Aib E Yaar Novel By Amna Mahmood Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 10 September 2024

Aib E Yaar Novel By Amna Mahmood Complete Romantic Novel

Aib E Yaar By Amna Mahmood New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Aib E Yaar Novel By Amna Mahmood Complete Romantic Novel 


Novel Name: Aib E Yaar 

Writer Name:  Amna Mahmood 

Category: Complete Novel

"وہ اچھا ہےتو بہتر، برا ہےتو بھی قبول 

مزاجِ عشق میں عیبِ یار نہیں دیکھے جاتے "

رنگ برنگی مدہم اور تیز روشنیوں ساتھ بے ہنگم میوزک طبیعت میں سخت بیزاری پیدا کر رہا تھا مگر غازی یوں بیٹھا ارد گرد کے سے لطف اندوز ہو رہا تھا جیسے وہ کسی کلب میں نہیں بلکہ صحت افزا مقام پر بیٹھا ہو. 

زی چل ناااااا بہت رات ہو گئی ہے گھر والے میرا انتظار کر رہے ہوں گے ویسے بھی مجھے اس ماحول سے کراہت محسوس ہو رہی ہے. ماجد نے اپنی جمائی روکتے ہوئے کوئی تیسری بار غازی سے کہا 

حیرت ہے تم پولیس والوں کو بھی کسی چیز سے کراہت محسوس ہوتی ہے ........ ؟ غازی نے کاؤنٹر پہ کھڑی لڑکی کو گھورتے ہوئے جواب دیا. 

اب اس میں کیا خاص بات ہے ......... ؟ غازی کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے ماجد نے پوچھا

اس میں خاص بات یہ ہے کہ یہ ہر ہفتے اپنا بوائے فرینڈ بدلتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب اس کے بارے میں جاننے کے باوجود بھی خوشی خوشی اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں. غازی نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے حقارت سے اس کی طرف دیکھا

پھر تُو اب تک کیسے بچا ہوا ہے .......... ؟؟ ماجد کے لہجے میں طنز تھا

 کیونکہ میں عورت ذات میں ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں رکھتا. میرے خیال سے اس زمین پر جتنے بھی فساد برپا ہوتے ہیں اس کی وجہ یہی مخلوق ہے. غازی سگریٹ پھینکتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا. 

خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں. ماجد نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا. 

ہاں تو یہ بات کہہ سکتا ہے کیونکہ تو خود اس مخلوق کی قید میں ہے. غازی کہتا ہوا ایگزیٹ ڈور کی طرف چل دیا تو ماجد بھی شکر کا کلمہ پڑھتا اس کے پیچھے ہو لیا. 

مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ اس ماحول میں تیرا سر نہیں چکراتا. میرے تو سر میں درد شروع ہو گیا ہے. ماجد نے باہر نکلتے ہی اپنا سر دبایا. 

یہ جگہ اور یہ ماحول تو پولیس والوں کو بہت راس آتا ہے پتہ نہیں کیوں تجھے اچھا نہیں لگتا.....؟ غازی کندھے اچکاتا گاڑی انلاک کرنے لگا

 میں ڈرائیو کروں گا تُو اپنے ہوش میں نہیں ہے. بہت سموکنگ کی ہے. ماجد نے فورا ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے کہا تو غازی مسکراتا دوسری طرف چل دیا. 

بہت رات ہو گئی ہے. ماجد نے گاڑی چلاتے ہوئے اپنی گھڑی پر نظر دوڑائی. 

بس کر دیں ایس ایچ او ماجد صاحب!!! ابھی تو بہت رات پڑی ہے ویسے بھی میں سوچ رہا ہوں اگر اس سنسان سڑک پر اچانک کوئی چیز نمودار ہو جائے تو تجھے لازمی ہارٹ اٹیک آ جائے گا. غازی نے قہقہہ لگایا جبکہ ماجد نے تیزی سے بریک پر پاؤں رکھا بریک اتنے زور سے لگی کہ ٹائروں سے چنگاریاں نکل آئیں. 

غازی نے پہلے حیرت سے ماجد کی طرف دیکھا جو سامنے دیکھ رہا تھا پھر سڑک پر نگاہ پڑتے ہی اس کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنی پسٹل کی طرف گیا.

زی نہیں ____ غازی نہیں. پلیززز، ماجد چیختا رہ گیا مگر ایک منٹ کے ہزارویں حصے میں غازی نے سامنے بائیک پر موجود دونوں شخص کو اپنے گولیوں سے بھون ڈالا. 

میں اسی لیے تیرے ساتھ کہیں باہر نہیں جاتا. تُو ہر بار میرے لیے مشکل کھڑی کر دیتا ہے. ان کی بات سننے تو دیتا، ہو سکتا ہے وہ صلح کے لیے آئے ہوں ......؟ ؟ ماجد نے تیزی سے گاڑی کو مخالف سمت میں ڈالتے ہوئے زی سے کہا جو ریلیکس انداز میں بیٹھا مسکرا رہا تھا

میری جان اتنی رات کو کوئی صلح کے لیے کوئی نہیں آتا. اگر میں ان کو نہ مارتا تو ہم دونوں اب تک مقتول بن چکے ہوتے. غازی کے جواب پر لاچاری سے ماجد نے اسے دیکھا

تُو کیوں قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے. مجھے تیری یہ عادت بہت بری لگتی ہے. ہزار دفعہ سمجھایا ہے مگر تجھے سمجھ نہیں آتی. چند پیسوں کے عوض تو اپنی جان داؤ پر لگا دیتا ہے وہ جو تیرا سیٹھ ہے نااااا _____ کیا نام ہے اس کا ....... ؟؟ ماجد نے اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے زی کی طرف دیکھا

میر، "میر طلال " نام ہے اس کا _____  زی نے احسان کرنے والے انداز میں ماجد کو جواب دیا

وہ تیرا ہمدرد نہیں ہے وہ اپنے مطلب کے لیے تجھے ایک دن کال کوٹری میں پہنچا کے چھوڑے گا. ماجد نے تیزی سے ڈرائیو کرتے ہوئے کہا

پتہ ہے ایس ایچ او ماجد صاحب!!! آپ بھی میری زیادہ فکر نہ کیا کریں. مجھے اس زندگی کی ضرورت بھی نہیں ہے میں خود "خود" سے تنگ ہوں. سمجھے_____ زی کے جواب پر ماجد نے غصے سے گاڑی کی سپیڈ اور بڑھا دی

مانا کہ میرے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے مگر تیرے تو ہے نااااااا _____ زی نے میٹر کی طرف دیکھتے ہوئے طنز کیا. 

پسٹل تو تیری کنٹرول میں نہیں رہتی کم از کم زبان ہی کنٹرول میں کر لیا کر ______ ماجد نے گاڑی کی رفتار کم کرتے ہوئے جواب دیا تو غازی قہقہہ لگانے لگا

🎭🎭🎭🎭

میر صاحب ناشتہ تیار ہے. غلام علی نے مودبانہ لہجے میں عرض کی.

آ رہا ہوں ______ میر نے ڈریسنگ ٹیبل سے پرفیوم کی بوتل اٹھاتے ہوئے جواب دیا.

جو حکم سرکار _____ غلام علی جن قدموں سے اندر داخل ہوا تھا انہی پر واپس لوٹ گیا

جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ میر صاحب آ رہے ہیں. غلام علی کی بات پر سب کے سب اپنے اپنے کاموں میں لگ کے جو ابھی تک ٹیبل کے پاس کھڑے غلام علی کے حکم کا انتظار کر رہے تھے. 

مالی نے جلدی سے تازہ گلابوں کا گلدستہ میز پر پڑے انتہائی قیمتی گلدان میں لگایا جس سے اس کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگ گئے جبکہ خانساماں میز پر ناشتے کے لوازمات لگانے لگا. 

میر ابھی تک نہیں آیا .....؟؟ گلبدین نے اپنی ویل چیئر گھسیٹتے ہوئے تعجب سے پوچھا 

گل بی بی ابھی صاحب ہی کی طرف سے آ رہا ہوں. وہ تیار ہو رہے تھے. غلام علی کے جواب پر گلبدین سر ہلاتی اپنی جگہ پر آ رکیں. 

اتنا بڑا گھر ہے بلکہ مکان، ہر طرح کی آسائش سے بھرا ہوا، ہر چیز موجود ہے اور جو نہیں ہے وہ میر کے ایک حکم پر حاضر ہو جاتی ہے مگر ______ گلبدین نے رنگ برنگے کھانوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو غلام علی بھی افسردہ ہو گیا. 

گل بی بی کیوں صبح صبح اپنا دل جلاتی ہیں میر صاحب نے سنا تو غصہ کریں گے. 

میں کیوں غصہ کروں گا. کیا میں نے آپ پر کبھی غصہ کیا ہے ....... ؟؟ میر نے اپنی مخصوص نشست پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا تو غلام علی شرمندہ سا ہاتھ باندھے پیچھے کھڑا ہو گیا

میر مجھے اتنے بڑے مکان میں وحشت ہوتی ہے. میں ایک دن تنہائی سے مر جاؤں گی. گل بی بی کی بات پر میر کا بریڈ کی طرف بڑھتا ہوا ہاتھ رک گیا. 

یہ جو نوکروں کی اتنی بڑی فوج میں نے اپ کے لیے اس میں بھرتی کر رکھی ہے کیا اس کے ہوتے ہوئے بھی آپ کو تنہائی کا احساس ہوتا ہے ...... ؟؟ 

آپ کا دل بہلانے کے لیے میں نے آپ کی پسند کے پودے لگائے ہیں حالانکہ مجھے سبزے سے الرجی ہے. آپ کی پسند کی پینٹنگ جگہ جگہ لگی ہیں. اتنے خدمت گار اس ویلاز میں موجود ہے جتنے ایک دن میں گھنٹے نہیں ہوتے. پھر بھی آپ کو تنہائی کا احساس ہوتا ہے کمال ہے ...؟؟ میر نے تمسخرانہ انداز میں جواب دیتے ہوئے دوبارہ بریڈ سلائس کی طرف ہاتھ بڑھایا جبکہ باقی سب خاموش تماشائی تھے. 

یہ سب بے جان چیزیں اور غیر لوگ ______  کیا کبھی اپنوں کی جگہ لے سکتے ہیں ......؟؟ گل بی بی کی آواز میں انتہائی درد تھا. سلائس پر جیم لگاتے ہوئے میر کا ہاتھ رکا. 

آج پھر اپنوں کی یاد کا دورہ پڑا ہے. غلام علی انہیں قبرستان لے جائیے گا. میر کہتا ہوا اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا. آج پھر ناشتے سے بھرا ہوا میز ویسے کا ویسا ہی رہ گیا تھا. کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ میر بہت شوق سے کھانا بنواتا مگر ایک لقمہ بھی آرام سے نہیں کھا سکتا شاید کسی کی بددعا لگی تھی. 

اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں. ان کی ناشکری نہیں کی جاتی. روز اتنا کچھ بنواتے ہو اور کھاتے کچھ بھی نہیں. گلبدین نے میر کو ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے دیکھ کر کہا 

اپنی کمائی سے سب کچھ بنواتا ہوں. مجھے آپ کے اپنے نہیں دے کر جاتے. میر کے لہجے میں چھپی چبھن گلبدین اور غلام علی کے علاوہ کوئی بھی محسوس نہیں کر سکتا تھا. 

میر جیسے ہی لان سے باہر نکلا تین بلیک کلر کی چمچماتی گاڑیاں لائن میں اس کے آگے ا کھڑی ہوئیں. پہلی اور آخری گاڑی گارڈز کی تھی جبکہ درمیان میں میر کی اپنی کار موجود تھی. 

میر کی گاڑیاں آگے پیچھے ویلاز سے نکلیں تو گلبدین نے آہستہ آواز میں آیت الکرسی پڑھ کر ان پر پھونک ماری. 

میر تم دن رات خون کی ہولی کھیلتے ہو. مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں تمہیں اپنی زندگی میں کم از کم خون میں لت پت نہ دیکھوں. گلاس ڈور سے گیٹ کو دیکھتے ہوئے گلبدین سے سوچا

گل بی بی آپ ناشتہ کر لیں تو پھر قبرستان چلتے ہیں. غلام علی کی آواز پر گلبدین دوبارہ اپنے حواسوں میں لوٹی اور سر ہلاتے ہوئے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئیں. 

🎭🎭🎭🎭

عزین آج تو تیری خیر نہیں، فائل پتہ نہیں کہاں رکھ دی ہے ...... ؟؟ کوئی تیسری بار فائلوں کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے عزین نے انہیں سے پوچھا

یہ بے زبان تمہیں کیا جواب دیں گی. ان پر اتنا غصہ کیوں نکال رہی ہو ....... ؟؟ آفس میں داخل ہوتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں حاشر نے طنز کیا. 

آپ آ گئے ہیں ...... ؟؟ عزین نے حیرت اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات ساتھ ایڈوکیٹ حاشر کی طرف دیکھا جو اب اپنی کرسی کی طرف بڑھ رہے تھے

میں اکیلا نہیں آیا بلکہ میر صاحب بھی میرے ساتھ آئے ہیں اور حسب عادت تم نے انہیں آج بھی کھڑے ہو کر سلام نہیں کیا. مجھے لگتا ہے کہ میر بالکل ٹھیک کہتا ہے تم جان بوجھ کر اسے اگنور کرتی ہو. اپنی کرسی پر جھولتے ہوئے حاشر نے مزے سے کہا جیسے اسے عزین کے تاثرات اور جواب کا پہلے سے پتہ ہو. 

اس کا مطلب ہے کہ آج پھر کلاس ہوگی اور تمیز کا درس دیا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ میں ان کی ملازم ہوں وہ میرے ملازم نہیں. عزین نے دکھی سی صورت بناتے ہوئے حاشر کی طرف دیکھا. 

تمہاری کلاس کا تو پتہ نہیں لیکن میری ضرور ہوگی. ابھی حاشر نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس کا انٹر کام بجنے لگا جبکہ عزین سب چھوڑ چھاڑ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی 

جی میں ابھی آپ کی طرف ہی آ رہا ہوں. خواہ مخواہ آپ نے زحمت کی. حاشر نے مسکراتے ہوئے دوسری طرف کی بات سنے بغیر ہی انٹر کام رکھ دیا. 

سر آپ کو کیسے پتہ کہ وہ کیا کہنے والے ہیں. ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی اور بات کرنا ہو ...... ؟؟ عزین نے حاشر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جو اب اپنا موبائل میز سے اٹھا رہا تھا

عزین بی بی میری اوپر کی منزل آپ کی طرح خالی نہیں ہے. میں اس میں دماغ رکھتا ہوں. حاشر نے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا موبائل عزین کے سر پر مارا تو وہ خاموشی سے انہیں دیکھنے لگی

میر صاحب ایک خود پسند شخص ہیں اور وہ اس بات کو اپنی بےعزتی سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی ملازم ان کی آمد پر انہیں اٹھ کر سلام نہ کرے اور تم اس کی ایک معمولی ملازمہ ہونے کے باوجود ہمیشہ ان کے آنے پر کھڑی نہیں ہوتی. حاشر نے جتلاتے ہوئے گلاس دوڑ دھکیلا اور آفس سے باہر نکل گیا

اففففف _____ یہ میر کیا چیز ہے ....؟؟ کاش کسی طرح میں بھی امیر ہو جاؤں. کسی بھی طرح پیارے اللہ جی پلیز میری دعا سن لیں. 

(عزین دعا مانگتے ہوئے بھول گئی تھی کہ نا مکمل دعائیں جب قبول ہوتی ہیں تو وہ اپنے ساتھ بہت سی مصیبتیں بھی لے آتی ہیں.) 

تم اسے کب نکال رہے ہو ....... ؟؟ حاشر نے ابھی آفس میں پاؤں رکھا ہی تھا کہ میر کی انتہائی غصیلی آواز اسے سننے کو ملی

یار بندہ کم از کم بیٹھنے کا موقع تو دیتا ہے پھر باز پرس بھی کرتا ہے مگر آپ تو آپ ہیں _____ حاشر نے قیمتی قالین پر چلتے ہوئے جواب دیا 

مجھے اس کی شکل نہیں دیکھنی _____ میر نے اپنے میز پر پڑا ایک چھوٹا سا ڈیکوریشن پیس اچھال کر حاشر کی طرف پھینکا جسے وہ کیچ کرتا آرام سے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا

میر تمہیں اس سے کیا مسئلہ ہے ...... ؟؟ نہ وہ تمہارے پاس آتی ہے. نہ تمہیں اس سے کوئی کام ہے وہ میری اسسٹنٹ ہے اور یقین مانو وہ میرے سے زیادہ کامیاب وکیل ثابت ہوگی. مستقبل میں تمہارے کام آئے گی. حاشر نے حسب روایت عزین کی طرف داری کی. 

پہلی بات تو یہ کہ مجھے اس جیسی گھٹیا وکیل کی کبھی ضرورت نہیں پڑے گی. دوسرا تمہیں کس نے کہا کہ تم ایک قابل وکیل ہو. وہ تو تمہارے ابا کا ہم پر احسان تھا سوچا تمہیں ملازم رکھ کر اتار دیا جائے. میر نے حاشر پر طنزیہ مسکراہٹ اچھالتے ہوئے جواب دیا. 

تم سے بحث فضول ہے. اس لیے جو بھی تم کہہ رہے ہو ٹھیک ہی کہہ رہے ہو. حاشر نے ڈیکوریشن پیس دوبارہ میز پر رکھتے ہوئے ہار مانی

مجھے اس کی شکل نہیں دیکھنی. تم نے کہا تھا وہ صرف ٹریننگ کے لیے آئی ہے. مگر مجھے تو کوئی اور ہی معاملہ لگ رہا ہے. کیونکہ ٹریننگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی. میر کے دوبارہ کہنے پر حاشر نے بحث کی بجائے سر ہلا دیا

منہ میں زبان ہے تو اس کا استعمال کرو. تم وکیلوں کی ویسے بھی زبان کافی لمبی ہوتی ہے. میر نے اب کی بار کھڑے ہوتے ہوئے غصے سے کہا

آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں. حاشر نے دوبارہ وہی جملہ دہرایا جو پہلی بات کہ جواب میں دہرایا تھا. 

کیا ٹھیک ٹھیک کی رٹ لگا رکھی ہے ...... ؟؟ میر نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اسے گھورا

عزین کہتی ہے جب کوئی آپ کی بات سمجھنے کی کوشش نہ کر رہا ہو تو اسے یہی کہنا چاہیے. جیسے ہی حاشر کے منہ سے یہ الفاظ نکلے میر نے اپنے سامنے پڑے پیپر ویٹ کو جلدی سے اٹھایا اس اے پہلے وہ حاشر کا نشانہ لیتا وہ تیزی سے اٹھا اور میر کے پیچھے جا کھڑا ہوا. 

میر پلیز یار یہ بہت زور سے لگتا ہے. حاشر نے میر کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے دہائی دی

حاشر چھوڑ مجھے، آج میں تیرا سر پھاڑ دوں گا اور یہ بھول جاؤں گا کہ تو ذلیل، کمینہ میرا اکلوتا دوست بھی ہے. میر نے سرسری سا اپنا بازو چھڑاتے ہوئے کہا تو حاشر ہنستا ہوا پیچھے ہٹ گیا

کتنی بار کہا ہے اس کا ذکر میرے سامنے نہ کیا کر ______ میر نے اپنے کوٹ کو جھاڑتے ہوئے نا گواری سے حاشر کی طرف دیکھا

یار قسم سے وہ بہت اچھی وکیل ہے. آج کل سارا کام وہی کر رہی ہے میں تو صرف اسے کہتا ہوں خود کچھ نہیں کرتا. حاشر نے قریب پڑے صوفے پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا

بس مجھے اس کی شکل نظر نہیں آنی چاہیے. مجھے وہ کالی بلی سے بھی زیادہ منحوس نظر آتی ہے. میر نے اپنے کف درست کرتے ہوئے جواب دیا. 

اس کی رائے بھی آپ جناب کے بارے میں کچھ ایسی ہی ہے. یعنی آج مجھے میتھ کا یہ اصول سمجھ آیا ہے کہ 

R. H. S is equal to L. H. S. 

حاشر کہتا ہوا صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا. 

مجھے عابد بلڈرز کی فائل چاہیے ابھی اور اسی وقت _____  میر کی بات پرحاشر کی ہسی کو بریک لگی. 

(وہی فائل تو عزین ڈھونڈ رہی تھی اور تاریخ گواہ ہے کہ آج تک عزین نے جس کو بھی ڈھونڈا ہے وہ نہیں ملا) 

اچھااااااااااااا ______ بھجواتا ہوں. حاشر نے ڈور کے ہنڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا. 

جلدی _____  میر کی آواز پر حاشر بغیر کچھ کہے باہر نکل آیا 

صاحب فرما رہے ہیں کہ "جلدی" مجھے تو وہ فائل "دیر" سے بھی ملتی ہوئی نظر نہیں آرہی. حاشر نے بند دروازے کی طرف پر سوچ انداز میں دیکھا اور اپنے آفس کی طرف چل دیا

🎭🎭🎭🎭

اماں تیری بھینس بہت چارہ کھاتی ہے. میں اکیلی اس کا چارہ کاٹتے کاٹتے تھک جاتی ہوں زری نے ٹوکے سے چارہ کاٹتے ہوئے گلہ کیا

اچھا دودھ پیتے ہوئے تو تو نہیں تھکتی. نہ ہی ملائی اور دہیں کھاتے ہوئے تجھے احساس ہوتا ہے کہ تو اکیلی ہے. وہ سب چیزیں بھی اس معصوم کی وجہ سے ہیں. ماسی پھلاں نے گندم صاف کرتے ہوئے جواب دیا 

واہ اماں کیا کہنے تیرے جیسے سارا تو میں ہی کھا پی جاتی ہوں اور جو میں بدلے میں تیرے کام کرتی ہوں اس کا کیا ....... ؟؟ زریں نے مشین چھوڑتے ہوئے ناراضگی سے دیکھا 

اگر آج میرا سانول ہوتا تو وہ یہ سارے کام کرتا مگر اب کیا کیا جائے تجھے ہی یہ سب کام کرنے پڑتے ہیں اندر کے بھی اور باہر کے بھی _____  ماسی پھولاں دکھی ہوتے ہوئے دوبارہ گندم صاف کرنے لگی

اماں ایک بات تو بتا اگر سانول واپس آگیا تو تو اسے کیسے پہچانے گی ........ ؟؟ زریں نے تجسس سے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا 

لو بلا کیوں نہیں پہچانوں گی وہ میرا پتر ہے اور میں اس کی اماں ہوں. اور اگر  میں اسے نہ بھی پہچان سکی کیونکہ وہ تو اب گبرو جوان بن گیا ہو گا تو وہ مجھے ضرور پہچان لے گا کیونکہ میں تو ویسی کی ویسی ہوں. ماسی پھلاں نے پہلے اداسی سے اور پھر خوش ہوتے ہوئے کہا

ماسی وہ آخر کب آئے گا ...... ؟؟ زری نے مایوسی سے کہا اور دوبارہ اٹھ کر چارہ  کاٹنے لگی

کیا پتہ مگر تو کیوں اتنی اداس ہو رہی ہے .....؟ ؟ ماسی کو اچانک زریں کی اداس شکل دکھائی دی

ماسی میرے ساتھ کی تمام لڑکیوں کی گاؤں میں شادیاں ہو رہی ہیں اور میں ابھی تک اس گمشدہ سانول کے انتظار میں بیٹھی ہوں. میرا بھی دل کرتا ہے شادی کرنے کو _____ وہ رجو کے سسرال والے کتنی پیاری پیاری چیزیں لائے تھے. زری نے حسرت بھری نظروں سے پھلاں کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا

شرم تو تجھے آتی ہی نہیں ہے. یاد رکھ میرا سانول ضرور واپس آئے گا اور میں تیری شادی اپنے سانول کے علاوہ کسی سے نہیں کروں گی. آخر تو اس کے بچپن کی منگ ہے اور وہ مجھ سے ناراض ہوگا اگر میں نے تیری شادی کسی اور سے کر دی تو _____ ماسی پھلاں نے ناراضگی سے زریں کی طرف دیکھا 

اور وہ تب آئے گا جب میں بوڑھی ہو جاؤں گی. زریں غصے سے دوبارہ چارہ کاٹنے لگی

نہ میری دھی ایسا نہیں بولتے. مایوسی کفر ہے. میں ہر جمعرات کو بابا سرکار کے دربار پر چراغ جلاتی ہوں.وہ ایک نہ ایک دن ضرور واپس آئے گا. ماسی پھلاں کی امید بھری نظروں کو دیکھتے ہوئے زریں نے خاموشی مناسب سمجھی.

ورنہ گاؤں کا ایک ایک فرد یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ سیلاب میں بہنے والا ماسی پھلاں کا سات آٹھ سالہ لڑکا کہاں زندہ ہوگا ........ ؟ مگر ماسی اس بات کو ماننے سے انکاری تھی

بس کریں گل بی بی!!! دیر ہو رہی ہے. اب ہمیں چلنا چاہیے. غلام علی نے گلبدین کو زارو قطار روتے ہوئے دیکھ کر کہا

اگر آج شیر علی زندہ ہوتا تو صورتحال بلکل مختلف ہوتی. قبروں کے درمیان بیٹھی گلبدین نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا.

اگر آج شیر علی زندہ ہوتا تو پھر معزرت کے ساتھ میر زندہ نہ ہوتا. اس لیے آپ صبر کریں. غلام علی کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں تھے.

تم تم کیسے بھائی ہو. تمہیں اپنے بھائی ساتھ زرا برابر ہمدردی نہیں. میں نے تمہیں کبھی شیر علی کے لیے روتے ہوئے نہیں دیکھا ...... ؟؟ گلبدین نے چیختے ہوئے غلام علی کی طرف دیکھا

جو سوال آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں وہی سوال میں آپ سے بھی پوچھ سکتا ہوں ........ ؟؟ غلام علی کے چہرے پر تمسخرانہ مسکراہٹ چھا گئی

مطلب ....... ؟؟ گلبدین کا چہرہ اپنی ہتک پر سرخ پڑا

کچھ تو دھوپ کا اثر تھا اور کچھ رونے کی وجہ سے رنگت حد سے زیادہ سرخ پڑ رہی تھی. 

مطلب مجھے اپنے بھائی کا طعنہ دینے سے پہلے آپ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں. آپ نے بھی تو میر کے مقابلے میں اپنے منگیتر کو قربان کر دیا تھا. 

یعنی اب تم بھی ہمیں باتیں سناؤں گے. یہی کثر رہ گئی تھی ...... ؟؟ غلام علی کی بات پر گلبدین نے غصے سے اپنی ویل چیئر کا رخ قبرستان سے باہر کی طرف موڑا

گل بی بی آرام سے _____  غلام علی نے فورا لمبے لمبے ڈنگ بھرتے ہوئے ویل چیئر پکڑی

میں معذرت خواہ ہوں بس ذرا زبان پھسل گئی تھی. غلام علی کو فورا شرمندگی ہوئی کیونکہ وہ گل بی بی کو دکھ نہیں دینا چاہتا تھا

تم اچھے سے جانتے ہو کہ کیا ہوا تھا. میں جان بوجھ کر شیر علی کو نقصان پہنچا سکتی تھی کبھی نہیں ____ جو بھی ہوا اچانک ہوا. ہاں میری یہ غلطی ہے کہ میں نے شیر علی کو "میر" کے خون سے ہاتھ  رنگنے نہیں دیے تھے. گلبدین عجیب سی کیفیت میں بول رہی تھی. 

مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی. ان دونوں کی لڑائی میں نقصان صرف میرا ہوا. میں نے اپنی ٹانگیں کھو دیں. میں شیر علی کو بچا رہی تھی اور اس نے مجھ پر ہی فائر کھول دیے. مجھے بےوفا سمجھا. گلبدین بولتے ہوئے پھر رونے لگی. 

اپنا دل ہلکا کر لیں مگر میر صاحب کے سامنے احتیاط کیجئے گا.آپ آج کل بہت سخت بول جاتی ہیں. غلام علی نے اپنے طور پر سمجھانا چاہا

میر تو بالکل پتھر کا ہو گیا ہے. مجھے سمجھ نہیں آتی اتنی دولت اکٹھی کر کے کیا کرے گا ....... ؟؟ نہ کوئی اس دولت کا وارث ہے اور نہ ہی یہ دولت میر کو سکون دے رہی ہے. 

رات میں گولیاں کھا کر سوتا ہے اور صبح ناشتہ کرنا بھی نصیب نہیں ہوتا. ہر وقت جلدی میں رہتا ہے. لاکھ دشمن پال رکھے ہیں. گل بدین بولتی جا رہی تھی اور غلام علی ویل چیئر گھسیٹتا چپ چاپ سن رہا تھا. 

غلام علی مجھے ابھی کچھ دیر اور تازہ ہوا میں رہنا ہے. ویل چیئر پر بیٹھی گلبدین نے جیسے ہی گاڑیوں کو دیکھا کسی معصوم بچے کی طرح فرمائش کی. 

گل بی بی دو بار میر صاحب کا فون آ چکا ہے. کہیں ایسا نہ ہو آپ سے یہ آزادی بھی چھین لی جائے. غلام علی نے گاڑیوں کے پاس کھڑی ملازمہ کو قریب آنے کا اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا

معذوری سے تو بہتر تھا کہ میں بھی ان لوگوں ساتھ ہی مر جاتی. گلبدین نے دکھ سے کہتے ہوئے ایک گہرا سانس خارج کیا. 

آپ میر سے کہا کریں نا کہ آپ کو کہیں سیر پر لے جائے کیونکہ اب وہ صرف آپ کی ہی سنتے ہیں. غلام علی کی بات پر روتی آنکھوں ساتھ گلبدین ہنسنے لگی اور پھر ہنستی ہی چلیں گئی جب کہ غلام علی نے دکھ سے اپنی آنکھوں پر کالا چشمہ لگا لیا تاکہ گلبدین اس کے آنسو نہ دیکھ سکے

🎭🎭🎭🎭

حسب معمول تھانے میں لوگوں کی گہما گہمی تھی. ایس ایچ او ماجد اپنی کرسی پر جھولتے ہوئے حوالدار کو دیکھ رہا تھا. 

سر جی ان لوگوں کو سر عام گولیاں ماری گئی ہیں. کوئی گواہ، سی سی ٹی وی فوٹیج وغیرہ ماجد نے اپنی تسلی کے لیے پوچھا 

نہیں سر جی اس روڈ پر کیمرے ہی نہیں ہیں اور گواہ آدھی رات کو کہاں سے ملیں گے ....... ؟؟ حولدار کے جواب پر ماجد کے اندر سکون اترا

ٹھیک ہے. ہسپتال سے لاشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ لے آؤ اور نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لو. ماجد نے کہتے ہوئے غازی کا نمبر ڈائل کیا جب کہ حوالدار سلوٹ مارتا باہر چلا گیا

زی اللہ ہی ہے جو ہر بار میری عزت رکھتا ہے. ورنہ تم اسے "لوٹنے" میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا. ماجد کی بات پہ غازی نے قہقہہ لگایا

چل پھر اس خوشی میں دوبارہ کلب ملتے ہیں. تو رنگ برنگی حوریں دیکھ لینا اور میں اپنا نشہ پورا کر لوں گا. غازی نے اپنی گن چیک کرتے ہوئے جواب دیا

تجھے تیری جنت حوروں سمیت مبارک ہو. میں جہاں ہوں، جیسا ہوں، بالکل ٹھیک ہوں، خوش ہوں. ماجد کہتے ہوئے کال کاٹنے لگا مگر پھر کسی خیال کے تحت رکا

زی چھوڑ دے یہ گناہ کی زندگی _____ ماجد نے حسب عادت اسے سمجھانا چاہا. 

ماجد ایک پولیس افسر کے منہ سے یہ باتیں ذرا اچھی نہیں لگتی. تو نے خواہ مخواہ پولیس فورس جوائن کی ہے حالانکہ تجھے مولوی ہونا چاہیے تھا. ہر وقت گناہ ثواب کے چکر میں پڑا رہتا ہے. غازی نے گن لوڈ کرتے ہوئے سائیڈ پر رکھی

زی _____ ماجد نے بےبسی سے پکارا

فی الحال تو میں میر صاحب سے ملنے جا رہا ہوں. واپسی پر کلب چکر لگاؤں گا اگر تیرا دل ملنے کو کرے تو وہاں آ جانا. غازی نے جان بجھ کر چھیڑا. 

میرا تجھے  ملنے کو بالکل بھی دل نہیں کر رہا. ماجد نے کہتے ہوئے کال رکھ دی اور خود اپنی روز مرہ کی روٹین میں مصروف ہو گیا

🎭🎭🎭🎭

عزین تم ایک کامیاب وکیل ہو اور دیکھنا ایک دن پاکستانی عدالتوں میں تمہارا نام گونجے گا. حاشر نے فائل کا جائزہ لیتے ہوئے  اسے تعریفی نظروں سے دیکھا

تھینک یو سو مچ سر!!! یہ سب آپ کی ہی ٹریننگ کا نتیجہ ہے. عزین کا چہرہ خوشی سے ٹمٹما رہا تھا. 

میں یہ فائل میر کو دیکھا کر آتا ہوں. حاشر کچھ سوچتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا. 

میرے خیال سے وہ آج ابھی تک نہیں آئے کیونکہ وہ اکیلے تو چلتے نہیں، پوری بارات ساتھ لے کر چلتے ہیں اور میں نے ابھی تک کوئی بارات گزرتے ہوئے نہیں دیکھی. عزین کی بات پر حاشر مسکراتا ہوا دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا. 

سر آپ تو اچھے خاصے خوش اخلاق ہیں پھر آپ کی دوستی ان جیسے بداخلاق شخص سے کیسے ہوئی ....... ؟؟ عزین نے تجسس کے مارے پوچھا 

پہلی بات تو یہ کہ عزین کسی کے بارے میں اتنی نیگیٹو سوچ نہیں رکھتے دوسرا بعض دفعہ زندگی میں ایسے حادثات پیش آتے ہیں کہ اچھا خاصا ہنستا کھیلتا انسان پتھر بن جاتا ہے. میر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے. حاشر نے بےحد سنجیدگی سے عزین کی طرف دیکھا

سر ایسا بھی کیا ہوا تھا ان کی زندگی میں ........؟؟ عزین کے سوال پر حاشر نے دکھ سے اپنی آنکھیں بند کیں جیسے کچھ کہنے کے لیے ہمت جمع کر رہا ہو. 

میر پر ڈبل قتل کیس تھا. جس کی وجہ سے اس نے جیل بھی کاٹی ہے. جیل جانے سے پہلے وہ اچھا خاصا خوش اخلاق تھا مگر جیل میں گزارے پانچ، سال اسے مکمل طور تباہ کر گئے. 

میر کا ڈبل قتل کیس سے بچ جانا ایک معجزہ تھا. یہ سزائے موت سے بچ کر باہر آیا ہے. کسی کو بھی اس کی زندگی کی امید نہ تھی. حاشر کی باتوں پر عزین کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا

انہوں نے قتل کیا تھا ......؟ ؟ عزین بےیقین تھی. 

بس کچھ مت پوچھو _____ حاشر نے جھرجھری لی

سر بتائیں نااااا مجھے مزہ آرہا ہے. کیا کیا ہوا تھا اور کیسے ........ ؟؟ عزین نے دلچسپی سے حاشر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

لڑکی پاگل ہو حالانکہ لگتی نہیں ہو _____  حاشر سر ہلاتا دوبارہ اپنا کام کرنے لگا لیکن ذہن کی سکرین پر وہ بھیانک دن گھوم رہا تھا

سر سر حاشر _____ عزین کے بار بار پکارنے پر حاشر نے اس کی طرف دیکھا 

سر آپ کہاں کھو گئے ہیں ....... ؟؟ 

کچھ نہیں تم بتاؤ اب آگے کیا کرنا ہے ...... ؟؟ میرا مطلب ہے کچہری جوائن کرو گی یا اسی طرح کسی آرگنائزیشن کے لیے کام کرنے کا ارادہ ہے. حاشر نے جان بوجھ کر موضوع بدلا

فی الحال تو آپ ساتھ ہی رہنے کا ارادہ ہے لیکن اگر گئ تو وہاں جاؤں گی جہاں سے زیادہ اچھی افر آئے گی. عزین نے کرسی ساتھ ٹیک لگائے جواب دیا

پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا. لڑکی سب سے زیادہ اہمیت آپ کے سکون کی ہے. حاشر نے اس کے نظریے کی نفی کی. 

میرے خیال سے تو سب کچھ پیسہ ہی ہوتا ہے. عزین نے  فوراً تردید کی 

نہیں پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا ہاں البتہ ہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے. حاشر ی کے جواب پر عزین ہنسنے لگی

سر ایک ہی بات ہے. آپ نے گھما پھرا دی جب کہ میں نے صاف صاف لفظوں میں کہا ہے. عزین نے پیپر ویٹ گھماتے ہوئے کہا 

ایک بات نہیں ہے وکیل صاحبہ _____ حاشر کے یوں مخاطب کرنے پر عزین کھلکھلا کر مسکرا دی

🎭🎭🎭🎭

پورے فلیٹ میں تیز میوزک نے شور برپا کر رکھا تھا ٹی وی پر علیحدہ اینکر چیخ چیخ کر ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بتا رہا تھا. 

سلیپنگ سوٹ میں ملبوس غازی اوپن کچن میں کھڑا اپنے لیے کافی بنا رہا تھا. دو دفعہ اسے احساس ہوا کہ شاید کسی نے ڈور بیل بجائی ہے مگر پھر اس خیال کے تحت کے میرے فلیٹ میں کون آئے گا سوچ کر سر جھٹک دیا. 

( غازی کا فلیٹ پانچ منزلہ عمارت میں سب سے اوپر تھا اور اس کے اعلی اخلاق کی بدولت کوئی بھی اس کے ساتھ رابطہ نہیں رکھتا تھا) 

ابھی وہ اپنی کافی کپ میں ڈال ہی رہا تھا کہ میوزک اور ٹی وی کی آواز کے ساتھ ساتھ ایک اور آواز کا اضافہ بھی ہو گیا. 

پہلے تو حیرت سے غازی نے اپنے ارد گرد دیکھا پھر احساس ہوا کہ یہ آواز شاید بیل کی ہے. اپنا کپ اٹھائے وہ لاؤنج میں آیا ٹی وی کی آواز اور میوزک بند کیا تو گھنٹی کی آواز واضح ہو گئی. 

انتہائی واحیات اور کمینہ انسان _____ تُو نہیں بلکہ میں، جو اس وقت تجھے ملنے چلا آیا. دروازہ کھلتے ہی ماجد بولتے ہوئے اندر داخل ہوا جسے غازی نے ناگواری سے گھورا

رات کے 11 بجے تو میرے فلیٹ پر کیا کرنے آیا ہے ........ ؟؟ غازی دروازہ بند کرتے اس کے پیچھے چل دیا

اور یہی سوال میرا بھی ہے کہ اتنی رات کو تو اپنے فلیٹ پر کیا کر رہا ہے. تیری طبیعت خراب ہے یا کسی کی کرنے جا رہا ہے ....... ؟؟ ماجد نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

 بس آج کلب جانے کا دل نہیں کر رہا تھا تو ______  غازی نے کندھے اچکائے اور ماجد کے برابر بیٹھ گیا

کب سے بیل بجا رہا ہوں مگر خیر سے آپ نے اندر اتنا ماحول بنایا ہوا ہے کہ باہر کی کچھ خبر ہی نہیں. ماجد نے طنز کرتے ہوئے سکرین کی طرف دیکھا جہاں میر کی فوٹیج چل رہی تھی

یہ تیرا سیٹھ ہے نااااا _____ ماجد نے چونکتے ہوئے پوچھا

 ہاں____  غازی نے سر ہلاتے ہوئے آواز اونچی کی. 

اب کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے ........ ؟؟ ماجد کو تجسس ہوا

ایک اور یتیم خانے کا افتتاح کیا ہے. غازی کے جواب پر ماجد ہنس پڑا

یہ صحیح ہے لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرو یہاں تک کہ قبرستان کو بھی نہ چھوڑو اور یتیم خانے کھولتے جاؤ جہاں تیرے جیسے معصوم لوگ اس کے جال میں پھنستے جائیں اور اس کا کاروبار چلتا جائے. ماجد کے کمنٹس غازی کو کچھ خاص پسند نہیں آئے 

میر ایک کھرا انسان ہے. غازی نے کہتے ہوئے اپنا کپ خالی کر کے سامنے میز پہ رکھا اور ٹی وی بند کر دیا

زی اس کی غلامی چھوڑ دے. جس دن تو اس کے کام کا نہ رہا یا اس کی اپنی جان مشکل میں ہوئی تو وہ تجھے پھنسا کے خود نکل جائے گا وہ بہت شاطر ہے. ماجد نے حسب عادت دوبارہ بات شروع کی

یہ سب کچھ میر کا ہی دیا ہوا ہے اور ویسے بھی مجھے اس زندگی کی کوئی ضرورت نہیں میرے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے. غازی نے میز پر ٹانگیں رکھتے ہوئے جواب دیا. 

پیچھے کا تو پتہ نہیں مگر آگے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے. ماجد کی بات پر غازی ہنس دیا

مثلاً کی ا........ ؟؟ غازی نے آگے جھکتے ہوئے رازداری سے پوچھا

غازی تو شادی کر لے _____  ماجد بالکل سیریس تھا. 

اچھا مجھے کون اپنی بیٹی دے گا ....... ؟؟ میں کرائے کا قاتل ہوں. غازی کے پوچھنے پر ماجد نے اس کی طرف دیکھا

یہ کام تو مجھ پر چھوڑ دے تیرا رشتہ کرانا میری ذمہ داری ہے. بس یہ کام چھوڑ دے. یقین مان فیملی بڑی نعمت ہے. ماجد کی بات پر غازی ہنستا ہوا اٹھ کھڑا ہوا

مجھے وہی شخص اپنی بیٹی دے گا جس کی یا تو اندھی ہو گی یا پھر اسے کسی نے بدعا دی ہو گئی اور مجھے اس طرح کی لڑکی سے شادی نہیں کرنی. 

زی میری بات تو سن ____ ماجد نے پکارا

میں فلحال میوزک سننے لگا ہوں. کچن میں جاتے ہوئے اس نے دوبارہ میوزک آن کر دیا. 

🎭🎭🎭🎭

میر کی گاڑی تیزی سے گزر رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر سڑک کنارے کھڑی عزین پر پڑی

گاڑی ریورس کرو ____  اچانک میر کے کہنے پر ڈرائیور نے بریک لگائی اور گاڑی ریوس کرنے لگا. بلیک کلر کی ویگو کے ریورس ہوتے ہی باقی دونوں گاڑیاں بھی ریورس ہوئیں. 

یہ حاشر کی اسسٹنس ہے نااااا _____ بلیک گلاسز آنکھوں سے اتارتے میر نے تصدیق چاہی

جی سر وہی ہے. ڈرائیور کے برابر بیٹھا باڈی گارڈ نے جواب دیا

یہ اس وقت یہاں کیا کر رہی ہے ....... ؟؟ میر نے دل میں سوچتے ہوئے گھڑی پر وقت دیکھا جہاں رات کے 10 بج رہے تھے

اسے بلا کر لاؤ ____  کچھ دیر سوچنے کے بعد میر نے حکم دیا تو باڈی گارڈ فورا گاڑی سے نکل کر اس کی طرف چل دیا

آپ کو میر صاحب بلا رہے ہے. باڈی گارڈ نے انتہائی مناسب الفاظ میں گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عزین سے کہا تو اس نے لائن میں لگی گاڑیوں کو حیرت سے دیکھا 

اندر آؤ  ____ میر نے عزین کو گاڑی پاس کھڑا دیکھ کر کرخت لہجے میں کہا 

کس جرم میں ...؟ ؟ عزین کا جواب ڈرائیور اور باڈی گارڈ دونوں کو حیران کر گیا جبکہ میر کے ماتھے پر انگنت شکن نمودار ہوئی. اس سے پہلے کہ وہ اسے دھکا دینے کا حکم دیا عزین کچھ سوچتی اندر بیٹھ گئی 

اتنی بڑی اور لگزری گاڑی میں وہ پہلی بار بیٹھی تھی. پوری گاڑی میں میر کے پرفیوم کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی. عزین کو اپنے اوپر فخر ہو رہا تھا دونوں کے درمیان فاصلہ صرف ایک سیٹ کا تھا

تم اس وقت یہاں کیا کر رہی تھی ......... ؟؟ میر نے باہر دیکھتے ہوئے پوچھا

مجھ سے پوچھ رہے ہے ...... ؟؟ عزین نے میر کی طرف گھومتے ہوئے کہا تو باڈی گارڈ اور ڈرائیور کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا

یہ لڑکی آج میر صاحب کے ہاتھوں سے نہیں بچے گی. جب کہ میر نے انتہائی غصیلی نگاہوں سے گردن گھماتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا

اچھا ٹھیک ہے اس میں غصہ کرنے والی کون سی بات ہے. میں بس وین، رکشہ یا کسی بھی چیز کا انتظار کر رہی تھی. جس پر بیٹھ کے جا سکتی. عزین نے اپنے لہجے میں نرمی لاتے ہوئے فورا جواب دیا اسے یاد آیا کہ یہ قاتل بھی ہے. 

کہاں جانا ہے ....... ؟؟ میر کا اگلا سوال عزین کو مسکرانے پر مجبور کر گیا جبکہ میر نے دوبارہ اپنا رخ موڑ لیا

"گھر" _______ یک لفظی جواب آیا. 

ڈرائیور گاڑی روکو ____  میر کی سپاٹ آواز گاڑی میں گونجی. 

اترو ابھی نیچے اترو ______ مجھے فضول گفتگو پسند نہیں. میر کی آواز میں تلخی گھلنے لگی تھی

وہ میں نے پھاٹک کے قریب اترنا ہے. پہلی بار عزین کا لہجہ سرد پڑا جسے میر نے واضح طور پر نوٹ کیا. 

پھاٹک کے قریب تمہارا گھر ہے. میر نے لفظ "گھر" پر زور دیا مگر خلاف توقع  عزین خاموش رہی اور پھر گاڑی میں خاموشی چھا گئی. 

عزین نے کن اکھیوں سے میر کا جائزہ لیا. انتہائی قیمتی جوتے سارا دن گزرنے کے باوجود بھی جوں کے توں چمک  رہے تھے. میر کے جوتوں کو دیکھتے ہوئے عزین کی نظر اپنے مہرون جاگرز پر پڑی جو گرد آلود تھے. 

بلیک کلر کا تھری پیس سوٹ کسی بھی قسم کی شکن سے پاک تھا. ہاتھ میں پہنی قیمتی گھڑی کا ڈائل ہیرو سے چمک رہا تھا. ایک قیمتی موبائل اس کے ہاتھ میں مزید قیمتی لگ رہا تھا جبکہ عزین کے موبائل کی سکرین ہزار جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی. 

ہائے یہ امیر لوگ یہ ٹھاٹ باٹھ، یہ شان و شوکت، کاش 

میرے پاس بھی ایسی ہی گاڑیاں اور گارڈز ہوں تو مزہ آ جائے. ابھی وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ گاڑی کے تیز اور مسلسل بجتے ہارن نے اسے چونکنے پہ مجبور کیا

میرے خیال سے اسے پھاٹک ہی کہتے ہیں. میر کی آواز پر وہ شرمندہ سی باہر نکل گئی. 

تم میں اخلاق کی شدید کمی ہے. نہ سلام اور نہ شکریہ ____ میر کی آواز پر عزین نے پلٹ کر خالی نگاہوں سے اسے دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی

بارش کی ننھی منی بوندیں گاڑی کے شیشوں ساتھ ٹکراتی عجب میوزک پیدا کر رہی تھیں. گاڑی جیسے ہی پورچ میں رکی میر نے اپنی طرف کا دروازہ کھولا اور لان کی طرف چل دیا

سر بارش میں گیلے ہو جائیں گے. پیچھے سے غلام علی  نے آواز لگائی مگر میر چپ چاپ گیلی گھاس پر چلنے لگا

کتنا اچھا لگتا تھا لندن کی سڑکوں پر یوں بارش میں بھینگنا. میر کو اپنا یونی کا دور یاد آیا تو چہرے پر مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا اور پھر وہ بھلی سی صورت جس کا محبت سے پوچھنا 

"میر کب واپس آؤ گے ....؟؟" اور وہ اسے چڑانے کی غرض سے کہتا "کبھی نہیں" اپنی ہی باتوں کو یاد کرتے ہوئے میر دکھی ہوا

کاش میں نے کہا ہوتا "بس چند دن" _____ اب تو اس کے بچے بھی ہوں گے اور پتہ نہیں کتنے ہوں گے ........ ؟؟  اپنی سوچ پر وہ خود ہی ہنسا

برستی بارش میں وہ سارا بھیگ چکا تھا. اس کے جوتوں میں بھی پانی بھرنے لگا تھا. سر جھٹکتا اب وہ اندر کی جانب چل دیا. لاؤنچ کی سیڑھیوں میں ملازم تولیہ لیے کھڑا تھا

سب سے پہلے میر نے اپنے جوتے اتار کر سلیپر پہنے پھر اپنا کوٹ اتار کے ارد گرد کھڑے ملازموں کو پکڑایا اور تولیے سے بال صاف کرتا اندر کی جانب چل دیا. 

لاؤنج میں گہری خاموشی تھی مطلب گلبدین سو چکی ہے. اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے میر کے قدم خود با خود گلبدین کے کمرے کی طرف چل دیے. 

جیسے ہی ہنڈل پر ہاتھ رکھتے میر نے آہستہ سا اسے گھمایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا. 

میر تم _____  اس سے پہلے میر کچھ کہتا گلبدین جو رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھی کچھ لکھ رہی تھی یوں اچانک اسے دیکھ کر چونک گئی. 

ہاں میں _____ تھکے تھکے سے قدم لیتا وہ رائٹنگ ٹیبل پاس آ کھڑا ہوا. ماتھے پر بکھرے گیلے بال، کندھوں پر تولیا لیے، پینٹ تخنوں تک فولڈ اور پاؤں میں سلیپر، وہ اس وقت گلبدین کو بہت پیارا لگا

بارش میں نہا کر آئے ہو ...... ؟؟ گلبدین کے پوچھنے پر اس نے ہلکا سا سر کو خم دیا جبکہ پوزیشن ہنوز قائم تھی. 

میرا بھی دل کرتا ہے مگر _____  گلبدین نے کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں سے گرتی بارش صاف نظر آرہی تھی. 

آپ ملازمہ سے کہتیں وہ آپ کو لے جاتیں. پر کوئی بات نہیں ابھی کونسی بارش رکی ہے. چلیں میں لے جاتا ہوں. میر نے فوراً سیدھے کھڑے ہوتے ہوئے آفر ماری. 

نہیں تم تو آگے ہی بہت گیلے ہوئے ہو اور تمہیں سردی بھی جلدی لگ جاتی ہے. دیکھنا ابھی چھینکیں آنے لگیں گی. جاؤ کپڑے بدلو اور کچھ گرم پیو. گلبدین کی بات پر میر مسکراتا دوبارہ ٹیبل ساتھ ٹیک لگا گیا

آج جلدی آگے ہو. گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے گلبدین نے پوچھا

ہاں بس آج کام کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا. میر نے رائٹنگ ٹیبل سے پیڈ اٹھاتے ہوئے جواب دیا. 

میر یہ  _______ گلبدین نے پیڈ پکڑنا چاہا. 

اداس ہیں ....... ؟؟ ورق پلٹتے محبت سے پوچھا 

نہیں ______  گلبدین نے نظریں پھیر لیں. شرمندگی نے گھیرا. میر کے بارے میں ہی تو سب گلے لکھے تھے. 

اچھا تو مجھے ظالم لکھا جا رہا ہے........ ؟؟ میر نے پیڈ ٹیبل پر پھینکتے ہوئے پوچھا

اس معاشرے کی ہر عورت کو لگتا ہے کہ وہ مظلوم ہے اور مرد ظالم _____  میر پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے سیدھا کھڑا ہوا. 

اس مہینے تو بہت مصروف ہوں. کچھ کام ضروری ہیں. جنہیں میں چھوڑ نہیں سکتا. مگر اگلے مہینے میں آپ کو لے کر کہیں چلوں گا. میں بھی کچھ دن آرام کرنا چاہتا ہوں. تب تک آپ سوچیں کہ ہم نے کہاں جانا ہے ....... ؟؟ میر نے مسکراتے ہوئے کہا تو گلبدین نے حیرت سے اس کی طرف گردن موڑی. 

ایم سوری ______  میر جانے کے لیے پلٹا تو گلبدین کی آواز اس کے کانوں میں پڑی وہ شاید شرمندہ تھی. 

مجھے بالکل برا نہیں لگا لیکن اگر آپ لکھنے کی بجائے مجھے خود کہہ دیتیں تو بہت اچھا لگتا. میر نے مڑتے ہوئے گلبدین کے سر پہ بوسہ دیا اور محبت سے کندھا تھپکتے باہر چلا گیا جب کہ گلبدین اس کے رویے سے پریشان ہو گئی. 

لگتا ہے میر کی طبیعت ٹھیک نہیں. نہ غصہ کیا، نہ کوئی جھگڑا اور نہ ہی طعنہ ناراضگی ____  خود سے کہتی گلبدین ٹیبل لیمپ بند کر گئی. 

اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی میر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑا ہوا اور خود کو دیکھنے لگا جو اس کا محبوب مشغلہ تھا. 

میر طلال ہار جاتے ہو اس عورت کے آگے _____ شیشے میں موجود اس کا عکس اس پر ہنسنے لگا

کیا کروں قربانی بھی تو اس کی بڑی ہے جو اس نے میرے لیے دی. میر سرگوشی نما آواز میں مخاطب ہوا. 

نیت اپنی خراب ہے اور کہتے قربانی اس کی بڑی ہے _____ میر کو اپنا عکس اپنا ہی مذاق اڑاتا نظر آیا تو ہمیشہ کی طرح شیشہ چند سیکنڈ کے اندر اندر چکنا چور ہو گیا. جب بھی میر کو ڈپریشن ہوتا غصہ شیشے پر ہی نکلتا تھا 

🎭🎭🎭🎭

یا رجو تو بھی شادی کر کے دوسرے گاؤں چلی جائے گی تو میرا کیا بنے گا ....... ؟؟ ٹیوب ویل کی دیوار پر بیٹھی زری نے پانی میں پتہ پھینکا

میں نے تو جانا ہی ہے. رجو نے شرماتے ہوئے جواب دیا. 

ویسے تیرے سسرال والے ہیں ٹھیک ٹھاک لوگ ____ زری نے بے خیالی میں تبصرہ کیا

زری ایک بات کہوں اگر تو ماسی پھلاں سے نہ کرے تو ....... ؟؟ رجو نے ڈرتے ڈرتے زری کی طرف دیکھا جو مزے سے پانی میں مسلسل پتے توڑ کر پھینک رہی تھی

نہیں بتاتی. اب میں اتنی بھی بے وقوف نہیں کہ ساری باتیں ہی ماسی کو بتا دوں اور پھینٹی کھاؤں. زری کے جواب پہ رجو نے سکھ کا سانس لیا

زری وہ میرا دیور ہے ناااااااا  اس نے تجھے میری منگنی پر دیکھا تھا. کہتا تیرے ساتھ ہی شادی کرے گا. رجو کی بات پر زری کا پتہ پھینکتا ہاتھ رکا

رجو کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے ماسی مجھے جان سے مار دے گی مگر میری شادی کسی سے نہیں کرے گی. زری نے مایوسی سے رجو کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا 

سارے گاؤں کو معلوم ہے کہ سانول مر چکا ہے مگر ماسی فضول ضد لگائے بیٹھی ہے. یہ تو تیرے ساتھ سراسر ظلم ہے. رجو نے انتہائی دکھ سے کہا

جو بھی ہے مگر میں ماسی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی. جب میرے والدین سیلاب میں ڈوب کر مر گئے تھے تب ماسی نے ہی مجھے آسرا دیا تھا. زری کے جواب پہ رجو خاموش ہو گئی. 

پھر بھی زری ذرا سوچ کیا تو ایسے ہی بیٹھی رہے گی ...... ؟؟ رجو کے سوال پر زری نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی

اچھا سن میرے دماغ میں ایک ائیڈیا ایا ہے. اگر ہم ایسا کریں کہ کسی "لڑکے" کو ماسی کا سانول بنا کر پیش کر دیں. تو ....... ؟؟ رجو کی بات پر زریں نے اسے گھورتے ہوئے اپنے ہاتھ جھاڑے اور نیچے اتر آئی. 

رجو تو جاسوسی ناول کم پڑھا کر، ماسی کو اپنے بیٹے کی پہچان ہے وہ اس سے کچھ سوال پوچھیں گی تو ہم پکڑے جائیں گے. دوسرا کوئی لڑکا کیوں ماسی کا بیٹا بنے گا ...... ؟؟ 

زری کے جواب پر رجو منہ بناتی اسے دیکھنے لگی

بے وقوف زری میں اپنے دیور سے کہوں گی کہ کسی لڑکے کو ماسی کا بیٹا بنا کر لے آئے جو کہ شادی شدہ بھی ہو. پھر تو ماسی تیری شادی میرے دیور سے کر دے گی نااااااا  اس طرح ہم دونوں ایک ہی گھر میں رہیں گے. رجو نے خوشی سے اس کے گلے میں اپنی باہیں ڈالیں. 

ہممممم _____ آئیڈیا ا تو اچھا ہے مگر. .....؟ ؟ زری نے کچھ سوچتے ہوئے کہا 

اگر مگر کچھ نہیں بس میں نے سوچ لیا ہے کہ میں تیرے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گی. آخر تو میری سب سے اچھی اور پیاری دوست ہے. رجو کہتی ہوئی اس کے ساتھ چل دی. 

🎭🎭🎭🎭

میں نے کل تمہاری اسسٹنٹ کو لفٹ دی تھی. میر کے منہ سے جیسے ہی یہ الفاظ نکلے سامنے بیٹھے ایڈوکیٹ حاشر کو شدید کھانسی کا دورہ پڑا

زیادہ ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے. میں یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ وہ بددماغ اور بد لحاظ لڑکی کس علاقے سے تعلق رکھتی ہے

مگر مجھے بے حد افسوس ہوا کہ وہ ایک انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہے. بہت ہی گندی جگہ پر اس کا گھر ہے. جس کے ایک طرف کچرہ کنڈی اور دوسری طرف نشئیوں کا اڈا ہے

ایک ایسی لڑکی جو اُس ماحول میں پروان چڑھی ہو. اسے تم قابل ذہین اور پتہ نہیں کیا کیا القابات دیتے ہو. میر کی بات پر حاشر نے پانی والا گلاس اپنے منہ ساتھ لگایا

اس کے بارے میں جو باتیں آپ نے ابھی مجھے ابھی بتائی ہیں.وہ مجھے معلوم نہ تھی کیونکہ میں نے کبھی اس کا پیچھا نہیں کیا. حاشر کا جواب میر کو تپا گیا. 

میر مجھے ایسے نہ دیکھا کر، میری جان نکل جاتی ہے. حاشر نے مسکین شکل بنائی

یہ انفارمیشن تمہیں دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میرے آفس میں کیسا کیسا گند رکھا ہوا ہے. تمہارا کوئی سٹینڈرڈ نہیں اور تم نے میرا سٹینڈرڈ بھی خراب کر دیا ہے. میر کے لہجے میں حقارت تھی. 

میر مجھے تیری یہ بات پسند نہیں. تجھ میں غرور بہت ہے. غریب بستیوں میں بھی انسان ہی رہتے ہیں اور قابلیت کسی کی میراث نہیں. عزین بے شک ایک قابل لڑکی ہے اور وہ بہت ترقی کرے گی. پتہ نہیں کیوں مجھے ایسے لگتا ہے کہ وہ تمہارے بزنس کے لیے پرفیکٹ ہے. حاشر کے جواب پر میر نے ہنستے ہوئے اپنی چیئر ساتھ ٹیک لگا لی. 

یہ غریب لوگ کسی کے کام نہیں آتے. انتہائی لالچی ہوتے ہیں. وفاداری کی ان سے امید رکھنا بھی بے وقوفی ہے. میر کے جواب پر حاشر اسے خاموش نظروں سے دیکھنے لگا

لاجواب ہو گئے نااااااا ____  میر نے دوبارہ اپنی کہنیوں کو میز پر رکھتے ہوئے پوچھا

میر تم تو ایسے نہ تھے. اچھا خاصا محبت والا دل رکھتے تھے. حاشر نے کھوئے سے لہجے میں یاد دلایا

ہاں اور اس معاشرے نے جو اُس محبت والے دل ساتھ سلوک کیا وہ بھی تمہارے سامنے ہے. حاشر تم میری تکلیف کا اندازہ نہیں کر سکتے. مجھے آج بھی سکون کی نیند نہیں آتی. 

جو کچھ میں نے جیل کی پانچ سالہ زندگی میں برداشت کیا ہے. تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے. میر نے حاشر کی طرف جھکتے ہوئے کہا 

اچھا ٹھیک ہے تم یہ فائل دیکھو، کیسی زبردست تیار کی ہے. عابد بلڈرز اب بچ کر دکھائیں .....؟ ؟ حاشر نے فائل میر کے آگے رکھی

یہ بھی یقیناً تمہاری اس اسسٹنٹ نے تیار کی ہوگی ..... ؟؟ میر نے اپنے آگے کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں پوچھا

ہاں اس نے ہی کی ہے. حاشر نے اقرار کرنا مناسب سمجھا

میں سوچ رہا تھا کہ تمہاری اس اسسٹنٹ کو جیل کی ہوا لگائی جائے ____  میر کی بات پر حاشر کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی

میر ____ حاشر نے آہستہ سا پکارا

ہاں تم بالکل ٹھیک سمجھے ہو. اگر عزین کو دو سال سزا ہو جائے اور وہ بھی اسی جیل میں رہے جہاں "وہ" ہے تو ہماری مشکل آسان ہو جائے گی. 

بقول تمہارے وہ بہت قابل ہے، ذہین ہے تو اِس کے لیے "اُس" کا منہ کھولنا زیادہ مشکل نہ ہوگا. میر کی آنکھوں میں انتقام چمک رہا تھا

مگر اس کا کیریئر تباہ ہو جائے گا. وہ ایک لڑکی ہے. حاشر افسردہ ہوا

میرا بھی کیریئر تباہ ہوا تھا. میں بھی ایک لڑکا تھا میر نے دو بدو جواب دیا

وہ اس سب کے لیے کبھی نہیں مانے گی. حاشر نے اچانک کہتے ہوئے خود کو ریلیکس کیا

اول تو وہ مان جائے گی کیونکہ میں نے اس کی آنکھوں میں لالچ دیکھی ہے دوسرا اگر وہ نہ مانی تو مجھے منانا آتا  ہے. میر نے فائل پر ہاتھ پھیرتے جواب دیا

تم" اُسے" بھول نہیں سکتے ...... ؟؟ حاشر نے بے چارگی سے کہا

نہیں، کبھی نہیں  ____ میر بدلہ ضرور لیتا ہے. میر نے فائل پر مکا مارا

مجھے عزین کے لیے برا لگ رہا ہے. حاشر کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا 

مگر مجھے اب وہ اچھی لگ رہی ہے. میر نے شرارت سے حاشر کی طرف دیکھا

تم اپنے مقصد کے لیے کوئی اور لڑکی دیکھ لو. میری اسسٹنٹ کو معاف کر دو. حاشر نے میز سے فائل اٹھاتے جواب دیا

چلو مرضی ہے مگر یہ اس کے لیے گولڈن چانس ہے. میر  اپنی بات پر قائم تھا. 

🎭🎭🎭🎭

جی سر آپ ے بلوایا تھا. غازی نے فارم ہاؤس کے لان میں داخل ہوتے ہوئے اونچی آواز میں پوچھا

آؤ _____ میر نے سر ہلاتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا جبکہ فارم ہاؤس کے چاروں طرف اس کے بندے موجود تھے. 

غازی مجھے عابد بلڈرز کے اکلوتے بیٹے کی ناگہانی موت کا بہت افسوس ہے _____  میر کے جملے کو سمجھتے ہوئے غازی مسکرا دیا. 

سر اس کا ایک ہی بیٹا ہے جو ابھی زندہ ہے. باڈی گارڈ  نے اپنے طور پر دونوں کی معلومات میں اضافہ کیا مگر غلام علی کے ماتھے پر کچھ شکنیں نمودار ہو گئیں. 

مگر اب زندہ نہیں رہے گا. غازی کے جواب پر میر نے اطمینان سے غلام علی کو دیکھا جو سخت اضطراب کا شکار تھا

اس لفافے میں اس کی تمام معلومات موجود ہے. اس کی تصویر اور یہ کہ وہ کب ایئرپورٹ پر اترے گا. میر نے میز پر پڑے سفید لفافے کی طرف اشارہ کیا 

جو حکم ____  غازی نے لفافہ پکڑتے ہوئے اپنی جیکٹ کے اندر رکھا

غازی میں نے تمہارا دبئی کا ویزہ لگوا دیا ہے. میرے خیال سے تمہیں اس کام کے بعد کچھ وقت دوبئی میں گزارنا چاہیے. جب مجھے حالات ٹھیک لگیں گے میں تمہیں واپس بلوا لوں گا. میر کا اطمینان قابل دید تھا جیسے وہ کسی پلاٹ کی خرید و فروخت کا ذکر کر رہا ہو. 

میں اب چلتا ہوں ___  غازی اپنی جگہ سے کھڑا ہوا. 

ٹھیک ہے تمہاری جو بھی پلاننگ ہو مجھے بتا دینا. میں اسی مناسبت سے تمہاری سیٹ بک کروا دوں گا. میر نے مسکراتے ہوئے غازی کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ اپنے قدموں پہ لوٹ گیا

میر آپ ٹھیک نہیں کر رہے. غلام علی سے رہا نہ گیا تو بول پڑا. 

تم نے ٹھیک کیا ہے میرے ساتھ ____  میر نے دیکھے بغیر پوچھا

کیا مطلب ......... ؟؟ غلام علی نے نا سمجھی سے کہتے ہوئے میر کی طرف دیکھا جو سامنے پودوں کو دیکھ رہا تھا. 

یہ جو گلبدین کا دماغ خراب ہوا ہے. اس میں سوائے تمہارے کسی کا ہاتھ نہیں ہو سکتا. میں نے کل اس کی ڈائری پڑھی ہے. اپنے مشورے اپنے پاس رکھا کرو ورنہ تم سے زیادہ مجھے کوئی نہیں جانتا انتہائی سفاک شخص ہوں میں  _____ میر کہتا ہوں اٹھ کھڑا ہوا

میں نے گل بی بی کو کچھ نہیں کہا غلام علی نے اپنی صفائی دی. 

غلام علی میرا نام "میر طلال" ہے اور میں بندے کی آنکھیں پڑھ لیتا ہوں. میر نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے جواب دیا

غلام علی قبرستان کم جایا کرو کیونکہ وہاں سے آنے کے بعد تمہاری آنکھوں میں بغاوت بولتی ہے. اپنے بھائی کی قبر پر کم جایا کرو ورنہ تمہارے بعد اس کی قبر پر کون جائے گا ........ ؟؟ میر نے کہتے ہوئے غلام علی کے کندھے پر تھپکی دی

جی ______  غلام علی صرف اتنا ہی کہہ سکا آگے پیچھے تینوں گاڑیاں فارم ہاؤس سے نکلیں. غیر ارادی طور پر میر کی نگاہیں سڑک کنارے عزین کو ڈھونڈ رہیں تھیں. ابھی وہ آتے جاتے لوگوں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ گلبدین کی پرسنل آیا کی کال آنے لگی جو کہ یقیناً خطرے کی علامت تھی. 

ہاں بولو گل بیوی ٹھیک ہیں ...... ؟؟ آیا کے بولنے سے پہلے ہی میر نے پوچھا اسے کسی انہونی کا احساس ہو رہا تھا. 

نہیں صاحب انہوں نے اپنی نبض کاٹ لی ہے. بہت خون نکل رہا ہے. آیا کے الفاظ بمشکل اس کے حلق سے نکلے. جانتے تھے اب جو میر ان کا حال کرے گا. 

او شیٹ ____ بس میں آ رہا ہوں. ڈاکٹر کو کال کروں. میر نے فون بند کرتے ہی ڈرائیور کی طرف دیکھا. میر صاحب گھر کی طرف ہی جا رہے ہیں. ساتھ بیٹھے باڈی گارڈ نے بتایا

جلدی ____ میر نے تقریبا چیختے ہوئے کہا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر پہنچ جائے. 

کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا. جب کہا تھا کہ گل بی بی کو اکیلا نہیں چھوڑنا تو وہ سب کمبخت کہاں تھے. اتنی بڑی فوج ہے نوکروں کی، مگر سب کے سب نمک حرام ______ میر نے بڑبڑاتے ہوئے اپنا موبائل آن کیا. 

عزین آج پھر سٹاپ پر کھڑی تھی جب میر کی گاڑیوں کا قافلہ تیزی سے اس کے سامنے سے گزرا. 

چل عزین بی بی آج تجھے کسی نے لفٹ نہیں کرائی. میں نے تو سوچا تھا کہ ڈراموں کی طرح روز لفٹ مل جائے گی مگر کہاں ....؟؟ 

ویسے تو بڑا جتلا رہے تھے تم میں اخلاق نام کی کوئی چیز نہیں اور اپنی دفعہ یوں گزرے ہیں جیسے میں یہاں ہوں ہی نہیں. عزین نے دھول کو دیکھتے ہوئے سوچا جو گاڑیاں اپنی پیچھے چھوڑ گئیں تھیں 

زی ایسا مت کر، یہ تو سراسر خودکشی کرنے والی بات ہے. اس لڑکے کی بہت ہائی سکیورٹی ہے. وہ عابد بلڈرز کا اکلوتا چشم و چراغ ہے. 

ان لوگوں نے پولیس سے بھی مدد لے رکھی ہے. ان کے اپنے باڈی گارڈز ہیں جو ہر وقت جدید اسلحے سے لیس ہوتے ہے. ماجد نے فکر مندی سے غازی کی طرف دیکھا جو مزے سے سگریٹ پی رہا تھا. وہ دونوں اس وقت ایک اوپن ایئر کیفٹیریے میں بیٹھے تھے

بس یا اور کچھ .......... ؟؟ غازی نے ایش ٹرے میں سگریٹ جھاڑتے ہوئے پوچھا 

زی یہ زندگی مذاق نہیں ہے. صرف ایک بار ہی ملتی ہے. اسے دوسروں کی خاطر برباد نہیں کرنا چاہیے. ماجد کی بات پر غازی طنزیہ ہنسا

مجھے نہ تو زندگی کی ضرورت ہے اور نہ اس کے برباد ہونے کا ڈر ______  غازی سگرٹ پھینکا اور ہوا میں دھواں نکالنے لگا

دیکھ تو ایک 25 سال کا خوبصورت اور صحت مند نوجوان ہے. اگر جیل ہو گئی تو ساری زندگی وہاں پڑا سڑتا رہے گا. میرے اوپر نہیں تو کم از کم اپنی اس خوبصورت جوانی پر رحم کھا. ماجد کے ڈرانے پر غازی نے ہلکا سا قہقہہ لگای

ا

مجھے تیری اس ساری بکواس میں صرف یہ ایک جملہ اچھا لگا ہے کہ میں "25 سال کا ایک صحت مند اور خوبصورت نوجوان ہوں". رہی بات جیل میں سڑنے کی تو میری جان میں گرفتاری سے بہتر خود کو مارنا پسند کروں گا. 

تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میرا نشانہ کتنا اچھا ہے. مجھے پورا یقین ہے کہ وہ میری گولی کو نہیں روک پائے گا. غازی نے اپنی دو انگلیوں سے سامنے بیٹھے ماجد کا نشانہ لیا جس پر ماجد سر نفی میں ہلاتا ادھر ادھر دیکھنے لگا

تب ہی غازی کی نظر کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی پر پڑی تو ماجد نے بھی گردن گھماتے ہوئے اس کی نگاہوں تعاقب کیا. 

ویسے تو تجھے اس مخلوق سے بہت چڑ ہے مگر جب دیکھو اسے گھور رہا ہوتا ہے. اب اس لڑکی میں کیا خاص ہے ........ ؟؟ ماجد نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

یہ لڑکی میر کے آفس میں ہوتی ہے. میں نے اسے وہاں دیکھا ہے. غازی کے بتانے پر ماجد کرسی پر گھومتے ہوئے دوبارہ اس سمت دیکھنے لگا

کیا اب میر نے ایسی لڑکیاں آفس میں رکھنا شروع کر دی ہیں اور یہ آفس میں کرتی کیا ہے ....... ؟؟ اب دونوں کی توجہ کا مرکز وہ کاؤنٹر گرل تھی. 

میرے خیال سے یہ لڑکی "وکیل" ہے جیسے ہی غازی کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ماجد کی پوری آنکھیں باہر نکل آئیں. 

غازی مجھے لگتا ہے تم نے آج زیادہ سگریٹ پی لیے ہیں. یہ ایک سیل گرل ہے اگر یہ وکیل ہوتی تو اسے یوں یہاں کام نہ کرنا پڑتا. ماجد کی وضاحت پر غازی خاموش ہو گیا مگر دیہان سارا اسی طرف تھا

چل ٹھیک ہے جو کہا ہے اس پر عمل کرنا اور میری فکر نہ کرنا کیونکہ مجھے اپنی فکر کرنے والے لوگ اچھے نہیں لگتے. میں اپنی فکر خود کرنا جانتا ہوں. غازی نے کہتے ہوئے دوبارہ سگریٹ سلگایا

اچھا ٹھیک ہے. میں اب چلتا ہوں. ماجد نے اٹھتے ہوئے کہا 

مرضی ہے میں روک نہیں رہا ____ غازی نے کندھے اچکائے

اپنے فیصلے پر ایک بار نظر ثانی کر لینا. شاید میری بات تیری سمجھ میں آ جائے. ماجد نے نہ چاہتے ہوئے بھی دوبارہ دہرایا اور اپنی ٹوپی اٹھاتا وہاں سے نکل گیا. غازی کی نظریں سگریٹ پیتے مسلسل کاؤنٹر گرل پر تھی. جیسے ہی قریب سے ایک ویٹر گزرا غازی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا

مجھے ایک بلیک کافی چاہیے مگر اس لڑکی کے ہاتھوں سے ______  غازی نے ویٹر کو روکتے ہوئے کاؤنٹر کی طرف اشارہ کیا تو وہ غازی کو دیکھنے لگا

سر وہ لڑکی ہماری انچارج ہے ویٹرس نہیں ____  ویٹر کے تاثرات کافی خراب لگ رہے تھے مگر لہجہ اس نے کافی حد تک نارمل رکھا

اچھا پھر میں نے آپ کی انچارج سے بات کرنی ہے. غازی بضد ہوا. جس پر ویٹر سر ہلاتا کاؤنٹر کی طرف چل دیا کچھ دیر میں وہ کاؤنٹر گرل غازی کو اپنے قریب آتی دکھائی دی. 

جی سر میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں ....... ؟؟ لڑکی نے انتہائی مہذب زبان میں پوچھا 

آپ میر صاحب کہ آفس میں ہوتی ہے نااااا اور اگر میں غلط نہیں تو آپ ایک وکیل ہے. غازی کی بات پر عزین مسکرا دی

جی سر آپ نے بالکل درست پہچانا ہے. اب بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں .......... ؟؟ 

مجھے اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کروانی ہے. غازی نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے کہا

اس وقت تو میں آپ کی مدد نہیں کر سکتی مگر صبح آپ میرے افس آ جائیں. عزین کے غازی ہنستا ہوا اٹھ کھڑا ہوا. 

کیا ہمارے ملک کے حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ ایک قابل وکیل کو یوں پارٹ ٹائم جاب کے لیے سڑک پر آنا پڑ رہا ہے.  غازی کی بات پر عزین نے سنجیدگی سے اسے دیکھا

ایسی کوئی بات نہیں اور مسٹر اگر وکیل سڑک پر آ جائیں تو حکومتیں ہل جاتیں ہیں خیر یہ میرا کارڈ ہے رکھ لیں کام آئے گا. 

عزین اپنا کارڈ دیتی واپس پلٹ گئی. غازی نے اپنی دونوں انگلیوں کے درمیان اس کارڈ کو پکڑا جس پہ واضح عزین لکھا تھا. لڑکی دلچسپ ہے اور ذہین بھی _____ تبھی میر کے آفس میں پائی جاتی ہے کیونکہ میر نکمی چیزیں نہیں رکھتا. غازی کارڈ دیکھتا سوچ میں پڑ گیا. 

🎭🎭🎭🎭

آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا. میں آپ کے لیے کیا نہیں کرتا مگر آپ ______ میر نے گلبدین کے قریب بیٹھتے ہوئے ناراضگی سے کہا جس کے ایک ہاتھ پر ڈرپ جب کہ دوسرے پر پٹی بندھی تھی

آپ اپنا دل لگانے کی کوشش کریں. جب تک ماضی کو نہیں بھولیں گی اسی طرح پریشان رہیں گی. میر نے اب کی بار پٹی والا ہاتھ آرام سے اپنے ہاتھوں میں لیا تو گلبدین نے تکلیف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں

اب بولتی کیوں نہیں ....... ؟؟ میر نے نرمی سے گلبدین کا چہرہ اپنی طرف کیا جو خفا خفا سا تھا. 

میں تم پر اور اپنے اپ پر ایک بوجھ ہوں. مجھے اپنی زندگی بری لگتی ہے. میں دوسروں کے سارے چل رہی ہوں. خود سے کچھ بھی نہیں کر سکتی. گلبدین کی آنکھیں پانی سے بھرنے لگی تھیں. 

اچھا اگر کچھ بھی نہیں کر سکتی تو یہ کس نے کیا ہے ....... ؟؟ میر نے پٹی والے ہاتھ کی طرف مسکراتے ہوئے اشارہ کیا

میر میں بہت سنجیدہ ہوں. گلبدین نے میر سے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا

میں بھی آپ کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہوں. میر کی مسکراہٹ سمٹی. 

میر تم شادی کر لو. زندگی میں آگے بڑھو. تمہارے گھر میں بچوں کی رونق لگ جائے گی. گلبدین کی بات پر میر نے اسے ابرو اچکا کر دیکھا

تو پھر آپ اس سب کے لیے تیار ہیں ....... ؟؟ انداز سوالیہ اور شرارتی تھا. 

میر میں بالکل بے کار ہوں ذہنی طور پر بھی اور جسمانی بھی _____ تمہیں یہ بات کب سمجھ آئے گی ...؟؟ تم ایک اچھی لڑکی ڈیزرو کرتے ہو. گلبدین کی بات پر میر سر ہلانے لگا جیسے بات سمجھ آگئی ہو

میرے نزدیک اچھی لڑکی سے زیادہ وفادار لڑکی اہمیت رکھتی ہے. جو کہ آپ ہے.آپ میرے لیے جان دے بھی سکتی ہے اور اپنے محبوب کی جان میرے لیے لے بھی سکتی ہے. میر کے منہ سے جیسے ہی یہ جملہ نکلا گلبدین کے تاثرات فورا تبدیل ہو گے

میں نے جان بوجھ کر شیر علی کی جان نہیں لی تھی. گلبدین نے احتجاج کیا

معلوم ہے. میر نے گلبدین کی ہاتھ کی پشت کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے جواب دیا

میر تم سمجھتے کیوں نہیں ہو. میں خود سے تنگ ہوں. گلبدین نے بے بسی سے میر کو دیکھا 

آپ مجھے تنگ کیا کریں. خود نہ تنگ ہوا کریں مگر ایسے جیسے اچھی بیویاں کرتی ہیں. مختلف فرمائشیں کر کے، نہ کہ یوں ____  میر نے پٹی والے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے کہا

میر آج ایک بات تو بتاؤ. جب تمہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ میں اب کبھی چل نہیں سکتی تو تم نے مجھ سے نکاح کیوں کیا ......... ؟؟ گلبدین کے سوال پر میر نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا

یہ آج کل آپ کس سے مل رہی ہیں. مجھے سمجھ نہیں آرہی کون آپ میں یہ باتیں بھر رہا ہے ....... ؟؟ میر نے جانچنی نظروں سے گلبدین کی طرف دیکھا

سارے ملازم تو تمہارے ہیں. میرا تو یہاں کوئی بھی نہیں. گلبدین کا جواب میر کی تسلی نہ کر سکا

میرے خیال سے اب آپ کو میرے کمرے میں شفٹ ہو جانا چاہیے. اکیلے میں آپ پتہ نہیں کیا کیا فضولیات سوچتی رہتی ہیں. ایک تو آپ کی تنہائی ختم ہو جائے گی دوسرا آپ کے بقول میرے گھر میں بچوں کی رونق بھی لگ جائے گی. میر کا انداز چھیڑنے والا تھا

نہیں میر میں تمہاری احسان مند ہوں کہ تم نے مجھے رُلنے نہیں دیا. اپنے نام کے ساتھ ساتھ یہ پر آسائش زندگی بھی دی مگر سچ یہ ہے کہ میں تمہارے قابل نہیں. تمہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میں ایک ایسی ہڈی ہوں جو تمہارے گلے میں پھنس گئی ہوں. گلبدین کی باتوں پر میر نے اپنی کنپٹی دو انگلیوں سے دبائی

گل میرے سر میں بہت درد ہے. آپ پلیززز فضول باتیں کرنا بند کریں. آپ جو بھی ہیں اور جیسی بھی ہیں مجھے منظور ہیں. جب مجھے کوئی مسئلہ نہیں تو اپ کو کیوں ہے ........ ؟؟ میر نے ایک بار پھر گل کا رخ اپنی طرف کیا جو دوسری طرف منہ کیے رو رہی تھی

خواہ مخواہ اپنی انکھیں سوجھا لی ہیں. بری بات اور آئندہ خودکشی کا سوچنا بھی مت ورنہ میں اپنے اپ کو گولی مار لوں گا اور آپ جانتی ہیں میں یہ کر سکتا ہوں. میر نے سرد ترین لہجے میں تنبیہ کی

اللہ نہ کرے میر تم بہت خوفناک باتیں کرتے ہو. گلبدین نے فوراً میر کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھا

بس تو پھر یہ طے ہے کہ آپ میرے کمرے میں شفٹ ہو رہی ہیں. میر نے گلبدین کا ہاتھ چومتے ہوئے پیچھے کیا جس پر وہ خاموش ہو گئی

تم کون سا گھر ہوتے ہو. سارا دن تمہارا کمرہ بھی ویران پڑا رہتا ہے. گل نے جیسے جتلایا 

میں جہاں بھی جاؤں رات کو لوٹ آتا ہوں. مجھے اپنے کمرے اور بستر کے بغیر نیند نہیں آتی. میر نے گل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا

آپ کے آنے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ پھر مجھے سونے کے لیے نیند کی گولیاں نہیں کھانا پڑیں گی. میر نے ایک انکھ ونگ کرتے کہا تو گلبدین نے نفی میں سر ہلایا

بات مت بدلو ____  گل نے میر کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ الگ کیا 

آرام سے میری بات مان لیں. ورنہ آپ مجھے جانتی ہیں میں کسی سے درخواست نہیں کرتا. میر نے کرسی ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے کہا تو گلبدین نے بھی بیڈ ساتھ ٹیک لگا لی

گڈ ویری گڈ اب آپ آرام کریں. میں ذرا ان نمک حرام ملازموں کی خبر لے لوں. میر نے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے کوٹ کا بٹن بند کیا

میر کسی کو کچھ مت کہنا _____  گلبدین ایک دم اٹھنے لگییں. 

آپ لیٹی رہیں اور پریشان نہ ہوں. کسی کی سفارش بھی نہ کریں کیونکہ میں معاف نہیں کرتا. جب میں نے ان کو آپ کی حفاظت کے لیے رکھا ہے اور وہ پیسے بھی اسی چیز کے مجھ سے لیتے ہیں. تو پھر آپ کو چوٹ کیسے آئی اور کیوں ......؟ ؟ میر کہتا ہوا پلٹ گیا جبکہ گلبدین خاموشی سے اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگی. 

دوسرا مجھے لگتا ہے کہ اس غلام علی کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا. وہی آپ کا دماغ خراب کر رہا ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا. میر بربڑاتا ہوا دروازہ کراس کر گیا

🎭🎭🎭🎭

اب بتاؤ تم اس بارے میں کیا کہتی ہو ....... ؟؟ حاشر نے عزین کی طرف دیکھا جو بڑے غور سے ان کی بات سن رہی تھی. 

سر آپ کو میں کیسی لگتی ہوں. میرا مطلب ہے اپ کی میرے بارے میں کیا رائے ہے ........ ؟؟ عظیم نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کیا

میری تمہارے بارے میں بہت رائے ہے. تم ایک لائق اور قابل لڑکی ہو. حاشر نے دل سے اس کی تعریف کی. 

پھر آپ کو کیسے لگا کہ میں آپ کے اس سڑیل باس کی بات مان لوں گی ....... ؟؟ عزین کے سوال پر حاشر کو اپنے اندر اطمینان اترتا محسوس ہوا. 

اصل میں وہ میر کہہ رہا تھا کہ تم ایک لالچی لڑکی ہو اور دولت کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہو تو میں نے سوچا پہلے میں خود چیک کر لوں. پر شکر ہے کہ تم ایسی نہیں ہو حالانکہ زیادہ تر میر کا اندازہ بالکل ٹھیک نکلتا ہے. حاشر کی وضاحت پر عزین نے اسے بہت گہری نظروں سے دیکھا. 

"یہ میر میرے بارے میں اتنا درست اندازہ کیسے لگا سکتا ہے .....؟ ؟" بظاہر حاشر کو دیکھتے ہوئے عزین خود سے مخاطب تھی. تبھی حاشر نے اس کے آگے چٹکی بجائی. 

سر میں آپ کی بات سن رہی ہوں. عزین نے فوراً اپنا سر  جھٹکتے آس پاس دیکھا. 

تم سے میر ملنا چاہتا ہے اور وجہ میں نے تمہیں بتا دی ہے. حاشر نے اپنے آگے کافی کا کپ صرف سرکایا

آپ بس یہ بتائیں کہ جیل میں کون ہے. جس سے میر بدلہ لینا چاہتا ہے .....؟ ؟ عزین کا سوال حاشر کو پریشان کر گیا

مجھے نہیں معلوم، یہ سوال تم میر سے ہی پوچھ لینا. حاشر نے جان چھڑائی. 

سر آپ ان کے کافی پرانے دوست ہیں اتنا تو معلوم ہوگا کہ کون اندر ہے اور کیوں ........ ؟؟ عزین نے کافی پر زور دیتے ہوئے پوچھا 

عزین تم میر سے مل لو. جو تسلی میں نے کرنی تھی وہ کر لی ہے. باقی تم جانو اور وہ ____  میرا کچھ لینا دینا نہیں. حاشر نے کب خالی کرتے میز پر رکھا

چلیں آپ کے اس دوست نما باس سے بھی مل کر دیکھتے ہیں. عزین نے بھی اپنا کپ خالی کیا

عزین اپنا کیریئر تباہ نہ کرنا بس اتنا ہی کہوں گا. حاشر نے بل دیتے نصیحت کی

آپ کو میری فکر ہوتی ہے تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے مگر جب آپ مجھ سے باتیں چھپاتے ہیں تو مجھے برا بھی بہت لگتا ہے. 

میں جانتی ہوں کہ آپ کو معلوم ہے کہ جیل میں کون ہے مگر  _____ عزین نے اپنی بات جان بوجھ کر ادھوری چھوڑتے حاشر کی طرف دیکھا جو اس کے برابر چلتا ہوا ہوٹل سے نکل رہا تھا

عزین تمہارے ذہن میں جتنے بھی سوال ہیں. ان کے جواب صرف اور صرف میر پاس ہیں. لہذا اس سے ہی پوچھنا. حاشر نے بظاہر مسکراتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا تو عزین چپ چاپ اندر بیٹھ گئی 

مجھے چند دن پہلے آپ کے اس دوست نما باس نے لفٹ دی تھی. عزین کے بتانے پر حاشر سر ہلاتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا

وہ بہت ہی بے مروت اور بدلحاظ ہیں. اخلاق نام کی کوئی چیز ان میں نہیں. عزین ابھی اور بھی میر کی تعریفیں کرتی مگر حاشر کا موبائل بجتا دیکھ کر خاموش ہو گئی

ہاں میر بول ___  اچھا اب کیسی ہے. طبیعت ........ ؟؟ چلو میں آتا ہوں. حاشر نے فوراً فون بند کر دیا. 

کیا ہوا ......؟ ؟ عزین کو تجسس ہوا. 

میر کی بیوی نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے. حاشر نے بتاتے ہوئے گاڑی کی سپیڈ تیز کر دی

میر صاحب شادی شدہ ہیں مگر میں نے کبھی ان کی بیوی ان کے ساتھ نہیں دیکھی. عزین شدید حیران ہوئی

ہاں وہ کزن ہے میر کی مگر ٹانگوں سے معذور ہے. تو کہیں آتی جاتی نہیں. حاشر بالکل سنجیدہ تھا مگر عزین جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا. 

اتنے نخرے والے شخص کی بیوی معذور _____  عزین صرف اتنا ہی کہہ سکی. 

میر کو جتنا جانو گی تمہیں اس سے اتنی ہی ہمدردی ہوگی اور حیرت بھی _____  وہ ایک مسٹری ہے مگر ہے دلچسپ ____  حاشر کے جواب پر عزین مزید الجھ گئی

🎭🎭🎭🎭

غازی کب سے اپنی ہیوی بائیک پر بیٹھا گاڑیوں کا انتظار کر رہا تھا. جس راستے سے عابد بلڈرز کی گاڑیوں نے گزرنا تھا وہاں پر ماجد کے ذریعے غازی نے ناکہ لگوا دیا تھا. اب ان کے پاس اس راستے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا. 

بلیک جیکٹ اور بلیک پینٹ کے اوپر بلیک ہیلمٹ پہنے، بلیک ہیوی بائیک پر بیٹھا وہ کسی کو بھی اپنی نشانی نہیں دے رہا تھا. ہاں البتہ وہ خود نشان کی تلاش میں تھا. 

ماجد ان کی گاڑیوں نے اپنا راستہ تبدیل کیا ہے یا نہیں مجھے فورا انفارم کرو. غازی نے بائیک پر بیٹھے بیٹھے میسج ٹائپ کیا

انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا ہے لیکن میں پھر بھی تجھے وہی کہوں گا جو آگے کہا تھا. الٹے کام نہیں کرتے. ماجد کا میسج پڑھتے ہوئے غازی مسکرا دیا 

ویسے تو تُو میرا دوست بنا پھرتا ہے مگر کبھی بھی میری کامیابی کے لیے دعا نہیں دیتا. کبھی بھی میرے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا. ہمیشہ مجھے مایوس ہی کرتا ہے. جان بوجھ کے یہ میسج ٹائپ کرتے غازی نے موبائل اپنی جیب میں رکھا اور بائیک کو ریس دینے لگا

چند سیکنڈ کا یہ کھیل تھا. نشانہ چوک جانے یا ان کے نشانے پر آنے _____  دونوں ہی صورتحال میں غازی کی جان کو شدید خطرہ تھا. وہ اپنے آپ کو بھی بچانا چاہتا تھا اور مشن بھی مکمل کرنا اس کی ذمہ داری تھی. 

وہ ڈرتا نہیں تھا. شروع سے ہی خطروں سے کھیلتا آیا تھا مگر نہ جانے آج کیا بات تھی اس کا دل مختلف طرح دھڑک رہا تھا. جیسے کچھ عجیب ہونے والا ہو. دور سے گاڑیوں کو دیکھتے غازی نے بائیک کی ریس تیز کی اور آگے کی طرف بڑھ دیا. 

بیک مرر میں اسے اپنے پیچھے گاڑیوں کا قافلہ آتا دکھائی دے رہا تھا. پلین کے عین مطابق اس نے پل سے پہلے نشانہ لے کر مڑ جانا تھا مگر اسے غازی کی خوش قسمتی کہیے یا بد نصیبی کہ وہ خود ہی پل کے اوپر آن پہنچا. 

بائیک سے نیچے اترتے وہ اس کا ٹائر چیک کرنے لگا جب قافلہ اس کے بالکل قریب ان پہنچا. جس گاڑی میں شکار سوار تھا غازی نے کھڑے ہوتے ہوئے اس پر ہینڈ کرنے پھینکا اور خود پل سے نیچے چھلانگ لگا دی جہاں درمیانے درجے کا پانی بہہ رہا تھا

ارادہ تو اس کا فائر کرنے کا تھا مگر اتنے قریب سے گاڑیوں پہ فائر کرنا سراسر بے وقوفی تھی کیونکہ گاڑیاں بلٹ پروف تھیں. اگر وہ فائر کرتا تو ان کا کچھ نہ جاتا مگر جوابی فائر میں غازی بھونا جاتا

غازی کو ایک ہی کام تھا جو نہیں آتا تھا اور وہ تھا " تیرنا "  ______ گرنیڈ کے پھٹنے سے تباہی تو بہت مچی تھی. گاڑیاں تباہ ہو گئی تھیں. پل ٹوٹ گیا تھا. غازی اس تباہی کا شکار تو نہیں ہوا تھا مگر اسے پانی نے نگل لیا تھا. پانی اب بالکل پرسکون تھا جیسے اس میں کوئی گرا ہی نہ ہو. 

چند منٹوں کے اندر اندر یہ خبر ٹی وی کی زینت بن چکی تھی. پولیس،سیکورٹی اور اخباروں کے نمائندوں کی گاڑیوں کا وہاں ڈھیر لگ گیا تھا. سب عابد صاحب سے اس کے بیٹے کا افسوس کر رہے تھے جو دیوانہ وار اس ملبے کو دیکھ رہا تھا. 

مگر ماجد کی آنکھ صرف غازی کی تلاش میں تھی. وہ واحد آنکھ تھی جو غازی کے لیے بے قرار دکھائی دے رہی تھی. دماغ اس بات کو تسلیم کر رہا تھا کہ غازی نہیں رہا مگر اس کی آنکھ اور دل اس بات سے انکاری تھا

تم سب کے سب نمک حرام ہو. جب میں نے کہا تھا کہ گل بی بی کے آس پاس رہنا ہے. انہیں تنہا نہیں چھوڑنا تو کہاں مر گئے تھے سب کے سب _____ اور خاص طور پر آپ ....... ؟؟ میر نے آیا کی طرف مڑتے ہوئے پوچھا جب کہ باقی سب ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑے تھے. پورے میر ویلاز میں میر کی اواز گونج رہی تھی

صاحب جی میں ان کے لیے کھانا لینے کچن میں آئی تو پتہ نہیں گل بی بی نے پیچھے اپنے ساتھ کیا کر لیا. آیا کی ڈری سہمی آواز نکلی

تم گئی تھی تو باقی سارے مر گئے تھے. اپنی جگہ کسی اور کو چھوڑ کر جا سکتی تھی ناااااا ____  میر کے سوال پر اس کی بولتی بند ہو گئی

ان سب کو فارغ کر دو بلکہ یوں کرو کہ انہیں میرے فارم ہاؤس بھیج دو. یہ انسانوں کی نہیں جانوروں کی خدمت کرنے کے قابل ہیں. وہاں میرے کتے نہائیں گے، گھوڑوں کی دیکھ بھال کریں گے. تو ٹھیک ہو جائیں گے. میر کی بات پر سب نے ایک ساتھ نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا

صاحب رحم کریں. ایسی غلطی دوبارہ نہیں ہوگی. ایک بزرگ ملازم نے میر کے آگے ہاتھ جوڑتے سب کی سفارش کی. 

یہ یہاں رہیں گے تو غلطی ہوگی نااااا _____  میر نے اپنی ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے گلے سے کھینچی

صاحب اس دفعہ معاف کر دیں. میں ان کی گارنٹی دیتا ہوں. اب یہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کریں گے

اپ اچھے سے جانتے ہیں کہ میں کسی کو معاف نہیں کرتا. میری سرنسشت میں بدلہ لینا شامل ہے معاف کرنا نہیں. میر نے کف کے بٹن کھولتے انہیں فولڈ کیا

بس آخری بار _____  بزرگ نے بڑی آس سے میر کی طرف دیکھا تو غلام علی سے رہا نہ گیا

میر معاف کر دیں ناااااا _____  ان کے سفید بالوں کیطرف دیکھیں. سفید بالوں سے تو اللہ بھی حیا کرتا ہے. غلام علی کی آواز پر میر نے اسے شعلہ باز نظروں سے گھورتے ہوئے باقی سب کو جانے کا اشارہ کیا

غلام علی تم جانتے ہو کہ جب میرا دماغ خراب ہوتا ہے تو میں کیا کرتا ہوں ....؟؟ میر نے غلام علی کے اوپر سے فرضی گرد جھاڑتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں پوچھا

آپ ______ غلام علی کی آواز لڑکھڑائی. 

ہاں میں ______ میر نے اسی انداز میں دوبارہ پوچھا

میر آپ اپنا غصہ کسی کو مار کر نکالتے ہیں. غلام علی کا جملہ پورے ہوتے ہی میر نے ہلکا سا قہقہہ لگایا 

اور جانتے ہو اس بار باری کس کی ہے ....... ؟؟ میر نے مڑتے ہوئے پوچھا تو غلام علی نے تھوک نگلا. اس سے پہلے کے غلام علی کچھ کہتا میر نے پلٹتے ہوئے گن اس کے ماتھے پر رکھ دی

غلام علی تم آج کل جس طرح گل بی بی کی برین واشنگ کر رہے ہو. میرا دل کرتا ہے کہ تمہارا سر اڑا دوں. میر کے ایکشن پر غلام علی کا جسم پسینے میں ڈوبنے لگا

میر میں نے کچھ نہیں کیا بلکہ وہ کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنے بھائی کے مرنے کا افسوس نہیں. غلام علی کے یوں بولنے پر میر نے پاس پڑے گلدان پر ہاتھ مارا تو وہ نیچے گرتے ہوئے کئی ٹکڑوں میں تبدیل ہو گیا

گل بی بی کا تو دماغ شروع سے کام ہی نہیں کرتا ورنہ وہ شیر علی کی جگہ مجھ پر گولی چلاتی مگر تمہارا تو کرتا ہے نا بولو ........ ؟؟ میر نے چیختے ہوئے غلام علی کا گریبان پکڑا تو وہ دو قدم پیچھے ہوا

میر نے گن صوفے پر پھینکتے ہوئے گہرے گہرے سانس لیے. اپنے اپ کو نارمل کرتے ہوئے میر نے ٹی وی آن کیا تو اس پر ایک ہی خبر چل رہی تھی کہ ملک کے مایہ ناز بلڈرز کے اکلوتے بیٹے کی کار حادثے میں ڈیٹھ ہو گی ہے

خبر پڑھتے ہی میر کے تنے اعصاب نارمل ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے  خوشی میں ڈھل گئے. تم سب کے سب نکمے اور نمک حرام ہو سوائے اس "غازی" کے، وہ میرا "ٹائیگر" ہے. میر کی خوشی دیدنی تھی

خوشی سے میر نے باری باری تمام چینلز ٹیون کیے تو سب پر ایک ہی خبر تھی. جس سے اس کا انگ انگ خوشی سے جھومنے لگا. 

گاڑی نکالو مجھے ابھی اور اسی وقت  عابد بلڈرز کے پاس افسوس کے لیے جانا ہے. آخر ہمارا کاروباری رقیب ہے اور رقیب تو" محبوب" سے زیادہ عزیز ہوتا ہے. تمہیں تو اس بات کا باخوبی اندازہ ہوگا ہے نااااا _____ آخر تم بھی میرے رقیب رہ چکے ہو. میر آنکھ مارتا غلام علی کا کندھا تھپکتا آگے بڑھ گیا

🎭🎭🎭🎭

عزین تم نے خبر سنی ____ حاشر نے عزین کو فون کرتے ہوئے پوچھا 

سنی ہے سر مگر ہمارا اس سے کیا لینا دینا. عزین کے جواب پر حاشر نے اپنا ماتھا پیٹ لیا

بے وقوف لڑکی بلکہ وکیل عابد بلڈرز ہمارے رقیب ہیں اور وہ سب سے پہلے ہمارا ہی نام دیں گے. حاشر نے اس سے سمجھانا چاہا

مگر میری تو کسی سے بھی کوئی دشمنی نہیں ہے دوسرا میں اور آپ کب سے "ہم" ہو گے ...... ؟؟ عزین کی بات پر حاشر نے گہرا سانس خارج کیا

عزین ہم سے مراد میر کا سٹاف ہے. حاشر کے جواب پر عزین سر ہلانے لگی

اچھا اب مجھے بات سمجھ آگئی ہے. تو بتائیں کہ ہمیں اب کیا کرنا چاہیے ....... ؟؟ عزین نے جان بوجھ کر ہم پر زور دیا

محترمہ وکیل صاحبہ!!! ہمیں فوراً ایک قانونی کاروائی کرنی چاہیے تاکہ ہم عابد بلڈرز کے کسی بھی قسم کی جارحیت سے بچ سکیں آئی سمجھ یعنی ہم نے میر کو ایک safe zone مہیا کرنا ہے. حاشر نے سنجییدگی سے بتایا کیونکہ آج کل سارے کام عزین ہی کر رہی تھی

بدلے میں ہمیں کیا ملے گا ...... ؟؟ عزین کی بات سنتے  ہوئے حاشر کمرے میں ٹہل رہا تھا 

عزین  ہم اس کے قانونی مشیر ہیں اور وہ ہمیں اس چیز کی اچھی خاصی تنخواہ دیتا ہے. حاشر نے جتلایا

اچھااااااااااااا  پھر میں ایک پروٹیکٹو فائل تیار کرتی ہوں. عزین کے حامی بننے پر حاشر نے سکھ کا سانس لیا اور فون بند کر دیا. ابھی وہ دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہی ہوا تھا کہ اس کا موبائل بجنے لگا

ہاں میر ____  حاشر نے ٹی وی پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا 

حاشر میں عابد بلڈرز کے آفس جا رہا ہوں افسوس کے لیے، تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ آگے کیا کرنا ہے ....... ؟؟ 

جی بالکل میں نے عزین کو کہہ دیا ہے. حاشر کے منہ سے عزین کا لفظ سنتے میر کافی بدمزہ ہوا. 

ایسا کرو عزین سے کہو کہ وہ میرے ساتھ عابد بلڈرز چلے تاکہ ان کو دیکھتے ہوئے قانونی کاروائی کی جائے. میر کے حکم پر حاشر حیران ہوتے ہوئے مسکرانے لگا

اچھا میں اسے کال کرتا ہوں کیونکہ اس وقت وہ آفس میں نہیں ہے. حاشر کی اطلاع پر کچھ سوچتے ہوئے میر نے کہا

اسے کہو کہ اپنے اسی گندے سٹاپ پر آ جائے. میں وہیں سے پک کر لیتا ہوں. میر نے کہتے ہوئے کال کاٹ دی

میر کے ذہن میں پتہ نہیں کیا چل رہا ہے. اللہ عزین کو میر کے اور میر کو عزین کے شر سے محفوظ رکھے دونوں ہی نیگٹو چارج رکھتے ہیں. حاشر کہتا عزین کو کال ملانے لگا

🎭🎭🎭🎭

ماجد نے غوطہ خوروں کی مدد سے اس جھیل نما نالے کا چپا چپا چھان مارا تھا مگر غازی کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا ابھی بھی ایک اور غوطہ خور ٹیم اس کی تلاش کر رہی تھی

سر آپ کو آخر کس کی تلاش ہے ...... ؟؟ حوالدار نے ماجد کو یوں پریشان ہوتا دیکھ کر پوچھا

ہمارا کام ہے تلاش کرنا کیونکہ تین گاڑیوں میں کافی لوگ سوار تھے اور سب کی تو لاشیں نہیں ملیں. ماجد نے بات بدلی

دفع کریں سر جی!!! آپ کیوں ان لوگوں کے پیچھے خوار ہو رہے ہیں ....؟؟ حولدار کی بات پر ماجد نے اسے گھور کر دیکھا

ہماری اور تمہاری ترقی کا انحصار اسی کارکردگی پر ہے. چپ چاپ کام کرو. عینی شاہد ڈھونڈو اور ان سے پوچھو کہ واقعہ کیا ہوا تھا ......؟ ؟

پھر رپورٹ تیار کر کے ایس پی صاحب کو پیش کرو. اس سے پہلے کہ ہماری پیشی ہو جائے. ماجد کا موڈ غازی کی وجہ سے سخت خراب تھا اور رہتی کسر حوالدار نکال رہا تھا. 

غازی یار کہاں ہے تو  کہاں جا کر چھپ گیا ہے...... ؟؟ پانی کی لہروں کو دیکھتے ہوئے ماجد نے دل میں اسے پکارا

 غازی ہے تو کافی تیز، میرا دل نہیں مانتا کہ وہ یوں _____  عابد نے اپنی آنکھوں کو دبایا

پیارے اللہ جی پلیز ہے تو میرا دوست بہت ہی گھٹیا، ذلیل، کمینہ مگر تو اسے بچا لے. ماجد دعا کرتا اٹھ کھڑا ہوا اتنی دیر میں غوطہ خور ٹیم بھی باہر اگئی

سر ہمارے حساب میں یہاں کوئی زندہ یا مردہ وجود نہیں ہے. ورنہ ضرور کوئی نہ کوئی سراغ مل جاتا. آپ کے حکم پر ہم نے اچھی طرح چھان بین کر لی ہے مگر ہمیں کچھ نہیں ملا. ٹیم کے سربراہ نے جواب دیا تو ماجد نے اداسی سے سر ہلایا

🎭🎭🎭🎭

زری تو نے سنا ہے کہ بابا سرکار کی زیارت پر کوئی نوجوان آیا ہے. رجو نے ساگ پکاتی زریں کے کان میں سرگوشی کی. 

زیارت پر تو ہر روز پتہ نہیں کتنے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آتی ہیں. اس میں خاص کیا ہے........ ؟؟ زری نے آگ کو پھونک مارتے ہوئے جواب دیا

پاگل لڑکی وہ اپنی یاداشت کھو بیٹھا ہے. بابا سرکار کے گدی نشین نے اعلان کروایا تھا کہ اگر کوئی اس کا جاننے والا ہے تو اسے آکر لے جائے. رجو نے پرتجسس لہجے میں زریں کی طرف دیکھا جس پر وہ آبرو اچکاتے ہوئے اسے دیکھنے لگی

زری تو میرا پلان لگتا ہے بھول گئی ہے. اگر ہم ماسی پھلاں سے کہیں کہ وہ نوجوان سانول ہے تو ماسی یقیناً اسے  لینے جائے گی. آگے تو خود سمجھدار ہے. بھلا پاگل سے کون شادی کرتا ہے .....؟ ؟ رجو نے سرگوشی نما آواز میں کہا تو زریں کھل اٹھی. 

رجو تو نے میرا دل خوش کر دیا ہے. چل ماسی کو لے کر زیارت پر چلتے ہیں. ویسے وہ دیکھنے میں کیسا لگ رہا ہے ...... ؟؟ زریں نے ہانڈی پر ڈھکن دیا اور آگ بجھا دی. 

ارے یہ کیا کر رہی ہے کھانا تو بنا لے ....... ؟؟ رجو نے اسے آگ بجھاتے دیکھ کر شور مچایا 

چپ کر ہلکی آنچ پر خود ہی پکتا رہے گا. چل آ ماسی کو زیارت پر لے کر چلتے ہیں. زریں نے اپنا ڈوپٹہ سر پر لیتے ہو کہا تو رجو بھی کھڑی ہو گئی

ماسی ماسی لگتا ہے اللہ نے تیری سن لی ہے. دیکھ زیارت پر تیرا سانول آیا ہے. دور سے ہی رجو نے چیخ چیخ کر ماسی کو آواز دی جو کھیتوں میں کام کر رہی تھی. 

رجو مجھے اس طرح کا مذاق بالکل پسند نہیں ہے. ماسی نے ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے دوبارہ اپنا کام شروع کر دیا. 

ہائے اللہ ماسی میں کیوں جھوٹ بولوں گی. ابھی ابھی زیارت اور دو دفعہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر میں بھی اعلان ہوا ہے. وہ بیچارہ ساتھ والے گاؤں کا نالہ نہیں ہے اس میں سے ملا ہے. 

پانی ہی تیرا بیٹا لے کر گیا تھا اور پانی ہی تیرا بیٹا لے کر واپس آیا ہے. تو ایک دفعہ چل کے اسے دیکھ تو لے. رجو کی ایکٹنگ پر زری نے اسے دور سے خوب سراہا

تجھے کیسے پتہ کہ وہ میرا سانول ہی ہے ....... ؟؟ ماسی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رجو کے برابر کھڑی ہو گئی. دل تو اس کا بھی عجیب طرح دھڑک رہا تھا کہ اللہ کرے اسی کا بیٹا ہو. 

ماسی تو خود کہتی ہے کہ تو اپنے بیٹے کو پہچان لے گی. چل ہمارے ساتھ اور دیکھ کیا وہ تیرا ہی سانول ہے. زریں نے بات بگڑتے دیکھ کر فوراً سنبھالی

زیارت پر اس وقت اچھا خاصا لوگوں کا ہجوم تھا. غازی سب لوگوں کو عجیب نظروں سے گھور رہا تھا. بدقسمتی سے اسے سر اور ٹانگ پر شدید چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں پا رہا تھا اور اوپر سے اتنے سارے لوگ _____ شدید کوفت اور تکلیف کے مارے وہ بار بار آنکھیں بند کرتا دیوار ساتھ ٹیک لگا رہا تھا. 

لو جی ماسی پھلاں آگئی. دیکھ ماسی اللہ نے تیرا بیٹا واپس کر دیا ہے. وہاں پر جتنے بھی مرد عورت کھڑے تھے سب ماسی پھلاں کو دیکھ کر شور مچانے لگے. 

زی دیکھ یہ تو بیچارہ اچھا خاصا مسکین سا ہے. رجو کے منہ سے جیسا ہی یہ جملہ نکلا غازی نے ایک جھٹکے سے گردن اٹھا کر اس سمت دیکھا کیونکہ یہ لفظ ماجد اسے بہت پیار سے کہتا تھا. مگر وہاں شناسائی کی کوئی رمق نہ تھی جبکہ ماسی غازی کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیر رہی تھی

وہ غازی کو دیوانہ وار چوم رہی تھی. جس سے وہ شدید تنگی کا شکار ہو رہا تھا مگر اس وقت شور مچانا سراسر بے وقوفی تھی. 

میں اپنے پتر کو اپنے گھر لے کر جاؤں گی. اس کی خدمت کروں گی. کچھ دنوں میں یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا. ماسی نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے غازی سے کہا تو غازی نے دل میں شکر ادا کیا کیونکہ اتنے سارے لوگوں کے درمیان سے بھاگنا مشکل تھا با نسبت ایک بوڑھی عورت کے پاس سے بھاگنا. غازی نے فوراً ہاں میں سر ہلایا تو ماسی نے خوشی سے اس کا ماتھا چوم لیا. 

🎭🎭🎭🎭

سٹاپ پر کھڑے ہوئے تقریبا 10 منٹ گزر چکے تھے مگر عزین کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا. میر اب کوفت کا شکار ہونے لگا تھا اس سے پہلے کہ وہ حاشر کو کال کرتا دور سے عزین آتی دکھائی دی. 

عزین کو دیکھتے ہی باڈی گارڈ نے تیزی سے دروازہ کھولا تو وہ خاموشی سے اندر آ کر بیٹھ گئی. ساری گاڑی میں بہت ہی خوبصورت خوشبو رچی بسی تھی شاید یہ میر کے پرفیوم کا کمال تھا. 

بس جی بڑے لوگ اور بڑی باتیں ____  مہنگے پرفیوم لگاتے ہیں. کئی دن تک خوشبو ہی نہیں جاتی اور ایک ہم غریب لوگ ابھی پرفیوم لگایا نہیں کہ اڑ گیا. عزین نے دل میں سوچا جب کہ میر اسے کافی غصیلی نظروں سے گھور رہا تھا

مس عزین آپ کے ہاں وقت کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں ...... ؟؟ بالاخر میر کا صبر جواب دے گیا تو اس نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

اگر گھڑی آپ کی طرح قیمتی ہو تو "ہاں" ورنہ میرے نزدیک وقت کی کوئی اہمیت نہیں ہے. عزین کے جواب پر میر نے اسے چونک کر دیکھا

کیا میرا آپ کا مذاق ہے .......؟؟ میر کے لہجے میں تلخی تھی

نہیں اور اگر ہوتا بھی تو میں آپ ساتھ نہ کرتی کیونکہ آپ کی حسہ مزاح بہت کمزور ہے بلکہ ہے ہی نہیں. عزین کے جواب پر ڈرائیور اور باڈی گارڈ نے بیک مرر میں اسے گھور کر دیکھا

حاشر نے آپ کو بتا تو دیا ہوگا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ....... ؟؟ میر نے بات بدلتے باہر کی طرف دیکھا

ہاں کہہ رہے تھے کہ میر صاحب کی بڑی ساری پرسکون گاڑی میں جا کر ایک اچھے سارے ہوٹل میں ایک زبردست سا ڈنر ہے. تم انجوائے کرو گی. عزین کے منہ سے جیسے ہی یہ جملے نکلے میر نے گردن موڑ کر اسے ایسے دیکھا جیسے کچا کھا جائے گا

یہ نہیں کہا تھا بلکہ کہا تھا کہ عابد بلڈوز کے آفس جانا ہے اور ان کے رویے کو دیکھتے ہوئے قانونی کاروائی کرنی ہے اگر انہوں نے ہمیں کچھ نہ کہا تو سب ٹھیک ورنہ ہم فائل کریں گے. عزین نے میر کے سخت تیوروں کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے وضاحت دی

کیا فائل کریں گے .....؟ ؟ میر نے دہرایا 

کیس اور کیا اتنا نہیں پتہ آپ کو ____  دیکھنے میں تو اچھے خاصے ذہین لگتے ہیں. اوہ سوری میں تو بھول ہی گئی تھی کہ جیل میں رہتے ہوئے بندے کو کہاں اتنا نالج ہوتا ہے. عزین کے منہ سے جیسے ہی یہ جملہ نکلا گاڑی کو زبردست بریک لگی کہ اس کا سر آگے والی سیٹ سے جا ٹکرایا

او شٹ _____ کتنی گندی ڈرائیونگ کرتے ہیں ....... ؟؟ اپ انہیں کچھ نہیں کہتے. عزین نے اپنا ماتھا سہلاتے میر کی طرف دیکھا

میرے ہاتھوں سے آج  تک کبھی کسی عورت کا قتل نہیں ہوا مگر لگتا ہے کہ آج یہ رکارڈ ٹوٹ جائے گا. میر نے اپنے پاکٹ سے پسٹل نکالتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا

شکر ہے کہ میں عورت نہیں ہوں. عزین نے میر کی طرف دیکھتے ہوئے سکھ کا سانس لیا

ابھی کے ابھی گاڑی سے نیچے اترو. اس سے پہلے کہ میں تمہاری لاش کا وہ حشر کروں کہ لوگ پہچانے بھی نہ ____ میر کے دھاڑنے پر باڈی گارڈ نے فوراً فرنٹ سیٹ سے اترتے ہوئے بیک کا دروازہ کھولا. جیسے ہی عزین گاڑی سے اتری گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی. 

میرا شاندار ماضی سب کو بتانے سے پہلے اپنے مستقبل کی فکر بھی کر لیتے. اب دیکھ کے میں تیرا کیا حشر کروں گا ........ ؟؟ چند منٹوں کے اندر اندر تیری اس گھٹیا اسسٹنٹ نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے. اب اپنی خیر منا. میر نے عزین کے اترتے ہی حاشر کو میسج سینڈ کیا اور اپنی کنپٹی دبانے لگا کیونکہ آج اس نے حد سے زیادہ برداشت کیا تھا کیونکہ وہ خوش تھا

سر آپ نے مجھے کس پاگل انسان ساتھ جانے کا مشورہ دیا تھا. شکر ہے کہ میری جان بچ گئی اگر میں مر جاتی تو یہ قتل آپ کے سر ہوتا. میں آپ سے سخت ناراض ہوں. 

ابھی حاشر میر کا میسج پڑھ ہی رہا تھا کہ عزین کا بھی میسج آگیا 

دونوں ہی اپنی جگہ پٹاخہ چیزیں ہیں. اب میں کیا کروں میر صاحب آپ کی ذاتی خواہش تھی اس پھل جھڑی کو ساتھ لے کر جانے کی. حاشر کندھے اچکاتا دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگا

تھکا ہارا اور کچھ کچھ بیزار سا میر جیسے ہی اپنے کمرے میں داخل ہوا اسے دھیمی لائٹ میں کسی اور وجود کا بھی احساس ہوا. پہلے ماتھے پہ کچھ بل پڑے پھر دماغ کے پردے پہ جھماکا  ہوا تو خاموشی سے صوفے پر کوٹ اتار کر پھینکتا وہیں بیٹھ گیا. 

اپنی چیز کو دوسروں ساتھ شئیر کرنا میری عادت نہیں پھر وہ چاہے میرا اپنا ہی کیوں نہ ہو .....؟ ؟ میر نے اپنے بیڈ کو دیکھتے ہوئے جوتے اتارے. موزے اتارتا وہ نرم کارپٹ پہ چلتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے ان کھڑا ہوا

ویسے خود پسندی کی بھی حد ہوتی ہے. ہمیشہ کی طرح آج بھی میر کا عکس اس سے مخاطب تھا جس پر میر مسکراتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پلٹا تو نظر گلبدین پر جا ٹہری. 

یہاں نیند پوری کی جا رہی ہے اور میری نیند حرام ہے. میں اب بیڈ پہ کیسے سوؤں گا ........ ؟؟ میر نے گہرا سانس بھرتے واش روم کی لائٹ آن کی اور فریش ہونے چلا گیا. 

دروازہ بند ہونے کی آواز پر گل کی آنکھ کھل گئی. پہلے تو اس نے ناسمجھی سے ادھر ادھر دیکھا پھر خیال آیا کہ وہ اپنے نہیں میر کے کمرے میں ہے. جس پر وہ اٹھ کر بیڈ ساتھ نیم دراز ہوئی. 

ارے آپ جاگ گئی ہیں. میر بالوں کو تولیے ساتھ صاف کرتا واش روم سے نکلا. اس نے بلیک کلر کا سلیپنگ سوٹ پہن رکھا تھا اور یہ کلر ہمیشہ ہی اس پہ بہت جچتا تھا

بس آنکھ لگ گئی تھی. میں سونے کی نیت سے نہیں لیٹی تھی. گل کو کچھ عجیب سا محسوس ہوا

بیڈ پر زیادہ تر سویا ہی جاتا ہے. اپ کیوں وضاحت سے رہی ہیں. میر  نے ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھاتے ہوئے جواب دیا. 

میر میری موجودگی میں تم آرام سے سو جاؤ گے .....؟ ؟ گلبدین کے پوچھنے پر میر نے اسے مرر میں گھورا

میرا مطلب ہے کہ تمہیں عادت نہیں ہے نا اپنی چیزیں شیئر کرنے کی _____ گلبدین کو اپنا جملہ کچھ ٹھیک نہ لگا تو فورا اس نے وضاحت دی

میرے خیال سے جب آپ کی بیگم آپ پاس موجود ہو تو نیند سکون کی ہی آنی چاہیے. میر کہتا ہوا بیڈ کی دوسری سائیڈ پر ا کر لیٹنے لگا

میری میں یہاں سکون سے نہیں سو پاؤں گی. میر کے لیٹنے پر گلبدین نے اس کی طرف دیکھے بغیر بتایا

کوئی بات نہیں ایک دو دن میں عادت ہو جائے گی. تو آپ کو اس کمرے اور بیڈ کے علاوہ کہیں سکون نہیں ملے گا. میر نے اپنا بازو اپنے سر کے نیچے رکھتے ہوئے جواب دیا

میرا وجود تمہارے اوپر ایک بوجھ ہے کئی لوگوں کو مار چکے ہو تو مجھے کیوں نہیں مارتے حالانکہ میں تمہارے دشمنوں میں سے ہوں. گلبدین کے سوال پر میر جو سونے کے لیے آنکھیں بند کر رہا تھا فوراً چونک کر اسے دیکھنے لگا

اگر وہ گولی جو شیر علی نے چلائی تھی مجھ پر _____ میر نے گلبدین کی طرف کروٹ لیتے ہوئے اپنے سینے پر انگلی رکھی

وہ آپ اپنے اوپر نہ روکتی تو یقیناً اس دن باقیوں کے ساتھ ساتھ میں آپ کو بھی مار دیتا مگر ____ میر نے اپنی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے گلبدین کا ہاتھ پکڑا

مگر اب مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میری زندگی آپ کی امانت ہے. آپ کے وجود سے میرا وجود ہے. لہذا آپ کی حفاظت و خوشی کا خیال مجھ پر فرض ہے. میر نے اپنے گرم ہاتھ میں گل کا ہاتھ دبایا

نہیں میر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے. جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو کیونکہ تم اتنے سیدھے اور معصوم نہیں. گل کے سوال پر میر ہنسنے لگا

میں نے کب کہا کہ میں سیدھا اور معصوم ہوں. ویسے اگر ایسا ویسا کچھ ہوتا تو اب تک آپ اپنے شیر علی پاس پہنچ چکی ہوتی جبکہ ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا. میر کی آنکھوں میں ایک عجب چمک ابھری

ایسا اس لیے ابھی تک کچھ نہیں ہوا کہ تم چند سال جیل میں رہے اور باہر آنے کے بعد سب سے پہلے تم نے اپنا امیج قائم کیا اور اب جب کہ تم ملک کے ایک نامور بلڈرز بن چکے ہو تو ______ گل نے میر کی طرف دیکھا جو دلچسپی سے اسے ہی دیکھ اور سن رہا تھا

تو ....... ؟؟ میر نے آبرو اچکایا

تو اب تم میرا کیا کرو گے ...؟؟ گل کے سوال پر میر ہنستا ہوا دوبارہ تکیے پر اپنا سر رکھ گیا

ابھی تو اپ سو جائیں اور میں یہ گارنٹی نہیں دیتا ہوں کہ میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا. ہاں البتہ وقت بتائے گا کہ میں آپ ساتھ کیا سلوک کروں گا اور وہ وقت جلد آنے والا ہے.

گڈ نائٹ  _____ میر نے کہتے ہوئے اپنی طرف کا لیمپ بجھا دیا کیونکہ وہ اپنے تاثرات گلبدین سے شئیر نہیں کرنا چاہتا تھا. جبکہ گل نے میر کی طرف دیکھتے ہوئے وال کلاک کو دیکھا جہاں رات کا ایک بج رہا تھا

پتہ نہیں اس رات کی صبح کب ہوگی ........ ؟؟ وہ گھڑی کی سوئیاں دیکھتی اور اس کی آواز سنتی لیٹنے لگی. جب کہ میر کے سانسوں کی بھاری آواز کمرے میں سنائی دینے لگی تھی. 

یہ شخص اتنا مطمئن کیسے سو جاتا ہے....... ؟؟ گل سوچتی ہوئی اپنے اوپر کمبل لینے لگی

🎭🎭🎭🎭

ماسی تیرا پتر واپس آ گیا ہے. اب تو اس خوشی میں دیسی گھی کے لڈو ہمیں کب کھلا رہی ہے ........ ؟؟ رجو نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے ماسی پھلاں سے کہا جو پھولے نہیں سما رہی تھی. 

ہاں ہاں کیوں نہیں رجو میں صبح ہی دیسی گھی کے لڈو بنانے کا آرڈر دیتی ہوں بھلا وہ میرے پتر سے قیمتی ہیں....... ؟؟ ماسی پھلاں نے غازی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہے ہوئے جواب دیا جبکہ وہ شدید بیزار تھا. 

ماسی صبح نائی کو بلوا کر اسے نہلا دیتے ہیں صاف ستھرے کپڑے پہنے گا تو چاند جیسی شکل باہر نکل آئے گی. رجو نے ایک اور فرمائش کی جس پر غازی کا دل کیا کوئی چیز اٹھا کر اس لڑکی کے سر پر مار دے جب کہ زریں بالکل خاموش تھی. 

ہاں ہاں کیوں نہیں ایسا ہی کروں گی ابھی تو تھکا ہوا ہے اوپر سے چوٹ بھی لگی ہے. جا زریں دودھ میں ہلدی ڈال کر لا، پہلے اس کو کچھ کھلا پلا دوں پتہ نہیں کب کا بھوکا ہے ........ ؟؟ ماسی پھلاں کے لہجے میں زمانے بھر کی ہمدردی اتر آئی. 

جی ماسی ابھی لائی  _____ زریں کہتے ہوئے باہر کی طرف چل دی تو رجو نے بھی اس کی پیروی کی. 

اے رجو مجھے تو لگتا ہے یہ لڑکا بہت تیز ہے. کس طرح آنکھیں گھما گھما کے تجھے اور مجھے دیکھ رہا تھا. ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں. میں تو کہتی ہوں پہلے اس ساتھ سیٹنگ کر لیتے ہیں. تو کیا کہتی ہے....... ؟؟ زری نے رازداری سے رجو کے کان میں سرگوشی کی 

زری عقل کے ناخن لے، پہلے اس کے تیور دیکھتے ہیں اگر تو بھولا بھالا ہوا تو ٹھیک ورنہ اس سے لین دین کر لیں گے. 

ایک بار تیری شادی ہو جائے پھر بھلے ماسی کو پتہ چلے کہ یہ اس کا بیٹا نہیں ہے. ہماری بلا سے _____  رجو نے سمجھاتے ہوئے زری سے کہا تو وہ سر ہلاتی دودھ گلاس میں جانے لگی

غازی کو بری طرح اپنا فلائٹ یاد آرہا تھا اور ساتھ ہی ماجد بھی مگر وہ عجیب مصیبت میں گرفتار تھا نہ کچھ بتا سکتا تھا اور نہ کوئی سننے کے موڈ میں تھا. گاؤں اسے کبھی بھی پسند نہ تھا. 

لے پتر دودھ پی تیری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی اور بتا تجھے کھانے میں کیا پسند ہے ........ ؟؟ ماسی نے محبت سے زریں کی ہاتھوں سے گلاس لیتے ہوئے غازی کو پیش کیا جب کہ ماسی کے دوسرے جملے پر زری کا منہ بن گیا

اماں جو بھی بنے گا یہ کھا لے گا. آپ زیادہ فرمائشی پروگرام نہ چلائیں. میرا کچھ بھی بنانے کو دل نہیں کر رہا بلکہ آپ کا بیٹا ہے آپ اس کے لیے خود جا کر کچھ بنائیں. اسے اچھا لگے گا. زری نے کہتے ہوئے غازی کی طرف حمایت بھری نظروں سے دیکھا جو حیرت سے زریں کو دیکھ رہا تھا

(یہ لڑکی تو اس لڑکی سے بھی زیادہ چالاک ہے کون کہتا ہے کہ گاؤں کی لڑکیاں بھولی بھالی اور سیدھی سادی ہوتی ہیں ....... ؟؟ غازی نے دودھ کا گلاس پکڑتے دل میں سوچا) 

اچھا میں تیرے لیے تیری پسند کا کھانا بنا کر لاتی ہوں. تجھے بچپن میں دال چاول بہت پسند تھے. ماسی نے محبت سے ایک بار پھر غازی کا ماتھا چوما اور کمرے سے باہر نکل گئی. جس کے جاتے ہی زری اور رجو ایک دم غازی کی چارپائی کے کنارے آ بیٹھیں تو اس کا گلاس ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا

اب یہ کیا معاملہ ہے ........؟؟ غازی نے دل میں سوچتے دونوں کو گھورا. لڑکیوں سے چڑ تو اسے پہلے بھی تھی اور اب شدت اختیار کرنے لگی تھی. بڑی مشکل سے وہ اپنے جذبات کنٹرول کیے ہوئے تھا کیونکہ وہ اس وقت مارنے کی پوزیشن میں نہیں تھا. ورنہ دونوں کے ہوش ٹھکانے لگا دیتا

دیکھو لڑکے کوئی بھی ہوشیاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے. ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم ماسی کے بیٹے نہیں ہو مگر تمہیں یہاں لانا ہماری مجبوری تھی. زریں نے بات شروع کی تو غازی کو دلچسپی ہوئی. 

ماسی کا ایک بیٹا چھ سات سال کی عمر میں سیلاب میں بہہ گیا تھا اور سب کو پتہ ہے کہ وہ مر کھپ گیا ہے مگر ماسی یہ بات ماننے کو تیار نہیں اس لیے مجبوراً ہمیں تمہیں یہاں لانا پڑا. رجو نے بات آگے بڑھائی. 

تو میں کیا کروں ...... ؟؟ غازی نے ناگواری سے پوچھا تو رجو اور زریں نے ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھا

ارے واہ یہ تو بولتا بھی ہے. ہم سمجھے تھے تم گونگے ہو. زیارت پر تو ایسے ہی پڑے تھے جیسے تم کوئی سائیں ہو. زری نے خوش ہوتے ہوئے غازی کی طرف دیکھا

مجھے لڑکیوں سے شدید چڑ ہے. برائے مہربانی آپ تھوڑے فاصلے پر ہو کر بیٹھیں اور دوسرا آپ کے اس تمام معاملے سے میرا کیا لینا دینا میں کیا کروں ....... ؟؟ غازی شدید اکتاہٹ کا شکار تھا. 

زیادہ ڈرامے بازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے. سب لڑکے ایسے ہی کہتے ہیں. تمہارا حلیہ بتا رہا ہے کہ تمہارا تعلق شہر سے ہے اور تمہیں طبیعت آوارہ _____زری نے غازی کی کلائی میں چاندی کا کڑا اور انگلی میں انگوٹھی  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو غازی کے تاثرات بگڑ گئے

  تمہاری راتیں کلب میں گزرتی ہوں گی وہاں لڑکیاں نہیں تو کیا پودے دیکھنے جاتے ہو ...... ؟؟ بڑے حاجی صاحب بن رہے ہو. ہم گاؤں میں ضرور رہتے ہیں مگر بے وقوف نہیں ہے دنیا کا پتہ ہے. زریں کی بات پر پہلی بار غازی کے لب مسکرائے

(اگر اس وقت ماجد یہاں ہوتا تو وہ اس لڑکی کی بھرپور حمایت کرتا. واقعی میں کلب میں کیا کرنے جاتا ہوں جب کہ مجھے لڑکیوں سے چڑ ہے ...... ؟؟ غازی نے دل میں سوچتے ہوئے زری کی طرف دیکھا جو اسے ہی گھور رہی تھی) 

اور تم نے کرنا کیا ہے یہ ہم بتاتے ہیں ...... ؟؟ رجو نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے زریں کو اشارہ کیا. 

دیکھو یہ جو میری دوست ہے نا یہ بچپن سے ماسی کے بیٹے کے ساتھ منگی ہوئی ہے مطلب اس کا اس ساتھ رشتہ ہوا تھا. رجو نے کہنا شروع کیا جبکہ زریں دروازہ بند کرنے لگی 

ماسی اب کسی سے بھی میری شادی کرنے کو تیار نہیں. اس کا کہنا ہے کہ اس کا بیٹا واپس آئے گا تو وہ اپنے بیٹے ساتھ ہی میری شادی کرے گی جب کہ میں نے شادی کرنی ہے. زریں نے مسکین سی شکل بنائی 

تو ........ ؟؟ غازی نے ان دونوں ڈرامے باز لڑکیوں کی طرف دیکھا جب کہ دروازہ بند کرنے کی اسے ابھی تک سمجھ نہیں آئی تھی. 

بار بار دروازے کی طرف مت دیکھو. دروازہ بند کرنے کی ایک خاص وجہ ہے جو ہم تمہیں آخر میں بتائیں گے. فی الحال تم وہ کرو جو ہم کہہ رہے ہیں. زریں کے ٹوکنے پر غازی نے گہرا سانس خارج کیا اور بدلی سے انھیں دیکھنے لگا

تم نے ماسی کو یہ بتانا ہے کہ تم شادی شدہ ہو اور تمہارے دو بچے بھی ہیں. اس طرح میری جان چھوٹ جائے گی. میری شادی کے بعد چاہے تو ماسی کو چھوڑ جانا کوئی پریشانی نہیں. میں دیکھ لوں گی. زری کی بات پر غازی نے اسے طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا 

اور اگر میں تم دونوں کی بات نہ مانوں اور ماسی کو سچ سچ سب بتا دوں پھر ........ ؟؟ غازی نے دھمکی

تو یہ کہ یہ جو دروازہ میں نے بند کیا ہے تھا ناااااا _____ اُس کی وجہ یہ تھی کہ اگر تم ہوشیاری کرنے کی کوشش کرو جو کہ کر بھی رہے ہو. پھر میں شور مچا دوں گی کہ تم نے میری عزت پہ ہاتھ ڈالا ہے اور رجو اس بات کی گواہی دے گی. گاؤں والے مار مار کے تمہارا بہت برا حشر کریں گے کہ تم ساری زندگی نہیں چل سکو گے سمجھے. زریں کا انداز چیلنج دینے والا تھا. 

اس سے پہلے غازی کچھ کہتا ماسی پھلاں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو رجو اور زری چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی. 

ماسی اسے سردی لگ رہی تھی تب دروازہ بند کیا تھا. رجو نے فوراً وضاحت دی. 

سردی کا تو پتہ نہیں مگر غازی بیٹا پھنسا برا ہے. غازی نے دودھ کا گلاس منہ کو لگاتے ہوئے سوچا. حالانکہ اسے تازہ دودھ پسند نہیں تھا. اسے اس میں سے گوبر کی بو آتی تھی مگر اس وقت وہ بہت سخت پیاسا اور بھوکا تھا اس لیے ایک ہی سانس میں سارا گلاس خالی کر گیا

🎭🎭🎭🎭

اس وقت حاشر، میر اور عزین آفس کے میٹنگ روم میں بیٹھے تھے مگر اتنی خاموشی تھی جیسے کوئی ذی روح موجود نہ ہو. 

آپ تسلی سے اس آفر کے بارے میں سوچیں مجھے نہیں لگتا کہ آپ کو زندگی میں کسی نے ایسی آفر دی ہوگی ...... ؟؟ چند لمحوں بعد میر نے اپنا کپ اٹھاتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا

ظاہری سی بات ہے اتنی "واحیات اور بےہودہ" آفر ہر کوئی تو دے نہیں سکتا. عزین نے دل میں سوچا 

اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ مجھے جیل سے نکال لیں گے. ہو سکتا ہے آپ کا کام ہو جانے کے بعد آپ میری خبر بھی نہ لیں اور میں جیل میں سڑتی رہوں .....؟ ؟ عزین کے پوچھنے پر حاشر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا جیسے اُسے اِس سوال کی اُس سے امید نہ تھی. 

پہلے میں آپ کی رہائی کا بندوبست کروں گا پھر آپ مجھے میری امانت دیجیے گا. میر نے مطمئن سے انداز میں جواب دیا

قتل کس کا کرنا ہے اور کب ____ دوسرا یہ کہ اپ کو کیسے پتہ کہ اُس قتل کی وجہ سے میں وہاں ہی جاؤں گی جہاں "وہ" ہے. عزین کے سوال پر حاشر نے اپنا ماتھا مسلا

 یہ لڑکی کیوں پنگا لے رہی ہے حالانکہ میں نے اسے منع بھی کیا تھا .....؟؟ حاشر دل میں سوچتا ٹیبل پر انگلی پھیرنے لگا

دیکھیں مس آپ نے قتل نہیں کرنا بس بظاہر ایسا لگے پولیس والوں کو کہ قتل آپ نے کیا ہے. باقی سب میں دیکھ اور سنبھال لوں گا. میر نے اپنا پلان بتایا. 

مجھے بظاہر قتل کس کا کرنا ہوگا .....؟؟ عزین نے "بظاہر" لفظ پر زور دیا تو میر کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی. 

میری بیوی کا _____ میر کے منہ سے یہ تین الفاظ نکلے تو عزین اور حاشر دونوں ہی اپنی کرسیوں پر اچھل پڑے. 

کیا......؟ ؟ ایک ساتھ دونوں کے منہ سے نکلا 

ہاں میری "بیوی" کا قتل کرنا ہے مگر قتل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کو پہلے میری جھوٹی موٹی بیوی بننا پڑے گا. پھر آپ جیلسی میں اپنی "سوتن" یعنی میری "بیوی" کا قتل کریں گی کیونکہ گھر کے اندر ہی میں آپ کو ہر طرح کی سہولت مہیا کر سکوں گا اور تمام ثبوت بھی آپ کی فیور میں جمع کروں گا. 

پولیس کو وہی نظر آئے گا جو میں انہیں دکھانا چاہوں گا اور قتل بھی آپ نہیں کریں گی وہ میرا کام ہے. 

میر کے بتانے پر حاشر اور عز دونوں دم با خود تھے انہیں میر سے ایسی باتوں کی امید نہ تھی. 

اور تمہارا وکیل حاشر ہوگا. مجھے پوری امید ہے وہ تمہیں چند دنوں میں ہی رہا کرا لے گا کیونکہ حاشر تو تمہیں مرتا نہیں دیکھ سکتا کیوں حاشر ....... ؟؟ میر کا لہجہ طنزیہ تھا. جس پر حاشر خاموش رہا 

اپ اپنی بیوی کو کیوں مروانا چاہتے ہیں ...... ؟؟ عزین نے تجسس سے پوچھا 

کیونکہ وہ زندہ نہیں رہنا چاہتی. اسے لگتا ہے کہ اس کی ذات مجھ پر ایک بوجھ ہے. میر نے خالی کپ ٹیبل پر رکھا. 

آپ اسے "محبت" سے سمجھا سکتے ہیں کہ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے. اس کے لیے اسے قتل کرنے کی کیا ضرورت ہے...... ؟؟ وہ تو بے وقوف ہے مگر آپ تو سمجھدار ہیں. عزین کو شدید دکھ لگا تو میر مسکرانے لگا

"محبت" ہی تو نہیں ہے اس سے، دوسرا کچھ لوگوں کا مر جانا ہی ان کے حق میں بہتر ہوتا ہے. تیسرا مجھے آپ کو اس تک پہنچانے کے لیے یہ سب کرنا پڑے گا. میر اپنی بات کی آخر میں سنجیدہ ہو گیا. 

جیل میں آپ کا کون ہے ...... ؟؟ عزین نے ایک اور سوال کیا. جس پر میر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ ہی حشر بھی، میر اپنا موبائل، ویلٹ اٹھاتا سنجیدگی سے عزین کو دیکھنے لگا

میری ماں _____  میر بتاتا ہوا خاموشی سے دروازے کی چل دیا جبکہ عزین سکتہ میں تھی. 

اگر آپ کو میری آفر منظور ہے تو آپ  ایگریمنٹ کل حاشر ساتھ سائن کر دیجئے گا. میں اپنی بات سے پھرتا نہیں جو کہا ہے وہی کروں گا. میر نے پلٹ کر عزین کی طرف دیکھا اور پھر دونوں آگے پیچھے میٹنگ روم سے باہر آ گئے. 

"بیوی" کو قتل کروا کے "ماں" سے کچھ جاننا ہے. بھلا یہ کیا بات ہوئی ....؟؟ حاشر صاحب ابھی اس قاتل کو مظلوم کہتے ہیں. عزین نے جھرجھری لی

تمہیں میں نے منع کیا تھا نا مگر تم اپنے آپ کو بہت ہوشیار سمجھتی ہو ناااا ______  بے وقوف لڑکی ہے پھنس گئی ہو نا میر کے جال میں _____  یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں جتنا تمہیں دکھائی دے رہا ہے.   حاشر نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا جو مزے سے پاستہ کھانے میں مصروف تھی. 

سر آپ نے مجھے کہا تھا کہ آ کر پاستہ کھا لو مگر آپ پاستہ کے ساتھ ساتھ جو کچھ مجھے کھلا رہیے ہیں وہ مجھے بالکل پسند نہیں آرہا. عزین نے آخری چمچ لگاتے ہوئے پلیٹ صاف کی جبکہ حاشر اس کی بات سے مزید بگڑ گیا. 

تمہیں سمجھ کیوں نہیں آرہی. میر جو کہتا ہے وہ نہیں کرتا اور جو کرتا ہے وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا. حاشر نے دبا دبا سا غصہ کیا

آپ تو کہہ رہے تھے کہ میر اپنی بات کا بہت پکا ہے. تم جتنا اسے جانو گی تمہیں اس سے اتنی ہی ہمدردی ہوگی. عزین کے یاد دلانے پر حاشر نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے پیچھے ٹیک لگائی. 

کیا ہوا ....... ؟؟ عزین نے حاشر کے خاموش ہونے پر پوچھا 

تم ایک بہت اچھی وکیل ہو ____  حاشر کا جواب عزین کو ہنسنے پر مجبور کر کیا. 

سر ایسی بھی کوئی بات نہیں میں آپ کی ہی شاگردہ ہوں عزین نے یاد دلایا. 

میں اس بات پر شرمندہ ہوں ____ حاشر کا موڈ خراب ہو چکا تھا. 

سر دیکھیں مجھے تجسس ہے ایک بندہ جو بقول آپ کے اپنی بیوی پر بہت مرتا ہے لیکن اسے قتل کرانا چاہتا ہے. اور اس کی ماں جیل میں ہے جس سے وہ کوئی بات اگلوانا بھی چاہتا ہے مگر اسے جیل سے نکال نہیں رہا. 

ان تمام باتوں میں مجھے حیرت صرف اس چیز پر ہے کہ وہ عورت جو اس کی ماں ہے وہ عورت اب تک جیل میں کیوں ہے ...... ؟؟ 

میرا مطلب ہے وہ باہر آنا نہیں چاہتی یا میر اسے باہر آنے نہیں دیتا _____ عزین کے ذہن میں جتنے بھی سوال تھے اس نے باری باری سارے حاشر سے پوچھے

عزین تم صاف صاف انکار کر دو اور بس ____  حاشر نے جیسے سب چیزوں سے اپنی جان چھڑائی. 

سر آپ کو کبھی کسی سے محبت ہوئی ہے. میرا مطلب آپ نے کبھی کسی کو اپنا دل وغیرہ دیا ہے. عزین کا سوال خاصہ غیر متوقع تھا. اس لیے حاشر چونکا 

عزین تم ٹھیک ہو نااااا ____ اس پاستہ میں ایسا کیا تھا جو تم بہک رہی ہو ....... ؟؟ حاشر کا انداز طنزیہ تھا. 

سر میں سیریس ہوں. عزین نے سنجیدگی سے حاشر کی طرف دیکھا

دیکھو عزین میں اپنی پرسنل لائف کسی سے شیئر نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کی پرسنل لائف میں انٹرفیئر کرتا ہوں. لہذا تم بھی احتیاط کرو. حاشر کہتا سنجیدگی سے باہر گرتی بارش کو دیکھنے لگا

آپ کو بارش پسند ہے ...... ؟؟ عزین نے ایک اور سوال کیا. 

عزین میں کچھ اور کہہ رہا ہوں اور تم کچھ اور پوچھ رہی ہو ____ چلو چلتے ہیں اگر تم بات سننے کے موڈ میں نہیں ہو تو کوئی بات نہیں. حاشر نے کہتے ہوئے چابیاں ٹیبل سے اٹھائی. 

سر بتائیں نااااا جو شخص اتنا اچھا دوست ہے وہ کیسے ایک بے غیرت خاوند اور بیٹا ہو سکتا ہے ....... ؟؟ عزین نے حاشر کے پیچھے چلتے ہوئے کہا تو حاشر سر ہلاتا مڑا. 

عزین جو عورت جیل میں ہے وہ میر کی ماں تو ہے مگر "سوتیلی" اور جہاں تک بیوی کا تعلق ہے تو وہ راز بھی جلد کھل جائے گا. اب مزید سوال نہیں. حاشر کے چپ کرانے پر عزین خاموشی سے اس کے پیچھے چل دی مگر ذہن منتشر تھا. 

🎭🎭🎭🎭

کہاں ہو اتنے دنوں سے کوئی خیر خبر نہیں ...... ؟؟ ماجد نے اُس کا میسج پڑھتے ہی موبائل دوبار سائیڈ پر رکھا مگر اب کی بار وہ زورو شور سے بجنے لگا تو اس نے سائیلنٹ پر لگا دیا. 

یہ لڑکی صرف میرا دماغ خراب کرتی ہے. جس بات سے منع کرتا ہوں وہی کرتی ہے اب لے مزہ میں کیا کروں ...... ؟؟ اُس کی نظر میری تو کوئی ویلیو ہی نہیں ہے. ماجد نے سوچتے ہوئے فائل اپنے آگے کی. 

ایک تو غازی پتہ نہیں کدھر رہ گیا ہے. اج پورا ہفتہ ہونے کو آیا ہے مگر حرام ہے کہ اپنے سلامت ہونے کی اطلاع دے. بھلا اتنی جلدی بتائے بغیر وہ مجھے کیسے مر سکتا ہے ....... ؟؟ ماجد نے منہ میں پن دباتے سوچا

سر جی _____ حوالدار نے اندر آتے ہی سلوٹ مارا. 

ہاں بولو ______  ماجد نے بغیر دیکھے پوچھا

سر آپ سے کوئی لڑکی ملنے آئی ہے. جیسے ہی حوالدار کے منہ سے لفظ "لڑکی" نکلا ماجد کی تمام حِسیں بیدار ہو گئیں. سوائے اُس کے کون ہو سکتا تھا........ ؟؟ 

وہ ایسے کام کرنے کی ہمت رکھتی تھی گھڑی رات کے 10 بجا رہی تھی اور یہ تھانہ تھا ریسٹورنٹ نہیں. ماجد کے ماتھے پر بے شمار شکنیں نمودار ہوئیں. حوالدار کے جاتے ہی ماجد نے اپنا موبائل پکڑتے اس کا نمبر ملایا. 

جب تمہارا اپنا مطلب ہوتا ہے یا تمہیں میری ضرورت ہوتی ہے تب میں یاد آ جاتا ہوں. ویسے تمہاری بلا سے جہنم میں جاؤں ____ ماجد نے کال اٹینڈ ہوتے ہی ناگواری سے کہا

جہنم میں تو تم ویسے بھی جاؤ گے. کرتوت دیکھے ہیں اپنے ___  اُس نے جواب دیتے اپنے بالوں کو کانوں کے پیچھے کیا. 

خبردار جو تھانے کے اندر آئی تو، ابھی کے ابھی باہر نکلو. میں باہر ہی آ رہا ہوں. ماجد نے جلدی سے اپنی چیزیں سمیٹیں. 

اچھا ٹھیک ہے لیکن اگر تم میرے میسج کا جواب دے دیتے تو مجھے یوں نہ آنا  پڑتا خیر _____  اس کا لہجہ احسان جتلانے والا تھا. 

بڑا احسان ہے آپ کا کہ آپ بات مان لیتی ہیں. ماجد نے  حساب برابر کیا. 

جب تم مجھے آپ کہتے ہو نا تو مجھے تم پر بہت پیار آتا ہے. دوسری طرف سے کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی. 

تمہیں مجھ پر جتنا پیار آتا ہے. وہ میں اچھی طرح جانتا ہوں. ماجد اب آفس سے باہر نکل رہا تھا. 

اچھا بتاؤ ناراض کیوں تھے ......؟ ؟ بڑے مان اور لاڈ سے پوچھا گیا

 تمہیں اپنی آخری بیہودہ حرکت شاید یاد نہیں مگر مجھے یاد ہے. وہ تو شکر ہے غازی کی یاداشت عورت کے معاملے میں کچھ اچھی نہیں. ورنہ اسے یاد ہوتا کہ تم میری کیا لگتی ہو ......... ؟؟ماجد نے کہتے ہوئے تھانے سے باہر قدم رکھا اور اس کی تلاش میں نگاہیں گھمائیں. 

میں ادھر ہوں ____ دوسری طرف کھڑی پارکنگ کے بیچ "عزین" نے ہاتھ ہلایا تو ماجد اس سمت چل دیا. 

ہاں اب بولو کیا بات ہے ....... ؟؟ ماجد نے قدرے فاصلہ پر کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا 

کوئی بات نہیں. بس تمہیں دیکھنا تھا. کافی دنوں سے دیکھا نہیں تھا. عزین کی آنکھوں میں شرارت تھی. 

عزین بی بی اس دن کیفے ٹیریا میں تم نے میری عزت کا جو جنازہ نکالا تھا نااااا وہ مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے. ماجد نے اسے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا. 

اچھا سوری نا مجھے کیا پتہ تھا کہ تمہارا دوست وہاں آ جائے گا اور مجھے پہچان بھی لے گا ....؟؟ عزین نے کندھے اچکائے. 

میر کے آفس سے ریزائن دے دو. مجھے تمہارا اس کے آفس میں کام کرنا بلکل پسند نہیں. ماجد نے رکتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا

تم یونیفارم میں پیارے لگتے ہو. عزین نے تعریف کی تو ماجد سر جھٹکتا آگے چل دیا. 

عزین ____ ماجد کے پکارنے پر وہ اسے دیکھنے لگی. 

ماجد مجھے بہت سارا روپیہ پیسہ جمع کرنا ہے. بہت سارا ____  عزین کی آنکھوں اور لہجہ میں دولت کا حرص تھا. جسے دیکھتے ہوئے ماجد کچھ دیر کے لیے چپ سا ہو گیا. 

اس طرح تو ہماری راہیں جدا ہو جائیں گی. ماجد کی بات پہ عزین نے اسے گھورا. 

تم میرا انتظار نہیں کرو گے .....؟ ؟ عزین کے سوال پہ ماجد خاموش رہا. 

تمہیں میرا انتظار کرنا ہوگا. آخر تم میرے "منگیتر" ہو. عزین کے جتلانے پر ماجد خاموشی سے اسے دیکھنے لگا جو اس کا کالر پکڑے پوچھ رہی تھی. 

اب کیا اپنے سحر میں مبتلا کرو گے یا ہپناٹائز کر رہے ہو .....؟ ؟ عزین نے اس کے آگے چٹکی بجائی تو ماجد نے سر جھٹکتے اپنا کالر اس کے ہاتھ سے آزاد کیا.

غازی کا کچھ پتہ چلا یا نہیں ...... ؟؟ ایک تو تم غازی کے لیے یوں پریشان ہوتے ہو جیسے وہ تمہاری محبوبہ ہو. مجھے اس سے جیلسی ہوتی ہے. عزین کی بات پر ماجد ہنسا اور پھر دونوں اپنے اپنے خیالات دوسرے سے شیئر کرنے لگے جب کہ چاند کی چاندنی ان پر مسکرا رہی تھی. 

🎭🎭🎭🎭

آپ نے مجھے بلوایا ہے ...... ؟؟ غلام علی نے آنکھیں چراتے ہوئے گل بی بی کی طرف دیکھا

تم اتنے دنوں سے کہاں غائب ہو. مجھے نظر ہی نہیں آئے .....؟؟  گل بی بی نے اپنی وہیل چئیر سیدھی کرتے ہوئے پوچھا

گل بی بی آپ کی وجہ سے میر صاحب مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں. انہیں لگتا ہے کہ میں آپ کی برین واشنگ کر رہا ہوں. غلام علی کے بتانے پر گل کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی. 

کیا میر کو غلط لگ رہا ہے ...... ؟؟ گل کے انداز پر غلام علی نے نگاہ اٹھا کر ان کی طرف دیکھا مگر پھر فورا بدل لی. 

کیوں اپنی اور میری جان کی دشمن بن رہی ہے .....؟ غلام علی نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا

میر آفس میں ہے. فکر نہ کرو. ابھی نہیں آئے گا ...... ؟؟  گل نے غلام علی کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے اسے تسلی دی. 

آپ نے کیوں بلوایا تھا ......؟ ؟ غلام علی نے اپنا جملہ دہرایا. 

مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ میر آج کل کیا کر رہا ہے یعنی اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے.....؟ ؟ گل اب کی بار سنجیدگی سے غلام علی کا چہرہ دیکھنے لگی. 

میر پتہ ہی کہاں چلنے دیتے ہے کہ کیا سوچ رہا ہے. بس اتنا کہوں گا کہ میر اب مکمل طور پر ایک "درندہ" بن چکا ہے. وہ کسی کو بھی کبھی بھی مار سکتا ہے. رشتوں کا احترام اور جذبات اس کے اندر باقی نہیں رہے. غلام علی کا چہرہ اداس تھا. 

میرا نمبر کب تک آئے گا.....؟ ؟ گل کے پوچھنے پر غلام علی نے پہلی بار ان کی آنکھوں میں دیکھا 

فی الحال تو میرا نمبر ہے. اس سے پہلے آپ کا نہیں آ سکتا. اس لیے جب تک میں سلامت ہوں. آپ بے فکر رہیں. غلام علی نے جیسے تسلی دی. 

اگر کسی طرح میر شادی کر لے. تو فیملی کی محبت اسے ان تمام معاملات سے دور رکھ سکتی ہے. دوسرا اس کی فیملی اس کی کمزوری بھی بن جائے گ. ی تو ہمیں آسانی رہے گی. کچھ سوچتے ہوئے گل نے اپنے خیالات کا اظہار کیا. 

میر اور اپنی کمزوری کسی کو دے ناممکن ____ غلام علی نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے سر جھٹکا

کچھ کرو غلام علی مجھے آپا کو جیل سے باہر نکالنا ہے. گل نے بے بسی سے غلام علی کی طرف دیکھا

آج سے پانچ سال پہلے مجھے یہ سب بہت آسان لگ رہا تھا. بلکہ مجھے تو یہ بھی امید تھی کہ میر کو پھانسی ہو جائے گی تو ہم ____  غلام علی نے گل کیطرف دیکھا تو وہ نظریں جھکا گئیں. 

ایک معذور عورت کسی کے کیا کام آ سکتی ہے خیر ____  گل نے خود کلامی کرنے والے انداز میں کہا تو غلام علی نے اسے غصے سے دیکھا

کیا ہر وقت معذور معذور کی رٹ لگائے رکھتی ہیں. مجھے برا لگتا ہے. غلام علی سے رہا نہ گیا تو کہہ کر وہاں رکا نہیں بلکہ تیزی سے باہر نکل گیا. 

میر تم ہار جاؤ گے اتنا تیز مت بھاگو کہ پھر چلنے کی ہمت بھی نہ رہے. دیوار پر لگی دیو قامت میر کی تصویر سے گل نے کہا

جبکہ وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ میر اپنے موبائل پر اپنے کمرے کی فوٹیج دیکھ رہا ہے اور وہ غداروں کو معاف نہیں کرتا چاہے پھر وہ اس کے وفادار ملازم ہوں یا اس کی من پسند بیوی.......... 

🎭🎭🎭🎭

سانول تجھے کچھ بھی یاد نہیں رہا ....؟؟ ماسی پھلاں نے محبت سے غازی کے بالوں میں تیل لگاتے ہوئے پوچھا

غازی کے لیے بڑی مشکل تھی. ساری زندگی اس نے عورت کو عزت نہ دی تھی مگر اب دینا پڑ رہی تھی. 

مجھے کچھ یاد نہیں. غازی نے اپنی طبیعت کے برخلاف نرم لہجے میں جواب دیا اگر ماجد دیکھ لیتا تو شاید بے ہوش ہی ہو جاتا. 

پتر اپنے ذہن پر زور دے شاید تجھے کچھ یاد آ جائے. تو اس صحن میں کس طرح بھاگ بھاگ بنٹے ساتھ کھیلتا تھا اوپر چڑھ کر پتنگیں اڑاتا تھا. ماسی نے اسے یاد دلانا چاہا. جب کہ غازی دل میں استغفار پڑھ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی اتنے گندے کھیل کھیل نہیں سکتا. 

ماسی وہ زریں کہاں ہے .....؟ ؟ غازی نے ماسی کا دھیان ہٹانے کے لیے پوچھا تو ماسی پھلاں مسکرا دیں. 

کتنی بار کہا ہے کہ میں تیری ماں ہوں ماسی نہیں. پھر کیوں مجھے ماسی پکارتا ہے. ماسی پھلاں نے محبت سے اس کے سر پر ایک تھپ رسید کی. 

اچھا ٹھیک ہے مگر زریں کہاں ہے ....؟ اسے کہا کریں گھر پہ رہے یوں منہ اٹھا کر ہر جگہ نہ چلی جایا کرے. غازی کی بات پر ماسی مزید مسکرائی

تجھے زریں کیسی لگتی ہے ....... ؟؟ ماسی پھلاں نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا تو وہ حیرت زدہ سا ماسی کا چہرہ دیکھنے لگا جو ہزار جھریوں سے بھرا ہوا تھا مگر آنکھوں میں ایک چمک تھی. 

جیسی ہے بالکل ویسی ہی لگتی ہے. غازی نے کندھے اچکائے. 

ابھی تو اس کی فکر کر رہا تھا تو مجھے بہت اچھا لگا. پتہ تیرے جانے کے بعد اس بچی نے بہت تکلیفیں برداشت کیں ہیں. اندر باہر کا سارا کام کرتی ہے. 

پڑھنے کا بہت شوق تھا اسے مگر پڑھ نہیں سکی. اب تو آگیا ہے. تو اپنی ذمہ داریاں سنبھال تاکہ اس بیچاری کو بھی آرام نصیب ہو. ماسی کی بات پر غازی نے اپنا گلا صاف کیا. 

(اس بوڑھی عورت کو کیا پتہ جسے وہ بیچاری کہہ رہی ہے وہ کیا توپ چیز ہے. غازی دل میں سوچتا سر ہلانے لگا) 

میرا پاؤں ٹھیک ہو جائے پھر دیکھنا میں کسی کو اس گاؤں میں نظر بھی آگیا تو ....... ؟؟ غازی دیکھ ماسی کو رہا تھا مگر بات خود سے کر رہا تھا. 

اچھا ایک بات تو بتا تو نے شادی تو نہیں کی شہر میں .....؟ ؟ ماسی چارپائی سے اٹھنے لگی مگر پھر خیال آتے ہی پلٹی اس سے پہلے غازی جواب دیتا زریں چارہ اٹھائے اندر داخل ہوئی. جسے دیکھتے ہی غازی کی نیت بدلی. 

اس لڑکی کی تو طبیعت ابھی صاف کرتا ہوں. کیا یاد رکھے گی کسی مرد سے پالا پڑا تھا. پتہ نہیں خود کو سمجھتی کیا ہے. جانتی نہیں ابھی مجھے ____  غازی نے زریں کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا جو چارہ ایک طرف پھینک کر درانتی رکھنے لگی تھی.  

نہیں بالکل بھی نہیں ____  غازی کی فرمانبرداری قابل دید تھی. 

چلو شکر ہے. یہ زریں تیری بچپن کی منگ ہے. اب میں تم دونوں کی شادی خوب دھوم دھام سے کروں گی. قریب آتی زری کے کانوں میں جیسے ہی ماسی کے یہ الفاظ پڑھے اس کا رنگ مزید سرخ ہو گیا. 

ماسی اس سے پوچھ تو لے کہ کہیں شادی شدہ تو نہیں.....؟ ؟ زریں نے خشمگین نظروں سے گھورتے ہوئے کہا تو ماسی مسکرا کر اس کی طرف پلٹی. 

پوچھ لیا ہے کہہ رہا میں نے شادی نہیں کی. ماسی بتاتی وہاں سے چلی گئی جب کہ زریں نے غازی کی طرف قدم بڑھائے جو بڑے مزے سے تکیے ساتھ ٹیک لگائے اسے ہی دیکھ رہا تھا. 

ایک منٹ لگے گا اور تیری گردن الگ ہو جائے گی. اچانک زریں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی لکڑی کی درانتی غازی کی گردن ساتھ رکھی تو وہ ہل نہ سکا

تیری معلومات میں اضافے کے لیے عرض ہے کہ پچھلے سال ہمارا بیل بیمار ہو گیا تھا اور رات کی وجہ سے کوئی ہمیں ملا نہیں تو میں نے ہی اسے ذبح کیا تھا اگر میں ایک بیل ذبح کر سکتی ہوں تو تیری یہ مرغے جیسی گردن نہیں. زریں کے تیور غازی کے ہوش اڑا گئے اسے اس دیہاتی لڑکی سے ایسی امید نہ تھی. 

دیکھو میری بات سنو ___  غازی نے ہاتھ سے درانتی پیچھے کرنے کی کوشش کی تو زریں نے اور دبا بڑھا دیا. 

بکواس نہیں، میں جانتی ہوں کہ تم سانول نہیں اور یہی بات تم بھی اچھی طرح سمجھ لو. جب تم سانول نہیں تو میں تمہارے ساتھ شادی کیوں کروں .....؟ ؟ 

اب تم سوچو کہ بغیر ٹانگ، پاؤں یا ہاتھ کے تم کیسے لگو گے ....؟؟  یقیناً برے ____ ذریں کہتی پیچھے ہٹی تو غازی نے لاشعوری طور پر اپنے زخمی ہاتھ اور پاؤں کی طرف دیکھا اور جھرجھری لی. 

جیسا کہا ہے ویسا کرو اور چلتے بنو ______  زری وارننگ دیتی چل پڑی. 

توبہ ہے ____  غازی نفی میں سر ہلاتا دوبارہ لیٹ گیا. 

🎭🎭🎭🎭

ہاں بولو _____ میر نے مصروف سے انداز میں کال اٹینڈ کی. 

میر صاحب میں حاشر نہیں عزین ہوں. مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی. آپ کے اس خوبصورت پروپوزل کے بارے میں ____  عزین نے ساتھ ہی یاد دہانی کرائی تاکہ وہ کال کاٹ نہ دے

جو بھی بات کرنی ہے حاشر سے کر لو اور دوبارہ اس کے نمبر سے مجھے کال مت کرنا. میر کے لہجے میں وارننگ تھی. 

بات تو آپ کو ہی سننا پڑے گی. ورنہ میں آپ کا کام نہیں کروں گی. عزین نے دھمکی دی. 

دھمکی کسے دے رہی ہو ...... ؟؟ میر نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے میز پر مکا مارا

دھمکی نہیں دے رہی بتا رہی ہوں. عزین کا کانفیڈنس قابل دید تھا. 

بولو مگر جلدی ____  میر نے اکتاہٹ سے پوچھا 

یہ جو آپ نے کہا تھا نا کہ جھوٹی موٹی شادی کرنی ہوگی مجھے بس اس پر اعتراض ہے. عزین کے جملے پر میر کو حیرت ہوئی مگر وہ خاموش رہا. 

میں جھوٹی موٹی شادی نہیں کرنا چاہتی. عزین نے اپنی بات مکمل کی. 

دیکھو لڑکی تمہیں گھر میں داخل کرنے کے لیے مجھے یہ جھوٹ تو بولنا پڑے گا. اس لیے تمہیں بھی ایکٹنگ کرنا پڑے گی. یہ پلان کا حصہ ہے. میر نے ٹہلتے ہوئے کہا

آپ کی باقی باتیں تو ٹھیک ہیں مگر میں اصلی شادی کرنا چاہتی ہوں. عزین کے جملے پر ٹہلتے میر کے قدم اپنی جگہ جم گئے. 

دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ......؟ ؟ میر دھاڑا. 

دماغ کا پتہ نہیں نیت ضرور خراب ہے. عزین کا جواب میر کے غصے میں اضافہ کر گیا. 

بہت ہی گری ہوئی لڑکی ہو. میر نے حقارت سے کہا 

کہہ سکتے ہیں مگر میں صرف اسی صورت میں آپ کا ساتھ دوں گی جب آپ مجھ سے اصلی نکاح کریں گے. عزین اپنی بات پر قائم تھی. 

ٹھیک ہے ایک شرط تم نے رکھی ہے. اب ایک شرط میں بھی رکھوں گا. میر کے چہرے پر ایک پراسرار سی مسکراہٹ ابھری. 

کیا ......؟ ؟ عزین نے بے چینی سے پوچھا 

اتنی بے چینی اچھی نہیں عزین بی بی!!!  تھوڑا انتظار کریں میر نے کہتے کال کاٹ دی. تو عزین نے حاشر کی طرف دیکھا. 

کیا کہا ......؟ ؟ حاشر نے پوچھا

 وہ تو مان گئے ہیں. عزین خود بھی بے یقین تھی. 

ناممکن ____  حاشر نے مکا دیوار پر مارا. 

ہاں تو جناب حاشر صاحب!!! اب آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں .....؟ ؟ میر کی آنکھیں اور اس کا لب و لہجہ سوالیہ تھا. 

میں کیا کہہ سکتا ہوں اس بارے میں، ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہے اور وہ کوئی ریموٹ تو ہے نہیں کہ میرے حکم پر چلے. صرف میری اسسٹنٹ ہے. حاشر نے کندھے اچکائے جس پر میر مبہم سا مسکرا دیا. 

میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ یہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں انتہائی لالچی ہوتی ہیں. گو کہ مجھے تھوڑا سا ڈاؤٹ تھا کہ شاید یہ لڑکی ویسی نہ ہو مگر ___ میر نے نفرت سے سر نفی میں ہلایا. 

کیا مجھے صرف اس لیے بلایا تھا ......؟ ؟ حاشر نے بیزاری سے پوچھا 

نہیں تمہیں اس لیے بلایا تھا کہ تم اپنی اسسٹنٹ کی شادی کا انتظام کر لو. آخر کو تم دونوں طرف کے میزبان بھی ہو اور مہمان بھی ____ میر نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے بتایا انداز تپانے والا تھا. 

یہ طنز ہے یا مذاق ....... ؟؟ حاشر کو برا لگا

نہ طنز ہے نہ مذاق بلکہ ذمہ داری ہے. میں چاہتا ہوں کہ اس جمعہ کو میرا اور تمہاری اسسٹنٹ کا نکاح ہو جائے تاکہ کھیل شروع ہو. آگے ہی بہت وقت ضائع ہو گیا ہے. میر اب کی بار بہت سنجیدہ تھا. 

میرے خیال سے تمہیں اس کے گھر والوں سے ایک بار ضرور مل لینا چاہیے کہ اس کے گھر میں کتنے افراد ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں ....... ؟؟ حاشر نے کھڑے ہوتے ہوئے مشورہ دیا. 

اس کے گھر میں کتنے لوگ ہیں مجھے اس سے کیا لگے اور وہ کیا کرتے ہیں یقیناً یہ بھی میرے مقصد کی بات نہیں. ہاں مگر مجھے یہ ضرور پتہ ہے کہ اس کے گھر والا کیا کرتا ہے .....؟ ؟ میر کے بولنے پر حاشر کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا 

کیا مطلب ہے تمہاری بات کا ____ حاشر دوبارہ بیٹھتے ہوئے  پوچھنے لگا

حاشر میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں کہ میں تمہیں اپنی ایک ایک بات کی وضاحت دوں. اسی سے پوچھ لو جو بہت ذہین اور قابل ہے. بس نکاح جمعے کو اسی آفس میں ہوگا. میر نے بات ختم کرتے ہوئے اپنا موبائل آن کیا. 

گل کو بتاؤ گے اس بارے میں ....؟؟ حاشر نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا

پہلی بات تو یہ کہ میں اس کا خاوند ہوں وہ میرا خاوند نہیں اور دوسرا ہر بندے کا ہر بات جاننا اور بتانا ضروری نہیں ہوتا. میر کا انداز انتہائی مصروفیت والا تھا جیسے اس نے ابھی کوئی بہت ضروری کام کرنا ہو اور وہ حاشر کے سوالوں سے تنگ  پڑ رہا ہو. 

میر جو بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا. وہ تو بے وقوف ہے مگر تم سمجھدار ہو. حاشر کو پتہ نہیں کیوں مگر عزین سے ہمدردی ہو رہی تھی. 

پتہ نہیں تمہیں کیوں اس لالچی لڑکی سے اتنی ہمدردی ہے جبکہ میرا اصول ہے اگر کوئی کنویں میں گرنا چاہے تو اسے روکو نہیں بلکہ دھکا دے دو تاکہ کام جلدی ختم ہو. میر نے جواب دیتے ہوئے موبائل جیب میں رکھا اور اطمینان سے حاشر کو دیکھنے لگا

چلو ٹھیک ہے. جیسا تمہیں ٹھیک لگتا ہے ویسا کرو. حاشر سمائل کرتا چل دیا. 

اگر وہ میرا کام پوری ایمانداری سے کرے گی تو میرا تم سے وعدہ ہے میں اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا. حاشر کو اپنے عقب میں میر کی آواز سنائی دی مگر وہ پلٹا نہیں. 

اسے بھی یہ بات اچھی طرح سمجھا دینا کہ میں کسی کو معاف نہیں کرتا. لہذا غلطی کرنے سے پرہیز کریں. میر کی آواز پر حاشر سر ہلاتا آفس سے باہر آ گیا. 

ہاں غازی کا کچھ پتہ چلا. اس کا پتہ لگاؤ کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے کہیں جان بوجھ کے چھپ تو نہیں گیا ......؟ ؟ حاشر کے جاتے ہی میر نے موبائل پر کسی کے نام وائس نوٹ چھوڑا. 

گل بی بی کھیل اب شروع ہوا ہے. اب مزہ آئے گا. دیکھو کون جیتتا ہے. تم یا میں ____ میرخود کلامی کرنے کے انداز میں بولتا ہوا صوفے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا

🎭🎭🎭🎭

عزین تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے. تم مجھ سے یہ کیا بات کر رہی ہو ....... ؟؟ ماجد کا غصہ سوا نیزے پر تھا. 

ماجد زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے. وہ مجھے اس سب کے بدلے میں بہت روپیہ پیسہ دے گا. ہم ساری زندگی عیاشی سے گزاریں گے. عزین نے سمجھانا چاہا

تمہارا مطلب ہے کہ بے غیرتوں کی طرح میں اپنی منگیتر کو کسی دوسرے کی بیوی بنتا دیکھوں اور چند روپوں کی خاطر خاموش رہوں. ماجد نے حقارت سے عزین کی طرف دیکھا

ایک تو میں تم مردوں کی اس نام نہاد غیرتوں سے بہت تنگ ہوں. جب تم مرد دوسروں کی بہنوں ساتھ پیچے لڑا رہے ہوتے ہو تب تمہاری غیرت ڈرائنگ روم میں سو رہی ہوتی ہے اور جب ہماری باری آتی ہے تو یہ جاگ جاتی ہے. 

ارے واہ! ایسی غیرت کے صدقے _____ عزین نے ہاتھ کے اشارے سے ماجد کی نظر اتاری. 

عزین بات بدلنے کی کوشش مت کرو. تم میر کو نہیں جانتی. ماجد کچھ نرم پڑا. 

تم میر کو جانتے ہو تو بتا دو. وہ کیسا ہے کیونکہ میں اسے تم سے بہتر جانتی ہوں. عزین کا لہجہ چیلنجنگ تھا. 

اس نے اپنی بیوی کو خود معذور کرایا تھا اور اس کی ماں جیل میں سڑ رہی ہے. جو اپنوں کا نہیں بنا وہ کسی کا کیا خاک بنے گا .....؟ ؟ 

ڈبل قتل کیس میں سزا بھی کاٹ چکا ہے. مگر اپنے ذاتی تعلقات کی وجہ سے باہر آ گیا. کیا تم اپنی زندگی ایک قاتل ساتھ گزارنا چاہتی ہو ...... ؟؟ 

میر ساتھ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی امید نہ رکھنا. ماجد کا لہجہ بے لچک تھا. 

ماجد مجھے ان تمام باتوں کا پہلے سے علم ہے. مگر یہ ایک ڈیل ہے. میں اس کی بیوی نہیں بلکہ بزنس پارٹنر ہوں. عزین نے ماجد کا ہاتھ پکڑنا چاہا جسے اس نے جھٹک دیا. 

ماجد پلیز میری بات سمجھنے کی کوشش کرو. ہم تھوڑے سے ٹائم میں بہت امیر ہو جائیں گے. عزین کا لہجہ منت بھرا تھا. 

اگر تمہیں سونے کے پنجرے میں قید ہونے کا اتنا شوق ہے. تو تمہیں تمہاری قید مبارک ہو. ماجد نے کہتے ہوئے اپنی انگلی میں پہنی سلور رنگ اتار کر ٹیبل پر رکھ دی. 

ماجد یہ کیا بدتمیزی ہے ...... ؟؟ میں نے کہا نا کہ یہ پیپر میرج ہے. اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور آج کل پیپر میرج کا کتنا فیشن ہے. لوگوں کو اس سے فائدہ ہو رہا ہے. 

عزین بی بی!!! اپنے یہ بھونڈے دلائل عدالت میں دینا. میں ان سے مطمئن نہیں ہو سکتا. آج سے میری اور تمہاری راہیں جدا ہے. ماجد نے بینچ سے کھڑے ہوتے ہوئے کالے گلاسس آنکھوں پر لگائے تاکہ عزین اس کے آنسو نہ دیکھ سکے. 

ہم ایک بہت اچھے دوست بھی تو ہیں. میں نے تو دوستی کے ناطے تم سے تمام باتیں شیئر کی اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم اتنے پوزیسو ہو تو میں تم سے یہ سب کچھ چھپا لیتی. 

زندگی میں پہلی بار سچ بولنے پر نقصان ہوا ہے. کاش جھوٹ کا سہارا لیتی ہے. عزین نے دکھ سے ماجد کی طرف دیکھا جو پارک میں موجود بچوں کو کھیلتا دیکھ رہا تھا. 

تم لالچی ہو مگر اتنی زیادہ اس بات کا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اپنی لالچ کے بھیڑ ہمارے اس رشتے کو بھی چڑھا دو گے. مجھے تم جیسی لالچی دوست کی ضرورت نہیں. 

ہو سکے تو کوشش کرنا کہ زندگی میں کبھی دوبارہ تمہارا مجھ سے سامنا نہ ہو. جو وقت گزرا اچھا گزرا اور اللہ کرے کہ تمہارا آنے والا وقت بھی اچھا ہو. جس کی مجھے ایک پرسنٹ بھی امید نہیں ہے. 

"Anyway best of luck 4 your future" 

ماجد کہتا ہوا رکا نہیں بلکہ سیدھا ایگزٹ ڈور کی طرف چل دیا. 

عزین بی بی!!! یہ بے وقوف لوگ کبھی بھی دولت کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے. دولت ہی سب کچھ ہے. خیر میں اسے بعد میں سمجھا لوں گی. ابھی غصے میں ہے مان جائے گا. 

فلحال تو مجھے یہ سوچنا ہے کہ اس میر ویلاز میں ایسا کیا ہے ...... ؟؟ جو لوگوں سے چھپا ہے. عزین کا تجسس بڑھ رہا تھا یہ جان بغیر کہ وہ پھنسنے لگی ہے

🎭🎭🎭🎭

میں تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہوں مگر بدلے میں مجھے صرف ایک موبائل فون چاہیے. غازی کی فرمائش پر زریں نے اسے حیرت سے دیکھا 

تم موبائل فون کا کیا کرو گے ....... ؟؟ زریں نے آبرو اچکاتے ہوئے پوچھا

مجھے اپنے گھر والوں کو اپنی خیریت کی طلاع دینی ہے. وہ پریشان ہو رہے ہوں گے. غازی نے چہرے پر مصنوعی پریشانی کی تاثرات لاتے ہوئے جواب دیا

تم نے تو کہا تھا کہ تمہارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے اور نہ ہی تم شادی شدہ ہو تو اطلاع کس کو دو گے کیا محلے والوں کو بتانا ہے جو تمہارے نہ ہونے پر خوش ہوں گے.....؟ ؟ زریں کا جواب غازی کو غصہ دلا دیا

تمہارے اندر سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ تم بکواس بہت کرتی ہو. اگر تم میرے گھر والوں سے میری بات نہیں کراؤ گی تو میں ماسی کو بتا دوں گا کہ میں اس کا بیٹا نہیں ہوں. پہلی بار غازی کا تیر نشانے پر لگا اور زریں کے تاثرات تبدیل ہوئے. 

اچھا میں دیکھتی ہوں کہ کس کے پاس موبائل ہے کیونکہ ہمارے گاؤں میں بہت کم لوگوں کے پاس یہ چیز ہے. 

زری کے جواب پر غازی کو بہت حیرت ہوئی. 

(یہ لوگ کس دنیا میں رہ رہیں ہیں کہ موبائل جیسی نعمت سے ناآشنا ہیں. غازی نے دل میں سوچا) 

زرین کہتی دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی تو غازی اسے لاشعوری طور پر دیکھنے لگا. اچھی خاصی پیاری لڑکی تھی. کچھ دیر اسے کام کرتا دیکھتے ہوئے گزری کہ غازی کے ذہن میں ایک سوال ابھرا. 

تم شادی کیوں کرنا چاہتی ہو...... ؟؟ میرا مطلب ہے کہ تمہارا گھر ہے. ماسی تم سے اتنا پیار کرتی ہے. یہ سب کچھ ہے. تو تمہیں شادی کا کیا فائدہ ہے. یہاں رہو مزے سے اور عیش کرو. زریں جو اپنے کام میں مشغول تھی غازی کے سوال پر پلٹی اور آہستہ آہستہ اس کے قریب آ کھڑی ہوئی. 

تمہارے ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ کہیں اور بھی چوٹ لگی تھی میرا مطلب ہے سر وغیرہ پر _____زری سینے پر بازو باندھے انتہائی سنجیدگی سے غازی کو دیکھ رہی تھی

میرے سر پر کوئی چوٹ نہیں لگی. غازی نے زری کی بات کا مفہوم سمجھتے ہوئے فورا انکار کیا

اچھا تو تم نارمل روٹین میں اتنا گھٹیا سوچ لیتے ہو. زریں کی نظروں میں ستائش تھی. 

مجھے لڑکیوں کا فری ہونا بالکل پسند نہیں ہے اگر تم نے میری بات کا جواب نہیں دینا تو تم یہاں سے جا سکتی ہو. غازی کا لہجہ ایک دم سخت ہوا. 

آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آپ یہاں سے جا سکتے ہیں. یہ میرا گھر ہے میں کہیں بھی کھڑی ہو سکتی ہوں. زریں کے جتلانے پر غازی کا دل کیا کہ اس کا منہ توڑ دے مگر فی الحال وہ بے بس تھا. 

فون کب تک لا دو گی ...... ؟؟ غازی فورا اپنے مطلب  پر آیا. 

تم آج ماسی کو بتا دو کہ تم شادی شدہ ہو اور یہ کہ تم نے اس دن ماسی سے جھوٹ بولا تھا. تو میں تمہیں آج ہی موبائل لا دوں گی. 

زری بی بی جتنا تم مجھے ستا رہی ہو. اس کا تمہیں حساب دینا پڑے گا. ماسی کو تو میں کبھی نہیں بتاؤں گا کہ میں شادی شدہ ہوں. 

غازی نے زری کو دیکھتے ہوئے سر ہلایا. تو وہ خوش ہوتی گھر سے باہر کی طرف چل دی

🎭🎭🎭🎭

سارا دن کہاں رہتے ہو ...... ؟؟ رات کی تاریکی میں گھر میں قدم رکھتے ہو بھلا یہ کیا طریقہ ہے ....؟؟ میر نے جیسے ہی ٹیرس پر قدم رکھا ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ساتھ گل کی آواز میں اس کا استقبال کیا

میرا نہیں خیال کہ آپ کا یہ سوال کرنا بنتا ہے. میر چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا گل کے قریب آ کھڑا ہوا. 

کیوں میرا کیوں یہ سوال کرنا نہیں بنتا ....... ؟؟ گل جراح پر اتری. 

ایسے سوال صرف اچھی بیویاں پوچھتی ہیں. کیا آپ ایک اچھی بیوی ہیں ...... ؟؟ میر نے کمر پر ہاتھ باندھتے ہوئے جھک کر گل کی آنکھوں میں دیکھا

میر مجھے فضول باتیں کبھی بھی پسند نہیں رہیں اور اب تو بالکل بھی پسند نہیں ہیں. گل کے جواب پر میر کندھے اچکاتا ہوا سیدھا کھڑا ہو گیا. 

یہاں کیوں بیٹھی ہیں. بہت سردی ہے. بیمار ہونے کا ارادہ ہے ...... ؟؟ ناچاہتے ہوئے بھی میر کا لہجہ گل سے نرم ہی رہتا تھا

میں کیوں جان بوجھ کر بیمار ہوں گی. کیا بیمار ہونے کی صورت میں تم گھر پر رہ کر میری تیماداری کرو گے...... ؟ گل کے سوال پر میر ریلنگ ساتھ ٹیک لگاتا مسکرانے لگا

میں سوچ رہا ہوں کہ آپ کو ایک عدد سہیلی دے دی جائے. جو آپ کا دل بہلائے. ہر وقت آپ کے پاس رہے تاکہ آپ کے ذہن میں برے خیالات نہ آئیں اور آپ کو میری کمی بھی محسوس نہ ہو. میر نے ٹھہر ٹھہر کر جملے ادا کیے. 

تم شادی کر رہے ہو ____ گل کے جواب پر میر کا قہقہہ بےساختہ تھا. 

اگر اس دنیا میں کوئی میر کو جانتا ہے تو وہ صرف گلبدین ہے کوئی اور نہیں ___ میر کہتا ہوا گل کی ویل چیئر کو پکڑنے لگا

کون ہے ...... ؟؟ گل نے بغیر میر کی طرف دیکھے پوچھا 

لڑکی ____  میر نے ویل چیئر کو روم کی طرف دھکیلتے ہوئے جواب دیا. 

کیسی ہے ....... ؟؟ اگلا سوال آیا

آپ جیسی نہیں ہے. میر جواب دیتے گل کو بیڈ پر بیٹھانے لگا

میر میری ذاتی خواہش ہے کہ تم زندگی میں آگے بڑھو. ایسا کرنا کہ اس ساتھ لندن چلے جانا اور اپنی نئی زندگی شروع کرنا. گل نے میر کے ہاتھ سے کمبل اوڑھتے ہوئے جواب دیا 

لندن میں زندگی جس کے ساتھ شروع کرنا تھی وہ اب نہیں ہے ____ میر کا لہجہ تبدیل ہوا. 

سب بھول جاؤ اور آگے بڑھو. گل کے مشورے پر میر سر ہلاتا بیڈ کی دوسری طرف آ گیا. 

بھول جاؤ گا بس زرا حساب برابر کر لوں. میر کہتا  تکیے ساتھ نیم دراز ہوا. تو گل نے آنکھیں چرائیں. 

( گلبدین بس چند دن اور _____ اور کھیل ختم. میر نے سوچتے ہوئے آنکھیں موند لیں) 

یہ لو اور جلدی سے جس سے بات کرنی ہے کر لو _____ زری نے ماسی پھلاں سے نگاہ بچاتے ہوئے موبائل غازی کے آگے کیا تو وہ حیران رہ گیا. 

یہ موبائل ہے ...... ؟؟ زری کے ہاتھ سے موبائل لیتے غازی نے پوچھا

 ہمارے گاؤں میں تو اسے ہی موبائل کہتے ہیں. زری نے کندھے اچکائے جبکہ اس بلیک کلر کے بٹنوں والے موبائل کی خستہ حالی پر غازی اپنا ماتھا مسلنے لگا

کال کرو نااااا ____ زریں نے دوبارہ کہا تو غازی اسے دیکھنے لگا جس کے چہرے پر جلدی اور اکتاہٹ کے ملے جلے تاثرات تھے! 

تمہیں جلدی کس بات کی ہے ....... ؟؟ غازی کے پوچھنے پر زری کے تاثرات بدلے. 

کیا مطلب جلدی کس بات کی ہے ....... ؟؟ تم نے کال کے لیے مانگا تھا. اب کال کرو اور مجھے واپس دو. زری کا انداز جارحانہ تھا. 

مگر مجھے تو یہ اپنے پاس رکھنا ہے. غازی نے زری کو ستاتے ہوئے موبائل اپنی جیب میں رکھا. 

نہیں یہ تو غلط بات ہے. میں شابو بابا کی دکان سے اسے مانگ کر لائی ہوں. وہ بھی کچھ دیر کے لیے ____  زری نےمسکین سے شکل بنائی تو غازی کو اس پر ذرا برابر بھی ترس نہ آیا. 

تم ایک نمبر کی ڈرامے باز لڑکی ہو. میں نے کہا تھا مجھے موبائل چاہیے یہ نہیں کہا تھا کہ ایک کال کرنے کے لیے چاہیے. غازی نے سنجیدگی سے زری کی طرف دیکھا

اچھا ٹھیک ہے کال کرو ( پھر میں چھین لوں گی.) زری نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا

 ہاں تو تمہارے سامنے تھوڑی کال کروں گا. تم جاؤ پھر میں نے بات کرنی ہے. غازی کے انداز پر پریشان زری کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی

تمہیں میرے سامنے پیار محبت کی باتیں کرتے ہوئے شرم آتی ہے نااااا _____ زری کے پوچھنے پہ غازی کا دل کیا اس کا سر توڑ دے

تم اچھی خاصی خوبصورت لڑکی ہو مگر جب منہ کھولتی ہو تو دل کرتا ہے بندہ تمہارا سر توڑ دے. اب جاؤ یہاں سے ایسا نہ ہو کہ میں تمہارے ساتھ کچھ غلط کر بیٹھوں. غازی کا لہجہ وارننگ دینے والا تھا

زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی. خیر شام تک میں نے یہ فون واپس کرنا ہے. تب تک جس سے بھی بات کرنی ہے کر لو .زری کہتی ہوئی جانے لگی مگر پھر اپنی بےعزتی کے احساس سے پلٹی اور غازی کے پاؤں پر ٹھوکر مار دی. تکلیف کی شدت سے غازی نے اپنی آنکھیں بند کر لیں مگر منہ سے کچھ نہیں کہا

تم میں بہت برداشت ہے. زری نے سراہا 

تم میں بھی آ جائے گی ذرا مجھے ٹھیک ہونے دو. غازی کے جواب پر زری سر ہلاتی باہر کی طرف چلتی. جب غازی کو یقین ہو گیا کہ وہ اب ادھر نہیں آئے گی. تو اس نے ماجد کا نمبر ڈائل کیا اور کال کاٹ دی. امید کے عین مطابق ابھی ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کا موبائل بجنے لگا

کمینے انسان مجھے تلاش کرنے کی کوشش تو کی ہوتی ...... ؟؟ غازی نے کال اٹینڈ کرتے ہوئے گلہ کیا. 

ارے غازی کہاں ہے تو ____  شکر ہے کہ تیری آواز سننے کو ملی. غازی جو اداس سا اپنے سرکاری کوارٹر میں بیٹھا تھا اٹھ کھڑا ہوا. 

بس میرے ساتھ یہ تھرڈ کلاس محبوب والے ڈائیلاگ مت بولا کر اور یہ بتا کہ ادھر سب ٹھیک ہے ...... ؟؟ غازی نے منہ بناتے ہوئے پوچھا 

ہاں ہاں سب ٹھیک ہے. پرچہ نامعلوم افراد کے خلاف کٹا ہے. مگر تو اس وقت کہاں ہے .....؟ ؟ ماجد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ غازی پاس پہنچ جائے. 

میں وہاں ہوں جہاں سے مجھے میرہ خبر نہیں آتی ____ غازی نے سرد آہ بھری. 

یہ کیا بات ہوئی .....؟؟ ماجد کو جواب عجیب لگا 

بس کیا بتاؤں پانی میں چھلانگ لگاتے ہی میں بہاؤ کی سمت چل پڑا. مجھے تو خود بھی معلوم نہیں جہاں تک تیر سکتا تھا تیرتا رہا. تجھے میرے تیرنے کی کارکردگی کا تو اندازہ ہے نااااا _____ بس پھر کیا تھا آہستہ آہستہ میں ڈوبنے لگا. میرا سر کسی سخت چیز ساتھ ٹکرایا اتنا یاد ہے مگر پاؤں کی ہڈی کیسے فلیکچر ہوئی یہ یاد نہیں. غازی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا

تیرا پاؤں لیکچر ہوا ہے. غازی تو کس ہسپتال میں ہے ...... ؟؟ ماجد نے بے قراری سے پوچھا

جانوروں کے ہسپتال میں ہوں اور یہاں خالص دیسی ڈاکٹرز ہیں غازی نے گردن پیچھے پھینکتے ہوئے تکیے ساتھ ٹیک لگائی

غازی کبھی تو بات سنجیدگی سے کر لیا کر، مجھے پریشانی ہو رہی ہے اور تو ڈرامے کر رہا ہے. ماجد کو غصہ آیا. 

میرے خیال سے پانی سے مجھے کسی بندے نے نکال کر ساتھ والے گاؤں میں پہنچا دیا ہوگا اور وہاں سے _____ پھر غازی نے اب تک کی ساری صورتحال ماجد کے گوش گزار کر دی. 

ارے واہ یہ تو بالکل فلمی سین ہوا. ہیروئن مل گئی. ماجد کی چہچہاتی آواز پر غازی کو شدید غصہ آیا. 

ماجد میری لوکیشن ٹریس کر اور مجھے فوراً یہاں سے لے کر جا اس سے پہلے کہ میں پاگل ہو جاؤں. اتنی مٹی اور گوبر کی بدبو ہے کہ مت پوچھ ____ غازی نے ارد گرد نظریں دوڑائیں. 

اپنا موبائل اور لوکیشن دونوں ان رکھ. میں جلد از جلد تیرے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں. 

یار ذرا جلدی مجھے یہاں وحشت ہو رہی ہے. غازی کے جواب پر ماجد سر ہلانے لگا

🎭🎭🎭🎭

🌹 ماضی......

میر کل کی فلائٹ سے پاکستان آ رہا ہے. سردار بیگم نے گویا سب کے سر پر دھماکہ کیا سب جو مزے سے کھانا کھانے میں مصروف تھے. اب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے سوائے گلبدین کے جو نارمل تھی. 

اچھا تو بالآخر آغا جان نے اپنے لاڈلے کو باہر سے بلوا ہی لیا. وہ اکیلا آرہا ہے یا اس کی گوری میم بھی ساتھ ہوں گی .....؟ ؟ گل نے اپنا کھانا ختم کرتے ہوئے نپکن سے ہاتھ صاف کیے

تمہیں بڑی خوشی ہو رہی ہے اس کے آنے کی ___  شیر علی نے عادت کے مطابق طنز کیا تو گل مسکرانے لگی جبکہ سردار بیگم اس تمام معاملے میں سنجیدہ تھی

شیر تمہیں پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے مگر میرا وہ بہت اچھا کزن اور دوست ہے. لہذا مجھے اس کے آنے کی خوشی ہے. ویسے بھی وہ میرے لیے گفٹس لا رہا ہے. گل نے چڑایا

آپ اسے دیکھ رہی ہیں پھر آپ مجھ سے ناراض ہوتی ہیں. شیر علی نے کرسی چھوڑتے ہوئے گلہ کیا

گل تمہیں بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے. تم ہمیشہ شیر علی ساتھ زیادتی کر جاتی ہو. سردار بیگم نے شیر علی کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے گل سے کہا

آپا میرے خیال سے اس بندے کا نام ہی غلط ہے. اب شیر نام رکھ دیا ہے یہ انسانوں کی طرح تو بیہیو کرے گا نہیں. ہر وقت شیر کی طرح دوسروں کو چیر پھاڑ کھانے کے لیے تیار رہتا ہے. اس سے پوچھیں کہ میر نے اسے کیا تکلیف پہنچائی ہے. یہ اس سے اتنا جیلس کیوں ہوتا ہے.....؟ ؟ گل کی بات پر غلام عباس اور سارہ اسے گھورنے لگے جبکہ ضبط کے مارے شیر علی کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں. 

مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں سوائے اس کے کہ آغا جان ہمیشہ اسے مجھ پر فوقیت دیتے ہیں جبکہ ان کے سارے کام میں کرتا ہوں. سارے بزنس اور زمینی معاملات کو میں دیکھتا ہوں جبکہ وہ نوابزادہ باہر بیٹھا صرف میری کمائی پر عیاشی کرتا ہے. شیر علی نے عادت کے مطابق چنگارتے ہوئے گل کو جواب دیا

تم دونوں کی لڑائی اگر ختم ہو گئی ہو تو جو بات میں کرنے جا رہی ہوں کیا وہ تم سننے کے لیے تیار ہو ...... ؟؟ سردار بیگم جو اس وقت کچھ خاموش اور کھوئی کھوئی سی تھی شیر علی کے چنگھاڑنے پر بول پڑی

آپا میں آپ کا ہمیشہ احترام کرتا ہوں مگر آپ خود سوچیں کیا آغا جان میرے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے. میر کا اس جائیداد سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن آغا جان اسے زبردستی دینے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ وہ تو پاکستان بھی نہیں آنا چاہتا اور شادی بھی باہر ہی کر رہا ہے. 

جب ایک غیر عورت ہمارے خاندان کا حصہ بنے گی تو وہ ہماری خاندانی روایات کی کیا خاک پاسدار کرے گی ....... ؟؟ میر اتنا عرصہ لندن میں رہ کر خود بھی فرنگی بن گیا ہے اور اس کی اولاد بھی فرنگی عورت سے ہی ہوگی تو ان سے کیا بعید .....؟ ؟

مگر آغا جان کو یہ بات کون سمجھائے اور اگر کوئی سمجھا سکتا ہے تو وہ صرف آپ ہی ہیں. وہ آپ کی بات سنتے ہیں. سردار بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے شیر علی نے بڑے مان سے کہا

میر کے معاملے میں وہ میری ایک نہیں سنتے اگر سنتے ہوتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی. خیر میں نے آپ سب لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ میر کل کی فلائٹ سے آ رہا ہے اور آغا جان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ میر کی شادی سارہ سے کریں گے. سردار بیگم کے منہ سے جیسے ہی یہ الفاظ نکلے شیر علی بھڑک اٹھا جبکہ باقی سب خاموش تھے. 

میں اس گھٹیا انسان ساتھ اپنی بہن کی شادی نہیں کروں گا. کسی بھی صورت نہیں کروں گا بلکہ میں اسے اس حویلی میں پہنچنے ہی نہیں دوں گا. وہ زندہ رہے گا تو یہاں پہنچے گا نااااا ____ شیر علی نے انتہائی جذباتی انداز میں کہتے ہوئے کرسی چھوڑی. 

میرے خیال سے تو یہ آغا جان کا بالکل درست فیصلہ ہے. اس طرح میر کی ہمارے ساتھ ہمدردی اور محبت بڑھے گی اور سارہ بھی خوش رہے گی. خاندان کی جائیداد بھی کہیں نہیں جائے گی. گل کی بات پر شیر علی نے حقارت سے اس کی طرف دیکھا 

میری ایک بات تم سب کان کھول کے سن لو کہ میں ایسا کچھ بھی ہونے نہیں دوں گا. شیر علی کہتا ہوا رکا نہیں بلکہ تیزی سے نکل گیا جب کہ سردار بیگم نے گل کی طرف دیکھ کر افسوس سے سر ہلایا

گل تم ہمیشہ شیر علی کو غصہ دلا دیتی ہو. مجھے سمجھ نہیں آتا تمہاری ساری ہمدردیاں میر ساتھ کیوں ہوتی ہیں. جبکہ محبت تمہیں شیر علی سے ہے. وہ تمہارا منگیتر ہے. تمہیں چاہیے کہ اس کے ساتھ کھڑی ہو مگر تم ہمیشہ میر کا ساتھ دیتی ہو. سردار بیگم نے دکھ سے کہا

آپا شیر علی ہمیشہ جذبات سے کام لیتا ہے جبکہ ہمیں عقل سے کام لینا چاہیے. میر نے یہاں نہیں رہنا

 اس نے آج نہیں تو کل واپس لوٹ جانا ہے. جس انسان کی ساری زندگی لندن میں گزری ہو وہ پاکستان میں بھلا کیسے رہ سکتا ہے ...... ؟؟ 

اس سے اچھی اور کیا بات ہوگی کہ ہماری سارہ شادی ہو کر اس کے ساتھ باہر چلی جائے. جائیداد بھی ہمارے پاس رہے گی اور بہن بھی خوش رہے گی. یہ بات شیر علی کو سمجھ کیوں نہیں آتی .....؟ ؟ اب کی بار گل نے مکمل سنجیدگی سے آپا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

میر ہلکے پھلکے سے مزاج والا ایک لا ابالی انسان ہے. اسے ان تمام سازشوں کا کچھ علم نہیں لیکن ہم اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے اس سے اپنا دشمن ضرور بنا لیں گے. اور ایک بات میں یاد رکھیں جب ایسا انسان دشمن بنتا ہے تو بہت خطرناک ہو جاتا ہے. 

شیر علی ہر چیز کو طاقت کے زور پر حل کرنا چاہتا ہے جبکہ میں ہمیشہ اس بات کی حمایت میں رہی ہوں کہ بات عقل سے حل ہونی چاہیے جذبات سے نہیں. 

اگر کوئی گڑ دینے سے مر رہا ہے تو اسے گولی مارنے کی کیا ضرورت ہے. یہ تو صاف صاف خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والی بات ہے. آپ شیر علی کو سمجھاتی کیوں نہیں ہے ...... ؟؟ گل نے اب کی بار غلام علی کی طرف حمایت طلب نظروں سے دیکھا

میرے خیال سے گل بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے. ہمیں معاملے کو احسن طریقے سے حل کرنا چاہیے نہ کہ بندوق کے زور پر _____ غلام علی نے گل کی طرف مسکراہٹ اچھالتے ہوئے جواب دیا

دیکھا مجھے پورا یقین تھا کہ غلام علی میری حمایت ضرور کرے گا مگر اس کا بھائی توبہ ہے اس سے ____  گل کہتی ہوئی کرسی چھوڑ کے کھڑی ہو گئی

اب تم کہاں جلدی دی ......؟ ؟ سردار بیگم نے گل کو کھڑا دیکھتے ہوئے پوچھا

دیکھوں نااااا ____ آپ کا وہ شیر کیا کر رہا ہے .....… ؟؟ کہیں کسی جانور کی سختی تو نہیں آگئی. میرا غصہ کسی اور پر نکل رہا ہو گا. گل مسکراتی ہوئی باہر کی طرف چل دی جب کہ سردار بیگم کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی. 

🎭🎭🎭🎭🎭

زندگی میں پہلی بار عزین کو مشکل کا سامنا تھا. نکاح نامے پہ سائن کرتے ہوئے اس کا دل عجیب لہہ پر دھڑک رہا تھا جب کہ حاشر اور میر بالکل سنجیدہ بیٹھے تھے جیسے کوئی سرکاری کاروائی ہو رہی ہو. 

عزین سے رضامندی لینے کے بعد مولوی صاحب نے نکاح نامہ میر کے آگے رکھ. ا تو اس نے ایک سیکنڈ کے اندر اندر نکاح نامے پر سائن کر دیا ہے اور اس بات کو عزین نے بہت نوٹ کیا. 

(الو کا پٹھا ____ اس سے زیادہ اہمیت تو یہ اپنی کاروباری فائلز کو دیتا ہے. عزین نے دل میں سوچا) 

بس پھر مولوی صاحب نے دعا کراتے ہوئے دونوں کو مبارکباد دی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوئے. 

حاشر تم انہیں باہر چھوڑ آؤ اور ساتھ ہی ان کی پیمنٹ بھی کلیئر کر دینا. میر نے کھڑے ہوتے ہوئے مولوی صاحب سے مصافہ کیا

ہاں تو عزین بی بی!! آپ نے اپنے جو بھی جوڑے کپڑے لینے ہیں وہ لے لیں. شام کو آپ کو میرا ڈرائیور اسی پھاٹک والے سٹاپ سے پک کر لے گا. میر کے لہجے میں حقارت تھی یا نہیں مگر عزین نے محسوس کی جبکہ وہ خود سربراہی چیئر پہ بیٹھا اپنی میل چیک کرنے لگا تھا. 

نہیں میں آج نہیں آؤں گی. مجھے گھر پر کچھ کام ہے. وہ سب سمیٹ لوں پھر میں خود ہی آپ کو انفارم کر دوں گی. تو آپ جس مرضی کو بھیج دیجئے گا لینے کے لیے ____ عزین نے "جس مرضی" پر زور دیتے جملہ مکمل کیا. تبھی حاشر اندر داخل ہوا. 

حاشر تم اپنی اسسٹنٹ کو لے جاؤ اس سے پہلے کہ یہ میرا دماغ خراب کر دے اور اسے یہ بات اچھی طرح سمجھا دو کہ مجھے نہ سننے کی عادت نہیں ہے. میر نے حاشر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

آپ کو مجھے جواب دینا چاہیے تھا. حاشر صاحب کو نہیں مگر لگتا ہے کہ آپ ______ عزین نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑا کیونکہ جس نظر سے میر نے اسے دیکھا تھا اس کی بولتی وہیں بند ہو گئی

ٹھیک ہے میں کسی کے ساتھ بھی آ جاؤں گی مگر میری شرط یہ ہے کہ گاڑی بہت اچھی پھولوں سے سجی ہونی چاہیے. پتہ چلے کہ دلہن کو لے کر جا رہے ہیں. آخر میرے کچھ ارمان ہیں اور آپ تو اچھے خاصے ہیں. میرے ارمان پورے کر سکتے ہیں. عزین کہتی ہوئی حاشر کے ساتھ باہر کی طرف چل دی جب کہ میر نے زور سے پیپر ویٹ دروازے پر مارا

اگر مجھے گل کا دماغ ٹھکانے نہ لگانا ہوتا تو میں کبھی بھی تم جیسی مصیبت کو اپنے گلے کا ہار نہ بناتا. میر نے بڑبڑاتے ہوئے دوبارہ لیپ ٹاپ کی طرف دیکھا

آپ کو کیا لگا تھا کہ میں آپ کی حقیقت جاننے کے بعد آپ کو چھوڑ دوں گا یا میں آپ کو شرمندہ کر سکتا ہوں. مجھے آپ کی سوچ پر حیرت ہے. میر نے گل کے بیڈ کی پائنتی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

کچھ تو تکلیف تھی اور کچھ شرمندگی، گل اپنے آپ میں اتنی طاقت نہیں پا رہی تھی کہ وہ میر کی طرف دیکھتی. اس لیے چپ چاپ آنکھیں بند کیے لیٹی رہی. ڈرپ سے نکلتا قطرہ قطرہ گلوکوز اس کے جسم کو ٹھنڈا کر رہا تھا. 

میں یہ بات اب سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے جانتا ہوں کہ آپ چل پھر سکتی ہیں. مجھے غصہ بھی اسی بات کا تھا کہ آپ مجھ سے یہ بات کیوں چھپا رہی ہیں اور آج مجھے آپ میرے اس سوال کا جواب دیں گی ...... ؟؟ 

یہ بات بھی بہت اچھے سے جانتا ہوں کہ آپ مجھے بہت پسند کرتی ہیں. اگر آپ مجھے پسند نہ کرتیں تو کبھی بھی میرے لیے شیر علی سے نہ لڑتیں. سردار بیگم کے خلاف نہ جاتیں. بہت معذرت لیکن میں نے آپ کی باتیں سنی تھی. میر کے اس انکشاف پر گل کو اپنے گال دہکتے ہوئے محسوس ہوئے. 

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ محض شیر علی کو روکنے کے لیے میرے آگے آئیں تھیں. آپ کے لاشعور میں یہ بات کہیں نہیں تھی کہ آپ میری خاطر گولی کھائیں گی. 

مگر کیونکہ شیر علی کے سر پہ خون سوار تھا. تو اس نے آپ کو بھی خاطر میں نہیں لایا اور گولی چلا دی. اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتی کہ آپ نے میرے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں. جس میں سے سب سے بڑی قربانی آپ کی یہ معذوری ہے. 

جہاں تک میرا اندازہ ہے تو آپ نے اسی لیے اپنی تندرستی کو چھپایا کہ آپ اس معذوری کے سر پر مجھ پر اپنا احسان جتلانا چاہتی تھی اور مجھے اپنے احسان کے نیچے دبا کے رکھنا چاہتی تھی تاکہ اپ سر اٹھا کے جی سکیں اور میں آپ کے آگے سر  نہ اٹھا سکوں. 

میں اچھے سے جانتا ہوں کہ اپ سو نہیں رہیں. اس لیے اپ یہ ناٹک نہ کریں اور مجھے میرے سوال کا جواب دیں کہ جب آپ مجھے پسند کرتی تھی تو پھر آپ نے دوسروں کا ساتھ کیوں دیا. آپ مجھے آغا جان کے خلاف ہونے والی سازش سے آگاہ تو کر سکتی تھی نااااا ___ اگر آپ مجھے وقت پر بتا دیتی تو شاید آغا جان آج ہم میں موجود ہوتے. میر کے لہجے میں گلہ تھا. 

گل میں آپ سے بات کر رہا ہوں. میر نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے قدرے تیز لہجے میں پوچھا تو وہ کانپ اٹھی. 

تم یہ سب کچھ پہلے سے جانتے تھے. تو تم مجھے بتا سکتے تھے. گل نے آنکھوں سے بازو اٹھاتے ہوئے نظریں چرائیں. 

فلحال آپ مجھ سے سوال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں. لہٰذا آپ مجھے صرف میرے سوال کا جواب دیں. میر نے گل پر جھکتے ہوئے پوچھا

سردار بیگم میری آپا ہیں اور تم نے میری آپا ساتھ ہمیشہ برا سلوک کیا ہے. جیسی بھی ہیں وہ تمہاری سوتیلی ماں ہیں. ان کا احترام تم پہ فرض ہے مگر تم نے کبھی انہیں ان کی جگہ اور رتبہ نہیں دیا. 

حالانکہ میں نے تمہیں ہمیشہ اہمیت دی اور سب کے دلوں میں تمہارے لیے جگہ بنانے کی کوشش بھی کی مگر تم نے بدلے میں کیا کیا میری آپا کو ہی جیل بھیج دیا. اب کی بار گل نے برائے راست میر کی آنکھوں میں جھانکا

اچھا تو آپ کے خیال سے قاتل کو جیل نہیں بلکہ سر آنکھوں پہ بیٹھانا چاہیے تھا. آپ جانتی ہیں کہ آغا جان کی میری زندگی میں کیا اہمیت تھی. پھر بھی ایسا بول رہی ہیں. مجھے آپ کی سوچ پر افسوس ہے. میر کہتا ہوا جھٹکے سے پیچھے ہٹا. 

سردار بیگم نے صرف ایسا سوچا تھا مگر کچھ ایسا ویسا نہیں کیا تھا جس کی بنا پر انہیں سزا دی جاتی. شیر علی نے جو گناہ کیا تھا اسے اس کی سزا مل گئی تھی. 

لیکن پھر بھی تم نے کسی کی ایک نہ سنی اور انہیں جیل بھیج دیا. تم خود سوچو کہ ایک عورت کی عزت کتنی نازک ہوتی ہے. وہ بھی ایسی عورت جو اتنے لوگوں پر راج کرتی ہو اور اسے جیل میں بھیج دیا جائے. تو اس کی انا کتنی ہرٹ ہوگی. 

اگر تمہاری اپنی ماں ہوتی تو کیا تم اس کے ساتھ ایسا سلوک ہی کرتے. تم نے ساری زندگی سردار بیگم کو اپنی ماں تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ ان کی انا کو ہرٹ کیا. میر تم مانو یا نہ مانو مگر ان کے رویے کے ذمہ دار تم خود ہو. 

اگر تم انہیں اپنی ماں سمجھتے  تو وہ بھی تمہیں اپنا بیٹا تسلیم کرتیں. وہ ایک بے اولاد عورت ہیں اگر تم انہیں محبت دیتے تو بدلے میں وہ بھی تم پر اپنی ممتا نچھاور کرتیں مگر نہیں. میر غلطی ہمیشہ دوسرے کی نظر آتی ہے اپنی نہیں. گل کی باتوں پر میر طنزاً مسکرایا 

تم خود تو باہر آ گئے مگر سردار بیگم کو تم نے باہر نہیں آنے دیا. میں جتنی بھی کوشش کرتی رہی تم نے میری ہر کوشش کو اپنے پیسے اور چال سے ناکام بنا دیا. ایسے میں تم مجھ سے وفا کی امید کیسے رکھ سکتے ہو .....؟ ؟گل کا انداز سوالیہ تھا. 

یعنی آپ کو بھی مجھ سے نہیں بلکہ اپنوں سے ہمدردی ہے اور میں خواہ مخواہ اس عزم میں رہا کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے. میر کے لہجے میں واضح دکھ تھا. 

میں نے تم سے کبھی محبت کے دعوے نہیں کیے. گل نے جیسے یاد دہانی کرائی. 

بہت بہتر ____  پھر میں بھی آج آپ کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں گلبدین طلال میر!!! کے آغا جان کی جان شیر علی نے نہیں بلکہ سردار بیگم نے لی تھی اور اس چیز کا اقرار غلام علی نے کیا ہے

اسی ایک اقرار کی وجہ سے ابھی تک سردار بیگم جیل میں ہے کیونکہ مجھے آغا جان کی موت کی حقیقت جاننی تھی کہ اصل مجرم کون ہے ..... ؟؟

دوسرا جھٹکا آپ کے لیے یہ ہے کہ عزین کو گولی غلام علی نے نہیں بلکہ میرے قریبی ساتھی غازی نے ماری ہے. لہذا غلام علی بے گناہ ہے مگر صرف میری نظر میں ____ بالکل ویسے ہی جیسے سردار بیگم بے گناہ ہیں آپ کی نظر میں ____ میر کے چہرے پر دل جلانے والی مسکراہٹ تھی. 

گل آپ کے پاس میرے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ میں غلام علی کو بھی وہیں بھیج دوں گا جہاں سردار بیگم ہے اور اگر آپ چاہتی ہیں کہ ان دونوں کو رہائی ملے اور وہ باعزت زندگی گزاریں. تو اس کے لیے آپ کو میرا ایک کام کرنا ہوگا. اب کی بار میر نے مطمئن سے انداز میں مسکراتے ہوئے گل کی طرف دیکھا

کیسا کام .....؟؟ گل نے فوراً پوچھا تو گل کی جلد بازی پر میر نے ہلکا سا قہقہہ لگایا

اتنی بھی کیا جلدی ہے. پہلے آپ ٹھیک ہو جائیں. دوسرا غلام علی کو ذرا تھانے کی ہوا کھانے دیں. اس کی طرف بھی میرے بہت حساب نکلتے ہیں. میر کے جواب پر گل نے اپنی آنکھیں موند لیں. 

🎭🎭🎭🎭

ہائے میری زریں اتنی بڑی گاڑی میں آئی ہے. جیسے ہی زری گاڑی سے اتری ماسی پھلاں نے اسے دیکھ کر خوشی سے کہا

ماسی کیسی ہے تو، دیکھ میں تیرے لیے شہر سے کتنی ساری چیزیں لائی ہوں ...... ؟؟ زری نے ماسی پھلاں سے گلے ملتے ہوئے محبت سے کہا

آئے ہائے کتنی بار منع کیا ہے یوں مذاق نہیں کرتے، وہ تیرے سر کا سائیں ہے سامان نہیں ____ ماسی نے زریں کے پیچھے غازی کو دیکھتے ہوئے اسے ٹکا تو زریں نے حیرت سے اپنے پیچھے دیکھا

ماسی میں اس کی نہیں اس سامان کی بات کر رہی ہوں. جو گاڑی میں رکھا ہوا ہے. اب کی بار زری نے قدر ناراض لہجے میں جواب دیا تو ماسی اپنا سر نفی میں ہلانے لگی

زری تجھ میں ذرا فرق نہیں پڑا. وہی تیری حرکتیں ہیں جو پہلے تھیں. کتنی بار کہا ہے یوں بات نہیں کرتے. ابھی ماسی ابھی اسے سمجھا ہی رہی تھی کہ غازی نے آگے بڑھتے ہوئے سلام کیا. 

واہ ماشاءاللہ میرا بیٹا تو بالکل ٹھیک ہو گیا ہے. مجھے یقین تھا کہ تو ہی مجھ سے ملنے آئے گ. ا زری تو شہر جا کر مجھے بھول ہی گئی تھی. ماسی نے فوراً روتے ہوئے غازی کو اپنے گلے لگایا 

ماسی ایک تو میں تیرے بے وجہ کے رونے سے بہت تنگ ہوں. تو خوشی میں بھی رونے لگتی ہے اور دکھ میں تو تیرا کوئی مقابلہ ہی نہیں. زری کہتی ہوئی قریب پڑی چارپائی پر بیٹھ گئی. 

ماسی یہ تو خیر واقعی ہی آپ سے ملنے آئی ہے مگر آج میں آپ سے ایک ضروری بات کرنے آیا ہوں. غازی نے ماسی سے جدا ہوتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تو ماسی نے زری کی طرف دیکھا. 

دھوکہ دینا میری فطرت نہیں ہے. میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کا سانول نہیں یعنی میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں. آپ کسی غلط فہمی میں مت رہیں. غازی کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی ماسی نے اپنی نم آنکھیں اپنی چادر سے صاف کیں. 

میں جانتی ہوں کہ تو میرا سانول نہیں ہے. تو میرا سانول کیسے ہو سکتا ہے. اسے تو میں نے اپنے ہاتھوں سے بیچ دیا تھا. ماسی کے اا اقرار پر زریں ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ غازی کی آنکھوں میں بھی حیرت تھی. 

ماسی تو ساری زندگی مجھ سے جھوٹ بولتی رہی اور گاؤں والوں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکتی رہی ہے. مگر کیوں ....؟؟ زری نے ماسی کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا تو غازی نے زریں کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے روکا

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے. جب اس گاؤں میں سیلاب کی وجہ سے سخت قحط پڑ گیا تھا. میرا سانول بھوک پیاس کی شدت سے دن رات روتا تھا. مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا تھا. 

مجھے کسی نے بتایا کہ فلاں جگہ پر ایک جوڑا شہر سے آیا ہے. جس کی اولاد نہیں ہے. وہ والدین کی باہمی رضامندی سے ایک بچہ گود لینا چاہتے ہیں اور بدلے میں پیسہ بھی دیں گے. تو میں اپنے سانول کو اچھی زندگی کی خاطر ان کے ہاں بیچنے چلی گئی. 

گاؤں والوں کو میں نے یہی بتایا کہ میرا پاؤں سلپ ہو گیا تھا اور سانول میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر پانی میں گر گیا. سات سالہ بچہ کیا خود کا بچاؤ کرتا....؟؟ گاؤں والے اسے مردہ سمجھنے لگے

مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے میرے دل میں ایک گرہ سی پڑ گئی کہ میں نے غلط کیا ہے. میں دن رات اس کی یاد میں روتی اور خود کو ملامت کرتی رہی. مگر پتہ نہیں کیوں مجھے یقین ہے وہ ایک دن بڑا آدمی بن کر ضرور واپس آئے گا.ماسی نے کہتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے. 

ماسی تجھے یہ سچ کم از کم مجھ سے تو چھپانا نہیں چاہیے تھا. زری نے ناراض نظروں سے ماسی کی طرف دیکھا تو ماسی پھلاں نے اسے زبردستی اپنے ساتھ لگاتے ہوئے پیار کیا

ماسی جن لوگوں کو آپ نے اپنا بیٹا بیچا تھا کیا انہوں نے پیسے کے علاوہ آپ کو کوئی رسید یا  کوئی نشانی دی تھی .....؟؟ غازی کے پوچھنے پر ماسی اور زری نے اس کی طرف دیکھا

ہاں انہوں نے مجھے ایک چھوٹا سا کاغذ کا گتا دیا تھا

 میں نے وہ سنبھال کے رکھا ہوا ہے. ماسی کے جواب پر غازی کے چہرے پر ایک اطمینان بھری لہر دوڑ گئی

کیا آپ وہ گتا مجھے دکھا سکتی ہیں ....؟؟ غازی کے کہنے پہ ماسی زری کو چھوڑ کر اندر کی طرف بڑھ گئی. 

اس گتے سے ماسی کے بیٹے کا کیسے پتہ چلے گا.....؟ ؟ زری نے حیرت سے غازی سے پوچھا تو وہ مسکرانے لگا

وہ گتا اصل میں وزٹنگ کارڈ ہے جس پر ان کا ایڈریس لکھا ہوگا. پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے....؟؟ غازی نے کمرے سے باہر آتی ماسی پھلاں کی طرف دیکھتے ہوئے زری کو جواب دیا

لے پتر یہ گتا انہوں نے مجھے دیا تھا. دیکھ اس سے میرے بیٹے کا اگر پتہ چل جائے. میں صرف ایک بار اسے دیکھنا چاہتی ہوں ماسی کی آواز نم ہو گئی. جب کہ غازی نے ماسی کے ہاتھ سے کارڈ لیا. 

ناقابل یقین ( unbelievable ) ____ کارڈ پر لکھی تحریر کو پڑھتے ہی غازی کے منہ سے یہ لفظ نکلا

 اس بات کا کیا مطلب ہوا .....؟؟ ماسی اور زری نے ایک ساتھ غازی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

اس بات کا یہ مطلب ہے کہ ماسی اگر آپ اپنے  بیٹے سے ملنا چاہتی ہیں تو آپ کو ہمارے ساتھ شہر جانا ہوگا کیونکہ وہ یہاں نہیں آئے گا. اس بیچارے کو کیا پتہ کہ اس گاؤں میں اس کی ایک بوڑھی ماں ہے جو اس کے انتظار میں بیٹھی ہے. غازی کے بتانے پر ماسی نے جلدی جلدی اپنی چادر سر پر لی. ( جیسے کہہ رہی ہو کہ چلیں ) 

ماسی میں ابھی اتنا سفر کر کے آئی ہوں. میں واپس نہیں جاؤں گی. میں آپ کے ہاتھ کی بنی بیسن کی روٹی اور ساگ کھاؤں گی. اپنے گاؤں میں گھوموں پھروں گی. کھیت دیکھوں گی. اپنی سہیلیوں سے ملوں گی. اس کے بعد ہم کل واپس چلیں گے. زری نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے ماسی سے کہا تو غازی نے اسے گھورا

تم نے کہا تھا کہ تم صرف ماسی سے ملنا چاہتی ہو. مگر اب تم پھیل رہی ہو.  میرے پاس اتنا وقت نہیں. بس گھنٹہ ایک میں رکوں گا. اس کے بعد واپس لوٹ جاؤں گا. تم نے اگر میرے ساتھ چلنا ہوا تو ٹھیک ورنہ میں ماسی کو لے جاؤں گا. غازی کی وارننگ پر زری منہ بناتے ہوئے ماسی کو دیکھنے لگی جبکہ وہ ان دونوں کی نوک جوک پہ ہنس پڑی. 

🎭🎭🎭🎭

واہ عزین!!! آج تو تو کمال لگ رہی ہے. اسے کہتے ہیں پیسے کا کمال ____ قیمتی کپڑے اور ماہر بیوٹیشن کا میک اپ .....؟ ؟ عزین نے خود کوششیے میں دیکھتے ہوئے سراہا

میڈم اگر کوئی تبدیلی وغیرہ کرنی ہو تو بتا دیں ہم نہیں چاہتے کہ سر میر سے ہمیں ڈانٹ پڑے. عزین کے ارد گرد کھڑی پارلر لباس میں ملبوس دو تین لڑکیاں میں سے ایک نے کہا 

(مگر میری تو دلی خواہش ہے کہ تم سب کو میر سے ڈانٹ پڑے. عزین نے بظاہر ہلکی مسکراہٹ ساتھ سب کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا) 

نہیں بس ٹھیک ہے _____  عزین کا انداز احسان جتلانے والا تھا. 

سر آ جائیں تو آپ دونوں کا فوٹو شوٹ سٹارٹ کریں. پارلر کی اونر نے سامنے صوفے پر عزین کو اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بتایا تو خوشی سے عزین کی گالیاں چمکنے لگیں. 

ہائے اللہ جی اپ کتنے اچھے ہیں. گولڈن اف وائٹ لہنگے میں  عزین بہت خوبصورت لگ رہی تھی. 

میں ابھی ماجد کو اپنی تصویر بھیجتی ہوں. کہہ رہا تھا کہ پیسے سے انسان میں کوئی فرق نہیں پڑتا. آپ خود دیکھ لے کہ کتنا فرق پڑتا ہے.....؟ ؟ عزین سوچتے ہوئے اپنے موبائل سے سیلفی لینے لگی تبھی میر اندر داخل ہوا. 

میر کے احترام میں پالر میں موجود تمام عملہ احتراماً  کھڑا ہو گیا. مخصوص خوشبو محسوس کرتے عزین نے موبائل سے نظر ہٹا کر سامنے دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی کیونکہ میر اسے ہی دیکھ رہا تھا. نظروں میں ستائش تھی. 

مجھے بیوٹیشن کی یہ بات بہت پسند ہے کہ معمولی شکل صورت کو بھی تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مگر اچھا خاصا حور پری بنا دیتے ہیں. 

اب تم اپنی مثال ہی لے لو! آفس میں میرا تمہاری شکل دیکھنے کو دل نہیں کرتا تھا مگر فی الحال تم مجھے اچھی خاصی خوبصورت لگ رہی ہو اور میں یہی چاہتا تھا. میر نے عزین کے برابر بیٹھتے ہوئے کہا تو عزین نے گردن موڑ کر اسے حیرت سے دیکھا

آپ ایسا کیوں چاہتے تھے .....؟؟ عزین کے منہ سےبےساختہ نکلا

کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ تمہاری سوتن اور میری بیوی تمہیں دیکھ کر اپنے ہوش گواہ بیٹھے. میر کے لبوں پر پراسرار مسکراہٹ تھی. تبھی کیمرے مین ان کے سامنے ان کھڑے ہوئے. 

چلو اٹھو اب اچھی دلہنوں کی طرح میرے ساتھ فوٹو شوٹ کروا لو. تمہاری "حسرت" پوری ہو جائے گی اور میری "سازش" _____  میر نے آخری لفظ دل میں دہرایا. 

جو بھی تھا مگر یہ سب عزین کو بہت اچھا لگ رہا تھا اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ سب بھی ہو گا 

کیمرہ مین اور پارلر کا سٹاف سب ہی اس جوڑی کی بہت تعریف کر رہے تھے اور بظاہر میر بہت خوش اور مطمئن دکھائی دے رہا تھا. جیسے یہ شادی اس نے اپنی پسند سے اور اپنے لیے کی ہو. جس پر عزین حیران تھی. 

نکاح والے دن تو جناب کا منہ سوجا ہوا تھا. اتنی بے دردی سے نکاح نامے پر سائن کیا تھا جیسے کوئی فالتو پیپر ہو اور آج کیسے بیہیو کر رہے ہیں .....؟ ؟ عزین شدید حیران تھی. 

پالر سے نکلتے ہوئے باقاعدہ میر نے عزین کے سر سے نوٹوں کی گڈی وار کر وہاں کے نچلے سٹاف کے ہاتھ تھما دی. میر کا ہر انداز ہی حیران کن تھا.

 پارلر سے باہر نکلتے ہی پھولوں سے سجی لینڈ کروزر اس کا انتظار کر رہی تھی. میر نے اتنے گارڈز کی موجودگی کے باوجود بھی عزین کے لیے گاڑی کا دروازہ خود کھولا اور اس سے بیٹھنے کا اشارہ کیا. 

عزین بی بی!!! تو مان یا نہ مان مگر گیم بہت بڑی ہے. یہ شخص جو بغیر مطلب کے کسی کے سلام کا جواب نہیں دیتا تیرے لیے دروازہ کھول رہا ہے یہ قیامت کی نشانی ہے. عزین نے دور کھڑے میر کو دیکھتے ہوئے سوچا جو اپنے گارڈز اور ڈرائیور کے ساتھ کھڑا نہ جانے کیا باتیں کر رہا تھا. 

کہیں یہ اپنی بیوی کا قتل میرے ہاتھوں تو نہیں کروانے لگا یا بیوی کے قتل کے الزام میں مجھے جیل تو نہیں بھجوا دے گا. خیر جیل تو مجھے جانا پڑے گا آخر اس کی ماں سے سچ بھی تو پوچھنا ہے. عزین گیم کے تانے بانے بن رہی تھی جب اس کے برابر میر آن بیٹھا. 

دیکھو حاشر کی اسسٹنٹ گھر میں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے اس لیے جو تین باتیں میں تمہیں ابھی کہہ رہا ہوں ان پر عمل کرنا. دوسری صورت میں تم اس زمین کے اوپر دکھائی نہیں دو گی. میر کا لہجہ ایک دم سخت اور چہرہ ہر تاثرات سے بے نیاز تھا. 

میں ابھی آپ کے بارے میں اچھا سوچنے ہی لگی تھی کہ آپ دوبارہ اپنے پہلے روپ میں لوٹ گئے. کم از کم مجھے منہ دکھائی تو دے دیتے. میری پہلی شادی ہے مانا کہ آپ کی دوسری ہے. عزین کا لہجہ طنز بھرا تھا. 

پہلے تو عظیم بی بی آپ اپنی اصلاح کر لیں یہ شادی نہیں ایک معاہدہ ہے اور دوسرا یہ کہ منہ دکھائی ا ہی آپ کو دے رہا ہوں. میری بات غور سے سنیں. مجھے دہرانے کی عادت نہیں. میر انتہا درجہ کا سنجیدہ تھا. 

تم نے میری بیوی سے دوستی کرنی ہے اور اسے اس چیز کا احساس دلانا ہے کہ ہماری شادی "محبت" کی ہے اور یہ کہ میں ان سے جھوٹ بول رہا ہوں کہ یہ شادی میں نے "اُن" کے لیے کی ہے جیسے ہی میر نے یہ جملے ادا کیے. عزین منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی اور گاڑی میں اس کی ہنسی اور چوڑیوں کی جھنکار نے عجب سے سماں باندھ دیا. 

محبت _____ ہنستے ہنستے عزین نے دہرایا تو میر اس سے نگاہ چرا کر باہر دیکھنے لگا

سوری میں آپ جتنی اچھی ایکٹر نہیں ہوں مگر کوشش کروں گی کہ آئندہ ایسا نہ ہو. میر کو انتہائی سنجیدہ دیکھ کر عزین نے معزرت کی. 

دوسرا تم میرے تمام چھوٹے بڑے کام، گھر کا انتظام، گل کے سامنے خود کیا کرو گی گل کو نہیں کرنے دو گی. اب کی بار عزین نے فرمانبرداری سے صرف سر ہلایا 

تیسرا تم گل سے اس کے ماضی کے بارے میں ایک ایک بات پوچھو گی اور وہ جیسا تمہیں بتائے گی بالکل ویسا ہی تم مجھے میسج کرو گی. 

گل کا قتل کب، کیسے ہوگا اس کا فیصلہ میں کروں گا. تم صرف ہماری مدد کرو گی اور شک کے الزام میں جیل جاؤں گی. 

تمہارا کیس بظاہر انتہائی مضبوط لیکن حقیقت میں بالکل کمزور ہوگا. تم خود ایک وکیل ہو اس لیے اچھے سے جانتی ہو. ہم صرف میڈیا اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جونکیں گے. میرا کام ہوتے ہی میں تمہیں فوراً فری کر دوں گا. معاہدے کے مطابق تمہیں ہر چیز ملے گی. 

اور ہاں غداری کی صورت میں صرف موت ہوگی. گل کی جگہ تمہاری _____ احتیاط کرنا. میر نے انگلی اٹھاتے ہوئے وارنگ دی. 

آپ صرف منہ سے بھی کہیں تو میں یقین کر لوں گی یوں مجھے ڈرانے کی ضرورت نہیں ہے. عزین نے میر کی انگلی کی طرف اشارہ کیا تو وہ مسکرا دیا. 

منہ دکھائی تمہیں گھر جا کر دوں گا پریشان مت ہو. میر نے کہتے ہوئے ریلیکس انداز میں سیٹ ساتھ ٹیک لگا لی. 

کیوں گاڑی میں ٹھیک سے منہ دکھائی نہیں دے رہا ......؟ ؟ عزین نے کہتے ہوئے باہر دیکھا تو نہ چاہتے ہوئے بھی میر مسکرا دیا. 

اپنی نوعیت کا انوکھا پیس ہے. میر سوچتے ہوئے ڈرائیور کو اشارہ کرنے لگا

🎭🎭🎭🎭

ماجد رنگ برنگے راستوں سے گزرتا ہوا پتہ نہیں کہاں جا رہا تھا مگر اسے یہ تمام راستے اور جگہیں جانی پہچانی لگ رہی تھی. اپنے ہی دھیان میں چلتا وہ سامنے سے آتی لڑکی کو نہ دیکھ سکا اور اس سے جا ٹکرایا

اندھے تو نہیں لگتے اور شکل سے ایسا بھی نہیں لگ رہا کہ تم پاگل ہو ....... ؟؟ زریں جو چارہ سر پر لادے جا رہی تھی ماجد کے یوں ٹکرانے پر اسے غصے سے دیکھنے لگی. 

سوری ____ ماجد نے شرمندگی سے دو قدم پیچھے لیے. 

"سوری" میری بھینس نہیں کھاتی وہ "چارہ" کھاتی ہے. اگر آپ اپنی غلطی کا مداوا کرنا چاہتے ہیں تو یہ چارہ اپنے سر پہ لا دے اور میرے پیچھے پیچھے آئیں. میری بھینس کو چارہ مل جائے گا اور آپ کی غلطی کا مداوا ہو جائے گا. اب کی بار زریں کا لہجہ پہلے کی نسبت مختلف تھا. 

میں ضرور آپ کا کام کر دیتا مگر اس وقت جلدی میں ہوں. مجھے کسی کی مدد کے لیے جانا ہے. ماجد نے معذرت خوان لہجہ اختیار کیا. 

کیا ہم دونوں کے علاوہ یہاں کوئی تیسرا ہے ...... ؟؟ زری نے شرارت بھرے لہجے میں ارد گرد دیکھتے ہوئے ماجد سے پوچھا تو اس نے نہ سمجھی سے اپنے آس پاس دیکھا. 

نہیں ناااااا ____ زریں کے کہنے پر ماجد نے سر ہلایا

بس تو پھر آپ میری بات مان لیں. ورنہ آپ کسی کی مدد کرنے کے قابل نہیں رہیں گے. زریں کہتی ہوئی آگے کی طرف چل دی تو ماجد کے کان کھڑے ہوئے. 

دیکھو لڑکی تم جانتی نہیں ہو کہ میں کون ہوں ...... ؟؟ یہ تم مجھے بلیک میل کر رہی ہو. تم اس کی سزا جانتی ہو....... ؟؟ اچانک ماجد کو اس پر شدید غصہ آیا. 

تمہارا تو مجھے پتہ نہیں لیکن مجھے سارا گاؤں جانتا ہے. مجھ سے پنگا لینے سے پہلے اچھا خاصا بندہ پہلے سوچتا ہے. زریں کا انداز چیلنجنگ تھا. جس پر خاموشی سے ماجد اسے دیکھنے لگا

دیکھو اب یہ مت کہنا کہ شکل تو بہت پیاری ہے اور حرکتیں تم کیسی کرتی ہو ....... ؟؟ تمہیں میری حرکتوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے. بس چارہ میرے گھر پہنچا دو معاملہ ختم ____ زریں نے کندھے اچکائے تو ماجد نے خاموشی سے چارہ اٹھا لیا. 

سمجھدار ہو. میرا تو خیال تھا ابھی کم از کم آدھا گھنٹہ میرا سر کھاؤ گے. ویسے کہاں سے آئے ہو اور کس کے گھر جا رہے ہو .....؟ ؟ زریں نے چلتے ہوئے پوچھا

تمہیں اس سب سے مطلب ____ تمہارا گھر کتنی دور رہ گیا ہے .....؟ ؟ ماجد نے بیزاری سے پوچھا

وہ جہاں سے دھواں اٹھ رہا ہے ناااااا وہ میرا گھر ہے. ماسی آج بیسن والی روٹی پکا رہی ہے اور جب وہ یہ روٹی پکاتی ہے تو پورے گاؤں میں اس کی خوشبو پھیل جاتی ہے. اس نے آج ساگ بھی پکایا ہوگا. آخر اس کا بیٹا آیا ہوا ہے مذاق تھوڑی ہے. زریں کے بتانے پر ماجد کو غازی کی باتیں یاد آئیں. 

وہ جو سات سال پہلے سیلاب میں ڈوب گیا تھا.....؟؟ ماجد نے ہوا میں تیر چلایا

ہاں ہاں وہی مگر تمہیں کیسے پتہ ....... ؟؟ زریں کے چہرے پر حیرت نمایاں تھی

میں لوگوں کی شکل دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ ان کے ساتھ آگے کیا ہونے والا ہے .....؟ ؟ ماجد کو زریں سے بدلہ لینے کے لیے شرارت سوجھی

یہ کون سی خاص خوبی ہے. یہ تو میں بھی بتا سکتی ہوں کہ تمہارے ساتھ آگے کیا ہونے والا ہے ...... ؟؟ ماجد کی توقع کے برخلاف زری نے بالکل حیرت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ماجد کو حیران کر دیا

میرے ساتھ آگے کیا ہونے والا ہے .....؟ ؟ ماجد نے ٹھہر ٹھہر کر لفظ ادا کیے

تم میرے گھر جاؤ گے. وہاں پہ تمہیں اپنے پرانا دوست مل جائے گا. تم کہو گے میں تو اسی سے ملنے آیا تھا .پھر اچانک تمہاری میری ماسی سے بھی رشتہ داری بن جائے گی. اپنی بات پر زری نے خود ہی قہقہ لگایا جبکہ ماجد واقع ہی شاکڈ تھا. 

بیسن والی روٹی ساگ اور لسی تو میں نے تمہیں ویسے بھی دینی تھی. ہم لوگ مہمان نواز ہیں مگر تم یہ ڈرامے نہ کرو کیونکہ میں پہلے ہی ایک شہری ڈرامے سے تنگ پڑی ہوئی ہوں بلکہ ایک احسان کرو کہ واپس جاتے ہوئے اسے بھی اپنے ساتھ لیتے جانا. زریں نے کہتے ہوئے ایک پرانا لکڑی کا دروازہ اندر کی طرف دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا. 

اتنی دیر کہاں لگا دی تھی .....؟؟ ماسی پھلاں نے زری کو دیکھتے ہوئے پوچھا مگر اس کے پیچھے ماجد پر نگاہ پڑتے ہی خاموش ہو گئیں. 

ماسی یہ تیرے بیٹے کا دوست ہے شہر سے آیا ہے. زری کی بات پر جہاں غازی شاکڈ تھا وہاں ماجد ماسی پھلاں کو دیکھ کر سکتے میں آگیا تھا. 

اس لڑکی کے تکے اتنے پرفیکٹ کیسے بیٹھتے ہیں .....؟ ؟ غازی نے دل میں سوچتے ہوئے ماجد کی طرف دیکھا

🎭🎭🎭🎭

🌹ماضی......

میں کسی بھی صورت ایسا کچھ بھی ہونے نہیں دوں گا اور اگر کسی نے مجبور کیا تو میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ سامنے والا کون ہے ....... ؟؟ میں میر کو اور اس کے حمایتی کو گولی سے اڑا دوں گا. شیر علی کی آواز پوری آب و تاب سے حویلی میں گونجی تھی. 

شیر علی آخر تم کب عقل سے کام لو گے. زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے. سردار بیگم نے فکر مندی سے اس کی طرف دیکھا جبکہ غلام علی خاموش تھا. 

میں میر کو اس جائیداد میں سے ایک پھوٹی کوڑی دینے کو تیار نہیں اور آپ کہتی ہیں کہ میں بچپن کی منگ اسے دے دوں. شیر علی نے حقارت سے پاس پڑے گلدان کو لات ماری تو وہ دور جا گرا

غلام علی تم ہی اسے کچھ سمجھاؤ کہ یہ عقل سے کام لے. یوں جذبات سے کام لے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا. میر کا کچھ نہیں جائے گا. سردار بیگم نے مدد طلب نظروں سے غلام علی کی طرف دیکھا

اس بے غیرت کی طرف کیا دیکھ رہی ہیں. اس کی وجہ سے ہی تو مجھے یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے .....؟ ؟ 

اگر یہ میری طرح بہادر ہوتا تو مجال تھی کہ میر میرے سامنے کھڑا ہو سکتا مگر اس کو تو عادت ہے ہر کسی کی ہاں میں ہاں ملانے کی، عورتوں جیسا بھائی ہے. شیر علی نے سر جھٹکا

میری ایک بات کان کھول کے سن لے. گل میری ہے اور تیری بھابھی لگتی ہے. اگر آج کے بعد میں نے تجھے گل سے فری ہوتے دیکھا تو تو دوبارہ چلنے کے قابل نہیں رہے گا. غلام علی کو کمرے سے باہر جاتا دیکھ کر شیر علی پیچھے سے چلایا

بس شیر علی اب تم حد سے زیادہ بڑھ رہے ہو! وہ دونوں  کزن بھی ہیں. اپنی گندی سوچ کو صرف اپنے تک محدود رکھو. سردار بیگم کا ضبط جواب دے گیا تھا

آپ بھی مجھے ہی ڈانٹ رہی ہیں. سنا نہیں تھا اس دن میر نے کیا کہا تھا ......؟ ؟ عادت کے مطابق شیر علی چیخا

اگر تم اپنوں سے لڑتے رہے تو میر اپنی سازش میں کامیاب ہو جائے گا. سردار بیگم کی بات پر شیر علی دھیما سا مسکرایا. 

وہ کیسے .....؟؟ شیر علی کے لہجے میں تجسس تھا. 

آغا جان آگے ہی میر کے حمایتی ہیں اور تم اپنے رویے کی وجہ سے گل اور غلام علی کو بھی کھو دو گے. تو سب کچھ میر کا ہو جائے گا. سردار بیگم نے نفی میں سر ہلاتے جواب دیا

اور اگر میں آغا جان کو ہی ______  شیر علی نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑتے ہوئے قہقہہ لگایا تو سردار بیگم کے ہوش اڑ گئے. 

بھول کے بھی ایسا کچھ مت کرنا. سردار بیگم نے وارنگ دی تو شیر علی ہنستا ہوا باہر چلا گیا. 

ویسے آئیڈیا برا نہیں ہے. ایک بوڑھا کتنی مزاحمت کر سکتا ہے .....؟ ؟ سونے پر سہاگہ ہو جائے اگر الزام بھی میر کے سر لگے. نہ بانس ٹوٹے گا اور سانپ بھی مر جائے گا

ارے واہ یہ آئیڈیا مجھے پہلے کیوں نہیں آیا. سردار بیگم نے دیو قامت شیشے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے سوچا 

🎭🎭🎭🎭

ایسا کیسے ہو سکتا ہے. میر اور شادی ____ گل بے تابی سے ویل چیئر کو کمرے میں چلا رہی تھی. تبھی دروازہ کھلتے میر اور عزین ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے. 

گل یہ ہے میری دلہن اور آپ کی سوتن ____  بتائیں کیسے لگی ......؟ ؟ میر نے محبت سے عزین کے گرد اپنی بازو حائل کرتے ہوئے پوچھا. جس پر گل مسکرا دی. 

تمہاری چوائس شروع سے ہی بے مثال ہے. گل نے سراہتے ہوئے ویل چیئر عزین کی طرف موڑی. جس پر عزین خود ہی آگے بڑھ کر ہاتھ ملانے لگی

امید ہے آپ دونوں میں اچھی دوستی رہے گی اور رونق بھی لگ جائے گی. ہلکے پھلکے سے انداز میں کہتا میر اپنا کوٹ اتار کر صوفے پر بیٹھ گیا. 

میں گل ہوں. گل نے اپنا خود ہی تعارف کروایا تو عزین سر ہلاتی بیڈ پر بیٹھ گئی. 

یہ صرف گل نہیں بلکہ "گلبدین طلال میر" ہیں . میں نے کتنی بار بولا ہے کہ اپنے نام ساتھ میرا نام لگانا مت بھولا کریں. میر نے اپنی ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے زور دیا. تو عزین نے حیرت سے میر کی طرف دیکھا 

ایک طرف اتنی اپنائیت اور محبت اور دوسری طرف قتل ____ یہ سب کیا ہے.....؟ ؟ میں پاگل ہو جاؤں گی. عزین نے دل میں سوچا

کھانا لگواؤں .....؟ ؟ گل نے میر کی طرف دیکھا تو وہ عزین کو دیکھنے لگا

بھوک لگی ہوگی .....؟؟ اب کی بارگل نے عزین سے پوچھا تو وہ سر ہلانے لگی

تم کپڑے چینج کر لو. میں تب تک کھانا لگواتی ہوں یا ادھر کمرے میں ہی بھیج دوں. میرے خیال سے یہ زیادہ ایزی رہے گا. گل خود ہی کہتی اپنی ویل چئیر گھیسٹ کر باہر جانے لگی تو میر کے ڈھیلے پڑے اعصاب تنے. 

پاگل لڑکی اس کے پیچھے جاؤ اور اسے کہو کہ آپ رہنے دیں. آج سے سب کام میں کروں گی. میر نے فوراً عزین کے قریب بیٹھتے ہوئے سرگوشی میں اسے ڈانٹا

کیا ہے ایک دن تو مہمان داری کھانے دیں ___ عزین کا موڈ آف ہوا. 

اگے ہی میرا سر آپکی ڈبل پرسنلٹی سے چکرانے لگا ہے. ایک منٹ میں رومینٹک ہیرو اور دوسرے میں سیریل کلر ____ عزین نے جھرجھری لی. 

بس آج کی چھوٹ دے رہا ہوں. میر نے احسان کرتے ہوئے اپنے جوتے کے تسمے کھولے. 

اپنا احسان اپنے پاس رکھیں. میں چلی جاتی ہوں. عزین 

کہتی ہوئی تیزی سے اٹھی مگر لہنگا پاؤں کے نیچے آنے کی وجہ سے سامنے سے آتے غلام علی پر گرنے لگی تو میر نے تھام لیا. 

میر کھانا تیار ہے ____  غلام علی نے دونوں سے نظریں چراتے ہوئے کہا

دل تو کرتا ہے کہ تمہارا گلا دبا دوں. میر نے عزین کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور خود واش روم میں چلا گیا

اچھا خاصا رومینٹک سین تھا اس کا بھی اس شخص نے بیڑا غرق کر دیا ہے. عزین نے کہتے ہوئے  کمرے کا جائزہ لیا. 

میں اس کمرے میں رہوں گی ...... ؟؟ میر کو واش روم سے باہر آتا دیکھ کر عزین نے پوچھا جو نائٹ ڈریس میں تھا. 

"میں" نہیں بلکہ "ہم" اس روم میں رہیں گے. میر نے جملے کی تصحیح کی تو عزین نے اسے حیرت سے دیکھا

ہم _____ عزین نے دہرایا 

جی ہم یعنی میں، تم اور گل _____ میر نے مزے لیتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا. جو اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی. 

میں چاہتا ہوں دونوں بیویوں کو برابری کے حقوق ملے تو پھر برابر کا سلوک کرنا پڑے گا. میر آنکھ ویک کرتا عزین کو حیران پریشان چھوڑ کر باہر نکل گیا. 

شکر ہے کہ تو آگیا، ورنہ پتہ نہیں یہ لوگ میرا کیا حشر کرتے ....... ؟؟ غازی نے ماجد کو گلے ملتے ہوئے سرگوشی کی. 

بیٹے تو اِدھر کُھرے میں ہاتھ منہ دھو لے. پھر میں تم دونوں کو کھانا دیتی ہوں. ماسی پھلاں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا. اس کے بیٹے کا دوست آیا تھا. 

کیا واقعی ہی یہ شخص تیرا دوست ہے ...... ؟؟ ماسی پھلاں سے آنکھ بچاتے زری نے انتہائی حیرت سے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

ہاں ہے ____  غازی کے لہجے میں عجیب طرح کا ایک غرور تھا جبکہ اس ساری کاروائی میں ابھی تک ماجد خاموشی ہی سے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا. 

حیرت ہے تیرا دوست تو دیکھنے میں کافی انسان لگتا ہے. میرے خیال تھا کہ تیرے سارے جاننے والے بالکل تیری طرح ہوں گے. زری نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے طنز کیا. 

مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں نے یہ جگہ پہلے بھی کبھی دیکھی ہے. ماجد نے کھوئے سے لہجے میں کہا تو زریں ہنس دی. 

ہمارا گھر میں کسی فلم اور ڈرامے کی شوٹنگ نہیں ہوئی اس لیے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے. زری نے دونوں کے آگے کھانا رکھتے ہوئے جواب دیا. تو ماجد اٹھ کر ایک سمت چل دیا. 

تیری تو ٹانگوں پر چوٹ لگی تھی. تیرے دوست کو کیا سر پر لگی ہے. کس طرح پورے گھر میں پھر رہا ہے. زری نے شکل بناتے ہوئے ماجد پر تبصرہ کیا تو غازی کو بھی ماجد کے رویے پر حیرت ہوئی

عام حالات میں تو یہ ایسا کچھ نہیں کرتا مگر تمہارے گھر میں یہ خوبی ہے کہ ہر بندہ جو کام عام حالات میں نہیں کرتا وہ کرنے لگ جاتا ہے.

 جیسے تم مجھے دیکھ لو میرا نرمی سے بات کرنا، تمہاری اس ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر لیٹنا، گندے مندے برتنوں میں کھانا کھانا وغیرہ غازی نے کافی دنوں کا ادھار چکاتے ہوئے جواب دیا. 

ماجد نے پورے گھر کا ایک چکر لگایا اور دوبارہ غازی کے برابر آ بیٹھا جس پر ماسی پھلاں اسے غور سے دیکھنے لگی. 

پتر تو پہلے آرام سے کھانا کھا لے پھر گھر اور کھیت دیکھ لینا. اس طرح کیوں پورے گھر میں  پھر رہا ہے. کیا کوئی پریشانی ہے یا ہمارے گھر کی کسی نے شکایت لگائی ہے ...... ؟؟ 

ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے. بس ویسے ہی مجھے گاؤں کے گھر دیکھنے کا بہت شوق تھا تو میں نے سوچا دیکھ لوں. جیسے ہی ماجد نے ماسی پھلوں کو یہ جواب دیا غازی نے کھانسی شروع کر دیا. 

میں نے تو اتنے برسوں میں تیرے منہ سے کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں سنا، اس کا مطلب ہے تو مجھ سے بھی باتیں چھپتا ہے. غازی کے لہجے میں واضح طنز تھا لیکن ماجد بالکل سنجیدگی سے ماسی پھلاں کو دیکھ رہا تھا. 

کیا تجھے بیسن کی روٹی پسند نہیں ....... ؟؟ میں تجھے سادی روٹی بنا دیتی ہوں. پہلے میرا بیٹا بھی بیسن کی روٹی نہیں کھاتا تھا لیکن اب دیکھ بڑا ہو کے کھانے لگا ہے. ماسی نے محبت سے غازی کی طرف دیکھا جو مزے سے کھانا کھا رہا تھا. 

(اس لیے کہ یہ آپ کا بیٹا نہیں ہے. زری نے دل میں جواب دیا مگر منہ سے کچھ نہ کہا) 

اچھا اب ہم چلتے ہیں. کھانے سے فارغ ہوتے ہی 

ماجد نے جیب سے موبائل نکال کر اپنی ڈرائیور کو کال کی تو ماسی پھلاں پریشان ہو گئی. 

بیٹا تیرا جتنا دل کرتا ہے تو یہاں رہ مگر میں اپنے سانول کو یہاں سے جانے نہیں دوں گی. ماسی کے لہجے میں سختی تھی ماجد نے مڑ کر ان کے بوڑھے چہرے کی طرف دیکھا

اماں اسے بہت چوٹ لگی ہے. اس طرح اس کا پاؤں خراب ہو جائے گا. میں اسے شہر ہسپتال میں داخل کراؤں گا. جب یہ ٹھیک ہو گیا تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں اسے خود واپس لے کر آؤں گ. ا ماجد نے ماسی پھلاں کی طرف دیکھتے ہوئے انہیں تسلی دی

نہ پتر اس طرح تو میں اسے جانے نہیں دوں گی. کم از کم اور کچھ نہیں تو یہ زری سے نکاح کر کے اسے بھی ساتھ لے کر جائے گا تاکہ میری پریشانی دور ہو. جیسے ہی ماسی پھلاں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تینوں کے منہ کھل گئے

ماسی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں .....؟ ؟ سب سے پہلے زری نے احتجاج کیا تو اس کی قابل رحم حالت دیکھتے ہوئے غازی نے خاموشی بہتر سمجھی جبکہ ماجد دونوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا

میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں. تو ایک دن ہمارے پاس ٹھہر جا، میں سب گاؤں والوں کو اطلاع کر دوں. کل صبح نماز کے بعد ان دونوں کا نکاح کر دیں گے. اس طرح میرا دل مطمئن رہے گا. میری ذمہ داری بھی اتر جائے گی اور زری اس کا شہر میں اچھی طرح خیال بھی رکھ لے گی. ماسی پھلاں نے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کیا جس پر زری نے اپنا ماتھا پیٹ لیا

ٹھیک ہے مجھے منظور ہے. اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ____ غازی نے فوراً سر ہاں میں ہلایا تو ماجد کی آنکھیں پھیل گئیں. 

غازی اور وہ بھی شادی کے لیے خوشی سے مان جائے ناممکن  ____ ماجد نے آہستہ آواز میں غازی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا

اس لڑکی کی طرف میرا بہت حساب نکلتا ہے. غازی نے بظاہر مسکراتے ہوئے جواب دیا تو ماجد خاموش ہو گیا. 

🎭🎭🎭🎭

کھانے کی میز پر مکمل خاموشی تھی. صرف میر اور عزین کھانے میں مشغول تھے جبکہ غلام علی اور گل ایک دوسرے اور کبھی ان دونوں کو دیکھتے. 

آج تو آپ نے کھانا بھی میری پسند کا بنوایا ہے. وہ بھی اتنا ذائقے دار، بہت عرصے بعد میں نے گھر پر تسلی سے کھانا کھایا ہے. کھانے کے آخر میں میر نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے گل کی طرف تعریفی انداز میں دیکھا

تم نے تسلی سے کھانا کھایا، میرے لیے اتنا ہی کافی ہے. گل نے ہمیشہ کی طرح محبت بھرے لہجے میں جواب دیا. 

(توبہ ہے دونوں ہی کتنے بڑے منافق ہیں. کس طرح منہ پر ایک دوسرے کے میاں مٹھو بنے ہوتے ہیں اور پیچھے ____  آج مجھے یہ کہاوت سمجھ آئی ہے "بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام" ____ ع نے بھی ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے اپنے دل کی بات دل میں ہی کہی) 

عزین تم نے گل سے کچھ کہنا تھا اب کہہ بھی دو ____ کھانے سے فارخ ہوتے ہی میر نے کرسی ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے عزین کو پکارا تو وہ اپنے خیالات سے چونکی 

میں نے کہنا تھا ......؟ ؟ مگر اب میں چاہتی ہوں میری جگہ آپ ہی کہہ دیں. عزین نے پہلے ناسمجھی سے اپنے سینے پر انگلی رکھی مگر پھر میر کی آنکھوں میں وارننگ دیکھ کر فوراً بات بدلی. 

چلو کوئی بات نہیں، میں ہی کہہ دیتا ہوں. ویسے بھی تمہارا کہنا اور میرا کہنا ایک ہی بات ہے. میر نے سخت نظروں سے عزین کو گھورتے ہوئے گل کی طرف دیکھا 

اصل میں عزین چاہتی ہے کہ اب آپ ارام کریں اور وہ سب کام کرے گی اور میری بھی یہی خواہش ہے کہ اب آپ بس حکم دیا کریں. یہ بجا لائے گی. میر کی بات پر گل کی ہوائیاں اڑنے لگیں 

ارے یہ کیسے اس گھر کا انتظام سنبھال سکتی ہے ...... ؟؟ یہ تو ابھی بالکل نئی ہے. ہماری روایات سے واقف نہیں، ویسے بھی اسے کیا پتہ کہ کیا کرنا ہے ابھی بہت چھوٹی ہے. 

میرا مطلب ہے کہ یہ ابھی نئی نئی ہے.گل کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا بول رہی ہے اور اس کی یہ بوکھلاہٹ میر کو مزہ دے رہی تھی. 

(یہ دونوں پتہ نہیں کون سا بلی چوہے کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں مگر مجھے تو سخت نیند آ رہی ہے. ہائے عزین پتہ نہیں کب تک سونا نصیب ہو گا ...... ؟؟ عزین نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے دل میں سرد آہ بھری) 

گل میں چاہتا ہوں کہ اپ اپنی دوائیاں ٹائم پر لیں اور خوب آرام کریں تاکہ آپ جلد جلد صحت یاب ہو کر زندگی کی طرف لوٹیں. اس لیے اب آپ مزید کوئی دلائل نہیں دیں گی. جہاں عزین غلطی کرے گی وہاں اصلاح کر دیجئے گا مگر یہ ہی کل سے گھر کا انتظام سنبھال لے گی. میر حتمی بات کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا. 

شکر ہے جان چُھوٹی ____  میر کے کھڑے ہوتے ہی عزین بھی اپنی کرسی چھوڑ کر کھڑی ہو گئی مگر اب مشکل یہ تھی کہ اس نے کہاں جانا تھا ......؟ ؟ چند قدم آگے کی طرف بڑھاتے ہوئے پلٹ کر میر نے عزین کی طرف دیکھا جو بڑی کنفیوز سی کھڑی تھی. 

میرے خیال سے تمہیں "ساتھ چلنے کا" کہنے کی مجھے اب ضرورت نہیں. میر کے جملے پر عظیم تیزی سے اس کے پیچھے چل دی جب کہ غلام علی اور گل ایک دوسرے کو دیکھنے لگے

غلام علی یہ ہم دونوں کے لیے اچھا نہیں ہے بلکہ بالکل اچھا نہیں ہے. اس لڑکی کا گھر کا انتظام سنبھالنا ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے. تم سمجھ رہے ہو نا کہ میں تمہیں کیا کہہ رہی ہوں ....... ؟؟ گل کی بات پر غلام علی سر ہلانے لگا

گل مجھے ایسے لگتا ہے کہ میر کو ہمارے ارادوں کی خبر لگ گئی ہے. ورنہ وہ کبھی بھی ایسا قدم نہ اٹھاتا کیونکہ مجھے ان دونوں میں کہیں بھی "محبت" نظر نہیں آرہی ہاں "سازش" صاف دکھائی دے رہی ہے. پہلی دفعہ غلام علی کی بات پر گل نے چونک کے اسے دیکھا

مجھے تم سے اتنی ذہانت کی امید نہیں تھی مگر تم درست کہہ رہے ہو. گل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو غلام علی نے خشگمین نظروں سے انھیں گھورا

میر کو اب راستے سے ہٹانا بہت مشکل ہو گیا ہے مگر ناممکن نہیں. یہی اس کی لاڈلی ہمارے کام آئے گی. خاصی بےوقوف لگ رہی ہے. گل جواب دیتی اپنی ویل چئیر چلانے لگی. 

مگر مجھے ایسے نہیں لگتا _____ غلام علی نے گل کی چیئر کو پکڑتے ہوئے کمرے کی طرف موڑا

🎭🎭🎭🎭

بیٹھو _____  کمرے میں داخل ہوتے ہی میر نے عزین کو بیٹھنے کا کہا اور خود دروازہ بند کرتے ہوئے پلٹا

ماجد تمہارا کیا لگتا ہے .....؟ ؟ میر کا سوال عزین کے ہوش اڑا گیا. 

آپ ماجد کو کیسے جانتے ہیں .....؟ ؟ عزین کے پوچھنے پر میر مسکراتا ہوا بیڈ پر بیٹھ گیا

پہلے تم اپنے سوال کو درست کرو. میرے خیال سے تم یہ پوچھنا چاہتی ہو کہ میں تمہارے اور ماجد کے بارے میں کیسے جانتا ہوں ....... ؟؟ میر نے ٹانگ پہ ٹانگ رکھتے ہوئے کہا تو عزین نے سر ہاں میں ہلایا 

دیکھو عزین بی بی!!! میں جب کتا بھی اپنے ویلا میں لاتا ہوں. تو سب سے پہلے اس کے حسب نسب کا پتہ کرتا ہوں کہ وہ وفادار ہے یا نہیں. تو تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں تمہیں اپنے گھر لاؤں گا وہ بھی تمہاری تحقیق کیے بغیر _____ میر نے سائیڈ ٹیبل سے سگریٹ کی ڈبیا اٹھاتے ہوئے جواب دیا 

مگر میں تو وفادار نہیں پھر آپ نے میرا انتخاب کیوں کیا ......؟ ؟ عزین کے پوچھنے پر میر نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑا. 

تم وفادار تو نہیں مگر تم میں وہ تمام خوبیاں پائی جا رہی تھیں جو مجھے اپنے منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک لڑکی میں چاہیے تھی. میر کے جواب پر عزین ہنس دی

اچھا پھر تو آپ میرے بارے میں اور بھی بہت کچھ جانتے ہوں گے جیسے کہ میں _____  اب عزین کا اعتماد بحال ہو چکا تھا

جیسے کے تم ایک بہت اچھی دھوکے باز لڑکی ہو. تم نے انتہائی صفائی سے حاشر کو تو بے وقوف بنا لیا مگر مجھے نہیں کیونکہ میں اچھے سے جانتا ہوں تم وکیل نہیں ہو گو کہ تم نے وکالت پڑھی ہے. میر کی بات پر اب عزین حیران نہیں ہوئی. 

اگر آپ میرے بارے میں اتنا سب کچھ جانتے ہیں تو پھر آپ نے مجھے کیوں سلیکٹ کیا ......؟ ؟ عزین نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا

میں تمہارے سوال کا جواب پہلے ہی دے چکا ہوں مگر پھر بھی مزید تفصیل سے بتا دیتا ہوں کیونکہ ماجد تمہارا منگیتر ہے تو وہ جیل میں تمہاری مدد کرے گا. 

یہ محبت بڑی عجیب چیز ہوتی ہے. چاہے محبوب بے وفائی ہی کیوں نہ کرے مگر انسان اسے دکھ اور تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا. 

دوسرا تم وکیل تو نہیں ہو مگر تم وکالت پڑھنے کی وجہ سے قانونی داؤ پیچ اچھے سے جانتی ہو اور یہ بھی کہ کس وقت کون سا کھیلنا ہے ...... ؟؟ تم ایک شاطر لڑکی ہو. 

اور سب سے خاص بات یہ کہ تم مجھے انتہائی ناپسند ہو. اس لیے مجھے تم سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ مجھے تم سے محبت ہو جائے گی اور میں کسی جذباتی مسئلے کا شکار ہوں گا. میر نے کہا تو عزین نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے 

اگر آپ نے مزید بھی کوئی سانپ نکالنا ہے تو اپنی پٹاری میں سے نکال لیں ورنہ مجھے سونے دیں کیونکہ میں اتنی دیر تک جاگنے کی عادی نہیں. اب کی بار عزین نے اپنی جمائی روکتے ہوئے کہا تو میر مسکراتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا

سو جاؤ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر سونے سے پہلے اپنی منہ دکھائی تو لے لو. تمہیں بہت شوق ہے منہ دکھائی لینے کا  ____ ہوتا ہے جب بندے کی پہلی پہلی شادی ہو تو  ____ میر طنز کرتا ہوا اپنی الماری کی طرف بڑھ گیا 

یہ لو میرے خیال سے یہ تمہارے بہت کام آئے گی اور یہ انتہائی نایاب تحفہ ہے کسی بھی دلہن کے لیے ___ میر نے کہتے ہوئے ایک فائل عزین کی گود میں رکھی

یہ کیا ہے ...... ؟؟ عزین نے کھولے بغیر میر کی طرف دیکھا 

ویسے تو تم پڑھی لکھی ہو. پر چلو تمہاری آسانی کے لیے بتا دیتا ہوں. تمہاری وکالت کی ڈگری ہے. اب تم حکومت پاکستان کے کاغذوں میں ایک وکیل ہو. سوچا تمہاری خواہش ہی پوری کر دوں. آخر تمہارے بچپن کی خواہش تھی کہ تم بلیک کوٹ پہنو. میر کی بات پر عزین کا سر چکرانے لگا

بظاہر یہ ایک کھڑوس سا انسان ہے مگر حقیقت میں اس نے میرے بارے میں کتنی تحقیق کی ہے. مجھے اب اس سے ڈر لگ رہا ہے. عزین نے دل میں سوچتے ہوئے نگاہیں جھکا لیں. 

شرمندہ مت ہو. ہم میں سے سب میں عیب موجود ہے مگر تمہاری قابلیت تمہارے عیبوں پر حاوی ہے. اسی لیے میں نے تمہارا انتخاب کیا. گڈ نائٹ

میر نے کہتے ہوئے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا تو کمرے میں نائٹ بلب کی ہلکی ہلکی سی روشنی میں سب کچھ واضح ہونے لگا جبکہ اب عزین کی نیند اڑ چکی تھی. 

🎭🎭🎭🎭

سردار بی بی!!! آپ کی ملاقات آئی ہے. جیسے ہی جیلر نے آواز لگائی. جیل میں بیٹھی ایک معتبر خاتون جو ابھی بھی کسی ریاست کی ملکہ لگ رہی تھی. نے نظر اٹھا کر اوپر دیکھا. 

اس سے جا کر بول دو کہ میرا فی الحال ملنے کو دل نہیں کر رہا. لہجے میں ٹھہراؤ اور تمیز واضح تھی. 

بی بی میں نے پہلے ہی آپ کے حکم کے مطابق اس سے بول دیا تھا مگر وہ باضد ہے کہ اس نے بہت ضروری بات کرنی ہے. میری مانے نے تو اج آپ ملاقات کر ہی لیں. جیلر نے غلام علی کے دیے پیسوں کی طاقت پر انہیں قائل کرنے کی کوشش کی

پانچ منٹ سے زیادہ بات نہیں سنوں گی اور اگر پانچ منٹ سے ایک منٹ بھی اوپر ہوا تو سمجھو تمہاری خیر نہیں. سردار بیگم کے کھڑے ہوتے ہی ان کے آس پاس موجود دوسری کم عمر قیدی لڑکیاں جو انھیں دبا رہیں تھیں کھڑی ہو گئیں. 

ملاقات کے کمرے میں اس وقت مکمل خاموشی کا راج تھا دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے مگر بات میں پہل کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی. 

اگر تم نے مجھے اپنا یہی مایوس چہرہ دکھانا تھا تو بہتر تھا کہ نہ آتے ور گل کو میرا پیغام دے دینا کہ میں اس سے سخت ناراض ہوں. مجھے تم سے تو نہیں مگر اس سے بہت امیدیں وابستہ تھیں. سردار بیگم کے لہجے میں بہت دکھ تھا وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں. 

آپ کو بہت مبارک ہو _____  اس سے پہلے کہ سردار بیگم کمرہ ملاقات سے باہر نکلتی غلام علی کے جملے پر پلٹی

کیا میر مر گیا ہے یا تم نے مار دیا ہے ....... ؟؟ تم میں تو اتنی ہمت نہیں یقیناً اپنی موت خود ہی مرا ہوگا. سردار بیگم نے پلٹتے ہوئے پوچھا 

نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ اس نے شادی کر لی ہے. وہ بھی اپنی پسند کی لڑکی سے ____ غلام علی نے کھڑے ہوتے ہوئے با ادب جواب دیا تو سردار بیگم نے اسے دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا

جیل میں تو میں رہتی ہوں مگر لگتا ہے دماغ تمہارا خراب ہو گیا ہے. میر اور شادی میں نہیں مانتی. سردار بیگم ہنستے ہوئے دوبارہ بیٹھ گئیں. 

سردار بیگم میں سچ کہہ رہا ہوں. میر نے کل رات شادی کر لی ہے اور اس بات کا علم آخری دم تک مجھے اور گل کو نہیں تھا ورنہ ہم ضرور کچھ کرتے. اب آپ بتائیں کہ ہم کیا کریں ....... ؟؟ غلام علی نے پریشانی سے سردار بیگم کی طرف دیکھا تو ان کی ہنسی کو بریک لگی

اگر یہ سچ ہے تو تم دونوں کو ڈوب مرنا چاہیے. تم دونوں اتنے سالوں سے ایک میر کو قابو نہیں کر پائے اور میں یہاں جیل کے پیچھے بے گناہ سزا بھگت رہی ہوں. 

آئیڈیا تو ہم سب کا تھا لیکن سزا صرف میں نے بھگتی ہے. اس بنا پہ کہ تم دونوں آزاد ہو گے تو میرے لیے کچھ کر سکو گے مگر ____سردار بیگم نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا

اب میرے پاس کیا  لینے آئے ہو ......... ؟؟ دفع ہو جاؤ یہاں سے _____  دوبارہ مجھے اپنی یہ مایوس شکل مت دکھانا کیونکہ تمہاری اس مایوسی میں مجھے اپنی موت دکھائی دیتی ہے. سردار بیگم کہتی ہوئی تیزی سے کمرہ ملاقات سے نکل گئیں جب کہ غلام علی انہیں آوازیں ہی دیتا رہ گیا. 

اچھا تو تمہاری آپا سے بات ہو گئی ہے. چلو مبارک ہو تمہیں بڑی حسرت تھی کہ آپا تم سے بات نہیں کرتیں ____ گل نے ہلکے پھلکے سے انداز میں غلام علی کو جواب دیا تو وہ حیران رہ گیا

میں کچھ اور کہہ رہا ہوں اور آپ کچھ اور سن رہی ہیں. میں نے کہا ہے کہ آپا ہم سے ناراض ہیں اور آپ مجھے اس بات پہ مبارکباد دے رہی ہیں.آپ کو کیا ہو گیا ہے ...... ؟؟ غلام علی نے ناراض سے لہجے میں گل کی طرف دیکھا تو وہ زخمی سا مسکرائی

دیکھو غلام علی ہمارے لیے سب سے اہم آپا کو جیل سے باہر نکالنا ہے لیکن آپا اگر خود ہی جیل سے باہر نہ نکلنا چاہیں تو ہم کیا کریں .....؟؟ 

انہوں نے ایک ہی ضد لگا رکھی ہے کہ میر کو وہ جیل میں دیکھنا چاہتی ہیں. اب میر کوئی معصوم چھوٹا سا بچہ تو ہے نہیں جسے ہم کچھ بھی لولی پپ دے کر اندر کر دیں گے. 

میر ہم سب کا باپ ہے. جو بات ہم صرف سوچ رہے ہوتے ہیں وہ پہلے ہی اس کا حل ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے. اب یہ شادی ____ گل نے سرد آہ بھری. 

خیر اس کی شادی تو ہمارے لیے فائدے مند ہے کیونکہ مجھے کہیں سے بھی یہ شادی محبت کی نہیں لگ رہی. لہذا ہم اس لڑکی کو اپنے مقصد کے لیے آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں. بشرطیہ میر کو خبر نہ ہو. گل کے جواب پر غلام علی سر ہلانے لگا

میر  کسی بھی صورت آپا کو جیل سے باہر نہیں آنے دے گا کیونکہ اس کو اپنے آغا جان کا شدید دکھ ہے.وہ سب کو معاف کر سکتا ہے مگر آپا کو کبھی معاف نہیں کرے گا. بھلا کبھی کسی نے سوتیلی ماں کا گناہ بھی معاف کیا ہے .....؟ ؟ گل نے اپنی انگلی میں پہنی اکلوتی انگوٹھی کو گھمایا. 

ان دونوں کی ضد میں ہم دونوں کا کیا قصور ہے ....... ؟؟ جیسے ہی غلام علی کے منہ سے یہ جملہ نکلا گل نے جھٹکے سے بند دروازے کی طرف دیکھا

تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے. آج کل ہر وقت اول فول بکتے رہتے ہو. اگر ذرا بھی تمہاری اس بکواس کی بھنک میر کے کان میں پڑی تو وہ تمہارے ٹوٹے ٹوٹے کر دے گا اور میرے اتنے برس کی ریاضت ضائع جائے گی. شکر کرو اسے ابھی تک مجھ پہ شک نہیں ہوا ورنہ ہم دونوں اس وقت کہاں ہوتے تم مجھ سے بہتر جانتے ہو ...... ؟؟ گل نے غصے سے غلام علی کو دیکھا 

میں سچ مچ بہت تھکنے لگا ہوں. مجھے اب اس سب سے مایوسی ہونے لگی ہے. یہ بدلے لینا میرے بس کی بات نہیں ہے. میں تو شروع سے ہی ایک انتہائی پر امن انسان رہا ہوں. پتہ نہیں آپ نے اور آپا نے مجھے کن مسائل میں پھنسا دیا ہے ........ ؟؟ غلام علی کے چہرے سے سچ مچ مایوسی عیاں تھی

بس تھوڑا سا اور صبر کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا. یہ تمام چیزیں میری تمہاری اور آپا کی ہوں گی. ہم مزے سے میر ویلاز میں رہیں گے. یہ جس دلہن کو ہمارے سر پہ لا کے اس نے بٹھایا ہے نااااا ____ یہی اس کا سر قلم کرے گی. یہ اپنی موت خود مرے گا. 

تم میری بات لکھ لو. اب میر کے برے دن شروع ہونے والے ہیں. جب ایک خوبصورت امیر نوجوان کسی لڑکی کے چکر میں پڑتا ہے تو اس کی عقل فہم و فراست، سوجھ بوجھ سب گھاس چرنے چلی جاتی ہے. 

میر کو ختم کرنے کا ہمارے پاس یہ گولڈن ٹائم ہے. ایک تو جو کچھ بھی ہوگا سب کا سب ہم میر کی دلہن کے سر ڈال دیں گے اور دوسرا غازی کا بھی آج کل کچھ پتہ نہیں جو اس کا انتہائی وفادار اور خطرناک کتا تھا. 

ہم نے جو بھی کرنا ہے اسی ماہ کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم ضرور کامیاب ہو جائیں گے. بس یہ دعا کرو کہ ہماری پلاننگ کامیاب ہونے تک غازی کا کچھ پتہ نہ چلے. گل کی بات پر غلام علی سر ہلاتا دروازے کی طرف بڑھنے لگا

آپا کو میری طرف سے کہہ دینا کہ میں ان کی بےعزتی بھولی نہیں. جیسے میر نے انہیں ہتھکڑیاں لگوا کر حویلی سے جیل پہنچایا تھا. بالکل ویسے ہی میں اس کی دلہن کو ہتھکڑیاں لگوا کر میر ویلاز سے جیل پہنچا دوں گی. 

کل ہماری عزت نیلام ہوئی تھی اور آج میر کی ہوگی. میں کچھ بھی نہیں بھولی. مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ______ گل کی آنکھیں لال انگارہ ہو رہیں تھیں

بس کریں گل کیوں بار بار اپنے آپ کو اذیت دیتی ہیں. مجھے اچھا نہیں لگتا. اپ کو میری پرواہ نہیں لیکن مجھے اپ کی پرواہ ہے غلام اچھا تو تمہاری آپا سے بات ہو گئی ہے. چلو مبارک ہو تمہیں بڑی حسرت تھی کہ آپا تم سے بات نہیں کرتیں ____ گل نے ہلکے پھلکے سے انداز میں غلام علی کو جواب دیا تو وہ حیران رہ گیا

میں کچھ اور کہہ رہا ہوں اور آپ کچھ اور سن رہی ہیں. میں نے کہا ہے کہ آپا ہم سے ناراض ہیں اور آپ مجھے اس بات پہ مبارکباد دے رہی ہیں.آپ کو کیا ہو گیا ہے ...... ؟؟ غلام علی نے ناراض سے لہجے میں گل کی طرف دیکھا تو وہ زخمی سا مسکرائی

دیکھو غلام علی ہمارے لیے سب سے اہم آپا کو جیل سے باہر نکالنا ہے لیکن آپا اگر خود ہی جیل سے باہر نہ نکلنا چاہیں تو ہم کیا کریں .....؟؟ 

انہوں نے ایک ہی ضد لگا رکھی ہے کہ میر کو وہ جیل میں دیکھنا چاہتی ہیں. اب میر کوئی معصوم چھوٹا سا بچہ تو ہے نہیں جسے ہم کچھ بھی لولی پپ دے کر اندر کر دیں گے. 

میر ہم سب کا باپ ہے. جو بات ہم صرف سوچ رہے ہوتے ہیں وہ پہلے ہی اس کا حل ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے. اب یہ شادی ____ گل نے سرد آہ بھری. 

خیر اس کی شادی تو ہمارے لیے فائدے مند ہے کیونکہ مجھے کہیں سے بھی یہ شادی محبت کی نہیں لگ رہی. لہذا ہم اس لڑکی کو اپنے مقصد کے لیے آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں. بشرطیہ میر کو خبر نہ ہو. گل کے جواب پر غلام علی سر ہلانے لگا

میر  کسی بھی صورت آپا کو جیل سے باہر نہیں آنے دے گا کیونکہ اس کو اپنے آغا جان کا شدید دکھ ہے.وہ سب کو معاف کر سکتا ہے مگر آپا کو کبھی معاف نہیں کرے گا. بھلا کبھی کسی نے سوتیلی ماں کا گناہ بھی معاف کیا ہے .....؟ ؟ گل نے اپنی انگلی میں پہنی اکلوتی انگوٹھی کو گھمایا. 

ان دونوں کی ضد میں ہم دونوں کا کیا قصور ہے ....... ؟؟ جیسے ہی غلام علی کے منہ سے یہ جملہ نکلا گل نے جھٹکے سے بند دروازے کی طرف دیکھا

تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے. آج کل ہر وقت اول فول بکتے رہتے ہو. اگر ذرا بھی تمہاری اس بکواس کی بھنک میر کے کان میں پڑی تو وہ تمہارے ٹوٹے ٹوٹے کر دے گا اور میرے اتنے برس کی ریاضت ضائع جائے گی. شکر کرو اسے ابھی تک مجھ پہ شک نہیں ہوا ورنہ ہم دونوں اس وقت کہاں ہوتے تم مجھ سے بہتر جانتے ہو ...... ؟؟ گل نے غصے سے غلام علی کو دیکھا 

میں سچ مچ بہت تھکنے لگا ہوں. مجھے اب اس سب سے مایوسی ہونے لگی ہے. یہ بدلے لینا میرے بس کی بات نہیں ہے. میں تو شروع سے ہی ایک انتہائی پر امن انسان رہا ہوں. پتہ نہیں آپ نے اور آپا نے مجھے کن مسائل میں پھنسا دیا ہے ........ ؟؟ غلام علی کے چہرے سے سچ مچ مایوسی عیاں تھی

بس تھوڑا سا اور صبر کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا. یہ تمام چیزیں میری تمہاری اور آپا کی ہوں گی. ہم مزے سے میر ویلاز میں رہیں گے. یہ جس دلہن کو ہمارے سر پہ لا کے اس نے بٹھایا ہے نااااا ____ یہی اس کا سر قلم کرے گی. یہ اپنی موت خود مرے گا. 

تم میری بات لکھ لو. اب میر کے برے دن شروع ہونے والے ہیں. جب ایک خوبصورت امیر نوجوان کسی لڑکی کے چکر میں پڑتا ہے تو اس کی عقل فہم و فراست، سوجھ بوجھ سب گھاس چرنے چلی جاتی ہے. 

میر کو ختم کرنے کا ہمارے پاس یہ گولڈن ٹائم ہے. ایک تو جو کچھ بھی ہوگا سب کا سب ہم میر کی دلہن کے سر ڈال دیں گے اور دوسرا غازی کا بھی آج کل کچھ پتہ نہیں جو اس کا انتہائی وفادار اور خطرناک کتا تھا. 

ہم نے جو بھی کرنا ہے اسی ماہ کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم ضرور کامیاب ہو جائیں گے. بس یہ دعا کرو کہ ہماری پلاننگ کامیاب ہونے تک غازی کا کچھ پتہ نہ چلے. گل کی بات پر غلام علی سر ہلاتا دروازے کی طرف بڑھنے لگا

آپا کو میری طرف سے کہہ دینا کہ میں ان کی بےعزتی بھولی نہیں. جیسے میر نے انہیں ہتھکڑیاں لگوا کر حویلی سے جیل پہنچایا تھا. بالکل ویسے ہی میں اس کی دلہن کو ہتھکڑیاں لگوا کر میر ویلاز سے جیل پہنچا دوں گی. 

کل ہماری عزت نیلام ہوئی تھی اور آج میر کی ہوگی. میں کچھ بھی نہیں بھولی. مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ______ گل کی آنکھیں لال انگارہ ہو رہیں تھیں. 

بس کریں گل کیوں بار بار اپنے آپ کو اذیت دیتی ہیں. آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی. آپ کو میری پرواہ نہیں لیکن مجھے آپ کی ہے. غلام علی کہتا تیزی سے باہر نکل گیا. 

🎭🎭🎭🎭

🌹 ماضی .........

شیر علی میں نے تمہاری باتوں پر بہت غور کیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ تمہارا طریقہ تھوڑا سا غلط ہے مگر بات بالکل ٹھیک ہے. جیسے ہی سردار بیگم نے یہ الفاظ ادا کیے شیر علی کا چہرہ جگمگا اٹھا

دیکھا مجھے پورا یقین تھا کہ اگر آپ ٹھنڈے دل سے میری بات کو سوچیں گی تو آپ کو میری بات بالکل ٹھیک لگے گی. آپا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے اور اگر آپ میرا ساتھ دیں تو یہ کام میرے لیے گھنٹوں کا نہیں بلکہ منٹوں کا ہے. شیر علی نے چٹکی بجائی. 

آپا کیا ہو گیا ہے اپ کو، کیوں الٹے کاموں میں شیر علی کا ساتھ دے رہی ہیں. آپ جانتی بھی ہیں کہ اس حویلی میں آغا جان کے کتنے وفادار موجود ہیں. شیر جتنا بھی بوڑھا ہو جائے جنگل کا بادشاہ ہی رہتا ہے. گل نے سب کو ڈرانا چاہا

مجھے گل کی سب سے بری یہی بات لگتی ہے کہ یہ انتہائی ڈرپوک ہے. شیر علی نے نفرت سے گل کی طرف دیکھا تو اس نے سر نفی میں ہلایا جبکہ غلام علی ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی تھا

میں یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ ایسا کچھ نہ کریں. میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ میر کے ہوتے ہوئے مت کریں. آپ میر کو بہت ہلکا لے رہی ہیں. میں مانتی ہوں کہ اس نے ہمارے ملک میں زندگی نہیں گزاری مگر ہے تو وہ اسی خاندان کا، وہ یہ سب داؤو پیچ جانتا ہے. 

آغا جان کی غیر طبعی موت اسے شک میں ڈال دے گی اور اگر اسے ایک دفعہ شک پڑ گیا تو وہ ہم میں سے کسی کو نہیں چھوڑے گا کیونکہ ہم سب کے سب اس کے سوتیلے رشتے دار ہیں. ہم میں سے ایک کا بھی اس سے خون کا رشتہ نہیں. گل کی بات پر سردار بیگم مسکرائیں. 

گل تم کسی بہانے میر کو حویلی سے باہر لے جانا اور چند سیکنڈ کے اندر اندر شیر علی آغا جان کو طبعی موت دے دے گا. تو ہم سب کی ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے گی. 

میں نے صرف میر کے باپ سے اس لیے شادی کی تھی کہ ٹھاٹ سے زندگی گزاروں گی ورنہ وہ میرے قابل نہیں تھا. سردار بیگم کے لہجے میں حقارت تھی. 

میں نے اپنے خاوند کی موت کے بعد اس بوڑھے اور میر کی بہت غلامی کر لی. اب میں بھی شیر علی کی طرح خود بھی تھک گئی ہوں. سردار بیگم نے مصنوعی اداسی چہرے پر لاتے ہوئے گل کی طرف دیکھا

خیر آپا ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے. آغا جان نے آپ کو مکمل آزادی دے رکھی ہے. جہاں تک تعلق میر کا ہے تو وہ تو بمشکل ہی سال بعد ایک چکر لگاتا ہے. گل کے جواب پر شیر علی ایک بار پھر بھڑک اٹھا. 

یہ ہمیشہ اس کا ساتھ دیتی ہے حالانکہ منگیتر میری ہے اور مجھ سے محبت کی دعوے دار بھی ہے مگر پھر بھی _____  شیر علی نے غصے سے کرسی کو ٹانگ ماری تو وہ دور جا گری

میں محبت کی دعویدار ضرور ہوں مگر بے وقوف نہیں. جان بوجھ کے آگ میں چھلانگ کون لگاتا ہے .....؟ ؟ گل کے انداز پر شیر علی نے اسے داد دی

اچھا تم دونوں اپنا جھگڑا ختم کرو اور میں بتاتی ہوں کہ ہم میں سے کس نے کیا کرنا ہے ...... ؟؟ سردار بیگم کی بات پر سب خاموشی سے انھیں دیکھنے لگے جن کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ تھی. 

🎭🎭🎭🎭

بڑے عرصے بعد پرسکون نیند نصیب ہوئی ہے. پتہ نہیں میں تھکا زیادہ تھا یا رات ہی کوئی سکون کی تھی. میر نے اٹھتے ہوئے سوچا گھڑی صبح کے 7 بجا رہی تھی. 

انگڑائی لیتے جیسے ہی میر نے بیڈ کراؤن ساتھ ٹیک لگائی تو صوفے پہ بغیر لحاف کے سوئی ہوئی عزین پر اس کی نظر پڑی. 

میر تمہارے لیے افسوس سے ڈوب مرنے کا مقام ہے. کم از کم اسے کوئی لحاف ہی دے دیتے. کیا سوچتی ہوگی دل میں کہ اتنا بڑا گھر اور ایک لحاف بھی میسر نہیں. 

میر اگر آج آغا جان زندہ ہوتے تو بیٹا تجھے بہت جوتے پڑنے تھے. ہم تو دشمن کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کرتے بہت مہمان نواز ہیں. 

کاش آج آغا جان زندہ ہوتے. میر نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اداسی سے عزین کی طرف دیکھا اور لحاف پیچھے کرتے ہوئے بیڈ سے نیچے ٹانگیں لٹکا لیں

اس لڑکی کو برداشت کرنے کے لیے حاشر جیسا جگر چاہیے. حاشر سے یاد آیا یہ کمینہ کل سے کدھر غائب ہے. پتہ نہیں آفس میں کیسی کیسی پھلجھڑیاں چھوڑ رہا ہو گا. میرسر نفی میں ہلاتا سلیپر پہننے لگا تو اس کا موبائل بجنے لگا. 

یار میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ انسان کی اچھی wishes تو پوری نہیں ہوتی مگر جیسے ہی کچھ برا سوچو وہ فوراً پورا ہو جاتا ہے. اس کی کیا وجہ ہے ........ ؟؟ میر نے کال اٹینڈ کرتے اپنے ازلی سنجیدہ لہجے میں پوچھا

مطلب تو آج صبح بھی میرے بارے میں سوچ رہا تھا حیرت ہے. ابھی کل ہی تو تجھے ایک اچھی خاصی پری دی تھی. اس کے بارے میں کیا خیال ہے .....؟ ؟ حاشر نے میر کی بات کا مفہوم سمجھتے ہوئے کہا

زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے اور اتنی صبح کال کرنے کی کیا تکلیف تھی صرف وہ بتا دیں. میر نے چلتے ہوئے کھڑکی کا کرٹن ایک سائیڈ پر کیا تو عزین کے چہرے پر سورج کی ٹھنڈی اور مدھم روشنی پڑی جس پر وہ اپنی پوزیشن بدل گئی. 

آپ جناب سے صرف یہ دریافت کرنا تھا کہ آج آفس آئیں گے یا شادی کی خوشی میں چھٹی کریں گے ........ ؟؟ حاشر کے لہجے میں واضح طنزتھا. 

مسٹر حاشر جس طرح میں آپ کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا. بالکل ویسے ہی آپ کی اسسٹنٹ بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس کے پاس کچھ دیر سے زیادہ رکا جا سکے لہذا میں آج آفس آؤں گا اور کافی دیر رکوں گا بھی کیونکہ وہ اب آفس میں نہیں ہوگی. میر نے دیوار ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے عزین کو دیکھا جو زرا سا ہلنے پرصوفے سے نیچے گر سکتی تھی. 

ویسے اس بارے میں تو کوئی فلسفی ہی سہی بتا سکتا ہے کہ آپ کی اس لوجک کے پیچھے کیا فلسفہ ہے کہ بندہ اپنے ناپسندیدہ ورکر کو آفس سے ہٹانے کے لیے اس سے شادی کر لے. لیکن بظاہر تو یہ طریقہ کافی واحیات ہی ہے. حاشر کےجواب پر میر کے لبوں کو مسکراہٹ چھو گئی. 

حاشر میرے آنے تک آج کے دن کی تمام میٹنگز کی ڈیٹیل میرے ٹیبل پر پہنچ جانی چاہیے. میں آٹھ بجے تک آفس پہنچ جاؤں گا. میر نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے بات ختم کی. 

میر کل عدالت میں سردار بیگم کی پیشی بھی ہے. اس کے بارے میں اب کیا کرنا ہے ....... ؟؟ تمہارے کہنے کے مطابق میں اس کیس کو جتنا لٹکا سکتا تھا میں نے لٹکایا ہے مگر اب مجھے اس میں مزید گنجائش دکھائی نہیں دے رہی. حاشر کے پوچھنے پر میر جو عزین کے گرنے کے انتظار میں مزے سے مسکرا رہا تھا ایک دم سنجیدہ ہوا. 

بس کسی طرح کل کی پیشی کو بھی ضائع کر دو. مجھے پوری امید ہے اس کے بعد ہمیں ضرورت ہی نہیں پڑے گی. میر نے کہتے ہوئے کال کاٹ دی. اس کے ہاتھ کی رگیں ضبط سے ابھرنے لگی تھی عادت کے برخلاف آج اس نے مکا شیشہ پر مار کر اپنا غصہ نہیں اتارا تھا بلکہ واش روم جاتے ہوئے عزین کے پاؤں پر ہاتھ مار گیا اور توقع کے عین مطابق وہ چند سیکنڈ کے اندر اندر صوفے سے کارپٹ پر آ گری. 

میرے گھر میں سات بجے کے بعد سونے کی اجازت نہیں ہے. لہذا جلدی سے تیار ہو کر میرے ساتھ نیچے ناشتے کے میز پر چلو اور کل سے تم چھ بجے اٹھ کر ناشتہ میز پر خود لگاؤں گی. میر نے واش روم کے دروازے میں رک کر مڑتے ہوئے عزین سے کہا جو اپنی سوئی سوئی لال آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی. 

آج آپ آفس میں اگر زیادہ مصروف نہ ہوئے تو براہ مہربانی مجھے حاشر صاحب سے ایک لسٹ بنوا دیجیے گا. جس میں یہ لکھا ہو کہ کون کون سے کام اس گھر میں کرنا جائز ہیں اور کون کون سے ممنوع ____ عزین نے واپس صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا

حاشر کی اسسٹنٹ!!! تم یہ بات بھول رہی ہو کہ تمہاری صرف نوکری کی نوعیت بدلی ہے باقی اور کچھ نہیں. میں کل بھی تمہارا باس تھا اور آج بھی وہی ہوں. اس لیے احتیاط ____ میر کہتا واش روم چلا گیا جبکہ عزین نے اپنا غصہ پاس پڑے کشن پر اتارا. 

🎭🎭🎭🎭

یا رجو تو کچھ کر نااااااا  پتہ نہیں ماسی پھلا کو کیا ہو گیا ہے ....... ؟؟ خواہ مخواہ کی ضد لگا لی ہے کہ نکاح کر کے مجھے اس کے ساتھ بھیجے گی. اول تو میں نے اس سے شادی نہیں کرنی دوسری ایسی روکھی پھیکی شادی تو میں نے بالکل بھی نہیں کرنی. زریں نے روہانسی ہوتے ہوئے رجو کی طرف دیکھا 

زری میرا تو دماغ کام نہیں کر رہا. تو ہی بتا کے اب میں کیا کروں ...... ؟؟ جیسا تو کہے گی میں ویسا ہی کروں گی. رجو نے مسکین سی شکل بنائی 

بڑی ہی کمینی ہے توُ، اس وقت تو بڑی سپرمین بند رہی تھی. میں یہ کر دوں گی میں وہ کر دوں گی. یہ ساری مصیبت تیرے اس آئیڈیا کی وجہ سے ہی آئی ہے. زری نے زور دار مکا رجو کی کمر میں رسید کیا

زری مجھے کیا پتہ تھا کہ ماسی اسے سچ مچ اپنا بیٹا مان لے گی اور وہ کمینہ بھی کیسے مزے سے راضی ہو گیا ہے. رجو کو غازی پہ غصہ آیا. 

ہاں اسی بات کی تو مجھے بھی حیرت ہے. پہلے تو بڑی باتیں سناتا تھا. مجھے گاؤں پسند نہیں، مجھے یہاں کے لوگ برے لگتے ہیں اور کل اتنا چالاک ہے مسکرا کے کہتا "جیسا آپ کہیں گی میں ویسا ہی کروں گا". زری نے غازی کی نقل اتاری

زری میرے خیال سے اگر اس کے دوست ساتھ بات کی جائے تو شاید مسئلہ حل ہو جائے. مجھے وہ کچھ سمجھدار لگتا ہے. رجو کو اچانک ماجد کا خیال آیا. 

دونوں ہی ایک جیسے ہیں. اس کا دوست خاک سمجھدار ہے تجھے پتہ ہے میں چارہ لے کر آ رہی تھی تو مجھے اس نے چھیڑا تھا. زریں کے بتانے پر رجو کا پورا منہ کھل گیا. 

ماسی ابھی تو یہ ٹھیک نہیں ہے. میں اسے شہر لے کر جا رہا ہوں. جب یہ ٹھیک ہو جائے گا تب واپس آئے گا پھر آپ اس کی شادی دھوم دھام سے کر لیجیے گا. ماجد کی بات پر ماسی پھلاں نے اداسی سے غازی کی طرف دیکھا جو وہاں سے جانے کی خوشی میں بہت خوش دکھائی دے رہا تھا. 

پتر میں جانتی ہوں. تو مجھے چھوڑ کر جائے گا تو پھر کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھے گا. تو مجھے چھوڑ کر نہ جانا. ماسی پھلاں کی آواز میں اتنا درد اور مان تھا کہ غازی زندگی میں پہلی بار لاجواب ہوا. 

نہیں ماسی ایسی کوئی بات نہیں ہے. جیسے ہی یہ اچھا ہو جائے گا. میں اسے خود لے کر آؤں گا. ماجد نے تسلی دینا چاہی

اچھا ٹھیک ہے جیسا آپ کہتی ہیں ویسا ہی کر لیتے ہیں. آپ مولوی صاحب کو بلائیں اور اپنی تسلی کر لیں. غازی کی سنجیدگی پر ماجد نے اسے حیرت سے دیکھا جبکہ ماسی کی خوشی دیدنی تھی. 

جیتا رہا، اللہ تجھے خوش رکھے. مجھے امید تھی کہ تو مجھ بوڑھی ماں کا مان نہیں توڑے گا. میں ابھی مولوی صاحب اور گاؤں والوں کو بلوا کر لاتی ہوں. ماسی غازی کے صدقے واری ہوتی کمرے سے باہر نکل گئی. 

یار یہ سب کیا ہے .....؟ ؟ کل تک تو تُو رو پیٹ رہا تھا کہ تجھے یہاں سے نکلنا ہے اور اُس جیسی جاہل پینڈو لڑکی سے شادی نہیں کرنی اور آج تُو _____ ماجد نے ناسمجھی سے اسے دیکھا

ماجد مجھے خود بھی پتہ نہیں مگر جب یہ بوڑھی عورت منت کرتی ہے تو مجھ سے نہ نہیں کہا جاتا. غازی نے اپنی بڑھی ہوئی شیو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا

تیرے سینے میں کب سے دل دھڑکنے لگا اور تجھے کب سے اس عورت ذات پر ترس آنے لگا ہے ........ ؟؟ غازی کچھ نہ کچھ تو گڑ بڑ ہے. ماجد کی حیرانگی قابل دید تھی. 

کوئی گڑ بڑ نہیں ہے. بس یہاں سے نکلنا ہے مگر اس عورت کا دل دکھائے بغیر ___ غازی نے پرسوچ انداز میں جواب دیا تو ماجد کندھے اچکا گیا. 

تم نے ابھی تک کوئی ڈھنگ کے کپڑے نہیں پہنے. جب کہ میں واش روم جانے سے پہلے تمہیں کہہ کر گیا تھا

 میر نے باہر نکلتے ہوئے ایک اچٹکی نظر عزین پر ڈالتے ہوئے کہا

وہ بات دراصل کچھ یہ ہے "حاشر کے باس" کہ میں اتنی دیر سے وہ "ڈھنگ کے کپڑے" ہی تلاش کر رہی ہوں جو میں نے پہننے ہیں مگر وہ مجھے نظر ہی نہیں آ رہے. عزین کے جواب پر میر کو اپنے بالوں میں برش کر رہا تھا اسے گھورنے لگا

میں نے حاشر سے کہا تھا بلکہ تم سے بھی کہ جو ضروری سامان ساتھ لانا ہے وہ لے کر آنا. اب یہ تو کامن سینس ہے کہ ضروری سامان میں کپڑے بھی آتے ہیں. تو تمہارے کپڑے کہاں ہیں...... ؟؟ میر نے پرفیوم کی بوتل پکڑے ہوئے پوچھا

پہلی بات تو یہ کہ غریب کے پاس کوئی کامن سینس نہیں ہوتی بلکہ میرے خیال سے وہ انتہائی نان سینس ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ میں سمجھی کہ ڈھنگ کے کپڑے مجھے آپ دیں گے. اب کی بار عزین کے چہرے پر شرارت واضح تھی. 

اگر تمہارے پاس کپڑے بھی نہیں ہیں تو تم اپنے ساتھ کیا لائی ہو ....... ؟؟ میر نے غصے سے برش ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا

نہیں میرے پاس کپڑے تو ہیں تبھی رات تبدیل کیے تھے. (عزین نے اپنے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا) مگر ڈھنگ کے کپڑے نہیں ہیں. 

آپ نے ابھی بولا ناااااا کہ ڈھنگ کے کپڑے پہنو اور میرے ساتھ نیچے چلو. عزین نے میر کی نقل اتاری تو نہ چاہتے ہوئے بھی میر کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ رینگ گئی. 

میرے سامنے زیادہ زبان نہ چلایا کرو. میں ڈرائیور سے کہہ دوں گا تم اس کے ساتھ جا کے کچھ ڈھنگ کے کپڑے خرید لینا مگر اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ میرا سٹیٹس کیا ہے. 

بہرحال اب جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے. اس میں سے کچھ تو ڈھنگ کا ہوگا وہ پہن کر اور اپنا یہ منہ دھو کر میرے ساتھ نیچے چلو کیونکہ ناشتے کی میز پر گل بھی ہوں گی.میر کے کہنے پر عزین آہستہ سا صوفے سے اٹھی. 

کل رات تک تو تم بالکل ٹھیک ٹھاک تھی مگر اب ایسے لگ رہا ہے جیسے تمہارے پورے جسم میں درد ہو. اٹھ کیوں نہیں رہی .....؟؟ میر کو عزین کی سستی پر شدید غصہ آ رہا تھا. 

وہ میرا سوٹ کیس تو آپ کی گاڑی میں ہی ہے. کسی نے مجھے کمرے میں لا کر ہی نہیں دیا. آپ منگوا دیں تاکہ میں اس میں سے ڈھنگ کے کپڑے نکال لوں

عزین نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا جبکہ اس کی ہنسی چھوٹنے کو تیار تھی. 

او کے ____ میر نے ایک گہرا سانس خارج کرتے ہوئے اپنے موبائل سے کسی کو میسج کیا. 

تم دوبارہ یہاں بیٹھ گئی ہو. واش روم میں کیوں نہیں جاتی. مجھے پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے. عزین کو دوبارہ صوفے پہ بیٹھتا دیکھ کر میر پھٹ پڑا

ابھی میرے کپڑے نہیں آئے. اب واش روم کے اندر سے میں آپ کو آوازیں دیتی خاصی عجیب سی لگوں گی. عزین کے جواب پر میر سر نفی میں ہلانے لگا

تمہارے پاس تیار ہونے کے لیے صرف پانچ منٹ ہے اگر تم نے ایک منٹ بھی اوپر لگایا تو میں تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کروں گا. جیسے ہی دروازے پر دستک ہوئی میر نے اندر آنے کی اجازت دیتے ہی عزین سے کہا

وہ جو کوئی بھی تھا بیگ دیتا دروازے سے ہی پلٹ گیا. عزین نے جلدی سے ایک سبز رنگ کا سوٹ نکالا اور واش روم کی طرف بڑھ گئی. 

رکو ___ اتنا گندہ رنگ پہنو گی کچھ اور اس سے بہتر نہیں ہے. میر نے عزین کے ہاتھ میں پکڑا سوٹ دیکھ کر کہا تو عزین پلٹی اور ایک اورنج رنگ کا سوٹ نکالنے لگی. 

مجھے یہ رنگ بہت برا لگتا ہے. مندروں کی داسی جیسا ____ عزین کے پلٹتے ہی میر نے پھر تبصرہ کیا

آپ ہی بتا دیں کس رنگ کا سوٹ پہنوں ...... ؟؟ میر کے سخت تیور دیکھتے ہوئے عزین نے اب کی بار شرافت سے پوچھا

تمہارے پاس کچھ بلیک رنگ میں نہیں ہے .....؟ ؟ میر نے اپنے بھی تھری پیس سوٹ پہ نظر مارتے ہوئے پوچھا تو عزین کی ہنسی نکل گئی مگر اس نے منہ  نیچے کر لیا. 

نائٹی ہے ____ جواب دیتے ہی عزین نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا جبکہ ہنسی روکتے روکتے وہ سرخ ہوگئی تھی. 

جسٹ شیٹ اپ ____ میر دھاڑا

جو مرضی پہنو، جس مرضی رنگ کا پہنو مگر تین منٹ ہے تمہارے پاس فورا باہر آؤ _____ میر نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تو عزین پھر وہی سبز رنگ کا سوٹ لیے واش روم بھاگی کیوں کہ وہی سب میں بہتر تھا. 

امید کے پر خلاف عزین واقعی ہی تین منٹ کے اندر اندر واش روم سے برآمد ہوگی. مگر اسے دیکھتے ہی میر کے ماتھے پر بل پڑے. 

یہ کیا صرف کپڑے تبدیل کیے ہیں. اپنے بال بناؤ کچھ تھوڑا سا منہ پہ مل لو جو بھی لڑکیاں لگاتی ہے ....؟ میر نے اس کے رف حلیے پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا

اسے "میک اپ" کہتے ہیں اور آپ کے اس کمرے میں میک اپ نام کی کوئی چیز نہیں ہے. تو میں کس چیز سے میک اپ کروں ....... ؟؟ 

شیونگ کریم سے، باڈی سپرے سے، پاؤڈر سے، برش سے کس سے .....؟ ؟ عزین نے بالوں کی پونی بناتے ہوئے پوچھا

کیا تمہارے پرس میں ایک لپسٹک بھی نہیں ہے ...... ؟؟ میر کے پوچھنے پر عزین نے سر نفی میں ہلایا

اب مجھے گلبدین کے سامنے کتنی شرمندگی ہو گئی. کچھ تو کرو اپنے اس منہ پر کہ تم پہلے دن کی دلہن لگو.تم نے میری صبح خراب کر دی ہے. میر نے غصے سے مکا بنایا مگر مارنے کے لیے کوئی مناسب جگہ نہ ملی عزین شیشے کے آگے کھڑی تھی. 

آپ نے بھی تو میری رات خراب کی تھی. عزین بڑبڑائی جسے سنتے ہی میر کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ چھا گئی. 

میں نے تو ایس ایچ او ماجد کا ذکر اس لیے کیا تھا کہ تم اس کے خواب دیکھتی اچھی نیند سو سکوں. میر کہتا ہوا دروازے کی طرف بڑھ گیا یہ جانے بغیر کہ عزین کے دل پر اس جملے سے کیا گزری ہو گی ...... ؟؟ 

🎭🎭🎭🎭

🌹ماضی ..........

کل تم اس عجیب سی حویلی میں رہتے ہوئے بھی اتنی ہشاش بشاش اور زبردست قسم کا ذوق رکھتی ہو. مجھے حیرت ہے. میر نے درخت ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے گل کی طرح دیکھا تو وہ مسکرا دی

اچھا تو تمہارے خیال سے مجھے کہاں ہونا چاہیے ......؟؟ گل نے دونوں بازو سینے پر باندھتے ہوئے پوچھا وہ دونوں اس وقت حویلی کے پچھلے لان میں تھے. 

تم ایسا کرو کہ میرے ساتھ چلو یقین مانو میرے ساتھ تمہاری زندگی بہت مزے کی گزرے گی. تم کیا یہ جنگلی جانوروں میرا مطلب ہے شیر علی کے جال میں پھنسی ہوئی ہو. میر نے طنز کیا وہ اس وقت جینز کی پینٹ اور وائٹ شرٹ پہنے ہوا تھا. 

مجھے تم اس ڈریس میں بہت اچھے لگتے ہو بلکہ یہ رنگ تم پر بہت اچھا لگتا ہے. تمہیں کبھی کسی "گوری میم" نے نہیں بتایا. گل کے پوچھنے پر میر ہنسنے لگا

وہاں کی گوریاں تو مجھ پر مرتی ہیں مگر میں کیا کروں مجھے ایک جنگلی جانور کی منگیتر پسند آگئی ہے ...... ؟؟ میر نے گھما پھرا کے بات پھر وہیں لا کھڑی کی

میر تم سیدھا سیدھا اس وقت فلرٹ کر رہے ہو اور اگر شیر علی نے سن لیا تو وہ تمہارا بہت برا حشر کرے گا. گل نے وارنگ دی. 

میں چاہتا ہوں کہ وہ سن لے تاکہ میں بھی دیکھوں کہ اس میں کتنا دم ہے ...... ؟؟ میر اس وقت بالکل سنجیدہ تھا جس پر گل کو عجیب سا احساس ہوا

میر آخر تم اس سے لڑنا کیوں چاہتے ہو جبکہ میری دلی خواہش ہے کہ تم لڑائی جھگڑے سے دور رہو. تم اُن جیسے مت بنو پلیززززز. گل کے لہجے میں فکر تھی. 

تمہیں سچ میں میری فکر ہو رہی ہے یا شیر علی کی ___

میر نے گل کی طرف جھکتے ہوئے سرگوشی نما آواز میں پوچھا

دیکھو میر!!! تمہارا فیوچر برائٹ ہے. تم لندن میں اپنی پسند کی زندگی اپنی پسند کے شخص (اشارہ عینی کی طرف تھاا) ساتھ گزار رہے ہو. پھر کیوں خواہ مخواہ اس خون خرابے میں پڑتے ہو. میں چاہتی ہوں کہ تم وہیں رہو اور خوش رہو. گل کی باتوں پر میر نے اسے سنجیدگی سے دیکھا

گل سچ تو یہ ہے کہ میرا بھی یہاں رہنے اور آنے کو دل نہیں کرتا. تم جانتی ہو کہ ماما کی ڈیتھ کے بعد مجھے کبھی بھی سردار بیگم سے انسیت محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی انہوں نے ایسی کوئی کوشش کی. 

بابا کو سردار بیگم پسند تھی انہوں نے شادی کر لی. مگر میرا دل کہتا ہے کہ بابا کو ہارٹ اٹیک نہیں آیا تھا بلکہ سردار بیگم نے انہیں جائیداد کے لیے قتل کیا ہے. جیسے ہی میر نے یہ جملے ادا کیے گل کے چہرے کا رنگ بدل گیا

میر تم آپا کے بارے میں ہمیشہ منفی سوچتے ہو. وہ ایسی نہیں ہے. تمہارے بابا کی قدرتی موت تھی. دیکھو میں بھی تو انہی کی بہن ہوں. اس کا مطلب ہے تم میرے بارے میں بھی ایسا ہی سوچتے ہو گے....؟ گل نے بظاہر مسکراتے ہوئے پوچھا تو میر سر نفی میں ہلانے لگا

نہیں تم سب سے جدا ہو. نہ تم اپنی آپا جیسی ہو اور نہ ہی اپنے کزنز جیسی ___ تم بہت مختلف ہو. گل تم مجھے اچھی لگتی ہو. میر نے محبت سے گل کے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا تو وہ کندھے اچکا گئی. 

مجھے اس حویلی سے وحشت ہوتی ہے کیونکہ میری ماما کی ڈیتھ کے بعد میرے ساتھ اس حویلی میں کچھ بھی اچھا نہیں ہوا. وہ تو شکر ہے کہ آغا جان نے مجھے لندن بھیج دیا تھا. ورنہ میں اب تک پاگل ہو چکا ہوتا. میر نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو نارمل کیا

اچھا زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے. تم اب بڑے ہو گئے ہو. گل نے میر کو پریشان دیکھتے ہوئے تسلی دی تبھی حویلی میں ایک شور کا طوفان اٹھا تو دونوں چونک پڑے

یہ کیسا شور ہے ...... ؟؟ میر نے ایک دم اندر کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا تو گل کا رنگ فق ہو گیا. 

میر ٹھہرو، میری بات سنو ہم دونوں اکٹھے اندر چلتے ہیں. رکو تو سہی ___ میر کو اندر کی طرف بھاگتا دیکھ کر گل نے پیچھے سے آوازیں لگائیں. 

آپا کو منع بھی کیا تھا کہ جلد بازی نہیں کرنا. اب پتہ نہیں کتنا ہنگامہ ہوگا. ابھی تو میر اور آغا ا جان کے وفادار نوکر بھی حویلی میں ہی موجود ہیں. گل نے دل میں سوچتے ہوئے مرے مرے قدم اٹھانا شروع کیے

🎭🎭🎭🎭

زریں کے لاکھ چیخنے چلانے اور بہانہ بنانے کے باوجود بھی ماسی پھلاں نے زبردستی اس کا نکاح غازی سے کر دیا. جس پر وہ شدید غصے میں تھی. اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کسی کا سر توڑ دے. 

دیکھ بیٹے یہ بن ماں باپ کے بچی ہے اور میں نے اسے بہت محبت اور پیار سے پالا ہے. تو اس کا بہت خیال رکھنا. ویسے تو میں اس پر ظاہر نہیں کرتی مگر مجھے اس کی بھی بڑی فکر تھی. 

شکر ہے آج میں نے اپنا فرض ادا کر دیا. ماسی پھلاں نے غازی کے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت سے کہا تو وہ سر ہلانے لگا جب کہ ماجد بہت غور سے ماسی پھلاں کو دیکھ رہا تھا جیسے کچھ یاد کرنا چاہ رہا ہو مگر یاد نہ آ رہا ہو. 

اب تم لوگ بے شک جاؤ مگر جیسے ہی طبیعت ٹھیک ہو تو فوراً مجھ سے ملنے آنا. ماسی پھلاں نے خوشی خوشی جانے کی اجازت دی تو غازی نے سکھ کا سانس لیا. 

ماجد جلدی فون کر مجھے یہاں سے نکلنا ہے ابھی اور اسی وقت ___ مجھے اپنا فلیٹ یاد آ رہا ہے. ماسی جیسے ہی اندر کی طرف گئی غازی نے فورا ماجد کے کان میں سرگوشی کی. 

غازی صبر کر، تو ہمیشہ میرے لیے مشکل کھڑی کر دیتا ہے. اب مجھے کچھ بندوبست تو کرنے دے. ہم اب دو نہیں ہیں ہمارے ساتھ ایک لڑکی بھی ہے سوری میرا مطلب ہے کہ بھابھی ____ماجد نے کہتے ہوئے مسکرا کے غازی کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر بھی پر اسرار مسکراہٹ چھا گئی. 

اس لڑکی کا تو میں وہ حشر کروں گا کہ یہ یاد رکھے گی. اس نے مجھے اتنا ستایا ہے کہ تیری سوچ ہے. غازی نے ماجد کی طرف دیکھتے ہوئے دل میں سوچا

چلو لڑکیوں!!! جلدی سے زری کو تیار کر دو. ان لوگوں نے گاڑی والے کو فون کر دیا ہے. ماسی پھلاں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے خوشی سے کہا

ماسی میں نے تیرے کہنے پر نکاح تو کر لیا ہے مگر میں یہاں سے جانے والی نہیں. تیرا کیا خیال ہے میں اتنے سستے میں چلی جاؤں گی ...... ؟؟ زری نے غصے سے ماسی کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو تمام لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ماسی نے بھی اسے حیرت سے دیکھا

پاگل ہو گئی ہے. شادی کے بعد لڑکیاں اپنے دولہے کے ساتھ ہی جاتی ہیں. اتنا پیارا لڑکا لے کر دیا ہے میں نے تجھے ____  کیا یاد رکھے گی .....؟ ؟ ماسی پھلاں نے اپنی گردن اکڑاتے ہوئے کہا

ماسی یاد تو تُو مجھے بھی رکھے گی. میں ایسے نہیں جانے والی ____  تُو مجھے پہلے میرا سارا جہیز دے. لڑکے والوں سے رنگ برنگے کپڑے، زیور، اس کے بعد پھولوں والی گاڑی منگوا پھر میں جاؤں گی. 

ورنہ میں اس لولے لنگڑے ساتھ جانے والی نہیں بلکہ اس کی دوسری ٹانگ میں توڑ دوں گی. وہ تو نہیں جانتا مگر تو مجھے اچھے سے جانتی ہے. زریں کی دھمکی پر ماسی پھلاں کا چمکتا چہرہ پریشان ہو گیا. 

ہائے زریں کیسی باتیں کر رہی ہے .....؟ ؟ باہر وہ لوگ بیٹھے ہیں اور تو اندر اس طرح بول رہی ہے. وہ بیچارہ کہاں سے ان تمام چیزوں کا بندوبست کرے گا ...... ؟؟ وہ تو خود بیمار ہے. اب کی بار ماسی پھلاں نے زری کے قریب آتے ہوئے پریشانی سے کہا تو زریں نے منہ بنا لیا. 

یہ میرا مسئلہ نہیں ہے. تُو انہیں جا کر بول کے وہ ابھی اور اسی وقت تمام چیزوں کا بندوبست کریں. ورنہ میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی اور انہیں جانے بھی نہیں دوں گی. 

یہ جو شہری مرغا اسے لینے آیا ہے نااااا ا اسے پکڑ کے اس کی شادی رجو سے کرا دوں گی. خود تو میں ڈوبی ہوں باقیوں کو بھی لے کر ڈوبوں گی. زری کے اس قدر سخت رویے پر ماسی مایوس ہوتی کمرے سے باہر نکل گئی جب کہ رجو نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا

مر مت، میں نے صرف ماسی کو دھمکی دی ہے. ماسی کے جاتے ہی زری نے رجو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے سکھ کا سانس لیا ورنہ زری سے کچھ بعید نہیں تھی کہ وہ اب کیا کرے گی ...... ؟؟ 

پتر بات دراصل کچھ یوں ہے کہ زریں کی بھی ہر لڑکی کی طرح کچھ خواہشیں ہیں. وہ چاہتی ہیں کہ تم وہ پوری کر دو تاکہ میں اسے تمہارے ساتھ رخصت کروں. ماسی نے اپنا گلا صاف کرتے اب کی بار بڑی مسکینیت سے غازی کی طرف دیکھا تو اس کا ماتھا ٹھنکا

کیسی خواہشات ہیں اپ کی اس معصوم بیٹی کی .... ؟؟ غازی کو تجسس ہوا کہ اچھا بھلا نکاح خاموشی سے ہو گیا ہے تو اب کیا ہوا .....؟؟ 

وہ چاہتی ہے کہ اس کی شادی صحیح دھوم دھام شور شرابے سے ہو. تم لوگ پھولوں والی گاڑی بینڈ باجے کے ساتھ لاؤ اور اس کے بہت سارے کپڑے، میک اپ کا سامان، زیور جیسا کہ لڑکے والے لاتے ہیں. ماسی نے بتانا شروع کیا تو غازی کے چہرے کے زاویے بدلے جب کہ ماجد بڑے مزے سے سن رہا تھا

یہ تو سراسر ہمارے ساتھ دھوکہ ہے! پہلے آپ نے زبردستی اپنی بچی کی شادی میرے ساتھ کی اور اب آپ 

فرمائشیں کر رہی ہیں. غازی کی آواز بلند ہوئی. 

زری مجھے لگتا ہے کہ وہ ماسی پھلاں ساتھ بدتمیزی کر رہا ہے. رجو نے غازی کی بات سنتے ہوئے زری کی طرف دیکھا

ایسی کی تیسی میرے ہوتے ہوئے کوئی ماسی کو کچھ کہہ کے تو دیکھے. زری نے فورا چارپائی سے اٹھتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھائے جب کہ لڑکیاں اسے آوازیں دیتی رہ گئیں. 

اوئے نیم شہری بابو!!! میری بات کان کھول کے سن زیادہ اونچا بولنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ میں گلا دبا دوں گی 

اور ماسی تو اندر چل میں خود ہی بات کر لیتی ہوں چل شاباش اندر ____ زری نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے ماسی کو ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا تو ماجد کی آنکھیں پھیل گئیں. 

تو یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ تو ماسی کا بیٹا نہیں ہے. ایک ٹانگ تیری ویسے ہی ٹوٹی ہوئی ہے دوسری میں توڑ دوں گی. تو تُو یہاں سے کہیں جانے کے قابل نہیں رہے گا اور یہ جو تو نے شہر سے اپنا شہری مرغا بلوایا ہے نا اس کا بھی بندوبست مجھے کرنا آتا ہے. میں نے تجھے بتایا تھا کہ میں بیل ذبح کر لیتی ہوں وہ بھی بالکل اکیلے ___ زریں کی باتوں پر غازی نے اسے ناگواری سے دیکھا 

دیکھو فلحال ہمارے پاس کوئی چیز نہیں ہے اس لیے ہم تمہاری کوئی ڈیمانڈ پوری نہیں کر سکتے. ہاں میں یہاں سے چلا جاؤں پھر دیکھتا ہوں. غازی نے قدرے تحمل سے جواب دیا جو کہ اس کی طبعیت کا خاصا نہ تھا. 

مجھے ابھی اور اسی وقت یہ تمام چیزیں چاہیے ورنہ میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی اور تمہیں جانے بھی نہیں دوں گی. غریب انسان ____ زریں کا لہجہ ضدی تھا. 

خبردار جو مجھے غریب انسان بولا تُو ___ میرے پاس اتنا کچھ ہے کہ تمہاری سوچ ہے. تم نے وہ چیزیں کبھی دیکھی بھی نہیں ہوں گی جنہیں میں استعمال کرتا ہوں. غازی ایک دم بھڑک اٹھا تو ماجد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا

اچھا تو پھر اپنی اس عمر و عیار کی زنبیل میں سے میری بھی خواہشات پوری کر دو. زری کا لہجہ تمسخرانہ تھا. 

ماجد فون کر ابھی کے ابھی تمام چیزیں منگوا. مجھے نہیں پتہ میری عزت کا سوال ہے. غازی کی بات پر ماجد سر ہلانے لگا

وہ بیچارہ کسے فون کرے گا ...... ؟؟ اس کے پاس تو ایک بوتل کے پیسے تک نہیں ہے. شابو بابا کی دکان سے مفت میں بوتل پی کر آ رہا تھا کہ مجھ سے ٹکرا گیا. یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اس کے کارنامے نہیں پتا. جیسا تو بھوکا ویسا یہ بھوکا ____ ہنہ زریں نے حقارت سے گردن ہلائی. 

زریں کے لاکھ چیخنے چلانے اور بہانہ بنانے کے باوجود بھی ماسی پھلاں نے زبردستی اس کا نکاح غازی سے کر دیا. جس پر وہ شدید غصے میں تھی. اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کسی کا سر توڑ دے. 

دیکھ بیٹے یہ بن ماں باپ کے بچی ہے اور میں نے اسے بہت محبت اور پیار سے پالا ہے. تو اس کا بہت خیال رکھنا. ویسے تو میں اس پر ظاہر نہیں کرتی مگر مجھے اس کی بھی بڑی فکر تھی. 

شکر ہے آج میں نے اپنا فرض ادا کر دیا. ماسی پھلاں نے غازی کے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت سے کہا تو وہ سر ہلانے لگا جب کہ ماجد بہت غور سے ماسی پھلاں کو دیکھ رہا تھا جیسے کچھ یاد کرنا چاہ رہا ہو مگر یاد نہ آ رہا ہو. 

اب تم لوگ بے شک جاؤ مگر جیسے ہی طبیعت ٹھیک ہو تو فوراً مجھ سے ملنے آنا. ماسی پھلاں نے خوشی خوشی جانے کی اجازت دی تو غازی نے سکھ کا سانس لیا. 

ماجد جلدی فون کر مجھے یہاں سے نکلنا ہے ابھی اور اسی وقت ___ مجھے اپنا فلیٹ یاد آ رہا ہے. ماسی جیسے ہی اندر کی طرف گئی غازی نے فورا ماجد کے کان میں سرگوشی کی. 

غازی صبر کر، تو ہمیشہ میرے لیے مشکل کھڑی کر دیتا ہے. اب مجھے کچھ بندوبست تو کرنے دے. ہم اب دو نہیں ہیں ہمارے ساتھ ایک لڑکی بھی ہے سوری میرا مطلب ہے کہ بھابھی ____ماجد نے کہتے ہوئے مسکرا کے غازی کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر بھی پر اسرار مسکراہٹ چھا گئی. 

اس لڑکی کا تو میں وہ حشر کروں گا کہ یہ یاد رکھے گی. اس نے مجھے اتنا ستایا ہے کہ تیری سوچ ہے. غازی نے ماجد کی طرف دیکھتے ہوئے دل میں سوچا

چلو لڑکیوں!!! جلدی سے زری کو تیار کر دو. ان لوگوں نے گاڑی والے کو فون کر دیا ہے. ماسی پھلاں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے خوشی سے کہا

ماسی میں نے تیرے کہنے پر نکاح تو کر لیا ہے مگر میں یہاں سے جانے والی نہیں. تیرا کیا خیال ہے میں اتنے سستے میں چلی جاؤں گی ...... ؟؟ زری نے غصے سے ماسی کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو تمام لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ماسی نے بھی اسے حیرت سے دیکھا

پاگل ہو گئی ہے. شادی کے بعد لڑکیاں اپنے دولہے کے ساتھ ہی جاتی ہیں. اتنا پیارا لڑکا لے کر دیا ہے میں نے تجھے ____  کیا یاد رکھے گی .....؟ ؟ ماسی پھلاں نے اپنی گردن اکڑاتے ہوئے کہا

ماسی یاد تو تُو مجھے بھی رکھے گی. میں ایسے نہیں جانے والی ____  تُو مجھے پہلے میرا سارا جہیز دے. لڑکے والوں سے رنگ برنگے کپڑے، زیور، اس کے بعد پھولوں والی گاڑی منگوا پھر میں جاؤں گی. 

ورنہ میں اس لولے لنگڑے ساتھ جانے والی نہیں بلکہ اس کی دوسری ٹانگ میں توڑ دوں گی. وہ تو نہیں جانتا مگر تو مجھے اچھے سے جانتی ہے. زریں کی دھمکی پر ماسی پھلاں کا چمکتا چہرہ پریشان ہو گیا. 

ہائے زریں کیسی باتیں کر رہی ہے .....؟ ؟ باہر وہ لوگ بیٹھے ہیں اور تو اندر اس طرح بول رہی ہے. وہ بیچارہ کہاں سے ان تمام چیزوں کا بندوبست کرے گا ...... ؟؟ وہ تو خود بیمار ہے. اب کی بار ماسی پھلاں نے زری کے قریب آتے ہوئے پریشانی سے کہا تو زریں نے منہ بنا لیا. 

یہ میرا مسئلہ نہیں ہے. تُو انہیں جا کر بول کے وہ ابھی اور اسی وقت تمام چیزوں کا بندوبست کریں. ورنہ میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی اور انہیں جانے بھی نہیں دوں گی. 

یہ جو شہری مرغا اسے لینے آیا ہے نااااا ا اسے پکڑ کے اس کی شادی رجو سے کرا دوں گی. خود تو میں ڈوبی ہوں باقیوں کو بھی لے کر ڈوبوں گی. زری کے اس قدر سخت رویے پر ماسی مایوس ہوتی کمرے سے باہر نکل گئی جب کہ رجو نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا

مر مت، میں نے صرف ماسی کو دھمکی دی ہے. ماسی کے جاتے ہی زری نے رجو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے سکھ کا سانس لیا ورنہ زری سے کچھ بعید نہیں تھی کہ وہ اب کیا کرے گی ...... ؟؟ 

پتر بات دراصل کچھ یوں ہے کہ زریں کی بھی ہر لڑکی کی طرح کچھ خواہشیں ہیں. وہ چاہتی ہیں کہ تم وہ پوری کر دو تاکہ میں اسے تمہارے ساتھ رخصت کروں. ماسی نے اپنا گلا صاف کرتے اب کی بار بڑی مسکینیت سے غازی کی طرف دیکھا تو اس کا ماتھا ٹھنکا

کیسی خواہشات ہیں اپ کی اس معصوم بیٹی کی .... ؟؟ غازی کو تجسس ہوا کہ اچھا بھلا نکاح خاموشی سے ہو گیا ہے تو اب کیا ہوا .....؟؟ 

وہ چاہتی ہے کہ اس کی شادی صحیح دھوم دھام شور شرابے سے ہو. تم لوگ پھولوں والی گاڑی بینڈ باجے کے ساتھ لاؤ اور اس کے بہت سارے کپڑے، میک اپ کا سامان، زیور جیسا کہ لڑکے والے لاتے ہیں. ماسی نے بتانا شروع کیا تو غازی کے چہرے کے زاویے بدلے جب کہ ماجد بڑے مزے سے سن رہا تھا

یہ تو سراسر ہمارے ساتھ دھوکہ ہے! پہلے آپ نے زبردستی اپنی بچی کی شادی میرے ساتھ کی اور اب آپ 

فرمائشیں کر رہی ہیں. غازی کی آواز بلند ہوئی. 

زری مجھے لگتا ہے کہ وہ ماسی پھلاں ساتھ بدتمیزی کر رہا ہے. رجو نے غازی کی بات سنتے ہوئے زری کی طرف دیکھا

ایسی کی تیسی میرے ہوتے ہوئے کوئی ماسی کو کچھ کہہ کے تو دیکھے. زری نے فورا چارپائی سے اٹھتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھائے جب کہ لڑکیاں اسے آوازیں دیتی رہ گئیں. 

اوئے نیم شہری بابو!!! میری بات کان کھول کے سن زیادہ اونچا بولنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ میں گلا دبا دوں گی 

اور ماسی تو اندر چل میں خود ہی بات کر لیتی ہوں چل شاباش اندر ____ زری نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے ماسی کو ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا تو ماجد کی آنکھیں پھیل گئیں. 

تو یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ تو ماسی کا بیٹا نہیں ہے. ایک ٹانگ تیری ویسے ہی ٹوٹی ہوئی ہے دوسری میں توڑ دوں گی. تو تُو یہاں سے کہیں جانے کے قابل نہیں رہے گا اور یہ جو تو نے شہر سے اپنا شہری مرغا بلوایا ہے نا اس کا بھی بندوبست مجھے کرنا آتا ہے. میں نے تجھے بتایا تھا کہ میں بیل ذبح کر لیتی ہوں وہ بھی بالکل اکیلے ___ زریں کی باتوں پر غازی نے اسے ناگواری سے دیکھا 

دیکھو فلحال ہمارے پاس کوئی چیز نہیں ہے اس لیے ہم تمہاری کوئی ڈیمانڈ پوری نہیں کر سکتے. ہاں میں یہاں سے چلا جاؤں پھر دیکھتا ہوں. غازی نے قدرے تحمل سے جواب دیا جو کہ اس کی طبعیت کا خاصا نہ تھا. 

مجھے ابھی اور اسی وقت یہ تمام چیزیں چاہیے ورنہ میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی اور تمہیں جانے بھی نہیں دوں گی. غریب انسان ____ زریں کا لہجہ ضدی تھا. 

خبردار جو مجھے غریب انسان بولا تُو ___ میرے پاس اتنا کچھ ہے کہ تمہاری سوچ ہے. تم نے وہ چیزیں کبھی دیکھی بھی نہیں ہوں گی جنہیں میں استعمال کرتا ہوں. غازی ایک دم بھڑک اٹھا تو ماجد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا

اچھا تو پھر اپنی اس عمر و عیار کی زنبیل میں سے میری بھی خواہشات پوری کر دو. زری کا لہجہ تمسخرانہ تھا. 

ماجد فون کر ابھی کے ابھی تمام چیزیں منگوا. مجھے نہیں پتہ میری عزت کا سوال ہے. غازی کی بات پر ماجد سر ہلانے لگا

وہ بیچارہ کسے فون کرے گا ...... ؟؟ اس کے پاس تو ایک بوتل کے پیسے تک نہیں ہے. شابو بابا کی دکان سے مفت میں بوتل پی کر آ رہا تھا کہ مجھ سے ٹکرا گیا. یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اس کے کارنامے نہیں پتا. جیسا تو بھوکا ویسا یہ بھوکا ____ ہنہ زریں نے حقارت سے گردن ہلائی. 

مجھے سمجھ نہیں آتی ماجد، جب پولیس کی موبائل وین گاؤں سے باہر موجود ہے تو تُو اسے بلواتا کیوں نہیں.... ؟؟ غازی زچ ہوا

یار بات سمجھنے کی کوشش کر میں نہیں چاہتا کہ تو میڈیا کے سامنے آئے اور بات پھیلی ____ ماجد کے جواب پر غازی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا. 

بھابھی آپ اندر جائیں. ہم بندوبست کر کے آپ کو بتاتے ہیں. ماجد نے انتہائی تمیز سے زری کو مخاطب کیا کیونکہ اسے اپنی عزت پیاری تھی. 

مجھے یہ بھابھی والا لولی پوپ نہ دو. جو میں نے کہا ہے وہ کرو کیونکہ مجھے شادی کا بہت شوق ہے اور میں ایسی روکھی پھیکی شادی بالکل پسند نہیں کرتی. زری کہتی ہوئی اندر کی طرف بڑھ گئی تو ماجد نے سکھ کا سانس لیا

اب سے کچھ دیر پہلے تک مجھے اس لڑکی سے ہمدردی ہو رہی تھی مگر اب تجھ سے ہے. ماجد نے ہنستے ہوئے غازی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے جھڑک دیا

یہ جانتی نہیں غازی کو ابھی، کسی بھول میں ہے. مجھے ٹھیک ہو لینے دے پھر دیکھ کے میں اس کا کیا حشر کرتا ہوں.....؟ ؟ غازی کے بیان پر ماجد نے سر نفی میں ہلایا

 غازی تو جو مرضی کہہ لے مگر لڑکی تیری ٹکر کی ہے اور تجھے سوٹ بھی کرتی ہے. ماجد نے زریں کو داد دی. 

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ تم اتنی دیر کیوں کر رہے ہو. آخر تمہیں کس کا انتظار ہے ...... ؟؟ غازی کا صبر اب جواب دے گیا تھا. 

میرے مینیجر کو کال کرو. میری گاڑی منگوا کے دو. مجھے اب یہاں نہیں رہنا. مجھے یہاں سے جانا ہے ہر صورت ___  غازی نے بے بسی سے اپنے قریب پڑے ہوئے تکے کو اچھال کے ماجد کی طرف پھینکا. 

زی تجھے کیا ہو گیا ہے. بات سمجھنے کی کوشش کر ___ میں فلحال تجھے میڈیا کی نظر سے بچانا چاپتا ہوں. اگر تیرے مینیجر کو کال کی تو سمجھ بات پھیل جائے گی. زرا صبر سے کام لے، میں بات کر رہا ہوں. ماجد نرمی سے کہتا ہوا اندر کی طرف بڑھ گیا. 

بھابی اتنی جلدی شادی کی شاپنگ ممکن نہیں. آپ ایسا کریں کہ ہمارے ساتھ چلیں اور اپنی پسند کی شاپنگ کر لیں. ماجد کی آفر پر ماسی پھلاں اس کے صدقے واری جانے لگی. 

ماسی چھوٹی اور جھوٹی باتوں پر یوں صدقے واری نہیں جاتے. زریں نے غصے سے ماسی کی طرف دیکھا تو ماجد نے اپنا گلاصاف کیا. 

ٹھیک ہے اگر تم لوگ ان سب چیزیں کا بندوبست نہیں کر سکتے تو جاؤ اور بعد میں دھوم دھام سے بارات لے کر آنا. میں انتظار کر لوں گی. زریں کے جواب پر ماجد نے سکھ کا سانس لیا. 

ارے اگر یہ لوگ واپس نہ آئے تو زریں توُ کیا کرے گی ....؟؟ رجو کو ٹنشن ہوئی. 

حوصلہ رکھ، میں نے سب سوچ رکھا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ____ زریں کے جواب پر ماسی منہ بنا کر بیٹھ گئی جبکہ باقی عورتیں اور لڑکیاں کھسر پھسر کر رہیں تھیں. 

چل مسئلہ حل ہو گیا ہے .....؟ ؟ ماجد نے کہتے ہوئے غازی کے جوتے سیدھے کیے

کیسے .....؟؟ غازی نے پاؤں نیچے اتارتے ہوئے پوچھا

وہ نہیں جا رہی ہے. کہتی جب ٹھیک ہو جائے گا تب بارات لے آئے. اب یہ لوگ کی قسم کا کوئی ہنگامہ نہیں کریں گے اور ہم آسانی سے گاؤں سے نکل جائیں گے. ماجد نے بتاتے ہوئے غازی کی طرف دیکھا جو سخت تیوروں سے اسے گھور رہا تھا. 

میں تو اسے چھوڑ کر نہیں جاؤں گا. وہ کیا سمجھتی ہے اتنا تماشہ لگانے کے بعد میں اسے یہاں رہنے دوں گا. وہ میرے ساتھ ہی جائے گی ہر قیمت پر، ابھی اور اسی وقت _____ غازی کی بات پر ماجد نے اپنا سر پکڑ لیا. 

غازی چھوڑ نااااا ہر بات کو انا کا مسئلہ نہیں بناتے. معاملہ حل ہو گیا ہے. اب کیوں بات کو بڑھا رہا ہے .....؟ ؟ ماجد نے بےبسی سے غازی کی طرف دیکھا

مجھے تو تم دونوں کی ہی سمجھ نہیں آرہی ہے. ایک راضی ہوتا ہے تو دوسرا بگڑ جاتا ہے. دوسرے کو سیٹ کرو تو پہلا ناراض ہو جاتا ہے. تم دونوں نے جو کرنا ہے کر لو پھر مجھے بتا دینا. ماجد نے ہاتھ نے ہار مانتے ہوئے ہاتھ کھڑے کیے. 

تو ایسا کر کے ماسی پھلاں کو بلا کر دے. میں خود اس سے بات کرتا ہوں. غازی نے اپنے کپڑے درست کرتے اے ہوئے کہا تو ماجد نا چاہتے ہوئے بھی چل دیا. 

دیکھیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور میری دیکھ بھال کے لیے شہر میں بھی کوئی موجود نہیں. ایسی حالت میں مجھے بیوی کی کتنی ضرورت ہے .... ؟؟ غازی کی مسکین صورت اور ڈرامے بازی پر ماجد دل میں اش اش کر اٹھا جبکہ ماسی پھلاں نے غازی کا کندھا تھپکتے ہوئے اندر کا رخ کیا. 

تجھے کب سے بیوی کی ضرورت پڑنے لگی. ُتو تو اس نام کی مخلوق سے سخت چڑتا تھا. ماجد نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے طنز کیا

چڑتا تو میں ابھی بھی ہوں مگر کیا کروں کچھ حساب بھی برابر کرنے ہیں اور تو جانتا ہے کہ غازی حساب کا کتنا پکا ہے. غازی نے مسکراتے ہوئے آنکھ ماری تو ماجد نے سر نفی میں ہلایا

میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ تو ایک مصیبت کو لے کر جا رہا ہے اور دیکھنا تو کتنا پریشان ہوگا. تجھے جو ابھی صرف فنٹسی لگ رہی ہے یہ تیرے گلے نہ پڑی تو مجھے کہنا. ماجد کی بات پر غازی مسکرانے لگا

دیکھ زریں ضد چھوڑ دے. تجھے اللہ کا واسطہ ہے. میں تیرے پاؤں کو ہاتھ لگاتی ہوں. تو غازی ساتھ چلی جا ورنہ گاؤں میں میری کیا عزت رہ جائے گی. دیکھ اگر تو نے آج میری بات نہ مانی تو میں تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی. ماسی نے آخر میں دھمکی لگائی تو زریں ہنس دی

آپ نے مجھے اپنا دودھ پلایا ہی کب ہے ...... ؟؟ میں تو گائے، بھینس اور بکریوں کا دودھ پی کر بڑی ہوئی ہوں. غازی کے جواب پر ماسی نے مدد طلب نظروں سے آس پاس بیٹھی عورتوں اور لڑکیوں کی طرف دیکھا

چل زریں ضد چھوڑ دے. ماسی ٹھیک کہہ رہی ہے. ایسے اچھا نہیں لگتا خوامخواہ ضد نہیں کرتے. آہستہ  آہستہ تمام عورتوں نے بولنا شروع کیا تو زریں کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہار ماننا پڑی. 

اس لنگڑے کا تو میں وہ حال کروں گی کہ یہ ساری زندگی مجھے یاد رکھے گا. زری نے مجبوراً ساتھ جانے کی حامی تو بھر لی مگر اس نے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ غازی کو چین سے نہیں رہنے دے گی اور بالآخر وہ تنگ آ کر اسے خود ہی گاؤں چھوڑ جائے گا. 

🎭🎭🎭🎭

🌹ماضی .........

میر نے جیسے ہی حویلی کے اندر قدم رکھا ایک شورو غل نے اس کا استقبال کیا. کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی. پہلے تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے....... ؟؟  مگر سب کے منہ سے آغا جان کا نام سن کے اسے گڑبڑ کا شدید احساس ہوا تو اس نے آغا جان کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی. 

آغا جان کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا. اان کے آس پاس چیزیں بکھریں اور بے ترتیب پڑیں تھی. آغا جان کے چہرے پہ چادر تھی اور سردار بیگم ان کے سرہانے نوحہ کنعاں تھیں. یہ منظر دیکھ کر میر کی روح کانپ گئی. 

آغا جان کو کیا ہوا ہے. ابھی تو یہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے. مجھ سے باتیں کر رہے تھے. لان میں جانے سے پہلے میں ان سے مل کر گیا تھا. آپ سب  کیوں رو پیٹ رہیں ہیں. میر کا دل ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ آغا جان اس دنیا میں نہیں رہے. 

وہ اب ہم میں نہیں رہے. میر نے آگے بڑھتے ہوئے آغا جان کے چہرے سے چادر اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو سردار بیگم نے اس کا ہاتھ تھام لیا

مجھے دیکھنے دیں کہ آغا جان کو کیا ہوا ہے .....؟ ؟ ابھی تو بالکل ٹھیک ٹھاک تھے. میر نے کہتے ہوئے آغا جان کے چہرے سے چادر اتاری تو ان کا رنگ متغیر ہو رہا تھا

آغاجان کے پاس آخری وقت میں کون تھا .....؟؟ میر نے اچانک چیختے ہوئے پوچھا تو قریب کھڑی ملازمہ نے شیر علی کا نام لیا. شیر علی کا نام آتے ہی میر کے جسم میں انگارے بھرنے لگے جبکہ سردار بیگم نے اسے گھور کر دیکھا

یہ ملازمہ جھوٹ بول رہی ہے. آخری وقت میں، میں آغا جان کے پاس تھی. سردار بیگم نے فوراً ا میر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

اچھااااااااااااا تو پھر یہ کیا ہے ....... ؟؟ میر نے آغا جان کی کلائی میں بندھی گھڑی کی طرف اشارہ کیا جس کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا. 

تمہاری اس بات کا کیا مطلب ہے. تم مجھ پر شک کر رہے ہو. مجھ پر _____ سردار بیگم نے چیختے ہوئے اپنے سینے پر انگلی رکھی تو میر طنزاً ہنس دیا. 

میں کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا. مجھ سے کوئی امید نہ رلھے. جس کی وجہ سے میں آپ سب لوگوں کا لحاظ کرتا تھا وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا اور میرے آغا جی کا قتل ہوا ہے. میر کی آنکھیں سرخ ہونے لگیں تھیں. 

میر بغیر سوچے سمجھے ایسی باتیں نہیں کرتے. یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں ہے. غلام علی نے نرمی سے میر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو میر نے بری طرح اس کا ہاتھ جھٹک دیا. 

مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے یا تو سردار بیگم نے قتل کیا ہے اور یا شیر علی نے ____  میں تب تک  آغا جان کا جنازہ نہیں اٹھاؤں گا جب تک ان دونوں کو پولیس کے حوالے نہ کر دوں. میر کا لہجہ حتمی تھی. 

تم ہمیں پولیس کے حوالے تب کرو گے نا جب خود اس قابل بچو گے. شیر علی نے اندر داخل ہوتے ہوئے گن میر پر تانی

شیر علی گن  نیچے کرو. تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے. سردار بیگم نے آس پاس کھڑے ملازموں اور لوگوں کو دیکھتے ہوئے شیر علی کو ڈانٹا ہے. 

اسے لگتا ہے کہ گن صرف اسے چلانا آتی ہے. میر نے کہتے ہوئے پاس کھڑے ملازم سے گن لی. 

یہ آپ دونوں کیا کر رہے ہیں. کچھ تو شرم کریں. آغا جان کا ہی خیال کر لیں. گل نے اندر آتے ہوئے دونوں کی طرف دیکھا 

گل آگے سے ہٹ جاؤ. آج میں اس میر کو نہیں چھوڑوں گا. شیر علی نے کہتا میر کا نشانہ لیا. اب صورتحال یہ تھی کہ کچھ ملازم میر جبکہ کچھ شیر علی کی طرف کھڑے تھے. گل نے بے بسی سے اس سارے تماشے کو دیکھا

میر تم ہی ہوش سے کام لو اگر شیر علی کا دماغ کام نہیں کر رہا. تو تم تو ایسی بچگانہ حرکت مت کرو. یہ کھلونا نہیں ہے. اب کی بار گل نے میر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا تو میر نے گن کا رخ گل کی طرف کر دیا

تم بھی ان سب جیسی ہو. تم سب نے مل کر ایک سازش کے ذریعے مجھے کمرے سے باہر نکالا تھا. گل تم بھی انہی میں سے ہو اور میں تمہیں اچھا سمجھتا رہا. تم نے میرے اعتماد کی دھجیاں اڑا دیں. میں تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گا. میر نے گن لوڈ کی. 

(سردار بیگم نے میر کو گل کے ساتھ انگیج ہوتا دیکھ کر شیر علی کو آنکھ سے اشارہ کیا. جس پر شیر علی نے اپنی گن لوڈ کرتے ہوئے میر کا نشانہ لیا مگر بدقسمتی سے گل نے دیکھ لیا.) 

شیر علی پلیززز ____گل نے کہتے ہوئے قدم شیر علی کی طرف بڑھائے. اب گل، میر کی ڈھال تھی. گل کو مان تھا کہ شیر علی اب فائر نہیں کرے گا. 

اور پھر وہ ہوا جس کے بارے میں کبھی کسی نے نہیں سوچا تھا. شیر علی نے بغیر سوچے سمجھے گل پر فائر کر دیا اور میر نے موقع کا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیر علی پر گولی چلا دی. 

جس حویلی میں کبھی پولیس نے قدم نہیں رکھا تھا. آغا جان کے جاتے ہی وہاں پر اب بھاری نفری تھی کیونکہ دو نہیں تین چار قتل ہوئے تھے. شیر علی اور میر کے حمایتی ملازموں اور گارڈز نے بھی ایک دوسرے پر دل کھول کر اپنی حسرتیں نکالیں. 

شیر علی تو مر گیا تھا مگر میر کسی بھی صورت سردار بیگم کو معاف کرنے کو تیار نہیں تھا. حاشر کے بہت سمجھانے کے باوجود بھی اس نے خود بھی گرفتاری دی اور سردار بیگم پر بھی ایف آئی آر کٹا دی. 

جس حویلی کے لیے ہزاروں دعویدار موجود تھے. آج وہ حویلی بے وارث پڑی تھی. گل ہسپتال میں تھی. سردار بیگم اور میر جیل میں، صرف ایک اکیلا غلام علی سب کے پیچھے بھاگ رہا تھا

🎭🎭🎭🎭

گڈ مارننگ ___ میر اور عزین کو ایک ساتھ ناشتے کی ٹیبل پر آتا دیکھ کر گل نے کہا تو حسب عادت میر جواب دیتا گل کا ماتھا چوم کر کرسی پر بیٹھ گیا. جس پر عزین کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا 

عزین بی بی!!! یہاں تو بہت بڑی فلم چل رہی ہے. ایک طرف تو یہ شخص اس کے  صدقے واری جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف مجھے اس کی مخبری پر لگایا ہوا ہے. مجھے تو اب تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس کہانی کا ہیرو کون ہے اور ولن کون ....؟؟ عزین دل میں سوچتی کرسی گھیسٹ کر بیٹھ گئی. 

ارے یہ تو پہلے دن کی دلہن ہی نہیں لگ رہی تھوڑا سا تو تیار ہو جاتی. میر کو اچھا لگتا. گل نے عزین کے سادہ سے چہرے کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا چاہا کہ آیا وہ خوش ہے یا نہیں. 

گل مجھے میری بیوی ایسے ہی اچھی لگتی ہے. سادہ سی پیاری سی، آپ کو پتہ ہے کہ مجھے بناوٹی چیزیں بالکل پسند نہیں. اس سے پہلے کہ عزین جواب دیتی میر نے بریڈ پر جیم لگاتے ہوئے جواب دیا تو اسے کھانسی شروع ہوگی کیونکہ ذہن میں کچھ دیر پہلے کی ریل چل پڑی تھی. 

تمہیں کیا ہوا ......؟ ؟ یہ لو جوس پیو. میر نے فوراً عزین کی طرف جوس کا گلاس بڑھایا تو اس نے چپ چاپ تھام لیا. یہ منظر بڑے غور سے گل نے دیکھا

گل میرے پاس تو وقت نہیں ہوتا مگر میں سوچ رہا تھا کہ اب عزین آپ ساتھ ڈاکٹر پاس چلی جایا کرے گی. جیسے ہی میر نے یہ جملہ ادا کیا گل کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا. 

میر میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے کہ مجھے چیک اپ نہیں کرانا. میں اپنے حال میں بالکل خوش ہوں تم کیوں میرے پیچھے پڑے ہو .....؟ ؟ گل نے ناراضگی سے میر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جبکہ عزین بڑی رغبت سے ناشتہ کر رہی تھی. 

گل آپ خوش ہوں گی مگر میں نہیں. مجھے بہت حسرت ہے. میں آپ کو پہلے کی طرح چلتا پھرتا دیکھوں. میر نے محبت سے گل کی طرف دیکھتے ہوئے چائے کا سیپ لیا

جب میں خوش ہوں تو تمہیں کیا مسئلہ ہے. میں نے اپنی زندگی سے سمجھوتہ کر لیا ہے. مجھے اپنی زندگی اب ایسی ہی ٹھیک لگتی ہے. 

تم لوگوں کی ابھی نئی زندگی شروع ہوئی ہے. گھومو پھرو، کھاؤ پیو، شاپنگ کرو. میری ٹینشن مت لو. گل نے فوراً بات بدلتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا جو بھرپور طریقے سے ناشتے سے انصاف کر رہی تھی. 

زندگی میں پہلی بار ناشتہ کر رہی ہو ....؟؟ میر نے عزین کو اتنے انہماک سے ناشتہ کرتا دیکھ کر طنز کیا. 

اپنا جملہ تھوڑا سا ٹھیک کر لیں. میں زندگی میں پہلی بار آپ ساتھ ناشتہ کر رہی ہوں. عزین نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پرسجاتے ہوئے جواب دیا تو میر ہاتھ صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا. 

گل آپ عزین کو وہ تمام کام سونپ دیں جو اب تک آپ کرتیں تھیں. تمام ذمہ داریاں سمجھا دیں اور خود صرف آرام کریں. میر نے عزین کو گھورتے ہوئے گل سے کہا

آج تو کم از کم چھٹی کر لو ____ گل کے کہنے پر میر ہنس دیا. 

دوپہر میں ملتے ہیں. آج میں جلدی گھر آ جاؤں گا کیونکہ اب تو گھر جلدی آنے کی وجہ مل گئی ہے. میر کے جواب پر گل مسکرا بھی نہ سکی. 

🎭🎭🎭🎭

گاڑی گاؤں کی کچی پکی سڑکوں سے ہوتی ہوئی اب شہر کی طرف گامزن تھی جبکہ زریں کا شدید موڈ خراب تھا اور غازی پرسکون سا ٹیک لگائے بیٹھا تھا. 

ہم کب تک پہنچ جائیں گے .....؟ ؟ زندگی میں پہلی بار زری نے گاؤں سے باہر سفر کیا تھا مگر اب اس کا سر چکرانے لگا تھا. 

بس تھوڑی دہر میں ہم ہسپتال پہنچ جائیں گے. آپ کو کوئی چیز چاہیے ......؟ ؟ ماجد جو ڈرائیور ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا غازی کے خاموش رہنے پر بول پڑا. 

ہم ہسپتال کیوں جائیں گے. تم ایکسیڈنٹ کرنے لگے ہو. کیا تمہیں گاڑی نہیں چلانا نہیں آتی. احتیاط سے گاڑی چلاؤ. میں نے ہسپتال نہیں جانا میرا سر گھوم رہا ہے میں نے آرام کرنا ہے. زریں کے جواب پر غازی جو آنکھیں موندے لیٹا تھا ہنس پڑا. 

اور کرو ہمدردی، مزہ آیا. یہ وہ مخلوق نہیں ہے جس سے ہمدردی کی جائے. غازی نے آنکھیں کھولتے ہوئے ماجد کو بیک مرر میں دیکھا

یہ ساری بکواس تم نے میرے بارے میں کی ہے اور اگر جاگ رہے تھے تو جواب کیوں نہیں دیا. میں نے تم سے پوچھا تھا .....؟ ؟ زری نے غازی کی ٹانگ پہ ہاتھ مارتے ہوئے غصے سے پوچھا

خبردار جو آج کے بعد مجھ پر ہاتھ اٹھایا تو، میں تمہارے ہاتھ توڑ دوں گا. یہ تمہارا گاؤں نہیں ہے. سمجھی ____ غازی نے غصے سے زری کا ہاتھ مڑوڑا تو اس کی چیخ نکل گئی. 

غازی یار یہ کیا کر رہا ہے .....؟ ؟ کچھ تو خدا خوفی کر، گاڑی ہے. ماجد نے پیچھے مرتے ہوئے یاد دلائی

میں تم دونوں پر پرچہ کرا دوں گی کہ تم لوگوں نے مجھے اغوا کیا ہے. چکی پیسوں کے جیل میں ساری زندگی ____  زری نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے کہا  تو غازی نے ہنستے ہوئے بازو چھوڑ دیا. 

میڈم یہ جس گاڑی میں ہم سفر کر رہیں ہیں نا اسے پولیس موبائل وین بولتے ہیں اور یہ جو اگلی سیٹ پر بندر بیٹھا ہوا ہے نااااا یہ  بذات خود ایک پولیس افسر ہے مگر لگتا نہیں. غازی نے لگے ہاتھوں ماجد کو بھی لتاڑ دیا

برائے مہربانی اپنے میاں بیوی کی لڑائی میں مجھے سائیڈ پر ہی رہنے دو اور یہ جو بندر فرینڈ سیٹ پر بیٹھا ہے نااااا اسی کی وجہ سے تم یہاں تک پہنچے ہو مگر تم ہو ہی احسان فراموش ____ ماجد جواب دیتا باہر دیکھنے لگا

ہاں یہ تم نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ یہ شخص احسان فراموش ہے ____ پہلی بار زری نے ماجد کی حمایت کی. 

بہت شکریہ بھابی جان کے آپ کو بھی میری کوئی بات درست لگی. ماجد نے طنزاً شکریہ ادا کیا. 

میرے صاحب کو میرے آنے کی اطلاع کر دین. ا وہ میری وجہ سے پریشان ہوں گے. غازی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا

اب یہ میر کیا چیز ہے .....؟ ؟ زری سے خاموش نہیں رہا گیا تو وہ بیچ میں بول پڑی

آپ یوں سمجھ لیں کہ وہ آپ کے سسر جی ہیں یعنی آپ کے سسرال میں صرف ایک ہی بندہ ہے. جسے میر بولتے ہیں. ماجد کے جواب پر غازی اسے گھورنے لگا جبکہ زری نے نہ سمجھی سے غازی کی طرف دیکھا

تم نے تو کہا تھا کہ تم شہر میں اکیلے ہوتے ہو. ہائے میرے ساتھ دھوکا ہو گیا، فراڈ ہو گیا ہے. تم نے مجھ سے جھوٹ بول کر شادی کی. اب میں کیا کروں ...... ؟؟ زری نے باقاعدہ اونچی آواز میں بین ڈالنا شروع کر دیا

تم فی الحال اپنا منہ بند کرو. یہ نہ ہو کہ میں تمہیں گاڑی سے باہر پھینک دوں اور تمہیں کوئی اٹھا کر لے جائے. پھر ساری زندگی اپنی ماسی کا منہ دیکھنے کو ترسنا. غازی نے انگلی اٹھاتے ہوئے زری کی طرف دیکھا تو وہ خاموش ہو گئی. جبکہ ماجد کو غازی کا یہ انداز برا لگا

آپ کے پاؤں کی ہڈی فلکچر ہے اور میں حیران ہوں کہ آپ نے کتنی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے. ڈاکٹر نے غازی کے پاؤں کا ایکسرے دیکھتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا.

میں نے لاپرواہی نہیں کی بس جس جگہ تھا وہاں کوئی طبعی امداد میسر نہ تھی. غازی کے جواب پر ڈاکٹر سر ہلاتا اس کے پاؤں کا جائزہ لینے لگا.

زیادہ پریشانی والی بات ہے .....؟ ؟ ماجد کو تشویش ہوئی.

نہیں زیادہ تو نہیں مگر پھر بھی ____ ڈاکٹر سر ہلاتا کاغذ پر کچھ لکھنے لگا اور نرس کو اشارے سے بلایا

اب آپ دوا دیں گے یا مزید کوئی ٹریٹمنٹ ____ غازی نے بیزاری سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا

پہلے تو آپ کے پاؤں کا پلستر ہو گا. بڑی معزرت مگر تکلیف سے گزرنا پڑے گا. آپ کے ٹخنے کی پوزیشن درست نہیں. ڈاکٹر کا جواب غازی کی امید کے عین مطابق تھا.

جو بھی کرنا ہے جلد کریں مجھے اپنے گھر جانا ہے. غازی کی عجلت پر ڈاکٹر حیران ہوا.

بیوی بچوں سے کافی اداس لگتے ہیں. جیسے ہی ڈاکٹر نے یہ الفاظ بولے ماجد کو ہنسی آ گئی.

اپنی بتیسی اندر کر اور کاؤنٹر پر بل جمع کرا دے تاکہ یہ اپنا کام شروع کریں. غازی کی ہدایت پر ماجد سر ہلاتا باہر چلا گیا.

ڈاکٹر صاحب پلیز زرا جلدی کیجیے گا. غازی نے ماجد کے جاتے ہی دوبارہ ڈاکٹر سے کہا جو اسے ہی دیکھ کر مسکرا رہا تھا.

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ہم پہلے بھی ملے ہیں .....؟ ؟ ڈاکٹر کے پوچھنے پر غازی نے کرسی ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے ایک گہرا سانس خارج کیا.

آپ نے پچھلے سال میرے بازو سے گولی نکالی تھی. میر طلال کے فام ہاؤس پر ____ غازی کے جواب پر ڈاکٹر خوش دلی سے اٹھا.

آپ بہت بہادر ہیں. مجھے یاد آ گیا. میر صاحب کے ہم پر بہت احسانات ہیں. یہ ہسپتال ان کی امداد سے ہی چلتا ہے. نرس روم ریڈی کرے تو پلستر کے لیے چلتے ہیں. ڈاکٹر نے غازی کے قریب کھڑے ہوتے ہوئے خلوص سے کہا تو غازی سر ہلانے لگا

میں سوچ رہا تھا کہ آپ پلستر کرتے ہوئے کافی تنگ کریں گے مگر اب میں مطمئن ہوں. ڈاکٹر میز ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے دوستانہ لہجے میں کہنے لگا تو غازی نے کندھے اچکائے 

یہ تو پلستر کےوقت ہی پتہ چلے گا کہ میں آپ کو تنگ کرتا ہوں یا آپ مجھے ____ غازی کے جواب پر ڈاکٹر مسکرا دیا.

چلیں دیکھتے ہیں. نرس کو اندر آتا دیکھ کر ڈاکٹر نے غازی کو ویل چیئر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا.

ارے آپ یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہیں. اندر آ جاتی. ماجد نے ویٹنگ بینچ پر بیٹھتے ہوئے زریں سے کہا

تاکہ آپ کا دوست مجھے باہر پھینک دیتا. زریں کا جواب ماجد کو حیران کر گیا.

ارے واہ آپ تو اسے بڑے اچھے سے جاننے لگیں ہیں. وہ پریشانی اور بیماری میں کافی فضول بولتا ہے. ماجد کے جواب پر زریں نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا.

پھر تو وہ ہر وقت ہی پریشان اور بیمار  رہتا ہے کیونکہ میں نے اسے فضول بولتے ہی سنا ہے. زریں نے اپنی چادر درست کرتے جواب دیا.

کچھ کھائیں گی ....؟؟ ماجد کے پوچھنے پر زریں نے اسے یوں دیکھا جیسے اس نے کوئی انہونی بات کہی ہو.

ابھی بھی بس پوچھ رہے ہیں. میں کب سے کہہ رہی ہوں کہ بھوک لگی ہے. زریں کے جواب پر ماجد نے شرمندگی سے سر کھجایا

اچھا میں کھانے کے لیے کچھ لاتا ہوں. آپ پلیز یہاں سے کہیں مت جاہیے گا. ماجد ہدایت دیتا کینٹین کی طرف چل دیا.

مسٹر غازی آپ بہت بہادر ہیں ورنہ عام آدمی تو بہت چیخیں مارتا ہے. ڈاکٹر نے غازی کے پاؤں پر پلستر کرتے ہوئے اسے سراہا جس کی آنکھیں تکلیف سے لال ہو رہیں تھیں.

کوئی انجکشن ضرور لگا دیجیے گا تاکہ رات سکون سے گزرے. غازی نے ضبط کی انتہا کو چھوتے ہوئے کہا تو ڈاکٹر ہاتھ صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا.

یہ ماجد کا بچہ پتہ نہیں کہاں مر گیا ہے ....؟؟ جیسے ہی غازی نے سوچا ویسے ہی ماجد اندر داخل ہوا.

پلستر ہو گیا. ماجد نے حیرانگی سے غازی کے پاؤں کی طرف دیکھا

مسٹر غازی بہت بہادر ہیں. ڈاکٹر نے انجکشن بھرتے ہوئے پھر تعریف کی تو ماجد نے داد دیتی نظروں سے غازی کی طرف دیکھا

دوائیاں میڈیکل سٹور سے لے آؤ تو چلیں. غازی نے انجکشن لگواتے ہوئے ماجد کو ایک پرچہ دیا جو ابھی ابھی نرس نے اسے دیا تھا.

راستے سے لے لیں گے. ماجد نے پرچہ جیب میں رکھتے ہوئے غازی کی ویل چیئر پکڑی.

اگر آپ لوگ چند گھنٹے اور ٹھہر جاتے تو مریض کے لیے اچھا ہوتا. ڈاکٹر نے غازی سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنی رائے دی.

بہت شکریہ ____ غازی نے کہتے ہوئے ماجد کو چلنے کا اشارہ کیا.

ویسے تُو ہے بہت ہمت والا ____ میں تو تیری چیخیں سننے کے لیے تیار تھا. ماجد نے پارکنگ میں آتے ہوئے ڈرائیور کو ڈور کھولنے کا اشارہ کیا.

میری کا تو پتہ نہیں مگر تو نے اپنی بکواس بند نہ کی تو تیری چیخیں ضرور میں سنوں گا. غازی نے بیک سیٹ پر بیٹھتے ہوئے تکلیف سے کہا تو ماجد اس کے بال سیٹ کرتا مسکرا دیا. 

چل اب جلدی کر مجھے آرام کرنا ہے. غازی نے سیٹ ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اپنے پہلو میں دیکھا تو چیخ اٹھا

وہ کہاں ہے .....؟ ؟ 

کون .....؟؟ ماجد جو ابھی فرنٹ پر بیٹھنے ہی لگا تھا مڑا. 

زریں ____ غازی کے جواب پر ماجد الٹے پاؤں اندر کی طرف بھاگا جبکہ غازی نے پوری قوت سے مکا سیٹ پر مارا. 

🎭🎭🎭🎭

میرا تو خیال تھا کہ دولہے میاں کچھ دن آرام کریں گے مگر آپ تو فوراً ہی افس آ گئے. حاشر نے میر کو افس میں داخل ہوتا دیکھ کر شرارت سے کہا

حاشر مجھے کیوں ایسا لگتا ہے جیسے تیری طبیعت کچھ خراب رہنے لگی ہے. تجھے خوراک کی ضرورت ہے. میر نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے موبائل ٹیبل پر رکھا 

میری طبیعت اور نیت دونوں ہی ٹھیک ہیں. آپ اپنی سنائیں گھر میں کیسی گزری .... ؟؟ حاشر نے اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے پوچھا

کم از کم میں تجھ سے اس سوال کی امید نہیں کر رہا تھا

 تجھے تو معلوم ہونا چاہیے کہ تیری اسسٹنٹ کیسی ہے اور اس کے ساتھ بندے کا وقت کیسا گزر سکتا ہے ...... ؟؟

 میں نے بولا بھی تھا کہ اس سے کہنا کہ اپنی ضرورت کی چیزیں اور ڈھنگ کے کپڑے ساتھ لے کر آئے مگر وہ کچھ بھی ساتھ نہیں لائی. میر نے افسوس سے سر ہلایا 

اب اتنے امیر اور خوبصورت بندے سے شادی ہو رہی ہو تو لڑکی کی عقل کہاں ٹھکانے رہتی ہے جبکہ میں نے بھی اس کو آپ کا پیغام جوں کا توں پہنچا دیا تھا مگر اس میں اس کی غلطی نہیں بلکہ آپ کی غلطی ہے. 

آپ شادی کر رہے تھے تو کم از کم لڑکی کی ضرورت کی چیزیں ہی خرید لیتے. یہ تو لڑکے والوں کا کام بنتا ہے کہ وہ لڑکی کے کپڑے اور ضرورت کی چیزیں خریدیں. حاشر نے عزین کو defend کرتے ہوئے کہا تو میر مسکرانے لگا

اپنی اسسٹنٹ کی بڑی فیور کر رہے ہو. کبھی دوست کی بھی کر دیا کرو. میر نے کہتے ہوئے اپنا موبائل میں سے اٹھایا

دوست کے لیے تو جان بھی حاضر ہے مگر تازہ خبر یہ ہے کہ سردار بیگم شاید اس پیشی پر چھوٹ جائیں کیونکہ ہماری طرف سے کسی قسم کی کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی اور نہ ہونے کی وجہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ آپ نے مجھے منع کر رکھا ہے. حاشر کی بات پر میر کے اعصاب ایک دم تناؤ کا شکار ہوئے. 

سردار بیگم کو کسی بھی صورت جیل سے نہیں چھوٹنا چاہیے بلکہ میں اور بھی کچھ لوگوں کو جیل کے پیچھے دیکھنا چاہتا ہوں. میر نے کہتے ہوئے حاشر کی طرف دیکھا 

یہ کچھ اور لوگوں سے آپ کی کیا مراد ہے .....؟؟ اگر آپ کا اشارہ گلبدین کی طرف ہے تو معذرت وہ آپ برداشت نہیں کر پائیں گے کیونکہ میں جانتا ہوں آپ ان کے لیے سافٹ کارنر رکھتے ہیں. حاشر کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا. 

اس بات کا فیصلہ میں یا تم نہیں بلکہ وقت کرے گا. میں کسی بھی مجرم کو کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں دوں گا. میں یہاں صرف اور صرف آغا جان کے مجرموں کو سزا دینے کی وجہ سے موجود ہوں. ورنہ کب کا واپس چلا جاتا. میر کے جواب پر حاشر نے سر ہلایا

میر کوشش کرو کہ خود سے جھوٹ بولتے ہیں چھوڑ دو. تم یہاں صرف اس لیے نہیں موجود، جس لیے موجود ہو اس کا اقرار کر لو، نہ خود کو دھوکا دو اور نہ دوسروں کو اس دھوکے میں رکھو. حاشر اب کی بار بہت سنجیدہ تھا. 

خیر چھوڑو ان باتوں کو اور اپنی تیاری رکھو کیونکہ میں نے پلان کر لیا ہے کہ گل پہ قاتلانہ حملہ کب اور کیسے کرنا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں عزین جلد از جلد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو. 

ایک اور خاص بات جس کا تم نے خیال رکھنا ہے. وہ یہ کہ جس جیل میں عزین ہوگی ماجد کی ڈیوٹی بھی وہاں ہی لگنی چاہیے. میں نہیں چاہتا اسے کسی قسم کی بھی کوئی تکلیف پہنچے اور اگر ماجد کی ڈیوٹی ہوئی تو اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی کیونکہ وہ پہنچ نہیں دے گا. میر کی بات پر حاشر نے اسے حیرت سے دیکھا

زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے. ماجد عزین کا منگیتر ہے. دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہیں اور میری معلومات کے مطابق دونوں کی جلد شادی ہونے والی تھی مگر ____ میر نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکائے. 

ابھی شادی کو ایک دن نہیں ہوا اور تم کس طرح اپنی نئی نویلی دلہن کے بارے میں مجھے معلومات دے رہے ہو. کچھ تو شرم کرو یہ شرفاء کا طور طریقہ نہیں ہوتا. حاشر نے بڑی بوڑھی عورتوں کی طرح میر کو ڈانٹا. 

اگر یہ شادی میری اپنی مرضی اور پسند سے ہوئی ہوتی تو ماجد اب تک زمین کے نیچے ہوتا مگر یہ ایک کمٹمنٹ ہے اور کچھ نہیں. لہذا میں نہیں چاہتا عزین کا کوئی بھی ریلیشن اس کمٹمنٹ کی وجہ سے خراب ہو. میر کا چہرہ کسی بھی قسم کے تاثرات سے پاک تھا. 

گلبدین کی کیا تاثرات رہے تمہاری شادی پر، میرا مطلب ہے تمہاری بیگم کو دیکھ کر انہوں نے کیسا ری ایکٹ کیا ......؟ ؟ حاشر کو جاتے جاتے اچانک گل کا خیال آیا تو وہ پلٹا

کچھ خاص نہیں، میرے خیال سے ایک عورت دوسری عورت سے جتنی جیلس ہو سکتی ہے وہ اتنا ہی جیلس ہوئی ہوں گی یا شاید اتنا بھی نہیں. میں کچھ کہہ نہیں سکتا مجھے کچھ خاص اندازہ نہیں ہوا. میر نے لاپرواہی سے حاشر کی طرف دیکھا

عزین کیسی ہے میرا مطلب اس نے ایڈجسٹ کر لیا ...... ؟؟ حاشر کو اچانک اس کا خیال آیا. 

مسٹر حاشر اب تم اس کے ساتھ ہمدردی کا پٹارہ کھول کے مت بیٹھ جانا. وہ تمہاری اسسٹنٹ ہے اور تم اسے اچھی طرح جانتے ہو. وہ کوئی عام سی لڑکی نہیں ہے جو جذباتی ہو جائے گی یا اسے کوئی دکھی کر دے گا. وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتی ہے. 

میں تو حیران ہوں اس پر، کل پہلا دن تھا اور وہ ایسے پھیل کے میرے کمرے میں سوئی ہے جیسے یہ کمرہ شروع سے اسی کا ہو اور ایسے پٹر پٹر مجھے جواب دے رہی تھی کہ سوچ ہے تمہاری ____  مجھے بالآخر اسے بتانا پڑا کہ میں کون ہوں .....؟ ؟ 

حالانکہ پھر بھی اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑا کہ میں اس کا "باس" ہوں مگر کچھ شرم آ ہی گئی تھی. مجھے تو ترس آ رہا ہے پتہ نہیں اس نے گل کا میرے پیچھے کیا حشر کیا ہو گا ...... ؟؟ میر کے لہجے میں اچانک گل کے لیے ہمدردی در آئی. 

ویسے بڑے افسوس کی بات ہے. عزین اچھی خاصی معصوم اور بھولی بھالی سی ہے مگر آپ نے اس کا حلیہ کافی برا کھینچا ہے. وہ ایسی نہیں جیسی آپ اسے بتا رہے ہیں.

بہت ہی اچھی کوآپریٹو اور دوسرے کا احساس کرنے والی لڑکی ہے. میر دیکھ لینا یہ لڑکی تمہارے بہت کام آئے گی اور مجھے تو لگتا ہے کہ تمہیں اس سے "محبت" ہو جائے گی. حاشر کی بات پر میر نے چونکتے ہوئے اسے دیکھا

محبت اور مجھے وہ بھی تمہاری اس اسسٹنٹ سے ناممکن ہو ہی نہیں سکتا. میر نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے حاشر کی طرف دیکھا

شرط لگا لو ____ حاشر نے چیلنج کیا. 

لگی شرط ____ میر نے فوراً حامی بھری. 

ہارنے کی صورت میں تم جو کہو گے وہ میں کروں گا اور جیتنے کی صورت میں، میں تبھی تمہیں بتاؤں گا کہ مجھے تم سے کیا چاہیے .....؟؟ حاشر کی بات پر میر طنزاً مسکرایا. 

سب مطلب کے یار ہیں. مجھے تو سارے ہی مطلبی ملے ہیں. چلو لگی شرط اور تم ہارنے کے لیے تیار ہو جاؤ تمہاری سوچ ہے کہ میں تمہیں کیا کرنے کو کہوں گا ...... ؟؟ میر نے کھڑے ہوتے ہوئے حاشر سے ہاتھ ملایا

تم جو بھی کہو گے میں کرنے کو تیار ہوں مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ مجھے تم سے کیا چاہیے ......؟ ؟ حاشر نے اپنی بات ادھوری چھوڑتے ہوئے میر کی آنکھوں میں دیکھا

ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی. میر نے حاشر کا ہاتھ دباتے ہوئے چھوڑا تو وہ مسکرا دیا

مجھے تم سے ہارنے میں مزہ آتا ہے. میں تم سے جیتنا بھی نہیں چاہتا مگر پتہ نہیں کیوں اس دفعہ دل کہتا ہے کہ میں تم سے جیت جاؤں گا. حاشر نے آنکھ مارتے ہوئے کہا اور آفس سے باہر نکل گیا جبکہ میر اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچنے لگا

🎭🎭🎭🎭

میر کو تم نے پرپوز کیا تھا یا میر نے تمہیں .....؟ ؟ گل کو جو بات اتنے دنوں سے پریشان کر رہی تھی وہ بالآخر اس کی زبان پر آ گئی.

آپ کے خیال سے میر کو کوئی پرپوز کر سکتا ہے وہ بھی اس کی اجازت کے بغیر ____ عزین نے ہلکے پھلکے سے انداز میں گل کو جواب دیا.

مطلب میر نے تمہیں پرپوز کیا ہے. بہت لکی ہو. گل کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ عزین چونکی

لکی ____ عزین نے گل کی طرف دیکھتے ہوئے دہرایا وہ دونوں اس وقت لان میں بیٹھیں موم پھلیاں کھا رہیں تھیں.

ہاں لکی کیوں کہ میر جیسا شخص کسی لڑکی کو چاہے تو پاؤں زمین پر نہیں پڑتے. گل کے جواب پر عزین ہنسے لگی

اسی لیے آپ کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے ____ عزین کا اشارہ گل کی ویل چئیر کی طرف تھا.

کیا مطلب ہے تمہارا ____ گل ایک دم تلخ ہوئی.

میرا مطلب یہ ہے کہ میر آپ سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ بقول آپ کے "پاؤں زمین پر نہیں پڑتے". عزین نے گلا صاف کرتے وضاحت دی تو گل کے سخت تاثرات میں کچھ نرمی آئی.

ایک بات پوچھو اگر آپ کو بری نہ لگے تو ____ عزین نے گل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

بری بات پوچھو گی تو بری ہی لگے گی. گل کا لہجہ اب کی بار بہت سرد تھا.

جب میر اور آپ دونوں ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے ہیں تو میرا مطلب ہے کہ میر کو دوسری شادی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ....؟؟ عزین کے سوال پر گل ہنسنے لگی اور اس کی ہنسی میں پاگل پن تھا.

میں نے میر کو زور دیا تھا دوسری شادی کے لیے، تو وہ مجھے انکار نہ کر سکا کیونکہ وہ میری ہر بات مانتا ہے. گل نے اتراتے ہوئے کہا

اصل میں میرے اور میر کے درمیان فزیکل ریلیشن شپ نہیں ہے. تو مجھے لگتا تھا کہ یہ میر ساتھ زیادتی ہے. اس کے بچے ہونے چاہیے جو اس کے وارث بنیں. گل کی بات پر عزین کو شدید حیرت ہوئی.

(یعنی میر جھوٹ بولتا ہے. ویسا کچھ نہیں ہے جیسا وہ کہتا ہے. اس نے یہ شادی بچوں کے لیے کی ہے مگر ____ مجھے وہ بےوقوف بنا رہا ہے. عزین گل کی بات پر دل میں اپنے آپ سے مخاطب ہوئی.)

کیا سوچ رہی ہو. میں سچ کہہ رہی ہوں. اگر یقین نہیں ہے تو میر سے پوچھ لینا. تبھی تو میں نے پوچھا تھا کہ تم دونوں میں سے کس نے کس کو پرپوز کیا ہے. ....؟؟ گل کو اپنا تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر خوشی ہوئی. 

میں بھلا کیوں پریشان ہوں گی وہ تو مجھے کچھ یاد آ گیا تھا. میرا موبائل-فون ___ عزین کو اچانک اپنے  موبائل کا خیال آیا. 

شاید کمرے میں ہو ___ گل کے کہنے پر وہ تیزی سے اٹھی اور اندر کی طرف بڑھ گئی. 

ہونہہ مجھے بےوقوف سمجھتی ہے. میر اگر تم نے میرے ساتھ کوئی بھی چال چلنے کی کوشش کی تو میں اس لڑکی کی گردن مڑوڑ دوں گی. گل نے کہتے ہوئے سامنے پڑی ٹوکری  سے مالٹا اٹھایا. تبھی بلیک کلر کی ویگو گیٹ سے اندر داخل ہوئی. 

آپ یہاں اکیلی بیٹھیں ہیں. عزین کو بلا لیتیں ____ میر نے لان میں قدم رکھتے ہوئے بلند آواز سے کہا

ابھی اندر گئی ہے. اسے کچھ یاد آ گیا تھا. میں سمجھی تمہیں فون کرنے لگی ہے. گل کے کہنے پر لاشعوری طور پر میر نے ہاتھ میں پکڑا اپنا موبائل آن کیا. 

میں چینج کر لوں پھر بات کرتے ہیں. میر کہتا ہوا اندر کی طرف بڑھ گیا.

میر نے کمرے میں قدم رکھا تو عزین کارپٹ کو گھور رہی تھی جبکہ موبائل-فون اس کی گود میں پڑا تھا. 

کیا ہوا ماجد بات نہیں کر رہا ...؟؟ میر نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے طنز کیا. 

آپ کا گھر اچھا خاصا بھوت بنگلہ ہے. یہاں جو نظر آتا ہے وہ ہے نہیں اور جو نہیں ہے وہ نظر آتا ہے. عزین نے کھوئےسے لہجے میں کہا تو میر کے واش روم کی طرف بڑھتے قدم رکے. 

کیا دیکھا ہے تم نے .....؟؟ میر نے عزین کی طرف مڑتے ہو پوچھا تو عزین نے اپنی جھکی گردن اٹھائی 

دیکھ لیتی تو مر نہ جاتی صرف سنا ہے. عزین کی شکل پر بارہ بج رہے تھے. 

ڈر گئی ہو یا ڈرامہ کر رہی ہو. اچھی خاصی نوٹنکی ہو تم اتنا تو مجھے پتہ چل گیا ہے. میر کہتا دوبارہ مڑا. 

گل معزور نہیں ہے ____ عزین کے اس جملے پر میر پورے کا پورا گھوم گیا. 

🎭🎭🎭🎭

کہاں چلی گئی ہے ...... ؟؟ میں نے بولا بھی تھا کہ یہیں رہنا. ماجد نے پورے ویٹنگ ایریے میں نظر گھماتے ہوئے خود کلامی کی. 

کیا کروں، زی تو مجھے نہیں چھوڑے گا ...... ؟؟ ماجد نے فکر مندی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا. چند لمحے خاموشی سے گزر گئے پھر اچانک ماجد کے ذہن میں جھماکا ہوا اور وہ چلڈرن وارڈ کی طرف چل دیا. 

مجھے پوری امید تھی کہ تم یہاں ہی پائی جاؤ گی مگر میں تمہیں منع کر کے آیا تھا کہ وہاں سے مت اٹھنا. ماجد نے زریں کو دیکھتے ہوئے کہا جو کسی کے بچے کو گود میں لیے بیٹھی تھی. 

تم نہیں آئے تھے تو مجھے بوریت ہونے لگی سوچا ابھی ____  زری نے اتنا ہی کہا تھا کہ ماجد نے اس کی بات بیچ میں سے اچک لی. 

سوچا کہ دوسروں کے بچے ہی گود لے لوں. ماجد نے مصنوعی مسکراہٹ ساتھ زری کی طرف دیکھا تو اس کے تاثرات بدل گئے. 

مجھے فضول کی بکواس نہیں پسند، بچے تو سب کو ہی اچھے لگتے ہیں. زریں نے کہتے ہوئے پاس بیٹھی آنٹی کو وہ بچہ دیا اور ماجد کے ساتھ چل دی. 

میرے خیال سے آپ کے شوہر نامدار کو یہ بچہ والی مخلوق کچھ خاص پسند نہیں. ویسے تو اسے عورت ذات بھی پسند نہیں تھی مگر اب کیا کہا جائے ....؟؟ ماجد نے کندھے اچکاتے ہوئے زریں کی طرف دیکھا

تم اتنے سڑیل نہیں جتنا تمہارا دوست ہے. کیا یہ شروع سے ہی ایسا ہے اور تم دونوں کی دوستی کیسے ہوئی ......؟ ؟ زری کے سوال پر ماجد نے اسے آبرو اچکا  کر دیکھا

ایک منٹ، پہلے مجھے یہ کلئیر کرو کہ اتنے سڑیل سے کیا مراد ہے ...... ؟؟ ماجد کے لہجے میں تھوڑی خفگی تھی تو زرعی مسکرائی. 

اتنے سڑیل سے مراد جو بھی ہے تم اسے رہنے دو اور یہ بتاؤ کہ تمہاری دوستی کیسے ہوئی .....؟؟ زریں نے اپنا سوال دہرایا. 

ہم دونوں ایک ہی یتیم خانے میں پلے بڑھے ہیں. بس وہاں سے ہماری دوستی ہو گئی. ماجد نے مختصر سا جواب دیا. 

یعنی تم دونوں کے والدین نہیں ہیں. زری نے افسوس سے کہا تو ماجد ہنس پڑا. وہ دونوں اس وقت پارکنگ کی طرف جا رہے تھے. 

بی بی ہمارے والدین تو یقیناً ہوں گے مگر ہمیں نہیں معلوم کیونکہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہمارے والدین نہ ہوں. ماجد کے جواب پہ زری تھوڑا سا شرمندہ ہوئی اب وہ دونوں گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے. 

تم دونوں میں  احساس نام کی چیز نہیں ہے. میں یہاں تکلیف سے مر رہا ہوں. مجھے آرام کی ضرورت ہے اور تم دونوں کیسے ٹہل ٹہل کر تشریف لا رہے ہو. جیسے ہی ماجد نے بیک ڈور کھولا غازی اس پر برس پڑا. 

اور تمہیں تو میں گھر جا کر بتاؤں گا. غازی  نے لال انگارہ آنکھوں سے زریں کی طرف دیکھا تو اسے پہلی بار ڈر لگا. 

گاڑی تیز چلاؤ اور راستے سے نیا موبائل خرید لینا. مجھے میر سے بات کرنی ہے. غازی نے آنکھیں بند کرتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو ماجد سر ہلانے لگا جبکہ زری ماجد کی فرمانبرداری پر دل میں اسے داد دینے لگی. 

🎭🎭🎭🎭

کیا کہا تم نے ذرا دوبارہ کہنا. مجھے ٹھیک سے سنائی نہیں دیا. میر نے اپنی ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے عزین کی طرف قدم بڑھائے. 

میں نے کہا ہے کہ گل معذور نہیں ہے یعنی وہ چل پھر سکتی ہے. صرف معذوری کی ایکٹنگ کرتی ہے. اب کی بار پراعتماد  لہجے میں عزین نے میر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

سیریسلی ____ میر نے سنجیدہ چہرے ساتھ عزین سے پوچھا

ہنڈرڈ پرسنٹ ____ عزین کے جواب پر میر ہنسنے لگا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا. 

میرا نہیں خیال کہ میں نے آپ کو کوئی لطیفہ سنایا ہے جو آپ یوں ری ایکٹ کر رہے ہیں. عزین کو برا لگا

میرے لیے یہ بات کسی لطیفے سے کم نہیں ہے کیونکہ گل کی ٹانگوں میں گولیاں لگی تھیں. ڈاکٹرز کے مطابق اس کی ہڈی متاثر ہوئی جس کی وجہ سے وہ آج تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکی. جبکہ وہ ایک انتہائی زندہ دل لڑکی ہے. 

اسے کیا ضرورت ہے ایسی بےہودہ ایکٹنگ کرنے کی جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں الٹا نقصان ہے. تم نے مجھے بے وقوف سمجھ رکھا ہے کہ جو کہو گی اس پہ میں آنکھ بند کر کے ایمان لے لوں گا. 

آئندہ میرے ساتھ اس طرح کی فضول باتیں کرنے کی ضرورت نہیں. ورنہ نتائج کی ذمہ دار تم جود ہو گی.تم یہاں ایک ایگریمنٹ کی وجہ سے موجود ہو. اس گھر پہ قبضہ کرنے کے خواب نہ دیکھو. یہی تمہارے لیے بہتر ہے. میر کا لہجہ ایک دم سرد ہوا تو عزین نے اپنا سر جھٹکا

بار بار مجھے یہ احساس دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں یہاں ایک ایگریمنٹ کی وجہ سے موجود ہوں. آپ نے مجھے جو ڈیوٹی دی تھی میں نے اس کے مطابق رپورٹ کی ہے.

 کہ آپ کی لاڈلی بیوی چل پھر سکتی ہے معذور نہیں لیکن اگر آپ کو جان بوجھ کے دھوکا کھانے کا شوق ہے تو پھر مجھ سے آئندہ ایسی کوئی امید مت رکھیے گا. مجھے صرف یہ بتائیں کہ میں نے کیا کرنا ہے ...... ؟؟ عزین نے کھڑے ہوتے ہوئے بازو سینے پر باندھے

تمہارا کام تو گل کی مخبری ہی کرنا ہے مگر ڈھنگ کی. میرا مطلب ہے ایسی مخبری جس سے مجھے پتہ چلے کہ وہ کیا سوچ رہی ہے اور وہ آئندہ کیا کرنا چاہتی ہے یا ماضی میں اس نے کیا کیا تھا اور کیوں ....؟؟ میر کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیسے عزین کو اپنی بات سمجھائے. 

آج تو آپ نے مجھ پر یہ الزام لگا دیا کہ میں آپ کے گھر پہ قبضہ کرنا چاہتی ہوں لیکن آئندہ اگر آپ نے ایسی بات کی تو میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے چلی جاؤں گی. کیونکہ میرے نزدیک سب سے زیادہ میری سیلف رسپیکٹ ہے. مسٹر میر آپ اس چیز کا خیال رکھیں. عزین کو اپنی بےعزتی کا بری طرح احساس ہوا. 

میرے خیال سے ایک لالچی لڑکی کی کوئی سیلف رسپیکٹ نہیں ہوتی. اگر ہوتی تو وہ اس وقت ایس ایچ او ماجد ساتھ پائی جاتی نہ کہ میرے ساتھ اس گھر کی چھت کے نیچے. میر کے لہجے میں طنز واضح تھا. 

معذرت کے ساتھ "بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی" میر کہتا ہوا واش روم کی طرف بڑھ گیا جبکہ پیچھے عزین اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی. 

ہر کسی کو میں لالچی لگتی ہوں. میں لالچی نہیں ہوں اگر کوئی اپنے فیوچر کے لیے چند پیسے جمع کرنا چاہے تو کیا ہم اسے لالچی کہیں گے نہیں نااااا ___ عزین نے اپنے آپ کو جیسے تسلی دی. 

ابھی تک یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو. اٹھو ٹیبل پر کھانا لگواؤ. میر نے واش روم سے باہر آتے ہی عزین کی طرف دیکھ کر کہا

مجھے بھوک نہیں ہے. میں نے کھانا نہیں کھانا. عزین کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ میر کو کچا چبا جائے. 

دیکھو حاشر کی اسسٹنٹ!!! اس گھر میں کھانا صرف وقت پر ہی ملتا ہے اس کے علاوہ کوئی شخص کچھ بھی نہیں کھا سکتا. اگر تم نہیں کھانا چاہتی تو تمہاری مرضی ہے مگر پھر تمہیں رات تک انتظار کرنا پڑے گا. 

دوسرا میں نے تمہیں کھانا لگوانے کا کہا ہے کھانے کا نہیں کیونکہ مجھے اور باقی گھر والوں کو تو بھوک لگی ہے. ہم نے تو کھانا کھانا ہے. میر نے جتلاتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا تو وہ پاؤں پٹختی کمرے سے باہر نکل گئی. 

کیا یہ لڑکی سچ بول رہی تھی مگر ایسے کیسے ہو سکتا ہے ...... ؟؟ 

اس گھر کے ہر کونے میں کیمرے نصب ہیں اور ان کی فوٹیج میں روز دیکھتا ہوں. مگر آج تک میری نظر سے ایسی کوئی چیز نہیں گزری جس سے ظاہر ہو کہ گل چل پھر سکتی ہے. میر نے برش کرتے ہوئے مرر میں دیکھا

مجھے صرف ایک بات گل کے بارے میں پریشان کرتی ہے اور وہ یہ کہ شیر علی نے اس پر گولی کیوں چلائی دوسرا وہ سردار بیگم کا ساتھ دے رہی تھی یا نہیں .....؟ ؟ 

اگر وہ بے قصور ثابت ہوئی تو میں اسے اپنے ساتھ لے کر باہر چلا جاؤں گا لیکن اگر وہ _____ اس سے آگے میں سوچنا نہیں چاہتا. میر نے ڈریسنگ ٹیبل پر برش پٹخا اور خود کو نارمل کرتا باہر نکل گیا

🎭🎭🎭🎭

زریں نے اپنی زندگی میں اتنا خوبصورت فلیٹ کبھی نہیں دیکھا تھا جیسا وہ اب دیکھ رہی تھی. وہ ایک ایک چیز کو ایسے چھو رہی تھی جیسے وہ ہاتھ لگانے سے غائب ہو جائے گی. 

زری یہ لولا لنگڑا تو سچ مچ کا امیر نکلا. اتنے خوبصورت گھر میں رہتا ہے. اس کے پاس تو بہت پیسہ ہے مگر شکل تو بالکل اس کی غریبوں جیسی تھی. میں نے تو اس پر خوب غصہ کیا اب میرا کیا حال ہو گا .....؟ ؟ زریں دل میں سوچتی صوفے پر بیٹھ گئی. 

یہ لے، میں نے اس میں سم ڈال کر ایکٹو کر دی ہے. ماجد نے موبائل فون غازی کی طرف بڑھایا. 

شکریہ کہنے کو دل تو نہیں کر رہا مگر پھر بھی تیرا شکریہ. ایسا کر کہ آج رات یہیں رک جا، مجھے تیری ضرورت پڑے گی. غازی نے اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو ماجد مسکرا دیا

حیرت ہے انتہائی خوبصورت اور تیز ترین بیوی کے ہوتے ہوئے بھی تجھے رات کو میری ضرورت پڑے گی ...... ؟؟ ماجد کے ایسے پوچھنے پر غازی نے اسے ایک تگڑی گھوری سے نوازا جب کہ اس کے لب خود بخود مسکرا دیے. 

وہ میرے ذہن سے نکل گئی تھی. چل ٹھیک ہے پھر تو جا، آرام کر _____ غازی نے کہتے ہوئے موبائل پر میر کا نمبر ڈائل کیا

ویسے وہ بھولنے والی چیز نہیں ہے اور تو ایک انتہائی بے مروت انسان ہے. ایک منٹ میں مجھے کہہ دیا چلا جا دوسرے لفظوں میں کہتے ہیں کہ "تو اب دفع ہو" .  ماجد منہ بناتا اٹھ کھڑا ہوا. 

مجھے سب سے اچھی تیری یہی بات لگتی ہے کہ تو میرے دل کا حال فوراً جان لیتا ہے. غازی نے تردید کی بجائے تصدیق کی تو ماجد نے قریب پڑا ہوا تکیہ اچھا کر غازی کی طرف اچھالا.

بے غیرت انسان!!! ابھی موبائل چھوٹ کے نیچے گرتا تو میں ٹچ کے ساتھ ساتھ تیری ہڈیاں بھی توڑ دیتا. غازی نے سائیڈ پر تکیہ رکھتے ہوئے کہا

اتنا غصہ کیوں آ رہا ہے. تیری ڈارلنگ میرا مطلب ہے میر کال اٹینڈ نہیں کر رہا .....؟؟ ماجد کے پوچھنے پر میر نے موبائل-فون بیڈ پر پھینک دیا. 

میر کبھی بھی unknown نمبر اٹینڈ نہیں کرتا. ابھی تھوڑی دیر میں اس کے کسی چمچے کا فون تصدیق کے لیے آ جائے گا تو بات ہو جائے گی. میں اس وجہ سے پریشان نہیں. غازی نے ماجد کی طرف دیکھ کر کہتے ہوئے بیڈ ساتھ ٹیک لگائی

تو پھر ......؟ ؟ ماجد کو تجسس ہوا. 

تو پھر تیرا سر ____ تو کیا عورتوں کی طرح میرا دماغ کھا رہا ہے. کچھ رات کے کھانے کا بندوبست کر دے اور اپنی شکل گم کر، مجھے آرام کرنا ہے. غازی کے چہرے پر تھکاوٹ عیاں تھی.

جی بہتر اور کوئی حکم  ____ ماجد نے اٹھتے ہوئے فرمانبرداری سے پوچھا تو غازی نے سر نفی میں ہلا دیا. ماجد ابھی کمرے سے باہر نکلا ہی تھا کہ غازی کا موبائل بچنے لگا

ہیلو _____  جیسے ہی غازی نے کال اٹینڈ کی تو دوسری طرف مکمل خاموشی چھا گئی. 

غازی تم بات کر رہے ہو. تھوڑی دیر بعد میر کی آواز سپیکر سے ابھری تو غازی مسکرا دیا

جی سر میں ہی بات کر رہا ہوں. غازی کے لہجے میں خود بخود احترام اتر آیا تھا. 

یار کہاں غائب ہو گئے تھے. میں نے تمہیں بہت مس کیا اور تلاش بھی ____  تم جانتے ہو نا کہ میرے لیے تم کتنے خاص ہو ...... ؟؟ میر کے پوچھنے پر غازی نے ہنکار بھری. 

چلو پھر ملاقات کا بندوبست کرتے ہیں. آخر تمہارا انعام مجھ پر ادھار ہے. میر نے کہتے ہوئے کال کاٹ دی تو یہ ایک خاص پیغام تھا جو صرف غازی سمجھ سکتا تھا. 

ارے بھابھی!!! آپ ادھر کیوں بیٹھی ہیں. اندر جائیں اپنے مزاجی خدا کی خدمت کریں. میں آپ لوگوں کے لیے کچھ کھانے پینے کو لاتا ہوں. ماجد نے ٹی وی لاؤنچ میں چپ چاپ بیٹھی زری کی طرف دیکھ کر کہا

میرا نام زری ہے. اس لیے یہ بھابھی بھابھی کی رٹ لگانا بند کریں اور دوسرا میں نے جب جانا ہوگا تو چلی جاؤں گی. مجھے آپ کی اجازت نہیں چاہیے. زریں کے جواب پر ماجد منہ بناتا باہر نکل گیا تو اس نے کمرے کا رخ کیا. 

سنو ____ غازی جو آنکھیں بند کیے لیٹا تھا اچانک زری کے پکارنے پر چونکا

یہ کون سا طریقہ ہے کسی کے کمرے میں داخل ہونے کا، تم دستک دے کر نہیں آ سکتی تھیں. اچھی خاصی نیند آ رہی تھی. بیڑا غرق کر دیا. غازی نے زریں کی طرف دیکھتے ہوئے ناگواری سے کہا

مجھے بھی نیند ہی آ رہی ہے اور میں یہی پوچھنے آئی تھی کہ تمہارے شہر میں لوگ کھانا نہیں کھاتے. انہیں بھوک نہیں لگتی. مجھے سخت بھوک لگی ہے خالی پیٹ مجھے اتنی نہیں آتی. زریں کے کہنے پر غازی نے اس کی طرف غصے سے دیکھا

رہی بات دستک دے کے آنے کی، تو تم ہمارے گھر دستک دے کے آتے جاتے تھے. ہر وقت چارپائی پہ پڑے آنے جانے والے کو گھورتے رہتے تھے. بھولو مت کہ میں نے تمہاری بہت خدمت کی ہے. زری نے گردن اکڑاتے ہوئے یاد دلایا. 

تم نے میری جتنی خدمت کی ہے وہ ساری کی ساری مجھے اچھی طرح یاد ہے. بس دعا کرو میں جلد ٹھیک ہو جاؤں سود سمیت میں تمہیں واپس کروں گا. غازی کا لہجہ گھمبیر ہوا. 

اب تم احسان فراموشی جیسی باتیں کر رہے ہو. خیر میں نے تم سے کھانے کا پوچھا تھا. زریں نے بات بدلی تبھی ڈور بل بجی. 

ماجد کھانا لایا ہے. جا کے کھا لو اور میری جان چھوڑو. غازی نے کہتے ہوئے دوبارہ آنکھیں موند لیں. تو زریں چپ چاپ کمرے سے باہر نکل آئی. 

🎭🎭🎭🎭

حاشر صاحب!!! آپ کے دوست کیا الٹا پیدا ہوئے تھے. سیدھی بات کا بھی الٹا مطلب لیتے ہیں. کال اٹینڈ کرتے ہی حاشر کو عزین کی ناراض آواز سنائی دی. 

مس عزین میں کبھی بھی اور کسی بھی جنم میں گائنی وارڈ بوائے یا نرس نہیں رہا اور میر کے وقت میں خود بہت چھوٹا تھا. لہٰذا مجھے اس کے الٹے سیدھے کا کچھ پتہ نہیں. حاشر نے ڈرائیو کرتے ہوئے جواب دیا. 

سر آپ بھی میری بات کو سیریس نہیں لے رہے _____ عزین رو دینے کو تھی. 

اچھااااااااااااا زیادہ اداس مت ہو اور بتاؤ کے کیا ہوا ہے ....... ؟؟  حاشر نے فوراً سنجیدگی سے پوچھا تو عزین نے ساری بات گوش گزار کر دی. 

عزین تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ناااااا ____ گلبدین معزور ہے. وہ چل پھر نہیں سکتی. میں نے خود کئی بار میر کے کہنے پر اس کی رپورٹ ڈاکٹرز کو دکھائی ہیں. 

میر ٹھیک کہتا ہے. تمہیں یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے. حاشر نے میر کی سائیڈ لیتے ہوئے وضاحت دی. 

مجھے نہیں پتہ بس جو میں نے سنا وہ بتا دیا ہے. اب اگر آپ لوگ یقین نہیں کرنا چاہتے تو آپ کی مرضی ___ عزین نے ٹیرس پر ٹہلتے ہوئے جواب دیا تبھی اسے اپنے عقب سے میر کے پرفیوم کی تیز خوشبو آئی. 

او کے سر پھر بات کرتی ہوں. ( پتہ نہیں کب سے میری باتیں سن رہے ہیں.) عزین سوچتی فون بند کرنے لگی. 

عزین تم ایک سمجھدار لڑکی اور ذہین وکیل ہو. اس لیے بےوقوفوں والی حرکتیں مت کیا کرو. میر بہت جہاندیدہ انسان ہے. اس کی بات چپ چاپ مان لیا کرو. اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے. حاشر کی باتوں پر عزین نے سر ہلاتے ہوئے فون بند کیا. 

(عزین بیٹا گہرے گہرے سانس لو. ابھی تمہیں ایک لمبا اور چیپ لیکچر سننے کو ملے گا. اس لیے ریڈی ہو جاؤ.) عزین نے دل میں سوچتے ہوئے پلٹ کر دیکھا تو ٹیرس پر سوائے اس کے کوئی دوسرا نہ تھا. 

یہ سر میر کدھر گئے ...؟؟  عزین نے پورے ٹیرس پر نظر گھمائی. 

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ جناب ٹیرس تک آئیں اور مجھے بےعزت کیے بنا ہی چلے جائیں. ناممکن _____ یقیناً کمرے میں ہوں گے. عزین خود سے باتیں کرتیں کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں بھی کوئی نہیں تھا ہاں البتہ میر کے پرفیوم کی خوشبو پورے کمرے میں پھیلی تھی جیسے وہ ابھی یہاں سے گیا ہو. 

عزین اسی شش و پنج میں کھڑی تھی کہ میر اتنی جلدی گھر کیسے آ گیا جبکہ ابھی تو صرف 5 بجے تھے. تبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور گل اپنی چئیر ساتھ اندر داخل ہوئی. پہلی بار عزین کو گل سے ڈر لگا

تم نے آج کھانا نہیں کھایا. کیا میر سے لڑائی ہوئی ہے .....؟ ؟ گل کا لہجہ بہت دوستانہ تھا. 

نہیں _____ عزین مختصر جواب دیتی بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی. 

اچھااااااااااااا تو پھر ہمارے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھایا ...... ؟؟ گل نے اپنی چئیر عزین کے قریب کرتے ہوئے پوچھا

دل نہیں کر رہا تھا. خیر چھوڑیں یہ بتائیں کہ ابھی میر اوپر کیا کرنے آئے تھے ....؟؟ عزین کے سوال پر گل نے اسے حیرت سے دیکھا

میر تو گھر پر نہیں ہے. وہ اس وقت اپنے فام ہاؤس ہوتا ہے. گل کا جواب عزین کے بدن میں کپکپی طاری کر گیا. 

پھر ٹیرس پر کون تھا اور کمرے میں ____ عزین نے بے خیالی میں دہرایا. 

تم نے مجھ سے کچھ کہا ____ گل کے پوچھنے پر وہ ہوش میں آئی. 

نہیں کچھ نہیں ____ عزین زبردستی مسکرائی. 

تمہیں کھانے میں کیا پسند ہے. مجھے بتا دو. تاکہ میں باورچی سے کہہ کر بنوا دو. ابھی ڈنر میں بہت وقت ہے. تمہیں بھوک لگ جائے گی. گل کے پوچھنے پر عزین نے اس کی طرف دیکھا

بھوک تو اڑ گئی ہے. عزین سوچتی سر نفی میں ہلانے لگی. 

چلو تمہاری مرضی ہے. میں نے سوچا تمہیں بھوک لگی ہو گی تو میر کے آنے سے پہلے کچھ بنوا دوں. وہ تو بےوقت کچھ کھانے نہیں دیتا. گل کہتی اپنی چئیر موڑنے لگی. 

ویل چئیر  _____ عزین نے غور سے ویل چئیر کو دیکھا تو اس کے لب مسکرا دئیے. 

آدھی رات کو درد کی شدت سے غازی کی آنکھ کھلی تو کمرے میں پھیلی نائٹ بلب کی ہلکی پیلی روشنی اسے خوابیدہ سی لگی. تھکاوٹ اور دوائیوں کے زیر اثر وہ بغیر کھائے پئیے جلد سو گیا تھا مگر اب بھوک ستانے لگی تھی. 

غلطی کی جو ماجد کو گھر جانے کا بول دیا. اب مجھے اس وقت کون کھانا دے گا .....؟ ؟ غازی نے دل میں سوچتے ہوئے بیڈ کراؤن ساتھ ٹیک لگائی تو زریں پر نظر پڑتے ہی وہ چونک گیا. 

یہ یہاں کیا کر رہی ہے اور کتنے مزے سے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے. یہاں میں بھوکا پیاسا تکلیف کا مارا تڑپ رہا ہوں. غازی نے دل میں سوچتے قریب پڑا کشن اٹھا کر زور سے زریں کی طرف پھینکا مگر امید کے برخلاف اسے زرا فرق نہ پڑا. 

غازی تو بھی بہت معصوم انسان ہے. یہ گاؤں کے پینڈو لوگ کہاں  کشن کے مارنے سے اٹھتے ہیں. ان کے سر پہ تو پورا ڈھول بجانا پڑتا ہے. غازی کو یاد آیا کہ ماسی پھلاں کافی شور مچانے کے بعد زری کو اٹھانے میں کامیاب ہوتی تھی. 

ہائے اب میں کیا کروں ...... ؟؟ میرا تو چائے پینے کو بھی بہت دل کر رہا ہے. غازی نے اپنی گردن دائیں بائیں ہلاتے ہوئے سوچا. 

تبھی اس کی نظر قریب پڑے ٹائم پیس پر پڑی تو اس کی آنکھوں میں امید کی چمک ابھری. زریں جو بہت مزے سے نرم گرم بستر میں لیٹی، خواب کے مزے لوٹ رہی تھی کہ اچانک بے ہنگم شور پر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی. 

زری بی بی!!!  تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تمہیں ماسی نے میری خدمت کے لیے ساتھ بھیجا ہے نہ کہ یوں پھیل کے سونے کے لیے ____ 

نیند سے بیدار ہوتے ہی جو پہلی آواز اسے سنائی دی وہ غازی کی تھی. 

تم میرے بزرگ ہو، جو میں تمہاری خدمت کروں گی. زری نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے غازی کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں موجود سرخ ڈورے اس کے نیند کی گواہی دے رہے تھے کہ اس کی نیند خراب ہوئی ہے. 

تم ایک مکمل جاہل لڑکی ہو. جس میں بات کرنے اور سمجھنے کی تمیز نہیں ہے. سو جاؤ اگر نیند آرہی ہے تو مگر میرا دماغ خراب نہ کرو. غازی کو اس کی نیند خراب ہونے کا تھوڑا دکھ بھی ہوا. 

تم کیوں جاگ رہے ہو. تمہیں کیوں نیند نہیں آ رہی. یہ تو تمہارا اپنا گھر ہے. تمہیں تو اب بہت مزے کی نیند آنی چاہیے. 

اچھا یاد آیا تمہارے پاؤں پہ پلستر ہوا ہے. درد ہو رہی ہوگی. تم نے تو کچھ کھایا پیا بھی نہیں، دوائی لی تھی. ویسے ماسی کہتی ہے کہ دوائی ہمیشہ دودھ ساتھ لینی چاہیے. 

زری کی نظر غازی کے پاؤں پر پڑی تو اسے یاد آیا. 

بڑی مہربانی کہ آپ کو یہ احساس آدھی رات کو ہی صحیح مگر ہو گیا کہ میں نے کچھ کھایا پیا نہیں ہے اور میں نے دوائی بھی لینی ہے. غازی کے جتلانے پر زریں اپنا ڈوپٹہ درست کرتی اٹھ کھڑی ہوئی. 

اچھا بتاؤ کیا کھاؤ گے میں تمہارے لیے کیا بناؤں ...... ؟؟  زری نے اپنی جمائی روکتے ہوئے غازی سے پوچھا تو اس کا میٹر گھوم گیا. 

کیا مطلب کہ کیا بناؤں کیا کھاؤں گا. ماجد جو کھانا لایا تھا وہ کہاں ہے .....؟ ؟ غازی نے حیرت سے زریں کی طرف دیکھا

وہ تو ہم نے کھا لیا ہے. زری کو تھوڑی سی شرمندگی ہوئی کہ اسے غازی کا خیال کیوں نہیں رہا.....؟؟ 

ہم نے _____ غازی نے "ہم" پر زور دیتے ہوئے پوچھا

ہاں ہم نے یعنی میں نے اور وہ تمہارے دوست نے ___  آخر وہ بھی مہمان تھا. اس نے بھی کھانا تھا .میں نے کھانا گرم کیا تو وہ بھی کھانے بیٹھ گیا. زریں کے بتانے پر غازی کا دل کیا کہ ابھی ماجد سامنے ہوتا تو وہ اس کی گردن مڑوڑ دیتا. 

الو کا پٹھا ____ میں نے اس کے لیے کھانا نہیں منگوایا تھا. غازی نے غصے سے اپنا موبائل پکڑتے ہوئے ماجد کا نمبر ڈائل کیا

اگر کھانا منگوانے لگے ہو تو میرے لیے بھی منگوانا. مجھے بھی بھوک لگ گئی ہے. زریں کی بات پر غازی نے موبائل سے نگاہ اٹھاتے ہوئے اسے گھورا

فلحال تو میں ایس ایچ او ماجد کی کلاس لینے لگا ہوں. اس کے بعد سوچتا ہوں کہ کیا کرنا ہے. ویسے میری بھوک اب مر چکی ہے. غازی نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے ادا کیا تو زری کو برا لگا مگر وہ کچھ دیر غازی کو گھورنے کے بعد کمرے سے باہر نکل گئی. 

بڑے بڑے کمینے لوگ دیکھے ہیں مگر تیرا لیول ہی الگ ہے. میں نے کھانا اپنے لیے منگوایا تھا مگر وہ آپ جناب اپنی ملازمت اور نیچر کے مطابق خود کھا گئے ہیں. اب اتنی رات کو میں کیا کھاؤں گا آپ یہ بتا سکتے ہیں ...... ؟؟  

غازی نے کال اٹینڈ ہوتے ہی ماجد سے پوچھا

لو جی اگر تمہیں اب بھی کھانا باہر سے آرڈر کرنے کی ضرورت ہے تو پھر ہم کنوارے ہی اچھے ____ غازی کے برعکس ماجد کی چہکتی ہوئی آواز سپیکر سے ابھری تو غازی کو مزید غصہ آگیا. 

ماجد بیٹے تھوڑا سا صبر کر، تیرے والی تو ویسے بھی بہت پٹاخہ ہے. اگر یہ پینڈو میرا یہ حال کر رہی ہے تو سوچ وہ تیرا کیا حال کرے گی .....؟ ؟ غازی کے سوال پر ماجد کی بولتی بند ہو گئی. 

اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ وہ مجھے چھوڑ کر جا چکی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ بھاگ گئی ہے. ماجد کا جواب سچ مچ غازی کے لیے ایک جھٹکا تھا. 

جھوٹ بلکل جھوٹ یہ کیسے ہو سکتا ہے. تُو تو اس کے بڑے صدقے واری جاتا تھا. بھلا وہ تجھے کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہے. میں نہیں مانتا، تو یقیناً مذاق کر رہا ہے. غازی کو ماجد کے سنجیدہ  لہجے پر شک ہوا. 

کچھ لوگ ہمیں اسی لیے چھوڑ جاتے ہیں کہ ہم ان کے بہت صدقے واری جاتے ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں کچھ خاص ہے اور ہم کسی کام کے نہیں، ہم ان کے بغیر رہ نہیں سکتے. اب کی بار ماجد کے لہجے میں دکھ تھا. 

مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے. تم دونوں کا تو ریلیشن شپ بہت پرانا ہے. میرا مطلب ہے کہ ____  غازی کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے اور کیا پوچھے. 

ریلیشن جتنا مرضی پرانا ہو مگر دولت میں بہت طاقت ہے. مرد ہو یا عورت اس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں. ماجد کے جواب پر غازی نے سر ہلایا

ویسے تیری بات میرے لیے ایک سرپرائز ہے. غازی نے بیڈ ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اب کی بات نارمل آواز میں کہا

اب تک کی ہر بات میرے لیے سرپرائز تھی مگر تیرے لیے بھی میرے پاس ایک سرپرائز ہے. ماجد نے کرسی پر ٹانگیں رکھتے ہوئے کہا تو غازی چونکا

میرے لیے سرپرائز، میرے لیے تو یہی بہت بڑا سرپرائز ہے جو میرے گھر میں اس وقت موجود ہے. غازی نے ہنستے ہوئے بند دروازے کی طرف دیکھا 

ُٗتو نے پوچھا نہیں کہ میرے والی کس کے پاس گئی ......؟ ؟ ماجد نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا

میری بلا سے، کسی کے بھی پاس گئی ہو. مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے. جس میں تھی وہ بیچارہ اداس بیٹھا ہے. غازی نے سر جھٹکا 

آپ کو ابھی بہت زیادہ دلچسپی ہو جائے گی. جب میں آپ کو بتاؤں گا کہ اس نے آپ کے لاڈلے، چہیتے، اکلوتے مسٹر میر سے شادی کر لی ہے. جیسے ہی ماجد کے منہ سے یہ الفاظ نکلے میر اٹھ کر بیٹھ گیا. 

ناممکن میر کی ایسی عادت نہیں ہے. وہ عورتوں کے پیچھے اپنا وقت اور پیسہ برباد نہیں کرتا. ویسے بھی وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے. وہ لڑکی تجھ سے جھوٹ بول رہی ہے. غازی نے ماجد کی بات کو رد کیا. 

کاش ایسا ہی ہوتا مگر ایسا کچھ نہیں ہے. وہ میر کے گھر میں موجود ہے. یہ کنفرم رپورٹ ہے اگر تُو چاہے تو تُو بھی تسلی کر لے. 

خیر چھوڑ دفعہ کر یہ بتا کہ تجھے کھانا آرڈر کر دوں یا خود آ کر دوں. آخر پنجاب پولیس کا کام ہی عوام کی خدمت کرنا ہے. ماجد پھیکا سا مسکرایا تو غازی کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا. 

بڑی عجیب بات ہے مگر میں نے میر کو ایسا نہیں پایا. پتہ نہیں کیا ہوا ہوگا یا اس لڑکی نے کیا کیا ہوگا.....؟؟ غازی بے یقین تھا. 

اچھا چھوڑ ان باتوں کو اور یہ بتا  کہ کیا خدمت کروں ...... ؟ ماجد نے بات بدلی

خدمت تو مجھے تیری کرنی چاہیے. تو اتنا اپ سیٹ تھا اور تو نے مجھے بتایا بھی نہیں. کیسا دوست ہے تو .....؟ ؟ غازی نے افسوس کیا تو ماجد ہنس دیا. 

بس ایسا ویسا سا ہوں. گزارا کر جب تک ہوتا ہے. ماجد کک آواز افسردہ ہوئی. 

زیادہ مجنوں بننے کی ضرورت نہیں ہے. میں ٹھیک ہو جاؤں تو پھر دیکھتا ہوں کہ تجھے کیسے ٹھیک کرنا ہے....؟؟ تب تک تو شرافت سے اپنی ڈیوٹی کر ____ غازی نے تسلی دیتے ہوئے کال بند کر دی. 

بڑی ہی کوئی گھٹیا لڑکی تھی ماجد جیسے لڑکے کو چھوڑ دیا. وہ بھی میر کے لیے اور میرا دل نہیں مانتا کہ میر نے شادی کر لی میر ایسا نہیں ہے. کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جو ماجد کی نگاہ سے پوشیدہ ہے. خیر میر سے ملاقات پر سب پتہ لگ جائے گا. غازی ہاتھ میں موبائل پکڑے ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ دروازہ کھلتے زریں ٹرے تھامے اندر داخل ہوئی. 

تمہارے کچن میں سوائے انڈوں کے اور کچھ نہیں تھا. اس لیے میں نے آملیٹ بنا دیا ہے. زری نے ٹرے غازی کے آگے رکھتے ہوئے کہا تو ایک زبردست سی خوشبو نے غازی کا استقبال کیا. 

تم کدھر جا رہی ہو .....؟ ؟ زری کو پلٹتا دیکھ کر غازی نے اسے پکارا جب کہ کھانے کی خوشبو سے اس کی بھوک مزید چمک گئی تھی. 

چائے اور پانی لینے کیونکہ تم نے دوائی بھی تو لینا ہوگی. 

زریں کہتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی جب کہ اس وقت غازی کو وہ دنیا کی سب سے اچھی لڑکی لگی. 

چلو اور کچھ نہیں تو کم از کم اس کے ہاتھ میں ذائقہ تو ہے. غازی نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے دل میں اقرار کیا. 

یہ لیں چائے اور پانی ____ زری نے چائے کے دونوں 

 کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے پانی کا گلاس غازی کے آگے  کیا. تو اس نے پکڑ لیا. 

تم نہیں کھاؤ گی، تمہیں بھی تو بھوک لگی تھی.....؟؟ غازی نے زری کو چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے دیکھ کر پوچھا

نہیں بس چائے پیوں گی ___زری معذرت کرتی کپ اٹھاتی واپس مڑی مگر بد قسمتی سے وہ غازی کے پاؤں ساتھ ٹکرا گی اور چائے اس پر گر گئی. غازی جو مزے سے کھانا کھا رہا تھا اس ناگہانی آفت پر چیخ اٹھا.

 ایک نمبر کی جاہل لڑکی ہو، تمہیں تمیز ہی نہیں ہے. 

غازی کھانا چھوڑ کر اپنا پاؤں جھاڑنے لگا تو زری  کو غصہ آ گیا. 

تم بڑے تمیزدار ہو. یہ ٹانگیں پھیلا کے کھانا کھانے کا کون سا طریقہ ہے...... ؟؟ ایک تو آدھی رات کو میں نے تمہیں کھانا بنا کر دیا اوپر سے تم مجھے جاہل بول رہے ہو. زری نے نیچے سے چائے کا گرا کپ اٹھایا اور جاتے جاتے غازی کے پلستر پاؤں کو ہاتھ مار دیا تو اس کی چیخیں نکل گئیں. 

اب پتہ چلا اسے کہتے ہیں جاہلیت ____ 

زری جتلاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی تو غازی نے بیچارگی سے اپنے پاؤں کو دیکھا

ایک بار میرا پلستر کھل جائے پھر دیکھنا میں تیری ایسی خدمت کروں گا کہ تو ساری زندگی یاد رکھے گی. غازی نے پیچھے سے آواز لگائی 

🎭🎭🎭🎭

آپ کے لیے ایک اچھی خبر ہے. غلام علی نے گل کے قریب کھڑے ہوتے ہوئے آہستہ آواز میں کہا

چلو شکر ہے کچھ تو اچھا سننے کو ملا ہے. ویسے یہ اچھی خبر کس کے متعلق ہے .....؟ ؟ گل نے خوش دلی سے غلام علی کی طرف دیکھا

سردار بیگم کے بارے میں ہے. اس دفعہ بھی میر کا وکیل عدالت میں کوئی خاص گواہ پیش نہیں کر سکا تو امید ہے کہ اگلی پیشی پر سردار بیگم چھوٹ جائیں گی اور ہمیں کسی کا احسان بھی لینا نہیں پڑے گا. غلام علی کی بات پہ سچ مچ گل کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگی

ہائے غلام علی میں تمہیں بتا نہیں سکتی کہ تم نے مجھے اس وقت کتنی خوشی دی ہے. مجھے اپنا آپ کچھ دنوں سے بہت تنہا محسوس ہو رہا تھا. سردار بیگم کے آنے سے یہ تنہائی ختم ہو جائے گی. گل نے تھکے سے لہجے میں کہا تو غلام علی کو سخت برا لگا

اب آپ میرے ساتھ زیادتی کر رہی ہیں. میں نے آپ کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑا اور آپ ____ غلام علی نے جملہ ادھورا چھوڑتے ہوئے باہر کی طرف دیکھا

غلام علی تم بھی نااااا چھوٹی چھوٹی بات پر منہ بنا لیتے ہو. میں نے کسی اور پیرائے میں کہا تھا اور تم اپنے اوپر لے گئے ہو. گل نے غلام علی کی طرف دیکھتے ہوئے وضاحت دی. 

ویسے کتنا مزہ آئے اگر سردار بیگم اگلی پیشی پر چھوٹ کر میر ویلا میں آ جائے. میر کے تو ہوش ہی اڑ جائیں گے. گل نے خود سے کہتے ہوئے غلام علی کی طرف دیکھا

سردار بیگم کبھی بھی میر ویلا نہیں آئیں گی. وہ سیدھی حویلی جائیں گی اور انہیں جانا بھی وہاں ہی چاہیے اور ان کے آتے ہی میں بھی چلا جاؤں گا. غلام علی نے ناراضگی سے گل کی طرف دیکھا

تم کیوں جاؤ گے .....؟ ؟ گل کے پوچھنے پر غلام علی نے اپنا سر جھٹکا 

یہاں رہنے کا کیا فائدہ ___  یہاں کے لوگ بہت مطلبی اور احسان فراموش ہیں. میرے ہونے یا نہ ہونے سے آپ کو یا میر کو کوئی فرق نہیں پڑتا. غلام علی کا لہجہ ناراضگی بھرا تھا. 

اچھا تو تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو .....؟ ؟ گل نے بڑے مان سے غلام علی کی طرف دیکھا 

نہیں میں آپ سے ناراض نہیں ہو سکتا مگر مجھے آپ کی بات بہت بری لگی ہے. آپ کو میرے ہوتے ہوئے بھی تنہائی کا احساس ہوتا ہے تو پھر میرے وجود کا کیا فائدہ .....؟؟ غلام علی نے گل کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے شکوہ کیا 

غلام علی ہمیں اب یہ بچوں جیسی باتیں زیب نہیں دیتیں. میں نے کہا نا کہ میں نے کسی اور پیرائے میں سردار بیگم کا ذکر کیا ہے. 

خیر چھوڑو ان فضول باتوں کو اور یہ بتاؤ کہ اس وقت میر کہاں ہے .....؟ ؟ گل کے پوچھنے پر غلام علی ایک دم چونکا

اوہ سوری میں تو بھول ہی گیا تھا آپ کو بتانا کہ غازی کا پتہ چل گیا ہے. وہ مل گیا ہے اور میر اس وقت فارم ہاؤس پر ہے. تو سوچ لیں کہ وہ یقیناً کسی خاص کام کی منصوبہ بندی کر رہا ہو گا. غلام علی کے جواب پر گل نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا

ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں .....؟ ؟ غلام علی نے کنفیوز ہوتے ہوئے پوچھا تو گل کے کھلکھلا کر ہنس دی. 

تم عمر کے اس حصے میں بھی بلش ہوتے ہو. کبھی تم نے خود پر غور کیا ہے ....؟؟ گل کے بتانے پر غلام علی مسکرا دیا. 

عمر کے اس حصے سے آپ کی کیا مراد ہے. میں تو ابھی جوان ہوں. غلام علی کی بات پر گل نے سرہاں میں ہلایا. 

یہ تو ہے خیر چھوڑو اور میری بات غور سے سنو. مجھے ابھی ابھی خیال آیا ہے کہ اگر کسی طرح ہم عابد صاحب کو یہ بتانے میں کامیاب ہو جائیں کہ اس کے اکلوتے  بیٹے کا قتل غازی نے میر کے کہنے پر کیا ہے تو کیسا رہے گا ...... ؟؟ 

سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی. میر جیل میں جائے گا تب بھی ہمارا فائدہ ہے. غازی کو سزائے موت ہوگی تب بھی ہمیں ہی فائدہ ہو گا. 

مجھے اس غازی اور حاشر سے شدید نفرت ہے. یہ میر کو ہارنے نہیں دیتے بلکہ ہر بار اس کی ہار کو جیت میں بدل  دیتے ہیں. اگر یہ دونوں نہ رہے تو میر اکیلا کچھ نہیں کر سکتا. گل نے پر سوچ انداز میں غلام علی کی طرف دیکھا

یہ تو سچ ہے کہ حاشر اور غازی دونوں میر کے بازو ہیں. مگر یہاں پر آپ غلط ہیں کہ اکیلا میر کچھ نہیں کر سکتا. میں تو کہتا ہوں کہ میر کچھ بھی کر سکتا ہے. غلام علی کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ گل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا

چلو دیکھتے ہیں کہ حاشر اور غازی کے بغیر میر کیا کر سکتا ہے .....؟ ؟ 

تم بس ایک کام کرو کسی طرح مجھے عابد صاحب کا فون نمبر لا دو ......؟ ؟ گل کی فرمائش پر غلام علی کا رنگ فق ہو گیا. 

گل آپ کیا کرنا چاہ رہی ہیں. کچھ بھی الٹا سیدھا مت کیجئے گا. میں خود دیکھتا ہوں کہ کس طرح عابد صاحب کو اس کے بیٹے کی موت کی اصل وجہ بتائی جائے. کیونکہ وہ ابھی تک اپنے بیٹے کی موت کو ایک حادثہ سمجھ رہا ہے. 

بس ایک دفعہ اس کے دل میں شک بونے کی دیر ہے

 باقی کام وہ خود بخود کر لے گا. اس کے بھی انڈر ورڈ میں بہت تعلقات ہیں. آپ کو بیچ میں پڑنے کی ضرورت نہیں. غلام علی کے منع کرنے پر گل مسکرانے لگی

تم نے مجھے اتنا بے وقوف سمجھ رکھا ہے کہ میں اس کام میں خود شامل ہوں گی ...... ؟؟ گل نے غلام علی کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا

تو پھر ____ غلام علی کے پوچھنے پہ گل نے اپنی ویل چیئر کا رخ میر کے کمرے کی طرف موڑا. 

یہ جو میر کی لاڈلی بیگم اس گھر میں آئی ہے. آخر وہ کس دن کام آئے گی. گل کی بات پر پہلے غلام علی کی حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں اور پھر وہ مسکرانے لگا

🎭🎭🎭🎭

کیسے ہو ...... ؟؟ کال اٹینڈ ہوتے ہی میر نے غازی سے پوچھا

جی ٹھیک ہوں. بس پاؤں پر زیادہ چوٹ آئی تھی تو پلستر ہوا ہے لیکن امید ہے کہ جلد چلنے پھرنے لگوں گا. غازی کے جواب پر میر نے سر ہلایا

آپ کہیں کہ آپ نے کیسے یاد کیا ....... ؟؟ غازی کے پوچھنے پر میر ہنسنے لگا

غازی مجھے تمہاری یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ تم میرے کہے بغیر ہی ساری بات سمجھ جاتے ہو. تم سمجھ تو گئے ہو گے کہ مجھے اس وقت تم سے کیا کام ہے.... ؟؟ میر کے پوچھنے پر غازی نے سامنے لگی گھڑی پر وقت دیکھا جہاں شام کے 7 بج رہے تھے. 

کس کو مارنا ہے اور کب .... ؟؟ غازی کے جواب پر میر نے قہقہہ لگایا 

تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں تمہیں کیا کہنے والا ہوں .....؟ ؟ میر نے تجسس سے پوچھا

آپ اس وقت فارم ہاؤس پر ہیں اور آپ فارم ہاؤس پر تبھی آتے ہیں جب کوئی خاص مسئلہ درپیش ہوتا ہے. دوسرا آپ نے انعام کا ذکر کیا تھا تو وہ ویسے تو نہیں ملتا نااااا ____ غازی کا جواب میر کو متاثر کر گیا. 

 تم اسی لیے مجھے بہت اچھے لگتے ہو. تم میرے بہت وفادار ساتھی ہو. میرا دایاں بازو ہو. مجھے تمہارا ہمیشہ خیال رہتا ہے. میر نے ٹہلتے ہوئے غازی کی تعریف کی. 

کام کی نوعیت بتائیں تاکہ میں دیکھ سکوں کہ میں وہ کام کر بھی سکتا ہوں یا نہیں .....؟ ؟ غازی نے اپنے پاؤں کو دیکھتے ہوئے پوچھا

غازی وہ کام تم ہی کرو گے کیونکہ تمہارے علاوہ مجھے کسی پر اعتبار نہیں ہے. میر کے جواب پر غازی خاموش ہو گیا. 

میں تمہیں ہسپتال داخل کرا دوں گا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ تم بیمار ہو اور چل پھر نہیں سکتے. پھر تم میرے بندے کے ساتھ جا کر میرا کام کر دینا کیونکہ تمہارا نشانہ زبردست ہے. میر کی بات غازی نے خاموشی سے سنی. 

مارنا کسے ہے ....؟؟ غازی کے پوچھنے پر میر نے اپنے اردگرد دیکھا

غازی تمہاری غیر موجودگی میں مجھے دوسری شادی کرنا پڑی اور اس کے پیچھے بھی ایک خاص وجہ تھی جو میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا ابھی موقع نہیں.  میر کی بات پر غازی کو ماجد کا خیال آیا. 

لیکن فی الحال اتنا سمجھ لو کہ تم نے میری دوسری بیوی کا قتل کرنا ہے. جیسے ہی میر کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے غازی کو ماجد کے لیے شدید دکھ لگا

گستاخی معاف میں نے کبھی پوچھا تو نہیں لیکن کیا آپ بتائیں گے کہ کیوں ....؟؟ غازی کے پوچھنے پر میر کو شدید حیرت ہوئی. 

کام ہونے کے بعد بتا دوں گا پہلے بتانا میرے اصول کے خلاف ہے. میر نے کہتے ہوئے کال کاٹ دی جب کہ غازی شدید تذبذب کا شکار تھا. 

🎭🎭🎭🎭

میر نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا عزین کو اپنا منتظر پایا. وہ اس کی موجودگی کو نظر انداز کرتا کوٹ اتارنے لگا

آپ کے علاوہ آپ کی چیزیں کون کون استعمال کر سکتا ہے ...... ؟؟ میر اپنی ٹائی ڈھیلی کرتا کف لنک نکالنے لگا  کہ عزین کی آواز پر رکا. 

میرے علاوہ میری چیزیں کوئی بھی استعمال نہیں کر سکتا. میر نے جواب دیتے ہوئے کف فولڈ کیے. 

آپ کو اس بات کا پورا یقین ہے. عزین سینے پہ ہاتھ باندھتی باقاعدہ تفتیشی انداز میں میر کے سامنے کھڑی تھی. 

تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے کہاں سے اتنے عجیب و غریب سوال ڈھونڈ کر لاتی ہو ....؟؟ میر نے بیزاری سے جواب دیتے ہوئے اپنے شوز اتارے. 

یہ فضول سوال آپ کے بہت کام آنے والے ہیں. خیر یہ بتائیں کہ اس کمرے کی فوٹیج دیکھے ہوئے آپ کو کتنے دن ہو گئے ہیں .....؟ ؟ عزین کا اگلا سوال میر کا میٹر گھما گیا. 

دیکھو حاشر کی اسسٹنٹ!!! میں بہت تھکا ہوا ہوں اور اس وقت مکمل آرام کرنا چاہتا ہوں. تم ایسا کرو کچھ دیر کے لیے گل کے کمرے میں چلی جاؤ بلکہ آج رات اسی پاس سو جاؤ. تمہاری مہربانی ہوگی بلکہ مجھ پہ احسان ہو گا. میر نے ننگے پاؤں کارپٹ پر چلتے ہوئے کہا تو عزین مسکرا دی. 

آپ مجھے ایک بار اس کمرے کی آج کی فوٹیج دکھا دیں پھر میں چلی جاؤں گی. عزین کے اس قدر پر اعتماد لہجے پر میر چونکا

اور اگر میں نہ دکھاؤں تو ...... ؟؟ اب کی بار میر نے عزین کے برابر کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا

تو اپ اپنی بربادی کے خود ذمہ دار ہوں گے پھر گلہ مت کیجئے گا  ____ عزین کہتی ہوئی جانے لگی کہ میر نے اس کا بازو پکڑا

ہر کسی کو میری بربادی کی فکر پڑی ہے اور اپنے آپ کی خبر نہیں ____ میر نے ذومعنی انداز میں کہتے ہوئے پینٹ کی جیب سے اپنا موبائل نکالا

یہ لو دیکھو ____ میر نے اپنے موبائل پر کیمرہ آن کرتے ہوئے عزین کی طرف کیا تو اس نے فورا موبائل پکڑ لیا. 

شام کی فوٹیج عزین نے بہت غور سے دیکھی. کمرے میں سوائے عزین کے کوئی موجود نہیں تھا. پھر گل کا کمرے میں آنا عزین سے باتیں کرنا اور چلی جانا. عزین کے ساتھ ساتھ میر نے بھی بہت غور سے فوٹیج دیکھی

ارے واہ تم دونوں سوتنوں میں تو بہت پیار ہو گیا ہے. میں تو سوچ رہا تھا ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہی ہوں گی. میر نے ہلکے پھلکے سے انداز میں طنز کرتے ہوئے موبائل عزین کے ہاتھوں سے لے لیا

اب تم میری جان چھوڑ دو تاکہ میں سکون سے کچھ پل سوچ سکوں. میر بظاہر مسکراتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا 

حاشر کے باس!!! میں آج رات تو یہیں آپ کے ساتھ آپ کے بستر پر سوؤں گی مگر کل پکا گل کے کمرے میں سو جاؤں گی. امید ہے آپ کو میرا بستر پر لیٹنا برا نہیں لگے گا. عزین کہتے بیڈ کی طرف بڑھ گئی جبکہ میر اسے چپ چاپ کھڑا گھور رہا تھا. 

لائٹ بند کر دیں مجھے بہت نیند آ رہی ہے. میر کو گھورتا دیکھ کر عزین نے کہا اور اپنے اوپر لحاف اوڑھ لیا. 

اٹھو یہاں سے اور دوبارہ میرے بستر پر لیٹنے کی کوشش نہ کرنا. میر کا صبر جواب دے گیا تھا اس نے ایک ہی جست میں کمبل عزین کے اوپر سے کھینچا. 

مجھے صوفے پر ٹھیک سے نیند نہیں آتی اس لیے آج بستر پر سونے دیں. پلیز ____ عزین نے مسکین سی شکل بناتے ہوئے میر کی طرف دیکھا تو اس کا غصہ پراسرار مسکراہٹ میں بدلہ 

ٹھیک ہے پھر نتائج کی ذمہ دار تم خود ہوگی. میر نے کہتے ہوئے کمبل چھوڑ دیا

مجھے منظور ہے ____ عزین نے جواب دیتے دوبارہ کمبل اپنے اوپر اوڑھ لیا تو میر کے ماتھے پر انگنت شکنیں نمودار ہوئیں. 

آخر ماجرہ کیا ہے ....؟؟ میر نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل کو دیکھتے ہوئے سوچا

جبکہ کمبل میں لیٹی عزین نے اچھی طرح سوچ لیا تھا کہ آج رات اسے کیا کرنا ہے .....؟ ؟ 

میری نیند اڑا کر خود کتنے مزے سے سو رہی ہے. آخر کیا تھا اس فوٹیج میں .....؟ ؟ میر نے پہلو میں لیٹی عزین کو دیکھتے ہوئے سوچا

یہ سوتی ہوئی تو خاصی پیاری لگتی ہے. کمرے میں ہیٹر آن ہونے کی وجہ سے حرارت تھی تو اس کے گالوں پر بھی سرخی چمک رہی تھی. جسے دیکھتے ہوئے غیر لاشعوری طور پر میر کا ہاتھ اسے چھونے کو بڑھا

لاحول ولا قوۃ الا باللہ ____  میر نے خود کو ڈانٹتے ہوئے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور عزین پر احتیاط سے کمبل دیتا بستر سے باہر نکلا

عورت ذات اگر چپ ہو تو اچھے خاصے مرد کا ایمان خراب کر سکتی ہے اور بولتے ہوئے دماغ ____ واہ میر کیا تحقیق کی ہے. میر نے خود کو داد دیتے اپنی چادر صوفے سے اٹھائی اور باہرنکل گیا. 

نیچے لاؤنج میں مکمل سناٹا اور خاموشی تھی. جو اس بات کو ظاہر کرتی تھی کہ سب اپنے اپنے کمروں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں.

میر دبے پاؤں چلتا ہوا باہر لان کی طرف نکل آیا. شدید سردی اور دھند کے باعث وہ زیادہ دیر لان میں ٹہل نہیں سکا تو گارڈز کے کمروں کی طرف چل دیا. 

اویس کو بلاؤ ____  گارڈز میر کو دیکھتے ہی اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوئے تو میر نے آرڈر دیتے اندر قدم رکھا. 

میر صاحب خیریت ہے آپ اس وقت کنٹرول روم میں .....؟ ؟ اویس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا تو فوراً پریشانی سے پوچھ بیٹھا

سوچو اگر خیریت ہوتی تو میں اس وقت یہاں ہوتا. مجھے اپنا کمرہ کاٹتا نہیں ہے میں وہاں آرام سے سو رہا ہوتا. جیسے ہی میر نے سرد  لہجے میں یہ جملہ ادا کیا اویس کے رنگ اڑے. 

اویس میرے اس ویلا میں ٹوٹل کتنے کیمرے لگے ہیں ....... ؟؟ میر نے ٹانگ پہ ٹانگ رکھتے ہوئے پوچھا تو اویس اس اچانک سوال کے لیے تیار نہیں تھا حیرت سے میر کو دیکھنے لگا

میں نے تمہاری بہن کا  رشتہ نہیں مانگا اس لیے اتنے پریشان مت ہو اور مجھے کیمروں کی ٹوٹل تعداد بتاؤ ....؟؟  اب کی بار میر کی آواز اونچی ہوئی تو اویس کی نظر نیچی. 

سر میرے خیال سے ٹوٹل 32 کیمرے ہیں. بالآخر اویس نے سوچتے ہوئے جواب دیا جس پر میر سر بھی ہلا نہ سکا. 

اچھا تو سکرین پہ سارے کیوں نہیں شو ہو رہے ......؟ ؟ میر نے دیوار کے ساتھ لگی بڑی ایل ای ڈی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا

سرکار دو کیمرے خراب ہو گئے تھے اور دو کو غلام علی کے حکم پر اتار دیا گیا تھا. اویس کے بتانے پر میر نے اسے ایسے دیکھا جیسے کھا جائے گا. 

اویس تم کس کے نوکر ہو. تمہیں تنخواہ کون دیتا ہے....... ؟؟ میر چلتا ہوا اویس کے قریب آیا 

سرکار آپ کا نوکر ہوں. آپ ہی کے ٹکڑوں پر میرے پورا خاندان پل رہا ہے. اویس نے ہاتھ جوڑتے عاجزی سے جواب دیا

ہمممم _____ مجھے کل پچھلے ایک ہفتے کی ساری ریکارڈنگ چاہیے. میر اویس کا کندھا تھپکتا باہر نکل آیا. مگر جاتے جاتے ایک آخری نظر ایل ای ڈی پر ضرور ڈالی کیوں کہ وہاں کچھ ایسا تھا جو اسے چونکنے پر مجبور کر رہا تھا جسے وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھا. 

اچھا تو اب یہ لوگ  میر کا کھا کر، میر کے ٹکڑوں پر پل کر، میر کے گھر میں رہ کر، میر کے ساتھ ہی غداری کریں گے. بہت سمارٹ ہو گئے ہیں. میر نے لاؤنچ میں قدم رکھتے ہوئے سوچا

کچھ دیر وہ پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے گل کے کمرے  کو گھورتا رہا پھر سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا. 

حاشر نے ٹھیک کہا تھا. لڑکی کافی سمجھدار ہے اور میرے کام بھی آئے گی. مجھے یہ بات مان لینی چاہیے. میر نے بستر میں لیٹتے ہوئے ایک دفعہ پھر پہلو میں لیٹی عزین کو دیکھا. وہ ابھی ٹھیک سے لیٹا بھی نہ تھا کہ عزین کے وجود میں ہوتی ہلچل اسے اپنی طرف متوجہ کرنے لگی. 

لو جی ادھر نیند آنے کو تیار نہیں اور اُدھر وہ سو کر اٹھنے بھی لگی ہے. عزین کو بیدار ہوتا دیکھ کر میر نے اپنی آنکھوں پر بازو رکھا جیسے سو رہا ہو. 

اف عزین کی بچی!!! اتنی دیر سوتی رہی ہے. رات گزرتی جا رہی ہے. تو اپنا کام کب کرے گی. عزین نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا جو رات کے دو بجا رہی تھی. 

چل اٹھ جلدی کر اس سے پہلے میر جاگ جائے اور تجھے اس کی فضول باتو کا جواب دینا پڑے. عزین نے پہلو میں لیٹے میر کی طرف دیکھتے ہوئے پاؤں بستر سے باہر نکالے. 

دبے پاؤں سلیپر پہنتی وہ آرام سے اٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی. دروازہ بند ہونے کی آواز پر میر نے فوراً آنکھوں سے اپنا بازو ہٹایا اور عزین کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے وہ بھی اس کے پیچھے چل دیا. 

عزین نے دبے پاؤں سیڑھیوں کو کراس کیا اور خاموشی سے گل کے کمرے کی طرف چل دی اس بات سے بے خبر کہ میر اسے فالو کر رہا ہے. 

اللہ جی پلیز بچا لینا میں ان فراڈ لوگوں میں پھنس گئی ہوں. اوپر کی طرف منہ کرتے عزین نے دعا مانگی اور آہستہ سے گل کے کمرے کے دروازے کا ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا. 

واہ جی گل بی بی تو بہت بہادر ہیں. کوئی سکیورٹی کا چکر ہی نہیں ہے. عزین نے گل کو سراہتے  ہوئے کمرے کا دروازہ آہستہ سا بند کیا اور اس کی ویل چیئر کی طرف بڑھ گئی. 

کچھ دیر وہ خاموشی سے ویل چیئر کا جائزہ لیتی رہی. پھر سوئی ہوئی گل پر ایک نظر ڈالی وہ  نیچے بیٹھ گئی. اب وہ کیا کر رہی تھی کھڑکی سے میر کو یہ دیکھنے میں مشکل تھی. 

اب پتہ چلے گا کہ گل بی بی کی اصلیت کیا ہے. صرف مجھے نہیں بلکہ ان کے لاڈلے، چہیتے اور اکلوتے شوہر نامدار کو بھی ____ عزین دل میں اپنے آپ کو داد دیتی اٹھ کھڑی ہوئی. 

شاباش عزین تُو نے تو کمال کر دیا ہے. ویل چیئر کا جائزہ لیتی عزین پلٹی مگر پھر کچھ خیال آنے پر اپنے ہی پاؤں پر گھوم گئی. 

واپس گل کے بستر تک آئی اور گل کو گھورنے لگی. گل بہت گہری نیند میں تھی. اتنی گہری کہ اس کی بھاری سانسوں کی آواز عزین آرام سے سن سکتی تھی. 

Goodnight have a sweet dreams. 

ویسے پیاری سوتن جی اب آپ کو خواب تو میرے ہی آتے ہو‌ں گے. عزین گل کی طرف دیکھتی ہوئی مسکرائی اور دروازے کی طرف پلٹی. جیسے ہی روم کا دروازہ بند ہوا گل کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ مسکراتے ہوئے بند دروازے کو دیکھنے لگی. 

کمرے میں واپس آتے عزین نے شکر کا کلمہ پڑھا اور خاموشی سے بستر پر آگئی جہاں اب میر کروٹ لیے سو رہا تھا. اس کے سلکی بال اسکے ماتھے پر بےترتیب بکھرے تھے. سوتے میں بھی ماتھے پر شکنیں تھیں. 

یہ بندے سوتا بھی سکون سے نہیں ہے. کیا پتہ خواب میں کس کی کلاس لے رہا ہے ...؟؟ عزین میر کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائی اور پھر اس کی طرف کروٹ لیتی لیٹ گئی

"میں تم کو دیکھ کے قائل ہوئی کہ لازم ہے 

تمہارے واسطے خیرات ہو، وظیفے ہوں" 

عزین میر کو دیکھتے دیکھتے ہی نیند کی وادی میں اتر گئی. اس بات سے بےخبر کہ آنے والی صبح اس کے لیے کیا سرپرائز لانے والی ہے .....؟ ؟ 

🎭🎭🎭🎭

غازی کا موبائل کب سے بج رہا تھا. کچھ دیر تو زریں سوئے ہوئے غازی کی طرف دیکھتی رہی. جب اس کی آنکھ نہ کھلی تو زریں نے اس کا فون اٹھا لیا. 

مگر اب مسئلہ یہ تھا کہ کال کہاں سے اٹینڈ کی جائے کیونکہ زری نے اس سے پہلے سمارٹ فون کبھی استعمال نہیں کیا تھا. وہ اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ موبائل بچنا بند ہو گیا. تو اس نے فون دوبارہ غازی کے سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا. اس سے پہلے کہ وہ مڑتی موبائل دوبارہ بجنے لگا

کیا مصیبت ہے. کہاں سے کال اٹینڈ ہوگی ......؟ ؟ زری نے غصے سے موبائل اٹھاتے ہوئے خود کلامی کی. بیل کی آواز کے ساتھ ساتھ جب زری کی آواز نے بھی کمرے کے سکون میں ارتعاش پیدا کیا تو غازی نے کروٹ لیتے ہوئے آنکھ کھولی. 

تمہاری جان کو سکون نہیں ہے. صبح صبح میرے سر پر سوار ہو گئی ہو. غازی نے بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوئے زری کی طرف دیکھا

ماسی کہتی ہے جو صبح صبح میرا چہرہ دیکھ لے اس کا سارا دن بہت اچھا گزرتا ہے. تمہیں میرا شکرگزار ہونا چاہیے. زری نے غازی کو جواب دیتے ہوئے اترا کر کہا

بیچارے سادہ لوگ انہیں کیا پتہ کہ تمہیں دیکھنے سے انسان کا دن کیسا گزرتا ہے ....... ؟؟ خیر میرا موبائل ادھر دو. غازی نے زری کے ہاتھ میں پکڑے اپنے موبائل کو دیکھتے ہوئے کہا

تمہارے اس موبائل کی وجہ سے میری صبح خراب ہو گئی ہے. کب سے بج رہا ہے ...... ؟؟ زری نے غازی کی طرف موبائل اچھالا جو اس کے سینے پر جا لگا

جنگلی بلی ہو تم ___  غازی نے موبائل پکڑتے چیخ کر کہا  اور مسڈ کال دیکھی. 

تمہارے پاس آتے ہی یہ کیسے خاموش ہو گیا ہے. ورنہ پہلے بہت شور مچا رہا تھا. زری کے جملے پر غازی نے چونک کے پہلے زری اور پھر اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھا

اس کے بارے میں کہہ رہی ہو .....؟ ؟ غازی نے حیرت سے پوچھا تو زری نے سر ہلا دیا. 

قسم سے حد ہے ___ غازی ہلکا سا مسکرایا 

کیا مطلب حد ہے. مجھے بھی بتاؤ اس فون پر کال کیسے اٹینڈ کرتے ہیں. مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی.....؟؟ زری کو سنجیدہ دیکھ کر غازی نے اسے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا تو وہ دھڑلے سے اس کے قریب آ بیٹھی. 

تمہیں میرے پاس آتے ہوئے ڈر نہیں لگتا .....؟ ؟ زری کے اس قدر اطمینان پر غازی کو تعجب ہوا. 

کیوں تم بندے کھاتے ہو یا تمہارے منہ سے آگ نکلتی ہے. ٹھیک سے تو چل نہیں سکتے اور مجھے ڈرانے چلے ہو. زریں نے مسکراتے ہوئے غازی کی آنکھوں میں دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا. 

اس بات کا فیصلہ وقت کرے گا کہ کون کس سے ڈرتا ہے. لیکن ابھی تم یہ سمجھ لو کہ کال کیسے اٹینڈ کرتے ہیں ...... ؟؟ غازی نے زریں کے سامنے موبائل کرتے ہوئے ماجد کو کال کی کیوں کہ اسی کی کالز پہلے آرہی تھی. 

ہاں ماجد بولو کیا بات ہے .....؟ ؟ کال اٹینڈ ہوتے ہی غازی نے پوچھا کیونکہ موبائل کا سپیکر آن تھا تو زری نے بھی بہت دلچسپی سے موبائل کی سکرین کو دیکھا جہاں ماجد کی تصویر بھی جگمگا رہی تھی. 

کیا میری تصویر بھی تمہارے موبائل پر نظر آتی ہے ...... ؟؟ زری نے بڑی حسرت سے پوچھا

نہیں موبائل کمپنی نے تمہاری تصویر بین کر رکھی ہے تاکہ بچے ڈر نہ جائیں. موبائل پر صرف خوبصورت لوگوں کی تصویریں آتیں ہیں. غازی نے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے زری کو جواب دیا تو اس کے تیور بگڑ گئے. 

جھوٹ تم جھوٹ بول رہے ہو اگر صرف خوبصورت تصویریں آتیں ہیں. تو تمہارے اس دوست کی تصویر کیسے آ رہی ہے ...... ؟؟ زری کے جواب پر غازی نے قہقہہ لگایا جبکہ دوسری طرف ماجد کا موڈ خراب ہو گیا. 

تم دونوں اپنی لڑائی میں مجھے رگڑا مت لگاؤ. ماجد کی ناراض آواز سپیکر سے ابھری تو زریں جو جانے کے لیے کھڑی ہوئی تھی رک گئی. 

کیوں رگڑا لگانا صرف پولیس والوں کا کام ہوتا ہے. میرا تو دل کرتا ہے تم دونوں دوستوں کو خوب رگڑا لگے.مجھے نہیں پتہ مجھے واپس گاؤں چھوڑ کر آئیں. زری غصے اور ناراضگی کے ملے جلے تاثرات سے کہتی کمرے سے باہر نکل گئی. 

میں نے ایک بات نوٹ کی ہے. جب سے یہ لڑکی تیری زندگی میں آئی ہے. تو نے بلاوجہ ہنسنا شروع کر دیا ہے. ماجد نے غازی کی مسکراتی اواز سنتے ہوئے کمنٹس پاس کیے. 

کیونکہ میں اس کی وجہ سے پاگل ہو رہا ہوں. ہر وقت کا ہنسنا نارمل نہیں ہوتا. یہ لڑکی میرا دماغ خراب کرتی رہتی ہے. اب کی بار غازی کی آواز میں مکمل سنجیدگی تھی. 

کیا ناااااا ایک دم ناراض ہو جاتا ہے. میں تو مذاق کر رہا تھا. ماجد کو غازی کا سنجیدہ ہونا اچھا نہیں لگا

یار میں آج سچ مچ بہت پریشان ہوں. اپنی وجہ سے نہیں پہلی بار تو نے مجھے واقع ہی پریشان کیا ہے. کچھ دیر کے وقفے سے غازی نے کہا تو ماجد چونکا

میری وجہ سے مگر کیوں ....... ؟؟ ماجد کے پوچھنے پر غازی نے ایک گہرا سانس خارج کرتے سامنے لگی گھڑی کو دیکھا

چھوڑ یہ بتا تیری دوبارہ اپنی منگیتر سے بات نہیں ہوئی. تجھے اس سے بات کرنی چاہیے تھی. شاید وہ کسی مشکل میں ہو. غازی نے بات بدلی. 

اس نے مجھے اپنی شادی کی تصویر بھیجی تھی مگر میرا دل ہی نہیں کیا اس سے کسی قسم کا کوئی سوال کرنے کو، 

وجہ واضح ظاہر ہے کہ وہ خوش ہے. ماجد نے سرسری سا جواب دیا. 

مسجد میری مان تو ایک دفعہ اس سے بات کر لے. غازی کے دوبارہ کہنے پر ماجد چونکا

کیا بات ہے. تو مجھے بار بار زور کیوں دے رہا ہے .....؟ ؟ ماجد کو تشویش ہوئی. 

دیکھ ماجد میں میر صاحب کا نوکر ہوں. وہ جو حکم دیتے ہیں میں بجا لاتا ہوں کیونکہ یہ میری نوکری ہے. میں اسی چیز کے ان سے پیسے لیتا ہوں. اس لیے کل تو مجھ سے کوئی گلہ مت کرنا. غازی نے کہتے ہوئے اپنی ٹانگیں بیڈ سے نیچے اتاریں. 

عظیم ٹھیک تو ہے نا تیری بات کا میں کیا مطلب اخذ کروں ...... ؟؟ ماجد الجھا

میری بات کا کوئی مطلب نہیں ہے. میں نے ویسے ہی کہا تھا کہ بندہ اپنے محبوب کی خبر لیتا رہے تو اچھا ہوتا ہے. خیر آج جب تو چکر لگائے گا تو ایک سٹک  لیتے آنا میں بیڈ پر لیٹ لیٹ کر بور ہو گیا ہوں. غازی نے سہارے سے کھڑے ہونے کی کوشش کی. 

تجھے کیسے پتہ کہ میں آج تیری طرف چکر لگاؤں گا .....؟؟ دوسرا تُو زری کے ہوتے ہوئے بور نہیں ہو سکتا. لہٰذا جھوٹ مت بول. ماجد کی ساری توجہ اب عزین کی طرف تھی. 

اس لیے کہ میرے گھر کا چکر لگائے بغیر تجھے روٹی ہضم نہیں ہوتی. تو نے آنا تو ہے ہی ایک لاٹھی بھی لیتے آنا تاکہ مجھے چلنے میں آسانی رہے. غازی نے دیوار کے سہارے کمرے میں چلنا شروع کیا. 

تو نے اس حالت میں کہاں جانا ہے .....؟ ؟ ابھی ایک ہفتے تک تیرا پلستر کھل جائے گا تو پھر جہاں دل کرے گا وہاں چلے جانا. میری مان تو آرام کر ____ ماجد کے مشورے پر غازی نے سر ہلاتے ہوئے کمرے سے باہر قدم رکھا. 

میں نے میر صاحب کے فارم ہاؤس پر جانا ہے. انہوں نے مجھے بلوایا ہے. تو یقیناً کوئی ضروری کام ہوگا. غازی نے جواب دیتے کچن میں دیکھا جہاں زری کچھ پکانے میں مصروف تھی اور ایک زبردست خوشبو پورے فلیٹ میں پھیلی ہوئی تھی. 

غازی میں نے تجھے آگے بھی کئی دفعہ کہا ہے. آج پھر کہہ رہا ہوں. اس میر کو چھوڑ دے. یہ تیرا بیڑا غرق کر کے چھوڑے گا. ماجد نے کہتے ہوئے کال کاٹ دی یہ اس کی ناراضگی کا اظہار تھا

فی الحال تو بیٹا وہ تیرا بیڑا غرق کرنے پر تلا ہوا ہے. غازی کا اشارہ عزین  کی طرف تھا. 

ویسے تمہارے ہاتھ میں ذائقہ ہے. کل رات کے لیے شکریہ ____ غازی نے اوپن کچن کی دیوار ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے زری سے کہا 

ابھی تم نے میرے ہاتھ کا ذائقہ چکھا ہی کہاں ہے ...... ؟؟ زری کے چہرے پر شرارت تھی. 

اگر تم انسانوں کی طرح رہو تو میرے فلیٹ میں رہ سکتی ہو. دوسری صورت میں، میں ٹھیک ہوتے ہی تمہیں واپس گاؤں چھوڑ آؤں گا. 

میں اسے دھمکی سمجھوں ...... ؟؟ زری نے مڑتے ہوئے غازی کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا. 

میں دھمکی دینے والوں میں سے نہیں ہوں. غازی نے کہتے ہوئے چولھے کی طرف اشارہ کیا تو زری نے جلدی سے آنچ ہلکی کرتے ہوئے پکوڑے پلیٹ میں نکالے. 

تم یہاں کھڑے کھڑے تھک جاؤ گے. آرام سے وہاں صوفے پر بیٹھو. میں تمہارے لیے پکوڑے لاتی ہوں. زری نے پلیٹ میں پکوڑے نکالتے ہوئے غازی سے کہا تو وہ سر ہلانے لگا

اچھا تو تم کہہ رہے تھے کہ تم کسی کو دھمکی نہیں دیتے تو پھر تم کیا کرتے ہو.....؟ ؟ زری نے غازی کے آگے پکوڑوں کی پلیٹ اور کیچپ رکھتے ہوئے اطمینان سے پوچھا

میں بندے کو مار دیتا ہوں. غازی کے لہجے اور آنکھوں میں ایسی پراسراریت تھی کہ زریں کو اس سے خوف محسوس ہوا. جب کہ وہ زری کی حالت پر مسکراتے ہوئے پکوڑے کھانے لگا

🎭🎭🎭🎭

مجھے غازی نے بار بار عزین سے بات کرنے کے لیے کیوں زور دیا ہے. وہ ٹھیک تو وہ ہے. آخر ایسا کیا ہے جو وہ مجھے بار بار اس سے بات کرنے کو کہہ رہا تھا کیونکہ غازی بلا وجہ کچھ نہیں کہتا. ماجد مسلسل اپنے پاؤں ہلاتے ہوئے غازی کی باتیں سوچ رہا تھا. 

میں اسے فون نہیں کروں گا. میں اسے کیوں فون کروں اور کس رشتے سے فون کروں. وہ اپنی زندگی میں خوش ہے. مست ہے. ماجد نے موبائل پر عزین کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے خود کلامی کی. 

لیکن غازی کہہ رہا تھا کہ ایک بار اس سے بات کر لے. کہیں میر نے اسے ____ نہیں نہیں میں کیسی فضول باتیں سوچ رہا ہوں. ماجد نے اپنی سوچ پر خود ہی جھرجھری لی اور موبائل بند کرتے ہوئے ٹیبل پر رکھ دیا. 

دل بے قرار ہو گیا ہے. جو شخص ہمیں اتنی تکلیف دے کہ ہمیں کسی دوسرے کے لیے چھوڑ جائے. یہ دل اتنا کمینہ ہے کہ پھر بھی اس کے لیے پریشان ہوتا ہے. ماجد نے خود کو کوسا. مگر اب چین کسے تھے ....؟؟ 

عزین کی آنکھ اپنے موبائل کے شور سے کھلی جو مسلسل شور مچا رہا تھا. بیڈ ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اس نے پورے کمرے کا جائزہ لیا تو میر کا دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا. ہاں البتہ اس کے پرفیوم کی خوشبو رچی بسی تھی مطلب وہ تیار ہو کر جا چکا تھا. 

تم تم کہاں تھے اتنے دنوں سے، تم نے میرے کسی میسج کا کوئی جواب نہیں دیا. عزین نے موبائل پر ماجد کا نمبر جگمگاتا دیکھ کر خوشی سے کال اٹینڈ کی. 

کیسی ہیں مسز طلال میر ____  مجھے لگا آپ مجھے بھول گئی ہوں گی .....؟ ؟ عزین کی چہکتی آواز سنتے ہی ماجد کے دل میں ایک ٹیس اٹھی. 

تم صبح صبح  اتنا فضول کیوں بول رہے ہو .....؟ ؟ میں نے تمہیں ساری بات بتائی تھی کہ یہ ایک ایگریمنٹ ہے. میں میر کا کام کروں گی اور وہ بدلے میں مجھے اچھی خاصی موٹی رقم دے گا جس سے ہم دونوں اپنی زندگی ہنسی خوشی گزاریں گے. عزین کے جواب پر ماجد سر نفی میں ہلانے لگا

ایک تو اس میر کا بیڑا غرق ہو. نہ میرے دوست کو میرے لیے چھوڑا ہے اور نہ ہی میری ____  آگے ماجد بول نہ سکا

ماجد میر برا نہیں ہے مگر اس کے ساتھ بہت برا ہوتا ہے. تمہیں میں کیا بتاؤں تم حیران رہ جاؤ گے کہ میر کے گھر میں کیا کچھ ہوتا ہے. اچھی خاصی ہالی وڈ کی ہارر مووی چلتی ہے یہاں ____ عزین اچانک پرجوش ہوئی. 

مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ میر کے ساتھ کوئی کیا کرتا ہے اور کیا نہیں اور میر کے گھر میں کیا ہوتا ہے. میں نے تو بس ویسے ہی فون کر لیا تھا کہ تم خوش ہو .....؟ ؟ ماجد کے پوچھنے پر عزین مسکرا دی. 

میں ٹھیک ہوں. خوش تو میں تمہارے ساتھ ہوں گی اور ہم دونوں بہت جلد ایک ساتھ ہوں گے. دیکھو ماجد میری بات سنو میں نے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں. عزین کے جواب پر ماجد پھیکا سا مسکرایا 

عظیم بی بی تم اپنے آپ کو تو دھوکہ دے سکتی ہو مگر مجھے نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں جو ایک بار میر کے سحر میں آگیا وہ اس سے باہر نہیں نکل سکتا کیونکہ میر کا سحر کالے جادو جیسا ہے جس کا توڑ نہیں. لہذا مجھے جھوٹی تسلیاں مت دو. ماجد تلخ ہوا. 

آئی ایم سوری ماجد میں تمہیں دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی. کیا تمہارے پاس میرے لیے وقت ہے. تم میری کچھ باتیں سن سکتے ہو. مجھے تم سے مشورہ چاہیے. اب کی بار عزین نے بہت سنجیدگی سے کہا تو ماجد چونکا

یہ وقت بھی کتنی ظالم چیز ہے. کل تک میں تم سے بات کرنے کو ترستا تھا. تم سے پوچھتا تھا تم فارغ ہو اور آج تم مجھ سے پوچھ رہی ہو. کتنی مزاحیہ بات ہے نااااا ___ ماجد کی آنکھوں میں نمی اتری. 

ماجد پلیز ____ عزین نے بے چارگی سے اسے پکارا تو ماجد نے اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا. 

اچھا بتاؤ کیا بتانا چاہتی ہو .....؟ ؟ ماجد کے کہنے پر عزین نے بولنا شروع کیا. وہ جیسے جیسے بولتی جا رہی تھی ماجد کے تاثررات بدلتے جا رہے تھے. 

🎭🎭🎭🎭

کل رات آپ کنٹرول روم  گئے تھے ......؟ ؟ ناشتے کی ٹیبل پر میر سے غلام علی نے پوچھا تو میر نے بغیر کوئی ری ایکشن ظاہر کیے کپ میں چائے انڈیلی. 

کوئی مسئلہ ....؟؟ میر نے ازلی سرد لہجے میں پوچھا

نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے. میرا مطلب  تو تھا کہ آپ مجھے بلوا  لیتے اگر آپ کو کوئی معلومات چاہیے تھی ......؟ ؟ غلام علی نے سنبھلتے ہوئے جواب دیا تو گل مسکرا دیں. 

میرے کمرے کا کیمرہ کام نہیں کر رہا بس یہی چیک کرنے گیا تھا. میر نے چائے کا سیپ لیتے ہوئے گل کی طرف دیکھا

وہ میں نے بند کروایا تھا. جب میں تمہارے کمرے میں شفٹ ہوئی تھی کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ ہماری کوئی فوٹیج بنے. غلام علی کی جگہ گل نے جواب دیا تو میر مسکرا دیا

گل آپ یہ بات مجھے بتا سکتی تھیں. میں خواہ مخواہ رات بھر اتنا پریشان رہا. اب کی بار میر کا لہجہ بہت نرمی لیے ہوئے تھا. 

میرے خیال سے میر تمہارے کمرے کی فوٹیج نہیں بننی چاہیے. اب تو بالکل بھی نہیں اور میں نے اپنے کمرے کا کیمرہ بھی بند کروایا ہوا ہے. اپ کو کوئی اعتراض تو نہیں. 

گل کے پوچھنے پر میر نے خالی کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے گل کی ویل چیئر اپنی طرف کی. 

کیا آج تک میں نے آپ پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض کیا ہے. آپ خود مختار ہیں. اس گھر کی مالکن ہیں. آپ جو چاہیں وہ کر سکتی ہیں. لیکن مجھے بتا دیا کریں تاکہ میں پریشان نہ ہوا کروں. میر نے محبت سے گل کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دیں. 

سوری ___  آئندہ خیال رکھوں گی. گل نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ میر کے ہاتھوں سے نکالا تو وہ مسکراتا ہوا اپنا موبائل اور وائلٹ میں سے اٹھانے لگا

کیا کل رات عزین میرے کمرے میں آئی تھی .....؟؟ 

گل کے سوال پر میر کا ہاتھ ایک  لمحے کے لیے رکا مگر پھر وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا. 

نہیں بھلا اس کا آپ کے کمرے میں کیا کام ہے

 وہ تو کل بہت جلدی سو گئی تھی. پھر بھی آپ اس سے پوچھ لینا شاید آئی ہو مگر مجھے نہیں لگتا. حسب عارت میر نے گل کے ماتھے پر بوسہ دیا اور آفس کے لیے نکل گیا. 

گل مجھے میر کے رویے سے ڈر لگنے لگا ہے. بہت بڑی گڑبڑ ہے. میر کے جاتے ہی غلام علی نے گل کی طرف مڑتے ہوئے کہا

گڑبڑ تو واقع ہی بہت بڑی ہے. تمہیں معلوم ہے کل رات عزین  میرے کمرے میں آئی تھی مگر میں سو رہی تھی. گل کے جواب پر غلام علی چونکا

کہیں وہ آپ کو کوئی نقصان تو  پہنچانے نہیں آئی تھی. آپ کو شور مچانا چاہیے تھا. غلام علی ایک دم پریشان ہوا. 

نہ وہ اتنی بے وقوف ہے اور نہ ہی میں ____  

مجھے بس میر کا انتظار ہے کہ وہ اس لڑکی کو کس مقصد کے لیے یہاں لایا ہے. تم آج سردار بیگم سے ملنے جاتے ہوئے میرا خط لیتے جانا. گل کہتی ہوئی اپنی ویل چیئر موڑنے لگی. 

خط تو میں لے جاؤں گا مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اپ جان بوجھ کر کیوں بے وقوف بن رہی ہیں .....؟ ؟ وہ اس لڑکی کو کسی مقصد کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے لایا ہے. غلام علی دبا دبا سا چلایا

میر اکیلا ناشتہ کر کے آفس گیا ہے اور وہ اوپر سو رہی ہے. تمہیں ان دونوں میں کہاں سے محبت دکھائی دیتی ہے ...... ؟؟ 

میرے حساب میں تو یہ ایک دوسرے سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے تو پھر وہ "اپنے" لیے نہیں بلکہ اسے "ہمارے" لیے لایا ہے. بے وقوف میں نہیں تم بن رہے ہو. گل غلام علی کو ہکا بکا چھوڑتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی. 

کیا میں اندر آ سکتا ہوں ....... ؟؟ حاشر نے آفس میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا تو میر نے اسے نظر اٹھا کر دیکھا

 میرے خیال سے تم اندر آ چکے ہو. اس لیے اب یہ پوچھو کہ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ...... ؟؟ میر نے پن ہاتھ میں گھماتے ہوئے حاشر کی طرف دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے چیئر پر بیٹھ گیا. 

بہت شکریہ ____ حاشر نے ٹائی سیٹ کرتے ہوئے میر کو دیکھا جو اسے گھور رہا تھا. 

کیا بات ہے آج کل تم نے دیکھنا کم اور گھورنا زیادہ شروع کیا ہوا ہے. گھر میں سب خیریت ہے نااااا ____ حاشر نے ٹیبل پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے فرینڈلی انداز میں پوچھا تو میر نے صرف سر ہلایا

اس کا مطلب میں یہ سمجھوں کہ گھر میں خیریت نہیں ہے. رائٹ _____ حاشر نے میر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو میر نے مسکراتے ہوئے پین ٹیبل پر پھینک دیا اور خود چیئر ساتھ ٹیک لگا کر جھولنے لگا

یار تیری اسسٹنٹ بڑی عجیب چیز ہے. مجھے اس کی سمجھ تو نہیں آئی مگر اس کی باتیں سمجھ آنے لگی ہیں. میر کی بات پر حاشر نے مسکراتے ہوئے ٹیبل سے پن اٹھایا 

میں نے تجھے کہا تھا نا کہ یہ تیرے بہت کام آئے گی. اس کے دماغ میں بہت کچھ چلتا رہتا ہے وہ بھی ایک ساتھ ____ حاشر نے سامنے پڑے پیپرز پر دائرے بنانا شروع کیے. 

میں تقریبا روز ہی کیمروں کی فوٹیج دیکھتا ہوں. خاص طور پر اپنے کے کیمرے کی لیکن اتنی عجیب بات ہے کہ مجھے آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ میرے کیمرے کی فوٹیج کو فکس کیا گیا ہے وہ مخصوص ویڈیو بار بار دکھا رہا ہے. 

میں سمجھا کہ شاید میرے کمرے میں کوئی نہیں ہوتا تو یہی آج کی ویڈیو ہے مگر کل رات عزین نے مجھے ہلا کر رکھ دیا جب اس نے کہا کہ اپنے کمرے کی فوٹیج چیک کریں. 

تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہفتے بعد میرے کمرے کی فوٹیج تبدیل ہوتی ہے. پوچھنے پہ پتہ چلا کہ گل نے فوٹیج کو فکس کروایا ہے. 

جو وجہ اس نے بتائی مجھے اس پر بالکل بھی یقین نہیں. میرے کمرے کی فوٹیج کو فکس کرنے کی یقیناً کوئی بہت بڑی اور خاص وجہ ہے. اب مجھے یقین ہوتا جا رہا ہے کہ گل بھی ان لوگوں ساتھ ملی ہوئی ہے حالانکہ میرا دل نہیں مانتا. 

اپنی بات کے آخر میں میر نے جھٹکے سے کرسی چھوڑی اور ونڈو پاس کھڑا ہو گیا. جیسے اسے سانس لینے میں دشواری ہو  یا یہ بات کہتے ہوئے اس کے دل کو بہت بری لگی ہو. 

تو اب مسئلہ کیا ہے .....؟ ؟ حاشر کو اس سارے قصے میں سمجھ نہیں آئی  کہ کس بات نے میر کو اتنا ڈسٹرب کیا ہے اور کیوں .....؟ ؟

یار جو فوٹیج کل کی میں نے دیکھی ہے. اس میں عزین اپنے کمرے میں یعنی میرے کمرے میں بیٹھی تھی. کچھ دیر بعد گل آئی دونوں نے کچھ باتیں کی اور وہ چلی گئی. میر نے کہتے ہوئے ونڈو کی بلائنڈ سائیڈ پر کی تو سورج کی روشنی آفس میں داخل ہوئی. 

تو اس میں کیا خاص ہے ...... ؟؟ حاشر کے پوچھنے پر میر نے اسے مڑ کر حیرت سے دیکھا

تم نے میری بات پر شاید غور نہیں کیا کہ میں نے کیا کہا ہے ...... ؟؟ میر نے واپس اپنی کرسی کی طرف مڑتے ہوئے کہا

میں نے تمہاری بات بہت غور سے سنی ہے. تم نے یہی بولا ناااااا کہ عزین بیڈ پر بیٹھی تھی. گل کمرے کے اندر آئی. دونوں نے کچھ باتیں کی اور پھر گل چلی گئی. اس ساری کہانی میں مجھے بتاؤ کہ عجیب کیا ہے .....؟ ؟ حاشر نے پن میر کی طرف پھینکتے ہوئے پوچھا تو میر مسکرا دیا. 

پتہ نہیں کس الو کے پٹھے نے تجھے وکالت کی ڈگری دی ہے اور تو کیسے اتنا اچھا وکیل بن گیا ہے. جب تجھے میری بات ہی سمجھ نہیں آرہی. میں نے کہا ہے کہ گل کمرے میں آئی اور پھر چلی گئی. اس ساری کہانی میں "گل" ہی عجیب ہے. میر نے سر نفی میں ہلاتے آفس کی دیوار ساتھ لگی ایل ای ڈی ان کی. 

اس فوٹیج کو ذرا غور سے دیکھ ____  میر کے کہنے پر حاشر نے مڑتے ہوئے ایل ای ڈی کی طرف دیکھا. جہاں عزین اور گل کی فوٹیج چل رہی تھی. 

اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آئی. حاشر نے فوٹیج کے ختم ہونے پر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بے بسی سے میر کی طرف دیکھا تو میر نے فوٹیج بند کر دی. 

تیرے سے کئی گناہ زیادہ تیز تیری وہ اسسٹنٹ ہے. جس کی وجہ سے میں کل رات سو نہیں سکا. میر نے اپنی کرسی پہ جھولتے ہوئے کہا

سو تو تُو کسی اور وجہ سے نہیں سکا ہوگا اور الزام مجھے دے رہا ہے. سیدھی طرح بتا دے کہ اس فوٹیج میں کیا ہے .....؟ ؟ حاشر نے جان چھڑانے والے انداز میں پوچھا

پتہ نہیں تو اتنی فضول باتیں کیسے کر لیتا ہے. میری یہاں نیند حرام ہے اور تجھے مذاق سوجھ رہا ہے. اگر تو اس فوٹیج کو غور سے دیکھتا تو تجھے پتہ چل جاتا کہ خاص کیا ہے .....؟ ؟ 

بہرحال کیونکہ اب تیرا دماغ کام نہیں کر رہا تو میں بتا دیتا ہوں کہ اس فوٹیج میں خاص بات گل کی ویل چیئر تھی.میں نے گل کے لیے یہ چیئر باہر سے منگوائی تھی اور یہ بیٹری پر چلتی ہے مگر جس وقت گل کمرے میں داخل ہوئی اس کی بیٹری چیئر ساتھ نہیں تھی.

مطلب صاف ظاہر ہے کہ گل کو اس چیئر کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تبھی اس نے بیٹری چارج نہیں کی. وہ خود چل کر کمرے تک آئی ہوگی اور کمرے کے قریب وہ چئیر پر بیٹھ گئی ہوگی. یہ میں نے اندازہ لگایا ہے کیونکہ مجھے کیمروں کی ساری فوٹیج نہیں ملی اسی لیے میں نے کہا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کی فوٹیج مجھے دی جائے. 

جو بات مجھے پچھلے ایک سال سے معلوم نہیں ہو سکی. وہ ایک دن میں تیری اسسٹنٹ نے مجھے بتا دی حالانکہ میں نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا تھا اور اس نے جو دوسری بات کی وہ پہلی بات سے بھی زیادہ عجیب ہے. 

میر کے بتانے پر حاشر نے حیرت سے میر کی طرف دیکھا جیسے اسے ان باتوں پر یقین نہیں آ رہا ہو. 

مجھے اکثر شک پڑتا تھا کہ میں جس طرح اپنی چیزوں کو کمرے میں چھوڑ کر جاتا ہوں واپس آنے پر وہ وہاں نہیں ہوتی لیکن کیونکہ فوٹیج میں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا اور میرا اپنا بھی یہی ایمان تھا کہ میرے کمرے میں کوئی نہیں آتا. تو میں مطمن ہو جاتا تھا کہ شاید میں ہی بھول گیا ہوں مگر عزین کا کہنا یہ ہے کہ میری چیزوں کو میرے علاوہ بھی کوئی استعمال کرتا ہے. 

مثلا تیری ایسی کون سی چیز ہے. جو گل کے کام آ سکتی ہے یا تیرے کسی بھی دشمن کے کام آ سکتی ہیں جبکہ کمرے میں تو اپنی کوئی خاص چیز نہیں رکھتا. حاشر کے کہنے پر میر مسکرایا 

یہی تو عجیب ہے اس کا کہنا یہ ہے کہ کوئی میرا "پرفیوم" استعمال کر کے پورے گھر میں گھومتا ہے. اب سوچنے والی یہ بات ہے کہ میرا پرفیوم کوئی کیوں استعمال کرے گا اور کس مقصد کے لیے ____ میر نے حاشر کے آگے اپنا مسئلہ رکھا. 

میرے دماغ کی دہی مت بنا اور عزین سے ہی پوچھ لے. وہ تجھے مجھ سے بہتر جواب دے گی. ویسے برا مت منانا مگر میرے خیال سے تیرے پیچھے ان دونوں کے

علاوہ ایک تیسرا شخص بھی موجود ہے. یہ کام دو لوگوں کا نہیں ہو سکتا. حاشر کے کہنے پر میر نے اس کی طرف دیکھا 

یار ایسے تو مت دیکھ، مجھے عجیب سا لگتا ہے. حاشر نے میر کے دیکھنے پر اسے ٹوکا

تجھے مجھ سے یقیناً شرم آتی ہو گی ____ میر نے ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے پوچھا 

شرم نہیں آتی، مجھے تجھ سے ڈر لگنے لگتا ہے. پتہ میر جب تو اس طرح کسی چیز کو گھور کر دیکھتا ہے تو لگتا ہے اس چیز کو آگ لگ جائے گی. حاشر کے جواب پر میر ایک دم سنجیدہ ہوا. 

حاشر میں نے سوچا ہے کہ میں اب اپنی پالیسی بدل دوں. میں اب عزین کو جیل نہیں بھیجوں گا بلکہ سردار بیگم کو اپنے پاس بلا لوں گا. 

کیا تیرا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا .... ؟؟  حاشر کو میر کی بات سخت بری لگی

محبت اور دشمنی میں سب جائز ہے. تُو فکر نہ کر سب ٹھیک ہو جائے گا. ویسے ایک گڈ نیوز بھی ہے. اب کی بار میر کے چہرے پر حقیقی خوشی تھی. 

تو باپ بننے والا ہے ____ حاشر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں جبکہ میر نے پیپر ویٹ پورے غصے سے حاشر کی طرف پھینکا جسے اس نے کیچ کر لیا

غازی مل گیا ہے اور تو جانتا ہے کہ میری زندگی میں اُس کی کیا اہمیت ہے. میر کے بتانے پر حاشر نے سکھ کا سانس لیا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا. 

ایک بات کہوں اگر تو ناراض نہ ہو تو ____ حاشر نے پیپر ویٹ دوبارہ ٹیبل پر رکھتے ہوئے فرمانبرداری سے پوچھا

نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں تو اس وقت بکواس کرنے کے موڈ میں ہیں لیکن میں سننے کے موڈ میں نہیں ہوں. مجھے بہت کام کرنا ہے. میر نے اپنے آپ کو مصروف ظاہر کرتے ہوئے کہا تو حاشر منہ بناتا چل دیا. 

🎭🎭🎭🎭

کون ہوگا اس وقت ____  گھنٹی کی آواز سنتے ہی زری نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

میری فلیٹ پر سوائے ماجد کے کوئی بھی نہیں آتا. اس لیے تم بے فکر ہو کر دروازہ کھول دو. غازی نے پکوڑوں سے انصاف کرتے ہوئے کہا تو زریں دروازہ کھولنے چل دی. جب کہ گھنٹی مسلسل بج رہی تھی شاید جناب گھنٹی سے انگلی اٹھانا بھول گئے تھے. 

یہ تمہارا "میکہ" ہے جو جب دل کیا منہ اٹھا کر آگے. یوں صبح صبح کسی کے گھر جانا ٹھیک لگتا ہے. زری نے دروازہ کھولتے ہی بڑے پیار سے پوچھا تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا

شکر کرو کہ یہ گھنٹی بیچاری بے جان ہے. ورنہ جس طرح تم نے اس کو دبا رکھا ہے اب تک وہ جہاں فانی سے کوچ کر چکی ہوتی. اس کی جان چھوڑ دو تاکہ ہمارے کانوں کو بھی سکون ملے. زری نے ماجد کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تو ماجد نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کیا. 

ماجد کچھ شرمندہ شرمندہ سا اندر داخل ہوا تو زریں نے دروازہ بند کیا. ماجد کی طرف دیکھتے ہی غازی کو ہنسی آگئی مگر وہ خاموشی سے پکوڑوں ساتھ انصاف کرتا رہا. 

تاریخ گواہ ہے کہ اس فلیٹ پر کبھی مجھے عزت نہیں ملی. ماجد منہ بناتا غازی کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گیا. 

نصیب اپنے اپنے _____ غازی نے پلیٹ ماجد کے آگے کی. 

نصیب کا تو پتہ نہیں مگر پکوڑے اپنے اپنے ____ ماجد نے کہتے ہوئے پلیٹ سے پکوڑا اٹھایا

یہ ہوتا ہے شادی کا فائدہ کم از کم بندے کو موسم کی مناسب سے کھانے تو مزے مزے کے ملتے ہیں. آج جب میں نے تیرے فلیٹ پر پہنچا تو خوشبو باہر تک آ رہی تھی. ماجد نے پکوڑا کھاتے ہوئے تعریف کی تبھی زریں ٹرے میں دو کپ چائے لے آئی. 

شکریہ بھابھی ____  زری کی طرف دیکھتے ہوئے ماجد نے کہا تو زری کے ایک دم تیور بگڑ گئے. 

میں نے کتنی بار منع کیا ہے کہ یہ بھابی شابی مجھے مت کہا کرو. میرا نام زری ہے اور مجھے اپنا نام بہت پسند ہے. زری نے گردن اکڑاتے ہوئے ماجد کی طرف دیکھا تو وہ خاموش ہو گیا. 

پارٹ ٹائم بھیک بھی مانگتے ہو حالانکہ تم پولیس میں ہو. تم لوگوں کو تو بھیک مانگنے کی خاصی ٹرینگ ہوتی ہے. سارا دن تم لوگوں کا یہی کام ہوتا ہے. پھر الگ سے اپنا بزنس کرنے کا مقصد ____ زری نے ماجد کے ہاتھ میں سٹک دیکھتے ہوئے پوچھا تو اسے پھندا لگا 

بھلا میں کیوں بھیک مانگوں گا. یہ تو آپ کے شوہر نامدار نے منگوائی ہے. ماجد نے سٹک غازی کی طرف رکھتے ہوئے جواب دیا

تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے. اس ٹوٹے پاؤں ساتھ بھی تم دن میں کتنے چکر کچن کے لگا چکے ہو. 

ارام 

آرام تو تمہاری جان کو ہے نہیں، اوپر سے سٹک بھی منگوا لی ہے. اب ٹک ٹک کی آواز سے میرا دماغ خراب کرو گے. زریں کہتی وہاں سے کمرے کی طرف چل دی. 

تمہاری بیوی کو میرا آنا اور یہ سٹک لانا دونوں ہی بہت برے لگے ہیں. ماجد  نے بند دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

بے فکر رہو اسے میں بھی بہت برا لگتا ہوں. اس لیے اس کی باتوں کو سیریس  لینے کی ضرورت نہیں ہے. کھاؤ پیو اور عیش کرو باقی تمہارے بارے میں جو بھی سوچتا ہے اسے اس کے حال پر چھوڑ دو. غازی نے کپ پکڑے تسلی دی. 

ایک تیرا فلیٹ تھا جہاں میں دھڑلے سے جب دل کیا آ جاتا تھا مگر اب لگتا ہے کہ سوچ کے آنا پڑا کرے گا. 

ماجد کی بات پر غازی نے کندھے چکائے

مرضی ہے تیری، میں نے تیرے آنے پہ کوئی پابندی نہیں لگائی. بس یہ بات یاد رکھنا. غازی کی بات پر ماجد نے سر ہلایا پھر دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی

تیری اس سے بات ہوئی کیا کہتی ہے .....؟ ؟  غازی نے اپنے اور اس کے درمیان چھائی خاموشی کو توڑا

وہی کہتی ہے جو تو کہتا ہے. تم دونوں پر میر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے. اب ایسے میں میں کیا کروں ...... ؟؟ تم دونوں کے بغیر میرا گزارا بھی نہیں اور میں تم دونوں ساتھ گزارا کر بھی نہیں سکتا. ماجد نے بچارگی سے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے چائے کا کپ پکڑا

خیر چھوڑ یہ بتا کہ میر نے تجھے اس حالت میں فارم ہاؤس پر کیوں بلایا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ تجھے چوٹ لگی ہے. 

ماجد نے اپنا کپ پکڑتے ہوئے غازی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دیا

اپنی نئی نویلی دلہن کو قتل کرانے کے لیے _____ جیسے ہی غازی کے منہ سے یہ جملہ نکلا ماجد کے منہ سے چائے پھوار کی صورت باہر نکلی. 

🎭🎭🎭🎭

کبھی کبھی انسان کا اپنی ہی گھر جانے کو دل نہیں کرتا. گھر تو وہ جگہ ہوتی ہے جہاں انسان کو سکون نصیب ہوتا ہے. وہ اس کی پناہ گاہ ہوتی ہے مگر جب اپنا ہی گھر اپنے لیے مقتل بن جائے تو وہاں جانے کو کس کا دل کرے گا ...... ؟؟ گاڑی میر ویلا کی طرف رواں دواں تھی مگر آج میر کا دل بہت اداس تھا. 

گل تو ایسی نہیں تھی. وہ تو بہت محبت کرنے والی، خیال رکھنے والی، دوسروں کو سمجھنے والی اور ان کی پریشانی محسوس کرنے والی تھی. پھر گل کو آخر کیا ہوا ..... 

؟؟ 

میں تو اپنی ساری باتیں اس سے کر لیتا تھا. اسے یقیناً کسی نے میرے خلاف بھڑکایا ہوگا اور یہ کام غلام علی تو کر نہیں سکتا. اس کا اتنا دماغ نہیں ہے. حاشر ٹھیک کہتا ہے ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا بھی ہے مگر وہ تیسرا کون ہے ...... ؟؟ 

میں جتنی جلدی اس کیس سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہوں  اتنا ہی میں اس میں الجھتا جا رہا ہوں. یہ کیس نہیں ہے بلکہ دلدل ہے. سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا ہو رہا ہے...... ؟؟ 

میں تو گل کو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ جب آپ کے پیارے آپ سے جدا ہو جائیں یا کوئی جدا کر دے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے مگر میں نے یہ تو کبھی نہیں سوچا تھا کہ گل میرے ساتھ بے وفائی کرے گی. 

اگر وہ مجھے مارنا چاہتی ہے تو وہ پھر میرے آگے آئی کیوں. اس نے شیر علی کی گولیاں مجھے لگنے کیوں نہیں دی اور وہ ساری تسلیاں دینا، میرا خیال رکھنا کیا وہ سب ایک ڈرامہ تھا.....؟؟ میر نے اپنی کنپٹی دباتے ہوئے سوچا تبھی گاڑی میر ویلاز میں داخل ہوئی. 

اللہ کرے آج گل سے سامنا نہ ہو. میں فی الحال اسے دیکھنا نہیں چاہتا کیونکہ بہت بدظن ہوں کہیں بدتمیزی نہ کر بیٹھوں. میر نے دل میں سوچتے ہوئے لاؤنچ میں قدم رکھا تو سامنے ہی گل کو عزین سے باتیں کرتے ہوئے پایا. 

کیسی ہیں ...... ؟؟ زبردستی کی مسکراہٹ منہ پر سجائے میر نے گل سے پوچھا کیوں کہ یہ اس کی روٹین تھی. 

میں تو ٹھیک ہوں مگر آج تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو. خیریت ہے. پریشان ہو، کیا پریشانی ہے .....؟ ؟ گل کے پوچھنے پر میر اس سے یک ٹک دیکھے گیا

یہ عورت مجھے کتنے اچھے سے جانتی ہے. میرے چہرے سے پہچان لیتی ہے کہ میں آج پریشان ہوں جبکہ میں نے ایسا کچھ کیا نہ کہا. میر  دل میں سوچتے ہوئے سر نفی میں ہلانے لگا

تم چینج کر لو میں کافی بھجواتی ہوں.  گل نے کہتے ہوئے مسکرا کر میر کی طرف دیکھا جبکہ عزین دونوں لو برڈز کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی. 

منافقت ان دونوں پر ختم ہوتی ہے بلکہ "خود کشی" کر لیتی ہے. عزین  نے دل میں سوچا

آپ کافی خود بنا کر بھیجے گا. میرا کسی کے ہاتھ کی پینے کو دل نہیں کر رہا. میر کہتا ہوا عزین کی طرف مڑا. 

تم میرے ساتھ کمرے میں آؤ. مجھے تم سے کچھ کام ہے. جیسے ہی میر نے عزین کو مخاطب کیا گل کے ماتھے پر کئی بل نمودار ہوئے. 

بیٹھو ____ کمرے میں داخل ہوتے ہی میر نے عزین کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود دروازہ بند کرنے لگا

لگتا ہے عزین ضرور کوئی بڑی گڑبڑ ہے ورنہ یہ شخص اتنا رومینٹک نہیں کہ اسے رومنس کرنے کے لیے دروازہ بند کرنا پڑے. میرے خیال سے پٹائی کا وقت ہوا چاہتا ہے. عزین نے دل میں سوچتے ہوئے میر کی طرف دیکھا جو اب مڑ رہا تھا. 

دیکھو حاشر کی اسسٹنٹ!!! مجھے حاشر نے کہا ہے کہ میرے پیچھے ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا شخص بھی موجود ہے. تم مجھے بتاؤ تمہارے خیال سے وہ تیسرا شخص کون ہے ...... ؟؟ میر نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

آپ صرف یہ پوچھنے کے لیے آفس اتنی صبح صبح تیار ہو کر گئے تھے کہ آپ کے پیچھے ایک تیسرا شخص بھی ہے. یہ بات تو آپ مجھ سے بھی پوچھ سکتے تھے میں اپ کو بستر پر ہی بتا دیتی. عزین کی بات پر میر نے اسے ایک آبرو اچکا کر دیکھا جب کہ لبوں پر مسکراہٹ تھی. 

میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ مجھ سے پوچھ لیتے اتنی بات تو مجھے بھی سمجھ آرہی ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا بھی ہے. عزین کو اپنے جملے کی نزاکت کا احساس ہوا تو فورا وضاحت دی

اور وہ تیسرا کون ہے ...... ؟؟ اب کی بار میر نے سنجیدگی سے عزین کی طرف دیکھا

یہ تو آپ بہتر جانتے ہیں. ایسا کون سا آپ کی کہانی کا کردار ہے جو اچانک غائب ہو گیا ہو مگر اس کی آپ سے نہ بنتی ہے ہو. عزین کے کہنے پر میر نے پر سوچ انداز میں اسے دیکھا

 ایسا کردار تو صرف ایک تھا اور وہ مر چکا ہے. میر نے خود کلامی کرنے والے انداز میں جواب دیا

کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ واقعی ہی مر گیا ہے. ہو سکتا ہے کسی نے آپ سے جھوٹ بولا ہو اور وہ زندہ ہو. عزین کے سوال پر چونک کر میر نے اس کی طرف دیکھا

ناممکن ایسا ہو ہی نہیں سکتا. وہ کردار شیر علی کا تھا. میں نے اسے خود گولیاں ماری تھیں. اس کے قتل کے الزام میں ہی تو میں جیل گیا تھا. وہ زندہ ہو ہی نہیں سکتا. 

میر نے تقریباً چیختے ہوئے کہا

ریلیکس اتنا ہائپر ہونے کی ضرورت نہیں ہے. ہو سکتا ہے اس کردار کے علاوہ بھی کوئی ہو جو فی الحال آپ کی نظر سے پوشیدہ ہے مگر ہو وہ آپ کا دشمن ____ عزین کی بات پر میر اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا جیسے خود کو نارمل کر رہا ہو. تبھی دروازے پر دستک ہوئی. 

میرے خیال سے آپ کی کافی آ گئی ہے. جسے پینے سے آپ کی طبیعت کافی بہتر ہو جائے گی اگر بہتر نہ بھی ہوئی تو سکون کی نیند ضرور آئے گی. 

اگر آپ اجازت دیں تو میں دروازہ کھول دوں. عزین نے کہتے ہوئے دروازے کی طرف قدم بڑھائے کیوں کہ میر سر ہلا رہا تھا. نوکر کے ہاتھ سے کافی پکڑتے عزین نے دوبارہ دروازہ بند کر دیا اور کافی میر کے آگے رکھ دی. 

ایک اور بات بتاؤں اگر آپ کے سر میں زیادہ درد نہ ہو تو...... ؟؟ عزین نے ہچکچاتے ہوئے میر سے کہا جو کافی کا کپ پکڑے اسے غور سے دیکھ رہا تھا

ہممممم ____ میر نے گھونٹ بھرتے ہنکار بھری. 

آپ کے کمرے کا کیمرہ گل کے موبائل ساتھ کنیکٹڈ ہے. عزین کی بات پر میر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں. 

مجھے لگتا ہے کہ میں ہاٹ ٹیک سے مروں گا اور یہ اٹیک مجھے صرف تمہاری باتوں کی وجہ سے آئے گا. میر نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے ٹانگ پر ٹانگ رکھی. جبکہ عزین نے کندھے اچکا دئیے. 

میرا نہیں خیال کہ میر طلال کا دل اتنا کمزور ہے کہ میری باتوں سے فیل ہو جائے. عزین کے جواب پر میر مسکراتا اٹھ کھڑا ہوا. 

ذہین ہو مگر افسوس کے لالچی ہو. میر داد دیتا واش روم کی طرف بڑھنے لگا کہ عزین کی آواز پر پلٹا

میں اسے تعریف ہی سمجھو گی ____ عزین کا چہرہ شرارت سے چمک رہا تھا. 

میں نے بھی تعریف ہی کی ہے. میر آنکھ مارتا پلٹا

"حسن یہ ہے کہ دل ربا ہو تم

عیب یہ ہے کہ بے وفا ہو تم" 

آپ کے لیے یہ خط گل نے دیا ہے کہہ رہی تھی پریشان مت ہوں ہم جلد ایک ساتھ ہوں گے. غلام علی نے ایک انویلپ سردار بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو انہوں نے نفرت سے انویلپ کی طرف دیکھا

تم دونوں ایک دم بیکار ہو. میں یہاں جیل میں سڑ رہی ہوں اور تم لوگ مجھے کسی چھوٹے بچے کی طرح لولی پوپ دے رہے ہو. میں سب سمجھتی ہوں. سردار بیگم نے غلام علی کے ہاتھ سے انویلپ لے کر پڑھے بغیر ہی پھاڑ دیا. 

سردار بیگم گستاخی معاف ہم بھی میر ویلا میں کوئی عیاشی نہیں کر رہے. پہلے ہر وقت اس کے وفادار کتے ہمیں سونگھتے  رہتے تھے اور اب اس کی نئی نویلی بیگم نے جینا حرام کر رکھا ہے. نہ چاہتے ہوئے بھی غلام علی کا لہجہ تلخ ہوا

ہاں تو اس میں بھی ساری غلطی گل کی ہے. اس سے ایک مرد نہیں سنبھالا گیا اور وہ کیا کرے گی ....؟؟  سردار بیگم کے جواب پر غلام علی محض انھیں دیکھتا رہ گیا. 

گل سے کہو مجھے ملنے آئے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو دوبارہ تم بھی مجھے اپنی شکل نہیں دکھانا. سردار بیگم نفرت اور غصے کے ملے جلے لہجے میں کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں. 

آپ خوامخواہ غصہ کر رہی ہیں. ہم دونوں کوشش میں تو لگے ہوئے ہیں مگر آپ میر کے دماغ سے بھی واقف ہیں. ہم دو قدم چلتے ہیں تو وہ چار قدم ہم سے آگے کھڑا ہو جاتا ہے. 

پتہ نہیں اسے کون بتا دیتا ہے کہ ہم کیا کرنے لگے ہیں. وہ تو گل کی وجہ سے بچت ہو جاتی ہے ورنہ اب تک ____ غلام علی کہتے کہتے رکا. 

میں خوامخواہ غصہ نہیں کر رہی. تم دونوں کو یہاں ایک رات بھی گزارنی پڑے تو لگ پتہ جائے. سردار بیگم نے غصے سے غلام علی کی طرف دیکھا

کیا جیلر آپ ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہا. میں ہر مہینے اسے اچھی خاصی موٹی رقم دیتا ہوں. غلام علی کے استھزائیہ پر سردار بیگم طنزاً مسکرا دی. 

تم اسے کیا دیتے ہو مجھے نہیں پتہ مگر جو مجھ تک پہنچتا ہے وہ قابل تعریف نہیں. میری اب بس ہو گئی ہے.گل سے کہہ دینا مجھے ملنے آئے. یہ نہ ہو کہ میں تم دونوں کو بھی اپنے پاس یہی بلوا لوں. سردار بیگم کے لہجے میں وارننگ تھی. 

🎭🎭🎭🎭

کہاں جا رہے ہو .....؟ ؟ غازی کو تیار ہوتا دیکھ کر زری نے پوچھا

کام پر ____  غازی نے اپنی گن لوڈ کرتے ہوئے لاپرواہی سے جواب دیا

مگر رات کو کون سا کام ہوتا ہے. میرا مطلب ہے رات کو تو سارے دفتر اور کاروبار بند ہوتے ہیں. زری نے  قدم اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا 

رات کو ہی سب بڑے کاروبار ہوتے ہیں. تمہیں کیا معلوم پینڈو لڑکی کہ رات میں کتنے بڑے بڑے کام ہوتے ہیں ....؟؟ غازی نے اپنی گن کو پینٹ ساتھ لگاتے ہوئے جواب دیا. 

اچھااااااااااااا ____ اب میں سمجھی کہ تمہاری جاب کیا ہے .....؟ ؟ زریں نے غازی کی گن کو دیکھتے ہوئے کہا تو غازی نے آبرو اچکاتے ہوئے پوچھا 

یہی کہ تو تم رات کو ڈاکے ڈالتے ہو، لوگوں کے بچے اغواء کرتے ہو اور لوگوں کا قتل وغیرہ ہے نااااا ___ 

تصدیق کے لیے زری نے غازی کی طرف دیکھا تو اس نے داد دیتے ہوئے تالی بجائی

ارے واہ تم تو اچھی خاصی ذہین ہو. میں تو سمجھا کہ تم بالکل عقل سے پیدل ہو. مگر تم نے مجھے غلط ثابت کرتے ہوئے حیران کیا ہے. اب کی بار غازی نے جیکٹ پہنتے ہوئے اس کی تعریف کی. 

کیا تمہارے گروپ میں کوئی لڑکی بھی ہے .....؟ ؟ زری نے پرچوش انداز میں پوچھا تو اب کی بار حقیقت میں غازی کو حیرت کا جھٹکا لگا

نہیں بالکل بھی نہیں ہمارے گروپ میں لڑکی کا کیا کام ہے ...... ؟؟ غازی نے نہ کرتے ہوئے مرر میں اپنے آپ پر ایک نظر ڈالی

اچھا پھر تم ایسا کرو کہ مجھے اپنے گروپ میں رکھ لو. یقین مانو میں بندہ قتل کرتے ہوئے ڈرتی نہیں ہوں. کلہاڑی سے بندہ مار دیتی ہوں تبھی تو ہمارے گھر میں کوئی نہیں گھستا تھا. پورے گاؤں والے مجھ سے ڈرتے تھے. زری کی آفر پر غازی نے اس کی طرف دیکھا

ایسے کیا دیکھ رہے ہو میں سچ کہہ رہی ہوں. .....؟ ؟ 

اگر تمہیں یقین نہیں ہوتا تو بے شک گاؤں والوں سے پوچھ لو. زری نے غازی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس سے یقین دلانا چاہا

مجھے یقین ہے کسی سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں. چلو اب ہٹو آگے سے ____غازی نے سٹک کے سہارے چلتے ہوئے ہاتھ سے زری کو پیچھے کیا

میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی. جب سے گاؤں سے آئی ہوں. تم نے مجھے شہر نہیں دکھایا. میں یہاں بور ہو جاتی ہوں. زری نے اس کا راستہ روکا

میں تمہاری بوریت کا ذمہ دار نہیں اور میرا دماغ مت خراب کرو. کام پہ جاتے ہوئے مجھے کوئی روکے یا ٹوکے تو میرا دماغ خراب ہو جاتا ہے. غازی نے زریں کے ماتھے کو اپنی دو انگلیوں سے ٹھوکتے ہوئے غصے سے کہا

نارمل حالت میں بھی تمہارا دماغ خراب ہی رہتا ہے مگر آج رات میں گھر پر اکیلی نہیں رہوں گی میں تمہارے ساتھ جاؤں گی. زریں کی ہٹ دھرمی پر غازی کا خون کھولنے لگا

تم کیوں چاہتی ہو کہ میں تمہارا حلیہ بگاڑ دوں جبکہ میں فی الحال اس موڈ میں نہیں. غازی نے خود پر قابو پاتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا

اگر تم اپنے اوپر نظر ڈالو تو فی اللہ تمہارا حلیہ کافی بگڑا ہوا ہے مگر پھر بھی کوشش کر کے دیکھ لو. میری گارنٹی ہے کہ تمہیں بہت مایوسی ہوگی کیونکہ میں تمہارے شہر کی لڑکیوں جیسی نہیں. میں بندے کو چیر کے رکھ دیتی ہوں ہاتھ تو لگائے کوئی ___ زری کا لہجہ اور اعتماد غازی کو سوچنے پر مجبور کر گیا. 

اچھا ٹھیک ہے. آج گزارہ کر لو. کل سے میں سوچوں گا. ابھی میں تھوڑا جلدی میں ہوں. ایک بہت ضروری کام کرنا ہے. وہاں میں تمہیں نہیں لے جا سکتا. غازی نے نرم پڑتے ہوئے کہا 

اچھا کتنی دیر میں واپس آؤ گے ....... ؟؟ زری نے اداسی سے پوچھا

دو گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے. غازی نے اپنی گھڑی پر نظر مارتے ہوئے بیزاری سے جواب دیا

چلو ٹھیک ہے اگر تم دو گھنٹے تک واپس نہ آنے تو میں باہر نکل جاؤں گی. پھر نہ کہنا کہ کہاں گئی ......؟ ؟ زری کا جواب غازی کو اشتعال دلا گیا

خبردار جو تم نے ایک قدم بھی یہاں سے باہر نکالا، تو میں تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا. تم مجھے مجبور نہ کرو کہ میں تم سے وہ سلوک کروں جو میں کرنا نہیں چاہتا. غازی نے زریں کا بازو دبوجتے ہوئے انتہائی غصے سے کہا

تو پھر مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ. مجھے بڑا شوق ہے دوسروں کا قتل دیکھنے کا ___ میں جانتی ہوں تم کسی ایسے ہی کام پر جا رہے ہو. زری کی فرمائش پر غازی نے کمرے میں نظر دوڑائی تو اسے سائیڈ پر پڑی زنجیر نظر آئی. 

اچھا ٹھیک ہے ایسا کرو وہ زنجیر اٹھا کر لاؤ. پھر چلتے ہیں. غازی نے انتہائی نرمی سے کہا تو زری چپ چاپ زنجیر اٹھانے چل دی

یہ لو ___  جیسے ہی زری نے زنجیر غازی کے آگے کی اسے سمجھ ہی نہیں لگی کہ کیسے غازی نے اس کا بازو موڑتے ہوئے زنجیر لپیٹ دی. 

جنگلی انسان چھوڑو مجھے، تم ایسا نہیں کر سکتے. درد کی شدت سے بلبلاتے ہوئے زری نے چیخ کر کہا جب کہ اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں. 

اب تم آرام سے ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھ کر ڈرامے دیکھو. جب تک میں واپس آتا ہوں. پھر اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ کون کتنا جنگلی ہے .....؟ ؟ غازی نے زری کو باہر لاتے ہوئے ٹی وی لاؤنچ کے صوفے پر دھکیلا

میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی. تم غلطی کر رہے ہو. زری نے بے بسی سے اپنا اپ چھڑانا چاہا

فی الحال تو میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں دوسرا میں کبھی غلطی نہیں کرتا. اور اگر تم نے اپنا منہ بند نہ کیا تو میں اس کا بھی بندوبست کر کے جاؤں گا. غازی نے انگلی اٹھاتے ہوئے وارننگ دی تبھی اس کے موبائل پر میر کی کال آنے لگی. 

اچھا سنو ایک ہاتھ کھول دو. مجھے پیاس بھی لگ سکتی ہے میں نے واش روم بھی جانا ہوگا. اب کی بار مسکین سی صورت بناتے ہوئے زری نے غازی کی طرف دیکھا

بہت مکار لڑکی ہو. تم ایک منٹ میں کئی رنگ بدلتی ہو. دو گھنٹے پانی نہیں پیو گی تو مر نہیں جاؤ گی. غازی نے ماجد کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے جواب دیا

پلیز  ___ زری کا لہجہ التجائیہ تھا تو غازی کو اس پر ترس آگیا 

اچھا ٹھیک ہے پھر میں تمہارا پاؤں ٹیبل ساتھ باندھ دیتا ہوں. کیونکہ مجھے تم پر ذرا برابر بھی اعتبار نہیں. غازی نے کہتے ہوئے سٹور کی طرف قدم بڑھائے. 

اب اس رسی کا کیا کرو گے .....؟ ؟ غازی کے ہاتھ میں رسی دیکھ کر زری نے پریشانی سے پوچھا

حیرت ہے کہ تم بھی اس کا استعمال پوچھ رہی ہو حالانکہ تم میرے سے بہتر اس کا استعمال جانتی ہو. میں اپنی بھینس باندھنے لگا ہوں تاکہ وہ میرے گھر کا ستیا ناس نہ کرے. غازی نے کہتے ہوئے زری کا پاؤں پکڑا. 

اب ٹھیک ہے. غازی نے زری کا پاؤں ٹیبل ساتھ باندھتے ہوئے اس کے ہاتھ کھول دیے. جس پر وہ غصیلی نظروں سے اسے گھورنے لگی. 

اب تم مجھے ایسی نظروں سے نہ دیکھو کہ میں کام پر ہی نہ جا  سکوں. غازی نے کہتے ہوئے ایک آنکھ ونک کی اور زری کے پاس سے اٹھ گیا. 

🎭🎭🎭🎭

مگر اس طرح وہ مریں گی نہیں بلکہ صرف زخمی ہوں گی. غازی نے میر کی بات سنتے ہوئے اپنی رائے دی تو میر مسکرانے لگا

میں فی الحال اسے مارنا بھی نہیں چاہتا صرف ڈرانا ہے. مگر اتنا کہ یہ ڈر اس کے ذہن پر سوار ہو جائے. میر نے سگریٹ کا کش لیا. 

ٹھیک ہے جو آپ کا حکم ___ غازی سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا. 

غازی مجھے تمہاری یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ تم فالتو کے سوال نہیں پوچھتے بلکہ صرف حکم بجا لاتے ہو. میر نے سگریٹ پھینکتے ہوئے کرسی ساتھ ٹیک لگائی

مجھے فالتو بولنا پسند نہیں. میں صرف اپنے کام سے کام رکھتا ہوں. غازی نے پاس جلتے الاؤ کی طرف دیکھا 

ہمممم ____ اسے لیے تو میں تمہیں بہت پسند کرتے ہوں. مجھے تم میں اپنا آپ دکھائی دیتا ہے. میر نے آگے جھکتے ہوئے آگ پر اپنے ہاتھ سے سیکے. 

ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں. جیسا آپ نے کہا ہے بالکل ویسا ہی ہوگا. یقین رکھیے گا. غلطی کی کوئی گنجائش نہیں. کیونکہ میں غلطی نہیں کرتا. غازی کہتا ہوا پلٹا

مجھے پتہ چلا ہے کہ تم نے شادی کر لی ہے. میر کی آواز پر غازی کے جاتے قدم رکے. 

آپ نے ٹھیک سنا ہے مگر میں نے شادی کی نہیں بلکہ میری کروائی گئی ہے. غازی نے پلٹتے ہوئے جواب دیا تو میر مسکرانے لگا

میری ذاتی رائے میں بہادر لوگوں کو شادی نہیں کرنی چاہیے. یہ عورت ذات مرد کو کمزور بنا دیتی ہے. میر کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا

اب دیکھنا تم وہ لڑکی تمہیں کیسے روز بہانوں بہانوں سے ڈرایا کرے گی اور تم جلد ہی یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے شریف شہری کی طرح زندگی گزارنے لگو گے. یہاں تک کہ تمہیں ایک پٹاخہ پھوڑنے سے بھی ڈر لگے گا. میر نے کہتے ہوئے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا اشارہ کیا

یہ تو ہے. عورت ذات بزدلی کا دوسرا نام ہے. میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں. غازی کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی جس نے میر کو کنفیوز کیا. 

خوش ہو .....؟ ؟ میر کے پوچھنے پر غازی کا بے ساختہ قہقہہ نکلا

اپ تو یوں پوچھ رہے ہیں جیسے پہلی بار لڑکی شادی کے بعد میکے آئے تو اس کی ماں پوچھتی ہے. غازی نے سر جھٹکتے ہو میر کی طرف دیکھا 

جو بھی ہے تمہاری شادی کا گفٹ مجھ پر ادھار ہے. بتاؤ میں اپنی پسند سے دوں یا تم اپنی پسند کا لو گے .....؟ ؟ میر نے کھلے دل آفر کی. 

آپ جانتے ہیں میری ہیوی بائیک حادثے کا شکار ہو گئی تھی. غازی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا

صبح تک تمہارے فلائٹ پر پہنچ جائے گی. میر نے غازی کا کندھا تھپکا 

ویسے اس لڑکی میں کچھ تو خاص ہوگا کہ تم چپ چاپ راضی ہو گئے ورنہ تم کتا بھی اپنے فلیٹ پر نہیں رکھتے. خاصے تنہائی پسند ہو. میر کے لہجے میں طنز تھا. 

بالکل عام سی ہے. کچھ بھی خاص نہیں اس میں ___ غازی کے اقرار پر میر کو حیرت ہوئی. 

تم جیسا بہادر اور نڈر انسان کیسے ایک کمزور ڈرپوک لڑکی ساتھ گزارا کرے گا. یہ تو شیر اور چوہے والی جوڑی ہوئی. 

میر غازی ساتھ چلتا ہوا اپنی گاڑی تک کی آیا. 

بات تو آپ کی ٹھیک ہے. میں خود بھی پریشان ہوں. میں تو گن کا استعمال کرتا ہوں بندوں کو مارنے کے لیے مگر وہ کلہاڑی سے بندوں کے ٹکڑے کر دیتی ہے. غازی نے سرسری انداز میں کہا تو میر جو گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا ٹھٹکا. 

واقعی ہی ____ حیرت کی زیادتی سے میر نے غازی کو دیکھا

میری مانیں تو اپنی بیگم کے لیے اسے ہی ہائر کر لیں. اس کی خوبیاں کا اندازہ بھی ہو جائے گا اور اسے تجربہ بھی ____ غازی کا جواب میر کو مسکرانے پر مجبور کر گیا. 

سوچتے ہیں. بات اتنی بری نہیں ___ میر ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا تو غازی سر جھٹکتا ٹائم دیکھنے لگا

🎭🎭🎭🎭

میری نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا تو اسے ویرانی کا احساس ہوا. جس پر وہ حیرت سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا. کمرے کی ہر چیز اپنی جگہ پر سلیقے سے پڑی تھی. 

سب کچھ اپنی جگہ پر ہے تو کمرہ اتنا خالی خالی کیوں لگ رہا ہے ....؟؟ میر خود کلامی کرتا ہوا الماری کی طرف بڑھا 

اپنے کپڑے لیتے ہوئے وہ واش روم کی طرف بڑھا تو صوفے پر پڑے عزین کے ڈوپٹے پر اس کی نظر پڑی جس نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا. 

اچھا تو یہ آفت کی پڑیا آج گل کے کمرے میں ہے تبھی میرے کمرے میں اتنا سکون ہے. غیر لاشعوری طور پر میر نے عزین کا دوپٹہ پکڑتے ہوئے اوپر رکھا اور خود واش روم میں چلا گیا. 

بلو کلر کا ٹریک سوٹ پہنے. وہ تولیے سے بال رگڑتا ہوا آئینے کے آگے کھڑا اپنا جائزہ لے رہا تھا. کہ اچانک بڑے دنوں بعد اسے آئینے نے مخاطب کیا

کیوں میر نیند نہیں آرہی یا تنہائی ستا رہی ہے .....؟ ؟ میر کو اپنا عکس طنز کرتا محسوس ہوا. 

مجھے آغا جان کی وفات کے بعد سے نیند نہیں آتی اور تنہائی سے میں نے ڈرنا چھوڑ دیا ہے. میر نے فوراً اپنی صفائی دی جیسے آئینے نے اس کی کوئی چوری پکڑ لی ہو. 

نہیں میر تم اس وقت جھوٹ بول رہے ہو. تمہارے الفاظ تمہارے چہرے کا ساتھ نہیں دے رہے. عکس نے پھر طنز کیا

میں کیوں جھوٹ بولوں گا. مجھے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں. میر نے غصے سے تولیا کرسی پر پھینکتے ہوئے دو قدم پیچھے لیے. 

تم عزین کی کمی کو محسوس کر رہے ہو. تمہیں اس کے وجود کی عادت ہو گئی ہے. اب بار عکس میر پر قہقے لگانے لگا تو میر نے ہمیشہ کی طرح پاس پڑا گلدان اٹھایا اور زور سے آئینے پہ دے مارا. چھن کی آواز ساتھ وہ کئی ٹکڑوں میں تبدیل ہوا. 

میر کو کسی کی ضرورت نہیں. میر اپنے لیے خود ہی کافی ہے. میر کہتا ہوا لحاف اوڑھتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گیا. مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی. گھنٹہ بھر وہ بستر پر کروٹیں بدلتا رہا پھر تھک کر ٹیرس کی طرف چل دیا. 

ہوا میں خنکی تھی. ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے میر نے اپنے آپ کو گرم چادر میں لپیٹا اور ریلنگ ساتھ ٹیک لگا کر باہر جلتی بجتی روشنیوں کو دیکھنے لگا.

کافی _____ آواز پر پلٹا تو وہ ہاتھوں میں کافی کے کپ لیے کھڑی تھی. 

شکریہ ___ میر نے کہتے ہوئے کافی کا کپ تھام لیا تو وہ بھی تھوڑے سے فاصلے پر ریلنگ ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی. 

آپ نے اپنے گھر کو آخری دفعہ کب دیکھا تھ ا.....؟؟ کافی کا گھونٹ بھرتے میر نے عزین کے سوال پر اسے حیرت سے دیکھا

حاشر کی سسٹنٹ!!! میرا دماغ خراب مت کرو. کافی بنانے کا شکریہ میر کا لہجہ ازلی سرد پن لیے ہوئے تھا

میں نے آپ سے بالکل سنجیدہ سوال کیا ہے کہ آپ نے آخری بار اپنے گھر کو کب دیکھا تھا ....؟؟ عزین نے کافی کا گھونٹ بھرتے اطمینان سے اپنا سوال دہرایا تو میر کے ماتھے پر بل پڑے

میں اپنے گھر کو روز دیکھتا ہوں. کب سے کیا مراد ہے ....... ؟؟ میر نے باقاعدہ جارحانہ انداز میں عزین کو دیکھتے ہوئے جواب دیا تو وہ مسکرا دی

اچھا پھر تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے گھر کی بیک سائیڈ پر جو سٹور ہے اس میں کون رہتا ہے ...... ؟؟ عزین نے کافی کا گھونٹ بھرتے چیلنجنگ انداز میں پوچھا

میرے گھر کی بیک سائیڈ پر صرف سرونٹ کوارٹرز ہیں اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سرونٹ کوارٹرز میں نوکر رہتے ہیں اور میں نوکروں کے گھر نہیں جاتا. میر نے جتلایا

پھر میں آپ کے معلومات میں تھوڑا سا اضافہ کر دوں کہ ان کوارٹرز کے ساتھ ایک سٹور بھی ہے. عزین نے گھونٹ بھرتے جواب دیا

اچھا پھر تو تمہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ اس میں کون رہتا ہے...... ؟؟ میر نے طنزاً پوچھا

جی بالکل میں اچھے سے جانتی ہوں کہ سٹور میں کون رہتا ہے .....؟ ؟ عزین نے کافی ختم کرتے ہوئے میر کی طرف دیکھا

جب تم سب جانتی ہو تو مجھ سے سوال کیوں پوچھ رہی ہو ....؟؟ میر نے اپنا کپ خالی کرتے ہوئے عزین کی طرف کیا

ایک کپ اور کافی پییں گے ...... ؟؟ عزین نے میر سے کپ پکڑتے ہوئے پوچھا

نہیں میں رات کو اتنی کافی نہیں پیتا بلکہ پیتا ہی نہیں ہوں. سر میں درد تھا اس لیے پی لی. میر نے باہر دیکھتے ہوئے جواب دیا 

میرے جواب کے بعد آپ کو کافی کی ضرورت پڑے گی. اس لیے میں ایک کپ اور بنوا کر بھجوا دیتی ہوں. عزین نے اندر کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا تو میر چونکا

اس سٹور میں وہ تیسرا شخص رہتا ہے. عزین کہتی ہوئی چل دی جبکہ میر اس کی بات کو سمجھنے لگا

تیسرا شخص ____ میر نے زیر لب دہرایا تو ساتھ ہی اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اس سے پہلے کہ وہ عزین کو پکارتا وہ وہاں سے جا چکی تھی

🎭🎭🎭🎭

تیسرا شخص  ___ کون ہو سکتا ہے تیسرا شخص ...... ؟؟ میر نے کہتے ہوئے تیزی سے قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھائے. 

رکو میری بات سنو. اس سے پہلے کہ عزین کمرے سے باہر نکلتی میر کی آواز پر رکی. 

تم ایسے آدھی ادھوری بات چھوڑ کر نہیں جا سکتی. مجھے بتاؤ کہ تیسرا شخص کون ہے اور اُس سٹور میں کون رہتا ہے ....... ؟؟ میر نے عزین کے مقابل کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا

وہ تیسرا شخص کوئی اور نہیں بلکہ آپ خود ہیں. عزین نے مسکراتے ہوئے اپنی انگلی سے میر کی طرف اشارہ کیا

یہ کیا بکواس ہے. میں اس طرح کا مذاق پسند نہیں کرتا. میر نے غصے سے پلٹتے ہوئے کہا

میں سچ کہہ رہی ہوں. وہ تیسرا شخص کوئی اور نہیں بلکہ "آپ " خود ہیں. آپ "سپلٹ" پرسنلٹی رکھتے ہیں. یہ ایک نفسیاتی بیماری ہوتی ہے.جس میں آپ مبتلا ہیں. 

آپ اپنے آپ کو "ہیرو" سمجھتے ہیں مگر اصل میں اس کہانی کے "ولن" آپ خود  ہیں. گل یا کسی اور میں کوئی خرابی نہیں اگر خرابی ہے تو وہ آپ کی اپنی ذات میں ہے. عزین نے کافی کپ صوفے پر رکھتے ہوئے اپنے سینے پر بازو باندھے

تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہاری اس بکواس میں آ جاؤں گا. نہ تو مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ ہی میں کوئی ایسی پرسنلٹی رکھتا ہوں. لہذا اپنی یہ فضول باتیں بند کرو اور میرے کمرے سے نکل جاؤ. میر کی برداشت اب جواب دے گئی تھی. 

اچھا اگر ایسا ہے تو اس مرر کو کیا ہوا ........ ؟؟ عزین نے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا جہاں کارپٹ پر کانچ کے چھوٹے چھوٹے انگنت ٹکڑے بکھرے پڑے تھے

ٹوٹ گیا ہے اور شیشے کا ٹوٹنا کوئی بڑی بات نہیں. نازک ہوتا ہے زرا سی چیز لگنے پر ٹوٹ جاتا ہے. میر نے جوتے کی نوک سے بکھرے ٹکروں کو سائیڈ پر کرنا شروع کیا. 

یہ نارمل نہیں ہے اور نہ ہی یہ شیشہ خود بخود ٹوٹ جاتا ہے اگر ایسا ہو تو مہینے میں دو تین بار یہ شیشہ نہ ٹوٹے. میں آپ کو بتاتی ہوں کہ شیشہ کیسے ٹوٹتا ہے .....؟ ؟ 

کیسے .....؟؟ میر نے عزین کی طرف مڑتے ہوئے طنزاً پوچھا

آپ کو شیشے میں اپنا عکس بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے. جس پر آپ کو غصہ آ جاتا ہے اور آپ شیشے کے ٹکڑے کر دیتے ہیں. ایسا ہی ہے نااااا ____ عزین کی بات پر میر کے چہرے پر ایک سایہ لہرا گیا. 

نارمل انسان کو اپنا عکس بولتا ہوا دکھائی نہیں دیتا بلکہ وہ صرف اپنے عکس کو دیکھ کر مڑ جاتا ہے. جبکہ آپ کے اندر پائے جانے والی دوسری شخصیت آپ کو شیشے میں واضح دکھائی دیتی ہے. 

وہ آپ سے باتیں کرتی ہے اور آپ ایگریسو ہو جاتے ہیں اور اس اگریسو پن میں آپ کیا کچھ کر گزرتے ہیں آپ کو خود بھی پتہ نہیں چلتا. عزین کی باتوں پر میر نے ہلکا سا سر ہلایا اور اس کی طرف قدم بڑھانے لگا

ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ سٹور چلو. میر نے عزین کا بازو پکڑتے تقریباً اسے اپنے ساتھ گھسیٹا

باہر بہت سردی ہے. دن میں دیکھ لیجئے گا. وہ سٹور کہیں نہیں جائے گا اور وہاں آپ کے علاوہ کوئی جاتا بھی نہیں ہے. اس لیے بے فکر رہیں. عزین نے اپنا آپ چھڑاتے ہوئے احتجاج کیا

منہ بند کرو. تم نے آگے ہی دماغ خراب کر دیا ہے. میں ایسا نہیں ہوں جیسا تم نے ابھی جال ُبنا ہے. تم انتہائی شاطر لڑکی ہو. میری سوچ سے بھی زیادہ، اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم میری میڈیکل رپورٹ بنوا کر یہ ساری جائیداد اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گی تو تم انتہائی بے وقوف ہو. 

تم جیسی لالچی لڑکی دولت حاصل کرنے کے لیے ایسا بھی کر سکتی ہے میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا. تم جتنا مرضی زور لگا لو مگر تم مجھے بیمار ثابت نہیں کر سکتی. سمجھی!!! میر نے اسے اپنے ساتھ گھستے ہوئے سٹور کے دروازہ پہ لا کھڑا کیا. 

مجھے ایک ذہنی بیمار انسان سے اس سے زیادہ کی امید بھی نہیں تھی. عزین نے اپنا بازو میر سے چھڑاتے ہوئے اسے سہلایا جب کی آنکھوں میں شدید غصہ تھا. 

کھولو اسے ____ میر نے دروازے پر لگے تالے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی سرد لہجہ میں کہا 

حاشر کے باس!!! اس تالے کی چابی آپ کے پاس ہے. اگر یقین نہیں آتا تو آپ ابھی اپنے گارڈ کو فون کریں اور اسے کہیں کہ آپ کی چابیوں والا گھچھا لائے. اسی میں اس سٹور کی چابی بھی موجود ہے. عزین کی بات پر میر نے سیٹی بجاتے ہوئے دور کھڑے گارڈ کو قریب آنے کا اشارہ کیا. 

حاشر کی اسسٹنٹ!!! یاد رکھنا اگر یہ بات جھوٹ ثابت ہوئی تو میں تمہارا وہ حشر کروں گا کہ تم یاد رکھوں گی. 

میری دشمنی بہت مشہور ہے. گارڈ کے قریب آنے پر میر نے اسے چابیوں کا گچھا لانے کا کہا جس پر وہ اپنے قدموں پہ مڑ گیا. 

تمہیں کیسے پتہ کہ چابی میرے پاس ہے .....؟ ؟ میر کے پوچھنے پر عزین مسکرا دی جب گارڈ چابیوں کا گھچا لیے ان کی طرف بڑھا

حاشر کے باس!!! میرے اوپر کی منزل خالی نہیں ہے. عزین نے کہتے ہوئے گارڈ سے چابیاں لی اور دروازہ کھولنے لگی. 

جیسے ہی میر نے کمرے میں قدم رکھا. اس کے اپنے پرفیوم کی تیز خوشبو نے اُس کا استقبال کیا. عزین نے بورڈ پہ ہاتھ مارتے ہوئے لائٹ آن کی تو پورا کمرہ جگمگانے لگا

یہ تو سٹور نہیں ہے. میر نے پورے کمرے میں نگاہ گھماتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا جو دروازے ساتھ ٹیک لگائے اسے ہی دیکھ رہی تھی. 

جی بالکل یہ سٹور نہیں بلکہ میر طلال کا خفیہ کمرہ ہے. یہاں کی ہر چیز میر طلال کی گواہی دے رہی ہے. بیڈ شیٹ سے لے کر آپ کے سلیپنگ ڈریس تک، پرفیوم، برش، جیکٹ، سلیپر، تولیا، گھڑی ____عزین انگلی سے اشارہ کرتی ایک ایک چیز گنوا رہی تھی. 

آپ کو یاد ہوگا ایک دفعہ میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ "کیا آپ کی چیزیں کوئی اور بھی استعمال کرتا ہے." 

تو جو جواب آپ نے مجھے دیا تھا وہ تو معلوم ہے نااااا ____ عزین کی بات پر میر کمرے میں ٹہلتا چیزیں دیکھنے لگا

چیزیں تو میری ہی ہیں مگر یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو میں نے ردی کر دی تھی. میں ان کو استعمال نہیں کرتا. میر نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا. 

آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ آپ ایک بیمار انسان ہیں اور آپ کو علاج کی ضرورت ہے اور تیسرا شخص کوئی اور نہیں بلکہ آپ ہی ہیں. یہ کمرہ آپ کے استعمال میں ہے ورنہ کبھی بھی اتنا صاف ستھرا نہ ہوتا. عزین کی باتوں پر میر مسکراتا ہوا صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا اور قدم قدم چلتا عزین کے قریب آ رکا. 

اچھی کہانیاں بنا لیتی ہو اور جال بھی اچھا بُنتی ہو. یقیناً تم شطرنج کی بہترین کھلاڑی ہوگی مگر میرا نام میر طلال ہے صبح ملتے ہیں. میر نے عزین کا گال تھپکتے ہوئے کمرے سے باہر قدم رکھا. 

بہت مشکل ہے کسی ذہنی بیمار کو اس بات کا یقین دلانا کہ وہ بیمار ہے. خاص طور پہ تب جب وہ اپنی طرف سے بہت قابل ہو. شب بخیر

میر نے جیسے ہی کمرے سے باہر قدم رکھے عزین کی آواز اس کے کانوں میں پڑی جس پر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ پلٹا. 

بہت مشکل ہے ایک لالچی لڑکی کو اس بات کا احساس دلانا کہ اس کی چھوٹی سی لالچ دوسروں کی زندگی برباد کر سکتی ہے. شب بخیر

میر کہتا ہوا پلٹ گیا تو عزین نے ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا اور لائٹ آف کرتے کمرے کو لاک لگا دیا. 

🎭🎭🎭🎭

غازی نے جیسے ہی فلیٹ میں قدم رکھا . اسے اس بات کا فوراً احساس ہوا کہ ٹی وی لاؤنچ میں کوئی موجود نہیں ہے. جس پر وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھا

یہ کہاں گئی. یہیں تو چھوڑ کر گیا تھا.....؟؟ غازی نے صوفے کے قریب کھڑے ہوتے ہوئے ارد گرد کا جائزہ لیا جہاں زریں کے ساتھ ساتھ رسی کا بھی کوئی نام و نشان نہیں تھا. 

تمہیں کیا لگا تھا کہ میں کمزور لڑکیوں کی طرح یہاں بیٹھ کر سردی میں ٹھٹھروں گی، روؤں گی اور تمہارے آنے کا  بے صبری سے انتظار کروں گی .....؟ ؟ 

پھر تمہارے آنے پر میں اپنے  گناہوں کی تم سے معافی مانگوں گی کہ میں آئندہ تمہیں تنگ نہیں کرتی. تم جو کہو گے میں بالکل ویسا ہی کروں گی...... ؟؟ 

اپنی پشت پہ زریں کی موجودگی کو محسوس کرتے غازی پلٹا. 

نہیں مجھے تم سے کبھی بھی بھلے کی امید نہیں رہی اور میں اچھے سے جانتا تھا کہ تم اس رسی کو کاٹ کر پورے گھر میں آرام سے گھومو پھرو گی جیسے قبرستان میں بدروحیں پھرتی ہیں. اسی لیے زنجیر اتار کر رسی لگا دی تھی. 

غازی نے صوفے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے زری کی طرف دیکھا جو اسے انتہائی غصیلی نگاہوں سے گھور رہی تھی. 

تم ایک بے حس انسان ہو. یہ جانتے بوجھتے کہ سردی کتنی زیادہ ہے. تم مجھے یوں لاؤنچ میں باندھ کر چلے گئے. تمہیں ذرا برابر بھی شرم نہیں آئی. زری نے غازی کے قریب ہوتے ہوئے انگلی اٹھائی تو غازی نے اس کا ہاتھ پکڑتے اپنی طرف کھینچا

مجھے بالکل شرم نہیں آئی کیونکہ جانوروں کو کھونٹے ساتھ ہی باندھا جاتا ہے. غازی نے کہتے ہوئے زری کو پیچھے کیا اور خود اپنے کمرے کی طرف چل دیا

اچھا تو میں تمہاری نظر میں جانور ہوں. پھر اپنے بارے میں کیا خیال ہے. کیا تم انسان دکھائی دیتے ہو.....؟ ؟ زری نے اس کے پیچھے جاتے ہوئے پوچھا

دیکھنے میں تو انسان ہی لگتا ہوں مگر ___  غازی نے اپنی ایک آبرو اچکاتے ہوئے زریں کی طرف دیکھا جو کمرے کے بیچوں بیچ کھڑی اس سے سوال کر رہی تھی. 

زیادہ اگر مگر کرنے اور گھورنے کی ضرورت نہیں ہے. میں کسی سے نہیں ڈرتی. زری نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے اعتماد سے جواب دیا. 

پھر اب سے ڈرنا شروع کر دو کیونکہ میں ذہنی مریض ہوں. کچھ دن کسی انسان کا قتل نہ کروں تو مجھے دورے پڑنے لگتے ہیں. غازی نے ایک سیکنڈ کے اندر تیزی سے اٹھتے ہوئے گن زری کے ماتھے ساتھ لگا دی تو وہ لرز گئی. 

یہ کیا کر رہے ہو. تم تو سچ مچ کے پاگل ہو. اسے پیچھے کرو. یہ چل جائے گی .....؟ ؟ غازی کے جارحانہ عزائم پر زری چیخی

یہ خود بخود نہیں چلتی اسے میں چلاتا ہوں. اب اگر تم نے ذرا بھی مجھے تنگ کرنے کی کوشش کی تو میں اس میں موجود ساری گولیاں تمہاری کھوپڑی اتار دوں گا. غازی نے گن زری کے چہرے پر پھیرتے ہوئے سر ترین  لہجے میں کہا

میں تمہیں تنگ نہیں کرتی بلکہ تم مجھے تنگ کرتے ہو. اس لیے تم خودکشی کر لو. زری نے غازی کا گن والا ہاتھ پکڑتے اس کی کنپٹی پر رکھا

خود کشی حرام ہے اس لیے میں نہیں کروں گا. غازی کندھے اچکاتے ہوئے دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گیا

بیوی کو ڈرانا حلال ہے کیا ....... ؟؟ زری نے ناراض نظروں سے غازی کی طرف دیکھا 

وہ کیا ہے ناااااا کہ مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ میں ایک شادی شدہ مرد ہوں اور تم جیسی بدتمیز، گوار اور پینڈو لڑکی میری بیوی ہے. 

جس دن مجھے اس تلخ حقیقت کا یقین آ جائے گا. اس دن میں تم سے اچھا سلوک کروں گا لیکن فی الحال تم اپنی یہ شکل میرے کمرے سے گم کرو. مجھے آرام کرنا ہے. غازی کے لہجے میں خاصی بیزاری تھی

مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں تمہیں بہت اچھی لگنے لگی ہوں اور تم ڈرتے ہو کہ کہیں تمہیں مجھ سے "عشق" نہ ہو جائے. اس لیے تم مجھے اپنے سے ذرا دور دور دور رکھتے ہو. خیر میں ہوں بھی تو بہت پیاری، اس میں تمہاری غلطی نہیں ہے. زری کا انداز خاصہ تپا دینے والا تھا اور اس کی امید کے عین مطابق غازی تپ بھی گیا. 

او ہیلو اپنی طرف سے مس ورڈ!!! تم میں ہے ہی کیا کہ غازی تمہارے عشق میں گرفتار ہوگا. "نہ منہ نہ متھا جن پہاڑوں لتھا". غازی طنزاً مسکرایا 

اچھا اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تم مجھے ابھی اسی وقت باہر سے برگر کھلا کر لاؤ تاکہ مجھے یقین ہو جائے کہ تم سچے ہو. مجھے برگر کھانے کا بہت شوق ہے. سنا ہے شہر میں بہت اچھے برگر ملتے ہیں. زری اصل مدعے کی طرف آئی کیونکہ اسے شہر دیکھنا تھا 

میں کوئی تمہارا نوکر نہیں. اور نہ ہی تمہارا محتاج ہوں کہ تمہیں اس بات کا ثبوت دوں کہ تم مجھے زہر لگتی ہو. غازی نے بستر پر چت لیٹتے ہوئے غصے سے جواب دیا

دیکھا مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ تمہیں مجھ سے بہت محبت ہے. اگر میں تمہیں اتنی بری لگتی تو تم فوراً میری بات مان لیتے خیر زیادہ شرمانے کی ضرورت نہیں ہے. میں باہر چلی جاتی ہوں. تم آرام کرو. زری نے غازی کی بند آنکھوں کی طرف دیکھا 

جب کسی خاندان کا پہلا شخص شہر آتا ہے. تو اس کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پورا شہر گھومے تاکہ واپس جا کر وہ لمبی لمبی چھوڑ سکے. چلو میں تمہاری خواہش پوری کیے دیتا ہوں. 

رہی بات "عشق" کی تو غازی کسی کے عشق میں گرفتار ہو جائے یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا تمہارا انسان بننا. غازی کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تو زری نے دل میں شکر ادا کیا

شہر میں تو رات دن سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتی ہے. کتنی پیاری روشنیاں جل بجھ رہی ہیں. زری نے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے خوشی سے کہا تو غازی نے سر نفی میں ہلایا

تم اپنی یہ بچکانہ سوچ اپنے تک ہی محدود رکھو. انہیں ہونٹوں پر لانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں تمہیں بڑی مشکل سے برداشت کر رہا ہوں اور تمہاری گفتگو میرے لیے برداشت کرنا ناممکن ہے. غازی نے کہتے ہوئے ایک فاسٹ فوڈ کیے آگے گاڑی لگائی

اترو  نیچے ____  غازی گھوم کے دوسری طرف آیا اور زری کی طرف کا دروازہ کھولا 

مجھے نہیں اترنا. بس تم مجھے گاڑی میں ہی برگر لا دو. زری نے ڈرتے ہوئے خود کو سیٹ ساتھ چپکایا. زری  کا عمل دیکھتے ہوئے غازی نے پوری قوت سے دروازہ بند کیا اور خود اندر چلا گیا

شاباش زری کم از کم تو اپنی عقلمندی سے برگر کھانے میں تو کامیاب ہو ہی جائے گی. ورنہ اس جیسے سڑے شخص سے کوئی امید نہ تھی کہ یہ تجھے شہر دکھاتا یا کچھ کھلاتا.

زری اپنی سوچ پر خود ہی مسکرا رہی تھی کہ اسے غازی آتا دکھائی دیا

یہ لو ___  غازی نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے ایک باکس زری کی گود میں رکھا اور خود گاڑی سٹارٹ کرنے لگا

ہائے اللہ اتنا بڑا برگر، ہمارے گاؤں میں تو بہت چھوٹا ہوتا تھا. زری نے باکس کھولتے ہوئے حیرت سے کہا

کیونکہ تمہارا گاؤں بھی بہت چھوٹا ہے ____ غازی 

کے جواب پر ابھی زری نے کوئی رد عمل دیا ہی نہیں تھا کہ اچانک گاڑی کو شدید بریک لگی جس کی وجہ سے زری کے ہاتھ سے برگر چھوٹتے چھوٹتے بچا

کیا ہے دیکھ کے گاڑی نہیں چلا سکتے ..... ؟؟ زری نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے چیخ کر پوچھا جو سامنے سڑک پر دیکھ رہا تھا

سالے ____  غازی نے سامنے کھڑی دو بائیک سواروں کو دیکھتے ہوئے زیر لب کہا تو زری بگڑ گئی

پہلی بات تو یہ کہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے. دوسرا یہ اتنی گندی شکلوں والے میرے بھائی نہیں ہو سکتے. اس لیے تم انہیں سالے مت کہو. زری کے احتجاج کو غازی نے ذرا بھی خاطر میں نہ لایا اور گاڑی کو ریس دینے لگا جبکہ بائیک سواروں میں سے ایک غازی کی گاڑی کا نشانہ لے رہا تھا

لو جی ابھی پاؤں ٹھیک سے صحیح نہیں ہوا اور یہ پہن بھی چ گئے مزید تمہیں ہلانے ____ زری نے انہیں نشانہ لیتے دیکھ کر بڑبڑایا 

یہ کسی فلم کی شوٹنگ نہیں ہو رہی بلکہ حقیقی زندگی ہے. غازی نے کہتے ہوئے گاڑی تیزی سے ریورس کی. 

تم تو کہتے تھے کہ تم کسی سے نہیں ڈرتے مگر اب تم بھاگ رہے ہو. ان کے اوپر گاڑی کیوں نہیں چڑھا دیتے تاکہ ان کی دوبارہ ہمت نہ ہو تمہارا راستہ روکنے کی. زری اتنی ٹینشن میں بھی برگر کھا رہی تھی

میں نہیں ڈرتا مگر تمہاری وجہ سے ریورس کی ہے. غازی نے جتلاتی نظروں سے زری کی طرف دیکھا

اچھا تاکہ میں آرام سے برگر کھا سکوں. زریں کے  لہجے میں طنز تھا جس پر غازی نے زور سے مکا سٹیرنگ پر مارا

میرا دماغ مت خراب کرو اور چپ چاپ اپنا کام جاری رکھو. غازی نے سائیڈ مرر میں موٹر سائیکل سواروں کو دیکھا جو اسے کے پیچھے آ رہے تھے. ان میں سے ایک نے گاڑی کے ٹائر کا نشانہ لیا تو گاڑی کا ٹائر پنچر ہوتے ہی وہ اپنا توازن کھو بیٹھی. 

او شٹ ___  غازی نے گاڑی قابو کرتے ہوئے کہا

اب تم آرام سے برگر کھاؤ اور پھر آخری دفعہ رنگ برنگی روشنیاں دیکھ لو کیونکہ مجھے نہیں لگتا تم دوبارہ یہ سب دیکھنے اور کھانے کے قابل بچو گی. غازی نے گاڑی سائیڈ پر لگاتے ہوئے اپنی گن لوڈ کی. 

ہائے تم انہیں قتل کرنے لگے ہو. مجھے کتنا شوق تھا. یہ سب دیکھنے کا، شکر ہے اللہ نے میری سن لی. زری کے اس قدر شکر ادا کرنے پر غازی نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا جیسے اس کا ذہنی توازن خراب ہو. 

ٹھاہ ____ اس سے پہلے کہ غازی ان پر حملہ کرتا ایک گولی سنسناتی ہوئی گاڑی کے شیشے پر لگی تو زری کی چیخوں پر غازی نے اس کی طرف دیکھا 

🎭🎭🎭🎭

گل تم نے سنا کہ میر کی بیوی نے کیا شوشہ چھوڑا ہے .....؟ ؟ غلام علی نے گل کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا

ہاں مجھے معلوم ہے. گل کا انداز بہت عام سا تھا جس پر غلام علی کو حیرت ہوئی

کس نے بتایا .....؟ ؟ غلام علی نے کرسی گھسیٹتے ہوئے گل کے قریب کی. 

میر نے اور کس نے بتانا تھا ___  گل نے مسکراتے ہوئے غلام علی کی طرف دیکھا 

تم اچھے سے جانتے ہو کہ میر مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپاتا اور یہ بہت بڑی بات تھی. جس کی وجہ سے وہ ساری رات سو نہیں سکا. صبح سب سے پہلے اس نے مجھے یہی بتایا ہے کہ عزین نے اس پر الزام لگایا ہے. گل کے جواب پر غلام علی مایوس سا کرسی پر بیٹھا

کیا ہوا تم کیوں اتنے اداس اور مایوس دکھائی دے رہے ہو......؟؟ گل نے غلام علی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

اس کی بیوی نے سارا کھیل ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے

 ہم کچھ اور سوچتے ہیں اور ہو کچھ اور  جاتا ہے 

سردار بیگم الگ ناراض ہے. اب تو وہ ہم سے بات بھی نہیں کریں گی. غلام علی کے جواب پر گل مسکرانے لگی

غلام علی تم سچ میں بہت بھولے ہو. بے وقوف انسان اس کی بیوی کا یہ الزام ہمارے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے اگر ہم تھوڑا سی سمجھداری سے کام لیں تو ___  گل کی بات پہ غلام علی نے اس کی طرف دیکھا

میں سچ کہہ رہی ہوں اگر کسی طرح میر میڈیکلی رپورٹ میں ثابت ہو جائے کہ ذہنی مریض ہے یا وہ سپلٹ پرسنلٹی رکھتا ہے. تو ہمارے لیے سب کچھ آسان ہو جائے گا. 

یہ جائیداد، گھر، بینک، بیلنس خود بخود ہماری جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح گریں گے. سردار بیگم باہر آ جائیں گی اور ہمیں کچھ کرنا بھی نہیں پڑے گا. 

میں نے تو سوچ لیا ہے میں ہر صورت عزین کا ساتھ دوں گی کیونکہ اب بندوق میں اس کے کندھے پہ رکھ کر چلاؤں گی. گل کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی

اگر آپ عزین کا ساتھ دیں گی تو میر کو بہت برا لگے گا. غلام علی کی بات پر گل نے باقاعدہ قہقہہ لگایا اور ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ وہ کھل کر ہنستی تھی

میر کے منہ پر میں میر کی ہوں اور عزین کے سامنے اس کا ساتھ دوں گی یعنی میں مصیبت میں گدھے کو "باپ"  اوہ سوری میرا مطلب ہے "شوہر" بنانے لگی ہوں. گل کی وضاحت پر غلام علی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا. 

ویسے غلام علی تمہارے خیال سے سٹور میں وہ تمام چیزیں کس نے رکھی ہوں گی. کیا واقعی ہی میر نے خود سب کچھ وہاں رکھا ہے تاکہ باقی کنفیوز ہو سکیں یا کوئی اور بھی ہے.....؟ ؟ گل کہ پوچھنے پر غلام علی صاف انکار کر گیا. 

باقی سب باتیں تو اپنی جگہ ٹھیک ہیں مگر سٹور میں میر کی چیزوں کا موجود ہونا مجھے کافی کنفیوز کر رہا ہے. گل نے غلام علی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

مجھے خود بھی اس بات کی سمجھ نہیں آرہی. دراصل وہ سٹور کافی ٹائم سے بند ہے. میں اس طرف گیا ہی نہیں اور نہ کبھی مجھے یہ خیال آیا.  غلام علی کے جواب پر گل سر ہلانے لگی

بہت ہنسی آرہی ہے .....؟ ؟ میر نے حاشر کو ہنستا ہوا دیکھ کر گھورا

مجھے اج اس بات پر کامل یقین ہو گیا ہے کہ بیوی سے بہتر شوہر کو کوئی نہیں جانتا یعنی کمال ہو گیا ہے. اتنے عرصے سے ہمیں نہیں پتہ چل سکا اور اسے دو دن میں پتہ چل گیا کہ میر تم سپلٹ پرسنلٹی رکھتے ہو. حاشر داد دی. 

یہ جو تمہاری بتیسی نکل رہی ہے نااااا اگر مجھے غصہ آگیا تو پھر یہ بتیسی دوبارہ کسی کو دکھائی نہیں دے گی. میر کی وارننگ پر حاشر نے منہ پر انگلی رکھتے خود کو خاموش کرانا چاہا جب کہ ابھی بھی اس کی بتیسی میر کا منہ چڑھا رہی تھی

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس پاگل لڑکی نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں سپلٹ پرسنلٹی رکھتا ہوں .....؟ ؟میر نے کافی کا کپ اپنے آگے کرتے ہوئے افسوس سے سر ہلایا

مذاق ایک طرف مگر سچ میں اس کمرے میں کون رہتا ہے. میرا مطلب ہے وہاں وہ تمام چیزیں کس نے رکھی ہیں اور کیوں ......... ؟؟ حاشر نے اب کی بار سنجیدہ سے میر کی طرف دیکھا تو میر کافی کو گھورنے لگا

فلحال تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر مجھے کسی پر شک ہے. میر نے کافی کا سیپ بھرتے ہوئے جواب دیا 

تمہارے خیال سے یہ سب کچھ بھی گل کا کیا دھرا ہے. مطلب وہ تمہیں یا عزین کو کنفیوز کرنا چاہ رہی ہے. حاشر کی بات پر میر نے اسے ناراضگی سے دیکھا

گل اتنے اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرتی. یہ ساری باتیں اس کی پرسنلٹی کے خلاف ہیں. اس نے جو کچھ بھی کہنا یا کرنا ہوتا ہے. وہ منہ پر کہتی اور کرتی ہے. ہر وقت گل کے پیچھے نہ پڑے رہا کرو مجھے برا لگتا ہے. میر کے جواب پر حاشر نے مسکراتے ہوئے سر کو خم دیا اور کافی پینے لگا

عزین کو یا تو غلط فہمی ہوئی ہے اور یا وہ کوئی گیم کھیل رہی ہے. میں ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا مگر مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ____ میر نے بات ادھوری چھوڑتے حاشر کی طرف دیکھا

جیسے ____ حاشر نے کافی کا کپ خالی کرتے ہوئے میز پر رکھا

تمہارے خیال سے عزین کتنی لالچی ہے. میرا مطلب ہے وہ لالچ میں کس حد تک جا سکتی ہے ....؟؟ میر نے ریلیکس انداز میں بیٹھتے ہوئے حاشر سے پوچھا

آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ میری اسسٹنٹ تھی بیٹی نہیں. مجھے کیا پتہ میں کون سا اس کو جانتا ہوں. ہاں اتنا ضرور پتہ ہے کہ وہ اپنے کام کے ساتھ بہت مخلص ہے. باقی میں کچھ نہیں کہہ سکتا. حاشر نے جواب دیا تو میر مسکرانے لگا 

کیا وہ مجھے نقصان پہنچا سکتی ہے ...... ؟؟ میر کے اگلے سوال پر حاشر کرسی چھوڑ کر کھڑا ہو گیا 

میرے خیال سے مجھے اب چلنا چاہیے. کافی مزے کی تھی پیشکش کا بہت شکریہ. اب میں چلتا ہوں. اجازت دیں. حاشر کا لہجہ ایک دم فارمل ہوا. 

تو جناب بیرسٹر حاشر صاحب!!! ناراض ہو گئے ہیں. میر نے کھڑے ہوتے ہوئے پینٹ کی جیب میں دونوں ہاتھ ڈالے. 

بات ناراضگی کی ہے تو ناراض ہوا ہوں نا. مجھے کیا پتا وہ کیا کرے گی کیا نہیں. تم اپنے سامنے  بٹھا کر پوچھو کہ اس ساتھ کیا مسئلہ ہے بات ختم ____ حاشر کہتا پارکنگ کی طرف جانے کو مڑا

میں عزین پر قاتلانہ حملہ کروانے لگا ہوں. تجھے کوئی اعتراض تو نہیں. میر نے برابر چلتے ہوئے چھیڑا

وہ کسی بھی جنم میں میری محبوبہ نہیں رہی. اس لیے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے. تو جان اور تیرا کام، بس مجھے میرے گھر پر اتار دے. حاشر نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے جواب دیا

پھر تیرا یہ منہ کیوں بنا ہوا ہے .....؟ ؟ میر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا

میر میں اس سب سے تنگ آگیا ہوں. کیا ہم سب نارمل زندگی نہیں گزار سکتے. تو نے اپنی زندگی کو بہت کمپلیکیٹڈ کر دیا ہے. سیدھی طرح تجھے جن سے مسئلہ ہے ان سے بات کر، دوسرے لوگوں کو بیچ میں مت الجھا. حاشر نے بیزاری سے کہا

اچھا تو تیرا شمار بھی اب دوسرے لوگوں میں ہونے لگا ہے. میں تو اب تک سمجھ رہا تھا کہ تو میرا اپنا ہے. خلاف معمول میر کا لہجہ کافی خوشگوار تھا. 

میر دیکھ میں نے تیرا ساتھ اس سب میں اس لیے دیا تھا کہ تو ناجائز جیل کے اندر تھا. تجھے جیل سے باہر لانے کے لیے مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے تیرے لیے کیا کیونکہ تو میرا دوست ہے اور تو نے بھی کبھی ہماری دوستی پر حرف نہیں آنے دیا مگر اب یہ سب کچھ چھوڑ دے بس کر دے. 

آغا جان واپس نہیں آئیں گے اور نہ ہی تیرے یہ سب کرنے سے آغا جان کی روح خوش ہوگی. اگر تجھے گل سے محبت ہے تو اس سے ڈائریکٹ پوچھ لے کہ اس کا گناہ کیا ہے اور اگر تو اس سے محبت نہیں کرتا تو اسے چھوڑ کے واپس چلا جا. 

کب تک اپنے ساتھ باقیوں کو بھی الجھائے رکھا گا. عزین سے تیرا کچھ لینا دینا نہیں. تو نے اسے  گل کی جاسوسی کے لیے رکھا تھا. 

اب تو خود پریشان ہے کہ وہ اپنی ہی گیم کھیل رہی ہے. کبھی تجھے وہم ستاتے ہیں کہ وہ تجھے قتل کر دے گی اور کبھی تجھے لگتا ہے کہ وہ لالچ میں تجھ سے تیری جائیداد چھین لے گی. 

سکون دے زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے. خود کو پریشان رکھنے کا کیا مقصد ___ تو خوبصورت ہے، اللہ نے تجھے مال و دولت دے رکھا ہے. اعلی تعلیم یافتہ ہے. اب تو پاکستان میں تیرا بہت بڑا بزنس بھی ہے. 

بس اپنا گھر بسا اور خوشی سے زندگی بسر کر، بدلے میں کچھ نہیں رکھا. انسان کا اپنا آپ جل جاتا ہے حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا. معاف کرنے والا بڑا ہے بدلہ لینے والا چھوٹا ___  میری مان تو سردار بیگم کو بھی معاف کر دے. حاشر نے آخر میں امید بھری نظروں سے میر کی طرف دیکھا 

خیر ہے آج تیرے اندر بڑی ممتا جاگی ہوئی ہے. ایسے لگتا ہے جیسے مجھے میری ماں سمجھا رہی ہو. بہرحال میں تیرے مشورے پہ عمل کروں گا. میر کے اتنی آسانی سے مان جانے پر حاشر نے اسے تعجب سے دیکھا

بات مان لوں تو تب بھی تو مجھے شک سے ہی دیکھتا ہے. تم وکیلوں میں یہ بہت بڑی بیماری ہے. میر نے اسے دیکھتے ہوئے اپنی مسکراہٹ دبائے جب کہ حاشر بے یقین تھا. 

🎭🎭🎭🎭

میرا نہیں خیال کہ میر بیمار ہے. گل نے عزین کی طرف دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں جواب دیا تو عزین نے اس کے آگے چائے کی پیالی رکھتے کندھے اچکائے. 

دیکھو میرا ایک مشورہ ہے تم اس بات کا ذکر کسی اور سے مت کرنا. اس طرح میر کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے. میر کے لاکھ دشمن ہیں. وہ بہت بڑا بزنس مین ہے. کوئی بھی اس بات کو کیش کر سکتا ہے. گل نے چائے کی پیالی تھامتے ہوئے کہا تو عزین ہنس دی. 

اپ کو میر سے بہت محبت ہے مگر وہ آپ سے محبت نہیں کرتے. کم از کم میرا تو یہی اندازہ ہے. عزین نے چائے کا سیپ بھرتے ہوئے گل کو چھیڑا 

اندازے نہیں لگانے چاہیے کیونکہ وہ غلط ثابت ہوتے ہیں. پہلی بات تو یہ کہ میرے اور میر کے درمیان کبھی بھی کوئی ایسا ریلیشن نہیں رہا جس کی بنا پر میں تمہیں یہ کہہ سکوں کہ ہم دونوں میں شدید محبت ہے. 

ہاں یہ میں پکا کہہ سکتی ہوں کہ ہم میں نفرت کا رشتہ نہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہو گا. گل نے چائے کی پیالی کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے گھمایا 

اگر ایسا ہے تو پھر وہ آپ کو مروانا کیوں چاہتے ہے .....؟ ؟ عزین کے سوال پہ چائے پیتی گل کو شدید پھندا لگا اور وہ کھانسنے لگی

آپ کو شاید میری بات پر یقین نہ آئے مگر سچ مچ وہ آپ کو قتل کروانا چاہتے ہیں. وہ آپ سے بہت تنگ ہیں. معذرت کے ساتھ وہ آپ سے بہت نفرت کرتے ہیں. عزین نے بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے گل کے تاثرات نوٹ کرنا چاہے جس میں وہ ناکام رہی. 

یہ سب باتیں میر نے تم سے کہی ہیں یا تم اپنے پاس سے سوتن ہونے کا پورا ثبوت دے رہی ہو. گل کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ تھی. 

حیرت ہے آپ ابھی بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں حالانکہ بات بالکل صاف ہے. بھلا ایک معذور عورت کے ساتھ اتنا خوبصورت ہینڈسم امیر شخص کب تک رہ سکتا ہے. 

اسے سوسائٹی میں موو کرنے کے لیے مجھ جیسی بیوی کی ضرورت تو پڑے گی نا اور مجھ جیسی بیوی کے ہوتے ہوئے وہ بھلا ایک معذور عورت کو اپنی زندگی میں کیوں رکھے گا....؟؟ عزین نے چسکا لیا. 

میں معذور نہیں ہوں ____ گل کے منہ سے اچانک یہ جملہ پھسلا تو عزین نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا جس پر وہ شرمندہ ہو گئیں. 

میرا مطلب ہے کہ ڈاکٹر علاج کر رہے ہیں. امید ہے کہ میں جلد چلنے پھرنے لگوں گی. گل نے گلا صاف کرتے بات بنائی جس پر عزین سر ہلانے لگی

اچھا آپ کے خیال سے سٹور روم میں کون ہوگ ا.....؟؟ میرا مطلب ہے کہ سٹور روم میں وہ تمام چیزیں کس نے رکھی ہوں گی کیونکہ آپ اس گھر کی مالکن ہیں. سب نوکر آپ کا حکم بجا لاتے ہیں. تو پھر وہاں پر کون کب کیسے جا سکتا ہے. وہ بھی آپ کی اجازت کے بغیر ___ عزین کی معصومیت عروج پر تھی وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے بہت قریب تھی. مگر گیٹ پر ہوتی میر کی گاڑی کے ہارن نے سب خراب کر دیا. 

🎭🎭🎭🎭

خبردار جو تم نے میرے کان کے پردے پھاڑے تو، چپ چاپ  نیچے بیٹھ جاؤ. تمہیں گولی نہیں لگے گی. غازی نے کہتے ہوئے گاڑی کو سپیڈ بڑھا دی. 

کیوں مجھے کیوں نہیں گولی لگ سکتی..... ؟؟ زریں نے نیچے ہوتے ہوئے پوچھا جب کہ موٹر سائیکل سوار اب بھی ان کے پیچھے تھے. 

اس لیے کہ اس گاڑی کے شیشے بلٹ پروف ہے. غازی نے کہتے ہوئے تیزی سے موڑ کاٹا جس پر پیچھے سے آتی موٹر بائیک نے سنبھلنے کی کوشش کی مگر فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور موٹر سائیکل سوار دور جا گرے. 

اچھا میں سمجھی کہ تمہارے پاس کوئی کرامات ہے. جس کی وجہ سے تمہیں گولی نہیں لگتی مگر یہ گاڑی کا کمال ہے. "بلٹ پروف" کا یہی مطلب ہے نا کہ اس کو گولی کچھ نہیں کہہ سکتی. زری کے  پوچھنے پر غازی نے سر ہلایا تو اسے کچھ فاصلے پر پولیس چیک پوسٹ دکھائی دی

اللہ کرے ماجد ڈیوٹی پر ہو. غازی نے ہم کلامی  کرتے ہوئے چیک پوسٹ کی طرف گاڑی کا رخ کیا جبکہ پیچھے دوسرا موٹر سائیکل سوار دکھائی نہیں دے رہا تھا. 

یہ تمہارا وہی دوست ہے نااااا جسے تم کافی بےعزت کرتے ہو مگر وہ ہوتا نہیں. زری نے دوبارہ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تو غازی زیرِ لب مسکرایا

خیر ایسی بھی بات نہیں ہے. غازی نے گاڑی سائیڈ پر روکتے ماجد کا نمبر ڈائل کیا

وہ تو مجھے پتہ ہے کہ تمہیں بات کرنے کی تمیز نہیں. تم بات ہی ایسے کرتے ہو کہ دوسرے بندے کو لگتا ہے اسے ذلیل کر رہے ہو حالانکہ تمہارا یہ مقصد نہیں ہوتا. زری نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے جواب دیا. 

ارے واہ ہم سے تو اچھی بھابھی صاحبہ ہیں. جس کے آگے تیری بولتی بند ہو جاتی ہے اور کیا خوب ارشاد فرمایا ہے کہ" تمہیں بات کرنے کی تمیز نہیں". سپیکر سے ماجد کی کھنکتی ہوئی آواز ابھری. 

کیا بھابھی جی کی رٹ لگا رکھی ہے. پہلے بھائی سے تو مل لے. مجھے بتا ابھی چیک پوسٹ پہ موجود ہے. غازی کے پوچھنے پر ماجد سیٹی بجانے لگا

مطلب پولیس سو رہی ہے. خیر میں نے تجھے یہ بتانا تھا کہ آج میری گاڑی پر دو موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کی ہے. جب ڈیوٹی ہو تو سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرنا. غازی کے بتانے پر ماجد پریشان ہو گیا

تو ٹھیک ہے ناااااا ____ ماجد کی پریشان آواز سپیکر سے ابھری

ٹھیک ہوں تو بول رہا ہوں ورنہ سب بول رہے ہوتے اور میں چپ ہوتا. غازی نے کہتے گاڑی کو ریورس کیا

استغفراللہ تو اتنی بکواس کیسے کر لیتا ہے. تجھے ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ تیری بیوی ساتھ بیٹھی ہے. ماجد کے ڈانٹنے پر غازی مسکرانے لگا

الو کے پٹھے!!! بیوی سے کون شرماتا ہے....؟؟ ؟ یہ آج کے دن کا سب سے بڑا joke ہے. غازی گنگناتا کال کاٹ گیا.

تمہارے دوست کے بیوی بچے نہیں ہیں. میرا مطلب یہ اکیلا ہی ہے ...؟؟ غازی کو خوشگوار موڈ میں دیکھتے ہوئے زری نے پوچھا

منگیتر تھی جناب کی مگر وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی حالانکہ وہ اس سے بہت محبت کرتی ہے. غازی کے بتانے پر زریں کو بہت افسوس ہوا

ایسی منگیتر کو تو گولی مار دینی چاہیے. تمہارے دوست میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں، اگر ہمارے گاؤں میں ایسے ہوا ہوتا تو اب تک وہ لڑکی زمین کے نیچے ہوتی. زری کے جارحانہ جواب پر غازی مسکرانے لگا

یہ تو ہے ___ غازی نے گاڑی فلیٹ کی طرف موڑی. 

اگر تم کہو تو میں تمہارے دوست کے لیے اپنی سہیلی کا رشتہ لے آؤں. میں ویسے بھی یہاں اکیلی ہوتی ہوں. وہ آ جائے گی تو میں بہت خوش رہوں گی. زری اپنی بات کے اخر میں اداس ہو گئی. 

کون سے سہیلی وہ رجو جو کوے کی طرح کائیں کائیں کرتی رہتی ہے. مجھے بالکل نہیں پسند، اچھا خاصا میرا دوست ہے. غازی نے فلیٹ کی پارکنگ میں گاڑی جھٹکے سے روکی. 

خبردار جو میری دوست کے بارے میں ایک بھی لفظ اپنے منہ سے نکالا تو میں تمہارا خون پی جاؤں گی. اچانک زری نے انتہائی غصے سے غازی کا گریبان پکڑا تو وہ اسے دیکھتا رہ گیا. 

تم اب اپنی دوست کے لیے مجھ سے لڑو گی یعنی غازی سے اور میرا گریبان پکڑنے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی. تم جانتی ہو کہ تم نے کس کا گریبان پکڑا ہے......؟؟ غازی غرایا 

اپنے شوہر کا پکڑا ہے اور میں اس کا حق رکھتی ہوں. زری نے کہتے ہوئے گریبان چھوڑ دیا اور دروازہ کھولتے نیچے اترنے لگی

انٹرسٹنگ ____ غازی اسے اندر جاتا دیکھ کر کہنے لگا

"اُس کے لہجے کا اثر تو ہے بڑی بات قتیل

وہ تو آنکھوں سے بھی کرتا ہوا جادو آئے" 

🎭🎭🎭🎭

اب بولتے کیوں نہیں اس طرح خاموش کیوں بیٹھے ہو ...... ؟؟ گل کی آواز پر میر نے سر اوپر اٹھایا تو اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے. 

آپ کو عزین کی بات کا کتنے فیصد یقین ہے....؟؟ جواب کی بجائے الٹا سوال آیا. 

میر تم میری بات کا جواب دو. مجھ سے سوال مت پوچھو کیونکہ فی الحال تم مجھ سے سوال پوچھنے کی پوزیشن میں نہیں ہو. گل نے سنجیدگی سے میر کی طرف دیکھا

میں آپ کے بارے میں کبھی بھی برا نہیں سوچ سکتا اور نفرت تو میں کر ہی نہیں سکتا. اپ نے یہ کیسے سوچ لیا.... ؟؟ میر نے قدر ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا

میر اگر تمہارے دل میں مجھے لے کر کوئی بدگمانی ہے تو تم مجھ سے پوچھ سکتے ہو. میں تمہیں تمہارے ہر سوال کا جواب دوں گی مگر کبھی بھی اپنے اور میرے ریلیشن کے بارے میں کسی تیسرے کو مت بتانا کیونکہ مجھے تیسرا شخص برا لگتا ہے. چاہے وہ کوئی بھی ہو. گل نے مضبوط لہجے میں کہتے ہوئے اپنا چہرہ موڑ لیا. 

) حاشر کی اسسٹنٹ!!! آج میں تیرا حشر بگاڑ دوں گا. تو میرے ہاتھ سے نہیں بچے گی. پتہ نہیں گل سے کیا کیا بکواس کرتی رہی ہے. میر نے دل میں سوچتے ہوئے گل کی طرف دیکھا) 

آپ مجھ سے ناراض ہیں....؟؟ میر نے کھڑے ہوتے ہوئے گل سے پوچھا

میر تمہاری خاطر شیر علی نے مجھ پر گولی چلائی. تمہیں بچاتے ہوئے میں اپنی ٹانگیں کھو بیٹھی. اب اگر کوئی مجھے آ کر کہے کہ میر مجھے مارنا چاہتا ہے یا مجھ سے نفرت کرتا ہے یا میرا وجود اس کی زندگی میں ایک بوجھ ہے. تو یہ مجھ سے برداشت نہیں ہو گا میں تمہارے اس گھر سے چلی جاؤں گی. گل کا لہجہ بے لچک تھا. 

اگر آپ اس گھر سے چلی جائیں گی تو اس گھر میں باقی کیا رہ جائے گا .....؟ ؟ میں نے ان تمام چیزوں کو اپنے سر میں مارنا ہے. اس گھر میں رونق آپ کی وجہ سے ہے. جب آپ ہی نہیں رہیں گی تو میں بھی کہیں چلا جاؤں گا. میر نے محبت سے گل کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تو گل اسے دیکھنے لگی

سٹور میں وہ تمام چیزیں تم نے رکھی ہیں ....؟؟ گل کے اس قدر پر یقین لہجے پر میر نے حیرت سے گل کی آنکھوں میں دیکھا

آپ بھی مجھ پر ہی شک کر رہی ہیں. کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں ذہنی مریض ہوں یا میں کبھی بھی ایسی کوئی حرکت کر سکتا ہوں. یہ ایک نارل انسان کی حرکت نہیں ہے اور میں بالکل نارمل ہوں. میر نے انتہائی غصے میں ہونے کے باوجود نرمی سے پوچھا

پھر وہ سب کیا ہے .....؟ ؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی مگر تمہاری بیوی جو کچھ بولتی پھر رہی ہے. اس سب سے تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے اور مجھے تمہاری فکر ہے. گل نے میر کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکالتے ہوئے کہا تو میر مسکرا دیا

مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب آپ میری فکر کرتی ہیں اور بہت برا لگتا ہے جب آپ مجھ سے ناراض ہو جاتی ہیں. رہی بات بیوی کی تو اس کا میں ابھی بندوبست کر دیتا ہوں. میر نے جھکتے ہوئے گل کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور کمرے سے باہر نکل گیا

اب تک تو میر کو  کمرے میں آندھی طوفان کی طرح داخل ہونا چاہیے تھا. 20 منٹ گزر چکے ہیں. کیا گل نے میر کو نہیں بتایا کہ میں نے اسے کیا کہا ہے .... ؟؟ عزین نے کمرے میں چکر لگاتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا تبھی ایک دھماکے سے کمرے کا دروازہ کھلا

شکر ہے آپ آگے ورنہ آج میں گل کی فین ہو گئی تھی. بھلا عورت بھی کبھی اپنے پیٹ میں اتنی باتیں رکھتی ہیں. میں سمجھی گل نے آپ کو کچھ بھی نہیں بتایا اور آپ دونوں آپس میں گپے مارتے ہوئے چائے پی رہے ہیں. عزین نے میر کی طرف دیکھتے ہوئے شکر ادا کیا تو وہ نفی میں سر ہلاتے آگے بڑھا

کیا سوچ کے تم نے وہ ساری بکواس گل سے کی ہے اگر آئندہ کچھ بھی تم نے ایسا ویسا گل سے کہا تو میں تمہاری زبان کاٹ دوں گا بلکہ ٹانگیں توڑ دوں گا. میر نے عزین کا بازو پکڑتے ہوئے اسے جھنجوڑا

آپ کو بیوی ویل چیئر پر بیٹھی زیادہ خوبصورت لگتی ہے. جو دوسری کو بھی بیٹھانا ہے. پتہ نہیں آپ کو معذور بیوی میں کیا اٹریکشن نظر آتی ہے. "ٹانگیں توڑ دوں گا" عزین نے میر کی نقل اتاری

بہت ڈھیٹ ہو تم یقین مانو کہ بہت ڈھیٹ ہو. میری سوچ سے بھی زیادہ اور یہ جو تم نے سٹور کا شوشہ چھوڑا ہے نا اب اس مسئلے کو خود ہی حل کرو اور مجھے یہ ایک دن کے اندر اندر حل چاہیے. سب کچھ شیشے کی طرح کلیئر ___ میر نے جھٹکے سے عزین کو چھوڑتے ہوئے صوفے کا رخ کیا

مجھے لگا اپ واش روم میں جائیں گے. عموماً ایسی صورتحال میں ہیرو شاور کے نیچے کھڑا ہو کر نہاتا ہے تاکہ اس کا غصہ کم ہو مگر آپ تو صوفے پر بیٹھ گئے ہیں. اس سے غصہ کم نہیں ہوگا کم از کم ایک دو چیزیں توڑ دیں تاکہ یہ ثابت ہو کہ آپ نارمل نہیں ہیں. پلیز 

عزین کی بات پر میر جو جوتے اتارنے لگا تھا اس کا ہاتھ رکا اور اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی. 

چیزیں توڑنے کا تو پتہ نہیں البتہ دل کر رہا ہے یہ جوتا تمہارے سر پہ دے مارو. میر نے غصے سے اپنے جوتے اتارتے ہوئے دور پھینکے تو عزین مسکرانے لگی

اگر آپ کو سب کچھ شیشے کی طرح کلیئر چاہیے تو آپ کو میرا ساتھ دینا ہوگا. اس لیے جیسا میں کہتی ہوں ویسا کریں کم از کم آج رات کے لیے ____ عزین کی فرمائش پر میر کی آنکھیں پھیل گئیں. 

مجھے معلوم ہے کہ تیسرا سال شخص کون ہے مگر میں اسے سب کے سامنے بے نقاب کرنا چاہتی ہوں. اس لیے آپ کو میرا ساتھ دینا ہوگا. اس کمرے کا حلیہ بگاڑ دیں اگر کل تک آپ کو سچائی جاننی ہے تو ____  عزین کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی. 

اب یہ مجھے بلیک میل کرے گی. مجھے یعنی میر طلال کو ___ میر نے غصے سے اٹھتے ہوئے پاس پڑے گلدان کو ٹھوکر ماری.

آج مجھے بڑے عرصے بعد اپنا فلیٹ اپنا اپنا سا لگ رہا ہے. غازی نے خاموش بیٹھی  زری کو دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں کہا

کافی بناتے ہیں کیونکہ فلحال میں اسی ساتھ اپنی خوشی سیلیبریٹ کر سکتا ہوں. ماجد تو ڈیوٹی پر ہو گا. غازی نے خود کلامی کرتے ہوئے قدم کچن کی طرف بڑھائے.

ایک سہیلی باغ میں بیٹھی رو رہی تھی اس کا ساتھی کوئی نہیں ہے. آ کر اپنا ساتھی ڈھونڈ لو. غازی نے کافی پھینٹتے ہوئے شرارت سے ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھی زری کی طرف دیکھا جو اسے ہی گھور رہی تھی. 

اس کا ساتھی ہے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں مگر وہ اس کا ساتھ نہیں دیتا. بالآخر زری کے صبر کی بس ہوئی تو وہ بول پڑی. 

ایہہہہہہ  ____ غازی نے آبرو اچکاتے ہوئے اسے دیکھا. اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتا اس کا ٹیبل پر پڑا موبائل بجنے لگا

اے لڑکی!!! میری کال اٹینڈ کرو. دیکھو کس کا فون ہے .....؟ ؟ غازی نے کچن میں کھڑے کھڑے زریں سے کہا تو وہ میز پہ پڑے موبائل کو گھورنے لگی. 

حد ہے میں نے بتایا بھی تھا کہ کال کیسے اٹینڈ کرتے ہے. غازی نے ٹیبل سے موبائل اٹھاتے ہوئے زریں کا ہاتھ پکڑا اور اسی کے ہاتھ سے کال اٹینڈ کی. 

ہاں بولو تمہیں اس وقت کیا تکلیف ہے کیونکہ بغیر تکلیف کے تم فون نہیں کرتے .....؟؟ غازی کان ساتھ فون لگائے دوبارہ کچن کی طرف چل دیا جب کہ زری نے اداسی سے اس کی پشت کو دیکھا

ظاہری سی بات ہے جس طرح میر کی ہر بیماری کا علاج تمہارے پاس ہے  بلکل اسی طرح میری تکلیف بھی تمہیں دور کر سکتے ہو. ماجد کی پر سکون آواز سپیکر سے ابھری تو ہنستے ہوئے غازی نے دونوں پیالیوں میں کافی انڈیلی اور ٹرے لیے زری کے پاس آ بیٹھا. 

ایک مشورہ چاہیے تھا اگر _____ ماجد نے اتنا ہی کہا تھا کہ غازی نے اس کا جملہ اچک لیا

اگر مفت دو تو کیونکہ تم پولیس والے پیسہ دے کر مشورہ نہیں لیتے. غازی نے ہنستے ہوئے چائے کی پیالی زری کے آگے کی تو اس نے ناراضگی سے غازی کی طرف دیکھا

اچھا سنو اگر میں "میر ویلا" پر ریٹ کروں تو تمہارے خیال سے یہ ٹھیک رہے گا ...؟؟ جیسے ہی ماجد کے منہ سے یہ الفاظ نکلے غازی کے ہاتھ سے کافی کی پیالی چھوٹتے چھوٹتے بچی

کبھی خواب میں بھی ایسا مت سوچنا ورنہ دوبارہ خواب دیکھنے کے قابل نہیں رہے گا. میر ویلا پر وہ بھی پولیس کی ریٹ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. غازی نے کافی کی پیالی ٹرے میں رکھتے زریں کی طرف دیکھا

تم نے اپنا منہ غبارے کی طرح کیوں پھلایا ہوا ہے ...... ؟؟ میں صبح سے نوٹ کر رہا ہوں کہ تمہارے ساتھ کوئی مسئلہ ہے. میں کسی کو کافی اپنے ہاتھ سے بنا کر نہیں دیتا. شکر کرو کہ تمہارا نام ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو گیا ہے جنہیں غازی کے ہاتھ کی بنی کافی پینے کا شرف حاصل ہوا. غازی نے سپیکر پر ہاتھ رکھتے آہستہ آواز میں زری سے کہا

یار وہ عزین چاہتی ہے کہ میں میر ویلا پر ریٹ کروں. ماجد کی بات سنتے ہی غازی نے حیرت سے موبائل کو کان سے ہٹاتے ہوئے اسے گھورا. 

یہ لڑکی تجھے مروائے گی وہ بھی کتے کی موت ____  مجھے سمجھ نہیں آتی تو اس جیسی بے وفا لڑکی کی بات پہ اعتبار کیسے کر لیتا ہے..... ؟ غازی نے زری کی طرف دیکھتے ہوئے سر نفی میں ہلایا 

غازی تو پہلے میری بات غور سے سنو پھر مجھے بتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے .....؟؟ ماجد نے کہتے ساتھ ہی نون سٹاپ بولنا شروع کیا جبکہ ماجد کی بات سنتے اور زریں کا پھولا ہوا چہرہ دیکھتے غازی نے کافی پینا شروع کی. 

تیری بات سننے کے بعد مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس کے ساتھ ہمدردی کروں. اپنے ساتھ، میر ساتھ یا تیرے ساتھ ____ غازی نے پیالی خالی کرتے ہوئے ٹیبل پر رکھی. 

تم اپنے اپنے دوست کی سن لوں. زری اٹھ کر جانے لگی تو غازی نے اپنی ٹانگیں اس کے راستے میں حائل کرتے ہوئے اسے روکا

کیا مطلب ہے تیری بات کا ___ ماجد نے الجھتے ہوئے پوچھا

تیری اس جیمز بانڈ نما لڑکی نے میری روزی پر بھی لات مار دی ہے. اگر یہ مسئلہ اس طرح حل ہو گیا تو میں میر کی بیوی کو قتل نہیں کروں گا اور اگر میں اسے قتل نہیں کرتا تو مجھے پیسے نہیں ملیں گے لہذا مجھے اپنے آپ ساتھ ہمدردی ہو رہی ہے.  غازی کی بات پر زری نے اسے گھور کر دیکھا تو غازی نے سر کو خم دیا جیسے وہ زری سے داد وصول کر رہا ہو. 

میر ساتھ اس لیے ہمدردی ہے کہ بیچارے کے اپنے ہی اسے دھوکہ دے رہے ہیں. انسان بظاہر جتنا مرضی مضبوط ہو وہ باہر کے لوگوں کی بے وفائی تو برداشت کر لیتا ہے لیکن اپنوں کی نہیں. 

اور تیرے ساتھ اس لیے ہمدردی ہے کہ میں نہیں چاہتا وہ چڑیل تیرے حصے میں آئے. اچھا خاصا تو شریف انسان ہے مگر وہ تجھے بھی خراب کر دے گی بلکہ تباہ برباد کر دے گی. اپنی بات کی آخر میں میر نے  باقاعدہ افسوس سے سر ہلایا جبکہ زریں ابھی تک کھڑی تھی. 

غازی وہ بری نہیں ہے بس اس نے برا راستہ اختیار کیا تھا مگر وہ بھی کسی کی بھلائی کے لیے ___  ماجد نے عزین کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی جب کہ وہ جانتا تھا کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو رہا. 

میں نے جو مشورہ دینا تھا دے دیا ہے. آگے تیری مرضی اور کون اچھا ہے اور کون برا، کون لالچی ہے اور کون مطلب پرست ____  یہ کبھی اپنے دل سے پوچھنا وہ تجھے مجھ سے بہتر جواب دے گا. غازی نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا جبکہ ماجد گہری سوچ میں ڈوب گیا. 

اب بتاؤ تمہیں کیا ہوا ہے ...... ؟؟ غازی نے زری کا ہاتھ کھینچتے ہوئے اسے اپنے قریب بیٹھایا 

مجھے ماسی کی بہت یاد آرہی ہے. میں نے گاؤں جانا ہے. زری نے کہتے ہوئے باقاعدہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا تو غازی پریشان ہو گیا. اس کا آج سے پہلے ایسا کوئی تجربہ نہیں تھا کہ روتی لڑکی کو کیسے چپ کرایا جاتا ہے ...... ؟؟ 

اس میں رونے والی کیا بات ہے یہ بات تم مجھے آرام سے بھی کہہ سکتی تھیں. غازی نے کافی کی پیالی اٹھاتے ہوئے زری کے آگے کی. 

پتہ نہیں تم یہ کالا پانی کیسے پی لیتے ہو. مجھے یہ کڑوا لگتا ہے. میں نے نہیں پینا. زری نے ہاتھ مارتے ہوئے پیالی کو پیچھے کیا. 

پاگل لڑکی اگر میرے اوپر گر جاتی تو ___  غازی نے پیالی دوبارہ ٹرے میں رکھتے ہوئے اپنا ہاتھ جھاڑا اور ماجد کو کال ملائی. 

میں نے سوچا اگر تو یہاں رہا تو اکیلے سوچ سوچ کے مر جائے گا یا اپنی اس چڑیل کی کسی گیم کی نظر ہو جائے گا لہذا میں تجھے لے کر گاؤں چلا جاتا ہوں. کیا خیال ہے گاؤں چلیں. غازی نے کال اٹینڈ ہوتے ہی ایک سانس میں پوچھا

یار مجھے گاؤں نہیں جانا. وہاں جا کر مجھے عجیب گھبراہٹ کا احساس ہوتا ہے. مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں نے وہ تمام چیزیں پہلے بھی کبھی دیکھی ہیں. 

میرے لاشعور میں بہت سارے واقعے اور مناظر محفوظ ہیں. مجھے تنگی ہوتی ہے. میرا سر دکھنے لگتا ہے. ماجد نے اپنی کنپٹی دباتے ہوئے معذرت کی. 

بہت برا ڈرامہ ہے تو قسم سے، ماجد میرا دل کر رہا ہے میں تیرا سر توڑ دوں. میں تجھ سے پوچھ نہیں رہا بلکہ تجھے بتا رہا ہوں کہ میں تجھے ایک گھنٹے کے اندر اندر پک کرنے آ رہا ہوں. اپنا سامان پیک کر لے. ورنہ میں تجھے پیک کر کے گاڑی میں ڈال لوں گا. غازی نے کہتے فون بند کیا تو زری کے آنکھوں میں خوشی چمکنے لگی. 

اففففف ____ میں لڑکیوں کے اس جذباتی پن سے سخت تنگ ہوں. ایک منٹ میں بارش برس رہی ہوتی ہے اور دوسرے منٹ میں ___ غازی سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا جبکہ زریں کی خوشی دیدنی تھی. وہ ایک ماہ بعد ماسی سے ملنے جا رہی تھی

🎭🎭🎭🎭

گل تمہیں نہیں لگتا کہ ہمیں اب میر ویلا چھوڑ دینا چاہیے. غلام علی نے گل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا 

غلام علی تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا. ہم میر ویلا چھوڑ کے کہاں جائیں گے. جتنا آرام و سکون ہمیں یہاں نصیب ہے اور کہاں ملے گا.....؟ ؟ گل نے غصے سے غلام علی کی طرف دیکھا اور دوبارہ پھولوں کے ساتھ کھیلنے لگی

پتہ نہیں کیوں مگر مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے کوئی طوفان تیزی سے میر ویلا کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ ہم سب کو بہا کر لے جائے گا. 

اس سے پہلے کہ وہ طوفان ہم کو جدا کر دے کیوں نہ ہم حویلی لوٹ جائیں. غلام علی کی بات پر گل نے ہنستے ہوئے پھولوں کا گلدستہ بنا کر گلدان میں ڈالا

غلام علی یہ جو میر ہے نااااا ___ اسے طوفانوں سے نپٹنا آتا ہے اور ویسے بھی میرا اس اجاڑ حویلی میں جانے کو بالکل بھی دل نہیں کرتا. 

اب اس حویلی میں کیا ہے. صرف یادیں وہ بھی تلخ قسم کی یا آغا جان کی چیخیں. مجھے تو حویلی کا سوچتے ہی وحشت ہونے لگتی ہے. 

سچ پوچھو تو مجھے بھی آغا جان کے لیے بہت برا لگتا ہے. میں نے سردار بیگم کو منع بھی کیا تھا اور بھی کئی راستے تھے مگر شیر علی نے ان کی بات پر عمل کرتے ہوئے مشکل راستے کا انتخاب کیا. وہ خود بھی مصیبت میں ہیں اور ہم سب بھی ان کی وجہ سے سولی پر لٹکے ہوئے ہیں. 

میر نے آج نہیں تو کل، واپس لوٹ جانا تھا اور آغا جان ان کی کتنی زندگی باقی رہ گئی تھی. ایک بیمار بوڑھا ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتا تھا مگر سردار بیگم پر تو بھوت چڑھا ہوا تھا. حویلی اور گاؤں کے لوگوں پر راج کرنے کا ___ اگر یہ سب سیدھا راستہ اختیار کرتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی ہے. 

میر باہر اپنی گرل فرینڈ ساتھ اپنی ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہا ہوتا. میں اور شیر علی بھی حویلی میں اپنے بچے کھیلا رہے ہوتے اور سردار بیگم کا راج پورے گاؤں پر ہوتا. گل نے کھوئے سے انداز میں کہا

اور میں میں کہاں ہوتا. میرا تو وجود اس پوری کہانی میں کہیں بھی نہیں ہے. کیا میں آپ سب کو لوگوں کے لیے فالتو ہوں ...... ؟؟ 

کتنی قربانیاں دی ہیں میں نے آپ سب لوگوں کے لیے، جو کچھ سردار بیگم نے کہا میں نے وہ کیا. گل آج تک میں تمہارے خلاف نہیں گیا. تمہاری ہر بات پر امین کہی. شیر علی کی زیادتیاں بھی میں نے چپ کر کے برداشت کی مگر میرا وجود تو آپ کی کہانی میں کہیں بھی نہیں ہے. غلام علی کا گلا کرتا لہجہ گل کو پہلی بار چونکنے نے پر مجبور کر گیا

یہ تم کس طرح بات کر رہے ہو. تمہاری باتوں سے بغاوت کی بو آرہی ہے .غلام علی تم ہم سب میں سے ہو. ہم سب ایک ہیں.گل نے میز پر پڑیں بیکار ٹہنیاں ٹوکری میں پھینکیں. 

میرے ساتھ بھی تم سب لوگ وہی سلوک کرتے رہے ہو. جو ابھی ابھی تم نے ان ٹہنیوں ساتھ کیا ہے. پھول توڑ کے گلدان میں سجا لیے اور باقی سب کوڑے کی نظر کر دیا. 

میرے سینے میں بھی دل ہے. میرے بھی کچھ جذبات ہیں. مگر تم میں سے کسی کو دکھائی ہی نہیں دیتا. سب چاہتے ہیں کہ میں ان کا کام کروں. ان کے بارے میں سوچوں. ان کی بہتری کے لیے کوشش کروں مگر میرے لیے کون کوشش کرے گا. 

میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اپنے لیے خود سوچوں گا. اب میں وہ کروں گا جو مجھے ٹھیک لگے گا. تمہاری اور سردار بیگم کی بہت باتیں مان لیں. نتیجہ صفر نکلا. اب میر کا بندوبست میں اپنے طریقے سے اور خود کروں گا اور دیکھنا اس بار جیت میری ہوگی. غلام علی کے جارحانہ رویے پر گل پریشان ہو گئی. 

تم کچھ نہیں کرو گے. غلام علی تم میں اتنی عقل نہیں ہے. خدا کے لیے شیر علی کی طرح بنا بنایا کھیل بگاڑ مت دینا. پتہ نہیں تم دونوں بھائی دماغ سے کیوں نہیں سوچتے ...... ؟؟ 

سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے. میری پوری کوشش ہے کہ میر باہر کے ملک چلا جائے یا کسی نہ کسی طرح الزام میر کی دوسری بیوی پر آئے اور سردار بیگم جیل سے باہر آ جائیں. 

اگر تم نے اس موقع پر ذرا بھی جلد بازی سے کام لیا یا شیر علی کی طرح کوئی بھی بے وقوفانہ حرکت کی تو ساری گیم الٹ جائے گی. یاد رکھنا شطرنج کی گیم ایک بار خراب ہو جائے تو دوبارہ اس کو سیٹ کرنا مشکل ہو جاتا ہے. گل کے سمجھانے پر شیر علی طنزیہ مسکرایا

گل میں تمہیں آج ایک بات بتاتا ہوں. شاید تم خود بھی اس بات سے بے خبر ہو یا تم اس کا اقرار نہیں کرنا چاہتی. 

تمہیں نہ شیر علی سے محبت تھی. نہ مجھ سے ہمدردی بلکہ تمہاری تمام ہمدردیاں اور محبتیں صرف اور صرف میر ساتھ ہیں. 

جب بھی کوئی میر کے بارے میں کچھ کہتا ہے تو تمہیں سخت برا لگتا ہے. شیر علی نے میر کو مارنا چاہا تو تم اس کے آگے آ گئیں. اسی بات کا دکھ شیر علی کو تھا. وہ تمہاری بےوفائی برداشت نہ کر سکا اور تم پر گولی چلا دی. 

اب اگر میں نے میر کے بندوبست کا ذکر کیا تو تمہیں بہت ناگوار گزرا، حقیقت یہ ہے کہ تم میر کو پسند کرتی ہو.  مگر تم اس بات کا اقرار نہیں کرتی کیونکہ تمہاری انا اڑے آ جاتی ہے. تم میر سے عمر میں بڑی ہو اور یہی بات تمہیں روکتی ہے. غلام علی کی باتوں پر گل کے چہرے کا رنگ سرخ پڑ گیا. 

دفع ہو جاؤ یہاں سے تمہارا دماغ خراب ہے اور میرا بھی کر رہے ہو. خبردار جو آئندہ اس طرح کی بیہودہ گفتگو میرے ساتھ کی تو میں تمہارا منہ توڑ دوں گی. اب یہاں سے چلے جاؤ. میں مزید تمہیں دیکھنا نہیں چاہتی. گل نے کہتے ہوئے اپنا رخ موڑ لیا

سچ ہمیشہ ہی کڑوا ہوتا ہے. انسان خود کو کتنا ہی سچا ظاہر کرے مگر سچائی اس سے برداشت نہیں ہوتی. خیر میں نے تمہیں یہ کہنا تھا کہ اگر میں کسی مصیبت میں پھنسا تو میں شیر علی کی طرح چپ چاپ جان نہیں دوں گا بلکہ آپ کو اپنے ساتھ لے کر ڈوبوں گا. غلام علی کہتا تیزی سے باہر نکل گیا جب کہ گل نے شدید تکلیف اور کرب سے اپنی آنکھیں موند لی.

میر میری شروع سے اب تک ایک ہی خواہش رہی ہے کہ میں تمہیں شیر علی کی طرح خون میں لت پت نہ دیکھوں. تم پاکستان سے چلے کیوں نہیں جاتے. ایک تمہارے جانے سے سب کی زندگیوں میں سکون آ جائے گا. گل نے آنکھیں کھولتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے ابھی ابھی غلام علی گیا تھا. 

🎭🎭🎭🎭

میر یہ سب کیا ہے. تم نے ہمیں یہاں کیوں اکٹھا کیا ہے. اگر کوئی بات کرنی ہے تو تم خود کرو. اس طرح اپنی بیوی کے ہاتھ ہمیں بےعزت مت کرواؤ. اگر اب ہمارا وجود برداشت نہیں ہو رہا تو ہم حویلی چلے جاتے ہیں. گل نے تیکھے لہجے میں زریں کی طرف دیکھتے ہوئے میر سے کہا تو وہ اپنی کنپٹی دبانے لگا

گل آپ شاید بھول جاتی ہیں کہ آپ میری عزت ہیں اور کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ میر کی عزت سے کھیلے. عزین نے محض کچھ باتیں کرنی ہیں اور میں چاہتا ہوں

کہ وہ آپ سب کے سامنے کہے. 

اگر وہ جھوٹی ثابت ہوئی تو میں ابھی اسی وقت اسے گولی مار دوں گا. جب کہ دوسری صورت میں ____ میر نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا

چلو اب بولو بھی، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے. عزین کو خاموش کھڑا دیکھ کر میر نے سرد لہجے میں کہا تو وہ اپنا گلا صاف کرنے لگی

مجھے زندگی میں کبھی اتفاق نہیں ہوا اتنے "بڑے" میرا مطلب ہے کہ "پیسے" والے لوگوں سے خطاب کرنے کا تو اس لیے تھوڑا عجیب سا لگ رہا ہے. خیر ___  عزین کے باتوں پر میر نے اسے گھور کر دیکھا

سب سے پہلی بات جو میں آپ سب کو بتانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ ابھی تھوڑی دیر میں یہاں پولیس کی ریٹ ہوگی. جیسے ہی یہ جملہ عزین کے منہ سے نکلا میر جو اپنا سر دبا رہا تھا ایک دم غصے سے کھڑا ہو گیا

حاشر کے باس!!! ٹکٹ ایزی ___  زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے. مجرم کو پکڑنے کے لیے پولیس کی ضرورت پڑتی ہے. پولیس آپ کی اجازت سے ہی اندر آئے گی. 

میرے بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ بھاگنے کی کوئی کوشش نہ کرے کیونکہ بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا. عزین نے میر کی طرف دیکھتے ہوئے قدر نرم لہجے میں انفارم کیا

میر یہ سب کیا ہے. کون مجرم اور پولیس یہاں کیوں آئے گی. ہم چاروں کے علاوہ یہاں پر ہے ہی کون اور ہم چاروں میں سے کون مجرم ہے. میر یہ سب کیا ہے .....؟ ؟ گل نے شدید غصے سے پوچھا تو میر اس کی طرف پلٹا

گل صرف چند منٹ صبر کر لیں. مجھے لگتا ہے کہ میں عزین کو تھوڑی دیر میں گولی مار دوں گا. میر نے ضبط سے اپنے ہاتھ کی مٹھی بنائی تو اس کی رگیں پھولنے لگی. 

(یہ بھی سہی ہے. مجھ بیچاری کو خامخواہ گولی ماریں گے. میں نے کیا کیا ہے ....؟؟ حاشر کا باس پاگل ___ 

گل نے دل میں سوچتے ہوئے میر کی پشت کو دیکھا) 

سب سے پہلی اور انتہائی  ضروری بات جو میں آپ سب کو بتانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ گل یعنی مسز میر طلال معذور نہیں ہے. 

اور دوسری بات "تیسرا شخص" ہم میں ہی موجود ہے اور وہ تیسرا شخص کوئی اور نہیں بلکہ غلام علی ہے. عزین کی بات پر سب پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے. 

کم از کم میرے لیے تالیاں ہی بجا دیں. عزین نے 

باری باری سب کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا جو اسے خونخوار نظروں سے گھور رہے تھے. 

یہ کیا بکواس ہے. لڑکی تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے. سب سے پہلے غلام علی نے ہوش میں آتے ہی چیخ کر کہا

غلام علی صبر کرو. یہ ہمیں اپنے ہر الزام کا ثبوت دے گی ورنہ دوسری صورت میں میں بتا ہی چکا ہوں کہ کیا ہوگا .....؟؟ میر نے اپنی گن لوڈ کرتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر رکھی

گل چل سکتی ہیں اور مجھے نہیں پتہ کہ انہوں نے معذوری کا ڈھونگ کیوں رچایا. اس بات کا جواب تو وہ ہی دے سکتیں ہیں. 

ہاں البتہ اگر آپ لوگوں کو یقین نہیں آتا. تو میں ایک فوٹیج میر سے شیئر کر دیتی ہوں. وہ دیکھ لیں. جیسے ہی عزین کے منہ سے یہ الفاظ نکلے گل کے ماتھے اور ہتھیلیوں پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے. 

میر یہ جھوٹ بول رہی ہے. ایسا کچھ نہیں ہے. میں سچ کہہ رہی ہوں. تمہیں مجھ پہ اعتبار ہے نااااا ___ گل نے میر کی طرف دیکھتے ہوئے مان سے پوچھا تو میر سر ہلانے لگا

گل آپ پریشان نہ ہوں اور اسے بولنے دیں. میں نے کہا نااااا تھوڑا صبر کریں. زندگی میں پہلی بار میر کی تسلی سے گل کو تسلی نہیں ملی تھی اور وہ  پریشان نظروں سے میر کو دیکھنے لگی

میر یہ فوٹیج نقلی ہے. تمہیں قسم ہے تم کوئی فوٹیج نہیں دیکھو گے. یہ لڑکی مکار ہے، جھوٹی ہے، دھوکے باز ہے. گل نے عزین کو کوسنا شروع کر دیا

آپ تو ابھی سے پریشان ہو گئی ہیں. ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے. عزین نے کہتے ہوئے میر کی طرف دیکھا جو اسے خشگمین نظروں سے گھور رہا تھا. 

ٹھیک ہے میں نے مان لیا کہ گل چل سکتی ہیں. اب آگے کہو کیا کہنا چاہتی ہو .....؟ ؟ میر نے عزین کی طرف دیکھتے ہوئے اسے کہا

چلنے کا گل کو بولیں. میں تو چل سکتی ہوں. عزین نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے میر کی طرف دیکھا تو اس نے اپنا ہاتھ گن کی طرف بڑھایا. اس سے پہلے کہ میر گن کو پکڑتا غلام علی نے گل کے سر پر گن تان لی. 

غلام علی یہ کیا کر رہے ہو. تم ہوش میں تو ہو. تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ......؟ ؟ گل نے غلام علی کی حرکت پر چیخ کر کہا تو عزین اور میر دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے

غلام علی وہ غلطی مت دہرانا جو شیر علی نے کی تھی. اپنی گن  نیچے کرو. تم اچھے سے جانتے ہو کہ میری زندگی میں گل کی کیا اہمیت ہے اور جو لوگ میری زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں اگر ان کی طرف کوئی گندی نظر سے دیکھے تو میں ان کا کیا حال کرتا ہوں ...... ؟؟ 

میر نے سر ترین  لہجے میں کہتے ہوئے اپنا ہاتھ گن کی طرف بڑھایا

آج پانچ سال بعد دوبارہ وہی صورتحال بن گئی ہے. جو اس دن حویلی میں بنی تھی. یاد کرو میر!!! سب کچھ تقریباً ویسا سا ہی ہے. میر کو غلام علی اس وقت کوئی ذہنی مریض لگا

ہاں یہ لڑکی جو بھی بول رہی ہے. سچ بول رہی ہے. گل واقعی ہی چل سکتی ہے مگر شاید آج کے بعد نہ چل سکے کیونکہ ____ غلام علی نے پاگلوں کی طرح ہنسنا شروع کر دیا. 

میں ہی تیسرا شخص ہوں. میں نے تم سب کو کنفیوز کرنے کے لیے "میر" کا حلیہ اپنایا. میر کی چیزوں کو چوری کرنا. چوری چھپے میر کا پرفیوم استعمال کرنا. میرا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے تمہاری یہ دوسری بیوی ذہنی مریض بن جائے گی تو ہمیں تمہیں راستے سے ہٹانے میں آسانی رہے گی مگر یہ ضرورت سے زیادہ تیز نکلی. غلام علی کی بات پر میر کی آنکھوں میں سرخ ڈورے بڑھے

اور میر تم یہ مت سمجھنا کہ گل تمہارے ساتھ مخلص ہے.یہ آغا جان کے قتل میں سردار بیگم کے ساتھ ملی ہوئی تھی. یاد کرو میر تمہیں لان میں کون لے کر گیا تھا ......؟ ؟ غلام علی کے کہنے پر گل نے تیزی سے سر نفی میں ہلایا

میر یہ جھوٹ بول رہا ہے. میں ایسی نہیں ہوں. نہ ہی مجھے آغا جان کے قتل کا پتہ تھا. گل نے تیزی سے سر نفی میں ہلانا شروع کیا تو غلام علی نے گن زور سے گل کے سر پر ماری. 

غلام علی ____ میر نے چیختے ہوئے گن تیزی سے اٹھائی اور پھر لاؤنج میں گولی چلنے کی آواز آئی جس سے پورے لاؤنچ میں سکوت چھا گیا. 

چند لمحوں بعد جب سب کو ہوش آیا تو سب سہی سلامت تھے پھر گولی کس کو لگی......؟ ؟ میر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی گن کو دیکھا پھر غلام علی اور گل کی نظروں کے تعاقب میں، تبھی پولیس سائرن کی آواز سنائی دینے لگی. 

میر ایک بار پھر بیوی قتل کے الزام میں جیل جانے کی تیاری کرو. میں نے کہا تھا نا پانچ سال بعد دوبارہ تاریخ اپنے اپ کو دہرانے لگی ہے. غلام علی کے کہنے پر میر نے اپنی دائیں طرف دیکھا تو عزین خون میں لت پت پڑی تھی. 

پاشا ____  میر نے ہوش میں آتے ہی چیختے ہوئے سیکورٹی انچارج کو آواز دی اور خود عزین کو اٹھانے لگا جو ہوش کی دنیا سے بیگانہ تھی. 

تم دونوں کو اس سب کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی. میر نے کہتے ہوئے عزین کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور باہر کی طرف چل  دیا. 

سر باہر پولیس آئی ہے ____  اس سے پہلے کہ میر لاؤنچ سے باہر قدم رکھتا سیکورٹی انچارج پاشا نے اندر داخل ہوتے ہوئے تیز آواز میں کہا

پولیس کو اندر بھیج دو. ان کے مہمان یہاں موجود ہیں اور تم گاڑی نکالو جلدی. میر کی شرٹ عزین کے خون سے رنگتی جا رہی تھی. 

غلام علی تم نے بھی وہی حرکت کی جو شیر علی نے کی تھی. اب اگر اس لڑکی کو کچھ ہو گیا تو ساری زندگی جیل میں سڑنا پڑے گا. میں آگے ہی سردار بیگم کی وجہ سے پریشان ہوں اور اب تم _____  گل نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا جبکہ غلام علی ہاتھ میں گن تھامے چپ چاپ کھڑا تھ. ا نہ اس کے پاؤں میں کسی قسم کی کوئی حرکت تھی اور نہ چہرے کے تاثرات میں تبدیلی آئی تھی. 

ماجد نے جیسے ہی اپنی ٹیم ساتھ اندر قدم رکھا میر کو اپنی گاڑی پاس پریشان حال پایا. انسپکٹر ____ اس سے کہ ماجد لاؤنچ میں داخل ہوتا میر کے پکارنے پر رکا. 

انسپیکٹر گل میری بیوی ہے اور اس نے کچھ نہیں کیا. آپ میری عزت کا ضرور خیال رکھیے گا. باقی جو قانونی تقاضے ہیں وہ پورا کر لیں. میں کچھ دیر تک آپ سے ملتا ہوں بلکہ میرا وکیل آپ کے پاس خود آ جائے گا. میر نے کہتے ہوئے حاشر کا نمبر ڈائل کیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا جب کہ میر کی شرٹ پہ لگا خون ماجد کو الجھا گیا

خبردار!!! اگر تم میں سے کسی نے بھی مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی یا مجھ پر گولی چلائی تو میں اس لڑکی کو گولی مار دوں گا. غلام علی نے پسٹل گل کے سر پر رکھتے ہوئے اپنے ارد گرد کھڑے سیکورٹی اہل کاروں کو دھمکایا جبکہ حیرت سے گل کی آنکھیں پھیل گئیں. 

اپنی خیریت چاہتے ہو تو ہتھیار ڈال دو. ماجد نے اندر داخل ہوتے ہی غلام علی سے کہا جبکہ غلام علی اور گل کے صحیح سلامت ہونے پر اسے عزین کی کمی کا شدت سے احساس ہوا. 

سارے گھر کی تلاشی لو ____ ماجد نے اہلکاروں کو حکم دیتے غلام علی پر گن تان لی.

اگر تم لوگوں نے میرا راستہ نہ چھوڑا تو میں اسے گولی مار دوں گا اور تم ____  پاشا تم مجھ سے بےوفائی کروں گے. یاد کرو جب تم میرے پاس نوکری کے لیے آئے تھے ....؟؟ غلام علی کی بات پر پاشا نے خاموشی سے سر جھکا لیا.

غلام علی اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دو. میں آخری بار تمہیں کہہ رہا ہوں. ماجد نے غلام علی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا

اگر اب تم نے میری طرف ایک بھی قدم بڑھایا تو میں اسے سچ مچ گولی مار دوں گا. غلام علی نے چیختے ہوئے گل کا بازو زور سے پکڑا تو وہ بھی چیخ اٹھی.

سر سارا گھر چھان مارا ہے کوئی نہیں ہے. جو بھی ہے بس یہیں ہے. اہلکاروں نے واپس لوٹتے ہوئے ماجد کو انفارم کیا تو اس نے حیرت سے زمین پر پڑے خون کی طرف دیکھا

تو پھر یہ خون کس کا ہے ...... ؟؟ ماجد نے گل اور غلام علی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جو بالکل ٹھیک ٹھاک دکھائی دے رہے تھے. 

سر یہ خون میر صاحب کی دوسری بیوی کا ہے. انہیں گولی لگی ہے. جیسے ہی پاشا کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ماجد کو اپنی دھڑکن کانوں میں سنائی دینے لگی. اس سے پہلے کہ کوئی بھی کچھ سمجھتا ماجد نے بغیر دیکھے غلام علی پر گولی چلا دی

گولی لگتے ہی غلام علی ریت کی دیوار کی طرح زمین پر بیٹھتا چلا گیا جبکہ غلام علی کی گرفت ڈھیلی پڑنے پر گل فورا ویل چیئر سے اٹھ کر اندر کی طرف بھاگی اور یہ منظر بہت حیرت سے پاشاہ نے دیکھا

ماجد کے چہرے پر طنزیہ ہنسی تھی. ماجد کے لیے یہ منظر حیران کن نہیں تھا کیونکہ عزین اسے اس بارے میں پہلے ہی بتا چکی تھی. 

اسے فورا گرفتار کر کے ہسپتال لے چلو.ماجد اہلکاروں کو حکم دیتا تیزی سے باہر کی طرف نکل گیا. 

کتنا سمجھایا تھا اس لڑکی کو میں نے مگر اسے میری باتیں سمجھ ہی کب آتی ہیں. پاگل بے وقوف لڑکی!!! نہ جانے کس حال میں ہوگی......؟ ؟ ماجد دل میں سوچتا تیزی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا.

🎭🎭🎭🎭

حاشر یار بڑی گڑبڑ ہو گئی ہے ___ جیسے یہ حاشر نے کال اٹینڈ کی میر کی بہت اداس اور سنجیدہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی. 

میر تو ٹھیک ہے ناااااا ___ کہاں ہے تو ...... ؟؟ حاشر نے پریشانی سے پوچھا جس پر میر پھیکا سا مسکرایا

میں تو ٹھیک ہوں مگر وہ ٹھیک نہیں. میر نے بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے اپنی آنکھیں زور سے بند کی. 

کون گل تو ٹھیک ہے ناااااا کیا ہوا ہے اسے ...... ؟؟ حاشر جانتا تھا کہ میر اب صرف گل کے لیے ہی پریشان ہو سکتا ہے. 

 گل تو ٹھیک ہے مگر وہ ___ میر کے منہ سے عزین کا لفظ نہیں نکل رہا تھا. جس کی اتنی برائیاں وہ کرتا رہا ہے. اب اس کی ہمدردی کس منہ سے کرے وہ بھی حاشر ساتھ، میر نے خاموشی سے آپریشن تھیٹر کے بند دروازے کی طرف دیکھا 

میر کیا ہو گیا ہے کچھ تو بول کیوں اتنا خاموش ہے. میر کی طویل خاموشی پر حاشر نے دوبارہ پوچھا

یارررر وہ عزین کو گولی لگ گئی ہے. میر قدرے آہستگی سے کہا

کیا مگر کیسے ...؟؟ حاشر کے لیے یہ خبر حیران کن تھی. 

یار میں نے غازی سے کہا تھا کہ صرف ڈرانا ہے مگر شاید اس کا نشانہ ____ میر کے لہجے میں واضح شرمندگی تھی. 

میر تو نے یہ کیا کیا ہے اور کیوں .....؟؟ حاشر کو دکھ ہوا

ابھی میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ کیا اور کیوں کا جواب دوں. بس تو ایسا کر کہ فوراً غلام علی کی زمانت کروا کر اسے فام ہاؤس چھوڑ آ ____ میر کی بات پر حاشر سر ہلاتا گاڑی کی چابی اٹھانے لگا. 

میر فون بند کرتے ہوئے تھکے سے انداز میں بنچ پر بیٹھ گیا. کبھی کبھی ہم سوچتے کچھ اور ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے. میں نے یوں پلان نہیں کیا تھا. میر اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اس کا موبائل رنگ کرنے لگا

ہاں پاشا بولو خیریت ....؟؟ میر نے آنکھیں موندتے ہوئے کہا

معزرت میر صاحب مگر اچھی خبر نہیں ہے. پاشا کا لہجہ چونکا دینے والا تھا. 

کیا ہوا ....؟؟ میر نے تیزی سے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا چہرے پر واضح گھبراہٹ تھی. 

میر صاحب ایک تو غلام علی کو گولی لگ گئی ہے اور دوسرا ____ پاشا نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑتے خاموشی اختیار کی تو میر کا پارہ تیزی سے اوپر چڑھنے لگا

جب میں نے سختی سے منع کیا تھا کہ کوئی غلام علی کو کچھ نہیں کہے گا تو کس نے اس پر گولی چلائی اور یہ تمہیں کہاں سے عورتوں جیسی عادتیں پڑ گئی ہیں کہ آدھی بات کر کے آدھی بات ہڈی کی طرح تمہارے گلے میں پھنس جاتی ہے. میر کا غصہ سوا نیزے پر تھا

دوسرا سر گل بی بی نے اپنے اپ کو کمرے میں بند کر لیا ہے وہ کمرہ نہیں کھول رہیں. پاشا کے الفاظ گویا پگھلا ہوا سیسہ ا تھے جو میر کے کان میں اترے. 

اگر گل کو کچھ ہوا تو میں تم سب کی گردنیں اڑا دوں گا. میں آ رہا ہوں. میر نے آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلتا دیکھ کر فون بند کیا. 

ڈاکٹر صاحب سب ٹھیک ہیں ناااااا ____ میر نے ڈاکٹر کے قریب جاتے ہوئے بے چینی سے پوچھا

مسٹر میر سب ٹھیک ٹھاک ہے. کوئی پریشانی والی بات نہیں. وہ اب خطرے سے باہر ہیں. چند گھنٹوں تک وارڈ میں منتقل کر دیں گے. تو آپ ان سے مل سکتے ہیں.  ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں کہتے ہوئے میر کا کاندھا تھپکا اور چل دیا جس پر میر نے سکھ کا سانس لیا

🎭🎭🎭🎭

میں کس منہ سے میر کے سامنے جاؤں گی. اتنے سالوں کی میری ریاضت غلام علی نے پل میں ضائع کر دی. میں کبھی بھی غلام علی کو نہیں بخشوں گی. گل نے پورے کمرے کی شکل بگاڑ کے رکھ دی تھی. 

غلام علی نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ میں میر کا سامنا کر سکوں.اس نے مجھے میر کے آگے دو کوڑی کا کر کے رکھ دیا ہے. مجھے اپنے وجود اپنی زندگی سے نفرت ہو رہی ہے. 

میں ایسی زندگی جی کر کیا کروں گی. جس میں مجھے قدم قدم پر شرمندگی کا سامنا ہوگا.مجھے ایسی زندگی نہیں جینی. گل نے اپنے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے چیخ کر کہا

ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے. گل تو نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے. مجھے اپنی زندگی ختم کر دینی چاہیے مگر میں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بھی اجیرن بنا کر جاؤں گی. 

میں کوئی بے وقوف نہیں کہ خاموشی سے چپ چاپ خودکشی کر کے اس دنیا سے چلی جاؤں بلکہ میں جانے سے پہلے سب کی زندگیوں کو جہنم بنا دوں گی. میر میں تمہیں بھی نہیں بخشوں گی. گل نے دراز سے پیڈ پیپر نکالتے ہوئے اس پر کچھ لکھنا شروع کیا

اب بھلا اس تحریر کو کوئی کیسے جھٹلا سکتا ہے اور کوئی کیسے میری گواہی لے گا کہ یہ سب سچ ہے یا جھوٹ ____  میں قبر سے باہر تو نہیں آ سکتی نااااا. گل نے ابنارمل لوگوں کی طرح پیڈ کی تحریر کو دیکھتے ہوئے قہقہہ لگانا شروع کیا

دروازے پہ ہوتی تیز دستک نے اسے خاموش ہونے پر مجبور کیا. وہ یک دم خاموش ہوتی اپنے ارد گرد چیزوں کو گھورنے لگی. جبکہ دروازے کے باہر کھڑی اس کی ملازمہ اسے مسلسل آوازیں دے رہی تھی. 

خود کو ختم کرنا بہت مشکل ہے مگر گل ہر مشکل کام آسانی سے کر لیتی ہے. گل نے اپنی نبض پر ٹوٹی چوڑی رکھتے ہوئے سوچا اور پھر مسکرا دی. 

گل دروازہ کھولیں. گل جلدی سے دروازہ کھولیں. مجھے مجبور نہ کریں کہ میں اس کو توڑ دوں. مجھے آپ کی کسی بھی بات کا کوئی غصہ نہیں ہے. نہ میں آپ سے ناراض ہوں. میں سچ کہہ رہا ہوں.گل دروازہ کھول دیں ورنہ میں اس کو توڑ دوں گا. اس سے پہلے کہ گل چوڑی کو اپنی نبض پر پھیرتی باہر سے آتی میر کی آواز اسے منجمد کر گئی. 

گل میرے لیے یہ بات کوئی نئی نہیں کہ آپ چل پھر سکتی ہیں. میں بہت شروع سے یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ معذور نہیں مگر میں نے آپ کا راز، راز رکھا. آپ کو کسی کے آگے شرمندہ ہونے نہیں دیا. اس لیے پلیز دروازہ کھول دیں اور کوئی الٹی سیدھی حرکت مت کریں. میر نے ملازموں کو دروازہ توڑنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا

نہیں میر تم کیا میں کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دوں گی کہ وہ میرے کردار یا مجھ پہ کسی قسم کی کوئی انگلی اٹھائے. مجھے سر اٹھا کے جینے کی عادت ہے سر جھکا کے نہیں. 

میں نے تمہارے لیے بہت قربانیاں دی ہیں. میں تمہارے لیے اپنوں سے لڑی ہوں. میں نے تمہارے لیے شیر علی کو کھو دیا اور تم نے مجھے بدلے میں کیا دیا. تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے. مجھے نہیں رہنا تمہارے اس گھر میں، میں بہت دور جا رہی ہوں. گل نہیں کہتے ہوئے تیزی سے چوڑی اپنی نبض پر پھیر دی

گل کی چیخوں اور دروازے کے ٹوٹنے کی آواز نے پورے میر ویلا میں ایک عجیب سا شور برپا کر دیا. میر کو یہ شور حویلی کے اس شور جیسا لگا جس دن آغا جان اسے چھوڑ کر گئے تھے. 

کہیں آج اسے گل بھی نہ چھوڑ جائے ____ اپنے خیال پر میر نے تیزی سے سر نفی میں ہلایا. مگر جیسے ہی اس نے کمرے میں قدم رکھا گل کا بے جان وجود کارپٹ پہ پڑا اسے منہ چڑھا رہا تھا. 

گل اگر اپ سو قتل بھی کر دیں تو میں آپ کو معاف کر دوں گا. آپ نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی ہے. آپ نے اچھا نہیں کیا. میر نے گھٹنوں کے بل اس کے پاس بیٹھتے ہوئے چیخ کر کہا جبکہ باقی ملازم ہاتھ باندھے پیچھے کھڑے تھے. 

🎭🎭🎭🎭

مشینوں میں جکڑی وہ پھول جیسی لڑکی آج بہت خاموش تھی. جس کے منہ سے 24 گھنٹے پھل جھڑیاں سننے کی ماجد کو عادت تھی. 

کاش تم میری بات مان لیتی مگر انسان بہت لالچی ہے. وہ اپنا نقصان اپنی لالچ کے ہاتھوں خود کرتا ہے اور الزام دوسروں کو دیتا ہے. ماجد نے شیشے کی کھڑکی سے اندر جھانکتے دل میں سوچا

اچھی بھلی میری تنخواہ ہے. ہمارا بڑا سکون سے گزارا ہوتا. مگر تمہیں تو عیش عشرت چاہیے تھا. اب بتاؤ اگر لاکھوں دولت میں تمہارے قدموں میں رکھ دوں. تو اس وقت وہ تمہارے کس کام کی ...... ؟؟ 

کاش تم میری باتیں سن سکتی اور میری تکلیف محسوس کر سکتی. میں تم پہ آج کوئی حق نہیں رکھتا مگر پھر بھی مجھے بہت تکلیف ہے. ماجد نے دل میں سوچتے ہوئے اپنی نم آنکھوں کو انگلیوں سے دبایا

ابھی وہ بہت دیر تک عزین سے یوں ہی باتیں کرنا چاہتا تھا مگر اس کی ڈیوٹی اور رشتہ ____  اسے اس بات کی اجازت نہیں دے رہا تھا. تبھی کسی نے اس کے کندھے پر تسلی بخشا رکھا تو وہ پلٹا

غازی تو اس وقت یہاں خیریت ___  تجھے کیسے پتہ چلا کہ زین کو گولی لگی ہے ...... ؟؟ ماجد کے پوچھنے پر غازی نے خاموشی سے سر جھکا لیا تو ماجد کی آنکھوں میں سرخ ڈورے مزید گہرے ہوئے

کہیں تو نے تو نہیں، میرا مطلب ہے کہ عزین کو گولی تو نے تو نہیں ماری ...... ؟؟ اب کی بار ماجد کے لہجے میں عجیب طرح کا غصہ اور یقین تھا

آئی ایم سوری مگر میں اسے مارنا نہیں چاہتا تھا. میر صاحب کا آرڈر تھا کہ صرف ڈرانا ہے مگر جیسے ہی میں نے فائر کیا وہ اپنی جگہ سے ہل گئی. مجھے خود بھی سمجھ نہیں آئی کہ اس کو کھڑے کھڑے کیا ہوا. وہ خاموشی سے کھڑی تھی مگر پھر ____ غازی نے کہتے اپنا سر جھٹکا جب کہ ماجد کی آنکھوں میں شدید غصہ اور نفرت تھی. 

میں تو سمجھ رہا تھا کہ گولی غلام علی نے چلائی ہے. مفت میں اس بیچارے کو بھی کھانی پڑ گئی. ماجد نے افسوس سے غازی کی طرف دیکھا

یہی میر صاحب چاہتے تھے کہ سب کو لگے یہاں تک کہ گل کو بھی کہ گولی غلام علی نے چلائی ہے جبکہ گولی میں نے چلائی تھی. غازی نے اقرار کیا

ایک پولیس انسپیکٹر کے سامنے اقبال جرم کرنے کا مطلب جانتے ہو .....؟ ؟ پہلی بار غازی کو ماجد کے لہجے سے اجنبیت محسوس ہوئی

گرفتار کرنا چاہو تو میں حاضر ہوں مگر ایک بے وفا لڑکی کی اتنی سزا تو بنتی ہے. غازی نے کھڑکی سے اندر جھانکتے ہوئے عزین کی طرف دیکھا 

یہ تیرا مسئلہ نہیں ہے ____  ماجد نے غصے سے غازی کے سینے پر ہاتھ مارا

تو پھر یہ تیرا مسئلہ بھی نہیں ہے. یہ اب میر کا مسئلہ ہے کیونکہ یہ اس کی بیوی ہے. غازی نے ماجد کو حقیقت کا آئینہ دکھایا

تو یہاں میرے زخموں پہ نمک چھیڑکنے آیا ہے. ماجد نے کہتے ہوئے کوریڈور میں چلنا شروع کیا. 

نہیں میں تجھے لینے آیا ہوں. چل گاؤں چلتے ہیں. غازی نے محبت سے ماجد کے کندھے پر بازو پھیلائے تو اس نے غازی کا بازو جھٹک دیا

میں نے تجھے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں نے گاؤں نہیں جانا. ماجد کے لہجے میں ناراضگی تھی.

"یہی حالات  ابتدا  سے   رہے

لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے" 

غازی کہتا ماجد کے ساتھ ساتھ چلنے لگا. 

آپ کو کیا لگا تھا کہ میں آپ کی حقیقت جاننے کے بعد آپ کو چھوڑ دوں گا یا میں آپ کو شرمندہ کر سکتا ہوں. مجھے آپ کی سوچ پر حیرت ہے. میر نے گل کے بیڈ کی پائنتی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا

کچھ تو تکلیف تھی اور کچھ شرمندگی، گل اپنے آپ میں اتنی طاقت نہیں پا رہی تھی کہ وہ میر کی طرف دیکھتی. اس لیے چپ چاپ آنکھیں بند کیے لیٹی رہی. ڈرپ سے نکلتا قطرہ قطرہ گلوکوز اس کے جسم کو ٹھنڈا کر رہا تھا. 

میں یہ بات اب سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے جانتا ہوں کہ آپ چل پھر سکتی ہیں. مجھے غصہ بھی اسی بات کا تھا کہ آپ مجھ سے یہ بات کیوں چھپا رہی ہیں اور آج مجھے آپ میرے اس سوال کا جواب دیں گی ...... ؟؟ 

یہ بات بھی بہت اچھے سے جانتا ہوں کہ آپ مجھے بہت پسند کرتی ہیں. اگر آپ مجھے پسند نہ کرتیں تو کبھی بھی میرے لیے شیر علی سے نہ لڑتیں. سردار بیگم کے خلاف نہ جاتیں. بہت معذرت لیکن میں نے آپ کی باتیں سنی تھی. میر کے اس انکشاف پر گل کو اپنے گال دہکتے ہوئے محسوس ہوئے. 

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ محض شیر علی کو روکنے کے لیے میرے آگے آئیں تھیں. آپ کے لاشعور میں یہ بات کہیں نہیں تھی کہ آپ میری خاطر گولی کھائیں گی. 

مگر کیونکہ شیر علی کے سر پہ خون سوار تھا. تو اس نے آپ کو بھی خاطر میں نہیں لایا اور گولی چلا دی. اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتی کہ آپ نے میرے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں. جس میں سے سب سے بڑی قربانی آپ کی یہ معذوری ہے. 

جہاں تک میرا اندازہ ہے تو آپ نے اسی لیے اپنی تندرستی کو چھپایا کہ آپ اس معذوری کے سر پر مجھ پر اپنا احسان جتلانا چاہتی تھی اور مجھے اپنے احسان کے نیچے دبا کے رکھنا چاہتی تھی تاکہ اپ سر اٹھا کے جی سکیں اور میں آپ کے آگے سر  نہ اٹھا سکوں. 

میں اچھے سے جانتا ہوں کہ اپ سو نہیں رہیں. اس لیے اپ یہ ناٹک نہ کریں اور مجھے میرے سوال کا جواب دیں کہ جب آپ مجھے پسند کرتی تھی تو پھر آپ نے دوسروں کا ساتھ کیوں دیا. آپ مجھے آغا جان کے خلاف ہونے والی سازش سے آگاہ تو کر سکتی تھی نااااا ___ اگر آپ مجھے وقت پر بتا دیتی تو شاید آغا جان آج ہم میں موجود ہوتے. میر کے لہجے میں گلہ تھا. 

گل میں آپ سے بات کر رہا ہوں. میر نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے قدرے تیز لہجے میں پوچھا تو وہ کانپ اٹھی. 

تم یہ سب کچھ پہلے سے جانتے تھے. تو تم مجھے بتا سکتے تھے. گل نے آنکھوں سے بازو اٹھاتے ہوئے نظریں چرائیں. 

فلحال آپ مجھ سے سوال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں. لہٰذا آپ مجھے صرف میرے سوال کا جواب دیں. میر نے گل پر جھکتے ہوئے پوچھا

سردار بیگم میری آپا ہیں اور تم نے میری آپا ساتھ ہمیشہ برا سلوک کیا ہے. جیسی بھی ہیں وہ تمہاری سوتیلی ماں ہیں. ان کا احترام تم پہ فرض ہے مگر تم نے کبھی انہیں ان کی جگہ اور رتبہ نہیں دیا. 

حالانکہ میں نے تمہیں ہمیشہ اہمیت دی اور سب کے دلوں میں تمہارے لیے جگہ بنانے کی کوشش بھی کی مگر تم نے بدلے میں کیا کیا میری آپا کو ہی جیل بھیج دیا. اب کی بار گل نے برائے راست میر کی آنکھوں میں جھانکا

اچھا تو آپ کے خیال سے قاتل کو جیل نہیں بلکہ سر آنکھوں پہ بیٹھانا چاہیے تھا. آپ جانتی ہیں کہ آغا جان کی میری زندگی میں کیا اہمیت تھی. پھر بھی ایسا بول رہی ہیں. مجھے آپ کی سوچ پر افسوس ہے. میر کہتا ہوا جھٹکے سے پیچھے ہٹا. 

سردار بیگم نے صرف ایسا سوچا تھا مگر کچھ ایسا ویسا نہیں کیا تھا جس کی بنا پر انہیں سزا دی جاتی. شیر علی نے جو گناہ کیا تھا اسے اس کی سزا مل گئی تھی. 

لیکن پھر بھی تم نے کسی کی ایک نہ سنی اور انہیں جیل بھیج دیا. تم خود سوچو کہ ایک عورت کی عزت کتنی نازک ہوتی ہے. وہ بھی ایسی عورت جو اتنے لوگوں پر راج کرتی ہو اور اسے جیل میں بھیج دیا جائے. تو اس کی انا کتنی ہرٹ ہوگی. 

اگر تمہاری اپنی ماں ہوتی تو کیا تم اس کے ساتھ ایسا سلوک ہی کرتے. تم نے ساری زندگی سردار بیگم کو اپنی ماں تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ ان کی انا کو ہرٹ کیا. میر تم مانو یا نہ مانو مگر ان کے رویے کے ذمہ دار تم خود ہو. 

اگر تم انہیں اپنی ماں سمجھتے  تو وہ بھی تمہیں اپنا بیٹا تسلیم کرتیں. وہ ایک بے اولاد عورت ہیں اگر تم انہیں محبت دیتے تو بدلے میں وہ بھی تم پر اپنی ممتا نچھاور کرتیں مگر نہیں. میر غلطی ہمیشہ دوسرے کی نظر آتی ہے اپنی نہیں. گل کی باتوں پر میر طنزاً مسکرایا 

تم خود تو باہر آ گئے مگر سردار بیگم کو تم نے باہر نہیں آنے دیا. میں جتنی بھی کوشش کرتی رہی تم نے میری ہر کوشش کو اپنے پیسے اور چال سے ناکام بنا دیا. ایسے میں تم مجھ سے وفا کی امید کیسے رکھ سکتے ہو .....؟ ؟گل کا انداز سوالیہ تھا. 

یعنی آپ کو بھی مجھ سے نہیں بلکہ اپنوں سے ہمدردی ہے اور میں خواہ مخواہ اس عزم میں رہا کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے. میر کے لہجے میں واضح دکھ تھا. 

میں نے تم سے کبھی محبت کے دعوے نہیں کیے. گل نے جیسے یاد دہانی کرائی. 

بہت بہتر ____  پھر میں بھی آج آپ کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں گلبدین طلال میر!!! کے آغا جان کی جان شیر علی نے نہیں بلکہ سردار بیگم نے لی تھی اور اس چیز کا اقرار غلام علی نے کیا ہے

اسی ایک اقرار کی وجہ سے ابھی تک سردار بیگم جیل میں ہے کیونکہ مجھے آغا جان کی موت کی حقیقت جاننی تھی کہ اصل مجرم کون ہے ..... ؟؟

دوسرا جھٹکا آپ کے لیے یہ ہے کہ عزین کو گولی غلام علی نے نہیں بلکہ میرے قریبی ساتھی غازی نے ماری ہے. لہذا غلام علی بے گناہ ہے مگر صرف میری نظر میں ____ بالکل ویسے ہی جیسے سردار بیگم بے گناہ ہیں آپ کی نظر میں ____ میر کے چہرے پر دل جلانے والی مسکراہٹ تھی. 

گل آپ کے پاس میرے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ میں غلام علی کو بھی وہیں بھیج دوں گا جہاں سردار بیگم ہے اور اگر آپ چاہتی ہیں کہ ان دونوں کو رہائی ملے اور وہ باعزت زندگی گزاریں. تو اس کے لیے آپ کو میرا ایک کام کرنا ہوگا. اب کی بار میر نے مطمئن سے انداز میں مسکراتے ہوئے گل کی طرف دیکھا

کیسا کام .....؟؟ گل نے فوراً پوچھا تو گل کی جلد بازی پر میر نے ہلکا سا قہقہہ لگایا

اتنی بھی کیا جلدی ہے. پہلے آپ ٹھیک ہو جائیں. دوسرا غلام علی کو ذرا تھانے کی ہوا کھانے دیں. اس کی طرف بھی میرے بہت حساب نکلتے ہیں. میر کے جواب پر گل نے اپنی آنکھیں موند لیں. 

🎭🎭🎭🎭

ہائے میری زریں اتنی بڑی گاڑی میں آئی ہے. جیسے ہی زری گاڑی سے اتری ماسی پھلاں نے اسے دیکھ کر خوشی سے کہا

ماسی کیسی ہے تو، دیکھ میں تیرے لیے شہر سے کتنی ساری چیزیں لائی ہوں ...... ؟؟ زری نے ماسی پھلاں سے گلے ملتے ہوئے محبت سے کہا

آئے ہائے کتنی بار منع کیا ہے یوں مذاق نہیں کرتے، وہ تیرے سر کا سائیں ہے سامان نہیں ____ ماسی نے زریں کے پیچھے غازی کو دیکھتے ہوئے اسے ٹکا تو زریں نے حیرت سے اپنے پیچھے دیکھا

ماسی میں اس کی نہیں اس سامان کی بات کر رہی ہوں. جو گاڑی میں رکھا ہوا ہے. اب کی بار زری نے قدر ناراض لہجے میں جواب دیا تو ماسی اپنا سر نفی میں ہلانے لگی

زری تجھ میں ذرا فرق نہیں پڑا. وہی تیری حرکتیں ہیں جو پہلے تھیں. کتنی بار کہا ہے یوں بات نہیں کرتے. ابھی ماسی ابھی اسے سمجھا ہی رہی تھی کہ غازی نے آگے بڑھتے ہوئے سلام کیا. 

واہ ماشاءاللہ میرا بیٹا تو بالکل ٹھیک ہو گیا ہے. مجھے یقین تھا کہ تو ہی مجھ سے ملنے آئے گ. ا زری تو شہر جا کر مجھے بھول ہی گئی تھی. ماسی نے فوراً روتے ہوئے غازی کو اپنے گلے لگایا 

ماسی ایک تو میں تیرے بے وجہ کے رونے سے بہت تنگ ہوں. تو خوشی میں بھی رونے لگتی ہے اور دکھ میں تو تیرا کوئی مقابلہ ہی نہیں. زری کہتی ہوئی قریب پڑی چارپائی پر بیٹھ گئی. 

ماسی یہ تو خیر واقعی ہی آپ سے ملنے آئی ہے مگر آج میں آپ سے ایک ضروری بات کرنے آیا ہوں. غازی نے ماسی سے جدا ہوتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تو ماسی نے زری کی طرف دیکھا. 

دھوکہ دینا میری فطرت نہیں ہے. میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کا سانول نہیں یعنی میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں. آپ کسی غلط فہمی میں مت رہیں. غازی کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی ماسی نے اپنی نم آنکھیں اپنی چادر سے صاف کیں. 

میں جانتی ہوں کہ تو میرا سانول نہیں ہے. تو میرا سانول کیسے ہو سکتا ہے. اسے تو میں نے اپنے ہاتھوں سے بیچ دیا تھا. ماسی کے اا اقرار پر زریں ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ غازی کی آنکھوں میں بھی حیرت تھی. 

ماسی تو ساری زندگی مجھ سے جھوٹ بولتی رہی اور گاؤں والوں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکتی رہی ہے. مگر کیوں ....؟؟ زری نے ماسی کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا تو غازی نے زریں کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے روکا

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے. جب اس گاؤں میں سیلاب کی وجہ سے سخت قحط پڑ گیا تھا. میرا سانول بھوک پیاس کی شدت سے دن رات روتا تھا. مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا تھا. 

مجھے کسی نے بتایا کہ فلاں جگہ پر ایک جوڑا شہر سے آیا ہے. جس کی اولاد نہیں ہے. وہ والدین کی باہمی رضامندی سے ایک بچہ گود لینا چاہتے ہیں اور بدلے میں پیسہ بھی دیں گے. تو میں اپنے سانول کو اچھی زندگی کی خاطر ان کے ہاں بیچنے چلی گئی. 

گاؤں والوں کو میں نے یہی بتایا کہ میرا پاؤں سلپ ہو گیا تھا اور سانول میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر پانی میں گر گیا. سات سالہ بچہ کیا خود کا بچاؤ کرتا....؟؟ گاؤں والے اسے مردہ سمجھنے لگے

مگر جیسے جیسے دن گزرتے گئے میرے دل میں ایک گرہ سی پڑ گئی کہ میں نے غلط کیا ہے. میں دن رات اس کی یاد میں روتی اور خود کو ملامت کرتی رہی. مگر پتہ نہیں کیوں مجھے یقین ہے وہ ایک دن بڑا آدمی بن کر ضرور واپس آئے گا.ماسی نے کہتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے. 

ماسی تجھے یہ سچ کم از کم مجھ سے تو چھپانا نہیں چاہیے تھا. زری نے ناراض نظروں سے ماسی کی طرف دیکھا تو ماسی پھلاں نے اسے زبردستی اپنے ساتھ لگاتے ہوئے پیار کیا

ماسی جن لوگوں کو آپ نے اپنا بیٹا بیچا تھا کیا انہوں نے پیسے کے علاوہ آپ کو کوئی رسید یا  کوئی نشانی دی تھی .....؟؟ غازی کے پوچھنے پر ماسی اور زری نے اس کی طرف دیکھا

ہاں انہوں نے مجھے ایک چھوٹا سا کاغذ کا گتا دیا تھا

 میں نے وہ سنبھال کے رکھا ہوا ہے. ماسی کے جواب پر غازی کے چہرے پر ایک اطمینان بھری لہر دوڑ گئی

کیا آپ وہ گتا مجھے دکھا سکتی ہیں ....؟؟ غازی کے کہنے پہ ماسی زری کو چھوڑ کر اندر کی طرف بڑھ گئی. 

اس گتے سے ماسی کے بیٹے کا کیسے پتہ چلے گا.....؟ ؟ زری نے حیرت سے غازی سے پوچھا تو وہ مسکرانے لگا

وہ گتا اصل میں وزٹنگ کارڈ ہے جس پر ان کا ایڈریس لکھا ہوگا. پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے....؟؟ غازی نے کمرے سے باہر آتی ماسی پھلاں کی طرف دیکھتے ہوئے زری کو جواب دیا

لے پتر یہ گتا انہوں نے مجھے دیا تھا. دیکھ اس سے میرے بیٹے کا اگر پتہ چل جائے. میں صرف ایک بار اسے دیکھنا چاہتی ہوں ماسی کی آواز نم ہو گئی. جب کہ غازی نے ماسی کے ہاتھ سے کارڈ لیا. 

ناقابل یقین ( unbelievable ) ____ کارڈ پر لکھی تحریر کو پڑھتے ہی غازی کے منہ سے یہ لفظ نکلا

 اس بات کا کیا مطلب ہوا .....؟؟ ماسی اور زری نے ایک ساتھ غازی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

اس بات کا یہ مطلب ہے کہ ماسی اگر آپ اپنے  بیٹے سے ملنا چاہتی ہیں تو آپ کو ہمارے ساتھ شہر جانا ہوگا کیونکہ وہ یہاں نہیں آئے گا. اس بیچارے کو کیا پتہ کہ اس گاؤں میں اس کی ایک بوڑھی ماں ہے جو اس کے انتظار میں بیٹھی ہے. غازی کے بتانے پر ماسی نے جلدی جلدی اپنی چادر سر پر لی. ( جیسے کہہ رہی ہو کہ چلیں ) 

ماسی میں ابھی اتنا سفر کر کے آئی ہوں. میں واپس نہیں جاؤں گی. میں آپ کے ہاتھ کی بنی بیسن کی روٹی اور ساگ کھاؤں گی. اپنے گاؤں میں گھوموں پھروں گی. کھیت دیکھوں گی. اپنی سہیلیوں سے ملوں گی. اس کے بعد ہم کل واپس چلیں گے. زری نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے ماسی سے کہا تو غازی نے اسے گھورا

تم نے کہا تھا کہ تم صرف ماسی سے ملنا چاہتی ہو. مگر اب تم پھیل رہی ہو.  میرے پاس اتنا وقت نہیں. بس گھنٹہ ایک میں رکوں گا. اس کے بعد واپس لوٹ جاؤں گا. تم نے اگر میرے ساتھ چلنا ہوا تو ٹھیک ورنہ میں ماسی کو لے جاؤں گا. غازی کی وارننگ پر زری منہ بناتے ہوئے ماسی کو دیکھنے لگی جبکہ وہ ان دونوں کی نوک جوک پہ ہنس پڑی. 

🎭🎭🎭🎭

عزین میں تم سے بہت شرمندہ ہوں. میں تمہیں تکلیف نہیں پہنچاتا چاہتا تھا مگر غلطی سے تمہیں تکلیف پہنچ گئی. میر نے عزین کے پاس بیٹھتے ہوئے اپنے ازلی سرد لہجے میں کہا تو وہ تکلیف کے باوجود مسکرا دی

سر آپ کے منہ سے ایسے جملے اچھے نہیں بلکہ مزاحیہ خیز لگتے ہیں. لہٰذا اپ معذرت رہنے دیں اور یہ بتائیں کہ آپ کا کام ہو گیا یا نہیں کیونکہ میرا تو کام ہو گیا ہے .....؟ ؟ عزین کے اس طرح پوچھنے پر ہلکی سی مسکراہٹ میر کے لبوں کو چھو گئی

بس یوں سمجھو کہ آدھا کام ہو گیا ہے اور آدھا رہ گیا ہے. میر کے جواب پر عزین کی حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں. 

سر اگر اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی صرف آدھا کام ہوا ہے تو پورا کام میری فاتحہ پر ختم ہو گا. عزین نے سنجیدگی سے میر کی طرف دیکھا

تم بےفکر رہو. جتنا کام تم نے کرنا تھا وہ تم نے کر دیا ہے. اب تم میری طرف سے فارغ ہو اور معاہدے کے مطابق میں تمہیں وہ تمام چیزیں دوں گا جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا. 

میں نے حاشر کو ان تمام چیزوں کے لیے بول دیا ہے. پیپرز بن جائیں تو میں ان پر سائن کر دوں گا. میر کہتا ہوا کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کوٹ کے بٹن بند کرنے لگا

اور ہاں تم ایک بہت اچھی اور وفادار لڑکی ہو. میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی بغیر لالچ کے کفایت شعاری ساتھ گزارو. یقین مانو اس میں بڑا سکون ہے. آگے تمہاری مرضی ____ میر مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا. 

میر صاحب آپ درست کہتے ہیں کہ کفایت شعاری میں بڑا سکون ہے مگر میں کیا کروں. مجھے اس میں سکون نہیں ملتا. میں اپنی زندگی اپنی پسند سے گزارنا چاہتی ہوں اور زندگی اپنی پسند سے گزارنے کے لیے بہت سے مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے. 

اب جب کہ میں نے بہت سی مال و دولت حاصل کر لی ہے. تو میں ماجد ساتھ ایک اچھی زندگی گزار سکتی ہوں. بشرطیہ اگر وہ چاہے تو .....؟ ؟ عزین نے خود کلامی کی. 

ٹرن ٹرن ___ میر ہسپتال کے کوریڈور سے گزر رہا تھا جب اس کے موبائل پر غازی کی کال آئی. 

ہاں غازی بولو ____ میر نے بلیو ٹوٹھ کو ہاتھ لگاتے ہوئے پوچھا جب کہ نظر قریب سے گزرتے ہوئے ماجد پر تھی جو ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لیے ہوئے تھا. 

ٹھیک ہے تم حاشر سے مل لو وہ تمہارا کام کر دے گا. میں اسے بول دیتا ہوں. میر نے کہتے ہوئے قدم پارکنگ کی طرف بڑھائے جہاں گل گاڑی میں اس کا انتظار کر رہی تھی. 

مس عزین!!! میں آپ کو آپ کے اس عظیم کارنامے پر بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں. ماجد نے اپنے لہجے میں طنز سموتے ہوئے پھولوں کا گلدستہ اس کے پاس رکھا. 

کاش تم بھی کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیتے تو میں تمہیں گلدستے کے ساتھ بہت سی چوکلیٹ بھی دیتی. عزین نے گلدستے کو اٹھاتے ہوئے سونگھا

شرم تو نہیں آتی ___ تمہاری جان دی جا سکتی تھی. ماجد نے افسوس بھری نظر عزین پر ڈالتے ہوئے کرسی اپنی طرف کھینچی. 

آتی ہے اگر تم کچھ رومینٹک ڈائیلاگز بولو تو میں تمہیں شرما کے دکھا سکتی ہوں مگر تم ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہو تو ڈانٹنے پہ تو کسی کو شرم نہیں آتی. عزین نے کندھے اچکائے تو ماجد نے اس پر افسوس بھری نظر ڈالی

یہ جو تم مجھے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہو اگر اس کی بجائے تم مجھے محبت سے دیکھو تو مزہ آ جائے. اتنی تکلیف کے باوجود بھی عزین کے چہرے پر مسکراہٹ تھی. 

میں اس وقت ڈیوٹی پر ہوں اور تمہارا بیان ریکارڈ کرنے آیا ہوں. لہذا مجھ سے تو تم ہسپتال کے اس کمرے میں کوئی ایسی امید نہ رکھو. ماجد نے کہتے ہوئے ریسٹ واچ پر نظر ڈالی. 

پھر کس کمرے میں امید رکھی جا سکتی ہے....؟؟ عزین کی آنکھوں اور لہجے سے شرارت تھی. 

عزین ____ ماجد کے پکارنے پر عزین نے اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھے. 

🎭🎭🎭🎭

🌹ایک ماہ بعد.....

پھر آپ نے کیا سوچا ہے .....؟ ؟ میر نے گل کے آگے کافی کا کپ رکھتے ہوئے پوچھا

تمہارے سوال کا جواب دینے سے پہلے مجھے اپنے ایک سوال کا جواب چاہیے. گل نے کپ اٹھاتے ہوئے اترا کر کہا

پوچھیں ____ یک لفظی جواب آیا. 

مجھے اتنی تو سمجھ آگئی ہے کہ تم نے عزین سے شادی کیوں کی تھی مگر تم نے اسے کیوں چھوڑا یہ سمجھ نہیں آ رہی .....؟؟ گل کے سوال پر میر مبہم سا مسکرایا. 

کیا میں اسے پروفیشنل جیلسی سمجھوں .....؟ ؟ میر نے ایک ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا

کہہ سکتے ہو ___ گل نے گھونٹ بھرتے ہوئے کپ کی حرارت اپنے ہاتھوں میں منتقل کی. 

عزین کا تعلق ہمارے معاشرے کے ایک ایسے طبقے سے ہے جس کا نام لینا بھی شرفا میں معیوب سمجھا جاتا ہے. 

لیکن کیونکہ یہ لڑکی خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ذہین بھی ہے. تو اس نے تعلیم حاصل کر کے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیا ہے کہ وہ شرفا میں بیٹھ سکے. 

میں نے اس لڑکی کا انتخاب اسی لیے کیا تھا کیونکہ کوئی شریف لڑکی کبھی بھی کسی بھی صورت میری عارضی یا مصنوعی بیوی نہ بنتی. میں نے اس کی اچھی طرح تحقیق کرنے کے بعد اس کا انتخاب کیا تھا اور میں جانتا تھا کہ یہ کبھی بھی میرے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کر سکتی. 

کیا آپ جاننا چاہتی ہیں کہ عزین کا تعلق ہمارے معاشرے کے کس طبقے سے ہے .... ؟؟ میر نے گل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا 

اگر میں غلط نہیں ہوں تو عزین کا تعلق بازار حسن سے ہے. گل کے جواب پر میر نے اسے داد دیتی نظروں سے دیکھا

آپ کی یہی باتیں مجھے آپ کا گرویدہ بناتی ہیں. کیا ایسی لڑکی میری بیوی بننے کے قابل ہے .....؟ ؟ 

میں اس سے ہمدردی تو کر سکتا ہوں مگر محبت نہیں اور بیوی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. میر کے جواب پر گل نے کافی کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کرسی سا ٹیک لگائی جیسے اسے اس جواب سے ایک سکون ملا ہو. 

مگر تم نے کہا تھا کہ اس کا ایک عدد منگیتر بھی ہے. کچھ یاد آنے پر گل نے چونکتے ہوئے میر سے پوچھا

ہاں بالکل ہے. عزین کا تعلق ریل گاڑی کے پھاٹک کے قریب واقع بازار حسن سے ہے جبکہ اس کا منگیتر پھاٹک کے قریب ہی پائے جانے والے یتیم خانے سے تعلق رکھتا ہے. اس طرح ان دونوں کا بچپن ریل گاڑی کی پٹری پر کھیلتے ہوئے ساتھ گزرا ہے. 

کیونکہ اس لڑکے کے آگے پیچھے بھی کوئی نہیں ہے.یہ لڑکی ہی اس کی واحد "اپنی" ہے. پھر محبت تو اندھی ہوتی ہے. ویسے یہ لڑکی بھی اتنی بری نہیں. اس جیسے لڑکے کے لیے ٹھیک ہے بلکہ پرفیکٹ ____ میر نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے تبصرہ کیا. 

ہممممم ___ گل نے ایک گہرا سانس خارج کیا. 

چلیں اب آپ میرے سوال کا جواب دیں کہ آپ میرے ساتھ لندن جانے کو تیار ہیں اور ہم وہاں ایک پریکٹیکل میاں بیوی کی طرح زندگی گزاریں گے. میر کے دوبارہ پوچھنے پر گل نے اس کیطرف پرسوچ نظروں سے دیکھا 

اگر آپ ہاں کہیں گی تو میں صرف آپ کی وجہ سے 

غلام علی اور سردار بیگم کو معاف کر دوں گا. نہ صرف معاف کروں گا بلکہ آغا  جان کی حویلی بھی انہیں دے دوں گا. بولیں منظور ہے مگر اس سے زیادہ کی مجھ سے امید مت رکھیے گا. میر کے جواب پر گل نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا

پھر میں سیٹ کنفرم کروا لوں. میر نے یقین دہانی کے لیے گل کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دی. 

🎭🎭🎭🎭

پتر تقریبا مہینہ ہونے کو آیا ہے مگر ابھی تک تو مجھے میرے بیٹے سے ملوانے کے لیے نہیں لے کر گیا. نہ وہ مجھے ملنے آیا ہے. تو ایسا کر مجھے واپس گاؤں چھوڑ آ ___ 

ماسی پھلاں نے غازی کی طرف دیکھتے ہوئے مایوسی سے کہا

ماسی اب آپ کو گاؤں جانے کی ضرورت نہیں ہے. آپ کا بیٹا اور بیٹی شہر میں ہیں تو آپ بھی یہاں ان کے پاس رہیں اور ان کے بچوں کو اپنی گود میں کھلائیں. غازی نے اپنے جوگر پہنتے ہوئے جواب دیا تو زری نے اسے گھور کر دیکھا

یہ بات تو مجھے پچھلے ایک مہینے سے بول رہا ہے مگر میرا بیٹا کہاں ہے. میں اسے ملنے کے لیے گاؤں سے یہاں آئی تھی. ماسی نے ناراض ہوتے ہوئے پوچھا

ماسی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے. آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہو گی .....؟ ؟ غازی نے اپنی جیکٹ پہنتے ہوئے ماسی سے پوچھا تو وہ اپنا رخ موڑ گئیں. 

مجھے تم شہری لوگوں کی باتیں سمجھ نہیں آتیں. جو بھی کہنا ہے سیدھا سیدھا کہہ ___ ماسی نے غازی کی طرف دیکھے بغیر کہا تو غازی مسکرا دیا. (اس عمر میں بھی بڑا ایٹیٹیوڈ ہے). 

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنے  بیٹے کے ساتھ ساتھ بہو مفت ملے گی. غازی کے جواب پر ماسی پھلاں نے چونک کے اس کی طرف دیکھا

اصل میں آپ کی بہو کچھ بیمار تھی. تو میں اس کے ٹھیک ہونے کا انتظار کر رہا تھا. اب وہ بالکل ٹھیک ہے. گھر شفٹ ہو گئی ہے. تو ہم آج شام اس سے ملنے جائیں گے. آپ اور زری تیار رہنا. غازی کہتا ہوا فلیٹ سے باہر چلا گیا جب کہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگی

تیرا بندہ جھوٹ تو نہیں بول رہا .....؟؟ ماسی نے غازی کے جاتے ہی سرگوشی نما آواز میں زری سے پوچھا

میں نے اسے کبھی سچ بولتے نہیں دیکھا ____  زری کے جواب پر دونوں ہنسنے لگیں. 

🎭🎭🎭🎭

سرسوں کے کھیت میں کھلے پیلے پھول اور ٹھنڈی دھوپ عزین کو بہت پیاری لگ رہی تھی. 

دیکھو یہ منظر کتنا خوبصورت ہے. زری نے اپنے پاس کھڑے ماجد کو مخاطب کیا 

ہاں ہے مگر تم سے زیادہ نہیں ___  ماجد کے لہجے اور آنکھوں میں عزین کی محبت چمک رہی تھی. 

اتنے سستے ڈائیلاگز مت بولا کرو. سارے موڈ کا ستیا ناس ہو جاتا ہے. عزین نے ناراضگی سے ماجد کی طرف دیکھا تو وہ ہنسنے لگا

ٹھیک ہے پھر تو مجھے میرے ڈائیلاگز کی پیمنٹ کر دیا کرو تو یہ مہنگے ہو جائیں گے. ماجد نے حل بتایا. 

زیادہ فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے. میں تمہیں یہ کہہ رہی تھی کہ دیکھو یہ منظر کتنا خوبصورت ہے. میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے یہ سب دیکھنے کو ملے گا. عزین کی آنکھوں میں ایک حسرت تھی جسے ماجد پڑھ سکتا تھا

اسی لیے کہتا ہوں کہ دولت ہی سب کچھ نہیں ہوتی. دیکھو یہ منظر ہم مفت میں دیکھ رہے ہیں اور ہمیں اس سے خوشی بھی مل رہی ہے. ماجد نے سمجھانا چاہا جس پر عزین ناراض ہو گئی. 

ایک تو مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی. پل میں تولہ پل میں ماشہ ___ اب میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ تم ناراض ہو گئی ہو.....؟ ؟ ماجد نے اس کا اداس چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا

ایس ایچ او ماجد!!! اگر کبھی فرصت ملے تو لٹریچر بھی پڑھیے گا عورت سمجھنے کے لیے نہیں محبت کرنے کے لیے بنائی گئی ہے. 

جی بہتر اور کوئی حکم ___ ماجد نے عزین کے جواب پر فورا سر کو خم دیتے ہوئے جھکایا تو دور بیٹھی ساگ کاٹتی ماسی پھلاں نے اسے آواز دی. 

چلو اماں بلا رہی ہیں. باقی باتیں پھر صحیح ___ ماجد نے محبت سے اپنی بازو عزین کے گرد پھیلاتے ہوئے کہا تو وہ دونوں ماسی پھلاں کی طرف چل دیے. 

"تم میری زندگی کا خوبصورت آثاثہ ہو۔ اللہ تمہیں میرے علاوہ ہر بلا سے محفوظ رکھے۔" 

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Aib E Yaar Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Aib E Yaar written by  Amna Mahmood .Aib E Yaar by  Amna Mahmood  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages