Pages

Saturday, 12 October 2024

Dasht E Dil Novel By Mahnoor Shehzad complete Romantic Novel

Dasht E Dil By Mahnoor Shehzad Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dasht E Dil Novel By Mahnoor Shehzad complete Romantic Novel 

Novel Name: Dasht E Dil   

Writer Name: Mahnoor Shehzad 

Category: Complete Novel

وہ اپنے کمرے میں گہری نیند سورہا تھا چہرے پر دلفریب مسکراہٹ نمودار تھی آنکھوں کے سامنے ایک حسین خوبصورت چہرہ لہرایا مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی

"جان"

وہ نیند میں اسے تصور کرتا محبت سے کہنے لگا اچانک وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوئی اور اس شخص نے فورا آنکھیں کھولی 

نظریں کمرے میں دوہرائی وہ کہیں بھی موجود نہیں تھا وہ نفی میں سر ہلاتا بالوں میں ہاتھ پھیر کر اٹھ کھڑا ہوا

************

وال کلاک اسوقت سات بجا رہی تھی اور اسوقت چوہدری حویلی میں ناشتہ کی تیاریاں ہو رہی تھی اس حویلی میں موجود لوگ وقت کے بہت پابند تھے 

ہاجرہ بیگم ناشتے کا سارا انتظام دیکھ کر ملازموں کو ڈائننگ پر لگانے کا حکم دیتی وہ اپنی اکلوتی بیٹی حور جان کو اٹھانے کیلیے اس کے روم کی جانب بڑھ گئی جسے اٹھانا مشکل سے بھی مشکل کام تھا 

ہاجرہ بیگم نے دروازہ پر دستک دی جب اندر سے کوئی جواب نہ ملا تو دروازہ کھولتی وہ اندر داخل ہوئی جہاں کالج کیلیے تیار چہرے پر ہاتھ رکھے نظریں کتاب پر جمائے ہوئی تھی اسے اٹھا دیکھ ہاجرہ بیگم کو حیرت سی ہوئی مگر بولی کچھ نہیں تھی

"حور"

ہاجرہ بیگم کی آواز سے وہ نظریں اوپر کی جانب اٹھا گئی گھنگڑالے بالوں کو جوڑے میں قید کیے دو لٹھے چہرے پر ڈالے سفید رنگت کی سیاہ چمک دار آنکھیں پتلی سی ناک گلابی لب اور گال کے اوپر موجود تل اس کے چہرے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کررہا تھا وہ بلکل اپنے نام کی طرح بہت ہی پیاری اور معصوم تھی اور کسی کو بھی اپنی متوجہ کرنے کا ہنر رکھتی تھی 

"آٹھ بجنے میں دس منٹ ہے تم شاید بھول رہی ہو کہ ابا جان تمہارے بغیر ناشتہ نہیں کرتے جلدی نیچے آجاؤ"

وہ اسے کہتے ساتھ ایک نظر اس کے روم میں ڈالتی جہاں ہر چیز بکھری ہوئی تھی اور نفی میں سر ہلا کر سمیٹنی لگی اسے کچھ کہ بھی نہیں سکتی تھی اگر کہتی تو جانتی تھی  سیدھا شکایت لگ جانی ہے اس لیے خاموشی سے خود ہی کرنے لگ گئی وہ اپنا عبایا اٹھا کر پہنتی اور سر پر اسٹالر حجاب کی صورت کرکے ایک نظر شیشے سے خود پر ڈالی وہ سادگی میں بھی بہت دلکش لگتی تھی کندھے پر بیگ لٹکانے لگی 

"اٹھارہ سال کی ہو چکی ہو مگر مجال ہے کوئی عقل آجائے"

ہاجرہ بیگم اس کی کمرے کی چیزیں درست کرتی مڑ کر خفگی سے بولی وہ آگے بڑھی اور ہاجرہ بیگم کی گال پر رکھ دیا

"ہائے میری پیاری امی"

پیار سے کہتے وہ مسکراتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئی اور وہ بھی ہلکا سا مسکرا کر باہر کی جانب بڑھ گئی

ڈائننگ ٹیبل پر حور کے تین بھائی  جبران چوہدری صارم چوہدری زاہد چوہدری اور سب سے اہم اس کے دادا حاکم چوہدری اس کے چچا دراب چوہدری پہلے سے موجود تھے 

"گڈ مارننگ"

مسکرا کر کہتے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دادا کے گلے میں ڈالتی لاڈ سے بولی 

"میری گڑیا"

حاکم صاحب اس کے دونوں ہاتھوں کو چوم کر پیار سے بولے وہ مسکرا کر کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی گھر کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی اس کے منہ سے ابھی بات نکلتی نہیں تھی کہ  اس کے دادا اور اس کے بھائی وہ بات پوری کردیتے تھے.

حور جوس کا گلاس لبوں سے لگائے ایک ہی سانس میں پی گئی 

"اللہ حافظ دادا جان میرا ایگزیم ہے مجھے دیر ہورہی ہے اللہ حافظ لالا  اللہ حافظ امی اللہ حافظ چچا"

وہ کرسی سے اٹھ کر حاکم صاحب کے گلے لگے مسکراتے ہوئے بولتی اپنے تینوں بھائیوں کو ہاتھ ہلا کر اور ہاجرہ بیگم کے گلے لگتی وہ باہر کی طرف تیزی سے بڑھ گئی 

"ہر وقت جلدی ہوتی ہے اسے"

ہاجرہ بیگم اسے جاتا دیکھ خود سے بولی اور باقی سب ناشتہ کرنے لگ گئے 

ازقہ دراب کی چھوٹی بیٹی ہاجرہ بیگم کے ساتھ بیٹھی ناشتہ کررہی تھی زاہد کی نظریں اسی پر تھی جس سے وہ کنفیوز ہو رہی تھی 

"کہاں ہے آدم چوہدری"

حاکم چوہدری سرد لہجے میں دراب چوہدری سے مخاطب ہوئے انہوں نے حاکم چوہدری کی جانب دیکھا

"سورہا ہے"

وہ شرمندگی سے انہیں جواب دیتے ساتھ سر جھکا گئے جبکہ حاکم چوہدری غصے سے نفی میں سر ہلاتے ناشتہ کرنے لگ گئے 

حور باہر آئی تو ڈرائیور پہلے سے ہی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے ہوئے تھے اس کے آتے ہی ملازمہ نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور وہ مغرور سی بیٹھ گئی اس قدر پیار لاڈ کی وجہ سے حور سرپھری  اور تھوڑی بدتمیز تھی ڈرائیور نے گاڑی سڑک پر دوہرا دی

************

"کیسا ہوا ایگزیم؟؟"

حور جیسے ہی کلاس سے باہر نکلی اس کی دوست نوال اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی 

"ہمیشہ کی طرح بہترین"

پراعتماد لہجے میں وہ مسکراتے ہوئے بولی اور گراونڈ پر بیٹھ گئی تھی تبھی اس کے گروپ کی مزید لڑکیاں آ گئی

"تم کیوں رونے پر ہو"

وہ اپنے گروپ کی لڑکی کو ہلاتا دیکھ پریشان سی پوچھنے لگی 

"یار اس نے میرے ساتھ چیٹ کیا ہے وہ اور لڑکیوں سے بھی باتیں کرتا ہے"

وہ روتے ہوئے اسے بتانے لگی حور اسے دیکھنے لگی 

"مجھے سمجھ نہیں آتا تم کیسے کسی انجان پر یقین کرلیتی ہو اور اس گٹھیا انسان کیلیے خود کو تکلیف دیتی ہو حد ہے"

حور انتہائی غصے سے اپنی فرینڈ جو بولی نوال نے اسے دیکھا

"تمہاری نظر میں پیار ناولز اور ڈراموں میں ہوتا ہے حقیقی زندگی میں وقت کا ضائع ہے اس لیے"

نوال فورا  سے حور کو مسکرا کر بتانے لگی حور اثبات میں سر ہلا گئی

"بلکل کچھ بھی نہیں رکھا اس پیار ویار میں"

وہ لاپرواہی سے کندھے اچکائے کہنے لگی اس کی فرینڈز اسے سن رہی تھی

"اگر تمہیں سچ میں پیار ہوگیا تو کیا کرو گی"

نوال اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے پوچھنے لگی حور مسکرا کر کھڑی ہوئی

"ناممکن ہے یہ اللہ حافظ"

کندھے پر بیگ لٹکائے پراعتماد لہجے میں جواب دیتی ڈرائیور کو دیکھ وہ چلی گئی اور اس کی دوستوں اسے جاتا دیکھ رہی تھی حور باہر نکلنے سے پہلے نقاب کرتی گاڑی میں بیٹھی تھی 

***********

"گاڑی کیوں روکی؟؟"

ڈرائیور جو گاڑی سڑک پر چلا رہا تھا اچانک روکنے پر حور نے فورا پوچھا 

"چھوٹی بی بی وہ سامنے"

ڈرائیور کو بولتے ہی حور جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی سامنے دیکھا بلیک کلر کی گاڑی کے ساتھ ایک لمبے قد کا شخص پشت ٹکائے ہاتھ میں سگریٹ لیے آنکھوں پر گاگلز لگائے بےفکر سا کھڑا تھا 

"اندھا ہے کیا یہ"

حور تپ کر اسے دیکھ کر کہتے ساتھ گاڑی سے باہر نکلی تھی

"مسٹر ملک ذامل"

گاڑی سے اترتے اونچی آواز میں اس کا نام پکارتی اسے اپنی جانب متوجہ کرتی اس کی جانب قدم بڑھانے لگی حور کو دیکھ اس مغرور شخص کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی 

حور کے مقابل آتے ہی ذامل آنکھوں سے گلاسز اتارتا مسکرا کر مونچھوں کو تاؤ دے گیا لمبے قد کا چوڑی جسامت سیاہ بال نفاست سے سجائے تیکھے نقوش بڑھی ہوئی بئیرڈ کترواں مونچھیں وہ بہت ہی خوبصورت شخصیت کا مالک تھا گاؤں کی بہت سی لڑکیاں ملک ذامل علی پر فدا تھی 

"بیچ راستے میں گاڑی کھڑی کر رکھی دماغ ٹھیک ہے"

وہ کمر پر ہاتھ رکھے غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولی وہ مسکراتے ہوئے بس اس کی آنکھیں دیکھ رہا تھا

"میں کچھ بول رہی ہو دو منٹ سے پہلے گاڑی ہٹاؤ مسٹر ملک ذامل"

حور اونچی آواز میں اسے سرد نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہنے لگی 

"مسٹر ملک ذامل واللہ"

وہ حور  پر گہری نظریں جمائے اس کا دیا ہوا نام دہراتا مسکرا کر سگریٹ کا ایک گہرا کش لگاتا سگریٹ کا دھواں ہوا میں اڑا گیا اور حور نے ناگواریت سے اسے دیکھا 

"مسئلہ کیا ہے تمہارا ہاں کیوں ہر روز میرے راستے کی رکاوٹ بنتے ہو"

حور بےزاریت سے  پوچھنے لگی ذامل نے ایک قدم اس کی جانب بڑھایا 

"تمہیں دیکھنے کے لیے جان"

مونچھوں کو تاؤ دیتا وہ بھاری لہجے میں اسے جواب دیتا گاڑی میں بیٹھ کر مسکرا کر ایک نظر حور پر ڈالتا جانے لگا 

"جان نہیں حور جان"

وہ انگلی دیکھاتی اسے سرد لہجے میں وارن کرنے لگی جب وہ اس کے چہرے کے قریب آیا 

"میں جان کہوں گا"

گھمبیر لہجے میں اسے کہتے ساتھ وہ وہاں سے بھاری قدم لیے گاڑی میں بیٹھنے لگا اور حور گھور کر اسے دیکھنے لگ گئی

"آوارہ بدمعاش لچہ"

غصے سے اسے کچھ الفاظ سے نوازتی  وہ واپس گاڑی میں آکر بیٹھی تھی ڈرائیور نے گاڑی سڑک پر دوہرا دی۔

************

وہ حویلی میں داخل ہوا تو نظر ملک شہراز صاحب پر گئی جو شاید اسی کے انتظار میں تھے تین چار ملازم ان کے اردگرد موجود تھے 

"کہاں تھے تم"

شہراز صاحب کی روعبدار آواز سے ذامل ان کی جانب بڑھا اور انہیں دیکھا

"کام سے گیا تھا"

سنجیدگی سے مختصر سا جواب دے کر وہ انہیں کے ساتھ بیٹھ گیا

"میں نے بھی تمہیں ایک کام دیا ہوا تھا"

وہ اس کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھتے ہوئے بولے ذامل جو اپنا ہاتھ ہلا رہا تھا اس کا ہلتا ہاتھ ایکدم رکا اور اس نے ان کی جانب دیکھا

"ہوجائے گا"

ذامل انپیں جواب دے کر اس پر کی جانب بڑھ گیا اور وہ اسے جاتا دیکھنے لگ گئے 

اس حویلی میں صرف ملک شہراز اور ذامل ہی موجود تھے باقی ملازم تھے ذامل کے والدین جب وہ نو سال کا تھا تب ہی ایک حادثے میں اپنی جان گوا بیٹھے تھے اس لیے وہ اتنا کم گو اور سنجیدہ رہتا تھا اس کی زندگی میں اس کے دادا ملک شہراز بہت اہم تھے

************

حور اپنی کافی ہاتھ میں تھامے بیلکونی میں آئی وہ رات کی کافی بیلکونی میں ہی پیتی تھی حجاب سے سر کو ڈھکے وہ مسکراتے ہوئے نظریں باہر کی جانب کیے کافی پی رہی تھی اچانک نظر سائیڈ پر گئی جہاں وہ سینے بازو باندھے اسی کی جانب نظریں کیے اسے دیکھنے میں مصروف تھا حور کو اسے دیکھ اس کے چہرے ہی مسکراہٹ غائب ہو گئی وہ ایک ہفتے سے مسلسل اس وقت اسے یہاں ضرور پاتی تھی بغیر کچھ بولے منہ بناتی  کھڑکی بند کر گئی تھی

"سچ میں لچہ ہے پورا"

غصے سے خود سے منہ بنائے کہتے ساتھ بیڈ پر آکر کافی پینے لگ گئی اور ذامل خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔

حور کافی پیتے ہوئے یہی سوچ رہی تھی کیوں صبح وہ اس ہے راستے کی رکاوٹ بنتا ہے کیوں وہ اس طرح آکر یوں کھڑا ہوکر اسے دیکھتا ہے 

"عجیب سے بھی عجیب ہے یہ شخص لیکن کل اگر یہ میرے راستے کی رکاوٹ بنا تو بات تو ضرور کروں گی آخر وجہ معلوم ہو "

وہ خود سے فیصلہ کرتے ساتھ کافی مکمل کرتی مگ سائیڈ پر رکھتی حجاب کھول کر لیٹ گئی کچھ ہی دیر میں اسے نیند آ گئی تھی 

*************

حاکم چوہدری آج اپنے بڑے بیٹے ابرار چوہدری کی قبر پر آئے ہوئے تھے دراب چوہدری بھی ساتھ تھے ان کی برسی تھی وہ ان کی قبر سے باہر نکلے تھے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ چہرے پر شدید غصہ آیا تھا

"کیسے ہو حاکم"

وہ سگریٹ کا گہرہ کش لگا کر چہرے پر جلا دینے والی مسکراہٹ سجائے بولے 

"چلو جبران"

حاکم اسے نظرانداز کرتے اپنے پوتے کو مخاطب کرتے جانے لگے جب ملک شہراز راستے کی رکاوٹ بنا 

"مجھے تم سے کوئی بحث نہیں ہے کرنی ہے ملک شہراز"

وظ سرد لہجے میں سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولے 

"تکلیف تو ہوتی ہوگی مجھے بھی ہوئی تھی جب میرے بیٹے اور بہو کو تم نے مارا تھا"

وہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے تکلیف دہ لہجے میں بولے جس پر وہ اسے دیکھنے لگ گئے

"تم نے میرے بےقصور بیٹے کو مجھ سے دور کیا ہے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا"

حاکم چوہدری تیش میں کہتے ساتھ گاڑی کی طرف بڑھ گئے اور مہک شہراز جاتا دیکھنے لگ گئے 

"اور میں بھی"

نفرت بھری نگاہوں سے گھورتے وہ بولے اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چل دہے

************

رات کے پہر حور کو پیاس لگی تو جگ خالی تھا وہ باہر آئی تو نشے میں دھت اندر آتے آدم چوہدری کو دیکھا 

"آج تو گھر آتے ساتھ دیدار ہوگیا ہے تمہارا"

چہرے پر گٹھیا مسکراہٹ سجائے وہ اسے دیکھ کر بولا حور نے ناگواریت سے اسے دیکھا 

"شرافت سے کمرے میں جاؤ آدم چوہدری منہ لگنے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے"

غصے سے اسے کہتی وہ کچن کی جانب بڑھ گئی اور آدم غصے سے اسے جاتا دیکھنے لگ گیا. 

"بےحیا"

کچن میں آتی پانی پیتی وہ غصے سے بولی اور کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔

حور کالج کیلیے تیار ڈائننگ کی جانب بڑھ رہی تھی جب کمرے سے نکلتی ازقہ پر نظر گئی سادہ سے لان کے سوٹ میں ملبوس بالوں پر سلیقے سے دوپٹہ کیے آنکھوں میں کاجل ڈالے تیکھے نقوش کی حامل گورے رنگ کی وہ دیکھنے میں بہت پیاری تھی 

"اہم اہم کس کیلہے اتنا سج سنور کے جایا جارہا"

حور اسے دیکھ فورا اس کی جانب بڑھتی اسے چھیڑتے ہوئےمزے سے بولی ازقہ نے اسے دیکھا

"ک۔۔کسی کیلیے نہیں"

ازقہ گھبرا کر لڑکھڑاتے ہوئے جواب دینے لگی حور اسے دیکھنے لگ گئی

"جیسے مجھے معلوم ہی نہ ہو"

حور اسے مسکرا کر کہتے ساتھ ڈائننگ پر چلی گئی ازقہ نفی میں سر ہلا کر ڈائننگ ٹیبل پر آ گئی 

حور ہمیشہ کی طرح حاکم چوہدری سے ملتی کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی اور ازقہ بھی اس کیساتھ موجود کرسی کو سنبھال گئی

**************

حور کالج سے واپس گھر جارہی تھی چہرہ نقاب سے ڈھکے ہوا تھا  اچانک گاڑی رکی اور حور نے نظریں سامنے کی جانب کی تو ملک ذامل  کو آج بھی ویسے ہی کھڑا پایا  حور اس سے صاف بات کرنے کا سوچتی گاڑی سے اتر کر اس کی جانب قدم بڑھانے لگی ذامل اسے دیکھ سیدھا ہوا اور چہرے پر دلفریب مسکراہٹ سجا گیا 

"کیا چاہتے ہو تم مجھ سے کیوں میرا راستہ روکتے کیوں میرے کھڑکی کے باہر کھڑے ہوتے ہو وجہ کیا ہے "

حور سینے پر بازو باندھے اپنی نظریں اس پر مرکوز کیے لہجے میں پریشانی لیے اس سے پوچھنے لگی 

"اچھی لگتی ہو"

وہ مسکراتے ہوئے اسے مختصر سا جواب دے گیا اس کی بات پر حور کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی جو ذامل کو نہیں دیکھی 

"شاید تم بھول رہے ہو ملک ذامل کے میں تمہاری دشمن ہو"

وہ اسی پر نظریں جمائے اسے یاد دلانے  لگی ذامل بھی سینے پر بازو باندھ کر سیدھا ہوا 

"تم میری دشمن نہیں ہو جان ہمارے دونوں خاندانوں کے بیچ دشمنی ہے"

وہ اسے دیکھتے ہوئے فورا بتانے لگا اور جان سن کر حور کو شدید غصہ آیا 

"مجھے صرف میرے راستے کی رکاوٹ بننے اور میری کمرے کی کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہونی کی وجہ بتاؤ"

وہ اس کی بات نظرانداز کرتی آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ پوچھنے لگی 

"بیکوز آئی لو یو"

ذامل اسے صاف لفظوں میں اپنی دلی کیفیت بتا گیا حور بس اسے دیکھتی رہ گئی

"پیار تمہیں پتہ ہے تم گلی کے وہ آوارہ غنڈے ہو جسے ہر ہفتے پیار ہوتا ہے اور مہینے بعد وہ پیار کسی اور سے ہورہا ہوتا ہے صرف تم نہیں ہر مرد"

حور اس کی بات کو سنجیدہ نہ لیتے ہوئے اس کے احساس کی بےعزتی کرتی بولی 

"یہ تمہیں پتہ چل ہی جائے گا کہ میں گلی کا آوارہ غنڈہ ہوں یا  ایک ضدی عاشق"

ذامل سرد لہجے میں اس کی سیاہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے بولتا مونچھوں کو تاؤ دیتا گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا 

"آیا بڑا ضدی عاشق"

منہ بنائے کہتے ساتھ وہ واپس اپنی گاڑی میں آکر بیٹھی اور ڈرائیور گاڑی سڑک پر دوہرا گیا ملک ذامل کی باتیں کہیں نہ کہیں حور کے دل و دماغ میں رہ گئی

***********

حور نے حویلی میں قدم رکھا تو حاکم چوہدری کو ٹی وی لاؤنچ میں موجود پایا دراب چوہدری بھی وہی موجود تھے

"اسلام و علیکم"

حور نقاب نیچے کرتی سنجیدگی سے حاکم چوہدری کی جانب بڑھ کر گلے لگتی کہنے لگی حاکم چوہدری نے اس کی جانب دیکھا

"کیا ہوا میری گڑیا کو"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر پریشانی سے پوچھنے لگے حور نے ان کی جانب دیکھا

"نہیں کچھ نہیں"

وہ انہیں دیکھ فورا سے جواب دینے لگی اور نظریں ابھی بھی حاکم چوہدری پر جمی تھی

"دادا واقع میرے ابو کو قتل کرنے والے ملک شہراز انکل ہے"

حور نے حاکم چوہدری کو دیکھتے ہوئے پوچھا حاکم چوہدری کو سامنے دیکھنے لگ گئے اس کی بات سے حور کو دیکھا 

"تمہیں اپنے دادا پر شک ہے کیا"

وہ اسے دیکھ تھوڑے خفگی سے بولے حور فورا نفی میں سر ہلا گئی

"میرا وہ مطلب نہیں تھا دادا آپ کی حور کو تو خود سے بھی زیادہ آپ پر یقین ہے"

حور کہتے ساتھ ان کے گلے سے لگ گئی حاکم چوہدری مسکرا دیے 

***********

ملک ذامل اسوقت ڈیرے پر موجود سگریٹ کے گہرے گہرے کش لگا رہا تھا 

"تمہیں کیا ہوگیا ہے ایسے کیوں بیٹھے ہو ناکام عاشق کی طرح"

شہریار ذامل کا بیسٹ فرینڈ اس کے پاس آکر بیٹھتا اسے دیکھ کر پوچھنے لگا 

"میں نے جان سے محبت کا اقرار کردیا"

ذامل نظریں سامنے ہی مرکوز کیے اسے جواب دینے لگ گیا وہ اسے دیکھنے لگ گیا 

"کردیا تھپڑ تو ضرور پڑا ہوگا"

شہریار فورا سے حیران سا ہوتا اس سے کہنے لگا جس پر ذامل نے گھور کر اسے دیکھا

"وہ مجھے گلی کا آوارہ غنڈہ سمجھ رہی ہے"

وہ اسے غصے سے بتانے لگا شہریار اثبات میں سر ہلا گیا

"وہ حور جان پورے گاؤں کی مشہور لڑکی جس پر گاؤں کے بہت سے لڑکے مرتے ہیں اور جتنوں نے بھی پرپوز کیا ہے اسے  ہر کوئی اپنا منہ تڑوا کر ہی واپس لوٹا ہے حیرت ہے تجھے اس نے کچھ نہیں کہا"

شہریار اسے دیکھ فورا سے بتانے لگا ذامل کھڑا ہوا

"اگر وہ حور جان تو میں بھی ملک ذامل ہوں"

وہ سگریٹ زمین پر پھینک کر اس کے پاؤں دے کر کہنے لگا جس پر شہریار نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا

"ماننا تو ہوگا اسے"

وہ لہجے میں اعتماد لیے شہریار کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا شہریار اسے دیکھتا رہا کیونکہ وہ جانتا تھا وہ کس قدر ضدی تھا 

***********

"تم میری دشمن نہیں ہو جان"

حور اپنے کمرے میں بیٹھی ٹیسٹ کی تیاری کررہی تھی اچانک اس کے ذہن میں ذامل کی کہی بات آئی اس کا چلتا ہوا ہاتھ رکا 

"بیکوز آئی لو یو"

حور اسی کے متعلق سوچتے ہوئے بیڈکراون سے ٹیک لگا گئی اچانک وہ ہوش میں آئی

"تمہیں کیا ہے حور فضول بول رہا تھا ٹیسٹ ہے تمہارا"

حور خود سے جھنجھوڑتے ہوئے غصے بولتی کتاب میں منہ دے گئی تھی 

"حور بی بی آپ کو ہاجرہ بی بی کھانے کیلیے بلا رہی ہیں"

ملازمہ دروازے پر دستک دیتے ہوئے اسے ہاجرہ بیگم کا پیغام دینے لگی حور نے سر اٹھا کر دروازے کی جانب دیکھا اور پھر نظر گھڑی پر ڈالی وہ پھر سے لیٹ ہو گئی تھی 

"افف حور پڑھنے اور اس لچے آوارہ انسان کو سوچنے میں تم پھر لیٹ"

حور اپنے سر پر چپٹ لگا کر بولتی کتابیں وغیرہ بند کرتی ہیں رکھ تیزی سے باہر کی جانب بڑھ گئی تھی

************

حور بریک کے وقت کالج کے اوپر والے پورشن میں پھر رہی تھی اور کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہو گئی

"تم کیوں خاموش ہو "

نوال اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے اسے ہلا کر پوچھنے لگی 

"نہیں کچھ نہیں پیپر اچھا نہیں ہوا"

وہ ہوش میں آتی نوال کو جھوٹ بولتی سامنے دیکھنے لگی 

"پیپر اور تمہارا اچھا نہ ہو میں مان ہی نہیں سکتی"

نوال فورا سے اسے کہنے لگی حور نے نظریں نیچے کی جانب کی جہاں ملک ذامل سینے پر بازو باندھے آنکھوں پر گلاسز لگائے اسے ہی دیکھ رہا تھا

"حور"

نوال نے اسے پکارا مگر حور کو آواز نہ آئی نوال اس کی نظروں کا تعاقب کرتی نیچے کی جانب دیکھنے لگی 

"یہ تو ملک ذامل علی ہے نا"

نوال فورا سے اسے پہنچانتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی اس کے اس طرح بولنے پر حور نے اسے دیکھا اور کھڑکی بند کردی

"لیکن یہاں کیوں کھڑا تھا"

وہ حور کی جانب دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگی 

"مجھے کیا پتہ میرا جیسے بیسٹ بڈی ہو ہونہہ"

حور تپ کر اسے جواب دیتے ساتھ کلاس کی جانب بڑھ گئی نوال اسے جاتا دیکھنے لگ گئی۔ 

************

"زاہد ملک شہراز پر نظر رکھو اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ سے مجھے خطرے کا احساس ہورہا تھا"

حاکم چوہدری اپنے کمرے میں موجود بیڈ پر بیٹھے ہوئے اپنے ہوتے کو دیکھ کر بولے 

"بےفکر ہوجائیں دادا"

زاہدہ فرمانبرداری سے کہتے ساتھ انہیں کے پاس بیٹھ گیا

"اس شخص نے میرے بیٹے کو میری اکلوتی اولاد کو مجھ سے چھینا ہے اگر اب بھی اس نے یہی سب کیا تو برداشت نہیں کر سکو گا"

وہ تکلیف سے بھرے لہجے میں اسے دیکھ کر بولے شاید ان کے لہجے اور آنکھیں میں موجود تکلیف صاف دیکھ سکتا تھا

"اب ایسا کچھ نہیں ہوگا دادا"

زاہد انہیں تسلی دیتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا جس پر وہ بھی مسکرا دیے۔

"مجھے یہی امید ہے تم سے"

حاکم چوہدری زاہد کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے مزید حوصلہ دیتے ہوئے بولے جس پر وہ سر اثبات میں ہلا گیا

"راشد بتا رہا تھا کہ ملک ذامل حور جان کے بہت ارد گرد رہتا ہے اس پر بھی نظر رکھو"

حاکم چوہدری کو جیسے ہی راشد کی بات یاد آئی انہوں نے فورا سے زاہد کو بتایا جس پر زاہد کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھی

"میری بہن کیساتھ کوئی غلط کرنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا ہے دادا"

زاہد غصے سے کہتے ساتھ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا اور حاکم چوہدری کو تسلی سی ہوئی

*************

کالج سے واپسی پر جب حور گھر آرہی تھی تو ذامل کو کالج کے باہر ہی موجود پایا قہ اسے ایک نظر دیکھ نظرانداز کرتی  گاڑی میں بیٹھ گئی اور ڈرائیور نے گاڑی سڑک پر دوہرا دی آج وہ حور کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنا تھا حور جیسے ہی حویلی پہنچی گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب بڑھی اور ٹی وی لاؤنچ میں کسی کو موجود نہ دیکھ کر وہ روم میں فریش ہونے کیلیے بڑھ گئی 

حور فریش وغیرہ ہوکر باہر آئی تو زاہد کو اپنے بیڈ پر بیٹھا موجود پایا وہ تھوڑی پریشان ہوئی

"زاہد لالا آپ خیریت"

وہ بیڈ کی جانب قدم بڑھا کر مسکراتے ہوئے پوچھنے لگی جس پر زاہد نے اسے دیکھا

"مجھے بات کرنی ہے گڑیا بیٹھو"

زاہد چوہدری لہجے میں نرمی لیے اس سے کہتے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا 

"جی لالا"

وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھنے لگی زاہد اسے ہی دیکھ رہا تھا

" ملک ذامل نے تمہیں تنگ کیا ہے یا کوئی دھمکی "

زاہد لہجے میں فکرمندی لیے حور کو دیکھ کر پوچھنے لگا حور حیران سی اسے دیکھ رہی تھی 

"نہیں بھائی ایسا کچھ نہیں ہے "

وہ فورا سے نظریں چراتی جھوٹ بولنے لگی زاہد سامنے دیکھنے لگا 

"پھر راشد نے کیوں بولا"

زاہد اب کی بار سرد لہجے میں مخاطب ہوا تھا حور گھبرائی تھی

"بس ایک ہی دفعہ وہ بیچ راستے میں گاڑی روک کر کھڑا تھا بھائی پھر نہیں"

حور نے فورا سے اسے جھوٹ بولا وہ خود بھی نہیں جانتی تھی وہ ایسا کیوں کررہی ہے زاہد اس کے سر پر ہاتھ رکھتا کمرے سے چلا گیا حور نے سکھ کا سانس لیا۔

*************

زاہد باہر آیا تو نظر ازقہ پر گئی جو کچن سے باہر نکل رہی. تھی وہ سینے پر بازو باندھے رک گیا ازقہ نے اسے دیکھا نظریں جھکا کر سائیڈ سے گزرنے لگی زاہد نے اس کا راستہ روکا ازقہ نے اسے دیکھا دوسری طرف سے جانے لگی زاہد اس طرف بڑھ گیا 

"کیوں کررہے ہیں"

ازقہ معصومیت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی 

"میرا دل کر رہا ہے"

وہ مسکراتے ہوئے اسے جواب دینے لگا ازقہ نے نظریں ادھر ادھر گھمائی

"کسی نے دیکھ لیا تو"

وہ ڈرتے ہوئے گھبرا کر کہتی نظریں جھکا کر بولی 

"تو کیا تم بہت جلد مسز زاہد ابرار چوہدری بننے والی ہو"

وہ پراعتماد لہجے میں اسے بتانے لگا ازقہ کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی اور دل نے ایک بیٹ مس کی تھی 

"ابھی جانے دیں"

وہ کنفیوز سی ہوتی اسے بولی اور اس کی معصومیت پر ایک بار پھر زاہد چوہدری ہار کر رہ گیا اور اسے جانے کا راستہ دینے لگا وہ تیزی سے بھاگ گئی

**************

حور کمرے کی بیلکونی میں کھڑی چائے پی رہی تھی جب اس کی نظر پھر ذامل پر گئی 

"تمہارا مسئلہ کیا ہے پاگل ہو"

غصے سے اسے گھور کر کہنے لگی ذامل ہلکا سا مسکرا دیا

"تمہیں اپنی جان کی ذرا پرواہ نہیں ہے اگر میرے دادا یا میرے لالا کو پتہ چل گیا کہ تم میرے اردگرد ہر وقت پھرتے ہو تو جان لے لیں گے تمہاری"

وہ اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے بتانے لگی 

"لے لیں"

وہ حور پر نظریں جمائے اسے بولا اور حور اسے بس دیکھتی رہ گئی

"تمہیں اپنی جان کی پرواہ نہیں ہے"

حور حیران سی اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگی 

"نہیں"

ذامل فورا لفظی جواب دیتا حور کو واقع متاثر کر گیا 

"بھاڑ میں جاؤ"

حور اپنے تاثرات کو نارمل کرتی غصے سے کہتے ساتھ کھڑکی زور سے بند کر گئی اور وہ اسے بس مسکرا دیا 

***************

"ذامل تم کہاں تھے"

رات کے دس بجے اسے حویلی آتا دیکھ ملک شہراز فکرمندی سے پوچھنے لگے ذامل نے مونچھوں کو تاؤ دیا 

"کچھ کام وغیرہ دیکھ رہا تھا آپ نے کھانا کھا لیا"

ذامل جواب دیتا ملک شہراز سے پوچھنے لگا 

"نہیں تمہارا انتظار کررہا تھا"

وہ فورا سے اسے کہتے ساتھ ڈائننگ کی جانب بڑھ گئے ذامل جانتا تھا وہ اس کے بغیر کبھی بھی نہیں کھانا کھاتے تھے وہ خاموشی سے ڈائننگ ایریا کی جانب بڑھ گیا 

وہ دونوں خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے 

"حاکم چوہدری کوئی نئی سازش تو نہیں کررہا ہے ہم دونوں کے خلاف"

ملک شہراز خاموشی توڑتے ہوئے ذامل سے مخاطب ہوئے 

"نہیں"

ذامل لفظی جواب دیتا پانی پینے لگ گیا اور ملک شہراز اثبات میں سر ہلا گیا 

"مگر نظر رکھے رکھو"

وہ اسے تہنبیہ کرنا نہ بھولے جس پر ذامل سر اثبات میں ہلا گیا اور وہ مسکرا دیے۔

حور رات کے پہر ساتھ والے روم میں موجود ازقہ کے پاس آئی تھی اسے روم میں آتا دیکھ ازقہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا

"تم اسوقت یہاں"

ازقہ پریشانی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی حور بیڈ پر آکر لیٹ گئی

"ہاں میں کیونکہ میری پیاری سی بجو کیساتھ سونے کا دل کر رہا تھا"

وہ مسکراتے ہوئے لاڈ سے کہتے ساتھ اس کے گلے لگ گئی جس پر ازقہ ہلکا سا مسکرا دی حور آنکھیں بند کر گئی

"تمہارے پیپرز کب ختم ہوں گے"

ازقہ اس کی جانب دیکھ کر پوچھنے لگی حور نے اسے دیکھا

"ہفتے تک کیوں؟"

حور آئبرو اچکائے اٹھ کر بیٹھ کر پوچھنے لگی ازقہ نفی میں سر ہلا گئی

"ویسے ہی سوجاؤ مجھے بھی نیند آرہی ہے"

ازقہ کہتے ساتھ لیٹ گئی اور حور بھی اثبات میں سر ہلا کر لیٹ گئی تھی 

حور آنکھیں بند کیے سوئی ہوئی تھی اچانک ذامل کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا وہ ایکدم آنکھیں کھول گئی

"اللہ اللہ"

وہ پریشانی سے اٹھ کر بیٹھتی بالوں میں ہاتھ پھیر کر خود سے بولی

"یہ کیا تھا"

حور کی سمجھ سے واقع یہ سب باہر تھا حور نے بالوں کو جوڑے کی شکل میں دیا اور واپس لیٹ گئی

"حور ایک ڈراؤنا خواب سمجھو اسے صبح پیپر ہے"

وہ سر پر ہاتھ رکھے خود سے کہتے ساتھ آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی 

*************

حور کے پیپرز ختم ہو چکے تھے اور ایک ہفتے سے ذامل مسلسل اس کے کالج کے باہر اور اس کی کھڑکی کے باہر پایا جاتا تھا حور اسے مسلسل دونوں جگہ دیکھ کر واقع اکتا گئی تھی اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا ایسا کیوں ہے 

حور کالج سے گھر جارہی تھی جب ذامل پر نظر گئی جو گلاسز لگا کر گاڑی میں بیٹھ کر اس کے سامنے سے گاڑی گزارتا مسکرا دیا حور بس اسے گھور سکی اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی اور ڈرائیور گاڑی سڑک پر دوہرا گیا حور نے راشد کو سختی سے گھر میں ذامل کا بتانے سے منع کیا تھا ایسا کیوں تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی

گاڑی جیسے ہی حویلی کے باہر رکی وہ گاڑی سے اتر کر حویلی کے اندر داخل ہوئی اور حاکم چوہدری سے ملتی وہ کمرے میں جاکر آج اپنی دو ہفتوں کی نیند پوری کرنے کا ارادہ کرتی تھی

"کبھی کچن کو بھی دیکھ لیا کرو میری بچی"

ہاجرہ بیگم حور کو کمرے میں جاتا دیکھتے ہوئے اسے بولی حور نے ان کی جانب دیکھا 

"امی میں ابھی تھکی ہوئی ہو نا"

وہ منہ بنائے انہیں دیکھ کر کہنے لگی حاکم چوہدری نے حور کو دیکھا

"ہاجرہ بیگم میری گڑیا ابھی تھکی ہوئی ہے اور گھر کے کام کرنے کیلیے نوکر موجود ہیں حور آپ سوئیں"

وہ ہاجرہ بیگم سے بولتے حور کو مسکرا کر کہنے لگے وہ انہیں شکریہ کرتی روم کی طرف بڑھ گئی

"لیکن ابا جان حور بڑی ہو گئی ہے اسے کام وغیرہ آنے چاہیے"

ہاجرہ بیگم نے حاکم چوہدری کو بتانا ضروری سمجھا

"تب کی تب دیکھ لی جائے گی"

حاکم چوہدری کہتے ساتھ اٹھ کر کمرے کی جانب بڑھ گئے اور ہاجرہ بیگم خاموش ہو گئی 

*************

آدم چوہدری تین بجے کے قریب اٹھ رہا تھا وہ فریش ہوکر کمرے میں آیا تو دراب چوہدری کو موجود پایا 

"ابا آپ"

وہ انہیں دیکھ حیران سا پوچھنے لگا دراب چوہدری نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھا 

"وقت دیکھا ہے اپنے اٹھنے کا اس وقت حویلی میں سب لوگ دوپہر کا کھانا کھا کر فارغ ہو چکے ہیں"

دراب چوہدری انتہائی غصے سے کہتے ساتھ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے آدم ایک پل کیلیے گھبرا دیا 

"آدم اپنی حرکتیں بدلو بےوقوف لڑکے مجھے تمہاری شادی کسی بھی حال میں حور جان سے کروانی ہے اس کے نام بہت سی زمینیں ہے سمجھ رہے ہو جو مجھے چاہیے خود کو بدلو"

وہ اسے دیکھ سرد لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہنے لگے آدم نے دراب چوہدری کی جانب دیکھا

"شادی تک خود کو بدل لو اپنے دادا جان کا دل جیتو اس کے بعد جو دل چاہے کرنا"

دراب چوہدری اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے کہنے لگے وہ اثبات میں سر ہلا گیا۔

"جی ابا ایسا ہی کروں گا"

آدم اثبات میں سر ہلا کر انہیں تسلی دے گیا وہ مسکرا کر اسے شاباش دیتے چلے گئے 

**************

حور اپنے کمرے میں پرسکون سی گہری نیند سورہی تھی گھڑی اسوقت بارہ بجا رہی تھی تبھی کوئی کھڑکی پھلانگ کر اس کے کمرے میں آیا حور دنیا سے بیگانہ سونے میں مصروف تھی ذامل دںے دبے پاؤں سے چلتا اس کے قریب آیا اس کی سائیڈ ٹیبل پر ٹیڈی اور چاکلیٹس اور بکے رکھتا اس کے پاس بیٹھا

"ہیپی برتھڈے جان"

وہ اس کے کان کے قریب لب لائے گھمبیر لہجے میں بولا حور آواز سن کر خوف سے فورا آنکھیں کھول کر دیکھنے لگ گئی اور اس سے پہلے حور چیخ مارتی ذامل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا حور پھٹی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی 

حور غصے سے اس کے ہاتھ پر ناخن چبا گئی ذامل کا ہاتھ فورا اس کے منہ سے ہٹا 

"بےشرم لچے ٹھرکی شخص "

وہ غصے سے اسے گھور کر کہنے لگی اور غصے سے کشن دے کر اسے مارا ذامل اسے دیکھنے لگ گیا

"ماننا پڑے گا سب نے تمہارا صحیح نام رکھا جنگلی شیرنی"

وہ ڈھٹائی سے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگا 

"نکلو یہاں سے ورنہ میں دادا اور لالا کو بلا لوں گی"

غصے سے اسے کھڑکی سے باہر جانے کا اشارہ کرتی وہ دھمکی دینے لگی 

"نہ جاؤں تو"

وہ آئبرو اچکائے اسے دیکھ کر کہنے لگا حور نے گھور کر اسے دیکھا 

"میں تمہارا منہ توڑ دوں گی اگر نہیں نکلے تو مجھے معلوم تھا تم لچے ہو آوارہ بےشرم  ہو مگر اتنے ٹھرکی  ہو گے یہ نہیں معلوم تھا"

حور. سرخ چہرہ لیے اسے دیکھ سرد لہجے میں بولی ذامل کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"تمہاری سوچ سے بھی زیادہ ہوں جان"

ذامل آنکھ مار کر اسے کہتے ساتھ مسکرا دیا اور حور نے ایک اور کشن اٹھا کر اسے مارا جس ذامل نے کیچ کرلیا

"مجھے جان مت کہو اور جاؤ یہاں سے کیوں خود کو مروانے پر تلے ہو"

حور کے لہجے میں پریشانی صاف ظاہر تھی وہ دروازے کی جانب دیکھ اسے بولی 

"تمہیں میری جان کی اتنی پرواہ کیوں ہے جان کہیں میری باتیں سچ تو نہیں لگنے لگی"

وہ اسے مزید تنگ کرتے ہوئے قریب ہوکر شوخیہ لہجے میں کہنے لگا 

"بہت ضدی ہو خوش فہمیاں نہ پالو مجھے اپنی عزت کی پرواہ ہے اور تمہاری باتیں مائی فٹ"

غصے سے وہ اسے بدتمیزی سے اسے جواب دیتی ذامل کے غصے کو ہوا دے گئی وہ اثبات میں سر ہلا کر غصے سے بھاری بھاری قدم لیے چلا گیا اور حور نے اٹھ کر فورا کھڑکی بند کی وہ مڑی تو سائیڈ ٹیبل پر چاکلیٹس اور بکے اور ٹیڈی بئیر موجود تھا 

"سائیکو"

وہ ان تینوں چیزوں کو گھورتی خود سے کہتے ساتھ لیٹ گئی 

"کیا واقع وہ مجھ سے کرتا ہے پیار"

حور بیڈ پر لیٹ کر خود سے سوچنے لگی اور چھت کی جانب نظریں جما گئی

"کرتا ہے تو کرتا رہے مجھے تو نہیں ہے نا اور میں ویسے بھی پیار ویار پر یقین نہیں رکھتی"

وہ چھت کو تکتی خود سے کہتے ایک جھڑجھڑی لے کر بولتی کروٹ بدلتی آنکھیں موند گئی

*************

حاکم چوہدری جبران چوہدری زاہد چوہدری صارم چوہدری ٹی وی لاؤنچ کو ڈیکوریٹ کررہے تھے حور کا کالج سے آنے کا وقت ہو گیا تھا وہ اسے سرپرائز دینا چاہتے تھے ازقہ بھی  ان کی مدد کروا رہی تھی تبھی دراب چوہدری اور آدم چوہدری بھی آ گئے تھے 

ڈیکوریشن کرتے ہی وہ لوگ حور کا انتظار کرنے لگے تھے سب کی نظریں مین گیٹ کی جانب تھی 

تبھی حور آتی نظر آئی تھی وہ نظریں جھکا کر اندر داخل ہورہی تھی

"ہیپی برتھڈے"

ان سب کے ایک ساتھ بولنے پر حور نے فورا اوپر کی جانب دیکھا اور سب دیکھ حور کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ آئی تھی 

"ارے تھینکیو سو مچ"

وہ ٹی وی لاؤنچ کو اشتیاق سے دیکھ لہجے میں خوشی لیے ان سب کو کہتی حاکم چوہدری کے گلے لگی تھی

"ہیپی برتھڈے میری گڑیا"

حاکم چوہدری اسے پیار سے کہنے لگے حور نے نقاب چہرے سے ہٹایا اور مسکرا کر شکریہ ادا کیا 

"ہیپی برتھڈے حور"

حور کے تینوں بھائیوں نے ایک ساتھ کہا وہ باری باری ان کے گلے لگی 

"ہیپی برتھڈے"

ازقہ اسے گلے لگ کر گفٹ دیتی مسکرا کر معصومیت سے بولی حور نے اس کی گال پر لب رکھے 

"تھینکیو بجو"

وہ مسکراتے ہوئے بولی ازقہ بھی مسکرا دی اور پھر ہاجرہ بیگم کی جانب بڑھ گئی انہوں نے بھی اسے پیار  کیا دراب چوہدری نے بھی اسے برتھڈے وش کیا 

حور کو سب کیک کی طرف لائے اور کیک کٹ کروایا خوشی اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھی باری باری سب کو کھلانے لگ گئی

"ہیپی برتھڈے حور "

آدم اس کے پاس آتا اس کی جانب ایک گفٹ بڑھاتا بولا حور نے اسے دیکھا

"شکریہ"

وہ کہتے ساتھ خاموشی سے گفٹ لیتی وہی سب کے ساتھ بیٹھ گئی۔

ذامل کے آج کالج کے باہر نہ موجود ہونے پر حور تھوڑی اداس ہو اور پریشان ہوئی تھی مگر گھر آکر سرپرائز ملتے ہی وہ ذامل کو بھلائے گفٹس وغیرہ دیکھنے میں مصروف ہو گئی 

ازقہ اور زاہد ایک ساتھ بیٹھے تھے ازقہ نے زاہد سے تھوڑا فاصلہ اختیار کیا زاہد تھوڑا مزید اس کی جانب کھسکا ازقہ کی ہارٹ بیٹ تیز ہو گئی وہ نظریں جھکا کر گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی زاہد سب کا دھیان اور حور پر اور باتوں وغیرہ میں دیکھ ازقہ کو کہنی مار گیا اور ازقہ کی آنکھیں ایکدم بڑی ہو گئی وہ مڑ کر اسے دیکھنے لگی جس کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ نمودار تھی اور ازقہ سرخ چہرہ لیے فورا اٹھ کر حور کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی زاہد کی نظریں اسی پر تھی۔

************

"آج تم اپنی ڈیوٹی پر نہیں گئے کیا"

شہریار اسے اپنے گھر دیکھ پریشانی سے پوچھنے لگا ذامل نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا

"کہاں؟؟"

وہ ناسمجھی سے آئبرو اچکائے پوچھنے لگا شہریار اس کے ساتھ بیٹھا 

"حور کا دیدار کرنے"

شہریار کہتے ساتھ مسکرا دیا اور ذامل نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھا 

"تم منہ بند نہیں رکھ سکتے ہو"

وہ سرد لہجے میں کہتے ساتھ چائے کا کپ لبوں سے لگا گیا 

"کیوں نہیں گیا بھائی پریشانی ہورہی ہے"

شہریار اسے دیکھ واقع پریشانی سے پوچھنے لگا ذامل نے چائے کا کپ واپس ٹیبل پر رکھا 

"انسلٹ کی ہے اس نے"

وہ اسے بتاتے ساتھ اپنی پسندیدہ چیز جیب سے نکال کر اسے جلانے لگا 

"میں نے کہا تھا وہ نہیں ہاں کرے گی"

شہریار اسے دیکھ اپنی بات یاد دلانے لگا ذامل نے سر کو خم دے دیا 

"ماننا تو اسے پڑے گا"

سگریٹ کا گہرہ کش لگاتا دھواں اڑا کر  کہتا مسکرا دیا شہریار نفی میں سر ہلا گیا

***************

حور ہمیشہ کی طرح بیلکونی میں کھڑی کافی پی رہی تھی مگر ذامل آج یہاں بھی موجود نہیں تھی حور کی نظریں اسی جگہ پر جمی ہوئی تھی جہاں وہ مہینے سے مسلسل پایا جاتا تھا

"کیا ناراض ہو کر گیا ہے مجھ سے"

حور خود سے اندازہ لگاتے سوال کرنے لگی نظریں وہی مرکوز تھی

"اگر وہ گیا مجھے کیا میرے لیے تو اچھا ہے کہ وہ اب میرے سامنے نہیں آ رہا ہے"

وہ اپنی سوچ کو بدلتی کہتے ساتھ بیڈ پر آ گئی تھی وہ اپنی دلی کیفیت خود بھی سمجھ نہیں سک رہی تھی کہ آخر کیوں وہ اس شخص کے متعلق دن بدن زیادہ زیادہ سے سوچنے لگی تھی 

"حور تم بھول رہی ہو وہ میرا دشمن ہے اس کے خاندان کی وجہ سے میں باپ کے پیار سے محروم رہی ہوں ہرگز نہیں"

وہ نم آنکھوں سے کہتی بیڈ کراون سے ٹیک لگائے دل میں آئے جذباتوں کو  روک گئی۔

*************

آدم حاکم چوہدری کے کمرے کی جانب بڑھا اسے آتا دیکھ حاکم چوہدری حیران ہوئے 

"خیریت کچھ چاہیے؟"

حاکم چوہدری تھوڑے خفا سے لہجے میں بغیر اسے دیکھے پوچھنے لگے 

"نہیں دادا میں معافی مانگنے آیا ہوں"

آدم کہتے ساتھ ان کے ساتھ آکر بیٹھا حاکم چوہدری نے اس کی جانب دیکھا

"میں نے آج تک آپ کی کوئی بات نہیں مانی میں جانتا ہوں اور شرمندہ بھی ہوں لیکن آپ خود. بتائیں اگر میں آج ایسا ہو تو قصور میرا نہیں ہے میری ماں مجھے اتنی چھوٹی عمر میں چھوڑ گئی اور پھر آپ نے بھی تو ہمیشہ زاہد لالا اور جبران لالا اور صارم کو اہمیت دی ہے مجھ پر صرف غصہ کیا تو کیا میرے دل میں باتیں نہ آتی دادا لیکن میں جانتا ہوں آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں اور اسی لیے میں نے آج تک جو کیا اس پر شرمندہ ہوں اور معافی مانگنا چاہتا ہوں آج کے بعد میں ایسا کچھ نہیں کروں گا"

آدم سر جھکا کر حاکم چوہدری کو دیکھتے بغیر معافی مانگنے لگا حاکم چوہدری ہلکا سا مسکرا دیے

"میں نے تمہیں معاف کیا آدم"

وہ محبت سے کہتے ساتھ اسے اپنے ساتھ لگا گئے آدم مسکرا دیا

"صبح ناشتے پر ملاقات ہوتی ہے ابھی میرے آرام کا وقت ہوگیا ہے"

حاکم چوہدری اسے دیکھ کر بتانے لگے جس پر وہ اثبات میں سر ہلا کر شب بخیر کہتا چلا گیا اور ملازموں نے حاکم چوہدری کے کمرے کا دروازہ بند کر دیا 

"واہ آدم چوہدری تمہیں تو اداکار ہونا چاہیے تھا"

مسکراتے ہوئے کہتے ساتھ وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا 

***************

حور اور نوال بریک میں ہمیشہ کی طرح کھڑکی کے پاس کھڑے تھے نوال کی نظریں نیچے کی جانب جمی ہوئی تھی 

"یار دو دن سے ملک ذامل نہیں آرہا ہے"

نوال نظریں ادھر ادھر دہراتی حور کو بتانے لگی حور کی نظر بھی نیچے گئی

"تو نہ آئے تم کیوں اسے دیکھنے کیلیے بےتاب ہو"

حور نوال کو گھور کر دیکھتے ہوئے آئبرو اچکائے پوچھنے لگی نوال نے اسے دیکھا

"نہیں ویسے ہی بس دو ہفتوں سے مسلسل آتا تھا تو اس لیے" 

وہ فورا سے اسے جواب دیتی اپنی پشت کھڑکی سے ٹکا گئی 

حور اور نوال دونوں باتیں کرنے لگ گئی حور نے نظریں نیچے کی جانب کی مگر وہ وہاں نہیں تھا 

"پتہ نہیں کیوں نہیں آیا"

حور دل میں خود سے سوچتے ہوئے پریشانی سے بولنے لگی 

"حور آجاؤ بریک اوف ہو گئی"

نوال اسے کہتے ساتھ کلاس کی جانب بڑھ گئی وہ ایک بار پھر نیچے کی جانب دیکھنے لگی اور خاموشی سے کلاس میں چلی گئی۔

حور گم سم سی حویلی میں داخل ہوئی تھی حاکم چوہدری اور نہ ہی کوئی اور گھر کا فرد ٹی وی لاؤنچ میں  موجود تھا حور بھی فریش ہونے کے غرض سے اپنے روم کی جانب بڑھنے لگی 

"حور  بی بی دادا کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے"

ملازمہ اسے آتا دیکھ فورا سے اس کی طرف بھاگ کر پریشانی سے بتانے لگی حور جو کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی حاکم چوہدری کی طبیعت کا سنتے ہی وہ فورا سے ان کے کمرے کی جانب بڑھی تھی 

کمرے میں آتے ہی نظر حاکم چوہدری پر گئی اور باقی گھر کے سب افراد پر جو ان کے سر پر موجود تھے

"دادا کیا ہوا ہے آپ کو "

حور پریشانی سے نقاب نیچے کرتی ان کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی حاکم چوہدری اسے دیکھ مسکرا دیے 

"کچھ نہیں گڑیا بس بخار ہوگیا ہے ہلکا سا "

حاکم چوہدری مسکرا کر حور کو بتانے لگے حور نے ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا

"دادا یہ تھوڑا سا بخار ہے آپ کو اتنا تیز ہے کوئی فکر نہیں ہے اپنی"

حور غصے سے حاکم چوہدری سے  بولی جس پر انہوں نے اس کے ہاتھ چومے 

"اس عمر میں بیمار ہو جاتا ہے انسان"

وہ اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے حور انہیں بغیر کوئی جواب دیے باہر کی جانب بڑھ کر کچن کی طرف بڑھی 

"ڈھنڈا پانی اور پٹیاں دو مجھے"

وہ کچن میں موجود ملازمہ کو حکم دینے والے انداز میں بولی ملازمہ فورا اثبات میں سر ہلا گئی اور حور کو ٹھنڈا پانی کا ایک باؤل اور ساتھ پٹیاں دی تھی 

"دیکھیے گا ابھی آپ کی گڑیا آپ کا بخار جھٹ سے ٹھیک کردے گی"

حور ہلکا سا مسکرا کر بولتی ان کے ماتھے پر پٹی رکھنے لگ گئی 

"آپ سب جائیں میں ہوں دادا کے پاس"

حور ان سب کو کھڑا دیکھ فورا سے کہنے لگی تبھی زاہد جبران اور صارم اس کے پاس آئے  

"وہ ہمارے بھی دادا ہیں"

وہ تینوں ایک ساتھ بولے حاکم چوہدری مسکرا دیے 

"جی حور وہ میرے بھی دادا ہیں"

ازقہ کہتے ساتھ حاکم چوہدری کے پاس آکر بیٹھتی حور کو بولے تو حور مسکرا دی

"بےشک آپ سب کے دادا ہیں مگر سب سے زیادہ تو میں ان کے قریب ہوں ہے نا دادا"

وہ پراعتماد لہجے میں بولتی حاکم چوہدری کو کہنے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئے 

آدم ایک سائیڈ پر خاموشی سے کھڑا تھا حاکم چوہدری نے اسے بھی اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا وہ سب کو برابر رکھتے تھے مگر حور کی جگہ سب سے بڑھ کر تھی 

حور حاکم چوہدری کو اس طرح بیمار دیکھ آنکھوں میں آئی نمی کو چھپا گئی ابرار چوہدری کے جانے کے بعد اس کے دادا نے کبھی بھی اسے باپ کی کمی محسوس نہیں کروائی تھی 

حاکم چوہدری کا بخار اب کم ہو گیا تھا اور وہ سو گئے تھے سب لوگ کمرے میں چلے گئے تھے حور ان کے پاس موجود تھی حور باری باری حاکم چوہدری کے دونوں ہاتھ چوم کر مسکرا دی 

"جیسے ہی دادا کی آنکھ کھلے مجھے بلانے آنا میں چینج کرلوں"

حور وہاں کھڑی ملازمہ کو کہتے ساتھ ایک نظر حاکم چوہدری پر ڈالتی کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گئی 

***************

فریش وغیرہ ہوکر وہ گھنگڑالے بالوں کو چٹیاں میں قید کرتی سر پر حجاب کر کے ظہر کی نماز ادا کرنے لگ گئی وہ باقاعدگی سے نماز ادا نہیں کرتی تھی خود کو اسوقت فارغ پاکر اور نماز کا وقت دیکھ وہ نماز ادا کرنے لگ گئی 

ظہر ادا کرکے سلام پھیرتی دعا کیلیے ہاتھ اٹھا گئی اور کچھ دیر خدا سے گفتگو کرتی رہی حاکم چوہدری کی طبیعت کی دعا اور اس گھر کے ہر ایک فرد کیلیے وہ دعا کرتی جائے نماز لپیٹ کر جگہ پر رکھ گئی تھی۔

"حور"

ازقہ کمرے میں آتی اسے دیکھ پکارنے لگی اس کی آواز پر حور نے مڑ کر اسے دیکھا

"جی بجو"

وہ اسے دیکھ بیڈ پر بیٹھ کر فورا سے پوچھنے لگی ازقہ بھی اس کے پاس آکر بیٹھی

"کوئی بات ہے کیا"

وہ حور کے چہرے پر غور کرتی اسے دیکھ آئبرو اچکائے سوال کرنے لگی حور نے ازقہ کو دیکھا وہ بچپن سے ہی اس کے چہرے سے اس کے اندر کا حال جان جاتی تھی

"نہیں بجو کوئی بات نہیں ہے"

حور نارمل لہجے میں اس سے نظریں چراتی بولی ازقہ اسے خاموشی سے دیکھ رہی تھی

"سچ میں کوئی بات نہیں ہے دادا کی وجہ سے پریشان ہوں"

حور نے اسے خاموش پاکر فورا سے وضاحت دی جس پر ازقہ ہلکا سا مسکرا دی

"تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتی ہو میں دو تین سے نوٹ کررہی ہوں تم چپ چپ ہو تم کھانے پر نہیں بولتی زیادہ باہر بھی نہیں ہوتی کیا وجہ ہے"

ازقہ فورا سے اس سے سنجیدگی سے پوچھنے لگی حور نے اسے دیکھا اور مسکرا دی

"سچی کوئی بات ہوئی تو میں سب سے پہلے آپ کو بتاؤ گی بس پیپرز کی وجہ سے تھوڑی تھک گئی"

حور ازقہ کے ہاتھ تھامے اسے تسلی دیتے ہوئے کہنے لگی جس پر ازقہ سر کو خم دے گئی مگر اسے تسلی پھر بھی نہیں ہوئی تھی اس نے حور کو ہمیشہ چھوٹی بہنوں کی طرح پیار کیا تھا۔ 

************

"ذامل کچھ وقت اپنے دادا کو بھی دے دو"

ذامل رات کا نکلا اب حویلی واپس لوٹا تھا اسے دیکھ ملک شہراز فورا سے کہنے لگے 

"سارا وقت آپ کا ہے "

ذامل ان کی جانب قدم بڑھا کر انہیں ہلکا سا مسکرا مونچھیں کو تاؤ دے کر بولا ملک شہراز مسکرا دیے تھے

"صاحب یہ ذامل صاحب کے کمرے سے چوری کررہی تھی"

ارسلان ان کی ایک ملازمہ کو پکڑ کر لاتے ہوئے  ملک شہراز کے پیروں کی طرف پھینک کر بولا ذامل اور ملک شہراز دونوں نے اسے دیکھا 

"ارسلان"

ذامل سرد نگاہوں سے دیکھ اسے پکارنے لگا جس پر ملک شہراز نے ذامل کو دیکھا

"تم اس پر کیوں غصہ ہورہے ہو صحیح سلوک کیا ہے اس نے اس کیساتھ"

ملک شہراز ذامل کو تھوڑی سختی سے کہتے ملازمہ کی طرف بندوق کر گئے 

"دادا وہ عورت ہے"

ذامل ملک شہراز کو فورا سے کہنے لگا ملک شہراز نے اس کی جانب دیکھا

"پلیززززز معاف کردیں ملک صاحب"

ملازمہ روتے ہوئے ہاتھ جوڑے گزارش کرنے لگی ذامل نے اس کی جانب دیکھا

"میرے لیے سب کے اصول برابر جو ہمارے ساتھ غلط کرے گا اپنی جان گوائے گا "

وہ روعب سے کہتے ساتھ اس عورت کے پاؤں کا نشانہ بنا کر اس کے پاوں پر دے ماری اور وہ عورت کراہ کر رہ گئی اس بار بھی ملک ذامل اپنا دادا کی وجہ سے خاموش ہو گیا اور اوپر کی جانب بڑھ گیا

"دور کردو اس عورت کو میری نظروں سے"

ملک شہراز غصے سے کہتے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور ارسلان اسے گھسیٹ کر لے گیا۔

************

آج وہ بیلکونی میں آکر کھڑی ہوئی تو وہ آج بھی وہاں نہیں تھا  وہ اداسی سے کھڑکی بند کرکے واپس بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی

"اس کے نہ ہونے کی وجہ سے میں کیوں وہاں کھڑے ہوکر کافی نہ پیو میں تو وہی پیو گی ہونہہ"

وہ فورا سے خود سے کہتے ساتھ کافی کا مگ اٹھائے واپس بیلکونی کی جانب بڑھ گئی 

"مجھے اپنی حرکتوں سے عجیب سی الجھن ہونے لگی ہے اور میں کس قدر بےوقوف ہوں خود سے باتیں کررہی ہوں افف حور"

وہ خود سے بولتے غصے سے  کافی کا مگ لبوں سے لگا گئی تھی 

"میں ایسی تو نہیں تھی پچھلے کچھ دنوں میں عجیب حرکتیں کررہی ہوں وہ حرکتیں جو مجھے کبھی زندگی میں بلکل پسند نہیں آئی "

حور خود سے سوچتے ہوئے نظریں باہر کی جانب کیے دل میں بولی لیکن حور کو جواب پھر بھی نہیں مل سکا تھا۔

*************

شہریار جو ڈیڑے پر ذامل سے ملنے جارہا تھا وہ بائیک چلاتا اپنی ہی دھن میں آرہا تھا سامنے سے آتی لڑکی پر نظر جیسے گئی جو اپنا چہرہ  دوپٹہ سے ڈھکے ہوئی تھی  اور نظریں جھکا کر شاید کالج سے گھر جارہی تھی 

"مارنے کا ارادہ ہے کیا"

نوال چہرے سے دوپٹہ ہٹاتی شہریار کو دیکھ غصے سے پوچھنے لگی اور شہریار کی نظریں تو اس کی براؤن آنکھوں میں جم سی گئی تھی دل نے بیٹ مس کی

"اندھے ہونے کے ساتھ ساتھ بہرے بھی ہو"

نوال اسے خود کو یوں دیکھتا پاکر غصے سے بولی جس پر شہریار ہوش میں آیا اور مسکرا دیا

"پاگل"

منہ بنا کر بولتی وہ سائیڈ سے گزر گئی اور شہریار اسے جاتا دیکھنے لگ گیا 

**************

"تم زندہ ہو نا"

شہریار ذامل کے پاس بیٹھا اسے سگریٹ پیتا دیکھ پوچھنے لگا 

"مردہ لگ رہا ہوں"

ذامل نے بھی سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں پوچھا 

"اتنے دنوں سے بھابی کو نہیں دیکھا مجھے یقین. نہیں ہورہا ہے"

شہریار معصومیت سے اسے بتانے لگی اور ذامل نفی میں سر ہلا کر سامنے دیکھنے لگا 

"تمہیں لگتا ہے میں نے اسے نہیں دیکھا"

ذامل چہرے پر مسکراہٹ سجا کر کہتا سگریٹ لبوں سے لگا گیا شہریار نے اسے دیکھا

"پھر"

شہریار ناسمجھی سے پوچھنے لگا ذامل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا 

"میں اسے دیکھ لیتا ہوں بس اسے تڑپا رہا ہوں"

ذامل نظریھ سامنے مرکوز کیے مسکرا کر بتانے لگا شہریار ہنس دیا 

"تڑپ ہی نہ جائے وہ تڑپانے والوں میں سے ہے بڑا آیا تڑپا رہا ہوں"

شہریار اسے دیکھ فورا سے بتانے لگا ذامل نے اسے گھور کر دیکھا 

"میرے پیار میں اتنی شدت ہے "

وہ پراعتماد لہجے میں شہریار ہو بولتا واقع متاثر کر گیا 

"تیری یہی باتیں تو مجھے امپریس کرتی ہے دو تین لائنز مجھے بھی سیکھا دے کیا پتہ کبھی کام آجائیں میں بھی کب تک سنگل رہوں گا"

شہریار مسکرا کر کہتے ساتھ بالوں میں ہاتھ پھیرتا اسے کہنے لگا اور ذامل نفی میں سر ہلا گیا  آج واقع یقین ہوگیا تھا یہ انسان زندگی میں کبھی سیریس نہیں ہوسکتا۔

**************

حور رات کے وقت  حاکم چوہدری کے کمرے میں آئی تھی وہ ابھی ہی دوا لے کر سوئے تھے انہیں سکون سے سوتا دیکھ حور کو تسلی سی ہوئی تھی اور ان کا کمفرٹر ٹھیک کرتی کمرے سے چلی گئی جب آدم کو کمرے کی جانب آتا دیکھا حور اسے نظرانداز کرتی گزرنے لگی 

"دادا کی طبیعت کیسی ہے؟"

آدم اسے مخاطب کرتا پوچھنے لگا حور نے اسے دیکھا

"بہتر ہے سورہے ہیں"

حور اسے جواب دیتے ساتھ وہاں سے آگے کی جانب بڑھ گئی اور وہ اس مغرور نواب زادی کو جاتا دیکھ رہا تھا جو اس سے بات کیا اسے دیکھنا بھی گوارہ نہ کرتی تھی۔

دراب چوہدری اوپر سے یہ کھڑے دیکھ رہے تھے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سج گئی 

"شاباش آدم"

وہ مسکراتے ہوئے کہتے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی آدم بھی اوپر کی طرف چلا گیا

************

ازقہ تہجد کی نماز ادا کرکے پانی پینے کیلیے کمرے سے باہر آکر کچن کی جانب بڑھی  وہ پانی پی کر مڑی اور نظر سامنے کھڑے شخص پر گئی

"آپ اس وقت یہاں"

ازقہ ڈرتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی اس کے ڈرنے زاہد ہلکا سا مسکرا دیا

"میں ہوں ری ایکٹ ایسے کررہی ہو جن دیکھ لیا ہو"

وہ مسکراتے ہوئے اس کے چہرے پر نظریں جمائے بولا جس پر وہ اسے دیکھنے لگی 

"جب یوں اچانک آکر کھڑے ہوں گے تو میں تو ڈرو گی نا"

ازقپ فورا سے اسے جواب دینے لگی جس پر زاہد مسکرا دیا

"اتنی پیاری کیوں ہو؟"

وہ مسکراتے ہوئے گھمبیر لہجے میں پوچھنے لگا ازقہ کنفیوز سی دو قدم پیچھے ہوئی 

"مجھے نہیں معلوم نیند آرہی ہے"

زاہد کو اپنی جانب بڑھتا فورا سے جواب دیتی سائیڈ سے گزرتی چلی گئی اور وہ مسکرا کر فرج سے پانی کی بوتل نکال کر پانی پینے لگا 

***********

حور بازو ماتھے پر رکھے سونے کی ناکام کوشش کر رہی تھی مگر نیند تھی کے آنا کا نام نہیں لے رہی تھی حور نے کروٹ بدلی اور سونے کی کوشش کی مگر ناکام رہی تھی حور نے دوسری جانب کروٹ لی 

"حور سوجاؤ حور سوجاؤ"

وہ خود سے کہتے ساتھ آنکھیں بند کیے ایک بار پھر کوشش کرنے لگ گئی 

"تم مجھے اچھی لگتی 

بیکوز آئی لو یو"

ایک بار پھر ذامل کے کہے گئے الفاظ کانوں میں گونجے وہ غصے سے اٹھ گئی 

"توبہ ہے بھائی کیوں میں بار بار اس کے متعلق سوچ رہی ہوں"

خود سے کہتے وہ اپنی حرکتوں سے خود چڑ رہی تھی حور کو فورا ہی نیند آجاتی تھی اور آج نیند اس کی آنکھوں میں دور دور تک نہیں تھی 

ذامل اپنے کمرے کی  بیلکونی میں کھڑا نظریں باہر کی جانب مرکوز کیے ہوئے تھا نیند تو اسے آتی ہی نہیں تھی 

"تم گلی کے وہ آوارہ غنڈے ہو جسے ہر ہفتے پیار ہوتا ہے اور مہینے بعد وہ پیار کسی اور سے ہورہا تھا"

ذامل حور کے کہے گئے الفاظ یاد کرتا آنکھیں بند کر گیا 

"جان تمہیں خود سے اگر میں نے پیار کرنے پر مجبور نہ کردیا میرا نام ملک ذامل نہیں"

وہ نظریں باہر کی جانب کیے خود سے کہنے لگا اور لبوں پر دلفریب مسکراہٹ سجا گیا۔

حور کالج سے واپس گھر کی طرف جارہی تھی نظریں باہر کی جانب کیے ہوئے تھی ذامل آج بھی کالج نہیں آیا تھا حور اسی متعلق سوچ رہی تھی جب نظر بک سٹور پر گئی

"راشد بابا"

حور نے فورا سے ڈرائیور کو مخاطب کیا انہوں نے شیشے سے حور کی جانب دیکھا

"یہ کتاب لادیں بک سٹور سے"

حور بیگ سے چٹ نکال کر راشد بابا کے سامنے کرتی کہنے لگی 

"جی چھوٹی بی بی ابھی لایا"

راشد بابا کہتے ساتھ فورا سے گاڑی سے اتر کر سٹور کی جانب بڑھ گئے 

بند گاڑی میں اوپر سے عبایا میں موجود حور کو گھبراہٹ سی محسوس ہونے لگی گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ تھوڑا بہتر محسوس کرنے لگی تھی وہ اسی طرح گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھی راشد بابا کا انتظار کررہی تھی جب اچانک کوئی لڑکا بائیک پر آیا حور کے پاس بائیک روکی اور اس کا بازو پکڑ کر گاڑی سے باہر نکالا یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ  حور کو سمجھ ہی نہیں آیا تھا وہ گھبرا گئی۔

"کککون ہو تم"

وہ گھبرا کرکانپتے ہوئے لہجے میں اس شخص سے پوچھنے لگی جو نقاب میں موجود تھا 

"ابھی بتاتا ہوں"

کہتے ساتھ وہ حور کے چہرے کی جانب ہاتھ بڑھا کر حور کا نقاب اتارنے لگا حور کی آنکھوں میں خوف ظاہر ہوا اس سے پہلے حور غصے سے اس کا ہاتھ روکتی اچانک حور کے چہرے کی جانب بڑھتا ہاتھ کسی نے تھاما اور کوئی حور کے سامنے ڈھال بن کر کھڑا ہوا حور نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور مکمل اس کے پیچھے چھپ گئی

ملک ذامل اسوقت آنکھوں میں سرد پن لیے سامنے موجود شخص کو دیکھ رہا تھا جو اسے دیکھتے ہی گھبرا سا گیا تھا ذامل نے زوردار مکہ اس کے منہ پر مار کر اس  کا جبڑا ہلا دیا اور وہ لڑکھڑاتا زمین پر جا گرا 

"گاڑی میں بیٹھو"

ذامل سرد لہجے میں حور سے کہنے لگا ایک نظر حور نے اسے دیکھا اور خاموشی سے گاڑی کی طرف بڑھ گئی 

ذامل نے آگے بڑھ کر اس شخص کے چہرے سے نقاب ہٹایا ارسلان کو دیکھ اسے شدید غصہ آیا تھا

"ارسلان تم ہمت کیسے ہوئی جان کو چھونے کی ہاں"

وہ اسے دیکھ گرم دماغ سے سرد لہجے میں کہتے ساتھ چھ سات مکے ایک ساتھ اس کے منہ پر جھڑ دیے ارسلان کا منہ خون و خون ہو گیا گاڑی میں بیٹھی حور یہ سب دیکھ ایک پل کیلیے گھبرا سی گئی

"بول کس نے بھیجا تھا تجھے"

ذامل ارسلان کا گربیان پکڑے سرخ نگاہوں سے اسے دیکھتا  غصے سے غرایا  ارسلان کانپ رہا تھا وہ ذامل کے غصے سے بخوبی واقف تھا

"م۔۔۔ملک صص۔۔۔صاحب نے"

ارسلان گھبراتے اور خوفزدہ تاثرات سجائے کانپتے ہوئے بامشکل بول سکا 

ذامل نے جیب سے گن نکال کر اسے لوڈ کی حور گن دیکھ اچھل  کر رہ گئی

"ذامل اسٹوپ اٹ جاؤں تم"

حور فورا سے گاڑی سے نکل کر ذامل کے سامنے آکر بولتی ارسلان کو اشارہ کر گئی ذامل نے حور کی جانب دیکھا اور ارسلان خوف سے لڑکھڑاتے وجود کیساتھ وہاں سے جانے میں ہی بہتری سمجھنے لگا۔

"کیا کرنے جارہے تھے"

حور گن کی جانب نظریں کیے سرد لہجے میں سینے پر بازو باندھے پوچھنے لگی۔

"جان سے مارنے تمہیں کوئی چھوئے میری برداشت سے باہر ہے"

ذامل سرد لہجے میں اس کی سیاہ آنکھوں میں نظریں جمائے بولتا حور کی ہارٹ بیٹ مس کروا گیا۔

تبھی راشد بابا کتاب ہاتھ میں تھامے بک سٹور سے باہر نکلتے نظر آئے ذامل کو دیکھ پریشان ہوئے تھے

"حاکم چوہدری نے کس کام کیلیے رکھا ہے آپ کو"

ذامل غصے سے راشد بابا کی طرف دیکھ لفظ چبا کر بولا راشد بابا ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگ گئے 

"راشد بابا کا کوئی قصور نہیں ہے آپ بیٹھیں گاڑی میں بابا "

حور راشد بابا کے بولنے سے پہلے ذامل کو بتاتی کتاب ہاتھ سے لے کر راشد بابا سے بولی جس پر وہ خاموشی سے بیٹھ گئے 

"تمہیں کوئی الہام ہوتا ہے کہ حور اب مصیبت میں ہے"

حور کتاب گاڑی میں رکھ سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی وہ ذامل کے کندھے سے بھی تھوڑا نیچے آتی تھی ذامل کو وہ اسوقت بےحد پیاری لگی تھی

"زندگی میں تم جب بھی مصیبت میں ہوگی تمہیں تمہاری حفاظت کیلیے ملک ذامل  نظر آئے گا"

ذامل سینے پر بازو باندھے اس کے چہرے کے قریب جھک کر گھمبیر لہجے میں اسے بولا حور تھوڑا کنفیوز ہوتی پیچھے کی جانب کھسکتی گاڑی سے جا لگی 

"حفاظت شوہر کرتے ہیں"

حور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے جواب دینے لگی ذامل کے لبوں پر مسکراہٹ آئی

"تو میں ہی تمہارا شوہر بنوں گا"

وہ اسے جواب دیتے ساتھ گن والا ہاتھ اس کی طرف کیے حور کو ڈرا گیا اس کی آنکھوں میں خوف دیکھ ذامل نے گن جیب میں رکھی حور نے اپنے تاثرات نارمل کیے

"شوہر بن کر کیا کرو گے"؟

حور نے آئبرو اچکائے اس سے سوال کیا تھا ذامل اپنے لب اس کے کان کے قریب لایا 

"رومینس"

ذامل شوخیہ لہجے میں اسے جواب دینے لگا جواب سنتے ہی حور کی ہارٹ بیٹ ایکدم تیز ہو گئی 

"میں نے تمہارا نام بلکل ٹھیک رکھا ایک نمبر  ایک نمبر  کیوں دو نمبر  ٹھرکی آنسان ہو تم "

حور اسے زور سے پیچھے کی جانب دھکیلتے ہوئے آنکھیں چھوٹی کیے جواب دیتی گاڑی میں بیٹھ گئی ذامل کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی گاڑی میں بیٹھتے ہی حور نے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنی بےترتیب دھڑکنیں ترتیب میں کی تھی

"ہائے"

ذامل باہر کھڑا مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے مسکرا کر اس پر نظریں جمائے کہنے لگا 

"چلیں"

وہ ذامل کی طرف نہ دیکھتی راشد بابا سے کہنے لگی وہ اثبات میں سر ہلا کر گاڑی سڑک پر دوہرا گئے تھے ذامل اسے جاتا دیکھ خود بھی چلا گیا

"حویلی میں ذامل کا ذکر مت کیجیے گا"

حور راشد بابا کی جانب دیکھ انہیں حکم دینے والے انداز میں بولی جس پر وہ خاموشی سے بس اثبات میں سر ہلا گئے۔

***********

"دادا"

ذامل حویلی میں قدم رکھتے ہی ملک شہراز کو غصے سے آواز دینے لگا وہ لان سے اندر کی جانب آئے اور ذامل کو دیکھ مسکرائے 

"کیا کیا ہے یہ آپ نے"

ملک شہراز کو دیکھتے ہی وہ فورا تیزی سے اس طرف بڑھ کر پوچھنے لگا ملک شہراز کی مسکراہٹ سمٹی

"کیا"؟؟

وہ پریشانی سے ذامل کو دیکھ پوچھنے لگے جو اسوقت بےحد غصے میں تھا

"آپ نے حاکم چوہدری کی پوتی کے ساتھ غلط کروانے کی کوشش کی ہے"

ذامل انہیں دیکھتے ہوئے سرد لہجے مونچھوں پر تاؤ دیتا پوچھنے لگا 

"ہاں کیا تمہیں کیوں اتنا غصہ آرہا ہے"

ملک شہراز بھی لہجے میں سختی لیے اسے دیکھ پوچھنے لگے 

"دادا ہماری دشمنی حاکم چوہدری سے ہے اس کے خاندان کی عورتوں سے نہیں آپ اس کے ساتھ غلط کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں"

ذامل اپنے لہجے میں موجود سرد پن کم کیے ملک شہراز کو بتانے لگا 

"دشمنی حاکم چوہدری سے ہے تو سمجھو پورے خاندان سے ہے"

وہ فورا سے غصے سے چلا کر کہنے لگا ذامل نے انہیں دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا 

"آپ کا ہر ایک اصول فیصلہ حکم سر آنکھوں پر لیکن اگر کسی لڑکی کی عزت کیساتھ آپ یہ کریں گے تو میں اس میں آپ کا ساتھ نہیں دوں گا یاد رکھیے گا"

ذامل سر نگاہوں سے مہک شہراز کو دیکھ سر ہلاتا ہر لفظ چبا کر کہتے ساتھ اوپر کی جانب بڑھ گیا اور وہ اسے جاتا دیکھنے لگ گئے آج پہلی بار ذامل نے ملک شہراز سے اس قدر بدتمیزی سے بات کی تھی ذامل کا لہجہ انہیں شدید تکلیف پہنچا گیا تھا

*************

حور حویلی میں داخل ہوئی تو حاکم چوہدری دراب چوہدری اور جبران چوہدری کو ٹی وی لاؤنچ میں موجود پایا 

"گڑیا آنے میں دیر کیسے ہو گئے؟"

حاکم چوہدری حور کو آتا دیکھ فورا سے پوچھنے لگے حور نے ان کی جانب دیکھا

"دادا وہ  کتاب لینی تھی مجھے بس اسی وجہ سے"

حور فورا سے کتاب دیکھاتے ہوئے تھوڑا گھبرا کر جواب دینے لگی حاکم چوہدری اثبات میں سر ہلا گئے 

"آپ کی طبیعت کیسی ہے"؟

حور ہمیشہ کی طرح ان کے پاس آکر ان کیساتھ بیٹھتے فکرمندی سے پوچھنے لگی 

"ایکدم فٹ"

وہ مسکراتے ہوئے اسے جواب دیتے ہوئے بتانے لگے جس پر وہ بھی مسکرا دی اور اٹھ کر وہاں سے جانے لگی 

"فریش ہوکر آجاؤ کھانا لگ رہا ہے"

ہاجرہ بیگم اسے جاتا دیکھ فورا سے کہنے لگے جس پر حور نے اثبات میں سر ہلا دیا اور کمرے کی طرف بڑھ گئی

فریش وغیرہ ہوکر چینج کرتی نیچے کی جانب بڑھی تھی چینج وغیرہ کرکے کھانے کیلیے ڈائننگ ایریا کی طرف چل دی

حور ڈائننگ ایریا پر آئی تو ہاجرہ بیگم اور ازقہ دونوں کھانا لگا رہی تھی حور نے کرسی سنبھال لی آہستہ آہستہ گھر کے سبھی لوگ آ گئے اور سب خاموشی سے کھانا کھانے لگ گئے 

"زاہد جو سکول کے ساتھ خالی پلاٹ پڑا ہے وہ بھی میری حور کے نام کردو "

حاکم چوہدری کھانا کھاتے ہوئے زاہد کی جانب دیکھتے ہوئے بتانے لگے سب نے حاکم چوہدری کو دیکھا

"دادا میرے نام پہلے ہی پانچ زمینیں اور دو پلاٹ ہے اب یہ کیوں"

حور فورا سے حاکم چوہدری سے شکوہ کرتی منہ بنائے بولی 

"میں خوشی سے آپ کے نام کررہا ہوں "

حاکم چوہدری فورا سے حور کو بتانے لگے جس پر وہ خاموش ہو گئی 

"ٹھیک ہے دادا"

زاہد حاکم چوہدری کو جواب دیتا کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا اچانک نظر ازقہ پر گئی جو اسوقت صرف کھانے کیساتھ بھرپور انصاف کررہی تھی اسے دیکھ زاہد کے لب مسکرا دیے تھے

"دادا "

آدم نے کھانے کی ٹیبل پر حاکم چوہدری کو پکارا حاکم چوہدری نے سر اٹھا کر اسے دیکھا

"دادا میں آپ کا یتیم بچوں والا ادارہ سنبھالنا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں"

آدم نے حاکم چوہدری سے اجازت لینے چاہی حاکم چوہدری سمیت سب نے اس کی طرف دیکھا 

"طبیعت ٹھیک ہے اس کی"

حور ازقہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے پوچھنے لگی ازقہ نے حور کو دیکھا 

"لگ نہیں رہی"

ازقہ فورا سے کہنے لگی حور بھی مسکرا دی اور ازقہ بھی مسکرا دی 

"یہ تو بہت اچھی بات ہے تو پھر یہ ذمہداری نبھانا بھی آدم"

حاکم چوہدری مسکرا کر آدم کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہنے لگے دراب چوہدری کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"جی بلکل دادا شکریہ"

وہ مسکراتے ہوئے فورا سے کہنے لگا  اور دراب چوہدری کو دیکھا جو دل ہی دل میں. اپنے بیٹے کو شاباش دے رہے تھے

***********

حور کمرے میں بیٹھی آج کا واقع سوچ رہی تھی چہرے پر مسکراہٹ تھی جس سے وہ خود ہی انجان تھی 

("ارسلان تم ہمت کیسے ہوئی جان کو چھونے کی ہاں"

"تمہیں کوئی چھوئے میری برداشت سے باہر ہے"

"زندگی میں جب بھی مصیبت میں ہوگی تم تمہاری حفاظت کیلیے ملک ذامل تمہیں نظر آئے گا")

حور اس کے کہے گئے الفاظ گھٹنوں پر ہاتھ رکھے مسکراتے ہوئے سوچ رہی تھی 

"اہم اہم اکیلے میں کیوں مسکرایا جارہا ہے"

ازقہ کمرے میں آتے ہوئے اسے سوچوں میں گم دیکھ اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگی حور فورا ہوش میں آئی 

"نن۔۔نہیں ایسا کچھ نہیں ہے"

حور اسے دیکھ فورا سے سٹپٹاتی کانپتی ہوئی آواز میں جواب دینے لگی

"سم تھنگ سم تھنگ"

ازقہ اسے چھیڑتے ہوئے مزے سے کہنے لگی حور بیڈ سے اٹھ کر دیکھنے لگی

"نتھنگ نتھنگ"

حور فورا سے ہاتھ ہلاتے ہوئے منہ بنائے بولی ازقہ مسکرا دی 

"میں خود ابھی کنفیوز ہوں بجو جیسی ہی سمجھ آئے گی بتاؤں گی آپ کو"

حور اسے دیکھ سنجیدگی سے اسے کہنے لگی جس پر ازقہ ہلکا سا مسکرا دی 

"سب بہتر ہوگا میں تمہارے ساتھ ہوں"

ازقہ اس کا ہاتھ تھامے مسکرا کر بولی حور اس کے گلے سے لگ گئی 

***********

ازقہ اوپر کمرے کی جانب جارہی تھی زاہد سیڑھیاں اترتا نیچے آرہا تھا ازقہ قدم روک گئی تاکہ وہ گزر جائے زاہد نے اسے دیکھا

"کہاں سے آرہی ہوں"

زاہد ہاتھ میں موجود کاغذ جیب میں ڈالتا اس پر نظریں جمائے پوچھنے لگا 

"حور کے روم سے"

ازقہ اسے فورا سے جواب دینے لگی زاہد سر کو خم دے گیا 

"ویسے میں نے پہلی  نند بھابی دیکھی ہے جن کی اس قدر بنتی ہے"

وہ سینے پر بازو باندھے شوخیہ لہجے میں کہتے ساتھ ازقہ کو مسکرانے پر مجبور کر دیا

"بس آپ نظر نہ لگا دیجیے گا"

ازقہ بھی سینے پر بازو باندھے مسکرا کر اسی کے انداز میں کہنے لگی 

"نظر تو ہماری آپ کی خوبصورتی پر لگ سکتی ہے "

زاہد گھمبیر لہجے میں کہتے ساتھ اس کے چہرے کے قریب چہرہ لائے کہنے لگا 

"اہم اہم ابھی شادی نہیں ہوئی"

جبران وہاں سے گزر رہا تھا نظر دونوں پر گئی کھانستے ہوئے وہ بولا ازقہ گھبرا کر فورا دور ہوتی اوپر کی جانب بھاگ گئی تھی

زاہد نے اسے دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا  زاہد نے آئبرو اچکائے جبران نے بھی آئبرو اچکائی تھی

"کام وام نہیں ہے تمہارے پاس"

زاہد اسے خود کو دیکھتا پاکر فورا سے کہنے لگا جس پر جبران ہنستے ہوئے اوپر کی جانب بڑھ گیا 

***************

 "اوہو یعنی فل ہیرو والے میرے بھائی نے اینٹری دی تھوڑا تو پگھلی ہوگی"

شہریار اور ذامل ڈیرے پر موجود  تھے ذامل نے اسے سارا واقع سنایا 

"پگھلی مکمل پگھل گئی"

ذامل مسکرا کر شہریار کی جانب دیکھ کر بتانے لگا شہریار  بھی مسکرا دیا

"مطلب ہیرو بننا کام آ گیا"

شہریار اس کے کندھے پر سر رکھے کہنے لگا ذامل نے اسے دیکھا اور جھٹکے سے الگ کیا 

"مجھے تمہارے لیے لڑکی کا انتظام کرنا ہوگا"

ذامل اسے دیکھ فورا سے کہنے لگا شہریار  نے فورا دانتوں کی نمائش کی 

"سچیی کب"

شہریار فورا سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا جس پر ذامل اٹھا

"ابھی مجھے جانا ہے کام سے"

وہ اسے ہاتھ ہلاتے کر کہتا چلا گیا اور شہریار منہ بنا کر رہ گیا 

*********

حور کچن سے باہر نکلتی اپنے ہاتھ میں کافی کا مگ تھامے اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی تبھی آدم اس کے سامنے آیا حور نے اپنے بڑھتے قدم روکے 

"یہ کیا بدتمیزی ہے"

حور سرد لہجے میں غصے سے اس سے پوچھنے لگی جس پر آدم کے لب مسکرائے تھے

"دل کر رہا تھا"

وہ اسے  حوس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا حور کی چہرے پر مزید سختی در آئی 

"اپنے دل کو قابو میں رکھو آدم چوہدری ورنہ بھول جاؤں گی کون ہو تم یاد رکھنا حورِ جان جو کہتی وہ کرکے دیکھاتی ہے"

حور غصے سے سرد نگاہوں سے لفظوں پر زور دیتے اسے بولتے ساتھ سائیڈ سے گزر گئی 

"ساری آکڑ ختم کردوں گا ایک دفعہ میری ہو جاؤ بس تم"

آدم اسے جاتا دیکھ چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ سجائے دل میں کہنے لگا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا 

*********

حور کافی کا مگ لیے بیلکونی کی جانب بڑھی اور کھڑکی کھولی تو نظر سامنے کھڑے شخص پر گئی اسے دیکھتے ہی حور کے لبوں پر مسکراہٹ آئی مگر وہ اگلے ہی پل مسکراہٹ سمٹ گئی 

"بس اتنا ہی غصہ تھا"

حور کافی کا مگ ہاتھ میں گھمائے اس سے مخاطب ہوئی جس پر ذامل کے لب مسکرائے تھے

"ہاں تمہیں دیکھے بغیر  گزارا نہیں ہے"

ذامل سینے پر بازو باندھے اس کے تھوڑا پاس آتے ہوئے کہنے لگا حور نے اسے دیکھا

"وہی سستے عاشقوں والی باتیں کرنا"

حور منہ بنا کر اسے بولتی اپنی مسکراہٹ ضبط کیے کافی کب مگ لبوں سے لگا گئی

"کتنا آزمانا ہے مجھے جان کہ دو تم بھی پیار کرتی ہو"

وہ کھڑکی پر دونوں ہاتھ رکھے حور کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اعتماد بھرے لہجے میں بولا 

"یہ کس نے کہا تمہیں"

حور اپنے تاثرات نارمل رکھتی آئبرو اچکائے اس سے بدلے میں پوچھنے لگی

"تمہاری ان سیاہ آنکھوں نے"

ذامل گھمبیر لہجے میں اس کے چہرے پر نظریں جمائے مسکرا کر جواب دے گیا حور اس کے جواب سے کنفیوز ہوئی تھی

"تمہاری سیاہ آنکھیں صاف بتارہی ہیں کہ تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی ہے"

وہ اس کی آنکھوں پر اپنی براؤن نظریں جمائے بتانے لگا حور کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی

"تم واقع مجھ سے محبت کرتے ہو"؟؟

حور ذامل کی آنکھوں میں دیکھتے خودبخود ہی یہ سوال نکال گئی 

"میری بات پر یقین نہیں ہوتا تو آنکھیں پڑھ لو"

ذامل نے فورا سے سادہ سا اسے جواب دیا حور ہمیشہ کی طرح اس کے جواب سے متاثر ہوئی مگر ظاہر نہیں کیا 

"مجھے آنکھیں نہیں پڑھنی آتی "

حور فورا سے نظریں چراتی معصومیت سے جواب دے گئی اور اس کی معصومیت پر وہ ملک ذامل کو سیدھا دل میں اترتی محسوس ہوئی 

"تو پھر میں جو کہ رہا ہوں اسے سچ مان لو جان"

ذامل حور کے ہاتھوں ہر ہاتھ رکھتا اسے پیار سے کہنے لگا حور کے جسم میں کرنٹ سا لگا جھٹکے سے اپنے ہاتھ نکالتی وہ پیچھے ہوئی

"مجھے نیند آرہی ہے"

حور کہتے ساتھ کھڑکی بند کرتی اندر آگئی اور اپنی غیر ہوتی حالت کو ٹھیک کرنے لگی 

"مان گئی ہے"

ذامل خود سے کہتے ساتھ مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا یہ مسکراہٹ صرف حور کو دیکھ کر ہی چہرے پر نمودار ہوتی تھی ملک ذامل کے دل میں حور کی ایک ہی الگ ہی جگہ تھی جس کا اندازہ اسے خود بھی نہیں تھا۔۔

حور بیڈ پر آکر بیٹھی اور ذامل کے متعلق سوچنے لگی مگر اچانک ذہن میں خاندانی دشمنی وغیرہ یاد آئی۔

"نہیں حور تمہیں کیا ہورہا ہے کیوں بول رہی ہو دادا کے دشمن ہیں نہیں مت سوچیں ایسا"

حور اچانک اپنی سوچ جھٹک کر  فورا سے خود سے کہنے لگی۔

"بس سٹڈیز پر دھیان دو پیار ویار وہ کچھ نہیں ہوتا یہ خود کہتی ہو تم اور اب وہی کرنے جارہی تھی"

حور خود سے باتیں کرتی خود کو سمجھانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔

اچانک ذامل کی باتیں اس کے ذہن میں گردش کرنے لگی

"کیا ہورہا ہے یہ سب مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے"

وہ پریشانی سے بیڈکراؤن سے سر ٹکائے الجھے ہوئے لہجے میں بولی۔

"حور جو تم سوچ رہی ہو وہ ناممکن ہے اس لیے بہتر ہے ایسا کچھ مت سوچو اور سوجاؤ"

حور خود کی سوچ اور خود سمجھاتے ہوئے گہرا سانس لیتی لیٹ گئی اور آنکھیں بند کر کے سونے لگی۔

***********

 کالج کی چھٹی ہو گئی تھی وہ نوال کے ساتھ نیچے کی جانب بڑھی جب نظر ذامل پر گئی جو ہمیشہ کی طرح پرسکون سا گاڑی سے پشت ٹکائے ہوئے تھے نظر جیسے ہی اس پر گئی لب مسکرا دیے اسے دیکھتے ہی حور کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی

"تم یہی رکو میں آئی"

حور کہتے ساتھ کتابیں اور بیگ رکھ کر ذامل کی جانب بڑھنے لگی گارڈ نے اسے روکنا چاہا جس پر وہ خاموشی سے بس ہاتھ کے اشارے اسے روک گئی گارڈ خاموش ہو گیا تھا۔۔

"تم کیوں  نہیں سمجھ رہے ہو ذامل میری بات"

حور اس کے مقابل میں کھڑے ہوتے ہوئے سینے پر بازو باندھے سنجیدہ سی بولی ذامل سیدھا ہوکر آئبرو اچکائے اسے دیکھنے لگ گیا ۔

"اگر دادا یا لالا کو معلوم ہوگیا نا تمہارا تمہیں پتہ نہیں ہے وہ کیا کریں گے"

حور اسے خود کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بتانے لگی۔۔

"مجھے پرواہ نہیں تم بتاؤ تمییں محبت ہے مجھ سے"

ہمیشہ کی طرح ذامل نے صاف لفظوں میں اس سے پوچھنا چاہا حور نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جواباً خاموش رہی

"نہیں"

حور نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اسے جواب دیا ذامل کے لب مسکرا دیے 

"جھوٹ نہیں بولا جاتا تم سے"

وہ مسکراتے ہوئے اپنی ڈارک براؤن گہری آنکھیں اس کے چہرے پر مرکوز کیے کہنے لگا۔

"جو تم سوچ رہے ہو وہ ناممکن ہے سمجھے ہمارے خاندانوں کے بیچ جس قدر دشمنی ہے نا ایسا نہیں ہوسکتا ہے بہتر یہی ہے تم میرا خیال ذہن سے نکال دو"

حور اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگی ذامل نے ایک قدم اس کی طرف بڑھایا۔

"دونوں خاندانوں کے بیچ دشمنی ہے اس کی سزا ہم دونوں ایک دوسرے کو کیوں دیں ایک دفعہ بولو مجھے یقین جانو سب کا مقابلہ کرلوں گا"

ذامل اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے بولا حور نفی میں سر ہلا گئی

"نہیں میں دادا کو بلکل بھی دھوکہ نہیں دے سکتی ہوں اور ایسا کچھ نہیں ہے میں پیار ویار میں یقین نہیں رکھتی تم بس جاؤ راشد بابا آتے ہی ہوں گے"

حور اپنے جذبات کو قابو میں رکھتی لہجے میں مشکل سے سرد پن لیے اس سے کہنے لگی 

"ایک بات یاد رکھنا جان تمہیں بننا صرف اور صرف ذامل کا ہے اور میں تمہیں ہر حال میں اپنا بنا کر رہوں گا"

ذامل اس کے چہرے کے قریب چہرہ لائے اسے دیکھ اطمینان بھرے لہجے میں بولا حور اسے دیکھ رہی تھی۔

"زبردستی کرو گے میرے ساتھ؟"

حور سینے پر بازو باندھے آئبرو اچکائے اس سے کہنے لگی ذامل کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

"زبردستی کرنے کی نوبت نہیں آئے گی"

وہ مسکراتے ہوئے اسی کے انداز میں اسے جواب دینے لگا۔

"کیا کرو گے پھر؟"

حور سنجیدگی سے اسے دیکھ پوچھنا لازمی سمجھنے لگی

"اگر آج میں چلا گیا یقین جانو شکل کیا تم میری آواز کو بھی تڑسو گی بہتر ہے سوچ لو"

ذامل اسے سرد لہجے میں کہتے ساتھ آنکھوں میں گلاسز لگائے مڑ گیا حور اسے دیکھنے لگی۔

"جان سوچ لو"

وہ مڑ کر ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا جس کی آنکھوں میں پریشانی صاف عیاں تھی اور قدم گاڑی کی طرف بڑھانے لگا۔

گراؤنڈ میں کھڑی نوال خاموشی سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔

"ذامل"

حور اسے گاڑی میں بیٹھتا دیکھ فورا سے پکارنے لگی ناجانے کیوں اس کی کہی باتیں حور کو پریشان کر گئی ذامل کے لب مسکرا دیے اور اس نے مونچھوں پر تاؤ دیا اور مڑ کر دیکھا۔

"تم کیوں نہیں سمجھ رہے ہو یہ ناممکن ہے"

حور اس کے پاس آکر اسے دیکھ ناامید سی کہنے لگی ذامل نے اسے دیکھا۔

"تم مجھے یہ بتاؤ پیار کرتی ہو یا نہیں"

ذامل اس کی طرف رخ کرتا اپنے مطلب کی بات پوچھنے لگا حور نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر نظر جھکا گئی۔

"مجھے جواب دینے کیلیے وقت چاہیے"

وہ نظریں جھکائے اسے بولی ذامل کے چہرے پر سرد تاثرات سج گئے

"کتنا؟"

ذامل نے فورا سے سرد لہجے میں پوچھا حور نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا 

"دو دن"

وہ اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگی ذامل اثبات میں سر ہلا گیا۔

"دو دن ہیں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرلو ورنہ میری آواز کو بھی تڑسو گی"

ذامل اسے دیکھ کہتے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا یہ جانے بغیر کہ وہ اسے کتنے مشکل مرحلے پر کھڑا کر گیا ایک طرف دادا تو دوسری طرف اس کا پیار تھا 

تبھی راشد بابا بھی آ گئے حور جو سوچوں میں گم کھڑی تھی گاڑی دیکھ اندر کی طرف بڑھی جب نظر نوال پر گئی جو اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"میں بتاؤں گی"

حور اسے بس یہی بولتی اپنی چیزیں لیتی چلی گئی کالج سے لے کر حویلی تک کا سفر اس نے ذامل کی باتیں جو سوچ سوچ کر ہی گزار دیا تھا وہ اسوقت خود کو سب سے زیادہ بےبس سمجھ رہی تھی۔۔

***********

وہ حویلی آتے ہی خاموشی سے کمرے کی طرف بڑھنے لگی ہاجرہ بیگم کی نظر اس پر گئی

"حور طبیعت ٹھیک ہے؟"

ہاجرہ بیگم اس کے پاس آتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی حور نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔

"جی اماں"

حور مختصر سا جواب دے گئی جس پر وہ اسے دیکھنے لگی 

"آج اتنی خاموشی سے داخل ہوئی ہو کھانے کا بھی نہیں بولا"

وہ لہجے میں پریشانی سجائے اسے کہنے لگی حور کے لب مسکرا دیے 

"بس نیند آرہی ہے اس وجہ سے آپ پریشان نہ ہوں"

وہ مسکراتے ہوئے ہاجرہ بیگم کو تسلی دیتی کمرے کی طرف بڑھ گئی وہ اسے جاتا دیکھنے لگی 

کمرے میں آتے ہی چینج وغیرہ کرتی حور کچھ دیر سونے کا ارادہ کرکے بیڈ پر لیٹ گئی۔

"کچھ دیر سکون چاہتی ہوں اللہ تعالیٰ پلیز نیند آجائے"

کہتے ساتھ وہ آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کرنے لگی ذامل کی باتیں ذہن میں گردش کررہی تھی۔۔

**********

ذامل اسوقت اپنے کمرے میں کھڑا اپنے ماں باپ کی تصویر کو دیکھ رہا تھا ملک شہراز اس کے کمرے میں آئے تھے

"میرے اکلوتے بیٹے اور بہو کو اس ابرار چوہدری نے ختم کیا تھا"

ملک شہراز بھی تصویر پر نظریں مرکوز کیے بولے ذامل نے ان کی جانب دیکھا۔

"کیوں کیا تھا انہوں نے"

ذامل اداسی لہجے میں ملک شہراز سے پوچھنے لگا وہ نفی میں سر ہلا گئے۔

"نہیں معلوم مجھے بھی"

ملک شہراز بھی لہجے میں افسردگی سجائے بتانے لگے۔

"مگر تم بےفکر رہو اس کیلیے معاف میں انہیں کبھی نہیں کروں گا برباد کرکے رہوں گا"

ملک شہراز لہجے میں نفرت لیے سرخ نگاہوں سے بولے 

"بدلہ تو لیا آپ نے اس شخص کو ختم کردیا جنہوں نے مارا تھا "

وہ ملک شہراز کی جانب دیکھتے ہوئے بولا ملک شہراز نے اسے دیکھا ۔

"میرا اکلوتا بیٹا جو مجھے میری جان سے عزیز تھا اسے مجھ سے دور کیا اتنی آسان سزا تو نہیں دوں گا"

وہ غصے سے سرخ آنکھیں ہر لفظ چباتے ہوئے کہنے لگے ذامل خاموش رہا تھا اور ملک شہراز اس کے کمرے سے چکے گئے ۔

**********

حور اسوقت اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے پڑھ رہی تھی 

"افف ذامل کس مشکل میں ڈال دیا ہے"

حور اچانک سے کتاب سے نظریں ہٹائے منہ بسور کر 

خود سے بولتی بیٹھ گئی 

"ناجانے کیارشتہ  بن گیا ہے تم سے تم اچانک سے اچھے لگنے لگے ہو قریب آنے سے ہارٹ بیٹ تیز ہوجاتی ہے "

وہ اس کے متعلق سوچتی لبوں پر مسکراہٹ سجائے خود سے بولی تھی ۔

"لیکن دادا اور خاندانی دشمنی کی وجہ سے ہم دونوں کا ایک ہونا ناممکن ہے"

وہ اچانک سے سوچ کا زاویہ بدلتی سر جھٹک کر اداس لہجے میں بولی۔

("دونوں خاندانوں کے بیچ دشمنی ہے اس کی سزا ہم دونوں ایک دوسرے کو کیوں دیں ایک دفعہ بولو مجھے یقین جانو سب کا مقابلہ کرلوں گا")

حور ذامل کے کہے گئے الفاظ یاد کرنے لگی۔۔

"کہ تو ٹھیک رہا تھا وہ "

حور خود سے کو ہی بتانے لگی۔

"صحیح کہ رہا ہے وہ ہے نا دادا ویسے بھی بہت پیار کرتے ہیں وہ میرے لیے مان جائیں گے اور ذامل کہ تو رہا ہے وہ سٹینڈ لے گا"

حور خود سے سوچتی فیصلہ کرنے والے انداز میں بولی۔

"آئی لو یو ملک ذامل"

وہ مسکرا کر خود سے اقرار کرتی شرما دی۔۔

"چھوٹی بی بی کھانے کیلیے بلارہی ہیں آپ کو"

ملازمہ دروازے پر دستک دیتی پیغام بتاتی چلی گئی اور حور کتاب بیڈ پر رکھتی نیچے کی طرف بڑھ گئی۔

*************

سب لوگ ڈائننگ ٹیبل پر موجود ہر تھے اور خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔

"ہاجرہ بیگم اور دراب مجھے آپ دونوں سے ضروری بات کرنی ہے"

حاکم چوہدری جی روعبدار آواز نے ڈائیٹنگ ٹیبل پر خاموشی توڑی تھی اور سب ان کی جانب متوجہ ہوئے تھے 

"جی ابا"

ہاجرہ بیگم اور دراب چوہدری فورا سے بولے سب لوگ بھی حاکم چوہدری کو دیکھ رہے تھے۔

"اگلے ہفتے میں ازقہ اور زاہد کا نکاح کروادینا چاہتا ہوں امید ہے آپ دونوں کو اعتراض نہیں ہوگا"

وہ سنجیدگی سے باری باری دونوں پر نظر ڈالتے ہوئے کہنے لگے ازقہ اور زاہد کے لب مسکرا دیے تھے حور نے ازقہ کی جانب دیکھا اور اسے تنگ کرنے لگی

"نہیں ابا جان بہت اچھا فیصلہ ہے یہ مجھے کوئی اعتراض نہیں"

دراب چوہدری فورا سے جواب دے گئے جس پر حاکم چوہدری مسکرا دیے 

"مجھے بھی نہیں ابا جان"

ہاجرہ بیگم نے بھی جواب دیا وہ مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گئے زاہد اور ازقہ نے ایک دوسرے کو دیکھا دونوں جگہ بیٹ مس ہوئی تھی۔

"شکر ہے کوئی تو فنکشن آیا "

حور خوشی سے مسکرا کر کہنے لگی جس پر حاکم چوہدری مسکرا دیے 

اور پھر سب لوگ خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے 

***********

حور کافی کا مگ لیے بیلکونی میں موجود تھی مگر ذامل نہیں آیا تھا تبھی حور کو وہ نظر آیا جو سینے پر بازو باندھے مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا حور کی پلکیں خودبخود جھک گئی اور دھڑکنیں بےترتیب سی ہوئی تھی۔

"تمہیں کوئی کام وام نہیں ہے بہت ہی فارغ ہو"

حور نظریں جھکائے اسے دیکھے بغیر منہ بنائے بولی ذامل کھڑکی کے پاس آیا

"ہے نا میری زندگی کا سب سے اہم کام تمہیں دیکھنا "

وہ اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے اسے جواب دینے لگا حور نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا

"یہ باتیں سیکھتے کہاں سے ہو"

حور فورا سے آئبرو اچکائے پوچھنے لگی جس پر ذامل کی مسکراہٹ گہری ہوئی 

"جب کسی کو پیار ہوتا ہے نا کسی سے تو یہ باتیں خودبخود آجاتی ہیں"

ذامل اسے  ہمیشہ اپنے جواب سے متاثر کر گیا حور مسکرا دی 

"کچھ سوچا؟"

اب کی بار سوال ذامل کی طرف سے آیا حور نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"مجھے ڈر لگتا ہے"

حور اسے دیکھے بغیر جواب دینے لگی ذامل اس کے معصوم سے جواب پر مسکرا دیا 

"سوچو وقت ہے "

وہ اسے بس یہی جواب دے سکا حور نے اس کی جانب دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دی۔

"تمہیں ڈر نہیں لگتا"

حور نے اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھا ذامل فورا نفی میں سر ہلا گیا 

"ملک ذامل ڈرانے والوں میں سے ہے ڈرنے والوں میں سے نہیں"

وہ مونچھوں کو تاؤ دیے مغرور سے لہجے میں بولا اس کے جواب پر وہ خاموش رہی تھی۔

"مجھے پڑھنا ہے"

حور اسے کہتے ساتھ کھڑکی بند کرنے لگی ذامل اسے دیکھنے لگا 

"جاؤ"

وہ اسے ویسے کھڑا دیکھ کہنے لگی ذامل نے ایک نظر اسے دیکھا اور خاموشی سے چلا گیا حور نے مسکرا کر کھڑکی بند کرلی۔

**********

"کچھ سمجھ نہیں آرہی کیا کروں"

ملک شہراز ٹہلتے ہوئے  پریشانی سے کہنے لگے ملازم نے سن کی طرف دیکھا۔

"بڑے صاحب فیکٹری جلا دیں یاد ہے چار مہینے پہلے آپ کے پلاٹ پر آگ لگی تھی حاکم چوہدری نے ہی لگوائی ہوگی"

ملازم فورا سے انہیں مشورہ دینے لگا جس پر ملک شہراز نے اسے دیکھا

"مشورہ اچھا ہے "

وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے کہنے لگے ملازم بھی مسکرا دیا۔

"اس متعلق سوچا بھی جاسکتا ہے اور جلد از جلد اس کام کو سرانجام بھی دینا ہوگا"

وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے سوچتے ہوئے بولے جس پر ملازم سر کو خم دے گیا۔

*********

"تم اپنا کام بخوبی نبھا رہے ہو آدم"

دراب چوہدری مسکرا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے بولے وہ بھی مسکرا دیا 

"بس اب دیکھتے جائیں مگر حور سے شادی ہوگی نا میری"

آدم فورا سے دراب چوہدری کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا جس کر وہ مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گئے 

"بلکل ہوگی اصل خزانے کی چابی تو وہی ہے میرے بیٹے "

دراب چوہدری مسکرا کر اسے بولے آدم بھی مسکرا دیا

"بس ہم دونوں کو اپنے اپنے کاموں کو بہترین کرنا ہے پھر کامیابی ہماری ہی"

وہ اس کی کمر تھپتھپاتے ہوئے بتانے لگے 

"بلکل ابا"

وہ ان کی بات کی ہامی بڑھتا کہنے لگا دراب چوہدری وہاں سے چلے گئے اور وہ حور کے متعلق سوچنے لگا۔۔

"امی اتنی تیاری کیوں ہورہی ہے آج"

جبران کچن میں آتے ہوئے لہجے میں پریشانی لیے پوچھنے لگا

"آج حور کا رزلٹ ہے نا تو ابا جان نے دعوت رکھی ہے"

ہاجرہ بیگم مسکراتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگی جس پر جبران بھی مسکرا دیا 

"افف دادا جان پہلی دفعہ تھوڑی وہ پہلی پوزیشن لے گی"

جبران نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگا ہاجرہ بیگم مسکرا دی۔

"تمہیں پتہ تو ہے دادا جان کا پھر اور کیوں تمہیں خوشی نہیں ہے "

ہاجرہ بیگم اسے  بتاتے ہوئے دیکھ پوچھنے لگی

"آپ کے بعد سب سے زیادہ پیار مجھے اس سے ہے یہ بات سب جانتے ہیں پھر اس کی کامیابی میں خوشی کیوں نہیں ہوگی"

وہ انہیں دیکھ مسکرا کر بتانے لگا ہاجرہ بیگم بھی مسکرا دی وہ یہ بات بہت اچھے سے جانتی تھی تینوں بھائیوں کی اپنی بہن میں جان بسی ہے۔

حاکم چوہدری نے حور کے پہلی پوزیشن آنے پر ہمیشہ گاؤں کے لوگوں کی دعوت کی تھی اور سب لوگ اسی کاموں میں مصروف تھے۔

**********

حور حویلی میں داخل ہوئی حاکم چوہدری اور باقی سب لوگ اسی کے انتظار میں تھے اسے آتا دیکھ حاکم چوہدری کے لب مسکرا دیے تھے۔

"دادا"

وہ مسکراتے ہوئے بولتی ان کے گلے لگ گئی جس پر حاکم چوہدری مسکرا دیے اور پھر باری باری وی گھر کے سب افراد سے مبارکباد لینے لگی تھی۔

"آپ سب کو یہ دعوت میری پوتی حورِ جان کے پہلی پوزیشن آنے پر دی گئی ہے زاہد کھانے  کھلوا دو"

حاکم چوہدری گاؤں کے افراد کو  بتاتے ساتھ زاہد کو حکم دیتے خود ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئے تھے جہاں گھر کے افراد کھانا کھا رہے تھے۔

سب نے مل کر کھانا کھایا تھا گاؤں کے سب لوگ بھی کھانا وغیرہ کھا کر جا چکے تھے 

حور کمرے میں آکر  تھوڑی دیر سونے کا ارادہ کرتی بیڈ پر آ گئی دو تین دن سے نیند اسے مشکل سے آرہی تھی۔

***********

"مبارک ہو"

شہریار اسوقت ذامل کی حویلی میں موجود اس کے کمرے میں بیٹھا کہنے لگا اس نے آئبرو اچکائی۔

"حور نے ہمیشہ کی طرح پوزیشن لی ہے"

وہ اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگا جس پر ذامل کے لب مسکرا دیے

"جانتا ہوں میں"

وہ مسکراتے ہوئے مونچھوں کو تاؤ دیے اسے بولا 

"مبارک باد دی"

وہ اس کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا ذامل نے اسے دیکھا

"آج جواب لے کر اور مبارکباد دے کر آؤں گا"

ذامل نظریں سامنے مرکوز کیے مسکرا کر اسے کہنے لگا شہریار اثبات میں سر ہلا گیا۔

"تیری زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے "

وہ اسے ہنستے ہوئے کہنے لگا ذامل نے اسے ترچھی نگاہ سے دیکھا

"اور تیرا بھی ایک ہی میری لو سٹوری کہاں پہنچی"

ذامل اسے دو ٹوک جواب دیتا اس کی ہنسی غائب کروا گیا اب کی بار مسکرانے کی باری ذامل کی تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے"

وہ منہ بنا کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ذامل بس مسکرایا۔

**********

حور کمرے میں ٹہلتے ہوئے بس یہی سوچ رہی تھی کیا جواب دے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا ایک طرف اس کے دادا تھے تو دوسری طرف اس کی محبت اس کی سمجھ سے باہر تھا۔

("جب کوئی فیصلہ کرنا ہو اور سمجھ نہیں آرہی ہو تو آنکھیں بند کرو اور جو دل کہتا ہے وہی کرو"

ہاجرہ بیگم کے کہے الفاظ یاد کرتی وہ ایک گہرا سانس لیتی آنکھیں بند کر گئی اور اپنے دل کی آواز سننے لگی

"مجھے لگ گیا پتہ کیا کرنا ہے"

وہ آنکھیں کھول کر مسکرا کر فیصلہ کرتے ہوئے بولی اور پھر کمرے سے باہر چلی گئی۔

کچن میں آکر اپنے لیے کافی بنانے لگی لبوں پر مسکراہٹ تھی تبھی ازقہ کچن میں داخل ہوئی نظر اس پر گئی۔

"اکیلے میں مسکرا رہی ہوں ضرور کچھ چھپا رہی ہو"

وہ اسے کہانی مارتی چھیڑتے ہوئے کہنے لگی اس کے اچانک پر حور پہلے تو پریشان ہوئی اور پھر نارمل ہوئی۔

"نہیں ایسا کچھ نہیں ہے"

حور فورا سے انہیں دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا کر جواب دیتی کافی میں چمچ ہلانے لگ گئی

"کچھ تو ہے"

ازقہ شیلف سے لگے اسے غور سے دیکھ بولی جس پر وہ مسکرا دی۔

"میں نے فیصلہ کرلیا ہے"

وہ مسکرا کر اسے دیکھ اطمینان سے بتانے لگی جس پر ازقہ  فوراً سیدھی ہوئی۔

"کیسا فیصلہ؟"

ازقہ فورا سے اس سے پوچھنے لگی جس پر وہ مسکرا کر اسے دیکھنے لگی۔

"مجھے پیار ہوگیا ہے"

حور شیلف سے پشت ٹکائے اسے بتانے لگی ازقہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

"واقع؟"

ازقہ اس کی بات پر یقین نہ کرتے ہوئے پھر سے پوچھنے لگی 

"جی"

وہ مسکراتے ہوئے اسے اثبات میں سر ہلا کر جواب دینے لگی 

"کون"؟

ازقہ فورا سے پوچھنے لگی اس کی بے چینی دیکھ حور ہنس دی

"ملک ذامل"

حور نے جتنے آرام سے اسے نام بتایا تھا اتنی ہی جلدی ازقہ کے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔

"ملک ذامل "

ازقہ نے جیسا کنفرم کرنا چاہا حور اثبات میں سر ہلا گئی۔

"حور تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟"

ازقہ اسے دیکھ سنجیدگی سے پوچھنے لگی حور نے ازقہ کو دیکھا۔

"بلکل تھیک ہے اور دشمنی دادا اور انکل ملک شہراز کے بیچ میں ہے تو کم دونوں کیوں اپنی خوشیوں قربان کریں"

حور اسے ذامل کے کہے گئے الفاظ بولی جس پر ازقہ اسے دیکھنے لگی 

"حور دادا کبھی نہیں مانیں گے"

وہ فورا سے اسے سمجھانے کیلیے کہنے لگی حور مسکرادی

"وہ بہت پیار کرتے ہیں میرے لیے مان جائیں گے اور اگر نہیں مانے تو خدا کوئی معجزہ کردے گا"

حور اعتماد سے خود کو اور ازقہ کو امید دیتے ہوئے بتانے لگی ۔

"مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا ہے حور"

ازقہ لہجے میں پریشانی لیے فکرمندی سے کہنے لگی حور نے اس کے ہاتھ تھامے 

"یہی ٹھیک ہے آپ نے کہا تھا آپ میرا ساتھ دیں گے ہر حال میں تو بجو حور کو صرف آپ کے ساتھ کی ضرورت ہے"

حور اس کا ہاتھ تھامے اسے دیکھتے ہوئے امید بھرت لہجے میں بولی ازقہ بھی اسے دیکھ رہی تھی ۔

"اللہ جو کرے بہتر کرے میں تمہارے ساتھ ہوں ہمیشہ "

ازقہ اسے امید دلاتی لبوں پر بامشکل مسکراہٹ سجائے بولی حور مسکرا کر اس کے گلے لگ گئی اور کافی کا مگ اٹھاتی کمرے کی طرف قدم بڑھا گئی ازقہ اسے جاتا دیکھنے لگی۔

*************

ازقہ کچن میں کھڑی حور کے بولے گئے الفاظ سوچ رہی تھی زاہد جو گزر کر کمرے میں جارہا تھا کچن سے نظر اس پر گئی جو شیلف سے پشت ٹکائے نظریں زمین پر جمائے ہوئے تھی وہ قدم اس طرف بڑھا گیا 

"ازقہ"

زاہد اسے دیکھ پکارنے لگا ازقہ ہوش میں آئی اور اسے دیکھا۔

"آپ آ گئے چائے پیے گے"

ازقہ اسے دیکھ فورا سے چہرے کے تاثرات نارمل کرتی پوچھنے لگی 

"سب ٹھیک ہے"؟

زاہد اس کے چہرے کو غور سے دیکھتا پوچھنے لگا ازقہ لبوں پر مسکراہٹ سجا گئی ۔

"جی سب ٹھیک ہے کیوں"

ازقہ اسے نارمل لہجے میں مسکرا کر جواب دینے لگی زاہد کو تھوڑی تسلی ہوئی وہ اثبات میں سر ہلا گیا۔

"میں چائے بنا دیتی ہوں"

وہ کہتے ساتھ چولہے پر چائے رکھنے لگی زاہد اس کے بلکل پیچھے کھڑا ہوا ازقہ جو پانی کا جگ اٹھانے کیلیے مڑی

"آہہہ"

 ازقہ چیخ مارتی اسے قریب دیکھ وہ شیلف سے جا لگی زاہد کے لب مسکرا دیے

"زاہد"

وہ خفگی سے اسے پکارنے لگی جس پر وہ مسکرا دیا اور اپنے لب اس کے کان کے قریب کیے ازقہ کے دل نے بیٹ مس کی 

"مجھے تمہیں ڈرانے میں مزا آتا ہے"

وہ اسے گھمبیر لہجے میں بولتا اس کی دھڑکنیں بےترتیب کرتا خاموشی سے پیچھے ہوکر چلا گیا وہ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی ۔

************

حور کمرے میں داخل ہوئی تبھی کھڑکی پر ہلکا سا ناک ہوا وہ فورا سے اس طرف بڑھی اور کھڑکی کھولی نگر کوئی موجود نہیں تھا تبھی اس کے سامنے گلاب کا پھول آیا حور پریشانی سے نظریں نیچے کی جانب کر گئی ۔

"کانگریچولیشنز"

وہ سیدھا ہوکر کھڑا ہوتا اسے مسکرا کر کہتا پھول اس کے آگے کیا 

"تھینک یو"

حور اس کے ہاتھ سے پھول لیتی اسے بولی ذامل کی مسکراہٹ گہری ہوئی ۔

"یہ کون سا طریقہ تھا ؟"

وہ آئبرو اچکائے اسے دیکھ پھول کی خوشبو سونگھتی پوچھنے لگی 

"ملک ذامل کا"

وہ ہمیشہ کی طرح مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہنے لگا حور کے لب ہلکے سے مسکرا دیے۔

"پیاری لگ رہی ہو"

سفید سٹالر سے سر پر حجاب کیے میک اپ سے چہرہ بلکل پاک مگر اس سادگی میں بھی ملک ذامل کو وہ اپنے دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی 

"اچھا"

حور سرخ گال کیے نظریں جھکائے بس یہی بول سکی 

"ہائے"

وہ ایک بار پھر موچھوں کو تاؤ دیتا اس کا شرماتا روپ دیکھ کر بولا۔

"کیا کرنے آئے ہو"

وہ اسے دیکھ آئبرو اچکائے دھیمے سے لہجے میں پوچھنے لگی 

"اپنی جان کو دیکھنے کیلیے جان"

وہ اس کے چہرے پر نظریں ٹکائے کہتا حور کو نظریں جھکانے ہر مجبور کردیا 

"ویسے اتنا پیار کرتے کیوں ہو؟"

حور کے دل میں جو کب سے سوال تھا وہ اس سے پوچھ ہی گئی۔

"مجھے نہیں پتہ بس اتنا معلوم ہے کہ حورِ جان ملک ذامل کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے حورِ جان کو دیکھے بغیر ملک ذامل کا دن نہیں گزرتا ہے تمہارا غصہ مجھے بےحد پسند ہے تم بچپن سے لے کر آج تک اس دل میں رہتی ہو"

ذامل اس کی سیاہ آنکھوں پر نظریں جمائے دل میں پر ہاتھ رکھ اسے بولا حور اسے بس دیکھتی رہ گئی۔

"جواب کیا سوچا؟"

ذامل اب سیدھا اپنے مطلب کی بات پر آیا حور نے نظر اٹھا کر دیکھا دل نے بیٹ مس کی تھی۔

"تمہیں سمجھ نہیں آئی ابھی تک"

حور اس سے نظریں چراتی بدلے میں اس سے سوال کرنے لگی 

"آ گئی ہے مگر تمہارے منہ سے اقرار سننا چاہتا ہوں"

وہ حور کے چہرے پر گہری نظریں جمائے بولا حور کو اس کی طرف دیکھنا بھی محال لگ رہا تھا ۔

"بس میرا ایسا ہی اقرار ہے قبول ہے تو ہے نہیں تو پھر نہیں"

حور کنفیوز ہوتی تیز ہارٹ بیٹ ہاتھوں کی انگلیاں چٹکاتے ہوئے کانپتے ہوئے جواب دینے لگی

"تم کنفیوز ہورہی ہو"

ذامل اس کی حالت سے محفوظ ہوتا مسکرا کر پوچھنے لگا حور نے فورا اسے دیکھا 

"حورِ جان کنفیوز کرنے والوں میں سے ہے ہونے والوں میں سے نہیں"

حور فورا سے خود کو نارمل کرتی اسے اپنے انداز میں جواب دینے لگی۔

"لیکن دیکھو تم کالج مت آنا سمجھے اور اب جاؤ کوئی دیکھ لے گا"

حور چہرہ تھوڑا باہر کو کیے نظریں ارد گرد گھماتی اسے بولی ذامل اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لایا حور اپنی سانس روک گئی اور فورا پیچھے ہوئی ۔

"جاؤ جواب دے دیا ہے میں نے اور کالج نہ آنا"

حور اپنی غیر ہوتی حالت پر قابو پاتے ہوئے اسے تھوڑا رک رک کر بولی 

"ایک شرط پر"

ذامل اسے نظروں کے حصار میں لیے بولا حور نے آئبرو اچکائی

"بولو ملک ذامل تم مجھے پسند ہو"

ذامل اسے دیکھ مسکراتے ہوئے فرمائش کرنے لگا حور نے اسے دیکھا 

"میں نہیں بول رہی"

حور فورا سے اسے جواب دینے لگی ذامل کندھے آچکا گیا 

"مرضی ہے"

کہتے ساتھ وہ مڑ کر جانے لگا حور نے اسے دیکھا اسے لگا وہ ناراض ہوگیا 

"ملک ذامل تم حور کو پسند ہو"

حور اسے جاتا دیکھ آنکھیں بند کیے ایک ہی سانس میں بول گئی ذامل کے بڑھتے قدم رکے اور مڑ کر اسے دیکھا مگر وہ کھڑکی بند کر چکی تھی 

"جاری"

ذامل کھڑکی بند دیکھ منہ بناتا چلا گیا اور حور کھڑکی سے لگی بےترتیب دھڑکنوں کو ترتیب میں لانے لگی۔

"پیار پر اعتبار نہ کرنے والی لڑکی کو تم نے ملک ذامل پیار کروا ہی دیا"

حور مسکرا کر چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ سجائے بولتی کمرے میں آ گئی ۔۔

**************

حاکم چوہدری گہری نیند اپنے کمرے میں سورہے تھے تبھی اچانک ان کا فون بجا حاکم چوہدری نے وال کلاک کی جانب کی جو پانچ بجا رہی تھی انہوں نے پریشانی سے فون کان سے لگا گئے۔

"چوہدری صاحب آپ کی فیکٹری پر آگ لگ گئی"

حاکم چوہدری کا ملازم پریشانی سے بتانے لگا حاک۔ چوہدری ایکدم اٹھ کھڑے ہوئے

"کیا فیکٹری"

وہ پریشانی سے کہنے لگے اور ہاتھ بڑھا کر کمرے کی لائٹ آن کی

"جی چوہدری صاحب"

وہ انہیں بتانے لگا حاکم چوہدری پریشان سے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگے  

"میں آرہا ہوں"

حاکم چوہدری کہتے ساتھ فون بند کرتے اٹھے اور شال لیتے باہر کی جانب بڑھے 

"زاہد"

اونچی آواز میں زاہد کو پکارنے لگے تبھی آدم کمرے سے باہر آیا 

"کیا ہوا دادا"

وہ پریشانی سے حاکم چوہدری اسوقت جاگتا دیکھ پوچھنے لگے 

"فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے"

وہ آدم کو دیکھ جواب دیتے اس زاہد کے کمرے کی طرف نظریں کر گئے

"فیکٹری میں آگ"

آدم پریشانی سے کہنے لگا حاکم چوہدری سر کو خم دے گئی

"جی دادا سب خیریت تو ہے نا؟"

وہ تیزی سے کمرے سے باہر آتے ہوئے سیڑھیاں اترتے ہوئے پوچھنے لگا 

"فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے جلدی چلو"

وہ فورا سے کہتے ساتھ باہر کی طرف بڑھے زاہد فورا پیچھے آیا اور آدم بھی ان کے ساتھ چل دیا۔

حاکم چوہدری کے آدمی بھی ان کے سر پر کھڑے ہوگئے اور وہ لوگ گاڑیوں میں سوار ہوتے چل دیے۔

حور گہری نیند سورہی تھی آج چھٹی کا دن تھا جب اس کا فون بجا جس سے اس کی نیند میں خلل پیدا ہوا ایک آنکھ کھول کر حور نے سائیڈ ٹیبل کی جانب ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا اور بغیر دیکھے فون کان سے لگا لیا ۔

"گڈ مارننگ جان"

مردانہ آواز کانوں سے جیسے ہی ٹکرائی حور کے چہرے پر پریشانی ظاہر ہوئی اور اس نے پوری آنکھیں کھول کر وال کلاک پر نظر ڈالی جہاں سات بج رہے تھے ۔

"کون ہو تم؟"

حور لہجے میں سرد پن لیے سیدھی ہوتی پوچھنے لگی 

"تم نے میری آواز نہیں پہچانی؟"

ذامل خفگی سے فون پر ایک نظر ڈال کر پوچھنے لگا حور کو آواز جانی پہچانی لگی۔

"شرافت سے بتارہے ہو یا فون سے نکل کر منہ توڑو"

حور اب کی بار تپ کر اسے کہنے لگی اس کی بات پر ذامل کے لب مسکرا دیے تھے ۔

"جان میں ذامل"

ذامل نے اسے مسکراتے ہوئے بتایا حور نے فون پر نظر ڈالی۔

"تمہیں میرا نمبر کہاں سے ملا؟"

حور لہجے میں پریشانی لیے بال ٹھیک کرتی پوچھنے لگی

"مشکل نہیں تھا "

وہ اسے اپنے انداز میں جواب دینے لگا۔

"خیر کال کرنے کی وجہ؟"

حور اٹھ کر بیٹھتی بیڈکراؤن سے ٹیک لگائے مسکراہٹ ضبط کیے پوچھنے لگی۔

"اب سے روز تمہیں مارننگ کال آئے گی"

ذامل بھی بیڈکراؤن سے پشت ٹکائے گھمبیر لہجے میں اسے کہنے لگا۔

"اچھا جی"

حور ہلکا سا مسکرا کر کہنے لگی ذامل کے لب مسکرا دیے۔

"چھوٹی بی بی بڑی بیگم صاحبہ کہ رہی ہیں اٹھ جائیں ناشتے کا وقت ہوگیا ہے"

ملازمہ دروازے پر آتی دستک دے کر حور سے بولی حور نے دروازے کی جانب دیکھا۔

"اٹھ گئی ہوں"

حور اسے جواب دی ے لگی ملازمہ خاموشی سے چلی گئی ۔

"فون رکھو مجھے فریش ہونا ہے"

حور نے کہتے ساتھ فون کان سے ہٹایا اور کال کٹ کر گئی چہرے پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

یہ سب حور کیلیے بلکل نیا تھا اور اسے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا یہ جانے بغیر کے اس کا انجام کیا ہونا تھا۔۔۔

************

وہ سب لوگ ناشتہ کرکے فارغ ہوئے تھے حاکم چوہدری زاہد چوہدری اور آدم چوہدری نہیں تھے۔

"دادا کہاں تھے امی"

حور اسوقت ہاجرہ بیگم کے پاس موجود بالوں میں تیل لگواتے ہوئے پوچھنے لگی 

"پتہ نہیں مجھے"

وہ حور کے بالوں میں تیل لگاتے ہوئے بتانے لگی جس پر حور خاموش ہوگئی ۔

"بال دیکھیں ہیں کتنے کم رہ گئے ہیں"

ہاجرہ بیگم اسے بال دیکھاتے ہوئے سرد لہجے میں کہنے لگی حور نے ایک نظر بالوں پر ڈالی

"کوئی بات نہیں میری پیاری امی بالوں میں تیل لگوا کر گھنے کرلیں گی"

حور مسکرا کر لاڈ سے بولی اور ہاجرہ بیگم نفی میں سر ہلا گئی۔

"امی مجھے بھائی کے نکاح کے ڈریس لینے جانا ہے مگر وہ ہے ہی نہیں"

حور ہاجرہ بیگم کو منہ پھلائے بولی ہاجرہ بیگم اس کے بالوں کی چٹیاں بنانے لگ گئی

"آجائے گا"

ہاجرہ بیگم اس کے بالوں چٹیاں  کی بناتے ہوئے بولی حور اثبات میں سر ہلا گئی۔

"یہ کام ملک شہراز کا ہے میں یقین سے کہ سکتا ہوں"

حاکم چوہدری غصے سے حویلی میں داخل ہوتے ہوئے آدم اور زاہد سے کہنے لگے حور اور ہاجرہ بیگم نے بھی انہیں دیکھا۔

"کیا ہوا ہے ابا جان"

دراب چوہدری جو ابھی نیچے آئے تھے انہیں غصے میں دیکھ پوچھنے لگے۔

"جی ابا جان سب خیریت ہے؟"

ہاجرہ بیگم بھی پریشانی سے پوچھنے لگی ازقہ بھی کمرے سے باہر آ گئی۔۔

"فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے اور پوری جل گئی ہے"

وہ ان سب کو دیکھتے ہوئے غصے سے بتانے لگے سب پریشان ہوئے۔

"فیکٹری میں آگ کیسے"

دراب چوہدری پریشانی سے انہیں دیکھ پوچھنے لگے 

"کیسے کیا مطلب ملک شہراز کا کام ہے یہ"

وہ دراب کو دیکھ سرد لہجے میں بولے جس پر وہ خاموش ہو گئے حور بھی پریشانی سے یہ سب دیکھ رہی تھی

"دادا آپ حکم دیں کیا کرنا ہے"

زاہد فورا سے حاکم چوہدری کے پاس آتے ہوئے کہنے لگا حاکم چوہدری نے اسے دیکھا۔

"جاکر اسے ڈراؤ اور یہ بتاؤ کہ ہم بزدل یا کمزور نہیں ہیں"

حاکم چوہدری زاہد کو حکم دینے والے انداز میں کہتے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئے اور زاہد اثبات میں سر ہلا گیا۔

************

"ملک صاحب ہوگیا کام"

ملک شہراز کا ملازم آتا اسے بتانے لگا یہ بات سنتے ہی ملک شہراز کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

"اب آئے گا نا مزا"

وہ کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے مسکراہٹ سجا کر کہنے لگے ملازم بھی مسکرا دیا 

"شاباش"

وہ ملازم کے کندھے پر ہاتھ رکھے مسکرا کر کہنے لگے ملازم بھی مسکرا رہا تھا 

تبھی ذامل نیچے آتا دیکھائی دیا اسے آتا دیکھ ملک شہراز نے ناشتہ لگوانے کا حکم دیا۔

"خیریت خوش لگ رہے ہیں"

ذامل ملک شہراز کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا جس پر ملک شہراز اثبات میں سر ہلا گئے 

"بس سمجھو دشمنوں کا چین برباد کیا ہے"

ملک شہراز اور ذامل ڈائننگ کی جانب جانے لگے ملک شہراز نے بتایا ذامل کے بڑھتے قدم رکے۔

"کیا کیا ہے اب"

وہ ملک شہراز کو دیکھتا سنجیدگی سے پوچھنے لگا 

"بےفکر رہو عورتوں کیساتھ کچھ نہیں کیا میں نے"

ملک شہراز ذامل کو تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے جس پر ذامل کو تسلی ہوئی اور وہ دونوں ڈائننگ کی طرف بڑھ گئے۔

*************

زاہد اور آدم دونوں ہی اسوقت ملک حویلی کے باہر موجود تھے زاہد نے گن لوڈ کرکے گولی چلائی تھی ایک پھر تین چار فائر ساتھ کی تھی 

"یہ کون ہے باہر"

ملک شہراز کرسی سے اٹھتے ملازم کو دیکھ غصے سے کہنے لگے ملازم فورا باہر کی طرف بڑھا۔

ملک شہراز اور ذامل بھی باہر کی جانب بڑھ گئے تھے۔

"یہ کیا تماشا ہے؟"

۔ملازم زاہد اور آدم کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے کہنے لگا تبھی زاہد کی نظر پیچھے سے آتے ذامل اور ملک شہراز پر گئی۔

"تماشا وہی تماشا جو صبح تم لوگوں نے لگایا تھا"

زاد سرد لہجے میں ملک شہراز پر نظریں گاڑھے کہنے لگا 

"کون سا تماشا ہاں"

ملک شہراز اطمینان سے کھڑے اس سے انجان بنتے پوچھنے لگے زاہد نے ان کی طرف پستول کی

"ملک شہراز اپنی حرکتوں سے بعاز آجاؤ ورنہ جان لینے میں سکینڈ نہیں لگاؤں گا"

زاہد سرد آنکھیں لیے گن اس کی طرف کیے ہر لفظ پر زور دیتا کہنے لگا 

"زاہد گولی نیچے کرو"

ذامل بھی غصے سے اسے چیخ کر بولا زاہد نے اسے دیکھا۔

"اپنے دادا کو سمجھا دو خود بھی سمجھ جاؤ ورنہ انجام کے ذمہدار تم ہوگے"

زاہد سرد تاثرات سجائے سختی سے ذامل سے کہتے ساتھ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا آدم بھی پیچھے گیا 

"لڑکے کی عمر دیکھو ہم سے مقابلہ کرے گا"

ملک شہراز طنزیہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے ذامل نے مڑ کر انہیں دیکھا مگر خاموش رہا۔

**********

"دیکھا تم نے"

ازقہ اور حور کچن میں کھڑے تھے ازقہ اسے کہنے لگی حور پریشانی سے اثبات میں سر ہلا گئی۔

"یہ دشمنی واپس کبھی دوستی میں تبدیل نہیں ہوسکتی ہے"

ازقہ اسے سنجیدگی سے سمجھانے لگی حور شیلف سے پشت ٹکا گئی۔

"ذامل سے کہوں گی اپنے دادا کو منع کریں"

حور ازقہ جو دیکھ کہنے لگی ازقہ اسے دیکھنے لگی۔

"حور تم کیسے اس پر اعتبار کرسکتی ہو وہ دشمن ہے یہ سوچو"

ازقہ لہجے میں پریشانی لیے اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگی حور نے اسے دیکھا۔

"بجو یقین نہیں کیا میں نے ابھی لیکن آپ تو جانتے ہیں پیار کب ہوتا۔ ہے معلوم نہیں ہوتا آپ تو سمجھیں مجھے"

حور ازقہ کو افسردگی سے دیکھتے امید سے کہنے لگی جس پر ازقہ نے اسے دیکھا اور بس سر کو خم دے گئی حور ہلکا سا مسکرا دی۔

"خیر ابھی تو میں آپ کے نکاح کا ڈریس لینے جارہی ہوں نوال کے ساتھ "

حور مسکرا کر اس کا اور خود کا موڈ ٹھیک کرتے ہوئے بولتی کچن سے چلی گئی ازقہ اسے جاتا دیکھنے لگ گئی ۔

"پتہ نہیں کیوں پر میرا دل کہ رہا ملک ذامل ٹھیک نہیں ہے"

ازقہ حور کو جاتا دیکھ خود سے دل میں بولتی کچن کے کام دیکھنے لگ گئی ۔

***********

زاہد کے مصروف ہونے کی وجہ سے حور ڈرائیور کیساتھ سوٹ لینے کیلیے چل دی تھی اور راستے سے نوال کو اپنے ساتھ لے لیا تھا راشد بابا نے حور کو بازار میں اتارا۔

"جب میں ڈریس لے لوں گی آپ کو کال کردوں گی"

حور راشد بابا سے کہتے ساتھ نوال کے ساتھ بازار کے اندر بڑھ گئی تھی ۔

"حور ملک ذامل کا کیا چکر ہے"

وہ دونوں چیزوں پر نظریں جمائے ساتھ چل رہے تھے نوال نے پوچھا 

"مجھے پیار ہوگیا ہے اس سے"

حور اس کے ساتھ چلتی جیولری کی چیزوں پر نظر ڈالتی جواب دینے لگی نوال اسے دیکھنے لگی۔

"پیار سچ میں "

نوال بےیقینی سے اسے دیکھ کر کہنے لگی حور نے بھی اسے دیکھا ۔

"تو مذاق میں "

حور اسی کے انداز میں اسے جواب دینے لگی نوال اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

"حورِ جان کو کب سے پیار ویار میں یقین ہونے لگا"

نوال اسی پر نظریں ٹکائے سنجیدگی سے پوچھنے لگی

"ملک ذامل نے کروایا ہے"

حور اطمینان سے اسے بغیر دیکھے جواب دینے لگی نوال کے لب مسکرا دیا

"تم جانتی ہو اس کا انجام کیا ہوگا"

نوال مسکراتے ہوئے اس سے پوچھنا لازم سمجھنے لگی

"انشاء اللہ اچھا ہوگا اچھے کی امید رکھنی چاہیے "

حور اسے ہمیشہ کی طرح پرسکون انداز میں جواب دینے لگی نوال نفی میں سر ہلا گئی اور وہ دونوں کپڑوں والی جگہ کی طرف بڑھ گئی ایک لڑکا سائیڈ سے گزر رہا تھا جان کر حور کو ٹکر مارے آگے بڑھ گیا حور نے مڑ کر چہرے پر سرد تاثرات سجائے اس شخص کی پشت کو گھورا

"اوہ"

حور اونچی آواز میں اس کی جانب بڑھتی اسے پکارنے لگی نوال نے سر پر ہاتھ رکھا 

"اندھے ہو کیا اللہ نے یہ دو آنکھیں نام کی دی ہیں "

حور اس کے سامنے آکر کھڑی ہوتی سینے پر بازو باندھے اسے سرد لہجے میں پوچھنے لگی ۔

"جی"

وہ شخص پریشانی سے حور کو دیکھتا انجان بنا حور کے لب مسکرا دیے 

"اداکاری اچھی کرلیتے ہو "

حور اسے بولتے ساتھ ایک زوردار تھپڑ اس کی گال پر رسید کر گئی وہ شخص گھبرا سا گیا وہاں موجود لوگ اکٹھے ہو گئے۔

"جو بھی ہو تم اللہ نے یہ دو آنکھیں دیکھنے کیلیے دی ہیں تو ان آنکھوں سے دیکھ کر تمیز سے بازاروں وغیرہ میں چلا کرو اور آئندہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے اس تھپڑ کو یاد رکھنا"

حور  غصے سے ہر لفظ چبا چبا کر اسے دیکھ بولنے لگی وہ شخص حور کو غصے سے دیکھنے لگا۔

"تیر"

ابھی وہ اس کی طرف مکہ بنائے بڑھا ہی تھا کہ ذامل اس کے سامنے آتا اس کا مکہ پکڑ گیا حور اسے دیکھنے لگی ہمیشہ کی طرح وہ یہاں بھی پہنچ گیا 

"نکل"

ذامل سرخ آنکھیں لیے سخت لہجے میں اسے کہنے لگا وہ شخص باری باری دونوں پر نظر ڈالتا خاموشی سے نکل گیا ذامل نے مڑ کر حور کی جانب دیکھا 

"چلو نوال"

حور نوال کا ہاتھ تھامتی ذامل کو نظر انداز کرتے ہوئے دکان کے اندر بڑھ گئی ذامل اس کے پیچھے آیا۔

"کیا ہوا ہے؟"

حور جو اپنے لیے ڈریس پسند کررہی تھی ذامل کی آواز سے اس طرف دیکھا

"کچھ نہیں"

حور اسے مختصر سا جواب دیتے ساتھ ڈریس دیکھنے لگ گئی۔

"اچھا نہیں ہے یہ"

وہ حور کی آنکھوں کا تعاقب کرتا نظریں ڈریس کی جانب کرتے ہوئے کہنے لگا 

"اچھا مشورہ نہیں مانگا"

حور سنجیدگی سے اسے جواب دیتی دوسرا ڈریس دیکھنے لگی ذامل اسے دیکھنے لگا

"کیوں ناراض ہو"

ذامل اسے سنجیدہ دیکھ پریشانی سے پوچھنے لگا نوال دوسری طرف ڈریسز دیکھ رہی تھی ۔

"تمہیں تو کچھ معلوم ہی نہ ہو"

حور اب کی بار پوری طرح اس کی جانب مڑتے ہوئے خفگی سے کہنے لگی

"میرا تو قصور نہیں"

ذامل معصوم شکل بنائے اسے کہنے لگا حور اسے بس دیکھتی رہ گئی

"زیادہ معصوم مت بنو ٹھیک ہے اپنے دادا کو منع بھی تو کرسکتے تھے تم"

حور اسے گھورتے ہوئے نقاب ٹھیک کرتی کہنے لگی 

"حور انہوں نے مجھے نہیں بتایا وہ ایسا کچھ کررہے ہیں"

ذامل بھی اب کی بار سنجیدگی سے اسے وضاحت دینے لگا حور نے اسے دیکھا

"بہرحال اگر ایسا رہا تو یہ دشمنی ہمیشہ قائم رہے گی بہتر ہے اپنے دادا کو ایسے کاموں سے روکو"

حور اسے دیکھ جواب دیتے ساتھ آگے کی جانب بڑھ گئی ذامل بھی اس کے پیچھے آیا۔

************

"افف اللہ یہ لڑکا مجھے گرمی میں فضول کا باہر کھڑا کیا ہوا ہے"

شہریار جو ذامل کیساتھ آیا تھا ذامل اسے باہر کھڑا کرتا اندر چلا گیا تھا اور اب شہریار کی بس ہو گئی تھی وہ دکان کے اندر داخل ہوا تو سامنے ہی نظر نوال پر گئی نوال جو ڈریسز دیکھ رہی تھی نظر دروازے کی طرف کی سامنے موجود شخص کو دیکھ اسے حیرت ہوئی

"تم یہاں کیا کررہے ہو"

نوال اسے دیکھ غصے سے پوچھنے لگی شہریار اسی۔ کو دیکھ رہا تھا

"یہ سوال میں آپ سے بھی کرسکتا ہوں"

شہریار اسے نرمی سے مسکراتے ہوئے کہنے لگا نوال نے دکان میں نظر دوہرائی

"میرے خیال سے اس دکان میں صرف لڑکیوں کے کپڑے موجود ہیں"

نوال اسے دیکھ مسکرا کر سرد لہجے میں بتانے لگی شہریار نے بھی دکان پر نظر گھمائی

"اوہ آئی سی "

شہریار مسکراتے ہوئے اسے جواب دینے لگا نوال اثبات میں سر ہلا گئی ۔

"میرا دوست یہی ہے"

شہریار اسے بتاتے ساتھ ذامل کو ڈھونڈنے لگا نوال اسے نظر انداز کرتی کپڑے دیکھنے لگی 

*************

"یہ اچھا ہے"

حور جو۔ کب سے ڈریسز دیکھ رہی تھی مگر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا ذامل نے ایک ڈریس نکال کر اسے دیا حور نے وہ دیکھا بےبی پنک کلر کا ڈریس حور کو اچھا لگا 

"واقع اچھاہے"

حور کہتے ساتھ اس کے ہاتھ سے لیتی کاوئنر کی طرف بڑھ گئی

تبھی شہریار کی نظر ذامل پر گئی اور وہ۔ اس طرف بڑھا

"ذامل"

شہریار اسے پکارنے لگا ذامل نے گردن موڑ کر اسے دیکھا 

"دو منٹ"

وہ کہتے ساتھ جیب سے والٹ نکالنے لگا حور نے اسے دیکھا

"میرے پاس ہیں"

حور نے فورا جواب دیتے ساتھ پرس سے پیسے نکالے دکان والا بھی ان دونوں کو ساتھ حیران تھا پورا گاؤں ان ملک اور چوہدری خاندانوں کی دشمنی سے بخوبی واقف تھا

"واپس دو"

اس دکان والے کو حکم والے انداز میں کہنے لگا اس نے حور کو واپس کردیے ذامل نے اسے پیسے تھمائے حور اسے دیکھنے لگی 

"ہو گئی شاپنگ"

نوال حور کے پاس آتے ہوئے پوچھنے لگی شہریار نے اسے دیکھا حور نے اثبات میں سر ہلا دیا اور پھر چاروں دوکان سے باہر آ گئے۔

آج چوہدری حویلی میں زاہد اور ازقہ کا نکاح تھا اور افراتفری سی پوری حویلی میں پھیلی ہوئی تھی ہر کوئی کاموں میں مصروف تھا 

ازقہ کے ہاتھوں میں زاہد کے نام کی مہندی لگ رہی تھی جبکہ اس کے پاس کھڑی حور اس کا نکاح کا ڈریس دیکھ رہی تھی ۔

"افف بجو آج تو اپنے بہت ہی کمال لگنا ہے"

وہ مسکراتے ہوئے ازقہ کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر ازقہ مسکرا دی تھی ۔

"جاؤں تم تیار ہو پھر ہمیشہ کی طرح دیر کردو گی"

ازقہ اسے فورا سے کہنے لگی جس پر حور منہ بنا گئی اور ٹھیک ہے کہتی کمرے کا رخ کر گئی تھی 

گھڑی اسوقت شام کے چار بجا رہی تھی وہ نہا کر کمرے میں آئی اور بال سکھانے لگی کچھ دیر میں بال سکھا کر ڈریسنگ کے سامنے آکر کھڑی ہوتی وہ اپنے گھنگڑالے بالوں کو سلجھانے لگی اور مرر میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔

"کھلے بالوں میں تو اور بھی حسین زیادہ لگتی ہو"

ذامل اس کے پیچھے کھڑا اپنا عکس شیشے سے دیکھتا نظریں اس کے چہرے پر جمائے اسے کہنے لگا حور کی سانس رک سی گئی اور مڑ کر اسے دیکھا

"تم پاگل ہو"

حور اسے حیرت سے دیکھ ہلکی آواز میں پریشانی سے کہنے لگی ذامل سینے پر بازو باندھے اسے دیکھنے لگا۔

"کیا ہوا"

وہ آئبرو اچکائے اسے دیکھ پوچھنے لگا حور نے فورا دروازے کو لاک کیا۔

"دماغ ٹھیک ہے ہلکا سا بھی شک ہوگیا نا دادا یا لالا کو تمہاری لاش جائے گی اس حویلی سے"

حور اس کے پاس آکر اسے دیکھ گھورتے ہوئے کہنے لگی ذامل بیڈ پر پرسکون سا بیٹھ گیا۔

"ذامل تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی ہے کیا ہاں اور تم اندر کیسے آئے "

وہ اس کے سامنے آکر پریشانی سے اسے دیکھ پوچھنے لگی ذامل نے نظریں جھکا کر پیروں کی طرف اشارہ کیا حور نے خفگی سے اسے دیکھا۔

"یار ٹاپ کر ہی آ سکتا ہوں"

ذامل اسے بتانے لگا حور اسے دیکھ رہی تھی

"نہیں جانا تم نے"

حور اسے آنکھیں دیکھائے پوچھنے لگی ذامل نفی میں سر ہلا گیا۔

"ذامل"

حور نے غصے سے اسے پکارا کیونکہ اسے اسوقت شدید خوف محسوس ہورہا تھا۔

"اتنا کیوں ڈر رہی ہو جان؟"

ذامل اسے اس قدر پریشان دیکھ نرمی سے پوچھنے لگا 

"کیونکہ ڈرنے والی بات ہے دیکھو ذامل نکاح ہے لالا کا بہت سے ملازم گھوم رہے ہیں جاؤ یہی بہتر ہے"

حور اب دھیمے لہجے میں اسے سمجھانے والے انداز میں کہنے لگی۔

"لیکن میرا تمہیں دیکھنے تم سے باتیں کرنے کا دل ہے"

ذامل بیڈ سے اٹھ کر اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہنے لگا حور جو بار بار گردن گھما کر دروازہ دیکھ رہی تھی اسے مڑ کر دیکھا ۔

"میں تم سے ملنے آؤں گی پرامس"

حور مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے بولی ذامل کے بھی لب مسکرائے اور وہ اس کی جانب قدم بڑھا گیا۔

"پرامس؟"

ذامل اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے پوچھنے لگا اس کے قریب آنے اور اس کی خوشبو سے حور کنفیوز ہوتی سر جھکائے اثبات میں سر ہلا گئی ۔

"میں انتظار کروں گا"

ذامل اس کے کان کے قریب لب لاتا گھمبیر لہجے میں اسے کہنے لگا حور کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی وہ آنکھیں بند کر گئی ذامل ایک نظر اس پر ڈالتا خاموشی سے چلا گیا۔

"پاگل"

وہ اس کے جانے کے بعد مسکرا کر کہنے لگی اور اپنا ڈریس وارڈروب سے نکالنے کیلیے بڑھ گئی۔

***********

نکاح کا سارا انتظام میں لان کیا گیا تھا جسے بہت خوبصورتی اور نفاست سے سجایا گیا تھا۔

زاہد اس وقت اپنے کمرے میں کھڑا سفید رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس بالوں کو نفاست سے سجائے وہ چہرے پر چمک لیے بہت اچھا اور وجیح لگ رہا تھا۔

"آج تو پھر بلآخر زاہد چوہدری کی محبت اس کے نکاح میں ہوگی"

جبران کمرے میں آتا اسے دیکھ کر بولا جس پر وہ سر کو خم دے گیا

"الحمدللہ"

وہ مسکراتے ہوئے خوشی سے کہنے لگا تبھی صارم بھی آیا۔

"بھائی لوگوں کے چہرے سے آج مسکراہٹ ہی نہیں جارہی ہے "

صارم بھی اسے دیکھ کر کہتا تنگ کرنے لگا زاہد نے اسے گھورا تھا جس پر وہ سیدھا ہوا۔

حور پنک کلر کے خوبصورت سے ڈریس لائٹ سے میک میں بالوں کو کھولے سائیڈ پر کام دار دوپٹہ لیے وہ بےحد حسین لگ رہی تھی وہ ایک تنقیدی نگاہ شیشے پر چلی گئی 

حور ازقہ کے کمرے میں آئی جو سفید رنگ کے نفیس سے جوڑے میں کام دار دوپٹہ سر پر کیے لائٹ سے میک ایپ میں ہونٹوں پر  پنک لپسٹک لگائے ہیوی جیولری میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی 

"ماشاءاللہ"

حور اسے شوق نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی ازقہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرا دی۔

"حور ازقہ کو لے آؤ "

ہاجرہ بیگم دروازے پر دستک دے کر کہتے ساتھ اوپر کا رخ کر گئی 

"چلیں آپ کے دلہے صاحب آپ کا انتظار کررہے ہیں"

وہ مسکرا اسے چھیڑتے ہوئے کہنے لگی جس پر ازقہ نظریں جھکائے کھڑی ہوئی تھی ۔

************

زاہد پہلے سے ہی سٹیج پر بیٹھا تھا ازقہ حور اور دراب چوہدری کیساتھ چلتی ہوئی آرہی تھی آدم کی نظر حور پر گئی جو چہرے پر مسکراہٹ سجائے آرہی تھی وہ اسے سر تا پیر دیکھنے لگا حور کی نظر بھی اس پر گئی اور اس کی غلیظ نظریں خود پر محسوس کرکے وہ گھور کر بس رہ گئی 

ازقہ کو اسٹین پر لائٹ اور زاہد کے سامنے بٹھایا بیچ میں نیٹ کا پردہ تھا زاہد کی نظر اس پر جمائی ہوئی تھی وہ اسوقت اسے دنیا کی سب سے حسین لڑکی لگ رہی تھی زاہد کے لبوں پر خودبخود مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔

"نکاح شروع کروائیں مولوی صاحب"

حاکم چوہدری نے مسکراتے ہوئے کہنے لگا جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئے

نکاح شروع ہو گیا حور مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ رہی تھی ناچاہتے ہوئے بھی اسے اپنے اور ذامل کا خیال آ گیا۔۔

تبھی حور کا فون بجا نکاح ہو چکا تھا حور نے نظریں سکرین کی جانب کی ذامل کا فون آرہا تھا حور نے کال کٹ کردی  ہاجرہ بیگم اپنے بیٹے کے چہرے پر خوشی صاف دیکھ سکتی تھی وہ بھی مسکرا دی انہیں ابرار چوہدری کی اسوقت شدید کمی محسوس ہوئی تھی۔۔ 

"پیارے لگ رہے ہیں"

نوال مسکراتے ہوئے بولی حور اثبات میں سر ہلا گئی 

حور کا فون پھر بجا حور نے پھر کال کٹ کردی فوراً ہی دوبارہ فون بجا حور ارد گرد نظر ڈالتی سائیڈ پر آئی۔

"کیا ہے مصروف ہوں میں"

حور غصے سے فون اٹھاتی اسے ہلکی آواز میں بولتی نظریں ارد گرد گھمانے لگی۔

"کمرے میں آؤ"

ذامل نے اسے فورا بولا حور نے ایک نظر فون پر ڈالی اور کال بند کرکے وہ آس پاس دیکھتی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

حور کمرے میں آکر دروازہ بند کرتے بیلکونی کی جانب بڑھی اور کھڑکی کھولی ذامل وہاں موجود تھا حور اسے دیکھ پریشان ہوئی 

پنک کلر میں ذامل کو حور اسوقت بےحد حسین لگ رہی تھی چہرے پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی اس کے اندر بہت سے جذبات پیدا ہوئے مگر خود پر قابو پا گیا۔

"حسین"

وہ مڑ کر اس کے پاس آتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا حور اسے گھور رہی تھی ۔

"تم جان کر ہم دونوں کو پکڑوانا چاہتے ہو ہے نا ؟"

وہ اسے دیکھتے ہوئے غصے سے کہنے لگی ذامل کے لب مسکرا دیے ۔

"آج نہیں تو کل پکڑے جانا ہے ڈر کس بات کا ہے"

وہ اسے دیکھ اطمینان سے ہمیشہ کی طرح جواب دینے لگا۔

"میں نہیں چاہتی مجھے تمہارے ساتھ کوئی ایسے دیکھے میں خود بتانا چاہتی ہوں"

حور منہ بنا کر اسے کہنے لگی ذامل اسے دیکھنے لگا۔

"اچھا یعنی تم خود مقابلہ کرو گی؟"

ذامل آئبرو آچکائے اس سے مسکرا کر بولا حور نے اسے دیکھا

"ظاہری بات ہے محبت کی تو اسے پھر نبھانا تو ہے کیوں تم نہیں کرو گے"

حور اسے دیکھ کر جواب دیتی اس سے پوچھنے لگی 

"میری بات کرنے کی نوبت نہیں آئے گی"

ذامل اسے دیکھ جواب دینے لگا حور نے فورا اس کی جانب دیکھا 

"کیا مطلب ؟"

حور ناسمجھی سے اس سے پوچھنے لگی 

"میرے دادا مان جائیں گے"

ذامل نے اسے اپنا جواب دے کر تسلی بخشی حور اثبات میں سر ہلا گئی ۔

"جاؤ اب "

حور اسے باہر کی طرف جانے کا اشارہ کرنے لگی جب ذامل نے اسے دیکھا ۔

"خود کو دل بھر کر دیکھنے تو دو"

وہ تھوڑا قریب آکر اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے کہنے لگا حور پیچھے ہوئی

"دیکھنے کیلیے ساری عمر پڑی ہے بائے"

حور اسے مسکرا کر کہتے ساتھ کھڑکی بند کر گئی جس پر ذامل نفی میں سر ہلا گیا۔

**********

سارے مہمان آہستہ آہستہ جارہے تھے ازقہ زاہد کیساتھ گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی 

"آج تو کچھ لوگ مارنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں"

زاہد نظریں سامنے مرکوز کیے اس کے کان میں سرگوشی کرنے لگا ازقہ کے لبوں پر شرمیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ اپنا سر مزید جھکا گئی اس کا شرماتا روپ دیکھ کر زاہد کے لبوں پر بھی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔

"کہاں تھی تم"

حور جو باہر لان کی طرف بڑھ رہی تھی آدم اس کے سامنے آکر راستہ روکتا پوچھنے لگا حور نے اسے دیکھا

"میں جہاں مرضی تم سے مطلب"

حور اپنے بسل ٹھیک کرتی ایک ادا سے کہتے ساتھ سائیڈ سے گزر گئی اور وہ اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔

حاکم چوہدری کے بعد سب نے دونوں کو مبارکباد باد دی تھی جس پر وہ دونوں جواباً شکریہ بولے تھے۔۔

*********

ذامل گھر آیا تو ملک شہراز کو ٹی وی لاؤنچ میں موجود پایا 

"کہاں سے آرہے ہو ذامل"

ملک شہراز کی نظر جیسے ہی اس پر گئی تو وہ اس سے پوچھنے لگے

"شہروز کے پاس تھا"

وہ انہیں جواب دیتے ساتھ ان کیساتھ ہی خاموشی سے بیٹھ گیا جس پر ملک شہراز نے اسے دیکھا

"میرا کام کب ہوگا ذامل"

وہ اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگے ذامل نے سن کی طرف دیکھا۔

"بہت جلد"

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ انہیں جواب دینے لگا ملک شہراز کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"انتظار ہے"

وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولے ذامل سنجیدگی سے بس انہیں دیکھ رہا تھا اور خاموشی سے اٹھ کر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

***********

حور کمرے میں آکر چینج وغیرہ کرکے بیڈ پر بیٹھی اسے یقین تھا ذامل اسے کال کرے گا فون ہاتھ میں لیے وہ اس کی کال کا انتظار کرنے لگی۔

ذامل کی باتیں سوچتے ہوئے وہ مسکرا دی تھی۔

دوسری طرف ذامل اپنے روم میں بیٹھا سگریٹ کے گہرے گہرے کش لگانے میں مصروف تھے چہرے سے صاف ظاہر تھا وہ اسوقت بےحد پریشان ہے بیڈکراؤن سے سر ٹکائے وہ سکون کی تلاش میں تھا جو شاید اس وقت ایک ہی سے ملنا تھا۔

"سو گئے کیا؟"

حور کچھ دیر اس کا انتظار کرتے ہوئے خود ہی اس کے نمبر پر ٹیکسٹ کر گئی۔

ذامل جو بید کراؤن سے سر ٹکائے ہوئے تھا فون پر میسیج ٹون بجی تو نظریں فون سکرین پر کر گیا اور اوپر جان کا میسیج پڑھ کر اس کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی

"تم ذامل کیلیے سکون کا احساس ہو جان"

وہ فون اٹھا کر اس کے نمبر پر کال کرتے ہوئے خود سے کہنے لگا جب تیسری بیل پر فون اٹھایا گیا

"انتظار کررہی تھی میرا"

ذامل فون کان سے لگائے گھمبیر لہجے میں پوچھنے لگا حور کی بیٹ مس ہوئی

"نہیں نیند نہیں آرہی تو ایسے ہی میسیج کردیا"

حور اترا کر اسے منہ بنائے جواب دینے لگی ذامل کے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی

حور کی آواز سنتے ہی ملک ذامل کے لبوں پر ایک خوبصورت سج جایا کرتی تھی۔

"ایسا ہے کیا"

وہ مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔

"جی بلکل"

وہ بھی اسی کے انداز میں جواب دیتی مسکرا دی اور کچھ دیر دونوں یوں ہی کال کرتے رہے تھے۔

حور کی کوئی نہ کوئی بات ذامل کو مسکرانے پر مجبور کررہی تھی 

زاہد اور ازقہ نکاح کو دو ہفتے گزر چکے تھے اور ان سب کے دوران حور کو ذامل سے باتیں کرنا اسے دیکھنا ایک بری عادت بن گئی تھی۔

حور نوال کیساتھ کالج کی چھٹی کے وقت نیچے آئی نظر گیٹ کی جانب کی ذامل کو کو نہ دیکھ چہرے مرجھا سا گیا تھا۔

"نوال وہ نہیں آیا"

حور نوال کی جانب دیکھتے افسردگی سجائے کہنے لگی نوال اسے دیکھنے لگی۔

"حور"

نوال حیرانگی سے اس کا نام پکارنے لگی حور اسے دیکھ رہی تھی ۔

"یار سمجھ سے باہر ہے بری عادت بن گیا ہے وہ میری مجھے ہر وقت وہ اپنے قریب چاہیے ہے اب"

حور گراؤنڈ میں بیٹھتے ہوئے لہجے میں اداسی سجائے اسے بتانے لگی نوال اسے دیکھ رہی تھی ۔

"اب معلوم ہوگیا ہے عشق جب ہونا تو انسان اپنے ہوش کومھو بیٹھتا ہے"

وہ اسے آئبرو اچکائے  مسکراتے ہوئے کہنے لگی حور اثبات میں سر ہلا گئی ۔

"یار مجھے پتہ ہے وہ اسوقت کہاں ہوگا میرے ساتھ چلے گی پتہ نہیں کیوں نہیں آیا وہ"

حور نوال کو امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی نوال اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

"حور تو پاگل ہے کیا"

نوال اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے کہنے لگی۔

"مجھے نہیں پتہ مجھے اسوقت اس کے پاس جانا ہے دوست ہے نا چل لے میں گھر فون کردیتی ہوں مجھے آدھا گھنٹہ لیٹ لینے آئے کلاس ہے ایکسٹرا"

حور اسے ضدی انداز میں اسرار کرتے ہوئے کہنے لگی نوال اسے دیکھ کر خاموش ہو گئی حور مسکرا کر فون ملانے لگی۔

***********

"حور کو دیر نہیں ہوگئی ہے"

ہاجرہ بیگم گھڑی پر نظر ڈالتی زاہد کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی

"جی اس کی ایکسٹرا کلاس ہے اس وجہ سے "

زاہد کھانا کھاتے ہوئے ہاجرہ بیگم کو بتانے لگا ہاجرہ بیگم اسے دیکھنے لگی۔

"آج سے پہلے تو نہیں ہوئی کوئی ایکسٹرا کلاس آج کیسے"

ہاجرہ بیگم فورا سے پریشانی سے کہنے لگی ازقہ نے انہیں دیکھا ۔

"ہاں پہلی دفعہ ہی سنا ہے"

حاکم چوہدری بھی پریشانی سے بولے ازقہ نے سن دونوں کی جانب دیکھا۔

"ایک دو دفعہ ہوئی ہے تائی"

ازقہ فوراً سے مسکراتے ہوئے معاملہ سنبھالتی کہنے لگی ہاجرہ بیگم اثبات میں سر ہلا گئی

"ہوئی ہوگی پھر "

کہتے ساتھ وہ کچن کی طرف بڑھ گئی اور ازقہ نے سکھ کا سانس لیا تھا۔

ازقہ ڈش ڈائننگ ٹیبل پر رکھ رہی تھی زاہد کی نظر اس کے ہاتھ پر گئی تو زاہد نے الٹا ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ازقہ ایک دم ساکت ہوگئی اس نے نظر اٹھا کر ڈائننگ ٹیبل پر موجود  لوگوں پر ڈالی جو کھانے میں مصروف تھے اور پھر زاہد کو دیکھا 

"کیا کررہے ہیں کوئی دیکھ لے گا"

ازقہ دھیمی آواز میں زاہد کو بولی زاہد کے لبوں پر مسکراہٹ آئی وہ ہاتھ ہاتھ اپنے ہونٹوں کے قریب لے جانے لگا ازقہ آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھتی ہاتھ تیزی سے چھڑوا کر اندر کی جانب بھاگی اور وہ اسے جاتا دیکھنے لگا۔۔

**********

حور نوال کو لیے ڈیڑے پر آئی جہاں ذامل اور شہریار دونوں موجود تھے ذامل سگریٹ پی رہا تھا جبکہ شہریار اس کے ساتھ بیٹھا فون استعمال کررہا تھا۔

حور اس کی جانب بڑھتی سینے پر بازو باندھے گھور کر اسے دیکھنے لگی ذامل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"تم"

ذامل حور کو دیکھ حیرانگی سے ایکدم کھڑا ہوتا پوچھنے لگا 

"جی میں"

حور لہجے میں خفگی لیے اسے کہنے لگی شہریار بھی فون سے دھیان ہٹاتا نظریں اوپر کی جانب کر گیا حور کیساتھ نوال کو دیکھ لب مسکرائے نوال اسے دیکھ منہ بنا گئی۔

ذامل نے فوراً سگریٹ پھینکی اور اپنے بال درست کرنے لگا

"اب کیوں پھینکی ہے ہاں بتاؤ"

حور غصے سے آنکھیں دیکھائے اس سے کہنے لگی ذامل اسے دیکھ رہا تھا

"تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا جان "

ذامل اس کی بات نظر انداز کرتا بھاری آواز میں اسے کہنے لگا

"پہلی میری بات کا جواب دو سگریٹ کیوں پھینکی بہت شوق ہے خود کو بیمار کرنے کا صحیح ضروری تھوڑی تمہارے لیے ہے نا"

حور غصے سے آنکھیں دیکھاتے ہوئے اسے دیکھ سرد لہجے میں کہنے لگی 

"سوری آج کے بعد نہیں پیوں گا"

ذامل اسے نرمی سے کہتے ساتھ نظریں ارد گرد گھمانے لگا۔

"نہیں پیوں دن میں پچاس میری بلا سے ہونہہ کیوں فکر ہی نہیں ہے اپنی"

حور ابھی بھی غصے میں اسے بولی ذامل کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"تم ہو نا فکر کرنے کیلیے"

وہ حور کے تھوڑا قریب آتا پیار سے کہنے لگا شہریار اور نوال نے فورا ایک دوسرے کو دیکھا 

"مجھے لگتا ہے دور چلے جانا چاہیے"

شہریار فوراً سے چہرہ موڑ کر بولا نوال بھی چہرہ موڑ گئی اور وہ دونوں ان دونوں سے تھوڑا فاصلے پر جا کھڑے ہوئے۔

"حور تمہیں جانا ہوگا ابھی ہم کال پر بات کریں گے"

ذامل حور کو دیکھتے ہوئے فکرمند سا  بولا حور کے لب مسکرا دیے۔

"تم کیوں ڈر رہے ہو کالج کیوں نہیں آئے ہاں"

حور اسے مسکرا کر کہتی منہ بنائے پوچھنے لگی ذامل اسے دیکھنے لگا۔

"خود ہی تو منع کیا تھا مجھے"

ذامل اسے یاد دلانے لگا حور اسے دیکھنے لگی۔

"مگر تم پھر بھی آتے تھے نا آج کیوں نہیں آئے"

حور چہرے پر معصومیت سجائے اداسی سے پوچھنے لگی۔

"تمہارے لیے مجھے لگتا ہے راشد کو شک ہوگیا تھا مجھ پر میں رات میں آؤں گا"

ذامل اسے سمجھانے والے انداز میں کہنے لگا حور نے نظر نوال ہی جانب کی

"پکا"

حور نے اسے دیکھے بغیر پوچھا ذامل کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"پکا"

ذامل اسی کے انداز میں اسے جواب دینے لگا حور نے نظریں اس کے چہرے پر جمائی۔

"سگریٹ مت پینا تمہارے ہونے والی مسز کو پسند "

حور اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی ذامل اثبات میں سر ہلا گیا۔

"جو حکم"

وہ مانتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا حور ہنس دی اور ذامل اسے دیکھ رہا تھا ۔

"اگر آپ بور ہورہی ہیں تو میں کمپنی دے سکتا ہوں"

شہریار نوال کو ادھر ادھر بیزاریت سے نظریں گھماتا دیکھ مسکرا کر کہنے لگا نوال نے آنکھیں اس کی جانب کی

"اتنے برے دن نہیں ہے ابھی میرے سمجھے"

نوال اسے دیکھ منہ بنا کر بولتی اس سے دور کھڑی ہوگئی شہریار اس کیبات پر برا سا منہ بنا گیا ۔

"نوال"

حور کی آواز سے نوال نے مڑ کر اسے دیکھا جو اسے آنے کا اشارہ کررہی تھی ۔

"ٹھیک ہے میں چلتی ہوں انتظار کروں گی"

حورذامل کو دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ نوال کا انتظار کرنے لگی۔

"سنو آئی لو یو"

ذامل اس کے کان کے قریب لب لائے گھمبیر لہجے میں بولتا حور کی ہارٹ بیٹ مس کروا گیا

"آئی ہیٹ یو"

حور مسکراتے ہوئے نظریں جھکائے اسے جواب دینے لگی ذامل ہنس دیا اور حور اس کی ہنسی دیکھنے لگی 

تبھی نوال آگئی اور وہ دونوں چل دیے جاتے جاتے حور نے مڑ کر اسے دیکھا جس کے چہرے پر اب مسکراہٹ غائب تھی اسے مسکرانے کا اشارہ کرکے حور وہاں سے چلی گئی ۔

*********

"اتنی دیر کیوں لگ گئی حور"

حور ابھی حویلی میں داخل ہوئی تھی حاکم چوہدری اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگے حور نے ان کی جانب دیکھا۔

"وہ دادا ایکسٹرا کلاس تھی بس"

حور ان کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے نقاب نیچے کرتی بتانے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئے۔

"ہاجرہ بیگم میری گڑیا کا کھانا لگا دیں "

وہ اسے تھکا ہوا دیکھ فوراً سے ہاجرہ بیگم کو آواز دیتے ہوئے بولے حور کے لب مسکرا دیے۔۔

"جی ابا جان"

ہاجرہ بیگم ہی کچن سے فوراً آواز آئی اور حور چینج کرنے کیلیے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔

چینج وغیرہ کرکے ڈائننگ ٹیبل پر آکر بیٹھی تو ازقہ اس کیلیے کھانا لگا رہی تھی حور نے اسے دیکھا جو چہرے پر سنجیدگی سجائے ہوئے تھی۔

"کہاں سے آرہی ہو"

ازقہ اسے دیکھے بغیر لہجے میں سنجیدگی لیے پوچھنے لگی حور نے اسے دیکھا ۔

"بتایا تو ہے"

حور گھبرائے ہوئے لہجے میں جواب دینے لگی ازقہ کے لب مسکرا دیے ۔

"ذامل کے پاس گئی تھی نا"

وہ دھیمے لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی حور نے نظریں اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا۔

"نن۔۔نہیں"

حور ناچاہتے ہوئے کانپتے ہوئے جواب دینے لگی ازقہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

"اب اپنی بجو سے بھی جھوٹ بولو گی تم ہے نا حور تمہیں معلوم ہے اگر حویلی میں سے کسی کو بھی پتہ چل جاتا تمہارے ساتھ کیا ہوتا ہے تم تو بلکل بیوقوف ہوگئی ہو"

ازقہ اس کے پاس کرسی کھسکا کر بیٹھتی اسے دیکھ تھوڑا خوفزدہ کرتی کہنے لگی۔

"میں لڑ لوں گی"

حور ازقہ کو صاف جواب دیتی کھانا کھانے لگ گئی ازقہ دو منٹ اسے دیکھتی رہ گئی ۔

"صرف ایک مہینہ ہوا ہے اسے تمہاری زندگی میں آئے اور تم بلکل بدل گئی ہو"

ازقہ اسے دیکھتے ہوئے اداسی سے کہنے لگی حور اسے دیکھنے لگی۔

"میں بدلی نہیں ہوں پیار ہی تو کیا ہے گناہ تو نہیں آپ میرا ساتھ نہیں دے رہی جبکہ آپ نے کہا تھا آپ ہمیشہ میرے ساتھ ہوں گی"

حور ازقہ کو دیکھتے ہوئے ہر لفظ پر زور دیتی جواب دینے لگی ازقہ حور کا لہجہ دیکھ رہی تھی 

"یہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں لگ رہا ہے"

ازقہ لہجے میں نرمی لیے اسے سمجھاتے ہوئے بولی حور کے لب مسکرا دیے ۔

"چھوٹی بچی نہیں ہوں میں اپنے کیے اچھا برا جانتی ہوں"

حور غصے سے جواب دیتی ہامی کا گلاس لبوں سے لگا کر پانی پیتی اٹھ گئی ازقہ اسے خالی نظروں سے  جاتا  دیکھنے لگی۔

**********

ذامل حور سے ملنے کیلیے پچھلے طرف سے حور کے کمرے کی طرف آرہا تھا جب کسی وجود سے ٹکرایا ۔

"کون ہے"

آدم فورا سیدھا ہوتا غصے سے پوچھنے لگا ذامل اس کے سامنے کھڑا تھا ۔

"ملک ذامل تم"

آدم حیرانگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ذامل اثبات میں سر ہلا گیا۔

"تم ہماری حویلی کے باہر کیا کررہے ہو"

آدم تفتیشی انداز میں اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ذامل نے گردن گھما کر حویلی کو دیکھا ۔

"کیوں کہاں لکھا ہے تمہاری حویلی کے باہر کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا "

ذامل اسے دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں پوچھنے لگا آدم اسے دیکھ رہا تھا ۔

"نہیں کوئی وجہ بھی تو ہو"

آدم اسے گھور کر دیکھتے ہوئے جاننا لازمی سمجھنے لگا۔

"میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا"

ذامل اسے کہتے ساتھ مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ گیا آدم ایک نظر اسے جاتا دیکھ کندھے اچکا کر حویلی کے اندر بڑھ گیا 

آدم کے جاتے ہی وہ فوراً مڑا اور حویلی کے اندر داخل ہوا اور حور کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔

*********

"جان"

وہ کھڑکی پر دستک دیتا ہلکی آواز میں اسے پکارنے لگا حور فوراً سے کھڑکی کی طرف بڑھی اور اور کھولی اسے دیکھتے ہی لب مسکرائے تھے دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرائیں تھی اور دونوں کے لب مسکرا رہے تھے۔

"یہی تو کمالِ عشق ہے جانب

محبوب کو دیکھتے ہی لب مسکرادے"(از "ماہ نور شہزاد")

"انتظار کررہی تھی میرا"

ذامل اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے مسکرا کر پوچھنے لگا

 "بلکل نہیں ہونہہ"

حور ایک ادا سے اسے بولی ذامل اس کے قریب تھوڑا لایا

"اچھا مگر آنکھیں تو کچھ اور بول رہی ہیں"

حور کی آنکھوں کو غور سے دیکھتا وہ اسے بتانے لگا حور نظریں جھکا کر مسکرا دی 

"ہنسی تو پھنسی"

ذامل اسے فوراً سے بولا حور قہقہ لگا کر ہنسی اور اثبات میں سر ہلا گئی۔

"ذامل تم سچ میں مجھ سے محبت کرتے ہو نا باقیوں کی طرح صرف ٹائم پاس تو نہیں کررہے"

حور اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے یہ سوال پوچھنے لگی کچھ پل ذامل اسے دیکھتا رہا 

"ایک بات یاد رکھنا جان ملک ذامل کی دھڑکن ایک لڑکی کے سامنے آنے پر ہی دھڑکتی ہے اسے دیکھ کر ہی لبوں پر مسکراہٹ آتی ہے ملک ذامل اپنی حورِ جان کو سچے دل سے چاہتا ہے"

ذامل حور کے چہرے پر نظریں مرکوز کیے اسے دیکھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں بتانے لگا اس کی آنکھیں اس کے الفاظوں کی سچائی کا ثبوت دے رہی تھی  حور بھی اسی کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی دونوں کی ہارٹ بیٹ بہت تیز چل رہی تھی اور دنیا سے بیگانے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔

"ہم دونوں ایک ہو جائیں گے"

حور کی طرف سے ایک اور سوال آیا ذامل اسی پر نظریں جمائے تھا

"نصیب میں ہوئے تو ضرور"

ذامل نے اس کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے فوراً جواب دیا تھا حور اثبات میں سر ہلا گئی۔

"آج جانے کا نہیں بولو گی"

ذامل آئبرو اچکائے پوچھنے لگا حور اس کے ہاتھوں میں موجود بینڈ سے کھیل رہی تھی 

"نہیں"

حور نے نظریں اٹھا کر فوراً اسے جواب دیا ذامل بھی اسے دیکھنے پگا۔

"کیوں؟"

ذامل نے فورا سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

"کیونکہ میں تمہارے ساتھ صبح دیکھنا چاہتی ہوں میں اس اندھیرے کو روشنی میں تبدیل ہوتا تمہارے ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں اگر تم جانا چاہتے ہو تو زبردستی نہیں ہے"

حور اسے وجہ بتانے کے بعد اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی ذامل کے لب مسکرا دیے۔

"میری جان نے پہلی دفعہ اپنی خواہش بتائی ہے اسے ضرور پوری کروں گا"

وہ اسے مسکرا کر کہتے ساتھ وہی ساتھ پڑی ایک پلاسٹک کی کرسی اٹھا کر حور کی کھڑکی کے پاس رکھ دی اور پھر دونوں باتیں کرنے لگے۔

گھڑی اسوقت چار بجا رہی تھی اور اندھیرا آہستہ آہستہ روشنی میں تبدیل ہورہا تھا حور کھڑکی سے سر ٹکائے نیند کی وادیوں میں جس چکی تھی اور ذامل ہلک چھپکائے اسے دیکھ رہا تھا۔

"تمہیں دیکھنا ملک ذامل کیلیے دنیا کا سب سے خوبصورت لمحہ ہے"

چہرے پر ہاتھ رکھے اسے دیکھتے ہوئے دل میں کہنے لگا اور نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔

"جان"

ذامل اسے آہستہ سے آواز دیتا اٹھانے کی کوشش کرنے لگا حور نے پلکوں پر جبنش دی اور آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔

"رات کا اندھیرا صبح کی روشنی میں تبدیل ہوگیا ہے"

وہ اسے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتانے لگا حور کے لب مسکرا دیے حور نے ایک نظر آسمان پر اور ایک نظر ذامل پر ڈالی۔

"اللہ تعالیٰ اس شخص کو میرے نصیب میں لکھ دیں آمین"

وہ آسمان کی طرف نظریں اٹھائے دل سے دعا کرنے لگی ذامل نے حور کو دیکھا۔

"تم سوجاؤ میں چلتا ہوں"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے بولا حور اثبات میں سر ہلا گئی اور ذامل اٹھ کھڑا ہوا کرسی اس جگہ پر رکھتا ذامل کھڑا ہوا حور اسے جاتا دیکھنے لگی وہ مسکرا کر اسے دیکھتا چلا گیا اس کے جانے کے بعد حور نے کھڑکی بند کی اور بیلکونی سے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

*********

"ابا مجھے آپ سے بات کرنی ہے"

دراب چوہدری کمرے میں آتے ہوئے حاکم چوہدری سے کہنے لگے حاکم چوہدری اثبات میں سر ہلا گئے 

"بولو"

وہ سیدھے ہوکر بیٹھ کر پوچھنے لگے دراب چوہدری بیٹھ گئے۔

"بات ضروری ہے یہ میری بچپن سے خواہش ہے"

دراب چوہدری حاکم چوہدری کو دیکھتے ہوئے بتانے لگے۔

"پہیلیاں کیوں بنا رہے ہو صاف صاف بتاؤ"

حاکم چوہدری انہیں دیکھتے ہوئے کہنے لگے جس پر دراب چوہدری سر کو خم دے گئے 

"دادا میں حور کو اپنے آدم کی دلہن بنانا چاہتا ہوں"

دراب چوہدری مدعے کی بات پر آئے حاکم چوہدری نے فورا ان کی طرف دیکھا۔

"کیا"

حاکم چوہدری پریشان سے دراب چوہدری کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔

"جی دادا سب تو آدم بھی کام وغیرثمیں دلچسپی رکھتا ہے حور کر پڑھائی بھی مکمل ہونے والی ہے کیوں نا زاہد اور ازقہ کی رخصتی کے وقت ان دونوں کا نکاح کردیا جائے گھر کی بیٹی گھر میں ہی رہ جائے گی"

دراب چوہدری حاکم چوہدری کو سمجھاتے ہوئے مشورہ دینے لگے حاکم چوہدری اثبات میں سر ہلا گئے۔

"ہم پہلے حورِ جان سے پوچھیں گے"

حاکم چوہدری فورا سے بتانے لگے جس پر دراب چوہدری اثبات میں سر ہلا گئے۔

"جی جی ضرور"

وہ مسکراتے ہوئے بول کر اٹھ کھڑے ہوئے جس پر حاکم۔ چوہدری سر کو خم دے گئے 

"بہت شکریہ ابا"

وہ مسکراتے ہوئے خوشی سے کہتے ساتھ کمرے سے چلے گئے حاکم چوہدری اسے جاتا دیکھنے لگے 

***********

"کل پوری رات کہاں تھے تم"

ذامل کو ناشتے پر ڈائننگ پر موجود دیکھ ملک شہراز فوراً سے پوچھنے لگے 

"ڈیڑے پر"

ذامل مختصر سا جواب دیتے ساتھ ناشتہ کرنے لگ گیا۔

"کیوں؟"

ملک شہراز فوراً سے پوچھنے لگے ذامل نے انہیں دیکھا۔

"بس وہی بیٹھا ہوا تھا تو آنکھ لگ گئی پتہ نہیں چلا"

ذامل صفائی سے جھوٹ بولتے ہوئے پانی پینے لگا ملک شہراز خاموش ہو گئے 

"آج آپ ہمارے ساتھ ایک دوست کے گھر چل رہے ہو"

ملک شہراز اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگے ذامل سر کو خم دے گیا۔

"اور ہم نے جو کام دیا تھا آپ کو اب وہ جلد از جلد ہو جانا چاہیے"

ملک شہراز اسے حکم دینے والے انداز میں کہتے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور ذامل کے چلتے ہاتھ رکے اس نے سر اٹھا کر جاتے ہوئے ملک شہراز کو دیکھا۔

آج چھٹی کا دن تھا حور فریش وغیرہ ہوکر ذامل سے کال کرکے ناشتے کیلیے نیچے آئی سب لوگ ڈائننگ پر موجود تھے۔

"لگتا ہے ہماری گڑیا بہت مصروف ہوگئی ہیں ہمارے لیے وقت نہیں ہے بلکل بھی"

حاکم چوہدری فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگے 

"ارے نہیں دادا جان سارا وقت آپ کا ہی ہے"

وہ مسکراتے ہوئے کہتے ساتھ کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی جس پر حاکم چوہدری کے لب مسکرا دہے۔

"ناشتے کے بعد کمرے میں آئیے گا ضروری بات کرنی ہے"

حاکم چوہدری حور کو دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ ناشتہ کرنے لگ گئے حور نے ایک نظر انہیں دیکھا اور اثبات میں سر ہلا گئی

"ٹھیک ہے دادا"

وہ جواں دیتے ساتھ خود بھی ناشتہ کرنے لگی اور ایک نظر آدم پر ڈالی جو مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا حور برا سا منہ بنا کر اپنی نظریں دوسری سمت کر گئی۔

سب لوگ خاموشی سے ناشتہ کررہے تھے ناشتے کے بعد حاکم چوہدری اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھ گئے زاہد زمینیں وغیرہ دیکھنے کیلیے اٹھ کھڑا ہوا اور باقی سب بھی اپنے کام دیکھنے کیلیے چل رہے تھے 

ازقہ اور ہاجرہ بیگم نے مل کر سارے برتن اٹھائے اور حور حاکم۔چوہدری کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

*******

حور اجازت لیتی کمرے کے اندر آئی جہاں وہ بیڈ پر بیٹھے ہوئے تھے ۔

"آپ نے بلایا تھا دادا"

حور مسکرا کر ان کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی حاکم چوہدری اثبات میں سر ہلا کر اسے اپنے پاس بلانے لگے حور ان کے پاس آکر بیٹھ گئی ۔

"جی ہم نے بلایا ضروری بات کرنی ہے"

وہ اسے اپنے ساتھ لگائے اسے کہنے لگے حور نے حاکم چوہدری کی جانب دیکھا 

"جی دادا آپ بولیں میں سن رہی ہوں"

وہ انہیں دیکھتے ہوئے کہنے لگی حاکم چوہدری نے اسے دیکھا ۔

"آپ ہماری سب سے لاڈلی پوتی ہیں  حورِ جان میں جو بات کرنا جارہا ہوں شاید وہ آپ کو پسند نہیں آئے مگر زور زبردستی نہیں ہے میں نہیں چاہتا آپ ہم سے دور جائیں کبھی"

حاکم چوہدری سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگے جس پر حور فوراً ان سے الگ ہوئی

"دادا ایسی کیا بات ہے پریشان کررہیں آپ مجھے"

حور لہجے میں پریشانی لیے انہیں دیکھتے ہوئے کہنے لگی

"دراب نے تمہارا رشتہ مانگا ہے ہم سے "

حاکم چوہدری نے اسے مدعے کی بات کی حور حیرت سے حاکم چوہدری کو دیکھنے لگی۔

"دادا"

وہ بےیقینی سے انہیں دیکھتے ہوئے پکارنے لگی حاکم چوہدری نے اسے دیکھا

"زبردستی نہیں ہے نہیں پسند تو انکار کردیں مگر ہم نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا"

حاکم چوہدری سامنے دیکھتے ہوئے اس کے تاثرات سے اندازہ لگائے کہنے لگے۔

"میں سوچ کر جواب دوں گی"

حور حاکم چوہدری کا پاس رکھتی انہیں ایک امید دیتی کہتے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی حاکم چوہدری اسے جاتا دیکھنے لگے۔

آدم باہر کھڑا ساری باتیں سن رہا تھا حور کے باہر آتے ہی سائیڈ پر ہوگیا حور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

*********

ازقہ کچن میں کھڑی کچھ بنانے میں مصروف تھی 

"اللہ کرے پسند آجائے"

وہ چمچ ہلاتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی تبھی زاہد کچن میں آیا اور اس کی بات پر لب مسکرائے

"کیا کررہی ہو"

وہ دہوار سے لگے سینے پر بازو باندھے پوچھنے لگا اس کی آواز پر ازقہ نے مڑ کر اسے دیکھا

"کھیر"

وہ اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگی اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب تھی

"تم میرے سامنے آنے سے گھبرا کیوں جاتی ہو؟"

زاہد اس کے مقابل میں آکر کھڑا ہوتا پوچھنے لگا جس پر ازقہ نے اسے دیکھا

"آتے بھی تو آپ اچانک ہی ہیں"

وہ فوراً سے اسے منہ بنا کر دیکھتے ہوئے جواب دینے لگی اس کے چہرے کے اظہارات دیکھ وہ مسکرا دیا

"مسکرایا کرو مجھے دیکھ مجھے تمہارے مسکراہٹ بہت پسند ہیں"

وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا جس پر ازقہ شرماتے ہوئے نظریں جھکا گئی۔

**********

"حور اتنی پریشان کیوں ہو"

ہاجرہ بیگم ازقہ حور ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے تھے اور باتیں کررہے تھے حور کو خاموش دیکھ ہاجرہ بیگم پوچھنا لازمی سمجھنے لگی 

"نہیں کچھ نہیں"

حور فوراً سے جواب دیتی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجا گئی۔

"اچھا"

یہ کہتے ساتھ ہاجرہ بیگم اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی اور ازقہ نے حور کو دیکھا۔

"سب ٹھیک ہے"

ازقہ نظریں سامنے مرکوز کرتی حور سے مخاطب ہوئی حور نے ازقہ کو دیکھا۔

"نہیں دراب چاچو نے میرے لیے رشتہ بھیجا ہے اپنے بیٹے کا "

حور ازقہ کو دیکھتے ہوئے فوراً سے بتانے لگی ازقہ نے اسے دیکھا۔

"آدم کیلئے؟"

ازقہ حیرانگی سے حور کو دیکھتی کنفرم کرنے لگی حور اثبات میں سر ہلا گئی۔

"سب ٹھیک کہاں ہوسکتا ہے"

کہتے ساتھ حور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی ازقہ اسے جاتا دیکھنے لگی۔

"ابا یہ ٹھیک نہیں کیا آپ نے"

کہتے ساتھ ازقہ اٹھ کر اوپر دراب چوہدری کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

"یہ کیا کیا آپ نے"

ازقہ فوراً سے کمرے میں آتی پوچھنے لگی دراب چوہدری نے اسے دیکھا۔

"کیا؟"

دراب چوہدری نے اسے دیکھتے ہوئے بدلے میں سوال کیا

"حور کا رشتہ آدم کیلیے کوئی جوڑ ہے ان کا"

ازقہ فوراً سے انہیں بتانے لگی دراب چوہدری کے لب مسکرائے۔

"جوڑ تو تمہارا اور زاہد کا بھی نہیں تھا ہاں"

وہ فوراً سے طنز کرتے ہوئے اسے کہنے لگے ازقہ دراب چوہدری کو دیکھنے لگی۔

"اگر آپ پڑھنے کی اجازت دیتے تو میں بھی پڑھ جاتے مگر آپ ہی کی وجہ سے ہوا"

ازقہ لہجے میں افسردگی سجائے دراب چوہدری سے بولی وہ فوراً کھڑے ہوئے

"تم اس معاملے سے دور رہو لڑکی ہو لڑکی بنو مردوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے"

دراب چوہدری اسے گھور کر دیکھتے ہوئے غصے سے کہنے لگے جس پر  ازقہ انہیں دیکھنے لگ گئی۔

"یہ آپ کی سوچ ہے میں شادی کے بعد زاہد سے بولوں گی وہ مجھے پڑھائیں "

وہ نم آنکھوں سے اپنے باپ کو دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ کمرے سے چلی گئی اور وہ اسے جاتا دیکھنے لگ گئے۔

************

"ذامل فون اٹھاؤ"

حور فون کان سے لگائے ٹہلتے ہوئے بولی مگر دوسری طرف بیل جارہی تھی مگر فون نہیں اٹھایا جارہا تھا۔

"مجھے تمہیں بتانا ہے"

وہ آنکھوں میں نمی لیے خود سے بولتی پھر سے فون ملانے لگی مگر فون نہیں اٹھایا جارہا تھا۔

وہ مغرور اور بگڑی نواب زادی سی حور گھمنڈی بگڑے

 نواب زادے ملک ذامل کے عشق میں پوری طرح پاگل ہوچکی تھی۔۔

حور فون رکھتی پریشانی سے ٹہلنے لگی اسے گھبراہٹ سی محسوس ہونے لگی وہ اپنے دادا کو صاف منع کرنا غلط سمجھ رہی تھی اس لیے وہ ذامل کو فون کرکے رشتے کا کہنا چاہ رہی تھی مگر وہ مصروف ہونے کی وجہ سے فون نہیں اٹھا رہا تھا

حور گھبراہٹ زیادہ محسوس کرتی کمرے سے باہر آئی اور لان کی طرف بڑھ گئی۔

 حور لان میں ٹہلتے ہوئے حاکم چوہدری کی باتیں سوچ رہی تھی وہ سوویت حویلی کے بلکل آخری اور سنسان جگہ پر کھڑی تھی جہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ دماغ بلکل سن تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی تبھی کوئی دیوار ٹاپ کر لان میں داخل ہوا حور نے مڑ کر فوراً اس طرف دیکھا مگر شخص تیزی سے حور کی پشت اپنی طرف کرکے اس کے سر بندوق تان گیا حور اس اچانک حملے پر گئی اس سے پہلے چیختی حور کے منہ پر فوراً ہاتھ رکھا حور کی آنکھیں بڑی ہوگئی۔

"جان پیاری ہے نا خاموشی سے ان پر سائن کر"

وہ اس۔ کے کان میں ہلکی آواز میں اسے کہنے لگے حور اسے دیکھنے کی کوشش کرنے لگی اس شخص نے اس کا منہ سامنے کیا۔

"جلدی ورنہ چلا دوں گا"

وہ ٹریگر پر انگلی رکھتا اسے مزید ڈراتا کہنے لگا حور روتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گئی 

"یہ کے"

زبردستی اس کے ہاتھ میں ہیں پکڑوایا اور پیج آگے کیے اور سائن کروانے لگا حور اسے دیکھ رہی تھی مگر اس کا چہرہ ڈھکا تھا

"سائن کر"

وہ فوراً سے بولا حور کانپتے ہاتھوں سے سائن کرنے لگی پیپرز پر لکھا بھی حور نے پڑا شاید زمین کے پیپرز تھے حور نے سائن کیے اور وہ شخص پیپرز لیتا جانے لگا۔

"دادا لالا"

جیسے ہی اس شخص نے حور کے منہ سے ہاتھ ہٹایا وہ چیخنے لگی سارے ملازم ایک ساتھ اکھٹے بھاگے اور ایک ملازم حاکم چوہدری کو بلانے کیلیے بڑھ گیا وہ شخص تیزی سے پچھلی طرف سے بھاگنے لگا حور نے اسے پکڑنا چاہا مگر دیر کرگئی۔

سب جب اس طرف آئے تو وہ شخص جا چکا تھا حور کی آنکھوں میں آنسو تھے حاکم چوہدری اور باقی سب حور کو اندر لائے۔

"کون تھا وہ"

حاکم چوہدری نے اسے صوفے پر بٹھایا زاہد نے فوراً پوچھا حور نفی میں سر ہلا گئی اس کی حالت بولنے والی نہیں تھی وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔

"پانی پیو گہرا سانس کو"

ازقہ اسے پانی گلاس تھما کر فوراً سے کہنے لگی حور نے پانی پیا اور سانس لیا۔

"بتاؤ حور کیسے اندر آیا کون تھا"

وہ فوراً سے حور سے ایک بار میں کئی سوال کر گیا 

"مجھے نہیں پتہ اور میرا نہیں خیال میں نے اسے کبھی دیکھا بھی ہے وہ دیوار سے اندر آیا گن رکھی سائن کروائے اور تیزی سے پچھلی طرف سے نکل گیا"

حور گہرا سانس لے کر نم آنکھوں سے انہیں ایک ایک بات بتانے لگی زاہد کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔

"کیسے پیپرز تھے؟"

حاکم چوہدری نے فوراً سے سوال کیا حور نے انہیں دیکھا۔

"زمینوں کے تھے اور فیکٹری بھی لکھا تھا"

حور حاکم چوہدری ہو فوراً سے بتانے لگی جس پر حاکم چوہدری اثبات میں سر ہلا گئے 

"ملک شہراز کا کام ہے یہ نہیں چھوڑوں گا"

وہ غصے سے تیش میں کہنے لگے زاہد نے فوراً حاکم چوہدری کو دیکھا

"دادا نہیں میں نے ملک شہراز کے سارے ملازم دیکھیں ان میں سے کوئی نہیں تھا وہ کوئی اور تھا"

حور فوراً سے حاکم چوہدری سے کہنے لگی جس پر زاہد کے اثبات میں سر ہلا دیا 

"جی دادا ملک شہراز ایسے حرکت نہیں کرسکتا "

زاہد بھی فوراً سے انہیں بتانے لگا جس پر حاکم چوہدری خاموش ہو گئے۔

"تو پھر پتہ لگاؤ کون تھا جس نے حاکم چوہدری کی پوتی کی جان لینے کی کوشش کی ہے مجھے صبح تک پتہ لگ جانا چاہیے"

وہ سرد لہجے میں زاہد کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے زاد اثبات میں سر ہلا گیا اور ازقہ نے حور کو گلے سے لگایا جو رو رہی تھی ۔

********

حور رات سے اب کافی بہتر تھی اور اٹھتے ہی اس نے سیدھا ذامل کو فون کیا تھا

وہ اپنے کمرے میں موجود تھا تبھی اس کا فون بجا ذامل نے فون اٹھایا

"جان"

ذامل نے فوراً فون اٹھایا اور اسے پکارا حور کے لب بھی مسکرائے 

"ذامل مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے"

حور فوراً سے اسے کہنے لگی جس پر ذامل کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔

"سب ٹھیک ہے؟"

ذامل پریشان سا حور سے پوچھنے لگا۔

"نہیں کچھ ٹھیک نہیں ہے میرا رشتہ آیا ہے تم پلیزز اپنے دادا سے بات کرو اور آج ہی ان کے ہاتھ رشتہ حویلی بھیجو"

حور لہجے میں بے چینی لیے ذامل کو بتانے لگی اس کی بات پر ذامل اپنی جگہ ساکت ہو گیا۔

"ذامل تم سن رہے ہو نا"

حور جواب نہ پاکر فوراً سے پوچھنے لگی جس پر وہ ہوش میں آیا۔

"ہاں سن رہا ہوں میں کرتا ہوں دادا سے بات"

ذامل نے اپنے لہجے کو نارمل رکھے اسے بولا حور اس کے جواب خوش ہوئی۔

"تم منا لو گے نا"

حور اس سے فوراً پوچھنے لگی ذامل نے ایک نظر فون کو دیکھا

" میں کرتا ہوں بات بعد میں"

یہ کہتے ساتھ ذامل فون رکھ گیا اور بیڈ کراؤن سے سر ٹکا گیا سائیڈ سے سگریٹ اٹھا کر جلاتا وہ لبوں سے لگا گیا آنکھوں میں نمی آئی تھی مگر وہ اپنے آنسو اپنے اندر اتار گیا۔

ذامل اپنے چہرے کے تاثرات درست کرتا  نیچے کی جانب بڑھا اور ڈائننگ ٹیبل پر گیا جہاں ملک شہراز چہرے پر دلفریب مسکراہٹ سجائے بیٹھے تھے 

"دل خوش کردیا تم نے ذامل"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگے وہ بھی جواباً مسکرایا

"مجھے بات کرنی ہے دادا"

وہ کرسی کھسکا کر بیٹھتا ملک شہراز کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا 

"ہاں بولو"

ملک شہراز ناشتے کرتے ہوئے اس سے کہنے لگے ذامل نے ایک گہرا سانس لیا۔

"میں حور سے شادی کرنا چاہتا ہوں"

وہ ملک شہراز کو دیکھتے ہوئے ہمت سے یہ الفاظ بول سکا ملک شہراز کا منہ کی طرف بڑھتا ہاتھ رکا ذامل انہیں دیکھ رہا تھا۔

"ذامل تم اپنے ہوش میں ہو"

ملک شہراز لہجے میں سرد پن لیے اسے کہنے لگے ذامل نے انہیں دیکھا ۔

"میں نے آپ کا کام کیا ہے آپ کو میری بات ماننی ہوگی"

ذامل فوراً کرسی سے کھڑا ہوتا کہنے لگا جس پر ملک شہراز بھی چہرے پر سرد تاثرات لیے کھڑے ہوئے۔

"وہ لڑکی اس گھر میں کبھی نہیں آسکتی سمجھے میں اپنے دشمن خاندان کی لڑکی نہیں لاؤں گا ماردو اور اسے بنا دو "

وہ غصے سے ڈائننگ ٹیبل پر ہاتھ مار کر اسے کہنے لگے ذامل انہیں دیکھنے لگا۔

"بچپن سے لے کر اب تک اس لیے تمہیں ہم نے پالا تھا کہ ایک دن تم یوں ہمارے خلاف ہوجاؤ "

وہ ذامل کو غصے سے دیکھتے ہوئے بولے ذامل انہیں دیکھ رہا تھا ۔

"نہیں دادا ملک ذامل دنیا میں سب سے زیادہ آپ سے پیار کرتا ہے سب سے زیادہ آپ اہم ہیں میرے لیے میں ایسا کچھ نہیں کروں گا جو آپ کو تکلیف دے "

ذامل ان کی حالت دیکھ فوراً سے کہتے ساتھ انہیں کرسی پر بٹھانے لگا جس پر ملک شہراز کو تھوڑی تسلی ہوئی اور ذامل چہرے پر مایوسی سجائے خاموشی سے باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ 

**********

"مدد چاہیے مجھے"

ذامل حویلی سے سیدھا ڈیڑے پر آیا تھا جہاں شہریار پہلے موجود تھا

"کیا؟"

شہریار نے فوراً اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ذامل نے ایک نظر اسے دیکھا اور اسے ساری بات بتائی۔

"تو پاگل ہوگیا ہے ذامل ایسا کیسے"

شہریار اسے پریشانی سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ذامل نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔

"دادا کیلیے کچھ بھی شہری تو کررہا ہے یا نہیں"

ذامل اسے دیکھ کر کہتا آخری لفظوں پر نظریں سامنے کر گیا۔

"ذامل"

وہ اسے پکارنے لگا ذامل سامنے ہی دیکھ رہا تھا ۔

"کررہا ہے یا نہیں "

وہ اپنی بات پھر سے دہرانے لگا شہریار ایک پل اسے دیکھتا رہ گیا وہ اس کے چہرے سے اس کے اندر کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتا تھا۔

" کررہا ہوں"

شہریار فوراً سے اسے بتانے لگا ذامل نے ایک نظر اسے دیکھا اور گلے لگایا۔

"ایک ایک بات کرنی ہے سمجھا"

وہ اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا جس پر شہریار اثبات میں سر ہلا گیا وہ اس کی حالت سے واقف تھا ملک ذامل کیلیے اس کا دادا اس کے ماں باپ دونوں تھا اور حور بھی اس کیلیے اہم تھی مگر اس کے دادا سے زیادہ نہیں تھی۔

*********

چھٹی کے وقت شہریار حور کے کالج آیا جہاں وہ ابھی گراؤنڈ میں آئی تھی شہریار کو دیکھ ذامل کیساتھ آنے کا اندازہ لگاتی وہ اس طرف بڑھی تھی۔

"ذامل کہاں ہے"

حور نے فوراً سے اس سے پوچھا شہریار چہرے پر سنجیدہ تاثرات سجائے اسے دیکھ رہا تھا۔

"وہ نہیں آیا حور میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں"

وہ اسے دیکھتے ہوئے گھبراتے ہوئے کہنے لگا حور نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا 

"سب ٹھیک ہے؟"

حور پریشانی سے اسے دیکھتی پوچھنے لگی جس پر شہریار نفی میں سر ہلا گیا۔

"میں تمہیں کب سے بتانا چاہ رہا تھا مگر ہمت ہی نہیں ہورہی تھی"

شہریار اسے دیکھتے ہوئے چہرے پر سنجیدگی لیے بولتا مزید پریشان کرنے لگا۔

"بولو بھی شہریار"

حور فوراً سے اکتا کر بولی جس پر شہریار نے ایک گہرا سانس لیا 

"ذامل میرا بہت بہترین دوست ہے مگر وہ ایک لڑکی کیساتھ غلط کرے یہ بات مجھے زیب نہیں دیتی وہ تمہیں صرف بہلا رہا ہے اور کچھ نہیں کررہا ہے حور کل جو بھی تمہارے ساتھ رات میں ہوا وہ ذامل  نے کروایا تھا وہ یہ سب اپنے دادا کیلئے کررہا تھا زمینوں اور فیکٹری کی خاطر سمجھ رہی ہو نا میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں اس کیلیے صرف اس کے دادا اہمیت رکھتے ہیں اور کوئی تم سے صرف جھوٹا پیار کررہا ہے وہ"

شہریار اسے دیکھتے ہوئے ایک ایک بات بتانے لگا شہریار کے الفاظ تھے یا جلتا ہوا سیسہ جو حور کو اندر ہی اندر ختم کررہے تھے۔

"میں تمہارا یقین کیسے کرلوں"

حور اپنے آنسو پر ضبط کرتی سرد لہجے میں پوچھنے لگی جس پر شہریار نے فون نکال کر ریکارڈنگ آن کردی۔

"جان سے شادی اچھا مذاق تھا صرف دادا کیلیے کیاہے یہ سب"

ذامل کی آواز نے حور کے ضبط کیے آنسوؤں کو بہنے پر مجبور کردیا تھا آج وہ بہت بری طرح ٹوٹی تھی دل کیا وہ مکمل ختم ہو جائے وہ مضبوط بہادر لڑکی بلکل ٹوٹ گئی تھی۔

"کہاں ہے وہ"

حور نظریں موبائل پر جمائے اس سے مخاطب ہوئی۔

"ڈیڑے پر"

شہریار نے اسے فوراً جواب دیا وہ بغیر کچھ کہے بس آگے کی جانب بڑھ گئی۔

"یہ کہاں گئی ہے کیا ہوا"

نوال فوراً شہریار کے پاس آکر پریشانی سے پوچھنے لگی شہریار نے اسے دیکھا۔

"ضروری تھا یہ سب اسے بتانا"

وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا نوال نے اسے دیکھا۔

"وہ خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے"

نوال پریشانی سے اسے جاتا دیکھ کہنے لگی جس پر شہریار مسکرایا۔

"حور ہے وہ ہمت والی ہے بہت"

وہ اسے کہتے ساتھ خاموشی سے چلا گیا نوال اسے جاتا دیکھنے لگی جب سے وہ ملے تھے نوال کو وہ آج پہلی دفعہ اچھا لگا تھا نوال اسے جاتا دیکھنے لگی۔

************

وہ ڈیڑے پر بیٹھا سگریٹ پینے میں مصروف تھا حور سرد نگاہوں سے اسے دیکھتی تیز تیز قدم اٹھائے اس طرف بڑھی۔

"یہ سب تم نے زمینوں کیلیے کیا ہاں صرف اپنے دادا کی خاطر؟"

حور اس کے سامنے کھڑی سینے پر بازو باندھے سرد لہجے میں سوال کرنے لگی اس کی آواز پر ذامل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"ہاں ایسا ہی ہے"

وہ اس سے نظریں چراتا اسے بولا حور بےیقین سا اسے دیکھ رہی تھی اس کے الفاظ حور کو بےحد تکلیف پہنچا گئے تھے ۔

"ایک دفعہ میرے بارے میں نہیں سوچا تم نے ہاں؟"

حور اس کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے غصے سے اس سے سوال کررہی تھی ذامل نے اسے دیکھا ۔

"نہیں پیار ملک ذامل کو کبھی نہیں ہوسکتا "

وہ اسے دیکھتے ہوئے پرسکون سا جواب دے رہا تھا حور کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بھی محال لگ رہا تھا ۔

"وہ سب کیا تھا کیا تھا وہ باتیں وہ مجھے ہر وقت آکر دیکھنا ہاں"

حور غصے سے اس کے سینے پر تھپڑ مار کر چیخ کر پوچھنے لگی ذامل اسے دیکھ رہا تھا ۔

"وہ سب زمینوں کی خاطر کیا"

وہ اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگا حور بھی اسے دیکھ رہی تھی ایک زوردار تھپڑ حور نے ذامل کی گال پر دے مارا ذامل اسے دیکھنے لگا۔

"تم نے میرا دل بہت بری طرح توڑا ہے ملک ذامل خدا تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا تم نے آج حورِ جان کو پورا ختم کردیا دیکھنا جو کسی کا دل تورا ہے خدا کیا کرتا ہے واقع میں تم میرے پیار کے قابل نہیں ہو"

حور اسے نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ہر لفظ پر زور دیتی انگلی اٹھا کر اسے کہنے لگی ذامل نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر قریب کیا۔

"مجھ سے دور رہو سمجھو"

وہ غصے سے اپنے بازو اس کی گرفت سے نکال کر غصے سے کہتے ساتھ وہاں سے چلی گئی ملک ذامل اسے جاتا دیکھنے لگا۔

اس کے الفاظ اس کیا آنکھوں میں موجود تکلیف ملک ذامل کو اندر تک تکلیف دے رہی تھی وہ فوراً سے گاڑی کی طرف بڑھا اور گاڑی سڑک ہر دوہرا دی 

حور ڈیڑے سے کالج کا سفر آنسو بہاتے ہی طے کررہی تھی اور ذامل حویلی آکر سیدھا کمرے کی طرف بڑھا اور کمرے کا دروازہ بند کرتا وہ وہی بیٹھتا کسی بچے کی طرح رونے لگا تھا حور کی آنکھوں میں خود کیلیے تکلیف دیکھ کر ملک ذامل کی روح تک کانپ گئی تھی۔

جو بھی تھا وہ یہ مانتا تھا وہ حورِ جان کے پیچھے بچپن سے پاگل ہے۔

"حور"

حور کالج پہنچی تو نوال اسے روتا دیکھ پریشانی سے پکارنے لگی

"کیا ہوا ہے"

نوال اسے بٹھا کر نرمی سے پوچھنے لگی حور نے اسے دیکھا ۔

"وہ بھی سب کی طرح نکلا نوال میں سچا پیار کرنے لگی تھی اس سے لیکن اس نے سب ختم کردیا"

حور نم آنکھوں سے نوال کو دیکھتی ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی نوال فوراً اسے گلے لگا گئی

"کہ رہا تھا اسے کبھی پیار ہی نہیں ہوا"

حور اس کے سینے سے لگی بھیگی ہوئی آواز میں بتانے لگی تبھی راشد آگیا۔

"حور راشد بابا آ گئے ہیں خود کو نارمل رکھو"

نوال اسے کان میں کہنے سے بولتی الگ ہوئی حور اپنے آنسو صاف کرتی خود کو نارمل کرتی گاڑی کی طرف بڑھی اور خاموشی سے بیٹھ گئی ۔

پورے راستے حور خاموشی سے کھڑکی کیساتھ سر ٹکائے آنکھوں میں نمی لیے گزار گئی اور حویلی آتے ہی سیدھا وہ کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔

"اسے کیا ہوا ہے"

ہاجرہ بیگم حور کو سیدھا کمرے میں جاتا دیکھ پریشانی سے پوچھنے لگی۔

"پتہ نہیں میں دیکھتی ہوں"

ازقہ کہتے ساتھ کمرے کی طرف بڑھی اور ہاجرہ بیگم بھی کمرے کے باہر کھڑی ہوئی ۔

************

"حور"

حور کو کمرے میں موجود نہ پاکر پکارنے لگی جس پر حور واشروم سے باہر نکلی۔

"کیا ہوا ہے"

ازقہ اسے غور سے دیکھتی پریشانی سے پوچھنے لگی

"کچھ نہیں"

حور اس سے نظریں چراتی مختصر سا جواب دیتی کمرے کی چیزیں ٹھیک کرنے لگی۔

"حور ادھر دیکھو تم روئی ہو کیا ہوا ہے"

ازقہ اس کا رخ کیے اپنی طرف کیے غصے سے پوچھنے لگی حور  آنسو بہانے لگی۔

"خوش ہوجائیں آپ بجو ویسا ہی ہوا جیسا آپ سوچ رہی تھی دھوکے باز نکلا ملک ذامل میں نے شادی کی بات کی تو اپنا اصل چہرہ میرے سامنے لے آیا"

حور آنکھوں میں آنسو لیے بھیگی آواز میں کہنے لگی ازقہ اس کی حالت دیکھ کر فوراً سے اسے گلے لگا گئی ازقہ کے گلے لگتے ہی حور اونچا اونچا رونے لگی اور ہاجرہ بیگم باہر کھڑی باتیں سن اپنی جگہ ساکت ہوگئی تھی 

"حور"

وہ غصے سے کمرے میں آتی اسے پکارنے لگی حور نے فوراً ہاجرہ بیگم کی جانب دیکھا۔

"یہ تربیت کی تھی میں نے تمہاری"

ہاجرہ بیگم کہتے ساتھ پہلی دفعہ حور پر ہاتھ اٹھا گئی حور کے ساتھ ساتھ ازقہ بھی اپنی جگہ ساکت ہوگئی۔

"ماں مجھے معاف کردیں میں پاگل بن گئی تھی پاگل بن گئی تھی"

حور ہاجرہ بیگم کے قدموں میں گر کر اس سے معافی مانگ کر خود کو مارنے لگ گئی ۔

"اس کی باتوں میں آ گئی تھی "

حور روتے ہوئے خود سے کہنے لگی ہاجرہ بیگم اور ازقہ اس کی حالت دیکھ پریشان ہوئے 

"حور اٹھو پانی پیو "

وہ اسے اٹھا کر بیڈ پر بٹھا کر کہنے لگی حور نفی میں سر ہلا گئی

"خود کو ٹھیک رکھو گھر کے سب مرد آتے ہی ہوں گے"

ہاجرہ بیگم خفگی سے اسے دیکھ کر کہتے ساتھ کمرے سے چلی گئی حور انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی۔

*************

شام ہو چکی تھی اور ذامل ابھی تک ویسے ہی بیٹھا تھا بال بکھرے کر ماتھے پر آئے ہوئے تھے آنکھیں بھیگی ہوئی تھی 

"ذامل صاحب آپ کو ملک صاحب نیچے بلارہے ہیں"

ملازم دروازے پر دستک دیتے ہوئے اسے ملک شہراز کو پیغام دینے آیا وہ ویسے ہی ساکت بیٹھا تھا حور کی باتیں اس کے ذہن میں گردش کررہی تھی۔

"صاحب وہ کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں"

ملازم نیچے آکر ملک شہراز کو بتانے لگا وہ پریشانی سے ایکدم اٹھ کھڑے ہوئے اور اوپر کی طرف بڑھے۔

"ذامل دروازہ کھولو کیا ہوا ہے؟"

ملک شہراز دروازے پر دستک دیتے ہوئے اونچی آواز میں کہنے لگے۔

"مجھے اکیلا رہنا ہے دادا"

وہ انہیں جواب دے کر اٹھ کر بیڈ پر آتا فون میں موجود اس کی تصویر دیکھ کر ساتھ سگریٹ جلا کر پینے میں مصروف ہوگیا 

ملک شہراز خاموشی سے چلے گئے تھے ۔۔۔۔

************

"ہماری گڑیا نظر نہیں آرہی ہے"

حاکم چوہدری رات کے کھانے کے وقت ڈائننگ ٹیبل پر آئے اور حور کو نہ پاکر بولے 

"وہ ابا جان اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی"

ہاجرہ بیگم فوراً سے بتانے لگی حاکم چوہدری پریشانی سے فوراً اٹھے ۔

"کیا ہوا ہے "

وہ پریشانی سے کہتے ساتھ اس کے کمرے کی طرف بڑھے زاہد  صارم اور جبران بھی فوراً اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھے۔

"حور کیا ہوا ہے"

حاکم چوہدری کمرے میں آتے ہوئے پریشان سے پوچھنے لگے۔۔

"کچھ نہیں دادا بس بخار ہے ہلکا سا"

حور رخ دوسری طرف کیے اپنی آواز کو نارمل رکھتے ہوئے بولی حاکم چوہدری نے اس کے ماتھے پر ہاتھ پر رکھا 

"ہلکا سا آپ تو بخار میں جل رہی ہیں ٹھنڈے پانی کی پٹیاں لائے ہاجرہ بیگم"

حاکم چوہدری حور کو اتنے تیز بخار میں دیکھ پریشان سے بولے وہ اثبات میں سر ہلا گئی 

"اچانک کیسے بیمار ہوگئی"

دراب چوہدری فوراً سے کہنے لگے سب نے ان کی طرف دیکھا ۔

"شاید گرمی لگ گئی ہوگی"

ازقہ فوراً سے بولی زاہد اثبات میں سر ہلا گیا۔

"ہاں گرمی کا ہی اثر ہے"

کہتے ساتھ وہ حور کا رخ اپنی طرف کرگئے حور نے چہرے پر ہاتھ بازو رکھ لیا تھا ۔

"ٹھیک ہو جائے گا"

وہ اسے پیار سے کہتے ساتھ اسکا بلینکٹ ٹھیک کرنے لگے تھے ۔

ایک طرف وہ اس کی تصویر دیکھ کر اپنی اس اذیت بھری رات کو گزار رہا تھا اور دوسری طرف وہ بخار میں جل رہی تھی ۔

"عشق میں اگر بیوفائی مل جائے

 دنیا تباہ سی ہوجاتی ہے"

پوری رات ذامل کی وہی بیڈ پر ساکت بیٹھے گزری تھی اور دوسری طرف وہ بلکل سیدھی لیٹی اس کیساتھ گزرا ہر ایک لمحہ یاد کرتی اپنی رات گزار گئی تھی۔۔

حور کے کانوں میں فجر کی اذانوں کی آواز گونجی وہ خود پر سے بلینکٹ ہٹا کر باتھروم کی طرف بڑھ گئی وضو کرکے بالوں کو اچھے سے چھپائے وہ باہر آئی شاید اسے اس قدر تکلیف میں دیکھ کر خدا نے اسے خود سے گفتگو کرنے کیلیے اپنے در پر بلایا نیت باندھ کر وہ نماز ادا کرنے لگی نماز ادا کرتی سلام پھیر کر دعا کیلیے ہاتھ اٹھا گئی آنکھیں بھیگ رہی تھی

"اے اللہ تو رحیم ہے تو مہربان ہے میں جانتی ہوں میں نے ایک نامحرم سے محبت کی مگر ایک حد میں رہ کر مگر اس نے مجھے دھوکہ دیا میں کچھ نہیں چاہتی ہوں اس کے ساتھ کچھ غلط ہو بس یہ چاہتی ہوں اس دل سے اس انسان کی محبت جلد نکال دے اور مجھے اتنا بتا دے کہ میرے لیے کیا صحیح ہے غلط ہے آج آپ کی یہ بندی بے بےحد تکلیف میں ہے مجھے سکون چاہیے اور صبر"

یہ کہتے ساتھ حور سجدے میں جاگری اور زارو قطار رونے لگ گئی۔۔

*********

اندھیرا روشنی میں تبدیل ہوگیا تھا یہ صبح حور کیلیے ایک سرد صبح تھی وہ اپنے کمرے میں ہی بیڈ پر لیٹی تھی 

تبھی حاکم چوہدری کمرے میں آئے اور اسے دیکھا حاکم چوہدری کو دیکھتے ہی حور سیدھی ہوکر بیٹھی۔

"کیسی ہے میری گڑیا "

وہ پیار سے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگے۔

"بہتر ہوں دادا "

حور لبوں پر زبردستی مسکراہٹ سجائے انہیں جواب دینے لگی۔

"لگ تو نہیں رہا ہے آپ کی آنکھیں اتنی سوجھی کیوں ہوئی ہیں؟"

حاکم چوہدری فکرمند سے اسے غور سے دیکھتے کہنے لگا

"شاید زیادہ سونے کی وجہ سے میں بہتر ہوں فریش ہوکر نیچے آتی ہوں میں"

حور نظریں چرا کر کہتے ساتھ اٹھ کر جانے لگی 

"حورِ جان"

حاکم چوہدری نے اسے پکارا حور کے بڑھتے قدم رکے اور اس نے مڑ کر انہیں دیکھا۔

"جی دادا "

حور فوراً سے ان سے پوچھنے لگی حاکم چوہدری اپنی جگہ سے اٹھے

"آپ نے جواب نہیں دیا ہمیں؟"

وہ اس کے سامنے آکر کھڑے ہوتے ہوئے کہنے لگے حور انہیں ناسمجھی سے دیکھنے لگی۔

"کس بات کا دادا؟"

حور ناسمجھی سے ان سے پوچھنا ضروری سمجھنے لگی

"آدم کیلیے ہاں ہے یا نہ"

حاکم چوہدری نے اسے دیکھتے ہوئے اس کی الجھن ختم کی حور نے فوراً انہیں دیکھا 

"دادا مجھے یہ رشتہ منظور ہے"

حور نے جیسے یہ الفاظ بولے تھے وہ یہی جانتی تھی مگر اسے یہی اپنے لیے ٹھیک لگا۔

"مجھے پتہ تھا میری گڑیا میں آپ کی ماں سے بات کرتا ہوں اور آج ہی سب کو یہ خبر سناؤ گا"

حاکم چوہدری خوشی سے کہتے ساتھ کمرے سے چلے گئے اور حور نم آنکھوں سے انہیں جاتا دیکھنے لگی۔۔۔

**********

ذامل ویسے ہی بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا اسے خود بھی معلوم نہ ہوا کب اس کی آنکھ لگی ہے جب دروازے پر دستک ہونے سے اس کی نیند ٹوٹی

"کون"

وہ نیند سے بیدار ہوتا سخت لہجے میں پوچھنے لگا

"صاحب ملک صاحب ناشتے پر بلارہے ہیں"

ملازم اسے بتانے لگا ذامل نے گھڑی پر نظر ڈالی۔

"آرہا ہوں"

وہ کہتے ساتھ باتھروم کی طرف بڑھ گیا اور ملازم نیچے کی طرف بڑھ گیا

کچھ دیر میں فریش وغیرہ ہوکر وہ نیچے آیا ملک شہراز نے اسے دیکھا

"رات کو کیا ہوا تھا"

ملک شہراز اس کے بیٹھتے ہی فوراً سوال پوچھنے لگے 

"بس اکیلا رہنا چاہتا تھا"

ذامل جواب دیتے ساتھ چائے کا کپ لبوں سے لگا گیا ۔

"آج زمینوں کو دیکھ آؤ اپنے اس دوست کو ساتھ لے جا کر"

ملک شہراز ناشتہ کرتے ہوئے کہنے لگے ذامل سر کو خم دے گیا۔

"تم مرد ہو ذامل ہم مانتے ہیں ہم نے آپ سے غلط کروایا مگر وہ سب آپ کیلیے کیا تھا آپ کی ماں باپ کی موت کی خاطر مجھے نہیں معلوم تھا آپ سیریس ہو جائیں گے یہ جو پیار کا بھوت سر پر سوار ہوا ہے اسے ختم کریں"

ملک شہراز اسے دیکھتے سنجیدگی سے سمجھانے لگے ذامل نے انہیں دیکھا ۔

"یہ پیار کا بھوت دو مہینے پہلے نو سال کی عمر سے چڑھا ہوا ہے ملک ذامل نے اپنے پیار کو قربان کیا ہے آپ کی خاطر"

وہ انہیں دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہتے ساتھ اٹھ کر بھاری قدم اٹھائے باہر کی جانب بڑھ گیا۔

***********

"ناشتے کے بعد آپ سب لوگ ٹی وی لاؤنچ میں ملے مجھے ضروری بات کرنی ہے"

حاکم چوہدری سب کو دیکھتے ہوئے اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہنے لگے سر اثبات میں سر ہلا گئے اور ناشتہ کرنے لگ گئے۔

ناشتہ کرنے کے بعد حاکم چوہدری کے حکم کے مطابق سب لوگ ٹی وی لاؤنچ میں موجود تھے 

"مجھے آپ سب سے ضروری بات کرنی ہے ایک ہفتے بعد زاہد اور ازقہ کی رخصتی ہے اسی کے ساتھ حورِ جان اور آدم کی شادی بھی ہوگی حورِ جان سے میں نے پوچھ لیا اسے کوئی اعتراض نہیں ہے ہے نا حور"

حاکم چوہدری سب کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگے دراب چوہدری کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی اور آدم کے لب بھی مسکرائے تھے ازقہ زاہد جبران صارم حور کو دیکھنے لگے۔

"جی"

حور جواب دیتے ساتھ اٹھ کر وہاں سے چلی گئی زاہد اسے جاتا دیکھنے لگ گیا ازقہ اس کے پیچھے گئی

"حور یہ کیا تھا"

ازقہ کمرے میں آتی اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی حور نے اسے دیکھا

"مجھے یہی ٹھیک لگا ہے میں کسی پر بھروسہ نہیں کرسکتی ہوں اب ادھر اپنوں کے سامنے تو رہوں گی"

حور ازقہ کو دیکھتے ہوئے اسے جواب دینے لگی ازقہ اسے دیکھنے لگی 

"تمہیں پتہ ہے تم نے کیا کیا ہے تم نے آدم کیلیے ہاں کی ہے"

ازقہ اسے حیرت سے دیکھتے بتانا ضروری سمجھنے لگی حور نے ازقہ کو دیکھا

"تو آپ بتائیں اور کیا کروں میں ہاں بولیں اور بدل گیا ہے وہ"

حور ازقہ کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہنے لگی ازقہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی

"جیسی تمہاری مرضی"

ازقہ یہ کہتے ساتھ وہاں سے چلی گئی اور اس کے جاتے ہی حور بیڈ پر بیٹھ گئی آنکھوں میں نمی فوراً آ گئی تھی۔۔

***********

"مبارک ہو تمہیں تمہاری جان"

شہریار ذامل کے پاس آکر مسکراتے ہوئے ابھی بول رہا تھا جب ذامل نے اس کا گریبان پکڑا

"جان صرف میں کہ سکتا ہوں سمجھا"

وہ غصے سے سرد لہجے میں اسے بولا شہریار گھبرا گیا

"ٹھیک ہے بھائی حاکم چوہدری کی پوتی بول دیتا ہوں"

شہریار اس کا ہاتھ گریبان سے ہٹاتے ہوئے گھبراتے ہوئے کہنے لگا ذامل اثبات میں سر ہلا گیا

"حاکم چوہدری کی پوتی کا رشتہ پکا ہوگیا ہے اگلے ہفتے شادی ہے اس کی"

وہ اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگا ذامل نے فوراً اسے دیکھا

"تجھے کس نے بتایا"

ذامل ایک دم سیدھا ہوکر بےچینی سے پوچھنے لگا

"اعلان ہوچکا ہے آدھے گاؤں میں آدھے گاؤں میں ہوجائے گا"

وہ اسے مسکراتے ہوئے کہنے لگا ذامل نے جیب سے سگریٹ نکال کر لبوں سے لگائی

"تم تو خوش ہو گے نا "

شہریار اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ذامل نے اسے دیکھا

"مجھے لڑکے کا معلوم کرکے دے کس کے ساتھ ہوا ہے "

ذامل دھواں ہوا میں اڑاتا اسے سنجیدگی سے کہنے لگا شہریار اس کے سامنے آیا۔

"تمہیں اس سے کیا"

شہریار اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگا ذامل اسے دیکھنے لگا

"تجھے سب معلوم ہے نا جتنا کہا ہے اتنا کر"

ذامل اسے کہتے ساتھ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا شہریار اسے جاتا دیکھنے لگا 

ذامل شہریار کی باتیں سوچتے ہوئے چل رہا تھا جب سامنے سے آتے وجود سے ٹکرایا

"دیکھ کر نہیں چل سکتے"

آدم غصے سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ذامل نے اسے دیکھا

"تم دیکھ لیتے"

ذامل سرد لہجے میں کہتے ساتھ سائیڈ سے جانے لگا۔

"آج میں نے تجھے معاف کیا آج میں بہت خوش ہوں "

وہ اسے جاتا دیکھ کر مسکرا کر کہنے لگا ذامل نے مڑ کر اسے دیکھا

"مجھے میری حور جو ملنے والی"

آدم اسے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بول رہا تھا جب ذامل آگے بڑھ کر ایک زوردار مکہ اس کے منہ پر مار گیا

"نام نہ لی اس کا سمجھا"

وہ سرد نگاہوں سے اسے غصے سے چیخ کر کہنے لگا جس پر آدم کے لب مسکرا دیے 

"تو بس اب یہی کر اپنے منہ سے ہاں کی ہے اس نے اور تیری چھٹی کردی خیر اس نے تیرے لیے ویسے بھی کبھی ہاں نہیں کرنی تھی ایک طرفہ پیار ہی رہ جائے گا تیرا "

آدم کے الفاظ ذامل کو غصہ دلوانے پر مجبور کررہے تھے مگر اپنے غصے پر قابو کرتا وہ اس کی سننے لگا

"تو سچ بول رہا ہے"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگا 

"یقین نہیں ہوتا تو ایک ہفتے بعد آکر خود دیکھ لینا "

یہ کہتے ساتھ آدم وہاں سے چلا گیا اور ذامل اسے جاتا دیکھنے لگا

"حاکم چوہدری تم کیسے اس شخص کیساتھ حور کی شادی کروا سکتے ہو"

ذامل آدم کو جاتا دیکھ خود سے بولتا حویلی کا رخ کرگیا۔

***********

زاہد لان میں پریشان ٹہل رہا تھا تبھی ازقہ وہاں آئی اور نظر اس پر گئی

"پریشان ہیں"

وہ اس کے پاس آکر اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی زاہد اثبات میں سر ہلا گیا

"حور کی وجہ سے"

ازقہ نے ایک اور سوال کیا زاہد اثبات میں سر ہلا گیا 

"مجھے سمجھ نہیں آرہی اس نے آدم کیلیے کیوں ہامی بڑھی"

زاہد پریشانی سے ازقہ کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا دونوں ساتھ چل رہے تھے ۔

"وہ بچی نہیں ہے زاہد ہوسکتا ہے کچھ سوچ کر فیصلہ کیا ہو تسلی نہیں ہے تو خود اس سے بات کرکے دیکھیں"

ازقہ زاہد کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگی زاہد اسے دیکھنے لگ گیا

"مجھے بات ہی کرنی ہوگی اور تھینک یو"

وہ مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ازقہ آئبرو اچکا گئی۔

"مجھے سمجھانے کیلیے"

زاہد اسے خود کو دیکھتا پاکر بتانے لگا جس پر ازقہ مسکرا دی

"یہ میرا فرض ہے"

ازقہ مسکراتے ہوئے کہتے ساتھ وہاں سے چلی گئی زاہد اسے جاتا دیکھنے لگا 

************

حور اس وقت بیلکونی میں کھڑی تھی آنکھوں میں آنسو تھے وہ کہیں سے بھی نہیں اسوقت ایک مغرور سرپھری نواب زادی نہیں لگ رہی تھی بلکل ٹوٹی ہوئی سی لگ رہی تھی۔

تبھی اس کا فون بجا مگر وہ نظر انداز کرتی نظریں باہر کیے کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتی تھی

"کیا میں نے آدم کیلیے ہاں کرکے ٹھیک کیا"

وہ خود سے سوال کرنے لگی اور جواب سوچنے لگی

"ہاں ٹھیک کیا ہے"

حور خود کو تسلی دینے کیلیے بولتی کمرے میں آ گئی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔

اچانک نظر سائیڈ ٹیبل پر گئی جہاں ٹیڈی پڑا تھا آنکھوں میں ایکدم غصہ درخآیا اٹھ کر غصے سے اس ٹیڈی کو اٹھتی باہر پھینک گئی 

"نفرت ہے مجھے تم سے نفرت ہے مجھے تمہاری دی ہوئی ہر چیز نفرت ہے تمہارے ساتھ گزرے ہوئے ہر ایک لمحے سے"

وہ نم آنکھوں سے لہجے میں غصہ کیے بولتی کھڑکی بند کرکے اس کے ساتھ لگ کر آنسو بہانے لگی۔

ذامل کا دل حور کو شدت سے دیکھنے کا کررہا تھا اس لیے ہمیشہ والے راستے سے آتا وہ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے بےچین تھا مگر اپنا دیا ہوا ٹیڈی وہ زمین کر پڑا دیکھ اسے اٹھانے لگا

"آئی ایک سوری جان"

وہ ٹیڈی اٹھا کر کھڑکی پر نظر ڈالتا سر جھٹک کر کہنے لگا۔

"عشق نہ ہو تو ہی بہتر ہے

اگر ہوجائے تو انسان کو فنا کردیتا ہے"🖤

"آخر میں اپنی منزل تک پہنچنے ہی والا ہوں"

دراب چوہدری اپنے کمرے میں موجود مسکراتے ہوئے خود سے کہنے لگے۔

"اب آئے گا مزا ابا جان"

وہ حاکم چوہدری کی تصویر پر نظریں جمائے آنکھوں میں نفرت لیے کہنے لگے 

"آپ سے اپنے سارے بدلے لوں گا آج تک جو آپ میرے ساتھ کرتے آئے ہیں"

وہ حاکم چوہدری کی تصویر پر نظریں جمائے سرخ آنکھیں لیے کہنے لگے 

تبھی آدم کمرے میں داخل ہوا اور دراب چوہدری کو دیکھا ۔

"میں بھی آپ کے ساتھ بدلہ لوں گی ان کی لاڈلی پوتی کی زندگی عذاب کرکے"

آدم ان کے ساتھ آکر کھڑا ہوتا ہوئے کہنے لگا دراب چوہدری اسے دیکھنے لگے۔

"مجھے تم پر فخر ہے آدم جیت ہماری ہی ہوگی"

دراب چوہدری اسے مسکرا کر کہتے ساتھ اپنے لگائے بولے۔

"جی ابا جیت ہماری ہی ہوگی"

وہ بھی مسکرا کر کہنے لگا اور کمرے سے چلا گیا

************

حور پانی پینے کیلئے کچن کی طرف بڑھ رہی تھی جب سامنے سے آتا آدم دیکھائی دیا آدم نے اس کا راستہ روکا حور اسے دیکھنے لگی 

"مجھے پانی پینا ہے آگے سے ہٹو"

حور سپاٹ لہجے میں اسے دیکھے بغیر کہنے لگی آدم مسکرا کر کہنے لگا

"یہ سارے نکھرے ساری اکڑ ختم کردوں گا ایک دفعہ میرے نکاح میں آجاؤ"

وہ اس کے قریب آتے ہوئے اسے کہنے لگا حور پیچھے کی جانب قدم بڑھانے لگی

"مجھ سے دور رہو سمجھے"

حور غصے سے کہتے ساتھ سائیڈ سے گزرنے لگی جب آدم نے اس کی کلائی پکڑی حور نے آنکھیں بند کی وہ اپنے غصے کو ضبط کررہی تھی مگر آدم کی حرکتیں اس کے غصے کو ہوا دے رہی تھی۔

"اب تو ہامی بڑھ دی ہے اب تو یوں نظر انداز مت کرو"

وہ اس کے قریب آتے ہوئے اسے کہنے لگا حور مری اور زوردار تھپڑ اس کی گال پر دے مارا۔

"اپنی حد میں رہو نکاح میں نہیں ہوں میں ابھی تمہارے"

وہ اسے سرد نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ کچن کی طرف بڑھ گئی اور آدم غصے سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔

***********

ذامل اس وقت اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا لائٹ بند کیے ہاتھ میں سگریٹ لیے وہ حور کے متعلق سوچنے میں مصروف تھا

"سوچو جان اگر میں تمہیں دھوکہ دے دوں تو؟"

ذامل حور کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا حور نے فوراً اسے دیکھا

"تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکتے اتنے وقت میں اتنا جان گئی ہوں ملک ذامل تمہیں"

حور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پر اعتماد لہجے میں بولتی ذامل کی مسکراہٹ غائب کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی

"میں نے تمہارا اعتبار توڑا ہے میں جانتا ہوں جان لیکن میں مجبور ہوں"

وہ اس کی تصویر کو دیکھتے ہوئے نم آنکھوں سے خود سے کہنے لگا۔

"مگر جو تم خود کیساتھ کرنے جارہی ہو وہ بہت غلط ہے اور میں تمہیں خود کے ساتھ ایسا کرنے نہیں دوں گا"

وہ خود سے کہتے ساتھ سگریٹ کا گہری کش لگاتا دھواں ہوا میں اڑا کر اس تصویر پر نظریں جما گیا۔

حور اپنے کمرے میں موجود ذامل کے ساتھ گزرا ہوا ہر ایک وقت یاد کررہی تھی آنکھوں میں آنسو تھے 

تبھی ہاجرہ بیگم کمرے میں آئی اور نظر اس پر گئی ہاجرہ بیگم کو کمرے میں آتا دیکھ حور فوراً آنسو صاف کر گئی ۔

"یہ  نکاح میں پہنو گی تم"

وہ اس کے سامنے جوڑا رکھتی اسے کہنے لگی حور اٹھ کر فوراً ہاجرہ بیگم کے پاس آئی۔

"ماں مجھے معاف کردیں نا میں نے جان کر نہیں کیا کچھ بھی سچ میں اس شخص نے مجبور کردیا تھا مجھے"

حور ہاجرہ بیگم کے ہاتھ تھام کر آنکھوں میں آنسو لیے کہنے لگی ہاجرہ بیگم اسے دیکھنے لگی 

"تمہیں اس سے محبت کرتے ہوئے ایک دفعہ اپنے دادا کا خیال نہیں آیا؟"

ہاجرہ بیگم اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کرنے لگی حور نے انہیں دیکھا

"آیا لیکن اس شخص نے اپنی باتوں میں اتنے پاگل کردیا کہ میں سب بھول گئی"

حور آنکھوں میں آنسو لیے انہیں اداسی سے بتانے لگی ہاجرہ بیگم نے اسے گلے لگایا

"اب اسے بھلا دو اور اپنی نئی زندگی میں صرف آدم کا ہی سوچو"

ہاجرہ بیگم اسے گلے سے لگائے کہتے ساتھ وہاں سے چلی گئی حور انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی۔

"کیا کردیا ہے تم نے ذامل تمہاری وجہ سے میں نے اس شخص کیلیے ہاں کی جسے میں دیکھنا تک نہیں چاہتی تھی"

حور خود سے کہتے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی اور نم آنکھوں سے اس سفید رنگ کے جوڑے کو دیکھنے لگ گئی ۔

**********

آج نکاح کا دن تھا اور چوہدری حویلی میں چہل پہل سی مچی ہوئی تھی ہر کوئی کاموں میں مصروف تھا 

"ازقہ اور حور آجاؤ مہندی والی آ گئی ہے"

ہاجرہ بیگم ان دونوں کی آواز لگاتے ہوئے بلانے لگی ازقہ آواز سن کر حور کے کمرے کی طرف بڑھی 

"حور"

ازقہ نے اسے دیکھا جو نہا کر باہر آئی تھی اس کی آنکھیں ابھی بھی سوجی تھی 

"جی"

حور فوراً سے پوچھنے لگی ازقہ اس کے پاس آئی

"آجاؤ مہندی والی آ گئی ہے"

وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی حور نے ازقہ کو دیکھا 

"آئی ایم سوری بجو"

حور ازقہ کے دونوں ہاتھ تھام کر شرمندہ سی بولی ازقہ اسے دیکھنے لگی

"کوئی بات نہیں حور مجھے تو کچھ یاد ہی نہیں"

وہ مسکراتے ہوئے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے پیار سے کہنے لگی حور بھی ہلکا سا مسکرا دی اور گلے سے لگ گئی۔

"چلیں باہر"

ازقہ اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جس پر حور اثبات میں سر ہلا گئی اور دونوں باہر کی طرف بڑھ گئے۔۔

**********

حور اور ازقہ بیٹھی مہندی لگوا رہی تھی ازقہ کے چہرے پر مسکراہٹ جبکہ حور کس چہرہ مرجھایا ہوا تھا ۔

"لڑکے کا نام لکھنا ہے؟"

مہندی والی نے ازقہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ازقہ نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا

"زاہد لکھ دیں"

ازقہ مسکراتے ہوئے اسے کہنے لگی جس پر مہندی والی زاہد کا نام لکھنے لگ گئی۔

"آپ کے بھی دولہے کا نام لکھنا ہے"

مہندی والی حور سے پوچھنے لگی حور نے اسے دیکھا

"نہیں"

حور اسے فوراً سے جواب دینے لگی جس پر مہندی والی بغیر کچھ کہے مہندی لگانے لگ گئی ۔

ان دونوں کی مہندی مکمل ہو گئی تھی اور بہت ہی خوبصورت لگی تھی۔۔

ہاجرہ بیگم دونوں کی نظر اتار کر ان دونوں کو تیار ہونے کو کہنے لگی وہ دونوں خاموشی سے اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔

***********

سارا انتظام ہو چکا تھا لان کو بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ازقہ سرخ رنگ کے جوڑے میں ملبوس لائٹ سے میک اپ میں ہونٹوں پر ریڈ لپسٹک لگائے ہیوی جیولری پہنے پیاری لگ رہی تھی اپنا عکس شیشے میں دیکھ وہ مسکرا دی۔۔

حور سفید رنگ کے نفیس سے کام۔ والے جوڑے میں ملبوس سر پر ہم رنگ  کام دار دوپٹہ سیٹ کیے لائٹ سا میک ایپ کیے ہونٹوں پر پنک کلر کی لپسٹک لگائے لائٹ سے میک ایپ میں ماتھا پٹی جھمکے اور نتھ پہنے وہ اسوقت کوئی آسمان سے اتری حسین پری لگ رہی تھی مگر چہرے پر مایوسی کی وجہ سے اس خوبصورت میں نکھار نہیں آرہا تھا۔

***********

"حور کا نکاح ہے آج"

شہریار ذامل کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا ذامل اپنی جگہ سے کھڑا ہوا

"نہیں ہوگا"

وہ اسے یہ کہتے ساتھ اس کے گھر سے نکل گیا شہریار اسے جاتا  دیکھنے لگ گیا۔

"یہ لڑکا یار"

شہریار سر پیٹ کر کہتے ساتھ پانی پینے لگا

"اللہ تعالیٰ اسے وہ دے دو ورنہ اس نے آپ کے پاس پہنچ جانا ہے"

شہریار چھت کی طرف دیکھ کر کہتے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

************

حور شیشے کے سامنے ساکت سی کھڑی تھی تبھی وہ کھڑکی پھلانگ کر بیلکونی سے گزرتا کمرے میں داخل ہوا۔

"تم میری سوچ سے بھی زیادہ دلہن کے روپ میں حسین لگ رہی ہو جان"

ذامل حور کے عقب میں آکر کھڑا ہوتا اس کے حسین سراہے پر گہری نظریں جمائے گھمبیر لہجے میں کہنے لگا حور فوراً سے پلٹی وہ سچ میں تھا ۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی"

حور سرد لہجے میں اسے دیکھ کر نظریں دوسری سمت کیے پوچھنے لگی۔

"تمہیں دلہن بنا دیکھنے آیا تھا "

وہ اسی پر نظریں مرکوز کیے کہنے لگا حور نے اسے دیکھا

"کیوں آئے ہو ہاں دیکھ لیا نا چلے جاؤ یہاں سے کیونکہ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنی ہے اب"

حور غصے سے کہتے ساتھ مڑنے لگی جب ذامل نے اس کی کلائی پکڑی کر اس کا رخ اپنی طرف کیا۔

"تم دلہن کے روپ میں اس قدر حسین لگ رہی ہو کہ تم سے نظریں نہیں ہٹائی جارہی ہیں اتنی حسین کہ ملک ذامل تمہیں پوری رات پلک چھپکائے دیکھ سکتا ہے حورِ جان"

ذامل اس کے چہرے پر نظریں جمائے گھمبیر لہجے میں اسے بولا حور اسے سن رہی تھی اس کی بات ختم ہوتے ہی حور نے بولنا چاہا مگر ذامل اس کے منہ پر رومال رکھ گیا حور اسے دیکھنے لگ گئی ۔

"سوری لیکن یہ کرنا ضروری ہے"

ذامل حور کو مزاحمت کرتا دیکھ کہنے لگا کچھ منٹ بعد حور ذامل کی باہوں میں تھی۔

"حور حور"

تبھی دروازے پر ہاجرہ بیگم اسے دستک دیتی پکارنے لگی ذامل دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔۔

ہاجرہ بیگم کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ذامل اسے باہوں میں بھرتا بیلکونی سے لے گیا 

ہاجرہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی اور نظر پورے کمرے میں دوہرائی حور نہیں تھی وہ پریشان ہوئی۔

"حور"

وہ اسے پکارتے ہوئے باتھروم کی طرف بڑھی مگر اس کی لائٹ بند دیکھ کر ہاجرہ بیگم کو پریشانی ہوئی اور پریشان سی وہی کھڑی رہی 

"ماں لے آئیں نا حور کو"

صارم کمرے میں آتے ہوئے ہاجرہ بیگم کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر انہوں نے اسے دیکھا

"کیا ہوا ماں"

ہاجرہ بیگم کو پریشان سا دیکھ کر وہ فوراً سے پوچھنے لگا

"حور کہیں نہیں ہے"

ہاجرہ بیگم فوراً سے اسے بتانے لگی صارم کمرے میں نظر دوہرانے لگا

"کہاں گئی ہے"

صارم پریشانی سے ان سے پوچھنے لگا ہاجرہ بیگم نفی میں سر ہلا گئی

"میں دادا کو بتاتا ہوں "

صارم فوراً سے کہتے ساتھ باہر کی طرف بڑھا ہاجرہ بیگم بھی باہر چل دی 

"کیا ہوا حور کہاں ہے"

حاکم چوہدری ان دونوں کو بغیر حور کے آتا دیکھ پریشان سے پوچھنے لگے

"دادا وہ حور کہیں بھی نہیں ہے"

صارم فوراً سے انہیں دیکھتے ہوئے بتانے لگا جس پر حاکم چوہدری اسے دیکھنے لگے

"ایسے کیسے کیوں نہیں ہے"

حاکم چوہدری ہاجرہ بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے دراب چوہدری جو اندر آرہے تھے ان کے بڑھتے قدم رکے چہرے کی مسکراہٹ سمٹی

"مجھے نہیں پتہ ابا جان"

ہاجرہ بیگم گھبراتے ہوئے جواب دینے لگی حاکم چوہدری پریشان ہوئے

"کہاں گئے ہے حور"

دراب چوہدری پریشانی سے اس طرف بڑھ کر پوچھنے لگے حاکم چوہدری نے انہیں دیکھا

"بتائیں ابا جان"

دراب چوہدری فوراً سے ہیرخسے کہنے لگے 

"نہیں ہے کہیں بھی"

حاکم چوہدری نے غصے سے جواب دیا جس پر دراب چوہدری پریشان ہوئے

"خود گئے ہے یا کوئی زبردستی لے گیا ہے؟"

حاکم چوہدری پریشان سے ان سب پر باری باری نظر ڈالتے سوچتے ہوئے کہنے لگے

"پتہ نہیں دادا جان"

صارم فوراً سے کہنے لگا حاکم چوہدری نے اسے دیکھا

"پتہ کرواؤ"

سرد لہجے میں کہتے ساتھ وہ باہر کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔

***********

ذامل حور کو اپنے گھر میں لایا تھا جہاں کبھی کبھار آیا کرتا اس کے علاؤہ وہاں کوئی نہیں ہوتا تھا اور اس کے اس گھر کا بہت کم لوگوں کو ہی معلوم تھا 

ذامل اسے کمرے میں لاکر بیڈ پر لٹانے لگا اور کرسی کھسکا وہی بیٹھ کر اس کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگا

"آدم جیسے انسان سے تمہیں دور رکھنے کیلیے یہی کرنا بہتر لگا مجھے"

ذامل اس کی ماتھے پر ماتھا پٹی درست کرتے ہوئے بولا وہ دنیا سے بیگانہ بےہوش تھی 

وہ اسے ویسے چھوڑتا باہر کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔

حور دلہن کے سرخ جوڑے میں ملبوس بےہوش سی حالت میں بیڈ پر لیٹی تھی اچانک اس نے اپنی  پلکوں پر جبنش کی اور آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنے لگی سر بہت بھاری تھا پوری آنکھیں کھول کر وہ نظریں ارد گرد گھمانے لگی خود کو ایک کمرے میں موجود پاکر اس کے ذہن میں بہت سے خیالوں نے گردش کی تھی وہ پریشان اور گھبراتے ہوئے دونوں ہاتھ سر پر رکھے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی اچانک چہرے پر سرد تاثرات سج گئے 

"ذامللللللل"

وہ اٹھ کر بیٹھتی بھاری سر کیساتھ چلا کر اسے پکارنے لگی 

تبھی دروازہ کھولا وہ سینے پر بازو باندھے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسے دیکھنے لگا 

"میں تمہارے سامنے ہوں"

ذامل پرسکون سے انداز میں اسے جواب دینے لگا حور سرد اور نفرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی

"مجھے جانا ہے یہاں ابھی اسی وقت مجھے حویلی چھوڑ کر آؤ"

وہ غصے سے لہنگہ سنبھال کر بیڈ سے اٹھ کر سرد لہجے میں اسے کہتے ساتھ باہر کی جانب بڑھنے لگی 

"اگر واپس تمہیں جانے ہوتا تو یہاں لاتا کیوں"

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر حور کے باہر جانے کا ارادہ ترک کرتا کہنے لگا 

"کیوں کررہے ہو یہ سب ایک ہی دفعہ مار دو مجھے کیوں مجھے میرے خاندان کی نظروں میں ذلیل کرنا چاہتے ہو شادی ہے میری مجھے جانے دو"

حور آج صحیح معنوں میں بےبسی سے نم آنکھوں سے  اس سے بولی 

"ایک بات کیوں تمہیں سمجھ نہیں آتی تمہارے لیے میں بنا ہوں تمہاری شادی مجھ سے ہوگی صرف مجھ سے"

وہ مضبوط گرفت حور کے دونوں بازوؤں میں قائم کیے سختی سے اسے بولا حور اسے دیکھنے لگی 

"نفرت کرتی ہوں میں تم سے سمجھے"

حور اس کی سرد سرخ نگاہوں میں نگاہیں پتھریلے لہجے میں کہنے لگی ذامل نے اسے غصے سے مزید قریب کیا 

"میں تو پیار کرتا ہوں"

اس کی سیاہ آنکھوں میں نظریں جمائے گھمبیر لہجے میں بولا

"مجھے تمہارے سامنے کھڑے ہوکر تم سے بحث کرنے کا کوئی شوق نہیں"

وہ اسے غصے سے کہتے ساتھ کمرے سے تیزی سے باہر کی طرف بڑھ گئی

ذامل زبردستی اس کی کلائی تھامے کمرے کی جانب بڑھنے لگا وہ اپنا آپ اس کی قید نکالنے کی سعی کررہی تھی

" ملک ذامل تمہاری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے مجھ سے چھٹکارا پانا آسان نہیں"

وہ اس دیوار سے پن کیے دونوں ہاتھ دیوار سے لگائے اس کے چہرے پر جھک کر بولا 

"چاہتے کیا ہو مجھ سے"

سامنے موجود اس کی آنکھوں میں صرف ذامل کیلیے نفرت تھی جو ملک ذامل کو بری طرح چبھ رہی تھی

"اپنا بنا کر رکھنا"

اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے گھمبیر لہجے میں اسے کہنے لگا 

"کون سا نیا کھیل کھیل رہے ہو کیونکہ ذامل چوہدری کو تو پیار کے اصل معنی ہی نہیں ہے پتہ"

وہ لفظ پر زور دیتے ہوئے سرد لہجے میں پوچھنے لگی 

"واقع پیار کرتا ہوں "

وہ اسے نرمی سے مسکرا کر بولا حور کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی 

"لیکن نفرت کرتی ہے جتنی تمہارے پیار میں پاگل ہوئی تھی اب اس سے دگنی نفرت کرنے لگی ہوں ملک ذامل"

وہ اسے زہر خند لہجے میں اونچی آواز میں سرد نگاہوں سے دیکھتی بتانے لگی جب اس نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی حور کے لہجے میں موجود کڑواہٹ ملک ذامل کی برداشت سے باہر تھی 

"ششش جان صرف ملک ذامل  سے پیار کرے گی انڈرسٹیند"

ذامل اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھے بولتے ہوئے کسی جنونی سے کم نہیں لگا حور بس اسے دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔

"مجھے جانا ہے"

وہ اونچی آواز میں چیخ کر کہنے لگی جس پر ذامل اسے دیکھنے لگ گیا۔

"اب یہاں سے نہیں جا سکتی ہم دونوں کا نکاح ہوگا"

ذامل اس کے بالوں کو ٹھیک کرتے ہوئے نرمی سے اسے بتانے لگا

"میں مرنا پسند کرو گی زبردستی نہیں کرسکتے تم"

حور نظریں دوسری سمت کیے اسے سخت لہجے میں کہنے لگی 

"نہیں کوئی زبردستی نہیں ہے دادا کی جان پیاری ہے اپنے"

ذامل اطمینان سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا حور اسے دیکھنے پر مجبور ہوگئی

"ذامل تم ایسا کچھ نہیں کرو گے"

وہ اسے انگلی دیکھا کر وارن کرنے والے انداز میں کہنے لگی 

"کرنے کو بہت کچھ کرسکتا ہوں خاموشی سے نکاح کر لو مجھ سے اگر دادا جان کی جان پیاری ہے"

وہ ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسے کہنے لگا 

"کتنا گرو گے میری نظروں میں"

حور اسے دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی 

"تمہارے لیے ہی کررہا ہوں یہ سب سمجھی"

ذامل اب کی بار پتھریلے لہجے میں غصے سے بتانے لگا حور سہم گئی

"نکاح کرنے کیلیے تیار ہو بولو ورنہ ادھر میری ایک کال ادھر تمہارے دادا اوپر"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے اپنے غصے کو ضبط کرتا پوچھنے لگا حور اسے بےبسی سے دیکھ رہی تھی

"میرے بس میں ہوتا نا تو آج تمہیں قتل کردیتی میں"

حور غصے سے اسے دیکھتے ہوئے ہر لفظ پر زور دیتی بولی ذامل کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی 

"تم رضامند ہوگئی کپڑے بدلو"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے کہتے ساتھ وارڈروب سے سرخ رنگ کا جوڑا نکال کر آیا 

"میں نہیں بدلوں گی"

حور غصے سے ڈریس سائیڈ پر کرتی بولی اس کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو چکی تھی 

"کرنا تو ہوگا تمہیں کیونکہ مجھے تمہیں سرخ جوڑے میں دیکھنا اگر نہیں کرو گی تو میں خود کردوں"

ذامل ضدی انداز میں اسے دیکھتے ہوئے اپنے الفاظ بول رہا تھا جب حور نے گھور کر اسے دیکھا

"انتہائی کوئی لچے انسان ہو تم"

سحر اسے ایک لقب دیتی اس کے ہاتھ سے ڈریس لیتی باتھروم کی طرف بڑھ گئی ذامل اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔

*************

سرخ جوڑے میں ملبوس جس پر گولڈن نفیس سا کام ہوا ہوا تھا ہم رنگ دوپٹہ لیے وہ باہر نکلی تھی ذامل کی نظر اس پر گئی عروسی جوڑے میں ذامل کو وہ آسمان سے اتری کوئی پری لگ رہی تھی اور سرخ تو اس کی سفید رنگت پر خوب جچ رہا تھا نظریں اس پر جمائے وہ اسے دیکھ رہا تھا حور کی آنکھوں میں صرف آنسو تھے اس شخص نے اسے بےبس کرکے رکھ دیا تھا۔

"مولوی صاحب"

ذامل حور سے نظریں ہٹائے روعبدار آواز میں کہنے لگا تبھی مولوی صاحب کمرے میں آئے 

"نکاح پڑھائیں"

ذامل حور کی طرف بڑھ کر اس کا ہاتھ تھامے اپنے ساتھ لایا حور ناچاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل دی 

مولوی صاحب نے نکاح شروع کروایا حور کا دل کیا وہ کسی طرح یہاں سے بھاگ جائے حویلی جائے مگر شاید قسمت کو یہی منظور تھا

نکاح ہوچکا تھا ذامل مولوی صاحب کو چھوڑنے کیلیے باہر کی طرف بڑھا 

"اگر آپ نے کسی کو بھی ہمارے نکاح کی خبر بتائی تو آپکی جان پہلی فرصت میں لوں گا یہ بات بھول جائیں"

ذامل مولوی صاحب کو گن دیکھاتے ہوئے کہنے لگا مولوی صاحب گن دیکھ آنکھیں بڑی کیے تھوک نگلتے اثبات میں سر ہلا گئے اور چلے گئے ذامل گن جیب میں رکھتا مونچھوں کو تاؤ دیے مسکراتا ہوا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

**************

دلہن کے جوڑے میں ملبوس وہ سرخ آنکھیں لیے سرخ ہی ناک کے ساتھ اسوقت غضب کی لگ رہی تھی۔

"نکاح مبارک ہو جان"

ذامل کمرے میں داخل ہوتا اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا حور نے غصے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا

"تم نے جو میرے ساتھ کیا ہے نا خدا تم سے ایسا بدلہ لے گا تم یاد رکھو گے میری زندگی ختم کرکے رکھ دی ہے تم نے ملک ذامل "

حور اسے سرد نگاہوں سے گھورتے ہوئے چلا کر کہنے لگی جب ذامل نے کانوں پر ہاتھ رکھا۔

" ننھی جان اتنا زور مت لگاؤ"

وہ اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے مسکرا کر کہنے لگا۔

"میں لگاؤ گی جینا حرام کردوں گی میں تمہارا سمجھے"

وہ اسے سرخ آنکھیں لیے انگلی دیکھا کر وارن کرنے والے انداز میں مزید اونچا چیخی جب ذامل نے اس کی انگلی پکڑ کر اپنا ہاتھ کلائی تک لایا اور کھینچ کر اپنے قریب کیا۔

"میں ہر وار کیلیے تیار ہوں جان"

ذامل اس کی کمر پر دونوں طرف ہاتھ رکھتا کان کے قریب جھک کر گھمبیر لہجے میں کہنے لگا حور نے اپنے ناخن اس کی گردن میں چبائے۔

"افف جنگلی شیرنی"

وہ اس سے دور ہوتا اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا جو کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہی تھی

"میں تو ایسی ہی ہوں تمہیں ہی شوق تھا نکاح کرنے کا اڈجسٹ کرنا ہوگا"

حور اسے دیکھتے ہوئے لفظوں پر زور دیتی بولی ذامل کے لب مسکرا دیے۔

"اڈجسٹ تو میں کروا لوں گا "

وہ اسے دیکھتے ہوئے اسی کے انداز میں کہنے لگا سیاہ آنکھیں لائٹ براؤن آنکھوں سے ٹکرائیں تھیں ذامل اس کے قریب آنے لگا حور پیچھے کی طرف قدم بڑھانے لگی 

"ککک۔۔۔کیا کررہے ہو"

حور ناچاہتے ہوئے بھی اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کپکپاتے ہوئے لگی ادا کرنے لگی

"تمہیں بتارہا ہوں اڈجسٹ میں کر حال میں کرلوں گا"

وہ اس کے چہرے کے قریب چہرہ لائے کہنے لگا حور آنکھیں زور سے بند کر گئی

"تم نے کچھ کیا نا"

حور آنکھیں نیچے غصے سے اسے کہنے لگی ذامل کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی 

"تو"

ذامل اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے ساتھ لگائے آئبرو اچکائے پوچھنے لگا 

"میرے پاس اب سارے اختیار ہے تمہارے قریب آنے کے مسز ملک ذامل "

حور کے کام کے قریب لب لائے گھمبیر لہجے میں اسے کہنے لگا حور غصے سے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے خود سے دور کرنے کی سعی کرنے لگی۔

"مجھے تمہاری ان گھٹیا باتیں کو سننے میں ذرا دلچسپی نہیں ہے ہٹو مجھے چینج کرنا ہے"

حور اسے غصے سے اسے پیچھے کرتے ہوئے سائیڈ سے گزرنے لگی 

"مگر میں پہنو گی کیا"

حور جاتے جاتے رک کر ایکدم خود سے پوچھنے لگی اور ذامل کی جانب دیکھا

"وہاں"

ذامل حور کو وارڈروب کی طرف اشارہ کرنے لگا حور غصے سے اسے دیکھتے ہوئے وارڈروب کی طرف بڑھی اور ایک ڈریس لیتی باتھروم کی طرف بڑھ گئی

 کچھ دیر میں حور سادہ سے لان کے سوٹ میں ملبوس باہر آئی ذامل نے اسے دیکھا حور اسے نظر انداز کرتی کمرے میں نظر دوہرانی لگی۔

"اس کے علاوہ اور کوئی روم نہیں اس گھر میں"

حور فوراً سے ذامل کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ذامل نفی میں سر ہلا گیا

حور منہ بسور کر وہی بیٹھ گئی اور حویلی میں کیا ہورہا ہوگا سوچنے لگی

"کیا سوچ رہی "

وہ اسے مایوس دیکھتے ہوئے فوراً سے پوچھنے لگا حور نے اسے دیکھا

"تم نے جو کیا ہے اس کے بعد نہ جانے حویلی میں ہو کیا رہا ہوگا"

حور بیٹھے ہوئے پریشان سی ذامل کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ذامل اسے دیکھ رہا تھا

"جو بھی ہورہا ہوگا مگر تمہیں کوئی کچھ نہیں بولے گا"

ذامل پر اعتماد لہجے میں حور کو دیکھتے ہوئے بولا حور کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔

"مجھے تم پر بلکل یقین نہیں ہے"

وہ اسے صاف لفظوں میں کہتے ساتھ دوسری سمت دیکھنے لگ گئی ذامل خاموش رہا۔۔

*********

صارم حور کو ہر جگہ ڈھونڈ آیا تھا مگر اسے حور کا کچھ معلوم نہیں ہوا تھا اور وہ ویسے ہی مایوسی سے واپس گھر آ گیا تھا ۔

"اگر حور اور آدم کا نکاح نہیں ہوگا تو میں اپنی بیٹی کی رخصتی بھی زاہد سے نہیں کرواؤں گا"

دراب چوہدری سرد لہجے میں کہنے لگی زاہد اور ازقہ  وہاں موجود دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگ گئے۔۔

"اگر شادی ہی نہیں کرنی تھی تو کیوں ہامی بڑھی"

دراب چوہدری غصے سے ان سب کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا جس پر سب لوگ اسے دیکھنے لگ گئے۔۔

"ایسا نہیں ہے سمجھے ہماری حورِ جان سب کرسکتی ہے مگر اپنے دادا کی عزت کو خراب نہیں کرسکتی"

اعظم چوہدری غصے سے اسے دیکھتے ہوئے اعتماد بھرے لہجے میں کہنے لگے جس پر سب لوگ خاموش ہوگئے۔

"اگر آدم کی شادی نہیں ہوگی تو یہ رخصتی بھی نہیں ہوگی بات ختم رات کے بارہ بج چکے ہیں اور اس لڑکی کا کچھ آتا پتہ نہیں ہے"

دراب چوہدری ازقہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر اپنے ساتھ لیے ان سب کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے

"ہمیں تم سے اس بیوقوفی کی امید نہیں تھی"

وہ غصے سے دراب چوہدری ہو گھور کر کہنے لگے ازقہ پریشان سی کھڑی تھی آدم کو اپنی جگہ غصہ آرہا تھا

"چاچا آپ ایسا نہیں کرسکتے نکاح میں ہے وہ میرے سمجھے "

زاہد سخت لہجے میں غصے سے اسے کہنے لگا جس پر دراب چوہدری ازقہ کو زبردستی لیے کمرے کی طرف بڑھنے لگا

"میری بیٹی ہے وہ میں نہیں کروں گا رخصتی"

وہ اسے ساتھ گھسیٹ کر کہتے ساتھ اوپر کی طرف بڑھ گئے ازقہ ان سے اپنا آپ چھڑوانے کی ناکام کوشش کرتی رہی وہ اسے کمرے میں کیے دروازہ بند کر گئے ۔

************

حور اسی طرح بیٹھے روتے روتے اور حویلی میں سب کا سوچتے ہی سو گئی تھی تین راتوں سے وہ نہیں سوئی تھی اور اچانک اس کی آنکھ لگ گئی ذامل جو خاموشی سے بیڈ پر لیٹا تھا نظر اس پر گئی جس کی سسکنے کی آوازیں اب نہیں آرہی تھی اٹھ کر اس کی جانب بڑھا اور اسے دیکھا جو بیڈکراؤن سے سر ٹکائے سورہی تھی اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے بالوں کو شہادت والی انگلی سے کانوں کے پیچھا کرتا وہ اسے آرام سے بیڈ پر لٹانے لگا اپنے جسم پر کسی چیز کو محسوس کرکے حور کی فوراً آنکھ کھلی اور ذامل کو اپنے قریب دیکھ اس کی سانس رک گئی اور فوراً اسے دور کیا 

"کیا کررہے تھے تم ہاں"

حور غصے سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ذامل کی نظریں اسی پر تھیں

"تم بیٹھے بیٹھے سو گئی گردن پر درد نہ ہو اس لیے سیدھا لٹا رہا تھا"

ذامل اسی نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا حور نے آنکھیں چھوٹی کیے گھورا اور بیڈ سے کھڑی ہوئی

"سنو میری فکر مت کرو سمجھے تم کیونکہ اب میں تمہاری باتوں میں نہیں آنے والی سمجھے تو یہ فضول کوششیں اور دیکھاوا کرنا چھوڑ ملک ذامل"

حور اسے سرد نگاہوں سے گھورتی سخت لہجے میں ہر لفظ پر زور دیتی بولتے ساتھ سائیڈ سے گزر کر روم میں موجود چئیر پر بیٹھ گئی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا 

"دیکھاوا کرنے کا شوق نہیں ہے مجھے"

ذامل بیڈ پر بیٹھتا اسے سنجیدگی سے جواب دینے لگ گیا اس کی بات پر حور کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی

"اچھا مذاق تھا "

حور اسے طنزیہ بولتے ساتھ نظریں دوسری سمت کر گئی تھی 

"میں نے تم سے محبت سچی کی ہے دادا اہم ہے میرے لیے بہت اسی لیے"

وہ اسی ایک بار پھر سنجیدگی سے  اپنی صفائی دینے لگا 

"تو اب کیوں کیا نکاح مجھ سے دادا کو اہم رکھنا تھا اوہ کوئی مقصد ہوگا تمہارا"

حور بولتے بولتے ہنس کر آخری الفاظ کہتی سامنے موجود شخص کو شرمندہ کرنے میں کامیاب ہوگی 

"میں نے تم سے نکاح تمہیں برباد ہونے سے بچانے کیلیے کیا ہے"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے فوراً سے بتانے لگا حور ایکدم کھڑی ہوگئی

"برباد تو کر ہی چکے ہو مجھے تم تم نے صرف میری زندگی برباد ہی کی ہے جب سے میری زندگی میں آئے ہو ناجانے مجھے اور کس کس چیز کا سامنا کرنا ہے"

حور ایکدم غصے میں آتی سرخ آنکھیں لیے چلا کر بولی ذامل بھی کھڑا ہوتا اس کے مقابل میں آیا 

"حور آہستہ آواز"

ذامل اسے نرم لہجے میں نظریں چہرے پر جمائے کہنے لگا 

"نہیں کروں گی جو مرضی کرلو مسٹر"

وہ اس سے بھی اونچی آواز اختیار کرتی اسے ڈھٹائی سے بولی ناچاہتے ہوئے بھی وہ ہلکا سا مسکرا دیا 

وہ واحد تھی جس کا غصہ اور اونچی آواز ملک ذامل برداشت کرلیتا تھا 

"مجھے نیند آرہی ہے تو بہتر ہے اپنا یہ فضول سا ٹاپک اور ڈرامہ بند کرو اور مجھے پریشان مت کرو"

حور اسے کہتے ساتھ کرسی پر جا کر بیٹھ گئی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا 

"تم وہاں سو جاؤ گی"

ذامل اسے اشارہ کرتے ہوئے چہرے پر ہاتھ رکھے پوچھنے لگا حور بغیر کوئی جواب دیے خاموشی سے آنکھیں موند گئی ذامل خاموشی سے واپس بیڈ پر بیٹھ گیا

***********

ذامل پوری رات اسی پر نظریں مرکوز کیے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا آنکھوں میں اسوقت الگ قسم کی چمک تھی حور کی گردن بلکل جھکی ہوئی تھی ذامل آرام سے اٹھتا اس کے پاس آیا اسے گود میں بھرتا بیڈ پر لٹا گیا وہ حور کی نیند سے بخوبی واقف تھا جو بہت گہری تھی اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر کمفرٹر ڈال کر بال ٹھیک کرتا کمرے سے باہر کی طرف چلا گیا 

"ذامل حور غائب ہے"

شہریار اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی فوراً اسے یہ خبر دینے لگا 

"بھابی بول"

ذامل سرد لہجے میں کہتے ساتھ صوفے پر بیٹھا شہریار اسے دیکھنے لگ گیا

"تو نے اسے کیڈنیپ کیا ہے؟"

شہریار اندازہ لگاتا اسے جانچتی نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھنے لگا۔

"بلکل"

وہ اسے لفظی جواب دیتا واقع حیران کر گیا اور شہریار اسے دیکھتا رہ گیا۔

"تو نے نکاح بھی کرلیا"

شہریار حیرانگی سے اسے دیکھتے ہوئے ایک اور سوال کرنے لگا جس پر ذامل نے اسے دیکھا

"الحمدللہ"

ذامل پرسکون میں جواب دیتا سگریٹ لبوں سے لگا گیا شہریار خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا

"دادا؟"

شہریار پریشان سی کیفیت میں بس اتنا ہی پوچھ سکا 

"دیکھی جائے گی"

وہ جواب دیتا سگریٹ کا دھواں ہوا میں اڑانے لگ گیا جس پر شہریار خاموش ہو گیا۔

*********

"پتہ نہیں وہ بچی کہاں گئی ہوگی"

نوال کی والدہ میمونہ بیگم پریشانی سے کہنے لگی 

"پتہ نہیں امی "

نوال خود بھی پریشانی سے کہنے لگی جس پر میمونہ بیگم اسے دیکھنے لگ گئی

"وہ خوش تھی نکاح سے ؟"

میمونہ بیگم نے فوراً اس سے سوال کیا نوال نے انہیں دیکھا

"جی اس کی مرضی شامل تھی"

نوال جواب دیتے ساتھ حور کے متعلق سوچنے لگ گئی میمونہ بیگم خاموش رہی 

"ایک انسان کو پتہ ہوگا"

نوال شہریار کا سوچتے ہی فوراً سے کہتی کل پوچھنے کا ارادہ کرکے سکھ کا سانس لینے لگی گئی ۔

***********

"ذامل"

حور کی چیخنے کی آواز پر ذامل اور شہریار دونوں نے اوپر کی جانب دیکھا 

"تم جاؤ بعد میں بات ہوتی ہے"

ذامل شہریار سے کہتے ساتھ اوپر کی طرف بڑھ گیا اور شہریار خاموشی سے چلا گیا

"کیا ہوا"

وہ کمرے میں آتے ہوئے اسے غصے میں کھڑا دیکھ پوچھنے لگا

"مجھے چئیر سے بیڈ پر کون لایا"

حور اس کی جانب قدم بڑھاتی غصے سے پوچھنے لگی ذامل نے اسے دیکھا 

"میرے علاوہ کون ہوسکتا ہے"

ذامل اسے اسی کے انداز میں مسکراتے ہوئے جواب دینے لگا

"میرے بس میں ہوتا نا تو میں تمہاری جان لے لیتی چیپسٹر کہیں کے"

وہ تپ کر اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ دے کر تکیہ مارنے لگی۔

"نہیں ہے نا بس میں"

وہ اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتا  کھینچ کر قریب کیے گھمبیر لہجے میں بولا حور کی بیٹ مس ہوئی تھی۔۔

"چھوڑو مجھے"

حور خود کو نارمل کرتے ہوئے سختی سے اس سے ہاتھ نکالتی بولنے لگ گئی۔

"اب نہیں چھوڑوں گا"

اس کے کان کے قریب لب لائے اسے بولا حور منہ دوسری سمت کر گئی جس پر ذامل اسے دیکھنے لگ گیا۔۔

***********

"کہاں ہے ملک ذامل"

ملک شہراز غصے سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے جس پر سب ملازم نے انہیں دیکھا

"صاحب مجھے نہیں پتہ وہ کل سے نہیں آئے"

ملازم فوراً سے گھبراتے ہوئے اسے بتانے لگ گیا جس پر ملک شہراز اسے دیکھنے لگ گئی ۔

"پتہ کرو فون ملاؤ اس کا "

وہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگے جس پر ملازم اثبات میں سر ہلا کر نمبر ملانے لگ گیا 

"صاحب نمبر بند ہے"

وہ فون ملانے کے بعد افسردگی سجائے بولا ملک شہراز کرسی پر بیٹھ گئے 

"یہ لڑکا"

وہ پریشان سی غصے سے کہتے ساتھ سر کرسی سے ٹکا گئے 

"تم یہاں"

نوال کو ڈیڑے پر دیکھ کر شہریار حیرانگی سے کھڑا ہوتا پوچھنے لگا 

"ہاں وہ مجھے تم سے کچھ پوچھنا تھا"

نوال اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بتانے لگی شہریار نے اس کی جانب قدم بڑھائے

"بولو"

شہریار اسے غور سے دیکھتا کندھے اچکائے پوچھنے لگا 

"تمہیں معلوم ہے نا حور کا انکار مت کرنا بہت امید سے تمہارے پاس آئی ہوں مجھے بتا دو وہ کہاں ہے"

نوال اسے دیکھتے ہوئے چہرے پر معصومیت سجائے اسے کہنے لگی 

"تم بتادو گی"

وہ فوراً اسے دوسری جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگا نوال اسے دیکھ رہی تھی

"آئی پرامس میں نہیں بتاؤں گی پلیزز بتادو یار"

نوال فوراً سے اسے مسکرا کر بولی شہریار نے اسے دیکھا اس کے لب مسکرائے

"یقین کرکے بتارہا ہوں امید کرتا ہوں تم یہ یقین نہیں توڑو گی"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا نوال اثبات میں سر ہلا گئی

"ذامل اسے کیڈنیپ کرکے لے گیا تھا اس کے ساتھ نکاح بھی کرلیا ہے "

شہریار پرسکون سا اسے سب بتانے لگا اور نوال آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھ رہی تھی

"واقع"

نوال بےیقینی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی شہریار اثبات میں سر ہلا گیا

"پتہ نہیں اسے کیسے دھمکا کر خود کیساتھ نکاح کرنے پر راضی کیا ہے لیکن جو بھی ہوا ٹھیک ہوا"

شہریار مسکراتے ہوئے سامنے دیکھتے ہوئے بتانے لگا نوال اسے دیکھتی رہ گئی

"یہ ٹھیک ہوا ہے اگر ان دونوں کے خاندان والوں کو پتہ لگ گیا تو جینا حرام سمجھو انکا ہوگا"

نوال پریشانی سے اسے دیکھتے ہوئے منہ بنائے کہنے لگی 

"ذامل اس کی حفاظت کرلے گا ڈونٹ وری"

شہریار اعتماد بھرے لہجے میں اسے بتانے لگا جس پر نوال منہ بنا گئی

"ہونہہ وہ وہی ہے جس نے اپنے دادا کے کہنے پر اسے چیٹ کیا "

نوال اسے گھورتے ہوئے یاد دلاتی بولی شہریار نے اسے دیکھا

"اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے"

وہ اسے دیکھتا سنجیدگی سے بتانے لگا نوال خاموشی سے اسے دیکھنے لگی 

"خیر آج تو بہت لیٹ ہوگیا ہے میں کل تمہیں یہی ملو گی مجھے حور سے ملوانے لے چلنا "

نوال اسے کہتے ساتھ وہاں سے جانے کیلیے مڑ گئی 

"خیال رکھنا یوں بار بار ملاقات ہوتے پیار نہیں کر بیٹھنا"

وہ ہنستے ہوئے اسے تنگ کرتا کہنے لگا نوال نے مڑ کر اسے دیکھا

"اتنے برے دن نہیں آئے ابھی میرے"

وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور کر جواب دیتی وہاں سے چلی گئی شہریار قہقہ لگا کر ہنسا۔۔

**************

وہ  کمرے میں خاموشی سے بیٹھی تھی نیچے نہ جانے کی ضد کیے ہوئے تھی 

"حور ناشتہ لگا دیا نیچے آؤ"

ذامل کمرے میں آتے ہوئے اسے نرمی سے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا 

"میں نہیں کھاؤں گی"

حور اسے دیکھے بغیر سرد لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہنے لگی 

"بچوں کی طرح ضد میں کرو مان جاؤ"

ذامل اس کی جانب آتا اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا حور نے اس کی جانب دیکھا 

"نہیں کا مطلب نہیں ہوتا ہے"

وہ اسے غصے سے دیکھتی جواب دینے لگی ذامل اس کے ساتھ بیٹھا حور تھوڑا فاصلہ اختیار کر گئی

"میں کروا کر رہوں گا"

ذامل اسے اسی کے انداز میں اسے دیکھتے ہوئے بولا حور ناک پھلا گئی

"تم ناشتہ کرلو جو کہو گی وہ کرو گا"

ذامل اسے آفر دیتے ہوئے کندھے آچکا کر کہنے لگا جس پر حور نے اسے دیکھا 

"وعدہ بدلو گے تو نہیں"

حور فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی ذامل اثبات میں سر ہلا گیا ذامل نفی میں سر ہلا گیا 

"مجھے حویلی لے چلو گے"

حور فوراً سے کہنے لگی ذامل اسے دیکھنے لگا دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے

"بولو"

حور اسے خاموش پا کر فوراً سے پوچھنے لگی جس پر ذامل بس اثبات میں سر ہلا گیا 

"ناشتہ کرو سب"

ذامل اٹھ کر کھڑا ہوتا اسے کہنے لگا حور خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دونوں کی نیچے کی طرف بڑھ گئے 

دونوں کے ناشتہ کیا ذامل ناشتے کے وقت خاموش رہا حور بھی خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی

"چلیں"

ناشتہ ختم ہوتے ہی حور فوراً سے پوچھنے لگی ذامل نے اسے دیکھا

"تم خود کو ڈھک کر آؤ میں گاڑی میں انتظار کررہا ہوں"

ذامل سنجیدگی سے کہتے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گیا اور حور اوپر کی طرف بڑھ گئی خود کو چادر سے ڈھک کر وہ نیچے آئی اس کے گاڑی میں آکر بیٹھتے ہی ذامل نے گاڑی سڑک پر دوہرا دی۔۔

**********

کچھ دیر بعد وہ دونوں حویلی کے باہر موجود تھے ذامل اور حور دونوں گاڑی سے اترے ملازم وہاں موجود تھے حور کو دیکھ وہ ان دونوں کو خاموشی سے جانے کی اجازت دینے لگ گئے

حویلی میں گہری خاموشی سے چھائی ہوئی تھی حور نظریں ادھر ادھر گھمائے ذامل کے ساتھ اندر کی طرف بڑھی سب ٹی وی لاؤنچ میں پریشان سے بیٹھے تھے حور ان سب کو دیکھنے لگی

"دادا جان"

حور مسکراتے ہوئے انہیں پکارنے لگی حور کی آواز پر حاکم چوہدری سمیت سب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا 

"میری گڑیا"

حاکم چوہدری حور کو دیکھ خوشگواری سے کہتے ساتھ اس کی طرف بڑھے مگر ذامل کو قدم دیکھ رک گئے 

"حور یہ یہاں"

حاکم چوہدری حور سے فوراً سوال کرنے لگی حور نے نظریں گھما کر ذامل کو دیکھا 

"میں آپ کو سا"

ذامل ابھی بول رہا تھا جب حاکم چوہدری نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا 

"ہم نے اپنی حور سے پوچھا ہے حور بتائیں"

وہ ذامل کو خاموش رہنے کا بولتے حور سے پوچھنے لگے ہر آفراد کی نظر ان پر جمی تھی 

"د۔۔دادا وہ ذامل نے نکاح ۔۔۔کرلیا ہے مجھ سے"

حور ہمت جمع کرتے ہوئے انہیں سچائی نم آنکھوں سے بتانے لگی وہاں موجود ہر شخص اپنی جگہ ساکت ہو گیا آدم شدید غصے میں آ گیا 

"آپ ہوش میں تو ہیں حور"

حاکم چوہدری غصے سے اونچی آواز میں پہلی دفعہ حور سے مخاطب ہوئے حور سہم گئی

"دادا یہ سچ ہے لیکن یہ پوری بات نہیں ہے میری پوری بات سنیں"

حور فوراً سے حاکم چوہدری کی طرف بڑھتے ہوئے آنسو لیے بولی 

"ہمیں نہیں سننی"

حاکم چوہدری اسے خود سے دور کرتے سرد لہجے میں کہنے لگے حور انہیں دیکھ رہی تھی وہ اتنا جانتی تھی کوئی اسے سمجھے یا نہ سمجھے اس کے دادا سمجھیں گے مگر یہاں تو وہ فوراً ہی بدل گئے تھے 

"دادا میری بات تو سنیں آپ کیوں نہیں سن"

حور حاکم چوہدری کو روتے ہوئے جھنجھلا کر اداسی سے مخاطب کرنے لگی جب انہوں نے اس کی گال کی جانب ہاتھ بڑھایا حور کے لب سل گئے

" بیوی ہے میری  ملک ذامل کی عزت ہے سمجھے اور آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ میری بیوی کے ساتھ اس طرح سے پیش آئی"

ملک ذامل حاکم چوہدری کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں لیے سرد لہجے میں کہتے ساتھ حور کے آگے آ گیا حور سمیت سب اسے دیکھنے لگ گئے

"تو اپنی بیوی کو یہاں سے لے جاؤ یہ نہ ہو ہم کچھ غلط کر بیٹھے"

وہ اپنا ہاتھ جھٹک کر نظریں دوسری سمت کیے پتھریلے لہجے میں کہنے لگے ذامل نے حور کی جانب دیکھا اور اس کا ہاتھ مضبوط گرفت میں لیتا حویلی سے لے جانے لگا

"مجھے دادا سے بات کرنی ہے چھوڑو میرا ہاتھ ذامل چھوڑو"

حور اس سے ہاتھ چھڑوانے کی سعی کرتے ہوئے مسلسل ایک ہی بات کرنے لگی وہ اس کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے حویلی سے باہر لایا اور گاڑی سے زور سے لگایا 

"مجھے دادا سے بات کرنی ہے ہٹو"

حور اسے غصے سے گھورتے ہوئے چلا کر بولی جب امام نے اس کی بازوؤں پر مضبوط گرفت حائل کردی اس کی انگلی حور کو اپنے بازوؤں میں دھنستی ہوئی محسوس ہورہی تھی

"سمجھ نہیں آرہی ہے نہیں کرنا چاہتے وہ تم سے بات"

وہ اسے سخت تیور لیے غصے سے کہنے لگا حور نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی

"وہ غلط سمجھ رہے ہیں مجھے میں ان کی نفرت برداشت نہیں کرسکتی ہوں"

حور روتے ہوئے کہتے ساتھ اس کے سینے میں منہ دی گئی اور ذامل کی ہارٹ بیٹ یکدم تیز ہوگئی وہ اپنی جگہ ساکت ہوگیا۔

کچھ دیر حور اسی طرح اس کے سینے میں منہ دیے روتی رہی پھر اچانک جھٹکے سے اس سے الگ ہوئی آنسو صاف کرتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھ گئی ذامل اس کی حالت سمجھتا خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ کر سٹارٹ کرتا سڑک پر دوہرا گیا ۔

************

وہ دونوں گھر پہنچ چکے تھے حور فوراً سے اوپر کی طرف بڑھ گئی ذامل اس کے پیچھے گیا

"حور"

ذامل اس کے پاس آکر اسے پکارنے لگا حور نے مڑ کر اسے دھکا مارا

"سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے نہ آتے تم میری زندگی تمہاری وجہ سے آج میں اس حالت میں ہوں میرے دادا مجھ سے نفرت کرنے لگ گئے ہیں میری ماں میری شکل نہیں دیکھنا چاہتی ہوں گی میرے بھائی مجھے غلط سمجھ رہے ہیں۔ کسی کی وجہ سے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے ذامل تمہاری وجہ سے"

وہ اسے دیکھتے ہوئے روتے ہوئے غصے سے چلاتے ہوئے بولی ذامل اسے سن رہا تھا 

"نفرت کرتی ہوں میں تم سے شدید نفرت اور یہ نفرت اب بڑھے گی کم نہیں ہوگی یاد رکھنا"

حور اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے غصے سے غراتے ہوئے بولی جب ذامل نے اس کی کلائی تھامے کر جھٹکے سے قریب کیا۔۔

"میں سب برداشت کرسکتا ہوں تمہاری نفرت نہیں میں مانتا ہوں غلطی ہے میری اور قبول بھی کررہا تھا تمہارے دادا نے بولنے کا موقع نہیں دیا میں تمہیں ہر چیز کی اجازت دیے سکتا ہوں جان  مگر خود سے نفرت کرنے کی اجازت میں ہرگز نہیں دوں گا"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے اپنے قریب شدت سے بولتا اس کے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھنے لگا 

"جان مت بلاؤ مجھے دور رہا کرو مجھ سے پہلی بھی انہی باتوں نے مجھے پگھلا دیا لیکن سب نہیں"

حور اس کے دونوں ہاتھوں کو جھٹک کر شہادت والی انگلی دیکھائی سرد آنکھوں سے اسے بولی 

"نہ میں پہلا جھوٹا تھا نہ اب"

وہ اسے فوراً سے جواب دینے لگا حور اسے دیکھنے لگی 

"جو مرضی بولو تم نے میرا اعتماد کھو دیا ہے"

حور اسے سرد لہجے میں بتانے لگی ذامل اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا 

"میں اعتماد واپس لے آؤ گا"

وہ اسی پر نظریں جمائے اعتماد بھرے لہجے میں کہنے لگا حور مسکرا دی 

"ناممکن ہے"

حور مسکرا کر اسے طنزیہ بولی ذامل کے لب مسکرائے

"ناممکن کو ممکن کرنا ملک ذامل کو آتا ہے"

ذامل اسے کے انداز میں مسکراتے ہوئے اسے جواب دینے لگا ذامل اور حور کی نظریں آپس میں ٹکرائیں

"ایک وقت پھر سے لاؤں گا جب تم مجھے سسی شدت سے چاہو گی جان اور اس دفعہ اس کو سٹوری کی اینڈنگ ہیپی ہوگی ہر جگہ تمہارا محافظ بنو گا تمہیں ہمیشہ اپنا بنا کر رکھو گا تمہیں خود کے اس قدر کرلوں گا تم دو منٹ ملک ذامل کے بغیر نہیں رہ سکو گی وعدہ ہے میرا"

ذامل اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے پر اعتماد لہجے میں اسے ایک ایک بات کہنے لگا حور بس اسے دیکھ رہی تھی

"دیکھتے ہیں "

حور اسے جواب دیتے ساتھ باتھروم کی طرف بڑھ گئی ذامل اسے جاتا دیکھنے لگ گیا 

"بن کر رہنا تمہیں صرف ملک ذامل کا ہے"

ذامل باتھروم کے دروازے پر نظریں ٹکائے بول کر وہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔

************

"صاحب میں نے ملک ذامل کو حور بی بی کے ساتھ دیکھا ہے"

ملازم فوراً سے آتے ہوئے ملک شہراز کو بتانے لگا جس پر وہ اسے دیکھنے لگ گئے

"تمہیں یقین ہے وہ ملک ذامل ہی ہے"

ملک شہراز فورا سے ملازم سے ایک بار کنفرم کرنا ضروری سمجھنے لگے 

"جی صاحب"

ملازم فوراً سے بتانے لگا ملک شہراز اثبات میں سر ہلا گئے

"دادا کے دھوکے بازی یہ دن بھی دیکھنا تھا ہمیں"

ملک شہراز افسردگی سجائے خود سے کہنے لگے اور ملازم کی جانب دیکھا 

"نظر رکھو ذامل پر جیسے ہی پتہ لگے مجھے بتانا ہے کہاں ہے وہ "

وہ ملازم کو دیکھتے ہوئے  حکم دیتے ساتھ اندر کی طرف قدم  بڑھا گئے  اور ملازم ملک شہراز کے حکم پر  اثبات میں سر ہلاتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ گیی 

ذامل اسی طرح بیٹھا تھا حور کمرے سے باہر نکلی نظر اس پر گئی نظر اس پر جاتے ہی اسے اپنے دادا کی باتیں اور ان آنکھوں میں موجود خود کیلیے نفرت یاد آئی وہ اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتی کرسی پر بیٹھ گئی

"بھوک نہیں لگی"

ذامل ابھی اپنی بات کررہا تھا حور نے فوراً اسے ٹوکا

"مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے"

حور اسے انگلی دیکھا کر غصے سے کہنے لگی ذامل اسے دیکھ رہا تھا

"بری بات شوہر سے ایسے بات نہیں کرتے"

وہ اسے مسکراتے جان کر تنگ کرنے کیلیے کہنے لگا حور نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔

"میں تمہیں شوہر نہیں مانتی شوہر تو کیا مجھ سے پوچھو میں تمہارا وجود بھی کیسے برداشت کرتی ہو میرے بس میں ہوتا تو تمہاری شکل ساری زندگی نہ دیکھتی میں "

حور سرد لہجے میں آنکھیں چھوٹی کیے اسے بتانے لگی ذامل اسے دیکھ رہا تھا

"ایسی بات ہے"

ذامل سخت لہجے میں پھولی ہوئی رگوں اسے دیکھ کر آئبرو اچکائے پوچھنے لگا 

"بالکل ایسی ہی بات ہے"

وہ اسے فوراً سے جواب دینے لگی ذامل کھڑا ہوا 

"تو میں چلا جاتا ہوں"

وہ اسے دیکھتے ہوئے گردن ہلاتے ہوئے بولا حور اسے دیکھنے لگی 

"تھینک یو وری مچ"

حور اسے جاتا منہ بنائے کہنے لگی ذامل نے مڑ کر ایک نظر اس پر ڈالی اور خاموشی سے بھاری قدم بھاری قدم لیے باہر کی طرف بڑھ گیا۔

حور اسی طرح بیٹھی رہی دادا کے متعلق سوچتے ہی آنکھیں بھیگنے لگی اس کی زندگی کیا سے کیا ہوگی حورِ جان جو کسی کی پرواہ نہیں کرتی تھی آج زندگی اس کے ساتھ ایسے کھیل کھیل رہی تھی کہ وہ مضبوط لڑکی رونے پر مجبور ہو گئی تھی۔۔۔۔

***********

"پتہ لگا کچھ ؟"

ملک شہراز اپنے ملازم سے روعبدار آواز میں سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔

"نہیں صاحب لیکن میں کوشش کررہا ہوں جلد پتہ لگوا لوں گا"

ملازم فوراً سے ملک شہراز کو بتانے لگا ملک شہراز سر کو خم دے گئے اور فون اٹھا کر ذامل کا نمبر ملایا مگر فون نہیں اٹھایا

ملک شہراز نے حاکم چوہدری کے نمبر پر فون ملایا جو تیسری چھوتی بیل پر اٹھا لیا گیا

"حاکم چوہدری اپنی پوتی کو میرے پوتے سے دور رکھو"

ملک شہراز سرد لہجے میں حاکم چوہدری کو تنبیہہ کرتے ہوئے بولے 

"ملک شہراز تم تو بہت بے خبر ہو اپنے پوتے کی حرکتوں سے نکاح کر چکا ہے وہ ہماری پوری سے زبردستی"

حاکم چوہدری بھی غصے سے انہیں بتانا ضروری سمجھنے لگے ملک شہراز اپنی جگہ ساکت ہوگئے.

"نکاح نہیں یہ ناممکن ہے"

ملک شہراز بےیقینی سی کیفیت میں کہنے لگے حاکم چوہدری ہلکا سا مسکرا دیے

"یہ حقیقت ہے"

کہتے ساتھ حاکم چوہدری نے فون رکھ دیا اور ملک شہراز ویسے ہی کھڑے حاکم چوہدری کی باتیں سوچنے لگے۔ 

************

حور کپڑے چینج کرنے کیلیے اٹھی وارڈروب کھولنے لگی تو اچانک ذامل والی سائیڈ کھل گئی حور کی نظر ایک گڈا اور ایک گڑیا پر گئی وہ دیکھتے ہی حور تیرا سال پیچھے چلی گئی

"یہ کیا ہے جان؟"

گیارہ سالہ ذامل آٹھ سالہ حور کے پاس آتے ہوئے مسکرا کر پوچھنے لگا 

"یہ گڈا گڑیا ہے یعنی گڈا تم اور گڑیا میں"

حور مسکراتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگی جس پر ذامل مسکرایا 

"اور ذامل اور جان ہمیشہ ساتھ رہے گے"

وہ اس کے ہاتھ سے دونوں گڈا گڑیا لیتے ہوئے کہنے لگا حور اثبات میں سر ہلا گئی

ماضی کا خوبصورت لمحہ یاد کرتے ہی حور کے لب مسکرا دیے

"تم نے آج تک سنبھال کر رکھی ہوئی ہے کاش ہمارے خاندانوں کے بیچ کبھی دشمنی نہ ہوتی ذامل کاش تم اپنے دادا کے کہنے پر مجھے دھوکہ نہ دیتے یقین جانو میں سب سے لڑ لیتی تمہارے لیے لیکن تم نے حور کا مان توڑ دیا "

وہ گڈا گڑیا پر نظریں بھیگی ہوئی آنکھوں سے خود سے بولی 

"میں جانتی ہوں میں تمہاری بچپن کی محبت میں نے بھی بچپن سے ایک ہی لڑکے سے دوستی رکھی اور اسی کو دل دیا"

وہ ان گڈا گڑیا کو دیکھتے ہوئے ذامل کو بتانے کی کوشش کررہی تھی جو اس کے پیچھے کھڑا سن کر مسکرا دیا 

"ملک ذامل تم پر بچپن سے فدا ہے"

ذامل کی آواز پر حور فوراً ہوش میں آئی اور گڈا گڑیا رکھتی وارڈروب بند کرگئی

"اسی لیے دھوکہ دیا تھا مجھے"

حور مڑ کر نارمل ہوتی اپنی پہلی والی ٹون میں آتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی 

"ہوگئی غلطی معاف کردو "

ذامل بےبسی سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا حور اسے دیکھ رہی تھی

"میں نے تم سے سچا پیار کیا تھا لیکن تم نے حورِ جان کا مان توڑا ہے اور جو میرا مان توڑ دے میں پلٹ کر بھی نہیں دیکھتی اسے"

حور اسے دیکھتے ہوئے ہر لفظ پر زور ڈال کر کہتے ساتھ وارڈروب سے ڈریس نکال کر سائیڈ سے گزرنے لگی جب ذامل نے کلائی پکڑ کر اپنی جانب کھینچا 

"جس دن تمہیں دیکھو گا نہیں نا تمہاری سانس رک جائے گی یاد رکھنا"

ذامل اس کے چہرے پر نظریں جمائے اسے گھمبیر لہجے میں کہنے لگا حور اسے دیکھنے لگی 

"ایسا نہیں ہوگا"

حور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اسے غصے سے جواب دیتی بازو جھٹک کر چلی گئی ذامل اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔

**************

"ابا مجھے حور جان چاہیے کسی بھی حال میں"

آدم غصے سے دراب چوہدری کو چیخ کر کہنے لگا دراب چوہدری اسے دیکھنے لگ گئے

"چپ کرو خود پریشان ہوں سب کیا حاکم چوہدری اور ملک شہراز دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا کہ ذامل کے ساتھ رشتہ نہ ہو حور کا دیکھو اس کا نکاح پھر بھی اس سے ہوگیا کروڑوں اربوں جائیداد کا مالک بن گیا وہ"

دراب چوہدری غصے سے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگے آدم دراب چوہدری کو دیکھنے لگا

"نہیں وہ ذامل کی نہیں ہوسکتی آپ نے کہا تھا میرا نکاح ہوگا اس سے"

آدم چلا کر غصے سے کہنے لگا جس پر دراب چوہدری نے اسے دیکھا

"کچھ سوچتا ہوں اتنی آسانی سے تو اس سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا "

دراب چوہدری آدم کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ساتھ کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔

ہاجرہ بیگم جو وہاں سے گزر کر کمرے کی طرف جارہی تھی یہ ساری باتیں سن پیروں تلے زمین نکل سی گئی تھی لیکن خدا نے ان کی بیٹی کی حفاظت کی تھی وہ خاموشی سے بغیر آواز کیے کمرے کی طرف بڑھ گئی

"شکر اللہ تیرا"

ہاجرہ بیگم خدا کو شکر کرتی دراب چوہدری کی اصلیت حاکم چوہدری کو صبح بتانے کا فیصلہ کرتی سونے کیلیے بیڈ کی طرف بڑھ گئی

************

ازقہ نم آنکھیں لیے مان میں بیٹھی تھی تبھی زاہد وہاں آیا آج وہ اسے پورے چار دن بعد دیکھ رہا تھا اس کے ساتھ جاکر بیٹھ کر نظریں اس پر مرکوز کر گیا

"ازقہ"

زاہد اسے نرمی سے مخاطب کرنے لگا اس کی آواز سے ازقہ نے فوراً اس طرف دیکھا

"تمہیں لگتا ہے حور نے اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے"

زاہد اسے دیکھتے ہوئے سوال کرنے لگا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ازقہ نفی میں سر ہلا گئی

"ذامل نے زبردستی کی ہے اس کے ساتھ"

ازقہ فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر زاہد سامنے دیکھنے لگا 

"مجھے بھی یہی لگتا ہے تم اتنے یقین سے کیسے کہ سکتی ہو"

زاہد سنجیدگی سے اس سے ایک اور سوال کرنے لگا 

"کیونکہ حور اس انسان سے کبھی نکاح نہیں کرتی جو اسے ہرٹ کر چکا ہو"

ازقہ بھی سامنے دیکھتے ہوئے اسے وجہ بتانے لگی زاہد نے اسے دیکھا ازقہ نے اسے سب بتادیا ۔

"تم نے مجھے پہلی کیوں نہیں بتایا"

زاہد نے اسے دیکھتے ہوئے تھوڑے سرد لہجے میں پوچھا

"آپ غصہ نہ ہوں اس لیے"

وہ معصومیت سے اسے جواب دینے لگی زاہد اسے دیکھنے لگ گیا

"تم پریشان مت ہو رخصتی تمہاری میرے ساتھ ہی ہوگی"

زاہد اس کے آنسو پونچھتے ہوئے ہلکا سا مسکرا کر بولا ازقہ بھی مسکرائی زاہد نے آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر لب رکھ دیے ازقہ کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی اور وہ دونوں کچھ دیر یوں ہی بیٹھے رہے دونوں کیلیے ہی یہ وقت بہت خوبصورت تھا

*************

حور اور ذامل کے نکاح کو ہفتہ گزر چکا تھا اور اب تک ملک شہراز کے آدمی ملک شہراز تک نہیں پہنچ سکے تھے ملک شہراز شدید غصے میں تھے بس وہ ذامل کے ملنے کا انتظار کررہے تھے ۔۔

"آجاؤ"

نوال شہریار کے ساتھ ذامل کے گھر آئی وہ اسے باہر کھڑا دیکھ کر اندر آنے کا بولنگ لگا نوال اندر کی طرف بڑھ گئی

وہ دونوں اندر آئے نظر ذامل پر گئی ذامل نے بھی باری باری نظر ان دونوں پر ڈالی 

"اوپر ہے وہ"

 وال کو دیکھتے ہوئے بتانے لگا جس کی آنکھیں حور کو تلاش رہی تھی وہ خاموشی سے زینوں کی جانب بڑھ گئی

"چائے پیے گا"

ذامل نے شہریار کو۔ دیکھتے ہوئے پوچھا شہریار نے اسے دیکھا

"اللہ خیر کرے تو ٹھیک ہے"

شہریار بات کو ہضم نہ کرتے ہوئے تھوڑا پریشانی سے پوچھنے لگا 

"عزت۔ کبھی راس۔ نہیں آ سکتی"

ذامل کہتے ساتھ چائے بنانے لگا شہریار اسے دیکھنے لگا 

"حور"

نوال کی آواز پر حور جو نظریں کھڑکی سے نیچے کی طرف کیے ہوئے تھی پلٹ کر فوراً دیکھا 

"نوال"

نوال کو اپنے سامنے پاکر خوشی سے اس کا نام لیتی فوراً گلے لگی نوال مسکرادی

"کیسی ہو؟"

نوال فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی حور کے چہرے کیی مسکراہٹ غائب ہوئی 

"ٹھیک تم یہاں کیسے آئی"

حور نے فوراً اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا اور دونوں بیڈ پر بیٹھے 

"شہریار لایا ہے"

نوال اسے بتاتے ساتھ کمرے پر نظر دوہرانی لگی حور اسے دیکھ رہی تھی

"ذامل کیسا رہتا ہے تمہارے ساتھ ؟"

وہ اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی حور نے اسے دیکھا

"ذامل بھائی بولو اسے "

حور منہ بنائے نوال سے کہنے لگی جس پر نوال کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی

"اچھا ذامل بھائی اب خوش"

نوال فوراً سے کہنے لگی حور مسکرا دی اور اثبات میں سر ہلا گئی

"صحیح رہتا ہے"

حور اسے جواب دینے لگی تبھی ذامل چائے لیے کمرے میں آیا حور نے اسے دیکھا نوال نے چائے لی حور نے بھی خاموشی سے کپ لے لیا۔۔

اس شہریار کے پاس بیٹھا چائے اور سگریٹ دونوں پی رہا تھا 

"سب چیخنا کم ہوا بھابی کا"

شہریار مسکراتے ہوئے ذامل کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ذامل نے اسے دیکھا

"نہیں"

وہ لفظی جواب دیتے ساتھ چائے پینے لگ گیا شہریار بھی چائے پینے لگ گیا

"تو پہلے اتنا سڑیل نہیں تھا اب ہوا ہے"

شہریار منہ بسور کر شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگا جس پر ذامل اسے دیکھنے لگ گیا

"جس دن حور نکاح کو قبول کرلے گی میرا سڑیل پن کم ہو جائے گا"

ذامل اسے صاف جواب دیتا اپنی پریشانی اسے بتا گیا شہریار خاموش ہوگیا۔

کچھ دیر نوال اور شہریار بیٹھے اور پھر دونوں چلے گئے نوال سے مل کر حور تھوڑی بہتر تھی 

***********

دن بہت تیزی سے گزرا تھا آج کا حور چینج کرکے کمرے میں آئی تو نظر ذامل پر گئی جو چیز پر آنکھیں بند کیے لیٹا تھا وہ کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوئی اور آسمان پر نظر ڈالی موسم بہت خراب ہوا ہوا تھا اچانک بجلی کڑکنے کی آواز پر حور ڈر کر وہاں سے ہٹتی کرسی پر بیٹھ گئی مسلسل گرجتی آواز حور کو خوفزدہ کررہی تھی اچانک لائٹ چلی گئی کمرا تاریکی میں ڈوب گیا حور مزید خوفزدہ ہو گئی 

ذامل گہری نیند سورہا تے حور فون کی ٹارچ ان کرکے ذامل کے پاس گئی 

"ذامل"

حور نے اسے پکارا مگر دوسری طرف سے کوئی ردعمل نہیں ہوا حور نے ہاتھ آگے بڑھ کر اسے ہلایا

"ذامل"

اس کے کندھے کو ہلا کر اٹھاتے ہوئے بولی ذامل نے نیند میں ڈوبی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا

"تم کیوں سورہے ہو جاگ کر بیٹھو"

حور گھبرائے ہوئے لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی ذامل پریشانی سے اسے دیکھنے لگ گیا

"کیا بچوں والی باتیں کررہی ہو حور نیند آئے گی تو سو گا نا"

ذامل نیند میں اسے جواب دیتا دوبارہ سونے کیلیے آنکھیں بند کرنے لگا 

"ذامل لائٹ بھی نہیں ہے اور اوپر سے یہ خوفزدہ آوازیں مجھے ڈرا رہی ہے"

حور اسے اونچی آواز میں بتانے لگی ذامل اسے دیکھنے لگا 

"سوجاؤ تم بھی"

ذامل اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے مشورہ دینے لگا حور اسے دیکھنے لگی 

"کدھر "

حور آئبرو اچکائے فوراً سے پوچھنے لگی ذامل نے اچانک اسے اپنی طرف کھینچا حور ذامل پر آ گری حور کی پارٹ بیٹ مس ہوئی دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرائیں ذامل کی نظریں اس کے حسین چہرے پر تھیں۔۔

"یہاں"

ذامل اپنے سینے پر اشارہ کرتے ہوئے بولا حور اسے دیکھنے لگی اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی 

"چھوڑو"

حور اسے بولتے ہوئے اچانک اس کے قریب ہوئی وہ دونوں بہت نزدیک تھے 

"اتنا قریب مت آؤ میرا دل گستاخی کرنے پر اتر آئے گا"

ذامل اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے کھوئے ہوئے انداز میں بولتا حور کو خاموش کروا گیا حور اس کی قید سے نکلنے کی سعی کرنے لگی مگر ناکام رہی تھی 

ذامل نے آگے بڑھ کر اس کے بالوں کو پیچھے کیا اور اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھتا پیار کی پہلی مہر لگا گیا حور آنکھیں میچ گئی دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا 

"یہاں سوجاؤ"

ذامل اسے اپنے ساتھ لٹاتے ہوئے کہتے ساتھ اپنے حصار میں لے گیا 

"دور"

حور ابھی بول رہی تھی جب ذامل نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی حور بس اسے دیکھتی رہ گئی ذامل آنکھیں بند کرگیا ذامل اسے اپنے قریب پا کر سکون محسوس کررہا تھا

سورج کی روشنی وال کلاک سے ٹکراتی کمرے میں داخل ہوئی ذا کے چہرے پر پڑی نظر وہ آنکھوں پر جبنش دے کر اٹھتا حور کو دیکھنے لگا جو اس کے ساتھ گہری نیند سو رہی تھی ذامل کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر لب رکھ گیا حور ہلکا سا کسمسائی ذامل اپنے ہونٹ اس کے کام کے قریب کے قریب لایا

"مارننگ جان"

وہ گھمبیر لہجے میں اسے مسکرا کر کہنے لگا جس پر حور نے فوراً آنکھیں کھولیں اور اسے دیکھا 

"تت۔۔تم یہاں کیا کررہے ہو"

حور اسے دیکھ گھبراتے ہوئے پوچھنے لگی جس پر ذامل کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ آئی 

"خود تو آئی تھی میرے پاس ڈر سے یاد آیا"

ذامل اس کے چہرے پر گہری نظریں جمائے شرارت سے کہنے لگا جس پر حور اسے غصے سے دیکھنے لگی 

"زبردستی کھینچ کر اپنے پاس سلایا تھا تم مجھے ہونہہ"

وہ منہ بنا کر اسے کہتے ساتھ بیڈ سے اٹھ کر جانے لگی جب ذامل نے کلائی پکڑ کر اپنے قریب کھینچا حور اسے دیکھنے لگ گئی

"جو بھی ہو میرا فائدہ ہوگیا میں بہت سکون سے سویا ہوں مسز"

وہ اسے مسکراتے ہوئے جان کر بولتا غصہ دلانے لگا حور اس سے ہاتھ چھڑوا تا منہ بگاڑ کر چلی گئی ذامل اس کے چہرے کے اظہارات پر مسکرادیا۔۔

***********

"خیریت ہے ہاجرہ بیگم آج کل بہت گھبرائی ہوئی رہتی ہو"

حاکم چوہدری اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگے جس پر ہاجرہ بیگم سمیت دراب چوہدری نے انہیں دیکھا 

"نن۔۔نہیں تو ابا جان بس حور نے جو کیا اس کے بعد مجھے شرمندگی سی ہوتی ہے"

ہاجرہ بیگم گھبراتے ہوئے حاکم چوہدری کو جواب دینے لگی جس پر حاکم چوہدری خاموش ہوگئے ازقہ نے ہاجرہ بیگم کو دیکھا 

سب لوگ خاموشی سے ناشتہ کررہے تھے ہاجرہ بیگم کچن کی طرف بڑھ گئی ازقہ بھی ان کے پیچھے آئی۔۔

"آپ ٹھیک ہے نا تائی"

ازقہ ہاجرہ بیگم کو دیکھتے ہوئے فکرمند سی پوچھنے لگی ہاجرہ بیگم نے اسے دیکھا 

"ہاں میری بچی تم فکر نہ کرو"

وہ اسے مسکراتے ہوئے پیار سے کہنے لگی ازقہ اثبات میں سر ہلا کر باہر کی طرف چل دی 

"دراب چوہدری تمہاری اصلیت کیسے سب کے سامنے لاؤ"

ہاجرہ بیگم اداسی سے خود سے ہمکلام ہوکر چیزیں سمیٹ کر بولی۔۔

**********

"حور میرا ایک دوست آرہا ہے تم نیچے نہیں آؤ گی"

ذامل بالوں کو ٹھیک کرتے ہوئے لفظوں پر زور دیتا اسے بولا حور اسے دیکھنے لگی

"کیوں تمہارا ایسا کون سا دوست ہے؟"

حور فوراً سے اس سے سوال کرنے لگی ذامل نے اسے دیکھا

"آج ہلکی دفعہ مجھے بیوی لگی ہو"

ذامل لبوں پر مسکراہٹ سجائے اسے کہنے لگا حور نے گھور کر اسے دیکھا

"ہے میرا ایک دوست بس تم نے نیچے نہیں آنا اوکے"

ذامل اسے کہتے ساتھ نیچے کی طرف بڑھ گیا حور اسے جاتا دیکھنے لگ گئی

"ایسا بھی کون ہے"

حور خود سے پریشانی سے سوال کرتے ہوئے واپس بیڈ پر بیٹھ گئی۔

وہ کچھ دیر فون استعمال کرتی رہی جب فون استعمال کرکے وہ تھک گئی تو ٹہلنے لگی وہ کمرے میں ایک گھنٹے سے مسلسل اکیلی تھی اسے بھی کوفت سی محسوس ہورہی تھی مگر وہ نیچے نہیں جا سکتی تھی اچانک اسے پیاس لگی نظر جگ پر گئی مگر وہ خالی تھا 

"افف اب مجھ سے پیاس برداشت نہیں ہوتی جو ہوگا دیکھا جائے گا"

حور خود سے بولتی جگ کہتی نیچے کی طرف قدم بڑھا گئی 

ذامل اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا باتیں کررہا تھا تبھی اس کے دوست کی نظر حور پر گئی حور خاموشی سے کچن کی طرف بڑھ رہی تھی

"ارے یہ کون ہے ؟"

ذامل کے دوست نے فوراً سے پوچھا حور کے بڑھتے قدم رکے ذامل نے گردن موڑ کر دیکھا تو حور تھی ذامل کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے

"میری وائف"

ذامل حور پر سرد نگاہیں گاڑھے اسے سخت لہجے میں جواب دینے لگا حور ذامل کو دیکھنے لگی 

"اوہو اتنی حسین بھابی اسلام و "

ذامل کا دوست معاذ کھڑا ہوتا حور کو غلیظ نظروں سے دیکھتے ہوئے ابھی بول رہا تھا جب ذامل نے فوراََ کو مخاطب کیا

"اوپر جاؤ"

ذامل سرد لہجے میں آواز دھیمی رکھے اسے بولا حور خاموشی سے اوپر چلی گئی ذامل کی سرد نگاہیں اسے ڈرا گئی 

"زبان سنبھال کر بات سمجھا بیوی ہے میری "

ذامل حور کے جاتے ہی اٹھتا اس کا گریبان پکڑے سخت لہجے میں کہنے لگا 

"یار اتنا غصہ کیوں ہورہا ہے شئیر کر"

اس کا دوست کمینگی سے بولنے لگا ذامل نے ایک زوردار مکہ اس کے منہ پر مارا 

"حور صرف ذامل کی ہے سمجھا عزت ہے میری تیری جان لے لو نکل جا"

معاذ کی بات سے ذامل کا دماغ آؤٹ ہوا وہ خود پر قابو نہ پاتا چیخ کر بولا حور اس کے چیخنے کی آواز سن کر گھبرائی اور ذامل کا دوست غصے سے چلا گیا

ذامل اوپر کی جانب بھاری بھاری قدم اٹھائے بڑھ گیا

************

"تم یہاں کیا کررہے ہو"

نوال شہریار کو یونیورسٹی کے باہر موجود دیکھ پریشانی سے پوچھنے لگی 

"میں نے سوچا تم نے اپنی دوست سے ملنا ہوگا "

شہریار مسکراتے ہوئے کہنے لگا نوال گھور کر اسے دیکھنے لگی 

"جی نہیں مجھے جب ملنا ہوگا میں بتادوں گی "

نوال اسے جواب دے کر کہتے ساتھ خاموشی سے آگے کی طرف بڑھ گئی شہریار اس کے پیچھے آیا نوال اسے دیکھنے لگی

"پیچھا کیوں کررہے ہو میرا؟"

نوال فوراً سے غصے سے کہنے لگی شہریار اس کے ہمراہ چلنے لگا 

"لو اب ٹھیک ہے"

شہریار فوراً سے اسے بولا نوال اسے دیکھنے لگی 

"اب ساتھ کیوں چل رہے ہو"

وہ فوراً اس سے پوچھنے لگا جس پر شہریار نے سے اسے دیکھا

"عجیب لڑکی ہو پیچھے چلو تو مسئلہ ساتھ چلو تو مسئلہ"

وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا نوال کے بڑھتے قدم رکے اسے دیکھا 

"تم جو کرنا چاہ رہے اور جو سوچ رہے ہو وہ نا سوچو کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا ہے میرا رشتہ بچپن سے ہی طہ ہے"

نوال اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہتے ساتھ آگے کی طرف بڑھ گئی شہریار اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔۔۔

***********

حور کمرے میں پریشانی سے ٹہل رہی تھی جب ذامل بھاری بھاری قدم لیے کمرے میں آیا حور کی نظر اس پر گئی اس کے بازو پر سخت گرفت حائل کیے اپنی طرف کھینچا اچانک اتفاد پر حور بھوکلائی تھی ۔

"منع کیا تھا میں نے تمہیں"

ذامل بازو پر گرفت مضبوط کرتا لہجے میں سرد پن لیے اسے کہنے لگا 

"درد ہو رہا ہے مجھے"

حور چہرے پر تکلیف دہ تاثرات سجائے اسے خفگی سے کہنے لگی

"اور جو تکلیف مجھے ہوئی ہے اس کا کیا ہاں تم صرف میری ہو کسی نامحرم کی بری نظر بھی تم پر برداشت نہیں ہے مجھے میرا خون کھولنے لگتا ہے جب کوئی تمہیں نظر اٹھا کر دیکھے"

ذامل سرد آنکھیں لیے غصے سے اس کے چہرے کے قریب چہرہ لیے غرایا حور کو ایک پل کیلیے خوف محسوس ہوا۔۔

ذامل ںےرحمی سے اس کی گردن پر جھکتا اپنے ہونٹوں کا لمس محسوس کروا گیا اور حور اپنی جگہ ساکت ہو گئی۔

"یہ سزا ہے تمہاری آج کے بعد میری بات کو نظر انداز کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنا"

ذامل اس کے چہرے پر نظریں ہر لفظ ہر زور دیتے اسے وارن کیے خود سے الگ کرتا چلا گیا حور غصے سے اسے جاتا دیکھنے لگ گئی ۔

"بہت برے ہو تم بہت زیادہ میں کبھی بھی بات نہیں کروں گی تم سے"

حور روتے ہوئے اسے جاتا دیکھ اداسی سے کر کہنے لگی۔۔۔۔

***********

"ایسا کہاں چھا ہے وہ کہ تمہیں مل نہیں رہا"

ملک شہراز سرد لہجے میں  ملازم سے پوچھنے لگے وہ گھبرا گیا 

"صاحب پوری کوشش کرتے ہیں ہم لیکن ہمیں نہیں مل رہے "

وہ فوراً سے گھبراتے ہوئے اسے بتانے لگا جس پر ملک شہراز سرد نگاہوں سے اسے دیکھنے لگ گیا

"مجھے کل تک وہ میرے سامنے چاہیے اپنے دادا سے اس سے دھوکہ کیا نہیں چھوڑیں گے اسے میرے لیے میرے اصول میرے پوتے کیلیے بھی وہی ہیں"

ملک شہراز غصے سے ملازم سے بولتے ہوئے کہنے لگے 

"جی صاحب میں پوری کوشش کروں گا"

ملازم فوراً سے ملک شہراز سے کہنے لگا ملک شہراز اس کے مقابل میں آئے 

"کوشش نہیں مجھے ہر حال میں ملک ذامل کل اپنی آنکھوں کے سامنے چاہیے تو چاہیے"

ملک شہراز لفظوں پر زور دیتے اسے حکم دینے والے انداز میں کہنے لگے ملازم بس سر ہلا سکا اور چلا گیا۔

************

رات کے وقت ذامل کمرے میں آیا نظر حور پر گئی جو فون استعمال کررہی تھی حور کو اس کی موجودگی کا احساس ہوگیا تھا پھر بھی انجان رہی تھی ذامل اسے کچھ کہے بغیر خاموشی سے وارڈروب سے ٹی شرٹ اور ٹراؤزر لیتا باتھروم کی طرف بڑھ گیا حور اسے دیکھنے لگی

"اتنا بھی کیا غصہ کھانے تک کا نہیں پوچھا"

حور اسے دیکھتے ہوئے منہ بنا کر کہنے لگی اور نظریں دروازے پر تھی 

کچھ دیر میں دروازہ کھلا حور دوبارہ فون میں لگ گئی ذامل کمرے سے باہر چلا گیا حور اسے بس دیکھتی رہ گئی

"نہ کرے بات مجھے کیا ہاں آیا بڑا"

حور تپ کر کہتے ساتھ فون سائیڈ پر رکھ کر بیٹھ گئی تبھی ذامل ہاتھ میں ٹرے لیے کمرے میں آیا حور نے اسے دیکھا 

ذامل کوئی بات کیے بغیر ٹرے سامنے رکھتا دوسری طرف جاکر بیٹھ گیا

"مجھے نہیں کھانا"

حور ٹرے کو خود سے دور کرتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی ذامل نے اسے دیکھا

"کھاؤ"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے فوراً بولا حور نے اسے دیکھا

"نہیں کھاؤں گی میں "

حور غصے سے اسے بولی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا اور اٹھ کر اس کے سامنے آیا نوالہ بنا کر اس کے منہ ہے قریب کیا حور منہ پھیر گئی

"نہیں کھاؤں گی چلاؤں نہ مجھ پر سزا دو مجھے جہسے دے کر گئے تھے کیوں کھلا رہے ہو "

حور اسے دیکھے بغیر اپنے غصہ نکالتے ہوئے اسے کہنے لگی ذامل اسے دیکھ رہا تھا

"مجھے غصہ آ گیا تھا"

اس نارمل لہجے میں کہنے لگا حور نے اسے دیکھا

"کل کو اگر غصہ زیادہ آئے گا تو مارو گے بھی ہے نا"

حور اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا 

"کھانا کھاؤ "

ذامل اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے کہنے لگا 

"مجھے تم سے بات نہیں کرنی اور نہ ہی کھانا کھانا ہے"

وہ اسے غصے سے کہتے ساتھ لیٹنے لگی ذامل نے فوراً اسے اپنے قریب کیا 

"کیوں سمجھ نہیں آتا تمہیں مجھے  ہر اس انسان سے نفرت ہے جو تمہیں دیکھے تمہیں دیکھنے کا سننے کا تمہارے ساتھ رہنے کا تمہارے قریب رہنے کا حق صرف مجھے ہے اور میں کسی اور کو اجازت نہیں دوں گا ذامل ہر چیز برداشت کرسکتا ہے لیکن  جان تم کسی وجود کے ساتھ کھڑی بھی ہوگی نا تو میں اس کی جان لے لوں گا میں تمہارے معاملے میں بہت خود غرض بن گیا ہوں تمہیں صرف میرے پاس رہنا ہے اتنا خود غرض بن گیا ہوں کہ اپنے  دادا کو بھی دھوکہ دے دیا صرف تمہارے لیے مجھے اپنی زندگی میں صرف تمہارا ساتھ چاہیے "

ذامل اسے اپنے قریب کیے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے اسے دیکھتے ہوئے شدت سے بتانے لگا حور بس اسے دیکھتی رہ گئی اس کی آنکھیں اس کے لفظوں کا ساتھ دے رہی تھی۔

"تمہیں یہ سب دیکھاوا اور جھوٹ لگتا ہے لیکن میں تمہارے لیے جان دے بھی سکتا ہوں اور لے بھی سکتا ہوں"

ذامل اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا حور اسے دیکھتی رہ گئی۔۔

"میری غلطی نہیں تھی پیاس لگی تھی مجھے"

حور دھیمی آواز میں اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگی 

"میں مر گیا تھا ہاں مجھے آواز نہیں دے سکتی تھی"

ذامل فوراً سے اسے بولا حور خاموشی سے نظریں جھکا گئی

"اگلی دفعہ ایسا نہیں ہوگا"

حور اسے نظریں جھکائے کہنے لگی ذامل خاموشی سے اس کے منہ کی طرف نوالہ کر گیا 

"بولا نا نہیں ہوگا اب ختم کرو ناراضگی"

حور اسے دیکھتے ہوئے معصومیت سے کہنے لگی ذامل ہلکا سا مسکرا دیا

"میرے ناراض ہونے سے تمہیں کون سا فرق پڑتا ہے"

ذامل اسے کہتے ساتھ اسے کھانا کھلانے لگا حور اسے دیکھنے لگی اس کی آنکھوں میں صرف درد تھا 

"پڑتا ہے"

حور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے کہنے لگی ذامل نے اسے دیکھا 

"آئی ایم سوری"

حور کانوں کی طرف ہاتھ کے جاتے ہوئے بولنی لگی ذامل نے اس کے ہاتھ پکڑ کر نفی میں سر ہلا دیا حور ہلکا سا مسکرا دی 

حور نے نوالہ بنایا اور اسے کھلایا ذامل حیرانگی سے اسے دیکھنے لگ گیا 

"خیریت ہے"

ذامل نوالہ کھا کر پوچھنے لگا حور اسے دیکھنے لگی اچانک اسے سب یاد آیا چہرے کی مسکراہٹ سمٹ سی گئی 

"میری بھوک ختم ہوگئی ہے "

حور اسے بولتے ہوئے بیڈ سے کھڑی ہوگئی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا

"کیا ہوا جان"

ذامل اسے اچانک اٹھتا دیکھ پریشانی سے پوچھنے لگا حور خاموش اسے دیکھنے لگ گئی

"میں سب بھول سکتی ہو ذامل لیکن تم نے مجھے تکلیف دی ہے وہ لڑکی جو آج تک روئی نہیں تھی تم نے بہت رلایا ہے میں اتنی آسانی سے سب نہیں بھول سکتی"

حور نم آنکھیں لیے بولتے ساتھ کمرے سے باہر چلی گئی ذامل جاتا دیکھنے لگا 

************

ازقہ ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھی زاہد کا انتظار کررہی تھی آج صبح سے ہی اسے نہیں دیکھا تھا تبھی وہ  ازقہ کو آتا نظر آیا 

"کہاں رہ گئے تھے آپ "

ازقہ فوراً سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جس پر زاہد نے اسے دیکھا 

"کام میں مصروف تھا "

زاہد اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر جواب دینے لگ گی

"میں کھانا لگادوں "

ازقہ فکرمند سی اس سے پوچھنے لگی زاہد نفی میں سر ہلا گیا 

"نہیں ازقہ میں تھکا ہوا ہوں سونا چاہتا ہوں تم بھی سوجاؤ رات کافی ہوگئی ہے"

زاہد اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے اسے پیار سے کہتے ساتھ اوپر کی طرف بڑھ گیا ازقہ بھی خاموشی سے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔

**********

حور کچھ دیر لان میں ٹہلنے کے بعد بہتر محسوس کرتی کمرے میں آئی نظر ذامل پر گئی جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا حور خاموشی سے دوسری طرف آکر بیٹھ گئی دونوں کے بیچ خاموشی تھی۔۔

"بہت چاہتے ہو نا مجھے"

حور نظریں سامنے مرکوز کیے اس سے بولی ذامل نے اسے دیکھا 

"تم جانتی ہو"

ذامل اسے فوراً جواب دینے لگا حور نے اسے دیکھا

"مجھے اس رشتے سے آزاد کردو "

حور اسے دیکھتے ہوئے جس طرح یہ بولی تھی یہ وہی جانتی تھی ذامل اسے دیکھتا رہ گیا۔

ذامل کچھ کہے بغیر خاموشی سے اپنا سر اس کی گود میں رکھ گیا حور اسے دیکھنے لگ گئی 

"میں اپنے ماما پاپا سے بہت پیار کرتا تھا بارہ سال کا تھا جب وہ آکسیڈنٹ میں مجھے چھوڑ کر چلے گئے دادا نے تب سے ایک ہی بات ذہن میں بٹھا دی کہ میرے ماں باپ کو مارنے والے تمہارے بابا ہیں اور میرے اندر چوہدری حویلی کی محبت کو نفرت میں تبدیل کردیا میں یہ بھی بھول گیا میں تمہیں کتنا چاہتا ہوں یہ بھی بھول گیا کہ اس میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں ایک ہی بات ماما پاپا کے جانے کے بعد انہوں نے ہی مجھے پالا کھلایا پڑھایا ہاں غلط سیکھایا لیکن پیار بہت دیا مجھے کبھی ماما پاپا کی کمی محسوس نہیں ہونے دی میں اپنے دادا سے بہت پیار کرتا ہوں ہوگئی غلطی دی تکلیف بہت دی جو سزا دینی ہے دو منظور ہوگی لیکن میری غلطی کی اتنی بڑی سزا مت دو میں ختم ہوجاؤ گا میں نے تمہیں بنایا ہے بہت مشکل سے ایسا نہ کرو میری سانسیں تمہیں اپنے قریب محسوس کرکے چل رہی ہیں جان "

ذامل اس کے ہاتھ تھامے منت بھرے لہجے میں کہتے ساتھ اس کے ہاتھ پر لب رکھ گیا حور آنکھوں میں آنسو لیے اسے دیکھنے لگ گئی

"میں جانتا ہوں تم بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہو ہم دونوں ایک اپنی الگ دنیا بنائیں گے میں خوش رکھوں گا تمہیں بہت ایک دفعہ ساتھ دے کر تو دیکھو "

ذامل حور کو دیکھتے ہوئے بولا حور خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی

"تم نے اپنی باتوں میں کوئی جادو کیا ہوا ہے بولو؟"

حور اسے دیکھتے ہوئے آئبرو اچکائے اس سے پوچھنے لگی ذامل نفی میں سر ہلا گیا

"ہمیشہ مجھے تمہاری طرف کھینچ لیتی ہیں لیکن اس دفعہ نہیں ذامل"

حور اسے کہتے ساتھ خاموشی سے نظریں دوسری طرف کر گئی ذامل اسے دیکھتا رہ گیا

"مجھے نیند آرہی ہے"

وہ نظریں سامنے مرکوز کیے اسے بولی ذامل گود سے اٹھ گیا اور ایک نظر اس پر ڈالی۔۔

حور کروٹ بدل کر لیٹ گئی اور چہرے پر ہاتھ رکھا

"لائٹ بند کردو"

دو منٹ تک جب ذامل نے لائٹ آف نہیں کی تو حور نے مڑے بغیر اسے بولا ذامل نے خاموشی سے لائٹ بند کردی حور آنکھیں بند کر گئی ذامل خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

"اگر کسی کو زبردستی ساتھ رکھو گے تو نہ وہ خوش رہے گا اور نہ ہی تم اس لیے بہتر ہے اس شخص کو آزاد کردینا چاہیے ذامل"

ذامل کو اپنی ماں کی کہی بات یاد آئی اور پھر اس نے حور کی باتوں کے متعلق سوچا ایک فیصلہ کرتا وہ بھی دوسری طرف منہ کیے لیٹ گیا۔۔۔۔۔

**********

شہریار اپنے کمرے میں بیٹھا نوال کے متعلق سوچ رہا تھا اس نے فون اٹھایا

"جہاں تمہارا رشتہ ہوا ہے تم پسند کرتی ہو؟"

شہریار اسے میسیج کرتا اس کے میسیج کا ویٹ کرنے لگا

نوال جو ابھی کمرے میں فری ہوکر آئی تھی نظر فون پر گئی نوٹیفیکیشن دیکھ اس نے فون اٹھایا اور شہریار کا میسیج ریڈ کیا

"اسے تمہیں کیا میں پسند کرتی ہوں یا نہیں"

نوال اسے فوراً رپلائی دیتی فون بند کر گئی شہریار نے فون کی بل بنتی ہی فون اٹھایا اور میسیج دیکھا۔۔۔

"میرے لیے جاننا ضروری ہے"

شہریار نے اسے فوراً میسیج کا جواب دیا نوال نے ناچاہتے ہوئے بھی میسیج دیکھنا چاہا۔۔

"میں تمہیں بتانا ہزگز ضروری نہیں سمجھتی"

نوال نے اسے جواب دیتے ساتھ فون بند کرکے رکھ دیا اور بیڈ پر لیٹ گئی 

"پتہ نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے"

وہ منہ بنائے بولتی آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگی اور شہریار اس کا میسیج دیکھنے لگا۔۔

************

رات کے پہر ہاجرہ بیگم کو نیند نہیں آرہی تھی انہوں نے گھڑی پر نظر ڈالی جہاں دو بج رہی تھی 

"مجھے دادا جان کو دراب چوہدری کی اصلیت بتانی ہی ہوگی کتنا گٹھیا آدمی ہے وہ"

ہاجرہ بیگم کچن میں کھڑی بولتے ہوئے باہر کی طرف بڑھنے کیلیے مڑی سامنے دراب چوہدری کو دیکھتی وہ اپنی ساکت ہوگئی سانس رک سی گئی۔۔

"اتنی جلدی کیا ہے بھابی"

دراب چوہدری مسکراتے ہوئے کہتے ساتھ ہاجرہ بیگم کا ہاتھ تھامے زبردستی اوپر کی طرف بڑھ گئے ہاجرہ بیگم اپنا ہاتھ چھڑوانے کی سعی کرتی رہی مگر ناکام رہی۔۔۔

"چھوڑو گٹھیا انسان چھوڑو مجھے میں ابھی اصلیت"

ہاجرہ بیگم اونچی آواز میں بول رہی تھی جب دراب نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا جس پر ہاجرہ بیگم اسے دیکھنے لگ گئی

"شش خبردار جو کچھ بتایا اگر میرے بارے میں کسی کو بتایا تو میں ازقہ کی جان لے لوں گا اور آپ جانتی ہیں میں لے سکتا ہوں کیونکہ وہ میری اپنی اولاد نہیں ہے"

دراب چوہدری چہرے پر زہریلہ مسکراہٹ سجائے انہیں ڈرانے پر مجبور کردیا۔۔

"آخر تم یہ سب کر کیوں رہے ہو"

ہاجرہ بیگم اداسی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جس پر دراب چوہدری کی مسکراہٹ غائب ہوئی

"ابا جان کی وجہ سے ہی میری بیوی شازیہ مری تھی نا بدلہ تو لینا تھا مجھے لوں گا"

وہ چہرے پر اداسی سجائے بتاتے ساتھ ایک زوردار قہقہہ لگا گئے جس پر ہاجرہ بیگم انہیں دیکھتی رہ گئی ۔۔

"اس بات کو بھول جائیں اور خاموش رہے میری نظریں آپ پر ہی ہیں"

دراب چوہدری ہاجرہ بیگم کو ڈراتا کمرے سے چلا گیا۔

ہاجرہ بیگم وہ منظر یاد کرتی گھبرائی لیکن ہمت پیدا کرتی وہ بیڈ سے اٹھی دوپٹہ لیتی نیچے کی جانب احتیاط سے گئی نظریں ارد گرد گھمائے وہ حاکم چوہدری کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔

"ابا جان"

وہ کمرے کا دروازہ کھول کر بند کرکے حاکم چوہدری کو دیکھتی پکارنے لگی ہاجرہ بیگم کو دیکھ انہوں نے فوراً حور کی تصویر کو چھپایا 

"خیریت ہے"

وہ چہرے پر سنجیدگی لیے پریشان سے پوچھنے لگے

"مجھے آپ کو بہت ضروری بات بتانی ہے"

ہاجرہ بیگم حاکم چوہدری کے پاس آتے ہوئے بتانے لگی جس پر وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گئے۔

ہاجرہ بیگم نے انہیں دراب چوہدری کی ایک ایک بات کو بتایا اور حاکم چوہدری اپنی جگہ ساکت ہوگئی۔

"ہمارا بیٹا ہمارے ساتھ ایسا کر سکتا ہے"

حاکم چوہدری افسردگی سے کہنے لگے ہاجرہ بیگم ان کی دلی کیفیت سمجھ سکتی تھی

"مجھے سچ بتانا فرض تھا"

ہاجرہ بیگم کہتے ساتھ خاموشی سے کمرے سے چلی گئی اور حاکم چوہدری اسی طرح کمرے میں بیٹھے رہے۔۔۔

**********

صبح حور کی آنکھ نظر گھڑی پر ڈالی جو آٹھ بجا رہی تھی وہ اپنے ساتھ نظر ڈالتی خاموشی سے اٹھی اور باتھروم کی طرف بڑھ گئی

کچھ دیر بعد وہ گیلے بالوں کیساتھ باہر آئی نظر ذامل پر گئی جو اٹھا ہوا بیڈکراؤن سے ٹیک لگائے ہوئے تھا حور ایک نظر اس پر ڈال کر ڈریسنگ کے سامنے آ گئی اور بالوں کو سلجھانے لگی اور مرر سے نظریں ذامل پر جمائے ہوئے تھی دوسری طرف وہ بھی اسی پر نظریں مرکوز کیے ہوئے تھا۔۔

"میں نے فیصلہ کرلیا ہے"

ذامل اٹھ کر اس کے پاس آکر کہنے لگا حور نے مڑ کر اس کی جانب دیکھا

"کیا؟"

حور اسے دیکھتے ہوئے آئبرو اچکائے پوچھنے لگی 

"میں تمہیں زبردستی اس رشتے میں نہیں رکھو گا میں تمہیں جلد آزاد کردوں گا"

وہ اسے دیکھتے چہرے پر بھرپور سنجیدگی لیے اسے کہنے لگا حور نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا

"کل تک تو رہا نہیں جا رہا تھا ایک رات میں خود کو مضبوط کرلیا اتنا"

حور چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے اسے بولی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا

"چاہتی کیا ہو جو کہ رہی ہو وہ کررہا ہوں تو تم خوش نہیں ہو اور رہنا بھی نہیں چاہتی ساتھ"

ذامل اسے کھینچ کر قریب کیے کہنے لگا حور اسے دیکھنے لگ گیا

"تم کنفیوز ہو تمہارا دل کہتا ہے تم میرے ساتھ رہو گے جبکہ دماغ کہ رہا ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا ہے تو میرے ساتھ نہ رہو"

وہ اس پر اپنی گہری نظریں جمائے بےحد قریب کیے اسے بولا حور سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی وہ واقع حیران تھی وہ سب کیسے جان لیتا تھا 

"شام تک کا وقت ہے مجھے اپنا فیصلہ سنا دو"

وہ اسے کہتے ساتھ جھٹکے سے الگ کرتا باہر کی طرف بڑھنے لگا

"مجھے حویلی جانا ہے"

حور نے اسے فوراً سے بولا ذامل نے مڑ کر اسے دیکھا

"ایک کام ہے وہ کرکے پھر آتا ہوں"

ذامل کہتے ساتھ خاموشی سے باہر کی طرف بڑھ گیا حور اسے جاتا دیکھنے لگ گئی 

"اسے کیا ہوا ہے اچانک اتنا سیریس کیا واقع میں اس کیساتھ نہیں رہنا چاہتی"

حور ذامل کی باتوں کے متعلق سوچتے ہوئے پریشانی سے کہنے لگی اور کمرے میں ٹہلنے لگی۔

***********

"سامان لاؤ"

حاکم چوہدری نے ملازم سے بولا ازقہ زاہد صارم جافر دراب چوہدری آدم چوہدری سب پریشانی سے حاکم چوہدری کو دیکھنے لگ گئے۔۔

"کس کا سامان ابا"

دراب چوہدری فوراً سے پوچھنا ضروری سمجھنے لگے۔۔

"اپنی زبان سے ابا مت کہو مجھے دراب چوہدری"

حاکم چوہدری آنکھوں میں سرخی لیے تیش سے کہنے لگے جس پر دراب چوہدری گھبرا گیا باقی سب بھی کھڑے ہو گئے اور انہیں دیکھنے لگے 

"تمہارا اور تمہارے بیٹے کی اس حویلی میں کوئی جگہ نہیں تم نے پیٹھ پیچھے ہم پر چھڑا کھوپنا چاہا تمہیں ذرا شرم نہیں آئی مجھے آج کے بعد مجھے تم اس حویلی میں نظر نہ آؤ اور شازیہ بیگم کو ہم نے نہیں مارا انہیں قتل کیا گیا تھا جو کہ شازیہ بیگم کے اپنے باپ احسان خان نے کیا تھا "

حاکم چوہدری دراب چوہدری کو دیکھتے ہوئے صفائی دینے لگے 

"نہیں حاکم چوہدری کوئی بھی باپ اپنی بیٹی کو نہیں مارتا آپ کو پسند نہیں تھی نا وہ اس لیے آپ نے کیا اور اتنی آسانی سے تو میں یہ حویلی چھوڑ کر نہیں جانے والا میں نے کیا کیا نہیں کیا آپ کی زندگی عذاب بنانے کیلیے آپ کے بہترین دوست ملک شہراز سے دشمنی کروائی آپ کے بڑے بیٹے کو مروایا آپ سب نے مجھے تکلیف دی اور میں نے آپ سب کو دینا چاہی اور ابھی بھی مجھے سکون نہیں ملا اس لیے میں اس لڑکی کو ماردوں گا کیونکہ یہ میری نہیں ملک عاصم کی بیٹی  اور ملک ذامل کی سگی بہن ہے "

دراب چوہدری کہتے ساتھ گولی ازقہ کے سر پر رکھ گئے اور ازقہ بےیقینی سے ان سب کو دیکھنے لگے

"داد یہ سچ بول رہے ہیں"

ازقہ آنکھوں میں آنسو لیے حاکم چوہدری سے پوچھنے لگے

"ہاں ملک شہراز کو بیٹیاں نہیں پسند تھی اس لیے وہ تمہیں مار رہے تھے پیدا ہوتے ہی اس لیے ہم نے پھر تمہیں اس گھر میں رکھ لیا"

حاکم چوہدری نظریں جھکائے ازقہ سے کہنے لگے زاہد صارم اور جافر پریشانی سے انہیں دیکھنے لگے۔

"چھوٹی۔ چچا ازقہ کو ورنہ میں بولی چلا دوں گا"

زاہد اپنی گن نکال کر غصے سے کہنے لگا ازقہ اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی دراب چوہدری نے ازقہ سے گن نہیں ہٹائی اور زاہد نے اپنی گن چلا دی اور دراب چوہدری کے سیدھا سینے پر جا لگی ازقہ گولی کی آواز پر ہوش میں آئی

"ازقہ تم ٹھیک ہو"

زاہد اس کے پاس آتے ہوئے پوچھنے لگا ازقہ اثبات میں سر ہلا کر اس کے گلے لگ گئی سب لوگ اپنی جگہ حیران ہوگئے تھے

"ابا "

آدم ان کی طرف تیزی سے بڑھا اور پکارنے لگا

"اسے ہسپتال لے جاؤ"

حاکم چوہدری دراب کو گرا دیکھ ملازموں سے کہنے لگے وہ لوگ اسے اٹھا کر باہر کی طرف بڑھ گئے سب لوگ پریشان سے بیٹھ گئے ۔۔۔۔

***********

"خیریت ہے"

ذامل ڈیڑے پر آتء ہی شہریار سے ملتا پوچھنے لگا جس پر شہریار اسے دیکھنے لگ گیا

"مجھے محبت ہوگئی ہے"

شہریار ذامل کو دیکھتے ہوئے بتانے لگا ذامل نے اسے دیکھا

"سچ میں"

ذامل حیرت زدہ سا بولا شہریار اثبات میں سر ہلا گیا

"کون؟"

ذامل نے فوراً اسے دیکھتے ہوئے پوچھا

"نوال"

شہریار نے اسے بتایا ذامل کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی

"تو بول دو "

ذامل فوراً سے اسے کہنے لگا جس پر شہریار سر جھٹک گیا

"بولا اس کا رشتہ ہوا ہے اس نے صاف انکار کردیا "

شہریار اسے دیکھتے ہوئے مایوسی سے بتانے لگا ذامل کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوئی

"رشتہ بھجوا دے اپنا "

ذامل اسے مشورہ دیتا اٹھ کھڑا ہوا جس پر شہریار اسے دیکھنے لگ گیا 

"اس کا رشتہ "

شہریار ابھی بول رہا تھا ذامل نے اسے روکا

"رشتہ بھجوا دے اگر انکار ہوا تو زبردستی نہ کرنا اور اگر ہاں ہوا تو فوراً نکاح کرلینا"

وہ اسے کہتے ساتھ وہاں سے چلا گیا شہریار اسے جاتا دیکھنے لگ گیا 

ملک شہراز کا آدمی جو وہاں سے گزر رہا تھا نظر ذامل پر گئی وہ فوراً ذامل کا پیچھے کرنے لگا ذامل حور کے متعلق ہوتے راستے سوچتے ہوئے اپنے گھر تک کا سفر طے کر گیا اور ملک شہراز کا آدمی ذامل کو گھر کے اندر تک جاتا دیکھ کر فوراً گاڑی واپس موڑ گیا۔۔۔

**********

ذامل کمرے میں آیا نظر حور پر گئی جو بیڈکراؤن سے ٹیک لگائے مزے سے سوئی ہوئی تھی

"حور "

ذامل اسے سوتا پاکر پاس آکر پکارنے لگا جس پر حور فوراً اٹھی

"پتہ نہیں کیسے آنکھ لگ گئی"

حور اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ بولتی کھڑی ہوگئی

"چلنا ہے حویلی "

ذامل سنجیدہ لہجے لیے اس سے پوچھنے لگا جس پر حور اثبات میں سر ہلا گئی

"میں چادر کرلوں"

وہ کہتے ساتھ وارڈروب سے چادر لیتی اوڑھ کر کمرے سے باہر کی جانب بڑھی۔

وہ دونوں نیچے کی جانب بڑھے اور گھر سے باہر نکلے حور اور ذامل دونوں گاڑی میں بیٹھے ذامل نے گاڑی چلا دی 

ذامل اور حور نے تھوڑا سا ہی راستہ طہ کیا تھا کہ سامنے ملک شہراز اور اس کے آدمیوں کو دیکھ حور اور ذامل دونوں ہی پریشان ہوگئے ذا نے گاڑی کو بریک لگائی 

"باہر نکل"

ملک شہراز کے اشارے پر وہ ملک ذامل گاڑی سے باہر نکلا 

"اے تو بھ"

ابھی وہ حور کو چھونے ہی والا تھا جب ذامل نے زوردار مکہ اس کے منہ پر مارا وہ گھوم گیا

"خبردار جو چھوا اسے تیری جان لے لوں گا"

ذامل غصے سے آنکھوں میں سرخی لیے چلایا جس پر وہ شخص گھبرا گیا حور گھبراتے ہوئے خود ہی باہر آ گئی

"واہ ملک ذامل واہ جس دادا نے ساری زندگی تمہارا ساتھ دیا پالا آج اس لڑکی کیلیے تم اس دادا کے ساتھ بیوفائی کررہے ہو"

ملک شہراز چہرے پر تکلیف دہ مسکراہٹ سجائے کہنے لگے جس پر ملک ذامل نے انہیں دیکھا

"میں نے آپ سے کہا تھا میں بچپن سے عشق کرتا ہوں شادی کردے آپ نے کی ضد کی تھی"

ذامل ملک شہراز کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دینے لگا حور نے ذامل کو دیکھا۔۔

"مجھے نفرت ہے اس لڑکی سے"

وہ کہتے ساتھ پستول کا نشانہ حور پر بنا گئے ذامل انہیں دیکھنے لگا۔

گولی کی آواز گونجی ذامل اور حور اپنی جگہ ساکت ہوگئے تھے اس سے پہلے گولی حور کو لگتی ذامل آگے آ گیا اور گولی سیدھا اس کے سینے پر جا لگی حور ساکت سی ذامل کو دیکھ رہی تھی ملک شہراز کے ہاتھ سے گن گر گئی حور کو اپنے وجود سے جان جاتی محسوس ہورہی تھی۔۔

"اس کے ساتھ کچھ نہیں ۔۔۔کرسکتے آپ  جب تک میں۔۔۔ زندہ ہوں حور  کو ہلکی سی خروش بھی۔۔۔ نہیں آنے دوں گا  "

ذامل چہرے پر مسکراہٹ لیے ملک شہراز سے رک رک کر کہنے لگا اور لڑکھڑاتا زمین پر جاگرا 

"ذاملللللللل"

ذامل کے گرنے پر حور ہوش میں آئی اور چلا کر اسے پکارنے لگی آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح بہنے لگے۔

"ذامل تمہیں کچھ نہیں ہوگا سن رہے ہو نا مجھے تم میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی"

حور گٹھنوں کے بل بیٹھتی نم آنکھیں لیے چلا کر اسے بولی ذامل مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا

"میں تمہیں بہت چاہتا ہوں"

ذامل بامشکل کانپتے ہاتھوں سے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے بولا حور روتے ہوئے مسکرائی۔۔

"میں بھی تمہیں بہت چاہتی ہوں تمہیں کچھ نہیں ہوگا آنکھیں نہیں بند کرنا تم کوئی ہے مدد کیلیے"

حور ذامل کے بال ٹھیک کرتے ہوئے اسے بولتی چیخ کر مدد کی پکار کرنے لگی ملک شہراز سامنے کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے اسی لمحے ذامل کی آنکھیں بند ہوگئی۔

"ذامل ذامل آنکھیں کھولو ذامل"

حور اس کا وجود ہلاتے ہوئے اسے پکارنے لگی مگر وہ آنکھیں بند کیے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اس کے ہاتھوں میں لیٹا تھا ذامل کی آنکھیں بند ہونے پر حور کی سانس رک سی گئی۔

"آپ انسان ہے بھی یا نہیں دل ہے بھی سینے میں یہاں نہیں پوتا کی حالت دیکھ رہے ہیں اور کھڑے ہیں"

حور غصے سے ملک شہراز کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی ملک شہراز فوراً ذامل کے پاس آئی

"جلدی ہسپتال لے کر چلو اسے"

ملک شہراز اپنے ملازموں کو چیخ کر حکم دینے لگے سب اثبات میں سر ہلا گئے اور ذامل کو اٹھا کر گاڑی میں لائے

ملک شہراز بیٹھنے ہی لگے حور نے انہیں دیکھا

"میں ہوں اپنے ذامل کے پاس "

حور کہتے ساتھ گاڑی میں اس کے پاس بیٹھ گئی ملک شہراز خاموشی سے آگے بیٹھ گئے حور نم آنکھوں سے ذامل کو دیکھنے لگی

وہ لوگ ہسپتال پہنچے تو فوراً ہی ذامل کو سٹریچر پر لٹا کر آپریشن تھریٹر کی طرف بڑھ گئی حور وہی کھڑی آنسو بہا رہی تھی ملک شہراز بھی خاموشی سے کھڑے تھے۔۔

حور کی نظریں بار بار آپریشن تھریٹر پر جارہی تھی اپنے سے دور ذامل کو محسوس کرکے جیسے مانو اس کے وجود سے جان نکل رہی تھی ۔۔

("تمہیں دیکھنے کے لیے جان"۔۔

"بس اتنا معلوم ہے حورِ جان ملک ذامل کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے حورِ جان کو دیکھے بغیر میرا دن نہیں گزرتا تمہارا غصہ مجھے بےحد پسند ہے تم بچپن سے لے کر اب تک اس دل میں رہتی ہو۔" 

"تم ذامل کیلیے سکون کا احساس ہو جان"

"تم دلہن کے روپ میں اس قدر حسین لگ رہی ہو کہ تم سے نظریں نہیں ہٹائی جارہی اس قدر حسین کے ملک ذامل تمہیں پوری رات پلک چھپکائے دیکھ سکتا ہے"

"تمہیں دیکھنے کا تمہیں سننے کا تمہارے قریب رہنے کا اختیار صرف مجھے ہے")

وہ آپریشن تھریٹر پر نظریں جمائے ذامل کے کہی ایک ایک بات یاد کرتی آنسو بہانے لگ گئی۔۔۔

ملک شہراز خاموشی سے کھڑے نظریں آپریشن تھریٹر پر جمائے ہوئے تھے۔

"حور"

زاہد کی نظر حور پر گئی وہ فوراً اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے کہنے لگا۔۔

"بھائی"

حور نے سر اٹھا کر زاہد کو نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے پکارا۔

"کیا ہوا ہے؟"

زاہد اسے روتا دیکھ پریشان سا پوچھنے لگا حور زاہد کے گلے لگ گئی

"ذامل کو گولی لگ گئی ہے بھائی"

وہ روتے ہوئے سسکیاں لیتے ہوئے کہنے لگی زاہد کی نظر آپریشن تھریٹر پر گئی جس پر زاہد نے حور کو گلے سے لگایا

"سب بہتر ہوگا تم ٹینشن نہ لو"

وہ اسے امید دیتے ہوئے پیار سے کہنے لگا حور اس کے سینے سے الگ ہوئی

"آپ یہاں خیریت"

حور زاہد کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگی زاہد نے اسے دیکھا اور ساری بات بتائی۔۔

"کیا مطلب ذامل ازقہ بجو کا بھائی ہے؟"

حور سب جاننے کے بعد حیرت زدہ سی پوچھنے لگی زاہد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

اس سے پہلے حور کوئی اور سوال کرتی ڈاکٹر اس طرف آئے ۔۔

"آئی ایم ریلی سوری بہت کوششوں کے بعد بھی ہم آپ کے پیشنٹ کو نہیں بچا سکے"

ڈاکٹر زاہد کے پاس آتے ہوئے اسے افسردگی سے بتانے لگا زاہد خاموشی سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگا۔

"ایسا نہیں ہو سکتا میرے ابا مجھے ایسے نہیں چھوڑ کر جا سکتے سب تمہاری وجہ سے سب"

آدم ایک دم چیخ کر کہنے لگا جس پر حور اور زاہد نے اسے دیکھا 

"آدم ہوش میں رہو"

زاہد اسے نارمل کرتے ہوئے کہنے لگا جس پر حور گھبرا کر دور ہوئی اور آدم زاہد کو نفرت سے دیکھتا دھکا دے کر چلا گیا۔۔۔

***********

ذامل کو بہت دیر ہو چکی تھی آپریشن تھریٹر پر مگر آپریشن ابھی تک چل رہا تھا حور کا دل بیٹھا جارہا تھا وہ اسوقت جائے نماز میں بیٹھی خدا سے ذامل کی زندگی کی دعائیں کررہی تھی

"ڈاکٹر میرا پوتا"

ملک شہراز ڈاکٹر کو باہر آتا دیکھ فوراً سے ان کی طرف بڑھ کر کہنے لگے

"وہ خطرے سے باہر ہیں لیکن ابھی انہیں ہوش نہیں آیا روم میں شفٹ کردیا گیا ہے آپ مل سکتے ہیں "

ڈاکٹر ملک شہراز کو بتاتے ساتھ آگے کی  طرف بڑھ گئے ڈاکٹر کی بات سن کر حور فوراً شکر ادا کرکے اٹھی اور روم کی طرف بڑھی 

زاہد ملک شہراز ویسے ہی خاموش کھڑے تھے۔

حور کمرے میں آئی نظر اس پر گئی جو کہیں مشینوں میں جکڑا ہوا تھا ہاتھوں میں ڈرپ لگی ہوئی تھی اسے اس حالت میں دیکھ آنکھوں سے آنسو کسی پانی کی طرح بہنے لگے حور کے سامنے ذامل کا مسکراتا ہوا چہرہ آیا وہ اس کے پاس آئی اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔

"ملک ذامل پہلے جیسے ہوجاؤ تمہیں ایسی حالت میں نہیں دیکھا جارہا ہے"

وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اداسی سے کہتے ساتھ اس کے سینے پر سر رکھ گئی۔۔۔

تبھی ڈاکٹر کمرے میں آیا حور فوراً سیدھی ہوئی اور آنسو صاف کرنے لگی۔۔

وہ کچھ سمان رکھتا چلا گیا حور اسے ویسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔

***********

حاکم چوہدری بھی حور کی خاطر ہسپتال پہنچ گئے اور ملک شہراز وہی موجود تھے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا بغیر کوئی بات کیے حاکم چوہدری حور کی طرف بڑھے حور انہیں دیکھ ان کے گلے سے آ لگی۔

" دادا"

وہ ان کے گلے سے لگی خوشی سے کہنے لگی جس پر حاکم چوہدری کو ایک الگ ہی خوشی ملی

"دادا مجھے معاف کردیں میں نے کچھ غلط نہ"

حور سر اٹھا کر پھر سے وضاحت دینے لگی جب حاکم چوہدری نفی میں سر ہلا گئے اور گلے سے لگا لیا۔۔

"مجھے معاف کردو حاکم"

ملک شہراز اس کی طرف بڑھ کر شرمندہ سے کہنے لگے حاکم چوہدری نے ملک شہراز کی جانب دیکھا اور پھر زاہد اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔

"آج پوتے کو خود سے دور جاتا دیکھ مجھے صحیح معنوں میں تکلیف سی ہوئی ہے جتنا غلط کیا ان سب کی معافی چاہتا ہوں"

ملک شہراز ہاتھ جوڑ کر شرمندہ سے حاکم چوہدری سے کہنے لگے حاکم چوہدری نے ان کے دونوں ہاتھ تھام لیے

"شرمندہ تم کررہے ہو اب مجھے"

انہوں نے کہتے ساتھ ملک شہراز کو گلے سے لگایا اور سب لوگ مسکرا دیے آج سترہ سال بعد سب پہلے جیسا لگ رہا تھا سب لوگ خوش تھے انتظار تھا تو بس ذامل کے ہوش میں آنے کا۔

**********

پوری رات گزر چکی تھی اور سب لوگ گھر چلے گئے ملک شہراز کو حاکم چوہدری زبردستی اپنے ساتھ حویلی لے گئے تھے حور ذامل کے پاس ہی سوئی تھی صبح ہونے کو تھی ذامل کو ہوش نہیں آیا تھا حور فجر ادا کرکے اس پر پھوکا مارتی جائے نماز جگہ پر رکھنے لگی۔

تبھی ذامل نے پلکوں پر ہلکی ہلکی جبنش کی  اور کھانسنے لگا حور نے فوراً اسے دیکھا 

"ذامل"

حور فوراً اس کی طرف بڑھ کر پکارنے لگی بامشکل ذامل کی نظر اس پر گئی جو سفید رنگ کے حجاب میں سر ڈھکے ہوئے تھے حورِ جان کو  دیکھتے ہی ذامل کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور خود میں جیسے سکون سا اترتا محسوس ہوا۔

"کچھ چاہیے کیا"

حور اس کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر نرمی سے پوچھنے لگی۔

"پپ۔۔پانی"

ذامل بامشکل اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگا حور نے فوراً جگ سے گلاس میں پانی ڈالا اور اسے پلایا ذامل کی نظریں حور پر ہی مرکوز تھیں 

"ش۔۔شکریہ"

ذامل پانی پینے کے بعد حور کو نظروں کے حصار میں بولا حور خاموش رہی 

ذامل کے اس کے چہرے کو بغور دیکھا جس کی آنکھیں کافی سوجھی ہوئی تھی

"ت۔۔۔تم۔۔رو۔۔روئی۔۔ہو"

ذامل کو بولتے ہوئے شدید تکلیف ہورہی تھی مگر حور کی سوجھی آنکھیں دیکھ وہ پوچھے بغیر رہ نہ سکا

"تم زیادہ مت بولو "

حور اسے دیکھتے ہوئے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بولی 

"بتاؤ م"

ذامل ابھی منہ سے الفاظ نکال ہی رہا تھا جب حور نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔

"میں نے منع کیا ہے نا"

حور آنکھیں دیکھاتے ہوئے اسے کہنے لگی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا

"سوجاؤ"

حور اسے دیکھتے ہوئے بولتے ساتھ اس کی میڈیسنز دیکھنے لگی 

"تم تو چاہتی ہو میں ہمیشہ کیلیے سوجاؤ ہے نا"

ذامل اسے جان کر تنگ کرنے کیلئے بولا حور نے فوراً نظروں کا تعاقب اس کی طرف کیا

"فضول بولنے کی تمہیں شروع سے عادت ہے مجھے لگتا ہے"

حور اسے گھور کر خفگی سے منہ بنائے جواب دینے لگی جس پر ذامل کے لب مسکرا دیے

"تو کہو ایسا نہیں ہے"

ذامل فوراً سے اسے کہنے لگا حور نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا

"ماننا پڑے گا ملک ذامل تم بہت ضدی ہو تم جو کہتے ہو وہ کر دیکھاتے ہو "

حور اس کے سامنے آکر سینے پر بازو باندھے اسے بولی ذامل اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگ گئی ۔۔

"میں نے جو بولا ہے وہ بولو"

امام اسے بات کو گھماتا دیکھ فوراً سے بولا حور اسے دیکھنے لگی۔

"ایسا نہیں ہے ذامل جب تمہاری آنکھیں بند ہوئی تھی حور کو اپنی سانس رکتی محسوس ہوئی تھی"

حور اسے بولتے آخری بات دل میں کہنے لگی ذامل اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔۔

"سانس رک گئی تھی نا"

ذامل اس کے چہرے کو پڑھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا حور بس اسے دیکھ رہی تھی دونوں طرف بیٹ مس ہوئی تھی ذامل کی آنکھوں میں خوشی کی الگ ہی چمک تھی۔۔۔

************

"میم بینڈچ کا وقت ہوگیا ہے"

نرس آتے ہوئے حور سے کہنے لگی حور اور ذامل نے اس کی طرف دیکھا

"آپ مجھے دے دیں میں کردوں گی"

حور اس سے بینڈچ کا سمان لیتی کہنے لگی نرس خاموشی سے چکی گئی ۔

حور نے آرام سے ذامل کا اٹھایا اور اس کی پشت کو بیڈ سے ٹکایا وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا  حور نے اسے دیکھا اور آرام آرام سے اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی اور اس کی شرٹ اتاری حور کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور ذامل اس کی حالت سے محفوظ ہورہا تھا

نرمی سے اس کی پینڈچ کھولنے لگی جیسے ہی ساری بینڈچ جھلی نظر زخم پر گئی آنکھیں خود ہی بھیگ گئی وہ ذامل کو دیکھنے لگی ذامل نے اس کے آنسو اپنے دوسے ہاتھ سے صاف کیے حور بینڈچ آرام آرام سے کرنے لگی ذامل کی نظریں اس ی پر تلی تھی بینڈچ کرنے کے بعد حور نے اسے پھر شرٹ پہنائی ذامل نے حور کا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بٹھا کر اس کی پیشانی پر اپنے پیار کی مہر لگا دی حور آنکھیں بند کر گئی۔

"یہ عشق ہے جناب جس سے ہوتا ہے 

 وہی شخص جان سے پیار ہوتا ہے"

تبھی دروازے پر دستک ہوئی ذامل اور حور دور ہوئے ملک شہراز اور حاکم چوہدری کو ایک ساتھ دیکھ ذامل حیران تھا جس پر سب لوگ اس کے ری ایکشن پر مسکرادیے

"ایسے کیا ہاں تمہارے دادا اتنے بھی برے نہیں ہے"

ملک شہراز مسکراتے ہوئے کہنے لگے جس پر سب لوگ ہنس دیا ذامل کے لب ہلکے سے مسکرا دیے زاہد ازقہ کو ساتھ لایا تھا

"اپنی بہن سے نہیں ملو گے ذامل"

حاکم چوہدری ذامل کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے جس پر ذامل ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگ گیا۔۔

"میری تو کوئی بہن نہیں ہے"

ذامل فوراً سے انہیں بتانے لگا ملک شہراز ایک بار پھر شرمندگی سے سر جھٹک گئے۔

"میں نے تم سے یہ بات بھی چھپائی تھی ازقہ تمہاری بہن ہے ذامل"

ملک شہراز شرمندگی سے نظریں نہ ملاتے ہوئے بولے ذامل کو پھر حیرت کا جھٹکا لگا اور اس نے نظریں ازقہ کی جانب کی جو خاموش سی کھڑی ذامل کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

"دادا آپ نے یہ کیوں کیا"

ذامل ازقہ ہر نظر ڈال ملک شہراز پر خفگی بھری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھنے لگا۔

"پرانی باتیں کو بھول جانا بہتر ہے ذامل اپنی بہن سے ملو"

حاکم چوہدری بات کو ختم کرتے ہوئے ذامل سے کہتے ساتھ ازقہ کو اشارہ کرنے لگی۔۔

ازقہ حاکم چوہدری کی طرف بڑھی حاکم چوہدری نے اسے ذامل کے پاس کیا ذامل اسے دیکھنے لگ گیا دونوں ایک دوسرے کو نم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔۔

"میں نے تمہیں ہمیشہ بہن ہی سمجھا ہے"

ذامل ازقہ کا ہاتھ تھام کر اسے مسکرا کر کہنے لگا جس پر ازقہ مسکراتی اور سب لوگ بھی مسکرادیے۔۔

*********

ذامل کو ہسپتال میں دوسرا دن تھا اس کے پاس حور ہی موجود تھی حور بیٹھی ہوئی تھی

"جان"

ذامل نے مسکراتے ہوئے اسے پکارا حور نے اسے دیکھا

"بال"

ذامل حور کو ہئیر برش ہلاتے ہوئے اشارہ سمجھانے لگا حور اٹھ کر اس کے پاس آئی

"سیدھا ہاتھ بلکل ٹھیک ہے لیکن جان کر مجھے تنگ کرنا تمہاری عادت ہے"

حور اسے گھور کر جواب دیتے ساتھ بال بنانے لگی اس کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار تھی۔۔

"بےوجہ ہنستے رہتے ہو پاگل ہو"

حور اس کی مسکراہٹ سے تپ کر بولی ذامل کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"میں نہیں کررہی ہوں خود کرلو "

حور منہ بنا کر کہتے ساتھ برش چھوڑ کر جانے لگی ذامل نے اس کی کلائی تھام کر کھینچ کر قریب کیا اور قہقہ لگا کر ہنسے

"اتنی کیوٹ شروع سے ہو یا اب ہوئی ہے"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے پیار سے کہنے لگا جس پر حور نے اسے آنکھیں چھوٹی کیے دیکھا

"یہ مجھے نہیں پتہ ٹھیک ہے"

حور ذامل کو مسکراتے ہوئے جواب دینے لگی جس پر ذامل کے لب مسکرا دیے اور دونوں نے ایک دوسرے کے ماتھے سے ماتھا ٹکا لیا۔۔۔

ذامل کے کہنے پر وہ دونوں تھوڑی دیر کیلیے نیچے واک کرنے کیلیے آ گئے تھے وہ دونوں ایک دوسرے سے قدم ملا کر چلتے ہوئے خاموشی سے واک کررہے تھے

"کتنا اچھا ہو نا تم ساری زندگی یوں ہی خاموشی سے میرے ساتھ چلتی رہو"

ذامل حور کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر شرارت سے کہنے لگا حور نے اسے دیکھا

"خاموش تو میں کبھی نہیں رہ سکتی ہوں سمجھیں"

حور اسے گھور کر منہ بنائے جواب دینے لگی جس پر ذامل کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"تم ہمیشہ یوں ہی مسکراتے ہو کیا؟"

حور اسے مسکراتا دیکھ نظریں اس کی مسکراہٹ پر جمائے پوچھنے لگی ذامل نے اسے دیکھا

"میرے خوش رہنے کی وجہ میرے ساتھ موجود ہے تو یہ مسکراہٹ چہرے پر خود ہی آجاتی ہے"

وہ حور کے چہرے نظریں جمائے محبت بھرے لہجے میں بولتا حور کو پلکیں جھکانے پر مجبور کر گیا۔۔

"میرے خیال سے اب ہمیں واپس اوپر چلے جانا چاہیے"

حور کچھ دیر چلنے کے بعد ذامل کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گیا اور دونوں اوپر کی طرف بڑھ گئے

 روم میں آکر حور نے ذامل کی بینڈچ چیخ کی اور اسے سوپ ہلا کر میڈیسن دی تھی۔۔۔

**********

"کیسا ہے اب"

شہریار اس کے پاس بیٹھا دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا 

"بہت بہتر"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگا جس پر شہریار مسکرا دیا 

"خوب خدمتیں لی جارہی ہیں بھابی کی"

وہ مسکراتے ہوئے مزاحیہ انداز میں کہنے لگا ذامل کے لب مسکرا دیے

"بلکل"

وہ حور پر نظریں جمائے مسکرا کر جواب دینے لگا جس پر شہریار مسکرا دیا 

"اب کیا لگتا ہے ڈیوارس کی بات کریں گے؟؟"

شہریار نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنا ضروری سمجھا جس پر ذامل فوراً نفی میں سر ہلا گیا

"جان ذامل کے بغیر نہیں رہ سکتی اتنا تو میں جان گیا ہوں"

ذامل لہجے میں اعتماد لیے اسے جواب دینے لگا جس پر شہریار اثبات میں سر ہلا گیا۔۔

"تم اپنے بارے میں سوچو"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا شہریار خاموش رہا۔۔

"میں چلتا ہوں پھر آؤں گا خیال رکھنا"

وہ کہتے ساتھ اس سے ملتا وہاں سے چلا گیا ذامل اسے جاتا دیکھنے لگ گیا۔۔۔

**********

ذامل کو ڈسچارج کردیا گیا تھا ملک شہراز اسے اور حور کو اپنی والی حویلی لے آئے تھے ان کے ساتھ ازقہ بھی آئی تھی اور حور ذامل کو سہارا دے کر اس کے والے روم کی طرف بڑھ گئی

کمرے میں آتے ہی اسے بیڈ پر لٹایا تھا ذامل اسے دیکھ رہا تھا

"تو یہ ہے تمہارا روم"

حور اس کے روم کس جائزہ لیتے ہوئے مسکرا کر بولی جس پر ذامل ہاں میں سر ہلا گیا

"یہ انکل آنٹی ہیں؟"

وہ دہوار پر لگی تصویر سے اندازہ لگاتے ہوئے مسکرا کر پوچھنے لگی ذامل اثبات میں سر ہلا گیا

"جان"

ذامل نے اسے پکارا حور نے مڑ کر اسے دیکھا ذامل نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا

"تمہیں ڈیوارس کب چاہیے"

ذامل چہرے پر سنجیدہ تاثرات سجائے اس سے پوچھنے لگا اور اسکی بات سے حور بس اسے دیکھتی رہ گئی

"ڈیوارس ؟"

حور اسے دیکھتے ہوئے بامشکل بول سکی جس پر ذامل اثبات میں سر ہلا گیا

"یاد نہیں تمہیں ہی چاہیے تھی"

ذامل اسے جان کر اپنی مسکراہٹ ضبط کیے پوچھنے لگا جس پر حور اسے خاموشی سے دیکھنے لگی

"بولو بھی"

ذامل اسے خاموش پاکر پھر سے بولا حور ہوش میں آئی

"مجھے اب نہیں چاہیے"

حور نے اسے فوراً اپنا جواب دیا ذامل اسے دیکھنے لگا 

"کیوں"

ذامل آئبرو اچکائے جان کر اس سے پوچھنے لگا حور کی نظریں اس پر ہی تھیں

"بس نہیں چاہیے اب"

حور اسے جواب دیتی اٹھ کر جانے لگی ذامل نے اس کی کلائی تھامی

"آخر کیوں نہیں چاہیے "

ذا اسے اپنے پاس بٹھا کر پوچھنے لگا حور صحیح معنوں میں بے س ہوئی تھی

"ذامل تم جانتے ہو پھر بھی"

حور اس سے نظریں چرا کر تھوڑا خفگی سے کہنے لگی ذامل نے حور کو اپنے قریب کیا

"مجھے تمہارے منہ سے سننا ہے"

ذامل اس کے چہرے پر نظریں جمائے گھمبیر لہجے میں بولا حور نے اسے دیکھا 

"مجھ نہیں ہوگا"

حور نظریں جھکائے بےبسی سے کہنے لگی ذامل حور کے کان کے قریب لب لایا 

"میرے لیے"

ذامل دھیمے لہجے میں بولتا اپنی سانسیں محسوس کروا گیا حور نے آنکھیں میچ کی دل بہت تیز دھڑک رہا تھا ایسا لگ رہا تھا ابھی باہر اجائے گا 

"میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی ملک ذامل"

حور آنکھیں بند کیے ہمت پیدا کیے اپنی دلی کیفیت بول گئی ذامل کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ آئی اس نے حور کے چہرے پر نظریں جمائے اور اسے سینے سے لگایا حور کے لب بھی مسکرا دیے تھے اس سے الگ ہوکر ذامل نے حور کے چہرے پر ہاتھ رکھے اور اسے دیکھنے لگا حور نظریں جھکا گئی ذامل نے تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر کیا اور اس کے ہونٹوں کو نشانہ بنانا چاہا حور نے فوراً پیچھے کیا

"بیمار ہو اور حرکتوں سے بعاز نہیں آرہے خاموشی سے سوجاؤ"

حور بیڈ سے اٹھتی اسے گھور کر کہتے ساتھ سرخ چہرہ لیے باہر کی طرف بڑھنے لگی 

"کہاں؟؟"

ذامل اسے باہر جاتا دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا حور جاتے جاتے مڑی 

"بجو کے پاس "

وہ اسے جواب دے کر کمرے سے چلی گئی ذامل نے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور لیٹ گیا

************

"کیسے آنا ہوا آپا"

نوال کی والدہ زینیہ بیگم اپنی نند سے مسکراتے ہوئے پوچھنے لگی

"یہ کہنے آئی ہوں تم اپنی نوال کی شادی کہیں بھی کردو کیونکہ میرا بیٹا کسی اور کو پسند کرتا ہے معزرت"

وہ کہتے ساتھ اٹھ کر چل دی اور زینیہ بیگم انہیں جاتا دیکھنے لگ گئی

"یہ کیا کہ دیا آپا نے"

زینیہ بیگم مایوسی سے کہنے لگی نوال فوراً ان کے پاس آئی 

"امی چھوڑیں جو ہوا اچھا ہوا مجھے پہلے ہی پتہ تھا پھوپھو نے کبھی نہیں کرنی  سہیل کی شادی یہاں آپ پریشان نہ ہو"

نوال انہیں تسلی بخشتے ہوئے کہنے لگی دل سے تو وہ خود بھی خوش تھی جان جو چھوٹ گئی تھی ۔۔

***********

حور کمرے میں بیٹھی نماز ادا کررہی تھی ذامل کی نظریں حور پر مرکوز تھیں حور نے سلام پھیر کر اسے دیکھا اور آئبرو اچکائی

"بہت حسین لگ رہی ہو"

ذامل نظریں اس کے چہرے پر جمائے اسے بولا حور مسکرا دی 

"کب نہیں لگتی"

حور کہتے ساتھ دعا مانگنے میں مصروف ہوگئی 

"مجھے تو ہر وقت ہر لمحہ ہر گھڑی پیاری لگتی ہو"

ذامل اسے جواب دینے لگا حور نے دعا مانگی اور جائے نماز جگہ پر رکھ کر  اس کے پاس آئی

"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا مجھے تم سے پیار ہو گیا ذامل"

وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگی ذامل نے اسے اپنے حصار میں قید کیا 

"اور میں نے بولا تھا تمہیں مجھ سے محبت ہو گی"

ذامل اس کے بالوں کی خوشبو سونگھتے ہوئے بتانے لگا حور مسکرا دی 

"تم واقع بہت ضدی ہو"

حور اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی ذامل نے اپنی داڑھی اس کی گال پر پھیری حور آنکھیں بند کر گئی ذامل اس کی گردن سے بال ہٹاتا اس کی گردن پر انگلیوں کا لمس محسوس کرواتا وہ اپنے ہونٹ قریب لایا حور سانس روک گئی 

"مجھے تمہاری خوشبو سے بھی عشق ہے"

ذامل لبوں کا لمس محسوس کروا کر اس کے کان میں بولنے لگا حور ویسے ہی ساکت بیٹھی رہی 

"تم بہت چھیچھوڑے ہو"

حور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگی جس پر ذامل قہقہ لگا گئی

"ابھی تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا ہے جانم"

ذامل شوخیہ لہجے میں اسے  بتاتے ساتھ ہونٹوں پر انگوٹھا پھیرنے لگا۔۔

"مجھے نیند آرہی ہے"

حور فوراً سے اسے بولی ذامل بغیر کچھ کہے بڑی بے باکی سے اپنے لب اس کے ہونٹوں پر رکھ گیا حور کا وجود کانپنے لگا سانس بند ہونے لگی ذامل یوں ہی اسے لٹا گیا اور اس کی سانسیں خود میں قید کرنے لگا کچھ دیر بعد ذامل نے اس کے ہونٹوں کو ازادی بخشی اور اس کے بال ٹھیک کرتا اسے دیکھنے لگا

"اب سوجاؤ"

وہ اسے پیار سے کہتے ساتھ اپنے میں قید کیے سو گیا اور حور خود کو نارمل کرتی سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

*************

"کون؟"

شہریار نے بغیر دیکھے فون کان سے لگائے پوچھا 

"نوال"

نوال نے اسے فوراً بتایا اس کی آواز پر وہ سیدھا ہوا 

"خیریت"

شہریار فوراً سے پوچھنے لگا نوال نے ایک گہرا سانس لیا 

"اگر سچ میں شادی کرنا چاہتے ہو تو اپنی فیملی کو کل میرے گھر بھیج دو"

نوال نے یہ کہتے ساتھ فون رکھ دیا اور شہریار دو منٹ اپنی جگہ پر ساکت رہا اور پھر ہوش میں آیا 

"سچییی یاہووو"

شہریار خوشی سے شور مچا کر ناچنے لگ گیا۔۔۔

**********

"میرے باپ کو منھ سے دور کیا ہے نا کسی کو بھی چین نہیں لینے دوں گا"

آدم اکیلا بیٹھا بالوں میں ہاتھ پھیرتے غصے سے یہی بول رہا تھا

"اور حورِ جان پہلا نمبر تو تیرا ہی ہوگا "

آدم حور کو سوچتے ہوئے کہنے لگا اور بالوں میں ہاتھ پھیرا

"تم لوگوں نے مجھے برباد کرکے رکھ دیا میں اتنا آسانی سے تو چھوڑنے والا نہیں ہوں"

آدم کہتے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور حاکم چوہدری کی حویلی کو دیکھنے لگا

"یہ تیس نہس کردوں گا "

وہ حویلی پر نظریں گاڑھے غصے سے کہنے لگا اور واپس غصے سے چلا گیا۔۔۔

***********

"سب کچھ ٹھیک ہوگیا بس ازقہ بچی کو اب اس گھر کی بیٹی بن کر لانا ہے"

ہاجرہ بیگم مسکراتے ہوئے ناشتہ لگاتی کہنے لگی جس پر حاکم چوہدری اثبات میں سر ہلا گئے

"اگلے ہفتے ان کی رخصتی کردیتے ہیں"

حاکم چوہدری مسکراتے ہوئے کہنے لگے زاہد کے لبوں پر بھی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور صارم اور جبران نے زاہد کو چھیڑا جس پر اس نے گھورا 

"آدم کا پتہ ہے کسی کو؟؟"

حاکم چوہدری زاہد کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے زاہد نے ان کی طرف دیکھا

"نہیں دادا ہوسپٹل کے بعد سے نہیں دیکھا"

زاہد نے فوراً سے انہیں بتایا حاکم چوہدری اثبات میں سر ہلا گئے

"نظر رکھو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے"

حاکم چوہدری انہیں آگاہ کرتے ہوئے ناشتہ میں مصروف ہوگئے۔۔

************

"ذامل اٹھ جاؤ ناشتہ کرکے پین کلر کو"

حور اسے ناجانے کب سے جگانے کی کوششیں کررہی تھی لیکن ذامل ثس سے مس نہ ہوا

"ذامل اٹھ جاؤ ورنہ یہ پانی کا جگ تمہارے منہ پر الٹ دوں گی"

حور ذامل کو گھور کر یہی دھمکے استعمال کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہنے لگی جب ذامل نے کھینچ کر اسے اپنے اوپر گرایا

"تمہیں اتنا ظلم کرتے ہوئے شرم نہیں آئے گی"

ذامل اس کی کمر پر بازو حائل کیے مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا

"نہیں ہرگز نہیں "

حور اسے غصے سے گھورتے ہوئے جواب دینے لگی اس نے اس کی ناک کو چھوا 

"کب سے اٹھا رہی ہوں اٹھنے کا نام نہیں لے رہے"

حور اسے گھور کر کہتے ساتھ اس کی بائیں بازو پر مکہ مار گئے  

"آہہہہ"

ذامل درد سے چیخ مار گیا حور پریشان سی ہوئی 

"زیادہ زور سے لگ گئی کیا؟"

حور بازو پکڑ کر فکرمند سی اس سے پوچھنے لگی جس پر ذامل اسے دیکھنے لگ گیا اور قہقہ لگا کر ہنسا۔۔۔

"بھاڑ میں جاؤ تم"

حور اسے دھکا دے کر اٹھتی اسے بولی ذامل بس ہنس رہا تھا

"فریش ہوجاؤ میں ناشتہ لارہی"

حور کہتے ساتھ کمرے سے باہر کی طرف بڑھ گئی جس پر ذامل اسے جاتا دیکھنے لگ گئی

ازقہ اور زاہد کی شادی دو ہفتے بعد تھی نوال اور شہریار کا رشتہ بھی ہو چکا تھا اور ذامل نے دونوں کی شادی ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا 

سب لوگ اسوقت شاپنگ وغیرہ کیلیے گئے ہوئے تھے حویلی میں صرف حور اور ذامل ہی موجود تھے اور باقی ملازم وغیرہ ذامل کی طبیعت کی وجہ سے حور نہیں جا سکی تھی

ذامل کمرے میں بیٹھا شدید بور ہو چکا تھا اور حور تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ذامل کمرے سے باہر نکلا اور نیچے کی طرف بڑھا 

"بیگم صاحبہ کو دیکھا ہے؟"

ملازمہ کو دیکھتا وہ پوچھنے لگا جس پر ملازمہ اثبات میں سر ہلا گئی

"کچن میں ہیں"

ملازمہ اسے بتانے لگی ذامل خاموشی سے کچن کا رخ کر گیا 

کچن میں آیا تو حور کو مصروف سا پایا ذامل کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی ذامل نے اسے پیچھے سے حصار میں لیا جس پر حور گھبرائی

"ذامل"

حور اسے مڑ کر دیکھتی آنکھیں دیکھائے پکارنے لگی ذامل نے اس کی گال پر لب رکھے

"کیا بنا رہی ہو"

ذامل اس سے الگ ہوتا سامنے کھڑا ہوتا پوچھنے لگا 

"سوپ بنا رہی ہوں تمہارے لیے"

حور لبوں پر مسکراہٹ سجائے سوپ پر چمچ چلاتی اسے بتانے لگی ذامل نے اسے دیکھا

"تمہیں کھانا پکانا آتا ہے؟"

ذامل حیرانگی سے آئبرو اچکائے پوچھنے لگا جس پر حور نے اسے دیکھا

"نہیں پہلی دفعہ بنارہی ہوں تمہارے لیے"

حور اسے دیکھتے ہوئے منہ بنائے بتانے لگی جس پر ذامل کی مسکراہٹ تھوڑی سمٹی 

"اللہ خیر"

ذامل ہلکی آواز میں بڑبڑاتے ہوئے بولا 

"ارے پریشان نہ ہو میں ریسپی لی ہے امی سے تم نے پینا لازمی ہے"

حور اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی ذامل اثبات میں سر ہلا گیا

"چلو اب جاؤ مجھے بنانے دو"

حور اسے کہتے ساتھ کام میں مصروف ہو گئی ذامل اسے نظروں کے حصار میں لیے کھڑا رہا

"جاؤ نا"

حور اسے کھڑا دیکھ پھر سے کہنے لگی ذامل اس کے تھوڑا قریب ہوا 

"تم اپنا کام کرو میں اپنا کام کررہا ہوں"

ذامل اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتا اسے کہنے لگا جس پر حور اسے دیکھنے لگی 

"ذامل سارے ملازم پھر رہے شرافت سے کمرے میں جاؤ"

حور اسے گھورتے ہوئے شرمندگی سے کہنے لگی ذامل نظریں اسی پر جمائے ہوئے تھا

"مجھے فرق نہیں پڑتا"

ذامل اسے جواب دیتا اسے دیکھنے میں مصروف رہا 

"ذامل"

حور سینے پر بازو باندھے اسے پکارنے لگی 

"جی جان"

اس محبت بھرے لہجے میں اس سے پوچھنے لگا حور نے زبردستی اسے کچن سے نکالا ورنہ وہ شخص جانے والا نہیں تھا 

"افف ذامل"

مسکراتے ہوئے کہتے ساتھ سوپ دیکھنے میں مصروف ہوگئی

**************

"سوپ بن گیا"

حور کمرے میں آتے ہوئے ہاتھ میں ٹرے لیے کہنے لگی ذامل نے اسے دیکھا

"چلو ہیو اور بتاؤ کیسا پے؟"

حور اس کے سامنے رکھتی مسکراتے ہوئے بولی ذامل نے اسے دیکھا اور پینے لگا 

"کیسا ہے؟"

حور اسے دیکھتے ہوئے آئبرو اچکائے پوچھنے لگی جس پر ذامل نے اسے دیکھا

"بہت مزے کا ہے"

ذامل مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگا حور اسے  دیکھنے لگی 

"واقع مزے کا ہے؟"

حور حیرانگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جس پر ذامل اثبات میں سر ہلا گیا 

حور نے چمچ لیا اور پینے لگی 

"یخخخ"

حور فوراً سے چمچ رکھ منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے کہنے لگی۔۔

"اتنا گٹھیا بنا ہے اور تمہیں پسند آیا بیمار کردے گا یہ تمہیں چھوڑو اسے"

حور فوراً سے اس کے ہاتھ سے چمچ لیتے ہوئے کہنے لگی ذامل مسکرا کر اسے دیکھنے لگ گیا

"مجھے تو بہت پسند آیا ہے کیونکہ یہ ذامل کی جان نے بہت محبت سے بنایا ہے"

ذامل اسے گہری نظروں میں لیے حور اسے دیکھنے لگی اور پھر مسکرا دی 

"لیکن تم یہ نہ پیو بیمار ہوجاؤ گے"

حور اس کے آگے سے ٹرے ہٹاتے ہوئے بولی جس پر ذامل سر کو خم دے گیا

"تم اتنے اچھے کیوں ہو؟؟"

حور اس کے پاس آکر بیٹھتی مسکراتے ہوئے پوچھنے لگی 

"تم اتنی حسین کیوں ہو؟"

ذامل اسے اپنے حصار میں قید کیے بدلے میں سوال کرنے لگا حور اسے دیکھنے لگی اور نفی میں سر ہلا گئی ذامل نے اس کی ناک پر لب رکھے

"کیا خیال ہے آج فیوچر پلیننگ کا سوچا جائے "

وہ اس کی گردن پر انگلیاں پھیرتے ہوئے شوخیہ لہجے میں کہنے لگا

"ممم۔۔مجھے نیند آرہی ہے"

حور کنفیوز سی ہوتی بامشکل بولتی ذامل کی قید سے نکلنے کی سعی کرنے لگی

"نکلنا ناممکن ہے اور آج نہیں "

یہ کہتے ساتھ ذامل نے اس کی گردن پر لب رکھے اس کی ایک گال پر رکھے دوسری گال پر لب رکھے اس کی پیشانی پر لب رکھے اس کے ہونٹوں پر شدت سے لب رکھ دیے حور سانس روک گئی پورا وجود کانپنے لگا گیا

ذامل اسے بیڈ پر لٹاتا لیمپ آف کرتا آپ ی شدتیں اس پر نچھاور کرنے لگا وہ بےبس خود میں سمٹی اس کی شدتیں بس برداشت کررہی تھی ۔۔۔۔

************

کل رات ذامل نے اپنی محبت کا ثبوت حور کو دیا صبح ذامل کی آنکھ کھلی نظر حور پر گئی جو اس کے سینے میں منہ دیے پرسکو ن سی سورہی تھی ذامل کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ نمودار ہوئی اس کے ماتھے پر لب رکھتا کمر کے گرد بازو حائل کر گیا 

"کل رات میں زندگی میں کبھی نہیں بھول سکتا جان"

ذامل اس کے کان کے قریب سرگوشی نما سا بولا جس پر حور تھوڑا سا کسمسائی اور واپس اس کے سینے میں منہ چھپا گئی ذامل اس کی حرکت پر مسکرا دیا

"صاحب اور بیگم صاحبہ کو ملک شہراز ناشتے پر بلارہے ہیں"

ملازمہ دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہنے لگی جس پر ذامل نے اسے جواب دیا اور ملازمہ خاموشی سے چلی گئی ۔۔۔۔

"جان اٹھ جاؤ"

ذامل اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہنے لگا جس پر حور بامشکل آنکھیں کھول سکی۔۔۔

"سونا ہے مجھے ابھی"

وہ نیند میں منہ بنائے کہتی اس کے سینے پر واپس منہ چھپا گئی 

"دادا ناشتے کیلیے بلارہے ہیں"

وہ اسے نرمی سے بتانے لگا جس پر حور نے نظر اٹھا وال کلاک پر ڈالی گھڑی اسوقت بارہ بجا رہی تھی حور ایکدم اٹھی نظر اس پر گئی جو پرسکون سا لیٹا تھا

"اتنی دیر ہوگئی مجھے اٹھایا ہی نہیں تمہیں "

حور اسے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہتے ساتھ باتھروم کی طرف بھاگی ذامل اسے جاتا دیکھتا رہ گیا

کچھ دیر میں حور فریش ہوکر گیلے بالوں میں باہر نکلی اور ڈریسنگ کے سامنے آکر کھڑی ہوئی ہے ذامل کی نظر اس پر گئی اور وہی رک سی گئی

"اتنی دیر ہوگئی پتہ نہیں کیا سوچ رہے ہوں گے سب"

وہ بالوں کو کنگا کرتے ہوئے پریشانی سے کہنے لگی ذامل اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا

"تم کیوں مسکرا رہے ہو مسکرانے والی بات ہے کیا"

حور نے مرر سے ذامل کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا حور تپ کر بولی 

ذامل بیڈ سے اٹھ کر اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوا اسے پیچھے سے حصار میں لیا

"تم لوگوں کی باتوں کو اتنا مت سوچو تم ہماری رات یاد رکھو صرف ملک ذامل کو یاد رکھو"

ذامل اس کے کندھے پر منہ رکھے گھمبیر لہجے میں کہتے ساتھ اسے شرمانے پر مجبور کر گیا جس پر حور نظریں جھکا گئی

"پیچھے ہو ہم پہلے لیٹ ہو چکے"

حور اسے کہتے ساتھ دوپٹہ لیتی سر پر کرنے لگی ذامل نے اس کے ہاتھ سے لیا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے سر پر ٹکایا جس پر  حور مسکرا دی 

"پرفیکٹ"

ذامل اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا اور دونوں نیچے کی طرف بڑھ گئی

************

"ذامل شادی پر صرف چار دن ہے میری بیسٹ فرینڈ اور میری بجو کی شادی ہے مجھے سارے ڈریس نیو چاہیے تم ٹھیک ہوگئے تم مجھے لے چلو اپنے ساتھ"

حور کمرے میں آتے ہی ذامل کو دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی ذامل نے اسے دیکھا

"کل چل لیں گے نا آج نہیں "

ذامل اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا حور نے اسے دیکھا 

"تینوں دن جانا ہے مجھے آج پسند نہیں آئے گا کل جائیں گے کہ نہیں پسند آئے گا تو پڑسو"

حور اسے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بتانے لگی ذامل اسے دیکھنے لگ گئی

"مجھے شاپنگ میں ذرا انٹرسٹ نہیں ازقہ اور تم ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ "

ذامل بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اسے بتانے لگا حور بھی اس کے پاس آکر بیٹھی 

"میری شادی تم سے ہوئی ہے ڈرائیور یا ازقہ بجو سے نہیں اور میں تمہارے ساتھ ہی جاؤ گی میں تیار ہونے جارہی "

حور اسے بتاتے ساتھ وارڈروب کی طرف بڑھی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا 

"جان"

ذامل اسے پکارنے لگا حور نے مڑ کر اسے دیکھا

"ہم جارہے ہیں جان "

حور اسی کے انداز میں اسے جواب دیتے ساتھ تیار ہونے لگی ذامل کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی 

حور زبردستی اسے اپنے ساتھ لائی تھی اس کا ہاتھ تھامے وہ شاپنگ کررہی تھی 

"ہائے یہ کتنا پیارا ہے"

حور ڈریس دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہنے لگی ذامل نے اسے دیکھا 

"ذامل اچھا ہے نا؟؟"

حور فوراً سے پوچھنے لگی ذامل اثبات میں سر ہلا گیا حور نے وہ ڈریس لے لیا 

اس کے بعد ان دونوں نے جیولری وغیرہ اور جوتے وغیرہ لیے تھے

"مجھے بھوک لگی ہے بہت"

حور شاپنگ کے بعد چلتے ہوئے اچانک سے کہنے لگی جس پر ذامل نے اسے دیکھا

"کیا کھانا پے؟"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھنے لگا 

"کچھ دیسی کسی ڈھابے سے"

وہ فوراً سے ذامل کو کہنے لگی ذامل اثبات میں سر ہلا کر گاڑی کی طرف بڑھا 

وہ دونوں آج صحیح معنوں خوش اور پرسکون تھے سب ٹھیک ہو چکا تھا 

آدم ان دونوں کی گاڑی کو دیکھ رہا تھا آنکھوں میں نفرت وحشت دونوں چھائی ہوئی تھی 

"انتظار کرو "

وہ گاڑی پر نظریں جمائے چہرے پر شاطر مسکراہٹ سجائے دل میں کہنے لگا

رات بھر وہ دونوں گھومے تھے کھانا کھایا تھا اور تھکے ہارے گھر واپس آئے اور آتے ہی سیدھا سو گئے تھے 

سورج کی روشنی وال سے ٹکراتی کمرے میں پڑنے حور اپنا منہ ذامل کے سینے میں چھپا گئی وہ اس کی باہوں میں پرسکون سی سورہی تھی۔۔

"اللہ"

حور ایکدم اٹھ کر بیٹھتی گھڑی پر نظر ڈالے کہنے لگی ذامل کی نظر اس پر گئی

"کیا ہوا؟"

وہ پریشان سا اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جس پر حور نے اسے دیکھا

"آج مایو ہے اور میں ابھی تک سورہی تھی"

حور اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ بیڈ سے اتر کر باتھروم کی طرف بڑھی 

"مجھے ہر چیز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا یار حد ہوگئی میں لیٹ ہوگئی"

حور فریش وغیرہ ہوکر باہر آتی شلوار قمیض میں ملبوس کانوں میں ٹوپس پہنتے ہوئے بولی ذامل اسے دیکھ رہا تھا

"رات کو ہے مایو"

ذامل نے اسے بتانا ضروری سمجھا حور نے اسے دیکھا

"ہاں ہے تو رات کو"

وہ اپنے ہاتھوں کو اب آہستہ چلاتے ہوئے کہنے لگی ذامل کی مسکراہٹ گہری ہوئی

"ہنسو مت "

حور اسے ہنستا دیکھتے ہوئے کہنے لگی اور منہ سجا کر بیٹھ گئی

"کتنی بڑی بیوقوف ہو نا میں خوشی میں بھول ہی گئی کہ ابھی صبح ہے"

وہ خود کو منہ بنا کر کہتے ساتھ اسے دیکھنے لگ گئی

"کوئی بات نہیں ہم دونوں لان میں چلتے ہیں "

وہ اسے حصار میں قید کیے پیار سے کہنے لگا حور نے مسکرا کر اسے دیکھا اور دونوں لان کی جانب بڑھ گئے

***********

حور اور ذامل واک کررہے تھے دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار تھی دونوں ساتھ ہمیشہ خوش رہتے تھے

"تمہیں بےبی پسند ہے ذامل"

حور چلتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی 

"ہاں؟"

ذامل حیرانگی سے اسے دیکھتے بولا حور اسے دیکھنے لگی 

" چھوٹے بچے پسند ہیں"

حور اسے حیران دیکھ پھر سے پوچھنے لگی 

"ہاں پسند ہے"

ذذ۔ل اس کا ہاتھ پکڑے اسے جواب دینے لگا حور مسکرائی 

"مجھے بھی پسند ہے"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر بتانے لگی ذامل نے اسے جھٹکے سے قریب کیا 

"تو اب تم کیا چاہتی ہو"

ذامل اسے قریب کیے پیار سے پوچھنے لگا جس پر حور پلکیں جھکا گئی

"میں کچھ نہیں چاہ رہی ہے ناشتے کا وقت ہوگیا ہے میرے خیال سے ہمیں چلنا چاہیے"

حور اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ ہنستے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئی ذامل اس کے پیچھے آیا۔۔

************

ازقہ سادہ سے پہلے رنگ کے جوڑے میں ملبوس تھی بہت پیاری لگ رہی تھی اور نوال کو بھی آج ملک حویلی ہی آنا تھا وہ بھی ییلو رنگ کے ڈریس میں پیاری لگ رہی تھی

حور اورنج کلر کی شارٹ شرٹ اور پٹیالہ شلوار پہنے گلے میں دوپٹہ کیے بالوں کو کھول کر لائٹ سے میک ایپ میں بےحد پیاری لگ رہی تھی کانوں میں بھاری جھمکے کہنے وہ اپنا عکس شیشے میں دیکھ رہی تھی

"واللہ"

ذامل پیچھے سے آتا اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا حور مسکرا دی 

"تمہیں شرم نہیں آئی"

حور مڑ کر اسے سر تا پیر دیکھتے کہنے لگی جو سفید شلوار قمیض میں اس وقت بےحد ہینڈسم لگ رہا تھا

"کیوں؟"

ذامل ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا  حور نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا 

"اتنے ہینڈسم بن کر کسی خوشی میں جارہے ہو ہاں"

وہ اسے گھورتے ہوئے پوچھنے لگی ذامل نے اس کی کمر کے گرد بازو حائل کیے 

"میں تو آپ کیلیے اتنا ہینڈسم تیار ہوا مجھے کسی اور سے کوئی لینا دینا نہیں"

وہ اسے گھورتے ہوئے پیار سے کہنے لگا جس پر حور مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا گئی 

"تمہاری لپسٹک خراب کروں"

وہ اس کے ہونٹوں پر فوکس کرتے ہوئے کہنے لگا حور نے اسے دیکھا

"نہیں کرو نا"

حور فوراً سے اس کی وید سے نکلنے کی سعی تیز ہوتی ہارٹ بیٹ سے کہنے لگی 

"پھر لگا لینا"

ذامل اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنا انگوٹھا اس کے ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے کہنے لگا 

"نہیں تو بس نہیں"

حور اسے کہتے ساتھ اپنے بال ٹھیک کرنے لگی ذامل اپنے لب اس کے کان کے قریب لایا 

"آج رات خیر منا لو کیونکہ مجھے بےبی بہت پسند ہے"

ذامل مسکراتے ہوئے تنگ کرتا اسے کہنے لگا جس پر حور اسے دیکھنے لگ گئی

"عجیب"

حور منہ بنائے اسے کہتی نیچے کی طرف بڑھ گئی ذامل مسکرا دیا۔۔۔

**********

مایو کا انتظام لان میں ہوا تھا اور یہ فنکشن صرف لڑکیوں اور گھر کے لڑکوں کا تھا دلہے اس فنکشن پر الاؤ نہیں تھے 

ساری لڑکیاں اسوقت مہندی لگوا رہی تھی اور باقی کچھ ڈھولک بجا کر گانے گانے میں مصروف تھی ملک حویلی میں رونق سی لگی ہوئی تھی

"ماشاءاللہ آپ بہت پیاری ہیں"

مہندی والی حور کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر حور مسکرا دی

"جی معلوم ہے مجھے میرے شوہر بتاتے رہتے ہیں"

حور مسکراتے ہوئے اسے جواب دینے لگی جس پر لڑکی مسکرا دی 

"مہندی پر ہسبنڈ کا نام لکھوانا ہے؟"

وہ اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا حور اثبات میں سر ہلا کر ذامل کا نام بتانے لگی

"اتنی شریف خدا کی قسم کبھی نہیں لگی"

حور نوال کے پاس آتے ہوئے اسے دیکھ کر بولی نوال نے اسے گھورا 

"بیٹا تجھے بعد میں پوچھتی ہوں"

نوال اسے گھورتے ہوئے کہنے لگی جس پر ناچاہتے ہوئے بھی ہنس دی  اور اٹھ کر چل دی۔۔

"کتنے خوش لگ رہے ہیں سب"

حاکم چوہدری سب کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگے 

"ہاں بلکل"

ملک شہراز بھی مسکراتے ہوئے کہنے لگا اور سب کو دیکھنے لگ گئے 

*********

"کیسی لگی ہے مہندی"

حور ذامل کے سامنے آتی چہرے پر ہاتھ رکھے اس سے پوچھنے لگی اسے دیکھ ذامل کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"بہت حسین "

وہ اس کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا حور نے چہرے سے ہاتھ ہٹایا 

"چلو اپنا نام ڈھونڈو "

حور اس کے سامنے ہتھیلی پھیلاتے ہوئے کہنے لگی جس پر ذامل اسے دیکھتا ہاتھ میں ڈھونڈنے لگ گیا 

"یہ اتنا مشکل نہیں ہے"

ذامل کہتے ساتھ اپنے نام پر انگلی رکھ گیا حور کے چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"تم جاؤ میں آتا ہوں"

ذامل اپنا فون بجتا دیکھ کر حور سے کہنے لگا وہ خاموشی سے اندر کی طرف بڑھ گئی

"کیا مصیبت ہے"

ذامل فون کان سے لگائے اس سے پوچھنے لگا

"یار ایک تصویر بھیج دے نیں نے تیرا کتنا ساتھ دیا ہے تیرے لیے ایک گانا بنتا ہے دوست دوست نہ رہا"

شہریار فون کان سے لگائے اسے منہ بجا کر کہنے لگا 

"میں نہیں بھیج رہا"

ذامل اسے صاف منع کرتے ہوئے کہنے لگا شہریار نے فون کو گھورا

"بیٹا تیرا ٹائم بھی آئے گا"

شہریار اسے دھمکاتے ہوئے کہنے لگا 

"میرا ٹائم آکر چلا گیا تو اپنی خیر منا میری بیوی میرے پاس ہے"

ذامل اسے فورا جواب دینے لگا شہریار کا دل کیا ذامل کو کوئی چیز دے کر مارے

"تو دوست نہیں ہے بیٹا میں نے کتنا ساتھ دیا ہے تیرا"

شہریار اسے اموشنل بلیک میل کرتے ہوئے کہنے لگا جس پر ذامل مسکرا دیا 

"مر نا بھیج رہا ہوں"

یہ کہتے ساتھ ذامل فون رکھتا لان کی طرف بڑھ گیا اور نوال کی تصویر لے کر شہریار کو بھیج دی جس پر اس کا رپلائے آئی لو یو ایس اور وہ مسکرانے لگا۔۔۔

باری باری سب مایو کی رسم ادا کرنے لگ گئے تھے 

مایو کا فنکشن بہت اچھے سے ہوا تھا اور مہمان واپس جارہے تھے نوال بھی اپنے گھر جا چکی تھی جبکہ ازقہ بہت تھک گئی تھی حور اسے اس کے کمرے کی طرف لے گئے تھے

"سوری بجو میری وجہ سے آپ کو کتنی مشکلیں دیکھنے پڑی "

حور اس سے شرمندہ ہوتے ہوئے کہنے لگی ازقہ نے اسے دیکھا اور گلے لگایا 

"آپ تو سب ٹھیک ہے نا اور تمہارا کوئی قصور قسمت میں ہی ایسے تھا"

ازقہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بتانے لگی حور بھی مسکرا دی 

"یو آر دا بیسٹ"

حور کہتے ساتھ اس کی گال پر لب رکھ گئی ازقہ مسکرا دی اور حور چلی گئی

************

ازقہ واشروم سے باہر آئی اور سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ اسے دھچکا لگا 

"آپ؟"

ازقہ حیران سی اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر وہ مسکرا دی 

"ہاں میں مجھے تمہیں دیکھنے کا دل کیا سوچا آجاؤ"

زاہد اٹھ کر اس کے سامنے آکر کھڑا ہوتا کہنے لگا ازقہ نے فوراً سے دروازہ بند کیا 

"آپ یہاں نہیں آ سکتے"

ازقہ فوراً سے گھبراتے ہوئے اسے کہنے لگی زاہد اسے دیکھنے لگ گیا 

"کیوں؟"

زاہد نے فوراً پریشان سا اس سے پوچھنے لگا ازقہ نظریں ارد گرد گھمانے لگی 

"اگر کسی نے دیکھ لیا تو"

ازقہ ہاتھوں کو مسلتے ہوئے اس سے بولی زاہد کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"تو دیکھنے دو تم میرے نکاح میں ہو"

زاہد لاپرواہی سے اسے جواب دیتے ساتھ اس کے قریب آتا ماتھے پر لب رکھ گیا

"لیکن پھر بھی"

ازقہ ابھی بھی خوفزدہ سی کہنے لگی زاہد نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے

"میں ہوں نا ساتھ تو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے"

وہ اسے مسکراتے ہوئے پیار سے کہنے لگا جس پر ازقہ ہلکا سا مسکرا دی اور زاہد اسے مایو کے جوڑے میں دیکھنے لگا جس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی 

***********

"فون کیوں نہیں اٹینڈ کررہی تھی"

شہریار فون کان سے لگائے اسے کہنے لگا 

"مصروف تھی میں"

نوال اسے فوراً سے جواب دینے لگی شہریار کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"آج بہت پیاری لگ رہی تھی"

وہ مسکراتے ہوئے اسے کہنے لگا نوال پریشان سی ہوئی

"تم نے کہاں دیکھا ؟"

نوال فوراً سے اس سے پوچھنے لگی شہریار بھی اپنی بیلکونی میں آ گیا 

"بس دیکھ لیا"

شہریار اسے تنگ کرتے ہوئے کہنے لگا نوال کو واقع حیرانگی ہوئی

"بتاؤ نا کہاں دیکھا"

نوال اس سے پھر سے وہی سوال کرنے لگی

"بس دیکھ لیا نا"

شہریار بھی وہی جواب دینے لگا نوال کو واقع غصہ آیا

"بتارہے ہو یا کال بند کرو"

نوال غصے سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی جس پر شہریار ہنسنے لگ گیا

"وہ تصویر منگوائی تھی ذامل سے"

شہریار نے اسے فوراً بتایا نوال فون کو دیکھنے لگی 

"تم واقع بہت بڑے ٹھرکی ہو"

نوال اسے منہ بنا کر کہنے لگی شہریار کی مسکراہٹ غائب ہوئی

"یہ ٹھرکی صرف تم سے ہی پیار کرتا ہے"

وہ اسے سنجیدگی سے جواب دینے لگا اور اسی طرح بحث وغیرہ کرتے کرتے وہ اپنی بات کرتے رہے

************

حور چینج کرکے کمرے میں آئی اور جیولری اتارنے لگی ذامل اسے دیکھ رہا تھا

"کس سے بات کررہے تھے فنکشن پر"

حور جانچتی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے سوال کرنے لگ گئی 

"کیا مطلب"

ذامل ناسمجھی سے اسے دیکھتا بدلے میں سوال کرنے لگا 

"بہت ہنسا جارہا تھا خیریت تھی نا"

حور مڑ کر غصے سے اسے کہنے لگی ذامل اس کا غصہ دیکھ مسکرا دیا

"ہاں بس ایسے ہی"

ذامل اسے مزید تپانے کیلیے جان کر کہنے لگا حور نے اسے گھور کر دیکھا 

"ایسے تو ہوئی بلاوجہ نہیں مسکراتا جلدی بتاؤ"

حور اسے گھورتے ہوئے کہنے لگی جس پر ذامل نے اسے اپنے قریب کیا 

"تمہیں کیا لگتا ہے"

ذامل اس پر نظریں جمائے چہرے پر ہاتھ رکھے کہنے لگا حور آئبرو اچکا گئی

"ملک ذامل ہر لڑکی پر پھسل جاتا ہے ؟"

ذامل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا جس پر حور اسے دیکھنے لگ گئی

"ملک ذامل ہر لڑکی پر پھسل کر تو دیکھائے پھر دیکھے ملک ذامل کی بیگم کیا کرتی ہے"

حور غصے سے جل کر کہنے لگی ذامل اس کی گال پر ہاتھ پھیرنے لگا 

"تمہیں کچھ کرنے کی نوبت نہیں آئی تمہارے آگے بس فل سٹاپ لگا دیا ہے"

ذامل اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہتے ساتھ اس کے ماتھے پر لب رکھ گیا 

"اب بتاؤ کس سے بات کررہے تھے مجھے نہیں اچھا لگ رہا تھا میرے علاؤہ کوئی تمہارے چہرے کی مسکان بنے"

 حور منہ بسورے اسے دیکھ اداسی سے بولتی سیدھا ذامل کو اپنے دل میں اترتی محسوس ہوئی تھی

"شہریار تھا"

ذامل اس کے بال ٹھیک کرتے ہوئے بتانے لگا حور کو تھوڑی تسلی ہوئی

"اب میں اپنا کام کرلوں"

ذامل اس کے چہرے کے قریب آئے کہتے ساتھ اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ گیا حور آنکھیں بند کر گئی اس کی سانس رک سی گئی۔۔۔

آج مہندی کا دن تھا ذامل کی آنکھ کھلی اور اپنے پہلو میں نظر ڈالی مگر حور وہاں موجود نہیں تھی اس کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ پریشانی سے اٹھا اور کمرے سے باہر کی طرف بڑھا اس سے پہلے وہ نیچے اترتا اس کی نظر حور پر گئی جو ازقہ کے سامنے کھڑی مزے سے ڈانس کررہی تھی ذامل کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اس کی نظر اسی پر رک گئی۔۔

ازقہ جو بیٹھی ہنستے ہوئے اس کا ڈانس دیکھ رہی تھی اچانک نظر اوپر گئی اور ذامل کو دیکھا جو حور کو دیکھنے میں مصروف تھا اس کے لبوں پر موجود مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اور وہ واپس حور کو دیکھنے لگ گئی

"افف بجو آپ کی مہندی ہے کتنا مزے آئے گا نا"

حور خوش ہوتی چہک کر کہنے لگی جس پر ازقہ ہنس دی اور اثبات میں سر ہلا گئی اور اسے اوپر دیکھنے کا اشارہ کیا اس کا اشارہ سمجھتی حور نے نظریں اوپر اٹھائیں ذامل کو کھڑا پاکر لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

"مجھے نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا؟؟"

حور اسے دیکھتے ہوئے سینے پر بازو باندھے مسکرا کر پوچھنے لگی 

"میری نظر لگ سکتی ہے تمہیں"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے بدلے میں سوال کرنے لگا جس پر نے آئبرو اچکائی

"لگ بھی سکتی ہے نظر نظر ہے"

حور اسے جان کر مذاقیہ انداز میں کہنے لگی ذامل کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"بری نظر لگتی پیار بھری نظر نہیں"

ذامل شوخیہ لہجے میں آنکھ مارے اسے کہنے لگا حور نے اسے آنکھیں دیکھائی اور ازقہ کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی

"تم واقع انتہائی لچے اور ٹھرکی ہو"

وہ اسے گھورتے ہوئے شرما کر سرخ گال لیے کہنے لگی 

"بس اب کیا کریں گزارا اسی کے ساتھ کرنا ہے روم میں آؤ"

ذامل کہتے ساتھ واپس کمرے کی طرف بڑھ گیا حور اسے جاتا دیکھنے لگی 

"میں آئی"

کہتے ساتھ حور اوپر کی طرف بڑھ گئی اور ازقہ کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔۔

*************

ازقہ گرین کلر کے ڈریس میں ملبوس لائٹ سے میک ایپ میں سر پر ہم رنگ دوپٹہ کیے جیولری پہنے بےحد حسین لگ رہی تھی اپنا عکس شیشے میں دیکھ وہ لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

زاہد وائٹ رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس بالوں کو نفاست سے سجائے بڑھی ہوئی بئیرڈ میں پیروں پر کھیڑے پہنے ہینڈسم لگ رہا تھا

نوال لائٹ گرین رنگ کے ڈریس میں سر پر گولڈن رنگ کا دوپٹہ لیے لائٹ سے میک ایپ جیولری پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی

شہریار گرے کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس بالوں کو نفاست سے سجائے بڑھی ہوئی بئیرڈ میں اچھا لگ رہا تھا 

چاروں کے لیے آج کا دن بہت خوشی کا تھا سب کے چہروں پر خوشی صاف واضح تھا۔۔۔

آج صبح وہ دونوں ایک دوسرے کے نکاح میں آ چکے تھے ۔۔۔

************

"جان ہوگئی تیار؟"

ذامل سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس بڑھی ہوئی بئیرڈ میں سیاہ شال کیے وہ اسوقت بےحد ڈیشنگ لگ رہا تھا 

کمرے میں آتا حور سے پوچھنے لگا جو گولڈن ڈریس میں ملبوس جس پر خوبصورت نفیس سا کام ہوا ہوا تھا بالوں کو کھولے ماتھے پر ٹکا لگائے لائٹ سے میک ایپ میں وہ اسوقت بےحد خوبصورت لگ رہی تھی اور ملک ذامل کو سیدھا دل میں اترتی محسوس ہورہی تھی

"ہائے"

وہ موچھوں پر ہاتھ پھیر کر گہری نظروں سے اسے دیکھ کر کہنے لگا حور نے اسے دیکھا 

"کوئی اتنا حسین کیسے ہوسکتا ہے"

وہ اس کے قریب آکر اس کا ہاتھ تھامے محبت سے پوچھنے لگا حور اسے دیکھ رہی تھی

"یہ مجھے نہیں معلوم"

حور اسے معصومیت سے جواب دینے لگی جس پر ذامل کے لبوں پر مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"میری معصوم جان"

وہ اس کے چہرے نظریں گاڑھے محبت سے کہتا اس کی گال پر لب رکھ گیا حور آنکھیں بند کر گئی

"مشکل ہے آج فنکشن پر تم سے نظر ہٹانا"

ذامل گھمبیر لہجے میں اسے اپنے ساتھ لگائے محبت سے کہنے لگا 

"نظریں مجھ پر ہی ٹکی رہنی چاہیے ملک ذامل ورنہ میں تمہاری آنکھوں کی گارنٹی نہیں دے سکتی"

حور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا ذامل قہقہ لگا گیا اور اس کے ماتھے پر لب رکھ دیے ۔۔۔

مہندی کا فنکشن بھی لان میں ہی رکھا گیا تھا بہت ہی خوبصورتی سے اسے سجایا گیا تھا سب مہمان آ چکے تھے نوال شہریار ایک ساتھ بیٹھے تھے ازقہ اور زاہد ایک ساتھ بیٹھے زاید کی نظریں بار بار ازقہ پر جارہی تھی اور شہریار بھی نوال کو ہی دیکھ رہا تھا ان چاروں کو ساتھ خوش دیکھ حور کو بےحد خوشی ہوئی ہر کسی کی زندگی سکون میں تھی کوئی پریشانی نہیں تھی حور نے دل سے خدا کا شکر ادا کیا تھا

ذامل اور حور نے ڈانس کیا تھا سب لوگوں نے ان کے ڈانس پر تالیاں بجائیں تھی 

مہندی کی رسم ادا ہونے کا وقت ہوا تھا اور اب سب مہندی کی رسم کررہے تھے 

مہندی کا فنکشن بہت ہی اچھے سے ہورہا تھا اور رونق لگی ہوئی تھی

"بھابی کو گھور لیا ہو تو دوست کو کچھ کھانے کیلیے ہی لادے بہت بھوک لگ رہی ہے"

شہریار ذامل کے پاس آتے ہوئے اسے کہنے لگا جس پر ذامل نے اسے دیکھا

"تو ہمیشہ کباب میں ہڈی بنی "

ذامل اسے گھور کر کہتے ساتھ آگے کی جانب بڑھ گیا 

"صحیح ہے اب تو میری بیوی بھی آ گئی ہے "

شہریار اسے جاتا دیکھتے ہوئے منہ بنا کر کہنے لگا اور نوال کے ساتھ بیٹھ گیا 

کچھ دیر میں وہ اس کیلیے کھانا لے آیا تھوڑی دیر والا غصہ شہریار کا ختم ہوگیا اور ذامل پھر سے اپنے کام میں لگ گیا اسے حور کو دیکھنا شروع سے پسند تھا اور وہ اسے ابھی بھی دیکھ رہا تھا

************

"آج تو۔ بہت تھک گئی"

حور جیولری اتارنے کے بعد بیڈ پر آکر بیٹھ کر جوتے اتارتے ہوئے کہنے لگی 

"میں مدد کردیتا ہوں"

ذامل کہتے ساتھ گھٹنوں کے بل بیٹھا حور نے اسے دیکھا

"ارے نہیں میں کرلوں گی"

حور فوراً سے اسے کہنے لگی جس پر ذامل نے اسے دیکھا

"مجھے اچھا لگے گا"

وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگا حور اسے دیکھنے لگی 

"لیکن مجھے نہیں لگے گا تم اٹھ جاؤ"

حور اسے کہتے ساتھ اپنے پاؤں مزید پیچھے کر گئی ذامل خاموشی سے اٹھ گیا 

"گڈ"

حور مسکرا کر کہتے ساتھ جوتی اتار کر اٹھ کر وارڈروب سے نائٹ ڈریس لیتی واشروم کی طرف بڑھ گئی

"اب تھوڑا بہتر فیل کررہی ہوں"

حور گہرا سانس لے کر کہتی بیڈ پر آئی ذامل بیٹھا ہوا تھا 

"آجاؤ میرے پاس"

ذامل اسے اسے پاس آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا حور مسکرا کر اس کی باہوں میں آ گئی ذامل نے اسے اپنے بلکل ساتھ لگا گیا 

"سب کتنا اچھا ہوگیا ہے نا ذامل سب خوش ہیں ازقہ بجو اور زاہد بھائی بھی نوال اور شہریار بھائی بھی"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی جس پر  ذامل مسکرا دیا 

"ہاں جان سب خوش ہیں"

ذامل اس کے بالوں پر کب رکھتا کہنے لگا حور اسے دیکھنے لگ گئی

"ذامل ہم ہنی مون پر ہی نہیں گئے"

وہ اسے منہ بنائے کہنے لگی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا 

"ہم اپنا ہنی مون یہی کرتے ہیں"

وہ آنکھ مار کر اسے دیکھتے ہوئے کہتے ساتھ اس کی گردن پر انگلیاں پھیرنے لگ گیا 

"نہیں مجھے گھومنے جانا ہے"

حور اس کی حرکت پر اپنی تیز ہوتی ہارٹ بیٹ کو نارمل کرتی بولی جس پر ذامل اس کے بالوں کو آگے کرتا اس کی بیک پر انگلیوں کا لمس محسوس کروانے لگا حور کے پورے جسم میں کرنٹ سا لگا

"ذامل مجھے نیند آرہی ہے"

حور کنفیوز سی ہوتی نظریں جھکائے اسے کہنے لگی 

"لیکن مجھے نہیں"

ذامل اسے کہتے ساتھ اس کی گردن پر شدت سے اپنے ہونٹوں کا لمس محسوس کروا گیا حور آنکھیں زور سے میچ گئی

ذامل اسے بیڈ پر لٹا کر اس کے اوپر جھکا حور آنکھیں بند کیے اپنی سانس روکے ہوئے تھی ذامل اس کی حالت سے محفوظ ہوتا اپنی محبت کا ثبوت ایک بار پھر اسے دینے لگا۔۔۔۔

**************

بارات کا فنکشن بھی لان میں ہوا تھا مگر حاکم چوہدری کی حویلی کے لان میں ہوا تھا بہت ہی خوبصورت سجایا گیا تھا 

ازقہ لاک رنگ کے لہنگے میں بالوں کو جوڑے میں قید کیے لائٹ سے میک ایپ میں ہونٹوں پر ریڈ لپسٹک لگائے ہیوی جیولری وہ بےحد پیاری لگ رہی تھی 

وہ گولڈن رنگ کی شیروانی میں ملبوس بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے بئیرڈ میں بےحد ہینڈسم لگ رہا تھا 

نوال گولڈن کلر کے لہنگے میں ملبوس سر پر ہم رنگ دوپٹہ کیے لائٹ سے میک ایپ میں بالوں کو کھولے ہیوی جیولری میں وہ بےحد حسین لگ رہی تھی 

شہریار بلیک شیروانی میں ملبوس بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا 

"افف دیر ہوگئی"

حور ائیر رنگ پہنتے ہوئے منہ بنائے کہنے لگی پیچ کلر کے فراک میں بالوں کو کرل کیے لائٹ سے میک ایپ میں ہونٹوں پر پیچ ہی لپسٹک لگائے ہیوی جیولری پہنے وہ اسوقت بےحد خوبصورت لگ رہی تھی 

ذامل وائٹ شلوار قمیض میں ملبوس بالوں کو نفاست سے سجائے بڑھی ہوئی بئیرڈ میں چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہمیشہ کی طرح ڈیشنگ لگ رہا تھا 

"آرام سے گر جاؤ گی"

ذامل اسے تیز جاتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا حور ایکدم رکی اور مڑ کر اسے دیکھا

"کیسی لگ رہی ہوں"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی ذامل اس کی طرف بڑھا 

"میری نظروں سے دیکھو تو تم سا حسیں کوئی نہیں"

وہ گہری نظریں اس کے چہرے پر جمائے مسکرا کر کہنے لگا حور آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورنے لگی 

"زیادہ فلمی ہیرو بننے کی ضرورت نہیں بتاؤ سیریس"

حور آنکھیں چھوٹی کیے اس کے کرتے کا بٹن بند کرتے ہوئے بولی

"غضب کی لگ رہی ہو"

وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی جس پر حور شرماتے ہوئے نظریں جھکا گئی 

"مجھے پتہ ہے"

ہنستے ہوئے کہتے ساتھ وہ باہر کی طرف بڑھ گئی ذامل نفی میں سر ہلا گیا ۔

***********

"آج تو بہت حسین لگ رہی ہو"

شہریار اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا نوال نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا 

"کل نہیں لگ رہی تھی کیا"

نوال بدلے میں سوال کرنے لگی جس پر شہریار کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"کل بھی لگ رہی تھی لیکن دلہن کے روپ میں سب سے زیادہ حسین لگ رہی ہو"

وہ اسی پر نظریں جمائے کہنے لگا نوال مسکرا دی اور نظریں جھکا گئی 

"ایسے نہ دیکھیں سب ہمیں دیکھ رہے ہیں"

ازقہ دھیمی آواز میں اسے بولی زاہد کی نظریں اسی پر تھیں 

"دیکھنے دو"

وہ اسی پر نظریں جمائے کہنے لگا ازقہ کے گال سرخ ہوگئے 

"اچھا نہیں لگتا مجھے "

وہ اس پر ایک نظر ڈال کر کہتے ساتھ آگے دیکھنے لگ گئی

"مجھے صرف تمہیں دیکھنا ہی اچھا لگتا ہے"

وہ مسکراتے ہوئے اسے کہنے لگ گیا جس پر ازقہ کے لبوں پر شرمیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔

"حور بیٹا اندر سے مٹھائی لے کر آؤ"

ہاجرہ بیگم حور کو کھڑا پاکر فوراً سے کہنے لگی جس پر حور اثبات میں سر ہلا کر اندر کی طرف بڑھ گئی

***********

حور کچن کی طرف ہی بڑھ رہی تھی جب اچانک کسی نے اسے کھینچا حور ایک دم گھبرائی اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ اس کا وجود جیسے ساکت سا ہوگیا تھا آنکھیں بڑی ہو گئی 

"تمہیں کیا لگا تھا میں خاموش رہوں گا"

آدم چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا حور اسے دیکھ رہی تھی

"آدم"

حور اسے بس دیکھتی رہ گئی آدم نے اس کے منہ کو زور سے دبوچا 

"چھوڑو مجھے آدم ذامل تمہارا قتل کردے گا"

حور درد سے اس کا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے چیخی آدم اسے تکلیف میں دیکھ مسکرا رہا تھا

"یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دوں گا"

آدم غصے سے کہتے ساتھ اس کے سر پر گن مار گیا اور حور اسے اسٹل دیکھ رہی تھی اچانک دماغ گھومتا ہوا محسوس ہوا 

"جان کہاں ہے"

ذامل پورے لان میں نظریں گھمائے حور کو موجود نہ پاکر کہنے لگا 

"بیٹا وہ میٹھائی اٹھانے گئے ہے کچن سے دیر ہوگئی ہے اسے دیکھنا زرا"

ہاجرہ بیگم ذامل کو دیکھتے ہوئے بتانے لگی ذامل اثبات میں سر ہلا کر اندر کی طرف بڑھا 

آدم حور کو بےہوش حالت میں گھسیٹتے ہوئے لے جارہا تھا تبھی ذامل اندر داخل ہوا 

"اے کون ہو تم"

ذامل کی نظر آدم کی پیٹھ پر پڑی تو فوراً پوچھنے لگا آدم کے بڑھتے قدم رکے 

ذامل گھور کر اسے دیکھنے لگا جب ذامل کی نظر حور کے ہاتھ پر گئی 

"جان"

ذامل ماتھے پر بل لیے پریشانی سے چلا کر اسے پکارنے لگ گیا اور فوراً اس طرف بڑھا اس سے پہلے آدم بھاگتا ذامل نے فوراً اسے پکڑا اور اس کا رخ اپنی طرف کیا 

"آدم "

ذامل آنکھوں میں سرخی لیے اسے دیکھ غصے سے چیخا آدم گھبرا گیا ذامل نے لات مار کر حور کو اس کی قید سے نکالا  اور اسے اپنے سینے سے لگایا 

"جان آنکھیں کھولو"

ذامل اس کے بال ٹھیک کرتے ہوئے پریشانی سے اسے پکارنے لگا تبھی آدم اٹھا اور واس اٹھا کر اس کی طرف بڑھا ذامل نے زوردار مکہ اس کے منہ پر دے مارا اس جبڑا ہل گیا 

"اگر جان کو کچھ ہوا تو تیری جان کی گارنٹی نہیں ہے آدم"

ذامل سرخ آنکھیں لیے ہر لفظ پر زور دیتا پتھریلے لہجے میں اسے کہنے لگا آدم اسے دیکھ رہا تھا اور نظریں ادھر ادھر گھمائی

"تم لوگوں کی وجہ سے میرا باپ مرا ہے تم لوگوں کو میں نہیں چھوڑوں گا"

آدم غصے سے کہتے ساتھ اس کی طرف گولی کر گیا ذامل اسے دیکھ رہا تھا 

"حور اور ذامل کہاں ہے"

ملک شہراز ہاجرہ بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے 

"پتہ نہیں کہاں"

ہاجرہ بیگم اپنی بات بول رہی تھی اچانک گولی کی آواز سنائی دی اور وہ وہی ساکت سی ہوگئی ہر ایک پریشانی سے خاموشی سا اندر کی طرف دیکھنے سب لوگ اندر کی طرف بھاگے 

"دماغ خراب ہے تمہارا آدم"

حاکم چوہدری اس کا ہاتھ چھت کی طرف کیے درشت لہجے میں چیخے جس پر آدم انہیں دیکھنے لگ گیا 

"ہائے میری بچی کو کیا ہوا"

ہاجرہ بیگم حور کو دیکھ پریشان سی کہتی اس طرف بھاگی 

"ہم نے تمہارے باپ کو نہیں مارا اس کی اپنی حرکتوں نے اسے مارا ہے"

حاکم چوہدری چیخ کر اسے بولے آدم انہیں دیکھ رہا تھا

"بہتر یہی ہے تم ہم سب کی زندگیوں سے دور رہو ورنہ تمہیں جیل بھجوا دوں گا"

حاکم چوہدری اسے وارن کرنے والے انداز میں کہنے لگے جس پر وہ سر جھٹک گیا 

"اپنی شکل گم کرو کے میں کچھ غلط کر بیٹھوں"

وہ چیخ کر اسے بولے سب پریشان ہوگئے آدم خاموشی سے چلا گیا 

اور سب حور کی طرف بڑھے اور اسے جگانے کی کوشش کرنے لگے 

"ہوسپٹل لے کر جانا ہوگا اسے آپ لوگ رخصتی کی رسم ادا کریں میں لے کر جارہا ہوں"

ذامل کہتے ساتھ اسے گود میں اٹھاتا باہر کی طرف بڑھ گیا سب لوگ خاموشی سے باہر آ گئے۔۔

رخصتی کی رسم ادا ہوگئی نوال اپنی والدہ کے گلے لگ کر بےحد روئی اور ازقہ بھی ملک شہراز سے مل کر اور پھر وہ اپنے اپنے گھر چل دیے۔۔

***********

"ہم نے بینڈچ کردی ہے کچھ دیر میں ہوش آجائے گا"

ڈاکٹر اسے بتاتے ساتھ خاموشی سے آگے کی جانب بڑھ گئی اور ذامل اسے دیکھنے لگ گیا 

حور نے آنکھوں پر جبنش کی اور بامشکل اپنی آنکھیں مکمل کھولی نظر ذامل پر گئی 

"جان تم ٹھیک ہو"

ذامل پریشان سا اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا حور کے لبوں پر مسکراہٹ آئی اور اثبات میں سر ہلا گئی 

"زیادہ درد تو نہیں ہورہا نا"

ذامل اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھنے لگا حور نفی میں سر ہلا گئی

"تھینکیو"

حور اسے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولی ذامل اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگ گیا 

"ہمیشہ میری حفاظت کرنے کیلیے"

وہ اسے مسکراتے ہوئے کہنے لگی جس پر ذامل نے اس کے ماتھے پر لب رکھ دیے 

"میرے پاس ایک ہی جان ہے اس کی حفاظت کرنا میرے پر لازم ہے"

وہ اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا حور مسکرا کر دی اور اس کے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ گئی 

*************

چھ مہینے بعد۔۔۔۔۔

"ذامل"

حور اسے نیند سے جگاتے ہوئے پکارنے لگی ذامل نے تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا

"میرا آئسکریم کھانے کا دل ہورہا ہے"

حور اسے دیکھتے ہوئے منہ بنائے کہنے لگی ذامل اسے دیکھ کر پھر ایک نظر گھڑی پر ڈالنے لگا جہاں رات کے دو بج رہے تھے  اور ایک دم اٹھ بیٹھا 

"جان دو بج رہے ہیں"

وہ اسے دیکھتے ہوئے نیند سے بھری آواز میں کہنے لگا 

"میں کیا کروں میرا دل کررہا ہے تو کررہا ہے میرا بھی اور میرے بےبی کا بھی"

وہ مسکرا کر پیٹ کر ہاتھ رکھے اسے بولی ذامل اسے دیکھنے لگ گیا 

"میں اسوقت کہاں سے لاؤ آئسکریم"

ذامل اسے پریشان سا دیکھتے ہوئے معصومیت سے پوچھنے لگا 

"مجھے نہیں معلوم لیکن مجھے کھانی ہے"

حور اسے صاف لفظوں سے بولی ذامل کو مجبوراً اٹھنا پڑا حور ہنس دی اور ذامل چلا گیا 

آدھے گھنٹے بعد وہ واپس۔ کمرے میں آیا اور حور کو شاپر بیگ دیا جس میں چاکلیٹ فلیور کی بہت سی آئسکریم موجود تھی 

"تم بہت اچھے ہو آئی لو یو"

حور اسے مسکراتے ہوئے پیار سے کہتے ساتھ آئسکریم کھانے میں مصروف ہوگئی ذامل کی نظریں اس پر تھیں اسے یوں ہر وقت اسے دیکھنا بےحد پسند حور اس کی ان نظروں کی عادی ہو چکی تھی 

"چاہیے ؟؟"

حور اسے دیکھتے ہوئے آئسکریم اس کی طرف کیے پوچھنے لگی جس پر ذامل نے اسے جھٹکے سے آہنی طرف کھینچا اور اس۔ کے ہونٹوں کے قریب لگی چاکلیٹ۔ پر اپنے ہونٹ رکھ گیا حور اسے دیکھتی رہ گئی

"میں نے کھا لی"

وہ اسے حیران بیٹھا دیکھ بولتے ساتھ لیٹ گیا اور حور اسے دیکھنے لگ گئی

"لچہ"

حور منہ بنا کر بولتی مزے سے دوبارہ آئسکریم کھانے میں مصروف ہوگئی۔۔۔

************

چند مہینے بعد۔۔۔۔

نوال اور شہریار اپنی زندگی میں بےحد خوش تھے وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ سے اپنی زندگی حسین بنا رہے تھے

ازقہ اور زاہد بھی ایک ساتھ بےحد خوش تھے اور خدا نے اسے خوش خبری سے بھی نوازا تھا اور جلد ہی ان کا ننھا مہمان بھی۔ اس دنیا میں۔ آنے والا تھا 

"افف جان بس کردو تھوڑا وقت شوہر کو بھی دے دو"

ذامل حور کو اپنے کچھ ماہ کے بیٹے کیساتھ کھیلتے ہوئے دیکھ منہ بنا کر کہنے لگا

"کیا ہے میرا بےبی ہے یہ کیوٹ سا ظہور ہے مجھے کھیلنے دو"

حور اسے جواب دیتی دوبارہ سے ظہور کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگئی جو دیکھنے میں ذامل کی طرح مگر حرکتوں میں حور کی۔ طرح تھا 

"تم جیلس نہ ہو"

حور اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی ذامل اسے دیکھ رہا تھا

"کاش مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ تمہیں بچوں سے عشق ہے"

ذامل اسے گھورتے ہوئے کہنے لگا حور مسکرا دی اور اٹھ کر اس کے پاس آکر اس کے گلے میں باہوں کا ہار ڈالا 

"نہیں عشق تو مجھے تم سے ہی ہے صرف بچے پسند بہت ہیں"

حور اسے دیکھتے ہوئے پیار سے بولی ذامل نے کھینچ کر اسے اپنے بلکل قریب کرلیا جس پر حور مسکرا دی 

"میں اپنے علاؤہ کسی سے ہونے بھی نہیں دوں گا"

ذامل اسے محبت سے کہنے لگا جس پر حور قہقہ لگا گئی 

ملک شہراز اور حاکم چوہدری کی دوستی پہلے جیسے گہری ہوگئی اور پورے گاؤں میں ان دونوں کی دوستی کے چرچے پھر سے ہونے لگے ہر کوئی اپنی زندگی میں خوش ہوگیا۔۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dasht E Dil Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Dasht E Dil written by Mahnoor Shehzad. Dasht E Dil  by Mahnoor Shehzad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment