Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 9To12 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 3 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 9To12

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 9To12

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 9To12

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

بہراور جو ہوا اسے بدلا تو نہیں جاسکتا پر بھولا ضرور جاسکتا ہے۔۔!!!!!! میری مان تو، تو اس بارے میں مزید کچھ نہ سوچ۔بس اب دیار کو واپس لانے کا سوچ۔اس کی شادی کروادے۔گھر کا ماحول بدلے گا تو ہوسکتا ہے دیار بھی واپس گھر آجاۓ..!!!!!"

ایک مضبوط ہاتھ بہراور درانی کے شانے پر کسی نے رکھا۔جو اپنے ہی خیالوں میں غرق تھے۔اس وقت وہ اپنے ڈیرے پر بیٹھے دیار کے متعلق ہی سوچ رہے تھے۔انہوں نے زرلشتہ کو ونی صرف اس کے لیے کیا تھا تاکہ وہ اس معاملے سے نکل جاۓ۔پر زرلشتہ کے بعد تو دیار ان کی زندگیوں سے ہی جیسے نکل گیا تھا۔

بہراور درانی نے سر اٹھا کر اس آنے والے شخص کو نہ دیکھا ۔جیسے وہ جانتے تھے کہ یہ شخص کون ہوگا۔انہوں نے تھکا ہوا سانس فضا کے سپرد کیا اور سر جھکا گۓ۔

اس شخص نے ان کے شانے پر دباؤ بڑھایا اور اس کے ساتھ والی نشست سنبھال گۓ۔چہرے پر ان کے لیے بس فکر ہی فکر تھی۔

"وہ نہیں مانے گا ابھی ایسی کسی بھی بات کو۔میں نہیں چاہتا کہ تو ایک بار پھر میرے گھر سے خالی ہاتھ واپس جاۓ۔پہلے بھی یشاور کا رشتہ بھیجنے پر وہ آگ بگولا ہوگیا تھا کہ زرلشتہ کو یہاں سے لے جاۓ گا اگر ہم نے یشاور کے رشتے کے لیے ہاں کہہ دی تو۔دوبارا اگر اس نے وہی سب کیا تو میں تیری نظروں میں مزید گر جاؤں گا یار۔تو یہ بات رہنے دے اس وقت۔۔۔!!!"

وہ یقین سے بولے۔پھر اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی انگوٹھی بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے آگے پیچھے کرنے لگے وہ اس وقت الجھ چکے تھے ۔بیٹا ان کے قابو میں نہیں تھا اور دوست کو  بار بار انکار کرنا بھی مشکل تھا۔دلاور خان نے انکار کی وجہ سنی تو پھیکا سا مسکراۓ۔انہیں بھی اسی جواب کی توقع تھی.

"اس کی اس ضد کا انجام تو ہم سب بھگت چکے ہیں۔جو کچھ بھی بچی کے ساتھ ہوا اسی کی ضد کا نتیجہ ہے۔اس نے ذرا سی بات کو بڑھاوا دیا تھا بس ۔وہ محض ایک غلط فہمی تھی اور کچھ نہیں۔یشاور اس دن نشے میں تھا میں جانتا ہوں پر وہ سب اس کے دوستوں نے کیا تھا۔مزاق میں۔میرا بیٹا ایسا ہے ہی نہیں کہ حرام کاموں میں پڑے۔لیکن اس نے ہماری کسی بات کو نہیں مانا۔

کتنی خواہش تھی میری کہ میں زرلشتہ کو اپنی بہو بناؤں اور اس دوستی کو رشتہ داری میں بدل لوں پر خیر جو ہونا تھا ہوگیا۔میں ابھی اپنی بیٹی کی بات نہیں کررہا ۔تم کسی اور خاندان میں رشتہ ڈھونڈ لو۔دیاد کے لیے تو رشتوں کی لائن لگ جاۓ گی۔اس جیسا لڑکا تو کہیں اور ملنے سے رہا۔۔!!!"

ان کا دل تو نہ کیا پر پھر بھی انہوں نے بہراور درانی کو خود ہی اپنی بیٹی کے علاؤہ کسی اور کے بارے میں سوچنے کو کہہ دیا۔پر افسوس کرکے یشاور کو ڈیفینڈ کرنا نہ بھولے۔

بہراور درانی نے اب کی بار نظر ان کے چہرے پر ڈالی۔جن کے چہرے پر مایوسی ہی مایوسی تھی۔ان کا دل دکھا اپنے دوست کو مایوس ہوتا دیکھ کر۔پھر گہرا سانس خارج کرکے انہوں نے ساری فکریں ایک طرف کیں اور فیصلہ لے ہی لیا۔

"ایسے مت سوچ تُو۔میرے دیار کا نکاح تو معصومہ بیٹی کے ساتھ ہی ہوگا۔چاہے اس کے لیے مجھے اسے مجبور ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔زرلشتہ کی دفعہ تو اس کے پاس وجہ تھی انکار کی پر اس بار وہ انکار کر ہی نہیں پاۓ گا۔تو مجھے تھوڑا وقت دے۔جلد مٹھائ سمیت تیرے گھر آؤں گا اور نکاح کی تاریخ رکھ کر ہی جاؤں گا۔۔۔!!!"

بہراور درانی مسکراۓ۔دوست کی اداسی ان سے دیکھی ہی نہ گئ کہ بیٹے کی مرضی بھول کر وہ زبان دے بیٹھے۔اس بار دلاور خان بھی مسکرا اٹھے۔انہیں پتہ تھا ان کا یار کیسے ان کی بات بن کہے ہی مان جاۓ گا۔آخر سالوں کا ساتھ تھا دونوں کا۔وہ دونوں بچپن کے دوست تھے۔کچھ دوستیاں تاعمر کا ساتھ بن جاتی ہیں۔ان کی دوستی بھی ایسی ہی تھی۔

دلاور خان کا فون رنگ ہوا تو وہ ان سے خدا حافظ کہہ کر چلے گۓ۔جس کام کے لیے وہ آۓ تھے وہ تو ہو ہی چکا تھا۔

ذرا فاصلے پر آکر انہوں نے کال پک کی۔تو آگے سے بتائ گئ خبر سن کر ان کا رنگ فق ہوا۔

"صاحب۔۔!!! وہ چھوٹے صاحب اپنے ڈیرے پر بہت بری حالت میں ملی ہیں۔بہت خون بہہ رہا ان کا۔ جیسے کسی نے کُتوں کی طرح مارا ہو۔کتا چھوٹا لفظ ہے ہم کو لگتا کسی نے گندا کپڑا سمجھ کر ہمارا صاحب دھو دی۔۔۔۔!!!! پٹخ پٹخ کر سارا گند نچوڑ دی صاحب سے۔۔!!! "

مقابل نے یشاور کو دیکھتے ہوۓ اپنے انداز میں کہا۔تو دلاور خان کا میٹر تو اس کی عجیب سی باتوں نے گھما دیا۔سمجھ تو انہیں نہ آیا کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے پر اس کی زبان کھینچنے کی تمنا ان کے دل نے ضرور کی۔

"انسانوں کی طرح بتاؤ۔آخر ہوا کیا ہے یشاور کو۔ورنہ میں تمہیں کتوں کی طرح مرواؤں گا۔"

وہ لفظ چبا چبا کر بولے تو۔مقابل کھسیانی ہنسی ہنسا۔

"صاحب کتوں کی طرح تو وہ دھوبی مار گئ صاحب کو۔کیا رنگ نکالی ہمارے صاحب نے ہم کیا کہیں آپ کو  بہت دھویا ہے صاحب کو آپ بھی آکر اگر دیکھے گی تو دھونے والی کا فین ہوکر اپنا بچہ سکھانے کو ڈال دے گی  ہم کو لگتا وہ دھوبی کسی واشنگ پاؤڈر کی کمپنی سے آیا تھا۔دھو دھو کر چھوٹے صاحب کا نشہ اتار گئ۔

اس وقت چھوٹے صاحب بھیگی بلی بن کر بیٹھے ہیں۔ نا ڈاکٹر کے پاس جاریی ہیں نا کسی کو اپنے پاس آنے دے رہی ہیں۔صاحب آپ جلدی سے آؤ اور آکر اس خوبصورت نظارے سے مخظوض ہوجاؤ۔پھر نا کہنا ہم کو دیر ہوگئ۔۔۔!!!!"

مقابل نے اب ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کرتے بتایا ورنہ یشاور کی ابتر حالت دیکھ کر اس کا دل ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے کو کررہا تھا۔آخر یہ رعب جھاڑنے والا شخص اس حلیے میں وہاں کھڑے باقی کے گارڈز کا دل بھی ٹھنڈا جو کررہا تھا۔

"ڈاکٹر کو بلاؤ۔اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا تو تم لوگوں کو وہیں گاڑھ دوں گا۔میرے بیٹے کو کوئ دھو گیا مطلب مار گیا اور تم لوگ اس کی حالت کا مزاق بنارہے ہو اور دھیان رکھنا بات باہر نہیں نکلنی چاہیے ورنہ تم سب کی موت آج میرے ہی ہاتھوں ہوگی۔۔!!!"

انہیں اس شخص کی باتیں سننے کی عادت تھی تبھی انہوں نے بات سمجھتے ہی دھاڑتے ہوۓ حکم دیا اور گاڑی میں بیٹھ کر فورا اپنے ٹھکانے کی طرف نکل گۓ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

مقابل نے فون کٹتا دیکھا تو اب فون جیب میں رکھ کر یشاور کے پاس آیا جو درد برداشت کرنے کی کوشش میں ہلقان ہورہا تھا۔کل رات کیا ہوا اسے پورا یاد نہیں تھا بس اتنا یاد تھا کوئ پانچ سے چھ لوگ تھے جو اسے فٹ بال سمجھ کر پیٹ کر گۓ پھر پوچے کی طرح فرش پر گھسیٹ کر بھی گۓ۔

اس کے چہرے پر جابجا زخم تھے اور کپڑوں پر خون کے نشان بھی تھے۔اس نے مٹھی میں دو پرچیاں دبوچی ہوئ تھیں جنہیں صبح اٹھتے ہی اس نے خود پر گرا ہوا پایا تھا۔

"صاحب کہہ رہی ہے ہم کو کیل کی طرح گاڑے گی اگر ہمارے سامنے ان کا بچہ مر گئ تو۔اب ہمارا کیا قصور اگر کوئ ان کو کپڑا سمجھ کر دھو گئ تو۔چھوٹے صاحب وہ لوگ تھی کون ہم کو ضرور بتاؤ ہمارا کپڑے بھی بہت میلا ہے۔ہم ان سے دھلواۓ گا۔کیا سروسنگ ہے نا ان کی۔ایک دم سپر سٹار۔گھر آکر دھو کر جاتی ہے و۔ہ کپڑہ بھی اور بندہ بھی۔۔!!!!!"

وہ شخص لگ بھگ پینتیس سے چالیں سال کی عمر کا شخص تھا۔سر کے بال گھنے سیاہ جن پر اس نے پٹھانوں والی سپیشل ٹوپی پہن رکھی تھی۔اس پر ایک کبوتر کا آرٹیفیشل پنکھ بھی لگوایا ہوا تھا۔وہ اس کی لک کو مزید عجیب بنا رہا تھا۔براؤن شلوار قمیض پہنے وہ اس وقت اسے ہی اپنے خاص انداز میں تپا رہا تھا۔اس کی بات سن کر یشاور نے اسے تگڑی گھوری سے نوازا۔

"دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔!!!!! ہر وقت بک بک کرتے رہتے ہو تم۔نکلو ورنہ میرے ہی ہاتھوں سے مرو گے۔۔!!"

ہاتھ میں پکڑی پرچیاں مٹھی میں دبوچتے وہ دھاڑا۔تو اس کی دھاڑ کی وحشت سن کر سارے گارڈ اور وہ مسخرا بھی وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔

ان کے جاتے ہی اس نے وہ پرچیاں کھول کر دیکھیں۔اوشن گرین آنکھیں خوف سے سرد پڑی تھیں۔

"ناکامی مبارک ہو یشاور خان۔۔۔!!!!!

ابھی صرف تھوڑی سی سزا دی ہے اگر تم نے دوبارہ یہ کرنے کی کوشش کی تو اس سے بھی برا حشر کروں گا تمہارا۔اور تمہارے یہ چمچے بھی روک نہیں سکتے مجھے۔میں جب چاہوں جہاں چاہوں تمہیں تمہاری اوقات یاد دلاسکتا ہوں ۔...!!!!"

نیچے ڈی اے(درمان آفریدی)  لکھا تھا۔اس نے دوسری پرچی دیکھی۔

"ابھی بھی کیا تم یہ کہو گے کہ یہ سب تمہارے دوستوں نے تم سے کروایا ہے۔تم نے کہا تھا نا کہ آخر تم میں کیا کمی ہے کہ تم درانی خاندان کے داماد نہیں بن سکتے تو جواب تمہیں میرے آدمی دے چکے ہوں گے۔تم میں غیرت کی کمی ہے۔۔!!!! بے غیرت انسان ہو تم۔آئندہ مجھے اپنی صورت نہ دکھانا۔"

نیچے ڈی ڈی(دیار درانی) لکھا تھا۔اس نے دونوں پرچیاں پھاڑ کر وہیں پھینک دیں ۔وہ کرسی کے سہارے پی بیٹھا ہوا تھا۔ورنہ تو اس کی ہڈیاں تک توڑ کر گۓ تھے دیار اور درمان کے لوگ۔کچھ دیر بعد وہاں ڈاکٹر آیا جو اس کی ڈریسنگ کرنے کے بعد اسے بیڈ ریسٹ کا مشورہ دے کر چلا گیا۔

"کس نے کیا ہے یہ سب تمہارے ساتھ یشاور ۔۔۔!!!! کون ہے وہ۔بتاؤ مجھے۔۔۔!!!!! کل تک تو تم بالکل ٹھیک تھے پھر یہ سب اچانک کیسے ہوا۔۔!!!"

دلاور خان نے ڈاکٹر کے نکلتے ہی اس سے پوچھا جو جواب دینے کی بجاۓ آنکھیں موند گیا۔یہ اشارہ تھا کہ مجھے ڈسٹرب نہ کیا جاۓ۔وہ بھی اس کی حالت کے پیشِ نظر خاموش ہوگۓ اور باہر نکلے۔ان کا وہ مسخرہ ساتھی بھی باہر ہی کھڑا تھا۔جو اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کررہا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے یشاور کو۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"تم لوگ کیا مر گۓ تھے کہ اس کی خبر بھی نہ لی تم لوگوں نے۔کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئ اور کوئ یشاور کو تمہارے ہوتے اتنی بری طرح سے مار گیا۔۔۔!!!!! میرے سامنے سر جھکانے کی بجائے اس زبان کو ہلاؤ اور بتاؤ آخر ہوا کیا ہے اس کے ساتھ۔۔۔!!!!"

وہ ذرا فاصلے پر آۓ اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا جو ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔پھر ان کے ایک بندے نے منہ کھول دیا اور اسے کل کا ہوا واقعہ بھی بتادیا جب یشاور کے کہنے پر ان کے کچھ ساتھی درمان کی بہن کو اغواہ کرنے گۓ تھے۔پھر وہاں دیار کا آنا اور بعد میں نیم مردہ حالت میں ان کے ان تمام ساتھیوں کا ملنا۔

دلاور خان نے سارا معاملہ سننے کے بعد گہرا سانس خارج کیا۔

بادل(وہی مسخرہ شخص) بھی وہاں کھڑا یہ ساری کہانی انہی کی زبانی سن رہا تھا جس نے آخر تک کانوں کو ہاتھ لگاۓ۔

"خانہ خراب۔۔۔!!!! وہ گدھے کا بچہ کسی کی بہن اغواہ کرنے چلا گئ۔کیڑے پڑے اس کو۔نمک حرام کسی کی عزت پر نظر رکھتا ہے وہ۔دل جان آپ اس کو کوڑے پڑواؤ۔چوک پر لٹکواؤ۔کیسے وہ کمینہ ایسی گری ہوئی حرکت کرسکتی ہے ۔!!!"

آواز میں غصہ لاکر وہ شخص دلاور خان کو دیکھ کر بولا۔جنہوں نے آنکھیں بند کرکے اپنے لیے صبر مانگا تھا۔اس شخص کو وہ مجبوری میں اپنے ساتھ رکھ رہے تھے ورنہ کب کا کسی کھائ میں گروا چکے ہوتے۔

انہوں نے تیز نگاہ اس پر ڈالی۔

"میں دلاور خان ہوں کوئ دل جان نہیں۔۔۔!!!! اور وہ گدھے کا نہیں میرا بچہ ہے۔اسے بددعائیں نہ دو۔بس بھٹک گیا تھا وہ۔جوان خون ہے ایسی حرکتیں کربھی لے تو فرق نہیں پڑتا ۔اور تم لوگ اب اس بات کو یہیں ختم کرو۔کہیں باہر نہیں نکلنی چاہیے یہ بات۔خاص کرکے تم بادل ۔۔!!!! اگر مجھے کسی باہر والے کے منہ سے یہ سب سننے کو ملا تو میں تمہیں ہی چوک پر لٹکواؤں گا ۔۔!!! جاؤ یہاں سے تم۔۔!!"

انہوں نے درشتگی سے کہا تو وہ سب سر جھکا کر وہاں سے نکل گۓ۔بادل اب بھی وہیں کھڑا تھا۔انہوں نے بھنویں آچکا کر اسے دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں تم اب کیا لے کر جاؤں گے یہاں سے۔بادل نے زبردستی مسکراتے ہوۓ سرنفی میں ہلا دیا اور وہاں سے سیٹی بجاتے ہوۓ چلا گیا۔

دلاور خان بھی خود وہاں سے سر جھٹک کر چلے گۓ۔انہیں اپنی عزت پیاری تھی۔اگر بات باہر نکلتی تو یہ بھی سب کو پتہ چل جاتا کہ دیار اور درمان نے یہ سب کروایا کیوں ہے۔اور انہیں بدنام ہونے کا شوق نہیں تھا۔اگر اس معاملے میں یشاور گنہگار ثابت نہ ہوا ہوتا تو وہ ضرور یہ بات جرگے تک لے کر جاتے تاکہ انہیں ہمدردی ملے۔

پر اب معاملہ ختم کرنا ہی ان کے نزدیک عقلمندی تھی۔یشاور اتنے جگرے والا نہیں تھا جو دوبارہ یہ بات دہراتا بھی اور دیار اور درمان بھی اس سے بدلہ لے چکے تھے۔اور فدیان کو ڈھونڈنے میں وہ اتنے مصروف تھے کہ دوبارہ اس یشاور کی شکل بھی نہ دیکھتے ۔یہ معاملہ خود ہی ختم ہوگیا کیونکہ کوئ بڑا نقصان جو نہیں ہوا تھا درمان کا ۔ورنہ تو یشاور کی لاش بھی کسی کو نہ ملتی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑے ہوکر لان کا نظارہ کرتے ہوۓ وشہ کے ذہن کے پردوں پر اس دن کا منظر گھوما جب دیار اسے بچانے کے لیے وہاں آیا تھا۔اس واقعے کو کافی دن گزر چکے تھے۔اسے بھی بس اب دیار ہی یاد رہ گیا تھا جو بھولنے کے لاکھ جتن کرنے کے باوجود بھول ہی نہیں رہا تھا۔اس کی نظروں میں جو عزت اس وقت وشہ کے لیے تھی وہ وشہ کے ذہن سے اب تک نہیں نکلی تھی۔

"کون تھے وہ۔۔؟؟؟؟ آخر آج کل کے زمانے میں بھی کیا ان جیسے لوگ پاۓ جاتے ہیں جو کسی اور کے معاملے میں انوالو ہو جائیں صرف کسی کو بچانے کے لیے ۔!!!! کیا وہ اسی علاقے کے ہی تھے۔نہیں اگر ایسا ہوتا تو آغاجان یا لالہ ان کا ذکر بعد میں ضرور کرتے ۔پر ہمیں تو لالہ نے اس بات کو بھولنے کو کہا تھا۔"

کھڑکی سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے ہوۓ وشہ نے مسکراتے ہوۓ وہ سب پھر سے یاد کیا۔پھر جب خیال آیا کہ اسے تو پتہ ہی نہیں کہ وہ شخص آخر تھا کون یہ سوچ آتے ہی اس کی خوشی اداسی میں بدل گئ۔کھڑکی کی ٹیک چھوڑ کر وہ آکر بیڈ پر بیٹھ گئ۔

"وہ جو بھی تھے پر مرد کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔اپنی نظروں کی حفاظت کرنے والا انہوں نے تو ہمیں دیکھا بھی نہیں تھا۔اف ہم کیوں نہیں بھول پارہے انہیں۔پتہ نہیں کس کا نصیب تھے وہ۔جس کا بھی وہ نصیب تھے وہ اس دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہوگی۔۔۔!!!!" 

وشہ گرنے والے انداز میں بیڈ پر لیٹی پھر چھت گھورتے ہوۓ مسکرا کر سوچا۔کچھ لوگوں کو پہنچاننے کے لیے ایک نظر ہی کافی ہوتی ہے اور وشہ نے بھی اسے اسی ایک نظر میں ہی پہچانا تھا۔وہ اس وقت اس شخص کے بارے میں سوچ رہی تھی جس سے اس کا بھائ بے انتہا نفرت کرتا ہے ۔دل مائل ہوجانے سے آخر کیا ہوجاتا وہ کونسا اسے مل جانے والا تھا۔یہیں اس نے افسوس سے آنکھیں بند کیں ۔

"ہم کیوں سوچ رہے ہیں ان کے بارے میں۔استغفر اللّٰه ۔۔!!!"

وشہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔اور اپنی ہی سوچ کو جھٹکا۔

"ہم کیسے کسی نامحرم کو اپنے دل میں جگہ دے سکتے ہیں۔دل تو پاک جگہ ہوتی ہے جہاں صرف اللہ کی محبت ہونی چاہیے۔اگر ہم شیطان کے بہکاوے میں آکر کسی اور کو اس دل میں بسا بیٹھے تو اللہ تو ہم سے ناراض ہوجاۓ گا۔ہم اللہ کی ناراضگی افورڈ نہیں کرسکتے۔ہمیں بس اللہ کی محبت چاہیے۔اور کچھ نہیں چاہیے ۔!!!"

اس کے چہرے پر اللہ کے روٹھ جانے کا ڈر تھا۔سر پر دوپٹہ اوڑھ کر اس نے آیت الکرسی پڑھی تاکہ شیطان کو دور بھگا سکے۔جو اسے دیار کے بارے میں سوچنے پر اکسا رہا تھا۔

شیطان ہماری تنہائ کے وقت ہی ہم پر حملہ کرتا ہے۔جیسے چور گھر کی سب سے قیمتی چیز چرانے کی کوشش پہلے کرتا ہے اسی طرح شیطان بھی انسان کی سب سے قیمتی دولت پر ہی پہلے حملہ کرتا ہے۔یعنی اس کے ایمان پر۔۔!!! 

وہ ہماری سوچوں کو پہلے اپنے قابو میں کرتا ہے پھر ہمارے دل پر زنگ لگانا شروع کردیتا ہے۔شروع میں ہمیں وہ سوچیں لطف دیتی ہیں ہم ان پر لگام نہیں ڈالتے۔پر آہستہ آہستہ ہم ان سوچوں کے اسیر ہوتے جاتے ہیں۔چاہے وہ سوچیں صحیح ہوں یا پھر غلط۔۔!!

اور ہمارا دل بھی شیطان کے قبضے میں جانے لگتا ہے۔ انسان کو اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھنا چاہیے کیونکہ سوچ سے ہی ایمان بنتا ہے۔اس لیے تنہائی کے وقت شیطان کے حملوں سے بچنے کا سب سے اچھا طریقہ ذکرِالہی ہے۔اپنے دل کو اس کے ذکر کے نور سے منور کرنا شروع کردیں۔ پھر شیطان لاکھ کوششوں کے باوجود آپ کے اور آپ کے اللہ کے تعلق کے بیچ میں نہیں آسکے گا۔

"یا اللہ اس خیال کو ہمارے دل سے نکال دے۔تو بہتر جانتا ہے کہ ہم اس شخص سے حادثاتی طور پر ہی ملے تھے۔اس سے پہلے تو ہم نے کبھی کسی شخص کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ہماری سوچیں بھی کسی کی امانت ہیں۔اور امانت میں خیانت کرنا ہم نہیں چاہتے۔تو ہم پر رحم فرما۔اور ہمیں گمراہ ہونے سے بچا لے ۔۔!!!"

دعا مانگ کر وہ جلدی سے اٹھی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا چاکلیٹس کا باکس اٹھا لیا جو وہ زرلشتہ کے لیے ہی لائ تھی۔اسے زرلشتہ اچھی لگتی تھی کیوٹ سی بے ضرر سی لڑکی ۔جو جب بھی اس سے ملتی تھی کبھی بھی اس کی ماں یا بھائ کے سلوک کی وجہ سے اس سے مس بیہیو نہیں کرتی تھی۔دوستی تو وہ اس سے کرچکی تھی اب اسے زرلشتہ کو گفٹ دینا تھا۔اور زرلشتہ کے لیے چاکلیٹس سے بڑھ کر کوئ اور گفٹ ہوہی نہیں سکتا تھا۔

"ہماری چھوٹی سی کیوٹ سی بھابھی۔۔!!! چاکلیٹس دیکھ کر خوش ہو جائیں گی۔

جب سے یہاں آئ ہیں کمرے میں ہی بند رہتی ہیں۔یا اللہ ہمارے لالہ کے دل میں ان کے لیے محبت ڈال دے۔وہ بھی ان کا بہت خیال رکھنے لگیں۔الہی آمین۔۔!!!"

چاکلیٹس کا باکس اٹھا کر وہ اب سیدھا زرلشتہ کے روم کی طرف جانے لگی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"اووو تیری خیر ۔۔!!!! یہ نمونہ میرے پاس کیسے آیا۔۔۔؟؟؟؟ یا اللہ یہ کیا کوئ جن رکھ کر گیا ہے یہاں۔۔!!!"

زرلشتہ اس وقت اپنے بیگ سے کپڑے نکال رہی تھی جب اچانک ایک تہہ شدہ سوٹ نکالتے ہی اس کا فون سرک کر نیچے بیگ میں واپس گرا۔اور زرلشتہ کے تو ہوش ہی اڑ گۓ۔اسے لگا تھا وہ اپنا فون گھر ہی چھوڑ آئ ہے پر فون تو بیگ میں بند ہوکر ساتھ آیا تھا۔اس کے کپڑے اس کے بیگ میں ہی پڑے تھے الماری اس نے استعمال نہیں کی تھی کیونکہ وہ ظالم پٹھان کے استعمال میں تھی ۔

فون ہاتھ میں پکڑ کر وہ اسے اب حیرت کے مارے تکتی ہی جارہی تھی۔

"مجھے اپنا آپ کسی مووی والی ایکٹریس جیسا فیل ہونے لگ گیا ہے یار ۔۔!!!!میری زندگی تو فملی کرداروں کے گرد گھومنے لگی ہے۔۔!!!  کھڑوس مگر ہینڈسم نیلی آنکھوں والا بیسٹ جس کی میں قید میں ہوں۔ایک عدد لیڈی ہٹلر جو انسانوں کا خون چوستی ہے۔پارٹ ٹائم شاید قبرستان بھی جاتی ہوں اپنی ساتھیوں سے ملنے کے لیے۔جو مجھے مارنا فرض سمجھتی ہیں۔ایک خوبرو نیک دل کنگ جو ہمیشہ میرا ہی ساتھ دیتے ہیں۔اپنی رعایا پر جان دینے والے انسان۔

ایک فیری جو اس قید خانے میں رہنے کے باوجود بھی میرے جیسی ہی ہے۔اور ایک نامعلوم کردار جو اب تک صرف ناموں میں ہی مجھے سننے کو ملا۔انٹرسٹنگ ۔۔۔!!!! اور اب جب مجھے اس قید خانے کی عادت ہونے لگی تو میرا فون میرے سامنے آگیا جیسے کہ اب مجھے یہاں سے بھاگنے کا اشارہ مل رہا ہو۔"

فون پکڑ کر وہ کپڑے بیگ میں ہی رکھتے اب باہر روم میں آگئ۔جہاں درمان نہیں تھا وہ تو صبح ہی نکل گیا تھا۔ وہ اب بھی زرلشتہ کے ساتھ ویسا ہی تھا۔کھڑوس اور ظالم۔۔!!!

اور زرلشتہ بھی جواب ہر بار ویسے ہی دیتی تھی کہ وہ سلگ کر رہ جاتا۔لیکن وہ اب اپنے ہاتھوں پر قابو رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔کیونکہ زرلشتہ کو وہ ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا اب۔

"یہاں اگر کوئ پرینک ہورہا ہے تو براہِ مہربانی منہ سے کچھ بک دیں۔بگ بوس کہاں ہیں آپ۔۔۔!!!  کیا کوئ اور بھی کنٹیسٹنٹ ہے کیا یہاں یا میں ہی اکیلی آئ ہوں اس شو میں۔میرے سامنے آؤ اور اب تک کے چیکس میرے حوالے کرو۔مفت میں یہ شو میں نہیں کروں گی۔۔۔۔!!!"

باہر آتے ہی پورا کمرہ گھورتے ہوۓ زرلشتہ غصے سے بولی۔پر جواب کہیں سے نا آیا۔

"ہوسکتا ہے دنیا مجھے ٹی وی پر دیکھ رہی ہو۔میری فین ہوگئ ہو۔آخر میں ہوں بھی تو اتنی پیاری۔اور لوگ یقینا ظالم پٹھان کو مارنے کی باتیں کررہے ہوں گے۔وہ ہے ہی کھڑوس ۔

اور لیڈی ہٹلر کو تو لوگ اب تک انڈیا والی ساس سمجھ چکے ہوں گے۔لوگوں دھیان سے سنو شنایہ بیگم کی انڈیا والی ساس ہی ہیں وہ جو 'ساتھ نبھانا ساتھیا' والے ڈرامے میں آتی تھی نا 'کوکیلا' یہ وہی ہیں۔ وہاں گوپی ان کے بس میں نہیں آئ تھی تو یہ زرلشتہ کو قابو کرنے کے لیے آگئ ہیں۔پر زرلشتہ ان کے قابو میں نہیں آۓ گی۔"

وہ ایک ایک کونے کی سمت دیکھتے ہوۓ بولی۔جیسے واقعی لوگ اسے ہی سن رہے ہیں۔

"ویسے اگر ایسا ہی ہوا تو زرلشتہ تم تو سوپر سٹار بن چکی ہوگی۔شاید یہ کوئ انوکھا شو ہو جس میں کنٹیسٹنٹ کو بھی پتہ نہ چلے کہ اسے لوگ دیکھ رہے ہیں۔اوۓ ہوۓ زرلش تو فیمس ہوگئ۔تارے گننے کا ریکارڈ بھلے نہ بنا ہو پر یہ شو تو میں ہی جیتوں گی۔۔۔!!!"

اپنی سوچ پر وہ اچھلی۔اس کے چہرے پر کافی ٹائم بعد وہی مسکراہٹ واپس آئ تھی۔خوشی سے گول گول گھومتے وہ رکی پھر اس کی ہنسی کی آواز چاروں سمت گونجی۔اب بھی کوئ اسے دیکھتا تو پاگل ہی کہتا جو ایک اور عجیب سا خواب سجا رہی تھی اور وہ یہ سب بھی بس خود کی بوریت دور کرنے کے لیے کررہی تھی۔

"ہوسکتا ہے اس فون پر کوئ کلو وغیرہ آیا ہو۔اسے آن کرکے دیکھتی ہوں میں۔۔۔!!!"

زرلشتہ نے خوش ہوتے ہوۓ کہا پھر فون آن کرنے لگی جو اتنے عرصے تک بند رہنے کی وجہ سے پاورڈ آف ہوچکا تھا۔

اس کی خوشی پھیکی پڑی کہ فون کو بھی ابھی مرنا تھا۔اس کا یہ ننھا سا خواب اسے پورا کرنا ہی تھا۔

"کوئ بات نہیں زرلشتہ تم ہار نہ مانو اسے چارج کرو اور مشن سٹارٹ کردو۔۔!!!"

وہ فون لے کر اب ظالم پٹھان کے فون کا چارجر اس کی سائیڈ ڈرار سے نکالنے لگی جب دروازہ کھلا اور وشہ کمرے میں آئ۔

"یہ فیری بھی یہاں آگئیں کیا یہ بھی کنٹیسٹنٹ ہوں گی۔کیا انہیں بھی اس شو کا پتہ ہوگا۔میں ان سے کیا بات کرلوں اس شو کے بارے میں۔۔!!"

اسے دیکھتے زرلشتہ نے سوچا۔وشہ چاکلیٹ کا باکس اپنے پیچھے چھپاۓ آئ تھی۔

"نہیں یہ رولز کے خلاف ہوگا میں اکیلی ہی کھیلوں گی۔۔!!"

اپنی سوچ کی نفی کرتے ہی اس نے بھی مسکرا کر وشہ کو دیکھا۔

"فیری آپ یہاں اس وقت ۔۔!!!!"

فون بڑی مہارت سے اس نے پیچھے بیڈ کے پاس ہی گرا دیا اور خود وشہ کے سامنے آگئ جس نے فورا چاکلیٹس والا باکس اس کے سامنے کردیا۔

"زرلش یہ آپ کے لیے ۔۔!!! اسے فرینڈ شب گفٹ سمجھیں۔ہمیں پتہ نہیں تھا کہ آپ کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں اس لیے ہم یہی لے آۓ۔ ہوپ سو آپ کو پسند آیا ہو یہ گفٹ۔۔!!!"

پیاسے کو کنواں نظر آجأ تو اس کے لیے خوشی چھپانا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ دوڑ کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔یہی زرلشتہ کے ساتھ ہوا ان چاکلیٹس کے بغیر زندگی بے رنگ ہوچکی تھی۔اور اب یہ چاکلیٹس اسے وشہ دے رہی تھی زرلشتہ نے آگے بڑھ کر وشہ کو زور سے ہگ کیا جو صورتحال سمجھتی رہ گئ۔

"اووو فیری آپ بہت ہی سویٹ ہو۔۔۔!!!! اس وقت میرا دل کررہا ہے کہ چیخ چیخ کر کہوں کہ آپ جیسا سویٹ شخص کوئ اور ہوہی نہیں سکتا ۔آپ بالکل میرے لالہ جان جیسی ہیں۔آۓ ایم ان لو ود یو ماۓ کیوٹ فرینڈ+سسٹر"

اس سے الگ ہوتے زرلشتہ نے باکس پکڑا اب کونسا شو کونسی ٹینشن۔وہ تو ان چاکلیٹس کے سامنے سب بھول گئ۔

وشہ بھی حیران ہوئ کہ چاکلیٹس پر کون اتنا خوش ہوتا ہے اسے لگا تھا زرلشتہ کو شاید یہ گفٹ عجیب سا لگے۔آخر اس میں کوئ خاصیت اس کے نزدیک تو نہیں تھی۔

"زرلش آپ چاکلیٹس پر اتنا خوش ہورہی ہیں۔ہمیں پتہ ہوتا تو ہم ایک نہیں کوئ دس بیس باکسز لادیتے آپ کو۔۔۔!!! پر اب بتائیے کیا آپ ہمارا دل تو نہیں رکھ رہی نا صرف۔۔!!!"

وشہ نے اسے باکس کھول کر چاکلیٹ کا پیکٹ نکال کر کھولتے ہوۓ دیکھا تو پوچھا۔جو جواب میں جس دلکشی سے مسکرائی کوئ مان ہی نہیں سکتا تھا یہ لڑکی یہاں ڈر کر رہ رہی ہے۔اس نے وہ چاکلیٹ اس کی طرف کی۔

"میں آپ کا دل نہیں رکھ رہی بلکے آپ کو دل میں رکھ چکی ہوں یارا۔۔۔!!!! اور اس وقت میری خوشی کا اندازہ کوئ لگا ہی نہیں سکتا۔وشہ آپ کیا درمان کی سگی بہن ہو یا پھر آپ کے بابا نے آپ کو کہیں سے اڈاپٹ کیا تھا۔"

وشہ نے چاکلیٹ کا بائٹ لیا تو زرلشتہ بھی مسکراتے پوۓ چاکلیٹ کھانے لگی۔وشہ تو اس کی خوشی پر ہی فدا ہونے کو تھی۔بلاشبہ زرلشتہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہنسانے کی اور انہیں ان کا اپنا آپ بھی بھلانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

"نہیں ہم آغاجان کی سگی بیٹی ہی ہیں۔پر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں یہ سب۔۔!!!"

وشہ نے جواب دیا تو اس نے کمرے میں لگی درمان کی پک دیکھی پھر وشہ کو دیکھا ۔

"یہ نیلی آنکھوں والے بیسٹ کی وجہ سے مجھے یہ شک اکثر و بیشتر ستاتا رہتا ہے۔آخر یہ پری اس گھر میں کیسے آگئ۔خیر میں کچھ بھی بولتی رہتی ہوں تو برا نہ منائیے گا۔اور چاکلیٹس کے لیے دل سے شکریہ۔۔۔!!! اس احسان کے لیے میں آخرت میں بھی آپ کی شکرگزار رہوں گی۔"

اس نے فراخدلی سے کیا تو وشہ بھی ہنس پڑی پھر تھوڑی سی مزید باتوں کے بعد وہاں سے چلی گئ۔اس کے جاتے ہی زرلشتہ نے دل سے اسے بے شمار دعائیں دیں کہ وہ کسی شہزادے کی قسمت میں ہی لکھی جاۓ جیسے اس کا بھائ۔

پھر چاکلیٹس صوفے کے نیچے چھپاتے وہ اب فون کی طرف لپکی۔اسے ظالم پٹھان پر ایک انچ بھی بھروسہ نہیں تھا وہ اس کی چاکلیٹس پھینک بھی سکتا تھا۔اور وہ وشہ کا گفٹ خراب ہونے نہیں دینا چاہتی تھی۔

درمان کا چارجر نکال کر اس نے فون چارجنگ پر لگایا اور وہیں سوچ بورڈ کے پاس کھڑی ہوگئ۔

"جلدی سے آن ہوجا ۔۔!!!! مجھے اپنے لالہ سے بات کرنی ہے اور اس شو کا اگلا کلو بھی ڈھونڈنا پے۔جلدی۔۔!!!! جلدی....!!!!!"

زرلشتہ جھنجھلاتے ہوۓ بار بار دروازے کی سمت بھی دیکھتی رہی کہ کہیں کوئ آہی نا جاۓ۔

یہ فون اسے اب کھونا نہیں تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان آج ایک فائل لینے گھر واپس آیا تھا۔جلدی جلدی میں سیڑھیاں چڑھتے اسے بس کمرے میں پہنچنا تھا۔جہان ایک نیا ڈرامہ اس کا منتظر تھا۔صبح وہ زرلشتہ کے اٹھنے سے پہلے ہی گھر سے نکل جاتا تھا اور کبھی کبھار تو اس کے سونے کے بعد واپس آتا تھا۔تبھی دونوں میں بحث کم ہوتی تھی۔پر جب بھی ہوتی ٹام اینڈ جیری کی لڑائ جیسی ہی ہوتی تھی۔

دروازہ کھولتے ہی اسے سامنے زرلشتہ دکھی جو ہاتھ میں فون پکڑے ایک انگلی دانتوں تلے دباۓ پریشانی سے فون ہی گھور رہی تھی۔

اس کے تو ہوش ہی اڑ گۓ کہ اس لڑکی کے پاس فون کہاں سے آیا جتنا اسے پتہ تھا زرلشتہ کے پاس فون نہیں تھا۔اور اب یہ انکشاف درمان کو سنجیدہ ہونے پر مجبور کررہا تھا۔

وہ دبے قدموں چلتا اس کے پاس آیا جو فون کو ہی گھورے جارہی تھی۔

"فون کہاں سے آگیا تمہارے پاس ۔؟؟؟ تم نے تو کہا تھا فون تم گھر چھوڑ آئ ہو۔۔!!"

اس کے پاس کھڑے ہوکر اس نے سنجیدگی سے استفسار کیا تو زرلشتہ نے بھی منہ بنایا۔

"ہاں مجھے بھی یہی لگا تھا پر یہ آج میرے بیگ سے نکلا ہے۔پتہ نہیں کیسے آیا وہاں پر اب آگیا ہے تو چیک کررہی ہوں کہ یہ چلے گا بھی یا نہیں۔۔!!!"

بغیر جانے کے یہ سوال پوچھا کس نے ہے زرلشتہ نے جواب دے دیا پھر چونک کر اس سمت دیکھا جہاں ظالم پٹھان اپنی آنکھوں سے اسے نگل جانے کو تیار کھڑا تھا۔وہ ڈر ہی اتنا گئ تھی کہ اچھل پڑی اور پیچھے کی سمت گرنے لگی پر اس سے پہلے ہی درمان ایک ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔جس کے دوسرے ہاتھ میں پکڑا فون بھی لرز رہا تھا۔وہ اب ہوا میں ہی معلق تھی ۔اگر درمان ہاتھ چھوڑتا تو سیدھا نیچے گرتی۔

"جن جی آ۔آپ کدھر سے نکلے۔کوئ مینرز نہیں کیا آپ میں کہ کمزور دل لوگوں کے سامنے یوں نہیں آتے ان کا ہارٹ فیل بھی ہوسکتا ہے۔"

لرزتے ہوئے اس نے غصہ کرنے کی ناممکن سی کوشش کی۔جس کے جواب میں درمان نے اسے اپنی سمت کھینچا پھر بڑی مہارت سے اسے خود سے ٹکرانے سے روک کر اسی جگہ کھڑا کیا اور اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر اس کے دوسرے ہاتھ سے فون بھی لے لیا۔جب تک زرلشتہ کچھ سمجھتی فون اس کی پہنچ سے دور دشمن کی کسٹڈی میں جا چکا تھا۔

"درمان فون واپس کریں میرا۔۔۔!!!! یہ میرا ہے آپ کا نہیں ہے جو اسے مجھ سے چھین رہے ہیں آپ۔۔!!!! یہ میرے لالہ نے مجھے گفٹ کیا تھا تو اسے شرافت سے واپس کریں ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔!!!"

اپنے فون کو اس کے ہاتھوں میں دیکھ کر وہ بپھری شیرنی بنی پر فون وہ اوپر کر چکا تھا اور چھلانگیں لگانے کے باوجود بھی اسے وہ ملنا مشکل تھا۔درمان اس کی حالت انجواۓ کررہا تھا جو اسے اب مارنے کا نیک ارادہ ضرور رکھتی تھی۔زرلشتہ کی آنکھوں میں خون اترا اس نے آگے بڑھ کر اس کا گلا دبانے کے لیے دونوں ہاتھ اس کی گردن تک لے جانے چاہے۔

"میں مار دوں گی آپ کو۔۔۔!!!! میری خوشی کے دشمن ہیں آپ۔خوامخواہ میرے راستے کا کانٹا بنے ہوۓ ہیں کیا مل رہا ہے آپ کو مجھے اپنے سامنے جھکا کر ۔۔۔!!!!"

وہ چیخی پر اس کے دونوں ہاتھ درمان اپنے ایک ہی ہاتھ میں پن کرگیا پھر وہ فون اپنی جینز کی پاکٹ میں ڈال کر اس نے اس کی بغاوت کرتی آنکھوں میں جھانکا۔جہان آج حقیقت والا غصہ تھا۔وہ اپنے ہاتھ چھڑوانا چاہ رہی تھی پر درمان کے سامنے یہ سب ممکن نہ تھا۔

"تم ونی ہو تو تمہیں فون یوز کرنے دینا ایک رسک ہے۔کیا پتہ تم اپنے بھائ کو ہمارے گھر کی مخبری کرنے لگو۔۔!!! یا پھر بھاگنے کا پلان بنا کر بھاگ جاؤ۔۔۔!!! مجھے تم پر یقین نہیں ہے رتی برابر بھی۔۔۔!!!!"

اس کے دونوں ہاتھ جھٹکے سے چھوڑتے درمان نے وہاں سائیڈ ٹیبل سے فائلز اٹھائ اور سپیڈ سے وہاں سے نکل گیا زرلشتہ نے اپنے ہاتھ دیکھے جو پورے سرخ ہورہے تھے۔پھر اپنی آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسو پونچھے ۔

"میرے خوابوں کا دشمن ہے یہ۔۔!!!! پہلے میرا تارے گننے والا ریکارڈ بنانے کا آئیڈیا اس کی وجہ سے خراب ہوا اب یہ شو جیتنے والا خواب بھی اس نے چکنا چور کردیا۔ظالم بے حس انسان ۔۔۔!!!"

روتے ہوۓ وہ صوفے پر بیٹھی اور صوفے کے نیچے سے چاکلیٹس کا باکس نکال کر اب چاکلیٹس کھانے لگی۔ساتھ میں رونے کا عمل بھی جاری تھا۔درمان تو طوفان کی طرح آیا تھا اور اس کا خواب بہا کر لے گیا۔

بڑی عجیب بات ہے کہ جس شخص سے نا ملنے کی آپ نے قسم کھائی ہو قسمت اسی شخص کو آپ کے سامنے لا کھڑی کردیتی ہے ۔جیسے آپ کو چڑا رہی ہو کہ دیکھو میں جو چاہوں گی وہی ہوگا۔تم سے بڑی کھلاڑی تو میں ہوں اور انسان ہمیشہ قسمت کے سامنے مجبور ہوجاتا ہے۔کیونکہ وہ دکھتی جو نہیں ۔اگر دکھتی ہوتی تو ہم اپنی قسمت اپنے مطابق لکھ لیتے۔

پر اگر حق کی بات کریں تو اپنے مطابق قسمت لکھ کر ہم بعد میں خود ہی پچھتاتے کیونکہ ہم جانتے ہی نہیں کہ کیا ہمارے حق میں بہتر ہے اور کیا نہیں۔یا جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے وجہ کیا ہے۔جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہوتا ہے اس کے پیچھے کوئ نا کوئ وجہ ضرور ہوتی ہے۔جو پوشیدہ ہونے کے سبب ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔

یہی حال درمان اور دیار کا بھی تھا۔وہ دونوں ایک دوسرے سے جتنا بھی دور جانے کی کوشش کرتے قسمت انہیں اتنا ہی ایک دوسرے کے سامنے لے آتی۔

سڑک پر دونوں کی گاڑیاں بیک وقت زور دار جھٹکے سے رکیں۔گاڑیوں کے رکتے ہی فضا میں سکوت چھاگیا۔ دیار نے اپنے بالکل سامنے کھڑی درمان کی گاڑی دیکھی تو اسے اپنی بہن یاد آئ۔جس کی ابھی تک کوئ خبر اسے نہ ملی تھی۔اس کے آدمی نے بھی بس یہی بتایا تھا کہ وہ زندہ ہے اس سے زیادہ وہ بھی کچھ پتہ نہ لگا سکا۔

درمان نے جب سامنے دیار کی گاڑی دیکھی تو ناگواریت سے نظریں پھیر لیں۔وہ اس وقت اس شخص سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔کیونکہ دیار نے جو احسان اس کی بہن کو بچا کر کیا تھا وہ بہت بڑا تھا۔ وہ الگ بات تھی کہ درمان کبھی اس شخص کا شکر گزار نہ ہوتا کیونکہ اس کی انا نے جھکنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ دونوں نے بیک وقت اپنی اپنی گاڑیوں کا دروازہ کھولا اور باہر نکلے۔

نظریں ایک دوسرے پر ہی جمی تھیں۔پھر چلتے ہوۓ اپنی اپنی گاڑیوں کے سامنے آکھڑے ہوۓ۔

دونوں کے گارڈز بھی چوکنا ہوگۓ تاکہ اگر معاملہ بگڑ جاۓ تو وہ بروقت حالات پر قابو پاسکیں ۔

"اب یہ شخص مجھے اپنا احسان یاد دلاۓ گا۔کیا مصیبت ہے ۔۔۔!!!!!! میں مانتا ہوں اس نے جو احسان کیا وہ بہت بڑا ہے پر میں اس کے سامنے نہیں جھک سکتا۔۔۔!!!!"

درمان نے نظروں کا زاویہ بدلا۔اس کے ذہن میں تو یہی سوچ چل رہی تھی۔اس کے تاثرات ایسے تھے جیسے اس نے گاڑی سے نکل کر احسان کیا ہو۔

"یہ شخص نہیں بدل سکتا۔۔۔!!!!! یا اللہ کاش میں اس وقت اتنا کمزور نہ ہوتا کہ مجھے اس شخص کا سامنا کرنا پڑتا۔تو مجھے صبر دے دے یا اللہ۔۔!!! میں بے گناہ ہوں تو یہ جانتا ہے پر تیرے بندے تو مجھے شک کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں۔بس مجھے ہمت دے کہ میں ان نظروں کو برداشت کرسکوں۔۔!!!"

دیار نے محسوس کیا کہ وہ تو اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا تبھی اس نے دل میں اللہ سے دعا کی۔بہت مشکل ہوتا ہے بے قصور ہونے کے باوجود مشکوک بنے رہنا ۔وہ آج بھی اسی عاجزی سے کھڑا تھا جو اس کا خاصہ تھی۔

"کیوں روکا ہے تم نے میرا رستہ ۔۔۔!!!! پچھلی بار میں بچ گیا  تھا کیا اس بار ادھورا کام پورا کرنے آۓ ہو دیار درانی۔۔!!!"

دونوں کے بیچ کافی دیر تک خاموشی قائم رہی پھر اس خاموشی کو درمان کے طنز نے توڑا۔ دیار نے بس ایک نظر اس پر ڈالی تھی جس میں سوال تھا کہ کیا میں ایسا کچھ کرسکتا ہوں۔۔؟

جواب میں وہ جس زہریلی مسکراہٹ سے ہنسا دیار کے دل میں چھبن ہوئ۔

"رستہ میں نے نہیں تم نے روکا ہے ۔۔۔!!!!! اور میں تمہارے سامنے بس اپنی بہن کی خیریت پوچھنے آیا ہوں اور کچھ نہیں۔۔۔!!"

دیار بھی اپنی گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔اور کندھے اچکا دیے کہ اسے بس اپنی بہن سے ہی سروکار ہے اور کچھ نہیں۔درمان کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔اس کی مسکراہٹ دیکھنے کا شرف ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا تھا۔وہ مغرور جو تھا تو آخر یہ قیمتی مسکراہٹ یونہی کیوں ہر کسی پر وارتا رہتا۔

"او تو دیار درانی صاحب کو بہن کی فکر ہورہی ہے۔جب اسے خود کو بچانے کے لیے جرگے میں پیش کیا تھا تو کیا تب تمہارے اندر کی یہ محبت نہیں جاگی تھی۔تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ اب میری بیوی ہے ۔۔!!!! اور اس کی کوئ خبر تو اب تمہیں ملنے سے رہی۔۔۔!!!"

درمان نے بغور اس کے تاثرات کا جائزہ لیتے ہوۓ کہا۔جو یہ طنز سن سن کر تھک چکا تھا۔وہ کیسے دنیا کو یقین دلاتا کہ اس کی مرضی ان سب میں شامل تھی ہی نہیں۔وہ تو آخری وقت تک کہتا رہا تھا کہ اسے مار کر بدلہ پورا کرلیا جاۓ۔پر اس کی بہن کو چھوڑ دیا جاۓ۔لیکن کسی نے اس کی بات نہ مانی تھی۔

یہ وار تھا اس کی غیرت پر تبھی دیار نے اپنی قمیض کی سائیڈ  پاکٹ سے اپنی پسٹل نکالی۔اس کے ہاتھ میں ریوالور دیکھنے کی دیر تھی کہ دونوں اطراف کے گارڈز الرٹ ہوۓ۔درمان کے گارڈز جو اب اس کے اطراف میں کھڑے تھے انہوں نے اپنی بندوقیں دیار پر تان لیں۔لیکن اگلے ہی لمحے درمان ہاتھ کے اشارے سے انہیں پرسکون رہنے کو کہہ گیا۔دیار واقعی نہی جانتا تھا کہ جو لڑکی اس دن اس سے ملی تھی وہ درمان کی بہن تھی کیونکہ اس نے یہ بات اپنے آدمیوں سے بھی دوبارہ نہیں پوچھی تھی ۔

"چل مار مجھے ۔۔۔!!! یہ شوق بھی تو پورا کرہی لے۔درمان ان کھونوں سے ڈرنے والا نہیں ہے اور یہ بھی سن لے کہ اب تیری بہن مر بھی گئ تب بھی اس کا آخری دیدار کرنے کی بھی اجازت میں تجھے نہیں دوں گا۔۔!!"

درمان گاڑی کی ٹیک چھوڑ کر کھڑا ہوا۔اور اسے فائر کرنے کو کہا۔لیکن جب اس نے زرلشتہ کے لیے مرنے کا لفظ استعمال کیا تھا تب دل اس کا بھی ڈوب کر ابھرا تھا۔کچھ لوگ خاموشی سے دل کے مکین بن جاتے ہیں کہ پھر ان کے دور جانے کا خیال بھی سوہان روح ہوتا ہے۔درمان صاحب بھی زرلشتہ کو دل میں بسانے لگے تھے۔

پر یہ بات وہ ماننا چاہتے ہی نہیں تھے۔

دیار نے وہ پسٹل اس کی طرف اچھال دی۔درمان حیران ہوا پر وہ پسٹل پکڑ چکا تھا۔درمان نے پسٹل دیکھی پھر ابرو اچکا کر اس سے اسے دینے کا مقصد پوچھا۔وہ دونوں تو گن کو کھلونا سمجھ کر کھیل رہے تھے۔جیسے بچے گیند سے کیچ کیچ کھیلتے ہیں۔پر جان تو ان کے گارڈز کی نکلی تھی۔دونوں میں سے اگر کسی کو بھی کچھ ہوجاتا تو اس کے ساتھ کے گارڈز بے موت مارے جاتے۔پر یہاں فکر کسے تھی۔۔!!!!

"مجھے بیغیرتی کا طعنہ بار بار دینے سے اچھا ہے ایک ہی بار اس ریوالور کی ساری گولیاں میرے سینے میں اتار اور یہ کہانی یہی ختم کردے۔بدلے میں میری بہن آزاد کردینا۔تیری سوچ سے زیادہ پیاری ہے وہ مجھے۔۔۔۔!!!!!

وہ تجھ جیسے مغرور،اور بے حس کی قید میں رہی تو مر جاۓ گی۔اسے آزاد فضا میں سانس لینے کی عادت ہے۔ تیری قید اس کی مسکراہٹ بھی چھین لے گی۔

میری مان تو آج یہ کھیل ختم کردے۔۔!!! کم از کم میری بہن تو اس کھیل میں بے موت نہیں مرے گی نا۔۔!!"

وہ اذیت بھرے لہجے میں بولا۔ اور آنکھیں میچ گیا۔ درمان نے اس کی باتیں سنیں تو گن لوڈ کی۔ دیار مطمئن کھڑا تھا۔پر دیار کے گارڈز تو بے ہوش ہونے والے تھے کہ اگر وہ دیار کو مار دیتا تو ان کے کتنے ٹکڑے کیے جاتے ۔

درمان نے اسے دیکھا پھر گن کو دیکھا اور پسٹل ایک طرف رکھ دی۔

"تو میرا بھائ مجھے ڈھونڈ دے ۔اور اپنی بہن واپس لے جا۔پکا ایک بار تو میری تلاش ختم کردے۔پھر یہ کھیل بھی یہیں ختم ہوجاۓ گا۔ لیکن جب تک فدیان نہیں ملتا نہ تجھے زرلشتہ کی کوئ خبر ملے گی نہ ہی تجھے اس کی صورت دیکھنے کو ملے گی۔۔۔!!!"

اس نے وہ گن اس کی طرف واپس اچھال دی۔اور اپنا فیصلہ سنا دیا ۔ درمان بھی اب اس کھیل سے اکتا چکا تھا وہ بھی اب سکون چاہتا تھا۔پر دل نے پوچھا تھا کیا تم واقعی فدیان کے ملتے زرلشتہ کو واپس دے دو گے۔۔؟؟؟

جواب میں وہ دل کو کوئ تسلی بھی نہیں دے پایا تھا۔ اسی لیے وہ وہاں سے پلٹنے لگا تاکہ کہیں جاکر اس دل کو کوئ تسلی دے سکے۔

لیکن دیار کی آخری بات نے اس کے قدم جھکڑ لیے۔

"اپنی بات پر قائم رہنا اب۔۔!!!! وعدہ رہا تیرا بھائ اسی مہینے میں تجھے ڈھونڈ کر دوں گا۔چاہے وہ پاتال میں ہی کیوں نہ ہوا۔پر تو اسی دن مجھے میری بہن واپس دے گا۔ تب تک اس پر کوئ ظلم نہ کرنا۔ وہ اپنی دنیا میں مگن رہنے والی لڑکی ہے۔اسے اس کی دنیا میں ہی رہنے دے  اسے التجا سمجھ لینا۔ "

دیار اب التجا پر اتر چکا تھا۔آخر بے بسی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔اسے خبر ملی تھی کہ فدیان کو اس کے گاؤں کے قریب سے ہی اغواہ کیا گیا تھا۔یعنی وہ لوگ اسے شہر کی سمت نہیں لے کر گۓ۔وہ اب بھی ان کے آس پاس ہی کہیں تھا۔ اب وہ جہاں تھا اسے اس جگہ پہنچا تھا۔

دیار پر الزام اسی وجہ سے لگا کیونکہ آخری بار فدیان طیش کے عالم میں اسی شخص سے ملنے آیا تھا۔پھر کیا ہوا کوئ نہیں جانتا۔

"جو فیصلہ جرگے میں ہوا میں مانوں گا۔۔۔!!! تو بے فکر رہ۔۔۔!!"

سنجیدگی سے کہتے درمان اپنی گاڑی میں واپس بیٹھ گیا۔اور گاڑی سائیڈ سے گزار کر لے گیا۔

دیار کو بھی کسی کام سے جانا تھا تبھی وہ بھی وہاں سے چلا گیا۔دونوں کے گارڈز نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ دونوں سرپھرے بغیر خون خرابے کے خاموش ہوگۓ ورنہ تو یہ ایک دوسرے کو مار کر ہی سکون لیتے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"بیوی وہ میری ہے تو میرے ساتھ ہی رہے گی نا اسے کیوں مرچیں لگ رہی ہیں۔۔!!! مانا یہ اس کا بھائ ہے پر بھائ کیا بہنوں کو رخصت نہیں کرتے۔۔۔!!!! اس نے اسے رخصت کردیا ہے میں بہنوئ ہوں اس کا پر مجال جو اس کی آنکھوں میں کوئ لحاظ بچا ہوں میرے لیے۔۔!!!"

دیار کی بات یاد کرتے ہی درمان جو فل سپیڈ میں گاڑی ڈرائیو کررہا تھا اس نے غصے سے کہا۔اسے اس وقت زرلشتہ کو آزاد کرنے والی بات زہر لگ رہی تھی۔

"ایک بار سب ٹھیک ہوجاۓ تو وہ اس سے مل لیا کرے گی۔اتنا ہی کافی ہوگا دونوں کے لیے۔واپس تو اسے میں نہیں کروں گا وہ بیوی ہے میری کوئ چیز نہیں ہے جسے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ شفٹ کرتا رہوں۔۔!!!"

نیلی آنکھوں میں غصے کی وجہ سے خون اتر رہا تھا۔درمان وہ پہلا شخص تھا جو اپنی ہی بیوی کے بھائ سے جیلس ہورہا تھا۔

اب اسے بھی پتہ تھا دیار ناممکن کو ممکن بھی کرجاۓ گا اور بہت جلد اس کا بھائ اس کے پاس ہوگا۔لیکن اگر جرگے نے درمان کو زرلشتہ کو آزاد کرنے کے لیے کہہ دیا تب وہ کیا کرے گا۔

"ایسی بیوی بار بار تو مجھے ملنے سے رہی۔کسی بات کو خود پر سوار نہیں کرتی۔نا زیادہ دیر تک کسی بات کو دل میں رکھتی ہے۔۔۔!!!!

نا کسی سے نفرت ،نا حسد،کا کوئ غرور ،کا کسی کے لیے دل میں کینہ۔۔!!!!

آغاجان ٹھیک ہی کہتے ہیں اس کا دل صاف ہے ورنہ آج کل لوگ واقعی منہ پر کچھ اور ،اور پیٹھ پیچھے کچھ اور ہوتے ہیں ۔!!"

وہ اس کی تعریف کررہا تھا۔شاید پہلی بار ۔۔!!!!

دونوں کو ساتھ رہتے اب مہینہ ہونے کو تھا۔اس مہینے کے اندر وہ اسے بہت حد تک جان چکا تھا۔

"مانگ تو وہ اسے ایسے رہا ہے جیسے میں بھی اس پاگل سے جان چھڑوانے کو بے تاب ہوں ۔بس تھوڑا سا بچپنہ ہے اس میں اگر وہ تھوڑی سی سیریس ہوجاۓ تو سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔"

اسے غصہ تھا بہت غصہ۔۔!!!!

اسی لیے تو وہ طے کرچکا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجاۓ وہ اسی کی رہے گی۔آخر جو ایک بار اس کا ہوجاۓ پھر وہ اسی کا ہی رہتا ہے۔اب زرلشتہ بھی اسی کی تھی وہ اسے جیسے چاہے ٹریٹ کرتا پر اسے اب جانے تو نہ دیتا ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"اس سائیڈ پر چلی جاتی ہوں۔وہاں وہ ظالم پٹھان نہیں آۓ گا۔"

کمرے میں رہ رہ کر اب زرلشتہ بھی تھک چکی تھی۔تبھی آج چھپتے چھپاتے وہ کمرے سے نکل ہی آئ۔درمان نے اسے سختی سے منع کیا تھا کہ وہ اس کی مورے کے آس پاس بھی نہ بھٹکے۔اور وہ ان کے سامنے جاتی بھی نہیں تھی۔

وہ حویلی کے پچھلی جانب بنے لان میں جانے لگی۔

وہ اس وقت روز پنک کلر کی گپسی شرٹ پہنے (جس کی آستینیں کلائ سے تنگ تھیں)۔کریمی پنک بیگی جینز پہنے سر پر bulky buffalo plaid hat پہنے ننگے پیر لان کی سمت جارہی تھی۔

وہ اس پورے مہینے یا تو ٹیرس پر گھومتی رہتی تھی یا خیالی پلاؤ بناتی رہتی تھی۔اگر درمان اس کے سامنے ہوتا تو صوفے پر منہ بناکر بیٹھی رہتی کیونکہ اس نے اس کا فون جو چھین لیا تھا۔اور ناراضگی ڈر سمیت اب بھی قائم تھی۔

"میدان خالی ہے۔۔!!!! شکر ہے یہاں کوئ بھی موجود نہیں اب میں سکوں سے یہاں گھوم سکتی ہوں ۔۔۔!!!"

وہ لان میں آئ اور مسکراتے ہوۓ کہا۔پھر سب سے پہلے دیواروں کو دیکھا۔جو اونچی تھیں اور ان پر حفاظتی تار بھی لگے ہوۓ تھے۔اس نے منہ بسورا۔

"کنجوسوں نے پیسہ تو بڑا لگایا ہے اپنے محل کو قید خانہ بنانے کے لیے۔۔!!!!! دیواروں پر تار بھی لگا دیے ۔فرش ہر ماربل بھی سجا دیا،دیواریں بھی کسی مغلیہ دور کے محل جیسی بنادیں پر فریج میں آئس کریم یا کوئ اور شے نہیں رکھی ان لوگوں نے۔۔۔!!!!!!

کیا فایدہ اس ظاہری خوبصورتی کا جب بندے کا پیٹ ہی خالی ہو۔کروڑوں روپے دیواروں پر لگادیے تاکہ کوئ چور نہ یہاں آۓ پر گھر میں ایسی کوئ شے ہے ہی نہیں جسے چوروں سے بچایا جاۓ۔۔۔!!!!"

آزاد فضا میں سانس لے کر اس نے ننگے پاؤں گھاس پر چلنا شروع کیا پاؤں پر گاس کی وجہ سے ہوتی چبھن محسوس کرتے وہ کھلکھلائ۔

پہاڑوں کے درمیان موسم بھی اٹھکیلیاں کرتا رہتا تھا۔کبھی انتہا کی گرمی تو کبھی جمادینے والی سردی ۔آج یہاں دن میں بھی خاصی سردی تھی اور رات شاید یہاں برف باری بھی ہوجاتی۔

"یا اللہ اگر چوری حرام نہ ہوتی نا تو میں لیڈی ہٹلر کی تجوری سے سارا سونا اور ہیرے جواہرات نکال کر غریبوں میں بانٹ دیتی۔بیچاری میری ساس نے تو یہ نیک کام کرنا نہیں ہے۔تو میں ہی ان کے اعمال نامے میں نیکیاں لکھوادیتی۔کیا کریں گی وہ اتنے سونے اور ہیروں کا جب آخر میں انہوں نے مجھ پر کیے گۓ ظلموں کا حساب ہی دینا ہے اس ونی کی ساس کی طرح۔۔۔!!!!!

پر افسوس چوری حرام ہے اس لیے میں یہ نیک کام نہیں کرسکتی۔"

خود ہی سوچ کر پھر اس سوچ کو رد کرکے وہ گھاس پر بیٹھ گئ۔

کاش میں بھی Robin Hood(انگریزی ادب کا مشہور کردار جو امیروں سے دولت لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرتا تھا) بن سکتی۔درختوں پر گھر بناتی میرے بھی بہت سے دوست ہوتے ایک نام ہوتا۔پر وہ تو لڑکا تھا نا میں کاش merinate ہی بن جاتی۔جادو کی چھری سے سب کچھ بدل دیتی۔۔!!!"

اس نے مسکراتے ہوۓ خود کو ان کریکٹرز کی جگہ امیجن بھی کیا۔پھر ہاتھ سے وہاں لگی گھاس اکھیڑنے لگی۔ اس نے سر اٹھا کر چمکتے ہوۓ سورج کو دیکھا۔جس کی تپش کی وجہ سے اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔

"تم بھی اسی کے جیسے ہو۔کسی کو خود کو دیکھنے نہ دیکھا۔کھڑوس۔۔۔!!!!! دیکھنے والی کی آنکھیں ہی جلا دینا ۔۔۔!!!! کیا ملتا ہے اتنا روڈ ہوکر تمہیں ۔!!!!! ایک دن میں بھی ایک کہانی لکھوں گی کہ ہر جلتی ہوئ چیز درمان ہی ہوتی ہے۔۔۔۔!!!"

اپنی آنکھیں رگڑتے ہوۓ اس نے تپ کر یہ سب سورج کو سنایا۔آج کل ویسے بھی جب بھی اسے کوئ شے تکلیف دیتی تھی تو وہ اس کا نام درمان رکھ دیتی تھی۔

اپنی ہیٹ درست کرکے وہ وہاں سے اٹھ گئ۔ابھی تقریبا دو بجے تھے اور اس کا اس جگہ سے اب کمرے میں جانے کا کوئ ارادہ نہیں تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دوپہر سے شام اور اب شام بھی ڈھلنے والی تھی۔پر زرلشتہ اب بھی لان میں ہی بیٹھی تھی حیرت انگیز طور پر اس سمت نا کوئ ملازم آیا تھا نا ہی کوئ دوسرا فرد آیا تھا۔

سورج غروب ہوچکا تھا۔اب ہر سو خنکی بڑھتی جارہی تھی۔اور زرلشتہ کے چہرے کی مسکان اب بھی ویسی کی ویسی ہی تھی۔

"میں جلد اس جنات کے ٹھکانے سے نکل جاؤں گی۔۔۔!!!!! یہاں کی چڑیلوں اور جنوں سن لو زرلشتہ پری ہے اور پریاں پرستان میں ہی رہتی ہیں۔میں غلطی سے یہاں آگئ ہوں پر ہمیشہ یہاں نہیں رہوں گی۔۔!!!"

اپنے دونوں ہاتھ کھول کر چہرہ اوپر کی سمت کرکے وہ گول گول گھومنے لگی۔ہر طرف اس کی آواز گونج اٹھی۔

وہ الگ بات تھی کہ ابھی بارش نہیں ہورہی تھی۔پر فیلنگ لینے میں کونسا گناہ مل جانا تھا۔

"یہ کنجوسوں کا محل تم سب کو ہی مبارک ہو۔میرا محل جیسے باہر سے بڑا ہے ویسے ہی وہاں کے مہینوں کے دل بھی بڑے ہیں۔اے چڑیلوں سنوں میں زرلشتہ بہراور درانی جلد اس قید خانے سے رہا ہو جاؤں گی ایسی نگری جاؤں گی جہاں نا لیڈی ہٹلر ہو گی نا ہی ظالم پٹھان ہوگا۔

جاتے ہوۓ فیری کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گی وہ بھلا یہاں اکیلی رہ کر کیا کریں گی۔پھر چاکلیٹوں کا سمندر ہوگا،برگر کے پہاڑ ہوں گے،کولڈ ڈرنک کی نہریں ہوں گی،پیزے کی بارش ہو گی،پاستے کی ہوائیں چلیں گی ۔۔!!!!

بس پھر صرف میرا راج ہوگا وہاں۔۔!!! زرلشتہ بہراور درانی کا۔۔۔!!!!!!"

وہ اونچی آواز میں بولی اسے اپنے سنگ یہ زمین بھی ہواؤں میں اڑتی ہوئی محسوس ہوئ۔

پر اس کی قسمت ہی خراب تھی۔جو اس کا جن اس وقت اسی طرف آرہا تھا۔یہ اس کا اس پورے گھر میں فیورٹ ایریا تھا جسے اس نے اپنے مطابق ڈیکوریٹ کروایا تھا۔

آج واپس آتے ہی اس کا دل اسی سمت آنے کو کیا۔پر یہاں آتے ہی اسے ایک جانی پہچانی آواز سنائ دی اور سامنے اپنی ہی بیوی کھڑی نظر آئ اس نے بس زرلشتہ کا آخری جملہ سنا تھا۔یا وہ نام جو اس نے ابھی لیا تھا بس۔۔!!!! 

اس کے چہرے کا رنگ بدلا ۔

اسے خود سے جڑے وجود کا تعارف بھی اپنے نام کے ساتھ ہی پسند تھا۔

"لگتا ہے یہ بھول گئ ہے کہ اس کا نام ہے کیا۔اسے اب دوبارہ سمجھانا پڑے گا۔۔!!!"

بڑبڑاتے ہوۓ وہ آگے بڑھا پر زرلشتہ کا بچکانہ حلیہ دیکھتے ہی اس کا دل اپنا سر توڑنے کو کیا کہ یہ لڑکی کیا عقل سے کام نہیں لیتی ۔

"کم عقل ہے یہ پوری کی پوری۔۔!!!! پتا نہیں کب سدھرے گی یہ۔۔!!! کیا سکھاتا رہا ہے یہ دیار اس لڑکی کو۔اگر اسے تھوڑی سی عقل دے دیتا تو آج یہ بچوں کی طرح یہاں چیخ نہ رہی ہوتی ۔۔!!!"

درمان نے دانت پیسے اور غصہ قابو میں کیا۔وہ جب بھی اس کی بچکانہ حرکتیں دیکھتا تھا غصہ تو اسے آہی جاتا تھا۔ درمان پاس ہو اور زرلشتہ کی مسکراہٹ ٹک جاۓ یہ ناممکنات میں سے ہی ہے۔وہ اسے ہنسا تو نہیں سکتا نا ہی اسے ہنستا ہوا دیکھ سکتا ہے۔زرلشتہ اب بھی خود میں مگن تھی۔

"بیوقوف لڑکی,,,,,,,,,,!!!!!!!"

کس سے پوچھ کر تم کمرے سے نکلی ہو۔۔۔!!!"

وہ لمبے لمبے ڈنگ بھرتا اس تک پہنچا اور غصے سے پوچھنے لگا۔زرلشتہ نے اس ڈراؤنے شخص کی دھاڑ سنی تو اس کا دل حلق کو آیا اور وہ چیخ کر اچھل پڑی جیسے اس شخص کی آواز اسے کسی انہونی آفت جیسی لگی ہو۔

"یا اللہ خیر۔۔۔۔!!!!!!! میں نے چڑیلوں کو بلایا تھا یہ جن کہاں سے نکل آیا۔میری نا قسمت ہی خراب ہے جو یہ جن میرے ہی پلے پڑگیا ہے ۔یا اللہ کیوٹ پٹھان نا سہی مجھے ایک نارمل پٹھان ہی دے دیتا تو میں گزارہ کرلیتی پر یہ جنوں کا سردار مجھے کیوں مل گیا۔۔۔!!!" 

اس کا دل سہم گیا اس نے سامنے دیکھا تو وہی شخص کھڑا تھا اس کی مسکراہٹ چھن گئ اور سرمئ آنکھوں میں آنسو آگۓ۔

"کاش میں بھی کوئ چڑیل ہوتی اور اس وقت اڑ کر یہاں سے بھاگ جاتی۔پھر کبھی اس جنوں کے قبیلے میں پیر بھی نہ رکھتی ۔ہاۓ رہ میری قسمت۔۔!!! شوہر جن ہے تو میں انسان کیوں ہوں ۔مجھے بھی یا اللہ چڑیل بنا دے۔بھلے کیوٹ پٹھان نہ دے پر مجھے بھی اس جیسا ظالم بنا دے...!!!!!"

اس کی آنکھوں میں افسوس سے نمی چمکی۔درمان اسے ہی گھور رہا تھا جو اب پتھر کا مجسمہ بنی کھڑی تھی جیسے واقعی اس نے جن ہی دیکھ لیا ہو۔

"کچھ پوچھا ہے میں نے,,,,!!!!!! اور یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے۔کارٹون بننا ضروری ہے کیا تمہارا,,,,,,!!!!!! کبھی تو میچور بن جاؤ ۔کبھی تو مجھے یقین کرنے دو کہ تم میری بیوی ہو کوئ بچی نہیں جسے میں نے اڈاپٹ کیا ہے۔۔۔!!!'

درمان نے اس کی بھیگی آنکھیں دیکھیں تھیں۔اسے اس وقت غصہ اس بات پر آیا تھا کہ اگر کوئ ملازم اس لڑکی کو اس حلیے میں دیکھ لیتا تو وہ ملازم بے موت مارا جاتا۔کمرے تک تو اسے اس کے حلیے سے اعتراض نہیں تھا۔کیونکہ وہاں کوئ نامحرم اسے دیکھتا جو نہیں تھا۔پر گھر کے باہر اسے کوئ اس حلیے میں دیکھ لیتا تو کیا عزت رہ جاتی درمان کی۔

"یہ انسانوں والے کپڑے ہی ہیں۔میں نے خود مال سے لیے تھے۔اور مال میں جانوروں کے کپڑے نہیں ملتے۔آپ کو کیا پتہ ہو۔(آپ جیسا جن کیا کبھی مال گیا ہوگا۔آپ تو پیسے بچانے کے لیے کپڑے جادو سے چوری کرکے لاتے ہوگے۔اکڑو،کھڑوس آدمی۔۔!!!)

میں کارٹون نہیں ہوں۔(آپ ہیں جنوں کے سردار۔زکوٹا جن کا جانشین). ہر بار آپ مجھے ہرٹ کرتے ہیں ناٹ فیئر۔۔!!! اور میں میچور ہی ہوں۔تبھی کسی کو ہرٹ نہیں کرتی۔میرے منہ میں اگر قینچی جیسی زبان ہے تو آپ بھی منہ میں ڈرل مشین لے کر گھومتے ہیں جو سامنے آۓ اس کا دل ہی چیڑ دیں آپ۔۔!!! 

آپ بھی لوگوں کا دل نہ دکھایا کریں گناہ ملتا ہے،اللہ ناراض ہوجاتا ہے،اور پھر جہنم میں بھی پھینک دیتا ہے۔"

چند قدم اس سے دور ہوکر زرلشتہ نے بھی اگلے پچھلے حساب برابر کیے اسے غصہ آیا کہ جب بھی وہ خوش ہوتی ہے یہ شخص کیوں آجاتا ہے اسے یاد دلانے کی وہ جن کی بیوی ہے۔

اس لڑکی کی میچورٹی پر درمان نے اسے غصے سے دیکھا جو منہ بناتے ہوۓ سر جھکا گئ۔

"ہاں جیسے اس حلیے پر تو محترمہ کو جنت کا ٹکٹ مل جانا ہے انسانوں والے کپڑے ہیں یہ۔۔!!! دوپٹہ ہے ہی نہیں۔۔!!!اور یہ جینز، شرٹ پہنے تو یہ دیار کا بھائ لگتی ہے۔چل درمان اسے عقل بھی اب تجھے ہی دینی پڑے گی۔"

کوفت سے سوچتے اس نے اس کا جھکا سر دیکھا ۔

"جوس کے کر آؤ میرے لیے۔۔!!! کوئ ملازمہ دکھی تو اس سے کہہ دینا ۔خود نا بنانے لگ جانا۔کہیں زہر ہی نہ ڈال دو تم اس میں۔کمرے میں آؤ پھر بات ہوگی۔۔!!!"

حکم دے کر وہ جانے لگا جب نظر اس کے ننگے پیروں پر پڑی۔اس سردی میں یہ لڑکی پتہ نہیں کونسے چلے کاٹ رہی تھی۔یہ جان بوجھ کر اسے غصہ دلاتی تھی۔

"جوتا پہنا کرو۔۔!!! یہاں سے کوئ سانپ نکل آیا یا بچھو نے تمہیں ڈس لیا تو روتی رہو گی۔۔!!!"

اسے غصے سے کہتے اس نے قدم آگے کی طرف کے لیے۔

"جن کے ڈسے کو سانپ کا زہر بھی کچھ نہیں کہتا۔ایک مہینے بعد میں سانپ ہاتھ میں لے کر گھوموں گی۔بچھو مجھے دیکھ کر تھر تھر کانپنے گے۔چڑیلیں مجھے دیکھتے ہی سلام کیا کریں گی۔آخر اس جن کے ساتھ رہ کر کچھ تو میں بھی سیکھ ہی لوں گی نا۔۔!!!"

اس نے اسے دیکھتے ہوۓ سوچا۔پھر وہیں کھڑی ہوگئ اور اپنا حلیہ دیکھنے لگی۔جو اسے تو اچھا ہی لگتا تھا۔پر اب اسے کون سمجھاتا کہ درمان نہیں چاہتا کہ کوئ اسے ایک نظر بھی دیکھے۔وہ اس لیے انسیکیور ہورہا ہے۔اور اپنی کیفیت وہ خود بھی نہیں سمجھنا چاہتا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان کے جانے کے بعد کافی دیر تک وہ وہیں کھڑی رہی جب یقین ہوگیا کہ درمان اب تک کمرے میں جاچکا ہو گا اس وقت وہ کچن میں اس کے لیے جوس لینے گئ۔

وہاں ملازمہ پہلے ہی کسی کے لیے جوس کا گلاس ٹرے میں رکھے لے جارہی تھی۔زرلشتہ آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے ٹرے پکڑ لی۔تو ملازمہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"ہر کسی کو جواب دینا میں ضروری نہیں سمجھتی۔۔۔!!!! تو پلیز اپنا کام کرو ۔!!!"

آنکھیں گھماتے وہ جیسے آئ تھی ویسے ہی نکل گئ۔ملازمہ نے بھی کندھے اچکادیے اور دوبارہ بنانا شیک بنانے لگی۔

جی ہاں زرلشتہ جلدی میں بس ٹرے اٹھا کر لے گئ تھی اس نے گلاس میں دیکھا ہی نہیں تھا کہ ہے کیا۔اس میں جوس نہیں شیک تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

کمرے میں آتے ہی درمان نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔لیپ ٹاپ گود میں رکھتے اس نے ای میلز چیک کیں۔پر جو سامنے اسے دیکھنے کو اسے پڑھ کر اس شخص کا گھوما ہوا دماغ پھر سے گھوم گیا۔غصے سے لیپ ٹاپ بند کرکے اس نے سائیڈ پر رکھ دیا ۔اور اپنی پیشانی کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے رگڑنے لگا 

"کسی کام کے نہیں یہ لوگ۔پتہ نہیں پیسے کس کام کے لیتے ہیں یہ۔کچھ دن میں آفس نہیں گیا تو آفس ڈبونے کا پروگرام بنالیا ان لوگوں نے کل کرتا ہوں ان سب کی مرمت بہت ہواؤں میں اڑ رہے ہیں یہ لوگ۔ایک ایک کو الٹا لٹکا نہ دیا تو میرا نام بھی درمان آفریدی نہیں۔۔۔!!!!"

لیپ ٹاپ پٹخ کر وہ اٹھا۔اسے اپنا آفس سٹارٹ کیے ابھی صرف چار سال ہی ہوۓ تھے ۔ وہ جلد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکا تھا۔تبھی تو ان چار سالوں میں بڑی بڑی کمپنیز کے لیول تک اس کی کمپنی پہنچ چکی تھی ۔

لیکن جب سے اس پر حملہ ہوا تھا وہ اپنے کام کو مکمل وقت دے ہی نہیں پارہا تھا۔پر سارے معاملات وہی ہینڈل کرتا تھا۔ آج ایک ہفتے بعد اس نے تمام میلز چیک کیں تو اسے پتہ چلا انہیں اس ہفتے ملنے والے چار آرڈرز میں سے ایک آرڈر عین ٹائم پر کینسل ہوگیا۔

کیونکہ وہ وقت پر پورا نہیں ہوسکا تھا اسے تین آرڈر جو پورے ہوۓ تھے ان کے پورا ہونے کی خوشی نہیں تھی بلکہ ایک آرڈر نا پورا ہونے کا غصہ تھا۔

"یہ مصیبت اب تک کیوں نہیں آئ۔۔۔!!!! پیار کی زبان تو یہ سمجھتی ہی نہیں اگر اسے مار کر بھیجھتا تو اب تک یہ آبھی چکی ہوتی کہیں یہ جوس کے سمندر میں ڈوب تو نہیں گئ۔اس کا کوئ بھروسہ نہیں یہ ڈوب بھی سکتی ہے۔۔۔!!!"

اس نے اپنے کف لنکس فولڈ کیے اور تاسف سے سر جھٹکا۔جتنا وہ اسے جان گیا تھا۔ اسے یقین تھا وہ جوس کا سمندر بنابھی سکتی ہے اور اس میں ڈوب بھی سکتی ہے۔

اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ فریش ہونے کے لیے واش روم چلا گیا۔اپنے سٹاف کی سستی کے بارے میں سوچتے ہی اس کا یہ غصہ پھر سے بڑھ رہا تھا۔

وہ زرلشتہ کو اس غصے کا نشانہ بنانا نہیں چاہتا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"کہیں یہ ڈوب تو نہیں گئ۔۔!!!! ایک ہی تو بیوی تھی میری وہ بھی جوس کے سمندر کی نظر ہوگئ۔اب میں لوگوں کو کیا بتاؤں گا کہ میری بیوی کیا جوس کے سمندر میں بہہ گئ۔!!!

زرلشتہ تم آٹھواں عجوبہ کیوں نہیں ڈیکلیئر کردیتی خود کو۔تمہارا مشہور ہونے کا خواب بھی ہورا ہوجاۓ گا۔اور دنیا کو تمہاری صورت میں نمونہ بھی مل جاۓ گا۔۔۔!!!!"

وہ آدھے گھنٹے بعد واپس روم میں آیا پر وہ ابھی بھی وہاں نہیں تھی۔اس نے ٹاول ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکا۔اسے امید تھی کہ اب تک تو وہ آہی چکی ہو گی۔اس نے تو جوس مانگا تھا۔کوئ جوا کی فیکٹری بنانے کو تو اسے نہیں کہا تھا

پر وہ زرلشتہ ہی کیا جو کوئ کام آسانی سے کرلے ۔اہنے بال سیٹ کرکے اب اس کا ارادہ خود اس لڑکی کو ڈھونڈنے کا تھا۔

"یہ مصیبت خود مرنے والی حرکتیں کرتی ہیں۔اور ظالم مجھے کہتی ہے۔اگر میں کبھی مررہا ہوا اور میں نے اس سے پانی مانگ لیا تو یہ پانی کا گلاس جتنی دیر میں لاۓ گی تب تک میں تو کیا دنیا ہی ختم ہوچکی ہوگی اور  قیامت بھی آچکی ہوگی۔

لوگ حساب دے رہے ہوں گے اور یہ پانی کا گلاس اٹھا کر مجھے ڈھونڈ رہی ہوگی۔کہ ظالم پٹھان مررہا تھا میں اس کے لیے پانی لائ ہوں۔اور جتنا میں اسے جانتا ہوں گلاس ہی ٹوٹا ہوگا اور پانی سارا بہہ چکا ہوگا۔۔!!!"

درمان نے بڑبڑاتے ہوۓ دروازہ کھولا۔تو سامنے اسے زرلشتہ دکھی جو ہاتھ میں ٹرے پکڑے اسی کشمکش میں تھی کہ اندر جاۓ یا نا جاۓ۔وہ آدھے گھنٹے سے بھی زیادہ وقت سے وہیں کھڑی تھی۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر اس کے ہاتھ کانپے۔درمان آتے وقت کہہ کر آیا تھا اب کمرے میں جاکر وہ باقی کی بات کرے گا۔اور اسے وہم ہوا کہ وہ اسے اب مارے گا۔

درمان نے اس دروازے کو دیکھا اور خواہش کی کہ کاش وہ اس سے ٹکڑ مار کر مرجاۓ یہاں وہ جوس کے انتظار میں ہے اور یہ یہاں کھڑی دعوت نامے کا انتظار کررہی ہے۔

"اب خود اندر آؤ گی یا میں انویٹیشن کارڈ بھیجوں ۔پھر پھولوں کی پتیاں تم پر نچھاور کرواؤں۔اور راستے میں بڑا سا ویلکم بھی لکھواؤں۔بہت کام چور ہو تم۔گھنٹے میں جوس لے کر آئ ہو۔ابھی بھی کیوں آئ ہو میں پولیس میں تمہاری گمشدگی کی خبر دے دیتا تب آتی نا۔۔!!!"

طنز کے تیر چلا کر درمان نے اس کے سامنے سے گلاس اٹھایا۔مزے کی بات تھی کہ نا درمان نے گلاس میں جھانکا نا زرلشتہ نے گلاس میں جھانکنے کی غلطی کی تھی۔گلاس شیشے کا نہیں تھا فینسی گلاس تھا۔جس کے اندر کیا ہے وہ باہر سے دیکھنے سے پتہ نہ چلتا۔

انہی طنز کے تیروں کی وجہ سے وہ اندر نہیں آرہی تھی۔

"اتنی کڑواہٹ ہے ان کی باتوں میں کہ زہر کی بھی ضرورت نہ پڑے اور بندہ مرجاۓ۔"

اسے خفگی سے دیکھتے اس نے دل میں کہا۔سامنے کہہ کر اس نے مرنا نہیں تھا۔

وہ دل بڑا کرکے کمرے میں آئ۔اور درمان نے اسے ڈرانے کے لیے دھرام سے دروازہ پٹخا ۔تو وہ اچھل پڑی پر وہ خود ایسے کھڑا تھا جیسے اس نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔

"انہوں نے مار دینا ہے مجھے لکھوالو مجھ سے ۔۔!!! مجھ ونی کا قصہ آج ختم ہوجاۓ گا۔اس ناول والی لڑکی کی طرح ۔اس کے شوہر نے بھی ایسے ہی دروازہ بند کیا تھا پھر اسے بیلٹ سے مارا تھا ۔بیلٹ سے۔۔۔!!!!!"

زرلشتہ نے تھوک نگلا۔اس کا چہرہ سفید پڑا۔اس ناول والی ونی کا خیال آتے ہی زرلشتہ کانپ اٹھی۔

وہیں درمان نے جب گلاس میں موجود بنانا شیک کا سپ لیا تو اسے حیرت ہوئ کہ یہ جوس شیک کیسے بن گیا۔پھر اس نے گلاس میں دیکھا جہاں بنانا شیک تھا۔

"اس لڑکی کو یہ بھی نہیں پتہ کہ جوس کیا ہوتا ہے۔"

اس نے ایک نظر گلاس میں موجود شیک کو اور ایک نظر زرلشتہ کے ڈرے سہمے چہرے کو دیکھا۔

کوئ اتنا بیوقوف کیسے ہوسکتا ہے اس کے دل نے صدا دی۔

"زرلشتہ تم پاگل ہو یا جان بوجھ کر مجھے تنگ کرنے کے لیے یہ ساری حرکتیں کرتی ہو تم۔۔۔!!!"

جوس کی جگہ گلاس میں شیک دیکھنے کے بعد درمان کو اب وہم ہونے لگا کہ کیا زرلشتہ کہیں اسے تنگ کرنے کے لیے تو یہ ساری حرکتیں نہیں کرتی۔

زرلشتہ تو اپنی ہی سوچوں میں گم تھی تبھی سر جھکاۓ ہاتھ میں پکڑی ٹرے کو تکتی رہی۔

"اس ونی نے تو اپنے گھر جانے کی ضد کی تھی تبھی اس کے منحوس شوہر نے اسے مار مار کر اس کی ٹانگیں توڑی تھیں تاکہ وہ گھر نہ جاسکے۔۔۔!!!!! پر میں نے تو ایسا کچھ کہا ہی نہیں۔۔!!!! شاید کہا تھا ہفتوں پہلے۔۔!!!! پر میں نے تو آغاجان سے کہا تھا اس کھڑوس جن زادے سے تو نہیں کہا تھا پھر یہ مہینہ پرانی بات کا بدلہ اب کیوں لینا چاہتا ہے ۔۔!!!

کمرہ بھی ساؤنڈ پروف ہے میری تو چیخیں بھی کسی کو سنائ نہیں دینی ۔انہوں نے تو مجھے مار کر خاموشی سے دفنا بھی دینا ہے۔۔!!"

اپنا کانپتا ہوا دایاں ہاتھ اٹھا کر زرلشتہ نے اپنی پیشانی پر آیا پسینہ صاف کیا۔موسم حد سے زیادہ ٹھنڈا تھا پر خوف سے اس کا چہرہ پسینے سے تر ہورہا تھا۔درمان بھی وہیں کھڑا ناسمجھی سے اس کا جھکا سر تکتا رہا۔

"زرلشتہ زندہ ہو یا کھڑے کھڑے چل بسی ہو۔۔!!!

میں کچھ پوچھ رہا ہوں مجھے جواب دو۔کیا تمہیں جوس اور بنانا شیک کے درمیان کا فرق بھی نہیں پتا۔کون سے جنگل سے اٹھ کر آئ ہو تم۔آخر کونسے ڈبے میں تمہارے گھروالوں نے تمہیں بند کرکے رکھا تھا جو تم اتنی بیوقوف اور پاگل ہو۔۔!!!"

گلاس کو کوفت سے دیکھتے درمان نے لفظوں پر زور دیا تو زرلشتہ سر تا پیر کانپ گئ۔بیلٹ کی مار کا خیال ہی اس کی جان نکال رہا تھا۔

اس کے ہاتھ سے ٹرے گری اور اس نے رونی صورت بنا کر درمان کو دیکھا۔

"سر تاج۔۔۔!!!!! میری تو جان بھی آپ پر قربان۔۔۔!!! اس کنیز کے جڑے ہوۓ ہاتھ دیکھیں ۔مجھ پر ترس کھائیں سرتاج۔ ترس سے آپ کا پیٹ تو نہیں بڑھنا ۔پر کھالیں نا ترس۔چاہے تو ایکسٹرا چاٹ مصالحہ ڈال لیجۓ گا۔ کھانے میں آسانی ہوگی۔۔!!!!میں پاگل تھی جس نے گھر جانے کی ضد کی۔میں بھول گئ تھی کہ ونی گھر نہیں جاتی۔آج اچھے سے یاد آگیا ہے مجھے۔فکر نہ کریں میں ہاتھ پر لکھ لوں گی کہ گھر جانے کی ضد نہیں کرنی ۔ہاتھ کیا میں یہ جملے لکھ کر گلے میں لٹکا لوں گی ۔"

وہ ڈری پی اتنا ہوئ تھی کہ اس نے ہاتھ بھی جوڑ دیے ۔درمان پر تو حیرتوں کا پہاڑ گرا کہ یہ اچانک اس آفت تو کیا ہوگیا۔ جوس اگر وہ نہیں لائ تو اس میں اتنا ڈرنے والی بات کیا ہے۔

"آج معاف کردیں اگر میں دوبارہ اپنے گھر جانے کا نام لوں تو مجھے زندہ دفنا دیجیۓ گا۔ الٹا لٹکا دیجۓ گا۔دل کرے تو کھائ میں دھکا دے دیجیے گا۔ 

پر بیلٹ سے نہیں مارنا مجھے۔بیلٹ تو دیکھنے میں ہی ڈراؤنا لگتا ہے میں ایک ہی وار میں جنت پہنچ جاؤں گی۔مجھے ابھی نہیں مرنا۔ ابھی تو مجھے کیوٹ پٹھان بھی نہیں ملا"

دہائیاں دیتی ہوۓ وہ آگے بڑھ کر اس کے پیر پکڑنے لگی جو فورا سے وہاں سے دور ہٹا۔

"یہ پاگل ہی ہے۔۔۔!!!! پوری کی پوری پاگل۔۔!!!! کس پاگل خانے سے بھاگی ہو تم ۔کہیں جب میری بیوی کو یہاں لایا جا رہا تھا تب راستے میں تم اسے مار کر  اس کی جگہ پر تو یہاں نہیں آگئ تھی۔دیار کی بہن ایسی ہوہی نہیں سکتی۔دیار تو کیا پٹھان کا خون اتنا بیوقوف نہیں ہوسکتا۔

بتاؤ کہاں دفنایا ہے تم نے دیار کی بہن ہو۔جواب دو۔۔۔!!!"

وہیں کھڑے ہوکر وہ صدمے سے بولا۔آج اس نے اپنے شک پر مہر لگادی کہ یہ لڑکی پاگل ہے۔حقیقی پاگل۔۔!!!

زرلشتہ نے اپنے آنسو رگڑ کر صاف کیے پھر ہاتھ سے اپنی آنکھوں میں چبھتے بال بھی وہاں سے ہٹانے ۔اس دوران وہ سوچ رہی تھی کہ درمان کو کیسے قائل کرے کہ وہ اسے نہ مارے۔

"مسٹر درمان جی۔۔!!! بیلٹ سے مارنے کا طریقہ سیف نہیں ہے۔نشان پڑجاتے ہیں سکن ڈیمج ہوجاتی ہے۔خون بھی نکلتا ہے۔میں ویسے ہی آپ کے پیر پکڑنے کو تیار ہوں ادھر پیر کریں میں پکڑ لوں۔کیونکہ آپ نے اگر مجھے بیلٹ دکھایا تو یہیں انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ہوجاۓ گا۔

میں پہلے ہی ڈائبیٹ۔۔......!!!!!"

اس نے اسے سمجھانا چاہا۔اور بیلٹ سے مارنے کے نقصان بھی بتاۓ۔پھر آس بھری نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی کہ شاید وہ سمجھ گیا ہو ابھی وہ مزید بھی کچھ بتانا چاہتی تھی پر وہ اسے بیچ میں ہی ٹوک گیا۔

"میں کوئ جیل سے بھاگا ہوا عادی مجرم نہیں ہوں۔یا میں تمہیں کوئ میلا کچیلا جاہل سرپھرا پاگل انسان لگتا ہوں جو تم پر اپنی جہالت کا زور آزماۓ گا۔میں تمہیں بیلٹ سے ماروں گا ؟ آر یو ان یور سینسس۔۔۔!!!!

صدقے تمہاری اس نیک سوچ کے۔۔۔!!! بڑا اچھا امیج ہے میرا تمہاری نظروں میں۔"

درمان کے ہاتھ سے شیک کا گلاس چھوٹ کر نیچے گرا۔دیکھ تو وہ ابھی بھی زرلشتہ کو ہی رہا تھا۔اور اسے پاگل خانے بھیجنے کا بھی پلین بنا چکا تھا ۔

زرلشتہ اسے سن کم رہی تھی اور فرش پر بکھرا پھیلاوا زیادہ دیکھ رہی تھی۔

"کرتا ہوں میں پاگل خانے فون کہ تمہیں یہاں سے لے کر جائیں ۔ورنہ تم تو مجھے نو مئ کے واقعات کا زمہ دار بھی ٹھہرا دوں گی۔اور امریکا کا ایجنٹ بھی ثابت کردو گی۔یہاں بھی تمہیں سکون نہیں ملے گا اور تم مجھے غدار ڈیکلیئر کرکے پھانسی کے پھندے پر بھی لٹکوادوں گی."

درمان نے جھرجھری لی خود کو پھانسی لگتا امیجن کرنے کے بعد پھر استغفرُاللہ کہا۔

زرلشتہ تو اسی گلاس کو دیکھ رہی تھی اب تک۔اور اپنے زندہ بچنے کی دعائیں بھی مانگ رہی تھی۔

"جو انسان کھڑے کھڑے گلاس توڑ سکتا ہے وہ بندہ بھی مار سکتا ہے۔۔!!!"

اس نے دل میں کہا۔پر درمان کو تو جیسے اسی سوچ کی اس سے امید تھی۔

"اب یہاں کھڑی کیوں ہو۔۔؟؟؟ قسم لے لو مجھ سے یہ حادثاتی طور پر ٹوٹا ہے میں نے اسے جان بوجھ کر نہیں توڑا۔ کیا اس گلاس کا پوسٹ مارٹم کرکے تم مجھے اس کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا دلواؤ گی اب۔۔!!!!

جاؤ کوئ پرانا کپڑہ لاکر اسے صاف کرو۔مجھے ضروری کال کرنی ہے جب میں واپس آؤں مجھے یہ جگہ صاف دکھنی چاہیے۔اور اللہ کا واسطہ ہے تمہیں اب ہاتھ چلانا دماغ نہ چلانا۔۔!!

پہلے جوس کی جگہ شیک لے آئ پھر مجھے طالبان کا ساتھی بھی قرار دے دیا اس لڑکی نے۔۔!!! اب کیا ہونا باقی ہے۔۔!!

یہ لڑکی جب بھی مرے گی میرے ہی ہاتھوں سے مرے گی۔اتنا تو مجھے یقین ہے۔۔!!"

اپنا فون نکال کر اسے ہدایت دیتا وہ خود صبر مانگتے ہوۓ وہاں سے چلا گیا۔

زرلشتہ کی نظریں تو گلاس کی میت پر ہی ٹکی تھیں۔

"اس لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے اب کپڑا کہاں سے لاؤں۔۔!!! ڈریسنگ روم سے ہی لے آتی ہوں۔ اگر دیر ہوگئ تو اگلی لاش اس کمرے سے میری نکلے گی۔خود سے کہہ کر وہ ڈریسنگ روم میں چلی گئ۔۔!!!"

یہ بھی سچ تھا کہ زرلشتہ نے ساری فضول سوچیں سوچنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ وہ اچھے بھلے انسان کو پاگل بناسکتی تھی اور مثال سامنے تھی درمان کی۔ وہ سنجیدہ اکڑو انسان اس کی حرکتوں پر جلتا کڑہتا اب خود بھی پاگل ہونے کے درپے تھا۔

ڈریسنگ روم چھان مار کر کوئ مناسب کپڑا لاکر زرلشتہ نے سوچا کہ اب اس جگہ کو صاف کیسے کرے۔اسے صفائ کرنا نہیں آتا تھا درمان کے کمرے کی صفائ تو اس کے آنے کے بعد بھی ملازمہ ہی کرتی تھی۔

پانچ منٹ تک بہت سوچنے کے بعد اس نے اس جگہ کو اپنے طریقے سے صاف کرنے کا پروگرام بنایا۔

پہلے تو کانچ سمیٹ کر ڈسٹ بن میں ڈالا اور ٹرے وہیں ٹیبل پر رکھ دی۔ اس دوران احتیاط بھی کی کہ کوئ کانچ کا ٹکڑا اسے زخمی نہ کرجاۓ۔اس کے پاس کوئ ہیرو تو تھا ہی نہیں جو اس کے ہاتھ پر لگی ہلکی سی کھروچ پر بھی تڑپ اٹھتا اور کہتا کہ "کیا تم دھیان سے نہیں کرسکتی تھی یہ کام۔دیکھو کتنا خون نکل رہا ہے..!!!"

اور وہ زخم بھول کر اس ہیرو کے چہرے میں کھو جاتی ۔

یہ میری نہیں زرلشتہ کی ہی سوچ تھی جو گلاس کے ٹوٹے ٹکڑے سمیٹتے ہوۓ اس کے ذہن میں آئ تھی۔پھر درمان کے طنز یاد کرکے اس نے آہ بھری ۔کہ وہ تو اس کا زخم دیکھ کر ناگواریت سے نظریں پھیر لے گا۔

وہ اداس ہوئ اور اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرگئ۔

کانچ سمیٹ کر واش روم سے مگ میں پانی لاکر پھوہڑ پن کی انتہا کرتے ہوۓ وہ جگہ صاف کرنے لگی۔

"ایوووو ۔!!! کتنی چہچہاہٹ ہے یہاں۔یہ کونسا جوس ہے جو مجھے بنانا شیک جیسا لگ رہا ہے ۔اس ظالم کو دیکھتے شاید ڈر کر یہ ایسا ہوگیا ہو۔ہوجاؤ صاف کیوں مرواؤ گے تم مجھے۔۔۔!!!"

پانی بکھیر کر دونوں ہاتھوں میں جھکڑا کپڑا زمین پر رگڑتے ہوۓ جھنجھلا کر اس نے کہا جیسے یہ فرش بھی ظالم پٹھان کے نام کی دھمکی سن کر فورا کام کرنے لگے گا۔

آخر پورے دس منٹ لگا کر فرش سے لڑتے اس کی چیخیں نکلوا کر وہ فرش چمکانے میں کامیاب ہوگئ۔

پورا فرش وہ رگڑ چکی تھی۔

"ہو گیا صاف۔۔۔!!!! اب اسے اچھے سے خشک بھی کردیتی ہوں۔کہیں میں ہی نہ پھسل جاؤں ہاں اگر وہ ظالم جن زادہ اس جگہ سے پھسل جاۓ تو اچھا ہوگا۔اس کی اکڑ ٹوٹ جاۓ گی۔شرم کرو زرلش شوہر ہے وہ تمہارا۔چاہے جلاد ہے پر بیویاں شوہروں کو بددعائیں نہیں دیتیں۔!!!"

ہلکے سے نم فرش کو دیکھ کر اس نے سوچا پھر خود ہی اس سوچ پر لعنت بھیج کر وہ دوسرا کپڑا لینے چلی گئ۔پھر کپڑا لا کر اس نے فرش مزید رگڑا جو اس ستم پر جواب بھی نہ مانگ سکا کہ اگر صفائ کرنا آتی نہیں تو صفائ کے نام پر تشدد کرتے کیوں ہو۔۔ !!!

اس نے زندگی میں پہلی بار صفائ کی تھی یہ تجربہ تھکا دینے والا تھا اس کے لیے ۔اس کے کپڑے بھی گندے ہوچکے تھے ۔اور سانس بھی پھول چکا تھا۔ابھی تو اس نے کچھ کھایا بھی نہیں تھا اور ساری انرجی وہ یہاں ویسٹ کرچکی تھی۔

اب اس کا ارادہ شاور لے کر کچھ کھانے کا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

لگتا ہے تم لوگوں کو فارغ کرنے کا وقت آگیا ہے اب۔۔!!! کل نیو سٹاف ہائیر کرلینا چاہیے مجھے ۔۔!!!!"

ٹیرس پر کھڑے ہوکر اس نے اپنے مینیجر کو فون کیا اور سیدھی سیدھی دھمکی دی۔مینیجر بیچارا بدلے میں التجا ہی کرسکتا تھا 

"سر پلیز ایسا کچھ نہ کریں...!!!! اتنے سارے لوگ بے روز کار ہو جائیں گے ۔سر پلیز اس دفعہ معاف کردیں ۔ ہم نے پوری کوشش کی تھی کہ سارے آرڈرز کمپلیٹ کرسکیں پر نہیں کرسکے ۔۔!! ایک موقع دے دیں ہمیں۔۔!!"

درمان لفظ معافی سن کر مسکرایا ۔نیلی آنکھوں میں تمسخر تھا۔وہ سامنے آسمان پر چمکتے ستارے دیکھنے لگا۔معافی لفظ اسے عجیب لگتا تھا۔اس نے آج تک کبھی اپنی زندگی میں معافی نہیں مانگی تھی کسی انسان سے۔

وہ نہ خود غلطیاں کرتا تھا نا غلطیاں کرنے والوں کو بخشتا تھا۔

"معاف کردوں ۔۔۔!!!!! ہنہہ۔۔!!!"

اس کی مسکراہٹ سمٹی اس نے ہنکار بھرا۔

"ایک بار میں اگر تم لوگوں کو معاف کردوں گا تو تم سب کو غلطیاں کرنے کی عادت ہوجاۓ گی۔ایک غلطی،دوسری غلطی ،تیسری غلطی پھر غلطیوں پر غلطیاں۔۔۔!!!

جتنا روشن میں اپنی کمپنی کو کرنا چاہتا ہوں تم لوگوں کی غلطیاں اتنا ہی اس کمپنی کی روشنی کو مدھم کرتی جائیں گی۔پھر آہستہ آہستہ میرا نام اور مقام بھی آسمان پر چمکتے ان لاتعداد ستاروں جیسا ہوجاۓ گا۔جو اتنی کم چمک کی وجہ سے خوبصورت کو دکھتے ہیں پر ان کی تعداد کوئ شمار کر ہی نہیں سکتا۔ان کی کوئ انفرادی حیثیت نہیں ہے ۔

جس ستارے کی ہمیں تلاش ہو اسے ڈھونڈنے میں بھی وقت لگ جاتا ہے ۔

مجھے ان ستاروں جیسا نہیں بننا۔۔!!! مجھے خود کو منوانا ہے ناکہ کروڑوں اربوں کے جھنڈ کا عام سا حصہ بننا ہے۔۔!!"

اپنی لاجک مقابل کع سمجھاتے وہ پلٹا اور پیچھے ٹیرس کے ادھ کھلے دروازے کو دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے وہ اس عجوبے کی انوکھی باتیں سن کر آیا تھا۔

وہ مسکرایا کہ اسے تو بیوی بھی عام نہیں ملی تھی۔ تابعدار ،ڈری سہمی، ہر بات پر جی کرتی ہوئ لڑکیاں تو بہت تھیں پر اس عجوبے جیسا کوئ دوسرا اسے تو آج تک نہیں دکھا تھا۔

وہ الگ بات تھی کہ درمان کو اس کی قدر نہیں تھی۔نا وہ قدر کرنے کا فلحال ارادہ رکھتا تھا۔کیونکہ اس مغرور شہزادے کے نزدیک اس کی اپنی ذات اہمیت رکھتی تھی۔کسی دوسرے کے جذبات کی اہمیت نہ تھی اسے۔

اس کا یہ غرور شاید کبھی اس کا بہت بڑا نقصان کرجاتا وہ نقصان جو اس کی دنیا ہلا دیتا ۔یہ تو اب وقت ہی بتاتا۔

"درمان آفریدی اپنے مقام،اپنی چیزوں،اور خود سے جڑے لوگوں پر کوئ کومپرومائز نہیں کرتا۔ کل تم سب لوگ آٹھ کی بجاۓ بیس گھنٹے کام کرو گے۔۔۔!!!

ارادہ تو میرا چوبیس گھنٹوں کا تھا پر چار گھنٹوں کی رعایت کسی کی وجہ سے دے رہا ہوں۔آئندہ غلطی کرو تو معافی مت مانگنا سیدھا سزا مانگنا۔۔۔!!!!"

درشتگی سے حکم صادر کرتے وہ دوسری طرف موجود اپنے مینیجر کو اپنے بال نوچنے پر مجبور کرگیا کہ بیس گھنٹے وہ کیسے کام کریں گے۔اور جہاں اس بندے نے بیس گھنٹے کی سزا دی ہے وہاں جو باقی کے چار گھنٹے تھے ان کی سزا بھی دے دیتا۔چار گھنٹوں کا کیا فایدہ ملتا انہیں۔

پھر نوکری بچ جانے کی وجہ سے اس نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔

"اوکے سر۔۔۔!!!" 

جواب سن کر درمان نے فون پاکٹ میں رکھا اور کمرے میں چلا گیا۔جہاں زرلشتہ جانے انجانے میں اس شخص کو غصہ دلانے کا سامان تیار کرچکی تھی ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

وہ دونوں شرٹس صوفے کے نیچے چھپا کر زرلشتہ نے اپنے بال ٹاول سے رگڑ کر خشک کیے اور پھر فرش کا آخری بار جائزہ لینے لگی۔جو اب خشک ہوچکا تھا۔

"واہ یار مجھ میں تو ایک عدد ماسی بھی چھپی ہوئ تھی۔۔۔!! کمال ایوارڈ وننگ پرفارمینس دی ہے میں نے اب مجھے ماسی آف دی ایئر کا ایوارڈ تو ملنا ہی چاہیے ۔!!

اپنی تعریف کرکے وہ خوشی سے مسکرائی ۔آنکھوں میں خوشی تھی۔ 

اس وقت وہ سموکی گرے کلر کی tuxedo شرٹ اور کھلی سی جینز پہنے بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔

وہ زرلشتہ تھی ہر چھوٹی سی خوشی پر جی اٹھنے والی۔

ابھی وہ مزید اپنے اس کارنامے پر خوش ہونا چاہتی تھی پر اسے درمان نظر آگیا ۔جس کی آنکھوں نے صاف ستھرا فرش دیکھا پھر زرلشتہ کو دیکھا جو اب سر جھکا کر کسی غلام کی طرح کھڑی ہوچکی تھی۔

وہ جا کر صوفے پر بیٹھ گیا ۔اس نے تو تعریف بھی نہ کی آخر اس کی بیوی نے اتنی محنت سے صفائ کی تھی تعریف تو بنتی تھی۔

زرلشتہ کو برا لگا کہ اسے کچھ تو کہنا ہی چاہیے تھا۔اگر کوئ اتنی محنت کے بعد آپ کو اگنور کرے تو برا تو لگتا ہی ہے۔

"وہاں بت بن کر کیوں کھڑی ہو۔یہاں میرے سامنے کھڑی ہو آکر۔۔!!! کچھ پوچھنا ہے تم سے ۔ !!"

ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر وہ صوفے پر بیٹھا۔اور اسے حکم دیا جو کسی غلام کی طرح اگلے پل اس کے سامنے کھڑی تھی ۔

"نام کیا ہے تمہارا۔۔۔!!!"

آج گھر آنے کے بعد جو زرلشتہ کے منہ سے اس نے اس کا تعارف سنا تھا اسے اب بھی یاد تھا اسے برا لگا تھا۔بہت برا۔۔۔!!! 

وہ پوزیسو ہورہا تھا اس کے بارے میں تبھی تو اب اسے زرلشتہ کو سزا دینی تھی ۔

"ز۔زرلشتہ۔۔!!!" زرلشتہ نے اپنی سرمئ آنکھیں اس کی طرف اٹھائیں اور اس کا چہرہ دیکھتے ہوۓ بتایا۔اس کے چہرے سے وہ اس کے غصے کو بھانپ گئ تبھی اس نے کوئ فضول بات نہ کی سیدھا سیدھا سوال کا جواب دے دیا ۔

"پورا نام بتاؤ۔۔۔!!!" صوفے سے ٹیک لگاتے وہ اگلا حکم دے گیا۔لہجہ روڈ ہوا تھا۔نیلی آنکھوں نے اس کے چہرے کے تاثرات غور سے دیکھے تھے کہ اسے اس کی باتیں عجیب لگ رہی ہیں ۔

زرلشتہ ڈری کہ اب نام پوچھنے کی کیا تک بنتی ہے۔

"ایک نام تک تو اس شخص کو یاد نہیں ۔پتہ نہیں کام کیسے کرتا ہے یہ بندہ ۔!!! بندہ نہیں جن نیلی آنکھوں والا ڈائناسور۔۔!!!

جس شخص کو اپنی بیوی کا نام بھول جاۓ اس شخص کو کسی کھائ میں دھکا دے دیں تو بھی یہ کم ہوگا۔

اسے تو آئیفل ٹاور پر لے جاکر اکیس توپوں کی ٹاور سلامی دینے کے بعد مزید فرشی سلام حاصل کرنے کے لیے الٹا ٹاور کے نیچے لٹکا دینا چاہیے پورے دو ہفتوں کے لیے۔

تاکہ آتا جاتا بندہ عبرت پکڑے کہ بیوی کا نام بھولنے کی گستاخی کرنے والے کو کیا سزا دی جاتی ہے۔۔۔!!!'

اس نے بس سوچا ایسے نیک خیالات اگر زبان پر آجائیں تو زبان کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

موت زرلشتہ کے سامنے بیٹھی تھی اور حساب تو زندہ ہوتے جاری تھا۔

"ز۔زرلشتہ بہراور درانی ۔۔!!"

اور یہیں درمان نے اپنی آنکھیں میچ لیں کہ اس کی بیوی کو اب تک اپنا اصل تعارف بھی یاد نہیں ہوا۔

"پاگل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی یادداشت بھی کمزور ہے۔اس کی یادداشت کو تیز کرنا اسے اچھے سے آتا تھا۔۔۔۔!!"

"زرلشتہ درمان آفریدی۔۔۔!!!! زرلشتہ درمان آفریدی نام ہے تمہارا۔۔!!!!!

آئندہ یاد رکھنا ۔اگر اس زبان نے کبھی آئندہ اپنا نام میرے نام کے بغیر لیا تو اسے کاٹ پھینکوں گا۔مجھے بیلٹ سے مارنے میں دلچسپی نہیں۔میرا ایک تھپڑ ہی تمہارے چودہ طبق روشن کرنے کو کافی ہے۔۔!!!

ایک پڑگیا نا تو تمہارے دماغ کے سارے ہلے تار بھی ہمیشہ کے لیے ٹریک پر آجائیں گے۔کیا کہتی ہو مار کر سمجھاؤں یا پھر ویسے ہی سمجھ جاؤ گی۔۔!!!"

اس نے اسے دیکھ کر غصے سے کہا پھر وہ بیلٹ والی بات یاد آتے ہی وہ پرسرار سا مسکرایا کہ زرلشتہ کو تھپڑ اپنے گال پر لگتا بھی محسوس ہوچکا تھا۔اس کے پیروں کے نیچے سے تو زمین ہی کھسک گئ۔

بے اختیار اپنے دونوں ہاتھ اپنے رخساروں پر رکھتے اس نے سہم کر نفی میں سر ہلایا ۔

"توبہ کریں ظالم پٹھان جی۔۔۔!!!! گال پھٹ جاۓ گا میرا دماغ کے تار کیا راہ راست پر آئیں گے سارے تار الجھ جائیں گے۔یادداشت چلی جاۓ گی۔مجھے زندگی میں کبھی تھپڑ نہیں پڑا تو مجھے نہیں پتہ کیسی فیلنگ آتی ہے تھپڑ کھانے کے بعد ۔کتنا درد ہوتا ہے مجھے اندازہ بھی نہیں۔

میرا کوئ تجربہ نہیں اس لئے میری معافی قبول کریں ۔پکا وعدہ آئندہ یہ نام ہی یاد رکھوں گی ۔"

زرلشتہ نے اپنے ہاتھ اب بھی رخساروں پر ٹکاۓ تھے جیسے انہیں پروٹیکٹ کررہی ہو۔درمان نے مشکل سے اپنی ہنسی روکی۔ورنہ اس کی حرکت پر وہ ہنس ہنس کر دہرا ہوجاتا۔کہ کوئ اتنی جلدی کیسے ڈر سکتا ہے .

"چلو شروع ہوجاؤ۔۔!!! اپنا مکمل نام دہراتی جاؤ جب تک میں نہ کہوں رکنا مت۔ورنہ پھر مار کھانے کے لیے تیار ہوجاؤ۔!!!"

اس نے ڈرانا بھی ضروری سمجھا۔اپنا ہاتھ صوفے کی پشت پر پھیلا کر وہ ریلیکس ہوکر بیٹھا۔

زرلشتہ نے گہرا سانس بھرا کہ اب اگر بچنا ہے تو یہ کروا گھونٹ بھی بھرنا ہی ہوگا۔

"زرلشتہ د۔درمان آفریدی۔۔۔!!! زرلشتہ ش۔شاہد آفریدی۔۔!! نہیں نہیں مطلب زرلشتہ درمان آفریدی ۔۔!!!!! سنیں اپنا نام شاہد آفریدی ہی رکھ لیں تاکہ مجھے لینے میں آسانی ہو جاۓ۔

اچھا کوی بات نہیں یہ بھی اچھا ہے میں اسی سے گزارہ کرلوں گی۔"

بولتے بولتے اسے شاہد آفریدی یاد آگیا پر درمان کے چہرے کے غصیلے رنگ دیکھ کر اس نے خود کو کوسا کہ وہ کیا کہتی جارہی ہے۔

پھر وہ نام لیتی گئ اور درمان سنتا گیا۔

یہ عجیب سی بات تھی کہ اسے اچھا لگ رہا تھا اس کے منہ سے اپنا نام سننا۔

وہ بہت کم اس کا نام لیتی تھی ورنہ تو اسے ظالم،جن،کھڑوس،اکڑو کہہ کر ہی بلالیتی تھی۔

کبھی اگر زیادہ احسان کردیتی تو سرتاج کہہ لیتی ۔

اور اب جو وہ اس کا نام لینے لگی تو درمان کا دل سرشار ہوتا گیا۔

پورے پانچ منٹ تک وہ یہی نام سنتا رہا پھر صوفے پر سیدھا ہوکر بیٹھا تو نظر بلا ارادہ صوفے کے نیچے کی سائیڈ سے باہر نظر آتی ایک وائٹ شرٹ کی آستین پر گئ۔

اس نے جھک کر وہ آستین کھینچی تو نیچے سے اس کی فیورٹ شرٹ باہر نکلی۔

جس کا حلیہ اسے خود پر ہوۓ ظلم کی روداد سنا گیا تھا۔اس نے بے یقینی کے عالم میں شرٹ اور پھر زرلشتہ کو دیکھا ۔

"یہ اس نے کونسے ظلم کا بدلہ لیا ہے میری شرٹس سے ۔۔!!!"

اس نے نیچے جھانکا تو ایک اور شرٹ اسی طرح اپنی قسمت پر رورہی تھی۔

یہ شرٹس اس کی فیورٹ شرٹس تھیں جنہیں وہ کبھی کبھار ہی پہنتا تھا۔کبھی کبھار پہننے کا مطلب یہ نہیں تھا کی ان کا پوچہ بنادیا جاتا۔

وہ اب تو صبر بھی نہ مانگ سکا ۔زرلشتہ ابھی بھی اپنے کام میں مگن تھی۔درمان نے جبڑے بھینچے۔

"یہ شرٹس تم نے خراب کی ہیں کیا زرلشتہ ۔۔!!! اب یہ نا کہنا تم نے میری شرٹس سے یہ فلور صاف کیا ہے۔

کہہ دو کہ یہ جھوٹ ہے تم ان سب میں انوالو نہیں ہو۔۔!!"

خود ہی سر نفی میں ہلا کر اس نے اونچی آواز میں کہا تو زرلشتہ بھی سامنے دیکھنے لگی پر تباہ شدہ شرٹس جو اس نے چھپادی تھیں درمان کے ہاتھ میں دیکھ کر اس کی رنگت پیلی پڑی۔

کہ ہر بار مصیبت اس کے در پر ہی کیوں دستک دیتی ہے۔

"یہ پوچا اس کی شرٹس کب سے بن گئیں۔زرلشتہ تمہارا قتل یہی انسان کرے گا۔۔۔!!!!"

اس نے حلق تر کرتے ہی صاف ستھرا فرش دیکھا۔

"آ۔آپ نے خود کہا تھا کہ کسی پرانے کپڑے سے یہ جگہ صاف کردو۔ کمرے سے ن۔نکلنے سے آپ نے منع کیا تھا۔ تو اب میں کیا کرتی اس لیے ڈریسنگ روم سے میں نے یہ شرٹس نکالیں اور فلور صاف کردیا ۔

دیکھیں تو سہی کتنا چمک رہا ہے یہ حصہ۔۔!!! "

وہ منمنائ۔اس نے تو فرش کی جانب بھی اشارہ کیا پر درمان پر تو اس وقت غصہ سوار ہوچکا تھا۔

کیا اس کی یہی قدر تھی کہ اس کی شرٹس سے گندا فرش صاف کیا جاتا۔کیا وہ اس قدر گرا ہوا تھا اس لڑکی کے نزدیک۔

درمان نے وہ شرٹس وہیں اس کے قدموں میں غصے سے پھینکیں جو نرمی ابھی کچھ دیر پہلے اس کے لہجے میں تھی اب ڈھونڈنے سے بھی نہ ملی۔دل تو اس کا چاہا کہ اسے یہیں مار دے۔پر غصے میں اٹھایا گیا قدم بعد میں اسے ہی شرمندہ کرتا۔

زرلشتہ اچھل کر پیچھے ہوگئ۔درمان کی لال انگارہ آنکھوں میں جھانکتے ہی اس  کی روح تک کانپی ۔

"س۔سوری۔۔!!" اس نے مشکل سے کہا۔ کہ شاید وہ مان جاۓ پر درمان کو ان لفظوں سے چڑ تھی۔

"زرلشتہ اس وقت میری نظروں سے دور ہوجاؤ۔میں نہیں چاہتا کہ کچھ ایسا کرجاؤ کہ بعد میں پچھتاتا رہوں ۔!!!!

اپنی جان اگر تمہیں پیاری ہے تو اسی وقت اس کمرے سے نکلو۔ورنہ انجام کی ذمہ دار تم ہو گی ۔"

وہ دھاڑا اور اپنی کنپٹی کی ابھری نسیں سہلانے لگا۔اس کا غصہ اس کے قابو میں بھی نہیں تھا اور غصے میں اسے زرلشتہ کو تکلیف نہیں دینی تھی زرلشتہ رونے لگی اور رحم طلب نظروں سے اسے دیکھا ۔

"زرلشتہ میں کیا کہہ رہا ہوں تم سے کیا تمہیں سنائ نہیں دے رہا۔نکلو یہاں سے ورنہ مرو گی میرے ہاتھوں سے۔

تم باتوں سے ماننے والی ہو ہی نہیں۔ٹیرس پر جاؤ اور ساری رات وہیں کھڑے رہنا تاکہ تمہارے اندر کی بیوقوفی میں کمی آۓ۔"

اسے بازو سے پکڑتے وہ اسے ٹیرس کے دروازے سے باہر نکال گیا جو بے یقینی کے عالم میں اسے بس دیکھتی ہی رہی۔

اپنی اہمیت تو وہ بھی جان گئ کہ اس سے زیادہ قدر تو درمان کی شرٹس کی تھی ۔وہ تو ان سے بھی رہی گزری تھی۔

"م۔مجھے سردی لگے گی یہاں۔د۔دیکھیں یہاں س۔سردی بھی بہت ہے ۔میں نے تو کھانا بھی نہیں کھایا۔میں مر جاؤں گی یہاں پر۔۔!!!

معاف کردیں ۔۔!!"

زرلشتہ نے امید بھری نظر اس پر ڈالی جس کی آنکھوں میں رحم تھا ہی نہیں۔انسان کو اتنا بے حس نہیں ہونا چاہیے جتنا درمان اس وقت بن چکا تھا۔انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے سامنے کھڑا شخص کوئ کھلونا نہیں ہے جسے جب چاہوں خود سے لگا لو اور جب چاہوں پھینک دو۔وہ بھی چزبات رکھتا ہے اس کی بھی اہمیت ہے۔

درمان کو اس لمحے زرلشتہ کی رتی برابر بھی پرواہ نہ تھی۔

"تو مر جاؤ۔مجھے تمہارے جینے یا مرنے سے کوئ فرق نہیں ہڑتا۔۔!!!اگر تم بچ گئ تو ان شرٹس کا حساب میں تم سے بعد میں لوں گا۔کم عقل،بیوقوف،جاہل لڑکی ناجانے کس گناہ کی سزا ہو تم میرے لیے ۔۔!!!!!"

دروازہ بند کرتے وہ پلٹ گیا ۔

یہ الفاظ نہیں اذیت تھی زرلشتہ کے لیے اس نے روتے ہوۓ بند دروازے کو دیکھا اس کی غلطی اتنی تو بڑی نہیں تھی کہ ایسی سزا ہی دے دی جاتی اسے۔

موسم خراب تھا۔درجہ حرارت نقظہ انجماد تک گرچکا تھا۔وہ سانس بھی لیتی تو اسے سردی خود میں اترتی ہوئ محسوس ہوتی۔

نہانے کی وجہ سے اس کے بال گیلے تھے اور اس کے پاس کوئ گرم شال بھی نہیں تھی۔

"بہت برے ہیں آپ درمان ۔بہت برے۔۔!!!! آۓ ہیٹ یو۔۔۔!!!!! بہت غرور ہے نا آپ کو کہ آپ کو میرے جینے مرنے سے فرق نہیں پڑتا تو میری اللہ سے دعا ہے کہ ایک دن اللہ آپ کو مجھ پر رلاۓ۔بہت رلاۓ۔۔!!!

میں مروں اور آپ تڑپیں۔ تب آپ کا دل دکھے اور آپ کو انداز ہو کہ تڑپ ہوتی کیا ہے ۔۔!!"

بند دروازے کو دیکھ کر اس نے خود ہی عجیب سی دعا مانگ لی پھر رونے لگی اس کے رونے کی آواز درمان نے بھی سنی تھی۔پر اس وقت اسے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ رورہی ہے یا تکلیف میں ہے۔

اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ بیڈ پر بیٹھ گیا۔

"ایسے ہی سدھرے گی یہ۔جب بھوک سے برا حال ہوگا اس کا تب اس کا سارا بچپنہ ہوا ہوجاۓ گا۔پھر اسے کمرے میں واپس لاؤں گا میں ۔ابھی یہ وہیں رہے ۔!!!"

بڑبڑاکر وہ لیپ ٹاپ پر بزی ہوگیا اور زرلشتہ روتے ہوۓ وہیں سائیڈ پر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئ۔

"آپ کے ساتھ رہنے سے اچھا ہے میں مر ہی جاؤں کم از کم یہ روز روز کی اذیت تو نہیں جھیلنی پڑے گی نا مجھے ۔۔!!!"

گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر وہ اس ٹھٹھرتی سردی میں خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

بھوک اسے شدید لگی تھی۔عجیب سی بے چینی محسوس ہورہی تھی اسے اور سر بھی درد کررہا تھا۔پر وہ بھی چپ کرگئ رونا بھی وہاں چاہیے جہاں آپ کے آنسوؤں کی قدر ہو ۔ہر جگہ ان موتیوں کو بے مول کرنا ان کی توہین ہوتی ہے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"آج مہینہ ہوگیا ہے کمینو مجھے اس کھنڈر میں بند ہوۓ۔سورج ,چاند ،تارے نیلا آسمان ہمارے علاقے کے بلند و بالا پہاڑ سب کی صورت بھی مجھے اب بھولتی جارہی ہے۔تم بے حسوں کو کوئ احساس ہے یا نہیں کہ ایک انسان قدرت سے کتنا دور ہوگیا ہے۔ کوئ شرم کرلو ۔۔۔!!"

کرسی سے بندھی اپنی دونوں کلائیاں جھٹکے سے آزاد کرنے کی کوشش کرتے وہ تھک کر اس اندھیرے کمرے کو گھورنے لگا۔

نیلی آنکھوں میں غصہ ابھرا تھا اس وجہ سے کہ اتنی ٹائٹ رسی باندھنے کی کیا ضرورت تھی ان لوگوں کو۔کہ کھلے ہی نہ۔

پھر وہ چیخا۔اور یہ تھا اس شخص کا طنز بھرا منت بھرا غصہ۔۔!!!!

"مہینہ نہیں پورے اڑتیس دن ہوگۓ ہیں آج۔۔!!! یہ آٹھ دن،سولہ گھنٹے اور پچاس منٹ کیوں بھول رہے ہو۔۔!!!! 

تم جیسی آفت کو جھیل کھیل کر ہم لوگ بھی تھک چکے ہیں نا کوئ تمہیں چھڑانے آیا نا تم اس جگہ سے بھاگ سکے۔

کونسے گناہ کی سزا ہوتم ۔میرے کانوں سے تو بس خون نکلنے کی کمی رہ گئ ہے اب۔یہ کان اب تمہاری چپڑ چپڑ سن سن کر سماعت سے محروم ہونے کو بے تاب ہیں ۔۔!!!

خدا کا واسطہ ہے لڑکے چپ ہوجاؤ۔ترس کھاؤ ہم پر۔۔۔!!!"

اس کی بک بک سے اکتا کر دروازے کے باہر کھڑے دو لوگوں نے تو اس کی بے عزتی ہی کرکے رکھ دی ۔اتنی بے عزتی پر اس نے غصے سے دروازے کو دیکھا۔کمرے میں نیم اندھیرا تھا۔

ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر اسنے شدت سے اپنی کلائیاں جھٹکیں کہ رسیاں اسی لمحے کھل گئیں ۔

ان رسیوں کے دونوں سرے ہاتھ میں پکڑ کر وہ طنزیہ انداز میں مسکرایا۔آخر فدیان کو باندھنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔

"ذرا اندر آ تجھے میں تفصیل سے بتاؤں کہ میں تیرے کس گناہ ہی سزا ہوں۔گناہ تو تم لوگوں کے اتنے ہیں کہ شمار کرنا ناممکن ہوگا۔اور ہاں تیرے کانوں سے خون نکالنے کو تو میں بھی بےتاب ہوں ۔ذرا یہ نیک کام کرنے کا موقع ہمیں بھی دیں ۔میرے بھائ نے ایک نہ ایک دن مجھ تک پہنچ ہی جانا ہے تب سوچ تیرا کیا ہوگا کالیا۔۔!!!

چھوٹا بھائ تجھ سے برداشت نہیں ہوتا تو بڑے نے تو تجھے زندہ ہی گاڑ دینا ہے ۔!!!!

اور رہی بات ترس کی تو مجھے ترس نہیں کھانا۔پھیکا ہوتا ہے وہ بہت میرے لیے افغانی پلاؤ لاؤ جلدی سے۔۔!!! سیدھا افغانستان سے لے کر آنا۔پرسوں جہاں سے تم لاۓ تھے وہاں کا اچھا نہیں تھا۔"

ان رسیوں کو پھینک کر اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور آگے بڑھ کر لائٹ آن کی۔

چاہے وہ اغواہ ہوا تھا پر ان اغواہ کاروں کو بھی اس نے اپنے قابو میں رکھا تھا تبھی نا چہرے پر مار کا نشان تھا نا ہی کپڑوں پر خون لگا تھا۔

پرل کلر کی شرٹ اور جینز پہنے وہ اب اپنے کف لنکس فولڈ کرنے لگا ۔

کمرے میں روشنی پھیلتے ہی اندھیرا ختم ہوا۔

کمرہ کوئ کھنڈر نہیں تھا بلکہ ویل فرنیشڈ کمرہ تھا۔کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے جیسا۔ جس کا سائز بھی خاصہ بڑا تھا۔اور تھا بھی صاف ستھرا کہ کوئ مانتا ہی نہ کہ یہ بندہ اغواہ ہوا ہے۔

"مت بھولو کہ تم آج اغواہ ہوۓ ہو۔تمہارا منہ توڑ کر میں اپنے دل کو تسلی دے سکتا ہوں تو زبان آج بند ہی رکھو۔اور یہ فرمائشیں کسی اور سے کرنا۔ تم سسرال نہیں آۓ ۔تم اغواہ ہوۓ ہو ہم تمہارے نخرے اب مزید نہیں اٹھا سکتے ۔

اس لیے پٹری پر واپس آؤ اور رعب جھاڑنا بند کرو۔۔!!!

اس کا یہ حکمیہ لہجہ باہر کھڑے دوسرے آدمی کو سلگا گیا۔تبھی وہ بھی بول اٹھا۔اور فدیان کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔

      "سسرال نہ سہی تم اسے میرا میکہ ہی سمجھ لو ۔ایسا سڑا ہوا سسرال مجھے نہیں چاہیے۔فدیان عظیم ہے تو اس کے سسرال والے بھی عظیم ہی ہونے چاہیے۔۔۔!!!! وہ لوگ میرے معیار پر اترنے چاہییں۔ورنہ جوڑ نہیں بنے گا..!!! 

اور نخرے تو ابھی میں نے کیے ہی نہیں کیونکہ میرے نخرے اٹھانا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔شاید سستا نشہ کرنے لگے ہو تم دونوں تبھی ایسی دو کوڑی کی باتیں سوچ رہے ہو۔پر کوڑی تو اس زمانے میں لگتی ہی نہیں ۔ ہاں کوڑھ  کا مرض ضرور ہوتا ہے شاید تم دونوں کو وہ ہوگیا ہو۔ اور تم دونوں مرنے کے قریب ہو "

مزے سے انہیں ستا کر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔باہر کھڑے دو نفوس نے اس نئ بات پر حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

" کوئ بات نہیں میں پارٹ ٹائم حکیم بھی بن سکتا ہوں۔بچپن کی خواہش تھی میری کہ میں کسی کا علاج کروں۔پر میٹرک میں مجھے کسی نے بائیو پڑھنے ہی نہیں دی۔بھائ کا کہنا تھا کہ میں کمپیوٹر پڑھوں تاکہ مستقبل میں ڈاکٹر کے علاؤہ کچھ بھی بن سکوں۔ انہیں لوگوں کی جان عزیز تھی اس لیے ۔ان کی ہی کوئ لاجک تھی اس کے پیچھے، مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آئ کہ اگر میں ڈاکٹر بن جاتا تو ان کا کیا چلا جاتا۔۔۔!!!!

لیکن دیکھ لو اگر نیت اچھی ہو تو راستہ بھی خود ہی بن جاتا ہے۔جیسے مجھے حکیم بننا تھا اور تمہیں اس وقت یہاں کھڑے کھڑے کوڑھ کا مرض لاحق ہوگیا۔تو اب جلدی سے اندر آجاؤ۔ تاکہ تم دونوں کا علاج کرکے میں شوق پورا کر لوں۔اس سے پہلے کہ تم لوگ سسک سسک کر مرجاؤ۔آجاؤ بالکل مفت علاج کروں گا۔"

اس نے ہمدردی دکھائ اور اپنی خدمات بھی پیش کردیں جیسے سچ میں ان دونوں کو یہ بیماری لگ گئ ہو۔وہ دونوں اپنا سر دیوار پر مار کر خود کشی کرتے کرتے رہ گۓ۔کہ کسی کا دماغ اتنی فضول سوچیں کیسے بن سکتا ہے۔

"کتنی زبان چلتی ہے تیری ۔۔!!!! تیرے گھر والے تجھے برداشت کیسے کرتے ہیں مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا۔کیا کھاکر پیدا ہوا تھا تو۔۔!!!"

ایک اغواہ کار نے اب کی بار ایک زور دار مکہ دروازے پر مارا اور جھنجھلا کر چیخ اٹھا۔فدیان نے بامشکل مسکراہٹ روکی۔

ان لوگوں کو تپانے کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔

"میں ایک عظیم لاجک کو ماننے والا ہوں کہ زبان کے پیر نہیں ہوتے جو وہ چلے گی۔زبان منہ میں ہی رہتی ہے۔اس لیے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان چلتی ہے وہ لوگ عقل سے پیدل دو کوڑی کے لوگ ہیں۔اور تم دونوں تو ویسے بھی کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہو دو کوڑی کے گھٹیا لوگ ہو۔سستے اور بے کار لوگ۔۔!!! کراۓ کے گرے پڑے غندے۔۔!!!

اب چلتے ہیں دوسرے سوال کی جانب تو جب میں پیدا ہوا تھا تب میں بہت چھوٹا تھا اس لیے مجھے یاد نہیں کہ میں نے پیدا ہوتے ہی کیا کھایا تھا مورے سے پوچھ کر بتاؤں گا۔

جہان تک بات رہی میرے گھروالوں کی تو وہ تو میری جان لیتے ہیں مطلب مجھ پر جان دیتے ہیں(استغفرُاللہ ۔۔!!! وہ تو برداشت ہی نہیں کرتے مجھے۔تبھی تو مہینے سے اوپر ہوگیا کسی نے خبر بھی نہیں لی میری)۔۔!!!

جسے فدیان ملے اسے شکر کرنا چاہیے ناکہ فدیان کو باندھ کر رکھنا چاہیے ۔!!"

کونفیڈنس کمال تھا اس کا۔ان دونوں سے بات یوں کررہا تھا جیسے وہ ان دونوں کا باس ہو۔اور وہ اس کے حکم کے پابند ۔

اس نے اپنی کلائ پر آئ کھروچ دیکھی جو اسے تو بہت بڑی لگ رہی تھی۔باہر کھڑے لوگوں نے لاک چیک کیا تو سکون کا سانس لیا کہ دروازہ لاک ہی تھا۔ورنہ اس کی باتیں تو انہیں وہم میں مبتلا کررہی تھیں کہ کہیں وہ دروازہ ہی نہ توڑ دے۔

"آج تمہیں کھانا نہیں ملے گا۔بھوکے مرو وہیں۔۔!! رسیاں کھول لی ہوں گی تم نے تبھی ہمیں للکار رہے ہو۔اب دروازہ نہیں کھلے گا۔"

ان دونوں نے بات ختم کرنا چاہی تو فدیان نے ابرو اچکا کر دروازے کی سمت دیکھا پھر اٹھ کر دونوں ہاتھ جینز کی پاکٹ میں گھسا کر دروازے کے پاس آیا۔اور کچھ سوچنے لگا۔کمرے میں خاموشی چھاگئی ۔

باہر کھڑے اغواہ کاروں کو لگا کہ شاید وہ بھی اب ان کی جان چھوڑنے کا ارادہ کرچکا ہے تبھی انہوں نے اب وہاں سے جانے کا ارادہ کیا۔تاکہ اب خود بھی سوسکیں۔اس کی پہرہ داری کرنا ان کے بس سے باہر تھا۔پر فدیان کی اگلی آواز انہیں وہیں روک گئ۔

"ویسے کیا تم لوگ مسلمان ہو۔۔!!! شکل و صورت سے تو کمینے ہی لگتے ہو۔ گرے پرے کراۓ کے غنڈے جو ٹھہرے تم دونوں۔۔!! پر مذہب بھی تو کوئ ہوگا ہی نہ تمہارا بتاؤ ۔۔!!!"

وہ تفتیشی انداز میں بولا پر انہیں بے عزت کرنا نہ بھولا۔جنہیں ایسے القابات کی عادت تھی۔تبھی اب وہ بھی جواب دینے لگے ۔ کوئ اور چارہ جو نہ تھا ان کے پاس۔

"ہمیں حالات نے ایسا بننے پر مجبور کیا ہے پر ہم مسلمان ہی ہیں۔"

"میں بھی مسلمان ہی ہوں۔اچھا تم دونوں شادی شدہ ہو یا ابھی تک مناسب رشتے کی تلاش میں ہو۔ویسے ہو تو تم دونوں بڈھے ہی اگر کنوارے ہو تو اب ایسے ہی مرو گے تم ۔۔!!!"

دوستی کو مزید بڑھاتے ہوۓ اس نے جواب کا انتظار کیا وہیں ان دونوں نے رونی صورت بنا کر دروازے کو گھورا کہ کیا اس شخص نے انہیں ذلیل کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے۔پھر ہاں کہہ کر بات ختم کی۔

"ویری گڈ۔۔۔!!!! اچھا پلیز مجھے اپنا داماد بنالو۔آئ مین تم دونوں میں سے کوئ ایک کمینہ شخص مجھے اپنی فرزندی میں لے لو ۔پڑھا لکھا ،خوبصورت، تابعدار ،امیر باپ کی دوسری اولاد ہوں میں ۔عیش کرو گے عیش۔ بنالو اپنا داماد مجھے۔اور سنوار لو اپنا مستقبل۔۔!!!"

اس نے احسان کرنے والے انداز میں کہا تو ان دونوں نے صدمے سے اپنا چکراتا سر سنبھالا کہ اب یہ آئیڈیا اسے کہاں سے آیا۔یہ تو آ بیل مجھے مار والا حساب تھا۔یا آنکھوں دیکھی مکھی نگل لینا۔فدیان نے ان کے متوقع تاثرات امیجن کیے تو شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجی۔ 

"مجھے تم دونوں میں سے کسی ایک کو ستانے کا مستقل سرٹیفیکیٹ چاہیے۔یہ موٹا جلدی سلگتا ہے اس کے چانس زیادہ ہیں۔ون اینڈ اونلی فدیان خود تمہارا داماد بننا چاہتا ہے بنالو مجھے داماد۔۔!!!"

اس کی بات سن کر پہلے اغواہ کار نے لب بھینچے۔موٹا وہی تھا۔فدیان وہ پہلا شخص تھا جو خود ہی اپنی شادی کی بات منہ پھاڑ کر اغواہ کاروں سے کررہا تھا۔

"میری کوئ بیٹی نہیں ہے سمجھے تم اگر ہوتی بھی تو تم جیسے زبان دراز، بدتمیز ،اور سرپھرے لڑکے سے بیاہنے سے بہتر میں اس کا گلا گھونٹنا سمجھتا۔تم فسادن بہوؤں سے بھی دو کیا چار ہاتھ آگے ہو۔ آرے سے تیز زبان ہے تمہاری۔ساری زندگی کی یہ ذلالت تمہارے گھر والوں کو ہی مبارک ہو۔اور اپنی دولت میں ڈوب کر مرجانا تم۔بڑے آۓ امیر باپ کی اکلوتی اولاد۔!!"

اس نے سختی سے کہا ۔دوسرا اغواہ کار اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دینے لگا۔مگر اغواہ کاروں کے ہاتھوں ریجکشن کا دکھ فدیان کو سر تا پیر تپا گیا۔

غصے سے اس نے دروازے کو ٹھوکر رسید کی۔تو ایک بار دروازہ بھی ہلا۔ وہ دونوں اچھل کر دروازے سے دور ہوۓ۔

ریجکشن وہ بھی اغواہ کاروں کے ہاتھوں واقعی بہت بڑا دکھ تھا۔

"دفع ہوجاؤ تم دونوں ۔۔!!!!! میں بھی مرا نہیں جارہا تم دونوں کا داماد بننے کے لیے۔مجھ جیسا ہیرہ کھوکر بہت برا کیا ہے تم دونوں نے اپنے ساتھ۔ مجھ جیسا تو تمہیں آئ فون کی ٹارچ کی روشنی میں بھی نہ ملتا۔اور میں اپنے باپ کی دوسری اولاد ہوں اکلوتی نہیں ہو۔آئندہ زبان سنبھال کر رکھنا ورنہ فدیان کا دوسرا رخ تم دونوں سہہ نہیں پاؤ گے۔

بڑے آۓ مجھے ریجکٹ کرنے والے۔ذلیل لوگ۔۔!!!"

کرسی کو  ٹھوکر مار کر گراتے،لائٹ آف کرتے وہ خود بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا اور چہرہ تکیے میں دے گیا۔اغواہ ہونے کے باوجود وہ ایک شاہانہ زندگی گزار رہا تھا ۔یہ سب اس کی زبان سے تنگ آکر اسے مہیا کیا گیا تھا۔

زبان اگر تیز ہو تو صرف نقصان نہیں ہوتا کبھی کبھار کچھ فائدے بھی مل جاتے ہیں۔ 

کھانا تو وہ شام میں ہی کھاچکا تھا اپنی پسند کا اب اسے سکون سے سونا تھا۔

"مجھے تو اب شہزادیوں والی فیلنگ آنے لگی ہے۔کہ ان لوگوں نے مجھے اغواہ کرکے رکھا ہے اور میرا شہزادہ ایک دن سفید گھوڑے پر بیٹھ کر مجھے بچانے آۓ گا۔۔۔۔!!!!

استغفر اللہ ۔۔!!! میں بھی کیا کیا سوچتا رہتا ہوں میں ایک شہزادہ ہوں جو اپنی شہزادی کو بچاکر لاۓ گا نا کہ خود شہزادوں کا انتظار کرتا رہے گا ۔۔..!!!!"

تکیہ منہ سے ہٹا کر اس نے اپنی سوچ جھٹکی۔اور سیدھا لیٹ گیا۔وہ دونوں بھی دروازہ لاک کرکے وہاں سے جاچکے تھے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

رات کے بارہ بجنے والے تھے اور وہ صدا کا خود میں مگن انسان ابھی تک اپنے کام میں مصروف تھا۔اسے تو شاید یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اس کی بیوی ابھی تک باہر ٹیرس پر جمادینے والی سردی میں بغیر کسی گرم شال سویٹر پہنے بند ہے۔کب سے وہ لیپ ٹاپ پر بزی تھا پر اس کا کام تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

اپنی آنکھیں سکیڑ کر  اس نے لیپ ٹاپ کی سکرین کو گھورا پھر لمحے کے لیے رکا جیسے کچھ سوچ رہا ہو پھر اگلے ہی لمحے وہ اپنا کام دوبارہ شروع کرگیا ۔ساڑھے بارہ کے قریب اس کا کام ختم ہوا ۔اس نے لیپ ٹاپ کو آف کرکے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور آنکھیں موند کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا گیا۔

اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے زرلشتہ کا معصوم سا چہرہ آیا اس کی آنسوؤں سے تر آنکھیں جن میں ایک شکایت تھی۔

جب اس نے ٹیرس کا دروازہ بند کیا تھا تب آخری بار نظر اس کی ان آنکھوں پر گئ تھی جو بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں۔اور اپنے پاس رکھا موبائل فون اٹھا کر ٹائم دیکھا ۔

"اتنی دیر ہوگئ اور وہ وہیں بند ہے۔۔!!! میں کیسے بھول گیا اس مصیبت کو۔کہیں جم ہی نہ گئ ہو۔۔۔!!!"

فون وہیں پٹختے وہ اٹھا اور بیڈ کے ایک طرف رکھی اپنی شال اٹھا کر ٹیرس کی طرف چلا گیا۔ ٹیرس کا دروازہ کھولتے ہی نرم روئ کے گالوں جیسی برف یخ بستہ جھونکے کی صورت میں کمرے کے اندر آئ۔

اس کی آنکھیں خود بخود سختی سے بھینچ گئیں۔پھر اس نے سامنے دیکھا تو ٹیرس پر ہلکی ہلکی سی برف ابھی گرنا شروع ہوئ تھی۔سردی اتنی زیادہ تھی کہ سانس لینا بھی محال تھا۔موسم اتنا خراب ہوچکا ہوگا اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔ وہ آگے بڑھا اور آس پاس دیکھا مگر زرلشتہ وہاں نہیں تھی۔

"کہاں گئ یہ لڑکی ۔۔۔!!!! زرلشتہ۔۔۔!!!!! کہاں ہو تم۔؟" 

اس نے گھوم کر ہر طرف اسے دیکھا پر وہ وہاں ہوتی تو اسے دکھتی۔اسے یاد تھا اس نے زرلشتہ کو وہیں چھوڑا تھا ۔اتنی اونچائی سے وہ نیچے تو جانے سے رہی ۔اور نا ہی وہ واپس کمرے میں آئ تو کہاں گئ آخر۔وہ ٹیرس کے دوسری طرف گیا۔

تو اسے زرلشتہ کونے میں خود میں سکڑی سمٹی بیٹھی ہوئ دکھی۔ وہ دور سے ہی جان گیا کہ اس کی حالت اس وقت کتنی بری ہے۔اسے اتنا بے حس نہیں بننا چاہیے تھا۔اسے یہی خیال آیا۔زرلشتہ کی غلطی اتنی بڑی نہیں تھی کہ وہ اتنی سزا پاتی ۔

وہ وہیں دروازے کے پاس ہی بیٹھی تھی جب سردی بڑھ گئ اس کے لیے سانس لینا بھی اس موسم میں محال ہوا تو وہ اٹھ کر دوسری طرف چلی گئ تھی۔ جہاں اوپر کا حصہ خوبصورت سے شیڈ سے آدھا کور تھا ۔اور پھر وہیں بیٹھ کر رونے لگی۔روتے ہوتے کب اسے نیند آئ اسے بھی پتہ نہ چلا۔سردی کی وجہ سے وہ نیم بے ہوشی کی کیفیت میں تھی۔

وہ ملامت میں وقت ضائع کرنے کی بجاۓ اس تک پہنچا اور گھٹنے کے بل اس کے پاس بیٹھا۔

"زرلشتہ۔۔۔۔!!!!!" مدھم سی پکار تھی۔اس نے اس کے رخسار تھپتھپاۓ جو پوری طرح ٹھندی پڑچکی تھی ۔گال حد سے زیادہ سفید اور بند پلکوں پر بھی سفید سی باریک تے جمی تھی ۔ہونٹ نیلے پڑتے جارہے تھے۔اس کے وجود میں ہلکی سی کپکپاہٹ تھی رونے کی وجہ سے ۔

درمان نے لب بھینچے۔دل کے کسی کونے میں تکلیف اٹھی۔

"کیا ہو گیا ہے تمہیں اٹھو پلیز ۔۔۔!!!! اندر چلو میرے ساتھ۔۔!!! ہوش میں آؤ زرلشتہ۔۔۔!!!!"

اس کے بال نرمی سے سہلاتے ہوۓ درمان نے آنکھوں میں تکلیف لیے فکر سے اسے پکارا۔اب اپنے کیے پر اسے جی بھر کر شرمندگی ہوئ

سردی بڑھتی جارہی تھی ۔

"زرلشتہ۔۔۔!!!! سوری۔۔۔!!! آی ایم ریلی ویری سوری۔۔!!! پلیز آٹھ جاؤ۔۔۔!!!"

اسے خود بھی سمجھ نہ آیا کیا کہے اسے ۔ سردی اس کے اوسان بھی جھکڑ رہی تھی تو زرلشتہ تو کتنے گھنٹوں سے اسی جگہ بند تھی اس کا حال کیسا ہو گا۔وہ اس سے معافی مانگ رہا تھا جبکہ معافی لفظ تو اسے ہی فضول لگتا تھا۔یہ معافی تو زرلشتہ نے بھی اس سے مانگی تھی ۔تب اس نے کونسا معافی قبول کی تھی۔

"ظ۔ظالم۔۔!!! "

زرلشتہ کو اپنے پاس کسی کی موجودگی محسوس ہوئ تو اس نے اپنی آنکھیں کھولنے کی ناکام سی کوشش کی۔پھر درمان کو ہی پکارا ۔درمان کو اس کی پلکوں میں لرزش دکھی تو فوراً اسے سہارا دے کر کھڑا کیا اور اپنے دوسرے ہاتھ میں پکڑی شال اس کے گرد لپیٹی۔اس کا جسم بے جان ہورہا تھا۔

"پلیز ایک بار اٹھ جاؤ۔میں پھر ایسی جاہلوں والی حرکت نہیں کروں گا۔۔۔!!!!!! 

تم چپ کیوں ہوگئ ہو۔کچھ تو بولو۔۔۔!!!! لڑ لو مجھ سے یا مار لو۔۔!!! پر اٹھ تو جاؤ۔بہت ظالم ہوں نا میں جو تمہیں تکلیف دیتا رہتا ہوں تو اس ظالم پٹھان کو باتیں سنا لو۔پلیز اٹھ جاؤ۔۔!!"

اسے اٹھاکر کمرے میں لاتے ہوۓ درمان کا دل ڈوبنے لگا۔وہ چپ ہونے والوں میں سے نہیں تھی اور اب تو آنکھیں بھی نہیں کھول پا رہی تھی۔

اس نے اسے بیڈ پر لٹا دیا اور واپس مڑکر ٹیرس کا دروازہ لاک کیا۔

 کمرے میں ہیٹر کی سپیڈ تیز کرتے وہ اب ڈریسنگ روم سے اس کے لیے ایک اور کمفرٹر  لے آیا۔پہلے ایک کمفرٹر اسے اوڑھا کر اس نے اس کے چہرے کی جانب دیکھا جو اسی حالت میں تھی۔ پھر دوسرا کمفرٹر اسے اوڑھا دیا۔

عجیب تھا وہ شخص اس نے خود کہا تھا کہ میری طرف سے تم مر بھی جاؤ تو مجھے فرق نہیں پڑے گا پر فرق تو اسے پڑرہا تھا اور بہت پڑرہا تھا۔

اس نے محض شرٹس خراب کرنے کی وجہ سے اسے اتنی بری سزا دی تھی کہ جس کی کوئ معافی تھی ہی نہیں ۔وہ انسان تھی کوئ کھلونا نہیں تھی کہ وہ اس کی جان داؤ پر لگا دیتا۔

وہ اس کے پاس بیٹھا اور اس کی آنکھوں پر جمی برف کی باریک سی تہہ صاف کی۔پھر اس کے دونوں ہاتھ رب کرنا شروع کیے۔

چہرے پر فکر ہی فکر تھی۔اس کا غصہ ہمیشہ اسے بعد میں پچھتاوے میں ہی مبتلا کرتا تھا۔

"مجھے اتنا روڈ ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔بہت برا کیا میں نے تمہارے ساتھ۔۔۔!!!! تمہاری اس حالت کا ذمہ دار میں ہی ہوں اس وقت تو میں تمہیں ہاسپٹل بھی نہیں لے جاسکتا ہاسپٹل بہت دور ہے یہاں سے ۔۔۔!!!! دو گھنٹے تو جانے میں ہی لگ جائیں گے۔اگر برف باری تیز ہوگئ تو راستے ہی بلاک ہو جائیں گے۔بہت دیر ہوجاۓ گی تب تو۔ میں کیا کروں اب۔۔!!! میں تمہیں اس حال میں نہیں چھوڑ سکتا ۔اٹھ جاؤ نہ۔۔!!!" 

وہ بے چینی سے اس کے دونوں ہاتھ رب کرتا گیا تاکہ اس جلدی ہوش آۓ۔پھر دوسری طرف جاکر اس نے اس کے دونوں پاؤں کے تلوے رگڑنا شروع کیے۔اس سے اس کے جسم میں خون کی گردش جو آہستہ ہوچکی تھی وہ تیز ہوتی۔

اور اس کے سن اعصاب بھی بیدار ہوجاتے۔

اس نے کہا تھا کہ اللہ اس شخص کو اس کی وجہ سے تڑپاۓ اسے اس پر رلاۓ ۔۔!!  تاکہ اس شخص کا یہ گھمنڈ ٹوٹ جاۓ کہ اسے کسی کی فکر نہیں اور آغاز ہوچکا تھا۔

اس شخص نے جھکنا نہیں سیکھا تھا اور یہاں وہ اپنی ہی بیوی کے پیروں کو ہاتھ لگاگیا تھا۔اس نے معافی نہیں مانگی تھی اور اب بار بار بس اسے سوری ہی کہہ رہا تھا۔دعا قبولیت کے رستے پر چل نکلی تھی ۔

 جس کا مددگار خدا کے سوا کوئ نہ ہو اس کی بددعا سے ڈرنا چاہیے وہ بددعا عرش تک کو ہلا دیتی ہے۔پھر کہاں کسی کی اکڑ۔کیسا غرور اور کونسی انا۔۔!!

سب مٹی ہوجاتا ہے۔

اور زرلشتہ کی تو بددعا بھی عجیب تھی اسے اس شخص کو خود پر رلانا تھا ۔یعنی تکلیف زرلشتہ کو ملے اور درد اس شخص کو ہو۔۔!!!

مسلسل دس منٹ تک وہ وقفے وقفے سے اس کے ہاتھ پیر رب کرتا رہا اس ٹرک کا رزلٹ جلد ہی سامنے آگیا اور زرلشتہ نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔اسے نہیں پتہ تھا وہ اس وقت کہاں ہے ۔

"د۔در۔درمان دروازہ کھولیں۔م۔میں جم جاؤں گی۔۔!!!"

 دھندلائ آنکھوں سے پانی بہا اور اس کے لبوں سے ابھی بھی بس اسی شخص کا نام ہی نکلا۔ اسے محبت نہیں تھی اس شخص سے پر شوہر تو وہی تھا اس کا۔ ستم بھی وہی کرتا تھا اور پھر پکارتی بھی وہ اسی کو ہی تھی۔

"ادھر ہی ہوں میں۔یہاں دیکھو ۔!!! تم روم میں ہو اس وقت۔!!! آنکھیں کھولو پلیز ۔۔!!!"

اس کی پکار پر درمان اٹھا اور جھک کر فکر سے اسے دیکھنے لگا۔اس کی حالت اتنی بری نہیں تھی وقت پر درمان اسے کمرے میں لے آیا تھا تبھی وہ اٹھنے کی کوششوں میں تھی ۔

"ب۔بھوک لگی ہے م۔مجھے۔۔!!! ک۔کچھ میٹھا لا دیں ۔س۔سر درد کررہا ہے"

اس نے بامشکل کہا۔ اس کی آواز سن کر درمان کو سکون سا ملا تھا۔جیسے دل کو دھڑکنے کی وجہ مل گئ ہو۔

"بھوک لگی ہے تمہیں۔میں کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔اور میڈیسن بھی۔ تم رونا مت۔ آۓ ایم سوری۔مجھے پتہ ہے سوری تمہاری تکلیف کا ازالہ نہیں کرسکتا۔تم مجھے سزا دے لینا۔ٹھیک ہے ۔۔۔!!!"

درمان نے نرمی سے کہا۔پر زرلشتہ نے سنا ہی کب تھا۔وہ تو ابھی بھی رو رہی تھی۔اس کی آنکھوں سے بہتا پانی صاف کرکے درمان وہاں سے اب کچن کی جانب چلا گیا۔کمرہ ہیٹر کی وجہ سے خاصہ گرم تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

کچن میں اس وقت سناٹا تھا رات کے ایک بجے تو اس جگہ ملازم ہونے سے رہے۔اس نے اس کے لیے دودھ گرم کیا اور گلاس میں انڈیل کر ٹرے میں رکھا ۔فریج چیک کی کہ کچھ کھانے کو اسے مل جاۓ۔کھانا تو اس نے بھی نہیں کھایا تھا اور نہ اسے بھوک تھی فلحال تو اسے بس زرلشتہ کی فکر تھی۔

فریج میں کھیر رکھی تھی اور اس وقت وہ کھا بھئ یہی سکتی تھی۔کھیر باؤل میں نکال کر اس نے گرم کی اور ٹرے میں رکھ کر سیدھا کمرے میں جانے لگا۔

تب اسے یاد آیا کہ زرلشتہ جب شروع میں یہاں آئ تھی تب اس نے کچن سے دودھ اور بریڈ چراۓ تھے ۔ وہ مسکرایا ۔

"یہ مصیبت بھی نا۔۔!! بہت ہی معصوم ہے ۔چھوٹا سا دل ہے اس کا۔اپنی ہی دنیا میں مگن رہتی ہے۔کتنا خوش تھی وہ آج ۔اور میں نے اسے کس حال میں پہنچادیا۔ شرٹس ہی تو خراب کی تھیں اس نے کونسا کوئ قتل کردیا تھا۔قتل بھی کردیتی تب بھی وہ اس سلوک کی محتاج نہیں تھی۔ وہ تو یہی سوچتی ہوگی کہ اس کے شوہر کو اپنی چیزیں اس سے زیادہ پیاری ہیں۔

اسے کیسے سمجھاؤ گا کہ مجھے ڈر تھا کہ اگر وہ میرے سامنے رہی تو میں کچھ غلط کر بیٹھوں گا۔میں اسے اپنے غصے سے بچانا چاہتا تھا بس۔۔!!!!

پر وہ غصے کی نظر ہوگئ ۔۔!!!"

اس نے افسوس سے سوچا۔اور کمرے کا دروازہ پاؤں سے کھول کر اندر داخل ہوا۔زرلشتہ اب بھی تکلیف میں تھی۔

ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اس نے اسے سہارا دے کر بٹھایا اور اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اس کا بخار چیک کیا۔

"بخار تو بہت تیز ہے۔۔!!!"

صبیح پیشانی پر فکر سے سلوٹیں پڑیں ۔

"میری مصیبت غصہ ہے نا مجھ پر۔۔!!! غصہ ہونا بھی چاہیے میں نے حرکت ہی اتنی بری کی تھی۔"

اس کے سر پر ہلکا سا ہاتھ پھیر کر اس نے اس کا چہرہ سامنے کیا۔جس نے آنکھیں کھول کر اس کے چہرے کو دیکھا۔

"آپ ب۔برے ہیں ۔۔!!! گ۔گندے۔۔!!!"

اسے دیکھ کر اس نے شکایت کی تو درمان اب کی بار جواب بھی نہ دے سکا۔عجیب سا احساس تھا یہ کہ اس کے دل میں ٹھیس اٹھی ۔پہلے وہ کتنا بولتی تھی ایک ہی سانس میں بنا رکے وہ اسے کیا سے کیا بنا جاتی تھی اور اب وہ بول بھی نہیں پارہی تھی۔

اس نے اس کے آنسو پونچھے ۔اور خود سے لگا لیا۔

"جانتا ہوں میں۔۔!!! پر تم اچھی ہو۔بہت اچھی۔۔!!!"

دل میں کہہ کر اس نے ٹرے سے دودھ کا گلاس اٹھایا اور اسے پلایا۔پھر کھیر کا باؤل نکال کر سامنے کیا اور اسے کھلانے لگا۔

مشکل تھا پر وہ اسے کچھ کھلانے میں کامیاب ہوہی گیا۔اس کا شوگر لیول خطرناک حد تک لو تھا۔تبھی وہ اب تک نیم بے ہوشی کی کیفیت میں ہی تھی ۔اور وقفے وقفے سے اسے ظالم کہنے کا فریضہ بھی پورا کررہی تھی ۔

"تم کہیں سے بھی دیار کی بہن نہیں لگتی مجھے۔اس دیار پر تو مجھے دل کھول کر غصہ آتا ہے اور تم پر غصہ کرنے کے بعد میرا دل ہی مجھ سے روٹھ جاتا ہے۔پتہ نہیں ایسا کیوں ہورہا ہے۔پر میرا دل تمہاری طرف ہی کھچا رہا ہے۔  میں اس دل کو روک نہیں پارہا ۔یا روکنا چاہتا ہی نہیں۔کیوں ہو تم اتنی انوسنٹ۔۔!!!!

تمہاری باتیں پاگل کردیں گی مجھے۔۔۔!!!"

ٹرے سائیڈ پر رکھ کر اسے خود میں بھینچتے درمان نے آنکھیں بند کیں ۔اس کے بے چین دل کو تو اس کی آواز ہی قرار دے رہی تھی۔تب دماغ نے کہا کہ کیا تم فدیان کو بھول گۓ ہو۔تمہارا بھائ اس لڑکی کے بھائ کی وجہ سے تم سے دور ہوا۔اور جو اذیت تم نے موت کے منہ میں جاکر اٹھائ اس کا کیا؟

ابھی تک تمہارے زخم نہیں بھرے کیوں غلط راہ پر چل پڑے ہو۔؟ ابھی وقت ہے رک جاؤ۔۔!!!

اسے اس کا بھائ لے جاۓ گا۔۔!!! تب کیا کرو گے تم..!!!!

دماغ اسے روک رہا تھا۔درمان نے آنکھیں کھول کر زرلشتہ کو دیکھا ۔وہ ہمیشہ دماغ کی سنتا تھا۔دل کی سننا اسے گوارہ تھا ہی نہیں۔

تم رہ پاؤ گے اب اس کے بنا۔۔!!! اگر تمہیں یہ اب دکھی ہی نا تو کیا اس کی باتوں کے بغیر تمہاری صبح ہوجاۓ گی۔کیا تم اس کی فضولیات سنے بغیر سکون پالو گے۔وہ بھائ ہے اس کا تو کیا ہوا ۔تم اس کے شوہر ہو اور اسلام میں نکاح کے بعد بیوی پر سب سے بڑھ کر حق شوہر کا ہوتا ہے۔کسی اور کا نہیں۔تم چاہو گے تو کوئ اسے تم سے چھین نہیں سکتا۔کیا درمان اپنی بیوی سے اب آسانی سے دست بردار ہوجاۓ گا ؟ کیا تم اتنے کمزور ہوچکے ہو کہ حالات کے سامنے جھک جاؤ۔۔!!!

 دل نے اسے روکنا چاہا یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ مانے گا تو دماغ کی ہی۔

درمان نے نفی میں سر ہلایا۔اور گہرا سانس خارج کرکے فیصلہ لے لیا۔

"نہیں۔۔!!!! میں اسے کسی کو نہیں دوں گا۔کسی کو بھی نہیں۔یہ بے قصور ہے۔کسی کے جرم کی سزا اسے نہیں ملنی چاہیے۔جو مجھ سے جڑ جاۓ اسے مجھ سے الگ ہونے کا کوئ حق حاصل نہیں ہوتا۔مجھے محبت نہیں ہے اس سے پر بیوی ہونے کے ناطے اسے میرے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔

باقی سب بعد کی باتیں ہیں۔میں بھی دیکھوں گا کہ کوئ اسے مجھ سے کیسے چھینے گا۔"

اس نے جو فیصلہ لیا تھا اس پر دماغ بھی چکرا گیا کہ جب بغیر محبت کے ہی وہ اتنا جنونی ہورہا ہے تو اگر محبت ہوگئ تو یہ انسان اس کے لیے سب سے لڑ بھی جاۓ گا۔پر درمان کا دشمن اس کا غصہ ہی تھا۔

وہ غصہ جس کے چلتے اس کا زخم اب تک ویسا کا ویسا تھا۔ڈاکٹرز خود اس شخص سے تنگ آچکے تھے کہ یہ احتیاط کیوں نہیں کرتا ۔پر اسے کوئ پرواہ تھی ہی نہیں۔اور اسی غصے کی وجہ سے زرلشتہ اس حال کو پہنچی تھی وہ الگ بات تھی کہ درمان اسے اپنے غصے سے بچانا چاہتا تھا تب بھی اس کی حالت اتنی بری ہوگئ اگر وہ اس کے غصے کا شکار ہوجاتی تو ناجانے کیا ہوتا۔

اسے واپس لٹا کر وہ میڈیسن باکس سے بخار کی میڈیسن نکال کر لایا اور اس کے پاس واپس بیٹھ کر اسے سہارا دے کر بٹھایا۔زرلشتہ کو تو کسی بات کی ہوش تھی ہی نہیں ۔اب تک صرف اتنا یاد تھا کہ درمان ظالم ہے۔

میڈیسن کو دیکھ کر زرلشتہ نے بیزاریت سے منہ پھیر لیا ۔تو درمان نے اسے مصنوعی انداز میں گھورا۔

"تم پیار سے بات کیوں نہیں مانتی؟ جب تک میں غصہ نہ کروں تمہیں میری باتیں دودھ کم پانی زیادہ لگتی ہیں۔بول تو پا نہیں رہی تم اور نخرے کتنے ہیں تمہارے۔کھا لو آرام سے ۔"

اسے ڈانٹ کر میڈیسن کھلاتے اس نے دودھ کا گلاس وہیں ٹرے میں واپس رکھ دیا۔

"پ۔پیار سے بات کی کب آپ نے۔ظ۔ظالم د۔درمان۔۔!!! آپ گ۔گندے ہیں.مجھے بس ڈانٹتے ہیں۔پیار سے بات نہیں کرتے۔۔!!!"

زرلشتہ نے منہ بناتے ہوۓ شکایت کی تو اس انوکھی شکایت پر وہ اس حال میں بھی مسکرا اٹھا۔

وہ اس کے حصار میں بیٹھی اس کی اتنی کیئر کے بعد اسے ہی ظالم ڈیکلیئر کرچکی تھی ہنسنا تو بنتا تھا۔

"ظالم ہونے کا ایوارڈ دے دو مجھے ۔یا کوہِ قاف بھیج دو۔!!! بہت غصہ آرہا ہے مجھے خود پر دل تو کررہا ہے صبح تک برف باری میں جاکر کھڑا ہو جاؤں تاکہ مجھے کچھ عقل آۓ۔کہ بیوی اگر غلطی کرے تو انسان کو میری طرح جاہل نہیں بن جانا چاہیے۔بلکہ اسے معاف کر دینا چاہیے۔کیا حال ہوگیا تمہارا میری وجہ سے ۔۔۔!!!!"

وہ افسوس سے بولا۔اور اس کا سر دبانے لگا۔

"م۔میرے مرنے سے آپ کو فرق نہیں پڑتا نا۔ اللہ مجھے م۔مار دے گا جب تب آپ روؤ گے ۔بہت روؤ گے۔اللہ آپ کو ب۔بتاۓ گا کہ زرلشتہ کی موت پر آپ ک۔کو دکھ ہوگا۔"

زرلشتہ کو یہی یاد آیا تو اس نے بول دیا پر درمان کا چلتا ہاتھ اور دل لمحے کے لیے رکا اس نے صدمے سے زرلشتہ کو دیکھا جس کے الفاظ اس کا دل جھکڑ گۓ۔

"چپ کرو۔۔!!! کچھ بھی بول دیتی ہو تم۔اللہ نہ کرے کہ تمہیں کچھ ہو۔ پاگل لڑکی ۔غصہ آرہا ہے تو میرے مرنے کی دعا مانگ لو۔پر خود کو کچھ نہ کہو۔۔!!!"

سر جھٹک کر درمان نے اپنی رکتی دھڑکنوں پر قابو پایا۔اور اس کا سر تکیے پر رکھ کر جھک کر اسے دیکھنے لگا۔

"تمہاری ایسی فضول باتیں سننے سے اچھا ہے میں برف باری میں ہی جاکر کھڑا ہوجاؤں۔کم از کم میرا گلٹ تو دور ہوجاۓ گا۔یہاں بیٹھا رہا تو تم مجھے مزید غصہ دلاؤ گی۔۔!!!"

سنجیدگی سے کہتے وہ جانے لگا پر رک گیا پھر مڑ کر دیکھا تو اس کا ہاتھ زرلشتہ کی قید میں تھا۔جو خود بخار میں تپ رہی تھی اور بے چینی کی وجہ سے اسے نیند نہیں آرہی تھی۔

"د۔درمان ۔۔!!! "

اس نے مدھم سی آواز میں پکارا۔ وہ واپس وہیں بیٹھ گیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا دکھتا سر دبانے لگا۔

"اب خود روک رہی ہو تم مجھے۔یاد رکھنا ورنہ میں باہر جانے کے لیے تیار تھا۔۔۔!!!"

اس نے اسے جتایا ۔جیسے یہاں اس کی وجہ سے ہی رکا رہا ہو۔پھر پیچھے تکیے سیٹ کرکے اس نے بیڈ کراؤن سے ہی ٹیک لگالی۔

"جلد ہی تمہارے کپڑوں کا مسئلہ بھی حل کردوں گا میں۔۔!!! ان کپڑوں سے مجھے تو کوئ اعتراض نہیں کیونکہ تم ایسے ہی کپڑوں میں کمفرٹیبل فیل کرتی ہو۔مجھے تمہارے سکون کی بھی فکر ہے۔پر دنیا کی نظریں اچھی نہیں ہیں۔اور میں کسی کی آنکھیں نکال کر اسے اندھا نہیں کرنا چاہتا۔

تمہارے ان قدموں کو سکون تو نہیں ملے گا اس لیے اتنا تو تم خود کو بدل ہی سکتی ہو میرے لیے۔خود کی حفاظت تو تمہیں کرنی ہی ہوگی "

آنکھیں موند کر اس نے کہا۔

زرلشتہ سکون ملتے ہی سو چکی تھی۔میڈیسن وہ اسے دے چکا تھا اور دوا اثر بھی دکھا رہی تھی۔

"باہر کی دنیا تم جیسی نہیں ہے۔وہاں بہادر بننا پڑتا ہے۔جو تم بن ہی نہیں سکتی۔ویسے تمہیں ضرورت بھی نہیں ہے بننے کی میں ہوں نا تمہیں پروٹیکٹ کرنے کے لیے۔پر مورے سے تمہیں بچانا مشکل ہے۔

میں جانتا ہوں وہ موقع ملتے ہی تمہارے ساتھ کچھ غلط کریں گی ۔تبھی تو میں نہیں چاہتا کہ تم کمرے سے باہر نکلو۔

ایک بار سب ٹھیک ہوجاۓ تب سوچوں گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔میں تمہیں مورے کے بھروسے نہیں چھوڑ سکتا ۔۔!!!"

اس کا سر دباتے کب وہ سویا اسے بھی خبر نہ ہوئ۔وہیں زرلشتہ بھی سو چکی تھی۔

درمان نے کچھ دن پہلے اپنی ماں کی باتیں سنی تھیں جب وہ غصے سے وشہ سے کہہ رہی تھیں کہ وہ زرلشتہ کو کسی صورت درمان کی بیوی قبول نہیں کریں گی۔اس کے لیے ان سے جو بن سکا وہ کریں گی۔درمان کو برا تو بہت لگا رہا اپنی ماں کی بات سن کر ۔ پر وہ تب کچھ کہہ نہ سکا ۔انہیں کچھ بھی کہنے کا مطلب زرلشتہ کے لیے ان کی نفرت مزید بڑھانا تھا۔

تبھی اس نے زرلشتہ کو کمرے سے نکلنے سے بھی منع کیا تھا تاکہ اس کی غیر موجودگی میں وہ اس کی مورے کے عتاب کا شکار نہ ہو۔

وہ خود اسے چاہے جیسے بھی ٹریٹ کرتا تھا پر وہ کبھی گوارہ نہ کرتا کہ اس کی بیوی کو کوئ دوسرا ہاتھ بھی لگاۓ۔

اب تو یہ وقت ہی بتاتا کہ درمان کا بدلاؤ دیر پا تھا یا وقتی اور شنایہ بیگم کیا اسے درمان کی بیوی کے روپ میں قبول کرلیتی ۔اور زرلشتہ کیا اب درمان سے بات بھی کرتی ۔

اگر اس وقت اس شخص کا یہ کیرنگ روپ وہ دیکھ لیتی تو صدمے سے بے ہوش ضرور ہوجاتی۔اس شخص میں ایک کیوٹ پٹھان چھپا تھا۔جس سے وہ بھی بے خبر تھا۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages