Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 13To15 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday, 5 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 13To15

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 13To15

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 13To15

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

درمان کی آنکھ صبح پانچ بجے کے قریب کھلی۔وہ اسی پوزیشن میں سویا ہوا تھا۔اس لیے گردن بھی اکڑ گئ تھی۔

درمان نے اپنے ایک ہاتھ سے اپنی گردن سہلای پھر سکون سے سوئی ہوئ زرلشتہ کو دیکھا۔جو ابھی تک اس کا ہاتھ پکڑے سو رہی تھی۔وہ آسودگی سے مسکرایا۔

پھر دوسرے ہاتھ سے اس کی پیشانی کو چھوا جو اب بھی دہک رہی تھی۔بخار پہلے کی نسبت کم تھا پر اب بھی زیادہ تھا۔

"زرلشتہ۔۔۔۔۔!!!!!! سردی تو نہیں لگ رہی اب؟ابھی بھی ناراض ہو مجھ سے۔آۓ ایم ریلی ویری سوری۔تم اٹھ جاؤ تب جو سزا چاہے مجھے دے دینا میں اف بھی نہیں کروں گا۔۔۔"

اس کے زرد ہوتے چہرے کو دیکھتے اس نے لب بھینچے پھر فکر سے کہا ۔وہ ابھی تک شرمندہ تھا اور سزا کے لیے بھی تیار تھا۔

ایک بار پھر اس سے معافی مانگ کر وہ وہاں سے اٹھ گیا۔

کمرے میں چلتے ہیٹر کی سپیڈ کم کرکے وہ خود فریش ہونے کے لیے چلا گیا۔

ابھی فجر کا وقت تھا۔وہ رات بھی دو بجے کے قریب سویا تھا اور اب بھی پانچ بچے ہی اٹھ گیا تھا۔

اسے آج شہر میں موجود اپنے آفس جانا تھا۔اپنے سٹاف کی کلاس لینے جو لوگ بقول اس کے اس کا آفس ڈبونے کی پلیننگ کررہے تھے۔

فریش ہوکر سیل گرے کلر کی شرٹ اور جینز پر گرے ہی کوٹ پہن کر بال جیل سے محض ڈراۓ کرکے ہلکی سی جیل سے سیٹ کرتے وہ آفس جانے کے لیے تیار ہوگیا۔

ہلکی سی تیاری بھی اس پر جچ رہی تھی۔ اپنے دائیں ہاتھ پر گھڑی پہنتے وہ بیڈ پر سکون سے سوئی زرلشتہ کے پاس آیا۔

"اپنا خیال رکھنا۔۔۔!!!! اور پلیز کمرے سے باہر مت جانا۔ایک بار سب ٹھیک ہوجاۓ پھر جو دل کرے تم وہ کرسکتی ہو پر ابھی مورے کی نظروں میں آنا تمہارے لیے سیف نہیں ہے۔باقی میں وشہ کو بھی کہہ جاؤں گا کہ وہ تمہارے ساتھ ہی رہے۔تمہیں ناشتہ بھی وہ کروادے گی اور میڈیسن بھی دے دے گی۔میں بھی جلد واپس آجاؤں گا۔۔۔!!!!

پر تب تک مورے سے بچ کر رہنا۔۔۔!!!"

وہ یوں بول رہا تھا جیسے وہ سن رہی ہو گی۔

اس کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کرتے اس پر کمفرٹر درست کرکے وہ وہاں سے چلا گیا۔اتنا کیرنگ روپ زرلشتہ اگر دیکھ لیتی تو ضرور سمجھتی کہ وہ مر کر جنت میں آگئ ہے یا اس کے شوہر کی یادداشت چلی گئ ہے جو اسے مارنے کی بجاۓ اتنے پیار سے ٹریٹ کررہا ہے۔

پر درمان خود سے جڑے لوگوں کے معاملے میں پوزیسو تھا اور اب تو اس کا سب سے قریبی رشتہ زرلشتہ تھی۔جس پر غصہ کرنا اور اس کا خیال رکھنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔وہ مکمل تو کبھی نہ بدلتا پر پورا ظالم بھی نہ رہتا ۔

پیچھے زرلشتہ کمفرٹر میں مزید دبک کر سوگئ۔کمزوری کی وجہ سے اسے بالکل بھی خبر نہ تھی کہ درمان اسے کیا کیا کہہ چکا ہے۔اور اس کا کتنا خیال رکھ چکا ہے۔غلطی درمان کی تھی اس لیے وہ سزا کے لیے بھی تیار تھا۔پر زرلشتہ اب اسے کونسی سزا دیتی یہ وقت ہی بتاتا۔

درمان تو الگ رستے پر سفر کرنے لگا تھا پر زرلشتہ ابھی اس رستے کی مسافر نہ تھی۔

سیڑھیوں سے اترتے اسے راستے میں وشہ دکھی جو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اب پانی کا جگ لیے کچن کی طرف پانی لینے جارہی تھی ۔حجاب میں لپٹے اس کے معصوم سے چہرے پر اداسی تھی۔اسے دیکھتے ہی درمان وہیں رکا ۔

"وشہ۔۔۔!!!! تم زرلشتہ کا خیال رکھنا ۔اسے بخار ہے رات سے۔طبیعت بہت خراب ہے اس کی ابھی۔سورہی ہے وہ تو اسے دس بجے سے پہلے نہ اٹھانا۔ بعد میں اسے ناشتے کے ساتھ دوا بھی دے دینا۔میں ایک دو دن میں آجاؤں گا۔تب تک پلیز اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔مورے اسے پسند نہیں کرتیں ۔تمہیں بھی پتہ ہے۔کہیں وہ کچھ برا نہ کردیں اس کے ساتھ۔۔۔!!!"

اس نے گھڑی دیکھتے ہوۓ کیا تو وشہ کے چہرے پر چھائ اداسی اب فکر میں بدل گئی ۔زرلشتہ کی بیماری کا سن کر وہ صحیح معنوں میں پریشان ہوئ تھی۔

"بھابھی بیمار ہیں رات سے۔۔۔!!!! اچھا ہوا آپ نے بتادیا۔ہم خوامخواہ ان سے ناراض ہورہے تھے۔آپ بے فکر رہیں آپ کے نا آنے تک ہم ان کے ساتھ ساۓ کی طرح رہیں گے۔انہیں بور نہیں ہونے دیں گے۔نا ہی مورے کے سامنے جانے دیں گے۔

ویسے بھی یونیورسٹی میں سیمسٹر ختم ہونے کی وجہ سے دو ہفتوں کی چھٹیاں ہیں۔تو فکر کی کوئ بات ہے ہی نہیں۔۔۔۔!!!!"

وشہ زرلشتہ سے ناراض تھی اور اسی ناراضگی کا صدمہ لے کر وہ بھٹکی ہوئ روح بنی پانی کا جگ اٹھا کر کچن میں جارہی تھی تاکہ ایک جگ پانی میں ڈوب کر جان دے دے۔

کہ اس کی اتنی پیاری بھابھی نے اس کا دل جو دکھایا تھا۔

لیکن اب اس نے مرنے کا پلان کینسل کیا ذہن میں زرلشتہ کی بیماری کی بات ہی چل رہی تھی۔وہیں درمان جو فون پر کچھ ٹائپ کررہا تھا اس نے چونک کر اسے دیکھا کہ اب اس کی بیوی نے ایسا کیا کردیا کہ اس کی بہن جو زرلشتہ کے آگے پیچھے گھومتی رہتی تھی وہ بھی اس سے ناراض ہوگئ ہے۔

"تم کیوں ناراض ہو اس سے۔۔۔!!!!"

اس نے موبائل آف کرکے کوٹ کی پاکٹ میں ڈالا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔جس نے جواب میں معصوم سی صورت بنائ ۔

"کل انہوں نے ہمیں پاستہ بنانے کو کہا تھا۔ انہیں بہت پسند ہے نا۔اور ہمارے گھر میں کسی بھی ملازمہ کو ایسی چیزیں بنانی بھی نہیں آتی۔ اس لیے ہم نے ان کی خاطر اتنی محنت سے پاستہ بنایا۔ پر وہ تو ہمیں دکھی ہی نہیں۔ ہمارا بنایا پاستہ بھی ضائع ہوگیا۔ اب ہمیں پتہ چلا وہ تو بیمار تھیں تو پاستہ کیسے کھاتیں۔کوئ بات نہیں ہم پھر کبھی بنادیں گے ابھی ہم ان کے پاس ہی چلے جاتے ہیں ۔۔۔!!!"

اسے وضاحت دے کر وہ جگ سمیت زرلشتہ کے کمرے کی طرف چلی گئ ۔آخر اس کی بیسٹی جو بیمار تھی تو اس کا فکر مند ہونا بنتا بھی تھا ۔

پیچھے درمان نے لب بھینچے کہ وہ ایسا کیوں ہے۔آخر اس نے زرلشتہ کو تکلیف کیوں پہنچائی ۔

وہ اسے خوش تو نہیں کر پاتا تھا اور اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی چھین لیتا تھا۔

اپنی حرکت پر شرمندہ ہوتے درمان آفس کے لیے نکل گیا۔زرلشتہ کا فون اب بھی اس کے پاس ہی تھا جو اس نے اپنے آفس رکھا ہوا تھا۔

فون پاورڈ آف تھا اس لیے اس کی امانت بغیر دیکھے ہی اس نے وہاں رکھی ہوئ تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

 "چھوٹے سردار۔!!! ہم سب پوری کوشش کررہے ہیں کہ پتا لگوا سکیں آخر فدیان آفریدی اس جگہ سے اغواہ ہوکر گۓ کہاں۔پر مسئلہ یہ ہے کہ اغواہ کرنے والا حد سے زیادہ چالاک تھا۔تبھی اس نے کوئ ثبوت پیچھے چھوڑا ہی نہیں ۔۔۔!!!!

بہت مشکل ہے بغیر کسی ثبوت کے ان تک پہنچا۔۔!!!"

دیار کے ماتحت کام کرنے والے آدمی نے اسے آج پھر روز کی دہرائ جانے والی بات من و عن بتا دی۔دنیا ادھر کی ادھر ہوسکتی تھی پر بقول اس کے آدمیوں کے فدیان کا ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔

یہ بات سنتے ہی اب دیار کا ضبط ختم ہونے لگا اسے زرلشتہ کی زندگی کی فکر تھی تو دوسری طرف خود پر لگے بے بنیاد الزامات پر بھی غصہ تھا۔دیار نے لب سختی سے بھینچ لیے۔فون پر اس کی گرفت سخت ہوئ ۔

"اب اگر یہی بات تم نے اگلی دفعہ بھی دہرائ تو یاد رکھنا تمہارا قتل میرے ہی ہاتھوں ہوگا۔ایک لڑکا نہیں ڈھونڈ پارہے تم سب لوگ مل کر۔۔!!!!

آخر پیسے کس چیز کے لیتے ہو تم سب۔مجھے اب شدت سے احساس ہورہا ہے کہ میں نے نکموں کی فوج پال رکھی ہے جو باتیں تو مجھ پر جان دینے کی کرتے ہیں اور میرا سونپا گیا کام بھی ابھی تک نہیں کرسکے۔۔۔۔!!!!

اپنی شکل مت دکھانا مجھے اس وقت تک جب تک فدیان کو نہ ڈھونڈ لو تم لوگ۔ورنہ اپنی موت کے ذمہ دار تم لوگ خود ہو گے۔۔۔۔!!!!!"

اس نے غصے سے کہا تو فون کے دوسری جانب موجود شخص اس کی دھاڑ پر سہم گیا۔اس شخص کو زیادہ غصہ نہیں آتا تھا پر جب بھی آتا تھا یہ لوگ اس کے سامنے بول بھی نہیں پاتے تھے۔

دیار نے کھٹاک سے فون بند کرکے سلیب پر پٹخ دیا ۔پھر باؤل میں موجود انڈے میں نمک اور کالی مرچ غصے سے ڈال کر ہینڈ مکسر اٹھا کر اسے پھینٹنے لگا۔اس کے عمل میں صرف غصہ تھا۔انڈے کا مکسچر اچھل اچھل کر آس پاس گررہا تھا ۔ایپرن پہننے کی وجہ سے اس کے کپڑے بچے ہوۓ تھے ورنہ وہ بھی گندے ہوچکے ہوتے ۔

اس وقت اسے بس کسی چیز پر غصہ نکالنا تھا اور اس کے غصے کا نشانہ باؤل میں موجود انڈے کا مکسچر بنا تھا

جو اس قدر ظلم پر چیختا جارہا تھا۔اس کی چیخوں کی آواز کچن کے چاروں اطراف ہلکی سی گونج رہی تھی۔

مطلب ہینڈ مکسچر جب  باؤل کے کونوں سے ٹکڑاتا تب کان چیڑنے والی آواز پیدا ہوتی اور شاید یہ آواز ان برتنوں اور انڈے کے رونے کی تھی۔

باؤل وہیں پٹخ پر اس نے فلیم آن کیا اور اس پر پین رکھا۔پھر پین میں آئل انڈیلنے لگا۔

"میری معصوم سی بہن ناجانے کس حال میں ہوگی۔اور یہاں سواۓ میرے کسی دوسرے کو فکر ہی نہیں۔سارے خود غرض ہیں۔مرنے دیتے نہ مجھے کیا چلا جاتا میرے مرنے سے ۔ !!!!

میں کونسا گنہگار تھا جو ان گیدڑ بھپکیوں سے ڈرتا۔۔۔۔!!!!!

تو پھر ہم لوگ ہی کیوں جھکے ۔۔!!!"

باؤل اٹھا کر گرم کھولتے تیل میں انڈے کا مکسچر ڈالتے وہ دونوں ہاتھ سلیب پر ٹکا کر وہیں کھڑا ہوگیا اور اب پین کو گھورنے لگا۔

تیل کے چھینٹے اچھل اچھل کر پین سے باہر گرے اور چند ایک اس کے ہاتھ پر بھی گرگۓ۔پر اسے کہاں فکر تھی۔

یہ جو گھسی پٹی اور گلی سڑی خبر اس نے آج سنی تھی وہ اسے پاگل کرگئ۔ کہ فدیان اس کے آدمیوں کو مل ہی نہیں سکتا۔اغواہ کار شاطر تھے،اغواہ کار بہت چالاک تھے،اغواہ کاروں نے سارا کام صفائ سے کیا،اغواہ کار اس کارنامے پر ایوارڈ کے مستحق تھے،انہیں بلا کر تمغہ امتیاز سے نوازا جاۓ, بڑے بڑے نیوز چینلز پر یہ خبر چلے کہ ان لوگوں نے اتنی صفائ سے ایک جیتا جاگتا انسان غائب کروایا کہ پوری پولیس فورس اور دیار درانی خود فدیان کی 'ف' تک بھی نہ پہنچ سکے۔

"مجھے تو اب یہی لگتا ہے کہ میں نے ان نکموں کو دشمنوں کے قصیدے سنانے کے لیے یہاں رکھا ہے۔مجھ سے زیادہ تو یہ منحوس لوگ، دو ٹکے کے اغواہ کاروں کے فین لگتے ہیں۔ان کا بس چلے تو سب چھوڑ کر ان اغواہ کاروں کو مرشد مان لیں۔جیسے یہ میرے لیے نہیں ان اغواہ کاروں کے لیے کام کرتے ہیں۔"

پین میں موجود انڈے کو گھورتے ہوۓ وہ دانت پیس کر بولا جبکہ انڈا بھی اب اس قدر ظلم پر موت کے منہ میں جاچکا تھا تبھی اس کی چیخیں بھی اب ختم ہوچکی تھیں۔

پین کا ہینڈل پکڑ کر اس نے انڈا پلیٹ میں نکالا۔اور ٹوسٹر میں بریڈ کے سلائس ٹوسٹ کرنے کے لیے ڈال دیے۔

ذہن میں بس ان اغواہ کاروں کی تعریف میں اس کے نکمے آدمی جو قصیدے روز سناتے تھے وہی گھوم رہے تھے۔آخر اتنی ڈھٹائی سے وہ لوگ روز کہتے تھے کہ اغواہ کار چالاک ،مکار، اور ان لوگوں سے چار کیا بیس پچیس ہاتھ آگے ہیں۔

اپنے ہی باس کو یہ کہنے کے لیے ہمت چاہیے اور ان میں یہ ہمت تھی۔

اچانک اس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا تو اس کے چلتے ہاتھ وہیں رک گۓ۔سرمئ آنکھوں حیرت سے بڑی ہوئیں ۔لب وا ہوۓ پر اس نے کچھ کہا نہیں۔

"میں نے پہلے یہ کیوں نہیں سوچا۔۔۔!!!!"

اپنی پیشانی مسلتے ہوۓ اس نے آنکھیں میچیں۔

""کتنا بے وقوف ہوں میں۔اگر یہ سب میں پہلے ہی سوچ چکا ہوتا تو یہ گتھی کب کی سلجھ چکی ہوتی ۔فدیان بھی مل گیا ہوتا اور زرلشتہ کی زندگی میں بھی سکون آگیا ہوتا۔پر دیر تو اب بھی نہیں ہوئ۔۔!!!"

اس نے اپنا ایپرن اتار کر سائیڈ پر رکھا اور کسی گہری سوچ میں گم ہوا۔کچھ تو تھا جو اس کے ذہن میں اب آیا تھا۔

ٹوسٹر سے بریڈ کے سلائس نکال کر دوسرے فلیم پر رکھے پین میں تیار شدہ کڑوی چاۓ کپ میں انڈیل کر اس نے ٹرے میں رکھی۔

ذہن اب بھی کسی سوچ میں گم تھا۔جیسے وہ اپنا لائحہ عمل تیار کررہا ہو۔

اپنا سادہ سا ناشتہ اٹھا کر وہ لاؤنج میں آیا۔جب سے وہ یہاں آیا تھا یہی سب کھارہا تھا۔ اس سے زیادہ نہ اسے کچھ بنانا آتا تھا نہ ہی وہ سیکھ سکا۔

ویسے بھی وہ حد سے زیادہ سادہ انسان تھا اسی لیے اس میں بھی وہ بہت خوش تھا۔

"بہت چالاک سمجھتے ہو تم لوگ خود کو۔۔!!!! پر تم بھول گۓ کہ اگر ایک سرا بھی میرے ہاتھ لگ گیا تو تم لوگوں کو پاتال سے نکال کر اپنے سامنے لاؤں گا ۔۔ !!!

اب جو میں کروں گا تم لوگ بھی اچھے سے یاد رکھو گے کہ دیار سے غداری کی سزا کیا ہوتی ہے"

وہ مسکرایا ۔ایک حسین سی مسکراہٹ ۔۔۔!!!!!

اپنی کڑوی چاۓ کا گھونٹ بھرتے اس کے ذہن میں زرلشتہ کا خیال آیا۔

یہ کڑوی چاۓ اس کے مزاج کے حساب سے الٹ تھی۔ساری مٹھاس تو اس کے اندر جمع تھی تو اسے اب مزید مٹھاس کی ضرورت تھی ہی نہیں۔

"زرلش۔۔۔!!!! تم جلد میرے پاس واپس آجاؤ گی بس ایک بار واپس آجاؤ تو مجھے سکون مل جاۓ۔اتنا وقت گزر گیا تمہارے خیالی کیوٹ پٹھان کا ذکر نہیں سنا میں نے۔سب پھیکا پھیکا لگتا ہے۔"

پل میں وہ اداس ہوا ۔پر وہ نہیں جانتا تھا جس بہن کی خاطر وہ یہ سب کررہا ہے۔وہ جس جن کی قید میں ہے وہ اب اس کا عاشق ہونے لگا ہے۔وہ شخص تو اپنی کوئ چیز کسی کو نہ دے کجا اپنی بیوی سے دستبردار ہوجانا۔

ناممکن۔۔۔۔!!!!!

اس کی مصیبت (زرلشتہ)کو واپس لینا مشکل تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دو گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد وہ سیدھا شہر میں موجود اپنے عالیشان آفس میں پہنچا ۔ابھی صرف سات بجے تھے۔ان کا علاقہ شہر سے بہت دور تھا۔

گاڑی سے نکلتے ہی اس نے باہر بیٹھے گارڈز کو دیکھا۔جو سوۓ ہوۓ تھے۔انہیں تو گاڑی کی آواز بھی جگا نہ سکی تھی۔کافی پکی نیند تھی ان گارڈز کی۔انہیں جگاۓ بغیر وہ آفس کی حدود میں داخل ہوگیا۔سیپرٹ کیز اس کے پاس موجود تھیں۔

اس کے پیچھے بھی اس کی اپنی ہی لاجک تھی یا پھر وہ چاہتا تھا کہ انہیں جو سزا دے یہ لوگ اس سزا کو پانے کے حقدار بھی بن جائیں۔کوئ نا انصافی نہ ہو ان کے ساتھ۔

پر انٹرنس دور تو کھلا تھا ۔وہ حیران ہوا کہ کیا ان لوگوں نے دروازہ بھی بند نہیں کیا۔

ایک کوفت بھری نگاہ آفس میں خالی نشستوں پر ڈال کر لفٹ سے وہ لاسٹ آف فلور پر جانے لگا۔جہاں اس کا کیبن تھا۔

"یہ لوگ تو ضرور مریں گے میرے ہاتھوں سے ۔۔!!!! ان لوگوں کا غصہ کل اس بیچاری پر نکال دیا میں نے۔اس کے پاس تو دماغ ہے ہی نہیں ۔معصوم سی ہے وہ پر یہ لوگ تو اچھے خاصے میچور ہیں ۔پھر کیوں مجھے برباد کرنے پر تلے ہوۓ ہیں ۔۔!!!"

سر جھٹکتے وہ لفٹ رکتے ہی باہر نکلا۔پھر سیدھا اپنے کیبن کی طرف قدم بڑھاۓ ۔اس کی پرسنیلٹی بارعب تھی تبھی تو اس کے سٹاف میمبرز بھی اس سے ڈر کر رہتے تھے۔

یہاں کے لوگوں کے لیے وہ سفاک انسان تھا۔پتھر دل۔۔۔!!!!

رحم نام کی شے نہیں تھی اس کے اندر باہر کے لوگوں کے لیے۔

اس نے اپنے کیبن کے دروازے ہر جونہی ہاتھ رکھا تو وہ خود ہی کھلتا چلا گیا۔وہ ٹھٹھکا کہ کیا اس کے سٹاف کو اس کے کیبن کا ڈور لاک کرنا بھی یاد نہیں رہا۔دروازے پر گارڈز سورہے تھے۔اینٹرنس ڈود انلاک تھا۔اور اب اس کے کیبن کا دروازہ بھی کسی نے بند نہیں کیا تھا۔

نیلی آنکھوں نے دل میں دعا کی کہ اللہ اسے صبر دے۔لوگ تو اس کا صبر آزمانے پر تلے ہوۓ تھے۔

اس نے دروازہ کھول کر سامنے دیکھا تو سامنے جو اسے دیکھنے کو ملا وہ سب سے بڑا دھچکا تھا اس کے لیے۔

"تم یہاں کیا کررہے ہو۔۔۔؟؟؟؟"

اس نے دبی دبی غراہٹ سے پوچھا۔اور دروازہ پر رکھے ہاتھ کو سختی سے بھینچ لیا۔

اس سوال پر سامنے کھڑے شخص نے ابرو اچکائیں جیسے پوچھ رہا ہو کیا یہ سوال پوچھنا بنتا بھی ہے۔

وہ اس کا تپا ہوا چہرہ دیکھ کر مسکرایا ۔پھر اس مسکراہٹ کو قابو کرکے اس نے درمان کا مزید امتحان لینے سے توبہ کی۔کیا پتہ یہ شخص اسے یہیں مار ریتا۔

"مجھے نہیں لگتا مجھے یہاں آنے کے لیے تمہاری اجازت کی ضرورت ہے۔۔۔!!! مسٹر درمان آفریدی۔۔!!!! میں ففٹی پرسنٹ شیئرز کا مالک ہوں۔۔۔!!! اگر تم بھول نا گۓ ہو تو تمہیں یاد دلانا ضروری تھا۔۔!!"

اپنے کف لنکس ٹھیک کرتے ہوۓ اس نے بھی اس کے فہم میں اضافہ کیا تو اس بات پر درمان آفریدی نے بامشکل خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا۔دروازہ پٹخ کر بند کرتے وہ کیبن میں داخل ہوا۔لمحے میں وہ جان گیا دروازہ اس نے ہی کھولا تھا۔

سپیئر کیز اس کے پاس بھی تھیں 

اس کے حلق میں کانٹے چبھے ۔اس نے آنکھیں ضبط سے میچیں۔اور اس کے پاس سے گزرتے وہ اپنی سربراہی نشست سنبھال گیا۔مقابل کھڑا شخص بھی اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔

"کیوں آۓ یوں یہاں۔۔۔!!!" درمان نے بیزاریت سے پوچھا۔

"بتا تو چکا ہوں میں اس آفس میں پارٹنر ہوں۔جب چاہے یہاں آسکتا ہوں مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔۔۔!!!"

اس نے بھی سکون سے جواب دیا۔

"اوو۔۔!!!! تو یہ شیئرز تمہیں یاد تھے پر یہ یاد نہیں تھا کہ میرے واحد دوست تم ہی تھے۔درمان آفریدی نے بس ایک شخص سے دوستی کی تھی جس نے اس کی پیٹھ پر ہی چھرا گھونپ دیا۔۔۔۔!!!!

تم نے تو دوستی کا بھی مزاق بنا کر رکھ دیا ہے۔"

طنزیہ مسکراہٹ اسے پاس کرتے درمان نے شکوہ کیا تھا۔اور یہی بات مقابل بیٹھے شخص کے حلق کا کانٹا تھی۔جو نا وہ نگل سکتا تھا نا ہی اگل سکتا تھا ۔

"میں بے قصور ہوں درمان۔۔۔!!!! اور یہ بات ثابت ہوہی جاۓ گی۔دوستی کا مزاق میں نے نہیں تم نے بنایا ہے ۔کیا دوست کی اہمیت تمہاری نظر میں اتنی ہی تھی کہ سنی سنائ باتوں میں آکر تم نے مجھے چھوڑ دیا۔۔ !!!!

تم نے سوچ بھی کیسے لیا تھا کہ میں اس گلریز خان کے مقروع عزائم میں اس کا ساتھ دے سکتا ہوں۔ میری ذات کا مزاق بنایا ہے تم نے۔اس کے لیے تو دیار مر کر بھی تمہیں معاف نہیں کرے گا۔۔!!!"

اس نے بس سوچا ۔بولنا وہ نہیں چاہتا تھا یہ شخص دیار درانی تھا۔درمان آفریدی کا اکلوتا دوست۔درمان کی طرف دیکھتے اسے وہ سیاہ دن یاد آیا جو اس کا سکون اس سے چھین کر لے گیا تھا۔

سب اسی سیاہ دن سے ہی شروع ہوا تھا۔ اس سے پہلے تو درمان اور دیار ایک دوسرے پر جان دینے والے دوست تھے ۔اور اب ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنا انہیں گوارہ نہ تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

(ماضی)

"سب خیریت تو ہے نا یہاں۔؟ میں کافی مصروف تھا پچھلے کئ دنوں سے تبھی علاقے کا چکر نہ لگا سکا۔تم بتاؤ کوئ مسئلے والی بات تو نہیں ہے نا کوئ ۔۔!!"

دیار نے اپنی شال کندھے پر درست کرتے ہوۓ پوچھا۔یہ اسی دن کی بات تھی جب درمان ہر حملہ ہوا تھا۔ تب دیار شہر سے مہینے بعد واپس آیا تھا۔اس کے سامنے اس کا وفادار آدمی نوریز خان کھڑا تھا۔

دیار کو جلد اپنے علاقے کی سرداری ملنے والی تھی اور وہ اس بات کو لے کر خوش بھی تھا اور سنجیدہ بھی۔

صرف وہ کیا اس کے علاقے کے لوگ بھی بہت خوش تھے ۔آخر دیار جیسا انسان ان کے لیے جان بھی دے سکتا تھا۔ وہ ان کی بہتری کے لیے جو بھی کرسکتا ضرور کرتا

۔

اس کا ماننا تھا زندگی ہمیں دی ہی اللہ کی مخلوق کی بھلائ کرنے کے لیے گئ ہے۔ اپنی زندگی یوں گزار کر انسان کو مرنا چاہیے کہ اس کے جانے کے بعد بھی لوگ اس کے کردار کو یاد رکھیں۔اس کے کاموں کو یاد رکھیں۔

"لالہ۔۔۔!!!! ہمارے علاقے میں باقی سب تو ٹھیک ہے پر گلریز خان کے بارے میں عجیب سی باتیں سننے کو مل رہی ہیں ۔یہی کہ وہ۔۔!!!!"

نوریز خان میں بتانے کی ہمت نہ تھی۔تبھی وہ بولتے بولتے چپ کرگیا۔دیار نے اسے چپ ہوتے دیکھا تو نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔

"بات پوری کرو نوریز خان ۔۔۔!!! آدھی ادھوری باتیں ۔مجھے پسند نہیں ۔کیا کیا ہے اب اس گلریز خان نے ۔۔!!"

اپنے ہاتھ پشت کی طرف باندھتے اس کا لہجہ سخت ہوا۔اس کے تیور دیکھتے ہی نوریز خان نے گہرا سانس خارج کیا وہ کیا کوئ بھی غیرت مند انسان یہ بات کرنے سے پہلے ہی مرنا پسند کرتا۔

پر بہتری اسی میں تھی کہ وہ سب کچھ دیار کو بتادیتا ۔کہیں دیر نہ ہوجاتی۔

"لالہ۔۔۔۔!!!!! وہ گلریز خان اخلاق سے گرا ہوا تو پہلے سے تھا۔ پر اب ساری شرم حیأ بھی بھول گیا ہے۔وہ تو مرد کے رتبے سے ہی گرچکا ہے۔جو حیا مرد کی آنکھوں میں ہونی لازم ہے اس کی آنکھوں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔

اس جیسے گھٹیا ،نیچ اور فرعون صفت شیطان کے ہوتے ہوۓ ہمارے علاقے کی بہن ،بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں۔ وہ جانور اب درندہ بنتا جارہا ہے اگر اسے روکا نہ گیا تو ہونے والا نقصان ناقابلِ تلافی ہوگا ۔..!!!"

چہرہ موڑ کر مناسب لفظ تلاش کرکے اس نے دیار کو ساری صورتحال سمجھا دی۔

دیار کے لیے یہ الفاظ زہر ہی تھے۔جو اس کی غیرت کو للکار گۓ۔وہ ایک طوفان کی سمت بڑھنے جارہا تھا۔

"خبر پکی ہے نا۔۔!!! یاد رکھو اگر انسان ،حیوان بننے لگیں تو ان کے گلے میں پٹا ڈالنا پڑتا ہے ۔ورنہ وہ معصوم لوگوں پر اپنا وحشی پن دکھانے سے باز نہیں آتے "

کرخت لہجے میں کہتے اس نے تصدیق چاہی۔چہرے سے سختی واضح تھی۔

"خبر سو نہیں ہزار فیصد سچی ہے لالہ ۔۔!!!! وہ نیچ انسان حیوان بن چکا ہے۔اسے لگام ڈال لیں ۔ورنہ برا ہوگا ۔۔!!! بہت برا۔۔!!!"

نوریز کے تصدیق کرتے ہی اس نے دوسری طرف سے اپنی بندوق اٹھائ۔

جس علاقے کی سلامتی کا ذمہ اسے ملنے والا تھا۔اس علاقے کی عزت کا خیال رکھنا اس پر فرض تھا۔

اور اپنے فرض سے وہ نظریں چرانے والا نہ تھا۔

ابھی اس نے ںندوق اٹھائ ہی تھی کہ ایک ادھیڑ عمر انسان روتا ہوا اس کے ڈیرے پر آیا۔

اور اسے دیکھتے ہی اس کے قدموں میں گرنے لگا۔

"چھوٹے سردار ۔۔!!! میری عزت کی حفاظت کریں۔۔۔۔!!!!! میں مجبور ہوکر یہاں آیا ہوں۔مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ ان طاقتور لوگوں سے لڑ سکوں ۔آپ کو اللہ کا واسطہ ہے میری مدد کریں ۔!!"

اس نے اس کے پیر پکڑنے چاہے ۔دیار نے بوکھلا کر اس کے ہاتھ تھامے اور اسے ایسا کرنے سے روکا

اپنی بندوق واپس رکھتے اس نے اس شخص کو وہاں رکھی کرسی پر بٹھایا۔

اس شخص کے جھری زدہ ہاتھ دیار کے سامنے جڑے ہوۓ تھے۔

"چچا۔۔!!! بات کیا ہے وہ تو بتائیں۔آپ رو کیوں رہے ہیں۔۔!!"

اس نے انہیں تسلی دینا چاہی جنہوں نے پھر اسے جو بتایا وہ اس کا صبر ختم کرگیا۔

کہ اس کی غیر موجودگی میں یہاں کیا کیا ہوتا رہا اور وہ بے خبر رہا۔

اس نے بتایا کہ کل صبح گلریز نے اس کی بیٹی کو اغواہ کرنے کی کوشش کی تھی۔وہ تب وہیں تھا اور عین وقت پر اپنی بیٹی کو بچا گیا ۔یہ بات گلریز کو ناگوار گزری تو اس نے اسے دھمکی دی ہے کہ وہ اس کی بیٹی کو مروادے گا۔

وہ ادھیڑ عمر شخص اس عمر میں کہاں اتنی مشکلات برداشت کرتا رہتا ۔تبھی تو دیار کے پاس آیا ۔اسے امید تھی کہ دیار اس کے گھروالوں کو تحفظ ضرور دے گا۔

ہوا بھی یہی کہ دیار نے نوریز کو اشارہ کیا کہ وہ اس شخص کو بخیر و عافیت اس کے گھر چھوڑ کر آۓ ۔اور گلریز کو اس کے انجام تک پہنچانے کا وقت بھی آن پہنچا تھا۔

"چچا۔۔!!! آپ بے فکر رہیں ۔آج کے بعد وہ گھٹیا انسان آپ کے گھر کا رخ بھی نہیں کرے گا۔۔۔۔۔

نوریز گاڑی نکلواؤ اور انہیں گھر چھوڑ کر آؤ۔جب تک یہ گلریز نامی بلا علاقے سے ٹل نہ جاۓ تم پورے علاقے میں اپنے آدمی پھیلادو۔جب تک وہ زندہ ہے تب تک کوئ بھول نہیں ہونی چاہیے ۔!!!"

اپنے آدمی کو حکم دیتے ہی وہ اپنی بندوق اٹھا کر وہاں سے نکل گیا۔پیچھے اس شخص نے تسلی کے بعد اپنے آنسو پونچھے۔تب کوئ نہیں جانتا تھا اس جگہ جانا دیار کے لیے کس قدر برا ثابت ہوگا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دیار کی گاڑی آگے تھی اور اس کے گارڈز کی گاڑی پیچھے تھی۔اس کا رخ گلریز کے ٹھکانے کی جانب تھا۔ابھی دوپہر ڈھل رہی تھی پہاڑوں کے وسط میں موجود اس خوبصورت سے علاقے میں خنکی بھی بڑھتی جارہی تھی۔

سب بدلنے میں بس چند منٹ ہی باقی رہ گۓ تھے۔

اس قت گلریز گھنے جنگل کی طرف بنے خم دار رستوں کے آغاز پر ہی موجود تھا۔

وہ ایک نمبر کا گرا ہوا،کمینہ اور حرام خور شخص تھا۔گندی نالی کا سڑا ہوا بدبو دار کیڑا ۔ !!!

جو پورے علاقے کو اپنے گند کی لپیٹ میں لینا چاہتا تھا۔وہ دولت مند تھا اور اسی دولت کو اپنے بچاؤ کے لیے استعمال کرنا بھی اچھے سے جانتا تھا۔

پیسہ وہ پاور ہے جو کسی حیوان یا ابلیس کے ہاتھ میں بھی ہو تو اسے پروٹیکشن مہیا کردیتی ہے۔سارے ثبوت اس کے خلاف ہوتے ہیں اور وہ محض پیسے کے زور پر بڑے بڑوں کا منہ بند کروادیتا ہے۔ یہ ذلیل لوگوں کو عزت دار بھی بنادیتا ہے۔اور کم ظرفوں کو شہرت بھی دے دیتا ہے۔

اس کی لوکیشن دیار نے اپنے آدمی سے پتہ لگوالی تھی۔

اگلے پندرہ منٹ میں وہ ٹھیک اس جگہ موجود تھا اس شخص پر اس کی پہلے سے ہی نظر تھی اور اس کے سارے کالے کرتوتوں کے ثبوت بھی اس نے اکٹھے کرواۓ ہوئے تھے۔

اسے انتظار تھا تو بس سرداری نشست ملنے کا تاکہ اسے وہ عبرت کا نشان بنادیتا اور کوئ بیچ میں بول بھی نہ پاتا۔

"گلریز خان۔۔۔!!!! تم باز نہیں آۓ نا اپنی گری ہوئ حرکتوں سے ۔بس بہت ہوا۔۔۔!!!!

تم اس قابل ہی نہیں کہ اس دنیا میں رہ سکو۔تمہیں تو آج میں ہی ماروں گا ۔۔!!"

وہ اس سے چند میٹر کے فاصلے پر کھڑا ہوا۔اس کی دھاڑ سن کر گلریز خان چونک اٹھا۔

وہ جو کسی اور شکار کے انتظار میں یہاں بیٹھا تھا۔دیار کو اچانک یہاں آتا دیکھ کر بوکھلا گیا۔

پیسہ انسان کو ہر چیز دے سکتا ہے پر بہادری نہیں دے سکتا۔خود سے بہادر بندہ دیکھ کر ہر کوئ ڈرتا ضرور ہے۔اور وہ بھی ڈرا تھا۔

"ت۔تم یہاں۔دیکھو اپنے کام سے کام رکھو۔میرے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔!!!! "

اس نے بوکھلاہٹ پر قابو کرتے پوچھا۔دیار کے پتھریلے تاثرات اسے ڈرنے پر مجبور کررہے تھے ۔

جسے وہ دوسروں کا معاملہ کہہ رہا تھا وہ انسانیت کی بات تھی اس کے گارڈز چوکنا کھڑے تھے۔

"میں ٹانگ اڑانے نہیں آیا بلکہ تمہیں اُڑانے آیا ہوں "

اس نے اپنی گن لوڈ کی تو گلریز کا سانس سوکھا۔اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ دیار اس کے پلین کو فلاپ کرنے یہاں پہنچ جاۓ گا۔

وہ تو موسم سے لطف اٹھانے آیا تھا اور دیار اسے اٹھانے کی باتیں کررہا تھا۔

"پ۔پاگل مت بنو۔۔۔!!!!"

اس نے تھوک نگلتے پیچھے کی جانب قدم لیے 

اس کے ساتھ بس آج دو ہی گارڈز تھے۔جو اپنی گن دیار کی جانب موڑے کھڑے تھے۔

ابھی اس نے گن اس کی طرف کی ہی تھی کہ انہیں جنگل کے دوسرے راستے سے گولیوں کی بوچھار سنائ دی۔

اب کی بار دیار بھی حیران ہوا۔ کہ یہاں تیسرا فریق کون آگیا ہے۔

جنگل کے ان رستوں کو چیرتی دو گاڑیاں وہاں مزید آگئیں۔سامنے کی جیپ سے درمان نکلا تھا۔

جس نے آتے ہی بے یقینی سے گلریز اور دیار کو ایک ساتھ دیکھا تھا۔دیار کی گن کا رخ نیچے تھا تبھی وہ جان نہ سکا کہ دیار کس ارادے سے یہاں کھڑا ہے۔

"بے غیرت انسان ...!!!!! تو نے میرے علاقے کی طرف اپنی گندی نظریں ڈالنے کی کوشش بھی کیسے کی۔۔۔!!!!!!

کیا سمجھنے لگا ہے تو خود کو۔کیا سب لوگ تیرے زرخرید غلام ہیں یہاں ۔ کہ تو جب چاہے جو چاہے کرتا پھرے۔۔۔۔۔!!!!!"

درمان غرایا۔دیکھ وہ گلریز کو ہی رہا تھا۔

دیار کو تو سمجھ ہی نہ آئ کہ اب درمان یہاں کیا کرنے آگیا۔

گلریز تو ان دنوں کو اپنے دائیں بائیں دیکھ کر خوف سے ہی مرنے والا تھا۔یہاں وہ ایک سے ڈر رہا تھا اب دوسرا بھی آن ٹپکا تھا۔

دیار نے گلریز کے گارڈز کو دیکھا جن کی آنکھوں میں کچھ الگ تھا۔جیسے وہ خون خرابہ چاہتے ہیں اور درمان کے یہاں آنے سے بھی وہ واقف تھے۔

"تو کیا یہاں پہلے سے ہی ایک ٹریپ تیار تھا۔درمان کے لیے۔۔۔!!!!"

اسے معاملہ سمجھ میں آگیا۔

اس نے ان دونوں گارڈز کی گن کو درمان کا نشانہ لیتے دیکھا تھا درمان گلریز پر گولی چلا چکا تھا۔

دیار گلریز کے گارڈز کے مقروع عزائم نوٹ کرتا ان پر گولی چلا گیا۔پر جو ہورہا تھا کوئ سمجھ ہی نہ سکا۔

ایک گولی لوہے کی گرم سلاخ کی مانند دیار کے بائیں کندھے پر پیوست ہوئ۔اس کی آنکھیں دھندلا گئیں۔

چند سیکنڈز کے لیے وہ دنیا بھول بیٹھا۔کہ وہ ہے کون اور یہاں کیا کررہا ہے۔۔!!!

بارود کے زہر نے اس کے اعصاب جھنجھوڑ دیے تھے۔اپنی آنکھیں کھول کر اس نے سامنے دیکھا تو اس کی گن کا رخ درمان کی طرف تھا جس کے دل کے قریب دو گولیاں لگی تھیں۔

درمان نے بھی گولی لگنے کے بعد اس سمت دیکھا تھا کی یہ کیا کس نے؟ پر سامنے دیار کو دل یکھ کر وہ تو زندہ ہی مرگیا۔

درمان کے دو گارڈز موقع پر جاں بحق ہوگۓ۔اور گلریز بھی مرچکا تھا۔افراتفری کا عالم تھا۔

"دیار درانی نے درمان آفریدی کو مار دیا۔۔۔!!!"

کہیں دور سے اس کے کانوں میں کسی کی آواز گونجی ۔ تو اس کا سکتا ٹوٹا۔

گلریز کو مارنے والا درمان تھا۔جبکہ درمان کے گارڈز کو مارنے والے گلریز کے گارڈز تھے۔ 

باقی دیار اور درمان کو کس کی گولی لگی انہیں نہیں پتہ تھا۔

ایک پل لگا سالوں پرانی دوستی کو ختم ہونے میں۔

(ماضی_پہلا حصہ)

___دیار اور درمان کے بیچ خلش کی وجہ_____

وہ اپنا درد بھلا کر اس کی سمت بھاگا تھا۔آخر دوست تھا وہ اس کا تو کیسے اسے مرنے دیتا۔اسے لگا تھا یہ گولی اسی کی گن سے چلی ہے۔چونکہ گن کا رخ اسی سمت جو تھا۔

وہ اسے اسی وقت ہاسپٹل لے کر گیا۔درمان کے گارڈز نے مزاخمت کی تھی پر اس کا جنونی انداز دیکھنے کے بعد وہ سہم گۓ اور خود ہی اسے راستہ دے دیا۔

درمان اور دیار کے گارڈز گلریز کی لاش اٹھا کر جرگے میں پیش کرنے کے لیے لے گۓ ۔وہ مجرم تھا تو اس کا جرم ثابت ہوتے ہی اس کا معاملہ وہیں ختم کردیا جاتا۔پر جو درمان کے ساتھ ہوا تھا وہ بات یونہی ختم نہ ہونے والی تھی نہ ہی ہوئ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان کو ہاسپٹل لانے کے بعد وہ آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑا اس کی زندگی کے لیے دعائیں مانگتا رہا۔

دونوں کی دوستی چند سال نہیں بلکہ بچپن کی تھی۔سکول،کالج ،یونیورسٹی کا ساتھ پھر بزنس بھی دونوں نے اکٹھے ہی شروع کیا تھا۔

درمان کا خون سے لے پت وجود دیار کو کانٹوں پر گھسیٹتا گیا۔پورے سٹاف کی دوڑیں لگوا کر رکھی اس نے۔حال اس کا بھی برا تھا۔گولی بائیں کندھے کے پاس لگی تھی اور اندر ہی پیوست ہوگئ تھی۔جیسے مارنے والے نے نشانہ باندھ کر اسے مارا تھا۔

اسی وجہ سے درمان کا آپریشن سکسیسفل ہوتے ہی وہ شکر کا کلمہ پڑھتا وہیں اپنے درد کے سامنے ہار گیا۔اور اسے دوسرے روم میں شفٹ کردیا گیا ۔اس کا حال درمان کے حال سے مختلف نہ تھا۔اسی سبب جب درمان کے گھر والے وہاں آۓ تو انہیں وہاں دیار کی موجودگی کا پتہ بھی نہ چلا۔

گارڈز گلریز والے معاملے میں الجھے تھے تبھی ان میں سے کسی نے بھی آکر نہ کیا کہ دیار کو بھی گولی لگی تھی۔بعد میں درمان کے ڈر سے کسی نے دیار کا نام بھی نہیں لیا تھا۔

البتہ یہ ضرور پورے علاقے میں پھیل گیا کہ دیار نے درمان کو مارنے کی کوشش کی ہے۔

جب درمان کو ہوش آیا تب دیار وہاں سے جاچکا تھا۔درمان کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں تھا اس کے پاس۔ وہ واپس آتے ہی جرگے میں پیش ہوا ۔اس نے قبول کیا کہ درمان کو گولی اسی کی گن سے لگی ہے۔وہ سزا بھگتنے کے لیے تیار ہے۔

پر یہاں جتنے الزام اس پر لگے تھے وہ بہت حیران کن تھے بات چلتے چلتے کیا سے کیا بن جاتی ہے۔یہ تو سب ہی جانتے ہیں۔دیار کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا پورے علاقے میں بات پھیلتے پھیلتے آخر میں بالکل ہی نئ خبر بن گئ۔

ہر کسی نے اپنا مرچ مصالحہ اس میں شامل کرنا ضروری سمجھا تھا۔ سارے علاقے میں یہ خبر پھیل گئ کہ دیار نے گلریز کی خاطر یہ سب کیا۔وہ اس کے گندے ارادوں میں شریک تھا۔

دیار کی سوچ ،اس کا کردار سب لوگوں کی نظر میں مشکوک ہوگۓ۔ایک شریف النفس انسان جب اپنے ہی علاقے کے لوگوں کی نظروں میں مشکوک بن جاۓ تو اس کی حالت موت سے بھی بری ہوتی ہے۔وہی دیار کے ساتھ ہوا تھا۔

 لوگوں نے گلریز کے سارے گناہ بھی اس پر ڈال دیے۔ وہ تو اسے نشانہ عبرت بنانا چاہتے تھے۔ سب ایک لمحے میں بھول گۓ کہ وہ وہی شخص ہے جو ان کے لیے مر بھی سکتا ہے۔ وہ کیسے ان کی عزت پر نظر رکھے گا۔وہ تو محافظ ہے ان کا۔۔!!!!!تب فیصلہ ہوا کہ درمان جب ٹھیک ہوگا تب جرگے کا حتمی فیصلہ ہوگا۔

دیار نے بھی لب سی لیے۔اس پر جو الزام لگے تھے اس قدر گھٹیا تھے کہ وہ صفائ دینا بھی اپنی توہین سمجھتا تھا۔ وہ کیسے کسی کی عزت پر بری نظر رکھ سکتا تھا۔ جس کی نظریں راستے سے گزرتے بھی غیرت سے جھکی رہتی تھیں۔

درمان۔ کی حالت بہت بڑی تھی گولیاں دل کے پاس لگی تھیں تبھی وہ ریکور نہیں ہو پارہا تھا۔تب فدیان ان سب سے تنگ آکر دیار سے ملنے گیا تھا۔دیار کو وہ بھی جانتا تھا۔اور اسے پتہ تھا وہ درمان کے ساتھ یہ سب کرہی نہیں سکتا۔ صرف وہ واحد تھا جسے سارے ثبوت اور گواہ دیار کے خلاف ہونے کے باوجود بھی پتہ تھا کہ وہ بے گناہ ہے۔

وہ اس دن اس سے لڑنے نہیں گیا تھا بلکہ پوچھنے گیا تھا کہ 

"آخر لوگ اس کے خلاف کیوں ہوگۓ ہیں۔وہ اور درمان آخر اس جگہ گۓ کیوں تھے۔  اسے کس نے گولی ماری تھی۔اور وہ اپنی بے گناہی ثابت کیوں نہیں کررہا۔۔۔!!!!!"

حیران تو دیار بھی ہوا کہ وہ اس سے لڑنے کی بجاۓ بات چیت کیوں کرنے آیا ہے۔ پھر اس نے بھی کہا کہ اسے درمان کے ٹھیک ہونے کا انتظار ہے اس کے ٹھیک ہوتے ہی وہ خود اس کے کردار کی گواہی دے گا۔آخر وہ اسے بچپن سے جانتا ہے۔اس کی رگ رگ سے واقف ہے وہ۔

فدیان بھی بس اس کی حیریت پوچھ کر چلا گیا ۔کہ جو ہونا ہوگا ہوجاۓ گا۔پر وہ گیا کہاں انہیں آج تک پتہ نہ چلا۔۔۔!!!!

دیار پر پہلے کم الزام لگے تھے لوگوں کے نزدیک جو انہوں نے یہ الزام بھی اس پر ہی لگا دیا۔ ایک خود ساختہ کہانی ہر طرف پھیل گئ کہ فدیان اس سے لڑنے آیا تھا۔وہ اپنے بھائ پر ہوۓ ظلم کا جواب چاہتا تھا۔ اور غصے میں دیار نے اسے مروا کر کہیں دور پھینکوا دیا۔ جیسے دیار کو لوگوں کو مروانے کے سوا کوئ اور کام تھا ہی نہیں۔

جرگے میں گلریز تو مجرم ثابت ہوگیا اور اس کا قصہ تمام ہوگیا پر دیار کو زبردستی اس کے گناہوں میں شریک بنادیا گیا۔

درمان کو جب فدیان کی گمشدگی کی خبر پتہ چلی تو وہ مزید آگ بگولا ہوگیا اور سب چھوڑ کر جرگے میں پیش ہوا۔اسے دیار سے شدید نفرت ہوچکی تھی۔ایسی نفرت جس کے چلتے اس نے جرگے میں کہا کہ دیار گلریز کے جرموں میں شریک ہوبھی سکتا ہے۔یہ تو دیار ہی بہتر جانتا ہوگا کہ وہ اس کا کس حد تک ساتھ دے چکا ہے۔

بس پھر دیار کے دل میں موجود دوستی ان الزاموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ خود ہی حاکستر ہوگئ۔جس کا بچپن کا دوست ہی اسے بدکردار سمجھنے لگے وہ اوروں کو کیا صفائ دے گا۔

صرف ایک غلط فہمی دیار کو برباد کرگئ تھی۔ اس کا سرداری کا خواب ٹوٹ گیا، اس کی بہن اس جھوٹ کی سزا بھگتنے چلی گئ ،وہ اپنے ہی علاقے کو خود چھوڑ گیا۔ آخر کس کس کو جواب دیتا۔ سب تو یہی سمجھتے تھے وہ گلریز کا ساتھی تھا۔ گلریز کو شہہ دینے والا۔جس نے درمان کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔پھر فدیان کو ہو بھی مروادیا۔ 

دیار نے بھی اپنی صفائ کسی کو نہ دی۔ جب دوست نے ہی اس کے کردار کو گھٹیا کہہ دیا تھا تو وہ اب کیوں صفائیاں دے کر مزید رسوا ہوتا۔ اسے امید تھی کہ اللہ ایک دن ضرور سب پر واضح کرے گا کہ وہ بے گناہ ہے۔ وہ اسی امید پر زندہ تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"میں پچھلی باتیں دہرانے نہیں آیا۔۔!!! نا ہی دہراؤں گا۔میں بس اتنا بتانے آیا ہوں کہ فدیان تک پہنچنے کا ایک رستہ مجھے مل گیا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ تم اس پلین میں میرا ساتھ دو۔تاکہ جس نے تمہارے بھائ کو اغواہ کیا تھا تمہیں وہ شخص مل سکے۔پھر میں مر کر بھی تمہارے رستے میں نہیں آؤں گا۔فکر نہیں کرو ۔"

ماضی کے خیالات کو جھٹک کر دیار اصل مدعے پر آیا۔جسے سن کر بھی درمان خاموش تھا۔وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر کرسی سے ٹیک لگاۓ یونہی بیٹھا رہا۔وہ تو زرلشتہ اور دیار کا موازنہ کررہا تھا۔اب کیا کرتا دل جو اس کے قابو میں نہیں رہا تھا۔ہر جگہ اسے اسی کے خیال آرہے تھے ۔

عجیب بات تھی کہ سالوں کی دوستی کے باوجود نہ درمان کو پتہ تھا کہ دیار کی کوئ چھوٹی بہن ہے۔پاگل سی مصیبت۔۔!!!

نہ دیار کو پتہ تھا کہ درمان کی کوئ چھوٹی بہن ہے اس کی طرح بہادر مگر غصے والی۔۔!!! 

اسے سکون ملا یہ جان کر کہ اس کا بھائ زندہ ہے۔دیار کے لہجے کی پختگی بتارہی تھی کہ فدیان زندہ ہے۔۔ !!!

"میں تیار ہوں۔مجھے جس سے مطلب ہے مجھے وہ مل جاۓ اس کے لیے مجھے تمہارا ساتھ بھی کیوں نہ دینا پڑا میں دوں گا۔۔!!"

درمان زرلشتہ کے خیالوں سے نکلا اور سپاٹ انداز میں اس کا ساتھ دینے کی خامی بھر لی جیسے وہ اس کا دوست کبھی تھا ہی نہیں ۔نا دیار کو اب سرد مہری کے علاؤہ اس سے کسی رویے کی امید رہ گئ تھی۔اس شخص کی بے اعتباری نے ہی اسے اس کی نظروں میں گرایا تھا۔

"مجھے یہی امید تھی تم سے ۔۔!!!!"

دیار نے اسے پورا پلان سمجھا دیا۔اندازا تکلف بھرا تھا۔درمان کو یہ پلان فلمی ٹائپ لگا۔جیسے بڑی محنت سے اس نے پلان بنایا ہے۔پر پلان تھا تو کمال کا۔۔۔!!!!

کامیابی یقینی تھی ۔۔ !!!!!

"اوکے ۔۔!!! آگے کیا کرنا ہے وہ تم سمجھ گۓ ہوگے۔میں بس یہی بتانے آیا تھا۔اب چلتا ہوں۔۔!!"

رسمی سی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر دیار وہاں سے جانے لگا جب اچانک اسے اپنے کندھے میں ٹھیس اٹھتی محسوس ہوئ۔جس کا درد وہ مسکراہٹ میں دباگیا۔اور جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔

درمان نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا تھا اس کا آج چپ کرکے جانا اسے برا لگا۔اسے اب لگا کہ وہ بے قصور ہے۔غصے میں آکر اس نے اسے گلریز کا ساتھی سمجھا یہ اس کی غلطی تھی۔ لیکن پورا علاقہ جو کچھ کہہ رہا تھا وہ ان باتوں کو کیسے جھٹلاتا۔

"یہ مصیبت(زرلشتہ) اس پر ہی گئ ہے .اس کی آنکھیں بھی شکوہ ایسے ہی کرتی ہیں اور اس طوفان کی آنکھیں بھی شکوہ ایسے ہی کرکے گئ ہیں۔ ان دونوں بہن بھائیوں کو لوگوں کے دلوں پر قبضہ کرنے کا ہنر آتا ہے ۔۔!!!"

خود ہی بڑبڑاتے ہوۓ وہ مسکرایا۔ مسکراہٹ کی وجہ یہ امید کا سرا تھا جو دیار اسے پکڑا کر گیا تھا۔ ویسے محترم درمان آفریدی کو زرلشتہ سے محبت بڑی تیزی سے ہورہی تھی۔اور ہوتی ہی جارہی تھی۔رولنگ چیئر پر جھولتے ہوۓ اس نے آنکھیں بند کیں ۔

"مصیبت ۔۔۔۔!!!!!! معصوم سی مصیبت ۔۔۔!!!! جو مجھ پر مسلط ہوئ تھی اور اب میرے دل میں بستی جارہی ہے۔ !!!"

وہ خوش ہوا اس کی حرکتیں اور باتیں یاد کرکے۔کل اس نے جتنی بار درمان کا اور اپنا نام اکٹھا لیا تھا وہ لمحہ یاد کرتے ہوۓ اسے سکون ملا۔

"زرلشتہ درمان آفریدی ۔۔۔!!!!"وہ مسکراتا ہی گیا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

(ماضی_دوسرا حصہ)

_درمان کے دل میں دیار کے لیے نفرت کی وجہ_

وہ سیاہ دن درمان کو بھی یاد تھا بھولا وہ بھی نہیں تھا۔یہ دن اس کے دل پر نقش تھا۔

"اس گلریز کی اتنی ہمت کہ اس نے میرے علاقے پر گندی نگاہ ڈالی۔میرے ہاتھوں پہلے بھی ذلیل ہونے کے باوجود یہ دوبارہ اسی نہج پر پہنچ گیا ہے۔۔۔!!!"

اس کا خون کھول اٹھا اپنے آدمیوں کی بات سن کر۔جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ گلریز انہیں اپنی گیدڑ بھپکیوں سے ڈرانا چاہتا ہے وہ دوبارہ ان کے علاقے میں گھسنے کی کوشش کررہا ہے۔

"چھوٹے سردار ۔!!! اس وقت وہ اپنی وادی کے گھنے جنگل کے خمدار راستے پر موجود ہے۔خبر ملی ہے کہ وہ ایک بار پھر یہاں آنا چاہتا ہے ۔۔!!"

اس کے آدمی نے اسے کچھ دیر پہلے موصول ہوئی خبر سنادی۔

"آج وہ نہیں بچے گا میرے ہاتھوں۔۔۔!!!"

اس نے غصے سے کہا۔پر اگلی بات اس کے ہوش اڑاگئ کہ وہ علاقہ دیار کا ہے تو وہ کیوں گلریز کو چھوٹ دے رہا ہے۔وہ کیوں اسے نہیں مار دیتا۔یا سردار بہراور درانی نے اسے سزا کیوں نہیں دی۔کیا وجہ ہے ان کی خاموشی کی ۔۔!!!!

یہ پہلا شک کا بیج بویا دو لوگوں نے اس کے دل میں۔وہ خود بھی یہ بات سوچنے پر مجبور ہوا پر ان لوگوں کو ڈپٹ ہر بات ختم کردی کی افواہیں پھیلانا نیچ اور گری ہوئ حرکت ہے اس لیے قیاس آرائیوں سے گریز کی جاۓ۔

_________یشاور کا معاملے سے تعلق________

آستین کے سانپ یعنی درمان کے دل میں شک ڈالنے والے اس کی جان کے دشمن یہ دو گارڈز جو اس کے دشمن کے جاسوس تھے۔

یہ وہ لوگ تھے جو یشاور کے لیے کام کرتے تھے۔اور اسی کے مقروع مقصد کو پورا کرنے کے لیے اس کے گارڈز میں شامل ہوۓ تھے۔یشاور نے پورا پلان بنایا تھا درمان کو مروانے کا۔ تاکہ اس کی جان اس شخص سے چھوٹ جاۓ۔

یشاور کا خاندان علاقے میں دوسری بڑی حیثیت رکھتا تھا۔پر سرداری نشست درمان کے خاندان کے حصے میں آئ تھی۔جلد وہ نشست درمان سنبھالنے والا تھا۔اسی بات کا یشاور کو غصہ تھا۔

وہ چاہتا تھا کہ گلریز کے ہاتھوں درمان مرجاۓ۔تاکہ نا اس کا نام بیچ میں آۓ اور یہ کانٹا بھی راستے سے ہٹ سکے۔پھر فدیان کو مرواکر وہ دراب آفریدی کا خاندان ہی ختم کر دیتا ۔اور یہ سرداری نشست اس کے خاندان کو دے دی جاتی۔

اس کا پلان پورا تیار تھا۔اس نے ہی یہ خبر درمان کو دینے کو کہی تھی اور گلریز کے وہ دو گارڈز بھی اسی کے ساتھی تھے۔جو گلریز کو درمان کے خلاف بھڑکا کر لاۓ تھے تاکہ وہ درمان کو مار دے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

وہ ان کے ساتھ سیدھا اسی وادی کے رستے پر پہنچا پر دیار کو وہاں دیکھ کر وہ ٹھٹھک گیا کہ اس کا یہاں کیا کام۔ٹھٹھک تو گلریز کے گارڈز بھی گۓ تھے کہ دیار وہاں کیوں آیا۔دیار کی وہاں آمد پلین کا حصہ نہیں تھی ۔ دیار کا آنا ان کا پلین خراب کرسکتا تھا پر وہ آیا کیوں۔.!!!

یہ ایک الگ رخ تھا کہانی کا۔۔۔!!!!!!!!!!

درمان کو لگا شاید وہ بھی اسی کی طرح گلریز کو مارنے آیا ہے۔تبھی اس نے اس بات کو نظر انداز کیا۔

پر اگلے لمحے جب ایک ساتھ دو گولیاں اس کے سینے میں اتری تھیں تب اس کی پہلی نظر جس شخص پر پڑی اسے بھی لگا اسی نے ہی اسے مارا ہے۔وہ شاکڈ تھا کہ دیار نے اس پر گولی کیوں چلائ ۔...!!!!!

گولی نشانہ لے کر ماری گئی تھی انجانے میں نہیں لگی تھی۔یہ بات رپورٹ سے ثابت ہوگئ تھی ۔اور بندوق کی گولیاں بھی وہیں تھیں جو دیار کی تھیں۔

اسے درد گولیوں کا نہیں ہوا تھا بلکہ دیار کی وجہ سے ہوا تھا۔جس نے بقول اس کے گلریز کی خاطر اسے مارا۔ ہاسپٹل کے بیڈ پر جب اسے ہوش آیا تھا تب اسے لگا تھا وہ ضرور آۓ گا اس سے ملنے پر وہ نہیں آیا۔پھر جب اسے اس کے گارڈز نے بتایا کہ فدیان کو اس نے مروادیا ہے تب یہ بات اس کے ہوش اڑاگئ۔

بھائ کی موت کا صدمہ بہت بڑا تھا۔ افواہیں تو ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔۔!!!!!

وہ چاہتا تھا بس ایک بار دیار کہہ دے وہ بے قصور ہے تو وہ ساری دنیا کو جھٹلا دے گا پر اسے غلط نہیں سمجھے گا۔

جرگے میں بھی اس نے دیار کو برا اس لیے کہا تھا کہ وہ غصے میں آکر اسے جھنجھوڑے گا کہ تم مجھے غلط کیسے سمجھ سکتے ہو۔کیا میں ایسا لگتا ہوں تمہیں ۔

پر دیار تو ناکردہ جرم بھی قبول کرگیا تھا۔اس کی چپ بہت سو کو جیتا مارگئ تھی۔جن میں ایک درمان بھی شامل تھا۔

اس نے دیار کی بہن سے نکاح سے انکار بھی اس لیے کیا کہ یہ اس کی دوستی کی توہین تھی کہ وہ اپنے دوست کی بہن کو جرگے میں لاتا 

پر یہاں بھی دیار کا بعد میں چپ ہونا اسے طیش دلاگیا۔

وہ صفائ تو دور کی بات یہ موضوع دہرا ہی نہیں رہا تھا۔

اب اسے غصہ تھا کہ دیار نے اپنی معصوم سی بہن اس کے حوالے کیوں کی تھی کہا وہ اس کے غصے سے واقف نہیں تھا۔ 

اسے شکایت تھی کہ دیار ایسا کیوں کررہا ہے ۔

پشاور کا نام بھی دب گیا کیونکہ اس کے وہ دونوں گارڈز بھی مرگۓ تھے ۔

ایک سوال پر کسی کی نظر نہ گئ کہ دیار کو کس نے مارا؟ اسے وہاں بلایا کس نے تھا؟ کون تھا جو چاہتا تھا کہ الزام دیار پر لگے۔۔!!!! 

کوئ اور کہانی تھی جو نا کسی نے کریدی نہ کسی کو پتہ چلا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"یہ کس موڑ پر لے آئ ہے ہمیں قسمت دیار۔۔۔!!! میں نہیں چاہتا یہ دشمنی ختم ہو نہ چاہتا ہوں دشمنی جاری رہے۔۔۔!!!!

تم زرلشتہ کو واپس مانگوں گے اسے میں واپس دینے نہیں والا اب۔۔۔!!!!"

سب ایک طرف کرکے اس نے فائلز نکالیں اور ان میں مصروف ہوگیا۔

دیار بھی واپس جاچکا تھا۔اپنے ہی آفس سے وہ غیروں کی طرح نکلا تھا اور اسے کوئ دکھ نہیں تھا۔

نا اس نے پہلے صفائ دی تھی کسی کو کہ وہ گلریز کے گھٹیا منصبوں میں شریک نہیں تھا نا وہ اب صفائ دینے والا تھا۔

وہ تو اب اس سرداری نشست میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ جن لوگوں نے اسے گھٹیا بنانے میں ایک منٹ نہیں لگایا تھا اب ان کی شکل دیکھنا بھی اسے گوارہ نہیں تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

 وشہ نے دو دن تک زرلشتہ کا خود سے بڑھ کر خیال رکھا تھا سارا دن وہ اس کے ساتھ ہی رہتی ۔اس کی بوریت دور کرنے کے لیے اس سے باتیں کرتی ۔

وہ سارے گھروالوں سے مختلف تھی۔ یا ان سب کا مکسچر تھی وہ۔۔!!!!

بہادری اور غصہ درمان جیسا ۔!!! تو عادتیں اور محبت جتانے کا طریقہ فدیان جیسا۔۔!!!

اگر وہ کبھی کوئ پلیننگ کرتی تو یقیناً شنایہ بیگم کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی۔ اور دل اس کا دراب آفریدی کی طرح نرم تھا۔

زرلشتہ کی تو وہ پہلے دن سے دیوانی تھی جس نے آتے ہی اس کی ماں کے عزائم خاک میں ملاۓ تھے۔وہ تو اس کی جان سے پیارے بھائ کی بیوی تھی۔تو وہ اسے عزیز کیوں نہ ہوتی ۔

"زرلش۔۔!!!! بھائ کا میسج آیا تھا ہمیں   وہ آج شاید گھر آجائیں اس لیے ہم اپنے ہی کمرے میں جارہے ہیں ۔آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہوئ تو بلا جھجھک ہمیں بلوالیجۓ گا "

وشہ بیڈ پر اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔ وہ نیچے اتری اور اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا۔ جس پر ابھی وہ دونوں باربی موری دیکھ رہی تھیں زرلشتہ کی فرمائش پر۔اسے ان چیزوں میں دلچسپی تو نہیں تھی پر زرلشتہ کی چوائس سر آنکھوں پر۔ 

"آپ یہ لیپ ٹاپ مجھے دے جائیں پلیز۔۔۔!!! میں بعد میں آپ کو واپس کردوں گی"

اسے اٹھتا دیکھ کر زرلشتہ نے ریکوئسٹ کی تو وشہ بھی اس کی خواہش کو ٹال نہ سکی ۔اس نے وہ لیپ ٹاپ اسے ہی تھمادیا۔

اور اس کا گال کھینچ کر وہاں سے چلی گئ۔

وشہ کے جاتے ہی زرلشتہ نے لیپ ٹاپ انلاک کیا۔پاسورڈ اسے وشہ نے پہلے ہی بتادیا تھا۔وہ مبہم سا مسکرائی ۔اسے بالکل یاد نہیں تھا کہ درمان نے اس کا کتنا خیال رکھا تھا۔پر جب اس کی آنکھ کھلی تھی خود کو بیڈ پر پاکر اسے پتہ لگ گیا تھا کہ مسٹر اکڑو اسے موت کے منہ میں دھکیل کر واپس بھی خود ہی لاۓ ہیں۔پر اس کی ڈانٹ وہ نہیں بھولی تھی۔ایہ بار وہ واپس آجاتا تو گن کر بدلے لیتی ۔(صرف روتی ہی رہتی)۔

کچھ دیر پہلے اس کے ذہن میں خیال آیا کہ وہ اب اکیلی ہوگی تو کیوں نہ اپنے بھائ کو ہی کال کرلے۔فون نہیں تھا اس کے پاس تو کیا ہوا اپنے بھائ کا نمبر اسے اچھے سے یاد تھا ۔

"لالہ۔۔۔!!! آج میں آپ سے بات ضرور کروں گی۔آپ کتنے بدل گۓ ہوں گے نا۔ بہن کے جانے کا دکھ آپ کو لگا بھی ہوگا یا نہیں۔

آج پتہ لگ ہی جاۓ گا۔کہ آپ کونسی کانوں سے سونا نکالنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ آپ کو میرا خیال بھی نہیں آیا۔ اگر سونا نکال رہے ہیں تو میرا حصہ بھی آپ کو الگ کرنا ہوگا۔ بڑی غریب ہوگی ہوں میں۔ فاسٹ فوڈ کو ترس گئ ہوں۔موبائل بھی گن پوائنٹ پر ظالم پٹھان لے گیا۔ میرا ہیئر اسٹائل بھی خراب ہوگیا ہے اسے صحیح کروانے تک کے پیسے نہیں میرے پاس ۔۔۔!!!!

کنجوس پٹھان کو اتنا یاد ہے کہ اس لڑکی کو مارنا کیسے ہے یہ نہیں یاد کہ تھوڑے سے پیسے ہی دے دے تاکہ میں بال ہی سیٹ کروالوں "

افسوس سے کہتے اس نے اپنے بالوں پر ہاتھ رکھا۔اس کا فرنچ کٹ ہیئر اسٹائل اب آنکھوں میں چبھتا تھا جن کا رخ وہ دائیں طرف کرچکی تھی۔

"سونا ملے گا تو اپنا ذاتی ریسٹورنٹ کھول لوں گی پھر پورا دن وہاں بیٹھ کر اکیلی پیزا ،برگر کھاتی رہا کروں گی ۔ایک عدد سیلون بھی کھول لوں گی ۔پیسے بچ گۓ تو پہاڑوں میں ٹینٹ لگواکر وہیں رہ لوں گی۔درمان سے جتنا دور رہا جاۓ اتنا ہی بہتر ہے۔پہاڑوں میں تو یہ مجھے ڈھونڈ بھی نہیں پاۓ گا۔تم کتنی ذہین ہو زرلشتہ۔!!!!"

سکائپ آن کرتے ہی اس نے کال کنکٹ کی۔ذہن دوبارہ اپنی پہلے والی پٹری پر چل دوڑا تھا۔کال دیار ریسیو ہی نہیں کررہا تھا اس نے بے چینی سے لیپ ٹاپ کی سکرین کو گھورا ۔اسے ڈر بھی تھا کہ کہیں درمان نہ آجاۓ وہ اس حرکت کی سزا بھی دے سکتا تھا ۔

"اللہ کا واسطہ ہے لالہ فون اٹھالو۔۔۔۔!!!!!! کس کا صدمہ لیے بیٹھو ہو آپ جو بہن کی کال بھی پک نہیں کررہے۔۔ !!!!! یہ موقع پھر نہیں ملنا۔ایک دفعہ کال ریسیو کرلو تو پھر میں آپ کو بتاؤں گی کہ اس ظالم پٹھان نے مجھے کتنا ٹارچر کیا ہے اس مہینے میں۔ وہ تو ناول کے ہیرو سے بھی خطرناک ہے۔۔۔!!!!!"

ایک دفعہ پھر ٹرائے کرتے وہ جھنجھلا گئ ۔آخر اس کا بھائ کال پک کیوں نہیں کررہا تھا اسے تو اب لیپ ٹاپ ہی زہر لگنے لگا ۔اگر یہ اس کا اپنا ذاتی لیپ ٹاپ ہوتا تو وہ اسے کھڑکی سے باہر پھینک چکی ہوتی ۔

"کس محبوبہ کی یاد ستاتی ہے انہیں ۔۔۔!!!! بہن یہاں ان کی یاد میں گھل رہی ہے اور انہوں نے تو شاید فون ہی سائیڈ پر کہیں رکھ دیا ہے کہ میری کبھی غلطی سے یہ کال نہ اٹھالیں۔۔۔!!!!

محبوبہ کا چکر ہوا تو پھر یہاں خون خرابہ ہوگا۔ایک ہی تو بھائ ہے میرا تو کیا اسے بھی کسی لڑکی کے ہاتھوں بیوقوف بننے دوں۔میں تو اپنی پسند کی بھابھی لاؤں گی۔لڑکی تو ان کے لیے میں نے پسند بھی کر لی ہے۔پریوں جیسی۔  !!!!

کسی چڑیل کی طرف یہ دیکھ بھی نہیں سکتے ۔۔!!!"

غصے سے بڑبڑاتے ہوۓ اس نے بہت دور کی سوچی۔کال ڈیٹا ڈیلیٹ کرتے ہوۓ لیپ ٹاپ آف کرکے اس نے دروازے کو گھورا۔

"میرے بھائ کی دلہن تو وشہ ہی بنیں گی۔کیا ہوا اگر وشہ کا بھائ جلاد ہے تو۔اور ماں جیلر ہے تو۔۔۔!!! کیا ہوگیا اگر یہ لوگ ہمیں پسند ہی نہیں کرتے تو۔ایک دن میرے بھائ نے اپنا آپ بے قصور  ہونا ثابت کردینا ہے۔اور میں خود بھی یہاں سے نکلوں گی اور وشہ کو بھی لے کر جاؤں گی۔یہ درمان سے لیا گیا بدلہ ہوگا میرا۔۔۔!!!"

ایک عزم کرتے ہوۓ وہ لیپ ٹاپ لے کر اٹھی اور دبے قدموں باہر کا جائزہ لے کر وشہ کے کمرے کی طرف چل پڑی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اس کا دھیان اس پاس تھا تبھی وہ زور سے کسی سے ٹکڑائ۔

اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئ۔کیونکہ سامنے کھڑے شخص کو اس نے دیکھ لیا تھا۔لمحے میں اس کے چہرے کے تاثرات بدلے۔

مسکرا کر اس نے لیپ ٹاپ اپنے پیچھے کیا کہیں یہ توڑ ہی نہ دیں اور ان کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔

"زہے نصیب۔۔۔ !!!!!! ساسوں ماں آپ کو میری یاد کیا اتنا ستارہی تھی کہ اپنے قدموں کو زخمت دے کر آپ خود مجھ سے ملنے آگئیں۔۔۔!!!

کیا کریں ہمارا جادو ہی ایسا ہے کہ لوگ ہمارے دیوانے ہوجاتے ہیں۔ جیسے آپ ہوگئیں ۔"

انہیں تپانے کی اس نے اخیر کوشش کی۔شنایہ بیگم تو اپنے فدیان کے کمرے میں جانے کے لیے یہاں آئ تھیں جو اسی فلور پر لاسٹ میں تھا۔پر اس ڈرامہ کوئین کو دیکھ کر ان کے چہرے پر غصہ از سرِ نو عود آیا۔

"بہت خود پرست ہو تم۔۔۔۔!!!! خوش فہمیاں اچھی ہیں۔۔!!"

انہوں نے طنز کیا۔ورنہ دل تو ان کا اسے سیڑھیوں سے دھکا دینے کو کیا تھا۔

"نوازش ہے آپ کی ساسوں ماں۔۔۔۔!!!!! خوش فہمیاں بھی ہم اپنے معیار کی پالتے ہیں ۔۔!!! آپ سنائیے گھٹنوں کا درد کیسا ہے اب آپ کا۔سنا ہے ہمیں جھکا نے کی کوشش کرتے آپ خود ہی سب کی نظروں میں جھک گئ ہیں ۔ویسے کوشش اچھی تھی آپ کی مظلوم ساس بننے کی۔پر افسوس آپ فیل ہوگئیں۔ وہ کیا ہے نا کہ میں مظلوم بہو نہیں ہوں۔ مجھے بچپن سے ایکٹنگ کا شوق تھا پر ہمارے قبیلے میں اس کی اجازت نہیں ۔تؤ مجھے لگا تھا یہ شوق اپنے نصیب کو روۓ گا۔پر آپ نے تو میرا یہ شوق ہی پورا کردیا۔۔۔!!!"

زرلشتہ کی باتیں سن کر انہوں نے بامشکل اپنا غصہ قابو کیا۔یہ چھٹانگ بھر کی لڑکی ان کی دشمن بنتی جارہی تھی۔

"تم مری نہیں ابھی تک۔۔۔!!! مجھے تو لگا تھا درمان تمہاری اس زبان کی وجہ سے تمہیں مار کر کہیں پھینک چکا ہوگا۔پر تم تو بڑی ہی ڈھیٹ ہو مار کھاکر بھی زندہ ہو۔میری مانو تو زہر کھالو اور ایک ہی بار میں مرجاؤ۔۔۔!!! 

کیا روز روز اپنی منحوسیت ہر جگہ پھیلاتی رہتی ہو۔۔!!!"

شنایہ بیگم نے زہر اگلنا ضروری سمجھا۔ہر زہر تو اگلی بندی کی سماعتوں میں مزاق بن کر اترا ۔

حالات نے زرلشتہ کو اتنا تو مضبوط کردیا تھا کہ وہ شنایہ بیگم کی دھاڑ سے بھی نہیں ڈرنے والی تھی۔ان کے جملے وہ لوٹانا بخوبی جانتی تھی۔

"درمان مجھے کیوں ماریں گے بھلا آخر اتنی پیاری بیوی کو بھی کوئ مارتا ہے۔وہ بس اوپر اوپر سے غصہ کرتے ہیں ویسے دل کے بہت اچھے ہیں۔اب اس دل میں میں جو رہنے لگی ہوں۔

اور میں کیوں زہر کھاؤں۔کچھ کھلانے ہی لگی ہیں تو لزانیہ ہی کھلادیں۔مجھے کسی ریسٹورنٹ میں ہی لے جائیں ۔آخر کار آپ اپنی تجوری کا منہ جو کھولنے لگی ہیں ۔جس ہر آپ نے سانپ بٹھا رکھے تھے تو پارٹی تو بنتی ہیں نا۔ساسوں ماں سوچ بدلیں زہر ہی دینا ہے تو اس شے میں ملا کر دیں کہ آپ کو دینے میں مزہ آۓ اور مجھے کھانے میں۔۔!!!!"

مسکراتے ہوئے اس نے ایک آنکھ دبائی۔درمان والی کہانی سناتے وقت اسے بھی عجیب ہی لگا تھا آخر وہ ظالم اس کے پیچھے پاگل ہوہی نہ جاۓ۔

لیکن شنایہ بیگم تو صدمے سے ایک ہاتھ دل ہر رکھ گئیں۔کہ ان کا بیٹا کیا اس کا عاشق ہوگیا ہے۔یہ سب کیسے ہوا۔انہیں ملازمہ نے بتایا تھا کہ زرلشتہ دو دن سے بیمار ہے اب بھی وہ بخار میں تپ رہی ہے ۔اور اسے درمان نے مارا تھا۔پر یہ کہیں سے بھی انہیں بیمار نہ لگی۔

"تمہیں آج میں مار ہی دوں گی۔نہ تم زندہ رہو گی نا ہی فضول میں بکواس کیا کرو گی۔میری بیٹا صرف میرا ہے۔وہ ایک ونی کے پیچھے مجھے نہیں بھول سکتا۔۔۔!!!"

غصے سے کہتے انہوں نے زرلشتہ کو بازو سے پکڑ کر سیڑھیوں کی طرف دھکا دیا۔کہ اس لڑکی سے جان ایک ہی بار میں چھوٹ جاۓ۔نفرت میں وہ اندھی ہوچکی تھیں۔

زرلشتہ ان کے خطرناک ارادوں سے واقف نہیں تھی تبھی پھر بھی بڑی مہارت سے اس نے ایک ہاتھ ریلنگ پر رکھ کر خود کو گرنے سے بچایا ۔لیپ ٹاپ بھی اس نے ابھی تک پکڑا ہوا تھا۔

بروقت ہاتھ اس نے ریلنگ پر رکھ دیا تھا تبھی وہ ابھی تک زندہ تھی۔پر دل تو زوروں سے دھڑک رہا تھا۔یہ عورت اس کا قتل کرنے والی تھیں یہ سوچ ہی اتنی خوفناک تھی۔

اور وہ اسے زندہ دیکھ کر غصے سے گھور رہی تھیں۔

"ا۔استغفراللہ۔۔۔!!!!!! لیڈی ہٹلر۔۔۔!!! کوئ خوفّ خدا کریں مستقبل میں مجھے آپ کی جگہ سنبھالنی ہے اور آپ مجھے ہی مارنے لگی تھیں۔میں بہو ہوں آپ کی کوئ ڈبہ نہیں ہوں جسے آپ نیچے پھینک رہی تھیں۔دل باہر نکل آیا میرا۔۔۔!!!!! "

سائیڈ سے ہوکر وہ ان کی پہنچ سے دور ہوئ۔پر بولنا نہ بھولی۔ٹانگیں تک اس کی کانپ رہی تھیں۔

اس نے تو مزاق کیا تھا پر شنایہ بیگم سیریس ہوگئ تھیں۔

"بکواس بند کرو۔۔۔!!!! تم ونی ہو میری بہو نہیں ہو۔۔۔!!! تمہیں مار کر میرے دل کو سکون ملے گا۔"

انہوں نے قدم اس کی طرف بڑھایا تو زرلشتہ نے معصوم سی صورت بناکر انہیں دیکھا۔جو جن کی ہی ماں تھیں۔

"ساسوں ماں ۔۔۔!!!! حوصلہ کریں ۔آپ میں کس چڑیل کی روح آگئ ہے۔انسان مارنے کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی تو اپنی آخرت ںچائیں۔عجیب مجرمانہ فیملی ہے آپ سب کی ۔میری جان چھوڑیں اور جو کرنے آئ تھیں وہ کریں ۔۔۔!!!

وشہ مجھے بچائیں آپ کی مورے مجھے مار دیں گی۔ان میں چڑیل آگئ ہے۔مما بچاؤ۔۔۔!!!!

میں تو چلی یہاں سے ۔۔!!!!"

ان کے خونخوار تاثرات دیکھتے انہیں ستانے کا پلان کینسل کرتے وہ وشہ کے کمرے کی طرف بھاگ گئ۔ڈر تو اسے لگ رہا تھا۔ 

شنایہ بیگم نے پیچھے ہنکار بھرا اور فدیان کے کمرے کی سمت چلی گئیں ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اس نے دھرام سے دروزہ کھولا تو وشہ نے چونک کر اس سمت دیکھا۔

"زرلش۔۔۔!!!! آپ کو کچھ چاہیے تھا کیا۔۔!!"

اپنی کتاب بند کرکے وشہ نے ایک طرف رکھ دی۔

زرلشتہ کمرے میں آئ تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔اس نے وہ لیپ ٹاپ اس کے سامنے رکھ دیا اور کھڑے ہوکر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔

"شکریہ لیپ ٹاپ دینے کے لیے۔۔!!!! پر آپ ابھی اسے واپس رکھ لیں ۔ آپ کے اکڑو بھائ نے لیپ ٹاپ میرے پاس دیکھ لیا تو سمجھے گا کہ میں اس گھر کی خبریں نیوز چینلز پر دے کر پیسے کمارہی ہوں۔جیسے وہ درمان آفریدی نہیں شاہد آفریدی ہوں۔۔۔۔!!!!

شاہد آفریدی کوئ ایک خوبی تو آپ کی اس بندے میں ہوتی۔نام میں آفریدی ہے اور کام شعیب ملک والے۔۔۔۔۔۔!!!!"

منہ بسورتے ہوۓ اس نے وضاحت دی۔تو اپنے بھائ کی اتنی تعریف سن کے وشہ ہنس پڑی۔مجال تھی جو اس لڑکی پر کسی بات کا اثر ہوتا ہو۔ابھی مرتے مرتے بچی تھی اور کھڑی یوں تھی جیسے اولمپک کی دوڑ جیت کر آئ ہو ۔

"کسی دن انہوں نے بھی کسی ثناء کو لے آنا ہے مجھ پر ۔پر میں کنارہ نہیں کروں گی۔نا ہی طلاق لوں گی۔بلکہ چڑیل کی طرح دونوں کو عبرت کا نشان بنادوں گی۔۔!!!"

اس نے دانت پیسے اور سانس نارمل ہوتے ہی بغیر وشہ کا جواب سنے اپنے کمرے کی سمت بھاگ گئ۔

وشہ کا پیچھے ہنس ہنس کر برا حال تھا۔

"بھائ اور ان کا موازنہ شعیب ملک اور شاہد آفریدی سے۔۔۔!!!"

توبہ تھی زرلشتہ اور اس کے دماغ کی۔

"لالہ بھی نہ خواہ مخواہ ان پر غصہ کرتے رہتے ہیں اتنی پیاری تو ہیں یہ۔انہیں ابھی تک قدر نہیں ہوئ ان کی۔۔۔!!!! 

اس زمانے میں اتنی پیاری بیوی قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔لالہ قسمت والے ہیں پر خود ہی اس بات سے ناواقف ہیں۔۔۔!!!"

وشہ نے لیپ ٹاپ آن کرتے وقت سوچا۔اسے اس وقت اسائنمنٹ بنانی تھی۔درمان پر غصہ اسے بھی تھا۔کیونکہ وہ اپنے بھائ کے مزاج سے واقف تھی۔اسے پوری امید تھی کہ درمان کی وجہ سے ہی زرلشتہ بیمار ہوئ ہے۔

 لیکن زرلشتہ نے نا اسے کچھ بتایا تھا نا ہی کبھی اس سے اس کی ماں کی کوئ برائ کی تھی۔تھے تو دونوں ہی اس کی جان کے دشمن۔پر وہ ان کے رویے برداشت کرکے ان پر مٹی ڈال کر آگے بڑھ جاتی تھی۔اسے لگتا تھا اگر وہ خود پر ہونے والے ظلم کسی کو بتا بھی دے گی تو کونسا کسی نے اس پر یقین کرلینا ہے۔اس کے پاس تو کوئ ثبوت بھی نہیں الٹا سب اسے ہی جھوٹا کہیں گے۔

وشہ نے لیپ ٹاپ آن کیا تو اسی وقت اسے کسی کی ویڈیو کال آنے لگی۔اس کے ہاتھ لرزے ۔نمبر تو ان ناؤن تھا۔تو کوئ کیسے سیدھا ویڈیو کال ہی کرسکتا ہے۔

وہ چاہے جتنی بھی بہادر تھی پر یہ ڈر فطری تھا۔

"یا اللہ۔۔۔!!! یہ کون ہمیں اس وقت کال کررہا ہے ۔کوئ جاننے والا ہوتا تو ہمارے فون پر کال کرتا ۔یہ کون ہے۔۔۔؟؟؟؟"

اس نے لیپ ٹاپ ہی اٹھا کر خود سے ذرا فاصلے پر بیڈ پر رکھ دیا۔اور ڈرتے ہوۓ لیپ ٹاپ کی سکرین کو گھورنے لگی۔

وہیں دیار کو جس وقت زرلشتہ کال کررہی تھی اس وقت وہ فریش ہونے گیا تھا۔واپس آتے ہی جب اس نے اپنے سیل پر کسی ان ناؤن نمبر سے کوئ دس کالز دیکھی تو وہ پریشان ہوگیا۔ کہ کہیں کوئ مسئلہ نہ ہوگیا ہو۔ 

اس نے فوراً کال بیک کی۔ اور وہیں بیٹھ گیا۔ جس نے اس شخص سے بات کرنی تھی وہ دل برداشتہ ہوکر جاچکی تھی۔ لیکن جو لڑکی اس نے اس کے لیے ڈھونڈی تھی اس سے ضرور اس کی بات کروانے والی تھی۔

"عجیب ہی انسان ہے یہ۔پہلے خود اتنی کالز کیں اور اب جب میں کال کررہا ہوں اٹھا ہی نہیں رہا۔۔۔!!! سب خیریت ہو بس۔۔!!!"

درمان نے دوبارہ کال کی۔

"ہم نہیں اٹھائیں گے۔۔۔!!! کیا پتہ کوئ ہمیں تنگ کررہا ہو۔یہ کوئ بلیک میلر ہوا تو پھر ہم کیا کریں گے ۔۔۔!!"

وہ اپنی ہڑبڑاہٹ پر قابو پانے لگی۔دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔جیسے کوئ بہت بڑا مسئلہ اسے پیش آگیا ہو۔

کال کٹ ہوتی پھر دوبارہ آنے لگتی۔جیسے دیار نے بھی تہیہ کرلیا تھا کہ وہ آج اس کال کرنے والے سے بات کرکے ہی سکون لے گا۔

پانچ ،چھ ،سات ،آٹھ پھر دسویں کال پر وشہ کا دماغ گھوم گیا۔ اگر اگلا شخص کال پک نہیں کررہا تو اس کا یہی مطلب ہے وہ آپ سے بات کرنا ہی نہیں چاہتا۔تو ڈھیٹ بن کر کال پر کال کرکے یہ شخص ثابت کیا کرنا چاہتا ہے۔وہ کال کٹ نہیں کررہی تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں ڈر کے مارے وہ کال کٹ کرنے کی بجاۓ کال پک ہی نہ کرلے۔

"اس کی برداشت اب ختم ہونے لگی ۔

"کوئ شخص اتنا ڈھیٹ کیسے ہوسکتا ہے۔نمبر ملا کر ہمارے پیچھے ہی پڑگیا ہے۔بہت شوق ہورہا ہے نہ ہم سے بات کرنے کا تمہارا شوق ہم پورا کرتے ہیں۔۔!!"

لیپ ٹاپ کو گھورتے اس نے کیمرے پر ہاتھ رکھا اور کال ریسیو کرلی۔ وہ وشہ تھی اس کا ڈر اتنا ہی تھا۔ لوگوں کو سبق سکھانا اسے اچھے سے آتا تھا۔

"ته هیڅ غیرت نه لرې ۔۔۔۔!!! ته شرم نه لرې..!!! چې په نیمه شپه کې څو ځله یوې انجلۍ ته زنګ وهې ، بد اخلاقه سړی.... !!!!"

(کیا غیرت نہیں ہے تم میں۔کسی لڑکی کو آدھی رات کو بار بار کال کرتے تمہیں شرم نہیں آتی۔بد تمیز انسان۔۔۔۔!!!!)

کال پک کرتے ہی وہ چیخی۔سارا پٹھانوں والا غصہ تو اس کے لہجے میں ہی آسمایا تھا۔اس کی یہ غصیلی آواز سن کر دیار نے حیرت اور صدمے سے فون کو گھورا جس کی سکرین بلیک تھی۔وہاں وشہ نے بھی سکرین کی طرف دیکھا ہی نہیں تھا کہ یہ سب وہ کس بندے کو سنارہی ہے ۔

"میں بداخلاق ہوں ۔۔!! آپ کو تنگ کررہا ہوں۔۔!!"

اس نے صدمے سے کہا۔

"ته لا هم نه پوهېږې چې زه څوک یم. که غوسه شوم نو ښه به نه وي زه پښتون یم، ما ته ډارن مه ګڼه، بیا دې شمېرې ته زنګ مه وهه، کنه مړه به شې."

(. تم ابھی نہیں جانتے کہ ہم کون ہیں..!! ہمیں غصہ آگیا تو تمہارے لیے یہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔!!!!ہم پشتون ہیں۔ ہمیں بزدل مت سمجھو آئندہ اس نمبر پر کال نہ کرنا ورنہ تم مرو گے۔۔۔!!!!)

غصے سے اسے وارننگ دیتے اس نے لیپ ٹاپ کی سکرین بند کی۔اور گہرے گہرے سانس لینے لگی ۔

جتنا وہ ڈری تھی اس نے جاننا بھی ضروری نہ سمجھا کہ کال کی کس نے تھی۔

کال کٹ ہوگئ تھی اور دیار تو ابھی بھی سکرین ہی دیکھ رہا تھا۔

"کیا زمانہ آگیا ہے۔پہلے خود دس ،پندرہ مس کالز کرو، جب اگلا بندہ کال بیک کرے تو اسے ذلیل کرکے رکھ دو ۔!!!"

فون سائیڈ پر رکھ کر اس نے اس لڑکی کا لہجہ یاد کرتے ہی جھرجھری لی۔مقابل کا غصہ تو اسے بھی لرزا گیا۔ اس نے زیرِ لب استغفار کہا۔

اور اپنے کام میں مگن ہوگیا۔

وشہ نے لیپ ٹاپ اٹھایا اور اپنی کتابیں سمیٹیں پھر انہیں اٹھا کر بک ریک پر رکھ آئ۔

اور واپس آکر کمفرٹر میں دبک کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔

انناؤن نمبر کو ذلیل کرکے اسے سکون بڑا ملا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان نے دو دن تک اپنے سٹاف کی دوڑیں لگوا کر رکھیں ۔اس کا جلاد والا روپ ان کا سانس تک سوکھا گیا۔ وہ آنسو پی کر اس کے اشاروں پر کٹھ پتلیوں کی طرح ناچتے رہے ۔آگے سے بولتے تو نوکری سے جاتے۔وہ آفس میں بھی ظالم کے نام سے ہی مشہور تھا۔

جن گارڈز کو اس نے ڈیوٹی کے وقت سوتے ہوۓ دیکھا تھا۔اس نے ان گارڈز سے دو دن تک سارے آفس کی صفائ کروائ تھی۔جن ہاتھوں میں بندوقیں ہوتی تھیں اس نے ان ہاتھوں میں جھاڑو پکڑوادیا۔اس کا کہنا تھا کہ ان گارڈز سے پہرہ داری کا کام نہیں ہورہا تو انہیں اب کوئ نیا کام کرنا چاہیے ۔شاید ان میں کوئ ماسی چھپی ہوئ ہو ۔اب اس کے سامنے کوئ کیوں بولتا۔وہ اپنی چلانے والا ظالم پٹھان جو تھا۔اس لیے سب بس اس کی مانتے گۓ۔

آخر کار وہ سب کا جینا حرام کرکے اب واپس گھر کے رستے پر گامزن تھا۔علاقے سے کافی دور شہر کے قریب اس کی گاڑی رات کے نو بجے ٹریفک سگنل پر رکی ہوئی تھی۔ارد گرد گاڑیاں سگنل توڑ کر جارہی تھیں اور درمان سگنل گرین ہونے کے انتظار میں تھا۔یہ عجیب بات نہیں تھی وہ اصولوں کا پکا تھا ۔چاہے سارے لوگ ہی کیوں نہ اصول توڑ دیں وہ نہیں توڑ سکتا تھا۔آخر ظالم اور کھڑوس انسان جو تھا وہ ۔!!!

اس کی گاڑی کا شیشہ کسی نے نوک کیا۔تو وہ جو سامنے دیکھ رہا تھا اس نے اس آواز پر شیشہ نیچے کیا اور باہر دیکھا۔

شہر کی جگمگاتی روشنیوں میں باہر کھڑے سات سے آٹھ سالہ بچے کی صورت واضح تھی۔ جو معصوم سے چہرے پر دنیا جہاں کی پریشانی لیے ہاتھ میں چاکلیٹس اور پھول پکڑے کھڑا اسے آس سے دیکھ رہا تھا۔

"صاحب یہ پھول لے لو آپ۔۔!! بہت خوبصورت ہیں۔اور سستے بھی۔۔!! آپ اگر لو گے تو میں آپ کو ایک کے ساتھ  دوسرا مفت میں دے دوں گا۔صاحب لے لو نہ پھول ۔۔۔!!!"

بچے نے وہ پھول اس کے سامنے کیے۔اور بتاتے ہوۓ آفر بھی اسے پیش کردی۔جو غور سے اس کی صورت ہی دیکھ رہا تھا۔

"میں پھولوں کا کیا کروں گا ۔۔۔!!! اور چاکلیٹس اس عمر میں کھاتا کیا میں اچھا لگوں گا۔ویسے تم اس وقت اکیلے یہاں کیا کررہے ہو۔شہر کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ نو بجے تمہارے جیسے چھوٹے سے بچے کو گھر ہونا چاہیے ۔اپنی امی کے پاس۔سڑکوں پر نہیں۔ویسے نام کیا ہے تمہارا۔کہاں رہتے ہو تم۔۔!!!"

مسکراتے ہوۓ درمان گاڑی سے باہر نکلا اور گھٹنے کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔جو اس انکار پر اداس ہوچکا تھا۔کہہ تو درمان ٹھیک رہا تھا آخر اتنا چھوٹ بچہ رات کے وقت سڑکوں پر کیا کررہا تھا۔

"یوسف نام ہے میرا ۔میں یہاں سے دور کچے علاقے میں رہتا ہوں۔۔۔ !!!!صاحب لے لو نا پھول۔۔۔!!!!! کوئ پھول لیتا ہی نہیں ہے اب۔جو لیتا ہے پیسے نہیں دیتا۔ پیسے مانگو تو آگے سے دھکہ دے دیتا ہے۔جیسے میں اپنا حق نہیں بھیک مانگ رہا ہوں ۔آج تو کسی نے ایک پھول بھی نہیں لیا۔میں گھر جاؤں گا تو امی سے ڈانٹ پڑے گی۔بابا بھی بیمار ہیں ۔ آپ انکار نہ کرو۔ جب یہ پھول بکیں گے میں تب ہی واپس جاسکتا ہوں نا۔ صاحب آپ اپنے کسی دوست کو یہ دے دینا۔دیکھنا جسے بھی دو گے نا وہ بہت خوش ہوگا۔

ایک لے لو ۔۔!!!"

اس کی فکر جھٹک کر اس بچے نے دوبارہ پھولوں کی جانب اشارہ کیا۔درمان نے اس کے چہرے پر اداسی دیکھی۔ چھوٹی سی عمر میں وہ بہت ذمہ دار ہوگیا تھا۔ 

گرد سے اٹے کپڑے، ٹوٹا ہوا جوتا، آنکھوں میں تکلیف، اس سردی میں بغیر کسی گرم کپڑے کے وہ یونہی سڑکوں پر پھر رہا تھا ۔اسی امید میں کہ کوئ تو اس کا دکھ سمجھے گا۔ اس کے کپڑوں پر لگا ہلکا سوکھا ہوا کیچڑ گواہ تھا کہ وہ کتنے دھکے کھاکر آیا ہے لوگوں سے۔ایسے ننھے پھولوں کا سڑکوں پر رلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانیت لوگوں کے اندر سے ختم ہوتی جارہی ہے۔

اس نے لب بھینچے ۔

"ایسا کرو یہ ایک پھول اور چاکلیٹ مجھے دے دو۔۔۔!!!اب  تم اتنی ضد کررہے ہو تو میں لے ہی لیتا ہوں۔!!!"

مسکراتے ہوۓ درمان نے ایک پھول اور چاکلیٹس کی طرف اشارہ کیا تو پل میں اس کے ویران چہرے پر خوشی سے پھول کھل گۓ۔ جیسے مرجھایا ہوا پھول واپس کھل اٹھا ہو۔ اس بچے نے فوراً اس کا کہا گیا پھول اور چاکلیٹ اس کے ہاتھ پر رکھ دیں۔

کچھ سوچ کر درمان نے اس پھول کو سونگھا  پھر مسکرانے لگا۔ خوشبو اچھی تھی۔اور اس نے زندگی میں پہلی بار گلاب کی خوشبو کو اتنا قریب سے محسوس کیا تھا۔ خوشی تو بنتی تھی۔  جواب میں  درمان نے والٹ سے پانچ پانچ ہزار کے نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں تھمادیے اور مٹھی بند کی ۔پھر وہاں سے جانے لگا۔تو بچے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جانے سے روک دیا۔

"یہ بہت زیادہ ہیں۔ میں نہیں لے سکتا۔ان پھولوں کی قیمت اتنی زیادہ نہیں ہے۔آپ جتنے پیسے بنتے ہیں صرف اتنے ہی دو۔۔!!!"

بچے نے اتنے سارے پیسے اکٹھے دیکھے تو گھبرا کر اسے واپس تھمانے لگا ۔جس نے جواب میں مصنوعی افسوس بھری نگاہ اس پر ڈالی ۔وہ اس وقت کوئ نیا درمان بنا ہوا تھا۔جسے غصہ جیسے چھو کر بھی نہ گزرا ہو۔جس میں انا نامی شے ہو ہی نہ۔

"تم نے جو اتنا پیارا پھول دیا ہے اس کی خوشبو کی  قیمت تو اس سے بھی زیادہ ہے۔تمہاری وجہ سے مجھے پتہ لگا کہ مجھے گلاب کے پھولوں سے الرجی نہیں ۔ورنہ تو میں نے آج تک ایک پھول کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔ڈرلگتا تھا کہ کہیں بیمار ہی نہ ہوجاؤں ۔۔!!! 

تم نے مجھے اتنے پیارے احساس سے روشناس کروایا تو اسے میری طرف سے اپنی فیس سمجھو ڈاکٹر صاحب۔اور ایسے ہی مسکراتے ہوۓ گھر جاؤ۔لیکن ایک منٹ رکو۔۔!!!"

اس کے بال بگاڑتے ہوۓ درمان نے اپنے تئیں اسے بہت بڑی بات سمجھائی تھی۔جس کے پلے کچھ بھی نہیں پڑا تھا۔ درمان کی مسکراہٹ گہری ہوئ ۔

"خوشبو کی قیمت۔۔!!! فیس۔۔!! کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔۔!!"

اس نے ناسمجھی سے پوچھا ۔تو درمان اٹھ گیا اور اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ سے اپنا قیمتی کوٹ نکال کر اس کے شانوں پر رکھا ۔وہ بچہ اس کوٹ میں چھپ گیا تھا۔اور ہکا بکا درمان کی صورت تکتا رہا۔ درمان کا حلیہ جیسا تھا اسے لگا تھا یہ شخص بھی اسے آوروں کی طرح اچھوت ہی سمجھے گا۔اور باقیوں کی طرح وہاں سے بھگا دے گا ۔پر درمان تو عنایتوں ہرث عنایتیں کررہا تھا۔

"کچھ نہیں ۔میں بس فضول بولتا رہتا ہوں۔کسی کے ساتھ رہتے رہتے اسی کے جیسا بنتا جارہا ہوں۔چلو بھاگ جاؤ اب۔۔۔!!!! سیدھا گھر جانا۔۔!!!"

اسے بتاتے ہوۓ اسے زرلشتہ یاد آئ تھی جس کی بیماری کی وجہ سے وہ دو دن پریشان رہا تھا۔وشہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ پہلے سے ٹھیک ہے پر اب بھی بیمار ہے۔رات بھی کافی ہورہی تھی اور اسے اب اپنی مصیبت کے پاس جانا تھا۔

سگنل گرین ہوچکا تھا تبھی درمان بھی گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی گاڑی سٹارٹ کردی۔ پیچھے اس بچے کے دل سے تو بس درمان کے لیے دعائیں ہی نکل رہی تھیں جس نے اس کی اتنی بڑی مشکل پل میں آسان کردی تھی۔

راستے میں اس نے وہ پھول اور چاکلیٹ دیکھیں کہ اب ان کا کیا کرے۔پھر انہیں اپنے کوٹ کی پاکٹ میں رکھ لیا۔

اور فون آن کرکے اپنے خاص آدمی کو اس بچے کے بارے میں معلومات نکالنے کو کہا ۔جس جگہ کا پتہ اس بچے نے دیا تھا وہاں سے اسے ڈھونڈ نکالنا آسان تھا۔

درمان جتنا بھی مغرور تھا پر دل اس کے سینے میں بھی تھا۔اسے اچھا لگتا تھا سب کا احساس کرکے(سواۓ زرلشتہ کے)۔ پر وہ مدد کرکے بھول جانے والوں میں سے تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"واہ یار۔۔۔!!!! اغواہ کار ہوں تو تم لوگوں جیسے ہوں۔دل جیت لیا تم دونوں نے میرا۔۔!!! "

پلاؤ کی دو پلیٹیں ختم کرتے اس نے صدقِ دل سے ان کی تعریف کی۔ وہ دونوں خونخوار نظروں سے اسے گھور رہے تھے۔وہ اسی کمرے میں بند تھا۔جو کسی فائیو اسٹار ہوٹل جیسا تھا۔پستہ رنگ کی شرٹ اور جینز پہنے اغواہ ہونے کے باوجود کسی ہیرو کی طرح تیار ہوکر وہ ان اغواہ کاروں کو اپنے ملازم کی طرح ٹریٹ کررہا تھا۔

بندہ ہوتو ایسا۔۔۔۔!!!!!!

"کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ۔کہ ہم نے اسے اغواہ نہیں کیا اس نے ہمیں کام پر رکھا ہوا ہے گدھوں سے بد تر حالت ہے ہماری ۔۔۔!!!!!

اس وقت اسے مارنے کے بجاۓ ہم اس کے لاڈ اٹھاتے نہیں تھک رہے۔ایسا کرو مجھے کوئ بتا دو کہ یہ مغوی ہے یا ہمارا باس۔۔۔۔!!! یا پھر باس کا کوئ رشتہ دار ہے جسے مارنے کی بجاۓ وہ کہہ رہے ہیں اس کے تلوے چاٹو۔۔!!!!"

پہلے آدمی نے اپنے برابر کھڑے ساتھی سے سرگوشی نکا انداز میں پوچھا۔

جس کی سوچ اس سے مختلف نہ تھی۔

"باس نے کہا تھا کہ بس اسے بھاگنے نہ دینا۔اس کے لیے اگر تمہیں اس کے سامنے بندر بن کر تماشہ کیون نہ کرنا پڑے دریغ نہ کرنا !!وہ کہتے ہیں انہیں یہ زندہ چاہیے اور اپنے قبضے میں ہی چاہیے ۔!!!!! "

اس آدمی نے آہ بھری ۔پہلے ان کے باس نے انہیں فدیان کو مار کر اپنے قابو میں کرنے کو کہا تھا۔پر جو حال اس نے ان مارنے والوں کا کیا تھا اسے دیکھ کر ان کا باس بھی ڈر گیا۔ 

پھر اس نے یہی کہا تھا کہ وہ اسے خوش رکھیں اور بس یہاں سے بھاگنے نہ دیں۔تب سے یہ دونوں اس کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکے تھے۔نہ جی سکتے تھے نہ مرسکتے تھے ۔

"پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی اس شخص سے۔ناجانے تب تک ہم زندہ بھی بچیں گے یا نہیں۔۔!!

میری تو کمر اکڑ گئ ہے دروازے پر پہرہ دے دے کر۔۔۔!!!"

اس شخص نے رونی صورت بنائ ۔اور باقاعدہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر دہائ بھی دی ۔دوسرے ساتھی کے پاس اسے صبر کی تلقین کرنے کو کہنے کے علاؤہ کوئ چارہ نہ تھا۔

فدیان ان دونوں کی رونی صورتوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوا۔کھانا وہ کھا چکا تھا۔اب وقت تھا اس کھانے کو ہضم کرنے کا۔جو ان دونوں کو تپاکر ہی ممکن ہونے والا تھا۔

"چلو تم دونوں اب یہ برتن سمیٹو ۔۔۔!!"

اس نے اگلا حکم دیا۔اغواہ کاروں نے کڑوا گھونٹ بھر کر یہ کام بھی کردیا۔

جب تک وہ لوگ برتن سمیٹ رہے تھے وہ ان دونوں کو تپانے کا اگلا منصوبہ بنارہا تھا۔

ابھی آج کا کوٹا پورا نہیں ہوا تھا۔

ان دونوں نے جونہی برتن سمیٹ لیے فدیان نے شیطانی مسکراہٹ سنگ اپنی دونوں ٹانگیں سیدھی کرکے ٹیبل پر رکھیں ۔

"یاد ذرا میرے پیر ہی دبادو۔۔!! اتنے ٹائم سے میں اس جگہ بند ہوں تو زیادہ چل پھر نہیں پارہا۔نا ہی ایکسر سائز کرپارہوں ۔تو میری ٹانگیں اکڑ گئیں ہیں اب۔۔!!

اگر برا نہ مانو تو لگ جاؤ کام پر۔یہ موٹا ٹانگیں اچھے سے دبا سکتا ہے۔آخر کھاتا تو اتنا ہے تو کام بھی اچھے سے کرتا ہوگا۔ورنہ یہ سوکھا تنکا اگر ٹانگیں دبانے لگا تو لگے گا کہ کوئ مکھی ٹانگوں پر بیٹھ گئ ہے۔تو اس پتلو کو چھوڑو اور موٹو تم آگے آؤ۔۔!!!

میں مہمان ہوں یہاں  میری خدمت کرکے جنت کماؤ ۔!!"

پیروں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اس نے جو حکم ان دونوں کو دیا تھا ۔وہ سن کر وہ دونوں غش کھانے والے تھے ۔کتنے آرام سے وہ کہہ رہا تھا کہ وہ یہاں قید ہے اور ٹانگیں دبوانا اس کی مجبوری ہے حقیقت میں تو یہ دونوں اغواہ کار یہاں قید تھے۔ قیدِ بامشقت میں۔۔!!!"

اب یہ زیادہ ہورہا ہے لڑکے۔۔۔!!!! شرافت سے واپس جاکر سوجاؤ۔اور ہمیں بھی جانے دو۔۔!!"

موٹے اغواہ کار نے رعب سے کہا۔تبھی فدیان اس بہادری اور سستے رعب پر عش عش کر اٹھا۔

وہ دونوں خود ہی وہاں سے جانے لگے پر اس کی اگلی بات سن کر رک گۓ۔

"فدیان کی حد بہت زیادہ ہے۔۔!!! تو حد کی بات نہ کیا کرو۔دیکھو درد بہت زیادہ ہے مجھ سے برداشت نہیں ہورہا ۔اگر دبا نہیں سکتے تو مجھے یہاں سے جانے دو۔میں کسی سڑک پر واک کرآؤ۔

پھر اپنے اس باس کو صفائیاں دیتے رہنا کہ یہ لڑکا ہماری کام چوری کی وجہ سے بھاگ گیا۔اور وہ تم دونوں کو ایک ہی دفعہ مار کر اوپر پہنچا دے گا۔اب یا تو پیر دباؤ یا موت کو گلے لگاؤ ۔!!!"

اس نے دھمکی دی جس میں خاصہ دم تھا۔تبھی وہ دونوں دل میں اسے بر بھلا کہتے واپس آۓ اور بیٹھ کر اس کے دونوں پیر دبانے لگا۔

"پتلو مکھی۔۔۔!!! جان تو ہے تم میں ۔!!! میں تو تمہیں سڑی ہوئ روٹی کا چھلکا سمجھتا تھا پر تم تو تندور میں گری ہوئ ثابت روٹی نکلے ۔۔!!!

اور موٹے زرا ہولہ ہاتھ رکھو تم۔۔!!! مجھے پتہ ہے تم دیگیں بھر بھر کر کھانا کھاتے ہو۔ کسی بلڈوزر کا کام بھی تم اکیلے کرسکتے ہو۔مارنے کی ضرورت نہیں ہے موٹو۔۔۔!!!!"

ان دونوں کو باری باری دیکھ کر فدیان نے معصومیت سے کہا۔جو بے عزتی کرواکر آنسو پی گۓ۔رونے کا فایدہ کوئ تھا یہ تب بھی کہتا کہ پتلو تمہاری آنکھوں سے تو آنسو بھی صحرا میں لگے نلکے سے ٹپکتے پانی کی طرح نکل رہے ہیں۔قطرہ قطرہ۔۔!!!

ایک ملتا ہے تو دوسرے کے نکلنے تک وہ سوکھ بھی گیا ہوتا ہے۔اس لیے کسی کنویں میں چھلانگ لگا کر مر جاؤ تاکہ آنسو تو اچھی کوانٹیٹی میں نکلا کریں۔

اور موٹے کو کہتا کہ جس حساب سے تم رو رہے ہو لگتا ہے سارے ڈیموں کا پانی تم نے چوری کرکے ان آنکھوں میں بھر لیا ہے۔کوئ شرم کرو اتنا مت رو۔کیوں ہمارا گھر بھی سیلاب میں بہاؤ گے۔اگر رونے کا اتنا ہی شوق ہے تو جاؤ کسی سوکھے ہوۓ ڈیم کے کنارے بیٹھ جاؤ تاکہ تمہارے ان آنسوؤں کا کوئ فایدہ تو ہو۔

کوئ نہ مانتا کہ یہ بندہ اغواہ ہوا ہے یہ تو مرضی سے یہاں رہ رہا تھا 

"او رہنے دو نکمو۔۔۔!!!!! گھر میں بیوی کی ٹانگیں دباتے وقت تو بڑی جان لگاتے ہو تم۔اور میں نے زرا سا کام کیا کہہ دیا تو تم دونوں کے ہاتھوں کو ہی موت پڑگئ۔ !!!

نکمے،نکارہ لوگ۔۔۔۔!!!!"

اس نے اپنی ٹانگیں پیچھے کی سمت کھینچی اور اٹھ کھڑا ہوا اور وہ دونوں شاکڈ سے بس اسے گھورتے ہی رہے۔

آدھے گھنٹے سے اس کی ٹانگیں دبا دبا کر وہ ادھ موئے ہوچکے تھے اور یہ تب بھی طعنے دے رہا تھا۔

"کل یاد سے کمرے کی صفائ کردینا ،یہ بیڈ شیٹ اور پردے وغیرہ بھی بدلواؤ مجھے یہ رنگ اچھا نہیں لگ رہا۔واش روم کا شاور بھی خراب ہوگیا ہے وہ بھی ٹھیک کرواؤ اور باس کو کہنا کہ اب نۓ کپڑے اور باقی کی ضرورت کی چیزیں خرید کر بھجواۓ۔ کوئ خرچہ کر لے وہ بھی بھوکا کہیں کا۔۔!!!! 

اور تم دونوں بھی مجھے اپنی شکل کم ہی دکھایا کرو۔کیا عجیب منحوسیت پھیلائی ہے تم دونوں نے ۔۔!!!!

نکلو اور دفع ہو یہاں سے۔۔!!!"

اس نے انہیں اگلے حکم دیے اور پھر دروازہ ان کے منہ پر بند کیا۔پھر آکر سکون سے سوگیا۔

اپنا کام نکلوانا اسے آتا تھا اور اب یقیناً صبح اس کے اٹھنے سے پہلے ہی اس کی ساری ضرورت کی چیزیں یہاں موجود ہوتیں۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان گیارہ بجے کے قریب گھر پہنچا۔گھر میں مکمل سناٹا تھا۔ملازم اپنے اپنے کوارٹرز میں جاچکے تھے۔گھر میں مکمل خاموشی اور مدھم سے اندھیرے کا راج تھا۔ سناٹا اتنا تھا کہ گمان ہوتا یہ گھر نہیں کوئ بھوتیہ بنگلہ ہے۔کسی بھی کونے سے کسی بھی وقت کوئ بھی جن یا بھوت حملہ کرنے کے لیے نکل آئیں گے۔

اسے اس وقت شدید بھوک لگی تھی۔ناشتہ بھی اس نے نہیں کیا تھا اس لیے سر درد سے پھٹ رہا تھا۔

وہ سیدھا کمرے میں آیا۔اور آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھولا۔اس نے جو حرکت کی تھی اسے اب بھی اس پر شرمندگی تھی۔ کمرے کی لائٹ آن تھی اور زرلشتہ صوفے پر سوی ہوئ تھی۔

اسے دیکھ کر وہ لمحے میں جان گیا کہ وہ سونے کا ڈرامہ کررہی ہے۔کیونکہ وہ بھی اس کی طرح اندھیرے میں سونے کی عادی تھی۔

زرلشتہ کے ساتھ جو شنایہ بیگم نے کیا تھا اس کے بعد تو اس کے ہوش ہی اڑ گۓ تھے تو نیند کیا چیز تھی۔۔۔!!!! تبھی وہ ان کے ہی ڈر سے لائٹ آن کرکے صوفے پر لیٹی تھی اور چوکنّا تھی کہ اگر لیڈی ہٹلر نے اب اس پر حملہ کیا تو وہ انہیں موقعے پر پکڑ کر سارے گھروالوں کو اکٹھا کرے گی اور ثابت کرے گی کہ وہ اسے مارنا چاہتی ہیں۔

درمان کی مخصوص پرفیوم کی خوشبو سے وہ جان گئ کہ مسٹر کھڑوس کمرے میں آگیا ہے۔ مہینے سے زیادہ ہوگیا تھا اسے اس کے ساتھ رہتے اب تو وہ آہٹ سے بھی اس شخص کی موجودگی بھانپ سکتی تھی۔

زرلشتہ نے اس سارے عرصے میں صرف اس شخص کو جانا تھا ۔اور بہت اچھے سے جانا تھا۔اس کے پاس کرنے کو تو کوئ کام تھا نہیں۔

کیونکہ یہ لوگ ملازمین والا کام اس سے نہیں کرواتے تھے۔درمان نے بھی اسے باہر نکلنے سے منع کیا تھا اس وجہ سے وہ بس اسی شخص پر ریسرچ کرتی رہتی تھی۔یعنی اسی کے ظلم یاد کرتی رہتی تھی۔

درمان کے آنے کے باوجود وہ وہاں سے اٹھی نہیں تھی ۔

"پاگل لڑکی ۔۔!!"

اسے دیکھ کر اس نے زیرِ لب کہا ۔ہھر بیڈ پر بیٹھ کر اپنے شوز اتارے اور آرام دہ جوتے پہن پہنے لگا۔ اسے زرلشتہ اسی پوزیشن میں لیٹی نظر آئ جس نے ہلنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔اسے کچھ مشکوک لگا۔

اس لیے وہ  وہاں سے اٹھ گیا۔

"مصیبت۔۔۔۔!!!! تم سونے کا ڈرامہ کررہی ہو مرنے کا نہیں۔۔۔!!! تو سانس کیوں روک کر بیٹھی ہو۔کہیں اصل میں مر نہ جانا۔ہاسپٹل بہت دور ہے یہاں سے۔

ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی تم کہیں اور پہنچ جاؤ گی۔۔!!!! اچھا میں نہیں کہہ رہا تمہیں کچھ بھی۔اس لیے ایزی ہو جاؤ۔اور روکا ہوا سانس بحال کرلو۔ٹرسٹ می اس ہوا میں میرا زہر نہیں گھلا ہوا۔"

صوفے سے زرا دور کھڑا ہوکر وہ اسے کچھ دیر تک دیکھتا رہا جو سچ میں سانس روک چکی تھی ۔وہ ڈر رہی تھی اس سے۔اسی وجہ سے درمان نے مدھم مگر نرم سے لہجے میں اسے مخاطب کیا۔درمان کی بات سنتے پہلے تو وہ خوف سے لرز اٹھی۔کہ درمان کو کیسے اس کے ڈرامے کا پتہ چلا۔

پر اس کی ہدایت سن کر ناچاہتے ہوۓ بھی سانس لینے لگی ۔کہیں سچ میں ہی نہ مرجاتی وہ۔

"گڈ گرل۔۔۔!!!!! دیکھ لو اس ہوا میں زہر نہیں ہے۔ اب میں اتنا بھی زہریلا نہیں ہوں کہ جہاں سے گزروں اس جگہ کی ہوا میں بھی اپنا زہر گھول دوں۔اس لیے اس وہم کو دل میں نہ لانا۔۔۔!!!"

بے شک وہ کمفرٹر میں دبک کر سوئ ہوئ تھی پر جیسے وہ ڈر رہی تھی اس کا ڈر وہ اس سے دور کھڑا ہوتے ہوۓ بھی بھانپ چکا تھا۔مزید اسے کچھ نہ کہنے کا سوچتے وہ اب اپنے کھانے کے لیے کچھ لینے جانے لگا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ کو کہنا وہ جانتا تھا فضول ہے وہ اگر کھانا لینے گئ تو کل ناشتے کے بعد واپس آۓ گی ۔وہ بھی کھانے کی جگہ پانی کا خالی گلاس لے کر۔

"گھر دیر سے آنے کا سب سے بڑا نقصان ہی یہی ہے کہ انسان کھانا گرم کرنے کے لیے بھی خود ہی خوار ہوتا پھرتا ہے۔"

خود سے باتیں کرتے ہوۓ درمان نے پلیٹ مائیکرو ویو اوون میں رکھی اور ٹائمر سیٹ کرکے اب وہیں سلیب سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔

"اس دن زرلشتہ بھی تو میری وجہ سے ہی بھوکی رہی تھی۔بھوک تو مجھ سے برداشت نہیں ہورہی پھر وہ لڑکی تو ہوا کے جھونکے سے اڑ جانے والی شے ہے۔ناجانے کتنی نفرت ہوگئ ہو گی اسے مجھ سے۔۔۔!!!"

پلیٹ نکال کر ٹرے میں رکھتے وہ باقی کی چیزیں بھی اس میں رکھنے لگا۔پھر جب وہ کمرے میں واپس آیا تو زرلشتہ اب تک ویسے ہی لیٹی ہوئی تھی۔

"پتہ نہیں یہ ٹھیک بھی ہوگی یا نہیں۔۔!!! میں بھی پاگل ہوں جس نے اسے سردی میں باہر اکیلا چھوڑ دیا تھا۔کیا سوچتی ہوگی یہ میرے بارے میں کہ میں کتنا بے حس اور سنگدل انسان ہوں جسے بیوی کی کوئ فکر ہی نہیں۔

مانا یہ نکاح میری مرضی کے خلاف ہوا تھا۔پر مرضی تو اس کی بھی نہیں تھی۔غلط میرے ساتھ ہوا تھا اگر تو ظلم اس کے ساتھ بھی ہوا ہے۔۔۔!!!"

زہر مار چند نوالے حلق سے اتارتے ہوۓ وہ خود کو اپنی اس حرکت کے لیے کوستا رہا۔اسے خود پر اب بھی غصہ تھا۔جب تک اب زرلشتہ اسے سزا نہ دے دیتی اسے تسلی نہیں ملنی تھی۔پر زرلشتہ کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا ہی مشکل ترین کام تھا۔

"اگر دیار اسے واپس لے گیا تو۔۔۔!!!!! "

یہ بات سوچتے ہوۓ اس کے حلق میں نوالا اٹک گیا ۔اسے پھندا لگا۔اور وہ اپنے گلے پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے کھانسنے لگا  اس کی آنکھیں تکلیف سے سرخ ہوئیں اور ان سے پانی بہنے لگا 

کھانستے ہوۓ بامشکل پانی کا گلاس اٹھا کر اس نے پینے کی کوشش کی۔

اس کے کھانسنے کی آواز سن کر زرلشتہ بھی ڈر کر اٹھ بیٹھی کہ اس جن کو کیا ہوگیا۔ اسے پتہ تھا اسے کچھ بھی ہوجاتا تو الزام اس بیچاری پر ہی آتا۔ 

"انہیں کیا ہوگیا اچانک۔۔!!!! انہیں کچھ ہوا تو ان کی مورے مجھے پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر رہیں گی۔وہ تو اپنے گمشدہ بیٹے کی وجہ سے مجھ پر قاتلانہ حملہ بھی کرچکی ہیں تو اس زندہ بیٹے کی تکلیف پر میرا وہ حشر کریں گی کہ میں خود کو خود بھی نہیں پہچان پاؤں گی۔پر میں تو سورہی تھی تو اٹھ کر کیوں بیٹھ گئ۔اف زرلشتہ تم نے یہ بیوقوفی کیوں کی۔اب اگر اس شخص نے تمہیں مار دیا تو کیا کرو گی ۔۔!!!"

اپنی بیوقوفی پر اس نے آنکھیں میچ لیں۔درمان کا سانس جب نارمل ہوا تو اس کی نظریں اس کبوتری پر پڑیں جو موت کے خوف سے جن کو دیکھ کر آنکھیں بند کرگئ تھی ۔

"ڈر تو ایسے رہی ہے جیسے میں سچ مچ کا جن ہوں۔ جع ابھی اٹھ کر اسے مار دے گا۔پاگل لڑکی۔۔!!!! "

سر جھٹک کر وہ اب زبردستی کھانا کھانے لگا۔اسے میڈیسن لینی تھی جو خالی پیٹ لینا رسکی تھا۔

زرلشتہ کو جب کافی دیر تک اس بندے کے چیخنے کی آواز نہ آئ تو اس نے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا ۔جہاں درمان کھانا کھانے میں مگن تھا۔

"بہتری اسی میں ہے کہ میں دوبارہ سو جاؤ۔اس وقت ٹیرس پر جاکر تاروں سے باتیں کرنے کا اور ٹھنڈی ہوا میں جم کر قلفی بننے کا میرا کوئ ارادہ نہیں ہے۔۔ !!!"

اس نے تھوک نگلا۔باہر کی جما دینے والی سردی یاد آتے ہی وہ واپس لیٹ گئی اور سونے کا ڈارمہ کرنے لگی۔درمان کی نظریں اسی کی ہر حرکت کا جائزہ لے رہی تھیں۔پر وہ ابھی اسے کہہ کچھ نہ پایا۔وہ پہلے ہی ڈری ہوئی تھی اس کی وجہ سے کہیں مزید نہ ڈر جاتی۔

برتن وہیں سائیڈ پر سرکاتے وہ بیڈ کراؤں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کرکے اپنا دکھتا سر دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے دبانے لگا۔اسے اس وقت چاۓ پینی تھی اس کی تھکن اب ایک گرما گرم چاۓ کا کپ اتار سکتا تھا۔ورنہ وہ ساری رات یونہی جاگتا رہتا۔

چاۓ اسے بنانا آتی تھی ۔پر بنانے کا حوصلہ اور یہاں سے اس حال میں اٹھنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔آخر کار تھک کر اس نے اس مصیبت کو مخاطب کرنے کا فیصلہ کرہی لیا۔

"زرلشتہ۔۔۔!!!!! اگر جاگی ہوئ ہو تو ایک کپ چاۓ یا خود بنادو اگر بنانی آتی ہے تو..!!! یا پھر جاؤ وشہ کو جگا کر اسے بنانے کو کہہ دو۔میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے ورنہ تمہیں تنگ نہ کرتا ۔۔۔!!!"

اپنی آنکھیں سختی سے میچ کر پھر کھولتے ہوۓ اس نے اونچی آواز میں کہا۔

زرلشتہ جو کب سے آیت الکرسی پڑھ رہی تھی۔تاکہ اس جن کے غصے سے بچی رہے۔اچانک اپنا نام سن کر اچھل پڑی اور صوفے پر بیٹھ گئ۔اس کی آنکھوں میں ڈر تھا اور سانس بھاری ہورہا تھا۔

"اس جن پر آیت الکرسی کا اثر کیوں نہیں ہوتا۔۔!!! یہ مسلمان جن کیوں ہے۔"

آنکھیں پٹپٹاتے ہوۓ اس نے درمان کو دیکھا۔جو اپنا سر خود دبا رہا تھا۔

یہ جن اب جیسا بھی تھا ۔تھا تو اس کا شوہر۔وہ الگ بات تھی کہ درمان کو یہ مصیبت پسند نہیں تھی پر مصیبت کو اس کا تھوڑا ہی سہی احساس ضرور تھا۔

"ج۔جی کیا ہوا۔۔؟؟؟"

اس نے اگلی بات نہیں سنی تھی اسی لیے پوچھنا ضروری سمجھا۔

"میں کہہ رہا ہوں جاؤ ایک کپ چاۓ کا بنادو۔ اگر بنانی آتی ہے تو ۔!!! اگر نہیں بنانی آتی تو وشہ کو جگا دو ۔وہ بنادے گی۔ اور یہ برتن بھی لے جاؤ کچن میں رکھ دینا۔"

بات دہرانا اسے پسند نہیں تھا۔پر پھر بھی درمان نے بات دہرائی بھی اور وہ بھی نرم لہجے میں۔اتنے نرم لہجے کی زرلشتہ کو اس سے امید نہیں تھی اس لیے تیزی سے سر ہلاکر اس نے آگے بڑھ کے برتن اٹھاۓ اور جانے لگی جب درمان نے اس کا حلیہ دیکھ کر اسے روک دیا۔

"رک جاؤ ۔۔۔!!!!! ایسے جاؤ گی کیا؟ یہ اوڑھ کر جاؤ۔ اور احتیاط کیا کرو باہر نکلنے سے پہلے۔۔!!!"

وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی جب درمان نے بیڈ کے دوسری طرف تہہ کرکے رکھی ہوئ براؤن شال اٹھا کر اس کی طرف کی۔جس نے ٹرے واپس رکھ کر شال سر پر اوڑھی اور پھر جتنی جلدی ہوسکا وہاں سے نکل گئ۔

بھلے اس وقت کچن میں کوئ نہیں تھا پر کسی کو آنے میں دیر ہی کتنی لگنی تھی۔زرلشتہ کے آنے کے بعد درمان نے گھر میں خاص ملازموں کا داخلہ بھی بند کروادیا تھا۔اب گھر میں بس خواتین ملازمائیں ہی آسکتی تھیں۔اور درمان کو یہ بھی گوارہ نہیں تھا کہ وہ بھی اس کی بیوی کو اس حلیے میں دیکھتیں۔اس کی عزت تھی ان سب کی نظروں میں۔جو اسے پیاری تھی۔اور زرلشتہ ہی تو اس کی اب عزت تھی۔۔۔!!! 

اس کی بیوی کو اگرچہ عقل نہیں تھی پر اسے ضرور تھی۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages