Sitamgar by Rida Mughal Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 27 September 2024

Sitamgar by Rida Mughal Complete Romantic Novel

Sitamgar By Rida Mughal New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sitamgar by Rida Mughal Complete Romantic Novel 

Novel Name: Sitamgar 

Writer Name: Rida Mughal

Category: Complete Novel

وہ جیسے ھی یونیورسٹی سے نکلی بونداباندی شروع ہوچکی تھی۔وہ سٹپٹا کے بھاگتی ہوئ یونیورسٹی کے بیرونی دروازے کو عبور کرتی ہوئ باہر نکلی۔

سامنے روڈ کو اندھا رھند کراس کرتے بس سٹاپ کی جانب چل دی تھی۔کیوں کہ اسکی کار کافی دنوں سے خراب تھی۔کار خراب ہونے کی وجہ سے پری کو یونیورسٹی انے جانے میں کافی مشکل پیش ارہی تھی۔

لندن میں تو موسم زیادہ تر سرد رہتا تھ۔اور سردیوں میں کب موسم خوب تر سرد ہوجاے کچھ بھی کہنا ناممکن تھا۔خیر کچھ اور وقت ہوتا تو وہ موسم سے خوب لطف اٹھاتی۔لیکن ابھی اسے سیدھا بوتیک پر جانا تا تھا۔جہاں ڈھیروں کام اس کے ذمہ تھے۔

وہ جیسے ھی بوتیک پر پہنچی۔مارک نے اک بمب پھوڑا تھا اس کے سر پر کے وہ کانپ کر رہ گئ تھی۔

اکیسوز می میم۔

یس مارک۔میڈم بینک سے نوٹیس ایا ھے کہ ہمیں تین مہینے کے اندر اس جگہ گے ڈیوذ پیمنٹ کرنے ھیں نہیں تو ہمیں یہ جگہ چھوڑنی پڑے گی۔۔

پری یہ سن کے سٹپٹا کر رہ گئ تھی۔

اوکے مارک میں دیکھتی ہو کچھ کرتی ہوں کہ میں چارجز پہ کر سکوں۔لیکن غلطی سے بھی یہ نیوز مام تک نہیں جانی چاہیے۔

It's that clear.

Ok mam don't u worry.

اور مارک کو باہر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ کرسی پر ڈھے گئ تھی۔

آنسو اس کی آنکھوں سے روا تھے وہ کرسی سے پشت ٹکائے انکھیں میٹے اپنی بے بسی پر انسو بہارہی تھی۔

لندن کے اک مزہبی گھرانے میں انکھ کھولنے والی پریشہ ارف پری جو نام سے ھی پری نا تھی بلکہ وہ حقیقت میں کسی بھی پری سے کم نا تھی۔نیلی انکھیں ستواں ناک گورا رنگ تیکھے نین نقوش والی نہایت نرم دل اور خوبصورت لڑکی تھی۔

جب سے انکھ کھولی اپنی ماں کو کام کرتے ہوئے پایا۔ہر چھوٹی بڑی ضرورت اس کی مما نہایت ذمہ درانہ انداز میں پورا کرتیں تھیں۔

سکول میں جب پیرنٹس ٹیچنگ میٹنگ ہوتی تو سب بچوں کے مما پاپا دونوں موجود ہوتے تھے۔لیکن پری جب بھی اپنی مما سے پاپا کا زکر کرتی تو مما کوئ نا کوئ بہانہ بنا کر بات ٹال دیتیں۔تب تو وہ بچی تھی بات ب

کر کے بھول جاتی۔لیکن جیسے جیسے پری سمجھدار ہوتی جارہی تھی۔اک خلعش سی اس کے دل میں اجاگر ہوتی جارہی تھی۔کہ اخر اس نے آج تک اپنے بابا کو کیوں نہیں دیکھا۔

وہ اب جب جب مما سے اپنے بابا کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتی اس کی مما اس کو ڈانٹ کر چپ کروادیتں۔اور وہ روہانسی ہوجاتی۔پری جب بھی اپنے بابا کا نام جاننے کی کوشش کرتی تو اس کی مما یہی کہتیں۔تمہارا باپ بھی میں ہوں اور ماں بھی بس تمہیں اس بات سے کو سروکار نہیں ہونا چاہیے۔اور ائندہ کبھی تم اپنے باپ کا زکر نہیں کرو گی نا میرے سامنے اور نا اپنے چھوٹے بھائی کے سامنے سمجھ میں ائ میری بات پری یا نہیں۔۔

اور وہ سہم گئ تھی۔اپنی ماں کا غصہ دیکھ کر لیکن اپنی ماں کی انکھوں میں ائے ہوے انسو پری سے چھپ نا پاے تھے۔

نا جانے وہ بابا کے نام پر اتنا غصہ کیوں کرتیں تھیں۔اور اس شخص سے اتنی نفرت کیوں کرتیں تھیں کے ان کا ذکر تک برداشت نا تھا ان سے۔

اس دن کے بعد پری نے ٹھان لیا تھا کہ وہ کبھی اپنی ماں سے اپنے بابا کا زکر نہیں کرے گی۔

اس کی کل کائنات اس کی ماں اور چھوٹا بھائی صائم ھے۔اور اسے بس اپنی ماما اور بھائ کی خوشیوں کے لیے جینا ھے۔

وہ آنکھوں میں ائے ہوے انسو صاف کرتی اٹھ کھڑی ہوئ اور مارک کو ٹائم سے بوئتیک بند کرنے کا کہتے ہوے چل دی۔بوتیک سے نکلتے ہی ٹیکسی لی اور گھر کی راہ لی۔

وہ جیسے ھی گھر میں داخل ہوئی مما کو خود کا منتظر پایا۔

اسلام علیکم مما۔۔

وعلیکم السلام میرا بچہ اج انے میں دیر کر دی۔

 جی مما بوتیک پر کچھ کام تھا اسلیے۔

افف پری بیٹا میں کتنی بار سمجھاوں اپکو کے میں بالکل ٹھیک ھوں مجھے کام دیکھنے دو۔کیا کیا نہیں کر رہی ہو اک ساتھ پڑھائی اور کام۔بس میں صبح بوتیک خود دیکھوں گی اور کوئ ضرورت نہیں ھے اتنی جان کھپانے کی۔

اوہو مما۔

مائ لولی مام۔وہ بلکل بچوں کی طرح مما کے کندھوں پر جھول اٹھی تھی۔اور بہت ھی پیار سے ماں کے گال پر بوسہ دیا تھا۔

اپ کو فکر کرنے کی بلکل ضرورت نہیں ھے اپ کی بیٹی اب بڑی ہوگئ ھے۔ساری ذمہ داری اٹھا سکتی ہے۔اپ ٹینشن مت لیں۔وہ جانتی تھیں پری کی ضد اور بچپنہ۔لیکن وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے پری دب کر رھ جاے اور اپنی تعلیم پر دھیان نا دے پائے۔فائنل ائیر تھا میڈیکل میں اور پھر ان کا اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنتے ہوے دیکھنے کا خواب پورا ہونے والا تھا۔

چلو چھوڑو یہ باتیں۔جلدی سے فریش ہوکر ائو میں تب تک کھانا لگواتی ھوں۔اوکے مما اور وہ ماں کی گال کو چھوتے ہوئے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔

کیوں کہ پری کا مارے بھوک سے برا حال تھا۔

 ************************  ********************

اگلی صبح وہ جیسے ھی ریڈی ہوکر نیچے ائ مما کو بلکل تیار پایا۔

گڈ مارننگ مما۔

مارننگ بیٹا۔او ناشتہ کرو۔

جی مما۔۔۔

وہ مما اپ اتنی صبح تیار ہوکر کہی جارہی ھیں کیا۔۔۔

ہاں بیٹا میں نے سوچا کے اج بوتیک کا چکر لگاوں گھر بیٹھے بیٹھے اکتا گئ ہوں۔افف ہو مما میں دیکھ لوں سب کام  بس اپ ارام کریں۔اپ کی طبیعت پہلے ھی نہیں ٹھیک اوپر سے کام کی وجہ سے پریشان ہو گی خواہ مخواہ۔

پری نے اک نظر اپنی ماں کی جانب دیکھ جو کچھ ھی دنوں میں کافی کمزور دکھائی دے رہی تھیں۔۔

وہ کتنا ڈر گئ تھی یہ پری ھی جانتی تھی جب چند دن پہلے اس کی مما بیہوش ہوکر گر گئیں تھیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا تھا۔پری کانپ اٹھی تھی ۔

مما اپ پہلے ھی ٹھیک نہیں ھیں اور میں کچھ سننا نہیں چاہتی۔

اپ بس گھر رہیں ارام کریں باقی میں سب دیکھ لوں گی۔

ارے بیٹا پری میں ٹھیک ہوں اب کیسی ضد ھے یہ۔

ضد نہیں مما یہ میرا فرض ھے اک بیٹی کی محبت ھے اپنی ماں کے لیے۔اس پوری دنیا میں اپ ھی میرا سب کچھ ھیں مما۔

اور پری کی آنکھوں میں انسو آگئے تھے۔جو وہ اپنی ماں سے چھپا نا پائ تھی۔

میں ہوں نا مما میں سب کچھ مینج کر لوں گی اپ فکر نہیں کریں یہ سب کاموں میں میری پڑھائی ڈسٹرب نہیں ہو گی اپ کی پری کا وعدہ ھے۔اور وہ اپنی بیٹی کو اچھے سے جانتی تھیں۔

کہ ان کی بیٹی بہت قابل ھے۔

اور وہ اچھے سے جانتی تھیں کہ پری ان کی سننے والی نہیں ھے۔جو ٹھان لے اک بار وہ کر کے رہتی ھے۔اور اس میں وہ ان کی بھی اک نا سننے والی تھی۔

لیکن وہ اک ماں بھی تھیں اپنے بچوں کو کہاں گم کی چکی میں چلتا چھوڑ سکتیں تھیں۔ابھی ان کے پاس کوئ چارہ نا تھا پری کی ضد ماننے کے علاوہ۔ 

انہوں نے پری کے ماتھے پر بوسہ دیا۔

لو یو مما۔۔

لو یو ٹو بیٹا۔

اوہ ھاں یاد ایا مجھے اج hospital بھی جانا ھے اپ کے ٹیسٹ کی رپورٹ انی تھی اور ڈاکٹر سے بھی ملنا تھا۔

شام میں ڈاکٹر سے ملوں گی پھر گھر لوٹوں گی فکر مت کیجیے گا۔اوکے بیٹا دھیان رکھنا اپنا۔جی مما اپ بھی۔اور وہ ملئی(care taker) کو مما کی میڈیسن اور کھانے پینے کا دھیان رکھنے کی تنقید کرتے ہوے گھر سے نکلی تھی۔

پری جیسے ھی یونیورسٹی پہنچی۔شیطان اس کی راہ میں باہیں کھولے کھڑا تھا۔اک دم فلمی سٹائل میں۔اوہ چشم بتور تو چڑیل حاضر ہو رہی ھے۔

اوے گدھے چڑیل حاضر ہوچکی ھے۔پیچھے سے حرا چہچہائ تھی۔

اور دونوں کھل کھلا کر ہنس دئیے تھے۔

یہ شیطان کوئ اور نہیں اس کے بچپن کے دو دوست تھے۔حرا اور علی۔حرا اور علی تو اپس میں کزنز بھی تھے۔

پری حرا اور علی یہ تینوں ایک ھی کالونی میں رہتے تھے۔ بچپن بھی اک ساتھ ھی گزرا تھا۔بڑے بھی فیملی فرینڈذ تھے اور اگے بچے بھی اک دوسرے پہ جان۔ چھڑکتے تھے۔

علی جانے مانے بزنس مین سیٹھ کامران کے اکلوتے فرزند تھے۔جنہیں اپنے بابا کے بزنس سے کوئ سروکار نا تھا۔تو اپنے پیرنٹس کے فورس کرنے پر میڈیکل میں اپلاے کر بیٹھا۔نا چاہتے ہوے بھی موصوف کو پڑھنا پڑتا تھا کیونکہ اپنے پاپا سے ڈیمانڈز بھی تو پوری کروانی ہوتی تھی جو ائے دن بدلتی رہتی تھیں۔جناب کو ایکٹنگ کا حد درجہ شوق تھا۔اور سنگنگ تو جناب ایسی کرتے تھے۔کہ سننے والے کے کان کے پردے پھٹ جائیں۔اور علی صاحب چپ نا ہوں۔

خیر جناب رولا اور واویلا اٹھا کر بھی فائنل ائیر میں پہنچ چکے تھے۔اور حرا دوست کم بہن زیادہ تھی۔پری کی ہم راز۔

حرا علی کی پھوپھو زاد تھیم ایک ساتھ تینوں نے بچپن سے جوانی تک ک سفر طے کیا تھا۔

تو دونوں نمونے کھا آئے شادی۔

ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔

تو اور کیا بھوتنی کھا آئے شادی لیکن تمہاری کمی بہت محسوس ہوئ۔اب کی بار علی پھر ایکٹنگ کے جلوے دکھاتا ہوا بولا تھا۔

بس بس زیادہ اوور نا ہو اب کی بار پری بولی۔حرا کی ہنسی چھوٹ گئی۔واہ پری کیا کہنے اور حرا پری کے گلے ملی۔ پورے ایک ہفتے کے بعد وہ حرا اور علی سے مل رہی تھی۔کیونکہ دونوں ایک فیملی ایونٹ میں دوسرے شہر گئے ہوے تھے۔

میں نے تم دونوں کو بہت مس کیا یار۔ھاے صدقے میں نے بھی اپنی بھوتنی کو بہت یاد کیا۔

پل پل ہر پل۔چل اوے گدھے تمہیں فرصت ھی کہاں تھی۔

 اتی جاتی ہوئ ہر لڑکی پر لائن مارتے ہوے۔

اب کی بار باری پری کی تھی۔ہاں پھر اس جن کی شکل دیکھ کے ھی سب ڈر مر گئ ہونی۔

اور علی تپ گیا تھا۔

 اب کی بار وار اس کے بیوٹی فل فیس اور پریسنیلٹی پر ہوا تھا۔ھاں ھاں جلو جلو تم لوگ لاکھوں دیوانےھیے ہمارے علی کالر جھاڑتے ہوے اترایا۔ہاں ہاں اتںی دیوانی ھے لڑکیاں کہ جسے جناب دل دیتے وہ کسی اور کے ساتھ چھو منتر ہوجاتی ھیں۔

ہاہاہاا اب کی بار حرا اور پری ہاتھ پہ ہاتھ مارتے ہوے خوب ہنسی تھیں۔اور علی اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔

کیونکہ اب وہ جانتا تھا کے یہ دونوں مل جائیں تو چکی میں پستہ وہ ھی ھے مفت میں۔

چلو یار کلاس شروع ہونے والی ھے کلاس میں چلتے ہیں۔

 پری نے کہا۔

او گاڈ یہ دوائیوں کے نام یاد کر کر کے میں اپنا نام بھول گیا ھوں اس سے تو اچھا میں بابا کا بزنس سنبھال لیتا۔علی تپ کر بولا۔نا بیٹا تیرا افس میں بھی گزارا مشکل تھا۔ایویں تمہاری حرکتوں کی وجہ سے انکل نے جوتیا اتار لینا تھا۔اور رج کر شامت بھی انی تھی اک دم پنجابی سٹائل میں۔۔

ہاں ہاں بات پتے کی ھے ویسے اور 

وہ ہنستے مسکراتے مستی مذاق کرتے ہوے  کلاس کی جانب چل دئیے۔۔

یونی کے آف ہوتے وہ تینوں بیرونی گیٹ کی جانب چل دیے۔

اوکے گائز پھر ملتے ھیں۔ارےارے کہاں علی نے کہا۔وہ یار hospital جانا ھے۔کیوں کیا ہوا سب خیر تو ھے دونوں فکر مند ہوے۔

 ہاں یار سب ٹھیک ھے۔یا شاید کچھ ٹھیک نہیں۔اب کی بار علی اور حرا بھی کافی پریشان ہوے۔ہوا کیا ھے پری۔

چلو اس بینچ پر بیٹھ کے بات کرتے ھیں۔وہ چلتے چلتے بینچ پر بیٹھ گئے۔

ہنسی مذاق ایک طرف لیکن وہ پری کی عادت سے واقف تھے۔ہر بات پر دل چھوٹا سا کر بیٹھتی تھی۔

وہ کچھ دن پہلے مما کی کافی طبیعت خراب ہوگئ۔جس کی وجہ سے انہیں Hospitalized کرنا پڑا تھا۔اور وہاں ان کے کچھ ٹیسٹ ہوئے ھیں۔ڈاکٹرز نے کہا ھے کہ بہت زیادہ سٹریس کی وجہ سے انکی طبیعت خراب ہورہی ھے۔انہوں نے کچھ ٹیسٹ کیے ھیں مما کے جن کی رپورٹس اج آئیں گی۔تب ھی ڈاکٹر ٹریٹمنٹ شروع کریں گے مما کا۔تم دونوں بھی یہاں نا تھے اور نا انٹی انکل۔اور صائم بوڈینگ ہوتا۔ اس کے بھی ایگزیم ہوریے ھین۔

میں نے بہت مشکل سے مما کو سنبھالا۔ بہت tuff situation سے گزری ہوں۔

اور پری تم نے ہمیں بتانا بھی گوارہ نا کیا۔

اور ایک طرفان دونوں کو بہت ندامت ہوئ۔کہ اس مشکل میں وہ اپنی جان سے عزیز دوست کے پاس نا تھے۔پری اتنا کچھ ہوگیا۔اور تم نے ہمیں بتانا تک مناسب نا سمجھا۔علی غصہ ہوا۔نہیں یار میں تم لوگوں کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی۔بس کرو پری۔ان حالات میں ہمیں یہاں ہونا چاہیئے تھا نا کہ وہاں فنگشن پہ۔

وہ اپنے دوستوں کے چہرے پڑھ چکی تھی۔ جہاں دکھ شرمندگی اور کہی نا کہی غصہ بھی تھا۔

پری کبھی نا چاہتی تھی کہ اس وجہ سے اس کےدوست خفا ہوں۔

پری تمہیں ہمیں بتانا چاہیے تھا۔

اچھا بابا میری توبہ اب کی بار کچھ نہیں چھپاوں  گی پکا۔

اب مجھے ڈاکٹر کے پاس ڈراپ کر دو کیونکہ میری گاڑی خراب پڑی ھے۔

اوہ کھٹاڑا کو کیا ہوا۔دفعہ یار اب کی بار حرا بولی تھی۔

علی بس پری کا موڈ ٹھیک کرنا چاہتا تھا۔وہ جانتا تھا پری کے دل کو اگر رونے بیٹھے تو اسے چپ کروانا اسان نا ہوتا تھا۔وہ پری کے لیے بہت حساس تھا۔

بچپن میں بھی پاپا کے ساتھ شاپنگ کرتے ہوئے پری کی چاکلیٹس لینا نا بھولتا تھا۔پری بیمار ہو جاتی تو تیمارداری میں لگ جاتا۔اور کالج میں کچھ لڑکوں نے جب پری کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تھی۔تو کیسے لہولہان کر دیا تھا۔ان لڑکوں کو پولیس کیس تک بن گیا تھا۔وہ پری کو کسی صورت بھی اداس نہی دیکھ سکتا تھا۔چاہے کچھ بھی ہو پری کی ڈھال بن جاتا تھا اس کا جان سے عزیز دوست۔

اچھا علی تم پری کو لے کر ہسپتال جاو۔اور میں کچھ ڈاکومنٹس سبمنٹ کروا کر شام میں تم دونوں سے ملتی ہوں۔

اور ہاں پری پریشان مت ہونا اللہ بہتر کریں گے۔اور انشاللہ سب ٹھیک ہوگا۔اور علی میری دوست کا خیال رکھنا۔ہاں ہاں اس بھوتنی کو میرے علاوہ کون سنبھالے گا۔اور تینوں مسکراتے ہوے پارکنگ کی جانب چل دئیے۔

***********************************************

گاڑی میں خاموشی تھی۔اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ پری کے ساتھ سفر کر رہا ہو اور اس قدر خاموشی ہو۔

پری۔۔وہ چونکی تھی علی کی اواز پر۔

ہاں ہوں۔۔

علی نے پری کا ہاتھ تھاما تھا۔جو برف کی مانند ٹھنڈا تھا۔پری تم ٹھیک ہو۔علی نے سڑک کے سائیڈ پر گاڑی روکی تھی۔علی مجھے بہت گبھراہٹ ہورہی ھے۔اور پری گاڑی سے اتری تھی۔

پری حوصلہ کرو۔نہیں علی حوصلہ ھی تو نہیں آرہا۔

پتا نہیں رپورٹس میں کیا ایا ہوگا۔مجھے سمجھ نہیں ارہی اور نا ہمت ہورہی ھے۔کہ ڈاکٹر سے ملوں۔علی پری کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔تمہیں پتا ھے۔علی میری زندگی میں اک خلا ھے۔وہ خلا اج تک پوری نہییں ہوئ۔ہاں جانتا ہوں۔

مما نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ میں اور صائم محرومیوں کا شکار نا ہوں۔لیکن باپ کیا ہوتا ھے کیسا ہوتا ھے میں تو کچھ جانتی ھی نہیں۔

مما ھی میری دنیا ھیں علی وہ ھی میری مما اور بابا ھیں۔علی ان کی طبیعت دن بدن خراب ہوتی جارہی ھے۔لیکن وہ میرے سامنے واضح نہیں کرتیں ھیں۔تمہیں نہیں پتا میں ان کو ایسی حالت میں دیکھ کر کتنے حوصلے سے چل رہی ہوں۔اور وہ آنکھوں پہ ھاتھ رکھے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔اور علی اس کو بچوں کی طرح بہلا رہا تھا۔نہیں پری ایسے تم دل چھوٹا کرو گی تو تمہیں دیکھ کر انٹی بھی پریشان ہو گی دیکھو رو مت پری اور وہ علی کے سینے سے لگے کافی دیر روتی رہی۔علی کے لاکھ چپ کروانے پر بھی وہ چپ نا ہوئ تھی۔

اچھا پری ادھر دیکھو اگر اب بھی چپ نا ہوئ تو میں اکیلا ڈاکٹر پاس چلا جاؤں گا تمہیں یہی چھوڑ کر۔نن نن نہیں پری نے اک دم انسو پونچھے میں چلوں کی تمہارے ساتھ۔یہ ہوئ نا Brave Girl a Good Girl۔چلو شاباش اچھے بچوں کی طرح منہ صاف کرو اور گاڑی میں بیٹھو۔اور ہاں پری علی نے پری کے نرم و ملائم ہاتھوں کو پکڑا جو ابھی بھی ٹھنڈے تھے۔ میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔زندگی کے ہر موڑ پر تمہاری ہمت بندھاے رکھوں گا۔کبھی خود کو اکیلا اور بے بس مت سمجھنا۔تمہارا دوست ہمیشہ تمہارے ساتھ کھڑا ھے۔اور پھر اللہ پر بھروسہ رکھو سب ٹھیک ہوگا اور رپورٹ بھی بلکل ٹھیک ہو گی۔

انشاء اللہ۔

پری کچھ سنبھلی تھی۔شاید رو دینے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا تھا۔تھینکس علی میری زندگی کے ہر موڑ پر میری طاقت بننے کے لیے۔میں بہت خوش قسمت ہوں جو تم جیسا دوست ملا۔جو مجھے سمجھتا ہے۔اوے کیا ہو گیا بھوتنی بس بس اتنی تعریف مت کرو کے کہ میں صدمے میں چلا جاوں۔

اللہ نا کرے پری فکر سے بولی۔اور وہ مسکرا دیا۔

چلو چلتے ھیں اس سے پہلے کہ ڈاکٹر سے اپوائنٹمنٹ کا وقت نا گزر جاے۔

ہاں چلو۔وہ دونوں گاڑی میں بیٹھےاور علی نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔

علی نے کار ہاسپٹل کے پارکنگ میں پارک کی۔اور پری کی جانب دیکھا۔جس کے معصوم سے چہرے پر ڈر اور خوف کے ملے جلے تاثرات تھے۔اور اس کے لب مسلسل ہل رہے تھے۔وہ جانتا تھا۔ پری اس وقت درودپاک کا ورد کر رہی ھے جو وہ ڈر کے ٹائم پڑھتی تھی۔

پری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پری نے علی کی جانب نظریں کیں۔اندر چلیں۔

پری۔اوہ ہاں چلو

لیکن پرامیس می نو ڈر نو ٹینشن Just Carm easy and relax ok۔اور پری نے اثبات میں سر ہلایا۔

دونوں گاڑی سے نکلے اور ہسپتال کی جانب چل دئیے۔

ریسپشن پر ڈاکٹر ڈیوڈ لونگ کے ساتھ اپوائنٹمنٹ کا بتایا۔اور ان کے کمرے کی طرف چل دئیے۔

اوہ ہیلو مس پریشہ اینڈ۔۔۔

ھی از علی مائ فرینڈ اوہ ہیلو سر۔

ہیو ائا سیٹ۔واجبی تعارف کے بعد پری نے اپنی مما کی رپورٹس کے بارے میں پوچھا۔

Doctor، tell me about my mom's health test.

Its everything is all right about mine mom health.

یہ کہتے ہوے پری کی اواز کانپ رہی تھی۔اور علی اس کی کیفیت بخوبی سمجھ رہا تھا۔

Ys i will be chekout your mother reports....

Bt its too much complicated..

Your mother situation is very critical.she suffering in Brain tumor..

What what are you say doctor..

پری اک دم گھبرائ۔

Doctor don't wory just relax.

ڈاکٹر پلیز ٹھیک سے بتائیے انٹی کی بیماری کے بارے میں۔

مس رباب (پری کی مما کا نام تھا) کو برین ٹیومر ھے۔جو کہ لاسٹ سٹیج پر ھے۔ان کو اس بیماری کو جھیلتے کافی عرصہ ہوگیا ھے۔بہت زیادہ سٹریس اور زہنی انتشار اور خواب آور دوائیوں کے استعمال کی وجہ سے ان کے برین کی وینز میں خون جم گیا ھے۔لیکن افسوس کی بات ھے کہ انکی یہ بیماری کافی بڑھ گئ ھے۔اسکی وجہ سے ان کا سر درد اس حد تک بڑھ جاتا کہ وہ کافی ہائ ڈوذ میڈیسن کا استعمال کر رہی تھیں۔

پری تو بے سود بیٹھی تھی۔جیسے اس کے اوپر پہاڑ ٹوٹ  گیا ہو اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔نا وہ ہل پارہی تھی۔پری سن ہوچکی تھی۔پھٹی پھٹی نگاہ سے ڈاکٹر کو تک رہی تھی۔

علی کا بھی کچھ ایسا ھی حال تھا۔علی نے حوصلہ کرتے ہوے ڈاکٹر سے پوچھا۔

ڈاکٹر اس کا کوئ تو ٹریٹمنٹ کوئی علاج تو ہوگا۔

ہمیں بیماری کا بہت دیر سے پتہ چلا ھے۔برین ٹیومر کا آخری حل آپریشن ھے۔جس مین بھی 30٪ چانسز ہوتے ھیں کے مریض کو بچایا جاسکتا ھے۔اور اگر مریض بچ جاے تو کسی نا کسی جسمانی صلاحیت سےوہ محروم پوسکتا ھے۔لیکں کافی مریض مکمل ریکور بھی ہو سکتے ھیں۔لیکن 20٪ ھی چانسز باقی بچتے ھیں۔لیکن مس رباب کی situation بہت critical ھے۔لیکن ہم ان کی تھراپی سٹارٹ کرسکتے ھیں۔اگر کچھ بہتری نا ہوئ تو لاسٹ چانس آپریشن ھے۔ لیکن ان کے پاس بہت کم وقت بچا ھے۔

کیا مطلب ھے ڈاکٹر کچھ نہیں ہوا ھے میری مما کو سمجھے اپ۔

پلیز مس پریشہ ریلیکس۔

اپ خود ایک ڈاکٹر بن رہی ھیں۔حالات سے ڈر کر بھاگیں نہیں بلکہ حالات کا ڈٹ کر سامنا کریں۔اور ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔

مسٹر علی ہمیں مس رباب کی تھراپی شروع کرنی ہوگی۔پہلے ھی بہت وقت گزر چکا ھے۔جی ڈاکٹر۔

پرسوں کچھ ڈاکٹرز ارہے ھیں ہمیں مس رباب کا ٹریٹمنٹ سٹارٹ کرنا ہوگا۔اوکے ڈاکٹر ٹھیک ھے۔ھم انٹی کو لے ائیں گے ۔

اوکے جسٹ ایکسوز از مجھے راونڈ پر جانا ھے مریضوں کے چیک اپ کے لیے۔اوکے ڈاکٹر۔ تھیکنس فار یور ٹائم۔

اور وہ پری کے کندھے کو تھپتھاتے ہوئے۔بی ںریو گاڈ بلیس یور مام۔کہتے ہوے باہر چل دئیے۔

اور وہ پری کو کیسے سہارا دیتے ہوے باہر گاڑی تک لایا تھا یہ وہ ھی جانتا تھا۔ 

پری کو گاڑی میں بٹھا جسے ھی مڑا۔حرا کی کال ائ تھی۔ہیلو علی پری کال نہیں اٹھارہی ھے۔کہاں ہو تم لوگ،ڈاکٹر سے ملاقات ہوی۔سب ٹھیک ھے نا انٹی کی رپورٹس۔حرا ایک ھی بار میں اتنے سوال اس نے ڈانٹتے ہوے بولا۔اوہ سوری علی۔

میں پری کی طرف ائا گئ تھی۔تو انٹی فکرمند ہورہی ھیں کہ پری گھرنہیں ای ابھی۔

ہاں پری میرے ساتھ ھے۔انٹی کو بتا دو۔ہم کچھ دیر میں پہنچتے ھیں۔اور فٹ سے کال بند کیے علی کار کی جانب لپکا۔

حرا کی بات ادھوری رہ گئ اور کال کاٹ دی تھی علی نے ایسا پہلی بار ہوا تھا۔

علی نے کار میں بیٹھنے کے لیے دروازہ کھولا تو پری نہیں تھی وہاں۔مارے گھبراہٹ کے علی ہکا بکا پری کو متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا دیوانہ وار بھاگ رہا تھا۔پری یار کدھر ہو۔پری تب ھی علی کی نظر پری پر پڑی جو اپنی ھی دھن میں مین روڈ کے درمیان چل رہی تھی۔گاڑیوں کے ہارن بھی اسے سنای نا دے رہے تھے۔اور تب ھی بائیں جانب سے اتی ہوئ تیز سپیڈ گاڑی پری رکو اور علی نے کس قدر تیزی سے پری کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا تھا۔

کہ کار کی بریکک کی آواز چڑچڑ کرتی ھوئ سنائ دی تھی۔پری کو بچاتے ہوے دونوں سڑک کے بیرونی سمت گرے تھے۔اردگرد لوگ بھی جمع ہورہے تھے۔علی خو پر قابو پاتے ہوے فورا اٹھا۔اور پری کو سہارا دے کر اٹھایا۔پری تم ٹھیک ہو نا کہیں چوٹ تو نہیں ائ۔پری بولو بھی۔

چھوڑو مجھے چھوڑو جانے دو اور وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح چیخی تھی۔بلک کے رو رہی تھی۔کچھ نہیں ہوا میری مما کو وہ ڈاکٹر جھوٹا ھے۔وہ رپورٹس بھی جھوٹی ھیں۔اور پری بیہوش ہوکر اس کی باہوں میں جھول گئ تھی۔

************************************************

پری ہوش میں او یار علی کی آنکھوں میں پانی تھا۔

ڈاکٹر پری کو انجیکشن لگا کر جاچکے تھے۔کہ کچھ ھی دیر میں وہ ہوش میں اجائیں گی۔

پری اٹھو بھی۔

کمرے میں اندھیرا تھا جب پری نے آنکھیں کھولیں تھیں۔مما۔

اس کی اواز کپکپائ۔وہ بیڈ سے اترنے لگی کے چکرا کر گرنے لگی تھی کہ علی نے اسے تھام لیا تھا۔

میں کہاں ہوں۔

ہاسپٹل میں ہو۔کیا میں یہاں کیوں مجھے اس وقت مما کے پاس ہونا چاہیے تھا۔فکر مت کرو حرا ھے انٹی کے پاس۔

مجھے گھر جانا ھے علی۔

کافی ٹائم ہوگیا ھے مما فکر کر رہیں ہوگی۔میں نے حرا کو کال کر کے بتا دیا تھا کہ ہمیں بابا کے کچھ بزنس کلائنٹس سے ملنے جانا ھے اسلیے لیٹ ہوجائیں گے ہم۔

شکر ھے ورنہ مما خواہ مخواہ فکر کرتیں جو میں نہیں چاہتی۔اور پری کی آنکھیں نم ہورہی تھیں۔

پری کیا تم چاہتی ہو کہ تمہیں پریشان دیکھ کر انٹی بھی ٹینشن لیں۔تم سے مجھے اس قسم کے بچکانہ حرکت کی امید نا تھی۔کیسی بیچ سڑک میں ہوش سے بیگانہ ہوکر چل رہی تھی۔خدا نا کرے اگر کچھ ہوجاتا تو۔علی مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کچھ بھی۔

اک مما ھی تو میرا کل سرمایہ ھے۔اور وہ ڈاکٹر کیسے کہہ رہا تھا کہ لاسٹ سٹیج پر مام کا کینسر۔اور وہ پھر سے رو دی تھی۔

پری ادھر دیکھو میری طرف۔خود کو سنبھالو پری تم مضبوط نہیں ہوگئ تو کیسے چلے گا سب۔انٹی کو کون سنبھالے گا۔ان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔صائم اس کے بارے میں بھی تو سوچو۔جو بوڈنگ سکول میں اپنی پڑھائی مکمل کررہا ھے کس قدر تنہا ہوگا وہ اس ٹائم۔اگر تم ہمت نہیں کرو گی تو کیسے حالات کا سامنا کرو گی۔

پری اللہ پر بھروسہ رکھو انٹی کو کچھ نہیں ہوگا۔اور ڈاکٹر نے بھی تو کہا ھے کہ علاج ممکن ھے۔اور میں وعدہ کرتا ھوں اھر انٹی کے ٹریٹمنٹ کے لیے ہمیں کہیں اود کسی بھی اچھے سے اچھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا تو ہم جائیں گے۔میں ہوں نا اپنی پری کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا انٹی کو۔

انشاء اللہ۔۔۔۔

اور سب کمزور نہیں پڑنا پری ورنہ انٹی کو کون سنبھالے گا۔

ہوں علی مما کو یا صائم کو مما کی بیماری کے بارے میں کچھ بھی پتہ نا لگے۔میں نہیں چاہتی کہ وہ دونوں سٹریس لیں۔

ڈونٹ وری کسی کو نہیں پتہ چلے گا۔

لیکن یو وعدہ کرو پہلے۔

کونسا وعدہ کہ کبھی بھی کمزور نہیں پڑو گی ہمت اور حوصلہ رکھو گی۔ اور اپنا بھی دھیان رکھو گی۔

ہوں کوشش کروں گی۔

یہی امید بھی ھے۔

علی مجھے گھر جانا ھے مما کے پاس۔ہاں ٹھیک ھے چلتے ھیں۔

وہ دونوں گھر میں داخل ہوے تو حرا کو اپنا منتظر پایا۔

کہاں رہ گئے تھے تم لوگ۔سب خیر تو ھے نا۔

ھاں سب ٹھیک ھے علی نے کہا تھا۔

حرا مما کدھر ھیں،وہ کافی دیر تک تم دونوں کا انتظار کرتیں رہیں۔لیکن میں نے انہیں زبردستی کھانا کھلا کر اور میڈیسن دے کے سلایا ھے۔

اچھا تم لوگ بیٹھو میں کھانا لگاتی ہوں۔نہیں حرا مجھے بھوک نہیں ھے علی اور تم کھا لو۔

کیا کیا۔۔۔حرا کھانا لگاو اور تم چلو میرے ساتھ بیٹھو کھانا کھاے بغیر ہلو گی بھی نہیں۔اور علی نے حرا کو کھانا گرم کر کے لانے کے لیے اشارہ کیا تھا۔

بضد پری نے کچھ نوالے ھی لیے تھے۔اس کے حلق سے کچھ بھی نیچے نہی اتر رہا تھا۔حرا الگ پریشان ہورہی تھی دونوں کی طرف دیکھ کر۔

حرا تم اج پری کی طرف رک جاو اسے تمہاری ضرورت ھے۔اور پری میری بات یاد رکھنا۔پلیز پریشان مت ہونا۔

چلو میں چلتا ہوں صبح اوں گا۔

اوکے او میں ڈور بند کردوں حرا علی کے ساتھ باہر تک ائ۔علی اخر کیا ہوا ھے تم دونوں اتنے پریشان کیوں ہو۔مجھے فکر ہو رہی ھے یار۔

بات ھی کچھ ایسی ھے یار اور علی نے ڈاکٹر سے ہوئ ملاقات کے بارے میں سب کچھ حرا کو بتایا۔

حرا کو بھی اک جھٹکہ سا لگا تھا۔یہ کیا بول رے ہو علی۔سنبھالو خود کو اور ہاں پری کا بھی دھیان رکھنا وہ بھی کافی شاکڈ میں ھے۔ہاں تم فکر نہی کرو میں سنبھال لوں گی۔اور ہاں اگر کوئ بھی پریشانی ہو مجھے کال کر دینا حرا۔اوکے ڈونٹ یو وری۔

وہ سب ایک دوسرے کو حوصلہ دے رہت تھے۔لیکن حقیقت میں سب ھی اندر سے ڈرے ہوے تھے۔

پری ہولے ہولے قدم اٹھاتی اپنی مما کے کمرے میں ائ۔جہاں اس کی مما دوائیوں کے نشے میں بےسدھ سوئ ہوئیں تھیں۔وہ اپنی مما کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئ۔اج اس کی مما بہت لاغر اور کمزور دکھائی دے رہیں تھیں۔پری نے اپنی آنکھوں میں اے انسو پونچھے اور ماں کے ماتھے کو چوما۔

حرا نے پری کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔اور اسے کمرے سے باہر لے ائ۔اس وقت اسے اپنی دوست کو دلاسہ دینا تھا۔اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔

حرا وہ مما۔۔۔۔۔ اور پری نا جانے کتنی دیر حرا کے کندھے سے لگے انسو بہاتی رہی تھی۔اور اپنی دوست کی یہ کیفیت دیکھ کر حرا بھی رو دی تھی۔۔۔

علی جیسے ھی گھر داخل ہوا۔اپنے پاپا کو منتظر پایا۔کیوں برخوردار کہاں سے ارہے ہو تم اس وقت اوارہ گردیاں کرتے ہوے۔اور وہ خاموش تھا۔

کیا ہوا ھے یار باپ بیٹے کا مذاق تو بنتا ھی ھے۔وہ بابا اپ سے کچھ بات کرنی تھی۔

سب ٹھیک تو ھے علی۔جی بابا اور علی نے ساری بات اپنے بابا کے اغوش اتاری تھی۔بابا اپ کے تو جاننے والے ہوگئیں کوئ سپیشلسٹ ڈاکٹرز بابا اپ ان سے انٹی کی کنڈیشن کے بارے میں بات کریں بابا مجھ سے پری کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔

بات تو بہت پریشانی کی ھے۔بھابھی نے ساری عمر دکھوں میں گزاری ھے اب اک نیا صدمہ۔

تم فکر نہیں کرو۔میں کچھ ڈاکٹرز سے بات کرتا ہوں۔انشاءاللہ کچھ بہتر ہوگا۔فکر نہیں کرو۔

 ***************************************

پری اب زیادہ سے زیادہ وقت اپنی مما کے ساتھ گزار رہی تھی۔جس کی وجہ سے وہ یونیورسٹی بھی نہیں جارہی تھی۔ڈاکٹرز نے بھی انکی تھراپی سٹارٹ کردی تھی۔

مما نے کتنا پوچھا تھس کہ ڈاکٹرز نے کیا کہا ھے رپورٹس میں کیا ایا ھے۔تو علی نے بات پر قابو پایا تھا۔کہ انٹی اب اپ کی عمر ہو گئ ھے۔یو نو اپ بوڈھی ہوگئ ھیں old Girl تو ڈاکٹرز نے weekness بتائ ھے۔اسلیئے اپ کو پھر سے strong بنانے کے لیے ٹریٹمنٹ کرایا جارہا ھے۔وہ علی کی بست سنے ہلکا سا مسکرا دیں تھیں۔

افف ہو مما کیا باتیں لیے بیٹھی ھیں۔چھوڑیں یہ سب باتیں۔اور صائم سے بات کریں۔

صائم کا فون ایا ھے لاؤ ادھر۔

ہیلو مما اسلام علیکم۔۔

وعلیکم السلام بیٹا۔

کیسے ہو بیٹا۔

مما میں ٹھیک ہوں ل۔بس اپ کی بہت یاد ارہی تھی سوچا کال کر کے پوچھ لوں۔

میرا بچہ پیارا بچہ۔اجاو اپنی ماں سے اکر مل جاو دل بہت ھی اداس ھے۔ان کی آنکھوں میں انسو اگئے تھے۔وہ اپنے بچوں کے سہارے ھی تو جی رہی تھیں۔اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے۔

مما اپ روئیں تو مت میں بہت جلد ملنے اوں گا۔لیکن اپ وعدہ کریں روئیں گے نہیں۔اوکے بیٹا خوش رہو۔

اوکے مما خیال رکھیے گا پھر بات کروں گا۔خدا حافظ۔

اللہ حافظ بیٹا۔

لیں جی بیٹے کی یاد میں انسو۔پری ماں کے گلے سے جالگی تھی۔

اسلام علیکم گائز۔اک بلند آواز میں سلام یہ لاوڈ سپیکر حرا ہی تھی۔جب کوئ لیٹسٹ نیوز ہوتی اواز بھی تیز ہوجاتی۔

تو سب ادھر ھیں۔ہیلو انٹی کیسی ھے اپ میں ٹھیک ہوں بیٹا۔

وہ بات یہ ھے کہ۔۔۔۔۔کہ فائنلز کا ٹیسٹ شیڈول اگیا ھے۔علی جو جوس پی رہا تھا۔اک دم سے اچھلا کہ جوس حلق میں ھی پھنس گیا۔اوہ بیٹا دھیان سے ٹھیک ہونا۔جی انٹی۔

کیا کیا اتنی جلدی ایگزامز اور ہر بار کی طرح یہ کوئ انوکھی بات نا تھی ان سب کے لیے۔علی کو پڑھائ سے موت پڑتی تھی۔اور وہ دونوں زبردستی اسے پڑھنے کے لئے بیٹھاتی تھیں۔اور وہ کچھ ٹائم ٹک کر پڑھ لیتا تھا کیونکہ موبائل جو ان دونوں کے پاس ہوتا تھا اسکا۔اور موبائل کے بغیر علی کی زندگی ادھوری ھی تھی۔اور مجبوراً اسے دل لگاکر محنت کرنی پڑتی تھہی۔

یہ توبہت اچھی بات ھے جو پیپر شروع ہورہے ھیں۔اللہ کامیاب کریں میرے بچوں کو۔جیتے جی تم سب کو ڈاکٹر بنتا دیکھ لوں۔تو موت سے بھی ڈر نہیں لگے گا۔

حد ھے مما یہ کیا بات کہی ھے اپ نے ائندہ کبھی یہ الفاظ مت دوہرائیے گا سمجھی اپ۔اور وہ روٹھے آنداز سے اٹھ کر کمرے میں اگئ تھی۔

اسے کیا ہوگیا ایسا بھی کیا بول دیا میں نے۔اک نا اک دن سب کو ھی جانا ھے۔بس ہر ماں کی خواہش ہوتی ھے کہ اس کے بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائں۔

انٹی میں دیکھتا ہوں پری کو اپ فکر نا کریں۔پتہ تو ھے پاگل ھے پری۔

ہاں بیٹا جاو دیکھو اسے۔۔

حرا تم انٹی کو روم میں لے کے جاو میں اتا ہو بھوتنی کو لے کے۔اور وہ مسکرا دیں تھیں۔

اور وہ کمرے کی بالکونی میں کھڑی انسو بہارہی تھی۔

جانتا تھا میں منع کیا تھا کہ رونا نہی ھے۔

تو کیا کروں نہیں دیکھا جاتا مما کو اس حال میں۔کتنی بار مجھ سے وہ پوچھ چکی ھیں۔کہ اخر بار بار ڈاکٹر سے چیک اپ کیوں۔

اتنی میڈیسن مجھے کیوں دے رہے ھیں۔کبھی کبھی تو وہ بچوں جیسے ضد کرتیں ھے۔کہ نہی کھانی یہ دوائ مجھ سے نہی کھائی جاتی۔اور کل تو مجھے پاس بٹھا کر بولیں۔پری بیٹا کیا چھپارہی ہو مجھ سے۔

نہیں مما میں کیا چھپاوں گی اپ سے۔اور وہ سٹڈی کا بہانا بنا کر کمرے سے باہر نکل آئ۔

مجھ سے نہی سہا جارہا ھے علی۔

اور وہ رو دی تھی۔جو کے علی کی برداشت سے باہر تھا۔پری کیا تم چاہتی ہو کہ انٹی تمہیں دیکھ کر فکر مند ہوں۔اور انہیں بھی شک ہو کہ تم کچھ چھپارہی ہو ان سے۔نہی نا تو پلیز انہیں خوش رکھو۔اور خو بھی ہمت کرو۔انشاءاللہ سب ٹھیک ہوگا۔اور تمہیں انٹی کے دل کا ارمان پورا کرنا ھے اک قابل ڈاکٹر بن کر۔ان کا نام روشن کرنا ھے۔اب یہ سب تم پر ھے کہ تم ان کی خواہش کا مان رکھو گی۔یا کمزور پڑ جاو گی۔انہوں نے اس ماڈرن دور میں بھی ماں اور باپ دونوں بن کو تمہاری اور صائم کی پرورش کی ھے۔ان کے ارمان صرف تمہیں اور صائم کو اپنے پیروں پر کھڑے ہوتا ہوا دیکھنے کے ھیں۔ان کی خواہش پوری کرو۔اور پری نے علی کی جانب دیکھا وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا یہ دوست اتنا سمجھدار بھی ھے۔اور ہر موڑ پر اسے سمجھاتا ھے اتنی فکر کرتا ھے۔وہ اپنے نادان دوست کا یہ روپ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

اج ان سب کا آخری پیپر تھا۔اللہ اللہ کرکے ایگزیمز دئیے تھے۔پری کی تیاری نا ہونے کے برابر تھی۔مما کی ٹینشن میں وہ پڑھائی پر توجہ نا دے پائ تھی۔لیکن اسے کوئ افسوس نا تھا کیونکہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنی مما کی خدمت میں گزار رہی تھی۔

جس کی اسے کوئ ملامت نا تھی کہ وہ امتحان میں کیسے نمبر لاتی۔اسے بس اپنی ماں کو جلد صحتیاب ہوتے ہوئے دیکھنا تھا۔

پری پاپا کے کچھ جاننے والے ڈاکٹرز ھیں۔پاپا نے ان کے ساتھ آنٹی کے ٹریٹمنٹ کی رپورٹس شئیر کی ھیں۔اور نیکسٹ ویک ہمیں انٹی کو لے کر ان کے پاس جانا ھے چیک اپ کے لیے۔

کیا سچ میں علی۔میری مما کو وہ ٹھیک کر دیں گے نا۔

وہ بچوں کی طرح کھلکھلا اٹھی تھی۔

پری صحت اور زندگی صرف اللہ کے ہاتھ میں ھے بندہ تو بس زریعہ بنتا ھے۔تم حوصلہ کرو یارا سب ٹھیک ہوگا انٹی ضرور ٹھیک ہوجائیں گی انشاء اللہ۔

حرا تمہیں پتا ھے۔مما روز سوالیہ نظروں سے مجھ سے پوچھتی ھیں کہ پری کیا بات ہے کیا چھپارہی ہو مجھ سے لیکن میں خود پر کیسے ضبط کر پاتی ہوں یہ میں جانتی ہوں یا میرا رب جانتا ھے۔

لیکن میں کمزور نہیں پڑنا چاہتی مما کے سامنے۔

بے بسی کی انتہا پر ہوں میں۔نو مہینے اک ماں اپنی اولاد کو اپنے پیٹ میں رکھتی ھے ہر درد تکلیف برداشت کرتی ھے۔اور اولاد بھی تو اس وجود کا حصہ ھے نا۔جب اک ماں اپنی اولاد پر آنچ نہیں انے دے سکتی۔تو اولاد کیسے اپنی ماں کو دکھ میں مبتلا دیکھ سکتی ھے۔

میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ میں کیسے دوراہے پر اکر کھڑی ہوگئ ہوں۔

مجھے میری ماں کے لیے اپنی جان کی بازی بھی لگانی پر جاے تو میں پیچھے نہیں ہٹوں۔لیکن یہاں اکر اتنی لاچار ہوں اور بے بس ہوں۔ کہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی۔

ناامید نہیں ہوتے۔اس اوپر بیٹھی ہوئ زات سے۔وہ خالق بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ھے۔

بیشک اب یہ انسو کرو جلدی سے صاف اور حرا نے پری کی انکھوں میں ائے پانی کو صاف کیا۔یہ پری بہت انمول ھے ہمارے لیے ائ سمجھ۔

اور وہ پھیکی سی ہنسی لبوں پر سجاے تھی۔

اگر تم دونوں نا ہوتے تو 

میں اکیلی مر جاتی۔۔۔

اللہ نا کرے یہ کیا بکواس ھے پری۔دونوں کے منہ سے اک ساتھ یہ الفاظ نکلے تھے۔

خداکا واسطہ ھے پری کچھ ہم سب کا ھی خیال کر لو جو تمہارے لیے جیتے ھیں۔اوکے بابا خفا تو مت ہو۔تو تم ایسی باتیں سوچ سمجھ کر بولا کرو۔

اچھا چلو بھی مجھے گھر جانا ھے۔

جیسے ھی پری نے بیل دی۔

دروازہ فٹ سے کھلا تھا۔

او ہاے باجا اوہ سوری میرا مطلب بجو۔

اور وہ صائم کو دیکھ کر کھلکھلا اٹھی تھی۔

ھاے میرا چلغوزہ اسے زور سے گلے لگایا تھا۔تو نا چاہتے ہوئے بھی وہ رودی تھی۔

صائم چونکا پری تم رو رہی ہو اوہ نہیں یار اتنے عرصے بعد مل رہی ہوں اوکے اوکے یو مینز ساس بہو ڈرامہ والے انسو مطلب خوشی کے انسو۔

دفعہ۔اور دونوں اندر چل دیئے تھے۔پری نے مما کو سلام کیا تھا۔

خوش رہو بیٹا۔

تم کب اے صائم۔بس کچھ دیر پہلے ھی ایا ہوں۔اور یہ کیا حالت کر دی ھے میری مما کی خیال نہیں رکھتی کیا یہ اپکا مما۔نا بیٹا بڑی بہن کو ایسے نہی بولتے۔اپ کی اپی تو بہت دھیان رکھتی ھیں میرا۔میں تھوڑا بیمار کیا ہوئ ہو نا بستر سے اٹھنے نہی دیتی۔اور بوتیک پر بھی جانے نہیں دیتی۔اوہ ممما اب اپکی بیٹی بڑی ہوگئ ھے۔ساری زمہ داری میری۔اپ بے فکر ہوجائیں۔

نا باجے مطلب بجو تم کب اتنی سمجھدار ہوگئ۔مما ضرور دال میں گڑبڑ ھے۔

عقل کے کیڑے جب محاورے نہیں اتے تو کیوں انکو بول بول کے دکھ دیتے رہتے ہو۔

ہاں تو تمہیں بڑی ہمدردی ھے محاوروں سے۔اور رباب بیگم اپنے کو بچوں کو مسکراتا ہوا دیکھ کر خوشی سے پھولے نا سما رہی تھیں۔دل ھی دل میں اللہ پاک سے اپنے بچوں کی خوشیوں کی ڈھیروں دعائیں مانگ رہی تھیں۔

************** ** * ***** **** ******* **********

آج کافی دنوں کے بعد وہ بوتیک میں ائ تھی۔ایگزام کی تیاری اور دوسرا مما کی پریشانی کے باعث وہ ٹائم نا دے پائ تھی بوتیک کو۔اور اوپر سے جو بھی سیونگ تھی وہ مما کے علاج میں خرچ ہوگئیے تھے۔اور اب اسے بینک سے لئیے لون کی ادائیگی بھی کرنی تھی۔وہ بوتیک کو بند ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔وہ بہت محنت سے اس کی مما نے اوپن کی تھی۔جس کے لیے مما نے بہت Struggling life گزاری تھی۔اس کے دماغ میں اک دم خیال ایا کہ کیوں نا وہ کوئ جاب ڈھونڈ لے تا کہ وہ لون کے ڈیوذ ادا کر پائے۔

رات 8 بجے کے قریب وہ شاپ بند کیے باہر نکلی تھی کہ اس کا فون بج اٹھا۔

حرا کی کال تھی۔ہیلو۔۔

ہاے یار وہ مری سی اواز میں بولی کیونکہ اج وہ بہت تھک گئ تھی۔ٹھیک ہو تم اور کہاں ہو اس وقت۔ہاں بوتیک سے نکلی ہوں ابھی میں کیوں سب خیر تو ھے۔

ھاں ھاں سب ٹھیک ھے۔چلو چلو ٹھیک ھے۔تم دھیان سے گھر جاو۔پھر بات ہو گی باے۔اور الفاظ پری کے منہ میں ھی تھے کہ فٹ سے فون بند۔

اور پری حیران تھی کہ اسے کیا ہو گیا۔خیر اس نے گھر کی راہ لی۔۔

پچھلے پانچ منٹ سے وہ ڈورربیل بجارہی تھی۔اور گھر کی چابی بھی وہ صبح ساتھ لانا بھول گئ تھی۔اس نے غصے سے دروازے کو ھاتھ مارا تو ڈور اوپن ہوگیا۔وہ حیران تھی کہ دروازہ اس وقت کیسے کھلا ہوا ھے وہ جیسے ھی اندر داخل ہوئ۔گھپ اندھیرا تھا۔

مما صائم کہاں ھیں اپ مما۔

اور اک دم سے سرپرائز کی اواز آئ تھی۔اور کچھ غبارے پھوڑنے کی۔اور ساتھ ھی لائٹس بھی اوپن ہوگئ تھی۔وہ تو حیران تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ھے۔

تب ھی ہیپی بڑتھ ڈے ٹو یو ہیپی بڑھ ڈے ڈئیر پری کی اواز سے وہ کھلکھلا سی گئ تھی۔

یہ سب کیا۔۔

ارے ارے کیسا لگا ہمارا سرپرائز

جناب حرا خوشی سے بولی۔

پری کو تو یاد بھی نا تھاکہ اج اس کی برتھ ڈے ھے۔وہ مما کی وجہ سے پریشان تھی کہ ڈیٹ تک یاد نا رہی تھی کہ اج 2  جنوری اس کی برتھ ڈے کی تاریخ ھے۔

چلو چلو اب جلدی سے چلو کیک کٹ کرتے ھیں۔

پری کے چہرے پر اک مسکراہٹ تھی۔اپنے برتھ ڈے سرپرائز کو دیکھ کر جو کے اس کے دوستوں نے پلین کیا تھا۔۔۔

وہ مما کے گلے سے لگی تھی۔جیتی رہو بیٹا خوش رہو۔

اور لاونج میں تبھی تالیوں کی آواز گونجی تھی جب پری نے کیک کٹ کیا تھا۔۔

مما نے اس کو کیک کھلایا تھا۔اور پری نے سب کو کیک کھلایا تھا اپنے ہاتھوں سے۔لیکن صائم نے پری کے فیس پر کیک لگایا تو وہ چلا اٹھی صائم کے بچے میں چھوڑوں گی نہیں تمہیں اور پری بھی کیک کا پیس اٹھائے صائم کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔تب ھی صائم نے علی کو پری کیطرف گھمایا جوکے کسی سے کال پر بات کر رہا تھا۔پری نے بے دھیانی میں نشانہ صائم کی فیس پر لگایا تھا پر صائم نے پھرتیلے انداز میں علی کو پری کے سامنے کر دیا تھا۔

پھر کیا صائم سمیت سب ھی علی کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔جو کہ جوکر لگ رہا تھا خود اس ٹائم۔علی کی یہ حالت دیکھ کر پری کی بھی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ویٹ ویٹ علی بھائی سمائل اورصائم نے اک تصویر بھی اپنے موبائل میں سیو کر لی تھی۔اور علی ہکا بکا کھڑا دیکھ رہا تھا کہ اس کے ساتھ اخر ہوا کیا ھے۔اک دم سے علی چلایا۔پری کی بچی اب بچ تو مجھ سے اور پری سٹپٹا کر بھاگی تھی روم کی جانب۔

اور باقی سب لوگوں کا ہنس ہنس کے برا حال تھا۔

اجاو صائم کھانا لگاتے ھیں تب تک یہ دونوں بھی واپس آجائیں گے لڑتے ہوئے۔نانا سوئیٹ ہارٹ

جن اور بھوت بن کر ھی ائیں گے علی بھائی سے بچنا مشکل ھی نہیں نا ممکن ھے۔

کیوں وہ ڈان ھے اور دونوں ھنس دئیے تھے۔اچھا زرا علی کی پک سینڈ کرنا سٹیٹس لگائیں گے۔اور دونوں ہنس دئیے تھے۔واہ سوئیٹ ہارٹ کیا زبردست خیال ھے۔۔۔

یہ تم کو میں نے کتنی بار بولا ھے کہ مجھے اپی بولا کرو بڑی ہوں تم سے۔

کیوں کیوں یو تو میرا پہلا کرش میری پہلی سی محبت ہو۔چل اوے یہ دوں گی اک تھپڑ۔اوہ نو نو مائ فیس بیوٹی گم ہو جاے گی۔اور دل بیچارہ دل بنجارہ بن جاے گا۔چلو کوئ نئ ڈاکٹر بن ھی گئ ہو سویٹی درد دل کا علاج بھی کردینا۔کیوں پٹنے کا ارادہ ھے بیٹا مجھ سے۔

اور حرا جانتی تھی کی صائم کی مزاحیہ عادت جس کی وجہ سے بنتی بھی تھی بہت صائم کے ساتھ۔اور وہ بھی دل سے عزت کرتا تھا حرا کو اور تنگ کرتا رہتا تھا۔

ویسے چلو نا سامنے اپ کے مام ڈیڈ بیٹھے بولو تو ہاتھ مانگ لوں۔

افف تم دفعہ ہوتے ہو یا دوں اک تھپڑ اور صائم وہاں سے ہنستے ہوے بھاگا تھا۔

پری اپنے کمرے کی طرف ائ افف بس بس میں تھک گئی یار۔لگانا تو کیک صائم کے منہ پہ تھا پر تم سامنے آگئے۔ہاہاہا اور وہ کھل کھلا کر ہنس دی تھی۔اور علی اس کو خوش دیکھ کر دل میں شکر ادا کر رہا تھا۔اج پری نا جانے کتنے دنوں کے بعد مسکرائ تھی۔

ہمیشہ ایسے ھی مسکراتی رہو۔امین۔

اور پری نے نظریں جھکائ تھیں۔پری نے ٹاول علی کی جانب کیا کہ منہ صاف کرلو بلکل بھوت لگ رہے ہو اور علی ٹاول پکڑتے ہوئے شیشے کی طرف مڑا تھا۔

ناجانے ایسا کیا تھا علی کی آنکھوں میں کہ وہ جب بھی اس کی نگاہیں علی سے ٹکراتیں تو وہ آنکھیں جھکا دیتی تھی۔اور علی مسکرا دیتا تھا۔

علی پری کی جانب مڑا جو بالکونی میں کھڑی چاند کو دیکھ رہی تھی۔چاند تو زمین پر ھے توتم آسمان میں کیا دیکھ رہی ہو اف تمہارے فلمی ڈائیلاگز علی۔

اچھا جی تو کچھ ڈائیلاگز سچ بھی ہوتے ھیں۔

کیا میں سمجھی نہیں۔

کچھ نہیں خیر چھوڑو اور یہ دیکھو۔علی نے پاکٹ سے اک ڈبی نکالی تھی جس میں بہت ھی پیاری بریسلیٹ تھی۔واو علی کتنی پیاری بریسلیٹ ھے۔

یہ جناب اپکے لیے برتھ ڈے گفٹ۔

علی its too expensive میں یہ نہیں لے سکتی۔چپ یہ قیمتی نہی۔بلکہ تم سے بڑھ کر کچھ قیمتی نہی ھے۔اور اس نے وہ بریسلیٹ پری کی کلائ میں پہنائ تھی۔پہلے اس بریسلیٹ میں جڑے ھیرے پتھر کی مانند پھینکے تھے۔لیکن جب سے یہ تمہاری کلائ پر پڑے ھیں۔یہ بے مول ہیروں کی روشنی بھی بڑھ گئ ھے۔تو جادو تو ان کلائیوں کا ھے کہ یہ ڈائمنڈ بھی جگمگا اٹھے۔اور ان کی ویلیو بھی بڑھ گئ۔

اور پری تو حیران تھی کہ علی کبھی کبھی اتنے دل سے اور اتنی خوبصورتی سے کیسے الفاظ ادا کر دیتا۔

سب سے قیمتی ڈائمنڈ پریشہ ھے۔اور میں بہت لکی ہوں کہ یہ انمول ہیرا میرے پاس محفوظ ہے۔

اور پری چونکی تھی۔چاند کی مانند روشن چہرہ۔۔

نیچے اجاو سب انتظار کررہے ہونے۔اور مجھے بہت بھوک لگی ھے۔

اور وہ علی کو جاتا ہو دیکھ رہی تھی۔اور اک نظر اپنی کلائی پر ڈالی تھی۔جہاں اک خوبصورت طرز کی ڈائمنڈ بریسلیٹ اس کی کلائ میں جگمگارہی تھی۔

وہ نیچے ائ تو علی کے بابا اور مما سے ملی جو کچھ دیر پہلے ھی اے تھے۔ہیپی برتھ ڈے بیٹا۔

تھینکس انکل انٹی۔

سوری بیٹا ہمیں انے میں دیر ہوگئ لیکن اک میٹنگ کے سلسلے میں جانا پڑا تھا۔کوئ بات نہی انکل آنٹی اپ اب اگئے یہ ھی بہت ھے میرے لیے۔اور انٹی نے کچھ شاپنگ بیگز پری کی جانب بڑھاے۔اور یہ گفٹس ہماری پری بیٹی کے لیے انٹی نے ماتھے پہ بوسہ دیا تھا پری کو۔

اینڈ ڈونٹ وری بیٹا میں بھی اپ کے بابا جیسا ہوں کوئ بھی پرابلم ہو شئیر کرنی ھے میری بیٹی نے مجھ سے اور بھابھی بلکل ٹھیک ہو جائیں گی فکر نہی کرنی۔اور انہوں نے پری کو گلے سے لگایا تھا۔کیونکہ اخر کو وہ انکے دوست کی بیٹی تھی۔تھیکنس انکل۔۔

اگئے تم دونوں ہاں کیا ہوا حرا

علی نے پوچھا وہ دیکھو سامنے۔

اور صائم سامنے حرا کے مما پاپا کو کھانا سرو کر رہا تھا اور ہنسی مزاق کے ساتھ ساتھ نہایت شریفانہ انداز سے پیش ارہا تھا۔یار اسے کی ہوگیا پری بولی۔برخوردار مجھے پٹاتے تھے اب دال نہیں گلی تو مما پاپا کی نظروں میں نمبر بنا رہا ھے۔

اور علی پانی پیتے اچھلا تھا۔اور پری کی ہنسی نہی رک رہی تھی۔اور علی کا بھی کچھ ایسا ھی حال تھا۔وہ جانتے تھے حرا چرے گی اور صائم اور چراے گا۔اور اب علی کی باری تھی حرا کو چرانے کی وللہ کیا جوڑی ھے۔اوپر والے تیری شان۔طوطا مینا ھی لگو گے قسمے۔اور وہ دونوں ہنس دئیے تھے۔اور حرا نے گھوڑتے ہوے دیکھا دونوں کو۔بکو مت دونوں فضول میں۔

ہاے بن جا تو میری بھابھی

تینوں عیش کرواوں گی۔

سارے گھر کے برتن تم سے دھلواوں گی۔لالالالا

پری کے سروں نے محفل میں چارچاند ھی لگا دیے علی بولا تھا۔اور حرا غصے میں چلاتی ہوئ منہ بناے چلی گئ تھی۔مرو تم لوگ کرو بکواس۔

اور پری اور علی ہاتھ سے تالی مارتے ہنس رہے تھے۔کیوں کہ صائم جب ھی اتا کوئ نا کوئ نوٹنکی ضرور کرتا تھا اور یہ دونوں صائم کا ساتھ دیتے ہوے حرا کو اور تنگ کرتے تھے۔

پری حرا کی طرف لپکی تھی۔

ارے ارے جاناں دیکھو صائم پٹو گے میرے ہاتھوں سے تم اور وہ دونوں تمہارے چمچے بھی۔

ارے اتنا غضہ چھوٹی سی ناک پر۔دیکھو تو کتنی لال ھو گئ ھے۔کیا سچی لال ہوگی میری ناک ہاں نا اک دم لال۔اور وہ ہنس دیا سی۔

اور حرا کو اور غصہ دلایا۔اچھا بابا خفا نہی ہو۔

سوری یار مذاق کر رہا ہوں۔

میری اک عدد gf ھے جو بہت ھی پیاری ھے۔اور حرا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

چلغوزے یہ تمہاری عمر ھے یہ سب کرنے کی تمہیں ہم نے وہاں پڑھنے بھیجا ھے یا gf بنانے۔ابھی بتاتی ہوں مما کو ان کے لاڈلے کی حرکتیں۔اوے بجو میں وہ مذاق کر رہا تھا۔مما سے مت کچھ کہنایار پلیز۔نہی انٹی کو میں بتاوں گی کہ جناب کوئ انگریزی بہو لانے والے ھیں۔

ہاے شدقے جاوں یہ جلن۔

کیا جل رہا ھے علی بھی پہنچ چکا تھا ان تینوں کے پاس۔

کوئ جل رہا ھے علی بھائی۔

ویسے بھی میری gf تو اتنی کیوٹ ھے اور اہا کتنی پیاری ھے وہ علی نے بھی انکھ سے اشارہ کیا۔کیا نام ھے یارا جینفر نام ھے بھائی۔بہت ھی پیاری ھے۔ہاے اک ادھ لڑکی کی سیٹنگ اپنے بھائی سے بھی کروادے۔

اوے اوے تم دونوں کو شرم نہی اتی اور تم صائم شرم کرو بہنوں کے سامنے ایسی باتیں کرتا کوئ۔بتاوں مما کو سب۔بتانا ھی پڑے گا پری اب تو حرا بھی بولی تھی۔توبہ اتنی جلن

 اس کوجی کا منہ نا توڑوں اور ساتھ میں تمہارا بھی مجھے کیوں جلن ہونی۔۔ایوں بس کچھ بھی۔

ہاے علی بھائی دیکھو تو دونوں کو انٹیاں لگتی ھیں اور ہم جیسے ہینڈسم لوگوں کی خوشیوں سے جلتی ھیں۔

ہم جلتے ھیں ہم اور یہ انٹیاں کسے بولا تم نے۔

ویسے بولا تو اپ دونوں کو ھی اب جو جیسا ھو گا ویسے ھی کہیں گے بلکل ٹھیک بولا صائم بیٹا۔

سمجھدار ہوگیا ھے توں تو یار۔

تم دونوں کی اب خیر نہیں دیکھنا اب بچو سب کو جاکر بتاتے ھیں۔کہ ان کے لخت جگر گرل فرینڈز بنارہے ھے۔وہ جوتے پھریں گے ہوش ٹھکانے اجانے۔اور وہ دونوں ھال کی جانب چل دی جہاں سب بڑے پرانی یادیں تازہ کررہے تھے۔

ارے رکو رکو ہم مذاق کر رہے تھے۔

رات کافی ہوگئ تھی۔سب مہمان بھی جا چکے تھے۔صائم بھی روم میں سونے جا چکا تھا۔اور پری مما کو دوائ دے رہی تھی۔مما نے پری کی کلائ کی جانب دیکھا بہت پیارا بریسلیٹ ھے بیٹا لیکن میری بیٹی کی کلائ کی وجہ سے چمک بھی رہا۔اوہ مما علی نے بھی کچھ ایسے ھی بولا تھا اور اپ نے بھی۔اوہ تو میری بیٹی کو یہ علی کی جانب سے تحفہ ملا ھے اوہ جی مما۔مجھے دکھانے کا یاد ھی نہی رہا۔کوئ بات نہی بیٹا۔اور وہ مما کے پاس بیٹھ گئ۔ایسے کیا دیکھ رہی ھیں مما اپ۔۔

میری بچی بڑی ہوگئ ھے۔ابھی کل کی ھی بات تھی چھوٹی سی گڑیا پکڑے میں اور تمہارے بابا تمہیں گھر لاے تھے۔ہماری تو رونق تھی تم۔تمہارے بابا نے ھی تمہارا نام پریشے رکھا تھا اور مجھے پری نام پسند تھا۔تو انہوں نے پریشہ رکھا تھا تمہارا نام۔۔

پری حیران تھی۔کہ اج تک اپنے بابا کے ذکر پر اس نے اپنی ماں کو غصہ کرتے ہوے پایا تھا۔اور آج وہ پاپا کا ذکر کیوں کر رہی ھیں۔

میرا بیٹی اتنی بڑی ہوگیی ھے کہ اپنی ماں سے ہی چھپاتی رہی۔پری چونکی تھی۔

کیا مما۔۔میں کیا چھپارہی۔۔

اس دن جب تم علی سے میری رپورٹس کو لیے بات کر رہی تھی تو میں سب سن چکی تھی بیٹا۔

کہ مجھے برین ٹیومر ھے۔اور میری بیٹی اس راز کو دل میں بسائے کس قدر حوصلے سے اپنی ذمہ داری سنبھالتی رہی۔دیکھ کر دکھ تو ہوا لیکن مطمئن بھی ہو گئ ہوں کہ میری بیٹی مجھ پر گئ ھے۔بہادر ھے میری بچی بلکل میری طرح۔اور پری تو ہربڑا اٹھی تھی۔مما نہی ھے اپ کی بیٹی بہادر نہی بلکل نہی۔اور وہ اپنے ماں کے سامنے رونا نہی چاہتی تھی۔لیکن وہ بچوں کی طرح رو دی تھی۔

نہی بیٹا چپ بلکل چپ رونا نہی ھے میری پری تو بہت بہادر ھے۔

ادھر دیکھو بیٹا پری بیٹا چپ اب نہیں رونا میری طرف دیکھو۔۔

اپ تو میرا پیارا بچہ ہو۔اپ نے کبھی کمزور نہی ہونا۔میں رہوں یا نا رہوں خود کو کبھی اکیلے نہیں سمجھنا میں ہمیشہ اپ کے ساتھ ہوں ہر پل۔اور صائم بہت چھوٹا ھے بیٹا۔مجھے اب تسلی ھے میری بیٹی سب کچھ سنبھال لے گی۔

بس کردیں مما مجھ سے نہی برداشت ہورا۔اور وہ رورہی تھی۔

پری اپنے پاپا کے لیے کبھی کوئ برا خیال دل میں نہی لانا بیٹا۔ مجھے اس شخص کے بارے میں کوئی بات نہی کرنی جس کو سوچ کر اپ کو دکھ ہو۔وہ برے نہی تھے پری۔

مما پلیز بس کر دیںں کچھ نہی ہو گا اپکو۔اپ بلکل ٹھیک ہوجائیں گی۔علی نے کچھ ڈاکٹرز سے بھی ڈسکس کی اپ کی رپورٹس مما اپ جلد ٹھیک ہوجائیں گی۔اپ فکر نہی کریں۔

بیٹا فکر تو تم دونوں کی ہر پل کھاے جاتی۔لیکن اب کچھ حوصلہ ھے میری بیٹی سب سنبھال سکتی ھے پلیز مما ایسے نہی کہیں۔

اج تو میری بیٹی کی سالگرہ ھے نا کیا تحفہ چائیے میری بچی کو۔

مجھے صرف اپ چاہیے ھیں۔وہ کسی بچے کی طرح فریاد کر رہی تھی۔رباب بیگم اپنی بچی کی  خواہش کو دیکھ کر تڑپ اٹھی تھیں۔ان کے بس کی بات نا تھی اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنے بچوں سے کبھی دور نا جاتیں۔لیکن یہ سب تو اوپر والی ذات کے نظام تھے۔

انہوں نے اپنے گلے سے اک چین اتاری جس میں سونے کی اک تتلی بنی ہوئ تھی۔انہوں نے  وہ چین پری کے گلے میں پہنائ تھی۔اور پری کو اپنے حصار میں لیا تھا۔نا بس میری بچی اب نہی رونا۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ میری بچی دل چھوٹا کرے۔

مما اپ سب کچھ جانتی تھیں۔اور پھر بھی اتنا حوصلہ کہاں سے لائیں۔

بیٹا اک عورت میں صبر ہمت اور حوصلہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ھے۔مجھے پتہ ھے آسان نہیں ہوتا سب لیکن اولاد ہی ماں کا حوصلہ ہوتی ھے۔اور میرے بچے میرا غرور ھیں۔

میں نے اپنے بچوں کو سر اٹھا کر فخر سے جینا سکھایا۔مجھے پوری امید ھے میری بچی اپنی ماں کی تربیت کا ہمیشہ مان رکھے گی۔

ماما اپ بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گی۔انشاءاللہ

اللّٰہ نے چاہا اور میرے بچوں کی دعائیں ھیں ساتھ میں تو بلکل ٹھیک ہوں۔

پری میری جان کبھی کمزور نہیں پڑنا۔یہ معاشرہ کمزور عورت کو جینے نہیں دیتا۔

میری باتیں سمجھ میں ارہی ھیں یا نہیں۔میرے جانے کے بعد اپنے بھائی کو میری کمی محسوس مت ہونے دینا۔

بس کریں مما ایسی باتیں مت کریں۔میرا کلیجہ چھلنی ہوجاتا ھے۔کیا اپ نے سوچا ھے کون ھے اخر ہمارا اپ کے سوا۔دوبارہ ایسی بات مت کیجیے گا۔اب اپ کی بیٹی ڈاکٹر بن رہی ھے۔میں خود سے اپ کا ٹریٹمنٹ کر کے ٹھیک کردوں گی ائ اپ کو سمجھ۔

اور رباب بیگم اپنی بچی کی معصومیت پر صدقے واری جارہی تھیں۔

ھاں میری پیاری بیٹی ڈاکٹر پریشہ۔

تمہارے بابا چاہتے تھے کہ تم۔ڈاکٹر بنو۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس مما مجھے اس سلسلے میں کچھ نہیں سننا کوئ بات نہی کرنی۔چھوڑیں یہ سب۔۔

اچھا میرا بیٹا وہ الماری میں اک باکس پڑا ہے لکڑی کا اس اٹھا کر لاو۔وہ اٹھی اور الماری سے اک باکس نکال کے لئ۔یہ لیں مما۔

بیٹا یہ رکھ لو اپنے پاس۔لیکن کیا ھے اس میں مما۔

وہ مسکرائیں۔کچھ یادیں ھیں سمیٹ کر رکھی ھیں۔اب اسے تم سنبھال کے رکھ لو۔

پری برے اشتیاق سے باکس کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔

کیا ہوا پری۔۔۔۔

کس سوچ میں پڑ گئ۔

نہیں کچھ نہی مما۔

زیادہ نہیں سوچتے بیٹا۔چلو شاباش سمائل کرو۔اس نے پھیکی سی سمائل کی اور مما کے گلے سے لگ گئ تھی۔مما میں اج اپ کے ساتھ سوجاوں۔

ہاں بیٹا ادھر آؤ۔پری نے ماں کیی گود میں سر رکھا اور آنکھیں موند لیں تھیں۔اسے اک سکون سا ملا تھا ماں کی گود میں وہ کب نیند کی آغوش میں گئ اسے پتہ ھی نا چلا۔۔۔۔۔۔

رباب بیگم کی آنکھوں میں بے بسی سے انسو اگئے تھے۔وہ چاہ کے بھی اپنے بچوں کے لیے کچھ نا کر پائیں تھیں۔وہ ڈر گئ تھیں۔کہ کیسے ان کے بچے اکیلے زندگی گزاریں گے۔

اے میرے مولا میں تو ساری زندگی دکھوں میں تنہا گزار لئ۔لیکن میرے بچوں کی زندگی میں کبھی اندھیرا مت آنے دینا۔میرے بچوں کی حفاظت فرمانا میرے رب میں آج تک اپنی زبان پر کوئ شکوہ نا لائ کسی سے کوئی شکایت نا کی اے میرے مولا میرے جانے کے بعد میرے بچوں کی حفاظت فرمانا انہیں دنیا جہان کی خوشیاں دینا۔میں تیری رضا میں خوش ہوں اج نا کل سب کو تیری طرف لوٹ کے انا ھے۔ر تو تو بڑا مہربان ھے اک ماں کے دل کے حال سے واقف ھے۔میرے بچوں پر کبھی کوئ آنچ نا اے میرے مولا وہ بہت نادان ھے ناسمجھ ھیں۔

اور وہ گرگراتے ہوے

سجدے میں جھک گئ تھیں۔۔

اج صبح سے ھی پری کا دل بوجھل بوجھل سا تھا۔وہ انٹرویو دیے کر افس سے نکلی ھی تھی۔ کہ صائم کی کال اگئ۔

ہیلو پری ہیلو وہ مما کے ناک سے خون نہی رک رہا ہے۔پری میں اور علی بھائی مما کو ہسپتال لے جارہے ھیں جلدی پہنچو۔

اور پری کو ایسے لگا کہ اس کے پیروں تلے زمین نکل گئ ہو۔

وہ بھاگتی ہوئ کار کی جانب لپکی۔

نہی مما کو کچھ نہیں ہوسکتا۔

اور وہ پاگل ہورہی تھی رو رہی تھی۔ایکسڈینٹ ہوتے ہوے بچا تھا۔جیسے تیسے ہاسپٹل پہنچی تھی۔

ریسیپشن سے پوچھتے ہوئے وہ ایمرجنسی وارڈ میں پہنچی صائم اس کی جانب بڑھا تو ان ودنوں کو چپ کروانا بہت مشکل تھا۔پری مما ان کے ناک سے خون نہی رک رہا تھا پری۔

علی اگے بڑھا اور صائم کو دلاسہ دیا تاھا۔کچھ نہی  ہوگا انٹی کو ٹینشن نہی لو۔

انٹی انکل بھی پہنچ گے تھے ہاسپٹل بیٹا کیا بولا ھے ڈاکٹرز نے۔

پاپا ڈاکٹر چیک اپ کر رہے ھیں انٹی کا۔علی نے بولا۔

کچھ نہیں ہوگا پری بیٹا بھابھی کو اور وہ ان کے گلے سے جالگی تھی۔علی سے پری کی یہ حالت نہی دیکھی جارہی تھی۔

تب ھی ڈاکٹر روم سے نکلے تھے۔

ڈاکٹر میری مما۔

ڈاکٹر انٹی کیسی ھیں۔

دیکھیں ان کی حالت بہت critical ھے۔ہمیں امیجیٹلی اپریٹ کرنا ہوگا۔

لیکن ان کے ریکور ہونے کے چانسز بہت کم ھیں ان کے دماغ کی وینز میں خون جم چکا ھے۔اور کچھ بھی کہنا possible نہیں ھے۔

کچھ بھی نہی کہہ سکتے۔اور پری کا سر چکرا گیا تھا۔وہ گرنے کو تھی کہ حرا نے اسے سہارا دیا۔

صبح تک اگر ان کی طبیعت سنبھلتی ھے تو ہم اپریٹ کر پائیں گے ورنہ۔

ورنہ کیا ڈاکٹر کچھ نہی ہوگا میری مما کو سمجھے اپ اور پری چلائ تھی۔

پری سنبھالو خود کو مما کو کچھ نہی ہوگا۔

مجھے مما سے ملنا ھے۔وہ اٹھی تھی۔دیکھیے ابھی وہ میڈیسن کی وجہ سے ہوش میں نہیں ھیں اپ کچھ دیر بعد ان سے مل سکتے ھیں۔

**********************************************

پیشنٹ کو ہوش اگیا ھے اپ ان سے مل سکتے ھیں۔

اوروہ اپنی ماں کے پیروں میں بیٹھی تھی۔

پری انہوں نے اکھڑتی سانسوں سے پری کو پکارا تھا۔ادھر او۔میرے پاس۔انکھوں سے اشارہ کیا تھا انہوں نے۔۔

وہ پھٹی پھٹی نظروں سے مما کو دیکھ رہی تھی۔صائم ماں کےسینے سے لگا ہوا تھا۔

مما اپ بلکل ٹھیک ہوجائیں گی۔

کچھ نہی ہوگااپکو۔۔

وہ اکسیجن پمپ ہاتھ سے اتارتی ہوئ بولیں۔

بیٹا وقت قریب اگیا۔

کیسی باتیں کررہی ھیں مما صائم اور پری تڑپ اٹھے تھے۔

پری کبھی کمزور نہی پڑنا اور میرے بعد اپنا اور صائم کا خیال رکھنا۔صائم بڑی بہن کو تنگ نہی کرنا۔مما اپ ایسے کیوں بول رہی ھیں۔اپنے بابا کے لیے دل میں کوئی غلط فہمی مت پالنا بیٹا۔کمزور نہیں پڑنا پری کبھی نہی۔

بس کریں پلیز مما کچھ بھی نہی ہوگا اپکو۔اپ کی طبیعت نہی ٹھیک ھے اپ بس زیادہ مت سوچیں۔ارام کریں۔اور انہوں نے دونوں کو گلے سے لگایا تھا۔

دروازے پر کھڑے حرا اور علی کی انکھوں میں انسو تھے۔اور وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔مما اک چیخ کی اواز ائ تو وہ دونوں اندر کی جانب بھاگے۔

مما مما کچھ بول کیوں نہیں رہی۔صائم ڈاکٹر کو بلاو علی ڈاکٹر کو بلانے بھاگا تھا۔

ای ایم سوری

She is no more.. 

نہی میری مما ڈاکٹر وہ ابھی بات کر رہی تھیں ابھی اٹھیں گی ڈاکٹر علی مما کو کچھ نہیں ہوا۔حرا دیکھو مما مما بول نہی رہی اٹھیں مما۔وہ چلائ تھی

پری ہوش کھو بیٹھی تھی۔صائم کا بھی کچھ ایسا ھی حال تھا۔

ماں کی تدفین ہوچکی تھی۔سب اسے دلاسہ دے رہے تھے۔صائم نے اسے گلے سے لگایا تھا۔اس کے رونے کی آواز نے ہر انکھ نم کر دی تھی۔

زیادہ سٹریس لینے کی وجہ سے ڈاکٹر نے پری کو سکون کا انجیکشن دیا تھا۔

علی کیسی ھے پری۔حرا نے پوچھا تھا۔ہوں ڈاکٹر نے انجیکشن دیا ھے سو رہی ھے۔

اچھا صائم کہاں ھے اس نے کچھ کھایا۔نہی کچھ نہی کھایا نا پری نے اور نا صائم نے میں صائم پاس جارہی تھی وہ شاید روم میں ہو۔

ہاں یار اسے بہلا کے کچھ کھلاو میں اتا ھوں۔

اور حرا نے کمرے کا رخ کیا جہاں صائم بالکونی میں کھڑا تھا۔حرا نے کھانا ٹیبل پر رکھا۔اور صائم کے کندھے پر ہاتھ رکھا صائم۔وہ مڑا تھا۔انکھوں میں انسو پونچھتے ہوے۔

نہیں صائم ان انسووں کو بہہ لینے دو دل کا بوجھ ہلکا ہوجاے گا۔

حرا ماما کی کنڈیشن کا مجھے پتہ ہوتا تو میں کچھ کر پاتا ان کے لیے۔

تمہیں کیا لگتا ھے صائم جب سے پری کو پتہ لگا ہمیں پتا چلا انٹی کی بیماری کا تو ہم نے ان کے علاج کے لیے کچھ نا کیا ہوگا۔اک ملامت سی رہ گئ ھے حرا دل میں ماما کے بغیر دنیا ویران سی ہوگئ ھے۔جیسے سب کچھ ختم ہوگیا ھے سب۔

نہی صائم نہی ایسے مایوس نہیں ہوتے۔زندگی موت کا اختیار ہمیں حاصل تو نہی یہ تو اللہ کے اختیار میں ھے۔اور اک دن سب کو اس دنیا سے جانا ھے۔پر تمہیں ہمت کعنی ہوگی اپنے لیے پری کے لیے۔تم رو گے تو انٹی کی روح بھی کو بھی تکلیف ہوگی۔

چلو ادھر او اور پری اسے کھینچتے ہوے بیڈ پر لئ تھی۔اور اک نوالہ بنا کر صائم کی جانب کیا۔نہی بھوک نہی حرا مجھے۔

ایسے کیسے بھوک نہیں ھے۔تھوڑا سا کھا لو چلو شاباش منہ کھولو۔اور حرا کسی بچے کی طرح صائم کو بہلا رہی تھی۔

علی کو بھی کہاں سکوں تھا وہ بار بار پری کے روم میں جاتا اور دیکھ کے باہر آجاتا پری سوئ ہوئ تھی۔لیکن اس کی فکر کھاے جارہی تھی۔

وہ لاونج میں صوفہ پر بیٹھا تھا 

جب حرا بھی پاس اکر بیٹھی۔

صائم نے کچھ کھایا۔ہاں بڑی مشکل سے کھلایا اور سلایا ھے۔

علی تم نے بھی تو کچھ نہیں کھایا میں کچھ لاتی ہوں کھانے کے لیے۔نہیں حرا بھوک نہیں دل بھی نہیں چاہ رہا۔اس کی خود کی کیفیت بھی ایسی ھی تھی سب کو دلاسے دیتی وہ بھی رو دی تھی۔علی جانتا تھا وہ بظاہر مضبوط نظر انے والی حرا اندر سے ہددرجہ موم تھی۔

بس بس حرا ایسے دل چھوٹا نہیں کرتے۔اللہ کے کاموں میں بندے بے بس ہوتے ہیں۔اور وہ حرا کو دلاسہ دے رہا تھا۔اندد سے دل رو رہا تھا مگر اسے اس وقت کمزور نہیں پڑنا تھا۔۔۔

***********************************************  

اک ہفتہ ہو چکا تھا رباب بیگم کو دنیا سے گیے ہوے۔پری تب سے حرا کے گھر رہ رہی تھی وہ اکثر رات کو گبھرا کے چلا اٹھتی تھی۔صائم کبھی گھر چلا جاتا اور کبھی علی کے ساتھ افس کیونکہ دو تین دن تک وہ بوڈنگ واپس جارہا تھا۔

حرا علی اور صائم نے ہر ممکن کوشش کی تھی پری کا دل بہلانے کی۔حرا کی مما نے بھی ممتا کا منہ بولتا ثبوت دیا تھا پری کے اس کڑے وقت میں۔

اج وہ انٹی کے ساتھ بیٹھی لاونج میں سبزی کاٹ رہی تھی کہ حرا علی اور صائم اتے ہوے دکھائی دہے تھے۔

اسلام علیکم ایوری ون علی نے پرجوش انداز میں کہا۔وعلیکم اسلام بیٹا یہ ہاتھ میں کیا ھے۔

مما یہ کیک ھے۔لیکن کیک کس خوشی میں۔

انٹی یہ ہماری فیملی کے تین نمونے ڈاکٹرز۔۔۔۔یہ ان کے فرسٹ گریڈز سے پاس ہونے کی خوشی میں۔پری کی چھری ہاتھ سے چھوٹی تھی۔کیا واقعی میں۔

کب ایا رزلٹ۔صائم چہچہایا۔اوہ ماے ڈئیر بن گئ ڈاکٹر۔اور صائم نے پری کو گلے لگایا۔انٹی بھی بچوں کے واری جا رہی تھیں۔اوے پیچے ہٹ نمونے مجھے میری دوست کے گلے ملنے دے۔اور حرا پری کے گلے لگی تھی۔

Congratulations Dr Pareshay....

پریشے مسکرائ تھی۔congrat dr Hira and Ali... 

اور آنکھوں میں انسو تھے جو سب سے چھپارہی تھی لیکن وہ ناکام رہی تھی۔نہی پری خوشی کے موقع پر میری بچی انسو نہیں۔انٹی اگر اج مما یہاں ہوتیں تو کتنا خوش ہوتیں مجھے ڈاکٹرکے روپ میں دیکھ کر۔

نا بیٹا رونا نہیں۔رباب اج جہاں بھی ہوگی بہت خوش ہوگی اپنی بیٹی کی اتنی بڑی کامیابی کو دیکھ کر نا رونا نہیں اور پری انٹی کے گلے سے جا لگی۔۔۔۔۔۔۔

اچھا اچھا بس اب رونا نہیں ہم سب لنچ باہر کریں گے۔علی نے کہا تھا۔اور ہاں میں نا نہیں سنوں گا۔دو تین دنوں میں صائم بھی واپس بوڈنگ چلا چائے گا۔

تو منع مت کرنا۔اور وہ اس لیے کہہ رہا تھا کہ پری نے پچھلے کچھ دنوں سے خود کو کمرے میں بند کیا ہوا تھا۔اسی بہانے وہ باہر نکلے گی اور اسکا دل تھوڑا سا بہل جاے گا۔

پری۔ہوں۔

علی نے پری کی جانب دیکھا جو صائم اور حرا کو رائیڈذ کی جانب جاتے ہوے دیکھ رہی تھی۔

پری اخر کب تک۔کب تک خود کو کمرے کی چاردیواری میں قید رکھو گی کب تک۔دیکھو تو خود کو کیا حالت کرلی ھے خود کی۔جیسے جینے کی امید ھی چھوڑ دی ہو۔

وہ خلا میں نا جانے کیا دھونڈ رہی تھی۔پھٹی پھٹی نگاہوں سے آسمان کی جانب دیکھے جارہی تھی۔پری اس نے پری کو جھنجھوڑا تھا۔

کیا اک بار بھی صائم کی جانب دیکھا۔تمہیں کوئ دکھ نا ہو وہ ناجانے کتنے دکھ سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔

اک بار صائم کی جانب دیکھو پری۔مرد نا کبھی کمزور نہیں ہونے  دیتا خود کو۔مرد بہت مضبوط ہوتا ھے۔لیکن مرد بھی بے بس ہوجاتا مضبوط تو وہ بظاہر نظر آتا تاکہ اس کی فیملی اس کو دیکھ کر ہمت نا ہار بیٹھے۔یہاں صائم بھی  نا جانے کتنی ہمت اور حوصلے سے چل پھر رہا ھے۔حتی کہ وہ بھی اتنے بڑے درد سے ٹوٹ چکا لیکن وہ کبھی ظاہر نہیں کرے گا کہ وہ کمزور ھے۔کہ کہیں تم اور نا ٹوٹ جاو۔

پری تم تو بڑی ہو بڑی بہن ہو صائم کی اور وہ بچوں کی طرح تمہیں سنبھال رہا ھے کہ تم اس زندگی کی ڈگر پر پھر سے چلو۔

اور پری کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔نا پری رونا نہیں ھے۔پری کو کمزور نہیں مضبوط ہونا ھے۔اپنے لیے نا سہی اپنے چھوٹے بھائی کے لیے۔یہ انسو پری کو کمزور بنارہے ہیں اور میری پری کو کمزور نہی مضبوط بننا ھے۔انٹی کے خواب پورے کرنے ھیں۔

کیا سمجھ ائ اور پری علی کے سینے سے جا لگی تھی۔رو دو اج دل کا بوجھ ہلکا کر لو۔لیکن اب یہ انسو پری کو کمزور نا کریں۔اور علی نے پری کے انسو پہنچے تھے۔جو دنیا سے چلا جاتا ھے وہ واپس تو نہیں اسکتا لیکن ہم ان کی یادوں کو ہمیشہ اپنے دل میں تازہ رکھ سکتے ہیں۔وقت بہت ظالم۔ھے پری یہ کسی کے لیے نہیں رکتا اگے بڑھتا جاتا ھے۔اور عقت کے ساتھ صبر بھی آجاتا یہ فطری عمل ھے۔لیکن انسان جینے کی امید ھی چھوڑ بیٹھے اور قدرت کے فیصلے سے اختلاف کرے یہ ہمارے بس میں تو نہیں ھے نا۔ماں سے جڑا رشتہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔اور ماں کی جگہ بھی کوئ نہیں لے سکتا۔لیکن یہ بھی کبھی مت بھولو اک ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرنے والی زات نے بہتر فیصلہ کیا ہوگا۔بے شک وہ ہر چیز پر قادر ھے۔اور ہاں پری بڑی بہن بھی ماں جیسی ھی ہوتی ھے۔صائم کو تمہاری ضرورت ھے اور تمہیں اب خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔ایسے زندگی نہیں چلے گی۔ائ سمجھ۔اور ہاں پری زندگی کے ہر موڑ پر تم مجھے اپنے ساتھ پاو گی۔اور پری سر ہلا پائ تھی۔علی جانتا تھا پری کا درد بہت بڑا ھے لیکن اسے اس وقت اپنی پری کو نارمل لائف کی طرف واپس لانا تھا۔ یہ تھوڑا مشکل تھا اسان نا تھا۔کہ پری کا صدمہ ھی بہت بڑا تھا۔لیکن پری کو اگے بڑھنا تھا اپنے لیے اور سب سے بڑھ کر صائم کے لیے۔

اسے مما سے کیے وعدے پورے کرنے تھے۔صائم کا دھیان رکھنا اس کی زمہ داری تھا۔

حرا اور صائم ہمیشہ کی طرح لڑتے ہوئے ان کی جانب اے۔میڈم نے چلا چلا کر میرے کان کے پردے پھاڑ دیے ھیں۔

ہاے صائم میں گئ۔میں گڑگئ۔ہاے۔

افف تو تمہیں کس نے بولا تھا حرا اتنی اونچی اونچی رائیڈ میں بیٹھنے کو پری بولی تھی۔وہ سب جانتے تھے کہ حرا کو ہائیڈ سے ڈر لگتا ھے۔محترمہ کو ہیروئن بننے کا شوق تھا۔اور وہ صائم کی بات پر ہنس دئیے تھے۔پری کی ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر علی نے دل میں شکر ادا کیا تھا۔اور کچھ مطمئن ہوا تھا۔

گاڑی حرا کے گھر کے باہر روکی تھی۔

حرا اج میں اپنے گھر جاوں گی۔واٹ پری یہ بھی تو تمہارا اپنا گھر ھے۔چلو اترو کار سے شاباش۔

کوئ بات نہی حرا میں ہوں پری کے ساتھ جب ہاسٹل جاوں گا تو پری کو تمہارے گھر ھی چھوڑ کے جاوں گا اکیلے تو کبھی نہیں۔ہاں یہ ٹھیک ھے حرا۔اوکے یار۔موسٹ ویلکم۔ بس اپنا خیال رکھنا۔

اوکے باے گائز۔۔۔

باے۔

اور علی نے گاڑی کو بریک لگایا۔صائم باے باس بولتا ڈور اوپن کرنے لگا۔

پری۔۔جی

ائ ہوپ تم میری بات سمجھ گئ ہو گی۔

پریشان مت ہونا میں ہوں تمہارے ساتھ۔علی نے پری کا ہاتھ تھاما۔

پری چونکی۔جانتی ہوں علی اپ سب لوگوں کے پیار اور ساتھ نے میرے اکیلے پن میں کمی کی ھے۔فکر مت کرو میں خود کو سنبھال لوں گی۔یہی امید ھے ڈاکٹر پریشہ۔جو کبھی ہمت نہی ھارے گی۔انشاءاللہ۔اور ہاں کوئ بھی کام ہو کال کرنا اوکے ٹینشن نہیں لینا۔بس دھیان رکھنا سب ٹھیک ہو جاے گا آہستہ آہستہ۔

ہاں۔باے۔

خیال رکھنا۔تم بھی۔

اور علی پری کو جاتا دیکھتا رہا جب تک وہ گھر کے اندر داخل نا ہوگئ۔

پری جیسے ھی گھر میں داخل ہوئی سب کچھ ویسے ھی تھا۔بس ویلکم کرنے کے لیے اس کی مما موجود نا تھے۔اس کا دل اک دم مٹھی میں اگیا۔لاونج پہ پڑے صوفہ پر وہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھے ڈھیروں باتیں کیا کرتی تھی۔اس کی آنکھوں میں انسو روا تھے۔جن پر پری کا کوئ اختیار نا تھا۔صائم نے پری کو تھاما تھا۔نہی پری رونا نہی ھے۔اور وہ پری کو دلاسہ دیے خود بھی رو دیا تھا۔دونوں اک دوسرے کو دلاسہ دے رہیے تھے۔ماں جیسی ہستی کھو بیٹھے تھے دونوں۔پری کسی چھوٹے بچے کی طرح صائم کو دلاسہ دیتی کمرے تک لائ۔اور بیڈ پر لٹایا تھا نہیں صائم رونا نہیں ھے مما کی روح کو تکلیف ہوگی نہیں بس چپ اور وہ صائم کو بہلا رہی تھی اسکے انسو پونچھ رہی تھی۔ادھا گھنٹے تک وہ صائم کے سر کو دباتی رہی کے وہ پرسکوں ہوکر سوجاے۔

صائم کے سونے کے بعد وہ کمرے سے نکلی۔اور مما کے کمرے کی جانب بڑھی۔دروازہ کھولتے ھی لائٹس ان کی۔کمرے کی ہر چیز ویسے ہی ترتیب سے پڑی تھی جیسے اس کی مما رکھتیں تھیں۔بیڈ کھالی پڑا تھا اس کی مما نا تھیں وہاں۔بیڈ پر تکیہ ٹھیک کرتے ہوے وہ مڑی سامنے صوفہ پر مما کی شال پڑی تھی۔وہ شال سینے سے لگائے نا جانے کتنی دیر تک بے آواز انسو بہاتی رہی۔پھر خود ھی ہمت کرتے چادر تہہہ کرتے الماری کی جانب بڑھی۔الماری میں چادر رکھتے ہوے اس کی نظر اس لکڑی کے باکس پر پڑی۔جو اس کی مما نے اسکی بڑتھ ڈے پر اسے دیا تھا۔جو وہ شاید مما کے کمرے میں ھی بھول گئ تھی اور کھول کر بھی نا دیکھا تھا۔وہ باکس الماری سے نکال کر بیڈ کی جانب ائ۔

وہ لکڑی کا خوبصورت سا باکس تھا۔پری نے باکس کھولا۔تو دیکھ کر ٹھٹھک گئ۔جس میں کچھ لال رنگ کی چوڑیاں تھیں اس نے باکس سے باہر نکال کر چوڑیوں کو دیکھا جو کانچ کی لال رنگی چوڑیاں تھیں اس کی مما کی نشانی۔

اس نے جی بھر کر ان چوڑیوں کو دیکھا۔باکس میں کچھ سوکھے ہوے گلاب تھے جسے دیکھ کر پری کو تھوڑی حیرت ہوئ۔اسے اک پائل بھی ملی باکس میں اچھی طرح دیکھا لیکن ایک ھی پائل ملی۔

اک کالے رنگ کی ڈائری پر پری کی نظر گیئ۔پری نے وہ ڈائری نکالی۔وہ اس بات سے انجان تھی کہ اس کی مما ڈائیری لکھتی ہوں گی اور یہ انکی ڈائری ہوگی۔

پری نے کانپتے ہوے ہاتھوں سے ڈائری کھولی۔

پہلے صفحے پر رباب اور اک دل بنا کر اس میں دلاور شاہ لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔

اور چند شعر لکھے ہوے تھے۔۔

محبت اک خوبصورت احساس ھے۔

انکھوں سے ہوتا ہوا کوئ دل میں اتر جاے تو روح کا چین و قرار چھن جاتا ھے۔

ہاں محبوب دل کا سکون چھین لیتا ھے۔

محبت سے زیادہ خوبصورت کوئ اور احساس نہیں۔

پری نے شعر پڑتے صفحہ پلٹا تھا۔۔۔۔

پری نے شعر پڑھتے صفحہ پلٹا تھا۔

آپا۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں رباب 

اپا محبت کیسے ہوتی ھے۔اپا جو بیڈ شیٹ کو تہہ کر رہی تھیں۔اپنی چھوٹی بہن کی بات سن کر چونکیں۔دیکھ رباب یہ محبت وحبت کا مجھے کچھ نہی پتا۔اور ہاں تو بھی ان چکروں سے دور ھی رہی۔اپی نے ترچھی نگاہوں سے گھورا تھا رباب کو۔اف ہو اپا اک سوال ھی تو کیا ھے۔اس میں ایسا کیا پوچھ لیا جو ایسے دیکھ رہی ھو۔دیکھ رباب ابا کے لاڈ پیار اور تیری ضد کی وجہ سے ابا نے تجھے یونیورسٹی میں داخل کرایا ھے۔جمعہ جمعہ اٹھ دن نہی ہوے اور تو محبت پر تبصرے کر رہی ھے۔

اک بات اچھے سے یاد رکھنا رباب یہ محبت عشق مشعوقی امیروں کے چونچلے ھیں ہم جیسے غریبوں کے پلے نہیں پڑتیں یہ باتیں۔اففف اپا تو بات کہاں کی کہاں لے گئ۔۔

میں تو سرسری بات کی تھی۔

اچھا بس بس ابا کے انے کا وقت ہورہاھے۔جلدی کتابیں سمیٹ کے کچن میں ائا۔تھوڑا ہاتھ بٹادے میرا۔

اور رباب منہ بنا کے رہ گئ تھی۔

مجھ سے گھر کے کام نہیں ھوتے اپا۔

میں کچھ نا سنوں جلدی نیچے او۔

اور وہ پیر پٹھکتے نیچے ائ تھی۔۔

جیسے ہی دروازہ بجنے کی آواز سنائ دی رباب باہر کی جانب بھاگی۔ابا اگئے۔۔۔

اسلام علیکم ابا۔وعلیکم اسلام پتر۔

ابا نے اپنی سائیکل اندر کی اور رباب دروازے کو کنڈی لگا کر مڑی۔وہ کچھ متلاشی نگاہوں سے تلاش رہی تھی۔ابا رباب کی کیفیت بھانپ گئے تھے

انہوں نے سائیکل پر سے شاپر اتارے۔

اور رباب کی جانب کر دیے لے پتر

 لے ایا اپنی دھی کی من پسند جلیبیاں اور سموسے۔اور وہ کسی بچے کی خوشی سے ابا کے سینے سے جا لگی تھی۔

عابدہ پتر اک ٹھنڈا پانی دا گلاس تے پلا پتر۔۔

جی ابا اور عابدہ کچن سے پانی کا گلاس لاتی ہوئ دکھائی دی۔

لیجیے ابا پانی۔ہاں پتر رکھ دے ادھر۔

اور عابدہ نے اک نظر رباب کی جانب دورائ جو بچوں کی طرح جلیبیوں سے لطف اٹھا رہی تھی۔وہ رباب کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔

ابا بھی رباب کی طرف دیکھ کر ہنس دیئے تھے پوری جھلی ائا میری دھی۔

جی ابا اپ منہ ہاتھ دھولیں میں کھانا لگاتی ہوں۔ہاں پتر۔۔۔

اور وہ پھر سے رباب کی جانب دیکھنے لگے۔رباب پتر جی ابا۔

ادھر او بیٹا۔اور وہ ان کے پاس اکر بیٹھ گئ۔پتر پڑھائی کیسی جارہی ھے۔جی ابا اچھی جارہی ھے۔بیٹا کوئ مشکل تو نہیں ھے انے جانے میں نہیں ابا جی بس ٹائم پہ آجاتی۔اچھا دھیی۔اور انہوں نے کچھ پیسے رباب کودیے کہ سو قسم کی ضروت ہوتی ھے رکھ لو پاس۔رباب کی خوشی کا ٹھکانہ نا تھا۔تھینکو ابا جی۔بیٹا ضرورت ہو تو مانگ لیا کرو۔جی ابا جی۔

اچھا ابا جی اپ اپ جلدی سے ہاتھ منہ دھولیں پھر ملکر کھانا کھاتے۔

اچھا دھی۔۔

اور رباب نے کچن کا رکھ کیا۔

رہنے دینا تھا۔ملکہ عالیہ میں خود کرلوں گی کام۔ارے اپا کیا ہوگیا۔لاو مجھے دستر خوان بچھادوں۔

اخر کل کو سب مجھے ھی تو دیکھنا ھے۔اور کچھ دن ھی ھیں تم نے تو پیا دیس چلی جانا۔

اور اپا نے اک لگائ تھی رباب کے کان پر چپ بہت ٹرٹر زبان چلتی ھے۔ابا سن لیتے تو۔

لو جی تو ابا کی مرضی سے ھی رشتہ ہوا گبھرا تو ایسے رہی جیسے پتہ نہی کیا ہو۔

اچھا چپ چپ بس کر کچھ شرم لحاظ بھی ہوتا ھے۔سمجھی جھلی ھی رہی ساری عمر اور اپا شرما کر باہر کی جانب چلی گئ۔

رات کو وہ ٹی وی پر ڈرامہ دیکھ کر کمرے میں گئ تو اپا کو بہت پریشان سا پایا۔وہ کچھ دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ اپا کچھ فکرمند رہتی ھیں۔

اپا اپا۔۔۔رباب نے اپا کا ہاتھ ہلایا۔

ہوں ہاں کیا ھوا۔

اپا یہی میں پوچھ رہی ہوں کہ کیا ہوا ھے کس سوچ میں پڑ گئ ھیں۔

کچھ نہی رباب۔

نہیں اپا ایسے کیسے۔۔۔

جب سے اپ کی شادی کی تاریخ پکی ہوئ ھے۔اس دن سے میں دیکھ رہی ہوں۔کہ اپ کچھ پریشان ھیں سب خیر تو ھے نا۔

کاشف بھائ کی جانب سے کوئ مسئلہ ھے۔

ارے نہیں پاگل ان کی طرف سے کیا مسئلہ ہونا۔تو پھر پھوپھو نے کچھ بولا۔نہیں انہوں نے کیا۔ بولنا مجھے۔

اوہ اچھا مجھے لگا پھوپھو ساس والے روپ میں نا اگئ ہوں۔

نہی تو۔

اپا تو رورہی ھے۔

نہی تو۔

جھوٹ نہی بول اپا کیا بات ھے دیکھ سچ سچ بتا۔

رباب میری شادی کے بعد تیرا اور ابا کا کیا ھوگا۔

کیسے چلے گا سب۔۔

ابا کا اور تیرا دھیان کون رکھے گا۔

کیا ہوگیا ھے اپا۔اللہ مالک ھے میں ہوں نا ابا کے پاس۔

اماں کے دنیا سے جانے کے بعد ابا نے ہم دونوں کی اچھی تربیت کیلئے ہمارے سر پر سوتیلی ماں کا سایہ تک نا ڈالا ۔خود ھی ماں اور باپ بن کر ہماری پرورش کی۔تجھے یاد ھے پھوپھو نے کتنا ذور لگایا تھا کہ ابا ان کی نند سے بیاہ کر لیں۔لیکن ابا نے کہا تھا کہ میری دو بیٹیاں ھیں۔میرے پاس جینے کا ذریعہ ھے میں خود پرورش کرلوں گاخود تربیت کروں گا اپنی بچیوں کی۔اک سوتیلی ماں کے ساے تلے پچیوں کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔اور ابا نے اتنے اکیلے ہوتے ہوے ہماری تربیت میں کوئی کمی نا کی۔

اور میں کیسے ابا کو اور تمہیں اکیلا چھوڑ کر اپنا گھر بسا لوں۔

اپا کیوں ایسی باتیں کر رہی ہو۔

نا پتر ایسی گلاں نہی کری دیاں۔

ابا جی دونوں نے دوپٹے درست کیے۔

ہاں پتر دنیا کا دستور ھے۔اک نا اک دن تو تم دونوں کو جانا ھی ھے بیٹا۔

پر ابا جی اپ کا خیال کون رکھے گا۔لے پتر رباب بیٹی ھے نا میرے پاس تو کیوں سوچ رہی ہو ایسے۔

بس اک بار تم دونوں کی زمہ داری سے سبکدوش ہوجاوں۔پھر سکون سے مر پاوں گا۔

اللہ نا کرے ابا جی۔دونوں نے بیک وقت بولا تھا۔

ہاں پتر اک باپ ہونے کے ناطے بڑی خواہش ھے کہ اپنی بیٹیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مظبوط ھاتھوں میں دے دوں۔تو فرض پورا ہوجاے۔

ابا کیا ھم بوجھ ھیں اپ پر رباب بولی تھی۔

نا پتر نا بیٹیاں بوجھ نہیں رحمت ہوتی ھیں اور تم دونوں میرے گھر کی رحمت ہو۔بس تم دونوں کو خوش دیکھنا ھے۔اللہ تم دونوں کی خوشیاں دیکھنا نصیب فرمائے آمین۔

تم دونوں تو میری روح کا سکون ہو بیٹا اور انہوں نے دونوں کو گلے سے لگا لیا تھا۔

***********************************************

رباب اٹھ جا صبح ہوگئ ھے۔یونیورسٹی سے دیر ہو جاے گی پھر۔

اف اپا سونے دو۔

اور اپا نے پاس پڑا پانی کا گلاس اٹھا کے رباب کے منہ پر ڈال دیا تھا۔۔

اففف کیا مصیبت ھے اپا۔اور رباب چلا کر اٹھ بیٹھی تھی۔

ھاھاھاھاھاھا اٹھ جا بہن اور کوئ طریقہ بھی تو نہیں جو تمہیں اٹھا پائیں۔

حد ہوتی ھے اور وہ کپڑے اٹھاے واشروم میں گھس گئ۔

اگی میڈم وہ کلاس میں داخل ہوئ ھی تھی۔

کہ دلاور شاہ سیدھے رباب کی راہ میں باہیں پھیلانے رومیو کی طرح کھڑے ہوگے۔

دیکھو سائیڈ ہوجاو۔مجھے کلاس میں جانے دو۔نانانا

اتنی اسانی سے نہی۔پہلے یہ تو بتائیں۔کل اپ کیوں نہیں ائیں تھیں۔

میری مرضی۔۔

اپکو بتانا میں ضروری نہی سمجھتی۔

اف یہ ادا ہاے میں مر گیا۔

اللہ نا کرے۔رباب فکرمندانہ انداز میں بولی۔

اور دلاور شاہ اک نظر رباب کو پیار سے دیکھتے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

یہ تھے دلاور شاہ جانے مانے ارب پتی خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب۔

یونیورسٹی کی ہر لڑکی ان کی خوبصورتی پر مڑتی تھی۔لیکن وہ تو پہلی ھی نظر میں دل ہار بیٹھے تھے۔

جب یونیورسٹی کے پہلے ھی دن ان کی نظر چپ سی پیاری سی بڑے سے دوپٹے میں چھپی موم سی گڑیا نما خوبصورت لڑکی پر پڑی تھی۔تب سے ھی وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر رہ گئے تھے۔

پھر کیا تھا۔لڑکیاں ان کی وجیہہ شخصیت کی دیوانی خون سے  خط لکھتی تھیں۔جان دینے کی قسمیں کھاتی تھیں۔پر اک وہ تھے۔

کہ معصوم اور خوبصورت سی تتلی نما لڑکی پر وہ اپنا دل ہار بیٹھے تھے۔

دیوانہ ور رباب کے اگے پیچھے گھومتے۔

مگر وہ رباب ھی کیا جو انکھ اٹھا کر بھی دیکھ لے کسی مرد کو۔

اور معمول کا دن تھا یونیورسٹی سے واپسی پر بس سٹینڈ پر کھڑے بس کا انتظار کرتے وہ مکمل بھیگ ھی چکی تھیں۔لیکن دلاور شاہ اپنی محبت کو یوں بارش میں کھڑا کیسے دیکھ سکتے تھے۔

خود بھی گاڑی سے نکل کر ساتھ جا کر کھڑے ہوگئے تھے۔

رباب نے اشتیاق سے نظریں اٹھا کر دیکھا اور وہ نظریں جھکا گئیں تھیں۔

اپ کب تک بس کے انتظار میں بھیگتی رہیں گی بیمار ہوجائیں گیی اپ ۔اگر اپ برا نا مانیں تو میں اپ کو اپکے گھر چھوڑ دیتا ھوں۔سامنے کار کھڑی ھے میری چلیں میرے ساتھ۔دیکھیے میں مرتی مروں لیکن اپ کے ساتھ نہیں جاوں گی۔چلے جائیں اپ یہاں سے۔

لوگ دیکھ رہےھیں اپ جائیے پلیز۔

میں مرتا مروں پر اس موسم میں کبھی اپ کو اکیلا چھوڑ کر نا جاوں۔

وہ بھی دلاور شاہ تھے ٹس سے مس نا ہوے۔

دور سے بس اتی ہوی دکھائی دی تورباب جلدی سے بس کی جانب لپکی۔

اسے لوگوں سے زیادہ دلاور شاہ سے ڈر لگ رہا تھا۔اور دلاور شاہ نے بھی اسکے گھر تک تعاقب کیا تھا۔وہ عشق کے ہاتھوں مجبور تھے۔

رفتہ رفتہ وقت گزرتا جارہا تھا۔اور  محبت کا نشہ بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

پھر کیا تھا دلاور شاہ نے اپنی محبت کا اظہار کر ھی دیا تھا تو وہ حیران پریشان ھی رہ گئ تھی۔

رباب میں جانتا ھوں کہ اس وقت مجھے اپ سے یہ سب نہیں کہنا چاہیے۔اپ نا جانے میرے بارے میں کیا سوچتی ہوں گی۔کہ کتنا اوارہ لڑکا ھے جو ہر وقت میرے اگے پیچھے منڈلاتا رہتا ھے۔مگر یہی سچ ھے کہ میں یونیورسٹی کے پہلے دن سے اپ سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔اور اپ سے شادی کا خواہشمند ہوں۔

مجھے غلط مت سمجھئے گا۔بس اب اور ہمت نہیں کہ دل میں سنبھال کر رکھوں اس بات کو۔مگر میرا تو دل کرتا ھے چلا چلا کر ساری دنیا سے کہہ دوں۔کہ رباب ائ لو یو ۔۔۔۔۔

مجھے بہت محبت ھے اپسے۔۔۔

پر اپکی ذات پر کوئ حرف نا اے۔اس وجہ سے ڈرتا ھوں۔میں اپ کو اپنی عزت بنانا چاہتا ہوں۔

اور وہ نا جانے کیا کیا کہہ رہے تھے۔رباب تو بس منہ کھولے بنا پلکیں جھپکاے اس انسان کو تک رہی تھی۔جس نے اج نہایت خوبصورت انداز سے اس سے محبت کا اعتراف کررہا تھا۔اج وہ خود کو اسمان میں اڑتا ہوا محسوس کررہی تھی بنا ڈر و خوف سے۔۔۔

اور وہ اک دم ہوش میں ائ جب پوری کلاس کے سامنے وہ گھٹنوں پر بیٹھے پھول نکالے رباب کو پرپوز کررہے تھے۔اور ساری کلاس میں دونوں کے نام کی آوازیں گونج رہیں تھیں۔

رباب کا خود کے دل پر کوئ اختیار نا رہا تھا۔اتنے دنوں میں اس شخص نے اپنی محبت کو پانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔پر وہ رباب ھی تھی جو دیکھ کر بھی انجان بنی رہی۔لیکن کچھ تو تھا اس کی شخصیت میں جو انہیوں نے آگے بڑھ کر پھول تھام لیا تھا۔اور ہر طرف تالیوں کی آواز تھی۔دلاور شاہ تو جیسے ہوش میں ھی نارہے تھے۔۔۔۔

اک عجیب خوبصورت احساس ھے یہ محبت بھی۔نا انسان ہوش میں رہتا اور نا اسے کسی کا ہوش رہتا۔

اب تو معمول بن گیا تھا یونیورسٹی میں دونوں کی محبت کو واہ واہی دی جاتی تھی۔دونوں کا اک دوسرے کو دیکھے بغیر دن نا گزرتا تھا۔۔

اج بھی وہ گراؤنڈ میں بیٹھے تھے دلاور اپ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو۔پگلی یہ کیسا سوال ہوا نہیں بولو کتنی محبت کرتے ہو۔

اتنی کہ جان بھی قربان کردوں اپنی محبت پہ۔

اللہ نا کرے یہ کیسا جواب ہوا جائیں میں نہیں بولتی اپ سے۔اور وہ خفا ہوئ تھی۔دلاور شاہ کیسے ناراض دیکھ سکتے تھے اپنی محبت کو اچھا بابا سوری معاف کردو دیکھو ناراض تو مت ہو۔تو پھر یہ جان دینے والی بات کیوں کی اپ نے۔ اپ نہی جانتے ہیں کہ جان بستی ھے اپ میں میری اور رباب کی انکھوں میں انسو اگئے تھے۔شاہ تڑپ کر رہ گیا تھا۔نہی یار رو تو مت میں بس مذاق کررہا تھا۔

اپ کا مذاق جان لے لے گا کسی دن میری دیکھو اب تم تو ایسے نہیں بولو۔۔۔شاہ کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔

ہاں جی تو اور کیا بولوں۔

کچھ بھی۔۔

دلاور۔۔

ہاں۔ہم شادی کب کررہے ھیں۔

بہلت جلد انشاء اللہ۔

بہت جلد کب۔۔شاہ اگلے ہفتے اپا کی شادی ہورہی ھے۔

واہ یہ تو بہت اچھی بات ھے میں بھی اوں گا اپنی تتلی کو دیکھنے رنگ برنگے کپڑوں میں تیار ہوے۔

اف ہو شاہ۔مذاق نہیں میں سچ کہہ رہی ہو۔اپا کی شادی کے بعد میرا نمبر ھے۔اور ابا میرے لیے بھی بہت جلد بازی کریں گے۔کیونکہ وہ ہم دونوں بہنوں کے فرائض سے سبکدوش ہونا چاہتے ھیں۔تم فکر مت کرو رباب۔میں اگلے ہفتے گھر جارہا ھوں۔اماں ابا سے بات کروں گا اور انہیں ساتھ ھی لے اوں گا رشتے کی بات کرنے کیلئے۔

کیا سچ میں وہ بچون کی طرح خوش ہوی تھی۔ہاں میری جان سچ۔

اچھا یہ دیکھو میں کیا لایا اپنی پری کے لیے۔

کیا لائے رباب متلاشی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

انہوں نے جیب سے اک سرخ رنگ ک باکس نکالا۔

اور کھول کر پری کی جانب بڑھایا۔واوہ اٹس بیوٹیفل۔۔

ڈبی میں چھن چھن کرتی چاندی کی پائل تھی۔جو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے رباب کے پاؤں میں پہنائی تھیں۔

بہت خوبصورت تحفہ ھے شاہ۔بہت قیمتی۔

نہیں رباب یہ تم سے زیادہ خوبصورت اور قیمتی نہیں ھے۔۔اور دونوں ہنستے مسکراتے کار کی جانب بڑھے تھے۔۔۔۔

اک ہفتہ کیسے گزرا پتہ ھی نا چلا۔اپا کی رخصتی کا دن اگیا تھا۔اور وہ بہت روئ تھی اپا کی رخصتی کے بعد ابا کی آنکھوں میں بھی نمی تھی۔لیکن کہیں نا کہیں ان کے چہرے پر سکون بھی تھا۔کہ اللہ کے حکم سے سب کام خیر وعافیت سے ہوگیا تھا۔

اپا کے سسرال جانے کے بعد اسے تھوڑی مشکل تو ہوی تھی روزمرہ کے کاموں سے پر رباب نے گھر کی تمام ذمہ داری سنبھال لی تھی۔

اج کافی دنوں بعد وہ یونیورسٹی گئ تھی۔متلاشی نگاہیں اک انسان کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔مگر اس کے دل کا سکون اسے کہی نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔

رباب کلاس میں داخل ہوئی لیکن شاہ اسے کہیں دکھائ نا دیا۔شاہ کے ایک دوست سے شاہ کے بارے میں پوچھا تو اس سے پتا لگا کہ وہ گھر گئیا ھے ابھی واپس نہیں ایا۔

رباب کو یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی۔قریبا اک ہفتے سے زیادہ ہوگیا تھا دلاور شاہ کو دیکھے ہوئے۔رباب کو کسی پل بھی چین نا ارہا تھا۔عجیب قسم کی اداسی چھائی ہوئی تھی۔۔

***********************************************

اماں اپ بابا سرکار سے بات کریں نا۔

پتر میں کیسے بات کرلوں ان سے۔تو اچھے سے جانتا ھے کہ شبانہ تیری بچپن کی منگ ھے۔تیرے ابا کے مرحوم بھائ کی بیٹی۔وہ کسی صورت نا مانیں گے۔اماں میں شبانہ سے شادی نا کروں گا چاہے جو بھی ہوجائے۔

میں کل واپس جارہا ہوں بتا دیجیے گا ابا کو میرا یہ فیصلہ۔

اور وہ اپنے بیٹے کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھیں۔وہ اپنے بیٹے کی ضد سے اچھی طرح واقف تھیں۔اور وہ اپنے شوہر چوہدری ولی شاہ کے غصے سے بھی بخوبی واقف تھیں۔ان کے اگے تو کوئ افف بھی نہیں کرسکتا تھا۔اب تو ان کا بیٹا ان کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہوگیا تھا۔

وہ تو سر تھام کے رہ گئیں تھیں۔

دینو ارے او دینو۔۔

کہاں مرگئے۔جی بڑے صاحب حکم بڑے صاحب۔

چھوٹے شاہ کتھے اے۔

جی صاحب جی تو اپنے کمرے میں ہوگئیں۔اچھا جا بلا کے لا۔دلاور پتر کو۔

سلام ابا جی۔

وسلام پتر۔

ائا بیٹھ اپنے باپ کے پاس۔

ائا میرا شیر پتر۔

کب تک ختم ہونی ھے تیری یہ پڑھائ۔

ابھی اک سال ھے ابا جی۔

ارے پتر میں تو کہتا ہوں۔چھڈ اس پڑھائی نوں اپنا کام ھے اپنے بھائ ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کر۔مجھ سے نہیں دیکھا جاتا اب سب کچھ۔ان بوڑھے کندھوں میں اب جان نہیں۔

جی ابا جی۔

کی ہوا پتر کوئ پریشانی ھے۔

وہ ابا جی مجھے کچھ بات کرنی ھے اپ سے۔

ہاں پتر بول۔

ابا جی مجھے شہر میں  اک لڑکی پسند ھے۔اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا ھوں۔اور چاہتا ہوں کہ اپ میرے ساتھ اس کے گھر رشتہ لے کے چلیں۔

یہ کہنا تھا کہ ولی شاہ کی گرجدار آواز گونجی تھی۔کہ چوہدرائن دوڑتی ہوئ بیٹھک میں پہنچی تھیں۔سن رہی ہو تم اپنے صاحبزادے کی عشق مشعوقی کی کہانی۔اج تک ہماری حکم عدولی نہیں کی گئ۔اور نواب صاحب ہمیں حکم سنا رہے ھیں۔

پر ابا جی رباب اک بہت اچھی اور پڑھی لکھی لڑکی ھے۔

بس پتر بس یہ مت بھول کے تیری بچپن کی منگ تیرے نام کی انگوٹھی پہننے تیرے انتظار میں بیٹھی ھے۔اور میں اسی انتظار میں ہوں کہ جب توں اپنی تعلیم مکمل کرے اور کب میں اپنے فرض سے سبکدوش ہوں۔

نہیں ابا جی میں شبانہ سے کسی صورت بھی شادی نہیں کرسکتا۔اپ اس کے لیے کوئ اور لڑکا ڈھونڈ لیں۔

اک تھپر کی زور دار آواز کمرے میں گونجی تھی۔پہلی بار چوہدری ولی شاہ نے اپنے لاڈلے سپوت پر ہاتھ اٹھایا تھا۔کمرے میں کھڑا ہر فرد کانپ کر رہ گیا تھا۔کیا بولا گھر کی دھی کو اپنے بھائی کی نشانی کو کسی اور کے حوالے کردوں۔

ارے تجھے یہ کہتے ہوے غیرت نا ائ۔

اک بات کان کھول کے سن لے۔میں نے اپنے مرتے ہوئے بھائ سے وعدہ کیا تھا۔کہ شبانہ بیٹی کو اپنی بہو بناوں گا۔اور اگر تو نے میرے فیصلہ نا مانا تو میں یہ بھول جاؤں گا کہ تو میرا بیٹا ھے۔یہ کہنا تھا کہ چوہدری ولی شاہ غصے سے باہر نکل گئے تھے۔

تجھے کہا تھا نا پتر کہ تیرا باپ جو کہہ دے وہ پتھر پر لکیر ہوجاتا۔

جانتا ہوں اماں لیکن میں بھی انہی کا بیٹا ہوں اپنی بات کا پکا۔اور وہ یہ کہہ کر رکے نا تھے۔

دروازے پر کھڑی شبو اپنے انسو نا روک پائ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

*********************************************

رباب یونیورسٹی سے گھر پہنچی تو دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔بھاگتے قدموں سے گھر کی جانب بڑھی تو سامنے چارپائی پر اپنے بابا کو بے سود لیٹا ہوا پایا۔پاس بیٹھی پھوپھو کے بین اور اپا کی چلاتی ہوئ آواز رباب اپنے ہواس کھوچکی تھی۔اس کی دنیا ھی ویران ہوگئ تھی۔ابا اسے تن تنہا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔وہ اپا کے گلے لگے نا جانے کتنی دیر بلکتی رہی تھی۔

ابا کی وفات کے قریباً پندرہ دن بعد وہ یونیورسٹی کے لیے تیار ہوکر نیچے لاونج میں ائ تھی۔کہ پھوپھو کی آواز کانوں میں گونجی۔

پھپھو کے کہنے پر وہ اپا کے گھر شفٹ ہوگئ تھی۔کہ اک اکیلی عورت زات اکیلے گھر میں کیسے رہ سکتی۔

رباب اتنی صبح تیار ہوے کہاں جارہی ھے۔جی پھوپھو 

کافی دن ہوگئے یونیورسٹی گئے ہوے۔تو سوچا یونیورسٹی چلی جاوں پیپرز بھی شروع ہونے والے ھیں۔

ارے چھوڑ یونیورسٹی کو جب تک بھائ زندہ تھے اٹھا لیے یہ چونچلے انہوں نے تیری ضد کے اگئے۔اب چھوڑ یہ پڑھائی وائ اور گھر گرہستی سیکھ۔وہ ھی لڑکیوں کے کم اتی۔

پر پھپھو میرے ایگزامز ہونے والے ھیں میری پورے سال کی محنت ھے۔

ارے اماں کیا ہوگیا ھے۔پڑھنے دو بچی کو ارے عابدہ رباب کے لیے بھی ناشتہ لاو بچی کو دیر ہورہی ھے۔کاشف بھائ نے رباب کی سائیڈ لی تھی۔لو جی پہلے۔ بھائ جان نے میری نا سنی کہ پورے خاندان میں کوئ لڑکی اتنا نا پڑھی ھے نا بھیجو بڑے تعلیمی اداروں میں اوپر سے میرا بیٹا بھی اسی راہ پہ چل رہا ھے۔تو اماں اس میں کیا برائی ہے۔اج کے دور میں بچیاں تعلیم یافتہ ھیں۔تب ھی تو وہ گھرداری بھی نبھا پاتی ھیں۔

لیں بھائی جی اتنا پڑھ کے کہاں جانا سنبھالنا تو چولہہ چونکا ھی ھے۔اور رباب نے اک نظر پھوپھو کے چھوٹے بیٹے کامران کی طرف دیکھا جو خود تو میٹرک فیل تھا۔اور سوچ بھی گری ھوئ ھی رکھتا تھا۔کھانا پینا اور اوارہ گردی کرنا اس کا پیشہ تھا۔رباب کو وہ اک انکھ نا بھاتا تھا۔

تم تو چپ ھی رہو۔خود تو پڑھ نا سکے اور ائے بڑے تنقید کرنے والے۔کاشف بھائی نے بھی اپنی بھڑاس نکالی۔اماں اسے وقت پر دکان پر بھیجا کر۔ورنہ یہ تیرا خوب نام روشن کرے گا۔پھپھو کاشف بھائی کی بات پر طلملا کر رہ گئیں تھیں۔

اجاو رباب ناشتہ کرو نہی اپا پہلے ھی بہت دیر ہوگئ ھے۔میں یونی میں کچھ کھالوں گی۔

اچھا چلو ٹھیک ھے پر یاد سے کھا لینا۔جی اپا اللہ حافظ۔

وہ تیز قدم اٹھاتی گھر سے باہر نکلی تھی۔سب کی جلی کڑی باتوں سن کے وہ انسو بہاتی چل رہی تھی۔

ابا کیوں چلے گئے مجھے چھوڑ کے کیوں۔وہ اسی دھن میں کب یونی پہنچی خیال ھی نا رہا۔

رباب رباب وہ چونکی تھی۔رباب تم ٹھیک ہو نا یہ شاہ تھا جسے اج وہ نا جانے کتنے دنوں بعد دیکھ رہی تھی۔اور اپنے ضبط پر قابو نا رکھ پائ تھی۔اور کیسے شاہ اسے سنبھالتا گراؤنڈ تک لایا تھا۔

رباب یہ لو پانی پیو۔دیکھو رو مت۔تمہیں پتا ھے میں تمہاری آنکھوں میں پانی نہیں دیکھ سکتی۔

شاہ بابا مجھے تنہا چھوڑ گئے۔جانتا ہوں رباب میں گھر سے واپس ایا تو پتا چلا انکل کی ڈیتھ کا۔میں یہ سن کے تمہارے گھر بھی گیا۔لیکن گھر ہر تالا تھا۔پوچھنے پر محلے والوں سے پتا لگا کہ تم اپنی بہن کہ ساتھ چلی گئ ہو۔یقین مانو سکون و قرار نا تھا۔تمہیں پتا ھے شاہ میں بہت اکیلی ہوگئ ہوں۔ایسے مت بولو پگلی میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔وعدہ کرو شاہ تم مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاو گے۔ورنہ میں مر جاؤں گی۔چپ خبردار جو دوبارہ ایسے بولا۔اور وہ نا جانے کون سے وعدے اور قسمیں نبھا رہے تھے۔کہ شاید انے والے وقت اور حالات سے انجان تھے۔۔۔

***********************************************

اپا یہ جوڑا رباب حیرت سے اپنی بہن کی جانب دیکھ رہی تھی۔پھپھو لائیں ھیں تیرے لیے۔لیکن یہ عنائیت کیوں۔۔۔

وہ پھپھو اپا اتنا بول کے خاموش ہوگئیں۔کیا اپا بول بھی میرا دل بیٹھا جارہا ھے۔

پھپھو اس جمعہ تیرا اور کامران کا نکاح پڑھوانا چاہتی ھین۔وہ دعوے کر رہی ھیں کہ بابا نے تیرے اور کامران کے رشتے کی ہامی بھری تھی۔اور رباب کے سر پر جیسے کوئ بمب پھوڑا گیا تھا اپا یہ جھوٹ ھے تو جانتی ھے وہ کامران غنڈا موالی ھے ابا اس کے لیے کبھی ہامی نہیں بھر سکتے اپا کہہ دے یہ جھوٹ ھے۔کاش کے یہ جھوٹ ہو کاش میری بہن میں سب کچھ جانتے ہوے تجھے اس دوذخ میں نا جھونکوں۔اپا میں مر جاوں گی لیکن اس شخص سے کبھی شادی نہی کروں گی کبھی نہیں۔اور دونوں بہنیں اپنی بے بسی پر انسو بہارہی تھیں۔

اج وہ شاہ سے ملی تھی اور اسے ساری روداد کہہ ڈالی تھی۔

دلاور شاہ اگر لال جوڑا تمہارے نام کا نا پہنا تو یہ رباب تیرے عشق میں دیوانی کسی اور کی سیج بھی نا سجاے گی۔اور سرخ جوڑے میں ڈولی نہیں جنازہ اٹھے گا۔

اللہ نا کرے۔تم میری ہو رباب تم پہ تو میں کسی کی نظر تک برداشت نہیں کر سکتا۔میں اج ھی تمہیں اپنا نام دوں گا۔پھر کوئ چاہ کر بھی تمہیں مجھ سے نہیں چھین سکتا۔

اور کب چند دوستوں کی گواہی میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر مولوی صاحب نے دونوں کا نکاح پڑھوایا تھا۔یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ وہ دونوں خود حیران تھے لیکن ان دونوں کے پاس اور کوئی راستہ بھی نا بچا تھا۔اور نکاح میں تو ویسے ھی بہت طاقت ہوتی ھے۔

اب میں جمعہ کے دن ھی اوں گا اپنی دلہن کو لینے۔اور رباب خوشی سے پھولے نا سما رہی تھی۔اک دم سے وہ مسز دلاور شاہ بن گئ تھی۔اب وہ بہت مطمئن سی ہوگئ تھی۔

اپا کو بھی اس نے کچھ نا بتایا تھا۔راز سینے میں ھی دفن رکھا تھا۔کہ اپا کے سسرال والوں میں سے کوئ یہ راز جان نا جائے۔لیکن اخر کو وہ دن بھی ان پہنچا تھا جب سب لوگوں کے سامنے دلاور شاہ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ رباب اس کے نکاح میں ھے۔اور نکاح پہ نکاح تو جائز نہیں کیوں مولوی صاحب۔اور سب لوگ تو جیسے سکتے میں اگئے تھے پھپھو نے واویلا اٹھا لیا تھا۔کامران جو مردانگی کے رعب میں شاہ کی طرف بڑھا تھا۔دلاور کے دوستوں نے اس کا حال و بے حال کر دیا تھا۔پھپھو سر پکڑے نا جانے کیا بددعائیں دے رہی تھیں۔لیکن اب رباب کو کس کی پرواہ نا تھی۔اس کا مجازی خدا اس کی ڈھال بنے کھڑا تھا۔

اپا رباب کے پاس ائیں تھی۔رباب میری بہن میرے پاس تو تجھے دینے کے لیے بھی کچھ نہیں ھے۔کہ بس تجھے ڈھیروں دعاؤں میں رخصت کروں گی۔اج اگر ابا زندہ ہوتے تو اس کامران کے لیے کبھی نا مانتے اور تجھے مجبوراً یہ قدم نا اٹھانا پڑتا۔لیکن میں خوش ہوں اپنی بہن کے لیے کہ یہ شخص تجھے ہمیشہ خوش رکھے گا جس نے تجھے اپنی عزت اپنا مان بنایا ھے۔اور اپا نے دباب کا ہاتھ شاہ کے ہاتھ میں دیا تھا۔بھائ میں اپ کو نہیں جانتی لیکن بس اتنی گزارش ھے کہ میری بہین کا خیال رکھیے گا۔اس کی انکھ میں اک انسو تک نا انے دیجیے گا۔اور شاہ نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔

تب ھی کاشف بھائی اگے بڑھے تھے۔اور رباب کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔وہ اپنی ماں کے ہاتھوں مجبور تھے۔ورنہ یہ جانتے ہوے بھی کہ انکا بھائ بری صحبت کا شکار ھے رباب کو کبھی اس دوزخ میں نا جھونکتے۔پر ماں کے ہاتھوں مجبور تھے۔رباب اپا کے گلے لگ کے خوب روئ تھی۔اور ان کی دعائیں لیے گھر سے رخصت ہوئ تھی۔۔۔۔۔

پورا کمرا گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ہر طرف گلاب کی مہک تھی۔رباب کے چہرے پر سکون ھی سکون تھا۔تب ھی کمرے کا دروازہ کھلا اور دلاور شاہ کمرے میں ائے۔رباب تو سمٹ کر رہ گئ۔جب شاہ نے اس کے ململی ہاتھوں کو چھوا تھا۔مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ تم میری ہوگئ ہو رباب۔اور رباب شرما گئی تھی۔تمہاری اسی ادا نے مجھے تمہارا غلام بنا دیا۔

کیسی باتیں کر رہے شاہ اپ۔

اج تو مجھے اپنے دل کی بات بولنے دو تتلی اور انہوں نے اپنی جیب سے اک ڈبی نکالی اور اس میں سے اک سونے کا نیکلس نکالا جس پر اک تتلی بنی ہوئی تھی۔واو شاہ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔

ہاں خوبصورت تو ھے پر میری تتلی سے نہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے وہ نیکلس رباب کے گلے میں پہنایا تھا۔

کاش کہ یہ پل یہیں رک جائیں۔کاش کہ یہ پل یہی تھم جائیں۔پر رات جو اپنے جوبن پر تھی۔چاند کی روشنی میں چارسو بکھر گئ تھی۔دو پریموں کے ملن کی رات تھی۔ہر سمت فضا میں شوروغل کی فضائیں گونج رہی

 تھیں۔ہر سمت خوشیوں کے شادیانے بج رہے تھے۔۔۔۔۔

*********************************************

اج وہ اپنی بیوی کو لیے اس کے سسرال لایا تھا۔جہاں گھر میں کھڑے ہر فرد کے چہرے پر حیرت اور سکتے کے ملے جلے تاثرات تھے۔

رباب خود نظریں جھکائے کھڑی تھی۔اماں تو سر تھام کر رہ گئیں تھیں۔ابھی ابا کا سامنا کرنا باقی تھا ورنہ گھر کا ہر فرد ان کے استقبال میں سوالیہ نظریں بچھاے کھڑا تھا۔

بس اب ابا کی عدالت میں وہ دونوں سر جھکائے کھڑے تھے جیسے نا جانے کون سا گناہ سرزد کر کے ائے ہوں۔

میں تو سوچا تھا کہ چار دن یہ عشق کا بخار چڑھا ھے۔اتر جاے گا۔پر نہیں تو نے تو اج میرا سر جھکا کے رکھ دیتا پتر۔نہیں ابا جی۔ ایسی بات نہیں۔

بس بس خبردار جو تونے اپنی زبان سے مجھے بلایا۔اج سے توں میرے لیے مر گیا میں تیرے لیے مر گیا۔چلا جا اس گھر سے۔اج سے اس گھر کے دروازے تیرے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے ھیں۔میں سمجھوں گا کہ میرا اک ھی بیٹا ھے تو مرگیا میرے لیے۔اور وہ کہہ کر رکے نہیں۔ہر انکھ اشکبار تھی۔وہ لاڈلہ فرزند تھا۔بھائ بھابھی کا چہیتا تھا۔پر اج سب بے بس کھڑے تھے۔وہ اماں کے قدموں میں گر گیا تھا۔جا پتر چلا جا۔باپ کا مان نہیں رکھ پایا توں پر میری بہو کا مان بن کے دکھائ کہ تیری پرورش میں کی ھے۔اور انہوں نے اٹھ کر رباب کو بانہوں میں لیا تھا۔اور دعائیں دیتی بایر چلی گئیں تھیں۔

بڑے بھائ نے سینے سے لگایا تھا پر وہ بے بس تھے۔شبو نے اپنی کلائ سے سرخ چوڑیاں اتار کر رباب کو پہنائ تھیں۔نا ہمارے خاندان کی بہو کی کلائیاں سونی اچھی نہیں لگتیں۔دلاور جی کا خیال رکھنا بہت لاڈلے ھیں وہ ہم سب کے۔اور رباب کیسے انہیں گھر سے باہر لائ تھی بس وہ ھی جانتی تھی۔۔۔۔

پری جیسے جیسے ڈائری کے صفحے الٹتی جارہی تھی۔انسو اس کی انکھوں سے بہتے ڈائری کے صفحوں پر گرتے جارہے تھے۔دلاور شاہ نے دل گرفتہ ہوکر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ہم دونوں ھی ماضی کی تلخ یادوں سے نکلنا چاہتے تھے۔اس لیے ہم پاکستان سے بہت دور لندن میں شفٹ ہوگئے تھے۔

کہیں نا کہیں اک دکھ ہوتا تھا کہ شاہ کی بچپن کی منگ کے ساتھ میں نا انصافی کر بیٹھی تھی۔شاہ کہتے تھے کہ اس میں تمہارا کوئ قصور نہی۔

اور پھر اک دن ہماری دنیا ھی بدل گئ ہماری فیملی مکمل ہوگئ۔اور اک پھول سی بیٹی نے ہمارے گھر انکھ کھولی تھی۔شاہ کتنا خوش تھے۔رباب پریشے نام رکھوں گا میں اپنی بیٹی کا اور تمہیں پتا ڈاکٹر بنے گی میری بیٹی۔اج بھی یاد ھے جب پری نے بولنا سیکھا تو اپنی توتلی زبان سے سب سے پہلے بابا کہنا سیکھا تھا۔کتنا خوش ہوے تھے شاہ۔ان کی خوشی کا تو کوئ ٹھکانہ ھی نا تھا۔

یوں لندن ائا کے ہم نے اپنی چھوٹی سی دنیا بسا لی تھی۔

تین سال کیسے گزر گئے پتا ھی نا چلا شاہ کی محبت میں دن رات کیسے گزر جاتے پتہ ھی نا لگا۔

اپا تو فون پر بات کیے دکھ سکھ بانٹ لیتی تھیں۔اپا نے بتایا تھا۔کامران کسی مار کٹائ کے کیس میں گرفتار ہوا تھا۔پھپھو اسکے غم میں چل بسی تھیں۔وہ بہت کہتی کہ مل جاو لیکن شاہ تو پاکستان کا نام بھی نا سننا چاہتے تھے۔

ہماری شادی کی تیسری سالگرہ تھی۔ڈاکٹر نے مجھے خوشخبری بتائ تھی۔لیکن وہ میں سرپرائز دینا چاہتی تھی شاہ کو۔۔۔۔۔۔۔

کہ ہماری فیملی میں اک اور فرد انے والا ھے۔لیکن کبھی کبھی اپکی خوشی دھڑی کی دھڑی رہ جاتی ھے۔۔۔

شام میں کینڈل لائٹ ڈنر کی تیاری میں مصروف تھی۔جب شاہ جلدبازی میں گھر ائے تھے۔

کیا ہوا شاہ اج اپ افس سے جلدی گھر اگئے۔سب ٹھیک تو ہے سپ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ھیں۔

وہ پاکستان سے بھائ کی کال ائ اماں کو ہارٹ اٹیک ہوا ھے ان کی طبیعت بہت خراب ھے۔بھائ بتا رہے تھے کہ اماں نیم بیہوشی کی حالت میں بھی میرا نام پکار رہی ھیں۔اور شاہ رو دئیے تھے۔مجھے کچھ سمجھ نہی آرہی میں کیا کرو۔اک طرف ماں کا چہرہ اور دوسری طرف باپ کی سرد مہری۔

اماں کیلئے اپ کو پاکستان جانا چاہیے شاہ۔اخر کو وہ اپکی ماں ھیں۔اور اپکا فرض ھے کہ اس وقت اپ اپنی امی کے ساتھ ہوں۔انہیں اپ کی ضرورت ہے شاہ اپکو جانا چاہیے پاکستان۔اس وقت رباب ان کی ڈھال بنی تھی۔اور انہیں واقعی ھی کسی کے ساتھ کی ضرورت تھی۔اور رباب بھی چاہتی تھی کے شاہ کے دل میں کوئ ملامت نا رہے۔اور وہ جانتی تھیں۔کہ ان کے دل میں ان کی ماں کا مقام کتنآ افضل ھے۔

اپنا اور پری کا خیال رکھنا رباب میں جلد واپس اوں گا۔اور وہ پری کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوے چلے گئے تھے۔اور رباب کی آنکھوں میں انسو تھے۔دل میں اک وہم سا بھی تھا۔کہ وہ کب لوٹ کے ائیں گے۔اور کب وہ انہیں دوبارہ باپ بننے کی نوید سنائیں گی۔

اور انتیظار انتظار ھی رہا۔وہ شاید لوٹ کے انا بھول گئے تھے۔

زندگی کے بیس سال میں اک پل بھی ایسا نا تھا جب ان کے لوٹ انے کا خیال زہن سے نکلا ہوا۔وہ تو یہ بھی نا جانتے تھے کہ وہ اک بیٹے کے بھی باپ بنیں ھیں۔صائم میری دنیا میں ایا۔پھر کیا تھا۔اک عورت اولاد کے سہارے اپنی دنیا بسا ھی لیتی ھے۔میں نے ہمت نا ہاری تھی۔اک آس تھی کے وہ لوٹ ائیں گے۔پر بھول گئ تھی۔جو اک بار چلا جائے وہ واپس لوٹ کر نہیں اتا۔مجھے تو جینا تھا اپنے بچوں کے لیے۔اک عورت کی زندگی تب بدل جاتی ھے۔جب اک عورت ماں بنتی ھے۔اور بس اک کسک اج بھی دل میں ھے کہ میری محبت میری وفا میں کس چیز کی کمی رہ گئ جو شاہ وفا نا کر پائے۔لیکن مجھے ان سے کوئ شکوہ کوئ شکایت نہیں۔وہ ضرور مجبور ہوگئیں جو لوٹ کر نا ائے۔وہ برے نہیں تھے بس وقت اور  حالات بے بے بس کر دیا تھا شاید۔

میں چاہتی ہوں میرے بچے اک بار اپنے باپ سے ملیں انہیں دیکھیں۔میرے بچے اپنے باپ سے مل سکیں۔میرے جیتے جی نا سہی میرے مرنے کے بعد ھی سہی۔ہاں اک شکوہ میرے مرنے کے بعد بھی رھے گا۔کہ میری وفا میں کیا کمی رہی تھی جو شاہ بیوفائی کر بیٹھے۔

میں نے اپنی محبت کو ہمیشہ معتبر رکھا ھے۔لیکن وہ کہتے ھیں نا تقدیر کا لکھا کبھی نہیں مڑتا۔۔

اور شاید میری قسمت میں یہ ھی لکھا تھا۔جو مجھے ملا۔

شاہ کے ساتھ گزارا ہر پل بہت خوبصورت تھا۔لیکن شاہ کے بغیر گزرا ہر پل اذیت امیز۔

میں جانتی ہوں میری بیٹی جب اپنی ماں باپ کی حقیقت جانے گی تو اپنے باپ کو قصوروار جانے گی۔لیکن میں نہیں چاہتی کے میرے بچے اپنے باپ کیلئے اپنے دل میں نفرت پیدا کریں۔وہ بہت معتبر شخص تھے۔جنہوں نے میرے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا تھا۔مجھے اپنا نام دیا تھا۔میری وصیت ھے کہ میرے بچے اپنے باپ سے ملیں۔اور کہہ سکیں کے ہماری ماں کی محبت سچی تھی جو مرتے دم تک قائم رہی۔۔۔۔۔

کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اس خاندان نے مجھے اپنی بہو کے روپ میں نہیں اپنایا۔لیکن وہ اپنے خون کو ضرور اپنائیں گے۔اور مجھے بھی اس دن سکون اجائے گا جب میرے بچے محفوظ ہاتھوں میں ہوں گے۔پری نے جیسے ھی اگلا صفحہ پلٹا۔تو چند تصاویر پڑی تھیں۔جنہیں وہ اک اک کر کے دیکھ رہی تھی۔تو یہ ھے وہ شخص جس نے میری ماں کو اکیلے اس دنیا میں لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا۔میری ماں اپ کو معاف کر سکتی ھے دلاور شاہ۔لیکن میں اپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی نہیں یہ پریشہ رباب کا وعدہ ھے خود سے۔۔۔اور پری نے اپنی آنکھوں میں ائے انسو غصے سے صاف کیے تھے۔۔۔۔۔۔

صائم واپس بوڈنگ چلا گیا تھا۔پری بھی حرا کی طرف شفٹ ہوگئ تھی۔زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر چل پڑی تھی۔

اج وہ حرا اور علی کے ساتھ ڈنر پر ائ تھی۔

پری کہاں کھوئ ہوئ ہو یار۔حرا نے کہا تھا۔

وہ مجھے تم دونوں سے بات کرنی ھے۔

ہاں بولو پری۔۔

میں نیکسٹ ویک پاکستان جارھی ہوں۔اور علی کے ہاتھ سے چمچ چھوٹا تھا۔کیا کیا کہا پری۔

جو تم نے سنا علی۔

Im going to Pakistan..

پر کیوں پری یوں اچانک پاکستان جانے کا خیال کیسے اگیا۔۔حرا بولی تھی۔

بس یار کچھ ادھورے کام سلجھانے ھیں۔کچھ سوالوں کے جواب جاننے ھیں۔

What are you mean by that. parii..

اوہ یارا ویسے ھی دل کیا کہ اپنے ملک ہو کر اوں۔

بات مت گھماو یار۔اگر تم پاکستان جانے کا پلین کر رہی تھی تو ہم دونوں کو بھی تو بتا سکتی تھی۔ہم دونوں بھی تمہارے ساتھ جا سکتے تھے۔اور حرا خفا ہوئ تھی۔اوہ یار حرا ناراض تو مت ہو میں تم دونوں کو بتانے والی ھی تھی۔

لیکن تم نے مناسب نہی سمجھا بتانا۔علی نے ناراضگی کا اظہار کیا۔۔۔

کم اون گائز تم لوگ جانتے ہو تم دونوں کو بتائے بنا میں اک قدم بھی نہیں اٹھاوں گی۔

تو پھر پری کیوں جانا ھے پاکستان۔

پری نے سرد اہ بھری تھی۔

دلاور شاہ سے چند سوالات کرنے جانا ھے۔

کون دلاور شاہ دونوں نے حیرانگی سے پوچھا تھا۔

میرے بابا دلاور شاہ۔۔۔۔

بابا تمہارے بابا لیکن پری اج تک تم نے کبھی ہم دونوں سے اپنے بابا کا زکر نہیں کیا۔

ہاہاہا۔پری نے جھوٹی مسکراہٹ ہوںٹوں پہ سجاے قہقہہ لگایا تھا۔

حرا اور علی نے پری کیجانب دیکھا۔

جسے خود ان زندگی کے بائیس سالوں کے بعد چند دن پہلے اپنے باپ کے بارے میں پتہ لگا ہو وہ کیا بتاے گی اپنے باپ کے بارے میں کسی کو جو خود اپنی زندگی میں رونما ہونے والے حالات سے ناواقف رہی ھے۔

اور پری اک دم غمگین ہوئ۔

وی ار سوری پری۔ڈونٹ بی اپیسٹ۔

نہی گائز ای ایم اوکے۔

ہم دونوں تمہارے ساتھ ھیں۔اور اگر پاکستان جانا اتنا ھی اہم ھیے تو ہم دونوں بھی تمہارے ساتھ چل رہے ھیں۔

نہیں علی یہ جنگ میری اکیلی کی ھے اور اسے مجھے خود لڑنا ھے۔

نہیں پری تم اکیلے تو کبھی اک انجان ملک میں اجنبی لوگوں کے درمیان نہیں جاسکتی اس کی اجازت میں کبھی نہیں دوں گا۔اور وہ علی کو جانتی تھی۔جس نے ہر قدم اور زندگی کے ہر موڑ پر پری کا ساتھ دیا تھا۔وہ اسے اکیلے تو کبھی نہی جانے دے گا۔

لیکن یہ پری کی جنگ تھی۔اور وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کے دوست اس کی وجہ سے مشکل میں پڑیں۔

بس کرو یارا۔۔

ہاں پری ہم دونوں بھی تمہارے ساتھ چل رہے ھیں اور تمہاری کوئ بات نہیں سن رہے ہم۔

اور پری کی ہر ممکن کوشش بھی ناکام ہوگئ تھی۔کیونکہ وہ اپنے دوستوں کی ضد سے بخوبی واقف تھی۔۔۔۔۔

پری اپنا سر پیٹ کے رہ گئ تھی۔

************************************************

تینوں کی ہاؤس جاب سٹارٹ ہوگئ تھی لیکن پری کا دھیان کام کی بجائے کہیں اور ھی تھا۔اب اس سے رہا نہیں جارہا تھا۔کہ کب وہ اس شخص کے روبرو ہو اور ان سے پوچھ سکے کے کیا کمی تھی میری ماں کی محبت میں جو انہیں اس بھری دنیا میں اکیلے چھوڑ گئے۔۔۔

پری۔۔۔

 ہوں علی پری کے پاس ایا تھا۔کوئ ٹینشن ھے پری۔نہیں علی بس ایسے ھی۔

اب مجھ سے بھی چھپاو گی تم۔

نہیں یار۔بس ایسے ھی سوچ رہی تھی۔

کیا سوچ رہی تھی۔۔۔

اگر کوئی شخص پیار کرتا ھے تو کیا اس کا دل بھی بھر جاتا ھے محبت سے 

کیا کچھ پل ھی اسکی محبت زندہ رہ پاتی ھے۔باقی سب وعدے قسمیں وفائیں صرف وقتی ہوتی ھیں۔۔

اور علی پری کی بات پر مسکرا دیا تھا۔

پری کیا کبھی محبت ہوئ کسی سے تمہیں اور پری نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔

پری محبت میں غلط صیح کا تعین نہیں ہوتا۔محبت تو بس اک خوبصورت احساس کا نام ھے۔جو اک انجانے شخص سے ہوجاتا ھے۔اور زندگی بھر اس ھی سے رہتی ھے۔محبت تو بہت پاکیزہ رشتہ ھے۔اور اگر زندگی میں کسی سے بھی سچی محبت ہو۔تو دل میں کوئ اور بس نہی سکتا۔

جھوٹ علی یہ پیار محبت سب جھوٹے رشتےھیں۔

اگر محبت اتنا ھی پاکیزہ رشتہ ھے

 تو میرے باپ نے میری ماں کے ساتھ وفا کیوں نا کی۔محبت کا پہلا اصول ھی وفاداری پہ ہوتا ھے نا۔وہ کسی معصوم بچے کی طرح سوال کر رہی تھی۔

بلکل محبت میں وفا ضروری ھے پر اگر وفا کرنے والا مجبور ہوکر وفا پر قائم نا رہ پایا ہوتو اس سے لاچار عاشق بھی کوئ نہیں ہوسکتا۔

پتا نہیں علی مجھے زہر لگتا یہ پیار ویار۔۔

اوے اس کا مطلب ہم جیسے اپ سے پیار کرنے والے بھی اپ کو زہر لگتے ھیں کیا؟

اف ہو علی یار تم تو میرے سب سے اچھے دوست ہو۔اس دل میں جو مقام تمہارے لیے ھے وہ کسی اور کو نہیں دے سکتی۔

اچھا کیا وہ مقام جان سکتا ہوں۔کہا جو ھے بہت اعلیٰ مقام دوستی کا۔اور علی ہوں کر کے رہ گیا تھا۔اچھا میں زرہ اک راونڈ لگا کر اتی ہوں۔

اور وہ پری کو جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔اوہ مسٹر کسے دیکھ رہے ہو۔مجھے تو سامنے کچھ نظر نہی ارہا۔۔حرا ہنسی تھی۔

حرا۔۔۔

کیا ہوا علی۔۔۔

میں چاہ کر بھی پری سے نہی کہہ پایا۔۔

کیا نہیں کہہ پائے علی۔۔

یہی کہ بہت محبت کرتا ہوں میں اس پاگل سے۔اور اتنی محبت کرتا ہوں کہ مڑ کے بھی کبھی بے وفائی نا کروں گا۔

پر وہ نا جانے کیوں نہیں پڑھ پاتی میرے دل کی کیفیت۔

اور اج پہلی بار علی نے حرا کے سامنے پوری بات کھل کے بتائ تھی۔حرا کو اک جھٹکا سا لگا تھا علی کی بات سن کر۔وہ تو سمجھتی تھی کہ علی پری کیلئے دوستی کی حد تک۔۔۔مگر علی توپری سے محبت کرتا ھے۔

حرا جو بچپن سے علی کی محبت میں گرفتار تھی جو کبھی اپنی فیلنگز علی کو نا بتا پائ تھی۔اور اج علی کے دل میں پری کی محبت دیکھ کر شدید دھچکا لگا تھا۔

تمہیں پتا ھے حرا میرا بس چلے تو پری کی ہر تکلیف میں خود پر لے لوں میرے بس میں ہو تو اس کا ہر دکھ اپنے ہاتھوں سے چن لوں لیکن کبھی اس کی انکھ میں اک انسو بھی نا انے دوں۔پر میں اسے چاہ کر بھی اپنی محبت کا اظہار نہی  کر پاتا۔وہ تو ابھی تک مجھے اک اچھے دوست سے بڑھ کر کسی اور رشتے کی نظر نہیں کرتی۔بہت بے بس سا ہو گیا ہوں۔اب تو اسے ناجانے کیوں محبت کے لفظ سے بھی چڑ ہوگئ ھے۔

نہیں علی تھوڑا سا وقت دو پری کو۔اک کے بعد اک صدمہ اسے دماغی لحاظ سے بہت پریشانی میں مبتلا کر چکا ھے۔صیح وقت کا انتظار کرو علی۔اور مجھے پورا یقین ھے کہ وہ تہماری محبت کو کبھی نہیں ٹھکراے گی۔وہ تمہاری محبت کی قدر ضرور کرے گی۔اور ویسے بھی تم جیسا عجوبہ اسے کہیں نہیں ملنا اور وہ ہنس دیا تھا۔اور حرا کے گلے سے لگ گیا تھا۔تھینکس یارا مجھے حوصلہ دینے کے لیے۔

اچھا جی۔۔

ہاں جی۔چلو چلتے ھیں اف ٹائم ہوگیا۔ہاں تم پری کو دیکھو میں ائ۔اوکے ڈئیر۔

اور حرا نے ضبط کیے انسووں کو بہنے دیا تھا۔لیکن دل سے پری اور حرا کی خوشیوں کی دعا بھی کی تھی۔بیشک وہ علی سے بہت ٹوٹکر محبت کرتی تھی۔لیکن علی کے دل میں پری کے لیے والہانہ محبت دیکھ کر اسے اپنی محبت بہت پھیکی لگی تھی۔پر وہ اپنے دوستوں پہ جان بھی وار دے تو دونوں کو اک کرنے کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کرے گی۔وہ خود کو سنبھال کر باہر نکلی تھی۔بہت بڑا حوصلہ کرنا تھا اسے اپنے دوستوں کے لیے۔۔۔۔

***********************************************

پر ڈیڈ اپ اپنے کونٹیکٹس والوں سے رابطہ کریں یہ پاکستان کا ویزاہ نا ملنا یہ کب سے اتنا مشکل ہوگیا ھے۔اور کون سے ڈاکومنٹس نہیں پورے ہورہے میرے وہ غضہ سے بولا نہیں چلایا تھا۔برخوردار حوصلہ رکھو اک دو منتھ لگیں گے۔کچھ ایشو ہو جانے solve صبر رکھو۔لیکن حرا کا تو کوئ ایشو نہیں ہوا ویزے میں۔وہ اس لیے کہ لاسٹ ائیر گئ تھی میں پاکستان مما کی کزن کی بیٹی کی شادی پر۔اور پری کی مما نے صائم اور پری کے ڈاکومنٹس کافی عرصہ پہلے تیار کرواے تھے تو رینیو کرتے زیادہ ایشو نہیں ائے۔حرا بولی تھی۔اور پری نے اگے بڑھ کر علی کی جانب پانی کا گلاس بڑھایا تھا۔سب بڑے تو بچوں کی شکلوں اور حرکتوں کی طرف ریکھ رہے تھے۔

پانی پیو علی۔کیا ہوگیا یار انکل کہہ تو رہے ھیں اک منتھ تک سب ڈاکومنٹس کممپلیٹ ہوجائیں گے۔اب منہ ٹھیک کرو۔نہیں تم دونوں اکیلے پاکستان نہیں جاو گی۔کیوں ہم بچے ھیں جو گم جائیں گے۔حرا بولی تھی تو سب ہنس دئیے تھے۔

علی اپنا سا منہ لیے بیٹھا تھا۔اوہ علی بیٹا بچیاں اکیلی کہاں ہوں گی۔لاہور میں اپنا گھر ھے۔اور کیا بیٹا فکر نہیں کرو ہماری بچیاں بہت سمجھدار ھیں۔جی انکل بلکل۔اور میری خالہ سے بھی بات ہوی تھی۔مما کی ڈیتھ کے بعد ان کی کال ائ تھی۔تو میں نے انہیں اپنے انے کا بھی بتایا تھا۔تو کوئ مسئلہ نہیں ہوگا۔

یہ تو اچھی بات ھے بیٹا۔حرا کی مما نے کہا تھا۔

پری بیٹا جی انکل۔

دلاور شاہ کے ساتھ میرا جتنا بھی وقت گزرا بہت اچھا گزرا تھا۔لیکن وہ پاکستان گیا تو لوٹ کے نا ایا تھا۔میں نے بھابھی کے کہنے پر بہت کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سب بے سود۔

کوئ بات نہیں انکل وہ جہاں کہیں بھی ہوگئیں ہم انہیں ڈھونڈ لیں گے۔

اور خالہ کو تو کچھ پتا ہی ہو گا ان کے بارے میں۔ٹھیک ھے بیٹا۔

فکر نہیں کرنی کوئ بھی مسئلہ ہو بلا جھجھک کال کر کے بتا دیجیے گا۔جی انکل۔

اور تم علی کل خود دونوں کو ائیرپورٹ چھوڑ کر انا۔اور دل نہی چھوٹا کرو کچھ کرواتا ہوں بندوبست تاکہ تم بھی جلد پاکستان جا سکو۔

میں کیوں چھوڑنے جاوں انہیں یہ کونسا چھوٹی بچیاں ھیں جو گم جائیں گی۔اور سب ہنس دئیے تھے۔علی اٹھ کر کمرے میں چلا گیا تھا۔

انکل میں دیکھتی اسے اور پری علی کے پیچھے کمرے تک گئ تھی۔تو جناب کو غصہ بھی اتا ھے۔پلیز پری میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔جانتی ہوں علی۔لیکن مجھے جلد سے جلد پاکستان جاکر اس شخص سے ملنا ھے۔تب تک میری زندگی کا اک اک دن کس ازیت سے گزر رہا یہ تم نہیں جان سکتے۔جانتا ہو پری سب جانتا ہوں۔لیکن یار نا جانے وہ کیسے لوگ ہو گئیں کیسی سوچ ہوگی ان کی کیسے بھیج دوں تمہیں ان لوگوں کے درمیان اکیلا۔

کیسے بھی لوگ ہوں مجھے کوئ ڈر کوی خوف نہیں مار نہیں دیں گے۔اخر کو میری رگوں میں بھی اس ہی خاندان کا خون بہہ رہا ھے۔اللہ نا کرے کہ کوئ تمہاری جانب انکھ اٹھاکر بھی دیکھے۔تم پر آنے پر ہر مشکل کو میرا سامنا کرنا پرے گا۔اور میں ہر موڑ پر اپنی پری کے ساتھ ہوں۔اود علی کی انکھوں میں اک الگ سی چمک تھی۔جسے دیکھ کر پری نظریں جھکا گئ تھی۔اور ہمیشہ ایسا ھی تو ہوتا تھا۔وہ کبھی علی کی آنکھوں میں دیکھ نہی پاتی تھی۔

پری اس نے پری کے ہاتھوں کو پکڑا تھا۔ہوں پری چونکی تھی۔کیا ہوا علی۔پری کی کلائ پر علی کی دی ہوئ بریسلیٹ چمک رہی تھی۔کچھ نہیں۔بس اپنا بہت خیال رکھنا۔اپنا بہت دھیان رکھنا اور پل پل کی خبر مجھے دیتی رہنا۔وہ کسی بچے کی طرح فکر مند ہورہا تھا۔اوہ علی تمہارے پری کمزور نہیں ھے میں اپنا خیال رکھوں گی۔بھروسہ ھے نا اپنی پری پر۔خود سے زیادہ بھروسہ ھے۔علی نے جس دل سے کہا تھا وہ ھی جانتا تھا۔اچھا میں چلوں اب پیکنگ کرنی ھے۔

اور وہ یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئ تھی۔کیونکہ پری علی اور خود کی کیفیت سے بھی انجان تھی۔

علی چاہ کر بھی پری کو اپنے دل کی بات نہیں کہہ پایا تھا۔کیونکہ وہ پری کو کسی اور کشمکش میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔

پری نے پیکنگ کرتے ہوے وہ لکڑی کا باکس اپنے ںیگ میں رکھا تھا۔جو اس کی ماں نے اسے دیا تھا۔

پری اس باکس میں کیا ھے۔حرا نے اشتیاق سے پوچھا۔میری ماں کی کچھ تلخ یادیں۔جو وہ ہمیشہ سنبھالیں ائیں تھیں۔اب انہیں اس شخص کو لوٹانے کا وقت آگیا ھے۔کچھ درد کے حقدار تو وہ بھی ہوے۔اور  حرا نے پری کے گال کو تھپتھایا تھا۔

اف علی جلدی کرو پلین نکل جانا ہمارا۔ہاں تو نکل جاے۔پھر میں تم لوگوں کو اپنی فراری پر پاکستان پہنچاوں گا بلکل فری۔

واہ واہ علی جی کیا کہنے اپ کے۔امیوزمنٹ پارک تک تو فراری پہنچتی نہیں تمہاری اور پاکستان کی بات کر رہے۔ہاہاہا بلکل پری بھی سب سے ملتی کار تک ائ تھی۔

جیسے ھی وہ ائیرپورٹ پہنچے فلائٹ کا ٹائم ہورہا تھا۔شکر ھے پہنچ گئے ورنہ لگتا تھا کل تک پہنچائیں گے یہ نواب۔اور وہ ائیرپورٹ کی جانب بڑھے تھے۔علی اپنا خیال رکھنا تم دونوں بھی اپنا دھیان رکھنا۔اور علی میں نے صائم کو پاکستان جانے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا پلیز سب سنبھال لینا۔اور صائم کا بھی دھیان رکھنا پلیز۔اوکے پری ڈونٹ یو وری میں سنبھال لوں گا سب۔اور بہت جلد اوں گا تم دونوں کے پیچھے پاکستان۔ہاہا بلکل جناب۔اب چلیں یا یہی رہنا ھے۔اور وہ دنوں علی کو بائے بولتی پلٹیں تھی۔تینوں ھی کافی ادادس ہوگئے تھے کیونکہ ایسے پہلی بار ہوا تھا کہ وہ کہیں بھی اک ساتھ نا گئے ہوں۔

************************************************

وہ جیسے ھی ائیرپورٹ سے باہر نکلیں اک گرم ہوا نے ان کا ویلکم کیا تھا۔حرا تو پہلے بھی پاکستان اچکی تھی لیکن پری پہلی بار پاکستان ائ تھی اک الگ سی خوشی ہورہی تھی وہ اپنی ماں کے شہر میں ائ تھی۔

جہاں اسکی ماں کا بچپن گزرا ہوگا۔

خالہ نے بولا تھا کہ وہ احمد بھائ کو لینے بھیجیں گے۔پری نے حرا سے کہا۔وہ تو ٹھیک ھے یارا لیکن یہ احمد بھائ کو ہم کیسے پہچانیں گے اوہ یارا میں نے ان کی شادی کی تصاویریں دیکھیں ھیں جو خالہ نے مما کو بھیجی تھیں تو پھر ٹھیک ھے۔اچھا یار رکو میں ذرا واٹر بوٹل لے کے ائ بہت گرمی محسوس ہو رہی ھے اوکے یار۔اور پری جیسے ھی باہری دروازے کی جانب بڑھی۔تو وہ اک تیز چلتے ہوے شخص سے ٹکرائ۔

اوئچ واٹ ربیش پری گرتے گرتے بچی تھی۔دکھائ نہیں دیتا کیا۔اور اس شخص نے فون کان سے ہٹایا تھا۔

دیکھیے میڈم سوری سر کا دھیان نہیں گیا۔اوہ ہیلو مسٹر غلطی تمہارے باس سے ہوئ ایکسیوز بھی وہ کرے۔

یوں کوئ موبائل میں اتنا انوالو ہوجاتا ھے کیا کہ سامنے چلتا انسان بھی نا دکھے۔

کہا نا غلطی سے ہوا اتنا پینک کیوں ہورہی ھیں۔وہ شخص آنکھوں سے گلاسز اتارتے ہوے سامنے ایا تھا۔حرا پری کو چلاتا دیکھے پری کے پاس ائ تھی۔کیا ہوا یار۔

دیکھیے محترمہ اپنی سر پھری دوست کو سنبھالیے۔اور وہ یہ کہتا ہوا اگے بڑھا تھا۔واٹ واٹ دا ہیل اف دس۔اور پری چلائ تھی۔

اف پری ہوا کیا ھے۔کچھ نہی ہوا چلو یہاں سے۔

Stupid۔۔۔

پری منہ میں بربرائ تھی۔

اور وہ اک پل کے لیے رکا اور مڑ کر پری کو جاتا ہوا دیکھا۔

Non Sense....

وہ غصے سے کہتا ہوا بڑھا تھا۔

اف ہو پری غصہ تو ختم کرو یار یہ پاکستان ھے۔اور ایسے چھوٹے سے incidents ہوتے رہتے 

Just relax....

اپ پریشہ ھیں اک شخص ان کی جانب بڑھا۔جی۔۔۔

احمد بھائ۔اپ احمد بھائ ھیں عابدہ خالہ کے بیٹے جی جی میں احمد ہوں۔

اسلام علیکم بھائی دونوں نے سلام کیا تھا۔

وعلیکم السلام انہوں نے دونوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا تھا۔

سوری بچے آنے میں دیری ہوگئ ٹریفک کی وجہ سے۔اور انہوں نے سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھا تھا۔کوئ بات نہیں بھائ۔خالہ کیسی ھیں۔

بس جب سے انہیں پتا لگا ھے کہ تم لوگوں نے انا ھے۔اک پل سکون سے نہیں بیٹھیں ھے۔بس آنکھیں دروازے سے ٹکائیں ھیں کہ کب تم سے ملیں۔اور وہ خود بہت بے چین تھی۔اس نے سںنا تھا کہ ماسی بھی ماں جیسی ہوتی ھے۔

ویسے پری احمد بھائ تو کافی ڈیسنٹ پریسنیلٹی لگ رہے ھیں۔حرا نے پری کے کان میں سرگوشی کی۔تو پھر 

تو پھر کیا ویسے ھی کہہ رہی۔اچھا۔۔

اور باقی کا سفر خاموشی سے گزرا تھا۔پری پہلی بار پاکستان ائ تھی۔تو سارا دھیان لاہور شہر کو تکتے ہوے لگایا تھا۔۔۔۔

وہ جیسے ھی اندر داخل ہوئ خالہ کافی دیر اسے گلے سے لگائے روتی رہی تھیں۔بہن کی وفات پر بھی نا پہنچ سکی میں اتنی دور وہ ناجانے کتنی دیر انسو بہاتی رہیں کہ گھر کے ہر فرد کی آنکھوں میں انسو اگئے۔پھر وہ احمد بھائ کی وائف سے ملیں بچوں کو پیار کرتی لاونج کی طرف بڑھی تھیں۔

خالہ تو بچوں کی طرح اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلا رہی تھیں۔بس خالہ پیٹ بھر گیا ھے۔

لے دسو کنی ماڑی ہوگئ ائا میری بیٹی۔۔۔کچھ کھایا پئیا کرو۔جی ان

ٹی وہ بس فٹنس بھی ضروری ھے۔اب کی بار حرا بولی۔لے دسو کی یہ کیا فٹنس ہوئ کہ بندہ ڈانگ سوٹی بن جائے اور وہاں بیٹھے سب لوگ ہنس دیے تھے۔۔۔۔۔

اپ دونوں کا سامان کمرے میں رکھوادیا ھے اپ ارام کر لیں سفر سے سئیں ھیں تھک گئ ہوں گی۔اور ہاں کچھ ںھی چاہیے ہو کسی بھی چہز کی ضرورت ہو اواز دے دیجیے گا۔جی بھابھی دونوں نے بولا تھا۔سب لوگوں کا اخلاق دیکھ کر وہ دونوں کافی گھل مل گئیں تھیں سب کے ساتھ۔۔۔

خالہ جان میں اندر آجاؤں پری دروازے کو کھٹکھٹاتی اندر کی طرف بڑھی۔اجاو بیٹا اجازت لینے کی کیا ضرورت ھے۔نہیں وہ بس پری جھجھکی۔۔۔

پتر تمہارا اپنا گھر ھے جیسے مرضی گھومو پھرو کھاو پیو بیٹا۔

جی خالہ امی۔۔۔ماں کی کمی تو کوئ پوری نہیں کرسکتا تھا۔لیکن نا جانے کیوں خالہ کی شخصیت اور شفقت بھرے انداز نے پری کو بہت متاثر کیا تھا۔۔

تو اس نے خالہ کے ساتھ امی کا لفظ جوڑ دیا تھا۔

رباب میری بہن بہت نازو سے پالا تھا ہم نے اسکو گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ہمیں نہیں پتا تھا کہ اندر ھی اندر غم اسے لے ڈوبے گا۔ترس گئ میری نگاہیں اسے دیکھے ہوئے۔جب کی اس گھر سے رخصت ہوئ واپس نا لوٹی۔ہائے عمر تو میری جانے کی تھی اور میری بہن چلی گئ میں آخری وقت میں اپنی بہن کا دیدار بھی نا کر پائ۔اور وہ رو دی تھیں۔

اللّٰہ نا کرے خالہ امی اپ کو کچھ ہو اور انہوں نے پری کو گلے لگایا تھا۔میری بچی بلکل رباب کی جھلک نظر اتی مجھے تم میں۔۔۔

اس شخص نے میری بہن کو دکھوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔جو سب کے سامنے رباب کا مجاز بن کر گیا تھا۔

ہائے مجھے کیا پتا تھا کہ وہ مڑ کر ھی نا دیکھے گا کوئ خیر خبر ھی نا رکھے گا میری بہن کی۔اور خالہ نا جانے کتنے سالوں کا دکھ بول رہی تھیں جو ان کے دل میں تھا۔

خالہ امی۔۔

بولو بیٹا۔۔

مجھے اس شخص کی تلاش ھے۔اور وہ چونکی تھیں۔

کس شخص کی بیٹا۔۔

وہی شخص جو بھری جوانی میں میری ماں کو تنہا چھوڑ گیا۔

نہہں پتر ہمیں نہیں ڈھونڈنا اس شخص کو نا بیٹا نا وہ بہت بڑے لوگ ھیں۔پہلے میری بہن کی خوشیوں کو کھا گئے اور اب تم اس شخص سے ملو گی نہیں بیٹا میں رباب کوتو کھو چکی لیکن اب تم پہ اس خاندان کا سایہ بھی نہیں ڈال سکتی۔

میں جانتی ہوں خالہ امی اپکی دل کی کیفیت۔اپ نے اک بہن کو کھویا ھے۔میں نے تو اپنی ماں کھو دی اس شخص کی وجہ سے۔بس اس شخص سے کچھ سوال کرنے ھیں۔مجھے ان کے جواب مل جائیں بس ایک بار پھر واپس چلی جاوں گی۔کیونکہ میں اس شخص سے نفرت کرتی ہوں بیشک میرا رشتہ اس شخص سے باپ بیٹی کا ھے۔اور یہ رشتہ ہوتا بہت ھی پاکیزہ ھے اک بیٹی کے لیے۔۔پر میرے لیے کوئ اہمیت نہیں رکھتا۔۔

اپ فکر مت کریں خالہ امی وہ لوگ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔اخر کو میری رگوں میں بھی اسی خاندان کا خون دوڑ رہا ھے۔

اور خالہ امی پری کی جانب دیکھ رہی تھیں جہاں بغاوت سر چڑھ کر بول رہی تھی۔

بیٹا چاہے کچھ بھی ہو ھے تو وہ تمہارا باپ اتنی نفرت نہیں کرتے۔

نہیں خالہ باپ کا لفظ اک بیٹی کے لیے بادشاہ کی سی اہمیت رکھتا ھے۔لیکن بس باپ کا لقب پاکر اور اپنی زمہ اداریوں سے بھاگ کر۔ انہوں نے کون سے فرائض سر انجام دے دیے۔

جہاں زندگی کے اتنے سال ان کے سایے اور شفقت سے محروم ہو کر گزار لیے۔اب جو بچی ہوئ زندگی ھے وہ بھی ان کے نام کے بغیر گزر جائے گی۔

نا بیٹا نا ایسے نہیں بولتے اللّٰہ میری بیٹی کو میری زندگی بھی لگا دے۔اور انہوں نے پری کو دلاسہ دیا تھا کہ وہ احمد سے کہہ کر دلاور شاہ کے بارے میں پتا کروائیں گی۔

*********************************************

انہیں ائے ہوے اج تیسرا دن تھا۔اور پری نے علی سے اج فون پر بات کی اور  وہ خوب خفا بھی ہوا تھا وہ پری سے کہ پاکستان جاکر وہ اسے بھول گئ ھے۔اور پری اپنی 

لاپرواہی پر بہت شرمندہ ہوئ تھی۔۔

اور بہت مشکل سے منایا تھا علی کو اسنے۔

اور ہوگئ علی سے بات حرا کی اواز پری کے کان کۓپاس سے گزری۔اف حرا کی بچی میرے کان کے پاس اتنا چیخنے کی کیا ضرورت تھی۔اور پری نے تکیہ اٹھا کر حرا کی جانب پھینکا۔لیکن اک دم بھابھی کمرے میں داخل ہوئی تو تکیہ ان کے پیروں میں گر گیا۔

کیا ہوگیا لڑکیو۔۔

اوہ بھابھی سوری۔۔دونوں اپنی نادانی پر شرمندہ ہوئیں۔

ہاہاہا کوئ بات نہیں دوستوں کے درمیان مستی مذاق چلتا رہتا ھے۔اوہ ہاں میں تو پری کو بلانے ائ تھی۔پری امی جان نے تمہیں بلایا ھے۔

جی بھابھی میں ابھی آتی ہوں۔ٹھیک ھے پری۔اور حرا تم مجھے بتا رہی تھی نا کہ یوٹیوب پر اپنا کوکنگ چینل بھی بنالیتے ھیں۔تو مجھے بنا کر دو گی۔ہاہا یس بھابھی ابھی بنا دیتی ہوں افٹرال اتنا یمی کھانا بناتی ھیں ہماری بھابھی۔اور تینوں ہنسی مذاق کرتے ہوے باہر نکلی تھیں۔۔

خالہ امی اپ نے بلایا تھا مجھے۔پری کمرے میں داخل ہوئ۔

جہاں احمد بھائ بھی موجود تھے۔او پری بیٹھو کچھ بات کرنی ھے.

جی بھائ اور وہ وہی صوفے پر بیٹھ گئ تھی۔

پری بیٹا امی نے مجھے اک کام سونپا تھا۔چوہدری دلاور شاہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کا۔

جی بھائ میں نے ھی خالہ امی سے کہا تھا۔کیا کچھ پتا لگا ان کے بارے میں۔

ہاں کچھ واقف کار لوگوں سے زیادہ تو نہیں بس اتنا ھی پتا چلا ھے۔

کہ چوہدری ولی شاہ اپنے خاندان سمیت اپنے آبائی گھر میں ھی رہتے ھیں۔شہر میں انکا اچھا خاصہ نام ھے۔لاہور میں ان کا بزنس ان کا پوتا چلا رہا ھے۔جس کا شمار کافی جانے مانے شخصیت میں ہوتا ھے۔

چوہدری غازیان شاہ جو کے ولی شاہ کا اکلوتا پوتا ھے وہ اپنے باپ دادا کے بزنس کو چلارہا ھے۔لیکن کہیں پر بھی دلاور شاہ کا نام سننے میں نہیں ایا ھے۔

ان کے آبائ گھر جہاں پر وہ رہتے ھیں یہ رہا ان کے گھر کا ایڈریس۔

اوہ بہت بہت شکریہ بھائ۔اپ نے میری اتنی مدد کی۔میں اپکا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔اس میں احسان کی کیا بات ھے بیٹا۔لیکن وہ بہت ھی پرانی سوچ کے حامل لوگ ھیں۔چوہدری ولی شاہ کی دہشت سے لوگ اج بھی کانپتے ھیں۔ بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں سے بھی  سلام دعا ھے انکی۔تو میں سب کچھ جانتے ہوے بھی تمہیں وہاں بھیجنا نہیں چاپتا۔

کہ ان لوگوں کی سوچ اور نظریات ان گزرے ہوے سالوں میں کچھ بدلے بھی ہوں گئیں یا نہیں کچھ کہا نہی جاسکتا۔

بھائ میں جانتی ہوں اپکو میری فکر ھے۔لیکن بھائ مجھے تب تک سکون نہیں ائے گا جب تک میں اس شخص کے روبرو نا اجاوں۔میرا ہر پل ہر دن گن گن کے کٹ رہا ھے۔بھائ مجھے وہاں اس گھر میں جانا ھی ہوگا جہاں میری ماں کو دھکے دیکر نکالا گیا تھا۔

پری کی انکھیں نم ہوگئیں تھیں۔احمد بیٹا پری کو جانے دو مت روکو۔امی یہ اپ کہہ رہی ھیں۔سب جانتے ہوے بھی کہ کیسے اسے وہاں جانے دوں۔

کچھ نہی ہوگا بیٹا۔پری کو وہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ پری بھی اس ھی خاندان کا چراغ ھے۔اور ہم ھیں اپنی بچی کے ساتھ۔بس پری بیٹا ہمت نہیں ہارنا اللّٰہ ھے نا ساتھ تو کوئ میری پری کابال بھی پھاکا نہیں کرسکتا۔

ٹھیک ھے امی جیسے اپ لوگوں کی مرضی۔

شکریہ احمد بھائ۔کیا اپ مجھے کل اس گاؤں تک چھوڑ ائیں گے۔ٹھیک ھے پری۔لیکن کچھ بھی ہو مجھے ہر پل کی خبر دیتی رہو گئ۔اور فکر نہیں کرنا یہ بھائ اپنی بہن کے ساتھ کھڑا ھے اور انہوں نے پری کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔اتنے خوبصورت رشتوں کی اپنائیت دیکھ کر وہ رو دی تھی۔نا میری بچی رونا نہیں اور وہ خالہ کے گلے سے جالگی۔

حرا نا جانے وہ کس قسم کے لوگ ہوں۔میں اپنی وجہ سے تمہیں کبھی مشکل میں نہیں ڈال سکتی۔بس بس پری میں کہہ چکی میں تمہیں اکیلے وہاں اجنبی لوگوں کے بیچ نہیں جانے دوں گئیں۔چاہے کچھ بھی ہوجائے۔اور میں کچھ نہی سن رہی چپ کر کے سامان پیک کرو حرانے حکم صادر کیا تھا۔۔۔

اور اگلے دن وہ خالہ امی کی ڈھیروں دعائیں لیئے۔بھابھی سے جلد واپسی کاوعدہ کرتے ہو گھر سے نکلیں تھیں۔۔۔

اللہ میری بچیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔انہوں نے دعا دی تھی۔

اک بڑی سی حویلی کے باہر احمد بھائ نے کار روکی تھی۔

************************************************

گھرکا اندرونی دروازہ اک دھماکے کی آواز سے کھلا تھا۔

سامنے اک تخت پر بوڑھی عورت چھالیہ کاٹنے میں مصروف تھیں کہ اک دم دروازہ کھلنے سے وہ چونکی تھیں۔

بی بی جی تسی کون ہوں اینج اندر کیدھاں اگئے تسی۔اور پری نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا۔تو وہ اپنا سا منہ لیے رہ گیا۔

گھر کے تمام فرد دروازے کی آواز سن کر باہر کی جانب ائے تھے۔اور پری کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔

بلیو جینز وائٹ شارٹ شرٹ بلیک کوٹ ڈالے بالوں کی پونی ٹیل بنائے وہ بلکل ماڈرن گڑیا لگ رہی تھی۔لیکن سب کے سب گھر کے افراد اسے انکھیں کھولے اور کھلے منہ سے دیکھ رہے تھے۔۔

یہ  شہری لڑکی کون ھے کسی نے سرگوشی کی تھی جس کی آواز پری کے کانوں سے ٹکرائ تھی۔

تب ھی اک بوڑھی سی آواز سے پری چونکی تھی۔پتر کون ھے توں اور کس سے ملنا ھے تجھے۔

پری نے اپنی انکھوں سے بلیک گلاسز اتارے تھے۔اور نظریں اٹھاے سامنے تخت پر بیٹھی بوڑھی عورت کی جانب دیکھا تھا۔

یہ چوہدری ولی شاہ کی ھی حویلی ھے نا کہیں میں غلط ایڈریس پہ تو نہیں اگئ۔پری جانتے بوجھتے انجان بنی تھی۔

جی یہی گھر ھے۔لیکن اپ کون ھیں۔پری نے مڑ کر دیکھا اک قمیض شلوار میں ملبوس پیاری سی لڑکی نے سوال کیا تھا۔

تو اسکا مطلب میں سہی ٹھکانے پر ائ ہوں۔

ججی وہی لڑکی بڑبڑائ۔

اوہ میرا مطلب ھے میں صیح ایڈریس پر ائ ہوں۔پری مسکرائ تھی۔

پتر توں بتایا نہیں کہ کون ھے۔؟اک جانی پہچانی جھلک ڈی دکھی تھی انہیں سامنے کھڑی لڑکی میں۔

بس یہی سمجھ لیجئے کہ اسی گھر کا فرد ہوں۔

وہاں کھڑے ہر شخص کے چہرے کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔۔۔۔

واٹ ربیش یہ پری بھی نا مجھے یہاں چھوڑے اندر چلی گئ۔

میں نے کہا ہٹو یہاں سے مجھے اندر جانے دو حرا غصے سے بولی۔بی بی جی تسی کون ہوں بنا اجازت کے کوئ بھی اندر نہیں جاسکتا پہلے ھی میرے دھیان نا دینے پر اک بی بی اندر چلیں گئیں ہن تسی مینوں نوکری تو فارغ کرواؤ گے۔دیکھو ہٹو یہاں سے ورنہ میں تمہارا سر پھوڑ دوں گی۔اور وہ بھی حرا تھی اک پنچ اس کی ناک پر ماڑے غصہ سے بیگ اٹھاتی اندر کی جانب بڑھی تھی۔اف یار کتنا جاہل نوکر تھا اندر نہیں انے دے رہا تھا بس پھر کیا اک پنچ سے ھی گر گیا۔ہاہاہا

اور حرا نے نظریں اٹھا کر اردگرد نظر دوڑائی تھی۔

سب گھر والے حیرانگی سے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

مجھے چوہدری دلاور شاہ سے ملنا ھے۔کیا وہ اسی گھر میں رہتے ھیں۔

ہاں پتر میرا جھوٹا بیٹا ھے۔کیا کام ھے اس سے۔۔۔۔وہ اس وقت تو گھر نہی ھے۔

تو کیا ہوا کہ وہ گھر نہیں ھیں ہم لوگ انکا انتیظار کرلیں گئیں کیوں پری۔حرا بولی تھی۔

وہ تو ٹھیک ھے پتر پر میرے بیٹے سے تمہارا کیا کام ھے۔

کچھ پرانے کام وہ ادھورے چھوڑ ائے تھے ہم بس ان ادھورے کاموں کو ھی پورا کرنے ائے ھیں دادی ماں۔۔۔

کیا کیا کہا۔اور وہ چلتی ہوئ پری کی جانب آئیں تھیں۔وہی دادی اماں جو اپ نے سنا۔ارے اپ اتنی حیران کیوں ہوگئیں۔

توں پریشہ ھے میرے پتر دلاور دی دھی۔دسئیا سی اس نے مینوں کہ میری اک بیٹی ھے۔اور وہ پری کو گلے سے لگا کر رو دئیں تھیں۔وہ پری کا منہ چوم رہی تھیں میری پوتی میری دھی میں صدقے جاواں واری جاواں پری ایسے استقبال پر حیران تھی۔

سب پری کو حیرت اور رشک بھری نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔لیکن پری کو یہ سب ناجانے کیوں اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

دادی امی کافی دور سے ائیں ھیں ھم تھوڑا تھک گئیں ھیں۔حرا نے کہا تھا۔

ہاں پتر ہاں او کوئ بچیوں کا سامان کمرے میں رکھواو پتر اندر چلو۔

وائو کتنی بڑی حویلی ھے حرا نے کہا تھا۔لیکن پری تو جیسے ماضی کی رباب کو وہاں کھڑے روتا سسکتا ہوا دیکھ رہی ہو۔جہاں اس کی ماں کو بہو کا حق نا ملا ہو۔وہ اج اسی چوراہے پر اکر کھڑی ہوگئ تھی۔اسے اپنی سانس رکتی ہوئ محسوس ہورہی تھی۔پری ار یو اوکے۔حرا نے پری کا ہاتھ پکڑا تو وہ اک دم ٹھنڈا ہو رہا تھا۔

ہاں ٹھیک ہوں میں۔۔ار یو شیور۔

ہاں یار می اوکے۔۔۔

 اک بڑے سے کمرے میں دونوں کا سامان رکھ دیا گیا تھا۔پتر تم دونوں ارام کرو میں کچھ کھانے کے کیے بھیجتی ہوں۔

جی وہ دلاور شاہ کب ائیں گئیں۔انہوں نے حیرانگی سے پری کی جانب دیکھا جو بجائے اپنے باپ کو بابا کہنے کی بجائے سرعام نام لے رہی ھے۔لیکن وہ خاموش رہی تھیں۔

پتر وہ اپنے ابا کے ساتھ دوسرے شہر گیا ھے کام دے سلسلے وچ پر رات تک ائا جاو دونوں پیو پتر۔

جی ٹھیک ھے ھم تب تک انتظار کرلیں گے۔۔

اچھا دھی اور انہوں نے پری کے ماتھے کو چوما تھا۔لیکن پری کے چہرے پر سرد تاثرات ان سے چھپے نا تھے۔۔

پتر اک عورت شوہر اور اولاد کی چکی میں بے موت ماڑی جاتی ھے۔اور اک عورت ھی عورت کادکھ سمجھ سکتی۔میں جانتی ہوں تمہاری ماں کے لیے میں کچھ نا کرسکی۔میں مجبور تھی۔لیکن پری نے اپنا رخ پھیر لیا تھا۔اور وہ غمگین ہوکر کمرے سے باہر نکل گئیں تھیں۔اور پری حرا کے گلے سے لگ گئی تھی۔حرا اج میں ان ہی رشتوں کے درمیان اکر کھڑی ہوگئ ہوں جنہوں نے میری ماں کو دھتکارا تھا۔نہیں پری ہر رشتے کو اک ھی نگاہ سے مت دیکھو۔اپنی دادی کی آنکھوں میں خود کے لیے پیار دیکھو۔۔۔۔نہیں حرا سب کچھ جھوٹا اور بے معنی لگ رہا س دعا کرو میں کمزور نا پڑوں۔۔

میں ہوں نا پری تمہیں کمزور پڑنے بھی نہیں دوں گی۔۔۔ 

************************************************

دروازے پر دستک ہوئ تھی۔اجائیں پری نے کہا تھا۔

جی وہ جی بڑی چوہدرائن اپکو نیچے بلارہی ہیں۔

ہاں ٹھیک ھے ھم اتے ہیں۔۔۔

جی اچھا۔

حرا جو شاور لے رہی تھی۔پری اس کے انتیظار میں کمرے میں ٹہل رہی تھی۔۔۔

اور نت نئے وسوست اس کے دماغ میں ارہے تھے کہ وہ نا جانے کیسے ان لوگوں کا سامنا کرے گی۔۔۔۔۔۔

چوہدری صاحب وہ کڑی ساڈے دلاور پتر دی دھی ائا۔تہاڈی پوتی ائا۔تہاڈا اپنا خون ائا۔۔

جو بھی ھے لیکن وہ اس عورت کی بیٹی ھے جس کی وجہ سے میرے پتر نے میرے خلاف بغاوت تھی۔۔

چوہدری صاحب بھول جاو پرانی گلاں نوں نہی کبھی نہی۔اور پری سیڑھیاں اترتی نیچے حال میں ائ تھی۔جو سامنے کھڑے چوہدری ولی شاہ کی ساری باتیں سن چکی تھی۔

تو یہ ہیں ولی شاہ جو رشتے میں میرے دادا جان ھیں۔

ارے پریشہ پتر تو اگئ او ادھر او پتر یہ دیکھو تمہارے دادا جان۔او پتر سلام کرو۔۔۔۔

اور وہ ٹکٹکی باندھے اس شخص کی جانب دیکھ رہی تھی۔جو سر پر پگھڑی باندھے ہوئے ہاتھوں میں چھڑی کے سہارے کھڑے تھے۔۔۔

پتر سلام کر اپنے دادا کو۔

تو بمشکل پری اسلام علیکم بول پائ تھی۔کیونکہ اس کی تربیت اسکی ماں نے کی تھی جو اک عظیم عورت تھیں۔۔

اور وہ سلام کا جواب دئیے بغیر وہاں سے چل دئیے تھے۔۔۔

بڑھاپا آگیا تھا ان پر لیکن ان کی شخصیت پر کچھ بھی اثر انداز نا ہوا تھا۔وہی اکڑ اور غصہ ان کی آنکھوں سے جھلکتا ہو نظر آرہا تھا۔لیکن دوسری طرف کمزور رباب نہیں پریشہ رباب کھڑی تھی۔۔۔جس نے ڈرنا سیکھا ھی کہاں تھا۔۔۔۔

پری ان کی کیفیت دیکھ کر مسکرا کر رہ گئ تھی۔۔۔۔۔

لیکن متلاشی نگاہیں کسی کو مسلسل ڈھونڈ رہی تھیں۔پتر دلاور کو شہر رلنا پڑا ھے پتر اک دو دن میں واپس آجاے گا۔اماں جی کھانا لگا دیا گیا ھے اپ سب لوگ اجائیں۔اک عورت لاونج میں ائیں تھیں جنہوں نے بڑے ھی سلیقے سے سر پر دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔سادگی میں بھی وہ بہت دلکش لگیں تھیں پری کو۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں کھانے کی میز پر اکر بیٹھ گئیں تھیں۔

باقی گھر کے افراد بھی پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے جیسے ان دونوں کے انتظار میں ہوں۔۔۔

پتر کھانا شروع کرو دادی ماں کی نے شفقت بھرے انداز میں بولا تھا۔

جی حرا نے دھیمی آواز میں کہا تھا۔۔

شبو دھی بچیوں کے لیے گرم روٹی لے کے آؤ۔۔

جی اماں جی۔۔

اور پری نے اس عورت کی جانب دیکھا تھا جو انہیں کھانے کے لیے بلانے ائ تھی۔

شبو پری نے وہ نام دہرایا تھا۔ہاں مما کی ڈائری پہ اس عورت کا نام تھا یہ دلاور شاہ کی منگیتر تھی۔پری کا سر گھوم کے رہ گیا۔

اوہ ہیلو مس پریشہ۔۔۔۔۔

سامنے بیٹھی لڑکی نے اسکا نام پکارا تھا اور ہوا میں ہاتھ ہلایا تھا۔

بائ دا وے اپ تو ہمارے بارے میں نا پوچھیں گی اور نا اپنے بارے میں بتانا پسند کریں گی۔تو میں اپنا تعارف خود کرائے دیتی ہوں۔۔

میں ہوں حنا شاہ یور لٹل کزن۔یہ ھیں ہماری دادی جان جنہیں سب گھر والے اماں جی کہہ کر پکارتے ہیں۔۔

اور یہ ھیں میری امی جان یعنی کے رشتے میں اپ کی تائ امی۔اور یہ ہیں میری بجو سویرا تعلیم مکمل کرچکیں ھیں اور بہت جلد رشتہ ازدواج میں بندھ جائیں گی۔۔

پری نے سویرا کی جانب دیکھا جو حنا کی بات پر شرما دی تھی۔پری کو وہ کتنی بھولی بھالی لگی تھی۔

اور ان سے ملیں یہ ھیں شبانہ چچی یعنی کہ رشتے میں یہ اپکی چھوٹی امی لگیں اور۔۔۔

یہ کہنا تھا کہ پری ہاتھ سے چمچ چھوٹا تھا۔اور

وہ کھانا چھوڑ کر کمرے کی جانب بھاگی۔پری یار حرا بھی اس کے پیچھے گئ تھی۔۔۔۔

حنا کتنی دفعہ کہا ھے زیادہ مت بولا کرو۔اب امی میں نے ایسا بھی کیا بول دیا تھا۔میں تو بس ماڈرن کزن سے ہیلو ہاے کر رہی تھی۔اوور وہ غصہ ھی کر گئیں۔بس چپ کرو حنا۔

کیوں ڈانٹ رہی ہو بچی کو بہو۔اک نا اک دن تو پریشہ کو ہر رشتے کا پتہ لگنا ھی تھا۔وہ تو ٹھیک ھے اماں جی پر اسے ائے ہوے اس گھر میں وقت ھی کتنا ہوا ھے۔۔۔ ابھی تو ہم سب لوگ اجنبی ھیں اسکے لیئے۔۔۔

ہاں پتر یہ تو ٹھیک بولا تونے۔۔

شبو پتر۔۔

جی اماں جی تو دل پر نا لے بچی ھے۔نادان ھے رشتے ناطے کی سمجھ نہیں ھے۔ 

نہی اماں جی ایسی کوئ بات نہیں ھے بچی ھے وہ ابھی۔۔

اچھا پتر تو کھانا کمرے میں دے ائا انہیں۔میں بھی چوہدری صاحب کو دیکھوں۔ناجانے وہ کیا طوفان برپا کرتے ھیں۔۔۔

چوہدری صاحب کھانا لے کر آؤں تہاڈے لئے۔۔

اور وہ ان کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر گھبرا گئیں تھیں۔

کب واپسی جاے گی یہ لڑکی۔

چوہدری صاحب کداں دئیاں گلاں کررہے ہو تسی۔۔

وہ ہمارے دلاور پتر دی دھی ائا۔اس خاندان دا حصہ وا۔

چاہے جو بھی ہو جلد از جلد اسے یہاں سے جانے کا بولو۔

اور وہ ہکا بکا رہ گئیں تھی چوہدری صاحب کی بات سن کر۔نا چوہدری صاحب نا۔۔۔۔

میں نے اج تک تہاڈی سب صیح غلط باتوں پر سر جھکا کر ہامی بھری ھے۔۔۔

اج تک جو تسی کہا او ھی کیتا۔

لیکن پریشہ بھی حنا اور سویرا دی طرح اس خاندان کی دھی ھے۔

اور میں کبھی اپنی پوتی نوں اپنی نظروں سے دور نا جانے دوں گی اب چاہے جو بھی ہوجائے۔ہر واری تہاڈی انا تہاڈا نام نہاد غرور سامنے اجاتا ھے۔لیکن چوہدری صاحب اج تسی کان کھول کے سن لو یہ بیس سال دا عرصہ میرے اپنے دلاور پتر نوں میں سسکتے ہوے گزارتے ہوے دیکھا ھے۔اج اس کی دھی اللّٰہ دی رحمت اس گھر وچ ائی ھے۔تے ہن تہاڈی انا وچ نہیں آؤ گی۔چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

تہاڈا ضمیر تے مر چکا ھے جو تہانوں اپنے پتر کی بے بسی نا دکھی۔تہاڈے کیتے گئے فیصلوں نے تین تین زندگیاں برباد کر دیں۔کدھی سوچا تسی۔۔

دلاور رباب تے شبانہ نے تے اپنی زندگیوں کو اجیرن کر لیا۔جس کے سراسر زمہدار صرف اور صرف تسی ہو۔لیکن بس ہن بہت ہوگیا۔میں پریشہ کی زندگی اور ازیت وچ نہی مبتلا کراں گی۔بیچاری بچی باپ دی شفقت تو محروم رہی ائا۔باپ کے ہوتے ہوے باپ کے سائے سے محروم رکھا تسی اسے۔۔

چوہدری صاحب تھوڑا انا نو پاسے رکھ کے خدا دے خوف تو ڈرو۔کیونکہ جب اس دی لاٹھی چلتی ھے تو تختہ الٹ کر رہ جاتا ھے۔

اور چوہدری صاحب سر جھکائے چوہدرائن کی بات سن رہے تھے اور ایسا پہلی بار ہوا تھا جو انہوں نے اپنے شوہر کے اگے زبان کھولی تھی۔

تسی جو رباب نال کیتا۔اپنے پتر دلاور نال کیتا کی وہی سب اپنی پوتی نال دہرانا چاہتے ہو۔وہ تو پہلے ھی اپنے باپ کو قصوروار ٹھہرا رہی ھے اس کی آنکھوں میں اجنبیت دکھتی ھے۔

جتنے بڑے گناہ گار ہو تسی باپ کے ہوتے ہوے بھی اس کے سر سے باپ کا سایہ سے محروم رکھا۔اور ہن تسی کہہ رہ ہو کے اسے جانے کا بول دو۔

تو اک گل تسی اج میری سن لو اگر پریشہ اس گھر سے گئ تو میرا جنازہ ھی اٹھے گا اس گھر سے چوہدری صاحب تسی بھول سکتے کہ اس لڑکی کی رگوں میں بھی اسی خاندان کا خون دور رہا ھے۔میرے پتر دلاور دا خون ھے وہ اور میرے جگر دا سکون ھے اوہ کہہ دیتا چوہدری صاحب اپنی انکھوں سے یہ انا کا پردہ اٹھا لو ورنہ اللہ سے بہتر کارساز کوئ نا ھے۔یہ نا ہو اج جن رشتوں پر تسی اتراتے پھر رہے ھو کل کو خالی ہاتھ رہ جاو۔اور وہ یہ کہہ کر باہر نکل گئیں تھیں۔چاہے وہ جیسی بھی تھیں لیکن بات اب ان کے بیٹے کی کل کائنات انکی پوتی کی تھی وہ چاہ کے بھی خاموش نہیں رہ سکیں تھیں۔۔۔۔

وہ دروازہ کھٹکھٹاتے وہ اندر داخل ہوئیں تھیں۔پری نے اپنی انکھوں میں ائےا نسو پونچھے تھے۔۔۔

بیٹا اپ دونوں یوں نیچے سے چلے ائے بنا کھانا کھائے۔یہ لیں ائیں کھانا کھا لیں انہوں نے محبت بھرے انداز میں پری کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

پری نے انہیں دیکھ کر منہ موڑ لیا تھا جو رشتے میں اس کی سوتیلی ماں لگیں تھیں۔

جی انٹی حرا نے بولا تھا۔۔

حرا تم کھانا کھاو مجھے بھوک نہیں ھے۔۔۔

یہ کیا بات ہوئ پریشہ بیٹا۔۔خالی پیٹ نہیں سوتے چلیں شاباش ادھر ائیں کھانا کھائیں۔۔

میں نے اپ سے اڈوائیز نہیں مانگی۔پری نے بےرخی دکھائی تھی۔

جس کا شبو کو بہت دکھ ہوا تھا لیکن وہ مسکراتی ہوئ حرا کو پری کو کھانا کھلا دینا کہتے ہوئے کمرے سے چلی گئیں تھی۔۔

واٹ ربیش پری یار یہ کون سا طریقہ ھے بات کرنے کا۔۔حرا یہاں میں رشتوں میں الجھنے نے نہیں ائی اپنے نام کے بابا سے کچھ وضاحتیں مانگننے ائیں ہوں۔بس۔۔

اور وہ چپ کر گئی تھی۔

حرا اک بات کہوں بابا کا غصہ دوسروں پر مت نکالو یہ نا ہو کہ تمہارے اس رویے سے باقی سب گھر والوں کی دل آزاری ہو۔اور یہ مت بھولو تمہاری تربیت رباب انٹی نے کی ھے۔اور ان کی کی گئ پرورش پر اپنے رویہ کی بنا پر کوئ سوال مت انے دینا۔

باقی تمہاری مرضی ھے میرا کام تھا تمہیں سمجھانا۔لیکن پری پاکستان اکر  مجھے اتنا پتا لگا ھے کہ واقعی میں جو خوشی ان رشتوں میں ملتی ھے وہ اکیلے زندگی گزارنے میں کہاں۔

اور تمہیں اگر ان رشتوں کی نعمت ملی ھے تو ان رشتوں کو جی کے ھی واپس جانا۔۔

اور وہ کھلی کھڑکی سے چاند جو تک رہی تھی۔ناجانے کیوں اج اسے اپنی ماں بہت یاد ارہی تھی۔

**********************************************

صبح صبح ھی فون کی گھنٹی بج اٹھی تھی۔

موبائل کی سکرین پر علی کا نام چمکا تھا۔

اس نے فون ریسیو کیا تھا۔ہیلو۔

ہیلو سویٹی بھول گئی مجھے۔

تمہیں بھول سکتی ہوں میں کیا۔۔

یہ تو پتا نہی کہ کب مس پریشہ کے دل میں کیا فتور اجائے۔

او اچھا جی بڑا جانتے ہو مجھے۔

ہائے جان من ہم تو اپ کی رگ رگ سے واقف ھیں۔اور پری علی کی بات پر مسکرا دی تھی۔تم نہیں سدھرو گئے علی۔۔

ہاں نا بس تم سدھار لینا۔

ہاہااہااہا میرے بس کا کام نہیں تمہیں تو تمہاری بیوی سدھارے گی۔اور وہ ہنس دی تھی۔

ائ مس یو پری۔۔

مس یو ٹو علی۔۔

او رئیلی جناب تو بس مجھے دل سے یاد کرلیا کرو میں کال کر لیا کروں گا۔

اوہ فلمی ڈائیلاگز بند کرو میرے پاس کریڈٹ گے میں خود کال کر سکتی ہوں۔

اور وہ ہنسی مذاق کرتے رہے تھے۔

کیا مسئلہ ھے پری صبح ھی صبح کس کے ساتھ لگی ہو کھی کھی کرنے۔۔

تمہارے ھی نمونے کزن کے ساتھ لگی ہوئ تھی بات کرنے۔

اچھا پھر ٹھیک ھے کیری اون۔

ہاہاہا اٹھ جاو اب کے نہی۔

مجھے سونے دو۔تم بھی منہ بند کر کے لیٹ جاو صبح صبح ھی نیند خراب کر دی میری۔

اف دفعہ سوتی رہو۔میں ذرا کھلی فضا میں سانس لے کر آتی ہوں۔اوکے۔

اور حرا پھر نیند کی وادیوں میں کھو گئ تھی۔

پری نیچے اتر کر لاونج میں ائ تھی۔

اٹھ گئ میری بیٹی۔

اسلام علیکم دادی ماں۔۔وہ دادی ماں کو سلام کرتے ان کے پاس ائا بیٹھی تھی۔

نا جانے اس کے دل میں ان کے لیے نرمی کیوں اگئ تھی۔جو وہ سلام کر بیٹھی تھی۔شاید حرا کی بات بھی دل پر لے بیٹھی تھی۔۔۔۔

پتر نیند تو ائ تھی نا رات نو۔

جی! وہ بس اتنا ھی کہہ پائ تھی۔

پتر سب خیر تو ھے نا اتنا اداس کیوں ھے میری بچی۔۔

نہیں میں ٹھیک ہوں۔دادی ماں۔

بیٹا دادی ماں نہیں تو بھی مجھے اماں جی بلایا کر جیسے باقی سب بلاتے ھیں۔۔۔

جی ٹھیک ھے۔وہ گویا ہوئ تھی۔

پتر رباب کیسی ھے۔۔

اماں جی وہ کیسی ہو سکتیں ھیں۔اس نے نظریں جھکائیں تھیں۔

جانتی ہوں پتر اس بن ماں کے بچی کو میں چاہ کر بھی اس گھر میں اسکا حق نا دلا پائ بہت قصوروار ہوں میں اسکی۔

اور پری کچھ نا بولی تھی۔۔

بیٹا پردیس میں ھی وہ یا تیرے ساتھ ائ ھے۔

اور پری مسکرادی تھی۔۔انکھوں میں انسو جھلک رہے تھے۔

 کی ہوا پتر۔۔۔

کچھ نہیں اماں جی ماما تو وہیں ھیں دور پردیس میں۔

بیٹا وہ تیرے ساتھ ائ ہوتی تو میں اس کے اگے ہاتھ جوڑے معافی مانگتی اس معصوم کا کیا گناہ تھا۔

نہی اماں جی اب وہ نوبت ھی نہیں انی انہوں نے کبھی کوئ گلا شکوہ ھی نہیں کیا کسی سے۔

اب تو وہ چاہ کر بھی میرے ساتھ نہیں آسکتی۔

کیوں پتر ایسے کیوں بول رہی ہو۔

اماں جی تو اپ ھی بتا دیں جو اس دنیا سے چلے جاتے ھیں تو کیا وہ واپس اسکتے ھیں ھیں۔پری نے انسو چھپاتے ان کی جانب دیکھا تھا۔

اور ان کے ہاتھ تسبیح کے دانے پر رک گئے تھے۔اور پری کو انہوں نے اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔نا پتر نا یہ کیا ہوگیا مجھے تو اپنی غلطی کی معافی مانگنے کا موقع بھی نا ملا اور وہ پری کو سینے سے لگائے رو دئیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن پیچھے کھڑا اک شخص اپنا توازن برقرار نا رکھ پایا تھا۔

دلاور۔شبانہ انٹی کی آواز پر وہ چونکی تھی اور پلٹی تھی۔اک شخص اس کے سامنے کھڑا تھا۔جنہیں شبانہ انٹی نے بازو سے پکڑا تھا۔

وہی تصویر پر دیکھی اپنے باپ کی جھلک اس کی انکھوں کے سامنے تھی۔وہی وجہیہ شخصیت ویسے کے ویسے ھی اس کے سامنے کھڑے تھے۔کچھ بدلا تھا تو بالوں میں سفیدی کی لہڑ دوڑی تھی۔جو  پہلے سے لاغر سے دکھ رہے تھے۔

پری ٹکٹکی باندھے اس شخص کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔

اج تئیس سال کے عرصے میں اس نے پہلی بار اپنے باپ کو اپنے روبرو دیکھا تھا۔

جب سے اسے اس کے باپ کے بارے میں پتہ لگا تھا اس دن سے لیکر اج تک وہ اس پل کے انتظار میں تھی جب وہ اس شخص کے روبرو ہوگی۔اور اج وہ شخص سامنے تھا لیکن پری کی زبان جیسے بند ہوگئ تھی۔جسم ایسے بے جان ہوگیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نا پارہی تھی۔

وہ شبانہ سے بازو چھڑاتے پری کی جانب بڑھے تھے۔

میری بیٹی میری پریشہ انہوں نے جیسے ھی ہاتھ پری کی جانب بڑھایا تھا۔

پری نفی میں سر ہلاتی وہاں سے کمرے کی جانب بھاگی تھی۔۔

اور وہ بے سکت کھڑے پری کو جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔

اماں جی بھی اس منظر کو دیکھ کر رو دیں تھیں کہ بیٹی کی نظر میں اس کا باپ قصوروار تھا۔

اور حرا فریش ہوکر نکلی ھی تھی کہ پری چلاتی ہوی اس سے جالگی تھی۔

وہ چیخ رہی تھی رو رہی تھی۔وہ شخص اج وہ شخص میرے سامنے تھا۔میری ماں کی خوشیوں کا قاتل اور پورے کمرے میں اس کے رونے اور چلانے کی ملی جلی آوازیں ارہی تھیں۔نفرت ھے مجھے اس شخص سے نفرت ھے۔پری کی اوازیں پوری حویلی میں گونج رہی تھی۔جس کو سن کر چوہدری ولی شاہ بھی سہم گیا تھا۔

اور دلاور شاہ کی کیفیت بھی پری جیسی ھی تھی وہ بھی اپنی ماں کی گود میں سر رکھے رباب کے مرنے کا سن کر بے قابو ہورہے تھے۔پوری حویلی میں اک قیامت سا منظر ہورہا تھا۔

اماں میری خوشیوں کا قاتل میرا باپ ھے۔اور میں کتنا بے بس باپ ہوں اپنی بیٹی کی اپنی بیوی کی خوشیوں کا قاتل سب جانتے بوجھتے بھی اپنے بیوی بچوں کی خوشیوں کو کھا گیا تھا۔۔۔

نا میرا بچہ نا ایسے نہی ھے۔

ایسے ھی ھے اماں اور اج ان سب رشتوں میں قصوروار صرف میں ہوں۔۔۔

اماں میرا باپ میری خوشیوں کا قاتل اور میں اپنی اولاد کی خوشیوں کا قاتل نکلا۔۔

اور اج ولی شاہ کو ایسا لگا تھا کہ وہ اپنے بیٹے اور پوتی کی نظر میں مجرم ھے اور جس کی سزا شاید موت سے بھی بڑھ کر تھی۔

حرا کے لیے پری کو سنبھالنا مشکل ہورہا تھا۔شور کو سن کر حنا اور سویرا پری کے کمرے میں ائیں تھیں چاہے جو بھی تھا وہ تھیں تو اک ھی خاندان کا خون اور پری کی اس حالت کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں بھی انسو روا تھے۔کیونکہ دونوں نے اپنے باپ کو بھی کھویا تھا۔اور وہ جانتیں تھیں کہ اگر باپ کا سایہ سر سے چھن جائے تو اس معاشرے میں جینا کیسا ہوتا ھے۔

حرا نے سویرا کو اک انجیکشن مگوانے کو کہا تھا۔کیونکہ پری کی زہنی کیفیت دیکھ کر وہ بھی ڈر گئ تھی۔اور پری کو سکون میں لانا بہت ضروری تھا۔۔۔۔۔۔

وہ پری کو انجیکشن لگائے کمرے سے باہر اگئ تھی پری انجیکشن کے زیر اثر سو رہی تھی۔اج ہر رشتہ اک دوسرے سے نظریں چرائے پھر رہا تھا۔جیسے وہ سب اک دوسرے کے قصوروار ہوں۔۔۔

حرا نے علی کو فون کیے اس کی حالت کے بارے میں بتایا تھا۔جسے سن کر وہ کافی پریشان ہوا تھا۔حرا تم پری کا خیال رکھو یار میں جلد انے کی کوشش کرتا ہوں ہاں علی میں اکیلے پری کو سنبھال نہیں سکتی۔ہاں یار میں بابا کو بولتا ہوں کہ وہ ڈاکومنٹس کمپلیٹ کروائیں۔۔۔اوکے یار خیال رکھنا پری کا مجھے ہو پل اس کی فکر کھائے جاتی ھے۔جانتی ہوں علی تم فکر مت کرو بس اپنا خیال رکھنا۔اور تم بھی اپنا اور پری کا خیال رکھنا۔۔۔

وہ دبے دبے قدم اٹھائے پری کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔

جہاں پری بیڈ پر انجیکش کے زیر اثر نیند کی وادی میں غم تھی۔وہ آہستہ آہستہ بن اواز قدم بڑھاتے بیڈ کی جانب بڑھے تھے۔وہی چہرہ وہی نقوش جب پہلی بار انہوں نے پری کو اپنی گود میں اٹھایا تھا۔اور پری سے پریشہ کا نام دیا تھا۔

کتنا خوش تھے جب اس نے پہلی بار اپنی توتلی زبان میں 

 با ابا بلایا تھا۔کتنا خوش ہوئے تھے وہ۔انہوں نے پری کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔انہیں اس میں رباب کی جھلک دکھ رہی تھی۔ویسی ھی معصومیت ویسے ھی نین نقوش اخر کو وہ ان کا اپنا خون تھی۔

انہوں نے پری کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔

اور پری کو اچھے سے کمبل اوڑھا کر وہ کمرے سے نکلے تھے۔کہ حرا کو اتے ہوے دیکھ کر رک گئے تھے۔۔

وہ پریشہ بیٹا ان کے الفاظ منہ میں ھی رہ گئے تھے۔

انکل اپ پریشہ کے بابا ھیں۔

جی میں ھی وہ بد نصیب باپ ہوں۔

اسلام علیکم انکل وہ پری کو میں نے انجیکشن دیا ھے تاکہ وہ تھوڑا ریلکس کرلیں۔ڈونٹ یو وری وہ صبح تک بیٹر ہوجاے گی۔

بیٹا دھیان رکھیے گا پریشہ کا اور کچھ بھی چاہیے ہو تو بتائیے گا۔

جی انکل۔۔

اور وہ حرا کے سر کو تھپتھپاتے ہوئے گئے تھے۔۔۔

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

انہوں نے سر کرسی کی پشت سے لگایا تھا۔

ماضی کا ہر پنہ کھلتا جارہا تھا۔اور وہ اپنے اپ کو اپنی بیوی اور بیٹی کی عدالت میں مجرم قرار پائے تھے۔

رباب جو دلاور شاہ کی پہلی اور آخری محبت تھی۔اج وہ ان سے اتنی دور ہوگئ تھیں کہ وہ چاہ کر بھی کچھ نا کرسکتے تھے۔

انہیوں نے بے بسی سے اپنی انکھیں موندیں۔

اوہو رباب کیا ڈھونڈ رہی ہو پچھلے اک گھنٹے سے۔

شاہ وہ یہ دیکھیں نا اک پائل پاوں میں ھے اور دوسرے پاؤں میں سے پائل ناجانے کہاں چلی گئ ھے۔

تتلی یہی کہی ہو گی اس میں ایسا کون سا طوفان اگیا۔

کیا مطلب ہے شاہ وہ اپ کی طرف سے دیا ہوا پہلا محبت بھڑا تحفہ تھا۔اور وہ رو دینے کو تھی۔

ارے ارے میری تتلی میں ایسی ھی پائل اور دلا دوں گا۔نہیں شاہ مجھے وہی چاہیے۔وہی ڈھونڈنی ھے مجھے۔

ہٹیں اپ یہاں سے میں خود ھی ڈھونڈ لوں گی۔اور شاہ رباب کے بچپنے پر مسکرا دئیے تھے۔

انہوں نے کوٹ کی جیب سے وہ پائل نکالی تھی۔اور اسے اپنی مٹھی میں دبا لیا تھا۔

ارے واو شاہ اپ کو یہ پائل کہاں سے ملی میں نے تو پورا گھر چھان مارا تھا۔بس دیکھ لیں مل ھی گئ ہمیں۔ادھر دیں مجھے وہ کسی بچے کی طرح لپکی تھیں۔نا نا نا جسے ملی یہ اب اس کی ہوئ۔یہ کیا بات ہوئ شاہ اپ لڑکی ھیں جو پائل پہنیں گے۔بس یہی سمجھ لیں اور رباپ شاہ کے پیچھے پیچھے بھاگی تھی پائل لینے کے لیے لیکن وہ بھی شاہ تھے کب ھاتھ انا تھا انہوں نے۔۔جائیں میں بھی نہیں بولتی اپ سے۔۔

رباب۔۔۔

نہیں رباب ناراض نہیں ہو۔۔

 یہ لو اپنی پائل بس ادھر اجائو میرے پاس رباب اور پورا کمرا ان کی آواز سے گونجا تھا۔رباب مجھ سے ناراض نہی ہو اور وہ دیوانوں کی طرح رو رہیے تھے۔

رباب اپنے شاہ سے خفا مت ہو رباب۔۔۔۔

دلاور کسی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔

اور شبانہ ان کے پاس زمین پر بیٹھ گئی تھی۔وہ چلی گئ وہ اپنے شاہ سے ناراض ہو کر چلی گئ۔

ارے مرنا تو مجھے چاہیے تھا۔پلٹ کر خبر تک نا لی اس کی کہ وہ اکیلی کس حال میں ہو گئ۔کتنا بے غیرت شخص ہوں میں اپنی بیوی اور اپنی معصوم سی بیٹی کو دنیا والوں کے رحم و کرم پر بے سہارا چھوڑ آیا۔

ارے میں تو صیح نفرت کا حقدار ہوں میری پھول سی بیٹی مجھ سے نفرت کرتی کیا میں انسان ہوں۔

نا میں اک اچھا شوہر بن سکا اور نا اک باپ کی زمہ داری پوری کرسکا۔ارے میں تو زمہداریوں سے بھاگا ہوا شخص ہوں۔میں تو مجرم ہوں اپنی بیٹی کا۔نہیں دلاور ایسے مت کہیں۔سنبھالیں خود کو۔

نہیں میں تو سزا کا حقدار ہوں مجھے تو سزا ملنی چاہیے۔اور میری بیٹی اپنے باپ کے لیے سزا منتخب کرے گی۔کیونکہ اس کی نظر میں میں خود کیلئے نفرت برداشت نہیں کرسکتا۔

نہیں دلاور ایسے مت بولیں وہ تو اپکی بیٹی ھے وہ اپنے باپ کیلئے سزا منتخب نہی کرے گی بلکہ اپنے باپ کیلئے نفرت کو ختم کرے گی دیکھیے گا دلاور۔کاش کہ ایسا ہو شبانہ ورنہ مجھ سے بدنصیب شخص اس دنیا میں دوسرا کوئ نا ہوگا۔اور اج دلاور شاہ اپنی بےبسی پر ماتم کر رہے تھے۔۔۔

*******************************************

ہو گئے خوش چوہدری ولی شاہ صاحب تسی۔

کر لی اونچی ناک تسی اپنی پھیکی شان دے پیچھے۔ہوگیا سکون۔

اک بیٹی دے دل وچ اس دے باپ لئی نفرت پیدا کرنے لی سب تو وڈا ہاتھ تہاڈا ھے۔اج تسی کنیاں زندگیاں تباہ کیتیاں۔ذرا سوچنا ضرور۔

کیونکہ رباب تے بل بسی اس دنیا توں۔جس دے سر تو تسی اس دے سہاگ دا سایہ چھینا سی۔ہن سوچیو کہ پریشہ دے سر تو اس دے باہ دا سایہ کیدھاں چھینوں گے تسی۔

بس کر جا چوہدرائن بس کر جا۔

نا چوہدری صاحب نا۔

اوہ کہندے ائا نا مکافات عمل اوہ تے بہت پہلے ھی دہرایا جا چکا سی۔جب تہاڈی اپنی چھوٹی بیٹی طلاق دا قلنق لے کے اس گھر وچ ائ سی۔ساڈی بیٹی پینو اس دی واحد اولاد اس تو چھین لئی گئی سی تے اوہ ائا صدمہ برداشت ھی نا کر پائ تے سانوں چھڈ کے چل بسی سی۔اوہ مکافات عمل ھی سی۔تسی رباب نال برا کیتا جس دا انجام سانوں سب نوں بھگتنا پئیا۔ہن وی وقت ھے چوہدری صاحب اس اوپر بیٹھی ہوئ رب دی زات تو ڈرو۔ائا نا ہوئے تہانوں اس عمرے ہور خمیازہ بھگتنا پڑے۔۔اور وہ اپنی سناتیں چل دی تھیں۔

چوہدری صاحب کی آنکھوں سے ندامت کے انسو بہہ رہے تھے۔لیکن وقت گزر چکا تھا۔وہ چاہ کر بھی سب ٹھیک نہیں کرسکتے تھے کیونکہ یہ ان کے ہاتھ میں تھا ھی نہیں۔وقت نے ان کے منہ پہ اک ایسا تماچا مارا تھا کہ وہ لڑکھڑا کر گر گئے تھے۔کل تک جو ان کے سامنے اونچی زبان میں بات تک نا کرتے تھے۔اج وہی اپنے انہیں ان کی ہوئ غلطیاں گنا رہیے تھے۔کہ وہ چاہ کر بھی بول نا پائے تھے۔کیونکہ سب کے قصوروار وہی تھے۔۔۔

********************************************

دیر رات پری کی آنکھ کھلی تھی۔پانی اس کے لب ہلے تھے پاس بیٹھی سویرا نے پری کو سہارا دے کر اٹھایا تھا۔اور تکیہ ٹھیک کر کے بیڈ سے ٹیک لگوائ تھی۔اور اپنے ہاتھوں سے پری کو پانی پلایا تھا۔۔

کیسی طبیعت ھے پریشہ۔۔

سویرا نے بہت پیار بھرے انداز میں کہا تھا۔

کچھ بہتر ھے۔اپ یہاں اور حرا کہاں ھے۔

ریلکس پریشہ۔

حنا کے ایگزامز ہونے والے ھیں تو حرا اسے گائیڈ کر رہی تھی۔تو  اپ اکیلی تھیں میں نے سوچا کہ اپکے پاس اجاوں۔

رکیں میں اپ کے کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں اپ نے صبح سے کچھ نہی کھایا۔

نہی مجھے بھوک نہیں ھے فکر نہیں کریں اپ۔

پریشہ غصہ جس پر ہو اس پر اتارا جائے تو اچھی بات ھے۔کھانے پر سے کیا ناراضگی اور وہ پریشہ کا گال پیار سے کھینچتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں تھیں۔

جلدی سے منہ ہاتھ دھوکر او۔اچھے بچوں کی طرح ائ سمجھ وہ یہ کہتے کچن میں آئیں تھیں۔جہاں حرا اور حنا چائے بنانے اور باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔ارے ارے تم دونوں کا دھیان کدھر ھے ابھی چائے کیتلی سے باہر اجانی تھی۔

اوہو بجو ہمارا دھیان ھی نہیں گیا۔دھیان بھی کیسے جائے دونوں گپوں میں جو مصروف تھیں۔ہاہاہا اور وہ سب ہنسی تھیں۔بجو لندن کی وادیوں میں میں کھو گئی تھی۔ھیں حنا لندن میں وادیاں کہاں سے اگئیں۔وہ تو ہمارے ناران کاغان میں ھے۔اف ہو بجو کوئ حال نہیں اپکا مجھے خوش مت ہونے دینا۔

ہاہاہااہااہاہا حرا حنا کی بات پر مسکرای تھی۔حنا تمہاری حرکتیں اور باتیں بھی بلکل صائم جیسی ھیں۔۔

اسکی کمی مجھے بلکل فیل نہیں ہورہی تمہارے ہوتے ہوے۔

ہیں یہ صائم کون۔وہ صائم ابھی حرا نے لب کھولے ھی تھے کہ سویرا کھانے کی ٹرے سجائے پاس ائ تھی۔پریشہ کے لیے کھانا لے کے جارہی ہوں تم دونوں چلو گی ساتھ تو دل بہل جائے گا اسکا۔ارے یار حرا نے ماتھا پیٹ تھا۔باتوں باتوں میں تو بھول ھی گئ پری کو ہوش اگیا۔جی ھاں اگیا اور وہ کافی ںہتر بھی ھے اب چلیں یا یہی رہنا ھے۔چلو چلو گائز اور وہ تینوں کمرے کی جانب بڑھی تھیں۔۔۔۔۔

کیسئ طبیعت ھے پری۔۔۔۔۔حرا فکر مندی سے پری کی جانب بڑھی تھی۔

ٹھیک ہوں یار مجھے کیا ہونا ھے۔

اللہ نا کرے پریشہ اپا اپ کو کچھ ہو۔۔وہ پری کے پاس ائ تھی۔

چلو ہٹو پیچھے حنا۔

 پریشہ چلو شاباش کھانا کھا لو پہلے۔۔

نہیں دل نہیں ھے۔۔

ایسے کیسے دل نہی ھے لائیں میں اپنے ہاتھوں سے اپی کو کھانا کھلاتی ہوں اور حنا نے نوالہ بنا کر پری کے منہ کے پاس کیا تھا۔پری کو نا چاہتے ہوئے بھی کھانا پڑا تھا۔۔۔۔۔

**********************************************

علی ہمت نہیں ہورہی اس شخص کے روبرو ہونے کی۔

کیوں پری ایسے کیوں کہہ رہی ہو یار۔تمہیں ہمت کرنی پڑے گی۔علی ایسے لگتا ہمت نہیں رہی مجھ میں۔

نہیں تو میں اپنی پری کو جانتا ہوں بہت ہمت ھے بہت بہادر ھے میری پری۔

پتا نہیں علی مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔

زیادہ فکر مت کرو پری۔بس اللہ پر چھوڑ دو انشاء اللہ سب ٹھیک ہوگا۔۔

ہاں یار۔تب ھی دروازے پر دستک ہوئ تھی۔

اچھا علی میں تم سے پھر بات کرتی ہوں دروازے پر ھے شاید کوئ۔

اوکے بی ٹیک کئیر اف یور سیلف۔۔۔

یو ٹو بائے۔

اجائیں۔۔۔۔

تب ھی دروازہ کھلا تھا۔شبانہ انٹی کو اندر اتےدیکھ کر پری نے منہ موڑ لیا تھا۔

پریشہ بیٹا میں اپ کیلئے جوس لائ ہوں پی لیں۔۔

مجھے نہیں پینا جوس آپ واپس لے جائیں۔۔

اور ہاں اگر مجھے کچھ بھی چاہیے ہوگا تو میں خود لے لوں گی۔اپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ھے۔۔۔۔۔

اور انہیں پری کی بات نے افسردہ کردیا تھا۔۔

پر بیٹا میں اپ کی فکر نہیں کروں ھی تو اور کون کرے گا بیٹی ھیں اپ میری۔

جی نہیں وہ غصے سے پلٹی تھی۔

میں اپ کی بیٹی نہیں رباب کی بیٹی ہوں۔اپ سے اور اپ کے شوہر سے میرا کوئی رشتہ کوئ واسطہ نہیں۔

اور وہ پریشہ کی نظروں میں نفرت دیکھ کر سہم گئ تھیں۔

جانتی ہوں بیٹا کہ اپ مجھے اپنا کچھ نہیں سمجھتیں لیکن حقیقت یہ ھی ھے کہ میں اپ کی ماں کے رتبے پر فائز ہوں۔

اپ مجھے اپنی ماں مت سمجھیں۔لیکن اپ میری بیٹی ہو اور اپ کی میری زمہداریوں ہو۔

جسٹ سٹاپ اٹ۔

Enough is enough...

اپ پلیز یہاں سے چلی جائیں۔

اور وہ خاموشی سے کمرے سے چلیں گئیں تھی۔ان کی آنکھوں میں انسو روا تھیں۔۔

اے میرے خدا میں کس کش مکش میں پر گئ ہوں۔یا خدا میری مدد فرما میں بہت بے بس ہوں۔۔شام ہونے کو تھی۔پری کا کمرے میں بیٹھے بیٹھے دم گھٹنے لگا تو وہ باہر لان میں اگئ تھی۔کھلی فضا میں اکر اس نے سکون کی سانس لی تھی۔

اس نے آسماں کی جانب دیکھا۔جہاں پرندے لمبی اڑان بھرے اپنے گوشے کی طرف روا تھے۔

تب ھی پری کی نظر مالی پر گئ تھی۔جس کی بیٹی نے اس کی پگڑی اپنے دل سے لگائ تھی۔اور اب وہ اپنی چھوٹی سی بیٹی  کو کندھوں پر اٹھائے گھر کے بیرونی گیٹ سے باہر نکل رہا تھا۔

پری کی انکھیں یہ منظر دیکھ کر نم ھوئ تھیں۔اک حسرت سی تھی اس کے دل میں۔۔

پریشہ بیٹا۔۔اک مردانہ اواز پر وہ پلٹی تھی۔

اس شخص کو اک بار پھر اپنے سامنے دیکھ کر پری کی آنکھیں نم ہوگئ تھیں۔

جی چاہا تھا وہ بھی بچوں کی طرح سے ضد کرے اپنے باپ سے لیکن یہ شاید ممکن ھی نا تھا۔۔

پری نے خود کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔۔

میں جانتا ہوں بیٹا۔کہ بہت شکایات ھیں میری بیٹی کو مجھ سے۔اور کیوں نا ہوں قابل نفرت ہوں بیٹا۔جو اک اچھا باپ نہیں بن سکا۔۔

مجھے پتہ ھے میرا جرم بہت بڑا ھے پر مجھے معاف کردو پریشہ بیٹا۔میں اپنی بیٹی کی نظروں میں خود کیلئے نفرت برداشت نہیں کر سکتا۔

کیا کہا اپنے معاف کردوں۔۔

کیسی معافی کونسی معافی۔۔

اج اپ مجھ سے کس قسم کی معافی کی امید کرتے ھیں۔

اک اچھے باپ تو دور کی بات اپ تو اک اچھے شوہر بھی نا بن پائے۔چوہدری دلاور شاہ۔۔

میری ماں اپ کی وجہ سے ہمیں اس دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلی گئ۔

اپ نے بھی تو میری ماں کو تنہا چھوڑا تھا۔

کیا یہی محبت تھی اپکی۔بولیں دلاور شاہ صاحب کہاں گئیں اپکی وفاداری کی جھوٹی قسمیں۔

جواب دیں کیوں اج اپ اپنی بیٹی کے سامنے نظریں جھکائیں سر کو نیچے کیے کھڑے ھیں۔بولیں میری ماں کا کیا قصور تھا جو بھری دنیا میں لاوارثوں کی طرح چھوڑ ائے۔تین سال کی بیٹی کو کس کے اسرے چھوڑ کر آئے تھے۔

اپ تب کہاں تھے جب مجھے میرے باپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔تب کہاں تھے اپ جب پیرنٹس ڈے پر سب بچے اپنے ماما بابا کے ساتھ سکول اتے تھے اور میں انہیں دیکھ کر اپنی ماما سے اک ھی سوال کرتی تھی کہ میرے بابا کہاں ھیں ماما۔اور مجھے کبھی کوئی جواب نا ملا تھا۔۔۔باپ کے ہوتے ہوئے میں یتیموں جیسی زندگی گزاری۔

ایسا کیا ہوگیا تھا کہ اپکا دل پتھر ہوگیا اور پلٹ کر بھی اپنی بیوی اور بیٹی کی خبر نا لی کہ وہ زندہ ھے یا مر گئیں۔

اج وہ شخص کتنا بے بس اور لاچار دکھ رہا تھا ٹوٹا ہوا ہارا ہوا۔

اج مجھے اپکی بے بسی دیکھ کر افسوس ہورہا ھے۔لیکن اج اپ خالی ہاتھ رہ گئیےھیں اج اپ نے سب کچھ کھو دیا سب کچھ۔

اج سکون سے سوچئے گا کہ اپ کہاں غلط تھے۔

اور وہ یہ سب کہہ کر وہاں رکی نا تھی۔۔۔۔۔

کیونکہ اسے کمزور نہیں پڑنا تھا۔

وہ خود کو کمرے میں بند کیے خود کی زندگی پر ماتم کر رہی تھی۔۔۔۔۔لیکن دل کی بھڑاس نکال کر اسے سکون ضرور اگیا تھا۔

دلاور شاہ خود کے وجود کو گھسیٹتے ہوئے کیسے کمرے تک آئے تھے یہ صرف وہ جانتے تھے۔کہ وہ اپنی بیٹی کی نظروں میں مجرم تھے۔جو دکھ انہیں اندر ھی اندر کھائے جا رہا تھا۔۔۔۔۔

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

اج حویلی میں بہت چہل پہل تھی ہر کوئی کام میں مصروف تھا۔حرا بھی صبح سے نا دکھی تھی اور یقیناً وہ حنا کے ساتھ اپنے شیطانی کارناموں کی داستان شئیر کرنے میں مصروف ہوگی۔

پری چلتی ہوئ اماں جی کے پاس اکر بیٹھ گئ تھی۔

میں صدقے میرے پتر تے اور انہوں نے پری کو گلے سے لگایا تھا۔۔

اماں جی اج کوئ خاص دن ھے کیا۔وہ حیرانگی سے تائ امی کو دیکھ رہی تھی۔جو نوکروں کو کام سمجا رہی تھیں۔

ہاں پتر سویرا پتر دے سسرال والے ارہے شادی دی تاریخ رکھن۔

سہی پری نے کہا تھا۔۔

پتر اج شام نو ارہے بہو دے پیکے سے لوگ۔

جی وہ میں سمجھی نہیں۔۔۔

میں سمجھاتی ہو اپی۔

ارحم بھائ جو کے میرے ماموں زاد ھے اور سویرا بجو کے ہونے والے مجازی خدا۔اور رشتے میں میری امی جی کے مرحوم بھائ کے بیٹے ھیں۔۔۔

تو یار سیدھا ھی بول دیتی ماموں زاد ھیں اتنا بات گھومانے کی کیا ضرورت تھی۔حرا نے کہا تھا جس پر پری بھی مسکرا دی تھی۔

یار پری یہ تو اپنے صائم سے دس قدم اگے ھے۔ارے یار یہ صائم کون ھے۔پری نے انکھ کے اشارے سے حرا کو بتانے سے منع کیا تھا۔۔

حنا پتر۔ہال میں اک کڑک سی آواز گونجی تھی۔

جی دادا جی اور وہ پلٹی تھی۔۔حرا اور پری بھی چوہدری ولی شاہ کو دیکھ کر سیدھا ہوئیں تھیں۔

پتر غازیان سے بات ہوئ کہ کب تک ارہا وہ واپس۔

جی دادا جان میری کل ھی بھائ سے بات ہوئ تھی 

وہ پرسوں واپس ارہے ھیں۔۔

ٹھیک ھے پتر۔۔۔

اور اک نظر پری کو دیکھ کر وہ بنا کچھ بھی کہے وہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔۔۔۔بنا کچھ کہے وہ پری سے نظریں چرا گئے تھے۔

حرا کی بچی۔۔۔پری حرا کو کمرے میں لائ تھی یار یو نو دیٹ صائم کے بارے میں کسی کو بھی نہیں پتا۔وہ معصوم تو اس دنیا میں ھی تب ایا تھا جب وہ شخص میری ماں کو چھوڑ کر واپس اگیا تھا میری ماں کتنا خوش تھیں کہ وہ خوشخبری سب سے پہلے انہیں سںنائیں گی پر سب خوش فہمی ھی رہ گئ انکی۔۔

اوہو ائ ائیم رئیلی سوری پری مجھے نہیں پتا تھا۔۔۔کہ انکل کو نہیں پتا کہ انکا اک بیٹا بھی ھے۔

انہیں کیا فرق پڑے گا یار پر میں نہیں چاہتی کہ میرا بھائی اپنے باپ سے ملے۔

وہ پلٹی تھی تو اماں جی کو کھڑا دیکھ کر سر تھام کر رہ گئ تھی۔

انہوں نے کچھ کپڑے بیڈ پر رکھے تھے۔اور خود بھی بیڈ پر ڈھے سی گئیں تھیں۔اماں جی پری ان کے پاس ائ تھی۔اپ ٹھیک تو ھیں۔

میرے پتر دلاور دا اک پت وا۔

میرا پوتا میرا جگر دا ٹکڑا۔

پتر توں مینوں کیوں نہیں دسیا۔اور وہ رو دئیں تھیں۔۔

اماں جی کیا فرق پڑتا ھے۔

فرق پہندا وا پتر فرق پہندا اے۔میں اپنے دلاور نو کدی ہسدے نہیں ویکھیا۔انہوں اک قرب وچ مبتلا وکھیا۔

اگر وہ اتنا ھی تڑپے تھے تو وہ مڑ کر واپس کیوں نا ائیے تھے۔پلٹ کر انہوں نے اپنی بیوی بچوں کی خبر کیوں نا لی تھی کہ وہ کس حال میں ھیں۔

میں جانتی ہوں پتر میں جانتی ہوں تیرا دکھ۔لیکن میں اپنے پتر دی کیفیت تو واقف وا۔۔۔

وہ جب شادی کر کے گھر سے گیا تھا تو میں دعائیں دیتے اپنے دل تے پتھر رکھ کر اس کو رخصت کیا تھا۔کہ اس کی خوشی میں ھی میری خوشی ھے۔

پر چوہدری صاحب کی آنکھوں میں تو اپنے مرحوم بھائ کو دئیے ہوئے وعدے کی پٹی چڑھی تھی۔ان کی انکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔خاندان والوں نے بھی رج کے تھو تھو  کی تھی۔ہزاروں باتیں کی تھی۔ان کے سر پر تو اک ھی بھوت سوار تھا کہ وہ اپنی اولاد کو اپنے ھی ہاتھوں ختم کر دیں۔۔۔۔

لیکن میرے جڑے ہوئے ہاتھوں کو دیکھ کر وہ خاموش ہوگئے تھے لیکن غصہ کسی صورت بھی ختم نہیں ہوا تھا۔

وقتی طور پر انکا غصہ ٹھنڈا ضرور پڑا تھا لیکن ختم نا ہوا تھا۔۔۔

بیٹے کی جدائی نے مجھے اسپتال تک پہنچا دیا تھا دل دا دورہ پڑا تھا مجھے۔پتہ نہیں اج میں اپنے بچوں کے لیے زندہ ہوں جو اللہ نے مجھے نئ زندگی دی۔

پری نے اماں جی کی جانب دیکھا تھا۔حرا بھی صوفے پر سر جھکائے بیٹھی اماں جی کی باتیں سن رہی تھیں۔۔۔

ڈاکٹروں نے بچنے کی امید کم بتائ تھی۔دلاور پتر دی جدائ مجھ سے برداشت نا ہورہی سی۔اور کیسے دلاور پتر میرے پاس واپس ائیا تھا۔تو جینے کی امنگ بھی دکھی تھی۔پر مجھے اسپتال کے کمرے میں پڑے دیکھ کر چوہدری صاحب نے اپنے ھی بیٹے کی دکھتی رگ ہر ہاتھ رکھا تھا۔اور پگڑی بیٹے کے قدموں میں رکھ کر شبو سے اس کا نکاح پڑھوا دیا تھا۔اک طرف ماں زندگی اور موت سے لڑ رہی تھی تو دوسری جانب باپ نے پیروں میں گر کر بیٹے کو منا لیا تھا اور خاندان کی جھوٹی واہ واہی کے لیے اپنے بیٹے کے ارمانوں کو کچل ڈالا تھا۔اس کے سارے کاغذات جلا ڈالے تھے کہ وہ کہی واپس نا جاسکے۔اسے قسم دی گئ تھی کہ اگر تو واپس مڑ کر گیا تو تیری ماں کو اس عمر میں طلاق دے دوں گا پھر دونوں ساتھ ھی جانا پردیس۔اور نا چاہتے ہوئے بھی میرے دلاور پتر کے پیروں میں رشتوں کی بیڑیاں باندھ دی گئیں۔پتر تیری نفرت نوں دیکھ کر مینوں بہت تکلیف ہوندی۔

لیکن دلاور پتر دا قصور ائا ھی سی کہ او ماں کی بیمارپرسی لئ وطن واپس ائیا تہ اس دے اپنے باپ نے اپنی انا میں اکر اس کے واپسی دے سارے دروازے بند کردیتے۔وقت دا تے کام ھی اے گزرنا لیکن میرے پتر دی زندگی دا کڑا وقت شروع ہوئیا۔

پل پل رباب تے اپنی بیٹی دی یاد وچ میں انہوں تڑپتے ہوئے دیکھا وا پتر۔

میں بولیا سی انہوں کے تو واپس چلا جا کاغذات تے پھر بن جائو۔لیکن اوہ کہندا سی کہ میں اس عمر وچ اپنی ماں دے ماتھے تے طلاق دا قلنق نہیں ویکھ سکدا۔پتر اس وچ دلاور دا کوئ قصور نہیں سی میرے پتر نوں معاف کر دے پتر اس نے اپنی ماں نوں کسے دلدل دے وچ گرن تو بچا لیا لیکن اک بہت بڑی قربانی دی اپنی محبت دی قربانی اور وہ یہ سب کہہ کر رو دیں تھیں۔پری ان کے گلے سے جالگی تھی۔کیونکہ اک ماں کے لئے اک بیٹے نے سب کچھ ہار دیا تھا۔پتر اپنے باپ لئیے اپنے دل وچوں ہر خلعش ختم کردے۔اسے تم لوگوں کو تنہا چھوڑ کر انے کی بہت بڑی سزا بھگتنی پڑی ھے وہ بھی اکیلے تڑپ تڑپ زندگی بسر کی ھے اسنے۔۔اور پری کی تو سمجھ میں ھی کچھ نا ارہا تھا کہ وہ اپنے باپ کو قصوروار سمجھتی رہی اور یہ جاننے کی بھی کوشش نا کی کہ ان کی کیا مجبوری تھی جو وہ واپس نا ائسکے۔۔۔۔

اور اماں جی کو تو سنبھالنا مشکل ہورہا تھا۔تب ھی تائ امی کمرے میں ائیں تھیں۔اماں جی سب مہمان اگئے ھیں آپ بھی اجائیں نیچے۔۔

اور  انہوں نے اماں جی سمیت حرا اور پری کی جانب بھی ترچھی نگاہوں سے دیکھا تھا۔سب ٹھیک تو ھے اماں جی۔

ہاں پتر سب ٹھیک ھے۔تو ادھر کی کر رہی ھے تجھے تو مہمانوں کے پاس ہونا چاہیئے۔

جی وہ اماں جی میں اپکو بلانے ائ ہوں سب اپ کے بارے میں پوچھ رہے ھیں۔ٹھیک ھے پتر تو چل میں اتی ہوں۔

جی اچھا اماں جی۔

اچھا پریشہ تم بھی تیار ہوکر نیچے انا۔اور مہربانی کرکے شہری کپڑے پہن کر مت انا۔

جو بھی ہو ہمارے ہاں کی بچیاں ایسے کپڑے نہیں پہنتیں۔۔اور تہذیب سے سر ڈھانپ کر نیچے ائیے گا خاندان کے سب بڑے افراد نیچے موجود ہوں گے۔اور میں نہیں چاہتی کے ایسے ویسے سوال کرے کوئ۔جو بھی ہو بیٹی کا معاملہ ھے۔

بس کرو بہو۔میں اچھا برا سب سمجھتی ہوں تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں میں زندہ ہوں ابھی۔تم جاو نیچے اتی ہوں میں۔۔

جی اماں جی اور وہ اک نظر پریشہ کو گھور کر گئیں تھیں۔

تائ امی کا پریشہ ساتھ ایسا رویہ پری کو ہلا گیا تھا۔

پتر تو بہو کی باتوں کو دل پر نا لئیں اس کی زبان ھی ایسی ھے۔

تیکھی مرچی جیسی۔۔حرا نے تن کر کہا تھا۔

اور پری نے گھوڑتے ہوئے حرا کو دیکھا تھا۔

نا پتر زبان کی کڑوی ھے پر دل دی بہت چنگی ھے۔

لے پتر میں تم دونوں کے لیے جوڑے لائ تھی پہن کر نیچے اجاو میں دیکھتی ہوں نیچے مہمان راہ دیکھ رہے ہونے۔

وہ اماں جی پری اماں جی کے پاس ائ تھی۔

مجھے لگتا ھے کہ ہمیں نیچے نہیں انا چاہیے یہ مناسب نہیں ہوگا اورمیری وجہ سے کوئ بھی problem ھو۔یہ سویرا کی life کا سوال ھے۔نا پتر اینج نہیں سوچی دا۔

جیسے سویرا اور حنا اس گھر دا حصہ ہے ویسے ھی تم بھی اس گھر دی دھی ہو۔اور میں کچھ نا سنوں جلدی دونوں تیار ہوکر نیچے ائو۔۔۔۔

اوروہ سر ہلا کر رہ گئی تھی۔۔۔

بےبی پنک قمیض شلوار میں بالوں کو کھلا چھوڑے میک اپ سے اری چہرہ لیے وہ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔

کم تو حرا بھی نہیں لگ رہی تھی۔

ارے پری بہت پیاری لگ رہی ہو تم۔۔

اور تم بھی بہت اچھی لگ رہی ہو۔

ارے یہ کیا میک اپ نہیں کیا۔

نہی یار مجھے نہیں پسند۔۔

ایسے کیسے نہی پسند اور حرا نے زبردستی گلابی رنگ کی لپ سٹک پری کے لگائ تھی۔۔

اب لگ رہی ہو  بلکل پری ۔۔۔۔۔

اور یہ لی تصویر ارے حرا۔۔

تصویر کس لیے۔۔۔

جی جناب تمہارے مجنوں کو سینڈ کر رہی۔

مجنوں پری چونکی تھی۔ارے یار علی کو کی ھے سینڈ تو تمہارے عشق میں پاگل ھیں جناب۔

کیا کیا مطلب۔۔کیا کہا پری حرا کی بات سن کر حیران رہ گئ تھی۔

اوہ شٹ یار۔میں بھی کچھ زیادہ ہی بول گئ۔۔

نہیں یار کچھ نہیں۔۔

پلیز حرا بات نہیں گھومانا اب۔۔

پری یو ار سو مچھ لکی کہ تمہیں علی جیسا زندہ دل انسان دل کی گہرائیوں سے چاہتا ھے۔

پری حرا کی بات سن کر ہکا بکا رہ گئ تھی۔

پری وہ دیوانوں کی طرح تمہیں چاہتا ھے۔اور پتا ھے وہ تم سے جب بھی اظہار کرنے کی کوشش کرتا تھا نا تو تمہیں پریشانی میں مبتلا دیکھ کر چپ ہو جاتا تھا۔

کبھی اس کی انکھوں میں دیکھنا کہ کتنی محبت کرتا ھے وہ دیوانہ تم سے۔۔۔

کیا یہ سب تم سے علی نے خود کہاہے حرا۔پری نے حیرانگی سے پوچھا تھا۔

ہاں جی جناب مجنوں کی طرح رو رہے تھے کہ پری میری ھے پری کی زندگی کا ہر درد وہ خود اپنے ہاتھوں سے چننا چاہتے۔یہ وہ۔۔۔

اور پری کو تو یقین ھی نہیں آرہا تھا کہ کوئ اس سے بھی اتنی محبت کر سکتا۔

لیکن پری شاید وہ ہمت کرکے تمہیں بتا نہیں پایا۔۔اور میں جانتی ہو تم نے ہمیشہ اسے دوست کی نگاہ سے دیکھا ھے۔علی تم سے محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا لیکن تمہاری نظروں میں محبت کو لیے نفرت اور خلعش دیکھ کر وہ چپ پو گیا تھا۔۔لیکن یہی سچ ھے کہ جتنی محبت وہ تم سے کرتا ھے شاید ھی کبھی کسی سے کی ہو اسنے۔پر یار مجھے یہ سب تمہیں نہیں بتانا چاہیے تھا۔لیکن منہ سے نکل گیا۔وہ خود تمہیں بتاتا تو تمہیں زیادہ خوشی ہونی تھی۔

اور پری تو شرم سے نگاہ چرا گئ تھی۔اک ہاتھ ڈائمنڈ بریسلیٹ پر گیا تھا۔اور سماعتوں میں علی کی اک اواز ٹکرائ تھی۔ 

اصل ڈائمنڈ تو تم ہو جس کی وجہ سے یہ ڈامنڈز کی ویلیو تھوڑی بڑھ گئ ھے۔ورنہ ان کی کیا اوقات ھے میری پری کے سامنے اور اک عجیب سی خوشی ہوئ تھی پری کو شاید وہ باتوں باتوں میں یہی سمجھانا چاہتا تھا۔لیکن وہ کبھی علی کی نظروں میں دیکھ ھی نا پاتی تھی۔اور ہمیشہ نظریں جھکا جاتی تھی۔۔

شاید اپنی ماں کی زندگی میں ائ مشکلات اور کھوئ ہوئ خوشیوں کو دیکھتے ہوئے وہ علی کی کیفیت کو بھی کبھی سمجھ نا پائ تھی۔

کیا واقعی میں علی بھی مجھ سے محبت کرتا ہوگا یا یہ سب محظ باتیں ھی ہوں گئیں۔

اوہ میڈیم کہاں کھو گئ۔

کہی نہیں اور وہ حرا کا فون چھینے یہ کہتی ہوئ دروازے کی طرف بھاگی تھی۔نیچے اجاو ورنہ کہیں میں بے تمہاری باتیں سن کر بیہوش ھی نا ھوجاوں۔پری کی بچی رکومیرا فون واپس کرو تمہیں سب مذاق لگ رہا یار۔

اور حرا پری کے پیچھے بھاگی تھی۔پری بنا سامنے دیکھےاپنی ھی دھن میں بھاگی تھی۔تب ھی وہ سامنے چلتے اتے ہوئے اک وجود سے ٹکرائ تھی۔اور وہ گرتے گرتے بچی تھی جیسے کسی ائرن مین سے ٹکرائی ہو۔دکھائ نہیں دیتا یہ کوئ بھاگنے کی جگہ ھے۔

جانی پہچانی اواز سن کے پری نے نظریں اس شخص کی جانب کی تو ٹھٹھک کر رہ گئ۔تم۔۔تم

وہ اس شخص کو کیسے بھول سکتی تھی جس نے پاکستان انٹر ہوتے ھی پری کی انسلٹ کی تھی۔اور پری اپنی تذلیل کیسے بھول سکتی تھی۔

اور دوسری طرف بھی خوبصورت ضدی نڈر بے خوف خوبرو جوان کھڑا تھا۔بھولا تو وہ بھی نا تھا پری کو۔۔۔۔

تم یہاں کیا کر رہی ھو۔

وہی تو مسٹر میں تم سے پوچھ رہی ہوں تم یہاں کیا کر رہے ہو پری بھی غصہ سے چلاتے ہوئے بولی تھی۔

حرا تو دونوں کی جانب حیرت سے دیکھ رہے تھی۔۔کہ اخر یہ ہو کیا رہا ھے۔

ہاہاہا وہ مسکرایا تھا۔اک تو میرا گھر ھے اور میرے ھی گھر میں کھڑی ہوکر مجھ سے ھی پوچھا جارہا ھے کہ میں کون ہوں۔۔

واٹ۔۔

یس میم۔۔ائ ہوپ کان خراب نہیں ہوگئیں اپکے۔

اب میں پوچھ سکتا ہوں کہ اپ میرے گھر میں کیا کر رہی ھیں۔۔۔

غازیان پتر۔۔۔۔۔۔۔۔

اور وہ اماں جی کی اواز سن کر مڑا تھا۔۔

اماں جی اسلام علیکم وہ جھک کر اماں جی کے گلے لگا تھا۔پری منہ کھولے حیرت سے اس شخص کی جانب دیکھ رہی تھی ۔۔

میری آنکھوں کا تارا میری روح دا سکون اگیا تو پتر۔جی اماں جیی۔کنا ماڑا ہوگیا۔

ہاہا کہاں ماڑا ہوگیا میں۔

بھائ اپ تو کل انے والے تھی حنا چہچہاتی ہوئ غازیان کے پاس ائ تھی اور ان سے لپٹ گئ تھی۔کیوں چھٹکی میرا انا اچھا نہیں لگا نہیں بھائ اچھا کیسے نہیں لگ سکتا اپ میری لسٹ کے مطابق سب کچھ لے کر ائیں ھیں کہ نہیں۔

اوہ تو بھائ کا ویٹ نہی ہورہا تھا اپنی شاپنگ کا ویٹ ہورہا تھا۔نو وے بھائ ائ جسٹ کڈینگ۔

اچھا جی۔۔

حنا بس بھی کرو چھوڑ دو بھائ کی جان۔۔

آسلام علیکم امی۔اس نے سر جھکا کر سلام کیا تھا۔۔

پری تو سب کے چہروں کی جانب دیکھ رہی تھی۔

وعلیکم اسلام بیٹا جیتے رہو۔۔

ارے بھائ سب سے ملتے رہیے گا۔۔۔سب پرانے ھی ھیں گھر والے۔

اپ ادھر ائیں ان سے ملیں یہ ھیں۔مس پریشہ دلاور شاہ۔۔۔

اپنے چاچو کی صاحبزادی اور رشتے میں ہماری کزن۔۔۔۔

غازیان اتنا تو جانتا تھا کہ چچا کی دوسری شادی ہوئ ھے۔پر ان کی بیٹی بھی ہوگئ یہ نیا انکشاف ہوا تھا۔

اور پریشہ اپی یہ ھے میرے ہینڈسم سویٹ ڈیشنگ پریسنیلٹی میرے اور سویرا بجو کے بڑے بھائ۔چوہدری غازیان شاہ۔۔

یعنی کہ اپ کے محروم تایا جان کے سپوت۔

اور پری کو حنا کے اتنے لمبے چوڑے تعارف پر خوب غصہ ایا تھا۔۔۔۔لیکن وہ کچھ بولی نا تھی۔

کیا ہوا دونوں اک دوسرے کو اتنی حیرانگی سے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔۔۔۔۔

ارے حنا میرا بھی انٹرو کرواو زرا۔حرا بھی پاس ائ تھی۔کیونکہ پری کو کب کہاں کس پر غصہ اجائے یہ وہ بھی نہیں جانتی تھی۔

اوہ ہاں حرا اپی اپکو کیسے میں بھول سکتی ہوں۔اور یہ ھیں۔

رکو رکو میں اپنا تعارف خود کرا دیتی ہوں کیونکہ وہ جانتی تھی حنا پورا لندن گھوما کے ھی وہ حرا کا انٹرو دے گی۔

ہائے ائ ایم حرا یورز کزنز پری از بیسٹس فرینڈ۔

نائس ٹو میٹ یو۔

یو ٹو۔

ہیں۔۔۔۔۔حنا منہ کھولے رہ گئ انٹرو ہوگیا۔جی ہوگیا منہ بند کرلو مکھی چلی جاے گی ورنہ حرا نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔

پتر ساری گلاں ایتھے ھی کھڑے کرو گے۔بیٹھک مہمانوں کے ساتھ بھری پڑی ھے۔

او پتر پریشہ میں تمہیں سب سے ملواتی ہوں۔

اور وہ اماں جی کے ساتھ چل دی تھی۔لیکن دماغ اچھا خاصہ چکرا کر رہ گیا تھا۔

سب پریشہ کو گلے سے لگا رہے تھے مل رہے تھے۔ہر کسی کی زبان پر ماشاءاللہ تھا۔

کیونکہ وہ تھی ھی اتنی پیاری کہ ہر انکھ دیکھتی رہ جائے۔اماں جی تو پری کی بلائیں اتار رہی تھیں۔کہ ان کی پوتی کو کسی کی بھی نظر نا لگے۔۔۔۔

اک بوڑھی عورت کی اواز سنائ دی تھی جسے سب چچی بول رہے تھے۔

ویسے شبانہ دی وی کی قسمت پہلے یتمی دا دکھ پھر شوہر دے پیار تو وی محروم رہی۔تے اللہ نے اولاد دا سکھ وی نا دیتا۔تے پھر بھی مجال ائا کہ اف بھی کر گئ ہو بچی۔نوکروں کے ہوتے ہوئے بھی نوکرانیوں کی طرح کام میں جٹی رہتی ھے۔بیچاری کا نصیب دیکھو۔اب شوہر کی پہلی بیوی سے اولاد کی صورت میں بیٹی مل گئ۔

پر جو بھی ہو چچی اپنی اولاد ہی اپنی ہوتی۔۔۔اور پری وہاں سے اٹھ کر باہر کی جانب ائ تھی۔

شبو حد ہوتی ہے لاغرضیکی بھی۔۔ابھی تک دسترخوان نہیں بچھائے گئے ٹائم دیکھو ذرا۔کھانے کا وقت ہورہا ھے۔

جی بھابھی بس دو منٹ میں دسترخوان لگ جائے گا۔اپ فکر مت کریں۔

کیسے فکر نا کروں بیٹی کی ماں ہوں سب دیکھنا پڑتا خیر تمہیں کیا پتا کہ ماں کی فکر کیا ہوتی۔

اور پری جو پانی پینے کی غرض سے کچن میں ائ تھی تائ جان کا رویہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا تھا اسے۔

ارے پریشہ بیٹا کچھ چاہیے۔

جی وہ پانی۔پری بس اتنا ھی کہہ پائ تھی۔

جلدی دستر خوان بچھاو۔میں بھیجتی ہوں( گڈی) کام والی کو کہ ہاتھ بٹادے تمہارا۔۔

ججی بھابھی۔اور وہ رعب دارانہ انداز میں وہاں سے چلی گئیں تھیں۔جیسے ان کی نظر میں سب انکے غلام ہوں۔

پری پانی پیتی ہونے مسلسل ان کی جانب دیکھ رہی تھی۔جہاں بلا کی معصومیت جھلک رہی تھی۔

پری کو خود کی جانب دیکھتے ہوئے وہ ٹھٹھکی تھیں۔

۔پریشہ بیٹا کچھ اور چاہیے۔۔

وہ بہت ھی پیار بھرے انداز میں بولیں تھیں۔

ججی نہیں۔۔

وہ لائیں میں اپکی ہیلپ کر دوں ارے نہیں بیٹا بس سب ہوگیا ھے۔

سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا پسند نہیں کرتے اسلیے لاونج میں دسترخوان بچھانا ھے وہ میں کرلوں گی۔۔

نہی اپ اکیلے کیسے کریں گی۔

لو بیٹا کون سا مشکل کام ھے۔کام والی بھی ساتھ مدد کروا رہی تھیں لیکن بیٹھک میں مہمانوں کو کسی چیز کی ضرورت نا ہو اسلیے سب وہاں ھے۔

اپ بھی جائیں سب کے ساتھ انجوائے کریں۔

لیکن وہ بھی پری تھی کب مانتی تھی کسی کی شبانہ کے نانا کہتے بھی دسترخوان بچھوا کر کھانا لگایا تھا ساتھ میں۔نا جانے کیوں اج اسے خود پر بہت غصہ ایا تھا جو اسنے اپنے بابا کا غصہ بھی ان پر اتارا تھا۔۔پری کو اپنے رویہ پر بہت شرمندگی ہوئ تھی۔جس کے لیے وہ اپنے رویے کی وجہ سے ان سے معافی مانگنے ھی والی تھی کہ سب لوگ ہال کی جانب ارہے تھے۔تو وہ چپ سی ہوگئ تھی۔

شکریہ پریشہ بیٹا شبانہ پری کا گال تھپتھپاتے ہوئے مہمانوں کی طرف بڑھی تھیں۔۔۔۔۔

مبارک ہو سویرا اپکو۔اللہ پاک بہت سیس خوشیاں دے اپکو۔

دو ہفتہ بعد کی تاریخ رکھی گئ تھی شادی کی سب گھر والوں کی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نا تھا۔

دلاور شاہ پر نظر پڑتے ھی پری اپنی نظریں جھکا گئ تھی۔چاہے جو بھی تھا ان کا نہیں تو گھر والوں کا ھی قصور سہی۔لیکن اک باپ بیٹی کے رشتے میں خلعش ضرور تھی۔

جسے دونوں اپس میں بات کرکے ھی دور کرسکتے تھے۔۔۔

وہ پری کے گلے میں پہنی اس تتلی تما پینڈنٹ کو دیکھ کر مسکرا دئیے تھے۔۔جو انہوں نے رباب کو تحفے میں دیا تھا۔۔

وہچلتے ہوے پری کے پاس ائے تھے۔۔

پری بیٹا اپ یہاں اکیلے کیوں کھڑے ہو۔۔۔

قسمت میں اگر اکیلے جینا لکھا ھے تو لاکھوں افراد کے ہجوم میں بھی انسان اکیلا ھی رہتا ھے۔۔۔

اجنبیت جھلک رہی تھی پری کے رویہ سے۔جو انہیں اندر تک ہلا کر رکھ گئ تھی۔۔۔۔۔۔

ولی شاہ بھی دور کھڑے باپ بیٹی کے رویہ کو دیکھ کر وہاں سے چلے گئے تھے کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی عدالت میں سب سے زیادہ سزا کے حقدار تھے۔۔۔۔

اپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ھے۔مجھے اکیلے معاشرے میں جینا اتا ھے۔اور پری کمرے کی جانب بڑھی تھی۔اپنے انسو پونچھتے ہوئے وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے باپ کے لیے دل میں ائ خلعش کو دور نا کر پا رہی تھی۔یہ جانتے بوجھتے بھی کہ وہ مجبور تھے۔لیکن کیا اتنے ھی بے بس تھے وہ۔۔۔۔

اوہ میڈیم ہوش سے سامنے تودیکھا کریں۔وہ پھر سے اس سے ٹکراتے ہوئے بچی تھی۔غازیان نے اک نظر پری کہ چہرے کی جانب دیکھا تھا جہاں انسو آنکھوں سے بہہ کر گال پر گر رہے تھے۔۔۔

اوہ اپ ٹھیک تو ہو رو کیوں رہی ہو۔۔

ائ ایم اوکے۔۔وہ کہ کر سیڑھیاں چڑھ گئ تھی۔

اس کو کیا ہوا میں نے ایسا کیا بول دیا جو یہ رو دی غازیان خود سے ہمکلام ہوا۔۔۔

اوہ مائ گاڈ اتنی کالز پری نے موبائل پکڑا تھا علی کی اتنی کالز دیکھ کر سٹپٹا کر رہ گئ تھی۔۔۔۔۔

یااللہ سب ٹھیک ہو فکری کے عالم میں پری نے بیک کال کی تھی علی کو۔

ہیلو کہاں تھی کال کیوں ریسیو نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔

اور اک ھی بار میں وہ اتنے سوال کر گیا تھا۔۔

علی سوری فون کمرے میں تھا۔سب ٹھیک تو ھے نا۔

ھائے کچھ بھی ٹھیک نہیں ھے۔

کیوں کیا ہو ھے علی۔۔۔گھبرائ تھی۔۔۔

جب سے پریشہ جی کو پری کے روپ میں نہیں نہیں پنک پری کے روپ میں دیکھا ھے۔دل اچھل کر باہر ھی اگیا ھے۔

اگ ہو علی حد ہوتی ھے میں تو ڈر ھی گئ تھی کہ نا کانے کیا بات ہوگئ۔

تو کیا یہ چھوٹی بات ھے پری جی کی نظر میں اک بندہ ہلاک ہونے والا ھے۔اور پری علی کی بات پر شرما سی گئ تھی۔

لیکن خود کو سنبھالتے ہوئےاور علی کی فیلنگز سے انجان بنتے ہوئے وہ علی کو اور تپانے کی موڈ میں تھی۔

ہلاک کا تو پتا نہیں لیکن تمہاری ڈرامہ بازیاں دیکھتے ہوے میں بلاک کرنے کے بارے میں ضرور سوچ سکتی ہوں۔

ارے نہیں یہ غضب مت کرنا پری ورنہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔

ہاں کبھی چھوڑنا بھی مت ورنہ میں تمہاری جان خود اپنے ہاتھوں سے لے لوں گی یہ کہتے ھی پری نے فون بند کردیا تھا۔

علی بھی پری کی بات سن کر حیران ہوا تھا۔۔۔۔۔لیکن کہی نا کہی کچھ سکون بھی ہوا تھا یہ سن کر اسے۔۔۔

پری کو اک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا تھا۔لیکن وہ اک دم سہم بھی گئ تھی۔کہ کہیں ماضی کی رباب کہ ساتھ جو سب ہوا اسکے ساتھ بھی ویسا نا ہو۔۔۔۔اور اسکا دل دہل کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔

اج صبح سے ھی بادل چھائے ہوئے تھے۔حرا اور حنا نے گھومنے کا پلین بنایا تھا۔لیکن بڑا مسئلہ گھر والوں سے اجازت لینے کا تھا۔اور یہ حنا کہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔

سویرا بیٹا ڈیرے پر جانے کی کیا ضرورت ھے تم اچھے سے جانتی ہو نا کہ بچی کہ دن رکھ دیئے جائیں تو وہ گھر سے باہر تک نہیں نکلتی اور یہ کیسی ضد ہوئ بھلا۔۔

اوہو امی جی یہ سب پرانی باتیں ھیں اور ہم سب ڈرائیور کے ساتھ جائیں گی اور تھوڑی دیر گھوم پھر کر اجائیں گی حنا بھی ضدی تھی کہاں مانتی تھی کسی کی بھی بات۔

پتر جا لینے دو بچیوں کو گھر بیٹھے بیٹھے بھی تنگ ائا گئ ہونی۔۔۔

غلامو ارے او غلامو۔۔۔۔۔۔۔اماں جی نے بابلند اواز میں پکارا تھا۔۔

جی چوہدرائن۔۔حکم کیجیے۔وہ انکا خاندانی نوکر تھا جو باپ دادا سے جدی پشتی غلام تھے اس خاندان کے۔۔۔

بچیاں ضد کر رہی ھیں ڈیرے جانے کی۔

خیال رہے کہ کوئ بھی غیر مرد وہاں پر موجود نا ہو۔

جی بی بی جی اور پچیوں کو اپنی نگرانی میں گاوں گھما لاو جی بی بی جی جو حکم۔۔

جاو بچیو تیار ہو جاو جا کہ گھوم او لیکن شام ہونے سے پہلے چوہدری صاحب کے حویلی انے سے پہلے واپس اجانا دیر مت کرنا۔

اماں جی یو ار گریٹ حنا چہچہاتے ہوئے ان کے تخت پر سے بٹوہ اٹھا کر بھاگی تھی۔واپسی پر واپس کر دوں گی اماں جی اور وہ سر پکڑ کر رہ گئیں تھین۔۔۔ہائے مرے خدا اسے ہدایت دے۔۔

وہ چاروں باغ میں پہنچی تھیں۔بیبی جی کسی بھی چیز کی ضرورت ہو آواز دے دیجیے گا۔

میں یہی ہوں۔

ٹھیک ھے غلامو چچا۔۔۔فکر نہیں کریں۔۔

نا نے بارعب اواز میں کہا تھا۔مطلب فکر کرنا لازم تھا اب کیونہ اس کی حرکتیں ھی ویسی تھیں۔۔۔۔۔۔

ہر الٹا کام کرے گی ھی کرے گی۔۔نا نا کرتے بھی۔۔۔۔۔

وہ سب موسم سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔باغ میں کینوں کے درخت تھے ہر قسم کےپھل لگے ہوئے تھے اور وہ دونوں یہ پہلی بار دیکھ رہی تھیں کہ پھل درختوں سے لگے کتنے پیارے لگ رہیے تھے۔۔۔۔۔۔

تب ھی باغ کے اک طرف اصطبل بنا ہوا دکھا تھا پری کو۔حنا وہ کیا ھے۔

ارے پریشہ اپا غازیان بھائ کے شوق ھیں۔ائیں میں دکھاتی ہوں اپکو انکے گھوڑے۔بھائ کو گھڑ سواری کا بہت شوق ھے۔اور یہ وائٹی مطلب سفید گھوڑا بھائ کا فیورٹ گھوڑا ھے اور جہ بھائ کی ھی بات مانتا ھے صرف۔۔

ارے حنا بات سنو میری اور سویرا کی پک بنانا جی ائی حرا اپی۔۔

اور وہ گھوڑوں کو دکھ کر باہر نکلی ھی تھی کہ سفید گھوڑے کو غڑاتے ہوئے اپنے پیچھے دیکھ کر وہ چلائ تھی۔اور وہاں سے بھاگی تھی۔باقی تینوں بھی گھوڑے کو دیکھ کر ڈری تھیں۔حنا کسی ملازم کو اوازیں دیتی ہوئ بھاگی تھی۔کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ غازیان بھائ کا اڑیل گھھوڑا ھے اور انکی ھی بات مانتا ھے۔

پری اندھا وار بھاگ رہی تھی کہ وہ اسے گھوڑے سے بچ سکے۔

بھاگتے ہوئے وہ سامنے بھاری بھرکم وجود سے ٹکرائی تھی مجھے بچاو وہ گھوڑا میرے پیچھے ھے وہ بچوں کی طرح انکھیں موندیں بولی تھی۔کہ وہ اس بات سے بلکل انجان تھی کہ وہ کس وجود سے لپٹی ھے۔

کچھ نہیں ہوگا۔ریلیکس جانی پہچانی اواز سن کے جیسے ری ہوش میں ائ ہو سامنے وہی شخص موجود تھا۔پری سر تھام کر رہ گئ تھی۔اور اک ہاتھ میں اس کے گھوڑے کی غلام تھی۔

پری کے بلکل پیچھے گھوڑا دیکھ کر وہ چلائ تھی۔لیکن وہ گھوڑا غازیان کے پیروں سے لپٹ رہا تھا۔میں نے کہا نا کہ کچھ نہیں کہہے گا اپکو۔ویسے بھی گھوڑے گھاس کھاتے ھیں انسان نہیں اور پری غازیان کو گھورتی ہوئ وہاں سے ہٹی تھی۔وہ تینوں بھی غلامو کے ساتھ وہاں ائیں تھیں۔پری تم ٹھیک ہو نا وہ پری کی طرف بڑھی تھیں۔

اوہ غازیان بھائ شکر ھے اپ اگئے ورنہ اپکا گھوڑا ہماری پیاری پریشہ کے پیچھے پڑگیا تھآ۔۔

اور وہ حنا کی بات پر ہنسی تھیں لیکن پری کو خود کی بیوقوفی پر غصہ ارہا تھا۔

تم۔سب ہہاں کیا کر رہی ہو۔وہ بھائی ہم تو موسم انجوائے کرنے ائے تھے۔

ہوں موسم انجوائے تو گھر جاکر نکلے گا تم لوگوں کا چلو واپس گھر۔کیا بھائ بارش ہورہی ھے تھوڑی اور تیز ہوجانے دیں کچھ اور دیر پلیز۔۔

نہیں بولا مطلب نہیں۔اور غازیان نے اک نگاہ پری کی جانب دیکھا تھا۔جو اب بھی ڈری سہمی کھڑی تھی۔

اچھا ٹھیک ھے اگر کچھ اور دیر رکنا ھے کیوں نا گھڑسواری ہوجائے پھر۔

ننن نہیں مجھے ابھی گھر جانا ھے اسی وقت۔پری سہم کے بولی تھی۔جس پر وہ مسکرا دیا تھا۔باقی سب بھی پری کی کیفیت دیکھ کر ہنس دئیے تھے۔۔۔۔۔

پری نے گھورکر اک نظر حرااور غازیان کی جانب دیکھا تھا۔

جہاں غازیان کی شکل پر صاف لکھا تھا کہ وہ جان بوجھ کر پری کو ستا رہا ھے۔۔۔۔۔۔

واپسی میں گاڑی تک اتے آتے سب تقریباً بارش میں بھیگتے بھیگتے بچے تھے۔

اف کتنا مزے کا موسم ھے یار حنا چہچہائ تھی۔فرنٹ سیٹ پر بیٹھے بھی اسے سکون کہاں تھا۔

پیچھے گردن کیے اچھل اچھل بچپن کے قصے بیان کر رہی تھی۔اور کوئ تھا جو بیک مرر سے اس لڑکی کو اک نظر دیکھ لیتا۔جو سب سے بیگانہ شیشے سے باہر نا جانے کس کو کھوجتی نگاہوں سے تلاش کررہی تھی۔

گاڑی کی بریک لگتے ھی پری جیسے ہوش میں ائ ہو۔۔

ھم اتنی جلدی پہنچ گئے بھائ۔

نہیں تو تم لندن سے ٹریول کررہی تھی جو صبح پہنچتی۔حرا نے حنا کو جواب دیا تھا۔جس پر پری بھی مسکرا دی تھی۔اور غازیان نے اک جھلک پری کی جانب دیکھا تھا۔جہںاں اس کے دل نے اک بیٹ مس کی تھی۔تو یہ مغرور ہنستی بھی ھے۔اسنے دل میں سوچا تھا۔

وہ گھر میں داخل ہوئے ھی تھے کہ اک واویلا سا اٹھا ہوا تھا کہ بڑی پھوپھو کراچی سے ارہی ھیں اپنے بچوں سمیت سویرا کی شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کیلئے۔

اماں جی کیا گھر کے تمام افراد ان کے استقبال کے لیئے تیاریوں میں مصروف تھے۔

لو جی ائا ہن نوا رپڑھ کھل گیا۔۔

آرہی ھے فسادن پھوپھی ود اپنی تین نک چڑھی بیٹیوں اور اکلوتے سرکاری افسر صاحبزادے کے ساتھ۔اور ہاں اک عدد بیچارے ماڑے پھوپھا جی بھی۔مجھے تو یاد ھی نا تھا کہ وہ بھی زندہ ھیں ۔حنا نے ہمیشہ کی طرح اپنی فلاسفی جھاڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

تم تو چپ کر جایا کرو حنا۔سویرا نے ڈانٹا تھا حنا کو۔۔۔

ارے بجو پریشہ اپا کو بتا رہی ہوں بلکہ وارن کر رہی ہوں کہ بچ کر رہیے گا ان چڑیلوں سے۔

چڑیلیں۔۔۔کیا پری نے حیرانگی سے کہا تھا۔

ارے یار پریشہ تمہیں پتا تو ہے اس پاگل کا ایسے ھی اپنی دھن میں راگ الاپتہ رہتی ھے۔سویرا نے بات سنبھالی تھی۔

اوہ ٹھیک۔

ارے بچو کیا ہوگیا ھے پورے بھیگے ہوئے ہو چلو جلدی سے فریش ہوکر ائو۔میں کھانا لگاتی ہوں۔شبانہ انٹی نے نہایت پیار بھرے انداز میں کہا تھا۔یس انٹی بہت بھوک لگی ھے۔حرا نے کہا تھا۔

اسلیے بول رہی ہو بچو جلدی فریش ہوکر او۔۔۔

جی وہ کہتے روم کی طرف بڑھی تھیں۔

ارے غازیان بیٹا کہاں رہ گئے تھے۔جی چچی جان وہ اک ضروری کال اگئ تھی۔۔۔

خیریت تھی۔

ہاں بیٹا سلمئ اپا کل ارہی ھیں۔تو ان کا کافی اسرار ھے کہ تم انہیں ائیرپورٹ پر ریسیو کرنے جاو شہر سے۔

لیکن میں ڈرائیور بجھوادوں گا۔

بیٹا تم۔تو جانتے ہو سلمی اپا کو انکی ضد کو اور ابا جی نے بھی انہیں ہامی بھری ھے کہ تم ہی ریسیو کرو گے انہیں۔

جی ٹھیک چچی جان میں چلا جاؤں گا لینے۔۔۔

خوش رہو بیٹا اب شاباش جلدی سے کپڑے تبدیل کرکے نیچے او میں تب تک کھانا لگاتی ہوں۔۔۔

پری یہ باکس اٹھائے کہاں جارہی ہو نیچے سب انتیظار کررہے ہونے کھانے پر۔۔

تم چلو یار میں اک ضروری کام سر انجام دے اوں۔بس اتی ہوں۔اوکے بی بیسٹ اف لک۔

تھینکس۔

اف تمہیں کیا سامنے چلتا اتا انسان دکھائ نہیں دیتا میڈم۔غازیان کو سامنے اتا نہیں دیکھ پائ تھی وہ۔پری سٹپٹا ہر رہ گئ تھی۔

اپکو فکھائ دیتا ھے نا مسٹر تو اتنی جگہ ھے سائیڈ سے گزر جاتے۔واٹ اٹس پائ روٹ اف وے غازیان تپتپا گیا تھا پری کی بات سن کر۔۔۔

الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔۔۔اٹس پرفیکٹ سنٹینس فار یو مس نک چڑھی۔

واٹ واٹ ربیش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غازیان کو بھی پریشہ کو ستانے میں ناجانے کیوں مزہ ارہا تھا۔ورنہ اس سے سنجیدہ مزاج انسان اس گھر میں کوئ اور نا تھا۔

جسٹ گو ٹو ہیل ہٹئے سامنے سے پری غصہ سے بولی تھی۔۔

نہیں ہٹا تو۔۔۔۔۔۔

تو میں ہٹ جاتی ہوں۔۔

پری غصے سے سائیڈ سے گزر گئی تھی۔

اور غازیان اپنی ھی حرکت پر مسکرا دیا تھا۔

دروازے کی دستک پر وہ چونکے تھے۔۔اجاو۔۔۔۔

انہوں نے مڑ کر دیکھا تھا جہاں پری کو کھڑا دیکھ وہ مسکرائے تھی۔پریشہ بیٹا اپ ادھر کیوں کھڑے ہو ادھر ائیں میرے پاس۔۔

پریشہ کی نظر ان کے ہاتھ کی جانب گئ تھی جس میں انہوں نے ویسی ھی پائل پکڑی تھی۔جیسی اک اسکی ماں کے پاس تھی۔۔۔

مجھے اپ کو کچھ دینا تھا۔۔۔

میں کچھ سمجھا نہیں وہ چلتے ہوئے پری کے پاس ائے تھے۔میری ماں مرتے ہوئے اپنی ذندگی کی کچھ حسین اور تلخ یادیں مجھے سونپ گئی تھیں۔لیکن مجھے لگتا ھے کہ وہ یادیں اگر میرے پاس رہی تو میں اگے بڑھ نہیں پاوں گی کیونکہ اپنی ماں جتنا ظرف میں نہیں رکھتی۔اسلیئے اس کی یہ امنت اپکے سپرد کرنے ائ ہوں۔

فکر مت کیجیے گا

مجھے اپ سے اب کو گلہ کوئ شکوہ نہی رہا قسمت کا لکھا تھا جو میری ماں اور اسکی اولاد کو ملا۔۔

اگر اپ بیٹے کے فرض کو نبھاتے بےبس اور مجبور ہوگئے تھے۔تو میری ماں کی بھی مرتے وقت اک وصیت تھی کہ اپنے بابا کیلیے کبھی بدگمانی مت پیدا کرنا وہ برے انسان نا تھے۔انہیں معاف کردینا۔اور اج میں اپنی ماں کا کہا پورا کر رہی ہوں۔مجھے کوئ بھی شکوہ نہی اپسے۔پری کی انکھوں میں انسو جھلک رہے تھے۔دلاور شاہ کا بھی ویسا ھی حال تھا۔۔۔

میں اک دو دن میں واپس لندن جارہی ہوں۔

نہیں پریشہ بیٹا میں مر جاوں گا اپنی بیٹی کے بغیر کبھی نہیں سوچنا مجھ سے دور جانے گا۔

بیس سال میں اپنی بیوی بچوں جی جدائی میں گھٹ گھٹ مڑا ہوں۔اور اج میری بیٹی میرے پاس ھے۔اور میں پھر بھی کتنا دور ہوں کتنا لاچار باپ ھے تمہارا۔

نہیں کوئ بھی کسی کے بنا کہاں مڑتا ھے۔اپ خود کو کسی بھی بوجھ تلے مت رکھیے گا۔مجھے اپ سے کوئ گلہ نہیں ھے۔۔

پلیز مجھ پر ایک احسان کردیں گے کے مجھے اپ میت روکیے گا پلیز۔اور وہ بکس جو اسکی ماں اسے دے کر گئ تھی۔وہ پری دلاور شاہ کے سپرد کرکے کمرے سے نکلی تھی۔۔

اور دلاور شاہ مفلوج شخص کی طرح غڑائے تھے۔بے بسی کی کیفیت میں خود کو کوس رہے تھے۔ جیسے کیجہ منہ کو اگیا ہو انکا ںیٹی کی جدائی اور بے رخی سے۔

ٹھیک کہتے ھیں سب اولاد کی بے رخی انسان کو ناڑ ڈالتی ھے۔

پری کمرے میں واپس ائ تھی۔تن سے دل جدا نہیں ہوسکتا۔اور باپ بیٹی کا تو رشتہ ھی بہت معتبر ہوتا۔

اگر باپ تڑپ رہا تھا تو بیٹی کی بھی وہ ھی حالت تھی۔۔

ائ ائم سوری مما چطاہ کر بھی دل سے ان کے لیے نفرت نہیں جاپائ۔اگر میں یہاں رہتی تو اور ٹوٹ جاتی اسلیے مجھے یہاں سے دور جانا ھے مما سوری اپکی پری کا دل اپ جتنا بڑا نہیں ھے۔۔وہ خود سے ہمکلام ہوئ تھی۔۔۔

دروازے پر دستک ہوئ تو وہ انسو پونچھتے اٹھی تھی۔۔

پریشہ بیٹا سب نیچے اپکا انتیظار کر رہیں ھیں کھانے پر۔۔

اور شبانہ انٹی کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔

یہ اتنا اندھیرا کیوں ھے۔انہوں نے لائٹس ان کی تھی۔

پریشہ اپ رورہی تھی۔وہ فکرمندانہ انداز میں پری کے پاس ائیں تھیں۔نن نہی تو۔۔

بیٹا ماں سے بھی جھوٹ۔تو میں بتادوں اپ چھپا نہی سکتی اک ماں سے کچھ بھی۔

اور پری نے شبانہ انٹی کی جطانب دیکھا تھا۔ان سب میں انکا کیا قصور تھا جو پری نے انہیں اتنا برا بھلا سنایا تھا۔۔

کیا بات ھے بیٹا ۔۔۔۔

جی کچھ نہیں۔

میں جانتی ہوں بیٹا کہ بہت گلے ھیں اپکو مجھ سمیت باقی سب سے بھی۔لیکن بیٹا خدا گواہ ھے کہ میں نے کبھی رباب اور دلاور کی محبت میں خود کو آنے نہیں دیا۔

میرے بس میں ہوتا تو میں دلاور کو رباب سے کبھی الگ نا کرتی۔پر بڑوں کے فیصلوں نے سب تباہ کردیا۔

میں دلاور کی بیوی تو بن گئ پریشہ پر کبھی نا بہوی کا حق جتایا اور نا کبھی دلاور نے مجھے بیوی کے روپ میں اپنایا۔۔۔۔اور نا مجھ میں ھی کبھی ہمت ائ جو اپنے حصے کی محبت مانگ سکوں۔۔۔

محبت تو میں نے بھی دلاور سے کی تھی پر دلاور کے دل میں اج بھی رباب کی بستی ھے۔اور مجھے ان سے کبھی کوئ گلہ رہا نہیں۔اولاد کی محرومی نے مجھے ماڑ ڈالا ھے کہی نا کہی۔پر جب تم اس گھر میں ائ تو خدا کے حضور سجدے میں گر گئ کہ اس نے اک پھول میرے دلسور کی نشانی میری جھولی میں ڈال دی ھے۔اور پری حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔پری ان کے قدموں میں بیٹھے فوفی میں سر رکھے معافی مانگ رہی تھی۔ائ ائم سوری انٹی میں نے اپ کےساتھ بہت برا بی ہیو کیا ھے مجھے معاف کردیں پلیز۔

نہیں بیٹا پری اپ تو میری بیٹی ہو میری پیاری بیٹی۔بس اک بار میری ممتا کی تڈکین کےلیے ماں کہہ کر پکارو نا۔

مما۔۔پری نے کانپتی آواز میں کہا تھا۔پھر سے بولو پری۔ماںمما

اور انہیوں نے پری کو گلے سے لگایا تھا۔جو بھی ہو ماں کا رتبہ سب سے بلند ہوتا اور اج اسے اک ماں مل گئ تھی۔بلکل اپنی سگی ماں جیسی۔۔۔اور وہ پری کا ماتھا چوم رہی تھیں۔۔

پری اٹھی اور بیڈ کے دراز سے لال چوڑیاں نکال کر لائ تھی یہ چوڑیاں۔۔۔۔شبانہ چونکی تھی۔

یہ وہی چوڑیاں تھیں جو اپ نے میری ماں کو پہنائ تھیں۔اور اج میں یہ چوڑیاں اپکو پہناوں گی۔کیونکہ اب اس کج حقدار اپ ھیں۔اور پری نے وہ خوڑیاں شبانہ کو پہنائ تھیں۔۔

اج گھر کے سب افراد ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے سوائے دلاور شاہ کے۔۔۔

یہ دلاور پتر نہیں آیا ابھی تک کھانا کھانے۔چوہدری ولی شاہ کی آواز سنائ دیتھی۔

جی چوہدری صاحب غلامو کو بھیجا ھے دلاور کو بلانے کیلیے۔

اور غازیان پتر کاروبار کیسا جارہا ھے تیرا۔جی دادا جی بہت اچھا جا رہا ھے۔۔سب بہت اچھے سے چل رہا ھے دعا ھے اپکی۔

 پری نے ترچھی نگاہ سے غازیان کو دیکھا تھا۔غازیان کی نظر بھی پری کی جانب بڑھی تو دونوں نظریں جھکا گئے تھے۔

بڑے صاحب بڑے صاحب۔غلامو بھاگتا ہوا ائا تھا۔

کیا ہوا ھے غلامو۔۔

وہ بڑے صاحب چھوٹے صاحب ہوش میں نہیں ارہے میں نے انہیں کتنا جگایا وہ اٹھ نہیں رہے۔

اے میرے خدا۔اور سب کمرے کی جانب بھاگے۔۔۔

پری کے پیروں تلے تو جیسے زمین ھی نکل گئ ہو وہ اندھا دھند کمرے کی جانب لپکی تھی۔۔۔۔

جہاں حرا ان کی نبض چیک کر رہی تھی۔۔۔

حرا بابا وہ روتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔بابا اٹھیں بابا۔

پری نبض بہت اہستہ چل رہی ھیں۔ہمیں انہیں ارجنٹ ہسپتال لے کے جانا ہوگا۔لیکن ہوا کی میرے پتر نوں ہوش کیوں نہیں کررہیا۔۔

اپ باہر رکیے۔ڈاکٹر چیک کرتے ہیں پیشنٹ کو پلیز۔۔۔

اور ائ سی یو کے باہر پری کی تڑپ شبانہ سمیت کسی سے بھی دیکھی ناجارہی تھی۔

غازیان سے بھی پری کی حالت دیکھی ناجارہی تھی۔

حرا مما بھی ایمرجنسی وارڈ میں تھیں۔مما بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئیں تھیں۔حرا بابا میرے بابا ان کا پیار تو میں ابھی دیکھا ھی نہیں ھے حرا۔اور وہ بچوں کی طرح بلک رہی تھی۔

ڈاکٹر چاچو کی طبیعت۔ڈاکٹر میرے بابا کیسے ھیں پری بھاگتی ہوئ ڈاکٹر پاس ائ تھی۔

بہت زیادہ سٹریس کی وجہ سے ان کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ھے۔اگلے چوبیس گھنٹے انکے لیے بہت کریٹیکل ھیں۔اگر انہیں ہوش نا آیا تو وہ قومہ میں جاسکتے ھیں۔دعا کیجیے۔۔

نہیں نہی میرے بابا کوکچھ نہیں ہوسکتا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔سنبھالو خود کو پریشہ غازیان کے لیے پری کو سنبھالنا مشکل ہورہا تھا۔اور وہ روتی بلکتی غازیان سے جالگی تھی۔۔۔۔

پریشہ سنبھالیں خود کو چاچو بلکل ٹھیک ہوجائیں گے۔

اور وہ سنبھلی تھی۔جھوٹے دلاسے مت دین۔علی بھی کہتا تھا مما ٹھیک ہوجائیں گی لیکن وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں۔اور اب اپ کہہ رہے ہو بابا ٹھیک ہو جائیں گے۔

نہیں میں کچھ نہی ہونے دوں گی اپنے بابا کو کچھ بھی نہی۔

مجھے بابا سے ملنا ھے۔پلیز مس پریشہ ان کی سٹیویشن ایسی نہی کہ اپ ان سے مل سکیں۔پلیز مسٹر غازیان سمجھائیں انہیں۔

ڈاکٹر میں خود ایک ڈاکٹر ہوں مجھے مت سمجھائیں کیا سہی ھے اور کیا غلط وہ غصے سے کہتی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔

وہ دلاور شاہ کے پاس ائ تھی۔ان کا ہاتھ تھامے انہیں چوم۔رہی تھی۔۔۔۔

بابا میں تو تھوڑا ناراض تھی۔اپسے اور اپ اتنا ناراض ہوگئے اپنی پری سے۔۔۔دیکھیں نا میں ناراض نہیں ہوں آپسے۔اٹھ جائیں نا۔اپکی پری اپ کے پاس ھے۔اپکو اکیلا چھوڑ کر کہی نہی جائے گی پلیز آٹھ جائیں نا۔اور انسو اس کی آنکھوں سے روا تھے۔۔۔

غازیان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔

ہمت سے کام لو۔۔

دیکھیں بابا اٹھ جائیں ورنہ میں بہت جھگڑا کروں گی۔اور پھر بات بھی نہی کروں گی ائ سمجھ اپکو۔۔۔۔وہ بچوں کی طرح منارہی تھی اپنے بابا کو۔انسو اس کے رخسار سے بہتے دلاور کے ہاتھوں میں جذب ہورہے تھے۔

تب ھی ہاتھوں میں کچھ حرکت سی محسوس ہوئی تھی غازیان کو۔پریشہ چاچو ہاتھ ہلا رہے ۔یں ڈاکٹر جو بلاتا ہوں وہ کمرے سے باہر گیا تھا بابا اور پری نے دونوں ہاتھوں سے ان کا ہاتھ تھاما تھا۔ائ ائم سوری بابا بس اپ ٹھیک ہوجائیں نا پلیز میں کبھی اپکو ہڑٹ نہی کروں گی۔

مس پلیز روم سے باہر جائیے ہمیں پیشنٹ کو چیک کرنا ھے۔پلیز کوپریٹ۔۔۔۔

اور غازیان اسے پکڑ کر باہر لایا تھا۔

منہ میں مسلسل وہ قرانی آیات کا ورد کررہی تھی۔

چاہے جو بھی تھا۔وہ اپنی ماں کو تو کھو چکی جو اسکی کل کائنات تھی۔پر وہ اپنے باپ کو نہیں کھونا چاہتی تھی۔چاہے کتنی بھی خودسر ہوجائے لیکن باپ کیلئے خود کی محبت کو وہ روک نا پائ تھی۔۔۔۔

دور کھڑے فکربھرے انداز میں ولی شاہ کوادھر سے ادھر ٹہلتا دیکھ کر وہ ان کے پاس ائ تھی۔۔۔

مبارک ہو ولی شاہ صاحب۔۔۔۔۔اپ کی انا کے زیر سائے بہت سی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔اور قصوروار تو اپ ھی ھیں۔میری ماں اور اپنے بیٹے کی خوشیوں کے قاتل ہو اپ۔جس کیلئے کبھی سوچا اپ نے کہ جھوٹی انا تو زندہ رہ گئ لیکن کتنے لوگوں کی زندگیا تباہ کی اپنے کتنے لوگوں کی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیا اپ نے۔۔اج میرے بابا اپکی عنایت کی ہوئ بیڑیوں والی زندگی کے زیر اثر ذندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ھیں۔۔

لیکن اگر اج میرے بابا کو کچھ بھی ہوا نا تو میں اپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔۔

اور بہتر جانتے ہو اپ کے میری رگوں میں بھی اسی خاندان کا خون دوڑ رہا ھے۔اور اگر میری انا جاگ گئ تو اپ کی جھوٹی شان وشوکت کے تختے اڈھیر کر رکھ دوں گی یہ وعدہ ھے پریشہ دلاور شاہ کا اپسے۔۔۔۔

اور ولی شاہ کو پہلی بار کسی کی انکھوں میں خوف محسوس ہوا تھا پر وہ کچھ کہہ نا پائے تھے۔۔

پری یہ کہتے وہاں سے چلی گئ تھی۔لیکن غازیان کو شدید دھچکا لگا تھا کہ پری کے دل میں رشتوں کیلئے نفرت دیکھ کر۔لیکن عہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔۔۔

ڈاکٹر کیسے ھیں چاچو سب ٹھیک تو ھے نا۔ڈاکٹر کو روم سے نکلتا دیکھ پری ان کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔

جی ڈونٹ وری وہ خطرے سے باہر ھیں۔۔۔

لیکن ابھی وہ ہوش میں نہیں ائے۔کچھ دیر میں انہیں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا پھر اپ ان سے مل سکتے ھیں۔

جسٹ ایکسکیوزمی۔۔۔

یااللہ تیرا شکر ھے اور پری کی انکھوں میں انسو روا تھے۔۔

ارے ارے اب تو ڈاکٹرز نے بھی کہہ دیا چاچو خطرے سے باہر ھیں۔اب سنبھالیں اپ خود کو وہ جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔

کیسا ھے دلاور غازیان پتر۔۔

جی وہ ڈاکٹر نے کہا ھے کہ چاچو خطرے سے باہر ھیں۔داداجان اپ فکر نا کریں۔اور کن اکھیوں سے پریشہ نے ولی شاہ کے چہرے کو دیکھا تھا۔اور گردن موڑ لی تھی۔ولی شاہ بھی دیکھ کر پلٹ گئے تھے۔۔

دادا جان اپ بے فکر ہوکر گھر جائیں۔پریشہ اپ بھی گھر چلی جائیں میں ہوں چاچو کے پاس۔

نہیں مجھے کہیں نہیں جانا۔اپ چاہیں تو سب جاسکتے ھیں۔اور غازیان کو پری کے رویہ پر بہت غصہ ایا تھا لیکن وہ ضبط کر گیا تھا۔کہ وہ کس صدمے سے دوچار ھے۔۔۔۔

وہ باقی سب کو گھر بھیج کر اندر ایا تھا تو اسے روم کے پاس چیئر پر بے سود بیٹھے پایا تھا۔دیوار سے سر ٹکائے انکھیں موندیں دنیا سے بیگانی نا جانے کن سوچوں کے پہاڑ میں ڈوبی ہوئ تھی۔۔

غازیان ہسپتال کی کینٹین کی جانب بڑھا تھا اور واپسی پر اس کے ہاتھ میں کافی کے دو کپ تھے۔۔۔

پریشہ۔۔۔۔

اور پری نے انکھیں کھولی تھیں۔۔

Cofeee۔۔۔

پری نے سیدھے ہوکر غازیان کے ہاتھ سے کپ پکڑا تھا۔۔۔۔۔

غازیان بھی پاس پڑی چئیر پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔

ار یو اوکے پریشہ۔۔

ہوں میں ٹھیک ہوں۔۔

اور غازیان کو وہ بھولی سی صورت بہت پیاری لگی تھی۔چہرے پر انسووں کے نشان کسی بچے کی طرح واضح نظر ارہے تھے۔۔۔۔

میں نے تو سنا تھا ڈاکٹر بہت بہادر ہوتے ہیں۔اور کافی حد تک سینے میں دل نا رکھنے والے۔بے حس ٹائپ۔۔

اور پریشہ نے اک نظر غازیان کی جانب دیکھا تھا۔

اک طنزیہ مسکراہٹ سجائے پری کے لب ہلے تھے۔۔

ہوں نا بہت سنگدل ہوں میں۔اپنی ماں کو کھویا ھے پھر بھی جی رہی ہوں۔لیکن باپ کو اگر کھو دیتی تو شاید کبھی کھڑی نا ہوپاتی۔۔تو ہوئ نا بہت بے حس۔

بہت بہادر ہوں۔بس حقیقی رشتوں کے سامنے بہت کمزور ہوں۔لیکن کوئ شکن چہرے پر عیاں نہیں کرتی۔

کیونکہ میں کبھی خود کو کمزور کرنا نہی چاہتی۔۔

اور غازیان نے پریشہ کی جانب دیکھا تھا۔جہاں کوئ تاثرات کے نشاں نا تھا۔صرف سنجیدگی اور گہرا دکھ چھپا ہوا تھا۔۔

سر پیشنٹ کوروم میں شفٹ کر دیا ھے اپ ان سے مل سکتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا سچ اور پری روم کی جانب گئ تھی۔غازیان نے بھی دل میں شکر ادا کیا تھا۔۔اور جیب سے فون نکال کر گھر کال ملائ تھی۔۔۔۔۔

بابا اور پری ان کے پاس گئ تھی۔۔انہوں نے پری کی آواز پر انکھیں کھولی تھیں۔

ائ ائیم سوری بابا۔۔پلیز مجھے معاف کر دیں۔اپکی بیٹی اچھی بیٹی نہی بن پائ۔۔۔

اور انہوں نے نفی مہں سر ہلایا تھا۔نہیں بیٹا اپ تو میری پیاری بیٹی ہو۔اور پری ان کے سینے سے لپٹ گئ تھی جیسے کوئ چھوٹا بچہ ہو۔۔۔

نہیں بیٹا نہی رونا نہیں ھے اب اپ اپنے بابا کو چھوڑ کر جانے کی بات مت کرنا۔وہ کانپتی اواز میں بولے تھے۔۔۔

نہن نہی بابا۔۔میں اپکو چھوڑ کر کہیں نہی جاوں گی پری نے ان کی انکھوں میں ائے انسو پونچھے تھے۔۔بس اب اپ بلکل چپ ہوجائیں زیادہ نہیں بولیں۔۔

جلدی سے ٹھیک ہوجائیں پھر میں خوب فائٹ کروں ک

گی اپنے بابا سے۔اور وہ مسکرا دئیے تھے۔

ائ لو یو بابا۔پری نے ان کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔

لو یو ٹو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پری کو تو اک پل بھی قرار نا ارہا تھا کہ کب اس کے بابا ٹھیک ہوں اور وہ اپنے بابا سے ڈھیروں باتیں کرے خوب فرمائشیں کرے۔۔۔۔

پوری رات وہ اپنے بابا کا ہاتھ تھامے بیٹھی رہی تھی۔غازیان کے بار بار اسرار پر وہ صوفہ پر جاکر بیٹھی تھی۔اور جلد نیند کی وادیوں میں کھو گئ تھی۔۔۔

غازیان نے اپنا کوٹ اتار کر اسے اڑایا تھا۔اور اسکے منہ پر ائ بالوں کی لٹ کو سائیڈ کیا تھا۔۔

کتنی اپنی لگی تھی وہ اس ٹائم اسے۔پر وہ اپنی دھڑکنوں کو بے تاب ہوتا ہوا دیکھ کر وہاں سے اٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔

ماما یہ دیکھیں بابا نے مجھے دلائ ھے ڈول۔بہت خوبصورت ھے یہ ڈول بلکل میری پریشہ جیسی۔مما اب تو بابا ھمارے ساتھ رہییں گے کہیں نہی جائیں گے۔۔ہاں میری گڑیا اب اپ کے پاپا اپکو چھوڑ کر کہیں نہی جائیں گے ہمیشہ میری ڈول پاس رہیں گے۔اور اپ بھی ان کو زیادہ تنگ نہیں کرو گی۔پرامیس 

پرامیس مما۔۔۔

مما مما کہاں جارہی ھیں اپ ممما۔اور وہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔

صبح کے روشن اجالے کی کرنیں اس کی انکھوں سے ٹکرائ تھیں۔جیسے وہ ہوش میں ائ ہو۔۔۔۔۔

پریشہ آر یو اوکے۔غازیان چائے کا مگ ٹیبل پر رکھ کر اسکے پاس ایا تھا۔وہ مما مما کہاں چلی گئیں۔۔۔

اس نے پری کی جانب دیکھا تھا۔ہوش میں او پری۔شاید کوئ خواب دیکھا ھے تم نے۔

اور پری جیسے اک دم ہوش کی دنیا میں واپس ائ ہو۔تم ٹھیک ہو پری۔۔ججی میں ٹھیک ہوں۔

اوکے تم رکو میں چائے لے کر اتا ہوں۔۔۔اور وہ غازیان کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔

پاپانی۔۔دلاور کی اواز پر وہ چونکی تھی۔

بابا۔۔۔۔اور اس نے بابا کو سہارا دیتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے انہیں پانی پلایا تھا۔

بابا اپ ٹھیک ہیں نا۔۔

میں ٹھیک ہوں بیٹا انہوں نے پریشہ کو گلے لگایا تھا۔

بابا۔۔

جی میرا بیٹا۔۔۔

بابا مما میری خواب میں ائیں تھیں۔اور وہ پری کی بات پر چونکے تھے۔

وہ کہہ رہی تھیں بابا کا چیال رکھنا پری۔انہیں زیادہ تنگ مت کرنا۔۔

بہت تنگ کیا ھے نا میں نے اپ کو۔نہیں بیٹا نہی۔۔میری بچی تو ورلڈ بیسٹ ڈاٹر ھے۔

بابا اپ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے نا۔

نہیں بیٹا کبھی نہیں۔بلکل نہیں۔۔

اور وہ بابا کے ساتھ لپٹی ہوئ تھی۔

تب ھی اک خاتون اک لڑکی کے ساتھ روم میں داخل ہوئ تھی۔

ھائے بھیا۔میرے پیارے بھائی کو کیا ہوگیا۔

اک عورت چلاتی ہوئ بیڈ کے پاس ائ تھی۔۔۔

تو پری ان کی طرف دیکھ کر کھڑی ہوئ تھی۔ارے ہٹو۔۔انہوں نے پری کو پیچھے دھکیلا تھا۔اور خود بابا کی بلائیں اتار رہی تھی۔ہائے اتنا پیلا رنگ ہوگیا میرے بھائ کا۔میں صدقے جاوں۔کس کلموہے کی نظر لگ گی۔۔

انہوں نے کمرے میں اکر اتنا واویلا کیا تھا کہ پری کو مجبوراً بابلند اواز کہنا پڑا تھا۔

جسٹ سٹاپ اٹ۔۔۔۔

پری کی اواز سن کر وہ مرئ تھیں۔

اپ شاید نہیں جانتیں ھیں کہ اس وقت اپ گھر پر نہیں ہسپتال کے کمرے میں کھڑی ھیں۔اور یہاں اتنا شور کرنا مناسب نہیں ھے۔بابا بھی ڈسٹرب ہورہے ھیں۔اور اس پاس کے رومز والے پیشنٹ بھی۔۔

ھیں ھیں تیری اتنی جرات میرے  سامنے اونچی آواز میں بات کرے۔

اور بروقت غازیان نے اکر سٹیویشن سنبھالی تھی۔

ارے پھپھو اپ یہاں۔

ہائے غازی پتر میرے دل دے ٹکڑے یہ کیا ہوگیا بھائ صاحب نوں۔اور وہ انسو بہاتی غازیان کے گلے سے جالگی تھیں۔

پری نے اک نظر ان کی جانب 

دیکھا جہاں انسو کا نام ونشان تک نا تھا۔اور چلا تو ایسی رہی تھیی جیسے پتہ نہیں کیا ہوگیا ہو۔

سنبھالیں پھپھو خود کوو۔اور دیکھیں چاچو بلکل ٹھیک ھیں۔

کیسے سنبھالوں خود کو بھائ ہسپتال پڑا ھے میرا۔مجھے پتہ لگا تو باوی سب کو ان کے ابا سمجت گھر بھیجا اور خود سحرش کے ساتھ سیدھی ہسپتال اگئ۔

سحرش۔

پری نے پاس کھڑی لڑکی کی طرف دیکھا تھا۔جو گلابی شلوار قمیض پہنے ہوئے گلے میں وائٹ مفلر لپیٹے ہوئ تھی۔

جی غازیان بھائ پھپھو کو سنبھالو۔

ڈاکٹر کے انے کا وقت ہورہا ھے۔

بھیا جلدی ٹھیک ہو جاو یہ ڈاکٹر چیک اپ کر جائے میں پھر اتی ہوں۔اور انہیوں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔

انہوں نے پری کو اک نظر گھوڑ کر دیکھا تھا۔

لیکن دوسری جانب بھی پری تھی۔انکھوں میں غضب کاغصہ لیے ان کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔

پری بیٹا میں ٹھیک ہوں گھبراو نہیں۔۔۔

اپ جلد ٹھیک ہو جائیں گے بابا۔۔۔۔

اور وہ ان کے گال کو تھپتھاتے کمرے سے نکلی تھی۔۔۔۔

ڈاکٹر کیسا ھے میرا بھائی۔

نی پیشنٹ کی حالت اب کافی بہتر ھے شام تک انہیں ڈسچارج کر دیا جائے گا۔ بس دھیان رہے کہ انہیں کسی بھی قسم کے سٹریس سے دور رکھیے گا۔زیادہ ٹینشن ان کی طبیعت پھر بگار سکتی ھے۔ہوپ یو انڈرسٹینڈ ڈاکٹر پریشہ۔

تھیکنس ڈاکٹر۔ائ انڈرسٹینڈ۔۔۔۔۔۔

*************٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫**********

شام وہ بابا کے ساتھ گھر میں ائ تھی اماں جی تو ان کی بلائیں اتار رہی تھی۔کالے بکڑوں کا صدقہ دیا تھا انہوں نے اپنے بیٹے کا۔اور ان کو گلے سے لگایا تھا۔۔۔

سب کے چہرے پر خوشی کی لہر تھی۔۔۔۔۔۔

ان سب کاموں میں پھوپھو کہاں پیچھے تھیں۔وہ بھی بڑھ چڑھ کر اماں جی کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی۔

ولی شاہ کو دلاور شاہ نے اپنے پاس اتے ہوئے دیکھا تو پری سے کہا تھا۔او پریشہ بیٹا مجھے کمرے تک لے جاو۔۔۔اور ان کے قدم وہی رک گئے تھے اج تو ان کا خون ان کا بیٹا بھی ان سے منہ موڑ گیا تھا۔۔۔۔۔۔

اور وہ بابا کو کمبل اوڑھا کر ان کے پاس ھی بیڈ پر بیٹھ گئ تھی۔

بابا اپ ٹھیک ھیں نا۔

میں ٹھیک ہوں بیٹا۔بابا اپ نے تو ڈرا ھی دیا تھا اپنی پری کو۔

نہیں بیٹا ہماری گڑیا بہت بہادر ھیں میری پیاری بیٹی۔

مجھے معاف کردو پریشہ بیٹا مییں النی بیوی بچوں کا محافظ نا بن سکا۔۔۔

نن نہی بابا پلیز بھول جائیں پرانی باتوں کو ماضی کی تلخ یادوں کو۔۔۔۔۔

ممما کے دل میں تو اپ کیلئے بہت محبت تھی۔ان کی زبان پر تو اپ کے لیے کوئ شکوہ کوئ شکایت نا تھی۔۔بابا۔

جانتا ہوں بیٹا میری رباب جیسا کوئ معتبر ہوھی نہیں سکتا۔۔۔۔

اور میری بیٹی کو بھی تو کچھ گلے بیت شکایت ھیں نا اپنے بابا سے۔

جی بابا شکوے تو تھے لیکن اب نہیں ھیں ھیں۔کیونکہ جتنی شدت سے اپ نے میری ماں کے مقام کو اپنے دل میں اج بھی زندہ رکھا ہواھے۔یہ دیکھ کر تو میری سب شکایت ھی ختم ہو گئیں اپسے۔

اور پریشہ کے دل میں اپنے بابا کامقام سب سے بڑھ کرھے۔

اور انہوں نے پریشہ کی طرف دیکھا تھا۔پلکل رباب کی جھلک دکھی تھی انہیں اپنی بیٹی میں اور سر فخر سے بلند بھی ہوا تھا کے رباب کہ تربیت پریشہ میں نظر ارہی تھی۔۔

کیا دیکھ رہے ھیں بابا۔۔۔۔

ہوں دیکھ رہا ہوں کہ میری بیٹی کتنی بڑی ہوگئ ھے کتنی سمجھدار ہو گئ ھے۔

تو اپ یہ بات بھول رہے مسٹر دلاور شاہ کے دلوں پر جادو کرنے کا ہنر اپکی بیٹی میں اپکی وجہ سے ھی ایا ھے۔

اور وہ دونوں باپ بیٹی ناجانے کتنے دنوں بعد کھل کر ہنسے تھے۔۔۔

بس بس اج باپ بیٹی کی باتیں ختم ہوں گی کہ نہیں۔شبانہ کمرے میں سوپ کا باول اٹھائے ہوئے ائیں تھیں۔۔

اوہ مما دیکھیں نا بابا کو یقین ھی نہی ارہا ھے کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بن گی ھے۔۔

ارے دلاور اب اپ کو یقین اجانا چاہیے کہ ہماری بیٹی ڈاکٹر بن گئ ھیں اور اب وہ اپنے بابا کا نام خوب روشن کریں گی۔انشاءاللہ۔۔۔انہوں نے دل سے دعا دی تھی۔۔۔۔۔

اچھا پری بیٹا اپ بھی کھسنا کگا کر ریسٹ کرلو تھک گئ ہوگی۔۔

جی مما اوکے بابا خیال رکھیے گا وہ انہیں پیار کرتیکمرے سے نکلی تھی۔۔۔۔

دلاور اپکی آنکھوں میں انسو۔۔۔۔۔

شبانہ میری بیٹی بہت سمجھدار ہوگئ ھے بہت۔۔۔

بس اک شکوہ ھے مجھے خود سے کہ میں اپنی بیٹی کو باپ کی شفقت نا دے سکا۔۔۔اسے رشتوں کے ہوتے ہوئے محرومیوں کا شکار رکھا۔

نہی دلاور خدا کا شکر ادا کریں کہ پریشہ کا دل اپ کے لیے صاف ہوگیا ھے۔اور میری ممتا کی پیاس بھی بجھ گئ ھے پری کے روپ میں میری سونی ممتا کی بھی تسکین ہوگئ ھے۔مجھے میری بیٹی مل گی ھے۔میری پریشہ۔۔۔اور دلاور مسکرا دیئے تھے۔

شبانہ مجھے معاف کرو کہں نا کہیں میں جتنا رباب کا قصوروار ہوں اتنا ھی تمہارا بھی قصور وار ہوں مجھے معاف کردو میں چاہ کر بھی تمہیں تمہارے حق نا دے پایا۔نہیں دلاور نہیں ایسے مت کہیں ارے اپکی بدولت ھی مجھے میری بیٹی ملی ھے میری دنیا مکمل ہوئ ھے۔اپ خود کو قصوروار ٹھہرانا چھوڑ دیں اس میں کسی کا کوئ قصور نا تھا سب اپنی محبت کے متلاشی رہے۔اور قسمت کے ہاتھوں اپنی زندگی کی خوشیوں سے محروم رہے۔۔۔۔۔۔بس اب خدا کرے ہمارے ہستی بستی خوشیوں کو کسی کی بھی نظر نالگے۔امین دلاور نے کہا تھا۔۔۔۔۔

پری فریش ہوکر نیچے ائ تو پھوپھو کو تائ امی سے باتیں کرتا دیکھ وہ حرا لوگوں کے پاس ائ تھی۔۔۔

تو یہ ھے میرے بھائ کی بیٹی زبان تو لگتا اپنی ماں پہ گئ ھے اس لڑکی کی۔۔۔

ارے سلمی کی ہوگیا تجھے۔

ارے اماں مجھے کی ہونا۔۔

اور وہ ہوں ہوں کرتی پریشہ کے پاس ائ تھی۔۔

چاہے جو بھی ہو ہے تو بھائ کی اولاد ھی۔شبانہ تو اس لائق نا تھی کہ میرے بھائ کو اولاد دے سکے۔۔

پری کو یہ سن کر غصہ ایا تھا۔

پلیز بس کیجیے۔۔

 اوہ تو اپ ھیں سلمی پھوپھو کافی سنا ھے میں نے اپ کے بارے میںں۔۔۔۔۔۔

لیکن ایک بات اپ بھی اچھے طریقے سے سن لیں۔شبانہ مما کے خلاف تو میں اک لفظ بھی نا سنوں گی۔اور دوسری بات

جتنا حق اس گھر پر تائ جان کا ھے اتنا ھی میری شبانہ ماما کا بھی ھے۔کیوں اماں جی۔۔

ہاں پتر بلکل۔

تو اج کے بعد تائ اماں سمیت کوئ بھی ان پر اپنی حکمرانی نہیں جتائے گا۔جیسے گھر میں تائ اماں کا رعب ھے ویسے ھی شبانہ مما کا حکم بھی چلے گا۔۔۔۔۔۔۔

اور ہاں پھوپھو جی اج تو کہہ دیا اپ نے کہ شبانہ کی کوئ اولاد نہیں۔لیکن دوبارہ مت کہیے گا کیونکہ ان کی بیٹی ابھی زندہ ھے۔۔۔۔۔۔

اور شبانہ جو سیڑھیاں اتر رہی تھیں ۔وہیں دنگ کھڑی رہ گئیں تھیں۔پری کے انوکھے روپ کو دیکھ کر۔

تائ بھی اس خاموش لڑکی کا نیا روپ دیکھ رہی تھیں۔

دیکھو اماں گز بھر چھوکری کی کتنی زبان ھے۔۔

ہاں تو سلمی کی غلط بولا ھے پریشہ پتر نے بلکل ٹھیک کہہ رہی ھے اور وہ تائ امی تلملاتی وہاں سے چلیں گئی تھی۔

ارے مما اپ وہاں کھڑی کیا دیکھ رہی ھیں مجھے بہت بھوک لگی ھے جلدی سے کچھ بنا کر دیں۔۔۔۔۔

اور وہ مسکراتی ہوئ سر ہلاتی کچن کی جانب بڑھی تھیں۔۔۔

اور کسی کی نظر ٹی وی سے ہٹ کر اس خودمختار لڑکی کی طرف بھٹکی تھیں۔اور وہ غازیان تھا۔۔جو اپنی ھی فیلنگ سے انجان تھا۔

واہ کزن کیا چوکا ماڑا ھے۔۔۔۔۔حنا چہچہاتے ہوئے پری کے پاس ائ تھی اماں مسکراتی ہوی وہاں سے چلی گئ تھیں۔۔

اوے یار یہ پرانی پری کہاں سے اگئ اج۔۔۔۔۔۔۔

ہاہا سٹاپ اٹ حرا۔۔۔۔۔اور حرا پری کے گلے لگی تھی وہ اپنی دوست کی خوشیوں میں خوشی منارہی تھی۔

میں بہت خوش ہوں تمہارے لیے میری جان۔۔۔جانتی ہوں جناب وہ حرا کی طرف دیکھ کر مسکرائ تھی۔

اوہ ہیلو مائ نیو کزن۔۔۔

پری نے سامنے دیکھا تھا۔شارٹ فراک اور بیلو جینز میں فل میک اپ منہ پر تھوپے اک لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی۔مغروری اس کے چہرے سے عیاں تھی۔۔۔پری کو اک منٹ بھی نا لگا تھا پہچاننے میں کہ یہ سلمی پھوپھو کی بیٹی ھے۔

ہائے پریشہ اپا یہ ھیں۔لیکن حرا نے حنا کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔جسے دیکھ پری بھی مسکرا دی تھی۔۔۔

حنا میرا منہ ھے میں اپنا انٹرو خود دے سکتی ہوں۔۔۔

تب ھی حنا اپنا سا منہ لیے رہ گئ تھی۔۔۔۔

ائ سیلف ربیا فہیم۔۔۔۔۔۔

ہائے ائ ائم پریشہ دلاور پری نے ہاتھ اگے کیا تھا۔لیکن وہ پری کو اگنور کرتی غازیان کی طرف بڑھی تھی۔

اوہ غازیان ائ نیڈ یور ہیلپ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کہتی اگے بڑھی تھی۔۔۔

پری کا مارے غصے سے بڑا حال تھا۔۔

اسلیے بولا تھا میں بتادیتی ہو نک چڑھی ضدی مغرور صاحبزادی ھییں پھوپھو کی بڑی بیٹی ربیا۔پڑھائ سے کوئ سروکار نہیں کالج میں فیل ہوئی اک بار نا دو بار پورے تین بار۔۔۔۔۔اور پڑھائ کو بولا خیرباد

اور منجھلی بیٹی سحرش کم گو ھے اپنے کام سے کام رکھنے والی۔۔۔سیکنڈائیر کی انٹیلیجنٹ سٹوڈنٹ

چھوٹی ثناء ھیے بلکل منفرد گھلنے ملنے والی۔۔۔۔۔ٹینٹھ سٹینڈرڈ میں

اور بڑے بیٹے تو ائیں نہیں ھیں کچھ کام تھا انہیں کل تک وہ بھی آجائیں گے۔امان بھائ نہایت شریف پیارے اور سلجھے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنی میں بطور مینیجر ڈیوٹی دے رہیے ھیں۔۔

اور پھوپھا جی وہ دیکھیں زرا سامنے۔۔۔۔۔۔

ارے ارے کتنا ٹھوسو گے تم۔پھر ہاضمہ خراب ہوجائے گا ادھر دو پلیٹ اور پھوپھو دیکھتے ھی دیکھتے سیب۔ سے بھری پلیٹ چٹ کر گئیں تھیں اور بیچارے پھوپھا جی بھیگی بلی بنے سائیڈ پر منہ کیے بیٹھے تھے۔

بہت ترس ارہا ھے ان کی کیفیت دیکھے بیچارے کیسی بیوی سگ پالا پڑا ان کا حرا کے کہنے کی دیر تھی کہ پری اور حنا کی ہنسی چھوٹ گئ تھی۔۔۔

اور غازیان بار بار نظریں چڑائے سامنے کھڑی پریشہ کو دیکھتا اور اس کا عکس اپنی انکھوں میں محفوظ کررہا تھا۔۔۔

ارے غازیان کدھر دیکھ رہے ہو پاس بیٹھی ربیا نے بھی اس کی نظروں کو پری کا تعین کرتے ہوئے دیکھا تھا۔تو اندر تک جل کر رہ گئ تھی۔۔۔۔

جی خالہ جان میں انشاء اللہ بہت جلد اپ سے ملنے کے لیئے آؤں گی اپ اپنا خیال رکھیے گا۔۔

خدا حافظ۔۔۔۔

اور پری فون بند کر کے پلٹی تھی۔۔۔۔۔

غازیان کو لان میں ٹہلتے ہوئے اپنا تعاقب کرتے ہوئے پایا تھا۔۔۔

پری کو اس کا یوں بار بار اپنی طرف دیکھتے پانا برا لگ رہا تھا۔

خیر وہ سر جھٹکتی اس کے پاس سے گزری تھی۔۔۔۔

پریشہ۔۔۔وہ اس کی اواز سن کر رکی تھی۔۔لیکن پلٹی ناتھی۔وہ اس کی حرکت دیکھ کر تلملا گیا تھا۔پر بہت جلد وہ خود پر قابو پاگیا تھا۔

وہ چلتا ہوا پری کے پاس آیا تھا۔۔

مجھے یہ کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں کے ہسپتال میں ڈاکٹرز کا سٹاف موجود نہیں ھے جس کی وجہ سے لوگوں کو شہر جانا پڑتا ھے علاج کروانے کیلئے۔۔۔۔

اور دادا جان نے وہ ہسپتال لوگوں کے علاج کیلئے تعمیر کروایا تھا۔لیکن کوئ بھی ڈاکٹر شہر سے گاوں کا رخ کرنے کو تیار نہیں ھے۔۔

اسلیے اگر اپ کو مناسب لگے تو اپ وہاں پر اپنے ڈاکٹری کے فرائض سر انجام دے سکتی ھیں۔

کیا یہ سب چوہدری ولی شاہ نے اپ سے کہا ھے۔پری غازیان کی آنکھوں می آنکھیں ڈال کر کہہ رہی تھی۔۔۔

لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ دادا جان سے کس قدر نفرت کرتی ھے۔۔۔۔۔

ہاں وہ۔۔ابھی غازیان نے کچھ بولنے کیلئے لب کھولے ھی تھے کہ۔۔۔۔۔۔

تو ان سے کہہ دیجئے گا ان کے کہے پر تو میں کبھی ان کے حکم کی پیروی نا کروں۔۔

کیونکہ میں ازاد انسان ہوں ان کے حکم کی غلام نہیں۔۔۔۔۔۔

اس نے حنا کی باتیں سنیں تھی کہ الیکشن کچھ ھی دنوں میں شروع ہونے والے ھیں۔اور دادا جان کبھی اپنی سیٹ کھونا نہی چاہیں گے۔اس لیے وہ خدمت خلق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ھیں۔

اور پری اچھے سے جانتی تھی۔۔کہ وہ اپنے مفاد کے لیے کیا کیا نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔

مسٹر غازیان اپ تو شکل وصورت سے کافی پڑھے لکھے اور سمجھدار لگتے ھیں۔پھر بھی اپنے دادا کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ناواقف ھیں۔

بس پری بس enough۔۔۔۔۔

میں کب سے اپکی باتیں سن کر برداشت کررہا ھیوں اسکا یہ مطلب ہرگز نہی ھے کہ اپ میرے  دادا جان کے خلاف اپنے منہ سے ایسے الفاظ نکالیں۔۔۔۔۔۔

بس مسٹر غازیان مجھ سے اونچی آواز میں اج تک کسی نے بات نہی کی ھے اپ اپنی آواز دھیمی رکھیے۔۔

اپ سب لوگ دیکھ کر انجان بنے رہتے ھیں کہ کسی کی بھی مغروری کو جان نہی پاتے یا جانتے بوجھتے بھی انجان بن جاتے ھیں۔۔۔۔

اور رہی بات مریضوں کے علاج کی تو وہ میرا فرض ھے اک ڈاکٹر ہونے کے ناطے اور سب سے بڑھ کر اک انسان ہونے کے ناطے۔

تو مجھے ان کے ہسپتال سے بھی کوئ سروکار نہیں ھے۔۔۔جب جب گاوں کے لوگوں کو میری ضرورت پڑے گی میں ان کی مدد دل و جان سے بنا کسی ذاتی مفاد کے خود کروں گییی۔۔اور اپنے پیشہ ڈے کبھی روگردانی نہیں کروں گی۔

بتا دیجیے گا اپ اپنے دادا جان کو کہ کہیں تو اپنے لیے اپنی جھوٹی شان وشوکت کے بارے میں سوچنا چھوڑ کر لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں بھی سوچ لیا کریں۔۔۔۔

ہسپتال تو ان کے حکم انے سے پہلے ھی میں جوائن کرچکی ہوں اپنے بابا کے کہنے پر۔۔۔۔بس ان ڈیوٹی اک دو دن میں سٹارٹ کردوں گی۔کیونکہ میرے بابا نے مجھے بہت مان سے کہا تھا۔کہ میری بیٹی اک قابل ڈاکٹر بن کر دکھائے گی گاوں کے مریضوں کا علاج کرکے اور انشاء اللہ ان کی بیٹی انہیں کبھی شکایت کا موقع نہی دے گی۔

ائ ہوپ اپ سمجھ گئے ہوں گے۔۔

اور وہ کہتی ہوئ وہاں سے چلی گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

غازیان اس کو جاتا ہوادیکھ رہا تھا۔کہی نا کہیں اس کو پری کے رویہ دیکھ کر شدید غصہ ایا تھا۔

پتا نہی کس قسم کے گمان میں رہتی ھے یہ لڑکی میں ھی پاگل تھا جو معصومیت کے جھانسے میں اگیا۔سٹوپڈ۔۔۔۔۔

اور وہ غصہ سے کہتا ہوا باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

***********************************************

اسلام علیکم بابا۔۔۔۔

وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔۔

میری بچی خیریت سے پہنچ گئ تھی۔۔جی بابا بلکل خیریت سے پہنچ گئ ہوں۔۔ڈونٹ وری بابا 

اج وہ صبح سے ھی خالہ کی طرف ائ ہوئ تھی۔بابا کے کہنے پر وہ ڈرائیور کے ساتھ خالہ جان کی طرف ائ تھی۔۔۔ورنہ وہ خود ڈرائیو کرکے آجاتی لیکن شہر کے حالات اور رستوں سے ناواقفی کی صورت میں بابا کی بات مانتے ہوئے ڈرائیور اسے اج خالہ کی طرف چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔۔

اچھا پریشہ بیٹا شام میں غازیان اپ کو پک کرے گا۔لیکن کیوں بابا ڈرائیور کو بھیج دیں اپ۔وہ بیٹا ڈرائیور سلمی اپا کو لیے بازار گیا ھے۔تو غازیان اپ کو پک کرے گا۔اوکے بابا ٹھیک ھے۔۔بائے۔

بائے بیٹا۔ 

اور غازیان کا نام سن کر ھی وہ غصہ میں اگ بگولہ ہوگئ تھی۔۔۔

پورا دن بھابھی بچوں اور خالہ جان کے ساتھ کیسے گزرا تھا۔۔پتا ھی نا چلا تھا۔

ارے اج پریشہ ائ ھے۔اسلام علیکم احمد بھائ کیسےھیں اپ

میں بلکل ٹھیک ہوں بیٹا۔۔تم تو ایسا گئ کے ہمیں بھول گئ ارے نئ بھائ ایسے کیسےبھول سکتی ہوں میں اپ سب کو۔۔

اور بیگم کچھ کہلایا پلایا بھی ھے ہماری شہزادی کو۔۔

جی جی بھائ بھابھی تو صبح سے ھی خاطر تواضع میں لگی ہوئ ھیں۔۔۔میں تو موٹی ہوجانا۔۔۔

صاحب جی باہر کوئ غازیان صاحب ائے ھیں پریشہ بی بی کو باہر بلا رہے ھیں۔تو تم انہیں اندر لے کے او خالہ جان سے تو وہ پہلے ھی غازیان کا زکر کر چکی تھی۔۔۔۔اور وہ اسے لینے کے لیے ائیں گے اس بارے میں بتا چکی تھی۔

ارے بیٹا کچھ اور دیر رک جاو۔جی انٹی انشاء اللہ پھر چکر لگائیں گے۔لیکن ابھی اندھیرا ہورہا ھے۔اور اپ کو ملک کے حالات کا تو پتہ ھی ھے۔۔

جی یہ تو بلکل ٹھیک کہا اپ نے احمد بھائ نے کہا تھا۔۔۔

اوکے خالہ امی اپ اپنا بہت سا خیال رکھیے گامیں ملنے اتی رہوں گی اپ سے۔۔۔

جیتی رہو میری بچی صدا خوش رہو اور وہ سب سے ملتی ہوئ باہر تک ای تھی۔۔۔۔۔

غازیان کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا دیکھ کر وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھی ہی تھی کہ،غازیان کی اواز ائ تھی۔

مس پریشہ فار یور کائنڈ انفارمیشن 

میں اپ کا ڈرائیور نہیں ہوں۔

فرنٹ سیٹ پر اکر بیٹھیے۔۔۔۔۔۔

وہ بیک مرمر سے دیکھتا ہوا بولا تھا۔۔پری کا ماڑے غصہ سے برا حال تھا۔۔

اب اپ خودد ڈیسائیڈ کر لو۔۔

ورنہ گاری سٹارٹ نہیں ہوگی۔۔۔۔

غازیان پری کی کیفیت سے بخوبی واقف تھا کہ اگر اس وقت situation کچھ اور ہوتی۔تو پری اچھا خاصہ اسکا سر پھوڑ کر رکھ دیتی۔۔۔۔

لیکن غازیان بھی اس کی کیفیت سے محفوظ ہورہا تھا۔۔

خود کو تو لحاظ ھے نہیں ڈور کھولنے کی بجائے فٹ سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

ایڈیٹ اور وہ بربڑاتی ہوئ 

فرنٹ سیٹ پر اکر بیٹھ گئ تھی۔اک فاتحانہ سی دبی دبی مسکراہٹ غازیان کے چہرے پر ائ تھی۔۔۔۔۔۔

پورا سفر خاموشی سے گزرا تھا۔۔۔۔

گاوں کے راستے پر داخل ہوتے ہوئے رات ہوگئ تھی۔۔۔۔۔۔۔

کار اک کچے سے علاقے میں  داخل ہوئ تھی۔پری تو سب سے بے خبر نیند کے مزے لے رہی تھی۔

کتنی سیلفیش لڑکی ھے میں اتنی دیر سے ڈرائیو کر رہا ہوں اور خود نیند کے مزے لے رہی ھے۔

تب ھی غازیان نے اک جھٹکے سے بریک لگائ تھی۔۔۔۔کہ پری کا سر ٹکرانے سے بچا تھا۔۔۔۔

اف ہو کیا ڈرائیو نہیں کرنی اتی وہ غصے سے چلائ تھی۔۔۔۔۔

گاڑی اک جھٹکے سے رکی تھی۔

کیا ہوا ھے اس ویرانے میں کار کیوں روک دی اپ نے۔۔۔

پکنک منانے کے لیے۔۔

ہیں اس بیوقوفانہ جواب پر پری کا منہ کھلا رہ گیا تھا۔واٹ ار یو میڈ۔۔۔

سیم ار یو میڈ۔ظاہری بات ھے گاڑی رکی ھے چیک کرنا پڑے گا

کہ کیا مسئلہ ھے۔۔

تو اپ سیدھے سے نہیں بتا سکتے۔۔

اف یو سے بات کرنا ھی فضول ھے۔۔

اور وہ منہ موڑ کر رہ گئ تھی۔

یو ٹو پاگل لڑکی۔وہ کہتا ہوا گاڑی سے باہرنکلا تھا۔۔

کیا ہوا ھے وہ گاڑی سے باہر نکل کر اس کے سر پر کھڑی تھی۔تم کار میں بیٹھو جاکر۔کیوں کیوں بیٹھوں میری مرضی۔۔۔۔۔

اور وہ گاڑی کا ٹائر چینج کرتے ہوئے اٹھا تھا۔

تمہیں صاف لفظوں میں میری بات سمجھ نہی اتی ھے۔۔

یہ تمہارا لندن نہی ھے۔۔۔۔پاکستان ھے اور جس قسم کااپ نے لباس پہنا ھے ویسا یہاں کا ماحول نہیں ھے اور یہاں پر کب کیا ہوجاے کچھ پتا نہیں ھےاب چپ کرکے گاڑی میں بیٹھو میں بس یہ ٹائر چینج کرکے اتا ہوں۔۔۔۔

اور وہ چپ چاپ واپس اکر بیٹھی تھی۔۔۔

پتا نہیں کیا سمجھتا ھے کھڑوس خود کو جیسے کوئ ہیرو ہو۔۔۔۔وہ سب سامان سمیٹ کر گاڑی میں اکر بیٹھا تھا۔ارے یہ اپکے ہاتھ کو کیا ہو ھے یہ خون۔۔

کچھ نہیں اندھیرا تھا تو تھوڑی سی چوٹ لگ گئ۔۔۔یہ چھوٹی سی چوٹ ھے۔۔ادھر دکھائیں ہاتھ۔۔۔

ارے ایسی معمولی چوٹ معنی نہیں رکھتی ۔۔۔

فار یور کائنڈ انفارمیشن۔۔

ڈاکٹر میں ہوں اپ نہیں۔۔۔۔

اور غازیان نے پری کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

جو بیگ سے ٹشو نکال کر اس کے ہاتھ کا معمولی زخم صاف کررہی تھی۔

یہ لیں ہوگئ بینڈیج۔۔۔۔۔

تو فرسٹ ایڈ باکس ساتھ لیے پھرتی ہو۔

ہاں نا کب کسے ضرورت پر جائے یہ کہا نہیں جا سکتا۔۔جیسے اب پر گئ۔۔۔۔

 میں نے کہا تھا نا۔ doctor is always perform there duty...

اور تم کبھی کوئ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی مس پریشہ.وہ سوچ کر مسکرایا تھا۔جس کی بےتکی باتوں پر وہ غصہ کر دیتا تھا۔اک پل پہلے وہ اس کے دل وجان پر ہاوی ہوکر رہ گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس ابا جی بچپن کے وعدوں کو اب پورا کرنے کا وقت آگیا ھے۔

ربیا اور غازیان کا تو پیدا ہوتے ھی اپ نے فیصلہ سنا دیا تھا۔۔۔۔اب بس سوہرا کی شادی پر ان دونوں کی باقاعدہ منگنی کی رسم ادا کی جائے۔مجھے اور کچھ نہی سننا اپ نے زبان دی تھی مجھے۔۔۔۔۔۔

ہاں پتر ہاں جانتا ہوں۔بچپن سے لیکر آجتک میری ربیا بس غازیان کے نام سے جڑی ھے۔۔۔۔

بڑی بہو۔۔جی ابا جی توں غازیان کی ماں ھے تیری رائے بھی ضروری ھے پتر۔۔۔

جی ابا جی مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ھے جیسا اپ کا فیصلہ ہو۔۔

بس پھر جب کسی کو کوئ اعتراض نہی تو سویرا کی شادی  پر ھی غازیان پتر دی منگ نو انگوٹھی پہنائ جائے گی۔اور یہی میرا فیصلہ ھے۔۔۔

اماں جی تو اس فیصلے پر ڈر پکڑ کر رہ گئیں تھیں۔انہوں نے تو پری کے لیے غازیان کاسوچا تھا تاکہ بچی ہمیشہ نظروں کے سامنے رہے پر یہاں تو سب الٹا ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔

ابا جی اپنا فیصلہ سنا کر چلے گئے تھے۔۔۔

ارے اماں منہ میٹھا کرو نواسی کا رشتہ تہہ ہوا ھے۔نا مجھے میٹھے کی بیماری ھے تو کھا۔

ارے غازیان پتر توں اگیا۔۔اور پریشہ اور غازیان کو دیکھ کر سب ان دونوں کی جانب مڑے تھے۔۔

کیا ہورہا ھے یہاں امی جی۔۔

پتر میں بتاتی ہوں۔۔یہ لے پہلے منہ میٹھا کر۔۔

لیکن یہ سب۔ارے یہ سب کیا مطلب۔

تمہاری بات طے ہوئ ھوگئ ھے ربیا کے ساتھ۔

ان کا اتنا کہنا تھا کہ غازیان نے پریشہ کی طرف دیکھا تھا جو خود ہکا بکا دیکھ رہی تھی کہ اج بھی پرانی ریت نہی بدلی گئ اس گھرکی۔۔۔۔وہی دستور وہی روایت

اور غازیان نے اک نظر ربیا کی جانب دیکھا تھا۔جو شرم سے لال ہو رہی تھی۔۔

ماں کا مٹھائ والا ہاتھ پیچھے کرتے وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا۔۔

ارے بھابھی اسے کیا ہوا ھے۔۔

وہ کچھ نہی سلمئ سفر سے ایا ھے شاید اسلیے تھک گیا ھے تم فکر نہی کرو میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔۔

حنا تو باقاعدہ انسو بہارہی تھی۔۔مہ ربیا اسے اک انکھ نا بھاتی تھی۔سویرا اسے دلاسہ دے رہی تھی۔۔۔۔۔کیا بجو خود ےو شادی کرکے سسرال بلی جاؤ گی۔اس مصیبت کو تو ہم نے ھی برداشت کرنا ھے۔۔۔کاش میرے پاس کوئ جادو ہوتا تو پریشہ کو اپنی بھابھی بنالیتی۔۔۔پریشہ کے حلق میں جوس پھنسا تھا۔حنا کی بات سن کر۔

ارے پری ٹھیک ہو۔۔حرا بولی تھی۔۔۔۔۔

حنا تمہارے پاگل بھائی کے لیے تم۔نے مجھے ھی چننا تھا تو شکر ھے جادو تمہارے پاس نہیں ہے۔۔۔۔۔اور حرا مسکرا دی تھی پری کی بات سن کر۔کیونکہ پری کے دل کا شہزادہ تو کوئ اور تھا۔۔۔جسے وہ دل میں ںسا چکی تھی۔۔

چلیں پریشہ اپا اپ نا سہی تو ہماری ڈاکٹر حرا بھی تو کسی سے کم نہی ھیں۔۔۔۔

اوے ہاں یہ تو واقعی میں کسی سے کم نہیں ھے۔

اور یو جسٹ شٹ اپ حرا نے پاس پڑا کشن حنا کے سر پر ماڑا تھا۔۔۔۔۔

بس کردو تم لوگ رشتے بنانے

 مجھے تو غازیان بھائ کی انکھوں میں غصہ دیکھ کر بغاوت کی بو ارہی ھے۔اور سویرا نے اپنی کیفیت اور ڈر کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔۔

اور سب اس کی بات پر چپ ہوکر رہ گئے تھے۔۔۔

یہ کیا طریقہ ھے غازیان ایسے نیچے سے کیوں اگئے۔پتا ھے تمہارے رویہ کو دیکھ کر سلمی اپا کو کیسے ٹھنڈا کرکے ائ ہوں۔۔۔

کیا ایسی تربیت کی ھے میں نے تمہاری۔۔کہ بڑوں کے ساتھ ایسے پیش او۔۔۔۔

سوری امی۔۔۔۔۔۔

پر میں ربیا سے شادی نہیں کرسکتا۔۔کیا کیا کہا۔۔۔۔۔۔

وہی کہا ھے جو آپ نے سنا ھے۔۔۔۔

اور وہ ہکا بکا غازیان کی جانب دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔

غازیان کیا تم اس گھر کے رواجوں کے بے خبر ہو۔یاں جان بوجھ کے انجان بنے ہوئے ہو۔۔۔۔۔

کیا دلاور بھائ جان کی زندگی تم سے چھپی ہوئ ھے۔۔۔۔

بولو غازی۔۔۔۔

جانتا ہوں سب جانتا ہوں امی۔۔

لیکن مجھ میں اور دلاور چچا میں بہت فرق ھے۔وہ تو سب کے دباو میں اکر اپنی زندگی برباد کر چکے لیکن میں ویسے نہی کروں گا۔مجھے میری زندگی کے فیصلے کرنے کا پورا حق ھے۔

غازی۔۔۔اور ان کا ہاتھ پہلی بار اپنی اولاد پر اٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔

امی۔۔۔

بس بس چپ کر جاو غازی میں کچھ نہی سنوں گی۔۔۔

میں ابا جی کو اپنا فیصلہ سنا چکی ہوں۔اور اگر تم نے میرے فیصلہ نا مانا تو میں بھول جاوں گی کہ تم میری اولاد ہو غازی۔۔۔۔

اور غازیان شدید غصہ کے عالم میں کمرے سے نکلا تھا۔۔۔۔۔

اور وہ وہی سر پیٹے بیڈ پر بیٹھ گئیں تھیں۔

انہیں ان کے بیٹے سے وہی بغاوت نظر آرہی تھی۔جو تئیس سال پہلے اس گھر کے ایک بیٹے نے کی تھی۔سب کچھ ویسے ھی ہورہا تھا۔اج بھی انہیں غازیان کی شکل میں دلاور کا عکس دکھائ دے رہا تھا۔۔۔وہ تو گھوم کر رہ گئ تھیں۔۔۔

پریشہ کھڑکی پر کھڑی اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔جو مسلسل ٹہلتے ہوئے تین سگریٹ پی چکا تھا۔۔اور پری کو سخت کوفت ہورہی تھی کہ اتنا سلجھا اور پڑھا لکھا شخص حالات سے منہ موڑے خود کو نقصان پہنچانے میں لگا ہوا ھے۔۔۔۔۔پری کھڑکی بند کی تھی۔۔۔

اک نظر حرا کی جانب دیکھاجو سب سے بے خبر سو رہی تھی۔۔۔۔

پری شال اوڑھے کمرے سے نکلی تھی۔۔۔۔۔۔۔اور چلتی ہوئ غازیان کے پاس ائ تھی۔جو ڈبی سے اک اور سگریٹ نکال رہا تھا۔۔۔۔۔

بس کریں کیا ساری ڈبی اج ھی خالی کریں گے۔اور اسنے سگریٹ کی ڈبی غازیان کے ہاتھ سے لی تھی۔۔

واٹس رانگ ود یو ۔۔۔۔۔۔۔

نتھینگ۔۔۔۔۔

سگریٹ واپس کرو۔۔

نہی کروں گی۔۔۔

پلیز پریشہ۔۔۔۔گیو می۔۔۔

نو مسٹر غازیان میں نہی دوں گی۔

کسی اور کا غصہ خود پر کیوں نکال رہیے ھیں۔

بڑوں کی خوشیوں کے اگے کیا اپ بھی ویسے ھی سر جھکا دیں گے جیسے چند سال پہلے اس گھر کے اک فرد کو مجبور کیا گیا تھا۔۔۔

مجھے افسوس ہورہا اس گھر کے کچھ افراد کی زہنیت پر کہ دنیا اتنی اگے بڑھ گئ۔۔۔لیکن یہ پرانے دستور نا بدل سکے۔۔

اپنی عزت نفس مجروح نا ہو۔اسلیے اپنے کیے گئے فیصلہ دوسروں پر سونپ دئیے جاتے ھیں۔۔اور جس کا خمیازہ ساری رندگی بھگتنا پڑتا ھے۔

میں اپ کی زندگی میں بولنے والی کون ہوتی ہوں۔لیکن اک کزن ہونے کے ناطے اتنا ھی کہوں گی کہ اگر اج اپ نے خود کیلئے سٹینڈ نا لیا تو نسل در نسل یہ بنائے گئے رتی رواج کبھی اپنا رخ نا موڑ پائیں گے۔۔۔۔۔۔۔

اج اپ کو خود کیلئے سٹینڈ لینا ھی پڑے گا۔ورنہ نا جانے کب تک یہی سلسلہ چلتا رہے گا۔۔۔۔

اور وہ پری کی جانب دیکھ رہا تھا۔اور اج اسکا ہر حرف سیدھا اس کے دل میں گھر کررہا تھا۔۔۔۔

امید کرتی ہوں کہ دلاور کے ساتھ جو ہوا وہ کسی کے ساتھ نا ہو۔باقی اپ خود اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق رکھتے ھیں۔۔۔۔۔۔

یہ لیں اپنی سگریٹ کی ڈبی۔۔ڈسٹبین میں پھینک دیجیے گا۔اور ٹھنڈے دماغ سے اپنی زندگی کا فیصلہ کیجیے گا بنا کسی کے بھی دباو میں اکر۔۔۔۔۔۔

اور وہ یہ کہہ کر رکی نہہں تھی۔۔

بلکل پریشہ میں ماضی کا دلاور نہیں بنوں گا میرے دل کی حکمران صرف تم ہو۔اور میری زندگی کا حصہ بھی تم ھی بنو گی یہ وعدہ ھے میرا خود سے۔اسکیلے چاہے مجھے سارے خاندان سے دشمنی مول لینی پر جائے۔۔۔اور وہ مسکراتا ہوا سگریٹ کے باکس کو ڈسٹبین میں پھینکتے روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔

جی مما تھینک گاڈ پری کی لائف اب اپنی نارمل روٹین پر واپس اگئ ھے۔۔۔

مما میں بس بہت جلد واپس آؤں گی پری کی کزن سویرا کی شادی ھے تو وہ بہت فورس کر رہی ھے کہ شادی اٹینڈ کر کے جانا ھے۔۔۔

حرا۔۔حراا کدھر ہو۔۔حنا کی مسلسل اوازیں ارہی تھیں۔

اوکے مما میں پھر بات کروں گی آپسے۔۔

جی مما ائ مس یو ٹو۔۔۔لو یو۔۔بائے۔۔

اور وہ جیسے ھی بے دھیانی میں پلٹی تھی۔

کہ کسی وجود سے بہت زور سے ٹکرائی تھی۔کہ سر ھی گھوم گیا تھا۔اسکا۔اوہ ہو دکھائی نہیں دیتا کیا۔اور اک انجان شخص کو سامنے پاکر وہ بوکھلا گئ تھی۔۔۔

اور زمین پر گرے فون کی حالت دیکھ کر تو رو ہانسی ہوگئ تھی۔

اوہ ائیم سوری۔۔۔۔۔

واٹ لک ایٹ مائ فون۔

دیکھیں میں نیو دلادو گا ریلیکس۔

تھینک یو سو مچھ میں خود لے لوں گی۔

ارے حرا یار تم ادھر ہو۔۔۔۔

پر حنا امان کو وہاں کھڑے چونکی تھی۔

اسلام علیکم امان بھائ تسی کیدھوں ائے۔۔۔

وعلیکم السلام بس ابھی ابھی ائا ہوں چھٹکی۔اوہ امان بھائ 

میں چھٹکی نہیں بڑی ہوگئ ہوں۔۔۔

حرا تم ادھر کیا کرہی ہو کب سے ڈھونڈ رہی ہوں میں تمہیں کہ اج شام میں ہمیں شاپنگ کرنے بھی جانا ہںے۔۔۔

ارے میں تو بھول ھی گئ میں اپ کا انٹرو کرواتی ہوں امان بھائ۔جو مسلسل حرا کے تاثرات دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

امان بھائ یہ ھیں حرا ہمارے دلاور چاچو کی بیٹی پریشہ یعنی کہ ہماری کزن کی بیسٹ فرینڈ حرا جو کے لندن سے ائیں ھیں اور پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر ھیں۔۔اور حرا اپا یہ ھیں امان بھائ حنا نے حرا کی جانب دیکھا جو غصہ میں لال بھبھو بنی ہوئ تھیں۔

حنا کیپ کوائٹ۔۔

 اور وہ غصے سے بولتی وہاں سے چلی گئ تھی۔

انہیں کیا ہوا امان بھائ۔

ہاہاہا یہ تو وہ ھی جانتی ھیں۔۔۔۔

باقی سب کدھر ھیں۔اوہ آئیں امان بھائ اماں جی کے کمرے میں چلتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔

وہ اج سب شادی کی شاپنگ کرنے کیلئے ائیں تھیں۔۔۔۔۔۔

غازیان کو ناچاہتے ہوئے بھی ساتھ انا پڑا تھا کیونکہ امان سب لڑکیوں کو اکیلے جھیل نہی سکتا تھا۔اسلیے نا چاہتے ہوئے بھی اماں جی کے آسرار پر اسے ساتھ انا پڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔

حرا کو تو سب سے پہلے اپنا موبائل رئیپیر کروانا تھا۔۔۔۔۔

اسلیے وہ حنا کے ساتھ موبائل شاپ میں گئ تھی۔۔۔ارے امان بھائ اپ یہاں پر۔۔جی ہاں موبائل میری وجہ سے گرا تھا تو میرا حق بنتا ھے کہ میں اپنی غلطی سدھاروں تو اچھا جی یہ بات ھے۔۔اسلیے حرا جی اتنی غصہ میں تھی صبح۔۔۔۔۔

جججی جی۔اور حنا اگر اپکی فلاسفی اب ختم ہوگئ ہو تو اپنی سہیلی سے کہیں موبائل پکرا دیں میں ٹھیک کروا دیتا ہو۔

جی نہیں بہت شکریہ ھم ٹھیک کروا لیں گی۔۔۔۔۔

تو حنا غازیان کا تو پتا ھی ھے جب اگر اس نے واپسی کا بول دیا تو مطلب ایک منٹ میں سب کار میں ہوں گی پھر مت کہنا کہ شاپنگ ادھوری رہ گئ اوہ ہاں حرا یار یہ تو خیال ھی نہی رہا یارا۔۔۔۔بھائ تو پھر کسی کی بھی نہیں سنیں گے اور مجھے بہت کچھ لینا ھے۔

یہ لیں بھائ اپ خود ریپیر کرواتے رہیں موبائل ہم شاپنگ کرلیں۔اور حنا نے حرا کے ہاتھ سے فون چھپٹ کر امان کو دیا تھا ۔۔۔اود خود حرا کی ایک نا سنتے اسے پکڑے شاپ سے باہر لائ تھی۔

امان تو اس کی حرکت پر مسکرا دیا تھا۔۔۔۔۔

ربیا تو غازیان کا اک منٹ کے لہے پیچھا نا چھوڑ رہی تھی۔غازیان یہ کیسا رہے گا ڈریس۔۔۔

لیکن غازیان نے اس کی کوئ بات نا سنی تھی۔اسکی متلاشی نظریں تو کسی کو تلاش رہی تھیں۔اور وہ اسے ایک چوڑیوں کے سٹال پر کھڑی نظر ائ تھی۔۔۔

غازیان ربیا نے غازیان کا بازو پکڑا تھا۔

اور غازیان نے غصہ سے ربیا کی حکت کو دیکھا تھا۔۔

پاگل ہو تم یہ کیا حرکت ھے۔۔۔

مت بھولو کہ اس ٹائم تم مارکیٹ میں ہو۔اپنی لمٹس میں رہو۔اور والٹ سے اک کارڈ نکال کر اس کی جانب بڑھایا تھا۔پکڑو اسے جو چاہیے جو پسند ھے وہ لیتی پھرو۔۔۔

اور وہ سویرا لوگوں کو اتے دیکھ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔

وہ ریڈ بینگلز دکھائیں۔۔۔۔یہ لیں میم۔۔۔۔واو۔۔

لیکن یہ سائز میرے چھوٹا ہوگا۔نہیں میم اپنا بازو ادھر کیجیے میں چیک کر دیتا ہوں یہ چوڑیاں اپ کے ائا جائیں گی۔

ٹھیک ھے پھر اور پری نے اپنا ہاتھ اس دکاندار کی جانب کیا تھا۔۔

غازیان نے پری کا بڑھتا ہواہاتھ پکڑا تھا۔اور اشارے سے دکاندار سے چوڑیاں لیں تھیں۔اور اپنے ہاتھوں سے پری کو وہ چوڑیاں پہنائ تھیں کہ پری بھی اک دم حیران رہ گئ تھی کہ یہ غازیان کہاں سے اگیا۔۔۔۔

ھاے کتنے پیارے لگ رہے ھیں دونوں اک ساتھ اور یہ حنا تھی۔

غازیان اور پری کواک ساتھ دیکھ کر۔ماشاءاللہ کہنے والی۔۔کاش یہ دونوں ایک ہوجائیں کتنا مزہ ائے گا پری کو اپنی بھابھی بنا کر۔۔

لیکن حرا کو سامنے کا منظر دیکھ کر شدید غصہ ایا تھا۔

پری ہوگئ کیا شاپنگ۔۔۔۔۔وہ چلائ تھی۔۔۔

کہ غازیان نے فٹافٹ پری کا تھاما ہوا ہاتھ چھوڑا تھا۔

کہ پری بوکھلا کر رہ گئ تھی۔۔۔

اور انہوں نے حرا کو دیکھا تھا جو تپی ہوئ دکھ رہی تھی۔۔۔۔۔

اوہ ہاں ہار ہوگئ تقریباً شاپنگ یہ دیکھو حرا چوڑیاں کتنی پیاری ھیں نا پری نے پیار سے کہا تھا۔۔۔

ہاں پیاری ھیں لیکن یہ پہنی ہوئ بریسلیٹ کی نسبت کم۔۔۔

اور پری سمجھ گئ تھی حرا کا غصہ کی وجہ۔۔۔۔۔

ہاں نا وہ تو سب سے خاص ھے۔۔۔اور حرا پری کی بات پر مسکرای تھی۔شکر ھے ورنہ میں تو ڈر گئ تھی۔۔۔۔کیوں!

کہ کہیں تمہارا دل ہی نا اجائے اپنے کزن پر۔۔

ہاہاہا اوہ یہ پریشہ دلاور کا دل ھے ہر کسی پر نہیں اتا۔۔۔۔

اہوں اہوں کیا باتیں ہورہی ہیں اکیلے اکیلے حنا ان دونوں کے پاس ائ تھی۔بس کچھ سگریٹ بھی ہوتا ھے ابھی تم بچی ہو۔۔

اور وہ ہنسی تھیں۔۔۔۔۔

لیکن ربیا پیچھے کھڑی سارا نظارہ دیکھ چکی تھی۔کو اسے ایک انکھ نا بھایا تھا۔پریشہ سے اسے الگ جلن ہورہی تھی۔۔۔۔

میں پارکنگ میں تم سب کا ویٹ کررہا ہوں۔۔پانچ منٹ میں پہنچ جاو۔۔

اوکے بھائ۔۔۔۔۔لو جی اب تو دوڑ لگانی پڑے گی بھائ کا حکم جو ھے۔۔۔۔

وہ کار تک ائیں تھیں تو ربیا صاحبہ فرنٹ سیٹ سنبھالیں بیٹھی تھیں۔۔افف اس میسنی کی سپیڈ تو دیکھو۔۔۔۔پہلے سے اکر بھائی پر منتر پھونک رہی ہونی۔۔۔۔اوہ ہو حنا تم بھی چھوڑ دو اسکی جان۔۔۔

میرا بس چلےتو جان ھی۔۔۔۔

اوہ بس گائزز اب بیٹھو گاڑی میں اور پری کار کا دروازہ کھولے یٹھی تھی۔۔۔ 

سویرا لوگ کدھر ھیں۔بھائ وہ امان بھائ کے ساتھ ارہئ ھیں۔

ٹھیک ھے۔۔۔

پریشہ ویسے اس گاڑی میں بھی کافی جگہ تھی۔۔۔۔

کیوں ربیا اپی اپ نے ادھا سفر اگے بیٹھ کر اور ادھا سفر پیچھے بیٹھ کر کرنا تھا۔تو پہلے بتا دیتی اپ کو امان بھائ کے ساتھ بھیج دیتے کافی ریلیکس ہوکر اتیں۔۔۔۔۔حنا کی بات سن کر حرا نے اک تالی ماڑی تھی جس پر پری بھی ہنسی نہیں روک پائی تھی۔اور مسکرائے تو غازیان بھی تھے پری کی مسکراہٹ کو دیکھ کر۔۔۔۔۔

لیکن اس کا ایک نتیجہ ضرور ہوا تھا پوراسفر ربیا ناک منہ بناتی چپ کر کے بیٹھی رہی تھی۔لیکن ان تینوں مے تو پوری گاڑی میں ادھم مچایا ہوا تھا۔۔۔

وہ جیسے ھی گھر پہنچی تھی۔تو لاونج میں ان دونوں کو دیکھ کر پری چلا اٹھی تھی۔

علی صائم۔۔مارے خوشی کے پری علی سے جا لگی تھی۔۔۔لیکن کسی کے ہاتھ سے شاپنگ بیگ چھوٹے تھے اک دھچکا سا لگا تھا غازیان کو۔۔۔

اوہ بجو ہوش میں تو او۔۔۔ہم بھی ائیں ھیں ساتھ۔

اور وہ صائم سے ملتے ہوئے رو پڑی تھی۔۔۔۔اوہ بس چپ کر جاو۔

کیا روتی ہی رہو گی اب۔۔۔دیکھو حرا۔۔۔

صائم علی واٹ ائا پلیسنٹ سرپرائز۔

علی بھائ سنبھالنا اسے۔۔ورنہ سیلاب آجانا۔۔اور علی پری کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا۔۔

رئیلی چڑیل اور صائم حرا کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔۔

اوئے تمہیں کیا ہوگیا۔۔

کیوں کیوں مجھے کیا ہونا۔۔۔

لگتا پاکستانیوں نے تمہیں کچھ زیادہ ھی کھلا دیا۔جو تم اتنی موٹی ہوگئ ہو۔۔

صائم کے بچے تم رکو زرا۔ارے نہیں نہیں بچاو علی مجھے اس سے۔۔

اور وہ ہنس دیا تھا۔۔۔۔

مس یو یار۔اور صائم بلکل بچوں کے جیسے ملا تھا حرا سے۔۔

اوراتنے دنوں کے بعد اپنے بچپن کے دوستوں کو اک ساتھ دیکھ کر آنکھیں تو اسکی بھی نم ہوگئ تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پاس کھڑی حنا تو ٹکٹکی باندھے سب کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

باقی سب گھر والوں کی بھی کیفیت وہی تھی۔۔۔۔۔

ارے کوئ ہمیں بتائے گا کہ کون صاحب ھیں یہ حرا۔

اور صائم نے پاس کھڑی حنا کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اوہ ہاں حنا یہ ھیں۔۔۔۔

میں ہوں صائم اور پیار سے مجھے سب صائم بلاتے ھیں۔

پری کا چھوٹا بھائ۔۔۔۔۔اور حرا کا۔۔۔۔

بکواس نہی کرنا کوئ حرا نے صائم کو گھورا تھا۔۔۔۔۔

حرا کا چھوٹا بھائی۔۔۔

اور حرا کا مارے حیرت سے منہ کھلارہ گیا تھا۔۔۔

ہائے اپ بھی مجھے صائم بلاسکتی ھیں اور صائم نے پاس کھڑی حنا کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔

تو یہ بات ھیے۔حرا صائم کی حرکت پر مسکرا دی تھی۔۔۔۔

ارے غازیان پتر تجھے بچپن سے شکایت ہوتی تھی نا کہ تمہارے ساتھ کھیلنے کیلئے تمہارا چھوٹا بھائ کیوں نہیں ھے۔۔اور اب دیکھو تمہیں تہمارا بھائی مل گیا۔۔۔غازیان گرم جوشی سے ملا تھا صائم سے۔۔۔۔

اور پتر یہ ھے علی پتر پریشہ پتر دا دوست۔

اور کن اکھیوں سے غازیان نے علی کی جانب دیکھا تھا۔

ہائے مائ سیلف علی۔

غازیان۔۔۔۔۔۔اور وہ ہاتھ ملاتا ہوا کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔اور کمرے کا دروازہ بہت زور سے پٹھکا تھا۔پری کو علی سے ملتے دیکھ اسے بہت غصہ ایا تھا۔۔۔۔

سمجھتی کیا ھے کیا زیادہ ھی ازاد خیال ھے یہ لڑکی جو بڑوں کو بھی کھڑا نہی دیکھا اور اجنبی کے گلے لگ گئ۔ایڈیٹ۔۔۔اور وہ سر پٹھکے الماری سے کپڑے نکالے شاور لینے گیا تھا۔

دادی ماں بس کریں میرا پیٹ فل ہوگیا۔۔۔

ہیں فل کیسے ہوگیا۔۔ہائے کنا دبلا پتلا وامیرا پت۔۔اوہ دادی ماں اٹس فٹنس۔۔۔

گولی وجے تیری فٹنس نوں۔۔ائا شبانہ اک ہور دیسی گھی دا پراٹھا لا۔۔۔۔اور صائم کی شکل دیکھ کر سب کی ہنسی چھوٹی تھی۔۔۔۔۔

ارے تم دونوں کو ایڈریس کیسے ملا۔۔۔

ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتاھے پری یہ تو پھر ایڈریس تھا۔۔۔

علی نے کہا تھا۔۔۔۔۔خفا خفا سے انداز میں۔

اچھا جیی پری نے محسوس کیا تھا جیسے وہ کچھ ناراض سا ہو۔۔

جی ہاں۔۔۔ہئے میرے دلاور پتر دی نشانی۔۔۔اور یہ تھی سلمی پھوپھو جو صبح سے کسی رشتے دار کی طرف گئیں تھی۔۔اور اب جب سب کچھ تائ اماں نے انکے گوش اتارا تھا تو وہ بھاگتی ڈائننگ ٹیبل کی طرف آئیں تھیں۔۔

اب یہ کون ھیں یار پری۔۔۔

ہائے میں صدقے جاواں ائا تے ہمایوں سعید ورگہ ہیرو لگ رہیا۔اور وہ علی کی طرف بڑھی تھیں۔کنا سوہنا وا میرا پتر اور انہوں نے علی کو گلے لگائے انسو بہانا شروع کر دئیے تھے۔

علی تو تلملا اٹھا تھا۔وہ انٹی سنئیے۔میں۔۔۔۔۔

انٹی کون اوئے پھوپھو ہوں تیری یہ انگریزوں کی طرح انٹی وانٹی پلے نہیں پہندی۔۔

اور علی کے منہ پر اک تاثر اتا اور اک جاتا تھا۔۔۔۔

اور صائم سمیت سب کا ہنس ہنس برا حال تھا۔۔۔نی سلمی کی ہوگیا۔اور یہ اماں جان تھیں جنہوں نے علی کو پھوپھو سے رہائ دی تھی۔۔۔۔۔

دلاور دا پتر ادھر ویکھ او کھڑا۔۔

ھیں تے ائا کون سی۔میرے انہے انسو بہہ گئے۔۔

لیکن انکی انکھوں سے بہا اک بھی انسو نا تھا۔

اوتھے ویکھ چلیے۔۔۔۔۔

اور اب تو صائم کی اپنی شامت اتئ محسوس ہوئ تھی۔۔۔

ہائے بلکل دلاور دا لڑکپن ہائے میرا پتر۔۔۔

جی جی میں صائم میں ابھی ائیا۔۔۔

ارے اتھے مل میرے نال میرے کلیجے کو سکون آئے اور انہوں نے صائم کو کھینچ کر گلے لگایا تھا۔۔جو کے راہ فرار کی تلاش میں تھا۔۔۔۔

سب گھر والے علی کو گھیرے بیٹھے تھے۔سپیشلی سلمئ پھوپھو تو کبھی اسے کسی ہیرو کا نام دیتیں تو کبھی کسی کا۔اور ربیا تو خاطر مدارت میں علی کے اگے پیچھے پھر ری تھی۔پری کو ربیا کی حرکت دیکھ کر بہت غصہ ارہا تھا۔لیکن اس سے بھی زیادہ علی پر۔کیونکہ ایکٹنگ میں تو اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دے اور جب سے اپنی تعریف سن رہا تھا تب سے پھولے نا سما رہا تھا۔اور اگر پری کی طرف نظر کر بھی لیتا تو دیکھ کر ایسے اگنور کرتا کہ جیسے دیکھا ھی نا ہو۔۔

کر لو اگنور مسٹر علی جب میں نے اگنور کیا تو پھر دیکھنا کیا حال ہوتا تمہارا۔۔۔

اور صائم تو حرا کے پاس بیٹھھی حنا کو ھی ٹکر ٹکر دیکھے جارہا تھا۔

اور حنا کے رخسار تو شرما شرما کے لال ہوگئے تھے۔۔

پری صائم چائے لو بیٹا۔اور شبانہ نے چائے کی ٹرے ان کی طرف کی تھی۔

جب سے شبانہ کو پتا لگا تھا کہ اللہ نے تو ان کو صائم کی صورت میں اک بیٹے سے نوازا ھے وہ انکے خوشی سے پاوں ھی زمین پر نہی لگ رہے تھے۔۔۔

صائم ان سے ملو۔یہ ہیں ہماری چھوٹی مما اور صائم چونکا تھا۔پری۔۔۔۔۔۔۔وہ کچھ بول نہی پایا تھا۔۔

صائم لاونج سے اٹھ کر باہر نکلا تھا۔مما ڈونٹ وری میں دیکھتی ہوں۔

پری بھی اسکے پیچھے لپکی تھی۔

صائم رکو بھی کیا ہوگیا ھے۔ایسے کیوں باہر اگئے۔۔

پری کیا ہوگیا ھے تم بڑی ہو انڈیپینڈنٹ ہو تو کیا مطلب پاکستان انے سے پہلے مجھے کچھ بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا تم نے۔۔

اتنی دور انجان ملک میں اجنبی لوگوں کے درمیان اکیلی اگئ۔۔

یہ نا تو انجان ملک ھے صائم۔اور نا یہ سب اجنبی لوگ۔۔۔

واٹ پری اگر علی بھائ مجھے کچھ نا بتاتے تو مجھے پتا ھی نا چلتا۔۔اور تم نے یہاں اکر ام مجھ سے ایک بار بھی کنٹیکٹ کرنے کی جسارت کی۔۔وہ تو علی بھائ تھے ہر بار ٹالتے رہے۔میں ویکنڈ پر گھر ایا تو تب پتا لگا۔دونوں لڑکیاں اکیلی یہاں پہنچی ہوئ ہیں۔پتہ بھی کتنی فکر ہوئ مجھے تمہاری۔اور اج اسکا چھوٹا بھائ بلکل بڑوں کی طرح ڈانٹ رہا تھا۔۔۔۔۔وہ مسکرا دی تھی۔

تم۔ہنس لو اب پری۔۔

ارے ارے سوری بابا۔۔۔اج پتا لگا کہ میرا بھائی کتنا سمارٹ ھے۔۔۔

مسکا مت لگاو۔۔۔

کیا تمہیں خوشی نہیں ہوئی کہ میرے یہاں انے سے ہمیں کتنے اپنے رشتے مل گئے صائم۔

دادی ماں۔مما اور پاپا۔۔۔۔

اور وہ پاپا کے لفظ پر چونکا تھا۔۔کون سا باپ پری۔۔۔جس کا نام تک ہمیں معلوم نا تھا۔

اج تک ہمیں کبھی سمجھ ھی نا ایا کہ باپ کی شفقت میں رہنا کیا ہوتا۔۔

اج اگر یہ سب ملا بھی تو کیا ہماری مما جو ہمارے لیے سب کچھ تھیں۔وہ تو ہمارے ساتھ نہیں ھیں اج۔تو پھر کیا فائدہ۔۔

بابا مجبور تھے صائم۔

پری مرد مجبور نہیں ہوتا۔۔۔۔

غلط فہمی ھے تمہاری۔

میں بھی یہی سوچتی تھی صائم۔لیکن تم حقیقت سے انجان ہو۔

کونسی حقیقت پری۔۔؟

اور وہ سب کچھ صائم کو بتارہی تھی جو اسکے بابا پر بیتا تھا۔تاکہ صائم کا دل بھی بابا کے لیے صاف ہوجاے کوی بھی خلعش نا رہیے۔۔

وہ لان میں پڑی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔۔پری بھی پاس بیٹھ گئ تھی۔صائم میں جانتی ہوں مرد مجبور نہی ہوتا لیکن اسے مجبور کر دیا جاتا ھے۔کہ وہ کوئ بھی قدم نا اٹھا پائے۔۔

مجھے پتا ھے صائم ہم نے بابا کے بغیر اپنی زندگی کے بہت حسین پل گنوا دئیے ہیں لیکن اب ہماری باری ھے کہ ہم اپنے بابا کا سہارا بنیں۔۔

اور میں جانتی ہوں میرا بھائ بڑا سمجھدار ھے۔اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ھے سوچ لو۔۔مما کو تو کھو دیا کیا اب اتنی ہمت ھے کہ بابا۔۔۔۔۔۔کو بھی کھو دیں۔۔۔اور وہ ڈھے سی گئ تھی۔۔رات ہونے کو تھی۔

اندر اجاو بابا انے والیں ہوں گے۔۔۔۔

اور وہ اٹھ کر اندر چلی گئ تھی۔۔۔۔۔اور صائم وہیں سر کو تھامے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔اک عجیب کشمکش میں ڈال گئ تھی پری اسے۔وہ دونوں تو واپس لینے ائے تھے انہیں۔۔

ولی شاہ گھر میں داخل ہوئے تھے تو سب گھر والے تیر کی طرح سیدھے ہوکر بیٹھ گئے تھے۔

دلاور پتر اگیا توں۔پیچھے ھی دلاور شاہ گھر میں داخل ہوئے تھے۔۔

اسلام علیکم اماں جیتا رہ پتر۔۔۔۔۔

صائم اور علی کو دیکھ کر وہ دونوں ھی چونکے تھے۔۔۔

پتر ادھر ویکھ اویکھ تیرا پتر۔۔

رباب دی اخری نشانی تیرا پتر صائم پریشہ دا چھوٹا بھائ۔۔۔۔

اور ولی شاہ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس چھوٹا تھا۔۔۔۔۔

دلاور شاہ کو تو جیسے کوئ سانپ سونگھ گیا تھا۔وہ بس بے بسی سے صائم کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔

اور بڑی مشکل قدم اٹھاتے ہوئے صائم پاس ائے تھے۔

می میرا بیٹا۔۔۔۔

اور وہ صائم کے گلے سے جا لگے تھے۔کندھے جھک سے گئے تھے۔انسو تھے کہ ان کی آنکھوں میں بہے جارہے تھے۔اماں جی کا بھی  روروکے برا حال تھا۔بابابس کریں روئیے مت آپکی طبیعت خراب ہوجائے گی۔۔اور وہ بابا کی جانب لپکی تھی۔جنہیں صائم نے سہاراا دئیا ہوا تھا۔۔

نہیں مجھے بیٹا کچھ نہی ہونا اب میرے بچے میرے پاس ھیں۔۔۔۔موت بھی اجائے اب کوئ ڈر نہیں ھے۔۔۔۔

اللہ نا کرے بابا پری اور صائم نے اک اواز میں کہا تھا۔اور دونوں دلاور کے سینے سے جالگے تھے۔کہ ان انکی کھوئ ہوئ خوشیاں واپس لوٹ ائیں تھیں۔اماں تو صدقے واری جارہیں تھیں۔۔۔

بابا ان سے ملیں اپ کے دوست کے بیٹے مائ بیسٹ فرینڈ علی۔اور وہ بابا سے علی کو ملوارہی تھی۔۔۔

اور اک وجود لزتا ہوا صائم کے پاس ایا تھا۔۔۔

اخر کو ولی شاہ کا پوتا تھا صائم۔۔۔ان کی چھاتی اپنے وارث کو دیکھ کر اپنی نسل کو دیکھ کر اور چوڑی ہوگئ تھی۔۔۔۔۔

پری یہ کون ھیں۔۔۔۔

ہماری خوشیوں کے قاتل۔۔۔

مطلب صائم نے حیرانگی سے پری کی جانب دیکھا تھا۔

رشتے میں ہمارے دادا لگتے ہیں یہ چوہدری ولی شاہ۔۔

اوہ تو یہ ھیں وہ۔۔۔

خیر ائ ایم ٹو مچھ ٹائرڈ۔۔۔۔۔

اوہ ہاں حنا صائم کو انکا روم دکھا دو۔

جی اپی۔۔۔۔

اور جو صائم سے ملنے کیلیے کھڑے ہوے تھے وہی لڑکھڑا گئے تھے۔۔۔۔ 

کیا ہوا چوہدری صاحب خاندان کا وارث دیکھ کر اپ کا سارا غرور خاک میں مل گیا۔افسوس ھیں نا سب کچھ پاس ہوکر بھی اپ خالی ہاتھ رہ گئے اور وہ کہتی ہوئ وہاں سے چلی گئ تھی۔۔۔۔۔۔

یہ رہا اپکا کمرہ۔۔۔۔۔مسٹر صائم۔۔

ویل میں کوئ مسٹر۔ ہیں ہوں جسٹ صائم ہوں۔۔۔

حنا جی۔ائ سمجھ۔۔۔۔۔

ججی۔وہ دھیمی اواز میں بولی تھی۔۔۔۔۔

اگر اپ کا شرمانا ختم ہوگیا ہو تو میں اندر جاوں۔

اور وہ سٹپٹا کر رہ گئ تھی۔ججی۔۔جائیں میں نے ہاتھ پکڑ کر روکا ھے کیا۔۔یہ لیں پکڑیں اپنا کوٹ۔۔۔۔۔اور حنا صائم کا کوٹ اس کے سر پر پٹکھ کر گئ تھی۔۔

ہاہاہا یہ تو بلکل میرے جیسی ھے تیکھی مرچی ہاہاہاا اور صائم ہنسا تھا۔

اوہ کدھر گم ھے میری سویٹ کزن۔۔علی حرا کے پاس ایا تھا تو وہ چونکی تھی۔

اوہ میں نے کہاں ہونا۔۔۔۔اچھا مما کیسی تھیں۔اور پاپا۔۔انکل انٹی۔۔۔اوہ بس بس وہ اک ھی سانس میں بولی تھی۔۔۔۔

وہ بلکل ٹھیک ھیں۔اور انٹی رئیلی مس یو یار۔۔۔

ہوں مس تو میں بھی کرتی ہوں انہیں۔۔۔۔۔

کیا میں یاد نہی ائا تمہیں حرا۔۔۔۔

نہیں بلکل بجی نہیں۔بس تمہیں ھی یاد کرنا تھا۔

اچھا جی بڑی ظالم ہو تمم حرا۔۔۔

اوہ وہ کیوں۔۔

کیا کیوں کوئ آئیڈیا ھی دے دو اس چڑیل کو کیسے بتاوں اپنے دل کی بات ہر بات۔۔۔۔۔ابھی جاو اود بتا او دل کی ہر بات۔۔۔۔۔۔۔

کیوں میں کیوں بتاؤں۔۔کبھی خود بھی تو سمجھے میری کیفیت کو۔۔۔۔

اوہ جناب ابھی وقت ھے ضد چھوڑو اور اظہار محبت کردو وگرنہ یہ نا ہو کہ کہیں دیر ہوجائے۔۔۔۔۔

اور اس نے سامنے کھڑی پری کو دیکھا تھا۔جو غازیان سے بات کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔ 

جی ٹھیک ھے میں کل سے ھی ہاسپٹل جوائن کروں گی۔۔اوکے دیٹس گڈ۔میں کل اپکو ڈراپ کردوں گا۔

اور علی کو تو الگ فکر لاحق ہوگئ تھی۔۔۔یار یہ کی چکر ھے حرا۔۔۔ابھی تک تو کوئ چکر نہیں ھے بس اپنی پری بہت معصوم ھے۔۔۔اگے تم سمجھدار ہو۔۔

پری از مائین اور وہ یہ کہتا پری کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔

پری مجھے تم سے بات کرنی ہے۔اور پری جسے حرا نے اشارہ کیا تھا تو وہ بھی مسلسل علی کو اگنور کرنے میں لگی ہوئ تھی۔۔۔

غازیان نے علی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

جسٹ ایکسکوز می مسٹر غازیان۔اگر اپ دونوں کی باتیں ختم ہوگئ ہوں تو مجھے پری سے کچھ بات کرنی تھی۔۔۔

اوکے۔۔پری کل اپ ریڈی رہیے گا۔۔۔۔۔۔۔

جی ٹھیک ھے۔اور علی پری کا ہاتھ پکڑے اسے وہاں سے لے گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔او بھی پری۔۔۔۔جلدی سے

غازیان کا تو ماڑے غصہ سے برا حال ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔

اور حرا نے اپنی انکھوں میں ائ نمی کو صاف کرتے دونوں کی خوشیوں کی دعا کی تھی۔۔۔

اپ رو رہی ہیں کیا۔۔۔اور وہ امان کو دیکھ کر  سنبھلی تھی۔۔

نن نہیں تو۔۔۔۔

ویل اتنی سٹرانگ گرل کی آنکھوں میں انسو اچھے نہیں لگتے۔۔۔۔وہ تو لڑتی جھگڑتی ھی اچھی لگتی ھے۔۔۔

واٹ مسٹر واٹ ار یو مین بائے دیٹ لڑتی جھگڑتی لڑکی سے مراد۔۔

اوہ اپ اتنا پینک کیوں ہورہی ھیں۔جسٹ کڈینگ۔۔۔

ویسے میرا اپکا کوئ مزاق نہیں ھے۔۔۔۔۔اوہ ائ سی۔۔۔۔

ویل ریلکس مائ مسٹیک۔۔

ائ ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ لیں اپکا موبائل۔۔۔۔۔۔رئپئر ہوگیا ھے بلکل پہلے جیسے۔

اور حرا نے امان سے فون لیا تھا۔تھینکس۔وہ کہتی روم کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔

اور امان تو حرا کی طرف دیکھتا رہ گیا تھا کہ یہ یار ایسی کیوں ھے۔۔۔۔۔۔۔۔اخر اسنے خود کلامی کی تھی۔۔۔

افف ہو علی یہ کیا طریقہ ہوا۔اور وہ اسے کھینچتا ہوا سوئمنگ پول کے پاس لایا تھا۔۔۔۔

کیوں ابھی تو ہاتھ پکڑ کر لائیا ہوں سویٹ ہارٹ ورنہ بانہوں میں بھی اٹھا کر لے اتا۔۔۔۔۔

کسی میں اتنی جرات کہاں جو علی کو روک سکے۔۔۔۔

واٹ علی۔۔۔۔۔۔۔

بکو نہیں فضول ڈائیلاگز۔۔۔گھر والوں کو سناو یہ سب ڈائیلاگز اور اس ربیا کو بھی جو خاطر مدارت میں گھن چکر بنی ھے تمہاری۔۔

اوہ میرے خدا یہاں کچھ جلنے کی بو ارہی ھے۔۔۔۔

علی اس نے علی کی جانب دیکھا تھا میں کیوں جلوں گی۔۔

جل تو تم رہے تھے نا۔مجھے غازیان جی کے ساتھ کھڑے دیکھ کر۔اور پریشہ نے شرماتے ہوئے جان بوجھ کر غازیان کے ساتھ جی کا لفظ لگایا تھا۔۔۔۔

جس سے علی اور تپ کر رہ گیا تھا۔۔۔

کیا کیا غازیان جی۔اتنا شیریں لہجہ میں پوچھ سکتا ہوں کس خوشی میں۔

ہائے میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔اور وہ جانتی تھی کہ علی اب اور تپے گا۔۔۔

لیکن خود بھی تو جب سے ایا ہوا ھے مجھے اگنور کررہا ھے اب دیکھتی ہوں مسٹر تمہیں میں جیسے کو تیسا۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے دل میں سوچا تھا۔۔۔۔۔

کیا مطلب بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔۔۔۔

وہ میرے کزن ھیں جناب۔۔

ہاں تو کزن ھے تو ہوگا۔۔۔۔میں کیا کروں۔تمہارااتنا خوش اخلاق ہونا ضروری ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔

ہائے بس غازیان جی کے سامنے الفاظ خود با خود ھی منہ سے نکلنے لگتے ھیں۔۔

سٹاپ اٹ پری اور علی نے پری کو کھینچ کر اپنے پاس کیا تھا۔۔۔۔کہ پری بھی سٹپٹا گئ تھی۔۔۔اور دونوں اک دوسرے کی انکھوں میں ڈوب گئے تھے۔۔۔۔۔

لیکن پری ہمیشہ کی طرح اسکی آنکھوں میں زیادہ دیر دیکھ نا پائ تھی۔۔۔

چھوڑو علی کوئ اجائے گااور جس کی بانہوں کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ خود کو آزاد نہی کرپارہی تھی۔۔کیا ہوگیا ھے علی چھوڑو بھی۔۔۔

چھوڑوں گا تو کبھی بھی نہیں اس غلط فہمی کو دل میں کبھی لانا بھی مت۔۔۔۔۔اور وہ تو علی کی طرف دیکھ رہی تھی کہ اخر اسے ہو کیا گیا ھے۔

اور پری جانتے بوجھتے بھی انجان بنی علی کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔کہ وہ اظہار محبت صرف علی کےمنہ  سے سننا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔

علی کوئ دیکھ لے گا۔تم سدھرو گے نہیں۔۔

ہائے جو سدھر جائے وہ علی نہیں۔۔۔اور اس نے روہانسی پری کی طرف اپنی گرفت ڈھیلی کردی تھی۔۔

اچھا کچھ کہوں۔۔۔

کیا پری نے علی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔

وہ پری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا۔۔۔۔۔

پری وہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔

بہت موٹی ہوگئ ہو۔۔۔۔۔تم۔۔۔

ہیں پری کامنہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔اور علی اسکی کیفیت دیکھ کر ہنس رہا تھا۔

علی تم میرے ہاتھوں سے مڑو گے۔ 

ھائے اوے ہم تو راضی ھیں جناب۔۔

بھاڑ میں جاو۔اور وہ علی کو دکھا دیتی اندر کی جانب بھاگی تھی۔

اور علی جان بوجھ کر ستا رہا تھا پری کو۔اور کوس بھی رہا تھا خود کو کہ وہ اج بھی پری کی آنکھوں میں ایسے کھویا تھا کہ اظہار محبت ن کر پایا تھا۔۔

اور کھڑکی پر کھڑا غازیان یہ منظر دیکھ کر بہت بے قابو ہوا تھا۔اور پاس پرے شیشےکے میزپر زور سے ہاتھ ماڑا تھا۔۔۔کہ کانچ ٹوٹنے سے اس کا ہاتھ لہو لہان ہوگیا تھا۔

لیکن درد کی اک لہر تو اسکے دل میں اٹھی تھی۔ہاتھ کا درد تو کہی کم تھا اسکا۔۔۔۔۔۔۔۔

سمجھتا کیا ھے گدھا۔۔۔۔۔

اوے کی ہوگیا کڑئیے حرا نے کہا تھا۔۔۔فلم پنجابی سین میں۔

کہ جب سے پری کمرے میں ائ تھی۔بڑبڑائ ھی جارہی تھی۔۔۔

اک نمونہ ڈرامے باز کم ھے کہ تم بھی فل ان ڈرامائی روپ میں میدان میں اگئ ہو۔۔۔

اوے کی ہوگیا۔کس دی گل کر رہی ھے کڑئیے توں۔۔۔۔

اور پری نے غصے سے حرا کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔

جو اماں جی کی نقل اتارتے ہوئے ان طرح پنجابی بول رہی تھی۔۔

اوہ بتاو بھی ہوا کیا ھے۔سلمی پھوپھو نے کچھ کہا کیا۔۔

نہیں وہ تو سلمی پھوپھو سے بھی چار قدم اگے ھے۔

کون۔۔۔۔

تہمارا کزن۔۔۔۔

کسکی علی کی بات کرہی ہو۔

ہاں اسکی ھی بات کررہی ہوں۔۔۔

سمجھتا کیا ھے خود کو۔۔

کیا پرپوز کردیا کیا اسنے۔۔

ہا ہا ہا۔پری غصے سے گڑائ تھی۔

پرپوز ایڈیٹ گدھا۔۔۔۔

اوئے کہا کیا۔۔۔۔اسنے۔۔۔۔۔

اور پری نے ہر بات حرا کے گوش اتاری تھی۔

اسکی ہمت کیسے ہوئ مجھے موٹا کہنے کی۔۔۔۔

اور حرا کا ماڑے ہنس ہنس کے برا حال تھا وہ تو بیڈ پر لہٹی لوٹ پوٹ ہورہی تھی۔

علی کے بھی کیا کہنے رومینٹک موڈ کو فنی موڈ پر لے گیا۔۔

حرا دفعہ ہوجاو ہنسو تم بھی۔بات مت کرنا مجھ سے تم۔۔

ارے بات تو سنو سوری سوری۔

میری پیاری دوت اب ناراض ہوگی مجھ سے۔۔۔

نہی یار۔

لیکن ایسے کون کرتا ھے بھلا۔۔

ہاں تو ایسے وہ لاکھوں میں ایک نمونہ ھی کرسکتا ھے۔علی جیسا۔۔۔تم نے کیا سمجھا اتنی اسانی سے بول دے گا وہ اپنے دل کی ہر بات۔۔

نہیں جناب اسکے بس میں ہو تو وہ تمہارے لیے چاند تارے بھی توڑ لائے۔تو کچھ تو فلمی کرے گا ھی وہ۔۔۔ایسے سیدھے سیدھے تو وہ کبھی کچھ نا کرے۔۔۔

کیا سچ حرا۔۔۔۔۔

ہاں نا۔ادھر دیکھ۔کیا تم بھی محبت کرتی ہو علی سے پری۔۔

اور پری اٹھ کر کھڑکی کی جانب ائ تھی۔۔۔

حرا جب جب مجھے کوئ بھی مشکل پری اک انسان میرے ساتھ قدم سء قدم ملائے کھڑا رہا۔بچپن سے لیکر اجتک کسی کی بھی جرات نا ہوتی تھی کہ کوئ مجھے کچھ کہہ سکے۔۔۔۔

اور ہر بار جب جب میں علی کے قریب ہوتی ہوں نا مجھے ایسے فئیل ہوتا جیسے میں کسی مضبوط حصار میں ہوں۔دنیا جہان سے بیگانہ۔۔۔اسکی آنکھوں میں تو میں کبھی دیکھ ھی نا پائ۔پتا نہیں کیا ہوتا ھے مجھے کہ میرا دل بے قابو ہوجاتا ھے۔

اک انجان سی کیفیت ہوتی ھے۔اجتک میں اپنے دل کی کیفیت سے انجان رہی ہوں۔۔اگر تم مجھے علی کی فیلنگز نا بتاتی تو شاید آنجان ھی رہتی کہ پری کے دل میں علی کا مقام بہت معتبر ھے۔۔

لیکن حرا مجھے اتنی خوشیوں کی عادت نہیں ھے۔۔اک ساتں اتنے رشتے مل گئے۔کہیں کچھ غلط نا ہوجائے۔اب انہیں کھونے کی ہمت نہی رہی ھے۔۔کہیں یہ سب رشتے اود یہ سب خوشیاں کھو ھی نا جائیں۔حرا مجھے بہت ڈر لگتا ھے۔۔۔۔

اور پری یہ کہہ کر رو دی تھی۔۔۔

پاگل ہو پری تم تو شکر ادا کرو اللہ پاک کا کہ تمہیں اتنے پیار کرنے والے لوگ ملیں ھیں سب تمہارے اپنے ہیں۔اور اللّٰہ تعالیٰ کبھی اپنے اچھے بندوں کے ساتھ برا نہہں کر سکتے۔بلکل پاگل ہو تم اور حرا نے اسے گلے سے لگایا تھا۔

اور تم تو اتنی لکی ہو پری کہ علی تم سے بے پناہ محبت کرتا ھے۔۔

حرا کیا سچ میں وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ھے۔

ہاں پاگل دیوانہ ھے وہ تمہارا۔

اور تم تو پہلے ھی بیوقوف ہو بس تمہیں چرا رہا ھے۔

اور اگر وہ تمہیں کسی اور کے ساتھ برداشت نہی کر رہا ھے تو تم خود سمجھدار ہو ڈئیر۔۔اب وہ تمہیں ستا رہا ھے تو تھوڑا ہمارا ستانا بھی بنتا ھے۔۔۔

اور حرا نے پری کو انکھ سے اشارہ کہا تھا تو وہ بھی مسکرا دی تھی۔۔۔

********************************************

ابے کلموہی چھڑا لے اس لڑکے سے جان۔اپنی یہ اوارہ گردیاں ختم کر یہ کراچی نہیں ھے۔۔۔

چھوڑ دے اس موبائل کی جان اور میں بتارہی ہوں غازیان کے دل میں جگہ بنا لے ورنہ وہ شہر کی چھکندری اپنی ماں کی طرح جلوے دکھاتی پھر رہی ھے۔جیسے اس کی ماں نے ۔یرے بھائ کو اپنے جال میں پھانسا تھا۔۔

اف ہو امی کیا ہوگیا ھے اپ کو۔اپ کی بیٹی کے سامنے سب فیل ھیں۔اورکہا کمی تھی عمر میں اک امیر زادہ ھے اور اپکی بیٹی پر مرتا بھی ھے۔۔۔تو کیا ضرورت تھی نانا سے میری اور غازیان کے رشتے کی بات کرنے کے لیے۔۔۔

اے بہن تو تو رہنے ھیدے۔۔۔اگر تیرے اس لوفر عاشق میں اتنی ھی غیرت ہوتی تو کب کا اپنے گھر والوں کو رشتے کیلئے بھیج ھی چکا ہوتا۔۔۔۔

اور اگر تیری پچھلی کسی بھی کرتوت کا غازیان یا ابا جی کو پتہ لگا ربیا تو میں تجھے چھوڑو گی نہی۔اور ادھر پکڑا یہ فون۔اماں کیا ھے میرا فون واپس کریں۔

اس کلموہے فون کو تو میں چولہے میں جھونکوں گی اور ہاں میری اک بات سن لے۔غازیان سارے بزنس کو سنبھال رہا ھے تو عیش کرے اس گھرمیں۔لیکن یہ جو تو کراچی میں تماشے کرکے ائ ھے نا ادھر کسی کوبھی کانوں کان بھنک پڑ گئ تو تیرے ساتھ مجھے بھی الٹا لٹکا دیں گے سب۔۔اور مجھے مجبور مت کرنا کے میں جوتا اتار لوں تجھ پہ۔۔۔۔۔۔۔

اور توں ادھر بھی کتابیں ساتھ لے ائ ھے۔تھوڑا تو بھی صائم کے ساتھ گھل مل۔۔۔۔۔جیسے وہ حنا مٹکتی پھر رہی ھے صائم کے اگے پیچھے۔۔تاکہ تیرا بھی لگے ہاتھ کروں کچھ اور پھر ایک اور پڑی ھے میرے زمہ۔۔۔اور سحرش نے اپنی ماں کی جانب دیکھ کر سوچا تھاکہ کیا سب مائیں ایسی ھی ہوتی ھیں۔جو اپنی ھی بیٹیوں کو بوجھ سمجھ کر دوسرے پر لادتی ھیں۔۔۔

اچھا نا اماں فون دے دو۔میں کوئ ایسی ویسی حرکت نہیں کرتی کہ تمہاری ناک کٹے۔۔۔۔۔۔۔

اگے ھی تیری وجہ سے تیرا بھائ مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کرتا ھے۔۔۔اور میں اب اپنے جوان بیٹے کے اگے سر نہیں جھکا سکتی۔لگی سمجھ تجھے۔اور انہیوں نے ربیا کا فون زمین پر زور سے پٹھکا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اور ربیا چلا اٹھی تھی۔

امی میرا فون۔۔۔

اور سلمی بیگم فون کو پاوں سے کچلتی ہوئ کمرے سے نکلی تھیں۔۔۔۔۔۔

*********************************************

گڈ مارننگ مما۔۔۔۔۔پریشہ نیچے ائ تھی۔سفید قمیض شلوار پہنے۔۔اج علی نے پہلی بار پری کو اس حلیہ میں دیکھا تھا۔۔۔۔جو واقعی میں کسی سفید پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔۔

علی تو پلکیں جھپکنا بھول گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

ارے بجو کیا ہوگیا ھے۔یہ سفید آتما کو بن گئ صبح سویرے۔۔۔۔

پری نے صائم کو گھوڑا تھا۔۔۔

چپ کر صائم پتر۔۔۔۔ایسے نہیں کہتے بڑی بہن ھے تیری۔۔۔۔

پری پتر لے میں اپنی دھی کی نظر لاداوں اور انہوں نے پری کے اوپر سے مرچیں واری تھیں۔۔

پر اماں جی نظر کیوں۔۔۔۔۔

ارے پتر ہسپتال جارہی ھے میری دھی۔اوتھے طرح طرح دے لوگ ہوو نظر نا لگے میری دھی نوں۔۔

شبانہ پتر وہ شال تو لے کر ائا میرے کمرے سے۔۔

جی اماں ابھی لائ۔۔

یہ لیں اماں جی شال۔۔۔۔

اور انہوں نے پری کو کام دار کالی شال اڑائ تھی۔۔۔ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی میری دھی۔۔۔۔۔

ھاھاھااھاا بجو یہ کپڑے کے تھان میں تو اپ کیا لگ رہی ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

منہ بند کرو اپنا۔۔۔۔۔۔

اور پری چئیر کھینچ کر علی کے پاس والی کرسی پر بیٹھی تھی۔۔۔۔

بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔۔علی نے اسکے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔

جانتی ہوں تم سے پوچھا میں نے کہ کیسی لگ رہی ہوں۔۔۔

توبہ ھے چھوٹی سی ناک پر اتنا غصہ۔۔۔۔

ارے علی جی۔۔۔۔۔ربیا نے علی کو پکارا تھا۔۔۔

جججی۔۔۔۔۔۔ربیا جی۔۔۔۔

پری نے ترچھی نگاہوں سے علی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

یہ املیٹ لیجیے نا۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے ہاتھوں سے اپکے لیے بنایا ھے۔

جی کیا میرے لیے۔واو پھر تو بہت یمی ہوگا۔۔۔لائیے۔۔۔

ورنہ پری کو تو شاید ھی املیٹ بنانا اتا ھو۔۔۔جو کبھی ہمیں بنا کر کھلایا ہو۔۔کیوں صائم 

یس برو۔یہ بس ایگ بوائل ھی کرسکتی ھے۔۔۔۔۔اور کچھ نہیں۔۔

ہائے لیکن اج تک پری نے ایگ بوائل بھی کہاں کھلایا۔

تمہیں تو میں زہر نا کھلاوں پری نے دبی اواز میں بولا تھا۔۔۔۔۔

ہائے اپ کے ہاتھوں سے وہ بھی منظور ھے۔۔۔۔۔

اور پری نے غصے سے علی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

گڈ مارننگ غازیان بھائ۔صائم نے بولا تھا۔۔۔۔۔

مارننگ۔۔۔۔پریشہ اگر اپ نے بریک فاسٹ کرلیا ھے تو ہم ہسپتال کے لیے نکلیں۔

ارے غازیان بیٹا بیٹھو ناشتہ کرو۔

نہیں امی بھوک نہی ھے۔۔

میں اپکا گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں اجائیں۔۔۔۔۔۔

اپنے بیٹے کا بیگانہ پن دیکھ کر وہ پریشان سی ہوگئ تھیں۔۔۔لیکن گھر کے رتی رواجوں کے خلاف وہ کبھی اپنے بیٹے کو بغاوت نا کرنے دیں۔

پری کہاں جارہی ہو ۔۔۔علی پری کے پیچھے بھاگا تھا۔دکھ نہیں رہا ہسپتال جارہی ہوں۔۔

ہاں تو میں بھی چلتا ہوں ساتھ

ایسے کیسے اکیلے جاو گی۔ارے اکیلی کہاں غازیان ھیں میرے ساتھ۔فار یور کائنڈ انفارمیشن۔۔۔۔۔۔

علی جی اپکی چائے۔۔۔ربیا علی کا نام پکارتی ان کی طرف ارہی تھی۔۔۔

جاہیےچائے ٹھنڈی ہو جائے گی اپکی۔۔اور وہ کہتی گھر سے نکلی تھی۔۔

کار کا ڈورکھولے وہ کار میں بیٹھی تھی۔۔

غازیان نے کار سٹارٹ کی تھی۔۔ارے غازیان اپکے ہاتھ سے تو خون نکل رہا ھے۔

غازیان نے ہسپتال کے باہر بریک لگائ تھی۔۔۔۔۔۔

ادھر دکھائیے۔۔۔۔اتنا زیادہ زخم کیسے لگی ہاتھ پر چوٹ اف۔

کچھ نہیں معمولی زخم ھے یہ۔۔

واٹ معمولی۔۔

دکھائیں ادھر اور پری نے غازیان کا ہاتھ پکڑا تھا۔

اور اس نے ہسپتال داخل ہوتے ھی غازیان کی مرحم پٹی کی تھی۔۔۔

غازیان اپ جیسے سمجھدار انسان سے ایسی بچکانہ حرکت کی امید نہیں تھی۔اتنی غیر زمیدرانہ حرکت۔پتا بھی ھے اپکو ایسے زخم کھلا رکھنے سے کتنا انفیکشن ہوسکتا تھا۔۔۔

ڈاکٹر گھر کی ھی ھے تو کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔

ہاں یہ تو ٹھیک کہا اپنے اسلیے ھی جب چوٹ لگی تب ھی اتنی لاپرواہی دکھائ اور بینڈیج بھی نہی کروائ۔۔۔۔۔

بس دیکھ لو فرسٹ پیشنٹ ہوں اپکا۔۔

ہاہاہا جی یہ تو صیح کہا اپنے۔۔۔۔

اور وہ پری کی مسکراہٹ میں کھوگیا تھا۔۔۔۔

ارے کدھر گم گئے مسٹر غازیان۔

پری نے آنکھوں کے سامنے ہوا میں ہاتھ لہرایا تھا۔۔

ہوں کہیں نہیں۔۔۔اور وہ دل ھی دل میں پری کو اپنانے کا عہد کر بیٹھا تھا۔۔۔

ارے یاد ایا اج اپ نے افس نہی جانا تھا۔۔

نہی شادی کی تیاریوں کی وجہ سے کچھ دن تک اف ہوں افس سے۔۔اوہ سہی ائیے میں اپکو باقی سٹاف سے ملواتا ہوں۔۔۔۔۔

************************************************

جی دادا جان پریشہ ہسپتال جارہی ہے اور گاؤں کے لوگ بھی راضی ھیں کہ انہیں اب شہر کا رخ نہی کرنا پر رہا۔۔اور اب اپ الیکشن کی بھی فکر مت کریں۔۔۔

بے فکر ہوجائیں۔۔۔لوگ اپ کی خدمت سے کافی خوش ھیں۔پریشہ نے بھی بخوبی ہسپتال سنبھال لیا ھے۔

یہ تو بہت بڑی خوشی والی خبر ھے غازیان پتر۔۔۔۔۔

دل خوش ہوگیا ھے یہ سن کے۔۔۔کہ ولی شاہ دی پوتی اس کا بنایا ہوا ہسپتال چلا رہی ھے۔۔۔۔۔

لیکن دادا جان۔۔۔۔اک بات ھے کہ کیا الیکشن تک پریشہ یہاں رہتی بھی ھے کہ نہیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ورنہ دوسری پارٹیوں کی نظروں میں تو آپ ویسے ھی ائے ہوئے ھیں وہ کوئ موقع نہی چھوڑیں گے اپکونیچا دکھانے کیلئے۔۔۔ہاں پتر یہ تو میں کبھی سوچا ھی نہیں تھا۔۔مہ اگر اس کڑی دا داماغ گھوم گیا تو وہ کچھ بھی کر ڈالے

دلاور کی طرح اسکی آنکھوں میں بھی نفرت ھی جھلکتی ھے۔نا اج تک اس نے کبھی میرے کسی سیاسی معاملے میں میں حصہ لیا۔اور اج اگر اس کی بیٹی ہمارے لیے کچھ لر بھی رہی ھے غلطی سے بھی بھنک لگ گئ کہ یہ سب الیکشن جیتنے کے لیے ہورہا ھے تووہ کبھی نہیں ٹکے گی یہاں اخر ھے تو وہ دلاور دی دھی ھی نا۔۔۔۔۔۔۔جی دادا جان یہی تو بات ھے۔۔۔۔

تو داداجان اس مسئلے کا ایک ھی حل ھے۔۔۔۔۔

کونسا پتر۔۔۔۔۔۔

یہی کہ پریشہ کبھی اس گھر سے جانا پائے۔۔۔۔اسکے قدم اسی گھر میں مضبوط کرنےہوں گے۔۔۔۔ 

وہ تو ٹھیک ھے پتر لیکن کیسے۔۔۔۔۔۔۔

اور غازیان نے ہر بات دادا کے کانوں سے نکالی تھی۔۔۔۔

تو ولی شاہ بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا۔۔۔۔اخر کو یہ اسکی عزت کامعاملہ تھا وہ کسی بھی صورت اپنے ھی گاؤں والوں کے سامنے ناک نہی کٹانا چاہتے تھے۔۔۔

اور غازیان کے ہونٹوں پر اک فاتحانہ مسکراہٹ بکھر گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔

کیوں کہ اج اسنے اپنے دادا کے ساتھ ان کے جیسا ھی کھیل کھیلا تھا۔۔۔۔۔۔

اسے دادا کی سیاست سے غرض نہیں تھا اسے غرض تھا تو صرف اپنی محبت سے جسے وہ کسی صورت بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن دروازے کے پاس کھڑی اماں جان یہ سب باتیں سن کر لرز ٹھی تھیں۔اور دبے قدموں وہاں سے چلی گئ تھیں۔۔۔۔۔۔۔

وہ مرے ہوے قدم اٹھاتیں دلاور شاہ کے کمرے میں ائیں تھیں۔۔

دلاور پتر۔۔جو کھڑکی سے باہر اپنے بچوں کو چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔۔۔۔۔۔

جی اماں جی اپ۔۔۔۔

خیرتت تھی مجھے بلا لیا ہوتا۔

نہیں پتر خیریت ھی تو نا ھے۔۔

اماں جی وہ ان کے پاس بیڈ پر اکر بیٹھے تھے۔۔

کیا بات ھے اپ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں سب ٹھیک توھے نا۔۔۔۔۔۔۔

جس کا شوہر مفاد پرست ہو اور اسکا پوتا بھی اپنے دادا کے نقش قدم پر چل نکلے تو میں کیسے نا پریشان ہووں پتر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اپنے پتر لیے تے کچھ نا کر سکی لیکن اپنی پوتی دی خوشیاں نو تباہ نہیں ہون دواں گی۔۔۔۔۔

کیا مطلب اماں وہ چونکے تھے۔۔۔۔۔

اور اماں جی نے وہ سب باتیں جو وہ سن کر ائیں تھیں۔۔۔۔۔دلاور کو بتادیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بھی سن کر سکتے میں اگئے تھے۔اور دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے بیٹھے تھے۔اماں میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ میرا سنگدل باپ اب میری بیٹی کا بھی استعمال کرے گا ابھی جھوٹی شان وشوکت کے تلے۔۔۔

میں یہ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔جو انہوں نے میرے ساتھ کیا وہ میں اپنے بچوں کے ساتھ کبھی نا ہونے دوں گا۔۔۔۔۔

میں ابھی ان سے بات کرتا ہوں۔۔

نہیں پتر جذباتی مت بن اور ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا پتر وہ تیری بیٹی ھے اور تو اس کی بھلائی ھی سوچے گا۔۔غازیان بھی گھر دا بچہ ھے۔عقلمند سمجھدار۔۔۔۔

ججی اماں اسلئیے میرا بھتیجا ابا جی کو مشورے فراہم کر رہا ھے۔۔۔۔۔

نہیں اماں پری اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے گی اور ان سب میں اسکا باپ ڈھال بن کر کھڑا ھے۔۔۔۔۔

وہ واپس کھڑکی کی جانب ائے تھے جہاں پری اور علی کسی ٹاپک پر بحث کررہے تھے۔۔۔۔

پتر اب کہ بار فیصلہ کرتے ہوئے کمزور نا پڑنا۔

انہوں نے پری اور علی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔

بیٹی کی خوشیوں کے لیے تو باپ سارے جہاں سے لڑائ مول لے لے اماں۔۔۔فکر نہی کر پتر اب کی بار تیرے باپ کے شیطانی ہتھکنڈے کام نا ائیں گے میں ہوں تیرے ساتھ۔۔۔

اور وہ ان کی پیٹھ تھپتھپاتے کمرے سے نکلیں تھیں۔۔۔۔۔

***********************************************

ہائے بارش کب ائے گی موسم تو دیکھو کیسے بادل چھائے ہوئے ہیں آسمان پر۔

حرا نے حنا سے کہا تھا۔۔۔۔

اور انہیں دیکھو بھوکوں کو کیسے پکوڑوں پر جنگ کررہیے ہیں۔انہوں نے علی اور صائم کی جانب دیکھاتھا۔۔۔۔

ویسے حرا باجی بڑے لوگ کہتے ھیں کی اگر کسی پر پانی پھینکیں تو بارش اجاتی ھے۔۔

کیا سچی میں یار۔۔۔

ہاں پر اب یہ تو مجھے بھی نہیں پتا۔تو کیوں نا اج آزما کر دیکھا جائے۔۔۔۔۔۔۔

اور حرا نے پری کی طرف دیکھا تھا جو سامنے سے چلتی ہوئ آرہی تھی۔

تو ابھی ازما لیتے ھیں۔اور حرا مڑی تھی۔صائم کے پاس پڑا پانی کا گلاس اٹھایا تھا۔اور بن دیکھے پلٹی تھی۔اور سارا پانی کا گلاس سامنے کھڑے شخص کے اوپر انڈیل دیا  تھا۔۔۔۔۔۔

حرا کی یہ حرکت دیکھ کر علی اور صائم بھی دنگ رہ گئے تھے۔۔۔۔اور حنا کا تو ہنس ہنس بڑا حال تھا۔

واٹ از دس۔۔۔۔امان مارے حیرانگی سے بولا تھا۔

وہ یہاں تو پری۔۔۔۔

میں تو یہاں ہوں یہ سب کیا ہورہا ھے۔پری نے آنکھوں کے اشاروں سمیت پوچھا تھا۔۔۔

وہ حنا۔۔۔۔۔

کیا حنا۔۔۔۔۔۔ وہ امان بھائ بارش نہی آرہی تھی تو ہم نے سوچا کہ کیوں نا کسی پر پانی پھینکا جائے اور کیا پتا بارش اجائے۔۔

اوہ واہ جی کیا لوجیک ھے۔۔صائم بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔حناصاحبہ کا اتنا دماغ چلتا ھے تو اج اپ محکمہ موسمیات کی وزیر اعلیٰ کیوں نا بنیں۔۔بتانا پسند فرمائیں گی۔۔

وہ اسلیے کہ کہیں آپ جیسا انسان بارش کے پانی میں ڈوب ھی نا جائے۔۔۔۔میری انفارمیشن کے تحت۔حنا بھی کہاں جواب دئیے بغیر رہ سکتی تھی۔

اف بہت ھی تیز ھیں اپ۔۔

جی اپسے تو کم ھی ہوں۔۔۔

وہ ائ ایم سوری۔۔۔۔یہ حنا کی پلینگ تھی۔اور میں نے پری پر پانی پھینکنا تھا۔درمیان میں اپ ائا گئے۔

سریسلی بتاو نا حنا۔۔۔۔

اٹس اوکے کوئ بات نہیں امان نے دھمیے انداز میں حرا کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔۔

کیا کیا مجھ پہ پانی پھینکنا تھا حرا کی بچی یہ دن بھی دیکھنا تھا میں نے اب۔۔۔

تو پانی ھی تھا۔پری کون سا بمب پھینکنا تھا میں نے۔۔۔۔۔۔

ہائے جناب اپ کا تو پتا بھی نہیں ھے۔کہ کب منہ سے انگارے برسا دیں۔اور سامنے والا راکھ ہوجائے۔۔۔۔

صائم کے بچے رکو تم۔۔۔اور وہ صائم کے پیچھے بھاگی تھی۔۔۔۔۔۔

ارے امان بھائ حرا کا تھوڑا دماغی سٹرو ڈھیلا ھے۔۔۔۔۔علی نے کہا تھا۔اٹس اوکے میں چینج کرکے اتا ہوں۔۔۔۔

جی جی۔۔۔۔۔

حنا جی امان بھائ۔۔۔۔

اک کہ چائے ملے گی۔۔جی بلکل ملے گی۔

بس ابھی لائی۔۔۔۔۔۔۔

ارے ارے اپ کہاں جارہیں ہیں۔۔۔

اور علی نے پری کا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔

بارش انے والی ھے موسم دیکھو۔۔۔

ہائے ٹو مچھ رومینٹک۔۔۔۔۔

ہاتھ چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔میرا پری نے خفا خفا سے انداز میں کہا تھا۔

یہ ہاتھ چھوڑنے کیلیے کب پکڑا ھے جناب۔۔۔۔۔۔۔

نو ڈائیلاگز علی۔۔۔۔

اور یہ لندن نہیں ھے میرا گھر ھے۔۔اوراگر ایسی فضول سی حرکتیں کرتے تمہیں کسے نے دیکھ لیا تو سامان سمیت گھر سے باہر ہوگے۔۔۔۔۔۔

ہائے ظالم لوگ۔۔۔۔۔۔۔ان سے بھی بڑی ظالم تم ہو۔۔۔۔۔

اوہ اب میں بھی ظالم۔۔۔۔۔۔

بلکل۔۔۔۔۔

علی بارش ہونے لگی ہے۔۔۔

تو ڈر لگ رہا کیا۔۔۔۔

میں ڈرتی نہیں۔۔۔۔۔۔۔

تب ھی بجلی کڑکنے کی اواز سنتے ھی پری علی سے جا لگی تھی۔اور زور سے انکھیں میچ لی تھیں۔۔

وہ جانتا تھا۔۔۔۔پری کو بادلوں کی گرج سے بھی خوف اتا ھے۔۔۔۔

علی مجھے چھوڑ کر نہیں جانا۔وہ گھبرائ گھبرائ سی بول رہی تھی۔

بلکل نہیں کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔

میں ہمیشہ اپنی پری کے پاس ہوں۔۔نہیں وعدہ کرو پری کا لہجہ بھیگ سا گیا تھا۔وعدہ ھے پری پکا وعدہ۔۔۔مڑ جاوں گا لیکن کبھی ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔

اللہ نا کرے پری اک دم سے ہوش میں ائ تھی۔

خبردار جو مرنے کی بات کی۔ورنہ یہ گردن مڑور دوں گی۔۔۔

اچھا جی اپکا غلام حاظر ھے۔۔۔

اندر چلیں بارش کافی تیز ہوگئی ھے۔۔۔

پری اور پری کے چلتے قدم رکے تھے۔۔۔۔۔اور وہ واپس پلٹی تھی۔۔۔

علی کو گھنٹوں کے بل بیٹھے دیکھ وہ چونکی تھی۔۔

علی پاگل ہو اسطرح کیوں بیٹھے ہو دیکھو بارش کتنی تیز ہورہی ھے۔۔۔

اور علی نے اک مخملی سرخ ڈبی کھولی تھی۔جس میں اک ڈائمنڈ کی رنگ جگمگا رہی تھی۔۔

پری تو ششدرہ رہ گئ تھی۔

بچپن سے لیکر آجتک صرف اس دل میں اک لڑکی سمائ ھے۔جس کے بنا میرا وجود ادھوڑا ھے۔جو میرے جینے کی وجہ ھے۔۔میرے دل کی ہر دھڑکن پر صرف ایک ھی نام ھے۔اور وہ ھے پریشہ دلاور۔۔۔۔۔

بے پناہ عشق ھے مجھے اپنی پری سے۔۔۔۔

کیا تم میری زندگی کا حصہ بنو گی پری۔۔ویل یو میری می۔۔۔۔

اور علی کے یوں اعتراف محبت پر پری کی آنکھوں میں انسو اگئے تھے۔۔۔

بنو گی علی کے دل رانی۔۔۔۔کیونکہ اس دل کی مالکن صرف تم ہو۔۔۔۔صرف تم۔۔

بنو گی میری ہمسفر۔۔۔۔۔

اور پری کو تو جیسے یہ سب خواب لگ رہا تھا۔

بولو پری۔۔

اور پری نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔

علی نے وہ ڈائمنڈ کی رنگ پری کے ہاتھ میں پہنائ تھی۔۔۔۔۔۔

اور اٹھ کر پری کے پاس ایا تھا۔۔۔۔۔

ائ لو یو پری۔۔ائ رئیلی لو یو۔۔۔۔

اور پری تو جیسے اس وقت اسمان میں اڑرہی ہو۔۔۔

وہ وہاں سے بھاگنے کی زد میں تھی۔لیکن علی اسکی شرارت بھانپ گیا تھا۔۔۔۔۔

اور اسے اپنے حصار میں لیاتھا۔۔۔

جواب دیے بغیر تو نہیں جانے دوں گا۔وہ پری کے منہ پر ائ بالوں کی لٹ کو  چہرے سے ہٹا رہا تھا۔۔۔

چھوڑو علی کوئ اجائے گا۔۔

نا جواب دئیے بنا نہیں جانے دوں گا۔اچھا جیی۔ابھی دیتی ہوں جواب۔۔۔اور وہ شرماتے ہوے علی کے کان کے پاس ائ تھی۔۔۔

علی۔۔

اتنی بھی کیا جلدی ھے۔جب دل کرے گا تب تین میجیک ورڈز بولووں گی۔

اور کب بولوں گی یہ میری مرضی۔

اور وہ منہ چڑاتے ہوئے وہاں سے بھاگی تھی پری رکو۔۔۔۔۔۔۔

 وہ دونوں بری طرح بارش میں بھیگ گئے تھے۔

سامنے کھڑے غازیان کو اگنور کرتی وہ اندر کی جانب بھاگی تھی۔

لیکن وہ علی کو گھوڑتا ہوا غصے سے کار کی جانب بڑھا تھا۔۔

کمرے میں اتے ھی چینج کرکے پری باہر نکلی تو حرا کو گھوڑتے ہوئے پایا تھا۔۔

یہ تم دونوں کیا بچوں کی طرح بارش میں بھیگتے رہے پتا بھی ھے سلمئ پھوپھو کتنی باتیں کر رہی تھیں۔۔وہ تو شبانہ انٹی نے بات سنبھالی۔۔۔۔

کوئ فرق نہیں پڑتا مجھے کہ کون کیا کہتا۔۔

حرا حرا ارے کیا ہوگیا پری۔حرا اج میں بہت خوش ہوں بہت خوش۔۔یہ دیکھو اور اس نے رنگ والا ہاتھ حرا کی جانب کیا تھا یہ دیکھو۔     

علی نے مجھے پرپوز کیا حرا۔۔۔۔

کیا سچ میں ہاں حرا ہاں اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں اسمان میں اڑ رہی ہوں۔۔۔۔۔

مجھے تو یقین نہیں آرہا ھے۔۔۔

اور وہ حرا کے گلے لگی تھی ائ ایم ویری ہیپی بی فور یو ۔۔۔پری

اور حرا کی آنکھیں بھر گئیں تھیں لیکن وہ اپنے دوستوں کی خوشی میں بہت خوش تھی۔۔۔۔۔

غازیان کا تو حال مجنوں کی طرح ہوا تھا۔وہ اندھا دھند کار چلا رہا تھا۔۔۔اسکی اتنی ہمت میری پریشہ کو انگوٹھی پہنائے اور اس نے کار کو بریک لگائ تھی۔۔پریشہ پر صرف میرا حق ھے علی میں کسی صورت بھی اسے تمہارا نہی ہونے دوں گا۔۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔۔

وہ چلا اٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ 

********************************************************************************

عمر میری منگنی ہورہی ھے میرے کزن کے ساتھ۔اور میری امی نے میرا فون بھی توڑ دیا ھے۔یہ تو سحرش کے فون سے میں تمہیں کال کر رہی ہوں۔۔۔۔عمر میں صرف یہ کہنے کے لیے فون کیا تھا کہ تم مجھے بھول جائو۔۔۔۔۔۔۔

اور اس نے کال بند کی تھی۔۔۔

کیا کہا ربیا میں تمہیں بھول جاوں نہیں ڈارلنگ اج تک عمر ملک کو کسی نے دھوکا نہیں دیا۔اور تم پہ تو میں نے اتنا پیسہ نچھاور کیا ھے اتنی اسانی سے تم مجھے چھوڑ نہیں سکتی۔اسکا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا۔۔ربیا۔۔۔۔اور وہ خودکلامی کرکے مسکرایا تھا۔۔۔۔۔

ربیا جیسے ھی فون بند کرکے مڑی تھی۔بڑی ممانی جان اپ۔۔۔

ہاں میں۔۔۔کس سے بات کررہی تھی تم اس وقت اتنی رات گئے۔جی وہ ممانی جان اک فرینڈ تھی۔۔۔

فرینڈ تھی یا تھا۔۔۔۔

ججی ممانی میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔۔۔اپنے کمرے میں جاو صبح بات ہوگی تمہاری ماں کے سامنے۔۔۔۔۔

اور ربیا کے منہ پر اک رنگ ارہا تھا اور اک جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔

************************************************

سلمی اپا برا مت مانئیے گا جب بچیاں جوان ہوجائیں تو انکھ اور کان دونوں کھلے رکھنے پڑتے ھیںں۔میں کچھ سمجھی نہیں بھابھی۔۔۔۔۔۔۔وہ جو چائے بسکٹ سے استفادہ کررہیں تھیں ان کے ہاتھ وہیں رکے تھے۔۔۔۔

رات میں پانی لینے کچن میں گئ تو ربیا کسی سے فون پر بات کررہی تھی باتیں تو نہیں سنی اپا لیکن اتنی رات گئے اخر کس سہیلی سے باتیں ہورہی تھیں۔۔۔معاف کیجیے گا اپا غازیان پہلے ھی اس رشتے سے رضامند نہیں ھے لیکن اگر کل کو کوئ ایسی ویسی بات نکل ائ تو میں بھی اپنے بیٹے کو اس کی من مرضی کرنے سے نہیں روکوں گی۔

پر بھابھی ۔۔۔۔۔۔

مجھے غازیان کو ناشتہ دینا ھے بھابھی۔۔۔اور وہ کہتی کچن سے نکلیں تھیں۔   

اف میرے خدا یہ لڑکی مرواے گی مجھے۔۔۔کلموہی خود تو ڈوبے گی مجھے بھی ڈوبوئے گی۔۔۔۔۔

***********************************************

پوری حویلی کو دلہنوں کی طرح سجایا گیا تھا۔۔۔۔۔مہمانوں کا انا جانا بھی شروع ہوگیا تھا۔اج شام سویرا کی مہندی تھی۔۔سب ھی گھر والے مہمانوں کی او بھگت میں لگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔

حرا اور پری کے لیے تو سب کچھ بہت انوکھا تھا۔سب رسم ورواج میں دونوں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ھیں۔

اف پریشہ اپا یہ ڈانسنگ سٹیپ اپ ٹھیک سے کریں نا اور حنا تو پری اور حرا کو لیے ڈانس سکھا رہی تھی۔کہ دونوں کے پاوں جواب دے گئے تھے بس میری ماں بس اور نہی ہوتا ہم سے۔۔

اپ تھک بھی گئیں۔اتنی جلدی۔۔۔پری اور حرا نے اک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔اوہ بہن پچھلے دو گھنٹے سے ایک ھی گانے پر اتنا ڈانس کیا ھے اور ابھی یہ بس ھے۔۔۔۔۔

مجھ سے نہیں ہوتا۔اف پری باجی لڑکے والے بھی ہوں گئے تو ہمیں انہیں ہر صورت ہرانا ھے۔۔اچھا بابا تھوڑی بریک لے لیں۔ 

اوکے میں اپ دونوں کے لیے کافی لاتی ہوں۔

شکر ھے تمہیں خیال تو ایا ۔۔۔

اور حنا مسکراتی ہوئ کمرے سے نکلی تھی۔کہ لاونج میں بیٹھے صائم کو دیکھ کر رکی تھی۔جو سحرش کا ہاتھ تھامے اس کی لکیریں دیکھنے میں مصروف تھا۔ایا اتنا بڑا نجومی ابھی بتاتی ہوں اسے۔

کیا ہورہا ھے یہاں۔اور سحرش نے گبھرا کر ہاتھ پیچھے کیا تھا۔تم یہاں بیٹھی ہو اور سلمی پھوپھو کا تمہیں آوازیں دے دیکر برا حال ہوگیا ھے۔اچھا مجھے پتہ نہیں چلا۔

پتا بھی کیسے چلتا ہاتھ دکھانے میں جو اتنا مصروف تھی تم۔او ہاں صائم جی۔۔۔۔

کیا کیا صائم جی نہیں صائم بھائ بلاو۔جیسے میں اک سال بڑی ہوں اور تم مجے اپی بلاتی ہو ویسے ھی صائم بھی بڑے ھیں تو بھائ کہو۔۔۔

ارےے نو پرابلم سحرش یو جسٹ کالڈ می صائم۔

جی ٹھیک ھے۔۔میں امی کی بات سن لوں۔

اوکے بات سن کے جلدی انا ائ ایم ویٹنگ۔۔

اور صائم نے حنا کی جانب دیکھا تھا۔جو غصے سے لال ہوئ پری تھی ۔۔۔۔

ویسے لائیے اپکا بھی ہاتھ دیکھ دیتا ہوں۔۔۔۔

کیوں اپ نجومی ہو۔۔۔

بس ایسا ھی سمجھ لیں اپ۔۔

مجھے کوئ شوق نہیں ھے کہ کوئ اجنبی میرا ہاتھ پکڑے۔۔۔۔

ہائے اجنبی کہاں ہم تو پکے کزن ھیں۔

تو کیا ہوا کزن ھی کونسا تیس مار خان ہوں کہ اتنی شیخی بکھیر رہے ہو۔۔

جاو پنی سو کالڈ کزن سحرش کے پاس۔۔۔۔

اور البتہ ان کی امی جان کا ہاتھ ضرور دیکھیے گا۔کہ ان کا پتہ کب تک کٹے گا۔۔۔

اور حنا بالوں کو جھٹکتی اس کے پاس سے گزری تھی۔۔

ہائے یہ ادا ماڑ ڈالے گی۔

اوے کیا ہوگیا۔

کچھ نہیں علی بھائ۔۔۔۔۔

کڑی لگدا پسند اگئ جواکھ نوں۔

ارے نہیں یار اور یہ پنجابی کیسے بولی۔۔۔

بس دیکھ لو ایویں تو سب مجھے ہیرو نہیں بولتے۔۔واو علی بھائ کمال ہو ویسے اپ۔۔۔

وہ تو میں ھوں ھی۔۔۔۔۔۔

لال لہنگے اور ہرے رنگ کی کام دار کرتی پہنے ہوئے وہ کوئ اپسرا لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔

وہ بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔جب شبانہ کمرے میں داخل ہوئ تھی ماشاءاللہ میری بچی تو بہت پیاری لگ رہی ھے۔ 

ارے مما اپ۔۔۔

میں صدقے جاوں۔اخر اک دن وہ بھی ائے گا جب میں اپنی گڑیا کو خود دلہن کی طرح سجاوں گی۔اور وہ تو شرما سی گئ تھی۔۔۔۔

بس میری پری کا شہزادہ اجائے۔۔اور انہوں نے پری کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔۔۔۔۔

مما یہ دیکھیں چنری کیسے سییٹ کروں۔۔۔اور حنا کہہ کر گئ ھے سب نے گولڈن چنری لینی ھے۔۔۔۔۔

ارے بیٹا اپکی مما ھیں نا وہ تیار کریں گی اپکو۔۔۔۔۔ا

اور پری تو واقعی پری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔جیسے آسمان سے اتری کوئ حور ہو۔

ماشاءاللہ اور انہوں نے پری کے کان کے پیچھے کالا تیکا لگایا تھا نظر نا لگے میری بچی کو کسی کی بھی۔۔

ہاہاہا مما اپ بھی نا مجھے کس کی نظر لگ سکتی ھے۔

نا اللہ نا کرے کے کبھی کسی کی بھی بری نظر بھی پڑے میری بچی کو۔۔۔

چلو اب فٹافٹ نیچے اجاو سب مہمان ائا گئے ھیں۔

جی مما ابھی ائ۔۔۔۔۔اور یہ حرا کدھر گئ۔

ہاہا کہاں ہونا مما بس اپنا بیوٹی بکس اٹھا کے لے کے گئ ھے سب کو تیار کر رہی ہونی۔۔

چلو ٹھیک ھے بیٹا۔۔۔۔۔۔۔

وہ پاوں میں جوتا پہن رہی تھی کہ اپنے پیچھے کسی کو کھڑے پایا تھا۔۔

اور وہ چیخنے ھی والی تھی کہ علی نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

پری کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ تھیں۔۔

شش۔چپ۔۔میں ہوں۔۔۔

تم۔یہاں کیا کررہے ہو۔۔۔

کیا مطلب کیا کررہا ہوں۔۔۔

اپنی محبوبہ کے کمرے میں ایا ہوں۔بنا کسی خوف و ڈر سے۔۔

ارے کوئ دیکھ لے گا تو سو قسم کی باتیں بنائیں گا۔۔۔

تم کب سے لوگوں کی باتوں میں دھیان دینے لگ گئ چڑیل۔

واٹ کیا بولا۔میں چڑیل نظر ارہی ہوں تمہیں۔۔۔۔

اچھا یار خفا تومت ہو۔تمہیں پتا ھے کتنی مشکل سے پہنچا ہوں تمہارے پاس۔۔

ہاں تو کس نے بولا تھا کہ یہاں او۔۔

کیوں کہ میں چاہتا تھا۔کہ سب سے میں پہلے میں اپنی پری کو دیکھوں۔۔۔

چلو دیکھ لیا اب نکلو یہاں سے۔

توبہ ھے یار کتنی سیلفیش ہو تم۔

وہ تو بہت ہوں۔پری اترائ تھی۔۔

اوئے۔۔۔علی نے پری کو اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔۔

علی۔۔۔۔

شیش بولنا مت۔۔۔اور اس نے پری کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھی تھی۔۔

پریشہ دلاور اپ نے تو اج میرے دل کے تار چھیڑ دیے ھیں۔کوئ اتنا پرکشش کیسے ہوسکتا ھے۔۔

اج مجھے اک گستاخی کرنے کی اجازت ملے گی کیا۔

اور پریشہ تو علی کی بات سن کر کانپ گئ تھی۔۔

پاگل ہوگئے ہو علی۔

تم نے ھی تو کیا ھے۔۔

اور وہ پری کے پاس آرہا تھا لیکن پری اک قدم پیچھے کی جانب بڑھ رہی تھی۔

لیکن اک دم وہ دیوار سے لگی تھی۔۔۔اب کوئ راستہ نہیں ھے بچنے کا۔۔۔۔

وہ مسکرایا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور پریشہ کے پاس ایا تھا۔۔۔۔۔

پری تو شرم کے مارے انکھیں بھی نا ملا پارہی تھی۔۔۔۔

علی نے پری کا منہ اپنی جانب کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

پری نے آنکھیں کھولیں تھی اور اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔پری کی گھبراہٹ کو وہ بھانپ گیا تھا۔۔اور مسکرایا تھا۔۔

ویسے لگ تو واقعی رنگ برنگی چڑیل ھی لگ رہی ہو۔۔

اور علی اسے چڑاتا ہوا بھاگا تھا۔۔

علی کے بچے رکو میں چھوڑوں گی نہیں تمہیں۔۔۔۔۔

ارے ارے کیا ہوگیا بچو۔۔۔

دیکھئے دیکھئے نا انکل کیسے بھوتوں کی طرح مجھے مارنے لے لیے لپکی ھے۔۔۔

پاپا اپ ہٹ جائیں یہ اج میرے ہاتھوں سے زندہ نہیں بچے گا۔۔۔۔۔۔

نو بیٹا اچھے بچے لڑائی نہیں کرتے۔۔۔۔۔

اور علی میری بیٹی کو تنگ نہیں کرو ۔۔۔

جی انکل اور پری نے علی کو منہ چڑایا تھا۔۔۔

پاپا میں کیسی لگ رہی ہوں۔۔

بہت پیاری لگ رہی ھے میری بیٹی۔۔۔ماشاءاللہ اور انہوں نے پری کو پیار کیا تھا۔۔۔۔

ویسے انکل تھوڑی چڑیل جیسی نہیں لگ رہی۔

علی تم نہی بچتے اور وہ پھر سے علی کے پیچھے بھاگی تھی۔۔۔۔

دلاور شاہ دونوں کو دیکھ کر مسکرا دیے تھے اور کچھ خیال ذہن میں لاتے چل دئیے تھے۔۔۔۔

توبہ استغفار کیسا دور اگیا ھے بھابھی یہ دلاور بھائ کی بیٹی دیکھو کیسے بھاگتئ پھر رہی ھے علی کے اگے پیچھے نا کوئ لحاظ ناشرم۔۔۔

شبانہ نے ٹرے شیلف پر رکھی تھی۔۔۔۔۔۔

تو کیا ہوا سلمی اپا گھرکے بچے ھیں آنکھوں کے سامنے ھیں ہمارے۔۔۔۔۔

 ان کے دن ھیں جیسے مرضی کھیلیں کودیں۔۔۔۔۔۔

اور ماشاءاللہ سمجھدار بچے ھیں۔۔۔

واہ شبانہ بڑی باتیں اگئ ھیں تمہیں کرنی۔مت بھولو کہ وہ کون سا تمہاری کوکھ سے جمی ھے۔۔۔

تو کیا ہوا اپا ھے تو میرے دلاور کا خون ھی۔اور ہاں اگر میری سگی اولاد بھی ہوتی تو پرشہ اور صائم سے بڑھ کر نا ہوتی۔۔۔۔

لیکن خیر اپکو کیا فرق پڑتا کہ وہ رشتہ میں تو اپکی بھتیجی ھے۔لیکن اپ نے ہمیشہ اسے حقارت کی نگاہ سے ھی دیکھا ھے۔لیکن میں اپنے بچوں کے خلاف اک لفظ بھی نا سنوں گی۔۔۔اور میرے بچوں پر تانک جھانک کرنے کی بجائے اپ اگر ربیا پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔۔۔۔

اور وہ ٹرے اٹھائے باہر کی جانب گئ تھیں۔۔

دیکھا بھابھی یہ شبو جس کی زبان نا کھلتی تھی اج کیسے باتیں کر کے گئ ھے۔۔۔

تو سلمی اپا کہاں کچھ غلط کہا ھے اس نے بہن بیٹاں تو سب کی ھی سانجھی ہوتی ھیں۔اپکو بھی بات کرتے ہوئے سوچنا چاہیے تھا کہ تین تین بیٹیوں کی ماں ھے اپ۔۔۔۔اور وہ کہتے ہوئے باہرنکلی تھیں۔۔

بہت زبانیں کھل گئ ھیں دونوں کی اماں کی دی گئ ڈھیل کا نتیجہ ھے بس۔۔۔

پری غازیان سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔۔

اوہ ائ ایم سوری۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا نہیں۔۔۔۔۔۔

غازیان تو پری کو اک الگ سے روپ میں دیکھ کر اس میں کھو ھی گیا تھا۔۔۔

پری علی کی آواز پر غازیان جیسے ہوش میں آیا تھا۔۔۔۔

جسٹ کڈنگ یار یو ار لک لائک مائ بیوٹی فل پری۔۔۔۔۔۔

رئیلی علی۔۔۔

یس مائ ڈئیر۔۔۔

ارے علی بھائ پری تم لوگ ادھر ہو تو حرا کدھر ھے۔۔صائم پاس ایا تھا۔۔

ائ تھینک روم میں ہوگی چلو تم دونوں رکو میں دیکھتی ہوں اسے۔

ارے غازیان تم ادھر ہو اور میں نا جانے تمہیں کہاں کہاں ڈھونڈتی پھر رہی ہوں۔۔

کیوں کوئ کام تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ربیا کو بن دیکھے بولا تھا۔کیا مطلب ھے غازیان کل ہماری انگیجمنٹ ھے۔اور میں اپنے ہونے والے منگیتر سے بات بھی نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔۔۔اب

چلو یہ بتاو کے میں کیسی لگ رہی ہوں۔۔

دیکھو ربیا مجھے کوئ انٹریسٹ نہیں ایسیی فضول قسم کی باتوں میں ناو لیو می۔۔۔

اور ربیا اپنا سا منہ لیے رہ گئ تھی۔۔۔۔۔۔

حرا کمرے سے نکلی ھی تھی کہ سامنے امان کو کھڑے پایا تھا۔کل کی پانی والی حرکت پر اور اپنی نادانی پر خوب غصہ بھی ایا تھا۔۔۔۔۔۔

تو وہ قدم اٹھاتی امان کے پاس ائ تھی۔جو سفید شلوار قمیض کے ساتھ اجرک لیے بہت دلکش لگ رہے تھے۔۔۔۔

ایکسیوز می۔۔۔۔

اور امان پلٹا تھا۔۔۔ لیکن اک دم کو تو وہ حرا کو دیکھ کے حیراں رہ گیا تھا۔۔بہت پیاری لگ رہی ھیں اپ۔

ان کے لب ہلے تھے کہ حرا بھی چونکی تھی۔

جی کیا کہا۔۔۔

مم میں نہیں کچھ نہیں۔

اپ یہاں پر خیر تو ھے۔۔

ججی کیا مطلب میں یہاں نہیں اسکتی۔۔

نہی ایسی بات نہی ائ مین ٹو سے۔۔۔اس وقت سب فنگشن میں باہر ھیں تو۔

اوہ جی مجھے اپ سے سوری بولنا تھا۔۔۔

وہ کس لیے۔۔۔۔۔۔۔

کل بے دھیانی میں اپ پر پانی جو پھینک دیا تھا۔۔

اوہ وہ تو میں بھول بھی گیا۔اور اپ معافی مانگ کر مجھے شرمندہ کر رہی ھیں۔۔۔۔۔

پلیز ڈونٹ سے دیٹ۔اٹس اوکے۔۔۔

رئیلی۔۔۔۔

یس مس حرا۔۔۔۔۔۔

پھر ٹھیک ھے۔۔

اور وہ باہر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔

حرا۔۔۔

جی وہ پلٹی تھی۔۔۔

اپ اج بہت پیاری لگ رہی ھیں۔۔۔۔۔۔

اور حرا حیرانگی سے امان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔

تھینک یو وہ کہہ کر باہر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔

حرا،حنا اور پری نے سیم ڈریس بنوائے تھے۔۔

اور تینوں بہت ھی پیاری لگ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔

ہر دیکھنے والی انکھ ماشاءاللہ کیے بغیر نا رہ پائ تھی۔۔۔۔

نکلو باہر۔۔۔۔۔یہ لیڈیز فنگشن ھے۔اور حنا پچھلے دس منٹ سے صائم کے ساتھ بحث میں مصروف تھی۔۔۔کہ کب وہ لوگ یہاں سے نکلیں اور وہ اپنی پرفارمینس کا جلوہ بکھیریں۔۔کیوں یہ لان پر اور اس فنگشن پر تہمارا نام لکھا ھے کہ تمہارے حکم کے تابع ہوں سب۔۔۔میرا گھر اور میری مرضی۔۔

اوہ ہیلو میڈم فار یور کائنڈ انفارمیشن یہ گھر جتنا تمہارا ھے اتنا ھی میرا بھی ھے۔لگی سمجھ۔۔۔۔

سو واٹ نکلو یہاں سے۔۔

حنا یہ کیا ہورہا ھے۔۔۔۔۔دیکھیں نا تائ امی مجھے نکال رہی ھے یہاں سے۔۔

یہ کیا بدتمیزی ھے حنا۔۔۔۔

پر امی یہ لیڈیز کا فنگشن ھے۔۔۔۔تو کیا ہوگیا۔۔۔۔صائم بیٹا جیسے مرضی گھومو پھرو یہ تو ھے ھی جھلی۔۔

جی تائ امی۔۔۔۔۔

پر امی۔۔چپ کرو حنا۔۔۔۔۔۔پہلے ھی بہت کام ھیں مجھے۔۔۔

اور حنا پیر پٹھکتی وہاں سے چل دی تھی۔کہ صائم اس کی حالت دیکھ کر ہنس دیا تھا۔۔۔۔۔

سمجھتا کیا ھے خود کو۔۔جیسے کوئ تیس مار خان ہو۔۔۔

اوہ جناب کی ہوا۔

حرا وہ ایڈیٹ۔۔۔

کون۔۔وہ دیکھو سامنے کیسے لڑکیوں کے درمیان بیٹھا ھے۔اور یہاں سے نکلنے کا نام نہی لے رہا۔۔۔۔

اوہ تو یہ بات ھے۔اسے میں ابھی ٹھیک کرتی ہوں ڈانٹ وری۔۔۔۔۔۔۔

ارے اپ کی لائف میں اک ہیرو انے والا ھے۔اور صائم کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑے اپنی فلاسفی جھاڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

جان من صائم صاحب یاد ھے جب اپ نے میری سرونٹ کا ہاتھ دیکھا تھا تو اگلے دن وہ مر گئ تھی۔۔

کیا بتایا نہیں سب کو۔۔۔۔

کیا نہیں بتایا حرا اپی انہوں نے پاس کھڑی لڑکی نے پوچھا تھا۔یہی کہ جناب جس کا۔ بھی ہاتھ دیکھتے ھیں۔وہ جہان فانی سے کوچ کر جاتے ھیں۔۔۔۔۔

کیا کیا اور جو لڑکی ہاتھ دکھا رہی تھی گبھراہٹ کے ماڑے سب ایسے بھاگی تھیں کی حرا کا ہنس ہنس برا حال تھا۔

حرا یی سب کیا تھا۔۔۔۔۔

دکھ نہیں رہا ڈرامہ تھا۔۔۔

کیا یار اچھا خاصہ دل لگا ہوا تھا۔پیاری پیاری لڑکیوں کے درمیان۔۔۔

شرم نہیں اتی۔۔کس بات کہ شرم۔۔

اک پیاری سی لڑکی کو ستاتے ہو۔۔۔

کون وہ حنا وہ پیاری ھے کیا حرا ائ سائیڈ خراب ھے تمہاری۔پتا بھی ھے کتنی ہٹلر لڑکی ھے۔۔وہ۔۔

اوہ ہو دیکھو بھی کیسے منہ لٹک گیا ھے اسکا۔۔

اور اس نے حنا کی طرف دیکھا تھا جو چپ چپ سی کگڑی تھی۔۔

اسے کیا ہوا۔۔۔۔یو نو اسکی بہن کی شادی ھے سارے ارمان تو پورے کرے گی۔۔ہاں تو وہ کھڑے ارمان بھائ۔ان سے کہے۔

اف ہو پاگل ہوگئ ہو۔۔۔۔صائم۔

ہاں تو چلو پھر کرتے ھیں ڈرائیکولا کا موڈ ٹھیک۔۔۔

وہ کیسے۔۔۔۔۔۔۔

اپنے سٹائل سے۔۔۔۔۔۔اور وہ حرا کا ہاتھ پکڑے سٹیج کی طرف ایا تھا۔علی بھائ میوزک ان کریں۔

اور وہ بھاگتا ہوا حنا کے پاس ایا تھا۔۔۔کزن کین یو ڈانس ود می۔۔

نو وہ روٹھے ہوئے انداز مین بولی تھی۔۔۔

چلتی ہو یا اٹھا کہ لے کے جاوں اور وہ حنا کو کھینچتا ہوا سٹیج کی طرف لایا تھا۔۔۔۔۔

سب کو اکٹھا دیکھ اماں جی کی انکھیں نم ہورہی تھیں۔۔اور وہ دعائیں بھی دے رہی تھیں۔

لیکن غازیان کا تو ماڑے غصہ کے برا حال تھا کہ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ پری کو علی سے کسی طریقے سے چھین لائے۔۔۔۔۔

وہ غصے سے وہاں سے نکلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

ابا جی میں کہتی ہوں کہ کل کے دن ربیا اور غازی پتر کا نکاح کردیا جائے۔۔منگنی تو سب عارضی رسمیں ھیں۔۔

اپ کچھ بول کیوں نہی رہے ابا جی۔

سوچتا ہوں کچھ میں۔ابا جی گھر دی دھی ھے ربیا۔اپ کے سامنے بڑی ہوئ ھے۔۔۔

وہ تو ٹھیک ھے پر میں ایسے کیسے اتنی جلد بازی میں کوئ فیصلہ کرسکتا۔

یہ کیا کہہ رہے ھیں ابا جی جو بھی فیصلہ کیا اج تک اپ ھی نے کیا ھے۔۔اور اج ھی اپ سب کے سامنے ربیا اور غازیان کے رشتے کا فیصلہ کریں گے۔۔۔

اور سلمی یہ کہہ کر کمرے سے نکلیں تھیں۔۔۔جو بھی ہو کل ربیا اور غازیان کی منگنی نہی نکاح ھوگا۔۔

ورنہ سب کچھ ہاتھوں سے پھسلتا ہوا دکھ رہا ھے مجھے۔اور یہ لڑکی پھر کوئ اوٹ پٹانگ حرکت بھی ناکر بیٹھے۔۔۔

عمر کل میرا نکاح ھے میرے کزن کے ساتھ چاہے جو بھی ہو مجھے میری امی کے فیصلے پر ھی عمل کرنا ہوگا۔۔۔اب کبھی فون مت کرنا۔سمجھو کے ربیا مڑ گئ ھے۔اور ربیا نے فون بند کیا تھا۔

اف پیچھے ھی پڑگیا تھا یہ تو شکر ھے بلا ٹلی۔وہ مسکراتی ہوئ اندر کی جانب بڑھی تھی۔

ہائے تھک گئ میں تو اج۔۔۔۔۔حنا سمیت حرا اور پری بھی بیڈ پر گری تھیں۔۔

واقعی یار تھکے تو ھیں لیکن زندگی میں یہ ایونٹ ہمیشہ یاد رہے گا۔۔واقعی یاراا نو ڈائوٹ پری نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔

ابا جی تسی میری دھی نال اینج نہیں کرسکتے۔۔۔۔تب ھی سلمئ پھپھو کے چلانے کی اواز ائ تھی۔۔

اتنی رات انہیں کون سا نیا سیاپا یاد اگیا۔۔۔۔۔یار۔۔۔۔

 حنا تلملائ تھی۔۔۔

چلو دیکھتے ھیں یار پری فکرمندانہ انداز میں باہر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔۔

بس سلمی پتر میں فیصلہ کر چکا ہوں۔ربیا کے لیے میں نے اپنے دوست سے بات کی ھے بہت بڑے لوگ ھیں وہ ربیا می زمہ داری میں نبھاوں گا لیکن۔۔۔

لیکن کیا ابا جی بولو۔۔کی کمی ھے میری دھی وچ۔۔۔۔۔۔۔

کہ تسی اج اپنی زبان تو مکڑ گئے۔

گھر کے تمام چھوٹے بڑے افراد لائونج میں جمع تھے۔۔

پری کو کافی حیرت ہوئ تھی کہ یہ ولی شاہ اپنی زبان سے اخر کیوں پھر گئے۔۔۔۔۔۔۔

بس میں فیصلہ کر چکا ہوں کل سویرا کی رخصتی کے بعد غازیان اور پریشہ کا نکاح ہوگا۔۔۔

اور یہی میرا آخری فیصلہ ھے۔۔۔

اور پری کا تو سر ھی چکراکررہ گیا تھا۔جیسے کوئ بمب پھوڑا ہو کسی نے اسکے سر پر۔۔۔۔۔

وہ تو بروقت حرا اور حنا نے اسے سہارا دئیا تھا ورنہ وہ توگرنے کو تھی۔۔۔

لاونج میں بیٹھا ہر شخص اک دوسرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔

ہائے وہ بدبخت لڑکی میری بچی کے نصیبوں کو ڈس گئ ھے۔۔۔

وہ لڑکی تو مجھے پہلے ھی دن ھی اک انکھ نا بھائ تھی۔۔۔

جانتی تھی میں مہ یہ لڑکی لڑکوں کو اپنے حسن کے جلوے دکھا دکھا کر اپنی انگلیوں پر نچائے گا۔اور سلمی کے منہ میں جو ارہا تھا وہ پری پر بہتان لگارہی تھی۔۔۔۔

پتا نہیں پردیس میں پلی ھے کیسا کردار ہوگا اسکا۔۔۔

بس اپا بس۔۔۔۔۔۔۔اور دلاور شاہ کے غصے بھری اواز سے وہ دھل گئ تھیں۔۔۔۔۔۔

میں کب سے چپ کر کے یہاں سب کی باتیں سن رہا ہوں۔

اور اپ ہوتی کون ھیں میری بچی کےبارے میں ایسی فضول باتیں کرنے والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اندھا یقین ھے مجھے میری اولاد پر اور میری رباب کی کئ ہوئ تربیت پر۔۔۔۔۔۔

اپ کی زبان زرا بھی نا لڑکھڑای ایسی بات کرتےہوئے۔۔۔۔۔

یہ مت بھولیں اپ سب کہ ابھی میرے بچوں کا باپ زندہ ھے۔۔۔۔

اور اپنے بچوں کی زندگی کا فیصلہ میں خود کرسکتا ہوں۔۔۔۔۔

اور پری انسو پونچھتی اپنے بابا کے پاس ائ تھی۔۔۔۔۔۔

جس کی زات پر اج اسکی سگی پھپھو کیچل اچھال رہی تھیں۔۔۔۔

بس دلاور پتر بس۔اس گھر میں وہی ہوگا جو میرا فیصلہ ہوگا۔۔۔۔

اور میں کسی کو بولنے کا حق نہیں دیتا۔۔۔۔۔

صیح کہا ابا جی اپ نے بلکل سہی کہا۔۔۔۔۔

کسی کو بولنے کا حق دیا ہوتا تو اج میں سب رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی اپ کے سامنے تن تنہا کھڑا نا ہوتا۔۔

میری رباب میرے ساتھ ہوتی۔۔

بسس میں اور کچھ نہیں سنوں گا۔۔۔۔۔اگر جو کہہ دیا ھے کل غازیان کا نکاح پریشہ سے ہر صورت ہوگا۔۔۔

تب ھی پریشہ تالیاں بجاتی ولی شاہ کے سامنے ان کھڑی ہوئ تھی۔۔۔

کیا بات ھے چوہدری ولی شاہ صاحب کیا کہنے اپکے۔۔۔

غازیان سمیت سب کا دھیان پری کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔

انسان اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کر سکتا ھے۔۔یہ بات میں نے سنی تھی۔۔۔اج دیکھ بھی لیا کہ واقعی انسان اتنا بھی گر سکتا ھے۔۔

انہوں نے بولنے کے لیے لب کھولے ھی تھے کہ پری نے ھاتھ کے اشارے سے انہیں خاموش کروادیا تھا۔۔۔

نہیں میرے سامنے منہ کھولنے کی گستاخی مت کیجیے گا۔چوہدری صاحب میں اپکی غلام نہیں ہوں۔۔

جو اپکے اشاروں پر چلوں گی۔۔۔۔

میں پریشہ رباب ہوں۔اسی رباب کی بیٹی جس کی طرف اپ نے اپنا رخ تک نا کیا تھا۔اور دھتکارتے ہوئے اسے گھر سے نکالا تھا۔

میں اسی رباب کی بیٹی ہوں۔جسکے سہاگ کے ہوتے ہوئے بھی اپ نے اسکا سہاگ چھینا تھا۔۔

میں وہی رباب کی بیٹی ہوں جس کے باپ کے ہوتے ہوئے بھی اپ نے اس کے بچوں کو باپ کی شفقت سے محروم رکھا۔۔۔۔

ہاں میںری رگوں میں بھی اسی رباب کا خون دوڑ رہا ھے۔جو اس خاندان کا فرد نا تھی۔۔۔۔اور اس اتنج بڑی حویلی کے مکینوں کے دل میں اسکے لیے تھوڑی سی بھی جگہ نا تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

تو اج اسی رباب کی بیٹی کے لیے اپ کے دل میں جگہ کہاں سے بن گئ۔۔۔۔۔۔

بتانا پسند کریں گئیں۔۔۔۔۔کہاں گئ وہ اپکی جھوٹی شان وشوکت۔۔۔۔۔۔۔

اوہ سوری اپکی دی ہوئ زبان۔۔۔۔۔

اپنی سگی بیٹی کو ھی چنددن پہلے اپ نے زبان دی تھی نا۔۔۔اور جہاں تک میں نے سنا ھے۔چوہدری صاحب جان سے تو چلیں جائیں لیکن زبان سے نہیں جاتے۔۔۔۔۔۔۔

اور ولی شاہ کسی بت کی طرح ساکت کھڑے تھے۔اج سے تئیس سال پہلے کی رباب جیسے اج ان سے اپنی خوشیوں کے بارے میں سوال کررہی ہو۔۔۔۔۔۔

ارے ارے یہ سر اج جھک کیوں گیا۔۔۔

چلیں اپنے سوال کا جواب میں خود ھی دے دیتی ہوں۔۔

اپ میری اور غازیان کی شادی اسلیے کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔کہ میری رگوں میں بھی اسی خاندان کا خون دور رہا ھے۔۔۔۔۔۔

نہیں پریشہ بیٹا یہ شخص اپنی جھوٹی سیاست کے نشے میں دھت ھیں۔۔۔

اپنی سیٹ بچانے کیلئے میری بچی کا استعمال کرنا چاہتے ھیں اپ۔۔ابا جی۔۔۔

نہیں اپ کو تو اج باپ کہتے ہوئے بھی شرم ارہی ھے مجھے۔۔۔۔کہ اپ نے تو کسی کو بھی نا بخشا۔۔۔

کاش بہت پہلے میں اپنے فیصلے پر قائم رہتا تو اج یہ نوبت نا اتی۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن اج سے اور ابھی سے میرا ہر رشتہ ختم ہوتا ھے ابا جی میں اپکے لیے مرگیا اور اپ میرے لیے مر گئے۔۔

اور میں زندہ ہوں اپنے بچوں کے زندگی کے فیصلے کرنے کیلئے۔۔۔

اور میں پریشہ کے لیے اپنے دوست کو زبان دے چکا ہوں۔۔۔۔۔

پری نے دلاور شاہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اور وہ پری کا ہاتھ پکڑے علی کی طرف بڑھے تھے۔۔

علی بیٹا میری پریشہ اج سے تمہاری ذمہ داری ھے۔

کوئ اعتراض تو نہیں۔۔۔۔تمہیں۔۔

نن نہی انکل وہ دونوں ہکا بکا دلاور کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔

تب ھی دلاور نے اپنی انگلی سے انگوٹھی نکال کر پری کو دی تھی۔۔۔۔۔

بیٹا پہنا دو علی کو اور اماں جی اور شبانہ سمیت حرا،حنا، اور صائم بھی اگے بڑھے تھے۔۔۔

کم ان پری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تو مارے حیرت سے اپنے بابا کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

میرا پیارا بچہ۔انہوں نے پری کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔۔۔

اور پری نے علی کو رنگ پہنائ تھی۔کچھ لوگ تو اس کی خوشیوں میں بہت خوش تھے۔۔۔

سلمی پھپھو تو شیطانی مسکراہٹ لبوں پر سجائیں ہوئ تھیں۔۔

لیکن کوئ تھا جو ٹوٹ گیا تھا۔بکھر گیا تھا۔۔۔جو اپنی ھی محبت کو اپنی آنکھوں کے سامنے کسی اور کا ہوتا ہوا دیکھ کر ولی شاہ کے سامنے ایا تھا۔۔۔۔

ہار گئے اج اپ۔۔۔۔

کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اپکو۔۔

اور وہ کہتا باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔

اور پری باباکے گلے لگے بچوں کی طرح سسکی تھی کہ سب گھبرائے تھے۔

یہاں تک کے سامنے بے سود کھڑے ولی شاہ بھی گھبرا اٹھے تھے۔۔

پاپا مما۔۔۔۔۔مما کیوں چھوڑ گئ ہمیں اج مما نہیں ھیں بہت یاد ارہی ھے انکی۔۔۔

اج سب ھے بس مما نہیں ھیں۔اور اس کی تڑپ میں ہر انکھ اشکبار ہوگئ تھی۔۔۔

نن نا میرا پتر ہم ھیں نا تیرے کول اینج نئ کری دا۔اور اماں جی اسے سینے سے لگایا تھا۔نا میرا پتر نا۔۔۔

کہ ولی شاہ بہت مشکل قدم اٹھاتے کمرے کی جانب بڑھے تھے۔۔۔۔۔

کہ انہیں پری کے سامنے خود کا وجود مجرم لگ رہا تھا۔۔۔

کمرے میں اتے ھی انہیں اپنا دم رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔

پری کی باتیں رباب کا چہرہ سب ان کی نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔۔ان کیلیے سانس تک لینا محال ہو رہا تھا۔۔۔۔

شبانہ پری کو کمرے تک لائ تھیں۔اور وہ ان کے سینے سے لگی ہوئ تھی۔کسی چھوٹی سی بچی کی مانند وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئ تھی۔۔

نا میں نا کہتی تھی کہ بہت بڑی فلم ھے یہ لڑکی۔۔۔دیکھیے کتنی زبان ھے کہ ابا جی کے سامنے کھولی۔۔

بس کر دیں  سلمی اپا  کم از کم خدا کا خوف ھی کرلیں۔۔۔۔۔۔۔

لیں بھابھی میں کیا بول دیا۔اب نین مٹکے کیے لڑکوں سے تب ھی دلاور بھائ نے کیسے پری کا ہاتھ علی کے ہاتھ میں دے دیا۔۔۔

اپ تو شکر کریں کے ایسی لڑکی سے اپنے غازیان کی زندگی بچ گی۔۔

اور اک تھپڑ کی اواز گونجی تھی۔۔۔۔اماں۔۔۔سلمی چلا اٹھی تھی۔

اج مینوں شرم ارہی ھے۔۔۔۔۔کہ تو میری دھی ھے۔۔۔۔اور کی کمی رہ گئ میری تربیت وچ کہ تو اپنی زبان سے ایسے کیڑے نکالے۔۔۔

اس ننھی سی جان کے لیے انا زہر اگلا توں نے منحوس۔۔۔

یہ تک نا جانا کہ تیری ھی بھائ دی اولاد ھے تو پھوپھی ھے اسکی۔اور پھوپھی تو ماں جائ ہوتی ھے۔۔

نا کرم جلی۔۔۔میں تو اس دن کو کوس رہی جب تجھے جنم دیا میں نے۔۔۔کاش تیرا گلا میں اسی دن دبا دیتی۔۔۔۔۔

تو اج تو اس گھر دی دھی بہن لیے اتنا اول فول نا بکتی۔۔۔

ارے توں نے تو اتنا بھی نا سوچا کہ تیری بھی تین تین بیٹاں ھے۔ارے بیٹیوں والی ہوکر بازاری عورتوں کی طرح بکواس کر گئ۔ڈر اس خدا سے۔کہ توں اک فرشتہ صفت بچی پر بہتان لگائیں ھیں۔جو کہ خدا بھی معاف نہیں کرتا۔۔۔۔اور وہ کہہ کر کمرے کی جانب بڑھی تھیں۔۔۔۔۔

اور غازیان نے ہاتھ میں پکڑی شراب کی بوتل زمین پر پھنکی تھی۔۔۔۔

اااائا۔۔۔۔وہ ذور سے چلایا تھام۔۔۔

پری صرف میری ھے صرف میری وہ صرف میری محبت ھے۔۔۔۔میں اسے کسی کا ہونے نہیں دوں گا۔

ائ سمجھ تجھے علی۔۔۔۔۔۔

اور وہ ویران سڑک پر ہوش وخبر سے بیگانہ چلا رہا تھا۔۔۔۔

پری میری ھے علی میرے ہوتے وہ وہ تمہاری کبھی نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ کہہ کر غازیان نے جیب سے فون نکالا تھا۔۔

ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*********************************************

کل سویرا کے نکاح کے بعد سلمی پھوپھو کی بے جا ضد کی بدولت ربیا اور غازیان کے نکاح کا بھی کہا گیا تھا۔۔لیکن غازیان تو تب ہوش میں ایا تھا جب شیروانی اس کے کمرے میں پہنچی تھی۔۔۔

غازیان تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔۔۔۔۔

تیار کیوں امی کیا کیوں تمہاری بہن کی شادی ھے۔۔۔۔اور تمہارا نکاح ھے۔۔۔۔

اور وہ ہربرا کر اٹھا تھا۔کہ اک دم سر بھاڑی سا لگا تھا کہ وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر رہ گیا تھا۔۔۔

غازیان بیٹا کیا ہوا ھے بیٹا ٹھیک ہونا۔وہ گھبرائ ہوئں غازیان کے پاس ائ تھیں۔۔۔۔۔۔۔امی میں ربیا سے شادی نہیں کروں کا اور یہ میرا آخری فیصلہ ھے۔۔۔

خدا کے لیے غازیان یہ الفاظ دبارہ زبان سے مت نکالنا۔۔۔

سلمی اپا کا کل کا لگایا تماشہ بھول گئ ہو تم۔۔

انہوں نے تو پریشہ تک کو نا چھوڑا۔۔

امی چاہے جو بھی ہو میں شادی نہیں کرسکتا۔۔۔

کیا کیا کہا پھر سے کہنا۔۔

اپنی ماں کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو دیکھ لو میں اپنا شوہر تو کھوچکی لیکن اپنی انکھوں کے نور کو نہیں کھو سکتی۔۔

ابا جی کا دل اپنی سگی اولاد کے لیے نا پھسلا۔۔۔تو وہ پوتے کے لیے کہاں پھسلے گا۔اور میں نہیں چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا ان رشتوں کی اگ میں دھنسے اور اپنوں کے خلاف بغاوت کرے۔۔۔

امی پلیز میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر مجھے شرمندہ مت کریں۔۔۔

ماں ہو تمہاری جانتی ہوں بیٹے کے دل پسند اور اگر مجھے بھی ربیا اور پریشہ میں سے کسی ایک کو بہو کے روپ میں چننا پڑتا تو میری اولین پسند پریشہ ہوتی۔۔۔۔۔۔

لیکن مجھے معاف کر دو تمہاری ماں مجبور ھے۔۔۔۔۔۔

امی اپ مجبور ھیں اپکا بیٹا نہیں اور وہ یہ کہہ کر کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔

اور وہ اپنے بیٹے کی حالت دیکھے رو دی تھیں۔۔۔۔۔۔

فون کی گھنٹی بجی تھی کہ سکرین پر عمر نا نا جگمگایا تھا۔۔۔۔

ربیا نے دو تین بار کال کاٹی تھی۔۔۔۔۔۔۔

تب ھی میسیجز پر میسجز کی آواز کانوں میں گونجی تھی۔۔۔

ہوگیا کیا میک اپ۔۔

جی میم ال موسٹ ہوگیا ھے۔۔

ٹھیک ھے اپ لوگ جائیں۔۔

بیوٹیشن کو جاتے دیکھ اس نے ڈور لاک کیا تھا۔۔۔۔

اور میسجیز کو اگنور کرتے اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔۔

کیا ھے عمر کیوں بار بار کال کررہیے ہو۔

میں نے کہا تھا نا جو بھی ہمارے بیچ تھا وہ الموسٹ سب فینشڈ ہوگیا ھے۔۔اج میری شادی ھے۔یوں بار بار مجھے ٹیکسٹ کرکے تنگ نا کرو۔۔۔۔۔

میں مر جاوں گا ربیا تمہارے بغیر۔۔۔

تو مر جاو لیکن مجھے تنگ نہیں کرو۔۔۔۔۔۔

تم نے تو محبت سے دعویٰ کیے تھے مجھ سے۔۔۔

کیا وہ رسمیں وہ قسمیں سب جھوٹی تھیں۔۔۔۔

ہاں سب جھوٹ تھا۔۔۔از جسٹ ٹائم پاس۔۔۔۔

اب مجھے دوبارہ تمہاری کال نا ائے۔۔۔

اوہ اوہ ٹھیک ھے اگر تمہاری نظر میں یہ سب اک مذاق تھا۔

تو میں اس وقت تمہارے حویلی کے باہر کھڑا ہوں۔

کیا کیا تم پاگل ہوگئے ہو۔۔اور ربیا کھڑکی کی جنثب ای تھی جو گھر کے بیرونی سمت کھلتی تھی۔۔۔

اک سفید گاڑی کے پاس اک عکس نظر ایا تھا۔۔۔۔۔وہ تو عمر کی گاڑی دیکھ کر گھبرا گئ تھی۔۔۔۔۔

تم۔تم یہاں کیا کررہے ہو۔۔۔۔۔

ہاہاہا۔کیا کرنا ھے اپنی محبت کو دلہن بنے دیکھنے ایا ہوں۔۔۔

چلو اک بار واٹس ایپ تو اوپن کرو۔

اور عمر نے فون کٹ کردیا تھا۔۔۔۔۔۔

وہ ہربڑاتی واٹس ایپ اوپن کیے تھی کہ اپنی تصاویریں دیکھ کر حیران رہ گئ تھی۔۔

کیا یار مجھے شرم اتی ھے پکس نہی لو۔۔۔ارے یار محبت ہو تم میری بس ان یادگار لمحوں کو قید کرلینا چاہتا ہوں۔۔۔اتنی محبت کرتے ہو میرے ساتھ عمر۔۔

بہت محبت کرتا ہوں میں تم سے۔۔لیکن اگر تم چھوڑ کر گئ تو میں ناجانے کیا سے کیا کرجاوں گا یاد رکھنا تم۔۔۔

اوہ عمر ائ لو یو سو مچھ۔۔۔۔

لو یو ٹو میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور وہ تو سر تھامے رہ گئ تھی۔۔

یہ سب کیا ھے عمر۔۔۔

تمہیں تو یاد ھی ہوگا پیار میں لی گئ کچھ حسین یادیں ھیں۔۔۔

چلو اب جلدی سے باہر او میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔

میں میں نہیں اسکتی پلیز بس کردو۔۔۔وہ روہانسی ہوگئ تھیی۔۔

تو ٹھیک ھے۔۔۔۔۔۔

اگر تم پانچ منٹ کے اندر باہر نا ائ تو میں اندر آجاؤں گا۔۔

اور اس کے بعد جو ہوگا اس کی زمہ دار تم خود ہوگی۔۔۔۔۔۔

اخر کو بہت سے ثبوت ھیں میرے پاس۔۔۔۔۔

یور ٹائم سٹارٹ ناو۔۔۔

اور فون بند ہوگیا تھا۔۔۔۔۔

وہ کانپتے ہوئے خود کو شال میں اوڑھے سب کی نظروں سے بچتی بچاتی حویلی کے پچھلی سمت بنے دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔

تم تم یہاں کیا کر رہے ہو بولو۔۔۔۔۔

وہ کانپتی ہوئ باہر ائ تھی۔۔۔۔۔۔۔

ارے ارے کیا ہوگیا ربیا۔۔۔

بس اپنی محبوبہ کو دلہن بنے دیکھنے ایا تھا۔۔

عمر پلیز جاو یہاں سے اگر کسی نے مجھے اس وقت تمہارے ساتھ دیکھ لیا تو نا جانے کون سا طوفان ائا جائے گا۔۔۔۔

تم جاو یہاں سے پلیز۔۔وہ ہاتھ جوڑے عمر کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی میں اکر بیٹھو۔۔۔۔۔۔۔

اور وہ کار کا دروازہ کھولے اس میں بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔

کیا تمہیں مجھ سے محبت نہیں تھی۔ربیا بولو۔۔۔۔

اور ربیا نے عمر کی جانب دیکھا تھا۔۔

میں اپنے گھر والوں کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتی۔۔۔۔

میں نے پوچھا کیا تمہیں مجھ سے محبت نہیں تھی ربیا۔۔۔۔۔۔

پاگل ہوگئے ہو تم کبھی خود کو اک نظر ائینہ میں دیکھنا۔۔۔۔عمر صاحب پیسے والے ہو لیکن خوبصورت نہیں اور مجھے ہم سفر صرف وہی چاہیے تھ جو خوبصورت ہو اور اعلی بینک بیلنس بھی رکھتا ہو۔۔۔۔

لیکن تمہارے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ھے۔۔۔۔۔

جو بھی کہنا تھا میں کہہ چکی اب میرا پیچھا چھوڑ دو تمہیں خدا کا واسطہ ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کار سے اترنے والی تھی کہ عمر نے گاڑی سٹارٹ کر دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر کار روکو کہاں لے کے جارہے ہو۔۔۔روکو کار۔

تمہیں بہت غرور ھے نا خود پر اب تمہارا وہی گمان وہی غرور چکنا چور ہوگا۔۔۔۔۔۔

تم نے میری محبت کا مذاق بنایا ھے۔۔۔مس ربیا۔۔

اب جو میں تمہارے ساتھ کروں گا اس کا خمیازہ تم ساری زندگی بھگتو گی۔۔۔یہ وعدہ ھے میرا۔۔۔۔۔۔

اور وہ اندھا دھند گاڑی چلا رہا تھا۔۔

عمر پلیز گاڑی روک دو اج میری شادی ھے تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاہاہاہا کونسا پیار مائ سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔۔

جب تم میری محبت کو لات ماڑ سکتی ہو تو مجھے بھی تم جیسی لڑکی سے کوئ سروکار نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلو ڈیل فائنل کر بچی لے کے ارہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کہہ کر عمر نے کال بند کی تھی۔۔۔۔۔۔۔

نن نہیں عمر تم کیا کرنے جارہے ہو۔۔۔۔سٹاپ دا کار

وہ چلائ تھی۔

پر وہ کار میں میوزک کا والیم بڑھا چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

ارے بھابھی غازیان  کدھر ھے ابھی تک نہیں ایا اور ادھر بہن کا نکاح ہورہا ھے۔۔۔سلمی نے کہا تھا۔ججی میں دیکھتی ہوں۔۔۔

ارے تائ امی چھوٹی مما بلارہی ھیں اپکو۔۔

اچھا ہوگیا پریشہ بیٹا تم دکھ گئ۔۔۔۔۔

یہ غازیان کو تو دیکھو ابھی کمرے سے نہیں نکلا ھے۔۔۔۔

اسے بلا کر لاو جی تائ امی میں ابھی دیکھتی انہیں۔۔۔۔۔۔

اور وہ غازیان کو ڈھونڈتی ٹیرس تک ای تھی۔۔۔

جو سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔۔۔

اپ یہاں ھے اور نیچے سب اپ کی راہ دیکھ رہیے ھیں۔۔۔۔۔

وہ پریشہ کی اواز پر مڑا تھا۔۔

بلیک کام دار فراق میں وہ واقعی کی پری لگ رہی تھی۔۔۔۔

اور اج کے دن بھی اپ سگریٹ پی رہے ھیں۔۔۔اج تو اپ کا نکاح ھے۔۔۔

کیوں نکاح والے دن لوگ سگریٹ نہیں پیتے۔

لوگوں کا تو پتہ نہیں۔۔۔لیکن اپ سے یہ توقع نہیں تھی کہ بہن کی شادی پر بھائ ھی غائب ھین۔۔۔

ہوں۔۔۔۔اور غازیان نے منہ موڑا تھا۔۔۔۔

غازیان اپ کچھ پریشان لگ رہے ھیں۔۔۔

نہیں تو۔وہ پری کو بن دیکھے بولا تھا۔۔۔۔۔۔۔

کچھ چھپا رہے ھیں۔۔۔۔جو نظریں چرا رہیے ھیں۔۔۔۔

بس ماضی کے پنوں پر نظر ثانی کررہا ھوں۔۔۔۔۔۔

کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔میں سمجھی نہیں۔۔۔۔۔

یہی کہ کچھ بھی نہیں بدلا نا اس گھر کے دستور اور نا کوئ قائدے قانون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں سب پر فیصلہ تھوپا جاتا ھے اور مجبوراً اس فیصلے پر خاموشی سے سر جھکانا پڑتا ھے۔۔۔۔۔۔

ٹھیک کہہ رہے ھے اپ غازیان لیکن اپ تو لڑکے ھیں اپ تو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکتے تھے نا۔۔

وہ پری کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا۔۔

شاید تم بھول گئ کہ چند سال پہلے بھی اس خاندان کے اک فرد نے بھی کچھ ایسے ھی فیصلے کیے تھے جس کا خمیازہ انہیں اج تک بھگتنا پڑا۔۔۔۔۔

اور کبھی کبھی اپنے بڑوں کی خوشیوں کے لیے مجبوراً سب فیصلے ماننے پڑتے ھیں۔۔

کیسے بھول سکتی ہوں غازیان۔۔

نا جانے کیوں اج اسے غازیان کے لیے بہت دکھ ہو رہا تھا۔۔۔۔

ائ ایم سوری غازیان۔۔۔۔۔۔

کس بات کے لیے۔۔۔۔۔۔

وہ چونکہ تھا۔۔۔۔میری اٹینشین اپ کو ہرٹ کرنے کی نہیں تھی۔۔۔۔

لیکن میں کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔کہ میں ولی شاہ کی پیروکار بنوں۔۔۔۔۔

ہوں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔

اپ بہت اچھے ھیں غازیان لیکن قسمت کے فیصلوں کے اگے ہم سب مجبور ھیں۔ربیا بھی بہت اچھی لڑکی ھے۔۔۔۔۔

ہاں قسمت سے لڑ سکتا تو شاید۔۔۔۔۔۔۔تم میری ہوتی۔۔۔۔۔

جی کچھ کہا اپ نے۔۔۔

جانتی ہو پریشہ۔۔۔۔۔

کیا۔۔۔۔۔۔

اگر میرے بس میں ہوتا تو۔۔۔۔

ارے پری یار تم ادھر ہو۔۔

علی پری کو ڈھونڈتا ہوا ایا تھا۔۔

ارے تم لوگ یہاں ہو۔۔

ویل برو اپ کو انٹی نیچے ڈھونڈ  رہی ھیں۔۔۔۔۔۔

اور علی کی بے وقت انٹری پر غازیان تلملا اٹھا تھا۔۔۔

غازیان اک نظر علی پر ڈالے نیچے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔

اوئ مائ ڈول یو لوک لونگ۔علی پری کے قریب ایا تھا۔۔۔۔۔

غازیان کے قدم ٹھہرے تھے۔۔اور وہ پیچھے کی طرف مڑا تھا۔۔

لیکن اک نظر دونوں پر ڈالے اس کے تن و من میں اگ لگ گئ تھی۔نا چاہتے ہوئے بھی اسے علی کا وجود زہر لگ رہا تھا۔اور جیسے وہ پری کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔غازیان جیسے غصے میں بے قابو ہوگیا تھا اور علی کی جانب بڑھا تھا۔

علی۔۔۔۔وہ غصہ میں بولا تھا۔

لیکن خود کے غصے پر قابو پاگیا تھا۔۔۔

ارے اپ ابھی گئے نہیں۔

علی نے غازیان کی انکھوں میں دیکھا تھا۔

لیکن پری کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔بلکہ اور زور سے پکڑا تھا۔۔۔۔

پری تو ہاتھ چھڑانے کی ذد میں تھا۔لیکن غازیان کے پکارنے پر اپنی گرفت اور مضبوط کر بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔ 

شاید اپ جانتے نہیں ھیں کہ یہ پاکستان ھے۔۔اپکا لندن نہیں۔۔۔۔۔۔

میں کچھ سمجھا نہیں مسٹر غازیان۔۔۔۔۔

اور اس نے پری کی جانب دیکھا تھا۔

پریشہ ناو ویری ویل اباوٹ۔۔۔۔

اوہ ویل شاید اپ کو پتہ نہی ھے کہ جب دو لوگ کچھ وقت اکیلے میں سپینڈ کرنا چاہے تو ایسے درمیان میں اکر انہیں ڈسٹرب نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف بھی علی تھا۔کہاں چپ رہنے والا تھا۔

پری نے علی کو گھوڑا تھا۔۔۔

لیکن علی نے مسکراتے ہوے پری کے بازو پر ہاتھ رکھے اسے اپنے گھیرے میں لیا تھا۔کہ پری شرم کے ماڑے لال پیلی ہوگئ تھی۔

میں اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ ہوں مسٹر غازیان اور مجھے اس بات سے کوئ ملامت نہیں۔۔۔۔۔۔

امید کرتا ھوں کہ اپ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کا رول پلے مت کریں۔اور جلدی سے اپنے نکاح میں شمولیت اختیار کریں۔

تاکہ اپ کے نکاح کی بریانی ھم بھی کھا سکیں۔۔قسم سے بہت بھوک لگ رہی ھے۔۔۔۔۔۔۔

غازیان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سامنے کھڑے علی کا منہ نوچ لے۔

لیکن دوسری طرف بھی علی تھا۔اور وہ کہی نا کہی غازیان کے دل کی کیفیت سے اگاہ تھا۔۔۔

لیکن علی پرسکوں تھا کہ اس کی پری صرف اسکی ھے کسی کی بھی بری نظر تک ان کے رشتے کو کمزور نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور وہ مٹھی بھینچے وہاں سے چل دیا تھا۔۔

اف پاگل ہو تم اور چھوڑو مجھے یہ کیا حرکت ہوئ۔۔۔۔بھلا۔

کوئ لحاظ شرم بھی ہوتی ھے انسان میں علی۔۔

ہاں بھئ لحاظ شرم سئیڈ پر رکھ کے ج میرا بھی دل کیا کہ کچھ چھچھوڑوں والی حرکت کر لوں۔۔۔۔

شادی سے پہلے سب رول پلے کرلوں۔

اور مجھے یہ تمہارا کزن بلاوجہ زہر لگتا ھے۔۔۔۔

اوہ ہو علی حد ہوتی ھے۔۔۔۔

ہاں حد ھی تو ھے۔جو پار نہی ہورہی ابھی تک۔۔۔۔اور وہ پری کے قریب ایا تھا۔۔۔دیکھو پری اب تو شرمانا چھوڑ دو۔۔اب تو منگنی بھی ہوگئ۔۔

ھاں جی منگنی ہوگئ پر ابھی شادی نہیں ہوی ھے۔ائ سمجھ۔۔۔۔۔

بے پناہ عشق ھے تم سے۔۔

کہ مر ھی نا جائیں تیرے عشق میں۔

اللہ نا کرے پری نے علی کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔

خبردار علی جو دوبارہ ایسی بات کی تو۔۔

تمہاری ائ مجھے لگ جائے لیکن تمہیں کوئ انچ بھی نا ائے۔

کیا بکواس کررہی ہو تم وہ غصہ سے گڑایا تھا۔۔۔۔

حقیقت بیان کی ھے علی۔۔۔

میں نے اپنی حد میں رہ کر بے حد عشق کیا ھے تم سے۔۔۔۔

اور بن تمہارے بغیر میرا وجود بے معنی ھے۔۔۔۔

اور اس کی انکھوں میں انسو اگئے تھے۔۔۔

بس بس میری جان بے پناہ عشق ھے۔یہ بات جان لو کہ بن تمہارے میرا وجود بس اک مٹی کا پتلا ھے۔جیسے جان سے بیگانہ ہو۔۔

دوبارہ تمہارے منہ سے میں یہ مرنے کی بات نا سنوں۔وہ خفا ہوا تھا۔۔

اور تم ھو ایسی باتیں کرتے ہو اسکا کیا۔۔۔۔

ہائے وہ تو بس اپ کے سحر میں ہم ہوش سے غافل ہوکر ایک دم سچ بول دیتے ھیں۔

بڑی بات ھے جناب۔۔۔۔۔۔۔

وہی تو۔۔۔۔اج کہہ بھی دو وہ تین میجیکل ورڈز جو میں سننے کو نا جانے کب سے بیتاب ہوں۔۔۔

بولو بھی۔۔۔وہ پری کے قریب ایا تھا۔۔۔۔

لیکن تب ھی سلمی پھوپھو کے چلانے کی اواز پر وہ چونکے تھے۔

یہ اواز تو پھوپھو کی ھے 

وہ نیچے کی جانب بھاگے تھے۔۔

نا سلمی کی دھی بھری محفل میں خاندان کے منہ پر کالک مل کر چلی گئ۔نا جانے کس کے ساتھ گئ ھے۔۔۔

لوگوں کی باتیں پری کے کانوں سے ٹکرائ تھیں۔۔۔

ہائے میری بچی نا جانے کہاں چلی گئ ہائے پھپھو دھاڑیں ماڑ ماڑ کے رو رہی تھیں۔۔۔۔

سب گھر والوں کی بھی یہی کیفیت تھی۔۔۔۔۔۔سویرا کے سسرال والے بھی ایسی جگ ہنسائی پر تلملا اٹھے تھے۔۔

تب ھی حنا غازیان کی طرف بڑھی تھی۔۔بھائ یہ ربیا باجی کا سیل فون۔۔۔

اور غازیان نے وہ فون ان کیا تھا لیکن دوسرے ھی لمحے کنٹیکٹ لسٹ چیک کرتے ہوئے لاسٹ کال کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔

تو ربیا کی کسی غیر مرد کے ساتھ تصویریں دیکھیں غصے میں اگ بگولہ ہوگیا تھا۔۔۔

اور غازیان کو غصے میں دیکھے ارمان بھی پاس ایا تھا وہ غازی کے ہاتھ سے فون لینے ھی والا تھا۔کہ غازیان نے منع کردیا تھا۔

جہاں وہ خود اک نگاہ بھی تصویروں پر نا ڈال سکا تھا۔

دوسری طرف تو پھر اس کا بھائی تھا۔۔۔۔

وہ میرے ہاتھوں نہیں بچے گی۔۔۔

ارمان کہہ کر باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔

تب ھی غازیان غصے سے ارمان کے پیچھے بڑھا تھا۔۔۔۔۔

سب خاندان کے افراد چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔۔

سلمی پھوپھو تو ہوش و خبر بے سود گر گئیں تھیں۔ہر کوئ لعن تعن کررہا تھا۔۔۔

بھری محفل میں ولی شاہ کے خاندان پر لوگ تھو تھو کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔

نا کیسی کڑی سی نکاح کے دن بھاگ گئ۔ماں باپ کا اک بار بھی نا سوچا۔رسوا کر گی۔۔۔کرم جلی۔

بدکردار لڑکی۔

بس کر دیجیے خدا کا واسطہ ھے پری نے سب لوگوں کی باتیں سن کر اپنی چپی توڑی تھی۔۔

ہر گھر میں بہن بیٹی موجود ھے

تو ایسی باتیں کرنا بند کیجیے۔ اگر اپ کسی کے مشکل وقت میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتے تو مہربانی ہوگی کہ اپ سب فضول باتیں بھی مت کریں۔

ریکویسٹ ھے۔

 اپنے گھر تشریف لے جائیں۔یہ ہمارا فیملی میٹر ھے۔۔۔ہم خود سولو کر لیں گے۔۔۔۔۔

توبہ توبہ کتنی زبان ھے۔لوگ باتیں بناتے ہوئے چل دئیے تھے۔۔۔۔

دیکھ لیا سلمی بیگم اپنی دی ہوی ڈھیلکا نتیجہ۔۔پہلی بار انکے شوہر نے ان کے سامنے زبان کھولی تھی۔۔

اج تک دوسروں کی بہن بیٹیوں پر تہمتیں لگائیں۔اج تک مجھے اور میرے بیٹے کو کسی خاطر میں نا لائ تم۔۔۔نا جانے کس بات کا گھمنڈ تھا تمہیں جو تم آنکھوں پر پردہ ڈالے رہی۔۔۔۔

امان کہتا تھا تمہیں کہ ربیا پر نظر رکھیں لیکن تم نے اس کی اک بھی نا سنی اور اج نتیجہ تمہارے سامنے جے تمہاری دی ہوئ شہہ نے سب بگاڑ کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں صرف تمہارے ابا جی کی شان و شوکت کا گھمنڈ رہا کہ تم اک چوہدری کی بیٹی ہو۔اور تمہارے اگے کوئ اونچی آواز میں بات بھی نا کرے۔

اج تک وہ ھی تو میں نے کیا۔تمہارے باپ کے احسان تلے تم نے مجھے دبائے رکھا۔ورنہ میں اپنے چھوٹے سے کاروبار سے بھی تمہارا اور بچوں کا پیٹ پال سکتا تھا۔لیکن تمہیں جھوٹی شان کو زندہ ھی تو رکھنا تھا۔۔

لیکن اج ان سب باتوں کی زمہ دار صرف تم ہو۔۔۔۔۔۔صرف تم۔۔

چوہدری صاحب مجھے معاف کیجیے گا۔۔۔۔۔لیکن کاش اپ کے احسان نا ہوتے مجھ پر تو اپکی بیٹی کو کب کا تین حرف بول کر چھوڑ جاتا۔۔۔

لیکن اب اس عمر میں اور کتنی رسوائی اٹھا پائیں گے۔۔۔میں اپنی دونوں بچیوں کو لیے جارہا ہوں۔نا اس عورت سے اور نا اسکی راہ پر چلتی اس کی بڑی بیٹی سے میرے بچوں کا کوئ سروکار ھے۔۔

 نا پتر اینج نا کہہ۔۔۔۔۔اماں جی تو رو رو کے نڈھال ہوگئ تھین۔

اماں جی اور کی کہوں۔اک بیٹی کا باپ بھری محفل میں رسوا ہوگیا۔۔اور وہ اماں جی کے گلے لگ رو دئیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔

ولی شاہ مرے ہوئے قدم اٹھاتے پریشہ کے پاس ائے تھے۔۔اپنی پگڑی اتارے پری کے قدموں میں رکھی تھی۔اور ہاتھ جوڑے اسکے سامنے سر جھکائے  کھڑے تھے۔پری اک قدم اٹھاتے پیچھے ہٹی تھی۔

میں قصوروار ہوں۔تمہارا اس گھر میں کھڑے ہوئے ہر فرد کا۔

اور سب سے بڑھ کر رباب کی خوشیاں چھینی میں نے۔اپنے پتر دلاور سے اس کا سکھ چین چھینا میں نے۔۔میں اپنی شان و شوکت کے گھمنڈ میں اتراتا رہا۔کہ بھول گیا کہ میرا خدا دیکھ رہا ھے۔وہ ہر پل میرے ہر گناہ کو نظر میں رکھے ہوئے ھے۔۔۔اج میں سب کا مجرم ہوں۔مجھے معاف کردو پریشہ پتر میری وجہ سے سب ختم ہو گیا۔مہں گنہگار ہوں کہ شاید موت کو بھول گیا تھا کہ خدا کے سامنے پیش ہونا ھے۔اور رباب کی عدالت میں بھی مجرم گردانا جاوں گا۔اج وقت نے میرے منہ پر ایسا تماچا ماڑا ھے کہ شاید گر کر اب اٹھ نہیں پاوں گا۔۔۔پری جو اس شخص کی طرف دیکھ رہی تھی اج ہارا ہوا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔کتنا لاغر بے بس اور کمزور۔۔۔جسے اپنی جھوٹی انا پر بہت مان تھا اج سب زمین بوس ہوگیا تھا۔۔۔

ضروری نہیں کے کسی کی بددعا لگے لیکن کبھی کبھی کسی کے انسو بھی انسان کو لگ جاتے ھیں۔اور اج بھی وہی ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اتنے لوگوں کی خوشیاں تباہ کرنے والا شخص اس کے سامنے کھڑا اعتراف جرم کررہا تھا۔۔۔

پری نے قدموں میں پڑی پگڑی اٹھائ تھی۔اور ولی شاہ کے سر پر رکھی تھی۔۔۔۔۔۔

وہ رباب کی بیٹی تھی۔بدلہ لینا کب سیکھا تھا اور معاف کرناھی سیکھا تھا۔۔۔۔

ولی شاہ نے نظریں اٹھائیں تھیں۔۔۔۔

معاف کردے پتر بیشک میں واپس سے سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتا اور شاید اس کا خمیازہ مجھے ہر پل بھگتنا پڑے گا۔مجھے معاف کردو پتر مجھے معاف کردو اور وہ رو دئیے تھے۔۔

ابا جی دلاور ان کے پاس ایا تھا۔

دلاور پتر میں اپنے ھی ھاتھوں تیری خوشیوں کا گلا گھونٹا اج اس دی سزائیں ملی ھیں مجھے۔کچھ بھی نہیں میرے پاس خالی ہاتھ ہوں۔۔۔سب کھو دیا۔۔۔۔سب۔۔

نہیں ابا جی ایسے مت کہیے۔۔۔۔۔

مجھے اور پریشہ کو کوئ شکوہ نہیں اپ سے چاہے جو بھی ہو اج باپ کا سر جھکا ان سے دیکھا نہیں جارہا تھا۔۔۔۔۔

پریشہ پتر میں تیرا اور تیری ماں کا مجرم۔ہون مجھے معاف کردے پتر۔۔۔۔۔۔

اج پری کو ان پر بہت رحم ایا تھا۔

اور بیشک خدا کی طرف سے ھی ان کے دل میں رحم ڈالا گیا تھا جو وہ اپنی جھوٹی انا سے نکلے تھے۔۔

مجھے اپ سے کوئ گلا نہیں دادا جان۔۔اور ان پہلی بار اس نے انہیں رشتے انکے سے پکارا تھا۔

کی کہا پتر توں نے مجھے معاف کیا پتر۔

جی میں نے اپکو معاف کیا۔

اتنا بڑا ظرف۔اور وہ یہ کہہے پری کو گلے سے لائے رو دیے تھے۔کہ اک دم وہ زمین بوس ہوئے تھے۔۔دادا جان پریشہ کی چیخ نکلی تھی۔۔

ہیلو انسپیکٹر رافع۔

میں غازیان شاہ بات کررہا ہوں۔

ہاں یار کیسے ہو اج کیسے یاد کرلیا۔۔۔۔۔۔۔ہمیں غازیان صاحب نے۔

اک نمبر بھیج رہا ہوں لوکیشن ٹریس کرا۔مجھے جلد سے جلد یہ بندہ چاہیے۔اور اس نے ساری باتیں اس کے انسپیکٹر کے اغوش اتاری تھیں۔۔۔۔۔۔اور فون بند کیا تھا۔

اک بار مل جائے یہ لڑکی خود اپنے ہاتھوں سے گولی ماڑوں گا۔۔یہی حالت غازیان کی بھی تھی۔جو بھی تھا تھی تو اسی کے خاندان کی عزت۔۔۔۔جو اسے کوڑھی کے داموں زمین بوس کرگئ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاہاہاہاا واہ یار کیا بڑا ہاتھ ماڑا ھے۔۔۔۔اور ربیا جو بے سود بیڈ پر گڑی پڑی تھی۔۔۔۔۔

یہ رہے تیرے پیسے۔۔۔گن لے پوڑے ھیں۔

نا تجھ پہ بھروسہ ھے میری جان۔۔۔۔۔۔

اب یہ تیری ہوئ۔۔۔جتنا اس پر خرچ کیا تھا اس سے ڈبل تو مل گیا۔ہاہاہاا وہی تو۔۔۔۔۔۔

اچھا چلتا ہوں۔نیکسٹ شکار ہاتھ لگے گا تو بہت جلد ملاقات ہوگی۔۔۔اور عمر مسکراتا ہوا باہر نکلا تھا۔۔۔

ڈاکٹر ائ سی یو سے باہر نکلے تھے۔۔ڈاکٹر ابا جی کیسے ھیں۔

دیکھیے ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ھے۔۔۔۔ان کی زندگی خطرے میں ھے ہم پوری کوشش کریں گے مریض کو بچانے کی لیکن کچھ کہا نہی جاسکتا۔۔

اک پل وچ میرے ہنسے کھیلتے گھر نوں کس دی نظر لگ میرے خدا۔

اماں جی کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھآ۔لیکن سب بے سود رہ گیا تھا۔

ائ ایم سوری ہم پیشنٹ کو بچا نہیں پائے۔۔۔۔۔۔۔

یہ کہنا تھا۔۔۔۔کہ گھر والوں پر اک کہرام ٹوٹ پڑا تھا۔۔۔۔۔۔

اج تیسرا دن تھا۔ولی شاہ کو گھر والوں سے بچھڑے ہوئے۔

جہاں کچھ دن پہلے خوشیوں کے شادیانے بج رہے تھے اج صف ماتم بچھا ہوا تھا۔اماں جی کا تو صدمے سے برا حال تھا۔۔اور باقی سب کی بھی یہی کیفیت تھی۔۔۔۔۔

ہیلو غازیان۔۔

انسپیکٹر رافع بول رہا ہوں۔

ججی انسپکٹر۔۔۔۔بولیے۔۔

ائ ایم سوری اس کریٹیکل سٹویشن میں اپ کو ڈسٹرب کر رہا ہوں لیکن بات ھی کچھ ایسی ھے۔۔۔۔

اس نمبر کو ٹریس کروالیا گیا ھے۔۔۔۔۔۔اور عمر کو بھی حراست میں لے لیا گیا ھے۔لیکن وہ کافی پہنچی ہوئ فیملی سے تعلق رکھتا ھے۔۔۔اسلیے وہ زیادہ دیر بنا کسی بھی ٹھوس ثبوت کے سلاخوں میں نہیں رہ سکتا۔

اپ کو جلد پولیس اسٹیشن انا ہوگا۔۔۔۔

جی میں ارہا ہوں۔۔۔۔

اور وہ کہتے ہوے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔

لاونج میں کچھ لوگوں کو بیٹھا دیکھے وہ باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔

رامو۔۔۔۔

جی صاحب جی۔۔۔

یہ لوگ کون ھیں۔۔

جی وہ علی بابا اور حرا باجی کے گھر والے ھیں۔پردیس سے ائیے ھیں۔

اچھا اچھا ٹھیک ھے گاڑی نکالو۔۔۔۔۔۔۔

آئیے غازیان صاحب۔۔۔۔

اسلام علیکم انسپیکٹر۔۔۔

کہاں ھے وہ۔۔۔۔

ججی ائیے کچھ چائے پانی۔۔

نہیں بہت شکریہ۔۔۔۔

یہ رہا وہ۔۔جسے اپکی کزن نے لاسٹ کال ملائ تھی۔۔۔۔۔

لیکن غازیان صاحب ہمارے پاس ٹھوس ثبوت نہیں ھے اس کے خلاف تو جو بھی دریافت کرنا ھے وہ جلد از جلد کرنا ہوگا۔۔۔

ورنہ اس کے والی وارث اتے ہی ہوں گے۔۔۔۔۔

غازیان انسپکٹر رافع سمیت کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔

عمر نے اک نظر دونوں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔

اور غازیان کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا۔۔۔۔

کیا ہوا غازیان صاحب چونک گئیے۔۔۔۔۔۔۔ 

بھاگ کی تمہاری ہونے والی بیوی۔

ہاہا۔۔بکواس بند کر اور بتا ربیا کدھر ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بول۔۔۔۔۔غازیان نے اسے شرٹ کے کالر سے جھنجھوڑا تھا۔۔۔۔۔۔

ہاہا مجھے کیا پتا۔۔میرا کیا واسطہ۔۔

بکواس بند کر سالے۔۔۔۔۔

غازیان نے اک تھپڑ اس کے منہ پہ رسید کیا تھا۔۔۔۔۔

کے وہ کرسی پر جھول گیا تھا۔ 

غازیان صاحب میں دیکھتا ہوں اسے۔۔۔۔۔اپ پلیپز قانون اپنے ہاتھ میں نا لیں۔۔۔۔۔

یہ سب بولے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ھے انسپیکٹر مجھے ساری انفارمیشن ابھی چاہیئے۔اور میں بھی دیکھتا ہوں کہ کیسے باہر نکلتا یہ۔۔۔۔۔جیل کی سلاخوں سے۔۔۔۔

ہاہا وہ تو میں نکل ھی اوں گا غازیان شاہ۔۔۔۔۔۔

لیکن تیری جتنی جگ ہنسائی ہونی تھی وہ تو ہو ہٹی۔۔۔۔

تو بھی کیا یاد کرے گا۔۔۔۔

اجکل نا جانے تیرے گھر کی عزت کس کس گلی کی خاک چھان رہی ہو گی۔۔۔

بے غیرت انسان۔۔۔اور غازیان نے اس پر تھپڑوں کی برسات کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پلیز غازیان اپ باہر جائیے سنبھالیں خود کو پلیز ایسے کیس اور بگڑ سکتا۔۔

اور وہ با مشکل خود پر قابو پاتا باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔

پھوپھو اپ کا بی پی بہت اپ ھے۔۔۔۔۔پری نے انہیں میڈیسن دی تھی۔۔۔۔۔۔

اپ پلیز آرام کریں پھپھو۔۔۔۔۔

انشاء اللہ ربیا بہت جلد واپس آجاے گی۔۔۔

اور ان کی آنکھوں میں سے انسو روا تھے۔۔۔۔۔

بیٹی کی جدائی اور باپ کے جانے کے غم نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔

پری۔۔۔۔۔

جی پھپھو۔۔۔۔

معاف کردو اپنی پھپھو کو۔جس نے اج تک تمہیں بس حقارت سے دیکھا۔اتنے بہتان لگانے جہ میرے خدا نے مجھے اتنی بڑی سزا دی۔معاف کردو مجھے۔۔اور وہ رو دی تھیں۔

نہیں پھپھو معافی مانگ کر اپ مجھے شرمندہ مت کریں۔۔مجھے کوئ گلہ نہیں پلیز اپ ایسے مت سوچیے اللہ بہت مہربان ھے۔انشاءاللہ ربیا بہت جلد ہمارے ساتھ ہوگی۔۔۔۔

نن نہیں مر گی وہ میرے لیے۔کوستی ہوں اس دن کو جب میں اس کی پہلی غلطی کو نظر انداز کیا تھا۔جس کا خمیازہ مجھے اج تک بھگتنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔

اور وہ یہ کہہ کر اپنی بے بسی پر انسو بہارہی تھیں۔۔۔۔۔

کچھ اگلا اس نے انسپیکٹر۔۔۔۔۔

غازیان نے پوچھا تھا۔۔۔۔۔

جی اک گینگ کا پتہ لگا ھے جو لڑکیوں کی خریدوفروخت کا کام سر انجام دیتے ھیں۔اپ فکر نہیں کریں۔۔

بہت جلد اپ کی کزن کو ان کے چنگل سے بازیاب کروالیں اپ بے فکر رہیے۔۔۔۔

جو بھی ہو انسپیکٹر مجھے یہ شخص سلاخوں سے باہر نظر نہیں ائے۔۔۔

لیکن غازیان صاحب بہت معروف شخصیت کی بگڑی ہوئ اولاد ھے۔۔۔۔

وہ چاہیے جو بھی ہو۔

وہ جانتے نہیں کے چوہدریوں کی عزت پر ہاتھ ڈالا ھے انہوں نے۔۔۔۔۔۔۔

اور غازیان یہ کہتا ہوا تھانے سے باہر نکلا تھا۔۔۔۔

امان۔۔۔۔

حرا نے امان کو پکارا تھا۔۔۔

جو ناجانے کب سے اردگرد سے بیگانہ سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔

اس نے مڑ کر حرا کی جانب دیکھا تھا۔اور بے بسی کے عالم میں نظریں پھیریں تھیں۔۔۔

کہ جو کالک ان کی بہن ان کے چہرے پر مل کر گئ ھے۔۔تو وہ تو کسی سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہے تھے۔۔۔۔

حرا چلتی ہوئ ان کے پاس ائ تھی۔۔۔۔

میں جانتی ہوں کہ اس وقت اپ کے دل پر کیا بیت رہی امان۔۔۔۔

نہیں حرا۔۔اس وقت میری کیفیت کوکوئ نہیں سمجھ سکتا کوئ نہی جان سکتا۔۔۔

میں اتنا بے غیرت شخص ہوں کے بہن کا محافظ نابن سکا۔۔۔

اج وہ اک بار میرے سامنے اجائے تو میں۔۔۔۔۔۔وہ غصہ سے تلملایا تھا۔۔۔

بس جاگ گئ اپکی غیرت۔۔۔

یہی ھے مرد کی سوچ۔۔۔۔۔

کہ بہن سے نادانستہ طور پر غلطی ہوئ ہو۔۔۔۔۔۔اور اپ اس کو زندہ درگور کردیں۔۔

حد ہوگئ ھے امان صاحب۔۔

اچھے خاصے پڑھے لکھے شخص ھیں۔

ناکہ بہن کس حال میں ہوگئ ذندہ بھی ہوگی کہ۔۔۔۔۔۔۔

اپ خود اس کو ماڑنےکی ضد میں ھیں۔۔۔۔۔

ایک بار تحمل سے سوچیے گا کہ اپ نے بھائ ہونے کا فرض نبھایا تھا یا نہیں۔

بڑوں کے کیے ہوئے فیصلوں میں اپنی بہن کی رائے جاننے کی کوشش کی تھی۔جو وہ سب خاندان والوں سے مداخلت کرتے ہوئے غلط قدم اٹھا گئ۔۔۔۔۔۔۔۔

اک بار ٹھنڈے دماغ سے سوچیے گا ضرور کہ اپ نے اپنی بہن کو جاننے میں کہاں غلطی کی۔۔۔۔

کیونکہ جہاں تک میں نے ربیا کو سمجھا وہ تھوڑی جذباتی ضرور تھی۔لیکن کبھی بھی خاندان کے ساتھ بغاوت مول نہیں لے سکتی تھی۔۔۔باقی اپ خود سمجھدار ھیں۔۔۔۔۔۔میں یہ بھی نہیں کہتی کہ ربیا ذمہ وارنہی۔ لیکن جب جب وہ جذبات میں بہہ کر کچھ غلط کر بیٹھٹی تھی۔تو اپ نے اسے پیار سے سمجھانے کی بجائے اس پر روک ٹوک کر کے اور بھی باغی کردیا۔۔۔۔

دعا کریں کہ وہ جہاں بھی ہو با خیرو عافیت گھر واپس ائا جائے۔۔۔۔۔

اور حرا یہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی۔۔اور امان نے انکھیں موندلیں تھیں۔حرا کی اک اک بات اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غازیان شاور لے کر نکلا تھا۔۔۔۔

تو فون کی گھنٹی بجی تھی۔۔۔۔۔

سکرین پر انسپیکٹر رافع کا نام چمکا تھا۔۔۔

ہیلو۔۔۔رافع کیا کچھ پتا لگا۔۔۔

جی چوہدری صاحب۔۔۔۔۔۔

ہم نے پورے گینگ کو پکڑ لیا ھے جو لڑکیوں کی سمگلنگ کرتے ھیں۔۔۔۔

اور ربیا ملی کیا۔۔۔

ججی وہ غازیان صاحب۔۔۔۔۔

ہم نے کافی لڑکیوں کو بازیاب کروایا ھے۔جس میں اپکی کزن بھی شامل ھیں لیکن۔۔۔۔

لیکن کیا۔۔۔۔۔

اپ کی کزن کی حالت بہت ناساز ھے۔

کیا مطلب ھے رافع۔۔

جی ان کا۔۔۔۔۔

انہیں ہاسپٹل ایڈمٹ کیا گیا ھے۔۔

کس ہاسپٹل میں۔۔۔

وہ اور امان جیسے ھی ہاسپٹل پہنچے تھے۔انسپیکٹر رافع کو اپنا منتظر پایا تھا۔۔۔۔۔

کہاں ھے ربیا۔۔۔۔

ڈاکٹر ٹریٹمنٹ کررہیے ھیں۔۔۔

لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا۔۔۔

کیونکہ جس کنڈیشن میں وہ ہمیں ملیں ھے۔وہ اپنے ہوش سے بیگانہ تھیں۔۔۔اور۔۔۔۔رافع کے پاس الفاظ نا تھے کہ وہ انہیں بتلا سکے۔۔۔۔

کہ کیسے درندوں نے انسانیت کو مجروح کرکے اسے اپنی زیادتی کا نشانہ بنایا ھے۔۔۔

لیکن امان کو تو اپنا وجود سنبھالنا مشکل ہورہا تھا۔۔۔۔

امان سنبھالو خود کو کچھ نہیں ہوگا ربیا کو۔۔

دعا کریں کہ وہ ہوش میں اجائیں اور ہم انکا سٹیٹمنٹ لیں سکیں ورنہ ہم اصل مجرم کو سزا تک نہیں پہنچا پائیں گے۔۔۔۔۔

ڈاکٹر ربیا کیسی ھے۔۔۔۔وہ ڈاکٹر کو اپنی طرف اتا دیکھ ان کی طرف بڑھے تھے۔۔۔

دیکھیے پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ھے۔ان کو شدید شاک لگا ھے۔وہ مینٹلی اور فزیکلی ایبل نہیں ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔اگر بارہ گھنٹوں کے درمیان انہیں ہوش نا ایا تو وہ۔۔۔

وہ کیا ڈاکٹر۔۔

جس کی وجہ سے وہ کومہ میں بھی جاسکتی ھیں۔

جسٹ ایکسکوز می۔۔

میں چھوڑوں گا نہیں اسے جس کی وجہ سے میری بہن اج زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ھے۔۔۔

فکر نہیں کرو امان وہ میرے ہاتھوں سے نہیں بچے گا۔۔۔۔۔

رافع وہ بے غیرت کسی صورت بھی سلاخوں سے باہر نہیں انا چاہیے۔

جو بھی کیس ڈالنے ھیں ڈالو اس پہ وہ اب نہیں بچے گا مجھ سے۔۔۔۔

لیکن چوہدری صاحب ہم ایسے بنا کسی ثبوت کے کیسے۔۔۔

یہ میں نہیں جانتا۔۔۔۔

ورنہ وہ میرے ہاتھوں سے نہیں بچے گا۔۔۔۔۔

غازیان کی آنکھوں میں غصے کی اک لہر دوڑی تھی۔۔۔۔۔

*********************************************

غازیان ربیا کے کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں وہ سٹریچر پر بے سود لیٹی ہوئ تھی۔۔

منہ پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے۔

جسے دیکھ کر وہ دہل سا گیا تھا۔۔اور پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔

نن نہیں عمر تم میرے ساتھ ایسے نہیں کرسکتے اک چیخ کی آواز پر وہ ربیا کی طرف بڑھا تھا۔۔

ربیا ربیا کیا ہوا ھے۔۔۔۔۔۔

عمر چھوڑ دو مجھے وہ ہربڑائ تھی۔چلائ تھی۔۔اور بے سود سی ڈھے گئ تھی۔۔۔

ربیا اٹھو بھی۔۔

تب ھی اس کی کیفیت کو دیکھے وہ ڈاکٹر کو بلانے کے لیے بھاگا تھا۔۔۔۔۔۔

اپ پلیز باہر ویٹ کریں میں چیک کرتا ہوں۔۔۔ڈاکٹر یہ کہتے ہوئے اندر کی جانب بڑھا تھا۔۔

ڈاکٹر ربیا کیسی ھے امان ڈاکٹر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔

کیونکہ غازیان کی تو ہمت ھی نا تھی کہ وہ کچھ پوچھ بھی سکے۔۔۔۔

وہ کب تک ہوش میں ائیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔۔۔۔

کیا کیا مطلب ھے ڈاکٹر۔۔۔

وہ کومہ میں جاچکی ھیں۔۔۔۔

دیکھیے ہم ان کا ٹریٹمنٹ کررہے ھیں۔۔۔اللہ پر بھروسہ رکھیے۔۔۔ڈاکٹر انہیں دلاسہ دیے بڑھا تھا۔۔

غازیان امان کی طرف ایا تھا۔۔

میں چھوڑوں گا نہیں اسے غازیان جس کی وجہ سے میری بہن کی یہ حالت ہوئ ھے۔۔۔۔

اور وہ انسو پہنچتا ہوا کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔

اک بے چینی سی تھی پریشہ کو۔۔۔۔۔۔

علی حرا جانا ضروری ھے کیا۔۔۔۔

انٹی انکل یہ بھی تو آپکا اپنا ھی گھر ھیں۔۔اپ بھی یہیں رہیے ہمارے ساتھ۔۔

دیکھیے بابا میری بات ھی نہیں مان رہے دونوں۔۔۔۔۔

اور وہ بچوں کی طرح اپنے بابا سے شکایت کر رہی تھی۔۔۔۔

رک جاو نا یار بچوں کی ھی مان لو میری تو سن نہیں رہیے۔۔۔۔

ہاہاہا دلاور یار بچوں کی اب نہیں سننی بس یہ نواب صاحب تو یہی دل لگا کے بیٹھ گئے اور ہم بڈھوں کی خبر تک نہیں لی۔مجبورا ہمیں ھی انا پڑا انہیں لینے کے لیے۔۔۔

لیکن ہمیں کیا پتہ تھا یہ کھوتا پکا ہونے ایا پاکستان۔۔

لیکن جو بھی ہو پہلی بار ڈھنگ کا کام کیا اس نالائق نے۔۔۔

جو میری پریشہ بیٹی کو چنا۔۔ 

اب بس اور انتیظار نہی ہوتا

 اب ھم پوری دھوم دھام سے ائیں گے بارات لے کر۔۔۔۔۔۔۔

اب پری بیٹی ہماری امانت ھے اپ کے پاس۔اور دلاور کے دل کو اک جھٹکہ سا لگا تھا۔۔اخر کو بیٹی کا معاملہ تھا۔۔۔۔۔۔

لیکن جو بھی تھا۔۔بیٹی کے فرائض کو تو سرانجام دینا ھی تھا۔اور یہ ھی دستور دنیا بھی ھے۔۔۔۔

بلکل برسوں سے جو اک کسک تھی بھائ صاحب میرے دل میں

کہ میری بھی بیٹی ہو تو وہ اک کمی پریشہ نے پوری کردی۔۔۔۔

بہو کے روپ میں بیٹی جو مل۔گئ مجھے اور انہوں نے بوسہ دیا تھا پری کے ماتھے پہ۔

اور کلائ سے سونے کے کنگن اتار کر پہنائے تھے پری کو۔۔۔اور پری تو شرما دی تھی۔۔

کہ علی تو پری کی کیفیت پہ ہنس دیا تھا۔۔

بس اب بھائ صاحب جلدی سے شادی کی تاریخ پکی کیجیے۔

میں تو بے تاب ہوں کہ کب خوشیوں کے شادیانے بجیں گے ہمارے گھروں میں۔۔۔۔۔

بہت جلد بھابھی جی یہ فرائض سر انجام دیں گے لیکن ابھی کچھ حالات ھی ایسے ھیں کہ مناسب نہیں لگتا۔۔

جی جی بھائ صاحب بلکل ٹھیک کہہ رہیے ھیں اپ۔۔

مت جاو علی۔۔۔۔۔وہ اسے کار تک چھوڑنے ائ تھی۔۔۔۔

جناب میرا تو بس نہیں چل رہا کہ میں تمہیں ابھی اٹھا کر لے جاوں اپنے ساتھ۔۔۔

لیکن ابھی سوچتا ہوں۔۔۔کہ دلہا بن کے اوں گا اور ڈولی میں بٹھا کر لے کر جاؤں گا۔۔۔۔

اور پری شرما دی تھی۔۔

افف یہ شرمانا کہاں سے سیکھ لیا جناب نے۔۔۔۔۔

بس پریکٹیس کر رہی ھے شرمانے کی یہ علی بھائ۔۔۔۔

اور صائم کہاں رکنے والا تھا۔

صائم کے بچے رکو۔۔۔۔

ہاہاہا ہائے میری ڈارلنگ حرا کدھر گئ۔۔۔اور وہ حرا کی طرف بڑھا تھا۔۔

مت جاو نا۔۔۔۔چڑیل۔۔۔

میں کیسے رہوں گا تمہارے بن۔۔

ہیں میں کون سا لندن جارہی ہوں۔بس کچھ گھنٹے کی مسافت پر لاہور اجاتا ںے۔۔۔۔جب دل کرے اجانا ملنے۔۔۔۔

ہائےمیرا بس نہیں چل رہا کہ کب تم ان پیارے پیارے ہاتھوں پر میرے نام کی مہندی سجاؤ گی۔۔

اور حرا صائم کی حرکت سے واقف تھی کہ ضرور اس کے دماغ میں کوئ نئ خرافات چل رہی ہوگی۔۔۔۔۔۔

ہائے تمہاری یہ جھیل سی آنکھیں۔۔۔ڈوب سا جاتا ہوں میں اس میں۔۔۔۔۔

اور حرا نے صائم کی شکل کی طرف دیکھا تھا۔

اور اس کی نظروں کا تعین کرتے ہوئ اس نے گردن موڑی تھی۔۔جہان ہاتھ میں بیگ پکڑے حنا لال انکھیں لیے کھڑی تھی۔۔

اوہ تو تم سدھرو گے نہیں صائم

تم ہو نا تم سدھار دینا جانیمن۔

اب تو تاعمر ساتھ رہنا ھے۔اور وہ دبی دبی مسکراہٹ منہ پر سجائے حرا کو انکھ مارتا ہوا مڑا تھا۔۔۔کہ وہ سر پیٹ کر رہ گئ تھی۔۔۔۔

حرا باجی۔۔۔۔

حنا اس کے پاس ائ تھی۔

یہ گفٹ اپ کے لیے۔۔۔۔اور اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بیگ اس کی جانب بڑھایا تھا۔۔

یہ اس کی کیا ضرورت تھی حنا۔۔۔۔۔۔۔

کیوں ضرورت نہیں تھی۔اپ میری دوست ھیں نا۔۔۔۔۔۔

اور میں اپ کو بہت مس کروں گی یہ کہہ کر وہ حراکے گلے لگے رو دی تھی۔کہ اس کی کیفیت دیکھ حرا بھی پریشان ہوئ تھی۔

ابھی وہ اس چپ کروانے ھی والی تھی اور صائم کی شرارت کے بارے میں بتانے ھی والی تھی۔کہ صائم نے اسے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا تھا۔۔

تو وہ چپ ہوگئ تھی۔کیونکہ وہ صائم کی فیلنگز جانتی تھی کہ وہ حنا کو بہت پسند کرتا ھے۔اور حنا کی بھی ویسی ھی کیفیت تھی۔ ۔۔۔۔۔

ارے حنا چپ بلکل چپ۔۔۔۔۔

رونا نہیں میں اور علی ملنے اتے رہیں گے کیوں علی اور پری اور علی کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ حرا نے دونوں کو اواز دی تھی۔۔

اوہ ہو مائے لٹل ڈول وائے یو کرائنگ۔۔ ہمم اتے رہیں گے ملنے اگر پاپا کے بزنس کا ایشو نہیں ہوتا تو میں کبھی نہیں جاتا اپنی پری کو چھوڑ کر۔۔۔۔۔۔لیکن پاپا نے بزنس پاکستان میں سیٹل کیا ھے تو کچھ وقت تو دینا پڑے گا نا۔علی بولا تھا۔۔۔۔

پکا علی تم کب سے سمجھدار ہوگئے۔حرا کی بات پر سب ہنس دییےتھے۔۔۔

اور مجھے بھی لاہور کے اک ہاسپٹل سے افر ہوئ ھے تو سوچا فری رہنے سے اچھا ھے کچھ ٹائم مریضوں کے لیے وقف کر دوں۔۔۔۔

حرا اس سے اچھا تو تم مجھ جیسے عشق میں ڈوبے مریض پر اپنی زندگی ھی وقف کر دو۔۔۔

دور فٹے ہی منہ۔۔۔۔۔حرا اور پری نے بیک وقت سیم ورڈذ صائم کی شان میں وقف کیے تھے۔کہ وہ اپنا سا منہ لیے رہ گیا تھا۔۔

لیکن حنا کے دل کو تو کسی نے جھنجھوڑ ڈالا تھا کہ اک خفا سی نظر صائم کی طرف ڈالی تھی۔۔۔

چلو بچو شام ہورہی ھے۔۔۔۔۔۔

جی مما ائے۔۔۔۔

اور وہ دونوں ملتے ہوئے کار کی جانب بڑھے تھے۔

سن صائم پری کا دھیان رکھنا۔

اپنی انکھ ناک کان دماغ کھلے رکھنا۔۔۔کیونکہ مجھے وہ تیرے سر پھرے کزن پر یقین نہیں۔۔۔

کونسا کزن۔۔

وہی جو پری کے پاس انے کا اک موقع نہیں چھوڑتا۔۔

اور صائم نے سامنے دیکھا تھا جہاں پری غازیان کا تعارف سب سےکروارہی تھی۔۔۔۔۔

وہ تو ٹھیک ھے بھائ لیکن انکھ کان تو ٹھیک ھے ان سب میں ناک کا کیا کام میں تو یہ سوچ رہا ہوں۔۔۔

اور علی گڑایا تھا۔صائم۔۔۔۔۔

حد ہوتی ھے یہ ناک ان کے کام میں اڑادینا۔۔بس

علی بھائ یہ میری پیاری سی ناک ھے جو سانس لینے میں میری مدد کرتی۔۔

تو اتنا یاد رکھ اگر یہ پری کے پاس پھٹکا تو نا تو بچے گا اور نا تیری یہ ناک پھر بیٹھا رہی ہاتھ میں لیے اپنی پیاری ناک۔

اور وہ سب کو رخصت کرے اندرکی جانب بڑھے تھے۔۔۔

غازیان ربیا کا کچھ پتا چلا۔۔۔۔۔

اور وہ صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

بھائ امان بھائ کہاں ھیں۔۔

اہستہ سب گھر کے افراد لاونج میں اکٹھے ہوگئے تھے۔کہ سب کے سوالوں کا وہ کیا جواب دے۔۔۔۔۔

غازی پتہ لگا کچھ اس کرم جلی کا اور سلمی پھپھو اس کی جانب بڑھی تھیں۔۔۔۔۔

سن اگر وہ مل گئ نا تو میرے پاس لانا اسے میں اپنے ہاتھوں سے ماڑوں گی۔۔۔

پھوپھو جائیں مار دیں جاکر اسے۔۔۔ہسپتال کے کمرے میں زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی ھے۔۔۔۔۔۔۔اپکی ربیا۔۔۔۔۔۔

کومہ میں چلی گئ ھے وہ کیا ہوااس ساتھ کس نے کس چیز کا بدلہ لیا اس سے میں نہیں جانتا۔لیکن خدا کی قسم اک بار وہ میرے سامنے اجائے ذندہ نہیں بچے گا وہ۔۔۔۔۔

سلمی پھپھو۔۔پری ان کی جانب بڑھی تھیں۔۔جو بین ڈال رہی تھیں۔جو بھی تھا تھی توماں ھی۔۔۔۔سب ان کو سنبھالنے میں لگی ہوئ تھیں۔۔

ہیلو انسپیکٹر کیس کر دو اس پہ جو بھی کیس بنتے ڈالو اس پر باہر نا ائے وہ۔

لیکن غازیان صاحب اسکی فیملی ایڑھی چوٹی کا زور لگارہی ھے۔اگر ہمیں اوپر سے نوٹس ایا تو ایکشن نہیں لے لیں پائیں گے اور مجبوراً۔۔۔

جو بھی ہو صیح غلط میں نہیں جانتا بس جو حرکت اس نے کی ھے اس کی سزا تو اسے ملکر رہے گی۔    

پری جو غازیان کے پیچھے کھڑی سب سن چکی تھی۔۔۔

غازیان کے پاس ائ تھی۔۔۔

ائ ایم ود یو غازیان۔۔

وہ شخص بچنا نہیں چاہیے۔۔

جس کی وجہ سے ربیا کی یہ حالت ہوئ ھے۔۔۔۔

نہیں بچے گا وہ وعدہ ھے میرا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلو غازیان صاحب۔۔۔۔۔۔

ملک عرفان بول رہا ہوں۔۔۔۔۔

کون ملک عرفان۔۔۔۔

ملک عمر عرفان کا باپ۔۔۔۔۔

چوہدری صاحب اپ تو کافی سمجھدار لگتے ھیں۔

کیوں شیر کے بل میں ہاتھ ڈال رہیے ھیں۔غازیان صاحب۔۔۔

عمر میرا اکلوتا بیٹا ھے۔ملک گروپ اف انڈسٹریز کا اکلوتا وارث۔

اوہ تو وہ بے غیرت تیرا بیٹا ھے۔۔۔۔۔

فکر نہیں کر باہر نہیں ائے گا وہ۔

فکر کس بات کی چوہدری صاحب بچہ تھا ہوگی غلطی اس سے۔۔

یہ غلطی تھی۔۔۔۔۔اک لڑکی کی زندگی تباہ و برباد کردی۔۔۔۔

اور نا جانے کتنی لڑکیوں کی عزتوں سے کھیلا ہوگا۔۔۔۔۔تو کیا ہوا چوہدری صاحب اس عمر میں تو سب ھی بھٹک جاتے ھیں۔۔۔

کیوں نا بات پر مٹی ڈال دی جائے اخر کو اپ کے اور ہمارے خاندان کی عزت کا سوال ھے۔۔۔۔

تو اپنے خاندان کی فکر کر۔۔۔۔

اور الٹی گنتی گننا شروع کردے کیونکہ جب تک میں نے تمہارے بیٹے کو اسکے انجام تک نا پہنچایا تب تک میں سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔۔۔اور غازیان نے فون بند کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

بہت غلط بندے سے پنگا لیا ھے اس چوہدری نے۔۔۔

وکیل کو فون کرو مجھے میرا بیٹا سلاخوں سے باہر چاہیے۔۔۔

یہ جانتا نہیں ھے کہ کس سے پنگہ لیا ھے اس نے۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارے ارمان اپ یہاں پر سب ٹھیک تو ھے نا۔۔۔۔۔۔

وہ حرا کو دیکھ کر چونکا تھا۔۔

اپ یہاں۔۔۔۔۔۔

وہی تو میں نے پوچھا اپسے

میں نے کل ھی ہاسپٹل جوائن کیا ھے کہ جب تک پاکستان میں ہوں کیوں فارغ رہنا۔۔

یہ تو اچھی بات ھے۔ارمان نے پھیکی سی سمائل دی تھی۔

امان سب ٹھیک تو ھے نا کچھ پتا لگا ربیا کا۔

ہوں۔۔۔

لگ گیاپتہ اسی ہسپتال کے کمرے میں ادھ مردہ حالت میں ھے۔۔

حرا یہ سن کر چونکی تھی۔

اپ نے صیح کہا تھا حرا کے میں غصے میں اس قدر پاگل ہوگیا تھا کہ اپنی بہن کے بارے میں نا جانے کیا کیاسوچ بیٹھا تھا۔اور ج وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی ھے۔تو میں اتنا بے بس اور مجبور ہوں کہ چاہ کربھی اس کا درد ختم نہیں کر سکتا۔۔۔

کتنا برا بھائ ثابت ہوا ہوں میں۔۔

نہیں امان ایسے مت کہیے۔۔۔

انشاء اللہ سب ٹھیک ہو گا۔اور ربیا بھی بلکل ٹھیک ہوجائے گی۔اپ ہمت نہیں کریں گے تو پھپھو کو کون سنبھالے گا۔۔۔۔۔

اور امان نے حرا کی جانب دیکھا تھا۔بہت لاچار محسوس کر رہا ہوں خود کو۔۔نہیں امان میں اس مشکل وقت میں اپکے ساتھ ہوں اور ربیا بلکل ٹھیک ہوجائے گی۔بھروسہ رکھیے۔۔۔۔۔۔

اور وہ کسی ہمدرد کی طرح امان کو بہلا رہی تھی۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ربیا کے ٹھیک ہونے کے چانسز بہت کم ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

****************************************

اماں۔۔۔۔۔۔۔میں اندر اجاوں۔۔

ہاں دلاور پتر ایتھے آئا۔۔۔۔

کی گل ھے پتر۔۔۔۔۔سب خیر تو ھے نا۔۔

جی اماں سب خیر ھے۔۔۔۔وہ علی کے گھر والے شادی کی تاریخ مانگ رہیے ھیں۔۔۔

لیکن میں نے ان سے تھوڑی مہلت مانگی تھی۔کہ ابا کے جانے کے بعد ہمیں سنبھلنے نے نا جانے کتنا وقت لگے۔۔

وہ تو ٹھیک ھے پتر۔۔

کاش کو تیرے ابا سے کوتاہیاں نا ہوئ ہوتی تو میں اپنی پری دھی نوں گھر می۔ ھی رکھتی۔اپنے غازیان لیے میں پری پتر نوں پسند کیتا سی۔۔

وہ تو ٹھیکہ کہا اماں۔لیکن ہم بچوں پر اپنے فیصلے تھونپ نہیں سکتے۔جس میں وہ راضی اس میں ھی ھم سب راضی۔

وہ تو ٹھیک ھے پتر۔۔۔

اماں میں نے بھی بہت بڑا دل کیا ھے اخر کو اتنے سالوں بعد مجھے میرے بچے ملیں ھیں۔۔۔۔۔پر کیا کروں بیٹی کے فرائض بخوبی سر انجام دینا چاہتا ہوں۔

ٹھیک ھے پتر تو اس جمعہ پر انہیں بلوالو کہ اکر شادی کی تاریخ پکی کرلیں۔۔۔۔۔۔پریشہ پتر کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔۔۔

جی اماں جی۔۔اور انہوں نے اپنی ماں کو گلے سے لگایا تھا۔۔۔۔۔۔

اک کپ چائے ملے گی۔۔۔صائم کچن میں داخل ہوا تھا جہاں حنا چاکلیٹ سے لطف اٹھا رہی تھی۔۔۔۔۔۔

تمہیں میں فارغ نظر ارہی ہوں۔۔۔۔۔

ہاں تو ویلی ھی دکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔

جاوں جاکر اپنی آنکھوں کا علاج کرواو پھر۔۔۔

ہائے وہ تو حرا کر لے گی علاج۔۔

اوہ دیٹس گڈ۔۔

جاو چائے بھی پھر وہ ھی بنا کر دے گی۔۔

وہ تو بنا بھی دے گی اور اپنے ہاتھوں سے پلائے گی بھی۔وہ تپاتا ہوا حنا کے پاس ایا تھا۔۔۔

ٹھیک ہے تو اسی کے ہاتھوں سے پینا۔۔

ہٹو یہاں سے مجھے باہر جانا ھے۔۔۔۔۔

نا جانے دوں تو۔۔۔۔۔۔

دیکھو صائم ہٹو سامنے سے۔۔

۔نہیں ہٹا تو ۔۔۔۔۔

میں تمہارا منہ توڑ دوں گی۔۔

ہائے۔۔۔اتنی ہٹلر کیوں ہو۔۔

بس جیسی بھی ہوں تمہیں کیا ھے۔۔۔۔۔

ہائے۔یہ دلفریب ادائیں۔۔۔۔۔۔

بکو نہیں۔۔۔اور ہٹو۔وہ اسے پرے ہٹانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔۔۔۔

اوہ چاکلیٹ اس نے حنا کے ہاتھ ڈے چاکلیٹ لی تھی۔

یہ میری چاکلیٹ ھے ۔۔۔۔۔

لیکن اب میرے پیٹ میں جائے گی۔۔۔۔۔

بھاڑ میں جاو۔۔۔۔وہ اسے دھکیلتی باہر کی جانب لپکی تھی۔۔۔

دونوں اکٹھے جائیں گے بھاڑ میں ایڈریس پتا کرلینا۔۔۔۔۔

اور وہ غصہ سے بنبناتی باہر نکلی تھی۔۔۔۔

کیا ہوگیا لڑکی۔۔۔۔

وہ اپکا بھائ۔۔۔۔

کیا کیا صائم نے۔۔۔۔۔

میری چاکلیٹ لے لی اس نے۔۔

ہائے یہ نہیں سدھرے گا نا۔

میں دیکھتی اسے۔

جی انہیں اپ باجی حرا کے پاس بھیج دیجیے۔۔۔۔۔

ان کے ہاتھ کی چائے کی طلب ہورہی ھے۔

ہاں تو اور کیا کیوں پری حرا کتنی لذیذ چائے بناتی تھی بیچاری۔اس کی یاد میں ادھا ہوگیا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔تو

ہاں یار مس تو میں بھی بہت کررہی ہوں۔۔۔

کسے حرا کو یا علی بھائ کو۔۔۔۔

دونوں کو ھی سچی۔۔۔۔۔اور مجھے سویرا باجی کی بھی بہت یاد ارہی ھے۔۔۔

تو کیا پلین ھے۔کل چلیں ملنے سب سے۔۔۔

اٹس گڈ آئیڈیا یار۔۔۔۔۔۔

بس پھر صبح چلتے ھیں لیکن انہیں سرپرائز دیں گے اسلیے تم دونوں اپنی زبان بند ھی رکھنا۔۔۔۔

یہ جو اتنا اتراتا ہوا جارہا ھے نا اس کے ھی پیٹ میں بات نہیں رہنی دیکھ لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور دونوں ہنس دی تھیں۔۔۔

بن تیرے جینا ھے مشکل۔۔۔۔۔۔

اوہو علی بس کر دو یہ اتنی بھیانک سانگ کیوں گارہیے ھو۔۔

اتنی دلچسپ اواز میں۔۔۔۔

وہ فون کان سے دور ہٹاتے ہوئے بولی تھی۔

تو اور کیا کروں ان بزرگوں نے تو پاکستان اکر ہم میں دوریاں ھی پیدا کردی ھیں۔۔

ملنے پر بھی پابندیاں عائد کردی ھیں۔کہ جب تک شادی نہیں ہوتی دیدار یار نہیں کرنا۔

اف علی تو تھوڑا صبر کر لو۔

نہیں ہوتا صبر مجھ سے۔۔

ہاہاہا۔۔۔۔

تم ہنس رہی ہو جاو نہیں بات کرتا میں تم سے۔

ارے علی سنو بھی۔۔

لیکن فون بند ہوگیا تھا۔

وہ جانتی تھی دس سیکنڈ میں دوبارہ کال ائے گی۔

بولو۔۔۔۔۔

اچھا سنو۔۔۔۔۔

ہاں۔۔۔۔۔۔۔

وہ میں نے کہنا تھا کہ

موٹی مت ہوجانا۔۔۔۔اب تم 

علی میں مار دوں گی تمہیں۔۔

ہاہا منظور ھے جاناں۔۔

جو حکم اپ کی خاطر جان بھی قربان۔۔۔۔۔۔

اللہ نا کرے ایسے فضول بولتے ہو۔۔۔۔جاو میں نہیں بولتی۔۔۔

اچھا اچھا بابا سوری مجھے معاف کردو۔دوبارہ نہیں بولوں گا۔۔

لیکن انتیظار ھے کہ کب اپ مجھے وہ تین میجیکل ورڈز کہیں گی میرے کان سسننے کو بیتاب ھیں۔

انتیظار رہیے گا۔۔۔۔۔۔۔

ہاہا کرو انتظار۔۔

بہت ظالم ہو پری تم۔۔

ہاں نا وہ تو میں ہوں ھی۔۔۔۔

اور وہ ناجانے کن خوابوں میں رنگ بھر رہے تھے۔۔۔۔۔۔

*******************************************

ارے بچوں اج اتنی جلدی سٹھ گئے۔۔

جی مما جلدی ڈے بریک فاسٹ لگا دیں ہم سویرا کی طرف جارہیے ھیں۔اور علی اور حرا سے بھی اسی بہانے ملاقات ہوجائے گی ۔۔۔

یہ تو بہت اچھی بات ھے پریشہ۔۔۔۔

بھابھی کو بتایا ھے۔۔۔جانے کا۔

نہیں مما بابا سے کہا تھا تو وہ کہتے چلے جائیے گا۔۔۔۔

وہ تو ٹھیک ھے پریشہ بیٹا لیکن بھابھی ڈے بھی پوچھ لو اک بار۔۔۔

ڈونٹ وری مما میں پوچھتا ہوں ان سے اپ آلو کے پراٹھے بنا دیں بہت دل کر رہا ھے۔۔

جی مما کھلائیں اس موٹے کو پراٹھے۔۔

میں تائ امی سے پوچھ کے اتی ہوں کہاں ھیں وہ۔۔۔

شاید کمرے میں ھیں وہ۔۔۔۔۔۔

اوکے میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔۔

غازیان یہ کیا دیوانوں سی حالت بنا رکھی ھے۔۔۔۔

کچھ نہیں امی ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔

کیا ٹھیک ہو میری نظر سے دیکھو کیسے منہ اترا ہوا ھے۔۔۔

ایسی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔

بہت پسند کرتے ہو نا پریشہ کو۔۔

اب اس بات کا کوئ مقصد نہیں امی۔۔۔

تم بولو تو اماں جی بات کروں کہ وہ دلاور سے بات کریں۔۔

کیا بات کریں گی امی اپ ان سے۔۔۔

 وہ اٹھ کر کھڑکی کی جانب ایا تھا۔۔۔

کیا کمی ھے میرے بیٹے میں جو گھر کی لڑکی باہر جائے۔۔۔۔۔۔

کچھ تو کمی ہوگی ھی امی جو مجھ پر اس نے علی کو ترجیح دی۔۔۔

کوئ کمی نہیں ھے میرے بیٹے میں۔۔

جانتا ہوں میں امی۔۔۔

لیکن محبت حاصل کرنے کا نام نہیں ہوتی۔۔

محبت قربانی کا نام ھے۔۔اور یکطرفہ محبت میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔سب لاحاصل ھی رہتا ھے۔۔۔۔۔۔

اتنی جلدی ہار مان لوگئے غازی۔۔۔۔

کہ اپنی ھی محبت کو کسی اور کی جھولی میں ڈال دو گے۔اس جمعہ ارہے ھیں علی کے گھر والے تاریخ پکی کرنے۔۔۔

اور جیسے کوئ بمب پھوڑا گیا تھا اس پر کہ وہ ٹوٹ کر رہ گیا تھا۔۔۔

کہ ہربراتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔۔

پری جو تائ امی سے اجازت لینے ائ تھی دیوار کی اوٹ میں چھپے دونوں کی باتیں سن چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔

اور ہکا بکا رہ گئ تھی۔۔۔۔۔

کہ دبے قدموں سے واپس اگئ تھی۔۔۔

پوچھ ائ کیا تائ امی سے۔

حنا اور صائم اس کے منتظر تھے۔نن نہیں۔

تم دونوں پوچھ او۔

کہوں کیا ہوا ھے۔۔۔

کچھ نہیں تو ہوائیں کیوں اڑی ہوئ ھے چہرے کی نہی تو ویسے ھی۔۔۔

کیا پوچھنا ھے مجھ سے۔۔

اچھا ہوا تائ امی اپ ائا گئیں۔

صائم ان کی طرف بڑھا تھا۔اور ساری بات ان کے اغوش اتری تھی۔ہاں تو چلے جاو بیٹ لیکن رات دیر مت کرنا۔۔واپسی میںں حالات نہیں ٹھیک باہر کے۔اور پہلے بتا دیتے تو غازیان کے ساتھ نکل جاتے۔۔

ججی بھائ ابھی بہت جلدی میں گئے ھیں۔تو ہم نے روکا نہیں امی۔۔۔۔۔

چلو ٹھیک ھے اللّٰہ کے حوالے خیر سے جاو اور خیر سے لوٹو۔۔۔

**************************************

ملک صاحب  چوہدری غازیان کی سب سے بڑی کمزوری اس کے گھر والے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

تو پتہ لگاو کون ھے ایسا جس کے لیے وہ جی جان بھی وار دے۔۔۔

جی ملک صاحب تھوڑا وقت دیجیۓ۔۔

وقت وقت اور کتنا وقت 

وقت ھی تو نہیں ھے پتہ نہیں کس حال میں ہوگا میرا بیٹا۔۔۔

اس چوہدری غازیان کو میں نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔۔

شام تک مجھے ساری انفارمیشن چاہیے غازیان کے بارے میں۔۔۔۔۔

ججی سر۔۔۔۔۔۔۔

*********************************

واٹ ائا بگسٹ سرپرائز حرا تو چلا اٹھی تھی سب وہ اج اتنے دنوں کے بعد مل رہے تھے کہ باتیں ھی ختم نہیں ہورہی تھیں۔۔

اچھا بچو لنچ میں کیا کھاؤ گئے وہی بناوں گی۔۔نہیں انٹی ہم لنچ باہر کریں گے اور سویرا اور بھائ سے بھی ہم وہی ملیں گے۔۔۔

بس یہ نواب علی بھائ صاحب اجائیں تو ساتھ میں ھی نکلیں گے ۔۔۔۔۔۔

ہاہا چلو ٹھیک ھے بیٹا۔۔۔۔۔۔

باخبر ہوشیار محترم علی صاحب حاضر ہورہے ھیں۔۔۔۔۔۔

اور پریشہ اک دم سے مڑی تھی کہ علی سے ٹکرائی تھی۔

بلیک شلوار قمیض پہنے وہ کسی دلفریب شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔

ماشاءاللہ۔۔۔۔۔اللہ جوڑی سلامت رکھے۔۔۔۔

حرا نے دھیمے لہجے میں کہا تھا۔

امین۔۔۔۔۔۔۔پاس کھڑے صائم نے حرا کی جانب دیکھا تھا۔

جس نے اپنے دل کا ٹکرا کسی اور کو دیا ہو نا اس کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔کیوں حراا۔۔۔

اور حرا نے حیرانگی سے صائم کی جانب دیکھا تھا ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔

تم پاگل ہو حرا۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں اک اچھی دوست ہوں۔۔۔

اسلیے سب قربان کردیا۔۔

ہاں نا سب کچھ قربان کر کے بھی بہت سکون میں ہوں صائم پتا ھے کیوں۔

کیونکہ میرے دوست خوش ھیں۔اور ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر نا لگے۔

امین دونوں نے بولا تھا۔۔

اچھا میں ہوں نا میں نہیں توڑوں گا تمہارا دل۔۔۔

لیکن میں توڑتی ہوں تمہارا دل۔۔۔

ہائے اوئے۔۔۔۔۔۔۔صائم چلایا تھا کہ سب اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔

کیا ہوا تمہیں۔۔۔۔۔۔علی بولا تھا۔۔۔

دل توڑ دیامیرا اس چڑیل نے 

کہتی بھائی اب اپ بھی ہماری بھابھی دھونڈ لو عمر ہوگئ۔

ادھر او تم تمہاری میں پہلے ہڈیاں توڑوں۔

اور سب ہنستے مسکراتے باہر کی جانب بڑھے تھے۔۔۔۔۔۔۔

اک ریسٹورنٹ میں سویرا لوگ پہلے سے ھی موجود ان کا انتیظار کررہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلو غازیان صاحب۔۔۔

کیوں فون کیا ھے۔۔

بس زیادہ کچھ نہیں بہت بھرا پڑا خاندان ھے ماشاءاللہ اپکا۔۔۔۔

اک ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھے سب بہت ھی پیارے لگ رہیے ھیں ماشاءاللہ۔۔۔۔

کیا بکواس کررہے ہو تم۔

ہاہاہاا۔۔۔۔

چوہدری صاحب بکواس کہاں۔۔کچھ بھیج رہا ہوں۔۔دیکھ لیجیے گا۔۔۔سیانے تو ویسے بھی اپ بہت ھیں۔

اور فون کے بند ہوتے ھی جیسے اس نے سب لوگوں کی تصاویر دیکھیں جو ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔۔۔تو وہ سر پکڑ کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔

ہیلو کیا مقصد ھے اس چھچھوڑی حرکت کا۔

ہاہاہا غازیان صاحب یہ تو ٹریلر ںے۔۔۔ابھی۔

بس سمجھدار تو بلا کے ھیں۔

بکو مت ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے تم کیا ثابت کرنا چاہتے ہو تم مجھے بہکا نہیں سکتے مجھے۔

اور میرے گھر والوں پر کوئ بڑی نظر بھی ڈالی تو زندہ نہیں بچو گے۔۔۔۔۔۔۔۔

اور فون بند کرتے ھی وہ افسے سے نکلا تھا۔

ہیلو امان کہاں ہو۔۔۔

میں لوکیشن بھیج رہا ہوں وہاں پہنچو جلدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارے سب یہاں ھیں کاش غازیان بھائ بھی ساتھ ہوتے۔۔۔سویرا نے کہا تھا۔

غازیان بھائ یہاں۔۔۔

حنا کے ہاتھ سے چمچ چھوٹا تھا کہ جیسے کسی جن کو سامنے دیکھ لیا ہو۔۔۔۔۔۔

ارے غازیان اسلام علیکم بھائ اور سویرا بھای کے گلے لگی تھی کیسے ھے اپ۔۔بلکل ٹھیک کیسی ہو سویرا 

میں بھی بلکل ٹھیک۔۔۔۔

یہ سب کیاہورہا ھے یہاں۔۔۔

ویسے ریسٹورنٹ میں لوگ کھانے پینے کے لیے اتے ھیں۔مسٹر غازیان۔

علی نے تنزیہ کہا تھا۔۔۔۔۔

جی ہاں لیکن۔۔۔۔

اتنی جلدی میں کہوں بلایا غازی سب خیر تو ھے۔۔

امان بھی جلدبازی میں پہنچا تھا۔کہ سب چونکے تھے۔۔

بس کچھ نہیں فیملی لنچ کا ھی حصہ بننے ائیں ھیں۔۔۔۔

موسٹ ویلکم غازی بھائ۔۔۔۔۔۔۔

صائم نے کہا تھا۔

پری تو اس انسان سے بھاگنے کی زد میں تھی کہ اسکا غازیان سے سامنہ نا ہو پائے۔۔۔۔

رات ہونے کو تھی جب وہ گھر پہنچے تھے۔۔۔۔

پریشہ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ھے۔۔۔غازیان نے کہا تھا۔۔۔

اور نا چاہتے ہوئے بھی اسے رکنا پڑا تھا۔۔۔۔۔۔

جی کہیں۔۔۔۔۔۔ 

وہ مجھے تم سے کچھ کہنا ھے۔۔۔۔۔

لیکن کیسے کہوں۔۔۔۔۔۔الفاظ نہیں مل رہے۔۔۔۔

جانتی ہوں غازیان جو اپ کہنا چاہتے ھیں۔۔۔۔

اپکا علی کو پسند نا کرنا ہمیشہ سے کھٹکتا تھا مجھے۔۔۔

لیکن میں درگزر کردیتی تھی کہ سب کی اپنی نیچر ہوتی ھے۔۔۔

لیکن اج صبح جب اپ نے تائ امی کے سامنے انکشاف کیا تو میں حیران ہوگئ تھی۔۔۔

مطلب۔۔۔۔

تمہیں سب پتا تھا۔۔۔۔

ہاں۔۔۔۔

میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے پری۔۔۔۔

لیکن شاید اعتراف محبت کرنے میں بہت دیر کردی میں نے۔۔۔۔

پتہ ھے غازیان میرے دل میں علی تب سے ھے جب بچپن میں میں اگر بیمار بھی ہوجاتی تھی تو وہ مجھے ایسے پروٹیکٹ کرتا تھا کہ اک بہت بڑا محافظ ہو۔۔۔۔

کبھی لائف میں مجھے کوئ بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تو اک علی ھی تھا جس نے قدم سے قدم ملا کر میرا ساتھ دیا تھا۔۔۔۔

بچپن سے لیکر اج تک میں نے صرف اک شخص سے محبت کی اور تب سے کی جب سے مجھے محبت کے معنی بھی نا پتہ تھے۔۔۔۔

علی میرا صرف اک دوست نا تھا بلکہ دوستوں سے بڑھ کر ھے وہ میرے لیے۔۔۔۔

علی کے بغیر پری ادھوری ھے۔۔

پری کا وجود بے معنی ھے علی کے بغیر۔۔۔ن

میں اپ کے جذبات کی قدر کرتی ہوں غازیان۔۔۔

لیکن علی کا اس دل میں جو مقام ھے وہ میں کسی اور کو نہیں دے سکتی غازیان۔۔۔۔۔۔

مجھے وفا پر قائم رہنا ھے جو اک بار دل میں بس جائے تو کسی اور کی گنجائش باقی نہیں رہتی ھے۔۔۔

اپ بہت اچھے ھیں کسی بھی لڑکی کی اولین پسند بن سکتے ھیں اپ۔

میرے لیے بہت معزز بھی ھیں۔اک اچھے دوست کی بنا پر۔۔۔۔

لیکن میں کسی اور کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔

ائ ایم سوری غازیان میں اپ کو پرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔

نہیں تو بلکل نہیں۔۔۔۔

بلکہ مجھے تو اچھا لگا کہ سب بات کھل کر کہہ دی تم۔نے۔۔۔۔

لیکن یہ بھی ٹھیک کہا اگر دل میں کوئ اک بس جائے تو کوئ اور اسے اباد نہیں کرسکتا۔۔۔۔

سوری غازیان۔۔

ڈونٹ یو سے دیٹ۔۔۔۔پریشہ۔۔

اور پریشہ کمرے کی جانب بڑھی تھی۔۔

لیکن وہ علی کے علاوہ کسی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔اسلیے بات صاف صاف کہہ دینے میں ھی سب کی بھلائ تھی۔۔

غازیان چیخنا چاہتا تھا چلانا چاہتا تھا اپنی بے بسی پہ لیکن وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

********************************************

وقت کا کام ھے گزرنا اور گزد ھی جاتا ھے۔۔۔

ربیا کی حالت میں میں کوئ سدھار نا ایا تھا۔پھپھو تو پل پل کوستی تھیں۔۔۔۔۔خود کو کے بیٹی کی ایسی حالت کی زمہ دار وہ خود ہو جیسے۔۔۔۔۔

غازیان کو اک کے بعد اک دھمکی دی جارہی تھی کہ وہ اپنا کیس واپس لے لے لیکن جب جب وہ ربیا کی صورت دیکھتا تھا۔

اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ عمر کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرڈالے۔۔۔۔

گھر میں پریشہ کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔۔۔۔۔

غازیان کا زیادہ وقت تو افس میں ھی گزرتا تھا۔

اس میں تو اتنی ہمت بھی نارہی تھی کہ پری کا سامنا بھی کر پائے۔۔۔

اور اپنی آنکھوں کے سامنے اسے کسی اور کا ہوتا ہوا دیکھ سکے۔۔۔

لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہی کرسکتا تھا۔۔۔۔۔

اسے پریشہ کی خوشی سے غرض تھی۔۔۔۔۔۔اسلیے وہ پیچھے ہٹ گیا تھا۔۔۔کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکا وجود پری کی خوشیوں میں رکاوٹ کا بائث بنے۔۔۔۔

دیکھیے سر اپ ایسے اندر نہیں جاسکتے۔۔۔۔۔

پلیز سر۔۔۔۔۔۔

غازیان جو کلائنٹ کے ساتھ بزی تھا۔۔۔

ملک عرفان کو دیکھ کر وہ چونکا تھا۔۔۔۔

سوری سر یہ زبردستی اندر اگئے۔۔۔۔

ٹھیک ھے جسٹ ایکسکوز می۔۔۔۔۔

اوکے سر۔۔۔

کیوں ائیں ھیں اپ یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا چاہتے ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اپ بھی اچھے سے جانتے ھیں ملک صاحب۔۔۔۔۔۔۔

جتنا پیسہ چاہیے بولو۔جو کچھ بھی چاہیئے بولو۔۔۔۔۔۔۔لیکن اپنا کیس واپس لے لو۔۔۔۔۔۔

واہ ملک صاحب مجھے خریدنے ائیں ھیں اپ یہاں۔۔۔۔۔۔

تو اک بات کان کھول کر سن لو

تم ایڑھی چوٹی کا ذور لگا لو لیکن تمہآرا بیٹا اپنی باقی کی زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے گا یہ میرا تم سے وعدہ ھے۔۔۔۔۔

تو اک بات کان کھول کر سن لو چوہدری غازیان بہت پچھتائو گے تم اس کا خمیازہ تو تمہیں بھگتنا پڑے گا۔۔۔۔۔

میں تمہاری دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔

جو کرنا ھے کر لو۔۔۔۔۔

تمہاری عمر کا لحاظ کر رہا ہوں۔نہیں تو ابھی گارڈز کو بلا لوں گا۔۔۔۔۔

بہت مہنگا پڑے گا تمہیں تمہارا اترانا۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رکھنا۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہان فیقو کیا خبر ھے۔۔

ملک صاحب سنا ھے چوہدری دلاور شاہ کی بیٹی کی شادی ھے۔۔۔

واہ کیا خبر لایا ھے تو دل خوش کردیا۔۔۔۔

اب دیکھ چوہدری غازیان کیسے تیرے گھر میں شادیانے بجنے کی بجائے صف ماتم بچھے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ھے حرا تم میری دوست ہو تو مہندی سمیت ہر فنگشن میری طرف سے اٹینڈ کرو گی۔

کیوں کیوں حرا ۔یعی دوست ھے تو وہ میری طرف سے سارے فنگشنز اٹینڈ کرے گی ائ سمجھ۔

اف اللّٰہ یہ میں کہاں پھنس گئ ہوں تم دونوں نے ابھی سے لڑنا شروع کردیا ھے۔۔۔۔ابھی تو شادی بھی نہی ہوئ تم دونوں کی۔اور یہ حال دیکھو فون پر ھی لڑنا شروع حد ہوگئ۔

جو بھی ہو تمہیں انا ھی پڑے گا حرا۔۔۔۔۔

اوکے اوکے ڈونٹ بی فائٹ۔۔۔۔۔یو بوتھ اف گائز۔ ۔۔۔

پری کی طرف مہندی کا فنگشن اٹینڈ کروں گی۔۔۔

اور علی کے ساتھ باراتیوں کا حصہ بن کر اوں گی اور ولیمہ دونوں کی طرف سے اٹینڈکروں گی اب خوش اور لڑائ بند کرو۔۔

ہاں ہاں یہ ٹھیک ھے۔۔

ارہی ہوں کل اپنی بہن کی مہندی اٹینڈ کرنے۔۔۔۔۔۔

اور پری مسکرادی تھی۔۔۔۔۔۔۔

پریشہ بیٹا۔۔۔۔۔

جی مما۔۔۔

ادھر او میرے پاس۔۔۔۔۔

مما یہ سب کیا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سب میری بیٹی کے لیے میں نے سنبھال کر رکھا تھا۔۔اور دیکھو اللہ پاک نے مجھے اک پھول سی بیٹی سے نواز دیا ھے۔تاکہ میں اسکے سارے ارمان پورے کر سکوں۔۔۔۔۔

یہ دیکھو۔۔۔۔

واو مما کتنا پیارا نیکلس ھے۔۔۔

تمہیں پتا جے پری یہ میں نے اپنی شادی پر پہنا تھا۔۔۔

اور پھر اتنا ھی سنبھال کر رکھ لیا تھا۔کہ اپنی بیٹی کو دوں گی۔۔۔۔۔

بہت خوبصورت ھے مما یہ تو۔۔۔۔۔

اور یہ کنگن اماں جی نے مجھے پہنائے تھے۔۔۔۔

اور اج میں اپنی بیٹی کو پہناوں گی۔۔۔۔۔۔

لیکن مما یہ سب تو اپکا ھے۔مجھے تو بس اپکا پیار چاہیے اپکی دعائیں چاہیے نا کہ یہ سب۔۔

لیکن یہ اک ماں کا خواب ہوتا ھے کہ وہ اپنی بیٹی کو دلہن بنا ہوا دیکھے۔۔۔۔

اور اج اسے نایاب کی بھی بہت یاد ائ تھی کہ انکھیں نم ہوگئ تھیں۔۔۔۔

نایاب کی یاد ارہی ھے نا پریشہ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور وہ سر کو جھکا گئ تھی۔۔۔۔۔۔

کاش کے اج وہ بھی ہمارے بیچ ہوتی۔۔۔

کتنا بڑا ظرف ھے شبانہ مما کا۔۔

اس نے انکی جانب دیکھا تھا۔۔۔

لیکن اپ ھیں نا میرے ساتھ ساری کنی پوری ہوگئ ھے مما۔۔۔

وہ شبانہ کے گلے لگی تھی۔۔۔۔

دلاور شاہ نے شفقت بھرے انداز میں پری کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔۔۔بس میرا بیٹا رونا نہیں ھے۔۔۔۔۔بہت بہادر ھے نا میری بیٹی۔۔۔۔۔بابا میں کیسے رہوں گی اپ کے بنا۔۔۔۔۔۔۔ارے ایسے کیسے روز ملنے ایا کروں گا اپنی بچی سے۔۔۔۔۔

پرامس بابا۔۔۔

پرامیس۔۔۔۔

لیکن یہ کہتے ہوئے وہ اپنا ضبط بھی کھو بیٹھے تھے۔۔۔۔کہ انسو ان کی آنکھوں سے بھی رواں تھے۔۔۔۔۔

میں تو کہتا ہوں کہ رخصتی میں علی بھائ کو ھی روک لیں لیں گے۔

کیوں ماما گھر جمائ۔۔۔۔۔۔۔۔والی سیٹ سنبھالیں گے وہ۔۔۔

صائمم بیٹا تم نے نہیں سدھرنا۔

دلاور میں کہتی ہو لگے ہاتھ اس کے بھی ہاتھ پیلے کر دیں۔۔۔۔

نہیں مما میں اس کا منہ نیلا کروں گی دو لگا کر۔۔۔۔۔

اور وہ صائم کی طرف بڑھی تھی۔۔

جو حکم ھے غلام حاضر ھے۔

اور صائم کی نم آنکھیں بھی اس سے چھپی نا تھیں۔۔۔صائم۔

تم رو رے ہو نہیں تو۔۔

جھوٹ مت بولو۔۔۔

ادھر دیکھو۔۔۔۔۔

ارے پاگل میں کیوں رووں گا اچھا ھے تمہارے حصے کا بھی پیار مجھے ملے گا

کیوں مما بابا اور دلاور نے اپنے بچوں کو گلے سے لگایا تھا۔۔۔۔

شبانہ تو سب کو دیکھ کر اور خوش ہوگئ تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوہ بہنا میری مسکان تیری

 ست رنگوں سے بھی پیاری

 ھے۔۔۔۔

پھیکا نا پڑے کوئ رنگ کہی تو ست رنگوں سے بھی پیاری ھے۔۔

واہ واہ۔۔۔کیا گانا گارہے ہو بے سر داس۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور حنا کہاں کوئ موقع چھوڑنے والی تھی۔۔۔۔۔۔

ہائے تم تو جل ککڑی بنی رہنا۔۔۔۔۔

ارے یہ سلمی پھپھو کو کیا ہوا۔

کیوں کیاہوا۔۔۔۔

پریشہ اپا کے اتنے صدقے واری کیوں جارہی ھیں۔۔۔۔۔

کیوں تمہیں کوئ شک ھے ان کے پیار پہ۔۔صائم نے کہا تھا۔۔

نہیں اج تک ان حالات میں دیکھانہیں انہیں تو اسلیے کہا۔۔۔۔

بس اللہ جسے چاہے ہدایت دیں۔۔۔۔۔۔

اور یہ حرا تھی۔

ارے تم کب ائ مائ ڈارلنگ۔۔۔۔۔

بس سویٹو ابھی ائ ہوں۔مما پاپا کے ساتھ۔

ہاے ساس سسر بھی ائیں ھیں۔۔۔

اور حنانے صائم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔

حرا اپی میں ابھی اتی ہو۔۔۔۔۔۔حنا یہ کہہ کر چل دی تھی۔۔۔

اسے کیا ہوا ھے۔۔۔۔۔

صائم تم کب سدھرو گے بتا کیوں نہیں دیتے اسے اپنی فیلنگز۔۔۔۔۔۔۔

بس اچھا لگتا ھے اس کو ستانا۔۔۔

کہیں یہ نا ہو کہ تم اس ستانے کے چکروں میں دیر کر دو۔۔۔۔

نہیں میں حرا نہیں ہوں صائم ہوں۔۔۔۔۔۔۔

اتنا بڑا ظرف نہیں رکھتا کہ اپنی محبت کو کسی اور کی جھولی میں ڈال دوں۔۔

صائم پلیز۔

اور حرا کی آنکھیں بھر گئ تھیں۔۔۔۔۔

بہت عزیز ہو حرا تم میرے لیے۔۔

یہ جانتی ہونا تمم۔۔

ہاں جانتی ہوں۔

لیکن وعدہ کرو صائم۔۔یہ بات کبھی بھی علی اور پری کو نہیں پتہ چلنی چاہئے کہ میں علی سے محبت۔۔۔۔۔۔

وعدہ رہا۔کاش میرے بس میں ہوتا تو اپنی بہن سے بڑھ کر تمہاری جھولی میں ساری خوشیاں ڈال دیتا۔۔۔۔۔۔۔

ہائے میں واری جاواں۔

اپنے بھائی تھے۔۔

بکو مت ابھی جارہا ہوں سسر جی سے ہاتھ مانگنے کے لیے۔۔۔۔

تم سب سے پہلے تو حناکے پاس جاو گے اس کی غلط فہمیاں دور کرو چلو۔۔

اس نے صائم کا کان کھینچا تھس۔اف چڑیل چھوڑو بھی جارہا ہوں۔۔۔۔۔۔

ابھی فورا سے پہلے جاو۔۔۔۔۔۔

اور صائم کو جاتا دیکھ اس نے اپنی آنکھوں میں ائے انسو پونچھے تھے۔۔۔۔۔۔۔یہ لیں رومال۔۔

اپنے انسو پونچھ لیں۔۔۔۔۔

امان حنا کے پاس ایا تھا۔۔

اج تو میرے دل میں اپ کا مقام اور بڑھ گیا ھے حرا۔۔۔۔۔

میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔۔۔

بس حال کچھ ایسا ھے کہ بے حال ہوگیا ہوں۔۔۔۔۔

کہ شاید محبت یکطرفہ کر بیٹھا ہوں۔

حرا امان کی بات سن کے بوکھلا گئ تھی۔۔۔۔

شادی کریں گی میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔

جی کیا حرا حیرانگی سے بولی تھی۔۔۔

وہی جو اپ نے سنا۔۔

اب فیصلہ اپ پر چھوڑا ھے مس حرا کہ اس دیوانے کو اپ ٹھکرائیں گی یا اپنائیں گی۔۔۔

سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجیے گا۔کیونکہ بہت محبت کرتا ہوں میں اپ سے۔۔۔اور کسی اور کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔

ہاں اگر ٹھکرا بھی دیں گی تو کوئ گمان نہیں ھو گا۔کیونکہ مجھے میری محبت پر یقین ھے کہ وہ مجھے مل کر رہے گی۔۔

اور حرا تو اس کھلے اعتراف محبت پر حیران تھی کہ کوئ اسے بھی اتنی سخت سے چاہ سکتا ھے یہ تو اسنے کبھی سوچا ھی نا تھا۔۔۔۔۔۔

ارے بچون تم لوگ یہاں پر کھڑے ہو سلمی پھپھو کی اواز پر وہ جیسے ہوش میں ائ تھی۔۔

اسلام علیکم پھپھو۔۔۔

وعلیکم السلام جیتی رہو حرا بیٹا۔۔۔۔۔۔

ربیا کی حالت کی وجہ سے پھپھو کا انداز کتنا بدل گیا تھا۔پھپھو اک گڈ نیوز ھے۔۔۔یوکے ڈے کچھ ڈاکٹرز وزٹ کیلئے ارہیے ھیں۔اور میے بی کہ ربیا کلا ٹریٹمنٹ اگر وہ کریں تو ربیا بلکل تھیک ہوسکتی ھے اپ فکر نہیں کریں بس۔

کیا سچ میں ایسا ہوگا حرا پتر۔

جی پھپھو بلکل بس اللہ پاک لر یقین رکھیے۔۔۔۔۔

حرا بیٹا اپ یہاں ہو۔۔

جی مما۔

سلمی پھپھو ان سے ملیں یہ میری مما ھیں اور مما یہ پری کی پھیپھو ھیں۔۔۔

بہت پیاری ھے بہین اپ کی بیٹی۔۔۔ماشاءاللہ۔۔۔

اور مما یہ امان ھیں۔۔۔۔

چلیں شکر ھے اپکو بھی خیال اگیا کہ ہم بھی یہاں ھی کھڑے ھیں۔۔۔

نن نہیں ایسی بات نہیں۔۔۔۔

وہ نظریں چرا گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔

حنا رکو بھی۔۔۔۔۔۔

کیا بات ھے صائم۔۔۔

بات تو سن لو۔۔

حرا کو سناو۔۔۔۔

کیوں تم کیوں نہیں سن سکتی۔

کیونکہ میرے کان اپنے ھیں۔

اور صائم نے حنا کا ہاتھ پکڑا تھا۔کہ نا چاہتے ہوئے بھی وہ رک دی تھی۔۔

یہ کیا بدتمیزی ھے۔۔۔۔۔

ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔۔۔

ہاتھ تو کبھی نہیں چھوڑوں گا بلکہ پورے دھڑلے سے اوں گا تائ امی سے تمہارا ہاتھ مانگنے۔۔

کیوں تمہارے پاس تمہارے ہاتھ نہیں ھیں جو میرے ہاتھ بھی مانگو گے۔۔۔۔۔۔

حد ھے یار حنا۔۔۔وہ تپ سا گیا تھا حنا کے جواب سے۔۔۔۔۔

کیوں نوٹنکی صرف اپکو کرنی اتی ھے۔۔

جاو پہلے ڈرامے بازی سیکھ کر او۔ابھی بہت کچے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔

واٹ۔۔۔۔۔۔۔۔

اب حرا اپی نے ھی بولا ہوگا نا کہ جاو پرپپوز کر کے او مجھے۔

ہاں پر تمہیں کس نے بتایا۔۔۔وہ جس سکول میں تم پڑھتے ہو نا یہ ڈرامے بازی میں اس سکول کی ہیڈ رہ چکی ہوں۔۔۔

مطلب حرا نے۔۔۔۔

ہاں حرا باجی پل پل کی اپڈیٹ مجھے دیتی رہتی تھیں۔کہ جو خرافات اپ کے دماغ میں چلتی رہیتی تھی۔۔۔۔۔

تم دونوں نہیں بچو گی میرے ہاتھوں۔۔۔۔

اور وہ حنا کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

پری ادھر تو دکھا تو علی کو اپنے نام کی مہندی۔۔۔

نو وے حرا اس کو بول دو اب یہ میرا دیدار کل ھی کرے گا۔

اورکروتم ابھی فون بند۔۔

نونو پلیز یہ ظلم نہیں کرو پری اک بار مکھڑا دکھادو۔۔

نا کبھی بھی نہیں۔۔اوراس نے حرا کے ہاتھ سے موبائل لے کر اف کر دیا تھا۔۔

یار پری وہ ترپ رہا ہونا۔۔

ہاہا جانتی ہوں چلو تھوڑا اور ترس لینے دو۔۔۔۔۔۔۔

کل تک ھی تو بات ھے۔اور وہ مسکرا دی تھی۔۔۔۔۔

لیکن سامنے سے اتے غازیان کو دیکھ کر ٹھٹھک گی تھی۔۔۔

اور غازیان کس حوصلے سے پری کے پاس ایا تھا یہ صرف وہ ھی جانتا تھا۔۔۔۔

میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں پریشہ۔۔۔۔۔

اور مٹھائی کا ٹکڑا اس نے پری کی جانب بڑھایا تھا۔جس کی اک بائٹ لی تھی پری نے۔۔

لیکن غازیان کے کانپتے ہاتھ اور لڑکھڑاتے قدم پری سے چھپے نا تھے۔۔۔۔

اپ بھی ہمیشہ خوش رہیں غازیان۔۔۔۔میری بھی دعائیں ہمیشہ اپکے ساتھ ھیں۔۔۔۔۔

اور اس نے مٹھائی کا اک ٹکڑا غازیان کی جانب بڑھایا تھا۔جسے نا چاہتے ہوئے بھی اسے کھانا پڑا تھا۔کہ اک انسو گال میں جذب ہوگیا تھا۔کہ وہ اٹھ کر باہر کی جانب چل دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پارلر میں تھی کہ علی کی کال ائ تھی۔۔

اور نا چاہتے ہوئے بھی اسے باہر کی جانب انا پڑا تھا۔۔۔

اپی کدھر جارہی ھیں۔تم ریڈی ہو حنا علی کا کال ارہی ھے۔

اوکے اپ کرلیں بات ورنہ انہیں سکون نہیں ائے گا۔۔۔۔

ہاہا ہاں میں ائ ابھی۔۔۔۔۔۔

ہیلو علی اج کے دن بھی سکون نہیں ھے۔

بلکل نہیں ھے۔

میں اپنی دلہن کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔

جی نہیں اب تو نکاح کے بعد ھی دیدار کرو گے۔۔۔۔۔۔۔۔

بلکل نہیں ہرگز نہیں۔

میں کال کر رہا ھوں ۔۔۔۔۔۔

ارے علی یہ کیا بات ہوئ یار۔اب تو کچھ پل ھی رہ گئے۔

تمہیں نہیں پتہ پریکہ یہ کچھ پل کی مسافت بھی کاٹی نہی۔ جارہی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

توبہ ھے۔۔۔۔۔

ہاں توبہ تو میں تمہیں دیکھ کر کروں گا کہ کہی بھوتنی ھی نا لگو تم۔

واٹ کیا بولا بھوتنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تو بھول جاو کہ دیکھ بھی پاو گے۔۔۔۔

ایسے تو نا کرو اج تو ہماری شادی ھے نا۔۔۔

ہاں تو میری جو مرضی میں وہ ھی کروں گی۔۔۔۔۔۔

ائا کون ہو تم اک چیخ کی آواز سے فون بند ہوا تھا۔۔۔۔۔۔

ہیلو پری ہیلو۔۔کیا ہوا ھے پری۔۔۔

لیکن فون بند ہوگیا تھا۔۔۔۔علی تو اک دم سے گھبرایا تھا پری کی آواز سن کر دوبارہ کال کرنے پر بھی پری کا فون سویچ اف ارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔کہ وہ گبھراہٹ میں باہر کی جانب دوڑا تھا۔۔۔۔

شادی کی بہت بہت مبارک چوہدری صاحب۔۔

اور غازیان ملک عرفان کی بات سن کر غصہ میں اگیا تھا۔۔۔۔۔۔

کیوں فون کیا ھے تم نے کیا اک بات ڈمجھ میں نہیں اتی تمہیں۔

ہاہا غازیان صاحب میں نے سوچا بچی کی شادی ھے مبارکباد دے دوں۔۔۔۔

اب خاندان کی اک بیٹی تو شادی کے دن منہ کالا کروا بیٹھی۔۔۔۔۔۔۔

اگر دوسری۔۔۔۔۔۔بھی۔۔

بکواس بند کر بے غیرت انسان۔۔

ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوہدری اک موقع ھے سوچ لو پیچھے ہٹ جاو ورنہ یہ سن لو۔۔۔۔۔چھوڑو مجھے کون ہو تم۔۔۔سب۔۔۔۔

یہ تو پری کی اواز تھی وہ کانپ اٹھا تھا۔۔۔۔

یہ کیا حرکت ھے ملک۔۔۔تیری لڑائ مجھ سے ھے نا کہ۔ہاہاہاا ججی وہی تو مہں کہہ رہا کہ اپ کے خاندان کی لڑکی بیچاری اس لڑائ کا ایسے ھی حصہ بن گئ 

دیکھ اگر اسے کچھ بھی ہوا تو میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔۔

اگر مرد کا بچہ ھے تو سامنے سے وار کر یہ پیٹھ پیچھے سے وار کرکے تو بہت پچھتائے گا ملک اگر پریشہ کو کچھ بھی ہوا تو میں تجھے۔۔۔۔

بس چوہدری سیدھی سی بات ھے تو اپنا کیس واپس لے لو میں باحفاظت اس لڑکی کو چھوڑ دوں گا۔

ورنہ اک تو ہسپتال میں پڑی ھے۔۔

اور اسکا تو وجود تک بھی نا ملے گا تمہیں۔۔

تو نہیں بچے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ملک

اور وہ ہڑبڑاتا باہر کی جانب لپکا تھا۔

غازیان باھئ پریشہ اپی نہی مل رہی ھیں۔۔ہم پارلر میں تھیں۔انکیں علی بھائ کی کال ائ تو وہ پارلر سءث باہر ائیں تھیں۔جب میں انہیں دیکھنے باہر گئ تو ان کا فون ملا بس۔

اور علی بھائ کی بھی کال ائ مجھے تو۔۔۔۔۔

ہائے میری بچی۔۔۔۔۔۔اماں جی تو بین ڈال رہی تھیں۔

کچھ نہیں ہوگا پری کو۔۔۔۔۔۔۔

تم جانتے ہو غازیان پری کہاں ھے۔۔۔

امان انسپیکٹر رافع کو کال کرو کہ ملک عرفان کے سارے اڈوں پر چھاپے ماڑے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ھے۔۔۔۔۔۔

کیا مطلب ھے غازیان۔۔۔۔۔

چاچو اس ملک عرفان نے بہت چھچھوڑی حرکت کی ھے اک بار پھر خاندان کی عزت پر واڑ کیا ھے میں اسے چھوڑوں گا۔۔۔

کیا مطلب ھے غازیان مجھے میری بیٹی صیح سلامت گھر چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔

پریشہ پری۔۔۔

انکل پری کہاں ھے علی پاگلوں کی طرح وہاں پہنچا تھا۔

میں اس سے بات کررہا تھا تو اس کے چیخنے کی آواز ائ تھی۔

علی ریلکس۔۔

کیا مطلب ھے ریلکس۔۔

پری کہاں ھیں۔

غازیان انسپکٹر

 سے بات ہوگئ ھے ہمیں نکلنا پڑے گا۔۔۔میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔۔کہاں ھے پری۔دیکھو علی ہم ڈھونڈ لیں گے پری کو۔۔

ہیلو۔۔۔۔۔۔۔

چوہدری صاحب پھر کیا سوچا ھے اپ نے بہت کم وقت بچا ھے۔۔۔۔۔۔۔

دیکھ ملک تو جو چاہتا ھے نا تجھے تیرے فعل میں میں کامیاب نہیں ہونے دوں گا ۔چاہے جو بھی ہو جائے۔۔۔اور اک انچ ھی ائ اگر پری کو تو تو ختم۔

واٹ یو مین۔۔۔علی نے غازیان کا گریبان پکڑا تھا۔کہا۔ں ھے پری اور یہ کون تھا فون پر کیا چاہتا ھے یہ بولو غازیان۔اگر

میری پری کو کچھ بھی ہوا نا تو میں چھوڑوں گا نہیں کسی کو۔۔

میں تمہاری کیفیت سمجھ رہا ہوں لیکن اس وقت جو حال تمہارا ھے وہی حال ہمارا ھے۔۔۔

یہ سب وقت ان باتوں کا نہیں ھے۔۔۔۔۔میری بچی کو لے او میرے پاس۔۔۔۔شبانہ چلائ تھیں۔

ہیلو انسپیکٹر پہنچ رہا میں۔۔۔

میں بھی چلوں گا ساتھ۔۔علی غازیان کے پاس ایا تھا۔۔۔

جلدی چلو۔۔۔۔

امان میری اک بیٹی زندگی اور موت کی کشمکشِ سے جھول رہی ھے۔میری پری مجھے صیح سلامت مجھے چاہیے۔انشاءاللہ امی۔۔۔۔۔

اور وہ کہتا ہوا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

یااللہ میرے ہستے بستے گھر کو کس دی نظر لگ گئ ھے۔اور سب کے چہروں پر اک خوف سا طاری تھا۔۔۔

ہیلو ملک لے کر اپنے بیٹے سے بات لے لیا میں نے اپنا کیس واپس۔۔۔۔۔۔

واہ چوہدری دل خوش کردیا۔۔۔۔

کر بات اپنے باپ سے اور جو میں نے سیکھایا وہ ھی کہہے گا۔ورنہ یہ گولی چلتے ہوئے میرے ہاتھ نہیں کانپے گئیں۔۔۔۔۔۔

اور غازیان نے عمر کی کنپٹی پر بندوق رکھی تھی۔۔۔۔

ہیلو ڈیڈ۔۔۔

میں عمر۔۔۔۔

ہاں میرے بچے میں ابھی لینے آرہا ہوں تمہیں۔۔

نن نہیں ڈیڈ میں خود آجاؤ گا۔۔۔

ہاں۔۔۔

بس اب جو توں چاہتا تھا میں نے وہ کر دیا۔اب تیری باری ھے۔۔

اتنی بھی کیا جلدی ھے غازیان صاحب پہلے میں تو مل لوں اپنے بیٹے سے۔تو ٹھیک ھے تیرے بیٹے کے ساتھ ھی اوں گا۔۔

اک ہاتھ سے دینا۔اور اک ہاتھ سے لینا۔۔۔۔۔

کیونکہ کچی گولیاں تو میں نے بھی نہیں کھیلیں ملک۔۔۔

اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ھے بیٹا صحیح سلامت چاہیے یا۔۔۔۔۔

نہیں اب ملک عرفان اپنی ھی چال میں بری طرح پھنس چکا تھا۔۔

نن نہیں ٹھیک ھے لیکن تم اکیلے ائو گے۔اور میرے پر اک کھروچ بھی نہیں انی چاہیے۔۔

ہاہا ملک یہ یاد رکھنا چوہدری اپنی زبان سے نہیں جاتے۔۔۔۔۔ایڈریس بتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک بہت  شاطر اورخطرناک قسم کا شخص ھے ۔غازیان تم اکیلے وہاں نہیں جاسکتے۔۔۔۔۔

ہم سب بھی تمہارے ساتھ جائیں گے۔۔۔۔امان نے کہا تھا۔۔

بلکل یہ پولیس کیس ھے غازیان اور میں جانتے ہوے بھی تمہیں اس خطرے میں نہیں جانے نہیں دوں گا۔اور کیا گارنٹی ھے کہ وہ پریشہ کو اسانی سے ہمارے حوالے کر دے گا۔۔۔۔۔

ہاں جانتا ہوں۔اک پلین ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں تمہارے ساتھ ہوں علی غازیان کے پاس ایا تھا۔جو بھی ہو جائے دونوں کا مقصد پری کو باخیرو عافیت اس کے چنگل سے باہر لانا تھا۔۔پھر جیسا بھی خطرہ ہو وہ مول لینے کو تیار تھے۔۔۔۔۔۔۔

او غازیان صاحب او۔۔۔۔

پریشہ۔۔۔۔جو دلہن کے جوڑے میں بے سود سی کرسی سے بندھی ہوئ تھی۔۔۔

نانا چوہدری صاحب ایسی حرکت نہیں کرنی۔۔۔۔۔اردگرد دیکھو۔۔۔سب میرے ادمی ھے۔اور میرے اک اشارے کے پابند ھیں۔۔

اگر پہلے ھی میری بات مان لیتے تو اج یہ نوبت ھی نا اتی۔۔۔

چپ چاپ پریشہ کو میرے حوالے کر دو۔

وہی تو پہلے میرے بیٹے کو میرے حوالے کرو۔۔۔۔

ٹھیک ھے۔۔۔۔۔

اور غازیان نے گاڑی سے عمر کو اتارا تھا۔۔۔۔۔۔

اور ساتھ ھی گن بھی ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے پری۔۔۔۔۔پھر یہ۔۔۔۔

ٹھیک ھے لے کر او لڑکی کو اور پری جو غازیان کی طرف بڑھنا چاہتی تھی۔۔۔۔ملک نے اسے روک لیا تھا۔۔۔۔۔عمر کو بھیجو۔۔۔۔۔۔

چلو۔۔۔غازیان نے اشارہ کیا تھا۔۔۔۔

اور خود بھی چلتا ہوا پری کے پاس ایا تھا۔۔۔۔۔۔

عمر میرے بیٹے۔۔۔۔۔۔۔۔تن ٹھیک ہو نا۔۔۔۔

یس ڈیڈ چھوڑنا نہی ان لوگوں کو۔۔۔

اور اک گولی چلنے کی آواز ائ تھی۔۔۔۔ کوئ اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا۔۔۔

پولیس نے تمہیں چاروں طرف سے گھیر لیا ھے۔۔۔۔۔۔

ملک کا تو رنگ فق ہوگیا تھا۔۔یہ تم نے بہت غلط کیا جو پولیس کو ساتھ لے ائے۔

اور پری کی چیخنے کی آواز ائ تھی۔

چھوڑو مجھے۔۔۔۔

دور رہو غازیان ورنہ گولی چل جائے گی۔۔۔

دیکھ تیری دشمنی مجھ سے ھے۔چھوڑ دے پری کو۔۔

اور علی نے پیچھے سے اک ضرب لگائی تھی ملک کے سر پر کہ وہ لڑکھڑایا تھا۔۔۔

تو اس نے پری کو اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔

اک عجیب سا منظر تھا۔ہر طرف گولیوں کی آوازیں تھی۔علی تم پری کو لے کر نکلو یہاں سے نہیں میں ایسےتمہیں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔۔

غازیان علی نے پیچھے سے اتے اک شخص کو دبوچا تھا۔۔۔۔۔۔

ہر طرف ماڑا ماڑی ہورہی تھی۔۔۔۔پری تو روہانسی ہودی تھی۔

تب ھی عمر نے بندوق کا رخ پری کی جانب کیا تھا۔

بس غازیان بس۔۔۔بہت ہوا یہ چوہے بلی کا کھیل۔

نہیں۔۔۔۔۔رک جاو

اور اک گولی چلنے کی آواز ائ تھی۔۔جو علی کو لگی تھی۔۔۔علی۔۔۔۔پری چیخی تھی۔۔۔۔۔

جو گولی چلائ پری پر تھی لیکن علی سامنے اگیا تھا۔۔

علی یہ کیا کیا علی۔۔۔۔۔

وہ چلائ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ غازیان علی کی جانب دوڑا تھا۔۔۔۔۔۔

علی اٹھو علی

وہ کن حالات میں علی کو ہسپتال لائے تھے یہ وہ ہی جانتے تھے۔۔۔۔

سنبھالو پری خود کو کچھ نہیں ہوگا علی کو۔۔

ہاں کچھ نہیں ہوگا میرے علی کو۔۔۔۔

علی کو پری سے کوئ جدا نہیں کرسکتا موت بھی نہیں۔اور چلائ تھی۔کہ سینہ چھلنی ہو جائے۔   

پریشہ تو جیسے ہوش میں ھی نا تھی۔۔۔۔۔۔۔پریشہ ہوش کرو پری۔۔۔۔۔۔۔حرا جو امان کی کال پر ہسپتال پہنچی تھی۔رو رو کے برا حال۔

سب گھر والوں کی کیفیت ھی ایسی تھی کہ کوئ کسی کو بھی دلاسہ بھی نا دے پارہا تھا۔

دیکھیے پیشنٹ کا بہت بلڈ lose ہوگیا ھے۔۔۔ہم نے گولی تو نکال لی ھے۔لیکن ہمیں بلڈ کی ضرورت ہے۔ہسپتال میں او پازیٹو گروپ اویلیبل نہیں ھے۔پلیز اپ بلڈ کا ارینج کریں۔

ڈاکٹر میرا بلڈ گروپ سیم ھے اپ میرا بلڈ لے لیں لیکن علی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ویل اپ میرے ساتھ ائیں۔اورغازیان ڈاکٹر کے ساتھ چل دیا تھا۔پری میری بچی حوصلہ کرو۔بابا گولی مجھے لگ جاتی لیکن میرے سامنے علی اگیا بابا۔اسکا کتنا خون نکلا بابا۔علی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ورنہ میں مرجاوں گی اور اسکی چیخیں دلاور کی روح تک کو چھلنی کررہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر صاحب کیسا ھے میرا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔

جی ان کی حالت خطرے سے باہر ھے۔۔۔

کچھ دیر میں انہیں وارڈ میں شفٹ کردیا جائے گا۔شکر ھے میرے مولا میرا بچہ ٹھیک ھے۔۔۔۔۔

میں نے کہا تھا نا حرا علی کو مجھ سے کوئ الگ نہیں کرسکتا۔ھاں میری جان ہاں۔۔۔

اور اس نے پری کو گلے سے لگایا تھا۔۔۔۔

تم بہت برے ہو علی۔۔۔۔۔۔۔بہت برے۔

وہ علی کے پاس بیٹھی گلے کر رہی تھی۔۔۔۔۔

جیسا بھی ہوں صرف تمہارا ہوں۔۔

تو ایسے بھی کوئ کرتا ھے۔۔۔۔

اک بار بھی نہیں سوچا میرے بارے میں اور ہیرو کی طرح سامنے آگئے۔۔۔۔

ابھی بیوی نہیں بنی ہو اور رعب بھی ڈالنے شروع کر دئیے ھیں۔

میں تو مر ھی جاتی علی اک بار میں تو تم نے میری جان ھی نکال دی تھی۔۔۔۔

شش چپ بلکل خاموش جو دوبارہ ایسی بات منہ سے نکالی تو۔۔۔ 

علی سے پری کو کوئ جدا نہیں کرسکتا موت بھی نہیں۔اور وہ دونوں غازیان کے الفاظ سن کر چونکے تھے۔۔۔

ارے ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔

تھینکس غازیان علی کو خون دینے کیلئے اس کا احسان تو میں زندگی بھر نہیں چکا پاوں گی۔کہ علی کی جان بچائ ھے اپ نے۔

چپ اک دم۔۔۔۔۔بس اک دوست ہونے کا فرض نبھایا ھے۔۔

اور ابھی نبھاوں گا بھی۔

قاضی صاحب کو لایا ہوں۔تمہارا اور علی کا نکاح پڑھوانا ھے۔تاکہ دونوں کو کوئ برا سایہ بھی دور نا کرپائے۔۔۔۔۔

لیکن۔۔۔

لیکن ویکن کچھ نہیں۔

صائم کمرے میں داخل ہوا تھا۔نکاح اج اور ابھی ہوگا۔۔۔۔۔

اور غازیان نے علی کے ہاتھ میں پری کا ہاتھ دیا تھا۔۔۔

جانتا ہوں کہ تم پری پر اک انچ بھی نہیں انے دو گئے۔پھر بھی اسے ہمیشہ سنبھال کر رکھنا بہت نایاب ھیرا ھے یہ۔۔۔۔۔۔۔

اور علی نے سر ہلایا تھا۔۔۔۔۔۔

محبت میں حاصل کرنا ھی سب کچھ نہیں ہوتا۔۔۔

بلکہ محبت تو قربانی کا نام ھے۔جو دو پیار کرنے والوں کی خوشیوں سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت تو خوشیوں کی محتاج ہوتی ھے۔۔۔

اور کبھی کبھی یہ دل کا سکون بھی بن جاتی ھے۔۔۔اور روح کا چین بھی۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sitamgar Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sitamgar written byRida Mughal.Sitamgar by Rida Mughal is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages