Man Wehshat E Janam Novel By Rimsha Hayat Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 12 September 2024

Man Wehshat E Janam Novel By Rimsha Hayat Complete Romantic Novel

Man Wehshat E Janam By Rimsha  Hayat New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

 Man Wehshat E Janam Novel By Rimsha Hayat Complete Romantic Novel


Novel Name: Man Wehshat E Janam

Writer Name: Rimsha Hayat 

Category: Complete Novel

مجھے خون بہا چاہیے یا تو آپ کو اپنی بیٹی کا نکاح ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ کرنا ہو گا یا اپنی ساری پراپرٹی میرے حوالے کرنی ہو گی ایک پھوٹی کوڑی بھی آپ کے پاس نہیں رہے گی۔

جرگے میں ضرغام بدر کی کرخت آواز گونجی تھی۔

چودھری جواد کی آنکھیں ضرغام بدر کی بات پر بےیقینی سے پھیلی تھیں۔

جرگے میں کچھ پل کے لیے خاموشی چھا گئی۔

جہاں جواد چودھری اپنے گاؤں میں اپنے ظلم کی وجہ سے مشہور تھا وہی دوسری جانب ضرغام بدر بھی کم نا تھا۔۔

ضرغام بدر سوچ سمجھ کر بات کرو۔

تمھاری ہمت بھی کیسی ہوئی اس طرح کی فضول بات کرنے کی؟

جواد چودھری نے دھاڑتے ہوئے ضرغام بدر کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔

آواز نیچی….. مجھے بھی آواز اونچی کرنی آتی ہے۔

تمھارے پاس دو راستے ہیں اگر تم نے ان میں سے میری ایک بھی بات نہیں مانی تو میری بہن کو زندہ سلامت میرے سامنے لے آؤ

ضرغام نے سرد لہجے میں کہا۔

باقی سارے گاؤں والے کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔

ٹھیک ہے میں اپنی بیٹی کا نکاح تمھارے ساتھ کرنے کے لیے تیار ہوں۔

کچھ دیر سوچنے کے بعد جواد نے بےتاثر لہجے میں کہا۔

اس وقت ضرغام بدر جواد چوہدری کے گاؤں میں موجود تھا۔

لیکن میری ایک شرط ہے جواد نے ضرغام کو دیکھتے کہا اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا ضرغام نے ہاتھ کے اشارے سے اسے کچھ بھی کہنے سے روکا تھا۔

چودھری صاحب آپ کی بیٹی خون بہا میں میری حویلی میں آ رہی ہے تو آپ کی کوئی بھی شرط ماننا تو دور میں سننا بھی پسند نہیں کرتا۔

دس منٹ کے اندر مولوی صاحب کو بلائے میرے پاس فضول کا وقت نہیں ہے۔

ضرغام نے دوٹوک الفاظ میں میں کہا۔

جواد چوھدری نے غصے سے اپنے ہاتھوں کو بھینچے اپنے غصے کو کنٹرول کیا تھا۔ورنہ آج تک اس لہجے میں اس سے کسی نے بات نہیں کی تھی لیکن ضرغام کی تو بات ہی الگ تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

بابا آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟

انوشے نے لہجے میں بےیقینی لیے جواد چوھدری کو دیکھتے پوچھا۔

انوشے جو ابھی اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی اپنی ماں کو پریشان دیکھتے ان کے پاس آئی اس سے پہلے وہ اپنی ماں سے پریشانی کی وجہ پوچھتی اس کے باپ نے وہاں آتے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔

انوشے اب تم اپنے باپ کی حکم عدولی کرو گی؟

جواد چوھدری نے سرد لہجے میں کہا۔

امی جان آپ پلیز بابا کو سمجھائے یہ مجھے کیسے میرے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں؟

ان سب میں میرا کیا قصور ہے۔

انوشے نے اپنی ماں کے پاس آتے بےبسی سے روتے ہوئے کہا۔

میری بچی اپنی ماں کو معاف کر دے میں تیری مدد نہیں کر سکتی۔

صبا بیگم نے انوشے کے آنسو صاف کرتے کہا۔

وہ خود بھی تو رہی تھیں۔

چوہدری صاحب مولوی صاحب آگئے ہیں۔

ملازم نے آتے ہی نظریں جھکا کر مولوی صاحب کے آنے کی اطلاع دی۔

صبا مولوی صاحب آگئے انوشے کو باہر لے آؤ۔

جواد نے حکمیہ لہجے میں کہا اور بڑے بڑے ڈھاگ بڑھتا وہاں سے چلا گیا۔

امی جان ماموں کے کیے کی سزا مجھے کیوں مل رہی ہے؟ انوشے نے سرخ آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھتے شکوہ کرتے کہا۔

میری بچی یہ رسم برسوں سے چلتی آ رہی ہے ہم سب بےبس ہیں۔

صبا نے گہرا سانس لیتے جود کو کمپوز کرتے کہا اور چلتی ہوئی الماری کی طرف گئی اور ایک سرخ رنگ کا ڈوپٹہ لے کر انوشے کے سر پر اوڑھ دی، اگر اس وقت وہ خود ہمت ہار جاتی تو انوشے کو کون سنبھالتا۔

انوشے نے اس کے بعد اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا تھا وہ خاموش ہو گئی تھی۔

جب اس کے باپ نے اپنی بیٹی کو جہنم میں دھکیلنے کے بارے میں سوچ لیا تھا تو اب کچھ بھی کہنا بیکار تھا۔

تھوڑی دیر بعد ضرغام بدر کا نکاح انوشے چودھری سے ہو گیا۔

ضرغام کے چہرے پر چھائی سرد مہری کو دیکھتے کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس سے بات کر سکے۔

نکاح کے ہوتے ہی گھونگھٹ اوڑھ کر بیٹھی انوشے کی طرف ضرغام نے قدم بڑھائے اور اسکی نازک کلائی کو پکڑے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔

آج سے تم لوگوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اگر تم میں سے کوئی بھی میری حویلی میں اس سے ملنے آیا تو سزا آپ لوگوں کی لاڈلی کو بھگتنی پڑے گی۔

ضرغام نے دو ٹوک الفاظ میں میں حشمت چوھدری کو دیکھتے کہا، اور انوشے کو گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گیا۔

جو پتھر بنی اس کے ساتھ چل رہی تھی۔


آپ کے لیے کیا یہ جائیداد اتنی اہم ہے کہ آپ نے اس کی خاطر اپنی بیٹی کی قربانی دے دی؟

صبا نے جواد کے سامنے کھڑے ہوتے روتے ہوئے پوچھا،

یہ زمینیں اور یہ ساری جائیداد ہمارے بڑوں کی محنت ہے۔اور میں یہ ساری جائیداد ضرغام بدر کے حوالے کرتے خود سڑک پر نہیں آ سکتا تھا،

اور اس پر میرے بیٹے کا حق ہے،

جواد نے دوٹوک الفاظ میں میں کہا۔

آپ کو اپنے بیٹے کی فکر ہے لیکن بیٹی کی نہیں؟ اُس کے ساتھ وہاں کیا سلوک ہو گا آپ نے اس بارے میں ایک بار بھی نہیں سوچا اور یہ سب آپ کے بھائی کی وجہ سے ہوا، میری بیٹی بےقصور ہوتے ہوئے بھی سزا بھگت رہی ہے۔

صبا کی آواز بھی آج پہلی بار اپنے شوہر کے سامنے اونچی ہوئی تھی۔

جواد نے آگے بڑھتے صبا کو گردن سے دبوچا،

آئندہ تمھاری زبان میرے سامنے چلی تو اسے کاٹ کر رکھ دوں گا،

اور جہاں تک بات ہے میرے بھائی کی تو اُس کے ساتھ تو میں وہ کروں گا جس کے بارے میں اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا،

جواد چوھدری نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے صبا کی گردن کو چھوڑتے ہوئے کرختگی سے کہا جو کھانسنے لگی اور گہرے سانس لیتے خود کو پرسکون کرنے لگی۔

جواد نے ایک قہر برساتی نظر صبا طہر ڈالے اور پھر وہاں سے چلا گیا۔

امی آپ تو اس طرح کا ردعمل ظاہر کر رہی ہیں جیسے آپ کی بیٹی مر گئی ہو،

نکاح ہی ہوا ہے اُس کا اور اتنا اچھا اُسے شوہر مل گیا ہے اس سے زیادہ اُسے کیا چاہیے۔

نازیہ نے غصے سے اپنی ساس کو دیکھتے کہا جو جواد کے جانے کے بعد یہاں آئی تھی۔

صبا نے ایک نظر نازیہ کو دیکھا اور بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔وہ جانتی تھی کہ نازیہ سے بات کرنا بیکار ہے۔

ضرغام تم میری بہن کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو تمھاری منگنی میری بہن کے ساتھ ہو چکی تھی پھر بھی تم نے انوشے کے ساتھ نکاح کیا۔

نازیہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے خود سے کہا،

اس وقت اس کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا تھا۔

وہ کیسے برداشت کر سکتی تھی کہ اس کی نند کو ضرغام جیسا ہمسفر ملے۔

نازیہ ضرغام کے چچا کی بڑی بیٹی تھی۔

جس کی شادی آٹھ سال پہلے انوشے کے بھائی تیمور چوھدری سے ہوئی تھی۔

اُس وقت دونوں گاؤں کے درمیان سب ٹھیک تھا۔

لیکن اُس کے بعد کچھ ایسا ہوا کہ دونوں گاؤں کے سردار ایک دوسرے کی جان کے پیاسے بن گئے۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام انوشے کو اپنی حویلی لے آیا تھا۔جہاں سارے ملازمین چہرے پر حیرانگی لیے ضرغام اور اس کے ساتھ چلتی انوشے کو دیکھ رہے تھے۔

ضرغام نے حویلی میں داخل ہوتے بڑی خانم کو آواز دی۔

ضرغام کی بھاری آواز پوری حویلی میں گونجی تھی۔

تھوڑی دیر بعد بڑی خانم چہرے پر سنجیدگی لیے اپنے کمرے سے باہر آئیں۔

ابھی وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھیں۔

ہاتھ میں تسبیح پکڑے وہ ضرغام اور اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی انوشے کو دیکھ رہی تھیں۔ایک ہفتے پہلے ہی تو ان کی لاڈلی پوتی ان کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔وہ جو حویلی میں ہر طرف ہستی مسکراتی پھیری تھی اپنے ساتھ حویلی کی ساری خوشیاں بھی لیے چلی گئی۔

اتنے میں نازیہ کی ماں اور اس کی بہن بھی وہاں آگئی تھیں۔

ضرغام یہ لڑکی کون ہے؟

خانم نے گھونگھٹ نکالے کھڑی انوشے کو دیکھتے پوچھا۔

ضرغام نے بھی انوشے کو آٹھ سال پہلے دیکھا تھا۔اس کے بعد دونوں گاؤں کے درمیان کچھ ایسا ہوا کہ دوبارہ کبھی وہ ایک دوسرے کی حویلی میں نہیں آئے اور ضرغام بدر کو بھی انوشے کا چہرہ دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

بڑی خانم یہ لڑکی جواد چوھدری کی بیٹی ہے جو خون بہا میں یہاں آئی ہے۔

ضرغام نے بڑی خانم کے پاس آتے نرم لہجے میں کہا۔ان سے وہ ہمشیہ نرم لہجے میں بات کرتا تھا چاہے صورتحال کیسی بھی ہو۔

اس کا مطلب ہے کہ تم اس لڑکی سے نکاح کر چکے ہو اور یہ اس حویلی کی بڑی بہو ہے اب

خانم نے انوشے کو دیکھتے کہا۔

یہ لڑکی خون بہا میں آئی ہے خانم اور یہ اس گھر کی بہو نہیں ہے۔

ضرغام نے نفی میں سر ہلاتے سنجیدگی سے کہا۔

لیکن نکاح کی بات سنتے نازیہ کی ماں حمیرا اور اسکی چھوٹی بیٹی انعم نے بےیقینی سے پہلے خانم اور پھر کچھ فاصلے پر کھڑی انوشے کی طرف دیکھا۔

ضرغام آپ کیسے یہ نکاح کر سکتے ہیں؟ جبکہ کے آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں آپ کی منگیتر ہوں۔

انعم جو سب سے پہلے ہوش میں آئی تھی اس نے آگے آتے ضرغام کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

انعم مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے اور آئندہ جب بڑے بات کر رہے ہو تو دخل اندازی مت کرنا۔دوبارہ میں تمھاری اس حرکت کو برداشت نہیں کروں گی۔

بڑی خانم نے انعم کو دیکھتے سنجیدگی سے اسے تنبیہ کرتے کہا۔

اور تم اس لڑکی کو میرے کمرے میں لے کر آؤ بڑے خانم نے جانے سے پہلے ملازمہ کو دیکھتے اسے حکم دیا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

ضرغام اندر جانے کی بجائے وہاں سے باہر نکل گیا تھا۔

ملازمہ انوشے کو بڑی خانم کے کمرے کی طرف لے گئی پیچھے انعم اور حمیرا ایک دوسرے کی شکلوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔

💜 💜 💜 💜

ملازمہ انوشے کو بڑی خانم کے کمرے میں چھوڑنے کے بعد وہاں سے چلی گئی تھی۔

یہاں آؤ خانم نے کھڑی ہوئی انوشے کو دیکھتے کہا۔

جو چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آئی اور اپنے چہرے سے گھونگھٹ کو ہٹائے اس نے خانم کی طرف دیکھا جو اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔اس نے جب پہلے بڑے خانم کو دیکھا تو اسے وہ بہت اچھی لگی تھیں لیکن ااے نہیں معلوم تھا کہ ان سے دوبارہ ملاقات ایسے حالات میں ہو گی۔

بیٹھو یہاں بڑی خانم نے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کرتے کہا تو انوشے خاموشی کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھ گئی۔

بڑی خانم نے بھی انوشے کو آٹھ سال پہلے دیکھا تھا۔اور اب تو وہ مزید پیاری اور معصوم لگ رہی تھی۔

بڑی خانم نے انوشے کی طرف دیکھا۔اور بات کا آغاز کیا۔

تم جانتی ہو نا کہ یہاں تم خون بہا میں آئی ہو۔

بڑی خانم کا لہجہ نرم تھا۔

میں بس اتنا جانتی ہوں کہ کسی اور کے کیے کی سزا اب مجھے ساری زندگی بھگتی پڑے گی۔

میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کا کتنا بڑا نقصان ہوا ہے۔

اگر ہمارا کوئی پیارا ہمیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو وہ کبھی واپس نہیں آتا لیکن…..

انوشے نے بھاری لہجے میں کہا۔

میرا کیا قصور ہے؟ انوشے بےبسی سے کہتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اُس نے بہت کوشش کی کہ اب وہ نہیں روئے گی لیکن آنسو روکنے کے باوجود باہر آرہے تھے۔

بڑی خانم خاموشی سے اسے روتا دیکھ رہی تھیں۔

تم اب اس حویلی کی بہو ہو اس حقیقت کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔

ملازمہ تمہیں ضرغام بدر کے کمرے میں چھوڑ دے گی۔

اب سے جو کچھ تمھارے ساتھ ہو گا وہ تمھاری قسمت

بڑی خانم نے نظریں چراتے کہا۔

اور ملازمہ کو آواز دیتے کہا کہ انوشے کو ضرغام بدر کے کمرے میں چھوڑ دے۔

اگر میری جگہ آپ کی اپنی بیٹی ہوتی تو کیا آپ کا پھر بھی یہی فیصلہ ہوتا؟

انوشے نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے شکوہ کرتے کہا۔

جو اب ہونا تھا اگر وہ سب کچھ اس کی قسمت میں لکھا تھا تو وہ کیوں غبار اپنے اندر رکھتی۔

انوشے کہتے ہی ملازمہ کے ساتھ وہاں سے چلی گئی پیچھے بڑی خانم کو کہی سوچوں میں دھکیل گئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

ملازمہ انوشے کو لیے ضرغام بدر کے کمرے کی طرف جا رہی تھی اور انوشے کو دیکھ کر حیران ہو رہی تھی جو میک اپ کے بغیر بھی اسے معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی جب راستے میں انعم نے انوشے کو راستے میں روکا،

ایک پل کے لیے تو تو انعم بھی انوشے کو دیکھتے حیران ہوئی جو اس سے بہت زیادہ خوبصورت تھی۔

بی بی جی بڑی خانم کا حکم ہے کہ چھوٹی بی بی کو ضرغام صاحب کے کے کمرے میں چھوڑنا ہے۔

ضرغام کے کمرے میں؟ میرے حق پر ڈاکہ ڈال کر اب یہ ضرغام کے کمرے میں جائے گی؟

اس کی اوقات نہیں ہے کہ یہ ضرغام کی بیوی بنے۔

انعم جو پہلے ہی غصے میں جل بھن رہی تھی وہ انوشے کی طرف جھپٹی جو ایک دم گھبرا کر پیچھے کو ہوئی اور اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور زمین بوس ہو گئی اس کا ماتھا زمین پر جا لگا۔

انوشے کے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی تھی۔

بی بی جی کیا کر رہی ہیں آپ اگر بڑی خانم کو پتہ چل گیا تو وہ آپ کے ساتھ ناجانے کیا کریں گئ۔

ملازمہ نے پریشانی سے انعم کو دیکھتے اسے ڈرانا چاہا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ بڑی خانم سے کتنا ڈرتی ہے۔

انعم نے انوشے کو غصے سے دیکھا جو ماتھے پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی جہاں سے خون بہہ رہا تھا۔خون کو دیکھتے ایک پل کے لیے انعم کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات ابھرے اسے صرف بڑی خانم کا ڈر تھا۔

اس لیے خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔

بی بی جی آپ ٹھیک ہیں؟

ملازمہ نے جلدی سے جھک کر انوشے کو سہارا دیا۔

جس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔

بی بی جی آپ کے ماتھے سے تو خون نکل رہا ہے۔

ملازمہ نے پریشانی سے کہا۔

میں ٹھیک ہوں انوشے نے کھڑے ہوتے اپنی چادر کو ماتھے پر رکھتے کہا۔

لیکن بی بی جی خون نکل رہا ہے۔

ملازمہ نے جلدی سے کہا۔

میں ٹھیک ہوں انوشے نے سرد لہجے میں کہا۔

یہ سب تو اب اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔تو اب چھوٹی چھوٹی تکلیف پر بیٹھ کر وہ رو نہیں سکتی تھی۔

بی بی جی میں آتی ہوں ملازمہ نے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

تھوڑی دیر بعد ملازمہ بھاگتی ہوئی وہاں آئی جس کے ہاتھ میں بینڈیج تھا اور اس نے جلدی سے انوشے کے ماتھے پر لگا دیا۔

چلیں اب میں آپ کو صاحب کے کمرے میں چھوڑ دیتی ہوں۔

ملازمہ نے فکرمندی سے کہا تو انوشے اس کے ساتھ خاموشی کے ساتھ چل پڑی۔

آگے ناجانے کون سی مشکلات کا سامنا انوشے کو کرنا کرنا تھا۔لیکن ملازمہ کو معصوم سی انوشے پر ابھی سے ترس آ رہا تھا۔

💜 💜 💜 💜

ملازمہ انوشے کو کمرے میں چھوڑتے وہاں سے چلی گئی تھی۔

انوشے نے ضرغام بدر کے بارے میں سنا بہت تھا لیکن ابھی تک دیکھا نہیں تھا اور اب بھی جب وہ ضرغام بدر کے ساتھ یہاں آئی تو گھونگھٹ نکالا ہوا تھا۔

سرجھکائے وہ لرزتی کانپتی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔اس وقت اس کی جو حالت ہو رہی تھی وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی تھی۔

اس کمرے میں اس کا وجود نہایت عجیب لگ رہا تھا۔۔اور دل بھی زور سے دھڑک رہا تھا شاید ضرغام بدر کے خوف سے اس کی ایسی حالت یو رہی تھی۔

بڑی خانم کا حکم تھا کہ اسے ضرغام بدر کے کمرے میں پہنچانے کا۔۔کیونکہ اب وہی اونچی شان و شوکت والا مرد اس کی قسمت تھا،۔۔اس کی زندگی کا مالک ، ورنہ تو اسے لگ رہا تھا اسے کسی چھوٹے سے کمرے میں پھینک دیا جائے گا۔

کمرے کا دروازہ کھلا تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا۔ گلابی چہرے پر خوف کی سفیدی پھیلنے لگی تھی۔۔

بھاری قدموں کی آہٹ پر اس نے مٹھیاں ایک دوسرے میں قید کیے سامنے دیکھا تو یوں لگا جیسے وہ اب سانس نہیں لے پائے گی۔

ضرغام بدر ،۔۔جس کے ظلم سے پورا گاؤں واقف تھا۔۔جس کی درندگی اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔۔۔وہ اپنے دشمنوں کو ایسی بھیانک سزا دیتا آیا تھا کہ مضبوط سے مضبوط شخص بھی سن کر دہل جاتا۔۔اور وہ تو تھی ہی نازک سی لڑکی،۔اس کا ظلم تو اسے آج بھی یاد تھا۔۔سینے میں مچلتا دل مزید شدت سے دھڑکتا اسے مزید خوفزدہ کر رہا تھا۔

سیاہ کرتا شلوار میں ملبوس ضرغام بدر اس وقت اسے مزید خوفناک لگا تھا۔بےشک وہ ایک خوبصورت مرد تھا۔

۔۔۔اس کی سرمئی سرخ ڈوروں آنکھوں میں ایک طوفان برپا تھا۔۔جبکہ سیگریٹ کی زیادتی سے سیاہ لب کسی آفت کو چھپائے ہوئے تھے۔۔

انوشے مزید دیوار کے ساتھ چپکی جب وہ ایک سرد نگاہ ڈالتا بیڈ کے کنارے پر بیٹھا۔۔انوشے ایک پل کے لیے حیران ہوئی۔۔

"یہاں آؤ۔۔ لڑکی ۔۔" اس کی کرخت بھاری آواز گونجی تو وہ اپنی جگہ سے اچھل کر چند قدم پیچھے ہوئی۔۔لیکن پیچھے دیوار تھی۔۔

"مجھے اپنی بات دہرانا پسند نہیں ہے۔۔۔" ایک بار پھر وہ دانت پیسے غرایا تو انوشے کے لبوں سے سسکی نکلی تھی۔اصل امتحان تو اب اس کا شروع ہونے والا تھا۔

کل رات جب وہ سوئی تو اسے معلوم نہیں تھا اگلا دن اس کے لیے اتنے امتحان لے کر آئے گی۔

ضرغام بدر نے گردن موڑ کر اسے سرخ نگاہ سے گھورا اور اگلے ہی پل کھڑا ہوتا وہ اس کی جانب آیا اور اسے بازو سے جکڑ کر زمین کی جانب دھکیلا۔۔ انوشے چیخ کے ساتھ زمین پر گری تھی۔

آہہہ !!! ضرغام بدر خان نے جھک کر اسے سیدھا کیا اور اس کی تھوڑی کو سختی سے دبوچا۔۔

"سمجھ نہیں آتا میں کیا کہہ رہا تھا۔۔پہلے ہی دن میرے حکم کی نافرمانی کرنے کی گستاخی تم نے کیسے کی۔۔۔۔؟"

وہ دھاڑا تھا۔۔۔انوشے کی سیاہ بڑی بڑی آنکھوں میں آنسوں کی نمی پھیل گئی۔

"وہ۔۔ممم میں۔۔۔"

"زبان بند کرو اپنی۔۔۔" وہ پوری شدت سے دھاڑا جبکہ انوشے سختی سے آنکھیں میچ گئی۔بازو پر سخت گرفت۔۔۔نے اسے سخت اذیت دی تھی۔۔اس کے مضبوط ہاتھ کی انگلیاں بازو میں دھنس سی گئی تھیں۔۔

" آنکھیں کھولو۔۔۔" اس نے تھوڑی پر دباؤ ڈالا تو اس نے کراہ کر آنکھیں کھولی۔ایک پل کے لیے دونوں کی نگاہ ٹکرائی۔۔اور دونوں جانب دلوں نے دھڑکنوں کو تیز کیا۔۔

"میرے لیے تم یا تمھارا وجود کوئی اہمیت نہی رکھتا ۔۔۔اور سب سے بڑھ کر اپنے قاتل چچا کی بھتیجی ہو تم ۔۔۔جس سے میری دشمنی بہت پرانی ہے ۔۔۔اور اب اس نے میری بہن کا قتل کرکے مجھ پر اپنا خون واجب کردیا ۔۔۔لیکن اس سے پہلے میں تمہاری جان لوں گا۔۔بہت لاڈلی تھی ناں تم اپنے چچا کی۔۔۔اب جب تم برباد ہوکر واپس جاؤ گی تو میرا انتقام پورا ہوگا۔۔میری بہن کی روح پرسکون ہوگی۔۔۔"اس کے بعد تمھارے چچا کو تڑپا تڑپا کے ماروں گا۔وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولا تو انوشے نے رحم طلب نظروں سے اسے دیکھا۔۔جس کی آنکھوں میں فلحال اس کے لیے سفاکیت تھی۔۔

"تمہاری یہ بہتی آنکھیں معصوم حسن مجھ پر اثر نہیں کرے گا۔۔۔"

اس نے انوشے کی بازو کو جھٹکا دئیے۔۔اسے اپنے مقابل کھڑا کیا تو وہ توازن برقرار نہ رکھنے کے باعث سیدھا اس سے ٹکرائی تھی۔۔لیکن ضرغام بدر نے اسے کسی اچھوت کی طرح خود سے دور کیا کہ وہ سیدھا اس کے قدموں میں جاگری تھی۔۔انوشے کراہ پڑی اس کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائے۔۔

"آج پہلی اور آخری بار میں اپنی بات دہرا چکا ہوں۔۔آج کے بعد میرے حکم عدولی کی تو یاد رکھنا میں معاف کرنا نہیں جانتا۔میں صرف سزا دیتا ہوں۔۔اور میری سزا موت سے بھی بدتر ہوتی ہے۔۔۔" وہ سسکتے ہوئے بسی سے رو رہی تھی۔

۔۔جبکہ اس کے الفاظ کانوں میں کسی نوک دار کانچ کی طرح چھب رہے تھے۔۔لیکن اس کے اگلے الفاظ اس کا حلق بھی خشک کرچکے تھے۔

"جاکر اپنا حلیہ درست کرکے آؤ۔۔۔مجھے گندگی سے سخت نفرت ہے۔۔۔" اس نے ایک بار پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔اس کی آنکھوں میں پھیلی طلب و بربریت نے انوشے کو بے جان سا کردیا تھا۔۔

وہ جھکاتھا۔۔ایک بار پھر اسے تھامنے کے لیے۔۔جبکہ انوشے کا پورا وجود جیسے کسی دہکتی آگ کی زد میں آیا تھا۔۔

بابا میرے پیچھے یہ سب کیا ہو گیا؟ ایک دن کے لیے میں شہر گیا تھا۔اور پیچھے آپ نے انوشے کا نکاح ضرغام کے ساتھ کر دیا؟ اور مجھے کیسی نے بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔

اقبال جو ابھی شہر سے حویلی آیا تھا آتے ہی اسے انوشے کے نکاح کا پتہ چلا اور وہ سیدھا اپنے باپ کے پاس آیا تھا جو پہلے ہی پریشان تھا۔

تمھاری بہن خون بہا میں وہاں گئی ہے اگر بات صرف نکاح کی ہوتی تو میں اتنا پریشان نا ہوتا۔

جواد چوھدری نے اقبال کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔

بابا لیکن آپ انوشے کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟

وہ تو معصوم ہے۔

اقبال نے دانت پیستے کہا۔

تمھارے چچا کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔

ضرغام بدر خان کی بہن مری ہے۔

یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔

ضرغام بدر نے خون بہا مانگا تھا۔

دو شرائط رکھی تھیں یا تو میں اپنی ساری پراپرٹی اُس کے حوالے کر دوں یا پھر انوشے کا نکاح اُس سے کر دوں۔

اور مجھے نہیں لگتا میں نے جو فیصلہ کیا وہ غلط تھا۔

لیکن مجھے کچھ نا کچھ کرکے انوشے کو واپس لانا ہو گا۔

میں اپنی بیٹی کو اُس حویلے میں رہنے تو بلکل بھی نہیں دوں گا۔

جواد چودھری نے اپنی کن پٹی کو دباتے ہوئے کہا۔

یہ تو آپ کو پہلے سوچنا چاہیے تھا اب تو اُس حویلے سے انوشے کی لاش ہی باہر نکل سکتی ہے جب تک اُس کی سانسیں چل رہی میرا نہیں خیال کہ ضرغام بدر اُس کا پیچھا چھوڑے گا۔

اقبال نے غصے سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

دروازے کے باہر کھڑی نازیہ جو کان لگائے ان کی باتیں سن رہی تھی۔

اقبال کو آتے دیکھ فوراً وہاں سے ہٹ گئی۔

انوشے کو میں دوبارہ اس گھر میں آنے نہیں دے سکتی۔

اُس کی موجودگی میں ہمشیہ مجھے غصہ آتا ہے۔اور وہ لڑکی مجھے زہر لگتی ہے۔

لیکن ضرغام کی بیوی بھی ہے وہ پتہ نہیں میری بہن پر کیا گزر رہی ہو گی۔

نازیہ نے پریشانی سے کہا اور انعم کا نمبر ڈائل کرتے موبائل کان سے لگایا۔

جس نے دو تین کالز کے بعد کال اٹینڈ کر لی تھی۔

آپی آپ نے یہ نکاح کیسے ہونے دیا؟ آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ میں ضرغام سے محبت کرتی ہوں پھر بھی؟ انعم نے کال اٹینڈ کرتے ہی شکوہ کرتے کہا۔

میری جان مجھے خود نکاح ہونے کے بعد ساری صورتحال کا پتہ چلا۔

لیکن تم فکر مت کرو ضرغام تمھارا ہی ہے۔

اور انوشے خون بہا میں گئی ہے ضرغام نے اپنی پسند سے نکاح نہیں کیا بلکہ اپنی بہن کا بدلہ لینے کے لیے نکاح کیا۔

اگر انوشے مر بھی جاتی ہے تو اُسے فرق نہیں پڑے گا۔

اور ویسے بھی خون بہا میں آئی لڑکیوں کا یہی حال ہوتا ہے۔

لیکن سب سے پہلے ہمیں انوشے کے لیے اُس کے گھر والوں کے دلوں میں نفرت ڈالنی ہیں تاکہ وہ اُسے واپس لانے کے بارے میں نا سوچیں اور ہم جو کچھ مرضی اُس کے ساتھ کر لیں پھر ہمیں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

نازیہ نے ارد گرد دیکھتے اپنے شاطر پلان کے بارے میں انعم کو بتایا جو خاموشی کے ساتھ اپنی بہن کی بات سن رہی تھی۔

لیکن ہم یہ سب کیسے کریں گئے؟

انعم نے بھی آہستگی سے پوچھا۔

وہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔لیکن تمہیں ایڈیٹنگ آتی ہے نا؟ تمہیں میں انوشے کی کچھ تصاویر سینڈ کرتی ہوں اُن کو اس طرح سے جوڑنا جیسے وہ ضرغام بدر کے ساتھ ہنستی مسکراتی باتیں کر رہی ہو۔

ضرغام کی تصاویر تو تمہیں آسانی سے مل جائیں گی۔

اور وہ تصاویر تم مجھے جلدی سے بھیج دو مجھے اچھے سے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔

نازیہ نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لاتے کہا۔

ٹھیک ہے آپی میں آپ کو ایڈٹ کرکے بھیجتی ہوں،

انعم نے کہتے موبائل بند کر دیا۔

اور نازیہ مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو؟ جاؤ یہاں سے ضرغام بدر نے آنکھیں پھلائے انوشے کو دیکھتے کرختگی سے کہا۔

م میرے پاس کپڑے نہیں ہیں۔

انوشے نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔

تمھارے کپڑوں سے مجھے کیا لینا دینا اپنی شکل میرے سامنے سے غائب کرو۔

تمھارا وجود مجھے اپنے کمرے میں برداشت نہیں ہو رہا۔

ضرغام نے ماتھے پر تیوری لیے انوشے کو کہا۔

م میں کہاں جاؤں؟

انوشے نے بھاری لہجے میں کہا۔

ضرغام بدر کا دماغ پھر سے گھوما تھا اور وہ آگے بڑھا اور انوشے کی نازک کلائی کو پکڑے اسے دروازے کے پاس لے کر گیا اور دروازے کو کھولتے ہی اسے باہر کی طرف دھکا دیا جو زمین پر اوندھے منہ جا گری تھی،

ضرغام بدر نے زور سے دروازہ بند کیا۔

اور انوشے نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے بند دروازے کی طرف دیکھا تھا۔

نکاح کی پہلی رات ہی تمھارے شوہر نے تمہیں کمرے سے نکاح دیا؟

انعم جو سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی۔چلتی ہوئی انوشے کے پاس آئی اور تمسخرانہ انداز میں اسے دیکھتے کہا۔

اوہ میں تو بھول ہی گئی کہ تم تو خون بہا میں یہاں آئی ہو۔

اب تو تم ہر جگہ سے دھتکاری جاؤ گی ابھی تو شروعات ہے۔

انعم نے مسکراتے ہوئے کہا اور انوشے کو روتے چھوڑ وہاں سے چلی گئی۔

ملازمہ نے یہ منظر دیکھ لیا تھا وہ جانتی تھی کہ کچھ ایسا ہی ہو گا۔

اس لیے اس نے جاکر بڑی خانم کو انوشے کا بتایا۔

جنہوں نے انوشے کو اپنے کمرے میں لانے کا حکم دیا۔

انعم اس منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔خوشی اسے سنبھالے نہیں. سنبھل رہی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

کیوں کیا تم نے ایسا کیوں میری بہن کو جان سے مار دیا کیوں؟

ضرغام بدر نے انوشے کو کمرے سے باہر نکالنے کے بعد اپنے کمرے کی چیزوں کو بےدردی سے توڑتے دھاڑتے ہوئے کہا۔

میری بہن بھی تو معصوم تھی۔

اُسے کس بات کی سزا ملی۔

جب میری بہن کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا تو مجھ سے رحم کی امید رکھنا بیکار ہے۔

ضرغام بدر نے آئینے میں خود کے عکس کو دیکھتے پرعزم مگر سرد لہجے میں کہا۔

اور گاڑی کی چابی پکڑے کمرے میں باہر نکل گیا۔اس وقت اس کا. میٹر گھوما ہوا تھا۔


دوسری جانب ملازمہ انوشے کو بڑی خانم کے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔

انوشے شاید اپنی قسمت پر بری طرح رو رہی تھی۔

یہاں میرے پاس سو جاؤ۔

بڑی خانم نے بیڈ کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

آپ کو مجھ پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

انوشے نے بےبسی سے روتے ہوئے کہا۔

انوشے کل میں تمھارے لیے کمرہ صاف کروا دوں گی لیکن آج تمہیں یہی سونا پڑے گا۔

بڑی خانم نے گہرا سانس لیتے کہا۔

آپ جانتی ہیں نا کہ میں خون بہا میں یہاں آئی ہوں تو جیسا باقی سب میرے ساتھ سلوک کر رہے ہیں آپ ویسا کیوں نہیں کر رہی؟

انوشے نے بڑی خانم کے پاس آتے دھیمے لہجے میں پوچھا۔

انوشے تمہیں معلوم ہے کہ جب میں اس حویلی میں پہلی بار آئی تو میری عمر کیا تھی؟

بڑی خانم نے انوشے کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے سامنے بیٹھاتے بات کا آغاز کیا۔

انوشے نے سرخ ناک اور آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے بڑی خانم کی طرف ناسمجھی سے دیکھا۔

میری عمر چودہ سال تھی جب میں اس حویلی میں خون بہا کے طور پر آئی تھی۔

بڑی خانم کے اس انکشاف پر انوشے اپنا رونا بھول کر بڑی خانم کو دیکھنے لگی۔

اسے اس بارے میں معلوم نہیں تھا۔

جب میں یہاں آئی تو اس حویلی اور گاؤں کے سردار میرے شوہر مجھے یہاں چھوڑ کر خود شہر چلے گئے تھے۔کیونکہ شہر میں وہ کسی لڑکی کو پسند کرتے تھے۔

پیچھے گھر والوں نے میرے ساتھ وہی سلوک کیا جو خون بہا میں آئی لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔

لیکن میں نے کبھی اُف تک نہیں کیا۔کیونکہ میں جانتی تھی کہ میرے بھائی نے غلط کیا جس کی سزا مجھے بھگتی پڑ رہی ہے۔

میں نے بہت ساری تکالیف برداشت کی ہیں اور آج میں تمھارے سامنے بیٹھی ہوں اس حویلی کی بڑی بن کر سب میری عزت کرتے ہیں۔

کیونکہ میں نے برداشت کیا اللہ سے مدد مانگی تو اللہ تعالیٰ نے میرے شوہر کے دل میں میرے لیے محبت ڈال دی۔

اور آج میں اس مقام پر ہوں۔تو صرف اوپر والے کی وجہ سے اس لیے خود کو مضبوط کرو۔

اور ہر ایک کا سامنا کرو جب تم نے کچھ غلط کیا نہیں تو تم گھبرا کس سے رہی ہو؟

بڑی خانم نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے انوشے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے کہا۔

تو کیا آپ بھی مضبوط بنی تھیں؟ سب کا سامنا کیا تھا؟ انوشے نے معصومیت سے پوچھا۔

بلکل پہلے ایک سال تو میں نے سب کے برے رویوں کو برداشت کرتی رہی اُن کی دی ہوئی تکلیف کو چپ چاپ سہتی رہی بعد میں مجھ میں تھوڑی تھوڑی ہمت پیدا ہوئی اور پھر میرا شوہر بھی میری طرف داری کرنے لگا۔

اور ایک لڑکی جو خون بہا میں آئی تھی وہ اس گھر کی بہو بن گئی اور اُسے وہ ساری عزت ملی جسلی وہ حق دار تھی،

لیکن…. میرے بھائی کو سزا ملی تھی کیونکہ اُس نے برا کیا تھا تو سزا کا وہ حق دار تھا۔

بڑی خانم نے اپنی آخری بات پر زور دیتے کہا۔

میں جانتی ہوں کہ چچا نے برا کیا ہے لیکن اگر میں اپنے دل کی بات بتاؤں تو مجھے ابھی تک یقین نہیں آتا کہ وہ ایسا کچھ کر سکتے ہیں۔

لیکن انہوں نے بہت غلط کیا بہت غلط

انوشے نے نظریں جھکا کر کہا۔

اسے بڑی خانم کی باتوں کی اتنی سمجھ تو آگئی تھی کہ اس کی اپنی سب سے بڑی ہمدرد وہ خود ہے اگر وہ خود اپنی قدر نہیں کرے گی تو کوئی اور بھی اس کی قدر نہیں کرے گا۔

اب تم یہاں سو جاؤ

بڑی خانم نے کہا تو انوشے نے اثبات میں سر ہلایا لیکن پھر اس کے دل میں ایک سوال آیا تھا۔

بڑی خانم کیا آپ کو مجھے دیکھ کر غصہ نہیں آتا کہ میں اُس قاتل کی بھتیجی ہوں جس نے آپ کی پوتی کی جان لی؟ انوشے نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

قاتل تمھارا چچا ہے تم نہیں اگر تم نے کیا ہوتا تو میں تمھارے ساتھ اس طرح پیش نا آ رہی ہوتی جیسے اب آ رہی ہوں اب آکر سو جاؤ بڑی خانم کہتے ہی تسبیح پڑھنے لگی اور انوشے خاموشی کے ساتھ آکر لیٹ گئی تھی۔اس کے دم میں بڑی خانم کے لیے جو سوال مچل رہا تھا اُس کا جواب مل گیا تھا۔

لیکن اب وہ بڑی خانم کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔کہ انہوں نے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔

انکے بارے میں سوچتے سوچتے کب اس کی آنکھ لگی اسے پتہ نہیں چلا۔

💜 💜 💜 💜

نازیہ کیا ہو گیا تم ایسے چیخ کیوں رہی ہو؟ اقبال نے نازیہ کو دیکھتے غصے سے پوچھا۔

ویسے ہی انوشے کا سوچ کر اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔

اتنے میں جواد چوھدری اور صبا بھی وہاں آگئے تھے۔

آپ سب لوگ اپنی لاڈلی کی وجہ سے اتنے پریشان ہو رہے ہیں۔

اور وہ تو وہاں اپنی پسند کے مرد سے نکاح کیے جانے پر خوش ہو رہی ہو گی۔

نازیہ نے اقبال کو دیکھتے کہا۔

کیا بکواس کر رہی ہو؟

اقبال نے اس کے پاس آتے پوچھا۔

جس نے ہاتھ میں انوشے کا موبائل پکڑا تھا۔

یہ دیکھیں اپنی لاڈلی کی حرکتیں کالج کے بہانے وہ ضرغام بدر سے ملتی تھی وہ تو اس کا موبائل رنگ ہو رہا تھا میں نے پکڑ کر کھولا اور سامنے ہی ان دونوں کی تصاویر آئی اس کا مطلب ہے دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھے سے جانتے تھے۔ نازیہ نے آخری بات پر زور دیتے کہا۔

نہیں یہ جھوٹ ہے میری بچی ایسی نہیں ہے۔صبا نے جلدی سے آگے آتے نفی میں سر ہلاتے کہا۔

میرے پاس ثبوت ہے ورنہ مجھے کیا ضرورت ہے آپ کی لاڈلی پر الزام لگانے کی،

نازیہ نے موبائل اقبال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

جس نے سکرین کی طرف دیکھا تصاویر کو بہت اچھے طریقے سے ایڈٹ کیا گیا تھا کہ دیکھنے والے کو یہ اصلی ہی لگتی۔

اقبال نے تصاویر کو دیکھتے بمشکل اپنے غصے کو کنٹرول کیا تھا اور موبائل اپنے باپ کی طرف بڑھا دیا۔جس کے تاثرات اقبال جیسے ہی تھے۔

چوھدری صاحب یہ جھوٹ ہے میری بچی معصوم ہے۔

صبا نے انوشے کے حق می صفائی دینی چاہیے۔وہ اپنی بیٹی کو بہت اچھی طرح جانتی تھی۔

امی آپ کی بیٹی کی یہ ساری تصاویر دیکھ کر تو لگتا ہے دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔

اس لیے تو ضرغام بدر نے شرائط ہی ایسی رکھی کہ آپ کو مجبوراً انوشے کا نکاح اُس کے ساتھ کرنا پڑے۔اور اوپر اوپر سے تو انوشے بھی انکار کر رہی تھی اندر سے وہ بھی خوش ہو گی۔

نازیہ نے تیکھے لہجے میں کہا۔

وہ کوئی بھی راستہ نہیں چھوڑ رہی تھی کہ اقبال اور جواد چوھدری کے دل میں انوشے کے لیے مزید بدگمانی پیدا کر سکے۔

آج سے انوشے کے بارے میں اس حویلی میں کوئی بات نہیں کرے گا۔جواد چوھدری نے سرد لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا اقبال بھی اپنے باپ کے پیچھے چلا گیا تھا۔

نازیہ اپنے کام سے مطمئن ہوتے آرام سے چلتی ہوئی صبا کے پاس سے گزر کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

یا اللہ میری بچی کی حفاظت فرما صبا نے اوپر دیکھتے بےبسی سے کہا۔

💜💜💜💜💜

امی جان میں نے سنا ہے جواد چوھدری کی بیٹی خون بہا میں یہاں آئی ہے اور کافی خوبصورت بھی ہے،

عرفان نے اپنی ماں کو دیکھتے پوچھا۔

بھاڑ میں جائے وہ لڑکی اُس کی وجہ سے میری بیٹی اتنی دکھی ہے میں اپنے ہاتھوں سے اُس کی جان لے لوں گی۔

حمیرا نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔

امی اُس بیچاری کو مارنے کی کیا ضرورت ہے اُسے میرے حوالے کر دو۔

عرفان نے لرفرانہ انداز میں کہا۔

کیا کہا تم نے؟ حمیرا نے گھورتے ہوئے پوچھا،

کچھ نہیں امی کچھ نہیں

لیکن اب ملنا تو پڑے گا ہی آخری بات عرفان نے دل میں کہی اور ویسے چلا گیا۔

حمیرا کے شوہر اور اس کے بڑے بھائی اور بیوی جو ضرغام بدر کے والدین تھے۔ آٹھ سال پہلے ایک حادثے می ان کی موت ہو گئی تھی۔

اُس کے بعد ضرغام نے اپنے باپ کی جگہ کو سنبھالا تھا اور گاؤں کا سردار بن گیا۔

ضرغام بدر خان کی ایک بہن تھی۔

اور حمیرا کے تین بچے تھے بڑی بیٹی نازیہ اس سے چھوٹا بیٹا عرفان اور سب سے چھوٹی بیٹی انعم تھی۔

وہ لڑکی کہاں ہے؟

حمیرا نے ملازمہ کو دیکھتے پوچھا۔

بی بی جی وہ بڑی خانم کے کمرے میں ہیں۔

ملازمہ نے جلدی سے جواب دیا۔

بلا کر لاؤ اُسے یہاں وہ آرام کرنے نہیں آئی۔

حمیرا نے غصے سے کہا۔

ملازمہ فوراً وہاں سے بڑی خانم کے کمرے کی طرف چلی گئی۔

بڑی خانم حویلی میں موجود نہیں تھیں۔

ملازمہ انوشے کو لیے اپنے ساتھ آئی۔

جو بڑی خانم کے بغیر باہر آنے سے گھبرا رہی تھی بڑی خانم کے اتنا سمجھانے پر بھی وہ ابھی تک ڈر رہی تھی۔

حمیرا نے انوشے کو دیکھا تو اس کو پھر سے انعم کا روتا ہوا چہرہ یاد آیا جو کل رات اپنی ماں کے سامنے روئی تھی، کہ انوشے نے ضرغام کو اس سے چھین لیا ہے۔

تم یہاں مہمان نہیں آئی ہو خون بہا میں آئی ہو۔اس لیے اپنی اوقات میں رہو۔

آج سے حویلی کے سارے کام تم کرو گی۔

صفائی سے لے کر کھانا بنانا تک کے سارے کام تم کرو گی۔

حمیرا نے اسے دیکھتے حقارت سے کہا۔

لیکن مجھے کھانا بنانا نہیں آتا۔

انوشے نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو مڑوڑتے ہوئے کہا،

کیا تمھاری ماں نے تمہیں کھانا بنانا نہیں سکھایا؟

حمیرا نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

بھابھی بھی جب حویلی آئی تھیں تو اُن کو بھی کھانا بنانا نہیں آتا تھا اور اُن کو تو آج تک کچھ بنانا نہیں آیا۔

انوشے نے بھی دوبو جواب دیا بات اس کی ماں پر آئی تھی تو وہ کیسے برداشت کر لیتی۔

تمھاری اتنی ہمت کے تم میرے آگے زبان چلاؤ۔

تمھاری تو میں زبان کاٹ کر رکھ دوں گی،

حمیرا نے غصے سے دانت پیستے کہا۔

اور انوشے کی کلائی کو دبوچے اسے گھسیٹے ہوئے وہاں سے لے گئی،

ملازمہ بھی پریشان ہو گئی تھی بڑی خانم بھی گھر پر نہیں تھیں۔

اور وہ خود تو کچھ کر نہیں سکتی تھی۔

حمیرا انوشے کو گھسیٹے ہوئے اپنے ساتھ لے کر جا رہی تھی جب عرفان نے اپنی ماں کو دیکھا اور انوشے کو دیکھتے تو اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔بےشک وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔

وہ جلدی سے اپنی ماں کے پاس آیا۔

امی کیا ہوا؟ آپ اتنی غصے میں کیوں ہیں؟

عرفان نے گہری نظروں سے انوشے کو دیکھتے اپنی ماں سے پوچھا۔

انوشے کو اس کی نظریں کچھ عجیب سی لگی تھیں۔

اس لڑکی کو اس کی اوقات یاد دلانے لگی ہوں بہت زبان چل رہی ہے اس کی ایک دن سٹور روم میں رہے گی تو اسے سے سمجھ آ جائے گی کہ کس کے سامنے اور کب زبان چلانی ہے۔

حمیرا نے غصے سے کہا۔

امی میں اسے سٹور روم میں چھوڑ دیتا ہوں۔

آپ کو انعم ڈھونڈ رہی تھی اُس نے کوئی ضروری بات کرنی تھی کافی پریشان لگ رہی تھی۔

عرفان نے انوشے پر نظریں گاڑھے کہا۔

میری بچی کی خوشیوں کی یہی قاتل ہے اسے تو میں بعد میں دیکھتی ہوں اور تم اسے وہاں چھوڑ دینا،

تاکہ اسے عقل آجائے۔

دوبارہ یہ میرے سامنے زبان نا چلائے۔

حمیرا نے عرفان کو دیکھتے کہا اور خود وہاں سے چلی گئی۔

پیچھے عرفان نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیے انوشے کی طرف دیکھا جو اس کی نظروں سے گھبرا کر وہاں سے جانے لگی جب عرفان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔

اور اپنی طرف کھینچا۔

کہاں بھاگ رہی ہیں بھابھی جی

اپنا تعارف تو کروا لیں مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری بھابھی اتنی خوبصورت ہے۔

عرفان نے انوشے کو کلائی سے پکڑے اپنے قریب کرتے لوفرانہ انداز میں کہا۔

انوشے اپنی کلائی کو آذاد کروانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

چھوڑو میرا ہاتھ انوشے نے سرد اور بھاری لہجے میں کہا۔

لیں چھوڑ دیا آپ کا حکم سر آنکھوں پر بھابھی جی عرفان نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے مسکراتے ہوئے کہا۔

انوشے جس کا دل سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا فوراً سے پہلے وہاں سے بھاگی اور بڑی خانم کے کمرے میں داخل ہوتے اس نے دروازے کو لاک لگایا اور گہرے سانس لیتی خود کو پرسکون کرنے لگی،

آنسو پھر سے اس کی آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔

چچا جان کیوں آپ نے ایسا کیا؟ کیوں کیا آپ نے ایسا؟ کیا آپ کے کیے کی سزا مجھے اپنی جان کے ساتھ عزت بھی گوا کر ادا کرنی پڑے گی۔

انوشے نے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کرتے بےبسی سے کہا۔

اور وہی دروازے کے ساتھ لگتی زمین پر بیٹھے رونے لگی اس کے علاوہ وہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتی تھی۔

💜 💜 💜 💜

بڑی خانم کمرہ صاف کروا دیا ہے ملازمہ نے بڑی خانم کو دیکھتے بتایا۔

وہ تھوڑی دیر پہلے حویلی واپس آئی تھیں۔

اور ضرغام بدر بھی ان کے ساتھ ہی تھا۔

جو خاموشی سے بیٹھا تھا یا کسی سوچ میں غرق تھا۔پوری رات وہ حویلی سے باہر گزار کر آیا تھا۔

ٹھیک ہے تم جاؤ یہاں سے بڑی خانم نے ملازمہ کو کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے چلی گئی۔

حویلی میں کوئی مہمان آیا ہے؟ ضرغام بدر نے بنا بڑی خانم کی طرف دیکھے پوچھا۔

انوشے کے لیے کمرہ صاف کروایا ہے۔

بڑی خانم نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے بتایا۔

خانم میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن معاف کیجیے گا اگر آپ کو میری بات بری لگے وہ لڑکی خون بہا میں یہاں آئی ہے۔

تو اُس کے ساتھ وہی ہو گا جو خون بہا میں آئی لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔

ضرغام بدر نے سرد لہجے میں کہا۔

ضرغام بدر خان خانم نے بھی سرد لہجے میں اس کا پورا نام لیا۔

تم نے انوشے سے نکاح کیا میں خاموش رہی تم اُسے خون بہا میں یہاں لے آئے پھر بھی میں نے تمھارا فیصلے کی عزت کی۔

لیکن میرے کچھ سوالات کے جواب دو

انوشے کو تکلیف دے کر کیا تمھارے بہن واپس آجائے گی؟ جب اُس کا کوئی قصور نہیں ہے تو وہ کیوں سزا بھگتے؟اور ہمشیہ مرد کے کیے کی سزا عورت کو کیوں ملتی ہے؟ تم خون بہا کے بدلے انوشے کے بھائی کی بھی جان لے سکتے تھے خون کے بدلے خون تم نے انوشے کے ساتھ نکاح کیوں کیا؟جواب دو میری بات کا؟

بڑی خانم نے سنجیدگی سے ضرغام بدر کو دیکھتے پوچھا جو اپنے ہاتھوں کو آپس میں پیوست کیے اپنے غصے کو کنٹرول کر رہا تھا۔

میری بہن کا کیا قصور تھا؟ وہ کیوں ماری گئی؟ آپ مجھے اس سوال کا جواب دے دیں میں بھی پھر آپ کے سوالات کے جواب دے دوں گا۔ضرغام بدر نے کھڑے ہوتے مزید کہا۔

آپ میرے معاملات میں دخل اندازی مت کریے گا۔میں نہیں چاہتا میں آپ کو کچھ ایسا بول دوں کہ بعد میں مجھے پچھتانا پڑے۔

ضرغام نے جانے سے پہلے کہا۔

پچھتانا تو تمہیں پڑے گا ضرغام بدر خان لیکن اُس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

اور اب تم جا سکتے ہو۔

بڑی خانم نے کہتے ہی اپنا رخ تبدیل کر لیا۔

ضرغام بدر جبڑے بھینچے وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام بدر بڑی خانم کے کمرے سے باہر نکلا غصے سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

اسے انوشے پر غصہ آ رہا تھا۔

جس کی وجہ سے آج بڑی خانم اس سے ناراض ہو رہی تھیں۔

سنو ضرغام بدر نے ملازمہ کو بلایا۔

جی صاحب ملازمہ جلدی سے ضرغام کے سامنے حاضر ہوئی اور نظریں جھکا کر پوچھا۔

وہ لڑکی کہاں ہے؟

ضرغام نے انوشے کے بارے میں پوچھا اور ملازمہ بھی سمجھ گئی تھی کہ ضرغام کس کی بات کر رہا ہے۔

صاحب وہ باہر گارڈن میں بیٹھی ہوئی ہیں۔

ملازمہ نے ہچکچاتے ہوئے بتایا۔

ضرغام نے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھا دیے جہاں انوشے سوکھی گھاس پر بیٹھی تھی۔

ضرغام اس کے قریب گیا اور بےدردی سے اس کو بازو سے پکڑے کھڑا کیا اور بنا سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اسے گھسیٹتے ہوئے ایک کمرے کی طرف لے کر گیا جو کافی سالوں سے بند پڑا تھا اس کا دروازہ کھولتے ہی اندر داخل ہوا جہاں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

اور انوشے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے یہاں آکر تو اس لگ رہا تھا اس کے دماغ نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔

ضرغام نے کمرے میں داخل ہوتے انوشے کے بازو کو چھوڑا جو اپنا توازن برقرار نہیں پائی اور سیدھی اوندھے منہ زمین ہر جا گری تھی۔

تمھاری اوقات اس جگہ پر رہنے کی ہے ناکہ عالیشان کمرے میں رہنے کی۔

ضرغام نے اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتے اسے بالوں سے دبوچتے ہوئے اس کا چہرہ اپنے قریب کرتے کہا،

کھڑکی کی روشنی کمرے میں آ رہی تھی۔جس سے انوشے کو ضرغام کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن ضرغام انوشے کی سوجھی ہوئی آنکھیں اور مرجھایا چہرہ بآسانی دیکھ سکتا تھا۔

لیکن اس وقت اس کے سر پر اپنی بہن کا بدلہ لینے کا بھوت سوار تھا۔

چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے۔انوشے نے کراہتے ہوئے کہا۔

درد؟ یہ درد تو کچھ نہیں ہے،

تمھاری پوری زندگی اب اسی درد میں گزرے گی۔

تمھاری زندگی کا ایک ایک پل میں نے تکلیف دہ نا بنا دیا تو میرا نام بدل دینا۔

ضرغام بدر خان سے کیسی قسم کے رحم کی امید مت رکھنا۔

ضرغام نے کرختگی سے ایک ایک لفظ چبا کر انوشے کی آنسو سے بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

تکلیف اس کی آنکھوں میں صاف جھلک رہی تھی لیکن مقابل کو پرواہ کہاں تھی۔

ضرغام نے انوشے کے بالوں کو جھٹکا دے کر چھوڑا اور کھڑے ہوتے وہاں سے لمبے لمبے ڈھاگ بڑھتے چلا گیا۔

پیچھے انوشے نے روتے ہوئے ارد گرد دیکھا جہاں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

اندھیرے سے تو اسے ویسے ہی ڈر لگتا تھا۔

اس لیے آنکھوں میں خوف لیے جس طرف کھڑکی سے روشنی زیادہ آ رہی تھی۔

وہاں اپنے گھٹنے پر سر رکھے بیٹھ گئی اور اپنی قسمت پر رونے لگی۔

💜 💜 💜 💜 💜 💜

انوشے کہاں ہے؟

بڑی خانم نے ملازمہ سے پوچھا تو جو ملازمہ نے دیکھا تھا۔

اس سے پہلے وہ کچھ کہتی حمیرا دروازہ ناک کرتے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔

خانم مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔

حمیرا نے سنجیدگی سے کہا۔

خانم نے ملازمہ کو جانے کا اشارہ کیا جو وہاں سے چلی گئی۔

بولو کیا بات کرنی ہے؟ بڑی خانم نے پوچھا۔

آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ انعم ضرغام بدر کی منگیتر ہے،. اور اب وہ نکاح کیے اُس لڑکی کو حویلی لے آیا،

اور میری بچی کا رو رو کر برا حال ہو رہا ہے،

حمیرا نے بڑی خانم کو دیکھتے پریشانی سے کہا۔

ضرغام بدر خان کی منگنی انعم سے کبھی نہیں ہوئی حمیرا اور تم بھی اس بات کو اچھی طرح جانتی ہو یہ تمھاری خواہش تھی جس پر ضرغام نے کبھی انکار نہیں کیا۔

لیکن تم اب کیا چاہتی ہو وہ بتاؤ۔

بڑی خانم نے سرد لہجے میں پوچھا،

میں چاہتی ہوں کہ جلد از جلد ضرغام اور انعم کا نکاح ہو جائے۔میں اپنی بچی کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔

حمیرا نے اپنے لہجے میں بےبسی لیے کہا۔

ٹھیک ہے تم خود ضرغام سے بات کر لو تمھارے پیچھے ہی کھڑا ہے۔

بڑی خانم نے حمیرا کے پیچھے کھڑا ضرغام بدر کو دیکھتے کہا۔

جو حمیرا کی ساری باتیں سن چکا تھا۔

وہ اپنے رویے کی معافی مانگنے بڑی خانم کے پاس آیا تھا جب غصہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو احساس ہوا کہ اسے ایسے بڑی خانم سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔

کیونکہ ایک یہی تو تھیں جن کی وہ بہت عزت کرتا تھا۔

حمیرا نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں ضرغام بدر ماتھے پر تیور لیے کھڑا تھا۔

چچی آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ ایک ہفتے پہلے میں نے اپنی بہن کو قبر میں اتارا اور ابھی تو اُسے گزرے دو ہفتے بھی نہیں ہوے اور آپ کو اپنی بیٹی کے نکاح کی پڑی ہے؟

اور میں نے کب کہا کہ میں اُس سے شادی کروں گا؟

ضرغام بدر نے حمیرا کو دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا۔

جو غصے سے اسے دیکھ رہی تھی۔

آگے سے کیا جواب دے اسے خود بھی سمجھ نہیں آرہا تھا،

کیونکہ ضرغام کی ایک ایک بات درست تھی۔

دیکھو ضرغام میں جانتی ہوں کہ یہ غلط ہے اتنی جلدی مجھے نکاح کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن تم نے اُس لڑکی سے بھی تو نکاح کیا۔

حمیرا نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے کہا۔

وہ لڑکی خون بہا میں یہاں آئی ہے میری پسند سے یہ نکاح نہیں ہوا اور اُس لڑکی کے ہونے یا نا ہونے سے مجھے فرق نہیں پڑتا۔

وہ پوری زندگی اسی حویلی کی ملازمہ بن کر رہے گی۔

اس کے علاوہ اگر کسی نے دوبارہ اُس کی بات میرے سامنے کی تو اگلی بار میں تحمل سے بات نہیں کروں گا۔

ضرغام بدر نے حمیرا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔

اس کے لہجے میں ایسا کچھ تو ضرور تھا کہ حمیرا کی زبان تالوں میں جھگڑ گئی تھی۔

بڑی خانم خاموشی سے کھڑی بدر کی باتیں سن رہی تھی۔

حمیرا بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی لیکن ایک بات کی تو اسے سمجھ آگئی تھی کہ ضرغام بدر کو انوشے کی پرواہ نہیں ہے اب وہ اس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتی ہے۔

بڑی خانم حمیرا کے جاتے ہی ضرغام نے نرم لہجے میں ان کا نام پکارا۔

ضرغام بدر خان نماز کا وقت ہو گیا ہے تم اب جا سکتے ہو مجھے نماز پڑھنی ہے،

خانم کہتے ہی وضو کرنے چلی گئیں۔

اور ضرغام جانتا تھا کہ وہ کیوں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی اس لیے خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔

امی آپ کو اتنی جلدی بڑی خانم اور ضرغام سے نکاح کی بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ تھوڑی دیر انتظار کر لیتی۔

نازیہ نے موبائل کان سے لگائے پریشانی سے کہا۔

مجھے کیا معلوم تھا ضرغام صاف انکار کر دے گا۔لیکن اتنا تو مجھے پتہ چل گیا ہے کہ انوشے کے ہونے یا نا ہونے سے اسے فرق نہیں پڑتا۔

حمیرا نے آہستگی سے کہا۔

امی یہاں بھی میں نے کچھ ایسا کھیل کھیلا کہ اُس کا باپ اور بھائی اُس کے مخالف ہو گیا ہے اب آپ اُس کے ساتھ کچھ بھی کریں کسی کو فرق نہیں پڑے گا۔

نازیہ نے مسکراتے ہوئے کہا،

تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ انعم تو ضرغام کے پیچھے پاگل ہوئی پڑی ہے۔ایک ہی ضد کیے بیٹھی ہے کہ اُسے ضرغام سے نکاح کرنا ہے۔

حمیرا نے پریشانی سے کہا۔

امی آپ پریشان مت ہوں میں اُس بیوقوف سے بات کرتی ہوں۔

نازیہ نے گہرا سانس لیتے کہا اور ایک دو مزید باتیں کرنے کے بعد موبائل بند کر دیا،

ابھی وہ پیچھے مڑی ہی تھی کہ اس کے مسکراتے چہرے پر ایک دم پریشانی نے لے لی۔

امی آپ؟ کوئی کام تھا؟

نازیہ نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے پوچھا۔

ورنہ صبا کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر تو لگ رہا راگ وہ ساری باتیں سن چکی ہے،

صبا نے اپنے قدم نازیہ کی طرف بڑھائے اور اسے بنا سنبھلنے کا موقع دیے بغیر ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر دے مارا۔

جس نے بےیقینی سے اپنی گال پر ہاتھ رکھے صبا کی طرف دیکھا،

کیا بگاڑا ہے میری بیٹی نے تمھارا؟ کیوں کیا تم نے اُس کے ساتھ ایسا؟ اتنا بڑا اُس پر الزام لگایا صرف اس لیے کہ تم اُس سے جلتی تھی۔تم نے انوشے کو اُسکے باپ اور بھائی کی نظروں میں گرایا اور جانتی ہو شاید اسی لیے آج تک اللہ نے تمہیں اولاد جیسی نعمت سے نہیں نوازا کیونکہ جب تمھارے دل میں دوسروں کی اولاد کے لیے اچھے خیالات نہیں ہے تو ناجانے تم اپنے بچوں کے ساتھ کیا کرو گی،صبا نے غصے سے چیختے ہوئے کہا،

آپ مجھے اولاد نا ہونے کا طعنہ دے رہی ہیں؟

نازیہ نے سارے باتوں کو نظر انداز کیے اس بات کو پکڑتے بےیقینی سے پوچھا۔

ہاں دے رہی ہوں۔اور میں اُس دن کو کوستی ہوں جب تم میرے بیٹے کی دلہن بن کر حویلی میں آئی۔

اور میں ابھی جا کر اقبال کو تمھارے ناپاک خیالات کے بارے میں بتاتی ہوں،

صبا نے سرخ آنکھوں سے نازیہ کو دیکھتے کہا اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے لیکن نازیہ فوراً ہوش میں آئی اور جلدی سے اس نے صبا کا ہاتھ پکڑے اسے روکنا چاہا لیکن اس کے کھینچنے پر صبا کے قدم بری طرح ڈگمگائے تھے۔اور وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور زمین پر جا گری لیکن پاس ہی جو ٹیبل پڑا تھا اُس کے شیشے کا کونا صبا کے سر کے پچھے زور سے جا لگا۔

آہ صبا نے کراہتے ہوئے اپنے سر پر ہاتھ رکھا،

جہاں سے روانگی کے ساتھ خون نکل رہا تھا۔

صبا کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا اور وہی زمین پر بےہوش ہو گئی۔

نازیہ نے آنکھیں پھلائے منہ پر ہاتھ رکھا۔

ی یہ کیا ہو گیا نازیہ نے خوفزدہ لہجے میں خود سے کہا۔

وہ فوراً آگے بڑھی اور صبا کو کندھے سے پکڑے ہلایا،

کہی یہ مر تو نہیں گئی،

نازیہ نے پریشانی سے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے کہا۔

نازیہ سوچ کچھ اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟

مجھے یہاں سے نکلنا چاہیے اس سے پہلے کوئی دیکھ لے نازیہ نے دل میں کہا اور فوراً سے پہلے وہاں سے بھاگی،

اور جاتے ہی اپنے کمرے میں بند ہو گئی وہ تو شکر تھا ملازمہ کچھ ہی منٹ بعد وہاں آگئی اور اس نے ملازمین کے ساتھ مل کر صبا کو ہسپتال پہنچانے کا کام سر انجام دیا۔

اور اقبال کے ساتھ جواد چوھدری کو بھی بتا دیا تھا۔

جو حویلی میں نہیں تھے۔

💜 💜 💜 💜

تم حویلی میں ہی تھی نا تو یہ سب کیسے ہو گیا؟ تمہیں امی کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔

اقبال نے نازیہ کو دیکھتے دانت پیستے غصے سے کہا۔

نازیہ اپنے نقلی آنسو بہا رہی تھی۔

وہ بھی ہسپتال آئی تھی جواد چہرے پر سنجیدگی لیے کھڑا تھا۔

مجھے کیا معلوم تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔

اب پتہ نہیں وہ کیسے گر گئی ہو سکتا ہے اُن کا پیر پھسل گیا ہو،

نازیہ نے پریشانی سے کہا اسے تو اس بات کی بھی فکر کھائے جا رہی تھی کہ اگر صبا کو ہوش آگیا اور اُس نے سچ بتا دیا تو اسکا کیا ہو گا۔

تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر باہر آیا تو اقبال نے فوراً اپنی ماں کا پوچھا۔

ایم سوری لیکن سر کے پچھے چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ کوما میں چلی گئی ہیں۔

ڈاکٹر نے اقبال کو دیکھتے بتایا۔

نازیہ نے یہ سنتے ہی سکون کا سانس لیا۔

ورنہ اس کی سانس اٹکی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر صاحب وہ کوما سے کب تک باہر آئے گی؟ اقبال نے بےتابی سے پوچھا،

اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

کوما سے باہر آنے کو وہ کل بھی آ سکتی ہیں لیکن میں میں کو کوئی امید نہیں دینا چاہتا کیونکہ کچھ لوگوں کو کوما سے باہر آنے کے لیے پوری زندگی بھی لگ جاتی ہے۔

اس لیے ہر صورتحال کے لیے آپ خود کو تیار رکھیں۔

ڈاکٹر نے تفصیل سے اقبال کو بتاتے ہوئے کہا۔

جواد چودھری خاموشی سے سب کچھ سن رہا تھا۔

اور نازیہ اب پرسکون تھی۔

ڈاکٹر نے مزید کچھ ہدایات دی اور پھر وہاں سے چلا گیا۔

بابا آپ حویلی چلے جائے میں اور نازیہ یہی پر ہیں۔

اقبال نے اپنے باپ کو دیکھتے کہا جو اپنے سر کو ہلکا سا خم دیتے وہاں سے چلا گیا۔

اقبال پوری رات میں ہسپتال میں کیا کروں گی؟

نازیہ نے اقبال کے پاس آتے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

اقبال نے اسے نظروں سے کچھ ایسے گھورا کہ اس نے اگلی کوئی بات نہیں کی اور آرام سے وہاں بینچ پر جا کر بیٹھ گئی۔

اقبال نے اپنے ماتھے کو دو انگلیوں سے سہلاتے کچھ سوچنے لگا۔

💜 💜 💜 💜

انوشے اُسی اندھیرے کمرے میں گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھی رو رہی تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے سرخ آنکھوں سے سامنے دیکھا۔

جہاں بڑی خانم کھڑی تھیں۔

ان کا چہرہ تو اسے نظر نہیں آیا تھا لیکن حلیے سے وہ پہچان گئی تھی۔کہ وہ کون ہے۔

انوشے چلو میرے ساتھ بڑی خانم نے سنجیدگی سے کہا۔

تو انوشے اپنی جگہ سے خاموشی کے ساتھ کھڑی ہوئی اور بڑی خانم کے ساتھ چل پڑی جب وہ دونوں باہر نکلی تو ضرغام چہرے پر پتھریلے تاثرات لیے کھڑا تھا اس کے پیچھے ہی انعم چہرے پر مسکراہٹ لیے کھڑی تھی،

جب اس نے بڑی خانم کو انوشے کے کمرے کی طرف جاتے دیکھا تو وہ فوراً ضرغام کے پاس گئی اور اسے بتایا کہ بڑی خانم انوشے کے پاس گئی ہیں انوشے پر اسے ویسے ہی غصہ تھا اس لیے فوراً اپنے کمرے سے باہر نکلا اور بڑی خانم کے پیچھے اس نے سر جھکائے چلتی انوشے کو دیکھا۔

انعم ضرغام اور انوشے کو دیکھ چکی تھی کہ وہ اسے کمرے میں چھوڑ کر گیا تھا۔

خانم آپ اسے کہاں لے کر جا رہی ہیں؟

ضرغام نے لہجے میں کرختگی لیے پوچھا۔

چوھدری صاحب کی حویلی سے فون آیا تھا، اسکی ماں ہسپتال میں ہے اور اُس کی حالت نازک ہے مجھے لگتا ہے اس وقت ایک بیٹی کو اپنی ماں کے پاس ہونا چاہیے۔

بڑی خانم نے ضرغام کو دیکھتے بتایا،

انوشے نے فوراً چہرہ اوپر کیے بےیقینی سے بڑی خانم کی طرف دیکھا۔

میری امی ٹھیک ہیں اُن کو کیا ہوا ہے؟

انوشے نے جلدی سے خانم کے پاس آتے پوچھا۔

اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی ضرغام بول پڑا تھا۔

یہ لڑکی کہی نہیں جائے گی،

ضرغام نے انوشے کے چہرے کی طرف دیکھتے اپنا حکم سنایا۔

لیکن ضرغام….. بڑی خانم نے کچھ کہنا چاہا۔

یہ میرا حکم ہے ضرغام نے دو ٹوک لہجے میں کہا اور حویلی سے ہی باہر نکل گیا،

اس کے جاتے ہی انعم بھی چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ لیے وہاں سے چلی گئی۔

خانم مجھے ہسپتال جانا ہے پلیز انوشے نے خانم کا ہاتھ پکڑے بےبسی سے روتے ہوئے کہا،

بڑی خانم نے اس کی بات سننے کے بعد ملازمہ کو آواز دی۔

اور اسے چادر لانے کا حکم دیا۔

جو تھوڑی دیر بعد چادر لے آئی تھی،

اس کو لو اور چلو میرے ساتھ بڑی خانم نے انوشے کو دیکھتے کہا جس نے جلدی دے چادر کو اوڑھا اور ان کے ساتھ چل پڑی۔

بڑی خانم انوشے کو حویلی کے باہر لے آئی جہاں ڈرائیور گاڑی کے پاس کھڑا تھا۔

بی بی جی کو ہسپتال لے جاؤ۔

یہاں پاس میں ایک ہی ہسپتال ہے یقیناً انوشے کی ماں کو وہی لے کر گئے ہوں گئے۔

بڑی خانم نے ڈرائیور کو دیکھتے کہا۔

جیسا آپ کا حکم بڑی خانم ڈرائیور نے نظریں جھکا کر کہا۔

ڈرائیور کے ساتھ ہی واپس آجانا زیادہ دیر مت کرنا۔

بڑی خانم نے انوشے کو دیکھتے کہا۔

جس کے چہرہ کھل اٹھا تھا اور بنا کچھ کہے بڑی خانم کے گلے لگ گئی۔

آپ کا بہت بہت شکریہ

انوشے نے کہا تو بڑی خانم نے اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔

جاؤ اب بڑی خانم نے کہا تو انوشے گاڑی کے اندر بیٹھ گئی۔

گاڑی حویلی سے باہر نکلی تو خانم نے چہرے پر حیرانگی لیے پیچھے کھڑے گارڈ کو مڑ کر دیکھا جنہوں نے انوشے کو روکا نہیں تھا،

خانم کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آگئی اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

انوشے ہسپتال پہنچی تو اس نے ریسیپشن پر اپنی ماں کا نام بتاتے انکے بارے میں پوچھا۔لیکن اسے اقبال نظر آگیا تھا،

انوشے جلدی سے اقبال کے پاس آئی اور اس سے صبا کے بارے میں پوچھا،

اقبال انوشے کو یہاں دیکھ کر حیران ہوا تھا۔

پھر اسے نازیہ کی کہی ہوئی بات یاد آئی تو اس کے چہرے کے تاثرات پل بھر میں تبدیل ہوئے تھے۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟

اقبال نے سرد لہجے میں پوچھا،

مجھے امی سے ملنا ہے وہ ٹھیک ہیں کیا؟

انوشے نے جلدی سے پوچھا،

اس وقت وہ جتنی پریشان تھی۔اقبال کے لہجے پر دھیان نہیں دے پائی۔

ٹھیک نہیں ہیں وہ کوما میں چلی گئی ہیں اور اب تم بھی یہاں سے چلی جاؤ میں تمھاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔

اقبال نے غصے سے انوشے کی کلائی کو پکڑتے کہا۔اور اسے ہسپتال سے باہر لے جانے لگا۔

انوشے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی،

بھائی مجھے امی کو دیکھنا ہے اور آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔

انوشے نے خود کو آزاد کرنے کی ناکام کوشش کرتے کہا،

ہسپتال کے باہر جاتے ہی اقبال نے اس کی کلائی کو چھوڑا اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی دو مضبوط ہاتھوں نے اسے کندھے سے تھاما تھا،

انوشے نے چہرہ اوپر کیے اپنے مسیحا کو دیکھا لیکن مقابل کو دیکھتے اس کی آنکھیں خوف کے مارے مزید پھیل گئی،

تمہیں منع کیا تھا نا اب سزا کے لیے بھی تیار رہنا۔ضرغام نے انوشے کی آنکھوں میں دیکھتے آہستگی مگر گھمبیر لہجے میں کہا اور اس کے کندھوں پر گرفت بھی مضبوط کی تھی۔

انوشے تکلیف کے مارے کراہ پڑی،

لے جاؤ اسے یہاں سے آج سے ہمارا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔

اقبال نے سرد لہجے میں کہا۔

لیکن اس کی بات نے ایک پل کے لیے ضرغام بدر کو بھی حیران کیا تھا۔

پلیز بھائی مجھے ایک بار امی کو دیکھنے دیں میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز

انوشے نے روتے ہوئے اپنے بھائی کو دیکھتے کہا اور اس کی طرف آنا چاہا لیکن ضرغام نے اسے بازو سے دبوچا تھا۔

چلو یہاں سے ضرغام نے سرد لہجے میں کہا اور بنا اس کی بات سنے اسے اپنی گاڑی کی طرف لے گیا۔

اور گاڑی کے اندر اسے بیٹھایا۔

ارد گرد کے لوگ ان کو دیکھ رہے تھے۔

انوشے نے بہت کوشش کی لیکن ضرغام گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔

آپ کیوں ایسا کر رہے ہیں مجھے بس ایک بار اپنی ماں کو دیکھنا ہے۔انوشے نے آنسو سے تر چہرہ ضرغام کے سپاٹ چہرے کی طرف کرتے پوچھا۔

ضرغام نے حویلی پہنچتے ہی گاڑی کو جھٹکے سے روکا اور دوسری طرف سے گاڑی کا دروازہ کھولتے انوشے کو بازو سے پکڑ کر باہر نکالا اور اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف لے گیا۔ انعم جو اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی اس نے دونوں کو دیکھا تھا۔لیکن حیرانگی اسے اس بات کی ہوئی تھی کہ بنا ضرغام کی اجازت کے اس حویلی سے انوشے کا باہر قدم رکھنا ناممکن تھا کیونکہ باہر کھڑے گارڈ صرف ضرغام بدر کا حکم مانتے ہیں تو وہ حویلی سے باہر کیسے جا سکتی تھی۔

اسے جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو اپنی ماں کے کمرے کی طرف قدم بڑھا دیے۔وہی اب اس کی پریشانی دور کر سکتی تھیں،

ضرغام بدر نے کمرے میں جاتے ہی انوشے کا ہاتھ چھوڑا جو بمشکل خود کو گرنے سے سنبھال پائی تھی،

جب میں نے تمہیں منع کیا تھا تو میری مرضی کے بغیر تم نے حویلی سے باہر قدم کیوں نکالا؟

تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرا حکم نا ماننے کی؟

ضرغام نے آگے بڑھتے انوشے کی نازک کلائی کو پکڑے اسے پیچھے کمر کے ساتھ لگاتے سرد لہجے میں پوچھا۔

میری ماں ہسپتال میں تھیں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھیں اور آپ نے مجھے روکا۔

کیوں میں آپ کی بات مانتی؟ انوشے نے خود کو آذاد کرواتے چیختے ہوئے کہا۔

لیکن ضرغام کی گرفت مضبوط تھی۔

مت بھولو کہ تم خون بہا میں یہاں آئی ہو میرا حکم ماننا تمھارا اولین فرض ہے سمجھی اور کوئی میرے سامنے زبان چلائے مجھے بلکل بھی پسند نہیں ہے خاص طور پر تمھارا میرے سامنے زبان چلانا۔

ضرغام نے انوشے کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد مہری سے کہا،

انوشے تکلیف کے مارے کراہ رہی تھی،

چھوڑیں میرا ہاتھ انوشے نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔

چھوڑ دوں؟

جو کام تم نے کیا ہے اُس کی سزا تو ملے گی نا اور آج سزا ملے گی تو دوبارہ کبھی میری بات نا ماننے کی غلطی نہیں کرو گی۔۔

ضرغام بدر نے سرد لہجے میں قہر برساتی نظروں سے انوشے کو دیکھتے کہا۔

آپ چاہتے کیا ہیں؟

کیوں مجھے پل پل تکلیف دے رہے ہیں؟ اگر آپ کو اپنی بہن کا بدلہ مجھ سے لینا ہے تو ایک بار میں ہی مجھے مار کیوں نہیں دیتے؟

انوشے نے روتے ہوئے ضرغام کو دیکھتے کہا۔جو اسے دھمکی دینے کے بعد گہرے سانس لیتے خود کو پرسکون کرنے لگا تھا۔

غصے میں وہ سب بول گیا تھا۔

ضرغام نے مڑ کر انوشے کی طرف دیکھا جس کا چہرہ کچھ ہی دنوں میں مرجھا سا گیا تھا۔

گہری آنکھیں اس وقت ویران سی لگ رہی تھیں۔بےشک سامنے کھڑی لڑکی بےحد خوبصورت تھی۔

آج پہلی بار ضرغام نے اس کو غور سے دیکھا تھا۔لیکن اس کے سر پر بدلے کا بھوت سوار تھا۔

موت تمہیں اتنی آسان لگتی ہے؟ نہیں موت مانگنا آسان ہے۔لیکن اگر ایسا ہوتا کہ کوئی بھی زبان سے موت مانگتا تو اُسے آجاتی تو آدھی دنیا اس وقت اوپر پہنچ چکی ہوتی۔

اور جانتی ہو کبھی کبھار موت سے زیادہ دردناک زندگی ہو جاتی ہے۔اور میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا۔

تم زندہ رہو گی۔تاکہ تکلیف کو. اچھے سے محسوس کر سکو۔

اور آج سے تم ساتھ والے کمرے میں رہو گی۔

جاؤ یہاں سے ضرغام نے رخ موڑے سرد لہجے میں کہا۔

انوشے خاموشی سے کھڑی آنسو بہا رہی تھی۔

اسے تو لگا تھا کہ ضرغام غصے میں کچھ کرے گا لیکن یہاں تو وہ اسے کمرے میں جانے کا کہہ رہا تھا۔

مجھے ایک بار امی سے ملنا ہے پلیز مجھے اُسے ملنے دیں۔

انوشے نے بےبسی سے کہا وہ جانتی تھی کہ کہنا بیکار ہے لیکن کوشش کرنے میں کیا برائی تھی،

جاؤ یہاں سے ضرغام نے اس کی بات سنتے کرختگی سے کہا۔

تو ناچاہتے ہوئے بھی انوشے کو وہاں سے جانا پڑا۔

ضرغام نے سرخ آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھا۔

اور جاکر کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔جہاں سے ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

تو تم کہہ رہی ہو ضرغام کے منع کرنے کے باوجود انوشے حویلی سے باہر گئی؟

لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ضرغام کی مرضی کے بغیر اُس کا باہر جانا ناممکن ہے۔

حمیرا کو انعم کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

عرفان جو خاموش بیٹھا دونوں کی باتیں سن رہا تھا نفی میں سر ہلاتے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور چلتا ہوا دونوں کے پاس آیا،

آپ دونوں اتنی بیوقوف کیسے ہو سکتی ہیں؟

اگر انوشے ضرغام کے حکم کے بغیر حویلی سے باہر نہیں جا سکتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ضرغام کے حکم پر ہی حویلی سے باہر گئی،

وہ چاہتا تھا کہ وہ ہسپتال جائے اس لیے تو کسی گارڈ نے آگے بڑھ کر اُسے روکا نہیں۔

عرفان نے اپنی ماں کی طرف دیکھتے کہا۔

کیا مطلب ہے تمھارے کہنے کا؟

ضرغام خود انوشے کو لے کر آیا ہے اور انعم بتا تو رہی ہے کہ وہ کس قدر غصے میں تھا مجھے تو لگتا ہے آج وہ انوشے کو ویسے ہی جان سے مار دے گا۔ حمیرا نے عرفان کو دیکھتے آنکھیں چھوٹی کرتے کہا۔

آپ دونوں سمجھدار بننے کی کوشش کرتی ہیں۔لیکن ہیں نہیں اب بس آگے دیکھو ہوتا ہے کیا،. عرفان نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

اور مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

اس کے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم بیوقوف ہیں؟

انعم نے عرفان کے جاتے اپنی ماں کو دیکھتے پوچھا،

مطلب نہیں وہ ہمیں بیوقوف ہی کہہ کر گیا ہے ماں کو بیوقوف بول کر گیا اس کی تو میں بعد میں کلاس لیتی ہوں۔

لیکن تم انوشے اور ضرغام پر نظر رکھو کیونکہ مجھے عرفان کی بات ٹھیک لگی ہے،

حمیرا نے سنجیدگی سے کہا،

انعم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔اور وہاں سے چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

انوشے اُس کمرے میں گئی اور بیڈ پر بیٹھے رونے لگی تھی۔

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے بھائی کو ہو کیا گیا ہے۔

وہ جانتی تھی کہ اقبال اسے پسند نہیں کرتا لیکن وہ اس سے اتنی نفرت کرتا ہے وہ اسے پتہ نہیں تھا۔

کہ اسے صبا کو دیکھنے تک نہیں دیا۔

بےشک وہ اقبال کی سگی بہن نہیں تھی لیکن وہ تو اسے دل سے اپنا بھائی مانتی تھی،

پھر بھی پتہ نہیں اُسے کیا ہو گیا تھا،

انوشے یہی سب سوچتے ہوئے آنکھیں موندے بیڈ سے سر ٹکائے بیٹھ گئی رونے کی وجہ سے اسکا سر درد کر رہا تھا۔

ٹھیک سے اس نے صبح کا کچھ کھایا بھی نہیں تھا۔جس کی وجہ سے اسے کمزوری بھی محسوس ہو رہی تھی۔

اس لیے وہی بیٹھ گئی ہولے ہولے اس کا جسم بھی کپکپا رہا تھا۔

انوشے صبا اور جواد چوھدری کی سگی بیٹی نہیں تھی۔

جب وہ چار سال کی تھی تو اکثر وہ اپنی ماں کے ساتھ حویلی آتی تھی۔

اس کی ماں صبا کی بہت اچھی دوست تھی،

اور دو گاؤں چھوڑ کر وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی،. انوشے کا باپ ایک غریب کسان تھا جس کی ایک حادثے میں موت ہو گئی۔

انوشے کی ماں صبا کے کہنے پر حویلی آتی تھی اسے انوشے بہت اچھی لگتی تھی اس نے اس بارے میں جواد چوھدری سے بات بھی کی۔

پھر ایک دن پتہ چلا کہ کچھ ڈاکوؤں انوشے کے گھر میں گھسے اور اس کی ماں کا قتل کر دیا۔

انوشے بہت چھوٹی تھی اور اُس دن وہ حویلی میں صبا کے پاس ہی رک گئی تھی،. یا تو یہ سچ میں ایک حادثاتی موت تھی یا کسی کی سازش لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں تھا،

انوشے کو پھر صبا نے گود لے لیا اور صبا نے اسے بہت محبت سے پالا اور انوشے جواد کو بابا اور صبا کو امی کہنے لگی۔

لیکن اقبال کو وہ اتنی اچھی نہیں لگی تھی۔

ایسے ہی وقت گزرتا گیا پھر ایک دن اس کے باپ نے اسے خون بہا میں ضرغام بدر کے حوالے کر دیا۔

وہ کون سی ان کی سگی بیٹی تھی جو جواد کو اس کا احساس ہوتا۔جو اب انوشے کو اچھے سے معلوم ہو گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

آدھی رات میں پیاس کی شدت سے انوشے کی آنکھ کھلی اس نے ارد گرد دیکھا ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

اور سر میں الگ سے درد ہو رہا تھا رونے کی وجہ سے آنکھیں سوجھی ہوئیں تھیں،

ساتھ درد الگ

انوشے اپنی جگہ سے اٹھی اور کمرے کا دروازہ کھولے اس نے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھا دیے حویلی میں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

ناجانے اسے اتنی بڑی حویلی میں کچن ملنا بھی تھا یا نہیں

ابھی وہ ارد گرد دیکھتے چل رہی تھی۔

جب کسی نے اس کے ہاتھ کو پکڑا۔

ڈر کے مارے انوشے جلدی سے پیچھے کی جانب مڑ کر. دیکھا جہاں عرفان آنکھوں میں چمک لیے کھڑا گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

سامنے عرفان کو دیکھتے انوشے پوری طرح خوف کے مارے کپکپا پڑی تھی۔

چھوڑو میرا ہاتھ انوشے نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔

بھابھی جی کیسے چھوڑ دوں ابھی تو موقع ملا ہے۔اور میں موقعے کو ضائع بلکل نہیں کرتا۔عرفان نے لہجے خباثت لیے کہا۔

انوشے اس قدر ڈر گئی تھی کہ اسے سمجھے نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔

اس سے پہلے عرفان مزید کچھ کہتا ایک مضبوط ہاتھ اسے اپنے کندھے پر محسوس ہوا تھا اس نے پیچھے مڑ دیکھا جہاں ضرغام بدر چہرے پر غضبناک تاثرات لیے کھڑا تھا،

ضرغام بدر تھوڑی دیر بعد ہی حویلی سے باہر نکل گیا تھا۔اور ابھی واپس آیا اور وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔اب عرفان کو ضرغام کے قہر سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔

بھائی آ آپ؟

عرفان نے فوراً انوشے کا ہاتھ چھوڑا اس کی زبان کپکپائی تھی۔

انوشے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی تھی۔

تمھاری ہمت کیسے ہوئی اُسے ہاتھ لگانے کی؟

ضرغام نے عرفان کا گریبان پکڑتے ایک زور دار مکا عرفان کے جبڑے پر مارتے دھاڑتے ہوئے کہا۔کچھ ملازمین بھی آواز سنتے وہاں آگئے اور پوری حویلی کی لائیٹ اون کی۔

ابھی عرفان اس مکے سے ہی نہیں سنبھلا تھا کہ عرفان کے اس کے جبڑے پر دوبارہ مکا مارا جو اوندھے منہ زمین پر جا گرا۔

منہ سے اس کے خون نکلنے لگا تھا۔آوازیں سن کر باقی سب لوگ بھی باہر آگئے۔

رات کا پہر تھا۔

انوشے ایک کونے میں دیوار کے ساتھ لگے اپنے ڈوپٹے کو زور سے پکڑے آنکھیں پھیلائے کھڑی تھی۔

ضرغام تم یہ کیا کر رہے ہو؟

میرا بچہ مر جائے گا،

حمیرا نے تکلیف دہ لہجے میں کہتے عرفان کی طرف اپنے قدم بڑھانے چاہے لیکن ضرغام بدر کی سرد اور سرخ آنکھیں دیکھتے اس نے اپنے قدم وہی روک لیے تھے۔

عرفان زمین پر پڑا کراہ رہا تھا جب ضرغام نے آگے بڑھتے اس کے پیٹ میں زور دار ٹھوکر دے ماری۔

آہ عرفان کے منہ سے تکلیف کے مارے چیخ نکلی تھی۔

خانم روکیں نا ضرغام کو عرفان مر جائے گا کتنی بے دربدری سے وہ میرے بچے کو مار رہا ہے۔

حمیرا نے بڑی خانم کے پاس آتے روتے ہوئے کہا۔

ضرغام کیوں تم عرفان کو مار رہے ہو کیا کیا اس نے ایسا جو تم اتنا بھڑک رہے ہو؟

بڑی خانم نے ضرغام بدر کے پاس آتے سنجیدگی سے پوچھا۔

یہ لڑکی خون بہا میں یہاں آئی ہے اس کے ساتھ وہی سب کچھ ہو گا جو ایک ونی میں آئی لڑکی کے ساتھ ہوتا لیکن اگر کوئی اس کی عزت کے ساتھ کھیلنا چاہے گا تو اس کی جان میں اپنے ہاتھوں سے لوں گا اور آپ کے بیٹے نے اسے ہاتھ لگا کر بہت بڑی غلطی کی۔

اس کی جان آج ہی میں اپنے ہاتھوں سے لوں گا تاکہ دوبارہ ہاتھ لگانا تو دور یہ انوشے کی طرف دیکھنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔۔ضرغام نے دھاڑتے ہوئے کہا۔

جب سے ضرغام کا نکاح انوشے کے ساتھ ہوا تھا اس نے آج پہلی بار اس کا نام لیا تھا۔

یہ جھوٹ ہے عرفان ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔

یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے۔

تم اس کی بات پر یقین کیسے کر سکتے ہو؟

تم تو عرفان کو اچھی طرح جانتے ہو۔

اور ہمیں کیا پتہ اس لڑکی کا کردار کیسا ہے ہو سکتا ہے یہ ایسے ہی اپنی اداؤں سے بھولے اور معصوم لڑکوں کو پھنساتی ہو۔

اور……

حمیرا کی زبان پر غصے میں جو کچھ آ رہا تھا بولتی جا رہی تھی۔

اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی ضرغام بدر نے جھکتے ہوئے عرفان کا وہی ہاتھ پکڑا جس سے اس نے انوشے کا ہاتھ پکڑا تھا اور اُسی ہاتھ کو اتنی زور سے مڑوڑا کہ عرفان کی دلخراش چیخیں وہاں گونجی۔

انعم نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے اپنی چیخ کا گلا گھونٹا تھا۔اس نے سنا تھا کہ ضرغام بدر بہت خطرناک انسان یے لیکن آج اس نے دیکھ بھی لیا۔

خبردار اگر کسی نے بھی اس کے کردار پر انگلی اٹھائی۔

آپ تو صحیح سے اپنی بیٹی تک کو نہیں جانتی تو اس لڑکی کے بارے میں اتنے بڑے اور اہم انکشاف کیسے کر سکتی ہیں؟

اس حویلی میں اگر کوئی مجھ سے اونچی آواز میں بات کرے مجھے بلکل بھی پسند نہیں ہے۔

آئندہ اگر کسی نے بھی کچھ ایسا کرنے کی کوشش کی جوکہ میری نظروں میں سراسر غلط ہے تو اُس کے ساتھ میں کیا کروں گا ابھی بتا کر کسی کو ڈرانا نہیں چاہتا۔اس لیے سب سنبھل کر رہیں۔

ضرغام نے سب کے چہروں کی طرف دیکھتے دو ٹوک الفاظ میں تنبیہ کرتے کہا۔خاص طور پر اس کا اشارہ حمیرا کی طرف تھا جو اچھے سے سمجھ گئی تھی۔

ضرغام چلتا ہوا انوشے کی طرف آیا اور اس کی کلائی کو پکڑے گھسیٹتے ہوئے اسے وہاں سے لے گیا۔

بڑی خانم خاموش کھڑی تھیں۔

اور حمیرا ملازمین کی مدد سے عرفان کو ہسپتال لے گیا تھا۔

جس کے ہاتھ کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔

💜 💜 💜 💜

مجھے دوبارہ گاؤں جانا چاہیے، کافی فن ہو. گئے ہیں۔

ناجانے پیچھے کیا حالات ہوں گئے۔

داؤد نے کافی کا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے پر سوچ لہجے میں کہا۔

لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے پیچھے سارے حالات کیسے بدل گئے ہیں اور اس کے کیے کی سزا کسی دوسرے معصوم کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔

لیکن داؤد تو ہر ایک چیز سے ناواقف تھا واپس جانے پر اس پر بہت سے انکشاف کھلنے والے تھے۔

اگر ضرغام کو اُن تصاویر کا پتہ چل گیا تو وہ میرے ساتھ کیا کرے گا؟

انعم نے کمرے میں آتے پریشانی سے وہاں چکر لگاتے خود سے کہا۔

عرفان کا حال دیکھ کر اسے اچھے سے سمجھ آگیا تھا کہ ضرغام بدر خان کتنا ظالم انسان ہے۔

اس نے جلدی سے اپنا موبائل پکڑا اور نازیہ کا نمبر ڈائل کیا۔

جس نے دوسری بیل پر ہی فون اٹھا لیا تھا۔

انعم نے ایک سانس میں ہی اسے ساری بات بتا دی۔

عرفان کیا ٹھیک ہے؟ نازیہ نے بےتابی سے پوچھا۔

امی اُسے ہسپتال لے کر گئی ہیں لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے اگر ضرغام کو اُن تصاویر کا پتہ چل گیا تو وہ مجھے جان سے مار ڈالے گا۔

انعم نے آہستگی سے کہا،

تم اس بارے میں اب بلکل بھی بات نہیں کرو گی اور پریشان مت ہو کچھ نہیں ہو گا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

پہلے خود کو پرسکون کرو،

ابھی تک تو ضرغام کو پتہ نہیں چلا اور آگے بھی نہیں چلے گا۔

کیونکہ ضرغام چوھدری خاندان سے نفرت کرتا ہے تو وہ کیسے اقبال یا بابا سے بات کر سکتا ہے اگر اُن کی تفصیل سے بات ہوئی تو پھر سچ سامنے آنے کا خدشہ ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہو گا۔

نازیہ نے انعم کو سمجھاتے ہوئے کہا،

آپ سچ کہہ رہی ہیں نا؟

انعم نے کنفرم کرنا چاہا کیونکہ آج جو اس نے ضرغام بدر کا روب دیکھا تھا وہ ڈر گئی تھی۔

ہاں میں سچ کہہ رہی ہوں اور اپنی بہن پر یقین رکھو۔

کچھ نہیں ہو گا۔ نازیہ نے اسے حوصلہ دیتے کہا۔

ٹھیک ہے آپی میں اب فون رکھتی ہوں امی کو بھی کال کرنی ہے ۔انعم نے تھوڑا پرسکون لہجے میں کہا اور پھر اس نے کال بند کر دی۔

اور اپنی ماں کو فون کرنے لگی۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام انوشے کو اس کے کمرے میں لے آیا تھا کمرے میں آتے اس نے انوشے کو اُسی بازو سے کھینچ کر خود کے قریب کیا۔

تم کیا اتنی کمزور ہو کہ اپنی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتی؟

آئندہ اگر تم نے کسی کو بھی خود کے قریب بھٹکنے دیا تو میرے قہر سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا،

ضرغام نے سرخ آنکھوں سے انوشے کی سہمی ہوئی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

م میں…. انوشے نے کمزور سی آواز می صرف اتنا ہی کہا اس سے خوف کے مارے بولا نہیں جا رہا تھا۔

اتنا ڈر اسے ضرغام سے کبھی بھی نہیں لگا جتنی آج اور ابھی لگ رہا تھا۔

کیا میں؟

م میں نے ک کچھ ن نہیں کیا۔

انوشے نے کپکپاتے لہجے میں بمشکل کہا۔

تم کچھ کر بھی نہیں سکتی۔

ضرغام نے انوشے کے بازو کو چھوڑتے ہوئے کرختگی سے کہا۔

اور کمرے سے نکل گیا۔

انوشے نے دروازے کی طرف دیکھا۔

جہاں سے ضرغام باہر گیا تھا۔اسے سمجھ ہیں آ رہی تھی کہ ضرغام اتنا غصہ کیوں کر رہا ہے۔وہ تو اسے سخت ناپسند کرتا ہے۔

انوشے وہی بیڈ کے کنارے بیٹھے کچھ دیر پہلے جو کچھ بھی ہوا اُس کے بارے میں سوچنے لگی۔

💜 💜 💜 💜

تمھاری ہمت کیسے ہوئی حویلی میں قدم رکھنے کی؟ تمھاری وجہ سے جانتے بھی ہو پورے گاؤں کے سامنے مجھے ذلیل ہونا پڑا اور اگر ضرغام نے تمہیں دیکھ لیا تو وہ تمھارے اپنے ہاتھوں سے جان لے لے گا۔

جواد چوھدری نے داؤد کو دیکھتے غصے سے کہا۔

جو ابھی حویلی آیا تھا۔

بلیک سوٹ پہنے کندھے پر سکن کلر کی چادر رکھے چہرے پر ہمشیہ کی طرح سنجیدگی لیے کھڑا تھا۔

اور جواد کو جب ملازم نے بتایا کہ داؤد آیا ہے تو وہ پہلے حیران ہوا پھر حیرانگی کی جگہ غصے نے لے لی۔

اقبال بھی اپنے باپ کے ساتھ بات کر رہا تھا جب اس نے اپنے چچا کا سنا،

اس کا باپ بات کر رہا تھا اس لیے اس کا بولنا بیکار تھا۔

صبا کو ڈاکٹر کے کہنے پر گھر لے آئے تھے۔

ملازمہ ہی ان کا خیال رکھ رہی تھی۔

جواد کی آواز سنتے نازیہ بھی وہاں آگئی اور داؤد کو دیکھ کر حیران ہوئی اور اقبال کے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔

جب میں نے کچھ غلط کیا نہیں تو میں کیوں کسی سے گھبراؤ؟

غلطی ہوئی مجھ سے جو میں نے اُس بیوقوف کی بات مانی۔اور مصیبت اپنے سر ڈال لی۔

داؤد نے سنجیدگی سے جواد کو کہا۔

تم کتنی بےشرمی سے کہہ رہے ہو کہ تم نے کچھ نہیں کیا؟

تم نے ضرغام بدر کی بہن کا قتل کیا ہے، اور قتل کرنے کے بعد بھی تم کہہ رہے ہو تم نے کچھ نہیں کیا؟

جواد نے دھاڑتے ہوئے کہا۔

اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔

لیکن میں نے کچھ نہیں کیا۔

داؤد ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھا۔

تم نے ہمارے خاندان کا تماشہ بنا دیا داؤد

تم نے اچھا نہیں کیا۔

جواد کا لہجہ آخر میں بےبس ہوا تھا۔

انوشے کہاں ہے؟

داؤد نے ارد گرد دیکھتے پوچھا،کیونکہ وہ اتنا تو جان گیا تھا صفائی دینا بیکار ہے۔اور کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بتاتا کہ وہ خود کتنی تکلیف میں ہے۔لیکن کسی کو بھی اس کی پرواہ نہیں تھی۔

انوشے کے ذکر پر سب لوگ خاموش ہو گئے تھے۔

میں نے کچھ پوچھا ہے؟ انوشے کہاں ہے؟

داؤد نے دوبارہ سے اپنا سوال دہرایا۔اسے خبر تو مل گئی تھی پھر بھی اپنے بھائی کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔

آپ کے غائب ہونے کے بعد ضرغام بدر نے خون بہا میں انوشے کو مانگا اور اُس کے ساتھ نکاح کیے اُسے ساتھ لے گیا۔

نازیہ نے داؤد کو دیکھتے بتایا،

کیا؟ اور آپ لوگوں نے یہ سب ہونے دیا؟

آپ انوشے کو اُس کے حوالے کیسے کر سکتے ہیں؟

داؤد نے لہجے میں بےیقینی لیے پوچھا،

کیونکہ جو خبر اسے ملی تھی۔اسے لگا وہ جھوٹ ہے۔

تمہاری وجہ سے یہ سب ہوا ہے اور ایک نا ایک دن تو اُس کی شادی ہونی ہی تھی تو اب ہو گئی،

جواد نے عام لہجے میں کہا پہلے وہ انوشے کو اس وجہ سے واپس لانا چاہتا تھا تاکہ ضرغام کو نیچا دکھا سکے لیکن اب اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

انوشے آپ کی بیٹی ہے،

آپ کیسے اُس کے ساتھ اتنی بڑی ناانصافی کر سکتے ہیں؟

داؤد کو جواد کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

داؤد یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے مت بھولو کہ تمھارے کیے کی سزا وہ بھگت رہی ہے،

جواد چودھری نے گردن اکڑا کر کہا۔

آپ ایک بار اُس سے بات تو کرتے پیسے بھی تو دے سکتے تھے۔

میرے حصے کی ساری پراپرٹی ضرغام بدر کو. دے دیتے لیکن آپ نے ایک ایسا نہیں کیا۔

کیوں؟

داؤد کا اب میٹر گھوم گیا تھا۔

وہ ساری پراپرٹی مانگ رہا تھا میں کسی غیر کے لیے اپنی ساری پراپرٹی ضرغام کے حوالے نہیں کر سکتا۔

اور اب انوشے سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے،

ضرغام پہلے سے ہماری پیٹھ پیچھے انوشے سے ملتا تھا۔

جواد چوھدری نے رخ موڑے کہا۔

آپ کیسے اس قسم کا بےہودہ الزام لگا سکتے ہیں۔

بےشک وہ آپ کی سگی بیٹی نہیں ہے لیکن اتنے سال تک وہ اس حویلی میں رہی آپ کو اپنا باپ مانتی ہے اور آپ اُس کے ساتھ ایسا کر رہے،

لیکن آپ سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے میں خود ضرغام سے بات کر لوں گا میں اُسے وہاں بلکل بھی نہیں رہنے دوں گا۔

داؤد نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

اور وہاں سے جانے کے لیے مڑا جب جواد کی بات نے اس کے قدموں کو روکا تھا۔

اگر تم ضرغام کے سامنے گئے تو وہ تمھیں مار ڈالے گا۔

مجھے فرق نہیں پڑتا اگر مجھے انوشے کو واپس لانے کے لیے اپنی جان کی بازی بھی لگانی پڑی تو میں لگا دوں گا،

لیکن آپ لوگوں جیسا بےحس انسان نہیں بن سکتا۔

داؤد نے سرد لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

کر لو کوشش اگر زندہ بچ گئے تو پھرسے ملاقات ہو گی۔

جواد نے طنزیہ لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا۔لیکن نازیہ کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات آگئے تھے۔

اگر داؤد کو حقیقت پتہ چل گئی تو؟ لیکن اس وقت وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔

جواد اور داؤد دونوں بھائی تھے لیکن داؤد جواد سے پندرہ سال چھوٹا تھا۔

اور ضرغام بدر کا ہم عمر تھا۔

لیکن جواد اور داؤد دونوں کی عادتوں کی زمین آسمان کا فرق تھا۔

داؤد ہمشیہ وہی کرتا جو اد کا دل کرتا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

داؤد سیدھا ضرغام کی حویلی آیا تھا۔

ضرغام جو حویلی سے باہر نکل رہا تھا سامنے کھڑے داؤد کو دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا اور اس نے اپنے قدم داؤد کی طرف بڑھائے اور اس کے گریبان کو دبوچا۔

داؤد نے خاموش نظروں سے ضرغام کو دیکھا۔

یہ تمھاری آخری غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں آئندہ اگر تم میرے گریبان تک آئے تو تمھاری جان لے لوں گا۔

داؤد نے ضرغام بدر کے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹکتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔ماتھے پر بل گہرے ہوئے تھے۔

تمھارے جیسے بےغیرت انسان کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتی۔

کیوں تم نے میری بہن کا قتل کیا؟

اور اب بےشرمو کی طرح میرے سامنے کھڑے ہو؟

ضرغام نے دھاڑتے داؤد کے منہ پر مکا مارتے کہا جس نے اپنے ہونٹ سے نکلتے خون کو ہاتھ کے ساتھ صاف کیا۔ اور جبڑے بھینچے اس نے ضرغام کی طرف دیکھا۔

اور آگے بڑھتے ضرغام کے منہ پر مکا دے مارا۔

میں نے تمھاری یہ بہن کا قتل نہیں کیا۔

اگر کوئی ثبوت ہے تو مجھے دکھاؤ

اور بنا ثبوت کے تم مجھ پر الزام نہیں لگا سکتے۔

داؤد نے بھی دھاڑتے ہوئے کہا۔

ثبوت؟

میری بہن کو تم اغوا کرکے لے کر گئے تھے۔

اُس کے بعد اُس کی لاش ملتی ہے۔

اس کے بعد بھی تمہیں ثبوت کی ضرورت ہے؟

ضرغام نے قہر برساتی نظروں سے داؤد کو دیکھتے کہا۔

میں نے اُسے اغوا نہیں کیا نا اُس کا قتل کیا،

اور میں یہاں تمھارے ساتھ بحث کرنے نہیں آیا۔

انوشے کو لینے آیا ہوں۔داؤد نے سنجیدگی سے کہا۔

میری بہن کو واپس کر دو انوشے کو آذاد کر دوں گا،

ضرغام نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے میں انوشے کو لیے یہاں سے کہی نہیں جاؤں گا۔

داؤد ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھا۔

اس سے پہلے ضرغام مزید کچھ کہتا بڑی خانم ملازمہ کے بتانے پر باہر آئی تھیں۔

اور دونوں کی حالت دیکھ کر ان کو حالات کچھ ٹھیک نہیں لگے تھے۔

تم دونوں اندر چل کر بات کرو۔

بڑی خانم نے دونوں کے چہروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

میری بہن کا قاتل میری حویلی میں ایک قدم بھی نہیں رکھے گا۔

اس کی تو میں اپنے ہاتھوں سے جان لے لوں گا۔

ضرغام نے اپنے قدم داؤد کی طرف بڑھاتے ہوئے سرد مہری سے کہا۔

ضرغام بدر کیوں ہم سب کا تماشا بنا رہے ہو؟

بڑی خانم نے غصے سے کہا۔

تماشا اس انسان نے ہم سب کا بنا دیا ہے۔ضرغام نے سرخ آنکھوں سے بڑی خانم کی طرف دیکھتے کہا۔

تمھاری حویلی کے اندر جانا تو دور میں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔

داؤد نے ضرغام کو دیکھتے جبڑے بھینچے کہا اور چلتا ہوا بڑی خانم کے پاس آیا۔

بڑی خانم میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔

لیکن میں یہاں انوشے کو لینے آیا ہوں۔

وہ بےقصور ہے، معصوم ہے۔

داؤد نے بڑی خانم کے سامنے آتے نرم لہجے میں کہا۔

میری بچی بھی تو معصوم تھی داؤد پھر کیوں تم نے اُس کی جان لی؟

بڑی خانم کا لہجہ آج پہلی بار نم ہوا تھا۔

میں نہیں جانتا کہ آپ کو میری بات پر یقین آئے گا یا نہیں لیکن میں نے اُسے قتل نہیں کیا ابھی میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن ایک دن میں ضرور آپ کو بتاؤں گا کہ میں بےقصور ہوں۔

لیکن انوشے کو میں یہاں نہیں چھوڑ سکتا۔اور اگر مان بھی لیں بقول آپ سب کے کہ ضرغام کی بہن کا قتل میں نے کیا تو میرے کیے کی سزا وہ کیوں بھگتے؟ میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں میری جان لے لیں لیکن انوشے کو چھوڑ دیں۔

داؤد نے بڑی خانم کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

ایک پل کے لیے وہ بھی داؤد کے چہرے کے تاثرات دیکھتے حیران ہوئی تھی جس کے لہجے میں صاف واضح تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے،

بڑی خانم کو خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

انوشے جو باہر آوازیں سن کر آئی تھی دروازے سے باہر نہیں آئی لیکن اپنے چچا کو دیکھ کر وہ خوش ہوئی تھی اور ان کی باتوں میں سچائی واضح تھی کہ ضرغام کی بہن کا قتل اس نے نہیں کیا،

جو اسے پہلے تھوڑا بہت شک تھا وہ بھی دور ہو گیا تھا۔

اس کا دل پہلے دن سے ہی کہہ رہا تھا کہ اس کے چچا بےقصور ہے۔

انوشے باہر نہیں آئی تھی وہی دروازے کے اندر کھڑی باتیں سن رہی تھی۔

انوشے اب اس حویلی سے کہی نہیں جائے گی اور تمھاری لاش بھی اب اس حویلی سے باہر جائے گی۔

ضرغام نے داؤد کے پاس آتے سرد لہجے میں کہا۔

اور تمہیں لگتا ہے میں اپنی جان پلیٹ میں رکھ کر تمھارے حوالے کر دوں گا؟

تم مجھے ہاتھ لگا کر تو دیکھو داؤد نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔

تم……

اس سے پہلے دونوں پھر ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچتے بڑی خانم دونوں کے درمیان آئی تھیں۔

داؤد اگر تم نے کچھ نہیں کیا تو اپنی بےگناہی کا ثبوت دو۔

اور اگر تم سچ میں بےقصور ہوئے تو انوشے کو میں خود تمھارے حوالے کرو گے لیکن اس وقت جاؤ تم بڑی خانم نے داؤد کو دیکھتے کہا۔

ٹھیک ہے اور آپ اپنی بات پر قائم رہیں گا میں انوشے کو لینے ضرور آؤں گا،

داؤد نے قہر برساتی نگاہ ضرغام بدر پر ڈالتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

میں نے آپ کو کہا تھا کہ میرے معاملات میں دخل اندازے مت کریں اور وہ لڑکی یہاں سے کہی نہیں جائے گی۔ضرغام نے سرد لہجے میں کہا،

اور اگر داؤد سچا ہوا تو؟

بڑی خانم نے چیلنجنگ انداز میں ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

میں ان فضول باتوں پر یقین نہیں کرتا جو میری نظروں کے سامنے ہے وہی سچ ہے،

اور اُس داؤد کو تو میں اپنے ہاتھوں سے ماروں گا،

ضرغام نے خانم کو دیکھتے کہا اور وہاں سے چلا گیا،

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے کچھ تو ایسا ضرور ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے،

لیکن کیا؟ بڑی خانم نے دل میں سوچا،اور اندر کی جانب قدم بڑھا دیے۔

💜 💜 💜 💜

حمیرا ہسپتال سے غصے سے بھری حویلی آئی تھی۔

غصہ اسے انوشے پر آ رہا تھا جس کی وجہ سے اس کے بیٹے کو تکلیف پہنچی تھی اور شکر تھا کہ عرفان کے ہاتھ کی ہڈی نہیں ٹوٹی تھی۔لیکن اُس کا ہاتھ سوجھ گیا تھا۔

امی بھائی کیسا ہے؟ وہ ٹھیک ہے؟

انعم نے حمیرا کو دیکھتے فوراً پوچھا،

عرفان کو وہ کمرے میں چھوڑ دیا تھا وہ آرام کر رہا تھا۔اس لیے انعم کو لگا کہ وہ ابھی تک ہسپتال میں ہے۔

جتنا ضرغام نے اُسے مارا اُس کے بعد بھی میرا بچہ زندہ ہے یہ بھی شکر ہے اوپر والے کا۔

لیکن اُس لڑکی کی میں جان لے لوں گی۔

حمیرا نے سرد لہجے میں کہا اور اپنے قدم انوشے کے کمرے کی طرف بڑھا دیے۔

امی آپ کیا کرنے والی ہیں؟ اگر ضرغام کو پتہ چل گیا تو وہ ناجانے کیا کرے گا۔

انعم نے پریشانی سے کہا وہ ابھی بھی ضرغام سے خوفزدہ تھی۔

بھاڑ میں جائے ضرغام میں کسی سے نہیں ڈرتی حمیرا نے کہا۔

اور انوشے کے کمرے کی طرف چلی گئی۔

انعم نے ایک بار پھر سے اپنی ماں کو روکنے کی کوشش کی لیکن حمیرا اُس کی سن نہیں رہی تھی۔

حمیرا نے زور سے انوشے کے کمرے کا دروازہ کھولا جو بیٹھی داؤد کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔

دروازہ کھلنے پر انوشے نے نظریں اٹھائے سامنے دیکھا جہاں حمیرا چہرے پر خطرناک تاثرات لیے اس کی طرف آئی اور اسے بنا سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اسے بالوں سے دبوچا انوشے تکلیف کے مارے کراہ پڑی تھی،

تو ہی ہے سارے فساد کی جڑ تیری وجہ سے آج میرا بیٹا اس حالت میں ہے،

حمیرا نے چیختے ہوئے کہا۔

انعم بھی کمرے میں آگئی تھی اسے انوشے کی تکلیف سے کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔

اسے صرف ضرغام کا خوف تھا۔

اگر وہ آگیا تو کیا کرے گا۔

تجھے تو پہلے دن ہی مار دینا چاہیے تھا۔

جب تو نے حویلی میں اپنا منحوس قدم رکھا۔

اُسی دن سے ہمارے لیے بھی مصیبتیں لے آئی۔

آج تو میں تیری اپنے ہاتھوں سے جان لے لوں گی۔

انعم دروازہ بند کر حمیرا نے انعم کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا جس نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا تھا۔

انوشے تکلیف کے مارے کراہ رہی تھی اسے لگ رہا تھا جیسے اس کے بال جڑ سے اتر جائیں گئے۔

وہ خود کو آذاد کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

امی….. انعم نے کچھ کہنا چاہا جب حمیرا نے اسے سرد نظروں سے گھورا۔

اور انوشے کو زور سے پیچھے دھکا دیا جس کا سر دیوار کے ساتھ جا لگا تھا۔اور وہی زمین پر اپنا سر پکڑے بیٹھ گئی۔

حمیرا پھر سے انوشے کی طرف بڑھی۔

جس نے آنکھوں میں خوف لیے حمیرا کو. دیکھا تھا۔

جس نے غصے سے انوشے کا سر پکڑے زور سے دیوار کے ساتھ دے مارا۔

انوشے کی دلخراش چیخ کمرے میں گونجی تھی۔

انوشے نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا اس کے دائیں کان سے تھوڑا اوپر کی طرف سے خون نکلنے لگا تھا۔

جو دیوار پر بھی لگا تھا۔

انوشے کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔

امی چلیں یہاں سے انعم نے دیوار پر لگے خون کو دیکھتے خوفزدہ لہجے میں کہا۔

میں یہاں سے کہی نہیں جاؤں گی۔

حمیرا نے غصے سے کہا۔

امی چلیں یہاں سے انعم نے پریشانی سے کہا ؛ور زبردستی اپنی ماں کو گھسیٹتے کمرے سے باہر لے گئی۔

انعم اپنی ماں کو بازو سے پکڑے زبردستی کمرے سے لے کر باہر نکلی لیکن ان کی قسمت خراب کہ سامنے ہی ضرغام کھڑا تھا چونکہ ضرغام کا کمرہ انوشے کے کمرے کے ساتھ تھا تو وہ اپنا موبائل بھول گیا تھا اور وہی لینے واپس آیا جب اس نے انعم اور حمیرا کو انوشے کے کمرے سے نکلتے دیکھا،

انعم تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟ضرغام نے سنجیدگی سے انعم کو دیکھتے پوچھا۔اور چلتا ہوا ان کے پاس آیا۔

حمیرا بھی سامنے ضرغام کو دیکھتے سہم گئی تھی، غصہ ایک سیکنڈ میں ہوا تھا۔

و وہ ہم دونوں تو گزر رہے تھے یہاں سے انعم نے جلدی سے ارد گرد دیکھتے کہا۔

اور اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے وہاں سے جانے لگی،

رکو….. ضرغام نے سرد لہجے میں کہا تو دونوں کے قدموں کو بریک لگی۔

کیونکہ دونوں کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھی۔اس لیے ضرغام کو لگا کہ ضرور انہوں نے کچھ نا کچھ کیا ہے۔

کیا ہوا ضرغام؟ انعم نے اپنا حلق تر کرتے پوچھا۔

جب تک میں نہیں کہتا آپ دونوں یہاں سے زرا سی بھی حرکت نہیں کریں گیں،

ضرغام نے کہا اور خود چلتا ہوا انوشے کے کمرے کے اندر کی جانب بڑھا،

ضرغام کو اندر جاتے دیکھ دونوں ماں بیٹی کے چہرے پر خوف کا سایہ لہرایا تھا۔

ضرغام نے کمرے کے اندر قدم رکھا اور انوشے کو بے سدھ زمین پر پڑا دیکھ اس کے ماتھے کے بل گہرے ہوئے اور جلدی سے آگے بڑھتے اس نے پہلے آواز دیتے انوشے کو ہوش میں لانا چاہا لیکن پھر اس کی نظر دیوار پر لگے خون پر پڑی۔اس وقت اسے انوشے کی حالت قابلِ رحم لگی تھی۔

ضرغام خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے اس نے جلدی سے انوشے کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لیٹاتے ملازمہ کو آواز دی،

اس کی آواز میں دھاڑ ایسی تھی کہ باہر کھڑی حمیرا اور انعم دونوں کپکپا گئی تھیں،

ملازمہ نے ضرغام کی آواز سنی اور جلدی سے اندر آئی۔

اور انوشے کو دیکھتے پریشانی سے اس نے جبڑے بھینچے کھڑے ضرغام کو دیکھا۔

ڈاکٹر کو کال کرو اور ڈاکٹر میل نہیں ہونا چاہیے،

ضرغام نے سرد لہجے میں حکم دیتے کہا۔

جی صاحب ملازمہ کہتے ہی ڈاکٹر کو فون کرنے چلی گئی۔

ضرغام کی دھاڑ سنتے بڑی خانم بھی کمرے میں آگئی تھیں انہوں نے باہر کھڑی حمیرا اور انعم کو دیکھا تو ان دونوں کو بھی اندر آنے کا کہا لیکن جب وہ اندر آئی تو ان کے تاثرات حیرانگی میں بدل گئے اور فوراً انوشے کے پاس گئی۔

اسے کیا ہوا؟

بڑی خانم نے ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

یہ آپ ان سے پوچھیں ۔ضرغام نے اپنے قدم دونوں کچھ فاصلے پر کھڑی ماں بیٹی کی طرف بڑھاتے سرد لہجے میں کہا،

وہ حمیرا نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اتنا ہی کہا جب ملازمہ کے ساتھ فی میل ڈاکٹر اندر کمرے میں داخل ہوئی۔ڈاکٹر کا کلینگ پاس ہی تھا اس لیے جلدی آگئی تھی۔

ضرغام نے رخ موڑ لیا بلکہ کمرے سے ہی باہر نکل گیا۔

تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر باہر آئی۔

بڑی خانم بھی اس کے ساتھ ہی تھیں،

گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے آپ کی وائف اب ٹھیک ہیں۔

زخم زیادہ بڑا نہیں تھا اس لیے میں نے پٹی کر دیں ہے۔کچھ دیر بعد ان کو ہوش آجائے گا۔

ڈاکٹر نے ضرغام کو دیکھتے کہا،

جو وائف کے لفظ پر گہرا سانس بھر گیا تھا۔

ضرغام کے کمرے سے نکلنے کے بعد انعم اور حمیرا باہر نہیں آئی تھیں۔کیونکہ وہ ضرغام کے غصے کے بارے میں سوچ کر بچنے کا کوئی طریقہ سوچ رہی تھیں۔جو انکو مل نہیں رہتا تھا۔

تھینک یو ڈاکٹر ان کو باہر تک چھوڑ آؤ ضرغام نے ملازمہ کو دیکھتے بھاری لہجے میں کہا۔اور ڈاکٹر کے جانے کے بعد ضرغام چلتا ہوا حمیرا کے پاس آیا جو بڑی خانم کے پیچھے کھڑی تھی،

کیا کیا آپ نے انوشے کے ساتھ؟

ضرغام نے کرختگی سے پوچھا۔

میں نے بس اُس لڑکی کو اُس کی اوقات یاد دلائی اُس کی وجہ سے میرا بیٹا اس حالت میں ہے حمیرا نے اپنے خوف کو سائیڈ پر رکھتے کہا۔

کیسی ماں ہیں آپ؟

آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ عرفان نے کیا حرکت کی اور ابھی بھی آپ کو اپنا بیٹا ٹھیک لگ رہا ہے؟ شکر کریں میں نے اُسے جان سے نہیں مار دیا۔

ضرغام بدر نے دھاڑتے ہوئے کہا۔آنکھیں پل بھر میں سرخ ہوئی تھیں۔

ضرغام تم ایک پرائی لڑکی کے لیے اتنے فکرمند کیوں ہو رہے ہو؟

مت بھولو وہ خون بہا میں یہاں آئی ہے اور تمھاری بہن کا قتل اس کے چچا نے ہی کیا،

حمیرا نے ضرغام کی دکھتی رگ کو چھیڑتے ہوئے کہا۔

تو آپ کے کہنے کا مطلب ہے…. ضرغام نے ایک قدم حمیرا کی طرف بڑھاتے ٹھنڈی لہجے میں مزید کہا۔

حمیرا اس کے لہجے میں سرد مہری محسوس کرتے ایک قدم پیچھے ہوئی تھی۔

انعم اور بڑی خانم کھڑے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

اگر وہ خون بہا میں آئی ہے تو اس کا مطلب آپ کا نالائق بیٹا اُسے اپنے ناپاک ہاتھ لگائے گا؟

آج میں آپ سب پر واضع کرنا چاہتا ہوں۔اگر کسی نے بھی انوشے کو ہاتھ لگایا تو اُس کے ہاتھ توڑنے میں دیر نہیں لگاؤں گا۔

جو بھی کرنا ہو گا میں خود کر لوں گا کسی اور کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اُسے ہاتھ لگائے اور آپ دونوں انوشے کے ہوش میں آتے ہی اُس سے معافی مانگیں گئی۔

ضرغام نے رخ موڑے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے حکم دیتے کہا۔

ضرغام تم چاہتے ہو کہ میں اُس لڑکی سے معافی مانگو؟ ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔

حمیرا نے لہجے میں بےیقینی لیے کہا۔

انعم اور بڑی خانم کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا انکو امید نہیں تھی کہ ضرغام ایسی کوئی بات کرے گا۔

غلطی آپ کی ہے تو معافی بھی آپ مانگے گی اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو اس حویلی سے جا سکتی ہیں۔

کیونکہ ضرغام بدر خان کو وہ لوگ بلکل بھی پسند نہیں ہیں جو اُس کی بات نہیں مانتے۔

ضرغام نے بےتاثر لہجے میں کہا۔

ضرغام تم مجھے میرے ہی گھر سے نکال نہیں سکتے، یہ میرا اور میرے بچوں کا بھی گھر ہے۔

حمیرا نے آنکھیں پھیلائے کہا۔اسے اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔

آج تو ضرغام بدر کا الگ ہی روپ دیکھنے کو مل رہا تھا۔

بڑی خانم سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ضرغام بدر کرنا کیا چاہ رہا ہے۔

آپ شاید بھول رہی ہیں۔

ضرغام نے حمیرا کی طرف دیکھتے تمسخرانہ انداز میں کہا۔

چچا کی وفات کے بعد آپ نے حویلی میں سے اور ہر جگہ سے اپنا حصہ نا نا معاف کیجئے گا چچا کا حصہ لے لیا تھا تاکہ آپ اپنے بیٹے کو باہر بھیج سکیں اور وہاں باہر کوئی بزنس سٹارٹ کر سکے تو آپ کے بیٹے نے تو باہر جاکر سارے پیسے جوئے میں لگا دیے اور ہار گیا۔

تو اب آپ کا اور آپ کے بچوں کا نا حویلی میں کوئی حصہ ہے نا زمینوں میں تو ان سب چیزوں کو اب صرف اور صرف ایک ہی مالک ہے اور وہ ہے ضرغام بدر خان یہاں وہی ہو گا جو ضرغام چاہے گا،

اس لیے آپ کے پاس انوشے کے ہوش میں آنے تک کا وقت ہے اچھی طرح سوچ لیں اُس سے معافی مانگنی ہے یا حویلی سے جانا ہے۔

ضرغام بدر خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

بڑی خانم بنا کچھ کہے انوشے کے کمرے کی طرف چلی گئی اور حمیرا چہرے پر بےیقینی لیے انعم کو دیکھ رہی تھی۔

ضرغام جتنا بھی سنگدل ہو لیکن وہ ایک چیز کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی بھی کسی لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کرے اور ایک بار اس کے گاؤں میں ایک لڑکے نے کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تو اس نے پورے گاؤں والوں کے سامنے اس کی دونوں ٹانگوں سے اُسے محروم کر دیا۔

اور اب کوئی بھی اس کے گاؤں میں ایسی ویسی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچتا تھا۔اور اب تو بات انوشے کی تھی جس کے ساتھ اس کا نکاح چاہے جس بھی حالات میں ہوا لیکن وہ اس کے نام کے ساتھ جڑی تھی۔تو کیسے وہ برداشت کرتا۔کہ اس کی اپنی حویلی میں کوئی انوشے کے ساتھ بدتمیزی کرے۔

💜 💜 💜 💜

داؤد غصے میں واپس حویلی آیا تھا واپس آتے ہی فوراً اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اس نے اپنے آدمی کو کال کی اور اُس کلینک کے بارے میں معلوم کرنے کا کہا اور موبائل بند کرتے اس نے بیڈ پر پھینکا اور اپنے کندھے پر رکھی چادر کو بھی بیڈ پر پھینکا۔

اور چلتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا اور پیچھے ٹیک لگائے آنکھیں موند لیں۔

اسے اپنے زخم کی بھی پرواہ نہیں تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ اُس دن اُس لڑکی کی مدد کرنے کی اسے اور انوشے کو اتنی بڑی سزا ملے گی۔

اگر تم نے اتنی جلدی جانا تھا تو میری زندگی میں آئی ہی کیوں؟

ایک موتی داؤد کی آنکھ سے نکل کر نیچے گر گیا۔اس کے اس جملے میں کتنی تکلیف تھی عہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا۔

وہ ایک مضبوط مرد تھا لیکن کچھ چیزیں انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی اُس لڑکی کی موت کی خبر کے بعد آج پہلی بار اس کی آنکھ سے آنسو نکلا تھا اس اکیلے نے خود کو کیسے سنبھالا تھا وہی جانتا تھا۔لیکن اب ناجانے کیسے آنسو باہر نکل آیا۔

اچھا نہیں کیا تم نے بلکل بھی اچھا نہیں کیا،. داؤد نے دل میں کہا اور آنکھیں بند کیے اُس دن کے بارے میں سوچنے لگا۔

وہ مردان خانے میں موجود تھا۔ کچھ ضروری کاغذات دیکھتا وہ پرسوچ سا تھا، یکدم کسی نے دروازہ زور سے دھڑدھڑایا تھا۔۔

پیپر اس کے ہاتھ سے زمین بوس ہوئے۔۔اس کی نظر دروازے کی جانب گئی۔جس پر ایک بار پھر دستک ہوئی تھی۔ آج یہاں گارڈز کا پہرا بھی نہیں تھا ،کیونکہ وہ کسی اہم کام کی وجہ سے سب کو چھٹی دے چکا تھا۔

حویلی میں بھی کوئی نہیں تھا گاؤں میں ایک شادی تھی دب وہی گئے تھے۔

دروازے کی تیز دستک پر وہ پیپرز کو ایک نظر دیکھتا آگے بڑھ کر دروازہ کھول چکا تھا۔۔

دروازہ کھلتے ہی کوئی نازک وجود اندر داخل ہوتا اس سے لپٹا تھا۔

داؤد ایک پل لیے چونکا تھا۔۔اسے یہ احساس شدت سے ہوا تھا کہ وہ کوئی لڑکی ہے۔مزید تصدیق اس کی آواز نے کی تھی۔۔وہ آواز اسےجانی پہچانی لگی تھی۔

"مم مجھے بچالیں۔۔مجھے اپنے پاس پناہ دے دیں۔۔۔وہ مم مجھے ماردیں گے۔۔آپ کو خدا کا واسطہ ہے۔۔مجھے بچالیں۔۔"

داؤد اس کی فریاد پر مزید حیران ہوا۔

"کون ہو تم۔۔۔اور اندر کیسے آئی۔۔۔"داؤد نے اسے خود سے دور کرنا چاہا،۔لیکن وہ مزید شدت سے اس کے ساتھ چپکی۔۔

"نن نہیں۔۔میں نہیں جاؤں گی۔۔"وہ روتے ہوئے فریادی ہوئی۔۔

"دور ہٹو لڑکی۔۔" داؤد بری طرح اسے دور کیا تو وہ زمین بوس ہوئی تھی۔

"نکلو یہاں سے ابھی کے ابھی۔۔۔" داؤد بلند آواز میں دھاڑا۔۔جب اس نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔۔اور مقابل شخص کو ایسے لگا وقت تھم گیا ہو۔

"تم۔۔" وہ بے یقینی سےبولا۔جبکہ نگاہیں اس پر جم سی گئی تھی۔۔

" خدا کا واسطہ ہے مجھے پناہ دے دیں۔۔مجھے اپنے پاس رہنے دیں ،وہ مجھے ماردیں گے۔۔"

وہ کھڑی ہوتی اس کے آگے ہاتھ جوڑ چکی تھی۔

"کون ماردے گا۔۔تمہیں۔۔بولو۔۔"وہ اپنی حیرت پر قابو پاچکا تھا۔

"وہ۔۔۔مم میں آپ کو سب بتاؤں گی مجھے چند روز اپنے پاس رکھ۔۔لیں۔۔میں۔۔آپ کا احسان تاعمر نہیں بھولوں گی۔۔"

"ہرگز نہیں۔۔میں اپنی عزت پر کوئی الزام برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔"

وہ پل میں سفاک بنا تھا،۔

"آپ پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔میں ہر الزام اپنے اوپر لے لوں گی۔۔"

"تم اچھی طرح جانتی ہو ، کہ تم کس کی بہن ہو۔۔اور کیا کہہ۔رہی ہو؟"

داؤد سرد انداز میں بولا۔

"میں اس وقت صرف آپ سے پناہ چاہتی ہوں۔صرف چند دن کی پناہ۔۔اور مجھے کسی بات سے لینا دینا نہیں ہے۔۔"

"لڑکی تم پاگل ہوچکی ہو۔۔۔ایک تنہا مرد اور عورت کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔۔۔" داؤد کا رنگ زرد ہوا تھا۔۔ایک شیطان سے بچ کر ہی تو وہ یہاں آئی تھی۔


"تو پھر آپ مجھ سے نکاح کرکے مجھے قید کرلیں۔۔، لیکن مجھے یہاں سے جانے کا مت کہیں۔۔میں آپ کا ہر ظلم ہر ستم سہہ لوں گی۔۔لیکن مجھے اس سے بچالیں۔۔پلیز۔مجھے بچالیں۔۔" وہ روتی ہوئی اس کی سیاہ قمیض کا کالر تھام چکی تھی۔۔

جبکہ۔داؤد کے سر پر دھماکہ ہوا تھا۔۔

ابھی داؤد یہی سب سوچ رہا تھا جب دروازے پر ہوتی دستک نے اس کے خیالات میں خلیل ڈالی اور داؤد نے آنکھیں کھولے دروازے کی طرف دیکھا۔

مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔

اقبال نے داؤد کے کمرے میں آتے اسے دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

میرا نہیں خیال تھا کہ تم اتنا سب ہونے کے بعد میری شکل بھی دیکھنا چاہو گئے۔

داؤد کا لہجہ طنزیہ تھا۔

آپ جانتے ہیں کہ آپ کی بات پر مجھے ہمشیہ یقین رہا ہے۔

لیکن جب آپ غائب ہوئے تو مجھے بھی لگا کہ یہ سب آپ نے ہی کیا لیکن اب جب آپ واپس آکر کہہ رہے ہیں کہ آپ نے کچھ نہیں کیا تو مجھے آپ کی بات پر یقین آگیا ہے۔

اقبال نے گہرا سانس لیتے داؤد کو دیکھتے کہا۔

اقبال مجھے فرق نہیں پڑتا کوئی میرے بارے میں کیا سوچتا ہے یا مجھے قاتل مانتا ہے اگر مجھے فرق پڑتا ہے تو اس بات سے کہ انوشے بےقصور ہوتے ہوئے بھی سزا بھگت رہی ہے۔

مجھے اُسے کسی بھی حالت میں واپس لانا ہے۔

اور تم نے کیسے یہ سب ہونے دیا؟

تم اچھی طرح جانتے ہو جو اُس پر الزام لگا وہ سراسر غلط ہے،

پھر بھی تم نے اُسے واپس لانے کی کوشش نہیں کی؟ اور مجھے تم سے ایسی امید نہیں تھی۔

داؤد نے اقبال کو دیکھتے نفی میں سر ہلاتے کہا۔

چاچو جان میں نے جو ثبوت دیکھے اُس کے بعد بےحس بنا۔

اور میرا نہیں خیال کہ وہ سب ثبوت جھوٹے تھے۔لیکن مجھے صرف ایک بات کی فکر کھائے جا رہی ہے۔

زہاب کچھ دنوں میں واپس آجائے گا۔

اگر اُسے پتہ چل گیا کہ انوشے کا نکاح ہو چکا ہے تو وہ کیا کرے گا؟

غصے میں تو وہ آپ سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔اور انوشے کے لیے تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

اقبال نے پریشانی سے داؤد کو دیکھتے کہا۔

غصہ کرنا اُس کا جائز ہے۔

اور میں چاہتا ہوں وہ یہاں آئے۔

اور اگر تم جن ثبوت کی بات کر رہے ہو اگر زہاب کو دکھا بھی دو گئے تو میری طرح وہ بھی تمھارے ثبوتوں پر یقین نہیں کرے گا۔

وہ انوشے پر اندھا اعتماد کرتا ہے۔

اس لیے بہتر ہو گا کہ اُس کے سامنے کوئی بھی فضول بات نا کی جائے۔

اور جہاں تک بات ہے انوشے کی تو اُسے جب تک میں واپس نہیں لے آتا میں سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔

داؤد نے پر عزم اور سرد لہجے میں کہا۔

اقبال خاموش رہا تھا۔وہ جانتا تھا داؤد جو کہہ رہا ہے کر کے دکھائے گا۔

بھابھی کہی نظر نہیں آئی وہ ٹھیک ہیں؟

داؤد نے گہرا سانس لیتے بات کو تبدیل کرتے پوچھا۔

اقبال ایک نظر داؤد کو دیکھا اور اسے سب کچھ بتانے لگا۔

جو حیرانگی سے اس کی بات سن رہا تھا۔

ڈاکٹر نے کیا کہا کب تک اُن کو ہوش آئے گا؟

داؤد نے لہجے میں فکر مندی لیے پوچھا۔

وہ صبا کی بہت عزت کرتا تھا۔

ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

سوائے صبر کے ہم کچھ نہیں کر سکتے،

اقبال نے دھیمے لہجے میں کہا۔

کسی نرس کا رات تک انتظام کرو جو چوبیس گھنٹے اُن کے پاس رہے،

داؤد نے کم پٹی سہلاتے ہوئے کہا۔

جی ٹھیک ہے۔

اقبال نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

داؤد چلتا ہوا کھڑکی کے پاس گیا اور وہی کھڑا ہو کر باہر کا منظر دیکھنے لگا۔

💜 💜 💜 💜 💜

بڑی خانم انوشے کے پاس ہی بیٹھی رہی تھیں۔

لیکن پھر رات میں اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔کیونکہ رات میں ان کو عبادت کرنی تھی اس لیے اپنے کمرے میں چلی گئی۔تاکہ انوشے بےآرام نا ہو۔

آدھی رات میں اس کی آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا اس نے ارد گرد دیکھا لیکن پھر سر میں اٹھتی ٹیس کی وجہ سے اس نے اپنے سر کو تھاما۔

جیسے ہی اسے سب یاد آیا گرم آنسو پھر سے آنکھوں سے نکلنے لگے تھے۔

وہ جانتی تھی کہ اگر کسی کو اس حالت میں دیکھ کر اس پر ترس آیا ہو گا تو وہ بڑی خانم ہو گیں۔

لیکن اس نے کل صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔

جس کی وجہ سے اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اُٹھ سکے اور اُٹھ کر پانی پی سکے۔

لیکن پیاس کی شدت کی وجہ سے وہ بمشکل اُٹھ کر بیٹھی۔اور سائیڈ ٹیبل کی طرف دیکھا۔

جہاں جگ تو دور پانی کا گلاس بھی نہیں پڑا تھا۔

لیکن جو اس کے ساتھ پہلے ہوا اُس کا سوچ کر وہ وہی دوبارہ اپنی جگہ پر اپنا سر پکڑے بیٹھ گئی۔

لیکن اس کا گلہ خشک ہو رہا تھا۔

اس لیے اپنے ڈر کو سائیڈ پر رکھتے وہ اٹھی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔

جو حال ضرغام نے عرفان کا کیا تھا اُسے نہیں لگ رہا تھا وہ اب کبھی اس کے سامنے آئے گا۔

انوشے کمرے سے باہر نکلی۔. اب وہ ارد گرد دیکھتے چل رہی تھی۔

انوشے کچن میں داخل ہوئی اور گلاس پکڑے اس نے جگ سے پانی اُس میں ڈالا اور پینے لگی۔

ابھی وہ پانی پی کر فارغ ہی ہوئی تھی۔جب پیچھے سے اسے جانی پہچانی آواز سنائی دی۔

کیا کر رہی یہاں؟

انوشے جو ٹیبل کے سہارے کھڑی تھی مقابل کی سرد آواز سنتے ایک دم خوف سے اچھل پڑی۔

اور مڑ کر اس نے پیچھے دیکھا جہاں ضرغام سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

وہ میں پانی پینے آئی تھی۔

انوشے نے ضرغام کو دیکھتے نظریں جھکا کر دھیمے لہجے میں کہا۔

کمرے میں جاؤ اور کل سے میرے سارے کام تم خود کرو گئی اگر مجھے کوئی بھی ملازم میرا کام کرتے ہوئے نظر آیا تو سزا تمہیں ملے گی۔

ضرغام نے اس کے سر پر بندھی پٹی پر نظریں جمائے حکمیہ لہجے میں کہا۔

ج جی ٹھیک ہے۔

انوشے نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔

اور وہاں سے جانے لگی جب چکراتے سر کی وجہ سے اسے چکر آیا اس سے پہلے اس کے قدم لڑکھڑاتے اور وہ زمین بوس ہوتی۔

ضرغام نے اسے کمر سے پکڑ کر تھام لیا اور اسے گرنے سے بچایا۔

انوشے نے زور سے آنکھیں میچ لی تھیں،

ضرغام بھینچے ہوئے جبڑوں کے ساتھ انوشے کی بند آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔

آج پہلی بار اس نے انوشے کو اتنے قریب سے دیکھا تھا۔

ضرغام کی نظر اس کی بند آنکھوں سے ہوتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر ٹھہر گئی۔

جس کے نچلے ہونٹ کے دائیں جانب ایک چھوٹا سا تل تھا۔جسے اس نے آج نوٹ کیا تھا۔

انوشے نے دھیرے سے آنکھیں کھولی اور خود پر جھکے ضرغام کو دیکھ ایک دم بوکھلا گئی۔

اور اس سے پیچھے ہونا چاہا،

جب ضرغام نے اس کی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کی۔

میری اجازت کے بغیر تم مجھ سے دور بھی نہیں ہو سکتی اس لیے دوبارہ ایسی غلط مت کرنا،

ضرغام نے انوشے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا اس کے گرم سانسوں کے تھپڑ وہ اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی۔ضرغام کے چوڑے سینے کے آگے وہ بلکل چھپ دی گئی تھی۔

انوشے نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا اور اسے چھوڑے وہاں سے چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی انوشے نے اپنا روکا ہوا سانس بحال کیا۔

اور کچن سے نکلتے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اس وقت اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔

وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

اس کا دل اُس ظالم انسان کے لیے کیوں دھڑک رہا ہے۔

لیکن جواب ابھی اس کے پاس بھی نہیں تھا۔

💜 💜 💜 💜

زہاب تم کب آئے؟ جواد چوھدری نے زہاب کو دیکھتے لہجے میں خوشی لیے پوچھا۔

جو چہرے پر تھکن لیے جواد کے سامنے کھڑا تھا ابھی وہ واپس آیا تھا اور اس نے کسی کو بھی اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی کیونکہ وہ سب کو سرپرائز دینا چاہتا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک بہت بڑا سرپرائز اس کا انتظار کر رہا ہے۔

تایا جان میں آپ سب کو سرپرائز دینا چاہتا تھا اس لیے کسی کو بتایا نہیں۔

زہاب نے جواد کے گلے لگتے مسکراتے ہوئے کہا۔

تم تو پہلے سے زیادہ ہینڈسم ہو گئے ہو۔

ایک سال میں کتنے بدل گئے ہو،

جواد چودھری نے اس کے چوڑے کندھے اور خوبصورت چہرے کو دیکھتے مسکرا کر کہا۔

ہینڈسم تو میں پہلے بھی تھا تایا جان زہاب نے مسکراہٹ دباتے کہا جس سے اس کے ڈمپل نمایا ہوا۔

زہاب تم واپس آگئے؟ نازیہ جو وہاں آئی تھی۔زہاب کو دیکھتے اس نے مسکرا کر لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

جی بھابھی کیسی ہیں آپ؟

اور باقی سب کہاں ہیں نظر نہیں آ رہے؟ زہاب نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پوچھا۔

نازیہ نے جواد کی طرف دیکھا تھا جس نے نظروں اسے کچھ بھی کہنے سے روکا تھا۔

زہاب سب یہی ہیں تم پہلے فریش ہو جاؤ پھر سب مل کر کھانا کھاتے ہیں۔

لیکن تم نے بتایا نہیں ورنہ میں کمرہ صاف کروا دیتی۔

نازیہ نے بات کو تبدیل کرتے کہا۔

کوئی بات نہیں بھابھی حویلی میں اور بھی بہت سے کمرے ہیں۔

اور میں فریش ہو کر آتا ہوں۔پھر بات کرتے ہیں۔

زہاب نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

جواد چوھدری نے اک نظر نازیہ پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔نازیہ بھی کچن کی طرف چلی گئی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜 💜

اقبال آپ کب مجھے حویلی لے کر جائے گئے؟

اگر آپ میں ہمت نہیں تھی تو مجھے سے نکاح کیوں کیا؟ اور اب تو آپ کی بیٹی جب تک آپ کا چہرہ نا دیکھ لے اسے سکون نہیں ملتا اور مجھے کوئی کام کرنے نہیں دیتی ایک ہفتے میں ایک دن بھی بمشکل آپ یہاں آتے ہیں،

حبہ نے شکایتی لہجے میں اقبال کو دیکھتے کہا جو اپنی بیوی کی بےشمار شکایتوں پر مسکرا پڑا اور آگے بڑھتے اس کے ماتھے پر لب رکھ دیے،

لگتا ہے میری بیٹی نے اس بار کچھ زیادہ ہی تمہیں تنگ کیا ہے اقبال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

بات بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔

دادا دادی کے ہوتے ہوئے بھی میری بچی ان سے کے پیار سے محروم ہے آپ کو جلدی کچھ کرنا ہو گا نہیں تو میں آپ سے پکا والا ناراض ہو جاؤں گی حبہ نے منہ بسوڑتے کہا۔

اچھا اچھا ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہوں۔

اقبال نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اقبال انوشے کا کیا ہوا؟ وہ ٹھیک ہے؟

حبہ نے یاد آنے پر سنجیدگی سے پوچھا۔

انوشے کے ذکر پر اقبال کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔

حبہ بہتر یہی ہے کہ ہم اُس کے بارے میں بات نا کریں۔

اقبال نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

اقبال آپ بہت غلط کر رہے ہیں۔

بہت زیادہ غلط ان سب میں اُس بیچاری کا کیا قصور؟ اور میں اُسے اتنا تو نہیں جانتی لیکن جتنا آپ کی زبان سے سنا مجھے لگتا ہے اُسے پھنسایا گیا ہے۔

آپ کی اپنی بھی تو بیٹی ہے تو آپ اتنے بےرحم کیسے بن سکتے ہیں؟

حبہ نے اقبال کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

حبہ سچ کہوں تو میں خود اس وقت بےبس ہوں اور مجھے سمجھ بھی نہیں آ رہی کہ میں کیا کروں۔

کیا غلط ہے کیا صحیح میں خود سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

اقبال نے گہرا سانس لیتے کہا۔

اقبال انوشے معصوم ہے۔

کچھ بھی کریں اُسے واپس لے آئے ایسا نا ہو وقت گزر جائے اور پیچھے آپ کے پاس پچھتاوا رہ جائے اور یقین کریں پچھتاوا انسان کو اندر سے کتنی تکلیف دیتا ہے وہ انسان لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔

اس لیے میری بات پر غور کیجیے گا۔

میں کھانا لگانے لگی ہوں جلدی سے آجائیں۔حبہ نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا۔ اور وہاں سے چلی گئی۔

اور اقبال کو گہری سوچوں میں ڈال گئی۔

💜 💜 💜 💜

تمہیں اس حالت میں دیکھ کت مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے۔سویٹ ہارٹ دیکھو تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے۔

مقابل نے لہجے میں مصنوعی پریشانی لیے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتے کہا اور ہاتھ آگے بڑھاتے اُس کے چہرے کو چھونا چاہا۔

تم ایک گھٹیا انسان ہو۔

مجھے تمھاری شکل سے ہی گھن آ رہی ہے۔

اُس لڑکی نے مقابل کے ہاتھ کو جھٹکتے اس کی آنکھوں میں دیکھتے بےخوفی سے کہا۔لیکن مقابل کے غصے کو وہ ہوا دے چکی تھی۔

زبان سنبھال کر بات کرو لڑکی ابھی بھی تمھارے اندر اتنی ہمت ہے کہ تم میرے سامنے زبان چلا سکو؟

مقابل نے اُسے بالوں سے دبوچتے اس کے چہرے پر اپنی نظریں گاڑے کرخت لہجے میں کہا۔

آہ….. تکلیف کے مارے اُس لڑکی کے منہ سے بےساختہ سسکی نکلی اور آنکھوں میں پانی آگیا۔

تم اگر پیار سے مان جاتی تو مجھے تمھارے ساتھ زبردستی نا کرنی پڑتی۔لیکن تم نے بہت غلطیاں کی جس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی۔

اور جب تک تمھاری سانسیں چل رہی ہیں تم یہی رہو گی اور جس سے تمہیں گھن آتی ہے ہر رات وہ تمھارے قریب آئے گا اور تم دیکھو کتنی بےبس ہو کہ خود کی بھی مدد نہیں کر سکتی۔

مقابل نے زہریلے لہجے میں اُس لڑکی کے بالوں کو چھوڑتے تمسخرانہ انداز میں کہا۔اتنے میں اس کا موبائل رنگ ہوا۔

اور اپنی جگہ سے کھڑا ہوتے کال اٹینڈ کرنے کے لیے وہاں سے باہر چلا گیا۔

زہاب فریش ہو کر آگیا تھا اور ڈائننگ ٹیبل پر جواد چودھری، نازیہ اور خود زہاب موجود تھے۔داؤد اپنے کمرے میں تھا۔اُس نے آنے سے انکار کر دیا تھا۔

باقی سب کہاں ہیں؟ زہاب نے نازیہ کو دیکھتے پوچھا۔

وہ اقبال کو کوئی ضروری کام تھا اس لیے وہ حویلی میں نہیں ہیں۔اور چاچو اپنے کمرے میں ہیں۔

نازیہ نے جلدی سے جواب دیا۔

اچھا اور تائی جان اور انوشے؟

زہاب نے پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے پوچھا۔

نازیہ نے جواد چودھری کو طرف دیکھا۔

بیٹا اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہیں تم پہلے کھانا کھا لو۔جواد نے سنجیدگی سے کہا۔

تایا جان ایسا بھی کیا ہو گیا کہ آپ لوگ مجھے بتا نہیں رہے؟

اب تو مجھے بھی لگ رہا ہے ضرور کچھ نا کچھ برا ہوا ہے۔جو مجھ سے چھپایا جا رہا ہے،

زہاب نے لہجے میں فکرمندی لیے کہا۔

جواد نے نازیہ کو دیکھتے اسے بولنے کا اشارہ کیا، کیونکہ یہ بات زیادہ دیر تک چھپنے والی نہیں تھی۔

نازیہ نے زہاب کی طرف دیکھتے جو کچھ ہوا اسے بتانا شروع کیا لیکن جب اس نے کہا کہ ضرغام کا نکاح انوشے کے ساتھ ہو گیا ہے تو زہاب فوراً اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اس نے بےیقینی سے جواد کی طرف دیکھا۔

تایا جان آپ نے انوشے کا نکاح کیسے ہونے دیا آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ میں اُسے پسند کرتا ہوں۔

آپ پر بھروسہ کرتے میں اُسے یہاں چھوڑ کر گیا آپ کو کہہ کر گیا کہ واپس آکر پہلا کام ہی میں انوشے کے ساتھ نکاح کروں گا اور آپ نے اُس کا نکاح کر دیا؟

زہاب نے غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے دھاڑتے ہوئے کہا۔

نازیہ اس کی دھاڑ سنتے ایک دم کپکپا گئی تھی۔

جواد خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔

کیونکہ وہ جانتا تھا کہ زہاب کی طرف سے ایسا ہی ردعمل آئے گا۔

اُس نے آپ کی ساری پراپرٹی مانگی تھی نا تو دے دیتے مجھ سے بات کرتے آپ کا سارا نقصان میں بھر دیتا۔

ایک بار تو مجھ! سے بات کرتے بنا سوچے سمجھے آپ نے کیسے اُس کا نکاح کر دیا؟ آپ کیسے میرے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں؟

زہاب نے کرسی کو ٹھوکر مارتے کہا۔

زہاب جو ہونا تھا اب ہو گیا اب کچھ نہیں ہو سکتا۔

پہلے پرسکون ہو جاؤ۔

جواد نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے کہا۔

پرسکون مائی فٹ آپ کو لگتا ہے کہ یہ کوئی چھوٹی بات ہے؟

انوشے میں جان بستی ہے میری اُسے میں آج ہی واپس لاؤں گا،

زہاب نے کرختگی سے کہا۔

تمہیں لگتا ہے کہ داؤد نے کوشش نہیں کی؟ وہ بھی کوشش کر چکا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

جواد نے کہا۔

مجھ میں اور چاچو میں زمین آسمان کا فرق ہے اگر انہوں نے انوشے کو واپس نہیں کیا تو میں وہ کروں گا جس کے بارے میں اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔

زہاب نے جبڑے بھینچے کہا اور بڑے بڑے ڈھاگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔

نازیہ نے پریشانی سے جواد کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر ابھی بھی اطمینان سا تھا۔

جیسے اُسے ان سب سے کوئی فرق نا پڑتا ہو۔

💜 💜 💜 💜 💜

اگلی صبح بڑی خانم ناشتے کی ٹرے کے ساتھ انوشے کے کمرے میں آئی تھیں۔ملازمہ ناشتہ رکھتے چلی گئی۔

انوشے بیڈ پر لیٹی چھت کو تک رہی تھی۔

بڑی خانم کو دیکھ کر جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھی بڑی خانم نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اس کے سامنے بیٹھتے اس کی طبیعت کا پوچھا۔

میں ٹھیک ہوں خانم انوشے نے چہرے پر مسکراہٹ لیے کہا،

یہ تو اچھی بات ہے تم ناشتہ کر لو آرام سے پھر بعد میں بات کرتی ہوں۔

بڑی خانم نے کہا تو انوشے اثبات میں سر ہلاتے ناشتہ کرنے لگی۔

ویسے بھی کل سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا اور اب ناشتے کو دیکھتے اس کی بھوک پھر سے تازہ ہو گئی۔بڑ جانم مسکراتی نظرا سے اسے دیکھ رہی تھیں۔

انوشے نے آرام سے ناشتہ کیا اور ناشتہ کرنے کے بعد اس کی جان میں جان آئی۔

حمیرا اور انعم تم سے معافی مانگنا چاہتی ہیں۔

بڑی خانم جو بیٹھی انوشے کو دیکھ رہی تھیں اسے میڈیسن تھماتے کہا۔

انوشے نے حیرانگی سے بڑی خانم کی طرف دیکھا۔

اسے لگا اس نے کچھ غلط سنا ہے۔

معافی؟ وہ بھی مجھ سے؟ کیوں؟

انوشے کے لہجے میں بےیقینی تھی۔

ہاں تم سے کیونکہ ضرغام کا کہنا ہے سوائے اُس کے کوئی بھی دوسرا تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔اُسی نے تو ڈاکٹر کو بلایا تھا۔اور دونوں ماں بیٹی پر کافی غصہ بھی کیا۔

بڑی خانم نے انوشے کے چہرے کے تاثرات دیکھتے بتایا۔

مطلب کہ اُن کے علاوہ مجھے کوئی دوسرا تکلیف نہیں پہنچا سکتا؟ یہ بھی اچھا ہے انوشے کا لہجہ تلخ ہوا تھا۔

لیکن خانم اُن دونوں کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا ویسے میرے جیسی لڑکی جو خون بہا میں یہاں آئی ہو اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

انوشے نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔

صبر کرو سب ٹھیک ہو جائے اور اب تم آرام کرو۔

میں چلتی ہوں۔

بڑی خانم نے نرم لہجے میں کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

لیکن انوشے کو ایک بات نے حیران کیا تھا کہ ضرغام کو کیا اس کی اتنی فکر ہے جو اس نے اپنی چچی اور انعم کو اس سے معافی مانگنے کا کہا۔

لیکن ضرور اس میں بھی اُس کا کوئی نا کوئی فائدہ ہو گا۔۔

اس لیے میڈیسن لینے کے بعد یہ سب سوچتے اس پر غنودگی چھانے لگی۔اور آنکھیں موندے لیٹ گئی۔

حمیرا نے بہت سوچا تھا۔پھر انعم نے بھی اپنی ماں کو سمجھایا کیونکہ اگر وہ لوگ یہاں سے چلے جاتے بھی تو کہاں جاتے۔

یہاں تو ان کے پاس ہر چیز موجود تھی۔

اس لیے انعم نے کہا کہ بڑی خانم سے بات کریں اور اُس سے معافی مانگنے میں ہی بھلائی ہے ورنہ ضرغام ان کو حویلی سے نکال دے گا۔اس لیے حمیرا نے بڑی خانم سے بات کی کہ وہ معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔

اور انعم نے منع کر دیا تھا کہ نازیہ کو اس بارے میں کچھ بھی بتانا نہیں ہے۔

💜 💜 💜 💜 💜

تم یہاں کیا کر رہے ہو؟

مردان خانے میں داخل ہوتے ضرغام نے زہاب کو دیکھتے پوچھا۔

کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اسے یہی ملے گا۔

اس لیے یہی آیا تھا۔

ضرغام نے بلیک کلر کی شلوار قمیض پہنی تھی ساتھ سکن کلر کی کندھے پر چادر رکھی ہوئی تھی۔

چہرے پر سنجیدگی ماتھے پر بل جو زیادہ تر رہتے تھے۔

تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری انوشے کے ساتھ نکاح کرنے کی؟

زہاب جو ابھی بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا اس نے بنا انوشے کی طرف دیکھتے سر لہجے میں کہا۔

لیکن اس کی بات سنتے ضرغام نے اس کے سامنے بیٹھتے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں بھینچا تھا،

مسٹر زہاب انوشے میری بیوی ہے تو بہتر ہو گا کہ تم اُسے میرا کہنا بند کرو ورنہ تمھاری زبان کاٹنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گا۔

ضرغام نے تھوڑا آگے کو جھجکتے ہوئے گھمبیر اور پرسرار لہجے میں کہا۔

زہاب اس کی بات سنتے قہقہہ لگائے ہنس پڑا تھا۔

تمھارے میں اتنی ہمت نہیں ہے ضرغام بدر خان زہاب کا لہجہ چیلنجنگ تھا۔

ضرغام بدر آج پہلی بار مسکرایا تھا۔

لیکن اس کی مسکراہٹ میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ زہاب نے جبڑے بھینچے تھے۔

اس کی یہی مسکراہٹ تو اسے زہر لگتی تھی،

تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ضرغام بدر کیا کچھ کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔

اس لیے عزت کے ساتھ یہاں سے دفع ہو جاؤ،

اور دوبارہ اپنی گندی زبان سے انوشے کا نام لینے سے پہلے سو بار سوچنا۔

ضرغام نے سرد لہجے میں کہا۔

تو ٹھیک ہے ضرغام بدر جیسی تمھاری مرضی میں نے سوچا تھا کہ بات سے مسئلہ حل ہوجائے لیکن تمھاری اکڑ لگتا ہے ایسے ہی ختم ہو گی۔

اب میں صرف بات نہیں کروں گا بلکہ کرکے دکھاؤں گا۔

تیار رہنا زہاب نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے تمسخرانہ انداز میں کہا۔

اور وہاں سے چلا گیا۔

ہر عمل کا ردعمل بھی ہوتا ہے اس لیے جو بھی کرنا سوچ سمجھ کرنا ورنہ میرے قہر دے تمھیں بچانے کوئی نہیں آئے گا۔

ضرغام نے سرد لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜💜 💜 💜 💜

تم اچھی طرح سوچ لو ارحہ خان یہ نکاح ہے جس میں تمھارے بھائی کی رضامندی شامل نہیں ہے۔بلکہ اُس معلوم بھی نہیں ہے۔

داؤد نے سر جھکائے بیٹھی ارحہ کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

وہ بھی اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا اس لیے صورتحال کو سمجھنے کے بعد اس نے ارحہ سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا۔

بھائی یہاں نہیں ہیں اگر میں واپس آگئی تو وہ مجھے مار دیا جائے گا۔اور میں ابھی مرنا نہیں چاہتی۔

اور آپ کے پاس بنا کسی رشتے کے رک نہیں سکتی تو نکاح کرنا ضروری ہے،

ارحہ نے نظریں اٹھائے داؤد کو دیکھتے کہا۔

جو ارحہ کی معصومیت پر ہلکا سا مسکرا پڑا تھا۔

تمہیں اتنا یقین مجھے پر کیسے ہے کہ میں تمھاری حفاظت کروں گا؟

داؤد نے تھوڑا آگے کو جھکتے ہوئے پوچھا۔

جیسے آپ نے ایک سال پہلے میری حفاظت کی تو پہلا خیال میرے دماغ میں آپ کا ہی آیا۔. ارحہ نے کہا۔

ٹھیک ہے مولوی صاحب آگئے ہیں۔

اگر تم نے فیصلہ کر لی لیا تو اب کچھ بھی کہنے کا فائدہ نہیں۔

داؤد نے کہا اور اپنی جگہ سے کھڑا ہوا گیا۔

کیا آپ میرے ضد کرنے پر مجھ سے نکاح کر رہے ہیں؟

اگر میری جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اُس سے بھی آپ نکاح کر لیتے؟

ارحہ نے تھوڑا جھجکتے ہوئے پوچھا۔

داؤد نے مڑ کر ارحہ کی طرف دیکھا اور تھوڑا سا اس کے قریب آیا اور اس پر جھکا۔

ارحہ کی آنکھیں پھیلی تھیں۔

تمھاری جگہ اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو میں کبھی بھی اُس سے اس لہجے میں بات نا کرتا کیونکہ میں ہر کسی سے اس لہجے میں بات نہیں کرتا اور جہاں تک بات ہے کسی اور لڑکی سے نکاح کرنے کی تو میں اُس کے ساتھ نکاح تو ہرگز نہیں کرتا بلکہ کوئی دوسرا راستہ تلاش کرتا۔

داؤد نے ارحہ کی آنکھوں میں دیکھتے گھمبیر لہجے میں کہا۔

ارحہ نے اپنا حلق تر کیا تھا۔

و وہ دوسرا راستہ کیا ہے؟ ارحہ نے جلدی سے پوچھا۔

اگر تمھاری جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو ضرور دوسرے راستے کو تلاش کرتا داؤد کے اپنی بات کو دوبارہ دہراتے ہوئے کہا۔

جلدی سے باہر آجاؤ داؤد نے سیدھے ہوتے آخری بات سنجیدگی سے کہی اور وہاں سے چلا گیا۔

ارحہ نے ارد گرد دیکھا اور اپنی جگہ سے اُٹھ کر باہر کی جانب بھر گئی۔

💜 💜 💜 💜

بی بی جی آپ کو صاحب بلا رہے ہیں۔

ملازمہ نے کمرے میں داخل ہوتے انوشے کو دیکھتے کہا۔

کیوں؟ انوشے نے حیرانگی سے پوچھا۔

جی وہ تو مجھے معلوم نہیں ہے۔

ملازمہ نے نظریں جھکا کر کہا۔

ٹھیک ہے میں آتی ہوں۔

انوشے نے پریشانی سے کہا۔

وہ بڑے صاحب نے کہا ہے کہ میں آپ کو ساتھ لے کر آؤں۔

ملازمہ نے کہا تو چاہتے ہوئے بھی انوشے کو ضرغام کے کمرے میں جانا پڑا۔

ملازمہ تو کمرے کے باہر سے ہی چلی گئی تھی۔

انوشے نے کپکپاتے ہاتھوں سے دروازہ ناک کیا اور اجازت ملنے پر کمرے میں داخل ہوئی اس نے بھی بلیک کلر کا سوٹ پہنا تھا۔

یہ اتفاق ہی تھا کہ دونوں کے سوٹ کا کلر میچ ہو گیا تھا۔

انوشے کمرے میں داخل ہوئی ضرغام کھڑی کے پاس کھڑا سگریٹ کے گہرے کش لے رہا تھا۔

انوشے اپنے ہاتھوں کو موڑتے خاموشی سے کھڑی ضرغام کے کچھ کہنے کا انتظار کر رہی تھی۔

زہاب کو تم جانتی ہو؟ جانتی ہی ہو گی ایک ہی حویلی میں تو تم دونوں رہتے تھے۔

ضرغام نے رخ موڑے سرخ آنکھوں سے انوشے کو دیکھتے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا جو ضرغام کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ڈر گئی تھی۔

ضرغام چلتا ہوا اس کے بہت قریب آگیا تھا اور انوشے پیچھے کو قدم لیتی دیوار کے ساتھ جا لگی۔

ضرغام نے اس کے دائیں جانب دیوار پر ہاتھ رکھا۔

و وہ انوشے نے لبوں پر زبان پھیرتے مزید کچھ کہنا چاہا۔

لیکن ضرغام کے اتنا قریب آنے پر وہ ایک دم بوکھلا گئی تھی۔

ضرغام کی نظریں اس کے ہونٹوں پر جم گئی۔

وہ کیا؟

ضرغام نے گھمبیر لہجے میں پوچھا۔

ایک سال پہلے بابا نے میری اور زہاب کی منگنی کر دی تھی۔

انوشے نے ضرغام کے چہرے سے نظریں چرائے کہا۔

زہاب بھائی اب سے وہ تمھارا بھائی ہے ضرغام نے انوشے کے سر پر بندھی پھٹی پر انگوٹھے سے دباؤ ڈالتے سعد لہجے میں کہا۔

آہ انوشے کے کی زبان سے بےساختہ سسکی نکلی تھی۔

جب ضرغام کی نظر اس کی شفاف گردن میں پہنے لاکٹ پر پڑی۔

ضرغام نے اس لاکٹ کو پکڑے غور دیکھا جس میں چھوٹا سا زیڈ لکھا تھا۔

ضرغام نے اُس لاکٹ کو زور سے کھینچا جو پہلے ہی نازک سا تھا اور ٹوٹ کر ضرغام کے ہاتھ آگیا۔

یہ بھی تمہیں زہاب نے دیا ہو گا؟ ضوریز نے جبڑے بھینچے پوچھا۔

انوشے نے فوراً گردن اثبات میں ہلا دی۔

ایک بات میری کان کھول لر سن لو

ضرغام نے انوشے کہ گردن میں. ہاتھ ڈالتے اد کا چہرہ خود کے قریب کرتے سرد لہجے میں کہا۔

میرے نام کے ساتھ جڑے ہونے کے باوجود تم اگر ایسا ویسا کچھ بھی کیا تو اپنے ہاتھوں سے تمہیں تڑپا تڑپا کر ماروں گا۔

ضرغام نے انوشے کے سفید پڑتے چہرے پر نظریں گاڑھے کہا۔

اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا اس کا موبائل رنگ ہوا۔

اس لیے انوشے کو چھوڑے اس سے پیچھے کھڑا اور اور کال اٹینڈ کرتے موبائل کان سے لگایا۔نظریں ابھی بھی انوشے کے چہرے پر ٹکی تھیں۔

کیا بکواس کر رہے ہو؟

ضرغام نے دھاڑتے ہوئے کہا۔

مقابل نے خبر ہی کچھ ایسی سنائی تھی۔

انوشے سانس روکے ضرغام کے چہرے کے خطرناک تاثرات دیکھ رہی تھی۔

کھیتوں میں آگ کیسے لگ سکتی ہے اور اتنی زیادہ آگ کیسے پھیل گئی؟ تم سب لوگ کہاں تھے۔

کیا سو رہے تھے؟

ضرغام نے اپنے سامنے کھڑے آدمیوں کو دیکھ دھاڑتے ہوئے پوچھا۔

کھیت میں آگ کی وجہ سے ضرغام کو کافی نقصان پہنچا تھا۔

سر میں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی شہر سے گاؤں واپس آیا ہوں۔

مجھے نہیں معلوم لیکن جمشید نے آکر اطلاع دی کہ کھیتوں میں آگ لگ گئی گی اور باقی کے جو دو امی تھے جو کھیتوں کی دیکھ بھال کرتے تھے وہ بےہوش پڑے تھے۔

اُن دو آدمیوں کے ساتھ جمشید بھی تھا لیکن وہ بےہوش نہیں تھا۔

اُس آدمی نے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا۔

زہاب تم نے یہ اچھا نہیں کیا۔تمہیں اس کی سزا ضرور ملے گی۔

ضرغام نے جبڑے بھینچے کہا،. وہ سارا کھیل سمجھ گیا تھا۔

اُس جمشید کو ابھی اور اسی وقت میرے سامنے لے کر آؤ۔زہاب کا ساتھ دے کر اُس نے اپنی موت کو دعوت دی ہے۔

ضرغام نے اپنے آدمیوں کو حکم دیتے کرختگی سے کہا۔

جو اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے چلے گئے۔

ضرغام کو جب کال آئی تو اس کے آدمی نے اسے آگ لگنے کی اطلاع دی۔

زہاب نے بڑی صفائی سے اپنا کہا سچ کر دکھایا تھا۔

وہ جانتا تھا کہ ان کھیتوں میں ضرغام کی جان بستی ہے کیونکہ یہ کھیت ضرغام کی ماں کو بہت پسند تھے اور اس کی ماں نے کہا تھا کہ ان کا خیال رکھنا یہ کھیت میرے دل کے قریب ہیں۔

اور زہاب نے شیر کو للکارا تھا جس کا انجام اچھا نہیں ہونے والا تھا۔

زہاب نے جمشید کو پیسے دے کر خرید لیا تھا۔اور اُسی نے باقی دو آدمیوں کے کھانے میں بےہوشی کی دوا ڈال دی اور خود کھیتوں میں آگ لگا دی اور جب وہ زیادہ پھیل گئی تو پھر اس نے آگ لگنے کی. اطلاع دی اور بتانے کے بعد فرار ہو گیا۔

💜 💜 💜 💜

ارحہ کا نکاح داؤد سے ہوگیا تھا۔

ارحہ اب تھوڑی مطمئن تھی۔لیکن پھر بھی ایک خوف تھا کہ اگر وہ اس تک پہنچ گیا تو کیا ہو گا لیکن داؤد اس کے ساتھ تھا۔اس لیے اس حوصلہ تھا۔

نکاح کے بعد داؤد کمرے میں داخل ہوا جہاں ارحہ بیٹھی سامنے دیوار کو گھور رہی تھی۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔

اور داؤد کو دیکھتے اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔

اب تم میرے ساتھ رہ سکتی ہو۔

داؤد نے ارحہ کے چہرے پر نظریں جمائے کہا۔

جس نے کچھ سیکنڈ ہی داؤد کی آنکھوں میں دیکھا لیکن پھر نظروں کا رخ تبدیل کر لیا۔

وہ زیادہ دیر تک داؤد کی آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی تھی۔

آپ کو کچھ چاہیے تھا؟

ارحہ کی زبان پر جو کچھ آیا بول کر اسے جب احساس ہوا تو زبان کو دانتوں تلے دبایا۔

نکاح کے بعد شوہر اپنی بیوی کے پاس ہی آتا ہے۔مسز داؤد

اور جانتی ہو وہ کیوں آتا ہے؟

داؤد نے تھوڑا ارحہ کے چہرے پر جھجکتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا۔

ک کیا؟ ارحہ نے کپکپاتے لہجے میں پوچھا،

تاکہ اپنی بیوی کو مبارک باد دے سکے۔

داؤد نے مسکراہٹ دباتے کہا۔

ارحہ کے لبوں پر بھی دھیمی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔

میں نے جب تمہیں پہلی بار دیکھا تو اپنے دل پر تمھارا نام لکھ لیا۔تمہیں شاید یاد نہیں ہو گا۔لیکن گاؤں کی ایک شادی تھی اور تم نے بلیک کلر کا سوٹ پہنا تھا اور جب تم موبائل پر نظریں جمائے چل رہی تھی۔

آپ وہی پر تھے؟ اور آپ نے مجھے گرتے ہوئے بھی دیکھا؟ ارحہ نے اس کی بات کو کاٹتے حیرانگی سے پوچھا۔

ہاں میں وہی تھا اور تمہیں گرتے ہوئے بھی دیکھا اور پھر تم بچوں کی بیٹھ کت. رونے لگی تھی۔

داؤد نے ارحہ کے بالوں کی کٹ کو کھنچتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔

ارحہ نے شرمندگی سے نظریں جھکا لی تھیں۔

شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔تم روتے ہوئے بہت کیوٹ لگتی ہو۔

لیکن اس وقت میں تمہیں اپنے دل کی حالت سے آگاہ کر رہا ہوں تم سے نکاح کے لیے فوراً مان جانے کی وجہ یہی ہے۔

اور آج میں بہت خوش ہوں جہاں تک بات ہے تمھارے بھائی کی اُسے میں سنبھال لوں گا۔اور اب تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مجھے شہر کی ایک ضرور کام سے جانا ہے تم بھی میرے ساتھ آجاؤ واپس آکر باقی ساری صورتحال کو میں سنبھال لوں گا۔

داؤد نے ارحہ کے ماتھے پر جھکتے وہاں پر لب رکھتے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ارحہ نے سرخ چہرہ اثبات میں ہلا دیا۔

داؤد ارحہ کا ہاتھ تھامے اسے وہاں سے لے گیا۔جو نظریں جھکائے چہرے ہر شرمیلی سی مسکراہٹ لیے اد کے ساتھ چل پڑی تھی۔

دونوں آگے آنے والے حالات سے ناواقف تھے۔لیکن ابھی فلحال دونوں خوش تھے۔

💜 💜 💜 💜

تو ارحہ میڈم داؤد کے پاس بھاگ گئی۔اُسے لگتا ہے کہ وہ انسان اُس کی مدد کر سکتا ہے؟

مقابل نے قہقہہ لگاتے تمسخرانہ انداز میں کہا اور اپنی انگلیوں میں دبائے سگریٹ کو سلگایا۔

داؤد پر نظر رکھو۔

اگر اُس کے ساتھ وہ لڑکی نظر آئے تو مار ڈالو۔اگر ضرورت پڑے تو داؤد کا کام بھی تمام کر دینا۔مقابل نے سنجیدگی سے کہا۔

اوکے سر آدمی نے فرمانبرداری سے جواب دیا۔

اور وہاں سے چلا گیا۔

کب تک مجھ سے بھاگو گی۔

اگر بچ گئی تو تمھاری قسمت میں میرے پاس آنا ہی لکھا ہے۔

مقابل نے خود سے کہا۔

……

کچھ آدمیوں نے داؤد پر نظر رکھی تھی اور ساتھ ارحہ بھی تھی جو گاڑی میں بیٹھی اور داؤد نے اسے دیکھتے گاڑی سٹارٹ کی۔

تھوڑا آگے جا کر داؤد جو سکون سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا،

اسے کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا۔

اسے ایسا لگا جیسے کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے راستہ بھی سنسنان آیا تھا۔

کیا ہوا؟ ارحہ نے داؤد کو دیکھتے پریشانی سے پوچھا۔جو بار بار پیچھے دیکھ رہا تھا۔

شٹ….. اس سے پہلے داؤد کچھ کہتا گولی کی آواز پر گاڑی بےقابو ہوئی داؤد نے بمشکل سنبھالی تھی۔

گاڑی کے ٹائر پر گولی لگی۔

جس کی وجہ سے وہ بےقابو ہوئی۔

تم ٹھیک ہو داؤد نے فوراً ارحہ کو دیکھتے پوچھا۔

جو پیچھے دیکھ رہی تھی،

داؤد وہ لوگ یہی آ رہے ہیں۔ارحہ نے پریشانی سے کہا جس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور پہلے اس نے ارحہ کی سیٹ بیلٹ کھولی اور پھر اپنے سیٹ بیلٹ کھلونے کے بعد اس کا ہاتھ پکڑے گاڑی سے باہر نکلا۔

وہ لوگ زیادہ ہیں اور تمھاری موجودگی میں میں اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔اس لیے جلدی سے یہاں سے جانا ہو گا۔

داؤد نے ارحہ کو دیکھتے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑے جھاڑیوں کی طرف چلا گیا لیکن پیچھے جو لوگ ان کے پیچھا کر رہے تھے۔

انہوں نے دونوں کو وہاں سے جاتے دیکھا تو گولیوں کی برسات کر دی۔

ارحہ آگے تھی داؤد نے اسے کور کیا ہوا تھا۔لیکن پھر بھی ایک گولی ناجانے کہاں سے آئی اور ارحہ کے بازوں کو چھوتے نکل گیا۔

آہ…. ارحہ تکلیف کے مارے کراہ پڑی

داؤد نے ارحہ کو دیکھا اور اسے بنا وقت ضائع کیے اسے گود میں اٹھائے وہاں سے لے گیا۔

بھاگ گئے دونوں وہاں موجود ایک آدمی نے غصے سے کہا۔

چلو یہاں اسے اور تم دونوں تلاش کرو جب تک وہ لوگ مل نہیں جاتے مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔

اَس آدمی نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیتے کہا۔

اور خود وہاں سے چلا گیا۔

داؤد نے ارحہ کی طرف دیکھا جو خوف کے مارے بےہوش ہو گئی تھی اس کے بازو سے خون نکل رہا تھا۔

تمھاری تو میں جان لے لوں گا کمینے بس ایک بار تو میرے سامنے آجا۔

داؤد نے جبڑے بھینچے کہا۔

اور ارحہ کو پاس والے کلینک لے گیا وہ لوگ گاؤں سے زیادہ دور نہیں آئے تھے۔

اس لیے داؤد اسے سامنے چھوٹے سے بنے کلینک میں لے گیا۔

جو سڑک کے درمیان میں پڑتا تھا۔

کوئی ہے یہاں؟ داؤد نے چیختے ہوئے کہا اور ارحہ کو بیڈ پر لیٹایا۔

ایک کام والی جلدی سے وہاں آئی۔

چھوٹا سا کلینک تھا۔

صاحب ڈاکٹر ابھی نہیں آئی۔

کام والی نے جلدی سے آگے آتے کہا۔

وہ کب تک آئے گی؟ داؤد نے اپنی جیب سے رومال نکالتے ارحہ کے بازو پر رکھتے کہا۔

سر وہ تھوڑی دیر بعد آئے گی،

کام والی نے ارحہ کو دیکھتے کہا۔

ابھی اور اسی وقت ڈاکٹر کو فون کرو۔میری بیوی کو گولی لگی ہے۔

داؤد نے نرس کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔

داؤد کو یہی لگ رہا تھا کہ ارحہ کو گولی لگی ہے لیکن وہ تو صرف چھو کر گزر گئی تھی۔

سر یہاں سنگل نہیں آتے اگر آپ کو برا نالگے تو کچھ فاصلے پر ہی اُن کا گھر ہے آپ اُنکو لے آئے۔

کام والی نے. مشورہ دیتے کہا۔

داؤد کو یاد آیا کہ کچھ فاصلے پر ایک گھر ضرور تھا۔

ٹھیک ہے میں اُن کو آتا ہوں۔

داؤد نے ملازمہ سے ڈاکٹر کا نام پوچھا اور ایک نظر ارحہ پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔

داؤد کے نکلتے ہی وہی آدمی کلینک کے اندر آئے ہاتھ میں ان کے پٹرول تھا۔اور کلینک میں جھڑکنے لگے۔

کام والی ان ہٹے کٹے آدمیوں کو دیکھتے دیوار کے ساتھ لگ گئی۔

اگر اپنی جان پیاری ہے تو اس گاؤں سے دور بھاگ جاؤ۔اور اگر تم یہاں دوبارہ نظر آئی تو بنا کسی مقصد کے ماری جاؤ گی۔

آدمی نے دھمکی دیتے کہا تو کام والی بنا وقت ضائع کیے۔وہاں سے بھاگ گئ۔

ایک آدمی نے ارحہ کو اٹھایا اور باہر کھڑی گاڑی میں ڈالا اور کلینک کے اندر لیٹر جلا کر پھینک دیا۔

آگ ایک سیکنڈ میں پھیلی تھی۔

وہ آدمی بھی جلدی سے گاڑی میں آکر بیٹھا اور گاڑی چلائے ارحہ کو لیے وہاں سے چلے گئے۔

وہی دو آدمی جو داؤد کا پیچھا کر رہے تھے۔

ان کو داؤد نظر آگیا اور انہوں نے اپنے باس کو کال کی اور اُسے بتایا کہ داؤد اُس لڑکی کو ایک کلینک میں لے کر جا رہا یے پھر ان کے باس نے جیسا کہا اس کے آدمیوں نے ویسا ہی کیا۔

چھوٹا سا کلینک جو ایک کمرے میں مشتمل تھا آگ بہت زیادہ بھڑک پڑی تھی۔

داؤد جو ڈاکٹر کو لے کر واپس آیا تھا آگ کو دیکھ کر اس نے نفی میں سر ہلایا۔

ارحہ…. داؤد چیختے ہوئے اندر کی جانب بڑھنے لگا۔

آج پی تو اد کا نکاح ارحہ سے ہوا تھا اور آج ہی وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی۔

ساتھ جو ڈاکٹر کھڑی تھیں۔اور چہرے پر بےیقینی تھی اس نے داؤد کو پکڑے روکا۔

کیا کر رہے ہیں آپ آگ بہت زیادہ پھیل گئی ہے۔

اگر آپ اندر گئے تو آپ کی جان بھی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر نے داؤد کو روکتے ہوئے کہا۔

لیکن اندر میری بیوی ہیں داؤد نا لہجہ بےبسی میں بھر آیا تھا عجیب سی اس پر بےبسی طاری تھی۔

داؤد بےبسی سے کھڑا آگ کو دیکھ رہا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

ارحہ کو ہوش آیا تو بازو میں اٹھتی تکلیف کی وجہ سے کراہ پڑی۔

اسے یاد تھا کہ آخری بار داؤد نے اسے بانہوں میں اٹھایا تھا اور پھر یہ بےہوش ہو گئی۔

تمہیں ہوش آگیا؟

مقابل نے ارحہ کے سامنے آتے مسکرا کر کہا۔

ہاتھ میں اس نے وائن کی بوتل پکڑی ہوئی تھی۔

ت تم؟

تم مجھے اغوا کیے یہاں لائے ہو؟

تمھاری ہمت کیسے ہوئی جانتے بھی ہو میں کون ہوں؟ تو تم تھے اس سب کے پیچھے؟۔

ارحہ نے مقابل کو دیکھتے لہجے میں بےیقینی لیے چیختے ہوئے کہا،

بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم کون ہو اور شاید یہی تمھاری غلطی ہے۔کہ تم اُس انسان کے ساتھ جڑی ہو جسے دیکھتے ہی میرا دل کرتا ہے کہ میں اُس کی اُسی وقت جان لے لوں۔

مقابل نے سرد لہجے میں اُس لڑکی کے پاس آتے کہا۔

تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو مجھے چھوڑ دو۔

ورنہ تمھارا انجام اچھا نہیں ہو گا،

زمین پر بیٹھی بےبسی سے روتی ارحہ نے پیچھے کو کھسکتے ہوئے خوفزدہ لہجے میں کہا۔سامنے کھڑے انسان کے ارادے اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔

ارحہ کے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کمر کے ساتھ رسی سے باندھا ہوا تھا۔

بکھیرے بال مرجھایا سا چہرہ اس وقت وہ قابلِ رحم لگ رہی تھی۔

مجھے کبھی انجام کی پرواہ نہیں رہی اس لیے تو تم میری قید میں ہو۔

اور آج رات جو ہو گا اُس کے بعد تمھارا مجھ سے الگ ہونا نامکمل ہے۔

مقابل نے بازو سے پکڑے اُسے اپنے قریب کرتے اس کی آنکھوں میں دیکھتے سرد مہری سے کہا۔اور ہاتھ میں پکڑی وائن کی بوتل کو اس کے زخم پر ڈال دیا۔

ارحہ تکلیف کے مارے کراہ پڑی۔

اب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ آگے کیا ہو گا۔

تمہیں لگا کہ داؤد تمھاری مدد کر سکتا ہے۔

نہیں دیکھو آج تم میری قید میں ہو اور اب میرا جو دل کرے گا میں وہی تمھارے ساتھ کروں گا۔

مقابل نے آنکھوں میں خباثت لیے کہا۔

ارحہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔

صاحب مجھے معاف کر دیں مجھ سے غلطی ہو گئی۔

جمشید جو گاؤں سے بھاگنے کے چکر میں تھا لیکن اسے ضرغام کے آدمیوں نے دبوچ لیا اور اب ضرغام کے قدموں میں لاکر پھینکا تھا۔

جو ٹانگ پر ٹانگ رکھے سگریٹ کے گہرے کش لے رہا تھا۔

معافی؟

یہ تو تمہیں غلطی کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔

لیکن تم نے ضرغام بدر خان کو دھوکا دیا؟

اور میں اتنا بھی رحم دل نہیں ہوں کہ تمھاری غلطی معاف کر دوں آج اگر تمھاری غلطی معاف کر دی تو کل کو اور لوگ بھی بغاوت پر اتر آئے گئے۔

اس لیے معافی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سہی کہہ رہا ہوں نا؟ ضرغام نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے پرسرار لہجے میں کہا۔

جمشید خوف کے مارے کپکپا رہا تھا۔

اس نے سن رکھا تھا کہ ضرغام بدر خان ایک ظالم انسان ہے لیکن اسے نہیں معلوم تھا وہی اس کا شکار بن جائے گا۔

صاحب مجھے معاف کر دیں میں لالچ میں اندھا ہو گیا تھا،

جمشید کے ضرغام کے سامنے ہاتھ جوڑتے روتے ہوئے کہا۔

تم ابھی لالچ میں اندھے ہوئے تھے نا اب تمہیں میں سچ میں اندھا کروں گا۔

ضرغام کا لہجہ پل بھر میں سرد ہوا۔

اد نے اپنے آدمی کو اشارہ کیا۔

جو جلدی سے ایک تیز دھار چاقو لے آیا تھا۔

چاقو کو دیکھتے جمشید کی آنکھیں باہر کو آ گئی تھیں۔

نہیں صاحب مجھے چھوڑ دیں۔

میں اب سے ایسا کوئی کام نہیں کروں گا۔

جمشید نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔

ضرغام اس کے پاس آیا اور بالوں سے دبوچتے قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا۔۔

کس نے تمہیں یہ کام کرنے کے پیسے دیے تھے؟

ز زہاب صاحب نے جمشید نے خوفزدہ مگر تکلیف دہ لہجے میں کہا۔اسے لگ رہا تھا جتنی زور سے ضرغام نے اس کے بالوں کو کھینچتا ہے بالوں کے ساتھ اس کی سکن بھی اتر جائے گی۔

پیسوں کی خاطر تم فراموش کر بیٹھے کہ ضرغام بدر آخر ہے کون؟؟

تو یہ تمھاری غلطی ہے۔

ضرغام نے کہتے ہی چاقو کی نوک سے جمشید کی گال پر گہرا کٹ لگایا۔

جس کی درد ناک چیخیں پورے اڈے میں گونجی تھیں۔

ضرغام نے ایسے ہی کٹ اس کے ہاتھوں پر بھی لگائے۔

تو کیا خیال ہے تمھاری گردن پر بھی ایسا ہی ایک گہرا کٹ لگایا جائے لیکن اُس کے بعد تمھارے بچنے کے چانسز بہت کم ہو جائے گئے۔

ضرغام نے تکلیف سے کراہتے ہوئے جمشید کو دیکھتے بےرحمی سے کہا۔

لیکن لیکن تمہیں میں اتنی آسان موت تو دینا نہیں چاہتا تمہیں میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑوں گا۔

ضرغام نے جمشید کے بالوں کو چھوڑتے سرد لہجے میں کہا۔

لے جاؤ اسے اور پانی کا ایک قطرہ بھی اسے ملنا نہیں چاہیے۔

ضرغام نے اپنے آدمیوں کو حکم دیتے کہا۔

اور وہاں سے چلا گیا۔

اس کے آدمی جمشید کو وہاں سے لے گئے تھے۔

جو خون میں لت پت زمین پر پڑا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

اقبال کہاں تھے آپ؟ کل سے آپ غائب ہیں اور آپ کا نمبر بھی مسلسل بند جا رہا تھا۔

اقبال جو ابھی حویلی میں داخل ہوا تھا نازیہ نے اسے دیکھتے ہی سوالوں کی برسات کر دی لیکن اس کی زبان کو بریک پیچھے کھڑی حبہ کو دیکھتے لگی جس نے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بچی کو پکڑا تھا جو شاید سو رہی تھی۔

اقبال نے سوچ لیا تھا کہ مزید وہ حبہ اور اپنی بیٹی کو چھپا کر نہیں رکھے گا،

اس لیے اُسے حویلی لے آیا تھا۔

اس نے نکاح کیا تھا اور نکاح کرنا کوئی گناہ نہی ہے،

ایسا اقبال نے سوچا اور دونوں کو یہاں لے آیا۔

اقبال یہ لڑکی کون ہے؟

نازیہ نے اقبال کے پاس آتے حیرانگی سے پوچھا اس کی چھٹی حس جس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔

اُس پر وہ یقین نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔

یہ حبہ ہے۔

اقبال نے حبہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ کھڑا کرتے کہا۔

یہ میری بیوی ہے اور یہ میری بیٹی ہے۔اقبال نے سنجیدگی سے نازیہ کو دیکھتے اس کے سر پر بم پھوڑا۔

جس کی یہ سنتے ہی آنکھیں بےیقینی سے پھیل گئی تھیں۔

حبہ کھڑی نازیہ کو دیکھ رہی تھی۔

آ آپ مزاح کر رہے ہیں نا؟ میں جانتی ہوں آپ ایسا نہیں کر سکتے۔

نازیہ نے اقبال کے بازوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے نفی میں سر ہلاتے پوچھا۔

یہ سچ ہے حبہ میری بیوی ہے۔

بہت پہلے میں اس سے نکاح کر چکا تھا،

اور آج سے یہ بھی اسی حویلی میں رہے گی۔

اقبال نے نازیہ کو دیکھتے کہا۔

اتنے میں داؤد جو اپنے کمرے سے باہر آیا تھا۔

سامنے کا منظر دیکھ کر وہی رک گیا۔

آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے دھوکا دینے کی؟ میرے ہوتے ہوئے آپ دوسری شادی کیسے کر سکتے ہیں؟

نازیہ نے غصے سے چیختے ہوئے اقبال کا گریبان پکڑتے پوچھا،

میں نے تمہیں کوئی دھوکا نہیں دیا۔

مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے اگر میں نے نکاح کیا بھی ہے تو کوئی گناہ نہیں کیا۔

اور تمہیں میں چھوڑ نہیں رہا جو تم اتنا تماشہ لگا رہی ہو۔

اقبال نے نازیہ کے دونوں ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے جبڑے بھیجنے کہا۔

آپ کو کیا لگتا ہے جو آپ نے میرے ساتھ کیا اُس کے بعد خوشی خوشی میں آپ کے ساتھ رہو گی؟

ہرگز نہیں میں آج ہی اپنی امی کی طرف جا رہی ہوں۔

مجھے آپ جیسے دھوکے باز انسان کے ساتھ نہیں رہنا۔

نازیہ نے سرخ آنکھوں سے اقبال اور حبہ کو دیکھتے غصے سے کہا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

اس کے جاتے ہی اقبال نے داؤد کی طرف دیکھا۔

شاید تم بھول رہے ہو کہ نکاح نامے پر نازیہ کے گھر والوں نے کچھ شرائط لکھی تھی۔اور تم نے کہا تھا مجھے منظور ہے۔اور اُس میں صاف لکھا تھا کہ نازیہ کے ہوتے ہوئے تم دوسری شادی نہیں کر سکتے۔

لیکن تم نے ہر ایک چیز کو اگنور کیا اور اب نتائج کے لیے بھی تیار رہنا۔

داؤد نے جانے سے پہلے اقبال کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

حبہ نے پریشانی سے اقبال کے چہرے کی طرف دیکھا۔

تم پریشان مت ہو میں سب سنبھال لوں گا۔

چلو میرے ساتھ اقبال نے نرم لہجے میں کہا اور حبہ کو لیے وہاں سے چلا گیا۔

ابھی تو جواد چوھدری حویلی میں نہیں تھا، ناجانے وہ آکر کیا کہتا۔

💜 💜 💜 💜

شکر ہے میرا بچہ ٹھیک ہو گیا۔

میں تمھاری وجہ سے کتنی پریشان ہو گئی تھی۔

حمیرا نے عرفان کے ماتھے کو چومتے ہوئے خوشی سے کہا۔

موم میں نے سنا کہ ضرغام نے آپ کو معافی مانگنے کا کہا۔

کیا آپ نے انوشے سے معافی مانگی؟

عرفان نے اپنی ماں کو دیکھتے پوچھا۔

انعم بھی وہی کھڑی تھی۔

حمیرا کا مسکراتا چہرہ سیریس ہوا تھا۔

اُس منحوس کا نام لینا ضرور تھا۔

میں نے اُس سے معافی نہیں مانگی نا مجھے ضرورت ہے۔

حمیرا نے نحوست سے کہا۔

موم اُس نے خود منع کر دیا ورنہ ہم دونوں کو اُس سے معافی مانگنی پڑتی۔

انعم نے منہ بسوڑتے کہا۔

تم اپنا منہ بند کرو۔

اور جاؤ بھائی کے لیے جوس لے کر آؤ کتنی گرمی پڑ رہی ہے۔

حمیرا نے گھورتے ہوئے کہا تو انعم بھی عرفان کو گھوری سے نوازتے وہاں سے چلی گئی۔

تم زیادہ مت سوچو بس آرام کرو،

حمیرا نے پیار سے کہا۔

لیکن عرفان کسی سوچ میں غرق ہو گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

انوشے آج اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔ابھی وہ واشروم سے باہر نکلی۔اور کمرے میں نظر دوہرائی۔

ضرغام دوبارہ اس کے کمرے میں نہیں آیا تھا۔

جب اسے اپنے کمرے میں کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا۔

انوشے نے ارد گرد دیکھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا پھر اسے کھڑکی کے پاس ایک عکس نظر آیا۔

انوشے اُس عکس کو دیکھتے خوفزدہ ہوئی۔

اس سے پہلے وہ خوف سے چیختی۔

زہاب چہرے پر مسکراہٹ لیے انوشے کے سامنے آیا۔

آ آپ؟ یہاں؟ انوشے کی زبان سے زہاب کو دیکھتے یہی نکلا تھا۔

ہاں میں ۔تم ٹھیک ہو ؟زہاب نے نرم لہجے میں پوچھا۔

آپ میرے کمرے میں کیسے آئے؟

انوشے نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

یہاں کھڑکی سے اور تمھارے کمرے میں آنا میرے لیے مشکل کام نہیں تھا۔

زہاب نے گہری نظروں سے انوشے کو دیکھتے کہا۔

لیکن حویلی میں اور بھی کمرے ہیں آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں اسی کمرے میں ہوں ؟انوشے نے تھوڑا اٹکتے ہوئے پوچھا۔

زہاب اس کی ذہانت پر مسکرا پڑا تھا۔

تم تو میری سوچ سے زیادہ سمجھدار ہو گئی ہو۔لیکن پہلے بھی اور اب بھی مجھے تم ہر حال میں قبول ہو۔

میں تمہیں لینے آیا ہوں چلو میرے ساتھ

تمہیں میں یہاں کسی اور کی سزا بھگتنے نہیں دے سکتا۔

زہاب نے تھوڑا انوشے کے قریب آتے کہا جس نے بےساختہ اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھائے تھے۔

زہاب نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔جو انوشے نے اس سے پوچھا تھا۔

میرا نکاح ضرغام سے ہو چکا ہے۔

انوشے نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے کہا۔

میں اس نکاح کو نہیں مانتا کیا تم اس نکاح کو مانتی ہو؟

تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں پھر بھی تم یہ جواز دے رہی ہو؟ کیا پوری زندگی تم ضرغام کے رحم و کرم پر گزارنا چاہتی ہو؟ اُس کا ظلم برداشت کرنا چاہتی ہو؟

میں تمہیں یہاں سے دور لے جاؤں گا،

جہاں تمھارے اور میرے علاوہ کوئی نہیں ہو گا۔

زہاب نے اسے سمجھانا چاہا اور ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن انوشے نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔

زہاب نے بھی نوٹ کیا۔

اس سے پہلے انوشے کوئی جواب دیتی اس کے کمرے کا دروازہ ناک ہوا۔

انوشے نے خوفزدہ نظروں سے زہاب کی طرف دیکھا جو ابھی بھی مطمئن کھڑا تھا۔

آپ یہاں سے جائیں اگر ضرغام نے آپ کو یہاں دیکھ لیا تو میرے لیے مسئلہ ہو جائے گا۔

پلیز یہاں سے جاؤ۔

انوشے نے پریشانی سے زہاب کو دیکھتے کہا۔

تمہیں لیے میں یہاں سے کہی نہی جاؤں گا چلو میرے ساتھ زہاب نے ضدی لہجے میں کہا۔

آپ پلیز یہاں سے چلے جائیں انوشے نے بھاری لہجے میں کہا۔

کیونکہ آگے کا سوچ کر ہی اس کی جان نکل رہی تھی۔۔

زہاب کو اس کی حالت پر ترس آگیا۔

ٹھیک ہے اس بار میں جا رہا ہوں لیکن اگلی بار تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گا۔

زہاب نے سنجیدگی سے انوشے کو دیکھتے کہا اور جیسے آیا تھا ویسے ہی کھڑکی سے کود کر باہر چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی انوشے نے سکون کا سانس لیا اور دروازہ کھولا۔

جہاں سامنے ضرغام ماتھے پر تیوری لیے کھڑا تھا،

دروازہ کھولنے میں اتنی دیر کیوں لگا دی؟

ضرغام نے جانچتی ہوئی نظروں سے انوشے کے چہرے کے تاثرات دیکھتے پوچھا۔

جو گھبرائی ہوئی کھڑی تھی۔

وہ میں واشروم میں تھی۔

انوشے نے جلدی سے کہا۔

تم جھوٹ بول رہی ہو…..

ضرغام نے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔

ن نہیں تو میں جھوٹ نہیں بول رہی۔

انوشے نے نفی میں سر ہلاتے کپکپاتے لہجے میں کہا۔

اگر تم سچ بول رہی ہو تو تمھاری زبان کیوں لڑکھڑا رہی ہے؟

ضرغام نے کھڑکی کے پاس آتے باہر دیکھتے پوچھا۔

جہاں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا،

انوشے….. ضرغام نے مڑتے انوشے کے پاس آتے اس کا نام پکارا۔

انوشے پریشانی سے اپنے ہاتھوں آپس میں بھینچے کھڑی تھی۔

ضرغام انوشے کے بےحد قریب آیا اور اس کی گردن میں ہاتھ ڈالے اس کے چہرے کو خود کے قریب کیا۔

یہ مت سمجھنا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے

ضرغام بدر خان سب کچھ جانتا ہے اور اگر وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی خاموش ہے سمجھ جاؤ یہ طوفان کے آنے سے پہلے کی خاموشی ہے۔

ضرغام نے انوشے کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔

لیکن انوشے نے محسوس کیا تھا اس بار ضرغام کی گرفت ہلکی تھی اور لہجہ بھی نارمل تھا۔

وہ کیوں تھا یہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

سمجھ گئی؟

ضرغام نے ایک آبرو اچکاتے پوچھا۔

انوشے نے جلدی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

ضرغام نے اس کی گردن طسے ہاتھ نکالا اور رینگتا ہوا اس کے ہونٹوں تک آیا اور انوشے کے ہونٹ تلے تل کو انگوٹھے سے سہلایا۔

انوشے کا سانس اٹکا تھا۔

میری نظر اب سے ہمیشہ تم پر ہی رہے گی اس لیے سنبھل کر رہنا۔

ضرغام نے گہرے لہجے میں کہا اور پھر انوشے کو چھوڑے کمرے سے نکل گیا۔

انوشے نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے خود کو کمپوز کیا۔

ناجانے آج ضرغام کو کیا ہو گیا تھا۔

انوشے چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آئی اور کونے میں بیٹھ کر فلحال زہاب کے بارے میں سوچنے لگی۔

اس کا دل کیوں نہیں مان رہا تھا کہ وہ زہاب کی بات مانے۔

کیا کرو میں انوشے نے دل میں سوچا۔

زہاب کے آنے کے بعد وہ پریشان ہو گئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

سر یہ وہی لڑکی کی تصویر ہے جو اُس کلینک میں کام کرتی تھی،

جب آپ نے اُس کلینک کے بارے میں معلوم کرنے کا کہا تو اس لڑکی کی تصویر ہمیں باُس ڈاکٹر سے ملی۔

اور کلینک سے صرف ایک لاش ملی تھی۔

پھر ہم نے اس لڑکی کو تلاش کیا جسے ڈھونڈنے میں ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔

ہم نے پہلے گاؤں کے آس پاس کے کلینک میں معلوم کیا اور وہ لڑکی ہمیں مل گئی جو دوسرے گاؤں کے ایک چھوٹے سے کلینک میں کام کر رہی تھی۔

داؤد کے آدمی نے تفصیل سے اسے بتاتے ہوئے کہا۔

اس لڑکی کو میرے پاس لے کر آؤ۔

داؤد نے سرد لہجے میں اپنے آدمی کو کہا اور ہاتھ میں پکڑی تصاویر غصے سے دیکھا،

نازیہ میری بچی کیا ہوا؟ تم رو کیوں رہی ہو؟

نازیہ جو روتی ہوئی ضرغام کی حویلی واپس آئی تھی۔

اس کی آواز سنتے باقی سارے لوگ بھی اپنے کمروں سے باہر نکل آئے۔

اتنی دیر بعد اگر نازیہ اپنی ماں سے ملی بھی تو اس حالت میں ملی۔

وہ صرف فون پر اپنی ماں سے بات کرتی تھی جب سے دونوں گاؤں والوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔

اُس وقت سے نازیہ اپنی فیملی سے ملی نہیں تھی۔کیونکہ اقبال نے اسے منع کیا تھا۔

نازیہ کیا ہوا؟ تم اتنے سالوں بعد حویلی آؤ ہو تو کیا ایسے ہم سب سے ملو گی؟

بڑی خانم نے نازیہ کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

نازیہ بڑی خانم کی طرف بڑھی اور ان کے گلے لگے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

نازیہ اب تو میرا دل بیٹھا جا رہا ہے کیا ہو گیا۔

حمیرا نے نازیہ کے پاس آتے پوچھا۔

امی اقبال نے مجھے دھوکا دیا۔

وہ بہت پہلے نکاح کر چکے تھے اور اب تو ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔

نازیہ نے روتے ہوئے اپنی ماں کو بتایا جس نے حیرانگی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔

وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے جب ہم نے شرط رکھی تو اُس نے بھی مانی تھی۔اور اب وہ کیسے ایسا کر سکتا ہے۔

حمیرا نے غصے سے کہا۔

حمیرا پہلے نازیہ کو پانی دو بعد میں اس بارے میں بات کرتے ہیں جاؤ اسے اندر لے کر جاؤ۔

بڑی خانم نے نازیہ کو دیکھتے کہا۔۔

چلو میرے ساتھ تم پریشان مت ہو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔

حمیرا نے نازیہ کو حوصلہ دیتے کہا۔

اور اسے لیے اندر کی جانب بڑھ گئی۔

بڑی خانم نے دونوں کو جاتے ہوئے دیکھا،

پہلے مسئلے کم تھے۔

جو اب مزید ایک اور مسئلہ سامنے آگیا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

یہ لڑکی بےہوش کیوں ہے؟

داؤد نے اُسی کام والی کو دیکھتے سرد لہجے میں پوچھا۔

اگلے دو گھنٹے کے اندر اس کے آدمی اُسے یہاں لے آئے تھے۔

سر یہ ہمیں دیکھ کر بےہوش ہو گئی آدمی نے کہا۔

داؤد نے سامنے کھڑے ہٹے کٹے اپنے آدمیوں کو دیکھا۔جن کی شکل دیکھ کوئی بھی لڑکی بےہوش ہو سکتی تھی۔

تم لوگوں کو دیکھ کر اس کا بےہوش ہونا سمجھ میں آتا ہے۔

داؤد نے کہتے ہی رخ تبدیل کر لیا۔

جاؤ پانی لے کر آؤ میں اس کے ہوش میں آنے تک کا انتظار نہیں کر سکتا۔

داؤد نے کہا تو اس کا آدمی پانی لینے چلا گیا۔

لیکن اُس آدمی کے واپس آنے سے پہلے ہی اُس لڑکی کو ہوش آگیا۔

اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولے پہلے تو سب کچھ اسے دھندلا نظر آیا پھر جیسے ہی صاف نظر آیا سامنے رخ موڑے کھڑے شخص کو دیکھ کت اس کی آنکھیں پھیل گئی اسے لگا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کلینک میں آئے تھے۔

ک کون ہیں آپ لوگ؟ اُس لڑکی نے ہمت جمع کرتے پوچھا۔

آواز پر داؤد نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

لیکن داؤد کو دیکھتے لڑکی کے چہرے پر حیرانگی کے تاثرات آگئے،

وہ اسے پہچان چکی تھی تھی۔

آپ؟ اُس لڑکی نے حیرانگی سے کہا۔

اچھا ہوا کہ تم نے مجھے پہچان لیا۔

تو اب سیدھے مدعے کی بات پر آتے ہیں۔

داؤد کہتے ہی دو قدم آگے آیا۔

لہجہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔

وہ لڑکی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔

جب میں اپنی بیوی کو وہاں چھوڑ کر گیا تو پیچھے کیا ہوا تھا؟ داؤ نے سنجیدگی سے پوچھا۔

وہ…. اُس لڑکی نے پریشانی سے کہا۔

تم. یہاں سیف ہو کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔اس لیے بےفکر ہو کر میرے سوال کے جواب دو۔

داؤد سمجھ گیا تھا کہ وہ ڈری ہوئی ہے۔

وہ آپ کے جانے کے بعد کچھ لوگ آئے تھے انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر مجھے اپنی جان پیاری ہے تو میں وہاں سے کہی دور چلی جاؤں۔

میں کلینک سے باہر آگئ لیکن میں وہاں سے بھاگی نہیں تھی۔

ایک درخت کے پیچھے چھپ گئی۔

وہ لوگ آپ کی بیوی کو گاڑی میں ڈالے اپنے ساتھ لے گئے، اور کلینک کو بھی آگ لگا دی۔

لڑکی نے جو بھی دیکھا تھا وہ داؤد کو بتا دیا لیکن وہ یہ سنتے پتھر کا بن گیا تھا۔

اس کا مطلب کہ ہو سکتا ہے ارحہ زندہ ہو۔

اور اگر وہ زندہ ہے تو لاش کس کی تھی؟

داؤد نے اپنی کن پٹی دباتے سوچا۔

کیا سچ میں وہ لوگ ارحہ کو اپنے ساتھ لے گئے تھے؟

داؤد نے کنفرم کرنا چاہا۔

جی صاحب وہ آپ کی بیوی کو ساتھ لے گئے تھے اور جب کلینک کو آگ لگی تو یہ دیکھتے ہی میں وہاں سے بھاگ گئی تھی۔

اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی۔

لڑکی نے داؤد کو دیکھتے کہا۔

ٹھیک ہے تم جا سکتی ہو میرے آدمی تمہیں صحیح سلامت تم جہاں کہو گی چھوڑ دیں گئے۔

داؤد نے نرم لہجے میں کہا۔

اس لڑکی نے اسے بہت بڑی خوشخبری سنائی تھی۔دل کو کر رہا تھا کہ وہ پوری دنیا کو بتائے۔

وہ بتا نہیں سکتا تھا کہ وہ کتنا خوش ہے۔

وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی۔

داؤد نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

ارحہ آج مجھے تھوڑی سی امید ملی ہے۔کہ تم زندہ ہو۔

میں زمین اور آسمان ایک کر دوں گا تمہیں ڈھونڈ کر ہی دم لوں گا۔

یہ میرا خود سے وعدہ ہے اور جس نے بھی تمھارے ساتھ یہ کیا اُس کو تو میں نہیں چھوڑوں گا۔

داؤد نے اپنا موبائل نکالتے سرد لہجے میں کہا اور ایک نمبر ڈائل کرنے لگا۔لیکن اب اسے ایک بات کی فکر کھائے جا رہی تھی کہ ارحہ آخر کہاں ہے اور کس حال میں ہو گی۔

💜 💜 💜 💜

یہ میری امی ہیں اور تمھاری ساسوں ماں

اقبال حبہ کو اپنی ماں کے کمرے میں لے آیا تھا۔

حبہ نے اپنی بیٹی کو صبا کے ساتھ لیٹا دیا جو سو رہی تھی۔

اقبال ان کا خیال کون رکھتا ہے؟

حبہ نے صبا کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

چاچو نے نرس رکھنے کا کہا تھا۔

وہ نرس جو ہیں کل تک آجائے گی۔

اقبال نے کہا۔

اقبال اب اس کی ضرورت نہیں ہے اب سے میں ان کا خیال رکھوں گی۔

میری ماں باپ تو بچپن میں ہی گزر گئے تھے ایسے مجھے بھی ان کی خدمت کرنے کا موقع مل جائے گا۔

حبہ نے صبا کے سر پر ہاتھ رکھتے مسکرا کر کہا۔

کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟

اقبال نے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

کیونکہ اسے یاد ہے کہ نازیہ ایک بار بھی اس کمرے میں نہیں آئی تھی۔

اقبال کو خوشگوار حیرت ہوئی۔

ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرضی

اقبال نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اقبال اب نازیہ کیا کرے گی؟ اُسے بہت تکلیف پہنچی ہے۔

آپ ایسا کریں اُس سے معافی مانگ لیں۔

مجھے نازیہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور جب آپ بھی پیار سے اُسے منا لیں گئے اور معافی مانگ لیں گئے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔

حبہ نے اقبال کے سامنے کھڑے ہوتے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے کہا۔

اقبال حبہ کی بات پر فقط مسکرا پڑا اور دوسرا اپنا ہاتھ حبہ کے ہاتھ پر رکھا۔

حبہ تمھاری سوچ کی میں دل سے عزت کرتا ہوں۔

تم اچھی ہو سب کے بارے میں سوچتی ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی سب بھی اچھے ہوں گئے۔

ابھی تم نازیہ کو جانتی نہیں ہو۔

اگر میں اُس سے معافی بھی معاف لوں تو بھی وہ اپنی ضد پر اڑی رہے گی۔

تم اس بارے میں زیادہ نا سوچو میں سب سنبھال لوں گا۔تم آؤ میں تمہیں کمرہ دکھا دیتا ہوں۔

اقبال نے حبہ کو دیکھتے کہا۔

اقبال میں تھوڑی دیر یہی امی کے پاس رکنا چاہتی ہوں اور دیکھیں نا ہماری گڑیا بھی اپنی دادی کے پاس سکون سے سو رہی ہے۔

حبہ نے مسکراتے ہوئے اپنی بیٹی کو دیکھتے کہا۔

ٹھیک ہے۔اپنا خیال رکھنا۔

اور تم یہی رہو میں آتا ہوں کچھ دیر میں اقبال نے کہا۔اور کمرے سے چلا گیا۔

حبہ چلتی ہوئی اپنی بیٹی کے پاس بیٹھ گئی۔

اور مسکراتی نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھتے لگی۔

💜 💜 💜 💜

نازیہ اب تم کیا چاہتی ہو؟

حمیرا نے نازیہ کو دیکھتے پریشانی سے پوچھا۔

امی آپ ابھی اور اسے وقت انوشے کو اس حویلی سے نکال دیں۔

نازیہ نے سرخ آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھتے کہا۔

انوشے کو نکالنے سے کیا ہو گا؟

حمیرا نے حیرانگی سے پوچھا۔

کیونکہ اقبال اُسے حویلی میں داخل نہیں ہونے دے گا۔اور جب وہ در در بھٹکے کی تو مجھے بھی تھوڑا سکون ملے گا۔

نازیہ نے غصے سے کہا۔

لیکن آپی اس انوشے کو کیا لینا دینا؟

انعم کو ابھی بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نازیہ کرنا کیا چاہتی ہے۔

تم. اپنی زبان بند کرو تمہیں اُس کی بہت فکر کھائے جا رہی ہے۔

جب میں اُس گھر میں نہیں ہوں تو وہ بھی یہاں نہیں رہے گی۔

میں یہاں اُس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی۔

نازیہ کی باتوں سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ انوشے سے بہت جلتی ہے بس اُس کا نقصان کرنا چاہتی ہے کسی نا کسی طرح۔

نازیہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے اس وقت انوشے کو نہیں بلکہ اقبال کے بارے میں سوچو۔

حمیرا نے بھی اسے سمجھانا چاہا۔

کیونکہ وہ بھی اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ ضرغام سے پنگا لینا ٹھیک نہیں ہے۔

لیکن نازیہ سمجھ پی رہی تھی۔

امی میں پہلے ہی پریشان ہوں اور آپ بھی اُس کی سائیڈ لے رہی ہیں وہ لڑکی یہاں خون بہا میں آئی ہے وہ جیے یا مرے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

لیکن آپ سے بات کرنا بیکار ہے میں خود ہی

اُسے اس حویلی سے نکال دوں گی۔

نازیہ نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے غصے سے کہا اور بنا اپنی ماں اور انعم کا بات سنے وہاں سے چلی گئی۔

یہ لڑکی پاگل ہو گئی ہے۔انعم روکو اپنی بیوقوف بہن کو حمیرا نے پریشانی سے انعم کو دیکھتے کہا۔

جی امی انعم نے کہا اور نازیہ کے پیچھے بھاگی۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام اپنے کمرے میں ساری لائٹس بند کیے اپنی آرام دہ کرسی پر آنکھیں موندے بیٹھا ہوا تھا۔

ارحہ دیکھو تمھارے جانے کے بعد کیا کچھ ہو گیا۔

کاش کہ تم میرے پاس ہوتی۔

کیوں تم حویلی سے گئی؟آخر ایسی بھی کیا وجہ تھی۔

کیا سچ میں تم داؤد کو پسند کرتی تھی؟اگر کرتی تھی تو ایک بار تو مجھ سے بات کرتی۔

تاکہ کی تمھاری جان بچا سکتا اور آج تم میرے سامنے ہوتی۔ایک بار تو اپنے بھائی پر بھروسہ کرتی۔

جانتی ہو تمھارے جانے کے ضرغام بدر نے کیا کچھ کیا۔

جو وہ کبھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ضرغام آنکھیں موندے دماغ میں یہی سب باتیں سوچ رہا تھا۔

جب اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے انوشے کو روتا ہوا چہرہ آیا۔ضرغام نے فوراً آنکھیں کھول لی تھیں۔

کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

ضرغام نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

یہ مجھے کیا ہو رہا ہے کیوں میری آنکھوں کے سامنے اس لڑکی کا چہرہ آ رہا ہے۔

پچھلے کچھ دنوں سے اسے ناجانے کیوں بار بار انوشے کا خیال آ رہا تھا۔

لڑکی نہیں انوشے نام ہے

دل سے آواز آئی تھی۔

جسٹ شٹ آپ

ضرغام نے غصے سے اپنے دل کی آواز کو دبایا جب اسے اپنے کمرے سے باہر کچھ آوازیں سنائی دی اس کا دھیان فوراً ناچاہتے ہوئے بھی انوشے کی طرف گیا۔

ضرغام اپنی جگہ دے اٹھا اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھا دیے۔

…..

نازیہ کو کمرے کا معلوم نہیں تھا اس لیے اس نے ملازمہ سے پوچھا تو ملازمہ نے بتا دیا کہ ضرغام کے ساتھ والا کمرہ ہے۔

خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی کو اتنی اچھی طرح رکھا جائے گا میں نے سوچا نہیں تھا۔

اس کی قسمت تو ہمیشہ سے ہی اچھی ہی رہی ہے۔نازیہ نے منہ پر بڑبڑاتے ہوئے غصے سے کہا اور زور سے انوشے کے کمرے کا دروازہ کھولا

انوشے جو اندر بیڈ پر بیٹھی تھی۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا اس سے پہلے وہ نازیہ کو دیکھتے حیران ہوتی کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے۔نازیہ نے اسے بالوں سے دبوچتے اسے کمرے سے باہر لے کر آئی۔

انوشے تکلیف کے مارے کراہ پڑی اور ساتھ چیخ بھی رہی تھی۔

انوشے نے اپنا پورا زور لگاتے اپنے بچاؤ کے لیے نازیہ کو پچھے دھکا دیا جو زور سے دیوار کے ساتھ جا لگی۔

تمھاری اتنی ہمت نازیہ نے آنکھیں پھاڑے غصے سے کہا۔

اور اپنے قدم انوشے کی طرف بڑھائے جس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔

نازیہ اس سے پہلے انوشے کے منہ پر تھپڑ مارتی اس کا ہوا میں بلند ہاتھ راستے میں ہی کسی نے پکڑ لیا اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ضرغام بدر تھا۔

انوشے آنکھیں میچے کھڑی تھیں۔

شور سنتے باقی سب بھی وہاں آگئے تھے۔

ضرغام بدر جو اپنے کمرے سے باہر آیا تھا نازیہ اور انوشے کو دیکھ چکا تھا۔

نازیہ نے اپنے ہاتھ کو پکڑنے والے کی طرف دیکھا۔

نازیہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب کیا ہو گا۔

ضرغام……

نازیہ نے آہستہ آواز میں اس کا نام پکارا۔

ضرغام نے زور سے نازیہ کا ہاتھ جھٹکا۔

انوشے آپ سب لوگوں کی پرسنل پراپرٹی نہیں ہے کہ جس کا جو دل کیا وہ اس کے ساتھ کرے۔

ضرغام نے انوشے کو بازو سے پکڑ کر خود کے پاس کھڑا کرتے سرد لہجے میں کہا۔

ضرغام تم بھول رہے ہو کہ یہ لڑکی یہاں خون بہا میں آئی ہے۔لیکن کہی تمہیں اس سے محبت تو نہیں ہو گئی جو تم اس کی طرف داری کر رہے ہو؟

نازیہ نے ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

انوشے نے آنکھیں پھلائے بےیقینی سے نازیہ کو دیکھا۔

تمہیں کچھ زیادہ ہی دلچسپی نہیں ہو رہی میرے پرسنل معاملات میں دخل اندازی کرنے کی؟

اور دوبارہ تم مجھے انوشے کے آس اس نظر نا آؤ۔

جو تم نے اُس کے ساتھ کیا یہ مت سوچنا کہ ضرغام کو معلوم نہیں ہے۔

ابھی اگر اقبال کو تمھاری اس حرکت کا پتہ چل جائے کہ تم نے جھوٹ بولا تھا تو تمہیں وہ ایک سیکنڈ سے پہلے طلاق دے دیں۔

ضرغام نے نازیہ کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔

جو آنکھوں میں خوف لیے اسے دیکھ رہی تھی،

ضرغام کو کیسے اُن تصاویر کا پتہ چلا اسے سمجھ نہیں آیا۔

ضرغام تم کس بارے میں بات کر رہے ہو؟

بڑی خانم نے اسے دیکھتے ناسمجھی سے پوچھا۔

خانم آج میں آپ سب کو آخری بار خبردار کر رہا ہوں انوشے کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا اگر کسی نے ایسی کوئی غلطی کی تو اُس کے ہاتھ اُسی وقت توڑ دوں گا۔

بہت جلد میں اس سارے معاملے کو ختم کرنے والا ہوں۔اس لیے بہتر ہے اس سے دور رہیں۔

ضرغام نے بڑی خانم کو دیکھتے دوٹوک لہجے میں کہا۔

اور انوشے کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔

لیکن معاملہ ختم کرنے والی بات بڑی خانم کو کچھ سمجھ میں نہیں آئی تھی ضرور ضرغام انوشے کے بارے میں کچھ سوچ چکا تھا۔

ضرغام کے جانے کے بعد باقی سب حیرانگی سے ایک دوسرے کی شکلوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔

امی یہ سب کیا تھا؟ بڑی خانم کے جانے کے بعد نازیہ نے اپنی ماں ہو دیکھتے پریشانی سے پوچھا۔

تجھے اسی لیے روک رہی تھی۔

ابھی ہمارا کچھ بھی کرنا بیکار ہے،

بس ایک بار ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں۔پھر یہ حویلی ہماری ہو گی۔

حمیرا نے آہستگی سے نازیہ کو دیکھتے کہا۔

وہ ملازمہ ضرغام کو وہ والی دوائی دے رہی ہے نا؟ حمیرا نے انعم کو دیکھتے پوچھا جس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

بس پھر کچھ دن صبر کرنا ہو گا۔

حمیرا نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیے کہا۔

لیکن نازیہ ناسمجھی سے اپنی ماں اور بہن کو دیکھ رہی تھی۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام نے کمرے میں جاتے انوشے کی طرف دیکھا،

جس کی آنکھیں ابھی بھی بھیگی ہوئی تھیں،

سرخ ناک جھکی ہوئی پلکیں۔

آج سے تم میرے کمرے میں رہو گی۔

ضرغام نے انوشے کو دیکھتے کہا۔

جس نے آنکھیں پھاڑے اس کی طرف دیکھا تھا۔

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اچانک ضرغام کو ہو کیا گیا ہے وہ اتنا تبدیل کیسے گیا،

اس کے لہجے میں انوشے کے لیے نرمی کیسے آگئی۔

فکر مت کرو تمھارے قریب نہیں آؤں گا۔

اور بہت جلد تمہیں آذاد بھی کر دوں گا۔

ضرغام نے اپنی کلائی میں پہنی گھڑی کو اتارتے کہا۔

آپ شاید بھول رہے ہیں کہ میں یہاں خون بہا میں آئی ہوں۔

آپ کی زبان سے خود کے لیے استعمال کیا گیا لہجہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا یا آپ مجھ پر ترس کھا رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ضرورت نہیں ہے۔

انوشے نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

ضرغام نے مڑ کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔

انوشے نے محسوس کیا تھا کہ ضرغام کا لہجہ تھکا ہوا ہے باقی سب کے ساتھ وہ ویسا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ اس کا رویہ تبدیل ہوا تھا،

نا کبھی میں نے تم پر ترس کھایا ہے نا میرا ارادہ ترس کھانے کا ہے۔

میں جو بھی کر رہا ہوں اپنے لیے کر رہا ہوں۔

نا مجھے تم سے پہلے کچھ لینا دینا تھا نا اب لینا دینا ہے جب تک تم میرے نام کے ساتھ جڑی ہو تمھاری حفاظت کروں گا۔لیکن ایک بات یاد رکھنا ضرغام نے آخری بات انوشے کے قریب آتے کہی۔

میرے نکاح میں ہوتے ہوئے آگر تم نے کوئی بھی ایسا کام کیا جو تمہیں نہیں کرنا چاہے تھا تو اس بات کے لیے تمہیں ہرگز معاف نہیں کروں گا۔

جب تمہیں میں اپنے نام سے آذاد کر دوں پھر جو کچھ مرضی کر لینا لیکن میرے نکاح میں ہوتے ہوئے کوئی بھی ایسی ویسی حرکت مت کرنا۔

ضرغام نے سرد لہجے میں کہا۔

اور چینج کرنے چلا گیا۔

انوشے نے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔

وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ ضرغام کے کہنے کا کیا مطلب ہے۔

تھوڑی دیر بعد جب ضرغام چینج کرکے آیا تو اس نے بلیک کلر کی شرٹ وور بلیو جینز پہنی تھی۔

انوشے نے کبھی اس طرح کیناسے ڈریسنگ میں نہیں دیکھا تھا لیکن انوشے کو وہ پیارا لگ رہا تھا۔

ضرغام بنا انوشے کو دیکھے اپنا موبائل پکڑے کمرے سے باہر چلا گیا۔

انوشے ابھی بھی وہی کھڑی تھی۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام گارڈن میں اکیلا بیٹھا آسمان کو تک رہا تھا۔

جو فیصلہ اس نے کیا تھا اُس کے بعد وہ تھوڑا سا ہی سہی لیکن پرسکون تھا۔

بہت کچھ میں ایسا کر چکا ہوں جس کا پچھتاوا پوری زندگی رہنے والا ہے لیکن مزید اب ایسا کچھ نہیں کروں گا۔

کاش کوئی تو میرا اپنا میرے پاس ہوتا۔

سب لوگ کیوں مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔

میں تھک گیا ہوں اپنی زندگی میں الجھ گیا ہوں۔

یہاں اگر لوگوں کو کو میری فکر بھی ہے تو صرف اپنی ضرورت کے لیے۔

ضرغام بدر خان تھک گیا ہے اپنی زندگی سے

ضرغام نے آنکھیں کھولے آسمان کی طرف دیکھتے کہا۔

آہ زہاب تمہیں میں کیسے بھول سکتا ہوں۔

ضرغام کا لہجہ پل بھر میں تبدیل ہوا، جب اچانک اسے زہاب یاد آیا۔

اب تیار رہنا اور سب جانتے ہیں کہ ضرغام بدر اکیلا ہی سہی لیکن جب وہ بدلہ لیتا ہے تو اگلے انسان کی روح تک کانپ جاتی ہے،

ضرغام نے تمسخرانہ انداز میں خود سے کہا جب اس کا موبائل رنگ ہوا۔

نمبر انجان تھا۔

لیکن وہ اچھی طرح پہچان گیا تھا کہ نمبر کس کا ہے۔

کال کرنے کی وجہ؟

ضرغام نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔اس وقت وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

کس بارے میں؟ ضرغام نے مقابل کی بات سنتے پوچھا۔

ٹھیک ہے میں آ رہا ہوں ضرغام نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے پریشانی سے کہا۔

اور وہاں سے چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد اُسی جگہ پر پہنچا جہاں مقابل نے آنے کا کہا تھا۔

کیا کہا تم نے؟ تم ارحہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟ اب بھی کچھ بات کرنے کو رہتا ہے؟

ضرغام کا لہجہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔

داؤد بیٹھا ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کو گھور رہا تھا۔

میں جانتا ہوں تم میری بات پر یقین نہیں کرو گئے۔

لیکن مجھے تمھارے یقین کرنے یا نا کرنے سے فرق نہیں پڑتا۔

مجھے بس تم سے تھوڑی بہت معلومات چاہیے۔

داؤد نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ضرغام کو دیکھتے کہا۔

کیا مطلب؟ کیا کہنا چاہتے ہو؟ ضرغام نے ایک آبرو اچکاتے پوچھا۔

مجھے لگتا ہے ارحہ زندہ ہے۔داؤد نے ضرغام کے چہرے کے تاثرات دیکھتے اس پر بم پھوڑا تھا۔

ضرغام کے لیے یہ خبر کیس دھماکے سے کم نہیں تھی۔

کیا کہا تم نے؟ ہوش میں تو ہو؟ میری آنکھوں کے سامنے اُس کی لاش تھی جو پوری طرح جلی ہوئی تھی۔

کیا تم میرے ساتھ مزاح کر رہے ہو؟میری بےبسی کا مزاح بنا رہے ہو؟ ضرغام نے غصے سے داؤد کی طرف قدم بڑھاتے پوچھا۔

تمھارا اور میرا مزاح کبھی نہیں رہا۔

یقین کرنا ہے تو کرو ورنہ نا کرو۔

لیکن مجھے بس یہ جاننا ہے کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ لاش ارحہ کی ہے؟ جب وہ پوری طرح سے جلی ہوئی تھی؟

داؤد نے سنجیدگی سے پوچھا۔

اُس کے ہاتھ میں پہنا ہوا بریسلٹ جو میں نے اُسے گفٹ دیا تھا۔

اور عرفان نے کہا تھا کہ وہ تم دونوں کو ساتھ دیکھ چکا تھا۔اور تم نے میری بہن کا دماغ خراب کیا اور اپنے ساتھ بھاگنے پر مجبور کیا۔

ضرغام نے داؤد کو سخت نظروں سے دیکھتے کہا۔

ایک بریسلٹ کیسے فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ لاش تمھاری بہن کی تھی۔

اور دوسری بات تمھاری بہن میرے ساتھ نہیں بھاگی تھی۔نا ہی میں نے اُسے بھاگنے کا کہا تھا۔اور اس بات کو جتنا جلدی ہو سکے اپنے دماغ میں بیٹھا لو۔

داؤد نے کرخت لہجے میں کہا۔

دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔

اگر ضرغام… خان تھا تو مقابل بھی چوھدری تھا۔

اور دونوں کا غصے میں کوئی مقابلہ نہیں تھا۔

زبان سنبھال کر بات کرو داؤد چوھدری

میں کیسے تمھاری بات پر یقین کر لوں؟

تم نے میری بہن کی جان لی۔

اور اب یہ ساری کہانی بنا رہے ہو۔

ضرغام نے سرخ آنکھوں سے داؤد ہو دیکھتے کہا۔

بس بہت ہو گیا۔

ضرغام کا بار بار اس پر الزام لگانا داؤد کا دماغ گھوما گیا تھا۔

میں کیسے تمھاری بہن کی جان لے سکتا ہوں جبکہ میں اُس سے محبت کرتا تھا۔

وہ تو خود اس بات سے ناواقف تھی۔میں کبھی پہل نا کرتا اگر وہ اُس رات میرے پاس مدد کے لیے نا آتی تو۔

اُسی کے کہنے پر میں نے اُس سے نکاح کیا۔

اور نکاح اس لیے کیا کہ میں اُس سے محبت کرتا تھا اُس کی حفاظت کرنا چاہتا تھا۔جو نہیں کر پایا تو میں اپنی محبت کی جان کیسے لے سکتا ہوں؟

اور تم تو اُس کے بھائی تھے نا؟ کیسے بھائی ہو تم کہ تمھاری ہی حویلی میں تمھاری بہن کی عزت اور جان کو خطرہ تھا؟ اُس رات وہ اپنی جان بچا کر میرے پاس آئی۔اگر حویلی میں رکتی تو شاید سچ میں مر چکی ہوتی۔

داؤد نے غصے سے دھاڑتے ہوئے کہا۔

لیکن ضرغام بدر خان آج پہلی بار وہی اپنی جگہ پر پتھر کا بن کر کھڑا ہوا تھا۔

آنکھوں میں بےیقینی تھی۔

تم… تم جھوٹ بول رہے ہو؟

ایسا نہیں ہو سکتا۔

ضرغام تھوڑی دیر بعد ہوش میں آتے آہستگی سے کہا۔

میری ایک بات یاد رکھنا ضرغام بدر خان

ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ تم خود میرے پاس آکر اپنے رویے کی مجھ سے معافی مانگو گئے۔

لیکن یہ سب کچھ جو بھی ہوا یا ہو رہا ہے اس میں بھی کوئی ایسا انسان شامل ہے جسے تم سے نفرت ہے،

تم سے بدلہ لینے کے چکر میں سزا ارحہ اور انوشے بھگت رہی ہے۔

داؤد نے انگلی اٹھائے ضرغام کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ضرغام بےبسی سے وہی زمین پر ڈھ سا گیا۔

داؤد کی باتوں میں دم تھا جس نے اسے سوچنے پر مجبور کیا تھا۔

میں اتنی بڑی بات کیسے فراموش کر سکتا ہوں،

کیسے کسی کی بھی باتوں پر یقین کر سکتا ہوں؟

ضرغام بدر خان اتنا بیوقوف کیسے ہو سکتا ہے؟

ضرغام نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے تکلیف دے لہجے میں کہا۔

اچانک سے اسے اپنے سینے پر بوجھ سا محسوس ہوا تھا۔

ارحہ

ضرغام نے سینے پر ہاتھ رکھے تکلیف دہ لہجے میں ارحہ کا نام پکارا۔

اس وقت وہ بےبسی کی انتہا کو چھو رہا تھا۔

💜 💜 💜 💜

تم نے نکاح کر لیا اور تمھاری ایک بیٹی بھی ہے اور یہ بات تم اب بتا رہے ہو؟

جواد چوھدری جسے خود اقبال نے سب کچھ بتا دیا تھا۔اب نظریں جھکائے کھڑا تھا جب جواد نے کہا۔

نازیہ کہاں ہے؟

جواد نے سنجیدگی سے پوچھا۔

وہ ناراض ہو کر اپنے میکے چلی گئی ہے۔

اقبال نے کہا۔

میری پوتی کہاں ہے؟

جواد نے پوچھا تو اقبال نے بےیقینی سے نظریں اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھا۔

ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟

نکاح تو تم کر چکے ہو۔

اب کچھ نہیں ہو سکتا۔

اس لیے جلدی سے میری پوتی کو لے کر آؤ۔

مجھے تو لگ رہا تھا تمھارے بچوں کو دیکھنے کی صرف حسرت ہی رہ جائے گی۔

جواد چودھری نے گھورتے ہوئے کہا۔

میں ابھی لے کر آتا ہوں۔اقبال نے خوشگوار لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا اب وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے باپ نے غصہ کیوں نہیں کیا۔

پوتی دے کر اقبال نے جواد چودھری کی خواہش پوری کر دی تھی۔

💜 💜 💜 💜

ارحہ زندہ لاش کی طرح زمین پر پڑی تھی۔

کپڑے اس کے جگہ جگہ سے پھٹے تھے۔

جب اس چھوٹے سے کمرے کا دروازہ کھلا۔

دروازہ کھلنے پر کمرے میں روشنی آئی تھی۔

ایک بوڑھی عورت اندر آئی۔

جس کا چہرہ دیکھ کر لگ رہا تھا وہ کافی ڈری ہوئی ہے۔

بیٹا۔

اُس بوڑھی عورت نے ارحہ کے سر پر ہاتھ رکھتے اسے پیار سے پکارا۔

اور سہارا دیتے اسے دیوار کے ساتھ بیٹھایا۔

پانی….

ارحہ نے آہستہ آواز میں کہا۔

اُس عورت نے ہاتھ میں پکڑی بوتل کو کھولے جلدی سے ارحہ کو پانی پلایا۔

بیٹا تم یہاں سے بھاگ جاؤ اُس عورت نے ارحہ کو دیکھتے کہا۔

ارحہ نے بےیقینی سے اُس عورت کی طرف دیکھا۔

یہ عورت اسی گھر میں رہتے تھی۔

اور ارحہ کو اپنے صاحب کے کہنے ہر ایک دن بعد کھانا اور پانی دیتی تھی۔

ک کیا مطلب؟ارحہ نے اُس عورت کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے پوچھا۔

وہ صاحب کو میں نے بات کرتے سنا آج کل میں وہ تمہیں مار دیں گئے۔

اس سے پہلے وہ واپس آئے تم یہاں سے بھاگ جاؤ۔

اُس عورت نے کہا۔

لیکن اس سے پہلے ارحہ کچھ کہتی باہر سے آتی آواز نے دونوں پر کپکپانے پر مجبور کر دیا تھا۔

مجھے لگتا ہے صاحب آگئے ہیں عورت نے خوفزدہ لہجے میں کہا…..

میں دیکھ کر آتی ہوں اُس عورت نے گھبرائے ہوئے لہجے میں ارحہ کو دیکھتے کہا اور اسکے پاس سے اُٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔

ارحہ بھی چہرے پر خوف لیے بیٹھی تھی۔

اگر سچ میں وہی انسان ہوا تو آج اس کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔

کاش وہ آخری بار اپنے بھائی کو دیکھ سکتی۔

اپنے شور سے مل سکتی۔

نکاح کے بعد جب داؤد نے اپنے جذبات کا اظہار کیا تو وہ کتنی خوش ہوئی تھی۔وہ انسان اسے پسند کرتا تھا لیکن کبھی اس نے ارحہ سے ملنے کی کوشش نہیں کی۔نا اسے کبھی تنگ کیا۔

ارحہ نکاح کے بعد بہت خوش تھی۔

لیکن قسمت میں اس کی کچھ اور ہی لکھا ہوا تھا۔

وہ عورت جب واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک کالے رنگ کی شال بھی تھی۔

چہرہ مطمئن تھا۔

باہر بلی تھی۔اُس نے برتنوں کو گرا دیا تھا۔

تم یہ چادر لو اور یہ کچھ پیسے ہیں جتنا ہو سکے یہاں سے دور چلی جاؤ۔

اُس عورت نے چادر اور کچھ پیسے ارحہ کے حوالے کرتے کہا۔

لیکن آپ کو وہ جان سے مار دے گا۔

ارحہ نے پریشانی سے کہا وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی وجہ سے سامنے بیٹھی نرم دل عورت کو کچھ بھی ہو۔

مجھے کچھ نہیں ہو گا۔

جب سے تم یہاں آئی ہو میں تمہیں یہاں سے نکالنے کا سوچ رہی تھی اور آج مجھے موقع مل گیا ہے اس لیے وقت ضائع کیے بغیر یہاں سے بھاگ جاؤ۔

اُس عورت نے نرم لہجے میں کہا۔

لیکن وہ بھی جانتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو گا۔

وہ سامنے بیٹھی معصوم لڑکی کی خاطر اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے بھی تیار تھی اگر وہ ایسا نا کرتی تو کبھی اپنے ضمیر کو مطمئن نا کر پاتی۔

ارحہ نے وہ شال اوڑھی اور اُس عورت کے ساتھ چل پڑی۔

ارحہ نے اس عورت سے پہلے بھی بہت بار مدد مانگی تھی۔لیکن اُس وقت وہ اس کی مدد کر نہیں سکتی تھی۔کیونکہ باہر کچھ گارڈ کھڑے ہوتے تھے۔

لیکن آج وہ ساری وہاں سے چلے گئے شاید ان کے باس نے ان کو بلایا تھا اس لیے افراتفری میں وہاں سے چلے گئے۔

اُس عورت نے ارحہ کو باہر جانے کا راستہ دکھایا۔جو ایک نظر اُس عورت پر ڈالے آخری بار اُسے گلے لگانے کے بعد وہاں سے بھاگ گئی۔

ناجانے آگے وہ کہاں پہنچنے والی تھی،

آگے قسمت اسے کہاں لے کر جانے والی تھی۔

لیکن فلحال وہ یہاں سے دور جانا چاہتی تھی۔

یہ بھی ہو سکتا تھا آگے جا کر اسے کوئی مہربان مل جاتا یا جس سے بھاگ رہی تھی اُس سے زیادہ خطرناک انسان کے ہاتھ وہ چڑھ جاتی۔

یہ تو آنے والے وقت نے ہی بتانا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

ضرغام غصے میں حویلی واپس آیا تھا۔

آتے ہی اس نے اپنی چچی کو آواز دی۔

کیا ہوا ضرغام؟ حمیرا نے آتے ہی پوچھا وہ ضرغام کی آواز سنے ڈر گئی تھی کہی اسے سچ پتہ نا چل گیا ہو۔

کہاں ہے آپ کا نالائق بیٹا؟ ضرغام نے دھاڑتے ہوئے پوچھا۔

کو کون؟ ڈر کے مارے حمیرا کی زبان سے یہی نکلا تھا۔

کتنے بیٹے ہیں آپ کے؟ ضرغام نے اپنے قدم حمیرا کی طرف بڑھاتے پوچھا۔

ایک ہی ہے عرفان

حمیرا نے جلدی سے جواب دیا۔

تو بلائیں اُسے مجھے اُس سے بات کرنی ہے۔

ضرغام نے جبڑے بھینچے کہا،

وہ تو حویلی میں نہیں ہیں اپنے دوست کی طرف گیا ہے۔

حمیرا نے جواب دیا،

ابھی اور اسی وقت اُسے کال کریں اور حویلی آنے کا کہیں۔

ضرغام نے سرخ آنکھوں سے حمیرا کو دیکھتے کہا۔

لیکن کیا ہو گیا؟ اُس نے پھر سے کچھ کیا؟

حمیرا نے پریشانی سے پوچھا۔

اس بار اُس نے جو کیا ہے نا بس دعا کریں کہ جو میں سوچ رہا ہوں وہ غلط ہو ورنہ آپ کے بیٹے کو میرے ہاتھوں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

اس لیے اُسے کال کریں باور ابھی حویلی آنے کا کہیں۔ضرغام نے دو ٹوک الفاظ میں کہا اور اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھا دیے۔

حمیرا تھی حیرانگی سے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

حمیرا نے عرفان کا نمبر ڈائل کیا جو بند جا رہا تھا۔

اب تم نے کیا کر دیا عرفان؟

حمیرا نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور اس کا نمبر دوبارہ ڈائل کرنے لگی جو بند جا رہا تھا۔

وہ صبح کا حویلی سے نکلا ہوا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

ضرغام اپنے کمرے میں داخل ہوا تو پھر سے اسے اپنے سینے پر بوجھ سا محسوس ہونے لگا۔

ضرغام نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھے اسے مسلا۔

انوشے جو ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی اس نے ضرغام کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات صاف نظر آ رہے تھے۔

اور ایک ہاتھ سینے پر بھی تھا۔

کیا ہوا آپ کو؟ انوشے نے ضرغام کے پاس جاتے تھوڑا جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

ضرغام نے کوئی جواب نہیں دیا اور چلتا ہوا بیڈ کے کونے میں بیٹھ گیا، چہرے کا رنگ بھی پیلا پڑ گیا تھا۔

انوشے نے گلاس میں پانی ڈالا اور گلاس کو ضرغام کے لبوں سے لگایا۔

ضرغام نے بنا کچھ کہے پانی پیا پانی پینے کے بعد وہ کچھ بہتر محسوس کر رہا تھا۔

میں بڑی خانم کو بلا کر لاتی ہوں انوشے نے پریشانی سے کہا اور وہاں سے جانے گی جب ضرغام نے اس کا ہاتھ پکڑے اسے روکا۔

اُس کی ضرورت نہیں ہے۔

ضرغام نے بھاری لہجے میں کہا اور وہی بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹ گیا۔

اسے چاہیے تھا کہ ایک بار وہ ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا۔لیکن وہ اس درد کو نظرانداز کر رہا تھا۔جو آگے جاکر اس کی جان بھی لے سکتی تھی۔

انوشے نے ضرغام کو دیکھا پھر ارد گرد نظریں دوڑائی۔

لیکن کوئی بھی اسے ایسی جگہ نظر نہیں آئی جہاں وہ سو سکے۔

یہاں آکر لیٹ جاؤ میں اچھے سے اپنے نفس پر قابو پانا جانتا ہوں۔

ضرغام نے آنکھیں بند کیے ہی کہا۔

انوشے نے آنکھیں چھوٹی کیے اس کی طرف دیکھا کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ میں سونے کے لیے جگہ تلاش کر رہی ہوں۔

اب گھورنا بند کرو۔

ضرغام نے پھر سے کہا تو انوشے فوراً بیڈ پر آکر دوسری جانب کمبل کو منہ تک اوڑھے لیٹ گئی۔

ضرغام نے آنکھیں کھولے ایک نظر انوشے پر ڈالی اور پھر خود بھی آنکھیں بند کیے داؤد کی باتوں کے بارے میں سوچنے لگا۔

💜 💜 💜 💜

آپ نے کہا تھا کہ میں غائب ہو جاؤں اور اب ضرغام مجھے تلاش کر رہا ہے مجھے لگتا ہے اُسے سچ پتہ چل گیا ہے اگر اُس نے مجھے ڈھونڈ لیا تو جان سے مار دے گا۔

عرفان نے فون کان سے لگائے پریشانی سے کہا۔

وہ اسی انسان کے کہنے ہر حویلی سے بھاگا تھا۔

اور اس کی ماں کی کال نے اسے بتایا کہ ضرغام اسے تلاش کر رہا یے اور کافی غصے میں ہے۔

عرفان نے اپنی ماں کو کہہ دیا کہ وہ ضرغام کا نا بتائے کہ اس کی بات ہوئی ہے اور کچھ دنوں تک وہ حویلی نہیں آئے گا۔

اپنی بکواس بند کرو۔

کچھ نہیں ہو گا تمہیں اور ایڈریس تمہیں بھیج رہا ہوں تم وہی رہو گئے جب تک میں نہیں کہتا وہاں سے باہر نہیں نکلو گئے۔

مقابل نے کہتے ہی فون بند کر دیا۔

عرفان نے گھورتے ہوئے موبائل کو دیکھا۔

اگر مجھے کچھ بھی ہوا تو میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔. عرفان نے غصے سے کہا۔

ایک منٹ اگر مجھ کچھ ہو گیا تو میں کیسے ان سے حساب لوں گا؟

عرفان نے پرسوچ انداز میں کہا۔

عرفان تو ایسا سوچ ہی کیوں رہا ہے۔

تجھے کچھ نہیں ہو گا۔

عرفان نے خود کو حوصلہ دیتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜 💜

صبح ضرغام کی آنکھ پہلے کھلی تھی۔آنکھ کھلتے ہی اس کی نظر انوشے پر پڑی جو گہری نیند میں سو رہی تھی۔

اس کا چہرہ پرسکون تھا،

سوتے ہوئے وہ بہت معصوم لگ رہی تھی۔

ویسے بھی وہ معصوم ہی تھی۔

ضرغام کے دل سے آواز آئی۔جسے اس نے اگنور کیا۔

بےخیالی میں اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے انوشے کے چہرے پر آئے بالوں کو کان کے پیچھے کیا۔

کچھ دیر ایسے ہی لیٹے وہ انوشے کو دیکھا رہا۔

ضرغام مے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور پھر اٹھتے فریش ہونے چلا گیا ۔

تھوڑی دیر بعد جب باہر آیا تو اس کا موبائل رنگ ہوا۔

کام ہو گیا؟ ضرغام نے نمبر دیکھتے کال اٹینڈ کرتے موبائل کان سے لگاتے سرد لہجے میں پوچھا۔

گڈ…. ضرغام نے کہا۔

اور ایک نظر سوئی ہوئی انوشے پر ڈالے وہاں سے جانے لگا پھر رک کر چلتا ہوا انوشے کے پاس آیا اور جھک کر آج پہلی بار اس نے انوشے کے ماتھے پر لب رکھے وہ خود نہیں جانتا تھا کہ ایسا کیوں کر رہا ہے اس کے دل نے کہا اور اُس کی مانے ایسا کر بیٹھا۔ابھی رات وہ انوشے کو کہہ رہا تھا کہ خود پر قابو پانا جانتا ہے۔

میں کر لیا رہا ہوں۔

ضرغام نے پیچھے ہوتے خود کو کوستے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

……

تم سب لوگ کہاں مرے ہوئے تھے۔

اتنے سیکیورٹی ہونے کے باوجود میرے گھر میں آگ کیسے لگ گئی پورا گھر جل گیا اور تم لوگ اب مجھے بتا رہے ہو تم سب کے سب کسی کام کے نہیں ہو سب کی جان میں اپنے ہاتھوں سے لوں گا۔

زہاب نے ہاتھ میں پکڑی گن کو اپنے آدمیوں کی طرف کرتے غصے سے کہا اور سامنے کھڑے تین آدمیوں پر اس نے گولیاں چلاتے ان کو مار دیا۔

ضرغام نے بھی اس کے گھر میں آگ لگوا کر اپنا بدلہ لیا تھا۔

ضرغام…. ضرغام

زہاب نے غصے سے کہا اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھا دیے۔

وہ سیدھا اس کی حویلی کی طرف آیا تھا۔

آج تو اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔

کہ آج انوشے کو لیے بغیر واپس نہیں آئے گا۔

اور وہ جانتا تھا کہ جو کچھ اس نے کیا اُس کا ایسا ہی نتیجہ نکلنا تھا۔

ضرغام جس کا ارادہ حویلی سے باہر جانے کا تھا۔

دو گارڈ جو زہاب کو اندر آنے سے روک رہے تھے پھر بھی وہ اندر آتے جا رہا تھا۔

ضرغام شور سن کر وہی کھڑا ہو گیا۔

اور زہاب کو دیکھتے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

چھوڑو اسے ضرغام نے اپنے گارڈز کو کہا جو وہاں سے چلے گئے۔

کیا ہوا اتنے غصے میں کیوں ہو؟ ضرغام نے زہاب کو دیکھتے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

زہاب کے چہرے کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ابھی وہ سب کچھ جلا لر بھسم کر دے گا۔

ضرغام بدر خان تم نے اچھا نہیں کیا۔زہاب نے غصے سے اپنے قدم ضرغام کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

میں اپنا بدلہ سود سمیت وصول کرتا ہوں۔

تم نے میرے کھیت جلائے اور میں نے تمھارا وہ بنگلہ جلا دیا جس پر تمھاری بےشمار دولت لگی ہے۔

اب حساب برابر ہوا۔

ضرغام نے زہاب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

حساب ابھی برابر نہیں ہوا۔

ضرغام بدر خان

حساب تو اب برابر ہو گا۔

جب میں انوشے کو یہاں سے کر جاؤں گا۔

زہاب نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

میری بیوی کے بارے میں تم بات کر رہے ہو اس لیے سوچ سمجھ کر بات کرو ورنہ زبان کاٹ دوں گا۔

ضرغام نے سرد مہری سے زہاب کو دیکھتے کہا۔

اس سے پہلے زہاب کچھ کہتا اسے انوشے نظر آئی۔

انوشے زہاب نے مسکراتے ہوئے انوشے کو دیکھتے کہا جو ابھی وہاں آئی تھی اور زہاب کو دیکھتے وہ پریشان ہوئی تھی۔

ضرغام نے قہر برساتی نظروں سے انوشے کی طرف دیکھا۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟کمرے میں جاؤ۔

ضرغام نے انوشے کے پاس آتے دانت پیستے کہا۔

وہ میں مجھے بھوک لگی تھی ناشتے کے لیے آئی تھی۔

انوشے نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو مڑوڑتے ہوئے کہا۔

ضرغام جو اس وقت غصے میں کھڑا تھا اس کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔

سو مسٹر زہاب میری وائف کو بھوک لگی ہے تو ہم دونوں کو ناشتہ کرنا ہے آپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔

ضرغام نے انوشے کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے خود کے قریب کرتے کہا۔

انوشے نے حیرانگی سے ضرغام کی طرف دیکھا تھا۔

میں نے کہا کہ میں انوشے کو لیے یہاں سے کہی نہی جاؤں گا۔

زہاب جو اپنا غصہ کنٹرول کر رہا تھا اد کے آگے بڑھتے انوشے کا ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن عین اس وقت ضرغام نے انوشے کو اپنے دائیں جانب کھڑا کیا۔

اگر تم نے میری بیوی کو ہاتھ لگایا تو ہاتھ کاٹ دوں گا۔

ضرغام نے زہاب کے گریبان کو پکڑتے غصے سے کہا۔

بیوی؟یہ لڑکی تو خون بہا میں یہاں آئی ہے نا تو تم نے اسے بیوی بھی تسلیم کر لیا؟ یا اپنی بہن کو بھول چکے ہو؟ اُس کے ساتھ جو ہوا اُسے فراموش کر بیٹھے ہو؟

زہاب نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔

اور تم یہاں سے خود جاؤ گئے یا گارڈز کو بلاؤں؟ ضرغام نے اس کی بات کو اگنور کرتے سرد لہجے میں پوچھا۔

اس کے جواب نے زہاب کو بھی حیران کیا تھا۔

اسے امید نہیں تھی کہ ضرغام آگے سے اس طرح کا جواب دے گا۔

وہ سچ میں تبدیل ہو رہا تھا۔

انوشے مجھے تم سے بات کرنی ہے زہاب نے ضرغام کو دیکھتے کہا۔

انوشے سے پوچھ لیتے ہیں کہ وہ تمھارے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا نہیں

زہاب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تمہیں کس نے کہا کہ انوشے کی بات میرے نزدیک اہمیت رکھتی ہے؟

اس کی آزادی کا فیصلہ صرف اور صرف ضرغام بدر کرے گا۔

کسی دوسرے کو میں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ میرے معاملات میں دخل اندازی کرے۔چاہے وہ خود انوشے ہی کیوں نا ہو۔

ضرغام نے زہاب کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

اگر ایسی بات ہے تو تمھارا لہجہ اور آنکھیں تمھارا ساتھ کیوں نہیں دے رہی؟

تمہیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر انوشے نے تمھارے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا تو تم کیا کرو گئے۔زہاب نے ضرغام کے چہرے کے تاثرات دیکھتے طنزیہ لہجے میں کہا۔

زہاب آپ یہاں سے جائیں۔

اس سے پہلے ضرغام کچھ کہتا انوشے نے آگے بڑھتے زہاب کو دیکھتے کہا۔

زہاب کی اس بات کا جواب شاید ضرغام کے پاس بھی نہیں تھا۔

یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

زہاب نے انوشے کو دیکھتے پریشانی سے کہا۔

آپ سمجھ کیوں نہیں رہے میں کسی سے ڈر نہیں رہی۔

ضرغام مجھے جس بھی صورتحال میں یہاں لائے لیکن میرا نکاح ان سے ہوا ہے اور جب تک یہ مجھے اپنے نام سے الگ نہیں کریں گئے میں کہی نہیں جاؤں گی۔

انوشے نے پختہ لہجے میں کہا۔

ضرغام کے چہرے پر انجانی سی خوشی آگئی تھی۔

زہاب چہرے ہر بےیقینی لیے کھڑا انوشے ہو دیکھ رہا تھا،

جس کے چہرے پر کسی قسم کا ڈر یا خوف نہیں تھا۔

اب تم جا سکتے ہو۔تمہیں تمھارا جواب مل گیا ہو گا۔

ضرغام نے انوشے کا ہاتھ پکڑتے کہا۔اور اسے لیے وہاں سے چلا گیا۔

زہاب غصے سے وہاں سے نکل گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

کچھ سال پہلے…….

کچھ سال پہلے دونوں خاندانوں کے درمیان کسی قسم کی دشمنی نہیں تھی۔

نازیہ کا رشتہ اقبال کے لیے آیا تھا۔

اور نازیہ کے باپ کو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔

جواد چوھدری کا اچھا نام تھا۔وہ لوگ بھی ان کی طرح زمیندار تھے،

اس لیے انہوں نے ہاں کر دی۔

اقبال کو بھی نازیہ سے کوئی مسئلہ نہیں تھا وہ بھی شادی کے لیے راضی ہو گیا۔

دونوں گھرانوں میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔

داؤد کسی ضروری کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا تھا۔

اس نے کہا تھا کہ اس کا انتظار مت کرنا اسے آنے میں دیر لگ سکتی ہے،

کیونکہ داؤد کا شہر میں اپنا بزنس تھا جسے وہ دیکھتا تھا اور اکثر وہ اپنے بزنس کے سلسلے میں شہر جاتا اور یہاں آکر اپنے بھائی کے کام کو بھی دیکھتا تھا۔

ضرغام کا باپ جو ساری تیاری وغیرہ دیکھ رہا تھا آجکل تھوڑا پریشان رہنے لگا تھا۔ اور یہ بات نازیہ کے باپ کے ساتھ ضرغام نے بھی محسوس کی تھی لیکن جتنا وہ بزی تھا اسے وقت نہیں مل رہا تھا کہ وہ اپنے باپ سے بات کرے۔

بھائی مجھے مارکیٹ جانا ہے آپ مجھے لے چلیں گئے؟ ارحہ نے ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

ویسے تو ضرغام بزی تھا لیکن اس کا دل نہیں کیا کہ وہ ارحہ کو انکار کرے۔

ٹھیک ہے پھر تمہیں میرے ساتھ ابھی چلنا ہو گا۔

ضرغام نے کہا تو ارحہ خوش ہو گئی۔

ٹھیک ہے بھائی اور انعم نے بھی ساتھ آنا ہے۔

ارحہ نے کہا تو ضرغام نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔

ارحہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کا بھائی انعم سے کس قدر چڑتا ہے۔

بھائی وہ آپ سے دور رہے گی۔

ارحہ نے مسکراہٹ دباتے کہا۔

وہ جانتی تھی کہ انعم تو موقع کی تلاش میں ہوتی تھی کہ وہ ضرغام کے قریب آئے۔

چلیں؟ اتنے میں انعم بھی وہاں آئی جس نے سفید رنگ کا سوٹ پہنا تھا۔

ساتھ بلیو کلر کا ڈوپٹہ جو گلے میں جھول رہا تھا بالوں کو کھلا چھوڑے وہ کھڑی ضرغام کو دیکھ کر. مسکرا رہی تھی۔

ضرغام نے اسے ایک نظر دیکھتے رخ موڑ لیا۔

جاؤ اور دونوں چادر لے کر آؤ۔

ضرغام نے سنجیدگی سے کہا تو ارحہ نے انعم کی طرف دیکھا جو منہ بسوڑتے وہاں سے چلی گئی۔

ارحہ نے بمشکل اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا اور خود بھی وہاں سے چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

بھائی صاحب آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں سب خیریت ہے نا؟

ضرغام کے چچا نبیل نے اپنے بڑے بھائی کو دیکھتے پوچھا۔

نہیں نبیل پریشانی تو کوئی نہیں ہے بس خیریت سے نازیہ کی شادی ہو جائے۔

اُس کے بعد مجھے تم سے ندا کے بارے میں بات کرنی ہے۔

ضرغام کے باپ نے کہا۔

بھائی صاحب اب کیا اُس نے کہا؟ سارا معاملہ ختم ہو چکا ہے اب اُس لالچی عورت کو کیا چاہیے؟

نبیل نے غصے سے پوچھا۔

حوصلے سے کام لو نبیل تم جانتے ہو کہ وہ کیا چیز ہے۔

ابھی نازیہ کی شادی خیریت سے ہو جائے پھر اُسے بھی دیکھ لیں گئے۔

ضرغام کے باپ عاصم نے کہا۔

لیکن بھائی صاحب اس طرح تو وہ عورت کبھی باز نہیں آئے گی۔

کچھ مہینے ہی گزرے اور وہ پھر سے اپنی اصلیت دکھانے لگی۔

میں آج ہی اُس سے بات کروں گا۔

نبیل نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا۔

نبیل شادی والا گھر ہے تم کیا چاہتے ہو وہ یہاں آجائے؟ پھر کیا کرو گئے؟

مزید تماشا بنانے سے بہتر ہے اُس سے بات کر لی جائے۔

اس لیے جوش سے نہیں ہوش سے کام لو۔

عاصم نے کہا تو نبیل دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔

ٹھیک ہے بھائی صاحب لیکن کسی دن اس عورت کی میں اپنے ہاتھوں سے جان لے لوں گا۔

اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی تو نبیل نے کہا تو عاصم اس بار خاموش رہا تھا۔

لیکن دروازے کے باہر کھڑا ضرغام جو اپنے باپ سے بات کرنے کے لیے یہاں آیا تھا ان کی باتیں سن کر وہی رک گیا۔

ندا؟ یہ کون ہے؟ ضرغام نے دل میں سوچا پھر وہاں سے چلا گیا۔

لیکن دونوں کی باتوں نے اسے تھوڑا بہت پریشان کیا تھا۔

اس وقت اس بارے میں بات کرنا ٹھیک نہیں تھا اس لیے وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜

حال…..

نازیہ تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں اس وقت اپنے سسرال میں ہونا چاہیے؟

حمیرا نے نازیہ کو دیکھتے پوچھا۔

امی آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟

جس انسان نے مجھے دھوکا دیا میں اُسے کیسے اتنی آسانی سے معاف کر سکتی ہوں؟

نازیہ کے لہجے میں حیرانگی تھی۔

بیٹا میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔

دیکھو ایک بار بھی اقبال نے کال نہیں کی۔

اس کا مطلب جانتی ہو؟ وہ اُس لڑکی کے ساتھ اور اپنی بیٹی کے ساتھ خوش ہے اگر اُس نے طلاق نامہ بھیج دیا تو؟

تمہیں وہی رہ کر اُس لڑکی کا جینا حرام کرنا ہو گا اقبال کی نظروں میں اُسے گرانا ہو گا۔

پھر ہی تمہیں اُس سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔. اگر تم یہی بیٹھی رہی تو اقبال بہت جلد تمہیں طلاق بھیج دے گا۔

حمیرا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

امی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔

تمہیں واپس چلے جانا چاہیے۔

انعم نے بھی اپنی ماں کی ہاں میں ہاں ملاتے کہا۔

لیکن امی میں ناراض ہو کر آئی ہوں اب کیسے منہ اٹھا کر چلی جاؤں؟ نازیہ نے اپنی ماں کو. دیکھتے کہا اسے بھی اپنی ماں کی بات ٹھیک لگی تھی یہاں رہ کر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔

وہاں جا کر ہی وہ اُس کو راستے سے ہٹا سکتی تھی۔

تم فکر مت کرو میں اقبال سے بات کرتی ہوں وہ خود تمہیں یہاں لینے آئے گا۔

حمیرا نے کہا تو نازیہ نے گہرا سانس لیتے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔

لیکن میں اقبال کو اتنی آسانی سے معاف نہیں کروں گی۔

نازیہ نے پختہ لہجے میں کہا۔

نا کرنا لیکن پہلے وہاں چلی تو جاؤ۔

حمیرا نے کہا۔اور انعم سے بات کرنے لگی۔

نازیہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔

جیسا اس نے سوچا تھا یہاں آکر اسے سب کچھ اپنی سوچ کے برعکس ہی دیکھنے کو ملا تھا۔لیکن اس کی ماں نے جو بات کہی وہ بھی ٹھیک تھی۔

💜 💜 💜💜

مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔

انوشے جو خاموش بیٹھی تھی ناشتہ بھی نہیں کر رہی تھی۔

ضرغام نے محسوس کیا لیکن کچھ کہا نہیں۔

سن رہا ہوں۔

ضرغام نے انوشے کی طرف دیکھتے کہا۔

مجھے امی سے ملنے جانا ہے۔

کیا میں جا سکتی ہوں؟ انوشے نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

اگر میں منع کر دوں تو؟

ضرغام نے گہرا سانس لیتے پوچھا۔

انوشے نے نظریں اٹھائے ضرغام کی طرف دیکھا تھا۔

اس کی آنکھوں میں التجا تھی۔

ضرغام نے آج پہلی بار انوشے سے نظریں چرائی تھیں۔

میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں۔

دو گھنٹے کے بعد میں واپس آجاؤ گی۔

اور بےشک آپ ساتھ کسی کو بھیج دیں۔

میں کہی نہیں جاؤں گی۔

انوشے نے ضرغام کو دیکھتے بےبسی سے یقین دلاتے کہا۔

تم جانتی ہو تمھاری بھابھی نے تمھارے یہاں آنے کے بعد کیا کیا؟

ضرغام نے دوبارہ انوشے کی طرف جھکتے کہا۔

انوشے نے نے نفی میں سر ہلایا۔

اُس نے کہا کہ تمھارا اور میرا اس معاملے سے پہلے کا چکر چل رہا ہے۔

اُس نے تمھارے بھائی اور بھابھی کو کچھ تصاویر بھی دکھائی تو ایڈیٹ تھیں۔

لیکن انہوں کے سچ مان لیا۔

اس لیے اقبال اُس دن غصے میں تھا۔

ضرغام نے انوشے کو. دیکھتے اسے ساری حقیقت بتائی تو چہرے پر بےیقینی لیے اسے دیکھ رہی تھی۔

لیکن یہ جھوٹ ہے۔

میں آپ سے نہیں ملتی تھی۔

انوشے نے نفی میں سر ہلاتے جلدی سے کہا۔

اسبکی بھابھی کس قدر گھٹیا ہے وہ اچھی طرح جانتی تھی لیکن وہ اس حد تک جائے گی یہ اسے معلوم نہیں تھا۔

کاش کہ تم مجھے پہلے ملی ہوتی تو آج معاملات الگ ہوتے۔

ضرغام نے گہرے لہجے میں انوشے کو دیکھتے کہا۔

ک کیا مطلب؟انوشے نے آنکھیں پھیلائے پوچھا۔

تیار ہو جاؤ تم میرے ساتھ حویلی جاؤ گی۔

ضرغام نے کھڑے ہوتے اپنے کندھے پر رکھی چادر کو درست کرتے کہا۔

آ آپ میرے ساتھ جائیں گئے؟ انوشے بھی اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی اور حیرانگی سے پوچھا۔

کیوں؟ میرے ساتھ جانے میں کوئی مسئلہ ہے؟

ضرغام نے ایک آبرو اچکاتے پوچھا۔

ن نہیں میں نے ایسا تو نہیں کہا۔

میں چادر لے کر آتی ہوں انوشے جلدی دے کہتے وہاں سے چلی گئی۔

اس کے جاتے ضرغام یو اسے ہی دیکھ رہا تھا کرسی پر دوبارہ گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔

اور اپنے سینے کو مسلنے لگا۔

دور کھڑی ملازمہ اسے دیکھ رہی تھی۔

بس کچھ دن اور پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا۔

ملازمہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہاں سے حمیرا کو بتانے کے لیے چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜

ارحہ وہاں سے بھاگ تو آئی تھی لیکن باہر آتے اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہاں جائے۔

مجھے بھائی کو کال کرنی چاہیے۔

ارحہ کے سڑک پر ارد گرد نظریں دوڑاتے کہا۔

شال نے اسے پوری طرح کور کر دیا تھا۔

اور چہرے کو بھی اس نے شال کے کونے سے کور کیا ہوا تھا۔

میں بھائی کو کال کیسے کروں؟مجھے تو نمبر بھی یاد نہیں ہے۔

اگر وہ لوگ پھر سے مجھ تک پہنچ گئے تو؟

ابھی ارحہ کھڑی یہی پریشانی سے یہی سوچ رہی تھی جب دو لڑکے جو شکل سے ہی لوفر لگ رہے تھے۔

چلتے ہوئے اس کے پاس آئے۔

میڈم آپ نے کہی جانا ہے؟

کیا ہم آپ کو چھوڑ دیں؟

اُن میں سے ایک لڑکے نے ارحہ کو دیکھتے پوچا۔

ن نہیں ارحہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں جواب دیا ۔

اور وہاں سے جانے لگی جب دوسرے لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

ارحہ جو بھاگ کر یہاں تک آئی تھی اور طبیعت بھی اس کی ٹھیک نہیں تھی خوف سے کپکپانے لگی۔

اتنی بھی کیا جلدی ہے ہمارے ساتھ چلیں اچھی خدمت کریں گئے۔

اُس لڑکے نے چہرے پر خباثت لیے کہا۔ارحہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔

آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

تم دونوں میرے ساتھ تھانے چلو اچھی طرح دونوں کی خدمت کرواؤں گا۔

مقابل کی سرد آواز سنتے تینوں نے اس کی طرف دیکھا۔

مقابل نے اُس لڑکے کے ہاتھ کو پکڑے زور سے مڑوڑا جس نے ارحہ کے ہاتھ کو پکڑا تھا۔

آہ…. وہ لڑکا تکلیف سے کراہیا۔

چلو یہاں سے دوسرے لڑکے نے کہا وی. مقابل کی شاندار پرسنیلٹی دیکھ کر ہی خوفزدہ ہو گیا تھا۔

وہ دونوں لڑکے وہاں سے بھاگ گئے مقابل نے مڑ کر ارحہ کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔

اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی مقابل اسے تھام چکا تھا۔

ہشام ارحہ کو اپنے گھر کے پاس والے ہسپتال لے آیا تھا اور وہاں ان کی فیملی ڈاکٹر تھی۔اُسے کال کی۔

جو کہ فی میل تھی۔

ہشام باہر کھڑا تھا جب ڈاکٹر باہر آئی۔

لیکن اس نے جو انکشاف کیا وہ سنتے ہی ہشام نے اپنے غصے کو بمشکل کنٹرول کیا۔

اُس لڑکی کو ہوش کب تک آئے گا؟ میں چاہتا ہوں اُسے گھر لے جاؤں۔

ہشام نے سنجیدگی سے کہا۔

آپ لے کر جا سکتے ہیں۔

ویسے جو اُس لڑکی کے ساتھ ہوا وہ پولیس کیس بنتا ہے لیکن مجھے آپ پر بھی بھروسہ ہے آپ سب سنبھال لیں گئے۔

ڈاکٹر نے ڈھکے چھپے الفاظ میرے کہا۔

آپ فکر مت کرے میں اس معاملے کو دیکھ لوں گا۔

ہشام نے ڈاکٹر کو دیکھتے کہا۔

ڈاکٹر مزید کچھ ہدایات دے کر وہاں سے چلی گئی۔

ایسے لوگوں کو تو تڑپا تڑپا کر مار دینا چاہیے جو عورت کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔

اور درندے بنے اپنی ہوس پوری کرتے ہیں۔

ہشام نے کرخت لہجے میں کہا۔

وہ ارحہ کی حالت دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا اس کی حالت چیخ چیخ پر اس پر ہوئی زیادتی کی داستان کو بیان کر رہی تھی۔

ہشام ارحہ کو اپنے گھر لے آیا تھا۔

وہ ارحہ کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اسے اس کے گھر والوں تک پہنچا سکے اور وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اسے پتہ چلے کہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ کس نے کیا تاکہ اُس کی جان وہ اپنے ہاتھوں سے لے۔

ہشام کی بہن کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔لیکن وہ موقع پر ہی اپنی جان کی بازی ہار بیٹھی اُس کے بعد ہشام نے اُس انسان کو جو سزا دی وہ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی تھی۔

ہر روز وہ اُسے تڑپاتا تھا لیکن اس کی سانسیں بند نہیں ہونے دیتا تھا۔

اور جب ہشام کا دل تھوڑا بہت مطمئن ہوا تو ہشام نے اس آدمی کو مار دیا،. اور اب ارحہ کو دیکھتے اسے اپنی بہن یاد آگئی تھی۔

اس لیے اسے اتنا غصہ آ رہا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

ضرغام انوشے کو چوھدری کی حویلی میں لے آیا تھا۔

چوھدری اور اقبال حویلی میں ہی تھے۔

ملازمہ نے آکر چودھری کو ضرغام اور انوشے کے آنے کی اطلاع دی۔

اقبال بھی پاس ہی بیٹھا تھا اور دونوں حیران ہوئے تھے۔

اتنے میں حبہ بھی وہاں آگئی۔

جب ضرغام بدر خان اپنی شاندار پرسنیلٹی کے ساتھ وہاں داخل ہوا ساتھ اس کے انوشے بھی تھی۔

انوشے نے حویلی کو دیکھا۔

کتنے دنوں بعد وہ یہاں آئی تھی اس نے سوچا نہیں تھا کہ وہ دوبارہ کبھی یہاں ضرغام کے ساتھ آئے گی۔

سسر جی آپ اتنے حیران کیوں لگ رہے ہیں؟ داماد پہلی بار حویلی آیا ہے اور آپ کو دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے آپ کو میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا۔

ضرغام نے تیکھے لہجے میں کہتے ٹانگ پر ٹانگ رکھے صوفے پر جواد چوھدری کے سامنے بیٹھتے کہا۔

تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ نا میرا انوشے سے اب کوئی رشتہ ہے نا اُس کا اب اس حویلی سے کوئی لینا دینا ہے۔

چودھری نے غصے سے کہا۔

سسر جی اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں؟

میری بیوی کو اپنی ماں سے ملنا تھا ویسے تو اسے بھی آپ سے ملنے میں کوئی خاصی دلچسپی نہیں ہے۔

لیکن جب تک میں یہاں بیٹھا ہوں آپ لوگ مجھے کمپنی تو دے ہی سکتے ہیں نا۔

ضرغام نے دور سے آتے داؤد کو دیکھتے کہا جس کا چہرہ مرجھایا سا لگ رہا تھا۔

چہرے پر تھکن عیاں تھی۔

داؤد نے اپنی طرف سے پوری کوشش کر لی تھی۔

لیکن اسے ارحہ کہی نہیں ملی شاید وہ امید ہار بیٹھا تھا۔

داؤد نے انوشے کو دیکھا تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔

انوشے تم کب آئی؟ ٹھیک ہو تم؟

داؤد نے اس کے پاس آتے بےتابی سے پوچھا۔

جی چاچو میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ انوشے نے پریشانی سے پوچھا۔

داؤد ہلکا سا مسکرا پڑا تھا۔

میں ٹھیک ہوں۔

بس تھک گیا ہوں۔

میں مے سوچا نہیں تھا کہ تمہیں یہاں دیکھوں گا۔

اس انسان سے بھی مجھے امید نہیں تھی کہ یہ تمہیں یہاں لائے گا۔. داؤد نے ضرغام کو دیکھتے کہا جو مسکراتے ہوئے اپنی جگہ سے کھڑا ہوتے اسکے پاس آیا۔

بیوی کی کہی گئی بات کو کیسے ٹال سکتا ہوں؟ اس لیے آنا پڑا۔

ضرغام نے داؤد کے چہرے کے تاثرات دیکھتے کہا۔

تم نے اسے بیوی کب تسلیم کیا ضرغام بدر خان؟ میرے لیے یہ بات ناقابلِ یقین ہے۔

لیکن تمھارے اندر جو تبدیلی آئی وہ مجھے اچھی لگی۔اگر ایسا ہی رہا تو مجھے تو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑے گا۔. داؤد کا اشارہ انوشے کو واپس لانے والی بات کی طرف تھا۔

ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ تمھاری غلط فہمی ہو جیسا تم سوچ رہے ہو میں ویسا نا ہوں۔

ضرغام نے کہا تو داؤد ہنس پڑا۔

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ یہ خوش فہمی ہے یا نہیں

اور حبہ تم انوشے کو بھابھی کے کمرے میں لے جاؤ۔

داؤد نے حبہ کو دیکھتے کہا جو اپنی بیٹی کو گود میں لیے کھڑی تھی۔

انوشے اس کے ساتھ چل پڑی اسے حویلی میں پتہ چل گیا تھا کہ نازیہ یہاں کیوں آئی ہے۔

اس لیے اس نے حبہ کو دیکھتے اندازہ لگا لیا کہ یہ ہی اس کے بھائی کی بیوی ہے۔

جتنا تمھارے بارے میں سنا تھا تم اُس سے زیادہ پیاری ہو۔

حبہ نے انوشے کو دیکھتے کہا۔

انوشے ہولے سے مسکرا پڑی تھی۔

اپنی بھتیجی کو گود میں نہیں لو گی؟

حبہ نے رکتے انوشے کو دیکھتے پوچھا۔

میں آپ سے یہی پوچھنے والی تھی لیکن مجھے لگا کہ کہی آپ کو برا نا لگے۔

انوشے نے جھجھکتے ہوئے کہا۔

ارے مجھے برا کیوں لگے گا۔حبہ نے کہتے ہی اپنی بیٹی کو انوشے کے کو پکڑا دیا۔

جو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے انوشے کو دیکھ رہی تھی۔

انوشے نے اسکے نرم گال پر بوسہ دیا۔

اور تینوں کمرے کی داخل ہوئیں۔

جہاں سامنے بیڈ پر صبا لیٹی ہوئی تھی۔

انوشے صبا کو دیکھتے حیران ہوئی۔اور جلدی سے اپنی ماں کے پاس گئی۔

امی کو کیا ہوا؟

انوشے کے لہجے میں حیرانگی تھی۔

انوشے تمہیں نہیں معلوم؟ یہ تو کوما میں چلی گئی تھیں۔

تمہیں کسی نے نہیں بتایا۔حبہ نے اپنی بیٹی کو پکڑتے اسے بتایا تاکہ انوشے ٹھیک سے اپنی ماں کے پاس بیٹھ سکے۔

میں ہسپتال آئی تھی لیکن بھائی نے مجھے ملنے نہیں دیا۔

ڈاکٹر نے کیا کہا ہے ان کو کب تک ہوش آئے گا بھابھی؟

انوشے نے بےتابی سے پوچھا۔

آنسو آنکھوں سے نکلنے لگے تھے۔

اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کی ماں کوما میں چلی گئی ہے۔

تم پریشان مت ہو بس دعا کرو کہ یہ جلدی کوما سے باہر آجائے۔

اور تم ان کی فکر مت کرو میں ان کا اچھے سے خیال رکھوں گی۔

حبہ نے انوشے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اسے حوصلہ دیتے کہا۔

انوشے نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا اور اپنی ماں کے ماتھے پر بوسہ دیا۔

آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔

اور دیکھیں آپ میرے لیے پریشان ہو رہی تھیں نا میں بلکل ٹھیک ہوں اور میں آپ سے ملنے کے لیے آئی اور آپ آرام سے سو رہی ہیں یہ اچھی بات تو نہیں ہے نا۔

انوشے نے روتے ہوئے صبا کے ہاتھ کو پکڑتے کہا۔

بھابھی آپ پلیز ان کا خیال رکھیں گا۔

نازیہ بھابھی کو میں اچھے سے جانتی ہوں۔

وہ کبھی ان کا خیال نہیں رکھے گی آپ پلیز ان کا خیال رکھنا۔

انوشے نے حبہ کو دیکھتے بےبسی بسے کہا۔

ارے انوشے کیسی باتیں کر رہی ہو۔

تمہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں ان کا خیال رکھوں گی اور میں خود بھی یہی چاہتی ہوں کہ میں ان کی خدمت کرو۔

ماں کے پیار سے میں خود بھی محروم رہی ہوں اور جب نازیہ بھی واپس آجائے گی وہ بھی ان کا خیال رکھے گی تم پریشان مت ہو۔

حبہ نے پیار سے اسے سمجھاتے کہا اور اس کے آنسو کو صاف کیا۔

بھابھی آپ بہت اچھی ہیں۔لیکن جیسا آپ نے نازیہ بھابھی کے بارے میں سوچا ہے وہ ویسی نہیں ہیں اگر وہ واپس آجاتی ہیں تو آپ کو اپنا اور اس معصوم سی جان کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہو گا۔

وہ آپ دونوں کو نقصان پہنچانے کی ہر. ممکن کوشش کرے گی۔

سب اچھے نہیں ہوتے اور آپ کو سنبھل کر رہنا ہو گا۔

انوشے نے حبہ کو دیکھتے کہا۔

انوشے تم مجھے ڈرا رہی ہو۔

حبہ نے پریشانی سے کہا وہ سچ میں ڈر گئی تھی۔

بھابھی میں آپ کو ڈرا نہیں رہی آپ کو حقیقت بتا رہی ہوں۔

انوشے نے گہرا سانس لیتے کہا۔

ٹھیک ہے میں خیال رکھوں گی تم امی اور اپنی بھتیجی کے پاس بیٹھے میں کچھ پینے کو لاتی ہوں۔

حبہ نے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

انوشے نے گڑیا کی طرف دیکھا اور اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کرنے لگی۔

💜 💜 💜 💜 💜

ویسے سسر جی آپ انوشے سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ کو بھی لگتا ہے کہ آپ کی بہو نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے؟

ضرغام نے مڑتے اقبال اور جواد چوھدری کو دیکھتے پوچھا۔

داؤد بھی وہی کھڑا تھا۔

کیا کہنا چاہتے ہو؟صاف صاف لفظوں میں کہو

اقبال نے سرد لہجے میں کہا۔

اقبال میاں بیٹی تو تمھاری بھی ہے۔کل کو کوئی بھی ایرا غیرا کوئی بھی بکواس سی چیز لاکر تمہیں کہے گا کہ تمھاری بیٹی کا اس کے ساتھ چکر چل رہا ہے تو کیا تم مان لو گئے؟

ضرغام کا لہجہ طنزیہ تھا۔. داؤد کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔اسے اچھا لگا تھا جو ضرغام انوشے کے حق میں بول رہا تھا۔

خبردار اگر میری بیٹی کے بارے میں کچھ بھی کہا تو جان لے لوں گا تمھاری ۔

اقبال نے غصے سے کہا۔

اپنی بیٹی پر بات آئی تو کیسے اُس کے حق میں بول پڑے ہو۔

لیکن انوشے تو تمھاری سگی بہن نہیں ہے اس لیے تم نے اپنی بیوی کی باتوں پر یقین کیا۔

خیر تمھارے جیسا انسان سوائے یقین کے کر بھی کیا سکتا ہے۔

لیکن ایک بات یاد رکھنا اگر ضرغام بدر خان کی نظر پہلے سے تمھاری بہن پر ہوتی تو اس وقت تم میرے بچوں کے ماموں بن چکے ہوتے۔

ضرغام نے بےشرمی کی حد پار کرتے کہا۔

اپنے گھٹیا الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کرو ضرغام داؤد نے اسکے کان کے پاس غراتے ہوئے کہا۔

اوہ میں نے تو بس حقیقت بیان کی ہے۔

ضرغام نے کندھے اچکاتے عام سے لہجے میں کہا۔

میرے ساتھ چلو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔داؤد نے ضرغام کو دیکھتے دانت پیستے کہا۔

اقبال سرخ چہرہ لیے کھڑا دونوں کو دیکھ رہا تھا۔

جواد تو غصے سے وہاں سے چلا گیا۔

میں جانتا ہوں کہ تمھارے اندر شرم نہیں ہے۔لیکن پھر بھی سوچ سمجھ کر بکواس کرو۔

داؤد نے سخت نظروں سے ضرغام کو گھورتے ہوئے کہا۔

میرا موڈ تمھارے منہ لگنے کا نہیں ہے،

ضرغام نے اپنی جیب سے سگریٹ نکالتے کہا۔

جب سے عرفان غائب تھا اور داؤد کے بتایا کہا۔ارحہ زندہ ہے تو اسے داؤد اتنا برا نہیں لگتا تھا جتنا پہلے لگتا تھا۔

اس کا دل کہہ رہا تھا کہ داؤد پر یقین کرے اور وہ اپنی طرف سے بھی کوشش کر رہا تھا۔ارحہ کو تلاش کرنے کی۔لیکن ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔

میں بھی تم سے بات کرنے کے لیے مرا نہیں جا رہا۔

داؤد نے دانت پیستے کہا۔

ضرغام جس نے سگریٹ لبوں سے لگایا تھا۔

اچانک سینے میں اٹھتی درد کی وجہ سے سگریٹ زمین پر جا گرا۔

اس بار تکلیف پہلے سے زیادہ تھی۔

ضرغام نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔اور گہرے سانس لینے لگا۔

رنگ ایک سیکنڈ میں تبدیل ہوا تھا۔

داؤد نے اس کی حالت دیکھی تو وہ حیران ہوا ابھی تو یہ بلکل ٹھیک کھڑا تھا۔

کیا ہوا؟ تم ٹھیک ہو ؟داؤد نے ضرغام کے کندھے پر ہاتھ رکھتے پوچھا۔

جسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔

ضرغام تم ٹھیک ہو ؟داؤد نے اسے کندھے سے پکڑے پوچھا۔

جو اب گہرے سانس لے رہا تھا۔چہرے کا رنگ بھی اس ک پیلا پڑ گیا۔

داؤد جلدی سے پانی کا گلاس لایا۔ جسے ضرغام نے ایک ہی سانس میں سارا پی لیا۔

پانی پینے کے بعد وہ کچھ بہتر محسوس کر رہا تھا لیکن درد ابھی بھی ویسا ہی تھا۔

میں ٹھیک ہوں۔

ضرغام نے زمین پر بیٹھتے آہستگی سے کہا۔

اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی۔

میرے خیال سے تمہیں ہسپتال جانا چاہیے۔. داؤد نے اس کی صورتحال دیکھتے کہا۔

تمہیں میری فکر ہو رہی ہے؟

ضرغام نے تکلیف دہ لہجے کے باوجود مسکراتے ہوئے پوچھا۔

تمھاری فکر مجھے کیوں ہونے لگی۔

میں نہیں چاہتا انوشے اتنی کم عمر میں بیوہ ہو جائے۔

داؤد نے اس کے پاس بیٹھتے کہا،

فکر مت کرو اُس کی جان میں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گا۔

ضرغام نے آنکھیں موندے کہا۔

داؤد اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔

ضرغام ہسپتال چلے جاؤ اس سے پہلے تمھاری لاش کو ہسپتال لے جانا پڑے۔

داؤد نے سنجیدگی سے کہا۔

میں اب ٹھیک ہوں۔اور اگر مجھے کچھ ہو بھی جاتا ہے مجھے نہیں لگتا میرے جانے سے کیسی کو فرق پڑے گا۔اس لیے مجھے پرواہ نہیں ہے۔

ضرغام نے دیوار کا سہارا لیتے کھڑے ہوتے کہا۔

تم کتنے ٹھیک ہو صاف نظر آ رہا ہے۔

داؤد نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

ضرغام خاموش رہا اور کچھ دیر بعد بولا۔

طنز کے تیر چلانا بند کرو،

اور تم نے کہا تھا کہ ارحہ زندہ ہے تو کیا تم نے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی؟۔

ضرغام نے گہرا سانس لیتے پوچھا۔

اب وہ بہتر محسوس کر رہا تھا،

اس کے سینے کا درد تو دن با دن بڑھتی جا رہا تھا۔لیکن ضرغام کو شاید پرواہ نہیں تھی۔کہ اس کی جان خطرے میں تھی۔

میں کوشش کر رہا ہوں۔لیکن تم نے کیا مجھ پر یقین کر لیا؟

حیرت ہے تم تو مجھے حیران کر رہے ہو۔

داؤد نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تم نے مجھے امید دلائی ہے داؤد کہ ارحہ زندہ ہے۔

کوشش کرنا میری امید نا ٹوٹے۔

اور عرفان دنیا کے جس بھی کونے میں چھپا ہو گا میں اُسے ڈھونڈ نکالو گا۔

وہی اصل مُہرہ ہے۔بس ایک بار میرے ہاتھ لگ جائے۔

ضرغام نے غصے سے کہا۔

تو پھر اُسے تلاش کرو۔

وہی بتا سکتا ہے کہ ارحہ کہاں ہے۔

داؤد نے جلدی سے کہا۔

بہت جلد وہ میری قید میں ہو گا۔

ضرغام نے کہا اور وہاں سے جانے کے لیے مڑا۔

لیکن ناجانے کیوں ضرغام کو آج پہلی بار داؤد سے بات کرکے اچھا لگا تھا۔

اس کا کوئی دوست نہیں تھا نا اس نے کبھی کسی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

اور لوگ اس سے ڈرتے بھی تھے اس لیے دور رہتے تھے۔

ہسپتال چلے جانا داؤد نے اسے ایک بار پھر سے کہا اور خود بھی وہاں سے چلا گیا۔

ضرغام بھی چہرے پر مسکراہٹ لیے وہاں سے چلا گیا اور ملازمہ کو اس نے کہا کہ انوشے کو بلا کر لائے جو انوشے کو لے آئی ساتھ اس کے حبہ بھی تھی۔

انوشے حبہ کے گلے لگی اور مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔

حبہ کو ملنے کے بعد اسے ایک بات کا یقین ہو گیا تھا کہ وہ اس کی ماں کا خیال رکھے گی۔لیکن صبا کی وجہ سے وہ پریشان بھی تھی۔

💜 💜 💜 💜

کہاں ہے وہ لڑکی؟

مقابل نے اُس عورت کو بالوں سے دبوچتے ہوئے سرد لہجے میں پوچھا۔

جب وہ واپس آیا تھا ارحہ وہاں سے بھاگ چکی تھی،

میں نے اُسے یہاں سے بھاگا دیا۔

اب تمھارے جیسا درندہ اُس تک نہیں پہنچ سکتا۔اُس عورت نے نے پختہ لہجے میں کہا۔

سامنے موت کھڑی تھی لیکن پھر بھی اسے پرواہ نہیں تھی۔

تو تم یہ بھی جانتی ہو گی کہ اب تمھارے ساتھ کیا ہو گا،

یہاں میں نے تمہیں اس لیے نہیں رکھا کہ تم میرے شکار کو بھگا دو۔

لیکن اب تمھارا وقت ختم ہو گیا اُس لڑکی کو تو میں ڈھونڈ نکالوں گا۔

لیکن ابھی مرنے کی باری تمھاری ہے۔

مقابل نے کہتے ہی گن کو اُس عورت کے ماتھے کے بیچو بیچ رکھا۔

اُس عورت کی آنکھوں میں ابھی بھی خوف نہیں تھا وہ مطمئن تھی کہ اُس نے ارحہ کی مدد کی۔

گڈ بائے مقابل نے کہتے ہی گن کا ٹریگر دبا دیا۔

ٹھاہ…… گولی کی آواز وہاں گونجی اور وہ عورت وہی زمین پر گر گئی۔

مجھے دھوکا دینے والے کا یہی انجام ہو گا۔

مقابل نے کہتے اپنی گن کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا کسی کی بھی جان لینا اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

تم نے مجھے اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا سب خیریت ہے؟

ہشام نے داؤد کے سامنے بیٹھتے پوچھا۔

ہشام داؤد کا دوست تھا جو ایک سال پہلے پاکستان واپس آیا تھا۔

اس نے داؤد کی بزنس میں کافی مدد بھی کی تھی دونوں یونیورسٹی فرینڈز تھے۔اور ایک دوسرے کے بارے میں جانتے بھی تھے۔

مجھے تم سے تمھارے اُس مینجر کے بارے میں پوچھنا تھا۔

داؤد نے ہشام کو دیکھتے کہا۔

وہ منیجر جس کی دیتھ ہو گئی تھی؟

ہشام نے اپنے دماغ پر زور ڈالتے پوچھا۔

ہاں وہی میں نے ایک بار اُس کی حالت دیکھی تھی۔

اُس کے سینے میں بھی درد رہتا تھا نا؟

داؤد نے ہشام کو دیکھتے پوچھا۔

ہاں اور پھر اُس کی ہارٹ اٹیک سے موت ہو گئی۔

مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ ینگ تھا فٹ تھا نااُسے کوئی پریشانی تھی۔پہلے سینے میں کچھ دنوں تک درد رہا پھر اُس کی موت ہو گئی۔حیرت کی بات تھی۔

ہشام نے تفصیل سے بتاتے کہا۔

لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟

ہشام نے حیرانگی سے پوچھا۔

داؤد سوچ میں پڑ گیا تھا۔

جو ضرغام کے ساتھ ہوا ویسا ہی تو اُس مینجر کے ساتھ ہوا تھا۔

جیسا اُس میجر کے ساتھ ہوا ویسا ہی ضرغام کے ساتھ ہو رہا ہے مطلب کہ وہ فٹ ہے۔لیکن جیسے اُس کے سینے میں درد ہوا وہ دیکھ کر مجھے تمھارا مینجر یاد آیا۔

داؤد نے پن کو انگلیوں میں گھوماتے ہوئے کہا۔

ضرغام بدر خان کی بات کر رہے ہو؟

کیا تم دونوں کے درمیاں سب ٹھیک ہو گیا؟ وہ تو اپنی بہن کا قاتل تمہیں ہی سمجھتا تھا نا؟ ہشام نے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

حقیقت اُس کے سامنے آگئی ہے۔

دل کا برا وہ بھی نہیں ہے لیکن جب بہن کی لاش کو کوئی بھی بھائی دیکھے گا تو وہ اُس کے قاتل سے محبت بھری باتیں تو کرے گا نہیں۔

داؤد نے پیچھے کرسی سے ٹیک لگاتے کہا۔

ہاں یہ تو ہے لیکن تم لوگوں کی فیملیز میں بھی تو کوئی مسئلہ چل رہا تھا۔

ہشام نے پانی کا گلاس پکڑتے کہا۔

اس بارے میں مجھے بھی آج تک پتہ نہیں چلا کہ بھائی نے زہاب کی خاطر اُن سے دشمنی کیوں مول لی۔

اور نا ہی مجھے جاننے میں دلچسپی ہے۔

داؤد نے گہرا سانس لیتے کہا۔

تمہیں ضرغام کو مشورہ دینا چاہیے کہ ایک بار اپنا چیک اپ کروا لے۔

ہشام نے سنجیدگی سے کہا۔

وہ ضدی انسان اپنی مرضی کا مالک ہے۔

خیر تم بتاؤ کیا پیو گئے؟

داؤد نے ہشام کو دیکھتے پوچھا۔

شکر ہے تمہیں خیال تو آیا لیکن مجھے ابھی ایک ضروری کام سے جانا ہے۔

اس لیے میں نکل رہا ہوں۔

ہشام نے گھورتے ہوئے کہا۔داؤد ہلکا سا مسکرا پڑا۔

تم میرا ایک کام کر دو گئے؟

داؤد نے لہجے میں امید لیے پوچھا۔

تمہیں پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کیا کام ہے؟ ہشام نے پوچھا۔

ایک لڑکے کے بارے میں معلوم کروانا ہے ضرغام بھی اُس کی تلاش میں ہے لیکن تم جو کام کرتے ہو تمھارے لیے آسانی ہو گی۔

تم اُسے ڈھونڈ سکتے ہو۔

داؤد نے کھڑے ہوتے اس کے پاس آتے پوچھا۔

ٹھیک ہے میں اُس کے بارے میں معلوم کروایا ہوں۔

اور میں پوری کوشش کر رہا ہوں۔

تمھاری مسز بھی بہت جلد تمھیں مل جائے گی۔

ہمت مت ہارنا۔

ہشام نے اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

میں اُس کی حفاظت نہیں کر پایا۔

ناجانے وہ کس حال میں ہو گی۔اب تو میری بھی امید ٹوٹی جا رہی ہے۔

داؤد نے بےبسی سے کہا۔

ہشام نے ارحہ کو نہیں دیکھا تھا جبکہ وہ گواہ کے طور پر داؤد کے نکاح میں شامل ہوا تھا لیکن اس نے دیکھا نہیں اسے اس لیے اسے معلوم نہیں تھا کہ جو لڑکی اس کے اپنے گھر میں ہے وہی اس کے دوست کی بیوی ہے جسے وہ ہر جگہ تلاش کر رہا ہے۔

💜 💜 💜 💜

حمیرا نے اقبال کو کال کی۔پہلے تو اسے اچھی خاصی سنائی اور اقبال کو شرم دلانی چاہی لیکن وہ بھی اقبال تھا۔

خاموشی سے حمیرا کی بات سنتا رہا۔

تو کب لینے آ رہے ہو نازیہ کو؟ جو ہونا تھا ہو گیا۔لیکن تم میری بیٹی کو اُس کے حقوق سے محروم نہیں کرو گئے،

حمیرا نے کہا۔

ٹھیک ہے میں آ رہا ہو نازیہ کو لینے۔

اقبال نے کہتے ہی فون بند کر دیا،

حمیرا نے حیرانگی سے موبائل کی طرف دیکھا تھا،

اقبال کے تو تیور ہی تبدیل ہو گئے ہیں،

نازیہ تمہیں سنبھل کر رہنا ہو گا۔

حمیرا نے نازیہ کو دیکھتے کہا۔

جو اس کے پاس بیٹھی بےچینی سے اپنی ماں کی طرف دیکھ رہی تھی۔

وہ اقبال کی باتیں سن چکی تھی۔

امی دیکھا نا آپ نے؟ ان کو زرا بھی پرواہ نہ ہے۔جو بھی اقبال نے کیا عہ غلط ہے لیکن پھر بھی ان ہو احساس نہیں ہے۔

نازیہ نے منہ بسوڑتے کہا۔

میں نے کہا تھا کہ جو بھی کرنا ہے وہاں جا کر کرنا۔

وہاں جاکر تم اسے سیٹ کرنا اور اب تیار ہو جاؤ وہ حویلی آ رہا ہے۔

حمیرا نے نازیہ کو دیکھتے کہا۔

ساتھ جانے لے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔

نازیہ نے غصے سے کہا۔اور وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔

انوشے خاموشی کے ساتھ بیٹھی باہر کی طرف دیکھ رہی تھی۔

ضرغام حویلی جانے کی بجائے گاؤں سے باہر جو مارکیٹ تھی وہاں اسے لے آیا۔

مارکیٹ کے پاس گاڑی رکتی دیکھ انوشے نے حیرانگی سے ضرغام کی طرف دیکھا۔

ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟

انوشے نے حیرانگی سے پوچھا۔

ہم یہاں مووی دیکھنے آئے ہیں۔

ضرغام نے سنجیدگی سے کہا۔

یہاں کیا کوئی مووی بھی لگنے والی ہے؟. انوشے نے دلچسپی سے پوچھا۔

ضرغام نے انوشے کی طرف دیکھا اور اسے بازو سے پکڑ کر خود کے قریب کیا۔

تم معصوم ہو یا جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتی ہو؟

ضرغام نے انوشے کی آنکھوں میں دیکھتے گہرے لہجے میں پوچھا۔

آ آپ نے ہی تو کہا ہم یہاں مووی دیکھنے کے لیے آئے ہیں۔. انوشے نے کپکپاتے لہجے میں کہا ضرغام کی گرم سانسیں وہ اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی۔

معصوم ہو…… ضرضرغام کہتے ہی اس سے پیچھے ہو گیا۔

ہم یہاں مارکیٹ آئے ہیں تاکہ تم اپنے لیے کچھ ڈریس لے سکو۔

ضرغام نے اپنی سیٹ بیلٹ کو کھولتے ہوئے کہا۔

لیکن میرے پاس کپڑے ہیں۔

انوشے کے لہجے میں ابھی بھی حیرانگی تھی۔

ناجانے ضرغام کو کیا ہو گیا تھا جو وہ اس کی پرواہ کر رہا تھا۔اور اس کا انوشے کی پرواہ کرنا اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔

وہ سارے کپڑے ارحہ کے ہیں۔

جو تم استعمال کر رہی ہو۔

ضرغام نے اس کی طرف دیکھتے کہا۔

لیکن آپ تو مجھے بہت جلد چھوڑ دے گئے نا آپ نے ہی کہا تھا تو پھر ان سب چیزوں کا کیا فائدہ؟ انوشے نے ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

جس کے چہرے پر تکلیف دہ مسکراہٹ آکر مدھم ہوئی تھی۔

تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں طلاق دے دوں؟ضرغام نے بنا اسے دیکھے پوچھا۔

آپ نے کبھی مجھے اپنی بیوی تسلیم نہیں کیا۔

اور میں ویسے بھی خون بہا میں آئی تھی یہ تو آپ کا احسان ہو گا اگر آپ مجھے طلاق دے دء گئے ورنہ خون بہا میں آئی لڑکیوں کے جنازے ہی اُس گھر سے باہر نکلتے ہیں جس گھر میں وہ خون بہا کے طور پر جاتی ہیں۔

انوشے نے باہر دیکھتے دھیمے لہجے میں کہا۔

اس کی بات سنتے دونوں کے درمیان کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔

ٹھیک ہے میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔

لیکن جب تک میرے نام کے ساتھ جڑی ہو تب تک تمھاری ضرورتوں کا خیال رکھنے کی کوشش کروں گا۔

ضرغام نے گاڑی سے باہر نکلتے کہا۔

انوشے ابھی بھی بیٹھی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ضرغام آخر چاہتا کیا ہے۔

وہ بھی تو یہی چاہتی تھی کہ اس قید سے آذادی حاصل کرے لیکن اب طلاق کے نام پر اس کا دل بےچین کیوں ہو گیا تھا۔

لیکن آنکھیں باہر تو انوشے کی باہر کے منظر کو دیکھ کر آئی۔

انوشے سرخ چہرہ لیا گاڑی سے باہر نکلی۔

سامنے ضرغام جسے اس نے کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا وہ کسی لڑکے کے ساتھ ہنس کر بات کر رہا تھا۔

یہ اس کے لیے ناقابلِ یقین کے ساتھ ناقابل بھی برداشت تھا۔

ضرغام یہ کون ہے؟ اُس لڑکی نے دانت پیستے کھڑی انوشے کو دیکھتے پوچھا۔

اس سے پہلے ضرغام کوئی جواب دیتا انوشے چلتی ہوئی ضرغام کے پاس آئی اور اسے بازو میں ہاتھ ڈالے اس کے ساتھ کھڑی ہوئی۔

میں ضرغام کی بیوی ہوں۔انوشے ضرغام بدر خان

انوشے کو خود بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ یہ سب کیوں کر رہی ہے۔

لیکن اسے ضرغام کا کسی اور لڑکی کے ساتھ بات کرنا ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔

ضرغام کے چہرے پت بےیقینی تھی۔. جو انسان آج تک کسی بھی بات پر اتنا حیران نہیں ہوا تھا جتنا انوشے کی اس حرکت پر بت بنا اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔اور حیران ہو رہا تھا۔

زمل اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کے چکر میں سرخ ہو گئی تھی۔

میں سمجھ گئی کہ تم ضرغام کی بیوی ہو۔

زمل نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ضرغام لگتا ہے آپ گہرے صدمے میں چلے گئے ہیں۔

زمل نے مسکراہٹ دباتے ضرغام کو کہا۔

جو فوراً ہوش میں آیا تھا۔

اس کی نظر انوشے کے ہاتھ پر پڑی جس نے ابھی بھی ضرغام کے بازو کو پورے حق سے تھاما ہوا تھا جیسے اگر اُس نے چھوڑا تو ضرغام اس سے کہی دور بھاگ جائے گا۔

ہاں یہ میری مسز ہیں اور آج تو اس نے مجھ شوکڈ ہی کر دیا۔

ضرغام نے زمل کو دیکھتے بےیقینی سے کہا۔

اور ضرغام آپ میرا تعارف نہیں کروائے گئے؟ زمل نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

انوشے سر سے پیر تک زمل کا ایکس رے کر رہی تھی۔

جس نے گھٹنوں تک آتی فراک پہنی تھی۔

اور ساتھ کیپری میں گلے میں ڈوپٹہ ڈالے بالوں کی اونچی پونی کی ہوئی تھی جس میں وہ کیوٹ لگ رہی تھی۔

انوشے یہ ارحہ کی دوست ہے۔زمل اور میرے لیے بھی یہ ارحہ جیسی ہی ہے۔

پہلے یہ یہی گاؤں میں رہتی تھی پھر ان کی فیملی ملک سے باہر چلی گئی اور اب یہ اتنے سالوں بعد ملی ہے۔ضرغام نے تفصیل سے بتاتے کہا۔

اور تم مجھے بھائی کہا کرو۔

ضرغام نے گھورتے ہوئے زمل کو کہا۔

جو کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔

اور بہن کے لفظ پر انوشے بھی پرسکون ہو گئی۔

انوشے نے جب محسوس کیا کہ وہ ضرغام کا بازو پکڑے کھڑی ہے تو جلدی سے بازو چھوڑے پیچھے کھڑی ہوئی۔

یہ بھی ٹھیک ہے اپنی مرضی ہو تو قریب آجاؤ اور جب دل کیا پیچھے ہٹ جاؤ۔

ضرغام نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

ضرغام بھائی آپ کی وائف مجھ سے جیلس ہو رہی تھیں۔

زمل نے تھوڑا ضرغام کی طرف جھکتے راز دادی سے کہا۔

جیلس اور یہ؟ کبھی نہیں جو مجھ سے علیحدگی چاہتی ہے تو وہ جیلس کیسے ہو سکتی ہے ۔

یہ ضرغام نے دل میں سوچا۔

ضرغام بھائی….. اب ٹھیک یے؟ زمل نے بھائی پر زور دیتے کہا۔

تم لوگ کیا واپس آگئے ہو؟

ضرغام نے انوشے کو کمر سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے پوچھا۔اور اس کی بات کو اگنور کیا۔

انوشے سرخ چہرہ جھکائے کھڑی تھی۔

جو اس نے جیلسی میں کیا اب وہ سوچ کر ہی شرمندہ ہو رہی تھی۔

میں یہاں اپنے منگیتر سے ملنے آئی ہوں۔

اور ہو سکتا ہے کہ جلدی شادی ہو جائے اور پھر مجھے واپس نا جانا پڑے۔

زمل نے خوشی سے کہا۔

اپنے منگیتر کی بات پر زمل کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔

ضرغام نے بھی محسوس کیا تھا۔

تو تم نے منگنی کر لی بہت بہت مبارک ہو۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے کہا۔

آپ دونوں نے کہا ساری باتیں یہی کھڑے ہو کر بات کرنی ہے یا کہی بیٹھ کر بات کریں؟ انوشے نے چہرہ اٹھائے زمل کو دیکھتے کہا۔

وہ فضول میں اس معصوم کو غلط سمجھ رہی تھی۔

میں ضرور دونوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی لیکن ابھی مجھے جانا ہے۔

آج صبح ہی تو میں واپس آئی ہوں۔

یہاں پر ایک ضروری کام تھا تو اب وہ کر لیا۔

اب میں اپنے منگیتر سے بات کرنے جاؤں گی۔

ارحہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

لگتا ہے تمھارے منگیتر سے ملنا ہی پڑے گا جتنی تم اُس کی تعریف کر رہی ہو یقیناً وہ اتنا اچھا بھی ہو گا۔

ضرغام نے نرم لہجے میں کہا۔

جی بلکل… اور ضرغام بھائی آپ مجھے اپنا نمبر دے دیں میں بعد میں حویلی آؤں گی۔اور مجھے اپنی پیاری سی دوست ارحہ سے بھی تو ملنا ہے۔

اُسے بتا دینا کہ میں آؤں گی۔

زمل نے انوشے کے گلے لگتے لگا لیکن ارحہ کے نام پر ضرغام کے چہرے پر افسردگی چھا گئی تھی۔

بھابھی آپ بہت پیاری ہیں۔

جب بیوی اتنی پیاری ہو تو شوہر کہی اور دیکھنا پسند نہیں کرتا۔

اور شوہر بھی اگر ضرغام بھائی جیسا ہو تو بات ہی الگ ہے۔

زمل نے انوشے کے کان کے پاس جھکتے شرارتی لہجے میں کہا۔

انوشے نے سرخ چہرہ لیے زمل کی طرف دیکھا۔

اوکے بائے زمل نے ایک آخری بار دونوں کی طرف دیکھا اور پھر وہاں سے چلی گئی۔

یہ سب کیا تھا؟ زمل کے جانے کے بعد ضرغام نے انوشے کو دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا۔

ک کیا ؟انوشے جانتی تھی کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے لیکن پھر بھی انجان بنتے ضرغام سے پوچھا۔

جوبھی چاہتی ہو مجھے صاف صاف بتا دو۔

ایسا نا ہو بعد میں ہم دونوں کو پچھتانا پڑے۔

اور چلو اب جو لینا ہے جلدی سے لے لو۔

ضرغام نے انوشے کا ہاتھ پکڑتے کہا اور اسے لیے اندر کی جانب بھر گیا۔

انوشے نے اپنا ہاتھ واپس لینے کی کوشش نہیں کی تھی۔

اور مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑی۔

💜 💜 💜 💜

زمل خوشی خوشی ہشام کے گھر پہنچی تھی

وہی تو اس کا منگیتر تھا۔

جس پر زمل دل و جان سے فدا تھی۔

ایک سال پہلے اس کی منگنی ہشام سے ہوئی تھی۔

ہشام کی ایک بہن تھی جس کی دیتھ ہو گئی اب وہ اکیلا تھا۔

اس کی ماں کی دیتھ ہو چکی تھی اور باپ نے مرنے سے پہلے ہشام کی منگنی اپنے دوست کی بیٹی زمل سے کرا دی تھی۔

زمل تو پہلے سے اس پر مر مٹی تھی۔

ہشام کی خاطر ہی تو اس نے اس کے آفس تک میں کام کیا۔

لیکن پھر ہشام نے اپنا کام پاکستان میں سیٹل کر لیا تھا۔

باپ کی وفات کے بعد وہ دوبارہ واپس دوسرے ملک جانا نہیں چاہتا تھا۔

ہشام اپنے کمرے میں تھا.. ارحہ کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا.

جب ملازم نے آکر زمل کے آنے کی اطلاع دی۔

کون آیا ہے؟ ہشام جو موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔

اس نے ملازم کی طرف دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

اس سے پہلے ملازم کچھ کہتا۔

زمل اندر داخل ہوئی۔

سرپرائز…….

زمل نے لہجے میں خوشی لیے کہا اور وہاں کمرے میں داخل ہوئی۔

ہشام نے سرد نظروں سے زمل کو دیکھا ۔

اور ملازم کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟واپس کب آئی؟

ہشام نے سینے پر ہاتھ باندھتے پوچھا۔

آپ مجھے دیکھ کر خوش نہیں ہوئے؟ میں اتنی دور سے صرف آپ سے ملنے آئی ہوں اور آپ نے ہی تو کہا تھا کہ کوئی ضروری بات کرنی ہے۔

زمل نے ہشام کے قریب آتے خوشگوار لہجے میں کہا۔وہ کافی تھکی ہوئی تھی لیکن پھر بھی چہرے ہر مسکراہٹ لیے ہشام کے سامنے کھڑی تھی۔

میں تم سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن تمھیں آنے سے پہلے اطلاع دینی چاہیے تھی۔

ہشام کا لہجہ ابھی بھی سرد تھا۔

آپ نے بات کیا کرنی تھی؟

زمل نے بھی سنجیدگی سے پوچھا۔اس کی خوشی ایک سیکنڈ میں ہوا ہوئی تھی۔

ہمشیہ ہشام ایسا ہی کرتا آیا تھا۔

اپنے لفظوں سے اتنے گہرے وار کرتا کہ زمل کا خوشگوار لہجہ اور موڈ ایک سیکنڈ میں تبدیل ہو جاتا۔

مجھے تمھاری یہی عادت بہت اچھی لگتی ہے بنا کسی فضول بات کے سیدھے مدعے کی بات پر آتی ہو۔

ہشام نے زمل کے چہرے کے تاثرات دیکھتے کہا۔وہ جانتا تھا کہ جو بات وہ کرنے جا رہا ہے۔

اس سے زمل کو کتنی تکلیف پہنچنے والی تھی۔

چلیں میری کوئی عادت تو آپ کو اچھی لگی۔

زمل کا لہجہ طنزیہ تھا۔

تم بھی جانتی ہو کہ میرے ڈیڈ چاہتے تھے کہ میں تمھارے ساتھ شادی کروں اسی لیے انہوں نے ہم دونوں کی منگنی کر دی۔

ہشام نے رخ موڑے کہا۔

اس کی بات سنے زمل کی دل کی دھڑکنیں مدھم ہوئی تھیں۔

لیکن میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔اس لیے اس رشتے کو بھی ختم کرنا چاہتا ہوں۔

ہشام نے مڑتے زمل کو دیکھتے کہا۔لیکن اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا زمل کی آنکھوں سے نکلتے آنسو کو دیکھتے اس نے خود کو کچھ بھی کہنے سے روکا تھا۔

کیا آپ کسی اور کو پسند کرتے ہیں؟ زمل نے اپنے دل پر پتھر رکھتے یہ سوال پوچھا تھا۔

نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔

فلحال میرا ارادہ شادی کرنے کا نہیں تھا۔ہشام نے اس کے چہرے سے نظریں چراتے کہا۔

لیکن میں نے کب کہا کہ مجھے جلدی شادی کرنی ہے۔

جب آپ چاہیں گئے ہم تب ہی شادی کریں گئے۔

اگر آپ پوری زندگی بھی ایسے ہی گزرنا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

بس میں چاہتی ہوں کہ آپ کے ہاتھ میں ہمشیہ میرے نام کی انگوٹھی ہو۔

میں آپ کو کھونا نہیں چاہتی۔

زمل نے ہشام کا ہاتھ پکڑتے بےبسی سے کہا۔

جس کی انگلی میں ابھی بھی اسی کے نام کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔

ہشام نہیں جانتا تھا کہ یہ لڑکی اسے اتنا کیوں چاہتی ہے۔

زمل کو اس سے بہتر بھی مل سکتا تھا لیکن وہ ہشام کے پیچھے پاگل تھی۔۔

مجھے تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا زمل تم سمجھ کیوں نہیں رہی؟

ہشام نے اس کا ہاتھ جھٹکتے تھوڑا غصے سے کہا۔

اسے زمل کے آنسو اس وقت بہت برے لگ رہے تھے۔

کیوں؟ کیا میں اتنی بری ہوں؟

آخر مجھ میں برائی کیا ہے؟

کیوں آپ مجھ سے کوئی رشتہ رکھنا نہیں چاہتے ؟

زمل نے بےبسی سے روتے ہوئے پوچھا۔

فار گارڈ سیک رونا تو بند کرو۔

ہشام نے اس کے آنسو کو دیکھتے دھاڑتے ہوئے کہا۔

زمل ایک دم خوف سے کپکپا گئی ۔اور ہشام سے ایک قدم پیچھے کھڑی ہوئی۔

میں نے کہا نا کہ مجھے تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا تو نہیں رکھنا بات ختم۔

میں اس رشتے کو آج اور ابھی ختم کرتا ہوں۔

ہشام نے اپنی انگوٹھی اتار اسے ٹیبل پر رکھتے کہا۔

میں آپ سے محبت کرتی ہوں ہشام۔

زمل نے بمشکل اپنے آنسوؤں کو روتے بھاری لہجے میں کہا۔

چہرہ اس کا سرخ ہو گیا تھا۔

لیکن میں تم سے محبت نہیں کرتا نا ہی کبھی کروں گا۔

اس لیے واپس چلی جاؤ اور اپنے لیے بہتر ہمسفر کو تلاش کرو۔

ہشام نے رخ موڑے کہا۔

میں آپ کے بغیر مر جاؤں گی۔

زمل نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔

کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا زمل

کچھ دن لگے گئے پھر تم بھی سنبھل جاؤ گی۔ہشام نے سرد لہجے میں کہا۔

میں سچ کہہ رہی ہو ہشام

میں مر جاؤں گی۔

یہ بات زمل نے آہستہ آواز میں کہی۔

ہشام جو اس کے جواب کا منتظر تھا۔

گرنے کی آواز پر اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا لیکن زمل کو زمین پر گرے دیکھ حیرانگی سے اس کی آنکھیں پھیل گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

اقبال ضرغام کی غیر موجودگی میں وہ حویلی آیا تھا۔

نازیہ تیار کھڑی تھی لیکن ابھی بھی اس کا منہ پھولا ہوا تھا اگر اس کی ماں نا کہتی تو وہ کبھی بھی واپس نا جاتی۔

بڑی خانم اقبال کے پاس آئی۔

اقبال تمہیں نہیں لگتا کہ تم کے جو کیا وہ غلط تھا؟ جبکہ اس بات کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا پھر تم دوسرا نکاح کیسے کر سکتے ہو؟

بڑی خانم نے تحمل سے اقبال کو دیکھتے پوچھا۔

خانم میں جانتا ہوں کہ میں نے شرط کو توڑا ہے۔لیکن اس میں برا بھی کچھ نہیں ہے۔. اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے۔

اور میں نے اس بات سے بھی انکار نہیں کیا کہ میں نازیہ کے حقوق پورے نہیں کروں گا۔آپ کو میری طرف سے کوئی شکایت نہیں ملے گی۔

اقبال نے بڑی خانم کو دیکھتے کہا۔

مجھے تم سے یہی امید ہے اب تم جا سکتے ہو۔

بڑی خانم نے سنجیدگی سے کہا اور پھر نازیہ سب سے ملی اور آخر میں اپنی ماں کے گلے لگی۔

تم جو بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا۔

سمجھ گئی؟ حمیرا کے نازیہ کے کان میں سرگوشی کرتے کہا جس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

اس کے بعد نازیہ اقبال کے ساتھ چلی گئی۔

حمیرا عرفان کہاں ہے؟ نظر نہیں آ رہا؟ بڑی خانم نے حمیرا کو دیکھتے پوچھا۔

وہ تو اپنے کسی دوست کی شادی میں شہر گیا ہے کچھ دن وہی رہے گا۔

حمیرا نے جلدی سے کہا۔

اچھا ٹھیک ہے بڑی خانم کہتے ہی وہاں سے چلی گئی۔

حمیرا نے گہرا سانس لیا تھا اور خود بھی انعم کے کمرے کمرے کی طرف چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام نے انوشے کے منع کرنے کے باوجود اسے بہت سارے سارے ڈریس لے دیے تھے۔

اور بھی بہت سی اس کی ضرورت کی چیزیں اسے لے دی تھیں۔

کچھ اور لینا ہے؟ ضرغام نے انوشے کو دیکھتے پوچھا۔

نہیں جو کچھ آپ جے لے کر دیا وہ بھی بہت زیادہ ہے مجھے ان کی ضرورت نہیں تھی۔

انوشے کے ضرغام کو دیکھتے کہا۔

کچھ کھاؤ گی؟ ضرغام نے اس کی بات کو اگنور کیے پوچھا۔

جب انوشے کی نظر کافی مشین کی طرف پڑی۔

مجھے کافی پینی ہے۔

انوشے نے ضرغام کو دیکھتے کافی کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

تمہیں کافی پسند ہے؟ ضرغام نے حیرانگی سے پوچھا۔

نہیں مجھے پسند نہیں ہے لیکن مجھے ایک بار پینی ہے۔

لیکن میں نے سنا ہے یہ والی کافی اتنی کڑوی نہیں ہوتی۔

انوشے نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے چلو ضرغام نے کہا اور پھر انوشے کے لیے کافی لیے دونوں اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔

انوشے کافی پرجوش تھی۔ آج پہلی بار وہ کافی پینے لگی تھی۔اس کے گھر میں بھی کوئی نہیں پیتا تھا لیکن ایک بار اس نے تھوڑی سی ٹیسٹ کی جو بہت زیادہ کڑوی تھی۔

اُس کے بعد اس نے نہیں پی۔

میں نے کبھی کسی کو کافی پینے کے لیے اتنا پرجوش نہیں دیکھا۔

ضرغام نے سیٹ بیلٹ باندھتے کہا۔

اگر یہ بھی کڑوی ہوئی تو؟

انوشے نے معصومیت سے ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

یہ تو جب تک پیو گی پھر ہی پتہ چلے گا۔

ضرغام نے مسکراہٹ دباتے کہا۔

آپ تو کافی پیتے ہیں۔

آپ کو کڑوی نہیں لگتی؟

انوشے نے کافی کے کب کو لبوں سے لگاتے ہوئے پوچھا۔

ضرغام اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔

انوشے نے کپ لبوں سے پیچھے کیا اور عجیب کا چہرہ بنائے ضرغام کی طرف دیکھا۔

یہ تو میری سوچ سے زیادہ کڑوی ہے۔

انوشے نے منہ بسوڑتے کہا۔

ضرغام اس کی بات سنتے قہقہہ لگائے ہنس پڑا۔

آپ ہنس کیوں رہے ہیں۔

خود ٹیسٹ کر لیں۔

یہ سچ میں کڑوی ہے۔

انوشے کے کافی طکا کب اس جے آگے بڑھاتے کہا۔

ٹھیک ہے اگر تم کہتی ہو تو میں ٹیسٹ کر لیتا ہوں۔

ضرغام نے اس کے ہونٹوں پر نظریں جمائے ذومعنی لہجے میں کہا۔

لیکن انوشے نے اس کی بات کو نوٹ نہیں کیا۔لیکن آنکھیں تو اس کی اس وقت پھیلی جب ضرغام نے اس کی گردن پر ہاتھ ڈالے اسے خود کے قریب کیا۔

آپ ہنس کیوں رہے ہیں۔

خود ٹیسٹ کر لیں۔

یہ سچ میں کڑوی ہے۔

انوشے کے کافی کا کب اس کے آگے بڑھاتے کہا۔

ٹھیک ہے اگر تم کہتی ہو تو میں ٹیسٹ کر لیتا ہوں۔

ضرغام نے اس کے ہونٹوں پر نظریں جمائے ذومعنی لہجے میں کہا۔

لیکن انوشے نے اس کی بات کو نوٹ نہیں کیا۔لیکن آنکھیں تو اس کی اس وقت پھیلی جب ضرغام نے اس کی گردن پر ہاتھ ڈالے اسے خود کے قریب کیا۔

انوشے کی حیرانگی کے مارے آنکھیں پھیل گئی۔

آپ اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتی ضرغام اس کے ہونٹوں پر جھک چکا تھا۔

اور انوشے کی بولتی کو اس نے اپنے انداز میں بند کیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ خود یی پیچھے ہو گیا اور انوشے کے سرخ چہرے کو دیکھا جو آنکھیں میچے سانس روکے بیٹھی ہوئی تھی۔

ضرغام اس کے چہرے ہو دیکھ کر مسکرا پڑا۔

اس نے ابھی جو کیا اُس پر پشیماں تو بلکل بھی نہیں تھا۔

کیا ہوا؟ میں نے تو بس کافی ٹیسٹ کی ہے۔لیکن یہ کڑوی تو بلکل بھی نہیں ہے۔

ضرغام نے ہاتھ آگے بڑھاتے اس کے ہونٹ کے نیچے والے تل کو اپنے انگوٹھے سے چھوتے ہوئے مزید کہا۔

انوشے نے آنکھیں کھولے ضرغام کو دیکھا اس کا چہرہ اس قدرت سرخ ہو رہا تھا جیسے ابھی اس سے خون نکل آئے گا۔

ضرغام نے پیچھے تو ہو گیا تھا لیکن اتنا بھی نہیں ہوا تھا اب بھی دوس کے چہرے قریب تھے۔

جانتی ہو آج کی کافی کا ٹیسٹ کچھ الگ سا تھا۔ماور ایسے ٹیسٹ والی کافی میں نے کبھی نہیں پی۔

اس کے لیے تو میں تمھارا شکر گزار ہوں۔

کیا ایسی کافی مجھے روزانہ مل سکتی؟

ضرغام نے آنکھوں میں خمار لیے انوشے کو. دیکھتے پوچھا۔

ض ضرغام م مجھے آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔. انوشے نے کپکپاتے لہجے میں ضرغام کے چہرے سے نظریں چراتے کہا۔

لیکن ماتھے پر پسینہ تو تمھارے چمک رہا ہے تو مجھے لگتا ہے تمھاری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔

ضرغام نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے مصنوعی پریشانی سے کہا۔

انوشے کا دل فل سپیڈ سے دھڑک رہا تھا۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے کیا ہوا وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔

ضرغام اس کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔لیکن وہ تو اس سے نفرت کرتا تھا تو پھر وہ یہ سب کیوں کر رہا تھا۔

یہی بات انوشے کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

وقت کے ساتھ سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔

اس لیے زیادہ اپنے دماغ پر زور نا ڈالو ضرغام جو ا سکے چہرے کے تاثرات پڑھ چکا تھا اس نے انوشے سے پیچھے ہوتے کہا۔

انوشے نے حیرانگی کے مارے منہ کھولے ضرغام کی طرف دیکھا اسے کیسے پتہ چل جاتا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے،

انوشے نے ہوش میں آتے پہلے سامنے کی طرف دیکھا پھر شیشے سے باہر کی طرف دیکھنے لگی۔

ابھی بھی اس کا چہرہ سرخ تھا۔

لیکن ہونٹوں میں انجانے سی مسکراہٹ بھی تھی جس کے بارے میں اسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔

انوشے یے ساتھ ہوتے اسے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا اور وہ آج پہلی بار خوش بھی تھا۔اسے انوشے کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

زمل بیڈ پر بےہوش لیٹی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر نے کہا تھا کہ مسئلے کی بات نہیں ہے۔ٹینشن کی وجہ سے وہ بےہوش ہو گئی،

ہشام صوفے پر جھک کر بیٹھا اپنے دونوں ہاتھوں کو گھور کر دیکھ رہا تھا لیکن وہ کسی سوچ میں گم بیٹھا تھا۔

زمل…… زمل

ہشام نے سرد لہجے میں اس کا کا نام پکارا۔

اور سرخ آنکھوں سے اپنے بیڈ پر لیٹی زمل کی طرف دیکھا۔

تم میرے لیے مشکلات کھڑی کر رہی ہو۔

تمہیں یہاں سے جانا ہو گا۔اگر تم نہیں گئی تو تم میرا وہ روپ دیکھو گی جو میں تمہیں اپنا دکھانا نہیں چاہتا۔ہشام کے زمل کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا.

جب اس کی باڈی میں حرکت ہوئی اسے ہوش آ رہا تھا۔

زمل نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی۔

اور پہلے انجان نظروں سے کمرے کو دیکھنے لگی۔

یہ اس کا کمرہ نہیں تھا۔لیکن پھر اسے یاد آیا کہ وہ تو پاکستان ہشام سے ملنے آئی تھی پھر اُس کے انکار کر دیا اور وہ بےہوش ہو کر وہی گر گئی۔

زمل فوراً اُٹھ کر بیٹھی۔

کالے ریشمی بال کچھ پیچھے کمرے پر اور کچھ دائیں کندھے پر پڑے تھے۔

آنکھیں سرخ تھیں۔

جب اس کی نظر خود کو گھورتے ہشام پر پڑی۔جو اسے اٹھتا دیکھ بڑے بڑے ڈھاگ بڑھا اس کی طرف بڑھا تھا۔

اور اس کی گردن میں ہاتھ ڈالے اس کا چہرہ خود کے قریب لایا۔

تم آج کی فلائٹ سے واپس چلی جاؤ گی۔

اور مجھے اپنی بات دوبارہ نا دہرانی پڑے۔

ہشام نے اس کی بھیگی آنکھوں میں دیکھتے حکم صادر کیا۔

اس کی گردن پر گرفت مضبوط تھی۔

لیکن زمل خاموش نظروں سے اسے تکتی رہی۔

کیا کچھ نہیں تھا ان خوبصورت آنکھوں میں سب سے بڑھ کر شکوہ تھا۔

ہشام نظریں چرانا چاہتا تھا لیکن ایسا کر. نہیں سکا وہ زمل کے سامنے کوئی بھی ایسا تاثر دینا نہیں چاہتا تھا جس سے اسے چھوٹی سی بھی امید ملے۔

آپ نے کہا کہ آپ منگنی کو. ختم کر چکے ہیں تو اب کس حق سے میں آپ کی بات مانو؟ زمل نے ہشام کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔اور ہشام کو اپنی بات سے لاجواب کیا تھا۔

تم. یہاں مجھ سے ملنے آئی ہو تمھارے ماں باپ تو یہی جانتے ہیں اگر تمہیں کچھ ہو جاتا ہے تو وہ میرا گریبان پکڑے گئے۔

ہشام کے سرد لہجے میں کہا۔. فکر مت کریں۔

کوئی بھی آپ سے کچھ نہیں پوچھا گا۔. اگر میں یہاں مر بھی جاتی ہو تو بھی میرے گھر والے آپ کو کچھ نہیں کہے گئے۔

زمل نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔

فضول گوئی سے پرہیز کرو۔

میرا ڈرائیور تمہیں ائرپورٹ چھوڑ دے گا۔

ہشام نے پیچھے ہوتے کہا۔

اس کی ضرورت نہیں ہے میں خود چلی جاؤں گی اور میری مرضی میں جتنا میرا دل چاہے گا میں یہی رہو گی۔

زمل نے بھی ضدی لہجے میں کہا۔

اور بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

لیکن اس کی ہٹ دھرمی پر ہشام کے ماتھے ہر بل پڑے تھے۔

ہشام نے مڑ کر زمل کو دونوں بازوں سے دبوچتے خود کے قریب کیا۔

آہ زمل تکلیف کے مارے کراہ پڑی۔

تمہیں ایک بار میری پل بات سمجھ میں نہیں آ رہی؟

ہشام کا لہجہ کرخت تھا۔

ماتھے پر تیوری لیے وہ زمل کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

زمل نے خود میں ہمت جمع کرتے کچھ بولنے کے لیے اپنی لب وا کیے۔

چ چھوڑیں مجھے زمل نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔

لیکن ہشام نے اس کی بات کو اگنور کیا۔

میں نے کہا چھوڑیں مجھے ….

اس بات زمل نے اپنا پورا زور لگاتے ہشام کو پچھے دھکا دیا تھا۔

بےبسی سے آنکھوں آنکھوں سے نکلنے لگے تھے۔

ہر بار میں ہی کیوں سمجھوں؟

آپ کیوں نہیں سمجھ رہے میرے جذبات کو؟

آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں آپ سے کتنی محبت کرتی ہوں اُس کے باوجود ہمشیہ آپ نے مجھ سے سرد لہجے میں بات کی۔

میرے احساسات میرے جذبات کی توہین کی۔

آپ کا مجھے اگنور کرنا۔ٹھیک سے بات نا کرنا۔

ان سب کے بعد میں ناجانے میں اتنی ڈھیٹ کیوں ہوں جو ابھی تک آپ ہے پیچھے بھاگ رہی ہوں۔

لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔

اگر میرے اختیار میں ہوتا تو آپ جیسے خودغرض انسان کی طرف دیکھنا بھی میں گوارہ نا کرتی لیکن اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔

زمل نے روتے ہوئے ہشام کو دیکھتے کہا۔

جس نے ہاتھ کی مٹھی بنائے اپنے غصے کو کنٹرول کیا تھا۔

آج کے بعد میں کبھی بھی آپ کے راستے میں نہیں آؤں گی۔اور آپ بھی میرے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گئے زمل نے اپنے آنسو صاف کرتے بھاری لہجے میں کہا۔

اور کمرے سے باہر بھاگ گئی۔

لیکن پیچھے ہشام کو بےچین کر گئی تھی۔

زمل روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل اور اس کا ارحہ کے زبردست تصادم ہوا۔

دونوں زمین پر جا گری۔

💜 💜 💜 💜 💜

اقبال نازیہ کو حویلی لے آیا تھا۔

جس نے آتے ہی حبہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔

حبہ نے اپنی بیٹی کو گود میں اٹھایا ہوا تھا۔

نازیہ کی نظروں سے اسے خوف محسوس ہوا تھا۔

اس لیے اپنی بیٹی جو لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

وی صبا کا بھی بہت اچھی طرح خیال رکھ رہی تھی۔

نازیہ اپنے کمرے میں گئی۔ماور غصے سے بیڈ پر بیٹھی۔

سب سے پہلے تو میں تمھاری بیٹی کو تم سے دور کروں گی۔

اب دیکھنا کیسا میں تمھاری زندگی حرام کرتی تم نے میرے شوہر سے نکاح کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔

نازیہ نے پختہ لہجے میں کہا۔

اس کے ارادے خطرناک تھے۔

جو حبہ اور اس کی بیٹی کے لیے اچھے نہیں تھے۔

رات کھانے کے وقت نازیہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی۔

اقبال حویلی میں نہیں تھا۔

اور داؤد بھی شہر چلا گیا تھا۔

نازیہ باہر آئی تو اسے حبہ کی بیٹی نظر آئی جو صوفے پر لیٹی تھی اور ملازمہ اس کے پاس بیٹھی اس سے کھیل رہی تھی حبہ کچن میں تھی۔

جب نازیہ وہاں آئی اس کے چہرے پر سرار سی مسکراہٹ آگئی۔

جاؤ اور میرے لیے پانی لے کر آؤ۔

نازیہ نے ملازمہ کو. دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

جی بی بی جی ملازمہ کہتے ہی گڑیا کو اٹھانے لگی جب نازیہ نے منع کر دیا۔

اسے یہی رہنے دو کھا نہیں. جاؤں گی میں اسے نازیہ نے کہا تو مجبوراً گڑیا کو وہی چھوڑے ملازمہ کو وہاں سے جانا پڑا۔

نازیہ گڑیا کے پاس بیٹھی جو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے نازیہ کو دیکھ رہی تھی۔

کیوں نا میں تمھارا کام آج ہی تمام کر دوں؟

نازیہ نے گڑیا کو دیکھتے کہا اور پاس پڑے تکیے کو پکڑے گڑیا کے چہرے کے قریب لائی۔

اس وقت وی نفرت کی. آگ کی اس قدر اندھی ہو گئی تھی کہ اسے معصوم سی جان پر بھی

ترس نہیں آ رہا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

ضرغام اور انوشے ایک اچھی شام ساتھ گزرانے کے بعد واپس آگئے تھے۔

بڑی خانم نے دونوں کو ساتھ دیکھا تو مسکرا پڑی۔

انوشے بڑی خانم کو دیکھتے ان کی جانب بڑھ گئی۔

انوشے بیٹا تم تو اپنی ماں سے ملنے گئی تھی نا وہ کیسی ہے؟ بڑی خانم نے نرم لہجے میں اسے دیکھتے پوچھا۔

تو انوشے افسردگی سے صبا کی حالت کے بارے میں بتانے لگی۔

تم فکر مت کرو ان شا اللہ وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائے گی.

خانم نے اسے حوصلہ دیتے کہا۔

ضرغام ان کے سامنے ہی بیٹھ گیا تھا اور اس نے ملازمہ کو پانی لانے کا کہا اور خود موبائل پر بزی تھا۔

ملازمہ پانی کا گلاس ٹرے میں رکھے لائی اور مسکراتے ہوئے ضرغام کے سامنے پیش کیا۔

اس سے پہلے ضرغام وہ پانی کا گلاس تھامتا انوشے جو اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور ضرغام کے پاس پڑے شاپنگ بیگ اٹھانے لگی تاکہ بڑی خانم یو اپنی شاپنگ دکھا سکے اس ک ہاتھ لگا اور پانی کال گلاس زمین پر گرتے چکنا چور ہو گیا۔

یہ آپ نے کیا کر دیا؟ ملازمہ غصے سے انوشے کو دیکھتے بولی۔

لیکن جیسے ہی اسے اپنے لہجے کا احساس ہوا تق فوراً کہا۔

میرا مطلب ہے کہ اگر آپ کو لگ جاتا تو ملازمہ نے کہا تو انوشے نے غور سے اسے اس کی. طرف دیکھا تھا۔

اس کو جلدی سے صاف کرو اور ضرغام کو پانی لا کر دو۔

خانم نے ملازمہ کو دیکھتے کہا۔

نہیں رہنے دو۔

خانم میں شہر جا رہا ہوں کل تک واپس آجاؤں گا۔

ضرغام نے انوشے کو دیکھتے بڑی خانم کو کہا۔

ٹھیک ہے بیٹا دھیان سے جانا بڑی خانم نے کہا تو ضرغام ایک آخری نظر انوشے پر ڈالنے کے بعد وہاں سے چلا گیا۔

ملازمہ کچن کی طرف چلی گئی تھی۔

اور وہاں حمیرا پہلے سے موجود تھی۔

تم اپنا کام ٹھیک سے کیوں نہیں کر رہی؟ ابھی تک ضرغام زندہ سلامت ہے۔

حمیرا نے دھیمے لہجے میں اُس ملازمہ کو دیکھتے کہا۔

بی بی جی وہ زیادہ تر حویلی میں ہوتے نہیں ہیں کب آتے ہیں کب جاتے کسی کو پتہ نہیں چلتا لیکن. مجھے جیسا ہی موقع. ملتا ہے میں اُس کی کافی یا کھانے میں آپ کی دی ہوئی دوائی ڈال دیتی ہوں۔

ملازمہ نے بھی آہستگی سے کہا۔

ٹھیک ہے تم اپنا کام جاری رکھو حمیرا نے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

Kesi lagi epi? Or kia kare gi nzaia? Zamal irha ko pehchan le gi? 🤭🤭

💜 💜 💜 💜 💜


My new ebook novel…. شور کرو گی؟

"چلو چیخنا چلانا شروع کرو۔

میں بھی دیکھتا ہوں کون آتا ہے۔"

ضوریز نے چیلنجنگ انداز میں مزید بیلا کے قریب آتے کہا۔

جو پیچھے دروازے کے ساتھ جا لگی تھی۔

چہرے پر خوف اور آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

ضوریز نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈالا اور اس کا چہرہ خود کے قریب کیا۔

جس کی آنکھیں خوف کے مارے پھیل گئی تھیں۔

"تم معصوم ۔بےحد معصوم۔۔لیکن فکر مت کرو میں تمھاری معصومیت کا صرف تھوڑا سا ناجائز فائدہ اٹھاؤں گا۔کیونکہ یہ میں حق بجانب سمجھتا ہوں۔۔"

ضوریز نے بیلا کی آنکھوں میں دیکھتے گھمبیر لہجے میں کہا۔

اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے سفید رومال کو بیلا کے منہ پر رکھ دیا۔

جسے زرا سا بھی سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔

اور وہ وہی بےہوش ہو گئی۔

اس سے پہلے اس کا سر پیچھے شیشے کے ساتھ لگتا ضوریز نے دوبارہ اسے تھام لیا تھا اور پھر اس کی بند آنکھوں کو دیکھنے لگا۔

"ہمیشہ بڑوں کے لیے کی سزا چھوٹوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔

تمھارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو گا۔"

ضوریز نے سنجیدگی سے کہا

زمل نے اپنی آنکھوں سے نکلتے آنسو کو صاف کیا اور ارحہ کی طرف دیکھا جس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو کسی انجان کمرے میں پایا جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا اُس کے بعد تو اسے ہر چیز سے ڈر لگ رہا تھا اسے لگا کہ وہ انسان بھی اس کے ساتھ ویسا ہی کرے گا جیسا پہلے نے کیا اس لیے خود میں ہمت جمع کرتے کمرے سے باہر آئی لیکن سامنے سے آتی زمل کے ساتھ اس کا زور دار ٹکراؤ ہوا اور دونوں زمین بوس ہو گئی۔

زمل نے کھڑے ہوتے ارحہ کی طرف دیکھا جو ابھی بھی آنکھ بند کیے زمین پر پڑی تھی۔

کمزوری کی وجہ سے اُس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔

لیکن زمل ایک سیکنڈ سے پہلے اسے پہچان گئی گئی۔

ارحہ بڑی ضرور ہوئی تھی لیکن اس کا چہرہ ویسا ہی تھا۔

ارحہ……

ارحہ یہ تم ہی ہو نا؟ زمل کے لہجے میں بے یقینی لیے کہا۔

اور جلدی سے ارحہ کے پاس بیٹھی جس نے آنکھیں کھولے زمل کی طرف دیکھا۔

وہ بھی اسے پہچان گئی تھی۔

ز زمل ؟ارحہ کے کپکپاتے لہجے میں اس کا نام لیا۔

ہاں میں ہی ہوں لیکن تمہیں کیا ہوا اور تمھاری یہ حالت کس نے کی؟ زمل نے پریشانی سے ارحہ ہو دیکھتے پوچھا اور اسے سہارا دیتے کھڑا کیا۔

زمل تم مجھے بھائی کے پاس لے جاؤ گی پلیز۔

ارحہ نے بےبسی سے روتے ہوئے کہا۔

ہاں میں تمہیں لے جاؤ گی پہلے رونا بند کرو مجھے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔

زمل نے ارحہ کے آنسو صاف کرتے کہا۔

اتنے میں ہشام بھی باہر آگیا تھا۔

اور دونوں کو دیکھتے حیران ہوا۔

تم دونوں ایک دوسرے کو جانتی ہو ؟

ہشام نے دونوں کے پاس آتے حیرانگی سے پوچھا۔

جی اور یہ آپ کے گھر کیا کر رہی ہے؟ زمل نے ہشام کو دیکھتے پوچھا۔

میں نے صرف ان کی مدد کی تھی اور یہ بےہوش ہو گئی تو میں ان کو گھر لے آیا اور ابھی ان کو ہوش آیا۔ہشام نے تفصیل بتاتے کہا ناجانے کیوں اس کے دل نے صفائی دینے کو کہا تھا کہی زمل اسے غلط نا سمجھے۔

لیکن تم دونوں ایک دوسرے کو کیسے جانتی ہو؟ اور زمل یہ کون ہے؟

ہشام کو ابھی بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

آپ کو یاد ہو گا۔

میں اکثر آپ سے بات کرتی تھی اپنے گاؤں کی وہ الگ بات ہے آپ نے کبھی میری بار کو غور سے نہیں سنا اس لیے آپ کو کیسے یاد ہو گا۔

ناچاہتے ہوئے بھی زمل کا لہجہ طنزیہ ہو گیا تھا۔

مجھے سب یاد ہے اب بتاؤ کون ہے یہ ہشام نے دانت پیستے کہا۔

میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میری ایک دوست ہے ارحہ خان

یہ وہی ہے اور اس کے بھائی کا نام ضرغام بدر خان ہے۔

زمل نے ہشام کی طرف دیکھتے اسے بتایا۔

ہشام کے بےیقینی سے ارحہ کی طرف دیکھا تھا۔

معجزے آج بھی ہوتے ہیں ہشام کو اس بات پر یقین آگیا تھا۔

آپ ضرغام بدر خان کی بہن اور داؤد کی وائف ہیں نا؟ ہشام کے لہجے میں بےیقینی تھی۔

ارحہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

وہ. زمل کے سہارے کھڑی تھی۔

زمل ان کو کمرے میں لے جاؤ ہشام نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے کہا۔

زمل خاموشی سے اسے لیے کمرے لی طرف بڑھ گئی۔

لیکن اس کے دل میں سوال مچل رہا تھا کہ ہشام کو کیسے پتہ کہ ارحہ داؤد نامی انسان کی بیوی ہے۔

لیکن اس وقت وہ ارحہ کو لیے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

کچھ ماہ پہلے……..

داؤد جب جلتے ہوئے گھر کو دیکھ رہا تھا تو اس کا موبائل رنگ ہوا۔

اس کے سیکرٹری نے بتایا کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی ہے۔وہ بھی اس کے گھر کے پاس ہی رہتا تھا۔

داؤد کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔

سامنے جس کلینک میں آگ لگی۔

اُس میں اس کی بیوی ہے اور گھر میں ملازمین جو شاید زندہ بھی تھے۔

اور داؤد نے ہی ان کا. خرچہ اٹھانا تھا اس لیے ایک نظر کلینک پر ڈالے اپنی گاڑی کی. طرف بڑے گیا۔آنکھوں بھیگی ہوئی تھیں۔

وہ. اس امید سے شہر گیا کہ ارحہ کو تو بچا نہیں سکا لیکن جو لوگ ابھی زندہ ہیں سانس لے رہے ہیں لیکن حالت بری ہے اُن کو بچا سکے۔

اس لیے وہاں سے چلا گیا۔

پچھے عرفان جس نے اپنے باس کے کہنے پر ان پر نظر رکھی تھی۔

داؤد کے جانے کے بعد ایک لڑکی کی جلی ہوئی لاش اُس کلینک میں لاکر رکھ دی اور اس کے ہاتھ میں ارحہ کا بریسلٹ پہنا دیا۔

اور داؤد کے گھر بھی آگ ایک سوچی سمجھی چال تھی تاکہ وہ یہاں سے جا سکے اور سارا الزام اس پر لگایا جا سکے۔

آگے کا کام عرفان نے کیا تھا اُس نے ضرغام کو کال کی اور جھوٹی کہانی بنا کر کسی طریقے سے ضرغام کو مطمئن کر دیا کہ داؤد نے ارحہ کی جان لی اور خود بھاگ۔

اور آخر کا وہ ضرغام کو یقین دلانے کیلئے کامیاب بھی ہو گیا کہ یہی ارحہ ہے اور پھر ضرغام کے دل کی داؤد کے لیے نفرت پیدا ہوئی اور اس نے خون بہا کے بدلے انوشے سے نکاح کیا۔

عرفان یہ سب کس کے کہنے پر کر رہا تھا۔

یہ تو بعد میں پتہ چلنا تھا۔

داؤد کا تقریباً پورا گھر جل گیا تھا۔

اس وقت ہشام نے اس کی مدد کی۔

اور جتنے بھی ملازمین آگ کا شکار ہوئے تھے وہ سارے زندہ تھے اور داؤد کے لیے یہی کافی تھا۔

ملازمہ نے بتایا کہ کچن میں آگ لگی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ ہر طرف پھیل گئی.

ہشام سب معلوم کروانا چاہتا تھا لیکن داؤد نے منع کر دیا۔

ہشام کو پتہ چل گیا تھا کہ داؤد اس وقت کس طرح کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔

اس نے اپنی بیوی کو کھویا ہے۔

اور انہی سب میں کچھ دن داؤد کو شہر میں لگ گئے تھے۔

💜 💜 💜 💜 💜

جس لڑکی کو میں گھر لایا وہی میرے دوست کی بیوی ہے۔

اور وہ انسان پاگلوں کی طرح اسے ہر جگہ تلاش کر رہا ہے۔

ہشام نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا اور اپنا موبائل پکڑے داؤد کا نمبر ڈائل کیا جس کا نمبر بند جا رہا تھا۔

اس کمینے کا نمبر بھی اب ہی بند جانا تھا۔

ہشام نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور اس کے گھر کے لینڈ لائن پر کوشش کی۔

اور خوش قسمتی سے داؤد نے فون اٹھایا تھا۔

ہیلو کون؟ داؤد کی آواز سنتے ہی ہشام کو غصہ چڑھا تھا۔

اگر تو نے موبائل بند ہی رکھنا ہوتا ہے تو اُسے کہی پھینک دے،

ہشام کی غصے سے بھری آواز سپیکر میں گونجی تو داؤد حیران ہوا۔

کیا ہوا طبعیت تو ٹھیک ہے؟ اور موبائل میرا آف ہو گیا تھا۔. داؤد نے کہا۔

ابھی تم. شہر میں ہو نا؟ ہشام نے جلدی سے پوچھا۔

ہاں داؤد نے ناسمجھی سے کہا۔

گریٹ……

ابھی اور اسی وقت میرے گھر آؤ۔

ہشام نے کہتے ہی فون بند کر دیا۔

اسے کیا ہوا؟

داؤد نے فون رکھتے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھا دیے لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے کتنا بڑا سرپرائز ملنے والا ہے……

تمہیں کیا لگا تم ضرغام بدر خان سے چھپ سکتے ہو؟

ضرغام نے پرسرار لہجے میں عرفان کو دیکھتے کہا۔

جو بدقسمتی سے اُس جگہ سے آج ہی باہر نکلا تھا جہاں سے نکلنے کے لیے اسے منع کیا گیا تھا۔

اور ہشام کے ساتھ ضرغام کے آدمی بھی اسے تلاش کر رہے تھے اور ضرغام کے آدمیوں کو. وہ نظر آگیا اور اسے یہاں ضرغام کے قید خانے میں لے آئے۔

میں نے کچھ نہیں کیا پھر تم میرے پیچھے کیوں پڑے ہو؟عرفان نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔

ضرغام چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور بالوں سے دبوچتے اس کا چہرہ اوپر کیا۔

لگتا ہے کہ تمہیں بھول گیا ہے کہ میں کون ہوں۔

عزت کے ساتھ بات کرو ورنہ دوبارہ بولنے کے لیے زبان نہیں رہے گی۔

ضرغام نے غراتے ہوئے کہا۔

آ آپ میرے پیچھے کیوں پڑے ہیں،. عرفان نے فوراً لائن پر آتے کہا۔

گڈ…..

تو اب مدعے کی بات پر آتے ہیں۔

اگر تم نے کچھ کیا نہیں ہے تو مجھ سے چھپ کیوں رہے تھے؟

ضرغام نے عرفان کے بالوں کو چھوڑتے ہوئے پوچھا۔

م میں چھپ نہیں رہا تھا۔میرے دوست کی شادی تھی میں وہی تھا۔

کچھ دنوں تک میں نے واپس گھر آنا تھا۔

عرفان نے جلدی سے کہا۔

جھوٹ بولنے میں تم ابھی کچے ہو تمھاری لڑکھڑاتی زبان سب کچھ بتا رہی ہے۔

اب میرے سوالات کا ہاں یا ناں میں جواب دینا ورنہ ضرغام نے اپنے ٹیبل سے تیز دھار والا چاقو پکڑتے بات کو ادھورا چھوڑتے عرفان کی طر دیکھا جس کی خوف کے مارے آنکھیں پھیل گئی تھیں۔

آپ اپنے کزن کو جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں؟ عرفان نے پیچھے کو کھسکتے ہوئے پوچھا۔

دھمکی تو میں نے ابھی دی ہی نہیں۔

اور ضرغام بدر دھمکی نہیں دیتا بلکہ سیدھا کام تمام کر دیتا ہے۔

ضرغام کہتے ہی اس نے اپنے قدم عرفان کی طرف بڑھائے۔

تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ ارحہ اُس آگ میں جل کر مر گئی؟ ضرغام کا لہجہ پتھریلا ہوا تھا۔

عرفان نے تھوک نگلتے فوراً نفی میں سر ہلایا۔

میں نے کہا کہ اگر تم نے جھوٹ بولا تو تمھارے ایک جھوٹ پر ایک انگلی کاٹوں گا۔

ضرغام نے عرفان کا ہاتھ پکڑتے اس کی انگلی پر گہرا کٹ لگاتے کہا۔

عرفان تکلیف سے کراہ پڑا تھا۔

م میں نے جھوٹ بولا تھا۔

عرفان نے جلدی سے کہا۔

ضرغام نے گہرا سانس لیتے اپنے اندر اٹھتے غصے کے اُبال کو کنٹرول کیا تھا۔

وہ لاش کس کی تھی؟ ضرغام نے اگلا سوال کیا۔

اُس لڑکی کو میں نہیں جانتا مجھے جیسا کہا گیا میں نے ویسا ہی کیا۔

اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا۔

عرفان نے جلدی سے کہا۔

کس کے کہنے پر تم نے ایسا کیا؟

ضرغام نے سرد لہجے میں پوچھا۔

میں اُسے نہیں جانتا وہ ماسک پہنتا ہے اور مجھے مارکیٹ میں ملا تھا۔

مجھے پیسوں کی ضرورت تھی میں نے دوسرا کاروبار کرنے کا سوچا تھا۔تو اُس نے مجھے پیسے دے کر وہ کام کروایا۔

عرفان طوطے کی طرح سب کچھ بولتا جا رہا تھا۔

اُس کا نام کیا ہے؟ ضرغام نے سنجیدگی سے پوچھا۔

میں کچھ نہیں جانتا نا کبھی اُس نے اپنا نام بتایا۔

عرفان نے بےبسی سے کہا۔

تم نے جو کیا اُس کے لیے تمہیں میں خود سزا دوں گا۔

لیکن آج نہیں کل ضرغام نے عرفان کو جبڑوں سے دبوچتے ہوئے سرد مہری سے کہا۔

اور اپنے آدمیوں کو عرفان کو باندھنے کا کہتے وہاں سے چلا گیا۔

پیچھے عرفان رو رو کر اسے چھوڑنے کی فریاد کر رہا تھا جسے ضرغام نظر انداز کرتے وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜 💜

تم یہاں کیا پر کر رہی ہو؟ اس سے پہلے نازیہ کچھ کرتی اقبال نے اسے دیکھتے پوچھا تو نازیہ نے تکیہ فوراً نیچے رکھ دیا۔

کچھ نہیں کیا میں آپ کہ بیٹی کے پاس نہیں بیٹھ سکتی؟

نازیہ نے کھڑے ہوتے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

اقبال نے آگے بڑھتے اپنی بیٹی کو گود میں لیا تھا۔

اگر ایسا ہے تو تمھارا چہرہ تو کچھ اور ہی داستان بیان کر رہا ہے۔

میری بیٹی سے نازیہ دور رہنا اگر اُسے تمھاری وجہ سے کچھ. بھی ہوا تو میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔

اقبال نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔

کیا آپ مجھے جانتے نہیں؟ جو یہ کہہ رہے ہیں؟ نازیہ نے غصے سے کہا۔

تمہیں جانتا ہوں اس لیے تنبیہ کر رہا ہوں۔

کیونکہ میں تمھاری رگ رگ سے واقف ہوں۔

اقبال نے سنجیدگی سے کہا اور گڑیا کو. لیے وہاں سے چلا گیا۔. نازیہ نے پیچھے زور سے اپنے پیر کو پٹخا اور اپنے کمرے کی طرف. چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜

تم کیا نکاح کرنے والے ہو جو مجھے اتنی ایمرجنسی میں گواہ کے طور پر بلایا؟

داؤد نے ہشام کو دیکھتے دانت پیستے پوچھا۔

جسے اپنے دوست کی حالت پر ترس آ رہا تھا۔

جس کی حالت اسے قابلِ رحم لگی تھی۔

چہرہ کمزور ہو گیا تھا آنکھوں سے رونق کہی غائب سی ہو گئی تھی۔

وہ یہ سوچ رہا تھا کہ کیسے وہ اسے بتائے کہ اس کی بیوی کے ساتھ کیا ہوا۔

ہشام بنا کچھ کہے داؤد کے گلے جا لگا۔

کیا ہوا؟ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ داؤد نے حیرانگی سے ہشام سے پوچھا۔

میرے ساتھ چلو……

ہشام نے دھیمے لہجے میں کہا اور داؤد کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے کمرے سے باہر چلا گیا۔

جسے ابھی بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہشام کو ہوا کیا ہے۔

ہشام نے دروازہ ناک کیا۔

جہاں اندر ارحہ کسی اپنے کو سامنے دیکھتے زمل کے گلے لگے رو رہی تھی۔

ہشام کمرے میں داخل ہوا اس کے پچھے داؤد بھی تھا،

جس کی نظر سب سے پہلے ارحہ پر پڑی اور پلٹنا بھول گئی۔

ہشام نے زمل کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور خاموش کے ساتھ خود بھی کمرے سے باہر نکل گیا۔

داؤد پتھر کا بنا وہی کھڑا ارحہ کو تکنے لگا۔

جس کی آنکھوں سے گرم آنسو نکلتے اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔

داؤد کو لگا اس کی ٹانگیں بےجان ہو گئی ہیں۔

وہ وہی زمین پر ڈھ سا گیا تھا۔اس نے تو ارحہ کے ملنے کی امید کھو دی تھی۔

م میں کہی خواب تو نہیں دیکھ رہا؟. داؤد نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے خود سے سوال کیا پھر نظریں اٹھا کر ارحہ کی طرف دیکھا۔

یہ حقیقت ہے۔داؤد نے خود کو جیسے یقین دلایا تھا اور اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ارحہ کے پاس گیا اور اس کے پاس ہی بیٹھ کر اس کے چہرے کو چھو کر یقین کرنا چاہا۔

جو سچ میں اس کے سامنے بیٹھی تھی۔

داؤد نے فوراً اسے پکڑے اپنے سینے میں بھینچا۔

ارحہ محسوس کر سکتی تھی کہ داؤد کے دل کی دھڑک کتنی تیز چل رہی ہے۔

ارحہ تم کہاں تھی؟ ایم سوری میں تمھاری حفاظت نہیں کر پایا۔

پلیز مجھے معاف کر دینا۔

داؤد بنے ارحہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے اس کے ماتھے پر لب رکھتے کہا۔

جو خاموشی سی بیٹھی آنسو بہا رہی تھی،. وہ داؤد کی آنکھوں میں بےبسی، تکلیف اور گلٹ دیکھ چکی تھی۔کتنی خوش قسمت تھی کہ اللہ نے اس کے نصیب میں داؤد جیسا مرد لکھا تھا لیکن جو اس کے ساتھ ہوا اُس کے بعد وہ خود کو داؤد کے قابل نہیں سمجھتی تھی۔

ارحہ کیا تم مجھ سے خفا ہو؟ ہونا بھی چاہیے میں تمھاری حفاظت کرنے میں ناکام جو رہا۔

مجھے معاف کر دو۔

داؤد نے ارحہ کے ہاتھ پر لب رکھتے کہا۔

اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

وہ مضبوط مرد آج آنکھوں میں پانی لیے ارحہ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔

اس کے جھکے ہوئے کندھے مرجھایا ہوا چہرہ ارحہ کو یہ وہ والا داؤد تو ہرگز نہیں لگا تھا جس سے اس کا نکاح ہوا تھا۔

کیا اس کی غیر موجودگی نے داؤد کی صحت پر اس قدر اثر ڈالا تھا۔

ارحہ کچھ تو بولو میں تمھاری آواز سننے کو ترس گیا ہوں،

داؤد نے بےبسی سے کہا۔

د داؤد ارحہ نے آنسو پیستے بمشکل داؤد کا نام پکارا۔

میری جان میں سن رہا ہوں۔

بولو داؤد نے پیار سے کہا۔

آ آپ پلیز مجھے چھ چھوڑ دیں م میں آپ اب آپ کے قابل نہیں ہوں۔

ارحہ نے کپکپاتے لہجے میں بمشکل اپنی بات کو مکمل کیا تھا۔داؤد کا یہ سنتے ایک پل کو سینے میں سانس اٹکا تھا۔

آنکھیں حیرانگی سے پھیلی تھیں۔

وہ سمجھ گیا تھا کہ ارحہ کی بات کا کیا مطلب ہے۔

تمھاری ہمت کیسے ہوئی یہ بولنے کی؟ کس نے حق دیا تمہیں کہ خود کو مجھ سے دور کر سکو؟ اگر اب تم مجھ سے دور گئی تو پوری. دنیا کو جلا کر راکھ کر دوں گا۔

داؤد نے غصے سے ارحہ کو دیکھتے کہا۔

داؤد آپ سمجھ نہیں رہے ارحہ کے اس نے اپنے چہرے کے گرد ہاتھوں کو پیچھے کرتے بھاری لہجے میں کہنا چاہا۔

ششش…. داؤد نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش کرواتے کہا۔

اس وقت کس طرح اس نے خود کو بکھیرنے سے روکا تھا صرف وہی جانتا تھا ورنہ اپنی بیوی پر ہوئے ظلم ہر اس ک دل خون کے آنسو رونے کو کر رہا تھا۔

لیکن ارحہ کے سامنے وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا۔

ورنہ ارحہ بھی ہمت ہار جاتی۔

اگر تمھیں لگتا ہے کہ جو بھی تمھارے ساتھ ہوا وہ جاننے کے بعد میں تمہیں چھوڑ دوں گا تو یہ تمھاری غلط فہمی ہے۔

میں تمھارا ساتھ مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا اور جس نے تمہیں تکلیف پہنچائی اُس کو میں تڑپا تڑپا کر ماروں گا۔

ابھی اپنے دماغ سے ہر قسم کا خوف نکال دو اب تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا تم اب اپنے شوہر کے ساتھ ہو۔

داؤد نے ارحہ کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔جو روتی جا رہی تھی۔

کیا تھا سامنے بیٹھا انسان اس کی غلطی نا ہونے کے باوجود بھی وہ خود کو قصوروار سمجھ رہا تھا۔

کیا وہ اس انسان کی محبت کے قابل تھی۔

ارحہ اس وقت مزید کچھ سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہی تھی اس وقت وہ خود کو محفوظ ہاتھوں میں محسوس کر رہی تھی۔

بند ہوتے آنکھوں سے اس نے داؤد کے سینے پر سر رکھا اور وہی لیٹ گئی۔

داؤد کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر ارحہ کے بالوں میرے جذب ہو گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

تم کہاں جا رہی ہو؟ زمل جو ہشام کے کہنے پر کمرے سے باہر آ گئی تھی اس نے ہشام کو اگنور کیا اور وہاں سے جانے لگی جب اس نے زمل سے پوچھا۔

آپ نے خود ہی کہا تھا کہ میں یہاں سے چلی جاؤں۔

زمل نے سرد لہجے میں کہا۔

تمہیں میرا ڈرائیور ایئرپورٹ چھوڑ دے گا۔

ہشام کا. لہجہ ابھی بھی سرد تھا۔

آپ کو کس نے کہا کہ میں ائرپورٹ جاؤں گی؟ مجھے ابھی واپس نہیں جانا،

زمل نے ضدی لہجے میں کہا۔

ہشام نے بنا کچھ کہے اسے بازو سے پکڑا کو کھنچتے ہوئے کمرے کی طرف لے گیا۔

یہ کیا کر رہے ہیں آپ چھوڑیں مجھے۔زمل نے ہشام کی. گرفت میں مچلتے ہوئے کہا۔

جس نے کمرے میں جاکر اس کا بازو چھوڑا تھا۔

اگر تم واپس جانا چاہتی ہو تو پھر تمہیں اس گھر سے نکلنے کی اجازت ہے ورنہ اسی کمرے میں بند رہو۔

ہشام نے زمل کو. دیکھتے دو ٹوک الفاظ میں کہا،

میں کیوں آپ کی بات مانو؟ مجھے آپ کے گھر نہیں رہنا۔

زمل نے چیختے ہوئے کہا اور اپنے قدم دروازے کی. طرف بڑھائے۔

جب ہشام نے غصے سے اس کے بازو کو پکڑے دیوار کے ساتھ لگایا۔جس سے اس کا سر زور سے دیوار کے ساتھ لگا تھا۔

تکلیف کے مارے اس کی آنکھوں میں پانی آگیا۔

تمہیں ایک بار بات سمجھ میں نہیں آتی؟

تم چاہے جتنا مرضی چیخ لو لیکن یہاں سے میری مرضی کے بغیر نکلنا نا مکمل ہے۔

ہشام نے زمل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور اسے چھوڑے کمرے سے نکل گیا۔اور باہر سے اس نے دروازے کو لاک لگا دیا تھا۔

تم ٹھیک ہو ؟ہشام نے داؤد کے کندھے پر ہاتھ رکھتے پوچھا۔

جو ارحہ کے سونے کے بعد کمرے سے باہر آگیا تھا جو اب پرسکون سی سو رہی تھی۔

اور اپنا سر جھکائے ہاتھوں میں لیے بیٹھا تھا۔

اس کے پکارنے پر داؤد نے اپنا سر اوپر کیے ہشام کی طرف دیکھا۔

جس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

ہشام آج پہلی بار داؤد کو روتے ہوئے دیکھ بےیقینی کے عالم میں کھڑا تھا۔

داؤد تم مجھے اس حالت میں بلکل بھی اچھے نہیں لگ رہے۔

ہمت رکھو۔وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔اس وقت تمہیں خود کو. سنبھالنا ہو گا۔

بھابھی تمہیں مل گئی ہیں اور اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے؟

ہشام نے بمشکل لفظ تلاش کیے تھے تاکہ داؤد کو حوصلہ دے سکے۔

ورنہ الفاظ اس کے پاس بھی نہیں تھے۔

اس وقت میں خود کو بہت بےبس محسوس کر رہا ہوں۔

کتنا کمزور بےبس انسان ہوں کہ اپنی بیوی کی حفاطت بھی نہیں کر سکا۔

داؤد نے بھاری لہجے میں کہا۔

اس میں تمھاری غلطی نہیں ہے۔

اور حادثہ تو کسی کے بھی ساتھ ہو سکتا ہے۔

آگے ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ہم میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا۔

اگر انسان کو معلوم ہو تو وہ پہلے سے ساری تیاری کرکے رکھے۔

لیکن اگر تمہیں لگتا ہے کہ بھابھی کے ساتھ جو بھی ہوا وہ تمھاری وجہ سے ہوا تو یہ سوچ تمھاری سراسر غلط ہے۔

ہشام نے اس کے پاس بیٹھتے کہا۔

ارحہ تو معصوم تھی۔

اُسے کس بات کی سزا دی گئی؟

وہ بےقصور ہوتے بھی سزا بھگت رہی ہے۔

لیکن جس نے بھی یہ سب کیا میں اُسے جان سے مار ڈالوں گا۔

داؤد نے آخری بات غصے سے کہی۔

تم نے بھابھی سے بات کی؟ اُن سے پوچھا؟

ہشام نے گہرا سانس لیتے پوچھا۔

وہ ابھی اس حالت میں نہیں ہے کہ اُس سے کوئی سوال جواب کیا جائے۔

داؤد نے سامنے دیوار کو دیکھتے کہا۔

ضرغام کو بھی تو بتانا ہے۔

اُسے کب تک بتانے کا ارادہ ہے؟

ہشام نے داؤد کو دیکھتے پوچھا۔

پہلے ارحہ تھوڑی بہتر ہو جائے پھر میں خود ضرغام کو بتا دوں گا۔

لیکن اُس سے پہلے مجھے اُسے کسی طرح ہسپتال لے کر جانا ہے۔

داؤد نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے کہا۔

تمہیں اُس کی فکر ہو رہی ہے؟ ہشام نے حیرانگی سے پوچھا،

میں نہیں چاہتا کہ اُس کے مرنے سے انوشے بیوہ ہو۔اور وہ بےقصور مارا جائے۔

داؤد نے سنجیدگی سے کہا۔

اچھی بات ہے فکر ہونی چاہیے تمھارا تو اُس سے ڈبل رشتہ بنتا ہے۔

ہشام نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے بات بدلتے کہا تاکہ داؤد کا موڈ بھی بہتر ہو۔

داؤد نے اسے گھوری سے نوازہ تھا۔

ارحہ یہی رہے گی۔جب تک میں معلوم نہیں کر لیتا کہ اس سب کے پیچھے کون ہے۔اور ویسے بھی تمھاری منگیتر اُس کی دوست ہے وہ بھی تو یہی ہے،

داؤد نے بھی کھڑے ہوتے کہا یہ بات ہشام نے ہی اسے بتائی تھی۔

منگیتر ہے نہیں تھی۔

میں نے منگنی توڑ دی ہے۔

ہشام نے سنجیدگی سے کہا۔

منگنی توڑنے سے کیا ہو گا جب تمھارے دل میں وہ بسی ہے۔. داؤد نے عام سے لہجے میں کہا جیسے وہ اس کے دل کے راز سے اچھی طرح واقف ہو۔

تمہیں کس نے کہا کہ وہ میرے دل میں بسی ہے؟ ہشام نے جلدی سے کہا۔

تم اگر کسی کا قتل بھی کر دو نا تو یہ بات بتاتے ہوئے بھی تمھاری زبان کبھی نا لڑکھڑائے جیسے ابھی لڑکھڑائی ہے۔

خود کو اور اُسے تکلیف دینا بند کرو۔

ایسا نا ہو جب تمہیں احساس ہو تو وہ تم سے دور جا چکی ہو۔

اُس کے جذبات کی قدر کرو۔داؤد نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا اور کندھے کو تھپتھپاتے وہاں سے چلا گیا۔

پیچھے ہشام کو زمل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

ضرغام حویلی واپس آگیا تھا اس کا ارادہ داؤد کو کال کرنے کا تھا لیکن شاید ہمت نہیں تھی۔

عرفان کے سچ بولنے کے بعد تو کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی تھی۔

اس کا مطلب تھا کہ یہ ایک سوچی سمجھی چال تھی داؤد کو وہاں سے بھیجنا۔

کسی اور لڑکی کی لاش رکھنا۔

اور الزام داؤد پر آنا اور دونوں خاندانوں کے درمیان مزید دشمنی کا جنم لینا۔

کون تھا ایسا جو یہ سب چاہتا تھا۔

ضرغام یہی سب سوچتے چل رہا تھا۔جب سامنے سے آتی انعم کے ساتھ اس کا ٹکراؤ ہوا۔

ضرغام تو اپنے خیالوں میں گم تھا لیکن انعم اسے دیکھ چکی تھی اور جان بوجھ کر اس کے ساتھ ٹکرائی۔

ضرغام نے اسے کمر سے تھاما اور گرنے سے بچایا۔

انعم نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے اس کی گردن میں ہاتھ اس انداز سے ڈالا کہ ایسا لگے اس نے ضرغام کا سہارا لیا ہے۔

لیکن دور کھڑی انوشے جو یہ سارا ڈرامہ دیکھ چکی تھی غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

ضرغام نے پہلے انعم کو دیکھا پھر اس کی نظر آنکھوں میں چنگاریاں لیے کھڑی انوشے پر پڑی تو ضرغام نے فوراً انعم کو چھوڑ دیا جو سیدھا زمین پر جا گری تھی۔

آہ….. یہ کیا کیا آپ نے؟ انعم نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھتے کراہتے ہوئے ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔جو اسے نظر انداز کیے فوراً انوشے کی بڑھا۔

جو دوبارہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔

انعم نے غصے سے ضرغام کو جاتے ہوئے دیکھا اور پھر خود وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

ضرغام کمرے میں داخل ہوا تو انوشے منہ پھولائے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔

ضرغام اس کا چہرہ دیکھتے مسکرا پڑا۔

اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔

تمھارا چہرہ کیوں سرخ ہو رہا ہے؟

ضرغام نے ہاتھ آگے بڑھاتے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑے کرتے پوچھا۔

نہیں تو میرا چہرہ سرخ نپی ہو رہا۔

انوشے نے سنجیدگی سے کہا۔

ضرغام نے بنا کچھ کہے اس کا رخ آئینے کی طرف موڑا اور خود اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔

انوشے نے سامنے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا جو سچ میں سرخ ہو رہا تھا پھر اس کی نظریں پیچھے کھڑے ضرغام کے چہرے پر پڑی جو اسے ہی گہری نظروں سے تک رہا تھا۔

ناجانے کیوں انوشے کو ضرغام کا کسی اور کو چھونا اچھا نہیں لگایا تھا۔

اس لیے غصے سے وہ کمرے میں آگئی۔

تم جیلس ہو رہی تھی؟

ضرغام نے تھوڑا آگے آتے انوشے کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے خود کے قریب کیا۔

انوشے ضرغام کے ساتھ جا لگی تھی۔

ن نہیں تو میں کب جیلس ہوئی انوشے نے بوکھلائے انداز میں پوچھا۔

تمھارا جیلس ہونا جائز ہے میں تمھارا شوہر ہوں۔

بے شک ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے والے ہیں لیکن فلحال تو دونوں میاں بیوی ہی ہیں نا۔

ضرغام نے آئینے میں انوشے کے تاثرات دیکھتے کہا جس کا کھلا چہرہ ایک دم مر جھا سا گیا تھا۔

لیکن ضرغام کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔یہی چیز تو وہ دیکھنا چاہتا تھا۔

اگر تم چاہو تو ہم ہمشیہ کے لیے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔

ضرغام نے انوشے کے کان کے پاس جھکتے سرگوشی نما انداز میں کہا۔

بات کرتے ہوئے اس کے ہونٹ انوشے کے کانوں سے ٹچ ہو رہے تھے۔

اور ضرغام کے لمس پر انوشے پوری طرح کپکپا گئی تھی۔

ضرغام نے جو ہاتھ اس کے پیٹ پر رکھا تھا اُس پر دباؤ ڈالے مزید قریب کیا۔

آ آپ کیا کر رہے ہیں؟

انوشے ایک دم بوکھلا گئی تھی۔

تمھارے بالوں سے خوشبو بہت اچھی آ رہی ہے۔

ضرغام نے گہرا سانس لیتے اس کے بالوں کی مہک کو اندر اتارتے کہا۔

تو آپ بھی میرے والا شیمپو استعمال کر لیں۔

انوشے نے فوراً کہا۔

اور اس کی بات سنتے ضرغام قہقہہ لگائے ہنس پڑا تھا۔

مجھے تمھارا شیمپو نہیں چاہیے مجھے وہ چاہیے جو یہ شیمپو استعمال کرتی ہے۔

ضرغام نے مسکراتے انوشے ک رخ خود کی طرف کرتے کہا۔بڑی خوبصورتی سے وہ اپنی خواہش ظاہر کر چکا تھا۔

یہ شیمپو تو بہت سی لڑکیوں استعمال کرتی ہیں۔

کیا آپ کو وہ سارہ لڑکیاں چاہیے؟ انوشے کے لہجے میں حیرانگی تھی۔

تم سچ میں معصوم ہو۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے کہا اور جھک کر اس کے ناک کو لبوں سے چھوا۔

جاؤ اور میرے لیے کھانا لے کر آؤ۔

ضرغام نے انوشے سے پیچھے ہوتے کہا۔

جس کا دل ایک سو چالیس کی سپیڈ میں دھڑک رہا تھا فوراً سے پہلے کمرے سے نکل گئی۔

ضرغام اس کی پھرتی دیکھ مسکرا پڑا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

انوشے کمرے سے باہر آئی اور اپنی دل پر ہاتھ رکھے اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آگئی۔

اور پھر اس نے ہولے سے اپنے ناک کو چھوا اور کچن کی طرف اپنے قدم بڑھا دیے۔

لیکن اس سے پہلے وہ کچن میں داخل ہوتی اس نے اُسی ملازمہ کو دیکھا۔

جو کھانے میں کچھ ملا رہی تھی۔

انوشے کی بےیقینی سے آنکھیں پھیل گئی۔

اُس ملازمہ نے دیکھ لیا تھا کہ ضرغام حویلی واپس آگیا ہے اور اگر اُسکے کھانا کھانا ہو تو وہ یہ والا کھانا کھائے۔

ملازمہ جب اپنا کام کرکے پیچھے ہوئے تو اُس وقت انوشے کچن میں داخل ہوئی۔

بی بی جی آپ بڑے صاحب کے لیے کھانا لینے آئی ہیں میں نے ٹرے تیار کر دی ہے۔

آپ یہ لے جائیں۔

ملازمہ نے شیریں لہجے میں کہا۔

انوشے نے بنا کچھ کہے ٹرے کو پکڑا اور کچن سے باہر لے گئی۔

وہ کھانے میں کیا ملا رہی تھی؟

اور جب وہ پانی کا گلاس نیچے گرا تو اُس وقت بھی ملازمہ کے چہرے کے تاثرات انوشے کو کچھ ٹھیک نہیں لگے تھے۔

انوشے کمرے میں داخل ہوئی تو ضرغام کا دھیان موبائل کی طرف تھا۔

ض ضرغام انوشے کے ٹرے ٹیبل پر رکھتے تھوڑا جھجھکتے ہوئے اسے پکارا۔

ضرغام نے موبائل سے نظریں ہٹائے انوشے کی طرف دیکھا۔

وہ…. انوشے کو سمجھ نہیں آئی کہ کیسے کہے۔

ضرغام نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا جو اس کی گود میں آکر بیٹھ گئی اور ایک دم سٹپٹا کر اس نے ضرغام کی طرف دیکھا۔

کیا ہوا؟

ضرغام نے نرم لہجے میں اس کے چہرے پر آئی بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے پوچھا۔

ک کیا ہم لوگ باہر چل کر کھانا کھا سکتے ہیں؟

انوشے نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

کیونکہ اسے نہیں معلوم تھا کہ ضرغام آگے سے کیسا جواب دے گا۔

ضرغام کو اس کی بات سنتے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔

میں کہی خواب تو نہیں دیکھ رہا؟

ضرغام نے لہجے میں حیرت لیے پوچھا۔

بلکل مسز نے کہا ہے میں اُس کا حکم کیسے ٹال سکتا ہوں۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے کہا۔

میں چادر لے کر آتی ہوں انوشے نے کہا اور جلدی سے ڈریسنگ روم کی طرف بھاگ گئی۔

ضرغام ابھی بھی حیران تھا۔

لیکن اسے اچھا بھی لگا تھا۔

💜 💜 💜 💜

ہشام رات میں اُس کمرے میں داخل ہوا جہاں اس نے زمل کو بند کیا تھا۔

ملازمہ نے کھانے کی ٹرے کو ٹیبل پر رکھا اور وہاں سے چلی گئ۔

زمل چہرے پر سرد مہری لیے بیڈ پر بیٹھی تھی۔

کھانا کھا لو۔

ہشام نے سنجیدگی سے کہا۔

مجھے نہیں کھایا اور مجھے یہاں سے جانا ہے۔

زمل نے ضدی لہجے میں کہا۔

اگر تم واپس جانا چاہتی ہو تو جا سکتی ہو ورنہ نہیں

ہشام نے صاف لفظوں میں انکار کرتے کہا۔

آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں؟

زمل نے غصے سے بیڈ سے اٹھتے ہشام کو دیکھتے پوچھا۔

جب آپ ہم. دونوں کے درمیان رشتے کو ختم کر چکے ہیں تو اب میں چاہے بھاڑ میں جاؤں آپ کو اس سے کیا مطلب؟ زمل نے سرد لہجے میں پوچھا۔

تمھاری کوئی بھی بات مجھ پر اثر نہیں کرے گی۔

اس لیے فضول کی ضد چھوڑو اور کھانا کھا لو۔

ہشام کہتے ہی جانے کے لیے مڑا جب زمل نے اس کے ہاتھ کو پکڑا۔

اس کے لمس پر ہشام ایک پک کے لیے پتھر کا بنا تھا۔

کیوں کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ ایسا؟زمل کی بےبس سی آواز نے ہشام کو تڑپا دیا تھا۔

یہ سب میں تمھاری بھلائی کے لیے کر رہا ہوں۔اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔

ہشام نے اس بار آرام سے اپنا ہاتھ زمل کے ہاتھ سے الگ کیا اور کمرے سے نکل گیا۔

زمل بےبسی سے رونے لگی تھی۔

باہر آنے کی کوئی خاص وجہ تھی؟

ضرغام نے اپنے سامنے بیٹھی انوشے کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا جو اس کی نظروں سے نروس ہو رہی تھی۔

آپ پلیز پہلے مجھے گھورنا تو بند کریں۔ انوشے نے اخر کار اکتا کر کہا۔

میں تمہیں گھور کب رہا ہوں؟ ضرغام نے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

آپ گھور ہی تو رہے ہیں اور مجھے تو لگ رہا ہے آپ مجھے اپنی نظروں سے ہی سالم نگل جائے گئے۔

انوشے نے منہ بسوڑتے کہا۔

ضرغام کے لیے اپنی ہنسی کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا تھا۔

تم جانتی ہو اس وقت مجھے کتنی بھوک لگی ہے،۔

سامنے پڑے کھانے کو چھوڑ کر اتنی دور میں تمھارے کہنے پر ہی تو آیا ہوں اور اب جب تک کھانا نہیں جاتا میں تمہیں ہی دیکھوں گا نا۔اور فکر مت کرو تمہیں سالم نہیں نگلو گا۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے انوشے کو دیکھتے کہا۔

اگر آپ کو اتنی بھوک لگی تھی تو مجھے گھر میں ہی بتا دیتے میں باہر آنے کا نا کہتی۔

انوشے نے اپنی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ضرغام کو دیکھتے کہا۔

دل نہیں مانا۔

ضرغام نے اس انداز سے کہا جسے خود پر ہنس رہا ہو۔

جب پہلی بار اس نے انوشے کو دیکھا تو کس قدر وہ اسے بری لگی تھی۔

اور اب اس کے ایک بار کہنے پر وہ اسے باہر لے آیا تھا۔

دل نہیں مانا؟انوشے نے ناسمجھی سے پوچھا۔

تمہیں منع کرنے کو دل نہیں کیا۔

ضرغام نے کہا تو اتنے میں ویٹر کھانا لیے آگیا۔

اور انوشے جو ضرغام کی بات پر ارد گرد دیکھنے لگی تھی اس نے دوبارہ ضرغام کی طرف دیکھا جس کی نظریں اس کے چہرے پر ہی جمی تھیں۔

آپ نے اتنا سارا کھانا کیوں آڈر کیا۔

انوشے نے بات تبدیل کرتے پوچھا۔

تمھارے سامنے میں اکیلے کھاتے ہوئے اچھا نہیں لگو گا اس لیے میں نے زیادہ کھانا آڈر کیا تاکہ تم بھی کھا سکو۔

ضرغام نے اس کی کم عقلی پر افسوس کرتے کہا۔

لیکن مجھے تو بھوک نہیں ہے۔

انوشے نے معصومیت سے ضرغام کو دیکھتے کہا۔

جس کے چلتے ہاتھ رکے تھے اور اس نے انوشے کی طرف دیکھا۔

تم پھر ہم لوگ باہر کھانے کے لیے کیوں آئے؟ مجھے لگا تم نے کھانا نہیں کھایا اس لیے تم باہر آکر کھانا کھانا چاہتی ہو۔

ضرغام نے حیرانگی سے اسے دیکھتے کہا۔

آپ نے مجھ سے تو پوچھا نہیں اور نا میں نے کہا تھا کہ مجھے بھوک لگی ہے۔

انوشے نے کندھے اچکاتے کہا۔اور ضرغام کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔

تم آئسکریم کھا لو۔

ضرغام نے تحمل سے انوشے کو دیکھتے کہا۔

امممم ٹھیک ہے۔

انوشے نے کہا تو ضرغام نے اس کے لیے آئسکریم آڈر کی اور خود کھانا کھانے لگا۔

مجھے اپنے شوق بتاؤ…..

تمھارے کیا کیا شوق تھے؟ جو تم پورے کرنا چاہتی تھی۔لیکن مجھ سے نکاح کے بعد نہیں ہوئے؟

ضرغام نے عام سے لہجے میں انوشے کو دیکھتے پوچھا۔

کیا آپ سچ میں وہ سب پورے کریں گئے؟ انوشے نے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

بلکل کروں گا۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے کہا۔

مجھے بچوں کا بہت شوق ہے۔

انوشے نے خوشی ضرغام کو بتایا جسکے حلق میں نوالہ اٹکا اور زور زور سے کھانسنے لگا۔

انوشے نے پریشانی سے اس کے سامنے پانی کا گلاس کیا جسے ضرغام ایک ہی سانس میں پی گیا۔

انوشے تمہیں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔

ضرغام نے سرخ چہرے سے انوشے کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

جی کیسا مشورہ؟ انوشے نے دلچسپی سے پوچھا۔

عقل مند انسان پہلے سوچتا ہے پھر بولتا ہے، لیکن بیوقوف انسان بولنے کے بعد سوچتا ہے۔

اس لیے جو بھی بولنا ہو سوچ سمجھ کر بولا کرو۔

ورنہ بعد میں تم خود مجھ سے دور بھاگو گی۔

ضرغام کے ذومعنی لہجے میں کہا۔

انوشے کو اس کی بات کی سمجھ تو نہیں آئی تھی لیکن اس کی بولتی نظروں نے اسے بہت کچھ باور کروا دیا تھا۔

آپ کی باتیں اتنی مشکل کیوں ہوتی ہیں؟

انوشے نے بوکھلائے ہوئے انداز میں پوچھا۔

میری بس ایک ہی خواہش تھی کہ میری بیوی عقل مند ہو۔اگر وہ عقل مند ہوتی تو اُسے میری باتیں مشکل نا لگتی۔

لیکن خیر ہے ابھی جیسی بھی ہے گزارا تو اسی سے کرنا پڑے گا۔

ضرغام نے پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے کہا۔

آپ میری بےعزتی کر رہے ہیں؟

انوشے نے دانت پیستے پوچھا۔

ہرگز نہیں میں نے تو اپنی خواہش بتائی ہے بس…. ضرضرغام نے ایک آنکھ دباتے کہا۔

انوشے کی حیرانگی کے مارے آنکھیں پھیل گئی تھیں۔

ضرغام کا یہ روپ تو بلکل الگ ہی تھا۔

تم کہہ رہی ہو تمہیں بچوں کا شوق ہے۔

اس کے علاوہ تمہیں کسی چیز کا شوق نہیں؟ آگے پڑھنا نہیں چاہتی؟

ضرغام نے دوبارہ اپنی بات پر آتے پوچھا۔

شادی کے بعد کون پڑھتا ہے؟

انوشے نے پوچھا۔

ضرغام نے نظریں اٹھائے انوشے کی طرف دیکھا اور کچھ پل اسے دیکھا ہی رہا۔

اور پھر نفی میں سر ہلائے اس نے ٹشو سے ہاتھ صاف کیا۔

اب ہمیں چلنا چاہیے کافی رات ہو گئی ہے۔

ضرغام نے انوشے کو دیکھتے کہا۔

لیکن میری آئسکریم؟

انوشے نے بھی کھڑے ہوتے کہا۔

گاڑی میں کھا لینا۔

ضرغام نے کہا اور پھر بل ادا کرنے کے بعد دونوں حویلی کے لیے نکل پڑے۔

💜 💜 💜 💜 💜

ارحہ پرسکون سی سو رہی تھی،. جب داؤد کمرے میں داخل ہوا اور چلتا ہوا اس کے پاس اکر لیٹنے کے انداز میں بیٹھ گیا ایک ہاتھ اس کا ارحہ کے بالوں کو چھو رہا تھا۔

داؤد نے جھک کر اد کے ماتھے پر لب رکھے۔

ارحہ نے جب کسی کا لمس اپنے ماتھے پر محسوس کیا تو فوراً آنکھوں کھولے داؤد سے ڈر کے مارے پیچھے ہونے لگی۔

میرے پاس مت آنا….

پلیز میرے پاس مت آنا۔

ارحہ نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔

داؤد بھی اس کے ایک دم اٹھنے پر پریشان ہوا تھا۔

ارحہ میں ہوں…..

تمھارا شوہر داؤد نے پیار سے ارحہ کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔

ارحہ نے جب جانی پہچانی آواز سنی۔تو غور سے داؤد کو دیکھنے لگی۔

اور اسے دیکھتے اس کی سانس میں سانس آئی تھی۔

داؤد نے اسے خود کے قریب کرتے اپنے سینے میں بھینچا۔

سب ٹھیک ہے تم میرے ساتھ محفوظ ہو۔

میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔

داؤد نے نرم لہجے میں کہتے ارحہ کے بالوں پر لب رکھے جس نے زور سے داؤد کو ہگ کیا ہوا تھا۔

ارحہ….. تھوڑی دیر بعد داؤد نے اسے پکارا۔

جس نے سر اوپر کیے اپنی سرخ اور سوجھی ہوئی آنکھوں سے داؤد کی طرف دیکھا تھا۔

تمہیں بھوک نہیں لگی؟

داؤد نے پیار سے پوچھا۔

جس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

میں تمھارے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔

داؤد نے دھیمے لہجے میں کہتے ارحہ کی دونوں آنکھوں ہر باری باریک بوسہ دیا۔

م میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟

ارحہ نے آہستگی سے پوچھا۔

ہاں کیوں نہیں داؤد نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر دونوں کمرے سے باہر کی طرف بڑھ گئے۔رات کا وقت تھا۔

ملازمین اپنے کوارٹر میں تھے۔

داؤد کچن میں داخل ہوا اور فریزر کھولے اندر موجود چیزوں کا جائزہ لینے لگا۔

لیکن اسے کوئی بھی ایسی چیز نظر نہیں آئی جو ارحہ کو کھانے کے طور پر دے سکے۔

ارحہ بیٹھی ارد گرد دیکھ رہی تھی۔

ابھی تک اس کے دماغ پر وہی انسان قابض تھا اس لیے ابھی بھی داؤد کے پاس ہونے کے باوجود ڈر رہی تھی۔

ارحہ مجھے کھانا بنانا نہیں آتا۔

اور کھانا پڑا بھی نہیں ہوا۔

باہر بسے کچھ آڈر کر لوں؟ داؤد نے ارحہ کے پاس آتے پوچھا۔

کوئی بات نہیں میں صبح ناشتہ کر لوں گی۔

ارحہ نے داؤد کو دیکھتے کہا۔

نہیں کوشش کرتا ہوں کچھ بنانے کی داؤد نے کہا اور ارد گرد دیکھنے لگا۔

بنانا تو اسے کچھ آتا نہیں تھا اس لیے سوچ رہا تھا کہ شروعات کہاں سے کریں۔

ارحہ سمجھ گئی تھی پھر بھی خاموشی سے داؤد کو دیکھنے لگی۔

میں تمھارے لیے پاستا بناتا ہوں۔

لیکن اُس میں کون کون سی چیزیں استعمال ہوتی ہیں؟ داؤد نے پرسوچ انداز میں خود سے کہا۔

ارحہ اپنی جگہ سے اٹھی اور فریزر کھولے اندر سے اسے نے کچھ سبزیاں نکالی اور اسے لاکر ٹیبل پر رکھا۔

اوہ تو یہ والی سبزیاں پاستا میں ڈالی جاتی ہیں۔

اوڈ نے سبزیوں کو دیکھتے کہا۔

اور پھر اس کے بعد کیا کرتے ہیں؟

داؤد کھڑا اب ارحہ سے پوچھ رہا تھا۔

ناجانے کیوں اس وقت اسے داؤد بہت معصوم لگا تھا۔

اس لیے اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آگئی۔

میں بنا دیتی ہوں۔

ارحہ نے کہا داؤد پھر آرام سے بیٹھ کر ارحہ ہو دیکھنے لگا جو چیز وہ مانگتی وہ اسے دے دیتا۔

وہ چاہتا تھا کہ ارحہ پہلے کی طرح اپنی زندگی گزارے جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اُسے بھولنا مشکل تھا۔

لیکن داؤد اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔

اس لیے وہ آہستہ آہستہ اسے زندگی کی طرف لانا چاہتا تھا۔اور کوشش کی بھی کر رہا تھا۔

ارحہ نے پاستا بنا تو پھر دونوں نے کھایا بلکہ داؤد نے اسے کھلایا تھا۔

خود تو اسے بھوک نہیں تھی پیر بھی ارحہ کے سامنے اس نے تھوڑا بہت کھا لیا اور پھر اپنے کمرے میں چلے گئے۔

💜 💜 💜 💜 💜 💜

وہ لڑکی اگر اپنے بھائی کی حویلی نہیں گئی اپنے شوہر کے پاس نہیں گئی تو کہاں چلی گئی؟

اُسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی؟

مقابل کے دھاڑتے ہوئے پوچھا۔

اس کے آدمی سر جھکائے اس کے سامنے کھڑے تھے۔

جو ارحہ کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔

باس ہم نے اُسے ہر جگہ تلاش کر لیا لیکن وہ کہی نہیں ملی۔

میں نے اپنے ایک آدمی کو اس کام کے لیے بھیجا ہے اُس نے مجھے یقین دلایا تھا کہ آج وہ اُس لڑکے کے بارے میں کچھ نا کچھ ضرور بتائے گا اور وہ یہی پر آ رہا ہے۔

کچھ دیر میں یہاں پہنچ جائے گا۔

اُس آدمی نے سر جھکائے بتایا۔

اگر آج تم نے اَس لڑکی کے بارے میں کچھ نا بتایا تو تم سب کی زندگی کا آج آخری دن ہو گا۔

مقابل نے تنبیہ کرتے کہا۔

اور خود سگریٹ کو سلگانے لگا۔کچھ دیر بعد ہی وہی آدمی وہاں آگیا تھا۔

کہاں ہے وہ لڑکی؟

مقابل نے اُس آدمی کو. دیکھتے پوچھا۔

جس لڑکی کی آپ ہو تلاش ہے وہ ہشام کے گھر میں ہے۔

اور اُس کے گھر میں داخل ہونا ناممکن ہے۔

اُس آدمی نے تفصیل سے بتایا۔

ہشام کا اُس لڑکی دے کیا لینا دینا؟ کیا وہ. اُسے جانتا ہے؟ مقابل کے لہجے میں حیرانگی تھی۔

یہ میں معلوم نہیں کر سکا اس کے لیے مجھے تھوڑی وقت چاہیے۔

اُس آدمی نے کہا۔

ٹھیک یے تمھارے پاس کل تک کا وقت ہے۔

مجھے اُس کے بارے میں ساری معلومات چاہیے اور ہشام کو پتہ نہیں چلنا چاہیے ورنہ وہ تمھارے ساتھ کیا کرے گا تم بھی اچھی طرح جانتے ہو اور معلوم کرو ہشام کی کمزوری کیا ہے آگے جاکر ہمارے وہ کام آ سکتی ہے۔مقابل نے کہا تو وہ آدمی اثبات میں سر ہلائے وہاں سے چلا گیا۔

ہشام اب تم کہاں سے آ گئے؟

کہی عرفان کو بھی تم. نے بتو غائب نہیں کیا؟ مقابل نے پرسوچ لہجے میں کہا۔

💜 💜 💜 💜 💜

مجھے زمل کو جتنا جلدی ہو سکے یہاں سے بھیجنا ہو گا۔

ورنہ وہ پاگل لڑکی اپنا نقصان کر بیٹھے گی۔

یشم نے سنجیدگی سے کھڑکی کے پاس کھڑے خود سے کہا۔

وہ جانتا تھا کہ جو وہ کام کرتا ہے اس میں اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔

اس لیے وہ زمل کو خود سے دور کرنا چاہتا تھا۔لیکن وہ ضدی لڑکی ناجانے کیا کرنا چاہتی تھی۔

اگر ہشام کا باپ زبردستی اس کی منگنی نا کرواتا تو وہ کبھی بھی کیسی بھی لڑکی یی طرف قدم نا بڑھایا۔

لیکن زمل نے اسے بھی اپنی عادت ڈال دی تھی اور. ہشام اپنے دل کو قابو کرنا اچھے سے جانتا تھا۔

شاید اسے لگتا تھا کہ اگر زمل اس کے ساتھ جڑی تو وہ اسکی کمزوری بن جائے گی اور اس کے دشمن اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھائے گئے۔

کیا کروں میں؟ کیا کروں میں ایسا کہ زمل خود واپس چلی جائے۔

میں اُسے تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا لیکن یہ بھی جانتا ہوں اپنے الفاظ اور ردعمل سے میں اُسے بہت زیادہ تکلیف پہنچا چکا ہوں۔

یہ لڑکی مجھے پاگل کر دے گی۔

ہشام نے اپنے ماتھے کو دو انگلیوں سے دباتے ہوئے کہا۔

دوسری جانب زمل کی. آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔

بےبسی سے اسے رونا آ رہا تھا۔

وہ اگر ہشام کو چھوڑنے کے بارے میں سوچتی بھی تو اسے اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوتا۔

اس وقت وہ بھی بےبسی کی انتہا پر کھڑی تھی۔

کھانا ویسے ہی پڑا تھا اس نے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔

زمل نہیں جانتی تھی کہ اگر وہ یہی رہی تو اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

ہشام اسے اُسی خطرے سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔لیکن وہ تو نہیں جانتی تھی کہ ہشام کیا کام کرتا ہے۔

دونوں الگ الگ کمروں میں ایک دوسرے کے بارے میں سوچتے ہوئے جاگ رہے تھے۔

دونوں کو ایک دوسرے کی پرواہ تھی۔

ہشام زمل کو خود سے دور بھیجنا چاہتا تھا لیکن زمل اس کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔

اگلی صبح زمل چلتی ہوئی دروازے کے پاس آئی اور اس نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور حیرانگی کی بات تھی کہ دروازہ کھل گیا۔

زمل کا چہرہ خوشی سے چمکا تھا۔

وہ پوری رات سوئی نہیں تھی اور اب اس کا سرد درد سے پھٹ رہا تھا آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں لیکن اسے موقع ملا تھا یہاں سے بھاگنے کا جسے وہ ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔

اس لیے دبے پاؤں باہر نکلی اور بہت احتیاط سے ارد گرد دیکھتے آگے کی طرف بھرنے لگی۔

لیکن شاید اسے نہیں معلوم تھا کہ ہشام کے گھر سے باہر نکلنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا وہ سمجھ رہی ہے۔

دبے پاؤں وہ چل رہی تھی جب کسی نے اپنا مضبوط ہاتھ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔

زمل نے بمشکل اپنی چیخ کا گلہ گھونٹا تھا۔

ہشام چہرے پر سنجیدگی لیے کھڑا اسے گھور رہا تھا ڈارک بلیو کلر کے تھری پیس میں ملبوس وہ بلاشبہ خوبصورت لگ رہا تھا۔

لیکن اتنے قریب سے زمل نے غور سے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔

وہ کبھی غلطی سے بھی اس کے قریب نہیں آیا تھا۔

اور اس کے کلون کی خوشبو اتنی تیز تھی کہ زمل کو. لگا اگر وہ کچھ دیر مزید اسے ہی کھڑی رہی تو اتنی تیز خوشبو سے اس وہ بےہوش ہو کر گر جائے گی۔

ویسے تو تم مجھ سے محبت کی دعوےدار ہو تو اب مجھ سے دور کیوں بھاگ رہی ہو؟

اتنی جلدی تنگ آگئی تم تو پوری زندگی میرے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔

ہشام کا لہجہ طنزیہ تھا۔

اس نے زمل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

کمر پر ابھی بھی گرفت مضبوط تھی۔

زمل نے خود اپنا چہرہ پیچھے کیے دونوں میں تھوڑا بہت فاصلہ بنایا تھا ورنہ ہشام نے جس انداز میں اسے پکڑا تھا اور خود کے قریب کیا تھا دونوں کے چہرے ایک دوسرے سے ٹچ ہو جاتے،

آپ مجھے دھتکار چکے ہیں شاید آپ اس بات کو بھول چکے ہیں۔

اور جب آپ نے مجھ سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا تو میں آپ کے گھر میں کس حق سے رہو؟ مجھے بھی اپنی عزتِ نفس عزیز ہے۔

زمل نے ہشام کی گرفت میں پھڑپھڑاتے ہوئے کہا۔

تو فضول کی ضد چھوڑ دو اور واپس چلی جاؤ۔

ہشام کا لہجہ ابھی بھی کیسی تاثر سے پاک تھا۔

آپ….. چھوڑیں مجھے زمل نے ہشام کے سینے پر ہاتھ رکھتے کہا۔

چپ چاپ واپس کمرے میں چلی جاؤ۔میرے پاس وقت نہیں ہے کہ میں تمھارا ساتھ اپنا قیمتی وقت ضائع کر سکوں۔

ہشام نے بےدردی سے زمل کی بھیگتی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔

تو کس نے کہا ہے کہ میرے ساتھ اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔

زمل نے بھاری لہجے میں کہتے خود کو آزاد کرنا چاہا۔

اسے لگ رہا تھا کسی بھی وقت اس کے آنسو آنکھوں سے باہر آجائیں گئے۔

اور وہ اب ہشام کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔

ہشام خاموش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

کمرے میں جاؤ ہشام نے اس کی کمر سے ہاتھ پھیرے کرتے سرد لہجے میں کہا۔

جو فوراً اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی تھی۔

ہشام نے اس کے جاتے مڑ کر اس کے کمرے کی طرف دیکھا۔

اور پھر وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜 💜 💜

میرے لیے چائے بنا کر لاؤ۔. نازیہ نے کمرے گارڈن میں داخل ہوتے حبہ کو دیکھتے اسے حکم دیتے کہا جو گھاس پر بیٹھی اپنی بیٹی کے ساتھ کھیل رہی تھی۔

تم ملازمہ کو کہہ دو۔ حبہ کہتے ہی اپنی گڑیا کی طرف دیکھنے لگی۔

کیوں تمھارے ہاتھوں میں مہندی لگی ہے؟

نازیہ نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

مہندی تو تمھارے ہاتھوں میں بھی نہیں لگی،

اور میں تمھارا کوئی کام نہیں کروں گی یا تو خود اپنا کام کرو یا ملازمہ سے کہو۔

حبہ نے گڑیا کو گود میں لیتے کھڑے ہوتے نازیہ کو دیکھتے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

اور وہاں سے چلی گئی،

نازیہ پیچھے غصے میں کھڑی جل بھن رہی تھی۔

یہ خود کو سمجھتی کیا ہے؟ میرے شوہر پر قبضہ کرنے کے بعد مجھ پر بھی اپنا حکم چلانا چاہتی ہے اسے تو میں جان سے مار ڈالوں گی۔

نازیہ نے سرد لہجے میں کہا۔

حکم تو وہ حبہ پر چلانا چاہ رہی تھی۔

جس نے انکار کر دیا۔

اس لیے نازیہ کو اتنا غصہ آ رہا تھا۔

حبہ نے جیسا نازیہ کے بارے میں سوچا تھا وہ اس کے برعکس تھی۔

اس لیے حبہ نے سوچا جیسی وہ اس کے ساتھ رہے گی ویسا ہی رویہ وہ نازیہ کے ساتھ رکھے گی اب اسے لگ رہا تھا کہ انوشے ٹھیک کہہ رہی تھی۔

نازیہ جیسی نظر آتی ہے ویسی ہے نہیں۔

اس لیے اسے نازیہ سے بچ کر رہنا ہو گا،

اور خاص طور پر اپنی بیٹی کو نازیہ سے دور رکھنا ہو گا۔

💜 💜 💜 💜 💜

داؤد آپ کہاں جا رہے ہیں؟ ارحہ نے داؤد کو تیاریاں دیکھتے پریشانی سے پوچھا،جسے تھوڑی دیر پہلے داؤد نے ناشتہ کروایا تھا۔

میری جان مجھے آفس جانا ہے ایک اہم میٹنگ ہے۔

داؤد نے ارحہ کے پاس بیٹھتے پیار سے کہا۔

لیکن میں یہاں اکیلی کیا کروں گی؟

ارحہ کے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔

تمہیں یہاں کچھ نہیں ہو گا۔

اور میں دو گھنٹے کے اندر واپس آجاؤں گا۔

زمل یہی پر ہے۔

اُس سے باتیں کرنا تمھارا دل لگ جائے گا۔

داؤد جے نرم لہجے میں ارحہ کو دیکھتے کہا اور اس کے ماتھے پر لب رکھے اٹھنے لگا جب ارحہ نے اس کے ہاتھ کو پکڑا۔

جس نے ارحہ کی طرف دیکھا۔

مجھے بھائی سے ملنا ہے۔

وہ کیسے ہیں؟

کیا انہوں نے مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی؟ ارحہ نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔

اسے تو معلوم نہیں تھا کہ پچھے کیا معاملہ ہوا۔

وہ ٹھیک ہے تمہیں میں بہت جلد اُس کے پاس لے جاؤں گا۔

اور اُس نے تمہیں تلاش کرنے میں زمین آسمان ایک کر دیا تھا۔جب اُسے سچائی پتہ چلی آخری بات داؤد نے دل میں کہی تھی۔

کیا ہم کل اُن سے ملنے کے لیے جا سکتے ہیں؟ ارحہ کے تھوڑا جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

اگر میں اُسے یہی پر بلا لوں تو؟

داؤد نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ارحہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

آپ اُ کو یہی بلا لیں۔میں یہی پر اُن سے مل لوں گی۔

ارحہ نے کہا۔

ٹھیک یے اب میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا اور سامنے والا کمرہ زمل کا ہے۔

داؤد مے جانے بسے پہلے اسے بتاتا پھر کمرے سے چلا گیا۔

ارحہ ابھی بھی اپنی جگہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔جو انوشے نے خود اسکے لیے بنایا تھا اور پانی بھی خود اَس کے لیے لائی تھی

۔جو چیز وہ مانگتا انوشے خود لا کر دیتی اُسے۔

اُس ملازمہ نے کہا بھی کہ وہ ناشتہ بنا دے گی لیکن انوشے نے اسے صاف انکار کر دیا۔. اور ضرغام کے سارے کام وہ خود کر رہی تھی۔

یہ بات ٹیبل پر موجود سب لوگوں نے محسوس کی تھی۔

کیا ان دونوں کے درمیان سب ٹھیک ہو گیا؟ حمیرا نے انعم کے کان میں سرگوشی کرتے پوچھا۔

جسبکا دھیان اپنے کھانے ہر تھا جیسے اس سے ضروری اور کوئی کام نا ہو۔

پتہ نہیں انعم کے کندھے اچکاتے کہا۔

لیکن حمیرا کو غصہ انوشے پر اس لیے آ رہا تھا۔کہ وہ ملازمہ کو اُس کا کام کرنے نہیں دے رہی تھی۔

لیکن بڑ خانم یہ دیکھ کر بہت خوش تھیں۔

ضرغام نے ناشتے کے بعد انوشے کو کمرے میں آنے کا کہا اور اُٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔

انوشے بھی اپنی جگہ سے اُٹھی اور کمرے کی طرف چلی گئی۔

تم یہ سب کیا کر رہی ہو؟ کمرے میں داخل ہوتی انوشے کو دیکھتے ضرغام نے سنجیدگی سے پوچھا۔

کیا؟ انوشے نے انجان بنتے پوچھا۔

تم اچھی طرح جانتی ہو میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں۔ضرغام نے انوشے کو بازو سے پکڑے خود کے قریب کرتے کہا۔

میں بس آپ کے لیے ناشتہ بنانا چاہتی تھی۔

کیا آپ کو اچھا نہیں لگا؟ انوشے نے ضرغام کو. دیکھتے پوچھا۔

مجھے بہت اچھا لگا لیکن تم میری. عادتیں خراب کر دو گی۔

اور پھر جب انسان کو کسی چیز کی عادت پڑ جائے تو بہت مشکل سے چھوٹتی ہے۔

اس لیے میری عادتیں خراب نا کرو۔ ضرغام نے سنجیدگی سے کہا۔

میں کہی نہیں جا رہی اور میرا جب دل کرے گا میں آپ اکے لیے کھانا بناؤ گی میں آپ کی بیوی ہوں ۔

انوشے نے غصے سے کہا اسے ضرغام کی بات بلکل بھی اچھی نہیں لگی تھی۔

اُف تمھارا مجھ پر حق جتانا کہی میری جان ہی نا لے لیں۔

ضرغام نے ڈرامائی انداز میں کہا۔

آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ انوشے نے گھورتے ہوئے کہا۔

ضرغام فقط مسکرا پڑا تھا۔

مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کچھ دنوں کا مہمان ہوں۔

اندر سے ایسی فیلنگز آ رہی ہیں۔

ضرغام کے گہرا سانس لیتے اداسی سے کہا۔آج کل اس کا دل اداس رہنے لگا تھا۔

وہ خود نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا بول گیا ہے۔

ضرغام آپ کیا بول رہے ہیں؟ انوشے نے پریشانی سے ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

وہ اس کی باتیں سن کر پریشان ہو گئی تھی۔

کچھ نہیں چھوڑوں ان سب باتوں کو لیکن میری ایک بات یاد رکھنا،. اگر مجھے کچھ بھی ہو جاتا ہے تو اپنے چاچو کے پاس جانا اپنے باپ کے پاس ہرگز مت جانا۔

اگر اس دنیا مین تمھارا کوئی احساس کرتا ہے تو وہ وہ تمھارا چاچو ہے۔

ضرغام نے انوشے کو کندھے سے تھامے سنجیدگی سے کہا۔

ضرغام اب آپ مجھے اپنی باتوں سے ڈرا رہے ہیں۔

آپ کو کچھ نہیں ہو گا آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں؟

انوشے نے خوفزدہ لہجے میں ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

انوشے آگے کیا ہونے والا ہے کسی کو معلوم نہیں ہے۔

تو بہتری اسی میں ہے کہ انسان ہر طرح کے حالات کے لیے خود کو تیار رکھے۔

مجھے کچھ نہیں ہو گا لیکن احتیاط کے طور پر تمہیں کہہ رہا ہوں۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اگر آپ کا رویہ میرے ساتھ ٹھیک ہوا ہی ہے تو اس طرح کی باتیں کرکے مجھے ڈرا رہے ہیں۔

انوشے نے منہ بسوڑتے کہا۔

ضرغام کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے تھے۔

میں جانتا ہوں پیچھے تمھارے ساتھ جو کچھ ہوا اور جو میں نے کیا۔

اُس سے تمہیں بہت تکلیف پہنچی ہے۔

لیکن……

ضرغام کو الفاظ نہیں مل رہے تھے۔

ضرغام میں نے کبھی آپ سے اس بات کا شکوہ نہیں کیا۔

بلکہ میں آپ کی شکرگزار ہوں۔جیسا آپ لوگوں نے میرے ساتھ رویہ رکھا ویسا کسی بھی ونی میں آئی لڑکی کے ساتھ نہیں رکھا جاتا۔

آپ کا رویہ میرے ساتھ سخت ضرور تھا۔اور وہ بھی اس لیے کہ آپ نے اپنی بہن کو کھویا تھا۔

تو اتنا غصہ کرنا تو آپ کا جائز تھا۔

انوشے نے دھیمے لہجے میں کہا۔

تم سمجھدار ہو انوشے لیکن چاہے تم کچھ بھی کہہ لو کیا ہم سب نے غلط ہی ہے۔

جس کا پچھتاوا شاید مجھے ہمشیہ رہنے والا ہے۔

خیر کافی باتیں بعد میں ہو گئی اب میں نکلتا ہوں مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔

ضرغام نے انوشے کو دیکھتے کہا۔

اور وہاں سے جانے لگا۔

ضرغام مجھے آپ کو کچھ بتانا تھا۔

انوشے نے ے اُس ملازمہ کے بارے میں سوچتے جلدی سے کہا۔

انوشے میں واپس آکر بات کرتا ہوں ابھی میں نکل رہا ہوں۔

ضرغام نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔

انوشے نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

ضرغام گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ جب اسے اپنے سینے کی پھر سے درد سا اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔

ضرغام نے گہرا سانس لیتے اس درد کو برداشت کیا۔

اور اپنے رنگ ہوتے موبائل کو دیکھا،

داؤد کا نمبر دیکھ اس نے کال ریسو کی۔

اور موبائل کان سے لگایا۔

اس وقت کہاں ہو؟

کیا ہم مل سکتے ہیں؟

داؤد نے پوچھا۔

مجھے ابھی ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ہم بعد میں مل سکتے ہیں۔

کال آنے سے پہلے ضرغام نے کا ایک ہاتھ سٹیرنگ پر جبکہ دوسرا اپنے سینے پر تھا۔

ٹھیک ہے شام کیفے میں ملتے ہیں میں تمہیں ایڈریس سینڈ کر دیتا۔

داؤد نے سنجیدگی سے کہا،

ٹ ٹھیک ہے۔

ضرغام نے تکلیف دہ لہجے میں کہا سینے میں اٹھتی تکلیف بڑھتی ہی جا رہی تھی۔

ضرغام تم ٹھیک ہو ؟داؤد نے جلدی سے پوچھا کیونکہ ضرغام کے لہجے میں تکلیف نمایا تھی۔

ہ ہاں میں ٹھیک ہوں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔ضرغام نے سامنے سڑک پر دیکھتے گہرا سانس لیتے کہا.

لیکن اسے لگ رہا تھا جیسے ڈرائیونگ اس سے ٹھیک طرح سے نہیں رہی۔سٹیرنگ پر اس کی گرفت ہلکی ہوتی جا رہی تھی۔

ضرغام سنو میری بات اس وقت تم کہا پر ہو؟ کیا کر رہے ہوں؟

داؤد نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے پریشانی سے پوچھا۔

ڈرائیونگ کر رہا ہوں۔ضرغام کے جواب دیا۔

ابھی اور اسی وقت گاڑی روکو۔

داؤد کے ضرغام کو کہا۔

کیوں؟ ضرغام کو اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

فار گارڈ سیک ضرغام کبھی تو کسی کی بات مان لیا کرو۔

تم اتنے ضدی کیوں ہو؟

داؤد نے تقریباً دھاڑتے ہوئے کہا۔

لیکن دوسری جانب اسے دھماکے کی آواز آئی۔اور داؤد کو لگا سب ختم ہو گیا ہے اس کی آنکھوں میں بےیقینی تھی۔

ضرغام……. داؤد منہ میں بڑبڑایا….

ضرغام مزید خود کو ہوش میں نہیں رکھ پایا تھا۔وہ. مضبوط اعصاب کا مالک شخص اس وقت خود کو بہتت کمزور محسوس کر رہا تھا۔

اس کا ہاتھ نیچے گرا اور گاڑی بےقابو ہوتے دوسری گاڑی میں جا لگی۔جو سامنے سے آ رہی تھی۔ضرغام کی آنکھوں کے سامنے پہلے ارحہ کا چہرہ آیا پھر بڑی خانم کے بعد اُس معصوم کا چہرہ آیا۔

دھماکے کی آواز پر داؤد جو دوسری جانب کھڑا تھا۔

باہر کی جانب بھاگا وہ اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔جب اس نے ضرغام کو کال کی۔

لیکن اپنے آفس سے باہر نکلتے وہ ہشام کے ساتھ زور سے ٹکرایا۔

داؤد کیا ہوا؟ سب خیریت؟

ہشام جے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے پوچھا۔

ضرغام…. اُس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔

مجھے ابھی نکلنا ہوا گا۔. داؤد کے لہجے میں پریشانی تھی۔

میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔

ہشام نے سنجیدگی سے کہا۔

اور اُس کے ساتھ چل پڑا۔

وہ کہاں پر ہے؟ کہاں جانا ہے ہم نے؟

ہشام نے گاڑی میں بیٹھتے پریشانی سے پوچھا۔

وہ تو میں نہیں جانتا میں کال پر بات کر رہا تھا مجھے لگا اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں پھر دھمکانے کی آواز آئی۔

مجھے کچھ اچھی فیلنگز نہیں آ رہی۔

اگر اُسے کچھ ہو گیا تو؟ داؤد نے گاڑی سٹارٹ کرتے پریشانی سے پوچھا۔

اُسے کچھ نہیں ہو گا۔

ہشام نے اسے حوصلہ دیتے کہا۔

لیکن وہ خود بھی پریشان تھا۔

ابھی داؤد نے گاڑی سٹارٹ ہی کی اور دوسرے ہاتھ سے ضرغام کا نمبر ڈائل کیا۔

جو تین بیل کے بعد کال اٹھا لی گئی تھی۔

ضرغام تم ٹھیک ہو؟

داؤد نے بےتابی سے پوچھا۔

سر جس کا یہ موبائل ہے اُس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔

اور وہ انسان موقع ہر ہی چل بسا۔

پھر بھی اُن کو ہسپتال لے کر گئے ہیں۔

دوسری جانب بات کرتے آدمی نے داؤد کو بتایا۔

داؤد نے یہ سنتے جھٹکے سے گاڑی روکی تھی۔

کیا ہوا داؤد؟ ہشام نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے پوچھا۔

جس کے چہرے پر بےیقینی تھی۔

ہشام نے اس کے ہاتھ سے موبائل پکڑے کان سے لگایا۔اور خود بات کی۔

کون سے ہسپتال لے کر گئے ہیں؟

ہشام نے داؤد کو دیکھتے پوچھا۔

اور پھر موبائل بند کر دیا۔

داؤد میں ڈرائیو کرتا ہوں۔

ہشام نے کہا تو داؤد خاموشی سے گاڑی سے باہر نکلا اور دوسرا طرف آکر بیٹھ گیا۔اس وقت وہ گاڑی ڈرائیو کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔

گاڑی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

ہشام کے پاس بھی الفاظ نہیں تھے کہ جن سے وہ داؤد کو حوصلہ دے سکے۔

💜 💜 💜 💜 💜

زمل اپنے کمرے سے نکل کر ارحہ کے کمرے میں آئی تھی۔

ارحہ بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی نا جانے کیوں اس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ برا ہوا ہے یا ہونے والا ہے۔

ارحہ نے نے دروازے کی طرف دیکھا اور زمل کو دیکھتے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔

کیا ہم دونوں بات کر سکتے ہیں؟

میں بھی کمرے میں بور ہو رہی تھی۔

زمل نے ارحہ کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

تمہیں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

ارحہ نے زمل کو دیکھتے کہا۔

تم ٹھیک ہو ؟زمل نے ارحہ کے مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھتے پوچھا۔

میں اب ٹھیک ہوں کیونکہ میں اپنے شوہر کے پاس ہوں اور داؤد نے کہا ہے کل بھائی یہاں آئے گئے۔میں بس اُن سے ملنا چاہتی ہوں۔

ارحہ نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

اپنے بھائی کا ذکر کرتے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

تم جانتی ہو یہاں آنے سے پہلے میں ضرغام بھائی سے ملی تھی۔

اور ساتھ اُن کی وائف بھی تھی۔

زمل نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

کیا بھائی کی وائف؟ انہوں نے شادی کب کی؟

ارحہ نے حیرت انگیز لہجے میں پوچھا۔

تمہیں نہیں معلوم؟ وہ لڑکی بہت پیاری تھی۔

زمل نے اسے مزید بتایا۔

میں جب غائب ہوئی تو میری غیر موجودگی میں وہ شادی نہیں کر سکتے مجھے لگ رہا ہے معاملہ کچھ اور ہے۔

ارحہ نے پرسوچ انداز میں کہا۔

یہ بھی ہو سکتا ہے اور کل وہ آ تو رہنے ہیں۔تو خود سب کچھ پوچھ لینا۔

زمل نے ارحہ کو دیکھتے کہا۔

تم یہاں ؟کیسے مطلب؟

ارحہ نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

یہ منگیتر کا گھر ہے مطلب تھا اب نہیں ہے۔وہ منگنی توڑ چکے ہیں۔

زمل نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔

مجھے سن کر دکھ ہوا۔

کیا وہ کسی اور کو پسند کرتے ہیں؟ جو تمھارے جیسی پیاری لڑکی کو چھوڑ دیا؟ ارحہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

میں نہیں جانتی وہ بس چاہتے ہیں میں اُن کی زندگی سے بہت دور چلی جاؤں۔اور میں چلی بھی جاؤں گی۔. اتنا دور کہ وہ مجھ تک پہنچ نہیں پائے گئے۔

زمل نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔

زمل ناامیدی کی باتیں مت کرو۔

وجہ جاننے کی کوشش کرو کہ وہ کیوں تم سے دور بھاگ رہے ہیں۔ہو سکتا ہے وجہ کوئی بڑی ہو۔

ارحہ نے زمل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے کہا۔

جتنی بار وہ مجھے ٹھکرا چکے ہیں۔میری محبت کی تذلیل کر چکے ہیں۔

اگر اب وہ چاہیں بھی تو میں اب اُن کے ساتھ شادی نہیں کروں گی۔

زمل نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

لیکن تم سے اُن سے محبت کرتی ہو نا؟ تو کیسے اُن کو اگنور کر سکتی ہو؟

ارحہ نے پرتجسس لہجے میں پوچھا۔

انہوں نے کون سی میری محبت کی پرواہ کی؟

کتنا میں اُنکے سامنے گڑگڑائے لیکن انہوں نے میری پرواہ نہیں کی۔

زمل نے غصے میں کہا۔

اور اگر انہوں نے کسی دوسری لڑکی سے شادی کر لی تو؟ ارحہ کے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے پوچھا۔

تو دونوں کی جان میں اپنے ہاتھوں سے لوں گی۔

زمل نے پراعتماد لہجے میں کہا۔. ارحہ یہ سنتے آنکھیں باہر کو آگئی تھیں۔

تم سچ کہہ رہی ہو؟ ارحہ کو لگا وہ مزاح کر رہی ہے۔

ہاں بلکل زمل نے اثبات میں سر ہلاتے کہا۔

تم ان سب باتوں کو چھوڑو باہر گارڈن میں چلتے ہیں۔موڈ فریش ہو جائے گا۔

تم چلو گی ؟زمل نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے پوچھا۔

ارحہ نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

زمل نے بات کو بدلنے کے لیے اپنے بچن کے قصے کو یاد کرتے اُس کے بارے میں بات کرنے لگی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اپنے وجہ سے وہ ارحہ کو پریشان کرے۔

اس لیے بات کو تبدیل کیا۔

💜 💜 💜 💜 💜

کچھ سال پہلے……

اقبال اور نازیہ کی شادی خیر عافیت سے ہو گئی تھی۔

سب لوگ خوش تھے۔

لیکن وہاں ندا بھی اپنے بیٹے کے ساتھ آئی تھی جواد چوھدری کی وہ دور کی کزن تھی۔

جو کچھ سال پہلے ہی اسے ملی تھی۔

جب اس کی گود میں ایک سال کا بیٹا تھا،

جواد نے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہہ دیا وہ وقت آنے پر بتا دے گی۔

اس لیے جواد چودھری نے بھی زیادہ نہیں پوچھا۔

شکر تھا ندا نے شادی میں کوئی تماشا نہیں کیا۔

لیکن اب اس نے نبیل کو کال کی تھی جو اب اسے ملنے کے لیے آیا تھا۔

اب تم کیا چاہتی ہو؟

تمہیں میں طلاق دے چکا ہوں جتنی رقم تم نے مانگی وہ بھی میں نے تمہیں دی۔اور اب بھی تمھارا دل نہیں بھرا۔

اب تو تمھارا بیٹا بھی بڑا ہو گیا ہے پھر بھی تم یہ حرکتیں نہیں چھوڑ رہی۔

نبیل نے غصے سے ندا کو دیکھتے پوچھا۔

وہ آپ کا بھی بیٹا ہے۔

طلاق آپ نے مجھے اپنی مرضی سے دی۔میں آپ سے علیحدگی نہیں چاہتی تھی۔

ندا نے بھی سرد لہجے میں کہا۔

تم بھی اچھی طرح جانتی ہو کہ میں شادی شدہ تھا۔

تمھاری مدد کے لیے میں نے سے نکاح کیا۔

یہ بات میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا تھا۔ارو طلاق کیوں دی اس کی وجہ ےم اچھی طرح جانتی ہو۔

تو اب ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں تو بہتری اسی میں ہے کہ تم اب مجھ سے اور میری فیملی سے دور رہو۔

نبیل نے اسے تنبیہ کرتے کہا اور گھر سے نکل گیا۔

ندا نے غصے سے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔

ندا نبیل کو سڑک پر ملی تھی۔

جو اپنے بھائی سے بچ کر بھاگ رہی تھی۔

اس کا بھائی نشہ کرتا تھا اور ندا کو بھی بیچنے والا تھا اس لیے وہ اُس سے بچ کر بھاگ رہی تھی۔

جب اسے نبیل ملا تو اس نے اُس کی منتیں کی کہ وہ اس سے نکاح کر لے اسے بس نبیل کے نام کی ضرورت ہے ۔اور جب لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہ شادی شدہ ہے تو کوئی اس کی طرف نہیں آئے۔

اور وہ برے لوگوں کی نظروں سے محفوظ رہے گی۔

ایسا ندا کا سوچنا تھا۔

نبیل نے اپنے بھائی عاصم سے بات کی اور کافی سوچا پھر ایک فیصلے پر پہنچا۔

کہ وہ ندا سے نکاح کرے گا۔

لیکن اس نے ندا کو بتا دیا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔

اور کچھ سالوں بعد وہ اسے طلاق دے دے گا اُس وقت ندا نے کہا کہ وہ صرف نکاح کرنا چاہتی ہے۔

اس کے علاوہ اسے کچھ نہیں چاہیے،

لیکن دل میں اس نے سوچا کہ وہ جب طلاق دینے کا وقت آئے گا تو وہ دیکھ لے گی۔

پھر اس نے نبیل کے ساتھ نکاح کر لیا۔

اور نبیل نے اسے علیحدہ گھر لے کر دیا۔

جب بھی وہ آتا ندا اس کے قریب آنے کی کوشش کرتی۔

اور پھر ایک دن کامیاب بھی ہو گئی۔

نبیل ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن پھر بھی اپنی حد پار کر بیٹھا۔

ندا بہت خوش تھی۔

کہ اب نبیل اسے نہیں چھوڑے گا۔

حمیرا کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

اور ندا کے ملنے سے کچھ ماہ پہلے اس کی شادی حمیرا سے ہوئی تھی۔

پھر کچھ دنوں بعد ندا نے نبیل کو ماں بننے کی خوشخبری سنائی۔

پہلے تو وہ پریشان تھا پھر عاصم کے کہنے پر اُس نے قسمت پر چھوڑ دیا۔

ندا کو اللہ نے بیٹے سے نوازہ تھا۔

لیکن نبیل نے دو تین بار ندا کے گھر سے ایک آدمی کو نکلتے دیکھا۔جو اسے مشکوک لگا۔

اور اسے بلکل بھی اچھا نہیں لگا۔

اسے ندا سے اس قسم کی حرکت کی امید نہیں تھی۔

بیٹے کے پیدا ہوتے ہی نبیل نے ندا کو طلاق دے دی۔

اس نے معلوم کروایا تھا پھر اسے پتہ چلا کہ ندا اس کی غیر موجودگی میں غیر مردوں سے ملتی ہے۔

مزید جاننے کی اس نے کوشش نہیں کی۔

ندا سمجھ گئی تھی کہ نبیل نے اسے کیوں طلاق دی۔اس کے اپنے دل میں چور تھا اس لیے خاموش رہی جتنے اس نے نبیل سے پیسے مانگے اُس نے دے دیے۔اور اس کے بعد وہ جواد چوھدری سے ملی۔

جس سے مل کر اسے پتہ چلا کہ وہ اس کا دور کا کزن ہے۔

ندا کے ماں باپ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ سب کچھ جانتا تھا۔

اس لیے اسے ندا پر ترس آتا تھا۔

اور ہمشیہ اُسے اپنی چھوٹی بہن کی طرف دیکھا۔

اور اسی بات کا اُس نے ناجائز فائدہ اٹھایا۔

لیکن اب وہ نبیل سے کیا چاہتی تھی۔یہ معلوم نہیں تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

حال……

انوشے تمہیں معلوم ہے کہ ضرغام کہاں گیا ہے؟

بڑی خانم نے انوشے کے کمرے میں داخل ہوتے پوچھا۔

بڑی خانم آپ بیٹھیں یہاں

انوشے نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے جلدی سے کہا۔

بڑی خانم بیڈ پر بیٹھ گئی۔

خانم انہوں نے کسی ضروری کام سے جانا تھا۔لیکن کہاں گئے یہ بتا کر نہیں گئے۔

انوشے نے سنجیدگی سے کہا۔

تم ایسا کرو اُسے کال کرکے پوچھو ناجانے کیوں آج میرا دل بہت گھبرا رہا ہے اُسے کہو جہاں کہی بھی ہے جلدی سے حویلی آجائے۔

بڑی خانم نے انوشے کو دیکھتے کہا۔

جی میں اُن کو کال کرتی ہوں۔

انوشے نے کہتے ہی ضرغام کے موبائل کا نمبر ڈائل کیا۔

لیکن نمبر بند جا رہا تھا۔

خانم نمبر بند جا رہا ہے۔ انوشے کے لہجے میں بھی پریشانی جھلکی تھی۔

لیکن اس نے ظاہر نہیں کیا۔

اگر وہ پریشان ہو جاتی تو بڑی خانم مزید پریشان ہوجانا تھا۔

خانم آپ پریشان مت ہو۔

وہ جلدی حویلی آجائیں گئے موبائل کی بیٹری ختم ہو گئی ہو گی۔

انوشے نے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے کہا۔

کیونکہ اب اس کا اپنا دل انجان سے خوف میں مبتلا ہو گیا تھا۔

اللہ کرے ایسا ہی ہو جیسا تم نے کہا ہے۔

بڑی خانم نے گہرا سانس لیتے کہا۔

لیکن انوشے بھی اب پریشان کھڑی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

ہشام اور داؤد افراتفری میں اُس ہوسپٹل پہنچے تھے۔اور ریسیپشن سے اس نے ضرغام کے بارے میں پوچھا۔

اور فوراً اُس کمرے کی طرف بھاگے جہاں ضرغام تھا۔

ڈاکٹر ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک ایکسیڈنٹ کا کیس آیا تھا۔

۔جس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا وہ اب کیسا ہے؟ کیا ہو ٹھیک ہے؟ داؤد نے فکرمندی اور بےتابی سے ڈاکٹر کو دیکھتے پوچھا۔

اوہ وہ؟آپ اُن کے کیا لگتے ہیں؟ ڈاکٹر نے سنجیدگی سے پوچھا۔

و وہ میرا بھائی ہے۔داؤد نے جلدی سے کہا۔

ایم سوری جب اُن کو یہاں لایا گیا تو وہ ڈیڈ تھے۔

یہاں آنے سے پہلے ہی اُن کی موت ہو چکی تھی۔

اُن کی حالت کافی بری تھی۔

اور خون بھی کافی بہہ گیا تھا۔

کچھ فارمیلیٹیز ہیں آپ اُن کو پورا کرکے ڈیڈ باڈی کو گھر لے کر جا سکتے۔

ڈاکٹر نے داؤد کو دیکھتے افسردگی سے کہا اور اس کے کندھے کو تھپتھپاتے وہاں سے چلا گیا۔

داؤد بت کا بنا کھڑا تھا۔

بےیقینی کی کیفیت تھی۔

داؤد…. ہشام نے آہستگی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اس کا نام پکارا۔

کاش وہ ہوسپٹل چلا جاتا۔کاش میں اُسے زبردستی یہاں لے آتا تو ہو سکتا تھا آج وہ اس جگہ نا ہوتا۔

داؤد نے بےتاثر لہجے میں آہستگی سے کہا۔

اسے لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے اس کے جسم سے جان نکال لی ہو۔

کھڑا رہنا دشوار تھا۔

اس لیے وہ پاس موجود بینچ پر بیٹھ گیا،

کچھ سال پہلے…….

موم ہم لوگ یہاں کیوں آئے ہیں؟ ندا کے بیٹے نے اپنی ماں کو دیکھتے پوچھا۔

مجھے بھائی صاحب سے بات کرنی ہے۔

اور تم جاننا نہیں چاہتے کہ تمھارا باپ کون ہے؟ ندا نے کہا اور حویلی کے اندر چلی گئی۔

اس کے بیٹے کے چہرے پر حیرانگی تھی۔

اسنے کافی بار اپنی ماں سے پوچھا تھا جس نے اسے نہیں بتایا۔اور اب وہ اچانک بتانے والی تھی۔

عجیب بات تھی۔

ندا تم اس وقت یہاں؟

جواد نے حیرانگی سے ندا کو دیکھتے پوچھا۔جو اپنے بیٹے کے ساتھ جواد چوھدری نے سامنے کھڑی تھی۔

اقبال اپنے باپ کے ساتھ کوئی بات کر رہا تھا اور صبا نازیہ کے ساتھ کچن میں تھی۔

انوشے مارکیٹ گئی ہوئی تھی تھی۔

بھائی صاحب مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔ ندا نے سیریس انداز میں کہا۔

کیا بتانا ہے؟

اور پہلے تم بیٹھو تو سہی۔

جواد نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے کہا۔

بھائی صاحب آپ نے مجھ سے میرے شوہر کے بارے میں پوچھا تھا نا؟

میں اُسی کا بتانے کے لیے آئی ہوں۔

ندا نے جواد چوھدری کے تاثرات دیکھتے کہا۔

اتنے میں صبا اور نازیہ بھی وہی آگئی تھیں،

بھائی صاحب جو حقیقت میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں مجھے نہیں معلوم کہ آپ سب اُس پر یقین کرو گئے یا نہیں لیکن اب میں تنگ آگئی ہوں۔

ندا نے لہجے میں مصنوعی تکلیف لیے کہا۔

باقی سب اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔

میں تمھاری بات پر یقین کروں گا ندا بلکل کروں گا۔

تم بتاؤ کیا ہوا ہے؟ جواد نے پوچھا۔

بھائی صاحب میرے شوہر کا نام نبیل ہے۔

ندا نے نازیہ کے چہرے کے تاثرات دیکھتے کہا بےیقینی تو ندا کے بیٹے کے چہرے پر بھی در آئی تھی۔

کیا مطلب کون نبیل؟ جواد نے حیرانگی سے پوچھا۔

نبیل.. نازیہ کا باپ ندا نے گہرا سانس لیتے کہا۔

آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ ہوش میں تو ہیں؟ نازیہ نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے سرد لہجے میں پوچھا۔

میں پورے ہوش میں ہوں،

میں جانتی تھی کہ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو گا۔لیکن میں آپ کو سچ بتانا چاہتی ہوں بس۔

میرا نکاح نبیل سے ہوا تھا۔

میں اپنے بھائی سے بچ کر بھاگ رہی تھی۔

اور نبیل کو مل گئی میری قسمت خراب تھی کہ میں اُن کے پاس پہنچ گئی۔

ان کا مجھے دیکھتے ایمان ڈگمگا گیا۔

اور انہوں نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی میں نے اُن کے سامنے اپنی عزت کی بھیگ مانگی۔

اور نکاح کرنے کا کہا شاید اُن کو مجھ پر ترس آگیا اور مجھ سے نکاح کر لیا۔

ندا نے روتے ہوئے اپنی جھوٹی داستان سناتے ہوئے کہا۔

موم آپ اب تک خاموش کیوں رہی اور بتایا کیوں نہیں۔وہ انسان آپ پر ظلم کرتا رہا اور آپ نے کسی کو بتاتا نہیں۔

ندا کے بیٹے نے غصے سے کھڑے ہوتے پوچھا.. نازیہ کے چہرے پر بےیقینی تھی۔

اور باقی سب کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔

بیٹا مجھے سر ڈھکنے کے لیے چھت مل گئی تھی۔اور مجھے کیا چاہیے تھا۔

اس لیے میں خاموش رہی۔

میرا ارادہ ابھی بھی بتانے کا نہیں تھا۔لیکن اب میں تنگ آچکی ہوں۔

تمھاری پیدائش کے بعد نبیل نے مجھے طلاق دے دی میں خاموش رہی شاید اُن کا مجھ سے دل بھر گیا تھا۔لیکن ابھی پھر بھی وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تعلقات بنانا چاہتے ہیں میں یہ گناہ نہیں کر سکتی۔

ندا کہتے ہی ہاتھوں میں منہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

صبا نے آگے بڑھتے اسے چپ کروایا تھا۔لیکن اسے ابھی بھی ناجانے کیوں یقین نہیں آ رہا تھا۔

ندا کے بیٹے نے غصے سے ہاتھ ہاتھ کی مٹھیاں بنائے انہیں بھینچا۔

تمہیں پریشان ہونے کیو ضرورت نہیں ہے،

میں تمھارے ساتھ ہوں تمہیں مزید اُس کا ظلم برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔

جواد چودھری نے کرخت لہجے میں ندا کو دیکھتے کہا،. جو اپنے پلان کے کامیاب ہونے پر اندر سے مسکرا رہی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

حال…….

کیا بنا تم اُسے وہ دوا دے رہی ہو نا؟

حمیرا نے ملازمہ کو دیکھتے گھورتے ہوئے پوچھا۔

بی بی جی آپ کو میں بتا تو چکی ہوں۔

مجھے موقع نہیں مل رہا اور مجھے لگ رہا ہے کہ انوشے بی بی کو مجھ پر شک ہو گیا ہے،

ملازمہ نے ارد گرد دیکھتے رازداری سے حمیرا کو بتایا۔

اُس نے آج ہی اُس کے لیے کھانا بنایا ہے۔تم پانی می ڈال کر اُسے وہ دوا دے سکتی ہو۔

اور اگر تم نے اپنا کام ٹھیک سے کیا ہوتا تو ابھی تک وہ زندہ نا ہوتا بلکہ کب کا مر چکا ہوتا،. حمیرا نے نحوست سے کہا۔

جیسے اسے کسی کے مرنے پر کوئی احساس یا دکھ نا ہو۔

بی بی جی میں اُن کو پہلے روز ہی دے رہی تھی۔

آپ فکر مت کریں۔

کچھ دنوں میں جیسا آپ چاہتی ہیں ویسا ہو جائے گا۔اور مجھے میرے پیسے مل جانے چاہیے۔

ملازمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے مل جائیں گئے پہلے کام پورا کروں،

حمیرا نے کہا اور پھر بعد میں ارد گرد کی باتیں کرنے لگی۔

اور انوشے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے بےیقینی کی کیفیت میں کھڑی تھی۔

ان دونوں کی باتیں سن کر اسے پتہ چل. گیا تھا کہ ضرغام کی بات ہو رہی ہے۔اسے یاد آیا جو ضرغام کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔اس کے سینے میں سرد تھا جسے اُس نے اگنور کیا۔

تو اس کا صاف مطلب تھا یہ ملازمہ حمیرا کے کہنے پر ضرغام کو کچھ ایسا کر رہی تھی۔جس کی وجہ سے اُس کی جان جانے کا بھی خدشہ تھا۔

انوشے کا چہرہ ایک پل میں سرخ ہوا تھا۔

پہلے ہی وہ ضرغام کی وجہ سے پریشان تھی۔

اور اب یہ سننے کو مل رہا تھا۔

اب تو اسے ضرغام کا احساس ہونے لگا تھا۔

اور کوئی اسے تکلیف پہنچائے یہ بھی اسے برداشت نہیں تھا۔

اس لیے تو اسے غصہ آرہا تھا۔

اس لیے وہ بنا کچھ سوچے سمجھے کچن کے اندر گئی۔

تم ضرغام کو کون سی دوائی دے رہی تھی؟ انوشے نے سرد لہجے میں ملازمہ کو دیکھتے پوچھا۔

دونوں کے چہرے پر بےیقینی در آئی اور پیچھے مڑ کر انوشے کی طرف دیکھا۔

کیا بکواس کر رہی ہو ؟حمیرا نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا،

انوشے نے قہر برساتی نظروں سے حمیرا کی طرف دیکھا۔

اور ملازمہ کو بالوں سے دبوچے اسے گھسٹتے ہوئے کچن سے باہر آئی جو خود کو آزاد کرنے کے ساتھ چیخ بھی رہی تھی۔لیکن انوشے یہ سنتے برداشت نہیں کر پائی کہ ضرغام کے ساتھ کوئی برا کرے۔

انوشے چھوڑو اُسے حمیرا نے چلاتے ہوئے کہا۔

انوشے کیا ہوا؟

شور سنتے بڑ خانم وہاں آئی۔

اور انہوں نے حیرانگی سے انوشے کو دیکھتے پوچھا۔

خانم یہ لڑکی ضرغام کو کوئی دوائی دے رہی تھی جس کی وجہ سے اُن کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔. اور یہ سب کچھ ان کی وجہ سے کر رہی تھی۔. انوشے نے غصے سے حمیرا کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

اور ہاتھ سے اس نے ملازمہ کو بالوں سے پکڑا ہوا تھا،۔

خانم یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے۔

آپ اس کی بات پر یقین نا کرے حمیرا نے بوکھلاہٹ کے مارے ملازمہ کو دیکھتے کہا۔اسے اپنا پلان خراب ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا۔

بڑی خانم کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہو کیا رہا ہے۔

تو ٹھیک ہے۔پھر یہ آپ کو خود بتائیے گی کہ ضرغام کو یہ کیا دے رہی تھی اور کس کے کہنے پر دے رہی ہے۔

انوشے نے کہتے ہی ملازمہ کے بالوں کو چھوڑے اسے دھکا دیا جو پیچھے زمین پر جا گری تھی۔

اگر تم نے سچ نہیں بتایا تو میں…. انوشے نے جنونی انداز میں ارد گرد دیکھتے کہا۔

اور ٹیبل پر پڑا چاقو پکڑا اور ملازمہ کی طرف بڑھنے لگی۔

ملازمہ کی خوف کے مارے آنکھیں پھیل گئی۔

انوشے کیا کر رہی ہو بیٹا وہ مر جائے گی۔

بڑی خانم نے پریشانی سے کہا،.

خانم اس نے جو کیا اُس کے بعد اسے مر ہی جانا چاہیے،

انوشے نے دانت پیستے کہا۔اور ملازمہ کی طرف دیکھا۔

اگر تم نے مجھے سچ نہیں بتایا تو میں ابھی اور اسی وقت تمھاری جان لے لوں گی۔

انوشے نے خطرناک تیور لیے ملازمہ کی طرف قدم بڑھاتے کہا۔

جو ڈر کے مارے پیچھے کو کھسک رہی تھی سامنے ہی اسے موت کھڑی نظر آ رہی تھی۔

میں بتاتی ہوں۔

ملازمہ نے جلدی سے کہا کیونکہ وہ ابھی مرنا نہیں چاہتی تھی۔اس لیے اس نے سچ بتانے کا. فیصلہ کیا۔

حمیرا کی آنکھیں پھیلی تھیں۔

میں نے بی بی جی کے کہنے پر ضرغام صاحب کو وہ دوائی دی۔

ملازمہ نے آنکھیں بند کرتے حمیرا کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

ی یہ جھوٹ بول رہی ہے۔

یہ کیا بکواس کر رہی ہو۔. حمیرا نے بڑی خانم کو دیکھتے پریشانی سے کہا۔

میں جھوٹ نہیں بول رہی انہوں نے ہی مجھے پیسے دیے اس کام کے اور یہ ایک طرح کا زہر ہے جو اندر ہی اندر انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے پھر انسان ایک دن ہارٹ اٹیک سے مر جاتا ہے۔

ملازمہ نے کمزور سے لہجے میں کہا۔

بڑی خانم چلتی ہوئی حمیرا کے پاس آئی جس نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا تھا۔

میں اپنے ہی گھر میں سانپ کو پال رہی تھی مجھے معلوم نہیں تھا۔

میں تمہیں سزا نہیں دوں گی حمیرا کیونکہ تمھاری غلطی معافی یا میری سزا کے قابل نہیں ہے تمہیں سزا ضرغام خود دے گا۔

بڑی خانم نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔ان کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔

نہیں خانم مجھ سے غلطی ہو گئی۔مجھے معاف کر دیں۔حمیرا نے گڑگڑاتے ہوئے بڑی خانم کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ضرغام اس کے ساتھ کیا کرے گا،.

بس بڑی خانم کے ہاتھ کے اشارے سے اس سے دو قدم پیچھے ہوتے کہا۔

مجھے تم سے نفرت محسوس ہو رہی ہے حمیرا تم نے میرے بچے کو جان سے مارنا چاہا اور ابھی بھی تمھارا ڈرامہ ختم نہیں ہو رہا۔

تمھاری سزا ضرغام بدر خان ہی تجویز کرے گا،. بڑی خانم نے سخت لہجے میں کہا اور انوشے کو اپنے ساتھ آنے کا کہتے وہاں سے چلی گئی۔

انوشے نے چاقو کو میز پر رکھا۔اور مڑ کر ملازمہ کی طرف دیکھا۔

جب تک ضرغام نہیں آ جاتے تم اس حویلی سے کہی نہیں جاؤ گی۔

انوشے نے جانے سے پہلے ملازمہ کو تنبیہ کرتے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

انوشے ضرغام کو کال کرو اور اگر ابھی بھی اُس کا نمبر بند جا رہا ہے تو کچھ بھی کرو اور ضرغام کے بارے میں معلوم کروں، مجھے اب اُس کی فکر ہو رہی ہے۔

خانم نے پریشانی سے کہا۔

میں اُن کو کال کرتی ہوں خانم آپ پریشان مت ہو۔

انوشے کہتے ہی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اور ضرغام کا نمبر ڈائل کیا جس کا نمبر ابھی بھی بند جا رہا تھا۔

کس سے مدد لوں؟

انوشے نے خود سے کہا تو اچانک اسکے دماغ میں داؤد کا خیال آیا اور فوراً اس نے داؤد کو کال کی۔

جو اپنا سر جھکائے بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔

جب اس کا موبائل رنگ ہوا۔

اس نے نمبر دیکھا اور کال اٹینڈ کیے موبائل کان سے لگایا۔

چاچو کیسے ہیں آپ؟ مجھے آپ کی مدد چاہیے تھی۔

کیا آپ معلوم کر سکتے ہیں ضرغام کہاں ہیں؟ اُ کا. نمبر بند جا رہا ہے۔

اس لیے خانم کو اُن کی فکر ہو رہی ہے۔

انوشے نے ایک ہی سانس میں ساری بات بتا ڈالی۔

اب وہ یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ اسے بھی فکر ہو رہی ہے۔

ضرغام میرے ساتھ ہے،

داؤد نے کمزور سے لہجے میں کہا۔

کیا وہ آپ کے ساتھ ہیں؟ انوشے نے لہجے میں خوشی لیے پوچھا۔

ہاں وہ. میرے ساتھ ہے۔

داؤد نے کہا۔

کیا آپ میری اُن سے بات کروا سکتے ہیں؟ انوشے نے بےتابی سے پوچھا۔

وہ اب بات نہیں کر سکتا۔

داؤد نے تھکے ہارے لہجے میں کہا۔

لیکن انوشے اس کی بات کا مطلب سمجھ نہیں پائی تھی۔

چلیں چاچو اُنکو کہہ دیں بڑی خانم کہہ رہی ہیں اسی وقت حویلی آئے،

انوشے نے اب پرسکون لہجے میں کہا۔

وہ جان کر مطمئن ہو گئی تھی کہ ضرغام ٹھیک ہے۔

انوشے میری بات سنو۔

اس سے پہلے وہ موبائل رکھتی داؤد نے اسے پکارا۔

جی چاچو؟

انوشے بے پوچھا۔

ضرغام کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور وہ موقع ہر ہی دم توڑ گیا۔

داؤد نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔

انوشے کو لگا اس نے غلط سنا ہے۔

چاچو آپ جانتے ہیں مجھے ایسا مزاح پسند نہیں ہے۔پلیز ایسی باتیں نا کریں۔. انوشے نے سانس روکے کہا۔

میں سچ کہہ رہا ہوں اس وقت ہسپتال میں ہی ہوں۔

داؤد نے کہا تو انوشے کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر نیچے زمین پر گرا۔

انوشے بت بنی وہی کھڑی تھی۔

ہیلو انوشے تم ٹھیک ہو ؟

داؤد نے پریشانی سے پوچھا۔

انوشے کی طرف سے خاموشی چھا گئی تھی۔

دوسری جانب تو انوشے بت بنی زمین پر بےیقینی کی کیفیت میں بیٹھی ہوئی تھی۔

داؤد میرے ساتھ چلو ہشام نے وہاں آتے سنجیدگی سے کہا۔

کیا ہوا؟ داؤد نے کال بند کرتے ہشام کو دیکھتے پوچھا۔

کیونکہ مزید برا سننے کی اد میں ہمت نہیں تھی۔

ہشام بنا کچھ کہے اس کا ہاتھ پکڑے اسے وہاں سے لیے ایک کمرے میں داخل ہوا۔

جہاں اسٹریچر پر ایک باڈی کو سفید چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔

ت تم مجھ یہاں کیوں لائے ہو؟ میرے میں ابھی اتنی ہمت نہیں ہے کہ ضرغام کو اس حالت میں دیکھ سکوں۔

داؤد نے اپنے قدم پیچھے کی طرف لیتے بےبسی سے کہا۔

ہوسپٹل والوں نے کہا کہ ایک بار شناخت کے بعد ہم ضرغام کو لے جا سکتے ہشام نے ڈیڈ باڈی کہنے سے پرہیز کیا تھا۔

وہ خود شناخت کر لیتا لیکن اس نے ضرغام کے بارے میں سنا ضرور تھا لیکن کبھی دیکھا نہیں اس لیے داؤد کو یہاں لایا۔

داؤد نے اپنے قدم آگے بڑھائے۔

لیکن ایک قدم بھی آگے بڑھانا اسے دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا۔ہشام نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

جس نے قدم آگے بڑھائے اور اسٹریچر کے پاس جاتے اس نے کانپتے ہاتھوں سے چادر کو پیچھے کیا۔

لیکن مقابل کا چہرہ دیکھ داؤد وہی بت کا بنا۔چہرے پت بےیقینی در آئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

انوشے اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

اسے ضرغام کے الفاظ یاد آئے جو اس نے جانے سے پہلے کہے تھے۔کیا وہ سچ میں جانتا تھا کہ وہ جانے والا ہے؟

ضرغام آپ ایسے نہیں جا سکتے آپ مجھے اکیلا چھوڑ نہیں کر نہیں جا سکتے۔

انوشے نے بسی کے مارے روتے ہوئے کہا۔لیکن کسی بھی طر اس کا دل مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔

نہیں مجھے اس بات پر یقین کیوں نہیں آ رہا۔

مجھے چاچو سے بات کرنی ہے۔

مجھے پورا بھروسہ ہے ضرغام زندہ ہیں چاچو کو غلط فہمی ہوئی ہو گی۔

انوشے نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل پکڑتے خود سے کہا۔

اس کے ہاتھ اس قدر کپکپا رہے تھے کہ نمبر بھی ڈائل نہیں ہو رہا تھا۔

جو خبر اسے سننے کو ملی تھی وہ اس کے لیے ناقابلِ یقین تھی۔

وہ کیسے بڑی خانم کو اس بارے میں بتائے گی وہ خود ضرغام کے بغیر کیا کرے گی؟

یہ سب سوچتے ہی اسے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

اسے لگا کہ اس کا سانس اکھڑ رہا ہے۔

وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کب اس قدر ضرغام کو پسند کرنے لگی۔

لگاؤ تو کسی سے بھی ہو جاتا ہے۔

اور ضرغام تو اس کا شوہر تھا۔

جسے وہ پسند کرنے لگی تھی۔

تو کیسے وہ اُس کی موت کی خبر کو برداشت کر سکتی تھی۔

زرنین کو لگا جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔

موبائل ہاتھ سے چھوٹا اور وہی بےہوش ہوئے زمین پر گر گئی۔اتنا بڑا صدمہ وہ برداشت نہیں کر پائی اور وہی بےہوش ہو گئی ۔

💜 💜 💜 💜 💜

کچھ سال پہلے…….

ندا جیسا چاہتی تھی ویسا ہو گیا تھا۔

آگ وہ لگا چکی تھی اب اسے دیکھنا تھا کہ یہ آگ کہاں تک پھیلنی تھی۔

اُس دن جواد چوھدری اقبال اور ندا کے ساتھ ضرغام کی حویلی گیا تھا۔

عاصم اور نبیل، جواد چودھری کے ساتھ ندا کو دیکھتے حیران ہوئے تھے۔

ندا کا بیٹا ساتھ نہیں آیا تھا۔

ندا نے ہی اسے ساتھ آنے سے منع کر دیا۔

کیا ہوا جواد سب خیریت ہے؟

عاصم نے حیرانگی سے پوچھا کیونکہ اس کے چہرے کے تاثرات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔

عاصم نبیل نے میری بہن کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا۔

مجھے اُس سے ایسی امید نہیں تھی۔

وہ اتنا گھٹیا نکلے گا۔

جواد نے غصے سے دھاڑتے ہوئے کہا۔

انکل اس وقت آپ ہماری حویلی میں کھڑے ہیں اور کوئی میرے چاچو کے بارے میں کچھ بھی کہے بلکل بھی برداشت نہیں کروں گا۔

ضرغام جو خاموش کھڑا تھا اس نے سنجیدگی سے کہا۔

اور تم جانتے ہو تمھارے چچا نے کیا کیا؟

پوچھو اس سے کہ یہ لڑکی اس کی کیا لگتی ہے کیا اس نے اس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش نہیں کی؟ پھر اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے اس سے نکاح کیا؟

اور مطلب پورا ہونے کے بعد طلاق بھی دے دی؟ جواب نے کرختگی سے کہا۔

نبیل نے آنکھیں پھاڑے اس شاطر عورت کو دیکھا تھا جس نے اسکی مدد کے لیے نکاح کیا اور وہ اسی پر الزام لگا رہی تھی۔

حمیرا نے بےیقینی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔

اس کا شوہر نکاح کر چکا تھا اسے یقین نہیں آیا ضرغام کی ماں کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔

تمھارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تمھاری بہن سچ بول رہی ہے؟ عاصم نے سرد لہجے میں پوچھا۔کیونکہ ساری صورتحال سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔

میری بہن جھوٹ نہیں بول سکتی مجھے اسکی بات پر پورا بھروسہ ہے۔

جواد نے دانت پیستے کہا۔

تمھاری بہن جھوٹ بول رہی ہے میں نے ا سکی مدد کرنے کے لیے اس سے نکاح کیا اور یہ عورت مجھ پر الزام لگا رہی جس کا خود کا کردار ٹھیک نہیں ہے۔اس لیے میں نے اسے طلاق دی تھی۔

نبیل نے غصے سے ندا کو دیکھتے کہا جو کھڑی نقلی آنسو بہا رہی تھی۔

بس بہت ہو گیا۔. اپنی بہن کے بارے میں میں کچھ نہیں سنو گا۔

ہم دونوں خاندانوں کے درمیان جو بھی رشتہ ہے آج سے وہ ختم میں تم لوگوں سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتا جس نے میری بہن کی زندگی خراب کی ہو۔

جواد چودھری نے کہا اور جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا۔اس نے اقبال کو بھی کہہ گیا تھا اگر نازیہ اپنے ماں باپ سے ملنا چاہتی ہے تو بےشک اُسے طلاق دے دو۔لیکن اقبال نے کہا کہ وہ اپنے ماں باپ سے نہی ملے گی۔. جواد چودھری غصہ کا بہت تیز تھا کچھ جو ندا نے کہانی سنائی اُس کے بعد جذباتی ہو گیا تھا۔

چچا کیا یہ سچ ہے؟ یہ عورت آپ کی بیوی تھی؟

جواد چودھریوں کے جانے کے بعد سب ایک دوسرے کی شکلوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔جب اس خاموشی کو ضرغام نے آگے بڑھتے توڑا۔

نبیل نے ایک نظر حمیرا کو دیکھا اور ساری حقیقت وہاں کھڑے لوگوں کو بتا دی۔

اس کا مطلب کہ وہ عورت آپ سے بدلہ لے رہی ہے۔کہ آپ نے اُسے کیوں طلاق دی؟

اور آپ نے بہت اچھا کیا جو اُس عورت کو طلاق دے دی ۔

ضرغام نے سنجیدگی سے کہا اسے اپنے چچا پر پورا بھروسہ تھا۔

لیکن جواد کیسے سارے رشتے ختم کر سکتا ہے؟

نبیل نے نازیہ کی وجہ سے پریشانی سے کہا۔

ہمیں بھی ضرورت نہیں ہے۔

وہ شخص صرف ندا پر یقین کرتا ہے اس لیے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اگر وہ ان سب میں نازیہ کو لائے تو پھر دیکھ لیں گئے کہ کیا کرنا ہے عاصم کہتے ہی وہاں سے چلا گیا۔

حمیرا بھی غصے سے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئ۔

نبیل نے اسے جاتے ہوئے دیکھ گہرا سانس لیا۔

اسے اب اپنی بیوی کو منانا تھا۔جو اس کے لیے مشکل ہونے والا تھا۔اسے لگا سارا معاملہ ختم ہو گیا ہے۔لیکن ایسا نہیں تھا۔

اس کے بعد دونوں خاندانوں نے ملنا جُلنا بند کر دیا۔

لیکن ندا اس پر بھی خوش نہیں ہوئی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

حال……

ی یہ تو ضرغام نہیں ہے۔ داؤد نے ہشام کی طرف دیکھتے حیران کن لہجے میں کہا۔. جو فوراً آگے بڑھا تھا۔

اور اُس آدمی کو دیکھا۔

جیسا ہشام نے ضرغام کے بارے میں سنا تھا اسے دیکھ کر لگ نہیں رہا تھا کہ یہ انسان ضرغام بدر خان ہو سکتا ہے۔

داؤد وہی زمین پر اپنا سر پکڑے بیٹھ گیا۔

درد کیا ہوتا ہے آج اس نے اچھے سے محسوس کر لیا تھااور خوشی کیا ہوتی اس کے معنی بھی آج اسے صحیح لفظوں میں سمجھ آئے تھے۔

داؤد……

ہشام نے اسے پکارا۔جس نے کھڑے ہوتے ا سکی طرف دیکھا۔

یہ لاش کسی اور آدمی کی تھی۔

اگر یہ ضرغام نہیں ہے تو ا سکا مطلب ہے کہ وہ زندہ ہو سکتا ہے اور اسی ہسپتال میں ہو گا۔

داؤد نے خوشی سے ہشام کے گلے لگتے کہا۔

اور فوراً باہر کی طرف بھاگا۔

وہ کتنا خوش تھا بتا نہیں سکتا تھا۔

ڈاکٹر وہ جس آدمی کی دیتھ ہوئی وہ میرا بھائی نہیں ہے۔

اس ہسپتال میں اُس آدمی کے ساتھ کسی دوسرے انسان کو بھی لایا گیا تھا؟ داؤد کو وہی ڈاکٹر نظر آیا تو اس کے پاس آتے بےتابی سے پوچھا۔

اوہ تو آپ دوسرے پیشنٹ کے بھائی ہیں۔ اُن کا آپریشن چل رہا ہے۔

اُن کی حالت بھی بہت خراب تھی۔

آپ دعا کریں اللہ بہتر کرے گا۔

ڈاکٹر نے داؤد کو دیکھتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

داؤد اور ہشام آپریشن ٹھیٹر کی طرف بڑھ گئے تھے۔اور دونوں باہر بےتابی سے چکر لگانے لگے۔

اس وقت ان کو تھوڑی بہت ہی سہی لیکن امید تو تھی۔

ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو گا اللہ پر بھروسہ رکھو ہشام نے اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

جس نے اپنے سر کو خم دیا تھا۔

وہ لاش اُس انسان کی تھی جس کی گاڑی ضرغام کی گاڑی سے ٹکرائی تھی۔

اور اُس کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔

ضرغام کو بھی شدید چوٹیں آئی تھیں اور اسے فوراً ہسپتال پہنچا گیا۔

لیکن جس آدمی نے ضرغام کا موبائل پکڑا اُسے لگا یہ موبائل اُس آدمی کا ہے جس کی موت ہو گئی۔

ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آیا۔

جسے دیکھتے داؤد کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھیں،

وہ کچھ بھی برا نہیں سننا چاہتا تھا۔

آپ پیشنٹ کے رشتے دار ہیں؟ ڈاکٹر نے داؤد اور ہشام کو دیکھتے پوچھا۔

جی ہم ہیں ہے اور اب ضرغام کیسا ہے؟ ہشام نے آگے آتے پوچھا۔

اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔

آپ کو اُس انسان کا شکر ادا کرنا چاہیے جو وقت ضائع کیے بنا اُن کو یہاں لے آیا ورنہ جتنا اُن کا خون بہہ چکا تھا کچھ بھی ہو سکتا تھا۔

ڈاکٹر نے دونوں کی طرف دیکھتے کہا۔

تھینک یو ڈاکٹر اُسے ہوش کب تک آئے گا؟ داؤد نے خوشی سے پوچھا۔

رات تک یا کل صبح تک اور آپ لوگوں سے مجھے پیشنٹ کے بارے میں ایک اور بات بھی کرنی تھی۔

پیشنٹ کو زہر دیا جا رہا تھا۔

یہ بچ اس لیے گئے شاید پیچھلے ایک ہفتے سے ان کو وہ زہر دیا نہیں گیا جس سے انسان تھوڑا تھوڑا مرنا شروع کر دیتا ہے۔

ہم نے علاج شروع لر دیا ہے۔

اللہ نے چاہا تو وہ بہت جلد صحت یاب ہو جائیں گئے۔

ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا اور ایک دو اور ہدایات دینے کے بعد وہاں سے چلا گیا۔

اس انسان نے مجھے بہت تنگ کیا ہے ایک بار یہ جاگ جائے پھر اس سے سارے حساب لوں گا داؤد نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد اپنے چہرے ہر. ہاتھ پھیرتے دانت پیستے کہا۔

ہشام اد کی بات پر مسکرا پڑا۔

شٹ داؤد کو جب انوشے کا یاد آیا تو اس نے فوراً کہا۔

کیا ہوا؟ ہشام نے حیرانگی سے پوچھا۔

میں. نے انوشے کو بتا دیا تھا ناجانے وہ کیسی ہو گی مجھے اُسے کال کرنی ہے داؤد نے کہا اور اپنا موبائل نکالے انوشے کا نمبر ڈائل کرنے لگا،

جیسا ڈاکٹر نے کہا داؤد کو شک ضرور تھا کہ اسے زہر دیا جا رہا ہے اور اب جبکہ ضرغام صحیح سلامت تھا تو وہ خود سب سنبھال لے گا۔

بس داؤد کا کام اسے بتانا تھا،

بڑی خانم پہلے انوشے کا کمرے میں انتظار کرتی رہی جب وہ واپس نہیں کمرے آئی تو خود اُٹھ کر اُس کے کمرے میں آئی اور انوشے کو زمین پر بےہوش پڑے دیکھ انہوں نے جلدی سے پریشانی سے ملازمہ کو آواز دی۔

انوشے میری بچی کیا ہو تمہیں ؟

بڑی خانم نے اسکے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے بےتابی سے پوچھا۔

اتنے میں ملازمہ وہاں آگئی جسے خانم نے ڈاکٹر کو لانے کا کہا۔

ملازمہ ڈاکٹر کو فون کرکے واپس کمرے میں آئی اور دوسری ملازمہ کے ساتھ مل کر انوشے کو بیڈ پر لیٹایا۔

تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے آکر چیک کیا اور خانم کو بتایا کہ ٹینشن کی بات نہیں ہے۔

شوکڈ کی وجہ سے وہ بےہوش ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد ان کو ہوش آجائے گا۔

ڈاکٹر نے کہا اور پھر وہاں سے چلی گئی۔

خانم چہرے پر حیرانگی لیے چلتی ہوئی انوشے کے پاس آکر بیٹھی۔

تم تو ضرغام کو کال کرنے آئی تھی۔

تو تمہیں شوکڈ کس بات کا لگا؟

ضرغام؟ کیا وہ ٹھیک ہے؟ بڑی خانم نے انوشے کو دیکھتے پریشانی سے کہا۔

ابھی وہ بیٹھی یہی سوچ رہی تھیں جب انوشے نے تھوڑا کسمکانے کے بعد آنکھیں کھولی۔

اور پاس بیٹھی بڑی خانم کو دیکھتے فوراً اُٹھ کر بیٹھی ان کے گلے لگے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

انوشے کیا ہوا؟ تم رو کیوں رہی ہو؟ اب تو میرا دل بھی بیٹھا جا رہا ہے۔خانم نے پریشانی سے انوشے کے سر پر ہاتھ رکھتے پوچھا۔

خانم….. انوشے نے ہچکی لیتے کہا۔

ہاں کیا ہوا؟ تم ضرغام کو کال کرنے آئے تھی نا؟ کیا ہوا؟ اُس سے بات ہوئی؟

خانم نے بےتابی سے پوچھا۔

انوشے نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔

تو پھر؟ کیا ہوا؟ تم بےہوش کیوں ہو گئی؟ خانم نے پوچھا۔

ضرغام کا نمبر بند جا رہا تھا۔

تو میں نے چاچو کو کال کی۔

انوشے نے سرخ آنکھوں سے بڑی خانم کو دیکھتے اٹکتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔

اچھا پھر؟ بڑی خانم نے پوچھا۔

انوشے کو سمجھ نہیں آئی وہ کس طرح بڑی خانم کو بتائے وہ بس بیٹھی روئے جا رہی تھی۔

انوشے اب تم مجھے پریشان کر رہی ہو بیٹا بتاؤ کیا ہوا؟ خانم نے بےچینی سے پوچھا۔. انوشے کی باتوں سے لگ رہا تھا ضرور کچھ نا کچھ برا ہوا ہے اس سے پہلے انوشے کچھ کہتی اس کا موبائل رنگ ہوا۔جو سائیڈ ٹیبل پر پڑا تھا۔

بڑی جانم نے موبائل پکڑا جس پر چاچو لکھا آ رہا تھا۔

تمھارے چاچو کی کال ہے۔

بڑی خانم نے کہا تو انوشے نے جلدی سے کال اٹینڈ کی۔

انوشے تم ٹھیک ہو ؟داؤد نے جلدی سے پوچھا۔

چاچو وہ ضرغام؟ انوشے کہتے پھر سے رونے لگی تھی۔

وہ ٹھیک ہے۔

انوشے ہمیں غلط فہمی ہوئی تھی وہ ٹھیک ہے۔

داؤد نے بتایا تو انوشے کو لگا کسی نے اس کے مردہ جسم میں جان ڈال دی ہو۔

آ آپ سچ کہہ رہے ہیں؟ انوشے نے لہجے میں بےیقینی لیے پوچھا۔

میں سچ کہہ رہا ہوں۔لیکن اُس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور اب وہ خطرے سے باہر ہے۔

کس ہسپتال میں ہیں؟

انوشے نے بےچینی سے پوچھا تو داؤد نے اسے ہسپتال کا بتاتے کال بند کر دی۔

انوشے کیا ہوا؟

خانم جو انوشے کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھیں انہوں نے پوچھا۔

تو انوشے نے پہلے والی بات نہیں بتائی بس یہی بتایا کہ ضرغام کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا لیکن اب وہ ٹھیک ہے اور ہمیں ہسپتال جانا ہے وہ پہلے والی بات بتانا نہیں چاہتی تھی۔

ہمیں ہسپتال جانا چاہیے تم جلدی سے آجاؤ ناجانے میرا بچہ کس حالت میں ہو گا۔

بڑی جانم نے پریشانی سے کھڑے ہوتے کہا۔

اور کمرے سے باہر چلی گئی۔اُن کو لگا شاید انوشے اسی خبر کو سننے کے بعد بےہوش ہو گئی ہو گی۔

انوشے ابھی بھی وہی بیٹھی تھی۔

وہ اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی اتنا ہی کم تھا۔

اسے لگا کسی نے اس کی زندگی اسے واپس لوٹا دی ہو۔

اس لیے اپنی جگہ سے اٹھتے چادر لیے وہ بھی باہر چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

کچھ سال پہلے…..

داؤد جب واپس آیا تو جو کچھ اُسے سننے کو ملا اسے تو یقین نہیں آیا۔

لیکن وہ ان معاملات میں پڑنا نہیں چاہتا تھا اور ناجانے کیوں ندا پر اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔

وہ پہلی ایک دو بار ضرغام سے مل چکا تھا۔

اسے وہ اچھا بھی لگا تھا۔لیکن اس کے بعد اتفاقاً دونوں کی جب ملاقات ہوئی تو بدقسمتی سے وہ اچھی نہیں تھی۔

جس میں دونوں کا فضول کا جھگڑا ہوا۔

بات کوئی نہیں تھی۔

لیکن دونوں اپنی فیملی کے بارے میں برا نہیں سن سکتے تھے اس لیے لڑ پڑے۔

نازیہ اقبال کے کہنے پر دوبارہ اپنے ماں باپ سے ملنے نہیں گئی۔

بڑی مشکل سے نبیل نے حمیرا کو منا لیا تھا۔

لیکن ندا کو شاید ابھی بھی سکون نہیں ملا تھا۔

وہ ہر وقت اپنے بیٹے کے سامنے دکھی رہتی جسے پہلے ہی نبیل اور عاصم پر غصہ تھا۔

پھر ندا کے بیٹے نے غلط راستے کا انتخاب کیا اور غلط لوگ کے ہاتھ چڑھ گیا.

لیکن اس نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ نبیل اور عاصم کا پراپر پلاننگ کے ساتھ ایکسیڈنٹ کروا دیا۔

جو شہر جا رہے تھے لیکن ساتھ ضرغام کی ماں بھی تھی۔

تینوں کی موت کی وجہ سے حویلی میں سناٹا چھا گیا۔

بڑی خانم جو دوسرے شہر رہتی تھیں۔

اپنے شوہر کی دیتھ کے بعد وہ اکیلا رہنا پسند کرتی تھیں۔

اپنے دو بیٹے اور بہو کی موت کے بعد واپس حویلی آگئی۔

اُس وقت نازیہ اپنے باپ کی دیتھ پر حویلی آئی۔

سب کو لگا کہ یہ ایک حادثہ ہے۔لیکن یہ حادثہ نہیں تھا۔

ضرغام نے اپنے باپ کی جگہ کو سنبھال لیا۔

اور وقت گزرتا گیا۔

اور ندا اس کی موت کی خبر سن کر بہت خوش ہوئی تھی۔

لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ ہر گناہ کی سزا انسان کو ملتی ہے اور وہ تو بہت سے گناہ کر چکی تھی۔

لیکن ابھی لاپرواہ تھی بہت جلد اسے اپنے کیے کی سزا ملنے والی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

حال…..

ہشام نے اپنا موبائل آون کیا جو زمین پر گرنے کی وجہ سے بند آف ہو گیا تھا۔

اس کا گلاس ٹوٹ گیا تھا لیکن پھر بھی اون ہو گیا۔

ٹھیک سے اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اپنے پرسنل گارڈ کا نام اسے نظر آگیا جس کی شاید کافی کالز آئی ہوئی تھیں۔

داؤد میں تمھارا موبائل یوز کر سکتا ہوں؟ ہشام نے داؤد کے پاس آتے پوچھا۔

ہاں کیوں نہیں داؤد نے کہتے اپنا موبائل اس کی طرف بڑھا دیا۔

ہشام کو اس گارڈ کا نمبر یاد تھا۔

اس نے اُسے پہلے میسج کیا پھر کال کی۔

جس نے میسج پڑھنے کے بعد پہلی ہی بیل پر کال اٹینڈ کر لی تھی۔

کیا ہوا؟ تمھاری کافی کالز آئی تھیں۔

گھر میں سب ٹھیک ہے؟ ہشام نے سنجیدگی سے پوچھا۔

سر زمل میڈم گھر بسے جا چکی ہیں۔

اُن کہا کہنا تھا کہ اُن کو ایمرجنسی میں ہسپتال جانا ہے اُن کی دوست وہاں پر ہے۔

میں نے آپ کا نمبر ڈائل کیا لیکن وہ بند جا رہا تھا۔انہوں نے کہا وہ آپ سے بات کر چکی ہیں،

اس لیے وہ چلی گئی کہہ رہی تھیں اگر ان کو جانے نہیں دیا تو اُن کی دوست کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

گارڈ نے تفصیل سے بتاتے کہا۔

ہشام جبڑے بھینچے بات سن رہا تھا۔

اُسے گھر سے نکلے کتنا وقت ہوا ہے؟ ہشام نے کرختگی سے پوچھا۔

سر اُن کو پندرہ ہو چکے ہیں۔

گارڈ نے بتایا۔

کچھ گارڈ کو اُس کے پیچھے بھیجو اور اُسے اگر کچھ کچھ ہوا تو تم لوگوں کی خیر نہیں ہشام نے کہتے ہی کال کاٹ دی۔

زمل تم نے بہت بڑی غلطی کر دی اگر تمھارے ساتھ کچھ بھی برا ہوا تو سب سے پہلے میں اپنے ہاتھوں سے تمھارا گلہ دباؤں گا۔

ہشام نے غصے سے کہا۔

اور مڑتے ہوئے موبائل کو داؤد کی طرف بڑھاتے کہا۔

داؤد مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔

تم یہاں سب سنبھال لو گئے؟ ہشام نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

ہاں تم جا سکتے ہو۔

اور سب خیریت ہے نا؟ داؤد نے موبائل پکڑتے پوچھا۔

ہاں سب ٹھیک ہے۔

ہشام نے کہا پھر وہاں سے نکل گیا۔

ارحہ سے باتیں کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تو زمل اکیلی بیٹھی تھی جب اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا۔اور کوشش کرنے میں کیا برائی تھی اس لیے وہ گیٹ کے پاس گئی جہاں گارڈ کھڑے تھے۔

زمل نے اپنی دوست کی کہانی بنا کر گارڈ کو. سنائی کہ وہ ہسپتال میں ہے اور اس کا جانا ضروری ہے۔

گارڈ پہلے تو انکار کرتے رہے لیکن زمل نے بھی ہمت نہیں ہاری اور بہادری کا مظاہرہ کرتے کہا کہ اپنے سر سے پوچھ لو میری اُن سے بھی بات ہو چکی ہے۔

جبکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر گارڈ نے ہشام کو کال کی تو وہ پکڑی جائے گی۔پھر بھی پر اعتماد کھڑی تھی۔

اور گارڈ نے اسے دیکھتے ہشام کا نمبر ڈائل کرتے موبائل کان سے لگایا۔

زمل سانس روکے کھڑی تھی۔

لیکن شاید زمل کی قسمت اچھی تھی کہ ہشام کا نمبر بند جا رہا تھا۔

سر کا نمبر بند جا رہا ہے۔گارڈ نے اسے بتایا تو زمل نے اپنا روکا ہوا سانس بحال کیا۔

دیکھو میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔

اس لیے میں جا رہی ہوں۔

زمل نے کہتے ہی گیٹ کو عبور کیا۔

اسے لگا وہ اسے روکے گا لیکن جتنا یقین زمل اسے دلا چکی تھی اُس کے بعد گارڈ بھی کنفیوز ہو گیا۔

اس لیے اسے جانے دیا۔

زمل کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا۔

اور وہاں سے بھاگ گئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

خانم اور انوشے ہسپتال پہنچی تع داؤد ان کو نظر آگیا تھا۔

چاچو ضرغام کیسے ہیں؟ انوشے نے بےتابی سے پوچھا۔

وہ ابھی بےہوش ہے لیکن خطرے دے باہر ہے ڈاکٹر نے کہا ہے کل تک اُسے ہوش آجائے گا۔

داؤد نے بڑ خانم کے سامنے جھکتے ہوئے کہا جنہوں نے اس کے سر پر پیار دیا تھا۔

اللہ کا شکر ہے کہ میرا بچہ ٹھیک ہے۔

لیکن وہ تو بہت احتیاط سے گاڑی چلاتا ہے۔ایکسیڈنٹ کیسے ہو گیا۔

خانم نے حیرانگی سے پوچھا۔

خانم ضرغام کو زہر دیا جا رہا تھا۔اور یہ سب اُسی کی وجہ سے ہوا۔گاڑی چلاتے ہوئے وہ بےہوش ہو گیا۔

داؤد نے سنجیدگی سے بتایا۔

خانم نے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔

حمیرا نے اچھا نہیں کیا اس کی وجہ سے میرے بچے کی جان جا سکتی تھی۔

خانم جے غصے سے کہا اور داؤد سمجھ گیا تھا کہ یہ کس کا کام یے لیکن پھر بھی خاموش رہا۔

چاچو کیا میں ضرغام سے مل سکتی ہوں؟

انوشے نے بےتابی سے پوچھا۔

بلکل وہ سامنے والے کمرے میں ہے۔

لیکن ایک وقت میں ایک فرد کو اجازت ہے۔

داؤد نے کہا تو انوشے نے بڑی خانم کی طرف دیکھا۔

تم. پہلے مل آؤ میں بعد میں اپنے بچے سے مل لوں گی خانم نے کہا تو انوشے اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے چلی گئی۔

انوشے نے کانپتے ہاتھوں سے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے ہی ضرغام سفید پٹیوں میں جگڑا لیتا ہوا تھا۔

سر پر. سفید پٹی بندھی تھی۔

دائیں گال پر بھی زخم تھا۔

کچھ ایسے زخم اس کے ہاتھوں اور گردن پر بھی تھے۔

انوشے کو رونا آیا تھا اس نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا کہ وہ ضرغام کو اس حالت میں دیکھے گی۔

آہستہ سے اپنے قدم آگے بڑھاتے وہ. مزید ضرغام کے قریب آئی۔

اور اس کے مضبوط ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

آپ کو اس حالت میں دیکھنا ناجانے میرے لیے اتنا تکلیف دہ کیوں ہیں۔

میں تو آپ سے علیحدہ ہونا چاہتی تھی ۔

پھر مجھے آپ تکلیف سے فرق کیوں پڑ رہا ہے؟ انوشے نے بھاری لہجے میں ضرغام کی بند آنکھوں کو دیکھتے کہا۔

آنسو ابھی بھی لگاتار بہہ رہے تھے۔

آپ بہت برے ہیں کیوں اپنا خیال نہیں رکھتے؟ انوشے نے اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے کہا۔

آپ نے میری میرا مطلب ہے ہم سب کی جان نکال دی تھی۔

انوشے نے جلدی سے اپنے جملے کی درست کرتے کہا جیسے ضرغام سن رہا ہو۔

اب میں چلتی ہوں بڑی خانم نے بھی آپ سے ملنا ہے۔. انوشے نے کہا اور آگے کو جھک کر ضرغام کے ماتھے پر بندھی سفید پٹی پر لب رکھ دیے۔

آج پہلی بار اس نے خود ضرغام کی طرف اپنے قدم بڑھائے تھے وہ اس کا شوہر تھا اسے افسوس نہیں تھا۔

انوشے جب پیچھے ہوئی تو ضرغام کی کھلی آنکھیں دیکھ اس کی اپنی حیرانگی سے آنکھیں پھیل گئی۔

آ آپ کو ہوش آگیا م میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں انوشے نے سرخ چہرہ لیے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔

اس سے پہلے وہ یہاں سے جاتی ضرغام نے اس کی نازک کلائی پکڑے اسے کھینچنا جو اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور ضرغام کے سینے پر جا گری۔

جس نے تکلیف کے مارے آنکھیں زور سے میچی تھیں جس سے اس کے ماتھے پر بل بھی نمودار ہوئے۔

لیکن پٹی کی وجہ سے نظر نہیں آئے۔

س سوری آپ کو درد ہو. رہا ہے سو سوری انوشے نے ضرغام کے چہرے کے تاثرات دیکھتے پریشانی سے اٹھتے ہوئے کہا۔

جس نے آنکھیں کھولے انوشے کے پریشان چہرے کی طرف دیکھا۔اور دوسرا ہاتھ اس کی کمر میں حائل کیا۔

تم میری بےہوشی کا فائدہ اٹھا رہی تھی؟ضرغام نے آہستگی سے کہا مگر اس کی آواز وزنی تھی۔

اور دونوں کے چہروں کے درمیان فاصلہ بھی زیادہ نہیں تھا۔

انوشے تو ضرغام کی اس قدر قربت پر گھبرا رہی تھی۔

ن نہیں تو میں نے تو کچھ نہیں کیا۔

انوشے نے نظریں چراتے کہا۔

شوہر ہوں تمھارا تم نظریں کیوں چرا رہی ہو؟

ضرغام نے انوشے کے سرخ چہرے پر نظریں جمائے کہا۔

پلیز مجھے چھوڑیں آپ کو درد ہو رہا ہو گا

۔. انوشے نے بات کو تبدیل کرتے اٹھنا چاہا جب ضرغام نے اس کے سر کے پیچھے ہاتھ لاتے تھوڑا سا سر اس کا نیچے کی طرف کیا اور اس کے ماتھے پر لب رکھے۔

انوشے نے آنکھیں بند کیے ضرغام کے لمس کو محسوس کیا تھا۔

اسے خود بھی پتہ نہیں چلا کب ایک موتی اس کی آنکھ سے نکل کر ضرغام کی گردن پر گرا۔

تم رو رہی ہو؟ ضرغام کے لہجے میں حیرت واضح تھی۔

انوشے جلدی سے اس کے اوپر سے اٹھی۔

نہیں تو انوشے نے کہتے بھیگی آنکھوں سے ضرغام کو دیکھا۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری موت سے کسی کو اتنا فرق پڑے گا۔

اگر یہی جذبات تم مجھ پر پلے عیاں کر دیتی تو باخدا اپنی جان کی حفاظت بہت اچھے سے کرتا۔

ضرغام نے گہرے لہجے میں انوشے کو دیکھتے کہا۔

انوشے ضرغام اسکے جواب پر لاجواب ہائی ہوئی تھی۔

آپ کو گاڑی دھیان سے چلانی چاہیے۔

انوشے سے جب بات کوئی نہیں بن پائی تو اس نے ضرغام کو دیکھتے اسے ٹھیک سے ڈرائیونگ کرنے کا مشورہ دیا۔

جیسا آپ کا حکم۔اب سے ضرغام بدر خان آنکھیں کھول کر گاڑی چلائے گا۔

ضرغام نے مسکراہٹ دباتے کہا۔

ضرغام پہلے کیا آپ آنکھیں بند کیے گاڑی ڈرائیو کرتے تھے؟ انوشے نے لہجے میں بےیقینی لیے معصومیت سے پوچھا۔

ضرغام نے آنکھیں کھولے انوشے کے معصوم چہرے کو دیکھا۔

انوشے کیا تم نے اپنی عقل کسی کو بیج دی تھی؟ ضرغام نے سنجیدگی سے پوچھا۔

نہیں تو….. انانوشے کی زبان سے بےساختہ نکلا لیکن جب اس نے ضرغام کی بات پر غور کیا تو دانت پیستے ضرغام کو دیکھا جو ہولے سے مسکرا رہا تھا۔

خانم کیسی ہیں؟ ضرغام نے بڑی خانم کے بارے میں پوچھا۔

تو انوشے اسے پوری بات بنانے لگی کہ کیا کچھ ہوا تھا۔

مجھے یہاں کیا داؤد لایا؟ ضرغام نے انوشے کی بات ختم ہونے کے بعد پوچھا۔

جس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

کیا وہ ابھی بھی یہی ہے؟ ضرغام نے پوچھا اسے حیرت ہو رہی تھی آجکل کل کے زمانے میں کوئی اپنا بھی اتنی مدد نہیں کرتا جتنی وہ کر رہا تھا۔

جی وہ باہر ہی ہیں۔

میں اُن کو بلا کر لاتی ہوں۔

انوشے نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔

تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آئی تو ساتھ بڑی خانم اور ان کے پیچھے داؤد بھی تھا۔

بڑی خانم تو ضرغام کو اس حالت میں دیکھ ٹرپ پڑی تھیں۔

شکر ہے اللہ کا ضرغام کہ تم ٹھیک ہو ورنہ تم نے تو میری جان نکال دی تھی خانم نے پریشانی سے ضرغام لے ماتھے پر بوسہ دیتے کہا۔

جب تک آپ کی دعائیں میرے ساتھ ہیں مجھے کچھ نہیں ہو سکتا۔

اور اب میں ٹھیک ہوں آپ پریشان مت ہو۔

ضرغام نے نرم لہجے میں کہا۔

داؤد خاموش کھڑا تھا۔تمھاری اس حالت کی ذمہ دار تمھاری چچی ہے وہ تمھارے کھانے میں زہر ڈال کر تمہیں دے رہی تھی۔

بڑی خانم نے یاد آنے پر غصے سے ضرغام کو بتایا.

جس کا چہرہ سنجیدہ ہوا تھا۔

آپ کو پورا یقین ہے کہ وہی مجھے زہر دے رہی تھیں؟ ہو سکتا ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو؟

ضرغام نے سنجیدگی سے کہا۔

ڈاکٹر نے بتایا ہے اور انوشے نے خود ملازمہ کو تمھاری چچی کے ساتھ بات کر تے سنا۔

تمھارے سینے میں بار بار درد کا ہونا اسی وجہ سے تھا۔

خانم نے تفصیل سے اسے بتاتے کہا۔

دولت کی خاطر انسان اپنوں کی بھی جان لے سکتا ہے۔

خیر میں دیکھ لوں گا۔ضرغام نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔

خانم کیا میں کچھ دیر ضرغام سے بات کر سکتا ہوں اکیلے میں؟ داؤد جو خاموش کھڑا تھا اس نے خانم کو دیکھتے پوچھا۔

بلکل بیٹا بڑی خانم نے جلدی سے کہا۔

اس شخص کی وجہ سے آج ان کا پوتا زندہ تھا اور وہ داؤد کی شکر گزار تھیں۔اب تو ان کو بھی لگ رہا تھا کہ ارحہ کی موت میں داؤد کا ہاتھ نہیں تھا۔

بڑی خانم نے کہا اور انوشے کو لیے کمرے سے چلی گئی۔

اب ضرغام اور داؤد ہی کمرے میں موجود تھے۔

دونوں کے درمیان خاموشی حائل تھی۔

کیا میں وجہ جان سکتا ہوں کہ تم مجھ ہر اتنے مہربان کیوں ہق رہے ہو؟ میں تو تمہیں اپنا دشمن سمجھتا تھا پھر بھی تم نے میری مدد کی؟

ضرغام نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا۔

تھا……. تم مجھے اپنا دشمن سمجھتے تھے ضرغام بدر خان لیکن اب جب حقیقت آہستہ آہستہ تمھاری آنکھوں کے سامنے آ رہی ہے تو اب تم مجھے اپنا دشمن نہیں سمجھتے۔

اور جہاں تک بات ہے مہربان ہونے کی تو تمھارے ساتھ میرے دو دو رشتے بنتے ہیں۔

ایک تم میری بھانجی کے شوہر ہو دوسرا تم میری بیوی کے بھائی ہو اور اُن دونوں کو تم بےحد عزیز ہو تو اگر تمہاری مدد نا کرتا تو اُن کو کیا جواب دیتا۔

داؤد نے سنجیدگی سے ضرغام کو دیکھتے کہا۔

کیا تمہیں ارحہ مل گئی ہے؟ ضرغام نے داؤد کو دیکھتے بےیقینی سے پوچھا۔

تمھاری یہی بات مجھے پسند ہے۔

تمھیں سمجھانا نہیں پڑتا اور تم بات کو سمجھ جاتے ہو۔

اور ہاں تم نے ٹھیک کہا۔

ارحہ کو میں نے ڈھونڈ لیا وہ اب ٹھیک ہے۔

تمہیں کال اسے لیے کی تھی تاکہ تم اُس سے مل سکو۔

داؤد نے مسکراتے ہوئے کہا۔

لیکن ضرغام کے چہرے پر ابھی بھی بےیقینی تھی۔

تم سچ کہہ رہے ہو؟ ضرغام نے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔

بلکل تم پہلے تھوڑے بہتر ہو جاؤ پھر اپنی بہن سے مل لینا۔

داؤد نے گہرا سانس لیتے کہا.

ضرغام کو تو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔

اس کی بہن زندہ تھا اور اب صحیح سلامت اپنے شوہر کے پاس تھی۔

کیا میں ابھی اُس سے نہیں مل سکتا۔

ضرغام نے بےتابی سے پوچھا۔

وہ تمہیں اس حالت میں دیکھ کر پریشان ہو جائے گی۔میں نہیں چاہتا میری بیوی کسی قسم کی ٹینشن لے اس لیے پہلے تم ٹھیک ہو جاؤ۔

داؤد نے سنجیدگی سے کہا تو ضرغام نے گھوری سے اسے نوازہ جو ہولے سے مسکرا پڑا۔

تم نے ٹھیک کہا تھا داؤد کہ ایک دن میں تم سے معافی مانگو گا اور شاید وہ دن آج کا ہی ہے۔

ضرغام نے آنکھیں بند کیے گہرا سانس لیتے کہا۔

میں غلط تھا۔میں نے جو بھی کیا وہ غلط تھا ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔

ضرغام نے آنکھیں کھولے داؤد کو دیکھتے کہا۔

جس کا سچا لہجہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ سچ میں شرمندہ ہے۔

میں ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ تم مجھ سے معافی مانگو بس اتنا چاہتا تھا کہ تم حقیقت سے آگاہ ہو جاؤ۔

تمہیں تصویر کا جو رخ دکھایا گیا تم نے اُس پر یقین کیا اور تمھاری جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا۔

اس میں تمھاری غلطی نہیں ہے۔لیکن ایک بار مجھے وہ انسان مل جائے جس نے یہ سارا کھیل کھیلا اُس کی جان تو میں اپنے ہاتھوں سے لوں گا داؤد نے غصے سے کہا۔

چھوڑوں گا تو میں بھی اُسے نہیں۔ ضرغام نے دل میں سوچا۔

اب میں چلتا ہوں میں نے احتیاط کے طور پر دو گارڈ تمھاری حفاظت کے لیے باہر کھڑے کروا دیے ہیں۔

اور اب تو تم ہوش میں آ چکے ہو اور اپنی حفاظت خود کر سکتے ہو۔اس لیے میں چلتا ہوں۔

داؤد نے ضرغام کو دیکھتے کہا۔اسے پورا یقین تھا کہ جاگتے ہوئے ضرغام ہر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

تم نے جو مجھ پر احسان کیے اُن کو میرا نہیں خیال کہ میں اتار سکتا ہوں پھر بھی یہ کہنا چاہتا ہوں۔

تمھارا بہت بہت شکریہ ضرغام نے دل سے تشکرانہ لہجے میں کہا۔

میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا جو کیا اپنوں کی خاطر کیا اور بدقسمتی سے اب تم بھی میرے اپنوں میں آتے ہو۔داؤد نے ضرغام کو دیکھتے کندھے اچکاتے کہا۔اور کمرے سے چلا گیا پیچھے ضرغام کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

ارحہ کا سن کر وہ خوش ہونے کے ساتھ مطمئن بھی تھا لیکن اس کے ساتھ کیا ہوا وہ داؤد نے اسے نہیں بتایا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

حبہ صبا کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جب ان کی انگلیوں میں حرکت ہوئی۔ حبہ کی نظر پڑی تو وہ خوشی سے اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی۔

امی؟ حبہ نے خوشی سے ان کو پکارا۔

مجھے لگتا ہے کہ اقبال کو بتانا چاہیے۔

حبہ نے کہا اور کمرے سے باہر کی طرف بڑھی۔

اقبال اپنی بیٹھی کے ساتھ کھیل رہا تھا جب حبہ کمرے میں داخل ہوئی۔اقبال مجھے لگتا ہے امی کو ہوش آ رہا ہے آپ جلدی سے ڈاکٹر کو کال کریں۔

حبہ نے اقبال کو دیکھتے بتایا۔

کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟اقبال خوشی سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور جلدی سے اس نے ڈاکٹر کو کال کی۔

اقبال نے اپنی بیٹی کو حبہ کے حوالے کیا اور اپنی ماں کے کمرے کی جانب بڑھا۔

حبہ کے جانے کے بعد صبا نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی اور اوپر چھت کی طرف دیکھنے لگی ابھی اس کا دماغ ماؤف تھا۔

کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

وہ کہاں ہے؟ اس کے ساتھ کیا ہوا اسے ابھی کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا۔

اقبال کمرے میں داخل ہوا اور اپنی ماں کی کھلی ہوئی آنکھوں کو. دیکھ جلدی سے ان کی جانب بڑھا امی آپ کو ہوش آگیا۔

میں بہت خوش ہوں۔

اقبال نے اپنی ماں کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا۔

آنکھیں اس کی خوشی سے بھیگ گئی تھیں۔

صبا نے اقبال کی طرف دیکھا تو اسے کچھ کچھ یاد آنے لگا۔

ا اق اقبال……

صبا کے ہونٹ حرکت کیے اور بمشکل اقبال کا نام پکارا۔

جی امی میں اقبال ہوں آپ کا بیٹا۔

اقبال نے جھک کر اپنی ماں کے ماتھے پر بوسہ دیتے کہا۔

حبہ بھی دونوں ماں بیٹے کا پیار بھیگی آنکھوں سے کھڑی دیکھ رہی تھی۔

اس نے تو کبھی ماں باپ کے پیار کو محسوس نہیں کیا تھا۔یہ منظر اس کے لیے بہت حسین تھا۔

دوسری جانب جب ڈاکٹر حویلی میں آئی تو

نازیہ نے ڈاکٹر کو دیکھا۔

یہ حویلی میں لیا لینے آئی ہے؟ کہی کوئی مر تو نہیں گیا؟ نازیہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔اور ڈاکٹر کے پیچھے بڑھ گئی۔

لیکن جب اس نے ڈاکٹر کو صبا کے کمرے میں جاتے دیکھا تو اس کے پیر وہی تھمے تھے۔

کہی امی کو ہوش تو نہیں آگیا؟ نازیہ نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔

اور کمرے کے اندر جانے کی بجائے باہر ہی کھڑی کان لگائے اندر کی باتیں سننے لگی۔

لیکن اندر بسے آتی آوازوں سے اسے اتنا تو پتہ چل گیا تھا کہ صبا کو ہوش آگیا ہے۔

امی کو ہوش آگیا اب میرا کیا ہو گا؟ اگر انہوں نے سچ بتا دیا تو؟نازیہ نے پریشانی سے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی تاکہ اپنی ماں کو کال کر سکے۔

💜 💜 💜 💜 💜

مجھے انوشے کسی بھی حال میں چاہیے وہ میری ہے۔میں اُسے ضرغام کے حوالے نہیں کر سکتا۔

زہاب نے غصے سے ہاتھ میں پکڑ شراب کی بوتل کو زمین پر پھینکتے ہوئے کہا۔

اس کے آدمی اپنے باس کی دھاڑ پر خوفزدہ ہو گئے تھے۔

کمینوں تم لوگ کسی کام کے نہیں ہو۔

پہلے وہ لڑکی بھاگ گئی اور اب تم لوگ انوشے کو اغوا کرنے میں ناکام رہے۔

تم سب کو میں ابھی اور اسی وقت مار ڈالوں گا۔

زہاب نے اپنے آدمیوں کو دیکھتے غصے سے کہا۔

نہیں باس ہمیں آخری موقع دے دیں۔

اس بار ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گئے۔

بس ایک موقع دے دیں۔

ایک آدمی نے نظریں جھکا کر کہا۔

آخری موقع تم سب لوگوں کو دے رہا ہوں۔

اُس لڑکی کو تلاش کرکے ختم کر دو اور انوشے کو میرے پاس لاؤ اگر نہیں لائے تو سب کو. مار ڈالوں گا۔

زہاب نے انگلی اٹھائے سرد مہری سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ڈاکٹر چیک کرتے جا چکی تھی۔

صبا اب ٹھیک تھی۔

اقبال نے اپنی ماں کو حبہ اور اپنی بیٹی کا بتایا۔

صبا بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔اسے اقبال کی دوسری شادی سے مسئلہ نہیں تھا۔

گڑیا اس کی گود میں تھی۔اسے سب یاد آگیا تھا کہ ان کے ساتھ نازیہ نے کیا کیا۔لیکن فلحال وہ خاموش تھی۔

نازیہ اپنے کمرے میں گئی اور پریشانی سے اپنی ماں کا نمبر ڈائل کرنے لگا جو بزی جا رہا تھا۔

امی کال اٹھائے اب میں کیا کروں؟

اب تو مجھے لگ رہا ہے اقبال سچ جاننے کے بعد مجھ چھوڑ دے گا۔

نازیہ نے پریشانی سے ٹہلتے ہوئے کہا۔

دوسری جانب جواد چوھدری کو بھی خبر مل گئی تھی کہ صبا کو ہوش آگیا ہے اور وہ فوراً کمرے میں آیا۔اور صبا کو دیکھتے خوش ہوا تھا۔

حبہ بھی اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔

اللہ کا شکر ہے کہ تمہیں ہوش آگیا۔

جواد چوھدری نے صبا کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔

صبا پھیکا سا مسکرا پڑی تھی۔

اقبال نازیہ کہاں ہے؟

صبا نے اقبال کو. دیکھتے پوچھا۔

وہ اپنے کمرے میں ہو گی۔

جاؤ نازیہ کو بلا کر لاؤ۔

اقبال نے ملازمہ کو دیکھتے کہا جو سر اثبات میں ہلائے وہاں سے چلی گئی۔

نازیہ اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی۔جب ملازمہ نے آکر کہا کہ اقبال اسے صبا کے کمرے میں بلا رہا ہے۔

مجھ بلایا ہے؟

نازیہ نے پریشانی سے خود کی طرف اشارہ کرتے پوچھا۔

جی آپ کو بلایا ہے ملازمہ نے کہا۔

ٹھیک ہے میں آتی ہوں۔

نازیہ نے تھوک نگلتے کہا۔

اقبال تم. جانتے ہو میری حالت کس وجہ سے ہوئی؟ صبا نے اقبال کو دیکھتے پوچھا۔

امی نازیہ نے یہی بتایا کپ غلطی سے آپ گر گئی تھیں۔

اقبال نے ناسمجھی سے اپنی ماں کو. دیکھتے بتایا۔

اتنے میں چہرے پر خوف لیے نازیہ بھی کمرے میں داخل ہوئی،

صبا نے آنکھوں میں نفرت لیے اس کی طرف دیکھا۔

امی آپ کو ہوش آگیا؟ نازیہ نے چہرے پر مصنوعی خوشی لیے ان کی طرف بڑھنا چاہا جب صبا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہی روک دیا تھا۔

باقی سے صبا کی طرف دیکھ رہے تھے۔

اقبال اس لڑکی نے انوشے کو کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافی کی۔

جانتے ہو اس نے وہ تصاویر انوشے کی ضرغام کے ساتھ جوڑی اور اُسے بدنام کرنا چاہا کیونکہ یہ انوشے سے جلتی تھی اور جب مجھے حقیقت پتہ چلی تو اس نے مجھے دھکا دیا اور میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا۔

صبا نے سرد لہجے میں کھڑے ہوتے ہیں سب کو حقیقت سے آگاہ کیا۔

اقبال نے بےیقینی سے نازیہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا تھا۔

جواد کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔

تم نے انوشے کو ہماری نظروں میں گرانا چاہا اور تمھاری وجہ سے امی کی جان بھی جا سکتی تھی۔

اقبال نے نازیہ کے بازو کو دبوچتے سر لہجے میں پوچھا۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔

اس نے تو انوشے کو ہی غلط سمجھا اور اب جب حقیقت سامنے آئی تو اسے شرمندگی نے آن گھیرا تھا۔

وہ اقبال…. نازیہ سے کوئی بات نہیں بن پا رہی تھی۔

مجھے ہاں یا نا میں جواب چاہیے تم نے یہ سب کیا یا نہیں؟ اقبال نے دھاڑتے ہوئے پوچھا۔

نازیہ ا سکی دھاڑ پر ایک دم کانپ سی گئی تھی۔

م میں نے ہی کیا پلیز مجھے معاف کر دو۔اقبال مجھ سے غلطی ہو گئی۔

نازیہ نے جلدی سے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔

اقبال نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔

معاف؟ تمھاری غلطی معافی کے قابل نہیں ہے تم نے میری بہن پر گھٹیا الزام لگایا اور میری ماں کی جان لینے کی کوشش کی اور تم کہہ رہی ہو تم سے غلطی ہو گئی؟ اقبال نے غراتے ہوئے کہا۔

تمھارے جیسی عورت کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

کل کو تم پھر سے اپنی اصلیت دکھا سکتی ہو۔

اور میں نہیں چاہتا میری فیملی کو تمھاری وجہ سے کوئی بھی نقصان پہنچے اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اقبال چوھدری تمہیں اپنے پورے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں۔

طلاق دیتا ہوں

طلاق دیتا ہوں ۔

اقبال نے نازیہ کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔ جو آنکھیں پھیلائے اقبال کو دیکھ رہی تھی۔

حبہ نے منہ پر بےیقینی سے ہاتھ رکھا،

جواد اور صبا نے روکنے کی کوشش نہیں کی۔

شاید اقبال بھی کچھ ایسا ہی چاہتا تھا وہ نازیہ سے تنگ آگیا تھا۔

جسے صرف اپنی پرواہ تھی۔اور اب جب اسے موقع ملی تو اس نے نازیہ کو طلاق دے دی۔

دوبارہ مجھے اپنی شکل منت دکھانا۔

اقبال نے سرد مہری سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

نازیہ بت بنی ابھی بھی وہی کھڑی تھی۔

حبہ نے اپنی ساس کی طرف دیکھا۔

حبہ اسے کہو یہاں سے چلی جائے۔

صبا نے دروازے ہی طرف اشارہ کرتے کہا۔

تو نازیہ ہوش میں آئی اور بھیگی آنکھوں میں نفرت لیے اس نے صبا کو دیکھا اور وہاں سے بھاگ گئی۔

جواد بھی چہرے پر شرمندگی لیے وہاں سے چلا گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

داؤد آپ نے تو کہا کہ بھائی مجھ سے ملنے کے لیے آئے گئے؟تو وہ آئے کیوں نہیں؟ ارحہ نے داؤد کو دیکھتے پوچھا۔

ارحہ میں نے اُسے کال کی لیکن وہ دوسروں شہر ہے تین دنوں بعد واپس آئے گا۔

میں اُسے سرپرائز دینا چاہتا تھا اس لیے. تمھارا نہیں بتایا۔

تم فکر مت کرو تین دن بعد وہ یہ آئے گا۔

داؤد نے اس کی گال پر. ہاتھ رکھتے مسکرا پر کہا۔

جی ٹھیک ہے۔

ارحہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

ارحہ…… تھوڑی دیر بعد داؤد نے ارحہ کا نام پکارا۔

جس نے نظریں اٹھائے داؤد کی طرف دیکھا۔

کیا میں. تم سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟ داؤد نے ارحہ کے چہرے کے تاثرات دیکھتے اجازت چاہی۔

جی آپ کو کیا پوچھنا ہے؟ ارحہ نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔

کس نے تمہیں اغوا کیا تھا؟

داؤد نے پوچھا تو ارحہ کا چہرے پر خوف کا سایہ لہرایا جسے داؤد نے بھی محسوس کیا۔

کیا آپ میری بات پر یقین کریں گئے گئے؟

ارحہ نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔

بلکل کروں گا.

داؤد جو ارحہ کے پاس بیٹھا تھا اس نے ارحہ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے پیار سے کہا۔

ارحہ نے خود میں ہمت پیدا کرتے داؤد کی طرف دیکھا۔

ز زہاب نے مجھے اغواء کیا تھا۔ارحہ نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔

داؤد کے چہرے پر یہ سنتے سکتہ طاری ہو گیا۔۔

کیا کہا تم نے؟ زہاب نے تمہیں اغواء کیا داؤد نے اس کے چہرے سے ہاتھ پیچھے کرتے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔

میں س سچ بول رہی ہوں داؤد وہ زہاب ہی تھا جس نے میرے ساتھ غلط کیا۔. ارحہ نے بھیگی آنکھوں سے داؤد کو دیکھتے کہا۔

ارحہ نے اقبال کی شادی میں زہاب کو دیکھا تھا لیکن عہ اس کے چہرے کو اچھی طرح پہچانتی تھی۔

زہاب……

زہاب تم سے مجھے ایسی امید نہیں تھی۔

داؤد نے کرخت لہجے میں کہا۔

زہاب نے ایسا کیوں کیا اب وہ وجہ اچھے سے سمجھ گیا تھا۔

میں وعدہ کرتا ہوں خود سے زہاب دیکھنا اب میں تمھارے ساتھ کیا کرتا ہوں۔

داؤد نے سرخ آنکھوں سے خود سے عہد کرتے کہا۔

ارحہ میں تمھارے ساتھ ہوں تم فکر مت کرو۔

اور تمھارے ملزم کو سزا تو ضرور ملے گی۔

سزا ایسی کہ وہ اپنے پیدا ہونے پر پچھتائے گا۔

داؤد نے ارحہ کی آنکھوں می دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔

داؤد وہ بہت خطرناک ہے۔

اگر اُس نے آپ کر ساتھ کچھ کر دیا تو؟

ارحہ کے لہجے میں بےبسی تھی۔

مجھے کچھ نہیں ہو گا،

تم میری فکر مت کرو۔

تمھارا شوہر اتنا کمزور نہیں ہے جو خاموشی سے بیٹھا رہے۔زہاب کو اس کے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔

اور ایسی ملے گی کہ وہ پوری زندگی یاد رکھے گا.

داؤد نے ارحہ کا سر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔

ارحہ نے داؤد کی شرٹ کو زور سے پکڑے بیٹھی تھی۔جب داؤد نے اس کے خوف کو محسوس کیے اس کے نازک ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

ارحہ آنکھیں بند کیے داؤد کی دھڑکنوں کو محسوس کرنے لگی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

زہاب کہاں ہے؟

داؤد جو ابھی حویلی آیا تھا اس نے اپنے جواد کو دیکھتے پوچھا۔چہرے کے تاثرات غضبناک حد خطرناک لگ رہے تھے۔

کیا ہوا داؤد؟ صبا کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا۔جو داؤد کی آواز سنتے یہاں آئی تھی۔

بھابھی آپ کو ہوش آگیا؟ اب کیسی ہیں آپ؟ داؤد نے لہجے میں خوشی لیے پوچھا۔ایک سیکنڈ میں اس کا لہجہ تبدیل ہوا تھا۔

ہاں بیٹا میں ٹھیک ہوں۔لیکن تم زہاب کا کیوں پوچھ رہے ہو؟

صبا نے نرم لہجے میں پوچھا۔

جواد بھی کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔

زہاب نے جو کیا وہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔

لیکن ابھی وہ کہاں ہے؟ داؤد نے سرد لہجے میں پوچھا۔

وہ ملک سے باہر گیا ہے۔

جواد نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

لیکن ہوا کیا ہے؟ جواد نے آگے آتے پوچھا۔

آپ نے اپنی بہن کی مدد کی تھی نا؟ اُسی کی سزا اب ہمیں مل رہی ہے، دونوں ماں بیٹے ایک جیسے ہیں۔

وہ انسان ایک بار میری آنکھوں کے سامنے آجائے اپنے ہاتھوں سے اُس کی جان لوں گا۔

وہ ایک گھٹیا اور کمینہ مرد ہے۔

داؤد نے سرد لہجے میں کہا۔

صبا اور جواد حیران کھڑی تھے۔داؤد کہتے ہی وہاں سے چلا گیا۔

صبا تم جاؤ اور آرام کرو۔

جواد نے صبا کو دیکھتے کہا جو اثبات میں سر ہلائے وہاں سے چلی گئی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

اب میں واپس حویلی نہیں جاسکتا۔

اب تک تو داؤد کو میرے بارے میں پتہ چل گیا ہو گا۔

زہاب نے شراب کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے کہا۔

مجھے اُسی دن ارحہ کو جان سے مار دینا چاہیے تھا۔

مجھ سے ہی غلطی ہوئی لیکن انوشے وہ صرف میری ہے میں اُسے لیے میں ملک سے باہر چلا جاؤں گا۔

اگر کسی کو میرے بارے میں پتہ چلتا بھی ہے تو مجھے پرواہ نہیں ہے۔

میں وہی کروں گا جو میرا دل کرے گا۔

اور دل میں تو میرے انوشے بسی ہے۔

آہستہ آہستہ شراب کا نشہ اس پر اثر کر رہا تھا۔

اسنے وائن کے کلاس کو اٹھائے دیکھا جس میں اسے انوشے کا مسکراتا ہوا چہرہ اسے نظر آیا۔

تم صرف میری ہو جانم…. اگر میں یہاں ہوتا تو کبھی بھی تمھارا نکاح ضرغام سے نا ہونے دیتا۔زہاب نے اپنی بند ہوتی آنکھوں کو بمشکل کھولتے کہا۔

اس نے کچھ بڑا سوچا تھا۔

جو انوشے کے لیے اچھا ثابت نہیں ہونے والا تھا۔

کچھ دیر تصویر میں انوشے سے باتیں کرتے وہ وہی صوفے پر بےہوش ہو گیا۔

💜 💜 💜 💜

ضرغام کے کہنے پر انوشے اس کے ساتھ فلیٹ پر آ گئی تھی۔

ابھی وہ حویلی نہیں جانا چاہتا تھا۔

انوشے اس کا بہت اچھے سے خیال رکھ رہی تھی۔اور بڑی خانم دوبارہ حویلی آگئی تھیں۔

ضرغام آپ یہ سوپ پی لیں۔

انوشے نے کمرے میں داخل ہوتے سوپ کو سائیڈ ٹیبل پر رکھتے کہا۔

لیکن میرے ہاتھ میں تو درد ہے۔

ضرغام نے اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے کہا جہاں کچھ زخم موجود تھے۔

اوہ کوئی بات نہیں میں آپ کی مدد کرتی ہوں۔

انوشے نے کہا اور ضرغام کے سامنے سوپ لیے بیٹھی جو گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

ضرغام مجھے ایسے مت گھوریں انوشے نے نظریں اٹھائے کہا۔

کیسے؟ ضرغام نے مسکراہٹ دباتے پوچھا۔

ایسے…. جیسے دیکھ رہے ہیں۔

انوشے کے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

اسے گھورنا نہیں پیار سے دیکھنا کہتے ہیں۔

ضرغام نے ذومعنی لہجے میں کہا۔میرے نزدیک اسے گھورنا کہتے ہیں۔

انوشے نے ضدی لہجے میں کہا اور چمچ کو ضرغام کے ہونٹوں کے قریب لے کر گئی۔

انوشے…… ضرضرغام نے سوپ کو پینے کے بعد چہرے کے تاثرات تبدیل کرتے اس کا نام پکارا۔

کیا ہوا؟ گرم ہے؟ انوشے نے پریشانی سے پوچھا۔

اس میں نمک بہت زیادہ ہے۔

ضرغام نے انوشے کو دیکھتے کہا۔

کیا سچ میں؟ لیکن میں نے چیک کیا تھا نمک ٹھیک تھا۔

انوشے نے حیرانگی سے کہا۔

خود چکھ کے دیکھ لوں۔

ضرغام نے شرارتی نظروں سے انوشے کو. دیکھتے کہا اس سے پہلے وہ چکھتی ضرغام نے اس بازو سے پکڑ کر خود کے قریب کیا اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ پاتی ضرغام اس کہ بولتی بند کر چکا تھا۔

پہلے تو انوشے کو کچھ سمجھ نہیں آئی پھر ضرغام کی چالاکی سمجھ گئی۔اور ضرغام کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کیا۔

آپ بہت برے ہیں۔

انوشے نے سرخ چہرے سے ضرغام کو دیکھتے شرمیلے لہجے میں کہا۔

نمک تیز ہے نا؟ ضرغام نے ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے پوچھا۔

بلکل بھی نہیں انوشے نے گھورتے ہوئے کہا۔

اور اب آپ کے ہاتھ میں درد نہیں ہو رہا؟

انوشے نے ہاتھ کی طرف دیکھتے پوچھا۔

ضرغام نے اُسکے ہاتھ سے کھنچتے انوشے کے خود کو قریب کیا۔اور اس کا سر اپنے سینے ہر ہاتھ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔

تمھارے لیے میں کوئی بھی تکلیف برداشت کر سکتا ہوں بس میرے پاس رہنا۔

ضرغام نے انوشے کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے محبت بھرے لہجے میں کہا۔

انوشے نے مسکرا کر آنکھیں موندے لی تھیں۔

میں آپ کو چھوڑ کر کہی نہیں جاؤں گی۔

انوشے نے آہستگی سے کہا لیکن ضرغام سن چکا تھا۔

ضرغام نے اد نے بالوں پر لب رکھے اسے کمرے سے پکڑ کر مزید خود کے قریب کیا۔

اور پیچھے بیڈ سے ٹیک لگا لی۔

دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے۔لیکن ان کی خوشیوں کو نظر لگنے والی تھی۔

زمل ہشام کے گھر سے بھاگ تو گئی تھی۔

اب اسے سمجھ نہیں آئی کہ کہا جائے کیونکہ یہاں وہ ہشام کے علاوہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔

حسینہ کہاں جا رہی ہو؟

شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔

جب زمل کو اپنے پیچھے کسی کی آواز سنائی دی۔ زمل کے قدم یہ سنتے ہی مزید تیز ہوئے۔

ماتھے پر اس کے پسینہ چمکنے لگا۔

کیا میں نے اکیلے گھر سے نکل کر غلطی کی؟

زمل نے خود سے سوال کرتے دل میں سوچا۔

حسینہ رک تو۔

ایک لڑکے نے لوفرانہ انداز میں کہا۔

زمل اس وقت پوری طرح ڈر گئی تھی۔

اور بنا پیچھے دیکھے وہاں سے بھاگنے لگی۔

لیکن اس کی شاید قسمت خراب تھی۔

زمل کا پیر پتھر کے ساتھ زور سے لگا اور پیر مڑنے کی وجہ سے وہ ایک زور دار چیخ کے ساتھ زمین پر اوندھے منہ جا گری۔

اس کے دونوں بازو پر رگڑ لگی تھی۔اور پاؤں میں بھی شاید موچ آگئی۔

کہا تھا رک جاؤ دیکھو اب چوٹ لگ گئی نا۔

دو لڑکے جو مٹر گشت کر رہے تھے اکیلی لڑکی کو دیکھتے اسے تنگ کرنے لگے۔

زمل جو اس وقت بہت زیادہ گھبرائی ہوئی تھی اور گرنے کی وجہ سے تکلیف میں تھی اسے سمجھ نہیں آئی کہ کیا کرے۔

ک کون ہو تم لوگ ؟

زمل نے سیدھا ہوتے اُن دو لڑکوں کو دیکھتے پوچھا۔ جو کھڑے گندی نظروں سے زمل کو دیکھ رہے تھے۔

لڑکی تو کمال ہے۔

پہلے لڑکے نے دوسرے کو دیکھتے کمینگی سے کہا۔

زمل آنکھوں میں خوف لیے پیچھے کو کھسکنے لگی۔

اور گھر سے نکل کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی اب اسے احساس ہو رہا تھا۔

دیکھو مجھے جانے دو پلیز زمل نے روتے ہوئے کہا۔

ہم نے تو ابھی تک تمہیں ہاتھ بھی نہیں کھایا اور تم جانے کی بات کر رہی ہو؟ پہلے لڑکے نے قہقہہ لگائے کہا۔

اگر تم دونوں نے اسے زرا سا بھی چھوا تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گئے۔

پیچھے سے آتی سرد اور گھمبیر آواز نے دونوں لڑکوں کو پیچھے مڑنے پر مجبور کیا۔

جہاں ہشام اپنے آدمیوں کے درمیان کھڑا تھا۔چہرے پر کرختگی چھائی ہوئی تھی۔

دونوں لڑکے جو خود کمزور سے تھے۔

ہشام کو دیکھتے ان کی ساری بہادری ہوا کی طرح اڑ گئی۔

کیا بول رہے تھے تم لوگ؟ ہشام نے اپنے قدم لڑکوں کی طرف بڑھاتے کہا۔

زمل نے ہشام کو دیکھا تو اس کی سانس میں سانس آئی تھی۔

سوری سر لڑکوں نے ہشام کی شاندار پرسنیلٹی دیکھ کر معافی مانگی اور وہاں سے بھاگ گئے۔

ہشام کے آدمیوں نے اُن لڑکوں کے پیچھے جانا چاہا لیکن ہشام نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا تھا۔

جاؤ یہاں سے ہشام نے سرد لہجے میں کہا تو اس کے آدمی وہاں سے چلے گئے۔

زمل نے ہشام کے چہرے پر چھائی سرد مہری دیکھی تو اس نے اپنا حلق تر کیا۔

تمہیں منع کیا تھا نا؟

کہ گھر سے باہر نہیں نکلنا؟

ہشام نے پرسرار لہجے میں کہا اور چلتے ہوئے زمل کے پاس آیا اور گھٹنوں کے بل اس کے پاس بیٹھتے اس کے بازو کو پکڑا۔

زمل تکلیف کے مارے کراہ پڑی تھی۔

آہ زمل کے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی۔

ہشام نے اس کے بازو کو دیکھا اور جبڑے بھینچے۔

اور اپنے غصے کو کنٹرول کیا۔

چلو میرے ساتھ

ہشام نے کھڑے ہوتے کہا۔

زمل نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن پیر میں ہوتی درد کی وجہ سے کراہ کر دوبارہ زمین پر گر گئی۔

ہشام نے اسے مڑ کر دیکھ اور دو قدم چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور جھک کر اسے گود میں اٹھایا۔

زمل نے بھیگی آنکھوں سے ہشام کو دیکھا جو چہرے پر پتھریلے تاثرات لیے اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا۔

زمل نے بمشکل اپنے آنسوؤں کو روکا تھا۔

مولوی صاحب میرے فلیٹ پر دس منٹ کے اندر پہنچ جانے چاہیے۔

ہشام نے موبائل کان سے لگاتے ارد لہجے میں کہتے کال بند کر دی۔اور گاڑی سٹارٹ کی۔

ک کس کا نکاح؟

زمل نے تھوک نگلتے پوچھا۔

ہشام تیز تم ڈرائیونگ کر رہا تھا۔

اس نے زمل کی بات کو اگنور کیا۔

اور کچھ دیر بعد جھٹکے سے گاڑی روکی۔

تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی نا؟

ہشام نے زمل کی طرف دیکھتے جبڑے بھینچے کہا۔

زمل کے چہرے پر خوف کا سایہ لہرایا تھا۔

زمل کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا تھا۔

آج تمھارا میں یہ شوق بھی پورا کر دیتا ہوں ۔

ہشام نے سرد لہجے میں کہا اور دوسری جانب آتے دروازہ کھولے زمل کو بانہوں میں اٹھائے اپنے فلیٹ کی طرف بڑھ گیا۔

ہشام….. زمل نے کچھ کہنا چاہا جب ہشام نے اسے صوفے پر پھینکا۔

جو تکلیف کے مارے کراہ پڑی تھی۔

تمھارے چھوٹے سے دماغ میں میری بات نہیں پڑی۔

منع کیا تھا نا؟ ہشام نے اسے زمل کو بالوں سے پکڑے سرد لہجے میں پوچھا۔

زمل کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے چہرے کو بھگونے لگے تھے۔

وہ اس وقت ہشام سے اس قدر خوفزدہ ہو گئی تھی۔

کہ اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔

جانتی ہو تمھارے ساتھ کیا ہو سکتا تھا؟

تمہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا۔اور باہر کہتے بھیڑیے بیٹھے ہیں کیا تم نہیں جانتی؟ دودھ پیتی بچی ہو؟ جس کام سے منع کیا تم نے ضد میں آکر وہی کام کرنا ہوتا۔ہشام نے دھاڑتے ہوئے کہا۔

زمل نے آنکھیں زور سے بند کر لی تھیں۔

ہشام مجھے درد ہو رہا ہے۔

زمل نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔

ہشام نے اس کے کپکپاتے ہونٹوں کی طرف دیکھا۔

اور اس کے بال چھوڑے پیچھے کھڑا ہو گیا۔

مولوی صاحب آتے ہوں گئے تمھارا نکاح ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ ہو گا۔

ہشام نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

لیکن مجھے آپ سے اب نکاح نہیں کرنا۔

زمل نے کہتے ہی اٹھنا چاہا لیکن پیر میں آئی موچ کی وجہ وہ دوبارہ صوفے پر گر گئی۔

کیوں اب پیار کا بھوت اتر گیا دماغ سے؟ ہشام نے دانت پیستے پوچھا۔

اس وقت اسے زمل پر شدید غصہ آ رہا تھا۔

دل تو کر رہا تھا اس کا گلہ دبا دے۔

یہی سوچ اس کی جان نکالنے کے لیے کافی تھی کہ اگر وہ کسی غلط انسان کے ہاتھ لگ گئی تو کیا ہو گا۔

اور ایک تو اس کا دل الگ بےچین ہو رہا تھا۔

آپ مجھ پر اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں؟ ایک تو پہلے ہی مجھے درد ہو رہا ہے اور ایک آپ مجھ پر غصہ کر رہے ہیں۔

زمل نے روتے ہوئے چھوٹے بچوں کی طرح ہشام کو شکایت لگاتے کہا۔

جس کا اس وقت غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا تھا۔

زمل کی معصوم چہرہ اور بات سن کر ناچاہتے ہوئے بھی اس کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے جسے اس نے فوراً چھپا لیا۔

ہشام زمل کی طرف جھکا۔جو بروقت تھوڑا پیچھے کو کھسکی ورنہ دونوں کے چہروں میں فاصلہ نا. ہونے کے برابر تھا۔

جو تم نے حرکت کی اُس کے بعد بھی تم نے سوچا میں پیار سے تمہیں دیکھ شاباشی دوں گا؟

کہ زمل میڈم گھر سے بھاگ کر آپ نے بہت اچھا کام کیا۔

ہشام نے ایک آبرو اچکاتے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

جو بھی ہے ۔

زمل نے اپنی غلطی کو اگنور کیے جلدی سے کہا۔

لیکن مجھے آپ سے نکاح نہیں کرنا۔

پہلے آپ نے ہمیں دھتکارا اب میں انکار کرتی ہوں مجھے آپ سے نکاح نہیں کرنا۔

زمل نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔

زمل اگر تم گھر سے نا بھاگی ہوتی تو زہاب کو تمھارے بارے میں پتہ نا چلتا۔

غلطی تم نے کی ہے۔

اور ابھی بھی تم ضد کر رہی ہو۔

میرا تو دل کر رہا ہے تمھاری جان لے لوں۔

ہشام نے زمل کو گھورتے ہوئے کہا۔ جو ہشام کی بات سنتے سہم گئی تھی۔اور زہاب کون تھا یہ اسے معلوم نہیں تھا۔

زہاب کے آدمیوں نے زمل کی تصاویر لی تھیں اور اب زہاب اسے دیکھ چکا تھا۔

مجھے آپ سے نکاح نہیں کرنا تو نہیں کرنا۔

زمل نے ضدی لہجے میں کہا۔

تم چاہتی ہو میں تمھارے ساتھ زبردستی کروں؟

ہشام نے سرد لہجے میں پوچھا۔

اس سے پہلے زمل کچھ کہتی دروازے پر بل ہوئی۔

ہشام ایک نظر زمل پر ڈالنے کے بعد وہاں سے چلا گیا۔

زمل نے بےبسی سے اپنے پیر کو دیکھا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

انوشے اب ضرغام کیسا ہے؟

داؤد نے موبائل کان سے لگائے پوچھا۔

چاچو اب وہ ٹھیک ہیں۔. انوشے نے مسکراتے ہوئے بتایا۔انوشے ساتھ تھی تو ضرغام جلدی ٹھیک ہو رہا تھا۔

یہ تو اچھا ہے تم اُس کا خیال رکھو اور اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو بتا دینا۔. داؤد نے کال بند کرنے سے پہلے کہا۔

اور موبائل بند کیے جب وہ پیچھے مڑا تو ارحہ کھڑی تھی۔

جو سب سن چکی تھی۔اُس کے چہرے سے تو یہی لگ رہا تھا۔

بھائی کو کیا ہوا ہے؟ اور پلیز مجھے سچ سننا ہے۔

ارحہ نے آگے آتے پریشانی سے پوچھا۔

ارحہ وہ اُس کا چھوٹا س ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا لیکن اب وہ ٹھیک ہے۔

داؤد نے ارحہ کو دیکھتے بتایا۔

کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ سب سن چکی ہے، تو جھوٹ بولنا بیکار ہے۔

کیا؟ بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا؟آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ ارحہ نے بےتابی سے پوچھا۔

ارحہ میں نے کہا نا اب وہ ٹھیک ہے اور ہم کل اُس سے ملنے چلے گئے۔. ٹھیک ہے ؟

داؤد نے ارحہ کو کندھوں سے پکڑتے کہا۔

لیکن… اعارحہ نے کچھ کہنا چاہا جب داؤد نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھے اسے خاموش کروایا۔

میں نے کہا نا کہ تم اب آرام کرو ضرغام ٹھیک ہے اور ہم کل اُس سے ملنے چلے گئے۔

داؤد نے پیار سے ارحہ کو دیکھتے کہا۔

جس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور کمرے کی طرف چلی گئی۔

داؤد نے گہرا سانس لیا اور گھر سے نکل گیا۔

اور ضرغام کو ساری حقیقت بتانی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

داؤد ضرغام کے فلیٹ پہنچا تو انوشے اسے دیکھ حیران ہوئی۔

چاچو آپ یہاں؟ انوشے نے پوچھا،

ہاں وہ میں کے ضرغام سے بات کرنی تھی۔. داؤد نے جواب دیا تو انوشے اسے کمرے میں ہے آئی اور خود چائے بنانے چلی گئی۔

خیریت تم اس وقت یہاں؟ ضرغام نے داؤد کو دیکھتے پوچھا۔

ارحہ کو تمھارے ایکسیڈنٹ کا پتہ چل گیا ہے۔

وہ تم سے ملنا چاہتی ہے اور اُسے میں کل لے کر آؤں گا۔

لیکن اُس سے پہلے مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے داؤد نے سنجیدگی سے کہا۔

ضرغام اسے دیکھ رہا تھا۔

ارحہ کو اغوا زہاب نے کیا تھا۔

اور اُسے اپنی درندگی کا. نشانہ بھی بنایا۔

داؤد نے بتایا تو ضرغام بت بنا داؤد کو دیکھ رہا تھا۔۔

کیا کہا تم نے؟ ارحہ کو اغوا زہاب نے کیا تھا؟

ضرغام کے لہجے میں بےیقینی تھی۔

ہاں وہی بےغیرت انسان تھا ایک بار بس ایک بار وہ میرے ہاتھ آجائے ایسے اُسے تڑپا ؤں گا کہ موت کی بھیگ مانگے گا،.داؤد نے سرد لہجے میں کہا۔

میری وجہ سے میری بہن کے ساتھ یہ سب ہوا۔

وہ تو بےقصور تھی پھر اُسے کس بات کی سزا ملی؟ ضرغام نے اپنے اپنے پر ہاتھ رکھے پر ڈھ سا گیا۔

تمہاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا ضرغام

وہ ایک درندہ ہے۔

مجھے تو حیرت ہو رہی ہے میرے ہی گھر میں وہ اتنے سالوں سے رہ رہا تھا اور مجھے اُس کی حقیقت پتہ نہیں چلی۔

میری بیوی کو جو اس نے تکلیف دی اُس کی سزا تو اُس گھٹیا انسان کو ضرور ملے گی داؤد نے سرد لہجے میں کہا۔

ضرغام نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

اس کی بہن نے اتنا کچھ برداشت کیا اور اس نے ایک بار بھی اُسے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔

لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ زندہ ہے،. اگر معلوم ہوتا تو ضرور اُسے تلاش کرتا۔

زہاب اب کہاں ہے؟

تھوڑی دیر بعد خاموشی کو تھوڑتے ہوئے ضرغام نے پوچھا۔

وہ حویلی سے جا چکا ہے اور اب تک تو اسے پتہ چل گیا ہو گا کہ ہمیں حقیقت پتہ چل گئی ہے اب وہ واپس نہیں آئے گا۔

داؤد نے سنجیدگی سے کہا۔

وہ جہاں کہی بھی چھپ جائے میں اُسے ڈھونڈ نکالوں گا۔

اُس کمینے کی ہمت کیسے ہوئی میری بہن کو تکلیف پہنچانے کی۔

ضرغام نے کرخت لہجے میں کہا۔

آنکھیں اس کی سرخ ہو رہی تھی۔

اس کی بہن معصوم تھی پھر بھی اُسے یہ سب بھگتنا پڑا۔

زہاب تم نے اب حد پار کر دی۔

ضرغام نے جبڑے بھینچے کہا۔

مولوی صاحب کے آتے ہی ہشام کا نکاح زمل کے ساتھ ہو گیا تھا۔

زمل تو راضی نہیں تھی۔

لیکن پھر ہشام کی دھمکی دینے پر وہ مان گئی۔

ہشام نے کہا تھا اگر اس نے نکاح نہیں کیا تو وہ اسے اپنے پالتو کتوں کے آگے پھینک دے گا۔اور اس وقت ہشام نے جس قدر سنجیدگی سے کہا زمل سچ میں اس کی.ل دھمکی سے ڈر گئی تھی۔اور وہ اُن کتوں کو. دیکھ بھی چکی تھی۔

وہ جانتی تھی کہ جو ہشام کہ رہا ہے وہ کرکے دکھائے گا۔

اس لیے اس نے نکاح کر لیا۔

لیکن اب اسے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ کیوں وہ ہشام کی باتوں میں آئی۔

اور اس سے نکاح کیا۔

کس طرح اس نے زمل کی محبت کو ٹھکرایا تھا۔

کتنی تکلیف سے وہ گزری تھی۔اور اتنی آسانی سے وہ نکاح کے لیے مان گئی۔

چلو میرے ساتھ ہشام نے مولوی صاحب کے جانے کے بعد زمل کو دیکھتے کہا۔

مجھے آپ کے ساتھ کہی نہ جانا اور آپ نے ڈرا کر زبردستی نکاح کیا۔

زمل نے سرد لہجے میں ہشام کو دیکھتے کہا۔

ہشام نے گہرا سانس لیتے سامنے کھڑی ضدی لڑکی کو دیکھا۔

زمل تم کیوں میرے لیے مصبیت کھڑی کر رہی ہو؟ تم نہیں جانتی کہ تم نے گھر سے نکل کر کتنی بڑی غلطی کی۔

اور ابھی بھی تمہیں صرف اپنی ضد کی پڑی ہے۔

اس بار ہشام نے نرم لہجے میں کہا۔

آپ کے گھر سے نکل کر میں نے غلطی نہیں کی بلکہ یہاں آنا اور آپ سے ملنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔

آپ سے محبت کرنا میری غلطی تھی۔

اور جب آپ کو مجھ سے محبت نہیں تھی آپ نے اپنے ڈیڈ کے کہنے پر مجھ سے منگنی کی تو اب نکاح کیوں کیا؟

زمل نے سرد مگر بےبس لہجے میں ہشام کو دیکھتے غصے سے پوچھا۔

ہشام خاموش نظروں سے زمل کو کھڑا دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں وہ تکلیف صاف دیکھ سکتا تھا۔

محبت مجھے ابھی بھی تم سے نہیں ہے زمل اور یہ بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو۔

نکاح تمھاری حفاظت کے لیے میں نے کیا۔

ورنہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

ہشام نے اپنے لفظوں سے زمل کے دل کو لہولہان کیا تھا۔

ہشام ابھی بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ بھی اس سے محبت کرتا ہے ورنہ نکاح کے علاوہ اور بھی بہت سے طریقے تھے جس سے وہ زمل کی حفاظت کر سکتا تھا۔

زمل نے اپنے ہونٹوں کو بھینچا۔

اور آنسوؤں کو بمشکل نکلنے سے روکا۔

ہشام آپ بہت پچھتائے گئے اور اُس وقت میں آپ کے پاس نہیں ہوں گی۔

زمل نے بھاری لہجے میں کہا۔

اور اس کی بات سنتے ہشام کو لگا کسی نے اس کے دل کو مٹھی میں جھگڑ لیا ہو۔

تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے زمل ہشام نے غصے سے زمل کے پاس آتے اسے بازو سے دبوچتے کیا۔

بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو۔

اور دوبارہ اگر تم نے اپنی زبان سے کچھ بھی فضول نکالا تو زبان کاٹ کر رکھ دوں گا۔

ہشام نے سرخ آنکھوں سے زمل کی بھیگی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

جب آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے تو کیوں آپ کو فرق پڑ رہا ہے؟ میں چاہے کچھ بھی کہوں یا مر جاؤں اس سے پہلے زمل اپنی بات مکمل کرتی ہشام نے اسے گردن سے دبوچا تھا۔

جس کا سر زور سے پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگا۔

تکلیف کے مارے زمل کے منہ سے چیخ نکلی،

اور بھیگی آنکھوں سے آنسو باہر نکل کر چہرے کو بھگونے لگے۔

لیکن ہشام اس وقت شاید ہوش میں نہیں لگ رہا تھا۔

زمل کی مرنے کی بات نے اسے آگ بگولا کر دیا تھا۔

ہ ہشام زمل نے کپکپاتے لہجے میں ہشام کا نام پکارا۔

آنکھیں اس کی باہر کو آگئی تھی۔

اپنے دونوں ہاتھوں سے اس نے ہشام کے ہاتھ کو پکڑا تھا۔

اور کندھے پر الگ سے تکلیف ہو رہی تھی۔

تمہیں آگر زیادہ مرنے کا شوق ہے تو تمھارا یہ شوق میں پورا کر دیتا ہوں۔

ہشام نے جبڑے بھینچے زمل کو دیکھتے کہا۔

ہ ہش ہشام

زمل نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اس کا نام پکارا۔

آنکھیں اس کی بند ہونے کے قریب تھی۔اور سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی تھی۔

اس کی حالت دیکھتے ہشام فوراً ہوش میں آیا اور اس کی گردن کو چھوڑے پیچھے کھڑا ہوا۔

زمل کی گردن پر ہشام کی انگلیوں کے نشان صاف نظر آ رہے تھے۔

زمل نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھا اور وہی دیوار کے ساتھ لگتی نیچے زمین پر بیٹھی گہرے سانس لیتے خود کو پرسکون کرنے لگی۔

لیکن ہشام جو کھڑا تھا اور اپنی ردعمل پر شرمندہ سا ہو رہا تھا دیور پر لگے خون کو دیکھتے اس کی آنکھیں پھیلی۔

اور نظر دیوار پر لگے کیل پر پڑی جب ہشام نے اسے دیوار کے ساتھ پن کیا تو زمل کے کندھے پر اُس وقت شاید کیل لگی تھی۔

اور دیوار پر خون کی دھار سی بن گئی تھی۔

زمل…. ہشام کہتے ہی آگے بڑھا لیکن زمل نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا۔

مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔

سوائے تکلیف نے آپ مجھے کچھ نہیں دے سکتے مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ میں واپس چلی جاؤں گی۔

م میں ڈیڈ کے پاس واپس چلی جاؤں گی آپ یہی چاہتے تھے نا

پلیز مجھے جانے دیں۔

زمل نے روتے ہوئے بےبسی سے ہشام کو دیکھتے کہا۔شاید وہ ہشام سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئی تھی۔

اور مزید پیچھے دیوار کے ساتھ چپکنے لگی۔

زمل میری بات سنو ہشام نے اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتے کہا۔

زمل کا اس طرح رونا اسے تکلیف دے رہا تھا۔وہ اسے خوفزدہ نہیں. کرنا چاہتا تھا۔

میں آج ہی واپس چلی جاؤں گی پلیز

زمل نے اپنے ہاتھوں کے چہرے میں منہ چھپائے روتے ہوئے ہچکی لیتے کہا۔

اس وقت ہشام کو سامنے بیٹھی معصوم سی لڑکی پر ترس آ رہا تھا۔

وہ اپنے دل کے حال سے واقف نہیں تھا وہ خود نہیں جانتا تھا کہ وہ زمل سے محبت کرتا ہے لیکن اس کے الفاظ زمل کے دل پر تیر کی طرح لگتے تھے۔

لیکن اب وہ تھک گئی تھی۔

زمل…..

ہشام نے اس کے چہرے سے ہاتھ پیچھے کیا اور اس کی سرخ آنکھوں میں دیکھا۔جس کی آنکھوں میں خوف صاف نظر آ رہا تھا۔

اور اس کا پورا جسم کپکپا رہا تھا۔

اس وقت ناجانے ہشام کو وہ اتنی پیاری کیوں لگی تھی۔

معصوم سی روتی ہوئی بچی لگ رہی تھی لیکن اس وقت وہ کتنی تکلیف میں تھی ہشام شاید اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔

زمل نے چہرہ اوپر کیے ہشام کی طرف دیکھا لیکن آنکھوں کے سامنے آتے اندھیرے کی وجہ سے وہ زیادہ دیر ہشام کو دیکھ نہیں پائی اور وہی اس کی بانہوں میں بےہوش ہو گئی۔

ہشام اس کے بےہوش ہونی پر ایک دم پریشان ہو گیا تھا۔

زمل…. کیکیا ہوا تمہیں ؟آنکھیں کھولو….

ہشام نے اس کی گال کو تھپتھپاتے ہوئے پریشانی سے اسے پکارا اور بانہوں میں اٹھائے اندر کمرے میں لے گیا۔

جب اس نے زمل کو بیڈ پر لیٹایا تو اس کی وائٹ شرٹ کے بازو پر خون لگ گیا۔

ہشام نے اپنے بازو پر لگے خون کو دیکھا اور ایک نظر بےہوش پڑی زمل پر ڈالے فرسٹ ایڈ باکس لے آیا۔

کیوں کر رہا ہوں میں اس کے ساتھ ایسا؟

ہشام کے دل نے خود سے سوال کیا تھا،

جس کا شاید اس کے پاس جواب نہیں تھا۔

ہشام اس کے پاس بیٹھا اور پہلے اس کے کندھے کو دیکھا۔

زخم زیادہ گہرا نہیں تھا لیکن خون ابھی بھی نکل رہا تھا۔

ہشام نے پہلے اس کا زخم صاف کیا۔

وہ یہ کام بہت احتیاط سے کر رہا تھا۔

زمل کی گردن پر ابھی بھی ہشام کی انگلیوں کے نشان موجود تھے۔

ہشام کی نظر ان زخم پر پڑی تو پھر سے اسے شرمندگی نے آن گھیرا تھا۔

بےساختہ اس کا ہاتھ زمل کی نازک گردن کی طرف بڑھا اور اس نے نشان کو اپنی انگلی کی پور سے چھوا۔

میں نے تم سے نکاح کیوں کیا زمل؟

اپنی بہن کو کھونے کے بعد تم نہیں جانتی میں کتنا ڈر گیا ہوں،

میں اُس کی حفاظت نہیں کر پایا اور میں نے اُسے کھو دیا۔

میں نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔

میں نہیں چاہتا میری وجہ سے تم اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو۔

تم بہت معصوم ہو۔

تمہیں میں خود سے دور رکھنا چاہتا تھا۔لیکن اب تم میرے دشمن کی نظروں میں آ گئی ہو۔

وہ تمہیں نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا۔

اور تم سے نکاح کرنا مجھے ٹھیک لگا۔

لیکن میں جانتا ہوں اپنے لفظوں سے تمہیں بہت تکلیف پہچا چکا ہوں۔

ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔

ہشام نے لہجے میں شرمندگی لیے کہا اور جھک کر زمل کی گردن پر خود کے دیے گئے نشان پر بےخیالی میں ہونٹ رکھ دیے۔

بےہوشی کی حالت میں وہ اس سے معافی مانگ رہا تھا۔

جو اب ہشام سے حد سے زیادہ ڈر چکی تھی۔اور زمل کے دل میں ڈر بھی ہشام نے خود ڈالا تھا۔

زخم پر وہ مرہم لگا چکا تھا۔

ہشام پیچھے ہوا اور پھر کھڑے ہوتے بنا زمل کو. دیکھتے کمرے سے باہر چلا گیا۔جو وہ کر چکا تھا اب اسے پچھتاوا ہو رہا تھا۔

وہ خود بھی اپنے جذبات کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

آگے ان دونوں کی قسمت میں ناجانے کیا لکھا تھا۔

جس نے ہشام کی بہن کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا وہ زہاب کا دوست تھا جسے ہشام تکلیف دی موت دے چکا تھا۔

زہاب کو ویسے بھی ہشام کی کمزوری کی تلاش تھی جو اسے اب زمل کی شکل میں مل چکی تھی اور یہی بات ہشام کو بری طرح پریشان کر رہی تھی۔

ہشام اس کام میں. پڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن جو اس کی بہن کے ساتھ ہوا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی اور کے ساتھ ہو اس لیے وہ ان درندوں کو خود سزا دیتا تھا۔لیکن اسے ایسا لگتا تھا کہ وہ زمل کی حفاظت نہیں کر پائے گا۔یہی اس کے دل میں ڈر تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

نازیہ حویلی اپنی ماں کے پاس آئی۔

نازیہ تم یہاں ؟خیریت؟ اقبال کے ساتھ آئی ہو؟ حمیرا نے نازیہ کے پیچھے دیکھتے پوچھا،

بڑی خانم حمیرا کو دوبارہ نظر نہیں آئی تھی۔

اور وہ ان کی نظروں کے سامنے آنا بھی نہیں چاہتی تھی۔

لیکن اتنا وہ جانتی تھی جو اس نے کیا اُس کے بعد جب بھی ضرغام حویلی آیا اسے نہیں چھوڑے گا۔

امی اقبال نے مجھے طلاق دے دی ہے۔

نازیہ نے سپاٹ لہجے میں بتایا،

حمیرا نے بےیقینی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔

کیا کہا تم نے؟

اُس نے تمہیں طلاق کیوں دی؟ حمیرا کو اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی پہلے ہی وہ پریشان تھی،. اور اب نازیہ طلاق لیے گھر واپس آگئی تھی۔

امی اُس نے دوسری شادی کر لی اب اُسے میری ضرورت نہیں تھی۔

اس لیے مجھے طلاق دے دی۔

لیکن مجھ سے ایک غلطی ہوئی اُس عورت کو مجھے جان سے مار دینا چاہیے تھا،. نازیہ نے غصے سے اپنی ماں کو دیکھتے کہا اور وہاں سے چلی گئی ۔ابھی بھی اسے اپنی غلطی کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔

حمیرا اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

یہ اچھا نہیں ہوا۔

یہ بلکل بھی اچھا نہیں ہوا۔

حمیرا نے پریشانی سے ارد گرد دیکھتے خود سے کہا۔

💜 💜 💜 💜 💜

تم خوش ہو؟ داؤد نے ارحہ کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیتے اس پر لب رکھتے پوچھا۔

داؤد خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔

اور ارحہ اس کے ساتھ بیٹھی تھی۔

جی میں بہت خوش ہوں۔

ارحہ نے مسکرا کر کہا۔

ارحہ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔

اور تم غور سے میری بات سننا،

داؤد نے گاڑی سٹارٹ کرتے کہا۔

ارحہ نے اثبات میں سر ہلا دیا،

تو داؤد نے بات شروع کی اور جو کچھ بھی ہوا سب کچھ اسے بتا دیا۔

جس کے چہرے پر بےیقینی در آئی تھی۔

بھائی کو لگا کہ آپ نے میری جان لی ہے؟

اور پھر انہوں نے انوشے سے نکاح کیا؟

ارحہ نے پریشانی سے پوچھا۔

ارحہ یہ ایک پراپر پلاننگ تھی،

اور ضرغام کو یہی دکھایا اور بتایا گیا کہ تم مر چکی ہو اور تمھاری موت کی وجہ میں ہوں۔

لیکن اب ساری حقیقت ضرغام کے سامنے آگئی ہے،

داؤد نے سامنے سڑک پر نظریں جمائے کہا۔

کیا آپ کے اور بھائی کے درمیان جو غلط فہمی تھی وہ ٹھیک ہو گئی ہے؟ ارحہ نے داؤد کو دیکھتے پوچھا،

جو اس کی بات سنے مسکرا پڑا۔

ارحہ تمھارا بھائی تھوڑا ضدی ضرور ہے لیکن برا نہیں ہے،. جو اُسے دکھایا گیا۔اُس کے بعد وہ مجھ سے نفرت کرتا تھا۔لیکن جب سچائی کا پتہ چلا تو وہ شرمندہ تھا۔

غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے، اور اُس نے اپنوں پر بھروسہ کیا لیکن وہی ضرغام کو ڈس رہے تھے۔

لیکن اب سب ٹھیک ہے میرے اور تمھارے بھائی کے درمیان بھی سب ٹھیک ہے،

داؤد نے کہا تو ارحہ نے گہرا سانس لیا تھا۔

اسے انوشے کی بھی اب فکر کھائے جا رہی تھی جو بنا کسی مطلب کے سزا بھگت رہی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اب تو دونوں میں سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔

ارحہ باہر سڑک پر چلتی گاڑیوں کو دیکھنے لگی۔

گاڑی میں خاموشی چھا گئ تھی۔

کچھ دیر بعد گاڑی رکی اور ارحہ نے داؤد کی طرف دیکھا۔

ہم پہنچ چکے ہیں،

داؤد کہتے ہی گاڑی سے باہر نکلا اور دوسری طرف کا آکر دروازہ کھولا تو ارحہ باہر آئی۔

داؤد نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے لیے اندر کی جانب بڑھ گیا۔

انوشے کو ضرغام نے ارحہ کا بتا دیا تھا اور وہ یہ سن کر حیران ہونے کے ساتھ خوش بھی ہوئی تھی کہ وہ زندہ ہے۔

لیکن اس کے ساتھ کیا یوا اور کس نے کیا وہ ضرغام نے اسے نہیں بتایا تھا۔

اور اج انوشے بہت خوش تھی کہ ارحہ اس کے چچا کے ساتھ یہاں آ رہی ہے۔

انوشے کچن میں تھی جب بیل ہوئی اس نے دروازہ کھولا تو سامنے داؤد کے ساتھ ارحہ کھڑی تھی۔

انوشے نے ارحہ کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے جلدی سے اسے گلے لگایا۔. داؤد بھی مسکرا پڑا تھا۔

ارحہ کیسی ہیں آپ ؟ انوشے نے خوشی سے پوچھا۔

میں ٹھیک ہوں بھابھی،

ارحہ نے ہلکا سا مسکرا کر جواب دیا۔

اسے انوشے خوش لگی تھی۔

آپ کو میں چچی کہوں؟

انوشے نے ارحہ کو دیکھتے تھوڑا جھجھکتے ہوئے پوچھا۔جو مسکرا پڑی تھی۔

نہیں تم مجھے ارحہ ہی کہنا ہم دونوں کی عمر ایک جیسی ہے۔

ارحہنے کہا تو انوشے نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں کو اندر لے آئی۔انوشے کون آیا ہے؟ ضرغام کی آواز پر ارحہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

ارحہ نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔

جہاں ضرغام کھڑا تھا سر پر ابھی بھی اس کے پٹی بندی ہوئی تھی چہرے کے زخم اور باقی بھی کافی حد تک ٹھیک ہو چکے تھے،

ضرغام نے ارحہ کو دیکھا اور اس کے قدم وہی جم گئے۔جس کا چہرہ کافی مرجھا سا گیا تھا چہرے سے رونق ختم ہو گئی تھی۔

ارحہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

وہ جلدی سے اپنے بھائی کے پاس گئی اور اس کے سینے سے جا لگی۔

ضرغام نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے تھپتھپایا۔

جو اب خاموشی سے رو رہی تھی۔

انوشے اور داؤد دونوں کو دیکھ کر مسکرا پڑے۔

مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے میں آتا ہوں۔

داؤد نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

انوشے بھی کچن کی طرف بڑھ گئی تاکہ دونوں بہن بھائی بات کر سکیں۔

ارحہ گڑیا کیسی ہو تم؟

ضرغام نے نرم لہجے میں ارحہ کو دیکھتے پوچھا،

بھائی میں ٹھیک ہوں۔

آپ اپنا خیال کیوں نہیں رکھتے اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو؟

ارحہ نے بھاری لہجے میں ضرغام کو دیکھتے کہا،

جو ہلکا سا مسکرا پڑا تھا۔

ابھی بھی ارحہ کو خود سے زیادہ اپنے بھائی کی فکر تھی۔

میں ٹھیک ہوں۔

لیکن شرمندہ بھی ہوں۔

کہ میں اپنی بہن کی حفاظت نہیں کر سکا۔

ضرغام نے لہجے میں شرمندگی لیے کہا۔

بھائی اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔اور یہ سب میری قسمت میں لکھا تھا۔

ارحہ نے نظریں جھکا کر کہا۔

بھائی بڑی خانم کیسی ہیں؟

ارحہ نے پوچھا۔

وہ ٹھیک ہیں۔

اور تمہیں دیکھ بہت خوش ہوگی۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے کہا۔

بھائی آپ کو نہیں لگتا کہ آپ نے بھابھی کے ساتھ غلط کیا؟ میرا مطلب ہے کی بنا کسی جرم کے آپ نے اُن کو سزا دی؟

ارحہ نے تھوڑا جھجکتے ہوئے پوچھا۔

ضرغام کا مسکراتا چہرہ سنجیدہ ہوا تھا۔

میں جانتا ہوں کہ میں نے اُس کے ساتھ بہت غلط کیا۔

لیکن اُس وقت صورتحال ہی کچھ ایسی تھی۔

میں نے وہی کیا جو مجھے بہتر لگا لیکن اب احساس ہوا کہ میں سراسر غلط تھا۔

لیکن جس نے ہماری زندگیوں کو خراب کیا اُسے میں نہیں چھوڑوں گا۔

ضرغام نے سرد لہجے میں کہا۔

بھائی آپ کو داؤد سے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟ یا ہمارے نکاح سے؟

ارحہ نے ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

میرا نہیں خیال کہ داؤد سے بہتر تمہیں کوئی اور مل سکتا ہے ارحہ جو خود سے زیادہ تمھاری پرواہ کرتا ہو۔

میں تم دونوں کے لیے خوش ہوں۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ارحہ بھی مسکرا پڑی تھی۔

ضرغام….. انوشے نے کچن سے باہر آتے ضرغام کو پکارا۔

ارحہ نے بھی مڑ کر انوشے کے گھبرائے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا۔

کیا ہوا؟ ضرغام نے پریشانی سے پوچھا۔

وہ ضرغام کچن میں چھپکلی ہے۔

انوشے نے اپنے ہاتھوں کو مڑوڑتے ہوئے ضرغام کو بتایا۔

داؤد جو واپس آیا تھا انوشے کی بات پر ہنس پڑا۔

اب ضرغام بدر خان چھپکلی بھی مارے گا یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ داؤد نے مسکراتے ہوئے کہا تو جہاں ضرغام نے اسے گھور کر دیکھا وہی ارحہ نے اپنی مسکراہٹ کو چھپایا تھا۔

بھائی جائیں نا آپ کی بیوی کو آپ کی ضرورت ہے۔

ارحہ نے ضرغام کو دیکھتے کہا۔

ہاں چھپکلی مارنے میں ضرورت ہے۔

ضرغام نے منہ بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

اور کچن کی طرف بڑھ گیا۔

انوشے بھی اس کے پیچھے ہی تھی۔

داؤد چلتا ہوا ارحہ کے پاس آیا اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے خود کے قریب کیا۔

تمہیں بھی چھپکلی سے ڈر لگتا ہے؟ داؤد نے مسکراہٹ دباتے ارحہ کو دیکھتے پوچھا۔

چھپکلی سے ڈر کسے نہیں لگتا داؤد

ارحہ نے منہ بسوڑتے کہا تو داؤد اس کا چہرہ دیکھتے مسکرا پڑا۔

اور جھک کر اس کے ماتھے پر لب رکھے۔

ارحہ بھی ہولے سے مسکرا پڑی تھی۔

دوسری جانب ضرغام کچن میں داخل ہوا۔

بیگم صاحبہ کہاں ہے چھپکلی؟ ضرغام نے ارد گرد دیکھتے پوچھا۔

ضرغام آپ نے آنے میں اتنی دیر لگا دی وہ یہی پر تھی اب وہ دوبارہ واپس آئے گی۔

انوشے نے پریشانی سے ارد گرد دیکھتے کہا۔

جب وہ واپس آئے گی پھر میں اُس سے مل لوں گا۔

ضرغام نے مڑتے انوشے کو دیکھتے دانت پیستے کہا۔

لیکن اب میں کچن میں کام کیسے کروں گی؟

انوشے نے نچلے ہونٹ کو بچوں کی طرح فولڈ کرتے کہا۔

ضرغام کی نظریں اسی پر جمی تھیں۔

وہ آگے بڑھا اور انوشے کو بازو سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے اس کے ہونٹوں پر جھکا۔

ضرغام انوشے نے اسے پیچھے دھکا دیتے کہا۔

آپ کہی بھی شروع ہو جاتے ہیں۔

انوشے نے دانت پیستے کہا۔

تم اس طرح سے میرے سامنے آؤ گی تو میرا ایمان تو ڈگمگائے گا نا۔

ضرغام نے گہرے لہجے میں انوشے کو دیکھتے کہا جس نے شرما کر نظریں جھکا لی تھیں۔

آپ باہر جائیں ارحہ آپ کا انتظار کر رہی ہو گی،

انوشے نے شرمیلے لہجے میں کہا۔

تم بھی جلدی آ جاؤ۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

انوشے نے پھر سے ارد گرد دیکھا لیکن کہی بھی اسے چھپکلی نظر نہیں آئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

زمل کو ہوش آیا تو کندھے پر ہوتی درد کی وجہ سے کراہ پڑی۔

آہ…. زمل کہتے ہی اپنے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُٹھ بیٹھی۔

آنکھیں اس کی سرخ ہو رہی تھیں۔

سر الگ درد سے پھٹ رہا تھا۔

زمل ابھی پیچھے ٹیک لگائے بیٹھی ہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر چونک کر اس نے دروازے کء طرف دیکھا جہاں ہشام کھڑا تھا۔

ہاتھ میں اس کے کھانے کی ٹرے پکڑی تھی۔

اور چلتا ہوا زمل کے پاس آکر بیٹھا۔

زمل نے کچھ نہیں کہا تھا۔. بس خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔

کھانا کھا لو۔

ہشام نے زمل کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

مجھے بھوک نہیں ہے۔

زمل نے بھاری آواز میں کہا۔

لیکن ہشام نے اس کی بات کو اگنور کیے نوالہ بنا کر زمل کے ہونٹوں کے قریب لے کر گیا جس نے آنکھوں میں شکوہ لیے ہشام کو دیکھا۔

ایسے مجھے مت دیکھو زمل……

ہشام نے نظریں چراتے کہا۔

لیکن جب زمل نے نوالہ کھا لیا ہشام کو حیرانگی ہوئی تھی۔

اس بار زمل نے کوئی ضد نہیں کی۔

وہ تو شاید ہشام سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔

خاموشی سے زمل نے کھانا کھایا۔

اس نے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔

ہشام چاہتا تھا کہ وہ اس سے بات کرے بےشک بحث کرے لیکن کچھ ن کچھ کہے لیکن وہ خاموش ہو گئی تھی۔

زمل تم یہی رہو گی اور میری اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلو گی۔

ہشام نے اسے دیکھتے کہا۔

زمل نے اس کی سوچ کے برعکس اثبات میں سر ہلا دیا۔

ہشام نے دانت پیسے تھے۔

زمل میں تمھاری زبان سے سننا چاہتا ہوں۔

ہشام نے زمل کو دیکھتے کہا۔

م میں ن نہیں جاؤں گی۔

زمل نے کپکپاتے لہجے میں فوراً جواب دیا۔

ہشام سمجھ گیا تھا کہ وہ اس سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئی ہے۔

ہشام نے گہرا سانس لیتے زمل کے جھکے چہرے کی طرف دیکھا۔

پھر اُٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

زمل ابھی بھی نظریں جھکائے بیٹھی ہوئی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

ماضی……

ندا بہت خوش تھی۔

جیسا وہ چاہتی تھی ویسا ہو چکا تھا۔

وہ اب زہاب کے ساتھ سکون بسے رہتی تھی۔. اسے اپنے کیے پر زرا بھی پچھتاوا نہیں تھا۔

بیٹا کیا کام کرتا ہے اسے اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا۔

ایک دن زہاب نے کہا کہ وہ ضروری کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جا رہا ہوں تو آپ اپنا خیال رکھنا۔

زہاب کہتے ہی گھر سے نکل گیا۔

ندا گھر میں اکیلی تھی۔

رات کھانے کے بعد ملازمہ گھر سے چلی گئی۔

ندا اپنے کمرے میں تھی۔

پورے گھر میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

جب کچھ لوگ دبے پاؤں گھر میں داخل ہوئے۔

ندا تو آرام سے سو رہی تھی۔

جو آدمی گھر میں داخل ہوئے انہوں نے پورے گھر پر پٹرول چھڑک دیا،

اور جیسے آئے ویسے وہاں سے چلے گئے۔

اور باہر جاتے ہی گھر کو آگ لگا دی۔

یہ آدمی زہاب کے دشمن کے تھے اُن کو یہی لگا زہاب گھر میں ہے۔لیکن گھر میں وہ نہیں تھا۔

آگ پورے گھر میں پھیل گئی۔جب ندا کی آنکھ دھوے کی وجہ سے کھلی پورے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا تھا۔

ندا نے ارد گرد دیکھا۔

اسے کچھ صاف نظر بھی نہیں آ تیا تھا اور زور سے کھانسنے لگی۔

ندا بیڈ سے اٹھی اور سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا۔جہاں سے اسے موبائل مل گیا تھا۔

ندا نے موبائل پکڑا اور باہر کی طرف بھاگی لیکن دروازہ کھولتے ہی بھڑکتی آگ نے اس کا استقبال کیا۔

ندا کے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی باہر ہر طرف آگ پھیلی ہوئی تھی۔ ندا کی آنکھیں باہر کو گئی اسے سمجھ نہیں آئی کہ کس طرح باہر نکلے۔

بوکھلاہٹ میں اس نے زہاب کا نمبر ڈائل کیا جس نے پہلی ہی بل میں ہی کال اٹینڈ کر لی تھی۔

زہاب گھر میں آگ لگ گئی ہے پورا گھر جل رہا ہے۔

ندا نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔

آگ؟ آگ کیسے لگ گئی اور آپ ٹھیک ہیں؟ زہاب نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے پریشانی سے پوچھا۔

مجھے یہ کام ضرغام کا لگ رہا ہے اُسی نے بدلہ لیا ہے۔ندا نے ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کرتے کہا۔

موم اُسے میں بعد میں دیکھ لوں گا آپ گھر سے فوراً باہر نکلیں۔. زہاب نے جلدی سے کہا۔

زہاب آگ ہر طرف پھیل گئی ہے اور اب کمرے میں بھی پھیلتی جا رہی ہے۔

ندا نے آگ کے شعلوں کو دیکھتے خوفزدہ لہجے میں کہا۔

وہ پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگی تھی۔

اور موبائل فون چھوٹ کر ہاتھ سے گر گیا۔

موم آپ مجھے سن رہی ہیں؟ دوسری جانب زہاب چیخ رہا تھا۔

لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

زہاب جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور باہر کی طرف بھاگا۔

آگ مزید پھیلتی جا رہی تھی۔

اور ندا کے قریب آتی گئی۔

جو خوف سے چیخنے لگی تھی۔

اس کی چیخیں موبائل سے زہاب بھی سن رہا تھا۔

ندا کو اس وقت اپنے سارے گناہ یاد آنے لگے جو اس نے کیے تھے۔

آہستہ آہستہ آگ نے اسے اپنے لپٹ میں لے لیا۔

زہاب اس وقت جس قدر خود کو بےبسی محسوس کر رہا تھا وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا۔

اپنی ماں کی دلخراش چیخیں وہ سن رہا تھا۔جو اب سنائی نہیں دے رہی تھی۔

زہاب نے فوراً جواد چودھری کی کال کی جو زہاب کے کہنے پر ندا کے گھر پہنچا جو پورا جل چکا تھا۔

فائر بریگیڈ کو بلایا گیا۔اور آگ کو بجھایا گیا۔

اور ندا کی لاش کو باہر لایا گیا جو دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی۔

جواد چودھری جو اقبال کے ساتھ آیا تھا۔

ندا کی حالت دیکھ وہ گرنے لگا جب اقبال نے اسے سہارا دیا۔

زہاب فوری طور پر واپس آیا تھا۔

ندا کی لاش کو جواد اپنی حویلی لے گیا۔زہاب وہی آیا اور اپنی ماں کو اس حالت میں دیکھ بےبسی سے اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا وہ یہی سمجھا تھا کہ ضرغام نے یہ سب کروایا ہے۔

اسکی نظروں میں ضرغام برا بن گیا تھا۔کیونکہ اس کی ماں نے اسے کہا تھا۔

جواد نے زہاب کو حوصلہ دیا۔

اور ندا کو دفنانے کے بعد اُس نے زہاب کو یہی رہنے کا کہا۔

جو اس وقت غصے میں تھا۔

اگر ضرغام اس وقت اس کے سامنے ہوتا تو اس کی جان لے لیتا۔

لیکن فلحال وہ خاموش تھا۔

لیکن جواد کو سمجھ نہیں آئی کہ گھر میں آگ کیسے لگ گئی۔

زہاب نے بھی کچھ نہیں بتایا۔

اس کے بعد زہاب نے سارا پلان بنایا۔اور ضرغام کو تکلیف دینے کے لیے اس نے ارحہ کو اغوا کیا۔

وہ کیا کام کرتا تھا کسی کو معلوم نہیں تھا۔

ندا اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی۔

جل کر مرنا سب سے زیادہ تکلیف دہ موت ندا کے لیے ثابت ہوئی تھی۔

ایسے ہی وقت گزرتا گیا۔

اور پھر زہاب نے انوشے سے منگنی کی انوشے کو وہ پسند کرنے لگا تھا۔

تم نے نکاح کر لیا؟ داؤد نے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

تم اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟ ہشام نے موبائل کان سے لگائے پوچھا۔

حیران ہونا تو بنتا ہے نا پہلے تو تم نے کہا کہ تم زمل سے نکاح نہیں کرنا چاہتے اب اچانک کیا ہو گیا؟

داؤد نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔

لیکن دوسری جانب خاموش چھا گئی تھی۔

میرے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے کچھ دیر بعد ہشام کی آواز سپیکر میں گونجی۔

میں جانتا ہوں،

خیر نکاح مبارک ہو۔

امید کرتا ہوں تمہیں اب عقل آجائے گی اور زمل کی قدر کرو گئے۔

داؤد نے کہا تو ہشام نے اس کی بات پر دانت پیسے تھے۔

مجھے نہیں لگتا کہ تم میرے دوست ہو۔

ہشام نے کہا تو داؤد کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔

تمہیں تھوڑی شرم دلانا چاہ رہا ہوں کہ ہوں ہوسکتا ہے تمہیں شرم آجائے۔

داؤد نے مسکراہٹ دباتے کہا۔

تم جانتے ہو یہ ناممکن ہے۔

اس لیے تمھاری کوشش کرنا بیکار ہے۔

ہشام نے کہا تو اس بار داؤد قہقہہ لگائے ہنس پڑا۔

میں تمھارے لیے خوش ہوں ہشام۔

زمل تم سے محبت کرتی ہے۔

اُس کی محبت کی قدر کر لو اس جیسی لڑکی تمہیں کہی نہیں ملے گی۔اور میں جانتا ہوں تم کس بات سے خوفزدہ ہو۔

لیکن خود پر بھروسہ رکھو۔

مجھے پورا یقین ہے تم زمل کو کچھ نہیں ہونے دو گئے۔

داؤد نے سنجیدگی سے کہا۔

ہشام خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔

اس نے کبھی بتایا نہیں کہ وہ کیوں زمل سے شادی نہیں کرنا چاہتا لیکن داؤد اس کا دوست تھا اچھے سے اس کی پریشانی سمجھ گیا تھا۔

ٹھیک ہے اب میں موبائل رکھتا ہوں ہشام نے کہا اور کال کٹ کر دی۔

ہشام دوبارا اپنے کمرے میں آیا تو زمل ابھی بھی وہی اپنی جگہ بیٹھی ہوئی تھی۔

زمل چلو میرے ساتھ

ہشام نے زمل کو دیکھتے کہا اسے خاموش سی زمل اچھی نہیں لگ رہی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ جیسے وہ پہلے اس سے بات کرتی تھی ویسے ہی بات کرے۔

کہاں؟

زمل نے نظریں اٹھائے ہشام کو دیکھتے پوچھا۔

مجھے مارکیٹ جانا ہے۔

ہشام نے اس کے پاس آتے کہا۔

مجھے نہیں جانا اور ویسے بھی میرے کندھے میں درد ہے۔

زمل نے آہستگی سے کہا۔

ہم پہلے ڈاکٹر کے پاس جائیں گئے۔

اُس کے بعد مارکیٹ ہشام نے کہا تو زمل بنا کوئی بحث کیے اپنا جگہ سے کھڑی ہو گئی۔

میرے پاس کوئی سوٹ نہیں ہے اور یہ پھٹ چکا ہے۔

زمل نے بےتاثر لہجے میں ہشام کو دیکھتے بتایا۔

ہشام کمرے سے باہر گیا اور دوسرے کمرے میں جاتے وہ الماری کھولے ایک سوٹ لے کر آیا جو اس کی بہن کا تھا۔

اسے پہن لو۔

ہشام نے بلیک کلر کا سوٹ زمل کے آگے بڑھاتے پوچھا۔

ہشام کو لگا کہ وہ پوچھے گی کہ یہ کس کا سوٹ ہے لیکن زمل نے بنا کچھ کہے سوٹ پکڑا اور چینج کرنے چلی گئی۔

اور اس کا یہ رویہ نا جانے کیوں ہشام کو ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔

یہ مجھ سے کچھ پوچھ کیوں نہیں رہی؟ اور مجھے کیوں برا لگ رہا ہے؟

ہشام نے خود سے سوال کیا۔

اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد زمل چینج کیے باہر آئی تو ہشام کو. اگنور کیے اس نے بال بنائے اور چادر لیے اس کے ساتھ چل پڑی۔

ہشام پہلے اسے ہسپتال لے آیا تھا۔

پھر وہاں سے دونوں مارکیٹ چلے گئے۔

دونوں کے درمیان خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر نے انجیکشن لگایا تھا جس کی وجہ سے زمل اب بہتر محسوس کر رہی تھی

درد ہو رہی تھی لیکن اتنا زیادہ درد نہیں تھا۔

ہشام زمل کو مال لے آیا تھا۔

اور اس نے زمل کے لیے کچھ ڈریس سلیکٹ کیے اور زمل کو ان میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔

اس لیے اس نے بنا دیکھے سوٹ لے لیے۔

میں یہ سب کیوں کر رہا ہوں؟

ہشام نے خود سے سوال کیا۔

اگر وہ زمل سے محبت نہیں کرتا تھا تو اسے اس وقت یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔

لیکن وہ یہاں پر تھا زمل کو وہ باہر اس لیے لایا تھا۔

تاکہ اس کا موڈ ٹھیک ہو سکے۔

کیونکہ اسے زمل خاموش سی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔

تم نے کچھ اور لینا ہے؟

ہشام نے زمل کو دیکھتے پوچھا۔

آپ جو لے کر دینا چاہتے ہیں لے دیں۔

مجھے ویسے کچھ نہیں چاہیے۔

زمل نے نارمل لہجے میں جواب دیا۔

میں یہی تو چاہتا ہوں کہ تم اپنی مرضی سے چیزوں لو۔

ناکہ میری خریدی ہوئی چیزوں کو خاموشی کے سارے رکھ لو۔

ہشام نے زمل کے قریب کرتے سنجیدگی سے کہا۔

آپ یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں ہشام؟

مجھے اب کچھ نہیں چاہیے آپ کو میری بات کیوں نہیں سمجھ آ رہی؟

زمل کے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔

تم مجھے اگنور کر رہی ہو؟ ہشام نے زمل کو بازو سے پکڑ کرناس کا رخ اپنی طرف کرتے پوچھا لہجے میں اس کے بےیقینی تھی۔

جی بلکل میں ایک ایسے انسان کو اگنور کر رہی ہوں جو غصے میں میری جان لینے کے در پر ہوتا ہے۔

اور ایسے انسان کو اگنور کرنا ہی بہتر ہے۔

زمل نے ہشام کی آنکھوں میں دیکھتے بےخوفی سے کہا۔

تھوڑا بہت ہی سہی لیکن ہشام کے نرم رویے سے اس کا کا خوف کم ہوا تھا۔

تمہیں لگتا ہے کہ میں جلاد ہوں جو تمھاری جان لے لوں گا؟

ہشام نے سرد لہجے میں پوچھا۔

شاید آپ بھول چکے ہیں کہ آپ نے کی کیا؟ اگر تھوڑی دیر مزید آپ میری گردن کو نا چھوڑتے تو اس وقت میں آپ کے سامنے نا کھڑی ہوتی۔

زمل نے بھی سرد لہجے میں کہا۔

ہشام کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہے۔

شاید اس کے پاس جواب نہیں تھا آج پہلی بار ہشام کی زبان کنگ ہوئی تھی۔

مجھے گھر جانا ہے۔

زمل نے ہشام کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔. اور وہاں سے چلی گئی۔

ہشام کو لگا کہ اس نے زمل کو کھو دیا ہے۔

یہ وہ ہنستی مسکراتی لڑکی تو کہی سے بھی نہیں لگ رہی تھی۔

💜 💜 💜 💜

انوشے نے کھانا لگا دیا تھا اب چاروں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔

ارحہ تمھارے لیے ایک سرپرائز ہے۔. ضرغام نے ارحہ کو دیکھتے بتایا۔

کیا؟ ارحہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

وہ تمہیں تھوڑا دیر بعد پتہ چل جائے گا۔

ضرغام نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ضرغام میں سوچ رہا تھا کہ یہ سارا مسئلہ حل ہوتے ہیں انوشے کو میں حویلی لے جاتا ہوں۔

داؤد نے ضرغام کو دیکھتے کہا۔

کیوں؟ وہ کیوں تمھارے ساتھ جائے گی ؟ضرغام نے فوراً پوچھا۔ اس کی بےتابی ہر انوشے اور ارحہ مسکرا پڑی تھی۔

میں چاہتا ہوں۔

انوشے کی پراپر طریقے سے رخصتی کرنا ہوں۔. تو کچھ دیر تک وہ اپنے میکے میں ہی رہے گی نا؟

داؤد نے ضرغام کو دیکھتے کہا۔

اس طرح تو ارحہ کی بھی میں پراپر رخصتی کرنا چاہتا ہوں۔

ضرغام نے بھی کندھے اچکاتے کہا۔

تو پھر ایسا کریں گئے۔

ایک دن دونوں کی ہی رخصتی کر لیں گئے۔

داؤد نے مشورہ دیتے کہا۔

یہ اچھا آئیڈیا ہے ویسے

لیکن پہلے بڑی خانم سے بات کر لیتے ہیں اور تم بھی اپنے گھر والوں سے بات کر لینا۔

ضرغام نے پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے کہا۔

اتنے میں باہر دروازے پر بل ہوئی۔

میں. دیکھتا ہوں۔

ضرغام نے اٹھتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ضرغام نے دروازہ کھولا تو سامنے بڑی خانم کھڑی تھیں۔

کیسے ہو بیٹا اب تمھارے زخم کیسے ہیں؟ بڑی خانم نے ضرغام کو دیکھتے پوچھا اقر اس کے سر پر پیار دیا۔

خانم میں بلکل ٹھیک ہوں۔

آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔

چلیں میرے ساتھ ضرغام نے بڑی خانم کا ہاتھ پکڑتے کہا۔

اور ان کو لیے اندر لے آیا۔

ارحہ کا چہرہ سامنے کی طرف تھا۔

انوشے اور داؤد نے بڑی خانم کو. دیکھا تو اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ان کے پاس گئے اور ان کو سلام کیا۔

ارحہ نے بڑی خانم کی آواز سنی تو اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔

بڑی خانم کی نظر ارحہ پر پڑی تو وہی پتھر کی بن گئی۔

ی یہ تو ارحہ ہے؟ خانم نے لہجے میں بےیقینی لیے کہا۔

ضرغام یہ لڑکی کیا سچ میں میری ارحہ ہے؟ بڑی خانم نے ضرغام کو دیکھتے پوچھا وہ ابھی تک شوکڈ کھڑی تھی۔

ارحہ بھیگی آنکھوں سے چلتی ہوئی خانم کے پاس آئی۔

اور اس کے گلے لگ گئی۔

خانم ارحہ نے بھیگے لہجے میں کہا۔

یہ میری ہی ارحہ ہے۔

بڑی خانم نے کمزور سے لہجے میں کہا۔

جس کے بارے میں وہ سوچ رہی تھی کہ ارحہ ان کو چھوڑ کع جا چکی ہے اب وہ صحیح سلامت ان کے سامنے کھڑی تھی۔

باقی سب بھی دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

ایک غلط فہمی کی وجہ سے ایک معصوم لڑکی کو اتنا کچھ بھگتنا پڑا تھا۔

میری بچی زندہ ہے بڑی خانم نے ارحہ کے ماتھے کو چومتے ہوئے روتے ہوئے کہا۔

ارحہ یہ سب؟ کیسے؟ ضرغام؟ بڑی خانم نے ضرغام کو دیکھتے پوچھا۔

خانم یہ ایک بہت بڑی چال تھی۔

لیکن میں سب سنبھال لوں گا آپ فکر مت کریں۔

انوشے خانم اور ارحہ کو اندر کمرے میں لے جاؤ۔

ضرغام نے انوشے کو دیکھتے کہا جو اثبات میں سر ہلائے ان کو لیے وہاں سے چلی گئی۔

ارحہ میری بچی مجھے یقین نہیں آ رہا۔

کیا یہ سچ ہے؟

بڑی خانم نے ارحہ کو دیکھتے بےیقینی سے پوچھا۔

یہ سچ ہے خانم میں زندہ ہوں اور آپ کے سامنے ہوں۔

ارحہ نے خانم کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا۔

انوشے پاس کھڑی آنکھوں میں محبت لیے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔

میں اپنے اللہ کا جتنا شکر ادا کروں اتنا ہی کم ہے۔

میں تو سمجھی تھی کہ میں نے اپنی بچی کو کھو دیا۔لیکن میرا اللہ بہت مہربان ہے۔

بڑی خانم نے شکرانہ انداز میں کہا۔

ارحہ خانم کے گلے لگ گئی تھی۔

جہاں اسے سکون ملا تھا۔

خانم میں آپ کے لیے چائے لے کر آتی ہوں۔

انوشے نے مسکراتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔پیچھے خانم ارحہ سے بات کرنے لگی۔

وہ ارحہ کو زندہ دیکھ کر بہت خوش تھیں۔

💜 💜 💜 💜 💜

اقبال آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ کچھ دنوں سے مجھے کھوئے ہوئے لگ رہے ہیں۔

حبہ نے اقبال کے پاس بیٹھتے پوچھا۔

حبہ میں نے جو کچھ بھی انوشے کے ساتھ کیا۔

میں شرمندہ ہوں اُس کے لیے۔

اُس بیچاری نے کتنا کچھ برداشت کیا اور میرا رویہ بھی اُس کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا۔

اقبال نے شرمندگی سے کہا۔

اقبال آپ انوشے سے ایک بار بات تو کریں اُس سے معافی تو مانگے اُس کا دل بہت بڑا ہے اور وہ آپ کو معاف کر دے گی۔

حبہ نے اقبال کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا۔

حبہ میں جانتا ہوں کہ انوشے مجھے معاف کر دے گی کیونکہ وہ کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔لیکن وہ اتنی اچھی کیوں ہے؟

جس نے اُس کے ساتھ برا کیا اتنی آسانی سے وہ اُسے معاف کیسے کر سکتی ہے؟ اقبال نے حبہ کو دیکھتے پوچھا۔

اللہ نے اُس کا دل بہت نرم بنایا ہے۔

اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔

حبہ نے سنجیدگی سے کہا۔

میں ضرغام سے بات کرتا ہوں۔

اقبال نے فضا میں سانس خارج کرتے کہا۔

امی بھی انوشے سے ملنا چاہتی ہیں آپ ایسا کریں دونوں کو یہاں حویلی بلا لیں۔

حبہ نے مشورہ دیتے کہا۔

ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں۔

اقبال نے کہا اور وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔

حبہ وہی بیٹھی ہوئی تھی۔

ہشام زمل کو واپس اُسی فلیٹ میں لے آیا تھا۔

واپسی پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

دونوں نے کوئی بات نہیں کی۔

ہشام کے دماغ میں زمل کی باتیں چل رہی تھیں۔

زمل کچن میں گئی اسے بھوک لگی تھی۔ارد گرد دیکھا لیکن کچھ نظر نہیں آیا لیکن اسے تو کچھ بنانا بھی نہیں آتا تھا۔

اور ہشام کو وہ کہنا نہیں چاہتی تھی۔

اُس سے تو وہ سخت والی ناراض تھی۔

زمل نے فریزر کو کھولا تو اندر

ساری چیزیں موجود تھیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اسے بنانا کچھ بھی نہیں آتا تھا۔

زمل نے فریزر سے کچھ سبزیاں نکالی اور ان کو ٹیبل پر رکھتے کاٹنے کی کوشش کرنے لگی۔

لیکن زمل میڈم نے تو کبھی سبزی کاٹی نہیں تھے۔

میں کیا بناؤں؟

بنانا تو مجھے کچھ آتا نہیں ہے اور میں نے سبزی کیوں نکالی؟

انسان مارکیٹ لے کر گیا تو کھانا ہی کھلا دے لیکن نہیں کھڑوس انسان کو سوائے غصے کے کچھ اور تو آتا ہی نہیں ہے۔

زمل نے غصے سے کہا اور ہاتھ میں پکڑے چاقو کو زور سے پیار پر مار۔

لیکن وہ اس کی انگلی پر لگ گیا اور وہاں سے خون نکلنے لگا۔

آہ….. زمل کے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی ہشام جو اپنے ماتھے کو دباتے وہی بیٹھا تھا زمل کی چیخ سنے جلدی سے کچن کی طرف بھاگا۔

زمل اپنی انگلی پکڑے بھیگی آنکھوں سے خون کو نکلتے دیکھ رہی تھی۔

زمل کیا ہوا تمہیں؟

تم ٹھیک ہو ؟

ہشام نے لہجے میں بےتابی لیے فوراً اس کے پاس آتے فکرمندی سے پوچھا۔

جب اس کی نظر زمل کی انگلی پر پڑی۔

تمھارا دھیان کہاں تھا؟ دیکھ کر کام نہیں کر سکتی تم؟ دیکھو کیا کر دیا تم نے ۔

خون نکل رہا ہے۔

ہشام نے پریشانی سے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا۔

زمل سو سو کرتی ہشام کے پریشان چہرے کو دیکھ رہی تھی۔

مجھے چوٹ لگی ہے اور آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں۔

زمل نے روتے ہوئے ہشام ہو دیکھتے کہا۔

جس نے نظریں اٹھائے زمل کی طرف دیکھا۔

ہشام کی نظریں اس کی آنکھوں سے ہوتے ہوئے اس کے سرخ ہونٹوں پر آکر ٹھہر گئی۔

میرے ساتھ چلو.

ہشام نے نظریں چراتے کہا اور اسے کچن سے لیے چلا گیا روم میں جاتے ہی اس نے زمل کی انگلی پر بینڈیج لگائے اس کے سامنے بیٹھا۔

ابھی تک زمل کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں ہی تھا جو سر جھکائے بیٹھی سو سو کر رہی تھی۔

تمہیں کھانا بنانا آتا ہے؟

ہشام نے نرم لہجے میں زمل کو دیکھتے پوچھا جس نے نفی میں سر ہلایا۔

تو پھر کچن میں کیا لینے گئی تھی؟ ہشام کے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔

ڈانس کرنے گئی تھی میں وہاں

زمل نے غصے سے کھڑے ہوتے اپنا ہاتھ جھٹکتے کہا۔

آپ مجھے مارکیٹ لے کر گئے تو یہ آپ کا کام تھا کہ مجھے کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے لے کر جاتے اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تو میرے کھانے کا انتظام آپ نے کیوں نہیں کیا۔

میں آپ کی بیوی ہوں اور یہ آپ کا فرض ہے۔

زمل نے غصے سے ہشام کو دیکھتے کہا۔

جس کے چہرے پر حیرانگی کے ساتھ مسکراہٹ بھی آ گئی تھی۔

ہشام اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اور زمل کو کمر سے پکڑ کر اپنے سینے سے لگایا۔

ریلیکس زمل

ہشام نے اس کے سر کو ہولے سے تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

میں جانتا ہوں کہ تم میری بیوی ہو اور یہ میرا فرض ہے۔

سوری مجھے اس بات کا خیال نہیں رہا۔

میں تمھارے لیے کچھ کھانے کو بنا کر لاتا ہوں۔

ہشام نے سرگوشی نما انداز میں کہا۔

وہ آپ کھانا بنائے گئے؟

زمل نے اپنے گردن پر محسوس کرتی ہشام کی گرم سانسوں سے گھبرا کر پیچھے ہوتے پوچھا۔

ظاہر سی بات ہے جب بیوی کو کھانا بنانا نہیں آتا تو شوہر کو ہی بنانا پڑے گا۔

ہشام نے کندھے اچکاتے کہا،

میں کھانا بنانا سیکھ لوں گی۔

زمل نے شرمندہ لہجے میں کہا۔

ہشام اس کا سرخ چہرہ دیکھ مسکرا پڑا۔

اور اس کے قریب آتے ہاتھ آگے بڑھاتے اسے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا۔.اور اپنی گہری آنکھیں اس کی بھیگی ہوئی آنکھوں میں ڈالی۔

زمل کا دل ناجانے کیوں اتنے زور سے دھڑک رہا تھا۔

ہشام تھوڑا سا زمل کے چہرے پر جھکا اور اس کے ہونٹوں کی نرمی کو محسوس کرنے لگا۔

زمل کی آنکھیں حیرانگی سے پھیل گئی تھیں۔

اسے امید نہیں تھی کہ وہ ایسی کوئی حرکت کرے گا۔

کچھ دیر بعد ہشام پیچھے ہوا۔

اور زمل کے سرخ پڑتے چہرے ہو دیکھتے مسکرا پڑا۔جو اپنی دھڑکنوں کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

تم یہی بیٹھو میں تمھارے لیے کھانا بنا کر لاتا ہوں۔

ہشام نے اس کی گال کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

اور وہاں سے چلا گیا۔

زمل ہونق بنی ہشام کو جاتے دیکھا۔

ابھی تک وہ بت بنی کھڑی ہوئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

بڑی خانم ارحہ سے ملنے کے بعد واپس حویلی آگئی تھی اور ان کے ساتھ انوشے بھی تھی جس نے کچھ ضروری سامان حویلی سے لینا تھا۔

ضرغام سو رہا تھا۔

کیونکہ اس کی دوائی میں نیند کی گولی شامل تھی۔

اس لیے انوشے نے اس کی نیند میں خلل ڈالنا بہتر نہیں سمجھا اس لیے بڑی خانم کے ساتھ حویلی چلی گئی۔

ارحہ کو لیے داؤد پہلے ہی جا چکا تھا۔اور اج ارحہ بہت خوش تھی۔

لیکن انوشے نہیں جانتی تھی کہ وہ کتنی بڑی غلطی کر چکی ہے۔

سر جس لڑکی کی آپ کو تلاش ہے،

وہ ہشام کے ساتھ ہے اور اُس کے ساتھ ہوتے ہوئے ہمارا اُس لڑکی تک پہنچنا نا ممکن ہے۔

آدمی نے زہاب کو دیکھتے کہا۔

ہشام کو میں بعد میں دیکھ لوں گا۔

ابھی میرے لیے ضروری انوشے ہے۔

وہ خانم کے ساتھ حویلی آئی ہے اب میرا کام آسان ہو جائے گا۔

سب سے پہلے میں اُسے اپنا بناؤں گا۔

پھر میں اُس ضرغام کو درد ناک موت دوں گا۔

زہاب نے کھڑے ہوتے سرد لہجے میں کہا۔

اور وہاں سے چلا گیا۔

انوشے بڑی خانم کے ساتھ حویلی پہنچی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی اسے جو چیزیں چاہیے تھی وہ اس نے لی اور خانم کو بتانے کے بعد حویلی سے نکلی۔

وہ ڈرائیور کے ساتھ نکلی تھی۔

جب آدھے راستے گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔

انوشے جو باہر دیکھ رہی تھی گاڑی رکنے پر چونکی۔

کیا ہوا؟ انوشے نے پوچھا۔

بی بی جی سامنے کچھ گاڑیاں راستہ روکے کھڑی ہیں۔

ڈرائیور نے کہا۔

تو انوشے نے دیکھا سامنے زہاب کھڑا تھا۔

ارحہ کے ساتھ زہاب نے کیا کیا وہ اسے معلوم نہیں تھا۔

زہاب….. انانوشے نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور گاڑی کا دروازہ کھولے باہر نکلی۔

زہاب نے انوشے کو دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اس نے اپنے گلاسز اتاری اور چلتا ہوا۔

انوشے کے پاس آیا۔

پیچھے کھڑے آدمیوں کو دیکھ انوشے پریشان ہوئی تھی۔

کتنے دنوں بعد میں تمہیں دیکھ رہا ہوں۔

زہاب نے نرم لہجے میں انوشے کو دیکھتے کہا۔

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟

انوشے نے اس کی بات کو اگنور کیے پوچھا۔

تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں.

یاد یے نا تمھاری منگنی مجھ سے ہوئی تھی۔

زہاب نے انوشے کے تاثرات دیکھتے اسے بتایا جس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے تھے۔

زہاب میری اب شادی ہو چکی ہے اور میں خوش ہوں۔

آپ پلیز اب اس سے پہلے انوشے کچھ کہتی زہاب نے غصے سے اسے بازو سے کھینچے خود کے قریب کیا۔

تم صرف میری ہو۔

سمجھی تم کیسے اس نکاح کو قبول کر سکتی ہو؟

زہاب نے غصے سے انوشے کو دیکھتے کہا۔

جو ایک دم گھبرا گئی تھی۔

زہاب کیا کر رہے ہیں آپ چھوڑیں مجھے۔

انوشے نے خود کو آذاد کروانے کی ناکام کوشش کرتے کہا۔

اور تم جاکر ضرغام کو بتا دینا زہاب اپنی محبت کو تم سے بہت دور لے گیا ہے۔

زہاب نے کہا اور انوشے کو کھنچتے ہوئے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔

ڈرائیور نے زہاب کے آدمیوں کو دیکھا اور گاڑی سے باہر نہیں نکلا۔

انوشے چیخ رہی تھی۔

لیکن زہاب اس کی چیخوں کو اگنور کیے گاڑی تک لے کر گیا اور اسے اندر ڈالے گاڑی سٹارٹ کی۔

زہاب آپ کیوں یہ سب کر رہے ہیں۔

پلیز مجھے جانے دیں۔

انوشے نے بےبسی سے روتے ہوئے کہا۔گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتے کہا۔

زہاب نے گاڑی جھٹکے سے روکی اور دروازہ کھولے پیچھے کی طرف آیا ل۔ انوشے نے خوفزدہ چہرے سے زہاب کو دیکھا۔اور پیچھے دروازے کے ساتھ جا لگی۔

تم نہیں جانتی کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔

زہاب نے اس کے قریب آتے اس کے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کمر کے ساتھ لگاتے پرسرار لہجے میں کہا۔

اور جو رسی وہ پڑی کر لایا تھا اس سے اس نے انوشے کے دونوں ہاتھوں کو باندھ دیا۔

اس طرح کی چیزیں اس کی گاڑی میں موجود ہوتی تھیں کسی بھی وقت اسے ضرورتوں پر سکتی تھی۔

انوشے کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔

ویسے ایک بات تو ماننی پڑے گی۔

زہاب نے گہرے لہجے میں اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے انوشے کے سرخ ہونٹوں کو چھوتے ہوئے کہا۔

انوشے کی آنکھوں میں پھر سے ایک بار بےبسی سے آنسو آ گئے تھے۔

تم بہت خوبصورت ہو زہاب نے گہری نظروں سے انوشے کو دیکھتے کہا۔

اور انوشے کے ہونٹوں پر جھکا لیکن اس سے پہلے ہی انوشے کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور وہی بےہوش ہو گئی۔

زہاب نے اس کی بند آنکھوں کو دیکھا تو پیچھے ہو گیا۔

ابھی گھر چلتے ہیں۔

زہاب نے مسکراتے ہوئے کہا اور انوشے کو آرام سے لیٹانے کے بعد خود آکر آگے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔

آپ کو کھانا بھی بنانا آتا ہے؟

زمل نے ٹیبل پر سجے کھانے کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

خوشبو تو بہت اچھی آ رہی تھی۔

میرے خیال سے یہ سارا کھانا میں نے ہی بنایا ہے۔

تو اگر میں نے یہ سارا کھانا بنایا اس کا مطلب یہی ہوا نا کہ مجھے کھانا بنانا آتا ہے۔

ہشام نے مسکراتے ہوئے کہا اور زمل کے پاس آتے کرسی کھینچتے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

آپ سیدھی طرح بھی تو جواب دے سکتے تھے۔

زمل نے گھورتے ہوئے کہا۔

میرا جواب سیدھا ہی تھا۔

ہشام نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

آپ کا رویہ اچانک اتنا تبدیل کیسے ہو گیا؟

زمل نے ہشام کو دیکھتے ہوئے پوچھا جس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے تھے۔

دل میں مچلتے سوال کو وہ زبان پر لے آئی تھی۔شاید ہشام کا اچھے سے پیش آنا اس سے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔

شاید احساس ہو گیا۔

ہشام نے سنجیدگی سے کہا۔

احساس؟ کیسا احساس؟

زمل نے ناسمجھی سے پوچھا۔

جب تم نے مجھے اگنور کیا تو مجھے اچھا نہیں لگا۔

تمہیں جب جب میں نے اپنے لفظوں سے تکلیف دی میرے دل کو اچھا نہیں لگا۔

اور جب تم نے کہا کہ تم مجھ سے دور چلی جاؤ گئی مجھے تمھاری اس بات سے بہت زیادہ غصہ آیا تھا اس لیے وہ کر گیا جو نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ہشام نے گہرا سانس لیتے بات جاری رکھی۔

زمل منہ کھولے ہشام کو دیکھ رہی تھی۔

زمل میں تم سے دور اس لیے بھاگ رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ میں تمھاری ٹھیک سے حفاظت نہیں کر سکتا۔

میرے بہت دشمن ہیں۔

میں نہیں چاہتا تھا کہ تمھارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہو جیسا میری بہن کے ساتھ ہوا۔

ہشام نے لہجے میں افسردگی لیے کہا۔

اور زمل جانتی تھی کہ ہشام کی بہن کے ساتھ کیا ہوا تھا۔

ہشام آپ اس وجہ سے مجھ سے دور بھاگ رہے تھے؟ آپ ایک بار تو مجھ سے بات کرتے۔

خود پر بھروسہ کرتے۔

ضروری نہیں ہے کہ جیسا آپ کی بہن کے ساتھ ہوا میرے ساتھ بھی ویسا ہو گا۔

یا آپ میری حفاظت نہیں کر پائے گئے۔

آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟

زمل نے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس فضول سے ڈر کی وجہ سے ہشام اس سے دور بھاگ رہا تھا۔

لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ فضول سا خوف نہیں تھا ہشام نے اپنی بہن کو کھویا تھا جو اس کے دل کے بہت قریب تھی۔

زمل تم نہیں سمجھو گی۔

میں نے اپنی بہن کو اپنے ہی ہاتھوں میں دم توڑتے دیکھا ہے۔

اُس کی جو حالت تھی تکلیف میں ڈوبی آواز اگر میں اُسے بھولنا بھی چاہوں تو بھول نہیں سکتا۔

ہشام نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔پھر سے پرانے زخم تازہ ہو گئے تھے۔

زمل بھیگی ہوئی آنکھوں سے ہشام کو دیکھ رہی تھی۔

ایم سوری زمل نے دھیمے لہجے میں کہا۔

تمہیں سوری بولنی کی ضرورت نہیں ہے۔

کھانا کھاؤ۔

ہشام نے خود کو سنبھالتے کہا اور خود نظریں جھکائے کھانا کھانے لگا۔

زمل ابھی بھی ہشام کو دیکھ رہی تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ ہشام کا اس سے دور جانے کا خوف اتنا بڑا ہے۔

زمل کھانا کھاؤ۔مجھے بعد میں گھور لینا۔

ہشام نے سنجیدگی سے کہا تو زمل فوراً کھانا کھانے لگی۔

میں گھور نہیں رہی تھی۔

زمل نے آہستگی سے کہا لیکن اس کی آواز اتنی ضرور تھی کہ ہشام کے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔لیکن وہ خاموش رہا تھا۔

زمل کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی۔

ہشام بھی اس سے محبت کرتا ہے۔۔

یہ بات اس کے لیے بہت بڑی تھی۔جس انسان سے وہ محبت کرتی تھی وہ بھی اس سے محبت کرتا تھا۔

اب تو اسے وجہ بھی پتہ چل گئی تھی کہ کیوں ہشام اس سے دور بھاگ رہا تھا۔

دونوں نے کھانا کھایا اور زمل کمرے میں آ گئی۔

ناجانے کیوں لیکن اس کا دل بہت خوش تھا۔

آج ہشام کے محبت کے اظہار نے اسے خوش کر دیا تھا۔

انسان جس سے محبت کرتا ہو اور وہ بھی آپ سے محبت کرے تو کتنا اچھا لگتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمیں سب کچھ مل گیا ہے۔

زمل کو لگ رہا تھا کہ اس کی ہر تکلیف جو وہ ہشام کے لیے تڑپی اُس کے اظہار نے اُس تکلیف کا مداوا کر دیا ہے۔

میری حفاظت کے لیے ہی وہ مجھ سے دور بھاگ رہے تھے۔

لیکن یہ ایسا کون سا کام کرتے ہیں۔

جو ان کے اتنے دشمن ہیں؟ زمل نے خود سے سوال کیا۔

💜💜 💜 💜

امی آپ اتنی پریشان کیوں ہیں؟ انعم نے اپنی ماں کو دیکھتے پوچھا۔

بہن تمھاری کو طلاق ہو گئی وہ اس حویلی میں واپس آگئی۔

اس حویلی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں میں نے سوچا تھا کہ ضرغام کا کام تمام کرتے ساری جائیداد پر قبضہ جما لوں گی وہ بھی ضرغام کو پتہ چل گیا ہو گا۔ اب آکر اُس نے ہمیں گھر سے نکال دینا ہے ہم نے سڑک پر آ جانا ہے اور تم پوچھ رہی ہو کہ میں پریشان کیوں ہو رہی ہوں؟

پریشان نہیں ہوں گی تو کیا کروں گی؟ حمیرا نے غصے سے انعم کو دیکھتے کہا۔

بہتر یہی ہے کہ آپ ضرغام سے معافی مانگ لیں۔اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

انعم نے مشورہ دیتے کہا۔

عرفان بھی خاموش بیٹھا تھا۔اسے حیرت ہو رہی تھی کہ ضرغام نے اسے چھوڑ کیوں دیا ورنہ کام تو اس نے ایسا کیا تھا کہ اسے لگ رہا تھا کہ ضرغام اسے جان سے مار ڈالے گا۔

لیکن ضرغام نے اسے کہا کہ تمھاری غلطی معافی کے قابل نہیں ہے۔لیکن تم میرے چچا کے بیٹے ہو۔

اس لیے آخری موقع دے رہا ہوں۔

سنبھل جاؤ۔

ورنہ اگلی بار موقع نہیں ملے گا۔

جب سے عرفان حویلی واپس آیا تھا وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ کوئی انسان اتنا اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔

پیسوں کی خاطر اس نے زہاب کا ساتھ دیا۔لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ زہاب نے ارحہ کے ساتھ کیا کیا یا کیا کرنا ہے اُس وقت اس کی آنکھوں میں لالچ کی پٹی بندھی تھی۔

انعم ٹھیک کہہ رہی ہے ضرغام بھائی سے معافی مانگ لیں۔

عرفان نے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

کوئی ضرورت نہیں ہے اُس سے معافی مانگنے کی۔

اور تم دونوں کو کیا ہو گیا ہے کیا پوری زندگی ضرغام کی جی حضوری کرنا چاہتے ہو؟

نازیہ جو خاموش بیٹھی تھی اس نے سرد لہجے میں انعم اور عرفان کو دیکھتے کہا۔

آپی میرا نہیں خیال کے بابا کے گزر جانے کے بعد ضرغام بھائی نے ایک بار بھی ہمیں یہ احساس دلایا ہو کہ ہم اُن کے گھر میں رہ رہے ہیں۔

ہمیں ہر ایک چیز ملی صرف اُن کی وجہ سے اور ہم لوگوں نے اتنا برا کیا خاص طور پر میں نے اُن کے ساتھ اتنا برا کیا پھر بھی انہوں نے مجھے معاف کر دیا۔کس کا دل اتنا بڑا ہوتا ہے؟ عرفان نے نازیہ کو دیکھتے پوچھا۔

ہوتے ہیں نا کچھ لوگ جو مار سے نہیں بلکہ دوسروں کی اچھائی دیکھ کر سدھر جاتے ہیں۔

اور شاید عرفان بھی اُن میں سے ایک تھا۔

تم کیوں ضرغام کی زبان بول رہے ہو؟ نازیہ نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

اُن کی زبان نہیں بول رہا عقل آگئی ہے مجھے اور یہ آپ کا قصور ہے امی۔

عرفان نے غصے سے کھڑے ہوتے اپنی ماں کو دیکھتے کہا۔

آپ نے ضرغام بھائی کے خلاف زہر ہمارے دماغ میں ڈالا اور میں نے وہ سب کر دیا جو مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔

پیسوں کی خاطر میں ہر حد پار کرتا گیا۔

اگر آپ نے بتایا ہوتا کہ ضرغام بھائی میرے بڑے بھائی کی طرح ہیں مجھے اُن کی عزت کرنی ہے تو میں آج ایسا نا ہوتا بلکہ ضرغام بھائی جیسا اچھا انسان ہوتا،. عرفان نے بےبسی سے کھڑے ہوتے چیختے ہوئے کہا۔

تمہیں ہو کیا گیا ہے؟ میں نے جو کچھ بھی کیا تم لوگوں کے لیے کیا۔

اور تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو؟ حمیرا نے کھڑے ہوتے بےیقینی کے عالم میں پوچھا۔

میں حقیقت بیان کر رہا ہوں۔. اور خبردار اگر آپ میں سے کسی نے بھی اب کچھ برا کرنے کی کوشش کی۔

عرفان نے تنبیہ کرتے لہجے میں کہا اور کمرے سے چلا گیا۔

انعم بھی اس کے پیچھے نکل گئی تھی۔

لیکن نازیہ کو غصہ آ رہا تھا۔

💜 💜 💜💜

ضرغام کی آنکھ دروازے پر ہوتی بل کی وجہ سے کھلی۔

ضرغام اُٹھ کر باہر آیا اور باہر آتے ہی اس نے انوشے کو آواز دی۔

اس کے سر میں درد تھا اس لیے اس نے دوائی لی تھی۔

لیکن وہ یہاں ہوتی تو جواب دیتی نا۔

ضرغام نے حیرانگی سے ارد گرد دیکھا اور دروازہ کھولا۔

سامنے ڈرائیور گھبرایا ہوا کھڑا تھا۔

کیا ہوا؟ ضرغام نے ڈرائیور کو دیکھتے پوچھا۔

سر وہ انوشے میڈم واپس آ رہی تھی….. ڈرڈرائیور نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔

انوشے کہاں سے آ رہی تھی؟ ضرغام نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے پوچھا۔

سر وہ بڑی خانم کے ساتھ حویلی گئی تھی انہوں نے کچھ سامان لینا تھا واپسی پر کوئی زہاب نامی شخص اُن کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر چلا گیا۔

ڈرائیور نے ایک ہی سانس میں بتا دیا۔

انوشے مجھے بتائے بنا گھر سے نکلی ہی کیوں؟

اور زہاب…….

ضرغام نے غصے سے کہا۔

اُس کمینے نے کچھ اور کہا؟

ضرغام نے سرد لہجے میں پوچھا۔

سر اُس نے کہا کہ میں اپنی محبت کو تم سے بہت دور لے کر جا رہا ہوں۔

ڈرائیور نے جلدی سے کہا۔

ضرغام نے زور سے جبڑے بھینچے تھے۔

جاؤ یہاں سے تم ضرغام نے کہتے ہی زور سے دروازہ بند کیا۔

تمھاری میں جان لے لوں گا زہاب اگر تم نے انوشے کو ہاتھ بھی لگایا تو

ضرغام نے کرختگی سے کہتے موبائل پکڑے داؤد کو کال کی۔

ارحہ بہت خوش تھی اس لیے آج وہ خود داؤد کے لیے کافی بنا رہی تھی۔جو اس کے ساتھ ہوا وہ بھولنا بہت مشکل تھا لیکن سب کا پیار اور خاص طور پر داؤد کی توجہ اسے نارمل زندگی کی طرف لے آئی تھی۔

اور داؤد اسے خوش دیکھ کر بےحد خوش تھا۔

وہ بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب اس کا موبائل رنگ ہوا۔

ضرغام کا نمبر دیکھ کر اس نے موبائل کان سے لگایا۔

لیکن ضرغام کی بات سنتے وہ فوراً اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔

انوشے اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتی ہے وہ باہر گئی ہی کیوں؟ تم نے اُسے بتایا نہیں کہ زہاب کیسا انسان ہے؟ داؤد نے پریشان سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا۔

نہیں میں نے اُسے زہاب کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔

ضرغام نے آہستگی سے کہا۔

تم پریشان مت ہو۔

انوشے کو کچھ نہیں ہو گا۔

میں وہاں آتا ہوں۔

داؤد نے کہتے ہی فون بند کر دیا۔

اور گاڑی کی چابیاں پکڑے کمرے سے باہر آیا۔

ارحہ کافی لیے آ رہی تھی۔

داؤد آپ کہی جا رہے ہیں؟ ارحہ نے پوچھا۔

ہاں میری جان

جانا ضروری ہے۔داؤد نے جھک کر ارحہ کے ہونٹوں کو چھوتے ہوئے کہا جو اس کے لمس پر سرخ ہو گئی تھی۔

اپنا خیال رکھنا میں جلدی واپس آجاؤں گا۔ماور

اور کافی تو مجھے تمھارے ہاتھ کی ضرور پینی ہے۔

داؤد نے ارحہ کے ماتھے پر لب رکھتے کہا۔

آپ بھی اپنا خیال رکھیں گا۔

اور میں کافی آپ کو بنا دوں گی۔

ارحہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں۔. داؤد کہتے ہی وہاں سے چلا گیا.

ارحہ چہرے پر مسکراہٹ لیے کمرے میں آگئی۔

💜 💜 💜 💜 💜

ہشام مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا۔

زمل نے ہشام کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو جلدی سے کہا۔

ہشام کو اچھا لگا تھا کہ زمل پہلے جیسے باتیں کر رہی ہے۔

آپ کام کیا کرتے ہیں؟

زمل نے پوچھا تو ہشام نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا۔

تم کیوں یہ سب پوچھ رہی ہو؟

ہشام نے اس کے پاس آتے پوچھا۔

ویسے ہی میرا شوہر کیا کام کرتا ہے مجھے معلوم ہونا چاہیے۔

زمل نے اس کے سامنے کھڑے ہوتے کہا۔

تو ہشام نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے خود کے قریب کیا۔

زمل نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے خود کو سنبھالا تھا۔

ورنہ اس کا سر ہشام کے چوڑے سینے سے جا لگتا۔

میں کیا کام کرتا ہوں یہ سن کر تم خوفزدہ ہو جاؤ گی۔

ہشام نے گہرے لہجے میں مسکراہٹ دباتے کہا۔

آپ کیا کوئی اِیل لیگل کام کرتے ہیں؟ زمل نے آہستہ آواز میں رازداری سے پوچھا۔

جیسے ان دونوں کے علاوہ بھی کمرے میں کوئی تیسرا موجود ہو اور ان کی باتیں سن لے گا۔

ہشام اس کے تجسس بھرے لہجے پر مسکرا پڑا تھا۔

میرا شوروم کا بزنس ہے۔

اور دشمن تو ہمارے کہی بھی بن جاتے ہیں۔

اس لیے تم اپنے دماغ پر زیادہ زور نا ڈالو۔

ہشام نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

اوہ زمل کے منہ سے نکلا۔

بس یہی پوچھنا تھا تم نے؟

ہشام نے گہرے لہجے میں کہتے تھوڑا سا اسکی گردن کی طرف جھکا۔

اس کی گرم سانسیں زمل کی گردن پر پڑ رہی تھیں جن کو محسوس کرتے وہ پوری طرح کپکپا گئی تھی۔

ہشام نے اس کی گردن ہر ہلکے سے ہونٹ ٹچ کیے۔

زمل کی سانسیں بھاری ہوئی تھیں۔

ہ ہشام زمل نے کپکپاتے لہجے میں اس کا نام پکارا۔

ہممم ہشام نے فقط یہی کہا۔

اس سے پہلے زمل کچھ کہتی ہشام کو موبائل رنگ ہوا۔

اور وہ بھی ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔

اس نے زمل سے پیچھے ہوتے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور موبائل پر نمبر دیکھتے کمرے سے باہر چلا گیا۔

یہ اچانک میرا دل اتنے زور سے کیوں دھڑکنے لگا۔

زمل نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے خود سے پوچھا۔

ہشام آپ میرے لیے گجرے لائے؟

کمرے میں داخل ہوتی زمل نے بنا ہشام کو دیکھتے پوچھا۔

وہ تیار ہوئے باہر چلی گئی تھی۔

ساری تیاریاں دیکھ رہی تھی۔. اور ہشام تھوڑی دیر پہلے ہی کمرے میں تیار ہونے آیا تھا۔

ویسے تو ضرغام چاہتا تھا کہ اس کی حویلی میں فنکشن ہو لیکن داؤد چاہتا تھا اس کی حویلی میں ہو اس لیے ہشام نے درمیان کا راستہ نکالا اس نے کہا کہ فنکشن اگر اس کے گھر ہو جائے تو کیسا ہے؟ اس لیے سب نے ان پر اتفاق کیا۔

اب ہشام کے گارڈن کو ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔اقبال کے ساتھ عرفان نے بھی مدد کی تھی۔

ہشام نے مڑ کر زمل کی طرف دیکھا۔

خود اس نے بلیک کلر کا کرتا ساتھ بلیک کلر کی پنٹ پہنی تھی۔

اور زمل نے بلیک کلر کی ساڑی پہنی تھی۔

جس میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔

ہشام نے زمل کی طرف دیکھا تو نظریں پلٹنا بھول گیا۔

وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔

جوڑا بنائے اچھے سے کیے گئے میک اپ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

ہشام آپ میرے گجرے لائے؟ اب زمل نے نظریں اٹھا کر ہشام کی طرف دیکھتے پوچھا۔

جو بت بنا زمل کو دیکھ رہا تھا۔

ہشام کہی آپ بھول تو نہیں گئے؟

زمل نے گھورتے ہوئے ہشام کے پاس آتے پوچھا۔

بھول تو میں اس وقت گیا ہوں کہ مجھے کہنا کیا ہے۔

ہشام نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

ہشام زمل نے دبے لہجے میں چیختے ہوئے اس کا نام لیا۔

میری جان

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Man Wehshat E Janam Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Man Wehshat E Janam written by Rimsha Hayat . Man Wehshat E Janam by Rimsha Hayat is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages