Pages

Saturday, 12 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 36&40

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 36&40

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 36&40

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

مان سنائیں نا سٹوری ۔۔!!! آپ تو چپ ہی ہوگۓ ہیں۔۔!!!"

اسے چپ بیٹھا دیکھ کر زرلشتہ پھر سے بولی۔ درمان نے حلق تر کیا ۔ اسے ایسی فیلنگ آئ جیسے وہ اس وقت ایگزامینیشن ہال میں بیٹھا ہے۔ یہ آؤٹ آف سلیبس سوال نہ سکپ کیا جاسکتا ہے نہ اسے اس کا جواب آتا ہے تو اب اسے ہمت کرکے کسی بھی طرح جواب دینا ہی ہوگا۔

"ایک دفعہ کا زکر ہے ایک لالچی ٹومی تھا۔ اسے بہت پیاس لگی تھی۔ وہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔جب راستے میں اسے پانی کا جگ دکھا۔ ٹومی بہت خوش ہوا۔اس نے جگ میں دیکھاوہاں پانی بہت کم تھا۔ لیکن اسے اپنا عکس دکھ گیا ۔ اس نے اپنا چہرہ دیکھا تو اس کے تاثرات بگڑ گۓ۔ بھلا اس کی ٹانگیں جب اتنی پیاری ہیں تو شکل کتوں والی کیوں ہے۔ وہ شرمندہ ہوا اسے اپنی صورت پر غصہ آیا۔ پانی کے جگ سے دور ہٹ کر وہ اداس ہوکر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔جب وہاں سے ایک خرگوش گزرا ۔ اس خرگوش نے اسے خاموش دیکھا تو اس کے پاس آیا۔"

درمان نے کہانی سنانی شروع کی ۔ لیکن یہ جلیبی جیسی ٹیہڑی کہانی سن کر زرلشتہ حیران ہوئ ۔ ایسی کوئ کہانی اس نے تو کبھی نہیں سنی تھی۔  وہیں درمان مزید سوچنے لگا کہ آگے کیا ہوا ہوگا۔

" خرگوش نے ٹومی کو اداس دیکھا تو اسے بھی فکر ہوئ اس کی۔

"ٹومی بھائ جب آپ کی آواز اتنی پیاری ہے تو آپ گانا کیوں نہیں گارہے ۔!!! اتنے خاموش کیوں ہیں آپ۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ کے نام کا ایک کانسرٹ ارینج کرواوں۔ "

خرگوش نے اس کی تعریف کی۔ خرگوش کے چہرے پر پر اسرار ہنسی تھی۔

ٹومی بہت خوش فہم تھا تبھی اس خوشامد پر اس نے پہلا والا احساس جھٹکا اور اپنی زبان میں جو وہ کہتا ہے وہ کہنے لگا۔۔۔۔!!! 

میں اب وہ کہوں گا تو نہیں ٹومی کی آواز کا تو تمہیں بھی پتہ ہے نا۔ ہاں آگے کیا ہوا ۔۔؟؟؟"

اس کا ہاتھ دبانا چھوڑ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑا ۔ بیچارے کے چہرے کے رنگ اڑے ہوۓ تھے۔ مشہور بزنس مین اور اپنے علاقے کے اگلے سردار صاحب جن کے سامنے کوئ ڈر سے بات بھی نہ کرے۔ اپنی ہی بیوی کے سامنے ان کے پسینے چھوٹ رہے تھے کہ یہ کہانی سنانے کا کاش اسے زرلشتہ نہ کہتی ۔

" پھر ٹومی ہنستے ہوۓ اس جگ کو چھوڑ کر خرگوش کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اور کہا کہ کب کروائیں گے آپ کانسرٹ میں بھی جانتا ہوں میں کتنا ٹیلنڈڈ ہوں آخر راتوں کو میں لوگوں کے پیچھے بھاگ کر انہیں اپنی پیاری سی آواز میں گانا ہی تو سناتا ہوں پر یہ لوگ میرے ٹیلنٹ سے جلتے ہیں جو میرے آگے آگے بھاگتے رہتے ہیں۔ آپ کو ٹیلنٹ کی قدر ہے تو آپ کانسرٹ ارینج کروادیں ۔۔!!!"

درمان نے تھوک نگلا ۔ چہرے پر اتنا اعتماد تھا کہ یہ کہانی سچ میں ہو چکی ہے۔ زرلشتہ اٹھ کر بیٹھ گئ۔ درمان کی دماغی حالت پر اسے شبہہ ہوا۔

"ٹومی صاحب کے دل میں لالچ آیا کہ جب کانسرٹ پر بہت سارا کھانا آۓ گا ۔ تو وہ ایک ساتھ ہی بہت سا کھا لیں گے۔ اس ایک جگ پانی سے کیا بنتا ان کا۔ وہ ابھی اپنی ہی سوچیں بن رہا تھا۔ جب خرگوش خاموشی سے اس کے پیچھے پڑے جگ تک پہنچا اور سارا پانی ایک ہی سانس میں پی گیا۔ گرمی بہت زیادہ تھی تو پانی پی کر اسے سکون مل گیا۔ ٹومی کو مسکراتا دیکھ کر اس نے سر جھٹکا اور سوچا کہ "کتا ہمیشہ لالچی ہی رہے گا۔ چاہے وہ کہانی گوشت کے ٹکڑے کی ہو یا پانی کے جگ کی۔ اسے جہاں کچھ زیادہ ملا یہ وہاں ہی جاۓ گا۔۔۔!!!'

پھر وہ وہاں سے خاموشی سے چلا گیا۔ اس کا کام تو ہوگیا تھا۔ ٹومی نے جب خیالوں میں بہت سا کھانا کھالیا اپنی واہ واہ ہوتی بھی دیکھ لی تو اب خرگوش سے اپنے خیالات شیئر کرنا چاہے پر جب اس نے آس پاس دیکھا تو وہ وہاں تھا ہی نہیں۔ 

اس نے جگ میں پانی تلاش کیا اور جگ بھی خالی تھا ۔ اس کے چہرے پر شرمندگی چھائ اسے احساس ہوگیا کی خرگوش نے اسے بیوقوف بنایا ہے۔ 

کہانی ختم ہوگئ ۔۔۔!!!!

اچھی تھی نا۔۔۔!!!"

زرلشتہ بغیر پلکیں جھپکیں اسے ہی دیکھ رہی تھی جب درمان نے جلدی سے کہانی ختم کی اور مسکرا کر اس سے پوچھا کہ کیسی لگی اسے کہانی ۔ زرلشتہ نے اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور لب بھینچ کر تالیاں بجائیں۔

"کون سے سکول کے پیچھے بیٹھ کر پڑھتے رہے ہیں آپ ۔۔؟ نام لالچی کتے کا پلاٹ پیاسے کوے کا سبق خوشامد کا۔ اس میں خرگوش بھی آگیا۔واہ درمان ۔۔۔!!! کیا remix بنایا ہے آپ نے کہانیوں کا ۔۔!!!!"

 اسے خود سمجھ نہ آئ کہ درمان کی تعریف کرے یا کہانیوں کے ساتھ ہوئے اس ظلم پر روۓ۔  اپنا ہاتھ گال پر ٹکا کر اب وہ اسے صدمے کی کیفیت میں تکنے لگی۔ درمان نے سر کھجایا۔کیا تو اس نے ظلم ہی تھا۔ پر کیا بھی تو زرلشتہ کے لیے ہی تھا۔

" اب انسلٹ تو نہ کرو میری۔ کسی شیف کے سامنے آپریشن کا سامان رکھ دیا جاۓ تو وہ مریضوں کا آپریشن کرنا نہیں شروع کرے گا کبھی بھی۔اس میں رکھی چیزوں سے بھی وہ سبزی ہی کاٹے گا۔۔۔۔!!!

میں بزنس مین ہوں جرگے کے معاملات سنبھال سکتا ہوں تم مجھے کہانی سنانے کو کہو گی تو میں تو یہی کروں گا۔۔۔!!!! اچھا تمہیں سونا ہے نا تو لیٹو میں تمہیں سلادیتا ہوں ۔!!!!"

اسے دیکھتے ہوۓ درمان نے بے بسی سے کہا وہ بیچارا تو خوامخواہ بَلی کا بکرا بن رہا تھا۔ پھر گہرا سانس خارج کرکے اس نے زرلشتہ کو لیٹنے کا اشارہ کیا پھر خود اس کے سامنے سے اٹھ کر اس کے پاس بیٹھا۔ مسئلہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا جتنا درمان کو لگ رہا تھا۔

زرلشتہ بے دلی سے لیٹ گئی کہ اب ناجانے کونسے کیمسٹری کے فارمولے کو فزکس کا نیومیریکل بناکر درمان اس کے سامنے پیش کرے گا۔ لیکن اس کی بات اس۔نے مان لی۔

"آنکھیں بند کرو اپنی۔اب آنکھیں بند ہی رکھنا۔ اور بس مجھے سننا۔!!!!"

درمان نے اسے نیا حکم دیا تو ناچاہتے ہوۓ اسے وہ، وہ بھی مان گئ۔ اس نے آنکھیں بند کیں۔

درمان نے بھی پیچھے تکیہ سیٹ کرکے بیڈ کراؤن سے ٹھیک لگائ۔ پھر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس کے بالوں میں چلانے لگا۔ نظریں اس کے چہرے پر ٹکی تھیں۔ وہ اسے اب پہلے سے بھی زیادہ معصوم لگی۔

❤️

"اے مری جانِ غزل کیوں تیری چاہت نہ کروں 

سانس رک جائے اگر تجھ سے محبت نہ کروں ۔۔!!"

اس کے چہرے کو دیکھتے ہوۓ درمان کی آواز اس خاموشی میں گھل کر خاموشی توڑ گئ۔ زرلشتہ جو اسے سننے کو بے تاب بھی اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئ۔ وہ اسے سلانے لگا تھا یا اظہار محبت کرنے لگا تھا۔پر اسے اچھا لگا۔یہ مسکراہٹ درمان نے بھی غور سے دیکھی تھی تبھی وہ بھی دلکشی سے مسکرایا۔ !!!!

"تیرے ہونٹوں پہ تبسم کا یہ ہلکا سا خمار

جیسے گلشن میں دبے پاؤں چلی آئے بہار...!!!!

اب جو کانٹے بھی چبھیں تو میں شکایت نہ کروں

اے میری جانِ غزل۔۔۔۔!!!!"

اس کے بالوں میں اس کی انگلیاں گردش کررہی تھیں اور کانوں میں اس کی رس گھولتی آواز رس گھول رہی تھی۔ محبت سکون کا نام ہے۔ اور درمان کو معلوم تھا کہ اپنی محبت کو وہ سکون کیسے دینا ہے۔

"آگئی ہے تیرے در پر میری ترسی ہوئی آس

میرے نغموں کو ملے گر تیرے ہونٹوں کی مٹھاس..!!!!!

زندگی بھر میں کبھی شکوہ قسمت نہ کروں 

سانس رک جائے اگر تجھ سے محبت نہ کروں 

اے میری جانِ غزل ....!!!!"

(شاعر:قتیل شفائی)

ماحول میں گونجتی اس کی دلفریب آواز لمحے کے لیے رکی۔ ساتھ ہی اس کے بالوں میں حرکت کرتا اس کا ہاتھ بھی رکا۔ جیسے سب تھم سا گیا ہو۔ 

"ماۓ لٹل بٹر فلاۓ۔ کچھ اچھا محسوس ہوا اب۔ میری جان کیوں آج اداس تھی۔ اداس تھی اگر تو مجھے کیوں نہیں خود بتایا۔میں ہمیشہ پاس ہوں تمہارے یہ یاد رکھا کرو۔ ہاں میں تمہیں تنگ بھی کردیتا ہوں ۔ پر کیا کروں میری عادتیں آسانی سے نہیں بدلنے والی۔ 

پر جیسے بھی حالات ہوں تمہیں پرسکون کرنے کے لیے۔ تمہاری اداسی دور کرنے کے لیے۔ میں ہمیشہ تمہارے پاس حاضر رہوں گا۔۔۔۔!!!! ٹھیک ہے نا۔ !!! وعدہ کرو کبھی اگر زندگی میں ایسا وقت آیا جب تم مجھ سے بدگمان ہوگئ یا تھوڑا سا ناراض ہوگئ تو مجھے تم سنو گی ۔۔۔!!!!

سنو گی نا۔۔۔!!!"

درمان نے پھر سے اسے پرسکون کرنا شروع کیا۔ ساتھ میں اب کی بار اس سے بات بھی کی ۔ جو سکون میں آگئ تھی اتنی سی محبت سے ہی۔

"اچھا لگ رہا ہے اب مجھے۔ آپ دو دن سے بس کام میں لگے تھے ۔ گھر میں تھے پر بس آفس کا کام ہی کیے جارہے تھے۔ آپ نے مجھے بالکل بھی ٹائم نہیں دیا۔ نہ میری باتوں کو سنا نا ہی مجھے دیکھا بھی۔ میں بہت ہرٹ ہوئ ہوں مان۔۔۔!!!!

 ایسے تو آپ کو نہیں کرنا چاہیے نا میں بیمار ہوں پھر بھی آپ مجھے وقت نہیں دیتے۔ اور میں اس لیے ہی اداس تھی۔ میرا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ اور میں وعدہ کرتی ہوں آپ کو ہمیشہ سنوں گی۔ کچھ بھی ہوگیا آپ کو سنوں گی میں ضرور۔۔!!!"

اس کی اداسی کی وجہ جان کر درمان شرمندہ ہوا کام کی وجہ سے زرلشتہ سے بات نہیں کرسکا تھا وہ۔ اسے اب پتہ چلا وہ کتنا فیل کررہی ہے اس بات کو۔ اس کے لہجے میں ناراضگی بھی تھی اور شکایت بھی تھی۔ 

" سوری۔۔!!!! میں بھی بہت ہی عجیب ہوں جس شخص کی منزل اس کے سامنے ہو اسے راستے تو نہیں دیکھنے چاہییں۔ میں تمہارے ہوتے ہوئے تمہیں اگنور کرگیا۔ اور میرے پھول نے اتنا محسوس کیا اس بات کو۔تم تو ہو بھی اتنی پیاری۔ کیوٹ سا ٹیڈی بیئر ہو تم۔۔!!

 اگر مجھے انداز ہوتا تم اداس ہو تو میں کبھی ایسی حماقت نہ کرتا۔معافی کیسے ملے گی اب مجھے۔ وہ بھی بتادو۔۔۔۔۔!!!!" 

اس نے اس کی ناک دبائی ساتھ میں اب سزا بھی پوچھی۔ زرلشتہ کی آنکھیں بند ہی تھیں ۔ اداسی اڑن چھو ہوچکی تھی اب تو۔ 

"آپ آئندہ کبھی مجھے اگنور نہیں کریں گے۔۔!!! مجھے برا لگتا ہے جب آپ مجھ سے بات ہی نہ کریں ۔ آپ ابھی وعدہ کریں پھر میں آپ کی اس غلطی کو فراموش کردوں گی ۔۔!!!"

شرط بتا کر اس نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کہ ہاں معافی یہاں بیٹھے بیٹھے ہی مل سکتی ہے۔ ذرلش اور اس کی سزائیں دونوں ہی کیوٹ ہیں

 تبھی درمان بھی مسکرا دیا۔

"وعدہ رہا عزیزم یہ آپ کا غلام اب آپ کو کبھی اگنور نہیں کرے گا۔۔!!!! چلیں یہ تو بتائیں کہ آپ کو برا کیوں لگتا ہے میرا آپ کو اگنور کرنا۔ کہیں آپ کو پیار ویار تو نہیں ہوگیا مجھ سے ۔ کیونکہ نارملی بیویاں شوہروں کے ذرا سے اگنور کرنے پر اتنا اداس نہیں ہوتیں کہ ان کی نیند ہی اڑ جاۓ۔۔۔!!! 

ہوگیا ہے پیار تو کردیں اظہار ۔۔!!

میری بھی کوئ خواہشیں ہیں میں بھی اظہار چاہتا ہوں۔۔۔!!!"

درمان نے اسے تنگ کرنا ضروری سمجھا۔ لیکن اس کی بات سن کر زرلشتہ کے چہرے پر انگنت رنگ آۓ۔ لمحے کے لیے اس کا سانس بھی بے ترتیب ہوا ۔ یہ اظہار والی بات درمان نے جب بھی کی تھی وہ چھپنے کے لیے جگہ ہی ڈھونڈتی رہتی تھی۔ اب بھی اس نے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔ 

"مان جی میں اداس تھی پاگل نہیں ہوئ تھی۔ جو آپ سے پیار ہی کرلوں ۔ پیار کرنا آپ کا فرض ہے کیونکہ آپ شوہر ہیں۔ اور میں مشرقی لڑکی ہوں یہ عجیب سے کام مجھے زیب نہیں دیتے۔ گناہ مل گیا تو ۔ نہ مان جی میں تو دور ہی اچھی ہوں ان کاموں سے۔۔۔!!! "

اس نے بے نیازی دکھائ تو درمان نے بھی سر جھٹکا اب بھلا شوہر سے محبت کرنے پر بھی گناہ ملے گا۔ اس کے لیے ابھی اتنا ہی بہت تھا کہ وہ پہلے جیسی ہوگئ ۔

"زرلشتہ درمان آفریدی اظہار تو تم کرو گی۔ یہ بھی میری ضد ہے۔۔۔۔!!!! چاہے سیدھے طریقے سے یا الٹے طریقے سے۔۔!!!"

اس کی باتوں کا جو نتیجہ درمان کو دکھا اسے مدنظر رکھ کر اب اس کے خود سے عہد کیا کہ اظہار تو وہ کرواکر چھوڑے گا۔ چاہے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے اسے۔ 

زرلشتہ کچھ ہی دیر میں سوگئ تو وہ بھی اٹھ گیا۔ ابھی کام باقی تھا اس کا جو اسے کرنا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اگلے دن کا سورج افق پر جونہی جلوہ افروز ہوا درمان اپنے آفس کے لیے نکل گیا جس میٹنگ کی تیاری کے چکر میں اس نے زرلشتہ کو اداس کیا تھا اب زرلشتہ کو راضی کرنے کے بعد اسے اسی میٹنگ کو اٹینڈ کرنے جانا پڑا۔ 

زرلشتہ جلدی ہی اٹھ گئ تھی۔ تو وہ اسے چند ہدایات دے کر ملازمہ کو اس کا خیال رکھنے کی تاکید کرکے چلا گیا۔ زرلشتہ اداس ہوئ تھی تب اس نے کہا کہ وہ اسے فون کرتا رہے گا۔ اور جلدی واپس بھی آجاۓ گا۔ بس وہ اپنا خیال رکھے۔ 

ساتھ ہی اس نے اپنی ماں کو بھی تاکید کردی تھی کہ وہ اس کی بیوی سے دور رہیں۔ جن سے وہ ابھی تک خفا تھا۔ سلام دعا ہوہی جاتی تھی۔ پر اب ملتے وقت اس کے چہرے پر وہ چمک نہیں ہوتی تھی جو پہلے اس کے چہرے پر چھائ رہتی تھی۔ آخر اپنی ہی بیوی کو مارنے کی کوشش کرنے والی اپنی ہی سگی ماں کو وہ کیسے معاف کر دیتا۔

زرلشتہ کا ناشتہ ملازمہ کمرے میں ہی دے گئ۔ اپنا فیورٹ ناشتہ صبح صبح دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئ اس کا تو دن بن گیا تھا۔ تبھی ساری اداسی جھٹک کر وہ ناشتے میں مگن ہوگئ۔

اتنے دنوں سے وہ کمرے میں ہی بند تھی ایک تو درمان بھی گھر پر تھا تو باہر نکلنے کا اس کا ارادہ پورا نہ ہوسکا کیونکہ درمان کے دل میں بیٹھا وہم کہ اس کی ماں پھر سے اسے تکلیف نہ دے دیں۔ زرلشتہ کو اگلی بات کرنے ہی نہیں دیتا تھا۔

پر آج اس کا اس گھر کے باقی میمبرز سے ملنے کا پورا پورا ارادہ تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"اچھا بھلا میں سنگل بندہ تھا۔ سکون سے سوتا، سکون سے اٹھتا ، جہاں چاہتا وہاں جاتا۔ اور اب میرے پیروں میں نکاح کی زنجیریں باندھ دی گئ ہیں۔ سنا تھا نکاح کے بعد لڑکیوں کو ان کے ارمان مارنے پڑتے ہیں پر یہاں تو میں لڑکا ہوکر کمپرومائز کررہا ہوں۔ 

یااللہ کیا ان اغواہ کاروں کی بددعا میں اتنا اثر تھا کہ مجھ بیچارے کی پوری زندگی ہی الٹ پلٹ دی ان بد دعاؤں نے ۔ !!!"

معصومہ صوفے پر سکون سے سوئی ہوئ تھی۔ جب فدیان نے اس کے پاس کھڑے ہوکر دہائ دی۔ اتنے دنوں سے وہ بھی تو بس کسی بہت ضروری  کام سے ہی باہر جاتا تھا آخر اس کی بیوی جو بہت معصوم تھی جو اگر اس کی ماں کے ہاتھ لگ جاتی تو بیچاری بے موت ماری جاتی۔

"ملکہ عالیہ۔۔۔!!!

      مس معصومہ خانم آفریدی ۔۔!!!

 آپ سے گزارش ہے کہ اٹھ جائیں اب۔ آپ کے اس خادم کو اس کے ہٹلر باپ نے ڈیرے پر بلایا ہے۔ صفائ کرنے کے لیے نہیں بلکہ کچھ لوگوں کو اپنی اس اغواہ ہوکر بھی واپس آچکی اولاد کا دیدار کروانے کے لیے ۔۔!! 

یہ دکھانے کے لیے کہ اغواہ ہوکر واپس آۓ نمونے ایسی شاہانہ چال چلتے ہیں۔ اور ان کے چہرے پر اتنا ہی نور آجاتا ہے۔

آسان الفاظ میں میرے ساتھ ہمدردی کرنے کے لیے لوگ آرہے ہیں۔ جو ہوسکتا ہے مجھے سلامی کے پیسے ہی دے دیں۔ آخر ہمارے باپ نے شادی کا خرچہ جو بچالیا ہے اپنی کل اولاد کا نکاح جرگے میں کر کے۔ تبھی ہم دونوں کو سلامی بھی نہیں مل پائ۔ لیکن میں آج اپنا حق لے کر آؤں گا۔!!!! اٹھیں اور مجھے آدھے دن کی چھٹی الاٹ فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی۔ 

العارض ۔۔!! آپ کا نیا نویلا مسکین شوہر جمع پارٹ ٹائم آپ کا غلام ۔۔!!!"

کافی دیر سے وہ اس کے اٹھنے کا انتظار کررہا تھا پر معصومہ نیند کی بہت پکی تھی تبھی ٹس سے مس نہ ہوئ ۔ اب فدیان نے جھک کر اس کا کندھا ہلایا۔ تو منہ بسور کر معصومہ نے اپنی آنکھیں مسلیں۔ اس وقت اسے اٹھنا بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔

 پر جب اس نے فدیان کو دیکھا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھلیں اور وہ ڈر کر اٹھ بیٹھی۔ ساتھ ہی اپنا دوپٹہ بھی ٹھیک کیا اس نے۔

"آ۔آپ کو کوئ کام تھا م۔مجھ سے۔۔!!"

ڈر کر معصومہ نے اس کے چہرے کو دیکھا جو یہ سوال سن کر بھنویں اچکا گیا۔

"میرا کوئ کام کربھی سکتی ہیں آپ مس آنسوؤں کی ٹنکی ۔۔!!! اگر کرسکتی ہیں تو بتائیں ۔ کام بہت ہیں میرے پاس۔ سارے کرواؤں گا آپ سے۔ آپ کو ناامید نہیں کروں گا۔۔!!!"

اس کے سوال پر مصنوعی حیرت اس نے ظاہر کی پھر جیسے وہ اس سے ڈر کر دور ہوئ تھی اسی حرکت کا بدلہ لینے کے لیے وہ اسی کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔

"م۔میں تھوڑا بہت کام کام کرنا جانتی ہوں۔ جو بھی کام ہے مجھے بتادیں میں کردوں گی۔۔!!"

معصومہ نے سر جھکایا اور ساتھ میں آفر بھی پیش کی۔ فدیان نے متاثر کن انداز میں اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جیسے کام کرنا بھی آتے تھے۔

"ہاتھ دو اپنا۔۔!!!! مجھ سے ڈر تو تم ایسے رہی ہو جیسے میں تمہیں کھاجاؤں گا۔۔شوہر پر تھوڑا تو یقین کرلو۔۔!!!" 

اس نے ہاتھ سامنے کیا۔ تو معصومہ کا سر چکرایا ۔ پر ہاتھ آگے نہ کرپائ وہ۔ تب فدیان نے خود ہی اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ جس کی جان نکلنے والی تھی اس وقت۔ فدیان اسے ڈرا کیوں رہا ہے۔ اس کے دماغ نے ہاتھ پکڑنے کو ڈرانا سمجھا۔

" یہ گفٹ ہے تمہارا۔ منہ دکھائ ٹائپ ہی کچھ سمجھ لو۔ میں نے کوئ گفٹ نہیں دیا تھا تمہیں تبھی یہ جلدی میں ارینج کیا ہے میں نے۔مجھے ان چیزوں کی کوئ نالج تو نہیں۔ تو جیسا بھی ہے یہ تم ابھی کے لیے اکسپٹ کرلو۔ پھر کسی دن میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا تو تم جو چاہتا لے لینا ۔۔۔!!!"

اس کے ہاتھ کی لرزش کو اس نے اگنور کردیا۔ یہ نارمل ہی تھا۔ وہ ڈر رہی تھی جو اس کا کام تھا۔ فدیان نے چھوٹے سے باکس سے ایک رنگ نکالی اور اس کی انگلی میں پہنادی۔ ڈائمنڈ کی پیاری سی رنگ اس کے چھوٹے سے ہاتھ میں جچ رہی تھی۔ فدیان نے تو نکاح کے بعد منگنی والی رسم بھی پوری کردی۔ پر معصومہ کی آنکھوں میں پانی پھر آیا۔ اس رنگ میں اسے کوئ دلچسپی نہیں تھی۔ اسے تو اپنی ماں کی یاد آرہی تھی۔ 

" مجھ سے یہ ک۔کھوجاۓ گی آپ سنبھال کر رکھ لیں۔ میں کیا کروں گی اس کا۔ آپ کی مما نے یہ دیکھ لی تو و۔وہ میری انگلی ہی کاٹ دیں گی۔ مجھے درد ہوگا ایسے۔۔۔!!!"

انگوٹھی دیکھ کر معصومہ نے ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچا پر فدیان نے ہاتھ نہ چھوڑا۔ یہ ڈر اسے فضول لگا اس وقت۔ اس کی ماں بھلا اس کے ہوتے اس کی بیوی کو ہاتھ بھی کیوں لگائیں گی۔

"میں مر گیا ہوں کیا جو تم ایسی فضول باتیں سوچ رہی ہو۔۔تم ابھی بہت چھوٹی ہو میں جانتا ہوں جو تمہارے ساتھ ہوا اس کی وجہ سے تم ڈرگئ ہو پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم میرا دیا گفٹ بھی واپس کرنا چاہو۔ یہ انگوٹھی سوتے ہوۓ بھی تمہاری انگلی سے جدا نہ ہو۔ ورنہ مورے کا تو نہیں پتہ میں ضرور کاٹ دوں گا تمہاری انگلی۔۔۔!!!"

فدیان کا لہجہ سنجیدہ ہوا۔ اس کی آنکھوں میں وارننگ تھی۔ جسے معصومہ نے ایک نظر دیکھا تو اس کے چہرے کی رنگت پیلی پڑنے لگی۔

"م۔میں نہیں اتاروں گی۔ بالکل نہیں اتاروں گی۔ آپ غصہ نہ کریں۔ مجھے ماریے گا نہیں۔ آپ جو ک۔کہیں گے میں سب کروں گی۔ وعدہ پر میری انگلی نہ کاٹیے گا۔ بہت درد ہوگا ۔۔!!!"

فورا معصومہ نے روتے ہوۓ التجا کردی۔ تو فدیان نے اپنا سر ہاتھوں میں گرایا۔ اس نے تو بس ویسے ہی کہا تھا وہ کونسا اسے مارنے لگا تھا۔معصومہ کا ہاتھ بھی اس کے ہی ہاتھ میں تھا۔ معصومہ رونا شروع ہوچکی تھی۔ اور فدیان سوچ رہا تھا کہ آخر وہ کونسا پل تھا جب اس نے اس لڑکی کو روتے ہوۓ نہیں دیکھا۔

"معصومہ یار ۔۔!!! تم مجھے پاگل کردو گی۔ اتنا وخشی دکھتا ہوں میں تمہیں کہ جو تم پر ظلم کرے گا۔ توبہ یہ تمہاری سوچ مجھے بھی پاگل کرے گی اور ضرور کرے گی۔ میری بیوی چپ کرجاؤ ۔ یہ میرے جڑے ہاتھ دیکھو میں تمہارے آنسوؤں کے سیلاب میں بہہ جاؤں گا ایسے تو۔ مجھے تیرنا نہیں آتا یار۔۔۔ !!! مجھ پر ترس کھاؤں۔۔۔!!"

فدیان نے اپنے ہاتھ تک جوڑ دیے کہ ایسی فضول باتوں کو سچ نہ مانو۔ معصومہ کا ہاتھ بھی اس کے ہاتھوں کے بیچ میں تھا۔جتنا وہ معصومہ کو دیکھ کر جھنجھلا گیا تھا اتنا ہی معصومہ بھی حیران تھی کہ اس شخص کی موجودگی میں رویا کرے یا حیران ہوا کرے۔ دونوں ایک دوسرے کی سمجھ میں ابھی تک نہیں آۓ تھے۔

"ف۔فدیان۔۔!!! آپ مجھے سچ میں ماریں گے۔۔!!"

اس نے غیر محسوس طریقے سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالا پھر اپنی بے ترتیب سانسوں کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ فدیان سے ایک انوکھا سوال پوچھا۔جواب میں فدیان نے نفی میں سرہلا دیا ۔

"میں جنگلی نہیں ہوں۔ لگتا ہوں پر نہیں ہوں۔ تو نہ ڈرا کرو مجھ سے۔ اچھا میں ڈیرے پر جارہا ہوں بابا کے ساتھ تو تم کمرے سے نہ نکلنا ۔ ناشتہ تمہیں ابھی کچھ ہی دیر میں مل جاۓ گا۔اگر کچھ چاہیے تمہیں تو بتادو میں آتے ہوۓ لے آؤں گا۔۔!!!!"

جب معصومہ نے خود اپنا ہاتھ چھڑالیا تو فدیان کو اب یہاں بیٹھنا عجیب ہی لگا۔ تبھی وہ وہاں سے اٹھ گیا اور اسے اپنے جانے کی اطلاع دی۔ جس نے کچھ سوچ کر نفی میں سر کو جنبش دی۔

"م۔مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ " جواب یہی تھا بس۔ 

"کیوں نہیں چاہیے کچھ۔!!! کوئ ایسی چیز جو تم شوق سے کھاتی ہو۔ چاکلیٹس ، بسکٹس، چپس، یا پھر کچھ بھی ایسا وہی بتادو۔ میں تم سے چھین کر کچھ نہیں کھاؤں گا تو ڈرو مت مجھ میں ایک اچھے بچے کی روح بھی ہے۔ تو بتاؤ کیا چاہیے تمہیں۔۔۔۔!!!"

اس نے پھر سے بات پر زور دیا۔ لیکن معصومہ نے پھر سر کو نفی میں جنبش دے دی۔

"م۔مما کہتی ہیں کہ یہ سب کھانے سے پیٹ خراب ہوجاتا ہے۔ ت۔تو میں نہیں کھاتی۔ !!"

یہ جواب سن کر فدیان نے لب بھینچے ۔اس کی ماں نے اسے کتنا اچھا ٹرین کیا تھا کہ ان کے نہ ہوتے بھی یہ کچھ بھی الٹا سیدھا نہیں کھانا چاہتی تھی۔

"اوکے فائن ۔۔!!؛ چلو اٹھو اور مجھے اللہ حافظ کہو۔ آئندہ سے میں جب بھی کہیں جانے لگوں تو تم اٹھ کر مجھے رخصت کرو گی۔ یہ میرا چھوٹا سا ایک سپنا تھا کہ میری بیوی پیار سے مجھے دروازے تک چھوڑ کر آۓ۔ تو اٹھو اور رخصت کرو مجھے۔۔۔۔!!!!" 

وہ جتنا بات ختم کررہی تھی فدیان نے اتنا ہی بات کو بڑھاوا دیا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر فدیان اسے اپنے سامنے کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ نیا حکم بھی جاری کرگیا۔ وہیں معصومہ ہکا بکا تھی کہ اب کیا وہ اسے رخصت بھی کیا کرے گی ۔ 

"ا۔اللہ خافظ ۔۔۔" اپنا ہاتھ چھڑوانے کے ساتھ ہی اس نے منمناتے کہا۔ تو فدیان نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ پھر آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کردی۔

 اور وہاں سے خاموشی سے چلا گیا۔  معصومہ جو اب ایک نۓ صدمے میں تھی وہ وہیں صوفے پر گرگئ۔ اس کا سانس رک چکا تھا۔

"ی۔یہ کیا تھا۔۔!!! یہ کوئ جلاد ہیں جو اپنی س.ساری باتیں منوالیتے ہیں ۔ یہ تو مار دیں گے مجھے۔۔!!!! مما کہاں پھنس گئ ہوں میں۔۔!!! "

معصومہ نے گہرا سانس خارج کیا پھر کانپتے ہوۓ وہاں سے اٹھ کر واش روم چلی گئ۔ فریش ہونے ۔ ہوش تو اس کے صبح صبح ہی اڑ گۓ تھے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

فدیان داخلی دروازے سے باہر جانے ہی لگا تھا جب زرلشتہ اچانک اس کے سامنے آگئی۔ وہ بھی لان سے اب کمرے میں جارہی تھی۔ جب فدیان کو دیکھتے ہی وہ فورا رکی۔ رک تو فدیان بھی گیا تھا۔ زرلشتہ کو اتنے دنوں بعد سامنے دیکھ کر ناچاہتے ہوئے بھی اس کے دل میں ٹھیس اٹھی۔

وہ نہیں ملنا چاہتا تھا اس سے۔ نا ہی دیکھنا چاہتا تھا اسے۔ وہ ڈرتا تھا کہیں کسی نے اسکی آنکھوں سے اس کی دفن شدہ محبت پڑھ لی تو وہ کیسے ثابت کرے گا کہ زرلشتہ بےقصور ہے۔ اس کا اس معاملے سے کوئ تعلق نہیں۔

"فاد بھائ۔۔!! صبح صبح کہاں کی سیر کو جارہے ہیں۔کہیں آپ کی مسز نے دھکے دے کر آپ کو کمرے سے باہر تو نہیں پھینک دیا۔ویسے وہ خود کہاں ہے۔ بڑے ہی بے مروت ہیں آپ کہ آپ نے نکاح کرلیا اور مجھے کانوں کان خبر بھی نہ ہونے دی۔ پر آپ بھول گۓ کہ زرلشتہ سونگ کر آپ کے نکاح کی خبر تک پہنچے گی۔ پھر ٹریٹ کھاکر آپ کی جان چھوڑے گی۔ 

ویسے کہیں سچ میں دیورانی صاحبہ نے آپ کی عزت افزائی تو نہیں کردی۔ اگر ایسا ہے تو بتادیں شرمائیں مت۔ میں اسی گھر کا فرد ہوں۔ مجھ سے کیا کچھ چھپانا۔۔!!!"

آںکھیں سکیڑ کر زرلشتہ نے اسے گھورا ۔ پھر دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑی ہوگئی۔ البتہ فدیان اس کے چہرے سے وہ خوشی ڈھونڈ رہا تھا جو دیکھ کر اس کا دل اس کی طرف سے مطمئن ہوجاۓ۔

"مجھے تو میری مسز نے دھکے دے کر کمرے سے نکالا ہے پر تم کہاں سے چوکیداری کرکے واپس آرہی ہو مس زرلشتہ درانی۔ یا پھر پارٹ ٹائم مالی کا کام کرتی ہو تم اس گھر میں۔ بہت افسوس ہوا جان کر کہ تمہیں اتنی محنت مشقت کرنی پڑرہی ہے۔ پیسوں کی ضرورت ہے تو مجھے بتاؤ میں دے دیتا ہوں۔ پر اتنا تھکا دینے والا کام نہ کرو۔۔۔!!!

ویسے مس افلاطون تمہیں یہ چوٹ کونسی دوڑ میں دوڑتے لگی ہے۔ کس سے مار کھائ ہے تم نے۔ وہ بھی بتادو لگے ہاتھوں۔۔!!!"

اس نے بھی تفتیش شروع کی اپنے الٹے سوالوں سے۔ یہ سوال سن کر زرلشتہ کے تو اندر آگ ہی بھڑک اٹھی ۔ بھلا وہ کیوں مالی یا چوکیدار بنے گی۔

"اپنے پیسے اپنے پاس رکھیں جب دیورانی صاحبہ آپ کا منہ توڑیں گی نا تو ان پیسوں سے پلاسٹک سرجری کروالیجۓ گا۔ اور مجھ سے عزت سے بات کیا کریں میں عمر میں چھوٹی ہوں پر آپ کے ون اینڈ اونلی بگ برادر کی وائف ہوں۔ مجھے بھابھی کہا کریں آپ۔۔!!! 

اور آپ ہوں گے چپڑاسی ، بھنگی، مالی چوکیدار سب کچھ۔ جو اغواہ ہونے کا بہانہ کرکے لوگوں کی نالیاں اور گٹر صاف کررہے تھے۔ اور ہمیں کہہ دیا آپ اغواہ ہوئے ہیں۔ اگر آپ کو سچ میں کسی نے اغواہ کیا ہوتا تو آپ کے ساتھ ہمیں دس ، بیس کڑور روپے بھی دے کر جاتا کہ یہ پیسے لو اور اس بندے کو دوسرے ملک شفٹ کروادو ہمیں یہ دوبارا اس سرزمین پر نہ دکھے۔ !!!

جہاں تک بات رہی اس چوٹ کی تو یہ آپ کی والدہ صاحبہ کا تحفہ ہے۔ "

تیز لہجے میں اس نے فدیان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پھر آخر میں اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر آہ بھری۔ فدیان کو پتہ تھا یہ اس کی ماں کی ہی حرکت ہے ان کے سوا کوئ اتنا ظالم نہیں ہوسکتا۔ اور اسے زرلشتہ کے چہرے پر وہ سکون دکھ گیا جو وہ دیکھنا چاہتا تھا۔ 

"میں بھابھی کہوں اور وہ بھی تمہیں۔ بلی چاہے خود کو ہزار بار ہی شیر کی خالہ کیوں نہ کہہ لے رہتی وہ بلی ہی رہتی ہے۔ شیر کے خاندان سے نہیں جڑ جاتی۔ اور تم بھی بلی ہی ہو۔کسی بھول میں نہ رہنا۔۔!!! 

میں تمہیں بھابھی تو مر کر بھی نہیں کہوں گا۔ اور ہاں تم نے معصومہ کا پوچھا تھا کہ وہ کہاں ہے تو وہ لڑکی اس وقت کمرے میں ہے۔ جاؤ مل لو اس سے۔ پر اپنی ہمت ہر ملنا اگر روتے ہوۓ کو چپ کروانے کا ہنر آتا ہے تمہیں تب ہی۔ ایسا نہ ہو کہ اسے رلا کر تم بھی ساتھ ہی رونے لگو۔ اور میرا کمرہ ہی آنسوؤں میں بہادو۔ ہے تو وہ تمہارے جیسی ہی بیوقوف، اور پاگل ۔۔۔!!! "

اسے گھور کر فدیان وہاں سے چلا گیا۔ پیچھے زرلشتہ سوچ میں پڑ گئ کہ اس نے اس کی انسلٹ کی ہے یا پھر کچھ اور کہہ کر گیا ہے۔ دراصل فدیان کو یہ بھابھی لفظ زیر لگا تھا۔ 

وہ اگر محبت دفنادے یا چپ ہوجاۓ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی ہی محبت کو بار بار بھابھی جیسے القابات سے پکارتا پھرے۔اتنا حوصلہ نہ اس میں تھا نہ اسے چاہیے تھا۔ جو جیسا گزر رہا ہے وہ چاہتا تھا سب ویسا ہی گزرتا رہے۔

"ان کے گھر والے انہیں پاگل خانے میں ایڈمٹ کیوں نہیں کروادیتے۔ پاگلوں کا سرعام گھومنا ہماری سیفٹی کے لیے اچھا نہیں ۔ خیر چھوڑو انہیں میں تو ذرا اپنی دیورانی صاحبہ سے دو دو ہاتھ کرلوں ۔ ذرا دیکھوں تو میں بھی کہ وہ ہیں کیسی آخر۔اپنے سے چھوٹوں پر رعب جھاڑ کر جو مزہ آتا ہے اس سے لطف اندوز ہونے کا وقت آگیا ہے !!!!!"

زرلشتہ نے فدیان کی پشت کو گھورا پھر اپنی نئ سوچ پر خوش ہوتے اس کے کمرے کی طرف چلی گئ۔ اپنی دیورانی سے ملنے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"مسٹر یشاور آپ کی مسز اس وقت مینٹلی طور پر بہت ڈسٹرب ہیں۔ کوئ بہت بڑا ٹروما ہے جس سے وہ باہر آ نہیں پارہیں۔ اور ان کے ساتھ مس بیہیو کرنے کی کوشش بھی کی گئ ہے۔ ان کے چہرے اور ہاتھوں پر زخم ہیں ۔

 آپ کہاں تھے اس وقت جب آپ کی مسز اتنی تکلیف میں تھیں۔ آپ کی ذمہ داری ہیں وہ۔ آپ کو خیال رکھنا چاہیے تھا ان کا۔ کہیں آپ نے تو انہیں ٹارچر نہیں کیا۔۔!!! اگر ایسا ہے تو مجھے اسی وقت پولیس کو انفارم کرنا ہوگا۔ یہ پولیس کیس ہی ہے ۔!!!"

ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں اسے اس لڑکی کی کنڈیشن بتائ پھر کچھ سوچ کر یشاور کو ہی شک بھری نظروں سے دیکھا جو ساری رات سے اسی لڑکی کی وجہ سے ہاسپٹل میں موجود تھا۔ یہ الزام سن کر وہ کرنٹ کھاکر کھڑا ہوا۔

"بیوی نہیں ہے وہ میری۔ مجھے کل رات وہ راستے میں ملی تھی۔مجھے سچ میں نہیں پتا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ آپ بلاوجہ مجھ پر الزام نہیں لگا سکتیں۔ یہ غلط ہے ۔!!! نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔ میں اس کی حالت کا احساس کرکے اسے ہاسپٹل لے آیا اور آپ مجھے ہی پولیس کے حوالے کررہی ہیں ۔ حد ہے ۔ !!!"

اس نے جل بھن کر کہا۔ غصہ تو اسے بہت آیا پر اس نے برداشت کیا۔ جب ڈاکٹر نے شاک کی کیفیت میں اس کی جانب دیکھا۔

" تو وہ آپ کی مسز نہیں ہیں۔ آدھی رات کو ایک انجان لڑکی اس دور میں آپ کو سڑک پر ملی جب لوگوں کی گاڑیوں کی نیچے آکر لوگ مرجاتے ہیں پر کوئ مڑکر نہیں دیکھتا ۔ اور آپ اس انجان لڑکی کو ناصرف ہاسپٹل لاۓ بلکہ رات سے یہاں ہی موجود ہیں۔ کچھ زیادہ ہی انسانیت نہیں پائ جاتی آپ میں۔ آپ نے اپنی وائف کو ٹارچر کیا ہے اب پولیس کا نام سن کر آپ اپنی وائف کو یہاں چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ شرم آنی چاہیے آپ کو۔۔۔۔!!!"

ڈاکٹر اپنی نشست سے اٹھی معاملہ لڑکی کی زندگی کا تھا تبھی اپنے ہی مفروضے کو سچ مان کر اس ڈاکٹر نے یشاور کی سرزنش کی۔ جو اب صدمے میں چلا گیا۔ پھر حلق تر کرکے اس نے خود کو ریلیکس کیا۔

"اسے اٹھ لینے دیں۔اب وہ خود آپ کو بتادے گی کہ میں اس کا کچھ نہیں لگتا۔ عجیب کوئ مینٹل کیس ہیں اس ہاسپٹل کے ڈاکٹرز بھی۔ میں نے جو کیا ہی نہیں اس کا الزام مجھ پر لگا رہے ہیں ۔ میرا وقت ہی خراب چل رہا ہے جو ہر کوئ گناہ کرکے نام میرا لے لیتا ہے۔ 

میں کیفیٹیریا جارہا ہوں ۔ ابھی یہیں ہوں جب تک وہ لڑکی نہیں اٹھ جاتی میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ تو ٹینشن نہ لیں۔۔۔۔۔!!!"

اس نے اپنے الجھے بالوں کو ہاتھ سے ہی سیٹ کیا اور ڈاکٹر پر سخت  نگاہ ڈال کر چلا گیا۔ پیچھے ڈاکٹر اب بھی اسی شخص کو مشکوک نگاہوں سے گھور رہی تھی۔

"یہی شوہر ہے اس کا اب اسے چھوڑ کر بھاگنا چاہتا ہے ۔ پر میں بھی اسے بھاگنے نہیں دوں گی۔چاہے مجھے نکاح دوبارا ہی کیوں نہ پڑھوانا پڑے ۔ یہ لڑکی اب اسی کے ساتھ ہی واپس جاۓ گی۔"

ڈاکٹر نے اگلی رپورٹ کھول کر اس کا جائزہ لینا شروع کیا۔ یشاور بے قصور ہوکر بھی یہاں پھنس گیا تھا۔ اس کی قسمت سچ میں بری تھی جو اب بے قصور ہوکر بھی اسے اسی جرم کی سزا مل رہی تھی۔ 


معصومہ فدیان کے جاتے ہی فریش ہونے کے لیے واش روم چلی گئ۔پھر سادہ سا سوٹ پہن کر دوپٹہ حجاب کی صورت میں لپیٹ کر وہ ناشتے کے انتظار میں صوفے پر بیٹھ گئ۔باہر جانے کو اس گھر کو دیکھنے کو اس کا دل چاہا پر جس ہٹلر نما ساس سے اس کی ملاقات چند دن پہلے ہوئ تھی اس کے خوف سے وہ باہر نکلنے کی ہمت نہ کرسکی۔جو عورت پہلی ہی ملاقات میں اسے سٹور میں بند کروا سکتی ہے اس سے کسی بھی حد تک گرنے کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

 وہ ابھی صوفے پر بیٹھ کر اپنی سوچوں میں گم تھی جب اچانک دروازہ کھلا اور زرلشتہ کمرے میں داخل ہوئ۔دروازے کھلنے کی آواز پر معصومہ ڈر کر صوفے سے اتری اور اس نے آنے والی ہستی کو دیکھا۔ جسے اس نے پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ زرلشتہ فل ڈرامہ موڈ میں آئ تھی اس کے پاس۔ چہرے پر سخت تاثرات لیے آنکھوں میں غصہ اتار کر وہ معصومہ کو ہی گھور رہی تھی۔

"تو آپ ہیں اس گھر کی نئ بہو ۔۔!!!! یعنی میری دیورانی صاحبہ۔۔!!! اچھا ہوا آپ مجھے جاگی ہوئ مل گئیں ورنہ مجھے تو لگا تھا لمبی تان کر ابھی تک آپ اپنے خوابوں کی دنیا میں کھوئ ہوں گی۔ پر آپ تو حقیقت کی دنیا میں موجود ہیں۔ بہت خوب۔۔۔!!!!"

وہ چند قدم چل کر اس کے پاس آئ۔اعتماد بھلا کا تھا۔

معصومہ کا ننھا سا دل کانپ اٹھا کہ یہ کون ہے اب۔۔۔؟؟؟

"کوئ ہوش ہے تمھیں کہ گھر میں کتنے کام ہوتے ہیں کرنے والے۔ ناشتہ بنانا، برتن دھونا، صفائ ستھرائی ، گارڈننگ، کپڑے دھونا ، اور پتا نہیں کیا کیا کام ہوتے ہیں۔جو سب کے سب میں اکیلے کررہی ہوں۔اور تم کمرے میں چھپ کر بیٹھی ہو۔۔!!! "

اس نے معصومہ کا سر تاپیر جائزہ لیا۔ وہ اسے بہت کیوٹ لگی۔ دل تو اس بلی کے گال کھینچنے کو کیا۔ پر اسے مزہ آرہا تھا اسے تنگ کرنے میں۔ جس نے تھوک نگلا ۔ اسے کہاں پتہ تھا اتنے کام ہوتے ہیں کرنے والے۔ وہ بولنا چاہتی تھی پر کیا بولتی ۔۔!!!

 "لڑکی ہم نے ملازم رکھے ہیں تو کیا تم یہ سمجھ رہی ہو کہ ہم سارا کام ان ملازموں سے کروائیں گے اور گھر کی بہوئیں آرام سے سکون کی زندگی کی گزاریں گی۔ پاکستانی ڈراموں کے اینڈ کی طرح۔ تو یہ بھول ہے تمہاری۔ ہمارے گھر میں سٹار پلس دیکھا جاتا ہے۔

 ہم کوکیلا ساس کے نقش قدم پر چلتے ہیں میں اس گھر کی راشی بہو ہوں اور تم گوپی بہو۔ یعنی تمہار کام ہے ہر وہ کام کرنا جو میں چاہوں۔۔۔!!!

ملازم ہم نے صرف اوروں کو دکھانے کے لیے رکھے ہیں۔ ورنہ انہیں دینے کے لیے پیسے ہمارے پاس نہیں۔میری ساس ہمارے جدی پشتی خزانے پر ناگن کی طرح قبضہ جما کر بیٹھی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ملازموں کی سنتے ہیں ملازم ہماری نہیں مانتے۔۔!!!

 اس گھر میں اگر فرش پر سوئ بھی گرجاۓ تو اسے ملازم نہیں اس گھر کی بہو کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دروازے پر دستک بھی ہو تو بہو کا انتظار کیا جاتا ہے کہ وہ آۓ اور دروازہ کھولے۔ سمجھ میں آئ تمہیں میری بات۔۔!!!"

وہ اس کے سامنے کھڑی ہوئ پھر ایک ادا سے اپنا ہاتھ نچاتے کسی ظالم جیٹھانی کے لہجے میں اس نے معصومہ کو سمجھانا چاہا۔ جو اتنا کام کرنے کا سن کر پریشان ہوگئ۔ جتنی وہ معصوم تھی تھوڑا سا کام کرکے ہی بے ہوش ہونے والی ہوجاتی۔ تو خود کو جھاڑو پوچھا کرتے امیج کرنا اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔وہ رونے والی ہوگئ۔

"س۔سوری میں سب کردیتی ہوں۔ آپ ر۔رکیں میں سب کردیتی ہوں۔ مجھے ماریے گا نہیں۔ م۔مجھ سے غلطی ہوگئ۔ سوری ۔۔!!!"

معصومہ جلدی سے معافی مانگ کر جانے لگی جب زرلشتہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ یہ اتنی جلدی روپڑے گی اسے انداز نہیں تھا۔ 

"میڈم کدھر جارہی ہیں آپ۔۔!! میں نے کہا ہے کیا جانے کو۔ نیچے ہماری مشترکہ ساس ہماری موت کا پروانہ لے کر گھوم رہی ہے اور نہ درمان گھر میں ہیں نا ہی فاد بھائ ۔۔!!! تم پاگل ہوکیا جو نیچے جاکر مرنا چاہتی ہو۔ میں مزاق کررہی تھی یار تم تو روپڑی ۔۔!!!"

زرلشتہ کے صحیح ہوش اڑے جب معصومہ کے رونے کی آواز کمرے میں گونجنے لگی۔ کسی روتے ہوۓ کو چپ کروانا اسے تو نہیں آتا تھا۔ کیونکہ کسی ایسے شخص سے اس کا سامنا ہی آج ہوا تھا۔

اس نے معصومہ کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا تاکہ اس کے آنسو پونچھ سکے پر آنسو دیکھ کر اس کا دل کانپ گیا۔ اس کے ہاتھ بھی لرز اٹھے۔

" اللہ کا واسطہ ہے معصومہ چپ کر جاؤں ۔۔!! میرا ہارٹ فیل ہوجاۓ گا۔ اگر تم ایسے ہی روتی رہی تو۔ پلیز یار ڈونٹ کراۓ ۔۔!!!"

اسے سمجھ نہ آئ کہ کیا کرے تبھی اس نے اس کے آنسو پونچھے جو اب مزید زور و شور سے رونے لگی۔ اس نے دروازے کی طرف دیکھا کہیں فدیان نہ آجاۓ۔ اگر کوئ معصومہ کو روتا دیکھ لیتا تو اسے پتہ تھا اس کی خیر نہیں۔تبھی وہ ڈر بھی گئ۔

" پلیز رونا بند کرو۔ میرا دل بہت کمزور ہے اسی گلٹ میں بند ہوجاۓ گا کہ کوئ میری وجہ سے رو پڑا۔ اگر تمہارے اس ڈرامے باز شوہر کو یہ بات پتہ چلی کہ میں نے اس کی بیوی کو رولایا ہے تو وہ مجھے اپنی باتوں سے ہی مار دے گا۔

 میری ساس تو آگے ہی میری موت چاہتی ہے وہ دیگیں بٹواۓ گی اور میرا شوہر تو آگے ہی کبھی کبھی ظالم بن جاتا ہے اسے اگر میری اس حرکت کا پتہ چلا تو میری زبان ہی کاٹ دے گا۔

 میں ساری زندگی بغیر زبان کے کیسے رہوں گی یار۔ مجھے تو کھانا کھانے میں بھی مشکل ہوگی اس طرح سے۔ پلیز چپ کر جاؤ۔۔۔!!!"

وہ اسے لے کر صوفے پر بیٹھ گئ اور اسے گلے لگالیا۔ معصومہ اب بھی رو رہی تھی۔ اور زرلشتہ کے پسینے چھوٹ چکے تھے۔ 

"پلیز چپ کرجاؤ نا۔ میں آئندہ تمہیں اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گی ۔ کہو گی تو سلیمانی ٹوپی کہیں سے مانگ لاؤں گی اور وہ پہن کر گھوموں گی تاکہ تم مجھے دیکھ نہ سکو۔ پر پلیز تم رو تو نہیں ۔۔۔!!!"

وہ تھک کر بولی۔ اس نے ایسا بھی کچھ نہیں کیا تھا کہ معصومہ چپ ہی نہ ہوتی وہیں معصومہ نے ہچکی بھری۔

"م۔مما کے پاس ج۔جانا ہے۔۔!!!"

 تھوڑا سا سنبھل کر اس نے اپنا مسئلہ بتایا تو زرلشتہ نے سکون کا سانس لیا کہ وہ تھوڑا تو سنبھلی۔لیکن اس کی حالت دیکھ کر اسے دکھ بھی ہوا۔

"معصومہ یاد تو مجھے بھی اپنی مما کی بہت آرہی ہے پر شادی کے بعد لڑکیوں کو صبر کرنا پڑتا ہے۔ تم بھی کرلو گی۔ دیکھو تم اکیلی نہیں ہو میں ہوں نا یہاں پر۔ تم مجھے اپنی بہن بنالو پھر سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ میں زرلشتہ ہوں۔فاد بھائ کے بڑے بھائ درمان کی بیوی۔۔!!! 

تم مجھے زرلش,آپی ، بھابھی جو چاہے کہہ لو۔ میں تمہارا خیال بھی رکھوں گی پر پلیز رونا بند کردوں ۔۔۔!!!"

زرلشتہ نے اس کا چہرہ سامنے کیا پھر اسے سمجھاتے ہوۓ اس کے آنسو پونچھے جس نے سمجھ کر سر ہاں میں ہلادیا۔ ساتھ ہی اپنے آنسو روکنے لگی۔ اسے چپ ہوتا دیکھ کر زرلشتہ نے بھی سکون کا سانس لیا۔

"آپی۔۔!! کہہ لوں میں آپ کو۔آپ تو نہیں ماریں گی نا ۔نہ ہی ڈانٹیں گی۔!!!"

اس کے ہاتھ معصومہ نے پکڑے پھر مدھم سی آواز میں بغیر اٹکے بات کی تو زرلشتہ مسکرائ۔

"مجھے اچھا لگے گا اگر تم مجھے آپی کہوگی۔ میری کوئ چھوٹی بہن نہیں تھی تو اب تم بن جاؤ۔ میں تمہیں بالکل نہیں ڈانٹوں گی نا ہی غصہ کروں گی۔ بلکہ ہم باتیں کرسکتے ہیں بہت ساری۔ اگر تم چاہو تو ۔!!"

زرلشتہ نے بھی اسی کے انداز میں معصومیت سے اسے تسلی دی۔ معصومہ کو بس محبت چاہیے تھی جو اسے اگر زرلشتہ سے بھی ملتی تو وہ اس کی بھی اسیر ہوجاتی۔ وہیں زرلشتہ کو بس محبت بانٹنا آتا تھا۔ اور وہ معصومہ کو اگر بہن کہہ رہی تھی تو بہن بناتی بھی۔

"آ۔ آپ کو بھی وہ آنٹی ڈانٹتی ہیں۔جیسے مجھے ڈانٹتی ہیں۔!!!"

اس نے اس دن کو یاد کیا تو نۓ سرے سے اسے ڈر لگا۔ تبھی اس نے زرلشتہ سے بھی دریافت کیا۔ جس نے ڈرامائی آہ بھری۔

" ساسوں ماں کسی کو تو چھوڑ دیا کریں۔ اف ہماری یہ ہٹلر ساس ظلم کرنے میں مودی کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی۔ ایک وقت آۓ گا جب ہماری ساسوں ماں خبروں کی زینت بن جائیں گی اپنے ظلم کی وجہ سے۔ اور ان کا نام بڑے بڑے نیوز چینلز پر چلے گا۔ دا لیجنڈ آف ہٹلر کے نام سے۔

ویسے ہٹلر انہیں دیکھ لے تو وہ بھی پناہ مانگے گا کہ یاخدا کس گناہ کی سزا مل گئ مجھے کہ میں اس ظالم عورت کو دیکھ کر دنیا میں ہی جہنم کی آگ میں غوطہ زن ہوگیا۔۔!!!!

 معصومہ جانی انہیں سیریس نہ لیا کرو۔ تم ڈرتی ہو نا ان سے تو وہ تمہیں مزید ڈراتی ہیں۔ میں آگے سے جواب دیتی ہوں تو وہ مزید تپ جاتی ہیں۔وہ ایسی ہی ہیں۔ تم نہ ڈرا نہ کرو۔ بس کچھ بھی ہو تو ڈٹ کر مقابلہ کیا کرو۔ پھر فدیان ہیں نا کیوٹ پٹھان نمبر 2 وہ بچالیں گے تمہیں۔۔!!"

 ہاتھ کے اشارے سے اس نے معصومہ کو اس معاملے پر مٹی ڈالنے کو کہا۔ جو زرلشتہ جیسی لڑکی پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ جس نے ناجانتے ہوۓ بھی اسے ہنسا دیا تھا۔ وہ سچ میں ہنسی تھی پہلی بار زرلشتہ کی وجہ سے۔

" آپ کو سچ میں ان سے ڈر نہیں لگتا۔ وہ بہت ہارر ہیں۔۔!!!" اس نے کچھ سوچ کر پوچھا تو زرلشتہ نے فخر سے سر نفی میں ہلادیا۔

" نہیں یار میں نہیں ڈرتی ان سے۔ تمہیں پتہ ہے میرے پاس دو ویٹو ووٹ ہیں پہلے میرے سسر جی مطلب آغاجان جو مجھے اپنی بیٹی ہی سمجھتے ہیں بہت کمال کے بندے ہیں وہ ان کے سامنے تو ہماری ساس بھی بھیگی بلی بن جاۓ اور دوسرے ہیں میرے میرے شوہر جی۔ جن پر میری بھی دنیا رک گئ ہے۔

 تھوڑی تھوڑی فیلنگز ہیں میرے دل میں ان کے لیے پر میں نہیں بتاتی۔ انہیں اظہار چاہیے پر میں کیوں کروں میں تو بیوی ہوں نا میں نہیں کروں گی کوئ اظہار۔ 

اور ساسوں ماں کی زبان وہاں بھی نہیں چلتی۔ اچھا چھوڑو یہ سب کچھ میں تمہارے لیے بریک فاسٹ لے کر آتی ہوں۔ آج ہم دیورانی، جیٹھانی خوب باتیں کریں گے۔۔!!  اوکے۔۔۔!!!"

اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے وہ اس کے دونوں گال چہکتے ہوۓ کھینچ گئ۔ پھر وہاں سے اٹھی اور خود ہی سب طے کرکے چلی گئ۔ پیچھے معصومہ اپنے گال سہلانے لگی ساتھ میں ہنستی بھی رہی۔

" یااللہ یہ تو سچ میں بہت پیاری ہیں۔ ایسے بھی لوگ ہیں آپ کی دنیا میں مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔ دنیا پیاری بھی ہے۔ پر ڈراؤنی بھی ہے۔ یااللہ کیا سب واقعی ٹھیک ہوجاۓ گا۔ پتہ نہیں ۔۔!!! پر یہ سچ میں پیاری ہیں۔ آپ میرے ساتھ ساتھ انہیں بھی ان آنٹی سے بچا لینا۔ اور ہٹلر بھی کبھی ان آنٹی سے نہ ملے ورنہ وہ بھی جہنم کی آگ میں غوطہ زن ہوجاۓ گا۔۔!!!"

دروازے کو دیکھ کر معصومہ مسکرائی۔ پھر اپنا چہرہ صاف کرکے زرلشتہ کا انتظار کرنے لگی۔ محبت بانٹنے کا ہنر جن لوگوں کو آتا ہو وہ کہیں بھی اپنا جادو چلادیتے ہیں۔ زرلشتہ بھی جادو چلاگئ تھی۔ اور اس پوری دنیا میں سواۓ شنایہ بیگم کے وہ سب کو دیوانہ بناسکتی تھی اپنا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

(چند دن بعد)

درمان تب کا گیا واپس نہیں آیا تھا۔ وہ زرلشتہ سے بات تو کرلیتا تھا پر زرلشتہ کے دل میں اب انجانا سا وہم آگیا تھا کہ کچھ تو ایسا ہے جو وہ نہیں جانتی۔ یعنی درمان کی زندگی میں کوئ اور ہے جسے وہ اپنا سارا وقت دے رہا ہے تبھی ہر چند دن بعد اسی کے پاس چلا جاتاہے۔ پر زرلشتہ کو اس بارے میں وہ کچھ نہیں بتارہا۔

 آج بھی وہ درمان کی کال کا ویٹ کررہی تھی ٹیرس پر کھڑے ہوکر۔شام ہونے کو تھی اور درمان نے صبح سے اسے کال نہیں کی تھی۔وہ انتظار کرتے کرتے تھک گئ تھی۔

پھر خود ہی اس نے درمان کو کال کردی۔ اور گہرا سانس خارج کرکے کال اٹھاۓ جانے کا انتظار کرنے لگی۔ 

"مان کال تو پک کرلیں۔ کیوں آپ میرا صبر آزما رہے ہیں۔ میں نہیں برداشت کرسکتی آپ کا خود کو اگنور کرنا۔۔!!! بس ایک دفعہ بات تو کرلیں ۔ !!"

اس نے مٹھیاں بھینچیں پھر جھنجھلا کر اردگرد چکر کاٹنے لگی۔ درمان اسے اگنور کررہا ہے یہ بات اس کی جان نکال رہی تھی۔

کال درمان نے نہ اٹھائ تو اس نے دوبارا کال کی۔لیکن درمان مصروف تھا۔ تو اب بھی اس نے کال نہ اٹھائ۔وہ اس وقت میٹنگ میں مصروف تھا۔ کلائنٹ اس کے سامنے بیٹھے تھے اور فون سائلنٹ پر تھا تو وہ کیسے اٹھاتا۔تیسری کال پر اس کی نظر فون کی سکرین پر پڑی سامنے "مصیبت" لکھا تھا وہ ناچاہتے ہوۓ بھی مسکرایا۔

زرلشتہ نے خود سے اسے پہلی بار کال کی تھی اور کی بھی غلط وقف پر ہی تھی۔ اگر کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اپنی مصیبت کی اس چھوٹی سی اپنی طرف پیش قدمی پر اس پر ایک بار پھر فدا ہوجاتا ۔پر ابھی اسے کام تھا۔ 

 کلائنٹس سے ایکسکیوز کرکے اس نے کال پک کرلی۔ زرلشتہ اس کی وجہ سے پریشان ہوکر کالز کرتی رہے درمان کو یہ گوارہ نہیں تھا۔

"ہیلو زرلشتہ۔۔!!! میں بزی ہوں ابھی۔ تم پریشان نہ ہونا۔ میں خود کال کروں گا تمہیں کچھ دیر بعد۔ٹھیک ہے!!"

کال پک کرتے ہی درمان نے اپنی بات کہہ دی۔ زرلشتہ جو کچھ بولنا چاہتی تھی اس کے چہرے پر اداسی چھائی۔

"مان۔۔!!!" اس نے لب واکیے کہ کچھ کہہ سکے۔پر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 

"مسٹر درمان یہ پوائنٹ اگر آپ ہمیں ایکسپلین کردیں گے تو بہت آسانی ہوگی ہمارے لیے ۔ پلیز کردیں۔۔!!!"

فون کے دوسری طرف سے زرلشتہ کو نسوانی آواز سنائ دی تو اس کے دماغ میں سائیں سائیں کی آواز گونجی۔ درمان کے پاس سے لڑکی کی آواز۔۔۔!!!!!

وہیں رہی سہی کسر درمان نے اس کی کال کٹ کرکے پوری کردی ۔ تو وہ بیچاری صدمے کی کیفیت میں کسی ڈرامائی ہیروئین کی طرح ایک ہی جگہ ساکت رہ گئ۔

"درمان کے پاس ایک لڑکی تھی۔ مطلب زرلشتہ تمہاری زندگی میں ثناء آگئ ہے۔ میں ثانیہ مرزا نہیں بن سکتی۔ اگر شہروز کی طرح درمان کو بھی کام کرتے کرتے کوئ صدف کنول پسند آگئ تو وہ مجھے سائرہ یوسف کی طرح چھوڑ دیں گے۔۔!!!

یا اللہ میرا گھر ۔۔۔!!!!"

اس نے ریلنگ تھامی پھر رونی صورت بناکر کمرے میں واپس آئ اور آتے ہی بیڈ پر گرگئ۔

ملازمہ ابھی اس کے لیے کافی بناکر لائ تھی ۔ اس کے کہے کے مطابق اس نے زرلشتہ کی حالت دیکھی تو ڈرتے ہوۓ کافی کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔

"بی بی جی آپ کی کافی۔۔!!!"

ملازمہ نے اسے ہوش دلانا چاہا۔ جس نے صدمے کی کیفیت میں اسے دیکھا۔

"کافی تو بہت ہوگیا ہے درمان کا دھوکہ میرے لیے۔میں اب یہ کافی نہیں پی سکتی۔ میری شوگر لو ہورہی ہے فورا سے پہلے فریش اورنج جوس بناکر لائیں میرے لیے۔ جلدی اس سے پہلے کہ مجھے کچھ ہوجاۓ۔۔!!! پلیز جلدی کریں۔۔!!!"

زرلشتہ نے منہ پر ہاتھ رکھا اور دہائ دی سر اس کا سچ میں چکرارہا تھا تبھی ملازمہ سر ہلاکر فورا کافی اٹھا کر واپس چلی گئ۔ اور زرلشتہ تکیے میں منہ دے کر اپنے ساتھ ہوۓ دھوکے کا سوچنے لگی۔ جو درمان نے نہیں دیا تھا پر اس نے ہی دیا تھا۔

ابھی تو وہم شروع ہوا تھا۔درمان کو آسانی سے زرلشتہ جانے تو نہ دیتی۔

 •┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دیار آج واپس آہی گیا۔ اتنے دنوں سے ناچاہتے ہوۓ بھی وہ گھر سے باہر ہی رہا تھا جو سلوک اس کے ساتھ وشہ نے کیا تھا وہ چاہ کر بھی اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس کی توہین کررہی تھی جو دیار کو تو بالکل بھی منظور نہیں تھا۔

وہ گھر میں داخل ہوا تو گھر میں سناٹا تھا۔ اسے پتہ تھا وشہ کمرے میں ہی ہو گی۔ دل میں ناچاہتے ہوۓ بھی اس دن کی وجہ سے خلش تھی جسے دور کرنا حد سے زیادہ ضروری تھا۔ پر دور کون کرتا۔۔۔!!!!

گہرا سانس فضا کے سپرد کرکے دیار نے قدم اپنے کمرے کی جانب لیے۔ اس کا دل بوجھل سا ہوگیا۔ اس دن جو وشہ نے اس سے کہا تھا ناچاہتے ہوۓ بھی اسے سب یاد آنے لگا۔

 کمرے کے پاس پہنچ کر دیار نے لب بھینچے پھر خود کو اعتماد میں لاکر وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔ کمرے میں اس کی توقع کے برعکس مکمل اندھیرا تھا۔ لائٹس آف تھیں، کھڑکیاں کرٹنز سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ کمرہ یوں ویران تھا جیسے یہاں کوئ ہوہی نہ۔

لمحے کے لیے دیار کا دل معمول سے سست پڑا۔ اس کے دل میں وسوسہ آیا کہ کہیں وہ اسے چھوڑ تو نہیں گئ۔ وہ سب سہہ لیتا پر اس کی دوری اس سے برداشت نہیں ہونی تھی اب۔

تبھی ایک بھی سیکنڈ کسی سوچ میں ضائع کرنے کی بجاۓ اس نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لائٹس ان کیں۔ کمرہ اچانک روشنی سے بھرا اور متلاشی نگاہیں بیڈ پر دنیا سے بے خبر ہوکر سوۓ وجود پر جم گئیں۔ دل کو سکون ملا۔ 

وہ کہیں نہیں گئ تھی یہیں تھی ابھی تک۔

"وشہ ۔۔!!! ڈرا دیتی ہیں آپ مجھے۔۔!!! شام کو کون سوتا ہے۔"

دیار نے سر کو نفی میں جنبش دی۔ پھر ہلکا سا مسکرایا۔ دشمن جان بڑے آرام سے اس کے بیڈ پر سوئ تھیں۔ وہ چلتا ہوا بیڈ کے پاس پہنچا۔ 

" معصوم تو بہت ہیں آپ۔ اور پیار بھی بہت آتا ہے آپ پر۔ پر آپ کی یہ جو زبان ہے نا یہ سیدھا دل پر نشتر چلاتی ہے۔ تھوڑا سا قابو کرلیں اسے تو پھر زندگی کسی خواب سے بھی زیادہ حسین ہوجاۓ گی۔ جانِ دیار ۔۔!!!!" 

مسکراتے ہوۓ وہ جھکا اور اس کی پیشانی کو اپنی محبت سے معطر کرگیا۔

اسے یاد تھا پہلی بار جب اسے یہ طوفان دکھی تھی تب اپنی نظروں کو سنبھالنا اس پر فرض تھا۔ پر اب تو وہ دیکھ سکتا تھا اسے آخر بیوی تھی وہ اس کی۔

اس کے چہرے کو محبت سے دیکھ کر وہ وہیں اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔وشہ اب بھی سکون سے سوئی ہوئ تھی۔ 

"وشہ دیار درانی ۔!!!!! کوئ جادو ہے آپ میں۔مجھھے تو ایسے ہی لگتا ہے۔ پہلی نظر میں دیوانہ کیا آپ نے۔ پھر محبت کی راہوں پر چلایا اور اب تو آپ ہو دیکھتے ہی میرا غصہ، میری ناراضگی سب ختم ہوگئ۔ جادو تو ہے آپ میں۔!"

کچھ دیر پہلے جو بےچینی اسے وشہ کے پاس آنے سے روک رہی تھی اب تو جیسے وہ احساس ہی ختم ہوگیا تھا۔ اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔ جو اس دفعہ کسمسائ۔

" دل تو کررہا تھا آپ کو سونے دوں اور بیٹھ کر یونہی دیکھتا رہوں پر دماغ کہہ رہا ہے آپ کو دیکھنے سے زیادہ مزہ آپ کو سننے میں آۓ گا۔آپ کی بے خبری میں آپ سے باتیں کرنا اتنا شریفانہ عمل نہیں جتنا آپ کے ہوش میں رہتے آپ کو تنگ کرنا ہے۔۔!!! تو محترمہ اب اٹھ جائیں ۔بہت سولیا آپ نے ۔!!!"

اس کا ہاتھ چھوڑ کر دیار کھڑا ہوگیا۔ اب نئ سوچ اس کے ذہن میں آئ تھی تبھی چہرے پر سنجیدگی طاری کرکے وہ دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ پورا ڈرامے باز تھا وہ بھی۔

"وشہ ۔۔!!! وشہ ۔۔۔!!! اٹھ جائیں اب۔ یہ کوئ وقت نہیں ہے سونے کا۔"

اس نے اونچی اور بارعب آواز میں کہا۔ کمرے کی خاموشی میں اس کی آواز ارتعاش پیدا کرگیا اور وشہ بھی اس آواز پر آنکھیں مسلتی ہوئی اٹھ گئ۔ 

آنکھیں کھول کر وشہ نے دیار کو دیکھا۔ تو دل میں پھوار سی برسی۔ دل تو شکر کے سجدے میں گرا کہ دیار بالکل ٹھیک ہے۔ بہت دعائیں کی تھیں اس نے کہ دیار خیریت سے واپس آجاۓ۔

دیار اس کی آنکھوں میں جھانک لیتا تو اس کا دل پڑھ لیتا۔تبھی فورا سے پہلے وشہ اپنی آنکھیں دوسری سمت کرگئ۔

"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ۔ آتے ہی آپ نے ہمیں تنگ کرنا شروع کردیا۔بتائیں کونسا طوفان آگیا ہے۔جو آپ ہمیں جگارہے ہیں ۔۔!!" 

 وشہ نے سائیڈ سے دوپٹہ اٹھا کر سر پر لیا۔ دیار نے اس کے سوال پر ابرو اچکائیں۔ پھر اپنے بیڈ کو دیکھا۔

"سلام دعا کرنا مجھے پتہ ہے آپ کو پسند نہیں۔ نہ ہی کسی کا حال چال پوچھنا آپ کو پسند ہے۔ تو اس کی توقع مجھے تھی بھی نہیں جانم۔ !!!

 آپ بھول رہی ہیں کہ آپ اس وقت میرے بیڈ پر سوئ ہیں۔ جو میرا ذاتی ہے۔ میں تھکا ہوا واپس آیا ہوں تو بہتری اسی میں ہے کہ اٹھیں اور جاکر پانی لائیں میرے لیے اتنا تو کرہی سکتی ہیں آپ۔ آخر مسلمان جو ہیں۔ پانی دینے پر بھی انکار کرنا آپ کو زیب نہیں دے گا۔ تو جائیں پانی لائیں اور مجھے کچھ دیر سونے دیں۔۔!!!"

 بےمروتی کی انتہا کردی دیار نے تبھی دانت کچکچا کر وشہ بھی کمفرٹر سائیڈ پر کرگئ۔اب غصہ بھی تو دکھانا تھا۔ پر پانی نہ پوچھنے پر شرمندگی اسے بھی تھی۔ تبھی خاموشی سے وہ اٹھنے لگی ۔

پاؤں جوتے میں اڑس کر وشہ سنبھل کر کھڑی ہوئ۔چوٹ کا درد اسے شدید محسوس ہوا۔آخر اتنے دنوں سے وہ اپنا پراپر خیال جو نہیں رکھ پائ تھی۔ تو اس کے چہرے پر بھی تکلیف کے آثار آۓ۔ 

وہیں دیار جو لاپرواہ بن کر کھڑا تھا اس نے وشہ کو لڑکھڑاکر چلتے دیکھا تو فورا سے پہلے آگے بڑھ کر اسے سہارا دینے لگا۔

"کیا ہوگیا ہے آپ کو۔ میری جان لڑکھڑا کر کیوں چل رہی ہیں آپ۔آرام سے۔ "

اس نے تڑپ کر پوچھا۔دل تو وشہ کا بھی آج اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا کیا۔ یہ کھیل وہ بھی نہیں کھیل پارہی تھی۔ پر انا کا کیا کرتی جو بیچ میں آگئ۔ 

"ہاتھ مت لگائیں ہمیں۔ ہم ٹھیک ہیں۔ بس معمولی سا زخم ہے۔ بھر جاۓ گا۔۔۔!!! چھوڑیں ہمیں۔ کیوں سکون سے نہیں رہنے دیتے آپ ہمیں" اس نے چڑکر کہا۔ تو دیار کے چہرے پر بھی غصہ آیا۔

"اتنا سکون کافی نہیں ہے کیا۔اور کتنا سکون چاہیے آپ کو۔۔!!! کیا کیا ہے آپ نے اپنے ساتھ۔غصہ مجھ پر تھا تو میرا منہ توڑتی نا آپ ۔خود کو تکلیف کس کی اجازت سے دی ہے آپ نے۔"

دیار کی آواز میں غصہ تھا۔تبھی وشہ بھی لرز اٹھی۔ اس کا دل ڈوبا جو دیار نے بھی محسوس کیا۔ تبھی اپنا غصہ وہ پی گیا۔ اور اسے خود سے لگاگیا۔

"اوکے فائن۔ کچھ نہیں کہہ رہا میں۔ اگر چوٹ لگی تھی تو آپ کو چاہیے تھا سب سے پہلے مجھے بتاتیں۔میں آجاتا آپ کے پاس۔ پتہ نہیں آپ کب سے اپنے سارے کام خود کررہی ہیں۔اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا ۔!!!" 

اس نے پیار سے اسے واپس بیڈ پر بٹھایا۔ جو ڈر گئ تھی اس کے غصے سے تبھی چہرہ موڑ گئ۔ پر اس کے ہاتھوں میں لرزش تھی جس سے اس کے اندر کی کیفیت دیار نے جان لی۔

"ہ۔ہم کیوں بتائیں آپ کو۔ آپ ڈاکٹر تھوڑی ہیں۔ اور ہم ٹھیک ہیں۔ یہ چھوٹی موٹی چوٹیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ ہمیں آئندہ جان مت کہیے گا۔ ورنہ ہم آپ کی جان نکال لیں گے۔اور ہاتھ بھی نہ لگائیے گا ہمیں"

دیار نے ہاتھ اس کے پاؤں پر بندھی پٹی پر رکھا تو وہ فورا پاؤں پیچھے کرگئ۔ اسے برا لگا کہ دیار کیوں اتنا جھک رہا ہے۔اتنا جھکنا اسے زیب نہیں دے گا۔تبھی اس نے چڑکر کہا۔

"تو نکال لیں جان۔ میری جان نے جان نکال بھی لی تو کیا جاۓ گا میرا۔ میری جان آپ کے دیار کی جان آپ کی ہی ہے۔ جب چاہیں نکال لیجۓ گا۔اور آپ کو ہاتھ لگانے سے پہلے مجھے آپ کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں۔ تو یہ بات بھی یاد رکھیں۔جہاں بات آپ کی تکلیف کی ہوئ میں آپ کی اجازت بھی نہیں لوں گا۔۔!!! کب لگی تھی چوٹ ۔؟؟؟"

اس کا پاؤں اس نے پھر سے اپنے ہاتھ میں لیا۔اور سویلنگ چیک کرنے لگا جو کافی زیادہ تھی۔ وشہ نے آنکھیں میچیں۔ دیار اسے اپنے سامنے جھک کر تکلیف دے رہا تھا پر وہ اسے بتاتی کیسے۔

"آپ جب گۓ تھے تب لگی تھی۔"

 اس نے جواب دے ہی دیا۔تو ایک نظر اس کے چہرے پر ڈال کر دیار اٹھ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

"ایک کام کرتے ہیں کچھ دیر کے لیے بھول جائیں کہ ہم دونوں کا نکاح ونی میں ہوا ہے۔ اور آپ کو مجھ سے نفرت ہے۔آپ بس اتنا یاد رکھیں کہ ہم دونوں میاں بیوی ہیں۔ یا مجھے اپنا دوست سمجھ لیں۔ وعدہ رہا ہم جو بھی بات کریں گے بعد میں بھول جائیں گے۔۔!!!" 

 دیار کے ذہن میں یہی ترکیب آئ۔ لیکن وشہ خاموش رہی۔ 

"درد کی وجہ سے سورہی تھیں آپ۔ میں نے آپ کو جگاکر آپ کا درد پھر سے تازہ کردیا۔ پر پرامس آپ کو ٹھیک بھی میں ہی کروں گا۔۔۔!!! آئس کریم کھائیں گی ۔!!" 

دیار نے اسے خاموش دیکھا تبھی خود ہی دوبارا اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لے گیا۔ اس نے اس بار بھی ہاتھ کھینچا۔ پر مزاخمت بہت کمزور تھی۔ جیسے وہ بھی یہی چاہتی تھی پر ظاہر نہیں کرنا تھا اسے۔

"نہیں کھانی ہمیں کوئ آئس کریم۔اور کچھ نہیں ہوا ہمیں۔۔۔!!"

خفگی کا مکمل اظہار کیا گیا۔ اس انکار پر دیار نے اپنا فون نکال کر ملازمہ کو میسج کردیا کہ فریج سے آئس کریم نکال کر لےآۓ۔ یہ اس کا شروع کا معمول تھا جب اسے کمرے سے باہر نہیں جانا ہوتا تھا تب وہ یونہی میسج کرکے ہی اپنی ضرورت کا سامان منگوالیتا تھا اور ملازم بھی اس کے گھر میں آنے کے بعد الرٹ رہتے کہ کبھی بھی کوئ بھی حکم آسکتا ہے۔

"پر چہرہ تو آپ کا کچھ اور بتارہا ہے وشہ۔۔!!! چلیں نہ کھائیے گا آپ آئس کریم۔ لیکن آپ کی طبیعت سچ میں خراب لگ رہی ہے مجھے۔ آج سے طے ہوا۔ چاہے آپ کو مجھ سے انتہا کی نفرت کیوں نہ ہوجاۓ آپ کو جب بھی کوئی بھی مسئلہ ہوا آپ مجھے کال کریں گی۔اپنا درد اکیلے سہنے کی اجازت آپ کو میں نہیں دوں گا۔ ہم چاہیں ایک دوسرے سے بہت ناراض ہوں آپ کبھی بھی کوئ بات نہیں چھپائیں گی مجھ سے ۔وعدہ کریں!!!"

اس نے وشہ کے ہاتھ کو دونوں ہاتھوں سے تھاما۔  پھر وعدہ بھی مانگ لیا۔ وشہ اب بھی خاموش تھی۔ لیکن دیار کے چہرے کی جانب دیکھ کر وہ کچھ دیر چپ رہی۔

" ٹھیک ہے وعدہ رہا ہم آپ کو بتادیا کریں گے۔ پر آپ اپنا چھچھوڑا پن ہمارے سامنے قابو میں رکھیں گے۔ آئندہ جان، عزیزم، جانم جیسے الفاظ آپ ہمارے لیے استعمال نہیں کریں گے ۔ یہ وعدہ بھی کریں۔۔!!! "

 اس نے بظاہر احسان کیا پھر اپنی انا بچانے کے لیے اس سے وعدہ مانگا۔ جس کے چہرے پر لطیف سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوگئی۔

"ابھی وہ والا دیار چھٹی پر گیا ہے۔ میں آپ کا دوست دیار ہوں تو آپ کے شوہر دیار کا کوئ حق میں نہیں چھین سکتا۔ وہ بیچارا کیا کرے گا اگر اسسے اس کی بیوی سے پیار کرنے کا حق ہی چھین لیا گیا تو۔ نہیں یہ ظلم مجھے نہیں کرنا۔ " 

مسکراتے ہوئے اپنا مطلب نکال کروہ پھر وہاں سے اٹھ گیا دروازہ ناک ہوا تھا تبھی وہ آئس کریم لینے چلا گیا۔

وشہ نے منہ بنایا۔اسے اسی جواب کی امید تھی ۔

"آپ تو اب کھائیں گی نہیں تو میں ہی کھالیتا ہوں۔بہت مزے کی ہے۔شام کے وقت آئس کریم کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ آپ کھائیں گی کیا ۔!!!"

 اس نے باؤل پکڑا اور ایک سپون کھاتے ہی اسے بھی آفر کی۔ جس کا دل تو چاہ رہا تھا پر وہ کہتی کیسے وجہ تھی وہی انا ۔۔!!!

"نہیں کھانی ہمیں۔ ہم صوفے پر سوجائیں گے آپ اپنا بیڈ سنبھالیں۔!!" 

دانت پیس کر وشہ اٹھی پھر درد کی وجہ سے واپس بیٹھ گئ۔ اسی وقت دیار بھی باؤل کے ساتھ ہی اسکے پاس آکر بیٹھ گیا۔

" آپ آرام سے سوئیں جانم۔۔!! یہ کمرہ اور آپ کے سامنے بیٹھا بندہ دونوں آپ کے ہیں۔ صوفے پر میں سوجاؤں گا۔ آپ آرام سے یہیں بیٹھیں اور کھاکر بتائیں کیسی ہے یہ۔۔!!! میرا فیورٹ فلیور ہے یہ آپ کو کیسا لگا ۔!!!" 

وشہ کی آنکھیں اس پر بھٹک کر رکیں کوئی اتنا اچھا کیسے ہوسکتا ہے کہ کڑوی باتوں کو بھی سہہ لے ۔ پھر اس نے اپنی طرف بڑھا سپون دیکھا تو گہرا سانس خارج کرکے کھالیا۔

دیار مسکرایا اسے لگا تھا وہ کہے گی کہ وہ کیوں اس کا جھوٹا کھاۓ گی۔ کچھ تو وہ برا کہے گی۔ پر وشہ نے تو ایسا سوچا ہی نہیں تھا۔ دیار کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ اسے اتنا بھی ناپسند نہیں ۔

تبھی اس نے اب باقی کی آئس کریم بھی اسے ہی کھلانا شروع کی۔ جو کوئ احتجاج نہیں کررہی تھی بیچ میں وہ خود بھی کھارہا تھا اور اس کی باتیں بھی جاری تھیں پر وشہ ہنہہ کے علاؤہ کچھ نہیں کہہ رہی تھی۔ 

"چلیں اب واپس سے سوجائیں آپ۔۔۔!!! "

 آئس کریم ختم ہوتے ہی اس نے باؤل ایک طرف رکھ دیا اور اسے لیٹنے کا اشارہ کیا۔جس نے نفی میں سرہلادیا۔ تو اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

"کچھ چاہیے ۔۔۔!!!" اس نے پوچھنا ضروری سمجھا۔ تو وشہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ 

"آپ نے جیسے کہا ہے کہ ہم ابھی جو بھی کررہے ہیں آپ یا ہم اس بات کا طعنہ نہیں دیں گے ایک دوسرے کو۔ابھی ہم نے آپ کی بات مان کر آئس کریم کھائ اب آپ بھی ہماری بات مانیں۔ پر وعدہ کریں بھول جائیں گے آپ اس بات کو !!" 

اس نے کچھ سوچ کر دیار کو یاد دلایا کہ ابھی کیا ڈیل ہوئ تھی۔ جو آگے اس کی بات سننے کو متجسس تھا۔

"نہیں کہوں گا میں کچھ بھی۔ بولیں کیا ہوا ہے ۔!!!"

 اس نے اسے تسلی دی۔ تو وشہ نے ہمت جمع کی پھر اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ جو چونکا پھر نرمی سے اسے اپنے حصار میں لے گیا۔

"ہمیں اتنے دنوں سے نیند نہیں آرہی صحیح والی۔ بہت درد ہوتا ہے پاؤں میں۔آپ ہمیں سلادیں۔ ہم کبھی نہ آپ سے کہتے یہ سب۔پر ہمارا حق ہے آپ پر۔ آپ پلیز ہمیں اس بات کا طعنہ نہ دینا۔ 

پر ہم بہت تکلیف میں ہیں۔ اور کسی سے کہہ بھی نہیں سکتے۔ہم نے نیند کی دوا بھی کھائ تھی پر اس کا بھی صحیح اثر نہیں ہوتا ہم پر۔پلیز ہماری مدد کردیں۔۔!!!" 

وشہ نے التجا ہی کی تھی۔اپنے ہی شوہر سے اتنی سی بات کرتے بھی اسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ مزاق نہ بناۓ اس کا۔

پر دیار کو خود بھی برا لگا کہ ابھی تک وہ اسے وہ اعتماد نہیں دے سکا جو اس کا حق ہے۔کاش وہ حکم کرتی التجا نہ کرتی ۔۔!! وہ اسے خود میں بھینچ گیا ۔ وشہ جانتی تھی محبت کے روگ نے نیند بھی چھین لی ہے اس کی۔

" جو حکم آپ کا جانم ۔۔!!! آپ حکم کیا کریں بس۔التجا کرنے کو میں ہوں۔ کب سے نیند نہیں آرہی آپ کو۔ اور نیند کی دوا کیوں کھارہی ہیں آپ۔ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے آئندہ ہاتھ نہ لگائیے گا ایسی کسی بھی دوا کو۔ 

عادت ہوجاۓ تو بعد میں مسئلہ ہوتا ہے۔ اور اگر میرے ہوتے آپ کو ایسی کسی چیز کا سہارا سکون کے لیے لینا پڑے تو کیا فایدہ میرا یہاں ہونے کا۔!!! " 

اس نے اس کے سر پر بوسہ دیا۔ وشہ کی تکلیف اسے بھی شدت سے محسوس ہوئ پھر خود پر غصہ بھی آیا کہ کیوں وہ بے خبر تھا اس سے۔ 

" بہت دن ہوگۓ ہیں۔۔!!! یہاں گھٹن محسوس ہوتی ہیں ہمیں۔ تنہائ بھی اور ڈر بھی لگتا ہے۔  پتہ نہیں کیوں پر ہم سو نہیں پاتے ٹھیک سے۔دو سے تین پلز کھائ تھیں دوپہر میں تب جاکر تھوڑی سی نیند آئ پر اب وہ بھی اڑ گئ ہے !!!" 

وشہ کا جواب سن کر دیار نے لب بھینچے۔ اسے کیا پتہ تھا وہ اپنی ہی بات کا روگ لگا کر بیٹھی ہے۔ وہ بھی پاگل تھی پہلے خود دیار کو تکلیف دیتی پھر اس کا بدلہ بھی خود سے لیتی۔

" آئندہ نیند نہ آۓ تو آپ سیدھا مجھے بتادینا۔ اور نیند کی دوا آپ کے پاس نہ ملے مجھے۔حق ہے آپ کا مجھ پر۔ اور رہے گا بھی ہمیشہ۔۔!!! اب پر سکون ہو جائیں ۔ بالکل نہیں ڈرنا اور نہ ہی اب زیادہ سوچنا ہے۔ میرے ہوتے ہوئے باکل نہیں ڈرنا آپ نے۔۔۔!!!" 

دیار کی بات سن کر وشہ نے بھی آنکھیں بند کرلیں۔ دیار کی موجودگی میں اسے بھی سکون ہی محسوس ہورہا تھا۔ تبھی کچھ ہی دیر میں وہ سوگئ۔ جو سکون اسے بڑی بڑی نیند کی دوائیاں نہیں دے پارہی تھیں وہ سکون اسے دیار کی موجودگی نے دے دیا۔ محبت میں اتنا دم تو ہوتا ہے۔۔۔!!!

دیار نے وعدہ کیا تھا اس سے کہ وہ دوبارہ اس بات کا ذکر بھی نہیں کرے گا تو وہ کبھی بھی نہ کرتا۔

اس کے سوتے ہی اس نے اسے بیڈ پر لٹادیا۔ اور خود بھی اس کے پاس ہی سوگیا۔ تھک تو وہ بھی گیا تھا تو اسے بھی نیند آگئ۔ وہیں وشہ بھی اتنے دنوں بعد سکون سے سو چکی تھی۔ 

 زرلشتہ بیڈ پر صدمے سے لیٹی ہوئ تھی۔ جو  خود ساختہ وہم اس نے پالا تھا اس بیچاری کے دماغ پر بری طرح سوار ہوچکا تھا۔ وہ ابھی تک یہی سوچ رہی تھی کہ اگر اس کا شوہر جو اب اس کا کیوٹ پٹھان بن چکا ہے اگر اس کی بجاۓ کسی اور لڑکی کا دیوانہ ہوگیا تو وہ کیا کرے گی۔ 

" درمان کیا سوجھی تھی آپ کو کہ آپ نے مجھے دھوکہ دینے کا سوچ لیا۔ کیا میں پیاری نہیں ہوں کیا آپ کے معیار پر پورا نہیں اترتی ۔ ہاں یہ تو سچ ہے میں آپ کے معیار پر پورا نہیں اترتی آپ کا معیار تو اتنا بلند ہے اور میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ میری تو پڑھائ بھی ادھوری رہ گئ تھی۔ 

اور میرے تو بھائ سے بھی آپ نفرت کرتے ہیں۔ اگر کوئ صدف کنول جیسی لڑکی کام کے دوران میں میرے درمان کو مل گئ تو وہ مجھے مڑ کر دیکھیں گے بھی نہیں ۔ آنکھیں پھیر لیں گے اور مجھے چھوڑ دیں گے۔ پھر میں بھی اپنا گھر برباد ہونے پر روتی رہوں گی۔۔!! یا اللہ میری زندگی کے شہروز کو میرا ہی رکھنا۔ انہیں میں کسی کے ساتھ نہیں بانٹ سکتی۔۔۔۔!!!" 

زرلشتہ نے پھر سے وہی سب سوچا اور تھک کر اٹھ گئ۔ پھر سائیڈ سے تکیہ اٹھاکر اس نے اپنی گود میں رکھا اور گیلری اوپن کرکے درمان کے ساتھ اپنی تصویریں دیکھنے لگی۔

" میں ان کے قابل ہوں ہی نہیں ۔ یہ بالکل کسی ریاست کے شہزادے ہیں نیلی آنکھوں والے۔۔۔!!!مغرور ،دل موہ لینے والے سب سے پیارے۔ اور میں اممیچور، پاگل، بیوقوف اور بیمار لڑکی۔ جو اتنی بڑی ہوگئ ہے پھر بھی دوسروں کو اس کی کیئر کرنی پڑتی ہے۔ میں تو انہیں کوئ خوشی بھی نہیں دے پائ۔ بس ٹینشنز ہی دیں ہیں میں نے انہیں۔ میرے کھانے تک کا خیال رکھنا پڑتا ہے انہیں ۔ وہ یقینا مجھ سے اکتا گۓہوں گے۔۔!!"

اس نے فون آف کرکے سائیڈ پر رکھ دیا اور تکیے میں چیرہ چھپا کر رونے لگی۔ تب دروازے پر دستک ہوئ ۔تو اس نے اپنے آنسو صاف کرکے دروازے کی طرف دیکھا کہ شاید درمان آگیا ہو۔ 

پیاسی آنکھوں کو اس کی دید کی ہی طلب تھی۔اس معصوم سی لڑکی کو تو درمان نے ہی اپنا دیوانہ بنایا تھا اب وہ کیا کرتی۔

" بی بی جی آپ کا کھانا۔۔!! آپ نے دوپہر سے کچھ نہیں کھایا۔ آپ پلیز یہ کھالیں۔ آپ کی طبیعت بگڑ گئ تو صاحب ناراض ہوں گے۔۔۔!!! آپ رو رہی ہیں کیا۔۔!!!" 

ملازمہ نے کھانے کی ٹرے اس کے سامنے رکھی ساتھ ہی اسے تلقین کی کیونکہ بھوکا رہنا اس کے لیے ایسے ہی تھا جیسے وہ خود پر ظلم کررہی ہو۔ زرلشتہ کو آج بالکل بھی بھوک نہیں لگی تھی۔ اس کی تو بھوک ہی مرگئ تھی۔ اس نے نفی میں سریلادیا۔

" مجھے تھوڑی سی بھی بھوک نہیں ہے آپ لے جائیں اسے واپس۔۔!! میں بس سونے ہی لگی ہوں۔" 

تکیہ اس نے سائیڈ پر رکھا اور لیٹنے لگی۔ ملازمہ اس کے بدلے تیور دیکھ رہی تھی۔ یہ لڑکی چھوٹے سے جواب دینے والی نہیں تھی۔ بہت فرینڈلی نیچر تھی اس کی۔ تو آج یہ مرجھائ ہوئ کیوں ہے۔ اسے فکر ہوئ۔ 

" بی بی جی کوئ مسئلہ ہے تو مجھے بتادیں۔ لیکن کھانے کو انکار نہ کریں۔ ایسے اللہ بھی ناراض ہوجاتا ہے۔ کبھی بھی کوئ بھی مسئلہ ہو ، کوئ بھی پریشانی ہو کھانے کو انکار نہیں کرنا چاہیے ۔!!! آپ بھی کھانے کو انکار نہ کریں سب ٹھیک ہوجاۓ گا " 

ملازمہ نے نرم سے لہجے میں کہا تو وہ واپس سے اٹھ بیٹھی اور اپنے آنسو رگڑ کر صاف کیے۔ اس کی چھوٹی سی ناک رو رو کر لال ہوچکی تھی۔ اسے اپنا آپ بالکل فضول لگنے لگا تھا۔ جس کی کوئ ویلیو ہی نہیں۔

" مجھے بہت بے چینی ہورہی ہے شیف آنٹی ۔۔!! دل بہت عجیب سا ہورہا ہے۔ کچھ بھی کرنے کو دل نہیں کررہا ۔ اور درمان بھی مجھ سے بات نہیں کررہے۔ آپ بتائیں میں ایسا کیا کروں کہ مجھے سکون مل جاۓ۔ وہ تو میرا فون بھی نہیں اٹھا رہے۔ انہیں اب میری فکر نہیں رہی ۔!!" 

 بڑی مشکل سے زرلشتہ نے اپنے آنسو روکے اور اسے دیکھ کر اپنا مسئلہ مختصراً اسے بتادیا۔ جسے سچ میں اس کی حالت خراب لگی تھی۔ تبھی اس ملازمہ نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ وہ تھی ہی اتنی پیاری کہ کوئ بھی اس کا درد آسانی سے اپنے دل میں محسوس کرلیتا۔

" بیٹا آپ اگر بےچین ہو تو نماز پڑھو۔ اللہ سے دعا کرو۔جو آپ کو بےچینی ہے اسے اللہ سے بانٹو۔ انسان تو ہماری بات سننے سے انکار کر دیتے ہیں پر اللہ کبھی ہماری بات سننے سے انکار نہیں کرتا۔ لوگوں سے بات کرنے کے لیے ہمیں ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پر وہ تو ہمیشہ اپنے بندے کر انتظار میں رہتا ہے۔ 

بیٹا آپ وضو کرکے کوئ دوسرے کپڑے پہنو اور پھر نماز پڑھ کے اللہ سے دعا کرو دیکھنا وہ آپ کے لیے ایسی آسانی پیدا کرے گا جو آپ کو بھی حیران کردیں گی۔ اپنے دل کو اس کے سامنے کھولوں وہ آپ کے دل پر لگے سارے زخموں پر مرہم رکھ دے گا۔ میں کھانا یہیں رکھ کر جارہی ہوں۔ آپ کو اس وقت اللہ سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔!!! 

آپ نماز پڑھو، پھر کھانا کھاکر سوجاؤ۔ صاحب اس وقت مصروف ہوں گے جب بھی انہیں وقت ملا وہ آپ کو فون کرلیں گے۔ ٹھیک ہیں ۔۔!!!" 

انہوں نے زرلشتہ کو اسی کے انداز میں سمجھایا تو وہ بھی کسی سوچ میں پڑ گئ ۔ نماز تو وہ پڑھتی تھی پر باقاعدگی سے نہیں کبھی کبھی۔ وہ بھی بس خانہ پوری کے لیے۔ کبھی اپنا درد وہ جاۓ نماز پر بیٹھ کر اللہ سے بانٹے اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔!!! 

ملازمہ وہاں سے چلی گئ۔ تو زرلشتہ بھی بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ہوئ۔ اس نے خود کو دیکھا وہ آف وائٹ سلیپنگ سوٹ پہن کر کھڑی تھی۔ شرٹ اور ٹراؤزر ۔۔۔!!! بال بھی کھلے ہوۓ تھے۔ اس حلیے میں نماز تو نہ ہوتی ۔

اپنی حالت سنوارنے کے لیے پہلے وہ واش روم گئ۔ ڈریس چینج کرکے اس نے وضو کیا۔ پھر اپنی چادر جو اس نے نماز کے لیے ہی رکھی تھی وہ حجاب کی صورت میں لپیٹ کر اس نے جاۓ نماز بچھائ۔ 

 اپنے فرنچ کٹ بال وہ ہیئر بینڈ کی مدد سے پہلے ہی پیشانی سے ہٹا چکی تھی۔ روئ ہوئ آنکھیں اب بھی برسنے کو تیار تھیں ۔

اس جیسے معصوم لوگ بھی بہت کم ہی پاۓ جاتے ہیں۔جو خود ساختہ وہم کو بھی اتنا سیریس لے لیں جیسے اس کا سچ میں کوئ وجود ہو۔ 

نماز مشکل سے ہی اس نے پڑھی کیونکہ بیچ میں ہی اسے چکر آنے لگے تھے۔ کھانا نہ کھاکر جو ظلم وہ اپنے ساتھ کررہی تھی اس کے ری ایکشن بھی تو  سامنے آنے ہی تھے۔

نماز مکمل کرکے اس نے اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھاۓ۔ تو بے ساختہ وہ روپڑی۔ کب کا خود پر باندھا ہوا ضبط اب ٹوٹ گیا۔

" یااللہ آپ تو جانتے ہیں نا درمان میرے شوہر ہیں۔ میں پیار کرتی ہوں ان سے۔ شوہر سے پیار کرنا تو جائز ہوتا ہے نا اس سے گناہ تو نہیں ملنا نا۔ تو اللہ تعالیٰ آپ ان کے دل میں بھی میرے لیے نرمی پیدا کردیں۔ مجھے انہیں کھونے سے ڈر لگتا ہے۔ میں نے ہمیشہ آپ سے ایسا انسان مانگا تھا جو مجھے پرنسس کی طرح رکھے۔ مجھے ویلیو دے اور آپ نے مجھے ویسا ہی پارٹنر دیا ہے۔ پر میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اگر اسے بانٹنا پڑا تو میں کیا کروں گی ۔۔!! یااللہ مجھے انہیں کسی کے ساتھ نہیں شیئر کرنا ۔۔!!!" 

روتے ہوۓ اس نے فریاد کی۔ اس کی دعائیں بھی اس جیسی ہی تھیں معصوم سی ۔!!!

اس وقت وہ جتنی معصوم لگ رہی تھی کوئ دیکھ کر یقین ہی نہ کرتا یہ وہی لاپرواہ سی زرلشتہ ہے جسے کسی بات سے فرق نہیں پڑتا۔ اس نے اپنے دل کا حال اپنے مالک کے سامنے رکھا۔

" یااللہ پلیز درمان میرے علاؤہ کبھی کسی دوسری لڑکی کو پسند نہ کریں۔ اگر کوئ اور ان کے پاس آگئ تو میرا کیا ہوگا پھر ۔۔۔!!! میں کیا کروں گی تب ۔۔!!! یااللہ ان کی ساری توجہ پر تو میرا حق ہے نا۔

 تو پلیز آپ انہیں ان کے گرد منڈلارہی ساری لڑکیوں کے شر سے محفوظ رکھنا۔ وہ جب بھی کسی لڑکی کو دیکھیں تو انہیں یاد آۓ کہ ان کی بیوی گھر میں ان کا ہی انتظار کررہی ہے۔ جس سے وہ پیار کرتے ہیں۔ پھر وہ میرے علاؤہ ساری لڑکیوں کو اپنی بہن سمجھیں ۔۔!! الٰہی آمین۔۔!!!" 

 دعا مانگ کر اس نے جاۓ نماز تہہ کرکے اس کی جگہ پر رکھ دی۔ اور خود بیڈ پر بیٹھ کر اپنا کھانا دیکھنے لگی۔ جو اسے کھانا ہی تھا۔ اللہ کے حضور جھکنے کی وجہ سے اس کا دل سکون میں آگیا تھا تبھی وہ اب کھانا کھانے لگی۔ 

بعد میں اسے میڈیسن بھی لینی تھی اور سونا بھی تھا۔ درمان کی دوسری شادی اور اپنی ساری ٹینشنز اس وقت اس کے ذہن سے کہیں غائب ہوگئ تھیں ۔ یہ اسی سکون کا اثر تھا جو نماز پڑھنے سے اور اللہ سے باتیں کرنے سے ملتا ہے۔ 

کھانا ختم کرکے اپنی میڈیسن لے کر وہ بغیر کچھ بھی الٹا سیدھا سوچے سونے کے لیے لیٹ گئ۔ اسے نیند کی ضرورت تھی۔ 

وہیں دوسری طرف درمان سارا دن آفس کی وجہ سے اتنا تھک گیا تھا کہ اپنے فلیٹ میں آتے ہی وہ سیدھا سونے کے لیے چلا گیا۔ رات کافی ہورہی تھی اور اسے لگا اس کی مصیبت بھی سوگئ ہوگی تو اسے اس وقت تنگ کرنا مناسب نہیں ۔ وہ اب کل ہی بات کرے گا اس سے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" حد ہوتی ہے کسی بات کی ایک طرف یہ لڑکی ہے جو ہوش میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور دوسری طرف میں ہوں جسے بےقصور ہوتے ہوتے بھی اس جلاد صفت ڈاکٹر نے اس ہاسپٹل میں قید کرکے رکھا ہے۔ بڑے بوڑھے صحیح کہتے تھے جو شادی کا لڈو کھاۓ وہ بھی پچھتاۓ اور جو نہ کھاۓ وہ بھی پچھتاۓ۔۔!!! یشاور کاش تم یہ لڈو کھاکر پچھتاتے تو آج تمہیں اتنا دکھ نہ ہوتا جو بے قصور ہوتے ہوئے ڈومیسٹک وائیلنس کا الزام لگنے کی وجہ سے ہورہا ہے۔" 

یشاور نے دونوں ہاتھ اوپر سے گزار کر سر کے نیچے رکھے اور آنکھیں بند کرگیا۔ پھر اس نے تھک کر وہ سوچا جو اتنے دنوں سے اس کے ساتھ ہورہا تھا۔ اس بیچارے کا شناختی کارڈ اس ہاسپٹل والوں نے ضبط کرکے رکھا تھا کہ لڑکی کے ہوش میں آنے کے بعد پوری تفتیش کرکے ہی کارڈ واپس کیا جاۓ گا۔

" ایک کام کرتا ہوں مورے کو ہی بلالیتا ہوں کہ وہ آئیں اور مجھے اس مشکل سے نکالیں۔ میں تنہا اس شادی والے الزام سے نہیں نکل پاؤں گا۔۔۔!!! ان لوگوں کی نیت اچھی نہیں ہے کہیں ہاسپٹل کے سارے مریضوں کو جمع کرکے یہ میری بارات نہ بنادیں اور مجھے یہیں سے ہمیشہ کے لیے نکاح کے رشتے میں قید نہ کردیں۔۔!! توبہ میں نہیں کروں گا کوئ نکاح وغیرہ ۔۔!!" 

بڑبڑاتے ہوۓ یشاور نے فون نکالا اور اپنے بابا کا نمبر ڈائل کیا۔ کیونکہ اس کی ماں کو اس کے پاس بھیجنا تو انہوں نے ہی تھا۔

اس کے بابا ہمیشہ کی طرح اپنی ہی دولت کی تجوریوں کو مزید بھرنے کے طریقے سوچ رہے تھے۔ جو ان کا کام تھا۔حرام اکٹھا کرکے بس خود کو امیر سے امیر بناتے جانا۔ 

جب یشاور کی کال دیکھ کر انہوں نے مصروف سے انداز میں کال اٹھائ۔ ان کا بیٹا کہاں تھا وہ نہیں جانتے تھے نا انہوں نے جاننے کی کوشش کی تھی۔ اب اس کا فون آتا دیکھ کر انہیں یہی لگا کہ اس کی عقل ٹھکانے اگئ ہوگی اور اس نے پیسے مانگنے کے لیے ہی فون کیا ہوگا۔

" آگئ باپ کی یاد تمہیں۔۔!! مجھے تو لگا تھا اب تم ساری زندگی مجھے کال نہیں کرو گے۔ نا ہی مجھ سے کوئ رابطہ رکھو گے۔ ہوسکتا ہے اپنے بلبوتے پر کچھ بننے کا سوچ بھی چکے ہو۔ پر اچھا ہوا تمہیں وقت ہر عقل آگئ کہ ضمیر وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ 

ساری اہمیت بس پیسے کی ہے۔ جس کی جیب میں پیسہ ہے وہ معتبر ہے باقی سب بیکار ہے۔ اچھا بتاؤ کتنے پیسے چاہییں تمہیں۔ میں بھیج دیتا ہوں۔۔!!!" 

تمسخر بھرا انداز تھا ان کا۔ انہوں نے اپنی غیر قانونی فیکٹریوں سے آۓ مال کا ریکارڈ دیکھتے ہوۓ یشاور کے اندر زہر انڈیلا ۔ جو بس ان کی بات کو اگنور کرگیا۔

" اپنے پیسے سنبھال کر رکھیں باباجان۔۔۔!! مجھے ضرورت نہیں ہے ان کی۔ کبھی اے ٹی ایم مشین کی بجاۓ میرے بابا بن کر بھی مجھ سے بات کرلیا کریں۔یقین جانیں مجھے اپنے باپ سے بات کرنی تھی۔ لیکن میں بھول گیا کہ آپ میرے بابا بعد میں پہلے پیسے گننے والی مشین ہیں۔

 مورے کی ضرورت ہے مجھے اس وقت۔ انہیں میرے پاس بھیج دیں ایڈریس میں آپ کو سینڈ کردوں گا۔ جتنی جلدی ہوسکے بس انہیں میرے پاس بھیج دیں اور اپنے پیسوں کا رعب کسی اور پر جھاڑیے گا آج کے بعد۔کیا فایدہ ایسے پیسوں کا جو آج تک مجھے سکون ہی نہ دے سکا۔ ماں تک چھین لی جس نے میری ۔!!!

مجھے مزید کچھ نہیں سننا نا ہی کچھ کہنا ہے بس میری مورے کو میرے پاس بھیج دیں ۔ اللہ حافظ ۔۔!!!"

یشاور نے بےرخی سے کال کٹ کردی ۔ دوسری طرف دلاور خان نے فون کو گھورا کہ ابھی تک یشاور کا دماغ ٹھکانے نہیں ایا۔ انہیں یاد تھا اس بغاوت کی وجہ سے جو یشاور نے ان سے کی تھی وہ اس کے سارے کارڈز بند کروا چکے تھے۔ جب سے اس نے منہ موڑا تھا تب سے ایک پیسہ بھی اس نے کسی اکاؤنٹ سے نہیں نکلوایا تھا پھر آخر وہ اپنی شاہانہ زندگی کے بغیر کیسے رہ رہا ہے۔

" آجاۓ گی اس کی عقل ٹھکانے پر۔ ماں یاد آرہی ہے اسے۔۔!! ہنہہ ۔!! بس کچھ دن اور جب ہر چیز کو ترس جاۓ گا تو لوٹ کر میرے پاس ہی آۓ گا یہ۔۔!!!"

انہوں نے ہنکار بھرا۔ اور واپس سے اپنے کام میں لگ گۓ۔ 

دوسری طرف یشاور نے بھی اپنے باپ کی سوچ پر افسوس کیا۔ آج تک سواۓ پیسوں کے انہوں نے اسے دیا ہی کیا تھا۔ وہ تو اپنی ہی نظروں میں گرا ہوا انسان تھا۔ جسے عزت تک اس کے باپ کی حرام کی کمائی نہ دے سکی۔ 

"بھول ہے آپ کی بابا جان کہ مجھے واپس آپ اپنے غلیظ ارادوں کا حصہ بناسکتے ہیں اب۔ میں اب واپس آنے والا نہیں ہوں۔ 

آپ کی اس خودساختہ دنیا سے نکل کر میں نے جانا ہے کہ دنیا آخر ہے کیا۔ یہاں احساس, محبت،عزت، رشتے یہ سب بھی پایا جاتا ہے۔ پیسے کے علاؤہ بھی بہت کچھ ہے اس زندگی میں۔ جو زندگی میں جی رہا تھا وہ تو جہنم تھی۔ میں نے اپنی زندگی کے تیس سال جہنم میں گزاردیے۔ لیکن اب باقی کی زندگی مجھے سکون سے گزارنی ہے۔ حرام سے دور، سادگی میں ہی سہی لیکن سکون میں ۔۔۔!!!"

یشاور نے اپنی گزری زندگی یاد کی تو آنکھیں خود بخود نم ہوئیں۔ جسے اللہ نے ہدایت دینی ہو وہ اس کا دل چھوٹی سی نیکی سے ہی پلٹ دیتا ہے۔ اسے بدل دیتا ہے وہ۔

یشاور نے اس رات اس معصوم سی لڑکی کو بچاکر پناہ دے کر جو نیکی کی تھی اس کے بدلے اللہ اس کے دل کو پلٹ چکا تھا۔ جس کا احساس اسے آہستہ آہستہ ہوجاتا۔

وہ اسی کرسی پر آنکھیں موند کر بیٹھ گیا جہاں وہ پچھلے اتنے دنوں سے مستقل بیٹھا تھا کہ کب وہ لڑکی ہوش میں آۓ گی اور کب وہ اس پریشانی سے نکلے گا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" آپ کو یقین ہے نا کہ یہ وہی فائلز ہے جو ہم اتنے مہینوں سے ڈھونڈ رہا ہے۔ ہم کوئ غلطی نہیں کرسکتا اس وقت۔ آپ جانتی ہو۔ ہم کو اس کا اصل ٹھکانہ ڈھونڈنا ہے۔ جو اس کی کمائ کا دو چوتھائ حصہ ہے۔ اس خانہ خراب، حرام خور کمینہ  نے ہم کو اپنا پورا کاروبار کا ایک ایک چیز دکھادیا پر اس میں سے اس کو کس سے زیادہ فایدہ ہوتا ہے ہم کو یہ نہیں بتایا اس نے۔۔!!! ہم کو اب وار کرنا ہے اس پر اور پہلا وار خالی نہیں جانا چاہیے ۔ آپ سمجھ رہا ہے نا ہمیں ۔۔!!!"

بادل نے اپنے ہاتھ میں پکڑی فائلز دیکھی پھر آس پاس نظر دوڑا کر اپنے سامنے کھڑی سبرینہ بیگم سے تصدیق چاہی۔ وہ اپنا اگلا منصوبہ شروع کرنے والا تھا اب۔ پہلا اس کا مشن تھا دلاور کے سارے راز جاننا، پھر اس کے گھر والوں کو اس کے شر سے بچانا، اور آخر میں دلاور خان کو سلو پوائزن کی طرح آہستہ آہستہ مارنا۔

اس نے سالوں لگاکر اس کی حمایت حاصل کی۔ پھر یشاور اور معصومہ کو اس سے دور کرکے انہیں محفوظ کیا اور اب اسے دلاور خان کو تڑپا تڑپا کر مارنا تھا۔ 

سبرینہ بیگم نے سر ہاں میں ہلادیا ۔ پھر اپنے ہاتھ میں پکڑی ایک یو ایس بی ڈیوائس اس کی طرف بڑھائ جسے اس نے پکڑ لیا۔

" یہ ریکارڈنگ چند مہینے پہلے مجھے ملی ہے۔ جس میں وہ خود اپنے سارے حرام کے اڈوں کا ذکر کسی سے نشے کی حالت میں کررہا ہے۔ اس ریکارڈنگ کی مدد سے میں ان فائلز تک پہنچی ہوں یہی دلاور خان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔۔!!! 

آج تک اس نے لوگوں سے جتنا بھی پیسہ ہتھیایا ہے وہ سارا بھی اس نے اسی ایریے میں چھپاکر رکھا ہے۔ یہاں ہوسکتا ہے مزید بھی بہت کچھ ملے تمہیں۔ تم خود بھی اس پر سرچ کرو۔ ڈھونڈو کچھ نہ کچھ مزید اس کے خلاف تمہیں مل جاۓ گا۔۔۔!!! 

اسے کتے کی موت مارنا ہے تمہیں یہ کبھی نہ بھولنا تم۔ آسان موت اسے اگر تم نے دی تو ان سارے لوگوں کی روحوں کے مجرم ہوگے تم جو سالوں سے اس کے انجام کے انتظار میں ہیں۔۔۔!!!" 

بات بتاتے وقت ان کے حلق میں کانٹے چبھے۔ دلاور خان کے خلاف وہی اس کا ساتھ دے رہی تھیں۔ دلاور خان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ان کا بھی ہاتھ تھا۔ وہ دونوں بس معصومہ کی وجہ سے خاموش تھے۔ لیکن اس کے جاتے ہی اب انہیں بھی سکون مل گیا تھا کہ اسے کم از کم کچھ نہیں ہوگا۔

بادل خان نے وہ فائل اپنی قمیص کے اوپر پہنی ہوئ جیکٹ میں چھپالی اور چپ اپنی پاکٹ میں ڈال کر اس نے سنجیدگی سے آنکھیں جھپک کر انہیں تسلی دی۔

"آپ بے فکر رہو ہمارے ہوتے ہوئے اسے آسان موت آۓ گا بھی نہیں۔ ہم اس کے ساتھ وہ کرے گا کہ وہ نہ زندوں میں رہے گا نہ مردوں میں۔ " 

وہ پراسرار سا مسکرایا ۔ تو ان کے چہرے پر بھی سکون سا اترا۔

" کون نا زندوں میں رہے گا نہ مردوں میں رہے گا۔۔!! کسے تڑپا تڑپا کر مارنے والے ہو تم بادل خان ۔۔!!!" 

بادل ابھی پلٹنے ہی والا تھا جب اسے اچانک کسی کی آواز سنائ دی۔ سبریبہ بیگم بھی چونک گئیں کہ کہیں دلاور خان نے سب سن تو نہیں لیا۔ 

 بادل نے تھوک نگلا اور اپنے کریکٹر میں واپس آیا۔ پیچھے مڑکر اس نے دلاور خان پر ناگوار سی نظر ڈالی۔

" تم نہ زندوں میں رہے گا نہ مردوں میں رہے گا دیکھ لینا تم۔ ہم تم کو تڑپا تڑپا کر اس گندا مکھی کی طرح مارے گا جو کوڑے کے ڈھیر پر منڈلاتا منڈلاتا اسی کا بو سے مرجاتا ہے۔۔!! ذرا شرم نہ آیا تمہیں ہمارا بچی کو ونی کرتے ہوۓ۔

 اپنا بچہ بچانے کو تم معصومہ بچی کو ظالموں کو دے آیا۔ تم کو پتہ بھی ہے وہ کیا سلوک کررہا ہے اس کا ساتھ۔ جاہل انسان، باسی روٹی کا ٹکڑا ہے تم۔ جسے ہم پانی میں بھگو کر کسی بھینس کو کھلادے گا دیکھنا تم ۔!!!" 

وہ دلاور کو دیکھنے ہوۓ گرج اٹھا۔ دلاور تو اس قدر ذلت پر بوکھلاگیا۔ البتہ سبریبہ بیگم سکون میں تھیں انہیں پتہ تھا بادل بات کو کور کرلے گا۔

" بادل حد میں رہ کر بات کرو۔ ہر بات ہر جگہ کرنے والی نہیں ہوتی۔ میں باس ہوں تمہارا یا کوئ نوکر ہوں جسے تم دل کھول کر ذلیل کرتے ہو۔۔!!" 

سبریبہ بیگم کی ہنسی دیکھ کر انہوں نے اس ذلت پر دانت پیسے ساتھ ہی بادل کو روکنا چاہا۔ جس کا پارہ مزید ہائ ہوا۔

" تم جیسا بے حس کو تو ہم اپنے گھر کا چوکھٹ پر کھڑا ہوکر بھیک مانگنے کا اجازت بھی نہ دے۔کیا پتا تم ہم کو ہی ونی کردے ۔!! گھٹیا ہے تم۔ اور ہمارا حد تمہارا گردن ہے اس وقت کمینا انسان ۔۔!!

 تم ہمارا بچی کو ونی کرکے آیا ہے۔ ہم اگر اپنا ضبط کھو گیا تو تم کو مار دے گا۔۔!! ہم کو ذرا شرم نہیں آۓ گا۔ہم تم کو تڑپا تڑپا کر مارنے گا دیکھنا ایک پٹاخہ ہم تمہارا دایاں پاؤں میں پھینکے گا جب تم ڈر کر وہ پاؤں اٹھاۓ گا تو ہم دوسرا میں بھی پٹاخہ پھینک دے گا پھر تم وہ بھی اٹھاۓ گا تو سیدھا زمین پر منہ کا بل گرے گا۔ پھر ہم تالیاں بجاۓ گا۔ پھر تم تڑپے گا ۔!!"

 وہ ایک ہی چست میں اس کے پاس آیا لیکن خیال بھی رکھا کہ کہیں فائل نہ دکھ جاۓ دلاور خان کو پھر اپنے خالص پٹھان والے روپ میں ایسا گرجا کہ دلاور خان کے پسینے چھوٹ گۓ۔ پٹاخہ پاؤں میں پھینک کر بادل سچ میں اسے تڑپا دیتا۔ 

سبرینہ بیگم ان کی درگت بنتا دیکھ کر خود ہی ہنسی روک کر کمرے میں چلی گئیں۔ لیکن بادل کا دل تو آج دلاور خان کو مارنے کا تھا۔

" بادل ہوش میں آؤ۔۔!! میں دلاور خان ہوں یار۔ جس پر تم جان دیتے ہوں۔ تمہیں صدمہ ہوگیا ہے اس وقت میری مانو تو اب اپنا گھر بسا لو تم۔ کسی اچھی سی سگھڑ لڑکی سے شادی کرکے سیٹ ہوجاؤ تاکہ تمہارے غصے کا گراف ذرا نیچے آۓ۔۔!!!" 

وہ چند قدم پیچھے ہوتے ہوۓ زبردستی ہنستے ہوۓ بولنے لگے۔ یہاں تو بادل کا ضبط ہی ختم ہوگیا۔ دلاور خان اس کی شادی کروانا چاہتے ہیں ۔ اسے جی بھر کر غصہ آیا۔

" ہم کیوں گھر بساۓ ہم لڑکی ہے کیا جسے گھر بسانا یے۔ ہم تو قبر ہی بساۓ گا اب جب بھی بساۓ گا دیکھنا تم۔۔!! آئندہ ہمارا دکھتی رگ پر ہاتھ نہ رکھنا ورنہ ہم ذرا لحاظ نہیں کرے گا تمہارا۔ آیا بڑا ہمارا شادی کروانے والا۔ خود تو بھابھی کے ہاتھوں ذلیل ہوتا رہتا ہے اب چاہتا ہے ہمیں بھی ذلیل کروانے والا کوئ آجاۓ۔۔!!" 

دبی دبی غراہٹ میں وہ انہیں وارننگ دے گیا۔پھر منہ بناکر خود ہی ایک سائیڈ پر کھڑا ہوگیا یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب یہ ٹوپک نہ چھیڑا جاۓ ورنہ نتائج سنگین ہوں گے۔

" اچھا چھوڑو یہ سب کل سبرینہ کو یشاور کے پاس لے جانا تم۔اس پاگل کو ماں کی یاد ستارہی ہے پیر پکڑ کر معافی ہی مانگنی ہوگی اس نے۔ میرا کیا جاتا ہے تم بس لے جانا اسے میں ایڈریس ٹیکسٹ کردوں گا تمہیں اور یشاور کا دماغ درست ہوا یا نہیں یہ بھی پتہ لگوالینا ۔ کوشش کرنا کہ وہ جس راستے سے ہٹا ہے اسی ہر ہی واپس آجاۓ ورنہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو خود ہی دھکے کھاۓ گا تو واپس آجاۓ گا۔۔!!"

سنگدل انداز تھا ان کا ۔ انہوں نے جیسے سر سے بلااتاری تھی۔ پھر خود بھی کمرے میں چلے گۓ سونے کے لیے۔ حرام کی کمائی گن گن کر تھک جو گۓ تھے وہ۔ پیچھے بادل نے شکر ادا کیا کہ دلاور خان کو اس پر شک نہیں ہوا۔ ورنہ سارا پلان پانی پانی ہوجاتا۔

" دھکے کیا کھاۓ گا وہ ۔۔!! وہ تو اس جہنم سے نکلا ہے یقیناً اچھا ہی حال میں ہوگا۔ باقی اس کا حال پر اللہ رحم فرماۓ اور اللہ کرے وہ دوبارا کبھی اس جہنم میں اب واپس نہ آۓ۔ ہم نہیں چاہتا کہ تمہارے ساتھ کسی اور کا جان بھی ہمیں لینا پڑے ۔۔!!"

 اس نے گردن گھماکر دلاور خان کی پشت دیکھی اور سر کو نفی میں جنبش دیتے ہوۓ وہاں سے چلا گیا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

فدیان چہرے پر بارہ بجاکر کمرے میں آیا۔ اس کے بابا کے بورنگ اور پرانے زمانے کے دوستوں نے اسے اپنے سوالوں سے تنگ کردیا تھا۔ کہ اغواہ ہونے کے بعد وہ کیا کھانے کو دیتے تھے تمہیں ، کپڑے کیسے پہنتے تھے تم ، فارغ وقت میں کیا کرتے تھے، کیا سیکھا تم نے اغواہ ہوکر ، یشاور کو سزا نہیں مل پائ تو کیا ہوا تم اس کی بہن سے اپنا بدلہ لو ۔۔!! 

اور ناجانے کیا کیا اس بیچارے نے سنا اور بتایا۔ سب سے بری بات اسے یہی لگی کہ سب کا یہی کہنا تھا کہ وہ اس معصوم سی لڑکی پر ظلم کرکے اپنا بدلہ لے۔ کیونکہ بقول ان کے وہ اسے ملی ہی اس لیے ہے تاکہ وہ اسے ٹارچر کرے۔ 

آخر کار تنگ آکر اس نے یہی کہا کہ " اگر معصومہ کے ساتھ وہی سلوک کرنا ہے جو اس کے ساتھ ہوا ہے تو اس کے باپ کے کروڑوں روپے اس لڑکی پر خرچ ہوں گے۔ کھانے، پینے سونے جاگنے ہر چیز کی آزادی دے گا وہ اسے ۔

یہاں تک کہ اسے سر آنکھوں پر بٹھاکر رکھے گا۔ پھر یہ سب ہی اسے رن مرید کہہ کر بلائیں گے 

تو بہتر ہے اپنے کام سے کام رکھا جاۓ۔ 

ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ اسے تو خیر سے وہ لوگ بھی بیوی کو مارنے کے مشورے دے رہے ہیں جو خود کئ راتیں اپنے ڈیروں پر گزارتے رہے ہیں کیونکہ ان کی بیوی نے ان کا گھر میں داخلہ منع کیا تھا۔ 

پھر کیا تھا اپنے اتنے گہرے راز کھلتا دیکھ کر سب نے مزاق میں بات ختم کردی اور وہ اپنے بابا کی ڈانٹ کی پرواہ کیے بغیر سب کا منہ بھی بند کرواگیا۔

وہ کمرے میں آیا تو معصومہ ایک کیوٹ سا ٹیڈی بیئر گود میں رکھ کر بیٹھی تھی اور اداس آنکھیں فرش پر جمی تھیں۔ اسے فدیان کی آمد کا بھی پتہ نہ لگا۔ 

" میری شکایتیں لگارہی ہو تم اس سے۔۔۔!!! مسٹر ٹیڈی بیئر میں نے سچ میں اس بلی کو کچھ نہیں کہا۔ یہ جو میری شکایتیں لگارہی ہے نا تم سے ۔ یہ سارا جھوٹ بول رہی ہے ۔!!!" 

 آتے ہی اس نے جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے ٹیڈی بیئر کھینچا تو وہ ڈر کر اچھل پڑی۔ فدیان ٹیڈی بیئر لے کر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ پھر ٹیڈی بیئر سے اسی کے انداز میں باتیں کرنے لگا۔

"ا۔اسے واپس کریں۔ م۔میرا ہے یہ۔۔!!!"

 اس کے پاس بیٹھتے ہی معصومہ سائیڈ پر ہوگئ پھر ٹیڈی بیئر واپس مانگا اس نے ۔

" تو تم کس کی ہو۔۔۔؟؟ میری ہی ہو نا۔ بس تم میری ہو تو یہ بھی میرا ہی ہے. نام کیا ہے اس کا۔۔!!" 

اسے گھور کر فدیان نے اسے دوبارا یاد دلایا کہ وہ کون ہے۔ وہ رونے کی تیاری پکڑنے والی تھی تبھی اس نے وہ واپس اس کی گود میں رکھ دیا پھر دوستانہ انداز میں بات کرنے لگا اس سے۔ جس نے ٹیڈی واپس ملتے ہی اسے اپنے پیچھے رکھ دیا۔ جیسے فدیان سے بچارہی ہو۔

" ب۔بنی نام ہے اس کا۔۔!! یہ م۔میرا ہے بس اور میں اپنی مما کی ہوں۔ آپ کی نہیں ہوں میں۔" 

معصومہ نے اس کی تصحیح کی۔ فدیان مسکرایا اور اس کے گال کو چٹکی میں بھر گیا۔

" تم میری ہی رہو گی معصومہ ۔۔!! چاہے مانو یا نہ مانو۔ اچھا بتاؤ کیا کیا تم نے آج سارا دن۔ کھانا ملازمہ نے دیا تھا یا بھوکی ہی بیٹھی ہو۔۔! اور یہ ٹیڈی کہاں سے آیا۔ کوئ آیا تھا کیا تم سے ملنے ۔۔!!!" 

اس نے کسی وہم کے تخت پوچھا ۔ معصومہ اپنا گال سہلارہی تھی جو زور سے ہی فدیان نے کھینچ دیا تھا۔ پر اسے برا نہیں لگا تھا۔ عجیب بات تھی پر معصومہ کو بالکل برا نہیں لگتا تھا اس کا خود کو ہاتھ لگانا۔ وہ ڈرتی تھی پر ڈر فطری ہی تھا۔

" میں نے کھانا کھالیا تھا۔ اور یہ نا مما نے سامان میں پیک کرکے بھیجا ہے۔ آپ کی اجازت ہو تو اسے میں آپ کے کمرے میں ہی رکھ لوں۔ یہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا بالکل بھی بہت اچھا ہے یہ۔ آپ کو پتہ ہے بولتا بھی ہے اور میرا ہی نام لیتا ہے ۔۔!!!" 

وہ روانی میں بات کرگئ۔ اس دفعہ فدیان پھر سے شاکڈ رہ گیا۔ بعض اوقات وہ اٹکتی نہیں تھی اور تب وہ مزید اس کے دل میں بس جاتی تھی۔ معصومیت سے اس نے ٹیڈی واپس اٹھایا۔

 اپنے تئیں وہ بہت بڑی بات بتارہی تھی اسے۔ اچانک ٹیڈی سے معصومہ کے نام کے ساتھ ایک بچوں والا سانگ پلے ہوا۔ تو وہ کھلکھلا اٹھی ۔

" دیکھیں یہ میرا نام لیتا یے۔ مما کہتی ہیں اسے بھی میں اچھی لگتی ہوں ۔ یہ پیارا ہے نا ۔۔!!" 

 ٹیڈی سے سونگ کی آواز آرہی تھی پر فدیان کو تو معصومہ کی ہی آواز سننی تھی۔ اس نے اسے مسکراتے ہوۓ پہلی بار دیکھا تھا وہ اپنے نام کی طرح ہی تھی معصوم ۔!! 

" بہت پیاری آواز ہے اس کی بھی اور تمہاری بھی۔ تمہارے جیسا ہی ہے یہ کیوٹ سا۔ تم اسے جہاں چاہے رکھ لو۔ مجھے کوئ مسئلہ نہیں۔ لیکن کیا یہ میرا نام بھی لے گا یا صرف تمہارا ہی لیتا رہے گا ۔۔!!!" 

اس نے معصومہ کے ہاتھ سے ٹیڈی بیئر پکڑا اور اس کی توقع کے عین مطابق اس دفعہ معصومہ نے اسے وہ دے بھی دیا تھا۔ وہ کچھ نوٹ کررہا تھا معصومہ میں ۔۔!!!

" نہیں یہ بس مجھ سے پیار کرتا ہے۔ اور جس سے ہم پیار کرتے ہیں ہم اسی کا ہی نام لیتے ہیں آپ کو پتہ ہے مما بھی بس میرا ہی نام لیتی ہے۔ پ۔پر وہ اب مجھ سے نہیں ملتیں۔ میں اب ا۔اکیلی ہوگئ ہوں۔۔سب ختم ہوگیا ۔!!" 

چہکتے ہوۓ وہ اسے سب بتانے لگی جب اپنی ماں کو یاد کرکے وہ پھر سے اداس ہوگئ اور فدیان کی توقع کے مطابق اداس ہوتے یا ڈرتے اس کی آواز خود بخود لڑکھڑا جاتی تھی۔ یہ عجیب تھا بہت عجیب ۔۔!!! 

اسکے ٹیڈی بیئر کو اس نے اس کی گود میں رکھ دیا۔ اور خود نرمی سے اس کی آنکھ کا نم کونا صاف کیا ۔

" ریلیکس معصومہ ۔۔!!  ہم دونوں تمہاری مما سے مل لیں گے ۔ ابھی نہیں لیکن وقت آتے ہی میں خود تمہیں وہاں لے کر جاؤں گا۔ اوکے ۔۔۔!!! اور تم بھی آرام کرو ۔ اپنے ٹیڈی کو بھی جہاں رکھنا ہے رکھ لو۔ آئندہ ذرا ذرا سی بات پر اداس نہ ہونا ۔۔!! میں فریش ہونے جارہا ہوں میرے آنے تک تم مجھے سوئی ہوئ ملو۔ چلو شاباش لیٹ جاؤ۔۔!!" 

فدیان نے اسے لیٹنے کا اشارہ کیا اور خود ڈریسنگ روم چلا گیا۔ معصومہ پر سرچ جاری تھی اس کی۔ اسے اس کی کمزوریوں کی وجہ تک پہنچنا تھا پھر اس وجہ کو ختم کرکے اسے ٹھیک کرنا تھا جو آسان تو نہیں تھا پر ناممکن بھی نہیں تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

 رات کے تین بج رہے تھے اور وشہ اب تک سوئی ہوئ تھی۔ دیار تو اٹھ گیا تھا کیونکہ اسے بھوک لگ رہی تھی۔ کھانا فریج سے نکال کر اس نے خود ہی گرم کیا اور کھالیا۔ 

پھر واپس آکر وہ اسی کے پاس بیٹھا اور وشہ کو فرصت سے تکنے لگا۔

"ہماری شادی کو وقت ہی کتنا ہوا ہے ابھی اور ابھی سے آپ بالکل سادے حلیے میں گھوم رہی ہیں۔ نا کوئ تیاری، نا چوڑیاں، نا کوئ انگوٹھی کچھ بھی تو پہننا آپ کو پسند نہیں۔ اوپر سے آپ کا غصہ ۔۔!!! 

مجھ بیچارے کے سارے ارمانوں پر پانی پھیر گیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ میرے ساتھ خوش ہوتیں۔ ہم گھومنے جاتے۔ آپ بھی مسکراتیں کتنا اچھا ہوتا نا وہ منظر ۔۔!! " 

اس نے آہ بھری وشہ کے چہرے پر سکون تھا اور انتہا کی معصومیت تھی۔ اس کی ہلکی ہلکی سانسوں کی آواز اس خاموشی کی وجہ سے وہ سن سکتا تھا۔ 

" لگتا ہے اب آپ کو اپنے طریقے سے ہی سیدھا کرنا ہوگا تھوڑا سا۔ !! آپ کا پاؤں ٹھیک ہوجاۓ تو آپ کو دوبارہ سے اپنی یونی جانا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی آپ کو تیار بھی ہونا چاہیے اور روز ہونا چاہیے ۔۔!! 

میں گھر پر ہوں یا نہ ہوں پر آپ کو اس طرح اداس گھومنا زیب نہیں دے گا۔ سوری وشہ میں آپ پر سختی نہیں کرنا چاہتا ۔ پر مجبوری ہے اب۔ آپ کو تنگ کرکے اپنی بات ماننے پر مجبور کرنا ہوگا مجھے ۔ 

بس ایک بار ہماری دوستی ہوجاۓ پھر آپ کو میں بالکل نہیں تنگ کروں گا لیکن تب تک آپ وہیں کریں گی جو میں چاہوں ۔۔!!!" 

اس نے مسکراہٹ روکی۔ وشہ کو قابو کرنے کا طریقہ اسے پتا تھا۔ اور وہ مزید اسے کسی اذیت میں نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ وہ روتی ہوئ اسے بالکل اچھی نہ لگتی۔ تبھی اس نے اپنی نئ سوچ پر خود کو داد دی۔ وشہ کو کیا پتہ تھا کہ دیار صاحب نۓ منصوبے بنارہے ہیں اسے قابو کرنے کے۔۔!!! 

 اس پر کمفرٹر درست کرکے وہ اٹھ گیا وہاں سے اور صوفے پر جاکر بیٹھ گیا ساتھ ہی اپنا لیپ ٹاپ اٹھاکر وہ اپنے کام میں مگن ہوگیا۔ 

" آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بغیر کسی خوف کے ہمیں بتائیں آپ کی یہ حالت آپ کے شوہر کی وجہ سے ہے نا۔ مسٹر یشاور نے آپ کو ٹارچر کیا ہے۔۔!! دیکھیں ان سے ڈریں نہیں۔۔!! ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ 

جو بھی ہوا ہے فریلی ہمیں بتائیں۔ ضرورت پڑی تو ہم پولیس کی ہیلپ بھی لیں گے۔ جو ہوسکا میں آپ کے لیے کروں گی۔ اس کے لیے آپ کو مجھ پر یقین کرکے بتانا ہوگا کہ سامنے کھڑا یہ شخص آپ کا شوہر ہے ۔ بتائیں یہ شوہر ہے نا آپ کا۔۔!!!"

اس لڑکی کو کافی دنوں کی غنودگی کے بعد آج صبح فجر کے وقت ہوش آیا تھا۔ جس کے ایکٹو ہوتے ذہن نے جب خود کو ہاسپٹل میں دیکھا تو جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا وہ یاد کرکے نۓ سرے سے رونے لگی۔ 

اسے خوف محسوس ہورہا تھا ہر شخص سے۔ اسے یہی لگا کہ سب اسے ہی مارنا چاہتے ہیں۔وہ کافی ڈری ہوئی تھی۔ اور اس کی مینٹل حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ تبھی ڈاکٹر نے اس کے ضروری ٹیسٹ کروانے کے بعد اب اس سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس وقت وہ ہاسپٹل کے بیڈ پر تکیوں کے سہارے بیٹھی تھی۔ رنگ پیلا زرد ، ہاتھ پر ڈرپ اور آنکھیں سوجن کا شکار تھیں اس کی۔ یشاور سائیڈ پر کھڑا اس کے جواب کا منتظر تھا جبکہ وہ ڈاکٹر اسے ہر ممکن حد تک ریلیکس کرنا چاہ رہی تھی ۔

اس لڑکی نے یہ سوال سنا تو ناسمجھی کے عالم میں سر کو جنبش دی ۔ جیسے یہ بات اسے سمجھ ہی نہ آئ ہو۔

" میرا شوہر ۔!! پر میری تو شادی ہی نہیں ہوئ۔ آپ پولیس کو کیوں بلائیں گی۔ نہیں پلیز پولیس کو نہ بلائیے گا۔ وہ مجھے مار دیں گے۔ وہ مجھے ان گندے لوگوں کے پاس چھوڑ آئیں گے۔ میں بھی مرجاؤں گی جیسے امی اور بابا مر گۓ۔ روحیل مرگیا۔ سب مرگۓ۔۔!! مجھے بھی وہ پکڑ لیں گے اور مار دیں گے۔۔!! " 

پہلی بات اس نے سادگی سے بتائ تھی تب یشاور نے ڈاکٹر پر جتاتی نگاہ ڈالی کہ دیکھ لو میں نہیں ہوں اس کا شوہر ..!! جسے یہ جواب برا لگا تھا۔ خود کو جھوٹا پڑتا محسوس کیا اس نے تو لب بھینچے۔

لیکن وہ لڑکی پولیس کا نام سن کر پھر سے ڈر گئ تھی۔ اس کی آنکھوں میں خوف کے اتنے گہرے ساۓ تھے کہ موت کو جیسے وہ سامنے دیکھ رہی ہو۔ 

" ریلیکس ۔۔!!! ہم نہیں بتارہے کسی کو بھی۔ کیا کہا ہے آپ نے ابھی؟ کون روحیل ۔۔!!! کیا ہوا ہے آپ کے ساتھ؟ کس نے مارا ہے آپ کے امی بابا کو؟ ریلیکس ہو جائیں اور سب سے پہلے بتائیں آپ کا نام کیا ہے۔۔!! آپ کہان رہتی ہیں ؟" 

ڈاکٹر نے اسے پنیک ہوتے دیکھا تو اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اسے ریلیکس کیا جس کی سسکیوں کی آواز کمرے میں گھل کر اداس منظر پیش کررہی تھی۔ یشاور کو اس ڈاکٹر پر غصہ آیا کہ کون ایک کومہ سے باہر آۓ پیشنٹ سے اس قدر سنجیدہ سوال پوچھتا ہے۔ وہ بھی تب جب وہ دیکھ رہی ہے کہ وہ لڑکی مسلسل ڈر رہی ہے۔

" م۔ میں بہار خانزادہ ہوں۔ روحیل میرا چھوٹا بھائ ہے۔ ان ظالموں نے اسے مارا ۔ بہت مارا ۔ اسے بہت درد ہوا تھا۔ وہ چیخا بھی تھا۔میں اسے بچانے کے لیے آگے آئ تھی لیکن اس گندے انسان نے مجھے بالوں سے پکڑ لیا۔ روحیل بہت پیار کرتا تھا مجھ سے۔ میرا درد دیکھ کر اس نے مجھے بچانا چاہا تو انہوں نے اسے جان سے مار دیا۔ وہ مر گیا۔۔!!

 اس نے آخری لفظ کہا تھا بھاگ جاؤ مڑ کر واپس آنا..!! میں بھاگ آئ وہاں سے۔ پر سب مڑگۓ۔ میرا کوئ نہیں رہا۔۔!!!" 

جھٹکے سے بہار نے اپنے ہاتھ چھڑواۓ پھر اس منظر کو یاد کرکے اس کی آنکھیں خوف سے پھیلیں ۔ ڈاکٹر تفصیل سے اسے ہی سن رہی تھی۔ لیکن یشاور کی خونخوار نظریں ڈاکٹر پر ٹکی تھیں ۔ اسے پتہ تھا وہ یہ سب کیوں کررہی ہے۔ بس یشاور کی باتوں کا بدلہ اس لڑکی سے لینے کے لیے۔

" آگے کیا ہوا تھا ؟ آپ چپ نہ ہوں مجھے بتائیں کیا ہوا تھا آگے؟ کیوں مارا تھا انہوں نے آپ کے گھر والوں کو؟ اور آپ کا گھر کہاں ہے؟ کیا آپ کی کوئ غلطی ہے ان سب میں۔ وہ لوگ آپ کے پیچھے ہی کیوں تھے؟؟ " 

ڈاکٹر نے اس کی حالت کا احساس کرنے کی بجاۓ اب اگلا سوال پوچھا۔ تاکہ جو اس کے ساتھ ہوا ہے وہ جان لے۔ بہار نے آنکھیں جھپکیں تو کیا وہ مشکوک تھی اس ڈاکٹر کی نظروں میں ۔ وہ لڑکی جس نے اپنا ہنستا بستا گھر کھودیا۔ وہ لڑکی جو ابھی خود بھی بہت چھوٹی تھی ۔!! جو خود کی حفاظت کے لیے رات کی تاریکی میں سڑک پر بھاگتی رہی تھی۔ وہ کیا مشکوک تھی۔۔!! یہاں ہی یشاور کا ضبط جواب دے گیا۔

" مس طبیبہ صاحبہ۔۔!! یہ کوئ مارننگ شو نہیں ہے۔ جس میں ایک مظلوم اور روتی ہوئ لڑکی کے ساتھ جو ہوا ہے۔ آپ سب جان کر trp حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ ماہان بننا چاہتی ہیں۔ یہ اصل زندگی ہے۔ وہ نہیں بتا سکتی اس وقت کچھ بھی تو اللہ کا واسطہ ہے اسے آرام کرنے دیں۔

 جو اس کے ساتھ ہوا ہے آپ کو جان کر کچھ نہیں ملے گا۔ تو جان چھوڑ دیں اس کی۔ اور یہ کیا فضول بات کی ہے آپ نے کہ اس کا کوئ قصور ہوگا ان سب میں ۔ آپ اخلاق کے دائرے سے نہ نکلیں۔ ورنہ باتیں مجھے بھی کرنی آتی ہیں۔۔!!!" 

اس نے دونوں مٹھیاں بھینچیں پھر دانت پیستے ہوۓ اپنی خونخوار نظریں معاملے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتی ڈاکٹر پر ڈالیں جو جواب میں اسے ویسی ہی زہریلی نظروں سے گھورنے لگی۔

" مسٹر یشاور جیسا کہ اب ثابت ہوگیا ہے کہ آپ اس لڑکی کے کچھ نہیں ہیں تو پلیز مجھے میرا کام کرنے دیں۔ یہاں ایسے کئ کیسز آتے ہیں جن میں لڑکی ہی گنہگار ہوتی ہے اس کے عاشق اس کے گھر والوں کو اس کی خاطر مار دیتے ہیں پھر سب تباہ ہونے پر وہ بھی ایسے ہی معصوم بن کر بیٹھ جاتی ہے۔

 آپ نہیں جانتے ان سب کو۔!! آپ اب اپنا CNIC ریسپشن سے لے سکتے ہیں اب۔۔!!! باقی کے معاملات میں خود دیکھ لوں گی" 

ڈاکٹر نے سرد پن کی انتہا کردی پہلے تو اس نے خود اس بیچارے کو کب سے یہاں روک رکھا تھا اب یوں اسے جانے کو کہہ رہی تھی جیسے یہ کوئ بڑی بات ہو ہی نہ۔ اس نے لب بھینچے ۔ اسے اس وقت اس ڈاکٹر سے بحث کرنے کا کوئ شوق نہیں تھا۔ لیکن وہ بہت فضول بول رہی تھی۔

" آپ ڈاکٹر ہیں آپ کا کام مریض کا علاج کرنا ہے۔ اسے میڈیسن دینا اور اس کے مرض کی تشخیص کرنا۔ ٹی وی چینلز کے مہنگے مارننگ شوز پر بیٹھی کسی ہوسٹ کی طرح ایک مجبور لڑکی کا ماضی کریدنا یا کسی سائیکیٹرس کی طرح اس کے دماغ میں چھپی بات نکالنا نہیں ہے۔ اور میرا نام اس لڑکی کے شوہر کے خانے میں لکھا ہے۔ 

میں سرپرست ہوں اس فارم کے مطابق اس کا۔  بقول آپ کے میں تو اس کا شوہر ہوں۔ جو کہ نہیں ہوں پر آپ نے محض شک کی بنا پر جو سلوک اتنے دنوں سے میرے ساتھ کیا ہے اس کی وجہ سے میں آپ کا لائسنس بھی کینسل کروا سکتا ہوں۔میں چپ ہوں اگر تو اس بات کو میری کمزوری نہ سمجھیں ۔! 

بہتری اسی میں ہے کہ اسے سونے دیں اور آپ جاکر اپنے باقی کے مریض دیکھیں۔ قیاس آرائیوں سے بھی گریز کریں اور دوبارہ مجھے اس کے آس پاس بھی نہ دکھیں۔!! "

اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے باہر جانے کو کہا۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں ڈاکٹر کو شٹ اپ کال دی گئ تھی۔ اس کے لہجے سے اسے یہ تو پتا لگ گیا تھا کہ وہ یہ سب کر بھی دے گا تبھی دانت نکوس کر وہ وہاں سے چلی گئ۔ 

اس کے جاتے ہی یشاور نے اس ڈری سہمی لڑکی کو دیکھا اور گہرا سانس خارج کیا۔

" م۔میں بے گناہ ہوں ۔۔میرے گھر والوں کو میں نے نہیں مروایا۔۔!! " 

یشاور کی طرف اس کی امید سے بھری نظریں تھیں۔ اس وقت وہی وہ واحد اجنبی اس کا محافظ تھا۔ باقی تو کوئ بچاہی نہیں تھا۔

" مس بہار۔ مجھے وضاحت دینے کی ضرورت نہیں آپ کو۔ نہ ہی اس فضول ڈاکٹر کی بات سیریس لیں آپ۔!! آپ کو اب کوئ کچھ نہیں کہے گا۔ نہ ہی یہاں کوئ پولیس آۓ گی نا ہی کوئ آپ تک پہنچ سکے گا۔ آپ میری حفاظت میں ہیں۔ تو ڈرنا چھوڑ دیں۔ 

میں بھلے اپنے لیے آج تک کچھ نہیں کرسکا ۔ پر آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔جب تک آپ کے رہنے کا پراپر بندوبست نہ ہوجاۓ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ سوجائیں۔ میں آپ کے ڈسچارج پیپرز بنواکر آتا ہوں ۔!!" 

ڈاکٹر کے جاتے ہی اگلے ہی لمحے اس کے تاثرات نارمل ہوگۓ تھے۔ بہار رو رہی تھی اب تک ۔ کیونکہ جو اس پر بیتی تھی وہ کیسے سب کو باری باری یہ بتاتی ۔ بے حس لوگ تو بس سن کر محظوظ ہوتے اور وہ ہر بار بتاتے وقت بھی اسی کرب سے گزرتی۔ انجان ہوتے ہوئے بھی یشاور کو منظور نہیں تھا کہ کوئ اس کا مزاق بناۓ یا اس کے زخم کریدے ۔

وہ وہاں سے ڈسچارج پیپرز بنوانے کے لیے جونہی گیا اس کے جاتے ہی بہار بیڈ پر لیٹ گئ۔ اس سیاہ رات کا وہ درد ناک منظر اس کے ذہن کے پردوں پر گرد کی طرح جم گیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت میں بہتے گۓ۔ نا کوئ اب اس کا درد سمجھ کر اسے چپ کروانے والا تھا نا ہی اس کا درد کم کرنے والا تھا ۔ وہ اکیلی ہوگئ تھی بالکل ۔!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

تقریبا نو بجنے والے تھے اور آج بھی زرلشتہ درمان کی ایک کال کے انتظار میں بیٹھی تھی جو شاید اسے بھول ہی گیا تھا۔ وہ ہفتے سے اذیت میں تھی اور درمان کو کوئ فکر ہی نہیں تھی۔ نا وہ ٹھیک سے سوپاتی تھی اور نا ہی کچھ کھارہی تھی۔ اس کی طبیعت بھی پہلے سے بہت خراب تھی۔ اس نے ہنسنا بولنا سب کم کردیا تھا۔ زیادہ تر وقت خاموشی سے اپنے کمرے میں ہی گزار دیتی۔ 

اپنے پسندیدہ شخص کے ہاتھوں مسلسل نظر انداز ہوتی عورت زندگی سے ہی اکتا جاتی ہے۔ اس کی مسکراہٹ تک اس پر حرام ہوجاتی ہے۔ وہ سب معاف کرسکتی ہے پر خود کو اپنے ہی پسندیدہ مرد کی نظروں میں ںےوقعت ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔

اس نے گہرا سانس خارج کرکے فون اٹھایا اور درمان کا نمبر ڈائل کیا۔ دوسری طرف روز کی طرح بیل جارہی تھی پر کال کوئ نہیں اٹھا رہا تھا۔ 

خود کو کمپوز کرکے زرلشتہ نے اب اسے میسج کرنے کا فیصلہ کیا۔

درمان اپنے کیبن میں بیٹھا اپنی نیند کی وجہ سے بند ہوتی آنکھوں کو مسلسل رہا تھا جب مسلسل موصول ہوتے میسجز کی رنگ سن کر اس نے آنکھیں مشکل سے کھول کر فون اٹھایا۔

"مصیبت " کا نام دیکھ کر اس کے چہرے پر تبسم بکھرا۔ اسے بالکل خبر نہیں تھی کہ اس کا یہ کام اس کی مصیبت کو مصیبت میں ڈال چکا ہے۔

اس نے میسجز اوپن کیے ۔

" درمان آپ بدل گۓ ہیں اب ۔۔!! آپ کو میری کوئ فکر نہیں رہی اب "

"حد ہوتی ہے لاپرواہی کی بھی درمان آخر کونسی محبوبہ کے پاس بیٹھے ہیں آپ۔جو آپ کو اپنی بیوی کی یاد بھی نہیں آرہی۔ !!" 

" کہیں کسی چڑیل کے ساتھ تو نہیں بیٹھے آپ اس وقت جو آپ میری کال بھی اٹینڈ نہیں کررہے۔ آپ کو اگر میں اب اچھی نہیں لگتی تو مجھے بتا کیوں نہیں دیتے آپ۔ کیوں مجھے اذیت دے رہے ہیں آپ ۔!!"

زرلشتہ نے تھک کر میسج کیا۔ وہیں درمان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوتی گئ یہ لڑکی بہت عجیب بولتی تھی۔ اسے ہنر آتا تھا درمان کے دل میں طوفان لانے کا۔

" اللہ کرے آپ کی وہ محبوبہ آپ کو دھکے دے کر آفس سے نکال دے۔ چاۓ کے سارے ڈھابے بند ہوں اور آپ الٹے پاؤں گھر واپس آئیں ۔ لیکن میں تب گھر ہی چھوڑ کر جا چکی ہوں اور آپ کو چاۓ ہی نہ ملے کہیں سے بھی ۔!!!"

اس نے کلس کر میسج کیا اسی وقت درمان کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔ بددعا بھی اس نے سوچ کر دی تھی۔ اس پر وہ قربان بھی ہوجاتا تو کم تھا۔

" میری مصیبت میری واحد محبوبہ تم ہی ہو یار۔ کتنی فضول سوچیں سوچتی ہونا تم۔ میری گرے آنکھوں والی بلی۔۔۔!! درمان تمہارے سوا کسی کو دل میں بساۓ تو اگلا سانس بھی حرام ہوگا اس پر۔ دنیا میں سب سے مزے کی چاۓ بنانے والی لڑکی میرے دل میں قید ہے۔ پر تم کب سمجھو گی اس بات کو ۔!!!

 تم کسی دن اپنی بچکانہ سوچ سے مجھے دیوانہ بناؤ گی اور درمان تمہارے عشق میں پاگل ہوا ناجانے کیسا لگے گا۔۔!!"

بڑبڑاتے ہوۓ اس نے اس کے میسج دو سے تین بار پڑھے ہر میسج کے ساتھ اس کی معصوم صورت اس کی نظروں کے سامنے آتی رہی۔ 

" محبوبہ نے ہی بلایا ہے یار ۔۔!! اس کی باتوں میں کشش ہی اتنی ہے کہ میں اس کے آتے ہی سب بھول جاتا ہوں۔ الحمد اللہ سے دو بچے بھی ہیں میرے ۔ !! ابھی بڑے بیٹے کی پیرنٹ ٹیچر میٹنگ اٹینڈ کرنے آیا ہوں میں۔ بہت مصروف تھا تو کال نہ اٹھا سکا تمہاری۔

 اگر چاہو تو تم بھی آجاؤ آج میرے چھوٹے بیٹے کی سالگرہ بھی ہے۔ تم اس کی سوتیلی ماں ہو تو آنا حق ہے تمہارا۔ یہ مت سمجھنا کہ میں مزاق کررہا ہوں۔ دیکھو یہ بیٹا ہے میرا ۔ کیوٹ ہے نا۔۔!!

 چاۓ کی بات رہی جہاں تک۔ تو وہ بہت اچھی چاۓ بھی بنالیتی ہے۔  اسے پتہ ہے کہ اس کے شوہر کی کمزوری ہی چاۓ ہے تو وہ اپنی اس صلاحیت پر بلیک میل بھی کرتی ہے مجھے۔ ویسے تم نے اتنا صحیح اندازا آخر کیسے لگایا ۔اتنی عقلمند کب ہوئ ہو تم۔۔ !!!" 

یہ میسج زرلشتہ کی معصومیت سے حظ اٹھاتے ہوۓ اس نے سینڈ تو کردیا پر مقابل موجود لڑکی جو چاہتی تھی کہ وہ جھوٹ ہی سہی بس کہہ دے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ بس اس کا ہے تو وہ خوش ہوجاۓ گی۔ جب اسے درمان کا یہ میسج موصول ہوا تو اس کے سر پر جیسے سچ میں پوری آفریدی حویلی ہی آن گری تھی۔ واٹس ایپ پر موصول وہ تصویر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں درد جمع ہوا۔ 

وہ تصویر یوسف کی ہی تھی جو سکول یونیفارم میں اس دن اس نے درمان کے ساتھ بنائ تھی ۔ اور درمان نے اسے تنگ کرنے کے لیے وہی سینڈ کردی تھی۔

سوجی ہوئ آنکھوں سے پھر سے آنسو ایک قطار بناکر نکلے ۔ وہ ساکت ہوگئ اسی جگہ پر۔ 

" تو آپ سچ میں شادی شدہ ہیں پہلے سے ہی۔ بہت خوب ۔ !! مبارک ہو آپ کو۔ اب اسی چڑیل کے پاس ہی رہیے گا مجھے اپنی شکل دکھانے کی کوئ ضرورت نہیں ہے آپ کو۔ 

میں ابھی اور اسی وقت اپنے گھر اپنے لالہ کے پاس واپس جارہی ہوں۔ اور میں آپ کے کسی بچے کی کوئ سگی ، سوتیلی ، اصلی ، نقلی یا کراۓ کی ماں نہیں ہوں۔ آپ کو آپ کی وہ چڑیل اور فتنے مبارک ہوں۔ آئندہ مجھے اپنی شکل مت دکھائیے گا آپ۔۔!!!" 

اس کے مزاق کو سچ سمجھ کر وہ پھٹ پڑی ۔ یہ میسج پڑھ کر درمان نے بھی نمبر ایک دفعہ چیک کیا کہ وہ اپنی مصیبت سے ہی بات کررہا ہے یا کسی اور سے بات کررہا ہے اس کا غصہ میسج پڑھتے ہی اسے پتہ لگ گیا تھا۔

" سکون سے بیٹھی رہو اسی کمرے میں ہی ۔ میں شام میں واپس آجاؤں گا۔ میرا کام ختم ہوگیا ہے اور اپنا دماغ کم چلاؤ۔ اگر تم گھر سے باہر نکلی نا تو اگلی بار تمہارے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈال کر تمہیں اپنے ساتھ باندھ کر گھوموں گا ۔ اور میں ایسا کر بھی دوں گا۔ پھر جہاں میں وہاں تم۔۔۔!!!" 

 اس نے بھی ویسا ہی جواب دیا۔ تو زرلشتہ کا منہ حیرت سے کھلا۔

" کیا کوئ زبردستی ہے کہ مجھے آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے..!! آپ کی فیملی ہے پہلے سے ہی اور میری اس میں کوئ گنجائش نہیں ہے۔آپ ظالم تھے، مجھے ٹارچر کرتے تھے ڈراتے تھے ، پیار نہیں کرتے تھے، مجھے کوئ اہمیت نہیں دیتے تھے میں نے پھر بھی آپ کے ساتھ گزارہ کیا آپ کی ماں نے مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی میں نے پھر بھی صبر کیا۔ سب ٹھیک ہوگیا میرے لالہ بے گناہ ثابت ہوگۓ میں پھر بھی آپ کا اور اپنا رشتہ بچاتی رہی۔

 آپ نے کہا میں واپس آجاؤں کیونکہ آپ کو ہمارا تعلق مضبوط کرنا ہے میں نے تب بھی آپ کی بات مانی میں واپس اگئ۔ میں نے کبھی آپ کی کسی خواہش کو آپ کی کسی بات کو انکار نہیں کیا۔

 آپ جو چاہتے ہیں وہی کرتے ہیں میں نہیں بولتی آپ کے سامنے۔ کیونکہ مجھے لگتا تھا آپ جو بھی کریں گے ہمارے لیے بہتر ہی ہوگا۔

 کیونکہ آپ کو ہمارے رشتے کا مجھ سے زیادہ پتہ ہے۔ پر آپ تو دل بہلارہے تھے اپنا۔ آپ کے پاس تو ایک فیملی پہلے سے ہی تھی۔

مجھے محبت کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا آپ نے کروائی ہے مجھے یہ محبت۔اب جب مجھے آپ سے محبت ہوگئ ہے تب آپ میرا مزاق بنا رہے ہیں ۔۔!!

 بس درمان میری برداشت اتنی ہی تھی۔ میں آپ کا دل بہلانے کا سامان نہیں ہوں۔ میں بیوقوف ہوں پاگل ہوں جو بھی ہوں پر اپنا شوہر کسی سے نہیں بانٹوں گی۔آپ کے پاس رات تک کا وقت ہے واپس آجائیں ورنہ خدا خافظ ۔!!!" 

غصے میں آکر زرلشتہ نے اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال دی ۔ اور فون دیوار پر دے مارا۔ جس کی کرچیاں کمرے میں بکھر گئیں۔ پھر وہ اپنے دل کا غبار نکال کر شدت سے روئ۔ اتنی شدت سے کہ اس کمرے میں جہاں اس کی شرارتیں گونجتی تھیں اب وہاں اس کے رونے کی آواز گونجی ۔ وہ معصوم تھی بہت معصوم ۔۔!! 

جس نے اپنے شوہر کو خود سے بڑھ کر اہمیت دی تھی اور اب اسے لگتا تھا اس کے شوہر نے اسے ہی مزاق بناکے رکھ دیا ہے۔ تو وہ اب کیا کرتی سواۓ رونے کے۔ 

ایک عورت کے پاس آنسو ہی تو ہوتے ہیں جو ہر خوشی اور دکھ میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔

یہ میسج پڑھ کر تو درمان کے بھی ہوش ٹھکانے آگۓ۔ وہ تو مزاق کررہا تھا اس کے ساتھ اور وہ سیریس ہوچکی تھی۔ اور اتنا سیریس کہ اب سب ختم کرنے کو بھی تیار تھی۔

درمان کو کچھ گڑبڑ محسوس ہوئ ۔ وہ اس انداز میں بات کرنے کی عادی نہیں تھی۔ وہ شکایت نہیں کرتی تھی۔ وہ اس کی خوشی میں خوش ہونا سیکھ چکی تھی ۔!!! 

تبھی اس نے میسج کرنے کی بجاۓ اسے کال ملائ۔ لیکن زرلشتہ تو غصے میں فون ہی توڑ  کرچکی تھی ۔ درمان کو اظہار چاہیے تھا اور زرلشتہ نے اظہار بھی کردیا تھا۔ پر اب وہ بھی تھک گئ تھی۔ 

" فون اٹھاؤ زرلشتہ ۔۔!!! میں مزاق کررہا تھا بس۔ میں قدر کرتا ہوں تمہاری ۔ مجھے اچھے سے احساس ہے آج تک میری ہر خواہش کا احترام تم نے کیا ہے۔ میں مزاق نہیں بنارہا تمہارا۔۔۔!!! 

افففف تم رو تو نہیں رہی کہیں۔۔۔۔!!!!" 

فون کان کے ساتھ لگاکر درمان نے ساری فائلز بند کیں پھر اٹھ کر اپنا کوٹ کرسی کی پشت سے اٹھایا ۔اور کیبن سے باہر نکلنے لگا جب اچانک دروازہ کھلا اور اس کا اسسٹنٹ اندر داخل ہوا۔

" سر وہ میٹنگ روم میں کلائنٹ آگۓ ہیں۔ میٹنگ کا ٹائم بھی ہوگیا ہے اور وہ آپ کا ہی انتظار کررہے ہیں ۔ پلیز آجائیں ۔!!!'" 

اس نے سادہ سے انداز میں اسے اگلی میٹنگ کا بتایا جب درمان نے کھاجانے والی نظر اس پر ڈالی۔

" کیا پورے سال کی میٹنگز ابھی کروانے کا ارادہ ہے تمہارا۔ دیکھ نہیں رہے کہ میں واپس جارہا ہوں ۔ اور اب جب دل کیا میرا تبھی واپس آؤں گا۔ اور بھی بہت مصروفیات ہیں میری جو تمہارے اس بزی شیڈیول نے تباہ کرکے رکھی ہیں۔ میں جارہا ہوں ۔

 مجھے تنگ نہ کرنا پیچھے سے فون کرکے اور میری جگہ یہ میٹنگ کسی اور سے اٹینڈ کرواؤ۔ کیا سونے کے پیسے لیتے ہو تم لوگ۔ اور اگر کوئ نقصان ہوا تو تم سب کی چھٹی پکی ہوگی۔۔!!!" 

فون کان سے ہٹاکر اس نے ایک دفعہ پھر زرلشتہ کو کال ملائ جہاں سے اب فون بند ہونے کا بتایا جارہا تھا۔ تبھی سارا غصہ اسنے اپنے سامنے کھڑے اپنے اسسٹنٹ پر نکالا اور اسے اندر ہی چھوڑ کر دروازہ دھرام سے بند کرکے وہاں سے چلا گیا۔ 

پیچھے اس کے اسسٹنٹ نے تھوک نگلا ۔ درمان سارے کام خود کرنے کا عادی تھا آج وہی کہہ رہا تھا کسی کو بھی کہو کرلے میٹنگ اٹینڈ ۔

بات خطرناک تھی۔ اور بہت سیریس بھی تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"تھک گئ ہوں میں کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر۔۔!! مجھے باہر نکلنا ہے اب یہاں سے۔ فدیان بھی ناجانے کہاں چلے گۓ ہیں۔ زرلش آپی بھی صبح سے مجھے نہیں دکھیں ۔ ایسا کرتی ہوں کہ آج تھوڑا سا گھر دیکھ لیتی ہوں بس سیڑھیوں تک جاؤں گی۔ اتنا ہی دیکھ کر واپس آجاؤں گی۔۔!!

 ایسے میں پھر اگلی دفعہ سیڑھیوں سے نیچے تک کا ایریا دیکھوں گی اور روز تھوڑا تھوڑا کرکے پورا گھر دیکھ لوں گی۔ یہ ٹھیک رہے گا"

اپنا ٹیڈی بیئر اٹھا کر معصومہ نے سائیڈ پر رکھا۔ پھر چھوٹے چھوٹے قدم لیتی وہ دروازے تک پہنچی۔ ڈر تو وہ یوں رہی تھی جیسے کوئ گناہ کرنے والی ہو۔ 

صرف کمرے سے باہر نکلنا بھی اسے محاذ سر کرنے کے جیسا ہی لگ رہا تھا۔ 

معصومہ نے دروازہ آہستگی سے کھولا اور کمرے سے باہر جھانکا وہاں کوئ نہیں تھا۔ تبھی دایاں پیر اس نے کمرے سے باہر رکھ دیا۔ اس کے قدموں میں لرزش تھی خوف کی وجہ سے۔ 

کوئ جب اسے سامنے نہ دکھا تو اس نے اب ڈرتے ہوئے بایاں پیر بھی باہر رکھ دیا۔ پھر گردن گھماکر کمرے کو دیکھا اور پھر سامنے دیکھا ۔

تو وہ مسکرائ۔ فائنلی وہ کمرے سے باہر نکل چکی تھی۔ اس کی جھیل جیسی آنکھوں میں اس چھوٹے سے کام کی وجہ سے بھی چمک آگئ تھی۔ 

" اب میں سیڑھیوں تک جاؤں گی ۔!! پھر وہاں سے واپس آجاوں گی۔۔!! کسی کو پتہ بھی نہیں لگے گا اور میں تھوڑا سا گھر بھی دیکھ لوں گی۔" 

اپنی سوچ پر خود کو داد دے کر اس نے اب ایک قدم مزید آگے کی جانب بڑھایا ۔ سر اس کا جھکا تھا سارا فوکس اس کا نیچے کی سمت تھا۔ وہ آگے بڑھتی ہی گئ جب اس کا سر کسی سے ٹکرایا ۔

ڈر کر وہ اچھل پڑی اور چند قدم پیچھے ہوکر اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ 

" میرا سر پھاڑ دیا اس گھر نے۔ راستے میں دیوار کون بناتا ہے۔ کیا فدیان کو یہ لوگ الگ کر چکے ہیں جو ان کا راستہ ہی بلاک ہے۔ یا اللہ میں تو اندھی ہوجاؤں گی اب۔ کیونکہ خون آنکھوں میں چلاجاۓ گا اور آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔ یہ ظلم کیا گیا ہے میرے ساتھ ۔۔!! 

مجھے انصاف چاہیے ۔۔۔!!!"

اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر منہ بسورتے ہوۓ معصومہ نے احتجاج کیا پر جتنی روانی میں اس نے انوکھی بات کی تھی سامنے کھڑے فدیان نے اس چھوٹی سی لڑکی کے چہرے کے بگڑتے زاویے دیکھے ۔

" جس بات کا مجھے ڈر تھا وہی ہوا ہے۔ مجھے لگتا تھا اگر تم زرلشتہ کے ساتھ رہی تو اس کا اثر تم پر ہوجاۓ گا دیکھو تو سہی اس نے تمہیں چند ہی دنوں میں اپنے جیسا بنادیا ہے۔ خود سے باتیں کرنے والا۔۔!!

 میڈم میں کوئ دیوار نہیں ہوں اور نا مجھے کسی نے الگ کردیا ہے اس گھر سے۔ میں اس گھر کا زبردستی کا سہی پر لاڈلہ بیٹا ہوں ۔ اور بہت عزیز ہوں سب کو۔ اور کوئ خون نہیں نکل رہا تمہارے سر سے۔ تو ہاتھ ہٹالو۔ ویسے تم جب بھی بغیر اٹکے بولتی ہو نا تو میرے دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے ۔ !! 

اس سے پہلے کہ یہ کچھ کچھ دل کا مرض بن جاۓ۔ کمرے میں آؤ۔ مجھے کام ہے تم سے ۔!!" 

اس کا ہاتھ فدیان نے خود ہی ہٹایا ۔ بظاہر تو لگ رہا تھا جیسے وہ بے رخی کا مظاہرہ کررہا ہے پر اسے معصومہ اپنی محبت جیسی بنتی بہت اچھی لگی۔ 

جب کوئ شخص صبر کرلے تو اللہ اس کے صبر کو کبھی بغیر صلہ دیے نہیں جانے دیتا۔ ہر کسی کو اس کے صبر کا پھل ضرور ملتا ہے۔پر الگ طریقے سے ملتا ہے۔ 

معصومہ نے زبان دانتوں تلے دبائی ۔ زرلشتہ خود جتنی بھی ازیت میں تھی اس نے اس بات کا اظہار کسی سے نہیں کیا تھا نا ہی کسی پر کچھ بھی ظاہر ہونے دیا تھا۔ معصومہ کو تھوڑی سی ہمت جو ملی تھی اس میں فدیان کے ساتھ زرلشتہ کا بھی ہاتھ تھا۔

" آپ کو کیا کام ہے مجھ سے۔۔!!! میں باہر جارہی ہوں سیڑھیوں تک ۔ وہاں تک جاکر واپس آجاؤں گی ۔ پکا۔۔!! آپ جائیں میں آتی ہوں ۔۔!!" 

اس نے فدیان کا ہاتھ چھوڑا اور اسی پوزیشن میں آگے کی طرف جانے لگی۔فدیان پیچھے کھڑے ہوکر اسے دیکھنے لگا ۔ وہ کسی بچے کی طرح ہی چل رہی تھی ہر قدم سنبھال کر۔ اور اپنی بات کے عین مطابق وہ سیڑھیوں تک جاکر واپس بھی پلٹ آئ۔ 

تو وہ مسکرایا ۔ یہ سچ میں کیوٹ تھی۔ جو کہتی تھی وہی کرتی تھی۔ واپسی کے قدم معصومہ نے تیزی سے بھرے تھے۔ اور سیدھا کمرے میں گئ تھی۔ 

" شاباش جہاں سے ٹریننگ لے رہی ہوں لیتی رہو معصومہ ۔۔!! شوہر اور بھابھی دونوں ہی عجوبے ملے ہیں تمہیں ۔ وہ دن دور نہیں جب اس گھر کے لاؤنج میں چیخوں کی آوازیں گونجیں گی۔ ظاہر سی بات ہے جب ہم سب ایک جیسے ہی ہو جائیں گے تو مورے پاگل ہوکر چیخیں ہی ماریں گیں۔۔!!

بس مورے آپ سے دو نمونے برداشت نہیں ہورہے آپ کی بڑی بہو تیسرا نمونہ بھی تیار کررہی ہے ۔!! "

اس نے تاسف سے سر جھٹکا۔ معصومہ کے لیے وہ گفٹس لایا تھا۔ جو خیر سے معصومہ نے دیکھے ہی نہیں تھے۔ اور اسے وہ اب اسے خود ہی دینے تھے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان جتنی جلدی کرسکتا تھا وہ اتنی ہی جلدی گھر پہنچ گیا۔ تب بھی دوپہر ہوگئ تھی اسے واپس آنے میں ۔ سارے راستے اس نے زرلشتہ کو انگنت کالز کیں ۔ اسے پتہ تھا وہ رورہی ہوگی اور اس کی آنکھوں میں آنسو نہ لانے کی قسم کھائی تھی اس نے۔ اور اس کے مزاق کی وجہ سے وہ اس کی محبت تک کو غلط سمجھنے لگی تھی۔

وہ کیوں دل بہلاتا اس سے۔ وہ کوئ بے جان شے تو نہیں تھی جسے وہ چھوڑ دیتا یا جس کی طرف دھیان ہی نہ دیتا وہ ۔ یا جس سے دل بہل جاتا۔ وہ بیوی تھی اس کی۔ جس کے ساتھ اسے آخری سانس تک رہنا تھا۔

 کافی دنوں سے وہ اسے پراپر ٹائم نہیں دے پایا تھا وجہ بھی اس کا وہ پروجیکٹ تھا جو اسے ہر حال میں پورا کرنا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ شام میں اس کے پاس بہت سے گفٹس اور چاکلیٹس لے کر جاۓ گا اور اسے سرپرائز دے گا تو وہ اسے اچانک دیکھ کر خوش ہوجاۓ گی ۔

 پر آگے اب وہ سرپرائزڈ ہونے والا تھا زرلشتہ کی اتنی بری حالت دیکھ کر۔ جس پھول کو وہ تروتازہ چھوڑ کر گیا تھا وہ اسی کی وجہ سے بری طرح مرجھا چکا تھا۔

اس نے گاڑی ایک طرف روکی پھر فون آف کرکے پاکٹ میں رکھ کر وہ اپنی ہی مصیبت کے پاس جانے کے لیے گھر میں داخل ہوا۔ 

دماغ پر وہ بری طرح سوار تھی۔ اتنا کہ اگر ابھی وہ اس کی آواز نہ سنتا تو سماعت سب سننے سے انکار کردیتی۔

وہ تقریباً بھاگتے ہوۓ ہی کمرے میں آیا۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اس کی متلاشی نگاہوں نے اسے بیڈ پر ڈھونڈنا چاہا پر وہ وہاں نہیں تھی۔ 

اسے پتہ تھا وہ ٹیرس پر کھڑی ہوگی یا کھڑکی کے پاس وہی اس کے فیورٹ مقام تھے۔ 

" میری بلی تم کیوں ہوں اتنی حساس ۔ !! مزاق اور حقیقت میں فرق بھی نہیں پتہ تمہیں ۔ میری اتنی محبت کے بعد تو تمہیں سمجھ ہی جانا چاہیے تھا کہ میری زندگی میں صرف تم ہی ہو ۔۔ !!! تم بچی ہی رہو گی ہمیشہ ۔۔!!" 

گہرا سانس خارج کرکے وہ اپنا کوٹ اتار کر بیڈ پر رکھتے اب ٹیرس کی طرف جانے لگا جب اس کے پاؤں سے کوئ چیز ٹکرائی اس نے نیچے دیکھا تو ٹوٹا ہوا فون اپنی حالت پر رو رہا تھا۔ اس کی پیشانی پر بل پڑے۔

"اتنا غصہ ۔۔!!! پر اس معصوم کا کیا قصور تھا۔ شکر ہے تمہارا فون میرے لیپ ٹاپ سے کنیکٹ ہے تبھی ساری پکس بھی محفوظ ہیں۔ ورنہ جو چند یادیں ہیں تم نے تو ان کا بھی کام ختم کردیا تھا۔۔!!" 

فون کی حالت پر افسوس کرکے وہ ٹیرس کی طرف چلا گیا۔ یہ بھی سچ تھا کہ زرلش کا فون درمان کے لیپ ٹاپ سے کنیکٹ تھا یہ بس اس نے سیفٹی کے لیے کیا تھا کہ اگر کبھی کوئ اس کی بیوی کو تنگ کرنا چاہے تو اسے اس بندے کو ٹھکانے لگانے میں آسانی ہو۔ 

خیر فون کا اتنا مسئلہ نہیں تھا وہ اسے نیا لے دیتا شام میں ہی۔ پر وہ اسے مل تو جاتی ۔

اس کی توقع کے عین مطابق زرلشتہ بڑی سی شال شانوں کے گرد پھیلاۓ ٹیرس پر کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر بغیر کچھ بھی کہے وہ اس کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا۔

" رات تک کا وقت بہت زیادہ دیا تھا تم نے۔ مجھے یہاں پہنچنے میں بس چند گھنٹے ہی لگتے۔ تو میں نے سوچا کیوں اپنی زندگی کو مزید انتظار کرواؤ۔۔!!! تم نے حکم دیا اور تمہارا شوہر تمہاری خدمت میں حاضر ہوگیا ۔۔!! اب مجھے دیکھو گی بھی یا پھر خاموش ناراضگی جاری رکھو گی۔ یا پھر میرا انجام بھی اس فون جیسا ہونے والا ہے ۔۔!!!" 

ایک نرم سی آواز زرلشتہ کی سماعتوں سے ٹکرائی وہ رو رو کر تھک گئ تھی تبھی تنگ آکر اپنا غم وہ اس خاموش آسمان سے بانٹنے کے لیے آگئ۔ درمان کی آواز تھی یا کوئ سکون جو اس کی بے چین روح کو تسکین بخش گیا۔

ایک گہرا سانس فضا کے سپرد کرکے وہ درمان کو دیکھنے کے لیے پلٹ گئ۔ سرمئ آنکھوں نے جونہی اس کے چہرے کو دیکھا تھا چند آنسو اس کی آنکھوں سے بہے۔

درمان کو لگا تھا کہ وہ بہت غصہ ہوگی اس پر۔ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہے گی۔ آخر مزاق بھی تو فضول سا ہی کیا تھا اس نے۔ لیکن زرلشتہ کا پیلا پڑتا چہرہ سوجھی ہوئ آنکھیں آنسوؤں سے تر گال دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا۔

اسے لگا جیسے کسی نے اس کی جان ہی نکال لی ہو ۔ چہرے پر موجود مسکراہٹ سمٹی ۔

" زرلشتہ ۔۔!!! تم بیمار ہو؟ تم نے بتایا کیوں نہیں مجھے۔۔!! کب سے طبیعت خراب ہے تمہاری ؟ اور بجاۓ آرام کرنے کے تم یہاں کھڑی ہو۔ دماغ ٹھکانے پر ہے کیا تمہارا۔۔!!! کیا حال کرلیا ہے تم نے اپنا۔ میں ایسے تو نہیں چھوڑ کر گیا تھا تمہیں ۔۔۔!!! "

 اس کے آنسو نرمی سے اس نے صاف کیے جو اسے اپنے پاس دیکھ کر بامشکل ہی کھڑا رہنے کی کوشش میں تھی ورنہ تو اب بس ہوگئ تھی اس کی۔۔!!!

" چھوڑا ہی کیوں تھا آپ نے مجھے ۔!!! درمان میں مرجاؤں گی اگر آپ میرے علاؤہ کسی اور کے ہوۓ تو۔۔!! مجھے پیار ہے آپ سے۔ آپ کو اظہار چاہیے تھا نا تو میں اپنے پورے ہوش و حواس میں اظہار کرتی ہوں کہ میرے دل و دماغ پر آپ قابض ہوچکے ہیں۔ مجھے آپ سے عشق ہوگیا ہے۔۔!! " 

اس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹا کر وہ خود ہی اس کے سینے سے سر ٹکاکر اسی کے سہارے کھڑی ہوئ پھر انتہا کی مدھم آواز میں وہ کردیا جو وہ چاہتا تھا وہ کرے۔ اظہارِ محبت ۔۔!! 

درمان شاکڈ تھا کہ اس کے اظہار پر خوش ہو یا اس کی اکھڑتی سانسوں پر روۓ۔ 

" زری ۔۔!! میری جان ۔۔!! ہم ہاسپٹل چلتے ہیں۔ تم ریلیکس رہو ۔ میری جان کچھ نہیں ہوگا تمہیں ۔۔!!!" 

اس کا دل بھی اب دھڑکنے سے انکار کررہا تھا کہ اس کا ذرا سا اس سے لاپرواہ ہونا اسے کس حال تک لا گیا ہے۔ جب وہ بات بھی کرنا چاہ رہی ہے تو آواز بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہی۔

نرمی سے وہ اسے بازوؤں میں بھر گیا۔ تاکہ اسے ہاسپٹل لے جاسکے۔ اس کی حالت بالکل بھی ٹھیک نہیں تھی۔ 

"میرا دل آپ کے معاملے میں میری بھی نہیں سکتا اب۔ میں تھک گئ ہوں یہ سوچ سوچ کر کہ اگر روایتی پٹھانوں کی طرح آپ نے بھی اپنا حق استعمال کرکے میرے برابر کسی کو اہمیت دے دی تو میں کتنی سانسیں مزید لے پاؤں گی ۔۔!! 

درمان آپ کو اللہ کا واسطہ ہے مجھ پر یہ ظلم نہ کیجۓ گا اگر آپ کی زندگی میں کوئ ہے تو چھوڑ دیں اسے۔ ورنہ مجھے قبر میں اتارنے کے لیے تیار ہو جائیں ۔۔!! میں بس آپ کا دل بہلانے کا سامان نہیں بن سکتی ۔ اتنا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں۔۔!! "

اس کی آواز مزید مدھم ہوگئ ۔ وہ ہوش کھو رہی تھی یا درمان کو پاس دیکھ کر سکون میں آگئ تھی اندازا لگانا مشکل تھا۔ پر درمان کی شرٹ اس نے اپنی مٹھی میں ضرور دبوچی تھی شاید یقین کرنے کے لیے کہ وہ آگیا ہے۔

"آپ چاہیں گے تو ہزار بار کہوں گی روز کہوں گی جب تک آپ کے دل کو تسکین نہیں ملے گی مسلسل اظہار کرتی رہوں گی کہ ہاں مجھے محبت ہے آپ سے۔بہت محبت ہے۔!!!"

بس اتنا کہہ کر وہ ہوش کھو گئ۔ 

"زرلش۔۔۔!!! کیا فضول باتیں کررہی ہو تم۔ میں کیوں تمہارے برابر کسی اور کو لا کھڑا کروں گا۔ہمارا رشتہ کوئ مزاق نہیں ہے میری جان۔ میں جب تک زندہ ہوں بس تمہارا ہوں۔کچھ بھی ہوجاۓ میں بس تمہارا ہی رہوں گا۔ یہ فضول سوچ آخر تمہارے دماغ میں آئ کیسے ۔!!!"

درمان نے اس کی باتیں سنیں جو اسے بہت عجیب لگیں تبھی اس نے اپنے غصے کو دبا کر اسے بتانا چاہا کہ وہ بس اسی کا ہی ہے۔ پر وہ ہوش کھو چکی تھی۔ اسے اس کی جانب سے کوئ جواب نہ ملا تو اس نے اس کے چہرے کو دیکھا جس کی آنکھیں بند ہوچکی تھی ۔ نیلی آنکھوں میں انجانا سا ڈر بیٹھا۔ اسے آخر کیا ہوگیا ہے۔

" میں بھی بہت پیار کرتا ہوں تم سے یار۔ میری بات تو سنو ۔ میں نے بس مزاق کیا تھا۔ تم کیوں سیریس ہوگئ ہو۔ جواب تو دو مجھے ۔!!!" 

اس کے دل کی دھڑکن لمحے کے لیے رکی۔ اسے ہر چیز ختم ہوتی محسوس ہوئ۔ ذرلش کی سانسیں مدھم سے بھی مدھم ہوچکی تھیں۔ وہ جارہی تھی اسے چھوڑ کر۔ اسے پہلے بھی وہ دو بار اسی حال میں دیکھ چکا تھا۔ اب پھر وہ اسی حال کو پہنچ چکی تھی اور بدقسمتی سے وجہ اب بھی درمان ہی سے جڑی تھی۔

" زرلشتہ یار اگر تم کچھ نہ بولی تو باخدا اس بار میں بھی مرجاؤں گا۔ کیا مزاق ہے یہ۔ تم کیوں ہر بار مجھے میری بےرخی کی اتنی بڑی سزا دیتی ہو۔۔!!! اس سے تو اچھا ہے ایک ہی بار تم میری جان لے لو " 

اس کے بے ہوش وجود کو اٹھا کر وہ کمرے سے باہر تقریبا بھاگتے ہوۓ ہی نکلا۔ ساتھ ہی اس کا اپنا سانس بھی رک گیا تھا۔ گھر میں مکمل ویرانی تھی اس وقت تبھی بغیر کسی کے سوالوں میں الجھے وہ زرلشتہ کو گاڑی تک لایا پھر فرنٹ سیٹ پر بٹھاکر اس نے اس کے مرجھاۓ چہرے پر تکلیف سے بھری نگاہ ڈالی۔

" تم کیوں ہو ایسی ۔!! میرا مزاق کیا اتنا برا تھا کہ تم مجھے چھوڑ رہی ہو۔ مجھ سے لڑلو۔ مار لو۔۔سزا دے لو۔ جو کہنا ہے کہہ لو پر پلیز آنکھیں کھول کر مجھے دیکھو تو سہی۔ تمہارا مان مرجاۓ گا یار۔۔!!!" 

درمان نے جنونی سی کیفیت میں زرلشتہ کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے فریاد کی۔ پر وہ نہیں اٹھی۔ تب اپنی آنکھوں سے نکلتے بے رحم آنسو انگوٹھے سے پونچھ کر جیسے وہ ابھی اس گھر میں آیا تھا ویسے ہی اب یہاں سے چلا بھی گیا۔ فرق بس اتنا تھا کہ آتے وقت اسے زرلشتہ کو دیکھنا تھا اور یہاں سے نکلتے وقت اسے بس اسے بچانا تھا۔

ہاسپٹل دور ہونے کی وجہ سے درمان نے زرلشتہ کو پاس ہی موجود کلینک میں لے جانا مناسب سمجھا۔ اس کے پاس ضائع کرنے کے لیے بالکل وقت نہیں تھا۔ وہ کلینک صبح سے رات تک کھلا رہتا تھا بس ڈاکٹرز کی شفٹس چینج ہوتی تھیں یہ ایڈوانٹیج مل گیا اسے۔ اور وہاں پر بہتر علاج کی سہولیات بھی تھیں۔ اپنے علاقے کو درمان نے ایک چھوٹے سے ہاسپٹل کا تحفہ ہی دیا ہوا تھا اس کلینک کی صورت میں۔

کلینک پہنچتے ہی اس نے زرلشتہ کو متاع حیات کی طرح اٹھایا جیسے اس کے لیے اس سے بڑھ کر کچھ قیمتی نہ ہو۔ سچ بھی یہی تھا جس سے آپ محبت کرتے ہو وہ آپ کے لیے آپ کی زندگی سے بھی قیمتی ہوتا ہے۔

کلینک میں اس وقت مریض نہ ہونے کے برابر تھے۔ وہ جونہی کلینک میں داخل ہوا اسے ریسپشن پر لیڈی ڈاکٹر کھڑی مل گئ جو سٹاف اٹینڈینس رجسٹر پر کچھ لکھ رہی تھی۔

اس نے جب درمان کو دیکھا تو فورا اس کے پاس آئ۔ وہ اکثر و بیشتر یہاں آتا رہتا تھا پر آج اس کے چہرے پر تکلیف تھی۔

" از ایوری تھنگ اوکے مسٹر درمان ۔۔!! ہو از شی۔۔!! اوکے آپ میرے ساتھ آئیں ۔۔!!"

ڈاکٹر نے پہلے متفکر لہجے میں اس سے معاملہ پوچھا پھر جب اس کی نظر بے ہوش زرلشتہ پر پڑی تو اس نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔

اور خود ایک روم کی طرف جانے لگی درمان بھی خاموش سا اس کے پیچھے ہی چل پڑا۔

اسے بس زرلشتہ کو بچانا تھا اور اسے کچھ یاد نہیں تھا۔

 کمرے میں آتے ہی ایک چھوٹے سے ہاسپٹل نما بیڈ پر درمان نے احتیاط سے زرلشتہ کو لٹادیا۔ 

" ڈاکٹر یہ اٹھ نہیں رہی۔ اچانک بے ہوش ہوگئ ہے یہ۔ابھی کچھ دیر پہلے بات کررہی تھی مجھ سے۔ ناراض تھی میں اسے منانے آیا تھا پر یہ بات کیوں نہیں کررہی ۔۔!! اسے آپ چیک کریں ۔ مجھے یہ ٹھیک چاہیے ۔!! 

مجھے میری وائف پہلے کی طرح ٹھیک چاہیے ۔مجھے پتہ ہے غلطی میری ہے میں نے اسے اگنور کیا تھا پر مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ اس حال کو پہنچ جاۓ گی۔آپ دیکھیں نہ اسے کیا ہوا ہے ۔!!!"

اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا پھر اپنے حلق میں آنسووں کا گولہ اتار کر اسے زرلشتہ کی حالت بتائ۔ دل اس کا ڈوب رہا تھا کہ زرلشتہ اٹھ کیوں نہیں رہی۔ وہ کیوں اسے سزا دے رہی ہے۔

 ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر زرلشتہ کی پلس چیک کی جو آج بھی ناہونے کے برابر تھی۔ پھر اس کی آنکھیں ہلکی سی کھول کر دیکھیں تو لب بھینچ لیے۔

" آپ پلیز کچھ دیر باہر جائیں مجھے ان کا پراپر چیک اپ کرنا ہے۔۔۔۔!!! ڈونٹ وری مسٹر درمان یہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ اللہ کرم کرے گا کچھ نہیں ہوگا انہیں ۔ آپ پلیز کچھ دیر باہر کھڑے ہوکر ویٹ کریں ۔۔۔!!!! " 

اس نے سنجیدگی سے درمان کو باہر جانے کو کہا جس نے ہاں میں سر ہلایا لیکن باہر جانے سے پہلے واپس زرلشتہ کی جانب جھک کر اس نے اس کی بند آنکھوں پر امید بھری نگاہ ڈالی۔

" میں آگیا ہوں تمہارے پاس۔۔!! ابھی تمہیں مجھ سے لڑنا ہے۔ شکایتیں کرنی ہیں۔ ڈانٹنا ہے مجھے۔ میں تمہارے بغیر ادھورا ہوں۔ یہ بات یاد رکھو درمان کچھ بھی نہیں ہے اب تمہارے بغیر ۔ پلیز اٹھ جاؤ ۔۔!!!" 

اس کی بند آنکھوں پر عقیدت بھرا لمس چھوڑ کر وہ وہاں سے لمبے لمبے ڈنگ بھرتا چلا گیا۔ پیچھے ڈاکٹر اب زرلشتہ کا مکمل چیک اپ کرنے لگی۔ جو اسے لگ رہا تھا اسے امید تھی وہی ہے۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"اے میرے ہم نشیں کہیں اور چل 

اس چمن میں ہمارا گزارا نہیں.....!!!

بات پھولوں کی ہوتی تو سہہ لیتے ہم

اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں...!!!" 

کمرے کے پرسکون ماحول میں جہاں وشہ صوفے پر بیٹھی کسی کتاب کے اوراق الٹ پلٹ رہی تھی اس کی سماعتوں نے اب سے پھر اسی دشمنِ جان کی آواز سنی جو اسے تنگ کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔

کمرے میں اس کے مخصوص پرفیوم کی خوشبو پھیل کر اس کے نتھنوں سے ٹکرائ۔ وہ خاص قسم کا پرفیوم استعمال کرتا تھا تاکہ دور سے ہی لوگوں کو اس کی آمد کی خبر ہوجاۓ۔

دیار کی نظروں کا مرکز وہی تھی وہ ہلکا سا شکوہ کررہا تھا کیونکہ اس رات جو اس نے کہا تھا وہ نہ دیار دہرا پایا تھا نا ہی وشہ نے ذکر کیا تھا اس بات کا۔ دونوں یوں تھے جیسے اب بھی انجان ہوں۔

" بہت احسان فراموش دیکھیں ہیں میں نے بس جو میرے دل میں بسا احساس فراموش ہے اس سے آگے آج تک کوئ نہیں گیا ہوگا ۔۔!! کیسے حالات آگۓ ہیں اب۔ لوگ میرے دل کی دنیا میں اپنی موجودگی سے طوفان لاکر اب یوں انجان ہیں جیسے وہ اس تباہی کے ذمہںدار ہی نہ ہوں۔۔!!"

وشہ کی جانب اس نے چند قدم بڑھاۓ کمرے میں اس کے قدموں کی آہٹ گونجی ۔وشہ نے محسوس کیا کہ وہ اس کی جانب ہی آرہا ہے۔ اس کی مہک اس کے اوسان جھنجھوڑنے لگی۔ 

اس نے تھوک نگلا۔ پر سر نہ اٹھایا ۔ وہ مسلسل کتاب کے اوراق اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پانے کے لیے پلٹنے لگی۔

" بس یہی ہونا رہ گیا تھا یہ ہمیں اسی رات کا طعنہ دیں گے اب۔۔!!" اس نے آنکھیں میچ لیں۔ 

" جانم ۔۔۔!!! بتائیں نا ۔۔!! لوگ احساس فراموش کیوں ہوتے ہیں۔ اپنا مطلب نکال کر سکون سے خاموش ہو جانے والے۔ مجھے ایسے لوگوں کو اپنا احسان یاد دلانا چاہیے یا پھر اپنے احساس کا بدلہ زبردستی لینا چاہیے۔ عقل کہتی ہے احسان کا بدلہ لو۔ دل کہتا ہے چھوڑ دو۔ میں الجھ سا گیا ہوں ذرا رہنمائی تو فرمائیں ۔۔!!!" 

اس کی بھاری سانسوں کی آواز اسے اپنے پاس محسوس ہوئ تو اس نے آنکھیں مزید زور سے میچیں۔ جیسے اسے غائب ہونا ہو کہیں ۔ اتنے دنوں سے وہ اس کی اگنورنس برداشت کررہا تھا۔ اب بدلہ لینا اس کا حق تھا۔

دیار نے گھمبیر آواز میں وشہ کے دل میں ہلچل مچادی۔ 

" جانم جواب چاہیے مجھے۔۔!!! میں تھک گیا ہوں ان احسان فراموش لوگوں کو بخشتے ہوۓ۔ بس اب میں سوچ رہا ہوں کہ ان لوگوں کو اچھے سے بتاؤں کہ دیار درانی آخر کس طوفان کا نام ہے۔ مجھے بتانا چاہیے نا انہیں ۔۔۔!!! جواب دیں ورنہ میں شام تک یہیں رہوں گا۔" 

اس نے پھر سے وہی بات دہرائی۔ وہ صوفے کے سرے پر ہاتھ رکھ کر اس کی جانب جھکا تھا جو آنکھیں کھولنے سے بھی انکاری تھی۔

دیار نے اس کے کانپتے ہاتھ دیکھے تو مسکرایا ۔ بس اتنا ہی حوصلہ تھا اس کی شیرنی کا۔ پر شیرنی کی عقل ٹھکانے لگانا ضروری تھا اس وقت۔

"ا۔احسان کرکے ب۔بھول جانا چاہیے۔ آپ بھول جائیں ۔۔!!"

اس نے تھوک نگل کر مشورہ دیا۔ دیار نے مسکراہٹ دبائی۔

" نہیں وش ۔۔!! میں نہیں چھوڑنے والا اس احسان فراموش کو۔ اب میں اس سے بدلہ لوں گا۔اور جب تک میں چاہوں گا اسے میری بات ماننی ہی ہوگی۔ آپ مجھے دیکھیں مجھے ایک کام تھا آپ سے۔ آپ کو اس احسان فراموش کی صورت دکھانی ہے مجھے۔!!"

آواز کو اس نے مزید پراسرا کیا۔ وشہ کا ذہن ماؤف ہوا۔ اس نے آنکھیں کھولیں وہ اسے ایسے بخشنے والا نہیں تھا۔ تبھی وہ ذرا سا صوفے کی پشت سے لگی پھر مکینکی انداز میں اس نے گردن دیار کی جانب گھمائ۔ اس کی آنکھوں میں معصومیت دیکھ کر دیار بھی ناچاہتے ہوئے سنجیدہ ہوا۔

" ان آنکھوں میں عکس ہے اس احسان فراموش کا۔ جس کی خاطر میں نے اپنی رات کی نیند خراب کی۔ اس کا اتنا خیال رکھا۔ ساری رات اس کے لیے جاگتا رہا ۔ پھر اس کی بےرخی برداشت کرکے بھی اس کا خیال رکھا اور اسے میری فکر ہی نہیں۔۔!! وہ مجھے دیکھتی بھی نہیں ۔ بتائیں اس احسان فراموش کی سزا کیا ہے۔۔!!" 

اس نے سنجیدگی سے استفسار کیا تو وشہ کی آنکھوں پر اس کی پلکیں سایہ فگن ہوئیں۔

" آپ نے کہا تھا آپ ہمیں طعنہ نہیں دیں گے پر آپ دے رہیں ہیں۔ ٹھیک ہے جو سزا دینی ہے دے دیں ۔ ہم آپ کا احسان اتار دیں گے۔ پر اب کچھ بھی ہوگیا آپ کے پاس سکون کے لیے نہیں آئیں گے۔ آپ برے ہیں ۔۔!!"

وشہ نے ہاتھ میں پکڑی کتاب کو بےرخی سے بند کیا۔ پھر شکوہ بھی کرگئ۔ تبھی دیار کی مسکراہٹ اس کے چہرے پر واپس لوٹی۔

" محبت اور جنگ میں سب جائز ہے جانم۔۔!! آپ کا سکون مجھ سے جڑا ہے وش۔۔!! اب کچھ بھی ہوجاۓ آپ سکون کے لیے میرے پاس ہی آئیں گی چاہے بدلے میں آپ کو بھاری قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔ اس دفعہ میں آپ کو ڈسکاؤنٹ دے رہا ہوں سزا تھوڑی ہوگی۔ پر اگلی بار کوئ ڈسکاؤنٹ نہیں ملے گا۔۔۔!! 

ابھی اٹھیں اور ڈریسنگ روم میں جو آپ کے لیے ڈریسز رکھے ہیں اس میں سے ریڈ کلر کا فراک پہن کر آئیں۔ میں انتظار کررہا ہوں آپ کا۔ جائیں اور پہن کر آئیں۔اور میرے سامنے اس وقت تک بیٹھیں جب تک میں اٹھنے کو نہ کہوں۔۔!! یہ سزا ہے آپ کی ۔ 

ابھی کم ہے تو اٹھ جائیں ورنہ پوری حویلی کے سامنے میں آپ سے اظہارِ عشق کروں گا۔ اور یقینا آپ ایسا نہیں چاہیں گی ۔ تو جائیں اور تیار ہوکر آئیں ۔ میں انتظار کررہا ہوں آپ کا۔۔!!" 

 دیار نے یوں اسے جانے کو کہا جیسے وہ اس کے حکم کی پابند ہوں۔ اس انوکھی فرمائش اور دیار کے انوکھے رعب جھاڑنے والے انداز پر وشہ نے صدمے سے اسے دیکھا جو ساتھ میں دھمکی بھی دے گیا۔ تبھی وشہ دانت پیس کر رہ گئ۔

" توبہ ہے ۔۔!! آپ تو یوں حکم جھاڑرہے ہیں جیسے ہم نے آپ سے سکون خریدا تھا۔ تھوڑا سا خیال کیا رکھ لیا آپ نے۔آپ تو خوش فہمیاں ہی پال بیٹھے ہیں۔ پہلے تو شاید ہم آپ کو قبول کرلیتے پر اب نہیں کریں گے۔۔!!! ہٹیں ہمارے راستے سے ہم آپ کا احسان اتار ہی دیں."

کتاب بند کرکے اس نے صوفے پر پٹخ دی۔ پھر دیار نے اسے راستہ دیا جو پیر پٹخ کر ڈریسنگ روم چلی گئ۔ دیار نے اپنی پسند سے بہت سے ڈریسز اس کے لیے منگواۓ تھے۔ ساتھ میں ایکسیسریز بھی۔ جو اب وشہ کو استعمال کرنی ہی تھیں۔

ڈریسنگ روم کا دروازہ کھٹاک سے بند ہوا۔ تو دیار کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔

" یہ تو بہت آسانی سے قابو میں آگئ ہیں مجھے لگا تھا بہت وقت لگے گا۔ میری شیرنی بہت کیوٹ ہے۔ بے فکر رہیں ایک دن آپ مجھے قبول بھی کرلیں گی۔ اور آپ کو ہر بار میرے پاس ہی آنا ہے۔ چاہیں جتنا بھی خود کو روکیں خدا نے آپ کی ساری راہیں مجھ سے جوڑ دیں ہیں ۔!!"

سر جھٹک کر وہ اسی صوفے پر بیٹھ گیا یہ سوچ اسے لطف دے رہی تھی کہ یہ لڑکی آسانی سے قابو میں آگئ۔ اسے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" یہ میرے لیے ہے پر مجھے اسے استعمال کرنا ٹھیک سے نہیں آتا۔ میں کیا کروں گی اس کا

 میں ویسے ہی ٹھیک ہوں آپ اسے واپس لے لیں۔!!" 

اپنے ہاتھ میں پکڑا فون معصومہ نے الٹ پلٹ کرکے دیکھا پھر فدیان کو واپس کرنے لگی۔ جو گفٹ میں اس کے لیے فون لایا تھا تاکہ کوئ بھی مسئلہ ہو تو وہ باآسانی اسے بتا سکے۔ وہ صوفے پر اس کے پاس بیٹھی تھی۔ 

" میں سکھادوں گا تمھیں اس کا پراپر استعمال۔۔!! تم کیوں فکر کررہی ہو۔ اور تمہیں یہ فون رکھنا ہی ہوگا اپنے پاس تاکہ کبھی بھی کوئ بھی مسئلہ ہو تو تم مجھے آسانی سے بتاسکو۔ دیکھو میں اب روز روز گھر نہیں رہوں گا لالہ اپنی طرح مجھے بھی بزنس سٹارٹ کرنے کو کہہ رہے ہیں۔

 اور مجھے پتہ ہے اب میری خیر نہیں۔مجھے پتہ ہے اس جائیداد میں میرا بھی حصہ ہے پر میرے لالہ چاہتے ہیں ہم اپنے بل بوتے پر کچھ بنیں ناکہ پہلے سے جمع جائیداد اور سٹیٹس پر سکون سے زندگی گزاریں ۔"

سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ فدیان نے اسے سمجھایا ۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ کام کے چکر میں معصومہ سے لاپرواہ ہوجاۓ۔ جتنی وہ بیوقوف تھی اسے پتہ تھا اگر وہ خود اس سے دور ہوا تو یہ رشتہ خود ہی ختم ہوجاۓ گا ۔ اس رشتے کو چلانے کے لیے ساری محنت اسے ہی کرنی تھی۔

" میں آپ کو کال کروں گی تو آپ کو برا تو نہیں لگے گا نا۔ آپ ڈانٹیں گے تو نہیں ۔۔!!" 

کچھ سوچ کر بہت عقلمندانہ اور بقول فدیان کے تکلفانہ سوال اس نے پوچھ لیا۔ جو سن کر فدیان نے افسوس سے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ لیا۔

" معصومہ پوچھ تو تم ایسے رہی ہو۔ جیسے  دن، رات ہر وقت تم مجھے ہی کال کرتی رہو گی۔ اتنی تم ہوشیار ۔۔!! اچھا میں تمہیں اپنی انسٹا آئ ڈی دکھاتا ہوں۔ون ملین فالوورز ہیں میرے۔ پھر تمہارا اکاؤنٹ بنادوں گا اور تمہارا کام ہوگا میری ہر پک پر لو ری ایکٹ کرنا اور کمنٹ میں لکنک ہینڈسم ، سٹائلش ، ماۓ لائف، ماۓ لو ایسے لفظ بولنا۔ لیکن تم اپنی کوئ پک کہیں پوسٹ نہیں کرسکتی۔ اگر کسی نے تمہاری تعریف کی تو وہ بلاوجہ ضائع ہوجاۓ گا میرے ہاتھوں۔!!" 

فدیان نے اپنا فون نکال کر اپنی آئ ڈی اوپن کی اور معصومہ کو دکھانے لگا۔ وہ لاپرواہی میں ہی سہی پر اس کے قریب تھا اس وقت۔ معصومہ نے کن اکھیوں سے فدیان کو دیکھا پھر ہلکا سا مسکرائی بلارادہ ہی۔ پھر وہ جو آئ ڈی اسے دکھارہا تھا اس نے وہ دیکھی۔ 

" آپ پیارے ہیں بہت سچ میں۔اور کتنے لائکس ملے ہیں آپ کی پک کو 98k۔ آپ تو سچ میں فیمس ہیں۔!! پر یہ لڑکی کیا کہہ رہی ہے۔ ول یو میری می۔ ف۔فدیان یہ آپ کو پرپوز کررہی ہے ۔!! " 

اس کی پکس دیکھتے ہوۓ معصومہ نے اس کی تعریف بھی کی جو اس تعریف پر سر کو خم دے گیا لیکن غلطی سے کمنٹ سیکشن میں معصومہ نے وہ دیکھ لیا جو اسے نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں کہ فدیان کو کسی نے پروپوزل سینڈ کیا ہے۔

" لیو اٹ خانی ۔۔!! یہ نارمل سی بات ہے۔ یہ لوگ کچھ بھی بولتے رہتے ہیں۔۔!! تم بتاؤ یہ پک کیسی ہے۔ یہ میری یونی کے ٹائم کی ہے۔ میں تب زیادہ پیارا تھا یا اب زیادہ پیارا ہوں۔۔!!" 

وہ پھر سے اٹک گئ تھی تبھی اس نے اس کا شک دور کرنا چاہا جس نے نفی میں سرہلادیا۔ یہ حوصلہ اور اعتماد جو فدیان نے اسے دیا تھا اسی کا اثر تھا کہ وہ اب اس سے ناراض ہونے والی تھی۔

" آپ نے کہا کہ مجھے کوئ نہ دیکھے آپ کو اچھا نہیں لگے گا پر وہ آپ کو پروپوز کررہی ہے۔۔!! یہ غلط ہے فد۔ فدیان ۔۔!! آپ اس سے شادی کرلیں گے اب۔ مجھے چھوڑ دیں گے نا آپ ۔!! مجھے واپس سے بابا کے پاس نہیں جانا۔ پلیز ۔!!" 

اپنی جھیل جیسی آنکھوں کو پل میں نم کرکے معصومہ نے سر جھکایا ۔ تو فدیان کو اس فون پر غصہ آیا۔ بیوی چھوٹی سی ہو معصومہ کی طرح یا میچور ہو۔ بیوی،بیوی ہی ہوتی ہے۔۔!!

کوئ اس کے شوہر کو دیکھے یا فری ہونے کی کوشش کرے تو اس کا پوزیسو ہونا جائز ہوتا ہے۔

" ایسے تو میں ہزاروں لاکھوں شادیاں کروں گا کیونکہ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ اور مجھے ان چیزوں سے فرق نہیں پڑتا۔ تم بھی زیادہ نہ سوچو۔ اور اس فون کو ہی چھوڑ دو ہم کوئ اور بات کرتے ہیں ۔۔!!" 

فدیان کے لیے بات سنبھلنا مشکل تھا تبھی اس نے فون ہی سائیڈ پر رکھ دیا لیکن معصومہ صوفے سے اٹھ گئ ۔

" آپ کو ہ۔ہزاروں پروپوزل مل چکے ہیں۔ میں تو کچھ بھی نہیں آپ کے لیے۔ مجھے نہیں بات کرنی آپ سے۔ میں جارہی ہوں۔ مجھے ظہر کی نماز پڑھنی ہے۔۔!!" 

اپنی نم آنکھیں معصومہ نے صاف کریں اور بے رخی کا مظاہرہ کرتے واش روم کی طرف چلی گئ ۔ وہ پہلی بار زندگی میں کسی سے ناراض ہوئ تھی اور وہ شخص تھا فدیان۔۔!!!

جو شاکڈ تھا کہ ایک کمنٹ میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے۔ وہ بھی تب جب اس کا کوئ قصور ہی نہیں۔ وہ کسی کو کمنٹ کرنے سے روک تو نہیں سکتا تھا نا۔ پر معصومہ کبھی نہ سمجھتی۔۔!! 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان باہر کھڑا کافی دیر سے ڈاکٹر کا ہی انتظار کررہا تھا ۔ بہت بار اس کا دل کیا کہ خود ہی اندر چلا جاۓ تاکہ پتہ کرسکے کہ وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ پھر خود پر ضبط کرکے وہ رک گیا۔ 

بہت انتظار کے بعد ڈاکٹر روم سے باہر نکلی تو وہ فوراً اس کے سامنے آیا۔

' ٹھیک ہے نا وہ ۔۔!! اسے ہوش آگیا ہے نا۔!!" 

بے چینی کی کیفیت میں روم کے بند دروازے کو گھورتے ہوۓ اس نے ڈاکٹر سے سوال کیا۔

" آپ میرے ساتھ آئیں مسٹر درمان مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ پریشان نہ ہوں وہ ٹھیک ہیں اب۔ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔۔!!"

ڈاکٹر نے سنجیدگی سے اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا جو ایک بار پھر روم کے بند دروازے کو دیکھ کر ڈاکٹر کی رہنمائی میں چلنے لگا ۔

روم میں پہنچ کر ڈاکٹر اپنی سربراہی نشست پر بیٹھ گئ اور وہ اس کے ٹیبل کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

" مسٹر درمان۔۔!!سب سے پہلے دو آپ کے لیے ایک گڈ نیوز ہے۔ آپ کی وائف ایکسپیکٹ کررہی ہیں۔ ٹو ویک پریگننسی ہے۔ ویسے تو نارملی اتنی جلدی پتہ نہیں چلتا لیکن چونکہ ان کی طبیعت حد سے زیادہ بری تھی تبھی یہ بات ہمیں جلدی پتہ چل گئ۔ مبارک ہو آپ بابا بننے والے ہیں۔۔!! " 

مسکراتے ہوۓ ڈاکٹر نے اسے وہ خبر دی جسے سن کر اس کا کب کا تکلیف میں مبتلا دل پہلے تو مکمل طور پر رکا پھر ایک الگ طرز پر دھڑکا۔ وہ جہاں تھا وہاں تھما ۔ یہ خبر بہت بڑی تھی۔ اس کی معصوم سی بیوی نے اسے سرپرائز دے دیا تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ مکمل فق ہوا پھر اس کے لب تبسم میں ڈھلے۔ 

اپنے بالوں میں ہاتھ پھر کر اس نے یقین کیا کہ یہ کوئ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔

"آپ شور ہیں نا۔ کوئ مس انڈرسٹینڈنگ تو نہیں۔ میں سچ میں بابا بننے والا ہوں۔ سچ میں ۔۔!!! یا اللہ تیرا شکر ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اپنی خوشی کیسے ظاہر کروں ۔ زرلشتہ تو ٹھیک ہے نا۔ کوئ پریشانی والی بات تو نہیں ۔۔!!" 

اپنی دونوں مٹھیاں اس نے خوشی سے بھینچ لیں۔ اولاد کی خوشی کسی بھی انسان کے لیے سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ جس کا اظہار لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا۔

اسے پہلی فکر زرلشتہ کی ہوئ تبھی اس نے ڈاکٹر سے اس کی کنڈیشن پوچھی۔ جس نے گہرا سانس خارج کرکے سامنے سے پرسکرپشن لکھنے کے لیے پرچی اٹھائ۔

" یہی پریشانی والی بات ہے۔ ان کی حالت بالکل بھی اچھی نہیں ہے۔ وہ شدید قسم کے سٹریس سے گزر رہی ہیں۔ وہ hypoglycemia پیشنٹ ہیں اس حالت میں انہیں مزید کیئر کی ضرورت ہے۔ اور بدقسمتی سے ان کی حالت جتنی بری تھی اگر آپ رات یا شام تک کا انتظار کرتے تو شاید آج وہ ہم میں نہ ہوتیں۔ مسٹر درمان وہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی خوشی دے رہی ہیں تو محبت اور خیال وہ ڈیزرو کرتی ہیں۔۔!! آپ اچھے سے سمجھ گۓ ہوں گے کہ ان کی کنڈیشن ان کی جان لے سکتی ہے ۔!!" 

درمان کے چہرے کو ایک نظر دیکھ کر سنجیدگی سے ڈاکٹر نے اب اصل مسئلہ بیان کیا تو جو خوشی درمان کے چہرے پر تھی وہ ریت کی تحریر کی طرح مٹ گئ۔ اسے خوشی چاہیے تھی پر زرلشتہ کی جان اس کے لیے سب سے بڑھ کر اہم تھی۔

" میں اسے نہیں کھوسکتا۔۔!! آپ جو کہیں گی میں کرنے کو تیار ہوں۔ اس کا خیال میں ہر چیز سے بڑھ کر رکھوں گا۔ کوئ میڈیسن کوئ احتیاط کچھ تو ایسا ہوگا کہ میری وائف ٹھیک ہوجاۓ۔۔!! زرلشتہ بہت معصوم ہے۔ میں اسے کسی اذیت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔۔!! آپ جو کہیں گی میں کرنے کو تیار ہوں ۔!!" 

 درمان نے بے چینی کے عالم اپنی کنپٹی کی رگیں سہلائیں ۔ابھی تو اس نے خوشی پوری طرح محسوس بھی نہیں کی تھی جب ڈاکٹر کی بات اسے پھر وہیں لے آئ جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑا تھا۔

"انہیں آپ کی محبت اور آپ کی توجہ کی ضرورت ہے مسٹر درمان۔انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔ مما اور بےبی دونوں اس وقت آپ کو ہی یاد کررہے ہیں۔۔!! معصوم تو وہ بہت ہیں تبھی بے ہوشی کے عالم میں بھی آپ کا ہی نام لے رہی تھیں۔ شی ریلی لوز یو۔ یقینا ان کا سٹریس صرف آپ ہی دور کرسکتے ہیں۔

 انہیں وقت دیں ، اعتماد دیں۔ ان کا خیال رکھیں اور کوشش کریں کہ وہ اب دوبارہ کسی بات کو خود پر سوار نہ کریں۔ اگر دوبارہ یہ اسی حال میں واپس آئیں تو قسمت آپ کا ساتھ نہیں دے گی۔۔!! آگے آپ خود سمجھدار ہیں" 

ڈاکٹر نے پرسکرپشن لکھ کر اس کی طرف بڑھادی جو اس نے پکڑ کر آنکھیں چند سانحوں کے لیے بند کیں ان آنکھوں کے سامنے ہنستی مسکراتی زرلشتہ ہی گھوم رہی تھیں۔ 

پھر آنکھیں کھول کر وہ کرسی سے اٹھ گیا۔ اب وہ بے بی کی نیوز پر خوش ہوتا یا پھر اپنی بیوی کے لیے اداس ہوتا جو موت کے دہانے پر کھڑی تھی۔ قسمت نے عجیب راہ پر لاکھڑا کیا تھا اسے۔

" میڈیسنز انہیں وقت پر دیں۔ ابھی کچھ ہی دیر میں ڈریپ ختم ہوجاۓ گی ان کی تو آپ انہیں واپس لے جاسکتے ہیں۔ ہر ہفتے ان کا پراپر چیک اپ ضروری ہے۔ وہ نارمل کیس نہیں تو احتیاط کریں کہ وہ خود کو اب کوئ تکلیف نہ دیں۔ ورنہ سواۓ پچھتاوے کے آپ کے پاس کچھ نہیں بجے گا۔۔!!" 

جتنا وہ درمان کو سمجھا سکتی تھی اس نے سمجھا دیا۔ باقی وہ خود سمجھدار تھا۔ جانتا تھا کہ اس کی بیوی کی زندگی اب اس کی محبت اور توجہ کی محتاج ہے۔ اور اسے اس کے حصے کی محبت دینی تھی۔

" کاش زرلشتہ ہمیں یہ خوشی کسی اور طریقے سے پتہ لگتی تو آج میں اس ہاسپٹل میں خوشی سے مٹھائیاں بانٹ رہا ہوتا۔ پر تمہاری جان خطرے میں ہے۔ میں تو خود بھی خوش نہیں ہوپارپا۔۔۔!!" 

کمرے کا دروازہ کھلتے ہی درمان کی نظر بیڈ پر لیٹے اس معصوم سے وجود پر پڑی جو ایسی بالکل بھی نہیں تھی جب اسے ملی تھی۔ اس نے اسے ہنسنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا تھا۔ اپنی محبت میں دیوانہ کرکے اس نے زرلشتہ کی مسکراہٹ تک چھین لی تھی۔

ساری سوچیں ایک طرف کرکے درمان نے ابھی اسے اس وہم سے نکالنے کا اردہ کیا جو سب سے ضروری تھا۔

وہ اب بھی سوی ہوئ تھی تبھی اس کا ہاتھ نرمی سے پکڑ کر اس نے آنکھیں بند کیں۔ پھر جھک کر اس پر بوسہ دیا۔ 

اس کا لمس زرلشتہ کو نیند کی وادیوں سے بھی باہر نکال گیا۔ تبھی اپنی بند آنکھیں اس نے آہستگی سے کھول دیں ۔ پہلے تو اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کہاں ہے پھر جب اس نے درمان کی صورت دیکھی تو تشنہ آنکھوں کی پیاس بجھ گئ۔

" مان۔۔!! آپ سچ میں آۓ ہیں یا یہ کوئ وہم ہے۔۔!!"

 اس کے لبوں کی ہلکی سی جنبش سے پیدا ہونے والی آواز درمان کی سماعتوں نے غور سے سنی۔ 

 وہ مبہم سا مسکرایا۔

" مان کی جان۔۔!! مان تمہارے سامنے کھڑا ہے۔بس تم دیکھ نہیں رہی مجھے۔۔۔!!" 

اس کے ہاتھ کو ایک ہاتھ میں قید کرکے اس نے اسےسہارا دے کر اسے بٹھایا پھر خود اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا ۔

" میں ناراض ہوں آپ سے بہت زیادہ۔۔!! میں بات نہیں کروں گی آپ سے۔ آپ نے دھوکہ دیا ہے مجھے۔ آپ کی اپنی فیملی پہلے سے تھی پھر آپ نے مجھے کیوں اپنی عادت ڈالی ۔!! مجھے بات نہیں کرنی آپ سے۔۔!!"

اس کے ہاتھ میں قید اپنا ہاتھ زرلشتہ نے کھینچنا چاہا پر کمزوری کی وجہ سے اس کی کوشش ناکام ہوگئ۔ تو اس کے ہی کندھے پر سر رکھ کر اس نے ناراضگی کا اعلان کردیا۔ 

درمان نے اس کی آواز سنی تو رگ و پے میں سکون اترا جیسے اس کی بے سکونی پل میں ختم ہوگئ ہو۔

" پاگل ہو تم یار ۔۔!! میری فیملی تم ہو۔ جتنی عزیز تم مجھے ہو اتنا میرے قریب کوئ نہیں۔ آۓ ریلی لو یو ماۓ بٹر کپ ۔۔!!" 

اس کے ہاتھ کو چھوڑ کر درمان نے اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا پھر اس کی سوجی ہوئ آنکھوں کو دیکھ کر تھک کر اسے وضاحت دی۔ پھر نرمی سے ایک بازو اس کے گرد لپیٹ کر وہ اسے خود سے قریب کرگیا۔ 

"آۓ ایم ناٹ یور بٹر کپ۔۔!! یو ڈونٹ لو وی۔!! آۓ ایم نتھنگ فار یو۔۔۔!! " 

اس کا احتجاج جاری تھا۔اور وہ اپنی جگہ ٹھیک بھی تھی۔ پر اس وقت درمان اسے کچھ سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ 

" زرلشتہ درمان آفریدی ۔۔!! بار بار ایک ہی فضول بات مت دہراؤ۔ میں تمہیں اس وقت ڈانٹنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ تمہاری کنڈیشن سٹیبل نہیں تو بہتری اسی میں ہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں اسے مان جاؤ ۔۔!! کوئ نہیں ہے میری زندگی میں تمہاری جگہ لینے والا نا ہی کوئ ہوگا۔۔!! اب بس کوئ فضول بات نہ کرنا۔کیوں اپنی جان کی دشمن بنی ہوئ ہو تم۔ اب آواز نہ آۓ مجھے تمہاری ۔ مجھے پہلے والا درمان بننے پر مجبور نہ کرو۔!! " 

درمان کی آواز کی سختی بھانپ کر وہ بھی اس ٹاپک کو فلوقت بند کرگئ۔ درمان اسے اس کا پورا تعارف تب ہی یاد دلاتا تھا جب اسے غصہ آۓ۔ منہ بنا کر زرلشتہ نے اس کا ہاتھ واپس سے پکڑا۔

" سے یو لو می۔۔!! اینڈ یو آر اونلی مائن۔۔!!" 

 معصوم سے لہجے میں زرلشتہ نے پھر سے ضد کی۔ تو اس وقت غصہ جھٹک کر درمان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔

" آۓ لو یو ماۓ بٹر فلاۓ۔۔!! مور دین اینی تھنگ۔۔!! اینڈ آۓ ایم جسٹ یورز۔۔!!! کوئ چڑیل یا کوئ فتنے میری زندگی میں نہیں ہیں۔ میرے پاس ایک فیری ہے اور ایک سویٹ سا اینجل۔۔!! " 

اس نے آنکھیں بند کیں اور اسے خود میں بھینچ گیا ۔ جو یہ اینجل کا لفظ سن کر تھوڑا سا حیران ہوئ۔

" کون اینجل۔۔۔!!!" اس نے ناسمجھی سے پوچھا تو درمان دلکشی سے مسکرایا۔

" سرپرائز ہے بعد میں بتاؤں گا تمہیں ۔۔!! " اس نے بات ختم کرنا چاہی۔

" پر میں ناراض ہوں آپ سے۔ آپ یہ بات نہ بھولنا۔ آپ منائیں گے نا مجھے ۔!!" 

بات اگر درمان نے ختم کرنا چاہی تھی تو اس نے بھی واپس سے نہ پوچھا۔ لیکن اپنی ناراضگی کا اعلان اس نے پھر سے کیا۔

" پہلے تو مجھے تم سے حساب لینا ہے اس بیوقوفی کا جو تم نے بھوکا رہ کر اور سٹریس لے کر کی ہے۔ اس بیوقوفی کی وجہ سے میرا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہوتا بچا ہے۔اگر میں وقت پر نہ آتا تو سب ختم ہوجاتا۔۔!! پھر میں تمہیں مناؤں گا۔۔!! اوکے۔۔!!" 

 زرلشتہ نے ہاں میں سر ہلایا پھر اس کے ہاتھ میں موجود اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی۔

"یعنی آپ نے ابھی مجھے ڈانٹنا ہے بہت زیادہ۔۔!! لیکن تھوڑا سا ڈانٹنا ہے آپ نے زیادہ نہیں۔اور مجھے واپسی پر آئس کریم بھی کھانی ہے ۔!! اور چاکلیٹس بھی۔۔!! اور پاستہ بھی۔ ساتھ میں آپ مجھے بہت سی کھانے والی چیزیں جیسے کہ پیسٹریز، چپس، ٹوفیز بھی لے کر دیں گے۔ میرا دل کررہا ہے یہ سب کھانے کا۔۔!! آپ لے کر دیں گے نا۔۔!!" 

آنکھیں بند کرکے زرلشتہ نے گہرا سانس خارج کیا۔ جیسے درمان کی خوشبو اس نے خود میں اتاری ہو۔ کتنا سکون تھا اپنے شوہر کی قربت میں کہ وہ جو کچھ دیر پہلے تک زندگی سے ہی ہاررہی تھی وہ پھر سے جی اٹھی۔

فرمائشوں کی اتنی لمبی لسٹ سن کر درمان نے کچھ سوچا۔

" پر تم تو ناراض ہونا مجھ سے۔۔!! میں کیوں لاکر دوں گا تمہیں یہ سب۔۔!! اور تمہیں تو بھوکا رہنے کا شوق ہے نا۔ تو میں سوچ رہا ہوں کہ تم ڈائٹینگ شروع کردو۔۔!! اچھا ہے نا سوکھا ہوا تنکا بن جاؤں گی۔ ۔۔!! اچھا آئیڈیا ہے نا ۔!!" 

درمان نے اسے پھر سے اس کی بیوقوفی یاد دلائ جو ڈائٹینگ کا سن کر صدمے میں تھی۔

" آپ پاس نہیں تھے تو مجھے بھوک بھی نہیں لگتی تھی پر اب تو آپ آگۓ ہیں نا تو مجھے اپنی ہر فیورٹ چیز کھانی ہے۔اور میں ناراض ہوں تو کیا میرا خیال رکھنا چھوڑ دیں گے۔۔!!! ایسا کیا آپ نے تو میں پکا والا ناراض ہوجاؤں گی۔ پھر آپ رہنا اسی چڑیل کے پاس۔!!" 

اس کی بات کا برا مناتے ہوئے زرلشتہ نے اسے دھمکی سے نوازا جسے یہ دھمکی ہضم نہیں ہوئ تھیں۔

" کیوں مجھے پہلے والا ظالم درمان بننے پر مجبور کررہی ہو تم۔ کہہ دیا نا میں نے ایک بار تم کچھ بہتر ہوجاؤ ہم ساری باتیں تب کریں گے۔تھک گیا ہوں میں مجھے کچھ دیر کے لیے بس تمہاری موجودگی کی ضرورت ہے۔ تو اب مجھے مزید تنگ نہ کرو۔اور سوجاؤ۔ڈریپ ختم ہوتے ہی ہم گھر چلیں گے اور راستے سے جو جو تمہیں چاہیے ہوا ہم سب لیں گے۔۔!!!" 

اس کی بات اسے بہت بری لگی تبھی اس نے اب باقاعدہ اسے ڈانٹا جس نے ڈر کر آنکھیں بند کیں پھر اس کے سینے سے سر ٹکاکر سونے کی کوشش کرنے لگی۔ 

"کیا بنے گا تمہارا زرلشتہ ۔۔!! تم تو خود بچی ہو ابھی۔۔!! کوئ بات نہیں اللہ کرے کہ یہ خوشی ہمیں جلد مل جاۓ۔ پھر میں ہی سنبھال لوں گا تمہیں بھی اور اسے بھی ۔!! انشأ اللہ "

سر جھٹک کر اس نے زرلشتہ کے سر پر بوسہ دیا پھر اس کی ڈریپ ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اسے اپنے سامنے بولتا دیکھ کر اسے جو سکون ملا تھا وہ کافی تھا اس کے لیے۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment