Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 5To8 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday, 1 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 5To8

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 5To8

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

 Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 5To8

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

رات کے بارہ بج رہے تھے درمان میڈیسن لے کر گہری نیند سویا ہوا تھا۔اندھیرے کمرے میں صوفے پر سوئ زرلشتہ اپنے پیٹ میں کودتے ،ناچتے،دوڑتے ،بھوک کی وجہ سے احتجاج کرتے چوہوں سے تنگ آچکی تھی۔وہ بار بار یہی سوچ رہی تھی کہ کوئ اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنی ہی بیوی کی فکر نہ کرے۔جیسا امیج ایک خوبصورت زندگی کا اس کے ذہن میں بنا تھا ویسا تو یہاں کچھ بھی نہ ہوا۔

اس نے درمان کو ناول والا ظالم شوہر ڈیکلیئر کردیا تھا۔اور یہ بھی سوچ لیا ایک دن اس کے ظلموں سے تھک کر وہ بھی ناول والی ونی کی طرح مرجاۓ گی اور درمان اس کے مرنے کے بعد اس کی یاد میں روتا رہے گا۔

اتنا تو اسے پتہ تھا یہاں گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلے گا۔وہ خالی پیٹ نہیں سوسکتی۔

وہHypoglycemia پیشنٹ تھی پیدائش کے وقت سے۔وہ پری میچور بے بی تھی۔اس لیے اس کے ساتھ کافی مسائل شروع سے تھے ۔وہ ایک بار اگر شدید بیمار ہوجاتی تو اسے ٹھیک ہونے میں ہفتوں لگ جاتے تھے۔جب وہ پیدا ہوئ تھی تب سب کو لگا تھا وہ نہیں بچے گی۔اس کی حالت ہی ایسی تھی۔وہ کئ ہفتوں تک مشینوں کے سہارے سانس لیتی رہی تھی۔پر اللہ جسے چاہے زندہ رکھے۔جس کی سانسوں کی ڈور چاہے کاٹ دے۔ بندہ کون ہوتا ہے اس کے فیصلوں میں دخل دینے والا۔

پھر جب اس نے ہوش سنبھالا تھا کوئ مان ہی نہیں سکتا تھا یہ وہی زرلشتہ ہے جس کے پیدا ہونے پر سب کو اس کے نابچنے کا یقین تھا۔ایک یہ وجہ بھی تھی کہ سب اس کا خود سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔وہ اس کے معاملے میں رسک نہیں لے سکتے تھے۔

بروقت علاج کی وجہ سے اسے کبھی روزانہ کی بنیاد پر دوائیاں نہیں کھانی پڑی تھیں وہ اس معاملے میں خوش قسمت تھی۔بغیر کسی پرہیز کے وہ نارمل لائف گزار رہی تھی۔

مگر اب وہ دوپہر سے بھوکی تھی۔خود کا دھیان بٹانے کو وہ جو جو کرسکتی تھی اس نے کیا۔پر اب اس کا سر بھی چکرانے لگا تھا۔

"اللہ ایسا ظالم شوہر کسی لڑکی کو نہ دے۔۔۔!!!!! مزے سے سو رہا ہے اور بیوی یہاں مرنے والی ہے۔اللہ جی اس سے ناراض ہو جائیے گا۔تاکہ اسے پتہ چلے تکلیف کیا ہوتی ہے۔ "

ہلکی ہلکی روشنی میں بیڈ پر سکون سے سوۓ درمان کو غصے سے دیکھ کر وہ اب خود کچن کی طرف جانے لگی تاکہ کچھ کھا سکے ۔یہاں بیٹھے رہنے کا کوئ فایدہ نہ تھا۔اسے عجیب سی بے چینی ہورہی تھی اور اب سر بھی درد سے پھٹ رہا تھا۔

کمرے سے نکل کر اس نے دروازہ احتیاط سے بند کیا۔اور بغیر آواز پیدا کیے سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگی۔اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کچن ہے کہاں ۔

"اس وقت تو سب سورہے ہیں۔کہیں کسے نے دیکھ لیا تو مسئلہ نہ ہوجاۓ۔ان کا کیا بھروسہ چوری کا الزام ہی لگا دیں۔جیسے اس ونی پر لگا تھا۔۔۔!!!!"

سیڑھیوں سے اتر کر اب اس نے سوچا کہ کچن کہاں ہوگا۔ہر طرف گہری خاموشی اور سناٹا تھا۔

"دائیں جاؤں یا بائیں جاؤں ۔۔!!!! آج کل میری قسمت کے ستارے گردش میں ہیں۔جو ہورہا ہے الٹا ہی ہورہا ہے۔تو کچن بھی بائیں ہی ہوگا۔"

خود ہی اندازا لگا کر وہ بائیں طرف چلی گئ تمام کمروں کی لائٹس آف تھیں۔اس نے سارے کمروں کا دروازہ آہستگی سے کھولنے کی کوشش کی اول تو یہاں گنے چنے لوگ ہی رہتے تھے اس لیے کمرے ویران تھے۔تو بچت ہوگئ۔

پھر آخری دروازہ خوش قسمتی سے کچن کا تھا۔وہاں ہلکی ہلکی روشنی لان کی طرف کھلتی کھڑکی سے آرہی تھی جو آج ملازم بند کرنا بھول گۓ تھے ۔

"مل گیا کچن۔۔۔!!!!! "

خوش ہوتے ہوۓ اس نے آس پاس دیکھا جہاں کوئ نہیں تھا۔جب میدان خالی دکھا تو خود اندر داخل ہوکر کچن کا دروازہ بند کرنے سے پہلے اس نے سوئچ بورڈ ڈھونڈ کر لائٹ آن کردی۔

کچن خوبصورت تھا۔ورنہ جیسے ان لوگوں کے دل تھے اسے ڈر تھا کہیں کچن مکھی جتنا نہ ہو۔مکھی کیا اسے لگا تھا شاید کچن بیکٹیریا جتنا ہو۔اسے نظر ہی نا آۓ۔

بڑبڑاتے ہوۓ اس نے فریج کا دروازہ کھولا۔ٹھنڈی ٹھندی ہوا اس سے ٹکرائی تو بھوک مزید زور پکڑ گئ۔پر سامنے کا دل دہلا دینے والا منظر اس کی خوشی چھین کر لے گیا۔

"صرف فروٹس،دودھ اور انڈے ہیں یہاں تو۔۔۔!!!! اور مکھن بھی ہے۔ یا خدا ایسا فریج دیکھنے سے پہلے میں گھر چھوڑ کیوں نہیں گئ۔اسے فریج کہنا فریج کی توہین ہے  کیک، آئس کریم تو دور کی بات یہاں تو ایک چاکلیٹ بھی نہیں ہے۔ایک ڈائبیٹک پیشنٹ میٹھے کے بغیر کیسے زندہ رہے گا۔۔۔!!!!! میں نے یہیں آخری سانس لے لینا ہے اگر یہی چلتا رہا تو۔۔۔!!!!"

اپنے ارمانوں پر دودھ اور بھوک پر انڈے پڑتا دیکھ کر زرلشتہ نے دہائ دی۔فروٹس سے اس کی بنتی نہیں تھی اور آدھی رات کو فروٹس اس کے پہلے سے تباہ شدہ استمک کی چکی میں پسنے سے رہے۔

دودھ سے اسے چڑ تھی۔اور رہا انڈا تو وہ اسے بنانا نہیں آتا تھا۔اس نے انڈا اٹھایا اور اسے حسرت سے دیکھا ۔

"انڈے جی تم سے تو چوزہ ہی نکلے گا اب۔۔!!! کیونکہ میرے پیٹ میں جانے سے تو تم رہے اگر میں نے تمہیں بنا بھی لیا تو یہ تمہارے ساتھ اور مرغی کے ساتھ زیادتی ہوگی۔میں مرغیوں کی نظروں میں گرنا نہیں  چاہتی تو تم یہیں رہو ۔۔!!"

انڈہ واپس رکھ کر اس نے وہ دودھ کا ڈبہ ہی اٹھا لیا۔سر درد سے پھٹ رہا تھا۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسے کھانے کے معاملے میں بھی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔دودھ گلاس میں ڈال کر اس نے ڈبہ واپس رکھا اور مکھن کا پیکٹ اٹھا کر اب بریڈ سلائس تلاش کرنے لگی۔

جو سلیب پر رکھے تھے۔اس نے پیکٹ سے بریڈ سلائس نکالے اور بٹر لگا کر ٹھنڈے دودھ کے گلاس کو تھام کر وہیں سلیب سے ٹیک لگا کر نیچے بیٹھ گئ۔دل اپنی حالت پر رونے کو کیا۔پر اس وقت اس میں رونے کی بھی ہمت نہیں تھی۔

"باباجانی۔۔!!! کاش آپ مجھے شہزادیوں کی طرح نا پالتے تو آج مجھے اتنی ناقدری پر رونا نا آتا۔یہ شکایت رہے گی مجھے آپ نے پالا تو شہزادیوں کی طرح پر سر سے اتار کر یوں پھینکا جیسے مجھ سے بڑا کوئ بوجھ تھا ہی نہیں۔۔۔!!!"

وہ اب اپنی عقل سے بڑی باتیں سوچنے لگی تھی۔ایک دن نے ہی اسے کیا سے کیا بنا کر رکھ دیا تھا۔

صرف مجبوری کی وجہ سے دو سلائس بریڈ مشکل سے کھا کر دودھ کا گلاس ختم کرکے ۔وہ اٹھ گئ۔

برتن دھونا اسے آتے تو نہیں تھے پر اس نے دیکھا ضرور تھا کیسے دھلتے ہیں۔اور ابھی یہ گلاس دھونا ضروری بھی تھا۔اس لیے ایک گلاس کو دومنٹ لگاکر اچھے سے دھوتے ہی اس نے اس کی جگہ پر رکھ دیا۔اور اطراف کا جائزہ لے کر وہاں سے واپس اپنے قید خانے کی سمت چل پڑی۔

حالات انسان کو سمجھدار بنادیتے ہیں ۔یا پھر ان کے سوچنے سمجھنے کی حس بھی سلب کرلیتے ہیں۔اب دیکھنا یہ تھا کہ آخر میں یہ سمجھدار ہوتی یا پھر ہر شے سے بیزار آجاتی۔

کمرے میں آکر وہ دوبارہ صوفے پر ہی لیٹ گئی ۔کچھ کھانے کی وجہ سے اس کے اوسان اب نارمل ہوچکے تھے۔بے چینی ختم ہونے کی وجہ سے اسے نئ جگہ بھی جلد نیند آگئ۔درمان اس بیچ اپنی گہری نیند سے نا اٹھا۔

کسی کو اتنا لاپرواہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زمہ داریوں سے ہی منہ موڑ لے۔جیسے درمان کررہا تھا۔اگر دیار گنہگار تھا بھی تو اس میں زرلشتہ کا تو کوئ قصور نہیں تھا تو اسے کیوں سزا مل رہی تھی۔وہ یہ سوچ ہی نہ سکا۔اور ناجانے اسے کب عقل آتی ۔وقت پر آتی یا پھر جب سب ختم ہوجاتا تب آتی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

چڑیوں کی چہچہاہٹ اور صبح کی ٹھنڈی ہوا جوں جوں چلنا شروع ہوئ موسم پھر سے دلفریب ہونے لگا۔پہاڑوں کے بیچ و بیچ یہ خوبصورت قدرتی دولت سے مالا مال وادی بھی رات کی سیاہی کی چادر اتار کر سورج کی تپش  بکھیرنے کو بے تاب تھی ۔

صبح کے آٹھ بجے درمان کی آنکھ کھلی تو نظر پھر صوفے پر شال میں دبک کر سوئ اس لڑکی پر گئ۔کمرے میں یہ نیا اضافہ اس کے دل میں کوئ احساس پیدا نہ کرسکا تھا۔اس نے کوفت سے نظریں پھیریں۔

"مصیبت گلے پڑگئ ہے۔پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی اس لڑکی سے ۔۔!!!! "

بلینکٹ پھینک کر وہ واش روم کی طرف فریش ہونے کی نیت سے چلا گیا۔جب واپس آیا تو اسے زرلشتہ اسی پوزیشن میں سوتی ہوئ نظر آئ۔کریم کلر کی شرٹ اور بلیک جینز پہنے آج وہ روٹین سے ہٹ کر ایک منفرد لک میں جچ رہا تھا۔

بغیر زرلشتہ کی طرف دیکھے وہ اپنے بال ٹاول سے رگڑتا ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آیا۔

"پتہ نہیں کونسی آزمائش شروع ہوگئ ہے۔اس لڑکی کی صورت میں۔۔!!!! بیوی کے روپ میں بچی مل گئ ہے مجھے۔نہ کوئ عقل نہ کوئ سمجھ۔۔۔!!!!! یا اللّٰه مجھے صبر دے۔۔۔!!!!"

بال جیل سے سیٹ کرتے ہوۓ اس نے ڈریسنگ مرر سے صوفے پر سوئ زرلشتہ کو دیکھ کر جھنجھلا کر دعا کی۔اس کا ارادہ اس لڑکی کو جگانے کا نہ تھا۔کل اس کی چلتی زبان کے جوہر وہ اچھے سے دیکھ چکا تھا۔اس میں کیوٹ پٹھان ،جن جی، ظالم خان ایسے مزید القابات جھیلنے کی ہمت اب نہ تھی۔

وہ انہیں سوچوں میں گم تھا جب اس کا فون رنگ ہوا۔اس نے کال ریسیو کی۔

"کچھ پتہ چلا فدیان کا۔۔۔!!!!"

ہیئر برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر پرفیوم اٹھا کر خود پر سپرے کرتے اس نے پوچھا۔

"سر کل ایک ڈیڈ باڈی ملی ہے۔چہرہ خراب ہوچکا ہے۔اس لیے شناخت کرنا مشکل ہے ہمارے لیے۔آپ آجائیں۔۔!!!"

یہ اس کا خاص آدمی تھا۔آج پھر اسے کسی دید باڈی میں اپنے بھائ کو ڈھونڈنے کو کہا گیا تھا۔اس کا دل لرز اٹھا۔اس نے آنکھیں بند کیں اور امڈ آتے غصے کو قابو کیا۔جو ناممکن سی بات تھی۔یہ غصہ کسی نا کسی پر تو نکلنا ہی تھا۔

"آج تو میں آرہا ہوں۔پر آئندہ اگر تم نے مجھے کسی لاش کی شناخت کے لیے بلایا تو اگلی لاش کی شناخت تمہارے گھر والے کریں گے اور وہ لاش تمہاری ہوگی۔۔۔!!!!!

پہلے دن سے تم میرے بھائ کو مردہ خانوں میں ڈھونڈ رہے ہو۔لگتا ہے مرنے کا شوق چڑھا ہے تمہیں۔رکھو فون آرہا ہوں میں۔۔!!!!"

اسے آڑے ہاتھوں لیتے اس نے خود ہی کھٹاک سے فون بند کردیا۔صبح صبح اس کا بلڈ پریشر بڑھ چکا تھا۔پیشانی پر شکنیں ابھریں۔

"وہ میرا بھائ نہیں ہوسکتا۔۔!!! اگر ایسا ہوا تو میں کیا جواب دوں گا مورے اور آغاجان کو۔۔!!! نہیں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔!!!"

مٹھیاں بھینچ کر اضطرابی کیفیت میں وہ خود کو تسلی دینے لگا۔چہرے ہر ہاتھ پھیر کر اس نے اس خیال کی نفی کی۔اتنے میں اب کی بار کسی نے دروازے پر دستک دی۔اس نے سرد نظروں سے دروازے کو دیکھا۔

"کسے موت پڑی ہے جو صبح صبح دروازہ پیٹ رہا ہے۔۔۔۔!!!!! کوئ تمیز ہے یا نہیں ۔!!! جاہل انسان۔۔!!!!"

وہ دہاڑا۔پھر دروازہ کھول کر سامنے کھڑے خوف سے سفید پڑتے ملازم کو دیکھا۔اس بیچارے نے تو درمان کے ڈر سے ہلکی سی دستک دی تھی۔دروازہ پیٹا تو کسی نے نہیں تھا۔وہ رحم طلب نظروں سے اسے تکنے لگا۔

"صاحب۔۔!! بیگم صاحبہ نے آپ کو ناشتے پر بلایا ہے۔"

نظریں جھکا کر ملازم نے وضاحت دی۔جسے سن کر درمان جو پہلے ہی غصے سے بھرا ہوا تھا۔اس نے ہاتھ دروازے پر مارا۔

"تو میں بھی وہیں آنے والا تھا۔کسی دعوت نامے کی ضرورت نہیں تھی مجھے۔اب دفع ہو جاؤ یہاں سے۔میرا منہ کیوں دیکھ رہے ہو۔۔۔!!!! "

درمان نے دروازہ اس کے منہ پر بند کیا۔ملازم کا سانس اس شخص کے غصیلے لہجے سے سوکھ گیا۔وہ تو بغیر لمحے کی دیری کیے بس وہاں سے بھاگا ۔کہیں آج اس کی موت اسی شخص کے ہاتھوں سے نہ لکھی ہو۔

 درمان پلٹا تو اسے اب صوفے پر سوئ زرلشتہ دکھی۔جس پر اس کی دھاڑ یا کمرے میں ہوتی اس غیر معمولی ہل چل کا بھی اثر نہ ہوا تھا۔وہ نیند کی پکی تھی۔اسے تو دوپہر کو اٹھنے کی عادت تھی۔صبح کا سورج دیکھنا اسے پسند نہیں تھا۔

"یہاں میرا سکون داؤ پر لگا ہے اور یہ مصیبت سکون سے سوئی ہے۔۔۔!!!"

یہ سوچ آتے ہی اس کی اعصاب تنے۔اب زرلشتہ کی خیر نہیں تھی۔یہ ظالم پٹھان اپنی فرسٹریشن صبح صبح اس بیچاری پر نکالنے والا تھا۔

"محترمہ اٹھیں یہ آپ کا پرستان نہیں ہے جہاں آپ دوپہر تک سوتی رہیں گی۔اٹھ جاؤ۔۔۔!!!"

اس کے پاس کھڑے ہوکر اس نے قدرے اونچی آواز میں کہا۔پر زرلشتہ کا اٹھنے کا ارادہ نہیں تھا۔

درمان کا غصہ مزید بڑھا۔اس کے حکم کے جواب میں اتنی ڈھٹائی ۔وہ بامشکل ضبط کرنے لگا۔

"تمہاری موت میرے ہی ہاتھوں لکھی ہے ۔۔۔!!! مصیبت(زرلشتہ) تم مجھے قاتل بناکر چھوڑو گی۔۔!!!"

آنکھیں گھماتے جیسے وہ افسوس سے کہہ رہا تھا۔یا اسے یقین تھا یہ اس کے ہاتھوں سے ہی مرے گی۔

"مصیبت(زرلشتہ )۔۔۔۔!!!!! کہیں مر تو نہیں گئ تم۔۔۔!!!!! "

اب کی بار خود ہی آگے بڑھ کر اس نے زرلشتہ کا بازو کھینچ کر جھٹکے سے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔زرلشتہ اس حملے کے لیے تیار نہ تھی تبھی چیخ اٹھی۔

"آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔!!!!"

اس کی چیخ کسی کا مضبوط دل بھی ہلاسکتی تھی۔درمان کو لگا اس کے کانوں کے پردے پھٹ گۓ ہوں۔

"چڑیل منہ بند کرو اپنا۔منہ میں سپیکر فٹ کروایا ہے کیا تم نے۔۔۔!!!"

اسے جھنجھوڑتے ہوۓ جیسے وہ اسے نیند کی وادیوں سے نکال رہا تھا۔زرلشتہ کی آنکھیں بند تھیں۔اور منہ پر جو تاثرات تھے وہ غصے اور دکھ کے تھے۔

"ظالم پٹھان۔۔۔!!!! کیا مصیبت ہے میرے خوابوں کے بھی دشمن بن گۓ ہو آپ۔کیوٹ پٹھان مجھے لے جاؤ۔نہیں تو یہ ظالم انسان مجھے مار ہی دے گا۔یہ پاگل ہے اور سیریل کلر بھی۔پارٹ ٹائم جن جی کا کام بھی کرتا ہے۔مجھے کھاگیا تو سب کو کہہ دے گا وہ بھاگ گئ۔کیوٹ پٹھان میرے حصے کا بھی مارو اسے۔اور مارو۔۔۔!!!!! یہ گندا ہے اسے مارو۔۔۔!!!"

وہ ابھی نیند میں تھی تبھی درمان کو ولن سمجھ کر نیند میں اپنے کیوٹ پٹھان کو اسے مارنے کا کہنے لگی۔درمان کا غصہ اب حیرت میں بدلا۔کہ یہ لڑکی خواب میں اسے مار پڑوا رہی ہے۔

"مصیبت یہ کیا بکواس کررہی ہو تم۔۔۔!!!! کون ہے یہ کیوٹ پٹھان جو تمہارے خواب میں آیا ہوا ہے۔اور میں تمہیں پاگل لگتا ہوں۔ایک بار پھر بولنا تم نے کیا کہا ابھی۔سمجھ کیا رہی ہو تم مجھے۔۔۔۔!!!!"

اس بار تو اس نے سارا غصہ اس پر اتار دیا۔زرلشتہ کو اپنا بازو ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔اس کی نیند اسی لمحے ختم ہوئ۔جو کیوٹ پٹھان اسے نظر آرہا تھا وہ بھی غائب ہوگیا۔آنکھیں پوری کھول کر اس نے درمان کو دیکھا جو صبح صبح طوفان کی طرح نازل ہوچکا تھا۔

"میں نے کیا کہا ہے۔میں تو سورہی تھی۔اور ایسے کون اٹھاتا ہے کسی کو۔میرا دل بند ہوجاتا تو۔۔۔!!!!! میں نے کچھ نہیں کیا۔سچی۔۔۔!!!!! بازو چھوڑیں میرا ۔کیا توڑیں گے۔۔!!!!!! آپ کو جن والا دورا کیوں پڑگیا پے۔جن جی اگر اس وجہ سے غصہ کررہے ہیں کہ میں نے کل آپ کے کچن سے بریڈ اور دودھ لیا تھا تو معاف کردیں آئندہ نہیں لوں گی۔کمرے کی طرح کچن بھی آپ کا ہی ہوگا۔سوری۔۔۔!!!!"

اپنا بازو چھڑوانے کی تگ و دو کرتے زرلشتہ نے اس کی غصے کے پیچھے کیوٹ سا ریزن دیا۔جو اس کی آنکھوں میں کھوچکا تھا۔اس کی گرے آنکھیں ہلکے سے ڈر اور درد کی وجہ سے مقابل کو سحر میں جھکڑ رہی تھیں۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اس کی بیوی کی آنکھیں اس کے پسندیدہ رنگ کی ہیں۔گرے۔۔!!!

اوپر سے اس کی باتیں سن کر پہلی بار اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا۔زرلشتہ نے آنکھیں درد سے بند کرلیں۔اگر درمان ایسی ہی فولادی گرفت اس کے بازو پر بنائے رکھتا تو وہ بے ہوش ضرور ہوجاتی۔درمان کا سحر ٹوٹا تو اس نے خود ہی اس کے بازو پر گرفت ہلکی کی۔زرلشتہ کے چہرے پر درد کی شدت بھی کم ہوگئ۔جو اب رونے لگی تھی۔

"تو تم چور بھی ہو۔۔!!!! بڑا بھائ قاتل اور چھوٹی بہن چور ۔۔!!!! عجیب مجرمانہ سوچ ہے دونوں کی۔۔۔!!!"

اپنی نیچر سے ہٹ کر اس نے بھی عجیب سی بات کی۔تو زرلشتہ اس الزام پر آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔جن میں درد تھا۔

"میں نے چوری نہیں کی۔مجھے بھوک لگی تھی۔پیٹ میں درد ہورہا تھا۔اور نیند بھی نہیں آرہی تھی۔میں نے کل دوپہر سے کچھ نہیں کھایا تھا۔اس لیے مجبوری میں آپ کے کچن میں گئ۔میں نے صرف دو سلائس بریڈ اور دودھ ہی لیا تھا بس۔۔۔!!!!!

سچی۔۔۔!!!!! آپ کہیں گے تو آئندہ وہ بھی نہیں لوں گی۔پلیز میرا بازو چھوڑیں مجھے درد ہورہا ہے۔اگین سوری۔۔۔!!!!"

زرلشتہ نے بازو چھڑوانے کو کوشش پھر سے کی۔جبکہ درمان کو احساس ہوا تھا کہ وہ کل غصے میں اس کے ساتھ برا کرگیا ہے۔بھوک کی وجہ سے وہ رات جاگتی رہی تھی۔وہ ایسا تو نا تھا۔

وہ بھلے اسے کچھ بھی نہیں سمجھتا تھا پر انسان تو وہ تھی ہی نا۔

"آج چھوڑ رہا ہوں۔آئندہ جو گھر میں بنا ہو وہی کھالیا کرو۔یہ الرجی وغیرہ کچھ نہیں ہوتی فضول کے ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں۔تمہارے نخرے یہاں کوئ نہیں برداشت کرے گا۔یہ میرا گھر ہے تمہارے مجرم بھائ کا نہیں۔۔۔!!!!! یہاں انسانوں کی طرح رہو "

وہ جو تھوڑی سی نرمی اس کے لہجے میں آئ تھی وہ بھی اب مفقود ہوگئ اس نے جھٹکے سے اسے چھوڑا تو وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور صوفے پر گری ۔درمان نے خود ڈریسنگ سے اپنا فون اٹھایا اور وہاں سے چلا گیا۔

اسے لمحہ لگا تھا اپنی ہی کیفیت کو جھٹلانے میں۔وہ درمان آفریدی تھا دل کو خود پر حاوی کرنا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔اس نے بس خود سے یہ کہا کہ آنکھوں کا رنگ چاہے جو بھی ہو پر وہ دیار کی بہن ہے۔جس شخص کا نام سننا بھی اسے گوارہ نہیں۔اور زرلشتہ اس کے قابل بھی نہیں وہ ٹھہرا سنجیدہ اور اکڑو مزاج کا مالک۔جسے بس غصہ کرنا آتا ہے۔اور زرلشتہ جس میں ابھی بھی بچپنہ بھرا پڑا ہے۔جس نے سنجیدہ رہنا سیکھا ہی نہیں۔اور نا ہی سیکھے گی۔وہ دونوں بالکل الٹ تھے ایک دوسرے سے۔

زرلشتہ نے اپنا بازو سہلایا جس میں شدید قسم کا درد تھا۔زرلشتہ صوفے پر سمٹ کر بیٹھی اور چہرہ گھٹنوں میں دے کر رونے لگی۔اپنے بھائ کے لیے کوئ بھی برا لفظ اسے گوارہ نہیں تھا۔

اس کا دل پھر ٹوٹا تھا۔اور توڑنے والا سکون سے جاچکا تھا۔بغیر یہ دیکھے کہ یہ لڑکی کس قدر تکلیف میں تھی۔

"میرا بھائ مجرم نہیں ہے۔انہوں نے کچھ نہیں کیا۔وہ بے قصور ہیں۔۔!!!! اور اللّٰه یہ جلد ثابت کردے گا۔میں بھی تب یہاں سے چلی جاؤں گی۔۔..!!!"

آنکھیں رگڑ کر اس نے بھی غصے سے کہا اور واش روم کی طرف چلی گئ۔غصہ اسے بھی بہت آرہا تھا پر اسے ظاہر کیسے کرے یہ اسے نہیں پتہ تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"کچھ پتہ چلا دیار کا۔۔۔؟؟؟ کہاں گیا ہے وہ۔کل گھر واپس بھی نہیں آیا۔نہ ہی  فون اٹھا رہا ہے۔"

گھر میں داخل ہوتے بہراور درانی سے رخمینہ بیگم نے پوچھا۔جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی واپس آۓ تھے۔جواب دینے کی بجاۓ وہ سیدھا خاموشی سے کمرے کی طرف چلے گۓ۔

انہیں خاموش جاتا دیکھ کر انہوں نے حسرت سے سیڑھیوں کی جانب دیکھا جہاں سے زرلشتہ ان کے واپس آتے ہی بھاگتے ہوۓ آکر ان کے گلے لگتی تھی۔پھر سارے جہاں کی شکایتیں ان سے کرتی تھی۔اور وہ بس اسے گھورتی ہی رہ جاتی تھیں۔

پھر دیار کے کمرے کا دروازہ دیکھا۔جو بند تھا۔وہ تو کل جرگے سے واپس آیا ہی نہیں تھا۔

گھر میں وخشت زدہ سی خاموشی تھی۔جیسے اس گھر کی خوشیوں کو کسی کی نظر کھاگئ ہو۔ان کا یہ آباد گھر ایک ہی جھٹکے میں ایسا ویران ہوا تھا جیسے کبھی آباد ہوا ہی نا ہو۔

وہ کل رات بھی زرلشتہ کے کمرے میں ہی تھیں جہاں ہر شے میں اس کی خوشبو بسی ہوئ تھی۔بیٹیوں کو ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہی ہوتا ہے۔یہ قدرت کا دستور ہے۔پر جیسے انہوں نے اپنی نازوں میں پلی بیٹی رخصت کی تھی ویسے کسی بیٹی کو رخصت نہیں ہونا چاہیے۔جہاں دینے کو کوئ خوشی کی دعا نہ تھی بس یہ دعا تھی کہ وہ ایک بار دوبارہ زندہ انہیں مل جاۓ۔

اس کی معصومیت ،اس کی فرضی دنیا،اس کے خواب کچھ بھی نہ ٹوٹے اور وہ دوبارہ ہنستی کھلکھلاتی اسی گھر میں بھاگتی دوڑتی انہیں دکھے۔پر یہ دعا ناجانے اب پوری ہوتی بھی یا نہ ہوتی۔وہ بھی تو وہاں بس رو ہی رہی تھی۔

لب بھینچے وہ کچن میں گئیں اور آنسوؤں پر بندھ باندھ کر انہوں نے پانی کا گلاس ٹرے میں رکھا۔اور کمرے کی سمت شکستہ قدموں سے جانے لگیں۔اس گھر کی یہ خاموشی ابھی سے انہیں کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔

وہ کمرے میں آئیں تو انہیں بہراور درانی بھی اپنے جیسی کیفیت سے دوچار بیڈ پر بیٹھے اپنی درد کرتی آنکھیں دو انگلیوں سے سہلاتے ہوۓ دکھے۔انہوں نے پانی کا گلاس ان کے سامنے کیا جو آہٹ سے ہی اندازا لگا چکے تھے کہ رخمینہ بیگم یہاں آچکی ہیں۔انہوں نے گلاس پکڑا اور اپنے اندر جلتی آگ بھجانے کے لیے گہرا سانس بھرا۔

"کہاں ہے دیار۔۔۔!!!!!! خدارا بتادیں ۔اور زرلشتہ کی کوئ خبر ملی۔ وہ کیسی ہے۔ان لوگوں نے ناجانے اسے کچھ کھانے کو بھی دیا ہوگا یا نہیں۔آپ تو جانتے ہیں وہ ڈائبیٹک پیشنٹ ہے اسے کھانا وقت پر چاہیے ہوتا ہے۔وہ کہیں اب تک بھوکی تو نہیں ہوگی۔اسے تو سیفوڈ سے بھی الرجی ہے۔اگر اس نے فش کھالی ہوئ تو اس کی طبیعت خراب ہوگئ ہوگی۔میری بچی مجھے یاد کررہی ہو گی۔وہ تو ناراض بھی تھی۔مجھ سے ملی بھی نہیں۔وہ لوگ اس کا خیال بھی نہیں رکھیں گے۔کچھ تو بتائیں۔۔۔!!!"

وہ وہیں ان کے سامنے بیٹھ گئیں۔لہجے میں تڑپ تھی۔ماں کا دل تھا چاہ کر بھی سنگدل بننا ناممکن تھا۔زرلشتہ کی فکر انہیں بے سکون کیے ہوۓ تھی۔

بہراور درانی نے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ان کی تڑپ وہ محسوس کر چکے تھے۔

"آپ کا لاڈلہ مجھے بے حس سمجھ رہا ہے اس لیے گھر چھوڑ گیا ہے وہ۔کہہ رہا تھا اب جب تک اپنی بے گناہی کا ثبوت نہیں دے گا واپس نہیں آۓ گا۔بے فکر رہیں میرے آدمی اس پر نظر رکھے ہوۓ ہیں۔اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

 اور جہاں تک رہی بات زرلشتہ کی تو اس کی اطلاع ملنا مشکل ہے۔اس کے لیے آپ دعا ہی کریں۔ویسے بھی رخصت تو اس نے ہونا ہی تھا تو وہ ہوگئ رخصت۔یہ سوچ کر ہی خود کو مطمئن کرلیں۔اس سے زیادہ تو مجھے بھی اب کچھ نہیں پتہ ۔۔!!!"

ایک گہرا سانس خارج کرکے انہوں نے نظروں کا زاویہ ہی بدل لیا رخمینہ بیگم نے نم آنکھوں سے نکلنے کو بےتاب آنسو پیچھے دھکیلے اور گلاس اٹھا کر وہاں سے جانے لگیں پھر رکیں اور انہیں دیکھا۔

جو آنکھیں موند چکے تھے۔

"مجھ جیسی خودغرض ماں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔جو بیٹی کو بیٹے کے لیے قربان کردے۔میں تو اپنی ہی نظروں میں گرگئ ہوں۔اللہ کی بارگاہ میں کیسے جاؤں ۔اس نے رحمت دی تھی۔جسے ہم نے سر سے اتار پھینکا۔مجھے لگتا ہے ہم سے غلطی ہوگئ ہے۔اگر ہم حق ہر تھے تو ہمیں جھکنا نہیں چاہیے تھا۔ہمیں ڈٹے رہنا چاہیے تھا۔اگر ہم ثابت قدم رہتے تو یہ اذیت نہ جھیلنی پڑتی۔۔!!!!"

نظریں جھکا کر وہ تلخ سا مسکرائیں اور وہاں سے چلی گئیں۔ 

بہراور درانی نے جواب نہ دیا وہ برحق تھیں ۔انہیں جھکنا نہیں چاہیے تھا۔اگر دیار بےگناہ تھا تو انہیں یہ بات ثابت کرنی چاہیے تھی نا کہ حالات پر سمجھوتہ کرلینا چاہیے تھا ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

براؤن قمیض شلوار پہنے آستینیں فولڈ کیے وہ  کچن میں داخل ہوا۔گرے آنکھوں میں تھکن تھی۔زرلشتہ نے یہ گرے آنکھیں اسی سے ہی چرائ تھیں۔صرف آنکھیں نہیں اخلاق بھی دونوں کا ایک جیسا تھا۔وہ نفرت نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے خلوص سے لوگوں کا دل جیت لیتے تھے۔

فریج کا دروازہ کھول کر اس نے دودھ کا پیکٹ نکالا۔ کیبنٹ چھان مار کر کچھ ضروری چیزیں بھی نکال لیں۔اور فلیم آن کردیا۔

دیار اس وقت شہر میں موجود اپنے ذاتی فلیٹ میں آیا تھا۔وہ پیشے کے لحاظ سے بزنس مین تھا۔لیکن سب کچھ اپنے گھر سے ہی مینج کرتا تھا۔آفس کا چکر وہ شاذ و نادر ہی لگاتا تھا۔پر جب بھی آتا وہ اسی فلیٹ میں رہتا تھا۔

اب کی بار وہ ناراض ہوکر آیا تھا۔اس کے نزدیک اس کے ماں باپ نے اس کی بہن کے ساتھ زیادتی کی تھی۔تو وہ کیسے اب اس جگہ رہتا جہاں کی ہر شے اسے بس اس کی بہن کی یاد دلاتی ۔

"واہ دیار درانی ۔۔۔!!!! قسمت بھی تمہیں کہاں سے کہاں لے آئ ہے اور تم صدا کے تابعدار قسمت کے آگے بھی ہار گۓ۔کیوں تم بغاوت نہیں کرتے،کیوں تم اوروں کی طرح سخت دل کے مالک نہیں ہو۔کاش تم بھی باقیوں جیسے ہوتے تو آج تکلیف تمہارا مقدر نہ بنتی۔دل کا نرم ہونا بھی میرے لیے نقصان کا باعث ہی بنا۔"

زخمی مسکراہٹ لیے اس نے تیزی سے ہاتھ چلاتے چاۓ بنائ۔پھر چاۓ کپ میں انڈیل کر وہ لاؤنج کی سمت گیا۔چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ اس کے چہرے پر اب کی بار خوبصورت سی مسکراہٹ تھی۔اس کے گال پر کیوٹ سا ڈمپل پڑا۔اور آنکھیں سکڑ کر مزید خوبصورت نظر آنے لگیں۔اس کی مسکراہٹ کمال کی تھی۔اور مسکراہٹ کی وجہ تھی یہ کڑوی چاۓ۔

اسے میٹھا کھانا پسند نہیں تھا۔اسے چڑ تھی مٹھاس سے۔پھر بھی مٹھاس تو اس کی ذات کا ایک حصہ تھی۔

زرلشتہ کا کہنا تھا اگر وہ میٹھی چیزوں سے دور رہ کر اتنا اچھا ہے تو اگر وہ میٹھا کھاتا ہوتا تو اس کے لہجے کی مٹھاس سے سامنے موجود شخص کو آخری لیول کی شوگر ہوسکتی تھی ۔شوگر کیا وہ وہیں مر بھی جاتا۔

ابھی بھی اسے وہی سب یاد آیا تھا۔کڑوی گرم چاۓ ایک ہی گھونٹ میں ختم کرکے اس نے کپ میز پر رکھ دیا اور فون نکال کر کسی کا نمبر ڈائل کیا۔

صوفے کی پشت پر ہاتھ پھیلاتے وہ اس شخص کی طرف سے کسی خبر کا منتظر تھا۔

"وہ ٹھیک تو ہے نا ۔۔؟؟؟؟؟ اس وقت ایک چھوٹی سی خبر بھی میرے لیے غنیمت ہوگی۔تو یہ نا کہنا تم اس کام میں بھی ناکام ٹھہرے۔۔!!"

دیار کا لہجہ متفکر ہوا۔مقابل اسی کی عمر کا شخص تھا۔جو اس وقت ڈیرے پر بیٹھا اس سے بات کررہا تھا۔

"لالہ۔۔۔!!! چھوٹی بی بی اس وقت حویلی میں ہی موجود ہیں۔میں وہاں کے ملازمین سے ان کی خیریت پتہ لگوا چکا ہوں۔ان کے ساتھ ابھی کسی نے برا سلوک نہیں کیا۔اطلاع تو یہی ملی ہے باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔ وہ حویلی کے اندر ہی موجود ہیں۔ان لوگوں نے کسی قسم کا وخشیانہ سلوک نہیں کیا ان کے ساتھ۔لیکن حویلی کے اندر کی خبر مل پانا مشکل ہے ."

اس شخص نے بھی سنجیدگی سے جواب دیا۔اور مقابل بیٹھے دیار کے لیے تو یہی کافی تھا کہ وہ ٹھیک ہے۔ورنہ اسے امید نہیں تھی کہ وہ اب تک ان کے ظلم سے بچی ہوگی۔اس کے خاص آدمی نے خفیہ طریقے سے ہی یہ خبر بھی حاصل کی تھی۔

اس کی خیریت جان کر دیار کو سکون مل گیا۔آنکھیں بند کرکے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر اس نے کال کٹ کردی۔اور فون سامنے ٹیبل پر رکھنے لگا جب اسے اپنے بازو میں شدید قسم کا درد محسوس ہوا۔آنکھیں زور سے میچ کر اس نے اپنے بازو پر ہاتھ رکھا۔اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔

پھر وہاں سے اٹھ گیا۔اسے بینڈیج چینج کروانے جانا تھا۔جو وہ دو ہفتوں سے بھول ہی چکا تھا۔اور اب کندھے پر لگا زخم بھی درد کرنے لگا تھا۔

گاڑی نکال کر وہ سیدھا ہاسپٹل کی طرف گیا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

راستے میں درد بس بڑھتا ہی گیا تھا۔ہاسپٹل پہنچ کر اس نے ایمرجنسی میں ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لی۔جو اس کی کنڈیشن سے واقف تھے تبھی فورا اسے اپنے روم میں بلالیا۔

وہ جو اپنی ہی دھن میں جارہا تھا۔اسے پتہ ہی نہ چلا وہاں سے گزرتے درمان نے اسے دیکھ لیا ہے۔جو شناخت کے لیے آیا تھا۔اس کی پیشانی پر ناسمجھی سے شکنیں پڑیں کہ اس شخص کا یہاں کیا کام۔دیار کے جاتے ہی درمان ریسیپشن کی جانب گیا۔

"سسٹر کیا آپ بتا سکتی ہیں یہ جو شخص ابھی یہاں سے گیا ہے وہ کس وجہ سے ہاسپٹل آیا ہے۔مجھے ڈیٹیل میں جاننا ہے۔۔!!!!"

اس نے دیار کی جانب اشارہ کیا۔جو روم میں جاچکا تھا۔درمان سے وہ لڑکی بھی واقف تھی۔آخر دو ہفتوں سے وہ لوگ اس سر پھرے کو جھیل رہے تھے۔جو صرف اپنی ہی منوارہا تھا۔اور اسے پتہ تھا یہ اب سب جان کر ہی واپس جاۓ گا۔ریسپشن پر موجود لڑکی نے اپنے سامنے موجود ریکارڈ چیک کیا۔پھر اس سے مخاطب ہوئ۔

"انہوں نے ایمرجنسی میں اپائنٹمنٹ لی ہے ڈاکٹر سے۔چیک اپ کے لیے آۓ ہیں وہ۔دو ہفتے پہلے وہ اسی ہاسپٹل کے آئ سی یو میں تھے۔ان کے کندھے پر گولی لگی تھی۔خون زیادہ بہنے اور زخم خراب ہونے کی وجہ سے ان کا میجر آپریٹ ہوا تھا۔پھر آپ کی طرح ہی ٹریٹمنٹ ادھورا چھوڑ کر وہ یہاں سے چلے گۓ(آخر سارے سرپھرے ہمارے ہی ہاسپٹل کے مریض جو ہیں). 

اب دو ہفتے بعد انہیں بھی خیال آگیا ہے کہ وہ بغیر علاج کے ٹھیک نہیں ہوسکتے تبھی آج یہاں آۓ ہیں۔انہوں نے تو پچھلا ریکارڈ بھی ختم کروادیا تھا۔اور سختی سے منع کیا تھا کہ کسی کو ان کی کنڈیشن پتہ نہیں لگنی چاہیے "

نرس کو جو پتہ تھا اس نے بتادیا جو سن کر درمان کے چہرے پر ایک رنگ آتا گیا تو دوسرا جاتا گیا۔دیار ہاسپیٹلائز تھا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئ تھی۔پر اسے ہوا کیا۔

درمان وہیں کھڑا تھا۔جب نرس نے ہمدردی میں اسے کچھ اور بھی بتانا ضروری سمجھا۔

"سر ایک دلچسپ بات بتاؤں۔"

نرس نے دلچسپی سے ڈاکٹر کے روم کا بند دروازہ دیکھتے ہوۓ پوچھا۔تو درمان نے بھی اسی کی سمت دیکھا۔

"یہ کسی مووی کے ہیرو جیسے ہی ہیں۔خود مرنے والے تھے پر آپ کو اپنی حالت کے باوجود کسی طوفان کی طرح ہاسپیٹل لے کر آۓ۔پھر جب تک آپ کا آپریٹ چلتا رہا یہ آپریشن تھیٹر کے باہر سے ہلے بھی نہیں تھے۔

جبکہ ان کے اپنے کپڑے اپنے اور آپ کے خون سے تر تھے۔ڈاکٹرز کی دوڑیں لگوا رکھی تھی انہوں نے کہ انہیں آپ زندہ چاہییں۔لیکن آپ کے گھر والوں کے آنے سے پہلے ہی وہ اپنی حالت کی وجہ سے دوسرے آئ سی یو پہنچ گۓ۔اور پھر وہیں سے کسی کی نظروں میں آۓ بنا چلے گۓ۔میں تو فین ہوگئ ہوں ان  کی۔کسی فلمی ہیرو جیسے ہیں یہ۔۔!!!!! "

اس لڑکی نے آنکھوں میں چمک لیے کہا تو درمان نے اس کی باتوں سے بچنے کے لیے وہاں سے جانا ہی بہتر سمجھا۔اور چلا گیا۔

مزید وہ کچھ بھی نہیں سننا چاہتا تھا۔

زرلشتہ کو یہاں آۓ ہفتہ ہونے کو تھا۔اور یہ ہفتہ اس کے لیے ایک صدی کے برابر تھا۔نا کوئ فن نا کوئ انٹرٹینمنٹ ۔۔!!!!!

اس نے کبھی نہیں سوچا تھا بغیر فون اور انٹرنیٹ کے وہ زندہ رہے گی۔(فون تو وہ لائ نہیں تھی۔اب اس بات کا بھی اسے دکھ تھا کہ کاش وہ جلدی میں فون نا بھول جاتی۔)کھانے کے لیے اسے ترسنا پڑے گا۔سارا سارا دن وہ اسی کمرے میں قید رہے گی۔رات تارے گنتے گزرے گی۔(جو وہ گنتی بھی تھی۔بوریت دور کرنے کا یہ طریقہ اس کے معصوم سے ذہن نے نکالا تھا) یہ زندگی نہیں واقعی قید تھی اس کے لیے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

روز کی طرح آج پھر دوپہر کے وقت دبے قدموں وہ کمرے سے نکلی بھوک سے برا حال تھا اس کا ۔سکاۓ بلو شرٹ اور جینز پہنے ہمیشہ کی طرح وہ کیوٹ لگ رہی تھی۔لمبے بال پونی ٹیل میں قید کیے اس کی گرے آنکھیں بڑی باریکی سے ہر طرف نظر رکھے ہوۓ تھیں۔اس گھر میں اسے لیڈی ہٹلر سے ہی بچ کر رہنا تھا۔جو اسے ناول والی ساس کی جڑواں بہن لگتی تھی۔پہلے ہی دن جیسا سلوک شنایہ بیگم کا اس کے ساتھ تھا۔اس کے بعد تو وہ ان کے سامنے ہی نہ آئ تھی۔

لاؤنج میں آتے ہی اس نے چاروں اطراف کا جائزہ لیا۔میدان خالی تھا۔

"یہ محل تو ہے پر کنجوسوں کا محل۔۔۔!!!! جو اپنی ہی بہو کو کھانا تک نہیں کھلا سکتے۔اور بہو چوری کرکرکے پیٹ بھر رہی ہے۔میں اگر ایک سال یہاں رہی تو اپنا ذاتی ڈکیتی کا گینگ ضرور بنا لوں گی۔میرا بھی نام ہوگا ڈارک ورلڈ میں۔۔۔!!!!! آخر بینک میں ڈاکہ ڈالنا اس گھر میں کھانا کھانے سے تو آسان ہی ہوگا۔"

کچن کی جانب قدم لیتے وہ بڑبڑائ۔

"ویسے یہ کنجوس اگر کوئ ذاتی جم شم کھولیں تو راتوں رات ارب کیا کھرب پتی بن جائیں گے۔سچی۔۔۔!!!!! لوگوں کو چاہیے کہ مہنگے مہنگے ڈائیٹ پلینز اور جم میں پیسہ ضائع کرنے کی بجاۓ ایک ہفتے کے لیے ان کنجوسوں کے پاس رہنے آجائیں۔ایک ہفتے بعد تنکہ بھی خود کو ان کے سامنے موٹا سمجھنے لگے گا۔۔۔!!!!

زومبیز کی فیملی ہے ان کی۔ بیٹا خون جلاتا ہے اور ماں ڈرا دھکا کر بچا کچا خون بھی نچوڑ دیتی ہے۔انسان نا ہوگۓ Squeezer ہوگۓ یہ۔انسانوں کو لیموں سمجھ کر نچوڑتے ہیں۔

میں زندہ یہاں سے نکل گئ تو ان سب پر ایک آرٹیکل لکھوں گی۔ہائنڈ آفریدی زومبیز فیملی۔۔۔!!!!!"

کچن میں آتے ہی اس نے اس ویرانی کو سلام پیش کیا۔پھر ہنستے ہوۓ فریج سے کل والا پلاؤ نکال کر اون میں گرم ہونے کے لیے رکھ دیا۔

"کچن میں کوئ کام کی چیز ہوگی تبھی تو یہ لوگ ملازم بٹھائیں گے پہرے داری کے لیے۔یہ انڈے اور دودھ چرانے کون یہاں آۓ گا ۔۔!!!!

اللہ جی آپ کو ہی میرا احساس ہے جو آپ نے میرے حصے کا یہ پلاؤ ابھی تک ان سب کی نظروں سے بچا کر رکھا تھا۔شکر چې رزق د الله په لاس کې دی(شکر ہے رزق آپ کے ہاتھ میں ہے)۔ورنہ زرلشتہ بھوکی مرجاتی ۔۔!!!!"

پلیٹ اوون سے نکال کر وہ وہیں سلیب پر چڑھ کر بیٹھ گئ اور کھانے لگی۔

اس دوران بھی اس کی خود سے باتیں جاری تھیں۔بھوک کا علاج کرکے برتن دھو کر وہ اب جیسے آئ تھی ویسے ہی جانے لگی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ خفیہ طریقے سے یہاں رہ رہی ہو۔اگر کسی نے دیکھ لیا تو وہ سیدھا جیل جاۓ گی۔ابھی وہ سیڑھیوں کے پاس ہی پہنچی تھی جب کسی کی نفرت میں ڈوبی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"اے لڑکی ۔۔۔!!!!!! کہاں سے آرہی ہو تم۔۔۔؟؟؟؟"

اس نے آنکھیں میچیں۔

"یا اللّٰه مجھے ضائع ہونے سے بچا لے ان کے ہاتھوں سے۔چھاپا پڑگیا یہاں تو۔۔۔!!!!"

اس نے ایک انگلی دانتوں تلے دبائی پر وہاں سے پلٹی نا۔اسے مار نہیں کھانی تھی اس ونی کی طرح۔

"بہری ہو یا اونچا سنتی ہو۔۔۔!!!! میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔"

اب کی بار آواز اطراف کی دیواروں سے ٹکرائی اور اس کی ٹانگیں تک کانپ گئیں۔دل باہر نکلنے والا تھا۔اب یہی کہنا بہتر ہوگا وہ اس گھر میں خفیہ طریقے سے ہی رہ رہی تھی۔ایک ہفتے سے نا اس نے انہیں دیکھا تھا نا انہیں دوبارہ یہ لڑکی دیکھنے کو ملی تھی۔درمان بھی دو دن سے گھر نہیں آیا تھا۔تبھی تو اس سکون کی وجہ سے زرلشتہ ہواؤں میں اڑتی پھررہی تھی۔پر یہاں تو طوفان آگیا تھا۔وہ لیڈی ہٹلر کے ہتھے جو چڑھنے والی تھی۔

"ابھی ابھی کھانا کھایا تھا اور لگتا ہے اب یہیں کھڑے کھڑے ہضم ہوجاۓ گا۔میں نے کھایا بھی تھوڑا سا ہی تھا۔رات ہونے میں بھی ابھی وقت باقی ہے۔ان کنجوسوں نے میرا کھانا بند کردیا تو میں کیا کروں گی۔شوہر بھی مجھے ہٹلر کی کاپی ملا ہے۔میرے مرنے سے اسے فرق تھوڑی پڑے گا۔یا اللہ کاش آپ مجھے میرا کیوٹ پٹھان دے دیتے تو کم از کم مجھے اپنی ماں سے تو وہ بچا ہی لیتا۔ ظالم پٹھان تو مجھے ان کے پیروں میں پھینکے گا۔ جانتی ہوں میں!!!!! "

آنکھیں بند کرکے اس نے منہ بناکر سوچا۔پر مڑ کے پیچھے نا دیکھا۔شنایہ بیگم وہیں کھڑی اس کی ڈھٹائی دیکھ رہی تھیں۔ان کے اندر لاوا ابل رہا تھا۔جو اب اس لڑکی پر ہی پھٹتا۔

"اس ونی کی ساس نے تو اسے تھپڑ مارا تھا اور بال بھی کھینچے تھے۔..!!!!!! کیونکہ وہ ڈر گئ تھی۔زه به نه ډارېږم.(میں نہیں ڈروں گی)۔ژالے نے کہا تھا اگر کوئ تم پر حکم چلانے کی کوشش کرے تو تم بھی اوپر سے آنا۔یعنی آج مجھے اپنی بہادری ثابت کرنی ہی ہوگی۔زرلشتہ بہراور درانی تمہیں بہادر بننا ہی ہوگا۔بی بریو بی کونفیڈنٹ۔۔!!!"

وہ خود کو تسلی دے رہی تھی۔اور وہ بہادر بننے کو تیار تھی۔

"اب کچھ بولو گی بھی یا میں اسے خاموش بغاوت سمجھوں۔۔۔۔!!!!!"

وہ دھاڑیں۔پر وہ اب بھی چپ تھی۔اسے بہادری جمع کرنے میں وقت تو لگ ہی جانا تھا۔

"چل زرلش وقت آگیا ہے انڈین سیریلز کی طرح اپنی ساس کو قابو کرنے کا۔دکھادے انہیں کہ اب وہ وقت نہیں رہا جب ساس بہو کو اپنے پیروں تلے روند دیتی تھی۔اور بہو رورو کر دہائیاں دیتی رہ جاتی تھی۔آج کے دور میں بہو سے پنگا لینے کا مطلب بھیگی بلی کو جگانا ہے۔اور جاگی ہوئ بلی جگانے والے کو بھی بھگو کر چھوڑے گی ."

اپنی چھوٹی سی عقل کا استعمال کرکے وہ بھیگی بلی اس دھاڑ پر آہستگی سے پلٹی ۔اس کی گرے آنکھیں مقابل کی وخشت زدہ آنکھوں سے ٹکرائی تو اس کی ٹانگیں پھر سے کانپ اٹھیں۔

"حوصلہ زرلش حوصلہ ۔۔!!!"

اس کے دماغ نے کہا۔

"کہاں کا حوصلہ یہ تو زندہ کھاجائیں گی مجھے...!!!!!!"

مسکین صورت بنا کر وہ ہنسی۔جیسے کہہ رہی ہو بہادری کا پلین کینسل۔اب بھاگ زرلشتہ یہاں سے۔

"Hello Mrs. Durab Afridi...!!!! How are you? You recognize me? I don't think so. No problem. I introduce myself. I am your daughter-in-law Zarlishta Behrawar Durrani. I mean to say Darman's wife...!!!!! Nice to meet you...!!!!!"

ڈرتے ہوۓ بھی مسکرانے اور بے فکری ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوۓ اس نے اپنا تعارف پیش کیا۔جیسے اسے واقعی ان سے مل کر اچھا لگا ہو ۔شنایہ بیگم کو تو بس ان سب میں یہ نام ہی سمجھ میں آۓ تھے۔انہوں نے اسے کرے تیوروں سے گھورا۔

"مزاق بنارہی ہو تم میرا۔۔۔!!!!!! کیا سمجھتی ہو تم کہ یوں مجھ پر انگریزی جھاڑ کر مجھے مرعوب کرلو گی۔تو یہ بھول ہے تمہاری۔ بڑی دیکھی ہیں تم جیسی۔۔۔!!!!! کھڑے کھڑے تمہارے دماغ کا یہ فتور نکال پھینکوں گی۔"

غصے سے کہتی وہ درمیانی قدموں کا فاصلہ طے کر کے اس تک پہنچیں جو اپنی بات کا غلط مطلب نکالے جانے پر بوکھلا گئ۔یہاں تو دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہی فضول تھا۔

"ارے آنٹی دور رہ کر بات کریں۔۔۔!!!! میں کرنٹ بھی چھوڑتی ہوں۔ جل جائیں گی آپ۔اور میں نے بس سلام دعا کی تھی۔آپ کو کوئ مس انڈرسٹینڈنگ ہوئ ہے۔میں کیوں آپ پر رعب جھاڑوں گی."

ان کی پہنچ سے دور ہوتے اس نے غلط فہمی دور کرنا چاہی جو ۔شدید طیش میں آچکی تھیں جیسے اگلے پچھلے غصے کے ریکارڈ انہوں نے ہی توڑنے ہوں۔

"مجھے کوئ مسینڈنگ وسینڈنگ نہیں ہوئ۔تمہیں ہو یہ بلا۔تمہارے پورے گھر کو ہو یہ بلا۔شرافت سے بتاؤ یہاں کیا کررہی تھی تم۔۔۔۔؟؟؟؟"

اب کی بار انہوں نے خود ہی آگے بڑھ کر اس کا بازو پکڑا۔زرلشتہ کو اسی تشدد کی امید تھی ان سے۔

 "اف یہ ماں اور بیٹا بالکل ایک جیسے ہیں۔وہ بھی غصے میں بازو توڑتا ہے اور یہ بھی میرا بازو ہی اکھاڑنا چاہتی ہیں ۔"

منہ بناتے ہوۓ اس نے زور لگایا کہ کاش ان کی فولادی گرفت سے نکل جاۓ۔پر یہ ناممکن تھا۔اسے شدید قسم کا درد ہورہا تھا۔ان کے ناخن اسے اپنے بازو میں دھنستے محسوس ہوۓ۔

"اچھا آنٹی بتاتی ہوں پہلے مجھے چھوڑ تو دیں۔۔!!!!!! اور ایک بات بتائیں کیا آپ نے کبھی سنا کے کوئ شخص بغیر کچھ کھاۓ پیے زندہ رہا ہو وہ بھی پورا ایک ہفتہ ۔۔۔!!!!!"

پورا زور لگا کر وہ ان کی گرفت سے نکلی پھر بازو دباتے ہوئے سوال پوچھا۔جو اب اس سوال کے پیچھے کی وجہ جاننا چاہتی تھیں ۔

"ساسوں ماں میں بھی انسان ہی ہوں کوئ روح یا ایلین نہیں جو بغیر کچھ کھاۓ پیے بس ہوا پر ہی گزارہ کرتی رہوں۔مجھے بھوک بھی لگتی ہے اور پیاس بھی۔تو آپ نے کیسے سوچ لیا میں ایک ہفتے سے بس آپ کے بیٹے کی ڈانٹ کھاکر گزارہ کررہی ہوں۔کھانا ہی کھارہی تھی میں اب بھی اور رات کو بھی۔۔۔!!!!"

وہ خفگی سے منہ پھلا کر ان کے فہم میں اضافہ کرکے اپنا بازو سہلاتے ہوۓ وہاں سے جانے لگی۔جب انہوں نے اسے کھینچ کر دوبارہ اپنے سامنے کھڑا کیا۔اور وہ اس بار درد سے کراہ اٹھی۔

"لڑکی لگتا ہے تم اپنی اوقات بھول گئ ہو۔تم ونی ہو ونی۔۔۔۔۔!!!!!! ایک مجرم کی بہن ۔جسے اسکے گھر والوں نے ہی بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا ہے۔۔۔!!!!! اور کس سے پوچھ کر تم اس گھر میں کھانا کھارہی تھی۔اسے اپنا گھر سمجھ رہی ہو۔اپنی حد میں رہو سمجھی تم۔۔۔۔۔۔!!!!!! میری طرف سے جیو یا مرو ۔پر مجھے اس گھر میں گھومتی پھرتی نا دکھو۔۔۔۔!!!!"

زرلشتہ کی آنکھیں اس سنگدل عورت کے رویے پر نم ہوئیں اس کا قصور ہی کیا تھا جو اسے بار بار ایسی باتیں سنائ جارہی تھیں۔اسے بھی اب غصہ آرہا تھا۔آخر کب تک وہ یہ سب برداشت کرتی۔

"میں کسی مجرم کی بہن نہیں ہوں۔۔۔۔!!!!! میرے لالہ بے گناہ ہیں ۔اور یہ گھر میرے شوہر کا بھی ہے۔آپ مجھے کھانا کھانے سے نہیں روک سکتیں۔میں تو کھاؤں گی اور اس گھر میں گھومتی بھی پھروں گی۔اگر آپ کو میرے جینے یا مرنے سے فرق نہیں پڑتا تو میرے کھانے پینے پر پابندی لگانے کا بھی اختیار نہیں ہے آپ کو۔۔۔!!!!"

وہ بھی ویسے ہی بولی۔پر آواز نم تھی۔اپنا بازو چھڑوا کر اس نے ان کی آنکھوں میں دیکھا ۔شنایہ بیگم کا ہاتھ اگلے ہی لمحے اٹھ چکا تھا۔سارا غصہ وہ ایک تھپڑ میں اتار چکی تھیں۔پر ان کی آنکھوں میں حیرانی ابھری کیونکہ تھپڑ کی آواز ہی پیدا نہیں ہوئ تھی۔اور نا زرلشتہ سامنے کھڑی تھی بلکہ وہ تو مسکراتے ہوۓ ان کی ناکامی دیکھ رہی تھی۔

اس تھپڑ کا تو اسے شروع سے ہی اندازا تھا جو پڑ کر رہے گا۔اسی لیے ان کے اٹھتے ہاتھ کو دیکھ کر وہ نیچے جھک گئ اور ان کا ہاتھ ہوا میں ہی لہرا کر رہ گیا۔

"ساسوں ماں ۔۔!!!!! زرلشتہ کو مارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔۔۔!!!! مزہ آیا یا نہیں۔اگلی بار ہاتھ اٹھانے سے پہلے اس بار کی ناکامی ضرور سوچیے گا۔ساسوں ماں۔۔۔!!!!"

ہنستے ہوۓ وہ ان کے سامنے آئ جن کا چہرہ اب اہانت کے احساس سے سرخ ہورہا تھا۔پہلی بار کوئ ان کے سامنے یوں تن کر کھڑا ہوا تھا۔اور یہ تھپڑ بھلے زرلشتہ کے گال پر چھاپ نہ چھوڑ گیا ہو۔پر ان کی انا پر ضرور لگا تھا۔کہ کیسے ایک ونی میں آئ لڑکی ان کے سامنے کھڑی ہوکر انہی کو دوبدو جواب دے رہی ہے۔کیسے۔۔۔ !!!!

وہیں زرلشتہ تو بس ظاہری طور پر ہی ہنس رہی تھی اندر سے تو وہ بس مرنے والی تھی۔یہ تو عین وقت پر وہ صورتحال سمجھ کر جھک گئ ورنہ اس وقت بے ہوش ہوچکی ہوتی۔

اب یہ اس کی قسمت ہی تھی جو اسے دراب آفریدی اسی سمت آتے دکھے۔اس کی آنکھیں چمکیں۔وہ اکیلی اپنی ظالم ساس کے سامنے زیادہ دیر ٹک نہیں سکتی تھی۔لیکن اگر دراب آفریدی کی سپورٹ مل جاتی تو اس گھر میں رہنے والا مسئلہ ضرور حل ہوجاتا۔

"وقت آگیا ہے ڈرامہ کوئین بننے کا۔۔۔!!!!! ساسوں ماں اب دیکھتی جائیں آگے آگے ہوتا ہے کیا۔۔۔!!!"

انہیں دیکھتے ہوۓ وہ پرسرار سا مسکرائ۔پھر چہرے پر مسکینیت طاری کی۔جیسے ناجانے کتنے ظلم ہوچکے ہوں اس کے ساتھ ۔

"ٹھیک ہے مورے۔۔۔!!!! میں نہیں کھاؤں گی آپ کے گھر سے کچھ بھی۔۔۔!!!!!میں نے سنا تھا اس علاقے کے سردار کا جیسے گھر بہت بڑا ہے ویسے ہی دل بھی ان کا محل جیسا ہے پر مجھے نہیں پتہ تھا یہ کنجوسوں کا محل ہے۔۔۔!!!! جہاں لوگوں کے کھانے تک پر پابندی ہے۔میں سردار صاحب سے ضرور پوچھوں گی کہ آخر وہ علاقے کے سارے فلاحی ادارے کیسے چلارہے ہیں  جب اپنی ہی بہو کا تین وقت کا کھانا بھی ان پر بوجھ ہے۔۔۔!!!"

اس نے آواذ اتنی اونچی رکھی کہ دراب آفریدی آسانی سے سن سکیں۔وہ اپنے علاقے میں بے شمار فلاحی کام کروا چکے تھے۔ان کے نام پر کئ لنگر خانے بھی چل رہے تھے وہ دل کے برے نہیں تھے۔تبھی زرلشتہ نے بھی تیر نشانے پر لگایا تھا ۔

شنایہ بیگم کو لگا وہ جیت گئیں تبھی وہ غرور سے کھڑی تھیں۔جبکہ دراب آفریدی کے تاثرات بتارہے تھے انہیں یہ بات عجیب لگی ہے۔شنایہ بیگم کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ان کا شوہر وہاں آچکا ہے۔

"میرا بس چلے تو تمہیں یہیں مار کر دفنادوں۔ہمارے دلوں میں دشمنوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔اس گھر میں کھانا تو دور کی بات میں تو تمہیں سانس بھی نا لینے دوں۔۔۔!!!!"

وہ مزید شیر ہوئیں۔اور زرلشتہ کا پلان خود بخود کامیابی کی طرف بڑھا۔

"کیا ہورہا ہے یہاں۔۔۔۔!!!!! شنایہ بیگم جب ہم آپ سے کہہ چکے ہیں کہ اس بچی سے دور رہیں آپ ہمیں اس کے آس پاس بھی نظر نا آئیں تو کیوں اس بچی کی جان کی دشمن بنی ہوئ ہیں آپ۔اس ہر رعب جھاڑ کر کیا مل رہا ہے آپ کو۔اور کھانے کی کیا بات کی ہے آپ نے ۔۔!!!! ذرا پھر سے بولیں۔۔۔!!!! 

آپ ہوتی کون ہیں دراب آفریدی کی جاگیر پر کھڑے ہوکر دوسروں کو ایسی فضول دھمکیاں دینے والیں۔کہ آپ کسی کا کھانا کیا سانس لینے کو ہوا بھی تنگ کردیں۔مت بھولیں یہ گھر ہمارا ہے۔یہاں آپ کسی کو ڈرا دھکا نہیں سکتیں۔۔!!!!"

انہوں نے کرخت لہجے میں کہا ۔شنایہ بیگم کا رنگ اڑا انہوں نے بے ساختہ زرلشتہ کو دیکھا جو انہیں انہی کے جال میں پھنسا چکی تھی۔

زرلشتہ کی آنکھوں میں اس کے ہی بال چبھ رہے تھے جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔

وہ اس بات پر بھی خوش ہوئ کہ آج آنسو بھی اسی کا ساتھ دے رہے ہیں ۔

"آسکر پرفارمینس کے لیے تیار رہو زرلشتہ۔۔۔!!!"

اپنی آنکھوں کے کونے انگلیوں کی پوروں سے صاف کرتے وہ آج بڑی سے بڑی اداکاروں کو بھی مات دے رہی تھی۔آخر وہ کیوں ان کے بےجا حکم مانتی۔سروائیول کرنے کے لیے اسے ڈر کر نہیں لڑکر رہنا تھا ۔

"واہ سردار صاحب ۔۔۔!!!!آگیا یاد آپ کو کہ یہ آپ کا گھر ہے۔۔!!!! دیجۓ۔!! جواب دیجۓ..!!!! آخر کیسے سردار ہیں آپ کہ آپ کی ناک کے نیچے میرا مطلب ہے آنکھوں کے سامنے اس محل میں مجھ بیچاری پر ظلموں کے پہاڑ توڑے دیے گۓ۔اور آپ کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئ۔برتن دھو دھو کر میرے ہاتھ گھس گۓ۔دودھ اور کھانا چرا چرا کر میرا اعمال نامہ گناہوں سے بھر گیا۔پیٹ کے چوہے مرگے۔اور آپ بے خبر رہے ۔۔۔۔۔!!!!!"

ہاتھ نچا نچا کر وہ جواب مانگنے میں مہنگی ایکٹریسز کو بھی پیچھے چھوڑ گئ۔شنایہ بیگم حیران ہوئیں کہ زرلشتہ نے کب برتن دھوۓ۔وہ تو اسے ایک ہفتے بعد دیکھ رہی تھیں۔پر زرلشتہ سچ کہہ رہی تھی ہفتے سے وہ برتن تو دھو ہی رہی تھی۔

"ایک Hypoglycemia پیشنٹ ہفتے سے سسک سسک کر رہ رہا پے۔جس کی زندگی آرٹیفیشل شوگر انٹیک پر چلتی ہے وہ ہفتے سے کیسے زندہ ہے وہ جانتا ہے یا اس کا اللّٰه۔اس گھر کے ملازمین تک کو کہا گیا تھا کہ زرلشتہ کو کھانا نہیں ملنا چاہیے۔اسے بھوکا مارا جاۓ !!!! "

اب کی بار اس کی آواز بھراگئ۔جیسے وہ اتنے دنوں سے اپنی طبیعت خراب ہونے کے باوجود سروائیو کررہی تھی صرف وہی جانتی تھی۔یہ بھی سچ تھا ملازمین کو بھی تاکید کی گئ تھی کہ اسے کھانا دینے کی ضرورت نہیں۔اسی لیے تو اسے سب کے سونے کا یا کچن خالی ہونے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔

"شنایہ بیگم۔۔۔!!! بچی کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔!!!!!! آپ کی سوچ اتنی گری ہوئی کیسے ہوسکتی ہے ۔۔!!!! آپ ہوتی کون ہیں کسی کا کھانا بند کرنے والی۔وہ بچی لوبلڈ شوگر پیشنٹ ہے۔۔ !!!!! او اللہ ہمیں تو ابھی پتہ چلا ہے ۔کہ ہمارے گھر میں کیا کیا ہوتا رہا ہے۔۔۔!!!!"

وہ پہلے دھاڑے پھر صدمے کی کیفیت میں بولے۔زرلشتہ کا ڈرامہ آخر تک سچا ہوچکا تھا۔اور شنایہ بیگم اپنا کیا سامنے آنے پر دراب آفریدی کے سامنے نظریں بھی نہیں اٹھا پارہی تھیں۔

"ان سے نہ پوچھیے سردار صاحب مجھ سے پوچھیے جس نے ان دو ہاتھوں سے چوری کرکر کے اپنا پیٹ پالا۔۔۔!!! سردار صاحب مجھے چور بنانے والا آپ کا یہ قانون ہے۔یاد رکھیے گا جس حاکم کی رعایا بھوک کی وجہ سے چوری کرنے پر مجبور ہوجاۓ تو اس چور کے نہیں اس حاکم کے ہاتھ کاٹ دینے چاہییں۔اس دنیا میں نہ سہی پر آخرت میں مجھے انصاف ضرور ملے گا۔!!!! "

وہ پھر سے انہیں ایموشنل بلیک میل کرنا شروع ہوچکی تھی۔اس نے اپنے نادیدہ آنسو صاف کیے۔اس چھٹانگ بھر کی لڑکی نے انہیں شاک میں ڈال دیا تھا۔ایسی بہو ان کے مقدر میں ہوگی انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔وہ تو پلک جھپکنا بھی بھول گئیں اور دراب آفریدی تو خود کو مجرم بھی سمجھ چکے تھے۔اور آخرت سے ہو بھی آۓ تھے۔

"بیٹا اب تک آپ کے ساتھ جو بھی ہوا۔ہم لاعلم تھے۔پر اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔آپ کو کھانا وقت پر ملے گا۔اور اگر آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس سے ہو آئیں۔۔!!!!

 ہم تو دشمنوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نا کریں جیسا آپ اس گھر کی بہو کے ساتھ کرررہی ہیں۔کل کو کوئ بات جرگے تک پہنچی تو ہماری ناک تو کٹ گئ نا۔۔۔!!!! بچے آپ کمرے میں جاؤ۔اور بیگم آپ اپنے دماغ میں یہ بات بٹھالیں کہ وہ بےگناہ ہے۔ہمارے دین میں تو گنہگاروں پر بھی کھانا بند نہیں کیا جاتا ۔کجا بے گناہ کے ساتھ ایسا سلوک ۔۔۔!!!!! 

کچھ تو اپنے مسلمان ہونے کا پاس رکھ لیں ۔!!!"

انہیں دیکھ کر غصے سے کہہ کر وہ چلے گۓ۔پیچھے زرلشتہ نے ان کے جاتے ہی شنایہ بیگم کو آنکھ ونک کی۔جنہوں نے اسے بس گھورا۔

"ساسوں ماں سن لیا نا آپ نے سردار صاحب نے کیا کہا ہے۔۔!!!! اب تو زرلشتہ آزاد گھومے گی بغیر کسی ڈر کے۔ !!!!"

وہاں سے گزرتی ملازمہ کی ٹرے سے جوس کا گلاس اٹھاکر پیتے اس نے کہا پر جو وارننگ ان کی آنکھوں میں تھی اسے بھانپتے وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئ ۔

"اللہ دشمن کو بھی ایسی بہو نا دے ۔۔!! آئ تو ونی ہوکر ہے اور میرا ہی جینا حرام کررہی ہے ۔میرے بیٹے کو آلینے دو تمہیں اپنے سامنے جھکا نا دیا تو میرا نام شنایہ نہیں۔۔۔۔!!!!!"

کچھ سوچ کر وہ وہاں سے چلی گئیں۔ایک نیا منصوبہ ان کے ذہن میں بن چکا تھا۔اگر ان کا شوہر بہو کی طرف داری کررہا تھا تو ان کا بیٹا تو ان کے ہی قابو میں تھا۔جس سے جو چاہیں وہ منواسکتی تھیں۔اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ آگے کیا کرتیں۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"خان بابا کیا ہوا ہے گاڑی کو۔۔؟؟ اتنی دیر ہوگئ ہے۔ہم گھر کب پہنچیں گے۔۔؟؟؟"

گاڑی سے باہر دیکھتے ہوۓ وشہ نے اونچی آواز میں کہا۔اس کی بات سن کر ڈرائیور جو گاڑی کا انجن چیک کررہا تھا وہاں سے ہٹ کر اس کی طرف آیا۔

"چھوٹی بی بی۔۔ !!! لگتا ہے گاڑی اب مکینک سے ہی ٹھیک کروانی پڑے گی۔میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا۔یہاں سے تیس منٹ کی دوری پر ایک مکینک ہے تو سہی پر اسے یہاں لانے میں بھی گھنٹہ لگ ہی جاۓ گا۔آپ یہیں بیٹھی رہیں میں اسے بلا لاتا ہوں۔"

وشہ کو صورتحال سمجھا کر اس نے جانے کی اجازت چاہی۔پر یہ بات سن کر وشہ کی شہد رنگ آنکھوں میں خوف کی ایک پرچھائ ابھری ۔اس نے ویران سڑک کی جانب دیکھا ۔جہاں دور دور تک بس ویرانی ہی تھی۔کوئ وجود ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آرہا تھا۔

ان کی کار خراب بھی ان کے علاقے سے بہت دوری پر ہوئ تھی۔وہ آدھے گھنٹے سے وہیں کھڑے تھے اب وہ بھی تھک چکی تھی۔ڈرائیور کے جانے کا سن کر وہ مزید ڈری کہ یہاں ویرانے میں وہ کیسے اکیلی رہے گی ۔

"خان بابا۔۔!!! آپ چلے گۓ تو ہم کیسے یہاں اکیلے رہیں گے ہم اس ویران جگہ پر اکیلے نہیں رہ سکتے۔آپ حویلی فون کرکے ایک اور گاڑی منگوالیں۔یہ گاڑی بعد میں بھی ٹھیک ہوسکتی ہے۔۔۔!!!"

وشہ نے حل پیش کیا تو اس نے ارد گرد نظریں دوڑائیں۔

"چھوٹی بی بی یہاں سگنل نہیں آتے۔اگر میں ابھی نا گیا تو دیر ہوجاۓ گی۔آپ بے فکر رہیں یہاں کوئ نہیں آۓ گا۔۔۔!!!"

ڈرائیور کی بات سن کر اس نے ہاں میں سر ہلایا اور کار کے دروازے کا ہینڈل پکڑ کر بیٹھ گئ۔ایسی صورتحال میں ڈرنا تو نارمل سی بات تھی ڈرائیور وہاں سے چلا گیا۔اور وشہ آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی۔اسے بھی امید تھی اس جگہ کوئ نہیں آۓ گا۔پر جو ہم سوچتے ہیں ضروری نہیں وہی ہو۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اچانک اسے اس ویران جگہ پر گاڑیوں کے شور کی آواز آئ۔تو وہ جو سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی فورا سیدھی ہوئ۔اس نے بے ساختہ گاڑی کے شیشے سے باہر کی طرف دیکھا تو اس کا دل سہم گیا۔اس کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر دو گاڑیاں رکی تھیں۔اس نے کار کا لاک چیک کیا تو اب کی بار اس کے اوسان بیدار ہوگۓ۔

گاڑی انلاک تھی ڈرائیور جاتے ہوۓ گاڑی لاک کرنا بھول گیا تھا وشہ کا سر چکرایا کہ یہ اب کونسی مصیبت اس پر آگئ ہے۔وہ تو یونیورسٹی سے ہی واپس آرہی تھی جب راستے میں ان کی گاڑی غلط ٹریک پر چل نکلی اور وہیں سنسان علاقے میں خراب ہوگئ۔اتنے اتفاق ہضم تو وشہ کو بھی نہیں ہوۓ تھے اوپر سے گاڑی بھی لاک نہیں تھی۔

"یا اللّٰه ۔۔!!!! ہمیں بچالے۔۔!!!! یہ کون لوگ ہیں اور یہاں کیوں رکے ہیں۔۔۔!!!! ہم کیا کریں گے اب ۔!!!"

اپنی شال کے سرے مضبوطی سے تھامتے۔وہ اب کانپنے لگی تھی۔

دولوگ اس کی گاڑی کی طرف آۓ  اور دروازہ کھول دیا۔وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی جن کے چہرے ماسک کے پیچھے چھپے تھے۔ہاتھ میں پسٹل تھامے ان کی نظریں وشہ پر ہی ٹکی تھیں۔

"باہر نکل شرافت سے۔۔۔!!!! ہمیں زبردستی ہر مجبور نا کر۔۔۔!!!!"

 ایک شخص نے پسٹل اس پر تانی جسے پسٹل سے نہیں ان کی نظروں سے خوف آرہا تھا۔وہ پاگل تو نہیں تھی جو حکم مان کر چل پڑتی۔اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔

"ک۔کون ہو آپ لوگ۔۔!!! ہمیں کیوں ساتھ کے جانا چاہ رہے ہو۔ہم سے دور رہو ۔ورنہ ا۔انجام کے ذمہ خود ہو گے آپ لوگ۔۔!!!"

وشہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔جنہیں ان دو لوگوں نے دلچسپی سے دیکھا ۔پھر اسی شخص نے اسے بازو سے پکڑ کر زبردستی گاڑی سے باہر نکالا۔تو وہ چیخ اٹھی۔وہ اس اچانک افتادہ پر اتنا بوکھلائ ہوئ تھی کہ مزاخمت بھی نہ کرپائی۔

"ہ۔ہمارے بابا سردار دراب آفریدی ہیں۔۔!!! انہیں پتہ چلا تو تم لوگوں کے ہاتھ ہاتھ کٹوادیں گے۔کسی ل۔لڑکی کو اغواہ کرتے کیا شرم نہیں آتی تم لوگوں کو ۔بے حیأ لوگ۔۔۔!!!!! ہمیں چھوڑو ورنہ ہم سچ کہہ رہے ہیں پچھتاؤ گے تم اس دن کو۔۔۔!!!"

وشہ نے خوف ہر قابو پاتے ہوۓ انہیں دیکھ کر وارن کیا۔ان دونوں نے اس کی دھمکی کو مزاق ہی سمجھا تبھی تو کمینی سی مسکراہٹ لیے اسے کھینچتے ہوۓ پچھلی گاڑی کی سمت لے جانے لگے۔وشہ نے نظر دوڑا کر ان سارے اغواہ کاروں کو دیکھا جو کل ملا کر پانچ سے چھ لوگ تھے۔اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ ہار نا جاۓ۔وہ ہار جاتی تو موت یقینی تھی۔اسے ہارنا نہیں تھا۔

وشہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پین پر گرفت مضبوط کی۔

وہ مزاخمت کررہی تھی پر اس کی مزاخمت بے کار تھی۔جب ہاتھ چھڑوانے کی کوششیں بے کار گئیں تب اس نے آنکھیں بند کرکے اب اگلے حالات کے لیے خود کو تیار کیا ۔

پوری ہمت جمع کرکے وہ چیخنے کے لیے تیار ہوئ۔

"سانپ۔۔۔!!!!! سانپ۔۔۔۔۔!!!! ہمارے پاؤں پر کسی چیز نے کاٹ لیا ۔سانپ ہے یہاں ۔۔!!!! سانپ۔۔۔!!!! ںچاؤ ہمیں ہم مرجائیں گے۔۔۔!!!! "

اس لڑکی میں جتنی طاقت تھی اس نے جمع کی اور چیخی۔اس کی آواز وہاں گونج رہی تھی۔آواز میں درد بھی تھا۔پھر ساری ہمت اکٹھی کرکے اس نے اس شخص کو خود کو کھینچنے سے روکا اور وہیں گرنے کے انداز میں بیٹھ گئ۔تمام لوگ الرٹ ہوۓ۔جتنی تکلیف اس کے چہرے پر تھی سب کو لگا وہ سچ کہہ رہی ہے ۔

"لگتا ہے اسے واقعی سانپ نے کاٹا لیا ہے۔دیکھ تو کیسے تڑپ رہی ہے۔اگر یہ مرگئ تو ہمارا بچنا بھی ناممکن ہوگا۔یشاور صاحب نے اسے زندہ لانے کو کہا تھا۔تو سانپ ڈھونڈ میں اسے دیکھتا ہوں۔۔!!!"

جس آدمی نے اسے پکڑ رکھا تھا اس نے دوسرے آدمیوں سے کہا۔جو اس کا حکم مانتے اب سانپ ڈھونڈنے لگے۔وہ خود جھکا اور اس کے رخسار تھپتھپاکر دیکھنا چاہا وہ ہوش میں ہے یا نہیں۔پر اس سے پہلے ہی وشہ نے اس پر حملہ کیا اور پین کی نب اس کی گردن میں دبوچ دی۔یہ پین بھی وہ ہاتھ میں ہی پکڑ کر بیٹھی تھی جب یہ لوگ اسے اغواہ کرنے آۓ تھے۔

وہ چیخا اور اسے چھوڑ دیا۔وشہ نے اسے دھکا دیا اور اسے نیچے گرا کر خود اسی پین کی نب کو اتنی قوت سے کھینچا کہ اس کی چیخیں فضا میں گونج اٹھیں۔خون فوارے کی طرح نکلا اور وشہ نے ایک حقارت بھری نگاہ اس پر ڈالی ۔

"کہا تھا ہمیں مت چھونا ورنہ پچھتاؤ گے۔۔!!! یہ نشان تمہیں تاعمر یاد دلاۓ گا کہ تم کسی وشہ آفریدی سے ملے تھے۔اوس دلته مړ شه.(اب مرو یہیں)۔۔۔!!!!"

اس کی چیخ سن کر اس کے ساتھی وہاں آرہے تھے۔تبھی اسے جاتے وقت جتا کر وہ وہاں سے بھاگی۔اس کے ساتھیوں نے جب اس شخص کی ابتر حالت دیکھی تو سمجھ گۓ وہ لڑکی انہیں بیوقوف بناکر بھاگ چکی ہے۔ان چاروں میں سے ایک شخص اسی زخمی شخص کی طرف آیا جب کہ باقی تین وشہ کے پیچھے بھاگے۔

وشہ بغیر پیچھے دیکھے بھاگتی جارہی تھی اسے پتہ تھا پیچھے دیکھے گی تو ڈر کے باعث وہیں گرجاۓ گی۔ اس کا سانس پھول چکا تھا۔شال کندھے پر جھول رہی تھی۔پر اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔بس یاد تھا تو اتنا کہ اسے یہاں سے صحیح سلامت نکلنا ہے۔

وہ بھاگتے ہوۓ بہت دور آگئ تھی۔کہ تبھی سامنے سے آتی ایک کار دیکھ کر وہ وہیں رکی۔شہد رنگ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا

وہ چیخ اٹھی اور دونوں ہاتھ کانوں پر جماکر وہیں کھڑی ہوگئ۔وشہ نے کلمہ پڑھ لیا اسے لگا اب وقتِ آخر آچکا ہے۔یا تو وہ اس گاڑی سے ٹکڑا کر مرے گی یا پھر ان اغواہ کاروں کے ہاتھ لگ جاۓ گی۔

وقتِ آخر آیا تھا پر وشہ کا نہیں ان تینوں کا۔کار جھٹکے سے رکی۔سڑک پر اس وجہ سے گرد اڑنے لگی۔اور کار ڈرائیو کرتے شخص کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔اس شخص نے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تو اس کا خون کھول اٹھا۔

ایک لڑکی سڑک کے بیچوں بیچ کانوں پر ہاتھ رکھے آنکھیں بند کیے کھڑی تھی اور اس کے پیچھے تین لوگ ہاتھوں میں پسٹل پکڑے بھاگتے آرہے تھے۔اس کی شال اب سڑک پر گری تھی۔وہ تینوں بھی اس تک پہنچ گۓ۔پر وشہ سن ہوتے اعصاب کے ساتھ اسی پوزیشن میں کھڑی رہی ایک شخص نے اس کا بازو پکڑا اور اسے جھنجھوڑا ۔جو اتنی کوششوں کے بعد بھی ناکام ہونے پر اب بولنا بھی بھول گئ تھی۔

"له موږ سره هوښیار اوسئ.(ہمارے ساتھ ہوشیاری کرتی ہے)۔۔۔!!!!! *****"

جس شخص نے اسے پکڑا تھا اس نے اسے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔اور وشہ پھر سے آنکھیں میچ گئ۔

پر تھپڑ اسے نہیں لگا تھا۔بلکہ فضا میں گولی چلنے کی آواز گونجی اور اس شخص کے ہاتھ کے آر پار وہ گولی ہوگئ۔جو اب اسے چھوڑ کر سڑک کے بیچوں بیچ گرا تڑپ رہا تھا۔وشہ نے آنکھیں کھول کر اس تڑپتے شخص کو دیکھا۔اور وہ باقی کے دو لوگ سڑک کے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ رہے تھے جس کی آنکھیں خون چھلکا رہی تھیں۔

"ہاتھ مت لگا اسے۔۔۔!!!!!!! ورنہ تمہارے ہاتھ کاٹ دوں گا۔۔۔۔۔۔!!!!!"

وہ وہیں سے دھاڑا۔اور بھاگتا ہوا ان تینوں تک آیا۔اس شخص کے پیچھے دو گاڑیاں رکی ہوئ تھیں۔اور وشہ تو یوں کھڑی تھی جیسے اس میں جان ہوہی نا۔اس شخص کی نظریں جھکی تھیں اس نے آتے ہی سڑک سے اس لڑکی کی شال اٹھائ اور اس کے سر پر دی۔جس کی خاموش آنکھوں سے آنسو توتر سے بہتے جارہے تھے۔

اغواہ کاروں کے رنگ سفید پڑگۓ۔اس شخص کے یہاں آنے کی خبر کسی کو نا تھی۔تو یہ کیسے یہاں آگیا۔

"دیار درانی۔۔۔۔!!!!!!" ایک شخص کے لب بے آواز پھڑپھڑاۓ۔ 

" یہ لوگ ہمیں زبردستی اپنے ساتھ لے جارہے تھے۔آپ ہماری مدد کریں۔ہمیں ہمارے گھر ہہنچادیں۔۔۔!!!"

ان لوگوں سے نظریں ہٹاتے وشہ نے اس مہربان شخص کو دیکھا۔جو اس وقت اس کے لیے کسی مسیحا جیسا تھا۔جو عین وقت پر اس کی مدد کو پہنچایا گیا تھا۔دیار نے ایک نظر اس کے آنسوؤں سے تر چہرے کو دیکھا پھر نظروں کا رخ خوف سے کانپتے ان باقی تینوں نفوس کی جانب کیا۔جو خود اب اپنی موت کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔

"چھ۔چھوٹے سردار۔۔!!! ہمیں یشاور خان نے یہاں بھیجا تھا۔اس لڑکی کو لانے کے لیے۔..!!!!

ان کا کوئ جھگڑا تھا اس کے بھائ کے ساتھ۔ہمارا کوئ تعلق نہیں ہے اس معاملے سے۔ہم لوگ تو بس حکم مان رہے تھے۔۔۔!!!!"

جس شخص کو گولی لگی تھی اس نے اب وضاحت دینا چاہی۔دیار کی نظروں کا سرد پن اب بھی ویسا کا ویسا تھا۔

"تم لوگوں کا معاملے سے تعلق نہیں۔۔۔!!!! چھوٹے بچے ہو نا تم۔جب ہمیں گھسیٹ کر اپنے ساتھ کے جارہے تھے تب تو تمہیں یاد نا آیا تمہارا معاملے سے تعلق نہیں۔۔۔!!!!! ہم جان نکال لیں گے تمہاری ۔اگر زیادہ معصوم بننے کی کوشش کی تم نے تو۔۔۔۔!!!!"

وشہ نے ایک خونخوار نگاہ اس شخص پر ڈالی اور اسے دیکھ کر چیخی۔دیار کی سماعتیں اسی لڑکی کی طرف متوجہ تھیں جو ان حالات میں بھی شیرنی بنی ہوئ تھی۔کوئ اور لڑکی ہوتی تو اب تک بے ہوش ہوچکی ہوتی۔

 اس نے اب اپنی گاڑی کے پیچھے کھڑی دو گاڑیوں کو دیکھا جو ہفتے سے اسی کا پیچھا کررہی تھیں اور وہ جانتا تھا انہیں اس کے پیچھے اس کے بابا نے ہی لگایا ہے۔

"اٹھا کر لے جاؤ انہیں۔ان کی اوقات اچھے سے یاد دلاکر اس کمینے کے پاس پھینک آنا۔اور یہ بھی کہنا کہ اگر مرد ہے تو مرد بن کر مردوں سے لڑے ۔عورت پر طاقت کا زور دکھانے والا مرد نہیں ہوتا۔وہ بے غیرت ہوتا ہے۔۔۔۔!!!!"

اس نے ان گارڈ کو اشارہ کیا جو فورا اس کے حکم کی تکمیل کرنے کے لیے وہاں پہنچے۔دیار کا دھیان اس شخص پر ہی تھا جسے گولی لگی تھی۔وہ جھکا اور اس کے ہاتھ پر ایک سرد نگاہ ڈالی۔

"تھپڑ ابھی لگا نہیں تھا تبھی یہ ہاتھ سلامت ہے۔ورنہ کب کا اسے کاٹ کر پھینک چکا ہوتا۔۔۔۔!!!! اور اغواہ کرنے کی کوشش کرنے کی سزا تم تینوں کو اچھے سے مل جاۓ گی۔ایسی ملے گی کہ حرام کام کرنے کی سوچ سے بھی تم پناہ مانگو گے۔واپسی پر اس یشاور کو بتادینا کہ یہ حال دیار نے کروایا ہے۔اور یہ بھی کہنا اپنی منحوس صورت میری نظروں سے دور ہی رکھے۔بے غیرت انسان۔۔۔!!!!"

دیار نے اس کا وہی ہاتھ بازو سے پکڑ کر سامنے کیا۔تو وہ درد سے کراہ اٹھا۔اپنی بات کہہ کر اس نے اسے کسی اچھوت کی طرح چھوڑا۔اور دوبارا اٹھ گیا۔

وشہ بھی اپنے آنسو صاف کررہی تھی۔دیار کے گارڈز ان تینوں کو ایک گاڑی میں ڈال کر اس کے اگلے حکم کے منتظر تھے۔وہ لوگ فریادیں کرتے رہے کہ انہیں چھوڑ دیا جاۓ۔پر دیار کا ایسا کوئ ارادہ نہیں تھا۔

"آپ یہاں اکیلی کیا کررہی ہیں ؟ کیا کؤی ساتھ ہے آپ کے۔۔۔!!! اگر نہیں ہے تو میں آپ کو گھر پہنچوا دیتا ہوں۔یہاں رکنا مناسب نہیں ہوگا۔۔!!"

دیار کی نظریں ابھی بھی دوسری سمت تھیں۔پر وشہ نے اسے دیکھا۔جو احترام دیار کی آنکھوں میں اس وقت تھا اس کے لیے. وہ اچھے سے دیکھ چکی تھی۔اس نے بس ایک دفعہ اسے دیکھا تھا۔پھر جیسے وہ اب یہ غلطی دوبارہ کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔

"شکریہ آپ کا۔۔۔!!!! آج جو آپ نے ہمارے لیے کیا ہم ہمیشہ شکرگزار رہیں گے آپ کے۔ہماری گاڑی یہاں پاس میں ہی کھڑی ہے۔اور ان تینوں کے باقی دو ساتھی بھی وہیں ہیں۔انہیں بھی اٹھوا لیں۔وہ بھی سزا کے مستحق ہیں۔ایسے بےحیاؤں کو زندہ ہی نہیں رہنا چاہیے۔"

اپنی شال درست کرتے اس نے بھی نظروں کا زاویہ بدل لیا۔دیار اتنا تو جان چکا تھا یہ لڑکی کوئ عام لڑکی نہیں ہے۔کوئ تو خاص بات ہے اس میں۔

"آپ میرے ساتھ چلیں۔ان دو لوگوں کے ساتھ وہی ہوگا جو آپ چاہیں گی۔"

اس نے اپنے  گارڈ کو گاڑی میں واپس بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وشہ کو اپنے ساتھ آنے کو کہا۔جو سر ہلاکر اس کے پیچھے چل پڑی۔پھر خود ہی بیک سائیڈ کا ڈور کھول کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئ۔دیار مبہم سا مسکرایا۔

پہلی ہی ملاقات میں آج تک کوئ اسے اتنا دلچسپ نہیں لگا تھا۔گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے اس سمت کار ڈرائیو کی۔ جس سمت کا وشہ نے اسے بتایا۔وہ اس دفعہ حیران ہوا کہ وہ جگہ اس سڑک سے بہت دور تھی۔یعنی وہ اتنی دور تک بس بھاگتے ہوۓ آئ تھی۔

اس جگہ پہنچ کر جب دیار نے وہاں دوسری گاڑی میں بیٹھے شخص کی حالت دیکھی تو ہکا بکا رہ گیا۔اس کی گردن کسی نوکیلی چیز سے نوچی گئ تھی۔اور اسے پتہ تھا یہ کارنامہ اسی لڑکی نے کیا ہے۔اس کا دوسرا ساتھی اسے بچانے کی تگ و دو میں تھا۔

وہ دونوں دیار کو دیکھ کر ڈرے تھی۔تبھی دیار کے آدمیوں نے ان دونوں کو بھی پچھلے تینوں 

آدمیوں کے پاس پھینک دیا۔اتنے میں وہ ڈرائیور بھی وہاں واپس آچکا تھا۔دیار اس وقت مار دھار چاہتا نہیں تھا۔کیونکہ اس وقت یہ لڑکی وہیں تھی۔ان پانچوں کو تو وہ فرصت سے دیکھتا۔

"چھوٹی بیبی۔۔!!!! یہ سب کیا ہوا۔؟؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔!!"

اس ڈرائیور نے فکر مندی سے پوچھا ۔تو وشہ نے سر سے لے کر پاؤں تک اسے گھورا۔

"لالہ۔۔!!!! آپ کیا ہمیں بتا سکتے ہیں یہاں موبائل سروس آتی ہے یا نہیں۔اور کار مکینک یہاں سے کتنی دوری پر ہے۔۔!!!"

ایک وہم اس کے دل میں تھا۔جسے دور کرنے کے لیے اس نے دیار سے سوال کیا۔جو گاڑی کا کھلا انجن دیکھ کر اس کا سرسری سا جائزہ لے رہا تھا۔

"جی یہ جگہ شہر کے قریب ہے یہاں سروس آتی ہے۔اور مکینک یہاں سے بس پانچ منٹ کی دوری پر ہے۔۔۔!!!!! "

دیار نے ہنوز رخ دوسری سمت کرکے بتایا۔ڈرائیور بوکھلا گیا۔پر وشہ کا یقین تو اب اس شخص سے اٹھ چکا تھا۔

"مہربانی ہوگی آپ کی اگر آپ اس شخص کو ہمارے لالہ تک پہنچا دیں تو۔۔۔!!!! ہم پٹھان ہیں۔اتنے ڈرپوک یا بیوقوف نہیں جو دوبارہ اس غدار پر بھروسہ کریں گے۔ویسے خان بابا پلاننگ اچھی تھی آپ کی۔ہمیں ٹریپ کرنے کی۔پر افسوس۔۔!!! سٹوری میں ٹوسٹ آگیا اور آپ کا پلان فلاپ ہوگیا۔۔!!!"

وشہ کا چہرہ سپاٹ تھا۔دیار نے آنکھیں بند کیں اور گہرا سانس بھرا۔اسے غداروں سے سخت نفرت تھی۔وہ چند قدم آگے بڑھا اور اس شخص کو دیکھا جسے اپنی عمر کا بھی کوئ لخاظ نہیں تھا۔بس تھا تو پیسے کا خیال بس۔۔۔!!!!

اگلے ہی لمحے وہ اسے گریبان سے پکڑ کر دوسری گاڑی کی طرف دھکا دے گیا۔تو وہ زمین پر اس کے گارڈ کے پیروں میں اوندھے منہ گرا۔

"یہی اوقات ہے غداروں کی۔۔!!!!"

اس نے اپنے آدمی کو اشارہ کردیا تو وہ ان اغواہ کاروں کو ان کے ٹھکانوں کی طرف لے جانے لگے۔باقی ڈرائیور کو کہاں پھینکا تھا اس جگہ کا ایڈریس وہ اسی ڈرائیور سے ہی پتہ کروالیتے۔

"آپ بہادر ہیں۔۔!!! لڑکیوں کو بہادر ہی ہونا چاہیے۔۔!!!! خدا بخش۔۔!!! بی بی کو ان کے گھر تک باخفاظت چھوڑ کر آؤ۔کوئ کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔۔۔!!!"

وہ شروع میں مبہم سا مسکرایا پھر اپنے سب سے خاص ڈرائیور کو جو سالوں سے اس کے ساتھ کام کررہا تھا اسے وشہ کو اس کے گھر چھوڑنے کو کہا۔وشہ بھی خاموشی سے اس گاڑی کی طرف چلی گئ۔وہ اسے خود چھوڑنے نہیں گیا اسے لگا شاید وہ انکمفرٹیبل فیل کرے گی اس کے ساتھ۔اسے بھی نہیں پتہ تھا یہ درمان کی بہن ہے۔

اپنے غصے اور لہجے سے وہ اسے درمان جیسی لگی تھی ۔پر وہ اس سوچ کو جھٹک گیا کہ' اس کریلے(درمان)کی کوئ بہن بہادر کیسے ہوسکتی ہے۔اس کے ساتھ رہنے والے سارے لوگ ہی ڈر سہم کر رہتے ہوں گے۔وہ غصے کا جو اتنا تیز ہے۔۔!!!"

ان کے جاتے ہی وہ خود بھی وہاں سے چلا گیا۔وشہ بھی حیران تھی کہ آج کل کے زمانے میں کوئ انسان اتنا سیدھا کیسے ہوسکتا ہے کہ اجنبیوں کی بھی عزت کرے۔بغیر جانے مدد سے لے کر انہیں تحفظ بھی دے۔

وہ بس یہی سوچ پائ کہ کیا کوئ واقعی ایسا بھی ہوسکتا ہے۔۔۔!!!!!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

وہ وشہ سے ایڈریس پوچھ کر اسے اس کے بھائ کے پاس ڈیرے پر چھوڑ کر آۓ۔کیونکہ وشہ کو پتہ تھا اگر وہ سیدھا گھر جاتی تو اس کی حالت دیکھ کر ایک نیا طوفان کھڑا ہوجاتا۔پہلے ہی ایک ہنگامہ اب تک ان کی زندگیاں الجھاۓ ہوۓ تھا اب یہ اغواہ والی بات ناجانے کیا حال کرتی ان کا۔

درمان جو ابھی کسی کام کے سلسلے میں وہاں سے نکلنے والا تھا۔روتی ہوئ وشہ اور اس کے ساتھ ان گارڈز کو دیکھ کر چونک اٹھا۔اس نے خود آگے بڑھ کر اسے خود سے لگایا جو درمان کو دیکھتے ہی شدت سے رو پڑی تھی۔اس کا دماغ تو ابھی تک اسی جگہ اٹکا ہوا تھا اگر وقت پر دیار وہاں نہ اسے ملتا تو وہ ناجانے کس حال میں ہوتی اس وقت۔

"کیا ہوا ہے وشہ تمہیں۔۔؟؟؟؟ تو کیوں رہی ہو؟ اور تم لوگ یہاں کیا کررہے ہو ۔۔۔؟؟"

درمان ان گارڈز کو پہچان گیا تھا کہ یہ دیار کے ہی آدمی ہیں۔وہ ابھی بھی معاملہ سمجھنے کی کوشش میں تھا۔جب ان لوگوں نے اس ڈرائیور کو اس کے سامنے پھینک دیا۔

پھر مختصرا اسے ساری صورتحال سمجھا کر وہ لوگ جیسے آۓ تھے ویسے ہی چلے گۓ۔پر درمان کے تو ہوش اڑ ہی چکے تھے۔جس شخص کو وہ دشمن کہتا تھا آج اس شخص نے اسے اس کی جان سے پیاری بہن صحیح سلامت واپس لاکر دی تھی۔وہ تو پہلے ہی فدیان کا دکھ سینے میں لئے پھر رہا تھا۔اب اگر ایک اور دکھ اسے مل جاتا تو وہ تو شاید زندہ ہی نہ رہتا۔

وشہ کو بہلاکر وہ اسے خود گھر واپس چھوڑ کر آیا۔اور یہ بھی کہا کہ یہ بات وہ آغا جان کو نا بتاۓ۔وہ خود سب سنبھال لے گا۔وہ بھی مان گئ۔پھر درمان اس ڈرائیور اور یشاور کا دماغ درست کرنے کے لیے نکل گیا۔

جو پیٹھ پیچھے حملہ کرنے کی کوشش کرکے اب بچنا چاہتے تھے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"ہمت کیسے ہوئی تیری میری بہن کو اس کمینے کے پاس لے جانے کی کوشش کرنے کی۔۔۔!!!!!"

پہلے سے ادھ موئے ڈرائیور کو ایک اور ٹھوکر رسید کرتے وہ چلایا۔نیلی آنکھوں میں وہی غصہ ابھرا ہوا تھا جو اس کے قابو میں بھی نہیں تھا۔جب سے وہ واپس آیا تھا تب سے وہ اپنا غصہ اس شخص پر ہی اتار رہا تھا۔اور ان گارڈز پر بھی جو روز تو وشہ کے ساتھ ہی جاتے تھے۔پر آج سب کے سب ہی چھٹی پر تھے۔اسے خود پر بھی غصہ تھا کہ وہ کیسے اتنی لاپرواہی برت گیا۔

"چھ۔چھوٹے سردار معاف کردیں م۔مجھے۔۔!!! میں لالچ میں ا۔اندھا ہوگیا تھا۔"

اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی ناکام کوشش کی پھر درمان کو دیکھ کر بامشکل اپنا جرم قبول کرلیا۔

"تمہیں میں معاف کردوں۔۔!!!! اچھا مزاق ہے۔۔۔!!!"

استہزائیہ انداز میں ہنستے آخر میں اس کی بھنویں خود بخود اچک گئیں۔کنپٹی کی ابھرتی نسوں میں بھی اضافہ ہوا جنہیں وہ گاہے بگاہے ہاتھ سے سہلارہا تھا۔

"اگر تم اپنے مقصد میں۔ کامیاب ہو جاتے تو ابھی اپنا لالچ پورا ہونے کا جشن منارہے ہوتے۔لیکن ناکام ہونے کے بعد جب بات اپنی زندگی پر آئ تو تمہیں معافی مانگنا یاد آگیا۔بہت خوب۔۔!!!"

اس کا غصہ پھر سے بڑھا۔اور وہ وہیں اضطرابی کیفیت میں چکر کانٹے لگا۔وہ صحیح ہی تو کہہ رہا تھا۔اس شخص نے یہ سب پیسوں کی خاطر کیا تھا۔تاکہ راتوں رات لاکھوں کما سکے۔اور اب یہ شخص ٹھیک سے بولنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔

"صا۔صاحب رحم کریں۔۔!!!"

خود آگے کی طرف خود کو گھسیٹ کر اس نے درمان کے اب پیر پکڑنے چاہے۔اس شخص کا ہاتھ لگتے ہی اس نے اسے ٹھوکر رسید کی۔وہ واپس دور جاگرا۔اور کراہ اٹھا۔

"بے غیرت نہیں ہوں میں جو تجھے چھوڑ دوں۔شکر کر میری بہن بچ گئ ورنہ تیرے اتنے ٹکڑے کرتا کہ تیرے گھر والوں سے سمیٹنا بھی مشکل ہوجاتا۔۔۔۔!!!!!!! اب یہیں مر میں تجھے آسان موت نہیں دوں گا۔تو تڑپتا رہے گا کہ تونے غداری کا سوچا بھی کیسے۔۔۔۔!!!!"

اسے دیکھ کر نفرت سے کہتے درمان وہاں سے نکل گیا ورنہ اسے مار چکا ہوتا۔اسے تو بس اسے تڑپانا تھا۔

"جب یہ مرنے کے قریب پہنچے تو اسے اس کمینے کے ڈیرے پر پھینک آنا۔ساتھ میں یہ بھی اچھے سے سمجھا کر آنا کہ اگر اس میں ذرا سی بھی ہمت ہے تو اپنے بل سے نکل کر مجھ سے لڑے۔ورنہ اپنے باپ کے خون کے کھوٹ کا سرِ عام اعلان نہ کرتا پھرے۔اور تم لوگ اگر اچھے سے سمجھا نہ پاۓ تو میں پھر تم لوگوں کو سمجھاؤں گا۔۔۔!!!!"

درمان کا انداز سپاٹ تھا پر اس کے آدمیوں کے حلق میں اس دھمکی پر گلٹی ابھر کر معدوم ہوئ۔ان سب نے ایک نگاہ وہیں بے ہوش ہوۓ پڑے ڈرائیور پر ڈالی جسے درمان نے ادھ مرا کرکے چھوڑا تھا۔نہ وہ اب چل پھر پاتا نا ہی کچھ بول پاتا۔غداروں کو یہی سزا ملنی چاہیے۔یہ اسی کا ماننا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"رات کے نو بج رہے تھے۔دراب آفریدی کی اس محل نما حویلی میں ہو کا عالم تھا۔جیسے اگر سوئی بھی گرے تو آواز ضرور آۓ گی۔پوری حویلی روشنیوں میں نہائی ہوئ تھی۔اور گنے چنے نفوس اپنی اپنی پناہ گاہوں میں موجود تھے۔

وشہ تو واپس آتے ہی اپنے کمرے کی ہوکر رہ گئ تھی۔کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئ کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔وہ سب چھپانا جانتی تھی۔

زرلشتہ بھی دوپہر کے بعد رات کو ہی کچن میں کھانا کھانے گئ تھی۔پھر واپس آکر اسی کمرے میں بند ہوگئ۔جہاں درمان کی غیر موجودگی میں خوف کا کوئ نام و نشان نا تھا۔پر بوریت تھی بہت زیادہ ۔۔!!!!

جسے وہ اپنے طریقے سے دور کررہی تھی تارے گن کر۔

دراب آفریدی اس وقت کمرے میں تھے۔اور شنایہ بیگم تو ابھی تک جو کچھ دوپہر میں ہوا اسی پر سلگ رہی تھیں۔زرلشتہ نے بدلا بھی پورا پورا لیا تھا۔اور لیا بھی ایسا تھا کہ وہ اتنی جلدی اس صدمے سے باہر نہ آتیں۔زرلشتہ حق بجانب تھی۔وہ کیوں ظلم پر خاموش رہتی۔

"یہ لڑکی میرے ہی ہاتھوں سے مرے گی۔۔۔!!!!! اس کی اکڑ تور کر میں نے اسے اپنے پیروں میں نا گرایا تو میرا نام بھی شنایہ نہیں۔بس درمان کا انتظار ہے اب۔میرا باقی کا کام تو وہی کردے گا۔۔۔۔!!!!"

داخلی دروازے کے پاس کھڑے ہوکر وہ کب سے درمان کا ہی انتظار کررہی تھیں۔ان کی آنکھوں میں ضد تھی۔کسی کو جھکانے کی ضد۔کسی کا سکون چھیننے کی ضد۔اور اسی ضد کے چلتے شاید وہ کبھی اپنا سب کچھ کھو بیٹھتیں۔

درمان کی گاڑی کی آواز سن کر انہوں نے دوبارہ وہی سب یاد کیا اور آنکھوں میں آنسو لے آئیں۔

درمان تو پہلے ہی آتش فشاں بنا گھوم رہا تھا جب اسے دروازے کی اوٹ میں کھڑی ماں دکھی تو گہرا سانس خارج کرکے اس نے نظریں جھکا لیں۔اسے لگا تھا وہ فدیان کا ہی پوچھیں گی۔جس کی تلاش میں وہ خوار ہوچکا تھا۔

فدیان کو یا تو زمین کھاگئ تھی یا آسمان نگل گیا تھا۔اگر وہ اتنی ہی محنت سے چراغ کی روشنی میں دوسری ماں ڈھونڈتا تو وہ اسے مل جاتی۔اور پہلے سے بہتر مل جاتی۔اسے مزاج کی عاجزی بھی مل جاتی جو ڈھونڈنے سے بھی اس کے اندر نہیں تھی۔یا اگر یہی محنت ملک کا قرضہ اتارنے میں کرتا تو وہ بھی اتر جاتا۔ ہر ناممکن کام ممکن ہوجاتا۔پر جو ہونا چاہیے تھا وہ نہ ہوا۔یعنی مسٹر فدیان آفریدی جو سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہوۓ تھے وہ نہ اسے ملے۔

"مورے۔۔۔!!!! میں ڈھونڈ لوں گا اسے ۔جلد وہ آپ کے پاس ہوگا ۔آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔!!!"

وہ تسلی دے رہا تھا۔پر اب تو اس کا اپنا دل بھی اس تسلی پر نہ بہل سکا۔

"درمان! پہلے جو تمہارے پاس ہے اسے تو اس کی اوقات یاد دلاؤ۔پھر جو کھوگیا اسے ڈھونڈنا۔"

پھنکارتے ہوۓ وہ چہرہ پھیر گئیں۔درمان نے ناسمجھی سے انہیں سر اٹھا کر دیکھا۔

"کیا مطلب ہے مورے۔۔۔!!!! میں سمجھا نہیں۔"

وہ آگے بڑھا اور ان کے مقابل آکھڑا ہوا۔جو بجاۓ اسے دیکھنے کے غصے سے وہاں سے جانے لگیں۔لیکن درمان ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں روک گیا۔وہ بیٹا تھا پھر کیسا اپنی ماں کی خفگی کی وجہ نا جانتا۔

شنایہ بیگم کی سماعتوں میں اپنی تذلیل کے الفاظ گونجے جو آج دراب آفریدی نے انہیں سناۓ تھے اب موقع تھا بدلہ لینے کا۔

"اس ونی کی بات کررہی ہوں میں جو مجھ پر جھوٹے الزام لگا کر مجھے تمہارے آغاجان کی نظروں میں گرارہی ہے۔ جو اتنے دنوں سے میری تذلیل خود بھی کررہی ہے اور سردار سے بھی کروارہی ہے۔اس لڑکی کا کہنا ہے یہ گھر مجھ سے بڑھ کر اس کا ہے۔مجھ بڑھیا کو یہاں اپنی اوقات میں رہنا چاہیے۔ورنہ وہ مجھے یہاں سے نکال باہر کرے گی۔۔!!!!"

مگرمچھ کے آنسو جو ان کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے انہیں صاف کرتے ہوۓ ۔جھوٹی باتیں درمان کو بتا کر وہ اب اپنا ہاتھ چھڑواگئیں۔درمان تو حیران ہی ہوگیا تھا۔کہ مصیبت(زرلشتہ) ایسا کیسے کرسکتی ہے۔اسے زرلشتہ اتنی چالاک یا بدتمیز تو نہیں لگتی تھی۔زبان کی ذرا تیز تھی پر دل کی وہ سخت نہیں تھی۔یہ بات وہ اب تک جان چکا تھا۔

"مجھے پوری بات بتائیں مورے۔۔!!! زرلشتہ نے کیا کیا ہے آپ کے ساتھ؟"وہیں ان کے سامنے کھڑے اس کے دماغ میں زرلشتہ کا عکس آیا تھا۔پھر ماں کے آنسو جلتی پر تیل کا کام کر گۓ تھے اس کا غصہ محسوس کرتے انہوں نے اب اسے بھڑکانا شروع کیا۔

ایکٹنگ میں ان کا بھی کوئ جواب نہ تھا۔وہ تو زرلشتہ سے بھی بہت آگے کی چیز تھیں۔انہوں نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہفتے بھر کا اپنا کیا اس معصوم پر ڈال دیا۔کہ کیسے وہ انہیں ٹارچر کرتی رہی۔ملازمین کو ان کا خیال رکھنے سے روکتی رہی۔ان پر درمان کے نام کا رعب جھاڑتی رہی۔یہاں تک کہ آج دراب آفریدی کے ہاتھوں انہیں تھپڑ بھی مروا دیا۔(یہ بات خالصتاً اپنا تھپڑ ناکام ہونے کا بدلا لینے کی خاطر کی تھی انہوں نے)ان کا جینا محال کرکے وہ خوش ہوتی رہی بلا بلا بلا۔۔۔!!! 

مختصراً وہ جتنا مرچ مصالحہ لگاسکیں انہوں نے لگادیا۔ کوئ اور یہ سب کہتا تو درمان کبھی نہ مانتا پر اب یہ سب اس کی ماں نے کہا تھا تو ماننا اس پر جیسے فرض تھا۔

اس کے دل سے کہیں آواز آئ تھی کہ وہ بچکانہ سوچ رکھنے والی لڑکی اتنی تیز ترار نہیں ہوسکتی ۔پھر اس کی زبان کے جوہر یاد آتے ہی درمان نے ان باتوں کو سچ مان لیا۔دل تو اب اس کا زرلشتہ کو جان سے مارنے کا کیا جو ہفتے میں ہی اپنے رنگ دکھانا شروع کرچکی تھی۔

"آپ روئیں نہیں ۔۔!!! میں عقل ٹھکانے لگاتا ہوں اس لڑکی کی۔وہ خود آکر آپ سے معافی مانگے گی۔اور آئندہ ایسی بدتمیزی وہ خواب میں بھی نہیں کرے گی۔۔۔!!!"

انہیں تسلی دے کر درمان لمبے لمبے ڈنگ بھرتا کمرے کی طرف گیا۔شنایہ بیگم اس کے جاتے ہی پراسرار سا مسکرائیں۔

"ونی تم اس کھیل میں ابھی بچی ہو۔مجھ سے دشمنی مول لینا تمہیں بہت بھاری پڑے گا۔۔!!! اب تو درمان ہی تمہیں تمہاری اوقات یاد دلاۓ گا۔دیکھ لینا۔۔۔!!!"

ہنستے ہوۓ وہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں اور درمان کے اندر کا آتش فشان آج زرلشتہ پر ہی پھٹنے والا تھا۔یہ تو اب وقت ہی بتاتا کہ کس کا پلڑا بھاری ہونے والا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"113،112،111،110اور وہ چھوٹا سا تارہ ملا کر 114 ہوگۓ ۔ارے تم تو رہ ہی گۓ۔ہاں تمہیں کیسے بھول سکتی ہوں میں چھوٹو۔تمہیں ملا کر 115 ہوگۓ۔یہ موٹا والا تارا 116۔اور یہ بھائ صاحب کی اکڑ تو کمال کی ہے۔پر جتنا بھی چمک لو رہو گے تم ایک ہی۔117 ہیں ابھی تک تو۔بس تھوڑے سے رہ گۓ ہیں پھر اس طرف والے بھی میں گن لوں گی۔۔۔!!!"

وہیں بلیک شال کندھوں پر اوڑھے زرلشتہ ٹیرس پر کھڑی سامنے آسمان پر چمکتے ستارے گن رہی تھی۔آنکھوں میں دنیا جہاں کی معصومیت لیے وہ اپنی دنیا کی شہزادی اس قید خانے میں دل لگانے کی کوشش میں تھی۔پر وہ بے خبر تھی کہ قید خانے میں دل نہیں لگتے بس پنجرے کی عادت ہوجاتی ہے۔لیکن دل آزادی کی تمنا ضرور کرتا رہتا ہے۔اس نے انگلی کے اشارے سے آسمان پر چمکتے ایک تارے کی طرف اشارہ کرتے بڑے مصروف سے انداز میں کہا۔جیسے وہ بہت بڑا کام کررہی ہو۔

"زرلش ۔!!! بس تھوڑی سی اور محنت کرلو پھر تمہارا نام بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہوگا کہ ایک لڑکی نے آسمان پر چمکتے ستارے گننے والا ناممکن کام کردکھایا۔تمہارا انٹرویو لیا جاۓ گا۔ہر طرف تمہارے کارنامے کی دھوم مچ جاۓ گی۔تم سٹار بن جاؤں گی سٹار ۔ ان سٹارز کو گننے کے بعد۔۔۔!!!!"

ہنوز اسی تارے کو گنتے وہ مسکراتے ہوۓ بولی۔کچھ لوگوں کی خوشیاں اور ان کا دل سب سے الگ ہوتا ہے۔وہ ان باتوں پر خوش ہوتے ہیں جو دوسروں کو مزاق لگتی ہیں۔

وہ ان کا مزاق اڑاتے ہیں پر یہ باتیں سوچنے والے تو اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔کوئ بھی جو اسے اس وقت یہ عجیب سا کام کرتے دیکھتا پاگل ہی کہتا۔پر کوئ یہ کبھی نہ جانتا وہ یہ فضول کام کر کیوں رہی ہے۔وہ بس خود کو خوش کرنا چاہتی تھی۔یہ یقین کرنا چاہتی تھی کہ وہ اب بھی پہلے جیسی ہے۔بس اتنی سی آرزو تھی اس کے معصوم سے دل کی۔

"کل والے 1500 تھے پرسوں والے 800،اور آج والے 117 ملا کر 2417 ہوگۓ۔اب یہاں سے گنتی ہوں تاکہ جلدی سے اپنا کام پورا کرلوں ۔2418 ،وہ سوکھا ہوا ملا کر 2419 اور۔۔۔!!!!!"

ابھی اس کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ دروازہ دھرام سے کھلنے کی آواز ٹیرس تک آئ۔وہ اچھل پڑی اب آنکھوں میں خوف تھا۔انتہا کا خوف۔

ایک ہاتھ ریلنگ پر جما کر اس نے ٹیرس کا ادھ کھلا دروازہ دیکھا۔اور دعا کی کہ کاش یہ اس کا وہم ہو۔

"ی۔یہ کہیں واپس تو نہیں آگۓ۔پر یہ تو چلے گۓ تھے نا۔نہیں یہ میرا وہم ہے۔مجھے اپنا کام کرنا چاہیے۔۔۔!!!"

سر نفی میں ہلا کر اس نے اس آواز کو وہم سمجھا اور دوبارہ چمکتا ہوا آسمان دیکھا۔اور اب وہ تارہ ڈھونڈنے لگی جہاں پر اس کا سروے رکا ہوا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان غصے سے کمرے میں آیا تھا۔پر زرلشتہ اسے سامنے کہیں نا دکھی ۔اس نے متلاشی نگاہیں کمرے میں دوڑائیں ۔

"کہاں گئ یہ مصیبت۔۔۔!!!!! بدتمیزی کرکے اس نے بھی اپنا اصل رنگ دکھا ہی دیا ۔کہ یہ ہے تو دشمن کا خون ۔۔۔!!! یہ اتنی چالاک ہوگی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔میں نے کیسے اسے بھولی بھالی لڑکی سمجھ لیا ۔۔۔!!! کیسے ۔ !!!!"

بڑبڑاتے ہوۓ وہ اپنے غصے کے چلتے اپنی شال وہیں پھینک کر اب گھڑی اتارنے لگا۔

"سمجھتی کیا ہے یہ خود کو۔۔۔!!! اتنی ہی تیز تھی تو اس نے معصومیت کا ڈرامہ کیوں کیا ۔!!!!"

گھڑی بھی دیوار پر مار کر اس نے اپنے بالوں میں خود کو پرسکون کرنے کے لیے ہاتھ پھیرا۔

ٹیرس کا ادھ کھلا دروازہ دیکھ کر اسے اتنا تو یقین ہوگیا وہ لڑکی وہیں موجود ہے۔

وہ غصے سے آگے بڑھنے لگا جب دل نے اسے رکنے کو کہا۔

"درمان غصے کو قابو میں رکھو۔ابھی تم نے کچھ غلط کردیا تو پچھتانا تمہیں ہی پڑے گا۔کیوں صرف ایک طرف کی بات سن کر فیصلہ سنانا چاہتے ہو ۔اسے سن تو لو۔۔۔!!!!"

یہ آواز اسے آگے نہیں بڑھنے دے رہی تھی۔ہر بار وہ اسی غصے کی وجہ سے تو بعد میں پچھتاتا تھا۔

"درمان تمہارے لیے تمہاری ماں کی بات کی اہمیت ہونی چاہیے۔اس لڑکی کی نہیں ۔!!!! اسے آۓ ہوۓ دن ہی کتنے ہوۓ ہیں جو تم اسے جج کررہے ہو۔دل کی نہیں دماغ کی سنو ۔اس لڑکی کی معصومیت کے ڈرامے کو سچ نا سمجھو۔۔!!!"

یہ آواز اب دماغ سے آئ تھی اور درمان ابتدا سے ہی صرف دماغ کی سنتا تھا تو دل کو چپ کرواکر وہ اب ٹیرس کی طرف بڑھا ۔

وہ اسے ٹیرس پر کھڑی دکھی جس کی نظریں آسمان کی جانب تھیں جیسے کچھ تلاش رہی ہو۔

"میرا تارہ کھوگیا ہے اللہ جی ۔۔۔!!!! اتنی محنت سے میں نے تین دن لگا کر یہاں تک کے تارے گنے تھے۔ایک ایک تارے کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا تھا۔سوچا تھا ورلڈ ریکارڈ بناؤں گی۔سٹار بن جاؤں گی۔پر یہاں تو میرا ریکارڈ ہی ادھورا رہ گیا۔میں تو ٹوٹے ہوۓ گٹار کی اتری ہوئ تار بن گئ ۔۔۔!!!!! یہ سب ظالم پٹھان کی وجہ سے ہوا ہے یا اللہ ۔۔!!!! خود تو چلے گۓ پر اپنا ڈر یہیں چھوڑ گۓ۔ظالم کہیں کے۔۔۔!!!!!

یا اللہ آپ نا اس ظالم پٹھان کے کان کھنچوادو۔ تاکہ اسے عقل آۓ۔۔!!"

اپنے تارے کا دکھ مناتے اس نے روتے ہوۓ کہا۔اس کے ارمان تو خوف میں بہہ گۓ تھے۔وہ بیچاری اب کیا کرتی ۔وہیں درمان نے اس کے انوکھے ۔منصوبے سنے تو غصہ سائیڈ پر کرکے اسے گھورا کہ یہ کہیں پاگل تو نہیں ہے۔پھر اس کی اللہ سے کی گئ شکایتیں سن کر اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

"یہ ظالم جن ۔۔!!!  جن آنکھوں سے مجھ بیچاری کو ڈراتے ہیں نا ان آنکھوں میں، میں مٹی ڈال دوں گی اب۔بہت ساری۔تاکہ آنکھیں سرخ کرنے کا ان کا شوق پورا ہوجاۓ۔کھڑوس کہیں کے ۔نیلی آنکھو۔ والے ڈائناسور۔!!!!"

اب کی بار اس نے منہ بنا کر کہا تھا۔بے ساختہ درمان نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ۔جنہیں برباد کرنے کا خطرناک منصوبہ زرلشتہ کے پاس تھا۔

ابھی بھی زرلشتہ کے دل کو ٹھنڈ نہیں پڑی تھی ۔آخر اس کا خواب ٹوٹا تھا ابھی ابھی۔وہ کیسے سکون لے لیتی۔جو ایوارڈ والا خواب اس نے دیکھا تھا اب لگا جیسے ریپورٹرز کیمرے اٹھا کر چلے گۓ ہوں۔اور وہ بس سب دیکھتی رہ گئ ہو۔

"مجھے تارے گننے کا ایوارڈ ملے یا نہ ملے ظالم پٹھان کو ظلم کرنے کا ایوارڈ ضرور ملے گا۔گندا پٹھان۔۔۔!!!! کھڑوس۔۔!!!! اکڑو۔۔!!!! جن ۔۔!!!"

ابھی وہ کچھ اور بھی کہتی پر اس سے پہلے ہی درمان آگے بڑھ کر اسے بازو سے پکڑ کر اپنے طرف پلٹا چکا تھا۔جو اس حملے پر چیخ اٹھی۔

ان انگلیوں کی گرفت وہ بند آنکھوں سے بھی پہچان چکی تھی۔آخر جیسی ماں ویسا بیٹا۔اس کے بازو کے دشمن ۔!!!!!

"س۔سرتاج آپ۔۔۔۔!!!!! واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز۔۔!!!"

آںکھیں میچ کر زرلشتہ نے بوکھلاۓ ہوۓ انداز میں کہا تو درمان کچھ دیر پہلے والی عزت افزائی یاد کرکے اس کے چہرے کو غصے سے گھورنے لگا۔

"تم میری آنکھوں میں مٹی ڈالو گی۔ہاں بولو کیا کہہ رہی تھی تم۔۔۔۔!!!!"

اس کا دوسرا بازو بھی پکڑتے اس نے درشتگی سے کہا۔زرلشتہ کے چہرے کے رنگ بدلتے گۓ کہ اس جن نے اس کے نادر خیالات کیوں سن لیے۔

"م۔مٹی نہیں سرتاج ۔میں تو آپ کی راہوں میں پھول بچھانے کا سوچ رہی تھی(کانٹوں والے)۔آخر میرا شوہر دو دن بعد واپس آیا ہے تو ا۔استقبال تو بنتا ہی ہے نا۔اور بتائیے کیسے گزرے یہ دو دن۔۔۔!!!! "

وہ مکمل طور پر ڈر چکی تھی تبھی جو سمجھ میں آیا بولتی گئ۔جبکہ درمان کی نظریں تو اسکی بند آنکھوں پر ہی تھیں۔

اس نے گرفت بڑھائی پر زرلشتہ نے آنکھیں نا کھولیں اسے اس شخص کی شکل دیکھنی ہی نہیں تھی۔

"زیادہ ایکٹنگ نہ کرو۔تم میری من چاہی بیوی نہیں ہو ۔جو مجھ سے یہ سوال پوچھ رہی ہو۔حد میں رہو اپنی۔۔!!!"

درمان چلایا تو زرلشتہ نے دل میں اسے مزید دھمکیوں سے نوازا کہ یہ سپیکر اسے ہی ملنا تھا۔مجال جو پیار سے بات کرلے۔

"سرتاج۔۔۔!!!!! ب۔برا نہ منائیے گا پر آپ جیسے ظالم شوہروں کو سیدھا جہنم میں پھینکا جاتا ہے بغیر کسی حساب کے۔یہ کیا شریفوں والی بات ہے کہ دو دن بعد گھر واپس آۓ ہیں اور آتے ہی ب۔بیوی کو مارنا شروع کردیا ۔نا حال پوچھا نا کوئ پیار بھری بات کی۔چلو اسے تو چھوڑو سلام بھی نہیں کیا۔

میرا حال آپ پوچھیں گے ہی کیوں سارا حال تو اس چ۔چڑیل کا پوچھ لیا ہوگا آپ نے۔ جس کے ساتھ تھے اتنے دنوں سے۔مجھے پتہ ہے ایک خفیہ شادی کر رکھی ہے آپ نے۔اور دو چار بچے بھی ہوں گے آپ کے۔بتائیے یہی بات ہے نا اسی لیے آپ مجھے مارتے ہیں۔تاکہ میں یہ راز کسی کو نا بتادوں۔ بتائیے کون ہے وہ منحوس چڑیل۔۔۔!!!!!"

اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتے اس نے اب غصے سے کہا۔درمان اس کی فضولیات سن سن کر تپا ہوا تھا۔تبھی دل تو اس کا اسے ٹیرس سے پھینکنے کو کیا پھر خود پر قابو پا گیا۔

"جو بھی ہے تم سے تو کروڑ گنا اچھی ہے وہ۔اسے چھوڑو یہ بتاؤ تم نے میری ماں سے بدتمیزی کیوں کی ہے۔اوقات بھول گئ ہو کیا اپنی۔تو بتاؤ میں ابھی یاد دلا دیتا ہو۔۔۔!!!"

وہ سب چھوڑ کر اصل مدعے پر آیا وہیں زرلشتہ کو پہلے سے ہی اس بندے پر شک تھا اب شک پر چھوٹی سی مہر بھی لگ گئ کہ واقعی اس کی زندگی میں کوئ چڑیل ہے۔جیسا بھی تھا یہ شخص پر سوتن کا عذاب وہ برداشت نہیں کرنے والی تھی۔پر اب اسے یہ بات کہتی کیسے۔

اسی لیے وہ روپڑی۔بازو تو اس کے اکھڑنے والے ہی تھے۔درمان کو احساس بھی نہیں تھا کہ زرلشتہ اس وقت درد سے بے حال ہے۔وہ سفاک ہو چکا تھا۔

"چلاؤ نا اب اپنی یہ قینچی سے بھی تیز زبان۔۔!!! اب اس خندق کا منہ کیوں بند ہے۔بکو کچھ۔تم نے آغا جان کو مورے کے خلاف بھڑکایا۔مورے سے کہا کہ تم مجھے قابو کرو گی۔درمان آفریدی کو قابو کرو گی تم۔۔!!!!!"

درمان دھاڑا تو زرلشتہ کے کان کے پردے بھی پھٹنے والے ہوگۓ۔اس کے منہ میں حندق تھی تو درمان کے منہ میں بھی سپیکر فٹ تھا۔اچھی بجلی بچی کا دل لرزا دیا اس نے۔

"آ۔آپ تھوڑا ہی نا کوئ اصلی والے جن ہو ۔جسے میں عامل بابا بن کر بوتل میں بند کروں گی۔اگر میں عامل بابا ہوتی بھی تو آپ جیسے ظالم جن کو کبھی قابو نہ کرپاتی ۔میں تو پناہ مانگتی ہوں آپ سے۔اور آپ کے غصے سے۔اب مجھے چھوڑ کر شرافت سے بتائیں میں نے کس ملک پر حملہ کرگیا اب جو آپ نے آتے ہی مجھے معزور کرنے کی کوشش شروع کردی۔آپ ظالم پٹھان ہو مجھے اچھے سے پتہ ہے بار بار مارنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو۔۔!!!"

وہ بھی ازیت سے چیخی۔اپنی آنکھیں کھول کر اس نے درمان کو دیکھا۔اپنے فرنچ کٹ بالوں کے ساتھ وہ بلا کی معصوم لگ رہی تھی۔کہ کسی کو بھی اپنا دیوانہ بنالے۔پر مقابل کو یہ سب جھوٹ ہی لگتا تھا۔

"کیا یہ واقعی اتنا کڑوا بول سکتی ہے۔یہ تو غصہ بھی کرے تو اگلا بندہ ہنسنے ہی لگے گا۔پھر مورے نے وہ سب کیوں کہا۔۔۔!!!"

وہ اب خود الجھ گیا۔اسے یقین نہیں تھا یہ اتنی بری ہوسکتی ہے۔پر اس کی ماں اس سے کیوں جھوٹ بولے گی۔وہ مکمل الجھ گیا تھا اب مانتا تو کس کی بات مانتا ۔اس لڑکی کی جو رو رہی تھی۔یا ماں کی جسے وہ تسلی دے کے آیا تھا۔

شنایہ بیگم اس لڑکی کو تکلیف ہی دینا چاہتی تھیں اور وہ اسے تکلیف دے چکی تھیں۔زرلشتہ اب اپنے بازو پر اس شخص کی انگلیوں کی فولادی گرفت برداشت نہیں کرپارہی تھی۔پر درمان تو ماں کی باتوں میں الجھا تھا۔وہ دھیان دے ہی نا پایا۔

"سارے ڈرامے ہیں اس کے اتنی یہ معصوم ۔۔۔!!!"

اپنے دل کی آواز کو وہیں دبا کر درمان نے اس کی کھلی آنکھوں میں نفرت سے دیکھا۔درمان کی آنکھوں میں انتہا کی نفرت تھی کہ زرلشتہ اپنے بازو کا درد بھلا کر سہم اٹھی۔یہ شخص اسے صرف نظروں سے ہی ڈرانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

"تمہاری زبان سے میں بھی واقف ہوں زرلشتہ تو ان آنسوؤں سے مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش مت کرنا۔تمہارے ان آنسوؤں کا مجھ پر تو کوئ اثر نہیں ہونے والا۔اب چلو اور چل کر اسی زبان سے میری ماں سے معافی مانگو۔ورنہ یہ زبان ہی کاٹ پھینکوں گا۔نہ ہوگی مصیبت کے منہ میں زبان نہ ہی کوئ مسئلہ ہوگا۔۔۔!!!!! آئندہ مجھے تم ان کے آس پاس بھی نہ دکھو۔اسی کمرے میں بند رہا کرو۔۔۔۔ !!!!! تم ونی ہوکر آئ ہو۔زبردستی مجھ پر مسلط کی گئ ہو ۔تمہیں میں شوق سے یہاں نہیں لایا۔تو حد میں رہنا سیکھ لو تم۔۔۔!!!!!"

وہ لفظوں پر زور دے کر بولا تو زرلشتہ کی آنکھوں سے بہتے آنسو کچھ دیر کے لیے تھمے ۔الفاظوں کا زہر ہر زہر سے زیادہ تیزی سے اثر کرتا ہے۔اور یہ ہوتا بھی اتنا خطرناک ہے کہ انسان کا دل تک چیر کے رکھ دیتا ہے۔

معصوم سی زرلشتہ یہی بات ہزار بار اس شخص کے منہ سے سن چکی تھی۔بھلا وہ اب کیسے کہتی کہ وہ کونسا یہاں شوق سے رہ رہی ہے۔درد کی شدت اتنی تھی کہ زرلشتہ کا ہوش میں رہنا بھی محال تھا۔درمان کی باتیں سن کر زرلشتہ آنکھیں میچ گئ۔دل اس شخص کو سفاک کہہ رہا تھا بے حس انسان جو صرف دل توڑنا جانتا ہے۔۔۔!!!!!

"م۔مانگ لیتی ہوں میں معافی۔۔!!! کہیں گے تو پیر بھی پکڑ لوں گی۔ناک بھی رگڑ لوں گی ان کے سامنے۔وہ بڑی ہیں مجھ سے ان سے معافی مانگنے سے میں م۔مر نہیں جاؤں گی۔آپ اگر سیدھے طریقے سے بھی یہ بات کہہ دیتے تو باخدا میں اکڑ کر نہ کھڑی رہتی۔جھکنا آتا ہے مجھے۔۔۔!!!!!!

 بیوقوف،کم عقل،بدتمیز ضرور ہوں پر مغرور یا انا پ۔پرست نہیں ہوں۔نہ ظالم اور بے حس ہوں۔۔۔!!!!! بس اب میرا بازو چھوڑیں ۔مجھے درد ہورہا ہے۔۔۔۔!!!!!!! اللہ کا واسطہ ہے آپ کو چھوڑ دیں مجھے۔۔۔۔۔ !!!!!"

پہلے تو وہ صرف رورہی تھی اب منتوں پر بھی اتر آئ۔اس کے لہجے میں بچپنہ نہیں تھا۔وہ ناز نخرے تو اپنی موت مرتے جارہے تھے۔آخر میں اس نے زور لگایا کہ شاید اس کی گرفت سے نکل جاۓ پر یہ کوشش بھی ناکام گئ تو اس ٹیرس کی وخشت زدہ سی ہلکی تاریکی میں اس لڑکی کی سسکیوں کی آواز بھی شامل ہوگئ۔

ہر سو اداسی پھیلی جیسے آسمان پر چمکتے تارے بھی اس کے سنگ درمان کے اس رویے پر رو دیے ہوں۔آخر یہ بے جان چیزیں ہی تو اس کی دوست تھیں ۔جو اسے خوش رکھتی تھیں۔ورنہ وہاں سینے میں دل رکھنے والے لوگ تو بس دوسروں کا دل توڑنا ہی جانتے تھے۔انہیں کہاں کسی کا درد محسوس ہوتا تھا۔

اس کی تکلیف اب درمان کو بھی محسوس ہوئ۔تو نظر اس کے بازوؤں کے گرد لپٹے اپنے دونوں ہاتھوں پر گئ اس کے اپنے ہاتھ بھی سرخ ہوچکے تھے تو ناجانے وہ لڑکی کس حال میں کھڑی تھی۔درماں نے اسے کسی فالتو چیز کی طرح پیچھے کی سمت جھٹک دیا۔وہ تو اسی کے رحم و کرم پر کھڑی تھی۔

چونکہ وہ اس جھٹکے کے لیے تیار نہ تھی تبھی پیچھے کی سمت گرنے لگی اس کا توازن بگڑ چکا تھا۔گرے آنکھیں خوف سے پھیلیں اور دل رکا۔پر بروقت ریلنگ پر ہلکی سی پکڑ بننے کی وجہ سے وہ گرنے سے بچ گئ۔وہ اتنا خوف زدہ تھی کہ چیخ بھی نہ پائ پر اپنی اوقات اسے ضرور پتہ چل چکی تھی۔اس شخص کی نظروں میں۔۔۔!!!!

وہیں درمان نے جب اسے پیچھے کی سمت گرتے دیکھا تو ہوش اس کے بھی اڑے۔ہاتھ خود بخود اسے تھامنے کے لیے اٹھا پر وہ خود کو خود ہی سنبھال چکی تھی۔

زرلشتہ اسی ریلنگ کے سہارے سیدھی کھڑی ہوئ۔دل ابھی بھی زوروں سے دھک دھک کررہا تھا۔اگر وہ گرتی تو زندہ بچنا ناممکن تھا۔نیچے ماربل سے سجا فرش تھا اور اونچائی بھی خاصی زیادہ تھی۔

خوف سے سفید چہرے کے سنگ زرلشتہ نے پتھرائی آنکھیوں سے اس سفاک کے چہرے کو دیکھا ۔پھر بامشکل خود کو رونے سے یا بے ہوش ہونے سے باز رکھا۔

"آ۔آجائیں میں آنٹی سے معافی مانگ لیتی ہوں آپ کے سامنے۔اور انسانی جان ا۔اتنی بے مول نہیں ہوتی کہ اسے سیکنڈز میں ضائع کردیا جاۓ۔مجھے مار کر آپ کو شاید دنیا میں کوئ دکھ نہ ہوتا۔پر آپ کی آخرت ضرور تباہ ہو جاتی ۔"

آنسوؤں کو حلق میں اتار کر اس نے گال صاف کرنے کے لیے ہاتھ اٹھانا چاہا تو بازوؤں میں ہوتے درد کی وجہ سے وہ یہ بھی نا کرپائ۔وہ وہاں سے جانے لگی۔پر اٹھتے قدم بھی کانپ رہے تھے۔وہ سسکی۔پھر پلکوں کی بار توڑ کر آنسو روانی سے بہنے لگے اور وہ کمرے میں چلی گئ۔

درمان کی نظریں اسی پر ہی تھیں۔اس کے جاتے ہی درمان نے جھک کر ریلنگ سے نیچے جھانکا تو اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔اس نے بے ساختہ جھرجھری لی۔

"شکر ہے یہ بچ گئ ورنہ ناجانے کیا ہوتا اس کے ساتھ۔۔۔!!!!! پر میں کیوں سوچ رہا ہوں یہ سب۔میں نے اسے جان بوجھ کر دھکا نہیں دیا تھا۔سب غیر ارادی طور پر ہوا۔تو مجھے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔!!!"

اس نے لاپرواہی سے کہا اور اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوگیا ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"دماغ ٹھکانے پر ہے کیا تم لوگوں کا؟ایک چھوٹا سا کام دیا تھا تم لوگوں کو تم سے وہ بھی نہیں ہوا۔۔۔!!!!"

جھنجھلائے تاثرات سنگ وہ شخص وہ اپنی نشست سے اٹھا اور ایک تھپڑ اپنے خاص آدمی کے منہ پر مارا۔اس کا یہ خاص آدمی تو پہلے ہی سہما ہوا تھا۔منہ کے بل زمین پر گرا۔

سفید جینٹس سوٹ میں ملبوس یہ انتیس ،تیس سال کی عمر کا شخص،اپنی اوشن گرین آئیز (جہان اس وقت شکست کا غصہ تھا)

سے اپنے سامنے فرش پر گرے شخص کو کھانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔

"خ۔خان۔۔!!! غلطی ہوگئ مجھ سے مجھے خود جانا چاہیے تھا۔پر مجھے لگا لڑکی کو اغواہ کرنا آسان ہوگا یہ کام تو کوئ بھی کرلیتا پر وہ تو اپنے بھائ جیسی نکلی۔اس نے تو ہمارے سب سے تیز آدمی کو بھی موت کے منہ میں پہنچا دیا۔"

زمین پر گرا شخص کانپتی آواز میں صفائ دینے کی کوششوں میں تھا۔یشاور نے اسے ایک اور ٹھوکر رسید کی۔ساری بات وہ جان چکا تھا۔اسے اس لڑکی پر حیرت نہیں ہوئ تھی بلکہ اپنے آدمیوں پر غصہ آیا تھا۔وہ تو درمان کی بہن تھی تو اس جیسی ہی ہوتی پر اس کے آدمیوں کو بھی تو مقابل کو ہلکے میں نہیں لینا چاہیے تھا۔

"لڑکی تم لوگوں سے پکڑی نہ گئ۔اپنے ہی بندے مرواکر آگۓ ہو تم۔ درمان تم لوگوں سے مارا نہ گیا۔وہاں تم لوگ دیار کو پھنسوا آۓ۔!!!! میں نے فدیان کو اٹھانے ہو کہا تو تم لوگوں کو دیر ہوگئ اور اسے پتہ نہیں کون اغواہ کرکے لے گیا۔

کمینو مجھے بتاؤ پیسے کس چیز کے لیتے ہوتم مجھ سے۔یہاں کیا چھٹیاں گزارنے آۓ ہو ۔یا میرے باپ کی دولت لوٹنے آۓ ہو۔بکو بھی کچھ۔۔۔!!!!"

پے در پے اسے ٹھوکریں رسید کرتے یشاور نے چیخ کر کہا۔یہ سب کروانے والا وہی تھا۔اس کی دھاڑ باہر کھڑے اس کے باقی آدمیوں نے بھی سنی تھی جن کا حال بھی اس جیسا ہی ہونے والا تھا۔

"م۔معاف کردیں مجھے خان۔۔۔!!!!!! "

اس نے اب ہاتھ جوڑے تو یشاور ایک آخری ٹھوکر اسے رسید کرکے واپس اپنی نشست پر بیٹھا۔اور حرام مشروب کا جام اٹھا کر پینے لگا۔یعنی اپنی روح کو بھی وہ شخص گندا کرنے لگا ۔آس پاس اسی گند کی بو پھیلی ہوئ تھی۔اس کے لیے یہ کوئ انوکھی بات نہیں تھی۔آخر امیر باپ کی اولاد تھا حلال ،حرام کی اسے کیا تمیز ہوتی ۔

"آج وہ دیار وہاں کیسے پہنچا۔اور کمینو آج تو میرا نام نہیں لینا تھا اس کے سامنے۔!!!! پہلے بھی تم کمینوں کی بوکھلاہٹ کی وجہ سے میرا درانی خاندان کا داماد بننے کا پلان فلاپ ہوگیا۔

مجھے اس دیار کے برابر ہونا تھا۔ناکہ دیار کو ہی گرا دینا تھا۔میں نے جب کہا تھا درمان کو مار دو تو مار دیتے نا اسے۔اور اگر معاملہ بگڑ رہا تھا تو میرا نام لے لیتے اس کا تو نا لیتے ۔۔۔!!!! ونی ہی دینی تھی نا تو دے دیتا میں اپنی بہن ۔پر وہ دیار کی بہن تو اس درمان کی نہ ہوتی۔میرے سارے ارادوں پر پانی پھیر دیا تم منحوسوں نے۔۔۔!!!!"

غصے میں آکر اس نے وہ گلاس اس شخص کی طرف پھینکا جو اس سے ذرا فاصلے میں ٹوٹ کر بکھر گیا۔وہ آدمی بامشکل اٹھ کر پیچھے کی جانب کھسکا۔

"خ۔خان ہم لوگ تب ڈر گۓ تھے۔ہمیں ان کا نام لینا ہی مناسب لگا تھا۔ہم تو آپ کو بچا رہے تھے۔"

"ذلیل انسان۔۔۔!!!!!!! میرے ہاتھوں سے موقع نکل گیا اس دیار کو نیچہ دکھانے کا۔بڑا اکڑ رہا تھا نا کہ اپنی بہن مجھ جیسے کو نہیں دے گا۔جسے دین دنیا کی ہی تمیز نہیں تو مجھے اسی سے اپنی عزت کروانی تھی۔

میں بہراور چچا کی چاپلوسی کرتا رہا۔دو سالوں سے دیار کو یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا کی مجھ سے بڑا پرہیز گار اسے مل ہی نہیں سکتا۔وہ بس قائل ہونے ہی والا تھا جب تم لوگوں نے کھیل ہی ختم کردیا۔تمہاری ذرا سی غلطی میرے ارادے خاک میں ملا گئ۔۔۔!!!!!"

نشے کا اثر ہورہا تھا اس کے دماغ پر اس کی آنکھوں میں سرخی اتری۔آواز بھی لڑکھڑانے لگی۔

زمین پر گرا شخص بڑی مشکل سے اٹھ کر کھڑا ہوا جس کے چہرے پر جابجا چوٹوں کے نشان تھے۔وہ بھی جانتا تھا یہ شخص منافق ہے۔اوپر سے کچھ اور، اور اندر سے کچھ اور۔

یہ تھا اس شخص کا اصل وہ منافق تھا۔جو دیار جان گیا تھا ۔تبھی جب دو سال پہلے اس کا رشتہ آیا تو اس نے فورا منع کروادیا۔یشاور کو زرلشتہ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا سواۓ اس کے نام کے۔وہ بس ایک انکار کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔

لیکن سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو بھی سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔یشاور تو اپنے ارادے کی ناکامی پر کہیں جاکر چھپ گیا تھا۔اس کے آدمیوں نے بھی اسے یہ نا بتایا کہ وہ الزام کس پر لگا کر آۓ ہیں۔یہ تو نکاح کے بعد اس کے بابا نے اسے بتایا کہ اب درانی خاندان کا اکلوتا داماد درمان بن چکا ہے ۔تو اس کے سر پر آسمان گرا۔

نشے کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا اور دھیرے دھیرے اس کا ذہن ماؤف ہونے لگا۔

___________________

نشہ اسی لیے حرام ہے کہ یہ انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔اسے مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے۔انسان شیطان کے سامنے ہار جاتا ہے۔خود کو بے بس سمجھنے لگتا ہے۔اللہ نے تو انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو وہ کیسے گوارہ کرے کہ اس کا بندہ اپنے نفس کے سامنے ہار جاۓ۔وہ شیطان کا پیرو کار بن جاۓ۔وہ اپنے ہی قابو میں نہ رہے۔

تبھی تو اسلام میں ہر وہ چیز حرام ہے جو انسان کو اس کے آپے میں ہی نہ رہنے دے۔غصہ بھی تبھی حرام ہے۔کہ یہ انسان کو بے بس کردیتا ہے۔اللہ انسان کو اس کے معیار سے گرنے نہیں دینا چاہتا۔

پر اس دور میں تو اب لوگ نشہ آور چیزوں کو بھی فیشن کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔یہ جانے بغیر کہ اگر وہ اسی حال میں مرگۓ تو حرام موت مریں گے۔یہ خود کشی کے ہی مترادف ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(90)

ترجمہ: کنزالایمان

اے ایمان والو شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ

_______________________

"ک۔کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تم کمینے میرے نہیں درمان کے بندے ہو۔جو اس کا بھلا سوچتے رہتے ہو۔پہلے مجھے راستے سے ہٹایا پھر درمان کو دیار کا بہنوئی بنادیا۔پھر اب مجھے کمینہ بھی ثابت کردیا ۔۔!!!!

کل کو فدیان کا الزام بھی مجھ پر ڈال کر دیار کو وہ درمان کی بہن بھی دے دینا۔۔۔!!!!!

حبیث انسان تم میرے ملازم ہو۔یاد رکھو اس بات کو۔مجھے اس درمان کو مارنا ہے۔نفرت ہے مجھے اس سے شدید نفرت۔۔۔!!!"

بڑبڑاتے ہوۓ وہ کرسی کے دونوں اطراف بازو پھیلا کر چھت گھورنے لگا۔پھر کچھ سوچ کر پاگلوں کی طرح ہنس پڑا۔اس کا آدمی جان بچا کر اس کے نشے میں ہونے کا فایدہ اٹھا کر بھاگ چکا تھا۔صرف وہی نہیں اس کے باقی ساتھیوں کو بھی جان پیاری تھی تبھی وہ بھی بھاگ گۓ۔

اس کے وہ پانچ ساتھی اور وہ ڈرائیور جو دیار اور درمان اس کی چوکھٹ پر پھینک کر گۓ تھے اس نے انہیں علاقے سے ہی باہر پھینکنے کا حکم دے دیا تھا۔اس کے اندر جلتی آگ اب بھی بڑھتی جارہی تھی۔

"درمان تم مر ہی جاؤ۔تو اچھا ہے۔سب اچھا ہوجاۓ گا اگر تم مرجاؤ تو۔۔۔!!!!!"

نیند میں جھولتے وہ سیدھا ہوکر بیٹھا۔اسے اندازا ہی نا ہوا کب کچھ لوگ جن کے چہرے ڈھکے تھے اس کا محاصرہ کرچکے تھے۔

اس نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرکے ان لوگوں کو دیکھا۔

پر اسے تو ان لوگوں نے کچھ کہنے سننے کا موقع ہی نہ دیا اور اس کے منہ پر کپڑا باندھ کر درمان کے ملے حکم کے مطابق اسے اس کی اوقات یاد دلانے لگے۔وہ کل تین لوگ تھے۔یشاور کی تو چیخیں بھی نہ گونج سکیں تبھی وہاں تین لوگ مزید داخل ہوگۓ۔جن کے چہرے بھی ماسک سے کور تھے۔

پہلے سے وہاں موجود تین لوگوں کو لگا شاید وہ یشاور کو بچانے آۓ ہیں ۔اور یہی حال اب آۓ تین لوگوں کا بھی تھا۔

پر اس سے پہلے وہ لوگ آپس میں الجھتے۔وہ ایک دوسرے کے کپڑوں پر بنے چھوٹے سے سپیشل نشان سے جان گۓ کہ وہ دونوں گروہ کس سائڈ سے آۓ ہیں۔

"یہ ہمارا شکار ہے ۔۔۔!!!!! اس سے دور رہو"

ایک آدمی جو یشاور کے ہاتھ باندھ چکا تھا وہ بولا۔

"یہ ہمارا بھی شکار ہے۔۔۔!!!! ہاتھ ملالیتے ہیں ۔آدھی عقل تم ٹھکانے لگا لو اس کی آدھی ہم لگا دیں گے۔منظور ہے ۔۔!!!!!"

دوسری سائیڈ پر کھڑے شخص کی بات سن کر ان تینوں نے بھی حامی بھری ۔جیسے بندہ نا مارنا ہو کھانا شیئر کرنا ہو۔

پھر ہونا کیا تھا ان دونوں نے دل کھول کر اس شخص کو مارا پیٹا۔یشاور چونکے نشے میں تھا تبھی اسے مزاخمت کرنے کا موقع نہ ملا۔

جب ان کا دل بھر گیا تب جانے سے پہلے وہاں ایک چٹ چھوڑ گۓ۔اور جیسے آۓ تھے ویسے ہی نکل گۓ۔

یہ وہ واحد ولن ہوگا جو اینٹری کے وقت ہی مار کھاکر ذلیل ہوچکا تھا۔خون میں لے پت یشاور وہیں بے ہوش پڑا تھا۔اب صبح ہی کوئ وہاں آتا اور اسے ہسپتال لے جاتا۔تب تک اس کی تکلیف ویسی ہی رہتی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"ساسو ماں مجھے معاف کردیں ۔۔!!!!! میں بھٹک گئ تھی جو آپ جیسی ماہان عورت کے خلاف سازشیں کرنے لگی۔۔۔!!!!!!!"

کمرے میں قدم رکھتے ہی زرلشتہ نے سامنے بیٹھی شنایہ بیگم کو دیکھتے اپنے آنسو پونچھے اور اونچی آواز میں معافی مانگی۔

پہلے تو وہ حیران ہوئیں کہ یہ آفت ان کے قابو میں کیسے آئ پھر جب اپنا بیٹا اسی کے ساتھ کھڑا دکھا تو ان کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے کہ وہ آخر کار اسے اپنے سامنے جھکانے میں کامیاب ہوگئیں۔

"میں نے آپ پر تعویز کرواۓ۔آپ سے گھر میں جاڑو لگوایا،واش روم دھلواۓ، اتنے پر بھی مجھے سکون نہیں ملا تبھی آپ پر کھانا بھی بند کردیا۔۔۔!!!!!

آپ شوگر ،بلڈ پریشر کی مریضہ کھانے کو ترستی رہیں پر میں ظالم سفاک لڑکی آپ کو زہریلی ناگن سمجھتی رہی۔جو اپنا زہر پھیلا رہی تھی۔۔۔!!!!!! میں نے آپ کے بیٹے کو آپ کے خلاف بھڑکایا۔وہ عقل سے پیدل بیوی کا چمچہ آپ سے بدزن بھی ہوگیا۔آخر بیوی کے سامنے کون کم بحت زبان چلاتا ہے۔۔!!!!!"

یہ لفظ اخیر ایکٹنگ کے ساتھ ادا ہوۓ کہ درمان کے ہوش بھی اڑ گۓ۔

"میں نے آپ کے پوتے پوتیوں کو آپ سے ملنے سے روکا۔انہیں کہا کہ ان کی دادی ڈرامے باز ہے۔جھوٹ بولتی ہے۔میری دشمن ہے۔ان کے بابا کو میرے خلاف بھڑکاتی ہے۔مانا یہ سب آپ جیسی نیک پروین نہیں کرسکتی پر میں نے تو یہ سب کہا تھا نا۔۔۔۔!!!!!!

آپ سڑکوں پر رلتی رہیں۔بھیک مانگتی رہیں۔اور میں اپنی دھن میں مگن پارٹیز پر جاتی رہی۔پر اب مجھے عقل آگئ ہے کہ ساس کے پیروں کے نیچے جنت ہویا نہ ہو برینڈڈ چپل ضرور ہوتی ہے اور ہر بہو کو ان کی جوتی سے بچ کر ہی رہنا چاہیے۔۔۔!!!!!

مجھے معاف کردیں ساسوں ماں۔اپنے سمندر جیسے دل میں میرے لیے جگہ بنائیں۔مانا میں مچھلی نہیں پر اس دل میں میں ڈوب مرنا چاہتی ہوں۔مجھے ڈوب مرنے دیں ساسوں ماں۔۔!!!!!"

زرلشتہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔وہیں دراب آفریدی جو بیڈ پر بیٹھے چاۓ پی رہے تھے ان کے حلق میں جاتا چاۓ کا گھونٹ اٹک گیا۔اور وہ کھانسنے لگے۔ایسی باتیں پہلی بار انہوں نے جو سنی تھیں۔

زبان تو اس کی ابھی کھلی تھی۔اس کی آنکھوں میں ہلکی سی شرارت بھی تھی۔اسے مار کر زبردستی جھکانا ناممکن تھا۔وہ بے گناہ تھی تو کیوں ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی۔معافی تو وہ مانگ ہی لیتی پر اپنے سٹائل میں۔

درمان کی نظریں غیر ارادی طور پر اسی کی پشت پر ٹکی تھیں کہ یہ پوتے پوتیاں، تعویز، سڑکیں یہ کہاں سے اس معافی نامے میں آگئیں۔اور وہ کب بیوی کا چمچہ بن گیا۔

وہیں شنایہ بیگم کا چہرہ اہانت کے احساس سے سرخ ہوا کہ اس چھٹانگ بھر کی لڑکی نے انہیں بھیک مانگنے والی بنادیا۔انہوں نے درمان کو غصے سے دیکھا۔زرلشتہ ان کی نظروں کا مطلب بھانپ گئ تھی۔تبھی تو وہ آگے بڑھی اور ان کے پاؤں تک پکڑ لیے جو اپنے شوہر کی نظروں کو بھانپتے صوفے سے زرا پرے کھسکیں۔سارے نفوس اس ڈرامہ کوئین کی ایکٹنگ دیکھ کر بوکھلا چکے تھے۔وہ زرلشتہ تھی یہاں بھی اس نے بدلہ پورا لیا تھا۔ 

درمان کا دل اپنا سر پیٹنے کو کیا کہ ایسے کون معافی مانگتا ہے۔تو جواب تھا زرلشتہ ۔۔۔!!!!

وہ انوکھا عجوبہ تو ایسے ہی معافی مانگے گا نا۔۔۔!!!!!!

"لڑکی کیا بول رہی ہو تم۔۔!!!! معافی مانگنے آئ ہو یا مجھے بے عزت کرنے۔دور رہو مجھ سے۔!!!!"

انہوں نے دبی دبی غراہٹ سمیت کہا۔یہ لڑکی ایسی معافی مانگے گی انہیں امید نا تھی۔ زرلشتہ نے گردن موڑ کر اپنے ظالم شوہر کو دیکھا۔جس کی آنکھوں میں اس وقت شدید غصہ تھا۔جیسے وہ اسے زندہ نگل جاتا۔تھوک نگل کر اس نے اب چہرے کا رخ دائیں سائیڈ پر بیڈ پر بوکھلاۓ ہوۓ انداز میں معاملہ سمجھنے کو کوشش کرتے دراب آفریدی کو دیکھا۔

آخر صرف وہ واحد شخص تھے جو اس مان بیٹے کو ڈرا دھمکا سکتے تھے۔شنایہ بیگم بھول گئ تھیں کہ اصل ویٹو پاور تو زرلشتہ کے پاس ہے۔ان کا ثپوت بھی باپ کے سامنے بول نہیں سکتا۔بازی اب بھی پوری طرح زرلشتہ کے قابو میں تھی۔

"خدا کی قسم میں نے ان کی بے عزتی نہیں کی۔یہ گناہ کرکے مجھے مرنا تھوڑی تھا۔!!!! درمان نے بس معافی مانگنے کو کہا تھا یہ نہیں بتایا تھا کہ کیا کہہ کر معافی مانگنی ہے۔ٹی وی میں تو بہوئیں یہی سب کرتی ہیں نا پھر معافی بھی ایسے ہی مانگتی ہیں۔میں نے بھی اسی لیے ایسے معافی مانگی۔۔!!!!!

آپ کہیں انہیں کہ مجھے معاف کریں۔ورنہ یہ مجھے ماریں گے۔۔۔!!!!"

اس نے اپنے گال پر بہتے آنسو صاف کیے اور درمان کی طرف اشارہ کیا جو اب اپنا سر پھاڑنے کو تیار کھڑا تھا۔دراب آفریدی کی عقاب نظریں جب صوفے پر بیٹھی بیوی کی سمت گئیں تو وہ گڑبڑاگئیں۔

"بچے اٹھو آپ وہاں سے۔ایسے کسی کے پیروں میں نہیں گرتے۔اور بیٹیاں زمین پر بیٹھی اچھی بھی  نہیں لگتیں۔آپ اوپر بیٹھو۔چلو شاباش ۔۔!!!!"

سب سے پہلے تو انہوں نے زرلشتہ کو وہاں سے اٹھایا جو بجلی کی سی تیزی سے وہاں سے اٹھی پر رونے دھونے والا کام اب بھی جاری تھا۔اور آکر بیڈ کے ایک طرف بیٹھ گئ۔درمان تو اندر ہی اندر پٹھنے والا تھا۔

"اب بتاؤ ہوا کیا ہے۔آپ کیوں معافی مانگ رہی ہو۔اور ہماری بیٹی کو کیا اس نالائق نے مارا ہے بتاؤ ہمیں۔۔۔!!!!"

وہ اب کی بار بیڈ سے اترے اور اس کے سامنے آکر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔جس کی آنکھیں اب اپنے بابا کو یاد کرکے برس پڑی تھیں ۔

"د۔درمان نے کہا کہ میں نے انہیں قابو کرنے کی کوشش کی ہے۔اور آنٹی کو بھی پورا ہفتہ ٹارچر کرکے رکھا ہے۔اور آج میری وجہ سے آپ نے آنٹی پر ہ۔ہاتھ بھی اٹھایا۔آپ مجھے معافی لے دیں سردار جی۔آپ میرے باباجانی جیسے ہی ہیں نا تو پلیز انہیں کہیں مجھے معاف کردیں۔۔!!!"

اپنے آنسو رگڑتے ہوۓ زرلشتہ نے چہرہ موڑ لیا۔پر یہ انکشاف سنتے ہی دراب آفریدی کا غصہ بھی بڑھا تھا۔یہ سارا جھوٹ وہ جانتے تھے ان کی بیگم نے ہی پھیلایا ہے۔

وہیں زرلشتہ تو معافی کو ٹافی سمجھ کر مانگ رہی تھی کہ اسے یہ چاہیے اور ابھی چاہیے ۔

"بیگم۔۔!!! ذرا بتائیں تو سہی اس بچی نے کب آپ کو ستایا ہے۔کب آپ کو تنگ کیا ہے۔اور ہم نے کب یہ اخلاق سے گری حرکت کی ہے آپ پر ہاتھ اٹھانے کی۔یہ حرکت تو آپ کا یہ ثپوت کررہا ہے اور آپ بھی یہ حرکت کرنے کی کوشش میں تھیں آج۔۔۔!!!!!"

ان کی نظریں اب شنایہ بیگم پر تھیں جو سانس تک روک گئیں۔اور درمان تو اب معاملہ سمجھنے کوشش میں تھا۔

"جہاں تک ہماری ناقص عقل جاتی ہے آپ نے بچی کو مارنے کی بات کی تھی۔آپ کا بس چلتا تو اس پر سانس لینے کو ہوا بھی تنگ کردیتیں ہیں نا۔اور پورا ہفتہ آپ کا حکم مان کر ملازم بھی اس بچی کے ساتھ برا سلوک کرتے رہے ۔۔۔!!!!

ذرا یہ بھی تو اپنے ثبوت کو بتادیتیں آپ۔۔!!"

انہوں نے انہیں دیکھتے دانت نکوسے ۔پھر درمان کو گھورا جو واقعی اب چپ کھڑا تھا۔

دل کی نا مان کر اسے اب شرمندگی ہی ہورہی تھی۔اسے اپنی ماں سے اس قدر بے حسی کی امید تو نہیں تھی ۔

"درمان زوۓ اگر یونہی جزبات کی رو میں بہتے آپ فیصلے لیتے رہے تو ہر بار یہ سر ایسے ہی جھکے گا۔یہ بات یاد رکھیں فیصلہ ہمیشہ دونوں فریقین کا موقف سن کر اور ثبوت دیکھ کر کیا جاتا ہے۔مانا وہ آپ کی ماں ہیں پر یہ بھی بیوی ہے آپ کی۔توازن رکھنا سیکھیں۔ماں کی بات سننے کا مطلب یہ نہیں کہ بیوی کو جان سے ہی مار دیں ۔بچی کا حال کیا کردیا ہے آپ نے۔کچھ ہوش سے کام لیں۔۔!!!"

وہ درشتگی سے بولے تو درمان نے شکایتی نظر ماں پر ڈالی جن کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ ہی غلط ہیں اس معاملے میں۔زرلشتہ تو ابھی تک رو رہی تھی۔اس کے بازوؤں میں اب بھی ویسا ہی درد تھا۔

"بیگم کوئ خدا کا خوف کرلیں آپ۔۔!!!! ہم اتنے کمزور نہیں کہ آپ کو قابو کرنے کے لیے مارنا شروع کردیں۔جھوٹ کی بھی حد ہوتی ہے اپنے اس دماغ کو کسی اچھی جگہ پر لگائیں تو بہتر ہوگا۔بچی کا پیچھا چھوڑ دیں۔خدا کے لیے۔..!!!!"

وہ اب کی بار تھک کر بولے کیونکہ یہ عورت ان کے قابو میں بھی نہیں آتی تھی۔کسی دن ان کی خود سری دراب آفریدی کو سخت فیصلے پر شاید مجبور کردیتی۔شنایہ بیگم تو لب سی چکی تھیں۔

پر درمان کے اندر جو غصے کا کیڑا تھا اس کی نظریں زرلشتہ پر ہی ٹکی تھیں۔

"سردار صاحب۔۔۔!!! معافی تو لے دیں۔آپ ان دو کو ڈانٹ کر میرا کام ہی خراب کررہے ہیں۔آپ تو چیخ چلا کر چلے جائیں گے شامت تو میری آۓ گی نا پھر۔میں مزید یہ ٹارچر نہیں سہہ سکتی۔بیٹا بھی بازو توڑتا ہے اور ماں بھی بازو ہی توڑتی ہے۔تو مجھے میرے باباجانی کے پاس بھیج دیں۔پکا پوری زندگی آپ لوگوں کو شکل نہیں دکھاؤں گی۔۔!!!"

اس نے معصومیت سے کہا۔تو دراب آفریدی نے گہرا سانس خارج کیا۔

"بچے آپ ہمیں آغا جان کہہ سکتی ہیں۔اور آپ کو واپس کیوں جانا ہے ۔اب یہی آپ کا گھر ہے آپ کو یہیں رہنا ہوگا ہمیشہ۔۔۔!!!!! 

آپ کا نکاح ہوا ہے درمان سے اور نکاح مزاق نہیں ہوتا۔ہمارے ہاں ایک بار نکاح ہوجاۓ تو واپسی کے دروازے تاعمر کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔"

یہ بات انہوں نے شنایہ بیگم کو دیکھتے کہی۔اسی وجہ سے تو وہ بھی ان کی خودسری کے باوجود صرف صبر سے کام لیتے تھے۔زرلشتہ یہ بات سن کر اداس ہوگئ۔اس ظالم انسان کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کا خیال ہی عجیب تھا۔

"یعنی بس کوئ ایک دو مہینہ اور رہ گیا ہے میرا اس دنیا میں۔۔۔!!!! "وہ بڑبڑائ۔یہ بڑبڑاہٹ درمان نے بھی سنی تھی۔کہ اسے کتنا یقین تھا اگر وہ اس کے ساتھ رہی تو جلد اوپر کا ٹکٹ کٹا لے گی۔

"آغاجان میں جارہی ہوں یہاں سے۔۔ !!!! اپنے بیٹے کی ٹیوننگ کرکے اسے واپس بھیجیے گا اور کوئ پین کلر ہے تو وہ بھی دے دیں ۔ویسے سلام ہے آپ کے حوصلے کو جو ان دونوں کو سالوں سے برداشت کررہے ہیں۔کوئ بہادری کا ایوارڈ ہوتا تو میں آپ کو ہی دیتی ۔۔۔!!!!"

وہ اٹھی اور رازدارانہ انداز میں کہا۔جواب میں انہوں نے بھی سرد آہ بھری ۔

"بچے آپ کا شوہر تو ٹیوننگ سے ٹھیک ہوسکتا ہے اس میں یہ فیچر ہے پر ہماری بیگم کی ٹیوننگ نہیں ہوسکتی۔یہ جس زمانے کی ایجاد ہیں تب ایڈوانس فیچرز نہیں ہوتے تھے۔بس ہمارے لیے صبر کی دعا کردیا کریں۔۔!!!"

انہوں نے بھی ویسے ہی جواب دیا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرادی۔پھر انہوں نے سائیڈ ڈرار سے ایک پین کلر نکال کر اسے دی۔درمان کی نظریں اسی پر ہی ٹکی تھیں جو اس کے بابا سے ناجانے کیا راز و نیاز کررہی تھی۔

پھر وہ ٹیبلیٹ لے کر درمان کو دیکھے بغیر وہاں سے بھاگ گئ۔شنایہ بیگم اور درمان تو اب تک سٹیچو بنے کھڑے تھے۔کیا کیا خواب سوچے تھے شنایہ بیگم نے کہ یہ لڑکی ان کے سامنے جھک جاۓ گی۔پر وہ تو انہیں ہی پھنسا کر گئ تھی۔یعنی اصل ڈارمہ کوئین کا ایوارڈ زرلشتہ کے حصے میں آیا تھا۔

"آپ دونوں ماں بیٹے بچی کی جان کے دشمن نہ بنیں۔اور درمان تم قدر کرو اس کی۔ایسے صاف دل کی بیوی اگر اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھ دی ہے تو اسے گنوانا مت۔ورنہ تو دنیا منافقوں سے بھری ہوئ ہے۔جو شکل سے معصوم دکھتے ہیں پر ان کا دل اندر سے سیاہ ہوتا ہے۔

اب جاؤ تم بھی۔۔۔!!!!!"

درمان جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا۔اور دراب آفریدی اب شنایہ بیگم کو کیا سمجھاتے۔جب جانتے تھے وہ سمجھ سکتی ہی نہیں تو لائٹ آف کرکے وہ بھی واپس لیٹ گۓ۔

"یہ لڑکی میری سوچ سے بھی زیادہ تیز ہے۔۔!!!! میرا داؤ اس نے مجھ پر ہی الٹا کردیا۔اف شنایہ تم کل کی آئ لڑکی کے سامنے پھر سے ہار گئ۔یہ لڑکی ہے یا کوئ آفت ہے۔جو درمان کے قابو میں بھی نہیں آئ۔کچھ وقت کے لیے اب چپ رہنا ہی مناسب ہوگا۔ورنہ بات بگڑ جاۓ گی۔ایک بار معاملہ ٹھنڈا ہوجاۓ تو پھر میں اس لڑکی کے ہوش ٹھکانے لگاؤں گی۔۔۔!!!"

جلتے ہوۓ انہوں نے سوچا ۔پر وہاں سے اٹھیں نہ۔ اب انہیں اگلی پلیننگ جو کرنی تھی۔زرلشتہ کے سامنے وہ ٹک ہی نہیں پارہی تھیں۔وہ تو معصومیت سے انہیں انہی کے جال میں پھنسا رہی تھی۔یہ بات انہیں ہضم ہوہی نہیں سکتی تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان آدھے گھنٹے بعد کمرے میں آیا تاکہ اپنا غصہ پھر سے اس پر نہ اتار دے۔ توقع کے عین مطابق وہ صوفے پر سوی ہوئ تھی ۔پہلے تو وہ صوفے کے پاس کھڑا ہوکر اسے گھورتا رہا وہ سوتے ہوۓ انتہا کی معصوم لگ رہی تھی۔

پھر اس کی باتیں اسے یاد آئیں جو ابھی وہ نیچے کہہ کر آئ تھی تو وہ مسکرا اٹھا۔

"یہ تم ایسی فضول باتیں لاتی کہاں سے ہو آخر۔۔۔!!! "

وہ کھل کر مسکرایا۔وہ بہت کم مسکراتا تھا۔پر اس کی مسکراہٹ بہت خوبصورت تھی۔وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔نظریں اس کی بند آنکھوں پر ٹکی تھیں۔

"بہت انوسنٹ ہو تم۔۔!!! اور حساس بھی۔ابھی جیسی معافی تم نے مورے سے مانگی ہے نا میں تمہارا فین ہوگیا ہو۔کیا عجیب سٹائل ہے تمہارا ہر کام کرنے کا۔سچ میں تم جیسی لڑکی میں نے پہلی بار ہی دیکھی ہے۔۔۔!!!"

اسے دیکھتے وہ بڑبڑایا وہ واقعی میں اس وقت دل سے اس کی تعریف کررہا تھا۔پھر اپنا سلوک یاد آیا تو اسے شرمندگی بھی ہوئ۔

"بہت ہرٹ کیا نا میں نے تمہیں۔۔!!! پر کیا کروں اپنے غصے پر میرا قابو نہیں ہے۔"

اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی پیشانی پر بکھرے بال سائیڈ پر کیے۔پھر دوبارا مسکرایا۔اور اٹھ کر ڈریسنگ روم سے ایک اور کمفرٹر نکال کر لایا اور اس پر اچھے سے اوڑھا دیا۔

"زرلشتہ درمان آفریدی۔۔۔۔!!!!!!"

ہنستے ہوۓ وہ کوئ اور ہی درمان لگ رہا تھا۔زرلشتہ کی باتیں اب اسے اچھی لگنے لگی تھیں۔

"میں کیوں سوچ رہا ہوں اس کے بارے میں۔۔؟؟"

وہ خود ہی حیران ہوا وہ ایسا تو نہیں تھا پھر کیوں سوچ رہا تھا اس کے بارے میں۔

"بیوی ہے میری میں اگر سوچ بھی لوں تو گناہ تھوڑی نہ ملے گا مجھے ۔۔!!!

پر یہ میچور نہیں ہے۔اسے میچور ہونا پڑے گا۔ورنہ میرا اور اس کا گزارہ ممکن نہیں ۔!!"

وہ وہاں سے اٹھا اور بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا۔

"ونی وغیرہ ویسے بھی کچھ نہیں ہوتا۔اگر یہ تھوڑی سی سیریس ہوجاۓ تو زندگی سکون سے گزر جاۓ گی۔خیر دیکھتے ہیں وہ دن کب آۓ گا۔جب یہ اپنی زبان پر قابو پانا سیکھ لے گی۔!!!"

لائٹ آف کرتے وہ بھی سوگیا۔پر وہ یہاں بھی غلط تھا۔اگر زرلشتہ سیریس ہوجاتی تو وہ اندر سے بھی ختم ہوجاتی۔اس کی نیچر ایسی ہی تھی لاابالی سی،شرارتی، غیر سنجیدہ پر حساس۔۔۔!!!!!

اگر درمان اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا چاہتا تو وہ ویسے بھی کرسکتا تھا۔ضروری نہیں تھا کہ وہ اسے بدلنے کی سوچ دل میں رکھتا۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages