Dil E Badguman By Warda Jaffery New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Dil E Badguman by Warda Jaffery Complete Romantic Novel |
Novel Name: Dil E Badguman
Writer Name: Warda Jaffery
Category: Complete Novel
خدا کے لئے تایا جان رحم کریں مجھ پر۔۔۔۔“وہ گرگڑائے جا رہی تھی۔
”تجھ پر رحم کروں۔۔۔؟اگر مجھے اپنے بیٹے کی محبت کا لحاظ نہ ہوتا تو تیرا سر کلم کر دیتا۔۔۔“وہ غُصے سے اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لے آئے تھے
”تایاجان۔۔۔“وہ مزید کچھ کہتی اس سے قبل ہی اسے کمرے میں ایک طرف دھکیل کر دروازہ بند کر دیا گیا۔
شام کو گھر کے وسیع باغ میں سب لوگ اکٹھے تھے۔آصف خان جو کہ اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے‘ہر بات کافیصلہ وہ ہی کیا کرتے تھے۔ لہذہ آج کی اس بیٹھک کا مقصد بھی ایک فیصلہ سنانا تھا۔کلیم خان گاؤں کے رہنے والے خاندانی ریئس تھے۔ ان کے چار بیٹے تھے آصف خان‘کریم خان، سہیل خان اوراحمد خان۔ دو بیٹوں کی شادی تو انہوں نے اپنے ہی قبیلے کی لڑکیوں سے کروائی ایک بیٹے کا رشتہ خاندان سے باہر مگر اپنی مرضی سے جوڑا تھا مگر چھوٹا بیٹا احمد خان تعلیم کے سلسلے میں اسلام آباد گیا تھا اور وہی ملازمت کے بعداپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرلی۔یہی وجہ تھی کہ پچھلے چوبیس سالوں سے کلیم خان نے انہیں اور ان کی بیگم کو حتیٰ کہ اپنی پوتی شہزین کو بھی نہ اپنایا تھا مگر وفات سے کچھ روز قبل انہوں نے احمد خان کو معاف کردیا تھا جس کے نتیجے میں ان کا یہاں آنا جانا شروع ہوچکا تھا۔
تین ماہ قبل احمدخان اور ان کی بیگم شہلا نے خودکشی کر لی جس کا ذمہ دار خاندان کے افراد نے شہزین کو ٹھہرایا اور اسے اب زبردستی اپنے ساتھ گاوں لے آئے تھے۔
”توبہ توبہ۔۔۔شکر ہے کہ خُدا نے ہمیں ایسی بے باک بیٹیاں عطا نہیں کی۔۔۔“چھوٹی تائی کانوں کے ہاتھ لگاتے ہوئے بولیں۔
”بھائی صاحب میں تو کہتا ہوں کہ اس لڑکی کا خاندان بھر کی لڑکیوں کے لئے عبرت کا نشان بنانا چاہئے۔۔۔جو اس نے کیا اس کے بعد تو اسے زندہ دفن کرنا بھی کم سزا ہے۔۔“ کریم خان درندگی سے بولے۔
”ہر گز نہیں۔۔۔اس لڑکی نے مجھے دھتکارا تھا۔۔۔اس کی سزا یہی ہے کہ وہ میری بیوی بنے گی۔۔۔“باغ میں داخل ہوتے بلال نے اپنا حکم سب پر صادر کیا۔
”بلال درست کہہ رہا ہے۔۔۔“آصف خان نے بھی بیٹے کی حمایت کی۔
”مگر وہ ایک بدکردار لڑکی ہے بھائی صاحب۔۔اسکی بدکرداری کے باعث احمد اور شہلا نے اپنی جان دے دی۔۔۔اور اب آپ اس تہمت کو اس خاندان کی عزت بنانا چاہتے ہیں۔۔۔“سہیل خان نے لمبی تہمید باندھی۔
”بس۔۔۔میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔اب مجھے کسی کے مشہورے کی ضرورت نہیں ہے۔“آصف خان نے گویا بات ہی ختم کردی۔
”جی بہتر۔۔۔“کریم خان نے بھی مزید مخالفت نہ کی۔
آصف خان کا صرف ایک بیٹا ہی تھا جبکہ کریم خان کی دوبیٹیاں تھیں اور اکلوتا بیٹا بمشکل دس سال کا تھا۔سہیل خان کی بھی ایک ہی بیٹی تھی۔ گھر کا بڑا بیٹا بلال ہی تھا جو کہ نہایت ہی غیر ذمہ دار اور فطرتا کاہل تھا۔ اس کے باوجود پورا گھر اسی کے نام کا دم بھرنے پر مجبور تھا۔
”اُٹھ جاؤ۔۔۔جانِ عزیز۔۔۔“وہ بیہوشی کی سی حالت میں تھی تو بلال نے اس پر پانی کے چند کترے ڈالے۔
”بلال بھائی۔۔۔مجھے یہاں سے نکالیں پلیز۔۔۔“وہ ڈرے سہمے لیجے میں بولی۔
”کمبخت بھائی کا لفظ تمہارے مُنہ سے زہر لگتا ہے میری جان۔۔۔ میں تو تمہیں آج ہی نکال دیتا مگر قاضی نے نکاح کی تاریخ آج کی نہیں نکالی۔“ وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
”نکاح۔۔۔کس کا نکاح۔۔۔“وہ جوزمین پر دیوار سے ٹیک لگا کر نیم دراز تھی یکدم سیدھی ہو کر بیٹھی۔
”ہمارا نکاح۔۔۔“وہ مُنہ میں ڈالے سگریٹ کو لائٹر سے جلاتے ہوئے بولا۔
”آپ لوگ میرے ساتھ زبرستی نہیں کر سکتے۔۔۔“اس نے تھوڑیہ ہمت دکھائی تو بلال فوراً اس کے قریب جا بیٹھا۔
”کرنے کو تو میں بہت کچھ کر سکتا ہوں۔۔۔مگر پھر تمہاری محبت مجھے رکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔۔“وہ اس کا دایاں کندھا تھام کر بولا۔
”خیر۔۔۔میں تمہیں یہاں یہ بتانے آیا تھا کہ آج شام ہماری مہندی ہے۔۔۔بابا جان تو نہیں چاہتے کہ تمہیں اس اندھیرے کمرے سے نکالا جائے مگر صرف میرے اصرار پر شام میں تمہیں یہاں سے آزاد کر دیا جائے گا۔۔۔اور ایک آخری بات۔۔۔مہندی کی تقریب میں اگر تمہارے مُنہ پر مجھے بارہ بجتے نظر آئے تو تمہارے انجام کی ذمہ دار تم خُود کہلاؤ گی۔۔۔“وہ پھر سے اُٹھا اور کمرے سے چلا گیا۔
”ماما۔۔۔پاپا۔۔۔“وہ روتے ہوئے اپنے مرحوم والدین کو یاد کر رہی تھی۔
شام کو اسے کمرے سے نکالا گیا۔صبح سے اناج کا ایک دانا بھی اس کے پیٹ میں نہ گیا تھا اور نہ ہی اسے کسی چیز کی طلب تھی۔کچھ ایسے حالات نے اسے آگھیرا تھا کہ بھوک پیاس سب ہی اس کے لئے بے معنی سے ہو گئے تھے۔
”یہ لو محترمہ۔۔۔یہ کپڑے پہن کر تیار ہوجاؤ۔۔۔“چھوٹی تائی کی بیٹی حمنا نے اس کے سامنے ایک ذرد جوڑا پھینکا۔
”میں نہیں پہنوں گی۔۔۔“اس نے صاف انکار کر دیا۔
”آرام سے پہن لو۔۔۔ورنہ پھر جو تمہارا حشر ہوگا۔۔اس کا تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے۔۔۔“حمنا کی چھوٹی بہن ارم بھی کمرے میں داخل ہوئی۔
”کیا کر لیں گے آپ لوگ؟میری جان ہی لیں گے نا۔۔۔لے لیں۔۔مجھے ایسی زندگی جینے کی کوئی چاہت بھی نہیں جس کا پر لمحہ موت کے خوف سے گِھرا ہو۔۔۔“وہ چِلائی تھی۔
”آہستہ بولو۔۔۔ یہ کوئی تمہارا شہر نہیں ہے۔۔جہاں تمہارا جو بھی دل کہے بک دو۔۔۔یہ کلیم خان کی حویلی ہے جہاں لڑکیوں کو بولنے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔۔۔یہ تو تمہاری خوش نصیبی ہے کہ بلال کا دل تم پر آگیا ورنہ ابھی تمہیں سنگسار کیا جارہا ہوتا۔۔۔پھر تمہیں موت کا مزا آتا۔۔۔“حمنا اس کی ہم عمر ہی تھی لیکن اس گھر میں پرورش پانے کے باعث یہاں کے سب اصولوں سے بخوبی واقف تھی۔
شام کو اسے زبردستی سٹیج پر بٹھا دیا گیا۔میک اپ تو اس نے کیا نہیں تھا مگر اس کے باوجود وہ کسی دلہن سے کم نہ لگ رہی تھی۔گوری رنگت‘نیلی آنکھیں۔۔ پریوں جیسے پر کشش نقوش۔۔۔کیا کمی تھی اس میں؟مگر قسمت نے اسے یہ دن دکھایا تھا کہ اس کے ہاتھ پر بلال جیسے شرابی‘گوار اور عیاش لڑکے کے نام کی مہندی لگنے جا رہی تھی۔تقریب ختم ہونے کے بعد دوبارہ اسے اسی اندھیرے کمرے میں قید کر دیا گیا تھا جہاں ویسے تو ہر آسائش موجود تھی مگر اس کے لئے وہاں نہ بجلی کا کوئی نظام رکھا گیا تھا نہ ہی کوئی کھڑکی۔۔۔فجر کی آذان ہوئی تو اس کی آنکھ کھُلی۔۔۔اسی اثنا میں دروازے سے کوئی اندر آیا۔
”کون ہے۔۔؟“اس نے گھبر ا کر پوچھا۔
”میں ہوں۔۔۔“ہاتھ میں موم بتی پکڑے آصف خان کی بیگم شبانہ وہاں آئی۔
”آپ۔۔۔“
”خاموش ہوجاؤ۔۔۔“شبانہ اس کے برابر میں آبیٹھیں۔
”میری بات غور سے سنو۔۔۔تمہاری جان کوبہت خطرہ ہے لڑکی۔۔۔کل تمہاری شادی کے بعد یہ سب لوگ تمہیں مار دیں گے۔۔۔“شبانہ بیگم کے انکشاف نے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی۔
”تم کیا سمجھتی ہو کہ آصف اپنے بیٹے کی پسند کا لحاظ کر رہا ہے؟ہرگز نہیں۔۔۔اسے اپنے بیٹے کی خُوشی سے زیادہ تمہاری دولت عزیز ہے۔۔۔تمہارے ماں باپ کی وفات کے بعد ان کے حصے کی تمام دولت کی وارث صرف تم ہو۔۔۔بلال سے نکاح کے بعد وہ دولت بھی بلال کی ہو جائے گی اور پھر وہ تمہیں مار ڈالے گا۔۔۔“
”میں آپ کی بات کا یقین کیوں کروں۔۔۔آپ تو بلال کی ماں ہیں نا۔۔۔“اس نے ہوش کے ناخن لئے۔
”میں اس کی ماں نہیں ہوں۔۔۔اس کی ماں تو اس نامراد کو جنم دیتے ہی دم توڑ گئی۔۔۔مجھے تو آصف نے صرف اپنے بیٹے کی پرورش کے لئے اپنایا تھا۔۔۔“وہ آبدیدہ سی ہو گئیں۔
”وہ انسان نہیں ہے جانور ہے بیٹا۔۔۔میرا پیار بلال کے لئے کم نہ ہو۔۔۔اس لئے اس نے میری اپنی بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس کا گلا دبا دیا۔۔۔خُود سوچو۔۔۔ جو انسان اپنی بیٹی کو موت کے گھاٹ اُتار سکتا ہے۔۔۔وہ تمہارا کیا حال کرے گا۔۔۔“اب ان کی باتیں شہزین کو بھی خائف کرنے لگیں۔
”اور سب سے اہم بات جو تم نہیں جانتی۔۔۔وہ یہ کہ بلال شادی شدہ ہے۔۔۔اس نے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کی۔۔۔مگر جب اس سے تنگ آگیا تو اسے طلاق دینے کا فیصلہ کیا۔۔۔وہ لڑکی تمہاری طرح پڑھی لکھی تھی۔۔۔اس نے جب اپنے حق کا مطالبہ کیا تو اسے ان باپ بیٹے نے جلا دیا شہزین۔۔۔اس کی لاش تک نہیں ملی کسی کو۔۔۔“ ایک کے بعد ایک ناقابلِ یقین انکشاف۔۔۔!
”میں اب کیا کر سکتی ہوں؟تائی امی؟ کل صبح میری قسمت کا فیصلہ کردیا جائے گا۔۔۔“وہ ہمت ہار چکی تھی۔
”نہیں۔۔۔میں تمہیں یہاں سے بھگاؤں گی شہزین۔۔۔میری بیٹی کا نام بھی میں شہزین رکھنا چاپتی تھی۔۔۔اور اگر آج وہ زندہ ہوتی تو یقیناً تمہارے جتنی ہی ہوتی۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے تم میں اپنی شہزین کی جھلک دکھائی دیتی ہے بیٹا۔۔۔ “ وہ جذباتی ہو گئیں۔
”یہ کیسے ممکن ہے؟میں کیسے ان لوگوں سے دور جاسکتی ہوں؟یہ درندہ صفت لوگ مجھے ڈھونڈھ لیں گے۔۔۔“اس کی خوف سے حالت غیر ہورہی تھی۔
”ممکن ہے۔۔۔تمہارا جتنا سامان یہاں تھا۔۔۔وہ میں نے باہر گاڑی میں رکھوا دیا ہے۔۔۔کل صبح نکاح سے پہلے یہ سب لوگ تمہارے دادا کی قبر پر جائیں گے۔۔۔ تم سب کی غیرموجودگی میں ملازم کے ساتھ یہاں سے نکل جاؤ۔۔وہ تمہیں اسلام آباد پہنچا دے گا۔۔۔وہ میرا وفادار ہے کبھی اپنی زبان نہیں کھولے گا۔۔۔“وہ سب انتظامات کر چکی تھیں۔
”اگر میں پکڑی گئی تو۔۔۔؟“
”نہیں پکڑی جاؤ گی۔۔۔یہ میرا وعدہ ہے۔۔میں اپنی شہزین کو تو نہیں بچا سکی مگر تمہیں بچا کر میں اس ملال کو کچھ کم کرپاؤں گی بچی۔۔۔“انہوں نے روتے ہوئے اس سر پر ہاتھ پھیرا۔
”اسلام آباد تمہاری کوئی دوست ہوگی نا۔۔اسکے پاس چلی جانا یا پھر لاہور چلی جانا۔۔۔“انہوں نے ایک کاغذ اسے تھمایا۔
”یہ لاہور میں میرے باباجان رہتے ہیں۔ان کے گھر کا پتہ ہے۔۔۔وہ تمہیں سہارا دیں گے۔۔وہ بہت سخی اور نیک ہے بیٹا۔۔۔وہ ان کی طرح ظالم نہیں ہے۔۔۔“
”شکریہ تائی امی۔۔۔“وہ ان کے گلے لگ گئی۔
”چلو اب میں چلتی ہوں۔۔۔خوامخواہ کسی نے مجھے یہاں دیکھ لیا تو معاملہ بگڑ جائے۔۔۔“وہ اسے خود سے دور کرتی کمرے سے چلی گئیں۔
اگلی صبح بلال کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔آج وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شہزین احمدکو اپنی زنجیروں میں جکرنے جارہا تھا۔ وہ تیار ہو کر کمرے سے نکلا ہی تھا کہ والد محترم نے اسے مخاطب کیا۔
”بلال بیٹا۔۔۔تیار ہو تو چلیں۔۔۔“وہ بھی تیار بیٹھے تھے۔
”جی بابا جان۔۔۔تیار ہوں۔۔مگر کیا جانا ضروری ہے؟“وہ شش وپنج میں تھا۔
”بیٹا۔۔یہ تو ہماری خاندانی روایت ہے۔۔۔بزرگوں کی رسموں کو نظرانداز نہیں کرتے۔۔۔“وہ اسے سمجھانے لگے۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی حامی بھری۔
گھر کے تمام افراد ہی گاڑیوں پر سوار ہو چکے تھے۔ بلال اپنے ماں باپ کے ہمراہ اپنی ذاتی گاڑی پر سوار ہونے ہی والا تھا کہ اسے نئی ترکیب سوجھی۔
”باباجان۔۔۔شہزین کو بھی لے چلیں۔۔؟“اس نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے تجویز دی۔
”ارے نہیں بیٹا۔۔۔مہندی کے بعد دلہن کو یوں کہیں نہیں جانے دیتے ہم۔۔۔“شبانہ بیگم نے بات سنبھالی۔
”ہاں ٹھیک کہہ رہی ہے تمہاری ماں۔۔۔ویسے بھی اس نے کل سے جیسی شکل بنائی ہے۔۔۔اسے کہیں لے جانا حماقت ہی ہوگی۔۔۔“آصف خان نے بھی بیگم کا ساتھ دیا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“وہ بُرے بُرے منہ بناتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا۔
گھر پر کوئی بھی موجود نہ تھا۔تمام ملازمین بھی ان سب کے ہمراہ چلے گئے تھے۔گھر میں صرف شبانہ بیگم کا خاص ملازم ہی موجود تھا جس نے بیماری کا جھوٹا بہانہ بنایا تھا۔
”جلدی چلو۔۔۔“وہ شہزین کے کمرے میں آیا۔
”ہاں۔۔۔“وہ بھی تیار بیٹھی تھی۔
”ہم لوگ پچھلے دروازے سے جائیں گے۔۔۔تمہیں میں ایک گاڑی تک پہنچا دوں گا۔۔۔وہ تمہیں اسلام آباد چھوڑ دے گی۔۔۔“پچھلے دروازے تک پہنچتے پہنچتے اس نے سارا منصوبہ شہزین کو سمجھا دیا۔
خاصی ویران اور سنسان جگہ کو عبور کرتے ہوئے وہ دونوں ایک کھلے میدان میں پہنچے جہاں ایک سیاہ رنگ کی گاڑی ڈرائیور سمیت موجود تھی۔ملازم نے شہزین کا سامان گاڑی میں رکھا اور ڈرائیور کو بھی کچھ ہدایات دیں۔
”تمہارے بیگ میں کچھ رقم اور موبائیل بھی پڑا ہے۔۔۔پہنچ کر اپنے محسن کو بتادینا۔۔۔“وہ گاڑی میں بیٹھی تو ملازم نے دبے لفظوں میں اسے بات سمجھائی،وہ بھی کسی صورت نہیں چاہتا ہتا تھا کہ شبانہ بیگم کا نام سامنے آئے۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“وہ بھی بات سمجھ گئی۔
وہ لوگ شام ڈھلنے سے پہلے گھر آگئے۔ تمام تیاریاں تو کل ہی مکمل کر لی گئیں تھیں۔ بس کچھ دیر میں ہی نکاح اور پھر رخصتی کے معاملات طے پانے تھے۔
”تم لوگ جاؤ دلہن کو تیار کرو۔۔۔تقریب کچھ دیر میں ہی شروع ہوجائے گی۔۔۔“آصف خان نے بیگم کو ہدایت دی تب ہی دوڑتی ہوئے حمنا ہال میں آئی۔
”تایا جان۔۔۔وہ شہزین کمرے میں نہیں ہے۔۔۔“اس بات پر شبانہ بیگم نے لاکھوں شکر کیا۔
”کیا بکواس کر رہی ہو؟کہاں جاسکتی ہے وہ؟“بلال طیش میں آگیا۔
”ہاں۔۔دیکھو ادھر ہی کمرے میں ہوگی۔۔۔کہاں جا سکتی ہے وہ؟“کسی کو شک نہ ہو اس لئے شبانہ بیگم نے بھی بناوٹی فکر کا مظاہرہ کیا۔
”نہیں۔۔۔رک جاو۔۔۔“آصف خان نے سب کو روک دیا۔
”ہم نے بہت بڑی غلطی کر دی۔۔۔اسے کمزور سمجھ کر۔۔۔وہ احمد کی بیٹی ہے۔۔۔جب باپ نے ساری عمر اپنی چلائی تو وہ کہاں ہمارے آگے گھٹنے ٹیکنے والوں میں سے ہو گی؟“ وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔
”شہر جانے والے ہر راستے پر اپنے آدی بھیج دو فوراً۔۔۔وہ شہر ہی واپس گئی ہوگی۔۔۔“
”یہ کام میں نے کردیا ہے بھائی جان۔۔۔“کریم خان وہاں آتے ہوئے بولے۔
”راشد کہاں ہے؟“وہ شبانہ بیگم کے ملازم کی بات کر تہے تھے۔
”وہ تو کل سے اوندھے مُنہ پڑا ہے۔۔۔بی پی آسمان پر جو پہنچ گیا ہے۔۔۔ابھی ابھی اسے میں نے دوسرے ملازم کے ہمراہ ڈاکٹر کے پاس بھیجا ہے۔۔۔“وہ نہیں چاہتی تھیں کہ شک راشد پر جائے۔
”میں اس لڑکی کو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔اتنی تذلیل کروادی اس نے میری۔۔۔“بلال کا خون کھول اُٹھا۔
”بہت بڑی حماکت کی ہے اس نے۔۔۔“آصف خان بڑبڑائے۔
وہ بخیروعافیت اپنے شہر پہنچ چکی تھی۔ کتنی خوبصورت اور اس کے ساتھ ساتھ تلخ یادیں بھی اسی شہر سے وابستہ تھیں جہاں اس نے اپنی زندگی کے بائیس سال گزارے تھے۔ڈرائیور اسے بتائی گئی جگہ کے قریب سڑک پر اتار گیا تھا۔ اس نے وہاں سے ایک ٹیکسی پکڑی اور اپنی دوست کے گھر پہنچی تھی۔
”شازی۔۔۔“سمیرہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے اپنی پیاری دوست کو کھڑا دیکھ کر دنگ رہ گئی۔
”تم یہاں آئی کیسے؟“وہ جیسے ہی صوفے پر بیٹھی سمیرہ نے اپنی تفتیش شروع کر دی۔
”توبہ توبہ۔۔۔تمہارے خاندان والے تو جانور ہیں شازی۔۔۔“تمام داستان سننے کے بعد وہ بھی حواس باختہ سی ہوگئی۔
”مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں؟“اس نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑا ہوا تھا۔
”فی الحال۔۔۔اس شہر سے بھاگو۔۔۔وہ لوگ تمہیں ڈھونڈتے یہیں آئیں گے یار۔۔۔“ اس نے عقل مندی کی بات کی۔
”کہاں جاؤں؟“
”وہیں جہاں تمہاری تائی امی نے بولا۔۔۔ان کے بابا کے گھر۔۔۔“ سمیرہ کو وہ جگہ ہی محفوظ لگی تھی۔
”میں کیوں بے وجہ کسی غیر کے لئے دردِسر بنوں؟“وہ نہایت خودار تھی۔
”یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے شہزین۔۔۔“
”مجھے اس حال تک پہنچانے والے کو خُدا ذلیل و رسوا کرے گا۔۔۔“وہ اسی کو بددعا دے رہی تھی جو اس کی اس حالت کاذمہ دار تھا۔
”شازی۔۔۔جو کچھ شان نے تمہارے ساتھ کیا۔۔۔وہ نہایت افسوس ناک ہے مگر اب تمہیں اپنی زندگی کی جنگ کر بہادروں کی طرح لڑنا ہے۔“وہ اس کی ہمت بڑھا رہی تھی۔
”اس کی بے وفائی نے فقط مجھے ہی برباد نہیں کیا بلکہ میرے ماں باپ کی بھی جان لے لی۔۔۔“اس کے زخم ابھی تک تازہ تھے اور آنکھیں نم۔۔۔
”اس نے ایسا کیوں کیا۔۔۔میں نہیں جانتی مگر۔۔۔وہ ایک دن بہت پچھتائے گا۔۔۔“
”اس کا پچھتاوہ میرے والدین کو واپس نہیں لا سکتا۔۔۔“اس کا لہجہ نفرت سے لبریز تھا۔
”اس کی باتوں میں وقت برباد نہ کرو۔۔۔تمہیں یہاں سے نکلنا ہے فوراً۔۔۔“سمیرہ نے پھر اسے سب یاد دلایا۔
ٹھیک ایک گھنٹے بعد وہ لاہور کی بس پر روانہ ہوگئی مگر اکیلی لڑکی اور لمبا سفر۔۔۔راستے میں بس رُکی تو اسے پیاس کی شدت کا اندازہ ہوا۔ اپنا ہینڈ بیگ ساتھ ہی لے کر وہ پانی پینے کے لئے بس سے اُتری۔ وہ پانی پی کر جیسے ہی مڑی تو آصف خان کے کچھ لوگوں نے اسے وہاں دیکھ لیا۔ آصف خان نہایت شاطر انسان تھے جنہوں نے ہر بس اسٹیشن پر اپنے کارندے کھڑے کروا دیے تھے۔
”اے لڑکی رُک۔۔۔“ان کے روکنے پر وہ بس کی بجائے کسی دوسری سمت دوڑ گئی۔
”پکڑو اسے۔۔۔“ایک آدمی نے سب کو ہدایت دی۔جس کے نتیجے میں سب لوگ شہزین احمد کے تعاقب میں دوڑ پڑے۔
وہ دوڑتی دوڑتی کسی ویران سڑک کی جانب نکل پڑی جہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔دوڑتے دوڑتے اچنک اس کا پاؤں ٹیڑھا ہوگیا جس کے نتیجے میں وہ گرنے ہی لگی تھی کہ کسی نے اسے سہارہ دے کر بچا لیا۔
”انسان کو قدم ہمیشہ مضبوط رکھنے چاہئے تا کہ ٹھوکروں سے بچ سکے۔۔۔“اسے سہارہ دینے والا لڑکا اس سے خُود سے دور کرتے ہوئے بولا۔
”میں وہ۔۔۔وہ لوگ میرا پیچھا کررہے ہیں۔۔۔“وہ گھبرا گھبرا کر پیچھے کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”کون لوگ؟“وہ لڑکا بھی بغور پچھلے راستے کو دیکھنے لگا۔
”اے لڑکی۔۔۔“اسی اثنا میں وہ لوگ بھی وہیں پہنچ گئے۔
”اوہ مائی گڈنیس۔۔ایک۔۔دو۔۔تین۔۔“وہ لڑکا ان کی تعداد گننے لگا۔
”لڑکی کو ہمارے ساتھ جانے دو۔۔۔“ان میں سے خطرناک تیوروں کے ساتھ پھنکارا تھا۔
”کیوں؟“وہ آستینیں چڑھاتے ہوئے بولا۔
”یہ ہمارے گاؤں کی لڑکی ہے۔۔۔“اس بار دوسرے نے جواب دیا۔
”مگر اس وقت یہ ملک شازمان ابراہیم کے علاقے میں ہے۔۔۔“ اس نے مسکرراتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
”ہم سے دشمنی تمہیں مہنگی پڑے گی۔۔۔“
”سستی چیزوں کا مجھے بھی کوئی شوق نہیں۔۔۔“اس شوخی سے مسکرایا تھا۔
”تیری تو۔۔۔“وہ لوگ بڑھے تو اسے مارنے کے لئے تھے مگر ایک کے بعد ایک ان سب کی ہی شامت آئی۔
”بولا تھا میں نے۔۔۔عزت سے مان جاؤ۔۔۔خوامخواہ میرا وقت برباد کر دیا۔۔۔“وہ سب زمین پر مار کھا کر پڑے تھے اور اب شازمان دوبارہ اپنی آستینیں درست کر رہا تھا۔
”اور میڈم آپ۔۔۔آپ بھی اپنا تعارف کروا دیں۔۔۔“وہ جیسے ہی شہزین کی طرف مُڑا تو وہ وہاں موجود نہ تھی۔
”کدھر گئی اب یہ لڑکی؟“وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
وہ وہاں سے دوبارہ بس سٹینڈ پر دوڑ آئی مگر اب وہاں کوئی بس موجود نہ تھی۔
”سنیے یہاں بس تھی؟“اس نے ایک سٹال پر موجود آدمی سے پوچھا۔
”بس تو پانچ منٹ پہلے نکل گئی۔۔۔“
”کیا؟“ایک نئی مصیبت۔۔۔
”کہاں جاؤں اب میں؟“وہ چلتے چلتے سوچ رہی تھی‘اوّل تو اس کا سارا سامان بس میں رہ گیا تھا۔ایک ہینڈبیگ ہی اس کے پاس تھا جس میں تمام رقم اور شبانہ بیگم کے بھائی کا پتہ تھا۔
”کچھ مدد چاہئے میڈم۔۔۔؟“دو لڑکے اس کے پاس آئے۔
”نہیں۔۔۔“وہ نظریں چرا کر آگے چلتی بنی۔
”ارے میڈم۔۔۔کہاں اکیلی جارہی ہیں آپ؟“وہ لوگ اس کا پیچھا کرنے لگے تب ہی ایک گاڑی ٹھیک ان کے آگے آکر رُکی۔
”ناٹ اگین۔۔۔“گاڑی سے نکلتے شازمان نے اسے پہچان لیا۔
”تم نے کیا آج میرے ہاتھوں کسی کا قتل کروانا ہے؟“وہ شہزین سے مخاطب ہوا۔
”شازمان صاحب۔۔۔“وہ دونوں لڑکے سہم گئے۔
”ہاں جناب۔۔۔چلو بھاگو یہاں سے۔۔۔“اس کا حکم دینا تھاکہ وہ دونوں ہی اُڑن چھو ہوگئے۔
”اور آپ۔۔۔خدا کے لئے گاڑی میں بیٹھیں۔۔۔“اس نے شہزین پر حکم صادر کیا۔
”کیوں؟“اس نے صاف انکار کیا۔
”کیونکہ آپ اکیلی ہیں۔۔۔اور وہ بھی ایک لڑکی۔۔۔اور میرے پاس بھی اتنا فضول وقت نہیں کہ بار بار آپ کو بچاتا پھروں۔۔۔“
”تو کس نے کہا ہے آپ سے کہ مجھے بچائیں۔۔۔؟“اس کا جتانا شہزین کو ناگوار گزرا۔
”ارے واہ۔۔۔نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔۔۔بجائے اس کے کہ آپ میری تعریف کریں۔۔۔آپ الٹا میری تضحیک کر رہی ہیں۔۔“ وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ شہزین کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش پھر سے برسنے لگی۔
”دیکھیں میڈم۔۔۔آپ یہاں کسی کو بھی نہیں جانتیں شائد۔۔۔اس لئے یہ میری عاجزانہ گزارش ہے کہ پلیز میرے ساتھ چلیں۔۔۔ آپ کو جہاں جانا ہے۔۔۔میں آپ کو وہاں چھوڑ دوں گا۔۔۔“اس مرتبہ وہ نرمی سے بولا۔
”جانتی تو میں آپ کو بھی نہیں۔۔۔“وہ یکدم بولی۔
”پر پہچانتی تو ہیں نا۔۔۔میں کم سے کم باقیوں جیسا تو نہیں ہوں۔۔۔ایک شریف گھر کا رہنے والاہوں۔۔۔ورنہ کیوں کرتا آپ کی مدد۔۔۔؟“وہ دلیل دینے لگا۔
”مجھے آپ پر تو نہیں مگر اپنے اللہ پر بھروسہ ہے۔۔۔کہ وہ میری حفاظت ضرور کرے گا۔۔۔“وہ اس کی گاڑی کی طرف بڑھی۔
”سٹائل ہے۔۔۔“اس کی بات پر وہ بربڑایا۔
”کچھ کہا آپ نے؟“وہ فوراً مُڑی۔
”میری یہ مجال۔۔۔“وہ اپنی گوگل پہنتا ہوا گاڑی میں جا بیٹھا۔
”میرا نام ملک شازمان ابراہیم ہے۔۔۔“گاڑی چلاتے ہوئے اس نے اپنا تعارف کروایا۔
”آپ کا نام؟“اسے مکمل لاتعلق دیکھ کر وہ پھر ہمکلام ہوا۔
”لاہور۔۔۔“
”جی۔۔۔نائس نیم۔۔۔“اسنے نچلا ہونٹ دانتوں تلے کچلا تھا۔
”مجھے لاہور جانا ہے۔۔۔“اس نے بات مکمل کی۔
”یہ آپ کا نام ہے؟“
”آپ کا دماغ خراب ہے؟میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ مجھے لاہور جانا ہے۔۔۔“اسے غُصہ آیا۔
”مگر میں نے تو آپ سے آپ کانام پوچھا تھا۔۔۔“اس کی سوئی ابھی ابھی وہیں اٹکی تھی۔
“میں کیوں بتاؤں آپ کو اپنا نام؟“
”کیونکہ میں نے آپ کو اپنا نام بتایا ہے۔۔۔“اس کا وہی مخصوص اور اپنایت سے بھرپور لہجہ تھا۔
”تو میں نے تو آپ سے آپ کا نام نہیں پوچھا تھا نا۔۔۔“وہ بدلحاظی پر اتر آئی۔
”مگر میں تو پوچھ رہاہوں۔۔۔“اس نے ایک گہری نظر اس لڑکی پر ڈالی جس کا دلکش سراپہ کسی کو بھی اپنی طرف مائل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔
”ویسے آپ سے ایک اور سوال کر سکتا ہوں؟“اس کے اس سوال پر بھی وہ خاموش تھی۔
”پاکستان میں لڑکی کی خاموشی کو ہمیشہ ہاں ہی سمجھا جاتا ہے۔۔۔“وہ شرارتی انداز میں بولا
”میرے ہاں یا ناں سے آپ کی زبان کو تالا لگنے سے رہا۔۔“وہ بے انتہائی تیکھے لہجے میں بولی۔
”آپ کا پیچھا کرنے والے لوگ کون ہیں؟۔۔۔دیکھیں ٹرسٹ می میں آپ کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہوں۔۔۔“
”وہ میرے تایاجان کے لوگ ہیں۔۔۔تایا جان میری شادی اپنے بیٹے سے کروانا چاہتے تھے۔۔۔“اسنے سچ ہی بتایا تھا۔
”اور آپ ہر فلمی کہانی کی طرح کسی اور سے محبت کرتی ہونگی۔۔۔اور پھر اس لڑکے کے کہنے پر آپ نے اپنا گھر اس کے لئے چھوڑ دیا ہوگا۔۔۔ اور اب وہ لڑکا آپ کو چھوڑ گیا۔۔۔ یہی بات ہے نا؟شیم آن یو میڈم۔۔۔اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہ ماجرہ ہے تو خُود آپ کو ان کے حوالے کرتا۔۔۔“وہ بغیر وقفے کے بولتا چلا گیا۔
”ایکسکیوز می مسٹر۔۔۔آپ ہوتے کون ہے مجھ پر غُصہ کرنے والے۔۔۔اور ایک بات مرد ذاد سے مجھے سخت نفرت ہے۔۔۔میں کسی لڑکے کی محبت میں اندھی ہو کر وہاں سے نہیں دوڑی بلکہ اپنی جان بچانے کے لئے دوڑی ہوں۔۔۔وہ لوگ شادی کے بعد مجھے مار کر میرے مرحوم والدین کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔۔۔اور یہ بات مجھے خُود میری تائی امی نے بتائی۔۔۔اور انہیں کی مدد سے میں یہاں تک پہنچی۔۔۔وہ تو میری قسمت خراب تھی جومیری بس مِس ہوگئی ورنہ آپ کے ساتھ ایک لمحہ بھی مجھے گوارا نہیں۔۔۔“ اس نے بھی لمبا چورا جواب دیا۔
”اوہ آئی ایم سوری۔۔۔“وہ شرمندہ سا ہوگیا۔
”قصور آپ کا نہیں ہے۔۔یہ ہمارے معاشرے کا اصول ہے کہ بغیر کچھ جانے لڑکی پر سارا ملبہ گِرا دیا جاتا ہے۔۔۔“وہ پھر سے رونے لگی۔
”دیکھیں مس پلیز ڈونٹ کرائے۔۔۔“اس نے ڈش بورڈ پر رکھا ٹِشو پیپر اسے تھمایا۔
”آپ پلیز مجھے بتادیں کہ آپ کو لاہور میں جانا کہاں ہے؟“
”اس ایڈیس پر۔۔۔“اس نے ایک کاغذ اسے دکھایا۔
”رئیلی۔۔۔“وہ تھوڑا حیران ہوا۔
”جی۔۔۔“
”آپ کی تائی امی کا نام شبانہ ہے؟“یہ اسے کیسے معلوم تھا؟
”جی۔۔۔آپ کو کیسے پتہ؟“
”وہ میری سگی پھپھو ہیں۔۔اور یہ میرے گھر کا ایڈریس ہے۔۔۔“وہ مسکرایا۔
”کیا۔۔۔؟“وہ ہکی بکی رہ گئی۔
”جی۔۔۔ویسے پھپھو نے داداجان کو بتایاتو تھا کہ ایک مہمان ہمارے یہاں رہنے آرہی ہیں۔۔۔مگر مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ کی ایکشن سے بھرپور اینٹری کریں گی۔۔۔“وہ زیادہ دیر تک سنجیدہ رہنے والا انسان بالکل نہ تھا۔
”آپ بھی میری بے بسی کا تماشہ بنالیں۔۔۔“اسنے سانس کھینچتے ہوئے اہ بھری تھی۔
”اوہ آئی ایم سوری مِس۔۔۔“اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
”شہزین احمد۔۔۔“اس نے بالآ خر اپنا نام بتایا۔
”اوکے مس شہزین احمد۔۔۔اب یہ بندہ آپ کو آپ کی منزلِ مقصود تک لمحوں میں پہنچائے گا۔۔۔“وہ سیلوٹ کرتے ہوئے بولا۔
وہ لوگ لاہور پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ ملک ہاؤس میں داخل ہوتے ہی ایک پل کے لئے شہزین کی نظر ٹھہر سی گئی۔ وہ گھر کسی محل سے کم نہ تھا۔
”داداجان۔۔۔“وہ شہزین کے ہمراہ گھر کے وسیع ہال میں داخل ہوتے ہوئے انہیں پکارنے لگا اگلے ہی پل وہ سیڑھیوں سے اترتے وہاں آئے۔
”دیکھیں۔۔کون آیا ہے؟“اس نے شہزین کی طرف اشارہ کیا۔
”شازمان۔۔۔بیٹا۔۔یہ کیا تمہاری بیوی ہے؟آگے ہی تمہارے چھوٹے بھائی شاہنواز کے زخم مجھے تڑپا رہے ہیں اور اب تم نے بھی؟“وہ ناجانے کیا سمجھ بیٹھے۔
”ارے نہیں داداجان۔۔۔یہ شہزین احمد ہیں۔۔۔جنہیں پھپھو نے یہاں بھیجا ہے۔۔۔“اس نے آہستگی سے تعارف کروایا۔
”اچھا تب ہی میں بولوں کہ۔۔۔ یہ بچی شکل سے تو اچھی خاصی سمجھدار لگتی ہے۔۔تم سے کیسے متاثر ہوگئی۔۔۔“ان کے طنز پر شہزین تھوڑا مسکرائی۔
”کمال ہے۔۔۔آپ مسکراتی بھی ہیں۔۔۔؟“اسکے مسکرانے پر شازمان نے چوٹ کی تھی۔
”شازمان خبردار۔۔۔جوتم نے ہماری مہمان کو پریشان کیا۔۔۔“ داداجان نے فوراً اسے ٹوکا۔
”السلام علیکم۔۔۔“اس نے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔ بیٹھو۔۔۔آنے میں کوئی دشواری تو نہیں ہوئی۔۔۔؟“وہ جیسے ہی صوفے پر بیٹھی تو داداجان نے سوال کیا۔
”کوئی ایک دشواری ہو تو بتاؤں۔۔۔مت پوچھیے داداجان کون کون سی دشواری نہیں اُٹھانی پڑی انہیں۔۔۔اور ان کے ساتھ ساتھ مجھے بھی۔۔۔“اس کی جگہ شازمان انگرائی لیتے ہوئے بولا۔
”بس تھوڑی پرابلم ہوگئی تھی۔۔۔میری بس مس ہوگئی تھی مجھ سے۔۔۔“اس نے سلیقے سے جواب دیا۔
”چلو خُدا کا شکر ہے کہ تم صحیح سلامت یہاں پہنچ گئی۔۔۔“
”مس شہزین آپ کا سامان یقیناً بس میں ہی رہ گیا ہوگا۔۔۔اگر آپ کو بس نمبر یاد ہے تو مجھے بتادیں۔۔۔کل صبح میں آپ کا سارا سامان لے آؤں گا۔۔۔“اس کا دماغ شہزین کی سوچ سے بھی زیادہ تیز تھا۔
”یہ سب کام تو بعد میں ہوجائیں گے۔۔بیٹا آپ کو ملازمہ آپ کا کمرہ دکھا دے گی۔۔۔آپ کچھ دیر آرام کر لیں۔۔پھر رات کے کھانے پر ملاقات ہوگی۔۔۔“داداجان نے مشہورہ دیا۔
”چلیں میڈم۔۔۔“ملازمہ اس کے پاس آئی اور وہ ملازمہ کے ہمراہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”السلام علیکم۔۔۔“وہ صبح جیسے ہی اپنے کمرے سے نکلی شازمان اس کے سامان کے ہمراہ وہاں موجود تھا۔
”وعلیکم السلام۔۔۔“
”یہ آپ کا سامان۔۔۔“اس نے سوٹ کیس اس کے سامنے رکھا۔
”تھینکس۔۔۔“اس نے شکریہ ادا کیا۔
”کیا کریں آپ ہماری پھپھی اور داداجان کی مہمان ہیں۔۔۔اس لئے آپ کا خیال رکھنا ہم پر لازم ہے۔۔۔خیر مجھے آفس کے لئے دیر ہورہی ہے۔۔خدا حافظ۔۔۔“ وہ اپنا کوٹ درست کرتا وہاں سے چلا گیا۔
وہ ناشتے کے میز پر پہنچی تو صرف دادا جان وہاں موجود تھے۔بقول شبانہ بیگم کے ان کی بھاوج سیدہ بیگم حیات تھیں مگر یہاں آنے کے بعد شہزین کا ان سے ابھی تک سامنا نہ ہوا تھا۔
”السلام علیکم۔۔۔“اس نے داداجان کو سلام کیا اور کرسی پر بیٹھی۔
”وعلیکم السلام۔۔۔بیٹا تمہاری تائی امی کو تم نے بتادیا کہ تم یہاں پہنچ گئی ہو؟“وہ فکرمندی سے طلب کرنے لگے۔
”جی بتادیا۔۔۔“اسنے پلیٹ میں ٹوسٹ رکھتے ہوئے آہستگی سے جواب دیا
”کچھ کھاؤ بھی بیٹا۔۔۔۔“انہوں لوازمات کی ٹرے اسکے سامنے رکھی۔
”شازمان نے رات کو مجھے بتایا کہ تم اسے ہمارے گاؤں میں ملی تھی اور تمہارے تاتا کے لوگ تمہارا پیچھا کر رہے تھے۔۔۔برا مت منانا شازمان مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتا۔۔۔
مجھے بہت خُوشی ہے کہ میری بیٹی ان لوگوں جیسی ظالم نہیں ہے۔۔۔اس نے تمہارا ساتھ دیا۔۔۔“دادا جان نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تو اسکی حلق سے نوالہ بمشکل اترا تھا۔
”مجھے بہر شرمندگی ہورہی ہے کہ بے وجہ آپ پر بوجھ بن رہی ہوں۔۔۔“اسنے شرمساری سے اعتراف کیا تھا۔
”ہرگز نہیں بیٹا۔۔۔جس طرح شازمان میرا پوتا مجھے عزیز ہے ویسے ہی تم بھی۔۔۔اور اب تم بھی مجھے داداجان ہی بلانا۔۔ میری کوئی پوتی نہیں تھی۔۔۔اس لئے میری خواہش ہے کہ تم مجھے داداجان بُلاؤ۔۔۔“وہ بے انتہا شفقت سے بولے۔
”جی داداجان۔۔۔“
”شاباش بیٹا۔۔۔ویسے تمہاری تائی کچھ دنوں تک یہاں آجائے گی۔۔۔ بہت فکرمند تھی تمہارے لئے۔۔۔“وہ بھی اسکی تابعداری پر خوش ہوئے۔
”انہوں نے جو میرے لئے کیا۔۔۔وہ ناقابلِ فراموش ہے۔۔۔“وہ بہت ممنون تھی۔
”نیکی کا صِلہ تو خُدا پاک ہی دے سکتا ہے۔۔۔“چائے کا آخری گھونٹ بھرتے انہوں نے اپنی بات مکمل کی۔
ایک طرف وہ پرسکون اور مطمئن زندگی گزار رہی تھی دوسری طرف آصف خان اور پورے خاندان کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی۔ شکست‘بدنامی‘نااہلی ناجانے کتنے زخم ملے تھے انہیں شہزین احمد کے مفرور ہو جانے کے بعد! بلال تو اب بھی اسے اپنا بنانے کا خواب دیکھ کر بیٹھا مگر آصف خان تو اسے جان سے مارنے کا تہیہ کئے بیٹھے تھے۔
”بھائی صاحب ناک کٹ گئی ہے ہماری۔۔۔“کریم خان گھر کے لان میں بیٹھے اپنی عزت کے جنازے پر ماتم کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
”اس شہزین نے ہماری برسوں کی عزت اور رعب کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔۔۔“آصف خان سگار کا دھواں اُڑاتے ہوئے بولے۔
”اسلام آباد میں تو وہ کہیں نہیں ملی۔۔۔جن لوگوں نے اسے دیکھا تھا اور اس کا پیچھا کیا تھا۔۔۔انہوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ تھی۔۔۔“ بلال وہاں آتے ہوئے بولا۔
”یعنی میرا شک درست ہے۔۔وہ بدذات اب بھی اس لڑکے سے رابطے میں ہے۔۔۔“آصف خان مزیذ برہم ہوئے۔
”ایک بار وہ لڑکا مل جائے۔۔۔خدا کی قسم ایسی خوفناک موت دوں گا اسے۔۔۔کہ دنیا دیکھے گی۔۔۔“بلال کی آنکھوں میں انتقام کی پٹی بندھ گئی تھی۔
وہ فجر پڑھنے کے بعد چھت پر آ گئی۔ سحر کی ٹھنڈی اور مہکتی فزا اسے بہت پسند تھی۔وہاں کھڑے وہ اب یہی سوچ رہی تھی کہ اب اس کا اگلا قدم کیا ہونا چاہئے؟ساری عمر وہ ملک خاندان پر بوجھ بن کر نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔
”مجھے اب کچھ سوچنا پڑے گا۔۔یہاں بھلے ہی مجھے پناہ مل گئی مگر۔۔۔یہ میرا مستقل ٹھکانہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ مجھے اپنے قدموں پر خُود کھڑا ہونا پڑے گا۔۔۔ایک انچاہی زندگی ہی اگر میرا مقدر ہے تو مجھے اس سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔۔۔“وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔
”اوہ مائی گڈنیس۔۔۔“اسی دم شازمان بھی وہاں آگیا۔
”السلام علیکم۔۔۔مس شہزین احمد۔۔۔“اس کے برابر میں کچھ فاصلہ اختیار کئے وہ بھی ا کھڑا ہوا تھا۔
”وعلیکم السلام۔۔۔“اس نے اُکھڑ سے لہجے میں ہی جواب دیا۔
”مجھے نہیں پتہ تھا کہ آج میری صبح کا آغاز اتنا حسین ہو گا۔۔۔“
”کیا مطلب۔۔۔؟“
”مطلب یہ کہ آج موسم کتنا اچھا ہے۔۔۔کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہیں کہ میری صبح کو حُسن آپ کی موجودگی نے عطا کیا ہے؟“اس نے فوراً بات پلٹی۔
”دیکھیے مسٹر شازمان۔۔آپ مجھے جیسا سمجھتے ہیں میں ویسی نہیں ہوں۔۔۔میں یہاں شدید مجبوری کے باعث ٹھہری ہوں۔۔اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ میں ویسی لڑکی ہوں۔“
وہ کسی لحاظ کے بغیر اپنی بات بول گئی۔
”اوہ مس شہزین آئی تھنک آپ مائینڈ کر گئیں۔۔۔دراصل آپ بہت پریشان رہتی ہیں۔۔اس لئے میں نے سوچا کہ آپ سے بات کروں۔۔۔شائد آپ کا دل ہلکا ہوجائے۔۔۔ یقین کریں۔۔۔میں ایسا انسان نہیں جوکسی لڑکی کی مجبوری کا فائدہ اُٹھائے۔۔۔میں نے آپ کو جتنا بھی پریشان کیا اس کے لئے ایکسٹریملی سوری۔۔۔اب میں بے وجہ آپ کے سامنے بھی نہیں آؤں گا۔۔۔آئی پرامس۔۔۔“وہ معذرت کرتا وہاں سے چلا گیا۔
صبح وہ ناشتے کے لئے پہنچی تو شازمان بھی وہاں موجود تھا۔ اسے آتا دیکھ کر وہ فوراً ہی اُٹھ گیا۔
”ارے شازمان۔۔۔ناشتہ تو کرو بیٹا۔۔۔“داداجان نے اسے روکا۔
”نہیں داداجان بس میں نے کرلیا ہے۔۔۔ خُدا حافظ۔۔۔“وہ اتنا کہتا چلا گیا۔
اسے وہاں رُکے تقریباً دو ہفتے گزر چکے تھے مگر اس دن کے بعد شازمان اس کے سامنے آنے سے گریز ہی کرتا‘وہ واقعی اپنی زبان کا پابند تھا۔شہزین کے لئے یہ بات اتنی اہم نہ تھی۔اگر اس کے لئے کچھ اہم تھا تو اس کا مستقبل جس کے سلسلے میں اس نے ایک فیصلہ کیا تھا۔
”داداجان۔۔۔“وہ سٹڈی میں بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے کہ شہزین نے دستک دی
”آجاؤ بیٹا۔۔۔“انہوں نے کتاب سے نظر اُٹھا کر جواب دیا۔
”داداجان مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔۔۔“وہ تھوڑا جھجھک رہی تھی۔
”جو بات کرنی ہے۔۔۔بیٹھ کر کرو بیٹا۔۔۔“انہوں نے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
”داداجان۔۔۔مجھے یہاں آئے دو ہفتے گزر گئے ہیں۔۔۔کب تک میں آپ لوگوں پر بوجھ بنی رہوں گی؟“اس نے بات شروع کی۔
”بیٹیاں کبھی والدین پر بوجھ نہیں ہوتی بیٹا۔۔۔“وہ اسے دل سے اپنے خاندان کا فرد تسلیم کر چلے تھے۔
”پر داداجان۔۔ میری ایک خواہش ہے۔۔۔کہ میں کوئی ملازمت کرلوں۔۔۔“وہ جھجھکتے ہوئے بولی تھی
”کیوں بیٹا۔۔۔کیا تمہیں یہاں کسی چیزکی کمی ہے؟“وہ تھوڑے حیران ہوئے۔
”نہیں داداجان۔۔۔بالکل نہیں مگر مجھے اپنے مستقبل کے بارے میں بھی تو سوچنا ہے۔۔۔میں ساری عمر تو یہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔“اس کی بات پر وہ خاموش ہوگئے۔
”تمہیں یہاں تمہاری تائی نے ہماری ذمہ داری بنا کر بھیجا ہے بیٹا۔۔۔“
”میں نے ان سے بھی اس بارے میں بات کی ہے داداجان۔۔اور انہوں نے یہی کہا ہے کہ اگر آپ اجازت دے دیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں۔۔۔“
”جب شبانہ نے اجازت دے دی تو پھر کیسا اعتراض۔۔۔؟ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ جیسی تمہاری مرضی۔۔۔“وہ آخر کار مان گئے۔
”شکریہ داداجان۔۔۔“وہ بہت خُوش ہوئی۔
”مگر میری کچھ شرائط ہیں۔۔۔تمہیں جہاں بھی ملازمت کرنی ہے وہاں تمہیں چھوڑنے اور لانے کی ذمہ داری شازمان کی ہوگی۔۔۔اس کے علاوہ مجھے کسی پر اعتماد نہیں۔۔۔“ ان کی شرط بھی عجیب ہی تھی۔
”جی داداجان۔۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔“اس نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی۔
وہ لان میں بیٹھی اخبار سے ملازمت تلاش کررہی تھی۔جو ملازمت اس کے لئے قابلِ قبول تھی اسے پین سے نشان لگا رہی تھی۔ اسی دوران شازمان کی گاڑی گھر میں داخل ہوئی۔وہ ہاتھ میں کوٹ لٹکائے اس کے پاس سے گزرا تو اس نے عقب سے اسے پکارا۔
”سنیے۔۔۔“آج اس کے انداز میں نہ تو لاتعلقی تھی اور نہ ہی اجنبیت مگر اس کے باوجود وہ نہ رُکا۔
”ملک شازمان ابراہیم۔۔۔“اس نے کھڑے ہوکر اس کا پورا نام پکارا۔
”ابھی ابھی آپ نے مجھے پکارا؟“وہ مُڑ کر اداکاری دکھانے لگا۔
”اب اس درخت کانام تو شازمان ہو نہیں سکتا۔۔۔“اس نے شازمان کے قریب موجود درخت کی طرف اشارہ کیا۔
”مجھے بے وجہ تو آپ یاد کریں گی نہیں۔۔۔یقینا کوئی کام ہی ہوگا۔۔“ اس نے بھی طنز کا جواب طنز سے دیا۔
”آپ پلیز دو منٹ بیٹھ سکتے ہیں میرے ساتھ۔۔۔“
”اوکے۔۔۔نوپرابلم۔۔۔“وہ قدم اُٹھاتا اس کی جانب بڑھا۔
”آپ پلیز مجھے کل اس دفتر لے جا سکتے ہیں۔۔۔“وہ بیٹھا تو شہزین نے اسے اخبار سے ایک دفتر کا پتہ دکھایا۔
”کیوں؟“اسنے پہلے پتہ دیکھا پھر نظر اٹھا کر شہزین کا چہرہ دیکھا۔
”کل یہاں انٹرویو ہے۔۔۔“
ؔؔ”آپ جاب کرنا چاہتی ہیں؟“اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”جی۔۔۔اور داداجان نے بھی مجھے اجازت دے دی ہے۔۔۔“اس نے مکمل وضاحت کی۔
”آپ کی تعلیم کتنی ہے؟“وہاں مطلوبہ تعلیم کو پڑھنے کے بعد اسنے شہزین سے سوال کیا۔
”بی۔کام۔۔۔“اس کاجواب دینا تھا اور شازمان ہنس ہنس کر پاگل ہوگیا۔
”آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟“اسے یہ ہنسی اپنی تضحیک سے کم نہ لگی تھی۔
”اس جاب کے لئے آپ کی تعلیم کم ازکم۔ایم بی اے ہونی چاہئے۔۔۔“ اس نے ہنستے ہنستے ہی جواب دیا۔
”میں ایم۔بی۔اے ہی کر ہی تھی۔۔۔مگر پھر پاپا ماما کی ڈیٹھ۔۔۔“ وہ بولتے بولتے خاموش سی ہوگئی۔
”اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔میں آپ کو لے چلوں گا مگر یہ جو حسنین سکندر کی کمپنی ہے۔۔۔یہاں جاب ملنا بہت مشکل کام ہے۔۔“وہ اب اس کا مزاج بدلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”کیوں؟“
”کافی۔۔۔سخت مزاج ہیں وہاں کامالک۔۔۔“اس کا انداز خبردار کرنے والا تھا۔
”کوشش کرنے میں تو کوئی حرج نہیں۔۔۔“اسنے پرامیدی کا مظاہرہ کیا۔
”چلیں ایک کام کرتے ہیں۔۔۔میں آپ کا انٹرویو لیتا ہوں۔۔اگر آپ پاس ہوگئیں۔۔۔تو انشااللہ کل وہ بھی آپ کو پاس کردے گا۔۔۔“
”ٹھیک ہے۔۔۔“اس نے بھی کبھی کوئی انٹرویو نہیں دیاتھا اس لئے سوچا کہ شازمان کے ساتھ ہی ایک مشق کر لے تاکہ کل تھوڑا اعتماد بحال ہوسکے۔
”مس شہزین احمد۔۔۔آپ کی عمر کتنی ہے؟“ وہ سٹائل میں بیٹھ گیا۔
”میری عمر کا اس جاب سے کیا تعلق؟“اسے سوال بے تُکا لگا۔
”اوف اوہ۔۔۔یہاں ایسے ہی سوال پوچھے جاتے ہیں مس شہزین۔۔۔“
”بائیس سال۔۔۔۔“
”آپ کی تعلیم تو اس ملازمت کے لئے ناکافی ہے۔۔۔“
”سر میری تعلیم بھلے ہی ناکافی ہے مگر۔۔۔مجھے موقع ملے گا تو میں اس کمپنی کو کبھی مایوس نہیں کروں گی۔۔۔ اگر کبھی بھی میری طرف سے کوئی بھی شکایت کا موقع آپ کو مل تو میں خُود یہ ملازمت چھوڑ دوں گی۔۔۔پر یہ میرا یقین ہے کہ آپ کو کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔۔۔“
”چلیں۔۔۔آپ کی تعلیم کے بل پر نہ سہی مگر آپ کے یقین اور کونفیڈینس کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں آپ کو یہ ملازمت دیتاہوں۔۔۔“اس کا حوصلہ بڑھانے کے لئے شازمان نے انٹرویو کے نام پر مزاق ہی کیا تھا۔
”تھینکس سر۔۔۔“
”مبارک ہو مس شہزین۔۔۔انشاءاللہ کل آپ کا انٹرویو لینے والا آپ کو جاب ضرور دے گا۔۔۔“وہ جانے کے لئے کھڑا ہوا۔
”تھینکس شازمان۔۔۔“اس نے شکریہ اداکیا۔
”تھینکس تب بولئے گا۔۔۔جب آ پ کو جاب مل جائے۔۔۔“اس نے اپنا کوٹ کندھے پر لٹکایا۔
”اگر مجھے جاب مل گئی تو میں آپ کو ٹریٹ دوں گی۔۔۔“اس نے پہلی بار مسکرا کر اس سے بات کی تھی۔
”وہ تو دیکھ لیں گے۔۔۔“
وہ اگلی صبح ڈرائیور کے ساتھ آفس پہنچی کیونکہ شازمان نے عین وقت پر کسی ضروری میٹنگ کا بہانہ بنا کر جان بچالی۔
”مے آئی کم اِن سر۔۔۔“وہ دروازے پر کھڑے کھڑے بولی۔
”کم اِن۔۔۔“وہ منہ کے سامنے فائیل رکھے مخاطب ہوا۔
”بیٹھیے۔۔۔“اس کا منہ ابھی بھی چھپا ہوا تھا مگر شہزین کو اس کی آواز جانی پہچانی لگی۔
”ہاں تو مس شہزین احمد۔۔۔اب کب ٹریٹ دے رہی ہیں آپ مجھے؟“منہ سے فائیل ہٹاتے ہوئے شازمان نے اسے چونکا دیا۔
”آپ۔۔۔“اسے یقین نہ آیا۔
”جی میں۔۔۔“اس نے فائیل میز پر رکھ دی۔
”یہ کمپنی تو حسنین سکندر کی ہے۔۔۔“
”حسنین سکندر میرے داداجان ہیں۔۔۔اور اب یہاں کا چارج میں سنبھالتا ہوں۔۔۔آپ کا انٹرویوتو کل میں لے ہی چکا ہوں۔۔۔ اس لئے آپ کی جاب کنفرم ہے۔۔۔“ وہ مسکرایا جبکہ شہزین ابھی بھی ہکی بکی تھی۔
”ایک بات اور۔۔۔ کل جو آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے انہیں سے متاثر ہوکر میں آپ کو یہ جاب دے رہاہوں۔۔اور اپنے کام کے معاملے میں۔۔۔میں کبھی کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔۔۔“ وہ تھوڑی سنجیدگی سے بولا۔
”اوکے سر۔۔۔“اس نے بھی چیلنج قبول کیا۔
”اب آپ جاسکتی ہیں۔۔۔باہر میری سیکرٹری موجود ہے۔۔۔وہ آپ کو آپ کا کیبن دکھا دے گی۔۔۔“اس کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے۔
”اوکے سر۔۔۔“وہ کمرے سے نکل گئی۔
وہ شام کو گھر واپس آئی تو بے حد خوش تھی حلانکہ واپسی پر اسے شازمان کی صحبت بھی جھیلنی پڑی مگر اس خوشی کے آگے یہ بات بھی اس کے لئے بے معنی ہی تھی۔
”آؤ شہزین بیٹا۔۔۔“داداجان ہال میں شازمان کی والدہ کے ساتھ بیٹھے تھے جو آج ہی لندن سے لوٹی تھیں۔
”السلام علیکم۔۔۔“اس نے سب سے پہلے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام۔۔۔“دونوں نے ساتھ میں یہ جواب دیا۔
”شہزین یہ میری بہو اورشازمان کی ماں ہیں سیدہ۔۔۔“انہوں نے تعارف کروایا۔
”یہاں آؤ بیٹا۔۔۔میرے پاس بیٹھو۔۔۔“سیدہ بیگم نے اسے اپنے پہلو میں بٹھایا۔
”شبانہ سے بات ہوئی تھی میری تمہارے بارے میں۔۔۔ماشااللہ جتنا اس نے کہا تھا۔۔اس سے زیادہ خوبصورت ہوتم۔۔۔“وہ اس کی بلائیں لینے لگیں۔
”میری پیاری پیاری مما آگئیں۔۔۔“شازمان دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔
”تمہیں تو میری یاد آئی نہیں۔۔۔اس لئے میں ہی چلی آئی۔۔۔“ وہ ان کے قریب آکر بیٹھا تو انہوں نے گِلا کیا۔
”شاہنواز کیسا ہے؟“اس کا سوال پوچھنا تھا کہ داداجان کا مزاج ہی بگڑ گیا۔
”ٹھیک ہے وہ۔۔۔“سیدہ بیگم نے خشک سے لہجے میں جواب دیا جس پر شہزین بھی تھوڑی حیران ہوئی۔
رات کے کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی آئی تب ہی خیال آیا کہ سمیرہ کو فون کرلے۔یہاں آئے اسے اتنے دن گزر گئے تھے۔تائی سے تو اس کی دو تین بار بات ہوئی تھی مگر سمیرہ سے اس نے کوئی رابطہ نہ کیا تھا۔
”ہیلو۔۔۔السلام علیکم۔۔۔“
”وعلیکم السلام۔۔۔شازی۔۔۔“اس نے شہزین کی آواز پہچان لی۔
”ہاں۔۔۔کیسی ہو؟“
”میں تو ٹھیک ہوں۔۔تم سناؤ تمہارے رشتہ دار تو تم تک نہیں پہنچے۔۔۔؟“وہ خاصی سہمی ہوئی تھی۔
”نہیں۔۔۔کیاوہاں آئے وہ لوگ؟“اسے بھی خوف نے اگھیرا تھا۔
”ہاں۔۔اور سب فرینڈز سے تمہارے بارے میں پوچھا۔۔۔وہ کسی شازمان کے بارے میں بھی پوچھ رہے تھے۔۔۔“
”کیا۔۔شازمان۔۔۔“اس کا نام سنتے ہی شہزین کی ہوائیاں اڑی تھیں۔
”ہاں۔۔۔کہہ رہے تھے تم اسی کے ساتھ بھاگی ہو۔۔۔کیا تم جانتی ہو اسے؟“سمیرہ کو بھی دال میں کچھ کالا لگا تھا۔
”سمیرہ۔۔دراصل۔۔۔“اس نے اوّل تا آخر ساری بات سمیرہ کو بتائی۔
”اوہ۔۔۔اب تم پلیز محتاط رہنا۔۔۔اور شازمان کو بھی سمجھانا کہ اسلام آباد کی طرف نہ آئے۔۔۔تمہارے ساتھ اس کا نام منسوب کر دیا ہے ان لوگوں نے۔۔۔“سمیرہ نے اسے خبردار کیا تھا۔
”ہاں۔۔ میں سمجھا دوں گی۔۔۔“مزید دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے بعد اسنے رابطہ منقطع کردیا تھا۔
کال بند ہونے کے بعد وہ مزید پریشان ہوگئی۔اسنے کال تو دل ہلکا کرنے کے لئے کی تھی مگر سمیرہ کی معلومات نے اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہی کردیا تھا۔ شازمان کی جان بھی اب خطرے میں تھی جس کا سبب شہزین احمد تھی۔اگلی صبح وہ اُٹھی تو سوچا سب سے پہلے شازمان سے بات کرے۔آ ج چونکہ اتوار تھا تو وہ یقیناً گھر پر ہی موجود تھا
”شازمان۔۔۔“وہ لان میں آئی تو شازمان اخبار پڑھ رہا تھا۔
”جی۔۔۔“
”مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔“اسنے کتراتے ہوئے گفتگو کا اغاز کیا۔
”اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ بے وجہ تو مجھے یاد کرنے سے رہیں۔۔۔“
”میرے تایاجان۔۔۔“وہ بیٹھتے بیٹھتے بات شروع کررہی تھی۔
”اور میرے پھپھا۔۔۔جنہیں میں نے آج تک دیکھا بھی نہیں۔۔۔“اسنے مزاحیہ انداز میں شہزین کی بات کاٹی تھی۔
”وہ آپ کو دھونڈھ رہے ہیں۔۔۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ میں آپ کے بہکاوے میں آکر گھر سے بھاگی ہوں۔۔۔اس لئے وہ آپ کو جان سے مارنا چاہتے ہیں۔۔۔“ اس نے ایک ہی سانس میں سب کہہ دیا۔
’ؔ’استغفراللہ۔۔۔“وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگا۔
”میں مزاق نہیں کررہی۔۔۔“وہ اسے یقین دلانے لگی۔
”چلیں۔۔۔سوچنے دیں انہیں۔۔۔جوبھی وہ سوچتے ہیں۔۔۔مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔“وہ بے فکری سے دوبارہ اخبار پڑھنے لگا۔
”آپ پلیز۔۔اسلام آباد جانے سے گریز کیجیے گا۔۔وہ لوگ ہم دونوں کو وہاں ڈھونڈھ رہے ہیں۔۔۔“
”اوّل تو مجھے اسلام آباد میں کوئی کام ہے نہیں۔۔۔اور دوم اگر کبھی مجھے وہاں جانا پر بھی گیا تو آپ کے تایاجان کے خوف سے میں جانا ترک نہیں کروں گا۔۔۔“وہ دلیری سے بولا۔
”میراکام آپ کو خبر دار کرنا تھا۔۔۔آگے آپ کی مرضی۔۔۔“وہ مایوس قدم اُٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔لان سے وہ سیدھا کچن میں آگئی۔
”ارے شہزین کچھ چاہئے تھاتو ملازم سے کہہ دیتی۔۔۔“ سیدہ بیگم وہیں موجود تھی۔
”نہیں مجھے کوئی کام نہیں تھا۔۔۔میں نے سوچا آپ کی مدد کردوں۔۔۔“وہ سامنے رکھی سبزیوں کی طرف متوجہ ہوئی۔
”تمہیں ککنگ آتی ہے؟“انہوں نے تعجب سے پوچھا۔
”جی۔۔۔“
”کمال ہے۔۔آج کل کی بچیوں کویہ سب بیکار کے کا م لگتے ہیں۔۔۔“انکے ذہن میں فوراً ہونے والی بہو نتاشہ کا خیال آیا تھا۔
”میری امی بہت اچھی ککنگ کرتی تھیں۔۔۔اور انہیں دیکھ دیکھ کر مجھے بھی ککنگ کرنے کا بہت شوق ہوتا تھا۔۔۔اس لئے جب اسکول سے فری ہوئی تو ان سے سب کچھ بنانا سیکھ لیا۔۔۔“اسنے تفصیلاً بتایا۔
”واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔“
”لائیں۔۔۔ میں کر دیتی ہوں۔۔۔“اس نے ان کے ہاتھ سے بقیہ سبزیاں بھی لے لیں۔
دوپہر کے کھانے پر گھر کے سب افراد ہی موجود تھے تب ہی سیدہ بیگم نے بتایا کہ کھانا شہزین نے تیار کیا ہے جس پر داداجان نے کھانے کی بہت تعریف کی۔
”ماشااللہ تمہارے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے بیٹا۔۔۔اور یہ رہا تمہارا انعام۔۔۔“انہوں نے جیب سے پیسے نکال کر اسے دیے۔
”داداجان۔۔اس کی کیا ضرورت ہے۔۔؟“
”اوف اوہ بیٹا۔۔۔بڑے جب کوئی انعام دیں تو انکار نہیں کرتے۔۔“سیدہ بیگم نے بھی اسے سمجھایا
”شکریہ۔۔“
”کمال ہے داداجان۔۔۔مجھے تو کبھی آپ نے کوئی انعام دیا نہیں۔۔۔“شازمان تھوڑی بناوٹی افسردگی کے ساتھ بولا۔
”تو تم نے ہمیں کون سی خوشی دی ہے۔۔۔؟اٹھائیس سال کے ہوگئے ہو مگر شادی کی بات پر کان نہیں دھرتے۔۔۔“
”پر۔۔اب تمہاری منمانی نہیں چلے گی۔۔۔تمہارے چچاجان نے کہہ دیا ہے کہ اب ان کی بیٹی تمہاری ہاں کے انتظار میں مزید نہیں بیٹھے گی۔۔۔ تین سال ہوگئے تمہاری منگنی کو مگر تم ہو کہ ٹالتے ہی جارہے ہو۔۔۔“سیدہ بیگم بھی اسے سنانے لگیں۔
”تو کون کہہ رہا ہے اسے بیٹھے رہنے کا؟میری بلا سے وہ کھڑی ہوجائے۔۔۔“وہ بلا کی بے فکری سے بولا۔
”شازمان۔۔۔بس اب میں نے فیصلہ لے لیا ہے۔۔۔بہت جلد تمہارا اور نتاشہ کا نکاح پڑھوا دیں گے ہم لوگ۔۔۔“داداجان تحکم لہجے میں بولے۔
”جو آپ کی مرضی۔۔۔منگنی بھلا میرے کہنے پر ہوئی تھی جو شادی کے لئے میری رضامندی پوچھی جا رہی ہے۔۔۔“وہ بے نیازی سے اُٹھ کر چلا گیا جبکہ شہزین بھی اُٹھ کر پلیٹے سمیٹنے لگی۔
”اس کا رویہ مجھے کچھ خائف کررہا ہے بہو۔۔۔“شہزین کے وہاں سے چلے جانے کے بعد داداجان نے خدشے کا اظہار کیا۔
”بابا آپ کو تو معلوم ہے۔۔۔مزاق کی عادت ہے شازمان کو۔۔۔کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے یہ۔۔۔“سیدہ بیگم نے یقین دہانی کرائی۔
اسے ملازمت کرتے ہوئے ایک ماہ گزر چکاتھا اور آج جب پہلی تنخواہ ملی تو مرحوم والدین شدت سے آئے تھے۔ اپنے ہی کرب میں ڈوبی وہ شازمان کے ہمراہ گھر واپس جارہی تھی تب ہی اس نے بات چیت کا آغاز کیا۔
”مس شہزین۔۔۔۔مجھے لگتا نہیں تھا کہ آپ اتنی لالچی ہونگی۔۔۔“اسنے سٹئیرنگ ویل پر دونوں ہاتھ رکھے شکوہ کن انداز میں کہا۔
”کیوں۔۔۔میں نے ایساکیا کردیا؟“اسے بات سمجھ نہ آئی۔
”آپ نے کبھی کسی سے وعدہ کیا تھا کہ جاب ملنے کے بعد کسی کو ٹریٹ دیں گی۔۔۔“وہ ڈرامائی انداز میں بولا۔
”اوہ۔۔۔میں تو بھول ہی گئی۔۔۔۔“اسے اپنا وعدہ یاد آیا۔
”مگر میں نہیں بھولا۔۔۔وہ کیا شعر ہے۔۔۔تمہیں یاد ہوکہ نا یاد ہو۔۔۔“
”مجھے یاد ہے ذرا ذرا۔۔۔“اس نے شعر مکمل کیا۔
”رائٹ۔۔۔“وہ مسکرایا تو بائیں گال پر گہرا دیمپل پڑا تھا۔
”چلیں آپ گاڑی کسی ریسٹورانٹ کی طرف لے جائیں۔۔۔آج آپ کی ٹریٹ پکی۔۔۔“اسکا مزاج بھی اسی دم خوشگوار ہوا تھا۔
”رہنے دیں۔۔۔میں بس مزاق کررہا تھا۔۔۔“اسنے بس مزاق کے لئے یہ بات کہی تھی جسے وہ سنجیدگی سے سچ مان چکی تھی۔
”مگر میں نے تو وعدہ کیا تھا۔۔۔اور میں خان فیملی سے ہوں۔ کبھی بھی وعدے سے مکرنا نہیں سیکھا میں نے۔۔۔۔“اسنے گویا بحث ہی ختم کردی تھی۔
”چلیں۔۔۔بات اگر آپ کے وعدے کی آگئی ہے تو چلتے ہیں۔“اس نے گاڑی ایک ریسٹورانٹ کی طرف موڑلی۔
وہ شازمان کی پسندیدہ جگہ تھی۔وہ جب بھی اداس یا خوش ہوتا یہیں آکر بیٹھ جایا کرتا تھا۔چھوٹے بھائی کے بیرون ملک جانے سے قبل وہ لوگ دفتر سے واپسی پر ہمیشہ یہیں کا رخ کرتے تھے تبھی یہ جگہ اسکے پسندیدہ ترین مقامات میں سے ایک تھی۔
”تو کیا چاہئے آپ کو؟“وہ مینیو چارٹ دیکھ رہا تھا تب ہی شہزین سے سوال کیا۔
”مجھے زندگی نے بہت کچھ بلکہ سب کچھ ہی دے دیا ہے۔۔۔لہٰذہ مجھے کوئی حسرت نہیں۔۔۔“اس نے مینیو چارٹ واپس میز پر پھینکا۔
”تو پھر یہاں کیوں آئے ہیں ہم؟“وہ الجھ سی گئی۔
”آپ کے کہنے پر آیا ہوں میں یہاں۔۔۔آپ ہی بتائیں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟“وہ خواہ مخواہ بات کو طول دے رہا تھا۔
”ہائے شازمان۔۔۔“اسی دوران نتاشہ بھی اپنے کچھ سہیلیوں کے ہمراہ وہاں آ ٹپکی۔
”تم یہاں۔۔۔“وہ تھوڑا چونکا۔
”تم توایسے گھبرا رہے ہو جیسے میں نے تمہاری کوئی چوری پکر لی ہو۔۔۔“وہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
”شہزین ان سے ملیں۔۔یہ میری چچازاد نتاشہ ہیں۔۔۔“
ؔؔ”اور ان کی منگیتر بھی ہوں۔۔۔“اس نے شازمان کی بات کاٹی۔
”نتاشہ تم نے توکہا تھا کہ تمہارے منگیتر کے پاس ٹائم نہیں ہوتا گھومنے پھرنے کا۔۔۔“نتاشہ کی سہیلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
”ان کی مصروفیات صرف میرے لئے ہوتی ہیں۔۔۔دوسروں کے لئے تو یہ ہر دم فری ہوتے ہیں۔۔۔“وہ خاصے استہزایہ انداز میں بولی۔
”مائینڈ یور لینگویج نتاشہ۔۔۔“وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
”میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا۔۔۔ مسٹر شازمان ابراہیم۔۔۔“ اس نے بھی دانت پیسے تھے۔
”دیکھیں پلیز آپ لوگ۔۔۔“شہزین کچھ کہتی اس سے قبل ہی نتاشہ نے اسے بھی کھڑی کھوٹی سنا دیں۔
”تم بیچ میں مت بولو۔۔۔تم جیسی لڑکیوں کو تو خوب آتا ہے نا امیر گھر کے لڑکوں کو اپنے حسن کے جال میں پھنسانا۔۔۔ بتادو کیا قیمت ہے تمہاری؟اسے سے ڈبل دوں گی تمہیں۔۔دفع ہوجاؤ شازمان کی زندگی سے۔۔۔“اس کی چیخ وپکار پر پورا ریسٹورانٹ ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔
”جسٹ شٹ اپ نتاشہ۔۔۔“شازمان پوری قوت سے چیخا تھا۔
”کیوں۔۔۔بہت برا لگ رہا ہے؟اب میں سمجھی کہ تم مجھ سے اتنا دور دور کیوں بھاگتے ہو!میرے لئے تو تمہاری مصروفیات ختم نہیں ہوتی اور اس جیسی دوکوڑی کی لڑکی کے ساتھ جانے کہاں کہاں اور کس کس طرح کا وقت گزارتے ہو تم۔۔۔“ اس کی عجیب اور دلدل کہ پستی میں دھنسی سوچ تھی۔
”جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔“اب کی بار شازمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے ایک طمانچہ نتاشہ کو رسید دیا۔
”تم نے مجھ پر ہاتھ اُٹھایا۔۔۔“اس نے اسی وقت منگنی کی انگوٹھی انگلی سے اتار کر شازمان کے منہ پر دے ماری۔
”بھاڑ میں جاؤ تم۔۔۔اور تمہاری یہ انگوٹھی۔۔۔لعنت بھیجتی ہوں میں تم دونوں پر بھی اور اس سوکالڈ منگنی پر بھی۔۔۔“ وہ مشتعل قدم اُٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔
”مجھے بھی کوئی شوق نہیں تھا تم سے تعلق رکھنے کا۔۔۔مت بھولو تم یہ بات۔۔۔“وہ بھی غُصے میں چِلایا تو شہزین نے آج پہلی بار اسے غصے میں دیکھا تھا۔
”چلیں شہزین پلیز۔۔۔لیٹس گو۔۔۔“وہ اس سے نظریں مِلائے بغیر بولا۔
وہ لوگ گھر پہنچے تو شہزین گاڑی سے اُتری مگر شازمان گھر کے اندر نہ گیا بلکہ دوبارہ اپنے گاڑی پر سوار ہوکر کہیں چلتا بنا۔ وہ جیسے ہی ہال میں داخل ہوئی‘ سامنے موجود شبانہ بیگم کو دیکھ کر شہزین کا چہرہ خُوشی سے کھِل گیا۔
”تائی امی۔۔۔“وہ فوراً ان کے گلے لگ گئی۔
”کیسی ہو؟“وہ اسے خُود سے جدا کرتے ہوئے پوچھنے لگیں۔
”بالکل ٹھیک۔۔۔“اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
”رونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔اکیلی ہی آئی ہوں۔۔۔تمہارے تایا ساتھ نہیں آئے۔۔۔“وہ اس کا مزاق اُڑانے لگیں۔
”بھئی اب کیا ساری باتیں اکیلے اکیلے کرنے کا ارادہ ہے؟“ وہیں موجود سیدہ بیگم نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔
”شہزین بیٹا۔۔۔شازمان کہاں ہے؟“وہ صوفے پر بیٹھی تو سیدہ بیگم نے سوال کیا۔
”وہ مجھے ڈراپ کرنے کے بعد چلے گئے۔۔۔“اس کے علاوہ وہ اور کیا جواب دیتی۔
”بڑی حسرت ہے مجھے شازمان کو دیکھنے کی۔۔۔آخری بار جب دیکھا تب تووہ پانچ سال کا تھا۔۔۔“شبانہ بیگم پرحسرت لہجے میں گویا ہوئیں۔
”بس ابھی آجائے گا۔۔۔“
رات کے کھانے کی تیاری ہو رہی تھی تب ہی شازمان ابراہیم گھر تشریف لائے۔
”السلام علیکم۔۔۔“اس نے سلام کیا۔
”لو آگیا آپ کا بھتیجا۔۔۔“سیدہ بیگم کا کہنا ہی تھا تو شبانہ بیگم فوراً اپنے بھتیجے کے پاس گئیں اور اسے گلے لگا لیا۔
”ماشااللہ کتنا بڑا ہوگیا ہے۔۔۔“وہ اس کی نظر اُتارنے لگیں۔
”لیکن عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے موصوف میں۔۔۔“سیدہ بیگم نے فوراً طعنہ کسا۔
”کھانا ریڈی ہے۔۔۔“شہزین ملازمین کے ہمراہ باورچی خانے سے نکلتے ہوئے بولی۔
”داداجان کہاں ہیں؟“شازمان نے غور کیا کہ داداجان غائب تھے۔
”وہ تمہارے چچا کی طرف گئے ہیں۔۔۔“اب تو پکا اس کی شامت آنے والی تھی۔کھانا کھانے کے بعد وہ خاموشی سے اُٹھ کراپنے کمرے میں چلا گیا۔اس کے بدلے ہوئے تیور کا سبب صرف شہزین احمد کو ہی معلوم تھا۔وہ کہیں نہ کہیں خُود کو ہی اس سب کا ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی۔
”میری وجہ سے شازمان کی منگنی ٹوٹ گئی۔۔۔مجھے ان سے معذرت کرنی چاہئے۔۔۔“گھر کی چھت پر کھڑی وہ اپنی غلطی تلاش کر رہی تھی۔تب ہی شازمان بھی وہیں آگیا۔
”اوہ۔۔میں آپ کا پیچھا کرتے کرتے یہاں نہیں آیا۔۔۔“وہ اتنا ہی کر واپس مُڑ ہی رہا تھا کہ شہزین نے اسے روک دیا۔
”شازمان۔۔۔دو منٹ بات کرسکتی ہوں آپ سے۔۔۔“
”جی۔۔“وہ رُک گیا۔
”آئی ایم رئیلی سوری۔۔۔میری وجہ سے آپ کی دوسال پرانی منگنی ٹوٹ گئی۔۔۔آپ اگر مجھے کہیں تو میں نتاشہ سے بات کروں گی۔۔۔اس کی غلط فہمی دور کروں گی۔۔۔“اسنے تعاون کی پیشکش کی تھی۔
”نہیں شہزین اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔نتاشہ کی یہ غلط فہمی پہلی نہیں ہے۔۔۔اس سے پہلے بھی ہزار مرتبہ وہ میرا نام بہت لڑکیوں کے ساتھ منسوب کر چکی ہے۔۔۔پتہ نہیں وہ مجھے کس طرح کا انسان سمجھتی ہے؟کیا میں آپ کو اتنا گِرا ہوا انسان لگتا ہوں۔۔۔جو بے شمار لڑکیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔۔۔“اسکے لب و لہجے سے عیاں تھا کہ وہ کس قدر اذیت میں مبتلا ہے۔
”نہیں۔۔۔آپ ایسے انسان بالکل نہیں ہے۔۔۔اتنا تو میں ایک مہینے میں آپ کو جان ہی گئی ہوں۔۔۔“اس نے بھی شازمان کی تعریف کی۔
”جو آپ ایک مہینے میں جان گئیں۔۔۔وہ نتاشہ دوسالوں میں بھی نہیں جان پائی۔۔“وہ دھیمے سے مسکرایا۔
”پر میں کوشش تو کرسکتی ہوں۔۔۔ان کی غلط فہمی۔۔۔“ شازمان نے یکدم قطع کلامی کی۔
”پلیز شہزین۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ وہ آپ کی مزید انسلٹ کرے۔۔آپ پلیز اس معاملے سے دور رہیں۔۔۔اٹس مائی ریکویسٹ۔۔۔“ وہ آخری جملہ کہتا وہاں سے چلا گیا۔
وہ نیچے پہنچا تو داداجان چچا کے گھر سے لوٹ آ ئے تھے۔
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بابا۔۔۔؟“ان کی بات سننے کے بعد سیدہ بیگم کے اوسان ہی خطا ہو گئے۔
”مجھ سے نہیں اپنے بیٹے سے پوچھو بہو۔۔۔ان موصوف نے ہماری اجازت کے بغیر ہی دوسال پرانا تعلق پل بھر میں توڑ دیا۔۔۔“
”میں نے اگر ایسا کیا ہوتا داداجان تو یہ انگوٹھی پہن کر نہ گھوم رہا ہوتا ابھی تک۔۔۔“اس نے اپنی انگلی میں موجود انگوٹھی کی طرف اشارہ کیا۔
”آپ کی چہیتی نے بھرے ریسٹورانٹ میں منگنی کی انگوٹھی میرے منہ پر ماری تھی۔۔۔“اس نے نتاشہ کی پھینکی انگوٹھی اپنے کُرتے کی جیب سے نکال کر ان دونوں کو دکھائی۔
”تو اس نے یہ بے وجہ تو نہیں کیا؟اس نے تمہیں خُود ایک غیر لڑکی کے ساتھ دیکھا تھا۔۔۔“چچا کے خاندان نے داداجان کے خوب کان بھرے تھے۔
”وہ لڑکی شہزین تھی داداجان۔۔۔اس نے مجھے اور شہزین کو ساتھ دیکھ لر پتہ نہیں کیا کیا سوچ لیا۔۔۔۔“
”تو تم نے اسے بتایا کیوں نہیں کہ شہزین ہماری مہمان ہے۔۔۔۔“انہیں یہاں بھی شازمان کی ہی غلطی لگی تھی۔
”وہ میری کوئی بات سننے کے لئے تیار ہوتی تب نا۔۔۔پورے ہجوم کے سامنے اس نے ہم دونوں کو ذلیل کر دیا۔۔۔بیچاری شہزین کی کتنی انسلٹ کی اس نے۔۔۔آپ کو اندازہ بھی نہیں ہے۔۔۔“وہ افسردگی سے اپنی جذباتی کیفیت بیان کر رہا تھا۔
”جو بھی ہو۔۔۔تم ابھی چلو میرے ساتھ۔۔۔معذرت کرو گے تم نتاشہ سے۔۔۔“وہ اسکی کسی وضاحت کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔
”کیوں داداجان۔۔۔کیا آپ بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ میں اور شہزین۔۔۔“اسنے داداجان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں۔۔۔تم معذرت کرو گے کیونکہ تم نے اس پر ہاتھ اُٹھایا۔۔۔“ انہوں نے اپنا موقف پیش کیا۔
”اور جو طمانچے وہ میرے کردار پر ایک عرصے سے مارتی چلی جارہی ہے وہ؟میں آپ کو بتاتا نہیں۔۔۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مجھے دکھ نہیں پہنچتا داداجان۔۔۔اس کا جب دل چاہتا ہے وہ میرے آفس پہنچ جاتی ہے۔۔۔ صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ میں وہاں کام کر رہا ہوں۔۔۔یا پھر کسی کے ساتھ معشقہ چلا رہا ہوں۔۔۔ہزار بار اس نے مجھے بے شمار ناموں کے ساتھ منسوب کیا مگر کیا میں نے آج تک آپ سے گِلا بھی کیا داداجان۔۔۔مگر برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔۔۔جو شادی سے پہلے ہی مجھ پر اتنے پہرے لگارہی ہے۔۔اس گھر میں آجانے کے بعد ناجانے وہ میری زندگی کو کس عذاب میں مبتلا کردے گی۔۔۔“اس نے بھی آ ج چُپ کا روزہ توڑ دیا۔
”یعنی تم یہ رشتہ قائم نہیں رکھنا چاہتے۔۔۔؟“انہوں نے حتمی جواب مانگا تھا۔
”یہ رشتہ جوڑنے والے آپ تھے داداجان۔۔۔اسے اگر آپ قائم رکھنا چاہتے ہیں تو باخوشی رکھیے۔۔۔میں بھی خاموشی سے آپ کے فیصلے کا احترام کرلوں گا۔۔۔۔مگر میں معذرت نہیں کروں گا۔۔۔ اگر اب میں جھک گیاتو وہ اور کی فیملی یہی سمجھے گی کہ میں غلطی پر ہوں۔۔۔“وہ اب بھی اپنی بات پر اٹل تھا۔
”میں بات کرتا ہوں تمہارے چچا سے۔۔۔“داداجان مزید کچھ بھی کہے بغیر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
”یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔“سیڑھیوں پر کھڑی شہزین خُود کو ہی کونس رہی تھی۔
وہ آفس میں اپنے کیبن میں بیٹھا تھا تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔
”کم اِن۔۔۔۔“اس کی اجازت پر شہزین کمرے میں داخل ہوئی۔
”سر یہ میرا ریزائن۔۔۔“اس نے ایک سفید لفافہ شازمان کو تھمایا۔
”مجھے آپ سے اس فیصلے کی امید نہیں تھی شہزین۔۔۔افسوس کہ آپ دعوے کرنا تو جانتی ہیں مگر انہیں پورا کرنے کاحوصلہ آپ میں نہیں ہے۔۔۔“اس نے لفافہ میز پر پھینکا۔
”سر عزتِ نفس سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔دعوے بھی نہیں۔۔۔“
”اوکے۔۔۔یو کین لیوّ۔۔۔“اس نے بات ہی تمام کردی۔
تمام کاغذی کاروائی مکمل ہونے کے بعد شازمان نے اسے ڈرئیور کے ہمراہ گھر بھیج دیا تو وہ بھی چپ چاپ چلی آئی۔اسنے فیصلہ صرف ملازمت چھوڑنے کا ہی نہیں گھر چھوڑنے کا بھی کیا تھا۔
”شہزین یہ سامان کیوں پیک کر رہی ہو؟“شبانہ بیگم کمرے میں آئیں تو وہ اپنا سامان تیارر کررہی تھی۔
”میں اسلام آباد جارہی ہوں تائی امی۔۔۔۔“اس نے بے دھیانی میں ہی جواب دیا۔
”دماغ چل گیا ہے تمہارا۔۔۔؟“انہوں نے سارے کپڑے اس کے ہاتھ سے لے کر بیڈ پر پھینک دیے۔
”ایسا ہی سمجھ لیں۔۔۔“
”شہزین یہ جذباتی ہونے کا وقت نہیں ہے۔۔۔محض ایک غلط فہمی ہے جو دور ہوجائے گی۔۔۔اور تمہیں اندازہ بھی ہے کہ بلال پاگلوں کی طرح تمہیں تلاش کر رہا ہے۔۔۔اب کی بار تم ان کے سامنے بھی گئی تو وہ لوگ تمہیں جان سے مارنے میں ایک پل نہیں لگائیں گے۔۔۔“انہیں اس لمحے کے تصور سے ہی خوف آرہا تھا۔
”مجھے موت قبول ہے مگر ایک مزید بہتان گوارا نہیں ہے مجھے۔۔۔پھر سے رسوا ہوگئی تو موت سے بڑی سزا بن جائے وہ اذیت میرے لئے۔۔۔“وہ رو ہی پڑی۔
”شہزین۔۔۔“انہوں نے اسے اپنے برابر میں بیٹھایا۔
”دیکھو شہزین۔۔۔جوہوا۔۔۔اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے۔۔۔“
”پلیز تائی امی۔۔۔میں اتنی دور اس لئے نہیں آئی تھی کہ ایک بار پھر مجھے بہتان اور طنز کے تیروں سے گھائل ہونا پڑے۔۔۔میری وجہ سے اس گھر کا ماحول بھی خراب ہورہا ہے۔۔۔ان لوگوں نے اپنوں سے بڑھ کر میرا خیال رکھا۔۔۔ناامیدی کے وقت میری امید بنے یہ سب۔۔۔اگر میرے چلے جانے سے سب ٹھیک ہوتا ہے تو۔۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔اگر میری زندگی ہوئی تو اسلام آباد میں بھی محفوظ رہوں گی۔۔۔“اس کی باتیں کمرے کے دروازے پر کھڑے داداجان نے سن لی تھیں۔
”کہیں نہیں جاؤ گی تم۔۔۔اور یہ میرا حکم ہے۔۔“کمرے میں داخل ہوتے ہوئے داداجان نے اپنا حکم اس پر صادر کیا اور پھر اگلے ہی لمحے وہاں سے چلے گئے۔
دودن سے گھر میں بہت پریشان کن ماحول تھا۔شازمان تو صبح ناشتہ کئے بغیر ہی دفتر چلا جاتا اور رات گئے لوٹتا۔شہزین بھی زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی بیٹھی رہتی۔ ایک ہفتے سے ان دونوں کا آمناسامنا بھی نہیں ہوا تھا۔چچا جان کو بھی کوئی واضح جواب نہ ملا تو وہ اپنی بیگم اور بیٹے کے ہمراہ ہی بات کرنے چلے آئے۔شہزین خُود کو اس معاملے سے لاتعلق رکھنا چاہتی تھی اس لئے گھر کی پچھلی جانب موجود سویمنگ پُول کے پاس چلی آئی۔ اس لمحے وہ پُول کے کنارے پڑے بینچ پر بیٹھی تھی تب ہی کسی نے اسے ہمکلام کیا۔
”تو تم ہو شہزین۔۔۔“یہ نتاشہ کا بھائی شہریار تھا۔
”آپ کون؟“
”میں نتاشہ کا بھائی ہوں۔۔۔ویسے قصور بیچارے شازمان کا بھی نہیں ہے۔۔۔جب اتنی حسین لڑکی نظر میں۔۔۔بلکہ گھر میں موجود ہوتو کسی کی بھی نیت پھسل سکتی ہے۔۔۔“اس کی سوچ ہوبہو اپنی بہن جیسی تھی۔
”دیکھیں پلیز آپ چلے جائیں یہاں سے۔۔۔“وہ اس کی طرف دیکھنے سے بھی کترا رہی تھی
”کم آن یار۔۔۔اتنی پارسا کیوں بن رہی ہو۔۔۔مانتا ہوں کہ شازمان جیسا ہینڈسم اور ڈیشنگ نہیں۔۔۔مگر اس جتنا امیر ہوں۔۔۔“وہ اس کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گیا۔
”آپ کیوں پریشان کررہے ہیں مجھے۔۔۔۔؟“وہ وہاں سے اُٹھ گئی۔
”تم نے میری بہن کی زندگی عذاب کر رکھی ہے۔۔۔اور خُود اتنی سی بات پر تنگ آگئی۔۔۔“اس کا لہجہ فوراً ہی تبدیل ہو گیا۔
”آئندہ کے بعد اگر۔۔۔تمہاری وجہ سے میری بہن کی آنکھ میں ایک بھی آنسو آیا۔۔۔تو تمہاری زندگی میں اتنے کانٹے بِچھا دوں گا کہ انہیں چنتے چنتے عمر کم پر جائے گی۔۔۔“اس کابازو اپنی گرفت میں لے کر شہریار اسے دھمکا رہا تھا۔تب ہی شازمان بھی وہاں آگیا۔اسے یوں شہزین کودھمکاتا دیکھ کر شازمان کہ دماغ سے تو جیسے عقل ہی رخصت ہوگئی۔
”how dare you?“
اس نے ایک زبردسے مکہ شہریار کو دے مارا تو وہ کچھ فاصلے پر جاگِرا۔
”دو کوڑی کی لڑکی کے لئے تم نے مجھ پر ہاتھ اُٹھایا۔۔۔۔“وہ خود کو سنبھالتے ہوئے کھڑا ہوا۔
”اپنی بکواس بند کرو۔۔۔۔اور دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔“
”اتنی آسانی سے نہیں۔۔۔پہلے حساب تو برابر کرلوں۔۔۔“اس مرتبہ اس نے حملہ کیا۔
ان دونوں کو گتھم گتھا ہوتا دیکھ کر شہزین پر کپکپی طاری ہوگئی تھی تبھی لڑائی کے دوران ہی گھر کے سب افراد بھی وہاں پہنچ گئے۔
”رُک جاؤ۔۔۔“داداجان کی پکار پر دونوں ہی رُک گئے۔
”شازمان۔۔۔یہ سب کیا ہورہا ہے؟“سیدہ بیگم نے اپنے بیٹے سے پوچھا۔
”مما یہ گھٹیا انسان شہزین کو ڈرا دھمکا رہا تھا۔۔۔“اپنا کالر درست کرتے وہ خفگی سے بولا تھا۔
”بس۔۔۔بہت ہوگیا۔۔۔سارے فساد کی جڑ ہی لڑکی ہے۔۔۔اسے نکالیں یہاں سے بابا۔۔۔“چچی صاحبہ داداجان سے بولیں۔
”شہزین کہیں نہیں جائے گی۔۔۔۔“شازمان نے فوراً انکار میں جواب دیا۔
”کیوں۔۔۔؟کس رشتے سے رہ رہی ہے یہ یہاں؟“ چچا صاحب نے بھی اپنا تیر چلایا۔
”بس۔۔۔“داداجان نے سب کو خاموش کروادیا۔
”اب یا تو یہ منگنی رہے گی یا پھر یہ لڑکی؟فیصلہ آپ کو کرنا ہے بابا۔۔۔“چچاکی زبان کو ابھی بھی تالا نہ لگاتھا۔
”میں نے آپ سے کہہ دیا ہے کہ شہزین کہیں نہیں جائے گی۔۔۔“شازمان نے پھر اپنی بات دہرائی۔
”تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔ہم لوگ آج اس گھر سے اپنا ہر تعلق توڑتے ہیں۔۔۔“چچا نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیااور اپنی بیوی،بیٹے کے ہمراہ وہاں سے چلے گئے۔
رات کو وہ اپنے کمرے کی بالکنی پر کھڑا تھا۔اس کی اداسی کا سبب منگنی کا ٹوٹنا نہیں تھا بلکہ اسے اس بات کا افسوس تھا کہ اس کی وجہ سے کس قدر بے عزتی ہوئی تھی شہزین کی۔۔۔کب سیدہ بیگم اس کے کمرے میں آئیں اور کب اس کے ساتھ آکر کھڑی ہوئیں۔۔اس بات کا اسے اندازہ بھی نہیں ہوا۔
”محبت کرتے ہونا۔۔۔اس سے۔۔۔؟“ان کے سوال پر وہ ہوش میں آیا۔
”نہیں مما۔۔۔میں نے شہزین کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا۔۔۔“
”میں شہزین کی نہیں نتاشہ کی بات کررہی ہوں۔۔۔“وہ اس کے جواب پر مسکرائیں۔
”نہیں۔۔بالکل نہیں۔۔۔“وہ بوکھلا گیا۔
”ماں سے جھوٹ نہیں بول سکتے تم بیٹا۔۔۔تم جس قدر شہزین میں دلچسبی لیتے ہو۔۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔“
”شہزین کو مجھ میں رتی بھر دلچسبی نہیں ہے مما۔۔۔۔“وہ ہارے ہوئے انداز میں بولا۔
”وہ بیچاری لڑکی ہے شازمان۔۔۔وہ بھی اکیلی اور خاصی سمجھدار۔۔۔اب وہ کھلِ عام تو جتا نہیں سکتی کہ اسے تم میں دلچسبی ہے۔۔۔“انہیں شہزین کے حالات کا اندازہ تھا۔
”بقول شہزین احمد کہ۔۔۔انہیں مرد ذاد سے نفرت ہے۔۔۔“
”اوف۔۔۔اوہ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ بے وجہ تم سے بھی نفرت کرے۔۔۔اس نے ایسا صرف اس لئے کہا کیونکہ اس کے تایا اور چچا نے اس کے ساتھ بہت ظلم کئے ہیں۔۔۔ مگر تم تو ایک اچھے انسان ہو۔۔۔کیا تمہیں نہیں پتا کہ وہ تمہیں کیسا انسان سمجھتی ہے۔۔۔“انکی بات پر شازمان کو شہزین کے کہے جملے یاد آئے۔
”نہیں۔۔۔آپ ایسے انسان بالکل نہیں ہے۔۔۔اتنا تو میں ایک مہینے میں آپ کو جان ہی گئی ہوں۔۔۔“اس کا چہرہ چاند کی طرح روشن ہوگیا۔
”شہزین مجھے اچھا انسان سمجھتی ہیں مما۔۔۔“وہ خُوشی سے اچھل ہی پڑا۔
”تو کیا میں تمہاری پھپھو سے بات کروں؟“وہ بھی گویا تیار ہی بیٹھی تھیں۔
”جو آپ کی مرضی۔۔۔میری کیا مجال۔۔۔“وہ دائیں ہاتھ سے منہ چھپائے بولا۔
”ڈرامے باز۔۔۔“سیدہ بیگم اس کے کندھے پر مکا مارتے ہوئے بولیں۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
”السلام علیکم مس شہزین۔۔۔“وہ لان میں کھڑی پودوں کو پانی دے رہی تھی تب ہی شازمان بھی وہاں آن پہنچا۔
”وعلیکم السلام۔۔۔“اس کا دھیان ابھی بھی پودوں کی جانب ہی تھا۔
”آپ مجھ سے ناراض ہیں؟“اس واقعے کو ایک ہفتہ گزرجانے کے بعد بھی شہزین کی قطع تعلقی اسے بےچین کر رہی تھی۔
”نہیں۔۔۔“اسکا جواب انتہائی مختصر تھا۔
”تو پھر مجھے اگنور کیوں کررہی ہیں؟“
”میں کون ہوتی ہوں آپ کو اگنور کرنے والی؟“وہ اب دو قدم آگے چل پڑی۔
”پر مجھے ایسا کیوں لگ رہاہے کہ آپ مجھے اگنور کررہی ہیں؟“وہ بھی دوقدم چلا۔
”دیکھیے شازمان۔۔۔آپ کیلئے شائد یہ باتیں اہم نہیں ہیں مگر مجھے بہت تکلیف پہنچتی ہے جب مجھے بے وجہ آپ کے ساتھ منسوب کیا جاتاہے۔۔۔“اس نے مڑ کر جواب دیا۔
”اور اگر میں یہ کہوں کہ میں آپ کا نام ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ جوڑنا چاہتاہوں تو؟“وہ سنجیدہ تھا۔
”تو میں سمجھوں گی کہ آپ کو میں جیسا سمجھتی تھی۔۔۔آپ ویسے بالکل بھی نہیں ہیں۔۔۔“اس نے پانی کا پائپ وہیں رکھا اور چلی گئی۔
”مجھے کیسے سمجھ آئے گا کہ آپ مجھے کیا سمجھتی تھیں؟“ اسے جاتا دیکھ کر شازمان نے سوال کیا۔
”میں آپ کو کم ازکم ایسا انسان نہیں سمجھتی تھی جو دوسروں کی مجبوری کا فائدہ اُٹھائے۔۔۔“اس کے جواب نے شازمان کو لاجواب کردیا۔
”میں نے کب آپ کی مجبوری کا فائدہ اُٹھایا ہے؟کبھی کبھی آپ زیادتی کر جاتی ہیں شہزین۔۔۔۔“شازمان بھی شکوہ کئے بغیر نہ رہ سکا۔
”مجھے ایساکرنے پر بھی آپ ہی مجبور کرتے ہیں۔۔۔“اینٹ کا جواب پتھر دیتی وہ چلی گئی۔
سیدہ بیگم نے آج شبانہ بیگم اور داداجان سے بات کرہی لی جس پران لوگوں نے کوئی اعتراض تو نہ کیا مگر دونوں ہی کسی شش وپنج کا شکار لگ رہے تھے۔
”کیا بات ہے شبانہ؟کیا تمہیں شازمان کو لے کر کوئی اعتراض ہے؟“
”نہیں بھابھی مگر آپ لوگ شہزین کے بارے میں جانتے ہی کیا ہیں؟“ان کی پریشانی کا سبب شہزین کا ماضی تھا۔
”وہ یہاں دو مہینے سے ٹھہری ہوئی ہے۔۔۔ہمیں تو اس کے کردار میں کوئی خامی نظر نہیں آئی۔۔۔بہت سلجھی ہوئی سلیقہ مند بچی ہے۔۔“سیدہ بیگم کو بھی بیٹے کی پسند بہت بھائی تھی۔
”بابا آپ کی کیا مرضی ہے؟“شبانہ بیگم نے والد کی مرضی جاننی چاہی۔
”مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں بیٹا۔۔۔مگر ہم لوگوں سے زیادہ شہزین کی مرضی معنی رکھتی ہے۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ ہمارے احسانوں کے بوجھ تلے دب کر وہ ہماری ہاں میں ہاں ملا دے۔۔۔“داداجان غیر جانب داری کا مظاہرہ کررہے تھے۔
”شہزین کے لئے بھلا شازمان سے بہتر کوئی ہوسکتا ہے بابا؟“ سیدہ بیگم کو اپنے بیٹے کی قابلیت پر پورا مان تھا۔
”آپ کی بات سو فیصد درست ہے بھابھی۔۔۔مگر پھر بھی شہزین کی مرضی پوچھے بغیر کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنا سراسر نا انصافی ہوگی۔۔۔“
”تو کس نے منع کیا ہے تمہیں؟پوچھ لو شہزین بیٹی سے اس کی مرضی۔۔۔“سیدہ بیگم کی زبان میں اپنائیت کی مٹھاس تھی۔
”جی۔۔۔“ یعنی اب فیصلے کا دارومدار شہزین کی ہاں پر تھا۔
بھاوج سے ہوئی گفتگو کے بعد ان کا شہزین سے آنے والے حالات کے متعلق بات کرنا لازم و ملزوم ہو گیا تھا۔وہ اپنی الماری کو ترتیب دے رہی تھی تب ہی شبانہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔
”شہزین بیٹا۔۔۔فری ہوتو بات کرلیں۔۔۔“وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے گویاہوئیں۔
”جی تائی امی۔۔۔“اس نے الماری بند کی اور ان کے پاس ہی آ بیٹھی۔
”میں تمہارے مستقبل کو لے کر بے حد پریشان رہتی ہوں۔۔۔جب خیال آتا ہے کہ کہیں تمہارے تایا تمہیں ڈھونڈھنے میں کامیاب ہوگئے تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔ تم یہاں محفوظ ہو مگر۔۔۔“ وہ آدھی ادھوری بات کر بعد خاموش ہو گئیں۔
”مگر کیا؟“اس نے متجسس ہوکر پوچھا۔
”مجھے بس یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر وہ لوگ تمہیں ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے یہاں تک پہنچ گئے تو۔۔۔۔تمہیں لے جائیں گے۔۔بابا۔۔بھابھی کوئی بھی انہیں نہیں روک سکے گا۔۔۔یہ لوگ تمہیں لاکھ اپنا کہیں مگر حقیقت تو یہی ہے کہ تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔“ان کی ہر بات حقائق پر مبنی تھی۔
”بات تو آپ کی درست ہے۔۔۔کوئی مضبوط تعلق تو نہیں ہے میرا اس خاندان سے۔۔۔“اس نے بھی مسکراتے ہوئے حقیقت کو تسلیم کیا۔
”پر اگر تم چاہو تو تعلق بن سکتاہے۔۔۔۔“وہ اسی دم مطلوبہ موضوع پر آئی تھیں۔
”کیا مطلب؟“
”شہزین جب تک کم اکیلی رہو گی تب تک تمہیں تمہارے تایا اور ان سے بھی زیادہ بلال سے خطرہ رہے گا۔۔۔لیکن اگر تم شادی کرلو۔۔۔“
”پلیز تائی امی۔۔۔میں نے ابھی اس بارے میں سوچا تک نہیں ہے۔۔۔“اس نے صاف انکار کیا۔
”تو سوچ لو۔۔۔تمہیں شازمان کیسا لگتا ہے؟“لمبی چوری تمہید باندھنے کے بعد وہ مطلب کی بات پر آہی گئیں۔
”آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں۔۔۔ابھی ابھی شازمان کی منگنی میری وجہ سے ٹوٹی ہے اور اب آپ یہ چاہتی ہیں کہ میں نتاشہ کے الزامات کو حقیقت کی شکل دے دوں۔۔۔“وہ جذباتی ہوگئی۔
”صرف نتاشہ نہیں پورا خاندان ہی ایسا سوچ رہا ہے شہزین اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارے انکار کے بعد شازمان ساری عمر تمہارے انتظار میں بیٹھا رہے گا؟بابا بہت جلد اس کی شادی کردیں گے۔۔۔ اور خُود سوچو جب اس کی منگیتر کے لئے تمہارا وجود اتنا ناقابلِ برداشت ہے تو کیا اس کی بیوی تمہیں یہاں ٹِکنے دیگی؟اپنے مستقبل کے بارے میں سوچو۔۔"
”میں اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے شازمان کی زندگی برباد نہیں کرسکتی تائی امی۔۔۔آپ اچھی طرح جانتی ہیں محبت لفظ سے نفرت ہے مجھے۔۔۔میری صحبت میں کبھی کسی کو کوئی خوشی حاصل نہیں ہوسکتی۔۔۔ میرے وجود میں غموں کی اتنے گہریے زخم ہیں۔۔۔جنہیں دنیا کی کوئی بھی خوشی نہیں بھر سکتی۔۔۔“اس کے لہجے میں نمی سی آگئی۔
”نہیں ہو گی شازمان کی زندگی برباد۔۔۔تم ایک سلیقہ مند۔۔پڑھی لکھی۔۔۔اطاعت شعار لڑکی ہو۔۔۔اور جب شازمان کو اس کی فیملی کو تم میں کوئی کھوٹ نظر نہیں آتا تو تم کیوں خُود کو ڈیگریڈ کررہی ہو؟“اس کی غیرضروری عاجزی نے تائی جان کو بھی مایوس کیا تھا۔
”کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میرے ماضی کی غلطیاں میری ان خوبیوں سے زیادہ بڑی ہیں۔۔۔“
”ماضی ہر انسان کاہوتا ہے شہزین۔۔۔کوئی بھی انسان دودھ کا دھلا نہیں ہوتا۔۔۔غلطیاں سب سے ہوتی ہیں مگر تمہاری طرح ہر کوئی اپنی غلطی کو خُود پر سوار نہیں کرلیتا۔۔۔“وہ اب اکتا گئیں۔
”میری غلطیاں میرے والدین کی موت کا سبب بنیں۔۔۔کیا یہ حقیقت جاننے کے بعد بھی یہ گھر مجھے اپنائے گا؟“اسکی حققیت پسندی نے تائی جان کو بھی لاجواب کیا تھا۔
”تمہارے والدین کی موت یونہی لکھی تھی شہزین۔۔۔“وہ تسلی کے لئے اتنا ہی کہہ سکیں۔
”ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں خُود شازمان کو اپنے ماضی کے متعلق سب کچھ سچ سچ بتاؤں گی اور اگر سب جاننے کے باوجود بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں تومیں آپ کی بات مان لوں گی۔۔۔“ تائی جان کو یہ شرط انکار کے مترادف ہی لگی تھی۔
”یعنی تم خُود اپنی خوشیوں کے دروازے بند کرنا چاہتی ہو؟“ انہیں اندازہ تھا کہ اس سب کے بعد شازمان صاف انکار کردے گا۔
”جی نہیں۔۔۔میں بس اتناچاہتی ہوں کہ میرے مستقبل اور اس سے وابستہ خُوشیوں کی بنیاد سچ پر ہو۔۔۔جھوٹ یا فریب پر نہیں۔۔۔“وہ بھی ضد کی پکی تھی۔
وہ رات کے وقت اپنے کمرے میں بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا تبھی موبائل فون نے اپنی موجودگی کا باآوازِ بلند اعلان کیا۔وہ صوفے سے اُٹھ کر بیڈ کی جانب گیا جہاں موبائل بج رہا تھا۔
”شہزین۔۔۔“اسکرین پر اپنی سوچ کے محور کا نمبر دیکھ کر وہ آنکھیں ملتا رہ گیا۔
”آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔کیا آپ پول سائیڈ پر آسکتے ہیں؟“نہ سلام نہ دعا!
”جی۔۔۔آپ بس دو منٹ ویٹ کریں۔۔۔“اس نے فوراً موبائل واپس بستر پرپھینکا اور فوراً ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پہنچ کر آئینے میں اپنی حالت کا جائزہ لینے لگا۔
وہ دوڑتا ہوا مطلوبہ جگہ پر پہنچا تو شہزین وہاں پہلے ہی موجود تھی۔دونوں بازو باندھے وہ مہبوت سی پول کے پانی میں اپنے ہی عکس کو خاموشی سے دیکھے جارہی تھی۔
”مس شہزین۔۔۔“اس کی آواز پر شہزین نے اپنا رُخ اس کی جانب موڑا۔
”شازمان آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ گھر میں پچھلے ایک ہفتے سے کیا باتیں چل رہی ہیں؟“کیا آپ کے لئے یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ میرے ماضی کے متعلق نہ تو آپ اور نہ ہی آپ کی فیملی جانتی ہے۔۔۔؟“اسنے بات گھمائے بغیر اپنا موقف اسکے سامنے رکھا۔
”میرے لئے آپ کا ماضی کوئی اہمیت نہیں رکھتا شہزین۔۔۔“وہ لاپرواہی سے کندھے اچکا گیا۔
”مگر میرے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔۔۔“اس نے پاس رکھے بینچ سے ایک سفید کاغذی لفافہ اٹھا کر شازمان کی جانب بڑھایا۔
”یہ کیا ہے؟“اس نے تھامتے ہوئے پوچھا۔
”مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں کہ اپنی حماقتیں اپنی زبان سے دہراؤں۔۔۔اس کاغذ میں میرا ماضی محفوظ ہے۔۔۔“اس نے نظریں مکمل طور پر جھکا رکھی تھیں۔
”مجھے آپ کے ماضی میں کوئی دلچسبی نہیں ہے شہزین۔۔۔اگر مجھے دلچسبی ہے تو صرف اس آج میں۔۔۔جس نے مجھے آپ سے ملایا۔۔۔اور مستقبل میں۔۔۔جو یقیناً آپ کے ساتھ کی بدولت بہت حسین ہوگا۔۔۔“اس نے بے فکری سے اس کاغذ کو ٹکرے ٹکرے کردیا۔
”اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ آپ میری زندگی میں آ نے والے پہلے انسان نہیں توکیا تب بھی آپ کو میرے ماضی کے متعلق کوئی تجسس نہیں ہوگا؟“اس نے لرکھڑاتے انداز میں پوچھا۔
”اس بات کا تو مجھے یقین تھا کہ میں یقیناً آپ کی زندگی میں آنے والا پہلا انسان نہیں ہوں۔۔۔“وہ کھکھلا کر بولا۔
”دراصل میری قسمت میں پہلے آنا لکھا ہی نہیں۔۔۔ہمیشہ کلاس میں بھی لاسٹ ہی آتا تھا۔۔۔ اس لئے پہلا نہ سہی آپ کی زندگی میں آخری انسان بن کر ہی میں خُوش ہوں۔۔۔“اس نے اس مرتبہ مسکراتے ہوئے کاغذ کے ٹکرے ہوا میں اُڑا دیے۔
”اور کچھ کہنا چاہتی ہیں آ پ؟“اسے خاموش دیکھ کر شازمان نے سوال کیا مگر وہ ابھی بھی شازمان کی کھڑی اور پختہ باتوں میں ہی کھوئی ہوئی تھی۔
”شہزین۔۔۔“اس نے شہزین کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجا کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
”میں جانتا ہوں کہ یہ آپ کی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ ہے مگر میں آپ سے وعدہ کرتاہوں کہ آپ جو بھی فیصلہ لیں گی۔۔۔اس فیصلے میں ملک شازمان ابراہیم آپ کا پورا پورا ساتھ دے گا۔۔۔ پھر چاہے وہ فیصلہ مجھے اپنانے کا ہو یا ٹھکرانے کا۔۔۔یہ بندہ آپ کا پوراپورا ساتھ دے گا۔۔۔“وہ سر جھکائے بولا۔
”میں چلتی ہوں۔۔۔“اس کے پاس اب کہنے کے لئے کچھ نہیں بچاتھا۔
”اوکے۔۔۔“اسے جانے کا راستہ فراہم کرتا وہ ایک طرف کھڑا ہوگیا اور شہزین تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے کی جانب چلی گئی۔
شازمان کی باتوں نے اس کے لئے فیصلہ کرنا بےحد آسان بنا دیا تھا۔وہ فجرکی نماز پڑھ کر فارغ ہی ہوئی تو تائی امی کے کمرے میں چلی گئی۔اسے معلوم تھا کہ وہ بھی جاگ رہی ہونگی۔
”آؤ نا بیٹا۔۔۔“وہ بھی نماز پڑھ کر جائے نماز سمیٹ رہی تھی۔
”تائی امی۔۔۔میرا جواب ہاں ہے۔۔۔آپ جو بھی فیصلہ لیں گی مجھے قبول ہوگا“اس نے کھڑے کھڑے ہی حتمی فیصلہ سنادیا۔
”واقعی۔۔۔“وہ اس کے نزدیک آئیں۔
”صدا خوش رہو۔۔۔“انہوں نے جانثاری سے شہزین کاماتھا چوما۔
اگلی صبح ملک ہاؤس کے لئے خوشیوں کی سوغاتیں لائی تھی۔شہزین کی ہاں نے شازمان کی زندگی کو بھی ایک نیا موڑ دے دیا تھا۔ اسے کیامعلوم تھا کہ اسے اپنی محبت بغیر کسی جنگ یا تردد کے باآسانی مل جائے گی۔وہ تو ساتویں آسمان کی بلندیوں کے مزے لوٹ رہا تھا۔ داداجان تو سیدھا نکاح کرنے کے حق میں تھے مگر سیدہ بیگم اپنے بڑے بیٹے کی شادی اتنی سادگی سے کروانے کے حق میں نہیں تھی۔وہ اپنے تمام ارمان پورے کرنا چاہتی تھیں۔
”بہو یہ سب کیا بیکار کی رسمیں ہیں؟“
”اوف اوہ بابا۔۔۔شازمان اس گھر کا بڑا بیٹا ہے۔۔۔اور یہ اس گھر کی پہلی شادی۔۔۔اور اگر ہم یوں چوروں کی طرح چھپ چھپا کر سب کریں گے تو خاندان والے تو یہیں کہیں گے کہ ہم ہی غلطی پر تھے۔۔۔ منگنی پر بس تھوڑے سے لوگوں کو ہی مدعو کرلیں گے۔۔۔“
”بھابھی ٹھیک ہی کہہ رہی ہیں بابا۔۔۔نتاشہ کی حماقتوں کی سزاہم اپنے بچوں کوکیوں دے؟“شبانہ بیگم کی بھی یہی مرضی تھی۔
”جو تم لوگوں کے دل میں آئے کرو۔۔۔“داداجان نے سب معاملات ان پر چھوڑ دیے۔
منگنی کی تاریخ دو دن بعد کی طے پائی۔شازمان کا تو بس چلتا تو وہ سیدھا نکاح ہی کرتا مگر بڑوں کے فیصلے کے آگے اس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ اس وقت وہ فون پر اپنے چھوٹے بھائی شا ہنوازسے مخاطب تھا۔
”بہت بہت مبارک ہو بھائی۔۔۔“شاہنواز نے بھی خُوشی کااظہار کیا۔
”صرف مبارک سے کام نہیں چلے گا۔۔۔میرے چاند تم نے میری شادی پر آنا ہے۔۔۔۔“وہ صوفے پر نیم دراز ہوتا ہوا بولا۔
”بھائی آپ جانتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں۔۔۔“اس نے افسردگی سے جواب دیا۔
”کیا میں یہ سمجھوں کہ تمہارے لئے اپنا غُصہ اور ضد میری خُوشیوں سے زیادہ اہم ہے۔۔۔؟“
”بھائی بات میرے غُصے کی نہیں بلکہ داداجان کی بدگمانی کی ہے۔۔۔“اس نے اصل وجہ بتائی۔
”تو چاند تم معافی مانگ لو نا ان سے؟“
”کس بات کی معافی بھائی؟آپ بھی جانتے ہیں کہ غلطی میری نہیں۔۔۔میں تو وہ بدنصیب انسان ہوں جو مظلوم ہونے کے باوجود دنیا کی نظر میں ظالم بن گیا۔۔۔“وہ تڑپ کر بولا۔
”غلطی تو تم سے بھی ہوئی ہے شاہنواز۔۔ایک لڑکی کی زندگی کہیں نہ کہیں تمہارے باعث برباد ہوئی ہے۔۔۔اگر تمہیں اس کے کردار پر یقین نہیں تھا تو پھر معاملہ اتنے آگے تک کیوں لے کر گئے تم۔۔۔ داداجان کے لئے یہ بات ناقابلِ معافی ہے کہ تم نے ان کی زبان کا پاس بھی نہیں رکھا۔۔۔“وہ ماضی کی یادیں تازہ کر رہا تھا۔
”آپ بھی مجھے ہی مجرم سمجھتے ہیں۔۔۔؟“اس کے کرب میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
”تم مانو یا نہ مانو۔۔۔کہیں نہ کہیں غلطی تم سے بھی ہوئی ہے۔۔۔“
”پلیز بھائی۔۔۔اب آپ داداجان کی طرح مجھے لیکچر مت دیں۔۔۔“وہ زچ ہوکر بولا۔
”میرے لیکچر کا تم پر بڑا کوئی اثر ہوجائے گا۔۔۔کرنی تو تم نے اپنی منمانی ہی ہے۔۔۔“
”تو آپ بھی تو اپنی منمانی ہی کررہے ہیں۔۔۔“اس نے بھی وہی لہجہ اپنایا۔
”کیا مطلب؟“
”مطلب یہ کہ منگنی کسی سے اور شادی کسی سے۔۔۔“اس کا طنزیہ انداز شازمان کے طوطے اڑا گیا تھا۔
”اوئے۔۔۔چپ کر۔۔۔“وہ فوراً سیدھا ہوکر بیٹھا۔
”کیوں بھائی جان۔۔۔؟بھابھی نہیں جانتی کیا آپ کی منگنی کے متعلق؟“وہ اسے ستانے لگا۔
”وہ سب جانتی ہیں میرے بارے میں۔۔۔اور میں ان کے بارے میں۔۔۔بڈی وہ اس دنیا کی سب سے مخلص اور منفرد لڑکی ہیں۔۔جانتے ہو اس کے باوجود وہ اکیلی ہیں۔۔۔ان کا کوئی اپنا نہیں۔۔ اس لئے میں چاہتاہوں کہ انہیں اتنی خُوشیاں دوں کہ وہ اپنی ہر محرومی کو بھول جائیں۔۔۔“وہ یکدم سنجیدہ ہوا۔
”بھائی اکیلی اور بے سہارہ تو بہت سی لڑکیاں ہونگی۔۔۔کیا آپ ہر ایک سے شادی کرلیں گے؟“اس نے خاصا مشکل سوال پوچھا تھا۔
”ہر ایک کی مدد کرسکتا ہوں مگر ہر ایک سے شادی نہیں کر سکتا۔۔۔کیونکہ ہر لڑکی شہزین نہیں ہوسکتی۔۔۔“وہ دلربا انداز میں بولا۔
”آپ تو سچ میں دیوانوں جیسی باتیں کررہے ہیں بھائی۔۔۔آپ کا تو خُدا ہی حافظ ہے۔۔۔“
”چھوٹے۔۔۔میں بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔ابھی مجھے ایک کام یاد آگیا ہے۔۔۔“دروازے کے پاس سے گزرتی شہزین کو دیکھ کر اس نے رابطہ منقطع کیا۔
وہ اپنے کمرے میں آئی ہی تھی کہ شازمان دوڑتا دوڑتا اس کے پیچھے چلا آیا۔پہلے اپنی سانسوں کو ہموار کرنے کے بعد اس نے دروازے پر دستک دی۔
”آجائیں۔۔۔“اس نے اجازت دی۔
”آپ۔۔۔“شازمان کو دیکھ کر وہ تھوڑی بوکھلائی۔
”جی میں۔۔۔“وہ آہ بھرتے ہوئے بولا۔
”کوئی کام تھا؟“اس نے فوراً سوال کیا۔
”میں تو بس آپ سے یہ پوچھنے آیا تھا کہ کیا آپ خوش ہیں؟“
”کیا مجھے خوش ہونا چاہئے۔۔۔؟“اس نے سوال برائے سوال کیا۔
”اصولاً۔۔۔“
”تو پھر میں خُوش ہوں۔۔۔آخر ملک شازمان ابراہیم کا نام میرے نام سے جڑنے جارہا ہے۔۔۔میری زندگی کا اتنا اہم فیصلہ آپ سب نے کردیا تو میرے پاس سوائے خوش ہونے کے اور کوئی چارا بھی تو نہیں ہے۔۔۔“اس کے دل میں ناجانے کیسا غم تھا۔
”شہزین۔۔۔پلیز سچ سچ بتائیں۔۔۔آپ خوش ہے یا نہیں؟“وہ بھی اب سنجیدہ ہوگیا۔
”مجھے نہیں معلوم۔۔۔تایاجان کا بس چلا تو انہوں نے میرا نام اپنے بیٹے کے نام کے ساتھ جوڑنا چاہا اور اب۔۔۔“وہ شازمان کے سامنے مزید کچھ نہ بول پائی۔
”یعنی آپ خُوش نہیں ہیں۔۔۔“اس نے آدھی بات کا پورا مطلب نکال لیا۔
”آپ بہت اچھے انسان ہیں شازمان۔۔۔اور آپ اچھی شریکِ حیات کے مستحق ہیں۔۔۔میں ایک اچھی بیٹی تو بن نہیں سکی تو ایک اچھی بیوی کیسے بنوں گی؟آپ نے مجھے میرے ماضی کے ساتھ تو قبول کرلیا ہے مگر میں اپنے ماضی کو خُود سے جدا نہیں کر پا رہی۔۔۔مجھے ہر لمحہ یہ خوف رہتا ہے کہ میرا گزرا کل میرے آنے والے کل کو کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی متاثر ضرور کرے گا۔۔۔“اسکے خدشات سن کر شازمان بھی دکھی ہوا تھا۔
”تو ٹھیک ہے۔۔۔میں انکار کردیتا ہوں۔۔آپ کی مشکل آسان ہو جائے گی۔۔۔“وہ یہ الزام بھی اپنے سر لینے کو تیار تھا۔
”میں یہ نہیں چاہتی کہ آپ انکار کریں شازمان۔۔۔“
”پھر کیا چاہتی ہیں آپ۔۔۔؟“
”مہلت۔۔۔کیا مجھے کچھ وقت مل سکتا ہے۔۔۔کیا آپ سب گھر والوں کو اس بات پر قائل نہیں کرسکتے کہ ابھی صرف منگنی ہی کی جائے۔۔میں چاہتی ہوں کہ جب بھی آپ کاہاتھ تھاموں خلوص کے ساتھ تھاموں۔۔“اس نے اپنا مطالبہ بتادیا۔
”بس اتنی سی بات شہزین۔۔۔آپ جیسا چاہتی ہیں۔۔سب ویسا ہوگا۔۔اب جب چاہیں گی تب ہی اپنا ہاتھ آپ کوتھامنے کے لئے بڑھاؤں گا۔۔۔اٹس مائی پرامس۔۔۔“وہ پل بھر میں راضی ہو گیا۔
”مجھے غلط مت سمجھیے گا شازمان۔۔۔“شازمان کے تعاون پر اسے شرمندگی بھی ہو رہی تھی۔
”میرے لئے یہ پوری دنیا غلط ہو سکتی ہے مگر آپ نہیں۔۔۔“ وہ اسے لاجواب کرگیا۔
شہزین کے کمرے سے نکلتے ہی وہ ہال میں آگیا جہاں ولیمے کی بھی تیاریوں کے متعلق سوچا جارہا تھا۔اسنے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اپنی بات شروع کردی۔
”مما ولیمہ تو رخصتی کے بعد ہوتا ہے نا؟“ہاتھ میں سیب پکڑے وہ صوفے پر ٹِک گیا۔
”ہاں۔۔۔وہی تو ہم ڈسکس کررہے ہیں کہ دودن بعد منگنی۔۔۔اگلے ہفتے نکاح اور۔۔۔پھر رُخصتی کی رسم۔۔۔“
”ایک منٹ مما۔۔۔“اس نے یوں ظاہر کیا جیسے اسے بہت سے اعتراضات ہیں۔
”کیا ہوا شازمان؟“شبانہ بیگم نے اس کی الجھن کو محسوس کیا۔
”مما اور پھہھو۔۔۔آپ نے یہ رشتہ طے کیا میں نے اعتراض نہیں کیا مگر اتنی جلدی شادی۔۔۔آئی مین مجھے کچھ وقت تو دیں۔۔۔ابھی ابھی میری منگنی ٹوٹی اور ایک دم سے شادی۔۔“ وہ کمال کا اداکار تھا۔
”شازمان یہ مزاق کا وقت نہیں ہے بیٹا۔۔۔“دادا جان کے ردعمل کا سوچتے ہوئے سیدہ بیگم کا دل دگنی رفتار سے دھڑکنے لگا۔
”میں بھی سیریس ہوں مما۔۔۔“
”کیا تمہیں شہزین پسند نہیں۔۔۔؟“شبانہ بیگم کو ایک اور خوف ستانے لگا۔
”نہیں پھپھو شہزین بہت اچھی لڑکی ہیں۔۔مگر پلیز میں نہیں سمجھتا کہ یہ حالات شادی کے لئے سازگار ہیں۔۔۔آئی مین چچا جان ناراض ہیں ہم سے۔۔۔اور میرا اکلوتا بھائی ہی جب میری شادی میں شریک نہیں ہوگا تو میں کیا خوشیاں مناؤں گا؟“اس نے کئی بہانے کشید لئے تھے۔
”تمہاری بات ٹھیک ہے مگر تمہارے داداجان کو کون سمجھائے گا؟“سیدہ بیگم کے سوال کا جواب تو شائد اس کے پاس بھی نہیں تھا۔
”ان سے میں بات کرلوں گا۔۔۔“اس نے بہادری کے ساتھ حامی بھری۔
دادا جان تک جب شازمان کی اس حرکت کی خبر پہنچی تو ان کا دل کیا کہ دیوار سے اپنا سر ہی پیٹ دیں۔ملازم سے کہلوا کر انہوں نے شازمان کوا پنے کمرے میں بلالیا۔ بلاوے کا سنتے ہی وہ آیت الکرسی پڑھتا وہاں پہنچا کیونکہ عزت افزائی تو اس کی ہونی ہی تھی۔
”تم بھائیوں نے کیا مجھے خوار کتنے کی قسم کھائی ہے؟“ اس کے آتے ہی داداجان نے طنز کا تیر چلایا۔
”داداجان ایسی بات نہیں ہے۔۔۔“اس نے سر جھکائے جواب دیا۔
”پھر کیسی بات ہے؟“
”داداجان کوئی بھی خوشی اپنوں کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے۔۔۔اور میں بھی تب ہی شادی کروں گا۔۔۔جب میرے سب اپنے میرے خوشیوں میں شریک ہونے کے لئے راضی ہونگے۔۔۔“ اس نے اب بھی سر نہ اُٹھایا تھا۔
”کیا ہم تمہارے اپنے نہیں؟“ان کی وہی گرجتی آواز تھی۔
”میرے اپنوں میں تو چچا۔۔۔اور میرا بھائی بھی شامل ہے۔۔۔“ اس نے دادجان کی دکھتی رگ پر یاتھ رکھا۔
”تمہارا چچا کبھی بھی نہیں آئے گا۔۔۔نہایت گھمنڈی انسان ہے وہ۔۔۔اور تمہارے بھائی کو میں کبھی بھی نہیں آنے دوں گا۔۔۔وہ اب اس گھر کا فرد نہیں۔۔۔“ان کا لہجہ تھوڑا کمزور پڑ گیا۔
”اگر آپ کا فیصلہ اٹل ہے داداجان تو میں بھی آپ کا ہی پوتا ہوں۔۔۔“
”خاندان والوں کے سامنے ہماری ناک کٹ جائے گی۔۔۔“
”آپ نے ابھی تک صرف منگنی اور نکاح کے ہی کے ہی کارڈ بانٹے ہیں نا۔۔۔تو میں منگنی کرنے کوتیار ہوں۔۔۔اور نکاح آپ چھوٹے کی واپسی پر سادگی سے کروا دیجیے گا۔۔۔رہا سوال لوگوں کا تو انہیں میں خود دیکھ لوں گا۔۔“اسنے ہر مسلے کا حل پلک جھپکتے پیش کیا تھا۔
”یعنی تم نہیں مانو گے؟“دادا جان نے اسکی نیت ٹٹول لی تھی۔
”یہ میری ضد نہیں امید ہے داداجان کہ میری خوشیوں میں سب شریک ہونگے۔۔۔“
”ٹھیک ہے۔۔۔تمہیں تین ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔۔۔اگر تمہارا چچا تین ماہ میں مان گیا تو ٹھیک۔۔۔ورنہ وہی ہوگا جو میں چاہوں گا۔۔۔“وہ رُخ پھرتے ہوئے بولے۔
”اور میرا بھائی۔۔۔“
”اس کے لئے اس گھر کے دروازے ساری عمر کے لئے بند ہے۔۔۔“انہوں نے کڑک انداز میں جواب دیا۔
”پھر میری خوشیوں کا خواب بھی مت دیکھیے گا آپ۔۔۔“وہ اتناکہتا کمرے سے چلا گیا۔
”میں بھی دیکھ لوں گا بیٹا۔۔۔تم کب تک اپنی ضد پر قائم رہتے ہو۔۔۔“اس کے جانے کے بعد داداجان نے سوچا۔
آج ملک ہاؤس میں منگنی کی تقریب چل رہی تھی۔اس موقع پراچھا خاصا ہجوم وہاں موجود تھا۔پچھلے دو گھنٹوں سے نتاشہ مسلسل شازمان کا کال کررہی تھی جس کے باعث اس کا مزاج خاصا خراب ہو رہا تھا۔اس نے بالآخر اپنا موبائل ہی بند کر دیا۔ جب شہزین کو ہال میں لایا گیا تو اس کےمزاج نے تو گرگٹ سے بھی تیزی سے رنگ بدلا۔وہ شاکنگ پنک لباس زیبِ تن کئے ہوئی تھی۔ شازمان کو یہ رنگ زہر لگتا تھا مگر آج تو اس کی نظر میں اس رنگ سے زیادہ کوئی خوبصورت رنگ ہوہی نہیں سکتا تھا۔وہ تھی ہی ایسی کہ جو رنگ بھی پہنتی اسی کی شان بڑھ جاتی۔
”شازمان بیٹا۔۔۔انگوٹھی پہناؤ۔۔۔”سیدہ بیگم نے انگوٹھی اس کے سامنے پیش کی تو اس نہایت سلیقے سے شہزین کے نرم وملائم ہاتھ کی نازک انگلی میں انگوٹھی پہنائی۔
”شہزین بیٹا۔۔۔تم بھی انگوٹھی پہناؤ۔۔۔“شبانہ بیگم نے بھی اسے انگوٹھی تھمائی اور اس نے شازمان کو پہنائی۔اس لمحے وہ کافی نروس بھی لگ رہی تھی۔
تقریب ختم ہوئی تو ابھی شبانہ بیگم ہال میں ہی بیٹھی تھیں تب ہی یوسف خان کی کال آئی۔
”لگتا ہے تمہارا واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔“آصف خان نے آغاز ہی طنز سے کیا۔
”مجھے ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے۔۔۔اور ویسے بھی اس ہفتے میرے بڑے بھتیجے کا نکاح ہے۔۔میں اگلے ہفتے ہی واپس آؤں گی۔۔۔“
”تمہارے پاس دماغ ہے یا نہیں؟“وہ چِلائے۔
”کیا ہوگیا ہے؟“ان کا گرجنا بیوی کے بھی تیور بگاڑ گیا۔
”یہاں ہماری عزت کا جنازہ اُٹھ گیا ہے اور تم وہاں بھتیجے کی خوشیاں منا رہی ہو؟“
”تو اور کیا کرتی؟اپنے باپ سے کہتی کہ آپ بھی ماتم منائیں کیونکہ۔۔۔آصف خان کی ہونے والی بہو ہماری عزت اپنے قدموں تلے روند کر کسی اور کے ساتھ فرار ہوگئی؟یا یہ کہتی کہ ہمارا اکلوتی بیٹا ایک ایسی لڑکی کا دیوانہ بنا ہوا ہے۔۔۔جس نے اسے دھتکار کر دیا۔۔۔“وہ دبے لفظوں میں آصف خان کی خوب تذلیل کررہی تھیں۔
”بس بس۔۔۔زیادہ باتیں مت کرو۔۔۔اور کیا تمہارے گھر والوں کو اتنا خیال نہیں کہ اتنے بڑے موقع پر مجھے بھی دعوت دینا ان کا فرض ہے۔۔“اب انہوں نے نیا طعنہ دیا۔
”وہ تو آپ سب کو بلا رہے تھے مگر میں نے یہ بول کر انکار کردیا کہ آپ بے حد مصروف ہیں۔۔۔کیونکہ اپنے بھائی کی بیگم اور بیٹیوں کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔۔۔کوئی بھی بات تو ان کے پیٹ میں ٹِکتی نہیں۔۔ یہاں آکر اگر وہ شہزین کی حرکتیں سب کو بتادیتی تو کیا عزت رہ جاتی ہماری؟آپ کی دہشت کے سب یہاں گنگان گاتے ہیں۔۔۔جب انہیں یہ پتہ چلتا کہ آپ سے ایک اکیلی لڑکی سنبھالی نہیں گئی تو کتنی رسوائی ہوتی میری۔۔۔“اس مرتبہ بھی سارا ملبہ آصف خان پر ہی گرایا گیا۔
”اچھا اچھا ٹھیک ہے۔۔۔جیسے ہی شادی ختم ہو تم واپس آجاؤ۔۔۔اس کمبخت کا تو کچھ پتہ چل نہیں رہا۔۔۔میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم جلد از جلد بلال کی شادی کہیں اور کر دیں گے تاکہ وہ شہزین کے عشق سے آزاد ہو۔۔۔“ان کا ایک نیا منصوبہ!
”جی جی۔۔۔اب یہیں رہ گیا ہے۔“وہ سانس کھینچتی رہ گئیں۔
”ٹھیک ہے۔۔۔خدا حا فظ۔۔۔“
”خدا حافظ۔۔۔“فون بند ہونے کے بعد وہ مسکرائیں۔کتنی آسانی سے انہوں نے یوسف خان جیسے چالاک انسان کو بیوقوف بنادیا تھا۔
شہزین منگنی کی انگوٹھی کو مسلسل انگلی میں گھماتے ہوئے کسی خیال میں کھوئی تھی۔
”ان سب کی کیا ضرورت تھی شان؟“
”کیوں ضروت نہیں تھی؟ایک دم سے شادی کا فیصلہ کر لیا ہمارے گھر والوں نے۔۔۔مجھے تو اپنی شادی کو بہت یادگار بنانا ہے۔۔۔“اسکے منصوبوں کی فہرست خاصی طویل تھی۔
”یاد گار تو یقیناً بنے گی۔۔۔ہم دنیا کے پہلے کپل بنیں گے۔۔۔جو شادی تو سب کے سامنے کررہے ہیں۔۔۔مگر منگنی سب سے چھپ کر چوری چوری کررہے ہیں۔۔۔“اسے اپنی حرکت پر ہنسی بھی آئی تھی۔
”اس کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔۔۔“اس انسان کا خیال آج بھی اسے اپنے حصار میں لئے ہوئے تھا۔
”میں آج دعا کرتی ہوں شان کہ زندگی میں ایک بار تم میرے سامنے آؤ اور تب میں تمہیں بتاؤں کہ جس لڑکی کوتم نے سب کے سامنے بدکردار کہہ کر دھتکارا تھا۔۔۔آج وہ ملک شازمان ابراہیم جیسے اعلیٰ ظرف اور مثالی انسان کی بیوی بننے جارہی ہے۔۔۔“اسے آج اپنی قسمت پر ٖخر سا محسوس ہورہا تھا۔آج کتنا کچھ بدل گیا تھا۔۔۔کیا جوہوا وہ صحیح تھا؟کیا شازمان ہی اس کی منزل تھا؟ یا زندگی اس کے ساتھ پھر کوئی کھیل کھیلنے جا رہی تھی؟کتنے سوال اس لمحے اسے گھیرے ہوئے تھے مگر جواب صرف وقت کے پاس تھا۔۔۔اس کے ہاتھ تو آج بھی خالی تھے۔وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ موبائل نے شور مچا دیا۔
”السلام علیکم۔۔۔“نمبر شازمان کا تھا۔
”منگنی بہت بہت مبارک ہو۔۔۔“اس کی آواز بھی خوشی میں جھوم رہی تھی۔
”آپ کو بھی بہت مبارک ہو۔۔“اس نے عام سے لہجے میں جواب دیا۔
”آپ کو پھپھو نے بتا ہی دیا ہوگا کہ۔۔۔“
”جی۔۔۔بہت بہت شکریہ شازمان۔۔آج آپ نے ایک اور احسان کیا ہے میری ذات پر۔۔۔“
”دراصل احسان تو آپ نے کیا ہے۔۔۔“اس نے فوراً جواب دیا۔
”میں نے۔۔“اسے کچھ سمجھ نہ آآیا۔
”جی آپ نے۔۔۔میں بھی عجیب بیوقوف انسان ہوں اپنی خوشیوں میں اس قدر مگن ہوا کہ یہ بھی بھول گیا کہ خوشیوں میں رنگ تو اپنے بھرتے ہیں۔۔۔اگرمیری شادی میرے بھائی کے بغیر ہوجاتی تو مجھے ساری عمر یہی ملال رہتا کہ میری خوشی ادھوری تھی۔۔۔“وہ اپنے کمرے صوفے پر دراز ہوگیا۔
”یعنی اب شاہنواز بھائی ہماری شادی میں شریک ہونگے؟“
”ہاں۔۔۔میں تین ماہ میں داداجان کو منالوں گا۔۔۔اور شائد یہ تین ماہ آپ کو بھی اس بات پر قائل کرلیں کہ میں ایک بہت اچھا انسان ہوں۔۔۔“اسنے تصوراتی کالر درست کرتے ہوئے کہا۔
”آپ واقعی بہت اچھے انسان ہیں شازمان۔۔۔“ان دونوں کی بات چیت کے دوران ہی شازمان کو ایک اور کال آرہی تھی۔
”میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔“اس نے کال کاٹی تو دوسری کال نتاشہ کی تھی۔
”تم کیا چاہتی ہو مجھ سے نتاشہ۔۔۔کل سے مجھے کال کرکر کے تم نے میرا دماغ خراب کردیا ہے۔۔۔۔“اس نے غُصے سے کال رسیوّ کی۔
”مجھے معاف کردو شازمان۔۔۔مجھ سے بہت بڑی بھول ہوگئی۔۔۔“دہ معذرت کررہی تھی۔
”ٹھیک ہے۔۔۔میں نے تمہیں معاف کیا۔۔۔اب پلیز مجھے یوں پریشان مت کرو۔۔۔“
”شازمان میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔پلیز تم میری جگہ کسی اور کو مت دو۔۔۔وہ لڑکی تمہارے لائق نہیں ہے۔۔۔“
”وہ لڑکی اب ہونے والی ہے۔۔۔ہماری ہوچکی ہے نتاشہ۔۔۔اب خُدا کے لئے ہمارا پیچھا چھوڑ دو۔۔۔“
”تم ایسا نہیں کرسکتے میرے ساتھ۔۔۔میں اپنی جان دے دوں گی شازمان۔۔۔“وہ رو رہی تھی۔
”تو دے دو جان۔۔۔آئی ڈیم کئیر۔۔۔“اس نے کال کاٹ دی۔اسے یقین تھا کہ یہ محض دھمکی ہی ہوگی۔
آج شام کو شبانہ بیگم کے جانے کا وقت آیا تو شہزین ان کے گلے لگ کررونے لگی۔ سیدہ بیگم بھی وہیں ہال میں ان کے ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔
”شہزین بیٹا۔۔۔اتنا کیوں رو رہی ہو۔۔۔؟“وہ اس کے آنسو پونچھنے لگیں۔
”تائی امی۔۔۔کچھ دن اور رک جائیں۔۔۔“
”یہ کیا بات ہوئی۔۔۔؟بیٹامیں یہاں مطمئن ہوں کہ اب تمہارا مستقبل محفوظ ہے اور تم ہوکہ مجھے روتے ہوئے رخصت کرنا چاہتی ہو۔۔۔“
”اور ویسے بھی پھپھو یہاں رک کر کیا کریں گی۔۔۔۔جب ہم ہی یہاں نہیں ہونگے۔۔“شازمان وہاں آتے ہوئے بولا۔
”کیا مطلب؟“شہزین نے پوچھا۔
”مطلب یہ کہ کل ہم سب کراچی جارہے ہیں۔۔۔“سیدہ بیگم بھی شازمان کے منصوبے میں شریک تھیں۔
”پر۔۔۔“
”ڈونٹ وری۔۔۔آپ کے تایاجان کراچی نہیں آئیں گے۔۔۔“وہ اس لے خوف کا مزاق اُڑا رہا تھا۔
”شازمان۔۔۔خبر دار جوتم نے میری بیٹی کا مزاق اُڑایا۔“شبانہ بیگم نے اسے گھورا۔
”یہ سب آپ کے شوہر کی دہشت کا نتیجہ ہے پھپھو۔۔۔ویسے میں نے تو آج تک نہیں دیکھا بھی نہیں۔۔۔ دیکھنے میں بھی کیا ویلن ٹائپ لگتے ہیں۔۔۔؟“وہ شرارتی اندازمیں بولا۔
”تمہیں اتنا شوق ہورہا ہے تو میرے ساتھ ہی چلو۔۔۔مل لینا ان سے۔۔۔“
”مل لوں گا۔۔۔مگر ابھی موڈ نہیں ہے۔۔۔“وہ انگرائی لیتے ہوئے بولا۔
”اس کی باتوں کا برامت منانا شبانہ۔۔۔یہ ایسا ہی ہے۔۔۔“
”جی جی۔۔۔میری امی کا لائق اور سمجھدار بیٹا صرف شاہنواز ہے۔۔۔“شازمان نے پھر اس کا ذکر کیا تو سیدہ بیگم نے چپ سادھ لی۔
”بڑی حسرت تھی شاہنواز سے ملنے کی بھابھی۔۔۔مگر وہ منگنی پر بھی نہیں آیا۔۔۔“شبانہ بیگم کو اصل ماجرے کا علم نہیں تھا۔
”بس کبھی کبھی کچھ مجبوریاں پاؤں کی زنجیریں بن جاتی ہیں۔۔۔“وہ معنی خیز انداز میں بولیں۔
شبانہ بیگم کے چلے جانے کے بعد وہ چھت پر آگئی۔اس نے یہ بات محسوس کی تھی کہ شاہنواز کا ذکر سب کو ہی سنجیدہ سا کر دیتا تھا۔اس گھر میں بھی شاہنواز کی ایک تصویر تک بھی نہیں تھی؟اور داداجان تو اس کے ذکر سے بھی گریز ہی کرتے تھے۔۔۔
”کس خوش نصیب کے متعلق سوچا جارہا ہے؟“شازمان بھی وہاں آن پہنچا۔
’کچھ نہیں میں بس یہ سوچ رہی تھی کہ۔۔۔سب آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔۔۔مگر شاہنواز بھائی کے ذکر سے ہی گھر میں تناوع سا پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔ایسا کیوں ہے؟“
”آپ کے اس سوال کا جواب آپ کو وقت کے ساتھ ساتھ مل جائے گا۔۔۔“وہ اس کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”جی۔۔۔“اس نے محسوس کرلیا تھا کہ شازمان اس کے سوال کا جواب دینے سے کترا رہا تھا۔
”آپ ہمیشہ سے ہی ایسی ہیں؟“اسے خاموش دیکھ کر شازمان نے پوچھا۔
”ایسی کیسی؟“
”سنجیدہ۔۔۔اور میری زبان میں سڑیئل۔۔۔“وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا۔
”دراصل کچھ لوگ پیدائشی ہی سنجیدہ ہوتے ہیں مگر کچھ لوگوں کو حالات ایسا بنادیتا ہے۔۔۔؟آپ کیا ہمیشہ سے ایسی تھیں یا پھر۔۔۔؟“ اس کا سوال شہزین کو پھر سے ماضی کے لمحوں میں لے گیا۔
”سوچ لو مسٹر شان میرے ساتھ زندگی آسان نہیں ہوگی تمہاری۔۔۔۔“اسے اپنے کہے جملے ہی یاد آئے تھے۔
”کیوں۔۔۔؟“
”کیونکہ۔۔۔میں جیسی ہوں تمہیں بھی ویسا ہی بنادوں گی۔۔" وہ گویا اسے للکار رہی تھی۔
”وہ تو وقت ہی بتائے گا۔۔۔میں تم جیسا شوخ بنتاہوں یا تم مجھ جیسی سڑیئل۔۔۔“وہ پھر سے کسی خیال میں کھوسی گئی۔
”شہزین۔۔۔“شازمان نے اسے کھویا کھویا محسوس کیا۔
”جی۔۔۔“وہ فوراً کپکپا سی گئی۔
”آپ کہاں کھو جاتی ہیں؟“
”کہیں نہیں۔۔۔ میں چلتی ہوں۔۔۔اگر کسی نے ہمیں یہاں ایک ساتھ دیکھ لیا تو اچھا نہیں لگے گا۔۔۔“اپنے آنسو چھپانے کے لئے وہ فوراً وہاں سے دوڑ گئی۔
”عجیب ہی لڑکی ہے یار۔۔۔“اس کے جانے کے بعد شازمان گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوچنے لگا۔
صبح ناشتے کے بعد وہ کچن میں کھڑی دوپہر کے کھانے کے متعلق سوچ رہی تھی۔ملازمت چھوڑنے کے بعد کھانے پکانے کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لے لی تھی۔اب خیر وہ گھر کی بہو بننے جارہی تھی تو یہ زمہ داری اسنے مستقل طور پر اپنے معمول کا حصہ بنالی تھی۔
”شہزین۔۔۔“سیدہ بیگم بھی اسے پکارتی ہوئی کچن میں چلی آئیں۔
”جی آنٹی۔۔۔“
”بیٹا تم تیار نہیں ہوئی۔۔؟“وہ اسے گھر کے کپڑوں میں دیکھ کر چونکی۔
”کیوں کہیں جانا ہے؟“
”بیٹا کل تمہیں بتایا تو تھاکہ ہم نے آج کراچی جانا ہے۔۔۔“ انہوں نے یاد دلایا۔
”سوری میرے ذہن سے نکل گیا۔۔۔“اس نے معذرت کرلی۔
”کوئی بات نہیں اب تم جلدی سے تیار ہوجاؤ۔۔۔سامان پیک کر لو۔۔دراصل تمہاری اور شازمان کی منگنی ہوئی ہے نا۔۔۔اس لئے تمہارے داداجان کی خواہش ہے کہ تم شازمان کے بابا کی قبر پر فاتحہ خوانی کر آو۔۔۔کل ان کی برسی ہے۔۔۔“ انہوں نے جانے کی وجہ بتائی۔
”جی۔۔۔پر ہم سب وہاں رکیں گے کتنے دن؟“
”بس تین دن کی ہی بات ہے بیٹا۔۔۔جاؤ تم تیاری کرو۔۔۔“ان کی ہدایت پر وہ کمرے میں چلی گئی۔
فلائٹ شام پانچ بجے کی تھی مگر شازمان کی تاخیر سے یوں محسوس ہورہا تھاکہ جیسے رات آٹھ بجے کی تیاری ہو۔سب لوگ تیار ہوکر گھر کے ہال میں موجود تھے مگر موصوف ابھی تک اپنے کمرے سے ہی نہ نکلے تھے۔
”شازمان۔۔۔بیٹا فلائٹ کا وقت ہو رہا ہے۔۔جلدی کرو۔۔“داداجان کی رعب دار آواز پر وہ دوڑتا ہوا کمرے سے نکلا۔
”آگیا داداجان۔۔۔“وہ سیڑھیاں اُترتا وہاں پہنچا۔جہاں سب لوگ اس کے منتظر تھے۔
”نالائق۔۔۔لڑکیوں کے جیسے تیار ہونے میں وقت لگاتے ہو۔۔۔“ والدہ نے بھی اسے ڈانٹا۔
”اوف اوہ مما۔۔۔آپ کو پتہ تو ہے کہ مجھ سے جلدی جلدی کام نہیں ہوتے۔۔۔۔“وہ دہائی دیتے ہوئے بولا۔
”تمہاری ڈرامے بازی میں فلائٹ نکل جائے گی۔۔۔جلدی کرو۔۔۔“ داداجان نے پھر ٹوکا
وہ لوگ کراچی ائرپورٹ پہنچے تو یہاں بھی شازمان کی سُستی نے ان کی مشکلات میں خاصا اضافہ کردیا تھا۔ڈرائیور کو اپنی آمد سے آگاہ کرنے کا کام داداجاں نے اسے سونپا تھا مگر وہ بھول گیا۔ اس غلطی پر داداجان کا دل کیا کہ شازمان کا گلا دبا دے۔
”گدھے نالائق۔۔۔ایک کام دیا تھا تمہیں۔۔۔“وہ سب کے سامنے اس کی خبر لینے لگے۔
”سوری داداجان۔۔پر ڈونٹ وری میں اب ڈرائیور کو انفارم کر دیا ہے۔۔۔وہ بس پہنچنے والا ہے۔۔۔“
”آدھے گھنٹے سے یہی سن رہے ہیں۔۔۔“ماں کو بھی طیش آ گیا۔
”تو۔۔۔آپ کوئی گانا سن لیں۔۔۔“وہ بے دھیانی میں بولا۔
”بکواس بند کرو۔۔۔“داداجان نے پھر بے عزتی کردی۔
”میں آپ لوگوں کے لئے کافی لے کر آتا ہوں۔۔۔“وہ جان بجاتا وہاں سے بھاگ گیا۔
شہزین اس وقت ایک بک سٹال پرکھڑی کسی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھی تب ہی شازمان بھی اس کے پاس چلا آیا۔
”مس شہزین۔۔۔“
”جی۔۔۔“اس نے دھیاں کتاب سے ہٹایا۔
”آپ کو بھی ناولز پڑھنے کا شوق ہے۔۔۔“اس نے بھی ریک سے ایک کتاب اُٹھائی۔
”نہیں بالکل نہیں۔۔۔“وہ بوکھلا گئی۔
”تو پھر آج پڑھ لیں۔۔۔یہ ڈائجسٹ میری طرف سے آپ کے لئے گفٹ۔۔۔“اس نے ایک ڈائجسٹ شہزین کو تھمایا۔
”مجھے زہر لگتے ہیں ڈائجسٹ۔۔ مجھے نہیں پسندبے فضول افسانے۔۔۔بیکار کی کہانیوں سے سخت نفرت ہے مجھے۔۔۔“اسے ایک دم سے غُصہ آگیا۔
”اوہ مائی گڈنیس۔۔۔اتنا غُصہ۔۔۔“شازمان نے بھی اسکے لہجے کی تلخی کو محسوس کیا تھا۔
”ایکسکیوز می۔۔۔“وہ اس کی بات کو بغیر کوئی اہمیت دیے وہاں سے چلی گئی۔
”شاذی بیٹا۔۔۔کیا کر رہی ہو؟“
”امی یہ دیکھیں۔۔۔میری کہانی شائع ہو ئی ہے۔۔۔“
”واہ۔۔۔بہت بہت مبارک ہو میری جان۔۔۔“اس لمحے وہ لوگ گاڑی میں سوار ہوکر اپنی منزل کی راہ پر گامزن تھے مگر اس کے ذہن میں ڈائجسٹ والی بات ابھی تک بیٹھی ہوئی تھی۔
کبھی اسے کہانیوں کی دنیا بہت پسند تھی مگر آج اسے ان سب سے شدید نفرت تھی۔۔۔اب جب وہ لوگ گھر روانہ ہوئے توشہزین کو اس بات کا پچھتاوا تھا کہ اس نے شازمان سے بدلحاظی کردی تھی مگر اس نے کوئی شکوہ بھی نہیں کیا تھا جو شہزین کو مزید پشیمان سا کررہا تھا۔
”شازمان۔۔۔۔“وہ لان میں چہل قدمی کر رہی تھی تب ہی شازمان بھی وہاں سے گزرا۔
”ہاں۔۔۔“اس نے رُک کرجواب دیا۔
”آئی ایم سوری۔۔۔اس وقت میں نے آپ سے بہت بدلحاظی کی تھی۔۔۔دراصل کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو بے بس کردیتے ہیں۔۔۔“اس نے معذرت کی۔
”قصور آپ کا نہیں ہے۔۔۔آئی تھنک میں ابھی تک آپ کو سمجھ ہی نہیں پایا۔۔۔اور شائدآپ کو بھی ایسا وقت نے بنادیا ہے۔۔۔زندگی کی تلخیاں کبھی کبھی ہماری شوخیوں کو ختم کردیتی ہے۔۔۔پر ایک بات رکھیے گا۔۔۔اتنا تو میں بھی جان گیا ہوں کہ شہزین احمد کے ساتھ زندگی گزارنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔۔۔“اس کے ماتھے پر ایک بل بھی نہ آیا تھا بلکہ وہ مسکرا کر ہر لفظ ادا کررہا تھا۔
"ہم اب کم ازکم ایک مہینہ تو ساتھ رہیں گے ہی۔۔۔بے شک کام کے دوران ہی مگر میں ایسے سڑوں انسان کے ساتھ کام نہیں کرسکتی۔۔۔“
”میں ایسا ہی ہوں اور ایساہی رہوں گا۔۔۔تمہیں اگر میرے ساتھ کام نہیں کرنا تو تم جاسکتی ہو۔۔۔“
”اچھا۔۔۔یعنی تم سکرپٹ چُرانے کا پلان بنا رہے ہو؟شیم آن یو۔۔۔“
”میں ہاتھ جوڑتا ہوں۔۔۔خدا کے لئے میرا پیچھا چھوڑ کر کام پر دھیان دو۔۔۔“اسنے تنگ آتے ہوئے ہاتھ جوڑے تھے۔
”شہزین۔۔۔“شازمان نے اسے پھر کھویا کھویا محسوس کیا۔
”جی۔۔۔“وہ جیسے ابھی ہوش میں آئی تھی۔
”اگر آپ برا نہ منائیں تو کیا آپ میرے ساتھ گھومنے چلیں گی؟“
”میرے برا منانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔اگر داداجان اور آنٹی آپ کو اجازت دے دیں تو مجھے کوئی مسلہ نہیں۔۔۔“اسنے کوئی اعتراض ظاہر کیا تھا۔
”یعنی۔۔۔مجھے پہلے اچھی خاصی عزت افزائی کروانی پڑے گی۔۔۔“شہزین کے جانے کے بعد وہ کمر پر دونوں ہاتھ ٹکائے خُود سے ہی مخاطب ہوا۔اسی لمحے شاہنواز کی کال آگئی۔
”میرا بھائی کیسا ہے۔۔۔“کال ملتے ساتھ اس نے سلام کرنا بھی گوارا نہ کیا۔
”بھائی کم از کم سلام تو کرلیا کریں۔۔۔“وہ سنجیدگی سے بولا۔
”یار حد ہے۔۔۔دو سال بڑاہوں میں تم سے۔۔۔اور تم میری بے عزتی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔۔۔“وہ کہاں اس کی باتوں میں آنے والا تھا۔
”اب تو آپ کو بھابھی کی بے عزتی کی عادت بھی ڈل ہی گئی ہوگی۔۔۔“
”جی نہیں آپ کی بھابھی بہت عزت اور محبت کرنے والی ہیں۔۔۔“وہ شہزین کی تعریف کا کوئی موقع بھلا کیسے گنوا سکتا تھا۔
”ابھی تو آغاز ہے بھائی۔۔۔کچھ عرصے بعد دیکھوں گا کہ وہ آپ کی کتنی عزت کریں گی اور آپ ان سے کتنی محبت۔۔۔“ان دونوں میں خاصی بے تکلفی تھی۔
”وہ تو بعد کی بات ہے۔۔۔تم مجھے یہ بتاؤ کہ میں نے تمہیں منگنی اور نکاح کی تصویریں بھیجی تھیں۔۔دیکھیں تم نے؟“
”جی دیکھی ہیں۔۔۔ماشااللہ آپ دونوں کی بہت اچھی جوڑی ہے۔۔“وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
”زیادہ پیارا کون ہے؟“اس نے شوخی سے پوچھا۔
”میرے بھائی سے زیادہ پیارا کوئی نہیں ہوسکتا۔۔۔“اس کا سنجیدہ انداز ہی تھا۔
”یہ کی نا بھائیوں والی بات۔۔۔چلو میں بعد کرتا ہوں۔۔۔ابھی مجھے ایک بہت اہم کام کے لئے جانا ہے۔۔۔“وہ پرعزم ہوکر بولا۔
”اوکے۔۔۔اپنا خیال رکھیے گا۔۔خداحافظ۔۔“
”خدا حافظ۔۔۔“کال کٹنے کے بعد اس نے سیدہ بیگم کے کمرے کی راہ پکڑی۔
”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟“انہوں نے صاف انکار کردیا۔
”پلیز مما۔۔۔اب تو وہ میری منگیتر ہیں۔۔۔صرف آدھے گھنٹے کی ہی تو بات ہے۔۔پلیز اجازت دے دیں۔۔۔“وہ ان کے پاؤں دبانے لگا۔
”ٹھیک ہے۔۔ابھی ایک گھنٹے تک تمہارے داداجان نے کہیں جاناہے اور وہ شام کو ہی واپس آئیں گے۔۔۔تم ان کے جانے کے بعد جاؤ گے۔۔۔اور ان کے آنے سے پہلے آجاؤ گے۔۔۔“وہ مکمل شیڈول جاری کر رہی تھیں۔
”جو حکم میری مما۔۔۔“وہ فوراً اُٹھا
داداجان کے جاتے ہی وہ شہزین کو ساحلِ سمندر پر لے گیا جہاں لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ شائد پورا جہان یہیں اکٹھا ہو گیا ہے۔وہ دونوں اس لمحے سمندر کے پانی میں پاؤں ڈبوئے کھڑے تھے۔آوارہ موجیں ان کے قدموں سے ٹکرا کر پھر اپنی منزلوں کو لوٹ جاتیں۔
”جانتی ہیں شہزین یہ میری فیورٹ جگہ ہے۔۔۔ساحلِ سمندر مجھے ہمیشہ سے بہت پسند ہے۔جب میں بے سکون محسوس کرتا تھا تو کراچی کے سمندر پر چلا جاتا تھا۔۔۔ اور جیسا آپ کا نیچر ہے مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو بھی یہ جگہ بے حد پسند ہوگی۔۔۔۔چلیں کم ازکم کسی ایک معاملے پر تو ہماری پسندایک ہے۔۔۔۔“اسے ایک ہی جانب نظریں جماتا دیکھ کر شازمان نے خود سے ہی اندازہ لگایا۔
”مجھے سمندر بالکل پسند نہیں ہے۔۔۔پلیز چلیں یہاں سے۔۔۔“ وہ بے چینی سے بولی۔
”وٹ۔۔۔آپ کو اچھا کیا لگتا ہے؟“اس کی ساری محنت بیکار گئی تھی۔
”فی الحال مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔مجھے اس جگہ سے وحشت ہورہی ہے۔۔۔پلیز چلیں یہاں سے۔۔۔“اس نے سمندر سے رُخ ہی پھیر کیا۔
”اوکے۔۔۔چلیں۔۔۔“اس نے بھی کندھے اُچکا دیے۔
کچھ دیر گھومنے پھرنے کے بعد وہ لوگ واپس گھر آگئے تھے۔شہزین کی زندگی سے تو آصف خان کا قصہ تما ہوچکا تھا اور دوسری طرف آصف خان نے بھی شہزین کے ملنے کی امید چھوڑ ہی دی تھی مگر بلال اب بھی اس کی کھوج میں مصروف تھا۔کسی اور سے شادی کرنے سے اس نے صاف انکار کردیا تھا۔ شہزین احمد اب اس کا جنون بن گئی تھی۔
”بلال بیٹا۔۔۔“وہ کمرے میں بیٹھا اپنی بندوق کی صفائی کر رہا تھا تب ہی شبانہ بیگم اس کے کمرے میں چلی آئیں۔
”جی۔۔۔“اس نے روکھے لہجے میں ہی جواب دیا تو شبانہ بیگم صوفے پر براجمان ہو گئیں۔
”بیٹاتم کب تک اس کرم جلی۔۔منہوس لڑکی کو تلاش کرتے رہو گے؟چھوڑ دو اس کا پیچھا۔۔۔تمہارے لئے لڑکیوں کی کوئی کمی تو نہیں ہے میرے بچے۔۔۔“وہ بناوٹی فکرمندی سے کام چلا رہی تھیں۔
”بس امی۔۔۔وہ لڑکی ہی میری بیوی بنے گی۔۔۔“وہ رومال سے ہاتھ صاف کرت ہوئے بولا۔
”بیٹا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس نے اسی لڑکے سے شادی کرلی ہو جس کے ساتھ وہ بھاگی تھی۔۔۔“
”اگر ایسا ہوا تو میں اس لڑکے کو جان سے مار دوں گا۔۔۔مگر اس شہزین کو یہاں واپس ضرور لاؤں گا۔۔۔“اس کے ارادے بہت خطرناک تھے۔
”بالکل اپنے باپ جیسا ضدی ہے۔۔۔۔“وہ دل ہی دل میں دونوں باپ بیٹے کو کونس رہی تھیں۔
”چلو اللہ کرے۔۔۔سب کچھ ٹھیک ہوجائے۔۔۔“وہ میٹھے لہجے میں بولیں۔
تین دن کراچی قیام کے بعد وہ لوگ واپس لاہور آگئے۔ہر سال شاہنواز بھی اس موقع پر اپنے خاندان کے ساتھ موجود ہوتا تھا مگر اس مرتبہ اس کی کمی سب کو ہی اداس کرگئی تھی۔یہ بات اندر ہی اندر سیدہ بیگم کو پریشانی میں جکرے ہوئے تھی ان کی صحت بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بِگرتی چلی جا رہی تھی جسے فی الحال گھر کے کسی فرد نے محسوس نہ کیا تھا۔
شہزین اس لمحے چھت پر بیٹھی خاموشی سے آسمان پر نظریں ٹکائے وہ چمکتے چاند کو دیکھ رہی تھی۔ہمیشہ کی طرح آج بھی شازمان اس کا پیچھا کرتا کرتا وہاں پہنچ گیا تھا۔
”اگر آپ کو چاند ہی دیکھنا تھا تو آئینہ دیکھ لیتیں۔۔۔“ شازمان ہاتھوں میں کافی کے دو کپ لئے اس کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”یہ کافی آپ کے لئے۔۔۔“اس نے ایک کپ اسے دیا۔
”میں ابھی اپنے لئے کافی بنانے کا ہی سوچ رہی تھی۔۔۔“اسنے کپ تھامتے ہوئے بتایا۔
”دیکھ لیں۔۔۔آپ کی سوچ کو اب میں بھی سمجھنے لگاہوں۔۔۔“وہ جتاتے ہوئے بولا۔
”ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے گا شازمان۔۔۔کبھی بھی کسی کو سمجھنے کا دعویٰ مت کیجیے گا۔۔۔انسان کبھی بھی کسی دوسرے انسان کو سمجھ نہیں سکتا۔۔۔“وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ٹوک گئی۔
”آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کو کبھی بھی نہیں سمجھ سکتا۔۔۔“
”جی۔۔۔“وہ گھونٹ بھرتے ہوئے بولی۔
”ایسا تو نہیں ہے۔۔۔ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں تب ہی تو ہمارا رشتہ قائم ہے۔۔۔“اسنے دلیل دی تھی۔
”کوئی بھی رشتہ صرف دو وجوہات پر قائم ہوتا ہے۔۔۔محبت یا پھر عزت۔۔۔“
”تو پھر ہمارا رشتہ کس وجہ سے قائم ہے؟محبت یا پھر عزت؟“اسنے سنجیدگی سے سوال کیا۔
”دونوں۔۔۔آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں آپ کی عزت۔۔۔“
”یعنی آپ مجھ سے محبت نہیں کرتیں؟“اس کے سوال پر وہ مکمل خاموش ہوگئی۔
”آپ کی اس خاموشی کا میں کیا مطلب سمجھوں؟“اس نے دوسرا سوال کیا۔
”ایک بار آ پ نے ہی مجھ سے کہا تھا کہ پاکستان میں لڑکی کی خاموشی کو ہمیشہ ہاں ہی سمجھا جاتا ہے۔۔۔“اس نے نظر اُٹھا کر جواب دیا۔
”یعنی کہ میں نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار دی؟“اس مرتبہ اس نے کافی کا گھونٹ بھرا۔
”درست کہا کسی نے کہ محبت صرف ایک بار ہی ہوتی ہے پھر چاہے وہ ناکام ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ہمیشہ یاد بن کر ہماری سوچ پر سوار رہتی ہے۔۔۔بہت بہادر ہوتے ہیں وہ لوگ جو ایک ناکامی کے بعد دوبارہ محبت کر لیتے ہیں۔۔۔پھر سے اذیتوں کے لئے اپنی زندگی کے در کھول لیتے ہیں۔۔۔مگر میں اتنی بہادر نہیں ہوں جو پھر سے اس ثراب میں اپنے وجود کو دھکیلوں۔۔۔میں چاہ کر بھی شازمان سے محبت نہیں کر سکتی کیونکہ میرے جذبے تو اسی دن دم توڑ گئے تھے جب میری محبت میری رسوائی کا سبب بنی تھی۔۔۔سب کچھ ہونے کے باوجود بھی میری زندگی نامکمل سی ہے۔۔۔اور اب شائد یہ ادھورا پن میری قبر تک میرے ساتھ جائے گا۔۔۔“وہ پھر سے اپنے شہرِ دل میں اپنی بے بسی کا ماتم کرنے لگی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"آنٹی آپ نے بلایا تھا۔۔۔"وہ اپنے روزمرہ کے کام کرکے ہٹی ہی تھی کہ سیدہ بیگم نے ملازمہ کے ہاتھ اسکے لئے بلاوا بھجوایا تھا۔
"ہاں بچے۔۔۔دراصل کل ایک تقریب پر جانا ہے اسلئے تم آج شازمان کے ساتھ جاکر اپنے لئے ایک اچھا سا ڈریس خرید لو۔۔"انہوں نے سامنے رکھے زیورات کا ایک نظر جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
"کون کون جائے گا آنٹی؟"انکے سامنے صوفے پر بیٹھتی وہ سوالیہ انداز میں پوچھنے لگی۔
"سب جائیں گے۔۔بابا کے بہت قریبی دوست کی پوتی کی شادی ہے۔۔"انہوں نے نرمی سے جواب دیا۔
"جی آنٹی۔۔"
"شازمان۔۔''اسی اثنا میں وہاں سے گزرتے شازمان کو ماں نے پکارا تھا۔
"جی مام۔۔"اسنے رکتے ہوئے احترام سے جواب دیا۔
"شہزین کو شاپنگ پر لے جاو۔۔"انکا حکم شازمان کو کسی اعزاز سے کم نہ لگا تھا۔
"لبیک امی حضور۔۔ "اسنے چہکتے ہوئے ماں کو باقائدہ سیلوٹ کیا تھا۔
دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوتے ساتھ شازمان اسے مال لے گیا تھا۔کوئی شوخ یا بھڑکیلا رنگ لینے کی بجائے اسنے نفیس کام والی مہرون فراق خریدی تھی۔اس خاندان کا خلوص اور شازمان کی توجہ اسے بیک وقت خوش اور پشیمان بھی کرتی تھی جو چاہ کر بھی اس انسان کے لئے دل میں کوئی گنجائش پیدا کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی تھی۔
"ماشاللہ۔۔۔تم تو دن رات شکرانے کے نوافل ادا کیا کرو نالائق۔۔اللہ نے کتنے قیمتی تحفے سے نوازا ہے تمہیں۔۔"شام میں وہ تیار ہوکر نیچے ہال میں پہنچی تو سیدہ بیگم نے اسکی نظر اتارتے ہوئے شازمان کو ٹوکا تھا۔
"اب میں اتنا گیا گزرا بھی نہیں ہوں مام۔۔"سفید قمیض شلوار پر رائیل بلیو واسکٹ پہنے اسنے اپنی حالت کا جائزہ لیا تو اپنا آپ اتنا بھی گیا گزرا محسوس نہ ہوا تھا۔
"نالائق تم تو آج جلدی تیار ہوگئے۔۔"داداجان وہاں آتے ہوئے پوتے کی تیاری پر حیران ہوئے تھے۔
"جی کیونکہ اب میں سمجھدار بنتا جارہا ہوں پیارے داداجان۔۔"شازمان نے کھلکھلاتے ہوئے جتایا تھا۔
"شکر ہے شہزین کے یہاں آنے سے تمہیں تو عقل آئی۔"اس بات کا سہرہ بھی انہوں نے ہونے والی بہو کے سر باندھا تھا۔
"اب دیر نہیں ہو رہی؟"اسنے خفا نظروں سے خود پر ہنستے داداجان کو دیکھا تھا۔
"چلو اب۔۔"کلائی میں بندھی گھڑی پر وقت دیکھتے وہ عجلت میں گھر سے نکلے تھے۔
آج بارات کی تقریب تھی جو شہر کی سب سے شاندار مارکی میں رکھی گئی تھی۔تقریب سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ لوگ بھی خاندانی رئیسوں میں سے ایک تھے۔داداجان کے ہمراہ سیدہ بیگم تیزی سے چلتی چلتی اندر گئی تھیں جبکہ وہ انکے تعاقب میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر کی جانب گامزن تھی اور شازمان اس سے تھوڑا آگے چل رہا تھا۔اس نے جیسے ہی ہال میں قدم رکھا تو نظر پھولوں سے سجے سٹیج پر گئی جہاں سیاہ شیروانی میں ملبوس بہت ہی جانا پہچانا چہرہ اس کے وجود کو بےچین کرگیا تھا۔اسکے چہرے کے اطمینان اور گہری مسکراہٹ سے عیاں تھا کہ وہ دل سے اس رشتے پر راضی ہے جبکہ اس کے سامنے جاتے ہی شہزین زمین بوس ہونے کے قریب تھی۔
"کیا ہوا شہزین آپ ٹھیک ہیں؟"اس سے قبل وہ لرکھڑا کر گرتی شازمان نے اسے بازو میں بھر کر سہارا دیا تھا۔
"نہیں۔۔میں میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔مجھے گھر جانا ہے۔۔" اس سے دور ہٹتی وہ گھبرائی تھی۔
"ہوا کیا ہے شہزین؟"شازمان نے اس کی بگڑتی کیفیت کو محسوس کیا تھا۔
"کیا ہوا شازمان؟"اسی دوران سیدہ بیگم بھی وییں چلی آئی تھیں۔
"شہزین کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔"اس نے فکرمندی سے کہا۔
"کیا ہوگیا بچے؟"سیدہ بیگم اس سے سوال گوہ ہوئی۔
"داداجان میں انہیں گھر لے جاتا ہوں۔۔"وہاں آتے داداجان کو دیکھتے ہوئے شازمان نے کہا۔
"ہاں جاو تم بیٹے۔۔بہو تم بھی جاو ساتھ۔۔"انہیں بھی شہزین کا چہرہ ذرد پڑتا دیکھ کر تشویش ہوئی تھی۔
"جی۔۔"وہ دونوں اسے لئے وہاں سے نکلے ہی تھے کہ سٹیج پر بیٹھے انسان نے بغور مرکزی دروازے سے نکلتی لڑکی کا آدھا چہرہ دیکھا تو جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"السلام علیکم داداجان۔۔"وہ چل کر داداجان کے پاس آیا تھا۔
"کیسے ہو برخوردار؟"داداجان نے اسکا کندھا تھپتھپایا تھا۔
"اللہ کا کرم ہے۔۔یہ آپ کے ساتھ کون تھیں؟"اسنے کتراتے ہوئے پوچھا۔
"شہزین۔۔میری بہو۔۔شازمان کی دلہن۔۔"وہ سرشاری سے جوابدہ ہوئے۔
"اوہ شازمان بھائی کی شادی کب ہوئی؟"اسے دھچکا لگا تھا۔
"ہونی ہے اور تم نے آنا ہے۔۔"انہوں نے رعب دار انداز میں حکم دیا۔
"جی ضرور۔۔"
"شائد مجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔"اسنے اپنے ہی خیالوں پر سر جھٹکا تھا۔
اس کا دل بار بار کچھ دیر قبل کے منظر کی جانب ہی کھچا چلا جا رہا تھا۔وہ لڑکی اجنبی نہیں تھی کیونکہ اتنے فاصلے سے بھی دل نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اسے جانتا ہے۔کاش وہ اس چہرے کو دیکھ پاتا!
"شان۔۔"وہ دونوں ہاتھ کمر پر باندھے چھت پر کھڑا خالی نظروں سے لان کی جانب نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔
"جی مام۔۔"اسنے خود کو مستحکم دکھانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
"تم خوش ہو نا بچے؟"وہ اس کی جذباتی کیفیت کو لے کر پریشان تھیں۔
"جی مام۔۔"
"ملائکہ بہت پیاری بچی ہے۔۔۔اسکی قدر کرنا۔۔اپنے گزشتہ تجربوں کے ترازوں میں مت تولنا اسے۔۔"رونمائی کا تحفہ اسکے سپرد کرتی وہ ملتجی ہوئی تھیں۔
"کوشش کروں گا۔۔"وہ بے دلی سے مسکرایا تھا۔
"بھول جاو اسے شان۔۔"جاتے جاتے وہ اسکے زخم کرید گئی تھی۔
"بھول چکا ہوں۔۔بےفکر رہیے۔۔"اسے خود معلوم نہ تھا کہ اسنے خود کو تسلی دی تھی یا ماں کو!
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"انہوں نے کوئی سٹریس لیا ہے؟"ڈاکٹر نے معائینہ کرنے کے بعد اسے انجیکشن لگایا تھا۔
"نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہوا ڈاکٹر۔۔"سیدہ بیگم نے نفی میں گردن کو جنبش دی تھی
"پتہ نہیں کس کی بری نظر لگ گئئ ہے میری بیٹی کو!"ڈاکٹر کے جاتے ہی ملازمہ کو بلا کر انہوں نے پھر سے شہزین کی نظر اتاری تھی۔
اپنے من پسند انسان کی سیج پر بیٹھی وہ خود کو بہت بڑا فاتح تصور کر رہی تھی کہ کس طرح اسنے اپنے راستے کے ہر کانٹے کو صاف کرتے ہوئے شان کی زندگی میں شمولیت کے لئے اپنے راستے ہموار کئے تھے۔
"یہ مام نے بھیجا ہے تمہارے لئے۔۔"کمرے میں آکر بیڈ کے کنارے بیٹھے شان نے مخملی ڈبی اسکے ہاتھ میں تھمائی تھی۔
"شان تم نے مجھے دل سے قبول نہیں کیا ابھی تک؟"اسکا سردمہر رویہ ملائکہ کا دل دہلا رہا تھا۔
میں انسان ہوں مائکہ۔۔خود پر گزری اذیتوں کو بھلانے کے لئے مجھے کچھ وقت چاہئے۔۔"شیروانی کے پہلے دو بٹن کھولتا وہ گھٹن کے احساس کو کم کرنا چاہتا تھا۔
"اگر میں یہ کہوں کہ میں ان اذیتوں کو بانٹنا چاہتی ہوں تو۔۔"اسنے شان کے ہاتھ کی پشت پر اپنی ہتھیلی رکھی۔
"تم پہلے ہی بہت کرچکی ہو میرے لئے۔۔گڈنائٹ۔۔"اپنا سرہانہ اٹھاتا وہ صوفے کی جانب بڑھ گیا تھا۔
"تم کب اس منہوس لڑکی کے سحر سے نکلو گے شان؟کاش جسطرح میں نے اسے تمہاری زندگی سے نکالا اسی طرح تمہارے دل سے بھی نکال پاتی۔۔"ڈریسنگ روم سے واپس آکر اسکی جانب پیٹھ کئے وہ گہری نیند جا سویا تو ملائکہ پیچ و تاب کھاتی رہ گئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"اب کیسی طبیعت ہے تمہاری بیٹے؟"صبح اسکی آنکھ کھلی تو سیدہ بیگم اسکے سرہانے ہی موجود تھیں۔
"بہتر ہوں آنٹی۔۔سوری کل میری وجہ سے آپ سب بھی پریشان ہوگئے۔۔"اسنے فورا معذرت کی تھی۔
"تم غیر تھوڑی ہو جو معذرت کررہی ہو۔۔تم تو اس گھر کی فرد ہو اب۔۔ہماری عزت ہو۔۔۔تم فریش ہوجاو۔۔میں تمہارا ناشتہ کمرے میں ہی بھجواتی ہوں۔۔"اسکا گال تھپتھپاتی وہ کمرے سے نکل گئی تھیں۔
"اللہ تمہیں کبھی کوئی خوشی نصیب نہ کرے مسٹر شان۔۔تم بھی اسی اذیت سے گزرو جو میں دن رات کاٹ رہی ہوں۔۔"منہ ہاتھ دھوتے ہوئے اس انسان کا مکروہ چہرہ بار بار آنکھوں کے سامنے جگمگانے لگا تو شہزین نے منہ پر ذور ذور کے چھینٹے مارتے ہوئے جذبات پر بند باندھنے کی ناکام کوشش کی تھی پھر کتنی دیر وہاں کھڑی وہ ہچکیوں سسکیوں کے ساتھ رو کر اپنا دل ہلکا کرتی رہی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
صبح سے سیدہ بیگم کی طبیعت ناساز ہی تھی۔یہی وجہ تھی کہ اب وہ بستر سے لگ گئی تھیں۔
”مما آپ اپنا خیال کیوں نہیں رکھتیں؟“شہزین انہیں دوائی دے رہی تھی اور شازمان صوفے پر بیٹھا انہیں سمجھا رہا تھا۔
”ٹھیک ہوں بیٹا۔۔۔“دوا لینے کے بعد وہ بے دلی سے بولیں۔
”اگر ٹھیک ہوتیں تو یوں بستر سے نا لگی ہوتیں۔۔۔“
”یہ سب تو شہزین کا کیا دھرا ہے۔۔۔مجھے کوئی کام ہی نہیں کرنے دیتی۔۔فارغ بیٹھ بیٹھ کر یہ حال ہوگیا ہے۔۔۔“ان کا سراہنے کا انداز بھی خاصا مختلف تھا۔
”آپ ایک بار ٹھیک ہوجائیں پھر جو چاہے کیجیے گا۔۔۔“وہ ان کے باس ہی بیٹھ گئی۔
”شہزین پلیز آپ مما کا خیال رکھا کریں۔۔۔“شازمان نرمی سے بولا۔
”یہ تو میرا بہت خیال رکھتی ہے بیٹا۔۔۔“وہ فوراً بولیں۔
”تو پھر مسلہ کیا ہے؟“اسنے فکرمندی سے پوچھا۔
”مجھے شاہنواز کی بہت یادآرہی ہے۔۔۔“وہ رو نے لگیں۔
”مما پلیز۔۔۔“شازمان ان کے پاس آبیٹھا۔
”وہ بھی میری اولاد ہے شازمان۔۔۔مجھے اس کی بہت فکر ستاتی ہے بیٹا۔۔۔“وہ اپنا درد اپنے بیٹے سے بانٹ رہی تھیں مگر شہزین بھی اپنی آنکھوں کو نم ہونے سے نہ روک پائی۔
”مما۔۔۔پلیز خود کو سنبھالیں۔۔۔“شازمان ان کے آنسو صاف کرنے لگا۔
”تم بات کرو نا اپنے داداجان سے بیٹا۔۔۔شائد وہ تمہاری بات مان جائیں۔۔۔“وہ پرامیدی سے بولیں۔
”میں نے ان سے ہزار بار بات کی ہے مما مگر وہ نہیں مانتے۔۔“
”آنٹی اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو توکیا میں ایک کوشش کرسکتی ہوں۔۔۔“شہزین نے قطع کلامی کی۔
”آپ؟رہنے دیں شہزین۔۔آپ داداجان کے غُصے سے واقف نہیں ہیں۔۔۔“شازمان نے اسے روکنا چاہا۔
”مگر میں ایک کوشش تو کر سکتی ہوں نا۔۔۔“
”شازمان بیٹا۔۔۔کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟کیا پتا شہزین ہی وہ مسیحہ بن جائے جو ہمارے گھرکے بکھرے دانوں کو سمیٹ سکے۔۔۔“سیدہ بیگم نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔کرلیں آپ کوشش۔۔۔“اس نے بھی اعتراض ختم کر دیا۔
شہزین نے سیدہ بیگم اور شازمان کو امید تو دل دی تھی مگر اس کے دل میں بھی دادجان کے متعلق خوف تو تھا۔وہ بھلے ہی آج تک اس سے بے حد نرمی سے پیش آئے تھے مگر شازمان پر غُصہ کرتے ہوئے اس نے نہیں کافی بار دیکھا تھا۔وہ ہمت کرتی ان کے کمرے کے دروازے پر پہنچی۔
”داداجان آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے؟“وہ کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھے تو شہزین کی آواز پر الرٹ ہوئے۔
”ارے نہیں بیٹا۔۔۔“انہوں نے کتاب لیمپ کے میز پر رکھ دی۔
”یا اللہ۔۔شہزین بات کرنے تو نہیں پہنچ گئیں۔۔۔“شازمان کا گزر وہاں سے ہوا تو اس نے بھی دروازے سے کان لگا لئے۔
”داداجان میں جس دن اس گھر میں آئی تھی تو آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ میرا گھر ہے۔۔۔اور آپ کے لئے بالکل ویسی ہی ہوں جیسے شازمان۔۔۔“وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
”بے شک بیٹا۔۔۔بلکہ اب تو تم اس گھر کی عزت ہو۔۔اس گھر کی بہو ہو۔۔۔“وہ اپنائیت سے بولے۔
”تو کیا میں یہ مان لوں کہ میں آج آپ سے جو بھی مانگوں گی۔۔۔آپ مجھے انکار یا مایوس نہیں کریں گے۔۔۔“
”جی بیٹا۔۔۔اپنے داداجان اتنا بھروسہ تو تم کر ہی سکتی ہو۔۔۔“
”داداجان آنٹی کی طبیعت آج کل بہت زیادہ خراب رہنے لگی ہے۔۔۔اور اس کی وجہ شاہنواز بھائی کی فرقت ہے۔۔وہ انہیں بہت یاد کرتی ہیں۔۔اور صرف وہ ہی نہی گھر کے سب افراد بھی ان کی وجہ سے بے حد افسردہ ہیں۔۔۔شائد آپ بھی۔۔“اسنے بہت نپے تلے الفاظ کا انتخاب کیا تھا۔
”ان ماں بیٹے نے تمہیں یہاں سفارس کرنے بھیجا ہے۔۔۔“انکا لہجہ سرد ہوا تھا۔
”نہیں داداجان میں اپنی مرضی سے آئی ہوں۔۔میں نہیں جانتی کہ شاہنواز بھائی سے کیا غلطی ہوئی۔۔۔مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ کوئی بھی غلطی یا اس کی سزا اپنوں کی خوشی سے زیادہ عزیز تو نہیں ہوسکتی۔۔آپ پلیز انہیں معاف کردیں۔۔۔میں اس گھر کی ہونے والی بہو کی حیثیت سے پہلی بار آپ سے کچھ مانگ رہی ہوں۔۔پلیز مجھے ناامید مت کیجیے گا۔۔“ وہ منت سماجت کر رہی تھی۔
”تم نے تو مجھے لاجواب کردیا ہے بیٹا۔۔۔پہلی بار میری بہو نے مجھ سے کچھ مانگا ہے اور اگر میں انکار کروں گا توشائد ساری عمر یہ ملال میری جان نہیں چھوڑے گا۔۔“ان کے لہجے میں اتار سا آگیا۔
”تو کیا آپ نے انہیں معاف کردیا؟“اسے امید کی کرن نظر آئی۔
”نہیں۔۔۔مگر ہاں اس کی سزا ختم کردی ہے۔۔۔وہ اگر چاہے تو یہاں آسکتا ہے۔۔۔“وہ تیکھے انداز میں بولے۔
”اس سے زیادہ کی امید مت رکھنا مجھ سے۔۔۔“انہوں نے دھمکی بھی ساتھ ساتھ ہی دے دی۔
”واہ داداجان۔۔۔یو آر گریٹ۔۔۔“شازمان بھی دوڑتا ہوا کمرے میں آٹپکا۔
”اگر مجھے معلوم ہوتا کہ شہزین کی سفارش اثر دکھائے گی تو میں انہیں بہت پہلے ہی یہاں بھیج دیتا۔۔۔“وہ تو ہواؤں میں اُڑ رہا تھا۔
”تم میں اتنی عقل ہوتی تو کیا ہی بات تھی۔۔۔“داداجان نے طعنہ دیا۔
”داداجان۔۔۔“وہ تلملا گیا۔
”جاؤ اور بتادو اپنے بھائی کو۔۔۔کہ وہ اب آسکتا ہے یہاں۔۔۔“ انہوں نے دوبارہ کتاب کھول لی۔
”یو آر بیسٹ داداجان۔۔۔“وہ دوڑ کر ان کے قریب آیا اور ان کے گال کو چومتا کمرے سے دوڑ گیا۔اس کے اس عمل پر شہزین بھی مسکرائی۔
”یہ سدھرنے والا انسان نہیں ہے۔۔۔“داداجان کو بھی اس کے بچپنے پر ہنسی آئی۔
”تھینکس نہیں مجھے اس کے بدلے تم سے ایک وعدہ چاہئے۔۔۔“
”کیسا وعدہ؟“اسنے معتجب تاثرات سے داداجان کا چہرہ دیکھا۔
”یہ وعدہ کہ تم ساری عمر ہمارے اس گھر کو یونہی خوشیوں سے بھر کر رکھو گی۔۔۔اور کبھی بھی ہمیں چھوڑ کر نہیں جاؤگے۔۔“وہ یقین دہانی چاہتے تھے۔
”انشااللہ داداجان۔۔۔“اس نے وعدہ کیا۔
داداجان کی اجازت ملتے ہی دونوں ماں بیٹے کو توپر ہی لگ گئے۔ان کا بس نہ چلتا ابھی اسی وقت شاہنواز کو واپس بلالیتے۔پہلے والدہ نے فون پر اسے یہ خو شخبری سنائی اور اب شازمان اس سے اپنی خوشی کا اظہار کررہا تھا۔
”میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔تم جلدازجلد پاکستان آرہے ہو۔۔۔آئی ایم مسنگ یو یار۔۔۔اور تمہاری بھابھی کو بھی تم سے ملنے کا بہت تجسس ہے۔۔۔“وہ اپنی ہی دھن میں مگن تھا۔
”بھابھی سے بھی مجھے بھی ملنے کا تجسس ہو رہا ہے بھائی۔۔۔میں بھی تو دیکھوں کہ کون جو ہمارے داداجان کو اتنی آسانی سے قائل کر پایا ہے۔۔۔“وہ بھی شہزین سے کافی متاثر ہورہا تھا۔
”ہاں ہاں میرے چاند مل لینا۔۔۔“
”بھائی۔۔داداجان نے مجھے دل سے معاف کیا یا نہیں۔۔۔“یہ سوال کانٹے کی طرح اس کے دل میں چبھ رہا تھا۔
”پتہ نہیں چاند۔۔پر مجھے یقین ہے کہ جب تم یہاں آجاؤ گے تو وہ زیادہ دن تم سے خفا نہیں رہ پائیں گے۔۔۔۔“اسے بھی امید تھی۔
”ہمم اب آنا تو پڑے گا۔۔۔آخر آپ کاسہرہ بھی تو سجانا ہے۔۔۔“
”جی جی ضرور۔۔۔مگر ابھی سہرہ سجنے میں دوماہ باقی ہیں۔۔“وہ حسرت کے ساتھ بولا۔
”تو میں بھی دوماہ تک ہی آسکتاہوں۔۔۔“
”کیا مطلب۔۔۔نقاش مما یہاں تمہارے لئے بستر سے لگ گئی ہیں اور تم اب بھی ٹال مٹول کررہے ہو؟“اسے اس تاخیر پر شدید غصہ آیا تھا۔
”بھائی ٹرسٹ می۔۔۔میرے کچھ اہم کام ہیں یہاں۔۔میں نے مما کو سمجھا دیا ہے۔۔۔“اس نے وضاحت کی۔
”تمہاری مصروفیات۔۔۔“اس نے طنزیہ انداز اپنایا۔
”ڈونٹ وری۔۔۔آپ کی شادی پر آجاؤں گا۔۔۔“اس نے پھر یقین دلایا۔
یہاں ملک ہاؤس میں خوشیوں نے دستک دی تھی اور وہاں نتاشہ کی آنکھ ہر لمحہ آنسوؤں سے لبریز رہتی۔وہ اندر ہی اندری نفسیاتی مریضہ بنتی جا رہی تھی۔
”نتاشہ۔۔۔“شہریار اس کے کمرے میں آیا۔
”چلے جائیں آپ یہاں سے بھائی۔۔۔مجھے کسی سے نہیں ملنا۔۔۔“ اسنے غصے سے ایک کشن اسے دے مارا۔
”تم کب تک سوگ مناتی وہو گی۔۔۔بھول جاؤ ان گھٹیا لوگوں کو۔۔۔“
”کیسے بھول جاؤں؟ہمیشہ آپ سب نے میرا نام شازمان کے نام کے ساتھ جوڑا۔۔۔اور آج وہ شہزین اس گھر کی بہو بننے جارہی ہے۔۔۔“وہ گھٹنوں میں سر چھپائے رو رہی تھی۔
”نتاشہ۔۔۔یوں رو تو مت۔۔۔میں اپنی بہن کو افسردہ نہیں دیکھ سکتا۔۔۔“وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
”تو پھر مجھے میرامقام واپس دلائیں۔۔اور اس شہزین کو اس کی اوقات۔۔۔“اس نے سر اُٹھایا۔
”کیا ایسا کرنے سے تمہاری زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں گی؟“اس نے گویا ایسا کرنے کی حامی بھر لی۔
”جی۔۔۔اس شہزین کو تباہ کر دیں۔۔۔اس کی تباہی میں ہی میری خوشی ہے۔۔“اس کے دل میں بے انتہا بخل تھا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔اب ایسا ہی ہوگا۔۔۔“اس نے نتاشہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا۔
نتاشہ کے کمرے سے نکلنے کے بعد اس نے کسی کو کال ملائی۔
”شہزین احمد نام کی ایک لڑکی ملک شازمان ابراہیم کی منگیتر ہے۔۔۔تصویر بھیج رہا ہوں تمہیں۔۔۔اس کے متعلق سب معلومات چاہئے مجھے۔۔۔اس کا گزرا کل ایک کتاب کی طرح کھول کر میرے سامنے رکھو۔۔۔ہاں جتنی رقم مانگو گے اس سے دگنی دوں گا۔۔۔“اس نے اپنا حکم صادر کرنے کے بعد کال کاٹ دی۔
"السلام علیکم۔۔"وہ تیار ہوکر ناشتے کے میز پر پہنچا تو سب وہاں پہلے سے موجود تھے۔
"وعلیکم السلام۔۔تم کہیں جارہے ہو؟"ماں نے حلیے سے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کہیں جانے کی تیاری میں ہے۔
"جی کام ہیں ایک دو۔۔"پلیٹ میں ٹوسٹ رکھتے ہوئے وہ بےدھیانی سے بولا۔
"پہلے تم نے ولیمہ منسوخ کروا دیا اب ملائکہ کو کہیں لے کر بھی نہیں جارہے۔۔ایسی کون سی مصروفیات ہیں بیٹے؟"اس دفعہ والد محترم نے سوال پوچھا تھا۔
"ڈیڈ۔۔ملائکہ کو میں نے سمجھا دیا ہے کہ ابھی ہم کہیں گھومنے پھرنے نہیں جاسکتے۔۔"اس نے ناشتہ وہیں چھوڑ کر جواب دیا۔
"جی انکل شان واقعی بہت مصروف ہیں مگر جیسے ہی انہیں وقت ملے گا ہم کہیں چلے جائیں گے۔۔"ملائکہ نے شوہر کے بگڑتے تیور دیکھ کر بات سنبھالی تھی۔
"چلو زندگی تم دونوں نے گزارنی ہے تو جیسا تمہیں بہتر لگے۔۔"ساس نے بھی ان دونوں کے معاملے میں مزید مداخلت سے پرہیز کی تھی۔
"شان چائے۔۔"ملائکہ نے اسکی جانب چائے کا کپ بڑھایا۔
"نو تھینکس۔۔"بغیر ایک لقمہ چکھے وہ رومال سے ہاتھ پونچھتا اٹھ کر چلتا بنا تھا۔والدین نے بھی اس کے خاردار مزاج کو محسوس کیا تھا جو بیوی کو بہت کم ہی مخاطب کرتا تھا اور کرتا بھی تو ان کی گفتگو بےحد مختصر ہوتی تھی۔
"ہیلو۔۔"ناشتے کے بعد وہ واپس کمرے میں آئی تو موبائل کو مسلسل بجتا پایا تھا۔
"تمہیں کیا لگا تھا کہ نمبر بدل لینے سے تمہاری قسمت بدل جائے گی سویٹ ہارٹ؟"دوسری طرف عاشر کی چہکتی آواز نے اس کی سماعتوں کو شرف بخشا تھا۔
"عاشر تم۔۔۔"
"نام اور آواز دونوں یاد ہے مگر میرا کام بھول گئی بیسٹی۔۔۔" اسنے بہت شیریں انداز میں اس پر طنز کیا تھا۔
"تمہیں اسکے گاوں کا پتہ تو دیا تھا۔۔"اسنے جھٹ پٹ کمرے کا دروازہ بند کیا تھا۔
"میرا دماغ خراب ہے جو اس کے جنگلی رشتہ داروں کے منہ لگ کر اپنی موت کو دعوت دوں۔۔"اسنے الٹا ملائکہ کو ہی بےنقد سنادی تھیں۔
"تو میں کیا کرسکتی ہوں عاشر۔۔"بیڈ پر بیٹھتے ہوئے وہ مظلومیت کا ڈھونگ رچانے لگی۔
"جو میں نے کیا تھا۔۔میرے لئے آسانیاں پیدا کرو ورنہ تمہاری زندگی کو مشکل بنانا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔"یہ محض دھمکی نہیں تھی اور اس بات کا اندازہ ملائکہ کو بھی تھا۔
"میں اب شان کی بیوی ہوں۔۔"اسنے دھونس جمانے کی ناکام کوشش کی تھی۔
"جو شازی کا نہیں ہوا تمہارا خاک ہوگا!"عاشر نے اس کا مزاق بہت بےرحمی سے اڑایا تھا۔
"پتہ نہیں ایسا بھی کیا ہے اس شازی میں جو ہر لڑکا اس کے نام کا دم بھرتا پھرتا ہے۔۔"وہ دل ہی دل میں اپنی ازلی دشمن کو کونسنے لگی۔
"سن رہی ہو لڑکی؟"دوسری جانب خاموشی پاکر عاشر غرایا تھا۔
"ہاں۔۔۔"
"کسی سے بھی رابطہ کرو وہ تمھارا مسلہ ہے۔۔۔مجھے پوچھ کر بتاو کہ وہ کس حال میں ہے!"اس کے انداز سے فکر اور پریشانی جھلک رہی تھی۔
"اچھا میرے باپ۔۔اب بخش دو مجھے۔۔۔"اسنے جان چھڑواتے ہوئے کال کاٹی تھی۔پتہ نہیں ہر بار نمبر بدلنے کے باوجود عاشر اس تک پہنچنے میں مسلسل کامیاب کیسے ہو رہا تھا۔
اپنے کیبن میں بیٹھا وہ اپنی آنے والی زندگی کو لے کر شش و پنج میں مبتلا تھا۔ملائکہ کے ساتھ رواں سلوک اسے الگ اضطراب میں مبتلا کر رہا تھا۔ماضی تھا جو اب بھی دل و دماغ میں ڈیرے جمائے بیٹھا تھا۔
"شازی کیوں ضدی بن جاتی ہو ذرا ذرا سی بات پر؟"وہ اس کی ہٹ دھرمی پر عاجز آیا تھا۔
"میرے والدین نے کبھی مجھ پر کوئی پابندی نہیں لگائی شان اور نہ مجھے اس روک ٹوک کی عادت ہے۔۔"اسکا انداز ہمیشہ کی طرح اٹل اور بدلحاظ سا تھا جس پر وہ بس اسکا چہرہ تکتا رہ گیا تھا۔
"سر آپ کے لئے کال ہے۔۔"اسی دوران کسی نے اسے موبائل تھمایا تو وہ ماضی سے حال میں واپس پہنچا تھا۔
"ہاں دکھاو۔۔"اسنے بوکھلاتے ہوئے موبائل کان سے لگایا تھا۔
شازمان شروانی پہننے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑاتھااور درزی بھی پاس ہی موجود تھا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“اس نے مکمل جائزہ لینے کے بعد کہا۔
”دیکھ لیں سر۔۔۔ہر بار ہی آپ کوئی نا کوئی عیب نکال لیتے ہیں۔۔۔“
”دیکھو یار۔۔۔میری پہلی پہلی شادی ہے۔۔۔اس لئے میں سب پرفیکٹ چاہتا ہوں۔۔۔“وہ دھونس جماتے ہوئے بولا۔
”انشااللہ سب پرفیکٹ ہی ہوگا سر۔۔۔“اس نے بھی شکر کا کلمہ پڑھا کہ اس مرتبہ شازمان نے کوئی خامی نہیں نکالی۔
وہ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر واپس گھر جا ہی رہا تھا کہ نتاشہ کی کال آگئی۔
”تمہیں پھر سے دورا پڑ گیا ہے؟“اس نے کال رسیوّ کر لی۔
”نہیں۔۔۔میں تو تمہیں مبارک باد دینا چاہتی تھی۔۔۔بہت جلد شادی ہے تمہاری۔۔۔“اس کے بھی آج تیور ہی بدلے ہوئے تھے۔
”اوہ۔۔۔“وہ بھی اس نرالے جواب سے چونکا۔
”ہاں آخر اتنی اچھی لڑکی چُنی ہے تم نے اپنے لئے۔۔۔تو کیاہوا جو اس کا ماضی داغدار ہے۔۔۔اس کے کردار میں خرابی ہے۔۔“
”جسٹ شٹ اپ۔۔ نتاشہ۔۔۔“وہ چِلایا۔
”کاش چِلانے سے حقیقت بلد جاتی شازمان۔۔۔“وہ افسوس کرنے لگی۔
”مجھے شہزین کے ماضی میں کوئی دلچسبی نہیں۔۔۔“
”چلو جیسی تمہاری مرضی۔۔۔میرا کام تھا تمہیں خبردار کرنا پر کسی نے درست ہی کہا ہے کہ جب محبت انسان کو اندھا کردیتی تو عقل پر بھی تالے لگ جاتے ہیں۔۔۔“وہ جلی لٹی سنا کر خاموش ہوگئی۔
”یہ ماضی تو مجھے پاگل کردے گا۔۔۔“اس نے غُصے سے اپنا موبائیل ڈیش بورڈ پر پھینک دیا۔
”میں بھی دیکھتی ہوں کہ تم یہ شادی کیسے کرتے ہو ملک شازمان ابراہیم۔۔۔ تمہاری اس شہزین کے کارناموں کی جو فہرست میرے ہاتھ لگی ہے۔۔وہ میں تمہیں دکھا کر رہوں گی۔۔۔اور پھر دیکھوں گی کہ تم کیسے اس کے ماضی سمیت اسے قبول کرو گے۔۔“دوسری طرف نتاشہ کے چہرے فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
وہ گھر بھی آیا تو دماغ انہیں باتوں میں الجھا تھا۔نتاشہ کی باتیں کانٹے کی طرح اس کے دل و دماغ میں چبھ رہی تھیں۔اسے بھی اب یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شہزین کے ماضی کو نظرانداز کرنا کہیں اسے بھاری نہ پڑجائے۔بھلے شہزین اسے سب بتانا چاہتی تھی مگر اس نے ہی صاف انکار کردیا تھا۔اب جب اسے سب جاننے کا تجسس ہو رہا تھا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔اگلے ہفتے ان دونوں کی شادی تھی۔
”یہ میں کیا کر رہا ہوں؟کیا میں شہزین کے کردار پر شک کر رہا ہوں؟نتاشہ شائد یہی چاہتی تھی۔۔یوں تو میں اس کی چال کو کامیاب ہونے دے رہا ہوں۔۔۔نہیں مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔۔۔“پول کے کنارے کھڑا وہ ابھی تک اسی قصے میں الجھا تھا۔
”شازمان۔۔“سیدہ بیگم اسے پکارتے پکارتے وہاں چلی آئیں۔
”جی مما۔۔۔“وہ اپنا ماتھا رگڑتے ہوئے بولا۔
”بیٹا۔۔۔کیا ہوگیاہے؟تم جب سے گھر آئے ہو پریشان سے ہو؟“
”کچھ نہیں مما۔۔۔“
ؔؔ”میں جانتی ہوں تم شاہنواز کے باعث پریشان ہو۔۔۔کہ وہ تمہاری مہند میں شریک نہیں ہوگا۔۔۔بیٹا اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں۔۔مگر تمہاری مہندی کی رات کو وہ پہنچ جائے گا۔۔۔“وہ اسکی حوصلہ افزائی کرنے لگیں۔
”مما۔۔پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ کچھ برا ہونے والا ہے۔۔“وہ بے چین تھا۔
”کچھ برا نہیں ہوگا۔۔۔اچھا سوچو گے تو سب اچھا ہوگا۔۔۔دیکھو نا شہزین ہمارے گھر کے لئے کتنی مبارک ثابت ہوئی ہے۔۔۔اس کے باعث ہمارا شاہنواز واپس آرہا ہے۔۔۔ وہ ایک خوش بخت لڑکی ہے۔۔۔اور وہ تمہاری زندگی بدل دے گی بیٹا۔۔۔“وہ اسے ہر منفی خیال سے دور رکھنا چاہتی تھیں۔
”اللہ کرے۔۔۔“اس نے گہری سانس لی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
شادی میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا تو شبانہ بیگم بھی لاہور تشریف لے آئیں۔شہزین کے لئے ان کی آمد خوش آ ئند تھی کیونکہ وہ ہی اس لمحے اس کی ماں بلکہ کُل خاندان کی طرح تھیں۔
”جلدی جلدی کرو۔۔۔“سیدہ بیگم ملازمین کو ہدایات دے رہی تھیں۔
”دو دن بعد مہندی ہے۔۔۔اور اس گھر کی حالت دیکھو۔۔۔“وہ آج گھر کی صفائی کروا رہی تھیں۔
”بھابھی۔۔۔ہوجائے گا سب۔۔۔آپ فکر مت کریں۔۔۔“شبانہ بیگم بھی ان کی مدد کررہی تھیں۔
”کیسے ہوجائے گا؟ہزاروں کام پڑے ہیں۔۔۔اور یہ شازمان بھی صبح سے پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے؟“
”آجائے گا۔۔آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔“
اس نے عہد کیا تھا کہ اب کسی بھی منفی خیال کو اپنے ذہن میں نہ آنے دے گا اور نہ ہی شہزین کے ماضی کو ٹٹولنے کی کوشش کرے گا پر بار بار نتاشہ کے طعنے اور ڈھکے چھپے اشارے اس کا تجسس بڑھا رہے تھے۔دل کے ہاتھوں مجبور بالآخر شازمان نتاشہ سے ملنے ایک ریسٹورانٹ آیا ہوا تھا۔
”میں جانتی تھی کہ تم مجھ سے ملنے ضرور آؤ گے۔۔۔“وہ دونوں کہنیاں میز پر ٹکائے بولی۔
”میں یہاں صرف یہ ثابت کرنے آیا ہوں کہ شہزین کے ماضی کے بارے میں جاننے کے بعد بھی میں اس سے بدگمان نہیں ہونے والا۔۔۔“اسنے خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
”اچھا۔۔۔“اسنے حیرت کا مظاہرہ کیا۔
”ہاں۔۔۔بتاؤ مجھے کیا بتانا چاہتی ہو تم۔۔۔؟“
”اتنے آرام سے نہیں۔۔۔پہلے تمہیں تھوڑا تڑپاؤں گی۔۔۔آکر تم نے بھی تو مجھے کتنا ستایا ہے۔۔۔“وہ سارے حساب برابر کرنا چاہتی تھی۔
”اوکے۔۔۔پھر میں جارہا ہوں۔۔۔“وہ اٹھنے لگا۔
”دو دن بعد مہندی ہے نا تمہاری۔۔۔میں تمہاری ہونے والی بیگم کا ماضی تمہیں تحفے میں پیش کروں گی۔۔۔اتنا اہم تحفہ میرے علاوہ تمہیں اور کوئی نہیں دے سکتا۔۔۔ ٹرسٹ می۔۔“ وہ آنکھ کا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
”تمہارا دماغ خراب ہے۔۔۔اور شائد میرا بھی۔۔جو میں تم سے ملنے چلا آیا۔۔۔“وہ جانے کے لئے چل پڑا۔
”شازمان۔۔۔تمہاری مہندی پر مما پاپا ضرور آئیں گے۔۔۔مگر میں گھر پر ہی تمہارا انتظار کروں گی۔۔۔اور مجھے پورا یقین ہے کہ تم مجھ سے ملنے ضرور آؤ گے۔۔۔“اسے جاتا دیکھ کر وہ بولی تھی۔
”دماغ خراب تھا میرا۔۔۔جو اس کی باتوں میں آگیا۔۔۔۔“اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ خُود کو کونس رہا تھا۔
آج مہندی کی تقریب جاری تھی۔شازما ن اور شہزین دونوں سٹیج پر بیٹھے تھے۔رسموں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ شازمان کے موبائل پر نتاشہ کی کال آگئی۔
”ایکسکیوزمی۔۔۔“وہ معذرت کرنے کے بعد سٹیج سے اُتر گیا۔
”کیا مسلہ ہے؟“
”شہزین احمد۔۔۔احمد خان کی بیٹی۔۔۔اپنے والدین کے اکلوتی اولاد۔۔۔اور ایسی بدنصیب اولاد جو اپنے والدین کو موت کا سبب بنی۔۔۔اس کے ماں باپ نے خودکشی کی تھی اور جانتے ہو کیوں؟کیونکہ ان کی اکلوتی اولاد نے انہیں کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔۔۔یقیناً یہ ساری باتیں تمہیں نہیں معلوم ہونگی۔۔۔“اس نے شہزین کی زندگی کی کتاب شازمان کے سامنے کھول کر رکھ دی۔
”اب وہ بدنامی کیسی تھی۔۔۔اس کا جواب تو تمہیں میرے گھر آکر ہی ملے گا شازمان۔۔۔کم آئی ایم ویٹنگ فار یو۔۔۔“اب اس نے کال کاٹ دی جبکہ شازمان ساکت سا ہو کر وہیں کھڑا رہا۔
”بھابھی یہ شازمان کہاں گیا ہے؟“اسے گھر سے نکلتا دیکھ کر شبانہ بیگم نے سیدہ بیگم سے سوال کیا۔
”پتہ نہیں۔۔۔تم سٹیج پر جاؤ۔۔۔میں اسے فون کر کے پوچھتی ہوں۔۔۔“انہوں نے فوراً شازمان کو کال کی مگر اس نے کال رجیکٹ کرنے کے بعد موبائل ہی بند کردیا۔
”نتاشہ۔۔۔“وہ چیختا چِلاتا اس کے گھر پہنچا۔
”آرام سے پکارو میرا نام۔۔۔“وہ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے تحمل سے بولی۔
”کیا بکواس کر رہی تھی تم۔۔۔؟“اس کا انداز ابھی بھی دھمکی آمیز ہی تھا۔
”بکواس کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ سچی ہوتی ہے۔۔۔اب دیکھو تم نے میرے سچ کو بکواس کہہ دیا مگر اس سچ کو کیا نام دو گے۔۔۔“اس نے بے شمار تصاویر شازمان کے منہ پر دے ماریں۔
”یہ کیا ہے؟“اس نے بیٹھ کر زمین سے دو تین تصاویر اُٹھائیں۔
”دیکھ لو تمہاری پارسا غیر لڑکے کے ساتھ کتنی پیاری لگ رہی ہے نا۔۔۔“ان تصاویر میں شہزین کسی لڑکے کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں موجود تھی۔
”یہ۔۔۔۔“اس نے نظر بھر کر تصویر کودیکھا جس میں شہزین ناجانے کس لڑکے کے ساتھ کافی بے تکلف تھی۔
”کیوں اُڑ گئیں ہوایاں۔۔۔؟“وہ جیسے اپنی فتح کا جشن منا رہی تھی۔
”شہزین۔۔۔“وہ اس سے زیادہ کچھ بول بھی نہ پایا۔
”یہ تصاویر جھوٹی بھی تو ہوسکتی ہیں۔۔۔؟“اسنے اپنی بےاعتباری نتاشہ پر عیاں نہ ہونے دی تھی۔
”ہمم۔۔۔ہو تو سکتی ہے مگر۔۔۔“وہ وہاں سے پاس پڑے میز کی جانب گئی اور ایک کاغذ اُٹھا کر سے دکھایا۔
”یہ دیکھو۔۔۔۔“اس نے کاغذ شازمان کو دیا۔
”یہ۔۔۔“
”یہ شہزین کے والدین کا سوسائیڈ نوٹ۔۔۔قسم سے بہت مشکل سے مِلا۔۔۔پولیس کی ہزار مِنتیں کی۔۔۔رشوت دی۔۔۔ اسلام آباد پولیس اسٹیشن جا کر تم تسلی کر سکتے ہو۔۔۔“
”میں احمد مصطفی خان۔۔۔آج اپنی بیوی کے ہمراہ اپنی جان دینے جارہاہوں۔۔۔جس کا سبب ہماری غلط پرورش ہے۔۔۔اگر ہم نے اپنی اولاد کو صحیح غلط کی تمیز سکھادی ہوتی تو آج ہمیں یوں اپنی عزت سے ہاتھ نہ دھونا پڑتا۔۔۔ہماری موت کے ذمہ دار ہم دونوں میاں بیوی خُود ہیں۔۔۔۔ہمارے جانے کے بعد کسی کو بھی پریشان نہ کیا جائے۔۔۔“اس تحریر نے اس کے بھرم کو چکنا چور کر ڈالا تھا۔
”اب بھی تمہیں لگتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں؟“اس مرتبہ شازمان بالکل خاموش تھا۔
”یہ سب۔۔۔“اس کی زبان اور قدم دونوں ہی لر کھڑا رہے تھے۔
”یہ سب تمہاری پارسا۔۔۔شہزین احمد کی حقیقت ہے۔۔۔ملک شازمان ابراہیم۔۔۔اس کا کوئی ایک ماضی نہیں بلکہ بے شمار ماضی ہیں۔۔۔مگر ایک ماضی جو سب خاص ہے۔۔۔وہ دیکھنا چاہو گے؟“ اب خدا جانے اس کا الگا مہرہ کیا تھا؟
”ویٹ۔۔۔“وہ دوباہ میز ے پاس گئی اور چند تصاویر اُٹھا کر شازمان کو تھمائی۔
”یہ ماضی تو تمہیں یقیناً چونکا دے گا۔۔۔“آخر میں دکھائی جانے والی تصاویر شازمان پر قیامت بن کر ٹوٹی تھیں۔
وہ ساری رات گھر نہ گیا تھا۔ویران سڑکوں پر ہی گاڑی دوڑاتا رہا۔دل اسکے حق میں تھا تو دماغ اسکی شکل دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا۔
”آپ پلیز۔۔اسلام آباد جانے سے گریز کیجیے گا۔۔وہ لوگ ہم دونوں کو وہاں ڈھونڈھ رہے ہیں۔۔۔“شہزین کے یہ جملے اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔
”کیا اس لئے شہزین مجھے اسلام آباد جانے سے روکتی تھی تاکہ اس کا ماضی میرے سامنے نہ آجائے۔۔۔مگر اس نے خود مجھے خط پر سب لکھ کر دیا ہے۔۔۔پر یہ بھی تو ہوسکتا ہے۔۔۔وہ سب محض ایک دکھاوہ ہو؟ کیا شہزین نے میری محبت کو اپنی سہولت کا ذریعہ بنایا؟اپنا مستقبل محفوظ کرنے کا سامان سمجھا مجھے؟کیوں کیا شہزین تم نے ایسا؟میری محبت کھیل اور مجھے کھلونا بنا دیا تم نے؟“گاڑی چلاتے ہوئے اس کا دھیان راستے پر نہیں بلکہ اپنی ناکامحبت پر مرکوز تھا۔اس کے پاس وہ ظرف نہیں تھا جو شہزین کی ہر خطا کو معاف کر پاتا۔
"شازمان بھائی آپ؟بیٹھیں نا۔۔"الالصبح لان میں ہی شان اسے اندر آتے دیکھ کر کرسی سے اٹھا تھا۔
"تمہارا ان سے کیا تعلق تھا؟"اس کی شان کے ہمراہ چند تصاویر شازمان نے شان سامنے میز پر رکھی تھیں۔
"یہ۔۔؟"وہ خود ان تصاویر کو دیکھ کر چونکا تھا۔
"شہزین احمد خان کو کیسے جانتے ہو تم؟"اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہونے کے قریب تھا۔
'یہ میری سابقہ منگیتر تھی مگر اس کا کردار اس لائق نہیں تھا کہ کوئی بھی شریف انسان اسے اپنی عزت بناتا۔۔"شان نے حقارت سے کہا تھا۔
"کیا اسکے والدین کی خودکشی کی وجہ بھی بیٹی کی بدکرداری تھی؟"نتاشہ کے الزامات پھر سے اسکے گردونواح گونجنے لگے۔
"میں نہیں جانتا مگر اس جیسی لڑکی پر اعتبار کرنے کی حماقت مت کیجیے گا۔۔اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ یہ اب آپ کو بیوقوف بنا رہی ہے تو میں خود آپ کو سمجھانے آتا۔۔" اسنے شازمان کی رہی سہی امید بھی تمام کی تھی۔
"میں سب سمجھ چکا ہوں۔۔"خود سے ہی بربڑاتا ہوا وہ وہاں سے واپس چل پڑا تھا جبکہ شان صرف اسے جاتا دیکھ پایا تھا۔
وہ صبح گھر پہنچا تو سب لوگ اس کے استقبال کے لئے ہال میں ہی موجود تھے۔
”ذرا اندازہ ہے تمہیں۔۔۔کتنی رسوائی ہوئی ہے ہماری؟لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کی۔۔۔کہاں تھے تم ساری رات۔۔۔؟“ داداجان برس پڑے۔
”ایک ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا داداجان۔۔۔“اس نے بہانہ بنایا۔
”ہائے اللہ۔۔۔لگی تو نہیں تمہیں۔۔۔؟“سیدہ بیگم کی ممتا جاگ گئی۔
”دکھاؤ۔۔۔“وہ اس کے بازوؤں پر زخم تلاش کرنے لگیں۔
”مما کچھ زخم جسم پر نہیں روح پر لگتے ہیں۔۔۔جنہیں کبھی کوئی مرحم نہیں بھر سکتا۔۔۔“
”کیس عجیب باتیں کررہے ہو؟سب ٹھیک تو ہے نا؟“ شبانہ بیگم بھی پریشان ہوگئیں۔
”جی۔۔۔میں کچھ دیر کے لئے اپنے کمرے میں آرام کرلوں؟“وہ روکھے لہجے میں بولا۔
”ٹھیک ہے کرلو۔۔۔ویسے بھی مارکی کے لئے شام کو ہی نکلنا ہے۔۔۔“
”مارکی؟“وہ کیسے بھول گیا کہ آج شہزین احمد خان اس کی دُلہن بننے جارہی تھی؟
”تمہارا دماغ سچ میں خراب ہوگیا ہے۔۔۔۔جاؤ کچھ دیر آرام کرلو۔۔۔“اس کی بیگانگی پر داداجان مزیذ برہم ہوئے۔
وہ اپنے کمرے میں تو آگیا مگرسکون کہاں میسر تھا سے؟وہ چاہ کر بھی شہزین کو نہیں اپنا سکتا تھا تو کیا اب اسے یہ تعلق توڑنا تھا؟اسے ٹھکرانا تھا جسے پانے کے لئے اس نے دنیا بھلا دی تھی؟کیا یہ ممکن تھا؟اس کے ٹوٹے دل کی تسکین کیا شہزین کی توہین میں پوشیدہ تھی؟
وہ شہزین کے کمرے کے باہر کھڑا مسلسل دروازے پر دستک دے رہا تھا تو بالآخر اسنے دروازہ کھولا۔وہ ابھی بھی ذرد جوڑے میں ہی ملبوس تھی۔اگر وہ کل والا شازمان ہوتا تو شائداس سے نظر بھی نہ ہٹا پاتا مگر اب حالات مختلف تھے۔
”آپ۔۔۔؟“اسے دیکھ کر وہ یکدم بوکھلا گئی۔
”جی میں۔۔۔“اس نے معمولی لہجے میں جواب دیا۔
”آپ کو یوں نہیں آنا چاہئے تھا۔۔۔“آج اس کی یہ سادگی شازمان کو دکھاوہ لگ رہی تھی۔
”یہ خط آپ کے لئے۔۔۔“اس نے جیب جیب سے خط نکال کر شہزین کو تھمایا۔
”یہ کیا ہے؟“
”آپ نے ایک مرتبہ مجھے اپنا ماضی خط پر لکھ کر دیاتھا۔۔۔یہ میرا حال اور اس رشتے کا مستقبل ہے۔۔۔پلیزمیری والی غلطی مت کیجیے گا۔۔۔اسے پڑھ لیجیے گا کیونکہ اکثر ہمارے جذباتی فیصلے ہماری زندگی تباہ کردیتے ہیں۔۔۔میرے جانے کے فوراً بعد اسے پڑھ لیجیے گا۔۔۔“اپنی بات مکمل کرتا وہ وہاں سے چلا گیا۔
اپنے کمرے میں لوٹتتے ساتھ ہی شہزین نے خط پڑھنا شروع کیا اور شازمان نے سب کے ردعمل کا سوچتے ہوئے وہاں سے روح پوش ہونے کا منصوبہ بنایا تھا۔
”شہزین۔۔۔آپ نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں بے بس کردیتے ہیں اور میرا فیصلہ بھی میری بے بسی کا نتیجہ ہے۔۔۔کاش میں نے اس دن آپ کی بات مان لی ہوتی اور آپ کے ماضی کو جان کر ہی ہمارے مستقبل کا فیصلہ کیا ہوتا مگر اس لمحے جذبات کی لہروں میں بہہ کر میں ایک ایسے بھنور میں پھنس چکا ہوں جہاں کوئی راستہ نہیں جو ہمیں ملا سکے۔۔۔میں جانتا ہوں کہ میں بہت بزدلی کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔۔۔مگر آئی ایم سوری میں آپ کے ماضی کے متعلق جان چکا ہوں۔۔۔اور مجھ میں اتنا ظرف نہیں کہ سب جاننے کے بعد آپ کو اپنا سکوں۔۔۔اگر آج ہمارا ساتھ ہمیشہ کے لئے جوڑ بھی دیا جاتا ہے تو میں آپ کو کبھی بھی خوش نہیں رکھ پاؤں گا۔۔۔کبھی بھی مخلص بن کر اس رشتے کو نبھا نہیں پاؤں گا۔۔۔میں آپ کی زندگی آباد نہیں برباد کردوں گا۔۔۔اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ میں آپ کو اس بندھن سے آزاد کردوں۔۔۔اس لئے میں ملک شازمان ابراہیم آج۔۔۔ابھی آپ کو اس رشتے سے آزاد کرتا ہوں۔۔۔ اللہ آپ کو خوش رکھے“ ایک اور دھجکا۔اتنی چاہت سے تعلق جوڑنے والا۔۔۔اتنے ہی اطمینان سے اسے توڑبھی گیا۔۔۔کیا شہزین احمد کا یہی مقدر تھا؟
”شہزین بیٹا۔۔۔تیار ہوجاؤ ہمیں پارلر جانا ہے۔۔۔“شبانہ بیگم کمرے میں تشریف لائیں تو شہزین خط ہاتھ میں تھامے کانپ رہی تھی۔
”شہزین کیا ہوگیا ہے؟“اس کے ہونٹ نیلے ہوگئے اور اگلے ہی لمحے وہ زمین پر جاگِری۔
”شہزین۔۔۔“شبانہ بیگم فوراً اس کے پاس بیٹھ کر اسے ہلانے لگیں۔وہ خط ابھی بھی شہزین کے ہاتھ میں ہی موجود تھا۔
اسی لمحے شہزین کو ہسپتال لے جایا گیا۔گھر کے سب افراد ہی ہسپتال پہنچ گئے مگر شازمان نہ گیا۔وہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھا رہا۔
”ڈاکٹر۔۔۔پلیز بتائیں میری بیٹی کو ہوا کیا ہے؟“شبانہ بیگم کے ہوش جیسے اُر گئے تھے۔
”ان کا بی پی لو ہوگیا۔سٹریس کی وجہ سے شائد وہ بیہوش ہوگئی ہیں۔۔۔کچھ دیر میں انہیں ہوش آجائے گا۔۔۔“تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے مکمل تفصیلات دیں۔
”فکر کی تو کوئی بات نہیں ہے نا؟“داداجان نے پوچھا۔
”جی نہیں۔۔“
”تمھاری کیا بات ہوئی تھی شہزین سے؟“ڈاکٹر کے جانے کے بعد سیدہ بیگم نے شبانہ بیگم سے سوال کیا۔
”شہزین تو اس وقت۔۔۔" کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے شہزین کے ہاتھ سے گرا کاغذ جو جلدی میں اپنے کلچ میں رکھا تھا، وہ نکال لیا۔انہیں شک تھا کہ بھتیجی کی بگڑی حالت کا سبب وہ کاغذ کا ٹکرا ہی ہے۔
”یہ۔۔۔۔“انہوں نے اب ایک نظر اس کاغذ پر ڈالی تو شہزین کی اس حالت کی سمجھ آئی۔
”یا خدا۔۔۔“ان کے قدم لرکھڑا گئے۔
”کیا ہوا؟“داداجان اور سیدہ بیگم نے ایک ساتھ پوچھا۔
”یہ شازمان نے کیا کردیا؟“انہوں نے خط سیدہ بیگم کو دیاتو ان کے بھی پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔اگلے ہی لمحے داداجان نے بھی خط پڑھ لیا۔
وہ اپنے کمرے میں کھڑا اپنا سامان باندھ رہا تھا۔اس بات کا اندازہ تو اسے بھی تھا کہ ان سب کے بعد داداجان اسے یہاں سے دھکے دے کر نکال دیں گے۔
”شازمان۔۔۔“سیدہ بیگم چیختی چِلاتی اس کے کمرے میں آئیں۔
”کیا بیہودگی ہے یہ؟“انہوں نے وہی خط شازمان کے منہ پر دے پھینکا۔
”آپ سب جان ہی گئی ہیں تو مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں؟“ وہ دوبارہ سامان کی طرف متوجہ ہوا۔
”میری طرف دیکھو شازمان؟“انہوں نے غُصے سے اس کا رُخ اپنی طرف موڑا۔
”کیا ہوگیا ہے مما۔۔۔؟اتنی سی بات کا بتنگڑ کیوں بنارہے ہیں آپ لوگ؟“
”اتنی سی بات ہے یہ تمہارے لئے۔۔۔آج وہ لڑکی تمہاری دلہن بننے جارہی تھی۔۔۔اور تم۔۔۔تم نے یہ کیا کردیا شازمان۔۔۔ایک بات بتاؤ۔۔۔جب تمہیں یہ شادی کرنی ہی نہیں تھی تو یہ سب کیوں کیا ہاں؟ اس بیچاری کی زندگی سے کھیلنے کا حق کس نے تمہیں؟بولو۔۔“
”میں نے اس کی زندگی کے ساتھ نہیں۔۔۔ بلکہ اس نے میری زندگی کے ساتھ کھیلا ہے۔۔۔“وہ چیخا
”جرم کیا ہے اس بیچاری کا؟کیا یہ اس کی خطا ہے کہ اس نے ہم سب کے فیصلے کا احترام کیا۔۔۔تم سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوئی؟بولو کیا قصور تھا اس کا؟“
”شہزین میرے لائق نہیں ہے مما۔۔۔وہ ایک کرپٹ لڑکی۔۔۔“اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی سیدہ بیگم کا ہاتھ اُٹھ گیا۔
”مزید بکواس مت کرنا شازمان۔۔۔افسوس ہوتا ہے مجھے کہ میں نے تمہارا ساتھ دیا۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ تم اس کے قابل نہیں شازمان۔۔۔“
”جتنی تکلیف آپ کو پہنچ رہی ہے مما۔۔۔اتنی ہی اذیت میں نے بھی کاٹی ہے۔۔جب نتاشہ نے مجھے یہ سب بتایا۔۔۔“اس کی تکلیف بھی بڑھتی چلی جارہی تھی۔
”کیا؟ یہ سارا زہر نتاشہ کا بھرا ہواہے؟کچھ تو شرم کرتے "شازمان۔۔۔تمہیں اتنا بھی خیال نہیں آیا کہ یہ سب جھوٹ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔تم نے بھی وہی کیا جو شاہنواز نے کیا تھا؟تم نے بھی ایک معصوم کی زندگی برباد کردی۔۔۔“انہیں اب غُصے سے زیادہ افسوس ہورہا تھا۔
”نقاش نے کچھ غلط نہیں کیا تھامما۔۔۔کیونکہ یہ لڑکیاں اسی لائق ہوتی ہیں۔۔“
”بس شازمان۔۔۔ایک لفظ اور نہیں۔۔۔ایک لمحہ بہت ہوتا ہے کسی کو پرکھنے کے لئے۔۔۔اور شہزین یہاں چار ماہ سے رہ رہی ہے۔۔۔میں کبھی بھی مان ہی نہیں سکتی کہ اس کے کردار میں کوئی کھوٹ ہوسکتا ہے۔۔۔اس کا کردار مثالی ہے۔۔۔“ وہ اس کی کسی بات کو سننے کی بھی روادار نہیں تھیں۔
”اس سے پہلے کہ تمہارے داداجان تمہیں کوئی سزا دیں۔۔۔تم چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔اس سے زیادہ میں تمہارے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتی۔۔۔“ان کی ممتا بھی مجبور تھی۔
”میں جانتا تھا مما۔۔۔جانتا تھا کہ کوئی مجھے نہیں سمجھے گا۔۔۔“اس نے سوٹ کیس بند کیا۔
”آج جا رہا ہوں میں۔۔۔اب شائد میرے لئے بھی اس گھر کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے۔۔۔“وہ اپنا سوٹ کیس اُٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔
اس کے چلے جانے کے ٹھیک دس منٹ بعد شاہنواز گھر پہنچا تو رونق کی جگہ وحشت نے اس کا بھرپور استقبال کیا۔
”مما۔۔۔بھائی۔۔۔“وہ ہال میں کھڑا سب کو پکار رہا تھا
”شاہنواز۔۔۔“ماں دوڑتی ہوئی ہال میں پہنچی اور اس کے گلے لگ کررونے لگیں۔
”مما۔۔۔کیا ہوگیا ہے۔۔۔“وہ ان کو خود کے دور کرتے ہوئے بولا۔
”بیٹا۔۔۔شازمان نے ہمارا۔۔۔ور ہم سے زیادہ اس لڑکی کی عزت کا تماشہ بنادیا ہے۔۔۔“وہ روتے روتے بولیں۔
”کیا ہوا مما؟کچھ تو بتائیں۔۔۔“اس کے بھی طوطے اُڑ گئے۔
”بیٹا۔۔۔“انہوں نے سارا ماجرہ بیٹے کو بتایا۔
”کیا۔۔۔؟مما بھائی ایسا کیوں کریں گے؟وہ تو شہزین سے بے حد محبت کرتے تھے۔۔۔“
”اس نے نتاشہ کی باتوں میں آکر یہ سب کیا ہے شاہنواز۔۔۔“ وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولیں۔
”وہ اب کیسی ہے؟“
”وہ ہسپتال میں ہے۔۔۔یتیم بچی ہے بیچاری اور اب اس پر ایک نئی قیامت ٹوٹ گئی۔۔۔“
”مجھے بھی ہسپتال لے چلیں۔۔۔“وہ ہسپتال چلنے کے لئے تیار ہوگیا۔
”یہ کیا کردیا شازمان نے؟بولیں باباجان۔۔۔کیا یہ دن دیکھنے کے لئے میں شہزین کو یہاں لائی تھی؟اس سے تو بہتر تھا کہ میں اسے آصف کے ہاتھوں ہی مرنے دیتی کم ازکم وہ موت اسے ایک مرتبہ مارتی مگر شازمان کے اس فیصلے نے تو میری بچی کو جیتے جی مار دیا۔۔۔بتائیں۔۔۔کیا ہے اب شہزین کا مستقبل۔۔۔؟“وہ لوگ جیسے ہی وہاں پہنچے شبانہ بیگم کے شکووں نے انہیں نادم کردیا۔
”مجھے بہر شرمندگی ہے بیٹا۔۔۔“داداجان دھیمے سے بولے۔
”آپ کی یہ شرمندگی کیا شہزین کے دکھوں کا مرہم کر پائے گی باباجان۔۔۔۔؟“
”میں نہیں جانتا بیٹا۔۔۔کیا کروں۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔“ وہ اپنا ماتھا رگڑ رہے تھے۔
”داداجان۔۔۔“اسی دم شاہنواز نے انہیں ہمکلام کیا۔
”تم آگئے۔۔۔“انہوں نے روکھا لہجہ ہی اپنایا۔
”داداجان یہ سب کیسے ہوا؟“اس نے اس لہجے کو اہمیت نہ دی۔
”یہ تو روایت بن گئی ہے اس خاندان کے لڑکوں کی۔۔۔پہلے تم نے اور اب تمہارے بھائی نے۔۔۔“وہ اپنی غیرت کی آگ میں جل رہے تھے۔
”داداجان شہزین کیسی ہیں؟“
”جو تمھارے بھائی نے کیا۔۔۔اس کے بعد تمہیں بھی کوئی اختیار نہیں اس کے متعلق کچھ پوچھنے کا۔۔۔“شبانہ بیگم غُصے سے گویا ہوئیں۔
”شبانہ۔۔۔ہمارا کیا قصور؟“سیدہ بیگم دہائی دینے لگیں۔
”قصور آپ کا نہیں ہے بھابھی۔۔۔قصور میرا ہے۔۔۔شہزین روتی رہی۔۔مجھے سمجھاتی رہی کہ شازمان اسے ایک نہ ایک دن چھوڑ ہی دے گا۔۔۔وہ تو اپنی زندگی کا ہر صفحہ اس کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتی تھی مگر تب شازمان اسے غیر ضروری قرار دیا۔۔۔اور آج اس کے ماضی کو ہی جواز بنا کر۔۔۔اس نے شہزین کا مستقبل تباہ کر دیا بھابھی۔۔۔آپ بتائیں کیا شہزین جیسی لڑکی کے کردار میں کوئی کھوٹ ہوسکتا ہے۔۔۔ ہاں ٹوٹی تھی اس کی منگنی مگر۔۔۔بدقسمت تھا وہ انسان جس نے اس ہیرے کو ٹھکرا دیا۔۔۔اور اب شازمان نے اس کی زندگی برباد کر دی۔۔۔اسے کبھی بھی خدا معاف نہیں کرے گا بھابھی۔۔۔“ وہ تو جیسے شازمان سے لاتعلق ہی ہو گئیں۔
”داداجان۔۔“شاہنواز کا دھیان ان پر گیا تووہ دل پر ہاتھ رکھے قدرے بے چین دکھائی دے رہے تھے۔
”داداجان۔۔۔“اس سے پہلے وہ زمین پر گرتے شاہنواز نے انہیں سہارہ دیا۔
کسی تاخیر کے بغیر ان کا علاج کیا گیا۔اس وقت وہ منہ پر آکسیجن لگائے لیٹے تھے۔شاہنواز ان کے پاس ہی بیٹھا تھا۔وہ بچپن سے اپنے داداجان کے بے حد قریب تھا مگر ایک حادثے کے باعث ان دونوں میں دوریاں آگئی تھیں۔آج پھر سے ایک حادثے کے سبب وہی محبت تاذہ دم ہوگئی تھی۔
”داداجان۔۔۔حوصلہ رکھیں۔۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔بھائی کو میں سمجھاؤں گا۔۔۔“وہ ہوش میں آئے تو شاہنواز ان کی ہمت بڑھانے لگا۔
”نہیں۔۔۔مجھے اس کا احسان نہیں چاہئے۔۔۔مجھے شہزین کی خوشیاں خیرات میں نہیں چاہئیں۔۔۔“یہ ان کی غیرت کے خلاف تھا۔
ؔؔ”ؔؔ”پھر اور کیا راستہ ہے داداجان۔۔۔پھپھو کے شکوے۔۔۔بھائی کی غلطیوں کا کیا ازالہ ہے؟“
”تم شہزین کو اپنا لو۔۔۔“ان کے دل کی بات زبان پر آہی گئی۔
”داداجان۔۔۔“اسے کانوں پر یقین ہی نہ آیا۔
”بیٹا۔۔۔ہاتھ جوڑتا ہوں۔۔۔“وہ اپنے ہاتھ جوڑنے ہی والے تھے کہ شاہنواز نے اُنہیں روک دیا۔
”پلیز داداجان۔۔۔ایسا مت کریں۔۔۔“وہ پشیمان سا ہوا۔
”وہ ایک یتیم بچی ہے بیٹا۔۔۔کوئی نہیں ہے اس کا۔۔۔تمہاری پھپھو بہت ضدی ہیں۔۔۔وہ شہزین کواب یہاں سے لے جائے گی۔۔۔وہ معصوم ہے۔۔۔اس دنیا کو سمجھنے کا ہنر اسے نہیں آتا۔۔۔ اور میں بھی اس ندامت کے ساتھ جی نہیں سکتا کہ میرے سامنے اتنی بڑی ناانصافی ہوئی۔۔۔اور میں خاموش تماشائی بنا رہا۔۔۔“انکے انسو پوتے کا دل دکھا رہے تھے۔
”پر داداجان۔۔۔“
”ٹھیک ہے تم نہیں کرسکتے ایسا۔۔۔تو میرا گلادبادو۔۔۔میں اس احساسِ جرم کے ساتھ جی کر کیا کروں گا۔۔۔“وہ رونے لگے۔
”نہیں۔۔۔داداجان۔۔۔آپ کی جو مرضی ہے۔۔وہی ہوگا۔۔۔“اس نے جبراً حامی بھر لی۔
”بیٹا۔۔۔اس بوڑھے کو نئی زندگی عطا کر دی ہے تم نے۔۔۔“وہ تشکر کے ساتھ کہنے لگے۔
شام کے وقت شہزین کو گھر واپس لے آئے مگر داداجان ابھی بھی ہسپتال میں داخل تھے۔شاہ نواز انہیں کے پاس رُکا تھا۔شہزین سے اس کا ابھی تک آمنا سامنا بھی نہ ہوا تھا۔
”شہزین۔۔۔“وہ بستر پر دراز تھی تو شبانہ بیگم کمرے میں تشریف لائیں۔
”بیٹا یہ کیا؟ایسی حالت کیوں بنا رکھی ہے؟“
”تو اور کیاکروں تائی امی؟اپنی بربادی کا جشن مناؤں؟آج پھر سے مجھے دھتکار دیا گیا۔۔۔میرے ماضی کو طمانچے کی طر ح میر ے گال پر رسید دیا گیا۔۔۔آج پھر سے مجھے بدکردار بنادیا گیا۔۔۔ میری ایک غلطی کب تک مجھے ذلت کی دلدل میں مقید رکھے گی؟پلیز تائی امی۔۔۔مجھے لے چلیں یہاں سے۔۔۔“وہ رونے لگی۔
”بیٹا۔۔۔میں مجرم ہوں تمہاری۔۔۔اور میں ہی اب اپنی غلطی کو سدھاروں گی۔۔۔“وہ اس کی آنکھوں سے بہتے موتی سمیٹنے لگیں۔
”مجھے پلیز یہاں سے لے چلیں۔۔۔“اس نے اپنا جملہ دوہرایا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔جیسی تمہاری مرضی میری جان۔۔۔“وہ بھی راضی ہوگئیں۔
وہ کمرے سے نکلیں تو سیدہ بیگم بھی وہیں دروازے پر کھڑی تھیں۔وہ ان دونوں کا یہاں سے جانے کافیصلہ پہلے ہی سن چکی تھیں مگر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا۔
”شبانہ۔۔۔باباجان تم سے اور شہزین سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔“
”کیوں بھابھی؟“انہیں اب یہ مطالبہ سمجھ نہ آیا۔
”مجھے بھی نہیں معلوم۔۔ابھی شاہ نواز کی کال آئی ہے۔۔۔وہ تم دونوں سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔“انہیں اصل وجہ معلوم تھی مگر انہوں نے چھپائی۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“انہوں نے مزید کچھ نہ کہا۔
”صبح تک وہ گھر آجائیں گے۔۔۔تم شہزین کو لے کر کہیں مت جانا۔۔“ان کا ملتجی انداز شبانہ بیگم نے محسوس کیا تھا مگر ان حالات میں انہیں شہزین کا یہاں سے جانا ہی مسلے کا واحد حل نظر ارہا تھا۔
شازمان ہوٹیل رسیپشن پر کھڑا اپنے لئے کمرہ بُک کروا رہا تھا تب ہی نتاشہ نے اسے روکا۔
”اپنوں کے ہوتے ہوئے ہوٹیل میں رُکو گے تم؟“اس کی آواز پر اس نے رُخ پیچھے کی جانب پھیرا۔
”تم کیوں کر رہی ہو میرا پیچھا؟“
”کیونکہ جسے چاہا جاتا ہے اسے تنہا نہیں چھوڑا جاتا۔۔۔اور تم تو میری پہلی اور آخری چاہت ہو۔۔۔اس شہزین کی طرح میرے محبوبوں کی کوئی لمبی چوری فہرست نہیں ہے۔۔“وہ خوشی میں چہک رہی تھی۔
”میرا نہ تو تم سے اور نہ ہی شہزین سے کوئی تعلق ہے۔۔۔“ اس نے دوبارہ منہ پھیرا۔
”پلیز شازمان۔۔۔میں تم سے بےحد محبت کرتی ہوں۔۔۔مانتی ہوں کہ ضرورت سے زیادہ شک کرتی رہی تم پر۔۔۔ مگر اب مجھے میری غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔۔۔اب میں کبھی بھی تم پر کوئی الزام نہیں لگاؤں گی۔۔۔پلیز مجھے ایک موقع دو۔۔۔میں لاکھ بری سہی مگر بدکردار تو نہیں ہوں۔۔۔تمہارے ساتھ مخلص بن کر زندگی گزاروں گی۔۔“اس نے اپنی پلکوں پر جھوٹے آنسو سجائے۔
”اگر تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور میری پرواہ کرتی ہو تو فی الحال مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔۔مجھے سکون چاہئے۔۔۔“اس نے التجا کی۔
”ٹھیک ہے۔۔۔مگر میں تمہیں یوں تنہا نہیں چھوڑوں گی۔۔۔جب بھی تمہیں ایک ہمدرد،ایک ساتھی کی ضرورت ہوگی تو بے جھجھک مجھے یاد کرنا۔۔۔“وہ اسے تسلی دیتی وہاں سے چلی گئی۔
”تھینکس۔۔۔“اپنے کمرے کی چابیاں لیتا وہ وہاں سے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
اگلی صبح داداجان گھر آگئے تھے۔شاہنواز ان کا مکمل ساتھ دے رہا تھا۔ وہ انہیں کمرے میں لے کر آیا اور ان کے پاس ہی رکنے کا خواہش مند تھا۔
”آرام سے داداجان۔۔۔“انہیں بستر پر لٹانے کے بعد وہ انہیں کمبل اوڑھانے لگا۔
”بیٹا۔۔شہزین کو بلوا دو۔۔۔“وہ ابھی بھی بے قرار تھے۔
”داداجان مگر پلیز آپ پہلے آرام کر لیں۔۔۔“
”نہیں مجھے تو سکون تب ہی میسر ہوگا جب وہ بچی ان دکھوں سے آزاد ہوگی جو میرے خون نے اسے دیے ہیں۔۔۔“ان کا ملال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا تھا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔میں ملازمہ سے کہتا ہوں۔۔۔“اتنا کہتا وہ کمرے سے چلا گیا۔
ملازمہ کے پیغام کے بعد وہ وہاں چلی آئی تو شاہنواز بھی کمرے کے باہر ہی موجود تھا مگر اس کی پشت شہزین کی طرف تھی اور وہ فون پر شازمان کا نمبر ملا رہا تھا۔جب تک اس نے رُخ پھیرا تو شہزین وہاں سے کمرے میں جا چکی تھی۔اب اس نے کمرے میں جانا مناسب نہ سمجھا۔وہ پُول کی طرف چلا گیا۔
”السلام علیکم بھائی۔۔۔“وہ فون پر شازمان نے مخاطب تھا۔
”وعلیکم السلام۔۔۔“اس کے جواب میں معمول جیسی تازگی نہ تھی۔
”یہ سب کیا ہوگیا بھائی؟آپ نے ایسا کیوں کیا؟“
”کیونکہ میرے سامنے وہ حقیقت آگئی جسے میرے ہی اپنوں نے مجھ سے چھپانا چاہا۔۔۔۔“وہ شکوہ کررہا تھا۔
”کیسی حقیقت؟“
”کیا تمہیں نہیں معلوم۔۔اتنے بھولے تو نہیں ہو تم۔۔“اس کی باتوں سے حقارت جھلک رہی تھی۔
”جی بھائی میں بھولا نہیں ہوں مگر جو حرکت آپ نے کی وہ؟کیا آپ بھولے ہیں؟“
”میں ایک غیرت مند انسان ہوں شاہنواز۔۔۔“وہ غرایا۔
”تب ہی آپ نے ایک بے گناہ پر تہمت لگا دی۔۔۔“
”بے گناہ۔۔۔اچھا تو جب تم نے ایسا ہی قدم اُٹھایا تھا تب تمہاری غیرت سو رہی تھی؟“
”بھائی اسے میں نے کن حالات میں چھوڑا تھا صرف میں جانتا ہوں۔۔۔"اس کی آواز میں لاتعداد درد امڈ آیا۔
"میں نے بھی شہزین کو جن حالات میں چھوڑا اس کے لئے میں کسی کو جوابدہ نہیں ہوں۔۔"اس نے بھی روکھے پن سے جواب دیا۔
”بھائی آپ ہوش میں نہیں ہیں۔۔۔جب آپ کے ہوش ٹھکانے آجائیں تب بات کیجیے گا۔۔۔“اس نے کال کاٹ دی۔
وہ داداجان کے کمرے میں آئی تو اپنے آنسو بہنے سے روک نہ سکی۔اس کے آنسو انہیں مزید تکلیف دے رہے تھے۔
”شہزین میری بچی۔۔۔یہاں آؤ بیٹھو۔۔۔“انہوں نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
”داداجان۔۔۔“وہ ان کے بیڈ کے پاس موجود کرسی پر بیٹھ گئی۔
”بیٹا۔۔۔مجھے معاف کردو۔۔۔میں تمہارے مجرم کو سزا بھی نہیں دے سکا۔۔۔“
”داداجان میرا مجرم تومیرا مقدر ہے۔۔۔اور مقدر کو کوئی کیا سزا دے۔۔۔“وہ ان کی شرمساری کم کر رہی تھی۔
”تمہارا مجرم میرا پوتا ہے۔۔۔اس نے تمہاری عزتِ نفس اور ہماری غیرت کا قتل کیا ہے بیٹا۔۔۔“وہ بلا کی تکلیف میں تھے۔
”داداجان آپ سب نے میرا بھلا ہی چاہا تھا مگر میرا نصیب ہمیشہ میری خوشیوں کے آڑے آیا ہے۔۔۔اب میری صرف ایک ہی گزارش ہے۔۔۔“اس نے بہتے آنسو خود ہی پونچھے۔
”بولو بیٹا۔۔۔“
”مجھے جانے کی اجازت دے دیں۔۔میں یہاں مزید رُکنا نہیں چاہتی۔۔۔“اس کی گزارش ناقابلِ قبول تھی۔
”شہزین۔۔۔ایسا مت کہو میری بچی۔۔۔تمہیں میں نے صرف زبان سے ہی نہیں دل سے بھی اپنی بچی مانا ہے۔۔۔اور بیٹیاں والدین کے گھر سے رُخصت ہوتی ہیں۔۔۔ فرار تو اس نامراد شازمان جیسے مجرم ہوتے ہیں۔۔۔“ان کے لئے الفاظ کی ادائیگی بھی اب محال ہونے لگی تھی۔
”پلیز داداجان۔۔۔میں تو ہوں ہی بد نصیب۔۔۔مگر میں نہیں چاہتی کہ میری بد نصیبی اس گھر کی خوشیوں کو تباہ کر دے۔۔۔۔مجھے جانے دیں اور شازمان سے کہیں کہ یہاں واپس اجائیں۔۔۔“وہ اب بھی اپنی ضد پر قائم تھی۔
”تم میری بات نہیں مان سکتی۔۔۔؟کیا میں اتنا غیر اہم ہوں تمہارے لئے؟“وہ تڑپ گئے۔
”نہیں داداجان۔۔۔“اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔تم میرا نہ سہی مگر اپنے اس وعدے کا تو لحاظ کرو گی نا۔۔جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔۔۔کہ تم کبھی بھی اس گھر کو ویران نہیں کرو گی۔۔۔ساری عمر اس گھر کو خوشیوں سے بھر کر رکھ گی۔۔۔کبھی بھی ہمیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔۔۔“وہ اسے اپنے وعدے یاد دلارہے تھے۔
”ان وعدوں کو نبھاؤں بھی تو کس ناطے سے داداجان۔۔۔؟اب میں اس گھر کی بہو نہیں ہوں۔۔۔کس رشتے سے میں یہاں رُکوں؟“اس کے سوالوں کا داداجان کے پاس ایک ہی جواب تھا۔
”تم اس گھر کی بہو بنو گی شہزین۔۔۔شاہنواز سے نکاح کرل و۔۔۔مجھ پر احسان کر دو۔۔۔۔“وہ گرگڑانے لگے اور شہزین حیرانی سے ان کا چہرہ تکنے لگی۔
”نہیں داداجان۔۔۔یہ ممکن نہیں ہے۔۔۔“اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”جب شاہنواز راضی ہے تمہیں کیوں اعتراض ہے شہزین؟“
”کیونکہ میں بھی انسان ہوں داداجان۔۔۔مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے۔۔۔کل ایک شخص مجھے جیتے جی مار گیا اور آج مجھ سے ایک نئی زندگی شروع کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں؟ شاہنواز بھائی کے لئے یہ سب آسان ہوگا مگر۔۔میں کیسے بھول جاؤں سب؟مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے۔۔۔مجھ میں مزید دکھوں کو جھیلنے کی سکت نہیں ہے داداجان۔۔۔“ اس کا لہجہ اب بھی بھیگا ہوا تھا۔
”بیٹا۔۔۔ہاتھ جوڑتا ہوں تمہارے سامنے۔۔۔“انہوں نے ہاتھ جوڑے تو شہزین نے ان کے ہاتھوں کو پھر سے جدا کیا۔
”پلیز داداجان۔۔۔مجھے کیوں شرمندہ کررہے ہیں؟“یہ لمحہ اس کے لئے قیامت جیسا تھا۔
”شرمندہ تو میں ہوں شہزین۔۔۔خدا کے لئے مجھے اس شرمندگی سے نجات دلا دو۔۔۔“وہ اب بھی منت کررہے تھے۔
”داداجان۔۔۔“
”اگر تم نے انکار کردیا زشہزین تو میں مر جاؤں گا۔۔۔ہاں کردو بیٹا تاکہ میں اپنی حیات کے بچے ہوئے دن سر اُٹھا کر گزار سکوں۔۔۔“وہ پھر سے رونے لگے۔
”آپ نے مجھے بیٹی کہا ہے داداجان۔۔۔اور کوئی بھی بیٹی اپنے باپ کا سر بلند رکھنے کے لئے اپنا سر کلم کروانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔۔۔آپ کا سر اگر میری وجہ سے اُٹھتا ہے تو مجھے صرف آپ کی خوشی کے لئے ایک اور سمجھوتہ منظور ہے۔۔۔“اس نے روتے روتے ہاں کر دی۔
”جیتی رہو میری بچی۔۔۔“انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”کیا میں جاسکتی ہوں داداجان۔۔۔؟“اس نے جانے کی اجازت مانگی۔
”ہاں جاؤ بیٹا۔۔۔مگر اس گھر سے کبھی مت جانا۔۔۔یہ گھر اب تمہارا بھی ہے۔۔۔“وہ اپنائیت سے بولے۔
شاہنواز سر پکڑے اپنے کمرے میں کھڑا تھا۔شازمان کے لہجے میں اس کیلئے اتنی کرواہٹ کیوں تھی؟یہ سوال اسے بے چین کئے ہوئے تھا۔
”شاہنواز۔۔۔“سیدہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔
”جی مما۔۔۔“اس نے اپنے سر سے ہاتھ ہٹایا۔
”کیا تم داداجان کے فیصلے سے خوش ہو؟کیا تمہیں لگتاہے کہ تم ان کے بھرم کو قائم رکھ پاؤ گے؟“ان کے لئے اپنی اولادکی خوشی بھی اہم تھی۔
”پتہ نہیں مما۔۔؟“وہ خُود کشمکس میں تھا۔
”شاہنواز۔۔۔بیٹا میری طرف دیکھو۔۔“انہوں نے کندھے سے تھام کر اس کا کا چہرہ اپنی طرف کیا۔
”کیا تم میں یہ قربانی دینے کا حوصلہ ہے؟“وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔
”مما۔۔میرے لئے یہ باتیں اہم نہیں ہیں۔۔۔مگر وہ لڑکی۔۔اس کے ساتھ جو کھیل زندگی نے کھیلا ہے۔۔اس کے بعد کیا وہ اس سب کے لئے تیار ہوپائے گی؟“
”وہ بیچاری تو تب بھی خاموش تھی اور اب بھی۔۔۔بہت بدقسمت ہے شازمان۔۔اس نے اپنا مقدر خُود بِگاڑا ہے۔۔شہزین ایک مثالی لڑکی ہے۔۔۔اس نے اپنی خوش اخلاقی اور سلیقہ مندی سے ہم سب کو اپنا گرویدہ بنالیا ہے بیٹا۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ وہ تمہاری زندگی کوبھی جنت بنا دے گی۔۔۔“
”مما۔۔۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ بھائی کی غلطی کو دوہراؤں گا نہیں۔۔۔اگر ہمارا رشتہ جُڑے گا تو اپنی آخری سانس تک اسے نبھاؤں گا۔۔۔“اس نے ماں کا ہاتھ ہاتھوں میں تھامے وعدہ کیا اور ان کی یہ تمام گفتگو کمرے کے باہر موجود شبانہ بیگم نے سُن لی۔
تمام باتیں سننے کے بعد وہ شہزین کے کمرے میں چلی آئیں۔شہزین کمرے کی بالکنی پر کھڑی گھر کے لان پر نظرے جمائے ہوئے تھی۔دادا جان کے جڑے ہاتھوں میں اسے اپنے مرحوم باپ سے ہوئی اخری ملاقات یاد ائی تھی جب انہوں نے ہاتھ جوڑ کر اس سے زندگی میں پہلی بار کچھ مانگا تھا اور اسنے نافرمانی سے سخت انکار کردیا۔وہ انکار آج اسے کس نہج پر لے آیا تھا۔
”ایک اور کھیل۔۔۔یا پھر ایک اور مہر جو میرے کردار پر لگا دی گئی۔۔۔پہلے شان اور شازمان کی بیوفائی۔۔۔شائد میرے مقدر میں وفا کا سکھ لکھا ہی نہیں۔۔۔اب ایک اور نام۔۔۔یا پھر ایک اور وسیلہ۔۔۔ میری تذلیل کروانے کا؟میرے خدا۔۔۔اتنی بڑی خطا تو نہیں کی تھی میں نے۔۔۔محبت ہی تو کی تھی۔۔۔پر شائد بےوفا سے محبت اس دنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے۔۔۔جو ہماری آخری سانس تک ہماری رسوائی کا سبب بنتا ہے۔۔۔جس کی کوئی تلافی۔۔۔کوئی ازالہ بھی نہیں۔۔۔کاش مجھے ایک موقع ملے تو تمہیں بھی وہی اذیت دوں میں شان۔۔۔جو تم نے مجھے دی۔۔۔“دل و دماغ کے درمیان ہوتی جنگ میں دونوں طرف سے اس کی ہار تھی۔
”شہزین۔۔۔کیا جو میں نے سنا وہ سچ ہے؟“شبانہ بیگم وہاں ّآتے ہوئے بولیں۔
”جی۔۔۔“اس نے پلٹ کر جواب دیا۔
”کیوں بیٹا؟“
”کیونکہ میرے لئے اب میری خوشی اہم نہیں ہے تائی امی۔۔۔مگر داداجان کی خوشی کے لئے میں یہ سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوں۔۔۔انہوں نے ہاتھ جوڑ کر مجھ سے التجا کی ہے تائی امی۔۔۔میں تو برباد ہوں مگر اللہ مجھے موقع دے رہا ہے کہ کسی کا گھر برباد ہونے سے بچا سکوں۔۔۔وہ جی نہیں پائیں گے۔۔۔شازمان کے اس قدم نے مجھ سے زیادہ انہیں تکلیف پہنچائی ہے اور اب اگر مجھے ان کے زخموں کی دوا کرنے کا موقع مل رہا ہے تومیں کیوں خود غرض بن جاؤ۔۔۔اس گھر کے بہت احسان ہیں مجھ پر۔۔۔میں یوں احسان فراموشی نہیں کر سکتی۔۔۔“اس کی آنکھیں پھر سے بھیگ گئیں۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
”شاہنواز۔۔۔“وہ نیند سے بیدار ہوتے ہوئے بولے۔
”جی داداجان۔۔۔“وہ ان کے پاس ہی بیٹھا تھا۔
”تم کمرے میں نہیں گئے۔۔دو دن سے ایک پل سکون سے نہیں بیٹھے تم۔۔۔اتنا لمبا سفر طے کیا ہے تم نے بیٹا۔۔۔۔“وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھے۔
”داداجان۔۔آپ ٹھیک ہوجائیں پھر میں بھی آرام کرلوں گا۔۔۔“
”بیٹا تم قاضی صاحب سے بات کرونا۔۔۔میں جلد ازجلد تم دونوں کانکاح کروانا چاہتا ہوں۔۔۔“وہ ہوا کے گھوڑروں پر سوار تھے۔
”اتنی جلدی کیا ہے داداجان؟“اس نے مزاحمت کی۔
”جلدی ہے بیٹا۔۔۔تم بس بات کرو نا۔۔۔سب ٹھیک ہوتے ہی میں بھی ٹھیک ہوجاؤں گا۔۔۔“
”ٹھیک ہے داداجان۔۔۔“اس نے ناچاہتے ہوئے بھی حامی بھرلی۔
داداجان کے اصرار پر اس نے اپنی ماں سے بات کی اور پھر انہوں نے شبانہ بیگم کو اعتماد میں لیا۔ان کی مرضی کے بغیر سب ہونا ناممکن ہی تھا۔شہزین کی ہاں کے بعد ان کے انکار کی کوئی وجہ باقی نہ رہی تھی تو انہوں نے بھی رضامندی ظاہر کردی۔
شازمان کمرے میں بیٹھا ٹی وی کے چینلز مسلسل بدل رہا تھا مگر اس کا دھیان اب بھی شہزین کے قصے میں الجھا تھا۔ایک پل میں وہ لاتعلق تو ہو گیا مگر کیا یہ درست تھا؟ خیر جو بھی تھا اب وہی سچ تھا جسے بدلنا اس کے اختیار میں بھی نہیں۔اسی اثنا میں اس کا موبائل بجا۔کال پھر سے نتاشہ کی تھی۔اس کا دل تو نہیں تھا مگر گھر کی صورتِ حال جاننے کے لئے اس نے کال سن لی۔
”بہت بہت مبارک ہو۔۔۔“اس نے طزنہ لہجہ اختیار کیا۔
”کس بات کی؟تم شادی کر رہی ہو کیا؟“شازمان نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”میرا دُلہا تو ابھی تک مجھ سے خفا بیٹھا ہے۔۔۔میں بھلا کیسے شادی کر سکتی ہوں؟مگر تمہاری وہ شہزین بہت ہی صبری ہے۔۔۔“شرم تو شائد کبھی اس کے پاس سے بھی نہ گزری تھی۔
”کیا مطلب۔۔۔؟“
”مطلب یہ کہ تمہاری شہزین۔۔۔اب تمہاری پیاری بھابھی جان بننے جا رہی ہے۔۔۔“نتاشہ نے ڈرامائی انداز میں بتایا۔
”کیا بکواس کر رہی ہو تم۔۔۔؟“وہ دھاڑا۔
”میرا سچ تو تمہیں ہمیشہ ہی بکواس لگتا ہے۔۔۔تمہاری مما کی کال آئی تھی۔۔۔کل شاہنواز اور شہزین کا نکاح ہے۔۔۔“ایک اور بری خبر۔
”شاہنواز ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔“اسے یقین نہ آیا۔
”کیوں نہیں کرسکتا۔۔۔وہ تو تمہاری غلطی سدھار رہا ہے۔مقدر کے کھیل بھی عجیب ہوتے ہیں نا۔۔۔“اسنے معنی خیزی سے ایک اور کاری ضرب لگائی تھی۔
”یہ ممکن نہیں ہے۔۔۔“وہ اب بھی بے یقین سا تھا۔
”کیوں؟چلو اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں تو کل خود آ کر دیکھ لینا۔۔آخر اس گھر کے بیٹے ہو تم بھی۔۔۔میں تو ضرور جاؤں گی۔۔۔“ ان سب سے اس کی انا بہت مطمعین ہو رہی تھی۔
”تمہارا دماغ خراب ہے۔۔۔“اس نے کال کاٹ دی۔
کال کاٹنے کے بعد اس نے فوراً شاہنواز کو فون کیا۔جو بھی ہو یہ نکاح اس کی سرعام تذلیل کے مترادف تھا۔
”جی بھائی۔۔۔“اس نے فون اُٹھایا۔
”تم کیا کرنے جارہے ہو؟تمہیں اندازہ بھی ہے کتنی رسوائی ہوگی ہمارے خاندان کی؟دنیا ہنسے گی ہم پر۔۔۔“
”دنیا تو ہم پر اب بھی ہنس رہی ہے۔۔۔اور رسوائی تو ہماری اسی دن ہوگئی تھی جب آپ نے اس بے گناہ لڑکی کو بے وجہ اتنی بڑی سزا دے دی۔۔۔“اس نے بھی کوئی لحاظ نہ کیا۔
”یہ کیا بے گناہ بے گناہ کی رٹ لگا رکھی ہے تم نے؟“وہ مزید کچھ بولتا اس سے پہلے شاہنواز نے بات کاٹی۔
”پلیز بھائی۔۔میں آپ کی کوئی بات نہیں سننا چاہتا۔۔۔شہزین جو ہے۔۔جیسی ہے۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔میرے لئے داداجان کی خوشی اہم ہے۔۔بہت دنوں بعد انہوں نے مجھے بیٹا پکارا ہے۔۔ اور ان کی اس پکار کے لئے میں اپنی جان بھی قربان کرسکتا ہوں۔۔۔“وہ جذباتی ہو گیا۔
”تم دونوں ہی دکھاوے میں ماہر ہو۔۔۔اچھی جوڑی رہے گی۔۔“ اتنا کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔شہزین سے تو بدگمانی کی وجہ تھی مگر شاہنواز سے اسے کیسا گِلا تھا؟اس کے لئے بھی شازمان کا رویہ اتنا سخت کیوں تھا؟
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شازمان بھائی کیوں آئے تھے شان؟"رات گئے وہ کمرے میں آیا تو بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھی ملائکہ نے سوال کیا۔
"ایسے ہی۔۔کوئی خاص بات نہیں تھی۔۔"گھڑی اتار کر سنگھار میز پر رکھتے ہوئے اس نے بےتوجگی سے کہا۔
"وہ تم سے شازی کی بات کررہے تھے نا۔۔"اس کے اگلے سوال پر شان کے اعصاب تنے تھے۔
"تم چھپ چھپ کر لوگوں کی باتیں سننا کب چھوڑوگی؟"وہ جیسے غصے سے پھٹ پڑا۔
"میں نے جان بوجھ کر نہیں۔۔"وہ خاصی شرمندہ ہوئی تھی۔
"شازی کی منگنی ہوئی ہے ان سے۔۔"اس کی وضاحت سے قبل شان نے اصل وجہ بتائی
"وٹ۔۔لیکن وہ تو اپنے گاوں۔۔"وہ کہتے کہتے رکی تھی۔
"وہ جہاں بھی رہے جس سے بھی تعلق رکھے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔"اس کی آنکھوں میں سمٹی سرخیوں سے ملائکہ کو خوف آیا تھا۔
"تم نے شازمان بھائی کو بتایا نہیں کہ۔۔"وہ توقف سے بولی۔
"میں نے انہیں خبردار کردیا ہے اور مجھے امید ہے کہ انہیں میری بات سمجھ آگئی ہوگی۔۔تم اپنا سامان پیک کرلو۔۔"اپنی جیکٹ اتار کر اسنے الماری سے رات کے لئے کپڑے نکالے تھے۔
"کیوں؟"
"مجھے اس ماحول سے عجیب سی وحشت ہورہی ہے۔۔کچھ دنوں کے لئے باہر چلتے ہیں۔۔کل صبح نکلیں گے۔۔"اسنے روانی سے ہر بات بتائی تھی۔
"واقعی شان۔۔"وہ بیڈ سے اتری تھی۔
"میں کب تک اپنے اجڑے ماضی کا سوگ مناوں۔۔مجھے بھی تو زندگی میں آگے بڑھنے کا حق ہے نا۔۔"شہزین کا زندگی میں آگے بڑھ جانا اب بھی اس کی روح کو چھلنی کررہا تھا۔
"میں تمہارے ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔"اسکے سامنے جاکر کھڑی ہوتی وہ اسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔
"تھینکس۔۔"تکلف سے مسکراتے ہوئے وہ ڈریسنگ روم جا گھنسا تھا۔
آج ان دونوں کا نکاح ہونے جا رہا تھا۔شاہنواز نے تو دادجان کے کمرے میں ہی بیٹھ کر نکاح نامے پر دستخط کئے کیونکہ داداجان ابھی بھی بیڈ ریسٹ پر تھے۔اس موقع پر صرف قریبی رشتہ داروں کو بلایا گیا تھا۔آج چچا حضور تو سب سے پہلے آٹپکے تھے۔ان کے لئے یہ سب محض ایک تماشے جیسا تھا۔شہزین کی ہاں اور دستخط کے بعد آخرکار داداجان کا بوجھ کچھ کم ہوا۔
”اب تو آپ خوش ہیں نا داداجان؟“سب مہمانوں کے جانے کے بعد شاہنواز ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے ادب سے مخاطب ہوا۔
”ہاں بیٹا۔۔۔تمہیں اندازہ نہیں کہ تم نے مجھے نئی زندگی عطا کی ہے۔۔۔“وہ اس کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔
”اب بس آپ نے کوئی ٹینشن نہیں لینی۔۔اپنی صحت کا بے حد خیال رکھنا ہے۔۔۔“
”ایک اور وعدہ کرو گے بیٹا۔۔۔“وہ ہاتھ چھروانے لگا تو داداجان نے روک دیا۔
”حکم کریں۔۔۔“
”شہزین کو سمجھنے کی کوشش کرنا۔۔سب بھلانے میں اسے تھوڑا وقت لگے گا۔۔۔اس سے کبھی بدگمان مت ہونا۔۔۔“وہ اب بھی فکر مند تھے۔
”جیسا آپ چاہتے ہیں۔۔۔سب ویسا ہی ہوگا۔۔۔“اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ چھڑوائے۔
”اپنی نئی زندگی کا آغاز خلوص کے ساتھ کرنا بیٹا۔۔۔“وہ اسے نصیحت کر رہے تھے۔
”جی داداجان۔۔۔“
”چلوٹھیک ہے۔۔۔اب تم اپنے کمرے میں جاؤ۔۔“انہوں نے اسے چلتا کیا۔
شہزین کو جب شبانہ بیگم شاہنواز کے کمرے میں لے کرآئیں تو اس کے ہاتھ پاوں کانپ رہے تھے۔اس کا دل کیا کہ یہاں سے بہت دور بھاگ جائے۔
”تائی امی۔۔میرے پاس ہی رکیں۔۔۔“وہ اسے بیڈ پر بیٹھا کر جانے ہی والی تھیں کہ اس نے ان کا بازو تھام لیا۔
”دیکھو شہزین۔۔۔بیٹا تم اکیلی نہیں ہو۔۔۔ہم سب ہیں تمہارے ساتھ۔۔اور ہم جانتے ہیں کہ اس وقت تم پر کیا گزر رہی ہو گی۔۔۔“وہ اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئیں۔
”تائی امی۔۔۔میرے مقدر میں اتنے غم کیوں لکھے ہیں؟ہر بار قسمت مجھے پل صراط ہر لا کر کھڑا کیوں کردیتی ہے؟“وہ اب بھی قسمت کو کونس رہی تھی۔
”جو گزر گیا۔۔اسے بھول کر آگے بڑھنے کا نام ہی زندگی ہے۔۔۔ہمارا ماضی صرف ہمارے زخموں کو تازہ کرسکتا ہے۔۔ان کی مرحم صرف ہمارے درست فیصلے بنتے ہیں۔۔جو ہمارے مستقبل کو بھی سنوارتے ہیں۔۔اب تم نے بھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھنا بیٹا۔۔۔“وہ اس کی حالت کو سمجھتی تھیں۔
”شائد شاہنواز آگیا ہے۔۔۔میں چلتی ہوں۔۔“کسی کے قدموں کی آہٹ پر وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
”وہ ایک اچھا انسان ہے شہزین۔۔بس تم اب یہ وسوسے پالنا چھوڑدو۔۔۔“جاتے جاتے وہ اسے نصیحت کر گئیں۔
”شائد اس دنیا میں سب ہی اچھے ہیں۔۔میرے علاوہ۔۔“اس کے دل کی آواز دل میں ہی رہ گئی۔
وہ کمرے میں آیا تو شہزین کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔شاہنواز نے ایک نظر اس پرڈالی جو روایتی دولہنوں کے لباس میں نہیں تھی۔ اس مہرون رنگ کا بھاری کام والا جوڑا پہنا ہوا تھا مگر چہرہ دولہنوں ہی کی طرح گھونکھٹ میں چھپا ہوا تھا۔وہ بہت گھبرا بھی رہا تھا کہ کیا کہتا؟اسے باتیں بنا نے کاہنر نہیں آتا تھا اور ایسی شادی کے بعد تو اسے سمجھ ہی نہ آرہا تھا کہ کیا کہتا؟اس کی کیفیت بھی شہزین سے مختلف تھی۔وہ بھی وقت کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس رشتے میں منسلک ہوا تھا۔
وہ بغیر کچھ کہے ڈریسنگ روم میں چلا گیا اور لباس تبدیل کرنے کے بعد صوفے پر ہی سوگیا۔تھکاوٹ کے باعث اسے ایک ہی لمحے میں نیند آگئی۔غیر ارادی طور پر ہی سہی مگر اس نے شہزین احمد کی توہین کر دی تھی۔کافی وقت گزر جانے کے بعد جب شہزین نے اپنے چہرے سے خود ہی گھونگھٹ اُٹھایا تو اسے صوفے پر دراز پایا۔وہ رُخ پھیرے سو رہا تھا۔قسمت کا عجیب اتفاق تھا کہ ابھی تک ان دونوں نے ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھی تھی اور اب انہیں پوری عمر ساتھ گزارنی تھی۔
اگلی صبح شاہنواز کی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ پرموجود نہ تھی۔وہ بھی جمائی لیتا صوفے سے اُٹھا۔
”یہ کہاں چلی گئی اب؟“کمرہ خالی دیکھ کر اسے خیال آیا۔
”آواز دوں؟“وہ سوچ ہی رہا تھا تو شہزین ڈریسنگ روم سے نکلی۔ڈریسنگ روم سے نکلتے ساتھ ہی آئینے کے سامنے کھڑی بالوں سنوارنے لگی۔ابھی بھی نہ اس نے شاہنواز کو اور نہ ہی شاہنواز نے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔وہ ہمت کرکے اس کی جانب بڑھا۔آج نہیں تو کل انہیں ہمکلام تو ہونا ہی تھا۔
”میں بولوں کیا؟“اس نے سوچاجبکہ شہزین اب بھی اس کی آمد سے بے خبر گیلے بال سنوارنے میں مصروف تھی۔
”شہزین۔۔۔“اس کی آواز نے شہزین کے ہاتھ روک دیے۔ یہ آواز وہ کیسے بھول سکتی تھی؟ہاں یہ اسی کی آواز تھی جو شہزین احمد کو ایسے مقام پرلے آیا تھا۔ اس نے یکدم رُخ پھیرا اور دونوں کا آمنا سامنا ہوا۔
”تم۔۔۔۔“شاہنواز کی اجنبیت ایک لمحے میں غائب ہوگئی۔
”اس جیسی لڑکیاں گھر بسانے کے لائق نہیں ہوتی جن کا دن کسی کے نام ہوتا ہے اور شام کی کسی کے نام۔۔۔“یہ وہی انسان تھا جس نے اس کی زندگی کے سب دروازے بند کرنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی تھی۔
”تم؟“شہزین کے ذہن میں بے شمار سوال اُٹھ رہے تھے۔
اسی دوران کمرے کا دروازہ کھٹکا تو شہزین نی سنگھار میز کے سامنے رکھی کرسی پر سے اپنا دوپٹہ اُٹھا کے کندھوں پر لٹکایا اور دروازہ کھولاجبکہ شاہنواز تو وہیں بے جان پتلے کی طرح کھڑا تھا۔
”السلام علیکم بیٹے۔۔“سیدہ بیگم کمرے کے دروازے پرموجود تھیں۔
”وعلیکم السلام۔۔۔“
”تم دونوں تیار ہوگئے ہو؟ناشتے پر سب انتظار کر رہے ہیں؟“ وہ کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔
”جی میں تیار ہوگئی ہوں۔۔“وہ نظریں جھکائے بولی۔
”ٹھیک ہے تم چلو میرے ساتھ اور شاہنواز بیٹا تم بھی جلدی سے آجاؤ۔۔۔“وہ اسے اپنے ہمراہ لئے چلی گئیں۔
”یہ کیا ہوگیا؟“شاہنواز اپنا سر پکڑ کر بستر پر بیٹھ گیا۔
اس نے کب سوچا تھا کہ وہ ناپسندیدہ ترین لڑکی کبھی اس کی زندگی میں آئے گی اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے؟اسے وہ اتفاق کہتا یا پھر حادثہ؟
زیادہ پرانی بات نہ تھی جب وہ شہزین سے ملاتھا۔اس وقت شاہنواز اسلام آباد میں کاروباری معاملات سنبھال رہا تھا اور اس کے ساتھ رہائش پذیر شان سٹیج پلے ڈائریکٹ کرتا تھا۔شہزین سے اس کی ملاقات ایک منگنی کی تقریب میں ہوئی تھی۔
”پلیز اسفند۔۔کیوں کررہے وہ ایسا؟تم تو مجھ سے محبت کرتے تھے نا۔۔۔تم اب ایسا کیوں کررہے ہو؟“وہ دلبرداشتہ تھی۔
”ہاں تو میں کب انکار کر رہا ہوں۔۔۔ یقیناً میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔تم سے ہی نہیں اس دنیاکی ہر خوبصوت لڑکی میری محبت ہے۔۔۔مگر میں اگر سب سے محبت نبھانے چل پڑوں تو۔۔۔میں شادی کرتے کرتے ہی بوڑھا ہو جاؤں گا۔۔۔“اس نے تکبر کے ساتھ جواب دیا۔
”استغفراللہ۔۔“دیوار کے پیچھے کھڑی شہزین نے ان دونوں کی تمام گفتگو سن لی۔
”یعنی میں تمہارے لئے صرف ٹائم پاس تھی؟“
”اب تم ایسا سمجھتی ہو تو ایسا ہی سہی۔۔۔“وہ کندھے اُچکائے بولا۔
”تمہاری ایسی کی تیسی۔۔۔۔“دیوار کو پار کرتے وہ بھی میدان میں آگئی۔
”شازی۔۔۔“اس کی اس تیز آمد پر وہ لڑکی چونکی۔
”تم چپ کرو۔۔۔بے شرم ابھی ابھی منگنی ہوئی ہے تمہاری۔۔۔اور تم اس آوارہ اور ناکارا انسان کے سامنے محبت کی بھیگ مانگ رہی ہو۔۔۔اور تم مسٹر؟دیکھنے میں کسی شریف گھر کے لگتے ہو مگر حرکتیں اتنی حقیر۔۔۔مجھ جسی کوئی لڑکی ملتی نہ تمہیں تو قسم خدا کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی۔۔۔“ اس نے بغیر کچھ سنے دونوں کی خوب جھاڑ پچھاڑ کی۔
”شازی۔۔۔کنٹرول۔۔۔“اس لڑکی نے اسے کندھوں سے تھام کر روکا جبکہ وہ لڑکا مسکراتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”حد ہے یار۔۔۔شازی سارا سین خراب کردیا تم نے۔۔۔“ایک طرف خاموش کھڑا پورا گروہ وہاں آن پہنچا۔
”شازی تم بھی نا۔۔۔“اس لڑکی کا منگیتر سعد بھی بولا۔
”یہ سب کیا؟“وہ بوکھلا گئی۔
”ایڈیٹ۔۔۔کل ہمارا پلے ہے۔۔۔میں اور سعد۔۔اس میں پرفارم کر رہے ہیں۔۔۔ہم اسی کی پریکٹس کررہے تھے۔۔۔“مریم نے تفصیل بتائی۔
”اور یہ ہمارے ڈائریکٹر ہیں۔۔۔شان گیلانی۔۔سر مجھے ٹپ دے رہے تھے۔۔۔کہ کیسے ڈائلاگ بولنے ہیں۔۔۔“وہ شان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
”اوہ۔۔۔“وہ اب تھوڑی شرمندہ بھی ہوئی۔
”ویسے تم بھی ڈائلاگز کمال کے بولتی ہو وہ بھی بغیر سکرپٹ کے۔۔۔“مریم نے اس کا مزاق اُڑیا تو سب دوست ہنس پڑے۔
”واقعی۔۔۔کچھ زیادہ ہی چلتی ہے آپ کی زبان۔۔۔“شان نے بھی طعنہ کسا۔
"ایکسکوزمی۔۔"وہ شرمندگی سے سر جھکائے وہاں سے نو دو گیارہ ہوئی تھی اور شاہ نواز دوبارہ ہونے والی مشق کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
منگنی میں ہونے والی عزت افزائی کے بعد وہ خراب مزاج لئے گھر پہنچی۔گھر پر بھی اس کا استقبال والدہ صاحبہ نے روکھے انداز میں ہی کیا۔
”آگیا یاد تمہیں کہ گھر پر کوئی تمہارا انتظار کررہا ہے؟“ان کا طنز ابھی منہ میں ہی تھا اور شہزین اپنا ہینڈبیگ بے فکری سے زمین پھینکتی صوفے پر لیٹ گئی۔
”شازی۔۔۔یہ کیا بیہودگی ہے بیٹا۔۔۔؟“انھوں نے اسے زمین سے اُٹھایا۔
”اب لگ رہی ہیں نا میری مما۔۔۔“وہ بیٹھتے ہوئے بولی۔
”تم اب بچی نہیں ہو۔۔۔بائیس سال کی ہوگئی ہو۔۔۔اور۔۔۔“وہ اس کے اس بیٹھیں۔
”اور بہت جلد آپ اور بابا میری شادی کردیں گے۔۔۔اور کوئی بھی سسرال میرا ایسا رویہ قطاً برداشت نہیں کرگا۔۔۔“ماں کے کندھے پر دونوں بازو پھیلائے وہ ان کی نقل اتارتے ہوئے بولی۔
”بے شرم۔۔۔“وہ اس سے زیادہ کچھ نہ بولیں۔
”اوف اوہ۔۔۔ماں آپ یہ جملے دن میں کم ازکم دس بار مجھے سناتی ہیں۔۔۔اس لئے مجھے اب یہ باتیں حفظ ہوگئی ہیں۔۔۔“ وہ ان کے کندھے پر سر ٹِکا کر آنکھیں موند گئی۔
”تم حفظ ہی کرنا عمل مت کرنا۔۔۔“
”انشاءاللہ۔۔۔“اس کی آنکھیں ابھی بھی بند تھیں۔
”اچھا بتاؤ کیسی رہی منگنی؟“وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگیں تو اسے فوراً اپنی بےوقوفی یاد آگئی۔
”ٹھیک ہی تھی۔۔۔خوامخواہ آپ نے مجھے وہاں بھیج دیا۔۔۔“ سر اُٹھانے کے بعد اب وہ اپنے سینڈلز اتارنے میں لگ گئی۔
”تمہاری دوست کی منگنی تھی بیٹا۔۔۔“
”ہوں۔۔۔“اس نے تھکاوٹ کے باعث منہ بنایا۔
”باباجان سے بات ہوئی آپ کی؟کب آرہے ہیں وہ؟“احمد صاحب ایک ہفتے سے کاروبار کے سلسلے میں کراچی گئے ہوئے تھے۔
”وہ تو آگئے۔۔۔“وہ اطمینان سے بولیں۔
”کب؟“
”دو گھنٹے پہلے۔۔۔اور آتے ساتھ ڈرائیور کو دس بار فون کیا انھوں نے کہ تم کب آؤ گی۔۔۔“
”ڈرائیور کی ایسی کی تیسی۔۔۔مجھے اس نے کچھ بتایا ہی نہیں۔۔۔“وہ غصیلے لہجے میں بولی۔
”تمہارے بابا نے ہی منع کیا تھا۔۔۔وہ تمہیں سرپرائز دینا چاپتے تھے۔۔۔مگر پھر تمہارا انتظار کرتے کرتے سو ہی گئے۔۔۔“
”باباجان بھی نا۔۔۔میں ابھی جاؤں ان کے پاس۔۔۔“وہ فوراً اُٹھی۔
”ابھی وہ سو ررہے ہیں۔۔۔ایک ہفتے بعد گھر آئے ہیں۔۔۔صبح مل لینا ان سے۔۔۔“ماں نے روکا۔
”اچھا ماں۔۔۔آئی پرامس انہیں ڈسٹرب نہیں کروں گی۔۔۔بس انھیں دیکھوں گی ہی۔۔۔انھیں دیکھے بغیر مجھے نیند نہیں آنی۔۔۔“وہ اپنا رونا روتی باپ کے کمرے کو دوڑی۔
”تم دونوں باپ بیٹی کا خدا ہی حافظ ہے۔۔۔“
اگلی صبح تیار ہوکر وہ کمرے سے نکلی تو احمد خان ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔اس نے چپکے چپکے جا کر ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔
”میری گڑیا۔۔۔“باپ نے اسے پہچان لیا۔
”خدا کا واسطہ ہے باباجان۔۔۔مجھے گڑیا مت بلایا کریں اب۔۔۔“ وہ ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔
”کیوں۔۔۔“انہوں نے اخبار تہہ کرنے کے بعد میز پر رکھ دیا۔
”کیونکہ میں اب کوئی آٹھ سال کی بچی نہیں ہوں۔۔۔“
”مگر حرکتیں تمہاری آٹھ سال کے بچوں جتنی ہی ہیں۔۔۔“ شہلا بیگم وہاں آتے ہوئے بولیں۔
”دیکھا باباجان۔۔۔ماں بے وجہ مجھے ڈانٹتی ہیں۔۔۔آپ نہیں تھے تو میں بالکل اکیلی ہوگئی تھی۔۔۔“اس نے بچوں جیسی شکل بنائی۔
”میں کیا کرسکتا ہوں۔۔۔میں تو خُود ان کی ڈانٹ کھا کھا کر وقت سے پہلے ضعیف ہوگیا ہوں۔۔۔“وہ بھی شرارتی لہجے میں بولے۔
”جی جی۔۔۔ساری خامیاں تو مجھ میں ہیں۔۔۔آپ باپ بیٹی تو دودھ کے دھلے ہیں۔۔۔“
”بے شک۔۔۔“وہ دونوں ایک ساتھ بولے۔
”بس بس۔۔۔چلیں اب ناشتہ کرلیں دونوں۔۔۔“ان کی ہدایت پر وہ دونوں ناشتے کے میز پر پہنچے۔
ناشتے کے بعد اس نے یونی ورسٹی جانا تھا جبکہ احمد خان آ ج گھر ہی رکنے والے تھے۔
”باباجان میرا گفٹ کہاں ہے؟“ناشتہ ختم ہوتے ساتھ ہی اسے خیال آیا۔
”کون سا گفٹ؟“وہ انجان بنے۔
”وہی گفٹ۔۔۔جس کا آپ نے مجھے وعدہ کیا تھا۔۔۔“اس نے یاد دلایا۔
”وہ تو میں بھول گیا۔۔۔“
”دیکھیں باباجان۔۔۔جھوٹ مت بولیں کیونکہ میں نے گفٹ کل رات آپ کے کمرے میں دیکھ لیا تھا۔۔۔پھر بھی شرافت سے مانگ رہی ہوں۔۔۔“وہ شوخی سے بولی۔
”تمہیں تو جاسوس ہونا چاہئے۔۔۔رکو میں لاتا ہوں۔۔۔“وہ اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولے۔
وہ جیسے ہی گفٹ لے کر وہاں پہنچے تو شہزین نے اسے کھولنا شروع کردیا۔
”بہت ہی اتاولی ہے یہ۔۔“شہلا بیگم برتن سمیٹتے ہوئے بولیں۔
”باباجان۔۔۔لیپ ٹاپ۔۔۔“اسے اس تحفے کی توقع نہ تھی۔
”تمہارا لیپ ٹاپ خراب ہوگیا تھا نا۔۔۔“وہ یاد دلانے لگے۔
”وہ ٹھیک ہو جاتا باباجان۔۔۔“
”کیا اب میری اکلوتی بیٹی خراب چیزیں صحیح کرواتی پھرے گی۔۔۔؟آج تک میں نے تمہیں ٹوٹی چپل مرمت کروانے نہیں دی۔۔۔“ وہ اس کے سب ناز اُٹھاتے تھے۔
”یو آر دی بیسٹ باباجان۔۔“وہ ان کے کندھے سے لگتے ہوئے بولی۔
”چلو اب جاؤ۔۔۔تمہیں دیر ہورہی ہوگی۔۔۔“وہ نرمی سے بولے۔
”اوکے۔۔۔“وہ لیپ ٹاپ اُٹھاتی وہاں سے نکل گئی تو کچن کا کام ختم کرنے کے بعد شہلا بیگم بھی ٹی وی لاونج میں آگئیں۔
”آپ کو نہیں لگتا احمد کہ ہم نے شازی کو بگاڑ دیا ہے۔۔۔؟“ گفٹ کی شیٹ جو شہزین زمین پر ہی پھینک گئی تھی وہ اس سمیٹتے ہوئے بولیں۔
”اس میں بگاڑنے کی کیا بات ہے شہلا؟گڑیاہماری اکلوتی اولاد ہے۔۔۔“
”تب ہی تومجھے ڈر لگتا ہے کہ ہم نے اسے کچھ زیادہ ہی نازوں میں پالا ہے۔۔۔ہمیشہ ہم کہاں رہیں گے اس کے ساتھ۔۔۔آج نہیں تو کل اس کی شادی ہوجائے گی۔۔۔پتہ نہیں اسے کیسا سسرال ملے؟ سمجھوتہ کرنا تو آپ نے اسے سکھایا نہیں۔۔۔“ وہ فکرمندی سے بولیں۔
”تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔میں کیا کسی راہ چلتے کو اپنی بیٹی سونپ دوں گا؟اور ویسے بھی میرے جیتے جی میری بیٹی کو کبھی بھی کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔۔“ان کا انداز اٹل تھا۔
”مقدر کے کھیل کو کوئی نہیں سمجھ سکتا احمد۔۔۔“
”اپنی بیٹی کی خوشی اور اچھے مستقبل کے لئے میں مقدر سے بھی لڑ لوں گا۔۔۔“وہ جانثاری سے بولے۔
”آپ دونوں باپ بیٹی کو سمجھانا ناممکن ہے۔۔۔“وہ ہمت ہار کر بولیں۔
”تم یہ سمیٹ کر مجھے ایک کپ چائے اور بنا دو پلیز۔۔۔“وہ ٹی وی آن کرتے ہوئے بولے۔
”جی۔۔۔“وہ اٹھتے ہوئے جوابدہ ہوئیں۔
وہ یونی ورسٹی پہنچی اور جاتے ساتھ کیفے ٹیریا کی راہ پکڑی کیونکہ اس کی بہترین دوست سمیرا وہیں پائی جاتی تھی۔
”اوہ شاعرِ مشرق۔۔۔اُٹھ جاؤ۔۔۔“سمیرا میز پر سر جھکائے بیٹھی تھی تو شہزین نے اس کے کندھے پر گدگدی کی۔
”مت کرو شازی۔۔۔میں بہت پریشان ہوں۔۔۔“اس نے سر اٹھایا۔
”کیا پریشانی ہے؟“وہ کرسی پر بیٹھی۔
”میرے گھر والے میری شادی کروا رہے ہیں یار۔۔۔“اس کی اداسی پر شہزین کو ترس سے زیادہ ہنسی آئی۔
”وہ تو پہلے سمسٹر میں جو تم نے جھنڈے گاڑھے تھے نا۔۔۔اس کے بعد مجھے ایسی ہی کسی خبر کی توقع تھی۔۔۔“وہ ہنسی پر قابو نہ رکھ پائی۔
”اب میں تمھاری طرح کتابی کیڑہ نہیں ہوں۔۔۔“وہ بھڑک گئی۔
”استغفار۔۔۔مجھے کتابی کیڑہ کہتے تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔“ اس نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”ڈرامے بازی بند کرو۔۔۔اور میرے مسئلے کا حل ڈھونڈو میری جان۔۔۔“
”وہ لڑکا کب دیکھنے آرہا ہے تمھیں؟“وہ کچھ سوچتے ہوئے سوال گوہ ہوئی۔
”آج ہی۔۔۔شام میں گھر ائیں گے وہ لوگ۔۔۔“اس نے دلبرداشتگی سے کہا۔
”تمہارے گھر؟“اس نے تصدیق کی۔
”ہاں میری ماں۔۔۔وہ پاپا کے دوست کا بیٹا ہے۔۔۔اگر اس نے مجھے پسند کرلیا تو میری مرضی تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔۔۔“
”تمھارے پاس اس کا نمبر ہے؟“اس نے ترکیب سوچ لی تھی۔
”ہاں۔۔۔“
”تم سے مجھے ایسے چھچھوڑے پن کی ہی امید تھی۔۔۔ایک کام کرو۔۔اسے ملنے بلاؤ۔۔۔“اس نے سمیرہ کو شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
”کیوں؟“بستے سے موبائل نکالتے ہوئے وہ تذبذب میں مبتلا ہوئی تھی۔
”وہ میں بتاتی ہوں۔تم پہلے اسے بلاؤ اور اسے بولو یونی ورسٹی آف ہونے کے بعد پاس والے ریسٹورانٹ میں آئے۔۔۔“ سمیرہ نے مجبوری میں اس کی ہر ہدایت بغور سنی تھی۔
”تم کرو گی کیا؟“اسے شہزین کے ارادے خطرناک لگے تھے۔
”جو کروں گی۔۔۔تمہارے بھلے کے لئے کروں گی۔۔۔“اس نے یقین دلایا۔
یونی ورسٹی سے چھٹی کے بعد وہ دونوں شہزین کے ڈرائیور کے ہمراہ اسی ریسٹورانٹ پہنچی جہاں سمیرا نے اس لڑکے کو بلایا تھا۔
”وہ بیٹھا ہوا ہے۔۔۔“ان دونوں نے منہ مینیو چارٹ سے چھپایا ہواتھا تب ہی سمیرا نے اسے چھپ چھپ کر دیکھا۔
”وہ۔۔۔؟چشمش۔۔۔“شہزین نے اس کے چشمے کا مزاق اُڑایا۔
”ہاں۔۔۔مگر اب تم کیا کرو گی؟“اس نے معصومیت سے
پوچھا۔
"تم بس ایک کونہ سنبھال کر بیٹھ جاو۔۔جب میں اشارہ کروں تب وہاں آنا۔۔"اسے ہدایات دیتی وہ میز کی جانب بڑھی تھی۔
"ایکسکیوزمی میں یہاں بیٹھ جاوں؟"اس نے معصومیت سے اجازت مانگی۔
"جی؟"وہ یکدم چونکا تھا۔
"وہ دراصل کوئی میز ابھی خالی نہیں ہوا۔"اس نے وضاحتا کہا۔
"ٹھیک ہے بیٹھ جائیں سسٹر۔۔"اس نے جھجھکتے ہوئے اجازت دی۔
"تھینکس بردر۔۔"اس کی شرافت پر سانس کھینچتی وہ وہیں بیٹھ گئی جبکہ دور کھڑی سمیرا ابھی بھی شش و پنج میں تھی۔
"عاشر۔۔"اسی دوران عاشر اپنے دو عدد آوارہ دوستوں کے ہمراہ وہاں آن دھمکا تھا۔
"تو یہ ہے وہ۔۔"مطلوبہ میز پر پہنچتے ہی اس نے باسط کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا تھا۔
"ککون؟"اس نے عاشر کا حلیہ دیکھا جو سیاہ جینس پر سفید ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔گلے میں چاندی کی چین لٹک رہی تھی اور ایک کان میں چاندی کی ہی بالی چمک رہی تھی۔اس کے ایک دوست کی جیکٹ کے نیچے چھپی ریوالور دیکھتے ہی اس شریف انسان کے طوطے اڑے تھے۔
"سمیرا نے یہی حلیہ بتایا تھا۔۔اس کے تو ہاتھ پاوں توڑ کر بھیگ منگواوں گا اس سے۔۔"اسکا گریبان جھنجھوڑتے وہ غرایا تھا۔
"میں نے کیا کیا ہے؟"اسے اس عتاب کا سبب معلوم نہ تھا۔
"اس بیچارے نے کیا بگاڑا ہے آپ کا؟"شہزین بھی اس کی حمایت میں بولی۔
"تم بھی اس کے ساتھ ہو؟"اس نے شہزین کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں نہیں۔۔"اس نے دونوں ہاتھ انکار میں ہلاتے ہوئے ڈرنے کی اداکاری کی۔
"یہ سمیرا سے شادی کرے گا۔۔میری محبت پر میلی نظر رکھنے والی کی آنکھیں اکھاڑ لوں گا میں۔۔''وہ پھر سے دھاڑا تو باسط پر کپکپی طاری ہوئی تھی۔
"میری بات سن بھائی۔۔میں بہت دشمندار بندہ ہوں اور سمیرا ابھی میرے جذبوں سے ناواقف ہے لیکن وہ لڑکی میری محبت ہے۔۔۔اس سے اگر تم نے شادی کر بھی لی تو بارات گھر واپس جانے سے پہلے تجھے قبر میں پہنچا دوں گا اور اگر اس بات کا ذکر بھی تو نے کسی سے کیا تو تیری لاش کسی سڑک پر لاوارث ملے گی۔۔"ریوالور اس کی کنپٹی پر رکھتے ہوئے وہ شدت پسند انداز میں بولا۔
"نہیں نہیں میں کسی کو کچھ نہیں بتاوں گا۔۔"اس نے جان بچانے کی کوشش کی تھی۔
"چل شاباش نکل اب۔۔"اسے باہر کا راستہ دکھاتا وہ ریوالور کی نوک سے سے اپنی کنپٹی کھجانے لگا۔
"جی جی۔۔"سانسیں ہموار کرتا وہ منظر سے فرار ہوا تھا۔
”ہائے باسط۔۔۔“شہزین کے اشارے کے بعد سمیرا نے اسے راستے میں روکا تھا۔
”بائے بائے۔۔۔“وہ اپنا چشمہ درست کرتا وہاں سے دوڑگیا اور سمیرا اسے مسلسل عقب سے پکارتی رہی۔
”وہ نہیں آئے گا۔۔۔مت بلاؤ۔۔۔“عاشر کے ہمراہ شہزین قہقہے مارتے ہوئے اپنے میز سے اُٹھی۔
"مگر تم دونوں نے اس سے کہا کیا ہے؟"اسے دور کھڑے ہونے کے باعث ماجرا سمجھ نہ آیا تھا۔
"کچھ خاص نہیں کہا۔۔ویسے شازی میں تمہاری اس سوشل سروس سے عاجز آگیا ہوں۔۔"اپنے لوفر دوستوں کو چلتا کرتے ہوئے وہ خود وہیں بیٹھ گیا۔
"تو دفع ہوجاو اب۔۔"اس نے بھی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔
"بہت ہی بے مروت ہو۔۔شام کو چل رہی ہو نا پارٹی پر۔۔"عاشر نے نیا مطالبہ سامنے رکھ دیا۔
"ایگزامز کے بعد عاشر۔۔"اس نے صاف انکار کیا۔
"کبھی اس نمونی کو بھی لے آیا کرو۔۔"وہ حسب عادت سمیرا کو چڑھانے لگا۔
"مجھے کوئی شوق نہیں اپنا مستقبل داو پر لگانے کا۔۔"اس کا انداز سپاٹ تھا۔
"تمھاری مرضی سویٹ ہارٹ۔۔"میز پر موجود فرائز کے دو دانے چنتا وہ وہاں سے نکل گیا
"اس انسان سے بچ کر رہنا شازی۔۔"سمیرا کئیں بار اسے محتاط کر چکی تھی۔
"سکول فرینڈ ہے میرا۔۔۔"شہزین نے بھی روایتی جواب دیا۔
"لیکن خطرناک ہے۔۔تم جب جب اس کے ساتھ کہیں جاتی ہو تو مجھے ڈر لگا رہتا ہے۔۔"اسے عاشر پہلے دن سے مشکوک لگتا تھا۔
"وہ اسلئے کیونکہ میں تمہارا نام لگا کر جاتی ہوں۔۔"شہزین نے اس کا خدشہ ہوا میں اڑایا۔
"ہم لڑکیوں کی عزت کانچ سے بھی نازک ہوتی ہے شازی اس کی حفاظت میں ایک چھوٹی سی کوتاہی عمر بھر کی بدنامی کا سبب بن جاتی ہے۔۔"سمیرا کی باتیں اسے اکتانے پر مجبور کر رہی تھی۔
"نہ میں اتنی نازک ہوں نہ میری عزت۔۔اور تم میں جو یہ بڈھی اماوں والی روح آجاتی ہے اس کا علاج کرواو۔۔"وہ اب سامنے موجود برگر کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
گھر پہنچتے ساتھ ہی اس نے فریج پر حملہ کیا۔بھوک اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی مگر آج کے اس حملے کا سبب پسندیدہ کسٹرڈ تھا۔
”واہ ماں۔۔۔“فریج سے فروٹ کسٹرڈ نکالتے ہوئے اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
”ہاتھ تو دھو لو بیٹا۔۔۔“وہ میز پر پورا باؤل لے کر بیٹھ گئی تو ماں نے سمجھایا۔
”میں نے کون سا ہاتھ سے کھانا ہے ماں۔۔۔چمچ زندہ باد۔۔۔“اس نے چمچ ہوا میں بلند کیا۔
”پلیٹ میں ڈال لو۔۔۔“
”میرے علاوہ اور کس نے کھانا ہے؟باباجان کو تو شوگر ہے۔۔۔اور آپ کسٹرڈ کھاتی نہیں۔۔۔“اس نے چمچ بھر کر منہ میں ڈالا۔
”تم نے ہی کھانا ہے مگر۔۔۔سلیقے سے کھاؤ بیٹا۔۔۔“وہ پانی کا جگ میز پر رکھتے ہوئے بولیں۔
”میں سلیقے سے نہیں چمچ سے کھاؤں گی۔۔۔“اس کے کانوں پرجوں بھی نہ رینگی تھی۔
”تمہاری یہ ہٹ دھرمی۔۔ایک دم تمہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دے۔۔۔“
”شہزین احمد کے سامنے ہر مصیبت خود مصیبت میں پڑ جاتی ہے۔۔۔“وہ چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔
”تم کھاؤ۔۔۔میں تمھارے باباجان کے لئے کھانا بنا لوں۔۔“وہ واپس کچن میں چلی گئیں۔
”یو آر دی بیسٹ ماں۔۔۔“
وہ بستر پر اوندھے منہ لیٹے لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف تھی کہ فون بجا۔
”شازی میری جان۔۔۔“سمیرا کا بس چلتا تو فون سے نکل کر اسے چوم لیتی۔
”بولو۔۔۔“اس نے کروٹ بدلی۔
”اس باسط نے انکار کردیا۔۔۔“وہ ناقائدہ اچھل رہی تھی۔
”یہ تو ہونا ہی تھا۔۔۔“
”مگر تم نے یہ کیا کیسے؟“وہ ابھی تک مکمل معاملہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
”دیکھو۔۔۔جب شازی کسی کو زبان دیتی ہے تو اسے پورا بھی کرتی ہے۔۔۔اب کل اس کے بدلے میں تم نے بھی میرا ایک کام کرنا ہے۔۔“
”تم ایک کیا ہزار کام کرواؤ یار۔۔۔“وہ بے نیازی سے بولی۔
”ٹھیک ہے۔۔۔پھر کل ملتے ہیں۔۔۔“اس نے رابطہ منقطع کردیا۔
وہ کچن میں پہنچی تو ماں رات کا کھانا پکانے کی تیاری کر رہی تھیں۔اس نے ان کے ہاتھ سے سبزیاں پکڑ لیں اور انہیں کرسی پر بٹھا دیا۔
”ادھر بیٹھیں ماں۔۔۔“اس نے ماں پر حکم صادر کیا۔
”مجھے کھانا بنانا ہے بیٹا۔۔۔“
”وہ میں بناتی ہوں۔۔۔“اس نے فراغ دلی کا مظاہرہ کیا۔
”تو پھر میں کیا کروں گی۔۔۔؟“
”آپ یہ پڑھیں۔۔۔“اس نے ایک سرخ فائیل ماں کو تھمائی
”یہ کیا ہے؟“
”یہ میری نئی تحریر ہے۔۔جسے آپ ابھی پڑھیں گی۔۔۔“اس نے اس کرم نوازی کا سبب بتایا۔
”پڑھناکیا ہے؟تم نے لکھی ہے تو شاندار ہی ہوگی۔۔۔“انہیں اپنی بیٹی کی صلاحیت پر بھروسہ تھا۔
”وہ تو مجھے بھی پتہ ہے۔۔۔مگر آپ ابھی اسے پڑھیں۔۔۔“وہ سبزی کاٹنے لگی۔
آج وہ یونی ورسٹی پہنچی تو سمیرا اس کی بلائیں لے رہی تھی جس پر شہزین بھی نخرے دکھا رہی تھی۔سمیرا کی جا ن ایک مصیبت سے تو چھوٹی تھی مگر اب نیا خوف اس کے گرد گھیرا بنائے ہوئے تھا کہ شہزین اس کے بدلے میں اس سے ناجانے کیا کرواتی؟
”شازی۔۔“کلاس ختم ہونے کے بعد وہ لوگ باہر آئیں تو سمیرا بولی۔
”بولو۔۔۔“وہ اپنا بستہ دونوں کندھوں پر لٹکائے بولی۔
”تم نے مجھ سے کیا کام کروانا ہے؟“اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
”ابھی ہم نے ایک بک ایگزیبیشن پر جانا ہے۔۔۔“
”وٹ؟ یار یہ بہت بورنگ کام ہے۔۔۔“سمیرا نے جھٹ سے انکار کیا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔مت جاؤ۔۔۔میں ہی ہوں جو تمہارے لئے اپنی جان نچھاور کرتی ہوں اور تم۔۔۔“اس نے اداکاری دکھائی۔
”اچھا اچھا۔۔۔ٹھیک ہے۔۔مگر سچی میں بہت بور ہوجاؤں گی شازی۔۔۔“
”اوکے۔۔۔تم وہاں بیٹھ کر میری نئی کہانی پڑھنا۔۔۔“اس نے لالچ دیا۔
”واؤ۔۔۔تم نے لکھ لی۔۔؟“وہ پرجوش ہوکر بولی۔
”ہاں۔۔۔“
”ڈائجسٹ والوں کو بھیجی؟“وہ پچھلے ایک سال سے ایک ڈائجسٹ کے لئے لکھ رہی تھی۔یہ اس کا شوق تھا۔
”نہیں۔۔۔ابھی نہیں بھیجی۔۔پہلے تم پڑھ لو پھر بھیجوں گی۔۔۔“وہ دونوں کیفے ٹیریا میں پہنچیں۔
”یہ بھی بہت زبردست ہوگی۔۔۔“سمیرا تو اس کی کہانیوں کی دیوانی تھی۔
”ہاں ہوگی۔۔۔“اس نے ریڈ فائیل اسے تھمائی۔
”ایگزیبیشن پر کب جانا ہے؟“
”شام کو۔۔۔تم میرے گھر آجانا۔۔ڈرائیور کیساتھ ہی چلیں گے۔۔۔اکیلے تو باباجان مجھے جانے نہیں دیں گے۔“اس نے اپنا منصوبہ بتایا۔
شام کووہ شہزین کے گھر پہنچی تو وہ گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔مغرب کا وقت اور یہ تیور۔۔۔کمرے میں داخل ہوتے ہی شہلا بیگم نے پانی کا جگ اس پر انڈیل دیا۔پاس کھڑی سمیرا بھی یہ شاندار منظر دیکھ رہی تھی۔
”کس کی موت آئی ہے؟“اس نے غُصے سے بیٹھتے ہوئے اپنے منہ سے پانی صاف کیا۔
”تمھاری ماں کی۔۔۔“شہلا بیگم نے پھرتی سے جواب دیا۔
”ماں۔۔۔آپ ایسے ہی جگا دیتیں۔۔یہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“اس نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا۔
”ایسے ہی میں تمہیں آدھے گھنٹے س جگا رہی تھی مگر مجال ہے تم نے کروٹ بھی بدلی ہو۔۔۔“سمیرانے بھی اپنا لقمہ ڈالا۔
”اوہ تم کب آئی۔۔۔“وہ جیسے ابھی بھی نیند میں ہی تھی۔
”اوہ۔۔۔ایگزیبیشن۔۔۔“اسے جیسے ہی ایگزیبیشن یاد آئی بستر سے اچھل کر اُٹھی۔
”اب خدا خیر ہی کرے۔۔۔“وہ جیسے ہی الماری کی طرف بھاگی ماں نے دعا مانگی۔
پورے کمرے کو کچرے کا ڈھیر بنا کر وہ خود تیار ہوگئی۔اسے کمرے بگاڑنے اور خود کو سنوارنے میں دس منٹ ہی لگے۔
”شازی۔۔۔کتنی دیر ہے؟“وہ اس لمحے اپنے بالوں کی ٹیک پونی بنارہی تھی اور سمیرا اس کے عین پیچھے کھڑی تھی۔
”چلو ابھی لیٹ ہورہے ہیں۔۔۔“وہ کلائی والی گھڑی کو دیکھتے ہوئے بولی۔
وہ لوگ بک ایگزیبیشن میں پہنچے۔ایک وسیع ہال میں بے شمار اور ہر طرز کی کتابیں موجود تھیں۔شہزین تو کتابوں کو دیکھ کر بے قابو سی ہی ہوگئی جبکہ سمیرا بیچاری کو تو نصاب کی کتابوں کی طرح یہ کتابیں بھی اپنے دشمنوں جیسی لگی۔
”ہائے مسٹر شان۔۔۔“شہزین ایک کتاب کے مطالعے میں مصروف تھی تب ہی وہاں کھڑی سمیرا نے پاس سے گزرتے ہوئے شان کو سلام کیا۔
”آپ نے مجھے بلایا؟“اس نے رک کر تکلف سے پوچھا جو شہزین کو سو فیصد اداکاری ہی لگی۔
”جی۔۔میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں سر۔۔۔آپ کا ہر سٹیج ڈرامہ میں ضرور دیکھتی ہوں۔۔“اسے اپنی سبکی محسوس ہی نہ ہوئی۔
”اوہ تھینکس۔۔۔اورکچھ۔۔“وہ بے توجگی سے ہی بولا۔
”کچھ لوگوں کو زرا سی عزت مل جائے تو وہ ہوا میں اُڑنے لگتے ہیں۔۔“شہزین ہاتھ میں موجود کتاب کا صفحہ بدلتے ہوئے بولی۔
”کچھ کہا آپ نے؟“شان نے اسی لمحے پوچھا جبکہ سمیرا نے اپنا ہاتھ ماتھے پر رکھ لیا۔
”میں تو ناول کا ڈائلاگ پڑھ رہی تھی۔۔۔اینی پرابلم۔۔۔“اس نے نظر اُٹھائی تو شان جیسے اس کی نیلی آنکھوں میں ہی کھو گیا۔
”جی نہیں۔۔۔“اس نے اپنا دھیان بدل کر فوراً جواب دیا۔
”اوہ مس شازی۔۔۔“اسی دوران ایک آدمی وہاں آیا۔
”السلام علیکم سر۔۔۔“اس نے یوں سلام کیا جیسے اسے پہلے سے جانتی تھی۔
”اوہ مسٹر شان آپ بھی یہاں ہیں۔۔۔“وہ آدمی اسے بھی جانتا تھا۔
”جی۔۔آپ کو کوئی شک ہے۔۔۔؟“اس نے ٹیڑھا ہی جواب دیا۔
”آپ تو مزاق بھی سنجیدگی سے کرتے ہیں۔۔“وہ اس کی عادتوں سے واقف تھا۔
”کچھ لوگوں کی ہنسی پر شائد ٹیکس ہوتا ہے سر۔۔۔“شہزین نے بھی طعنہ کسا۔
”بے وجہ ہنسنے والے کو لوگ پاگل کہتے ہیں۔۔“اس نے جواب دیا۔
”اور جو وجہ ہوتے ہوئے نہ ہنسے اسے سڑئیل کہتے ہیں۔۔۔“وہ بھی خاموش رہنے والی کہاں تھی؟
”سٹاپ سٹاپ سٹاپ۔۔۔“سمیرا نے دونوں کو ہی خاموش کروایا۔
”ویسے مس شازی۔۔۔آپ کا نئے افسانہ کمال کا تھا۔۔۔“اس آدمی نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
”تھینکس سر۔۔۔یہ سب تو آپ لوگوں کی قدر و محبت ہے۔۔۔“ اس نے تکبر نہ دکھایا۔
”ایکسکیوزمی۔۔۔“شان وہاں سے چلتا بنا۔
”واقعی میں اس سڑئیل سے اپنے علاوہ کسی اور کی تعریف برداشت ہی نہیں ہوتی۔۔۔“کتابوں کی خریداری کے بعد وہ لوگ وہاں سے نکلنے ہی رہے تھے مگر شان کا یوں چلے جانا شہزین کو توہین آمیز لگا۔
”ایسا مت بولو۔۔۔وہ کتنا ہینڈسم ہے۔۔۔“سمیرا پر تو اس کی وجاہت کا جادو سوار تھا۔
”منہ توڑ دوں گی میں تمھارا۔۔۔اب اگر تم نے اس کانام بھی لیا۔۔۔“شہزین نے ہاتھ میں موجود کتاب کا بڑا لفافہ اسے مارنے کے لئے بلند کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئی اور وہ لفافہ پاس سے گزرتے شان کو جالگا۔
”گئی بھینس پانی میں۔۔۔“سمیرا جھٹ سے بولی۔
”کیا بدتمیزی ہے۔۔۔“شان نے ہاتھ میں دوچار کتابیں اور ایک ریڈ فائیل پکڑی تھی جو زمین پر جا گری۔
”ایکسٹریملی سوری سر۔۔۔“سمیرا نے معذرت کی اور اس کے ساتھ بیٹھ کر زمین سے کتابیں اُٹھانے لگی۔اس دوران سمیرا کے ہاتھ میں موجود ریڈ فائیل اور شان کی ریڈ فائیل تبدیل ہو گئی۔
”اٹس اوکے۔۔۔“وہ اپنی کتابیں اُٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔
”بندہ معذرت ہی کرلیتا ہے۔۔۔“سمیرا اٹھتے ہوئے بولی۔
”معذرت کرتی ہے میری جوتی۔۔۔چلو ابھی۔۔۔“اس کے پروں پر پانی بھی نہ پڑا تھا۔
وہ دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچا تھا۔گھر میں ایک ملازم اور ملازمہ چوبیس گھنٹے موجود رہتے تھے۔وہ شام ہوتے ہی گھر پہنچ جاتا مگر جگری دوست شان گیلانی کے آنے جانے کا کوئی خاص وقت مقرر نہ تھا۔وہ اکثر رات گئے گھر آتا تھا۔اپنے گھر سے دور ان دونوں کا کوئی خاص قریبی اس شہر میں موجود نہ تھا یہی وجہ تھی کہ ان دونوں میں بھائیوں جیسا پیار تھا۔وہ کھانے کے بعد اپنے کمرے میں پہنچا ہی تھا کہ داداجان کی کال آگئی جو اس نے ایک لمحے میں ہی رسیوّ کی تھی۔
”السلام علیکم داداجان۔۔۔“
”وعلیکم السلام۔۔۔کیسا ہے میرا شیر۔۔۔؟“
”ٹھیک ٹھاک۔۔۔آپ بتائیں کیسے ہیں؟“وہ بیڈ پر بیٹھا۔
”ٹھیک ہوں۔آج میں نے آفس کال کی تو سیکرٹری نے بتایا کہ تم کچھ پریشان پریشان لگ رہے تھے۔“وہ خاصے فکرمند تھے۔
”نہیں داداجان بس تھوڑا سر درد تھا۔۔"اس نے بجھے رویے کی وجہ بتائی۔
”اوہ۔۔اب کیسی ہے طبیعت بیٹا؟“وہ پریشان سے ہوگئے۔
”ٹھیک ہوں۔۔ابھی دوائی لی ہے اب کچھ دیر آرام کروں گا۔۔"
”چلو تم آرام کرو بیٹے۔۔"انہوں نے بھی گفتگو مختصر کی۔
”جی داداجان۔۔۔“
”کل بات ہوگی۔۔“یہ معمول تھا۔روز آفس سے آنے کے بعد وہ دادجان سے بات ضرور کرتا تھا۔وہ اسلام آباد کے آفس کے معاملات سنبھالتا تھا جبکہ لاہور کا سارا کام شازمان کے سر تھا۔
شان رات گئے گھر پہنچا تھا۔آنے والے دنوں کا دورانیہ بہت مصروف تھا جس کے لئے وہ ذہنی طور پر تیار تھا پھر بھی ایک پریشانی کچھ روز سے سر پر ناچ رہی تھی۔وہ شاور لینے کے بعد تولیہ بالوں میں پھیرتے کمرے میں آیا تو موبائل پھر بج رہا تھا۔اس نے جب نمبر دیکھا تو ایک لمحے کو چڑ سا گیا۔
”ہاں بولو زارا۔۔۔“اس نے ناگواری سے بات چیت شروع کی۔
”اتنی اجنبیت۔۔۔“اس نے آرام سے جواب دیا۔
”میرے اگلے شو کی سکرپٹ تیار ہے؟“اس نے کام کی بات کی۔
”ہاں سکرپٹ تو تیار ہے مگر۔۔۔تمہیں میری شرط ماننی پڑے گی۔۔۔“
”دیکھو زارا۔۔مریم پچھلے ایک سال سے میرے لئے کام کر رہی ہے۔۔۔ایک دم سے میں اس کی جگہ تمہاری کزن کو رول نہیں دے سکتا۔۔۔“اس کا انکار قائم تھا۔
”تم اسے موقع تو دو۔۔۔اس میں بہت ٹیلنٹ ہے۔۔۔“
”ٹیلنٹ کی بنیاد سفارش پر نہیں رکھی جاتی۔۔۔“اس نے مسلسل انکار ہی کیا جو متوقع تھا۔
”تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔میں بھی تمہیں سکرپٹ نہیں دیتی۔۔۔“وہ بھی بضد ہوئی۔
”تمہاری سکرپٹ نہ ہوئی تو میرا پلے نہیں ہوگا؟“اس کی کنپٹیاں سُلگ گئیں۔
”ہوجائے گا۔۔۔مگر اتنی جلدی نیا رائٹر۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ نئی سکرپٹ ملنا اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔“وہ اسے للکار رہی تھی۔
”تو پھر میں تمہیں یہ کام نہایت آسانی سے کرکے دکھاؤں گا۔۔۔میرا پلے دیکھنے ضرور آنا۔۔تمہاری سٹوری سے زیادہ اچھی سٹوری ہوگی۔۔۔“ اس نے بھی چیلنج قبول کیا۔
”اوکے۔۔۔امید میں دنیا قائم ہے۔۔۔لیکن اگر ایک دن پہلے بھی تمہیں لگا نا کہ تم سے یہ نہیں ہوگا۔۔تو مجھے کال کردینا۔۔۔شائد مجھے تم پر ترس آجائے۔۔“وہ زخموں پر سخت نمک پاشی کر گئی تھی۔
”ترس تو مجھے اس وقت تم پر آرہا ہے۔۔۔مجھے چھوڑنے والے ہمیشہ ناکام ہی ہوتے ہیں۔۔۔“اس نے منہ توڑجواب دیتے ہوئے کال کاٹ دی۔
اس نے چیلنج تو قبول کر لیا تھا مگر سکرپٹ کہاں سے لاتا؟زارا پچھلے دو سالوں سے اس کے لئے لکھ رہی تھی اور اب اس کی یہ ضد تھی کہ اگلے سٹیج پلے میں ہیروین کا کردار اس کی کزن نبھائے جبکہ وہ مریم کے علاوہ کسی کی اداکاری پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔یہی وجہ ان کے اختلاف کا باعث بنی اور اب زارا نے اگلے سٹیج پلے کے لئے سکرپٹ دینے سے انکار کردیا تھا۔
”کہاں سے لاؤں نئی رائٹر؟“وہ گالوں پر ہاتھ رگڑتے ہوئے سوچنے لگا پھر اسے اپنی ریڈ فائیل کا خیال آیا جس میں ایک دو لکھاریوں کے نمبر ز لکھے ہوئے تھے۔زارا کے ارادوں کو وہ پہلے ہی بھانپ چکا تھا۔اس لئے اس نے پہلے ہی انتظام کرنے کی کوشش کی تھی۔
”ہاں فائیل میں ایک دو رایٹرز کے نمبرز ہیں۔۔۔“اس نے جیسے ہی بیڈ پرپڑی فائیل کھولی تو وہ شہزین کے افسانے والی فائیل تھی جو سمیرا کے پاس تھی مگر اب وہ شان کے ہاتھ میں تھی۔
”یہ کیا ہے؟“اس نے اسے پڑھنا شروع کیا۔افسانہ اتنا شاندار تھا کہ وہ پڑھتا ہی گیا۔دس منٹ میں اس نے پورا افسانہ پڑھ کر تمام کردیا۔
”بریلیئنٹ۔۔۔“اسے کہانی بے حد پسند آئی۔چند تبدیلوں کے بعد وہ اسے اپنے سٹیج پلے کے لئے استعمال کرسکتا تھا۔کہانی کے ختم ہوتے ساتھ ہی شہزین نے اپنا نام وہاں لکھا ہوا تھا۔
”شازی خان۔۔۔“وہ اپنی ہر تحریر پر اپنا یہی نام لکھتی تھی۔
وہ صبح ناشتے کے میز پر پہنچی تو احمد خان بھی وہیں موجود تھے۔اس نے ہمیشہ کی طرح فریش جوس کا گلاس بھر کر پیا اور پھر نہایت شیریں انداز میں اپنے باپ کو پکارا۔
”باباجان۔۔۔“اس کا انداز اس قدر میٹھا تھا کہ شوگر کے مریض کی شوگر ساتویں آسمان کی بلندیوں کو بھی چھو جاتی۔
”جی بیٹا۔۔۔“وہ موبائل سے دھیان ہٹا کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
”باباجان۔۔۔مجھے کچھ پیسے چاہئے تھے۔۔۔“اس کے میٹھے لہجے کا سبب سامنے آہی گیا۔
”بیٹا۔۔اپنے اکاؤنٹ سے نکلوا لو۔۔۔“انہوں نے موبائل میز پر رکھا۔
”باباجان۔۔وہ پیسے تو خرچ ہوگئے۔۔۔“
”ٹھیک ہے۔۔کتنے چاہئے۔۔۔“وہ اپنا والٹ نکالتے ہوئے سوال گوہ ہوئے۔
”دس ہزار۔۔۔“وہ پیسے نکال ہی رہے تھے کہ شہلا بیگم نے دونوں باپ بیٹی کو ٹوک دیا۔
”پہلے اس سے یہ تو پوچھ لیں کہ وہ پیسے کہاں خرچ ہوئے؟“
”اب کیا اپنی بیٹی سے حساب مانگتا اچھا لگوں گا۔۔۔؟“وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
”حد ہے احمد۔۔۔ہر مہینے آپ اس کے اکاؤنٹ میں تیس ہزار جمع کرواتے ہیں۔۔۔اور ابھی تو آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا۔۔۔اس سے پوچھیں تو اس نے اتنی رقم کہاں خرچ کی ہے۔۔۔؟شاپنگ تو یہ آپ کے پیسوں سے کرتی ہے۔۔۔“انہیں اپنی بیٹی کی فضول خرچی بالکل پسند نہ تھی۔
”تو یہ پیسے بھی تو اسی کے ہیں۔۔۔“انہوں نے پیسے اسے تھمائے۔
”تھینک یو باباجان۔۔۔“اسنے فوراً پیسے مٹھی میں بند کر لئے تھے
”احمد آپ کم از کم اس سے پوچھا تو کریں کہ یہ پیسوں کا کرتی کیا ہے؟“ان کے مسلسل ٹوکنے پر شہزین کو غُصہ آگیا۔
”حد ہے ماں۔۔۔یہ لیں نہیں چاہئے مجھے پیسے۔۔۔“اس نے پیسے وہیں میز پر رکھے اور نارازض ہو کر چلی گئی۔
”شازی بیٹا۔۔۔“احمد خان کے پکارنے پر بھی وہ نہ رکی۔
”دیکھا آپ نے؟کتنی ضدی ہو گئی ہے یہ؟“اس کے یوں چلے جانے پر شہلا بیگم بولیں۔
”وہ تو بچی ہے مگر تم۔۔اب پتہ نہیں اس کے پاس آج کا خرچ بھی ہیں یا نہیں۔۔۔؟“احمد خان اب بھی اس کی برائی سننے کے روادار نہیں تھے۔
”وہ بچی ہے اور آپ اس سے بڑے بچے ہیں۔۔۔“وہ دونوں باپ بیٹی کے اتفاق کے سامنے ہمیشہ ہار مان جایا کرتی تھیں۔
وہ پھولا ہوا منہ لئے یونی ورسٹی پہنچی۔ اس مزاج کے ساتھ وہ کلاس میں جاتی؟ہرگز نہیں۔۔لہٰذہ سمیرا کو اپنے دامن سے باندھے وہ کینٹین میں ہی آ گئی۔
”شازی کلاس۔۔۔“اسے کلاس چھوٹنے کا غم تھا۔
”کلاس میں تم نے کون سا کچھ پڑھ لینا تھا؟بس منہ اٹھا کر چلی جاتی ہو۔۔۔پلے ایک لفظ نہیں پڑتا۔۔“
”تمہارے موڈ کو کیا ہوا ہے؟“اسے انگارے چباتا دیکھ کر سمیرا بھی سٹپٹائی تھی۔
”سمیرا مجھے ایک بات بتاؤ۔۔۔کیا میں فضول خرچ ہوں۔۔۔؟“ اس نے آنکھوں میں ڈھیروں امیدیں لئے سمیرا کا چہرہ دیکھا۔
”سچ بتاؤں گی تو تم مارو گی تو نہیں؟“اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں ماروں گی۔۔۔“
”تم فضول خرچ نہیں بلکہ فضول خرچوں کی سردار ہو شازی۔۔۔“ اس نے تو جیسے دل کا بوجھ ہلکا کیا تھا۔
”واقعی میں؟“اس کا تجسس بھی بڑھا تھا۔
”ہاں۔۔۔اب دیکھو کل تم نے آٹھ ہزار کی کتابیں خرید لیں۔۔۔پچھلے ہفتے تم نے فقیر کو پانچ سو پکڑا دیا۔۔۔اور ابھی کل تمہارا تین ہزار گم گیا اور تم نے ڈھونڈنے کی بھی زحمت نہیں کی۔۔۔“اس نے ایک ایک حرکٹ انگلیوں پر گنوائی۔
”ہاں یار۔۔۔ماں ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں۔۔“اسے اب اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
”تمھیں اپنے پاپا کے پیسے کو یوں برباد نہیں کرنا چاہئے شازی۔۔۔ درست کہتے ہیں انسان کو اپنی محنت کمائی کی ہی قدر ہوتی ہے۔‘‘سمیرا میں اس لمحے اسے شہلا بیگم کی شبیہ دکھائی دے رہی تھی۔
”اچھا سمیرا۔۔۔“وہ اب اکتا گئی۔
وہ گھر پہنچی تو ماں کچن میں کام کر رہی تھیں۔وہ فوراً ان کو اپنے حصار میں لئے معذرت کرنے لگی۔
”سوری ماں۔۔۔“
”آگیا خیال۔۔۔“وہ ناگواری سے بولیں۔
”اب آپ کی بیٹی ہوں نا۔۔۔رہ رہ کر ہی خیال آتا ہے۔۔۔“وہ انہیں چھوڑتے ہوئے بولی۔
”معافی تمہیں اپنے باباجان سے مانگنی چاہئے۔۔۔“وہ اس کی طرف مُڑی۔
”ان سے فون پر مانگ لی ہے نا۔۔۔“وہ بچگانہ انداز میں بولی۔
”اچھی بات ہے۔۔مگر تمھیں دھیان رکھنا چاہیے بیٹا۔۔۔تمھیں اپنے باباجان کے پیسوں کو یوں برباد نہیں کرنا چاہئے۔۔تمھاری اپنی محنت کی کمائی ہوتی نا تب تمھیں قدر آتی۔۔“ یہ جملے وہ صبح سے کئی بار سن چکی تھی۔
”اوف اوہ۔۔ماں آپ لوگوں کو کیا لگتا ہے کہ میں اپنے خرچے خود نہیں اُٹھا سکتی۔۔۔“اب مسئلہ اس کی انا کا تھا۔
”ہاں۔۔۔“انہوں نے تحمل سے جواب دیا۔
”یعنی باباجان کے پیسے کے بغیر میں زیرو ہوں؟“
”ہاں۔۔۔“ان کے چہرے پر تمسخر اڑاتی مسکراہٹ تھی۔
”ماں اب آپ میری انسلٹ کر رہی ہیں۔۔۔“اس نے دونوں ہاتھ کمر سے باندھے ماں کا چہرہ دیکھا تھا۔
”یہ انسلٹ نہیں حقیقت ہے میری جان۔۔۔“وہ اسے جوس کا گلاس تھماتے ہوئے بولیں۔
”یہ کیا بات ہوئی۔۔۔آپ سب مجھے ناکارا سمجھتے ہیں؟“اس نے گلاس اٹھا کر میز پر واپس رکھا۔
”ہم تو نہیں۔۔البتہ شائد تم خود سمجھنے لگی ہو۔۔۔“وہ دوبارہ اپنے دیگر کاموں کی طرف متوجہ ہوئیں۔
”ٹھیک ہے۔۔۔میں آپ کو یہ اور اس سے اگلا مہینہ بھی اپنے خرچے پر گزار کر دکھاؤں گی۔۔“اس نے کچھ ٹھانتے ہوئے اعلانیہ انداز میں کہا۔
”سوچ اچھی ہے مگر ایسا ہونے سے رہا۔۔۔“وہ شائد اس سے اصل میں ایسا کروانا چاہتی تھیں۔
”اوکے اٹس مائی چیلنج۔۔۔“اس نے اپنا ہاتھ ماں کی طرف بڑھایا۔
”اوکے۔۔۔اب تمھیں اپنی مزید عزت افزائی کروانی ہے تو ٹھیک ہے۔۔“انہوں نے بھی ہاتھ ملا کر چیلنج کو قبول کیا۔
وہ چیلنج کرنے کے بعد اپنے کمرے میں آگئی مگر اب وہ اسے پورا کیسے کرتی؟پڑھائی کے ساتھ ساتھ ملازمت؟نہیں اتنی محنت وہ کرنے سے رہی مگر اب زبان پر بات آگئی تھی۔
”کیا کروں؟“دماغ پر خاصا ذور دینے کے بعد بھی اسے کوئی راستہ نظر نہ آیا۔
”سمیرا سے پوچھتی ہوں؟“اس نے کال کرنے کی نیت سے موبائیل اُٹھایا مگر پہلے کریڈٹ پتہ کیا تو صرف پچاس روپے بچے تھے۔
”نہیں نہیں۔۔۔ اب تو کریڈٹ بھی پھونک پھونک کر استعمال کرنا پڑے گا۔۔۔“آج اسے موبائیل کریڈٹ کی بھی قدر آگئی۔
”کل ہی اس سے ملوں گی۔۔۔“اس نے یونی ورسٹی جا کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگلی صبح سمیرا کو جب اس نے تمام بات سمجھائی تو وہ اس کی بیوقوفی پر ہنسنے لگی۔
”پاگل۔۔۔تمہارا دماغ خراب ہے؟تم کیا کروگی؟“ابھی وہ دونوں کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے۔
”وہی تو سمجھ نہیں آرہا یار۔۔۔“آج پہلی بار اسے پیسے کی قدر محسوس ہورہی تھی۔
”ایک راستہ ہے۔۔۔“
”کیا؟“
”تم اپنی ماما سے ہار مان جاؤ۔۔۔“اس کے اس نیک مشہورے پر شہزین کا خون کھول اُٹھا۔
’‘تمہارا سر پھاڑ دوں گی میں۔۔۔میں اپنی زبان سے مکر نہیں سکتی یار۔۔۔اور ویسے بھی میں ماں کو بتانا چاہتی ہوں کہ ان کے سپورٹ کے بغیر بھی میں ہنسی خوشی زندگی گزار سکتی ہوں۔۔۔“اسے اپنی عزتِ نفس پر تلوار لٹکتی نظر آرہی تھی۔اسی دوران اس کا موبائل بجا۔
”یہ مریم کو میری یاد کہاں سے آگئی؟“مریم کا نمبر دیکھ کر اس نے کال اُٹھائی۔
”ہیلو شازی۔۔۔تم سے ایک کام ہے۔۔۔مل سکتی ہو؟“
”دیکھو مریم۔۔میری مالی حالت اس وقت بہت خراب ہے۔۔۔میں تمہیں ابھی کوئی ادھار نہیں دے سکتی۔۔۔“اسے لگا مریم نے پیسے مانگنے کے لئے کال کی ہے۔
”نہیں ڈفر پیسے نہیں چاہئے مجھے۔۔۔تم ایک کام کرو اپنی یونیطورسٹی کے پاس والے ریسٹورانٹ آجاؤ۔۔۔پلیز۔۔“وہ منت سماجت کرہی تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے۔۔۔“اس نے حامی بھرلی۔
”کیا ہوا؟“
”پتہ نہیں اب مریم ملنے بلا رہی ہے۔۔۔“اس نے فون واپس بیگ میں رکھا۔
”اچھا شازی۔۔۔اگر تمہیں کوئی نوکری مل جائے تو پلیز میرے لئے بھی کوئی جگہ بنا دینا۔۔۔“وہ اپنا کافی کا کپ اسے شائد رشوت کے طور پر پیش کررہی تھی۔
”پہلے مجھے تو مل جائے۔۔“اس نے کافی کا گھونٹ بھرا۔
”آدھی سی بچا دینا۔۔۔میرے پاس ایک کپ کے ہی پیسے ہیں۔۔۔“ ان دونوں کے بخت پر غربت نے ڈیرہ جمائے ہوئے تھے۔
”یہ لو۔۔۔“شہزین نے اکتا کر کپ اسے واپس دیا۔
وہ لوگ ریسٹورانٹ پہنچے تو مریم وہاں موجود نہ تھی۔صبح سے ہی شہزین کا پارا بلندیوں پر تھا اور اب مریم کا انہیں بلا کر خود غائب ہونا۔۔۔وہ دونوں خاموشی سے ایک میز پر بیٹھ گئیں۔
”شازی۔۔۔اگر ویٹر آرڈر لینے آگیا تو؟“
”تو جو لاکھوں روپے ہمارے بیگز میں ہیں۔۔۔اس میں سے چند ہزار نکال کر ویٹر کو دے دیں گے۔۔۔“اس نے جلے کٹے انداز میں جواب دیا۔
”یار ایسا تو مت بولو۔۔۔“اس نے منہ پھلایا۔
”ہائے مس شازی۔۔۔“اسی دم شان وہاں پہنچا۔
”السلام علیکم کہتے ہیں۔۔۔“اس نے نخرے سے جواب دیا۔
”السلام علیکم۔۔۔کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں؟“اس نے نخرے کو کسی خاطر میں نہ لیا۔
”یہ کرسی میری نہیں۔۔ریسٹورانٹ کی ملکیت ہے۔۔۔بیٹھ جائیں۔۔“ اس نے بھی سردمہری کا مظاہرہ کیا۔
”اوکے۔۔۔دراصل آپ کی امانت میرے پاس تھی۔۔۔“
”کہیں میرے تین ہزار اسے تو نہیں ملے؟“وہ سمیرا کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولی۔
”اللہ کرے۔۔۔“سمیرا تو دعا کے آلم میں چلی گئی۔
”یہ آپ کی فائیل۔۔۔“اس نے سرخ فائیل میز پر رکھی۔
”یہ آپ کے پاس کیسے آئی؟“اس نے غصیلی نگاہ سمیرا پر ڈالی مگر سوال شان سے پوچھا۔
”دراصل۔۔۔اس دن ایگزبیشن میں شائد ہماری فائیلز بدل گئی تھیں۔۔“اس نے وضاحت کی۔
”تھینک یو۔۔۔اب آپ جا سکتے ہیں۔۔۔“اس نے فائیل اپنی طرف کھینچ لی۔
”ویسے آپ بہت اچھا لکھتی ہیں۔۔۔“اس نے تعریف کی جس کا شہزین نے الٹا ہی مطلب نکالا۔
”یعنی آپ نے امانت میں خیانت کی۔۔۔میرا افسانہ آپ نے پڑھا۔۔۔“ اس نے حلا ہی بول دیا۔
”جی۔۔۔دراصل مریم سے کہہ کر میں نے ہی آپ کو یہاں ملنے بلایا تھا۔“اس نے تسلی سے جواب دیا۔
”اوف۔۔۔“اس نے طیش کی کیفیت میں دونوں مٹھیاں ایک ساتھ بھینچ لیں۔
”دیکھو مسٹر شان۔۔۔میرا غُصہ پہلے سے ہی عروج پر ہے۔۔۔مجھے مزین طیش مت دلاؤ۔۔۔“اس نے بلند آواز میں کہا۔
”تو آپ اپنے غُصے کو زوال پر لے آئیں۔۔۔میں آپ کے لئے جوس منگواتا ہوں۔۔۔“
”صرف جوس سے کیا ہوگا۔۔۔آپ ایک پیزا بھی منگوا دیں۔۔۔“ سمیرا نے فوراً مفتہ توڑنے کا ارادہ کیا۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔“شہزین نے سمیرا کو گھورا۔
”ضرورت ہے۔۔۔“سمیرا نے اسے فوراً اپنی طرف کھینچ کر کان میں کہا۔
”پاگل۔۔۔صبح سے دونوں بھوکے پیاسے گھوم رہے ہیں۔۔۔اور ویسے بھی اس نے تمہارا افسانہ پڑھا ہے۔۔۔کچھ تو قیمت وصول کرو۔۔۔“وہ آہستگی سے اس کے کان بھر رہی تھی۔اسی اثنا میں شان نے ویٹر کو آرڈر دے دیا۔
”اب اگر آپ فری ہوگئیں ہو تو کچھ بات کر لیں۔۔۔“جنگلیوں کی طرح پیزا ہلال کرنے کے بعد وہ دونو ں فارغ ہوئیں تو شان نے اجازت مانگی۔
”ہاں ہاں بولو۔۔۔“وہ جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولی۔
”مجھے اپنے اگلے سٹیج پلے کے لئے آپکی سٹوری چاہئے۔۔۔“
”ہاں۔۔۔“جوس اس کی حلق میں پھنس گیا۔
”ایک منٹ۔۔۔“اس نے کھانستے ہوئے رومال سے منہ صاف کیا۔
”دیکھیں میں آپ کو پے کرنے کو تیار ہوں۔۔۔آپ مجھے اپنی سٹوری بیچ دیں۔۔۔“اس نے سودے کی پیشکش کی۔
”کتنے میں خرید سکتے ہیں آپ؟“سمیرا نے لالچی انداز میں پوچھا۔
”فی الحال تو مجھے سٹوری کی اشد ضرورت ہے۔۔۔آپ جتنی مانگیں گی۔۔اتنی قیمت دینے کو تیار ہوں۔۔“سوال اس کی عزت کا تھا۔۔
”ہم آپ سے باقائدہ کانٹریکٹ کریں گے۔۔۔“سمیرا فوراً بولی۔
”وٹ۔۔۔“اسے جھٹکا لگا۔
”ہم نے لاکھوں کا مطالبہ تو نہیں کر دیا۔۔۔“شہزین تلملا کر بولی۔
”نہیں مگر۔۔۔ان سب کے بدلے آپ کو میرے لئے دو اور اسٹوریز لکھنی پڑیں گی۔۔۔“وہ اس کی لکھائی سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوا تھا۔
”فارغ ہوں کیا؟“وہ بربڑائی۔
”کچھ کہا آ پ نے؟“
”کچھ نہیں۔۔۔ہمیں منظور ہے۔۔۔“سمیرا نے ڈیل پکی کر دی۔
”سمیرا۔۔۔“شہزین کچھ کہنا چاہتی تھی۔
”شان صاحب۔۔۔ڈیل ڈن۔۔۔“اس نے شہزین کو خاموش کروا دیا۔
”اوکے۔۔۔یہ پھر ایڈریس ہیں۔۔۔ہم لوگ یہاں پلے کی تیاری کرتے ہیں۔۔۔آپ پلیز یہاں آجایے گا۔۔۔“وہ اپنا کارڈ دیتے ہوئے بولا۔
”اوکے۔۔۔“سمیرا نے کارڈ پکڑ لیا۔
”سمیرا لیٹ ہورہے ہیں۔۔۔چلو۔۔۔“وہ کرسی سے اُٹھتے ہوئے بولی۔
”اوکے مسٹر شان۔۔۔ہم پہنچ جائیں گے۔۔۔“شہزین اسے کھینچ کر لے جارہی تھی اور وہ آخری جملے بول رہی تھی۔
وہ لوگ شہزین کے گھر آئے توسمیرا کو اپنے کمرے میں لے جا کر شہزین تمام کشنز سمیرا کو مارتی جارہی تھی۔وہ بیچاری اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں دوڑ رہی تھی۔
”کچھ نہیں ہمیں منظور ہے۔۔۔شان صاحب ڈیل ڈن۔۔۔ہم پہنچ جائیں گے۔۔۔“سمیرا کے ہی جملے دوہراتے ہوئے وہ اسے کشن سے مار رہی تھی۔
”شازی میری جان۔۔۔ہوش کے ناخن لو۔۔“وہ مار کھاتے کھاتے اسے سمجھا رہی تھی۔
”بکواس بند کرو۔۔۔“وہ تھک کر خود ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”دیکھو جانی۔۔۔مجھے کیا ہے۔۔۔میں تو تمھاری عزت کے لئے سب کر رہی ہوں۔۔۔دیکھو اللہ تعالیٰ نے اسے وسیلہ بنا کر تمھارے پاس بھیجا ہے۔۔۔اور ویسے بھی تمھیں اپنے ٹیلنٹ کو اگر اپنا روزگار بنانے کا موقع مل رہا ہے تو تمہیں کیا مسئلہ ہے۔۔۔؟“وہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اسے سمجھانے لگی۔
”مسئلہ مجھے یہ ہے کہ۔۔میں اپنے کرداروں کے ساتھ ناانصافی ہوتی نہیں دیکھ سکتی۔۔۔میں نے بہت محبت سے سب کردار لکھے ہیں۔۔۔اور پتہ نہیں وہ لوگ میرے کرداروں کے ساتھ انصاف کر بھی پائیں گے یا نہیں۔۔۔“اس کے اندر سویا خالص مصنف بیدار ہو چکا تھا۔
”اتنی سی بات۔۔۔“سمیرا کے پاس اس مسئلے کا بھی حل تھا۔
”دیکھو۔۔۔ہم لوگ اس کے سامنے شرط رکھیں گے ساری تیاری تمھاری نظر کے سامنے ہو۔۔۔تاکہ تمھارے کرداروں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہو۔۔۔“وہ اسے ہر صورت امادہ کرنا چاہتی تھی۔
”وہ سڑئیل مانے گا؟“
”دیکھو وہ بھی ہماری طرح مجبور ہے۔۔۔یقینا مان جائے گا۔۔“
”چلو اگر وہ مان گیا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔“وہ مسکرا اُٹھی۔
شام کو وہ لوگ دیے ہوئے پتے پر پہنچیں تو وہاں اچھی خاصی بھیر تھی۔ایک پلے کیا اتنے لوگوں کی محنت کے بعد تیار ہوتا تھا؟یہ سوال ان دونوں کو ہی حیران کر گیا۔
”ویلکم۔۔۔“شان ان کی طرف آیا۔
”شازی آپ کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے۔۔۔مگر۔۔۔“سمیرا نے رٹے رٹائے جملوں کی ادائیگی شروع کردی۔
”آپ ان کی ملازمہ ہے؟“شان کے چہرے پر تیکھی مسکراہٹ تھی۔
”نہیں۔۔۔“سمیرا سٹپٹائی تھی۔
”تو پھر ان کی زبان کیوں بولتی رہتی ہیں۔۔۔“
”دیکھو تم۔۔۔“وہ اب خود بولی۔
”شکر ہے آپ نے زبان کھولی۔۔۔“پہلی بار وہ مسکرایا۔
”میں تمھارے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہوں مگر میری کچھ شرائط ہیں۔۔۔“
”بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔“اس نے اپنے کیبن کی طرف اشارہ کیا۔
”اوکے۔۔۔“وہ بے جھجھک چل پڑی۔
”اوکے۔۔۔نوپرابلم۔۔۔“شہزین کی تمام شرائط سننے کے بعد بھی اسے یہ سودا منظور تھا۔
”ایک آخری شرط۔۔۔“وہ گھمنڈ کے ساتھ بولی۔
”فرمائیں۔۔۔“اب وہ تنگ آگیا۔
”مجھے کچھ رقم ایڈوانس میں چاہئے۔۔۔“
”تو پھر آپ کو معاہدے پر دستخط کرنے پڑے گے۔۔۔میں پہلے ہی دھوکا کھا چکا ہوں۔۔۔“وہ محتاط ہوا تھا۔
”ڈیل کرنی ہے۔۔۔نکاح نہیں کرنا۔۔۔“
”یہ بھی کوئی نکاح نامہ نہیں ہے۔۔۔“اس نے کاغذات شہزین کے سامنے پھینکے۔
”اوکے۔۔۔“پڑھنے کے بعد اس نے دستخط کئے۔
”یہ رہی آپ کی رقم۔۔۔“اس نے رقم شہزین کو تھمائی تو وہ دونوں ہی دل میں بھنگرے ڈال رہی تھیں۔
”کل سنڈے ہے۔۔۔اور کل صبح نوبجے سے ہم پریکٹس شروع کردیں گے۔۔۔امید کرتا ہوں آپ وقت پر پہنچ جائیں گی۔۔۔“ آخری جملے شہزین کی ساری خوشی ہوا کر گئے تھے۔
گھر پہنچ کر اس نے یہ خبر اپنی ماں کو سنائی توایک پل کو وہ اسے مزاق ہی سمجھیں مگر شہزین نے رقم دکھاکر انہیں یقین دلایا۔
”شازی تم واقعی میں؟“وہ حیران سے زیادہ پریشان تھیں۔
”جی ماں۔۔۔ “وہ پیسے گنتے ہوئے بولی۔
”بیٹا۔۔۔تمھارے بابا کو اچھا نہ لگا تو۔۔؟“
”ماں آپ ہی نے مجھے کام کرنے پر مجبور کیا اور اب آپ ہی۔۔“اسے یہ دوغلہ رویہ سمجھ نہ آیا۔
”بیٹا۔۔۔تم کوئی بھی کام کرو مگر۔۔۔یہ سٹیج ڈرامے والا کام۔۔۔“
”اوف اوہ میری بھولی ماں۔۔۔“وہ انہیں کندھوں سے پکڑ کر صوفے پر بٹھاتے ہوئے بولی۔
”میں کون سا ایکٹنگ کر رہی ہوں۔۔۔میں نے تو بس سٹوری لکھنی ہے۔۔۔میرا تو نام بھی نہیں آئے گا۔۔۔اور اگر آ بھی گیا تو کسے پتہ کہ میرا نام شہزین احمد ہے۔۔؟ٹرسٹ می۔۔۔میں باباجان کو منالوں گی۔۔۔“وہ خود ان کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
”ٹھیک ہے۔۔۔مگر مجھے خوشی ہے کہ میری بیٹی پوری نہیں بگری۔۔۔ابھی بھی سنورنے کا چانس ہے۔۔۔“وہ اس کا گال کھینچنے لگیں۔
”اوف اوہ ماں۔۔۔“اسے اپنی ماں کی یہ حرکت بالکل پسند نہ تھی۔
”اوہ۔۔۔میں نے صبح جلدی اُٹھنا ہے۔۔۔میں سونے جا رہی ہوں۔۔۔“وہ اپنے کمرے میں بھاگ گئی اور شہلا بیگم کو پہلی بار اس کی ادا میں سمجھداری کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔
رات گئے احمد خان گھر آئے تو انہیں اپنی بیٹی نظر نہ آئی جو کہیں فجر کے وقت سوتی تھی اور آج عیشاء پڑھتے ساتھ ہی نیند کی آغوش میں جا چھپی تھی۔
”گڑیا آج جلدی کیوں سوگئی؟“وہ کمرے میں بیڈ پر بیٹھے لیپ ٹاپ پر آفس کاکام کررہے تھے تب ہی شہلا بیگم ان کے لئے چائے لے کر آئیں۔
”آپ کی صاحبزادی کو ملازمت مل گئی ہیں۔۔۔“اپنی بات کہہ کر وہ خود ہی ہنسنے لگیں۔
”ہاں۔۔۔کس کی شامت آگئی؟“
”یہ آپ کل اسی سے پوچھیے گا۔۔۔کل اس نے کام پر جانا ہے۔۔۔“انہوں نے بتانے سے اجتناب کیا۔
”کل تو اتوار ہے۔۔۔اور ویسے بھی اسے کام کی کیا ضرورت ہے؟خدا نے سب کچھ تو عطا کیا ہے۔۔۔“انہوں نے لیپ ٹاپ بند کرنے کے بعد چائے کا کپ اُٹھایا۔
”احمد۔۔۔کبھی کبھی آپ بہت ہی زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔۔۔بڑی مشکل سے تو شازی میں کچھ عقل آئی ہے۔۔۔اور اسے بھی ضایع کرنے پر تُلے ہیں۔۔۔؟“ وہ بھی بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
”تم کیا چاہتی ہو میری بیٹی اب ہنسنے کھیلنے کی عمر میں ہی کام کی الجھنوں میں پڑ جائے۔۔۔“
”اس نے کوئی ہل تو نہیں جوتنے۔۔۔بس آج تک آپ نے اپنی منمانی کی ہے۔۔۔اب ایک بار مجھے بھی اس کی زندگی کا فیصلہ لینے دیں۔۔۔آخر ماں ہوں میں اس کی۔۔۔“ وہ شکووں کو ہتھیار بنانے لگیں۔
”تم بیویاں بھی نا۔۔۔ٹھیک ہے کرو اپنی مرضی مگر میری بیٹی پر کوئی آنچ بھی آئی تو میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔“اجازت کے ساتھ ساتھ دھمکی۔۔شہزین سو فیصد اپنے والد پر ہی گئی تھی۔
صبح جب وہ آٹھ بجے اُٹھی تو اس کا چہرہ دیکھنے والاتھا۔شاور لینے کے بعد بھی اسکی آنکھیں نیند سے بند ہورہی تھیں۔اتوار کے دن تو وہ بارہ بجے سے پہلے بسترے سے قدم بھی نہ نکالتی تھی مگر آج اس ستم ظریفی پر اس کا دل زار زار ہورہا تھا۔والد صاحب سے اجازت لینے کے بعد وہ اپنے مقامِ ملازمت پر پہنچی۔
”اس سڑئیل کا دماض سچ میں فارغ ہے۔۔۔سنڈے کے دن بھی چھٹی نہیں دیتا۔۔۔“وہ اسے کونستی ہال میں داخل ہوئی جہاں ماتم کا سا سماء تھا۔
”یہ کیا؟سڑئیل کا جہنم کا ٹکٹ تو نہیں کٹ گیا؟“وہ سوچ ہی رہی تھی کہ شان کا چہرہ نمودار ہوا۔
”ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟“وہ مریم سے سوال پوچھ رہاتھا تب ہی شہزین نے بھی اس کی طرف قدم بڑھائے۔
”کم از کم ڈیڑھ مہینہ سر۔۔۔“مریم افسردگی سے بولی۔
”ناں شازی ناں۔۔۔یہ بندہ تجھے مار کر ہی مرے گا۔۔۔“وہ دل میں بول کر ہی مریم کے پاس کھڑی ہوئی۔
”وٹ دی ہیل۔۔۔پانچ دن رہ گئے ہیں پلے میں۔۔۔اور اب۔۔۔“وہ سر پکڑتے ہوئے رُ پھیرکیا۔
”کیا ہوا ہے؟“شہزین نے مریم سے پوچھا۔
”سعد کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے۔۔۔اس کابازو ٹوٹ گیا ہے اور وہ ہیرو کا کردار کرنے والا تھا۔۔“اسے زیادہ دکھ اپنے منگیتر کے ایکسیڈینٹ کا تھا یا پھر ہیرو تبدیل ہونے کا؟
”بیچارا۔۔۔اب ٹوٹے ہاتھ والا ہیرو کتنا برا لگے گا۔۔۔“اسکی بات پر وہاں موجود سب لوگوں کو ہنسی آئی مگر شان کا پارا مزید چڑھا۔
”تمہارا دماغ ٹھکانے پر ہے۔۔۔ایک ہفتے تک تو وہ ہاسپٹل سے بھی ڈسچارج نہیں ہوگا۔۔“اس نے غُصے سے جواب دیا۔
”تو اب پلے کینسل؟“اس نے سوچا کہ ملازمت سے فراغت مل جائے گی۔
”جی نہیں۔۔۔نیا ہیرو ڈھونڈھنا پڑے گا۔۔۔“اس مرتبہ مریم نے جواب دیا۔
”کہاں سے ڈھونڈھوں؟سعد جیسی پرفارمنس کوئی نہیں دے سکتا۔۔۔“وہ بددلی سے بولا۔
”اور اتنی جلدی ملے گا کیسے؟“
”عاشر۔۔۔میرا دوست بہت کمال کی ایکٹنگ کرتا ہے۔۔“عاشر کا بچپن سے ہیرو بننے کا شوق وہ اب اسی سٹیج پلے کے ذریعے پورا کروانا چاہتی تھی۔
"میں کسی عیرے غیرے پر اعتماد نہیں کرسکتا۔۔"وہ اپنے معیار پر سمجھوتے کا قائل نہ تھا۔
"آپ اڈیشن لے لیں۔۔ورنہ سعد کے ٹوٹے بازو سے ہی کام چلانا پڑے گا۔۔۔"وہ بھی کلسی تھی۔
آڈیشن کا بلاوا آتے ہی عاشر دوڑا چلا آیا تھا۔اس نے ایک موقع کے لئے پچھلے دو سالوں سے چپلیں توڑ دی تھیں۔اب یہ موقع کسی نعمت سے کم نہ لگا تھا۔
"ہمم۔۔۔یہ اسکرپٹ اچھے سے پڑھ لو۔۔۔"شان نے آڈیشن کے بعد اسے وقتی طور پر موقع دے دیا تھا۔
"شازی تھینک یو سو مچ۔۔۔"اس کا بس چلتا تو ناچ ناچ کر پورا ہال سر پر اٹھا لیتا۔
"اب مجھے شرمندہ مت کروانا۔۔"
"تمھاری عزت اب عاشر کی عزت ہے۔۔"وہ سینے پر ہاتھ رکھے سر خم کرگیا۔
عاشر کے آتے ساتھ ہی تیاریاں شروع کردی گئی۔شہزین ہر ڈائیلاگ اسے خود بول کر سمجھا رہی تھی اور بھی پوری توجہ سے سن رہا تھا۔دوسری طرف مریم کو بھی وہ ہر ڈائیلاگ سمجھا رہی تھی۔
”واؤ شازی۔۔کمال کے ڈائیلاگز لکھے ہیں تم نے؟“وہ کام سے زیادہ اس کی باتوں پر دھیان دے رہا تھا۔
”کمال تو تب ہوگا۔۔۔جب تم انہیں صحیح طریقے سے بولو گے۔۔۔“شان بھی وہیں کھڑا تھا۔
”اس کی فکر مت کرو۔۔۔“وہ انگرائی لیتے ہوئے بولا۔
جب پرفامنس کا دن آیا تو شان کے پاس ایک لمحے کا وقت نہیں تھا۔تمام محنت کے بعد پلے کامیابی سے ختم ہوا جسے لوگوں کی بے پناہ پذیرائی ملی۔شہزین بھی بیک سٹیج موجود تھی اور آج کا خواب بھی سچ ہواتھا۔اس کی دلی خواہش تھی کہ اس کی کسی تحریر کو بڑے پردے پر پیش کیا جائے جوکہ آج سچ ہوئی۔
”واؤ شازی۔۔ٹرسٹ می۔۔۔اتنی پذیرائی ہمیں کسی پلے پر نہیں ملی۔۔۔“بیک سٹیج آکر مریم نے بھی اسے مبارکباد پیش کی۔
”پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ کسی بہترین سکرپٹ پر کام کیا ہے۔۔۔“اس نے ایک اور تعریفی جملہ کہا۔
”یہ کمال تمہاری اور عاشر کی اداکاری کا ہے۔۔۔مجھے اتنا سر مت چڑھاؤ۔۔۔“اس نے زرا تکبر نہ دکھایا اور اس کی یہ ادا پاس موجود شان کو بہت بھائی۔
”تم جانتی ہو۔۔۔ہم اس پلے کو کل دوبارہ پیش کرنے والے ہیں۔۔۔اور ٹکٹس ابھی ہی بل گئیں۔۔۔“وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا میک اپ اُتارتے ہوئے بولی۔
”چلو اسی بہانے سڑئیل کا موڈ کچھ اچھا ہوجائے گا۔۔۔“وہ بے خوف بولی۔
”سڑئیل کون؟“
”شان سر۔۔۔“
”شازی۔۔تم سر کو سڑئیل کہہ رہی ہو؟ویری بیڈ یار۔۔۔“اسے دلی افسوس ہوا تھا۔
”جو سچ ہے وہ سچ ہے۔۔۔“چونکہ وہ پردے کی دوسری سمت کھڑا تھا اس لئے وہ دونوں اس کی موجودگی سے لا علم تھیں۔
”ویسے تمہیں پتا ہے۔۔زارا جو پہلے سکرپٹ لکھا کرتی تھی۔۔۔وہ تو سر پر فدا تھی مگر وہ اسے گھاس بھی نہیں ڈالتے تھے۔۔۔“وہ آج اگلے پچھلے راز کھولنے کے لئے بے طاب تھی۔
”تب ہی وہ بیچاری جان بچا کر چلی گئی۔۔۔“ایک اور توہین آمیز جملہ۔
”تم بھی نا۔۔۔ویسے میں بھی دیکھتی ہوں کہ تمہارا مسٹر پرفیکٹ کون ہوگا۔۔۔“
”مجھے ان جھمیلوں کا کوئی ارمان نہیں۔۔۔ویسے بھی میری پہلی اور آخری محبت صرف اور صرف میرے باباجان اور ماں ہیں۔۔۔جو ان کی پسند ہوگا۔۔وہی میرا مسڑ پرفیکٹ بھی ہوگا۔۔۔شرط صرف اتنی ہے کہ وہ بالکل میرے بابا جیسا عزت کرنے والا انسان ہو۔“وہ سنجیدگی سے بولی تھی۔
”آج کے دور میں ایسے پرانے خیالات۔۔۔“
”پرانی چیزیں ہمیشہ مفید ثابت ہوتی ہیں۔۔۔“اس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہوتا تھا۔
”ڈارئیور آگیا۔۔میں چلتی ہوں۔۔۔“موبائل پر ڈرائیور کی کال آئی تو شہزین چلی گئی مگر وہ ابھی بھی پردے کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ اوپر سے لاکھ ناسمجھ سہی مگر اندر سے وہ خاصی سمجھدارتھی۔
وہ اپنی گاڑی میں سورار گھر کے راستے پر گامزن تھا۔بادل کی گرج سے پورا اسلام آباد گونج رہا تھا مگر ابھی تک بادلوں نے برسنے کی زحمت نہ کی تھی۔راستے پر سڑک کے ایک کنارے اس نے شہزین کو کھڑے دیکھا۔
”میڈم۔۔۔پتہ نہیں کیا مسلہ ہوا ہے؟“ڈرائیور اپنی تما تر ناکام کوششوں کے بعد بھی گاڑی ٹھیک نہ کر پایا۔
”میں بتاتی ہوں مسلہ کیا ہے؟مسلہ تم ہو؟پچھلے ہفتے سے باباجان تم سے کہہ رہے تھے کہ اس کی سروس کروا لو۔۔۔مگر موصوف کو اپنی مصروفیات سے فرصت ملے تو ہمارا کوئی کام کریں نا۔۔۔“اس نے ڈرائیور کو بے نقد سنادی جسے وہاں آتے شان نے بھی سن لیا۔
”میڈم اب کیا کروں؟“
”اب میرے بھائی تم اس گاڑی کو بیچ کر ایک سائیکل خرید لو۔۔۔اور اسی سائیکل پر سوار ہوکر واپس اپنے گاؤں جانا۔۔۔خبردار جو اب تم مجھے گھر کے آس پاس بھی نظر آئے۔۔“ وہ پھر سے اس کی شان میں شاندار جملے ادا کر رہی تھی۔
”اینی پرابلم۔۔۔“شان نے اپنی گاڑی کی کھڑکی سے سر نکالا۔
”کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔۔بس ہماری گاڑی خراب ہوگئی ہے۔۔۔موسم بھی خراب ہے۔۔۔اور دور دور تک ٹیکسی کا کوئی نام و نشان نہیں۔۔۔پیدل گئی تو ایک گھنٹہ ہی لگے گا۔۔کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔۔“وہ تنک کر بولی۔
”تو میں تمہیں لفٹ دے دیتا ہوں۔۔۔“
”مجھے اپنا موڈ مزید خراب کرنے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔“وہ بربڑائی۔
”کچھ کہا تم نے؟“اس نے ہمیشہ کی طرح سن تو لیا ہی تھا۔
”کچھ نہیں۔۔۔“
”پلیز کم۔۔۔میں ڈراپ کر دیتا ہوں۔۔“وہ ملائمت سے بولا۔
”کوئی بات نہیں شازی۔۔مشکل وقت میں گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔۔۔اسے تو صرف ڈرائیور ہی بنانا ہے۔۔۔“وہ د ل میں بولی۔
”اوکے۔۔اور جناب آپ اس کھٹارے کی سروس کروا کر گھر پہنچا دینا۔۔۔۔“اس نے اپنا پرس گاڑی سے نکالا اور شان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
”ویسے تم نے اس بیچارے کی کچھ زیادہ ہی انسلٹ کر دی۔۔“ گاڑی چلاتے ہوئے اسے ڈرائیور کا خیال آیا۔
”مے بی۔۔۔“وہ بے فکری سے بولی۔اسی دوران بارش بھی شروع ہوگئی۔
”یہاں سے رائٹ لینا ہے یا لیفٹ۔۔۔؟“
”رائٹ۔۔۔ ویسے اب تمہاری گاڑی تو کہیں خراب نہیں ہوگی نا؟“اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
”نہیں نہیں۔۔۔میں نے کل ہی اس کی سروس کروائی ہے۔۔۔“ وہ سٹئیرنگ ویل پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے بولا۔
”شکر ہے۔۔۔“
”میری کار میری طرح قابلِ بھروسہ ہے۔۔۔“جملہ ابھی اس کے منہ میں ہی تھا کہ گاڑی جھٹکے سے رک گئی۔
”واؤ۔۔۔کچھ زیادہ ہی قابلِ بھروسہ ہے۔۔۔“وہ اپنی زبان کو روک نہ پائی۔
”بارش ہے نا۔۔۔اس لئے شائد۔۔“وہ شرمندہ چہرہ لئے گاڑی سے اترا۔
”کیا ہوگیا؟“وہ گاڑی کو کھول کر تفصیلی معائنہ کر رہا تھا مگر بارش اس قدر تیز تھی کہ اسے ٹھیک سے کچھ نظر بھی نہیں آرہا تھا۔
”کیا ہوا۔۔۔۔؟“وہ گاڑی کے اندر بیٹھے بیٹھے ہی پوچھنے لگی۔
”پتہ نہیں۔۔۔“وہ دروازے کے پاس آیا۔
”اب۔۔۔؟“نیا مسئلہ۔۔
”یہاں کوئی ٹیکسی تو آنے سے رہی۔۔۔ویسے بھی پیدل چلنے سے صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔۔۔۔“وہ ماتھے سے اپنے بال ہٹاتے ہوئے بولا۔
”فروری کی اس ٹھنڈ میں۔۔۔اور وہ بھی اس موسلادھار بارش میں۔۔۔؟“
”تمہاری پرابلم کا سلیوشن ہے میرے پاس۔۔۔“اس نے گاڑی کی پچھلی سیٹ سے اپنا کوٹ لا کر اسے دیا۔
”ویسے مسٹر شان ایک سوال پوچھوں؟“وہ لوگ پیدل جارہے تھے اور اتنی دیر خاموش رہنے کے بعد شہزین ہمت ہار گئی۔
”ہاں ضرور۔۔۔“
”مجھ پر اتنی عنایتوں کے بدلے آپ کو ایک اور سکرپٹ تو نہیں چاہئے؟“
”جی نہیں۔۔۔میں لاکھ سڑئیل سہی مگر دوسروں کی مدد کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔۔۔“تیز ہوا کے باعث اس نے چھتڑی مضبوطی سے خود پر کم اور شہزین پر زیادہ پھیلا رکھی تھی۔
”چلو شکر ہے۔۔۔“وہ پھر بڑبڑائی۔
”کچھ کہا تم نے؟“اس نے اس بار بھی اس کی بڑبڑ اہٹ سن کر بھی ان سنی کی۔
”نہیں۔۔۔“اس کی ناں پر وہ مسکرایا۔
”ہنستے ہوئے قابلِ برداشت لگتا ہے۔۔۔“جہاں اس کی زبان خاموش ہوتی وہاں دل بول پڑتا۔
”تھینکس۔۔۔“وہ گھر کے پاس پہنچی تو شکریہ ادا کرنے لگی۔
”نو پرابلم۔۔۔“وہ اتنا کہہ کر چلا گیا اور اب تک بارش بھی ہلکی ہو چکی تھی۔
ڈور بیل بجنے کے دو منٹ بعد ہی گھر کے دروازے اس پر کھل گئے۔دروازہ شہلا بیگم کھولا تھا اور شہزین کو بارش میں بھیگا دیکھ کر گھبرا سی گئیں۔
”اتنی دیر کیوں لگادی اور۔۔ پیدل آئی ہو کیا؟“
”جی۔۔۔اور یہ سب آپ کے لاڈلے ڈرائیور کی عنایت ہے۔“اس نے صوفے پر پڑا تولیہ اُٹھایا
”ڈرائیور کہاں ہے؟“وہ بال سکھا رہی تھی تب ہی شہلا بیگم نے پوچھا۔
”میری بلا سے جہنم میں ہو۔۔۔“وہ بدلحاظی سے بولی۔
”شازی۔۔۔تم آئی کس کے ساتھ ہو۔۔۔اور یہ کوٹ؟“ان کے پوچھنے پر اسے کوٹ کاخیال آیا۔
”اوہ۔۔۔کوٹ تو دینا ہی بھول گئی۔۔“
”یہ ہے کس کا؟“
”عاشر کا۔۔۔“وہ چالاکی سے بولی کیونکہ عاشر کو شہلا بیگم بھی جانتی تھیں۔
”تم اس کے ساتھ آئی ہو تو اسے اندر بلا لیتی؟“ان کی تفتیش تھمے کی روادار نہ تھی مگر اسی دوران شہزین کی چھینک نے ان کا دھیان بٹا دیا۔
”تمہیں تو ٹھنڈ لگ گئی ہے بیٹا۔۔۔جاؤ چینج کرلو جلدی۔۔۔میں تمہارے لئے کافی بناتی ہوں۔۔۔“اب وہ اس کی صحت کے لئے فکرمند ہوگئیں۔
”جی۔۔۔“دوسری چھینک کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کپڑے تبدیل کرنے بعد اسے کوٹ کاخیال آیا جو اسے اج ماں سے ڈانٹ پڑوانے والا تھا۔
’ؔ’سڑئیل کا کوٹ بھی اسی کی طرح ہے۔۔۔خطرناک۔۔ابھی ماں سے عزت افزائی ہوجاتی۔۔۔“وہ کوٹ کو ڈریسنگ روم میں پھینکتے ہوئے بولی۔
وہ صبح یونی ورسٹی پہنچی اور کلاس ختم ہونے کے بعد وہ اور سمیرا اپنے ٹھکانے یعنی کینٹین پر پہنچے۔آج سمیرا نے اس سے ٹریٹ لینے کا ارادہ بنایا ہوا تھا۔
”نہیں شازی۔۔۔مجھے ٹریٹ چاہئے یار۔۔۔“وہ اب اصرار کرنے لگی۔
”ہاں تو گھر آجانا۔۔تمہیں اپنے ہاتھوں کا بیک کیا کیک کھلاؤں گی۔۔۔“اگر وہ پہلے جیسی فضول خرچ ہوتی تو پل بھر میں مان جاتی۔
”کنجوس۔۔۔کل تمہاری زندگی کا اتنا بڑا دن تھا۔۔۔تمہارے لکھے گئے پلے کو اتنا سراہا گیا اور تم مجھے صرف کیک پر ٹرخا رہی ہو۔۔۔“
’ؔ’تم کون سا دیکھنے آئی تھی؟“اس نے موقع ملتے ہی طعنہ دیا۔
”ہاں تو میں نے معافی بھی تومانگ لی نا۔۔۔مگر آج ضرور دیکھنے جاؤں گی۔۔۔“
”ویسے کل نہ میرے ساتھ بہت برا ہوا۔۔۔“وہ کل کی تمام آپ بیتی اسے سنانے لگی۔
”اوہ ہو۔۔۔تم لوگوں کا تو فلمی سین ہوگیا نا۔۔۔اس کا کوٹ تمہیں بارش سے بچا رہا تھا۔۔۔سو رومینٹک۔۔۔“وہ بات کو ناجانے کس سمت میں لے گئی۔
”منہ توڑ دوں گی میں تمہارا۔۔۔میں اتنی خوار ہوئی اور تمہیں مزاق سوجھ رہا ہے۔۔۔“اس نے اپنا پین سمیرا کو مارا جو اس نے کیچ کر لیا۔
”شازی۔۔۔ویسے تم دونوں اکیلے گھر گئے تھے؟“
”نہیں۔۔۔پورا قافلہ تھا ہمارے ساتھ۔۔۔“اس کا لہجہ اب بھی سرد تھا۔
”یعنی اکیلے تھے۔۔۔“وہ اسے مزید چڑھانے لگی۔
”خدا کا خوف کرو سمیرا۔۔۔مجھے وہ سڑئیل ہی ملا ہے سکینڈل بنانے کے لئے؟“وہ اسے اسی نام سے پکارا کرتی تھی۔
”غور کرنا۔۔۔سڑئیل ہے بڑا گڈ لکنگ۔۔۔“
”بکواس بند کرو۔۔۔شام کو میرے گھر آجانا۔۔۔ساتھ میں چلیں گے۔۔میں نے اسے کوٹ بھی واپس کرنا ہے۔۔۔“وہ اب مزید بحث نہیں چاہتی تھی۔
شام کو پلے شروع ہونے سے پہلے ہی وہ دونوں پہنچ گئیں۔اس کی آمد پر شان چونکا کیونکہ اب وہ کہہ کرگئی تھی کہ اگلی سکرپٹ کے ساتھ ہی آئے گی۔
”السلام علیکم۔۔۔“اس نے سلا م کیا۔
”وعلیکم السلام۔۔۔یہ تمہارا کوٹ۔۔۔“اس نے کوٹ سب لوگوں کے سامنے ہی اسے دی ڈالا۔
”تھینکس۔۔۔“لوگوں کے متوجہ ہونے پر وہ تھوڑا بوکھلایا۔
”تھینکس کی کیا بات ہے۔۔۔تمہارا ہی تو ہے۔۔ویسے مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔ٹھنڈ تو مجھے پھر بھی لگ ہی گئی۔۔“ اسے لوگوں کے متوجہ ہونے کا رتی بھر خیال نہ تھا۔
”ہمم۔۔۔“وہ اتنا ہی بول پایا۔
”ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ پہلے کبھی ہم دونوں کو دیکھا نہیں۔۔۔“بیک سٹیج کام کرنے والا لڑکا بھی ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھ رہا تھا تو شہزین بولی۔
”سوری میڈم۔۔۔“اس بیچارے معذرت کرنا ہی بہتر سمجھا۔
”اور کچھ؟“
”کچھ نہیں۔۔۔وہ سمیرا نے پلے دیکھنا تھا۔۔۔اسی کے ساتھ آئی ہوں۔۔“اسے سمیرا کا خیال آیا جسے وہ ناظریں میں بیٹھا کر آئی تھی۔
”اوکے۔۔۔ایکسکیوزمی۔۔“وہ جانتا تھا کہ شہزین میں اتنی عقل نہیں جو لوگوں کی نظروں کی معنی خیزیوں کو بھانپ سکے۔
”سڑئیل ہی ہے۔۔۔“اس کی بربڑاہٹ اس مرتبہ پاس سے گزرتے دیگر افراد نے بھی سنی تھی۔
شہلا بیگم صبح صبح شہزین کے کمرے میں آئیں تو کمرہ کبارخانے جیسا منظر پیش کررہا تھا۔الماری کے تمام کپڑے باہر نکلے ہوئے تھے۔ کمرے میں موجود کوئی دراز بند نہ تھا۔شائد شہزین کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھی۔
”شازی۔۔۔“ماں کی تیسری پکار اس کی سماعت تک پہنچی۔
”جی ماں۔۔“وہ اب بیڈ کے نیچے گھنس کر تلاش کرنے لگی۔
”بیٹا۔۔۔کیا گم گیا ہے؟“
”میرا نیک لیس نہیں مل رہا ماں۔۔۔“وہ سر نکال کر بولی۔
”تو یہ سب کرنے سے مل جائے گا۔۔۔؟“انہوں نے چائے کا کپ لیمپ کے میز پر رکھا اور چیزوں کو سمیٹنے لگی۔
”ماں پلیز۔۔۔مجھے طعنے کی نہیں مدد کی ضرورت ہے۔۔۔“وہ بھی ان کے مقابل میں آکھڑی ہوئی۔
”تمہاری مدد تو خداہی کرے۔۔۔اپنی چیزوں کی قدر کرو تو یوں خوار نہ ہونا پڑے۔۔۔“انہوں ڈیکوریشن پیس دوبارہ شیلف پر سجائے۔
”وہ میرا لکی چارم تھا۔۔۔“وہ ادھر ادھر نظر پھراتے ہوئے بولی۔
”یہ سب انگریزوں کے چونچلے ہیں۔۔۔چلو جلدی ناشتہ کرو۔۔۔یونیورسٹی نہیں جانا کیا؟“
”جی۔۔۔“وہ الٹے سیدھے منہ بناتی ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔
شام کو وہ لیپ ٹاپ پر بیٹھی سکرپٹ تیار کر رہی تھی کیونکہ اگلے مہینے امتحانات کا سلسلہ شروع ہونے جارہا تھا تو تب اس کے پاس ایک لمحے کا وقت بھی نہیں ہونا تھا اور اگر سکرپٹ شان تک نہ پہنچتی تو پتہ نہیں کیا کیا سننا پڑتا۔
”توبہ۔۔۔پیسہ کمانا بھی آسان کام نہیں ہے۔۔۔“گود میں پڑے لیپ ٹاپ کو اس نے ایک طرف رکھ دیااور اکتا کر بیڈ سے اُٹھ گئی۔
”ویسے جتنی نفرت میں نے ان ہیرو ہیروئین میں کروادی ہے۔۔۔اس کے بعد محبت عجیب نہیں لگے گی۔۔۔؟نہیں نہیں۔۔۔وہ کیا کہتے ہیں کہ نفرت محبت کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔۔۔۔“وہ اپنے ہی خیالوں میں کھوسی گئی۔
”یہ کس نفرت اور محبت کی بات ہورہی ہے؟“والدہ نے کمرے میں آتے ہوئے اسکی بات سن لی تھی۔
”کوئی بات نہیں ماں۔۔۔اپنے افسانے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔“وہ بالوں کو کیچر میں جکرتے ہوئے بولی۔
”اچھا۔۔۔“وہ بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
”جی۔۔۔“
”اچھا ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔۔۔“انہوں نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا۔
”بولیں۔۔۔“وہ ان کے قریب بیٹھ گئی۔
”میں نے اور تمہارے باباجان نے تمہارے لئے ایک لڑکا پسندکیا ہے۔۔۔“
”وٹ۔۔۔مگر ماں۔۔۔“
”ہاں جانتی ہوں تمہیں ابھی ایم بی اے کرنا ہے۔۔۔“وہ اس کی بات کاٹ گئیں۔
”پھر بھی؟“
”بیٹا صرف تمہیں دیکھنے آئیں گے لڑکے والے۔۔۔شادی تمہاری تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی ہوگی۔۔۔“وہ جملے تسلی بخش تھے۔
”تو دیکھنے بھی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی آئے نا۔۔۔“اس نے منہ پھلا کرجواب دیا۔
”شازی۔۔۔“شہلا بیگم نے اس کی تھوڈی پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی جانب کیا۔
”بیٹا۔۔۔تمہارے باباجان کے دوست کا بیٹا ہے۔۔۔اور وہ زبان دے چکے ہیں کیونکہ انہیں اپنی بیٹی پر بھروسہ ہے کہ وہ اپنے باپ کی پسند کو کبھی جھٹلائے گی نہیں۔۔۔“ وہ جذبات کی تلوار چلا رہی تھیں۔
”ماں۔۔۔آپ لوگ ہمیشہ مجھے ایموشنل بلیک میل کرتے ہو۔۔۔“ یہ اس کا رضامندی ظاہر کرنے کا طریقہ تھا۔
”شاباش۔۔۔“وہ اس کا جواب سمجھ گئیں۔
”کب آرہے ہیں وہ لوگ؟“
”اگلے ہفتے۔۔۔“
”ٹھیک ہے۔۔۔اچھی بیٹیوں کی طرح شرمانے اور گھبرانے کی ایکٹنگ بھی کرلوں گی۔۔۔“اس کی ہر ادا نرالی تھی۔
”بے شرم۔۔۔“انہیں اپنی بیٹی کی اس اداپر ہنسی آئی۔
آج لڑکے والے اسے دیکھنے آرہے تھے اور ایسے سنگین موقعے پر وہ اپنی اکلوتی سہیلی کو کیسے یاد نہ رکھتی؟ سمیرا صبح سے ہی اس کے سرھانے بیٹھی تھی۔
”ویسے تم اتنا میک اپ کیوں کررہی ہو؟“وہ سنگھار میز کے سامنے بیٹھی سجنے سنورنے میں مصروف تھی تو سمیرا نے پوچھا۔
”کیونکہ آج کل کے لڑکوں کو زیادہ میک اپ کرنے والی لڑکیاں پسند نہیں ہوتیں۔۔۔“
”یہ بھی ہے۔۔۔“سمیرا نے بھی اتفاق کیا۔
”ویسے اگر وہ لڑکا پیارا نہ ہوا تو؟“
”تو کیا۔۔۔میں نے بڑا شادی کرنی ہے۔۔۔“اس کے دماغ میں تو کوئی انوکھی کھچڑی ہی پک رہی تھی۔
”شازی۔۔۔بتاؤ مجھے۔۔۔تمہارے خیال پُر میں کونسا منصوبہ تیار ہورہا ہے۔۔۔“وہ سنگھار میز سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی۔
”مس سمیرا قدیر۔۔۔میرے خیال پُر کے منصوبے خود مجھے معلوم نہیں ہوتے۔۔۔تو تمہیں کیا خاک معلوم ہونگے۔۔۔“وہ کرسی سے اُٹھی۔
”اہاں۔۔۔لڑکے والے آگئے۔۔۔“مہمانوں کی آمد کا شور سن کر سمیرا فوراً لڑکے کو دیکھنے کے لئے دوڑی۔
”شازی۔۔۔شازی۔۔۔“دو ہی منٹ بعد وہ کمرے میں واپس دوڑتی ہوئی یوں آئی جیسے جنگلی کتے اس کے تعاقب میں ہوں۔
”کیا ہوا؟“وہ سر پر دوپٹہ لیتے ہوئے بولی۔
”آج تو ہم پھنسے۔۔۔پکا پھنسے۔۔۔“اس کی زبان اٹک رہی تھی۔
”کیوں۔۔۔لڑکا کیا ہماری یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے۔۔۔؟“اسے ابھی بھی مزاق سوجھ رہا تھا۔
”نہیں لڑکا چشمش ہے۔۔۔“
”تو کیا ہوا۔۔۔؟میں نے پہلے ہی بولا تھا نا کہ چشمش ہو یا لُولا لنگڑا۔۔۔میں نے کون سی شادی کرنی ہے۔۔۔“اس نے دوبارہ لپسٹک گہری کرنے کی مہم جاری رکھی۔
”ارے میری ماں۔۔۔وہ لڑکا چشمش ہے۔۔۔باسط۔۔۔“
”وٹ۔۔۔۔؟“اسے بھی عقل آئی۔
”ہاں۔۔۔“
”شازی بیٹا۔۔۔تم چائے لے کر باہر آجانا۔۔۔“ماں نے کمرے کے دروازے پر کھڑے کھڑے ہدایت کی۔
”سمیرا تم مزاق تو نہیں کررہی نا۔۔۔یار اسے عاشر نے اس دن کیا کیا اوٹ پٹانگ باتیں بول دی تھیں۔۔۔باباجان کو تو ویسے ہی وہ لوفر ایک انکھ نہیں بھاتا۔۔اگر ماں باباجان تک ایک بھی بات پہنچی تو میری رخصتی آج کے آج ہی کر دیں گے۔۔۔“ اسے اپنی جان کے لالے پڑگئے۔
”اور اگر میرے گھر تک پہنچ گئیں۔۔۔تو میری رخصتی بھی تمھارے ساتھ ہی ہوجائے گی۔۔۔تم گھر سے رخصت اور میں دنیا سے۔۔۔“
”بی پوزیٹیوّ۔۔۔“اس نے گہری سانس لی۔
وہ دونوں چائے کی ٹرے لئے وہاں پہنچیں شہزین نے اب دوپٹے سے اپنا منہ تک ڈھک لیا تھا اور سمیرا نے منہ پر ماسک چڑھا رکھا تھا۔ ان دونوں کی عجیب و غریب حرکت سب کو ہی حیران کر گئی۔
”احمد۔۔۔ماشااللہ تمہاری بیٹی تو بہت شرمیلی ہے۔۔۔“باسط کے باپ احسن صاحب نے اس کے پردے کی تعریف کی۔
”مجھے بھی آج ہی پتہ چلا۔۔۔“وہ گھونگھٹ کے اندر سے ہی بربڑائی۔
”بیٹا آپ نے کیوں چہرہ چھپایا ہوا ہے؟“باسط کی والدہ سمیرا سے بولیں۔
”آنٹی مجھے فلو ہوگیا ہے۔۔۔ اور میرا فلو بہت خطر ناک ہے۔۔۔ایک پل میں سب کو لگ جاتا ہے۔۔۔“وہ منہ چھپائے ہی بولی۔
”ابھی تو تم ٹھیک ہی تھی۔۔۔؟“شہلا بیگم نے ٹوکا۔
”نہیں آنٹی۔۔۔آپ نے غور نہیں کیا ہوگا۔۔۔“وہ شہزین کے رٹے رٹائے جملے ادا کررہی تھی۔
”چلو۔۔اللہ تعالیٰ تمہیں جلد صحت یاب کرے۔۔۔“احمد خان بولے۔
”آنٹی ہم لوگ کمرے میں جائیں۔۔۔دراصل شازی کو میک اپ سے انفیکشن ہوگیا ہے۔۔۔اس کا دایاں گال پھول کر غبارہ ہو گیا ہے۔۔۔“وہ آہستگی سے ان کے کان میں بولیں کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ایسے چہرے کے ساتھ وہ کبھی بھی اپنی بیٹی کو ان سے نہ ملواتیں۔
”ٹھیک ہے بیٹا جاؤ۔۔۔“انہوں نے اجازت دے دی۔
وہ دونوں کمرے میں پہنچیں تو شہزین نے اپنا دوپٹہ ایک کونے میں پھینکا اور بستر پر یوں تھک کر لیٹی جیسے کوئی محاز لڑکر آئی ہو۔
”تم اور عاشر میری زندگی کے دو بدترین فیصلے ہو۔۔"
”تم اتنی پرسکون کیوں ہو؟اگر ان لوگوں کو آنٹی نے تمہاری تصویر دے دی تو؟“وہ رومال کچر ے کے ڈبے میں پھینکتے ہوئے بولی۔
”میری پیاری ہم جولی۔۔۔میرے باباجان کو تصاویر سخت ناپسند ہیں۔۔۔اس پورے گھر میں ایک بھی تصویر نہیں ہے میری۔۔۔سوائے میرے خود کے کمرے کے۔۔۔“ اس کی نظر ہر پہلو پر ہوتی تھی۔
”چلو پھر شکر ہے۔۔۔“اس نے بھی سکھ کا سانس لیا۔
”ویسے تم اداکاری کمال کی کرتی ہو۔۔۔“
”شکریہ شکریہ۔۔۔“وہ اداب کرتے ہوئے بولی۔
”اب بس وہ چشمش انکار کردے۔۔۔“ایک مسئلہ ابھی بھی باقی تھا۔
وہ کچھ کتابیں خریدنے بک شاپ پر آئی تھی۔ویسے تو سمیرا نے بھی اس کے ساتھ آنے کی حامی بھری تھی مگر عین وقت پر وہ دغا دے گئی اور اب وہ اکیلے ہی یہاں آئی۔
”وٹ دی ہیل۔۔۔اندھے ہو؟“وہ چلتے ہوئے ایک شخص سے ٹکرائی جس کے ہاتھ میں موجود جوس شہزین کے کپڑوں پر گر گیا۔
”اوہ آئی ایم سوری۔۔۔“وہ آواز شان کی تھی۔
”تم۔۔۔؟“
”جی۔۔۔ میں۔۔۔“
”انسان آنکھیں کھول کر چلتا ہے۔۔۔“وہ اپنے کپڑے جھارتے ہوئے بولی۔
”میری آنکھیں تو کھلی تھیں۔۔۔“
”وہ تو نظر آرہا ہے۔۔۔اب میں اس حالت میں گھر جاؤں گی۔۔۔“ ٹشو سے پونچھنے کے بعد بھی اس کا کرتا صاف نہ ہوا تھا۔
”ویسے میرا گھر پاس ہی ہے۔۔۔آپ وہاں چل کر اپنا ڈریس صاف کرلیں۔۔۔“اس نے پیشکش کی۔
”سڑئیل بڑا مہربان ہورہا ہے؟ویسے اس کے گھر میں یہ اکیلا تھوڑی رہتا ہوگا۔۔۔ماں باپ بھی تو ہوگے۔۔۔ویسے بھی ڈریس کا تو ستیاناس ہو ہی گیا ہے۔۔۔“وہ گہری سوچوں میں گم گئی۔
”مس شازی۔۔۔“اس نے چٹکی سے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
”ٹھیک ہے۔۔۔جلدی چلو۔۔۔“
وہ شان کے ساتھ اس کے گھر پہنچی تو گھر مکمل طور پر ویران تھا۔اس کے دماغ میں بیک وقت خطرے کی درجنوں گھنٹیاں بجی تھیں۔
”تم یہاں اکیلے رہتے ہو؟“
”ہاں۔۔۔“
”وٹ؟تمہیں شرم نہیں آتی اکیلی لڑکی کو اپنے گھر لاتے ہوئے؟“وہ برس پڑی۔
”میں کیا تمہیں اُٹھا کرلایا ہوں؟اپنے قدموں پر چل کر آئی ہو تم؟“اسے شہزین کے بے تکے سوال پر غُصہ آیا۔
”استغفراللہ۔۔۔“وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولی۔
”دیکھو پاگل لڑکی۔۔۔“وہ اس کی طرف چلا۔
”خبر دار میرے پاس آئے۔۔۔“اس نے میز پر پڑی چھڑی اُٹھالی۔
”اوئے تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔۔؟“شان بھی چونکا۔
”تم سب لڑکے اوپر سے جتنے بھی شریف بن جاؤ۔۔اندر سے چھچھوڑے ہی ہوتے ہو۔۔۔“وہ اپنا ہی راگ الاپ رہی تھی۔
”مجھے معاف کرو میڈم۔۔۔باتھ روم وہاں ہے۔۔۔اگر تم نے ڈریس صاف کرنا ہے تو کر لو۔۔۔نہیں تو ایسے ہی چلی جاؤ۔“وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔
”سلام صاحب۔۔۔“اسی دوران گھر کی ملازمہ بھی وہاں آگئی۔
”کہاں گئی تھیں آپ؟“وہ اس سے عمر میں بڑی تھی اس لئے وہ اسے عزت سے بلاتا تھا۔
”سبزی لینے گئی تھی؟یہ میڈم کون ہیں؟“اس کی بات پر شہزین کو شرمندگی ہوئی۔یعنی اس گھر میں اس وقت ایک ملازمہ بھی ہوتی تھی جس کی موجودگی میں تو شان ایسا ویسا کوئی قدم اُٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
”ان کاڈریس خراب ہوگیا ہے۔۔ان کی مدد کردیں۔۔۔“
”جی۔۔۔چلیں میڈم۔۔۔“وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
کرتا صاف کرنے کے بعد اس نے سوچا کہ شان سے معافی مانگ لے۔اس نے پتہ نہیں بیچارے کو کیا کیا کہہ دیا تھا؟مگر اب وہ گھر پر موجود ہی نہ تھا۔لہٰذہ وہ شرمندہ چہرہ لئے وہاں سے چلی ہی گئی۔
”شازی۔۔۔تم میں عقل ہے یا پھر دماغ میں بھوسہ بھرا ہوا ہے؟“اس نے کینٹین میں بیٹھ کر ساری بات سمیرا کو بتائی۔
”مجھے کیا پتہ تھا؟ ویسے بھی اس وقت میرا پارا چڑھ گیاتھا۔۔۔“
”اس دن تم اس کے ساتھ اکیلے گھر گئی۔۔۔تب تمہیں ایسا کوئی خیال نہیں آیا تھا۔۔۔“
”وہ تو میری مجبوری تھی۔۔۔“وہ تلملائی تھی۔
”تم باتوں میں نہیں آؤگی۔۔۔پر اگر ذرا سی بھی شرم ہے تو اس سے معافی مانگ لینا۔۔تمہاری شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔۔۔وہ بندہ دوسری بار تمہارے کام آیا ہے۔۔اور تم نے اسے شکریہ تک بولنے کی زحمت نہیں کی۔“
”پھر سے شان۔۔۔“اس نے غُصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔
وہ یونی ورسٹی سے گھر پہنچی تو والد صاحب وقت سے پہلے ہی گھر پہنچے ہوئے تھے تب اسے یاد آیا کہ آج باسط کے گھر والوں نے جواب دینا تھا۔ اس مصبیت سے دو دو ہاتھ کرتی یا پھر شان سے معذرت کرنے کی ہمت کرتی؟ ایک جان اور ہزاروں پریشانیاں۔۔۔
”احمد۔۔۔پھر کیا فیصلہ کیا آپ نے؟“ انہوں نے تجسس سے پوچھا۔
”میں نے انکار کردیا۔۔۔“وہ صوفے پر تھکے تھکے انداز میں بیٹھے۔
”مگر کیوں؟آپ تو کہہ رہے تھے کہ باسط بہت اچھا لڑکا ہے۔۔۔“
”وہ شادی کے بعد پاکستان میں نہیں رہے گا۔۔۔لندن شفٹ ہوجائے گا۔۔۔اور میں اپنی گڑیا کو اتنی دور نہیں بھیج سکتا شہلا۔۔وہ میری اکلوتی اولادہے۔۔۔“
”تو پھر کیا آپ ساری عمر اسے گھر بٹھا کر رکھیں گے؟“
”نہیں۔۔مگر میں اپنی بیٹی کو ایسی جگہ بیاہنہ چاہتا ہوں۔۔جہاں وہ میری نگاہوں کے سامنے رہے۔۔اسے دیکھے بغیر ہم دونوں ہی زندہ نہیں رہ سکتے۔۔۔“ ان کے اپنے ڈھیروں تحفظات تھے۔
”بات تو آپ کی درست ہے۔۔۔“اکلوتی اولاد کی محبت کے ہاتھوں وہ بھی مجبور تھیں۔
”ویسے بھی ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے۔۔۔ہم نے خواہ مخواہ ہی جلدبازی کر دی۔“ان کے ارادے فوراًہی بدل گئے۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے اور وہ ابھی تک جاگی شان کے متعلق سوچ رہی تھی۔اس نے واقعی زیادتی کر دی تھی۔ شریف انسان پر ایسا الزام۔۔۔اس پر سمیرا کی ناراضی اسے مزید نادم کر رہی تھی۔
”کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔۔۔شہزین احمد۔۔سوری تو کرنی ہی پڑے گی۔۔۔“وہ اپنے پسندیدہ بھالو کو ہاتھ کو خود سے لگائے ہوئے تھی۔
دوسری طرف وہ بھی شہزین کے متعلق ہی سوچ رہا تھا کہ آج تک اس کی اتنی بے عزتی کرنے کی ہمت کسی نے نہ کی تھی۔ وہ لڑکی عجیب ہی تھی جسے کسی کا نہ تو خوف تھانہ لحاظ۔۔۔اس کا نیک لیس اس لمحے شان کے ہاتھ میں ہی تھا۔ جسے وہ بے خیالی میں دیکھتا جارہا تھا۔
”یہ لڑکی عجیب ہی ہے۔۔۔کبھی کبھی اس سے سمجھدار کوئی نہیں اور کبھی اس سے زیادہ نا سمجھ کوئی نہیں ہوتا۔۔۔“اس نے ہنستے ہوئے سوچا۔
”اس نے میری اتنی انسلٹ کی۔۔۔اور میں اس کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں۔۔۔“اسے اپنی توہین یاد آئی تو اس نے نیک لیس دوبارہ کرتے کی جیب میں رکھ دیا۔
"کس کے بارے میں سوچ کر مسکرایا جارہا ہے؟"کافی کے دو کپ لئے شاہنواز بھی اس کے سامنے پڑی کرسی پر آبیٹھا تھا۔
"جس کے بارے میں تمھیں بتایا تھا۔۔"اس نے شہزین کی بےتکی حرکت شاہنواز کو شام میں ہی تفصیل سے بتائی تھی۔
"وہ صرف تمھاری توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ سب حربے کر رہی ہے جس میں کئیں حد تک وہ کامیاب بھی ہوچکی ہے۔۔" اس نے اپنی ماہرانہ رائے پیش کی۔
"تمھیں تو دنیا کی ہر لڑکی ہی مشکوک لگتی ہے اپنی منگیتر کے علاوہ۔۔"کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے شان اس کی خودپسند فطرت پر ہنسا تھا۔
"کیونکہ میری منگیتر صاحبہ کو اپنی حدود کا خیال ہے۔۔لیکن یہ ازاد خیال لڑکیاں نہ تو حدود کا تعین کرتی ہیں نہ حیا کرنے کی زحمت۔۔اور تمھاری مس رائٹر انھیں میں سے ایک ہے۔۔"اس نے جہاں اپنی پسند کا دفاع کیا تھا وہیں شہزین پر نئے سوال اٹھا دیے تھے۔
"اللہ تمھارے اونچے بول تمھارے منہ پر نہ دے مارے۔۔"شان ان معاملوں میں کبھی اس سے بحث نہ کرتا تھا۔وہ فطرتاً منتقم مزاج تھا جس سے کہیں نہ کہیں اس کی منگیتر بھی تنگ ائی ہوئی تھی جو ہر وقت اس پر کوئی نئی پابندی عائد کر دیا کرتا تھا۔
"آمین۔۔۔"اس نے مسکراتے ہوئے دعائیہ انداز اپنایا۔
”تم۔۔۔؟“صبح سویرے اسے گھر کے لان مین دیکھ کر شان کو جھٹکا سا لگ گیا۔
”دیکھو۔۔۔آئی ایم ویری سوری۔۔۔دراصل اس دن مجھے غُصہ آگیا تھا۔۔اور جب مجھے غُصہ آتا ہے تو میرا پارا چڑھ جاتا ہے۔۔اور جب میرا پارا چڑھ جاتا ہے تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا بول رہی ہوں۔۔۔اور جب مجھے سمجھ نہیں آتاکہ میں کیا بول رہی ہوں۔۔۔تو میں کچھ بھی بول جاتی ہوں۔۔۔اور جب میں کچھ بھی بول جاتی ہوں۔۔۔پھر کچھ بولنے کے قابل نہیں رہتی۔۔۔"اس نے جس روانی سے بات کہی تھی شان کا باقائدہ سر چکرایا تھا۔
"تم اگر تمہید باندھنے کی بجائے مدعے پر آو گی تو مجھے سمجھنے میں اسانی ہوگی۔۔" گرے جاگنگ ٹریک سوٹ میں ملبوس وہ خاصا الجھ سا گیا تھا۔
"تمہاری وجہ سے سمیرا مجھ سے ناراض ہوگئی۔۔۔ہم بچپن کی سہیلیاں ہیں۔۔۔اور زندگی میں پہلی بار اس نے مجھ سے کل سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔ میں صرف اس کی وجہ سے یہاں نہیں آئی۔۔۔ایکچوئیلی مجھے خود بھی بہت گلٹ تھا۔۔کل ساری رات میں اسی فکر سے نہیں سوئی۔۔۔اب تم جلدی سے مجھے معافی دے دو۔۔۔ پہلے ہی میں لیٹ ہوگئی ہوں۔۔۔“ اس کی زبان واقعی بے لگام تھی۔
”اٹس اوکے۔۔۔اب پلیز تم جاؤ۔۔۔“اسے ڈر تھا کہ شاہنواز نے اس لڑکی کے ساتھ دیکھ لیا تو نئی عدالت لگا کر بیٹھ جائے گا۔
”ایسے سڑئیل لُک کے ساتھ بولو گے تو مجھے تسلی نہیں ہو گی۔ سمائیل کے ساتھ بولونا۔۔۔“
”اٹس اوکے۔۔۔اب پلیز جاؤ۔۔۔“اس نے جبراً مسکان اپنے چہرے پر سجائی۔
”ہمم۔۔۔اوکے۔۔۔شکر ہے۔۔۔دراصل میرے باباجان بھی مجھے ہمیشہ کہتے ہیں کہ جو انسان دوسروں کا دل دکھا کر سکون کی نیند سو جائے۔۔۔ وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔۔۔“ وہ اپنا بیگ کندھوں پر لٹکائے چلتی بنی۔
”شازی۔۔۔“اس نے اسے پکارا تو وہ رک کر مُڑی۔
”دوسروں کا دل دکھانا تو سب کو آتا ہے۔۔۔مگر معافی مانگنا بہت کم لوگ جانتے ہیں۔۔۔اس لئے اس بار دل سے اٹس اوکے بول رہا ہوں۔۔۔“اس بات کی مسکراہٹ بھی دل سے سجائی گئی تھی۔
”خدا حافظ۔۔۔“وہ بھی مسکراتا چہرہ لئے وہاں سے چلی گئی۔
وہ یونی ورسٹی پہنچی تو مسلسل مسکرا رہی تھی۔سمیرا نے بھی اس کی مسکراہٹ پر غور کیا تھا۔اسے بے وجہ مسکرانے کی بیماری آج سے پہلے تو نہ تھی۔
”کیا ہوا ہے شازی؟ اتنا مسکرا کیوں رہی ہو؟“سمیرا یہ سوال تیسری مرتبہ پوچھ رہی تھی مگر اس کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا تھا۔ وہ دونوں اس وقت یونی ورسٹی کے لان میں موجود بینچ پر بیٹھ تھیں۔
”دوسروں کا دل دکھانا تو سب کو آتا ہے۔۔۔مگر معافی مانگنا بہت کم لوگ جانتے ہیں۔۔۔اس لئے اس بار دل سے اٹس اوکے بول رہا ہوں۔۔۔“یہ جملہ اس کے کانوں میں ابھی تک گونج رہا تھا۔
”بیہری ہو گئی ہو؟“اس نے کندھوں سے پکڑ کر شہزین کو جھنجھوڑا۔
”حد ہے یار۔۔۔کیا مسلہ ہے؟“اس کے گال اب غُصے سے سرخ ہو گئے۔
”وہی تو میں پوچھ رہی ہوں کیا مسلہ ہے۔۔۔؟“
”تمہیں پتہ ہے میں آج شان سے معافی مانگنے اس کے آفس گئی تھی۔۔۔“
”یہ تم مجھے صبح سے دس بار بتا چکی ہو۔۔۔“
”جانتی ہو۔۔۔وہ اتنا سڑئیل نہیں ہے۔۔آئی مین اس نے کتنے آرام سے میری معذرت قبول کرلی نا۔۔۔اگر کسی نے یوں میری بے عزتی کی ہوتی تو میں تو ہزار منتیں کرواتی۔۔ He is realy nice....“وہ تعریف کرتے ہوئے بھی مسکرا رہی تھی۔
”میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھاکہ کسی کو اتنی جلدی جج نہیں کرنا چاہئے۔۔۔“سمیرا نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔
”You were right...“
اگلے پلے کا اسکرپٹ شان کے سپرد کر دینے کے بعد وہ امتحانات کی تیاری میں مگن ہوگئی تھی۔آج امتحانات کو نمٹا کر وہ دوبارہ تھیٹر پہنچی تو نیا دھچکا اس کا منتظر تھا۔
"ہم یہاں کیوں آئے ہیں ملائکہ؟"شاہنواز ملائکہ کو بہت اصرار کرنے پر شان کے کام والی جگہ لایا تھا۔
"تمھیں اب مجھے یہاں لانے پر بھی اعتراض ہے؟"اس نے حسبِ عادت شکوہ کر لیا۔
"ایسی بات نہیں ہے۔۔میں شان سے مل کر آتا یوں۔۔"اسے مریم کے پاس چھوڑتا وہ دور کھڑے شان کی طرف چل دیا تھا۔
"لگتا ہے مصروف ہو؟"اسے شہزین کے ساتھ ایک سین پر تفصیلی گفتگو کرتے دیکھ کر اس نے مداخلت کی۔
"نہیں آو نا۔۔"اسے دیکھتے ہی شان گلے لگا تھا۔
"آپ مجھے نہیں جانتیں مگر میں آپ کو بہت اچھے سے جانتا ہوں۔۔شان آپ کی بہت تعریف کرتا ہے۔۔"پاس کھڑی شہزین کو اس نے خوش اخلاقی سے مخاطب کیا تھا۔
"واقعی۔۔ایکسکیوزمی۔۔"اسے اپنی تعریف سن کر خوشگوار حیرت ہوئی تو اسی اثنا میں موبائل پر سمرہ کی کال جگمگائی تھی۔
"تم بھی نا شاہ۔۔"شہزین کے جاتے ہی شان نے اسے گھورا تھا۔
"ویسے لڑکی نے تمھیں خود میں الجھا رکھا ہے پوری طرح۔۔۔تبھی تو کسی کی آمد کا احساس بھی نہیں ہوا ڈائریکٹر صاحب کو۔۔"
"ایسا نہیں ہے۔۔"اس کا چہرہ سرخ پڑا تھا۔
"بچ کر رہو بھائی۔۔"شاہنواز نے اسے محتاط کیا تھا۔
"ویسے تمھاری دوست ہے کہاں؟"ملائکہ نے مریم سے شہزین کے متعلق اچھی خاصی معلومات نکلوا لی تھیں۔آج اس کے یہاں آنے کا مقصد ہی شہزین کو پوری طرح سے جانچھنا تھا۔
"شان سر کے ساتھ ہو گی۔۔دراصل وہ دونوں کام کو لے کر بہت جنونی ہوجاتے ہیں۔۔"مریم نے اندازے سے کہا۔
"بہت کچھ سن رکھا ہے میں نے بھی اس کے بارے میں کہ کیسے وہ شان کو ٹریپ کر رہی ہے۔۔"اس کا اُگلا جانے والا زہر پاس سے گزرتی شہزین نے ملاحظہ فرمایا تھا۔
"شازی ایسی نہیں ہے میم۔۔"مریم تلملا سی گئی۔
”شان کی دولت۔۔۔اس معیار دیکھنے کے بعد تو کوئی بھی لڑکی دل ہار جائے گی۔۔۔تبھی تو کبھی اس کی گاڑی میں۔۔۔کبھی اس کے گھر پہنچ جاتی ہے تمھاری دوست۔۔۔" اسے سب معلومات تھیں۔
”کیا بکواس کررہی ہو تم؟“شہزین بھی مشطعل ہو گئی۔
”کمال ہے۔۔۔میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا۔۔۔بلکہ یہ سب تو ہم سب جانتے ہیں۔۔۔شان اپنے دوستوں سے کچھ نہیں چھپاتا۔۔“اس نے یہ بات سب لوگوں میں پھیلائی تھی۔
"شان نے بولا ہے یہ سب؟"شہزین کا چہرہ بےرنگ پڑا تھا۔
"تو اور مجھے الہام ہوا ہے؟"
”کیا ہو رہا ہے؟“اسی دم شان آیا تو سب نے چپ سادھ لی۔
”کیا ہوا ہے شازی؟“اس نے شہزین سے سوال پوچھا تو وہ بغیر کوئی جواب دیے وہاں سے دوڑ گئی۔
”شازی ہوا کیا ہے؟“وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آگیا۔
”تم نے کیا سمجھ لیا ہے شان؟میں نے تم سے لفٹ لے لی۔۔۔اس دن تمہارے گھر چلی گئی یا پھر تم سے معافی مانگ لی تو کیا سمجھ لیا تم نے؟تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہاری دولت اور معیار کی شمعاوں کے سامنے میں پروانوں کی طرح مچلنے لگ گئی ہوں؟“اس کا دل کرچی کرچی ہوا تھا۔
”میں نے ایسا کب کہا؟“وہ صدمے کی کیفیت میں جا چکا تھا۔
”کیا تمھاری دوست کو الہام ہوا ہے؟“
"میں نے یہ سب صرف شاہ کو بتایا مگر اس طرح نہیں کہ تمہارے کردار میں کوئی خرابی ہے۔۔۔“
”تم نے اسے کیا بتایا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔۔۔مگر اس نے کیا سمجھا اور باقیوں کو کیا سمجھایا میرے لئے یہ بات معنی رکھتی ہے۔۔۔“وہ سختی سے دانت پیس گئی۔
”تم میرے ساتھ چلو۔۔۔ہم ان سب کی غلط فہمی دور کردیتے ہیں۔۔۔“
”تمہارے لئے یہ باتیں بہت عام ہونگی مسٹر شان گیلانی مگر میرے لئے میری عزتِ نفس اور میرے والدین کی پرورش کسی چیز سے زیادہ اہم نہیں ہے۔۔۔اور تمہاری اس حرکت نے میری پرورش پر بھی سوال اُٹھایا ہے۔۔۔میں اب یہاں دوبارہ کبھی بھی نہیں آؤں گی۔۔۔“و ہ آنسوں سمیٹتی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
”شازی میری بات تو سنو۔۔۔“وہ وہیں کھڑے کھڑے چِلایا۔
”کیا کہا ہے تم نے شازی سے؟“اس نے واپس آکر ملائکہ سے پوچھا۔
”میں نے تو مزاق کیا تھا۔۔۔“وہ اسی دم معصوم بن گئی۔
”ایسا کیا مزاق کیا تھا تم نے کہ ایک ہنستی ہوئی لڑکی روتے ہوئے یہاں سے چلی گئی؟“اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ملائکہ کو کیا کچھ سنا دیتا۔
”مجھے لگا کہ تم دونوں کا افئیر چل رہا ہے۔۔۔“وہ گھبراتے ہوئے بولی۔
”جسٹ شٹ اپ۔۔۔“اس نے سب کے سامنے کو بےعزت کیا تھا۔
”شان۔۔۔“
”آج تمہاری وجہ سے اسے پہلی بار روتا دیکھا ہے میں نے۔۔۔تمہیں اس سے معافی مانگنی پڑے گی۔۔۔“وہ انگلی اٹھا کر اسے خبردار کر گیا۔
”نہیں مانگوں گی۔۔۔“سب کو اپنی جانب متوجہ پاکر وہ بھی سیخ پا ہوئی تھی۔
”ملائکہ تمہیں اس سے معافی مانگنی پڑے گی۔۔۔“اس مرتبہ اس کی آواز بلند ہوئی۔
”کیوں مانگے ملائکہ معافی؟ویسے اگر میں غلط ہوں تو۔۔۔اس کا دل دکھنے کی تکلیف تمہیں کیوں محسوس ہو رہی ہے؟“ملائکہ کی توہین پر وہاں آتا شاہنواز بھی ڈھیٹاہٹ سے بولا۔
”ملائکہ تم اس سے معافی مانگو گی۔۔۔“شان نے اسے صاف نظرانداز کیا تھا۔
”نہیں مانگوں گی۔۔۔"وہ بضد تھی۔
”اگر تم چاہتی ہوکہ ہماری دوستی قائم رہے تو اس سے معافی مانگ لو۔۔۔“شان نے نئی شرط رکھ دی۔
”حد ہے شان۔۔بچپن کی دوستی کو تم نے ایک دو ٹکے کی لڑکی کے لئے رسوا کردیا۔“وہ دھمکی پر ہواس باختہ ہوئی تھی۔
”اس کا نام عزت سے لو۔۔۔“وہ پھر بلند آواز میں بولا۔
”واہ۔۔۔شاباش ہے تمہیں۔۔۔چلو ملائکہ۔۔“اتنا کہتا شاہنواز ملائکہ کو لئے وہاں سے چلا گیا۔
گھر آنے کے بعد وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلی آئی۔ کہاں وہ اس شخص کو اچھا سمجھ رہی تھی اور وہ اس کے متعلق جانے کیا کیا سوچ بیٹھا تھا۔ سب کے سامنے اس کی اتنی توہین ہوئی تھی جس کا سبب وہ شان کو ٹھہرا رہی تھی۔ رات کو روتے روتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی اور صبح بھی ناشتے کے بغیر ہی وہ یونیورسٹی چلی گئی۔
”اے شازی کیا ہوا ہے یار؟“سمیرا نے غور کیا تھا کہ کلاس کے دوران بھی اس کا دھیان کہیں اور تھا۔
”کچھ نہیں ہے۔۔۔“اس نے بات ٹالی۔
”چلو آج ریسٹورانٹ چلتے ہیں۔۔۔آج میں تمہیں اپنے پیسوں سے لنچ کرواتی ہوں۔۔۔“
”میرا موڈ نہیں ہے۔۔۔“اس کا وہی بے رونق لہجہ تھا۔
”مگر میرا تو ہے نا۔۔۔چلو ناشازی۔۔۔“وہ اسے کھینچ کر لے گئی۔ وہ دونوں ریسٹورانت پہنچے۔ابھی وہ لوگ بیٹھے ہی تھے کہ شان بھی وہاں آن پہنچا اور یقیناً یہ اسی کا منصوبہ ہوگا۔
”تم نے شان کو یہاں بلایا ہے۔۔۔“اس نے سمیرا سے پوچھا۔
”نہیں میں نے سمیرا سے کہہ کر تمہیں یہاں بلوایا ہے۔۔۔“اس نے ڈھیٹاہٹ سے جواب دیا۔
”سمیرا چلو۔۔۔“وہ کھڑی ہوگئی۔
”شازی بات تو کر لو یار۔۔۔“سمیرا بیٹھے بیٹھے ہی بولی۔
”ٹھیک ہے تم ہی بیٹھو یہاں۔۔۔“وہ وہاں سے چلی گئی۔
”شازی۔۔۔“سمیرا نے کئیں آوازیں دیں مگر وہ نہ رُکی۔
”سوری شان۔۔۔وہ بہت ضدی ہے۔۔۔“
”میں بھی بات کر کے ہی رہوں گا۔۔۔“وہ بڑے بڑے قدم اُٹھاتا اس کے پیچھے چل پڑا۔
”ٹیکسی۔۔۔“وہ سڑک پر ٹیکسی روک رہی تھی۔چونکہ آج ڈرائیور چھٹی پر تھا اس لئے صبح بھی وہ سمیرا کی گاڑی پر ہی یونیورسٹی آئی تھی۔
”شازی میری بات سنو۔۔۔“وہ اس کے پیچھے آکھڑا ہوا۔
”مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی پلیز جاؤ۔۔۔“
”تمہیں بات کرنی ہوگی۔۔۔“وہ طیش میں آگیا۔
”مسٹر شان۔۔۔اب میں آپ کے لئے کام نہیں کرتی۔۔۔لہٰذہ مجھ پر رعب جھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔“اس نے مُڑ کر جواب دیا۔
”اچھا پلیز ریکویسٹ کر رہا ہوں۔۔۔“اس کی بات ابھی منہ میں ہی تھی اور شہزین چل پڑی۔
”شازی۔۔۔“وہ ابھی اس کے تعاقب میں ہی تھا۔
”فار گاڈ سیک لیوّ می۔۔۔“وہ بیچ سڑک میں پہنچ کر مُڑی۔غُصے میں اس کی سوچ مفلوج ہوجاتی تھی۔
”شازی۔۔۔“اس سے قبل وہ کچھ کہتا شہزین ٹیکسی پر سوار وہاں سے چلتی بنی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شازی میری بات سن لو پلیز۔۔"وہ یونی ورسٹی سے نکل رہی تھی جب شان اس کے راستے میں حائل ہوا تھا۔
"جلدی بولو مجھے دیر ہورہی ہے۔۔"اس نے نظریں ملانے کی زحمت اب بھی نہ کی تھی۔
”تین راتوں سے جاگ رہا ہوں کیونکہ مجھے کسی نے بولا تھا کہ جو انسان دوسروں کادل دکھا کر سکون کی نیند سو جائے۔۔۔ وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔۔۔اور اس دن کہیں نہ کہیں میری وجہ ست تمہارا دل دکھا تھا۔۔۔ تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ میں سکون سے سوجاتا۔۔۔اب پلیز بیٹھ کر میری بات سن لو۔۔۔“وہ اب بھی گزارش کررہا تھا۔
”بولو۔۔۔میں سن رہی ہوں۔۔۔“
”شازی یقین کرو۔۔۔میں نے کبھی بھی کسی سے ایسا نہیں بولا کہ تم میرا پیچھا کر رہی ہو۔۔۔شاہ کو میں نے یہ ضرور بتایا تھا کہ تم گھر آئی تھی جو کہ شائد میری بہت بڑی حماقت تھی۔۔۔ کوئی مجھے غلط سمجھے۔۔۔یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔اور میں سب اس لئے نہیں بتارہا کہ مجھے یہ خوف ہے کہ تمہاری سکرپٹ کے بغیر میرا کوئی نقصان ہوجائے گا۔۔۔یہ دیکھو۔۔۔“اس نے وہی کانٹریکٹ کا صفحہ شہزین کو دکھایا جس پر اس نے شہزین سے دستخط لئے تھے۔
”اس کانٹریکٹ کے مطابق تم میرے لئے کام کرنا چھوڑ نہیں سکتی مگر۔۔۔“اس نے کانٹریکٹ کا صفحہ پھاڑ دیا۔
”میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔۔۔تم چاہو تو جا سکتی ہو لیکن پلیز میرے لئے دل میں کوئی خلش کوئی کباہت مت رکھنا۔۔۔۔میں تمہاری بہت عزت کرتا ہوں۔۔۔“وہ اس کی سب باتیں پوری توجہ کے ساتھ سن رہی تھی۔
"ملائکہ نے تم سے جو بھی کہا وہ غلط تھا اور ان غلط باتوں کے لئے میں تم سے معافی مانگتا ہوں۔۔"اس نے آہستگی سے کہا۔
"اور کچھ؟"
”پلے میں دو ہفتے رہ گئے ہیں۔۔۔ہم لوگ پریکٹس کریں گے۔۔۔مگر جب تک خود وہاں نہیں آؤ گی۔۔۔وہ پلے پیش نہیں ہوگا۔۔۔ پھر چاہے مجھے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔۔۔“وہ بھی ضد میں شہزین سے کم نہ تھا۔
”مجھے دیر ہورہی ہے۔۔۔“وہ اتنا کہہ کر چکی گئی۔
اس بات کو دو ہفتے گزر گئے تھے مگر شہزین نہ تو پریکٹس ہال گئی نا ہی اس نے مریم سے یا شان سے کسی قسم کا کوئی رابطہ کیا۔دوسری طرف وہ بھی اپنی ضد کا پابند تھا کہ اگر شہزین نہ آئی تو پلے پیش نہیں ہوگا۔ضد کے میدان میں وہ دونوں ہی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔
”سر آپ شازی کو نہیں جانتے۔۔۔وہ اپنی ضد کی بہت پکی ہے۔۔۔جب ایک بار اس نے بول دیا کہ وہ نہیں آئے گی تو وہ نہیں آئے گی۔۔۔“مریم اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔
”وہ آئے گی۔۔۔اور یہ میرا یقین ہے۔۔۔“وہ الگ امید لگائے بیٹھا تھا۔
”اور اگر وہ نہ آئی تو۔۔۔؟“سعد نے پوچھا۔
”تو پلے پرفارم نہیں ہوگا۔۔۔“آج اسے اپنے جنون سے زیادہ اس لڑکی کی پرواہ تھی۔
”مگر سر۔۔۔“سعد ابھی بول ہی رہا تھا کہ شہزین ہال کے دروازے سے داخل ہوئی۔
”شازی۔۔۔“مریم کے لئے یہ منظر ناقابلِ یقین تھا۔
”مجھے تو لگا کہ آپ لوگ پریکٹس میں مصروف ہونگے۔۔۔مگر یہاں تو کوئی آثار نہیں دکھ رہے۔۔۔۔“آج اس کا لہجہ پہلے جیسا تروتازہ تھا۔
”بس تمہارا انتظار تھا۔۔۔“عاشر نے مسکرا کر جواب دیا۔
”چلو پھر شروع کرو۔۔۔“اس کا کہنا تھا اور سب لوگ اپنے متعلقہ کاموں میں لگ گئے۔
”تھینکس شازی۔۔۔مگر یقین مجھے بھی نہیں ہورہا کہ تم آگئی ہوں۔۔۔“شان اس کے سامنے کھڑا ہوا۔
"مجھے کسی نے کہا تھا کہ دوسروں کا دل دکھانا تو سب کو آتا ہے۔۔۔مگر معافی مانگنا بہت کم لوگ جانتے ہیں۔۔۔اس لئے اس بار میر ی طرف سے بھی دل سے اٹس اوکے۔۔۔“اس نے گال مسکراہٹ سے کھِلے ہوئے تھے۔
”بڑی نوازش آپ کی۔۔۔“وہ سر جھکائے بولا۔
شہزین کا معاملہ تو اس نے سنبھال لیا تھا مگر ملائکہ کی حالت شان کی قطع تعلقی سے غیر ہوئی جارہی تھی۔اس واقعے کے بعد شان نے ہر جگہ سے اسے بلاک کر رکھا تھا اور مکمل بات معلوم ہونے پر شاہنواز نے اسے الگ سنائی تھیں۔
"تمھیں یہ سب بہت بھاری پڑے گا مس شازی۔۔تم بس اپنی خیر مناو اب۔۔۔"
وہ سکون سے نیند کے مزوں میں مگن تھی تب ہی ماں نے آکر کمبل کھینچا۔
”ماں۔۔۔“وہ نیند میں ہی بولی۔
”اُٹھ جاؤ بیٹا۔۔۔تمہارے تایاجان آنے والے ہیں۔۔۔“
”تو کیا میں ان کے استقبال کے لئے مالا لے کر کھڑی ہوجاؤں؟“ اسے اپنی نیند توڑنا گوارا نہ تھا۔
”شازی۔۔۔آہستہ بولو۔۔۔“
”کیوں؟میں کیا ڈرتی ہوں کسی سے۔۔۔؟“وہ بیٹھ کر اپنے بالوں کو سمیٹنے لگی۔
”تم تو نہیں ڈرتی مگر تمہاری یہ بے خوفی ہمیں ڈرا دیتی ہے۔۔۔“وہ کمبل تہہ کرنے لگیں۔
”اوف اوہ ماں۔۔۔اب پلیز آپ اپنی ممتا کا لیکچر مت سنانے لگ جانا۔۔۔آئی لوّ یو۔۔۔اینڈ ڈیڈ۔۔۔باقی یہ تایا شایا۔۔۔کی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔۔۔ویسے بھی جسے انسان کو میں نے کبھی دیکھا تک نہیں۔۔ان سے ملنے کا بھی مجھے کوئی شوق نہیں۔۔“ وہ بستر سے اُتری۔
”شازی۔۔۔انہیں ہماری چاہ ہے تب ہی تو خود چل کر آ رہے ہیں۔۔۔“ شہلا بیگم نے مصلیحت پسند جواب دیا۔
”میری دور اندیشی تو کچھ اور ہی دیکھ رہی ہے ماں۔۔۔“وہ عجیب سے لہجے میں بولی۔
”کیا دیکھ رہی ہے تمہاری دوراندیشی۔۔۔۔؟“
”سیدھی بات ہے۔۔۔بائیس سال تک تو انہیں ہماری کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔۔اور اب اتنا پیار اُمڈ آیا ہے۔۔۔ڈونٹ مائیڈ پلیز۔۔۔مگر جہاں تک وہ لوگ بتاتے ہیں کہ دادجان کی حالت سیریز ہے۔۔۔ اور وہ کسی بھی لمحے۔۔۔“
”تم کہنا کیا چاہتی ہو؟“
”ان کی نظر باباجان کی جائیداد پر ہے۔۔۔جو انہیں داداجان کی وفات کے بعد ورثے میں ملے گی۔۔۔“اس نے کڑی سے کڑی ملائی۔
”بکواس بند کرو۔۔۔اور ان لوگوں کے سامنے سلیقے سے پیش آنا۔۔۔“ماں نے اسے خوب جھاڑا۔
”جو حکم سرکار۔۔۔“وہ جمائی لیتی باتھ روم میں چلی گئی۔
شام کوہی تایاجان اپنی بیگم کے ساتھ آٹپکے۔ان کے لئے شہلا بیگم نے خوب اہتمام کررکھا تھا۔ احمد خان بھی بڑے بھائی کی محبت میں مچل رہے تھے۔ اگر کوئی ناخوش تھا تو فقط شہزین۔آج پلے پیش ہونا تھا اور شہزین کو گھر پر رکنے کا حکم ملا تھا۔یہ حکم بھی ایک گھنٹہ پہلے ہی جاری کیا گیا ورنہ وہ پہلے ہی شان سے معذرت کرلیتی۔
”ہیلو۔۔۔شازی کہاں ہو؟“شان کی کال آئی۔
”پیرس میں ہوں۔۔۔ابھی ابھی سٹیچو آف لیبرٹی کے ساتھ تصویر بنائی ہے۔۔۔“اس کا انداز ایسا تھا جیسے کسی نے اسے جیل میں قید کردیا ہوں۔
”مگر سٹیچو آف لیبرٹی پیرس میں تو نہیں ہے۔۔۔“
”تو میں کہاں پیرس میں ہوں۔۔۔“
”تو تم ہوکہاں؟“اس نے ہنسی روکتے ہوئے پوچھا۔
”گھر پر ہوں۔۔۔میرے تایاجان آئے ہیں۔۔اس لئے میں نہیں آسکتی سوری۔۔۔۔“
”اوہ اٹس اوکے۔۔۔“اس نے کسی قسم کا اصرار نہ کیا۔
”اور کچھ؟“
”کچھ نہیں۔۔۔“
”تو میں فون رکھوں؟“سامنے موجود کاموں کو دیکھتے ہوئے اس کا دل ڈوبا جا رہا تھا۔
”ہاں اوکے بائے۔۔۔“اس کا دل ناجانے کیوں اس سے بات کرنے کو چاہ رہا تھا۔
”خداحافظ۔۔۔“
”خدا حافظ۔۔۔“کال کٹنے کے بعد اسے یاد آیا کہ وہ کچن میں چائے بنانے آئی تھی۔
وہ چائے لے کر ڈرائنگ روم میں پہنچی جہاں تایا جان اپنے چھوٹے بھائی کو بڑا سبق پڑھانے میں مصروف تھے۔
”دیکھو احمد۔۔۔تم نے ہمیشہ اپنی مرضی کی۔۔۔شہر اپنی مرضی سے آئے۔۔شادی اپنی مرضی سے کی۔۔اپنی پوری زندگی اپنی مرضی سے گزاری۔۔۔مگر اب تو بڑھاپا آگیا ہے۔۔۔اب یہ ضد جنون تمہیں زیب نہیں دیتا۔۔۔چلو میرے ساتھ بابا تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔۔۔آج کل میں ہی اگر ان کا انتقال ہوگیا تو کیا تم خود کو معاف کرپاؤ گے۔۔۔کہ آخری لمحوں تک تمہارا باپ تمہاری دید کو ترستا رہا۔۔۔“ان کی باتیں شہزین کو کسی فلم کا سین یاد دلا رہی تھی۔
”شہزین بیٹا۔۔۔ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔۔۔“شہزین نے شبانہ بیگم کو چائے پیش کی تو انہوں نے اسے اپنے برابر میں ہی بیٹھا لیا۔
”ٹھیک ہے بھائی صاحب۔۔۔چلوں گا میں آپ کے ساتھ۔۔۔“وہ قائل ہوگئے۔
”چلو باباجان بھی ایموشنل بلیک میل ہوگئے۔۔۔“وہ بربڑائی۔
”کیا ہوا بیٹا۔۔۔“پاس بیٹھی تائی جان نے اس کی بڑبڑاہٹ کو محوس کیا۔
”وہ مجھے نیند آرہی ہے تائی جان۔۔۔میں جاؤں۔۔؟“اس نے بناوٹی معصومیت کو اپنایا۔
”ٹھیک ہے میر ی بچی جاؤ۔۔۔“تائی جان نے اس کی پیشانی چومی۔انہیں شہزین کچھ زیادہ ہی پسند آئی تھی۔
”جی۔۔گڈ نائٹ۔۔۔“ وہ جان بچا کر چلی گئی اور اس کی اس حرکت کو صرف وہاں بیٹھی ماں نے ہی محسوس کیا تھا۔
"کب تک منہ پھلا کر رکھو گے شان؟ملائکہ کافی دیر سے اس کی منت سماجت کر رہی تھی۔
"جب تک تمھیں اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوجاتا۔"سامنے موجود گول میز پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے وہ بےرخی سے جواب دہ ہوا تھا۔
"احساس ہو تو گیا ہے۔۔تمھارے دوست نے بھی اچھی خاصی سنائی ہیں مجھے۔۔اب یہ ناراضی ختم کردو۔۔"اس نے وہاں کھانے کی ٹرے لاتے شاہنواز کو بھی گفتگو کا حصہ بنایا تھا۔
"ٹھیک کہہ رہی ہے ملائکہ۔۔بس کردو بڈی۔۔"ان دونوں کے سامنے مطلوبہ سوفٹ ڈرنکس رکھتا وہ بھی معاملہ رفع دفع کرنے کے حق میں تھا۔پچھلے چار مہینے سے شان کا رویہ ملائکہ کے ساتھ انتہائی سپاٹ اور محدود ہوکر رہ گیا تھا۔
"ویسے میں اگر تم دونوں کو ابھی ایک دھماکے دار خبر سناوں کہ مجھے درحقیقت وہ لڑکی پسند ہے تو تم دونوں کیا کروگے؟"شان نے فرائز کا دانہ چنتے ہوئے ان دونوں کے سر پر بم پھاڑا تھا۔
"افسوس۔۔۔"شاہ نواز نے سر آہ بھری تھی۔
"وہ بےسلیقہ،بدلحاظ تمھیں پسند ہے؟"ملائکہ تو جل کر کباب ہوئی تھی۔
"ملائکہ۔۔"شان نے ایک سرد گھوری سے اسے خاموش کروایا۔
"تمھیں اس میں پسند کیا آیا ہے؟"شاہ نواز بھی بوکھلایا تھا۔
"مجھے اس میں کچھ پسند نہیں آیا بلکہ وہ پسند آئی ہے۔۔" وہ اب بھی پہلے کی طرح ہی مطمعین اور پرسکون تھا۔
"فلسفے مت جھاڑو۔۔"ملائکہ اکتائی تھی۔
"وہ دل کی بہت صاف ہے۔۔سمارٹ ضرور ہے مگر مکار نہیں ہے۔۔مجھے زندگی میں پہلی بار کوئی لڑکی پسند آئی ہے اور شائد آخری بار بھی۔۔"اس نے اٹل لہجے میں انکشاف کیا تھا۔
"مگر اس میں کچھ پسند کرنے لائق ہے نہیں۔۔پھر سے سوچ لو۔۔۔"وہ کلس کر بولا تھا۔
"شاہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔"ملائکہ نے بھی اسی بات کی تائید کی تھی۔
"یہ دل کے معاملات ہیں۔۔یہاں دماغ سے کام نہیں چلتا۔۔"ان کی بھوک اڑاتا وہ خود کھانے کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ پچھلے ماہ والد محترم کی رحلت کے بعد احمد خان کا ابائی گاوں آنا جانا معمول سے زیادہ ہی بڑھ گیا تھا مگر وہ اور شہلا بیگم وفات کے موقع پر صرف ایک دن کے لئے گئی تھیں۔ اپنے والد کے یوں آئے روز گاوں جانے پر اسے بہت غُصہ آتا تھا کہ تایاجان اپنی کھچری پکانے کے لئے انہیں استعمال کررہے ہیں۔اسے پورا یقین تھا کہ یہ ملاپ کسی بڑے خطرے کی علامت ہے۔
”دیکھو نا۔۔۔میرے باباجان کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔۔۔یہ کوئی انسانیت ہوئی؟“وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے سمیرا کا دماغ کھا رہی تھی۔
”دیکھو شازی۔۔۔مجھے تنگ مت کرو یار۔۔۔مجھے یہ اکاونٹنگ سمجھ نہیں آرہی۔۔۔“وہ اپنا بال پین دانتوں کے نیچے چبانے لگی۔
”تمہارا یہ دکھڑا تو ازل سے ابد تک رہے گا۔۔۔“
”تم مجھے یہ سوال سمجھا دو نا۔۔۔“اس نے اپنی شیٹ شہزین کی طرف بڑھائی۔
”بھاڑ میں گیا سوال۔۔۔“اس نے شیٹ واپس سمیرا کی طرف پھینکی۔
”ٹھیک ہے بچُو۔۔۔“سمیرا نے شکل بنالی۔
”تم آج گھر آجانا۔۔۔تمہیں میں سب سمجھا دوں گی۔۔“وہ اسے بہلانے لگی۔
”اوکے۔۔۔“اس کا غُصے پل بھر میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔
چونکہ آج احمد خان یہاں موجود نہ تھے اس لئے اس نے اکیلے ہی گھر جانا تھا۔وہ یونیورسٹی سے نکلی تو ڈرائیور صاحب بھی موجود نہ تھے۔اس نے گھر کال ملائی تو کسی نے فون نہ اُٹھایا۔
”لفٹ چاہئے۔۔۔؟“ایک لڑکے نے اپنی گاڑی اس کے سامنے روکی۔
”جی نہیں۔۔۔“اس نے صاف انکار کیا۔
”گاڑی پسندد نہیں آئی یا پھرمیں؟“وہ اب بھی اپنی گاڑی سے اس کا تعاقب کررہا تھا۔
”دیکھو مسٹر۔۔۔"اس نے تقریباً آستین چڑھائی تھی۔
"سب ٹھیک ہے شازی؟اور تم اکیلی کیا کر رہی ہو ادھر؟"اسی دوران شان کی گاڑی وہاں اکر رکی تھی۔
"ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی۔۔"شان کو دیکھتے ہی وہ لڑکا اڑن چھو ہوا تو شہزین بھی اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
"تو انتظار یونیورسٹی کی حدود میں رہ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔۔بیٹھو اب گاڑی میں۔۔"شان نے اسے جھڑکتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔
"تم نے مجھے کس خوشی میں ڈانٹا تھا ابھی؟"اسے بےسبب ڈانٹ کھٹکی تھی۔
"خوشی میں نہیں غصے میں ڈانٹا جاتا ہے محترمہ۔۔آج کل شہر کے حالات تمھارے سامنے ہیں پھر بھی تم لاپروائی کا مظاہرہ کرتی ہو۔۔"اس نے مسکرا کر شکوہ دور کیا تھا۔
"مجھے اپنا تحفظ کرنا آتا ہے۔۔"
"جانتا ہوں مگر تم پر کسی کی بری نظر مجھ سے برداشت نہیں ہوتی اس لئے سوچ رہا ہوں کہ مستقل طور پر تمھارے تحفظ کے سب حقوق اپنے نام کروالوں۔۔"وہ سیدھا مطلب کی بات آیا تھا۔
"شان تم؟"وہ بھونچکا کر رہ گئی۔
"مس شازی خان۔۔۔وِل یو میری می؟"اس نے جیکٹ کی جیب سے انگوٹھی کی ڈبیا نکالتے ہوئے پوچھا جبکہ دوسرا ہاتھ ابھی بھی سٹئیرنگ ویل پر تھا۔
"تم مجھے چلتی گاڑی میں پرپور کررہے ہو؟"وہ توقف سے سوال گوہ ہوئی۔
"لو اب روک دی گاڑی۔۔"اس نے گاڑی سڑک کے کنارے روکی تھی۔
"شان مجھے تم سے ڈر لگ رہا ہے۔۔"پچھلے چھ مہینوں میں آج پہلی بار اسے شان گیلانی کی نگاہوان سے خوف آیا تھا۔
"اور مجھے تمھاری یہ گھبراہٹ خائف کر رہی ہے شازی۔۔" وہ بھی خائف ہوا تھا۔
"مجھے یہیں اتار دو۔۔"اس نے گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو گاڑی لاکڈ تھی۔
"بیچ راستے پر چھوڑے والے کم ظرف ہوتے ہیں میڈم۔۔آپ کو آپ کی منزل پر پہنچانے کے بعد ہی گاڑی رکے گی۔۔"انگوٹھی کی ڈبی واپس جیکٹ میں رکھتے ہوئے اسنے بحث وہیں ترک کردی تھی۔گاڑی دوبارہ چلی تو پورے راستے خاموشی کا راج رہا۔
"مجھے تمھارے جواب کا انتظار رہے گا تب تک دعا کروں گا کہ تمھارا فیصلہ میرے حق میں ہو۔۔"اسے گھر کے باہر اتارتے ہوئے وہ آخری فریاد کرتا گاڑی دوڑاتا وہاں سے چلا گیا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"بچوں جیسی باتیں مت کرو ملائکہ۔۔شاہنواز سے تمھارا تعلق جوڑنے والے تمھارے داداجان تھے۔۔"بیٹی کی بات سنتے ہی عالیہ بیگم کا سر گھوما تھا۔
"تو اب تو وہ نہیں ہیں نا پھر میں یہ گلے میں پڑا ڈھول کیوں بجاوں؟"وہ اسی طرح بدلحاظ بنی تھی۔
"تمھاری آنکھوں میں جو بغاوت ہے اس کی وجہ شان تو نہیں ہے۔۔"وہ بیٹی کے اصل مرض کو بھانپ گئی تھیں جس کا رجحان بچپن سے شاہنواز کی بجائے شان کی طرف زیادہ تھا۔
"ہاں وہ ہی ہے وجہ۔۔ماما مجھے شان پسند ہے۔۔آج سے نہیں بچپن سے۔۔"اس نے اواز دھیمی کی تھی۔
"تمھیں لگتا ہے کہ تم اس کے دل عزیز دوست کو دھتکار دو گی تو وہ ہنستے ہنستے تمھیں قبول کرلے گا؟"انھیں ملائکہ کی سوچ پر ہنسی بھی آئی تھی جو شان اور شاہنواز کی دوستی کی گہرائی سے ناواقف دکھائی دے رہی تھی۔
"میں اپنا راستہ خود ڈھونڈھ لوں گی فی الحال آپ میرے گلے میں پڑے اس ڈھول سے میری جان چھڑوائیں پلیز۔۔"شاہ نواز کی گاڑی کا ہارن بجا تو وہ جان بچاتی کمرے میں جا گھنسی تھی۔
"السلام علیکم آنٹی۔۔"ملائکہ کے منظر سے غائب ہوتے ساتھ وہاں شاہ نواز کی آمد ہوئی تھی۔
"وعلیکم السلام کیسے ہو بچے؟"عالیہ بیگم بہت انسیت سے اسے ملی تھیں۔
"الحمدللہ۔۔ملائکہ گھر پر ہے؟"اسنے ہاتھ میں موجود کچھ تحائف میز پر رکھے تھے۔
"ہاں ہے تو میں بلاتی ہوں اسے۔۔"
"نہیں اسے ڈسٹرب نہ کریں۔۔یہ مام نے کچھ تحفے بھیجے تھے اس کے لئے۔"اس نے کھڑے کھڑے ہی جواب دیا۔
"تم بیٹھو نا میں اسے بلاتی ہوں۔۔"وہ اصرار کرنے لگیں۔
"آنٹی ایک اہم میٹنگ ہے ورنہ ضرور رکتا۔۔"سوٹڈ بوٹڈ وہ کسی اہم میٹنگ کے لئے تیار دکھائی دے رہا تھا۔
"جیتے رہو۔۔"اس کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے ساس نے الوداع کیا تھا۔
"یہ لڑکی ہیرا چھوڑ کر کوئلے سے مقدر کالے کرنے پر تلی ہے۔۔اللہ ہی اسے ہدایت دے اب۔۔"شاہ نواز کے مقابلے شان انھیں بالکل بیکار اور کم حیثیت انسان لگتا تھا جس کی سب سے بڑی وجہ اس کا سٹیج ڈراموں کی دنیا سے وابستہ ہونا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"باباجان آپ کب آئے؟"باپ کو دیکھتے ہی وہ ان کے سینے سے جا لگی تھی۔
"کل رات۔۔"اس کے سر پر بوسہ دیتے وہ اسے اپنے پہلو میں بیٹھا گئے تھے۔
"مجھے جگایا کیوں نہیں آپ نے ماں؟"اس نے فوری ماں سے شکوہ کیا۔
"کیونکہ تم گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔۔"شام کی چائے میز پر سجاتی وہ ٹوک لگا گئی تھیں۔
"بہت خوش لگ رہے ہیں۔۔"اسے باپ کی آنکھوں میں الگ ہی چمک دکھائی دے رہی تھی۔
"خوشی کی بات تو ہے۔۔میں نے ایک ایسا حل ڈھونڈھا ہے جس سے ہم تینوں کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے۔" وہ بھائی کے پڑھائے گئے اسباق دہرانے لگے تھے۔
"کیسا حل؟"
"بلال کے لئے ہاں کہہ دی ہے میں نے۔۔"ان کا انکشاف ان دونوں ماں بیٹی کو چونکنے پر مجبور کر گیا۔
"بلال؟"وہ کچھ فاصلے پر ہوتے ہوئے معتجب نگاہوں سے باپ کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"تمھارا تایاذاد ہے۔۔باباجان کی ساری زمینوں کے معاملات اکیلے سنبھال رہا ہے بہت ہی قابل بچہ پے۔۔تمھاری ڈگری مکمل ہوتے ہی ہم باباجان کی حویلی چلے جائیں گے۔۔"وہ گویا فیصلہ مسلط کر رہے تھے۔
"گاوں؟"شہزین کو باپ کی سوچ پر افسوس ہوا تھا۔
"شہر والی ہر آسائش ہے وہاں بیٹے اور بھائی صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر تمھیں گاوں آنے پر اعتراض ہے تو وہ سب شہر آجائیں گے۔۔اپنے ہیں اپنوں کو سمجھتے ہیں۔۔"
"جب اپنے اتنے مہربان ہو تو دال میں کچھ کالا ضرور ہوتا ہے باباجان۔۔"وہ طنزیہ انداز اختیار کرتی صوفے سے اٹھی تھی۔
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کہ میری زندگی ہے اور اس کا فیصلہ میں خود کروں گی جیسے آپ دونوں نے کیا تھا۔"اس نے ہمیشہ یہی سوچا تھا کہ والدین کو ہی اپنی زندگی کے سب سے بڑے فیصلے کا حتمی اختیار سونپے گی مگر آج والد محترم کو بھائی کی محبت میں اندھا ہوتا دیکھ کر اس نے اسی دم فیصلہ بدلا تھا۔
"میں زبان دے چکا ہوں بچے۔۔"وہ تحکم ہوئے تھے۔
"تو آپ کو مجھ سے پوچھنا چاہئے تھا باباجان۔۔"وہ بھی تلخی اختیار کرگئی۔
"شازی۔۔"شہلا بیگم نے اسے خاموش رہنے ہا اشارہ کیا۔
"سوری ماں لیکن خود آپ دونوں جس دیہاتی زندگی سے بھاگتے چلے آئے ہیں مجھے اسی دلدل میں ہنسی خوشی دھکیل رہے ہیں؟"یہ انوکھی منطق کسی صورت ہضم ہونے والی نہیں تھی۔
"ہم تو بس تمھارا مستقبل محفوظ کرنا چاہتے ہیں بچے۔۔" احمد خان تھوڑے شرمندہ ہوئے تھے۔
"اگر مستقبل میرا ہے تو فیصلہ بھی میرا ہی ہونا چاہئے بابا جان۔۔اور میرا فیصلہ ہے ناں۔۔"حتمی فیصلہ سناتی وہ کمرے کی راہ پکڑ گئی تھی۔
"احمد آپ دکھی مت ہوں یہ بس اوور ری ایکٹ کر رہی ہے۔" خود شہلا بیگم اس رشتے کے سخت خلاف تھیں مگر شہزین کی باپ سے بدتمیزی پر انھیں دلی افسوس ہوا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"بہت اچھا کیا تم نے شازی۔۔یہ ماں باپ تو پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں خود کو۔۔"تمام روداد سننے کے بعد عاشر نے اسے مزید شہ دی تھی۔
"لیکن میں نے زیادہ ہی بدتمیزی کر دی شائد۔۔"اسے حسب عادت دیر سے احساس ہوا تھا۔
"کچھ غلط نہیں کیا تم نے سویٹ ہارٹ تمھارے لئے وہی دیہاتی اور کھیتی باڑی والا نمونہ ہی رہ گیا ہے کیا۔۔اس سے بہت اچھا لڑکا ملے گا میری دوست کو۔"عاشر نے اسے مزید گھمنڈی کرنے میں کوئی کثر باقی نہ چھوڑی تھی۔
"آمین۔۔"اس نے بھی دعا پر آمین کہا تھا۔
"اسے کیا تکلیف ہے۔۔"اسی دم موبائل پر شان کا نمبر جگمگایا تھا۔
"کون ہے؟"
"مسٹر کھڑوس ہے۔۔تم سے کل بات کرتی ہوں۔"اس نے عاشر کو ٹالتے ہوئے کہا۔
"اچھا سنو وہ اس سنڈے میرے ایک دوست کی طرف چلتے ہیں نا۔۔شان وغیرہ بھی آئیں گے ادھر۔۔۔"اس نے فوراً پیشکش کی۔
"گھر کیا بولوں گی میں عاشر؟"آج احمد صاحب سے معاملات بگاڑنے کے بعد اسے گھر سے نکلنا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔
"سمیرا کا نام لگا دینا جیسے ہمیشہ لگاتی ہو۔"
"ٹھیک ہے۔۔"اس نے حامی بھرتے ساتھ جیسے ہی کال کاٹی دوبارہ شان کا نمبر اسکرین کی زینت جا بنا تھا۔
"ہیلو۔۔"
"میرے علاوہ کس میں اتنی جرات ہے جو رات کے اس پہر تمھیں کال کرے۔"شان نے حق جتانے والے انداز میں سوال کیا۔
"تم سے بہت بہادر بہادر انسان موجود ہیں میری زندگی میں۔۔"اس نے بھی بیڈ سے ٹیک لگائے نئی بحث چھیڑ دی تھی۔
"مگر تم سے محبت کرنے کی جرات صرف شان گیلانی نے کی ہے محترمہ۔۔"
"شان مجھے تم پسند نہیں ہو۔۔"اس نے بلاجھجھک انکار کیا تھا۔
"کیوں؟"
"کیونکہ مجھے ابھی شادی یا محبت میں کوئی دلچسبی نہیں ہے۔۔"
"تو منگنی کرلیتے ہیں۔۔"وہ حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے بولا۔
"ویری فنی۔۔"
"شازی مجھے تم پسند ہو اور میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں افئیرز میں وقت برباد کرنا بےوقوفی لگتی ہے۔۔میری فیملی میری شادی کے پیچھے پڑی ہے اور میں تمھارا مقام کسی کو دینے کے حق میں نہیں ہوں۔۔سنجیدگی سے سوچو تو۔۔"وہ بھی خاصا سنجیدہ ہوا تھا۔
"تم کال بند کرو تاکہ میں سوچ سکوں۔۔"اس نے جان چھڑوانے کے لئے مہلت مانگ لی۔
"ضرور لیکن جواب میرا دل توڑنے والا نہ ہو۔"کال بند کرتے ہوئے بھی وہ حکم جھاڑنے سے باز نہ ایا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شان۔۔تمھارا دماغ ٹھیک ہے؟تم نے آنٹی سے اس لڑکی کا ذکر تک کردیا؟"شاہنواز کو جیسے ہی صبح شان کی والدہ صاحبہ نے کال کرکے بیٹے کی پسند کے متعلق بتاتے ہوئے سوال کئے تھے تب سے وہ بھرا ہوا بیٹھا تھا۔
"کیا برائی ہے اس میں؟"وہ اب بھی مطمعین بیٹھا لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلا رہا تھا۔
"کیا اچھائی ہے اس میں؟"اسے آنٹی کے یہاں آنے کا سن کر ہی خفگی لاحق ہوگئی تھی کیونکہ جتنا وہ شان کی شادی کو لے کر سنجیدہ تھیں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہونے میں ایک لمحہ نہ لگنا تھا۔
"مجھے وہ پسند ہے شاہ اور جب رشتہ جوڑنا ہے تو مام کو تو سب بتانا پڑے گا نا۔۔۔"اسنے تنگ اکر لیپ ٹاپ بند کیا تھا۔
"پچھتاو گے بھائی۔۔تم جتنے سلجھے ہوئے اور شریف ہو وہ اتنی ہی بگڑی ہوئی کھر دماغ ہے۔۔"
"تمھارے اور ملائکہ کے مزاج میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔۔"اس نے اسی دم موازنہ کیا تھا۔
"مگر ملائکہ اپنی حدود جانتی ہے۔۔تم اس کا مواذنہ اپنی چہیتی سے نہ ہی کرو تو بہتر ہے۔۔"اس موازنے پر وہ آگ بگولہ ہوجایا کرتا تھا۔
"یہ تم نہیں تمھاری محبت بول رہی ہے۔"شان نے اس کی حساسیت پر طعنہ کسا۔
"تو مان لو کہ محبت کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔۔وہ لڑکی تمھارے خاندان کے ساتھ گزارا نہیں کرسکتی۔۔"اسے اندازہ تھا کہ شان کے گھر کا ماحول اس کی پسندیدہ دوشیزہ کے مزاج سے بالکل نہیں ملتا۔
"مجھے وہ پسند ہے شاہ اور میں اسے اپنے ماحول کے مطابق ڈھال لوں گا۔"وہ کچھ بھی سننے کے حق میں نہ تھا۔
اس دن کی تلخ کلامی کے بعد شہزین نے خود کو کمرے تک ہی محدود کرلیا تھا۔اب یہ ناراضی تھی بدتمیزی کرنے پر شرمندگی خود وہ بھی نہیں جانتی تھی۔آج تنگ آکر آحمد خان ہی اولاد کے سامنے ہار مان گئے تھے۔
"میرا بچہ ابھی تک ناراض ہے باباجان سے؟"اس کے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ وہ سوال گوہ ہوئے۔
"جی۔۔"اپنا یونی ورسٹی کا بستہ تیار کرتی وہ بے دھیانی سے جوابدہ ہوئی۔
"تو کیسے معافی ملے گی باباجان کو؟"اسے کندھوں سے تھامے احمد خان نے اپنے سامنے کھڑا کیا۔
"باباجان۔۔"
"دیکھو شازی۔۔تم میری اکلوتی اولاد ہو شائد اسی لئے میں خودغرض ہوگیا تھا مگر میری نیت غلط نہیں تھی بچے۔۔" اس کا سرد رویہ انھیں دکھی کر گیا۔
"اٹس اوکے باباجان۔۔۔میں بھی بہت تلخ ہوگئی تھی اس وقت۔۔ سوری۔۔"اس نے بھی بلاجھجھک معافی مانگ لی۔
"میں نے بھائی صاحب کو انکار کردیا ہے۔۔تم بس اپنی تعلیم پر دھیان دو اب۔۔"
"جی۔۔"
"میرا بھولا بچہ۔۔چلو اب ناشتہ کرلو۔۔"اسکے گال تھپتھاتے وہ اپنے حصار میں لئے اسے ناشتے کے میز تک لے کر گئے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم اتنے الجھے الجھے کیوں ہو؟"شاہنواز ویڈیو کال پر برا سا منہ بنا کر بیٹھا تھا۔
"شان کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔"
"کیا مطلب؟"ملائکہ بھی متجسس ہوئی۔
"اس نے انٹی کو یہاں بلا لیا ہے تاکہ وہ اس مس رائٹر کے گھر رشتہ لے کر جائیں۔۔"اس کا انکشاف ملائکہ کے لئے خطرے کی ڈھیروں گھنٹیاں بجاگیا۔
"وہ۔۔حد درجے کی بدتمیز اور بدلحاظ مخلوق ہے وہ۔۔شان کو کیا اچھا لگ گیا اس میں؟"شہزین تو اسے اپنی اولین دشمن لگنے لگی تھی۔
"ایسی لڑکیوں کو شریف ذادے ڈھیر کرنا بہت اچھے سے آتا ہے۔۔پتہ نہیں کیا خاندان ہے اس کا کس معیار کے لوگ ہیں بس شان تو اس کا دیوانہ ہوا پھر رہا ہے۔۔"وہ بھی طیش میں ہوش کھو دینے کے قریب تھا۔
"تم نے سمجھایا نہیں اسے؟"
"محبت کا بھوت چڑھا ہے موصوف کے سر۔۔"وہ سانس کھینچتے ہوئے بولا۔
"شان اتنا بیوقوف لگتا نہیں ہے۔۔"
"وہ اسے بیوقوف بنا رہی ہے۔۔"اسے شہزین موقع پرست لڑکی سے زیادہ کچھ نہ لگتی تھی۔
وہ عاشر کی بتائی جگہ پہچا تو اسے معاملات پیچیدہ لگے تھے۔اول تو یہ جگہ شہر سے دور تھی دوم گانے اتنی اونچی اواز میں بج رہے تھے جیسے کوئی ڈانس کلب کھلا ہو۔وہ اللہ اللہ کرتے اندر پہنچا تو ڈسکو لائٹس کی جلتی بجھتی روشنی میں اسے بہت سے نوجوان ناچنے کے ساتھ ساتھ سگریٹ اور شراب پیتے نظر آئے تھے۔
"ویلکم باس۔۔"اسے دیکھتے ہی عاشر اس سے گلے ملا تھا۔
"یہ کیسی عجیب جگہ ہے عاشر۔۔!"شان کو اس ماحول سے گھن آئی تھی۔
"کم آن باس آپ بچے تھوڑی ہیں۔۔"
"شازی چلو یہاں سے۔۔"اسی دوران شہزین کو وہاں دیکھتے ہی اس نے شہزین کا ہاتھ تھاما تھا۔
"شازی میرے ساتھ آئی ہے باس۔۔"
"لیکن اب میرے ساتھ جائے گی۔۔چلو یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے۔۔"اسے بازو سے کھینچتا وہ باہر لے گیا تھا۔
وہ اور ملائکہ شان کے اصرار پر وہاں آئے تھے مگر اس جگہ کو دیکھتے ہی شاہنواز کا پارا چڑھا تھا۔
"تم اندر مت جانا میں آتا ہوں۔۔"ملائکہ کو گاڑی میں بیٹھنے کی ہدایت دیتا وہ کال ملانے گاڑی سے اترا تھا۔
"ہمم۔۔"بظاہر تو وہ ہاں کر گئی مگر اندر جانے کے اشتیاق نے اسے زیادہ دیر گاڑی میں نہ بیٹھنے دیا۔
"کیا ہوگیا ہے شان میں یہاں پہلی بار نہیں آئی۔۔"اسے گاڑی میں بیٹھاتا شان گاڑی فارم ہاوس کی حدود سے باہر لے آیا تھا۔
"مگر آخری بار ضرور آئی ہو۔۔آئندہ میں تم اس جگہ نہ دیکھوں۔۔"اس نے گاڑی کی رفتار بڑھائی تھی۔
"لو بھئی۔۔"وہ چاہ کر بھی کچھ کہہ نہ سکی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"یہ کیسی عجیب جگہ لے آیا ہے شاہنواز مجھے!"اندر آتے ہی ملائکہ کے بھی رنگ اڑے تھے۔
"ہیلو سویٹ ہارٹ۔۔"کسی آدمی نے اسے واپس جاتا دیکھ کر راستہ روکا تھا۔
"ایکسکیوزمی۔۔"
"اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔رک جاو کچھ دیر۔۔"وہ اگلے ہی لمحے بدتمیزی پر اتر آیا۔
"ہاتھ چھوڑ اس کا ذلیل انسان۔۔"وہاں آتے شاہنواز نے منگیتر کا ہاتھ زبردستی پکڑنے والے انسان پر دھاوا بول دیا تھا۔یہاں وہ ہاتھ صاف کررہا تھا تو وہاں شان شہزین کو اچھی خاصی سنائے جارہا تھا۔
"وہ جگہ اس لائق تھی کہ شریف گھروں کے بچے وہاں آکر وقت گزارے؟"پورے راستے وہ اسے ڈانٹ دانٹ کر اکتانے پر مجبور کرگیا تھا۔
"شان میں عاشر کے ساتھ بہت دفعہ گئی ہوں وہاں۔۔"اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا تھا۔
"نہیں جانا چاہئے تھا تمھیں۔۔غلاظت کا اڈہ ہے وہ۔۔"اسے گھر کے باہر اتارتے وہ خفا خفا ہی وہاں سے چلا گیا تھا۔
"اریسٹ کرو ان سب کو۔۔"شاہنواز کی مخبری پر پولیس وہاں پہنچی تھی۔
"ذلیل انسان میں زندہ نہیں چھوڑوں گا تجھے۔۔"دوسرے ادمی نے شاہنواز کو ڈھیروں دھمکیوں سے نوازہ تھا۔
"لے کر چلو ان سب کو۔۔"پولیس ان سب کو گرفتار کرنے کے بعد فارم ہاوس سیل کر گئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"استغفار آج کل کے بچے بھی نا۔۔شکر مناو بیگم اللہ نے ہمیں "نیک اور صالح اولاد دی ہے۔۔"صبح فارم ہاوس پر چھاپے کی خبر کو شہہ سرخیوں میں دیکھتے ہی اس کے اعصاب لرزے تھے۔
"واقعی۔۔اللہ ہی ہدایت دے آج کل کے بچوں کو۔۔"انھیں کیا معلوم تھا کہ خوش قسمتی سے ان کی بیٹی بچ گئی تھی ورنہ اس کی گزشتہ شب بھی سلاخوں کے پیچھے گزرتی۔
"بال بال بچ گئے شہزین احمد خان۔۔مگر عاشر وہ بیچارا تو گرفتار پڑا ہوگا۔۔"دل ہی دل میں اس نے رب کے حضور شکر ادا کیا تھا کہ اچانک عاشر کی فکر ستانے لگی جس کی ضمانت کروانے کے لئے یہاں کوئی موجود نہ تھا۔پورا خاندان کراچی بیٹھا تھا اور اگر کسی کو اس کے گرفتار ہونے کی بھنک لگ بھی جاتی تب بھی کوئی اس حرکت پر اس سے کوئی رعایت نہ کرتا۔
"کہاں ہو؟"وہ تھیٹر سے نکلا ہی تھا کہ شہزین کی کال اگئی۔
"کام پر کیوں؟"اس نے سرسری انداز میں کہا۔
"میرے ساتھ پولیس اسٹیشن چلو گے؟"
"کیوں؟"اسے دھچکا لگا۔
"عاشر کی ضمانت کروانی ہے شان۔۔"وہ فکرمند تھی۔
"تمھیں اندازہ بھی ہے کہ وہ کتنا گھٹیا انسان ہے۔۔یہ جانتے ہوئے کہ اس کا دوست منشیات اسمگل کرتا ہے وہ تمھیں اس دو نمبر انسان کے فارم ہاوس لے کرگیا تھا۔۔"وہ شدید طیش میں تھا۔
"شان ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔عاشر کو میں بچپن سے جانتی ہوں وہ من موجی سا ہے لیکن میرے حق میں کبھی غلط نہیں سوچ سکتا۔۔"اس نے اب بھی عاشر کی ہی طرف داری کی تھی۔
"تم پولیس اسٹیشن نہیں جاوگی شازی۔۔"
"میں نے تم سے اجازت لینے کے لئے کال نہیں کی۔۔تم چل سکتے ہو تو بتاو۔۔"اسے پابندیوں سے سخت چڑھ تھی۔
"میں اس کی ضمانت کروادوں گا لیکن تم آئندہ اس سے نہیں ملوگی۔۔"اسنے شرط سناتے ساتھ ہی کال کاٹ دی تھی
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تھینکس باس۔۔"عاشر کو تو وہ انسان کسی فرشتے سے کم نہ لگا تھا۔
"تم ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو عاشر۔۔افسوس کا مقام ہے۔۔"پولیس اسٹیشن سے نکلتے ہوئے شان افسردگی سے بولا۔
"باس مجھے خود کہاں اندازہ تھا کہ معاملات اتنے بگڑ جائیں گے۔۔"
"جو بھی ہو آئندہ محتاط رہنا۔۔"اسے ہدایت دیتا وہ اپنی گاڑی کی طرف چلا تھا۔
"جی۔۔شازی ٹھیک ہے؟"اس نے اسی دم شہزین کے متعلق پوچھا۔
"ہاں لیکن آئندہ وہ تمھارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔"
"انکل کو تو پتہ نہیں چل گیا؟"اسے نیا خطرہ لاحق ہوا۔
"انکل کو پتہ نہ چلے اسی لئے شازی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔" خود سے کہانی جوڑتا وہ گاڑی بھگاتا نو دو گیارہ ہوا تھا جبکہ عاشر نے پرسکون ہوتے ہوئے انگڑائی لی تھی۔
"ہاں شازی۔۔"اسی دوران شہزین کی کال آئی تھی۔
"تم ٹھیک ہو عاشر؟"
"شان سر نے ضمانت کروادی ہے میر۔۔۔شازی میں بہت شرمندہ ہوں تم سے۔۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اسجد اتنا کمینہ انسان ہے۔۔"وہ ندامت سے چور لہجے میں بولا۔
"مگر کمپلین کی کس نے؟"
"مجھے نہیں پتہ پر شکر ہے تم بچ گئی ہو۔۔تم پر کوئی بھی بات آتی تو میں خود کو کبھی معاف نہ کرتا۔۔"اسے اس بات کی دلی خوشی تھی کہ شان وقت رہتے اسے وہاں سے لے گیا تھا۔
"تم گھر جاکر آرام کرو۔۔میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔" اسے غصہ تو بہت تھا مگر یہ وقت مناسب نہ لگا۔
"تھینکس شازی۔۔"
"تم بچپن کے دوست ہو عاشر شکریہ کہہ کر شرمندہ مت کرو۔۔"
"لیکن خدا کی قسم جس کسی نے مخبری کی تھی اسے عاشر مجتبی نہیں بخشے گا۔۔"اسنے خود سے ہہ عہد کیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم نے کال کی تھی شاہ۔۔یہ جانتے ہوئے کہ وہاں شازی بھی موجود تھی۔۔"شان کو تو سامنے کھڑے دوست کی سنگدلی پر صدمہ پہنچا تھا۔
"تو وہ آسمان سے اتری ہے؟اس کے والدین کو بھی پتہ چلنا چاہئے کہ بیٹی کیا گل کھلاتی پھر رہی ہے۔"اس کا وہی زہر کند انداز تھا۔
"اس کی عزت داو پر لگاتے ہوئے تمھیں ایک لمحے کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ تمھارے جگری دوست کی محبت ہے۔"
"اس جیس لڑکیاں نہ تو کسی کی عزت بننے لائق ہیں اور نہ ہی محبت۔۔"وہ ہمیشہ کی طرح زہر اگلنے لگا۔
"بس شاہ بس۔۔"
"تم اس کے لئے مجھ سے تلخ ہو رہے ہو شان؟"وہ شان کے سخت لہجے پر مزید برہم ہوا تھا۔
"تم نے بہت مایوس کیا ہے مجھے۔۔مجھ سے بات مت کرنا۔۔" شان مزید بحث میں پڑ کر بات کو بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔
"بھاڑ میں جاو تم بھی اور تمھاری نام نہاد محبت بھی۔۔"
"کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو؟"تھیٹر ہال میں قدم رکھتی ملائکہ انہیں یوں الجھتا دیکھ کر ہکی بکی رہ گئی تھی۔ان دونوں کا اتفاق تو ہمیشہ سگے بھائیوں جیسا رہا تھا۔
"اس سے پوچھو اس سڑک چھاپ لڑکی کے پیچھے۔۔"
"شاہ نواز ایک لفظ اور تم نے میری محبت کے متعلق کہا تو میں بچپن کی دوستی کا بھی لحاظ نہیں کروں گا۔"وہ بھی آپے سے باہر ہوا تھا۔
"شاہنواز تم ہی ریلیکس ہوجاو۔۔"اسنے تنگ آکر شاہنواز کی منت کی۔
"یاد رکھنا یہ بےعزتی بھولنے والا نہیں ہوں میں۔۔"جاتے جاتے وہ شان کو دھمکی دے کر گیا تھا۔
"شان۔۔"
"جاو ملائکہ تمھارا منگیتر برا مان جائے گا۔۔"اس نے ملائکہ کی بھی کوئی بات سننے سے انکار کیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تجھے کیا لگا کہ تو بل میں چھپ کر بیٹھ جائے گا۔۔"عاشر کو اسجد کے ملازم گھر سے اٹھا کر اس کے اڈے پر لائے تھے۔
"اسجد بھائی میں نے کیا کیا ہے؟"اسے یہ جارحانہ رویہ سمجھ نہ آیا تھا۔
"تیری وجہ سے میرا لاکھوں کا نقصان ہوا ہے جسے تو ہی اب پورا کرے گا۔"اسجد نے ریوالور اسکے سر پر رکھی تھی۔
"میں نے کیا کردیا۔۔"وہ خوف سے کپکپانے لگا۔
"جو چار لوگ تو میرے فارم ہاوس لے کر آیا تھا ان میں سے ہی ایک نے پولیس کو مخبری کی تھی۔۔"
"کس نے؟"وہ حیرانی سے پوچھنے لگا۔
"تیرے اس ڈائریکٹر کے دوست ملک شاہنواز نے۔۔"اسجد نے پولیس رپورٹ اسکے منہ پر ماری تھی۔
"شاہ نواز شان سر کا دوست۔۔"وہ تو خود بےیقین تھا۔
"وہ جو کوئی بھی ہو۔۔میرا لاکھوں کا نقصان اب تو ہی مجھے اس سے وصول کروا کردےگا نہیں تو تیری لاش میرے کتے کھائیں گے۔۔"اسجد نے اس کا گریبان کھینچ کر دھمکی دی۔
"میں میں آپ کا نقصان پورا کردوں گا اسجد بھائی۔۔"عاشر کو وہ انسان مالک الموت سے کم نہ لگا تھا۔
"ایک مہینے کا وقت دے رہا ہوں تجھے میرا نقصان پورا نہ ہوا تو تیرے دن پورے کردوں گا اس دنیا میں۔۔"اسجد نے اسے دور فرش پر پٹکا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"پریشان لگ رہی ہو؟"وہ سٹیج کے ایک کونے پر ٹانگین نیچے لٹکائے گم صم بیٹھی تھی۔
"نہیں۔۔"
"تمھاری پریشانی کی سب سے بڑی علامت ہی تمھارا یہ اکتایا ہوا لہجہ ہے۔۔"اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے وہ بات کو طول دینے لگا۔
"میں نے واقعی اس جگہ جاکر ہمیشہ غلط کیا۔۔اس رات تم نہ آتے تو پتہ نہیں میرا کیا انجام ہوتا۔۔"اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔
"پھر میں یہ مان لوں کہ تم مجھے اپنا محافظ بنانے کو تیار ہو؟"شان نے فورا اپنے مطلب کی بات چھیڑی۔
"کس خوشی میں؟"
"شازی تم کبھی کبھی بہت ناشکری ہو جاتی ہو اور بےمروت بھی۔۔"شان نے مصنوعی خفگی کا مظاہرہ کیا۔
"میں ایسی ہی ہوں اور مرتے دم تک ایسی ہی رہو گی۔"اسی دوران سعد دوڑتا ہوا وہاں پہنچا
"شان سر جلدی چلیں وہ عاشر اور آپ کے دوست میں سخت جھڑپ ہوگئی ہے۔"اس کی شرٹ کا پھٹا کالر گواہ تھا کہ لڑائی رکواتے ہوئے اسے بھی دو چار مکے لگے ہونگے۔
"شاہ۔۔"وہ دونوں لان میں پہنچے تو عاشر اور شاہنواز گتھم گتھا دکھائی دیے تھے۔
"کیا کر رہے ہو دونوں بس کردو۔۔"شان نے بمشکل اپنے دوست کو قابو کیا تو دو لڑکوں نے عاشر کو پکڑا تھا۔
"عاشر۔۔"شہزین اسے سمجھانے پاس آئی تھی۔
"ذلیل انسان تجھے بخشوں گا نہیں میں یاد رکھنا۔۔"وہ اب بھی چیخے جارہا تھا۔
"ہوا کیا ہے؟"شہزین بھی تزبذب میں مبتلا ہوئی۔
"اس رات پولیس کو اس خبیث نے کال کی تھی شازی۔۔" عاشر کے دھاڑتے ہی شان بھی شہزین سے نظریں چرا گیا تھا۔
"کیا؟"وہ بھی ششدر رہ گئی تھی۔
"ہاں کی تھی اور مجھے افسوس ہے کہ میرا مقصد پھر بھی کامیاب نہیں ہوا۔۔"اس نے کھاجانے والی نظروں سے شہزین کو دیکھا تھا۔
"ذلیل آدمی۔۔"خود کو چھڑواتا عاشر پھر سے اس پر جھپٹا تھا۔
"عاشر بس۔۔"شان دوست کی ڈھال بن کر راستے میں حائل ہوا تھا۔
"تم اسے کچھ کیوں نہیں کہہ رہے۔۔اس کی وجہ سے میرا مستقبل تباہ ہو سکتا تھا شان۔۔"وہ شان پر غصہ ہوئی تھی۔
"تم جیسی لڑکیاں اپنے مستقبل کی دشمن خود ہوتی ہیں۔۔" شاہنواز حقارت سے پھنکارا تھا۔
"تیری بکواس کا علاج کرنا پڑے گا۔۔"عاشر نے شان کو بھی بلاتکلف ایک طرف دھکیلا تھا۔
"عاشر ایسے جاہلوں کے منہ لگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے چلو۔۔"شہزین نے تاسف سے ان دونوں کا چہرہ دیکھا تھا۔
"شازی۔۔"شان تو اس کی ناراضی پر بےچین ہوا تھا۔
"تم بھی اسی جیسے ہو اس لئے اب میرے پیچھے مت آنا۔۔" اس نے بغیر رخ پھیرے جاتے جاتے اسے الگ بےعزت کیا تھا۔
"تم دوست نہیں عذاب بن گئے ہو میری جان کا۔۔"اسے زندگی میں پہلی بار جگری دوست پر بےپناہ غصہ آیا تھا جس پر شاہنواز بھی اس کا منہ تکتا رہ گیا تھا۔
"کہاں سے دوں گا اسے اتنی بڑی رقم شازی؟وہ جلاد تو مجھے کچا چبا جائے گا۔۔"ریسٹورانٹ میں بیٹھا عاشر خوف سے کپکپا رہا تھا۔
"میں باباجان سے مدد مانگوں؟"شہزین کو بھی اس کی حالت پر ترس آیا تھا۔
"وہ تمھیں لاکھوں کی رقم کیوں دیں گے اور انھیں کیا وجہ بتاوگی کہ پیسے کیوں چاہئے؟"اسے یہ حل بےتکا لگا تھا۔
"تم اپنی غلطی بھی تو مانو۔۔اس کریمنل سے دوستی یاری رکھنے کو کس نے کہا تھا؟"وہ غصے سے چنگھاڑی تو عاشر مزید سہم گیا۔
"ہوگئی غلطی اب بھگت بھی تو رہا ہوں۔۔"اس نے بحث کئے بغیر اپنی کوتاہی تسلیم کی۔
"میں کچھ کرتی ہوں۔۔"اس نے انکھیں رگڑتے ہوئے دماغ پر زور دیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کتنے پیسے چاہئے تمھیں؟"وہ پریشان حال اپنے فلیٹ پہنچا تو ملائکہ کی کال برامد ہوئی تھی۔
"آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟"
"میں تمھاری مدد کرسکتی ہوں عاشر۔۔"اس نے فوراً پیشکش کی تھی۔
"آپ کا منگیتر پہلے ہی بہت کرچکا ہے ہمارے لئے۔۔"عاشر کو یہ پیشکش کسی نئی مصیبت کا بلاوا معلوم ہوئی تھی۔
"ہم بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں؟"وہ خاصی سنجیدہ دکھائی دی تھی۔عاشر بھی ناچاہتے ہوئے اگلی شام اس کی بتائی جگہ ملنے پہنچ گیا تھا۔جس مسلے میں شاہنواز نے اسے دھکیل دیا تھا اس کے بعد کہیں سے بھی ملنے والی چھوٹی سی امید بھی اس کے لئے غنیمت ہی تھی۔
"بولیں۔۔"وہ ریسٹورانٹ پہنچا تو ملائکہ وہاں پہلے سے بیٹھی تھی۔
"تمھیں جتنی رقم چاہئے وہ مل جائے گی مگر بدلے میں تمھیں ایک کام کرنا ہے۔۔"اسنے سیاہ گوگل اتارتے ہوئے بےنیازی سے کہا۔
"کیسا کام؟"وہ چونکا تھا۔
"شاہنواز کو سبق سکھانا ہے۔"اس نے اواز دھیمی کی تھی۔
"آپ چاہتی کیا ہیں؟"وہ الجھ سا گیا تھا۔
"شاہنواز کی بدنامی۔۔تاکہ اسی بدنامی کو جواز بناکر میں اس سے اپنی منگنی توڑ سکوں۔۔"ویٹر دو کپ کافی کے وہاں رکھ کر گیا تو اس نے تسلی بخش انداز میں کہا۔
"آپ کا دماغ خراب ہے۔۔"عاشر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"یہ پانچ لاکھ کا چیک ہے باقی بھی تمھیں کام ہونے پر مل جائیں گے لیکن کام جلدازجلد ہونا چاہئے۔۔"اپنے کلچ سے پانچ لاکھ کا چیک نکال کر اس نے ہر بحث وہیں تمام کی تھی۔
"میں ہی کیوں؟کوئی اور کیوں نہیں؟"واپس بیٹھتے ہوئے عاشر نے بغور چیک کو دیکھا تھا۔
"اوّل تم مجبور ہو۔۔۔دوئم تم شاہنواز کے جانی دشمن ہو اور سوئم تم مجھے اس کام کے لئے سو فیصد مناسب لگتے ہو۔۔"اس نے انگلیوں پر عاشر کو کئیں جواز گنوائے تھے۔
"ٹھیک ہے لیکن آپ کو بھی اس کام میں میری مدد کرنی پڑے گی۔۔"اس نے بےدلی کے ساتھ حامی بھر لی تھی۔
"آفکارس۔۔"وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے ملائکہ کے ساتھ بقیہ حکمت عملی تیار کی تھی کہ کیسے اس منصوبے کو سر انجام دینا ہے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"یہ تمھارا آخری فیصلہ ہے۔"شان نے اپنا باقی سامان فلیٹ منتقل کروا دیا تھا اور اس وقت اپنا سوٹ کیس گھسیٹتا وہاں سے نکل رہا تھا جب شاہنواز نے ہال میں اس کا راستہ روکا تھا۔
"ہاں۔۔"اسکے تیور ابھی بھی اکھڑے اکھڑے تھے۔
"تو دفع ہوجاو پھر۔۔"وہ غصیلے پن سے چیخا تھا۔
"تم بہت اناپرست انسان ہو شاہ۔۔اللہ ایک دن تمھاری یہ انا ضرور ریزہ ریزہ کرےگا یاد رکھنا۔۔"شان جاتے جاتے اسے نئی ٹوک لگا گیا تھا۔
اس دن کی لڑائی کے بعد شان سے اس کا رابطہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔کیا دھرا تو شاہنواز کا تھا مگر شان نے بھی اس کا دوست ہونے کی اچھی خاصی قیمت ادا کی تھی۔
"لوگوں کو تو اتنی زحمت نہیں ہوتی کہ کسی کو یاد کرلیں۔" آج معجزانہ طور پر محترمہ نے اس کی کال اٹھا لی تو شان نے گفتگو کا اغاز ہی شکوے سے کیا تھا۔
"کسی کو جو زحمت ہوجاتی ہے کال کرنے کی۔۔"اس کا غصہ بھی ماند پر چکا تھا۔
"بہت تھک گیا ہوں یار صبح سے فلیٹ سیٹ کررہا تھا۔"وہ تھک کر صوفے پر نیم دراز ہوا تھا۔
"فلیٹ؟"
"میں نے شاہ کا گھر چھوڑ دیا ہے۔"اس نے بجھے ہوئے انداز میں کہا۔
"کیوں؟"وہ بھی حیران ہوئی تھی۔
"کیونکہ وہ تمھارے بارے میں بکواس کرتا تھا جو مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔"
"تم نے میرے لئے بچپن کی دوستی توڑدی؟"اسے ایک اور دھچکا لگا۔
"شائد۔۔"وہ خود بھی شش و پنج میں تھا۔
"پھر تو تم بالکل بھی قابل اعتبار نہیں ہو۔۔"
"تمھارا اعتبار جیتنے کے لئے کون سا امتحان پاس کرنا پڑے گا؟"وہ تنگ آتے ہوئے سوال گوہ ہوا۔
"صبروتحمل کا۔۔"
"میں نے مام کو تمھاری تصویر دکھائی ہے اور انھیں تم بہت زیادہ پسند آئی ہو۔"بات گھوم پھر کر وہیں آگئی جہاں شہزین کترانے لگتی تھی۔
"اللہ کے بندے تم پھر سے شروع ہوگئے۔"اس نے اکتاتے ہوئے کہا۔
"اللہ کی بندی تمھیں میری بات سمجھ جو نہیں آتی۔۔"وہ بھی اس کی نقل اتارنے لگا۔
"شان دیکھو۔۔ہمارے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔ تم میرے بہت اچھے دوست ہو اور میں اس دوستی کو محبت کی نذر ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔۔"اس نے ہمیشہ کی طرح ٹال مٹول سے کام لیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کیا کروں شازی کو بتاوں۔۔نہیں وہ الٹا مجھ پر ہی لعن تعن کرےگی لیکن جان بچانے کے لئے مجھے ملائکہ کی بات ماننی ہی پڑے گی اور وہ شاہنواز اس کا گھمنڈ توڑنے کا اس سے بہتر طریقہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔مجھے اس مسلے میں پھنسانے والا بھی تو وہ مردود ہی ہے۔"چیک کو باربار دیکھتے ہوئے عاشر ابھی تک صحیح اور غلط کی بحث میں الجھا تھا مگر سر پر لٹکتی موت کی تلوار نے سب سے پہلے اچھائی اور برائی کے فرق کا سر کلم کیا تھا۔
"مگر عاشر یہ بہت رسکی کام ہے۔۔"کال پر موجود لڑکی کو یہ منصوبہ غیرمحفوظ لگا۔
"تو تمھیں کیا لگا تھا کہ میں آسان کام کے لئے تمھیں ایک لاکھ دے رہا ہوں؟"اس نے الٹا اسے ہی سنائی تھی۔
"یہ انسان شکل سے ہی خطرناک لگ رہا ہے۔۔"وٹس ایپ پر آئی شاہنواز کی تصویر دیکھتے ہی اس نے تھوک نگلی تھی۔
"نیہا سویٹ ہارٹ میں تم سے رابطے میں رہوں گا نا۔۔تم نے بس ویسا ویسا کرنا ہے جیسا میں کہوں گا۔۔تمھیں اسکے گھر تک رسائی میں دلاوں گا باقی کا کام تمھارا۔۔"اس نے مکمل یقین دہانی کروائی تھی۔
"ٹھیک ہے۔۔"وہ بھی ایک لاکھ کی لالچ میں حامی بھر گئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"پلیز مان جاو نا شان۔۔"ملائکہ کال پر اس کی منت سماجت کر رہی تھی۔
"ملائکہ میں نے ہر بار اس گھمنڈی کے سامنے ہار مانی ہے۔۔اس بار نہیں۔۔"اس نے صاف انکار کردیا۔
"اس کی سالگرہ ہے شان۔۔داداجان بھی آرہے ہیں۔۔وہ تمھیں یوں لڑتا جھگڑتا دیکھ کر پریشان ہوجائیں گے۔۔ان کے لئے مان جاو پلیز۔۔"اس نے داداجان کا حوالہ دےکر شان کو ہار ماننے پر مجبور کیا تھا۔
"ٹھیک ہے پھر ایک کام کرتے ہیں کل شام میں اس کی برتھ ڈے پارٹی بھی رکھ لیتے ہیں۔۔میں شازی کو بھی بلا لوں گا۔۔" اس نے نیا منصوبہ تیار کرلیا۔
"شاہنواز کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔۔"
"تو یہ تمھارے شاہنواز صاحب کا مسلہ ہے میرا نہیں۔۔"اس کی آواز میں پھر سے تلخی در آئی تو ملائکہ نے ہی ہتھیار ڈال دیے تھے۔
اس کی سالگرہ والے دن صبح سویرے وہ اور شان پہلے ائرپورٹ سے داداجان اور شازمان کو لینے گئے پھر راستے سے کیک خرید کر اسے سرپرائز دینے کے لئے بغیر بتائے گھر چلے گئے تھے۔
"سرپرائز۔۔"اس کے کمرے کے دروازے سے داداجان اور شازمان اندر داخل ہوئے تو اس کی انکھ کھلی تھی۔
"داداجان آپ لوگ۔۔"وہ جو رات کے ٹراوزر اور ٹی شرٹ میں اوندھے منہ پڑا تھا اسی دم سیدھا ہوا۔
"تم ہمیں دیکھ کر خوش نہیں ہوئے کیا؟"شازمان نے اسے تنگ کیا۔
"نہیں ایسا نہیں ہے۔۔"وہ آنکھیں ملتا ہوا جمائی لینے لگا۔
"کون ہے ڈارلنگ؟"اسی دوران میک اپ میں لدی لڑکی ہاتھ تولیے سے پونچھتے ہوئے باتھ روم سے نکلی تھی۔
"تم تم کون ہو؟"شاہنواز تو بوکھلا گیا۔
"نشہ اترتے ہی مجھے بھول گئے۔۔"اس نے طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے پوچھا۔
"یہ سب کیا ہے شاہ؟"وہ جو ملائکہ کے ہمراہ پلیٹ میں کیک سجائے ابھی ابھی کمرے کی دہلیز پر پہنچا تھا سر پکڑ کر رہ گیا۔
"اس لئے تم رات سے میری کال نہیں اٹھا رہے۔۔"ملائکہ کی آنکھیں نم پڑی تھیں۔
"ایسا کچھ نہیں ہے میں تو اسے جانتا بھی نہیں ہوں۔۔"وہ وضاحتیں پیش کرنے لگا۔
"واقعی۔۔۔اب پکڑے گئے ہو تو معصوم بننے کا ڈرامہ کر رہے ہو؟"وہ لڑکی اپنا موبائل ٹٹولنے لگی۔
"داداجان یہ جھوٹ۔۔"اسے داداجان کی پراسرار خاموشی سے خوف آرہا تھا۔
"میں جھوٹی ہوں تو کیا یہ تصویریں بھی جھوٹی ہیں؟"اس نے موبائل میں موجود تصویریں داداجان کو دکھائی جن میں گزشتہ شب شاہنواز کے بے حد قریب تھی۔رات کی چائے میں ملازمہ کے ذریعے ملائکہ نے نشہ آور دوائی سے اسے بیہوش کروایا تھا جس کا فائدہ اٹھاتے نیہا نے وہ تصاویر بنائی تھیں۔اب صبح سے ملازمہ کا غائب ہونا شاہنواز کو مزید مشکوک کر رہا تھا۔
"داداجان یہ سب؟"اس کے پاس کہنے لائق کچھ نہ بچا تھا۔
"بس مجھے اس عمر میں مزید رسوا مت کرو شاہنواز۔۔"وہ ہاتھ اٹھا کر اسے چپ کروا گئے تھے۔
"تم سے اب میرے بابا بات کریں گے۔۔"ملائک پاوں پٹکتی وہاں سے نکل گئی تھی۔
"ملائکہ۔۔"وہ اس کے تعاقب میں چلا تھا۔
"بس شاہ بس۔۔"اسے وہیں رکنے کا اشارہ کرتا شان ملائکہ کے پیچھے دوڑا تھا۔
"میں بھی چلتی ہوں بائے۔۔"لڑکی کندھے اچکاتی وہاں سے نکل گئی تھی۔
"داداجان۔۔"وہ گھٹنوں کے بل داداجان کے قدموں میں بیٹھا تھا
"اپنے ناپاک ہاتھ مجھ سے دور رکھو بدبخت۔۔۔"اسکے ہاتھ خود سے دور پٹکتے ہوئے وہ برہم ہوئے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ملائکہ پلیز سنبھالو خود کو۔۔"شان اسے لے کر اپنے فلیٹ چلا آیا تھا۔وہ اس بدتر حالت میں گھر جاتی تو معاملات کہاں سے کہاں چلے جاتے۔
"شان۔۔"اس کے کندھے سے سر لگائے وہ سسکیاں بھرنے لگی۔
"پلیز رونا تو بند کرو۔۔۔تمھارے آنسو بہت قیمتی ہیں لڑکی۔۔" اس کی حالت سمجھتے ہوئے شان نے آسرا دیا تھا۔
"تم بہت اچھے ہو۔۔"اس سے دور ہوتی وہ آنسو پونچھنے لگی۔
"وہ تو میں ہوں۔۔"
"شازی۔۔"وہ بات مکمل کرتا جیسے ہی مڑا تو دہلیز پر سفید گلابوں کا گلدستہ لے کر کھڑی شہزین پتھرائی انکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"میری بات سنو۔۔"وہ گلدستہ وہیں پٹکتی الٹے قدموں سے چلتی بنی تھی۔
"تم تفصیل سے ان کے دکھڑے سن لو۔۔مجھے اور بہت کام ہے۔۔"اتنا کہتی اس نے پلٹنے کی بھی زحمت نہ کی تھی۔
"شازی۔۔اللہ کی بندی۔۔"شان بری طرح بےبس ہوا تھا۔
"اسے کیا ہوا ہے؟"ملائکہ کو اتنا شدید ردعمل ہضم نہ ہوا۔
"ایکسکیوزمی۔۔"اسے وہیں چھوڑتا وہ شہزین کے پیچھے دوڑا تو وہ لفٹ کے ذریعے نیچے جاچکی تھی۔
"شازی شازی بات تو سنو یار۔۔"وہ سیڑھیاں اترتا پیچھے دوڑا تو وہ گاڑی میں سوار ہوتی نکل گئی تھی۔
"شاہ اپنے ساتھ ساتھ میری لٹیا بھی ڈبو کر کی دم لے گا۔۔۔
بلاک بھی کردیا۔۔اتنی فاسٹ سروس۔۔"اس نے جیب سے موبائل نکالا تو ہر جگہ سے خود کو بلاک پاکر نیا صدمہ پہنچا تھا۔
"مجھے اتنا غصہ کیوں آرہا ہے؟میری بلا سے کچھ بھی کرتا پھرے۔۔لیکن وہ لڑکی شان سے کیسے چپکی ہوئی تھی؟"گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بھی اس کا دماغ وہیں الجھا تھا۔اس نے لڑکی کی پشت دیکھ کر نہ پہچانا تھا کہ وہ ملائکہ ہے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شازی پلیز کال مت رکھنا۔۔"رات کو وہ سونے کے لئے لیٹی ہی تھی کہ دوبارہ کسی نئے نمبر سے کال موصول ہوئی تھی جوکہ شان کا نمبر تھا۔
"کتنے نمبرز ہیں تمھارے؟"اس نے خفگی سے پوچھا۔
"یہ آخری ہے۔۔پلیز میری بات سنو"اسے ڈر تھا کہ وہ اگلے ہی لمحے کال واپس پٹک دے گی۔
"سناو۔۔"
"وہ ملائکہ تھی شاہ کی منگیتر۔۔"
"تو تم سے کس خوشی میں چپک رہی تھی؟"اس کا پارا مزید چڑھا تھا۔
"تمھیں بتایا تھا نا کہ ہم شاہ کی طرف اسے سرپرائز دینے جائیں گے۔۔"اس نے تفصیل بتانئ شروع کی تھی۔
"تمھارا دوست مجھے پہلے دن سے مینسنا لگتا تھا۔۔۔"ساری باتیں سننے کے اس نے اپنے تجزیے پیش کرنا شروع کر دیے تھے۔
"اس نے ہم سب کو بہت مایوس کیا ہے۔"وہ خود بھی بجھا بجھا تھا۔
"یہ غلط انسان پر اعتبار کا نتیجہ ہے۔"
"لیکن وہ ایسا لگتا نہیں تھا۔۔"
"ہوتے سبھی ہیں پر لگتا کوئی بھی نہیں ہے۔۔"وہ تپ کر بولی تھی۔
"تمھیں خاصا تجربہ ہے۔"
"جو ہے سو ہے۔"اسنے بیڈ سے ٹیک لگائی تھی۔
"لیکن آپ کے اس شدید ردعمل نے مجھے خائف کر دیا ہے میڈم۔۔"اس نے اپنے تحفظات پیش کئے۔
"مجھ سے ڈر کر ہی رہنا فائدے میں رہوگے۔۔"وہ نخریلے پن سے جوابدہ ہوئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"داداجان یہ بیچارا کہہ تو رہا ہے کہ نہیں جانتا اسے۔۔"
"تبھی وہ اسکے کمرے میں۔۔مجھے تو کہتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے۔"داداجان نے پہلی فلائٹ سے سیدہ بیگم کو بھی اسلام آباد بلایا تھا اور خود تو وہ پوتے کو مخاطب کرنے کے حق میں بھی نہ تھے۔اس لمحے بھی شازمان بھائی کے حق میں مسلسل دہائی دیے جارہا تھا۔
"میں ملائکہ سے محبت کرتا ہوں داداجان۔۔میں اسے دھوکا کیوں دوں گا۔۔۔"اس نے بھیگے لہجے میں وضاحت دی تھی۔
"مبارک ہو۔۔منگنی توڑ دی ہے ان لوگوں نے۔۔"داداجان نے صوفے سے اٹھتے ہوئے اعلانیہ انداز میں کہا۔
"لیکن۔۔"
"ایک لفظ مت کہنا۔۔"اسے خبردار کرتے وہ وہاں سے نکل گئے تھے
"میں خود جاکر ملائکہ سے بات کروں گا۔۔وہ میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی۔"ماں کو فریادی نظروں سے دیکھتے ہوئے اسنے کہا تھا جو مکمل خاموش بیٹھی تھیں۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"آپ لوگ ایسے کیسے ہار مان گئے؟چاچو کو راضی کریں اس رشتے کے لئے۔۔"بلال کو جب سے شہزین کے انکار کا پتہ چلا تھا کاٹنے کو دوڑ رہا تھا۔
"ہر ممکن کوشش کرکے دیکھ لی نا۔۔نہیں بن رہا کچھ تو کیا اس کے گھر کے باہر دھرنا دے دیں۔۔"آصف خان غرائے تھے۔
"ٹھیک ہے پھر ہونے دیں اس کی کہیں اور شادی کل کو جب اس کا شوہر جائیداد کا حصہ دار بن کر آپ کے سینوں پر مونگ دلے گا تو میں بھی خاموش تماشائی کا ہی کردار ادا کروں گا۔۔"انھیں نئے خدشات میں مبتلا کرتا وہ آوارہ دوستوں کے ساتھ شکار کے لئے نکل گیا تھا۔
"بات تو ٹھیک کی ہے لڑکے نے بھائی صاحب۔۔"چھوٹے بھائی نے آصف خان کو سمجھایا۔
"لیکن اس کی باتیں احمد کن مغض کو سمجھ کہاں آئے گی؟"
"آپ بھابھی سے کہیں نا کہ شہزین کو اعتماد میں لے۔۔"چچی نے جیٹھ کو نیا مشہورہ دیا تھا۔
"وہ کیسے؟"
"بہت بنتی ہے ان کی اس لڑکی سے۔۔پچھلی بار شہر گئی تھیں تو خوب گھومیں پھری ہیں اپنی نہ ہونے والی بہو کے ساتھ۔۔"چھوٹی بھاوج نے بھی ان کے ممکن ہاتھ تک کان بھرے تھے۔
"میں شبانہ سے بات کرتا ہوں۔۔"وہ وہاں سے اٹھتے ہوئے چلتے بنے تھے۔
شان کے اصرار پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی ملائکہ کی دل جوئی کرنے اس کے گھر چلی آئی تھی۔اگرچہ ملائکہ اسے ابھی بھی پہلے جیسی ہی زہر لگتی تھی مگر برے وقت میں اسے شان کو انکار کہنا مناسب نہ لگا تھا۔
"شان نے بتایا مجھے سب کچھ۔۔تم دل چھوٹا مت کرو ملائکہ۔۔ تمھارے لئے اس سے بہت بہتر لکھا ہوگا۔۔"اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے شہزین نے حوصلہ افزائی کی تھی۔
"مگر میں ہی کیوں؟اس نے کیوں کیا ایسا۔۔"آنکھوں کو ٹشو سے رگڑتی وہ اداکاری کے جوہر دکھا رہی تھی۔
"اللہ کا شکر کرو لڑکی کہ کسی بڑے نقصان سے بچ گئی تم۔۔اگر اس کی یہی دونمبری شادی کے بعد سامنے آتی تو کیا بنتا تمھارا؟ویسے بھی مجھے وہ انسان پہلے دن سے ہی گھنا اور مینسنا لگا تھا لیکن وہ بدکار اور بدنظر بھی ہے یہ آج پتہ چلا۔۔۔تم نے یہ منگنی توڑ کر بہت اچھا کیا۔۔میری مانو تو ہر جگہ سے بلاک کرو اس بدکردار آدمی کو۔۔"شہزین نے موقع ملتے ہی اسے اپنے نایاب و نادر مشہوروں سے نوازہ تھا۔
"تو تم اس کے کان بھر رہی ہو؟"گھر کی دہلیز پر قدم رکھتا شاہنواز اس کی باتیں سن کر دھاڑا تھا۔
"ہاں اور تمھارے گھر وہ لڑکی بھی میں نے ہی بھیجی تھی۔۔" صوفے سے اٹھتے ہوئے اسنے مڑ کر شاہنواز کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا۔
"جسٹ شٹ اپ۔۔"وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتا اندر تک آیا تھا۔
"ملائکہ اس کی باتوں میں مت آو یہ خود کیا ہے؟"اسے نظرانداز کرتا وہ ملائکہ کے سامنے ملتجی ہوا تھا۔
"یو شٹ اپ۔۔اپنی سرگرمیاں درست کرو پھر کسی اور کریکٹر سرٹیفکیٹ دینا۔۔"شہزین نے بھی چلاتے ہوئے اس کا منہ توڑا تھا۔
"یہ میرا اور میری منگیتر کا مسلہ ہے تم جاسکتی ہو۔" شاہنواز نے چٹکی بجاتے ہوئے اسے مرکزی دروازہ دکھایا تھا۔
"تم بھی جاسکتے ہو کیونکہ اب میں تمھاری منگیتر نہیں ہوں۔۔"ملائکہ نے انگوٹھی اتار کر اسکے ہاتھ میں پکڑائی تھی۔
"ملائکہ۔۔"وہ بے یقین نگاہوں سے اس کا چہرہ تکتا رہ گیا۔
"جسٹ لیو۔۔"
"تمھیں تو میں دیکھ لوں گا۔۔"جاتے جاتے اس نے رک کر شہزین کو گھورا تھا۔
"بس نظر نہ لگا دینا۔۔"اس نے کندھوں سے گویا دھول اڑائی تھی۔شاہنواز کے جانے کے بعد ملائکہ نے بھی خودساختہ مظلومیت کا ڈھونک رچانا جاری رکھا تھا۔کچھ دیر اس کی دل جوئی کرنے کے بعد وہ وہاں سے نکل گئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم تو بہت کام کے انسان نکلے ہو عاشر۔۔لوگ تمھیں خوامخواہ ناکارہ کہتے ہیں۔۔"ریسٹورانٹ اس کے لئے مطلوبہ رقم لاتے ہوئے ملائکہ نے اس کی تعریفوں کے پل باندھے تھے۔
"میری محنت کی اجرت کہاں ہے؟"اسے اپنے پیسوں سے مطلب تھا۔
"اب ہم دوبارہ نہیں ملیں گے اوکے۔۔"ایک خاکی لفافہ اس کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے وہ کرسی سے اٹھی تھی۔
"ڈن۔۔"اس کے جاتے ہی وہ ندیدوں کی طرح بقیہ پیسے گننے میں مگن ہوا تھا۔
"یہ کرم نوازیاں کس خوشی میں کی جارہی ہیں؟"اس کے سر پر کھڑی شہزین نے کب سے اس پر سخت نظر رکھی ہوئی تھی وہ خود بھی اس سے لاعلم تھا۔
"وہ شازی۔۔دراصل۔۔"اس نے لفافہ جیکٹ کی جیب میں رکھا تھا۔
"جھوٹ مت بولنا ورنہ چپل سے پیٹوں گی تھمیں۔۔"اس کے سامنے والی کرسی سنبھالتی ہوئی وہ پرخطر انداز میں بولی تھی۔
"یعنی وہ سب تم نے کیا عاشر۔۔"شہزین تو اس کی بات سنتے ہی صدمے میں چلی گئی تھی
"لیکن میں مجبور تھا شازی۔۔"وہ خود بھی اپنے کئے پر اندر ہی اندر نادم تھا۔
"بےوقوف انسان تم نے ایک نیک کردار مرد پر تہمت لگائی ہے۔۔جانتے بھی ہو کتنا بڑا گناہ ہے یہ۔۔"شہزین کا لہجہ سخت ہوا تھا۔
"اور جو اس نے کیا تھا اس رات۔۔۔"
"وہ بھی غلط تھا مگر یہ غلطی نہیں گناہ ہے۔۔"اس نے غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا تھا۔
"شازی اب تو ہوگیا نا۔۔اب کیا چاہتی ہو کہ میں جاکر معافی مانگوں اس گھمنڈی سے۔۔"اسے شہزین کے درس پر غصہ بھی آیا تھا۔
"عاشر مجھے پہلی بار افسوس ہو رہا ہے کہ تم میرے دوست ہو۔۔"کرسی سے اٹھتے ہوئے وہ شرمساری سے بولی تھی۔
"شازی سوری بات تو سنو شازی۔۔"اس نے شہزین کو کئیں آوازیں لگائی مگر اس نے کان نہ دھرے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شان کو بتاوں؟نہیں وہ تو عاشر کو مار ہی دے گا لیکن اس بیچارے کے ساتھ غلط ہوا ہے اور غلط غلط ہے چاہے کسی کے بھی ساتھ ہو۔۔"شان اگلے پلے کی تیاروں میں مگن تھا جبکہ وہ سٹیج کے ایک کونے میں کھوئی کھوئی بیٹھی تھی۔
"چائے کا شربت بننے کی منتظر ہیں آپ؟"اس کے سامنے رکھے دو چائے کے کپ میں سے ایک کپ اٹھائے وہ برابر والی کرسی پر براجمان ہوا تھا۔
"شان میں گھر جارہی ہوں؟"اپنا ہینڈ بیگ اٹھاتی وہ جانے کے لئے کھڑی ہوئی تھی۔
"کیوں ابھی ہم نے کچھ سینز ڈسکس کرنے ہیں لڑکی۔۔"شان نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔
"میرے سر میں درد ہے اور پریزنڑیشن بھی تو سر پر ہیں۔۔پڑھائی بہت نظرانداز ہوئی ہے پچلھے کچھ مہینوں میں۔۔"اس نے بغیر نظریں ملائے بہانے بنائے۔
"سب ٹھیک ہے؟"شان بھی پریشان ہوا تھا۔
"ہاں۔۔"
"لگ کیوں نہیں رہا؟"اسکے ساتھ چلتا چلتا وہ باہر گاڑی تک آیا تھا۔
"ملائکہ کیسی ہے؟"
"ہارٹ بروکن۔۔"اس کے جواب پر وہ اور مضطرب ہوئی تھی۔
"اس کی محبت کی منگنی تھی؟"
"نہیں۔۔یہ تو شاہ کی ماما اور داداجان کی خواہش تھی لیکن ملائکہ مخلص تھی اس بدنصیب کے ساتھ۔۔"وہ بھی خاصا غمزدہ تھا۔
"تمھارا دل مانتا ہے کہ تمھارا بچچن کا دوست اتنی غیر اخلاقی حرکت کرسکتا ہے۔۔"اس نے بغور شان کا چہرہ دیکھا تھا۔
"دل تو نہیں مانتا مگر آنکھوں کا دیکھا بھی تو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔۔"وہ خود بھی شش و پنج میں تھا۔
"کبھی کبھی آنکھوں کا دیکھا سراسر دھوکا ہوتا ہے۔۔"وہ جیسے ہی گاڑی تک پہنچی تو ڈرائیور نے اس کے لئے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا تھا۔
"تم آج شاہ کی طرفداری کر رہی ہو؟"شان کو اپنی سماعت پر شبہ ہوا تھا۔
"نہیں میں اس واقعے کا دوسرا پہلو دکھا رہی ہوں تمھیں۔۔"گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ اسے مزید فکر میں مبتلا کر گئی۔
"زیادہ مت سوچو۔۔گھر جاکر آرام کرو۔۔"شان نے گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے اسے پرسکون رہنے کی تنبیہہ کی تھی۔
"اللہ حافظ۔۔"وہ مسکراتے ہوئے الوداع کہہ گئی۔
"اللہ حافظ۔۔"گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہونے تک وہ اسے دیکھتا رہا تھا۔
"کچھ لوگ اپنے مفاد کے لئے کتنا گر جاتے ہیں۔۔اللہ ہی بچائے ایسے لوگوں سے۔۔"عاشر کی باتوں کے متعلق سوچتے ہوئے وہ ملائکہ کی حرکت پر ابھی تک حیرت میں مبتلا تھی۔
شاہنواز نے گھر کے کیمرے سے اس لڑکی کے گھر داخل ہونے کا کلپ نکلوایا تھا۔سب سے زیادہ سر چکرانے کی بات یہ تھی کہ اس کے پاس گھر کے اندرونی دروازے کی چابی موجود تھی۔کلپ کی مدد سے اس نے لڑکی کی تصویر حاصل کرلی تھی۔آنے والے کچھ دنوں میں وہ اس لڑکی کے فلیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
"رکو رکو تم۔۔"وہ جیسے ہی فلیٹ سے نکل کر گاڑی میں بیٹھی تھی شاہنواز اس کے تعاقب میں دوڑا تھا۔
"یااللہ یہ تو پیچھے ہی پڑگیا ہے۔۔"بمشکل اس کی آنکھوں میں دھول جھونکتی وہ جان بچا گئی تھی۔اس نے گاڑی سے اترتے ساتھ عاشر کو کال ملا کر شاہنواز کی حرکت کے متعلق بتایا تھا کہ کس طرح وہ اس تک پہنچ گیا تھا۔
"کیا؟"عاشر کو اپنی جان کے لالے پڑے تھے۔
"مجھے یہ شہر چھوڑنا پڑےگا۔۔"اس نے نیا انکشاف کیا۔
"تو جاو بھی۔۔"
"مجھے کچھ پیسے دوگے تبھی جاپاوں گی۔۔"اس نے نیا مطالبہ سامنے رکھ دیا۔
"اور پیسے؟"عاشر اسکی لالچی فطرت سے عاجز آیا تھا۔
"ہاں۔۔"
"کیا مصیبت ہے؟"کال بند ہوتے ہئ عاشر نے اپنے بائیک کو لات ماری تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شازی پلیز مدد کردو میری۔۔ورنہ وہ جلاد مجھے زندہ درگور کردےگا۔۔"ہمیشہ کی طرح مشکل میں اس نے شہزین سے رابطہ کیا تھا۔
"لیکن۔۔"
تمھارا بھائیوں جیسا دوست ہوں بڈی مان جاو نا۔۔"اسے اس وقت مالی امداد کے لئے شہزین ہی واحد وسیلہ نظر آئی تھی۔
"ٹھیک ہے۔۔"اس نے بالآخر حامی بھری تھی۔جب سے اس نے خود کمانا شروع کیا تھا۔احمد خان کا دیا گیا جیب خرچ بنک اکاونٹ میں ہی پڑا ہوا تھا جوکہ پچھلے کچھ مہینوں میں اتنی رقم بن چکی تھی کہ اس وقت عاشر کے کام آجاتی۔اپنی چیک بک پرس میں رکھتی وہ گھر سے نکلی تھی۔ل
"یہ رکھو اور دوبارہ اس شہر میں نظر مت آنا۔۔"اسے اپنے گھر کے باہر بلا کر شہزین نے کچھ رقم اس کے سپرد کی تھی۔
"بس اتنی سی رقم۔۔"اسے ایک ڈیڑھ لاکھ بھی کم لگے تھے۔
"اور کیا قومی ذخائر تمھارے نام کردوں۔۔جو مل رہا ہے اس پر شکرو ورنہ یہ بھی واپس لے جاوں گی۔۔"شہزین نے جھپٹ کر پیسوں والا لفافہ اس سے واپس چھینا تھا۔
"اچھا اچھا غصہ تو مت کرو۔۔"اس نے یکدم کروٹ بدلی تھی۔
"اوہ تو یہ تمھارا کیا دھرا ہے؟"شاہنواز نے اب دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔
"گئی بھینس پانی میں"وہ زیرلب بربڑائی تھی۔
"ابھی کہاں تم تو چلو گی میرے داداجان کے سامنے اور اپنی ہر گھٹیا حرکت کا اعتراف کروگی۔۔"اس نے شہزین کا بازو اپنی آہنی گرفت میں دبوچا تھا۔
"چھوڑو مجھے۔۔"وہ ہاتھ چھڑوانے کے لئے تلملائی تھی۔
"شاہ کیا بدتمیزی ہے؟"شاہنواز نے اسے لاکر ملائکہ کے گھر پٹکا تھا تو وہ مرکزی ہال میں گرتے گرتے بچی تھی۔
"داداجان اور بھائی کہاں ہیں؟"شان کی ناراضی کو خاطر میں لائے بغیر اس نے گردونواح نظر گھمائی تھی۔
"نکل گئے ہیں گھر کے لئے۔۔"شان نے تسلی سے بتایا۔
"ایسے کیسے جاسکتے ہیں وہ؟"
"پھر اور کیا کرتے یہاں رسوائی کے علاوہ بچا کیا ہے؟اور یہ شازی کو کیوں لائے ہو تم ادھر؟"ان دونوں کی بحث کے دوران ملائکہ اور عالیہ بیگم بھی سیڑھیاں اترتی ہال میں پہنچی تھیں۔
"کیونکہ یہ سب کیا دھرا اس کا ہے۔۔"شہزین پر انگلی اٹھائے وہ چیخا تھا۔
"تمھارا دماغ خراب ہے؟یہ جانتے ہوئے کہ شازی میرے لئے کتنی اہم ہے تم اس پر اتنا گھیناونا الزام لگا رہےہو؟"شان نے بھی پھنکارتے ہوئے اس کی بات کاٹی تھی۔
"گھیناونے کھیل کھیلنے والی تو یہ خود ہے۔۔۔اس کی گواہی وہ لڑکی تم سب کے سامنے خود دے گی۔"شاہنواز نے نیا دھماکہ خیز اعلان کیا تھا۔
"کون لڑکی"شہزین تو پورے واقعے کے دوران سانپ سونگھے کھڑی تھی مگر ملائکہ نے سہمتے ہوئے سوال کیا۔
"وہ لڑکی جسے میرے گھر بھیجنے والی یہ محترمہ تھی۔۔" جیب سے موبائل نکالتے ہوئے اس نے کسی کو میسج بھیجا تھا۔
"لے کر آو اسے۔۔"دو منٹ بعد شاہنواز کا گارڈ نیہا کو لے کر وہاں پہنچا تھا۔
"تم؟"شان اسے دیکھتے ساتھ ہی پہچان گیا تھا۔
"بتاو سب کو کہ سچ کیا ہے ورنہ پولیس ہی تم سے حقیقت اگلوائے گی۔۔"شاہنواز نے اسے دھمکایا تھا
"میں انھیں نہیں جانتی۔۔مجھے تو بس پیسے دیے گئے تھے انھیں بدنام کرنے کے۔"وہ لڑکی خوف کے مارے سب پلک جھپکتے اگل گئی تھی۔
"استغفرللہ۔۔"عالیہ بیگم نے خوف سے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لئے تھے۔
"اور کس نے دیے تھے پیسے؟"اگلا سوال ملائکہ کے والد نے پوچھا تھا۔
"انھوں نے۔۔"اس نے شہزین کی طرف اشارہ کیا۔
"بکواس کر رہی ہے یہ۔۔"شہزین بےبنیاد الزام پر اچھلی تھی۔
"واقعی۔۔"شاہنواز نے دونوں ہاتھ کمر پر باندھے اسے سخت نظروں سے دیکھا۔
"مان لیا کہ شازی نے اسے پیسے دیے تھے تو کیا تمھارے گھر کی چابیاں بھی شازی نے اسے دی تھیں۔۔بولو تم کیسے گئی تھی اس کے گھر۔۔"شان سب کے سامنے اس کا وکیل بن گیا تھا۔
"مجھے ایڈوانس رقم کے ساتھ گھر کی چابیاں دی گئی تھیں۔۔"اس نے ایک اور سنسنی پھیلائی تھی۔
"پہلے مجھے شک تھا مگر اب یقین ہوگیا ہے کہ تم دونوں ملے ہوئے ہو۔"شان نے الٹا دوست کو ہی مجرم ٹھہرا دیا۔
"شان۔۔"ملائکہ تو سکتے میں چلی گئی تھی۔
"یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ تم نے ہی اب اسے یہ بکواس کرنے کے پیسے دیے ہوں۔۔"شان نے اگلا اندازہ لگایا۔
"تمھیں اب بھی یہ ٹھیک لگ رہی ہے؟"شاہنواز تو دوست کی طوطہ چشمی پر بوکھلایا تھا۔
"کیونکہ یہ غلط نہیں ہوسکتی۔۔اگر پوری دنیا ایک طرف ہوگی اور شازی ایک طرف تو شان گیلانی شازی کے قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہوگا۔۔مجھے تمھاری اس لنگڑی لولی کہانی پر افسوس ہو رہا ہے شاہ۔۔"سب کے سامنے حق سے شہزین کی کلائی تھامے وہ سب کو اس کا مقام باور کروا گیا تھا۔
"تم پچھتاو گے۔۔"شاہنواز معنی خیزی سے بولا۔
"چلو شازی۔۔"اسے لئے وہ وہاں سے چل پڑا۔
"میں یہ معاملہ پولیس تک لے کر جاوں گا یاد رکھنا۔۔"شاہنواز نے وہیں کھڑے کھڑے دھمکی دی۔
"تم جس حد تک گرسکتے ہو شوق سے گرو کیونکہ اب سے تم میرے دوست نہیں دشمن ہو۔۔"مڑ کر سرخ پڑتی آنکھوں سے اس نے شاہنواز ابراہیم کو اجنبی نظروں سے دیکھا اور پھر شہزین کے ہمراہ وہاں سے نکل گیا تھا۔
"شان۔۔"وہ اسے لئے گھر تک پہنچا تو شہزین نے خاموشی کا تسلسل جھجھکتے ہوئے توڑا تھا۔وہ اسے حقیقیت سے لاعلم رکھنے کے حق میں ہزگز نہ تھی۔
"مجھے کوئی وضاحت نہیں چاہئے۔"اس کے ارادے بھانپتے ہوئے وہ قبل از وقت ہی انکار کر چکا تھا۔
"تمھیں اتنا اعتبار ہے مجھ پر؟"اس کے اضطراب میں اضافہ ہوا تھا۔
"اس سے بھی زیادہ مگر افسوس تمھیں میرے نازک جذبات کی قدر نہیں ہے۔۔"اس نے شہزین کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مزید مشکلات کھڑی کر دیں.
"ساری عمر یونہی میرا ساتھ دوگے۔۔"اس نے نظریں ملا کر پوچھا۔
"تم ساتھ نبھانے کا موقع تو دو لڑکی۔۔"وہ اسی اپنائیت والے انداز میں التجا کرنے لگا۔
"میں ماں سے بات کروں گی آج۔۔"آج شان کے دیے گئے حوصلے اور مان نے اس کی سوچ کا زاویہ بدلا تھا۔احمد خان کے بعد یہ دوسرا واحد انسان تھا جو دنیا کے سامنے بے جھجھک اس کی ڈھال بننے میں نہ گھبراتا تھا۔
"واقعی۔۔آئی مین۔۔"اسے لگا کہ اسے سننے میں غفلت ہوئی ہے۔
"وہ ہاں کریں گی تو اسے میں اپنی خوش نصیبی سمجھوں گی۔۔"اس نے سنجیدگی سے اعتراف کیا۔
"اور نہ کریں گی تو۔۔"وہ خائف ہوا تھا۔
"تمھاری بدنصیبی۔۔"گاڑی کا دروازہ کھولتی وہ پہلی نشست سے اتری تھی۔
"بہت چالاق ہو تم۔۔"شان نے مسکرا کر اس کی حاضر دماغی کو سراہا تھا۔
وہ حامی تو بھر بیٹھی تھی مگر ماں سے بات کرتے ہوئے جھجھک محسوس ہو رہی تھی۔لاکھ بےتکلفی سہی مگر یہ معاملہ اسے بہت سوچ سمجھ کر نمٹانا تھا۔شان ہر لحاظ سے بہترین انسان تھا لیکن والدین کی رضامندی کے خلاف جانے کا حوصلہ اس میں ہرگز نہ تھا۔
"ایک منٹ تم کھڑوس شان گیلانی کی بات کر رہی ہو؟"اس نے صلاح مشہورے کے لئے اپنی مشیرِ خاص کو اعتماد میں لیا تھا۔
"ہاں۔۔۔"اس کی گرمجوشی پر شہزین نے مختصر جواب دیا۔
"شازی میری جان۔۔مجھے تو وہ بندہ پہلے دن سے ہی ہنڈسم لگتا تھا۔۔"کال کی دوسری موجود سمیرا نے گہری آہ بھری تھی۔
"اب اسے بھائی کی نظر سے دیکھنے کی عادت ڈال لو۔۔"اس نے ہنیسی دباتے ہوئے رعب جھاڑا۔
"عادت کہو یا مجبوری۔۔ہائے۔۔"سمیرا نے دل پر دستک دے کر بےبسی ظاہر کی۔
"سمیرا کی بچی۔۔زیادہ چھچھوڑ پن دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔"شہزین نے اسے یکدم ٹوکا۔
"اس کی فیملی مان جائے گی؟"سمیرا بھی اب سنجیدہ ہوئی تھی۔
"مانی ہوئی ہے۔۔"
"تو مجھے اب بھی کیوں بتایا ہے شادی بلکہ دو تین بچوں کے بعد بتاتی۔۔"اس نے فوراً شکووں کی پٹاری کھول دی۔
"انتہائی غلیظ عورت ہو تم۔۔ابھی میں نے ماں بابا سے بات نہیں کی۔۔ان سے بھی پہلے تمھیں بتا رہی ہوں۔۔"اس نے بھی ایک کی دو سنائیں۔
"انکل آنٹی مان جائیں گے؟"
"شان ہر لحاظ سے بہترین انسان ہے۔۔وہ کیوں نہیں مانیں گے؟"اس نے سمیرا کے ساتھ ساتھ خود کو بھی تسلی دی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ماں مجھے کچھ بات کرنی ہے۔۔"وہ کھانا بنا کر باہر لاونج میں پہنچی تو شہزین ان کی ہی منتظر بیٹھی تھی۔
"بولو۔۔انھوں نے بےدھیانی سے جواب دیا۔
"ایسے نہیں۔۔بیٹھیں ادھر۔۔"انھیں دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر شہزین نے صوفے پر بیٹھا اور خود گھٹنوں کے بل قالین پر بیٹھی تھی۔
"ہمم۔۔"
"ماں آئی لائک سم ون۔۔"ان کے ہاتھوں کی پشت پر اس نے اپنی گرفت مضبوط کی تھی۔
"کون ہے؟"انھیں بھی جھٹکا لگا تھا۔
"میرے باس۔۔شان گیلانی۔۔"
"وہ سٹیج ڈرامے والا؟"ان کے لب و لہجے میں ہی بلا کی حقارت تھی۔
"مام وہ بہت اچھا انسان ہے اور اپنی فیملی کو ہماری طرف بھیجنا چاہتا ہے۔۔"شہزین نے لہجہ مضبوط کیا۔
"تمھارے باباجان کبھی نہیں مانیں گے شازی۔۔"وہ صاف انکار کر گئیں۔
"کیوں؟"
"اس کا جو پیشہ ہے وہ ان کی نظر میں نامناسب ہی ہوگا۔" انھوں نے اندازے سے کہا۔
"مام وہ کوئی چوری ڈکیتی تو نہیں کرتا۔۔ویسے بھی یہ کام وہ شوق کے لئے کرتا ہے ورنہ بہت رئیس خاندان ہے اس کا۔۔" اس نے مزاحمت کی تھی۔
"تمھارے بابا نہ مانے تو۔۔"
"میں نے کوئی جینے مرنے کی قسمیں نہیں کھائیں اس کے ساتھ۔۔۔باباجان تو اگر اس کے گھر والے سمجھ نہ آئے تو میرے لئے ان کا فیصلہ ہی حتمی ہوگا۔۔"اس نے ایک روانی میں بات مکمل کی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔بلا لو اس اتوار کو اسے بھی اور اس کی فیملی کو بھی۔۔"کچھ سوچتے ہوئے انھوں نے حامی بھر لی۔
"لوّ یو مام۔۔ "شہزین نے ان کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"مجھے تو پہلے ہی یقین تھا کہ میرا بھائی ایسا ویسا کچھ کر ہی نہیں سکتا۔۔"تمام واقع کی خبر ملتے ہی شازمان اور داداجان اسلام آباد چلے آئے تھے اور اس لمحے ملائکہ کے گھر بیٹھک لگی ہوئی تھی۔
"بس آپ کو ہی یقین تھا۔"اس نے افسردگی سے داداجان کا چہرہ دیکھا۔
"لو اب داداجان کتنی بار معافی مانگے اپنے شہزداے سے؟" داداجان اس کی ناراضی پر اداس ہوئے تھے۔
"آپ کو میرا اعتبار کرنا چاہئے تھا داداجان۔۔"اس نے شکوہ کیا۔
"سوری بچے۔۔"اسے خود سے لگاتے وہ دکھی ہوئے تھے۔
"لیکن میں ان سب کے ذمہ دار کو نہیں بخشوں گا۔"شازمان تو شہزین کا نام سنتے ہی اسے جان سے مارنے کی حد تک غصہ ہوا تھا جس نے اس کے چھوٹے بھائی کو بدنامی کی دلدل میں دھکیلنے کے لئے اتنی گری ہوئی حرکت کردی تھی۔
"جانے دیں نا شازمان بھائی۔۔شاہنواز بےگناہ ثابت ہوگیا اتنا ہی کافی ہے ہمارے لئے۔۔''ملائکہ بس معاملہ رفع دفع کرنا چاہتی تھی۔
"یہ بھی ٹھیک ہے۔۔"داداجان نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"سارا کھیل ہی الٹا پڑگیا ہے۔۔اب کیا کروں؟"ان سب کو خوش گپیوں میں مصروف دیکھ کر ملائکہ کی فکر دگنی ہوئی تھی۔کہاں وہ شاہنواز دسے جان چھڑوا کر پرسکون ہوئی تھی اور اب پھر سے اس کی بےگناہی نے اس رشتے کو دوبارہ جڑنے کا ایک سنہری موقع فراہم کردیا تھا۔
یہاں ان دونوں کی منگنی ٹوٹنے سے بچی تھی تو وہاں شان کی محبت کو منزل ملنے جارہی تھی۔اس کے والدین کے لاہور آنے کے بعد شہزین کے گھر ہوئی ملاقات نے اس کے لئے امید کے نئے دروازے سے کھولے تھے۔احمد خان کو وہ لوگ بہت مناسب لگے تھے۔اگلے ہفتے ان کی دعوت پر احمد خان نے لاہور جا کر تسلی کی تھی۔وہ خاندانی رئیس ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عاجزانہ فطرت کے لوگ تھے۔دو سے تین ملاقاتوں میں احمد خان نے شان کے حق میں فیصلہ سنا دیا تھا۔ کچھ روز قبل ہی دونوں خاندانوں کے بےحد قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں ان کی دعا خیر کردی گئی تھی۔شان نے والدین کو فی الحال ملک خاندان کو کچھ بھی بتانے سے روک دیا تھا جس کی وجہ شاہنواز کی شہزین کو لے کر بےتکی نفرت اور چڑھ تھی۔
"نہ یہ کلر نہیں یہ والا ٹھیک ہے۔۔"ملائکہ اپنے لئے مناسب رنگ کا انتخاب کر رہی تھی جب شان کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
"تم نے مجھے مہندی کا اشتہار بنانا ہے؟"شہزین نے بھڑکیلے رنگ کو دیکھتے ہی بری سی شکل بنائی تھی۔
"شازی۔۔"شان نے اسے گھورا۔
"شاپنگ چل رہی ہے؟"ملائکہ ان دونوں کو دیکھتے ساتھ ان کی طرف چلی آئی۔
"یس۔۔ہمارے نکاح کی شاپنگ۔۔"شہزین نے چہک کر کہا۔
"نکاح۔۔"اس کا دل بند ہونے کے قریب تھا۔
"لو تم نے ملائکہ کو انوائٹ نہیں کیا شان۔۔"اس نے شان کو باریک آنکھوں سے دیکھا۔
"آج کرنے والا تھا۔۔"اس نے مسکرا کر کہا۔
"اچانک سے ہی شادی؟"
"شادی تو میرے فائنل سمسٹر کے بعد ہوگی۔۔فی الحال موصوف کی فرمائش پر نکاح ہورہا ہے۔۔"شان سے قبل شہزین نے جواب دیا۔
"مبارک ہو۔۔"اس نے دل پر پتھر رکھے کہا۔
"تم نے لازمی آنا ہے اوکے۔۔"شہزین نے غیرارادی طور پر اس کے زخموں پر خوب نمک پاشی کی تھی۔
"اوکے۔۔''اپنا ٹوٹا دل وہ دوکان سے نکل گئی جبکہ وہ دونوں پھر سے اسی مہم میں مصروف ہوگئے تھے۔
"نکاح ایسا کیسے کرسکتے ہو تم شان۔۔"گاڑی چلاتے ہوئے بھی شہزین کے کہے جملے اس کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح بجنے لگے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم نے سنا؟"وہ شاہنواز کے ساتھ کافی پینے ریسٹورانٹ آئی تھی مگر دماغ شان کے نکاح والی خبر میں ہی الجھا تھا۔
"کیا۔۔"اس نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے استفسار کیا۔
"شان نکاح کر رہا ہے اس لڑکی سے۔۔"اس کا حلق گہرائیوں تک کڑوا ہوا تھا۔
"اس کی زندگی ہے جو کرتا پھرے۔۔"شاہنواز نے خاص توجہ نہ دی۔
"تم دوست ہو اس کے شاہ نواز۔۔"
"فی الحال وہ کسی کا کچھ نہیں لگتا۔۔اس کا سب کچھ وہ دو ٹکے کی لڑکی ہے۔۔"اس دن کے بعد سے وہ شان سے تقریباً ہر تعلق توڑ چکا تھا جس نے کل کی آئی لڑکی کو بچپن کی دوستی پر فوقیت دی تھی۔
"ان دونوں نے ہمیں انوائٹ کیا ہے۔۔۔"ملائکہ نے نیا انکشاف کیا۔
"ہمیں نہیں صرف تمھیں۔۔جانا ہوا تو چلی جانا۔۔"اس نے عدم توجگی سے کہا اور موبائل پر آئی کال سننے میز سے اٹھ گیا تھا۔
"شاہ میری بات۔۔عجیب انسان ہے۔۔"ملائکہ سمجھ گئی تھی کہ اب وہ اس مسلے پر دوبارہ بات کے لئے بھی راضی نہ ہو گا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کہاں ہو تم؟"عاشر جم سے نکل کر واپس بائیک پر بیٹھا ہی تھا کہ ملائکہ کی کال آگئی۔
"تمھیں میری یاد کیسے آگئی؟"اسے اندازہ تھا کہ پھر کسی زحمت کے لئے ہی اسے یاد کیا گیا ہے۔
"مجھ سے ملو جلدازجلد ایک بہت اہم کام ہے۔۔"اس نے نیا شیطانی منصوبہ سوچ رکھا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"دکھاو ماشاللہ بہت پیارا سیٹ ہے بیٹے۔۔"زیور دیکھتے ہی شہلا بیگم نے دل کھول کر تعریف کی تھی۔
"سب شان کی پسند کا ہے۔۔"اس وقت لاونج کے میز پر زیورات سمیت بہت سے نفیس کڑھائی والے جوڑے بکھرے ہوئے تھے۔
"وہ خود بھی بہت سلجھا ہوا لڑکا ہے۔"انھیں بھی یقین ہو چکا تھا کہ اس بگڑی اولاد کو سدھارنے کے لئے شان ہی بہترین انتخاب ہے۔
"ماں آپ اپنے ہونے والے داماد کی زیادہ سگی نہیں بنتی جا رہیں؟''شہزین نے خفگی ظاہر کی تھی۔
"ظاہر ہے وہ ہماری مصیبت اپنے سر پر سوار کرنے کے لئے ہنسی خوشی راضی ہوگیا ہے اب اتنی قدر تو بنتی ہے۔۔"
"باباجان کہاں ہیں؟''پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگانے سے قبل اس نے سوال کیا۔
"گاوں گئے ہیں۔۔"زیور کا ذبہ بند کرتے ہوئے وہ جوابدہ ہوئیں۔
"ناٹ اگین۔۔"شہزین نے گلاس واپس میز پر رکھا۔
"اس بار وہ بھائیوں کو راضی کرکے ہی آئیں گے۔۔"احمد خان دل میں ٹھانتے ہوئے گئے تھے کہ دونوں بھائیوں راضی کئے بغیر واپس نہیں آئیں گے۔
"اگر بھائی ایسے ہوتے ہیں تو اللہ کا شکر میں اکلوتی ہوں۔۔" شہزین کو پہلی دفعہ اپنے اکلوتے ہونے پر دل سے خوشی ہوئی تھی۔
"پاگل۔۔اب سمیٹو یہ سب۔۔"اسے ڈانٹتی وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں تو شہزین بھی چیزیں سمیٹنے میں مگن ہوئی تھی۔
"بہت بےمروت ہو لڑکی۔۔"وہ چیزیں سمیٹ کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ عاشر کی کال آن دھمکی تھی۔
"عاشر کہاں مرے ہوئے ہو تم؟"اتنے دنوں بعد اس کا رابطہ کرنا شہزین کا پارا چڑھا گیا۔
"سولی تو تم چڑھنے جارہی ہو۔۔"اس نے الٹا اسے ہی چڑھایا تھا۔
"ابھی اس میں کچھ وقت باقی ہے۔۔"وہ سمجھ گئی تھی کہ اس کے نکاح کی خبر عاشر تک پہنچ چکی ہے۔
"لیکن مجھے کل ہی ٹریٹ چاہئے۔۔"اس نے یکدم مطالبہ کیا۔
"کس خوشی میں؟"
"مجھے خود سے نہ بتانے کے غم میں۔۔"وہ خفا خفا لگا تھا۔
"تمھیں کس نے بتایا ویسے؟"شہزین کا تجسس بڑھا تھا۔
"میرے موکلوں نے۔۔"وہ تپ کر بولا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"مان جائیں نا لالہ۔۔"ان کا ہا تھ تھام کر احمد خان نے منتوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔
"تم اپنوں پر غیر کو ترجیح دے کر پچھتاوگے احمد خان۔۔" آصف خان نے بھائی کا ہاتھ جھٹک کر کہا۔
"آپ ایک دفعہ ان لوگوں سے ملیں گے تو آپ کے سب خدشات دور ہوجائیں گے۔۔"
"میرے بیٹے کو دھتکار کر تم مجھ سے یہ امید کرتے ہو کہ میں آوں گا اس نکاح پر۔۔"وہ ناک چڑھا کر بات کی نفی کرگئے تھے۔
"آپ میرے لئے باباجان کی جگہ ہیں۔۔مجھے آپ کا انتظار رہے گا لالہ۔۔"احمد خان نے صوفے سے اٹھتے ہوئے دونوں بھائیوں کا چہرہ ریکھا۔وہ جتنی التجا کرسکتے تھے کر چکے تھے۔اب ان کا اصرار بھی انھیں اس اضطراب سے آزادی بخش گیا تھا کہ انھوں نے کوشش نہیں گی
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"مجھے لگتا ہے میرا بھائی عرصے سے بھوکا پیاسا گھوم رہا ہے۔۔"اسے تیسرا برگر کھاتا دیکھ کر شہزین نے پیچ مارگریٹا کا گھونٹ بھرا تھا۔
"یہی سمجھ لو۔۔ویسے شازی شان سر سے میری سفارش تو کردو اب۔۔"ہاتھ رومال سے پونچھتے ہوئے اس نے نئی فرمائش کی۔
"کس بات کی سفارش؟"
"ان کا ایک بہت قریبی دوست آڈیشن لے رہا ہے اپنے اگلے پروجیکٹ کے لئے۔۔اگر وہ میری سفارش کردےگا تو میرے بھاگ جاگ جائیں گے۔۔"بےروزگاری سے تنگ وہ اب کام ڈھونڈھنے کی تک و دو میں تھا۔
"تمھارے نیک کارناموں کی جو فہرست شان کے سامنے کھل چکی ہے اس کے بعد بھول جاو کہ وہ تمھارے کسی کام آئے گا؟"اس کا اشارہ اسجد والے واقعے کی طرف تھا جس کے بعد اس نے حوالات کی سیر الگ کی تھی۔
"یہ سب اس شاہ کے بچے کا کیا دھرا ہے۔۔"
"اس کا پتہ تو میں پہلی فرست میں صاف کرچکی ہوں۔۔شان کو اب ایک آنکھ نہیں بھاتا وہ مردود۔۔"شہزین فاتحانہ انداز میں بولی تھی۔
"یہ اسی خوشی میں۔"سامنے رکھی پیسٹری اس کے منہ میں ٹھونستے ہوئے وہ شوخ ہوا تھا۔
"بس بس میٹھا کھلا کھلا کر ماروگے مجھے؟ "شہزین نے بمشکل پیسٹری کا بڑا سا ٹکرا نگلا تھا کہ شان کی کال آگئی۔
"کہاں ہو تم؟"عاشر کو چپ رہنے کا اشارہ کرتی وہ کال پر مخاطب ہوئی تو شان نے سوال کیا۔
"میں سمیرا کے ساتھ کیوں؟"
"وہ ہم نے نکاح کا ڈریس دیکھنے جانا تھا آج۔۔"شان نے یاد دلوایا۔
"میں بوتیک آجاتی ہوں نا۔۔"
"چلو ٹھیک ہے جلدی پہنچو۔۔"اس نے مختصر گفتگو کے بعد بات تمام کی تھی۔
"ہمم۔۔"اس نے ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کیا۔
"میری بات تو کرواتی۔۔ویسے بھی وہ مجھے بلاک کرکے بیٹھا ہے۔۔"عاشر معصومیت سے بولا۔
"شان نے مجھے سختی سے منع کیا ہے تم سے ملنے سے۔۔جب تک اس کا،غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا سکون سے بیٹھے رہو۔۔میں کوشش کرتی ہوں کہ تمھیں شان کے ساتھ ہی دوبارہ کام دلوا دوں مگر میرے نکاح تک صبر کر لو۔۔"اس نے پرس سے پیسے نکالتے ہوئے لمبی چوڑی تمہید باندھی۔
"تم کتنی اچھی ہو شازی۔۔۔"
"الحمدللہ پیدائشی نیک روح ہوں۔۔اب مجھے ڑراپ کرو جتنا تم کھاچکے ہو کرائے کے پیسے بھی نہیں بچے میرے پاس۔۔توبہ توبہ اتنے ٹیکس! لگتا یے سارے قرضے میری جیب خالی کروا کر ہی اتارنے ہے اس حکومت نے۔۔"بل پڑھتے ہوئے اس کا مزاج خطرناک حد تک بگڑا تھا۔
جب سے تم خودمختار ہوئی ہو حد درجہ کی کنجوس بن گئی ہو۔۔"بائیک کی چابیاں اٹھاتے ہوئے عاشر نے اسے چھیڑا تھا جسے خود پیسہ کمانے کے بعد پائی پائی کی قدر آئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شاہ میرے بھائی میری بات سنو۔۔مجھے وہ لڑکی بہت پسند ہے۔۔۔اس لئے مجھے اس سے بدظن کرنا چھوڑ دو۔۔"شاہنواز کو اس نے کال اپنے نکاح پر مدعو کرنے کے لئے ملائی تھی مگر اس نے پھر سے شہزین کے اتنخاب پر کئیں سوال اٹھا کر شان کا دماغ الجھایا تھا۔
"یہ لڑکی مجھے تمہارے لئے کسی صورت مناسب نہیں لگتی۔۔" اس نے تلخی سے شان کی بات کاٹی تھی۔
"کیوں؟"
"کیونکہ وہ اس وقت بھی تم سے جھوٹ بول کر عاشر کے ساتھ گھوم پھر رہی ہے۔۔"اس کی آنکھوں کے سامنے کچھ دیر قبل کا منظر جگمگایا جب عاشر اسے اپنے ہاتھوں سے پیسٹری کھلا رہا تھا۔
"تم ہوش میں ہو؟"
"ہاں ہوش و ہواس میں ہوں۔۔۔"
"شازی مجھ سے جھوٹ نہیں بولتی۔۔"شان نے اس کی بات جھٹلا دی تھی۔
"تمہاری مرضی۔۔میرا کام صرف تمہیں محتاط کرنا تھا۔۔ "اس نے اس کے کان بھرنے کے بعد کال کاٹ دی تھی۔
شہزین کے بوتیک پہنچنے سے قبل ہی وہ وہاں پہنچ چکا تھا۔وہ نکاح کے جوڑے کو لے کر جتنی اتاولی ہو رہی تھی شان اتنا ہی خاموش ہوگیا تھا۔دماغ میں شاہنواز کی باتیں ہی دوڑ رہی تھیں مگر شہزین سے کوئی سوال پوچھ کر وہ ان لمحوں کو بیکار کرنے کے حق میں بھی نہ تھا۔
"تم آج عاشر سے ملی تھی؟"اسے گھر اتارتے وقت وہ سوال کر بیٹھا۔
"نہیں۔۔"اس نے بلاتکلف جھوٹ کہا۔
"شاہ نے تمہیں عاشر کے ساتھ دیکھا تھا شازی جھوٹ مت بولو۔۔"اس نے لہجہ تھوڑا سنجیدہ کیا۔
"تمہارا وہ دوست بھی تو جھوٹ بول سکتا ہے نا۔۔"شہزین نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
"ہوسکتا ہے اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔۔"اس نے شہزین کے بدلتے مزاج کو دیکھ کر بحث وہیں ترک کردی تھی۔
"شان تم جانتے ہو نا کہ ہم ایک بہت مضبوط بندھن میں بندھنے جارہے ہیں۔۔"اس نے اب بھی بات جاری رکھی۔
"ہاں۔۔"
"اس رشتے کی بنیاد اعتبار پر ہونی چاہئے بےاعتباری پر نہیں۔۔"اسے یہ تفتیش سخت گراں گزری تھی۔
"جانتا ہوں شازی۔۔آئی ایم سوری۔۔"وہ معذرت سے معاملہ یہیں ختم کرنا چاہتا تھا۔کچھ دن بعد ان کے نام اور مقدر ایک ہونے جارہے تھے وہ کسی بدمزگی کو یہ لمحات برباد کرنے کی اجازت کیسے دیتا!
شان کو ٹال کر وہ بات تو دبا گئی تھی مگر شاہنواز کو سنائے بغیر اسے سکون کیسے ملتا۔خوش قسمتی سے ایک بار شان نے اس کے نمبر سے دوست کو کال ملائی تھی تو نمبر اس کے فون میں محفوظ تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے شاہنواز کو کال ملائی تھی۔
"ہیلو۔۔"
"تمہیں تکلیف کیا ہے۔"اس نے زہرکند انداز اختیار کیا۔
"کون؟"وہ اس کی آواز شائد پہلی بار کال پر سن رہا تھا۔
"وہ جس کی خوشیاں تمہیں ہضم نہیں ہو رہی۔۔"
"اگر آپ صاف صاف بتادیں کہ آپ چاہتی کیا ہیں تو مجھے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔۔"اس نے کچھ حد تک اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ شازی خان ہی ہے۔
"شان کو میرے خلاف بھڑکانا چھوڑ دو مسٹر شاہ۔۔"اس نے دانت پیستے ہوئے دھمکی دینے والا انداز اپنایا۔
"تم اتنی اہم نہیں ہو کہ تمہاری وجہ سے اپنی مصروفیات ترک کرکے ان فضولیات میں وقت برباد کروں۔۔"اسے بھی اس رعب پر تکلیف ہوئی تھی۔
"تم جیسے لوگ جن کے اپنے ہاتھ خالی ہوتے ہیں انہیں ویسے ہی دوسروں کی خوشیاں ہضم نہیں ہوتی۔۔"
"شٹ اپ۔۔"وہ غرایا تھا۔
"یو شٹ اپ۔۔گھٹیا۔۔منہوس انسان۔۔"اسے دو کی چار سناتی وہ رابطہ منقطع کر گئی تھی۔
"پاگل عورت۔۔شان کو بھی پوری دنیا میں یہی ایک نمونہ ملا تھا۔۔۔ "اس نے موبائل غصے سے بیڈ پر پٹکا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ویسے آپ کو ہر دونمبر کام کے لئے میری ہی یاد کیوں آتی ہے؟"ملائکہ کے بلاوے پر عاشر اس سے ملنے پہنچا تھا۔
"کیونکہ تم اس معاملے میں ماہر ہی اتنے ہو۔۔"
"وہ تو میں ہوں۔۔"اس نے شرٹ کے کالر چڑھائے تھے۔
"جو کہا ہے وہی ہونا چاہئے۔۔تصویریں کسی صورت نکلی نہ لگیں اوکے۔۔"اس نے سخت ہدایات جاری کی تھیں۔
"جی۔۔"
"اور میرا نام آیا تو۔۔۔"
"پچھلی بار آیا تھا؟"اسنے جتاتے ہوئے کہا۔
"نہیں تبھی تو تم پر اعتبار ہے مجھے۔۔"ملائکہ مکاری سے مسکرائی تھی۔
"تو پھر آپ کا یہ اعتبار نہیں ٹوٹے گا۔۔"
"یہ سم کارڈ ہے اور یہ اس انسان کا نمبر مگر آپ کرنا کیا چاہتی ہیں؟اور اب یہ لڑکی کون ہے جس کی جھوٹی تصویریں بنوا کر آپ۔۔"اسے سم کارڈ اور کسی کا نمبر سونپتے ہوئے وہ تھوڑا گھبرا بھی رہا تھا۔
"ہے میرے راستے کا ایک کانٹا جو بہت جلد میں اپنے راستے سے نکال باہر کروں گی۔۔"اس نے معنی خیزی سے عاشر کی بات کاٹی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شان کے نکاح سے پہلے میں سوچ رہی تھی کہ اس کے اور شازی کے لئے کچھ سپیشل کرتے ہیں۔۔"ایک طرف وہ اپنی چال چل رہی تھی تو دوسری طرف شان کی نظروں میں اچھا بننے کے لئے ڈھونگ الگ سے رچایا جارہا تھا۔
"کس خوشی میں؟"کال پر موجود شاہنواز تیور چڑھا گیا۔
"جو بھی ہو شاہنواز۔۔۔ہمیں شان کا دل تو رکھنا چاہئے۔۔"
"اس لڑکی نے مجھے بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اس کے باوجود شان اس کے ساتھ کھڑا ہے اور تم مجھ سے یہ امید کر رہی ہو کہ میں اس کے اعزاز میں پارٹی دوں؟"
"تمھارا دوست شان یے۔۔اور ہم لوگ بچپن سے ساتھ ہیں۔۔کل کی آئی لڑکی کی وجہ سے ہم اپنی سلام دعا تو خراب نہیں کرسکتے۔۔"
"تمھیں جو کرنا ہے شوق سے کرو۔۔کوئی پابندی نہیں ہے مگر مجھے منافقت سے سخت چڑھ ہے۔۔"اتنا کہتے ہی اس نے کال کاٹ دی تھی۔
"ذہنی مریض۔۔"ملائکہ نے برا سا منہ بناتے ہوئے موبائل اسکرین دیکھی تھی۔
اسے شاپنگ کا کہہ کر وہ اپنے ساتھ لے آیا تھا لیکن کسی مال میں جانے کی بجائے وہ دونوں شہر کے آخری کونے میں کسی ویران مقام پر پہنچے تو شہزین کا تجسس بڑھا تھا۔
"ہم آئے کہاں ہیں شان؟"اس نے جیسے ہی عمارت کے اندر قدم رکھا تو گہرا اندھیرا اور سناٹا اس کا منتظر تھا۔
"ہماری منگنی پر۔۔"اس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہاں کی روشنی بحال ہوئی تھی۔
"منگنی۔۔"اس نے گردونواح دیکھا تو شان کے دوستوں کے ہمراہ بہت سے لوگ وہاں موجود تھے۔
"جتنی جلدبازی میں نکاح ہونے جارہا ہے مجھے منگنی کرنے کا تو موقع ہی نہیں ملا۔۔اس لئے میڈم آپ کو ہماری منگنی بہت بہت مبارک ہو۔۔"شان نے جیب سے انگوٹھی نکال کر اسے پہنائی تو سب نے خوب شور مچایا تھا۔
"ہم دنیا کا واحد کپل ہیں جو شادی سب کے سامنے کر رہے ہیں اور منگنی چھپ چھپ کر۔۔"اس کی خوشی بھی عروج پر تھی۔
"مبارک ہو۔۔"وہاں آتا شاہنواز بہت تکلف سے بولا تھا۔
"خیر مبارک۔۔"اس سے مصافحہ کرتا شان کسی دوسرے دوست کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
"بہت خوش ہو تم لیکن یہ خوشی زیادہ دیر ٹکنے والی نہیں ہے؟"شان کے وہاں سے جاتے ہی اس نے شہزین کو نئی دھمکی دی تھی۔
"واقعی ایسا کیا کرنے جارہے ہو تم؟"اسے یہ محض گیدر پھپھکیاں لگی تھیں۔
"تمھاری طرح پیٹھ پیچھے وار نہیں کروں گا۔۔۔تم جیسوں کو اپنے کارنامے خود ہی بےنقاب کرتے ہیں مس رائٹر۔۔شان کے لئے تم جو آج ہو وہ ہمیشہ نہیں رہو گی اسے بچپن سے ایک بہت بری عادت ہے کسی بھی بیکار چیز کو خود پر سوار کرلیتا ہے مگر دل بھر جائے تو اسے اس کی اصل اوقات تک واپس بھی خود ہی چھوڑ کر آتا ہے۔۔"اس کی آواز میں جتنا ٹھہراو تھا الفاظ اتنے ہی چیتھرے اڑا دینے والے تھے۔
"تمھارے ساتھ جو ہوا اس پر پہلے مجھے افسوس تھا مگر اب مجھے اطمینان ہے کہ کچھ لوگ ذلت کے ہی لائق ہوتے ہیں اور ایک بات۔۔ شان کے لئے میں کیا ہوں یہ مجھے تم سے جاننے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میرے لئے وہ تم سے اپنا ہر تعلق بہت پہلے ختم کرچکا ہے۔۔"اس نے بھی بلالحاظ مقابل کی بولتی بند کرواتے ہوئے شان کو اشارے سے وہاں بلایا تھا۔
"آو نا تصویر بنواتے ہیں۔۔"اس نے شان کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔
"ایک منٹ۔۔پلیز۔۔"اپنا موبائل شاہنواز کو پکڑاتے ہوئے وہ تکلف سے بولی۔
"شیور۔۔"اس نے جبرا مسکراتے ہوئے وہ لمحہ موبائل میں محفوظ کیا تھا۔
"کہاں ہو شازی؟ہم نے ملنا تھا یار۔۔"تصویر کھینچتے وقت عاشر کا میسج اسکرین پر پل بھر کے جگمگایا تھا۔
"تم باز آنے والوں میں سے نہیں ہو مس رائٹر۔۔"اسے شہزین کی حرکتوں سے زیادہ دوست کے پھوٹے مقدروں پر افسوس ہوا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"اب جاو بھی۔۔۔"شہزین نے اسے جانے کا کہا وہ اسے چھوڑنے گھر کے دروازے تک آیا تھا مگر دل اس سے دور جانے کو تیار نہ تھا۔
"نہیں۔۔"شان نے نفی میں گردن ہلائی۔
"شان۔۔"
"یہ وقت کب گزرے گا؟اور کب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میری دسترس میں آجاو گی؟"وہ منہ پھلائے سوال گوہ ہوا۔
"جب میری ڈگری مکمل ہوگی اور تمھاری آزادی تمام۔۔"اس نے ڈور بیل بجاتے ہوئے کہا۔
"اس قید پر تو ہر آزادیاں قربان۔۔"دل پر ہاتھ رکھے وہ سر جھکا گیا۔
"تم سے اب نکاح کے بعد ملوں گی۔۔"اسکے بدلے تیوروں پر شہزین نے منہ بنایا تھا۔
"سوچ لو۔۔جتنی دیر سے ملو گی اتنا ہی زیادہ وقت گزارنا پڑے گا میرے ساتھ۔۔"وہ الٹے قدموں سے جاتے جاتے اسے محتاط کر گیا۔
"منظور ہے۔۔بائے۔۔"اس نے جان بچاتے ہوئے کہا۔
"ہائے۔۔"دروازہ کھلنے سے قبل وہ وہاں سے غائب ہوا تھا جبکہ ملازمہ کے دروازہ کھولتے ساتھ ہی شہزین اندر کی جانب بڑھی تھی۔نکاح میں بہت کم دن بچے تھے اور اسے ابھی تک بے یقینی سی تھی کہ سب کچھ کتنی آسانی سے اس کے حق میں ہوتا چلا جارہا تھا۔
"تمھاری منگیتر صاحبہ اب بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی۔۔"وہ شہزین کو گھر چھوڑنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھا تو گاڑی میں کے ڈیش بورڈ پر رکھا موبائل بجا تھا۔
"مطلب؟"اس نے وٹس ایپ پر شاہنواز کا میسج پر پڑھ کر پہلے دوست کی سوچ پر افسوس کیا پھر مختصر جواب دے کر گاڑی سٹارٹ کی تھی۔
"مطلب کہ وہ اب بھی عاشر سے ملتی ہے اور ان کا کل کہیں جانے کا پلان بھی بنا ہے۔۔اس سے پوچھنا مت کیونکہ وہ جھوٹ بہت مہارت سے بولتی ہے۔۔"اگلا میسج دیکھ کر اسے شاہنواز کی سوچ پر ہنسی بھی آئی تھی جس کی بچپن سے بدترین عادت تھی کہ جس سے بیر پالتا اس کی خوشیوں کا دشمن بن جاتا مگر اس بار شہزین کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑتے وقت اسے یہ بھی خیال نہ رہا تھا کہ وہ اس کے دوست کی عزت بننے جا رہی ہے۔
"اور کچھ؟"اس نے اگلا میسج بھیج کر موبائل واپس ڈیش بورڈ پر پھینک دیا۔
"اب بھی وقت ہے شان سنبھل جاو میرے بھائی۔۔"دوبارہ میسج آنے پر موبائل بجا تھا۔
"مشہورے کا شکریہ۔۔"جواب لکھتے ساتھ اس نے موبائل ڈیٹا بند کردیا۔شاہنواز کی باتوں کو فی الوقت اس نے غیر سنجیدگی سے ٹال دیا تھا مگر گھر جاتے ہوئے اسے تھوڑا شبہ بھی ہونے لگاتھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی دل میں شک کا بیج اپنی جگہ بنا رہا تھا۔
"تم کل فری ہو؟"اس نے رات گئے شہزین کو میسج بھیجا۔
"نہیں۔۔کل تایاجان وغیرہ آرہے ہیں۔۔"اس نے اسی دم جواب بھیجا۔
"کل مام تمھیں شاپنگ پر لے جانا چاہتی ہیں۔۔"اس نے کچھ سوچتے ہوئے میسج ٹائپ کیا۔
"پرسوں کا کرلو۔۔"اس نے آخری میسج بھیج کر گفتگو تمام کی تھی۔
"ہمم ٹھیک ہے۔۔"اس نے بھی مزید اصرار نہ کیا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تھینکس یار شازی۔۔۔"وہ کاونٹر پر کارڈ سے بل ادا کر رہی تھی جب شاپنگ کے تھیلے سینے سے لگائے عاشر خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔
"میں بتارہی ہوں۔۔تم نے آنا ہے میرے نکاح پر اب یہ بہانہ بھی نہیں چلے گا کہ تمھارے پاس ڈھنگ کے کپڑے نہیں ہیں۔۔" اس کی غربت کا رونا سنتے ساتھ ہی شہزین نے اسے اپنے پیسوں سے نئے کپڑے خرید کر دیے تھے۔
"دوست ہو تو تم جیسی۔۔جس دن میں بڑا سٹار بنا،تمھاری پائی پائی واپس کردوں گا۔۔"اس نے ہمیشہ کی طرح شیخ چلی والے خواب دیکھے تھے۔
"اللہ کرے قیامت سے پہلے وہ مبارک دن آجائے۔۔"دکان سے نکل کر دونوں فوڈ کورٹ چلے آئے تھے۔
"آمین۔۔"اس کے پیچھے پیچھے چلتا وہ دعاگوہ ہوا تھا۔
"کھانا کھاو گے؟"شہزین کو اندازہ تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح بھوکا گھوم رہا ہوگا۔
"تم کھلاوگی تو انکار کیسے کرسکوں گا؟"کرسی سنبھالتے ساتھ اس نے مینیو چارٹ ٹٹولا تھا۔
"بُھکڑ۔۔"شہزین نے اس کی غربت پر چوٹ کی تھی جسے بس فلم سٹار بننے کا جنون تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ویسے تمھیں شازی کو ساتھ لانا چاہئے تھا۔۔"ملائکہ کے ساتھ وہ کچھ خریداری کرنے مال پہنچا تو اس نے جان بوجھ کر شہزین کا ذکر چھیڑا تھا۔
"وہ آج فیملی کے ساتھ مصروف ہے ورنہ مام اسلام آباد آرہی تھیں۔"اس نے ٹی شرٹ دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"نکاح میں کتنا کم وقت بچا ہے۔۔سب تیاریاں ہو گئیں؟"
"کہاں ملائکہ۔۔"وہ خود بھی آئے روز بازار کے چکر کاٹ کاٹ کر تنگ آگیا تھا۔
"شاپنگ کتنی رہ گئی ہے؟"اسی دوران شاہنواز نے ملائکہ کو ویڈیو کال ملائی تھی۔
"تمھاری میٹنگ ختم ہوگئی؟"اسے ویڈیو کال پر تعجب ہوا۔
"ہاں میں لنچ کرنے ریسٹورانٹ آیا تھا تو مجھے ہونے والی بھابھی صاحبہ مل گئیں۔۔۔سلام کرو شان ہے۔۔"اسی دوران وہ فاصلہ عبور کرتا شہزین کے پاس پہنچا جس کا چہرہ شاہنواز کو دیکھتے ہی بےرنگ ہوا تھا۔
"گھبراو نہیں۔۔عاشر تم بھی سلام کرو۔۔"اس کی گھبراہٹ کا مزاق ڑاتے اس نے موبائل عاشر کی طرف گھمایا تو اس نے مروتاً ہاتھ ہلا کر سلام کیا۔
"تم تو آج فیملی کے ساتھ مصروف تھی نا؟"شان کو جھوٹ پر شدید غصہ آیا تھا۔
"لگتا ہے اب سچ بتانا پڑے گا۔۔"اس نے کچھ سوچتے ہوئے عاشر کو مخاطب کیا جو خود اس کے اگلے جھوٹ سے لاعلم تھا۔
"ارے واہ آپ سچ بھی بولتی ہیں۔"شاہنواز نے اس پر طعنہ کسا۔
"الحمدللہ کیونکہ میں آپ پر نہیں گئی۔۔"اس نے پراعتمادی سے کہا۔
"میں تمھارے لئے سرپرائز گفٹ لینے آئی تھی نکاح سے اگلے دن برتھ ڈے ہے نا تمھاری مگر تمھارے دوست نے سارا سرپرائز برباد کردیا۔۔"اس نے حاضر دماغی سے شاہنواز کا سارا کھیل بگاڑا تھا۔
"تمھیں میری برتھ ڈے یاد تھی؟"شان کا سارا غصہ پل بھر میں ہوا ہوگیا۔
"بھول سکتی ہوں؟"
"ہاو سویٹ۔۔"عاشر نے استہزایہ نظروں سے شاہنواز کا چہرہ دیکھا جو اپنی ہی بساط الٹنے پر دنگ رہ گیا تھا۔
"اب میں ملائکہ تو ہوں نہیں جسے منگتر سے زیادہ دوست کی پرواہ ہو نہ ان موصوف کی طرح ہوں جو دوسروں کی جاسوسیوں میں وقت برباد کرتی پھروں۔۔"اس نے موقع ملتے ہی دونوں کو گہری ٹوک لگائی تھی۔
"میں کسی کی جاسوسی نہیں کر رہا تھا۔۔"ویڈیو کال بند کرتے ساتھ وہ غرایا تھا۔
"تب ہی تین گھنٹے سے میرا پیچھا کر رہے ہو؟ویسے اتنی توجہ اپنی منگیتر کو دو ورنہ اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔۔چلو عاشر۔۔ "میز سے اٹھتے ہوئے اس نے دوبدو جواب دیا تھا۔
"شاہ پیچھا کر رہا تھا شازی کا؟"شان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ارادی طور پر شہزین کی جاسوسی کر رہا ہے۔
"نہیں۔۔اتفاقاً ملاقات ہوئی ہوگی دونوں کی۔۔"ملائکہ نے خفیف انداز میں جواب دیا۔
"مجھے سمجھ نہیں آتی اسے شازی سے مسلہ کیا ہے۔۔"کندھے اچکاتا وہ دکان سے نکل گیا تھا۔
"شاہنواز صرف باتیں ہی کرسکتا ہے۔۔مجھے اس پر انحصار نہیں کرنا بلکہ یہ راستے کا کانٹا خود ہی ہٹانا ہے۔"اسے آج شان کا اعتماد دیکھ کر یقین آگیا تھا کہ وہ باآسانی شہزین سے بدظن ہونے والا نہیں ہے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"یہ یو ایس بی اور یہ ہارڈ کاپیز۔۔"اسے سفید کاغذی لفافے میں بند امانت سونپتے ہوئے عاشر کے دل پر بوجھ سا بڑھتا جارہا تھا۔
"تھینک یو۔۔"ملائکہ نے مطلوبہ چیزیں اپنے پرس میں رکھتے ہوئے عاشر کو کچھ پیسے تھمائے تھے۔
"مجبوری نہ ہوتی تو کبھی تمھیں یہ بنوا کر بھی نہ دیتا۔۔آج کے بعد میں تمھارا کوئی کام نہیں کروں گا۔۔"اس کی چھٹی حس چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ ملائکہ کچھ بڑا سوچ رہی ہے۔لہذہ اپنے پیسے لیتا وہ وہاں مزید نہ رکا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کیا ہوگیا میرے باباجان کو۔۔"وہ باپ کی چائے لئے کمرے میں پہنچی تو وہ اداس دکھائی دیے تھے۔
"باباجان کو یقین نہیں آرہا کہ ان کی گڑیا پرائی ہونے والی ہے۔۔"اسے اپنے دائیں بازو کے حصار میں بیٹھاتے وہ جذباتی ہوئے تھے۔
"میں کوئی سات سمندر پار نہیں جارہی ویسے بھی آپ کا ہونے والا داماد اسی سوسائٹی میں گھر خرید رہا ہے تو یہ خیال دل سے نکال دیں کہ آپ کی جان مجھ سے چھوٹ جائے گی۔"اس نے اٹھلاتے ہوئے بتایا۔نکاح سے قبل والدین کی اسلام آباد آمد کے بعد شان نے ایک بنگلہ وقتی طور پر کرائے پر لیا تھا کیونکہ شہزین نے اس سے پہلے وعدہ لے لیا تھا کہ وہ مستقل رہائش اس کے والدین کے آس پاس اسی سوسائٹی میں ہی اختیار کریں گے۔
"یعنی تمھیں شادی کے بعد بھی برداشت کرنا پڑے گا؟"اس کے قریب آکر بیٹھتی شہلا بیگم نے مصنوعی خفگی دکھائی تھی۔
"باباجان۔۔آپ کو پوری دنیا میں میرے لئے یہی ماں ملی تھی؟" اس نے بھی ماں کو ممکن حد تک زچ کیا تھا۔
"بدتمیز۔۔"
"آپ دونوں اتنے ایموشنل نہ ہوں ابھی صرف نکاح ہے۔۔یہ آنسو رخصتی کے لئے بچا کر رکھیں۔۔"ان دونوں کے گرد حصار باندھتے وہ اپنے آنسو چھپا گئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"یہ کیا بکواس بھیجی ہے تم نے مجھے؟"وٹس ایپ پر موصول ہونے والی کچھ تصاویر نے عاشر کو ہواس باختہ کیا تھا۔اسی دوران ملائکہ نے اسے کال ملائی تھی۔
"تمھیں ایک بار یہ تصاویر دیکھ لینی چاہئے تھی عاشر۔۔" ملائکہ کی آواز میں فاتحانہ چہک تھی۔
"ملائکہ یہ سب ڈیلیٹ کرو فوراً۔۔''اس کا لہجہ قہر آمیز تھا۔
"ورنہ کیا کروگے تم؟"
"میں۔۔"وہ لاجواب ہوا تھا۔
"تم شان کو میری حرکت کا بتا دو گے؟تو میں بھی اسے بتا دوں گی کہ اس دن شاہنواز کے گھر لڑکی تم نے اور شازی نے بھیجی تھی۔۔"اس نے نئی بحث چھیڑ دی تھی۔
"اور تم بچ جاو گی؟"
"ہاں۔۔کیونکہ اس لڑکی کو میں اتنی قیمت دے چکی ہوں کہ وہ مرتی مرجائے گی مگر میرا نام نہیں لے گی۔۔"وہ اپنی جانب سے سب منصوبہ بندی کئے بیٹھی تھی۔
"یہ تصویریں تم نے کہیں بھی بھیجی تو تمھاری عزت بھی دوکوڑی کی کرنے میں مجھے ایک لمحہ نہیں لگے گا۔۔"
"کیا کروگے تم؟"اس نے خائف ہونے کی زحمت نہ کی تھی۔
"تم چاہتی کیا ہو؟"عاشر بےبسی سے سوال گوہ ہوا تھا کیونکہ جو حماقتیں وہ مسلسل کرتا چلا آیا تھا اس نے بلاوجہ شہزین کا مستقبل بھی خطرے کی نظر کر دیا تھا۔
"شان کو یہ یقین دلا دو کہ شازی اس کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔۔یہ نکاح کسی صورت نہیں ہونا چاہئے ورنہ یہ تصاویر ہر سوشل میڈیا ویب سائٹ کی زینت بن جائیں گی۔۔"اس نے اپنی شرط بتاتے ساتھ کال کاٹ دی تھی۔
"ہیلو ہیلو۔۔"
احمد خان کے اصرار پر بالآخر دونوں بھائی نکاح میں شرکت کے لئے اسلام آباد چلے آئے تھے۔بلال بھی دل پر پتھر رکھے شہر پہنچا تھا کیونکہ اگر وہ لوگ شہزین کی خوشیوں میں شریک نہ ہوتے تو احمد خان بھی مرتے دم تک دوبارہ گاوں قدم نہ رکھتے۔سمیرا اور کچھ سہلیوں کے اصرار پر آج شہزین کے گھر ڈھولکی کا اہتمام کیا گیا تھا۔جس میں وہ خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی۔
"ماں آئیں نا۔۔"سمیرا نے اس کا پسندیدہ گانا سپیکر پر چلایا تو وہ ماں کو لئے لاونج کے درمیان تک کھینچ لائی تھی۔
"لڑکی تم دلہن ہو کچھ تو خیال کرو؟"اس کا یوں ناچ گانا کرنا ماں کو جیٹھانیوں کے سامنے شرمندہ کر رہا تھا جسے شرم چھو کر بھی نہ گزری تھی۔
"تائی جان آپ بھی آئیں ویسے بھی مجھے دل سے خوش ایک آپ ہی لگ رہی ہیں۔۔"اس نے بقیہ دونوں تائیوں کے اترے چہرے دیکھ کر شبانہ بیگم کو بھی صوفے سے اٹھایا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کیا کروں کیا کروں؟شازی ہاں شازی کو سب بتا دیتا ہوں وہ اکیلی ہی ان دونوں ذہنی مریضوں کے لئے کافی ہے۔۔"عاشر نے ملائکہ سے رابطہ ختم ہوتے ساتھ ہی اگلی کال اس دوست کو ملائی جس کے ذریعے اس نے شہزین کی نکلی تصاویر بنوائی تھیں مگر ملائکہ کے پیسے کی چمک نے وہاں بھی اسے مایوسی کی تاریکی میں جا دھکیلا تھا۔اس انسان نے عاشر کو ہر ممکنہ جگہ سے بلاک کر دیا تھا۔اس کا دماغ اب کام کرنا ہی چھوڑ چکا تھا۔پہلا خیال یہی آیا تھا کہ ملائکہ کے ساتھ شاہنواز بھی سو فیصد اس منصوبے میں شریک ہو گا۔
شازی فون اٹھاو اللہ کی بندی۔۔۔"شہزین کو کال ملاتے ہوئے اس کی ٹانگیں مسلسل کپکپا رہی تھیں۔
"شازی کال ہے۔۔"وہ ناچ گانے میں مگن تھی جب سمیرا اس موبائل لے کر اس تک پہنچی تھی۔
"ہیلو ہاں بولو۔۔"اس نے بے دھیانی میں کال اٹھائی۔
"شازی گربڑ ہوگئی ہے۔۔میری بات غور سے سنو۔۔''
"ہیلو۔۔"شور کے باعث اسے کچھ سنائی نہ دیا۔
"مجھ سے ملو۔۔مجھے کچھ بتانا ہے تمھیں۔۔"وہ اب باقائدہ چیخنے لگا تھا۔
"ہیلو۔۔میسج کردو مجھے آواز نہیں آرہی۔۔"اس نے کال کاٹنے میں ہی عافیت جانی تھی۔
"کیا بکواس ہے؟"عاشر نے موبائل کو یوں گھورا جیسے سارا قصور معصوم موبائل کا ہو۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ہوا کیا ہے اللہ کے بندے میں اپنی رسم چھوڑ کر آئی ہوں۔۔" صبح سویرے عاشر کی کال پر کال نے اس کے فون کی بیٹری تقریباً ڈیڈ کر دی تھی تو وہ مجبورا اس سے ملنے چلی آئی تھی۔
"شازی بہت بڑا مسلہ ہوگیا ہے یار۔۔۔تم بیٹھ کر میری بات تو سنو۔۔"وہ پہلی نشست پر آکر بیٹھی تو عاشر نے گاڑی اس کے گھر سے دور چلانا شروع کی تھی تاکہ کوئی انھیں ساتھ دیکھ کر الٹا سیدھا نہ سوچے۔
"جلدی کرو عاشر۔۔"اس نے ویران سڑک پر گاڑی روکی تو شہزین کو اس کا پہلیاں بوجھانا خائف کر رہا تھا۔
"شازی وہ ملائکہ۔۔بہت بڑی ڈائن نکلی ہے اس نے۔۔"اسنے ڈرتے ڈرتے ہر بار شہزین کو بتائی تھی۔
"تم یہ دو نمبریاں کب چھوڑوگے اللہ کے بندے؟"اس کا چہرہ خوف سے بے رنگ پڑا تھا۔
"مجھے پیسے چاہئے تھے شازی۔۔"وہ خود بھی ندامت میں چور لہجے میں بولا۔
"تم کسی دن مجھے بیچ کھاو گے۔۔"اس نے غصے سے ڈیش بورڈ کو مکہ بنا کر مارا۔
"اللہ نہ کرے۔۔"ا
"پر تم نے تو کر دیا ہے نا عاشر۔۔وہ اکیلی نہیں ہوگی اس کا دو نمبر منگیتر بھی ساتھ ملا ہوگا۔۔"کچھ سوچتے ہوئے اس نے شان کا نمبر موبائل سے نکالا۔
"وہ مجھے نہیں پتہ۔۔"
"مجھے شان سے بات کرنی پڑے گی۔۔"وہ شان کو کال ملانے والی تھی جب عاشر نے اسے روک دیا۔
"لیکن شان سر کو اس لڑکی والی بات کا پتہ چل گیا تو؟"
"تو ملائکہ بھی ساتھ ہی پھنسے گی۔۔وہ شہزین احمد خان کو جانتی نہیں ہے ابھی۔۔"غصے سے اس کا سانس چڑھنے لگا تھا۔
"پکڑو انھیں ۔۔کوئی بھی نہ بھاگ پائے۔۔"اسی اثنا میں پولیس نے وہاں آکر گاڑی کا شیشہ یوں بجایا جیسے گاڑی میں کوئی بڑا مجرم سوار ہو۔
"یہ پولیس۔۔تم چوری کی گاڑی لے کر آئے ہو کیا؟"شہزین نے دروازہ کھولنے سے پہلے عاشر کا منہ دیکھا۔
"خبردار جو کوئی چالاقی دکھائی۔۔۔نکلو باہر دونوں۔۔"وہ دونوں جیسے ہی گاڑی سے نکلے پولیس نے عاشر پر ریوالور تان دی تھی۔ان دونوں کے موبائل فون ضبط کرنے کے بعد پولیس اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
"مجھے ایک کال تو کرنے دیں سر۔۔"پولیس اسٹیشن میں بیٹھا عاشر منت کئے جارہا تھا۔
"چپ کرکے بیٹھ جا۔۔"پولیس والے نے بدلحاظی سے اسے جھڑک دیا۔
"تمیز سے بات کرو تم۔۔''شہزین جو غصہ قابو کئے بینچ پر بیٹھی تھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"لڑکی اب تم مجھے تمیز سکھاو گی جو گھر کی عزت یوں سڑکوں پر روندتی پھر رہی ہے۔"
"جسٹ شٹ اپ۔۔"وہ پوری قوت سے چیخی تھی۔شام میں نکاح تھا اور صبح سویرے وہ گرفتار ہو کر حوالات کی سیر کر رہی تھی۔دل میں بار بار احمد خان کا جلالی روپ تصور کرتے ہوئے قشار خون الگ بڑھ رہا تھا۔
"سمیرا بچے شازی کہاں ہے؟"وہ جو صبح آدھے گھنٹے کا کہہ کر گھر سے نکلی تھی دوپہر تک واپس نہ پہنچی۔
"آنٹی وہ آ رہی ہے۔۔"سمیرا اس کا نمبر ملائے جارہی تھی جو بند مل رہا تھا۔
"تم لوگوں کو سیلون کے لئے بھی نکلنا ہے بیٹے۔۔گئی کہاں ہے یہ لڑکی۔۔"ان کا دل کسی انہونی کا اندیشہ دے رہا تھا۔
"یہ کال بھی نہیں اٹھا رہی۔۔"اس نے یونہی ظاہر کیا جیسے وہ کہیں مصروف ہو ورنہ بند نمبر کا سن کر شہلا کی پریشانی اور بھی بڑھ جاتی۔
"میرا نکاح ہے رات میں اللہ کے بندے اور تم۔۔"وہ دونوں پریشان حال بینچ پر بیٹھے تھے جب شہزین نے عاشر کو کھا جانے والی نگاہ سے دیکھا تھا۔
"سر مجھے ایک کال کرنے دیں پلیز۔۔"وہ پھر سے منتوں پر اتر آیا مگر انسپیکٹر نے اس بار بھی اس کی فریاد ان سنی کی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کیا؟کہاں؟"پولیس اسٹیشن سے آنے والی کال پر گیلانی صاحب کے ہوش فنا ہوئے تھے۔
"سب خیریت ہے ڈیڈ؟"سفید شیروانی میں ملبوس شان ابھی ابھی گھر پہنچا تھا۔
"تمھاری ہونے والی بیوی حوالات میں ہے اس وقت۔۔"ان کے الفاظ وہاں موجود ہر فرد پر بم کی طرح گرے تھے۔
"وٹ۔۔"شان کا دماغ بھی سن کر ہو کر رہ گیا تھا۔
شہزین نے کلائی میں بندھی گھڑی دیکھی جو شام کے چھ بجا رہی تھی۔نو بجے اس کی بارات آنی تھی اور خود وہ پولیس اسٹیشن میں بیٹھی کسی معجزے کے منتظر تھی جو اس کی جان آنے والے عذاب سے بچا دے۔
"شان۔۔"شان کو اپنے والد اور احمد خان کے ساتھ وہاں آتا دیکھ کر اس کی ٹانگیں بےجان ہوئی تھیں۔
"یہ سب کیا ہے شازی؟"شان چل کر اس کے پاس آیا۔
"شان میں۔۔"
"انسپیکٹر صاحب یہ سب کیا ہے؟"احمد خان پولیس سے سوال گوہ ہوئے۔
"انھیں اس لڑکے کے ساتھ غیرحالت میں رنگے ہاتھوں پکڑا ہے ہم نے۔۔"پولیس کا الزام اس کے اور عاشر کے پرخچے اڑا گیا۔
"یہ بکواس کررہا ہے شان۔۔باباجان یہ جھوٹ۔۔"وہ غصے سے بپھڑی تھی۔
"جس گاڑی میں یہ دونوں موجود تھے وہ بھی چوری کی تھی۔۔" اگلا انکشاف عاشر کا سر گھوما گیا جو اپنے لوفر دوست سے گاڑی مانگ کر لے جانے کی حماقت کر چکا تھا۔
"باباجان یہ جھوٹ۔۔"اسے پہلی بار احمد خان کی سخت نگاہوں سے خوف آیا تھا۔
"تم کیا کرنے گئی تھی اس کے ساتھ؟"ان کے لہجے میں ٹھہراو تھا مگر انداز جان نکال دینے والا تھا۔
"بولو۔۔"اسے خاموش دیکھ کر وہ دھاڑے تھے۔
"انکل۔۔"عاشر نے تھوک نگلتے ہوئے کچھ کہنے کی ہمت پیدا کی۔
"تم سے بات نہیں کر رہا میں۔۔"اس پر وہ بری طرح چیخے تھے۔
"آپ تو مجھے خاصے شریف انسان لگتے ہیں۔۔یہ آپ کی سگی اولاد ہے؟"پولیس والے کے سوال پر احمد خان لاجواب ہوئے تھے۔
"کیا ہم انھیں گھر لے جاسکتے ہیں؟"شان نے مصلیحتی انداز میں سوال کیا۔
"انھیں لے جائیں لیکن آئندہ کے لئے احتیاط کیجیے گا۔۔" شہزین کو جائزہ لیتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پولیس نے لے جانے کی اجازت دی تھی۔احمد خان اسے کھینچتے ہوئے گاڑی تک لائے تھے۔شان یا اس کے والد کی بھی ہمت نہ ہوئی کہ ان باپ بیٹی کے معاملے میں مداخلت کر پاتے۔
"چلو۔۔"اسے رشتہ داروں سے بھرے لاونج میں لا کر پٹکتے ہوئے وہ پہلی بار آصف خان کو اپنے سگے بھائی لگے تھے۔
"باباجان۔۔"وہ گرتے گرتے سنبھلی تو مڑ کر باپ کا چہرہ دیکھا جو سپاٹ اور گہری سنجیدگی میں لپٹا دکھائی دے رہا تھا۔
"خاموش ہو جاو۔۔"زندگی میں پہلی بار ان کا ہاتھ اپنی لاڈلی اولاد پر اٹھا تھا۔
"ہوا کیا ہے احمد آپ ہوش میں ہے؟"وہاں آتی شہلا نے شہزین کو حصار میں بھرتے شوہر کو ہی ٹوکا تھا۔
"پوچھو اس سے کیا کرکے آئی ہے یہ تمھاری صاحبزادی۔۔ تھانے سے چھڑوا کر لارہا ہوں اسے۔۔"انکا ٹوٹا بکھرا انداز سب کے رنگ سیاہ کردینے کو کافی تھا۔
"استغفرللہ۔۔"چھوٹی تائی نے کانوں کو ہاتھ لگائے تھے۔
"آپ بغیر میری کوئی وضاحت سنے مجھ پر ہاتھ کیسے اٹھا سکتے ہیں باباجان؟"بھیگی آواز میں لہجہ مستحکم کرتی وہ احتجاجاً بولی تھی۔
"جو منظر میری آنکھوں نے دیکھا ہے اس کے بعد کوئی وضاحت دینا بنتی ہے بولو۔۔شان اور اس کے باپ سے نظریں ملانے لائق نہیں چھوڑا تم نے۔۔"وہ پہلے کی نسبت اور بھی زیادہ اونچی آواز میں چِلائے تھے۔
"اور دو بیٹی کو آزادی۔۔"آصف خان تو موقع ملتے ہی شیر ہوئے تھے۔
"یہ میرا اور میرے باپ کا معاملہ ہے۔۔آپ جتنا دور رہیں گے اتنا بہتر ہے آپ کے لئے۔۔"وہ بدلحاظی سے ان کی بات کاٹ گئی۔
"شہزین۔۔"احمد خان نے اسے گھورا تھا۔
"احمد بھائی بس کردیں۔۔چلو تم بچے۔۔"شبانہ تائی نے معاملے کی کشیدگی دیکھتے ہوئے شہزین کو ہی وہاں سے لے جانا مناسب سمجھا تھا۔
"میں نے کچھ غلط نہیں کیا باباجان۔۔ماں میری بات۔۔"اسے زبردستی کمرے میں لے جایا گیا تھا ورنہ احمد خان غصے میں ناجانے کیا کر بیٹھتے۔
"باہر مت آنا اب تم۔۔"اسےتاکید کرتیں تائی جان کمرے سے نکل گئی تھیں۔اگر یہاں قیامتِ صغرا برپا ہوئی تھی تو شان کے گھر ماحول اور بھی زیادہ کشیدہ ہو گیا تھا۔
"ہم ایسی لڑکی کو بہو ہرگز نہیں بنائیں گے جس کا کردار اتنا مشکوک ہو۔۔"گیلانی صاحب نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا تھا۔
"ڈیڈ۔۔مام۔۔آئی ٹرسٹ ہر۔۔پولیس کو تو بکواس کرنے کی عادت ہے۔۔"شان کا اعتماد اب بھی ایک فیصد نہ ڈگمگایا تھا۔
"اور وہ لڑکا۔۔"
"وہ بچپن کا دوست یے اگر شازی کو اسی کے ساتھ مراسم بنانے ہوتے تو مجھ سے نکاح کی حامی کیوں بھرتی۔۔"وہ اب بھی پہلے کی طرح پرسکون تھا۔
"کیونکہ تم کاٹھ کے الو ہو۔۔"گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے شاہنواز نے سب کی توجہ اپنی طرف مبدول کروائی تھی۔
"ٹھیک کہہ رہا ہے شاہنواز۔۔"اس کی والدہ نے بھی شاہنواز کی ہی حمایت کی۔
"انکل وہ لڑکی کسی صورت اس کے لایق نہیں ہے مگر یہ پتہ نہیں کیا کرنے پر تلا ہے۔۔"اس کے جملوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا
"شاہ میں ابھی تمھارے منہ نہیں لگنا چاہتا۔۔"اس نے خود ضبط پر قابو پاتے ہوئے شاہنواز کو ٹوکا تو اسی اثنا میں احمد خان کی کال برامد ہوئی تھی۔
"جی انکل۔۔نہیں بارات مقررہ وقت پر ہی آئے گی جی اللہ حافظ۔۔"اس نے مختصر گفتگو کرتے ہوئے رابطہ ختم کردیا۔
"کوئی بارات نہیں جارہی وہاں۔۔"گیلانی صاحب نے اس کی بات دھتکاری تھی۔
"اگر اس گھر سے آج بارات نہ گئی تو آپ کے بیٹے کا جنازہ اٹھے گا۔۔"اس نے بھی دھمکی دے دی۔
"شان۔۔"اس سے قبل ماں کچھ کہتی وہ گھر سے نکل گیا تھا۔
"دیکھا آپ نے۔۔"شاہنواز نے اس کے تیوروں پر طعنہ کسا تھا۔
"یہ تو محبت میں آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کو تیار ہے۔۔" اس کے اٹل ارادوں نے ماں باپ کو خائف کیا تھا۔اسی دوران ملائکہ بھی تقریباً دوڑتی ہوئی وہاں پہنچی تھی۔
"تمھیں کیا ہوا ہے؟"شاہنواز کو اس کے بگڑے تنفس پر تشویش ہوئی تھی۔
"وہ شازی کی تصاویر۔۔"اس نے اپنے موبائل پر کوئی سوشل میڈیا سائٹ کھولی تھی۔
"تصاویر؟"شاہنواز بھی چونکا تھا۔
"سوشل میڈیا تو دیکھو جاکر اس کی تصاویر۔۔مجھے تو کہتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے۔۔"اپنا موبائل شان کی والدہ کے سامنے کرتے ہوئے وہ ٹھٹھکی تھی۔
"کیا بکواس کر رہی ہو تم؟"شاہنواز نے موبائل اسکرین دیکھی تو خود ہی شرمندہ ہوا تھا۔
"میرے اللہ یہ کس غلاظت سے تعلق جوڑنے جارہے تھے ہم؟" شان کی والدہ صوفے پر ڈھے گئی تھیں۔
"یہ سب کیا ہے شان؟"شاہنواز کی کال پر وہ گھر آیا تو باپ نے موبائل اسکرین اس کے سامنے کی جہاں شہزین کی بہت سی قابل اعتراض تصاویر موجود تھیں۔
"اس جیسی لڑکیاں عزت بنانے لائق ہے ہی نہیں پھر بھی تمھیں تصدیق کرنی ہے تو بلاو اس کے چہیتے عاشر کو۔۔وہ ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرےگا۔۔"اس کی آنکھیں پتھرائیں تو شاہنواز نے نیا مشہورہ دے کر اسے مزید زچ کیا تھا۔
"عاشر یہاں آکر میرا بھانڈہ نہ پھوڑ دے۔۔کیا کروں؟"ملائکہ کے ہاتھ پاوں عاشر کے ذکر پر ہی پھولے تھے۔
دوست کو پولیس اسٹیشن بلا کر عاشر نے اپنی جان بچائی تھی۔وقتی طور تھوڑی رقم دے کر وہ شہزین کے لئے حوالات سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔اس کی بےوقوفیوں نے شہزین کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا تھا۔
"ہاں سمیرا؟کیا؟کون سی تصاویر؟میرے خدایا۔۔میں میں دیکھتا ہوں۔۔"وہ حوالات سے نکلا ہی تھا کہ سمیرا کی کال نے اس کے ہوش فنا کئے تھے۔
"ملائکہ تم اب اپنی خیر مناو۔۔"سوشل میڈیا سائٹ کھولتے ہی اس کی آنکھوں میں لہو اترا آیا تھا۔ملائکہ سے دو دو ہاتھ کرنے سے قبل شان کو اعتماد میں لینا ضروری تھی۔ٹیکسی پکڑتے ہوئے اس نے شان کے گھر کا رخ کیا تھا۔
"عاشر۔۔"وہ شان کے گھر میں داخل ہی ہوا تو لان میں کھڑی ملائکہ اسے دیکھتے ہی بوکھلائی تھی۔
"میں جان لے لوں گا تمھاری۔۔"عاشر نے اس کا گلہ دونوں ہاتھوں سے دبایا تھا۔
"شاہنواز۔۔شاہنواز۔۔"خود کو آزاد کروانے کی کوشش کرتی وہ شاہنواز کو پکارنے لگی۔
"تیری ہمت کیسے ہوئی؟"دوڑ کر آتے شاہنواز نے اسے ملائکہ سے دور کیا تھا۔
"ڈائن ہے یہ ڈائن۔۔اسے تو میں۔۔"وہ دوبارہ اس کی طرف لپکا تھا۔
"بکواس بند کر ذلیل آدمی۔۔تم دونوں کی چوری پکڑی گئی ہے تو صدمے سے پاگل ہوگئے ہو دونوں۔۔"ملائکہ کی ڈھال بنتے ہوئے وہ لعن طعن پر اتر آیا۔
"شان سر کہاں ہیں؟"
"شان سر۔۔۔"اسی دوران شان وہاں پہنچا تو عاشر اس کی طرف دوڑا تھا۔
"تم کیوں آئے ہو؟"اس کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔
"آپ جیسا سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ بھی نہیں ہے شازی تو میری بہنوں جیسی ہے۔۔"اس نے وضاحت پیش کی۔
"اور وہ لڑکی نیہا بھی تمھاری منہ بولی بہن ہوگی یقینا۔۔" شان کی جانب سے غیر متوقع حملہ اس کی بولتی بند کرگیا۔
"نیہا۔۔"
"تم نے اور شازی نے کیا تھا نا یہ سب شاہ سے پارٹی والی بات کا بدلہ لینے کے لئے۔۔جھوٹ مت بولنا۔"اس کا انداز خائف کردینے والا تھا۔
"وہ سب میں نے کیا تھا مگر۔۔"اس نے اعتراف جرم کیا تو شاہنواز اس پر چڑھ دوڑا تھا۔
"تجھ سے تو اب پولیس سب اگلوائے گی ذلیل انسان۔۔" شاہنواز نے مارتے مارتے اسے زمین بوس کیا تھا۔
"ایک بات کا جواب دو مجھے بس۔۔جب تم دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے تو اس نے مجھ سے نکاح کی حامی کیوں بھری؟"شان نے نیا سوال اٹھا دیا۔
"کیونکہ اسے کاٹھ کا الو چاہئے تھا۔۔"اسے گریبان سے پکڑتے شاہنواز نے زمین سے اٹھایا تو ملائکہ حقارت سے بولی تھی۔
"اپنی بکواس بند کر لڑکی۔۔"وہ شاہنواز کو دور دھکیلتے ملائکہ پر حملہ آور ہوا تو شان نے راستے میں آکر اسے واپس دھکیلا تھا۔
"اے تمیز سے۔۔۔منگیتر ہے میری اور تم جیسوں سے بہت زیادہ مہذب اور قابل احترام ہے۔۔"اسی دوران پولیس وہاں پہنچی تو شاہنواز نے اسے پولیس کے حوالے کیا۔
"آپ شازی سے بدگمان ہوکر بہت بڑی حماقت کریں گے۔۔۔ وہ دل و جان سے مخلص ہے آپ کے ساتھ۔۔اسے رسوا مت کریں۔۔'' پولیس نے اسے ہتھکڑیاں پہننائیں تو وہ شان کے آگے ملتجی ہوا۔
"اس جیس لڑکیاں اپنی رسوائی کا سبب خود بنتی ہیں۔۔" شان کے بجائے شاہنواز جوابدہ ہوا تھا۔
"لے کر جائیں اسے۔۔بہت سے مقدمے بنتے ہیں میرے اس پر۔۔" اس نے پولیس کو ہدایت دی تو شاہنواز رخ پھیر گیا۔
"شان سر۔۔ملائکہ میں نہیں چھوڑوں گا تمھیں یاد رکھنا۔۔" گیٹ سے باہر جانے تک وہ بولتا رہا مگر شان بغیر کوئی جواب دیے اندر چلا گیا جبکہ ملائکہ تو اپنی فتح کا جشن منارہی تھی
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم کہاں جارہی ہو؟"اسے کمرے سے نکلتا دیکھ کر احمد خان کا غصہ اور بھی زور پکڑ گیا تھا۔
"شان کے گھر۔۔۔"اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"وہ لوگ یہ رشتہ ختم کر چکے ہیں۔۔"آصف خان روکھے پن سے بولے تھے۔
"پوری دنیا مجھ سے قطع تعلق ہوسکتی ہے شان نہیں۔۔اس نے باباجان سے کہا ہے نا کہ وہ آئے گا؟"اسے اب بھی شان پر یقین تھا۔
"ابھی ابھی اس کے باپ کی کال آئی ہے کہ وہ نہیں آئیں گے بارات لے کر۔۔"احمد خان خالی پن سے بولے
تھے۔
"شان نے تو نہیں کہا نا ایسا۔۔"
"کسے کال ملا رہی ہو؟"اسے موبائل پر متوجہ دیکھ کر شہلا بیگم نے سوال کیا۔
"سمیرا کو۔۔"
"ہیلو۔۔"
"آئندہ یہاں کال مت کرنا۔۔"کال کی دوسری طرف سمیرا کے والد صاحب موجود تھے۔
"آنکل۔۔۔"
"لڑکی ہم عزت دار لوگ ہیں۔آئندہ ہماری بیٹی کا کوئی واسطہ نہیں رہے گا تم سے۔۔"ان کا سپاٹ انداز اسے خاموش کروا گیا۔
"ہوا کیا ہے؟"اسے معاملہ سمجھ نہ آیا۔
"سوشل میڈیا پر جاکر دیکھو ذرا۔۔تمھاری تصویری ہر جگہ چیخ چیخ کر تمھارے کردار کی گواہی دے رہی ہیں۔۔"اتنا کہتے ہی انکی جانب سے رابطہ ختم کردیا گیا تھا۔
"احمد اس کا اعتبار کریں۔۔ اکلوتی اولاد ہے ہماری۔۔''احمد خان کو خاموش دیکھ کر شہلا بیگم نے التجا کی۔
"اس سے بھلے تو ہم بےاولاد ہی تھے۔۔بلکہ۔۔"ان کی پھنکار سے پورا لاونج گونجا تھا۔
"احمد بھائی۔۔سنبھالیں خود کو۔۔"شبانہ بیگم نے عین موقع پر انھیں خاموش کروا دیا ورنہ نئی پٹاری کھل جاتی۔
"آپ مجھ سے یوں بدظن کیسے ہوسکتے ہیں باباجان۔۔" شہزین نے پھٹی پھٹی انکھوں سے ان کا بےتاثر چہرہ دیکھا۔
"لڑکی اس طوفان بدتمیزی کے بعد بھی تم میں اتنی جرات ہے کہ باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرسکو۔۔" آصف خان پھر بیچ میں آن دھمکے تھے۔
"یہ میرا اور میرے باباجان کا مسلہ ہے۔۔مداخلت مت کریں۔۔" وہ بدتمیزی سے جوابدہ ہوئی۔
"خاموش ہوجاو۔۔"احمد خان نے اسے ہی ڈانٹ دیا۔
"خاموش وہ ہوتے ہیں جن کے دل میں چور ہو۔۔میں نے کچھ غلط نہیں کیا باباجان پھر بھی آپ مجھے مجرم مانتے ہیں تو پھر بتائیں کہ کیا سزا ہے میری؟"اسے باپ کی بےاعتباری نے توڑ دیا تھا۔
"احمد میں اب بھی اسے اپنی بہو بنانے کو تیار ہوں۔۔میرا بلال اس بدنامی کو بھی عزت سے قبول کرنے کو تیار ہے۔۔" آصف خان نے اسی دم پیشکش کی۔
"مگر میں تیار نہیں ہوں۔۔مجھے شان سے بات کرنی ہے باباجان۔۔" اس نے ان کی بات سختی سے کاٹی تھی۔
"تم کہیں نہیں جاو گی۔۔"
"آپ روکیں گے تو میں خود کو ختم کرلوں گی۔۔"اس نے باپ کی بھی بات کو رد کیا تھا۔
"میں ہاتھ جوڑ رہا ہوں شازی میری غیرت کا مزید تماشہ مت بناو۔۔"وہ بےبسی سے ہاتھ جوڑ گئے تھے۔
"شازی اندر چلو۔۔"شہلا بیگم نے اسے کندھے سے کھینچا تھا۔
"باباجان مجھے شان سے بات کرنی ہے۔۔"اس نے ماں کا ہاتھ جھٹکا تھا۔
"پلیز باباجان۔۔۔"ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے وہ رو دینے کو تھی۔
"شازی۔۔"شہلا بیگم نے اسے باپ سے دور کرنے کی کوشش کی۔
"جانے دو اسے۔۔"وہ توقف سے بولے تھے۔
"احمد۔۔"آصف خان کو بھائی کی حماقت پر تعجب ہوا جو اب بھی بیٹی کو جانے کی اجازت دے رہے تھے۔
"جانے دیں اسے۔۔لیکن اس گھر کی دہلیز سے قدم باہر رکھتے ساتھ تم میرے لئے مرجاوگی شہزین احمد خان۔۔"انھوں نے اگلے ہی لمحے اس کے لئے نئی مشکل کھڑی کردی تھی۔
"باباجان آئی ایم سوری۔۔مگر میں سب ٹھیک کر دوں گی۔۔" ان کی دھمکی کو خاطر میں لائے بغیر سینے سے لگ کر وہ وہاں سے دوڑتی گھر سے نکل گئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شان۔۔شان چلو اور چل کر بابا جان سے کہو کہ تمھیں مجھ پر اعتبار ہے۔۔"شان کے گھر پہنچی تو وہ مرکزی ہال میں صوفے پر خاموش بیٹھا تھا۔
"جاو یہاں سے۔۔"وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"ہاتھ چھوڑو میرا۔۔"شہزین نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے چیخ وپکار پر اتر آیا۔
"شان۔۔"
"آئندہ میرے گھر کی دہلیز پر قدم بھی مت رکھنا۔۔"اسے دروازہ دکھاتے ہوئے وہ اجنبیت سے بولا تھا۔
"شان تم نے کہا تھا کہ پوری دنیا میرے خلاف کھڑی ہوگی تب بھی تم میرے حق میں میرے ساتھ رہو گے۔۔"اسے آج محبت کے سب دعوے جھوٹ لگے تھے۔
"کیونکہ میں پاگل تھا۔۔لیکن اب مزید اس پاگل پن کو اپنی عقل نگلنے نہیں دوں گا۔۔یاد رکھنا۔۔"اس نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی تھیں۔
"شان یہ سب ان دونوں کا کیا دھرا ہے۔۔یہ دونوں ہمیں ایک ساتھ دیکھ ہی نہیں سکتے تھے۔۔"شور سن کر اس کے والدین کے ہمراہ شاہنواز اور ملائکہ ہال میں پہنچے تو شہزین نے ان دونوں کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ دیکھی تھی۔
"ظاہر ہے تم اس لائق ہو ہی نہیں کہ شان تمھیں اپنی عزت بنائے۔۔"ملائکہ کا انداز اس کا تمسخر اڑانے والا تھا۔
"تم اپنی بکواس۔۔"وہ ملائکہ پر جھپٹی تھی۔
"خبردار۔۔اس سے پہلے تمھارے اس عاشر کی طرح میں تمھارا بھی انتظام کردوں تو چپ چاپ دفع ہوجاو یہاں سے۔۔" شاہنواز نے اس کا بازو تھامتے ہوئے وہاں سے دور دھکیلا تھا۔
"شان۔۔مجھے رسوا مت کرو۔۔میں سب کشتیاں جلا کر یہاں تک آئی ہوں۔۔"اس نے بھیگی آنکھوں سے شان کا چہرہ دیکھا جو سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کو چل دیا تھا۔
"شان۔۔شان۔۔''
"وہ جا چکا ہے۔۔اب تم بھی چلتی بنو۔۔"ملائکہ نے بازو سے پکڑتے ہوئےاسے گھر سے باہر نکالا تھا۔
"دوبارہ یہاں نظر مت آنا۔۔"دروازہ بےرحمی سے اس کے منہ پر بند کردیا گیا تھا۔کافی دیر وہ دروازہ بجاتی رہی مگر اندر موجود افراد بےحسی سے بہرے بنے رہے۔تھک ہار کر اس نے واپس اپنے گھر کا رخ کیا جہاں وہ اپنے باپ کے سامنے بلندوبالا دعوے کرکے شان گیلانی کے در پر آئی تھی۔
"کیا ہوا ہے؟یہ لوگ کیوں اکٹھے ہوئے ہیں؟کیا ہوا ہے۔۔"وہ واپس گھر پہنچی تو لوگوں کا جمع غفیر گھر کے باہر موجود تھا۔ایک طرف ایمبولینس تو دوسری طرف پولیس کی گاڑی کھڑی تھی۔لوگوں کا ہجوم چیڑتی وہ گھر کے اندر پہنچی تو دو سٹیچرز پر والدین کی میتیں اس کی منتظر تھیں جن کا وجود سفید چارد سے ڈھکا ہوا تھا۔
"شازی۔۔"اسے دیکھتے ہی شبانہ بیگم نے خود سے لگا لیا۔
"تائی جان کیا ہوا ہے؟بتائیں مجھے۔۔"اس میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ چادر ہٹا کر دونوں کا چہرہ دیکھ سکے۔
"تمھارے والدین نے خود کو ختم کردیا ہے تمھاری سیاہ کاریوں سے تنگ آکر۔۔"آصف خان نے اسے سختی سے جھنجھوڑا تھا۔
"ماں باباجان۔۔"اس نے جھک کر دونوں کے چہروں سے کپڑا ہٹایا تو ہاتھ بےجان ہوگئے تھے۔
"دیکھیں آپ پلیز ڈیڈ باڈیز سے دور رہیں۔۔"پولیس نے اسے ٹوکا تھا۔
"جسٹ شٹ اپ۔۔باباجان ماں۔۔۔"والدین کے لئے ڈیڈ باڈیز کا حرف سنتے ہی اس کا پارا چڑھا تھا۔اس نے باری باری دونوں کے کندھے جھنجھوڑے تھے مگر اس سے روٹھ کر وہ اس فانی دنیا سے بہت دور جاچکے تھے۔
بدنامی کے ڈر سے گاوں لے جانے کی بجائے شہر میں ہی ان دونوں کی تدفین کردی گئی تھی۔شہزین اس پورے دورانیہ میں بالکل چپ اور گم صم ہو چکی تھی۔کھانا پینا بھی نہ ہونے کے برابر کرچکی تھی مگر شبانہ بیگم زور زبردستی اسے کھانا کھلا دیا کرتی تھیں۔صرف وہ ہی تھیں جنھوں نے اس مشکل گھڑی میں اس کا ساتھ دیا تھا۔پولیس کو ملنے والے سوسائیڈ نوٹ میں احمد خان واضح کر گئے تھے کہ وہ بیٹی کی طرف سے ملنے والی بدنامی سے تنگ آکر اپنی جان دے رہے ہیں۔
"تمھیں کیا ضرورت تھی یہ نیکی کرنے کی؟"شاہنواز نے سائبر کرائم میں کام کرنے والے اپنے ایک دوست کی مدد سے اس کی سب تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹوا دی تھیں جس پر ملائکہ سخت خفا ہوئی تھی۔
"کم آن ملائکہ۔۔میں نے یہ اس لڑکی کے لئے نہیں اس کے مرحوم والدین کے لئے کیا ہے۔۔جنہوں نے اس بدنامی سے تنگ آکر اپنی ہی جان لے لی۔۔"اس لمحے وہ گاڑی پر سوار شان کے گھر کی راہ پر گامزن تھا۔ اسے شہزین کے والدین کی موت کا دلی افسوس تھا جو بیٹی کی وجہ سے اپنی جان لینے پر مجبور ہوئے تھے۔اس واقعے کو گزرے ایک ہفتہ ہو چکا تھا مگر شان ابھی تک کمرے میں ہی چھپا بیٹھا تھا۔آج اس کی والدہ نے کال پر اصرار کرکے ان دونوں کو گھر بلایا تھا۔
"شان کراچی جارہا ہے۔۔"ملائکہ آہستگی سے بولی۔
"کیوں؟"
"اسی سے پوچھو۔۔"اس نے زیادہ کچھ بھی کہنے سے پرہیز کی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شان کیا تم اس لڑکی کے کارناموں کی سزا ہمیں دینا چاہتے ہو؟"وہ شان کے کمرے میں پہنچا جو اپنا سامان باندھنے میں مگن تھا۔
"میرے لئے اب یہاں کی فضا میں سانس لینا بھی دشوار ہے شاہ۔۔مجھے مت روکو۔۔"اس کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں اور گلہ بھی بھاری لگ رہا تھا۔
"تم اس لڑکی۔۔"
"اس کا نام مت لو۔۔پلیز۔۔اس کا،ذکر مت کیا کرو۔۔"اس نے سوٹ کیس کی زپ بند کرتے ہوئے شاہنواز کو ٹوکا تھا۔
"یہ درد تم نے اپنے لئے خود چنے ہیں شان۔۔میں نے کتنا سمجھایا تھا تمھیں مگر تم۔۔"اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ اپنائیت سے بولا تھا۔
"تم ٹھیک تھے میرے بھائی۔۔بس میں غلط تھا اور اس غلطی کو شائد اب مرتے دم تک بھگتنا ہی میرا مقدر ہے۔۔"اس نے کوئی بحث و مباحثہ نہ کیا۔
"اسے بھول جاو کیونکہ وہ یاد رکھنے لائق نہیں یے۔۔"
"سوری یار۔۔میں نے اس کے لئے تجھے بھی بہت ہرٹ کیا ہے۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔"اس کے گلے لگتا وہ سسکیاں بھرنے لگا تھا جبکہ شاہنواز نے بھی اسے خاموش نہ کروایا تھا۔اس کا رونا ہی دل کے بوجھ کو کم کر سکتا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کیا سوچا ہے آپ نے خان جی؟"آصف خان کی خاموشی بیوی کو خدشات میں مبتلا کر رہی تھی۔
"سوچنا کیا ہے اسے یوں شہر چھوڑ کر چلے گئے تو ہماری بچی ہوئی عزت بھی اپنی سیاہ کاریوں میں غرق کردے گی۔۔" سگار کا دھواں اڑاتے ہوئے وہ پرسوچ انداز میں بولے تھے۔
"وہ نہیں مانے گی ہمارے ساتھ چلنے کے لئے۔۔"
"اس کی مرضی پوچھی کس نے ہے؟اب میں اس کا سرپرست ہوں جیسا میں چاہوں گا سب ویسا ہوگا۔۔"بھائی کی وفات نے ان کے لئے بہت سی آسانیاں پیدا کر دی تھیں۔اب شہزین کو قابو کرنا ان کے لئے مشکل نہ تھا۔والدین کی وفات اور اس پر بدنامی کے داغ نے اسے کچھ بھی کہنے سننے لائق نہ چھوڑا تھا۔اب وہ باآسانی اس سے اپنے سب حساب برابر کر سکتے تھے۔
"شازی میری جان۔۔"وہ تاریک کمرے میں قالین پر بیٹھی چہرہ گھٹنوں پر ٹکائے مدہوش بیٹھی تھی جب تائی جان کھانے کی ٹرے لئے اس کے پاس آئی تھیں۔
"تائی جان۔۔مجھے ماں باباجان کی قبر پر جانا ہے۔۔ان سے معافی مانگنی ہے۔۔میرا اللہ گواہ ہے کہ میں بدکردار نہیں ہوں۔۔میں حلف اٹھانے کو تیار ہوں اپنی پاکدامنی ثابت کرنے کے لئے۔۔"اس نے روتے ہوئے دہائی دی تھی۔اضطراب نے اسے پاگل کردیا تھا۔
"تم ہمارے ساتھ چلو۔۔یہاں کون ہے اب؟"اسے نوالہ بنا کر کھلاتی وہ سمجھانے لگیں۔
"میرے باباجان کا گھر ہے یہاں۔۔ان کی یادیں ہیں میری ماں نے بہت محبت سے اس گھر کا کونہ کونہ سجایا تھا۔۔ میں سب چھوڑ کر کیسے چلی جاوں۔۔"اس نے نوالہ اپنے منہ سے دور کرتے ہوئے مزاحمت کی۔
"شہزین میری جان یہاں اب کچھ نہیں بچا بیٹے۔۔"وہ اسے خود محبت سے قائل کرنا چاہتی تھیں ورنہ آصف خان کے خطرناک ارادے معلوم ہونے کے بعد انھیں یقین تھا کہ وہ اس پر سختی کے لئے کسی بھی حد تک چلے جائیں گے۔
''مجھے باباجان ماں کے پاس جانا ہے۔۔وہ مجھ سے ناراض ہوکر گئے تھے اس دنیا سے۔۔میں بہت بری اولاد ہوں بہت بری۔۔"اس نے روتے ہوئے دوبارہ سر گھٹنوں پر جھکا لیا تھا۔زندگی حقیقی معنوں میں اس کے لئے بےمقصد ہو چکی تھی۔
"بس بیٹے بس۔۔"اس کا شانہ تھپتھپاتی وہ وہیں اس کے پاس بیٹھ گئیں۔شہزین صرف ان سے بات کیا کرتی تھیں ورنہ پورا پورا دن کمرے میں بند روتے ہوئے گزار دیتی۔شبانہ بیگم ہی رات میں اس کے ساتھ سویا کرتی تھیں کیونکہ وہ رات کو خواب دیکھ کر ڈر جایا کرتی تھی۔اس کی چیخ و پکار سے تنگ آکر آصف خان نے اسے شبانہ بیگم کو اجازت دی تھی کہ وہ اس کے پاس رک جایا کریں۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"بات سنو میری۔۔کیا تماشہ ہے یہ؟"وہ جیسے ہی کمرے میں پہنچی شاہنواز نے اس کا راستہ روکا تھا۔
"راستہ چھوڑو میرا۔۔"اس نے نظریں اٹھانے کی بھی زحمت نہ کی تھی۔
"تم نے اس گھر میں قدم جمانے کے لئے نام تک بدل لیا۔۔کتنے لوگ ہیں تمھارے گینگ میں اس عاشر کے علاوہ۔۔"شاہنواز خود سے ہی ڈھیروں اندازے لگائے بیٹھا تھا۔
"بکواس بند کرو اپنی۔۔"وہ بھی جواباً پھنکاری تھی۔
"تم جا کر سب کچھ داداجان کو سچ سچ بتادو کہ تم کس منصوبے سے آئی ہو یہاں۔۔ورنہ۔۔"وہ انگلی اٹھا کر اسے خبردار کرنے لگا۔
"ورنہ۔۔"
"شاہنواز جلدی چلو بچے تمھارے داداجان۔۔"اسی دوران سیدہ بیگم دوڑتی دوڑتی وہاں آئی تھیں۔
"کیا ہوا۔۔"وہ دونوں ان کی آواز پر داداجان کے کمرے کی جانب دوڑے تھے۔
"شہزین۔۔شاہنواز۔۔"وہ دونوں دائیں اور بائیں ان کے سرہانے بیٹھے تھے جبکہ غنودگی کے عالم میں بھی دادا جان انہیں کو پکارنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔
"دادا جان۔۔"شہزین نے ان کا ہاتھ تھاما تھا۔
"تم دونوں میرے پاس رہو۔۔"دائیں ہاتھ میں تھامے شہزین کے ہاتھ پر انھوں نے شاہنواز کا ہاتھ رکھا جو کہ ان دونوں کو ہی سخت ناگوار گزرا تھا۔
"ہم یہیں ہیں۔۔"شاہنواز نے حامی بھرتے ہوئے یقین دہانی کروائی۔
"میرا بچہ تم نے معاف کردیا نا ہمیں۔۔"انھوں نے آدھی کھلی آنکھوں سے شہزین کا چہرہ دیکھا۔
"داداجان مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔۔''
"شاہنواز۔۔اسے تمھاری ذات سے کبھی بھی کوئی دکھ تکلیف پہنچی تو میرا قتل تمھارے سر۔۔"شاہنواز کا شکن آلود ماتھا دیکھ کر وہ ہدایت جاری کرگئے تھے۔
"اللہ نہ کرے داداجان۔۔"اس نے نفی میں سر ہلایا۔
''آپ کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے میرے لئے۔۔بس آپ آرام کریں۔۔"ایک نظر سامنے بیٹھی ناپسندیدہ ہستی کو دیکھتے ہوئے اس نے بمشکل ہاں کہا۔
"میرے پاس ہی رہنا دونوں۔۔"ان کی گرفت دونوں کے ہاتھوں پر مضبوط ہوئی تھی۔
"پھر ولیمے کی تیاریوں کا کیا کرنا ہے باباجان؟"وہاں آتی سیدہ بیگم نے ان کا دھیان بٹایا۔
"ہاں ولیمہ۔۔کل ولیمہ ہے نا۔۔"وہ جیسے ساری بیماری فراموش کر بیٹھے تھے۔
"آپ ٹھیک تو ہو جائیں۔۔ولیمہ بھی ہوجائے گا۔۔''شاہنواز نے ٹال مٹول سے کام چلایا۔
"نہیں ولیمہ کل ہی ہوگا۔۔میں اب شہزین کی خوشی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے والا۔۔"وہ اٹل لہجے میں اس کی ساری مزاحمت خاک میں ملا گئے تھے۔داداجان کے سو جانے کے بعد وہ کمرے میں چلا آیا اور شہزین ان کا پرہیزی کھانا بنانے کچن میں مصروف ہوگئی۔
"کیا مصیبت ہے یہ؟یہ لڑکی میرے گھر تک آئی کیسے؟"کمرے میں یہاں سے وہاں چکر کاٹتے وہ خود سے ہی کوئی جنگ لڑ رہا تھا۔
"بھائی مجھے ملنا ہے آپ سے۔۔"اس نے اگلے لمحے بڑے بھائی کو کال ملائی۔
"کیوں؟"اسے بےچینی کا،سبب سمجھ نہ آیا۔
"کیونکہ دھوکا ہوا ہے ہمارے ساتھ۔۔وہ لڑکی بہت بڑی فراڈ ہے۔۔" وہ جیسے طیش سے پھٹ پڑا تھا۔
"تو یہ جاکر داداجان کو بتاو۔۔"اسے شاہنواز کی مظلومیت بھی اداکاری ہی لگ رہی تھی۔
"آپ کہاں ہیں بھائی؟"
"چاچاجان کے گھر۔۔"اس نے پرسکون ہو کر شاہنواز کا سکون غرق کیا تھا۔
"وٹ۔۔"
"کل نکاح کر رہا ہوں میں نتاشہ سے۔۔"اگلا انکشاف اور بھی سر چکرا دینے والا تھا۔
"داداجان کی حالت ایسی نہیں ہے کہ میں انھیں اس لڑکی کا سچ بتا سکوں۔۔"اس نے لاچار انداز میں جواز پیش کیا۔
"تم بتا بھی دو تو وہ کون سا اعتبار کرلیں گے۔۔۔"اتنا کہتے ہی اس نے رابطہ ختم کردیا کیونکہ پچھلے چند ماہ میں داداجان کا شہزین کی طرف بڑھتا جھکاو پوتوں کی محبت پر بھی حاوی آچکا تھا۔
اس کی موجودگی سے تنگ آکر شاہنواز رات کے کھانے سے فارغ ہوتے ہی گھر سے نکل گیا تھا۔فجر تک سڑکوں کی خاک چھان کر وہ گھر اس امید پر پہنچا تھا کہ اب محترمہ کا چہرہ دیکھنے کی نوبت نہ آئے گی۔
"یہ کیسی آزمائشیں ہیں جو ختم ہی نہیں ہو رہیں۔۔میرے مالک میری مشکلات کیوں دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔۔ میں نے کبھی کسی کا برا نہیں کیا تو پھر میرے ساتھ اتنا گھیناونا کھیل کیوں کھیلا گیا؟کیا قصور تھا میرا؟کس جرم کی سزا مل رہی ہے مجھے۔۔"اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا تو وہ مصلے پر بیٹھی سسکیوں کے ہمراہ روتی دکھائی دی تھی۔
"یہاں کوئی نہیں ہے تمھارا ڈرامہ دیکھنے کے لئے۔۔بند کرو یہ اداکاری۔۔"کمرے کا دروازہ بند کرتے ساتھ اسنے ٹوک لگائی۔
"میں کچھ کہہ رہا ہوں تم سے۔۔"وہ مصلہ سمیٹتی اسے نظرانداز کرتے ہوئے سنگھار میز کی طرف بڑھی تو شاہنواز نے بازو پکڑتے ہوئے اسے سختی سے مخاطب کیا تھا۔
"ہاتھ چھوڑو میرا۔۔"اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑوایا تھا۔
"دیکھو لڑکی۔۔آج کل جو بھی نام ہے تمھارا۔۔میری بات غور سے سنو۔۔کل تک کا وقت ہے تمھارے پاس یہاں سے خاموشی سے چلتی بنو ورنہ۔۔"اس کے اکھڑے تیور نے باور کروا دیا تھا کہ وہ کسی رعب میں آنے کی قائل نہیں ہوگی۔
"ورنہ۔۔"اس نے نظروں میں نظریں گاڑھے سوال کیا۔
"تھماری زندگی جہنم سے بدتر کردوں گا۔۔"وہ دھمکی آمیز انداز میں بولا۔
"وہ تو ابھی بھی ہے۔۔اور تمھیں میرے یہاں رکنے سے اگر تکلیف ہے تو میرے لئے بھی یہ لمحات خوشگوار نہیں ہیں۔۔ نفرت کرتی ہوں میں تم سے تمھارے اس دوست سے اور تمھاری اس ملائکہ۔۔"
"اس کا نام مت لینا۔۔"وہ باقائدہ غرایا تھا۔
"اوہ یس۔۔وہ بھی وقت رہتے تم سے جان چھڑوا گئی۔۔تھی تو وہ پہلے دن سے ہی ہوشیار۔۔"اس کا جل کر راکھ ہونا شہزین کو بھی بہت بھایا تھا۔
"اتنا بولو جتنا بعد میں بھگت سکو۔۔"وہ سنگھار میز کے سامنے رکھی کرسی پر جائے نماز رکھ کر مڑی تو شاہنواز اس کے پیچھے خاصا قریب آکھڑا ہوا۔
"تم بھی اتنا فاصلہ رکھو جتنا میرے لئے قابل برداشت ہو۔۔" اسکے سینے پر شہادت کی انگلی رکھے شہزین نے اسے خود سے دور دھکیلتے اپنے گزرنے کا راستہ بنایا تھا۔اگلے چند لمحوں میں بیڈ پر دراز ہوکر کمفرٹر اوڑھتی وہ نیند کی وادیوں میں جا کھوئی جبکہ وہ پیچ و تاب کھاتا صوفے پر بیٹھا سگریٹ سلگانے لگا۔نیند تو شائد اس سے روٹھ چکی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شاہ کی شادی۔۔کس سے؟"ولیمے کا بلاوا شان کی طرف پہنچا تو وہ بھی معتجب ہوا۔
"وہ جو لڑکی شازمان کی دلہن بننے جارہی تھی اسی سے تو ہوا ہے شاہنواز کا نکاح۔۔"والدہ کے جواب پر اس کا چہرہ ذرد پڑا تھا۔
"وٹ۔۔"
"کل ولیمہ ہے تم چلے جانا۔۔"اسکے سامنے میز پر چائے کا کپ رکھتیں وہ عام انداز میں بولیں۔
"میں؟"
"کیوں؟دیکھو ملائکہ سے تعلق اس نے خود ختم کیا تھا اس لئے تمھیں کوئی بھی گلٹ پالنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔۔" انھیں اس کی بےچینی کا سبب ملائکہ اور شاہنواز کا سابقہ تعلق لگا تھا۔
"مام آپ جانتی ہیں وہ لڑکی کون ہے جس سے شازمان بھائی شادی کرنے جارہے تھے؟"
"کون ہے؟"وہ بےدھیانی سوال گوہ ہوئیں۔
"شازی۔۔"
"وہ بدنامِ زمانہ لڑکی۔۔۔یہاں کیسے پہنچی؟"انکا ہاتھ سیدھا دل پر گیا تھا۔
"وہ میں نہیں جانتا۔۔اس رات شازمان بھائی آئے تھے مجھ سے اس کی سچائی پوچھنے اور میری باتیں سن کر ہی وہ اس نکاح سے مکرے تھے لیکن مجھ حیرت شاہ پر ہے وہ کیسے اس نکاح پر راضی ہوگیا؟"اس بے چائے کا کپ خود سے دور کیا کیونکہ ملنے والی خبر کے بعد چائے کی طلب ہوا ہوئی تھی۔
"یہ لڑکی کسی گینگ کے ساتھ تو کام نہیں کرتی جو شریف گھرانوں کو بےوقوف بنا کر لوٹتے ہیں۔۔خدانخواستہ وہ تمھیں نقصان۔۔"ان کی سوچ بہت دور تک گئی تھی۔
"پلیز مام اتنی فلمی باتیں مت سوچیں۔۔۔"کرسی سے اٹھتے ہوئے وہ چڑھ کر بولا تھا۔
"تم رہنے دو۔۔کوئی ضرورت نہیں تمھیں وہاں جانے کی۔۔" انھوں نے اسے بھی جانے سے منع کردیا۔
"جانا تو پڑے گا مام۔۔جانا تو پڑے گا۔۔"کچھ سوچتے ہوئے اس نے اچانک ہی جانے کا فیصلہ کیا تھا۔شاہنواز کے بولے جانے والے اونچے بول اسی کے منہ پر مارنے کا اس سے بہتر موقع اسے ساری زندگی نہ ملتا۔
وہ شہزین کو لئے سیلون سے مارکی پہنچیں تو شاہ نواز پہلے سے باہر ان کے استقبال میں کھڑا تھا۔سیاہ پینٹ کوٹ میں گرے بٹن شرٹ پر ہم رنگ ٹائی باندھے وہ ہمیشہ کی طرح پرکشش دکھائی دے رہا تھا۔
"ماشاءاللہ میری شہزادی۔۔شاہ نواز تم بہت خوش نصیب ہو۔۔" اسے گاڑی سے اتارتے ہوئے سیدہ بیگم نے ہلکے گرے رنگ کی میکسی کا ہم رنگ دوپٹہ سلیقے سے سمیٹا ہوا تھا تاکہ سر سے دوپٹہ سرکنے کے باعث بہو کا ہئیر سٹائل خراب نہ ہو۔جب سے وہ تیار ہو کر ان کے سامنے آئی تھی وہ ڈھیروں بلائیں لے کر اس کا صدقہ کئیں بار اتار چکی تھیں۔
"کچھ زیادہ ہی۔۔"ماں نے شہزین کا ہاتھ اسے تھمایا تو وہ منمنانے لگا۔داداجان نے ان کی اینٹری کا خاص اہتمام کروایا تھا۔بھرم قائم رکھنے کے لئے انھیں سٹیج تک ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملا کر چلنا پڑا تھا۔سٹیج پر بیٹھتے ساتھ شاہنواز نے خاصا فاصلہ قائم رکھتے ہوئے براجمانی اختیار کی تھی۔
"بہت بہت مبارک ہو۔۔کیا کمال کی جوڑی ہے! شاہ تم دونوں ایک ساتھ کتنے مکمل لگ رہے ہو۔۔" ڈارک بروان پینٹ کوٹ میں ملبوس شان سٹیج پر پہنچتے ساتھ لفظی وار سے باز نہ آیا تھا۔
"تم آگئے نالائق۔۔مجھے لگا بہانہ بنادو گے۔۔"شاہنواز کے برابر والے صوفے پر بیٹھے داداجان نے اٹھ کر اسے گلے سے لگایا تھا۔
"کیسے نہ آتا داداجان۔۔بہت بہت مبارک ہو آپ کو بھی۔۔"اس نے داداجان سے ملنے کے بعد شہزین کو بھی مخاطب کیا جو اس کی آمد کو خاطر میں لائے بغیر مسلسل نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
"شکریہ۔۔"اس کی جگہ شاہنواز نے اٹھ کر ہاتھ ملاتے ہوئے جواب دیا تھا۔
"ایکسکیوزمی۔۔"اسی اثنا میں موبائل پر آئی کال سننے وہ سٹیج سے اترا تھا۔
"تمھیں کیا مل رہا ہے یہ تماشہ کرکے؟"وہ کال سن کر ہٹا ہی تھا کہ نظر شان پر گئی جو داداجان کے ساتھ سٹیج سے کچھ فاصلے پر کھڑا قہقہے لگا رہا تھا۔داداجان جیسے ہی کسی دوسرے مہمان کی طرف بڑھے تو شاہنواز نے اسے ٹوکا تھا۔
"یہ تو میں تم سے پوچھنے آیا ہوں۔۔تم تو اس لڑکی کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے تھے۔۔اب اسے ہی شریکِ سفر بناتے ہوئے تمھیں زرا خوفِ خدا نہیں آیا۔۔کیا کہوں اسے فراغ دلی یا منافقت۔۔"پینٹ کی جیب میں دونوں ہاتھ ڈالے وہ شاہنواز کو لاجواب کرنے کا بھرپور ارادہ رکھتا تھا۔
"مجبوری۔۔اور تمھیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟تم تو خوش ہو نا میری دھتکاری گئی لڑکی کے ساتھ۔۔"اس نے بھی بےمروتی کا مظاہرہ کیا۔
"تمھاری دھتکاری گئی کم ازکم دنیا کی دھتکاری گئی سے بہتر ہے ملک شاہنواز ابراہیم۔۔"
"پھر تو تمھیں میرا شکرگزار ہونا چاہئے جس نے وقت رہتے تمھیں محتاط کردیا۔۔"اس کا شانہ تھپتھپاتا وہ دوبارہ سٹیج کی طرف چل دیا جبکہ شان بھی پاوں پٹکتا مارکی سے چلتا بنا تھا۔تقریب کے اختتام پذیر ہونے تک ناچاہتے ہوئے بھی اسے سٹیج پر بیٹھ کر کئیں دفعہ بلاوجہ مسکرا کر بناوٹی خوشی ظاہر کرنی پڑی تھیں۔ان دونوں کی کئیں تصاویر کیمرہ مین نے اپنے پاس محفوظ کی تھیں جنھیں دیکھنے میں ان دونوں کو ہی ایک فیصد بھی دلچسبی نہ تھی۔
"مجھے بات کرنی ہے تم سے۔۔"وہ رات گئے کمرے میں پہنچا تو شہزین عائینے کے سامنے بیٹھی اپنے بالوں پر بنا سٹائل کھول رہی تھی۔
"بولو۔۔"اس نے بغیر ہاتھ روکے جواب دیا۔
"داداجان سے جاکر کہو کہ وہ بھائی کو معاف کردیں۔۔"اس کا انداز تحکم تھا۔
"اس سے کیا ہوگا؟"آخری پِن بالوں سے نکالتی وہ جانے کے لئے اٹھی تھی۔سر پر اوڑھا ہوا دوپٹہ اب دونوں شانوں پر موجود تھا۔
"ہمارا گھر مکمل ہوگا جسے تم نے ٹکروں میں بانٹ دیا ہے۔۔" اس کا لفظ لفظ نفرت سے لیز تھا۔
"میں تمھارے کسی حکم کی پابند نہیں ہوں۔۔"اس نے میکسی دونوں ہاتھوں سے تھام کر تھوڑی اونچی کی تھی تاکہ باآسانی ڈریسنگ روم تک جا سکے۔
"تم پابند ہو۔۔ایک ایک احسان کی جو میرے گھر والوں نے تم پر کئے ہیں۔۔مجھے مجبور مت کرو کہ میں بھول جاوں تم عورت ذاد ہو۔۔"اس کے راستے میں حائل ہوتا وہ احسان گنوانے لگا۔
"تمھیں مجھ سے پہلے دن سے کوئی خاص تکلیف رہی ہوگی ملک شاہنواز ابراہیم اور یقین مانو مجھے آج بھی یہ جاننے کا ایک فیصد تجسس نہیں ہے کہ تمھیں مجھ سے روز اول سے مسلہ تھا کیا کیونکہ تم جیسا خودپسند انسان میرے لئے ہمیشہ غیراہم رہا ہے اور ان حالات کے بعد تم قابل نفرت ہو میرے لئے۔۔لہذہ مجھے میری حد میں رہنے دو اور تم تمھاری حد میں رہو۔۔"اس کو منہ توڑ جواب دیتی وہ ڈریسنگ روم میں جا بند ہوئی تھی اور اس کی دیدہ دلیری پر دانت پیستا شاہنواز کمرے سے منسلک بالکنی کا رخ کر گیا تھا۔وہ جتنا آسان ہدف سمجھ کر اس اندھے کنویں میں کودا تھا معاملات اتنے ہی پیچیدہ ہونے لگے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"یہ کیا ہے داداجان۔۔"ناشتے کے میز پر داداجان نے اسے سفید لفافہ تھمایا تھا۔
"نالائق تم ناردن ایریا لے کر جاوگے شہزین کو۔۔میں نے سب انتظامات کروا دیے ہیں۔۔"اس نے لفافہ کھولا تو منہ کے زاویے خود بہ خود بگڑے تھے۔
"مگر داداجان۔۔"اس نے لفافہ دوبارہ کبھی نہ کھولنے کی نیت سے بند کیا۔
"کوئی بہانہ نہیں۔۔"
"داداجان مجھے کہیں نہیں جانا پلیز۔۔"اس بار شہزین نے انکار کیا۔
"کیوں بچے۔۔"اس کے انکار پر داداجان دھیمے پڑ گئے تھے۔
"فی الحال مجھے کچھ وقت دیں۔۔میں نے آپ کی خوشی کے لئے آپ کی شہزین کو قبول کرلیا ہے نا اب مجھے بھی تھوڑی مہلت چاہئے۔۔"اس سے قبل وہ کچھ بولتی شاہنواز اپنے اعتراضات کے ساتھ میدان میں کودا تھا۔
"اس کا رویہ ٹھیک ہے تمھارے ساتھ؟"شاہنواذ کو میز چھوڑ کر جاتے دکھ کر تائی جان نے لاڈلی بھتیجی سے سوال کیا۔
"جی تائی جان۔۔"اس نے پراعتمادی سے اثبات میں سر ہلایا۔
"صدا خوش رہو۔۔"وہ آگے برھ کر اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے دعا گوہ ہوئیں۔
"آپ واپس جارہی ہیں؟"ملازم کو ان کا سوٹ کیس گھسیٹ کر ہال میں لاتا دیکھتے ساتھ اس کا چہرہ اتر گیا تھا۔
"تمھارے تایا نے اتنی مہلت دے دی وہی غنیمت ہے۔۔"وہ آصف خان کا حوالہ دیتے ہوئے مسکرائی تھیں۔
"آپ اتنے کم وقت کے لئے کیوں آتی ہیں؟"اس کا ناشتہ وہیں تمام ہوا تھا۔
"یہ تو تمھاری وجہ سے زیادہ آنے جانے لگی ہے ورنہ ہم تو اس کی شکل دیکھنے کو ترس جایا کرتے تھے۔"دادجان کے شکوے پر سیدہ بیگم بھی مسکرائی تھیں۔
"باباجان۔۔"وہ منہ بسورتے ہوئے بولیں۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم بات کروگی داداجان سے یا نہیں؟"وہ پانی پی کر بوتل واپس فریج میں رکھ رہی تھی جب شاہنواز کچن میں داخل ہوا۔
"نہیں۔۔"اس نے فریج کا دروازہ تسلی سے بند کیا۔
"شہزین۔۔"اسی اثنا میں سیدہ بیگم اسے پکارتی کچن کے دروازے پر پہنچی تھیں۔
"جی آنٹی۔۔"
"تم کیوں آئی ہو کچن میں بچے۔۔"اسے وہاں دیکھتے ہی انھوں نے ناراضی ظاہر کی۔
"وہ میں۔۔"
"اس نالائق کا بھی کوئی کام ہوا تو ملازم کر دے گا۔۔تم آرام کرو۔۔کام کے لئے ساری زندگی پڑی ہے ابھی۔۔"انھیں لگا کہ شائد وہ شوہر کے لئے کوئی فرمائشی کھانا تیار کرنے وہاں آئی ہے۔
"مام۔۔بھائی گھر واپس آنا چاہتے ہیں۔۔"شاہنواز نے اسی دم ماں کے اعصاب جھنجھوڑے تھے۔
"میرا صرف ایک ہی بیٹا ہے اور وہ تم ہو۔۔"ان کا لہجہ پلک جھپکتے تلخ ہوا تھا۔
"مگر۔۔"
"چلو تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے میں نے۔۔"شہزین کا بازو تھامے وہ اسے لے کر کچن سے نکل گئی تھیں۔
"ڈیم اٹ۔۔"اس نے غصے سے پاوں پٹکے تھے۔
آنے والے کچھ دنوں میں زندگی اپنے معمول کی طرف واپس آگئی تھی۔شاہنواز نے دفتر جانا شروع کردیا تھا اور داداجان پہلے کی طرح صحت یاب ہونے لگے تھے۔سیدہ بیگم بھی بیٹے کا گھر بس جانے پر مطمئن ہوئی تھیں۔آج اتوار کے دن شہزین نے داداجان کی فرمائش پر شام کی چائے کے ساتھ ان کے پسندیدہ پکوڑے اور سبزی والے سموسے تیار کئے تھے۔
"وہیں رک جاو۔۔"وہ لوگ چائے سے محظوظ ہو رہے تھے جب داداجان نے گھر کی دہلیز پر شازمان اور نتاشہ کو دیکھتے ساتھ ہی روک دیا تھا۔
"داداجان۔۔"وہ وہیں رک گیا تھا۔
"میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے شازمان صاحب۔۔"وہ آج بھی قطع تعلقی کے موقف پر قائم تھے۔
"داداجان پرائے لوگوں کے لئے اپنے بچوں کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔۔"اس بار نتاشہ نے دہائی دی۔
"شاہنواز انھیں بھیج کر دروازہ بند کردو۔۔مجھے ان دونوں کے منہ نہیں لگنا۔۔"وہ اپنا چائے کا کپ اٹھائے صوفے سے اٹھے تھے۔
"داداجان۔۔"شاہنواز نے مزاحمت کی۔
"تمھیں بھی کوئی اعتراض ہے تو تم بھی دفع ہوسکتے ہو۔۔" ان کا انداز اس کے ساتھ بھی خطرناک حد تک تلخ ہوا تھا۔
"رکیں۔۔داداجان میں نے شازمان کو معاف کردیا ہے۔۔پلیز آپ بھی انھیں یہاں رکنے کی اجازت دے دیں۔۔"شازمان کو الٹے قدم اٹھاتا دیکھ کر شہزین نے داداجان کو قائل کرنا چاہا۔
"ہرگز نہیں۔۔"وہ اس کی التجا بھی رد کر گئے تھے۔
"میں آپ سے ان کی معافی بطور تحفہ مانگ رہی ہوں۔۔انکار مت کیجیے گا۔۔مجھے اللہ نے بہت بہتر سے نوازہ ہے اس لئے میں شازمان کو معاف کرنا چاہتی ہوں۔۔"اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کی ناں ہاں میں تبدیل ہوسکے۔
"یہ یہاں رک سکتا ہے مگر میرے سامنے جتنا کم آئے گا اتنی زیادہ دیر یہاں ٹک پائے گا۔۔"شہزین کی التجا پر کچھ سوچتے ہوئے وہ توقف سے بولے تھے۔
"تھینکس داداجان۔۔''شازمان کو تو دلی سکون ملا تھا۔
"شکریہ اس کا ادا کرو ورنہ اسے میں خود دھکے دے کر نکالتا۔۔"اسے ٹوک لگاتے ہوئے وہ کمرے کا رخ کر گئے تھے
"آئیں نا بھائی بھابھی پلیز آئیں۔۔"شاہنواز آگے بڑھتے ساتھ بھائی کے گلے لگا تھا۔
"مام۔۔"شازمان نے ماں کی طرف ملامتی نظروں سے دیکھا تھا۔
"شہزین بیٹے مجھے کچھ دیر آرام کرنا ہے۔کوشش کرنا کہ کوئی میرے کمرے میں نہ آئے۔۔"اپنی ساڑھی کا پلو جھٹکتی وہ بھی اپنے کمرے میں جابند ہوئی جبکہ شہزین چائے کی ٹرے اٹھائے کچن کا رخ کر گئی تھی۔
"تم نے تو بہت کوشش کی کہ میری جگہ لے لو مگر افسوس جو میرا تھا وہ میرا ہی رہا۔۔"وہ رات کے کھانے کا انتظام کرتی کچن سے نکلی تو نتاشہ نے اس کا راستہ روک کر طنز کے تیر چلائے تھے۔
"اور تمھیں ہی مبارک ہو۔۔خوش رہو دونوں۔۔"شہزین کی مسکراہٹ نے اسکے تن بدن کو آگ لگائی تھی۔
"تم جتنا اترا لو شہزین احمد تمھیں داداجان کے ہاتھوں ہی اس گھر سے دھکے دے کر نہ نکلوایا تو میرا نام بھی نتاشہ نہیں۔۔"اسے سیڑھیاں چڑھ کر جاتا دیکھ کر وہ اپنی اگلی حکمت عملی طے کر چکی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم ہوش میں ہو ملائکہ۔۔ایک ہفتے بعد شادی ہے ہماری اور تم یہ منگنی توڑنے کی بات کر رہی ہو؟"ملائکہ کے بلاوے پر وہ جیسے ہی اس کے گھر پہنچا تو اس کی فرمائش نے ملک شاہنواز کا سارا غرور خاک میں ملایا تھا۔
"میں کبھی اس شادی کے لئے راضی نہیں تھی شاہنواز۔۔کبھی بھی نہیں۔۔مام ڈیڈ کے پریشر میں آکر میں تمھیں اپنا بھی لوں تو ہم دونوں ایک ان چاہی زندگی گزاریں گے۔۔"وہ روتے ہوئے برابر لفظی مقابلہ کر رہی تھی۔
"جب مجھ سے اتنی ہی تکلیف تھی تو اتنے سالوں سے خاموش کیوں تھی بولو؟"وہ تنک کر بولا۔
"مام سب جانتی تھیں پھر بھی انھوں نے میرا ساتھ نہیں دیا۔۔"اس نے گھٹی گھٹی آواز میں جواب دیا۔
"اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔"اس نے کندھے اچکا کر ہر امید توڑی تھی۔
"کیا تم ایک ایسی لڑکی کے ساتھ زندگی گزار لوگے جس کے دل میں کسی اور کا نام لکھا ہو۔۔"اسے جاتا دیکھ کر وہ عقب سے سوال کر گئی۔
"کون ہے وہ؟"رک کر مڑتے ہوئے اس نے سرخیاں ٹپکاتی آنکھوں سے ملائکہ کا چہرہ دیکھا تھا۔
"وہ جو بھی ہے تم نہیں ہو۔۔پھر بھی تم انکار نہیں کر سکتے تو میں نکاح والے دن زہر کھا کر خود کو ختم کردوں گی۔۔میری لاش کو رخصت کرنے کے لئے تم بارات لے کر آسکتے ہو۔۔"اس نے خودسری کی انتہا کرتے ہوئے شاہنواز کی غیرت پر لاتعداد حملے کئے تھے۔شاہنواز تو یہ معاملہ اتنی آسانی سے ختم کرنے کے حق میں نہ تھا مگر عالیہ بیگم کے جڑے ہاتھ اور بہتے انسووں نے اسے چپ کا روزہ رکھنے پر مجبور کیا تھا۔اسی شام خود اس رشتے سے انکاری ہو کر ہر الزام خود پر لے گیا تھا۔اس کی انا کو بھی یہ ہرگز گوارا نہ تھا کہ دنیا اس پر یہ سوچ کر ہنسے کہ لڑکی عین وقت پر اسے دھتکار گئی ہے۔اپنی غیرت کا پرچم بلند رکھنے کے لئے وہ سب کی نظروں میں برا بن گیا تھا۔
"کیوں کیا ملائکہ کیوں؟تمھیں کس نے اختیار دیا تھا میرا دل توڑنے کا یا مجھ سے بےوفائی کرنے کا۔۔اللہ تم سے تمھارے ہر ظلم کا حساب لے گا۔۔"نیند سے بیدار ہوتے ساتھ اس نے منہ دونوں ہاتھوں سے رگڑ کر صاف کیا تھا۔دنیا کی نظر میں وہ برا بن کر اپنی غیرت کے ساتھ ساتھ دو گھروں کی عزت بچانے میں کامیاب ہوا تھا مگر دل کے اندر کی بےسکونی ایک عرصے سے اسے بےچین کئے ہوئے تھی۔
"واقعی یہ عورت ذاد صرف مردوں کے دلوں سے کھیلنا جانتی ہیں۔۔اس مخلوق کا دور دور تک وفا سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔۔۔ایک وہ تھی اور ایک یہ ہے۔۔دونوں کی دونوں ناقابل اعتبار اور قابل نفرت ہیں میرے لئے۔۔"اس نے صوفے سے اٹھ کر بیڈ پر نیند میں ڈوبی شریک حیات کو دیکھا جو سب کی زندگیاں بےسکون کئے خود پرسکون دکھائی دے رہی تھی پھر ایک سرد آہ بھرتا بالکنی کا رخ کر گیا تھا۔کچھ دیر میں اسے ویسے بھی فجر کے لئے اٹھنا تھا،اور ان سہانی یادوں کے ساتھ نیند ویسے بھی کہاں آنی تھی!
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم کیا کر رہے ہو یہاں؟"اسے گھر کی دہلیز عبور کرتا دیکھ کر شان آگ بگولہ ہوا تھا۔
"تمھاری بیوی سے ملنے آیا ہوں۔۔"بلیو جینس کی جیب میں دونوں ہاتھ ڈالے عاشر شرارتا مسکرایا تھا۔
"دفع ہوجاو یہاں سے۔۔"شان نے ایک جست میں اس کا گریبان پکڑا تھا۔
"کون ہے شان۔۔"اسی دوران ملائکہ سیڑھیاں اترتی وہاں پہنچی تھی۔
"ارے واہ آپ بھی یہاں پائی جاتی ہیں؟"اپنی جیکٹ اس کی گرفت سے آزاد کرواتا وہ ملائکہ کی طرف متوجہ ہوا۔
"تم کیوں آئے ہو؟"ملائکہ اسے دیکھتے ہی ہکی بکی رہ گئی تھی۔
"میں تو شان سر کی بیوی سے ملنے آیا ہوں۔۔شازی سے۔۔"اس نے نیا پتہ پھینکا۔
"وہ بیوی نہیں یے میری۔۔"
"میں نے تو سنا تھا آپ نے شادی کرلی ہے شازی سے۔۔"اس لمحے وہ ملائکہ کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں سے محظوظ ہو رہا تھا۔
"غلط سنا تھا۔۔اس لئے اب دفع ہوجاو یہاں سے۔۔"اس نے شان کی بات کاٹی تھی۔
"تم شازی کو میرا ایک پیغام دے دینا کہ اس کے بہت سے راز سینے میں دفن کئے بیٹھا ہوں۔۔اس نے مجھ سے رابطہ نہ کیا تو اسے بےنقاب کرنا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔"دل پر دائیں مکے سے دستک دیتے ہوئے وہ ملائکہ کو اندرخانے دھمکا گیا تھا۔
"جسٹ گیٹ لاسٹ۔۔"شان پھر سے اس پر حلا بولنے کو تھا۔
"شان وہ جارہا ہے۔۔۔جاو نا تم۔۔"ملائکہ نے اس کا دایاں شانہ تھامتے ہوئے روکا جبکہ عاشر سیٹی بجاتا چھوٹے چھوٹے قدم چلتے نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔
"یہ ذلیل آدمی یہاں تک پہنچا کیسے؟"
"اسی نے کوئی نیا جھوٹ بول دیا ہوگا اس س۔۔جانتے تو ہو تم کتنی بڑی جھوٹی اور مکار ہے وہ۔۔"اس نے یہ سارا ملبہ بھی شہزین پر ہی ڈالا تھا۔
"میں گارڈز سے کہتا ہوں کہ دوبارہ اسے گھر کے آس پاس بھی نہ بھٹکنے دے۔۔"وہ بڑے بڑے ڈگ مارتا گارڈ کو ہدایت دینے باہر نکل گیا تھا۔
"کیوں آئے تھے تم۔۔"شان کے وہاں سے جاتے ہی ملائکہ کے نمبر پر عاشر کی کال آئی تھی۔
"تم نہیں آئی تو مجھے ہی آنا پڑا۔۔"
"عاشر تمھیں جتنی قمیت چاہئے یہاں سے دفع ہونے صاف صاف بتادو مجھے۔۔"وہ دبی دبی آواز میں اسے دھمکانے لگی۔
"اس کے لئے ہمارا ملنا ضروری ہے سویٹ ہارٹ۔۔تمھاری وجہ سے میں نے جو وقت سلاخوں کے پیچھے گزارا۔۔" اس کو سستے میں تو نہیں نمٹاوں گا۔۔"اس کی باتیں ملائکہ کو اپنی گردن پر کسی پھندے کی طرح محسوس ہوئی تھیں۔
"کہاں آنا ہے میں نے؟"وہ کچھ سوچتے ہوئے حامی بھر گئی۔
"یہ ہوئی نا بات۔۔"وہ خوشی سے اٹھلایا تھا۔
"جگہ تمھیں میسج کر دوں گا۔۔اکیلی آنا اپنے مجنوں شوہر کو پلو سے باندھے نہ آنا۔۔"اس نے گفتگو تمام کرتے ہوئے بھی کئیں طنر کئے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کیسی لگ رہی ہوں؟"وہ لیپ ٹاپ بند کرکے بستے میں رکھتا بیڈ سے اٹھا تو سنگھار میز کے سامنے سے اس کی جانب رخ موڑتی نتاشہ صبح صبح میک اپ میں دھت چہرہ لئے اپنی تعریف کی منتظر کھڑی تھی۔
"نائس۔۔"اس نے کوئی خاص تاثر نہ دیا۔
"تم نے آج تک میری تعریف دل سے نہیں کی شازمان۔۔کیا شہزین کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے تھے؟"اس کی ٹائی کو کستی وہ شہزین کا ذکر چھیڑ گئی۔
"جو جس لائق ہو اس کے ساتھ وہی سلوک رواں رکھا جاتا ہے۔۔وہ جس لائق تھی اس کے ساتھ ویسا ہی کیا میں نے۔۔تم جس لائق ہو تمھیں وہ مقام دیا ہے۔۔تبھی تم آج مسز ملک شازمان ابراہیم ہوں۔۔"وہ اکھڑ لہجے میں اس کے سب خدشات نمٹاگیا۔
"تمھاری یہی باتیں تو مجھے لاجواب کر دیتی ہیں۔۔"اس کی شرٹ کا کالر درست کرتی وہ اترانے لگی۔
"چلیں دیر ہو رہی ہے۔۔"وہ مزید بحث جاری رکھنے کا خواہاں نہ تھا۔
"السلام علیکم داداجان۔۔"وہ دونوں جیسے ہی ناشتے کے میز پر پہنچے تو شازمان نے داداجان کو سلام کیا جس کا جواب کافی سردمہری سے ملا تھا۔
"دیورانی صاحبہ کیسی ہیں آپ؟"کرسی سنبھالتے ساتھ نتاشہ اپنے پسندیدہ مشغلے میں مصروف ہوگئی مگر شہزین نے خاموشی سے نظرانداز کردیا۔
"بھائی چائے۔۔"شاہنواز نے چائے کا کپ شازمان کی طرف بڑھایا۔
"تھینکس۔۔"
"ڈیڈ چاہتے ہیں کہ جلدازجلد ہمارا ولیمہ ہوجائے۔۔وہ تو بس آپ کی ناراضی کم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔۔"نتاشہ نے قسم کھا رکھی تھی کہ سب کا ناشتہ ممکن حد تک حرام کرے گی۔
"وہ تو تاقیامت ختم نہیں ہوگی پھر بھی تم لوگوں کو جو کھیل تماشہ کرنا یے شوق سے کرو۔۔"داداجان نے عدم دلچسبی ظاہر کی۔
"بھائی آپ کی رسیپشن دھوم دھام سے ہوگی۔۔یہ میری خواہش ہے داداجان۔۔"شاہنواز نے گویا داداجان کا بقیہ اعتراض بھی تمام کیا تھا۔
"تمھیں پھر اس کے لئے اب کی چہیتی سے سفارش کروانی پڑے گی۔۔تم بولو نا شہزین۔۔"نتاشہ نے نیا طنز جاری کیا۔
"ایکسکیوزمی۔۔"وہ تنگ آکر ناشتے کا میز ہی چھوڑ گئی تھی۔
"تمھارا ناشتہ بھی میں کمرے میں بھجوا دیتی ہوں۔۔تاکہ ہم آرام سے چند لقمے حلق سے اتار سکیں۔۔"شہزین کا اٹھ کر جانا سیدہ بیگم کے بھی مزاج بگاڑ گیا۔
مام پلیز اتنی تلخ نہ ہوں۔۔"شاہنواز نے ان کے ہاتھ کی
پشت پر ہاتھ رکھے گزارش کی تھی۔
"شاہنواز تم نے اگر اسے اپنا نام دیا ہے تو اس کا احترام کرنا اور اپنے بھائی بھابھی سے کروانا بھی تمھارے فرائض میں شامل ہے۔۔"نتاشہ برا سا منہ بناتی واپس کمرے میں گئی تو سیدہ بیگم نے بیٹے کو سمجھایا تھا۔
"آپ لوگوں کو ایک غیر لڑکی اپنے سگے بیٹے سے زیادہ عزیز کیسے ہوسکتی ہے مام؟"اسے ماں اور داداجان کا شہزین کی طرف غیرمعمولی جھکاو الجھا رہا تھا۔
"وہ غیر نہیں ہے۔۔تمھاری عزت ہے اس گھر کی بہو ہے۔۔"دادا جان نے اس کی بات کاٹی تھی۔
"اور بھائی اس گھر کے بیٹے ہیں۔۔"شازمان کو خفا ہوکر دفتر جاتا دیکھ کر اسے دلی افسوس ہوا تھا۔
"تم جب تک شازمان کا بھائی بن کر سوچو گے تمھیں صرف ایک رخ نظر آئے گا۔۔۔"داداجان اسے احساس دلانا چاہتے تھے۔
"میں اس تصویر کے ہر اس رخ سے بخوبی واقف ہوں داداجان جو آپ لوگوں سے وہ مکار لڑکی چھپا رہی ہے۔۔"وہ دل ہی دل میں جوابدہ ہوا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"مجھے اعتبار کرنا چاہئے ملائکہ کا؟ہرگز نہیں۔۔۔لیکن نمبر پر کال کرنے میں کیا حرج ہے۔۔کرلیتا ہوں کال۔۔"ملائکہ سے ہوئی ملاقات میں اس نے شہزین سے رابطے کا نمبر عاشر کے سپرد کیا تھا تاکہ آئندہ اسے دھمکانے وہ دوبارہ اس کے سسرال کا رخ نہ کرے۔اس لمحے اس نمبر کو دیکھتے ہوئے عاشر اسی کشمکش میں تھا کہ کال ملائی جائے یا نہیں۔
"ہیلو۔۔۔"اس نے جیسے ہی کال ملائی دو سے تین لمحوں بعد کال اٹھالی گئی تھی۔
"السلام علیکم۔۔۔میں وہ۔۔کیا میری بات شہزین احمد سے ہو سکتی ہے؟"اس نے اپنے تعارف سے پرہیز کی تھی۔
"آپ کی تعریف۔۔"نتاشہ نے اس سے تعارف کا مطالبہ کیا۔
"میں اس کا بھائی بات کر رہا ہوں۔۔"اس نے فورا جواب دیا۔
"بھائی۔۔۔اس لاوارث کا بھائی کہاں سے پیدا ہوگیا رات و رات؟"اس جواب پر سوچ میں پڑ گئی تھی۔
"آپ نام بتا دیں بلکہ۔۔میں آپ کو شہزین کا نمبر دیتی ہوں نا آپ اسی کے نمبر پر کال کرلیں۔۔"اسے نئی ترکیب سوجھی تھی۔
"جی پلیز تھینکس۔۔"اس نے اسی پر شکر کا کلمہ پڑھا تھا۔
شاہ نواز شاور لے کر باہر نکلا تو لیمپ کے پاس رکھا شہزین کا موبائل مسلسل شور مچائے جا رہا تھا۔تولیہ کرسی پر پھینکتا وہ فون کی طرف متوجہ ہوا تھا۔اس نے اسکرین پر نظر گھمائی تو کوئی نیا نمبر وہاں جگمگا رہا تھا۔
"ہیلو ہیلو۔۔ایسا کون تھا جس نے میری آواز سن کر کال کاٹ دی۔۔"اس کے ہیلو بولتے ہی رابطہ منقطع ہونا شہزین کو مزید مشکوک کرگیا تھا۔
"چور چوری سے باز آسکتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔۔"اس نے فون اٹھا کر بیڈ پر پٹکا تھا تو شہزین کمرے میں داخل ہوئی۔
"ایکسکیوزمی۔۔"شاہنواز کو راستے میں حائل دیکھ کر اس نے راستہ مانگا تو ایک طرف ہٹ گیا تھا۔
"کون تھا یہ جسے صرف تمھاری آواز سنے کی طلب ہو رہی تھی تبھی میری آواز سن کر کال کاٹ دی۔۔"وہ موبائل اٹھا کر اسکرین کی طرف متوجہ ہوئی تو وہ بال بالوں میں برش پھیرتا عائینے سے اس کا عکس تاسف سے دیکھ رہا تھا۔
"یہ سوال اسی سے کر لینا جب دوبارہ کال آئی تو۔۔"اس نے بھی موبائل واپس لیمپ کے پاس رکھتے ہوئے جواب دیا تھا۔
"اب کال کیوں آئے گی؟محتاط ہو چکا ہو گا۔۔"اس نے بھی اگلی ٹوک لگانا اولین فریضہ سمجھا تھا۔
"پرسوں بھائی بھابھی کا ولیمہ ہے۔۔"وہ رات کے کپڑوں میں ڈریسنگ روم سے نکلی تو وہ صوفے پر بیٹھا اگلی خبر سنانے کو برقرار تھا۔
"تو میں کیا کر سکتی ہوں؟"اس نے بغیر رکے کہا۔
"داداجان کو راضی کرو کہ وہ ولیمے میں شرکت کریں۔۔"
تم نے مجھے زرخرید غلام سمجھ رکھا ہے؟تم جو کہو گے وہ میں کیوں مانوں؟"اس بار اس کی انا نے بھی جوش دکھایا تھا۔
"کیونکہ میں نے تمھیں وہ عزت دی جس کے تم قطعاً لائق نہیں ہو۔۔"اس کا وہی مخصوص متکبر انداز تھا۔
"داداجان آجائیں گے۔۔تم نہ بھی کہتے تو میں انھیں راضی کرلیتی کیونکہ اس گھر کے بہت احسانات ہیں مجھ پر اور میں بھی یہاں سب کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔۔"سر درد کے باعث وہ کسی نئی بحث میں الجھنے کی قائل نہ تھی تبھی لیمپ کے میز کے پہلے دراز سے سر درد کی گولی کا آسرا لیتی سونے کے لئے جا لیٹی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"آنٹی اس کی ضرورت نہیں تھی۔۔"سیدہ بیگم اپنے اصرار پر اسے فینسی ساڑھی دلانے اپنے ساتھ مال لے کر پہنچی تھیں۔
"کیوں ضرورت نہیں تھی۔۔تم کل کسی سے کم لگی تو یہ میری توہین ہوگی۔۔"اس کے سامنے نفیس کام والی رنگ برنگی ساڑھیاں رکھتیں وہ رعب جھاڑنے لگیں۔
"میرے پاس اتنے نئے ڈریسز پڑے تھے۔۔"اسے بننے سنورنے میں کوئی خاص دلچسبی نہ تھی۔
"یہ ساڑھی ٹھیک رہے گی۔۔"انھیں نفیس سے کام والی ڈارک گرین ساڑھی بہو کے کئے مناسب لگی تھی۔
"یہ تو بہت بھاری کام والی ہے آنٹی۔۔"اس نے اس ساڑھی کو دیکھ کر بھی منہ بسورا تھا مگر سیدہ بیگم کے خلوص کے سامنے وہ زیادہ احتجاج نہ کر پائی۔
"یہ تو خان صاحب کی بھتیجی نہیں ہے!"وہ دونوں مال سے گاڑی میں سوار ہوکر نکلیں تو پاس کے پیٹرول پمپ پر موجود دو افراد نے شہزین کو پہچان لیا تھا۔
"لگ تو وہ ہی رہی یے مگر یہ ہے کس کے ساتھ؟"دوسرا آدمی بھی تشویش میں مبتلا ہوا۔
"پیچھا کرتے ہیں اس کا۔۔۔بچ کر کہاں جائے گی۔۔"وہ لوگ اپنی گاڑی میں سوار ہوتے وہ اس کے تعاقب میں نکلے تھے
"ملک مینشن۔۔یہاں کون ہے اس کا؟"ملک مینشن کے باہر پہنچ کر ان کی تلاش مکمل ہوئی تھی۔
"وہ خان صاحب خود پتہ لگوا لیں گے۔۔چل کر انھیں یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ ان کی بھتیجی کو ہم نے ڈھونڈھ نکالا ہے۔۔"انھیں بس اپنے نمبر بنانے سے غرض تھی اس پر آصف خان کی طرف سے بھاری رقم انعام میں ملنے کے بھی واضح آثار موجود تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ماشاءاللہ۔۔۔دونوں ایک ساتھ کھڑے ہو جاو۔۔تمھاری پھپھو کو تصویر بھیجنی ہے میں نے۔۔"وہ دونوں ولیمے کے لئے تیار ہو کر نیچے ہال میں پہنچے تو سیدہ بیگم نے زبردستی ان کی تصویر کھینچنے کے لئے وہاں روک لیا تھا۔
"مام۔۔"رائل بلیو پینٹ کوٹ میں تیار شاہنواز تلملایا تھا۔
"کیا مام۔۔"انھوں نے اسے گھورتے ہوئے ساڑھی میں سجی دھجی شہزین کو برابر میں کھڑا کیا۔
"بیوی ہے تمھاری قریب ہوجاو گے تو کون سی قیامت آجائے گی۔۔"موبائل سے تصویر کھینچتے وقت انھوں نے شاہنواز کو ٹوک لگائی جو ممکن حد تک فاصلہ اختیار کئے کھڑا تھا۔
"اب خوش۔۔"اس نے قریب آتے ہوئے بیوی کے گرد دائیں بازو کا حصار بنایا۔
"بےحد۔۔مسکرا بھی دو دونوں کوئی سزا نہیں ملی ہوئی۔۔"شہزین اس کے لمس کو محسوس کرتے ہی کوفت میں مبتلا ہوئی تھی۔
"آپ اس دنیا کی واحد ساس ہونگی جس سے بہو سے زیادہ بیٹا پناہ مانگتا پھرے گا۔۔"تصویر بناتے ساتھ وہ افسوس کرتا ہال سے نکل گیا۔
"گدھا۔۔"
"سب ٹھیک ہے نا بچے۔۔یہ اتنا اکھڑا اکھڑا کیوں ہے؟"انھوں نے شہزین کے تاثرات دیکھے تھے جو الجھی الجھی تھی۔
"ان کا مزاج ہی ایسا ہے شائد۔۔"اس نے عام سے لہجے میں کہا۔
"ہاں ہے تو میری اولاد مگر صدا کی کھڑوس ہے۔۔اس کے بابا بالکل ایسے تھے۔۔مگر مجال ہے جو میرے سامنے بلی مارنے کی کوشش بھی کرتے۔۔"وہ خوش مزاجی سے بولیں۔
"آنٹی آپ بہت سویٹ ہیں۔۔"شہزین کو ان کا خلوص اور اپنائیت اکیلے پن کا احساس نہ ہونے دیتی تھی۔
"اور تم اتنی ہی فرمانبردار بچی ہو۔۔"انھوں سے محبت سے بہو کا گال تھپتھپایا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ملائکہ میٹ مسٹر اینڈ مسز شاہنواز ابراہیم۔۔"وہ جیسے ہی مارکی میں داخل ہوئے شان نے ملائکہ کو ان دونوں سے متعارف کروایا تھا۔
"اسے اتفاق کہوں یا سانحہ۔۔"اس نے استہزازیہ انداز میں شاہنواز کی انا پر کاری ضرب لگائی تھی۔
"حادثہ کہہ لو۔۔جو کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔۔جیسے تم دونوں کے ساتھ آیا۔۔۔میری منگیتر تمھارے مقدر میں لکھی تھی اور تمھاری میری قسمت میں۔۔"شہزین کو بائیں بازو کے حصار میں لیتے ہوئے وہ پراعتمادی سے بولا۔
ایکسکیوزمی۔۔۔"شہزین جان چھڑواتی مزید ان چاروں کی گفتگو کا حصہ بننے سے گریز کرگئی تھی۔
"تمھیں شہزین سے ملنا ہے نا۔۔"ایک کونہ سنبھالتے ہوئے ملائکہ نے عاشر کو کال ملائی تھی۔
"ہاں۔۔"اس نے فورا ہاں میں جواب دیا۔
"بہت اچھا موقع ہے اس سے ملنے کا جو پتہ بھیج رہی ہوں وہاں پہنچ جاو۔۔"اس نے کال کاٹتے ساتھ پن لوکیشن عاشر کو بھیجی تھی۔اگلے بیس منٹ میں عاشر وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا۔
"شازی۔۔"اس کی نظر مارکی کے دروازے پر کھڑے عاشر پر گئی تو جان حلق کو آئی تھی۔
"عاشر تم۔۔کیا کر رہے ہو ادھر۔۔"اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کرتی وہ خود باہر لان میں چلی آئی تھی۔
"مجھے تم سے بات۔۔"
"جاو یہاں سے۔۔"اس نے عاشر کی بات کاٹی تھی۔
"تمھیں میری بات سننی پڑے گی شازی۔۔"اسکا لہجہ نرم پڑا تھا۔
"جاو یہاں سے۔۔" اس نے وہی بات دہرائی تھی۔
"تمھیں کتنا ڈھونڈھا میں نے شازی۔۔تمھارے گاوں تک گیا۔۔"وہ ہر بات تفصیل سے بتانے لگا۔
"کیوں۔۔اب کیا چاہتے ہو تم۔۔"وہ تڑپ اٹھی تھی۔
"ہم دونوں کو ٹریپ کیا گیا تھا شازی۔۔تم پر وہ گھٹیا الزامات لگانے کے بعد مجھے شان اور شاہنواز نے اریسٹ کروادیا تھا نیہا والے مقدمے میں۔۔ورنہ میں کبھی تمھیں رسوا نہ ہونے دیتا۔۔تم سگی بہنوں جیسی عزیز ہو مجھے یار۔۔"اس کی آواز بھی بھیگی تھی۔
"یہ باتیں اب پرانی ہوگئی ہے عاشر۔۔جو زہر میری زندگی میں گھل چکا ہے اس کی سرائیت کا اب کوئی توڑ نہیں ہے۔۔میں اس دلدل کو اپنا مقدر مان چکی ہوں۔۔"اس نے بھی ناامیدی کا مظاہرہ کیا۔
"تم بھول سکتی ہو سب میں نہیں۔۔میں یہاں صرف تمھارے لئے آیا ہوں شازی۔۔تمھیں میرا ساتھ دینا پڑے گا۔۔"وہ وہاں سے ایک قدم ہلنے کا بھی قائل نہ تھا۔
"کیا کر رہی ہو تم یہاں۔۔"اسی دوران مارکی سے باہر آتے شاہنواز کی آواز ان دونوں کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
"کیا کر رہی ہو تم یہاں۔۔"اسی دوران مارکی سے باہر آتے شاہنواز کی آواز ان دونوں کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
"کیا کرتی نظر آ رہی ہوں؟"اس کے وہاں چل کر آنے تک عاشر اندھیرے کا فائدہ اٹھاتا دبے پاوں منظر سے غائب ہوا تھا۔
"مسلہ ہی تو یہ ہے کہ جیسی تم نظر آتی ہو ویسی ہو نہیں اور جسی ہو ویسی ہونے سے بہتر تھا کہ تم نہ ہی ہوتی۔۔" اس نے حسب عادت طعنوں کا سلسلہ بحال کیا۔
"مجھے ماں بابا کی یاد آرہی تھی۔۔"اپنا ماتھا رگڑتی وہ جانے کے لئے مڑی تھی۔
"تو یہ سب انھیں قبر میں اتارنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا نا۔۔"
"جسٹ شٹ اپ۔۔"وہ جو ممکن حد تک اس انسان کو نظر انداز کر رہی تھی۔والدین پر حرف آتے ہی اس کی برداشت تمام ہوئی۔
"اپنی آواز اپنی اوقات کے مطابق رکھو ورنہ۔۔"چل کر اس کی جانب سخت نظروں کا تبادلہ کرتے ہوئے وہ درشتگی سے بولا تھا۔
"ورنہ۔۔۔"شہزین نے بھی بات کو طول دیا تھا۔
"ورنہ تمھاری اصلیت کھولنے میں مجھے چند لمحے بھی درکار نہیں ہونگے۔۔"
"تمھیں جو کرنا ہے کرو لیکن میری ایک بات ذہن نشین کرلو۔۔میری مجبوریوں نے مجھے وقتی طور پر خاموش ضرور کروایا ہے مگر اپنے لئے بولنا میں بھولی نہیں ہوں۔۔"اپنی ساڑھی سنبھالتی وہ اندر کی جانب چلتی بنی تھی۔
"تمھاری بولتی کا تو علاج کرنا پڑے گا مجھے۔۔"اسے خود سے دور جاتا دیکھتے ہوئے وہ اگلی حکمت عملی تیار کرنے لگا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ملک مینشن۔۔۔"ملنے والی خبر نے آصف خان کو بھی چونکایا تھا۔
"مگر لاہور میں کون سا رشتہ دار ہے اس کا؟"بلال بھی حیرانی میں مبتلا تھا۔
"یقیناً اس بدذات نے اسی آوارہ سے بیاہ رچا لیا ہوگا۔۔۔"آصف خان نے اندازے سے کہا۔
"میں اس انسان کو جان سے مار دوں گا۔۔۔"بلال کی غیرت نے سر اٹھایا تھا۔
"ہمیں جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا ہے بلال۔۔اس انسان کی موت سے زیادہ شہزین کی زندگی اہم ہے۔۔مت بھولو بابا جان نے چالیس فیصد جائیداد احمد کے نام کی تھی جس کی اکلوتی وارث وہ شہزین ہے اس وقت۔۔"آصف خان کو اس لمحے اپنی جائیداد لٹتی نظر آ رہی تھی۔
"تم لوگ نظر رکھو۔۔وہ کب گھر سے نکلتی ہے٬ کیا سرگرمیاں ہیں اس کی۔۔۔اس بار اس منہوس کی قبر بلال آصف خان اپنے ہاتھوں سے کھودے گا۔۔"سامنے سر جھکا کر کھڑے اپنے مخبروں کو ہدایت دیتے ہوئے بلال نے جانے کا کہا۔
"جی چھوٹے خان۔۔"سر کو ہاں میں جنبش دیتے وہ لوگ کمرے سے نکل گئے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"داداجان آپ بہت بےاحتیاطی کررہے ہیں آج کل۔۔اب میں آپ کو اپنی سخت نگرانی میں دوائی کھلایا کروں گی۔۔"ولیمے کی تقریب سے واپسی پر وہ پہلے داداجان کے کمرے میں آئی تھی اور انھیں دوائی دیتے ہوئے خفگی بھی ظاہر کر رہی تھی۔
"اسی بہانے ہماری بٹیا ہماری خبر تو لیتی رہے گی۔۔"اس کی توجہ ملتے ہی داداجان کا چہرہ کھلنے لگتا تھا۔
"آرام کریں اب۔۔"انھیں کمبل اوڑھواتی وہ جانے کے لئے اٹھی تھی۔
"بچے تم خوش ہو نا۔۔"داداجان کے سوال نے لمحے بھر کو اسے چپ کروایا تھا۔
"آپ خوش ہیں تو میں خوش ہوں۔۔"وہ واپس بیڈ کے کنارے ٹک گئی تھی۔
"شاہنواز زبان کا تیز ہے لیکن ہیرے جیسا دل ہے میرے پوتے کا۔۔"انھیں اندازہ تھا کہ شاہنواز کا رویہ بیوی کے ساتھ خاصا سرد ہے۔
"جی داداجان اور کچھ چاہئے آپ کو؟"لیمپ کے پاس رکھا پانی کا گلاس لئے وہ سوال گوہ ہوئی تھی۔
"نہیں بچے تم جاو آرام کرو۔۔"
وہ رات کے کپڑوں میں ڈریسنگ روم سے نکلا تو شہزین ابھی تک کمرے سے غیرحاضر ہی تھی۔وہ جیسے ہی بیڈ پر لیٹا تو سرھانے پر رکھے موبائل میں دھرا دھر میسجز کی آمد ہوئی تھی۔ وہ تو کمرے میں نہیں آئی تھی مگر پرس اور موبائل شائد ملازمہ کے ہاتھ بھجوا دیے تھے۔شاہنواز نے برا سا منہ بنا کر میسجز نظرانداز کئے تو اگلے ہی لمحے کال آن دھمکی تھی۔
"ہیلو ہیلو۔۔۔یہ انسان ہے کون جو میری آواز سنتے ہی گونگا ہو جاتا ہے۔۔۔"نمبر دیکھتے ہی اسے اندازہ ہوا تھا کہ یہ اسی روز والا انسان تھا۔اس نے موبائل کا نمبر اسی دن نوٹ کرنے کے بعد ایک دوست کو تفصیل نکلوانے کے لئے بھیجا تھا۔کچھ دیر قبل میسج کے ذرہعے اسے نمبر کی تفصیلات بھیجی گئی تھیں جس کا خیال اسے ابھی آیا تھا۔
"عاشر۔۔تو ابھی تک محترمہ کی پرانی سرگرمیاں جاری ہیں۔۔" اس نے اپنے موبائل کا وٹس ایپ کھولتے ہوئے دوست کا میسج دیکھا تو شک یقین میں بدلا تھا یعنی وہ اب بھی عاشر سے رابطے میں تھی۔
"کیا بکواس ہے۔۔"اسنے اگلے لمحے موبائل بیڈ پر پٹکا اور بیڈ سے نیچے اترا تھا۔
"شہزین شہزین۔۔۔"رات گئے اس کی چیخ و پکار پر کمرے میں آتی شہزین بھی حیرت میں مبتلا ہوئی تھی۔
"تم اب بھی عاشر سے رابطے میں ہو؟"اس کے کمرے میں قدم رکھتے ہی شاہنواز نے سوال کیا تھا۔
"عاشر۔۔"وہ جہاں تھی قدم وہیں بےجان ہوئے تھے۔
"جھوٹ مت بولنا تم اس سے رابطے میں ہو یا نہیں؟"اس کے عین سامنے آکر کھڑے ہوکر وہ اسے ممکن حد تک لاجواب کرگیا تھا۔
"نہیں۔۔"کچھ سوچتے ہوئے اس نے بےدلی سے جھوٹ کہہ دیا۔
"جھوٹ مت بولو۔۔میں شان کی طرح کاٹھ کا الو نہیں ہوں جو تمھارے جھوٹوں میں آجاوں گا۔۔"اسے کندھوں سے تھام کر درندگی سے جھنجھوڑتے ہوئے وہ انتہائی قدم اٹھانے کی نہج پر دکھائی دیا تھا۔
"میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔۔جب تک تم میرے نکاح، میرے گھر میں ہو میں تمھیں ان بدکاریوں کی اجازت نہیں دوں گا۔۔"اسے دو قدم پیچھے دھکیلتے ہوئے وہ اسی آواز میں پھنکارا تھا جبکہ شہزین اس کے جلادی روپ کو دیکھتے ہی سن سی ہوئی تھی۔
"کیا ہو رہا ہے؟شہزین۔۔تم نے ہاتھ اٹھایا ہے اس پر۔۔"اسے بمشکل قدموں کو سنبھالتا دیکھ کر دہلیز سے اندر آتی سیدہ بیگم بھی بوکھلائی تھیں۔
"مام۔۔"
"یہ تربیت ہے میری بولو۔۔"شہزین کو حصار میں بھرتے ہوئے وہ شاہنواز کو سنانے لگی جو ماں کو دیکھتے ہی رنگ بدل گیا تھا۔
"اس کی حرکتوں سے واقف نہیں ہیں آپ۔۔بھائی نے یونہی اپنی جان نہیں بچائی اس بدکردار۔۔"اسے سر جھکائے مظلومیت کا ڈھونگ رچاتا دیکھ کر وہ مزید زچ ہوا تھا۔
"شاہنواز۔۔بس مزید بکواس مت کرنا۔۔"سیدہ بیگم کا صبر بھی جواب دے گیا تھا۔
"تم سے اب صبح باباجان ہی بات کریں گے چلو شہزین۔۔"اس کا خوف سے سرد پڑتا وجود دیکھ کر انھیں ترس بھی آیا تھا۔کتنے مان سے داداجان نے اس کا نام شاہنواز سے جوڑا تھا مگر وہ بھی ناقدری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔اس کے جاتے ہی شاہنواز کو انداز ہوا تھا کہ صبح اسے نئی کچہری بھگتنی پڑے گی۔
"تم نے ہاتھ اٹھایا ہے شہزین پر؟"ہال میں لگی عدالت میں وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔
"داداجان۔۔"اس نے یہی ارادہ کیا تھا کہ آج اس کی حقیقت سب کے سامنے کھول دے گا مگر بغیر ثبوت کے وہ ثابت بھی کیا کرتا!اس کے ذہن میں اس لمحے کچھ اور ہی چل رہا تھا۔
"تمھاری شان میں کون سی گستاخی سرزر ہوگئی تھی میری بچی سے جو تم اس درندگی پر اتر آئے بولو۔۔"انھوں نے ایک نظر سیدہ بیگم کے پہلو میں بیٹھی شہزین پر ڈالی۔
"داداجان۔۔"شازمان نے کچھ کہنا چاہا۔
"میں اپنے پوتے سے بات کر رہا ہوں۔۔اپنے شوہر کو کہہ دو ہمارے گھر کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔۔"انھوں نے شازمان پر ایک سرد نگاہ ڈالنے کے بعد خاموش کھڑی نتاشہ کو حکم جاری کیا۔
"شاہنواز پاگل تو نہیں ہے نا۔۔۔ اس کی بھی کوئی غلطی ہو گی۔۔" وہ بھی دیور کی حمایت میں بول پڑی۔
"کل کو جب تم سے بھی کوئی غلطی ہوئی تو شازمان کو یہ حق دوگی تم؟"اس بار سیدہ بیگم نے سوال اٹھایا۔
"مجھے بحث نہیں چاہئے۔۔۔وضاحت چاہئے تمھاری اس کم ظرفی کی بولو۔۔"بات بڑھتی دیکھ کر داداجان دوبارہ شاہنواز پر غصہ ہوئے تھے۔
"مجھے غصہ آگیا تھا۔۔"اس نے عام سے لہجے میں کہہ کر گویا جان چھڑوائی تھی۔
"بس یہی وجہ ہے؟"
"جی۔۔"اس نے ہونٹ سختی سے چبائے تھے۔
"ویسے بھی میں شوہر ہوں اس کا۔۔"
"تو شوہر بنو جانور نہیں کیونکہ شوہر بیوی کی ڈھال ہوتا ہے جان کا عذاب نہیں۔۔"داداجان کی لعن طعن کے دوران ہی وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھی۔
"تم دونوں جیسے نالائق پوتے ہونے سے بہتر تھا اللہ مجھے ایک اس جیسی پوتی سے نواز دیتا۔۔کم از کم مجھے آئے روز ذلیل نہ ہونا پڑتا۔۔"اس کے اٹھ کر جانے پر وہ اور بھی بگڑے تھے۔شہزین کے جاتے ہی سیدہ بیگم بھی اس کے پیچھے ہی اٹھ گئی تو داداجان بھی تینوں اولادوں کو گھوری سے نوازتے اپنے کمرے میں جا بند ہوئے تھے۔
"آپ دونوں داداجان کو بتاتے کیوں نہیں کہ وہ لڑکی کتنی بڑی دھوکے باز ہے۔۔"داداجان کے سامنے سبکی پر نتاشہ ان دونوں پر خفا ہوئی تھی جن کی بولتی پیارے دادا حضور کے سامنے بند ہوجایا کرتی تھی۔
"یہ معاملہ اب اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوگا بھابھی۔۔اسے میں داداجان کے ہاتھوں ہی اس گھر سے دھکے دے کر نکلواوں گا۔۔"شازمان خاموشی اختیار کئے میدان چھوڑ گیا تو شاہنواز نے بھابھی کے آگے اپنے نیک ارادے ظاہر کئے تھے۔
"تمھیں اس سلسلے میں میری جو بھی مدد درکار ہو۔۔بے جھجھک بتانا۔۔"اسے شاہنواز کا نیک خیال خوب بھایا تھا۔
"جی۔۔''کندھےاچکاتا وہ وہاں سے نکلتا بنا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تمھارا دماغ خراب ہے میں شان کو جاکر بتاوں کہ یہ سب میں نے کیا ہے؟ہوش میں ہو تم۔۔"اس کے بلاوے پر ملائکہ اسی کی بتائی جگہ ملنے آئی تھی تبھی اس کا مطالبہ سنتی وہ آپے سے باہر ہوئی تھی۔
"ایسا تو تمھیں کرنا پڑے گا مس ملائکہ کیونکہ تم نے ایسا نہ کیا تو میں ایسا کردوں گا۔۔"سامنے میز پر رکھے جوس کے گلاس کا گھونٹ بھرتے ہوئے وہ اس کے ضبط کو خطرناک حد تک آزما رہا تھا۔
"کیا ثبوت ہے تمھارے پاس۔۔"ملائکہ بھی گھبرانے والوں میں سے کہاں تھی۔
"میرا فون جو پولیس نے ہتھیا لیا تھا میں نے واپس حاصل کرلیا ہے اور اس میں موجود ہماری ساری باتیں۔۔بلکہ تمھاری ہدایات موجود ہیں۔۔نیہا والے معاملے سے لے کر شازی کی جھوٹی تصاویر تک ایک ایک بات۔۔"اس نے ایک کے بعد دھماکہ خیز انکشاف کرتے ہوئے ملائکہ کے فرار کی ہر راہ بند کی تھی۔
"عاشر اپنی قیمت بتاو۔۔"اس نے مٹھی میز پر مارتے ہوئے مطالبہ کیا۔
"شازی کی بےگناہی۔۔"فرائز کا ایک دانہ چباتے ہوئے وہ جوابدہ ہوا۔
"میں ایسا کچھ نہیں کروں گی۔۔میں نے جس شان کو پانے کے لئے ہر حد پار کر دی اسے اتنی آسانی سے کسی اور کے پاس واپس جانے نہیں دوں گی۔۔وہ میرا تھا اور ہمیشہ صرف ملائکہ کا رہے گا۔۔"ملائکہ کی آواز میں تکبر اور فتح سے ملے جلے تاثرات تھے۔
"اب نہیں رہے گا۔۔"اس کا اعتراف سنتے ہی عاشر کو اپنا حقیقی مقصد حاصل ہوگیا تھا۔
"مطلب۔۔"اسے عاشر کی مسکراہٹ کسی خطرے کا اندیشہ لگی تھی تبھی عاشر نے اسے پیچھے پلٹ کر دیکھنے کا اشارہ کیا جہاں میز پر انکی جانب پیٹھ کئے ہوڈ میں خود کو چھپائے شان نے اس کی ہر بات فرصت سے سماعت فرمائی تھی۔
"شان۔۔"اس کی نفرت بھری نگاہیں خود پر مرکوز پاتے ہی ملائکہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"شان یہ بکواس۔۔"اس نے لرکھڑاتی زبان سے ایک اور جھوٹ کہنے کی ہمت کی تھی۔
"جسٹ شٹ اپ۔۔اس سے پہلے میں تمھیں اپنے ہاتھوں سے ختم کردوں دفع ہوجاو یہاں سے۔۔"لوگوں کی موجودگی کو خاطر میں لائے بغیر وہ بےاختیار چیخا تھا۔
"شان۔۔"ملائکہ کی آنکھیں نم پڑی تھیں۔
"گیٹ لاسٹ۔۔"اس نے ماتھا رگڑتے ہوئے آواز دھیمی کی تو مجبوراً ملائکہ کو وہاں سے جانا ہی پڑا تھا۔
"شان سر میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔۔بس اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔۔شازی میرے لئے سگی بہن جتنی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزیز ہے۔۔اس نے تو بس میری مدد کی اور وہ مدد اس کی زندگی کی سب سے بڑی تہمت بن گئی۔۔"عاشر کی باتوں نے اس کا سینہ چھلنی کیا تھا۔
"عاشر۔۔"اس نے بےاختیار دونوں ہاتھ جوڑے تھے۔
"یہ ہاتھ اس کے سامنے جوڑیں جس نے آپ کی وجہ سے مسلسل اذیت کاٹی ہے۔۔"اس کا شانہ تھپتھپاتا عاشر بھی وہاں سے نکل گیا تھا۔
"اس کا سامنا کیسے کروں گا؟"شان کو نئی مصیبت نے آگھیرا تھا۔
دفتر سے اہم میٹنگ نمٹا کر وہ گھر کے لئے ہی نکلا تھا۔شہزین کے باعث بزرگان سے ہوئی عزت افزائی کے بعد وہ رات گئے ہی گھر جاتا تھا مگر آج تھکان کی وجہ سے وہ گھر کے لئے ہی نکلا تھا۔
"ہیلو شاہنواز کہاں ہو تم؟"نتاشہ کا انداز اتنا بوکھلایا ہوا تھا کہ کوئی ناگہانی پیش آگئی ہو۔
"خیریت ہے بھابھی۔۔"شاہنواز نے بھی گاڑی سڑک کے ایک کنارے روکی تھی۔
"تمھاری بیگم کہیں نکلی ہے اور کال پر کسی عاشر سے بات کر رہی تھی۔۔"اس نے موقع ملتے ہی چنگاری جلائی تھی۔
"تم نہیں سدھروگی۔۔"کال بند ہوتے ساتھ شاہنواز نے گاڑی برق رفتاری سے گھر کی جانب بڑھائی تھی۔
ریسٹورانٹ پہنچ کر اس نے ڈرائیور کو باہر ہی انتظار کرنے کی ہدایت دی تھی۔عاشر کا یوں بلانا اسے تجسس میں بھی مبتلا کر رہا تھا کہ اب وہ کیا کرنے جارہا ہے!
"میں تمھارے ساتھ ہوں شازی۔۔"میز کی دوسری طرف بیٹھا وہ اسے مکمل اعتماد کا یقین دلا رہا تھا۔
"تم تب کہاں تھے عاشر جب مجھے تمھاری گواہی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔۔"اس نے بہت دیر بعد لبوں سے کوئی شکوہ کیا تھا۔
"مجھے معاف کردو شازی۔۔میں خود اس مکار عورت کے جال میں پھنس کر۔۔"
"تم نے مجھے کیا ضروری بات بتانی تھی۔۔"اس نے یکدم عاشر کی بات کاٹی تھی۔
"تم باز آنے والوں میں سے نہیں ہو نا۔۔"اسی اثنا میں شاہنواز وہاں ان دونوں کے سروں پر موجود تھا۔
"شاہنواز تم جیسا سمجھ رہے ہو۔۔"کرسی سے اٹھتے ہوئے وہ گھبرائی تھی۔
"چپ۔۔چلو میرے ساتھ۔۔"اس کی کلائی تھامے وہ باقی بات نامکمل ہی چھوڑ گیا۔
"ہم بات کر سکتے ہیں یار۔۔"عاشر نے سامنے آتے ہوئے ان دونوں کا راستہ روکا تھا۔
"تم جیسے بےغیرت کے تو منہ لگنا میں اپنی توہین سمجھتا ہوں۔۔پہلے میں اس کا حساب کرلوں پھر تم سے نمٹوں گا۔۔" اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے دھکیلتے ہوئے وہ بیوی کو تقریبا گھسیٹتا وہاں سے نکلا تھا۔
"چھوڑو مجھے۔۔"شہزین نے تلملاتے ہوئے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی تھی مگر اسے گاڑی میں بیٹھاتا وہ سب ان سنا کر گیا تھا۔
"ہم کہاں جا رہے ہیں؟"گاڑی جس رفتار سے چل رہی تھی شہزین کا کلیجہ منہ کو آیا تھا۔
"جہنم میں۔۔"اس نے رفتار بڑھاتے ہوئے نظریں سامنے موجود سڑک پر ہی گاڑھ رکھی تھیں۔
"گاڑی روکو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔"
"اپنے انجام سے ڈر نہیں لگتا تمھیں۔۔اپنی بدکاریوں سے خوف نہیں آتا۔۔بولو۔۔"گاڑی کو بری طرح دائیں جانب موڑتے ہوئے وہ گھر کی بجائے کسی اور راستے پر سوار ہوا تھا۔
"تم ایک بار پھر خود سے ہر بات سوچ رہے ہو شاہنواز۔۔۔تم میرے بارے میں کیا سوچتے ہو اس سے مجھے آج بھی فرق نہیں پڑتا مگر۔۔"اسے مقابل کے ارادے خائف بھی کر رہے تھے۔
"مگر کیا؟تم سے اچھےتمھارے مرحوم والدین تھے کم ازکم ان میں تم سے زیادہ حیا تھی۔"اس نے گاڑی کسی ویران سڑک پر روکی تھی جہاں گنی چنی کچھ عمارتیں موجود تھیں۔
"میرے والدین کو بیچ میں مت لاو۔"وہ بھی اونچی آواز میں بولی تھی۔
"کیوں نہ لاوں۔۔آخرکار ایسی ہونہار اولاد کو اس دنیا میں لانے والے وہ دونوں ہی تو تھے۔۔۔تم جیسی غلاظت کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے تو آج خود زندہ ہوتے دونوں۔۔اترو۔۔۔سامنے دارلامان ہے۔۔وہاں چلی جاو۔۔کل تمھیں حق مہر کے پیسے اور طلاق کے کاغذات بھجوا دوں گا۔۔"اس نے سامنے موجود ایک سفید عمارت کی طرف شہزین کی توجہ مبدول کروائی تھی۔
"مجھے داداجان۔۔"اس نے انکار کرنا چاہا۔
"اپنی ناپاک زبان سے ان کا نام مت لینا۔۔اب اس گھر کی دہلیز پر قدم بھی مت رکھنا۔۔"وہ جس انداز میں چنگھارا تھا شہزین کے لئے مزید ایک لفظ کہنا بھی ناممکن تھا۔رات کے اندھیرے میں اپنی عزت کو یوں ویران سڑک پر چھوڑتا وہ تن فن وہاں سے نکل گیا تھا۔اسے غصے میں یہ اندازہ بھی نہ ہوا تھا کہ جہاں وہ اسے چھوڑ آیا ہے وہ جگہ کسی صورت محفوظ نہ تھی۔
"اکیلے آئے ہو؟شہزین کہاں ہے؟"وہ گھر پہنچا تو سیدہ بیگم ان دونوں کی ہی منتظر تھیں۔شہزین کے ساتھ گئے ڈرائیور نے انھیں یہی بتایا تھا کہ شاہنواز ہی اسے واپس اپنے ساتھ گھر لائے گا۔
"وہ اب دوبارہ یہاں نہیں آئے گی۔۔کل میں اسے طلاق دے رہا ہوں۔۔"ہاتھ میں کوٹ لٹکائے اس نے گلے میں بندھی ٹائی ڈھیلی کی تھی
"اور باباجان۔۔"
"ان سے میں بات کرلوں گا۔۔"اسے آج داداجان کا بھی خوف نہ تھا۔کمرے میں آکر بھی یوں بند ہوا تھا کہ نہ رات کے کھانے کے لئے باہر آیا نہ کسی ملازم کو کمرے میں کھانا لانے کی ہدایت دی۔پوری رات سگریٹ سلگاتے ہی گزری تھی۔نیند اسے بھی ایک لمحے کے لئے نصیب نہ ہوئی تھی۔کیسے برداشت کرتا کہ اس کی عزت بنی وہ لڑکی ابھی تک اپنی پرانی عادتوں سے باز نہ آئی تھی اس پر ستم ظریفی یہ کہ کوئی اسے مجرم ماننے تک کو تیار نہ تھا۔صبح وکیل کو کال ملاتے ساتھ اس نے طلاق نامہ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔اس لمحے بھی لان میں بیٹھا وہ خود کو آنے والا سنگین حالات کے لئے ذہنی طور پر تیار کر رہا تھا۔اسی دوران شان کی گاڑی ملک مینشن میں داخل ہوئی تھی۔
"مجھے شازی سے ملنا ہے۔۔"اس کی طرف چل کر آتا وہ بے جھجھک مطالبہ کرنے لگا۔
"یہ میرا گھر ہے جہاں اس نام کی کا کوئی فرد اب نہیں رہتا۔۔" کرسی سے اٹھتے ہوئے وہ ٹوکدار انداز میں بولا۔
"شاہ میرے بھائی میں پہلے ہی بہت اذیت میں ہوں۔۔پلیز ایک بار مجھے اس سے معذرت کرنے دو۔۔"اس کا تھکا تھکا لب و لہجہ وجود میں برپا ٹوٹ پھوٹ کا گواہ تھا۔
"معذرت۔۔"اس کے بھی کان کھڑے ہوئے تھے۔
"بہت بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے۔۔"اپنا ماتھا پکڑتا وہ کرسی پر یوں بیٹھا جیسے ٹانگیں بےجان ہونے لگی ہوں۔
"تم کہنا کیا چاہتے ہو؟"اسکی شکستہ کیفیت شاہنواز کو الجھا رہی تھی۔
"وہ تصاویر جھوٹی تھیں۔۔اور تمھیں بدنام کرنے والی بھی ملائکہ تھی۔۔"اس نے بمشکل جملہ ادا کیا۔
"ملائکہ۔۔"شاہنواز کا دل دگنی رفتار سے دھڑکا تھا۔
"شازی نادان اور ضدی ضرور تھی مگر بدکردار نہیں تھی۔۔عاشر تو اسے بہن مانتا ہے۔۔ہم نے اپنی بدگمانی میں ایک لڑکی کی زندگی برباد کردی یار۔۔میں بس اس سے جھوٹی تہمت کی معافی مانگنا چاہتا ہوں ورنہ میرا دل بند ہوجائے گا۔۔"اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے وہ واپس کھڑا ہوا تھا۔
"وہ چلی گئی ہے اور بہتر ہے کہ تم بھی چلے جاو۔۔"اس کے پاس اس سے زیادہ کہنے کے لئے کچھ بچا بھی کہاں تھا۔
"شہزین کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا؟"وہ جیسے ہی واپس ہال میں پہنچا تو نتاشہ نے جان بوجھ کر ساس کے سامنے سوال کیا۔
"کیوں؟"اس کے سوال میں چھپا طنز شاہنواز نے بھی محسوس کیا تھا۔
"وہ صبح سے نیچے نہیں آئی۔۔تمھارے داداجان پوچھ رہے ہیں اس کا۔۔"اس بار سیدہ بیگم کی بات سے گویا وہ ہوش میں آیا تھا۔
"وہ۔۔"کل رات والی حرکت کا سوچتے ہوئے وہ گاڑی کی چابیاں لیے عجلت میں وہاں سے نکلا تھا۔
"اب تم کہاں جارہے ہو؟"اسے دوڑتا دیکھ کر ماں بھی فکر مند ہوئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"یہاں اس نام کی کوئی خاتون نہیں آئیں۔۔"دارلامان کی ریسپشن پر موجود خاتون نے تیسری دفعہ شہزین کا نام تلاش کیا تھا۔
"مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔کہاں جاسکتی ہے وہ؟آپ کے گیٹ پر جو سی سی ٹی وی فوٹیج ہے کیا میں اس کی ریکارڈنگ دیکھ سکتا ہوں پلیز۔۔"شاہنواز کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں پھوٹی تھیں۔وہ یہاں نہیں آئی تو کل رات سے کہاں تھی۔
"ہمیں کچھ وقت دیں سر۔۔۔"اس نے اجازت لینے کے لئے کچھ وقت کی مہلت مانگی تھی۔وہاں اپنا نمبر دیتا ہوا وہ واپس سڑک پر نکلا اور ایک دو دکانوں سے شہزین کے متعلق پوچھا تو انھیں بھی کچھ معلوم نہ تھا۔اب اسے احساس ہوا تھا کہ غصے میں وہ اپنے ساتھ ساتھ اس کا بھی کس قدر نقصان کر بیٹھا ہے۔یہ علاقہ ویسے ہی واردت کے لئے مشہور تھا اور رات کے اندھیرے میں وہ اپنی بیوی کو یہاں تنہا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
"شہزین کہاں ہے؟تم کچھ بتاتے کیوں نہیں ہو شاہنواز۔۔"وہ شام کے وقت گھر پہنچا تو سب لوگ اس کے منتظر تھے۔
"داداجان وہ۔۔"اس کا حلق خشک ہوا تھا۔
"بھاگ گئی ہوگی اپنے کسی چاہنے والے کے ساتھ ایسی لڑکیوں کا بھلا کوئی دین ایمان ہوتا ہے۔۔"نتاشہ نے موقع کی مناسبت سے ٹوک لگائی۔
"بھابھی تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کریں۔۔"اس نے انگلی اٹھا کر بہت بدلحاظی سے بھاوج کی بولتی بند کروائی تھی۔
"تم تمیز سے بات کرو اپنی بڑی بھابھی سے۔۔"شازمان بیوی کی بےعزتی پر بپھرا تھا۔
"تو پھر اپنی بیوی سے کہیں کہ میری بیوی کا نام تمیز سے لیں۔۔"اس نے آج شازمان کو بھی نہ بخشا۔
"کل وہ خود کسی عاشر سے ملنے گئی تھی۔۔تم خود تو اسے رنگ ہاتھوں پکڑنے پیچھے گئے تھے نا۔۔"نتاشہ نے داداجان کو بدظن کرنے کے لئے شاہنواز کو یادہانی کروائی۔
"یہ سب کیا ہورہا ہے شاہنواز کچھ تو بتاو بچے۔۔"داداجان کا دل کسی سخت شکنجے میں جکرا گیا تھا۔
"مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے داداجان اور ڈر لگ رہا ہے کہ میری غلطی کی سزا کسی اور کو نہ مل جائے۔۔"شاہنواز کا خوف اور ملال بھی بڑھنے لگا تھا۔اسی دم دارلامان سے کال موصول ہوئی تھی جو اسنے اگلے ہی لمحے سنی تھی۔
"جی۔۔آپ ویڈیو بھیج دیں مجھے پلیز۔۔"اس نے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کال کاٹی تھی۔آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ شہزین کے سڑک پار کرنے کے دوران ایک گاڑی وہاں آکر رکی تھی جس سے نکلتے دو افراد نے ریوالور تانتے ہوئے اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھایا اور اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
"کون کر سکتا ہے ایسا؟"ویڈیو دو سے تین دفعہ دیکھنے کے بعد بھی نہ گاڑی کا نمبر واضح نظر آیا نہ وہ لوگ۔۔۔
"تم اسے وہاں چھوڑ کر آئے تھے بولو؟"داداجان کو اس کی حماقت نے خفا کیا تھا۔
"داداجان اس وقت اس کا ملنا اہم ہے۔۔اگر یہ اغواہ برائے تاوان کا مقدمہ ہوتا تو ابھی تک ان لوگوں نے ہم سے رابطہ تو کیا ہوتا۔۔"ہاتھ میں بندھی گھڑی دیکھتے ہوئے اسے تشویش ہوئی تھی۔چوبیس گھنٹے گزرنے کو تھے مگر کسی نے تاوان کے لئے کال نہ کی تھی۔
"تمھاری پھپھو نے کتنے مان سے اس کی ذمہ داری سونپی تھی ہمیں۔۔اب کس منہ سے اس سے کہیں کہ۔۔"سیدہ بیگم نے بھی بےحس سپوت کو ملامتی نگاہوں سے دیکھا تھا۔
"ہوسکتا ہے اس کے تایاجان نے۔۔آپ پھپھو سے بات تو کریں۔۔" شاہنواز کا شک آصف خان کی طرف گیا تھا۔
"جی بھابھی۔۔سب ٹھیک ہے یہاں؟کل شہزین سے بات ہوئی تھی میری وہ کچھ پریشان لگ رہی تھی۔۔سب ٹھیک ہے نا؟"اسپیکر سے برامد ہوتی شبانہ بیگم کی آواز پر داداجان نے شاہنواز کو گھورا تھا۔
"سب ٹھیک ہے پھپھو۔۔آپ بتائیں وہاں سب ٹھیک ہے۔۔"اس نے ماں سے موبائل کھینچتے ہوئے خود بات کی تھی۔
"ہاں بیٹا۔۔میں کوشش کروں گی دوبارہ لاہور کا چکر لگاوں۔۔شہزین بہت یاد آرہی ہے۔۔"ان سے ایک دو باتیں کرنے کے بعد اس نے کال کاٹی تھی۔ایک آخری امید تھی کہ شائد وہ مل جائے مگر اب وہ بھی ماند پڑتی دکھائی دے رہی تھی۔
"اسے کچھ بھی ہوا شاہنواز تو تم میرا مرا منہ دیکھو گے۔۔'' داداجان کی آنکھوں میں نمی در آئی تو شاہنواز کا چہرہ شرمندگی سے سیاہ پڑا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شان سر مجھے نہیں پتہ یہ گھٹیا انسان اسے وہاں سے گھسیٹتا ہوا لے کر گیا تھا۔۔بتا کیا کیا ہے تو نے اس کے ساتھ۔۔" شان کے ہمراہ وہ عاشر کے گھر پہنچا تو وہ بھی ہر بات سے لاعلم تھا۔
"اپنی اوقات میں رہ کر بات کرو۔۔"اس کے سخت الفاظ ملک شاہنواز کو اپنی توہین سے کم نہ لگے تھے۔
"تمھاری اوقات ہے کہ تم مجھے میری اوقات بتاو۔۔اگر اسے کچھ ہوا نا شاہنواز تو تیری قبر میں خود کھودوں گا۔۔"اس کا گریبان پکڑتا عاشر بھی جذباتی ہوا تھا۔
"تم لوگ لڑنا بند کروگے تبھی ہم اسے ڈھونڈھ سکیں گے۔۔"ان دونوں کو ایک دوسرے سے دور کرتے ہوئے شان دونوں پر چیخا تھا۔
"مجھے پولیس کے پاس جانا چاہئے۔۔"فکر سے پاگل ہوتا وہ وہاں سے پولیس اسٹیشن دوڑا تھا۔وہاں ایف آئی آر درج کروانے کے بعد اس نے سخت سفارش کے لئے آئی جی صاحب کی کال بھی کروائی تھی کہ ہنگامی بنیادوں پر شہزین کو تلاش کیا جائے۔
"کچھ پتہ چلا۔۔"وہ گھر پہنچا تو تسبیح کا ورد کرتی سیدہ بیگم کسی اچھی خبر کی منتظر تھیں۔
"ایف آئی آر کروائی ہے مام۔۔"اس میں سر اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔
"تم نے کیسے اپنی عزت کو بیچ سڑک پر چھوڑ دیا شاہنواز۔۔کوئی فرق نہیں ہے ہم دونوں میں ایک بھائی نے اسے آدھے راستے میں چھوڑ دیا اور دوسرے نے آدھی رات کو بیچ سڑک پر۔۔شکر ہے اللہ نے مجھے کوئی بیٹی نہیں دی ورنہ وہ تم بھائیوں کا کیا بھگتتی۔۔"ان کی باتیں اتنی تلخ تھیں کہ شاہنواز کے ساتھ ساتھ سیڑھیاں اتر کر وہاں آتے شازمان کو بھی اپنا حلق کڑوا ہوتا محسوس ہوا تھا۔سب سے نظریں چراتا وہ داداجان کے کمرے تک پہنچا تو ان کو مصلے پر روتا دیکھ کر دل اور ڈوبنے لگا تھا۔اس کی بدگمانی نے کتنے لوگوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔
"کہاں چلی گئی ہو تم شہزین۔۔"واپس مڑتے ہوئے اسنے دل ہی دل میں شہزین کو یاد کیا تو ضمیر نے ڈھیروں ملامت کی تھی۔دم گھٹتا محسوس ہونے لگا تو اس نے چھت کا رخ کیا تھا۔
"پولیس کے پاس کیوں چلا گیا ہے تمھارا دیور؟تم نے تو کہا تھا کہ وہ نفرت کرتا ہے اس لڑکی سے۔۔"شہریار پولیس کا سنتے ہی خوف سے کانپنے لگا تھا۔
"مجھے خود سمجھ نہیں آرہی کہ رات و رات اس کی کایا کیسے پلٹ گئی۔۔"کال کی دوسری طرف موجود نتاشہ خود شاہنواز کی بےچینی پر ششدر تھی۔
"اب میں کیا کروں؟"
"اس کے ساتھ آپ نے جو کرنا ہے کریں۔۔مجھے وہ لڑکی اس گھر میں واپس نہیں چاہئے بھائی۔۔"اس نے نئی ہدایت جاری کی تو ایک جست میں اس سے موبائل چھینتے ہوئے شاہنواز نے کال کاٹی تھی۔
"کہاں ہے میری بیوی۔۔"اس کا انداز اتنا سپاٹ تھا کہ چھت کی کھلی فضا میں بھی نتاشہ کی سانس رکنے لگی تھی۔
"کیا کیا مطلب۔۔"اس نے اداکاری دکھائی۔
"میری بیوی کہاں ہے بھابھی۔۔"اس بار وہ چلایا تو شور کی آواز پورے ملک مینشن میں گونجی تھی۔
"شازمان بھائی۔۔داداجان۔۔"اس کی چیخ و پکار پر سب وہیں چلے آئے تھے۔
"کیا ہوگیا ہے۔۔"
"ان سے پوچھیں کہ ان کا بھائی کہاں لے کر گیا ہے میری بیوی کو۔۔"اس نے شازمان کو مخاطب کیا تھا۔
"شازمان اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔"نتاشہ چوری پکڑے جانے پر بوکھلائی تھی۔
"کہاں ہے وہ نتاشہ؟"اس بار شازمان نے سوال پوچھا تھا۔
اسکی آنکھ کھلی تو خود کو فرش پر بیہوش پایا تھا۔کل رات اسے گاڑی میں بیٹھاتے ساتھ بیہوشی کی دوائی سونگھا دی گئی تھی جس کے باعث وہ اتنے گھنٹے تک ہوش و ہواس سے محروم رہی تھی۔آنکھ کھلتے ساتھ خود کو سنبھالتی وہ سامنے موجود دروازے کی طرف دوڑی جو بند تھا۔اس نے لاکھ کوشش کی مگر دروازہ باہر سے لاکڈ تھا پھر نظر کمرے میں موجود واحد کھڑکی پر گئی جو کافی اونچی تھی۔
"کہاں بھاگ رہی ہو؟"اسے کھڑکی کی طرف جاتا دیکھ کر کمرے کے دروازے سے اندر آتا شہریار سوال کرنے لگا۔
"تم کیوں لائے ہو مجھے یہاں؟"شہزین اس کو سامنے دیکھ کر سٹپٹائی تھی۔
"کیونکہ میری بہن کو ملک مینشن میں تمھارا وجود کھٹکتا ہے اس لئے تم اب وہاں کبھی واپس نہیں جاو گی۔۔"وہ کمینگی سے مسکرایا تھا۔
"مجھے اب وہاں رہنا بھی نہیں ہے شہریار مجھے جانے دو۔۔میں دوبارہ اس گھر کا رخ تک نہیں کروں گی۔۔"اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے منت کی تھی۔
"اتنی اہم ہو تم جو میں تمھاری بات مان لوں۔۔ویسے قصور شازمان یا شاہنواز کا بھی نہیں ہے۔۔تمھارا حسن کسی کو بھی دیوانہ۔۔"اس کا خوف سے سرخ اناری پڑتے چہرے پر آئی لٹ کو چھوتے ہوئے وہ بےتکلف ہوا تھا۔
"دور رہو مجھ سے۔۔"شہزین نے اسے خود سے دور دھکیلا تو وہ میز پر گرتے گرتے بچا تھا جس کے نتیجے میں میز پر رکھا کانچ کا جگ متوازن بگڑنے کے سبب فرش پر ڈھے کر ریزہ ریزہ ہوا تھا۔
"بدذات تم نے مجھ پر شہریار ملک پر ہاتھ اٹھایا۔۔"اس کی چپیڑ نے شہزین کو فرش کی دھول چٹوائی تھی۔
"میرے پاس مت آنا ورنہ میں تمھیں مار دوں گی۔۔"شہریار کی آنکھوں سے اس کے ارادے بھانپتی وہ فرش پر گرا ایک تیز دھار کانچ کا ٹکرا اٹھا کر دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی ہوئی۔
"واقعی۔۔"اس کی جانب چل کر آتا وہ ایک لمحے کے لئے بھی نہ رکا تھا۔
"شہریار میں خود کو کچھ کردوں گی دور رہو مجھ سے۔۔" اس نے اس بار کانچ کا ٹکرا اپنی کلائی پر رکھا تھا۔
"اپنی جان لینا آسان نہیں ہے شہزین بی بی۔۔"اس کی خالی دھمکیوں کو شہریاد نے سنجیدگی سے نہ لیا تھا۔اس کے مزید ایک قدم بڑھاتے ہی شہزین نے اپنی کلائی کاٹ دی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی فرش اس کے خون سے سرخ پڑنے لگا تھا۔یہ سب اتنی جلدبازی میں ہوا کہ شہریار کے پاوں وہیں جم سے گئے تھے۔
"شہزین شہزین۔۔گھٹیا انسان۔۔"شازمان اور پولیس کے ہمراہ وہاں دوڑ کر آتے ہوئے شاہنواز نے اسے فرش پر بیہوش ہو کر گرتے دیکھا تھا۔اسے اس کیفیت میں دیکھتے ہی وہ شہریار پر گھونسوں اور ٹھوکروں کی برسات کر گیا تھا۔
"شاہنواز ابھی اسے ہسپتال لے کر جانا زیادہ اہم ہے اس سے تو فرصت میں نمٹیں گے۔۔۔"شازمان شہزین کی طرف دوڑا جو بیہوش ہوچکی تھی۔
"شہزین۔۔۔یااللہ۔۔"اس کی طرف لپکتے ہی شاہنواز نے اسے بازووں میں بھرا اور ہسپتال کے لئے نکلا تھا اور شہریار کو لئے پولیس اپنی منزل کی طرف گامزن ہوئی تھی۔
"کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹرز۔۔"داداجان کے ہمراہ سیدہ بیگم خبر ملتے ہی ہسپتال پہنچیں تو شاہنواز وارڈ کے باہر یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا۔
"اس کا بہت خون بہہ گیا ہے مام۔۔"اس کے ہاتھ اور سفید بٹن شرٹ بھی خون آلود تھی۔
"ڈوب کر مر جاو تم۔۔سب تمھاری لاپروائی کا نتیجہ ہے۔۔" دادا جان اسے اچھی خاصی سنا گئے تھے۔
"ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔۔"باہر آتے ڈکٹر نے خوشی کی خبر سنائی تھی۔
"ہم مل سکتے ہیں اس سے ڈاکٹر۔۔"شاہنواز کا فکر سے برا حال تھا۔
"انھیں ہوش صبح تک ہی آئے گی مگر آپ انھیں دیکھ سکتے ہیں۔۔"ڈاکٹر نے اجازت دیتے ہوئے اپنے کیبن کی راہ پکڑی تھی۔
"تم کہاں جارہے ہو؟"اسے ماں کے پیچھے پیچھے کمرے کی جانب بڑھتا دیکھ کر داداجان نے ٹوکا تھا۔
"میں۔۔"اسے اس سوال کی امید نہ تھی۔
"تمھارا حساب میں گھر چل کر کروں گا چھوٹے ملک۔۔میری بچی بخیروعافیت گھر پہنچ جائے تو تم جیسے عذاب سے بھی اسے چھٹکارہ دلاوانا ہے مجھے۔۔"داداجان نے اپنا حتمی فیصلہ اس پر مسلط کیا تھا۔
"مگر داداجان۔۔"اسے اپنا آپ بند گلی میں جاتا محسوس ہوا تھا۔
"گھر دفع ہوجاو اب تم۔۔"کمرے میں جاتے جاتے وہ اسے مزید بےعزت کر گئے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"سمیرا تم۔۔''شان جو شہزین کی عیادت کے لئے ہسپتال آیا تھا سمیرا کو وہاں دیکھتے ہی حیران ہوا۔
"شازی کیسی ہے اب؟"وہ فکر سے ہانپ رہی تھی۔
"بہتر ہے۔۔تم کیسے آئی ادھر۔۔آئی مین۔۔"شاہنواز بھی اسے وہاں دیکھ کر چونکا تھا۔
"میں لایا ہوں اسے یہاں۔۔"عاشر نے ان دونوں کو جواب دیا۔
"تم۔۔"
"سمیرا میری منکوحہ ہے شان سر۔۔"شاہنواز کو نظرانداز کئے اس نے شان کو وضاحتاً بتایا۔
"وٹ۔۔"
"میں شازی سے مل لوں۔۔"ان تینوں کو وہیں چھوڑتی وہ وارڈ کی طرف دوڑی تھی۔
"تم تو شہزین۔۔"شاہنواز کی سوئی کسی حد تک وہیں اٹکی تھی۔
"کوئی بکواس مت کرنا۔۔وہ میرے لئے بہنوں کا مقام رکھتی ہے۔۔بچپن سے اسے چھوٹی بہن مانا ہے میں نے مگر افسوس بھائی ہونے کا فرض نہیں نبھا سکا۔۔لیکن اب نبھاوں گا۔۔شازی اکیلی نہیں ہے۔۔اب میں اور سمیرا ہیں اس کا خیال رکھنے کے لئے۔۔"عاشر کے الفاظ کسی طمانچے سے کم نہ تھے ملک شاہنواز کے لئے۔۔۔
"شازی تم ٹھیک ہو؟"اسے ہوش آیا تو سمیرا اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھے ہوئے تھی۔
"سمیرا۔۔"اس کی آنکھیں اچانک حیرت سے پھیلی تھیں۔
"نہیں سمیرا کا بھوت۔۔میری جان کیسی ہو تم؟"اس کا ماتھا چومتی سمیرا نے جھوٹی خفگی دکھائی تھی۔
"ڈھیٹ ہوں۔۔تبھی تو اتنا سب ہوجانے کے بعد بھی زندہ ہوں۔۔" شہزین نے بےبسی سے آنکھیں بھینچیں تو دونوں گالوں پر آنسو مارچ کرنے لگے۔
"مایوسی کفر ہے شازی۔۔کیسی باتیں کر رہی ہو تم۔۔"سمیرا نے اس کے دونوں گال صاف کئے تھے۔
"میرا بچہ ٹھیک ہے۔۔"وہاں آتی سیدہ بیگم نے اس کی زخمی کلائی پے بندھی پٹی پر ہونٹ رکھے تھے۔
"جی۔۔"اس نے جبراً مسکرا کر کہا۔
"تم آرام کرو۔۔"ان دونوں سہلیوں کو دکھ سکھ بانٹنے کے لئے تنہا چھوڑتی وہ کمرے سے نکل گئی تھیں۔
"یہ سب کیا کردیا میں نے۔۔میرا تکبر بڑے بول کیسے گہرے نشان چھوڑ کر گئے ہیں میرے چہرے٬میرے وجود پر۔۔۔محض اپنے اندازوں کی بنیاد پر میں کسی کے کردار کو مشکوک کیسے کر سکتا ہوں۔۔اس نے کبھی میرا کچھ نہیں بگاڑا اور میں نے اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہر بار۔۔۔میری بدگمانی نے کتنی زندگیوں کا سکون نگل لیا۔۔میں کیسے کفارہ ادا کروں گا اپنے گناہوں کا۔۔میرے مالک مجھے کوئی راستہ دکھا۔۔"ہسپتال کے لان میں چہل قدمی کرتا وہ اپنی ہی سوچوں سے جنگ لڑ رہا تھا۔جب کچھ سمجھ نہ آیا تو سر اٹھا کر بےبسی سے آسمان کو تکتے تکتے آنکھین موند گیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم ایسا نہیں کرسکتے شان۔۔تم تم ایسا کیسے کرسکتے ہو۔۔" ملائکہ تو طلاق کا نام سنتے ہی پاگل ہونے کو تھی۔
"آنٹی انکل پلیز پلیز اسے سمجھائیں۔۔"اسے پتھر کا بت بنا دیکھ کر وہ ساس سسر کی طرف دوڑی تھی جو خود لاچار دکھائی دے رہے تھے۔
"جو تم شازی کے ساتھ کر چکی ہو اس کے بعد تمھیں لگتا ہے کہ میری زندگی میں تمھاری کوئی گنجائش بچتی ہے مس ملائکہ۔۔" شان نے گہری ٹوک لگائی۔
"شان ایک بار تحمل سے۔۔"والدہ محترمہ بیٹے کو ہی سمجھانے لگیں۔
"آپ لوگ فیصلہ کرلیں۔۔آپ کا بیٹا یا یہ لڑکی۔۔"اس نے قطع کلامی کرتے ہوئے ماں کو خاموش کروایا تھا۔
"شان تم ایسا نہیں کرسکتے میرے ساتھ شان۔۔"ملائکہ نے سختی سے اس کی بات دھتکاری تو وہ پاوں پٹکتا گھر سے ہی نکل گیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"دھیان سے بیٹھو ادھر میرا بچہ۔۔"اسے تین دن بعد آج گھر بھیجا گیا تھا۔ابھی ابھی وہ لوگ گھر پہنچے تو سیدہ بیگم اسے سیدھا کمرے میں ہی لے آئی تھیں۔
"باباجان رحم کریں مجھ پر۔۔"نیچے ہال میں بیٹھے داداجان کے سامنے ہاتھ جوڑتا چھوٹا بیٹا التجائیں کرنے لگا۔
"یہ اندر کیسے آیا ہے؟اپنے سسر کو کہو کہ شکل گم کرے اپنی۔۔" ان کا چہرہ دیکھتے ہی داداجان کا طیش بڑھا تھا۔
"وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے باباجان۔۔اس سے نادانی۔۔''
"نادانی۔۔واقعی چچا۔۔اس کی وجہ سے میری بیوی کی جان جاسکتی تھی۔۔میرے جیتے جی تو اب وہ سلاخوں سے باہر نہیں آئے گا۔۔"وہاں آتے ہوئے شاہنواز نے چچا جان کو کوئی امید نہ دلائی تھی۔
"مگر بچے۔۔"انھیں بہت آس تھی کہ معافی مل جائے گی۔
"اس نے ملک شاہنواز ابراہیم کی عزت پر میلی نظر رکھ کر اپنی مقدر کو خود آگ لگائی ہے۔۔"اس نے اٹل انداز میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
"آپ کی بیٹی کے لئے بھی اس گھر میں اب کوئی جگہ نہیں ہے چچا جان۔۔"شازمان نے بھی چچا کو نیا صدمہ پہنچایا تھا۔
"شازمان بیٹے۔۔''
"اسے عورت ہوکر دوسری عورت کی عزت کا خیال نہیں آیا۔۔" شازمان کو نتاشہ کی بےحسی پر زیادہ غصہ تھا جو اپنی نفرت میں اس حد تک نکل گئی تھی۔
"جسے تم نے بدکردار سمجھ کر دھتکار دیا تھا آج وہ ہی معتبر ہوگئی تمھارے لئے۔۔"چچاجان نے لفظی تیر چلائے تھے۔
"چچا جان بس۔۔۔ایک لفظ اور آپ نے میری بیوی کے متعلق کہا تو نہ میں عمر کا لحاظ کروں گا نہ رشتوں کا۔۔"شازمان سے پہلے شاہنواز نے چچا کی بولتی بند کروائی تھی۔
"پلیز جائیں۔۔ہم مزید تماشہ نہیں چاہتے۔۔"شازمان کو ان کی عزت کا اب بھی خیال تھا تبھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ شاہنواز سے الجھیں۔
"جاو۔۔"داداجان کی دھاڑ کے بعد وہ شکستہ قدم اٹھائے ملک مینشن سے نکل گئے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"میں تم سے کیا بات کروں۔۔میں تو تم سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کرسکتا۔۔میری خودساختہ بدگمانیوں نے تم سے ہر رشتہ ہر سکھ چھین لیا۔۔آئی ایم سوری شازی۔۔۔تم مجھے ساری عمر معاف نہ کرنا لیکن میں آخری سانس تک تمھاری معافی کا منتظر رہوں گا۔۔میں نے تم پر تہمت لگا کر اپنے کم ظرف اور کمتر ہونے کا ثبوت دیا ہمیشہ۔۔"وہ رات گئے کمرے میں پہنچا تو دوائیوں کے زیر اثر وہ گہری نیند میں تھی۔روز رات گئے اس کے سوجانے کے بعد ہی وہ کمرے میں آتا اور پھر گھنٹوں اس کے سرہانے بیٹھا اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا تھا۔کتنا کچھ تھا کہنے کے لئے مگر ہمت جواب دے گئی تھی۔اس کا سامنا کرنے کے لئے ملک شاہنواز کو ابھی مزید وقت درکار تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟"وہ کمرے سے نکلی تو شازمان شائد اسی کا منتظر تھا۔
"بہتر ہوں۔۔"
"آئی ایم سوری شہزین۔۔"اس نے ہونٹوں کو چباتے ہوئے جملہ ادا کیا۔
"کس لئے۔۔"اسے اب یہ معذرت سوچ سے بالاتر لگی تھی۔
"جو کچھ میری وجہ سے آپ کو برداشت کرنا پڑا۔۔"
"آپ کی شرمندگی میری اذیتوں کا مداوہ کرسکتی ہے؟" شہزین کے سوال پر وہ ایک لمحے کے لئے لاجواب ہوا تھا۔
"نہیں۔۔"تھوڑے وقفے سے اس کی طرف سے جواب آیا۔
"پھر اسے غلط جگہ برباد مت کریں۔۔''
"میں آپ کے ماضی کے متعلق سب جان چکاہوں اور مجھے اپنی حماقت پر افسوس ہے جس نے اپنے لئے کانٹے چن کر خود کو ہی لہولہان کر دیا۔۔آپ کا کردار مجھ جیسوں سے لاکھ درجے بہتر ہے۔۔"اپنی نالائقی تسلیم کرتے ہوئے وہ ندامت کی انتہا پر تھا۔
"جو مرد دوسروں کی باتوں میں آکر اپنی ذمہ داری کو بیچ راہ میں تنہا کر جائے اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا شازمان۔۔جو میرے ساتھ کرچکے ہیں اسے نتاشہ کے ساتھ مت دہرائیں۔۔" اس نے لہجہ سخت نہ کیا تھا مگر الفاظ شازمان کی روح تک کو چھلنی کرنے کے لئے کافی تھے۔
"اللہ آپ کو خوش رکھے۔۔آئندہ پلیز مجھے مخاطب بھی مت کیجیے گا۔۔میرا کردار ایک اور تہمت سہہ نہیں پائے گا۔۔"اس کا کہا جانے والا آخری جملہ کمرے کی دہلیز سے باہر کی جانب قدم رکھتے شاہنواز کے پاوں بھی وہیں روک گیا تھا۔
انے والے چند دنوں میں شاہنواز نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ کسی طرح شہزین سے معذرت کر سکے مگر وہ کیس صورت اسے مخاطب کرنے کا کوئی ارادہ زیر غور نہ رکھتی تھی۔وہ خود بھی اس کیفیت میں نہ تھا کہ اس سے اصرار کے ذور پر کوئی بات منوا پاتا۔
"ہم بات کر سکتے ہیں؟"وہ نیچے ہال میں جا رہی تھی جب عین دروازے پر اس کا راستہ روکتے ہوئے شاہنواز نے ہمت دکھائی تھیم
"ہم بات نہیں کرتے جھگڑتے ہیں ہمیشہ اور اس وقت میں تم سے الجھنے کی کیفیت میں نہیں ہوں۔۔''اس کا لہجہ بوجھل تھا۔
"شازی۔۔دیکھو میں مانتا ہوں کہ بہت مسائل ہیں ہمارے درمیان اور وہ اتنی جلدی حل نہیں ہونگے لیکن ہم بیٹھ کر بات تو کرسکتے ہیں نا۔۔"اس نے مزاحمت کی سرسری سی کوشش کی تھی۔
"اب کیا کہنا ہے تمھیں؟"
"کچھ کہنے لائق ہی تو نہیں بچا۔۔اب صرف سننا چاہتا ہوں۔۔تمھارے دل میں جو ہے۔۔جتنا غصہ۔۔شکوے سب سنا دو۔۔میں چپ چاپ سن لوں گا۔۔"اس نے آج سب ہتھیار ڈال کر شکست تسلیم کی تھی۔
"مجھے کسی کو کچھ نہیں سنانا۔۔"اس کی نظریں اب بھی بدستور جھکی تھیں۔
"میں جاتنا ہوں کہ تم نفرت کرتی ہو مجھ سے۔۔"شاہنواز کو اس کی جذباتی کیفیت کا اندازہ بھی تھا۔
"تم تو مجھے نفرت کے لائق بھی نہیں لگتے شاہنواز۔۔۔تم سے نفرت کا رشتہ رکھنا بھی میں اپنی توہین سمجھتی ہوں۔۔میں یہاں جس مجبوری کے تحت رکی تھی وہ ختم ہوچکی ہے۔۔سمیرا کے ساتھ میں واپس اسلام آباد چلی جاوں گی۔۔" اس نے نظریں اٹھائیں تو شاہنواز کا سانس لینا بھی دشوار ہوا تھا۔اس نے بہت دیر سے اس بات پر غور کیا تھا کہ ہر لمحہ کھلکھلانے والی وہ زندہ دل لڑکی آج بےرونق چہرہ لئے خود سے ہی بیزار دکھائی دے رہی تھی۔
"تمھارے تایاجان مار دیں گے تمھیں۔۔"شاہنواز کو اس کا فیصلہ سراسر حماقت لگا تھا۔
"جی کر میں نے کرنا بھی کیا ہے؟ایک بار کا مرنا بار بار کی موت سے بہت بہتر ہے۔۔"اپنی بات مکمل کرتی وہ دو قدم آگے بڑھی تھی۔
"جب تک تم میرے نکاح میں ہو۔۔میں تمھیں اس گھر کی دہلیز عبور کرنے نہیں دوں گا۔۔"اس کو وہاں سے جاتا دیکھ کر اس نے احساس دلانا چاہا تھا۔
"بےفکر رہو۔۔میں بھی یہ طوق گلے میں ڈال کر یہاں سے نہیں جانا چاہتی۔۔"اس نے رک کر پہلے شاہنواز کا چہرہ دیکھا جو سر جھکائے کھڑا تھا پھر اپنی حتمی فیصلہ سنا کر چلتی بنی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"آپ نے بلایا ہے داداجان۔۔"داداجان کے بلاوے پر وہ ہر طرح کے حالات کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوکر پہنچا تھا۔
ہاں۔۔بیٹھو۔۔"ان کا انداز معمول سے بہت زیادہ سنجیدہ تھا۔
"شازمان نتاشہ کو معاف کرنا چاہتا ہے۔۔"انھوں نے ہاتھ میں پکڑی کتاب بند کرتے ہوئے لیمپ کے پاس رکھی تو شاہنواز بھی چل کر ان کے ساتھ آ بیٹھا۔
"وہ معاف کرنے والے کون ہوتے ہیں؟اس نے زیادتی میری بیوی کے ساتھ کی ہے۔۔یہ حق صرف اس کو حاصل ہے۔۔" معافی کا حرف ہی اس کے تن بدن میں آگ لگا گیا۔
"شازمان اسی کے کہنے پر نتاشہ کو دوسرا موقع دینا چاہتا ہے۔۔شہزین نے ان دونوں بہن بھائی کو معاف کردیا ہے۔۔شازمان بھی کچھ مہینوں تک لندن جا رہا ہے اپنی بیوی کے ساتھ شائد میرے جیتے جی واپس نہ آئے۔۔"ان کی آواز سے افسردگی عیاں تھی۔
"داداجان۔۔"شاہنواز نے انکے ہاتھ کی پشت پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔
"لیکن میں مرنے سے پہلے ایک اور بوجھ سے آزادی چاہتا ہوں۔۔ مجھے لگتا ہے میں نے ظلم کیا ہے تم پر تمھاری سکت سے زیادہ ذمہ داری ڈال کر۔۔تم ساری زندگی بھی شہزین کو عزت نہیں دے پاوگے جو تم دونوں پر ظلم ہوگا۔۔"وہ اپنے کئے جانے والے فیصلے پر نادم بھی تھے۔
"ایسا نہیں ہے داداجان۔۔"شاہنواز نے ان کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے انکار میں گردن ہلائی۔
"تم ہمیشہ اس بات سے خار کھاتے تھے کہ میں کیوں شہزین کو تم دونوں بھائیوں پر ترجیح دیتا ہوں۔۔"اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ اس کے دل کا چور پکڑ گئے تھے۔
"نہیں۔۔"
"تم نے کہا نہیں مگر میں نے تمھاری آنکھوں سے پڑھ لیا ہے چھوٹے ملک۔۔شہزین اس گھر کا خون ہے۔۔میری نواسی ہے۔۔" پہلے وہ اس کی ہربڑاہت پر مسکرائے پھر اگلے ہی لمحے شہزین سے جڑے تعلق نے ان کی پلکیں بھگوئی تھیں۔
"نواسی۔۔۔''شاہنواز تجسس کی انتہا کو جا پہنچا تھا۔
"وہ احمد خان کی سگی اولاد نہیں ہے تمھاری فرزانہ پھپھو کی اولاد ہے۔۔"اتنے سالوں بعد داداجان کی زبان سے وہ نام ادا ہوا تھا جس کا ذکر کرنا بھی ملک خاندان کے لئے کسی گالی سے کم نہ تھا۔
"داداجان۔۔"شاہنواز کے لئے اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ قابو کرنا ناممکمن ہوگیا تھا۔اس نے سر اٹھا کر داداجان کا چہرہ دیکھا جو آنسووں سے تر تھا۔
"وہ یہ بات نہیں جانتی۔۔نہ تم اسے کبھی بتاوگے۔۔"اس کی معتجب آنکھوں نے داداجان کو نئے خوف سے دوچار کیا تھا۔
"تمھیں آزاد خیال لڑکیوں سے ہمیشہ نفرت اس لئے رہی کیونکہ تمھاری پھپھو نے اپنی محبت کو ہماری غیرت پر ترجیح دی تھی۔۔اس نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا بچے اپنا شرعی حق استعمال کیا تھا۔۔اسے حق حاصل تھا اپنے لئے شریک سفر چننے کا مگر یہ بات مجھے اتنے سال گزر جانے کے بعد سمجھ آئی۔۔اس روز جب وہ آخری بار گھر کی دہلیز پر مجھ سے صرف میری دعائیں مانگنے آئی تو میں نے اسے ڈھیروں بدعائیں دی تھیں۔۔اسے کہی گئی ایک بات نے میرا سارا تکبر مٹی میں ملا دیا۔۔کیونکہ میں نے اسے نہیں خود کو بدعا دی تھی۔۔۔میں نے اسے کہا تھا کہ جس طرح اس نے مجھے رسوا کیا ہے ویسے ہی اللہ اسے اور اس کی اولاد کو رسوا کرے گا اور میری نواسی آج ہر جگہ ہر موقع پر رسوا ہو رہی ہے۔۔میری فرزانہ کی اولاد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئی۔۔۔ میری انا اور تکبر کے باعث۔۔۔کیا تھا اگر میں اس کی پسند کو قبول کرلیتا۔۔وہ ہر لحاظ سے مناسب انسان تھا۔۔اس آصف خان سے تو لاکھ درجے بہتر تھا وہ انسان جس نے ساری زندگی میری دوسری بیٹی کو عذاب میں مبتلا رکھا۔۔"ان کی آشکوں میں ڈوبی آواز نے شاہنواز کی پلکوں کو بھی نم کیا تھا۔
"داداجان پلیز خاموش ہوجائیں۔۔۔"ان کی سانسیں چڑھتی دیکھ کر اس نے التجا کی تھی۔
"میری بدعا نے میری بیٹی کا ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا۔۔اس کے شوہر کی بھری جوانی کی وفات نے اسے در در بھٹکنے پر مجبور کیا مگر وہ کبھی واپس اپنے باپ کے پاس نہیں آئی۔۔۔وہ آجاتی تو شائد میں اسے سینے سے لگا لیتا۔۔۔اسے مشکل وقت میں احمد خان اور اس کی بیوی نے اپنے گھر پناہ دی اور شہزین کی پیدائش کے موقع پر وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گئی۔۔احمد خان نے اس لاوارث بچی کو اپنا نام دیا۔۔مجھ سے تو لاکھ درجہ بہتر تھا وہ۔۔"اپنا ماتھا پیٹتے ہوئے وہ گہرے کرب میں تھے۔ملک خاندان کے یہاں جب آصف خان کا رشتہ بھیجا گیا تھا تب داداجان نے صرف اس خاندان کی شان و شوکت کو ہی مدنظر رکھتے ہوے ہاں کہہ دی تھی۔کسی کو اس بات پر اعتراض نہ تھا کہ وہ انسان پہلے سے ایک بچے کا باپ تھا مگر جس بیٹی سے انھوں سے آصف خان کی نسبت جوڑی تھی وہ پہلے سے کسی اور میں دلچسبی رکھتی تھی جو دولت کے علاوہ ہر پیمانے پر آصف خان کو مات دے سکتا تھا۔باپ کی سختی اور اٹل فیصلے سے تنگ آکر فرزانہ نے اپنے من پسند انسان سے نکاح کر لیا تھا جو دل و جان سے اسکے ساتھ مخلص تھا۔یہی وجہ تھی کہ نکاح کے بعد وہ اس انسان کے ہمراہ باپ کے در پر معافی اور دعائیں لینے آئی تھی مگر ذلت رسوائی اور لعن تعن نے اسے دوبارہ وہاں آنے کے قابل نہ چھوڑا تھا۔عزت بچانے کے لئے گھر کی فرزانہ سے دو سال چھوٹی بیٹی شبانہ کو آصف خان کے نکاح میں دے دیا گیا۔وہ خاندان کتنا منتقم مزاج اور سنگدل تھا اس بات کا اندازہ داداجان کو بہت جلد ہوگیا تھا جب رخصتی کے بعد دوبارہ کبھی ان لوگوں نے نہ ملک خاندان سے کوئی تعلق رکھا نہ ہی کئیں سالوں تک بیٹی کو واپس میکے بھیجا۔شبانہ بیگم جب بھی فون پر بات کرتیں تو والدین اس کے دکھڑے سن کر دل جلانے کے سوا کچھ بھی نہ کرپاتے۔
"یہ سب پھپھو جانتی ہیں تبھی انھوں نے شہزین کو یہاں بھیجا؟"شاہنواز کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے بولا۔
"ہاں۔۔۔تمھاری پھپھو اور شہلا ہمیشہ رابطے میں رہیں۔۔ یہ بات آصف خان نہیں جانتا۔۔اسے بھنک بھی لگتی کہ شہزین میری فرزانہ کی اولاد ہے تو وہ اسے پیدا ہوتے ساتھ ہی جان سے مار دیتا۔۔تمھاری پھپھو اور شہلا بچپن کی سہلیاں تھیں۔۔ شہلا کا بچپن ہماری آنکھوں کے سامنے گزرا پھر جب ہم تمھاری پھپھو کے اس قدم کے بعد یہاں لاہور آگئے تب بھی وہ فون پر تمھاری پھپھو سے رابطے میں رہی۔۔تمھاری فرزانہ پھپھو جب شوہر کے انتقال کے بعد اسلام آباد میں بالکل اکیلی پڑی تھی تو انھیں پہلا خیال شہلا کا ہی آیا تھا جس نے برے وقت میں اسے ناامید نہیں کیا۔ان لوگوں نے میری نواسی کو لاڈ پیار سے پالا اور میں بدنصیب جب سے اسے یہاں لایا ہوں مسلسل تکلیف دیتا چلا جارہا ہوں۔۔۔" ماضی کا ہر صفحہ اس کے سامنے کھولتے ہوئے وہ جذباتی ہوئے تھے۔
"اسے اب کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی داداجان۔۔یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔۔"شاہنواز نے ان کے آنسو پونچھتے ہوئے عہد کیا تھا۔
"شاہنواز مجھے اس کی خوشیاں بھیگ میں نہیں چاہئیں۔۔تم چاہو تو اسے آزاد۔۔"
"اسے مجھ سے دور صرف موت کر سکتی ہے داداجان۔۔آج سے اس کی ہر خوشی میری ذمہ داری ہے۔۔"داداجان کی بات کاٹتے ہوئے اس نے نفی میں گردن ہلائی تھی۔داداجان نے اسے بہت مان سے ہمراز بنایا تھا اب اسے یہ راز بھی رکھنا تھا اور اپنا عہد بھی نبھانا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"دکھاو میں کر دیتا ہوں۔۔"وہ کمرے میں پہنچا تو شہزین اپنی کلائی پر بندھا بینڈخ بدل رہی تھی۔
"میں کر لوں گی۔۔"اس کا یوں پاس بیٹھ کر بینڈج بدلنا اسے اکتانے پر مجبور کر رہا تھا۔
"میں بھی کر سکتا ہوں۔۔۔ تمھارا زخم خراب ہو جائے گا احتیاط کیا کرو۔۔"اس کے اعتراض کو خاطر میں لائے بغیر شاہنواز کام مکمل ہونے تک نہ رکا۔
"اس سے گہرے زخموں کے ساتھ بھی زندہ ہوں۔۔میری فکر مت کرو۔۔"اس کی سرمہری بدستور قائم تھی۔
"تمھاری فکر تو مجھ پر فرض کردی گئی ہے۔۔قضا نہیں کر سکتا اب۔۔"اس کی آنکھوں میں جھانکتا وہ دبی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے وہاں سے اٹھ گیا تھا۔
"تمھاری آنکھیں ہمیشہ مجھے پھپھو کی یاد دلاتی تھیں شہزین۔۔تمھاری آزاد خیالی،بےخوفی اور شوخیاں مجھے اس ذلت کی یاد دلاتی تھیں جو میرے بابا جان اور دادا جان نے کاٹیں۔۔اور میری اس نفرت کا کیا تم بھگت رہی ہو۔۔ہم سب تمھارے مجرم ہے۔۔سب سے بڑا مجرم میں خود ہوں۔۔"جب فرزانہ ملک نے وہ قدم اٹھایا تھا تب وہ خود اتنا کم عمر تھا کہ کسی معاملے کی اسے خاص سمجھ نہ تھی مگر بچپن سے اپنے باپ چچا اور رشتہ داروں سے پھپھو کے متعلق طرح طرح کی باتیں سن کر اس کے لاشعور میں آزادخیال لڑکیوں کے لئے نفرت کا احساس پیدا ہوگیا تھا۔حتٰی کہ جب کبھی وہ اپنی پھپھو کی کوئی تصویر بھی دیکھتا تو ان کی تصویر اٹھا کر فرش پر پٹک دیا کرتا تھا۔شہزین کے نقوش اور بالخصوص آنکھیں ماں پر گئی تھیں جن کے باعث اس کا سامنا ہوتے ہی ایک قدرتی کراہت شاہنواز ابراہیم کے سراپے میں دوڑنے لگتی تھیں۔آج جب وہ معاملات کو سمجھنے کے لائق ہوا تھا تو خود سے ہی نظریں ملانا دشوار لگنے لگا تھا۔اگر پھپھو کا اٹھایا جانے والا قدم غلط تھا تو درست تو داداجان کا انتخاب بھی نہ تھا۔
"کیسے ہو؟"وہ صبح سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچا تو عاشر اور سمیرا کو وہاں موجود پایا۔
"جاو تم شازی سے مل لو مجھے عاشر سے بات کرنی ہے۔۔" عاشر نے ہاتھ ملاتے ہوئے وہ سمیرا سے ہمکلام ہوا۔
"مجھے تھماری کوئی بکواس نہیں سننی۔۔تمھارے دادا جان اسے لے کر جانے کی اجازت دے چکے ہیں۔۔"سمیرا کے وہاں سے جاتے ہی عاشر اس پر بھڑکا تھا۔
"وہ کہیں نہیں جائے گی۔۔وہ میرے نکاح میں ہے اور میں اسے در در کی ٹھوکریں کھانے نہیں دے سکتا۔۔"اس کے لب و لہجے سے پراوہ اور فکر کے احساس جھلک رہے تھے۔
"واقعی۔۔اتنی غیرت ہے تم میں۔۔''عاشر نے تمسخر اڑاتے انداز میں سوال پوچھ کر اسے لاجواب کیا۔
"عاشر وہ میری ذمہ داری ہے اور اس کے معاملے میں تمھارے آگے جوابدہ نہیں ہوں۔۔پھر بھی میں تم سے مہلت مانگ رہا ہوں۔۔اگر میں اس کا اعتماد جیتنے میں ناکام ہوا تو تم اپنی بہن کو کہیں بھی لے جاسکتے ہو اور میں اس کے پیچھے بھی نہیں آوں گا۔۔۔"اس نے کچھ وقفے بعد سوچے سمجھے الفاظ زبان سے ادا کیے تھے۔
"تم جتنا برا کرچکے ہو اس کے بعد کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔" عاشر اس کی ہر دلیل جھٹلا گیا۔
"میں پھر بھی ایک کوشش کرنا چاہتا ہوں۔۔میں نے اپنی بھڑاس نکالنے کے لئے شہزین کو جس آگ میں جھونکا ہے،اس میں میرا اپنا وجود بھی دن رات جھلس رہا ہے۔۔میرا تکبر اللہ نے میرے منہ پر دے مارا ہے۔۔ملائکہ کی حقیقت جاننے کے بعد میں اپنی ہی نظروں میں گرچکا ہوں۔۔"اس کے لئے کسی کے بھی آگے نظریں اٹھا کر بات کرنا مشکل ترین ہوگیا تھا۔عاشر بھی اس کے اس بدلے بدلے عاجزانہ روپ پر حیران ہی ہوسکتا تھا۔
"مجھے اب بھی تمھارا اور عاشر کا نکاح ہضم نہیں ہو رہا سمیرا۔۔۔کپ پکائی گئی یہ کھچڑی؟"کمرے کی بالکنی میں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھیں وہ دونوں جیسے باقی ہر بات فراموش کر گئی تھیں۔
"میری برائیاں ہو رہی ہیں؟"وہاں آتا عاشر سمیرا کے برابر والی کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا۔
"مجھے سمجھ نہیں آرہا انکل اس کے لئے کیسے مان گئے؟" شہزین ابھی بھی تجسس کے آلم میں ہی تھی۔
"تمھارے تایاجان کی کرم نوازیاں ہیں۔۔"عاشر نے کونسنے والے انداز میں آصف خان کو یاد فرمایا۔
"یعنی؟"
"تمھارے تایاجان نے ہم سب کو بہت ٹارچر کیا شازی۔۔تمھارا پتہ لگوانے کے لئے ڈیڈ کو اریسٹ تک کروا دیا۔۔میرے بھائی کی نوکری چلی گئی ان کے اثرورسوخ کے باعث اور انھیں حالات سے تنگ آکر کوئی ہم سے تعلق جوڑنے کو تیار نہیں تھا۔۔ماما نے بھائی کو تو کراچی بھگا دیا تھا ماموں کے پاس تاکہ وہ لوگ بھائی کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔۔جب عاشر رہا ہو کر باہر آیا تو اس نے بہت ساتھ دیا ڈیڈ کا۔۔ان کی ضمانت کروائی۔۔ہم لوگ اسلام آباد سے کراچی ہی چلے گئے تھے۔۔"سمیرا اب بھی ان اذیت ناک لمحات کو یاد کرتی گھبرا رہی تھی۔
"میرے ڈیڈ نے زندگی میں تو مجھے کبھی اولاد کا درجہ دیا نہیں مگر جاتے جاتے جائیداد کا تیس فیصد میرے نام کرگئے۔۔ اسی کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کا بہتر آغاز کیا اور انکل کے ساتھ مل کر چھوٹی سی ٹریول ایجنسی کھول لی۔۔ان کا تجربہ اور میرے ڈیڈ کا پیسہ۔۔بہت ہی خطرناک جوڑ جڑا ہے۔۔"عاشر نے اپنے دکھڑے سنانا شروع کئے تھے۔
"اور یہ جوڑ؟"
"میری حماقت نے تمھیں تو نقصان پہنچایا ہی تھا شازی مگر سمیرا کی بدنامی بھی کم نہیں ہوئی تو میں نے اسی بدنامی کا کفارہ ادا کیا ہے اور دیکھو آج میں اصلی والا ہیرو بن گیا ہوں۔۔"سنجیدہ بات کو اپنے فلمی انداز میں تمام کرتے ہوئے اس نے تصوراتی کالر چڑھائے تھے۔
"بےشک۔۔"شہزین کو واقعی اس نکمے دوست پر فخر محسوس ہوا تھا۔
"تم چل رہی ہو ہمارے ساتھ؟"سمیرا نے پُر امیدی سے سوال کیا تھا۔
"شہزین داداجان کا بی پی ہائی ہوگیا ہے پلیز چلو۔۔"وہاں دوڑ کر آتی ہوئیں سیدہ بیگم کی آواز پر وہ تینوں ہی ان کے پیچھے دوڑے تھے۔
"اتنی بھی اوور ایکٹنگ مت کیجیے گا کہ پکڑیے جائیں۔۔"بیڈ سے ٹیک لگائے ہوئے داداجان کے کندھے دباتا شاہنواز ہدایات دے رہا تھا۔
"تم نے ابھی اپنے داداجان کی اداکاری دیکھی کہاں ہے پوتے؟" وہ بھی اپنے آپ کو وحید مراد تصور کئے بیٹھے تھے۔
"آپ کی نواسی بھی منجھی ہوئی لکھاری ہے۔۔کچے اداکار لمحوں میں بھانپ لیتی ہے۔۔"قدموں کی آہٹ سنتے ہی شاہنواز نے انھیں بیڈ پر لیٹنے کا کہا تو وہ کردار کی گہرائی میں جا کودے تھے۔
"کیا ہوگیا داداجان۔۔"وہ ان کے پاس آکر بیٹھی تو داداجان نے آدھی کھلی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔
"شہزین۔۔مجھے چھوڑ کر مت جاو بیٹے۔۔میں مر جاوں گا۔۔" اس کا ہاتھ حسرت سے تھامے وہ رونے لگے تھے۔
"ایسا مت کہیں داداجان پلیز۔۔"شہزین کی آنکھوں سے بھی بےاختیار آنسو گرے تھے۔
"داداجان شہزین کہیں نہیں جارہی۔۔پلیز سنبھالیں خود کو۔۔" شاہنواز نے ان کا کندھا دباتے ہوئے خود ہی حامی بھر لی۔
"کتنا بی پی ہے۔۔"اسے نا چاہتے ہوئے بھی ملک شاہنواز کو مخاطب کرنا پڑا تھا۔
"300/200"
اس کی بیوقوفی پر داداجان نے کمبل کے نیچے سے ہی پوتے کے ہاتھ پر چیونٹی کاٹی تھی جس پر چیختے چیختے رکا تھا جبکہ سیدہ بیگم نے اپنا ماتھا پیٹا تو عاشر ان لوگوں کا پورا ڈرامہ بھانپ گیا تھا مگر خاموشی سے محظوظ ہونے کو ہی ترجیح دی تھی۔
"اتنا زیادہ کیسے ہوسکتاہے؟میں خود دیکھتی ہوں۔۔"شہزین نے حیرانی سے داداجان کا چہرہ دیکھ کر پاس رکھا بی پی اپریٹس اٹھایا تھا۔
"یہ مشین تو شام میں ہی خراب ہوگئی ہے۔۔تم اسے چھوڑو۔۔داداجان کی بات سنو بچے۔۔"سیدہ بیگم نے اس سے بی پی اپریٹس کھینچ کر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
"شہزین۔۔"داداجان نے پھر سے اس کا دھیان بٹایا۔
"داداجان میں یہیں ہوں۔۔"اس نے دونوں ہاتھوں میں ان کا ہاتھ تھاما تھا۔
"تم نہیں جا رہی نا؟"ان کا لہجہ اتنا فریادی تھا کہ شہزین میں انکار کی ہمت ہی نہ بچی تھی۔
"جی نہیں جارہی۔۔آپ پلیز خود کو سنبھالیں۔۔"اس نے ہاتھ چوم کر ان کی فکر دور کی تھی۔کچھ دیر ان کے پاس بیٹھنے کے بعد سیدہ بیگم نے داداجان کے اشارے پر ان تینوں کو وہاں سے بھیج دیا تھا مگر شاہنواز ان کے پاس ہی بیٹھا رہا۔
"گدھے اتنا بی پی کیا سوچ کر بولا تھا۔۔۔"ان کے جاتے ہی بیٹھتے ساتھ داداجان نے اسے کندھے پر تھپڑ مارا تھا۔
"سوری داداجان۔۔فلو میں منہ سے نکل گیا۔۔"وہ ہنسی دباتے ہوئے بولا۔
"نالائق۔۔"اس کی گردن اپنے بازو میں دبوچتے وہ بھی مسکرائے تھے۔
"وہ نہیں جائے گی نا اب؟"شاہنواز کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔
"جاکر تو دکھائے۔۔۔پھر بیمار پڑجاوں گا۔۔"دادجان بھی خوشی سے اٹھلائے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم کچھ دن داداجان کے لئے رک جاو۔۔انھوں نے مشکل وقت میں بہت ساتھ دیا ہے تمھارا۔۔"عاشر نے بھی اسے سمجھایا تھا۔
"ہمم۔۔۔"وہ خود بھی کشمکش میں تھی۔
"اور ایک بات اگر شاہنواز نے زیادہ بک بک کی تو مجھے ایک کال کردینا۔۔تمھاری ایک پکار پر جن کی طرح حاضر ہو جاوں گا۔۔"اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بڑے ابا والے لہجے میں بولا۔
"تھینکس۔۔تم دونوں ہو تو ایسا لگ رہا ہے جیسے سگے رشتے اب بھی میرے ساتھ ساتھ ہیں۔۔"سمیرا کے گلے لگتے ہوئے وہ انسیت سے بولی تھی۔
"دل کے رشتے سگے رشتوں کو بھی مات دے جاتے ہیں کیونکہ وہ خلوص اور بےغرضی کی بنیادوں پر جوڑے جاتے ہیں۔۔"سمیرا نے بھی اس سے بغل گیر ہوتے ہوئے محبت سے کہا
"خیال رکھنا۔۔ہم رابطے میں رہیں گے۔۔"گاڑی میں بیٹھنے تک عاشر اسے تسلیاں دیتا رہا۔
"ہمم۔۔۔"ان کی گاڑی ملک مینشن سے نکلنے تک وہ انھیں ہاتھ ہلا کر خیرآباد کہتی رہی تھی۔
وہ رات گئے کمرے میں پہنچا تو شہزین سب کام نمٹانے کے بعد ڈریسنگ روم سے رات کے کپڑے پہن کر باہر آئی تھی۔شاہنواز صوفے پر بیٹھا اسی کا منتظر تھا۔
"تھینکس تم نہیں گئی۔۔"اسے سنگھار میز کے سامنے بالوں کا جوڑا بناتا دیکھ کر وہ شکرگزار ہوا تھا۔
"تمھارے لئے نہیں رکی۔۔"اس کا جواب توقع کے عین مطابق تھا۔
"میرے داداجان کے لئے تو رکی ہو نا؟"اس کے پاس چل کر آتے ہوئے وہ مسکرایا تھا۔
"وہ تمھارے کیا لگتے ہیں اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں ملک شاہنواز ابراہیم۔۔مگر میرے لئے وہ ہر رشتے ہر شخص سے زیادہ اہم ہی اور ہمیشہ رہیں گے۔۔"اس کی بات پر بغیر کوئی جواب دیے وہ بالکنی کا رخ کر گیا تھا۔
آج ناشتے کے میز پر اس کی غیر حاضری نے سب کو ہی پریشان کیا تھا۔وہ یوں کبھی بغیر بتائے گھر سے باہر نہ جاتا تھا۔داداجان اور سیدہ بیگم بھی کئیں بار اس سے سوال پوچھ چکے تھے مگر وہ خود اس کی اس روح پوشی سے لاعلم تھی۔
"کہاں تھے تم؟"وہ ہاتھ میں کچھ دستاویزات تھامے میز پر آکر بیٹھا تو داداجان نے خفگی سے پوچھا۔
"کچھ ضروری کام تھا۔۔"اس نے جواب داداجان کو دیا مگر نظریں بیگم پر ٹکی تھیں جو اس کی آمد کو خاطر میں لائے بغیر سر جھکائے ناشتے کی طرف ہی متوجہ تھی۔
"کیسا کام۔۔"
"یہ آپ کی لاڈلی کا ہی کام کرنے گیا تھا۔۔"اس نے فائل کھول کر داداجان کے سپرد کی تھی۔
"یہ کیا ہے؟"سیدہ بیگم کو بھی اشتیاق ہوا۔
"داداجان چاہتے تھے کہ شہزین کی پڑھائی جو نامکمل رہ گئی تھی وہ یہ مکمل کرلیں۔۔"اس دفعہ شہزین کی گردن اٹھی اور نظروں کا نشانہ سامنے بیٹھا مجازی خدا تھا۔
"مگر میرے سارے ڈاکیومنٹس تو تائی جان کے پاس۔۔"اسکے سٹپٹانے پر شاہنواز کی بتیسی نکلی تو وہ داداجان نے سوال گوہ ہوئی تھی۔
"محترمہ شائد آپ بھول رہی ہیں کہ آپ کی تائی جان میری پھپھی جان بھی لگتی ہیں۔۔"اس نے داداجان کے کچھ بھی کہنے سے قبل جواب دیا۔
"چلو تم اب گھر کے کام چھوڑ کر پڑھائی پر توجہ دو شاباش۔۔" داداجان نے نیا حکم صادر کیا۔
"مگر مجھے نہیں پڑھنا۔۔"اس نے انکار کیا۔
"کیوں؟فیل ہونے سے ڈرتی ہو؟ویسے تمھارے گریڈز تو کافی اچھے رہے ہیں۔۔دیکھیں داداجان۔۔۔"اسے مزید تپانے کے لئے شاہنواز نے اس کے تعلیمی دستاویزات داداجان کو پوری فرصت سے دکھائے تھے۔
"ماشاءاللہ۔۔"انھیں نواسی کی ذہانت پر فخر ہوا تھا۔
"آپ کا خیال پھر کون رکھے گا اگر میں یونیورسٹی چلی جاوں گی تو؟"اس نے اسی دم بہانہ کریدہ۔
"تم نے کون سا پورا دن گھر سے باہر گزارنا ہے؟اور میں اب بہتر ہوں بچے۔۔میری خواہش نہیں حکم ہے کہ تم اپنا ایم بی اے مکمل کرو۔۔آئی سمجھ۔۔"انھوں نے حتمی فیصلہ سنایا تھا۔
"جی۔۔"
"اور پک اینڈ ڈراپ کے لئے یہ مفت کا ڈرائیور موجود ہے نا۔۔'' شاہنواز نے جیکٹ کے کالر درست کرتے ہوئے پیشکش کی۔
"اللہ حافظ۔۔"وہ جب بھی شہزین کے ساتھ ہنس کر دوبول ادا کرتا تو شازمان کی بےچینی بڑھنے لگتی۔آج بھی وہ سب سے الوداع کہتا ناشتے کے میز سے اٹھ گیا تھا۔
"میری بات کان کھول کر سن لو۔۔تم نے پڑھائی میں بھی اس کی مدد کرنی ہے۔۔"سیدہ بیگم نے بیٹے کو سختی سے ہدایت دی۔
"اگر یہ مجھے اس لائق سمجھے تو ضرور۔۔"شاہنواز نے حتمی فیصلہ اس پر چھوڑ دیا تھا جو اسکی ہر بات پر گونگی بہری بن جایا کرتی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم تیار نہیں ہوئی۔۔"وہ کمرے میں آیا تو شہزین عام سے حلیے میں کمرے کی ڈسٹنگ کرنے میں مصروف تھی۔
"کیوں؟"اس نے بغیر رکے سوال کیا۔
"تمھیں جو جو سامان چاہئے وہ چل کر خرید لیتے ہیں نا۔۔"
"سب ہے میرے پاس شکریہ۔۔"لہجے کی ناگواری شاہنواز کو چپ کروا گئی تھی۔
"یہ رکھ لو۔۔"کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد اس کی آواز پر شہزین نے رخ پھیر کر دیکھا تھا۔
"یہ کیا ہے؟"اسے لگا کہ داداجان نے شائد اس کے لئے نیا لیپ ٹاپ منگوایا ہے۔
"تمھارا لیپ ٹاپ جو سمیرا کے پاس تھا۔۔"شاہنواز کے الفاظ پر لیپ ٹاپ کا بستہ پکڑتے اس کے ہاتھ کپکپائے تھے۔
"یہ مجھے میرے باباجان نے گفٹ کیا تھا۔۔"اس نے وہ بستہ ہونٹوں سے لگایا تھا۔
"جو نہیں رہے وہ اب کبھی واپس نہیں آئیں گے مگر جو ہیں انھیں خود سے دور مت کرو ورنہ وہ بھی یاد بن کر رہ گئے تو یہ آنسووں کا سلسلہ کبھی تھمے گا نہیں۔۔"وہیں صوفے پر لیپ ٹاپ سے چہرہ جوڑ کر بیٹھتے دیکھ کر شاہنواز نے اسے سمجھایا تھا۔
"تم مجھے اکیلا چھوڑ سکتے ہو؟"اس نے سر اٹھائے بغیر اشکوں سے تر آواز میں فریاد کی تو وہ انکار نہ کرسکا۔اگلے ہی لمحے اس کے کمرے سے نکلتے ساتھ وہ ہچکیوں کے ہمراہ کتنی دیر روتی رہی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم ہوش میں ہو ملائکہ کو چھوڑنے کا مطلب جانتے ہو شان؟" طلاق نامہ دیکھتے ساتھ ہی گیلانی صاحب کا طیش سو فیصد متوقع تھا۔
"میری زندگی میں آگ لگانے والی ہی وہ ملائکہ ہے۔۔اس کی چالوں میں آکر میں شازی سے بدگمان ہوگیا اور۔۔"سامنے کھڑا شان اسی ضد پر قائم تھا۔
"شازی شازی۔۔۔بھول کیوں نہیں جاتے اس لڑکی کو؟"وہ قہرآلود آواز میں بھڑکتے ہوئے صوفے سے اٹھے تھے۔
"کیسے بھول جاوں۔۔وہ تب نہیں بھولی جب اس سے نفرت کرنے لگا تھا تو اب کیسے بھلادوں جب اس کی محبت مجھے پھر سے دیوانہ بنا رہی ہیں۔۔آپ جانتے ہیں ڈیڈ۔۔اس کی وہ جھوٹی تصاویر ملائکہ نے بنوائی تھیں اور میں بزدل ناکارا انسان ان جھوٹی تصویروں کو سچ مان بیٹھا مگر اس سچی لڑکی کا ہر سچ بےرحمی سے جھٹلاتا گیا۔۔"اپنے کئے پر شرمساری سے وہ خود کو ہی کونسنے لگا تھا۔
"کیا ملائکہ کو چھوڑ دینے سے وہ تمھیں واپس مل جائے گی؟" اس دفعہ ماں کے سوال نے اسے لمحے بھر کو چپ لگوائی تھی۔
"وہ میری تھی مام اور میں اسے اپنا بنا کر رہوں گا۔۔۔ چاہے مجھے کسی بھی حد تک جانا پڑے۔۔"خود کو تسلی دیتے ہوئے وہ پاوں پٹکتا گھر سے نکل گیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ویسے تمھیں ڈر لگ رہا ہے تو میں کلاس تک تمھیں چھوڑنے آسکتا ہوں۔۔"یونی ورسٹی کے باہر گاڑی روکتے ہوئے شاہ نواز نے نئی پیشکش کی تھی۔
"یہ کھل کیوں نہیں رہا۔۔"اس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی جو لاکڈ تھا۔
"جب تک تم مجھے گڈ بائے نہیں کہو گی یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔۔"اس نے نیا مطالبہ کردیا۔
"مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔"اس نے دروازہ کھولنے کی ناکام کوشش جاری رکھی۔
"مگر میرے پاس بہت وقت ہے۔۔"وہ دونوں بازو سینے سے باندھے سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔
"شاہنواز مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔"اس کے لہجے میں ناگواری در آئی۔
"وہاں سے یہاں تک تم پیدل چلتی تو داداجان مجھے بم سے اڑا دیتے۔۔۔آل دی بیسٹ۔۔"گاڑی دوبارہ چلاتے ہوئے اس نے کیمپس کے اندرونی دروازے کے سامنے روکی اور پھر جیکٹ سے ایک سرخ گلاب نکالتے ہوئے اس کی جانب بڑھایا تھا۔
"یونیورسٹی میں بہت سے لڑکے ہونگے مجھے یہ گلاب دینے کے لئے۔۔مت بھولو مجھے شریف ذادوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسانے کا وسیع تجربہ ہے۔۔"اس کے طنز پر شاہنواز کا چہرہ سرخ پڑا تھا۔
"گلاب تم کسی کا بھی قبول کرلو رہو گی مسز شاہنواز ابراہیم ہی۔۔۔ویسے تمھیں نزدیک سے دیکھ کر احساس ہوا کہ تم اتنی بھی بری نہیں ہو۔۔۔"اس کے بیگ میں گلاب ٹکاتا ہوا وہ ڈھیٹاہٹ کا تاریخی نمونہ پیش کر رہا تھا۔
"میڈم کے ارادے تو بہت اٹل لگ رہے ہیں۔۔خیر مناو ملک صاحب۔۔"گاڑی کا دروازہ کھولتی وہ بےرخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتر کر چلی گئی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"لو شاہنواز آگیا۔۔۔"وہ اسے یونی ورسٹی چھوڑ کر واپس گھر پہنچا تو شان ہال میں داداجان کے ساتھ بیٹھا تھا۔
"کیسے ہو؟"اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے شان نے خود کو نارمل ظاہر کیا تھا۔
"الحمدللہ بہت خوش اور مطمئن ہوں۔۔تم کیسے ہو؟"اس سے مصافحہ کرتے ہوئے شاہنواز نے بھی مزاج ہلکا پھلکا رکھا تاکہ داداجان کو کسی ناچاقی کا شبہ نہ ہو۔
"میں وہ شازی۔۔"داداجان کے وہاں سے جاتے ہی شان مطلب کی بات پر آیا تھا۔
"تم غالبا مسز شاہنواز ابراہیم کی بات کررہے ہو؟"
"مجھے اس سے ملنا ہے۔۔"اس نے ضبط گھونٹ بھرتے ہوئے بات دہرائی۔
"تمھیں کیسا لگے گا اگر میں یہی مطالبہ ملائکہ کو لے کر کروں تو؟"شاہنواز نے جوابی کاروائی کی تھی۔
"مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔وہ اب میرے ساتھ نہیں ہے۔۔"وہ لاتعلق ہوا تھا۔
"مگر میری بیوی الحمدللہ میرے ساتھ ہے اور مرتے دم تک رہے گی۔۔اس لئے ماضی کو حال پر مسلط کرنے کی کوشش مت کرنا شان ورنہ مجبوراً مجھے بھی سب مروتیں بھلانی پڑیں گی۔۔"اس بار نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے الفاظ میں سختی در آئی تھی۔
"وہ تم سے نفرت کرتی ہے۔۔"
"محبت تو خیر اب وہ تم سے بھی نہیں کرتی۔۔ویسے بھی وہ مجھ سے لاکھ نفرت کرلے۔۔میرے نکاح میں ہے اور میرے نام سے منسوب ہے تو میرے بھائی وہ رہا دروازہ۔۔جن قدموں سے چل کر آئے ہو انھیں قدموں سے الٹے پاوں لوٹ جاو۔۔ہر بار میں تمھیں اپنی خوشیوں پر ڈاکا ڈالنے نہیں دے سکتا۔۔" اسے دائیں ہاتھ سے دروازہ دکھاتے ہوئے وہ دانت پیستے ہوئے بولا۔
"تم اچھا نہیں کر رہے۔۔"شان کو اس ہٹ دھرمی پر غصہ آیا۔
"میں ہوں ہی برا انسان۔۔"وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا تھا۔
یونی ورسٹی میں پہلا دن اسنے بہت خاموشی سے گزارا تھا۔زندگی کے گزشتہ تجربوں نے اسے یہی سکھایا تھا کہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست اور چار قدم ساتھ ہنس کر چلنے والا مستقل سائبان نہیں بن سکتا۔اب آنے والی زندگی میں کسی بھی شمولیت سے قبل اسے ڈھیروں وسوسے لاحق تھے۔وہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی حامی تھی۔
"کیسا رہا پہلا دن؟"وہ واپس گاڑی میں آکر بیٹھی تو شاہنواز نے دلچسبی سے پوچھا تھا۔
"السلام علیکم۔۔بطور بیگم بات کا جواب نہیں دیا کم ازکم بطور مسلمان سلام کا جواب ہی دے دیں مسز شاہنواز ابراہیم۔۔" اسے قطع تعلقی سے کھڑکی کی جانب متوجہ دیکھ کر شاہنواز نے آنکھوں سے سامنے چٹکی بجائی تھی۔
"میرے سر میں درد ہے۔۔"اس نے کانوں سے ائیرپوڈز نکالتے ہوئے کہا۔
"طبیعت زیادہ خراب ہے یا بخار دکھاو۔۔"اس نے فکرمندی سے شہزین کے ماتھے پر دائیں ہاتھ کی پشت رکھی تھی۔
"کیا کر رہے ہو؟"شہزین اس بےتکلفی پر ہربڑائی تھی۔
"اتنا حق تو رکھتا ہوں۔۔"ہاتھ پیچھے کرتا وہ حق جتانے لگا۔
"تم مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتے۔۔نا آئندہ کوئی حق جتانے کی کوشش کرنا۔۔"وہ تقریباً دروازے سے لگ کر بیٹھ گئی تھی۔
"شہزین۔۔"
"کیوں کر رہے ہو یہ اچھا ہونے کی اداکاری؟داداجان کی نظروں میں اچھا بننا ہے تو یہ ڈھونگ ان کے سامنے ہی کیا کرو۔۔مجھے کوئی دلچسبی نہیں ہے تمھاری ڈرامے بازی میں۔۔" بہت دنوں سے اس کے دل و دماغ میں چلتی جنگ میں آج اس کا صبر جواب دے گیا تھا۔
"تمھارا بی پی ہائی ہے شائد۔۔ایک کام کرتے ہیں۔۔آئسکریم کھاتے ہیں۔۔"اس کی ناراضی کو نظرانداز کرتا وہ گاڑی چلاتے ہوئے بولا۔
"مجھے نہیں کھانی۔۔"
"پھر مجھے کھاتا دیکھ لینا۔۔"اس نے کسی احتجاج پر کان نہ دھرے تھے۔
"جی داداجان۔۔نھیں ہم ڈبر باہر ہی کریں گے۔۔شہزین کو کچھ شاپنگ بھی کرنی ہے۔۔جی دیر ہوجائے گی۔۔"آئسکریم پارلر کے سامنے گاڑی روک کر آرڈر دینے کے بعد اس نے داداجان کو کال ملائی اور مختصر گفتگو کرتے ہوئے رابطہ ختم بھی کر دیا تھا۔
"تم کیا کرنے پر تلے ہو۔۔"شہزین اس ہٹ دھرمی پر عاجز آئی تھی۔
"بتا دیا تو روک لو گی؟تمھاری وارڈراب میں کوئی بھی ڈریس ایسا نہیں ہے جو تم یونیورسٹی پہن کر جاسکو۔۔سہاگن والے حلیوں میں گھوموگی تو میری کتنی انسلٹ ہوگی اور اپنی عزت پر سمجھوتے کا قائل نہیں ہوں میں۔۔" پہلے اپنے سوال سے سنسنی پھیلاتے ہوئے اس نے کچھ دیر بعد بقیہ بات مکمل کی تھی۔آئس کریم کھانے کے بعد اسے زبردستی وہ شاپنگ مال بھی لے گیا تھا۔ایک برینڈ کی دکان پر شاہنواز خود ہی اس کے لئے کپڑوں کا انتخاب کر رہا تھا کیونکہ خود وہ کوئی دلچسبی ظاہر کرنے کے بھی حق میں نہ تھی۔
"کیا ہوا؟"شہزین کی نظر دو جانے پہچانے پر گئیں جو بہانے بہانے سے ان کا تعاقب کررہے تھے تو اس نے شاہنواز کی کلائی تھامی تھی۔
"چلو پلیز۔۔"اس کی چھٹی حس خطرے کی گھنٹی بجا رہی تھی۔
"ہوا کیا ہے شہزین۔۔"وہ اس کے چہرے پر جھلکتا خوف بھانپ گیا تھا۔
"مجھے لگتا ہے وہ تایاجان کے لوگ ہیں۔۔پلیز چلو۔۔"اس نے آہستگی سے شاہنواز کے کان میں کہا۔
"ان کی ایسی کی تیسی۔۔"اس نے غصیلے پن سے جواب دیا۔
"تائی جان مشکل میں پڑ جائیں گی۔۔تم ہر بات میں ضد کیوں کرتے ہو۔۔"اس نے شاہنواز کے بازو پر گرفت اور تنگ کی تھی۔
"تمھارا ہاتھ پکڑنا اچھا لگتا ہے۔۔۔"شاہنواز شوخیاں دکھانے لگا کیونکہ انھیں اپنی طرف متوجہ پاتے ہی وہ دونوں مشکوک افراد نو دو گیارہ ہوئے تھے۔
"ڈرو مت شہزین۔۔۔میں ہوں تمھارے ساتھ۔۔"واپس گاڑی میں آکر بیٹھنے تک وہ ویسے ہی ڈری سہمی سی تھی۔
"اسی بات کا تو اصل ڈر ہے کہ تم ہو۔۔کاش تم نہ ہوتے۔۔"اس کی اس بات سے مراد تھی کہ اس نکاح نے پورے ملک خاندان کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
"میں نہ ہوتا تو کنواری مر جاتی تم۔۔شکر مناو اللہ نے اتنا ہنڈسم شوہر دیا ہے تمھیں۔۔"اس نے اس بات کا منفی نتیجہ ہی اخد کیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"ساری پڑھائی ایک ہی دن مین کرنی ہے؟"بیڈ پر پھیلی کتابیں ہٹا کر اس نے ایک کونے میں اپنے بیٹھنے کی جگہ بنائی تھی۔
"کچھ پوچھوں گی تو صحیح جواب دو گے؟"شہزین نے ہاتھ میں رکھی نوٹ بک بند کرتے ہوئے سوال کیا کیونکہ پچھلے کچھ دنوں سے شاہنواز کے بدلتا رویہ اسے بھی الجھا رہا تھا۔
"کوشش کروں گا۔۔"اس نے حامی بھری تھی۔
"تمھیں رات و رات مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں ہوگئی ہے۔۔" اس کی کرم نوازیاں کسی پہیلی کی مانند تھیں
"یہ ہمدردی نہیں تمھارا حق ہے مجھ پر۔۔"وہ اپنائیت سے بولا تھا۔
"اور یہ حق ادا کرنے کا بھوت کیوں سوار ہوگیا ہے تم پر؟" اس کے سوالوں کا ذخیرہ ملک شاہنواز کے صبر کا سخت امتحان لے رہا تھا۔
"ملائکہ نے جو مکاریاں کی ہیں وہ سامنے آچکی ہیں۔۔" ملائکہ کے ذکر پر اس کی آنکھیں جھکی تھیں۔
"ہمم۔۔۔"اس نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہ کیا۔
"وہ کبھی مخلص نہیں تھی میرے ساتھ۔۔میری مانگ ہوتے ہوئے وہ شان کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہشمند تھی اور اسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے اسے مجھے بدنام اور تمھیں برباد کرتے ہوئے اسے ایک بار خوف خدا نہیں آیا۔۔"اس نے دکھ سکھ بانتنے میں ذرا جھجھک محسوس نہ کی تھی۔
"تم بھی تو ملے ہوئے تھے اس کے ساتھ۔"شہزین اپنے خدشات زبان پر لائی تھی۔
"میں اس کی کسی مکاری میں شریک نہیں تھا۔۔ شہزین۔۔"وہ وضاحت پیش کرنے لگا۔
"میں کیسے مان لوں؟"
"تمھیں ماننے کے لئے جتنا بھی وقت چاہئے میں دینے کو تیار ہوں۔۔۔"اسے کتابیں سمیٹتا دیکھ کر شاہنواز نے منتی لہجے میں کہا۔
"کیا ہم اچھے دوست بن سکتے ہیں؟"اس کی جانب سے کوئی واضح جواب نہ ملنے پر شاہنواز نے اگلا سوال پوچھا۔
"میں نے لڑکوں سے دوستی کرنا چھوڑ دی ہے۔۔۔"اپنی کتابیں اٹھاتی وہ سٹڈی کو چل دی تھی۔
"پھپھو۔۔۔آپ کی بیٹی میرا ضبط خطرناک حد تک آزما رہی ہے۔۔"اسے کمرے سے جاتا دیکھ کر شاہنواز نے سرد آہ بھری تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شان ایسا نہیں کرسکتا میرے ساتھ۔۔"عدالتی نوٹس دیکھتے ہی ملائکہ کا سارا غرور خاک میں ملا تھا۔
"ایسا بھی کیا ہوگیا جو شان نے یہ قدم اٹھایا ہے ملائکہ۔۔بولو۔۔" عالیہ بیگم ابھی تک اصل معاملے سے لاعلم تھیں۔
"یہ ساری آگ عاشر اور شازی کی لگائی ہوئی ہے۔۔"اس نے کاغذات کو پھاڑتے ہوئے فرش پر پھینکا تھا۔
"وہ کہاں سے آگئی؟"انھیں ایک دم شہزین کا ذکر سمجھ نہ آیا۔
"وہ واپس آگئی ہے ہماری زندگیوں میں زہر گھولنے کےلئے۔۔اس بار میں اسے نہیں بخشوں گی۔۔"میز سے اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھاتی وہ بڑے بڑے ڈگ مار کر وہاں سے نکلی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کیسی بنی ہے داداجان۔۔"آج شام کی چائے کا اہتمام شاہنواز نے خود کیا تھا۔
"زبردست۔۔۔"چائے چکھتے ہوئے وہ خوش ہوئے تھے۔
"یہ رہا شاہنواز سپیشل سینڈوچ۔۔"اس نے پلیٹ میں کلب سینڈوچ رکھتے ہوئے باری باری سب کو پیش کیا تھا۔
"آج بھی اتنا ہی لذیذ ہے۔۔"سیدہ بیگم نے چکھتے ساتھ تعریف کی تھی۔
"مگر میری محنت تو تب وصول ہوگی جب آپ کی بہو نے میری ککنگ پاس کردی۔۔"اس نے شہزین کا چہرہ دیکھتے ہوئے مطالبہ کیا۔
"بتاو بچے کیسا بنا ہے؟"اس کی خاموشی پر داداجان نے پوچھا۔
"اچھا ہے۔۔"اس نے سرسری انداز میں بتایا۔
"صرف اچھا۔۔"شاہنواز نے برا سامنہ بنایا۔
"کہاں ہے یہ ڈائن۔۔کیا مل رہا ہے تمھیں میری زندگی میں زہر گھول کر بولو۔۔"اسی دوران سر پر آسمان اٹھائے ملائکہ نے ملک مینشن میں قدم رکھا تھا۔
"تم کس لہجے میں بات کر رہی ہو میری بیوی سے۔۔"اس کی بدتمیزی پر شاہنواز بھی بدلحاظ ہوا۔
"تمھاری یہ بیوی میرے شوہر کو ورغلا رہی ہے۔۔اس کے جھانسے میں آکر وہ مجھے طلاق دینے پر راضی ہو گیا ہے۔۔" ان سب کے پاس چل کر آتی وہ آپے سے باہر ہوئی تھی۔
"تم اپنا بویا کاٹ رہی ہو مس ملائکہ۔۔یہاں تماشہ کرنے کی بجائے توبہ استغفار کرو۔۔"شاہنواز نے بھی اسے کھری کھوٹی سنائی تھیں۔
"تمہاری ہدایات کی محتاج نہیں ہوں میں۔۔"اسے آنکھیں دکھاتی وہ شہزین کے سامنے چل کر گئی تھی۔
"یہ سب کیا ہے شاہنواز۔۔شہزین کا کیا تعلق ہے ان سب سے؟"داداجان بھی اس طوفانِ بدتمیزی پر ٹھٹھکے تھے۔
"اسی کا تو تعلق ہے۔۔آپ شائد جانتے نہیں یہ شان کی سابقہ منگیتر رہ چکی ہے۔۔بلکہ ان گنت لڑکوں سے بھرا ماضی ہے اس کا۔۔"اس نے خاموش کھڑی شہزین پر الزامات کی بوچھاڑ کی تھی۔
"جسٹ شٹ اپ۔۔ایک لفظ تم نے اور کہا میری بیوی کے کردار پر تو حلق سے زبان کھینچ لوں گا تمھاری۔۔"شہزین کے برابر میں آکر کھڑے ہوتے ہوئے شاہنواز نے اسے دھمکایا تھا۔
"آپ بتائیں نا بھائی۔۔آپ تو سب جانتے تھے۔۔تبھی تو آپ نے عین وقت پر دھتکارا تھا اس بدنامِ زمانہ مخلوق کو۔۔اس کی حرکتوں سے تنگ آکر اس کے والدین نے اپنی جان لے لی۔۔" اس بار ملائکہ نے سیڑھیاں اتر کر وہاں آتے شازمان کو بھی گفتگو میں شامل کیا تھا۔
"اپنی غلیظ زبان سے میرے ماں باباجان کا نام بھی مت لینا ملائکہ۔۔ورنہ مجھے وہ شہزین بننے میں ایک لمحہ نہیں لگے گا جو یہیں کھڑے کھڑے تمھیں تمھاری اصل اوقات بتادے۔۔" والدین کا ذکر آتے ہی شہزین کا ہاتھ اٹھا جو لمحے بھر میں ملائکہ کا دایاں گال دہکا گیا تھا۔
"سچ میں آپ کو بتاتی ہوں داداجان۔۔یہ لڑکی انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہے۔۔اس نے شاہنواز کی مانگ ہوتے ہوئے شان پر بری نظر رکھی ہمیشہ اور مجھے اس کی زندگی سے نکالنے کے لئے بدنام کروایا میری جھوٹی تصاویر بنوا کر مجھے کہیں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑا۔۔اب جب مقافات کی چکی چل رہی ہے تو یہ کھسیانی بلی بنی ہر ایک کو نوچ رہی ہے۔۔میں لعنت بھیجتی ہوں ہر اس تعلق پر جس نے مجھے میرے ہی والدین کا مجرم بنادیا۔۔میرا تمھارے شوہر سے کوئی واسطہ نہیں ہے نہ کبھی ہوگا۔۔"اپنے کردار پر ایک اور الزام اسے کسی صورت گوارا نہ تھا۔
"تم خود دفع ہونا پسند کروگی یا میں گارڈز کو زحمت دوں۔۔" شہزین کو جذباتی ہوتا دیکھ کر شاہنواز ملائکہ پر دھاڑا تھا۔
"جاو ورنہ میں تمھیں یہیں زندہ درگور کردوں گا۔۔۔"داداجان کی گرجدار آواز پر وہ نظریں چراتی واپس چلی گئی تھی۔یہاں وہ شہزین کو رسوا کرنے آئی تھی مگر خود ہی شرمندگی سے دوچار ہوگئی تھی۔
"شہزین۔۔میں جانتا ہوں کہ اب یہ باتیں یہاں موجود کسی بھی فرد کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں پھر بھی میں نے جو زیادتیاں آپ کے ساتھ کیں اسکے لئے مجھے معاف کردیں۔میں آپ کا مجرم ہوں۔۔"ملائکہ کے جاتے ہی سیدہ بیگم نے اسے خود سے لگا کر حوصلہ افزائی کی تو شازمان اپنے دل کا بوجھ اتارنے لگا۔
"اللہ نے مجھے آنٹی اور داداجان کے سامنے سوخرو کردیا تو اب مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔۔"اسنے آنسو پیتے ہوئے شازمان کا اضطراب کم کیا تھا۔
"ایک سچ اور ہے داداجان جو آپ نہیں جانتے ملائکہ کبھی شاہنواز کے ساتھ مخلص نہیں تھی اور شاہنواز کو بدنام کرنے کے لئے وہ لڑکی بھیجنے والی بھی ملائکہ تھی۔۔جب ان سب سے بھی وہ یہ رشتہ نہیں توڑ سکی تو اس نے ہمارے شاہنواز کو ایموشنل بلیک میل کیا کہ اگر اس نے اس رشتے کو خود نہ توڑا تو وہ عین نکاح والے دن اپنی جان دے دے گی۔۔صرف دونوں خاندانوں کو بدنامی سے بچانے کے لئے میرے بھائی نے ہر الزام خود پر لے لیا۔۔یہ نہیں چاہتا تھا کہ تاریخ خود کو دہرائے اور فرزانہ پھپھو کی طرح ملائکہ بھی ہمارے منہ پر کالک تھوپ کر ہمیں کسی سے نظرے ملانے لائق نہ چھوڑے۔۔"شازمان نے ایک اور سچ سے پردہ اٹھایا تو حیرت سے داداجان اور سیدہ بیگم کی انکھیں پھیلی تھیں۔
"شازمان۔۔"بیٹی کے ذکر پر بھی ان کا دل ہمکنے لگا تھا۔
"سوری داداجان۔۔میں جانتا ہوں کہ اس عورت کا ذکر آج بھی آپ کو اذیت پہنچاتا ہے۔۔آئی ایم سوری۔۔"ان سے معذرت کرتا وہ گھر سے نکل گیا تھا۔
"داداجان آپ ٹھیک ہیں۔۔"انھیں سہارہ دیتے ہوئے شاہنواز نے صوفے پر بیٹھایا تھا۔
"ہاں بچے۔۔تم جاو آرام کرو۔۔یونی ورسٹی سے آکر بھی تم نے آرام نہیں کیا۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔"شہزین کو پریشان دیکھ کر وہ اس کے لئے فکرمند ہوئے تھے۔
"شہزین میں ہوں داداجان کے پاس۔۔تم فکر مت کرو۔۔" شاہنواز بھی اسے وہاں سے بھیجنا چاہتا تھا کیونکہ وہ خود قابل رحم جذباتی کیفیت سے گزر رہی تھی۔داداجان اور سیدہ بیگم کے علاوہ صرف وہی شہزین کا اس گھر سے اصل رشتہ جانتا تھا جسے آج شازمان بہت حقارت سے یاد کر رہا تھا۔
"معاف کردے بچے۔۔میں ایک برا باپ ہی نہیں برا دادا اور اس سے بھی برا نانا ہوں۔۔"داداجان نے روتے ہوئے شاہنواز کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔
"آپ بہت اچھے ہیں باباجان۔۔ہم خوش نصیب ہیں کہ آپ کا سایہ ہمارے سر پر قائم ہے۔۔"سیدہ بیگم نے ان کی ہمت بڑھائی۔
"جی داداجان۔۔"شاہنواز نے بھی کوئی شکوہ ہونٹوں پر نہ لایا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تمھارے آنسو پونچھنے کا حق تو اپنی حماقتوں سے کھو چکا ہوں پھر بھی۔۔"وہ کمرے میں پہنچا تو شہزین بیڈ کے کنارے بیٹھی رو رہی تھی۔
"کاش میرے ماں باباجان آج زندہ ہوتے۔۔وہ یہی دکھ لئے اس دنیا سے چلے گئے کہ ان کی بیٹی ایک بدکردار اور بدنام زمانہ لڑکی تھی۔۔وہ مجھے میری بےگناہی ثابت کرنے کا موقع تو دیتے۔۔"چہرہ ہاتھوں میں چھپائے اس نے حسرت بھرے انداز میں کہا۔
"میں کس منہ سے تمھیں تسلی دوں شہزین۔۔میں تو خود تم پر انگلی اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل رہا ہمیشہ۔۔تم ہمیشہ پوچھتی ہو نا کہ میں تم سے اتنی خار کیوں کھاتا تھا؟یہ ہے اس سوال کا جواب۔۔"اس نے لیمپ میز کے پہلے دراز سے فوٹوفریم نکال کر شہزین کو تھمایا تھا۔
یہ میری پھپھو تھیں اس دنیا میں سب سے زیادہ یہ دادا جان کے قریب تھیں۔۔مجھ سے بھی زیادہ۔۔۔میں بہت چھوٹا تھا۔۔جب میری پھپھو کا رشتہ تمھارے تایاجان سے طے ہوا تھا۔۔ہم لوگ تب اسلام آباد رہتے تھے۔۔تمھارے تایاجان کی پہلی بیوی انتقال کرگئی تھیں۔۔مگر وہ خاندانی رئیس شخص تھے تو داداجان کو یہ یہ رشتہ ہر لحاظ سے مناسب لگا۔۔فرزانہ پھپھو ہوبہو تم جیسی تھی۔۔شوخ،کچھ حد تک آزاد خیال اور اپنی مرضی کی مالک۔۔باباجان اور چچاجان اکثر انھیں ڈانٹ دیا کرتے تھے مگر داداجان کی جان بستی تھی ان میں وہ شبانہ پھپھو سے دو سال بڑی تھیں۔۔جانتی وہ عین نکاح والے دن ہم سب کے سر جھکا گئیں کیونکہ وہ پہلے سے کسی اور کے نکاح میں تھیں۔۔۔ان کے اٹھائے جانے والے قدم نے ہم سب کو پوری دنیا کے سامنے رسوا کردیا۔۔داداجان کتنے عرصے تک اپنےکمرے سے بھی باہر نہیں آئے۔۔بدنامی کے ڈر سے ہم نے شبانہ پھپھو کو تمھارے تایاجان کے نکاح میں دے دیا اور تب سے لے کر آج تک وہ ان کی نفرت برداشت کر رہی ہے جس کی ذمہ دار صرف فرزانہ پھپھو لگتی تھیں مجھے ہمیشہ۔۔۔انھوں نے کتنے سال ہمیں پھپھو کی ایک جھلک کو ترسایا۔۔ان کی ناپسندیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگا لو کہ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی تمھارے تایا نے دوبارہ ہمارے گھر کی دہلیز پر قدم تک نہیں رکھا۔۔نہ ہی پھپھو کو ہم سے زیادہ ملنے دیا۔۔پھپھو نے کتنا کچھ برداشت کیا۔۔لوگوں کے سوالوں اور طعنوں سے تنگ آکر ہم نے شہر بدل لیا مگر میرے لاشعور میں عورت ذاد کے لئے ایک نفرت پیدا ہونے لگی۔۔مجھے آزاد خیال اور خودمختار لڑکیوں سے چڑھ تھی۔۔یہی وجہ تھی کہ میں اپنی منگیتر پر اتنی پابندیاں لگاتا تھا۔۔اور جب جب تمھیں شان کے ساتھ بےتکلف دیکھتا تھا تو غصے سے بےقابو ہونے لگتا تھا۔۔میرے ماضی کے تلخ تجربے نے مجھے کوئی تعلق نہ ہوتے بھی تم سے بدگمان رکھا اور نیہا والے واقعے کے بعد وہ بدگمانی نفرت میں بدلتی گئی پھر اس نفرت نے ہم دونوں کا ہی ناقابل تلافی نقصان کیا۔۔"شائد وہ زندگی میں پہلی بار اس انسان کی باتیں اس قدر توقع سے سن رہی تھی۔
"میں تم سےمعافی یا موقع نہیں مانگ رہا۔۔تم چاہو تو ساری زندگی مجھے معاف نہ کرنا لیکن پلیز مجھے برا انسان مت سمجھنا۔۔میرا بچپن ایک ٹروما کی نذر ہوا تھا جس نے مجھے اس قدر تلخ بنا دیا۔۔بھائی تو ساری زندگی گھر سے دور بارڈنگ اور ہاسٹل میں رہے مگر میں نے بہت چھوٹی سی عمر میں اپنے خاندان پر قیامت گزرتی دیکھی ہے۔۔میرے وجود کی یہ تلخی بےمعنی نہیں ہے۔۔"اس نے اپنی ذات کا ہر پہلو آج شہزین احمد کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔
"تمھاری پھپھو نے جو کیا وہ غلط تھا۔۔وہ اگر داداجان کو اعتماد میں لے لیتیں تو شائد حالات مختلف ہوتے۔۔تم جانتے ہو یہ کہاں ہیں اب؟داداجان کو اکثر میں نے ان کی تصویریں خود سے لگا کر روتے دیکھا ہے مگر کبھی ان سے سوال پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔۔"اسے تصویر میں مسکراتی وہ پری چہرہ ہوبہو اپنا عکس لگی تھی مگر اس کے نزدیک یہ محض اتفاق ہی تھا۔
"ان کی ڈیتھ ہوچکی ہے۔۔"وہ آہستگی سے بولا۔
"ان کی کوئی اولاد تو ہوگی۔۔اگر داداجان اپنے نواسہ نواسی سے مل لیں گے تو شائد ان کا درد کم ہوجائے۔۔"
"کوئی نہیں ہے۔۔"اس نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
"بہت اذیت ناک ہوتا ہے کسی اپنے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دینے کا احساس۔۔۔کاش انسان وقت رہتے اپنی نادانیوں سے سبق حاصل کرلے۔۔"اس نےفوٹو فریم واپس شاہنواز کو پکڑاتے ہوئے اس خاندان کا دکھ دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا تھا کیونکہ وہ خود ایک مدت سے اس کرب سے گزر رہی تھی۔
"کیا تم سب بھلا کر مجھے اچھا دوست بننے کا ایک موقع دے سکتی ہو؟"اس نے پھر سے وہی مطالبہ کیا جو بار بار جھٹلا دیا جاتا تھا۔
"فرینڈز۔۔۔"شہزین نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی جانب ہاتھ بڑھا کر پیشکس قبول کی تھی۔
"ٹِل لاسٹ بریتھ۔۔"شاہنواز ہاتھ ملاتے ہوئے نم آنکھوں سے مسکرایا تھا۔
"شان تم ایسا نہیں کرسکتے میرے ساتھ۔۔"طلاق نامہ دیکھتے ہی ملائکہ کی ہوائیاں اڑی تھیں۔
"یہ حق مہر کی رقم ہے اور یہ بقیہ چیزیں۔۔"اس کے سامنے کاغذات کے ہمراہ کاغذ میں بند رقم اور کچھ زمینوں کے کاغذات رکھتے ہوئے وہ سب ٹھانے بیٹھا تھا۔
"میں مر جاوں گی تمھارے بغیر۔۔"اس نے دوبارہ جذباتی وار کئے تو وہاں موجود والدین اور ساس سسر کو اس کی بےبسی پر ترس آیا تھا۔
"تو مرجاو۔۔میں بھی شازی کے بغیر پل پل مر رہا ہوں۔۔"وہ طیش سے بےقابو چلایا تھا۔
"تم اس کے لئے مجھے چھوڑ رہے ہو جو تمھیں بھلا کر اس شاہنواز کے ساتھ خوشی خوشی زندگی گزار رہی ہے۔۔"ملائکہ بھی باتوں کے سامنے ہار ماننے والی نہ تھی۔
"وہ بھی اس انسان کے ساتھ ایک ان چاہی زندگی گزار رہی ہے ویسے ہی جیسی زندگی میں تمھارے ساتھ گزار رہا تھا۔۔" اپنا آخری فیصلہ سناتا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سسرال کی دہلیز پار کر گیا تھا۔اب دوبارہ واپسی کا کوئی جواز اس کے پاس موجود نہ تھا۔
"شان پلیز۔۔۔"ملائکہ پر غشی طاری ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے فرش پر جا گری تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"سب ٹھیک ہے ڈاکٹر؟"اسے فورا ہسپتال لایا گیا تو عالیہ بیگم نے لعن طعن کے لئے شان کو کال ملائی تھی۔ملائکہ کی حالت کا سنتے ہی اس کے دل میں وقتی نرمی پیدا ہوئی جو اسے ہسپتال تک لے آئی تھی۔
"گڈ نیوز ہے مسٹر گیلانی۔۔آپ کی وائف ایکسپیکٹ کر رہی ہیں۔۔"ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے خوشی کی خبر سنائی جس پر شان کو سانپ سونگھ گیا تھا۔البتہ سب بزرگان اسے اللہ کی کرم نوازی سمجھ کر رب کے حضور شکرگزار ہوئے تھے۔
"مبارک ہو بیٹے۔۔"ڈاکٹر کے جاتے ہی ماں نے اسے گلے لگا کر مبارکباد دی۔
"اللہ نے بہت بہت کرم کیا ہے میری بچی پر۔۔"عالیہ بیگم کی آنکھوں میں تشکر کے موتی سمٹ آئے تھے۔
"ایکسکیوزمی۔۔"خود کو ذہنی طور پر آنے والے حالات کے لئے تیار کرنا اس وقت بےحد ضروری تھا تب ہی وہ اس گھٹن ذدہ ماحول سے فرار اختیار کرگیا۔
"کیا بکواس ہے؟"پارکنک میں جاتے ساتھ اس نے گاڑی کو لات مار کر اپنی قمست کو کونسا تھا۔وہ دوبارہ ہسپتال کے اندر نہ گیا تھا بلکہ گاڑی میں سوار ہوتا گیلانی پیلس کا رخ کر گیا۔
"ملائکہ کی میری زندگی میں کوئی گنجائش نہیں ہے مام۔۔" رات گئے ماں گھر پہنچی تو اس نے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
"اتنی بڑی خبر کے بعد بھی تم اپنی بےتکی ضد پر قائم ہو۔۔" انھیں اولاد کی خودسری پر افسوس ہوا تھا۔
"وہ دھوکے سے شامل ہوئی ہے میری زندگی میں۔۔"اس کے لئے سب فراموش کرنا ناممکن تھا۔
"یہ باتیں اب بےمعنی ہیں۔۔وہ اس خاندان کو وارث دینے جا رہی ہے اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔۔"گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے والد صاحب نے اسے جھڑکا تھا۔
"پھر آپ لوگ طے کرلیں کہ آپ کو وارث چاہئے یا اپنا بیٹا۔۔" سیڑھیاں عبور کرتا وہ کمرے کو ہولیا تھا۔
"شان۔۔"ماں کی پکار بھی اس کی رفتار میں کمی نہ لائی۔
"اس لڑکی کا بھوت کب اترے گا اس کے سر سے؟"اب وہ بیوی پر خفا ہوئے تھے۔
"اللہ ہی جانے۔۔"وہ خود بےبسی سے سر جھٹک گئیں۔
"سمجھاو اسے۔۔اس کو کھیل تماشوں کا شوق ہے مگر میں اپنی عزت کو یوں خاک میں ملتا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔"انھیں اب بیٹے کی ہٹ دھرمی کے باعث خاندانی وقار مٹی میں ملتا دکھائی دے رہا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شازی پلیز میری بات سن لو ایک بار؟"وہ یونی ورسٹی سے نکلی ہی تھی کہ شان آج پھر اس کا منتظر باہر موجود تھا۔
"تم نے سنی تھی؟"اس کے نزدیک شان گیلانی کی موجودگی بھی اذیت ناک تھی۔
"اسی بات کی تو سزا بھگت رہا ہوں ایک مدت سے۔۔"اس کے پیچھے چلتا چلتا وہ وہی رٹی رٹائی باتیں دہرا رہا تھا۔
"میرے لئے تم اور تمھارا یہ پچھتاوا دونوں غیراہم اور بےمعنی ہیں۔۔"شہزین کے قدم ایک لمحے کو نہ رکے تھے۔
"کیا اتنا آسان ہے اپنی پہلی محبت کو بھلانا۔۔"وہ بہت حق سے سوال گوہ ہوا تھا۔
"جو محبت بدنامی کے سوا کچھ نہ دے اسے یاد رکھنا بھی آسان نہیں ہوتا۔۔"رک کر شہزین کے دیے جانے والے جواب نے گویا اس کی دھڑکنوں کو بھی روک دیا تھا۔
"ایک بار مجھے اپنی محبت ثابت کرنے کا موقع تو دو پلیز۔۔۔" بہت ہمت بٹورتا وہ پھر سے گرگڑاتا اس کےسامنے آکھڑا ہوا تھا۔۔
"جب موقع تھا تب تم پیٹھ دکھا گئے شان گیلانی صاحب۔۔میرا راستہ چھوڑو۔۔"اس کی ناپسندیدگی حسب توقع برقرار تھی۔
"تمھیں ایک بار کہی بات سمجھ نہیں آتی۔۔"شان کو اپنے عقب سے جانی پہچانی آواز سنائی دی تو وہ برا سا منہ بناتا مڑا تھا۔
"چلو شہزین۔۔آئندہ میری بیوی کے آس پاس بھی نظر آئے تو میں بھول جاوں گا کہ ہم کبھی اچھے دوست رہے ہیں۔۔"اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے سفید پینٹ کوٹ میں ملبوس شاہنواز نے اپنی بیوی کا ہاتھ تھاما اور اسے شان کی آنکھوں کے سامنے سے لے کر چلا گیا۔
"تم ٹھیک ہو نا؟"گاڑی چلاتے ہوئے اس نے شہزین کا چہرہ دیکھا جو پریشان کن تاثرات سے لدا ہوا تھا۔
"ہمم۔۔"اس نے دونوں آنکھیں ذور سے رگڑی تھیں۔
"تو لگ کیوں نہیں رہی؟"شاہنواز کا مزاج گاڑی میں آتے ساتھ ہی خوشگوار ہوا تھا۔
"ہم گھر نہیں جا رہے؟"شہزین نے اسے گاڑی گھر کی بجائے کسی اور طرف موڑتے دیکھ کر دریافت کیا۔
"بھول گئی ہو؟سمیرا کی شادی میں جانا یے۔۔کتنی شاپنگ رہتی ہے ابھی۔۔"پچھلے کچھ مہینوں میں اس انسان نے جس طرح شہزین کی ذات سے جڑی چھوٹی سے چھوٹی بات حفظ کر رکھی تھی وہ اکثر اسے بھی چونکنے پر مجبور کر دیا کرتی تھی اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
وہ کراچی ائرپورٹ پر پہنچی تو عاشر پہلے سے وہاں اس کا منتظر تھا۔اسے لئے وہ فائیو جی کی رفتار سے گھر روانہ ہوا تھا کیونکہ سمیرا کو جس طرح باندھ کر ماں نے گھر روک رکھا تھا صرف وہی جانتا تھا۔ائرپورٹ نہ لے کر آنے پر وہ مجازی خدا سے الگ خفا تھی۔
''شکر ہے تم آگئی۔۔"گھر کی دہلیز پر سمیرا اس کو دیکھتے ہی دوڑ کر گلے لگی تھی۔
"کیسے نہ آتی۔۔تم دو نمونوں کے علاوہ اور کون دوست ہے میرا۔۔" شہزین بھی اس کے خلوص اور اپنائیت پر نہال ہوئی تھی۔
"آج کل تو شاہنواز سے بھی بہت دوستانہ مراسم چل رہے ہیں تمھارے۔۔"سمیرا سے روز کال پر ہونے والی گھنٹوں کی گفتگو میں کئیں بار شاہنواز کا ذکر اکثر اسے زچ کرنے کے کام آتا تھا۔
"بکواس نہیں کرو۔۔"اس نے کھینچ کر ایک تھپڑ دلہن کے شانے پر مارا تھا۔
"ایک منٹ۔۔تم اس کے ذکر پر ہی کیسے شرما رہی ہو؟"سمیرا نے اس کا سرخ اناری پڑتا چہرہ بغور دیکھا تھا۔
"شرمانے کے دن نہ تمھارے چل رہے ہیں میڈم۔۔"اس نے سمیرا کو شرم دلوانے کی سرسری سی کوشش کی تھی۔
"میں بہت خوش ہوں تمھارے لئے شازی۔۔تم بہت دنوں بعد مجھے پہلی والی شازی لگ رہی ہو۔۔"اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک دیکھ کر سمیرا کا دل بھی باغ باغ ہوا تھا۔
"آنٹی سے ملواوگی یا تمھاری بک بک سن کر ہی کان پکانے پڑیں گے۔۔"اس کے ہمراہ چل کر اندر آتی وہ اس تفتیشی کاروائی سے اکتائی تھی۔
"آو نا۔۔"اسے لئے وہ سیدھا ماں کے کمرے کا رخ کر گئی تھی۔
گھر کے لاونج میں مایوں کی رسم پوری آب و تاب سے جاری تھی۔لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر سمیرا کے گرد گھیرا بنائے لڈیاں ڈال رہی تھیں۔خود سمیرا ناچ ناچ کر پاگل ہوئی جارہی تھی۔شہزین کا ہاتھ تھامے اس نے زبردستی اسے بھی اپنے ساتھ شامل کیا جو اب ان سب سرگرمیوں میں ایک فیصد دلچسبی نہ رکھتی تھی۔
" کہاں گھنسے چلے آرہے ہو؟تم اب سمیرا کو مہندی والے دن ہی دیکھ سکوگے۔۔"عاشر سفید قمیض شلوار میں سائیڈ پف بنائے دھرام سے لاونج میں داخل ہوا تو شہزین نے اس کا راستہ روکا تھا۔
"میں تو انتظار کرلوں گا۔۔تمھارا شوہر بےصبر ہوا بیٹھا ہے۔۔یہ لو۔۔واپس کر دینا مجھے آج کل اسی کا آسرا ہے۔۔"اسے اپنا موبائل تھماتے ہوئے عاشر نے ایک نظر اپنی ہونے والی دلہن پر ڈالی اور آدھے ادھورے ارمان لئے واپس باہر کو نکل گیا تھا۔
"کہاں تھی تم؟میں کب سے کال کر رہا تھا شہزین۔۔"اس نے جیسے ہی ایک طرف جاکر فون کان سے لگایا تو شاہنواز کا شکوہ سماعتوں سے ٹکرایا تھا۔
"وہ فون وائبریشن پر تھا پتہ نہیں چلا۔۔سب ٹھیک ہے۔۔"اسے لگا کہ شاید کسی ضروری بات کے لئے اسے یاد فرمایا گیا ہے۔
"ہاں بس ایسے ہی تمھاری خیریت پوچھنے کے لئے کال کی تھی۔۔"اس نے عام سے لہجے میں کہا۔
"یہ خیریت تم صبح سے دس بار پوچھ چکے ہو۔۔"شہزین کو اس کا بےوجہ کال کرنا اب پریشان کر رہا تھا۔
"واقعی؟داداجان وغیرہ باربار فکر مند ہورہے تھے تمھارے لئے۔۔" اس نے سامنے بیٹھی کو دیکھتے ہوئے کہا جو اس کے جھوٹ پر معنی خیزی سے مسکرائی تھیں۔
"شازی آجاو بچے۔۔"اسی دوران سمیرا کی والدہ نے اسے پکارا تھا۔
"جی۔۔اللہ حافظ۔۔"انھیں احترام سے جواب دیتی وہ شاہنواز کو خیرآباد کہہ گئی تھی۔
"اپنا خیال رکھنا۔۔اللہ حافظ۔۔"
"تم اسے چین سے شادی انجوائے کرنے دوگے۔۔"کال بند ہوتے ساتھ ہی سیدہ بیگم نے اسے چھیڑا تھا۔
"مام مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ کی بہو مجھے اتنی یاد آئے گی۔۔"اس نے بھی بلاتکلف جواب دیا تھا۔
"بےشرم۔۔۔"
"حد ہے۔۔بیوی ہے میری۔۔یاد نہیں کرسکتا اسے!"اس نے منہ کے زاویے بگاڑے تھے۔
"اتنی یاد آرہی ہے تو تم بھی چلے جاو نا کراچی۔۔"ہال میں آتے داداجان نے اسے نیک مشہورے سے نوازا تھا۔
"یہاں اتنے کام ہیں داداجان۔۔"پچھلے ہفتے ہی شازمان بیوی کو لے کر لندن روانہ ہو گیا تھا جس کے باعث کاروبار کے سارے معاملات اس کا سر درد بن چکے تھے۔یہی وجہ تھی کہ وہ شہزین کو اکیلے کراچی بھیجنے پر بھی ناچاہتے ہوئے امادہ ہوگیا تھا۔
"کام ملازمین دیکھ لیں گے تم کل ہی کراچی چلے جاو۔۔۔ شہزین تمھاری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔۔"داداجان نے تحکم انداز میں کہا۔
"آپ کا حکم سرآنکھوں پر داداجان۔۔"وہ جیسے اسی حکم کا منتظر تھا۔
"کہاں جا رہے ہو؟"اسے عجلت میں صوفے سے اٹھتا دیکھ کر ماں نے سوال کیا تھا۔
"پیکنگ کرنے۔۔"وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتا سیڑھیاں عبور کرنے لگا۔
"نالائق۔۔"اس کی تیزی پر داداجان بھی مسکرائے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"دلہا بھائی آرہے ہیں جو تم اتنی قیامت ڈھارہی ہو؟"اس کے سجے سنورے روپ پر سمیرا نے ٹوک لگائی تھی۔
"چھچھوڑی تو تم پیدائشی تھی سمیرا قدیر اب اس نکمے کے ساتھ رہ رہ کر حد درجے کی بےشرم بھی ہوگئی ہو۔۔"اس کے ماتھے پر سجا پھولوں کا زیور درست کرتی شہزین نے اسے جواب دیا۔
"الحمدللہ۔۔۔جس حال میں بھی ہوں بہت خوش ہوں۔۔"دلہن ہونے کے باوجود اس کی زبان ایک لمحے کو بند نہ ہو رہی تھی۔
"چلو اب۔۔"سہلیاں سرخ دوپٹہ لئے کمرے میں پہنچی جس کے زیرِ سایہ سمیرا نے لان تک جانا تھا جہاں عاشر سٹیج پر پہلے سے موجود تھا۔
شاہنواز اسے بغیر بتائے کراچی پہنچا تھا۔اس کی آمد کا علم صرف عاشر کو تھا جس نے پہلے سے اس کے لئے گاڑی بمع ڈرائیور بھجوا دی تھی۔
"ہوگئی پیکنگ؟"گاڑی میں بیٹھتے ساتھ اس نے سفری بستے سے مخملی ڈبی نکالی تو ماں سے ہوئی گزشتہ ملاقات یاداشت میں تازہ ہوئی تھی۔
"جی مام۔۔آپ اور داداجان بھی چلتے تو شہزین کو اچھا لگتا۔۔"وہ تیاری مکمل کرچکا تھا۔
"اسے تمھارا جانا بھی برا نہیں لگے گا۔۔یہ رکھو۔۔"انھوں نے مخملی ڈبیا اسے تھمائی تھی۔
"یہ کیا ہے؟"اس نے دبی کھولی تو اس میں سونے کا لاکٹ دمک رہا تھا۔
"نالائق انسان تم نے رونمائی میں تو اسے کچھ دیا نہیں ہوگا۔۔ اب اگر اللہ اللہ کرکے تم دونوں کے اختلافات کم ہو رہے ہیں تو اپنی عقل بھی استعمال کرو۔۔"انھیں بیٹے کی نالائقی پر ڈھیروں خدشات تھے۔
"اوکے مام۔۔"ڈبی ایک ہاتھ میں تھامے وہ ماں کے گلے لگا تھا۔
"مام۔۔آپ اس دنیا کی سب سے انوکھی ساس ہیں۔۔"ان سے الگ ہوتا وہ کھکھلایا بھی تھا۔
"کیونکہ میری بہو اپنے نام کی ایک ہی ہے۔۔"انھوں نے ممتا سے بھرپور لہجے میں جواب دیا تھا۔
گیلانی صاحب نے شان پر دباو ڈال کر اسے ملائکہ کو واپس لانے کے لئے قائل کرلیا تھا۔ناچاہتے ہوئے بھی وہ اسے صرف ہونے والی اولاد کے لئے گھر لے آیا تھا۔جو بھی تھا وہ اس کی نسل بڑھانے جارہی تھی اور مرد کے لئے پہلی اولاد سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے!اسے فی الوقت اپنی اولاد کے لئے سمجھوتہ کرنا تھا۔
"شان تم نے سب بھلا دیا ہے نا؟"ملائکہ اب بھی بےیقینی کا شکار تھی۔
"کوشش کر رہا ہوں۔۔"اس کے سامنے بیڈ کے ایک کونے پر ٹکتا وہ بوجھل انداز میں بولا تھا۔
"ہم یہاں سے دور چلے جاتے ہیں شان۔۔"ملائکہ نے انوکھی فرمائش کی جس پر شان نے بھنویں اٹھا کر اس کا چہرہ توجہ سے دیکھا تھا۔
"ٹھیک ہے پھر بتاو مجھے کہ دنیا کا ایسا کون سا کونہ ہے جہاں شازی مجھے یاد نہیں آئے گی۔۔"شہزین کا حوالہ ملائکہ کو کلسنے پر مجبور کرگیا تھا۔
"وہ بھلا چکی ہے تمھیں۔۔"ملائکہ کی آواز میں سختی امڈ آئی تھی۔
"پھر دعا کرو کہ میں بھی اسے بھول جاوں۔۔"بیڈ سے اتر کر وہ کمرے سے ہی نکل گیا تھا۔شہزین کو بھلانا اس کے بس کا روگ نہ تھا اور اس کی یاد تکلیف کے سوا کچھ نہ تھی۔
شہزین لان سے واپس کمرے میں اپنا موبائل لینے آئی تو کمرے کی چیزیں آگے پیچھے بکھری ہوئی تھیں۔سنگھار میز کی چیزیں دیکھ کر بھی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی نے پورے حق سے سب استعمال کیا ہے۔پورا گھر تقریباً خالی ہی تھا کیونکہ سب افراد باہر لان میں مہندی کی تقریب کے مزے لوٹ رہے تھے۔شہزین نے ایت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے دروازے کے پیچھے رکھا بلا اٹھایا تھا کیونکہ مشکوک انسان اس وقت ڈریسنگ روم سے باہر نکل رہا تھا۔
"تم۔۔تم کب آئے؟"دروازہ کھلتے ساتھ اس نے جیسے ہی حملہ کیا تو شاہنواز نے پُھرتی سے بلا اپنے دائیں ہاتھ سے تھام لیا تھا۔
"جب تم ناچ گانے میں مصروف تھی۔۔ویسے میں اتنا بھی برا نہیں لگ رہا کہ تم تشدد ہی شروع کر دو۔۔"بلا کھینچ کر شاہنواز نے دیوار سے ٹیک لگا کر قالین پر ہی رکھا تھا۔
"سوری وہ۔۔"وہ اپنی حرکت پر نظریں چرا گئی تھی۔
"مہندی ختم ہوچکی ہے؟"شاہنواز نے مڑتے ہوئے عائینے کے سامنے اپنی سفید کاٹن کی قمیض کے کالر درست کئے تھے۔
"نہیں۔۔"اس نے اپنا موبائل بیڈ سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
"پھر میں وقت پر پہنچ گیا ہوں۔۔"خود پر پرفیوم چھڑکتے ہوئے اس نے بالوں کا سائیڈ پف درست کیا تھا۔
"تم نے بتایا نہیں کہ تم آ رہے ہو۔۔"اسے یوں بن بتائے آنے پر تعجب ہوا تھا۔
"پہلے سوچا بتا دوں پھر سوچا کہ میرے آنے یا نہ آنے سے تمھیں فرق تو پڑے گا نہیں۔۔"اس کی طرف رخ کرتے ہوئے شاہنواز نے اپنی منطق سمجھائی۔
"ٹھیک سوچا۔۔"ایک نظر اس نےشاہنواز کو دیکھا جو سفید قمیض شلوار میں بلا کا پرکشش لگا تھا پھر اگلے ہی پل وہ نظریں پھیر گئی تھی۔
"اب چلیں؟"شاہنواز گرمجوشی سے بولا تھا۔
"ایک منٹ۔۔"شہزین نے سنگھار میز کی کرسی پر رکھا مختلف رنگ کا ایک دوپٹہ اس کے گلے میں ڈالا تھا۔
"یہ کیا ہے؟"شاہنواز نے دوپٹہ ایک طرف سے موڑ کر دوسرے کندھے پر ڈالا تھا۔
"کمپلسری ہے۔۔"اس نے مسکرا کر عاشر کے ڈریس کوڈ کا منصوبہ شوہر کی نذر کیا۔تقریب میں پہنچ کر اس نے عاشر اور سمیرا کو مبارکباد پیش کی اور پھر شہزین کے ساتھ مل کر رسم بھی ادا کی تھی جس کا اسے زرا اندازہ نہ تھا مگر شہزین کی نقل اتارتے ہوئے اس نے بھی رسم مکمل کی تھی۔
"مجھے ناچنا نہیں آتا۔۔"تمام رسومات مکمل ہونے کے بعد ناچ گانے کا شور برپا ہوا تو عاشر اور سمیرا ان دونوں کو بھی گھسیٹتے ہوئے ڈانس فلور کے بیچ و بیچ لے آئے جس پر شاہنواز نے پاس تالیاں بجاتی شہزین کے کان میں سرگوشی کی تھی۔
"لڈی ڈال لو۔۔"اس نے مشہورہ دیا۔
"وہ کیا ہوتی ہے؟"اس کی معصوموں جیسی شکل بننے پر وہ بے اختیار مسکرائی تھی۔
"میں صرف تالیاں بجا لیتا ہوں۔۔اتنا تو آتا ہی ہے مجھے۔۔"اس کی نقل اتارتا وہ اہستگی سے کندھے ہلاتے ہوئے تالیاں بجا کر اپنی شمولیت کو یقینی بنا رہا تھا۔تقریب رات گئے اختتام کو پہنچی تو بیچارے عاشر کو دوبارہ آوٹ ہاوس تک محدود کردیا گیا تھا۔شادی کے بعد ان دونوں میاں بیوی کی رہائش کا انتظام گھر کی دوسری منزل پر کیا گیا تھا جہاں کا کونہ کونہ عاشر نے سمیرا کی پسند کے مطابق سجایا تھا۔رشتوں کے نام پر اس کے پاس صرف سمیرا اور اس کے خاندان کا ہی ساتھ لکھا تھا۔اپنے سوتیلے بہن بھائی بمشکل شادی پر مہمانوں کی طرح آنے پر راضی ہوئے تھے۔
"ایک تصویر بنالو گی میرے ساتھ۔۔وہ مام کو بھیجنی ہے۔۔تم جانتی ہو نا وہ پھر مجھے بہت سنا جاتی ہیں۔۔"وہ سب کام نمٹاتی تھوڑی تھکی تھکی لگی تھی جب شاہنواز نے محتاط انداز میں اجازت مانگی تھی۔
"ایک تصویر کے لئے تم اتنی وضاحتیں کیوں دے رہے ہو؟" اسے شاہنواز کا اجازت مانگنا بہت بھایا بھی تھا۔
"پتہ نہیں۔۔"اس نے نظریں چراتے ہوئے قمیض کی جیب سے آئی فون نکالا تھا۔
"تمھارے ہاتھ کیوں کانپ رہے ہیں شاہ نواز۔۔"تصویر بناتے وقت غیر ارادی طور پر وہ شاہنواز کے قریب ہوئی تو اس کے سر کی پشت شاہنواز کے سینے سے لگی تھی جس پر اچانک ہی اس کا دایاں ہاتھ کانپا تو شہزین نے ہاتھ بڑھا کر موبائل کو سہارا دیا تھا۔
"پتہ نہیں۔۔"موبائل پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے اس نے بےہنگم دھڑکنوں کو مستحکم کرنے کے لئے پرسکون انداز میں سانس لی تھی۔
"لاو بخار تو نہیں ہے تمھیں؟"تصویر مکمل ہوتے ساتھ شہزین نے فکرمند انداز میں اس کے ماتھے کو ہاتھ کی پشت سے چھو کر دیکھا تو اسے بخار کا شبہ ہوا تھا۔
"نہیں۔۔وہ شائد سفر کی تھکان ہے۔۔"تھکان اور گزشتہ شب بیوی کی عدم موجودگی کے باعث نیند کا نہ آنا اس کی طبیعت ناساز کرنے کو تھا۔
"تم جا کر ریسٹ کرلو۔۔میں تمھارے لئے چائے بھجواتی ہوں۔۔" وہ دونوں اس وقت لاونج میں اکیلے ہی تھے۔باقی گھر کے افراد تھک ہار کر اپنے اپنے کمروں کا رخ کر گئے تھے۔اس کے حصے میں آئے چھوٹے موٹے کام نمٹا کر وہ بھی کمرے میں ہی جانے والی تھی۔
"شہزین۔۔"وہ چائے بنانے کے لئے لہنگا سمیٹتی کچن کا رخ کررہی تھی جب شاہنواز کی آواز نے اس کے قدم روکے تھے۔
"ہمم۔۔"
"تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔"وہ جب سے یہاں آیا تھا یہ بات کہنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا مگر اب بے اختیار جملہ زبان سے ادا ہوا تھا۔
"اسے ہو کیا گیا ہے؟عجیب حرکتیں کر رہا ہے!"اس کی آنکھوں میں چمکتے پسندیدگی کے جذبات پر سر جھٹکتی وہ کچن میں جا گھنسی تھی۔
"میں اس کے سامنے نروس کیوں ہو رہا ہوں اور دل۔۔دل کیوں اتنی بری طرح دھڑک رہا ہے میرا؟"کمرے میں آکر شاہنواز نے عائینے میں اپنی حالت کا جائزہ لیا تو چہرے کے رنگ اڑتے محسوس ہوئے تھے۔پچھلے کچھ روز سے جب بھی شہزین اس کے قریب ہوتی تو اس کا دل دگنی رفتار سے دھڑکنے لگتا تھا اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
"چائے۔۔کیا ہوا ہے؟"وہ کمرے میں چائے کا کپ ٹرے میں سجائے داخل ہوئی تو شاہنواز کو دل پر ہاتھ رکھا دیکھ کر ڈری تھی۔
"پتہ نہیں۔۔"اس نے دل سے ہاتھ ہٹا کر چائے کا کپ پکڑا تھا۔
"تم میرے سوجانے تک یہیں رک سکتی ہو۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔"بیڈ پر بیٹھتے ساتھ اس نے گرم چائے آنے والے چند لمحوں میں حلق سے اتاری اور کمبل اوڑھ کر لیٹ گیا تھا۔
"ڈر۔۔۔کس سے؟"اس کے سرہانے بیٹھتی وہ اس کی موجودہ کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی۔
"خود سے۔۔پلیز کہیں مت جانا۔۔"اس کی طرف چہرہ کئے وہ آنکھیں بھینچ گیا تو شہزین کو مزید کچھ پوچھنے کا موقع ہی نہ ملا۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو شہزین آس پاس موجود نہ تھی۔اس نے آنکھیں ملتے ہوئے نظریں گردونواح گھمائیں تو وہ سرخ امبریلا فراق میں گیلے بال پشت پر پھیلائے ڈریسنگ روم سے نکلی تھی کپڑوں کا ہم رنگ دوپٹہ دونوں شانوں پر پھیلا تھا۔وہ عجلت میں چلتی سنگھار میز کے سامنے آکھڑی ہوئی تو نظر شاہنواز پر گئی جو ابھی تک سکتے کی سی کیفیت میں بیٹھا تھا۔
"بخار اتر گیا تمھارا۔۔"اس نے اس کو جاگتے دیکھ کر سوال کیا۔
"بخار کب ہوا مجھے؟"وہ بیڈ سے اترا تھا۔
"رات میں۔۔مجھے لگتا ہے بخار تمھارے سر چڑھ گیا تھا۔۔نیند میں تم گفٹ گفٹ کئے جارہے تھے۔۔"
"ہاں وہ یہ گفٹ۔۔"تحفے کا سنتے ہی اس نے اپنے سر پر تھپڑ مارا اور اپنے سفری بستے کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
"مام نے بھیجا تھا تمھارے لئے۔۔"ہاتھ میں لاکٹ ہاتھ میں لٹکائے اپنے قدم شہزین کی طرف بڑھائے تھے۔
"آنٹی نے؟"لاکٹ دیکھتے ہی اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی تھیں۔
"ہاں انھوں نے کہا تھا کہ جاتے ساتھ تمھیں پہنادوں۔۔پہنادوں تمھیں۔۔"اپنی بات کہتے وہ پل بھر کو رکا پھر اجازت طلب کی۔
"میں پہن لوں گی۔۔"اس نے لاکٹ پکڑنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا۔
"تم بھول جاو گی اور مجھے ڈانٹ پڑجائے گی۔۔میں پہننا دیتا ہوں۔۔"اسے گھومنے کا اشارہ کرتا وہ حکم صادر کرگیا تھا۔
"بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔"اسے لاکٹ پہنانے کے لئے شاہنواز نے بال احتیاط سے ایک کندھے پر ڈالتے ہوئے کام مکمل کرتے ساتھ اس کے بائیں کندھے کے قریب سر جھکاتے ہوئے کانوں میں شیریں انداز میں سرگوشی کی تھی۔
"تم ریڈی ہوجاو۔۔نیچے عاشر تمھارا انتظار کر رہا ہے۔۔"اسے اپنے بےحد قریب محسوس کرتے ہوئے وہ خود ہی دو قدم دور ہٹی تھی۔
"ہاں۔۔"اسے خود بھی بیوی کا کترانا محسوس ہوا تو اپنی غلطی کا بھی احساس ہوا تھا۔
وہ نیچے بھی آئی تو دماغ شاہنواز کے بدلے رنگ ڈھنگ میں الجھا تھا۔وہ جب سے یہاں آیا تھا ہر بار کوئی انوکھی حرکت کرتے ہوئے اسے چونکا دیا کرتا۔ابھی کچھ دیر قبل کی حرکت بھی انھیں اقدامات میں سے ایک تھی۔پورا دن وہ سمیرا کے ساتھ ہی مصروف رہی تھی۔شاہنواز سے اس کا پورا دن آمنا سامنا نہ ہوا تھا۔
"کیا ہوا ہے۔۔"پارلر سے لے کر ہال میں آنے تک سمیرا نے اس کی خاموشی اور بدحواسی بھانپی تھی۔
"کچھ نہیں۔۔شاہ نواز بہت عجیب حرکتیں کر رہا ہے۔۔"وہ سمیرا سے بےچینی کا سبب نہ چھپا پائی۔
"کیوں؟"سرخ لہنگے میں دلہن بنی بھی وہ پٹر پٹر بولے جا رہی تھی۔
"مجھ سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈھتا ہے۔۔اپنے پاس سے ہلنے نہیں دیتا۔۔"شہزین نے کئیں حرکات گنوائی تھیں۔
"اس حساب سے تو دنیا کا ہر شوہر عجیب ہوا پھر۔۔وہ صرف شوہر کی طرح پیش آرہا ہے تم سے شازی۔۔اب بھی چھپ چھپ کر تمھیں ہی دیکھ رہا ہے۔۔"اسے شہزین کے تحفظات پر ہنسی بھی آئی تھی تبھی نظر سٹیج سے کچھ فاصلے پر کھڑے شاہنواز پر گئی جو ابھی بھی چور نظریں اس پر ٹکائے اسے بہانے بہانے سے دیکھ رہا تھا۔
"بچ کر رہنا کہیں تمھیں نظر ہی نہ لگا دے۔۔"شہزین نے پلٹ کر دیکھا تو بغلیں جھانکنے لگا تھا۔
"ایک لاکھ۔۔اتنے پیسوں میں دس سمیرا اکٹھی کرسکتا ہوں۔۔" کمرے کے باہر راستہ روک کر کھڑی سمیرا کی سہلیوں نے جتنی نیگ مانگی وہ سیاہ شیروانی میں موجود عاشر کا سر گھمانے کے لئے کافی تھی۔
"تو پھر ان دس سمیراوں کے ساتھ باہر لان کی سیر کرو کیونکہ کمرے میں تو ہم تمھیں نہیں جانے دیں گے۔۔"سب کی امابی بنی شہزین نے اسے دھمکی سے نوازا تھا۔
"یار بھائی مدد کر میری۔۔"عاشر نے وہاں آتے شاہنواز سے مدد مانگی تھی۔
"کیا مسلہ ہے؟کیوں پریشان کر رہے ہو اسے؟"اس نے رعب جھاڑنے کی بےسود کوشش کی تھی۔
"تمھیں کوئی اعتراض ہے؟"شہزین نے اسے بھی چپ کروایا تھا۔
"سامنے تم ہو تو میں کوئی اعتراض کیسے کر سکتا ہوں؟ کتنے پیسے چاہئے۔۔"وہ یکدم بھیگی بلی بنا تو سب لڑکیوں نے خوب ہلڑبازی کی تھی۔
"کتنے پیسے ہیں آپ کے پاس؟"ایک لڑکی نے اس کے بٹوے میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
"سارے دے دو۔۔"اس بار شہزین نے آزمانے کے لئے یونہی کہا تھا۔
"رکھ لو۔۔گھر کی ہی بات ہے۔۔۔"اس نے بلااعتراض بٹوا اس کی پھیلی ہتھیلی پر رکھا تھا۔
"ارے واہ۔۔"سب لڑکیوں نے شہزین کے مقدر پر رشک کیا تھا۔
"اب میں جاوں؟"عاشر کو اپنی پڑی تھی۔
"شوق سے۔۔"وہ سب سامنے سے ہٹی تھیں۔
"شکریہ بھائی۔۔"شاہنواز کے گلے لگ کر شکریہ ادا کرتا وہ دوڑنے والے انداز میں کمرے کا دروازہ کھولتا اندر جا گھنسا تھا ورنہ کیا پتہ سب لڑکیاں کوئی نیا مطالبہ کر بیٹھتیں۔
"ارے واہ دلہا بھائی نے تو بہت یادیں سنبھال کر رکھی ہیں۔" والٹ کا معائنہ کرتی ایک سہیلی نے وہاں موجود شہزین کی تصویر دیکھ کر اسے چھیڑا تھا۔
"دکھاو۔۔یہ پکڑو۔۔حق ہلال کی کمائی ہے میرے شوہر کی۔۔" اس سے والٹ چھینتے ہوئے شہزین نے خالص بیویوں کی طرح چند ہزار کے نوٹ تھماتے ہوئے والٹ اپنی تحویل میں لیا تھا۔
"بہت ہی کنجوس بیوی ہو تم لڑکی۔۔"اسے بٹوا لے کر کمرے سے نکلتا دیکھ کر لڑکیوں کے گروہ نے اسے خفا نظروں سے دیکھا تھا۔
وہ کمرے میں واپس آئی تو شاہنواز اپنے بادامی رنگ کے پرنس کوٹ کے بٹن کھولنے میں مصروف تھا۔اس نے آج کا پرنس کوٹ زوجہ حضور کے لہنگے کے بادامی رنگ کو ذہن میں رکھتے ہوئے پہنا تھا۔
"اتنا سخی بننے کی ضرورت نہیں تھی ویسے۔۔"اس کے سامنے سنگھار میز پر والٹ رکھتی وہ ناک سکیڑے بولی تھی۔
"میں تو تمھارا مان رکھ رہا تھا مسز۔۔"اس نے پرنس کوٹ اتار کر ہینگر میں ٹانگنے کی کوشش کی تو شہزین نے ہینگر پکڑ کر یہ کام خود سرانجام دیا تھا۔
"میرا مان رکھتے رکھتے سڑک پر آجانا ایک دن۔۔"الماری میں ہینگر ٹانگتی وہ بربڑائی تھی۔
"سڑک پر آنا بھی قبول ہے مگر شرط یہ ہے کہ تم قدم سے قدم ملا کر چلو گی۔۔"اسکے قدموں کی پیروری کرتا وہ پیچھے پیچھے چل کر آیا تھا۔
"تم اتنے باتونی تو نہیں تھے۔۔"اس نے پلٹ کر شاہنواز کی جذبات سے سرشار آنکھوں میں جھانکا تھا۔
"تم بھی اتنی کم گوہ نہیں تھی۔۔تم بولتی ہو نہیں اب اگر میں بھی خاموش ہوگیا تو ہم ساری زندگی اجنبی بن کر ہی گزار دیں گے مسز شاہنواز ابراہیم۔میں خود سے جڑے رشتوں کو لے کر بہت جنونی اور خطرناک حد تک سنجیدہ ہوں لہذہ میں ہمارے تعلق کو خاموشیوں کی نذر ہونے نہیں دے سکتا۔" جہاں اس کی باتیں گہری تھیں وہیں لہجہ بہت ہی سرسری اور ہلکاپھلکا تھا۔
"کیا ہے ہمارا تعلق؟ریت کا محل جو ایک لہر کے سامنے بھی ٹکنے کی سکت نہیں رکھتا۔۔"وہ صاف گوئی کے حق میں تھی۔
"میں اگر تم سے کہوں کہ اپنی کوشش اور خلوص سے اس ریت کے محل کو وہ شیش محل بنانا چاہتا ہوں جس کا خواب ہر لڑکی دیکھتی ہے تو تمھارا جواب کیا ہوگا؟"اس نے غیرمتوقع اظہار کرتے ہوئے مقابل کے ہوش فنا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
"میں نے خواب دیکھنا چھوڑ دیے ہیں۔۔"وہ نظریں یہاں وہاں گھماتی اس کی دسترس سے کچھ قدم آگے بڑھی تھی۔
"تو پھر سے خواب دیکھنا شروع کر دو کیونکہ میں تمھارا خواب اپنا فرض سمجھ کر پورا کرنا چاہتا ہوں۔۔آئی ایم ہئیر ٹو فُل فِل یور ڈریمز میڈم۔۔۔"شاہنواز نے اس کا دایاں بازو اپنے بائیں ہاتھ میں بہت نرمی سے تھام کر حنائی ہتھیلی کو سینے سے لگایا تھا۔
"ہمیشہ غلط وقت پر بجتا ہے۔۔"اپنے کرتے کی جیب میں بجتے موبائل پر اسے بھیانک حد تک غصہ آیا مگر چہرے کی مسکراہٹ ایک فیصد کم نہ ہوئی تھی۔
"مجھے سوچ کر بتانا کہ تم اس بارے میں کیا سوچتی ہو۔۔" ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی اسے موبائل میں متوجہ دیکھ کر وہ کپڑے تبدیل کرنے کے لئے ڈریسنگ روم کا رخ کر گئی تو عقب سے شاہنواز نے نئی ہدایت جاری کی تھی۔
ولیمہ بارات سے اگلے دن ہی رکھا گیا تھا۔آج بھی اس کا پورا دن سمیرا کے ساتھ سیلون میں ہی گزرنا تھا۔ ان دونوں کے پہنے جانے والے لباس گاڑی میں رکھوا کر وہ واپس کمرے میں اپنا پرس لینے آئی تھی۔
"اسے اٹھاوں یا نہیں۔۔جاگ گیا تو پھر عجیب عجیب باتیں کرے گا۔۔سویا ہی رہے۔۔"اس کی نظر نیند میں ڈوبے ملک شاہنواز ابراہیم پر گئی جو نیند میں بھی مسکرا رہا تھا۔خود ہی فیصلہ کرتی وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔
"کتنی دیر ہے سمیرا؟"عاشر تو بھوک کا ستایا ناشتے کے میز پر پہنچ گیا تھا مگر سمیرا کا میک اپ ختم ہونے کو نہ آ رہا تھا۔
"کہاں تھی تم شازی۔۔ساری نیند تم نے میری شادی پر آکر ہی پوری کرنی تھی۔۔"اسے کمرے میں آتا دیکھ کر جھمکے پہنتی سمیرا نے شکووں کی لمبی فہرست سامنے رکھ دی تھی۔
"زبان سے زیادہ ہاتھ چلا لوگی آنٹی سے کم ڈانٹ سننے کو ملے گی۔۔"اس کی والدہ کا بگڑا مزاج دیکھ کر ہی وہ اسے لینے خود کمرے میں آئی تھی۔
"میری تو قسمت ہی خراب ہے۔۔شادی کے بعد بھی ساس جیسی ماں کے ساتھ ہی رہ کر روز ڈانٹ سننی پڑے گی۔۔تم بہت لکی ہو شازی۔۔۔شاہنواز بھائی اور ان کی فیملی کتنی سویٹ ہے۔۔تمھاری ساس کتنی نرم دل اور محبت کرنے والی خاتون ہیں۔۔"
"ان کے قصیدیں بعد میں پڑھ لینا۔۔اب چلو۔۔"اسے عائنے کے سامنے سے کھینچتی وہ بھی اکتائی تھی۔
"ارے واہ یہ کہاں سے آیا رات و رات۔۔"سمیرا نے اس کے لاکٹ کو نظر بھر کر دیکھا تھا۔
"شاہنواز نے دیا ہے۔۔"
"واہ بھائی شادی میری ہو رہی ہے رونمائی تمھیں مل رہی ہے۔۔ عاشر بھلکر انسان رونمائی لانا ہی بھول گیا۔۔"سمیرا نے نیا غم اس کے گوش گزار کیا تھا۔
"ناشکری مت بنا کرو۔۔اس گز بھر کی زبان کے ساتھ تمھارا گھر بسنے جا رہا ہے شکر کرو۔۔"اس کے بازو کو دبوچتی شہزین اسے لئے کمرے سے نکلی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم نے جگایا کیوں نہیں مجھے۔۔"وہ گاڑی کی طرف جا رہی تھی جہاں سمیرا پہلے سے اس کی منتظر بیٹھی تھی کہ لان میں چہل قدمی کرتے شاہنواز نے اس کا راستہ روک لیا۔
"تم خود جو جاگ گئے ہو۔۔"کل رات والی باتیں اس کے شعور میں تازہ ہوئی تھیں۔
"روز تم جگاتی ہو تو اچھا لگتا ہے۔۔ویسے بھی ساری رات کروٹیں بدلتے گزری ہے۔۔"اس نے جھوٹی خفگی جتائی تھی۔
"کیوں؟"
"یہ سوچ کر نیند ہی نہیں آئی کہ تم نے کیا سوچا ہوگا۔۔"اس کا دھیان وہیں جامد تھا۔
"کس بارے میں؟"
"ہمارے بارے میں۔۔ہماری آنے والی زندگی کے بارے میں۔۔"وہ حساسیت میں ڈوبے لہجے میں بولا تھا۔
"شاہ نواز مجھے کچھ وقت دو۔۔میرے لئے یہ سب آسان نہیں ہے۔۔"گاڑی کا ہارن بجا تو وہ سمجھ گئی کہ سمیرا اتاولی ہو رہی ہے۔
"مشکل کیا ہے؟میرا اعتبار کرنا یا مجھ سے پیار کرنا؟"
"مجھے اب لفظ پیار پر ہی اعتبار نہیں رہا۔۔جب کسی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھایا بدلے میں صرف نفرت اور دھتکارے جانا نصیب ہوا ہے۔۔"وہ جتنا پُرامید تھا شہزین اتنی ہی مایوس نظر ائی تھی۔
"اب ایسا نہیں ہوگا۔۔۔تم میری عزت ہو اور میں تمھارا محرم۔۔ مجھ پر اعتبار کرنے کے لئے کیا یہ ایک جواز کافی نہیں؟کیا ہم ماضی کو ماضی میں نہیں رہنے دے سکتے۔۔ہم کیا تھے یہ بھول کر ہم کیا ہیں اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے؟میں یہ رشتہ بوجھ یا ذمہ داری سمجھ کر نہیں اولین ترجیح بنا کر نبھانا چاہتاہوں۔"وہ ٹھوس جواز دے کر اس کے ہر اعتراض کو جڑ سےمٹانا چاہتا تھا۔
"میں یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ تمھارےعشق میں مبتلا ہوگیا ہوں مگر یہ پیشنگوئی ضرور کرسکتاہوں کہ ایک نہ ایک دن تمھاری محبت میری رگ رگ میں گھر کر جائے گی۔۔۔میں صرف اس وقت تک تم سے اتنا چاہتا ہوں کہ تم میرے بارے میں سوچنا تو شروع کرو۔۔تمھارے دل میں میرے لئے گنجائش بھی پیدا ہوجائے گی۔۔پلیز تِھنک اباوٹ اٹ۔۔"اسے دونوں کندھوں سے تھامے وہ نرمی سے سمجھانے لگا تھا۔
"شازی پلیز کال مت کاٹنا۔۔مجھے تم سے ملنا ہے۔۔"کسی نئے نمبر سے اٹھائی جانے والی کال کی دوسری طرف شان فریادی بنا ہوا تھا۔
"تمھارے دس نمبر میں بلاک کر چکی ہوں اب شائد نمبر بدلنا ہی مسلےکا حل ہے۔۔"بالکنی میں کھڑی شہزین نے اندر جھانکتے ہوئے شاہنواز کو دیکھا جو ولیمے کے لئے تیار ہو رہا تھا۔
"تمھیں نمبر ہی نہیں اپنی سوچ بھی بدلنی چاہئے۔بالخصوص اس شاہنواز کے متعلق۔۔"شاہنواز کا ذکر کرتے ہی اس کے لب و لہجے میں زہر اتر آیا تھا۔
"دوبارہ مجھے کال مت کرنا۔"اس کا انداز سپاٹ اور سرد تھا۔
"اگر تم مجھ سے ملنے نہ آئی تو میں تم سے ملنے آجاوں گا پھر نتیجہ جو بھی ہو مجھے پرواہ نہیں۔۔''شان نے ڈھیٹاہٹ سے اس کا ہر اعتراض دھتکارا تھا۔
"شان تم چاہتے کیا ہو؟"اس نے تنگ آکر پوچھا۔
"ایک آخری بار تم سے ملنا چاہتا ہوں۔۔اس کے بعد میں تمھیں کسی بھی بات کے لئے فورس نہیں کروں گا پرامس۔۔"اس کا انداز نرم پڑا تو شہزین بھی مزید کچھ نہ بولی تھی۔
"ٹھیک ہے۔۔"کچھ سوچتے ہوئے اس نے جان چھڑوانے کے لئے جھوٹی حامی بھرتے ساتھ رابطہ ختم کردیا اور واپس کمرے میں چلی گئی جہاں شاہنواز گلے میں بو لگانے میں مصروف تھا۔
"اس کے ساتھ ٹائی زیادہ سوٹ کرتی۔۔"شہزین کے مشہورے پر اس کے ہونٹ کِھلے تھے۔
"جانتا ہوں۔۔مگر مجھے ٹائی باندھنی نہیں آتی اور تم باندھنا پسند نہیں کروگی۔۔بو ہی ٹھیک ہے۔۔"مظلومیت کا رونا روتے ہوئے وہ ہمدردی سمیٹنے کا خواہشمند تھا۔
"ایک شرط پر ٹائی باندھوں گی۔۔تم مجھ سے کوئی فضول بات نہیں کرو گے اور اپنے یہ ہاتھ کمر سے جوڑ کر چپ چاپ کھڑے رہوگے۔۔"الماری سے ٹائی نکال کر لاتے ہوئے اسنے شرطاً بتایا تھا۔
"تمھیں تو وزیردفاع ہونا چاہئے مسز شاہنواز ابراہیم۔۔بہت تگڑی دفائی حکمت عملی بناتی ہو۔۔"اس کی بات کا قہقہہ لگانے کے بعد اس نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔
"منظور ہے؟"وہ ابھی تک اپنے موقف پر ڈٹی تھی۔
"انکار کی کوئی گنجائش بچتی ہے میرے پاس؟"اپنے دونوں ہاتھ کمر سے باندھتے اس نے شہزین کی طرف گردن جھکائی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"اتنی جلدی کیوں جارہی ہو شازی۔۔"ولیمے سے ایک دن بعد ہی سمیرا اور عاشر گھومنے کے لئے بیرون ملک جارہے تھے تو شاہنواز نے بھی واپسی کا ارادہ بنایا جس پر سمیرا اداس ہوئی تھی۔
"ہم دونوں کل ہنی مون کے لئے نکل رہے ہیں یہ یہاں بیٹھ کر گھر کی رکھوالی کرےگی؟"عاشر نے اس کی فرمائش پر ٹوکا تھا۔
"میں تو کہتی ہوں تم بھی چلو ساتھ۔۔"اس نے نئی حکمت عملی بنائی تھی۔
"نہ بیوی نہ۔۔۔تم دونوں ساتھ ہوئی تو ہم دونوں کو کون پوچھے گا۔۔"عاشر کو اپنا ہنی مون خطرے میں پڑتا دکھائی دیا تھا۔
"تم دونوں نے واپس آکر داداجان اور مام سے ملنے لازمی آنا ہے اوکے۔۔''سمیرا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے شاہنواز نے تنبیہ کی تھی
"ضرور برو۔۔"اس سے بغل گیر ہوتے ہوئے عاشر نے حامی بھری تھی۔
وہ دونوں واپس لاہور پہنچے تب بھی شہزین کا دھیان شان کی باتوں میں ہی الجھا تھا۔وہ بس آخری بار مل کر اس قصے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تمام کرنا چاہتی تھی۔زندگی ایک مدت بعد واپس صحیح راستے پر جاتی محسوس ہورہی تھی۔شاہنواز سے بھی اس کے مراسم پہلے کی نسبت بہت بہتر تھے اور اب مزید کو دھچکا جھیلنے کی سکت اس میں بالکل نہ تھی۔
"اب شان کو کیا بات کرنی ہے مجھ سے؟کیا چاہتا ہے یہ انسان۔۔ شاہنواز کو سب بتادوں؟نہیں۔۔کل مجھے اس قصے کو خود ہی تمام کرنا پڑے گا۔۔"رات گئے بیڈ سے ٹیک لگائے وہ اسی بارے میں حتمی فیصلہ کرچکی تھی جب نظر صوفے پر سوئے شاہنواز پر گئی جو گہری نیند میں غرق تھا۔
"داداجان وہ۔۔میں نے یونی سے جو چھٹیاں لی تھیں ان کی وجہ سے کافی ٹاپکس رہ گئے ہیں تو آج میں وہیں بیٹھ کر ان کے نوٹس تیار کروں گی۔۔اس لئے تھوڑی دیر ہوجائے گی۔۔" ناشتے کے میز پر اس نے شام دیر سے آنےکے لئے بہانہ بنایا تھا۔
"شاہنواز سے پڑھ لینا نا۔۔یہ کس دن کام آئے گا۔۔"سیدہ بیگم نے مشہورہ دیا۔
"مام میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔۔شہزین کو خود سے سب کوّر کرنے دیں۔۔"خلافِ معمول شاہنواز نے ٹال مٹول سے کام لیا تھا۔
"ٹھیک ہے بیٹے۔۔"داداجان نے اسے اجازت دی تھی۔
"تمھیں آج ڈرائیور یونی چھوڑ دے گا۔۔مجھے ایک میٹنگ کے لئے نکلنا ہے۔۔"شاہنواز نے اگلا حیران کن انکشاف کیا جس کے پیچھے چھپی منصوبہ بندی کو داداجان کچھ حد تک سمجھ گئے تھے۔
"اللہ حافظ۔۔"شہزین سب سے رخصت لیتی نکل گئی تھی۔
"اللہ حافظ۔۔"شاہنواز نے ہاتھ ہلائے اسے تسلی سے خیرآباد کہا تھا۔
"یہ کیا ہے چھوٹے ملک؟"داداجان کو اس کی اگلی حکمت عملی معلوم کرنے کی جلدی تھی۔
"آج آپ کی بہو کی برتھ ڈے ہے مام جوکہ محترمہ بھول چکی ہیں۔۔اسے پڑھائی کرنے دیں۔۔ہم تیاری کرلیں گے۔۔"ماں کی سوالیہ نظروں کو بھانپتے ساتھ اس نے بتایا تھا۔
"زبردست۔۔"داداجان نے ہاتھ آگے لہرایا تو پوتے نے تالی بجائی تھی۔
یونیورسٹی سے جلدی نکلتی وہ شان کی بتائی جگہ ملنے پہنچی تھی۔سب سے جھوٹ بول کر یہاں آنا اسے بھی برا لگ رہا تھا مگر وہ خود ہی اس مسلے کو مستقل طور پر حل کرنا چاہتی تھی جس کے لئے شان سے دوٹوک بات کرنا ضروری تھی۔اس کے بتائے ریسٹورانٹ کی دوسری منزل کے تمام میز اس نے بک کروا رکھے تھے تاکہ کوئی تیسرا ان کی ملاقات میں مداخلت نہ کرسکے۔
"ہیپی برتھ ڈے۔۔"وہ جیسے ہی ہال میں داخل ہوئی پورا ہال سرخ کلیوں اور غباروں سے سجا تھا۔روشنی کے لئے بھی دیوں سے چراغاں کیا گیا تھا۔
"میرے لئے میری پیدائش بالکل بھی خوشی کا موقع نہیں رہی اب۔۔تم نے کیوں بلایا ہے وہ بتاو۔۔۔"سجے ہوئے میز کے پاس وہ چل کر آئی تو شان نے سرخ گلابوں کا گلدستہ اسے پیش کیا تھا۔
"میں بس تمھاری برتھ ڈے سلیبریٹ کرنا چاہتا تھا۔۔آخری بار۔۔" اس نے پھولوں کو قبول کرنے سے صاف انکار کیا تو شان نے پھول میز پر رکھتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
"تم نے اس بکواس کے لئے مجھے یہاں بلایا ہے؟"شہزین کا پارا اور چڑھا تھا۔
"پلیز شازی۔۔لو شاہ بھی آ گیا۔۔"اسے الٹے قدم اٹھاتا دیکھ کر شان نے اس کا دایاں بازو پکڑ کر اپنے سامنے روکا تھا کیونکہ کسی کے قدموں کی آہٹ پہچان کر اس کا اگلا قدم یہی طے کردہ تھا۔
"شاہنواز۔۔"شاہنواز کو دیکھتے ہی اپنا بازو چھڑواتی شہزین کا چہرہ خوف اور پشیمانی سے سرخ پڑا تھا۔
"آ جاو شاہ۔۔"شاہنواز نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر دل میں کئیں سوال اٹھے تھے۔
"تم غلط۔۔"اسے خاموش دیکھتے ہوئے شہزین نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔
"گھر چلو۔۔"اس کا ہاتھ تھامے وہ ضبط کی آخری حد پر کھڑا تھا۔
"کیک تو کاٹنے دو یار۔۔"شان نے بےتکلفی سے کہا۔
"اس سے پہلے میں تمھارا گلہ کاٹ دوں دوبارہ میری بیوی کے آس پاس بھی نظر مت آنا۔۔"انگلی اٹھا کر لہو برساتی آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے دھیمی آواز میں بات کہتا شہزین کے ہمراہ وہاں سے نکلا تھا۔
"شاہنواز۔۔"گاڑی چلاتے ہوئے اس نے ایک بار بھی نظریں سڑک سے نہ ہٹائیں تو شہزین نے سہمتے ہوئے خاموشی کا تسلسل توڑا تھا۔
"کیا تم ابھی تک اسے نہیں بھولی شہزین؟اگر ایسا ہے تو پلیز مجھے دھوکے میں مت رکھو۔۔بار بار عورت ذاد کے ہاتھوں کھلونا بننے کی سکت نہیں ہے مجھ میں۔۔"اس نے پوری بات کے دوران ایک بار بھی شہزین کی شکل دیکھنا گوارہ نہ کیا تھا۔
"تم غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔ میں تو بس۔۔"شہزین کے لئے کچھ بھی کہنا محال ہوا تھا۔ایک بار پھر وہ خود سے جڑے رشتوں کا اعتبار کھودینے کو تھی۔
"تم تو بس دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر چلی گئی تھی وہاں شائد۔۔آج تو مجھے شان نے خود بلا لیا ورنہ میں پتہ نہیں کتنی بار یوں بیوقوف۔۔"اس بار سٹئیرنگ ویل پر مکہ مارتے ہوئے وہ حواس کھو بیٹھا تھا۔
"انف از انف شاہنواز۔۔۔"اسے امید تھی کہ وہ خفا ہوگا مگر اتنا بڑا الزام اس کے ہوش بھی نگل گیا تھا۔
"شہزین۔۔شہزین۔۔رک جاو۔۔"شاہنواز نے ویران سڑک کے کنارے گاڑی روکی تھی کیونکہ اسے بھی یقین تھا کہ مزید وہ اس رفتار سے گاڑی بھگاتا رہا تو شائد کوئی بہت بڑا حادثہ کر بیٹھے مگر گاڑی رکنے کے چند ثانیوں بعد وہ اپنے گالوں سے آنسو پونچھتی سڑک پر پیدل چل پڑی تھی۔
"پاگل لڑکی چاہتی کیا ہے اب؟"اس کے پیچھے وہ بھی گاڑی سے اتر کر دوڑا تھا۔
"دور رہو مجھ سے۔۔۔"اسے اپنا تعاقب کرتا دیکھ کر وہ گھائل شیرنی کی طرح پھنکاری تھی۔
"میری بات تو سن لو۔۔"
"کیا سنوں۔۔میں ہی پاگل تھی جو ایک بار پھر مرد ذاد جیسی ناقابل اعتبار مخلوق سے امیدیں وابستہ کر بیٹھی۔۔'' وہ رک کر جیسے ہی مڑی تو شاہنواز کا وجود شل پڑگیا تھا۔اس کا پورا چہرہ آنسووں سے تر تھا اور الفاظ کاٹ کھانے والے تھے۔
"تم ابھی غصے میں ہو۔۔تحمل سے میری بات تو سن لو۔۔"اس نے بھی پورے واقعے کے متعلق پھر سے سوچا تھا کہ اگر وہ اسے شان کے ساتھ مل کر دھوکا دے رہی ہوتی تو کیوں شان خود اسےاس ملاقات کے متعلق بتا کر اپنے لئے مشکلات پیدا کرتا!اب اسے اپنی غلطی بھی نظر آنے لگی تھی۔
"کہا نا ہاتھ مت لگانا۔۔"اس کے نرمی سے چھونے پر شہزین نے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا تبھی دو سے تین بڑی گاڑیاں وہاں آکر رکی تھیں۔
"بلال بھائی۔۔"بلال کو دوسری گاڑی کی پہلی نشست سے اترتا دیکھ کر اس کی روح فنا ہونے کے قریب تھی۔
"تو یہ ہے وہ جس کے لئے تم نے مجھے دوسری بار دھتکارا۔۔۔" اس نے پہلے شہزین کو دیکھا پھر نظر اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے پیچھے کھڑا کرتے شاہنواز پر گئی تھی جو اسے پہلی نظر میں ہی واجب القتل لگا تھا۔
"تمھیں جو بات کرنی ہے مجھ سے کرو۔۔میری بیوی کی طرف آنکھ بھی اٹھائی تو۔۔"ان سب کو اسلحے سے لیز دیکھ کر بھی وہ ایک لمحے کو نہ گھبرایا تھا۔اس کی بات سنتے ساتھ ویران سڑک پر بلال خان کا قہقہہ گونجا تھا۔
"شاہنواز۔۔"شہزین نے گھبراتے ہوئے اس کے شانے کی پشت پر ہاتھ رکھا تھا تبھی اسے شہزین کی طرف متوجہ دیکھتے ساتھ بلال نے کلاشنکوف سے اس کے سر پر وار کیا جس کے نتیجے میں وہ سر تھامے زمین پر جاگرا تھا۔
"تجھے زندہ اس لئے چھوڑ کر جارہا ہوں تاکہ تو اس کی یاد میں تڑپ تڑپ کر مرسکے کیونکہ اسے تو اب تُو قیامت تک نہیں ڈھونڈھ سکتا۔۔"بلال سمیت اس کے گارڈز نے ٹھوکریں مار مار کر اس کے ہوش فنا کئے تھے۔
"شاہنواز۔۔"شہزین نے اس کا زخمی چہرہ گود میں لئے منہ تھپتھپایا تھا۔
"چل۔۔"بلال نے اس کے ریشمی بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے اسے اوپر کھینچا تھا۔
"شاہنواز۔۔"درد کی شدت کے باوجود وہ اس انسان سے دور ہونے کی روادار نہ تھی۔
"بدذات۔۔"اسے کھینچ کر کھڑا کرتے ہوئے بلال نے دو سے تین طمانچے اس کے گالوں کی زینت بنائے تھے۔
"خان جی جلدی کریں کوئی آرہا ہے۔۔"دور سے کسی گاڑی کی روشنی جگمگاتی دیکھ کر وہ گھسیٹتا ہوا شہزین کو اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
"یااللہ شاہنواز۔۔"ان کے وہاں سے اڑن چھو ہوتے ہی جو گاڑی سڑک پر رکی تھی اس سے باہر نکلتے عاشر اور سمیرا شاہنواز کو ادھ مڑی حالت میں بیہوش دیکھ کر گھبرائے تھے۔وہ جو یہاں شہزین کو برتھ ڈے سرپرائز دینے آئے تھے،خود چونک اٹھے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"چل بدذات۔۔کمبخت۔۔"بلال نے اسے خان حویلی کے مزکزی ہال میں پٹکا تو سبھی اس کا چہرہ دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔
"بلال بیٹا اسے کہاں سے پکڑ لائے تم۔۔"تائی جان نے آگےبڑھ کر اسے اٹھایا جس کے دونوں گالوں پر بلال کی انگلیاں چھپی تھیں اور نچلے ہونٹ سے بہنے والا خون تھوڈی تک جما ہوا تھا۔
"صرف اسے ہی نہیں پکڑا اس کے عاشق کو بھی سبق سکھا کر آیا ہوں۔۔"اس نے حقارت سے شہزین کا چہرہ دیکھتے ہوئے بتایا۔
"بدکار۔۔۔بہت جھونک لی تم نے ہماری آنکھوں میں دھول۔۔" اس مرتبہ آصف خان نے اسے پیٹنا شروع کردیا تھا۔
"خان جی۔۔کیا جان سے مار دیں گے اسے۔۔۔اس بھگوڑی کو ایسی آسان موت تھوڑی دینی ہے۔۔تڑپا تڑپا کر حساب لیں گے۔۔۔"اسے فرش پر گرنے سے بچاتے ہوئے تائی نے اپنے حصار میں لیا۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔لے جا کر بند کرو اسے کوٹھڑی میں۔۔"خود پر قابو کرتے وہ بگڑے تنفس کے ساتھ بولے تھے۔
"چل بےحیا۔۔"سب کے سامنے اداکاری کرتیں وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی تھیں ورنہ وہ جاہل باپ بیٹا اسے موت کے گھاٹ اتار کر ہی دم لیتے۔تشدد کے باعث شہزین کے لئے دو قدم چلنا بھی کڑی دشواری کے مترادف تھا۔اگر تائی جان کا سہارہ نہ ہوتا تو وہ کب کی وہیں ڈھے جاتی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شہزین۔۔"اس کی آنکھ کھلی تو وہ ہسپتال کےبستر پر موجود تھا۔وہ اس کا خیال آتے ہی بیٹھا تو سر میں ٹیسیں اٹھی تھیں۔
"شاہنواز بیٹے۔۔"وارڈ میں سمیرا،عاشر،سیدہ بیگم اور داداجان اس کے ہوش میں آتے ہی اس کی طرف لپکے تھے۔
"شہزین وہ لوگ اسے مار دیں گے۔۔''اپنے درد کو مکمل فرموش کرتا وہ شہزین کے لئےتڑپ رہا تھا۔
"کون لوگ۔۔کہاں ہے شہزین؟"عاشر بھی الجھ گیا تھا۔
"اس کا وہ کزن۔۔پلیز پھپھی جان کو کال کریں۔۔وہ لوگ اسے گاوں لے گئے ہیں داداجان۔۔ وہ اسے نقصان۔۔وہ مار دیں گے اسے۔۔"اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑا تو سیدہ بیگم نے اسے خود سے لگایا تھا۔
"یااللہ۔۔"داداجان آنے والے وقت کا سوچ کر ٹھٹھکے تھے۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شازی میری جان تم کیسے پہنچی یہاں۔۔یہ درندہ کیسے پہنچ گیا تم تک؟"اسے بیڈ پر بیٹھاتے ہوئے تائی جان نے اس کے چہرے پر پانی کے چند قطرے چھڑک کر اس کےحواس بحال کرتے ہوئے پوچھا۔
"تائی جان۔۔اس نے شاہنواز کو بہت بری طرح پیٹا ہے۔۔اسے بہت چوٹیں آئی تھیں پلیز۔۔پلیز اس کا حال پوچھیں وہ کیسا ہے۔۔۔ ورنہ میرا دل بند ہوجائے گا۔۔"اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار شاہنواز کا خون میں لت پت وجود آرہا تھا۔
"یہ لوگ تمھیں مار دیں گے شازی۔۔"اسے خود سے لگاتی وہ بھی رونے لگی تھیں۔
شہزین کو رات انھوں نے اپنے پاس ہی کمرے میں رکھا تھا کیونکہ آصف خان ساری رات بھائیوں کے ساتھ بیٹھک لگا کر اگلی حکمت عملی بنانے میں مصروف تھے اور پچھلی دفعہ کی واردات کے بعد وہ اسے کسی خاص نگرانی میں رکھوانے کے حق میں تھے جس کی ذمہ داری شبانہ بیگم نے خوشی خوشی قبول کی تھی۔
"کل عصر سے پہلے پہلے یہ نکاح ہوجانا چاہئے۔۔"وہ باہر آئیں تو بلال اپنے ملازم کو نکاح خواں بلوانے کا حکم دے رہا تھا۔
"جی خان صاحب۔۔"سر جھکا کر ہاں کہتا وہ باہر نکل گیا۔
"خان جی نکاح نہیں ہوسکتا۔یہ لڑکی پہلے سے کسی کے نکاح میں ہے۔۔"بلال کی بجائے انھوں نے صوفے پر بیٹھے شوہر کو مخاطب کیا۔
"کیا؟"وہ ہربڑائے تھے۔
"جی۔۔"
"یہ صرف ہم جانتے ہیں کہ اس کا نکاح ہو چکا ہے۔نکاح خواہ کو کون بتائے گا؟"بلال منہ میں سگریٹ سلگاتا دیدہ دلیری سے بولا۔
"خان صاحب۔۔"
"تمھاری ماں ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔اگر وہ پہلے سے کسی کے نکاح میں ہے تو۔۔"انھیں نکاح پر نکاح کا تصور کرتے ہی گھن آئی تھی۔
"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"اس نے باپ کو بھی بلاجھجھک جواب دیا۔
"مگر۔۔"شبانہ بیگم نے اس کی بات کاٹی۔
"بس۔۔جاکر تیار کریں اسے۔۔ایک دفع نکاح ہوجائے پھر ساری جائیداد اپنے نام لکھواتے ساتھ ہی اسے ابدی نیند سلادوں گا۔۔"ہاتھ اٹھا کر انھیں خاموشی سے بات ماننے کا حکم جاری کرتا وہ ہال سے نکل گیا تھا۔
"اسے سمجھائیں خان صاحب۔۔"میاں کو نیم متفق دیکھ کر وہ انھیں مکمل راضی کرنے کے لئے نئی کہانیاں گڑھنے لگی تھیں۔
دو دن سے وہ کمرے میں قید تھی۔آصف خان تو اسے ایک بوند پانی دینے سے بھی انکاری تھے۔دونوں تائیوں نے بھی اسے خوب کھری کھوٹی سنائی تھیں۔بس ایک شبانہ تائی تھیں جو سب سے چھپ چھپا کر اپنی وفادار ملازمہ کی مدد سے اسے کھانا اور دوائی کھلا رہی تھیں۔مارپیٹ اور خوف سے اس کا پورا وجود بے جان پڑا تھا۔
"شہزین شہزین۔۔"وہ بستر پر اوندھے منہ نیم بیہوشی کی کیفیت میں تھی جب شاہنواز کی بارعب آواز سے پوری خان حویلی گونجی تھی۔
"شاہنواز۔۔۔"اسکی آواز سنتے ہی شہزین کے بےجان وجود میں زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی تھی۔
"چلو یہاں سے۔۔"وہ آناً فاناً کمرے کا دروازہ کھولتا اس تک پہنچا جو اس کی آواز سنتے ہی بیٹھی تھی۔
"تم کیوں آئے ہو یہاں۔۔یہ لوگ تمھیں مار دیں گے۔۔"اسے جیسے ہی شاہنواز نے بیڈ سے اٹھایا وہ روتے ہوئے تڑپ اٹھی تھی۔
"تمھارے بغیر بھی تو مر ہی جاوں گا۔۔تمھارے بغیر مرنے سے بہتر ہے کہ تمھارے لئے مرجاوں۔۔"اس کا زخموں سے بھرا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ بھیگے لہجے میں بولا تھا۔
"چلو۔۔"اس کے چہرے سے آنسو ہٹاتا وہ بس اسے لے جانے کو بےقرار تھا۔
"رک جا لڑکے۔۔"وہ جیسے ہی شہزین کا ہاتھ پکڑے مڑا تو آصف خان ان پر بندوق تانے کھڑے تھے۔
"تجھے زندہ چھوڑ کر بہت بڑی غلطی ہوگئی مجھ سے۔۔"باپ کے ساتھ کھڑے بلال نے دانت پیسے تھے۔
"شاہنواز۔۔"شہزین اس سے قبل کچھ کہتی آصف خان کی بندوق سے نکلی گولی اس کے دل سے آر پار ہوئی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آسمانی رنگ کی بٹن شرٹ خون آلود ہوئی تھی
"شاہنواز شاہنواز۔۔۔"اس کی آنکھ کھلی تو پورا وجود پسینے سے تر تھا۔
"شازی بچے کیا ہوا ہے؟"پاس بیٹھی تائی جان نے اسے خود سے لگایا تھا۔
"تاتا نے مار دیا ہے شاہنواز کو۔۔وہ وہ خون میں لت پت پڑا تھا تائی امی۔۔وہ وہ یہیں۔۔"اس کی دیوانہ وار کیفیت سے عیاں تھا کہ وہ کس قدر خائف تھی۔
"تم نے خواب دیکھا ہے میری جان شاہنواز بالکل ٹھیک ہے۔۔" اس کی پیشانی چومتے ہوئے تائی جان نے یقین دہانی کروائی تھی۔
"وہ وہ یہاں آیا تو یہ لوگ اسے مار دیں گے۔۔۔پلیز اسے یہاں آنے سے روکیں پلیز۔۔"ان کے کندھے سے لگتی وہ ہچکیوں اور سسکیوں کے ساتھ رونے لگی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"آپ ہوش میں ہیں باباجان۔۔"باپ کا فیصلہ سنتے ہی بلال آپے سے باہر ہوا تھا۔
"سمجھنے کی کوشش کرو بلال خان وہ کسی اور کی بیوی ہے اور۔۔۔"تایاجان کے ہمراہ ہال میں باقی دونوں بھائی بھی بیٹھے تھے۔
"اور۔۔"بلال اسی آدھے جملے میں اٹک گیا۔
"اس نے تمھاری ماں کو بتایا ہے کہ وہ امید سے ہے تو ایسے میں اس کی طلاق یا پھر تم سے نکاح تو ہونے سے رہا۔۔"تائی جان کی نئی چال نے آصف خان کو بھی ڈھیر کیا تھا۔
"آپ اتنے نیک کب سے ہوگئے باباجان؟"بلال نے دونوں بازو کمر سے باندھے باپ کا سفاک چہرہ استہزایہ نظروں سے دیکھا تھا۔
"اس نے کہہ دیا ہے کہ اگر ہم اس کی جان بخشی کردیں تو وہ ساری دولت ہمارے نام لکھ دے گی۔۔اور دوبارہ یہاں کا رخ بھی نہیں کرےگی۔۔"اس بار بڑے چچا نے اسے سمجھانا چاہا۔
"اور جو خاندان میں ہماری ناک کٹے گی اس کا کیا؟"وہ کسی بات پر قائل نہ ہوا تھا۔
"نہیں کٹے گی ناک۔۔ہم سب کچھ بہت رازداری سے کریں گے۔" آصف خان نے اسے اعتماد میں لینے کی کوشش کی تھی۔
"آپ ڈر کس سے رہے ہیں؟صاف صاف بتائیں۔۔"اسے باپ کی مصلیحت پسندی کھٹک رہی تھی۔
"اس کا شوہر بہت بڑے خاندان سے ہے۔۔بہت اثرورسوخ والے لوگ ہیں وہ۔۔اگر ان کی جانب سے کوئی قانونی چارہ گوئی کی گئی تو ہماری رہی سہی ساکھ بھی مٹی کا ڈھیر بن جائے گی۔۔لہذہ ہوش کے ناخن لو۔۔"تائی جان کی پڑھائی گئی پٹی پر تینوں بھائیوں کو اپنا خاندانی وقار کسی خطرے کی ذد میں دکھائی دیا تھا۔
"میں آپ کی سب مکاریاں سمجھ رہا ہوں۔۔جس طرح آپ نے چچاوں کا حق مارا ہے ویسے ہی مجھے بھی بیوقوف بنا رہے ہیں۔۔میرا اس سے نکاح ہوگیا تو آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔۔اسی لئے یہ نیکی کا بخار چڑھا ہے آپ کو؟"سب لوگوں کی موجودگی کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ غصے میں باپ کا پول بھی کھول گیا تھا۔
"بلال۔۔"اپنی بےعزتی پر آصف خان بھڑک کر صوفے سے اٹھے تھے۔
"بس۔۔۔زیادہ ہوشیاری دکھائی تو سب کے سامنے آپ کا کٹا چٹھا کھول دوں گا۔۔اور ایک بات شہزین میری ضد ہے اور یہ ضد تو بلال خان ہر صورت پوری کرے گا۔۔پھر بیچ میں چاہے اس کا بچہ آئے یا میرا باپ۔۔۔ سب کو ٹھکانے لگانے میں ایک لمحہ درکار ہوگا مجھے۔۔"اس نے انگلی اٹھاتے ہوئے باپ کو بھی حد میں رہنے کی سخت ہدایت جاری کی تھی۔
"بلال۔۔"وہ اسے بلاتے رہے مگر وہ بغیر رکے شہزین کو لینے چل دیا تھا۔
"اٹھ۔۔"اسے کھینچتے ہوئے بلال نے بیڈ سے اٹھایا تھا۔
"بلال بیٹا۔۔۔"پیچھے پیچھے دوڑ کر آتی شبانہ بیگم اس کے وحشی روپ سے سہمی تھیں۔
"چپ بڑھیا۔۔"انھیں بازو سے فرش پر دھکیلتا وہ شہزین کو اپنی دائیں بازو کے شکنجے میں دبوچتا کمرے سے نکلا تھا۔
"تم کہاں لے کر جارہے ہو اسے۔۔"فرش سے اٹھتی شبانہ بیگم بھی ان کے تعاقب میں بھاگی تھی۔
"یہ جو غلاظت خود میں سمیٹے گھوم رہی ہے اس کو ٹھکانے لگا کر اسے اپنے نکاح میں لوں گا۔۔"اس نے بغیر رکے جواب دیا۔
"مگر۔۔"شہزین کو تو کچھ سمجھ ہی نہ آیا کہ اب یہ نیا مدعہ کیا ہے!
"چپ۔۔چل تُو۔۔"اسے منہ کھولتا دیکھ کر وہ چنگھاڑا تھا۔
"چھوڑو مجھے۔۔"وہ اپنا بازو چھڑاوانے کے لئے مچل رہی تھی۔
"تم کہیں نہیں جاوگے۔۔''وہ سیڑھیاں اترتا نیچے آیا تو آصف خان اس کے سامنے کھڑے تھے۔
"کون روکے گا مجھے۔۔"اس نے شہزین کی کلائی مزید سختی سے دبوچی تھی۔
"تمھارا باپ۔۔"ان کی پھنکار نے سب کے دل دہلا دیے تھے۔
"آصف خان میرے راستے سے ہٹ جاو۔۔"بلال نے اپنی جیکٹ ہٹاکر ریوالور نکالی تھی۔
"ورنہ۔۔"وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔
"ورنہ آپ کی عزت کرنے والے یہی بھائی آپ پر تھو تھو کریں گے۔۔"
"پاگل ہوگئے ہو؟"بڑے چچا بھائی کی بےعزتی پر برہم ہوئے تھے۔
"پاگل تو تم لوگ ہو۔۔۔یہ جو تمھارا بڑا بھائی ہے جانتے بھی ہو کیا کرچکا ہے تم دونوں کے ساتھ۔۔اس نے دھوکے سے تمھارا سارا حصہ اپنے نام کروا لیا ہے۔۔اور مجھے خوف الٰہی دلواتے ہوئے اسے زرا حیا نہیں آرہی۔۔۔"اس نے پلک جھپکتے آصف خان کے راز افشا کئے تھے۔
"بلال خان۔۔"آصف خان اسے ایک لگانے آگے بڑھے تو بلال نے بائیں بازو سے انھیں دور دھکیلا تھا۔
"میرے راستے میں مت آنا۔۔''اس کے سر پر اس لمحے خون سوار تھا۔
"تایاجان۔۔"شہزین ان کے یوں فرش پر گرنے سے گھبرائی تھی جو بھی تھا وہ رشتے میں اس کے سرپرست تھے ان کی بےعزتی پر وہ افسردہ ہوئی تھی۔
"یہ تایا نہیں جلاد ہے جلاد۔۔۔اس نے تمھارے ساتھ بھی کم برا نہیں کیا۔۔۔تمھارے ماں باپ نے کوئی خودکشی نہیں کی تھی۔۔۔اس انسان نے انھیں دھوکے سے زہر پلاکر قتل کیا اور وہ جھوٹا خودکشی نامہ میں نے اپنے گناہ گار ہاتھوں سے لکھا تھا۔۔ انھیں یہ ڈر تھا کہ تمھارے بےگناہ ثابت ہوجانے پر ان کے ہاتھ سے تم اور تمھارے باپ کی دولت نکل جائے گی۔۔" اس نے اگلے ہی لمحے شہزین کے کانوں میں سیسہ پگھلایا تو وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے آصف خان کو دیکھنے لگی جو دونوں بھائیوں کے سہارے پر اٹھتے ہوئے ہانپ رہے تھے۔
"تایاجان۔۔"اس نے کبھی سوچا نہ تھا کہ پیسے میں اتنی طاقت ہوتی ہے جو اپنے ہی خون کا قاتل بنادے!
"بلال۔۔۔بدبخت۔۔"وہ اپنی حقیقت کھلنے پر گھائل شیر کی طرح اس پر جھپٹے تو بلال کی ریوالور سے چلی گولی نے ان کے بائیں کندھے کو لہو آلود کیا تھا۔
"بس۔۔جو آگے آیا اس کا بھی یہی انجام ہوگا۔۔چل۔۔''انھیں موت کے گھاٹ اتارنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے ہوئے وہ باقی افراد کو بھی دھمکا گیا تھا۔
"خان جی۔۔"شبانہ بیگم شوہر کی طرف دوڑی تھیں۔
"لالہ۔۔۔"وہ جیسے ہی شہزین کو لئے نکلا خان حویلی کے سب افراد آصف خان کو ہسپتال لے جانے کو دوڑے تھے۔
وہ اسے گاوں کی آخری حد کے ویران مقام پر موجود اپنے ڈیرے پر لے کر آیا تھا۔یہاں آنے سے قبل ہی اس نے اپنے ملازموں کو پاس شہر سے لیڈی ڈاکٹر کو لے کر آنے کا کہہ دیا تھا۔گاوں کی کسی ڈاکٹرنی کو اس معاملے میں شامل کرکے وہ اپنی مزید رسوائی کے اسباب پیدا کرنے کے حق میں نہ تھا۔
"آرام سے بیٹھ۔۔"اسے کمرے میں پٹکتے ہوئے وہ درندگی سے بولا تھا۔
"مجھے جانے دو۔۔۔"وہ واپس قدموں پر کھڑی ہوئی تھی۔
"چپ ورنہ تیرا انتظام بھی یہیں کردوں گا۔۔۔"بلال نے ریوالور واپس جیکٹ کے اندر رکھتے ہوئے اسے ڈرایا تھا۔
"میں مرتی مر جاوں گی مگر تمھیں تمھارے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دوں گی یاد رکھنا۔۔۔"وہ بھی پوری قوت سے چنگھاڑی تھی۔
"اچھا تو روک کر دکھا اب مجھے۔۔"اس پر ہنستا وہ کمرے سے نکلنے کے لئے مڑا تو شہزین نے پاس رکھا ڈنڈے سے اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے سر پر وار کیا تھا۔
"آہ۔۔۔رک جا شہزین۔۔رک جا ورنہ میں گولی چلا دوں گا۔۔" دونوں ہاتھ سر کی پشت پر رکھتا وہ کڑاہتا ہوا زمین پر گرا تھا جبکہ دھندھلاتی آنکھوں سے اسے شہزین وہاں سے بھاگتی نظر آئی تھی۔
شاہنواز کو ائے زخم پوری طرح نہ بھرے تھے۔ڈاکٹر نے سختی سے اسے کسی بھی سفر سے منع کیا تھا مگر پھر بھی اپنی صحت کی پرواہ کئے بغیر وہ چار گھنٹے کی مسافت طے کرتا اس کے گاوں اکیلا پہنچا تھا۔داداجان یا عاشر اس نے کسی کو ساتھ نہ آنے دیا تھا۔وہ گاوں کی حدود میں داخل ہی ہوا تھا کہ نظر وہاں کھڑی بلال کی گاڑی پر گئی جسے وہ ایک جھلک میں ہی پہچان گیا تھا۔
"شازی کا دوپٹہ۔۔۔کہاں ہو تم شازی۔۔۔یااللہ میری عزت کی حفاظت فرما۔۔وہ صحیح سلامت اور بخیریت میرے پاس لوٹ آئے۔۔وہ میرا قیمتی ترین اثاثہ ہے۔۔"گاڑی کے پاس گرا شہزین کا دوپٹہ اس نے اپنی کلائی پر لپیٹے ہوئے لبوں سے لگایا تو بےاختیار آنسو گالوں سے بہتے اس کے سرخ آنچل پر گرے تھے۔
"کہاں ہے تُو شہزین۔۔۔باہر نکل ورنہ۔۔"بلال ایک ہاتھ اپنے زخمی سر پر رکھتے ہوئے اسے ڈھونڈھ رہا تھا جو ابھی تک ڈیرے کے ہی کسی کونے میں چھپی ہوئی تھی۔
"شازی۔۔شازی۔۔"ڈیرے کے بالکل باہر کھڑا شاہنواز منہ کے گرد دونوں ہاتھوں سے گول دائرہ بنائے ممکن حد تک چیخا تھا۔ویران مقام پر اس کی شدتِ جذبات میں ڈوبی گونج سے شہزین کی جان میں جان آئی تھی۔
"شاہنواذ۔۔"وہ مرکزی دروازے کے پاس موجود بڑے درخت کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔
"شاہنواز۔۔"اس کی اگلی پکار پر وہ گیٹ سے اندر داخل ہوا تھا۔
"شہزین تم ٹھیک ہو نا؟"اسے اپنے سامنے دیکھتے ہی وہ تشکر سے رو دیا تھا۔
"ہاں ہاں۔۔"
"بس بس چپ شی۔۔میں ہوں تمھارے ساتھ۔۔"اسے خوف سے کپکپاتا دیکھ کر شاہنواز نے خود سے لگالیا تھا۔کتنا سکون ملا تھا اسے اپنی عزت کو یوں اپنے قریب پاکر!
"اوہو۔۔تو لیلیٰ مجنوں ایک ہوگئے پھر سے۔۔"وہاں چل کر آتا بلال انھیں ایک ساتھ دیکھ کر آگ بگولہ ہوا تھا۔
"شاہنواز۔۔"شہزین نے خوف سے شاہنواز کے سینے میں سر بھینچا تھا۔
"تمھیں اس تک پہنچنے کے لئے مجھے راستے سے ہٹانا پڑے گا بلال خان۔۔"اس کے گرد حصار تنگ مضبوط کرتے ہوئے وہ پرعزم ہوا تھا۔
"یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے سستے عاشق۔۔"اس نے ریوالور شاہنواز پر تانی تھی۔
"بلال نہیں۔۔۔"شہزین اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوئی تھی۔اگلے لمحے گولی چلی تو درختوں پر بیٹھے پرندے شاخوں سے اڑ گئے تھے۔
"سب ٹھیک ہے بس۔۔چپ کرجاو۔۔کالم ڈاون شہزین۔۔"شہزین نے آنکھ کھولی تو شاہنواز ویسے ہی اسے حصار میں لئے کھڑا تھامگر سامنے زمین پر گرا بلال اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا کیونکہ دروازے سے اندر داخل ہوتے آصف خان نے اپنی ہی اولاد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
"تم جانتے ہو یہ لوگ قاتل ہیں میرے ماں باباجان کے۔۔۔ان لوگوں نے خودکشی نہیں کی تھی یعنی انھیں آخری وقت تک مجھ پر اعتبار تھا۔۔وہ مجھ پر اعتماد کرتے تھے۔۔۔"زخمی باپ کو بیٹے کی آنکھوں کو بند کرتے دیکھ کر وہ نفرت سے بولی تھی۔
"کیونکہ تم ان کی اولاد تھی۔۔اولاد کو ماں باپ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔۔چلو اب۔۔یہ جگہ محفوظ نہیں ہے شازی۔۔" شاہنواز نے اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے حوصلہ افزائی کی تھی۔
"شہزین بچے۔۔۔تم دونوں ٹھیک ہو۔۔"وہاں دوڑ کر اندر آتی شبانہ بیگم نے ان دونوں کی خیریت دریافت کی تھی۔
"جی۔۔"شاہنواز نے اثبات میں سر ہلایا۔
"کاش اس نامراد کو پیدا ہوتے ہی مار دیا ہوتا میں نے۔۔۔اولاد نہیں آستین کا سانپ پالتا رہا آصف خان ساری زندگی۔۔"اس کی میت کو ملامتی نظروں سے دیکھتے ہوئے آصف خان کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔
"خان صاحب۔۔"اسی اثنا میں پولیس بھی وہاں پہنچی تھی۔
"رکو۔۔تم سے معافی مانگنے کا حق حاصل نہیں ہے مجھے۔۔نہ ہی معافی کی طلب ہے لیکن جو سبق مجھے تمھارے توصل سے سیکھنے کو ملا ہے اس کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہتا ہوں۔۔۔مکافات کا طمانچہ جب گال کی زہنت بنتا ہے تو آنکھوں سے تکبر اور فرعونیت کے سارے پردے پلک جھپکتے ہٹنے لگتے ہیں پھر سب سے پہلے جو چیز نظر آتی ہیں وہ اپنی غلطیاں اور گناہ ہوتے ہیں۔۔"پولیس کے ساتھ جاتے ہوئے وہ شہزین کے پاس رک کر معذرت کرتے ہوئے شرمساری سے سر جھکا گئے۔
"میرے باباجان آپ کو اپنے باپ کی طرح مانتے تھے مگر آپ۔۔۔ اللہ آپ کو معاف کر بھی دے میں محشر میں آپ کا گریبان پکڑ کر اپنی یتیمی کا بدلہ ضرور لوں گی۔۔"اس کی آنکھوں میں نفرت کے انگارے دہک رہے تھے۔
"بس شہزین جانے دو۔۔۔"شاہنواز کو بھی اس کے رنج نے دکھی کیا تھا۔
"ہم چلتے ہیں پھپھو۔۔میں نے داداجان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی بہو کو صحیح سلامت گھر پہنچاوں گا۔۔۔مجھے وہ وعدہ پورا کرنا ہے۔۔"شبانہ بیگم سے اجازت لیتا وہ شہزین کو اپنے ساتھ لے گیا تھا جسے ابھی تک وہ خود سے دور کرنے کا روادار نہ تھا۔
"ٹھیک ہے میرے بچوں کی خوشی اسی میں ہے تو مجھے بھی یہ ہنسی خوشی قبول ہے۔۔جیتے رہو دونوں۔۔"شرمندگی سے اس سے دور ہوتی وہ شبانہ بیگم کے گلے لگی تھی۔
"چلیں۔۔"شاہنواز نے اپنی جیکٹ سے اسے ڈھانپا تھا۔
"چلو۔۔"
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"تم اب تک مجھ سے ناراض ہو؟"اسے خاموش دیکھ کر شاہنواز نے بات چھیڑی تھی۔
"کس بات پر۔۔"اس کا سوال چونکا دینے والا تھا۔
"اس دن جو ہوا۔۔شہزین اللہ گواہ ہے کہ میں نے ایک بار یہ خیال دل میں نہیں آنے دیا کہ تم ہم سب سے چھپ کر باخوشی اس انسان سے ملنے گئی ہو۔۔شان نے جان بوجھ کر وہ سب۔۔"وہ وضاحت پیش کرنے لگا۔
"تمھیں مجھ پر اعتبار ہے؟"اس نے شاہنواز کی بات جھٹ پٹ کاٹی تھی۔
"اس دنیا میں سب سے زیادہ۔۔"اس کی آنکھوں میں اعتبار، خلوص اور محبت کے ملے جلے جذبات جھلک رہے تھے۔
"تو مجھے تمھارے اعتبار کے دعوے پر اعتبار ہے۔۔"اس نے مسکرا کر ناراضی ختم کر دی تھی۔پچھے چند گھنٹوں میں اسے بہت کچھ باور ہوا تھا۔شاہنواز کا اس کے لئے بار بار خود کو خطرے میں ڈالنا،اس کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی بازی لگانا اور اس کے دیے جانے والے مان کے لئے وہ چھوٹی سی رنجش کو باآسانی فراموش کرسکتی تھی۔وہ اس کا محرم تھا اور وہ مضبوط سائبان تھا جس کی امان میں ہی اس کی جان اور حرمت محفوظ تھی۔
"تھینکس۔۔"اس کی معافی پر شاہنواز نے اس کا دایاں ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگایا تھا۔
"تم کس خوشی میں فری ہو رہے ہو؟"اسے گویا اس حرکت پر کرنٹ لگا تو اس نے ہاتھ واپس کھینچا تھا۔
"اب ٹھیک ہے؟"شاہنواز اسے بائیں بازو کے حصار میں بھر کر سینے سے لگایا تھا۔
"پرسکون ہو جاو لڑکی تاکہ میں بھی سکون سے گاڑی چلا سکوں۔۔"گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے اس نے شہزین کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے محبت میں گندھی آواز میں کہا۔
"اللہ مجھے دوبارہ تایا وغیرہ کی شکل نہ دکھائے۔۔۔ مجھے نفرت ہے ان باپ بیٹے سے۔۔"اس نے پرسکون ہو کر آنکھیں موند لی تھیں۔
"نفرت تم چاہے جس سے کرلو۔۔محبت صرف مجھ سے کرنے کی اجازت ہے تمھیں۔۔شہزین شاہنواز ملک۔۔"اس کی منطق پر وہ بند آنکھوں کے ساتھ مسکرائی تھی۔ڈھلتی شام کے ساتھ آج اس کی زندگی کے بہت سے غم بھی غروب ہوگئے تھے۔خود کو والدین کی موت کا سبب سمجھ کر اس نے کندھوں پر جو ناقابل برداشت بوجھ اٹھا رکھا تھا وہ آج پوری طرح اتر چکا تھا۔
وہ رات گئے گھر پہنچے تھے۔راستے میں شہزین تو بےفکر ہوکر یوں سوئی تھی جیسے پچھلے دو دنوں سے ایک لمحہ سکون میسر نہ آیا ہو۔اس کا اپنے حصار میں آرام فرمانا شاہنواز کا سینہ کشادہ کر گیا تھا۔وہ اس کا اعتماد جیت کر خود کو ضمیر کی عدالت میں سرخرو کر چکا تھا۔
"میرے بچے۔۔۔"اسے سامنے پاتے ہی داداجان نے خود سے لگا کر پیشانی چومی تھی۔شہزین کا زخمی چہرہ دیکھ کر ان کا دل یہی کیا تھا کہ آصف خان کی جان لے لیتے مگر ان کا انجام سن کر قدرت کے انصاف پر ایمان اور بھی پختہ ہوا تھا۔
"داداجان مجھے زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔۔"ماں اور داداجان کو چہیتی کی طرف متوجہ دیکھ کر شاہنواز نے مظلومیت سے یاد دلایا۔
"تم تو پہاڑ جیسے مضبوط ہو۔۔ میری پھولوں سی نازک بچی نے کتنی دشواریاں کاٹی ہونگی۔۔"ان کا جواب دل مزید جلا دینے والا تھا۔
"داداجان میں بہت لکی ہوں کہ مجھے آپ لوگ ملے۔۔آپ سب میری طاقت ہیں۔۔"داداجان اور سیدہ بیگم کے درمیان بیٹھی وہ تشکر سے بولی تھی۔
"اور میں۔۔۔"شاہنواز کو اپنی پڑی تو وہاں موجود عاشر اور سمیرا بھی ایک ساتھ مسکرائے تھے۔
"ظاہر ہے آپ بھی سب میں ہی آتے ہیں۔۔"اس نے تکلف سے کہا۔
"شکر ہے۔۔مجھے یہ شرف بخشنے کا شکریہ۔۔"وہ مزید شوخ ہوا تھا۔
سمیرا اور عاشر ایک دو دن وہاں رک کر چلے گئے تھے۔آنے والے ایک دو ہفتوں تک وہ دونوں ہی گھر بند رہے تھے۔ نہ وہ یونی ورسٹی گئی نہ ہی شاہنواز نے دفتر کا رخ کیا۔آج اس کے زخم بھرے تو اس نے دفتر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
"میں کردوں؟"اسے ٹائی باندھتا دیکھ کر شہزین نے پیشکش کی تھی۔
"تمھاری شرائط پر پورا نہیں اتر سکتا یہ گستاخ انسان؟"اس نے گال پھلا کر کہا۔
"فی الحال میری صرف ایک شرط ہے جو تمھیں ہر صورت پوری کرنی پڑے گی۔"اس کے انکار کی پرواہ کئے بغیر شہزین نے ٹائی باندھنا شروع کر دی تھی۔
"کون سی شرط۔۔؟"اس کا جھکا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے وہ سوال گوہ ہوا تھا۔
"تائی جان کی کال آئی ہے داداجان کو۔۔تایا جان نے اقبال جرم کرلیا ہے۔اپنے بیٹے کے قتل کا بھی اور میری ماں باباجان کے علاوہ بلال کی پہلی بیوی کے قتل کا بھی۔۔انھیں پھانسی کی سزا سنادی گئی ہے۔۔۔"اس نے تفصیل سے بتایا تھا۔
"اور تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟"شاہنواز کو غرض صرف اس کی شرط سے تھی۔
"تائی جان چاہتی ہیں کہ ان کی عدت مکمل ہونے تک میں ان کے ساتھ رہوں۔۔"اس نے رک رک کر بات مکمل کی۔
"ہرگز نہیں۔۔وہ جگہ تمھارے لئے غیرمحفوظ ہے۔۔"شاہنواز انکار میں سر ہلا گیا۔
"اب نہیں ہے۔۔خطرہ صرف وہ باپ بیٹا تھے۔۔ویسے بھی جائیداد کا ساٹھ فیصد تائی جان کے نام ہے اس وقت اور چالیس فیصد میرے نام۔۔ان سب کے ہاتھ خالی اور حیثیت بہت کم تر رہ گئی ہے اس حویلی میں۔۔"ٹائی کی ناٹ سخت کرتے ہوئے اس نے مکمل یقین دہانی کروائی تھی۔
"تم جانا چاہتی ہو؟"اس سے تھوڑا دور ہٹتا وہ سوال گوہ ہوا تھا۔
"تائی جان کو میری ضرورت ہے۔۔میں انھیں انکار نہیں کر سکتی۔۔"
"پھر ایک شرط میری بھی ہے۔۔۔"آنکھوں میں شرارت سمیٹے وہ رعب جھاڑنے لگا۔
"کیا؟"اسے کوٹ پہناتے ہوئے اب چونکنے کی باری اس کی تھی۔
"میں اس بار تمھیں اس حویلی سے پوری عزت اور اس انداز میں رخصت کروا کر یہاں لانا چاہتا ہوں جو تمھاری شایان شان ہو۔۔تمھیں اُس گھر سے مجرموں کی طرح نہیں عزت دار بیٹیوں کی طرح میرے ساتھ رخصت کیا جائے گا۔۔"اس کی آنکھوں میں جھانکتا وہ کچھ پڑھنا چاہتا تھا۔
"اس سے کیا ہوگا؟"
"تمھاری ان شرائط کا تو مستقل انتظام ہوگا لڑکی۔۔"اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لئے شاہنواز نے اس کا سر اونچا کیا تھا۔
"تم بہت چھچھوڑے ہو تمھیں پتہ ہے؟"اس کی بات کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے شہزین کے گال سمیت کانوں کی لوئیں سرخ پڑی تھیں۔
"اپنی حق حلال کی بیوی سے دوبول پیار کے بولنا چھچھوڑاپن نہیں رومینس کہلاتا ہے مس شریک حیات۔۔شوق سے جاو لیکن اس بار جب تمھاری واپسی ہوگی تو ساری عمر تمھیں میری محبت کے حصار میں ہی گزارنی پڑے گی۔۔"اس کی شکایت پر قہقہہ لگاتے ہوئے شاہنواز نے جھک کر اس کا ماتھا چوما اور دفتر کے لئے نکل گیا تھا۔
"احمد پلیز ایک بار ٹھنڈھے دماغ سے سوچیے ایک بار۔۔وہ اکلوتی اولاد ہے ہماری۔۔"ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتی شہلا بیگم نے تڑپ کر دہائی دی تھی۔
"میں اس پر اعتبار کرنا چاہتا ہوں شہلا مگر وہ کیا وہ میرا مان رکھنا ضروری نہیں سمجھتی۔۔"ان کی آنکھوں سے آنسو بتدریج جاری تھے اور سر مکمل طور پر جھکا تھا۔
"آپ کا مان رکھنے کے لئے ہی تو وہ اس انسان کے پاس اپنی صفائی پیش کرنے گئی ہے۔۔وہ واپس آئے تو خدارا اسے گلے سے لگا کر ہر تلخی کو ختم کر دیں۔۔اسے ہماری ضرورت ہے احمد۔۔"انھوں نے شوہر کے کپکپتاتے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رسانیت سے کہا تھا۔وہ جانتی تھیں کہ ان سے زیادہ احمد خان کی جان سولی پر لٹکی تھی۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔''کچھ دیر خاموشی سے ہر پہلو پر نظرثانی کرتے ہوئے وہ حتمی فیصلے کو پہنچے تھے۔
"یہ تو سارا کھیل الٹا پڑ جائے گا۔۔۔ہم نے سوچا تھا کہ یہ غیرت کے نام پر شہزین کی جان لے لیں گے یا چاچو میرا رشتہ قبول کر لیں گے۔۔۔اگر وہ لڑکی ان کی ناراضی ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا باباجان؟"دروازے سے کان لگائے آصف خان اور بلال کو اس درگزر پر اپنا منصوبہ ناکام ہوتا دکھائی دیا تھا۔
"مجھے اس کا بھی انتظام کرنا پڑے گا۔۔"اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے وہ کمرے کے باہر سے ہی واپس مڑ گئے تھے۔
کمرے میں بند ہونے کے بعد انھوں نے نئی چال سوچی تھی۔جو زہر وہ شہزین کی نیت سے لائے تھے وہ اب کسی اور کام آنا تھا۔جائیداد کا اتنا بھاری حصہ وہ یوں ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتے تھے۔یہ تو طے تھا کہ اب اگر شہزین کو والدین کی معافی مل گئی تو ان کے راستے کا سب سے بڑا کانٹا کبھی صاف نہیں ہوگا۔
"کیا کر رہی ہو؟"وہ کچن میں پہنچے تو شبانہ بیگم کپ میں چائے انڈیل رہی تھی۔
"احمد اور شہلا کی چائے بنا رہی ہوں۔۔"چائے کے دو کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے انھوں نے جواب دیا۔
"ایک کپ میرے لئے بھی بنادو۔۔یہ ملازمہ دے آئے گی بلکہ بلال۔۔یہ دے کر آو اپنے چچا چچی کو۔۔"انھوں نے کچن کے باہر سے گزرتے بلال کو اشارے سے بُلا کر چائے لے جانے کا کہا۔
جی۔۔"وہ ٹرے لئے وہاں سے چل دیا۔
"خان جی۔۔سب ٹھیک ہے۔۔"ان کو پریشانی سے ماتھا رگڑتا دیکھ کر شہلا بیگم کو تشویش ہوئی تھی۔
"احمد بہت مایوسی والی باتیں کر رہا ہے۔۔۔ڈرتا ہوں وہ میاں بیوی خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لیں۔۔''انھوں نے نیا پتا پھینک کر بیوی کو آنے والے حالات کے لئے تیار کیا تھا۔
"اللہ خیر کرے شازی بھی نہیں آئی ابھی تک۔۔"ان کا دل گھبرانے لگا تھا۔
"سارے فساد کی جڑ ہی وہ بدبخت ہے۔۔"اس کو کونستے ہوئے وہ کچن سے نکل گئے تھے۔بلال باپ کی ہدایت کے مطابق اپنا کام مکمل کرتا چائے لے کر کمرے میں پہنچا تو وہ دونوں صوفے پر خاموشی سے بیٹھے تھے۔شہلا بیگم موبائل سے کسی کو کال ملا رہی تھیں مگر نمبر مسلسل بند مل رہا تھا۔آصف خان کے وہاں آتے ہی احمد خان نے بہت امید سے اپنی اولاد پر بحال ہوتا گزشتہ اعتماد کا تذکرہ کیا تھا۔
"مگر تم اپنی بات سے مکر کیوں رہے ہو؟"وہ ان کے بدلے انداز پر خفا ہوئے تھے۔
"میری بیٹی ایسی نہیں ہے۔۔وہ خود کو بےگناہ ثابت کرے گی تو یہ فیصلہ بھی اس کا ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کے متعلق کیا بہتر سمجھتی ہے۔۔"انھوں نے بلال کے اصرار پر چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بتایا۔
"ٹھیک ہے جو تم بہتر سمجھو۔۔چائے ختم کرو تو چل کر ڈھونڈھتے ہیں شہزین بیٹی کو۔۔"بڑی چالاقی سے انھوں نے ان دونوں کو اپنے بنے جال میں پھنسایا تھا۔
"احمد کیا ہوا ہے؟"دو ہی لمحوں بعد احمد خان کے حلق میں ٹیسیں اٹھنے لگیں۔
"دروازہ بند کردو بلال۔۔"آصف خان نے بیٹے کو اشارے سے کہا تو اس نے عجلت میں دروازہ بند کیا اور سٹڈی ٹیبل کی طرف چل پڑا۔
"احمد۔۔۔"اسی اثنا میں شہلا بیگم کو بھی اپنے وجود میں پھیلتے زہر کا اثر محسوس ہونے لگا۔
"شور مت مچائیں چچی تکلیف بڑھ جائے گی۔۔"سٹڈی کے سامنے رکھی کرسی پر خط لکھتے ہوئے بلال ان دونوں کی قابلِ رحم حالت پر ہنسا تھا۔دو سے تین منٹ کے اندر اندر وہ دونوں اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔صبح سے ہوئے تماشوں کے باعث سب ہی ذہنی تشویش مبتلا تھے تو رات کو جلدی جلدی اپنے کمروں میں جا بند ہوئے تھے۔اس لمحے شبانہ بیگم بھی کمرے میں عیشاء کی نماز ادا کر رہی تھی۔
"پولیس نے خط کی تصدیق کروائی تو۔۔"ان دونوں کے بےجان وجود پر ایک نظر ڈالتے بلال نے ان کے سامنے میز پر وہ جھوٹا خط لکھ دیا تھا۔
"پیسے میں بہت طاقت ہے بلال خان۔۔پولیس کو کیسے سنبھالنا ہے یہ مجھ پر چھوڑدو۔۔باباجان کو اپنا یہ بیٹا بہت عزیز تھا نا اب میں نے ان باپ بیٹے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ملا دیا ہے۔۔چلو۔۔"اپنا کام مکمل کرتے وہ دونوں باپ بیٹا کمرے سے نکل گئے تھے۔
"چل وقت آگیا ہے تیرا۔۔"حوالدار نے سلاخوں پر اپنے ڈنڈے سے چوٹ کرتے ہوئے مصلے پر بیٹھے آصف خان کو حال سے واپس جوڑا تھا۔آخری بار دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر انھوں نے رب کے حضور آخری توبہ کی پھر اپنے حتمی سفر کی جانب گامزن ہوئے تھے۔
آصف خان کی پھانسی نے خان گھرانے کو زیادہ دن تک افسردہ نہ رکھا تھا۔وہ اس گھر کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی کسی کے سگے نہ بنے تھے،یہی افسوس دونوں چھوٹے بھائیوں کے دل میں ان کے لئے مزید نفرت کے احساسات اجاگر کر گیا تھا۔وہ دونوں خالی ہاتھ رہ گئے تھے۔اب جو تھا وہ شہزین اور شبانہ بیگم کی ملکیت تھی۔
"یہ کتنا پیارا ہے ماشاءاللہ۔۔"شبانہ بیگم کی عدت مکمل ہونے کے ایک ہفتے بعد ہی شہزین کی رخصتی کا دن طے کر دیا گیا تھا۔آج سیدہ بیگم اس کا عروسی جوڑا لے کر پہنچی تھی جسے دیکھتے ہی سمیرا کی بتیسی باہر آئی تھی۔
"سب تمھارے شوہر کی پسند کا ہے۔۔''شہزین نے بہت ستائشی نظروں سے سرخ عروسی لباس دیکھا تھا جب وہ اپنے سالانہ امتحانات کے لئے کچھ دن پہلے لاہور واپس گئی تھی تو پرچے مکمل ہونے کے فوراً بعد ہی شاہنواز اسے اپنے ساتھ بوتیک لے کرگیا تھا اور اس کی مرضی کے عین مطابق وہاں جوڑا تیار ہونے کے لئے دیا تھا۔
"واقعی۔۔آنٹی۔۔"اسے یقین نہ تھا کہ جوڑا ہوبہو اس کی توقعات کے مطابق بنا تھا۔
"یہ لڑکا ہم میں سے بھی کسی کو ساتھ لے کر نہیں گیا۔۔سب خود خریدا ہے اس نے۔۔"جوڑے سے لے کر زیورات تک ہر چیز اس کی پسند کی خریدی گئی تھی۔
"شاہنواز بھائی تو پرفیکٹ ہسبینڈ مٹیریل ہے شازی۔۔"سمیرا نے اسے آنکھ مارتے ہوئے چھیڑا۔
"انسان بنو۔۔۔اس حال میں بھی تمھاری زبان سے کچھ اچھا ادا نہیں ہونے والا شائد۔۔"ساس کو خود پر ہنستا دیکھ کر شہزین نے سمیرا کو ٹوکا تھا جسے اللہ صاحبِ اولاد کرنے جا رہا تھا۔
"میں نے تو کہہ دیا ہے عاشر سے کہ تمھاری رخصتی تک میں تمھارے پاس ہی رکنے والی ہوں۔۔سچ سچ بتاو مس نہیں کر رہی تم اپنے اُن کو؟"سیدہ بیگم کے جاتے ہی وہ مزید پھیلی تھی۔
"اُن چوبیس گھنٹے میرے سر پر سوار رہتا ہے۔۔ابھی بھی فون آف کر دیا ہے تاکہ آنٹی اور تائی امی کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔۔۔"شہزین نے موبائل فون کی طرف اس کی توجہ مبدول کروائی جو دور چارج پر لگا تھا۔
"شازی بچے فون کہاں ہے تمھارا؟"وہ سمیرا کی مدد سے زیور پہن کر جائزہ لے رہی تھی جب شبانہ بیگم وہاں چلی آئیں۔
"چارج پر۔۔"اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ سوال کیوں پوچھا جا رہا ہے۔
"شاہنواز پریشان ہو رہا ہے اسے کال کرلو۔۔"انھیں اپنی بات مکمل کرتے ہوئے خود بھی ہنسی آئی تھی۔
"جی۔۔"اس نے نچلا ہونٹ چباتے ہوئے حامی بھری تھی۔
"کون سے تعویز گھول کر پلائے ہیں تم نے شاہنواز کو؟" سمیرا نے آہ بھرنے والے انداز میں دریافت کیا تھا۔
"جو تعویز تم عاشر کو نہیں پلا سکی۔۔ہٹو اب۔۔ میں موبائل آن ہی کرلوں۔۔"چارج پر لگا فون اٹھاتے ہوئے اس نے حساب برابر کیا تھا۔
رات گئے حویلی میں پراسرار خاموشی تھی۔فروری کی سرد رات میں درجہ حرارت منفی پارے کو جا پہنچا تھا۔مرکزی دروازے کے باہر موجود چوکیدار نے آگ پر ہاتھ سیکتے ہوئے جمائی لی تو کوئی چور قدموں سے اسے ڈاچ دے کر دیوار پھلانگتا حویلی میں داخل ہوا تھا۔
"تم۔۔"اس نے جیسے ہی آنکھ کھلی مجازی خدا کو عین سامنے بیٹھا دیکھ کر یکدم بیٹھی تھی جو ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
"شور مت مچاناپلیز۔۔"اس کی بدحواسی دیکھتے ہوئے شاہنواز نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کروایا۔
"تم کیا کررہے ہو ادھر؟"اس کا ہاتھ خود سے دور کرتی وہ تعجب سے بھنویں ہلا کر پوچھنے لگی۔
"تم نے میری کال کیوں نہیں اٹھائی؟"وہ بیڈ سے ٹیک لگا احتجاجی مظاہرے کا ارادہ زیرغور رکھتا تھا۔
"تم اتنی دور یہ پوچھنے آئے ہو مجھ سے؟"
"چار گھنٹے کا تو سفر ہے۔۔تمھیں کرتے کرتے اور بھی مختصر لگنے لگتا ہے۔۔ویسے کل تو تم مستقل طور پر میری امان میں آجاوگی پھر چن چن کر حساب لوں گا ان نخروں اور بے احتیاطیوں کے۔۔۔"اس نے آستینیں چڑھا کر نیک ارادے ظاہر کئے تھے۔
"اب تم جاو گے پلیز۔۔"اسے شہزین نے زبردستی بیڈ سے کھینچ کر اٹھایا تھا۔
"اتنی دور سے آیا ہوں۔۔کوئی چائے پانی پوچھ لو بیوی۔۔"
"مہمان نوازی کے خواہشمند چور دروازوں سے نہیں آتے۔۔" اسے دھکیلتی ہوئی وہ بالکنی تک لائی تھی۔
"چور دروازوں سے آنے والے خالی ہاتھ بھی نہیں جاتے۔۔"اس نے قدم وہیں جمائے احساس دلایا تھا۔
"جلدی جلدی جاو۔۔سمیرا نے تمھیں دیکھ لیا تو مجھے طعنے دے دے کر مار دے گی۔۔"پہلے ہی سمیرا نے صبح سے اوٹ پٹانگ باتیں کہہ کہہ کر اس کا اتنا مزاج بگاڑا تھا کہ آج رات شہزین نے اسے شبانہ بیگم کے کمرے میں منتقل کروادیا تھا۔اب اگر اسے علم ہوجاتا کہ شاہنواز اس سے ملنے آیا ہے تو وہ اسے شہزین کا بنا بنایا منصوبہ کہہ کر خوب ڈھنڈھوڑا پیٹتی۔
"اوکے بائے۔۔"دھکم پیل کے آگے گھٹنے ٹیکتا وہ بالآخر بالکنی سے لگائی سیڑھی کا آسرا لیتا واپس چلا گیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"مگر اس کی ضرورت کیا ہے بچے؟"تائی جان کو اس کی ضد ناگوار گزری تھی۔
"ضرورت ہے تائی امی۔۔جس دولت نے میرے والدین کی جان لی ہو اس کا ایک پیسہ بھی حرام ہے مجھ پر۔۔پلیز آپ مجھے مت روکیں۔۔"اس نے کاغذات پر دستخط کرتے ہوئے بہت احترام سے ان کی بات سے انکار کیا تھا۔
"تھمارا دل تم سے بھی زیادہ خوبصورت ہے بچے۔۔"شبانہ بیگم کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا کیونکہ ان کی نظر میں وہ مرحومہ بہن کا عکس تھی۔اگر فرزانہ ملک کی اخری خواہش کا احترام نہ ہوتا تو وہ اسے سب کچھ بتاچکی ہوتیں مگر بہن کے اخری الفاظ یاداشت میں آج بھی تازہ تھے کہ شہزین کو کبھی ماں کے ماضی کا علم نہ ہو۔
"تبھی تو اللہ نے مجھے بہترین سے نوازا ہے۔۔میں اب ماضی کی کوئی ایک بری یاد خود سے جوڑ کر نہیں رکھنا چاہتی۔۔مجھے اب خود سے جڑے رشتوں کا حق خلوص سے ادا کرنا ہے۔۔"اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک دیکھ کر ان کی روح بھی پرسکون ہوئی تھی۔
"ہم آجائیں بچے؟"دروازے پر دستک دیتے سہیل خان نے سوال کیا۔
"آجائیں۔۔"اپنا دوپٹہ سر پر درست کرتے ہوئے شہزین نے اجازت دی۔
"کل تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس حویلی سے رخصت ہوجاو گی بیٹے اور ہم تو اس لائق بھی نہیں کہ کسی حق سے تمھارے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ سکیں۔۔ساری زندگی گونگا بہرہ بن کر ہم نے وہی کیا جو باباجان اور لالہ ہم سے کہتے رہے۔۔"وہ دونوں بھائی بیویوں کے ہمراہ معذرت کرنے آئے تو سر مکمل جھکے ہوئے تھے۔
"کاش ہم بھی احمد جیسے بہادر ہوتے اور اپنے ضمیر کی سن کر چلتے۔۔"کریم خان نے بھی ملامتی لہجے میں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کیا۔
"میں نے آپ دونوں کو ہر زیادتی کے لئے معاف کردیا ہے تایاجان اور یہ آپ دونوں کا حق ہے۔۔آپ ہی اس کے اصل حق دار ہیں۔۔"اس نے فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائل کریم خان کے سپرد کی تھی۔
"مگر۔۔"ایک نظر فائل کھول کر پڑھنے کے بعد ان دونوں بھائیوں کی شرمندگی دگنی ہوئی تھی۔کتنے اطمینان سے وہ اپنا حصہ ان دونوں کے نام لکھ چکی تھی۔
"انکار مت کیجیے گا۔۔"اس نے نرمی سے اصرار کیا۔
"پھر اس کے بدلے ہمیں بھی تم سے ایک حق چاہئے اور وہ یہ کہ تم ہمیں یہ حق دو گی کہ ہم احمد کی طرح تمھیں اپنی شفقت کے سائے میں رخصت کرسکیں۔۔"سہیل خان نے نم لہجے میں سوال کیا۔
"بولو منظور ہے؟"کریم خان بھی اس کی ہاں کے منتظر تھے جس کی آنکھیں اس خواہش پر بھیگ چکی تھیں۔
"انکار کی کوئی گنجائش بچتی ہے؟"اس نے آنسو پیتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تو کریم خان بھی اسے سینے سے لگا کر جذباتی ہوئے تھے۔آج وہاں موجود ہر انسان کے دل سے پیسے کی حوس اور حکمرانی کا لالچ جڑ سے ختم ہوچکا تھا کچھ باقی بچا تھا تو وہ صرف خلوص اور محبت تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"مام۔۔۔داداجان۔۔"آف وایٹ شیروانی میں تیار شاہنواز ہال سے حلق کے بل چیخا تھا۔
"کیا ہے برخوردار؟"سفید قمیض شلوار پر بادامی رنگ کی واسکٹ پہنے داداجان کلائی کی گھڑی کو باندھتے ہوئے بہت تحمل سے سیڑھیاں اتر رہے تھے۔
"آپ لوگ کیا مجھے جان بوجھ کر پریشان کر رہے ہیں؟"ماں سرخ پگڑی لئے کمرے سے یہ یوں نکلی جیسے بارات لے جانے میں کوئی خاص دلچسبی نہ ہو۔
"پریشانی کیسی؟"داداجان اس کے اتاولے پن پر ہنسی دباگئے۔
"ہمیں پانچ بجے وہاں پہنچنا تھا۔۔۔گھر میں ہی دوبج گئے ہیں؟کب جائیں گے اور کب اسے لے کر واپس آئیں گے۔"اس نے کلائی میں بندھی گھڑی کو دیکھ کر کہا۔
"اوہو دیر ہوگئی؟ایک کام کرتے ہیں کل کا پلان بنالیتے ہیں۔۔" داداجان نے عدم توجگی سے جانے کا ارادہ ملتوی کیا تھا۔
"داداجان ہمیں بارات لے کر جانا ہے۔۔یہ وقت مزاق کا نہیں ہے۔۔"شاہنواز نے ان کا بازو پکڑ کر روکا تھا۔
"پہلے یہ تو پہنو۔۔"ماں نے سرخ پگڑی اس کے سر پر سجائی تھی۔
"یہ سب ہوتا رہے گا نا۔۔آپ کی بہو نے ارادہ بدل لیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔۔"اس کی بےقراریاں عروج پر تھیں۔
"نہ بےصبرے بنو بھائی ہم پانچ بجے تک پہنچ جائیں گے۔۔" سیاہ قمیض شلوار پر سفید واسکٹ پہنے عاشر گھر میں داخل ہوا تھا۔
"اس کے لئے ہمارا گھر سے نکلنا بھی تو ضروری ہے۔۔"شاہنواز نے زور دیتے ہوئے کہا۔
"چلو بھئی ورنہ یہ ہمیں چھوڑ کر نکل جائے گا۔۔"اس کی جلدبازی پر داداجان نے خائف ہونے کی اداکاری دکھائی تھی۔
"چلیں جلدی جلدی۔۔۔"ماں اور داداجان کو کھینچتا وہ گھر سے نکلا تھا۔
وہ لوگ بارات لے کر شام چھ بجے کے قریب خان حویلی پہنچے تھے۔دادا جان کو دیکھتے ساتھ ہی خان گھرانے کے افراد شبانہ بیگم کی چالاقیوں پر عش عش کر اٹھے تھے یعنی وہ آصف خان جیسے مکار کے ساتھ اتنا بڑا کھیل کھیل گئی تھیں جس کا انھیں مرتے دم تک اندازہ بھی نہ ہوا تھا۔
"اب یہ کیا تماشہ ہے؟"عاشر کے اشارے پر بارات کے ہمراہ آئے ڈھول والوں نے جسے ہی اپنے جوہر دکھانا شروع کئے تو وہ بھنگڑہ ڈالنے سب سے پہلے دوڑا تھا۔
"بارات لائے ہیں برو۔۔پوری خان حویلی کو پتہ چلنا چاہئے۔۔" واپس آتے ہوئے عاشر نے اسے گاڑی سے اتارا تو وہاں بارات کو حویلی کی چھت سے دیکھتی بہت سی دوشیزاوں کے دل دگنی رفتار میں دھڑکے تھے۔
"چلو چھوٹے ملِک۔۔"داداجان نے بھی خوشی میں اپنی کھونٹی ایک ہاتھ میں اٹھالی تھی۔
"دلہا بھائی تو ناچ ناچ کر دیوانے ہوئے جا رہے ہیں۔۔"شہزین کے کمرے کی بالکنی سے اس کی تایاذاد شاہنواز،عاشر اور داداجان کی لگائی رونق پر کھلکھلا کر ہنسی تھیں۔
"داداجان کو دیکھو ذرا۔۔۔"سمیرا کو سب سے زیادہ ہنسی داداجان کی گرمجوشی پر آئی تھی جو پہلی بار اتنے غیرسنجیدہ دکھائی دیے تھے جبکہ شہزین تو مجازی خدا کی خوشی دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔
بارات کا بہت والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔تمام رسومات کے مکمل ہونے کے بعد شہزین کو جب اس کے پہلو میں بیٹھایا گیا تو شاہنواز نے شکر کا کلمہ ادا کیا تھا۔
"فائنلی میرا انتظار ختم ہوا۔۔"اس کے پاس بیٹھتے ساتھ شاہنواز نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔
"تمھیں تو ناچنا نہیں آتا تھا۔۔"شہزین نے اسی دم طعنہ دیا۔
"خوشی میں لنگڑا لولہا انسان بھی مائیکل جیکسن بن ہی جاتا یے۔"وہ دونوں بات ایک دوسرے سے کر رہے تھے مگر نظریں سامنے ہال کی جانب ہی جمی تھیں۔
"تم حد درجے کے گھنے اور مینسنے انسان ہو ملک شاہنواز ابراہیم۔۔"شہزین نے لفظ چباتے ہوئے کہا۔
"کچھ تعریف رخصتی کے بعد کے لئے بھی بچالو مسز ملک شاہنواز ابراہیم۔۔"اس کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کرتا وہ کھل کر مسکرایا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"شہزین آئی ایم سوری مگر میں تو بس۔۔"شان کو جب اس نے ملنے حویلی بلایا تو وہ بہت سی امیدیں لئے وہاں پہنچا تھا۔
"تم تو بس مجھے پھر اس اذیت سے گزارنا چاہتے تھے جس سے پہلے بھی گزار چکے ہو۔"لان میں اس کے سامنے کھڑی وہ بالکل اجننی لگی تھی۔
"وہ سب حالات کی ستم ظریفی تھی اور ملائکہ نے بھی۔۔" شان حسب عادت دوسروں پر ملبہ ڈالنے کو تیار تھا۔
"ملائکہ نے کیا کیا شاہنواز نہ کیا کہا یہ سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں شان۔۔جس نے جو کہا تم نے مان لیا ایسی ہوتی ہے محبت؟اسے کہتے ہیں اعتبار؟ان سب میں تمھارے وہ وعدے کہاں ہیں جو تم نے مجھ سے کئے تھے؟"اس کی بری الذمہ ہونے کی عادت پر شہزین اکتائی تھی جو اپنی غلطی تسلیم کرنے سے آج بھی انکاری تھا۔
"اگر یہ وقت مجھ پر آتا تو تم کیا کرتی؟"اس نے بہت مفہامانہ انداز میں سوال کیا کہ شائد فیصلہ اب اس کے حق میں آجائے۔
"آخری سانس تک تمھارا ساتھ نبھاتی۔۔رسوا کرنے کے لئے تو دنیا بھری پڑی ہے۔۔۔ اپنے تو عیب ڈھانپتے ہیں نہ کہ رسوائی کی دلدل میں ذلت کاٹنے کے لئے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔۔تم چاہتے ہو کہ میں تمھیں معاف کروں تو آئندہ کے بعد میرے سامنے مت آنا۔۔"اسے اس کا اصل مقام باور کرواتی وہ رخ پھیر گئی تو شان کو محسوس ہوا کہ زندگی اس سے خفا ہوچکی ہے۔وہ کچھ بھی کر لیتا اب شہزین احمد کی زندگی میں اس کی ایک فیصد گنجائش موجود نہ تھی۔
"اللہ پاک تمھیں ہر وہ خوشی دے شازی جو میں چاہ کر بھی تمھیں نہیں دے پایا۔۔"اتنا کہتا وہ شکستہ قدم لئے اس کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلا گیا تھا۔
ہسپتال کے کوریڈور میں کھڑا وہ کچھ دیر پہلے ملنے والی خبر کے بعد اپنے اعمال کا جائزہ لے رہا تھا تو خود سے ہی نظریں ملانا محال ہوا تھا۔ملائکہ کی طرح کچھ روز قبل اس نے بھی تو اسی لڑکی پر تہمت لگانے کی کوشش کی تھی جس سے وہ محبت کا دعویدار تھا جوکہ سو فیصد قابل مزمت عمل تھا۔شاہنواز نے تو اس کی طرح واویلا مچا کر شہزین سے کنارہ کشی اختیار نہ کی تھی۔وہ اس پر اعتبار کرتے ہوئے شان کی سازش کو ناکام بنا گیا تھا اور وہ تو محبت کا دم بھرنے والوں میں سے بھی نہ تھا مگر اس کا اعتبار نام نہاد محبت کرنے والوں سے زیادہ مضبوط نکلا تھا۔
کمرے میں قدم رکھتے ساتھ ہی گلاب کی خوشبو نے اس کی سانسوں کو معطر تھا۔اس نے پورا کمرہ اپنی نگرانی میں بیوی کے پسندیدہ پھولوں سے سجایا تھا۔اپنی نئی زندگی کے سفر کی شروعات کو یادگار بنانے کے لئے وہ بہت پرعزم تھا۔سامنے اپنی سیج پر دل پسند ہستی کو دیکھتے ہی اس کا پور پور خوشی اور تشکر سے سرشار ہوا تھا۔
"آپ سے دو پیار بھرے بول بولنے کی اجازت ہے میڈم یا آپ آج بھی شرائط کی پٹاری کھول کر بیٹھی ہیں؟"اس کا گھونگھٹ اٹھاتے ساتھ شاہنواز نے ہاتھ تھامتے ہوئے انسیت سے پوچھا تھا۔
"آج میری کسی شرط کی کوئی اہمیت ہے؟"اس نے نظریں ملانے کی کوشش کی تھی مگر پلکیں کسی احساس کے تحت اپنے آپ جھک گئی تھیں۔
"اس ناچیز میں آپ کو انکار کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔۔"اس کے شرمانے پر وہ مزید شوخ ہوا تھا۔
"تم مجھے آج تک سمجھ نہیں آئے شاہنواز۔۔تم درحقیقت ہو کیا؟"شہزین نے ہمت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکا جہاں جذبات کا ایک بندھ بندھا ہوا تھا۔
"میں بہت محبت کرنے والا انسان ہوں مگر اس محبت پر صرف میرے اپنوں کا حق ہے۔۔مجھے دنیا کو خوش کرنا نہیں آتا شہزین مگر میری ذات سے میرے اپنوں کو خوشیاں فراہم کرنے کے لئے میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہوں۔۔"یہ بات سو فیصد سچ تھی کہ وہ جتنا اجنبیوں کے لئے سنگدل اور سپاٹ تھا اتنا ہی اپنوں کے لئے جانثار کرنے والا اور ٹوٹ کر چاہنے والا انسان تھا۔شہزین تو اب ان دونوں صورتوں سے واقف ہوچکی تھی۔
"اور میرے لئے کس حد تک جاسکتے ہو؟"یہ سوال خودبخود اس کی زبان سے ادا ہوا تھا۔
"تھمارے معاملے میں تو نہ میرے حوصلے کی کی کوئی حد ہے نہ برداشت کی۔۔نہ پیار کی اور نہ اعتبار کی۔۔یہ معمولی سا انسان آپ کے معاملات میں بےلگام اور بےبس ہے اس لئے یہ خوشی کی آنسو بھی مجھے کسی صورت گوارہ نہیں ہے۔۔تمھیں بس میں اس بات کا یقین دلوانا چاہتا ہوں شہزین شاہنواز ملک کہ ماضی میں جو کوتاہیاں مجھ سے ہوئی ہے انھیں معاف کردینے کے بعد تم نے مجھ پر جو اعتماد کیا ہے وہ تاقیامت نہیں ٹوٹنے دوں گا۔۔ہر آنے والا دن گزرے ہوئے کل سے اتنا زیادہ حسین ہوگا کہ تم ماضی کا ہر دکھ بھول جاو گی۔۔"اس کے حنائی ہاتھ پر موجود اپنا نام دیکھتے ہوئے شاہنواز نے جھک کر ہتھیلی کو چوما تھا۔
"اب گفٹ لاو میرا۔۔"چالاقی سے اپنا ہاتھ چھڑواتی وہ بات کا پہلو بدل گئی تھی۔
"گفٹ میں آج میری یہ زندگی تمھارے نام کردی ہے ملک شاہنواز ابراہیم نے۔۔"اس نے جانثار انداز میں کہتے ہوئے اس کی پھیلی ہتھلی پر اپنا ہاتھ دھڑتے ہوئے خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی دل عزیز شریک سفر کے نام لکھ دی تھی۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"مام شہزین کہاں ہے؟"وہ گجرے لئے کمرے میں گیا تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔
"کچن میں ہوگی۔"ان کا جواب سنتے ہی وہ سیڑھیاں پھلانگتا کچن کا رخ کرگیا تھا۔
"گھر میں ملازم کم پڑ گئے ہیں جو تم اپنے ہاتھوں کی مہندی اتارنے پر تلی ہو۔۔"وہ برتن دھو کر ہٹی ہی تھی کہ شاہنواز نے اس کا رخ اپنی جانب موڑا تھا۔
"شاہنواز۔۔۔"وہ اس برقرفتاری پر چونکی تھی۔
"یہ اب تمھارے ہاتھوں سے نہ اتریں۔۔اوکے۔۔"ہاتھ میں پکڑے دو گلابوں کے گجرے اس نے بیگم کی کلائیوں میں پہناتے ہوئے تحکم انداز اپنایا۔
"تم کہاں تھے؟"شہزین کی کلائیوں کو چہرے کے قریب کرتے وہ خوشبوں اپنی سانسوں میں اتار رہا تھا تبھی اس نے بازو واپس کھینچتے ہوئے پوچھا۔
"دو دو دفعہ شادی ہوگئی مگر ایک بار بھی ہنی مون پر جانے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔۔اسی کا انتظام کرنے گیا تھا۔۔"اس نے نیا انکشاف کیا تھا۔
"اسے کہو کہ چلی جائے یہاں سے ورنہ میں کچھ کر گزروں گا۔۔"اسی دوران داداجان کی پھنکار دونوں کی سماعتوں کا شرف بنی تھی۔
"یہ داداجان کس پر بھڑک رہے ہیں۔۔"شاہنواز نے ان کے جلالی انداز پر آہ بھری۔
"دیکھو کون آیا ہے؟"وہ بھی پریشان ہوئی تھی۔
"شہزین۔۔"وہ دونوں جیسے ہی باہر ہال میں پہنچے تو ملائکہ ان دونوں کی طرف لپکی تھی۔
"اب تم کیا لینے آئی ہو؟"شہزین سے قبل شاہنواز نے نفرت آمیز انداز میں پوچھا۔
"معافی۔۔"اس کا حلیہ دیکھ کر وہ دونوں ہی ٹھٹھکے تھے کہ جو ہمیشہ ہر حال میں بنی سنوری رہتی تھی آج بدتر حالت میں ٹوٹی بکھری کیفیت لئے ان کے سامنے کھڑی تھی۔بکھرے بالوں کا ڈھیلا ڈھالا جوڑا،سلوٹ ذدہ کپڑے اور ذرد رنگ کسی گزری قیامت کی خبر سنا رہا تھا۔
"اب یہ کون سا نیا ڈرامہ ہے؟"شہزین نے بھی تنک کر پوچھا۔
"ڈرامہ نہیں مقافات عمل ہے جس نے مجھے نہ جینے لائق چھوڑا ہے نہ اور مرنے لائق۔۔میں نے کسی کی بیٹی کا خیال نہیں کیا جو پلٹ کر میری بیٹی پر آیا ہے۔۔اللہ پاک نے مجھے رحمت سے نوازا ہے شہزین مگر میری بدنصیبی کا آلم یہ ہے کہ نہ وہ ساری عمر مجھے ماں کہہ سکے گی نہ میری زبان سے لفظ بیٹی سن سکے گی۔۔"کہتے کہتے اس کے آنسو پھر سے جاری ہوئے تھے۔
"کیا مطلب۔۔"شہزین کا دل گویا پل بھر کو دھڑکنے سے قاصر ہوا تھا۔
"ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ وہ پیدائشی طور پر گونگی بہری ہے اور شائد اس کا دماغ بھی۔۔وہ ذہنی طور پر معذور ہے۔۔"اولاد کی کمزوری بتاتے ہوئے ہی وہ اذیت کی انتہا کو جا پہنچی تھی۔
"میں نے تم سے تمھارے والدین کو دور کردیا اور میری بے بسی کی انتہا دیکھو اولاد کے ہوتے ہوئے بےاولادوں سے بدتر زندگی گزاروں گی۔۔شان تو پہلے ہی مجھ سے قطع تعلقی کے بہانے کرید رہا تھا۔۔معذور اولاد کا سنتے ہی اس نے نہ اس کے والدین نے دوبارہ ہسپتال کا رخ کیا۔۔میں ہی اس جیسے بزدل، دھوپ چھاوں جیسا مزاج رکھنے والے ناقابل اعتبار انسان کو اپنا سب کچھ مان بیٹھی جو مشکل وقت میں سگی اولاد تک سے منہ پھیر گیا۔۔پورا سرکل میری بیٹی کو کسی کراہت آمیز کم تر مخلوق کی طرح دیکھ رہا ہے مگر میں اسے خود سے دور نہیں کرنا چاہتی۔۔میں آج شام کی فلائٹ سے پاکستان سے بہت دور چلی جاوں گی وہاں اس کا علاج کرواوں گی مگر اس کی شفاء تم دونوں کی معافی میں ہے کیونکہ میں تم دونوں کی مجرم ہوں۔۔پلیز مجھے معاف کر دو تاکہ اللہ میری بیٹی پر رحم کردے۔۔"اس نے سسکیاں بھرتے ہوئے جھکی نظروں کے ساتھ ہاتھ جوڑے معافی طلب کی تو شہزین نے پہلے پاس کھڑے شاہنواز کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اسے معاف کرنے کی گنجائش موجود تھی۔
"میں نے تمھیں معاف کیا ملائکہ اور اللہ پاک تمھاری اولاد کے حق میں بہترین کرےگا انشاءاللہ۔۔"اس کے شانے کو چھوتی وہ بڑے دل کے ساتھ سب کوتاہیاں فراموش کر گئی تھی۔
"شاہنواز۔۔"اس نے اس بار شاہنواز کی طرف ناامیدی سے دیکھا جو اسے باآسانی معاف کرنے والا نہ تھا۔
"مجھ سے زیادہ تم میری بیوی کی مجرم ہو۔۔اللہ کے لئے اس نے تمھیں معاف کردیا ہے تو میں معاف نہ کرنے والا کون ہوتا ہوں۔۔تم جاو اپنی بیٹی کا علاج کرواو۔۔اللہ تمھارے لئے آسانیاں کرے۔۔"اس نے بھی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا تو وہاں موجود داداجان اور سیدہ بیگم کو اپنی اولاد کی نرم دلی پر فخر محسوس ہوا تھا۔ان سب سے اپنے منفی اعمال کی معافی مانگتی ملائکہ اپنے حصے کی سزا کاٹنے نئے تکلیف دہ سفر پر روانہ ہوئی تھی جہاں ناجانے اور کتنے امتحانات اور آزمائشیں اس کی منتظر تھیں مگر آج اسے ملنے والی سزا نے ملک خاندان کے دل میں خوف الٰہی کا جذبہ اور بھی زیادہ بیدار کیا تھا کہ جب اللہ رسی کھینچتا ہے تو ساری فرعونیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے!
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"آئی وان بابا۔۔"آخری گیند پر چھکا لگاتے ساتھ پانچ سالہ امامہ نے خوشی سے اچھل کر اپنی جیت کا جشن منایا تھا۔
"یس پرنسز۔۔"وہ جو جان بوجھ کر ہارا تھا اس کی جیت پر اس سے بھی زیادہ خوش تھا۔
"میں حذیفہ کو لے کر جاوں بابا اس کو بٹرفلائز بہت پسند ہیں۔۔"ہاتھ میں پکڑا بلا وہیں پھینکتی وہ وسیع لان کے کنارے بیٹھی ماں اور ڈھائی سالہ چھوٹے بھائی کی طرف بھاگی تو شاہنواز بھی اس کے پیچھے دوڑا تھا۔
"زیادہ دور مت جانا۔۔"شہزین جو کرسی پر بیٹھی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھی اس نے بیٹی کو سمجھایا جو بھائی کی چھوٹی سی گاڑی گھسیٹتی اسے اپنے ساتھ لے کر لان کی پچھلی طرف جارہی تھی۔
"نہ ٹوکا کرو اسے۔۔بہت سمجھدار ہے ہماری بیٹی۔۔"ملازمہ کو ان کے ساتھ جانے کی ہدایت کا اشارہ کرتا وہ شہزین کے ساتھ رکھی کرسی پر براجمان ہوا تھا۔
"مگر تم اسے بگاڑ کر دم لوگے۔۔"اس نے کتاب کی آخری سطر کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد آج اس کام کو بھی انجام تک پہنچایا تھا۔
"نہیں بگڑتی۔۔ہوگئی پروف ریڈنگ؟"شاہنواز نے میز پر رکھی کتاب اٹھا کر توجہ سے دیکھی تھی۔
"ہاں۔۔"اس نے آنکھوں سے عینک اتار کر ڈبی میں رکھی تھی۔
"دلِ بدگمان۔۔لیکن تم نے اس پوری کتاب میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ تمھیں مجھ سے کتنی محبت ہے۔۔"کتاب کا عنوان پڑھتے ہوئے اس نے ایک خفگی بھری نگاہ بیگم کے دلکش سراپے پر ڈالی جو گزرے چھ سالوں میں اور بھی زیادہ نکھر گئی تھی یا شائد اس کی مجبت اور توجہ نے اس کے حسن میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا۔
"کیونکہ میں جھوٹ نہیں لکھتی ملک شاہنواز۔۔"اس نے بغیر لگی لپٹی رکھے جواب دیا۔
"پھر تم میرے مطلب کی باتیں کب لکھوگی؟"وہ ہمیشہ کی طرح چھوٹی سی بات کو طول دے کر اسے زچ کرنے لگا تھا۔
"وہ میں تب لکھوں جب مجھے تم سے محبت ہو۔۔"کرسی سے اٹھتے ہوئے وہ چہل قدمی کا اردہ زیرغور رکھتی تھی۔
"کتنی بری بات ہے وائف۔۔کل کو جب ہمارے بچے یہ کتاب پڑھیں گے تو ان کے بابا کی کتنی بےعزتی ہوگی کہ ان کی ماں کو بابا جان سے محبت تھی ہی نہیں۔۔"اس نے نیا دکھڑا سناتے ہوئے بیوی کے قدم سے قدم ملائے تھے۔
"محبت بھی ہوجائے گی۔۔ساری عمر پڑی ہے۔۔"اس کے بازو میں بازو دیتے ہوئے شہزین نے سر کندھے سے لگایا تھا اور دونوں ہی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے چلنے لگے۔
"تمھاری انھیں باتوں نے اس شریف النفس انسان کو ٹرک کی بتی کے نیچے لگایا ہوا ہے۔"اپنے بائیں بازو پر رکھے اس کے ہاتھ پر شاہنواز نے اپنا دایاں ہاتھ رکھا تھا۔
"شکر بناو ٹرک کے پیچھے لگایا یا وہی ٹرک تم پر سے نہیں گزارا۔۔"وہ چہکتے ہوئے رعب تیور دکھاگئی تو شاہنواز بھی اس دھونس جمانے والی حرکت پر مسکرایا تھا۔
"بھابھی کی کال آئی تھی۔۔وہ تم سے معافی مانگ رہی تھیں۔۔" پچھلے چھ سالوں میں اگر ان کی زندگی ہر رنگ سے مکمل ہوئی تھی تو وہیں نتاشہ آج بھی اولاد جیسی نعمت سے محروم تھی اور یہی بات شازمان کو اس سے اور بھی دور کر رہی تھی جس نے پاکستان واپس نہ آنے کی قسم کھائی تھی۔روز ہی نتاشہ گھر کال لازمی کیا کرتی تھی اور شہزین سے اپنی بدلحاظیوں اور مکاریوں کی معافی مانگنا بھی اس کے معمول کا حصہ بن گیا تھا کیونکہ اسے یہ آزمائش شہزین کو ستانے کی سزا لگتی تھی۔آج بھی اس کی میڈیکل رپورٹ آنی تھی جس سے قبل اس نے شاہنواز کو کال ملا کر دوبارہ معذرت کے ساتھ دعا کی التجا بھی کی تھی۔
"میں سب کو معاف کرچکی ہوں شاہنواز۔۔مجھے تم مل گئے مجھے سب مل گیا۔۔"شہزین کے قدم رکے تو اس نے سر اٹھا کر شاہنواز کی محبت سے لبریز آنکھوں میں آنکھیں گاڑھی تھیں۔
"اور پھر بھی تم کہتی ہو کہ تمھیں مجھ سے محبت نہیں ہے۔۔۔"اس نے گویا بیوی کی چوری پکڑی تھی۔
"نہیں ہے نہیں ہے نہیں ہے۔۔"وہ تلملاتے ہوئے اسے جان بوجھ کر پریشان کر رہی تھی۔
"آئی لوّ یو ٹو۔۔"شاہنواز نے اس کے انکار کو ہی اقرار مانتے ہوئے پیشانی پر ہونٹ رکھے تھے۔
"گھر واپس چلیں آج۔۔داداجان بہت مس کر رہے ہیں ہمیں۔۔" شہزین نے نئی فرمائش کی تھی۔
"ہمیں نہیں ہمارے بچوں کوـ۔۔"انھیں فارم ہاوس آئے چار دن گزرے تھے اور ان چاردنوں میں آنے والی ماں اور داداجان کی کالز کا مقصد صرف پرپوتی اور پرپوتے کی آواز سننا ہوتا تھا جس پر شاہنواز تھوڑا بہت حسد بھی کرتا تھا جس کی اولاد نے باپ کو اس معاملے میں بالکل دیوار سے ہی لگا دیا تھا۔
"ایک ہی بات ہے۔۔"شہزین نے اسے آنکھیں باریک کرتے ہوئے دیکھا جو اپنی ہی اولاد سے جل رہا تھا۔
"پھر مجھ سے وعدہ کرو کہ گھر جاکر مجھے نظرانداز نہیں کروگی۔۔"اس کے شکووں کی پٹاری ایک دفعہ کھل جاتی تو ہر بار نیا گلہ ادا ہوتا تھا۔
"تم کرنے دیتے ہو؟"اب چلتے چلتے وہ لان کی پچھلی طرف گامزن ہوئے تھے جہاں دونوں بچے ملازمہ کے ہمراہ اپنی سرگرمیوں میں مگن تھے۔
"تم پھر بھی کرجاتی ہو۔۔"
"تھینکس۔۔"اس کے والہانہ انداز پر وہ شکرگزار ہوئی تھی۔
"کس لئے۔۔"
"مجھ سے اتنی محبت کرنے کے لئے۔۔"وہ تشکر سے لیز انداز میں جوابدہ ہوئی۔
"اب تم بھی قسم توڑ لو۔۔"اس نے حسب عادت شکوہ ہی کیا تھا۔
《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》《》
"کیسا رہا ٹرپ؟"حدیفہ حسب عادت دادی کی گود میں جا گھنسا تھا جبکہ امامہ شہزین کے موبائل میں محفوظ اپنی ڈھیروں تصویریں داداجان کے سینے سے لگی انھیں دکھانے میں مصروف تھی۔
"ونڈرفل گرینڈپا۔۔سی ہماری کتنی پیاری پکس بنائی ہیں باباجان نے۔۔"اس کی خوشی اور گرمجوشی دیکھنے سے مطابقت رکھتی تھی۔
"یہ تمھارے لئے آیا تھا۔۔"شہزین جو کام نمٹا کر کچن سے نکلی ہی تھی سیدہ بیگم نے ایک خط اس کی جانب بڑھایا تھا۔
"میرے لئے؟"اس نے خط کے لفافے پر لکھا مس شازی خان نام دیکھا تو سمجھ گئی تھی کہ بھیجنے والا کون ہوگا۔
"شازی یہ تم سے کیا جانے والا میرا آخری رابطہ ہے۔۔میں نے ملائکہ کو طلاق دے دی تھی مگر دل پھر بھی بےسکون رہا ایک عرصے تک تب لگا کہ شائد اپنی اولاد کے لئے تڑپ رہا ہوں۔۔ملائکہ کے لندن جانے کے تین ماہ بعد دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنی بیٹی کو دیکھنے گیا مگر وہاں بھی میری کم ظرفی اور خودغرضی نے مجھے بری طرح ناکام کیا۔۔یہاں سے جانے کے دو مہینے بعد میری بیٹی اپنی محرومیوں کے ساتھ پرائی زمین میں جا دفن ہوئی اور میں بدنصیب اسے آخری بار دیکھ بھی نہیں سکا۔۔ملائکہ سے افسوس کرنا چاہتا تھا مگر وہ میری شکل دیکھنے سے بھی انکاری تھی۔شائد واقعی مجھے کوئی رشتہ ڈھنگ سے نبھانا آتا ہی نہیں۔۔۔ تم اور شاہنواز خوش ہو اور میری دعا ہے کہ اللہ تمھیں خوش و خرم ہی رکھے۔۔بس اس ذات سے میرے سکون کی دعا کرنا۔۔وہ نیک لوگوں کی سنتا ہے۔۔دعا کرنا کہ اتنے سالوں سے جو سکون مجھ سے روٹھا ہے وہ پھر سے میرا مقدر بن جائے۔۔اور میں زندگی میں آگے بڑھ سکوں۔۔تمھاری دعا مجھے ضرور راس آئے گی۔۔"آخری سطر پڑھتے ہوئے اس کے چلتے قدم رکے تھے۔بےشک اللہ بہترین انصاف کرنے والا ہے جس نے اس سے زیادتی کرنے والے ہر انسان کو اس کے حصے کی سزا دی تھی۔شان کے لئے کبھی اس کا دل اس قدر بدگمان نہ ہوتا اگر وہ اس کے اور شاہنواز کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کے لئے اس حد تک نہ گرتا!
"کیا ہوا؟"شاہنواز دفتر سے واپسی پر گاڑی سے اترتا لان میں پہنچا تو اسے گم صم کھڑا دیکھ کر سوال گوہ ہوا۔
"کچھ نہیں۔۔"ہوش میں آتے ہی اس نے وہ خط ٹکروں میں تقسیم کیا تھا اور میز کے پاس رکھے ڈسٹ بین میں وہ بقایاجات دے پھینکے تھے۔
"رو رہی ہو؟"شاہنواز نے اس کی آنکھوں میں ٹھہرا پانی دیکھ لیا تھا۔
"نہیں۔۔بس۔۔"
"تم جانتی ہو تمھارے یہ آنسو میری سب سے بڑی کمزوری ہے۔۔"اس کی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں سے صاف کرتا وہ خود بھی افسردہ ہوا تھا۔
"شاہنواز آئی لوّ یو۔۔"اس نے بالآخر شوہر کا انتظار ختم کیا تھا۔
"آئی نو۔۔۔تم نے زبان سے آج کہا ہے۔۔مگر میں یہ تین الفاظ تمھاری آنکھوں سے ہر روز پڑھتا ہوں لڑکی۔۔"وہ فاتحانہ انداز میں مسکرایا تو شہزین کے لبوں پر بھی مسکان رقصاں ہوئی تھی۔
"میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہمارے گھر اور ہماری محبت کو نظرِبد سے بچائے۔۔"اسے آج اپنا آپ خوش نصیب ترین محسوس ہو رہا تھا جس کے پاس ہر وہ نعمت اور آسائش موجود تھی جس سے اس کے ارد گرد کے کتنے لوگ محروم تھے۔شوہر کی محبت،اولاد کا سکھ بزرگوں کی شفقت اور مخلص دوست۔زندگی آج ہر لحاظ سے مکمل ہوچکی تھی۔
"آمین۔۔"اس کے ہمراہ وہ واپس گھر میں داخل ہوئی تھی۔آج شام سمیرا کے بیٹے کی سالگرہ پر وہ سب مدعو تھے جو دوست کی محبت میں شوہر کو لئے چار سال پہلے مستقل طور پر لاہور منتقل ہوگئی تھی۔شبانہ بیگم کا بھی اب لاہور آنا جانا لگا رہتا تھا۔خان حویلی پر اپنا دبدبہ برقرار رکھنے کے لئے انھوں نے جائیداد کا بھاری حصہ آج بھی اپنے نام ہی رکھا ہوا تھا۔جہاں سب نے اپنے کی قیمت چکائی تھی وہیں وہ خان حویلی پر راج کرتے ہوئے اپنی بھڑاس سب پر نکالتی تھیں۔آصف خان کی جدائی کا دکھ یا موت کا رنج دور دور تک کہیں نہ تھا مگر تنہائی میں اپنی مرحومہ اولاد کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھیں آج بھی بھیگ جایا کرتی تھیں۔شاید کچھ محرومیاں عمر بھر کے لئے ہوتی ہیں جن پر صرف صبر ہی کیا جاسکتا ہے۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Dil E Badguman Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil E Badguman written by Warda Jaffery Dil E Badguman by Warda Jaffery is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment