیبل ٹینس کا راؤنڈ کر کے چلی آئی حیدر نے دیکھا اسے بڑی مہارت تھی تب ابا نے بتایا کے وہ یونی میں گولڈ میڈل لے چکی ہے کمپیٹیشن میں
آج خالہ دادی کا مزاج بہتر تھا خوشگوار ماحول میں دوپہر کا کھانا کھایا گیا۔ پھر ابا نے گڈ نیوز والا سسپنس ختم کیا
"بھئی بات یہ ہے کے ہم نے گھر شفٹ کیا تھا (رائنا کے اغوا کے بعد مجبورا )تب سے گھربیٹھے پینشن توڑتے ہڈیاں گھس گئی پھر ہمارا بچا(رائنا)الگ خیال کرتی۔ تو میں نے سوچا بھئی کیو گھر میں ہی دو کمروں کو بروئے کار لا کر ٹیبیلیں کرسیاں رکھ کر ہم میاں بیوی اپنی اکیڈیمی چلائیں (وہ دونوں ہی ٹیچر تھے ابا گورنمنٹ کالج میں اور امیں اسکول ٹیچر تھیں)تاکے بزی رہیں "
"اس کی کیا ضرورت تھی ابا میں ہ۔۔"وہ بولتی کہ ربیعہ نے بات کاٹ دی
"رائنا انکل نے بلکل صحیح فیصلہ کیا آج کل اچھے ٹیچرز کی ضرورت ہے اس طرح تو انکی اور انٹی کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا "
"ہوں پر ابا آپ کی بے فکری کا وقت ہے یہ ایسے میں یہ تھکان "حیدر بولے
"نہیں بیٹا یہ تو متحرک رکھے گا اور چلو کوئی مسئلہ ہوا تو چھوڑ دیں گے میرے بچے ہیں نا" وہ دلارسے بولے
تو ماننا ہی پڑا
وہ کسی حد تک قائل تھا فراغت انسان کو خالی کردیتی ہے متحرک رہنا برائیوں سے روکتا ہے
×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×
واپسی میں وہ چپ تھی حیدر نے اسے دیکھا اور ہاتھ تھاما
"ابا کو سوچ رہی ہو"
"ہاں !حیدر کیا بیٹیاں ماں باپ کا سہارا نہیں بن سکتیں میں انہیں بیٹھ کر کھلانا چاہتی ہوں اور۔ وہ۔۔"وہ دکھی تھی
"جاناں بن سکتی ہیں سہارا صرف پیسوں سے نہیں ہوتا جذباتی ہوتا ہے انہوں نے بتایا نا کے وہ فراغت سے تنگ ہیں اور یہ بھی کے اکیڈمی کا خرچا اسی رقم سے کیا ہے جو ان کے پاس تم نے جمع کرائی تھی دیکھو تمہیں ان پر فخر ہونا چاہیے جہاں ستر فیصد لوگ کسی نا کسی چیز کو روگ بنائے بیٹھ جاتے ہیں وہاں وہ زندگی کا نیا مقصد ڈھونڈ رہیں ہیں یہی جینے کا ڈھنگ ہے "
"آپ صحیح کہہ رہیں ہیں ،پر بس فکر ہے مجھے انکی "
اس نے کہا تو حیدر نے اس کا ہاتھ تھپک کر دلاسا دیا۔ وہ گاؤں سے تھوڑا دور تھے جب اچانک گاڑی ڈسبیلینس ہوئی گولیاں چلنے کی آواز آئی
"بہادر نشانہ سادھو"وہ چلائے رائنا بدحواس تھی حیدر نے اسے ساتھ لگالیا اور اسے کور کیا مسلسل گولیاں چل رہیں تھیں۔۔۔۔
💖------------💖
وہ پوری طرح سے اسکو حصار میں لئے ہوے تھے ،نامعلوم شوٹرز کے جانے کے بعد ،بہادر اندر آکر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گیا جب کہ حیدر بھی سمبھل کے بیٹھ گئے رائنا کے حواس منتشر تھے ،وہ حیرانی سے انھے دیکھ رہی تھی جو ایسے مطمئن تھے جیسے کچھ نا ہوا ہو
"باہر کیا صورت حال ہے ہمارے آدمی ٹھیک ہیں "وہ بہادر سے مخاطب تھے
"سا ئیں صب سب خیریت سے ہے،بندے کو کال کئ ہے میں نے مکرم نے ثبوت بھی بھیجے ہیں کال والی دھمکیوں کے "
"خوب ! ارحم راندهاوا کو اسی کے کھودے گڈے میں پھینک دیں گے "وہ مسکرا کر بولا انکا اطمینان رائنا کو بیچین کر رہا تھا انہونے نے اس کی بےچینی کو محسوس کرکے بہادر کو اگے دیکھنے کا اشارہ کیا
" کیا ہوگیا رائنا سب ٹھیک ہے کسی کو کچھ نہیں ہوا "وہ اسے مسکراتے تسلی دینے لگے
وہ اس مطمئن انداز پر مزید پریشان دکھی انہونے اسکا ہاتھ تھام لیا اور سر اپنے شانے پر رکھا
"کچھ مت سوچو آنکھیں بند کرو اور پر سکون ہوجاؤ گھر آنے والا ہے "
اس نے بھی بنا حیل و حجت انکی بات پر عمل کیا وہ فل وقت خاموش رہ کر حیدر کئ سانسو کو سن کر اطمنان حاصل کرنا چاہتی تھی
کچھ دیر بعد گھر اگیا تھا
انہوں نے اسکی حالت کے پیش نظر اسے کمرے میں بھیج دیا اور خود بی اما کے پاس فیکٹری کئ فائل لئے چلتے بنے انھے شرجیل سے حساب چکتا کرنے تھے
💖------------💖
"بھائی سرکار کتنے دنو بعد دیکھا آپ کو آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں "وہ بی اما سے سلام دعا کرکے فارغ ہی ہوئے تھےکے شرجیل چلا ایا انہونے ہی پیغام بھجوا کے بلایا تھا
"کاش میں بھی یہی کہہ پاتا کے انکھیں ٹھنڈی ہوگیئں افسوس صد افسوس کے تم ہمیں یہ موقع کبھی نہیں دیتے ہو "ان کا طنزیہ لہجہ اس کے ہوش اڑاگیا بی اما کی طرف دیکھا جو ہکا بکا تھیں لاعلمی ان کے چہرے پر درج تھی
"ببب بھائی سر سس سرکار کیا کیا ہوا آخر آپ کو ؟"وہ گڑبڑایا
حیدر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ ڈرتا بیٹھا تو انہونے فائل اٹھا کر اس کے او اپنے درمیان پڑی میز پر پھینکی
شرجیل نے کانپتے ہاتھوں سے فائل کھولی اسے دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی
فائل میں اس کے سارے گھپلے درج تھے "اس کا مطلب بھائی سرکار کب سے نظر رکھے تھے "
یہ سچ بھی تھا حیدر نے مزید ثبوت حاصل کرنے کے لئے مکرم کو بھی فیکٹری میں موجودہ لوگو کو اپنی طرف کرکے مزید معلومات حاصل کرنے کو کہا تھا
انھے شرجیل کو یہاں مصروف رکھے اس لڑکی کا پتا کرنا جس کے بارے میں رائنا نے ان کو بتانا چاہا تھا مگر وہ اسے سختی سے خاموش کرا گئے تھے وہ بیوی سے گھر والو اور گھر والو سے بیوی کئ برائی سننا نہیں چاہتے تھے دوسرا وہ رائنا کو اس سب سے الگ رکھنا چاہتے تھے
"یہ اتنی بڑی رقمیں کہاں گئی ،فیکٹری کابجٹ کہاں لگایا، ملازموں کی تنخواہ کھا کر کہاں لگائیں تم نے بولو "اس کی مسلسل خاموشی انہیں طیش دلا گئی
" جواب دو شرجیل ،کہاں گیا سب ،کیا خریدا ہاں ؟یا یوں پوچھوں کے کس کو خریدا بولو جواب چا ہیے مجھے ؟"
"بچو بچو کے لئے ززمیں۔۔"وہ ہکلاتے جھوٹ گھڑنے لگا
"انٹرسٹنگ !بچو کے لئے زمین ،اوکے کاغذات لے کر او دکھاؤ ؟،کیا ہوا ؟نہیں ہے ؟"انکے سوال پر اسنے گڑبڑا کر سر ہلایا
"اببھی نہیں ہیں بھائی بعد میں…"وہ ہکلایا
"ٹھیک ہے ایک ہفتہ ہے تمہارے پاس حساب پورا کلیر چاہیے جاؤ زرا اپنی اولاد کو بھی وقت دو "
وہ اسے باہر کی جانب اشارہ کرتے بولے
اس کے جانب کے بعد وہ حق دق بی اماں کی طرف مڑے
"مجھے افسوس رہے گا بی اماں آپ کی پرداریوں پر ،ایک بھائی سے محبت نبھاتے دوسرے کو دھوکا دینا منظور تھا آپ کو "وہ افسوس سے کہتے چل دیے
💖------------💖
"کیا گارنٹی ہے کے یہ ہاشم سچ بول رہا "سعود فون پر حمزہ سے الجھ رہا تھا
"وہ حیدر بخت ایک لڑکی سے شادی کرنے کے لیے اتنا بڑا ڈرامہ کھیلے گا ،ایسے بھی تو اٹھوا سکتا تھا لڑکی کو کیا ضرور ت ہے اسے ان کھیلوں کی"
حمزہ کے بقول ہاشم جو اس وقت بدحالی میں تھا اس نے یہ بتایا تھا کے حیدر نے ہی رائنا کا اغوا کرایا اور سب اس پر تھوپ دیا ۔سعود کو یہ اللوجیکل لگ رہا تھا" یہ سیاست ہے پوری "اس کی چھٹی حس چیخنے لگی
" تیری مرضی نہیں تو نا سہی "حمزہ نے فون کاٹ دیا
💖------------💖
وہ پریشان تھی فلک کی کال آئی تھی نائیکہ اسے ناچ گانا سکھانے پر لگا چکی تھی وہ پریشان تھی تو رہی تھی شہرینہ کچھ خیال کرکے سعود کا دیا فون نکالا جس پر عجیب سے نمبر سے کئی کال تھیں فون دوبارہ بجا " اسی کا ہوگا" اس نے سوچا اور کان سے لگا لیا
"او بھئی یہ انٹرنیشنل کال کے مسڈ کال کے بھی پیسے کٹتے ہیں ,اب بول بھی دو کیا سو گئیں"وہ چڑچڑے پن سے بولا
"اب کیو کال کی ہے؟"وہ چڑی
"قرض لے کر نہیں گیا سب بتا کر گیا تھا ،یقین تو کرنا ہوگا آپ کو بھی "وہ بھی رج کے بد لحاظ ہوتا جب ہوتا
"جب ننہیال آپ کو پوچھے نا ،ماں ایڑیاں رگڑتے مرجائے باپ بیچ دے تب یقین نہیں ہوتا کسی پر"وہ زہرخند ہوئی سعود ایک لمحے کو چپ کر گیا
"میں اپنی مدد آپ کرلوں گی "کہتے شہرینہ نے اسے دوائیوں کا قصہ سنایا
"تم وہ گولیاں خود کھاؤ گی یا اسے دو گی اس سے کیا فایدہ خود کھاؤ گی تو مر جاؤ گی اسے دو گی تو اس اچانک موت پر اگر تحقیق کرائی اس کے طاقتور بھائی نے تو جیل میں چکی پیسنا ایک تو قتل پھر امیر کا قتل "
اس نے سارے پلین کو بوگس قرار دے دیا
""یہاں سے جان تو چھٹے گی میری "
"تمہارے لیے خبر ہے ڈیڈ ابا میرے ابھی نہیں آرہے اور میں تین دن میں یہاں ہوں گا ،میرے دوست کو کچھ معلومات لگیں ہیں ہاتھ وہ بھی مل جائیں گی تمہاری آزادی کے دن دور نہیں کاونٹ ڈاون شروع کردو"
"اللہ ہی بہتر جانے "وہ ابھی بھی غیر مطمئن تھی
💖------------💖
اسے آج صحیح معنوں میں احساس ہوا تھا حیدر کا وجود اس کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے کل تک یوٹرن کا سوچنے والی آج دعاؤں میں حیدر کی حفاظت کی دعاگو تھی اسے اب کوئی یوٹرن نہیں چاہیے تھا
وہ بہت برے موڈ سے اندر آئے انہیں اٹھتا دیکھ وہ بھی جائے نماز سمیٹتے آئی "ابھی کوئی سوال نہیں رائنا"وہ کچھ بولتی کے انہوں نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا
وہ کہتے باتھ روم میں گھس گئے باہر آئے تو وہ بھی سونے کی تیاری میں تھی
"حیدر آپ ٹھیک تو ہیں نا "اس نے انہیں مسلسل سر دباتے دیکھا تو بول اٹھی
"ٹیبلیٹ دے دو بس"اس نے اٹھ کر ٹیبلیٹ اور پانی لاتھمایا
"آپ لیٹے میں سر دبا دیتی ہوں "وہ انہیں آج الگ لگی
وہ سرہانے بیٹھی سر دبانے لگی اور ان پر نیند مہربان ہونے لگی رائنا نے انہیں سوتے دیکھ پھیلے بازو پر آہستہ سے سر رکھا اور دایاں ہاتھ ان کے سینے پر دھرا وہ یہ سانسیں محسوس کرنا چاہتی تھی
💖------------💖
اگلے کچھ دنوں تک ماحول سرد رہا تھا سب اپنے اپنے دائرے میں گم تھے ،حیدر بھائی اور بہن کی دھوکا بازی پر غصہ تھے،بی اماں الگ پریشان تھیں ،امنہ بچو کے جانے پر اداس تھی ،زرگل اور زاہد کی اپنی الگ دنیا تھی شرجیل الگ بھنائے تھا ایسے میں صرف رائنا تھی جو نارمل تھی گو کے وہ حیدر کے لیے پریشان تھی ،جو جھنجھلائے پھر رہے تھے ایسے میں وہ ہی کمپوز کیے ان کا خیال رکھ رہی تھی
آج کی صبح نئے ہنگامے سے طلوع ہوئی تھی منشی جی اپنا مدعا لے کر آئے تھے دانیال پھر ماں کے ساتھ تھا انکار پر ہاتھا پائی تک کر ڈالی وہ اب اور برداشت نا کرسکے اور مدعا لیے چلے ائے
بی اماں نے منشی جی کا معاملہ حیدر کو پہنچا دیا تھا(وہ فیصلے کرنے سے برطرفی کردی گئیں تھیں) انہوں نے کل دونوں کو ڈیڑے پر بلایا تھا
"تمہیں کیا ہوا ؟"رائنا نے سوجی سوجی آنکھیں لیے آئی سکینہ کو دیکھ کر پوچھا
"وہ رات کو پھر تماشہ ہوا اب ابا کو سرکار نے بلایا ہے اور اس کو بھی "
"ہاں تو ٹھیک ہے معاملہ ختم ہوگا "رائنا کو اس کے رونے کی وجہ نا سمجھ آئی
"بیبی سرکار نا ہوا تو "وہ خدشات سے لرز رہی تھی
"کچھ نہیں ہوگا انشاء اللہ"رائنا نے اسے دلاسہ دیا پریشان تو وہ خود بھی تھی
💖------------💖
منشی جی آج بی اماں کے پاس آئے تھے بیٹی بھی ساتھ تھی وہ دانیال اور اسکی ماں کی شکایت لائے تھے انہوں نے انکا جینا دشوار کر چھوڑا تھا کل بھی دانیال ماں کے
ساتھ رشتہ ڈالنے آیا تھا منع کرنے پر ہاتھا پائی پر اتر آیا تھا وہ اسی لیے سردار کے پاس چلے آئے سکینہ اندر بچو کو پڑھانے جا رہی تھی تبھی اسکی نظر سامنے صحن میں کھڑے حیدر اور رائنا پر پڑی وہ رائنا سے کچھ کہتے اس کی چادر درست کر رہے تھے اور وہ کھلکھلا رہی تھی اسے یکایک حسد کی آگ نے آگھیرا وجہ شاید کل گھر پر ہوا تماشہ بھی تھا
اس نے رائنا کو ناقدانہ انداز سے دیکھا ہلکی سانولہاٹ مائل گندمی رنگت بھورے چمکدار بےحد سیدھے لمبے بال ،بھوری سادہ سی آنکھیں بے حد معصومیت لیے خوبصورت چہرہ جو اگرچہ بےحد حسین نا رکھتا پر خوبصورت ضرور تھا اس نے دیوار گیر آئینے میں نقاب ڈھیلا کیا خود کو دیکھا گوری دودھ سی رنگت ،گرے آنکھیں بال اس کے بھی خوبصورت تھے کالی گھٹاؤں سے وہ کسی سے کم نا تھی پھر کیو سامنے کھڑا شاندار شخص اس کا نہیں تھا
وہ اپنی سوچوں پر خود ہی کانپ گئی "یا اللہ مجھے مجھے معاف فرما "وہ بگٹٹ بچو کے کمرے کی طرف بھاگی ،اسے حقیقتاً اپنی سوچ سے کراہیت آرہی تھی مگر کہیں نا کہیں دل کہہ رہا تھا"کیا غلط ہے تم کونسا کوئی غلط کام سوچ رہی ہو ،شادی کا تو سوچا ہے " عجیب کسشمکش تھی
💖------------💖
وہ اگلے روز ڈیرے پر جانے کی تیاری میں تھے جب اس نے روکا
"کیا ہوا ؟"وہ حیران ہوئے
"مجھے آپ سے منشی جی کی بیٹی کے بارے میں بات کرنی ہے "
"رائنا !تمہیں کیا یہ معملات اتنے آسان لگتے ہیں ؟کیا بولنا ہے اچھا بتاؤ پھر "
جوابا اس نے دانیال کی سکینہ کو ہراساں کرنے کا بتا دیا
"ایسے زبردستی کون کسی سے شادی کرتا ہے بھلا"
"آج دونو طرف کا معاملہ سنوں گا تبھی فیصلہ ہوگا' وہ کہتے چل دیے
💖------------💖
دونوں طرف کے معملات سننے کے بعد فیصلہ ہوگیا تھا
منشی جی کسی طور بیٹی کی شادی دانیال سے کرنے پر رضامند نا تھے
"زور زبردستی کا سوال نہیں ہوتا تم رشتہ ڈال سکتے ڈال دیا ہاں یا نا کی مرضی ان لوگوں کی ہے "
حیدر دوٹوک بولے
"وہ میری منگ ہے سرکار"دانیال نے جھوٹ گھڑا
"جھوٹا ہے سرکار یہ میں نے کبھی رضامندی نہیں دی اس کو اس کی ماں کو مکر کر رہا ہے"منشی جی بےبسی چیخے
"دانیال اگرچہ وہ تمہاری منگ تھی تب بھی وہ بچپن کی بات تھی دوسرا کوئی ثبوت کے وہ منگ تھی تمہاری
(ان کے ہاں منگ طے کرتے وقت نشانی کے طور پر لڑکی کا باپ لڑکے کو اپنی طرف سے چھلا دیتا ہے اور لڑکے کی ماں لڑکی کو ساتھ لڑکی ناک بھی چھیدائی جاتی ہے)"
دانیال کے پاس کوئی چھلا نا تھا مذید جھوٹ پر مذید شامت ائی
پنچائیت نے فیصلہ دے دیا تھا کے چونکہ دانیال سکینہ کو منگ نہیں ثابت کر پایا اور منشی جی سکینہ کی شادی اس سے نہیں کرانا چاہتے اس لیے اب سے دانیال کی ماں یا وہ خود انہیں تنگ کرے گا تو سزا پائے گا دوست جھوٹاا دعوا کرنے پر دانیال کو جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا وہ پیچ وتاب کھاتے گھر روانہ ہو جب کے منشی جی خوش تھے
×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×
"لومڑی سا شاطر ہے یہ شخص ,دیکھا کیسے بچ نکلا سب تیاری کر رکھی تھی اس نے"وہ کرخت نقوش کا شخص فون پر غرا رہا تھا
کبھی اس کا ملازم اندر کسی کو لے کر آیا
"جناب یہ ہاشم ہے ،جسے آپ ڈھونڈھ رہے تھے "اب کے خاموش کھڑا اس کا دست راست بولا
وہ آنکھوں میں چمک لیے اس بدحال آدمی کو دیکھنے لگا اور قریب آنے کا شارہ کیا
"جو ہم نے کہا ہے وہ کرو گے"
"پر مجھے کیا ملے گا"
"اس بدحالی میں بھی یہ تنتنا "اس نے مکروہ۔ قہقہہ لگاتے اسے گریبان سے پکڑ کر جھٹکا
"مال اسی کی بھوک ہے نا ملے گا ،بتا کیا اور کیسے بولے گا "
ہاشم اسے پریکٹس کرکے بتانے لگا تھوڑی دیر بعد مطمئن ہوتے
اس نے اسے بھیج دیا
بھاءجی ! آخر اسی کو کیو میڈیا کے سامنے نہیں لاتے آپ ؟"
دست راست حیران تھا
" وہ اس لیے کے یہ مرد اوپر سے کرپٹ اس کے تو اپنے کچے چھٹے کھل جائیں گے ، حیدر بخت کی بیوی عورت ،اور عورت کیا ہوتی ہے مظلوم اس کے آنسو کی بات ہی کچھ اور ہے "
"پر وہ کیو مانے گی بھلا ،پیسہ تو ہے اس کے پاس حیدر بخت کی بیوی جو ہے"
"وہی کمزور کڑی تو اس نے بتائی ہے ،جیسی صورتحال تھی اس میں چند جھوٹے ثبوت اسے یقین کرادیں گے کے اس کا مجرم اس کا شوہر ہر پھر پڑھیں لکھی عورت وہ نکلی تو موم بتی برادری بھی ٹریگر ہوجائے گی رائتہ ایسا پھیلے گا کے سنمبھالے نہیں سنمبھلے گا "وہ مکروہ قہقہہ لگاتے بولا
"یہ یہی ثبوت کافی ہے اس عورت کو یقین دلانے کے لیے "
اشارہ ہاشم کی طرف تھا جسے ملازم باہر لے جا رہا تھا
"کام نا بنا تو ؟"
"تو کیا تجھے نہیں پتا "
اب کے دونوں ہی ہنسے تھے
شرجیل باؤلا ہوا پھر رہا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا کے کونسی زمین دکھائے بھائی سرکار کو
آمنہ کو اس کی حالت دیکھ ہنسی آئی کہاں تو وہ منشی جی کی لڑکی سے شادی کے خواب دیکھ رہا تھا بی اماں نے کس مشکل سے روکا تھا اور اب اسے اپنے حلیے کی فکر نا تھی
"ہاں سن یہ شہری کو اس کوٹھے پر بھیج دینا تھوڑے دن ٹہر کر اور چپ چاپ ہو سارا کام "" گئی میسینی"اس نے آمنہ کو جاتے دیکھ داد بخش(شرجیل کا خاص آدمی)کو کال ملا کر ہدایت کی
حیدر نے جس طرح اس پر نظر رکھنی شروع کی تھی ایسے میں یہ شہرینہ کو اپنے ساتھ کسی بھی گھر میں نہیں رکھ سکتا
اسے اب کسی نا کسی طرح پیسوں کا یا زمین کا بندوبست کرنا تھا صبح سے اپنے جیسے کئی عیاش لوگوں کو جو تھے تو اس کے دوست فون کر چکا تھا
حیدر ہر بار سامنا ہونے پر "ٹائم از رننگ "کی دھمکی سے نوازتے اس کی اپنی پراپرٹی کونسی اور کتنی تھی حیدر کو پتا تھا آمنہ کے جہیز میں ملی زمین وہ پہلے ہی جبرا قبضہ کرکے پیچ چکا تھا
اب بیٹھا سر کے بال نوچ رہا تھا
باہر سے اندر آتی۔ آمنہ کو دیکھ شاطرانہ چمک آنکھوں میں ابھری
"ہاں یہ کام ہو سکتا ہے ،بس رام کرنا ہوگا وہ کونسا مشکل ہے"
وہ کمینگی سے ہنسا آمنہ نے تعجب سے دیکھا اور سر جھٹکا
×=×=×=×=×=×=×==×=×=×=×=×=×
ہاسپٹل کا کام جلد ہی نمٹ گیا تھا سب ڈاکٹرز کو کال کر لیا گیا تھا ،ہاوس جاب ختم ہونے میں بھی کم ہی وقت بچا
تھا سعود کافی دنوں سے غائب تھا رائنا کو اس کے آنے کا انتظار تھا وہ ویڈیو والا معاملہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی اسے حیدر کو ثبوت دکھانا تھا
کئی دنوں سے طبیعت الجھی الجھی تھی بات بات پر چڑچڑا پن اور بیزاری الگ تھی
اس نے آج چیک اپ کرایا شک تو اسے پہلے بھی تھا مگر اب ٹیسٹ کے بعد تصدیق بھی ہوگئی تھی
وہ یہ ٹیسٹ رپورٹ ابھی حیدر کو نہیں دکھانا چاہ رہی تھی ۔یہ الگ بات کے خوشی اس سے سنمبھالے نہیں سنمبھل رہی تھی
"کیا بات ہے رائنا بہت خوش ہو"ڈاکٹر فریدہ نے پوچھا "وہ ایسے ہی بس آپ بتائیں کل آف کیا تھا خیر تھی"
"بھئی ویڈنگ اینی ورسری تھی میری چار سال ہوگئے خیر سے یہ دن ہم پورے دن ساتھ بتا سیلیبریٹ کرتے ہیں " ڈاکٹر فریدہ نے مزے سے بتایا
"تمہاری کب ہے ویسے "اب وہ اس سے پوچھ رہی تھیں
"پہلی ہے چند دن میں "اس نے ڈیٹ بتائ
"گڈ ہاں یاد ہے تو ہسبنڈ پر مت ظاہر کرنا ،ورنہ ساری عمر تم ہی پہل کرتی رہوگی" فریدہ نے تجربہ جھاڑا
"نو نو میرا ایکسپیرینس الگ ہے میں نے ایک بار یاد رکھی ہنسبنڈ میرا بھول گیا میں نے خوب اچھے سے ڈیکوریٹ کرکے کیک اور گفٹس کے ساتھ وش کیا ،اینڈ گیس واٹ وہ اتنا ایمپریس ہوگیا کے اب شادی کے بعد بھی وہ یاد رکھتا ہے احسان الگ کے پہلی میں نے یاد رکھی ،اس لیے بھول جائے نا تب بھی دن خراب مت کرنا ہیپی میموریل بناؤں یار "ڈاکٹر رودابہ نے اپنا تجربہ بتایا
"ہمم لیٹس سی میں کونسی کیٹیگری میں آتی ہوں حیدر کو یاد ہوتا ہے بھی کے نہیں ،گفٹ تو میرا بیسٹ ہے "
وہ بولی تو ان دونو کو تجسس ہوا
"ایسا کیا گفٹ ہے بھئی"
"جس کا ہے اسی کو بتاؤں گی یہ تو"وہ کھلکھلائی وہ اس طرح کی باتیں شاید پہلی بار ہی شوق سے سن اور کر رہی تھی
×=×=×=××=×=×=×=×=×=×=×=×=×
وہ حویلی پہنچی تو حیدر پہلے سے بی اماں کے پاس بیٹھے تھے جھٹکا اسے سکینہ کی موجود گی کا لگا
جو رکھی کی جگہ چائے سروو کرہی تھی
اسے کافی عجیب لگنے لگا تھا اس کا برتاؤ ،کئی بار رائنا نے اسے ایسے آنکھیں گھماتے پایا جیسے کسی کو ڈھونڈھ رہی ہو
اس دن تو حد ہی ہوگئی تھی جس دن اس نے پنچائیت کا فیصلہ سنا تھا
وہ خود سے مٹھائی بنا کر لائی جب آئی تو
" بیبی سرکار یہ یہ مٹھائی , لائی ہوں ہم جیت گئے فیصلہ ہوگیا جان چھٹی میری" وہ بہت خوش تھی اس کی ایکسائیٹمنٹ نے رائنا کوبھی خوش کیا
اس کا دل رکھنے کو ڈبا کھولا جس کے دو پورشن تھے
"یہ دو حصے کیو ؟"
"وہ سر سرکار کے لیے بھی ہے " بات سے زیادہ انداز ٹھٹکانے والا تھا شرماہٹ لیے ہوئے اسے برا لگا جلن سی ہوئی
اس نے ایک چھوٹا ٹکرا اٹھایا اور ٹفن بند کر اسے دیا
"یہ لے جاؤ ،میں نے تو لے لی مگر سرکار نہیں چکھیں گے یہ مجھے پتا ہے "وہ دکھائی سے کہتی اسے دیکھے بغیر اندر کی جانب مڑ گئی
"اب دو ہفتے ہوگئے ہیں بچے جا چکے ہیں آج کیو آئی ہے یہ "
مزید ٹینشن اسے بی اماں پر ہورہی تھی جو اس سے پیر دبوا رہیں تھی
"کیا یہ آگ اور تیلی کا کھیل کھیلنا چاہتی ہیں "
اسے ان کی رات کی باتیں یاد آئیں جب وہ حسب معمول ان کا چیک اپ کرنے آئیں تھیں
"سال ہونے والا ہے شادی کو آپ کی ، اولاد کے آثار نہیں "
"بی اماں سال ہونے میں اور کئی سال ہونے میں فرق ہے "وہ چپ نا رہی
"آپ کا ہی نقصان ہے دیر میں حیدر کو مل ہی جائے گی اولاد آپ نا سہی کوئی اور سہی آپ رہ جائیں گی خالی "انہوں نے جھوٹی ہمدردی جتائی شرجیل کو جب سے حیدر نے اس کی حمایت میں مارا تھا تب سے وہ اسے بہانے بہانے سے زچ کر رہیں تھی
یہ شادی والی دھمکی ان کی پرانی تھی اس کے لیے ،اسے فرق نہیں پڑتا تھا ایک تو حیدر کی فطرت بھی جان گئی تھی جب تک نا چاہے کوئی ایسے ہی ان سے کوئی کام نہیں کراسکتا تھا
دوسرا وہ سوچتی کے اسے بھلا کیا فرق پڑے گا وہ خود حیدر کی دوسری بیوی بنی ہے اور اس کی کونسی پسند کی شادی ہے پر اب اسے فرق پڑ رہا تھا
اس لڑکی کی نظریں کھل رہیں تھیں
وہ تیر کی تیزی سے اندر آئی با آواز بلند سب کو سلام کیا
جس کا جواب حیدر نے اونچا بول کر اور بی اماں نے بدبداکے دیا
"تم آج یہاں کیا کر رہی ہو،وقت پورا ہو گیا بچے بھی ہاسٹل جا چکے اب کیا جواز ہے ،گھر پر رہو "اس نے لتاڑا
"رکھی رکھی۔۔۔"اس نے زور سے آواز دی وہ بھاگی آئی
"یہ تمہارا کام ہے نا گاؤں سے منشی جی کی بیٹی آکر کرے ،حویلی کی بدنامی نہیں ہوگی ،ائیندہ سے نا دیکھے مجھے یہ لاپرواہی "اس نے اسے بھی لتاڑا
بی اماں اور حیدر دونوں ہی حیران تھے
پہلی بار اس کے انداز میں حویلی کی بڑی سرکار دیکھی تھی
حیدر کو مزا آنے لگا
"تم میرے پاس آؤ مجھے بات کرنی ہے"اس نے سکینہ سے کہا اور چل دی
وہ بھی پیچھے ہولی
"انداز دیکھے آپ نے ؟"بی اماں تک کر حیدر سے مخاطب تھیں
"ہوں !ویسے یہ لڑکی اب تھی کیو یہاں "انہیں تو اس کا یہ روپ مزا دے گیا تھا سرسری سا پوچھنے لگے
"سوغات بنا کر لائی تھی ،اب کمی لوگ ایسے ہی خوش ہوتے ہیں ہماری خدمت کرکے "وہ غرور سے بولیں
"ہوں مگر میں نے رائنا کو بھی یہی کہا تھا آپ کو بھی کہہ رہا ہوں زیادہ مت گھسائیں حویلی میں اسے ،بگاڑ نہیں دیکھنا مجھے یہاں "
انہوں نے ہاں میں سر ہلایا بگاڑ تو انہیں بھی دکھ گیا تھا
کل ہی تو شرجیل گوڈا پکڑا بیٹھا تھا
"منشی کی بیٹی سے نکاح کرادیں اس میں کیا قباحت ہے"وہ ان گرے آنکھوں کا دیوانہ ہوگیا تھا
"یہاں حیدر تمہارے کارنامے کھول رہیں ہیں ،چاردن مزید انہوں نے میرے رونے دھونے پر تمہیں دیے ہیں اور یہاں تم عورت زات سے نہیں نکل رہے"وہ زچ ہوگئیں تھی
"آپ یہ کام کریں میں وہ کروں گا مگر کیسے بھی بندوبست کریں "وہ ایک ہی ضدی تھا
اسی لیے وہ سکینہ کو پرکھ رہیں تھیں مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا سکینہ کس کے لیے یہاں آتی ہے اند ہی اندر کمینی سی خوشی بھی ہوئی مگر ایک طرف شرجیل اس کے پیچھے لگا تھا اب اگر حیدر اس کی جانب متوجہ ہوگئے تو بھائیوں کو ساتھ رکھنے کےجو جائز ناجائز جتن کیے تھے آج تک پانی میں مل جانے تھے عورت زات سے بڑا فتنہ ان کی نظر میں کوئی نہیں تھا
"صحیح کہہ رہیں ہیں حیدر ،بڑی سرکار کو کسی اور طرح تنگ کر سکا جا سکتا ہے مگر یہ فتنہ میرے بھائیوں کے لیے خطرناک ہے '.
×=×°×=××=×=×=×=×=×=×=×=×=×==
"تمہارا کام ختم ہو چکا ہے یہاں اور وہ وجہ بھی اس لیے اب یہاں آنے کی تمہاری کوئی وجہ نہیں رہی ،یہ کتابیں پکڑو جو تمہیں چاہیے تھیں ،اور انہیں میں دل لگاؤ "
وہ بہت روکھے لہجے میں تھی سکینہ کو پہلی بار وہ سردارنی لگی اسے اس سے خوف آیا
"جج جی بڑی سرکار بہت بہت کرم نوازی آپ کی "
وہ ممنون ہوئی تو رائنا کا لہجہ دھیما پڑا (تم ہو سکتا ہے بے ضرر ہو پر شیطانی فطرت والے بہت ہیں یہاں) اس نے دل میں سوچا
"اور سنو پڑھائی سے یا اس کے علاوہ اگر تمہیں کبھی کوئی بہت اشد ضرورت بھی پڑے تو مجھ سے رابطہ کرنا ،بڑے سرکار کو ان چھوٹے چھوٹے معملات میں الجھانے کی غلطی نا ہو تم سے ٫,تمہارا خیال کیا ہے ،یہ یاد رکھنا"
سکینہ نے تھوک نگلتے اثبات میں سر ہلایا
"جاؤ اب "
×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×
وہ آنسو پوچھتی حویلی سے گھر آئی تھی ،جس چیز پر اس نے عرصے سے پردہ ڈالا تھا وہ زرا سا سرک گیا تھا وہ بھی اس کی محسنہ کے سامنے ،
"صحیح تو کہہ رہی تھی اتنا خیال میرا اور میں اسی کے شوہر پر نظریں رکھی تھی ،مجھے آگے پڑھنے کا موقع ملا بڑی سرکار کی امداد بھی میں کیو شیطان کے بہکاوے میں آگئی ،اللہ مجھے معاف کردے "وہ خود سے کہتی رونے لگی پھر آنسو صاف کر کے وہ نمبر مٹایا جو اس نے آمنہ کے بچو کو بیوقوف بنا کر لیا تھا ،اس نے اس پر ایک دو بار شاعری بھیجی تھی مگر کوئی جواب نا آیا اس نے نمبر دیکھا "سردار حیدر"دل پر پتھر رکھ اس نے یہ نمبر ہمیشہ کے لیے مٹادیا دل دکھی ضرور تھا
×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی سوچ رہی تھی اس نے سکینہ کے ساتھ صحیح سلوک کیا یا نہیں "مطلب حد ہے میں جب بھلائی کروں گی مجھے یہی صلا ملے گا ،اس لڑکی کو صحیح سمت میں محنت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ فتنہ پروری اس کے ساتھ دوسروں کی زندگی اجیرن کرے گی"وہ اسی نہج پر سوچ رہی تھی جب حیدر چلے آئے انہوں نے اسے پیچھے سے مکمل حصار میں قید کر لیا رائنا کو ان کی ڈھرکنو کا شور سکون دے گیا
"کیا سوچ رہی ہے میری شیرنی " وہ اس کے کان کی لو کے پاس سرگوشی کرتے اسکی ڈھرکنوں کا شور بڑھا گئے
"اپنے شیر کو سوچ رہی تھی ،اج کافی دن بعد شیرنی کی یاد آئی ورنہ تو غصہ ناک پر دھرا تھا "یہ نیا لقب اسے بھایا تھا
اس کے معصومانہ شکوے پر وہ ہنس دیے اور رخ اپنی جانب کیا
"تو شکوہ ہورہا ہے "اب ہاتھ اس کے چہرے پر آئی لٹوں سے کھیل رہے تھے وہ اس کا بدلا بدلا انداز بغور دیکھنے لگے بدل تو کافی دن سے رہی تھی انہیں فرصت آج میسر ہوئی
"ایسے کیو دیکھ رہیں جیسے پہلی بار دیکھا ہو"
انہوں نے اسے پھر حصار میں قید کیا
"تمہارا یہ روپ تو پہلی بار ہی دیکھا ہے "وہ ہنسی جھرنوں سی شفاف ہنسی
"حیدر کوئی امپورٹنٹ ڈے یا کام آنے والا ہے " وہ ان کے کرتے کے بٹن سے چھیڑخانی کرتے پوچھنے لگی اسے تجسس تھا انہیں یاد ہے یا نہیں
"فلحال تو کوئی میٹنگ وغیرہ نہیں اور تم یہ باتوں میں بھٹکاو مت "وہ الگ ہی سمجھے تھے یہ انداز دلربائی نئے تھے انہیں پاگل کر رہے تھے
"کچھ بھی امپورٹنٹ نہیں " اس نے پھر کوشش کی حیدر نے اسے باہوں میں قید کرلیا
"تم سے اور تمہارے ساتھ گزرنے والے اس وقت سے اور کیا امپورٹنٹ ہوگا"
"(انہیں یاد ہی نہیں )اسے تھوڑی مایوسی ہوئی مگر پھر حیدر کی چاہت نے بہلا لیا
"کن سوچوں میں گم ہو "انہوں نے آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی پھر اسے قریب کیا "کچھ نہیں "اس نے مسکرا کر سر جھٹکا
"ساری فکریں مجھے سونپ دو "وہ اسے حصار میں لیتے مزید قریب کیے سرگوشیاں کرنے لگے
وقت رفتہ رفتہ سرکنے لگا زندگی دور کھڑی مسکراتی انکی نظر اتار رہی تھی
×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=}=×=
آخر سعود اسے دیکھ ہی گیا پریشان پریشان شکل لیے وہ موقع کی تلاش میں تھی۔ جو اسے جلد ہی مل گیا وہ خود اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا شہرینہ کو کل واپس کوٹھے بھیجنے والے تھے اس سے پہلے ہی اسے اس کو وہاں سے نکالنا تھا
"کیا ہوا کچھ پریشان ہیں آپ ؟"رائنا کے پوچھنے پر وہ چونکا
"نہیں نہیں تو "اسے بتاؤں یا نہیں وہ کشمکش میں تھا
"آپ کو ڈاکٹر فریدہ کی پیشنٹ یاد ہے ؟"رائنا نے پوچھا
(یہ تو میں پوچھنے والا تھا)
"آپ کیو پوچھ رہیں ہیں "اس کے گڑبڑا کر پوچھنے پر اس نے فون پر ویڈیو لگا کر اسے تھمائی جسے دیکھ سعود کے حقیقتاً توتے اڑ گئے
"یہ نا کے صرف ہاسپٹل کی خلاف ورزی اس پر آپ پر مس کنڈکٹ ،ہراسمنٹ تک کا کیس بن سکتا ہے ،اںب بتانا پسند کریں گے یا میں ڈائیریکٹر کے آفس جاؤں"
سعود نے کوئی چارہ نا پاتے اسے داستان شہرینہ بیان کرنی شروع کی
×=×=×==×=×=×=×=×=×=×=×=×==×=××=
آمنہ حیران تھی یہ شیطان اس پر کیو مہربان ہورہا تھا وہ کل ہی اس کے لیے جوڑا لایا تھا اور آج گجرے گالی دینا تو دور جھٹک تک نہیں رہا تھا
وہ اس سے گزشتہ رویے پر معافی بھی مانگ چکا تھا آمنہ کے پاس چارہ نا تھا معاف کرنے کے سوا ابھی وہ کمرے میں آئی تو اسے سر پکڑا دیکھ پوچھ بیٹھی
"کیا ہوا سائیں پریشان لگ رہیں ہیں "
"میں تجھ سے کیا کہوں آمنہ تجھے کتنا تنگ کیا پر اب نہیں چاہتا تنگ کرنا مگر مجھ سے ہوئی غلطیاں اب سامنے کھڑی ہیں فیکٹری کے گھپلے کیسے کرو کیسے چکاوں "وہ رات زدہ آواز میں بولا
"سب ٹھیک ہو جائے گا سائیں "
وہ بہانے بہانے سے اس کا زیور مانگ چکا تھا یہ بہروپ تھا ہی اسی لیے ارادہ تھا کے اس کا زیور بیچ رقم حاصل کر حیدر کو مطمئن کر سکے گا حیدر اس کا حصہ عارضی طور پر ضبط کر چکے تھے اس کا اختیار انہیں تھا یہ بابا سرکار کے بنائے اصول تھے
آمنہ بھی اس کا مکر سمجھ رہی تھی وہ اپنی اور بچو کی یہ سیکیورٹی نہیں کھونا چاہتی تھی اسی لیے کانوں میں بات ماردی
وہ باہر گئی تو وہ تپ گیا
"نخرے دیکھو اس کے زرا "کال آنے پر فون کان سے لگایا"ہاں بول بخش پہنچا دیا اس کو "
"سائیں آدمی روانہ کیے تھے پر مسئلہ ہوگیا لڑکی بھاگ گئی سائیں "
"کیا "وہ دھاڑا "اندھے تھے تم لوگ ؟,ہاتھ ٹوٹے تھے "؟
اب داد بخش معافی مانگ رہا تھا شرجیل کو لگا اس کی شریان پھٹ جائے گی
×=×=×=×=×=×=×=×=××=×=×=×=×=×=×=
وہ رائنا کے ذریعے حیدر بخت سے ملا تھا ،اور اب وہ اس کے سامنے بیٹھے تھے
"آپ کے پاس کیا۔ ثبوت ہے کے آپ کی کزن شرجیل بخت کے پاس ہے؟"سعود نے سامنے بیٹھے بارعب شخص کو دیکھا
"آپ اپنے بھائی کے ان مکانوں کی تلاشی کیو نہیں لیتے جو اس نے ان کاموں کے لیے رکھ چھوڑے ہیں "
وہ زہرخند ہوا
"بنا گھما پھرائے بات ہوگی تو بہتر رہے گا ،یاد رہے آپ کو فلحال میری مدد کی ضرورت ہے مجھے نہیں " وہ دوٹوک بولے سعود ٹھٹک گیا
"میرے پاس ایڈریس ہے جو شہرینہ نے مجھے دودن پہلے ہی بھیجا ہے "
"ہمم"حیدر نے ہنکارا بھرا (اس کی بات پر یقین کرنے کی وجہ تھی وہ خود بھی اس لڑکی کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جسے شرجیل ہاسپٹل لایا تھا)
×=×=×=×=×=×=×==×=×=×=××=×=÷=×=×=
سعود بہت پریشان تھا حیدر کے آدمی اس کے ساتھ مطلوبہ جگہ بھی آئے تھے ،پر وہاں شہرینہ نہیں تھی
"اسے رکھا گیا تھا ہیں رکھا تھا "وہ اب حیدر کے سامنے بیٹھا بال نوچ رہا تھا
"آپ آپ کچھ کر یں سر اس کا فون بھی نہیں لگ رہا "وہ پریشانی سے بولا
حیدر خود ٹینشن میں تھے ،یہ گھر (شرجیل کا ان کے علم میں نا تھا
"آپ نے کہا اسے وہاں سے کوٹھے بھیجا جا رہا تھا کیا پتا ہم لیٹ ہوں"
"وہاں اس کی بہن ہے فلک وہ بتا رہی تھی کے وہ نہیں پہنچی وہاں بھی اس کی ڈھونڈ مچی ہے"
حیدر نے لب بھینچے اور مکرم کو کال ملائی"ہاں مکرم کچھ بکا ان لوگوں نے "(شرجیل کے ملازمین کو وہاں تھے )
"جی سائیں وہ لڑکا صحیح تھا وہاں ایک لڑکی کو رکھا گیا تھا اور کل اسے ان کا ایک آدمی کے کر روانہ ہوا مگر راستہ میں لڑکی وہاں سے بھاگ گئی یا کوئی لے گیا کے بقول اس کے وہ گاڑی میں پتا نہیں کیسے سوگئے تھے اٹھے تو لڑکی غایب تھی
حیدر نے فون رکھتے سعود کو تفصیلات بتائی
"وہ کہاں جا سکتی ہے آخر اس کا تو اور کوئی مدد گار بھی نہیں تھا " اس کے اوسان خطا ہونے لگے
×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=÷=××=×
"جانے کیا معاملہ ہوا وہاں "رائنا پریشانی سے ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی جب اچانک شور کی چیخ وپکار ر کی آواز نے متوجہ کیا
÷=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=×=
وہ پاگلوں کی طرح اسے زدوکوب کر رہا تھا
"بول نہیں دے گی ہاں نہیں دے گی" اس نے اس کے بال کھینچے
"نہیں دوں گی سمجھا آپ کبھی نہیں دوں گی میرا میری اولاد کا حق ہے اس شیور پر طوائفوں پر لوٹانے کے لیے نہیں ہے وہ " وہ سارا ضبط مصلحتیں بھول چیخی اس شخص نے پچھلے چند دن سے جو ڈھونگ رچا رکھا تھا آج اس کی قلعہ کھل گئی وہ بہانے سے کئی بار اس پر پیسوں کے مسئلے کا زکر کر چکا تھا مگر وہ ہر بار ٹال جاتی آج شرجیل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا پہلے شہرینہ بھاگ گئی اور اب نائیکہ الگ پیسے مانگ رہی تھی(اس کی سونا کا انڈا دینے والی مرغی جو کھوئی تھی ) اس کے تیور ہی بدل گئے تھے ,پھر حیدر بخت کی دی گئی ڈیڈ لائن کی مدت بھی تقریبا ختم تھی وہ چاروں جانب آگ میں گرا تھا اس پر آمنہ بھی قابو میں نا آئی وہ پاگل ہی ہوگیا
آمنہ کی چیخ و پکار بی اماں اور رائنا کو بھی کھینچ لائی
"شرجیل چھوڑ دیوانہ ہوا ہے مر جائے گی وہ"
بی اماں روئیں
"مرنے دے اس کو "
"چھوڑیں شرجیل بھائی "وہ دونو آمنہ کو بچانے کی سعی کر رہی تھی اسی اثناء میں آمنہ کا سر ٹیبل سے جا لگا
وہ سب ٹھٹک گئے آمنہ بے سود زمین پر پڑی تھی
اس کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا
"یہ کیا کیا آپ نے مل گیا سکون "وہ اب امنہ کی نبض دیکھ رہی تھی آنسو اس کے گال بھگو رہے تھے
بی اماں کی گرفت شرجیل پر ڈھیلی پڑی وہ بھی آمنہ کی طرف بھاگیں
"گاڑی لاؤں بھابھی کو ہسپتال لے جانا ہے "وہ ملازم سے چیخ کے بولی
شر جیل قدم قدم پیچھے ہوتا بھاگا
اور باہر نکلتے ہی گاڑی لیے نکل کھڑا ہوا وہ حواسوں میں نیہں تھا اسے لگا آمنہ مر گئی وہ اسے مارنا نہیں چاہتا تھا
وہ روتے ڈرائیو کر رہا تھا باہر اندھیرا تھا وہ کہاں جا رہا تھا اسے خود نہیں پتا وہ بڑا سنسان علاوہ تھا جہاں وہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا پتا نہیں کیسی اونچی نیچی سڑک تھی اس نے گاڑی کی اسپیڈ مزید تیز کردی اندھیرے کی وجہ سے کچھ نہیں دکھ رہا تھا سردیوں کا مہینہ الگ تھا تو دھند بھری تھی گاڑی ڈس بیلنس ہوتے ہونے لگی
"یہ یہ کیا ہورہا "وہ گڑبڑایا بریک لگانے چاہے تو نہیں لگ سکے ,سامنے درخت تھا بے قابو ہوتی گاڑی اس سے جا ٹکرائی اس کی دلخراش چیخ فضا میں گونجی
💖_______💖
"ڈاکٹر نے کہا ہے حالت خطرے سے باہر ہے ،پر سر پر چوٹ لگی ہے اس لیے آج ایڈمٹ رہیں گی ٫رات کو وقتا فوقتاً چیک کریں گے وہ ابھی تو سی ٹی اسکین نارمل ہے ،کل ایک اور سی ٹی اسکین کرایا جائے گا اس کے بعد ہی چھٹی ملے گی "
حیدر آگئے تھے اس نے ان کو ساری تفصیل بتائی گاؤں میں موجود ہسپتال سے طبی امداد کے بعد آمنہ کو قریبی علاقے میں موجود ہسپتال میں لے آئی تھی بی اماں کے تو ہاتھ پاؤں پھولے تھے وہی تھی جس نے سب سنمبھالا تھا
شرجیل تو جانے کہاں بھاگا تھا
"بچوں کو اطلاع دیں گے ؟" اس نے پوچھا
حیدر نے نفی میں سر ہلایا دماغ ماؤف ہو رہا تھا
💖------------💖
"بتا بہن کہاں ہے تیری بتا ؟"ہیرا فلک پر بری طرح چیخ رہی تھی
اس نے اس کا موبائل فون بھی چھینا اور پورے کمرے کی تلاشی لی مگر کچھ ہوتا تو ملتا
"اپپپی آپی کہاں گئی بائی کوئی لے گیا اسے ؟"فلک نے روتے بولا تو ہیرا کا دماغ بھی اس پر گیا ،وہ پوش علاقے میں" ہیر آنٹی " تھی ،اہل علاقہ کی کمپلین پر بھی اس کا کام چوپٹ نا ہوا تھا یہ لڑکیاں ان کے باپ نے بدنام زمانہ علاقے کے مشہور کوٹھے پر بیچی تھیں وہیں سے یہ ہیرا بائی عرف ہیر آنٹی نے خریدیں تھیں ،انتہائی سیدھی اور حسین آج تک کوئی کوشش نا کی تھی انہوں نے بھاگنے کی وہ فلک کو گھورتی باہر کی جانب بڑھی
فلک نے اس کے جانے کے بعد کافی اطمینان کر کے
میز پر سجے چوڑے گلدان سے پھول ہٹا کر سپنج بھی ہٹایا اور اس کے نیچے چھپایا سعود کا دیا ٹکی پیک فون نکالا اب کن انکھیوں سے باہر دیکھتے اس کی انگلیاں جلدی جلدی سعود کو میسج بھیج رہیں تھی
"یا اللہ آپی خیریت سے ہو ،اسے بچا لے نا اللہ پلیز "دعائیں اس کے لبوں سے جدا نا ہورہیں تھیں
💖------------💖
"استاد اے استاد !"وہ چیختی اپنا شوخ لباس چیختے میک اپ سے سجا تھل تھل کرتا وجود سنمبھالتی باہر گئی
"کیو چلا رہی ہو کچھ ملا اس کے پاس سے ہم نے آدمی دوڑائے رکھے ہیں جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا اس کو"
"ان لڑکیوں میں تپڑ نا ہے بھاگنے کا اور اب بھاگ کر کیا کرے گی وہ (شہرینہ )،یہ فلک تو چڑیا ہے چڑیا آواز اونچی ہوئی نہیں اور یہ روئی نہیں ،یہ لڑکیوں کا نہیں شرجیل بخت کا کام ہے دینے کو پیسے ہے نہیں تو دھونگ رچا دیے کمینے نے "اس نے دانت پیسے
"اچھا سن آ ج محفل میں رندھاوا صاحب آئیں گے ،یہ فلک کو پیش کردے "
"ایسے ہی پیش کر دوں پہلے صرف جھلک جھلک دکھا کے ترسا کے رقم بڑھاؤں گی ،تو جا زرا شرجیل بخت کا پتا کر مجھے تو اسی پر شک ہے شہری میں اتنا تپڑ کہاں "
اس نے کہا تو استاد سر ہلانے لگا
💖------------💖
اس نے فلک کے میسجز دیکھے یعنی فلک پر گھیرا بھی تنگ ہوگیا تھا اور شہرینہ الگ غائب
"کہیں یہ شرجیل بخت کا ڈرامہ نا ہو" وہ حیدر کے ساتھ بیٹھا تھا جب رائنا کا فون آیا آگے کی بات سن حیدر اسے ایسے ہی بیٹھا چھوڑ بھاگے تھے
ایک طرفہ گفتگو اسے اتنا سمجھا گئی تھی کے ہو نا ہو یہ شرجیل سے ریلیٹڈ ہے
اس نے اس کے بعد کئی فون کیے حیدر کو جس میں ایک اٹھا لیا گیا اس کے استفسار پر ان کا جواب کچھ یوں تھا۔
"ڈھونڈ رہیں ہے اسے جب ملے گا بتا دوں گا ،اب وہ آپ کی کزن کو نہیں شک پہنچا سکے گا اس کی گارنٹی دیتا ہوں "وہ تپ کے رہ گیا (ہنہہ ملے گی تو زک پہنچائے کہحیدر نے نفی میں سر ہلایا
"بہت ہڑبڑی میں گیا تھا بڑا پریشان تھا ،امنہ کی حالت خراب تھی ہم وہیں لگ گئے وہ بھی کملی ہے نا مرد سے بھی کوئی الجھتا ہے اسے نہیں الجھنا چاہیے تھا "وہ روتے کہہ رہیں تھیں آخری بات نے حیدر کو انگاروں پر لٹا دیا
"آپ کو یاد ہے بی اماں جب وہ اسکول میں بچوں کو مارتا تھا اور ملازمین کو تنگ کرتا تھا آپ تب بھی یہی کہتی تھیں کے ان بچو کو اسے بھڑکانا نہیں چاہیے تھا اورمیں بھی مان جاتا تھا کے اگر اسے بھڑکاتے نا تو وہ مارتا نا،
پھر کچھ بڑا ہوا تو اس نے لڑکیوں کو ستانا شروع کیا ،اپ نے کہا ان عورتوں کو ایسے نہیں پھرنا چاہیے تھا میں بھی قائل ہوگیا
وہ ایک لڑکی سے جبرا شادی کر بیٹھا (شرجیل کی دوسری بیوی)آپ نے کہا اس کو پہلے ہی مان جانا چاہیے تھا ہم سب پھر قائل ہوگئے
ایسے ہی وہ غلطیاں کرتا چلا گیا اور غلطیوں سے گناہ آپ سب چیزوں کو قصوروار ٹہراتی کبھی انسانو کو تو کبھی حالات کو اور ہم قائل ہوتے جاتے ،اج احساس ہورہا ہے "جسے نہیں کرنا چاہیے تھا وہ شرجیل تھا "وہی قصوروار تھا اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور قصوروار ہے تو وہ آپ اور میں ہیں آپ نے اس کے گناہوں پر پردہ ڈالا اور میں نے آنکھوں پر پٹی باندھے آمنا صدقنا کہا
ہم ہیں اول گنہگار خطاکرا اور اسی لائق ہیں کے آج اس کی لاش بھی نہیں مل رہی ہمیں "وہ ایک لفظ پر زور دیتے رنج سے بولے آج پہلی بار بی اماں کے ضمیر نے انہیں لعن طعن کی اب جانے ان پچھتاوں نے کبھی دامن بھی چھوڑنا تھا یا نہیں
💖------------💖
"توہ ایسے ہی منہ کھولے ٹوتھ پیسٹ سے بھرے منہ کا ڈسپلے لگائے کھڑا تھا جب وہ اسے دھکا دیتی اندر گھسی خود ہی ہکا بکا سعود کو اندر کھینچ کر دروازہ بند کیا
"تم غغغ "وہ اب بولنے کے قابل ہوا
"پہلے منہ صاف کر آؤں کلی کرکے "وہ نخوت سے بولی
وہ اسے گھورتا باتھ روم میں گیا واپس آیا تو اسے دیکھا جو اب اسکارف کھول کر پنکھے کے نیچے بیٹھی تھی
"دل چاہ رہا منہ پر کس کر چار تھپڑ لگاوں اور گنوں ایک " وہ خونخوار ہوا
"پانی پانی پلاو پلیز"
سعود اس کے کہنے پر چڑ کر گلاس میں پانی بھر کر لایا اور میز پر دھرا وہ غٹاغٹ سارا پانی چڑھا گئی
" اب بکو بھی کچھ "زچ ہوکر پھر بولا
شہرینہ پر اسرار طریقے سے مسکرائی
"شرجیل نے اپنے ایک پالتو کتے(آدمی) کے ساتھ مجھے کوٹھے روانہ کیا اس سے پہلے یہ کام سیکیورٹی کے ساتھ کیا جاتا مگر آج پیلی ٹیکسی اور صرف ایک کتا میں ٹھٹک گئی ،اس سے پہلے بھی میں محسوس کر چکی تھی کے ہیرا بائی اور شرجیل کی ٹھنی ہے ،موقع اچھا تھا میں نے پہلے تو پرانے۔ فون اور سم کو توڑ پھوڑ کر ختم کیا تمہارے والا فون ساتھ تھا پر اسے بھی بند رکھا کے کہیں فلک سے اگر ہیرا نے تمہارا دیا فون چھین لیا تو میں پکڑی جاؤں گی اور سب چوپٹ "
"تم اس آدمی کو چکما دے کر کیسے بھاگیں "سعود کے سوال شہرینہ کو اس دن میں گھسیٹ کر لے گیا جس دن وہ فرار ہوئی تھی
جب اسے اپنے بھیجوائے جانے کا پتا چلا تو سب سے پہلے اس نے ایک چھوٹا پرس تیار کیا جس میں اس نے پیسے زیور رکھا اس نے چیک کیا اس کے برقع میں جیب تھی اگرچہ چھوٹی تھی پر کام کی تھی کپڑے اس نے وہ نئے پہنے جو اس دن شاپنگ مال سے لائی تھی یہ کپڑے کسی نے نا دیکھ رکھے تھے تھیلا بیگ نما شرٹ اور پلازو جس میں اس کی ساخت سمجھ میں نہیں آنی تھی دیگر چیزیں رکھ کر اس نے کام کی چیز نکالی "سرنج "وہ اب ایک دوا کی شیشی کھولے اسے بھرنے لگی یہ دوائی بھی اس نے فریدہ سے لکھوا کر اسی دن خریدی تھی اور سعود کے کہنے کے باوجود نہیں پھینکی تھی
اب اس نے سرنج کو برقع کی سائیڈ پاکٹ میں رکھا اور موبائل کو گریبان میں چھپایا
نقاب لگا کر وہ اطمینان سے گاڑی میں جا پہنچی،راستہ تھوڑا ہی کٹا تھا کے اس نے پانی کا شور مچا دیا ،جس جگہ یہ لوگ تھے دکان یہاں سے دور تھی آگے بیٹھے شرجیل کے چمچے فرید نے اپنی بوتل اسے پھینک ماری "لے پی لے "
"یہ نہیں کوک پیوں گی لادے نا "وہ ادائے ناز سے چمکار کر بولی اور نقاب گرادی ساتھ اسے آنکھ ماری وہ ہنسا اور ڈرائیور کو بولا "یہ لے پیسے لے اور لے کر آ جلدی"
پھر اس سے مخاطب ہوا "کیو دی بڑی ترنگ میں ہے تو"
"تیرے ساتھ جو ہوں ، آ پیچھے آجا نا "اس نے دانہ پھیکا
"پاگل ہوئی سائیں کو پتا لگا تو ہڈیاں سینک دیں گے تیری بھی اور میری بھی" آفر پرکشش تھی مگر جان کا بھی خوف تھا
" کون بتائے گا ؟"تو؟یا میں ؟یہ ڈرائیور کونسا جانتا ہے سائیں کو ٹیکسی والا ہے"وہ اکساتی بولی وہ بھی ایک سیکینڈ کو سوچا اور باہر نکل گیا شہرینہ گھبرائی کہیں فون نا کردے یہ مگر وہ واپس آگیا اور پیچھے کا دروازہ کھولا
"ڈرائیور کو مزید دور بھیجنے گیا تھا گاڑی بڑی صحیح جگہ رکوائی تو نے دکانیں دور ہیں یہاں سے ,میں مٹھی بھی گرم کر آیا اسکی (پیسے دے کر)"وہ خباثت سے بولتا اب اس کے نزدیک ہوا اور تبھی شہرینہ نے موقع تاک کر انجیکشن پوری قوت سے اسکے بازو میں گھونپ دیا دوائی کی اچھی خاصی ڈوز تھی وہ چیخ کر پیچھے ہوا
"------(گالی) یہ کیا کیا تو نے " کہتے سر گڑبڑایا اور ہوش گنوا بیٹھا وہ باہر نکلی بیگ سے سامان لیا برقع وہیں اتارا تاکے پکڑی نا جائے آنکھوں پر کال چشمہ منہ پر ماسک اور سر پر جدید طریقے سے اسکارف لپیٹا وہ کافی مختلف لگ رہی تھی اس نے اگنیشن سے گاڑی کی چابی نکالی اور وہاں سے بھاگی ،کافی دور بھاگتے بھاگتے چند دکانیں اور رکشے نظر آئے اس نے سانس بحال کرتے رکشہ پکڑا اس نے رکشے والے کو اسی علاقے میں جانے کا کہا جہاں شرجیل نے اسے رکھا تھا۔ وہ جانتی تھیں وہاں یہ لوگ اسے نہیں ڈھونڈیں گے ،وہاں پہنچ کر اب مسئلہ تھا وہ اسی طرح چھپتی چھپاتی رہی اور آج وہ سعود کے دروازے پر تھی
ساری داستان سننے کے بعد وہ سر پکڑے بیٹھا تھا "تم مجھے بتا تو سکتی تھی "
"مجھے جس دن بھیجنا تھا ان لوگوں نے اسی دن انہوں نے بتایا تھا مجھے ،ایسے میں جو سمجھ میں آیا وہ میں کرتی گئی"
"اور تم کہاں رہیں ؟"
"ایک خاندان پر لندن پلٹ ظاہر کیا خود کو پیسے پکڑائے اور رہائیش حاصل کی"
"مان کیسے گئے"وہ ہنوز حیران تھا "اتنے لالچی لوگ سیکیورٹی بھی نہیں سوچی اپنی"
"مجبور مجبور لوگ "اس نے تصیح کی "غریب تھے دو بچے بیمار تھے پیسہ عیاشی نہیں ضرورت تھا انکی "
وہ تلخ ہوئی
"خیر چھوڑو ،میرا ایڈریس کہاں سے ملا "
"اس کارڈ پر جس پر تم نے نمبر لکھ کے دیا تھاپہلی ملاقات میں یاد ہے اسی کے پیچھے ہوم کرکے یہ پتا تھا "
سعود کو یاد آیا کے ان دنو وہ رینٹ پر گھر ڈھونڈ رہا تھا اور فون پر حمزہ سے اس نے ایڈریس کارڈ کے پیچھے لکھا تھا
"آر یو کریزی ،یہی گھر ہوتا ضروری تھا ؟مطلب تم پاگل ہو ؟ وہ کارڈ اب تک سنمبھالا تھا تم نے حد ہے،کچھ ہو جاتا پھر"
"کیا ہو جاتا اس سے زیادہ کیا ہوجاتا جو ہوچکا رسک نا لیتے ہی اب تک اس دلدل میں دھنسی اب رسک لے لیا ،اور وہ کارڈ میری امید تھا پہلی امید اسی لیے رکھا تھا سنمبھالا کر"وہ بولتی چلی گئی پھر ٹہری"فلک کی کیا خبر ہے "
سعود گہرا سانس بھرے اسے فلک اور شرجیل کے متعلق بتانے لگا
💖------------💖
وہ آمنہ کو سوپ پلا کر نکلی تھی کے اس کے سیل پر میسج آیا ،اس نے کھولا " ڈاکٹر رائنا ! آپ کو سردار حیدر کے معاملے میں کچھ بتا نا ہے ،یہ نمبر بلاک نا کرنا ،ورنہ تمام عمر حیدر کی قید میں پہنسی رہ جاؤ گی "
یہ میسجز جن میں ایسی کئی باتیں ہوتیں اسے کافی دنوں سے موصول ہو رہے تھے
وہ پہلے بھی ایک نمبر بلاک کر چکی تھی
"کون ہے یہ اور کیا بتانا چاہتا ہے ا"ب اس نمبر سے کال آنے لگی اس کی دھڑکن تیز ہوئی
"تمہیں مجھ پر یقین کرنا ہوگا رائنا ویسا یقین جیسا میں تم پر کرتا ہوں "حق لیقین "پھر کچھ بھی کہے تم نہیں یقین کروگی "اس کے کانوں میں حیدر کی پچھلی کہی بات گونجی اس نے وعدہ کیا تھا ان سے
فون اب بھی بج رہا تھا رائنا نے لمحے بھر سوچا اور کال کاٹ دی
وہ فلحال حیدر کو نہیں بتانا چاہتی تھی وہ پہلے ہی پریشان تھے "سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ" اس نے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی
💖------------💖
وہ آفس میں بیٹھے تھے مکرم نئی خبر لایا تھا
"سرکار ! رندھاوا کے بارے میں کچھ معلومات ہے اس میں "
"ایمپریسو"وہ فائل دیکھتے بولے فائلز میں رندھاوا کے بارے میں رپورٹ تھیں وہ سیکس ٹریفکینگ میں ملوث تھا جہاں سے لڑکیاں خرید دوسرے ممالک میں سپلائی کرتا تھا
"ایسے اور ثبوت چاہیے مکرم "انہوں نے پیٹھ تھپک ے کے ساتھ ساتھ ہدایت کی
"کیا آپ یہ سب لیک کریں گے ؟"
"اگر اس نے میرے خاندان پر ہاتھ ڈالا تب، ورنہ تم جانتے ہو میں نے الیکشن تو ویسے بھی جیتنا ہے،پارٹی ہماری کاکردگی سے خوش ہے اور عوام بھی پر امید ہے
رندھاوا لاکھ چالاک صحیح طاقت کے نشے میں حواس کھو بیٹھتا ہے اس کی ایسی کئی غلطیاں ہمیں ملیں گی جو کام آئیں گی "
"بلکل سرکار "
تبھی مکرم کا فون بجا جسے ریسیو کرنے کے بعد اس کا رنگ فق ہوگیا
"سرکار شرجیل سائیں کی خبر ہے"
حیدر تیزی سے کھڑے ہوئے
💖------------💖
وہ بستر پر کونے میں ٹانگیں سکیڑے بیٹھا تھا آنکھیں غیر مرئی نکتے پر مرکوز تھیں سامنے سے آتے حیدر کو دیکھتے اس نے اپنے اپنے زخم زخم وجود کے ساتھ چلانا شروع کردیا ہر مرد کو دیکھ اس کی یہی حالت ہوجاتی تھی چاہے وہ اس کا بھائی ہی کیو نا ہو
حیدر کے کانوں میں اس کی حالت دیکھ ڈاکٹر کی آواز گونجی
"آپ کے بھائی کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے ایک سے زیادہ افراد تھے غالبا "
مکرم کو انسپیکٹر کی کال آئی تھی شرجیل وہیں سے ملا تھا جہاں کچھ دن پہلے اس کی ٹوٹی پھوٹی گاڑی ملی تھی
اس کے جسم پر جابجا نئے پرانے زخم تھے ،کئی فریکچرز تھے
وہ اب چت لیٹا چھت کو گھوررہا تھا وہ نمی چھپاتے وہاں سے ہٹے
💖------------💖
وہ چت لیٹا چھت کوگھور رہاتھا دماغ میں گزشتہ وقت کی ریئل چل رہی تھی
اس دن وہ گاڑی دوڑاتے کہاں نکل گیا اسے نہیں معلوم تھا بڑا سنسان علاقہ تھا سردیوں کے موسم کی وجہ سے دھند بھری تھی اسنے بریل لگانے چاہے مگر جھنجھلاہٹ ڈر اس پر حاوی تھی گاڑی شدید ڈسبیلینس ہوتی درخت سے جا ٹکرائی
آگے کا دروازہ ٹوٹ کر کھلا اور وہ نکل کر گر پڑا چوٹ شدید تھی ازیت ناک حواس الگ گم تھے مگر وہ زندہ تھا اسے لگا یہ اس کی خوش قسمتی ہے وہ دعائیں مانگنے لگا کے کوئی تو یہاں آئے
کافی دیر بعد ایک جیپ چلی آئی وہ چار لمبے چوڑے مرد تھے ہاتھوں میں لوہے کے ڈنڈے تھے چہرے پورے کالے ماسک سے ڈھکے تھے انہوں نے اسے دیکھ اونچے قہقہے لگائے ایک دوسرے کو زومعنی اشارے کرتے شکار کی طرف بڑھے وہ کانپا اسے لگا وہ لٹیرے تھے اور وہ واقعی لٹیرے تھے جنگلی وحشی گمراہ قوم لوط سے تعلق رکھنے والے وہ اسے لے گئے اور بعد میں بری طرح زدوکوب کر کے وہیں پھینک گئے
ڈاکٹرز کے خیال میں ایسے ایکسیڈینٹ کے بعد بچنا معجزہ تھا ان کی نظر میں یہ اس کی خوش قسمتی تھی کے وہ بچ گیا تھا مگر وہی جانتا تھا یہ اس کی خوش قسمتی نہیں تھی سر پر چوٹ لگنے اور تشدد کے باوجود اس کی یاداشت سلامت تھی حواس سلامت تھے یہ معجزہ نہیں تھا یہ خدا کی لاٹھی تھی جو بے آواز اس پر پڑی تھی اور اس کی چیخیں گونج رہیں تھیں۔۔۔۔
اسےفلک کے لیے مدد کی ضرورت تھی شہرینہ باہر نہیں نکل سکتی تھی سعود نےاسے سختی سے منع کیا تھا فلک فلحال محفوظ تھی کے وہ رندھاوا نامی شخص کچھ وقت کے لیے کہیں گیا تھا اس نے پتا کرا یہ وہی شخص تھا جو اسی علاقے سے انتخابات میں کھڑا تھا جہاں سے حیدر بخت کھڑے تھے
"لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے ."یہ حمزہ کا کہنا تھا
"آبے پر وہ کیو کرے گا میری مدد "
سیاسی معاملہ ہے ،سیاسی حریف ہے وہ رندھاوا کا ،پارٹیاں تو اور بھی ہے مگر ٹاکرے پر فلوقت یہ دونوں ہیں باقی اور کسی کو تو جانتا کہاں ہے"
اور یہی باتیں اسے . حیدر بخت کے افس لے ائی تھیں بڑے ترلو سے اپاونٹمنٹ ملا تھا حیدر بخت صاحب کا وہ کافی دیر سے ویٹنگ ایریا میں تھا جب مکرم نے باہر اکر اسے اندر بلایا
اب وہ حیدر کے سامنے کرسی پر براجمان تھا وہ فائلز میں گم تھے اس کے سلام کا جواب بھیسر کی جنبش سے دیا گیا تھا
" جی سعود صاحب کیسے تشریف لائے یا میں یہ کہو کیو تشریف لائے،میری بیوی سے اپ کی بات چیت . ہسپتال تک کی ہے اسے وہیں تک محدود بلکہ کم سے کم ہی رکھیں تو بہترہے اس طرح کے معملات میں اسے انوالو اج کیا ہے اپ نے ائندہ نا ہو "
وہ سخت کبیدہ خاطر تھے ان کے اور ان کے سیکرٹری کے کال نا اٹھانے پر اس نے رائنا کو سب کہہ سنایا تھا پھر جب وہ ہسپتال سے گھر ائی تو اس نے سعود کو کال کر کے فون حیدرکو پکڑا دیا یہ سعود کی خوش قسمتی تھی کے رائنا نے کوئی حمایت وغیرہ نہیں کی تھی "ائیندہ وہ تم سے اس بارے میں کچھ بھی کہے تم بیچ میں نہیں پڑو گی "خلاف توقع وہ بنا کیو کیا کیے مان گئی تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ رائنا ایسے مسائل میں پڑے
سعود نے اس "بھنوٹ ادمی "کو دیکھا
"انوالو نہیں کیا میں نے انہیں ،صرف آپ سے بات کرانے کا فیور مانگا تھا "(اف یہ مجبوری ،اب وضاحت دو)
"ڈونٹ بیٹ اراونڈ دا بش ،مقصد بتائیے ؟"
"آپ کو پتا ہے میری کزن کا معاملہ "
"اور میں آپ کو بتا چکا ہوں شرجیل کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے بستر پر ہے ایک ٹانگ ناکارہ ہوگئی ہے اسکی آپ کی کزن کو اس سے خطرہ نہیں ہے"وہ اس کی بات کاٹتے بولے
"آپ پلیز میری بات سنیے پلیز " اس نے گزارش کی پھر ان کے سر ہلانے پر آہستہ آہستہ فلک کا معاملہ گوش گزار دیا
"بہت افسوس ہوا سن کر مگر میں کیو اس معاملہ میں پڑوں گا یہ نہیں سوچا آپ نے"
"رندھاوا آپ کا سیاسی حریف ہے ،اور اس سے آپ کو بھی فائدہ ہوگا "
اس کی بات پر حیدر نے قہقہہ لگایا
"ایم سوری ٹو برسٹ یور ببل ،مگر مجھے اسے ہرانے کے لیے کسی کی ضرورت نہیں ہے"وہ دو ٹوک بولے
"آپ جا سکتے ہیں "
سعود نے کوشش کی بولنے کی مگر مکرم اسے باہر لے گیا
"شٹ اب اب کیا کروں"
💖------------💖
وہ گھر پہنچے تو پہلے شرجیل کے پاس گئے حالت قدرے سنمبھل گئی تھی اس کی وہ لوگ جنہوں نے یہ کیا ان کی تلاش جاری تھی مگر انسپیکٹر داور کے بقول ملنا مشکل تھا کے شرجیل نے ان کی شکل تک نا دیکھی تھی
وہ اندر کمرے میں آئے تو وہ سو رہا تھا ،
"اب کیسی طبیعت ہے ؟"انہوں نے بی اماں سے پوچھا وہ وہیں رہنے لگیں تھی اس کی دیکھ بھال کے لیے
"زہنی حالت اب تو اس نرس(میل نرس) کو دیکھ کر نہیں ڈرا,بس روتا ہے کرب میں ہے ،صحت دن بدن گر رہی ہے بخار بھی رہتا ہے"
"ہمم ٹیسٹ کراتے ہیں پھر ،معلوم تو ہو کیا بات ہے "
"معافیاں مانگتا رہتا ہے بس"وہ آبدیدہ ہوئیں :آمنہ کو بلاتا ہے ,وہ نہیں آتی"
"ان پر زور نہیں دی گا اب اگر وہ خوش رہیں شاید تبھی ہمارے بھائی کے لیے آسانی ہو "
💖------------💖
"کیا بنا بتاؤ ؟"شہرینہ اسے دروازے پر دیکھ ہی شروع ہوگئی تھی
"خاک کچھ نہیں بنا"
وہ اندر آگیا اس کی وجہ سے وہ آج کل حمزہ کے ساتھ رہنے لگا تھا
"کھانا کھاؤ گے ,ایسے مت دیکھو سکون سے سوچ سمجھ کر ہی حل نکال سکتے ہیں "وہ س کے سر ہلانے پر کھانا نکال کر لے آئی
"ہمم اچھا بناتی ہو کھانا"وہ چکھ کر بولا تو آزردہ سی مسکرائی
"امی باہر کمانے جاتیں تھیں گھر ٹیوشن دینے تب سارا گھر سنمبھالتی تھی '"
"ایک بات بتاؤ شہرینہ تمہیں اگر وہ مارتا نہیں تب ،تب بھی نکلنا چاہتیں وہاں سے"
"میں مار سے نہیں ڈری سعود حرام سے ڈری ہوں ،پہلے میں صرف فلک کا سوچتی تھی مجھے یہ دنیا قبول ہی نہیں کرےگی یہ سوچ کر مگر جب تم آئے تو مجھے لگا اللہ مجھے بچانا چاہتا ہے تبھی برسوں بعد ماموں کو خیال آیا ہمارا ،اور اگر اللہ بچا نا چاہتا ہے تو دنیا سے کیا مطلب ،اسی خیال نے میرے اندر اتنی ہمت پیدا کردی "
اس کی باتیں سن سعود کو شرمندگی ہوئی وہ باہر تھا تو اسکی گرل فرینڈز بھی تھیں گو کے اس نے کبھی حد پار نا کی تھی مگر اسے حرام کا اتنا خوف نا تھا
"تم بہت اچھی لڑکی ہو نیک لڑکی ہو شہرینہ ،کیو کے تم نیک رہنا چاہتی ہو "وہ بولا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرائی
"ہمیں کچھ نا کچھ کرنا ہوگا فلک کے لیے " وہ حمزہ کو کال کرتا بولا
💖------------💖
وہ اگلے دن کی صبح تھی ،وہ کافی دیر سے اٹھے تھے ،"رائنا نے جگایا کیو نہیں "وہ برابر میں اپنی جگہ پر بھی نا تھی (اسے کیا ہوگیا اب) ،وہ کمفرٹر ہٹاتے بیڈ سے اترے کے تبھی نظر صوفے کے پاس رکھی ٹرالی پر گئی
وہاں ایک خوبصورت سا تھری لیر ملک کیک تھا جس پر ہیپی اینی ورسری لکھا تھا اور ایک کینڈل لگی تھی جس پر فرسٹ لکھا تھا سائیڈ میں اسٹک سے کیک پر ہی چھوٹے چھوٹے کارڈزلگا رکھے تھے جن میں سے ایک پر "تھینکس فار بینئگ بیسٹ وکیل "لکھا تھا جب کے دوسرا ان کی ایک ساتھ لی گئی تصویر تھی
حیدر کے لبوں پر مسکراہٹ در آئی نظریں گھمائی مگر یہ سب کرنے والی نا دکھی (کہاں گئی )تبھی وہ جو کب سے بالکونی میں ٹنٹڈ گلاس کی آڑ سے جھانک رہی تھی باہر آئی اور ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا
وہ ہاتھ پیچھے لے جا کر اسے ہاتھ سے پکڑ کر سامنے لے آئے اور اس کی ہتھیلی پر لب رکھے ،اب دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر جمائے اس کا جائزہ لیا ،ڈارک بلیو کلر کے کڑھائی والے جوڑے میں سادہ سی بس پلاسٹک لگائے انہیں بہت پیاری لگی
"یہ سب تم نے کیا ہے"انہوں نے پوچھا تو وہ ہنس دی جواب واضح تو تھا
"تھینکس آ لوٹ رائنا فور میکینگ مائی مارننگ بیوٹی فل "اس کے ماتھے پر لب رکھے وہ جذب سے بولے
"اب کیک کاٹیں "دونوں نے کیک کاٹ کر ایک دوسرے کو کھلایا
"ہممم چلو اب تمہارا گفٹ تو دےدیں "وہ اٹھے دراز کی طرف بڑھے "آپ کو یاد تھا حیدر "اسے حیرت ہوئی اسے لگا نہیں یاد
"یاد تھا ،مگر بیچ میں حالات ایسے آئے کے کچھ اور پلین نا کر سکا "وہ بولے وہ بھی سمجھ سکتی تھی یہ بات
انہوں نے فائل اسکی طرف بڑھائی اس نے حیرت سے دیکھا "یہ وہ گھر کراچی والا میں نے تمہارے نام کردیا "
"میں جانتا ہوں کہ حویلی کا رہن سہن تمہارے لیے موافق نہیں ہے اسی لیے وہاں کا انتخاب کیا عنقریب مکمل شفٹ کرادوں گا تمہیں وہاں،سوچ تو کب سے ہی رہا تھا تم اپنی پریکٹس بھی زیادہ ایزیلی کر سکو گی "
وہ کافی دیر انہیں دیکھتی رہی "خود سے دور رکھنا چاہتے ہیں "
"کیا رکھ سکتا ہوں ؟ وہاں بھی تو رہتا ہوں نا جا کر تم یہاں انتظار کرتی ہو یہاں کرو یا وہاں کیا فرق ہے"
"فرق ہے حیدر آپ کام کے سلسلے میں جاتے ہیں دل آپ کا یہیں ہوتا ہے اس طرح آپ بٹ جائیں گے میرے پاس ہوں گے تو حویلی کی فکر ہوگی ان کے پاس ہوں تو میری ,مجھے آپ بٹے ہوئے نہیں چاہیے پوری توجہ کی عادت آپ نے ڈالی ہے مجھے ،مجھے بس آپ کے ساتھ رہنا ہے،پریکٹس ہو جائے گی اگر آپ کا ساتھ ہوگا اب بھی تو کر ہی رہی ہوں,مگر آپ ساتھ رہیں میرے"
وہ نم آنکھوں سے ضدی لہجے میں بولی ان کا دل زور سے دھڑکا جی کیا اسسے پوچھے تو کیا میرا انتظار ختم ہوا مگر رک گئے جو مزا اس کے خود سے کہنے میں تھا کہلوانے میں کہاں تھا انہوں نے اسے ساتھ لگا یا
"زندگی مشکل ہے یہاں "
"میرا وکیل ساتھ ہے کافی ہے"وہ مزے سے بولی تو انہونے مزید قریب کیا
"آپ کا گفٹ اچھا تھا بٹ میرے گفٹ کا مقابلہ نہیں "
"تم خود میرا گفٹ ہو"
"ہاہاہا۔۔جو گفٹ میرا ہے اس کے آگے آپ یہ بات بھول جائیں گے "وہ متعجب ہوئے
اس نے بھی ایک فائل آگے کی حیدر نے حیران پریشان فائل کھولی "پریگنینسی رپورٹ".
"یہ یہ سچ ہے جاناں" وہ خوشی سے پاگل ہوتے بولے تو وہ ہنسی اور ہاں میں سر ہلایا
انہوں نے اس کا ماتھا چوما
"مجھے اس سے بڑا گفٹ کبھی مل ہی نہیں سکتا "وہ آنکھوں میں جگنو سجائے اسے دیکھنے لگے
"ائو سب کو خبر کرتے ہیں "وہ اسے لیے باہر کی طرف بڑھ گئے
💖------------💖
آج عرصے بعد حویلی کی رونق بحال ہوئی تھی بی اماں نے صدقہ کے بکرے کٹوائے ،کمیں کمین میں خیرات تقسیم کرائی گئی باہر مسلسل فائرنگ یو رہی تھی یہ رواج تھا خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنے کا
حیدر اسے اس کے میکے بھی لے گئے
امی ابا سب نہال تھے خبر ہی ایسی تھی ،خالہ دادی بار بار نظر اتار رہیں تھیں
"سب اچھا ہے بس بچے جائے میری رائنا پر "وہ حیدر کو زچ کرنے کا کوئی موقع نا چھوڑتی تھی سب ہنس دیے
ااج کا دن ان دونوں کے لیے خوبصورت ترین دن تھا
💖------------💖
وہ بہت لگن سے پڑھائی کر رہی تھی دماغ کی سمتیں درست ہو گئیں تھی ہاں دل کبھی شور کرتا پر ڈپٹ دیتی وہ ، ابا نے اسے گاؤں بلایا تھا اس کے بھائی کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی تھی گو کے اس کے بھائی کا سلوک اچھا نہیں تھا مگر سکینہ پر پھوپھو بننے کی خوشی حاوی تھی ،"حویلی سے سوغاتیں آئیں ہیں بڑی سرکار کے ہاں خوش خبری ہے "
اس کی ماں نے سامان دیکھتے خوشی سے بتایا
سکینہ پل بھر کو ٹھٹھکی پھر سر جھٹکا "یہ تو بہت خوشی کی بات ہے اللہ بڑی سرکار اور بڑے سرکار آباد رکھے "دعا اس نے دل سے دی تھی گو کہیں دکھن ضرور تھی مگر حسد نہیں تھا
"اے سکینہ سن زرا یہ مٹھائیاں بانٹ آ "ماں نے کہا تو وہ اٹھی
💖------------💖
سعود حمزہ کے گھر تھا ،"تو کب تھا یہاں ڈیرہ جمائے گا "
"جب تک میری کزن میرے ہاں ڈیرہ جمائے گی"حمزہ نے افسوس سے سرہلا یا اب وہ بھی تھوڑا بہت معاملہ جان گیا تھا
"تو گیا تھا وہاں "
"ہاں نہیں مانا وہ ،کیو مانتا بھلا "حمزہ نے سعود کو اتنا سنجیدہ اور افسردہ پہلے نہیں دیکھا تھا
"تو اپنی کزن سے پہلی بار ملا کوئی جذباتی وابستگی نہیں پھر کیو اتنا کنسسٹنٹ ہے اتنے خطرے میں کیو ڈال رہا ہے خود کو"وہ متعجب تھا
"کیو کے مجھے کنسسٹنسی پسند ہے ،نیچر ہے میری ،پہلے میں اسی لیے پڑا اس معاملے میں ایڈوینچر سمجھ کے مگر اب اس لڑکی کی حلال سے محبت دیکھ کر میں اب صرف ثواب کے لیے کوشش کر رہا ہوں" وہ کہتا کچن میں چلا گیا جب سے وہ ایا تھا حمزہ کو صاف گھر اور اچھا کھانے کو مل رہا تھا اس کا(حمزہ کا) فون آیا اور وہ چابیا اٹھاتا باہر بھاگا
💖------------💖
"آخر کتنی بار میں بلاک کروں اب کیا میسج ہے"اس نے ڈرتے ڈرتے میسج کھولا
"تمہارا شوہر ہی تمہارا مجرم ہے ،وہ سب حیدر بخت نے ہی کرایا تھا مجھ سے ،میں یاد ہوں تمہیں کیسے بھولو گی ہاشم کو "
"یہ یہ ہاشم۔ نہیں یہ۔ کیسے ۔۔اگیا "تبھی کال آنے لگی وہی نمبر تھا اس نے جی کڑا کرتے کال اٹھائی
"کیسی ہیں ڈاکٹر صاحبہ " ہاں یہ وہی تھا ہاشم یہ آواز آج بھی کانوں کے لیے تکلیف دہ تھی " آ ں اب تو بڑی سرکار بھی ہیں آپ ،جاننا نہیں چاہیں گی کیسے ہوا یہ…"وہ خباثت سے بولے جا رہا تھا مگر رائنا کے حواس جواب دے گئے وہ لہرا کر زمین پر آ رہی تھی اس سے پہلے ہی اندر آتے حیدر نے اسے لپک کر تھاما
💖------------💖
وہ بیڈ پر بے سود لیٹی اپنی بیوی کو دیکھ رہے تھے جسے ڈرپ لگائی گئی تھی اس کا بیپی لو تھا
حیدر اس کے ہاتھ سے موبائل لیے یہ نیا الزام دیکھ چکے تھے انہیں اس کے اٹھنے کا انتظار تھا
وہ سرہانے ہی بیٹھے تھے جب وہ ہوش میں آئی اور ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھنے لگی
"سکون سے لیٹی رہو "وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے بولے
اس نے انکا ہاتھ سر سے ہٹا کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا
"وہ وہ واپس آگیا حیدر کیو؟ کیسے ؟آپ نے کہا تھا اب نہیں آئے گا"وہ ڈر رہی تھی
حیدر نے اس کے شانوں پر بازو پھیلایا ان کے لیے یہ خوش آئیند تھا کے وہ ان سے بدگمان نا تھی
"وہ تم سے جو کہہ رہا تھا،تمہیں یقین تھا اس پر؟ "وہ ہاشم کی بقیہ گفتگو سن چکے تھے انکی آواز پر اس نے ہڑبڑا کے کال کاٹ دی تھی
ان کے استفسار پر اس نے نفی میں سر ہلایا وہ جزباتی تھی پربیوقوف نہیں تھی کے اس بکواس پر یقین کرتی وہ جانتی تھی حیدر سے مدد اس کے دوستوں نے مانگی تھی ،اور پھر حیدر کو اتنا ڈرامہ کھیلنے کی کیا ضرورت تھی،ہاشم صرف اسے بدگمان کر رہا تھا
"پھر مجھے بتایا کیو نہیں"
"آپ آل ریڈی پریشان تھے اس لیے بس "وہ بولی "حیدر وہ کیو آیا ہے اب"
"پریشان مت ہو رائنا میں ہوں تمہارے ساتھ ،ٹینشن مت لو سویٹ ہارٹ "وہ اسے یقین دلاتے بولے ذہن کے گھوڑے ایک ہی سمت دوڑ رہے تھے انہیں کچھ دن پہلے مکرم نے اطلاع دی تھی کے ہاشم رندھاوا کے بندوں کے ساتھ دیکھا گیا ہے انہوں نے تب توجہ نا دی تھی مگر رندھاوا نے اب رائنا کو اس میں گھسیٹا تھا اب وہ نظر انداز نہیں کرسکتے تھے یہ معاملہ اب
💖------------💖
ہاشم کی ٹانگیں کانپ رہیں تھیں وہ دو مگرمچھوں میں پھنس کر رہ گیا تھا رندھاوا واپس آگیا تھا اور جان گیا تھا کے اس کا پلان فلوپ ہوگیا وہ غصہ تھا شدید غصہ اس نے سارے کمرے کی چیزیں تہس نہس کردیں تھیں ،زیادہ غصہ اسے ہاشم کے پکڑے جانے کا تھا
"اس نالائق کو گودام میں لے کر آؤ ،ایک عورت نہیں سنمبھلی اس سے "
اس کے آدمی ہاشم کو گودام میں لے آئے
"میں نے بہت ک ککوششش کی پپ پر ووہ نہیں ۔۔۔"
وہ ہکلاتا صفائی دے رہا تھا
رندھاوا نے اسے بالوں سے تھام لیا اور پستول کس لی
"اب دوسرے جہاں جا کر کرنا کوشش "
"ٹھاہ "کی زوردار آواز فضا میں گونجی
رندھاوا کے دست راست نے افسوس سے دیکھا الیکشن کے وقت ایسا رسک اس نے دل ہی دل میں اسے "اسٹوپڈ موو" قرار دیا
اور بکسوں کے پیچھے کیمرے میں منظر قید کرتے شخص کا بھی یہی خیال تھا
💖------------💖
"آج دل بڑا اداس ہے ہیرا بائی ،کوئی اچھا سا ناچ گانے کا انتظام کر "
"اسکی فرمائش پر ہیرا مسکرائی اور فلک کو بلایا
نیم عریاں لباس میں کم عمر سی فلک اپنی مجبوری پر کرلاتی بائی کے اشارے پر رقص کرنے لگی رندھاوا کی لال آنکھیں اس پر جمی تھیں ہیرا آتش شوق بھڑکا رہی تھی اسے یقین تھا اب وہ یقینا بڑی رقم کے لیے مان جائے گا
💖------------💖
"تیری سانس کیو پھول رہی ہے؟"سعود اسے پریشانی سے دیکھتے بولا
"یہ یہ دیکھ "ویڈیو دیکھ سعود کے اوسان خطا ہوگئے حمزہ بول رہا تھا
"اب تو حیدر بخت سے رابطہ کر ،یہ" بیٹ"(bait) دے اسے ،اگر وہ ساتھ ہو تو ہم بچا لیں گے اس بچی کو ورنہ محض وائرل ہو کر اس ویڈیو کا کوئی فایدہ نہیں"
"تو یہ مجھے دے رہا ہے،پیسے نہیں کمائے گا"؟سعود حیران تھا
"نہیں ثواب کماؤں گا"حمزہ کی بات پر دونوں ہی مسکرائے (شہرینہ صحیح تھی اللہ اسے بچانا چاہتا ہے)
💖------------💖
وہ آج پھر حیدر کے سامنے تھا اس سے پہلے وہ کال کرتا حیدر کے سیکرٹری کی کال آگئی تھی ،ساری تفصیلات کے بعد اب وہ لوگ اگلا لائحہ عمل طے کر رہے تھے
💖------------💖
#Kidnapping_Feudal_System_Romantic_Based_Novel
#Intzar_E_Ishq💞
#Maryama_Shaikh💞
#Episode_28💞
Please don’t copy paste without my permission📌📌
-------------------------------------
اسےفلک کے لیے مدد کی ضرورت تھی شہرینہ باہر نہیں نکل سکتی تھی سعود نےاسے سختی سے منع کیا تھا فلک فلحال محفوظ تھی کے وہ رندھاوا نامی شخص کچھ وقت کے لیے کہیں گیا تھا اس نے پتا کرا یہ وہی شخص تھا جو اسی علاقے سے انتخابات میں کھڑا تھا جہاں سے حیدر بخت کھڑے تھے
"لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے ."یہ حمزہ کا کہنا تھا
"آبے پر وہ کیو کرے گا میری مدد "
سیاسی معاملہ ہے ،سیاسی حریف ہے وہ رندھاوا کا ،پارٹیاں تو اور بھی ہے مگر ٹاکرے پر فلوقت یہ دونوں ہیں باقی اور کسی کو تو جانتا کہاں ہے"
اور یہی باتیں اسے . حیدر بخت کے افس لے ائی تھیں بڑے ترلو سے اپاونٹمنٹ ملا تھا حیدر بخت صاحب کا وہ کافی دیر سے ویٹنگ ایریا میں تھا جب مکرم نے باہر اکر اسے اندر بلایا
اب وہ حیدر کے سامنے کرسی پر براجمان تھا وہ فائلز میں گم تھے اس کے سلام کا جواب بھیسر کی جنبش سے دیا گیا تھا
" جی سعود صاحب کیسے تشریف لائے یا میں یہ کہو کیو تشریف لائے،میری بیوی سے اپ کی بات چیت . ہسپتال تک کی ہے اسے وہیں تک محدود بلکہ کم سے کم ہی رکھیں تو بہترہے اس طرح کے معملات میں اسے انوالو اج کیا ہے اپ نے ائندہ نا ہو "
وہ سخت کبیدہ خاطر تھے ان کے اور ان کے سیکرٹری کے کال نا اٹھانے پر اس نے رائنا کو سب کہہ سنایا تھا پھر جب وہ ہسپتال سے گھر ائی تو اس نے سعود کو کال کر کے فون حیدرکو پکڑا دیا یہ سعود کی خوش قسمتی تھی کے رائنا نے کوئی حمایت وغیرہ نہیں کی تھی "ائیندہ وہ تم سے اس بارے میں کچھ بھی کہے تم بیچ میں نہیں پڑو گی "خلاف توقع وہ بنا کیو کیا کیے مان گئی تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ رائنا ایسے مسائل میں پڑے
سعود نے اس "بھنوٹ ادمی "کو دیکھا
"انوالو نہیں کیا میں نے انہیں ،صرف آپ سے بات کرانے کا فیور مانگا تھا "(اف یہ مجبوری ،اب وضاحت دو)
"ڈونٹ بیٹ اراونڈ دا بش ،مقصد بتائیے ؟"
"آپ کو پتا ہے میری کزن کا معاملہ "
"اور میں آپ کو بتا چکا ہوں شرجیل کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے بستر پر ہے ایک ٹانگ ناکارہ ہوگئی ہے اسکی آپ کی کزن کو اس سے خطرہ نہیں ہے"وہ اس کی بات کاٹتے بولے
"آپ پلیز میری بات سنیے پلیز " اس نے گزارش کی پھر ان کے سر ہلانے پر آہستہ آہستہ فلک کا معاملہ گوش گزار دیا
"بہت افسوس ہوا سن کر مگر میں کیو اس معاملہ میں پڑوں گا یہ نہیں سوچا آپ نے"
"رندھاوا آپ کا سیاسی حریف ہے ،اور اس سے آپ کو بھی فائدہ ہوگا "
اس کی بات پر حیدر نے قہقہہ لگایا
"ایم سوری ٹو برسٹ یور ببل ،مگر مجھے اسے ہرانے کے لیے کسی کی ضرورت نہیں ہے"وہ دو ٹوک بولے
"آپ جا سکتے ہیں "
سعود نے کوشش کی بولنے کی مگر مکرم اسے باہر لے گیا
"شٹ اب اب کیا کروں"
💖------------💖
وہ گھر پہنچے تو پہلے شرجیل کے پاس گئے حالت قدرے سنمبھل گئی تھی اس کی وہ لوگ جنہوں نے یہ کیا ان کی تلاش جاری تھی مگر انسپیکٹر داور کے بقول ملنا مشکل تھا کے شرجیل نے ان کی شکل تک نا دیکھی تھی
وہ اندر کمرے میں آئے تو وہ سو رہا تھا ،
"اب کیسی طبیعت ہے ؟"انہوں نے بی اماں سے پوچھا وہ وہیں رہنے لگیں تھی اس کی دیکھ بھال کے لیے
"زہنی حالت اب تو اس نرس(میل نرس) کو دیکھ کر نہیں ڈرا,بس روتا ہے کرب میں ہے ،صحت دن بدن گر رہی ہے بخار بھی رہتا ہے"
"ہمم ٹیسٹ کراتے ہیں پھر ،معلوم تو ہو کیا بات ہے "
"معافیاں مانگتا رہتا ہے بس"وہ آبدیدہ ہوئیں :آمنہ کو بلاتا ہے ,وہ نہیں آتی"
"ان پر زور نہیں دی گا اب اگر وہ خوش رہیں شاید تبھی ہمارے بھائی کے لیے آسانی ہو "
💖------------💖
"کیا بنا بتاؤ ؟"شہرینہ اسے دروازے پر دیکھ ہی شروع ہوگئی تھی
"خاک کچھ نہیں بنا"
وہ اندر آگیا اس کی وجہ سے وہ آج کل حمزہ کے ساتھ رہنے لگا تھا
"کھانا کھاؤ گے ,ایسے مت دیکھو سکون سے سوچ سمجھ کر ہی حل نکال سکتے ہیں "وہ س کے سر ہلانے پر کھانا نکال کر لے آئی
"ہمم اچھا بناتی ہو کھانا"وہ چکھ کر بولا تو آزردہ سی مسکرائی
"امی باہر کمانے جاتیں تھیں گھر ٹیوشن دینے تب سارا گھر سنمبھالتی تھی '"
"ایک بات بتاؤ شہرینہ تمہیں اگر وہ مارتا نہیں تب ،تب بھی نکلنا چاہتیں وہاں سے"
"میں مار سے نہیں ڈری سعود حرام سے ڈری ہوں ،پہلے میں صرف فلک کا سوچتی تھی مجھے یہ دنیا قبول ہی نہیں کرےگی یہ سوچ کر مگر جب تم آئے تو مجھے لگا اللہ مجھے بچانا چاہتا ہے تبھی برسوں بعد ماموں کو خیال آیا ہمارا ،اور اگر اللہ بچا نا چاہتا ہے تو دنیا سے کیا مطلب ،اسی خیال نے میرے اندر اتنی ہمت پیدا کردی "
اس کی باتیں سن سعود کو شرمندگی ہوئی وہ باہر تھا تو اسکی گرل فرینڈز بھی تھیں گو کے اس نے کبھی حد پار نا کی تھی مگر اسے حرام کا اتنا خوف نا تھا
"تم بہت اچھی لڑکی ہو نیک لڑکی ہو شہرینہ ،کیو کے تم نیک رہنا چاہتی ہو "وہ بولا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرائی
"ہمیں کچھ نا کچھ کرنا ہوگا فلک کے لیے " وہ حمزہ کو کال کرتا بولا
💖------------💖
وہ اگلے دن کی صبح تھی ،وہ کافی دیر سے اٹھے تھے ،"رائنا نے جگایا کیو نہیں "وہ برابر میں اپنی جگہ پر بھی نا تھی (اسے کیا ہوگیا اب) ،وہ کمفرٹر ہٹاتے بیڈ سے اترے کے تبھی نظر صوفے کے پاس رکھی ٹرالی پر گئی
وہاں ایک خوبصورت سا تھری لیر ملک کیک تھا جس پر ہیپی اینی ورسری لکھا تھا اور ایک کینڈل لگی تھی جس پر فرسٹ لکھا تھا سائیڈ میں اسٹک سے کیک پر ہی چھوٹے چھوٹے کارڈزلگا رکھے تھے جن میں سے ایک پر "تھینکس فار بینئگ بیسٹ وکیل "لکھا تھا جب کے دوسرا ان کی ایک ساتھ لی گئی تصویر تھی
حیدر کے لبوں پر مسکراہٹ در آئی نظریں گھمائی مگر یہ سب کرنے والی نا دکھی (کہاں گئی )تبھی وہ جو کب سے بالکونی میں ٹنٹڈ گلاس کی آڑ سے جھانک رہی تھی باہر آئی اور ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا
وہ ہاتھ پیچھے لے جا کر اسے ہاتھ سے پکڑ کر سامنے لے آئے اور اس کی ہتھیلی پر لب رکھے ،اب دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر جمائے اس کا جائزہ لیا ،ڈارک بلیو کلر کے کڑھائی والے جوڑے میں سادہ سی بس پلاسٹک لگائے انہیں بہت پیاری لگی
"یہ سب تم نے کیا ہے"انہوں نے پوچھا تو وہ ہنس دی جواب واضح تو تھا
"تھینکس آ لوٹ رائنا فور میکینگ مائی مارننگ بیوٹی فل "اس کے ماتھے پر لب رکھے وہ جذب سے بولے
"اب کیک کاٹیں "دونوں نے کیک کاٹ کر ایک دوسرے کو کھلایا
"ہممم چلو اب تمہارا گفٹ تو دےدیں "وہ اٹھے دراز کی طرف بڑھے "آپ کو یاد تھا حیدر "اسے حیرت ہوئی اسے لگا نہیں یاد
"یاد تھا ،مگر بیچ میں حالات ایسے آئے کے کچھ اور پلین نا کر سکا "وہ بولے وہ بھی سمجھ سکتی تھی یہ بات
انہوں نے فائل اسکی طرف بڑھائی اس نے حیرت سے دیکھا "یہ وہ گھر کراچی والا میں نے تمہارے نام کردیا "
"میں جانتا ہوں کہ حویلی کا رہن سہن تمہارے لیے موافق نہیں ہے اسی لیے وہاں کا انتخاب کیا عنقریب مکمل شفٹ کرادوں گا تمہیں وہاں،سوچ تو کب سے ہی رہا تھا تم اپنی پریکٹس بھی زیادہ ایزیلی کر سکو گی "
وہ کافی دیر انہیں دیکھتی رہی "خود سے دور رکھنا چاہتے ہیں "
"کیا رکھ سکتا ہوں ؟ وہاں بھی تو رہتا ہوں نا جا کر تم یہاں انتظار کرتی ہو یہاں کرو یا وہاں کیا فرق ہے"
"فرق ہے حیدر آپ کام کے سلسلے میں جاتے ہیں دل آپ کا یہیں ہوتا ہے اس طرح آپ بٹ جائیں گے میرے پاس ہوں گے تو حویلی کی فکر ہوگی ان کے پاس ہوں تو میری ,مجھے آپ بٹے ہوئے نہیں چاہیے پوری توجہ کی عادت آپ نے ڈالی ہے مجھے ،مجھے بس آپ کے ساتھ رہنا ہے،پریکٹس ہو جائے گی اگر آپ کا ساتھ ہوگا اب بھی تو کر ہی رہی ہوں,مگر آپ ساتھ رہیں میرے"
وہ نم آنکھوں سے ضدی لہجے میں بولی ان کا دل زور سے دھڑکا جی کیا اسسے پوچھے تو کیا میرا انتظار ختم ہوا مگر رک گئے جو مزا اس کے خود سے کہنے میں تھا کہلوانے میں کہاں تھا انہوں نے اسے ساتھ لگا یا
"زندگی مشکل ہے یہاں "
"میرا وکیل ساتھ ہے کافی ہے"وہ مزے سے بولی تو انہونے مزید قریب کیا
"آپ کا گفٹ اچھا تھا بٹ میرے گفٹ کا مقابلہ نہیں "
"تم خود میرا گفٹ ہو"
"ہاہاہا۔۔جو گفٹ میرا ہے اس کے آگے آپ یہ بات بھول جائیں گے "وہ متعجب ہوئے
اس نے بھی ایک فائل آگے کی حیدر نے حیران پریشان فائل کھولی "پریگنینسی رپورٹ".
"یہ یہ سچ ہے جاناں" وہ خوشی سے پاگل ہوتے بولے تو وہ ہنسی اور ہاں میں سر ہلایا
انہوں نے اس کا ماتھا چوما
"مجھے اس سے بڑا گفٹ کبھی مل ہی نہیں سکتا "وہ آنکھوں میں جگنو سجائے اسے دیکھنے لگے
"ائو سب کو خبر کرتے ہیں "وہ اسے لیے باہر کی طرف بڑھ گئے
💖------------💖
آج عرصے بعد حویلی کی رونق بحال ہوئی تھی بی اماں نے صدقہ کے بکرے کٹوائے ،کمیں کمین میں خیرات تقسیم کرائی گئی باہر مسلسل فائرنگ یو رہی تھی یہ رواج تھا خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنے کا
حیدر اسے اس کے میکے بھی لے گئے
امی ابا سب نہال تھے خبر ہی ایسی تھی ،خالہ دادی بار بار نظر اتار رہیں تھیں
"سب اچھا ہے بس بچے جائے میری رائنا پر "وہ حیدر کو زچ کرنے کا کوئی موقع نا چھوڑتی تھی سب ہنس دیے
ااج کا دن ان دونوں کے لیے خوبصورت ترین دن تھا
💖------------💖
وہ بہت لگن سے پڑھائی کر رہی تھی دماغ کی سمتیں درست ہو گئیں تھی ہاں دل کبھی شور کرتا پر ڈپٹ دیتی وہ ، ابا نے اسے گاؤں بلایا تھا اس کے بھائی کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی تھی گو کے اس کے بھائی کا سلوک اچھا نہیں تھا مگر سکینہ پر پھوپھو بننے کی خوشی حاوی تھی ،"حویلی سے سوغاتیں آئیں ہیں بڑی سرکار کے ہاں خوش خبری ہے "
اس کی ماں نے سامان دیکھتے خوشی سے بتایا
سکینہ پل بھر کو ٹھٹھکی پھر سر جھٹکا "یہ تو بہت خوشی کی بات ہے اللہ بڑی سرکار اور بڑے سرکار آباد رکھے "دعا اس نے دل سے دی تھی گو کہیں دکھن ضرور تھی مگر حسد نہیں تھا
"اے سکینہ سن زرا یہ مٹھائیاں بانٹ آ "ماں نے کہا تو وہ اٹھی
💖------------💖
سعود حمزہ کے گھر تھا ،"تو کب تھا یہاں ڈیرہ جمائے گا "
"جب تک میری کزن میرے ہاں ڈیرہ جمائے گی"حمزہ نے افسوس سے سرہلا یا اب وہ بھی تھوڑا بہت معاملہ جان گیا تھا
"تو گیا تھا وہاں "
"ہاں نہیں مانا وہ ،کیو مانتا بھلا "حمزہ نے سعود کو اتنا سنجیدہ اور افسردہ پہلے نہیں دیکھا تھا
"تو اپنی کزن سے پہلی بار ملا کوئی جذباتی وابستگی نہیں پھر کیو اتنا کنسسٹنٹ ہے اتنے خطرے میں کیو ڈال رہا ہے خود کو"وہ متعجب تھا
"کیو کے مجھے کنسسٹنسی پسند ہے ،نیچر ہے میری ،پہلے میں اسی لیے پڑا اس معاملے میں ایڈوینچر سمجھ کے مگر اب اس لڑکی کی حلال سے محبت دیکھ کر میں اب صرف ثواب کے لیے کوشش کر رہا ہوں" وہ کہتا کچن میں چلا گیا جب سے وہ ایا تھا حمزہ کو صاف گھر اور اچھا کھانے کو مل رہا تھا اس کا(حمزہ کا) فون آیا اور وہ چابیا اٹھاتا باہر بھاگا
💖------------💖
"آخر کتنی بار میں بلاک کروں اب کیا میسج ہے"اس نے ڈرتے ڈرتے میسج کھولا
"تمہارا شوہر ہی تمہارا مجرم ہے ،وہ سب حیدر بخت نے ہی کرایا تھا مجھ سے ،میں یاد ہوں تمہیں کیسے بھولو گی ہاشم کو "
"یہ یہ ہاشم۔ نہیں یہ۔ کیسے ۔۔اگیا "تبھی کال آنے لگی وہی نمبر تھا اس نے جی کڑا کرتے کال اٹھائی
"کیسی ہیں ڈاکٹر صاحبہ " ہاں یہ وہی تھا ہاشم یہ آواز آج بھی کانوں کے لیے تکلیف دہ تھی " آ ں اب تو بڑی سرکار بھی ہیں آپ ،جاننا نہیں چاہیں گی کیسے ہوا یہ…"وہ خباثت سے بولے جا رہا تھا مگر رائنا کے حواس جواب دے گئے وہ لہرا کر زمین پر آ رہی تھی اس سے پہلے ہی اندر آتے حیدر نے اسے لپک کر تھاما
💖------------💖
وہ بیڈ پر بے سود لیٹی اپنی بیوی کو دیکھ رہے تھے جسے ڈرپ لگائی گئی تھی اس کا بیپی لو تھا
حیدر اس کے ہاتھ سے موبائل لیے یہ نیا الزام دیکھ چکے تھے انہیں اس کے اٹھنے کا انتظار تھا
وہ سرہانے ہی بیٹھے تھے جب وہ ہوش میں آئی اور ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھنے لگی
"سکون سے لیٹی رہو "وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے بولے
اس نے انکا ہاتھ سر سے ہٹا کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا
"وہ وہ واپس آگیا حیدر کیو؟ کیسے ؟آپ نے کہا تھا اب نہیں آئے گا"وہ ڈر رہی تھی
حیدر نے اس کے شانوں پر بازو پھیلایا ان کے لیے یہ خوش آئیند تھا کے وہ ان سے بدگمان نا تھی
"وہ تم سے جو کہہ رہا تھا،تمہیں یقین تھا اس پر؟ "وہ ہاشم کی بقیہ گفتگو سن چکے تھے انکی آواز پر اس نے ہڑبڑا کے کال کاٹ دی تھی
ان کے استفسار پر اس نے نفی میں سر ہلایا وہ جزباتی تھی پربیوقوف نہیں تھی کے اس بکواس پر یقین کرتی وہ جانتی تھی حیدر سے مدد اس کے دوستوں نے مانگی تھی ،اور پھر حیدر کو اتنا ڈرامہ کھیلنے کی کیا ضرورت تھی،ہاشم صرف اسے بدگمان کر رہا تھا
"پھر مجھے بتایا کیو نہیں"
"آپ آل ریڈی پریشان تھے اس لیے بس "وہ بولی "حیدر وہ کیو آیا ہے اب"
"پریشان مت ہو رائنا میں ہوں تمہارے ساتھ ،ٹینشن مت لو سویٹ ہارٹ "وہ اسے یقین دلاتے بولے ذہن کے گھوڑے ایک ہی سمت دوڑ رہے تھے انہیں کچھ دن پہلے مکرم نے اطلاع دی تھی کے ہاشم رندھاوا کے بندوں کے ساتھ دیکھا گیا ہے انہوں نے تب توجہ نا دی تھی مگر رندھاوا نے اب رائنا کو اس میں گھسیٹا تھا اب وہ نظر انداز نہیں کرسکتے تھے یہ معاملہ اب
💖------------💖
ہاشم کی ٹانگیں کانپ رہیں تھیں وہ دو مگرمچھوں میں پھنس کر رہ گیا تھا رندھاوا واپس آگیا تھا اور جان گیا تھا کے اس کا پلان فلوپ ہوگیا وہ غصہ تھا شدید غصہ اس نے سارے کمرے کی چیزیں تہس نہس کردیں تھیں ،زیادہ غصہ اسے ہاشم کے پکڑے جانے کا تھا
"اس نالائق کو گودام میں لے کر آؤ ،ایک عورت نہیں سنمبھلی اس سے "
اس کے آدمی ہاشم کو گودام میں لے آئے
"میں نے بہت ک ککوششش کی پپ پر ووہ نہیں ۔۔۔"
وہ ہکلاتا صفائی دے رہا تھا
رندھاوا نے اسے بالوں سے تھام لیا اور پستول کس لی
"اب دوسرے جہاں جا کر کرنا کوشش "
"ٹھاہ "کی زوردار آواز فضا میں گونجی
رندھاوا کے دست راست نے افسوس سے دیکھا الیکشن کے وقت ایسا رسک اس نے دل ہی دل میں اسے "اسٹوپڈ موو" قرار دیا
اور بکسوں کے پیچھے کیمرے میں منظر قید کرتے شخص کا بھی یہی خیال تھا
💖------------💖
"آج دل بڑا اداس ہے ہیرا بائی ،کوئی اچھا سا ناچ گانے کا انتظام کر "
"اسکی فرمائش پر ہیرا مسکرائی اور فلک کو بلایا
نیم عریاں لباس میں کم عمر سی فلک اپنی مجبوری پر کرلاتی بائی کے اشارے پر رقص کرنے لگی رندھاوا کی لال آنکھیں اس پر جمی تھیں ہیرا آتش شوق بھڑکا رہی تھی اسے یقین تھا اب وہ یقینا بڑی رقم کے لیے مان جائے گا
💖------------💖
"تیری سانس کیو پھول رہی ہے؟"سعود اسے پریشانی سے دیکھتے بولا
"یہ یہ دیکھ "ویڈیو دیکھ سعود کے اوسان خطا ہوگئے حمزہ بول رہا تھا
"اب تو حیدر بخت سے رابطہ کر ،یہ" بیٹ"(bait) دے اسے ،اگر وہ ساتھ ہو تو ہم بچا لیں گے اس بچی کو ورنہ محض وائرل ہو کر اس ویڈیو کا کوئی فایدہ نہیں"
"تو یہ مجھے دے رہا ہے،پیسے نہیں کمائے گا"؟سعود حیران تھا
"نہیں ثواب کماؤں گا"حمزہ کی بات پر دونوں ہی مسکرائے (شہرینہ صحیح تھی اللہ اسے بچانا چاہتا ہے)
💖------------💖
وہ آج پھر حیدر کے سامنے تھا اس سے پہلے وہ کال کرتا حیدر کے سیکرٹری کی کال آگئی تھی ،ساری تفصیلات کے بعد اب وہ لوگ اگلا لائحہ عمل طے کر رہے تھے
💖----------
"اس سے پہلے تو آپ صاف منع کر چکے تھے مدد کرنے سے اب کیا وجہ ہے یہ ویڈیو(ہاشم کی موت کا ثبوت) ؟
"اس وقت آپ کو میری ضرورت زیادہ ہے ین فضول سوالوں میں وقت نہ خرچ کیجیے "انہونے اپنے مخصوص رعب دار اندازمیں چپ کرادیا
سعود منہ بنا کر رہ گیا
💖------------💖
زاہد شرجیل کے ٹیسٹ رپورٹ انکے سامنے لئے کھڑا تھا اسکی آنکھیں نم تھیں
"یہ یہ دیکھے شرجیل بھائی "ایچ آئی وی پازیٹو ہیں ،یہ کیسا امتحاں ہے بھائی "وہ رو پڑا
حیدر خود سکتے میں تھے اسے کیا تسلی دیتے اٹھ کر شرجیل کے پاس گئے
وہ ابھی بھی چت لیٹا تھا
حیدر کئ آنکھوں میں آنسو آگئے
اللہ نے اسے بڑی سزا دی تھی اسکا پردہ بھی سركا دیا تھا
اب تک سواے حیدر کے کسی اور کو نہیں پتا تھا اسکے ساتھ کیا ہوا تھا گو سکی چیخ و پکار کافی کچھ عیاں کر گئی تھی مگر ۔۔۔۔ایک پردہ تو تھا جو اب سرک گیا تھا
ڈاکٹر کے مطابق یہ ازیت ناک شرم ناک بیماری سالہا سال چلنے والی تھی ،یہ اندر سے انسان کو کھوکھلا کرتی اور پھر انسان ہر جراسیم کے لئے آسان شکار بن جاتا ان میں سے کچھ جراثیم سرطان (کینسر )کو بھی جنم دیتے ہیں
اس کا علاج بیماری کو جڑ سے نہیں اکھا ڑ سکتا البتہ اثرات کو کم کر سکتا ہے
💖------------💖
"شرجیل بخت کسی کا جھوٹا نہیں کھاتا "اسکے کانوں میں اپنے ہی کہے ہوے مکروہ الفاظ اور قهقهہ گونجا
"یہ پابندیاں یہ سب عورت کے لئے ضروری ہیں مرد کو حفاظت کئ کیا ضرورت "ایک اور جملہ سکی آنکھیں ترکر گیا گرم سیال جیسے آنسو گال پر بہ گئے
"ہاں تو تیرے جیسیا استعمال کے لیے ہوتی ہیں ،یہ جو جینز شرٹ پہن کر گھومتی ہو یہی توچاہتی ہو تم لوگ "
"یہ تو تجھے مجھ پر بھروسہ کرنے سے پہلے سوچنا تھا مرد کا کچھ نہیں جاتا اب رو ساری زندگی"
"ہوں بڈھی !جوتی ہے جوتی بن کر رہ"
"تو تو میرا کھلونا ہے من پسند کھلونا جسے خرید رکھا ہے میں نے "
ماضی کے تکبر سے بھرے الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے
اسے لگ رہا تھا جیسے سوراخ کر رہے ہوں
وہ سر پٹخ پٹخ کر رونے لگا اذیت کا کوئی انت نا تھا ابھی تو بس شروعات تھی
💖------------💖
وہ بالكاونی میں کھڑے تھے ،جب وہ اٹھی اور انکے ساتھ آکر کھڑی ہوگئی حیدر نے آنکھوں میں آئ نمی جھٹکی
بھائی جیسا بھی تھا تھا تو بھائی نا
رائنا نے بازو انکے اطراف پھیلانے کئ کوشش کئ اور تسلی دینے کے انداز سے انکی پیٹھ پر ہاتھ رکھا
"مجھے اکیلا رہنے دو سو جاؤ جا کر "وہ سخت لہجے میں گویا ہوے وہ انکی حالت سمجھ رہی تھی
جانے کے بجاے اس نے اپنا سر انکے کندھے پر ٹکا دیا
وہ بھی شاید یہی سہارا چاہتے تھے
انہونے اسے قریب کیا
"میں اسے اس حال میں دیکھتا ہوں تو اپنا آپ گناہگار لگتا ہے ،میں خود کو عقل کل سمجھنے والا اپنے گھر میں ہو نے والی غلطیاں نا دیکھ سکا "
"جو ہو چکا اس پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اس سے سیکھ کر آگے بڑہنا ہی زندگی ہے حیدر ،شرجیل بھائی کے لئے اب ہم یہی کر سکتے ہیں کے کفّارہ ادا کرے ان کے ساتھ بھلا کر کے جن کے وہ مجرم ہیں شاید اسی طرح اللہ انھے معاف کردے ان کے لئے آسانی پیدا کردے "اسکی بات سے حیدر کو شہرینہ والے معا ملے کا احساس ہوا انھے اب سعود کو پہلے نا امید لوٹانے پر شرمندیگی ہوئی
"مجھ سے کہ دیا کرے اپنے دل حال یوں اکیلے سارا بوجھ نہ اٹھا یا کریں "
انہوں نے اسکا پر خلوص چہرہ دیکھا
"ایک تم پر ہی تو کھولتا ہوں اپنا آپ "اس بات پر وہ مسکرائی
"چلیں بس اب آرام کرلیں " دونوں اںدر بڑھ گئے
💖------------💖
بی اما آمنہ کے کمرے میں آئی تھیں
"آپ یہاں ؟"وہ حیران تھی
""ہاں پیاسا ہی کنویں کے پاس آتا ہے "وہ بیٹھتی بولیں :"بڑے ظلم کیے ہے تجھ پر آمنہ ،اپنے بھائی کئ محبت میں اندھی ہوگئی تھی ،مجھے اور اسے دونو کو اگر ہوسکے تو معاف کر دینا آمنہ ،تجھ پر زور نہیں دونگی بس التجا کرونگی شاید دل کا بوجھ کم ہوجاے "
وہ کہتی اٹھیں
"میرا اپکا حساب ختم بی اما ،میں نے بھلا دیا ،مگر شرجیل سائیں نے جو میرے سا رے خواب توڑے بچپن سے سکھایا گیا تھا کے عورت کئ زندگی میں سب کچھ شوہر سے ہے بڑے ارمان لئے آئی تھی سائیں نے سب پاؤں تلے روند دیا کیا میری زندگی کا وقت واپس آسکتا ہے؟ کیسے کر دوں معاف انکو ؟ ہوسکتا گزرتے وقت کے ساتھ کر بھی دوں پر ابھی یہ نہیں ہوگا مجھسے "وہ کہتے کہتے رو پڑی تو بی اما اپنا کانپتا ہاتھ اسکے سر پر رکھ کر چل دیں
💖------------💖
ہیرا بائی آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی جو پھول سے چہرے پر مسکراہٹ سجاے کھڑی تھی "کیا ہوا بائی پہلی بار دیکھ رہی ہو کیا "وہ اٹھلاتی بولی
"یہ تو ہے شہرینہ ؟"وہ ہنوز بے یقین تھی
"نہ میرا بھوت ہے "وہ بد مزہ ہوئی "ویسے جیسے جانور کو بیچا تھا تو نے تیرا حق تو نہیں تھا کہ یہاں واپس آتی پر کیا کیجیے نمک حرام نہیں ہوں آگئی "
"اے زیادہ ہوشیار بنے کی کوشش نہ کر کس عاشق کے ساتھ بھاگی تھی جو چھوڑ گیا تو چلی آئ ،تجھے یہیں تو بھجوا رہا تھا وہ شرجیل بخت "
"ہاہاہاہا۔ ۔۔۔عاشق ؟ ہمارے عاشق نہیں خریدار ہوتے ہیں بائ تو نے ہی تو بتایا تھا جب نئی نئی آ ئی تھی یہاں " شہرینہ قہقہہ لگا کر بولی پھر سنجیدہ ہوئی "دھول جھونک رہا تھا تیری آنکھوں میں وہ جھل دے رہا تھا ،میں نے چھپ کر باتیں سن لیں تھی اسی لیے فرار ہوگئی اتنا وقت چھپی رہی پھر پتا چلا جس سے چھپ رہی ہوں وہ تو خود ٹوٹا پڑا ہے آگئی یہاں"
ہیرہ غور کرتی رہی شرجیل سے کوئی رابطہ نہ تھا جو تصدیق کرتی ہاں یہ جان گئی تھی کے ایکسیڈنٹ ہوا ہے اسکا ،"سچ بول رہی ہے چھوکری ،آخر میں جیسے پیسے میں آنا کانی کر رہا تھا ،یہی چکر ہوگا "وہ دل ہی دل میں قائل ھوگئی
"شاباش شہری تو تو ہیرہ ہے ،مت ماری تھی میری کے تجھے اس جانور کو سونپا اب نہیں ہوگا "
ہیرا شہد بھرے لہجے میں بولی
"کیوں شریف عورتوں کئ طرح بیٹھا کر کھلاو گی "شہرینہ نے طنزکیا
"بڑی تیز ہوگئی ہے ،مطلب تھا اب کے ایسے ہی کسی کے حوالے نہیں کرونگی اچھے پیسے لگواونگی "
اسکی بات پر شہرینہ ہنس کر اٹھی "واہ بائی تیرا انصاف ،میں ذرا ہاتھ منہ دھو کر فریش ہوں "
💖------------💖
وہ فلک کے کمرے میں آئی اسے دیکھ فلک سن جگہ پر بیٹھی رہ گئی
شہرینہ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا
"سب ٹھیک ہوجاے گا فلک اللہ ہمارے ساتھ ہے ،وہ راستے بنا رہا ہے "پھر اسکے آنسو صاف کیے اب جو میں کہوں وہی کرنا ہوگا "
💖------------💖
انسپکٹر داور کب سے اس سیکس ٹریفکنگ میں ملوث نیٹ ورک کے پیچھے تھا اب یہ ثبوت جو حیدر بخت کئ جانب سے موصول ہوے وہ امید افزا تھے
تبھی فون بجا
"کیسا لگا پھر تحفہ "حیدر کئ بھاری آواز سپیکر پر ابھری
"جی سردار صاحب،تحفہ شاندار ہے مگر رندھاوا جیسی بڑی مچھلی کو ٹرائل میں بٹھانے کو نہ کافی "
"اور اگر راندها وا جائے وقعہ پر پکڑا جاے پھر ؟"
داور چونکا "یہ کیسے ممکن ہے "
"ممکن ہے ،مگر اس کیے بعد اس نیٹ ورک کو پکڑنے کا کام اپکا ہم صرف وہاں تک پوھچائیں گے "وہ آہستہ آہستہ اسے سب بتانے لگے
💖------------💖
"دیکھ شہری سمجھا لے اسکو ،خوش نصیب ہے راندها وا خرید رہا ہے اسے منہ نہ لٹکا ے اب "
بائی کو فلک کیے اترےمنہ پر تاؤ آیا
"چھوڑ اسکو صحیح ہو جائے گی خود ہی ،کب تک لینگے اسے یہاں سے "
"کل رات کو "بائی نے بولا
"یہیں بلوا لو اسے پہلی بار ہے ،یہ کوئی گڑ بڑ نہ کردے یہ "شہرینہ راز داری سے بولی بائی نے بھی فلک کا رویا رویا چہرہ اور بدلہ انداز دیکھا شہرینہ بول رہی تھی" یہاں ہوئی تو تیرے میرے بس میں رہے گی وہاں جاکر بپھر گئی تو "
اس کی بات پر ہیرا نے بھی غور کیا" پھر تو رندھاوا اسے کیا ہمیں بھی نہیں چھوڑے گا،شہری تو صحیح کہتی ہے میں صاحب سے بات کرلوں "
اس کے جانے کے بعد شہرینہ نے دروازہ بند کرکے فون ملایا
💖------------💖
فلک رو رہی تھی شور مچا رہی تھی، اسے تیار کرنے میں دشواری ہورہی تھی
"بس کر یہ رونا دھونا نصیب ہی یہی ہے تیرا ،چپ کر کیے مکیپ کرا "شہرینہ نے چیخ کر اسے چپ کرایا اسکے انداز باکو پکا اعتماد کرا گئے یہی وہ چاہ رہی تھی ،فلک کو بھی اس نے سب سمجھا دیا تھا فلک کا رونادھونابہرحال ڈرامہ نہیں تھا وہ حقیقتا ڈری ہوئی تھی
"جلدی بھیج اسے "بائی ائی
"ہاں بس تیار ہے ،نظر نالگے " شہرینہ نے کہا "ایک کمی ہے وہ گئی اور ایک گول پھول والا خوبصورت لاکٹ جسکا ڈیزائن اچھوتا تھا وہ فلک کیے گلے میں سجا دیا "لے جاؤ اسے "پھر مڑ کر بائی سے بولی
💖------------💖
"یہ سکھاں کا داماد ہے "رائنا کو حیرت نے اگھیرا پکی عمر کا عجیب سا مرد اٹھارہ سالہ لڑکی کا شوہر تھا جو سامان اٹھا رہا تھا
"ہاں بھابھی یہ سکھاں ایسے تو کبھی نہ دیتی اپنی بیٹی اسے وہ تو اس کمبخت نے عزت پر ہاتھ ڈال دیا تھا اسکی تو پنچائیت نے یہ فیصلہ دیا کے اس سے بیاہ دی جائے "
زرگل نے تفصیل بتائی تو رائنا اچھل اچھل گئی
"کیا یہ سزا لڑکی کو دی کے ادمی کو ؟کیسا اندھاقانون ہے "اسے دکھ ہوا
"یہی ہوتا ہے پھر لڑکی کو کون بیاہے گا "زرگل لاپرواہی سے بولی
"بیياه سب کچھ نہیں ہوتا بیچاری "اسے اب اس لڑکی کی روتی صورت کئ وجہ سمجھ آئی زرگل لاپرواہیسے کندھے جھٹک گئی
💖------------💖
"سنا ہے بڑی پڑھائیاں کر رہی ہے تو" وہ سہیلی کے گھر جا رہی تھی کےدانیال نے کالی بلی کی طرح راستہ کاٹا اس دن کے بعد اج سامنا ہوا تھا
وہ ڈر کر پیچھے ہوئی
"دڑ نہیں کچھ نہیں کہتا ،اطمنان سے رہ ،پڑھائیاں کر ،بس کہیں کچھ غیر متوقع نا ہو، چل چلتا ہوں بیسٹ اف لک "وہ مزے سے کہتا چلتا بنا سکینہ کو اسکی باتیں بے ربط لگیں" کیا کہہ رہا تھا یہ آخر ،لگتا ہے پنچائیت کے فیصلے کے بعد مزید پاگل ہوگیا لعنت بھیج سکینہ "
وہ سرجھٹکتی اگے بڑھ گئ
💖------------💖
وہ اسے لال آنکھوں سے گھورتا رقص کرتے دیکھ رہا تھا
"بس کر اب ادھر آ "رندھاوا کی فرمائش پر فلک کے پاوں کانپے وہ ساونڈسسٹم بند کرتی کپکپاتی اس کی طرف بڑھ گئی وہ پاس جا کر کھڑی ہوئی تو اس کی کپکپاہٹ نے اس وحشی کو لطف اندوز کیا
اس نے کھینچ کر اپنے ساتھ بیٹھا لیا وہ پوری جان سے لرز گئی
"نام کیا ہے تیرا ؟" اسکے گال کو اپنی بھدی انگلیوں سے چھوتے پوچھا
"فل فل فلک "
" ڈر لگ رہا ہے " اس نے پوچھا
"ججی "وہ مزیدد ڈری آنسو بیتاب ہوے
وہ اب اسکے بال چھو رہا تھا
"پیگ پیگ بناؤں جی؟"وہ لرزتی پوچھنے لگی
"ہاہاہا ۔۔۔چڑیا ،چل بنا لے "
وہ اٹھی سامان اٹھایا اور ٹیبل تک لائی نظر بچا کر اسنے وہ سفوف شراب کی بوتل میں ملا دیا تھا جو شہرینہ نے دیا تھا
وہ اب اسکے سامنے ٹیبل کیے پاس پڑی کرسی پر جا بیٹھی تھی ججو اونچی تھی جس کئ وجہ سے وہ اب برابر کے سطح پر تھے رندھاوا ویسے بھی چھوٹے گھٹے ہوئے قد کا ادمی تھا
اکے دور جا بیٹھنے پر وہ زور سے ہنسا "ڈرپوک !چڑیااب تو یہ روز کا کام ہے تیرا ،کچھ دن مجھے خوش کرنا پھر میں جہاں بھیجوں گا اسے خوش کرنا "وہ شراب کی چسکیاں بولا "ابھی تو ڈر رہی ہے ساری ڈرتی ہیں پھر کام کرتی ہے "وہ گلاس پر گلاس چڑہاتھا
اس کا سر بھاری ہونے لگا تھا
"آآپ بھیجتے ہو ؟ "فلک نے اس پر دوا کا اثر ہوتے دیکھ پوچھا
"بھیجتے نہیں بیچتے ہیں سمجھی ادھر ادھر ا آ "اس نے بھاری ہوتے سر کو تھام کر اسے بلایا وہ وہیں بیٹھی رہی
"بہت ہوگئے نخرے ابھی بتا تا ہوں کہتے اس نے روتی ہاتھ پاوں چلاتی فلک کو اٹھا کر بیڈ پر ڈالا اور اس پر جھکنے ہی والا تھا ۔ کے فلک کی دعائیں رنگ لائیں اور وہ سائیڈ پر گر کر بےہوش ہوگیا
فلک تیزی سء انسو پوچھتء سسکیاں روکتی اٹھی ساونڈسسٹم کا ریکارڈر بند کیا جو اس نے تب آن کیا تھا جب رندھاوا نے گانا بند کرکے پاس بلایا تھا
اب وہ گلدان میں شہرینہ کا پہلے سے چھپایا فون نکالنے لگی اور تیزی سے نمبر ڈائل کیا
فلک کی کال پر داور نفری کو لے کر کوٹھے میں گھس آیا رندھاوا کے علاؤہ کئی بڑے لوگ آج سامنے آئے تھے باہر نکلتے ہی میڈیا نے انہیں دھر لیا اور تابڑ توڑ سوالوں کی بوچھار کردی رندھاوا اب بھی نشے میں تھا میڈیا کے سوالوں نے میٹر ہی گھمادیا تھا
"پہنسا رہیں ہیں میرے کو ،یہ اس آغا نے کیا بلکہ نننہیں وہ وہ حیدر بخت نے کیا ہے "وہ میڈیا کو بیان دیتے اول فول بک رہا تھا
"چھوڑوں گا نہیں میں اس کو جان لے لوں گا "وہ لوگوں کے ہنسنے پر مزید دھمکیوں پر اتر آیا
اس کے دست راست نے سر جھٹکا اور صورتحال سنبھالنے کی ناکام کوشش کرنے لگا
💖------------💖
اس دن حیدر کے آفس میں بنائے گئے پلین کے مطابق ہی شہرینہ واپس کوٹھے پر گئی تھی اور بائی کیا تھا ،وہ عجیب سا لاکٹ جو اس نے فلک کو پہنایا تھا اس میں رندھاوا کی فوٹیج تھی یہ لاکٹ کا بندوبستی حمزہ نے کیا تھا
اس کے بعد حیدر نے پولیس سے رابطہ کر انہیں اعتماد میں لے کر آگے کا لائحہ عمل طے کیا
میڈیا ٹرائل بھی حیدر کی کال پر ہوا تھا
اس سب میں لڑکیوں کی بھی فوٹیج ریکارڈ ہوئی مگر حیدر نے وہ ہٹوادی تھی( کچھ قرض جو اتارنے تھے)
سعود نے سب سوچتے سر دھنا"حمزہ صحیح تھا لوہے کو لوہا ہی کاٹتا "
"اب آپ ہاشم والی ویڈیو کا کیا کریں گے "
سعود کے سوال پر حیدر نے اسے اجنبیت سے دیکھا
"آپ کا کام ختم ہوا اب بنا پیچھے دیکھے آگے بڑھ جائیں"
وہ بولتے چل دیے جبکہ سعود پہلے تو منہ کھولے دیکھتا رہ گیا "ہنہہ بھنوٹ آدمی "
💖------------💖
اس سب میں لڑکیوں کی بھی فوٹیج ریکارڈ ہوئی مگر حیدر نے وہ ہٹوادی
سعود نے سب سوچتے سر دھنا"حمزہ صحیح تھا لوہے کو لوہا ہی کاٹتا "
"اب آپ ہاشم والی ویڈیو کا کیا کریں گے "
سعود کے سوال پر حیدر نے اسے اجنبیت سے دیکھا
"آپ کا کام ختم ہوا اب بنا پیچھے دیکھے آگے بڑھ جائیں"
وہ بولتے چل دیے جبکہ سعود پہلے تو منہ کھولے دیکھتا رہ گیا "ہنہہ بھنوٹ آدمی "
💖------------💖
وہ حویلی جانے کے لیے نکل رہے تھے جب اچانک گاڑی پر فائرنگ ہوئی
💖------------💖
"یہ ادائے بے نیازی ابےوفا مبارک
مگر ایسی بھی کیا بے رخی کے سلام تک نا پہنچے "
اس نے کمرے میں پیر دھرا ہی تھا کہ کھینچ کر "شعر" مارا گیا ،وہ ان سے ناراض تھی کم سے کم بات کرتی تو وہ اشعار سنا کر زچ کرتے اس واقعے (فائرنگ والے)کو چار دن ہوگئے تھے
رندھاوا پر حیدر نے اقدام قتل کے ساتھ ہاشم کے قتل کا کیس بھی کھلوا دیا تھا وہ برا پھنسا تھا
"آپ کھانا کیو نہیں کھا رہے ؟"وہ سخت تیور لیے پوچھ رہی تھی
"میں نے کب کہا نہیں کھا رہا میں نے کہا کھلادو"انہوں نے بازو میں بندھی گئی پٹی کی طرف اشارہ کیا گولی محض چھو کر گزری تھی کوئی جانی نقصان نا ہوا تھا مگر رائنا کی ناراضی قائم تھی ،ذنہیں اس کا خود سے لپٹ کر رونا یاد آیا بہت کچھ کہہ گیا تھا وہ پل ان سے
"تم دنیا کی پہلی بیوی ہوگی جو حادثے کا شکار ہوئے شوہر سے احتراز برت رہی ہے"وہ چپ چاپ انہیں کھانا کھلا رہی تھی جب طنز کا تیر پھینکا گیا
"اور آپ خود بہت اچھے شوہر ہیں جو پریگنینٹ بیوی کو صدمے دے رہے ہیں سیاسی حریف کو شکست دینے کے لیے خود پر حملہ کروا کر "
اس کی بات پر وہ چونکے یعنی وہ سمجھ گئی تھی
"تمہیں کس نے بتایا"انہوں نے تیوری چڑھائی "دماغ نے"اس نے جواب دیا
"کچھ زیادہ ہی چلنے لگا ہے،ویسے اس سے پہلے جو ہوا تھا وہ میں نے نہیں کرایا تھا"انہوں نے کلیر کرنا ضروری سمجھا
"جانتی ہوں ,میں ساتھ تھی اس دن آپ مجھے نہیں خطرے میں رکھ سکتے"
"اتنا جان گئی مجھے جان حیدر"وہ پیار سے اس کا گا چھوتے بولے
وہ کسمسائی "بلکل خیال نہیں ہے آپ کو میرا نہیں سوچا کیا حالت ہوگی میری "
انہوں نے مکرم کو زیرلب گالی دی اسی کی غلطی تھی جوخبر حویلی پہنچی
"ایسا ہوسکتا ہے مجھے تمہارا خیال نا ہو,اب بس کرو ،کہا تو ہے کل بھی کے نہیں ہوگا اائیندہ "
وہ اس کا گال سہلاتے بولے
حیدر نے بغور اسے دیکھا اور آگے کو ہوئے اس کے بازو کو تھامے خود سے قریب کیا
"کیو چھپا رہی ہو کہہ کیو نہیں دیتی ؟یہ جو آنکھوں کی بدلتی چمک لہجے میں چٹکتی مسکان سے کہتی رہتی ہو اسے لفظ کیو نہیں دے دیتی "
عجیب سے بے کلی تھی ان کے لہجے میں یہ جاننے کے باوجود کے اس کا دل بدل چکا ہے وہ یہ اظہار اس کی زبان سے سننا چاہتے تھے
وہ سمجھ گئی وہ کیا سننا چاہ رہے ہیں تھوڑا آگے کو ہوکر لب ان کے کان کے پاس لے جاکر گویا ہوئی
"صبر سردار صبر ابھی وقت مناسب نہیں ہے "وہ جو کچھ اور سننا چاہ رہے تھے اسے گھورتے پیچھے ہوئے رائنا کی ہنسی بے ساختہ تھی
اس کے ہنسنے پر ان کو بھی ہنسی آگئی
"ویسے رائنا مجھے تم کو ایک راز کی بات بتانی ہے "سنجیدگی سے بولا گیا کملہ اسے چونکنا کر گیا
"کیا؟"
"اب تک میں نے صرف دو ہی چمچے بریانی کے کھائیں ہیں اور پلیٹ میں بریانی ختم ہوچکی ہے "
ان کے مسکراتے لہجے پر اس نے غور کیا وہ اس روٹھنے منانے کے چکر میں وہ کب سے خود ہی کھائے جا رہی تھی (آف کتنی پیٹو ہوگئی ہوں میں)
اس کا لال پڑتا چہرہ دیکھ حیدر کا قہقہہ بے ساختہ تھا
💖------------💖
ایک مہینے بعد
وہ آج گاؤں کے ہاسپٹل آئی تھی ،حالت دیکھ اس کا دل دکھ اور شرمندگی سے بھر گیا اسے یہاں رہتے سال ہوگیا تھا مگر اس نے کبھی توجہ نا کی تھی
"اصل مسئلہ ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کا ہے ،جو یہاں آتے ہیں جلد از جلد تبادلہ کرا لیتے ہیں بڑی بڑی مشینے خرید تو لیں پر عملہ عملہ کہاں سے لائیں "ایاز بتا رہا تھا
"جانے کتنی عورتیں زچگی کے دوران عدم توجہ اور ہائیجن کی کنڈیشن کی وجہ سے سیپسس کا شکا ر ہو جاتی ہیں "تفصیلات اسے شرمندہ کر رہیں تھیں
"اب تم یہیں کام کرتے ہو؟"اس نے ایازسے پوچھا
"جی ،یہاں ضرورت ہے میری"
جواب اسے لاجواب کر گیا تھا
💖------------💖
"ہممم کیسا رہا وزٹ سردارنی کا "وہ خیالوں میں گم کھڑی تھی جب انہوں نے اسے حصار میں لیا
"ہاسپٹل اچھا ہے پر اسٹاف تو بہت کم ہے حیدر "
"ہاں یار ہر بار بلوایا جاتا ہے مگر تبادلہ کرا لیتے ہیں سب مگر اب ہم الیکشن بھی جیت چکے ہیں اب بجٹ بھی زیادہ ہوگا اور صحیح جگہ لگے گا"وہ پر امید تھے
اسے کھڑکی سے نیچے دیکھ مالی کے ساتھ کام کراتا رکھی کا داماد دکھا
اس دن کی باتیں یاد آئی وہ پلٹی
"گاؤں میں کیسے عجیب رواج ہیں نا ؟"کہتے اس نے سکھاں کی بیٹی کے واقعے کا احوال کہہ سنایا حیدر نے گہری سانس لی
"ہاں یہ ہے تو ظلم مگر ایک طرح سے صحیح بھی ہے لڑکی کو ہمارا معاشرتی دور پھر گھر والے قبول نہیں کر رہے ہوتے ایسے میں اس غریب کے پاس کوئی راہ ہوتی کہاں ہے"
"مگر ایسے تو کرائم ریٹ مزید نہیں بڑھے گا حیدر ؟،کسی ایک کو تو پراپر سزا ملے "
"جاناں یہ معملات بہت الجھے ہوئے ہیں ،جو ویکٹمز ہوتے ہیں اکثر وہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں "
"اور اگر کوئی ایسا ہو کے نا ہٹے تو کیا پنچائیت ظالم کو کڑی سزا دے گی کارو کرے گی؟"
"قبل از وقت کچھ بھی کہنا مشکل ہے بہت سے زاویوں کو دیکھنا ہوتا ہے ،تم ٹینشن نا لو کوشش سے ہی بہتری آتی ہے ابھی تھوڑی آئی تھوڑی اور سجائے گی مگر وقت لگے گا "
انہوں نے کہا تو وہ مسکرائی پہلے میں اور اب میں فرق تھا پہلے ایسی باتیں ایسے قصے سن کر وہ گھبرا کر یہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی اب دل کی دنیا کیا بدلی تھی کے سوچوں کا رخ تک بدل گیا اب وہ گھبرانے کے بجائے بہتری بدلاؤ لانے کا سوچتی ،محبت ایسی پر اثر ہوتی ہے وہ اکثر سوچتی اور حیران ہوتی۔
"عجیب شے ہے محبت کہ جس کو ہوجائے
وہ دیکھتا نہیں پھر کہ اس کے چاروں طرف
جو رنگ رنگ کی دنیا تھی وہ اب کیسی ہے
نئے نئے سے اسے منظر وفا دیکھاتی ہے
ہر ایک چیز کی ہئیت بدل سی جاتی ہے
عجیب شے ہے محبت کہ جس سے ہوجائے
ہر ایک روپ میں آنکھیں اسے ہی دیکھتی ہیں
بس ایک شکل ہی رہتی ہے روبرو ہر دم
خود پنے آپ سے کسی اور کی خوشبو آتی ہے
ہر ایک چیز کی صورت بدل سی جاتی ہے
عجیب شے ہے محبت !"
💖------------💖
ماموں مامی آگئے تھے سعود نے ایک اچھے علاقے میں دوسرے شہر میں گھر خرید لیا تھا (ابا کے پیسو سے)
وہ لوگ وہاں شفٹ ہوگئے تھے
شہرینہ نے تو خود کو بہت جلد ہی ڈھال لیا تھا مگر فلک اب بھی ڈری سہمی رہتی تھی سعود نے ان دونوں کو سختی سے ماموں کو کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا وہ اپنے ابا کو جانتا تھا
شہرینہ اور فلک کو اس نیٹورک کو پکڑوانے میں
انعام میں رقم ملی تھی جس سے شہرینہ اب کچھ کام کرنے کا سوچ رہی تھی
کل سعود کی فلائیٹ تھی
شہرینہ نے اس کے لیے تھینک یو کا کارڈ اور ایک شرٹ خریدی تھی اظہار تشکر کے طور پر
اس میں اس سوال کا جواب بھی تھا جو اس نے کچھ دن پہلے پوچھا تھا
وہ پیکنگ چیک کر رہا تھا جب اس نے دستک دی
"آؤ آؤ "وہ خوشدلی سے بولا
"یہ تمہارے لیے "اس نے پارسل آگے کیا"تم کل جا رہے ہونا سب تمہیں یاد کریں گے "
"کیا تم بھی؟"وہ پر امید ہوا"نیورمائہنڈ چھوڑو "
وہ پلٹی اور کمرے سے باہر نکل گئی سعود سر پر ہاتھ پھیرتا رہا گیا
اس نے پارسل کھولا شرٹ تھی "گڈ" پھر کارڈ دیکھا اور بےتابی سے کھولا
"اس کے نام جس نے اندھیروں میں اجالے کی امید جگائی
"مجھے میرے باپ نے فروخت کیا ،میں نے خریدار کے روپ میں بھی مرد کا بدترین روپ دیکھا مجھے اس صنف سے نفرت ہو جاتی اگر تم نا آتے
تم نے سوال کیا تھا کہ کیا میں تمہاری زندگی کا حصہ بننا چاہوں گی ؟یہ دوسری بار تھا جب مجھے خود پر رشک آیا پہلی بار تب تھا جب میں اس جہنم سے نکلی تھی
مگر ابھی وقت ہے ابھی مجھے خود کو دریافت کرنا ہے دیکھنا ہے اپنی اڑان کو اپنے آپ کو کھوجنا ہے تمہیں انتظار کرنے کو نہیں کہوں گی
مگر کرو گے تو روکوں گی بھی نہیں ,تمہاری شکرگزار شہرینہ"
وہ پڑھ کر مسکرایا (ٹھیک ہے مجھے بھی ابھی سیٹل ہونے ٹائم لگے گا امید تو برقرار ہے)
💖------------💖
وہ بی اماں کے ساتھ منشی جی کے گھر آئی تھی دل ڈوب سا گیا تھا اسے اپنی سکینہ کے ساتھ آخری ملاقات یاد آئی دل میں پچھتاوا سا ابھرا
منشی جی کا گھر کھچا کھچ بھرا تھا بھانت بھانت کی عورتیں جیسے تماشہ دیکھنے آئی تھی ان دونوں کو فورا سے راستہ مل گیا
منشی جی کہ بیوی اجڑی بیوہ کی طرح لگیں وہ انہیں اس کمرے میں لے گئیں جہاں اب سکینہ نامی زندہ لاش تھی
" سکتے میں ہے یہ بڑی سرکار "روتے بتایا گیا
رائنا نے دیکھا اس کے بکھرے بال بکھرا وجود غم سے پھٹی آنکھیں اسے اس جنگلی پر تاؤ آیا
اس نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
"سب سب ٹھیک ہو جائے گا سکینہ تمہیں کچھ نہیں ہوا "اسے کچھ سمجھ نا آیا کون سے الفاظ میں دلاسہ دے
جب کے سکینہ کے ساکت وجود میں جنبش ہوئی وہ اس سے لپٹ کر رودی اتنے دنوں میں کسی نے یہ نہیں کہا تھا اب تک سب اسے بتا رہے تھے کے وہ برباد ہوچکی ہے ناپاک ہوچکی ہے
اس کے ایسا کرنے پر منشی کی بیوی بہو گھبرا گئیں "کیا کیا کر رہی چھوڑ بڑی سرکار کو"
"آرام سے مت ڈانٹیں "گو اسے خود الجھن ہوئی تھی مگر پھر اس نے آرام سے اسے الگ کیا
جب وہ پھر روتی لپکی "مجھے بچالو بی بی وہ جانور ہے یہ مجھے دے دیں گے اسے جانور ہے وہ بیبی "رائنا نے ضبط کرتے اس کا چہرہ تھپکا اور باہر چلی گئی بی اماں منشی کی بیوی کو سخت سست سنا رہیں تھیں انہیں رائنا کی صحت کی فکر تھی
وہ لوگ گاڑی کی طرف جا رہی تھیں جب کان میں پڑتی آوازوں نے قدم روک دیے
"ہائے دیکھ زرا منشی کی لڑکی کو اکڑ نا گئی "
"چیختی رہے اب سر کا سائیں وہی بنے گا دانیال کی منگ تھی اس کی مرد کو ضد دلائی تھی پاگل نے"
"بند بکواس بند"وہ پورے زور سے چیخی تھی بی اماں تک لرز گئی وہ چلتی ان عورتوں تک گئی
"ابھی کے ابھی یہ گھر سے چلتے بنے سب ورنہ۔۔,پنچائیت کا فیصلہ ہوگا جو ہوگا بڑے سرکار کریں گے فیصلہ اس لیے رائے دینے سے گریزکریں گھر جائیں اپنے تماشہ بنا رکھا ہے"اس کے بولنے کی دیر تھی وہ لوگ کھسکنے لگیں کبھی نا سنتی اگر وہ بڑی سرکار نا ہوتی
اس کا سانس پھول گیا بی اماں اور سکھاں اسے لیے گاڑی میں بیٹھ گئیں
"پانی دو بیبی کو,"وہ اس ہاتھ سہلاتی بولیں
"کیو فکر پالتی ہو ،کمی کمیں کے معملات ہیں یہ ،ہمیں آپ کو نہیں لانا چاہیے تھا"وہ پریشان ہوئیں انہیں اپنے بھائی کی ہونے والی اولاد کی فکر تھی
"ٹھیک ہوں میں" اس نے کچھ سوچتے انہیں تسلی دی
لان میں کرسی پر بیٹھی سکینہ کا ہی سوچ رہی تھی ،چند دن بعد فیصلہ تھا ،تبھی سکھاں چلی آئی
"بڑی سرکار بی اما نے بهیجوايا ہے "اس نے دودھ کا گلاس میز پر دھرا
"کیا ہوا ؟"اسے ہنوز کھڑا دیکھ رائنا نے پوچھا
"وو وہ بڑی سرکار یہ "اس نے مٹھی میں دبی پرچی آگے کی "وہ یہ میری لڑکی کو منشی کی بیٹی نے دی ہے،دیوار سے دیوار ملا گھر ہے دونو کا "وہ پھر بولی "بڑی زیادتی کرتا ہے بڑا بھائی بہت مارتا ہے ،منشی جی نےکل ہی بیچ میں آکر بچایا "رائنا نے پرچی کھولی جس میں سکینہ نے اس سے بچانے کئ درخواست کی تھی
"تمہاری بیٹی خوش ہے ؟"رائنا سکھا ں سے پوچھا
"بی بی آج سمجھتی ہوں کے ظلم ہوا ،کماتی بھی ہے کھیتوں پر کام بھی کرتی ہے ،سکھ بھی کوئی نہیں ،شوہر تو بڑا ظالم ہے اس کا"
"مجرموں کو سائیں بناؤ گے سر کا تو ظلم ہی ہوگا نا ،چلو جاؤ اب "
💖------------💖
"یہ پنچا یت کے معاملات ہیں "اس نے بات شروع ہی کی تھی کے حیدر نے ٹوکا
"یہ انسانیت کے معملات ہیں حیدر "
"پنچایت کا فیصلہ لڑکی کئ بقا کے لئے ہے ،ورنہ کیا کرے گی ،،باپ بستر مرگ پر ہے چھوٹا بھائی خود زیر تعلیم ہے بڑا رکھنے کو تیار نہیں ؟کوئی حل ہے ؟کیا کماے گی کیا کھاے گی "
"عورت کو صرف روٹی کئ نہیں عزت کئ بھی ضرورت ہوتی ہے ،آپ رہ سکتے ہیں اپنے مجرم کے ساتھ
کونسی بقا کئ بات کر رہے ہیں ،یہ فیصلے صحیح ہوتے تو سکہاں کی بیٹی کے بعد سکینہ نا ہوتی چلو وہاں لڑکی بھی مجبورا راضی تھی مگر سکینہ اسٹینڈ لینا چاہتی ہے ،عورت کی رضا کے بغیر پنچایت کون ہوتی ہے نکاح کرانے والی یعنی مجبور کیا جا رہا ہے مجرم کو معاف کرنے کو ،حیدر جو تبدلیاں اپ لانا چاہتے ہیں وہ سخت فیصلوں سے آتی ہیں ،محض اسکول کالج کھولنے سےنہیں جب ایسے ہی پسنا ہے تو کیا فائدہ شعور کا ،اج سکینہ ہمت کر رہی ہے کئی سکیناوں کو بچانے کی روز روز اایسی ہمت کرنے والے نہیں ملتے ،بدلاوں سخت فیصلوں اور قربانیوں سے اتے ہیں"
"بہت عمدہ تقریر تھی ایک وقت میں میں نے بھی بابا سرکار سے ایسے مباحثے کیے ہیں کہنا اسان ہوتا ہے ،یہ اس لڑکی کی زندگی ہے جس سے محض اپنے بدلاوں کے شوق میں نہیں کھیل سکتا"
وہ اٹھے
"آپ کئ بات ٹھیک ہے ،مگر لڑکی خود ذمداری سے یہ فیصلہ لے اپنے مجرم کو معاف کرنے نہ کرنے کا حق اسی کا ہے ؟آپ میری بات نہ سنیے آپ خود سوچیے ایک بار دونو فریق سے مل کر بات کیجیے "
وہ اس کئ بات پر سوچ میں پڑ گئے
💖------------💖
پنچایت بیٹھ چکی تھی
دونوں فریق موجود تھے
دانیال بہت پر اعتماد تھا
حیدر نے بغور اس کے رویے کو دیکھا دوسری جانب نڈھال سکینہ تھی
"تم پر الزام ہے منشی جی کئ صاحبزادی کیے ساتھ زیادتی کا ؟یہ سچ ہے ؟"نگاہیں اس پر گڑھی تھی
"سائیں غلطی ہوگئی بہک گیا تھا میں مجھے لوگو نے اسکی وجہ سے بےغیرت کہا کے میری منگ مجھے چھوڑ کر شہر میں کالج میں معاشقے کر رہی ہے ،میں کیا کرتا سائیں "وہ روتا ڈرامہ کرتا بول رہا تھا
"جب پنچا یت فیصلہ دے چکی تھی کے تمہاری منگ نہیں ہے یہ لڑکی تو احترام کیو نہیں کیا اس فیصلے کا "وہ دھاڑے
"سرکار غلطی ہوگئی سرکار "وہ پیروں میں گر گیا حیدر نے لات سے پیچھے کیا
"آپ لوگ کیا کہتے ہیں کے کیا جائے "باقی ارکان سے پوچھا
"سائیں قانون تو یہی ہے جس نے برباد کیا وہی آباد کرے اسے گھر میں "
"منشی جی اور سکینہ بی بی آپ کو قبول ہے یہ نکاح کا فیصلہ "منشی جی رو دیے مگر سکینہ اٹھ کھڑی ہوئی ٹانگے کانپ رہیں تھی دل لرز رہا تھا مگر آج نہیں تو کبھی نہیں
"مجھے قبول نہیں ہے یہ سمجھوتہ سرکار نہہی ہے ،ظلم نہ کرے خدا کے لئے "وہ ضبط نہ کر سکی روتے روتے بولی
چے مگوئیاں شروع ہوگئیں ،سب کو چپ کرایا گیا
"مولوی صاحب !"حیدر نے موجود مولوی صاحب کو مخاطب کیا "لڑکی کئ رضا کے بنا نکاح جائز ہے ؟"
"ممکن نہیں سرکار نکاح کا اپنا تقدس ہے "
"زنا بلجبر بدکرداری کے زمرے میں آتا ہے کے نہیں "
"آتا ہے سرکار "
"اور بدکردار کو گاؤں میں کاری کیا جاتا ہے ،چونکہ دانیال گناہ قبول کر چکا ہے سردار کی حثیت سے میں سردار حیدربخت پنچایت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے دانیال کو کارو کرنے کا حکم دیتا ہوں "
فیصلے پر سناٹا چھاگیا
دانیال کھڑے قد سے گرا تھا غرور اکڑ چکنا چور ہوگئی تھی وہ عبرتناک انجام کو پہنچا تھا
کون کیا بول رہا تھا حیدر کے کانوں میں محض سکینہ سے کی گئی ملاقات کے جملے گونج رہے تھے جو رائنا کے سمجھانے پر کئ تھی
"اندر سے وہ مار چکا ہے آپ باہر سے مار دیجیے سرکار ،کاری کردیں مجھے پر اس سے بچا لیں "اسکی سسکیاں دل لرزانے والی تھیں
وہ مزید سکینائیں نہیں دیکھنا چاہتا تھے اس کے لئے دانیال کئ سزا ضروری تھی
💖------------💖
"کیسی ہیں امی ؟"وہ امی سے محو گفتگو تھی
"بلکل ٹھیک بیٹا تم بتاؤ سب ٹھیک ہے ؟"
"جی شکر ہے خالہ دادی کا مسلہ حل ہوا ؟"خالہ دادی کو انکے بیٹے نے واپس نہیں بلایا تھا اب وہ ضد میں رائنا کے والدین کے گھر کے ساتھ بنے چھوٹے پورشن میں شفٹ ہوگیں تھی" سمجھتے ہیں ماں کمزور ہے اکیلی نہیں رہ سکتی ارے جب میاں کے بعد پال سکتی ہوں تو اولاد کےبنا رہ بھی سکتی ہوں" وہ بھی ضد پر اڑی تھیں
"کہاں بیٹا وہیں کے وہیں معملہ ہے کوئی نوکرانی ٹکتی نہیں ہے "
"اوہ"
فون رکھے بھی وہ اسی سوچ میں تھی اسے حیدر کی بات ہاد ائی خالہ دادی کو کسی ایسے کی ضرورت تھی جو خود مجبور ہو ،دماغ تانےبانے جوڑنے لگا کل ہی تو زکہاں نے سکینہ کے ساتھ ہونے والے برے سلوک کا بتایاتھا منشی جی کی وفت کے بعد زندگی اس پر تنگ ہوگئی تھی
💖------------💖
"میں تمہارے لئے بس یہی کر سکتی ہوں کے تم کو تعلیم اور شیلٹر دے سکوں ،اب اپنے اچھے برے کئ تم خود ذمدار ہو " یہ رائنا کے اسکو خالہ دادی کے پاس بھیجوانے سے پہلے کے الفاظ تھے جو اس نے پلو سے باندھ لیے یہی الفاظ حیدر نے اسکے چھوٹے بھائی کو سمجھاے تھے "میں تمہاری خبر گیری کرتا رہوں گا آپا "وہ اسے دلاسا دے کر گیا تھا
خالہ دادی کافی مشکل خاتون ثابت ہوئی تھی مگر بعد میں اسکا رات کو نیند میں چیخنا ان پر بہت کچھ افشاں کر گیا تھا وہ اب سراپا ماں تھی اس کے لئے وہ ان کو مرحوم پوتی کئ یاد دلاتی تھی
گو اسے اب باہر نکلتے خوف آتا مگر وہ یونیورسٹی جاتی تھی تعلیم کا موقع نہ بار بار ملتا ہے نہ سب کو ملتا ہے وہ جان گئی تھی یہی اسکی بقا کا زریعہ تھا دنیا میں
💖------------💖
چند ماہ بعد
وہ بیڈ پر بیٹھے تھے جب بھابھی آمنہ چلی آئیں انکے دستک دینے پر حیدر کئ نگاہ پڑی" آئیے بھابھی"
"وہ میں بڑی سرکار کے لیے فروٹ لائی تاھی سوچا تھا زبردستی پورا کھلاونگی اب وہ کہاں ہیں" جب سے twins کا پتا چلا تھا آمنہ اور بی اما ا نے رائنا کو ہتھیلی کا چھالہ بنالیا تھا
آمنہ کئ بات پر وہ مسکراے (بھلا کھانے کے لئے اسے زبردستی کئ ضرورت ہے )"باتھ روم میں ہے وہ "
"چلیں پھر میں یہاں رکھ دیتی ہوں "وہ کہتی چلنے کو ہوئی
"شکریہ بھابھی "انہونے کہا تو وہ مسکرا تی چلی گئی
"یہ بھابھی آمنہ لائی ہے "وہ آئی تو حیدر نے بتا یا
"بہت خیال ہے انھے میرا بھوک بھی لگی تھی وہ کتاب اٹھاتی سیب کھاتی بولی (مجھے پہلے ہی پتا تھا پیٹو لڑکی )وہ دل میں سوچتے ہنسے
"آپ خود نظر لگا دیں گے میری صحت کو " وہ ان کے ہنسنے پر مشکوک ہوئی
"ویسے مجھے تمہیارے اور بھابھی کے تعلقات دیکھ خالہ دادی کی بات صحیح لگی کےتم دونو کے تعلقات قابل رشک سے زیادہ قابل شک ہیں یقین نہیں اتا اتنی دوستی اصل میں ہے یا ڈرامہ کر رہی ہیں دونوں "
اس نے گھورا
"خالہ دادی تو اور بھی بہت کچھ کہتی ہے بتاوں ایک ڈیمانڈ ہے ان کی ؟"
"کیسی ڈیمانڈ "
"وہ ایک بچے کو گھٹی خود د ینگی " اس نے بتایا
"یہ کیا ڈیمانڈ ہے ؟اس سے کیا ہوگا "
"کںفرم تو نہیں پتا مگر بچا شاید گھٹی دینے والے کئ عادات پاتا ہے "وہ کندھے اچکاتے بولی
"آئی کانٹ ٹیک دس رسک نہیں دینے دینا کچھ بھی کرکے "وہ فورا سے بولے پھر اس کے متوجہ نا ہونے پر کتاب چھینی
"میتھ کی بک" وہ حیران تھے
"ہاں جدید ریسرچ کے مطابق پریگننسی کے دوران بچا چیزیں سیکھتا ہے اسی لیے ایسی activities کرنی چاہیے جس سے بچے کا ذہن شارپ ہو " وہ سنجیدگی سے بولی
حیدر کا ہنس ہنس کر برا حال تھا پھر اسکا منہ بنتا دیکھ ہنسی روک کر ساتھ لگایا "یار بیوی تمہیں بھی گھٹی خالہ دادی نےدی تھی کیا" وہ زچ ہوئی
💖------------💖
"فلک بیٹا تم دیکھنا ایک دن تمہارے سعود بھائی کو میچ ضرور ملے گا ریزیڈنسی بھی اچھی ھوگی " وہ سکائپ کرتا برتن دھو رہا تھا
"اتنی لمبی فیلڈ ہے آپ کی اسی لئے میں نے acca چوز کیا "
"بچے آسان کچھ بھی نہیں ہے یہ چھوڑو منگیترجی کہاں ہے "
"وہ آرڈرز تیار کر رہی ہے "شہرینہ نے سعود اور فلک کے مشورے پر کھانا سپلائی کا کام کیا تھا شروع جو اچھا جا رہاتھا
فلک نے شہرینہ کو فون دیا
"ہاے باورچن "وہ اسے اپرین میں دیکھ ہنسا
"ہاے ویٹر "وہ بھی بدلہ اتار گئی کے سعود فلحال جاب لیس تھا اور پارٹ ٹائم ویٹر کی جاب کرتا تھا جو یو ایس میں نارمل سی بات تھی فلک ان دونو کو نوک جھوک کرتا دیکھ مسکرا کر چلی گئی
شہرینہ اور سعود کی منگنی اس کی اور ماموں کی کوششوں کا نتیجہ تھی "امیاپ یقینا خوش ہوں گی اب "وہ اکثر سوچتی کل کیناور اج کی زندگی میں بہت خوشگوار فرق تھا گو اب بھی مسئلے تھے مامی بھی مزاج کی تیز تھیں مگر یہ پرابلم ان پرابلم سے کم تھیں جو وہ جھیل چکی تھیں
انہیں پرانے پڑوسی کے ذریعے ابا کا پتا چلا تھا وہ معافی مانگنا چاہتے تھے جب سعود نے انہیں بتایا تو دل دکھی ہوا ابا جیسے تھے تھے تو باپ مگر دونوں نے ملنے سےانکار کر دیا وہ ماضی سے تعلق توڑ چکیں تھیں "معاف کرچکے ہم انہیں مل نہیں سکتے" یہ ان دونوں کا پیغام تھا جو سعود نے پڑوسی کو پینچادیا تھا( فون پر) وہ باپ حقیقتا بدنصیب تھا جس نے خود گھر ائی رحمت بیچی تھی
💖------------💖
چند ماہ بعد
وہ اپنے ارد گرد کھڑے ہنستے چہروں کو دیکھ رہی تھی کتنا خوش تھے سب ،اسکے اپنے چہرے پر ممتا کا نور بکھرا تھا جنّت جو قدموں تلے آگئی تھی
اس نے حیدر کو دیکھا جو مسلسل اسکا ہاتھ تھامے تھے اس نے ازیت سہ کر انھے ایک بیٹا اور بیٹی سے جو نوازا تھا
"حیدر میا ں "خالہ دادی کی آواز پر انکی توجہ رائنا اور بچو سے ہٹی
"ان میں سے ایک کو گھٹی دے ہی دی میں نے "وہ مزا لیتے بولیں
"کونسے کو ؟"(شٹ کیسے ہوگیا یہ )
"اب بھوجتے رہے "وہ اترا کر بولیں تو سب ہنس دیے
💖------------💖
وہ دونو اس قت بچوں کے ساتھ اکیلے تھے ورنہ ھر وقت کوئی نہ کوئی ہوتا
وہ آنکھیں موندے نیم دراز تھی جب حیدر نے پیار سے اسکا ماتھے پر بوسہ دیا
"تھک گئیں جانم "ان کی فکر پر وہ مسکرائی وہ اب بچوں کو دیکھ رہے تھے "کتنے پیارے ہیں چھوٹے چھوٹے سے ،میری بیٹی زیادہ پیاری ہے ویسے "وہ بولے
"دونوں زیادہ پیارے ہیں "اس نے ٹوکا
"ویسے کس کو دی ہوگی خالہ دادی نے گھٹی" ان کا تجسس ہنوز قائم تھا
"آپ بھی نا حیدر خواہ مخواہ سیریس لےرہیں ہیں اس بات کو "
"چلو سوجاو پھر یہ اٹھ جائیں گے "وہ بولے اورلیٹنے کی تیاری کرنے لگے
وہ تذبذب میں تھی "حیدر مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے؟ "
اس کے لہجے نے انہیں چونکا دیا
باقی آئندہ
بس چھوٹی سی لسٹ ایپی رہتی ہے سب چیزیں conclude ہونگی
کیا ہوا بولو؟"وہ اسے رکتا دیکھ پوچھنے لگے
"یہ دونوں مجھے بہت عزیز ہیں حیدر"وہ پھر رکی محض اس لیے نہیں کے یہ میری اولاد ہے کیونکہ اولاد سے ماں کی محبت فطری ہوتی ہے "وہ پھر رکی اور ان کے آگے ہاتھ پھیلایا جو ہمیشہ کی طرح حیدر نے اپنے مظبوط ہاتھ میں لے لیا
"مجھے یہ بے تحاشہ عزیز ہیں اس لیے کے یہ آپ کے وجود کا حصہ ہیں اور مجھے ان سے محبت ہے "ایسے گھوما پھرا کے کیے اظہار نے حیدر کو کنفیوز کردیا وہ مسکرائی
"مجھے آپ سے محبت ہے " وہ ان کی آنکھوں میں جھانکتی بولی
اتنے انتظار کے بعد میسر ہونے والا یہ لمحہ حیدر کے لیے کتنا قیمتی تھا کوئی حیدر سے پوچھتا
"لوگ کہتے ہیں کے عورت اظہار محبت کرتی اچھی نہیں لگتی "وہ کہہ کر رکے رائنا کا چہرہ پھیکا پڑا حیدر نے اسکا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں تھام کر لبوں سے لگایا
"لوگ غلط کہتے ہیں ،محبوب کا اظہار محب کو نئی زندگی دیتا ہے ،اور اس پل تم مجھے کس قدر حسین لگی ہو میں الفاظ میں نہیں بتا سکتا "
انہوں نے بات پوری کی اور قریب ہوئے اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکرایا
رائنا مسکرائی یہی مان دے کر تو اس شخص نے ہواؤں کا رخ موڑا تھا ،دل کی دنیا ہی بدل دی تھی
💖------------💖
پانچ سال بعد !
"نیکسٹ"اس نے تھوڑا زور سے کہا اور سامنے میز پر پڑی بیل پریس کی
باہر کوئی مریض نہیں تھا اج کی اپاونٹمنٹز پوری ہوگئی تھی ویسے بھی کلینک کا وقت ختم ہونے والا تھا باہر موجود نرس اسے یہی اطلاع دینے اندر ا نے لگی تھی جب سامنے سے اتے سوٹڈ بوٹڈ ادمی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منہ کھولنے سے روکا
کیا ہوا بولو؟"وہ اسے رکتا دیکھ پوچھنے لگے
"یہ دونوں مجھے بہت عزیز ہیں حیدر"وہ پھر رکی محض اس لیے نہیں کے یہ میری اولاد ہے کیونکہ اولاد سے ماں کی محبت فطری ہوتی ہے "وہ پھر رکی اور ان کے آگے ہاتھ پھیلایا جو ہمیشہ کی طرح حیدر نے اپنے مظبوط ہاتھ میں لے لیا
"مجھے یہ بے تحاشہ عزیز ہیں اس لیے کے یہ آپ کے وجود کا حصہ ہیں اور مجھے ان سے محبت ہے "ایسے گھوما پھرا کے کیے اظہار نے حیدر کو کنفیوز کردیا وہ مسکرائی
"مجھے آپ سے محبت ہے " وہ ان کی آنکھوں میں جھانکتی بولی
اتنے انتظار کے بعد میسر ہونے والا یہ لمحہ حیدر کے لیے کتنا قیمتی تھا کوئی حیدر سے پوچھتا
"لوگ کہتے ہیں کے عورت اظہار محبت کرتی اچھی نہیں لگتی "وہ کہہ کر رکے رائنا کا چہرہ پھیکا پڑا حیدر نے اسکا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں تھام کر لبوں سے لگایا
"لوگ غلط کہتے ہیں ،محبوب کا اظہار محب کو نئی زندگی دیتا ہے ،اور اس پل تم مجھے کس قدر حسین لگی ہو میں الفاظ میں نہیں بتا سکتا "
انہوں نے بات پوری کی اور قریب ہوئے اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکرایا
رائنا مسکرائی یہی مان دے کر تو اس شخص نے ہواؤں کا رخ موڑا تھا ،دل کی دنیا ہی بدل دی تھی
💖------------💖
پانچ سال بعد !
"نیکسٹ"اس نے تھوڑا زور سے کہا اور سامنے میز پر پڑی بیل پریس کی
باہر کوئی مریض نہیں تھا اج کی اپاونٹمنٹز پوری ہوگئی تھی ویسے بھی کلینک کا وقت ختم ہونے والا تھا باہر موجود نرس اسے یہی اطلاع دینے اندر ا نے لگی تھی جب سامنے سے اتے سوٹڈ بوٹڈ ادمی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منہ کھولنے سے روکا
نرس نے جائزہ لیا بلیک سوٹ میں اندر وائٹ شرٹ پہنے ٹائی لگائے ،سلیقے سے اسٹائل سے سیٹ کیے گئے بالوں صاف رنگت کھڑے نقوش سے سجے چہرے پر ہلکی ہلکی شیو کے ساتھ مسکراہٹ دبائے عنابی لبوں کے ساتھ وہ کافی لمبا چوڑا سا شخص تھا جو بے شک کوئی اپالو نہیں تھا نا دیوتاوں جیسا وجیہہ تھا مگر پرسنلٹی کے حساب سے شاندار تھا
وہ شخص آہستہ سے دروازے کھول اندر داخل ہوا
سامنے ہی ڈارک براؤن کلر کی میز کے پیچھے کمفرٹیبل چئیر پر ایک خاتون نما لڑکی براجمان تھی جس کی عمر کا حساب لگانا مشکل تھا کے
نا وہ بہت پکی دیکھتی تھی نا ہی الہڑ پن تھا اس کے انداز میں
بھورے بال جو غالبا آگے سے لہریا کٹ لیا گیا تھا
بیضوی چہرے کے اطراف میں سیٹ تھے ,لائٹ پنک کلر کے خوبصورت بریزے کے جوڑے میں پاؤں میں سفید دوپٹہ کی چپل سر پر سوٹ کا ہی ہم رنگ دوپٹہ لیے وہ کافی ڈیسنٹ اور پرکشش تھی
"آئیے بیٹھیے "اس کے کہنے پر مقابل مرد کی سرد آنکھو ں میں نرم سی چمک ابھری آنکھیں اس کے چہرے کے طواف میں مصروف ہوگئیں
وہ ہنوز فائل کی جانب متوجہ تھی کوئی آواز نا پا کر چونکی
"جی فرمائیے کس شکایت سے آئے ہیں "اب کے اس نے نگاہ گائک سے اٹھا کر اس شخص کی طرف دیکھا اس کی ڈارک براؤن سی آنکھوں میں حیرت در آئی
"مریض عشق ہوں ڈکٹر صاحبہ اپنی دوائی لینے آیا ہوں "وہ شخص اپنی آنکھیں اس پر گاڑے تھا جن میں وہی نرم گرم سا تاثر تھا جو اس کے لیے مخصوص تھا
"اور میری دوائی آپ ہیں ،چلیے"وہ ٹہر کر حکمیہ سے انداز سے گویا ہوا
رائنا کا قہقہہ بے ساختہ تھا "حد ہی ہوگئی حیدر اتنے کرنجی ڈائیلاگ "
"بدذوق لوگوں کو عشق کرنج ہی لگتا ہے "وہ بھی مسکرائے
"اب چلیں ؟"
"باہر پیشنٹس ہیں؟ ،ویسے ٹائم تو ختم کلینک کا "
وہ نرس کو بلائے پوچھ رہی تھی
"جی ڈاکٹر صاحب ختم "
"گڈ"اس نے کہا
💖------------💖
وہ دونوں اس وقت گاڑی میں تھے حیدر کے پولیٹکس میں آنے کے بعد شاز شاز ہی ایسا موقع ہوتا جس میں وہ ایسے تنہا نکلتے تھے جس میں حیدر ڈرائیو کرتے تھے
آج ان کی ویڈنگ اینیورسری تھی جو پچھلے دو سال حیدر بھول گئے تھے اس سال ازالے کا پورا ارادہ تھا
اس نے بچوں کو کال لگائی اب وہ دونوں اس سے ویڈیو کال پر بات کر رہے تھے
"مما سرکار میں نے ہومورک کرلیا ہے " عائشہ (بیٹی) نے چھوٹتے ہی قابلیت جتائی
"میں نے بھی " اسد(بیٹا) بھی اچھلا
"مما اس نے باباسرکار کے فائل پر جوس گرادیا" عائشہ کی شکایت پر رائنا نے گہری سانس لی جبکے حیدر نے اسٹیرنگ پر ہاتھ مارا
مرحومہ خالہ دادی نے گھٹی کسے دی تھی وہ جلد ہی پتا چل گیا تھا اسد نے باپ کو ٹارگٹ بنا رکھا تھا وہ حیدر کی گود میں آتے ہی نیپی گیلی کرتا
رات کو تب تک روتا جب تک حیدر کی آنکھ نا کھلتی (یہ سب رائنا کو حیدر کا وہم ہی لگتا تھا جو کے کافی حد تک درست تھا)اسد ویسے کافی اچھا بچا تھا مگر حیدر کی روز کوئی نا کوئی چیز دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس کے ہاتھوں کی کھجلی کا شکار ہوجاتی
"سی ؟پھر تم کہتی ہو میں غصہ کرتا ہوں "وہ بولے تو وہ ہاتھ سے انہیں شانت ہونے کی گزارش کرنے لگی اب وہ اسد کو ہلکا سا ڈانٹ دہی تھی
"اچھا بچوں ماما بابا لیٹ ہوں گے آپ نے چاچی سرکار(آمنہ ) کو تنگ نہیں کرنا,کھانا کھا کر سوجانا"ان دونوں نے ہی بچوں کو خدا حافظ کیا
آمنہ کے ساتھ بچے بہت اٹیچ تھے اور اسی وجہ سے رائنا بھی سکون میں تھی یہ اس کا اورحیدر کاتعاون ہی تھا جو وہ ہفتے میں تین دن گاؤں میں اور ایک دن دوسرے ہاسپٹل میں کلینک کرنے لگی تھی
💖------------💖
آمنہ عورتوں کے مسائل سن کر اٹھی تھی یہ منسب رائنا اور حیدر نے باہمی رضامندی سےاسکے حوالے کیاتھا بی اماں خود ہی ہر طرف سے الگ تھلگ اب بچوں میں رہتی تھی یا شرجیل کے ایثال ثواب کے لیے دعائیں پڑھتی رہتی تھیں
وہ فارغ ہی ہوئی تھی کے شیراز چلا آیا وہ پندرہ سال کا سمجھدار لڑکا تھا
اس کے اطوار نیک ماں کی تربیت کا منہ بولتا ثبوت تھے وہ ابھی ماں کو اپنے واپس جانے کا بتانے تھا
"ابھی تو آئے تھے اب دو دن بعد واپس جا رہے ہو"
ماں تھی آنکھیں سیر ہی نہیں ہوتی تھیں
"جی اماں بس پڑھائی کا معاملہ ہے"
"اللہ میرے چاند کو ترقی دے،صبح صبحکہاں گئے تھے میں اٹھی تو نہیں تھے تینوں بھائی "اس نے پوچھا
"وہ باباسرکار کی اور دادا سرکار کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئے تھے"اس نے بتایا
آمنہ کو وہ دن یاد تھا جب باپ کی بیماری سے دگردوں حالت دیکھ وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا
"اماں بابا کہتے ہیں وہ بہت گناہ گار ہیں میں ان کے لیے کچھ کروں میں کیا کروں"اس کی بات نے آمنہ کا دل پسیجا تھا
"تم تینوں اپنے بابا کے لیے بس یہی کر سکتے ہو کے اتنے نیک ہوجاوں کے باپ کے لیے ثواب جاریہ بن جاؤ "شیراز کو بھی ماں کے یہ الفاظ آج بھی یاد تھے دو سال پہلے ہی شرجیل کی وفات ہوئی تھی تب اس کے آخری لمحات میں اس کی اذیت کو دیکھتے آمنہ نے اسے معاف کردیا تھا اور اس کے بعد اس نے خود بہت ہلکا پھلکا ہر بوجھ سے آزاد محسوس کیا تھا جیسے وہ بیڑیوں سے آزاد ہوگئی تھی وہ انہی سوچوں میں تھی شیراز چلا گیا اٹھ کر اسے پتا نا لگا باہر سے عائشہ کی شیراز بھائی کو پوئم سنانے کی آواز آرہی تھی
آمنہ کو یاد آیا جب بی اماں نے بچپن میں ان بچوں کے رشتے طے کرنے کی بات کی تھی تب رائنا نے سخت قدم اٹھاتے صاف منع کیا تھا
"یہ باتیں ابھی کرنے یا سوچنے کی نہیں ہے بچوں کو ان کی زندگی جینے دیں ایسی باتوں سے بچپنا خراب ہوتا ہے "
آمنہ کو اس کی باتیں صحیح لگی تھی غلط بات پر کہیں تو فل اسٹاپ لگنا چاہیے تھا
آج شیراز اور عائشہ کو دیکھتے اسے یہ فل اسٹاپ بلکل صحیح لگا اس نے دھیان بٹایا
اور اٹھ کر کھڑکی میں آکر نیلے آسمان کی طرف دیکھا اس نے ایک وعدہ کیا تھا خود سے اور شرجیل سے کے ان کی اولاد کو شرجیل جیسی نہیں بننے دے گی اسے اب وہ وعدہ کسی حد تک پورے ہوتے دیکھتا شیراز میں باپ کی جھلک تک نا تھی
"سائیں میں نے آپ کی اولاد کو آپ کے لیے ثواب کا ذریعہ بنادیا ،یہ احسان میں نے آپ پر نہیں خود پر کیا مجھ میں سب مزید آمنائیں دیکھنے کی خواہش نہیں ہے"
اس نے خودکلامی کی اور آپ ہی آپ مسکرائی
💖------------💖
وہ ہا سپٹل سے آج جلدی گھر آیا تھا،ارادہ اپنی تین سال پرانی بیگم کو سرپرائز دینے کا تھا ،جب کومن میں اس نے صوفے پر بیٹھی شہرینہ کو روتا پایا "کیا ہوا شہرینہ ؟وائے آر یو کرائنگ ؟"
وہ پریشان ہوا
اس نے موبائل آگے کیا فلک یو کے میں کلرک شپ کے لیے گئی تھی وہیں کی پیکچرز تھی
"ہوا کیا ہے یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے؟"وہ زچ ہوا
"میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کے ہم دونوں بہنیں اتنی اچھی زندگی گزاریں گے "
سعود نے سر ہی پیٹ لیا(اپنا) پاکستان کی مظبوط شہرینہ اب یہاں آکر لاڈ پیار پا کر آبلہ بن چکی تھی جو کسی بھی وقت پھٹ (روپڑتا)پڑتا
"یار تمہاری آنکھوں کو نا رونے کی بیماری ہے کل ہی چلیں گے اسپیشلسٹ کے پاس،ہنسنے کے موقعے پر ڈھاڑے مارنے لگتی ہو"
اس کے بولنے پر شہرینہ کاوچ پر پڑا تکیا اس کے منہ پہ کھینچ مارا اور اٹھ گئی "کھانا لاتی ہوں موٹے"
سعود کا وزن مزیدار کھانے کھا کر مزید بڑھ گیا تھا
"جم کروں گا نا پھر دیکھنا"
"جب کرو گے دیکھ بھی لوں گی "وہ بھی جانتی دھن کا پکا جو کا ٹھان لیتا کر کے ہی دم لیتا تھا
اس نے امریکن اسٹائل کھلے کچن سے سامنے دیکھا
کل اور آج میں بڑا فرق تھا زندگی نے اسے ایک چیز کا سبق دیا تھا ناامید نا ہونے کا کوشش کرتے رہنے کا سروائیو کرنے کا کے یہ جنگ ہی سرائیوول کی ہے
💖------------💖
"آپی تم نے بجٹ بنا لیا "سکینہ کچن میں مصروف تھی ابھی تو کالج سے آئی تھی جہاں وہ فارم ڈی کا ہی سبجیکٹ پڑھاتی تھی ڈیمونسٹریٹر کے طور پر ساتھ آگے کی تیاری بھی کر رہی تھی
خالہ دادی کے انتقال کے بعد اس کا بھائی اسے اور امی کو ساتھ لے کر کرایے کے مکان میں رہ رہا تھا پہلے گزارا مشکل تھا پر اب بنک میں اچھی جاب لگ گئی تھی تو سکون سا آگیا
"آپی تم نے کیا سوچا خلیل صاحب کے بارے میں ،دیکھو آپی وہ بہترین تو نہیں ہیں مگر بہتر ہیں پر میں تم پر زور نہیں دوں گا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا "وہ لسٹ لے کر چلا گیا
وہ بھی امی کو کھانا دے کر کمرے میں آگئی وہ ماں سے ناراض تھی خالہ دادی کی زندگی میں بھی جب اماں نے کوشش کی رابطے کی اس نے منع کردیا ان کی وفات کے بعد سکینہ کا دل موم ہوگیا انہوں نے ہی کہا تھا
"ماں کو رد کرتے ہو تم بچے ضد لگاتے ہو ارے مائیں بھی مجبور ہوتی ہیں ماؤں سے ضد نہیں لگاتے بیٹا ان سے محبت کرتے ہیں "
ان کے الفاظ اس کے لیے حکم کی حثیت رکھتے تھے اس بظاہر سخت عورت نے اسے سکھایا تھا کے زندگی جینے انجوائے کرنے خود سے محبت کرنے میں کوئی برائی نہیں بشرطیکہ جائز حد میں ہو
اور اس کے لیے سہارے کی ضرورت نہیں بس دل زندہ ہونا چاہیے رشتے خود بخود بنتے ہیں
"وہ اکثر کہتی تھیں لوگ مجھے جتنا مارنے کی کوشش کرین گے میں اتنا جی کر دکھاؤں گی جب تک اللہ نے مجھے سانس دی ہے تب تک جیونگی "
وہ خلیل صاحب کے رشتے کے بارے میں سوچنے لگی وہ جاب کے ساتھ ساتھ ایک غریب علاقے میں پڑھاتی چھٹی کے دن وہ بھی وہیں پڑھاتے تھے کالج میں بھی جاب کرتے تھے
سادہ سے ڈریس سوٹ میں شریف سے مہذب سے 30 سالہ خلیل صاحب متاثر کن تھے کم عمری میں شادی کی تھی بیوی حیات نہیں تھی ایک بیٹی تھی جو ان کے ساتھ ساتھ رہتی تھی سکینہ سے مانوس تھی
اسے آج کا واقعہ یاد آیا جب خلیل صاحب نے اس سے بات کی تھی
"میں بہت عام سا شخص ہوں لگی بندھی تنخواہ والا ایک بیٹی کا باپ آپ سے محبت کے دعوے نہیں کروں گا مگر آپ کی عزت کرتا ہوں
آپ کا ساتھ ہوگا تو مل کر ترقی بھی کریں گے
باقی جیسے آپ کو ٹھیک لگے" وہ پہلے بھی سکینہ کا رشتہ خالہ دادی کی زندگی میں بھیج چکے تھے اس کے ماضی سے واقف تھے اب پھر آئے تھے
عزت یہ لفظ سکینہ کے لیے بہت قیمتی تھا
اس نے ان کی آنکھوں میں سچائی دیکھی تھی گزرے وقت نے ثابت کیا تھا کے حیدر سے محبت صرف سیراب تھی اسے صرف حیدر سے عقیدت تھی وہی عقیدت اب اسے رائنا سے بھی تھی جس نے اسکی غلط نیت جانتے بھی اس کی مدد کی تھی
"شادی سب کچھ نہیں ہے مگر اگر کہیں ایسا شخص ملے جو تمہیں ایسا لگے کے اس کے ساتھ زندگی گزر سکتی ہے تو ہاتھ تھامنے میں کوئی حرج نہیں "اسے خالہ دادی کے الفاظ یاد آئے
پھر خلیل صاحب سے آج کی اتفاقیہ ہوئی ملاقات اور ان کی گفتگو اس کے لب مسکرائے
"ہاں کوئی حرج نہیں ہے"وہ دل سے مسکرائی
💖------------💖
وہ دونوں اسی ریسٹورنٹ گئے تھے جہاں وہ پہلی بار آئے تھے
نیلے آسمان تلے سمندر کا منظر رائنا کو دلکش لگتا تھا
"کتنا وقت گزر گیا نا حیدر "وہ کیک کاٹنے کے بعد ان کے شانے پر سر دھرے بولی
حیدر نے اس کو حصار میں لیا
"عرصے بعد ہم ایسے وقت گزار رہیں ہیں "وہ بھی بولے
"کچھ غزل سنائیں نا "اس نے فرمائیش کی
یہ تیرا ساتھ ہے اے ہمسفر
جو اندھیرے فنا ہوئے
یہ اونچی نیچی کٹھن راہیں
تیرے ساتھ سے اساں ہوئیں
یہ تیرے حصار میں قید ہوے
میری مشکلیں آسان ہوئی
یہ تیرا ساتھ ہے اے ہمسفر
کے زندگی رواں چلی
ان کے لفظ رائنا کے دل کی آواز بن چکے تھے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیے انہوں نے بہت سی بری روایتوں شکست دی تھی بہت سے پہاڑ سر کیے تھے ایک دوسرے کے خوابوں کو پورا کیا تھا
اور مزید کی جانب گامزن تھے
آسمان پر چمکتے چاند نے اس جوڑی کی نظر اتاری جو ایک دوسرے کے شانے پر سر رکھے تھکن اتار رہے تھے
ختم شدہ۔۔۔۔💞💞
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Intezar E Ishq Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Intezar E Ishq written by Maryamah Sheikh Intezar E Ishq by Maryamah Sheikh is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment