Pages

Friday 20 September 2024

Dastaan e Junoon by Hamna Mohsin Complete Romantic Novel

Dastaan E Junoon By Humna Mohsin  Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dastaan e Junoon by Hamna Mohsin Complete Romantic Novel 

Novel Name: Dastaan e Junoon

Writer Name:  Hamna Mohsin

Category: Complete Novel

ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ . ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮨﺮ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺩ ﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ . ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺩﻭ ﮔﯿﻨﭩﮯ ﺳﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪ ﺗﮭﺎ . ﺍﺱ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﭘﮧ ﺗﮭﺎ .

ﺍﺏ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﻮ ﮔﯽ ﻋﻨﺎﯾﺎ . ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﮰﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﭼﺎﺑﯿﺎﮞ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﻞ ﻧﻤﺎ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﺳﮯ ﺑﺎ ﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ.

وہ ایک بہت بڑے پولیس افسر کا بیٹا تھا. مگر انتہائ بگڑا ہوا لڑکا تھا. اکلوتا ہونے کے باعث وہ ناز و نعم سے پلا تھا. کالج میں اس کا ایک اپنا گینگ تھا.جس کا وہ سربراہ تھا. سب سے لڑنا, مار پیٹ, دھونس جمانا اس کے پسندیدہ کام تھے.

مگر اس ایک لڑکی عنایا نے اس کو سب کچھ بھلا دیا تھا.

         -------------------------

عنایا کا کالج میں پہلا دن تھا. وہ نہیں جانتی تھی کہ آج کی جانے والی بات چیت اس کی زندگی میں کیا بھونچال لاۓگی. 

اوۓاوۓ فیصی وہ دیکھ , فرسٹ ائیر سٹوڈنٹ, فیصل کے گروپ کے سعد نے عنایا کی طرف اشارہ کرتے ہوۓکہا. 

فیصل نے عنا یا کی طرف دیکھا اور اپنے گروپ کی طرف دیکھ کر کہا. چلو تم سب جاؤ. سر فیصل کی کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے. سب ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے. 

فیصل جو عنایا کو جا تے ہو ۓ دیکھ رہا تھا. تیزی سے عنایا کے پیچھے گیا.

ایکسکیوز می میم, میرا والٹ یہاں گرا تھا. آپ نے دیکھا کیا? فیصل نے جھوٹ بول کر عنا یا کو مخاطب کیا. 

نہیں. مجھے نہیں پتا. عنا یا نے اس کو دیکھے بنا جواب دیا.

اس میں پورے تیس ہزار روپے تھے.میرا ATM Card تھا. اگر آپ نے دیکھا یا اٹھایا ہے تو....... فیصل نے جان کر جملہ ادھورا چھوڑا.

عنایا کو شدید غصہ چڑھا. اس نے غصے سے فیصل کی طرف دیکھا. اور چیخی. کیا مطلب, میں نے آپ کا پرس اٹھایا, چور لگتی میں آپ کو¿

ارے اب کسی کے چہرے پہ تو نہیں لکھا ہوتا نا کہ کون کیا ہے¿ آپ تو ایسے بھڑک رہیں کہ مجھے شک ہو رہا کہ شاید آپ نے ہی .....فیصل اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ بولا  

عنایا کا دماغ گھوم چکا تھا. اس کا دل چاہا کہ سامنے کھڑے لڑکے کا قتل کر دے. کالج کے کچھ طلبا بھی وہاں جمع ہو گۓ تھے. عنایا کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے ایک زوردار تپھڑ فیصل کے گال پر رسید کیا. وہاں موجود طلبا حیران رہ گۓکیونکہ اب عنایا نے بہت بڑی غلطی کر دی تھی.

اس تماشے کے بعد فیصل نے کالج آنا بند کر دیا تھا. عنا یا بھی خوفزدہ تو تھی مگر چند دن تک فیصل کو کالج میں نہ دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا اور اپنی پڑھائ پر توجہ دینا شروع کر دی. اس واقعے کو 5 دن گزر چکے تھے. مگر عنایا نہیں جانتی تھی کہ آج اسے اس تھپڑ کا جواب دینا ہو گا.فیصل نے اپنے گروپ کے کچھ لڑکوں کو عنایا کے بارے میں ایک ایک رپورٹ دینے کو کہا تھا. 

آج عنایا کی طبعیت کچھ خراب تھی مگر وہ کالج کا لیکچر مس نہیں کرنا چاہتی تھی. وہ کالج آ تو گئ تھی مگر 11 بجے تک وہ تیز بخار میں پھنک رہی تھی. رابعہ جو اس کی کالج کی دوست تھی اس نے عنایا کو گھر جانے کا مشورہ دیا. عنایا نے کالج سے جلدی چھٹی لی اور گھر کی طرف چل پڑی. کالج سے بمشکل دس منٹ کا راستہ تھا. عنایا اب ایک سنسان سڑک سے گزر رہی تھی. اچانک سامنے سے ایک کالے شیشوں والی گاڑی آئ اور عنایا کو گاڑی میں کھینچ لیا گیا. عنایا نے چیخنے کی کوشش کی. مگر گاڑی میں بٹھاتے ہی اسے بےہوش کر دیا گیا. 

               ...............

عنایا کو ہوش آیا تو وہ ایک بڑے کمرے میں بستر پر موجود تھی. اس نے چیخنا شروع کر دیا مگر کمرہ ساؤنڈپروف تھا. وہ اب دروازہ پیٹ رہی تھی. کوئ ہے, کوئ ہے,پلیز پلیز مجھے باہر نکالو. بخار میں بھی شدت آتی جا رہی تھی. وہ نڈھال سی ہہو کرزمین پر بیٹھی تھی. اتنے میں دروازہ کھلنے کی آواز آئ.

دروازہ کھلنے کی آواز پر عنایا نے دروازے کی طرف دیکھا. ایک 40,45 سالہ ملازمہ کھانا لیے کھڑی تھی. اس عورت کے پیچھے دو گن مین کھڑے تھے جن کی گن کا رخ عنایا کی طرف تھا. عنایا اندر تک کانپ کر رہ گئ.

کک کک کون ہو تم لوگ? مجھے یہاں کیوں لاۓہو¿ عنایا نے بمشکل جملے ادا کیے.

کسی نے کوئ جواب نہیں دیا. ملازمہ کھانے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوۓبولی. بی بی جی کھانا کھا لیں.

عنایا رونے لگی. مجھے گھر جانے دو پلیز. مجھے گھر جانا ہے. 

ارے واہ! پہلی بار کسی شیرنی کو روتےہوۓ دیکھا ہے. فیصل کی آواز نے عنایا کو ہلا کر رکھ دیا. عنایا نے دروازے کی طرف دیکھا. وہاں فیصل کھڑا عنایا کی بےبسی کا لطف اٹھا رہا تھا.

تم! دددیکھو پلیز مجھے معاف کر دو. م مم میں , مجھے جانے دو. عنایا کی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں. 

ہاہاہا! ا ارے تھپڑ پورے کالج کے سامنے اور معافی بند کمرے میں. نہ نہ نہ. یہ تو اچھی بات نہیں نا. فیصل نے بےرحمی سے کہا.

ممم میں آپ سے معافی مانگ رہی ہوں نا. میں کالج میں سب کے سامنے بھی آپ سے معافی مانگ لوں گی. پلیز مجھے...... عنایا سے لفظ ادا نہیں ہو رہے تھے.

ارے ارے ابھی تو گیم شروع ہوا ہے. ابھی سے معافی مت مانگو میری شیرنی. ابھی تو مجھے سب حساب سود سمیت لینا ہے. یہ کہتے ہی فیصل تیزی سے آگے بڑھا اور ایک بھر پور تھپڑ عنایا کے گال پر رسید کیا. عنایا کا سر گھوم گیا. بخار اور تھپڑ کی شدت سے وہ بےہوش ہو گئ.

   -----_-----------__-------------

دو بج گۓہیں ثمن, عنایا تو ڈیڑھ بجے کالج سے آجاتی ہے نا. امی نے گھبراتے ہوۓکہا. 

ارے امی آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں. کاشان بھائ لینے گۓہیں نا عنایا کو.

پتا نہیں کیوں, میرا دل بہت گھبرا رہا ہے. امی نے بےچینی سے کہا.

امی, ایک تو آپ فوری پریشان ہو جاتی ہیں. رکیں میں کاشان بھائ سے پوچھتی ہوں. ثمن نے امی کو تسلی دیتے ہوۓکہا.

      ---------------_--------------

کاشان, ثمن اور عنایا اس گھر کی رونق تھے. کاشان ایک private job کر رہا تھا. ثمن, کاشان سے ایک سال چھوٹی تھی. عنایا , ثمن سے دس سال چھوٹی تھی. گھر کا سارا لاڈپیار عنایا کو ملا تھا. گھر بھر کی جان عنایا میں تھی. اس مڈل کلاس فیملی کے پاس پیار اور سکون کی دولت تھی. 

----------------_-------------_-----

فیصل کمرے کا دروازہ کھول کر ملازمہ اور گن مینز کے ساتھ اندر داخل ہوا. اندر کا منظر دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گۓ. عنایا زمین پر بے سدھ پڑی تھی. گرتے وقت اس کا سر میز کے کونے سے ٹکرایا تھا. خون کی ایک دھار عنایا کے ماتھے سے نکل کر زمین پر پھیل رہی تھی. فیصل کے دل کو کچھ ہوا.

عنایا! وہ چیختا ہوا عنایا کے پاس آیا. اس کے سر کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھا. اور اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر ڈاکٹر کو فون ملانے لگا. 

--------------_--------------_------

اماں, بابا, کاشان, ثمن سب گھر میں بت بنے بیٹھے تھے. شام کے 5 بج چکے تھے اور عنایا کا کچھ پتا نہ تھا. کاشان عنایا کی سب فرینڈز, کالج کے آس پاس کے لوگوں سے پتا کر آیا تھا مگر کسی کوکچھ پتا نہ تھا. اماں کے آنسو رو رو کر خشک ہو چکے تھے. کاشان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا.

بخار اور خوف کی وجہ سے یہ بے ہوش ہو گئ ہیں. تھوڑی دیر میں ان کو ہوش آ جاۓگا.  ان کو کچھ کھلا کر medicines دے دیں. ڈاکٹر نے فیصل کو ہدایات دیتے ہوۓکہا.

شکریہ ڈاکٹر! فیصل نے ڈاکٹر سے مصافحہ کرتے ہوۓکہا.

تم ذرا عنایا کے پاس رکو. ہوش میں آتے ہی اسے کھانا دو. اور مجھے انفارم کر دینا.

جی صاحب جی, ملازمہ نے سر ہلاتے ہوۓکہا.

 ------------------__----------------

رات کے 8 بج رہے تھے. کاشان اور اس کے والد پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کروا کر ابھی گھر پہنچے تھے. 

ثمن کو سارا گھر خالی خالی لگ رہا تھا. وہ کبھی اماں کو دیکھتی. کبھی دروازے کی طرف. اسے امید تھی کہ عنایا آجاۓگی. 

----------------_--------------------

عنایا ہوش میں آچکی تھی. وہ بالکل گم سم بستر پر بیٹھی تھی. 

بی بی جی کھانا کھا لیں. ملازمہ نے کھانے کی ٹرے رکھتے ہوۓکہا.

عنایا نے جیسے سنا ہی نہیں تھا. 

بی بی جی, صاحب کا حکم ہے کی آپ کو کھانا کھلا دوں.ایسے مت کریں. صاحب مجھے چھوڑیں گے نہیں. تھوڑا سا کھا لیں. 

عنایا نے کوئ جواب نہیں دیا. 

ملازمہ کمرے سے باہر چلی گئی. 

فیصل ملازمہ اور گن مین کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا. اسے عنایا کو دیکھ کر دکھ ہوا. اس کا دل چاہا کہ وہ کسی بھی طرح وقت کو واپس لے جاۓ. 

ایک ہی دن میں عنایا کا رنگ سفید, آنکھیں ویران ہو چکی تھیں.

عنایا, فیصل نے ہولے سے آواز دی.

عنایا کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ بیڈکے قریب آیا. 

عنایا نے فیصل کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا.

عنایا پلیز کچھ کھا لو. اس کے بعد جو تم کہو گی ویسا کروں گا. فیصل نے التجا کی.

مجھے گھر جانا ہے. بس. عنایا نے اٹل فیصلہ سناتے ہوۓکہا.

اوکے! ڈن. تم بس کھانا کھا لو اسکےبعد تمہیں گھر چھوڑکے آؤں گا. فیصل نے کہا.

سنا نہیں تم نے. مجھے گھر جانا ہے. کچھ نہیں کھانا مجھے. عنایا بھی اپنے الفاظ پر قائم تھی.

فیصل کا دل چاہا کہ وہ عنایا کےآگے سرنڈر کر دے اور اس کی ہر بات مان لے. مگر وہ عنایا کو کھونا نہیں چاہتا تھا. وہ نہیں چاہتا تھا کہ عنایا اسسے دور جاۓ. پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا تھا. وہ خود حیران تھا. فی الحال اسے اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کرنا تھا. 

ٹھیک ہے. مت کھاؤکھانا. اب دیکھو کہ کیا ہوتا ہے. یہ کہتے ہی فیصل گارڈ کو آواز دینے لگا.

جی صاحب حکم, گارڈ نے اندر آتے ہی کہا.

مجھے ثمن یہاں چاہیے, آدھے گھنٹے کے اندر, now go. فیصل نے حکم دیا.

عنایا کی جان نکل گئی. ثمن آآآپی, ککک کیوں, آپی کو کیوں بلا رہے آپ. عنایا نے پوچھا. 

سوری, ایک اور اغوا کروانا پڑرہا مجھے. تمہاری بہن تمہیں کھانا کھلاۓگی. اس کی بات تو مانو گی نا تم. سنا ہے, اگلے مہینےشادی ہے اس کی, مگر میری شیرنی کو ہمت دلانے کے لیے وہ مجھے یہاں چاہیے. فیصل نے کہا.

نہیں نہیں. آپی کو نہیں, پلیز . میں کھانا کھاتی ہوں. آپی کو نہیں. عنایا فیصل کے قدموں میں بیٹھی اس سے التجا کرنے لگی. 

اوکے, چپ چاپ کھانا کھا ؤ. فیصل نے کہا

ملازمہ نے اسے فرش سے اٹھا کر کرسی پر بٹھایا. عنایا شدت سے روتے روتے کھانے کی کوشش کرنے لگی. 

لگتا ہے تمہارا رونا ایسے بند نہیں ہو گا. ثمن کو ........ فیصل نے دھمکاتے ہوۓکہا. 

نہیں نہیں پلیز آپی کو نہیں لاؤ یہاں. میں نہیں رو رہی. عنایا نے بےدردی سے آنسو صاف کیے. اور کھانے لگی.

اب مجھے گھر جانا ہے, عنایا نے کھانا کھاتے ہی کہا.

اب مجھے تم سے نکاح کرنا ہے. فیصل نے دوبدو جواب دیا.

تمہارا دماغ خراب تو نہیں ہو گیا. میں جا رہی ہوں. عنایا نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوۓکہا.

شوق سے جانا مگر مجھے شوہر ہونے کا اختیار دے کر جانا. فیصل ایک دم سامنے آگیا.

عنایا نے پھر سے رونا شروع کر دیا. ددددیکھو پلیز میں .......

ارے ایک تو تم کتنا روتی ہو. Listen. میرا نام فیصل ہے. میری فیملی کا بیک گراؤنڈ سیاسی ہے. مام اور ڈیڈ انگلینڈ settledہیں. یہ گھر میرے نام ہے. اس کے علاوہ فارم ہاؤس, بینک بیلنس, زمین, گاڑی اور ....... فیصل بتا رہا تھا.

شٹ اپ, جسٹ شٹ اپ, عنایا نے اس کی بات کا ٹتے ہوۓکہا. مجھے تم میں یا تم سے related کسی چیز میں کوئ انٹرسٹ نہیں. میری منگنی بچپن میں ہی میرے کزن سے ہو چکی ہے. سو پلیز تم کہیں اورکوشش کرو. عنایا نے فیصل کو گھورتے ہوۓکہا.

اوہ سوری سوری, ٹھیک ہے , نکاح کا پروگرام کینسل, ابھی تم آرام کرو. رات کے نو بج رہے ہیں. صبح ملتے ہیں. فیصل نے دروازے کی طرف جاتے ہوۓکہا.

او ہیلو مسٹر ایکس واۓزی, میں یہاں ایک منٹ نہیں رکوں گی. عنایا بھی دروازے کی طرف بڑھی. 

جی جی آپ جائیں. فیصل نے مسکراتے ہوۓکہا. 

عنایا نے فیصل کو حیران ہو کر دیکھا کہ اسے کیا ہوا ہے مگر اسے صرف یہاں سے باہر نکلنا تھا. وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلی. فیصل کے لبوں پر مسکراہٹ مزید گہری ہو گئ. 

عنایا کمرے سے باہر نکلی تو ایک بہت بڑا برآمدہ تھا. جگہ جگہ پر گن مینز کھڑے تھے. عنایا کے قدم مزید تیز ہوۓ. برآمدے کے اطراف میں بڑے کمرے تھے. برآمدہ ختم ہوا تو آگے ایک وسیع و عریض صحن تھا.  عنایا تیزی سی صحن میں بھاگنے لگی. کافی بڑا صحن عبور کرنے کے بعد اسے مین گیٹ نظر آیا تو اس کی جان میں جان آئ. 

عنایا بھاگ کر گیٹ کے پاس پہنچی. یہ لوہے کا بہت بڑا گیٹ تھا جو مکمل طور پر مقفل تھا. گیٹ کے ساتھ موجود دیواریں کافی اونچی تھیں جن پر خاردار تاریں لگی ہوئی تھیں. گیٹ کے ساتھ موجود کرسی پر ایک چوکیدار موجود تھا. اس کے ساتھ بھی دو گن مین موجود تھے. گھر کی نگرانی کے لیے ہر طرف سی سی ٹی وی کیمرے لگے تھے. 

گیٹ کھولو. عنایا نے غصے سے چوکیدار سے کہا.

سوری میم صاب, ام صاحب جی کی اجازت کے بغیر گیٹ نہیں کھول سکتا. چوکیدار نے جواب دیا.

میں تمہارے صاحب جی سے پوچھ کر ہی یہاں تک آئ ہوں. گیٹ کھولو. عنایا چیخی.

نہیں نہیں, ام کو گیٹ کھول کر صاحب کے ہاتھوں مرنا نہیں. چوکیدار نے جواب دیا.

عنایا نے پیچھے مڑکر دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گۓ. پیچھے ایک بڑا بل ڈوگ کھڑا تھا. عنایا چیخی اور سہم کر سامنے دیوار سے لگ کر کھڑی ہو گئ. 

سامنےpillar سے ٹیک لگاۓکھڑا فیصل عنایا کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا.

تتت تتتم تم پ پپ پاگل ہو. اااتن اتنے بڑے کتے کو کھ کھلا چھوڑا ہوا ہے. عنایا نے ڈرتےڈرتے چوکیدار سے پوچھا. 

بل ڈوگ اور عنایا میں صرف تین فٹ کا فاصلہ تھا.عنایا نے بےبسی سے فیصل کی طرف دیکھا جو عنایا کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا. 

تم ابھی تک گئی نہیں ¿ فیصل نے انجان بنتے ہوۓکہا

گیٹ گگگیٹ کھلواؤ. عنایا نے سہمی آواز میں فیصل کو کہا.

یہ گیٹ تو اب مسز فیصل ہی کھلوا سکتی ہیں. آگے آپ کی مرضی. فیصل نے مسکراتے ہوۓکہا.

عنایا نے رونا شروع کر دیا. وہ جان چکی تھی کہ مقابل اپنی ضد کا پورا ہے. وہ کسی بھی قیمت رات یہاں نہیں گزارنا چاہتی تھی. اسے ابھی صرف گھر جانا تھا. اس کے پاس کوئ راستہ نہیں بچا تھا. مجور ہو کر اس نے کہا ٹھیک ہے اورروتی ہوئ کمرے میں بھاگ گئ.

آدھے گھنٹے کے اندر اندر نکاح کا انتظام ہوا. جانے کب نکاح ہوا. کون گواہان تھے. عنایا کو کچھ سمجھ نہیں آریا تھا. 

رات کے گیارہ بج رہے تھے. سب جا چکے تھے. فیصل کمرے میں داخل ہوا. عنایا کے آنسو اب بھی بہہ رہے تھے. فیصل جانتا تھا کہ عنایا سے ابھی کوئ بات نہ کی جاۓتو بہتر ہے. 

چلو عنایا, گھرچھوڑکے آؤں تمہیں, فیصل نے دھیرے سے کہا.

عنایا فیصل کو بنا دیکھے کمرے سے نکل گئی. فیصل بھی عنایا کے پیچھے چلنے لگا. دونوں گیٹ کے پاس پہنچے. باہر ایک  کار کھڑی تھی. فیصل نے driver سے کہا کہ وہ جاۓ. Driver گاڑی سے اترا. فیصل نے عنایا کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا. عنایا کار میں بیٹھی. فیصل خود driving seat پر بیٹھ گیا اور کر سٹارٹ کر دی. 

کار میں خاموشی چھائ ہوئ تھی.

عنایا, فیصل نے اس خاموشی کو توڑتے ہوۓکہا.

عنایا کی طرف سے کوئ جواب نہ پا کر فیصل دوبارہ بولا.

عنایا, i know کہ یہ سب تمہرے لیے بہت shockingہے. میں تم سے بہت محبت کرنے لگا ہوں. مگر میری یہ محبت پاکیزہ ہے اسی لیے تمہارا نام ہمیشہ کے لیے اپنے نام کے ساتھ جوڑ لیا. کوشش کروں گا کہ تمہیں ہر خوشی دے سکوں. جب تک تم نہ چاہو , میں اس رشتے کے بارے میں کسی کو نہیں بتاؤں گا. بس تم مجھے چھوڑنا مت,.

عنایا مسلسل کار سے باہر دیکھ رہی تھی. اس نے فیصل کی طرف دیکھا تک نہیں.

عنایا, یہ موبائل, فیصل نے کار کے ڈیش بورڈ پر پڑے نئے موبائل کی طرف اشارہ کرتے ہوۓکہا, یہ موبائل میں نے تمہارے لیے لیا ہے. اس میں میرا نمبر save ہے. یہ بات یاد رکھنا کی یہ موبائل کبھی بھی بند نہ ہو کیونکہ میں محبت اور نفرت دونوں میں جنونیت کا قائل ہوں. یہ کہتے ہی فیصل نے زبردستی موبائل عنایا کے ہاتھ میں تھما دیا.

عنایا کے گھر کے قریب پہنچ کر کار رکی. عنایا تیزی سے کار سے اتری اور دروازہ پیٹنے لگی. کاشان نے دروازہ کھولا. عنایا کاشان کے گلے لگتے ہی بےہوش ہو گئ. فیصل یہ سارا منظر کار میں بیٹھا دیکھ رہا تھا. اس کا دل چاہا کہ وہ عنایا کو جا کر پکڑے. مگر عنایا کی بدنامی کے ڈر سے اس نے گاڑی واپس موڑ لی.

------------_--------_---------_----

عنایا کے ہوش میں آتے ہی اس نے امی,بابا, ثمن آپی اور کاشان بھائ کے پریشان چہرے دیکھے. وہ اٹھ کر ثمن کے گلے لگی اور روتے روتے ساری کہانی سنا دی. کاشان کا خون کھول اٹھا. اس کا دل چاہا کہ ابھی جا کر فیصل  کا گھر تلاش کر ے اور اس کا گلا دبا دے.

بابا نے بہت مشکل سے کاشان کو سنبھالا. 

رات بھر سب یہی سوچتے رہے کہ اب کیا کرنا ہے. آخر یہ فیصلہ ہوا کہ صبح ہوتے ہی عنایا کو  کچھ دنوں کے لیے حیدرآباد بھیج دیا جاۓ. عنایا کے ماموں اور ممانی حیدر آبد رہتے تھے. ان کی کوئ اولاد نہیں تھی. یہ بھی فیصلہ ہوا کہ عنایا خلع کی درخواست دائر کرے اور بدمعاش فیصل سے اس کی جان چھڑوائ جاۓ.

صبح ہوتے ہی عنایا اور کاشان ٹرین میں سوار ہو گۓ.

-------_--------_---------_-------

ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ . ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮨﺮ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺩ ﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ . ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺩﻭ ﮔﯿﻨﭩﮯ ﺳﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪ ﺗﮭﺎ . ﺍﺱ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﭘﮧ ﺗﮭﺎ .

ﺍﺏ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﻮ ﮔﯽ ﻋﻨﺎﯾﺎ . ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﮰﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﭼﺎﺑﯿﺎﮞ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﻞ ﻧﻤﺎ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﺳﮯ ﺑﺎ ﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ.

وہ ایک بہت بڑے پولیس افسر کا بیٹا تھا. مگر انتہائ بگڑا ہوا لڑکا تھا. اکلوتا ہونے کے باعث وہ ناز و نعم سے پلا تھا. کالج میں اس کا ایک اپنا گینگ تھا.جس کا وہ سربراہ تھا. سب سے لڑنا, مار پیٹ, دھونس جمانا اس کے پسندیدہ کام تھے.

مگر اس ایک لڑکی عنایا نے اس کو سب کچھ بھلا دیا تھا

ٹرین حیدرآباد آکر رکی. عنایا اور کاشان اترے اور taxi تلاش کرنے لگے. 

اوہ نو شٹ یار, یہ موبائل بیٹری بھی ابھی ڈیڈ ہونی تھی. کاشان نے پریشان ہو کر کہا.

جی بھائ, امی, بابا بھی پریشان ہوں گے. عنایا نے پرس چیک کرتے ہوۓکہا. پرس میں سے وہ موبائل نکل آیا جو فیصل نے دیا تھا. عنایا نے احتیاط کے طور پر یہ موبائل اپنے پاس رکھا تھا. وہ اتنا جان گئ تھی کہ فیصل جنونی شخص ہے. مگر صبح حیدرآباد کے لیے نکلتے ہی اس نے موبائل آف کر دیا تھا. ثمن کو اپنی خیریت کی اطلاع دینے کے لیے اس نے موبائل آن کیا. 

آو بیٹھو taxi میں. کاشان کی آواز آئ.

عنایا اور کاشان taxi میں بیٹھے. عنایا نے دیکھا تو موبائل پر  254 مسیجز received لکھا آرہا تھا. عنایا نے مسیجز ایک ایک کر کے open کیے.

ہیلو عنایا.

عنایا فون کیوں آف ہے. پلیز آن کرو

منع کیا تھا نا موبائل آف کر نے سے. 

عنایا پلیز یار آن کرو موبائل

تم اچھا نہیں کر رہی ہو. 

اس طرح کے کئی مسیجز موبائل سکرین پر جگمگا رہے تھے. 

بےوقوف, بدتمیز, پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو.اونہہ مائی فٹ. عنایا آہستگی سے بڑبڑائی.

کیا ہوا عنایا, ثمن کو فون ملاؤ. کاشان کی آواز آئی.

جی بھائ. عنایا نے ثمن کا نمبر ڈائل کرتے ہوۓکہا.

ہیلو آپی,, جی جی , ہم خیریت سے پہنچ گئے ہیں, جی آپی بس راستے میں ہیں. جی آپی گھر پہنچ کر سب سے بات کروں گی. جی اللہ حافظ.

عنایا نے جیسے ہی کال بند کی. فیصل کی کال آنے لگی. اس نے کال کاٹ دی مگر فیصل دوبارہ کال کر رہا تھا. عنایا کو شدید غصہ آیا اور اس نے موبائل چلتی taxi سے باہر پھینک دیا. کاشان نے اسے حیرت سے دیکھا مگر کہا کچھ نہیں. 

اچانک ہی سامنے سے پولیس وین آتی دکھائ دی. وین نےtaxi driver کو رکنے کو اشارہ کیا. پولیس وین سے کچھ اہلکار اترے اور انہوں نےtaxi  کے دروازے کھول کر ڈرائیور اور کاشان کو اترنے کا اشارہ کیا.

کاشان اور ڈرائیور کے اترتے ہی پولیس اہلکاروں نے انہیں گرفتار کر لیا.

یہ یہ یہ کیا, کہاں لے کے جا رہے ہیں آپ ہمیں. عنایا نے گھبراتے ہوۓکہا

او بی بی, ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تم تینوں چور ہو. وارداتیں کر تے پھر رہے ہو. ایک اہلکار نے کہا.

سر ایسی کوئ بات نہیں. ہم تو اس شہر میں نئے ہیں. کاشان نے کہا.

اوۓ , بہانے بنانا بند کر, باقی بات تھانے چل کر کرنا. اہلکاروں نے انہیں وین میں بٹھایا. اور تھانے لے گئے. 

ددیکھیں سر آپ کو غلط فہمی ........ عنایا نے بولتے بولتے سامنے دیکھا تو کانپ کر رہ گئ.

تھانے کے کمرے میں کرسی پر فیصل بیٹھا مسکرا رہا تھا.

ارے انسپکٹر صاحب, یہی ہیں وہ چور لوگ. فیصل جلدی سے بولا.

ایکسکیوز می سر, یہ جھوٹ بول رہا ہے. ہم بے قصور ہیں. یہ شخص پتہ نہیں کون ہے اور کیا بکواس کر رہا ہے. ہم تو اسے جانتے تک نہیں. کاشان بولا

او ہیلو مسٹر. بہت جلد پتہ لگ جاۓگا کہ کون ہوں میں, فیصل نے عنایا کی طرف دیکھتے ہوۓ کاشان سے کہا.

عنایا کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں. وہ اپنا سر تھامے کھڑی تھی. 

انسپکٹر صاحب, میں نے آپ کو بتایا تھا نہ کہ کل رات میرا نیا موبائل کراچی سے چوری ہوا. یہ لوگ 80,000 کا موبائل لے کر حیدرآباد چلے آۓ. وہ تو اچھا ہوا کہ میں نے موبائل لوکیشن ٹریس کی اور ان کا پیچھا کیا. میں کال کر کے کہہ رہا تھا کہ میرا موبائل واپس کرو. مگر ان لوگوں نے پکڑے جانے کے ڈر سے موبائل ہی ٹیکسی سے باہر پھینک دیا. فیصل نے سنجیدگی سے کہا.

عنایا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں.

یہ جھوٹ بول رہا ہے. عنایا نے چیختے ہوۓکہا

اوہ رئیلی, پھر آپ بتائیں گی کہ سچ کیا ہے. فیصل, عنایا کو دیکھتے ہوۓ بولا.

عنایا کا دل چاہا کہ وہ فیصل کا سر پھاڑ دے. 

انسپکٹر صاحب, مجھے میرا نقصان پورا کر کے دیں. مجھے بس 80000 دلوائیں. فیصل سنجیدگی سے بولا.

80000???کاشان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں. جب ہم نے کچھ کیا ہی نہیں تو کس بات کے پیسے دیں تجھے. کاشان کا دماغ گھوم رہا تھا. 

اوۓ, ہر چور یہی بولتا ہے کہ اس نے چوری نہیں کی. انسپکٹر غصے سے بولا. دو دن حوالات کی ہوا کھاۓگا نہ تو سب مانے گا. ڈالو اسے حوالات میں. انسپکٹر نے کاشان کی طرف اشارہ کرتے ہوۓکہا.

نہیں نہیں, میرے بھائ کو چھوڑو , ہم نے کچھ نہیں کیا.پلیز بھائ کو نہیں. پلیز ہمارا یقین کریں. یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے. عنایا چیختے چیختے رونے لگی.

او بی بی جاؤ. جا کر پیسوں کا یا وکیل کا انتظام کرو. یہ رونا دھونا باہر جا کر کرو. 

کاشان کو لاک اپ کیا جا چکا تھا. عنایا نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا. 

اوکے انسپکٹر صاحب, میں چلتا ہوں. جب پیسے ملیں تو مجھے بتا دینا. فیصل نے انسپکٹر سے مصافحہ کرتے ہوۓکہا.

فیصل نے ایک نظر عنایا کو دیکھا اور باہر نکل گیا.

عنایا تیزی سے فیصل کے پیچھے بھاگی. تھانے سے باہر نکلتے ہی عنایا نے ایک زوردار تھپڑ فیصل کو رسید کیا.

بے شرم, گھٹیا انسان. کیا سمجھتے ہو تم. تم اس طرح کی نیچ حرکتیں کر کے....... 

ابھی عنایا کی بات پوری نہ ہوئ تھی کہ فیصل نے یکدم عنایا کو بازو سے پکڑا اور گاڑی میں دھکا دیا. 

چھوڑو مجھے, میں کہتی ہوں چھوڑو مجھے, عنایا کی چیخ و پکار جاری تھی. 

فیصل driving seat پر آیا. گاڑی کو لاک کیا. اور گاڑی سٹارٹ کر دی.

عنایا پاگل ہو چکی تھی. وہ اپنے ہاتھوں سے کبھی گاڑی کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کرتی. کبھی فیصل کو مارتی. فیصل کے لیے ڈرائیو کرنا مشکل ہو رہا تھا. اس نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی. گاڑی کی بیک سیٹ پر پڑا ایک بیگ اٹھایا اور اس میں سے ہتھکڑی نکالی. عنایا کے دونوں ہاتھ پکڑے اور پیچھے کی طرف کر کے ہتھکڑی لگا دی. گاڑی سٹارٹ کر دی

گھٹیا انسان, چھوڑو مجھے, میں تم سے ڈرتی نہیں. چھوڑ دو مجھے. عنایا سارے راستے چیخی, چلائی, روئی مگر فیصل خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا. 

گاڑی ایک ہوٹل کے سامنے رکی. فیصل گاڑی سے اترا. عنایا کو گاڑی سے نکالا. اور ہوٹل کے اندر لے گیا. 

عنایا کی چیخ و پکار ہوٹل میں بھی جاری تھی. وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ ہوٹل بھی فیصل کا ہے اور پورا سٹاف فیصل کے حکم کا پابند ہے. 

فیصل, عنایا کو ہوٹل کے کمرے تک لے گیا اور اسے بیڈ پر پھینکا. عنایا کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ابھی تک لگی ہوئ تھی. اس کے رونے میں شدت آگئی تھی. فیصل واش روم چلا گیا. شاور لے کر وہ جب باہر نکلا تو بھی عنایا اوندھے منہ پڑی رو رہی تھی. 

دروازے پر knock ہوا. Yes come in, فیصل نے جواب دیا.

Sir what would you like in lunch? 

اندر آ نے والی لڑکی نے پوچھا. 

ایک پلیٹ بریانی, اینڈ چکن کڑاہی. فیصل نے تسلی سے جواب دیا.

اورسر میم کیا لیں گی? لڑکی نے بیڈپر اوندھے منہ پڑی عنایا کی طرف اشارہ کرتے ہوۓکہا.

میم کو کچھ نہیں چاہیے. آپ جائیں. فیصل نے بے رخی سے جواب دیا.

تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا. فیصل نے سکون سے کھانا کھایا. وہ عنایا کو مکمل اگنور کر رہا تھا. 

عنایا رو رو کر نڈھال ہو گئ تھی.

فیصل نے پاکٹ سے موبائل نکالا اور تھانے کا نمبر ڈائل کیا. ہیلو, جی انسپکٹر صاحب, کیا بنا میرے کیس کا. کب تک ملیں گے مجھے پیسے.

عنایا کے کان کھڑے ہو گۓ. 

ارے انسپکٹر صاحب, اتنی آسانی سے وہ چور کا بچہ نہیں مانے گا. آپ ٹارچر سیل میں شفٹ کریں اسے. میں بھی وہیں..... 

فیصل کی بات پوری بھی نہیں ہوئ تھی کہ عنایا چیخنے لگی. 

نہیں نہیں پلیز نہیں فیصل پلیز 

فیصل نے جلدی سے کال بند کی. عنایا کے پاس پہنچ کر اسے سیدھا کیا. اس کی ہتھکڑی کھولی. عنایا نے فیصل کے آگے ہاتھ جوڑے.

پلیز میں آئندہ تمہاری ہر بات مانوں گی. میرے کاشان بھائ کو چھوڑ دو پلیز. پلیز رحم کرو مجھ پر. پلیز فیصل پلیز, عنایا کے رونے میں شدت آچکی تھی.

تم حکم کرو جان فیصل, آج تمہارے منہ سے اپنا نام پہلی بار سنا ہے. کہو تو جان دے دوں. فیصل نے عنایا کے ہاتھوں کو چومتے ہوۓکہا.

مجھے کاشان بھائ کے پاس لے چلو پلیز. عنایا نے پھر درخواست کی

پلیز مجھے کاشان بھائ کے پاس جانا ہے. عنایا نے پھر درخواست کی

اوکے, پہلے کھانا پھر باقی باتیں, فیصل نے عنایا سے نرمی سے کہا.

نہیں بس مجھے کاشان بھائ کے پاس لے چلو. عنایا نے رونا بند نہیں کیا تھا.

اففففف, اوکے نہ یار, پہلے کھانا تو کھا لو, شام کے چھ بج رہے ہیں اور تم ہو کہ مزید adventure پہ تلی ہوئ ہو. فیصل نے نرمی سے کہا.

میرے کاشان بھائ کو ..... عنایا کی بات مکمل نہ ہوئ تھی کہ فیصل نے اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھا.

شش شش. ایک دم چپ عنایا, ابھی تک کاشان کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا ہے. But اگر تم نے میرے ساتھ cooperate نہیں کیا تو شاید ہم کاشان سے ملنے ہاسپٹل جائیں. آگے تم خود سمجھدار ہو. فیصل نے سنجیدگی سے کہا.

عنایا خوف سے کانپ کر رہ گئی. وہ فیصل کو دیکھتی رہ گئی.

میں نےرات ہی تم سے کہا تھا عنایا کہ میں محبت اور نفرت دونوں میں جنونیت کا قائل ہوں. ہمارے نکاح کے بعد میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ مجھ سے دور مت جانا. تم مجھے بنا بتاۓکراچی سے نکلی. فیصل کا لہجہ تلخ ہوا.

میں صرف اپنے ماموں سے ملنے آئ تھی. عنایا نے بےچارگی سے کہا. 

تم ڈھنگ سے جھوٹ بھی نہیں بول سکتی میری شیرنی. فیصل نے عنایا کا ہاتھ تھامتے ہوۓ کہا. میں نے تمہیں کہا کہ موبائل آف نہ ہو . تم نے اس کو بھی توڑ دیا. 

عنایا نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں. 

ااآئ ایم سوری پلیز. عنایا نے لرزتے وجود کے ساتھ جواب دیا.

عنایا میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں. بٹ اتنا یاد رکھنا کہ تم مجھ سے دور بھاگو گی تو انجام کی ذمہ دار خود ہو گی. فیصل نے سختی سے کہا. بہتر یہی ہے کہ میری عنایا کو مجھ سے دور نہ کیا جاۓ ورنہ میرے پاگل پن کی انتہا خطرناک ہو گی جو تم برداشت نہیں کر پاؤ گی. سمجھ گئ نا¿ فیصل نے عنایا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ پوچھا. 

ج جیجی جج جی. عنایا نے کانپتےوجود کے ساتھ جواب دیا. 

گڈ گرل. فیصل نے مسکراتے ہوۓکہا.

کھانا آچکا تھا. عنایا نے کھانا کھایا. وہ صرف کاشان بھائ کے بارے میں سوچ رہی تھی.  

عنایا, اٹھو چلیں. فیصل کی آواز نے اسے سوچوں سے باہر نکالا. 

ک کک کہاں, عنایا نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا.

ڈرو مت, تم اپنے شوہر کے ساتھ ہو. جہاں میرا دل چاہے لے کے جا سکتا ہوں اپنی کیوٹ سی وائف کو. اتنا حق تو بنتا ہےمیرا. فیصل نے پیار سے اس کے چہرے کو چھوتے ہوۓکہا.

ہم کاشان بھائ کے پاس جا رہے ہیں نا¿ عنایا نے جلدی سے پوچھا.

ہم کراچی جا رہے ہیں میری جان. فیصل نے مسکراتے ہوۓکہا

کیا¿ نہیں پلیز مجھے کاشان بھائ کے پاس جانا ہے. عنایا کے آنسو پھر جاری ہو گۓ.

عنایا پلیز, بات کو سمجھو. مجھے کراچی جانا ہے تو اپنی جان کو ساتھ لے کر جانا ہے. کاشان مجھے دیکھ کر غصہ کرےگا اور میں اسے. کیا تم چاہتی ہو کہ تمہارے سامنے تمہارا بھائ تمہارے شریف شوہر سے پٹے¿ فیصل نے عنایا سے پوچھا.

عنایا بے یقینی سے فیصل کو دیکھنے لگی. 

کیا ہوا¿ ایسے کیوں دیکھ رہی ہو. سوری مائ کیوٹ وائف , میں اپنی پیاری وائف کو تھانے نہیں لے کر جا سکتا. یقین کرو, جتنی جلدی ہم کراچی پہنچیں گے. اتنی جلدی کاشان باہر آۓ گا. فیصل نے یقین دلاتے ہوۓکہا.

تم انتہائی.............. عنایا کچھ کہنا چاہتی تھی .

مگر فیصل تیزی سے بولا. میری شیرنی, ہم کراچی جا کر اپنی جنگ یہیں سے continueکریں گے. اب چلیں یا کاشان کو جیل میں اور وقت گزروانا ہے¿ 

عنایا غصے سے پیر پٹختی ہوئی کمرے سے باہر نکلی. فیصل چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ اس کے پیچھے چلا.

-------_--------_------------_-------------

وہ دونوں کراچی پہنچ چکے تھے. فیصل گاڑی میں عنا یا کو اس کے گھر کی طرف لے کر جا رہا تھا.  عنایا کو کاشان بھائ کی فکر ہونے لگی تو اس کی آنکھیں پھر سے نمدار ہو گئیں. 

او کم آن یار , پھر سے رونا, سیریسلی عنایا, میں تمہیں لاسٹ ٹائم وارن کر رہا ہوں. اب اگر ایک بھی آنسو ان خوبصورت آنکھوں سے گرا تو ابھی کے ابھی گاڑی کسی بھی گاڑی کے ساتھ مار دوں گا.  فیصل نے سنجیدگی سے کہا.

عنایا نے گھور کر فیصل کو دیکھا اور اپنے چہرے کو رگڑ کر صاف کیا. 

بدتمیز, جاہل انسان, اب میرے رونے پر بھی پابندی لگاۓگا. عنایا منہ ہی منہ میں بڑبڑائی.

کچھ کہا کیا مسز فیصل نے¿ فیصل نے عنایا کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓکہا.

کچھ نہیں. عنایا نے سختی سے جواب دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی.

یقین کرو عنایا, تم مجھ سے دور جاتی ہو نہ تو دل کٹتا ہے. میں بہت تنہا ہوں. صرف تم سے تھوڑی سی محبت, تھوڑی سی اپنائیت چاہتا ہوں. تم میری بیوی ہو. میں نے تم پر کوئی حق نہیں جتایا. نہ ہی تم سے کسی بھی قسم کی زبردستی کرنا چاہتا ہوں.مگر نیکسٹ ٹائم be careful. مجھ سے دور جانے کے بارے میں سوچنا بھی مت. ورنہ میں کس حد تک جاؤں گا. میں خود نہیں جانتا. فیصل بول رہا تھا.

عنایا نے کوئ جواب نہیں دیا. 

کچھ کہو گی نہیں¿ فیصل نے آس سے پوچھا.

کاشان بھائ کب آئیں گے¿ عنایا نے بےبسی سے پوچھا.

اف توبہ ہے عنایا, تمہارا شوہر تم سے دیوانگی کی باتیں کر رہا ہے اور تم ہو کہ اپنے بھائی کو سوچے جا رہی. بلیو می مائی ڈئیر وائف, اتنا بھی ظالم نہیں میں کہ اپنے سالے صاحب کو کچھ ہونے دوں. تمہارے گھر پہنچنے کے پورے تیس منٹ بعد کاشان گھر پہنچے گا. فیصل بولا.

عنایا کا گھر آگیا تھا. وہ گاڑی سے اترنے لگی مگر گاڑی کا دروازہ لاک تھا. 

دروازہ کھولیں. عنایا نے سختی سے کہا.

ابھی دل نہیں کر رہا یار کہ تمہیں جانے دوں. فیصل نے عنایا کو پیار سے دیکھتے ہوۓکہا.

میں نے کہا دروازہ کھولیں. عنایا مزید غصے سے بولی.

دروازہ کھولو. مجھے جانا ہے, عنایا کو غصہ آنے لگا.

پھر کب ملو گی, فیصل نے پوچھا

پتہ نہیں,  اب مجھے جانے دو, عنایا نے غصے سے کہا.

میں کیسے رہوں گا, تمہیں دیکھے بنا, تمہیں سنے بنا, فیصل نے پیار سے کہا.

تمہارا دماغ خراب ہے کیا¿ لاک کھولو, عنایا کا غصہ بڑھ رہا تھا.

ایک شرط پر, فیصل سنجیدگی سے بولا. 

اب کیا¿ عنایا نے حیران ہو کر پوچھا.

یہ موبائل اپنے پاس رکھو. اور جب میں رابطہ کروں تب تم مجھ سے بات کرو گی. فیصل نے عنایا کی طرف ایک نیا موبائل بڑھاتے ہوۓکہا.

کیا¿¿¿ مجھے کچھ نہیں چاہیے. دروازہ کھولو. عنایا نے صاف انکار کیا. 

پہلے موبائل لینے کا انجام وہ دیکھ چکی تھی. اب موبائل لے کر وہ کسی مصیبت میں نہیں پھنسنا چاہتی تھی.

اوکے! ایز یو وش! مت لو. فیصل نے موبائل پاکٹ میں ڈالتے ہوۓکہا. 

عنایا نے شکر ادا کیا کہ جان چھٹی. مگر فیصل کے ادا کیے گئے اگلے جملے نے عنایا کے ہوش اڑا دیے. 

چلو عنایا سو جاؤ. فیصل نے کہا اور گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگا لی. اور اپنی آنکھوں پر بازو رکھ لیے.

او ہیلو, یہ کیا مذاق ہے, دروازہ کھولو. عنایا چیخی.

سونے دو نا عنایا, رات کے بارہ بج رہے ہیں. تھک گیا میں. فیصل نے آنکھوں پر بازو رکھے ہوۓ جواب دیا.

دیکھو بہت مذاق ہو گیا. اب تم حد سے بڑھ ریے ہو. عنایا چیخی.

فیصل نے کوئ جواب نہیں دیا.

دروازہ کھولو گے یا میں کچھ مار کر تمہاری گاڑی کا شیشہ توڑوں. عنایا کو شدید غصہ آ رہا تھا.

کوئ اور انسان ہوتا تو شاید عنایا اس کا سر پھاڑ دیتی مگر مقابل فیصل تھا جس کی جنونیت نے عنایا کو خوفزدہ کر دیا تھا. وہ جان چکی تھی کہ فیصل جو کہہ دے وہ کرتا بھی ہے. اسے ڈر لگا کہ واقعی کہیں رات کار میں نہ ہی گزارنی پڑ جاۓ. 

اچھا لاؤ, دو موبائل. عنایا نے مجبور ہو کر کہا.

فیصل ٹس سے مس نہ ہوا. 

او ہیلو میں تم سے بات کر رہی ہوں. عنایا چیخی

فیصل پر کوئی اثر نہ ہوا. 

عنایا نے غصے سے فیصل کو جھنجھوڑتے ہوۓکہا. او پاگل انسان, موبائل دو اور دروازہ کھولو کار کا. 

فیصل مسکراتے ہوۓاٹھا اور عنایا کو موبائل پکڑاتے ہوۓبولا. یاد رکھنا اس بار کوئ چالاکی نہیں. 

فیصل نے لاک کھولا اور عنایا تیزی سے باہر نکل گئی.

-------_--------__---------_----------_-

صبح نو بجےعنایا کی آنکھ کھلی. اتوار کا دن تھا. باہر لاؤنج میں اماں, بابا اور کاشان بھائ سر پکڑے بیٹھے تھے. ثمن آپی کچن میں تھیں. عنایا بھی کچن میں آ گئی. 

کیا ہوا ہے آپی سب کو¿  عنایا نے پوچھا. 

کیا بتاؤں عنایا, آج پھوپھو,  اور یاسر انگلینڈ سے واپس آ رہے ہیں.

کیا ¿ عنایا نے حیرت کا اظہار کیا. 

یاسر , عنایا کا منگیتر تھا.  دونوں ہم عمر تھے اور دونوں کی دوستی بے مثال تھی. یہی وجہ تھی کہ دونوں کی بات بچپن میں طے کر دی گئی پھپھو بہت سوفٹ نیچر کی مالک  تھیں. پھوپھا کی ڈیتھ کے بعد وہ انہوں نے بہت اچھے طریقے سے یاسر کی پرورش کی.  وہ لوگ انگلینڈ سے آج واپس آ رہے تھے. کوئی اور وقت ہوتا تو عنایا خوشی سے جھوم اٹھتی مگر اس وقت جو حالات تھے انہوں نے سب کو پریشان کر دیا.

-----------_--------------_---------------

صبح کے گیارہ بج رہے تھے. عنایا کی نظر موبائل پر پڑی تو 25 messages receivedلکھا آ رہا تھا. اس نے مسیجز اوپن کیے.

Hello sweetheart. Good morning.

Waiting for your reply

Kahan ho??????.

Anaya, reply mily ga?? 

Ufffff plz reply yar. Bht bura kr rhi tum

مسجز پڑھ کر ابھی عنایا سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کرے  تب ہی doorbell بجی.

مسجز پڑھ کر ابھی عنایا سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کرے  تب ہی doorbell بجی.

عنایا, عنایا, باہر آؤ, پھپھو آئی ہیں. ثمن آپی عنایا کو بلا رہی تھیں. 

سب پھپھو اور یاسر سے ملے. چاۓکا دور چلا. عنایا برتن دھونے کچن میں گئی تو پیچھے پیچھے یاسر بھی چلا آیا. 

ہیلو عنایا, خیریت ہے¿ نو لفٹ کا بورڈ کیوں لگایا ہوا تم نے¿  یاسر نے چہکتے ہوۓکہا

نن نن نہیں ایسی کوئ بات نہیں. عنایا نے گبھراۓ ہوۓکہا.

تو پھر ک کک کیسی بات ہے. یاسر نے اسی کے انداز میں پوچھا. 

اتنے میں ثمن آپی کچن میں داخل ہوئیں. ارے یاسر, تم یہاں ہو, امی اور پھپھو یاد کر رہی ہیں تمہیں, کوئ تنگ کرنے والا نظر جو نہیں آرہا ان کو, سکون اچھا نہیں لگ رہا نا اس کمرے میں. آپی نے ہنستے ہوۓکہا.

اووووو, اڑا لیں آپی آپ بھی میرا مذاق, بس ذرا عنایا فری ہو جاۓتو ہم دونوں سب کو ٹھیک کر دیں گے. کیوں عنایا ¿ یاسر نے عنایا کو مخاطب کرتے ہوۓکہا.

ہ ہہ ہاں وہ ہاں ٹھیک ہے. ابھی جاؤ تم. عنایا آنے والے وقت کا سوچ کر گھبرا رہی تھی.

عنایا آر یو آل رائٹ¿¿¿ یاسر کو عنایا کافی پریشان لگی.

ارے یاسر, وہ عنایا نے ابھی دو ہفتے پہلے ہی کالج میں ایڈمیشن لیا ہے نا تو بس وہ پڑھائ کا سوچ سوچ کر ہی پریشان رہتی ہے. آپی نے بات کو سنبھالتے ہوۓکہا.

ارے بس اتنی سی بات, میں ہوں نا عنایا, پتا ہے میں بھی اسی کالج میں ایڈمیشن لے رہا ہوں. Studiesمیں تمہاری ہیلپ بھی ہو جاۓ گی اور پک اینڈڈراپ............ یاسر ابھی بول ہی رہا تھا کہ عنایا کے ہاتھ سے گلاس ٹوٹ کر گرا. 

او ہو عنایا, دھیان سے, کانچ تو نہیں لگا تمہیں. یاسر نے فکرمندی سے پوچھا.

نہیں میں ٹھیک ہوں. عنایا نے سر ہلا کر جواب دیا.

یاسر, یاسر...... پھپھو کی آواز آئی.

جی امی آیا. .... یاسر کچن سے نکلا.

عنایا کیا ہو گیا ہے. سنبھالو خود کو. ایسے ری ایکٹ کرو گی تو کتنی مشکل ہو جاۓ گی. پلیز سنبھالو خود کو. آپی نے عنایا کو سمجھاتے ہوۓکہا.

آپی, آپی, مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے. وہ سب کو مار دے گا. آپی وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا. پلیز آپی اس دلدل سے نکالو مجھے. عنایا, ثمن کے گلے لگ کر رونے لگی.

_------_--------_--------_--_---------

رات ہوئ تو عنایا کمرے میں آئ. موبائل چیک کیا تو کوئ مسیج یا کال نہیں تھی. عنایا کو حیرانی ہوئ کہ مقابل اتنا خاموش کیسے ہو گیا. اسے ڈر لگا کہ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ نہ ہو. 

---_------_------_---------_--------_---

اگلے دن عنایا جلدی تیار ہوئ اور یاسر کو ساتھ لیے بنا کالج چلی گئی. یاسر نے اسے کہا بھی تھا کہ صبح ساتھ چلیں گے مگر فیصل کی جنونیت کا خیال ہی عنایا کو خوف میں مبتلا کر رہا تھا.

کالج کے اندر داخل ہوئ تو گیٹ کے پاس ہی رابعہ مل گئی. کالج میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ عنایا سے پوچھے کہ وہ کہاں چلی گئی تھی. سب جانتے تھے کہ فیصل کو مارا گیا تھپڑ اس نے نظرانداز نہیں کیا ہو گا. مگر یہ بات فیصل کے گروپ کے علاوہ  کوئ نہیں جانتا تھا کہ وہ اب عنایا نہیں, عنایا فیصل کی حیثیت سے کالج میں آئ ہے. 

رابعہ اور عنایا کلاسز لینے چلے گئے. کلاس کے بعد عنایا اور رابعہ گراؤنڈ کی طرف جا رہے تھے کہ سامنے سے یاسر آتا دکھائ دیا. رابعہ کینٹین چلی گئی. جبکہ عنایا کو وہیں رکنا پڑا. 

حد ہے عنایا, ویسے میں تم سے شدید قسم کا ناراض ہوں. یاسر نے کہا.

کک کک کیوں, میں نے کیا کیا, عنایا نے ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ پریشانی سے پوچھا کہ کہیں فیصل نہ آ جاۓ.

اوۓ, میں ادھر ہوں. تم یہاں وہاں کسے ڈھونڈ رہی, یاسر نے عنایا کے آگے چٹکی بجاتے ہوۓکہا.

جلدی بولو, میں سن رہی ہوں. عنایا جلد سے جلد وہاں سے ہٹنا چاہتی تھی.

مجھے یہ بتاؤ کہ صبح مجھے ساتھ لے کر کیوں نہیں آئ? 

مجھے صبح دیر ہو رہی تھی. عنایا نے کہتے ہوۓ نظریں اٹھائیں تو رنگ فق ہو گیا. کچھ ہی فاصلے پر فیصل کے گروپ کا ممبر سعد کھڑا تھا جو موبائل پر شاید فیصل سے بات کر رہا تھا اور عنایا اور یاسر کی طرف ہی دیکھ رہا تھا.

مجھے صبح دیر ہو رہی تھی. عنایا نے کہتے ہوۓ نظریں اٹھائیں تو رنگ فق ہو گیا. کچھ ہی فاصلے پر فیصل کے گروپ کا ممبر سعد کھڑا تھا جو موبائل پر شاید فیصل سے بات کر رہا تھا اور عنایا اور یاسر کی طرف ہی دیکھ رہا تھا.

مجھے کلاس لینی ہے. تم بچگانہ باتیں مت کیا کرو میرے ساتھ. عنایا جلدی سے بول کر چلی گئی. 

یاسر اسے جاتے ہوۓ دیکھتا رہ گیا.

سارا دن کالج میں عنایا کو یہ دھڑکا لگا رہا کہ ابھی کہیں سے فیصل آ جاۓ گا اور اس سے یاسر کے بارے میں پوچھے گا. مگر عنایا کو کالج میں فیصل نظر نہیں آیا. 

-------_-------_------_--------------_----

عنایا گھر پہنچی تو سب کھانا کھانے  لگے تھے. 

آؤ آؤ بیٹا, بس تمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا. پھپھو نے عنایا کو دیکھتے ہی کہا.

مجھے بھوک نہیں ہے, یاسر کھانا چھوڑ کر کمرے میں چلا گیا.

کاشان نے حیرت سے پھپھو کو دیکھا. اسے کیا ہوا پھپھو ¿

پتہ نہیں بیٹا, کالج ایڈمیشن کے لیے گیا تھا تو بہت خوش تھا کہ شکر ہے پاکستان میں عنایا کے ساتھ پڑھنے کا موقع ملے گا مگر جب سے کالج سے آیا ہے, موڈ آف کیا ہوا ہے, کہہ رہا ہے کہ مجھے اب کوئ ایڈمیشن نہیں لینا. عنایا تمہیں پتہ ہے کیا بیٹا کیا ہوا اسے, یاسر کو تو غصہ آتا ہی نہیں., کیا ہوا کالج میں, پھپھو نے عنایا کی طرف دیکھتے ہوۓکہا.

نہیں نہیں پھپھو, میرے سامنے تو کچھ نہیں ہوا. عنایا گھبرا گئ. اسے خود پہ غصہ آنے لگا کہ کیا ضرورت تھی اسے یاسر سے تلخی سے بات کرنے کی. 

-----------_----------_----------_-------

عنایا, ثمن آپی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی عنایا کو آواز دی.

جی آپی, عنایا نے جواب دیا

گڑیا مجھے بتاؤ, آج تمہاری اور یاسر کی کیا بات ہوئ ہے کالج میں. آپی نے نرمی سے پوچھا

کچھ نہیں آپی,  کیا بات ہونی ہماری. عنایا نے صاف مکرتے ہوۓکہا

میں جانتی ہوں عنایا کہ آج کل تم بہت tensionمیں ہو. مگر جو بھی ہوا اس میں یاسر کا کوئ قصور نہیں. اسے کس بات کی سزا دے رہی ہو, آپی نے استفسار کیا

عنایا کی آنکھیں نم ہونے لگیں. آپی آپ جانتی ہیں نا کہ میں یہ سب کیوں کر رہی. میں نہیں چاہتی کہ یاسر کو کسی قسم کا نقصان پہنچے. آپی فیصل بہت خطرناک ہے. وہ بالکل پاگل ہے آپی, بالکل پاگل, مجھے بہت ڈر لگتا ہے آپی بہت ڈر , عنایا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی.

ثمن سے اپنی بہن کی حالت دیکھی نہیں گئ. وہ بھی عنایا کے گلے لگ کر رونے لگی. 

-----_-------_------_------_------------

رات کے کھانے پر بھی یاسر نہیں آیا. سب پریشان ہو گۓ. 

آپ لوگ فکر نہ کریں. میں ابھی یاسر کو کان سے پکڑ کر لاتی ہوں, چلو عنایا تم بھی میرے ساتھ. ثمن نے عنایا کو اٹھنے کا اشارہ کیا.

عنایا بھی ثمن کے ساتھ یاسر کے کمرے کی طرف چل دی.

سیز فائر, سیز فائر, سیز فائر, ثمن یاسر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بولی.

عنایا چلو سوری بولو یاسر کو, آپی نے عنایا کا کان کھینچتے ہوۓکہا

آآآاف اف اف آپی آرام سے, عنایا درد سے چلائ.

آپی, مت کریں پلیز عنایا کو درد ہو رہا ہو گا نا, یاسر بیڈ سے کھڑا ہوتا ہوا بولا. 

وہ شروع سے ہی ایسا تھا, عنایا کے معاملے میں حد درجہ حساس, چوٹ عنایا کو لگتی تو درد یاسر کو ہوتا. 

اوکے, تمہارے کہنے پر چھوڑ رہی اسے یاسر , اب جلدی سے صلح کرو تم دونوں. ثمن وارن کرتے ہوۓ بولی.

میں دو منٹ میں آئ. یہ کہہ کرثمن باہر چلی گئی.

ناراض ہو¿ عنایا نے یاسر سے پوچھا.

نہیں, ہماری دوستی ہی کب تھی جو ناراض ہوں گا. یاسر نے جواب دیا

اچھا, ٹھیک ہے, پھر ایک کام کرنا. عنایا کی حس مزاح پھڑکی.

کیا¿ یاسر نے پوچھا

تم نا دس, بارہ دن اور کھانا مت کھانا, خرچہ کم ہو گا ہمارا, عنایا مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی.

اف, شکر ہے تم مسکرائ تو, جب سے آیا ہوں, تمہاری ایک سمائل دیکھنے کے لیے ترس گیا تھا یار, یاسر اسے دیکھ کر مسکرانے لگا. 

اتنے میں ثمن آئ. اندرآتے ہی بولی, یاسر, سوری بولا, عنایا نے تمہیں یا اور کان کھینچوں اس کے.

نہیں نہیں آپی , کان پکڑ کر سوری بولا ہے میں نے سچی, عنایا معصومیت سے بولی.

تینوں ہنسنے لگے اور کھانا کھانے چل دیے.

-------_---------_----------_------------

اگلے یی دن یاسر کا کالج میں ایڈمیشن ہو گیا تھا. اس دن بھی فیصل کالج نہیں آیا تھا. عنایا نے سکون کا سانس لیا. گھر آ کر موبائل دیکھا تو کوئ مسیجز یا کال نہیں تھی. عنایا کو حیرانی ہوئ مگر ایک سکون تھا کہ جان بچی ہوئ ہے.

--------_--------_-----------_---------

عنایا اور یاسر ساتھ کالج جانے لگے. آج تیسا دن تھا مگر فیصل کا کچھ پتا نہیں تھا. 

عنایا میں ایک بجے تک کالج کے گیٹ کےپاس تمہارا ویٹ کروں گا پھر دونوں ساتھ ہی گھر چلیں گے, یاسر نے عنایا کو کہا.

ٹھیک ہے, عنایا نے سر ہلایا.

------_-------_--------_----------_-----

عنایا کی کلاس بارہ بجے ہی ختم ہو گئ تھی. وہ کینٹین کی طرف بڑھ رہی تھی کہ سامنے سے سعد آتا دکھائ دیا.

بھابھی, فیصل بھائ کا فون ہے. آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں. سعد نے عنایا کی طرف موبائل بڑھاتے ہوۓکہا.

بھابھی, فیصل بھائ کا فون ہے. آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں. سعد نے عنایا کی طرف موبائل بڑھاتے ہوۓکہا.

عنایا پریشان ہونے لگی, پہلے سوچا, منع کر دے مگر فیصل کی جنونیت کا سوچ کر ہی کانپ اٹھی. عنایا نے سعد سے موبائل لے لیا. سعد وہاں سے چلا گیا.

کیا ہے, عنایا نے موبائل کان سے لگاتے ہی غصے سے کہا.

اف, میرے تین دن  کال یا مسجز نہ کرنے پر اتنا غصہ, فیصل معصوم سے لہجے میں بولا.

  بس کہہ دیا جو کہنا تھا تم نے, اب باۓ. عنایا کو غصہ آیا.

آں آں عنایا, فون بند کرنے کی غلطی مت کرنا, اچھا نہیں لگے گا کہ آج سارا کالج تماشا دیکھے کہ میں اپنی بیوی کو گود میں اٹھا کر سب کے سامنے لے کر جاؤں. فیصل نے وارن کرتے ہوۓکہا.

فون کیوں کیا ہے¿ عنایا نے گھبراتے ہوۓکہا.

موبائل کان سے لگا کر رکھو اور کالج گیٹ کے پاس آؤ. فیصل نے نیا حکم جاری کیا.

کک کک کیوں, عنایا مزید گھبرا گئ

اوکے تم وہیں رکو, میں آکر تمہارے کیوں کا جواب دیتا ہوں. فیصل نے غصے سے کہا.

نن نن پلیز میں جا رہی کالج گیٹ کے پاس, عنایا کانپ کر رہ گئی.

گڈ گرل, فیصل نے مسکراتے ہوۓکہا

عنایا کالج گیٹ کے پاس پہنچ گئ تھی.

عنایا, سامنے دیکھو. گیٹ کےپاس سعد کھڑا ہو گا. اس کو موبائل واپس کرو اور گیٹ سے باہر نکلو, میں نے ڈرائیور اور ملازمہ کو بھیجا ہے. ان کے ساتھ جلدی سے میرے پاس آ جاؤ.

کیا¿ عنایا کو سر چکراتا ہوا محسوس ہوا.

د د دیکھو پلیز میں کل آ جاؤں گی. پلیز ابھی گھر میں کسی کو بتا کر نہیں آئ.  عنایا نے بے بسی سے کہا.

ٹھیک ہے عنایا, تم مت آؤ. کاشان کو دفتر سے دو بجے چھٹی ہوتی  ہے  اور آج  وہ میرا مہمان ہو گا.  تم نہ سہی. کاشان سہی .گھر انفارم کر دینا. فیصل نے غصے سے کہا.

نن نہیں نہیں پلیز میں, میری بات, عنایا کچھ کہنا چاہتی تھی مگر فون بند ہو چکا تھا. 

عنایا نے ٹائم دیکھا, ساڑھے بارہ ہو رہے تھے. یاسر نے کلاس سے ایک بجے فری ہونا تھا. یاسر اس کا  انتظار کرے گا. مگر فیصل نے اگر کاشان بھائ کو اغوا کر لیا تو..... اس سے آگے وہ کچھ سوچ نہ سکی. اس نے موبائل سعد کو پکڑایا اور جا کر فیصل کی بھجی ہوئ کار میں بیٹھ گئ.

-------_-------_----------_------------

بی بی جی , صاحب اس کمرے میں ہیں. ملازمہ نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓکہا

عنایا اس کمرے کے اندر داخل ہوئ. اندر کا منظر اس کے لیے شاکڈ تھا. فیصل کرسی پر بیٹھا تھا. اس کے ہاتھ میں ایک پسٹل تھا جسے وہ بہت اطمینان سے دیکھتے ہوۓ مسکرا رہا تھا.

یہ یہ یہ پسٹل تمہارے ہاتھ میں ک کک کیوں . عنایا نے کانپتے ہوۓکہا

اوہ تم آ گئی عنایا, تمہارا باڈی گارڈ کہاں ہے. فیصل نے کرسی سے اٹھ کر عنایا کی طرف قدم بڑھاۓ.

کک کک کون , کک کس کی بات ککر کر رہے تم, عنایا پیچھے ہٹتے ہوۓ بولی.

جسٹ شٹ اپ عنایا, فیصل غصے سے دھاڑا.

عنایا سہم کر رہ گئ. 

فیصل پلیز میں تمہیں بتانے والی تھی کہ وہ یاسر ......... عنایا رونے لگی.

ایک دم چپ عنایا, تم مجھے جو بھی بتانے والی تھی وہ سننے کا وقت نہیں میرے پاس. فیصل شدید غصے میں تھا. 

دو دن, صرف دو دن کا ٹائم ہے تم سب کے پاس. اگر دو دن بعد بھی وہ لڑکا مجھے اپنے سسرال میں نظر آیا. تو اچھا نہیں ہو گا. سنا تم نے, دور رہے وہ میری بیوی سے. فیصل مزید غصے سے چیخا. 

فیصل کمرے سے باہر نکل گیا اور عنایا دیوار سے لگی آنسو بہانے لگی.

------_-------_______-------______

کمال ہے آپی, عنایا گھر نہیں پہنچی, پورا کالج خالی ہو گیا تو میں آیا. گھر نہیں آئ تو کہاں گئ وہ, یاسر نے فکر مندی سے ثمن سے پوچھا.

وہ یاسر وہ عنایا کی فرینڈ ہے نا رابعہ. اس کی مدر کی طبعیت ٹھیک نہیں. بتایا تھا اس نے مجھے. وہاں گئ ہو گی. آپی نے بہانہ بنا کر یاسر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ جانتی تھیں کہ عنایا کہاں ہو گی.

عنایا گم سم کھڑی تھی کہ ملازمہ کمرے میں آئ. 

بی بی جی , صاحب آپ کا کھانے پر انتظار کر رہے ہیں.  ملازمہ نے کہا.

عنایا چپ چاپ اس کے ساتھ چلنے لگی. ملازمہ عنایا کو کمرے کا بتا کر چلی گئی.

عنایا کمرے میں داخل ہوئ تو سامنے کمرے میں ایک کرسی پر فیصل بیٹھا تھا. ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا تھا. 

آؤ آؤ عنایا بیٹھو, کھانا کھاؤ. فیصل دوستانہ انداز میں بولا. جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو. 

مم مجھے بھوک نہیں ہے. فیصل وہ پلیز وہ  میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے. عنایا ڈرتے ڈرتے بولی.

کون پریشان ہو رہا ہو گا¿  گھر والے یا گھر میں موجود باہر والا¿¿¿ ہاں¿¿¿  فیصل کو پھر سے غصہ آنے لگا. 

عنایا سہم گئ اور چپ چاپ کھانا کھانے لگی. 

کھانا ختم ہوا تو فیصل نے ملازمہ سے چاۓ بنانے کا کہہ دیا. 

فیصل بیٹھا مسلسل عنایا کو دیکھ رہا تھا. عنایا کو اس کی نظروں سے گھبراہٹ ہونے لگی. وہ خوف زدہ نظریں جھکاۓ بیٹھی تھی. 

عنایا, فیصل نے عنایا کو مخاطب کیا.

جج جی, عنایا نے نظریں اٹھائے بنا جواب دیا.

تم نے میرا حال نہیں پوچھا ¿¿¿ تین دن سے میں بخار میں پڑا تھا. ایک کال بھی نہیں کی تم نے کہ میں کہاں ہوں. فیصل نے شکوہ کرتے ہوۓکہا

مم م مجھے نہیں پپ پ پتا تھا, عنایا مسلسل خوفزدہ تھی. 

اب تو پتا چل گیا نا. اب پوچھ لو. فیصل کھڑا ہو کر عنایا کی طرف بڑھا 

عنایا گھبرا کر کھڑی ہوئ. کک کیا پوچھوں.

یہی کہ میں کیسا ہوں, تمہیں کتنا یاد کیا, تمہیں کتنا مس کیا, پوچھو نا, فیصل عنایا کا بازو پکڑتے ہوۓ بولا.

فف فیصل پلیز , عنایا نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر فیصل کی گرفت کافی مضبوط تھی. 

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئ. فیصل پیچھے ہٹا اور کرسی پر بیٹھ گیا. 

یس. فیصل بولا.

ملازمہ چاۓ لے کر آئ تھی. چاۓ ختم ہوئ. عنایا نے گھڑی کی طرف دیکھا. دوپہر کے تین بج رہے تھے. عنایا نے فیصل کو دیکھا کہ شاید وہ اسے گھر جانے کی اجازت دے دے. فیصل عنایا کی بےچینی سمجھتا تھا. 

گھر جانا چاہتی ہو¿ فیصل نے مسکراتے ہوۓکہا.

عنایا نے ڈرتے ڈرتے اثبات میں سر ہلایا. 

اوکے لے جاؤں گا لیکن تین دن بعد, فیصل نے سنجیدگی سے کہا.

عنایا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا. فیصل بالکل سنجیدہ تھا. 

اب میری بیوی مسلسل تین دن سے مجھے اگنور رہی تھی. تو اتنی سزا تو ملنی چاہئے نا اسے کہ اب وہ پورے تین دن صرف میرے پاس رہے.  فیصل سنجیدگی سے بولا.

 نہیں فیصل پلیز نہیں, امی , ابو, آپی, بھائ سب پریشان ہوں گے. پلیز ایسا مت کریں. عنایا درخواست کرنے لگی.

اوکے, اب میری بیوی کا حکم ہے کہ میکے جانا ہے تو بندہ ناچیز کیا کر سکتا ہے. فیصل مسکراہٹ کے ساتھ بولا.

چلو چلیں. فیصل کار کی کیز اٹھاتے ہوۓ بولا. عنایابھی کھڑی ہو گئ.

_-------_----__________------____

عنایا کا گھر آگیا تھا. وہ گاڑی سے اترنے لگی مگر دروازہ لاک تھا. اس نے بے بسی سے فیصل کی طرف دیکھا. فیصل مسکرانے لگا. 

پلیز یہ دروازہ...... عنایا دروازے کی طرف دیکھ کر بولی.

ہاں اسے دروازہ کہتے ہیں, فیصل نے مسکراتے ہوۓکہا

نہیں میرا مطلب ہے کہ دروازہ لاک ہے. پلیز کھولیں اسے. عنایا نے نظریں جھکا کر کہا.

ایک شرط پر. فیصل نے نرمی سے کہا

یہ رنگ پہن کر, فیصل نے ایک چھوٹی سی ڈبیا میں سے نازک سی ڈائمنڈ رنگ نکالتے ہوۓکہا

نہیں, نہیں, میں یہ نہیں لوں گی. عنایا نے انکار کیا.

تو ٹھیک ہے. واپس چلتے ہیں تین دن کے لیے تمہارے سسرال. فیصل نے کار سٹارٹ کرتے ہوۓکہا

نہیں نہیں فیصل پلیز, عنایا یے جھٹ سے ایک ہاتھ آگے کر دیا. 

فیصل نے مسکراتے ہوۓاسے رنگ پہنائ, اب تمہارے ہاتھ سے یہ کبھی نہ نکلے. 

فیصل نے لاک کھولا. عنایا بایہر نکلنے لگی تو فیصل بولا. یاد رکھنا عنایا.

کیا, عنایا نے مڑ کر پوچھا.

صرف دو دن, فیصل نے ایک بار پھر وارن کیا.

عنایا تیزی سے کار سے نکلی اور اپنے گھر کی طرف بھاگی. 

عنایا نے ڈوربیل پر ہاتھ رکھا, ثمن نے دروازہ کھولا. عنایا کی روئ روئ آنکھیں دیکھ کر ثمن سمجھ گئ تھی کہ وہ کہاں سے آرہی ہے. 

عنایا, پلیز, اندر یاسر سو مرتبہ پوچھ چکا ہے کہ عنایا کب آۓ گی, سنبھالو خود کو, اس کے سامنے خود کو مضبوط ظاہر کرو. آپی نے سرگوشی کے انداز میں کہا. 

جی آپی, عنایا نے گہری سانس لیتے ہوۓ کہااور اندر جانے لگی.

عنایا, یہ رنگ, آپی نے حیرت سے عنایاکے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓکہا.

جی آپی, یہ اسی پاگل نے دی ہے. عنایا نے رنگ اتارتے ہوۓ کہا.

عنایا نے رنگ اتار کر کالج بیگ میں ڈال دی. 

__________  -----______-----____

رات کو دس بجے فیصل کی کال آئ.

عنایا کا دل تیزی سے دھڑکا. اب کیا کہنا ہے اسے. عنایا نے سوچا. کال کاٹ دی. 

کال دوبارہ آنے لگی. عنایا نے کال دوبارہ کاٹ دی مگر وہ بھی فیصل تھا, ضد کا پکا, کال دوبارہ آنے لگی. عنایا نے کال کاٹ دی . کال پھر سے آنے لگی. 

ہیلو, عنایا نے کال اٹینڈ کی. 

کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہاری پرابلم کیا ہے. فیصل انتہائ غصے میں تھا.

میں سونے لگی تھی. عنایا نے آہستگی سے کہا.

اوکے کل کالج پہنچو, پھر دیکھو, کیسے نیند اڑاؤں گا, فیصل نے غصے سے کال کاٹ دی.

عنایا کو ڈر لگا اور وہ روتے روتے سو گئ.

________________________ ___

صبح عنایا اکیلی کالج پہنچی. رابعہ کے ساتھ وہ کلاس کی طرف بڑھ رہی تھی کہ سامنے فیصل اپنے گروپ کے ساتھ کھڑا تھا. اس نے گھور کر عنایا کو دیکھا. عنایا تیزی سے کلاس میں چلی گئی.

____________________________

عنایا رابعہ کے ساتھ لائبریری میں بیٹھی نوٹس بنا رہی تھی. اچانک ہی وہاں یاسر آ گیا.

 ہاۓ بے وفا لڑکی, آج پھر اکیلا چھوڑ آئ مجھے. یاسر عنایا کی ٹیبل پر بیٹھتے ہوۓبولا.

عنایا ڈر گئ. ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ کہیں فیصل نہ آ جاۓ.

ایک انگلینڈ پلٹ نوجوان کالج میں قتل, فیصل کی آواز لائبریری میں گونجی. 

عنایا, رابعہ اور یاسر نے پلٹ کر دیکھا. فیصل اور سعد  یاسر سے چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے. فیصل کے ہاتھ میں چین تھی جسے وہ گول گول گھما رہا تھا. سعد کے ہاتھ میں شیشے کی ٹوٹی ہوئ بوتل. فیصل کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا.

ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻠﯿﻨﮉ ﭘﻠﭧ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ , ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻻﺋﺒﺮﯾﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻧﺠﯽ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ , ﺭﺍﺑﻌﮧ ﺍﻭﺭ ﯾﺎﺳﺮ ﻧﮯ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ . ﻓﯿﺼﻞ ﺍﻭﺭ ﺳﻌﺪ ﯾﺎﺳﺮ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﻓﭧ ﮐﮯ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ . ﻓﯿﺼﻞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﻦ ﺗﮭﯽ ﺟﺴﮯ ﻭﮦ ﮔﻮﻝ ﮔﻮﻝ ﮔﮭﻤﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﺳﻌﺪ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﯽ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﻮﺉ ﺑﻮﺗﻞ . ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﻥ ﺍﺗﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ.

لائبریری میں بھگدڑ مچ گئ. سب جانتے تھے کہ جو بھی فیصل کو روکے گا وہ بھی جان سے جاۓ گا. 

لائبریری میں صرف عنایا, فیصل, یاسر اور سعد تھے. اس سے  پہلے کہ یاسر کچھ سمجھتا, فیصل نے یاسر کے پیچھے جا کر چین یاسر کے گلے میں ڈال دی اور اسے کھینچنا شروع کر دیا.

نہیں نہیں, فیصل نہیں. عنایا چیخی

فیصل کے سر پر خون سوار تھا. یاسر اپنے ہاتھوں سے چین کو پکڑ کر کھینچ کر ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا. مگر فیصل کی گرفت بہت مضبوط تھی. 

عنایا مسلسل چیخ رہی تھی. پلیز فیصل چھوڑو اسے, فیصل چھوڑ دو اسے. پلیز فیصل مت کرو ایسے. فیصل چھوڑو. عنایا ہاتھوں سے فیصل کا بازو پکڑ کر کھینچ رہی تھی. مگر فیصل کی گرفت سے یاسر کو بچانا عنایا کے لیے ناممکن تھا.

سعد پلیز, روکو فیصل کو, پلیز روک لو فیصل کو, پلیز سعد, عنایا پوری قوت سے چلا رہی تھی.

فیصل پوری طاقت سے یاسر کا گلا گھونٹنے میں مصروف تھا. یاسر کا چہرہ درد کی شدت سے لال ہو رہا تھا. اس کے لیے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا.

فیصل فیصل پلیز, فیصل وہ مر جاۓ گا, فیصل ہوش میں آؤ, فیصل وہ مر جاۓ گا فیصل چھوڑ دو , فیصل پلیز چھوڑ دو, پوری لائبریری میں عنایا کی چیخیں گونج رہی تھیں. یاسر کی گھٹی گھٹی سانسوں کی آواز آ رہی تھی. 

فیصل نہیں, فیصل چھوڑو اسے, فیصل پلیز, عنایا کی چیخیں لائبریری سے باہر سنی جا رہی تھیں مگر کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کوئ فیصل کو روکے.

ﻓﯿﺼﻞ ﻧﮩﯿﮟ , ﻓﯿﺼﻞ ﭼﮭﻮﮌﻭ ﺍﺳﮯ , ﻓﯿﺼﻞ ﭘﻠﯿﺰ , ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﯽ ﭼﯿﺨﯿﮟ ﻻﺋﺒﺮﯾﺮﯼ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﻨﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺉ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﮯ .

ﻓﯿﺼﻞ ﻓﯿﺼﻞ , ﭼﮭﻮﮌﻭ ﭘﻠﯿﺰ ﺍﺳﮯ ﻓﯿﺼﻞ , ﻋﻨﺎﯾﺎ ﭼﯿﺨﺘﮯ ﭼﯿﺨﺘﮯ ﮨﻮﺵ ﮐﮭﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ , ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮔﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺊ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ , ﻓﯿﺼﻞ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﭼﯿﺨﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﯾﺎﺳﺮ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﭙﮑﺎ

_____________________ _____

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﮨﻮﺵ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺎﻟﺞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﻟﯿﭩﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺮ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ . ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺼﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﺍﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ , ﻓﯿﺼﻞ ﮨﻮﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﭘﻠﯿﺰ ﺭﻭﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻭ , ﺁﺉ ﺍﯾﻢ ﺳﻮﺭﯼ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺭﻭ ﻣﺖ , ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺭﻭﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ . ﻓﯿﺼﻞ ﻓﮑﺮ ﻣﻨﺪﯼ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﻣﮕﺮ ﻓﯿﺼﻞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺑﻨﺎ ﺩﯼ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﭘﻠﯿﺰ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺑﻮﻟﻮ , ﺗﻢ ﻟﮍ ﻟﻮ , ﭼﯿﺦ ﻟﻮ , ﻣﺎﺭ ﻟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﭧ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻣﺖ ﺭﮨﻮ . ﭘﻠﯿﺰ ﻋﻨﺎﯾﺎ . ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﻧﻤﯽ ﺑﮭﺮ ﺁﺋﯽ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﭘﻠﯿﺰ ﺗﻢ ﺟﻮ ﮐﮩﻮ ﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ , ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﺮ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻧﻮﮞ ﮔﺎ ﺑﭧ ﭘﻠﯿﺰ ﭨﺎﮎ ﭨﻮ ﻣﯽ ﭘﻠﯿﺰ ﻋﻨﺎﯾﺎ . ﻓﯿﺼﻞ ﺑﮭﺮﺍﺉ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ .

ﭘﺎﻧﯽ , ﭘﺎﻧﯽ , ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﺁﮨﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ

ﺁﮞ ﮨﺎﮞ ﮨﺎﮞ , ﯾﮧ ﻟﻮ ﭘﺎﻧﯽ , ﻓﯿﺼﻞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﮓ ﺳﮯ ﺑﻮﺗﻞ ﻧﮑﺎﻟﯽ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﺗﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ .

ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﯾﺎﺳﺮ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ . ﻭﮦ ﻓﯿﺼﻞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮧ ﭘﮍﯼ .

ﻭﮦ ﺁﮨﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁ ﮔﺌﯽ . ﻓﯿﺼﻞ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﯾﺎ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﮔﯿﭧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺉ .

ﺁﺅ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭﮞ . ﻓﯿﺼﻞ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﮐﺎﺭ ﺗﮏ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻓﯿﺼﻞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﯽ .

ﺗﻢ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮ ﻋﻨﺎﯾﺎ , ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﻻﮎ ﻧﮩﯿﮟ . ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﺗﮭﯽ

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺗﮭﮑﮯ ﮨﺎﺭﮮ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺉ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﺎ .

ﻟﻮ , ﺁ ﮔﺊ ﻭﮦ , ﭘﮭﭙﮭﻮ ﻧﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮰﮐﮩﺎ

ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ¿ ﺑﻮﻝ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﯾﺎﺳﺮ , ﭘﮭﭙﮭﻮ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﭙﮑﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﭘﮭﭙﮭﻮ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺭﻭﭖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺊ .

ﮐﮏ ﮐﯿﺎ ﻣﻄﻠﺐ , ﯾﺎﺳﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﮰﮐﮩﺎ

ﻭﮨﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﻭﮦ . ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ . ﺑﻮﻝ , ﭘﮭﭙﮭﻮ ﭼﻼﺋﯿﮟ .

ﭘﮭﭙﮭﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﻓﮑﺮ ﻣﻨﺪﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ .

ﺟﮭﻮﭦ ﻣﺖ ﺑﻮﻟﻮ , ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻭ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﮈﺭﺍﻣﮯ ﮐﻮ ﺟﻮ ﺍﺗﻨﮯ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ . ﺑﺲ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ . ﮨﻢ ﺁﺝ ﮨﯽ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﺲ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎ ﺩﻭ ﯾﺎﺳﺮ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ . ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺁﮔﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌﺗﯽ ﮨﻮﮞ . ﭘﮭﭙﮭﻮ ﻧﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌﮮ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﭘﮭﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ . ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﭙﮭﻮ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ , ﯾﺎﺳﺮ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ . ﺛﻤﻦ ﺑﮭﯽ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺉ .

ﺁﭘﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺘﺎ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ . ﺭﻭﺗﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﺝ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺛﻤﻦ ﮐﻮﺳﻨﺎﯾﺎ .

___________________________

ﮐﺎﺷﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ , ﮨﺴﭙﺘﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ , ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ , ﺳﺐ ﺟﮕﮧ ﭘﺘﺎ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﻣﮕﺮ ﯾﺎﺳﺮ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ . ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﭼﮫ ﺑﺞ ﺭﮨﮯﺗﮭﮯ . ﭘﮭﭙﮭﻮ ﮐﻮ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺑﮯﮨﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﮮ ﭘﮍ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ .

____ ______ _____--------____

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﮈﺍﺋﻞ ﮐﯿﺎ .

ﺯﮨﮯ ﻧﺼﯿﺐ ﺁﺝ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ........... ﻓﯿﺼﻞ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﻮﻝ ﮨﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ

ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﮨﮯ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ .

ﺭﺋﯿﻠﯽ ¿¿¿ ﺗﺖ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮ ¿¿ ﻓﯿﺼﻞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ .

ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ........... ﻓﯿﺼﻞ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﻣﮕﺮ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ . ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﺑﮭﯿﺠﻮ .

ﺍﻭﮐﮯ ﺍﻭﮐﮯ , ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﯿﻨﮯ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ . ﻓﯿﺼﻞ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .

ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﮐﺎﺭ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﮭﯽ .

ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﮐﺎﻝ ﺁﺉ . ﺁ ﺟﺎﺅ ﻣﺴﺰ ﻓﯿﺼﻞ , ﺁﭖ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﮯ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﯿﮟ . ﻓﯿﺼﻞ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﭘﻮﺭ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ .

ﺑﺲ ﻭﯾﭧ , ﺩﻭ ﻣﻨﭧ , ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﺊ . ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺗﯿﺰ ﺩﮬﺎﺭ ﭼﮭﺮﯼ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﮓ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﻟﯽ . ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﻨﺎ ﺑﺘﺎﮰ ﻭﮦ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﯽ ﮔﺊ

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﺊ . ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺗﯿﺰ ﺩﮬﺎﺭ ﭼﮭﺮﯼ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﮓ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﻟﯽ . ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﻨﺎ ﺑﺘﺎﮰ ﻭﮦ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﯽ ﮔﺊ .

ﺳﺎﺭﮮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻓﯿﺼﻞ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﺩﻻﺗﺎ ﺭﮨﺎ . ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ﺭﮨﺎ . ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﻣﮕﺮ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﮓ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﭘﮑﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ .

ﮐﺎﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﮭﻮﻻ . ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﻡ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﺑﺎﮈﯼ ﮔﺎﮌﮈﺯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ . ﭼﮭﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﻨﺎﺋﭙﺮﺯ ﺗﻌﯿﻨﺎﺕ ﺗﮭﮯ . ﺳﯽ ﺳﯽ ﭨﯽ ﮐﯿﻤﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﮈﯼ ﮔﺎﮌﮈ ﺟﻮ ﺑﻞ ﮈﻭﮒ ﮐﯽ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﮓ ﭘﺮ ﻣﺰﯾﺪ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﻮ ﮔﺊ . ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﺮﺩ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭘﺴﯿﻨﮧ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﺎ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎﺗﯽ ﮨﻮﺉ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ . ﻓﯿﺼﻞ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﺎ . ﺍﺭﮮ ﺧﯿﺮﯾﺖ ﮨﮯ ¿ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﯿﺮﻧﯽ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ .

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﮐﻮﺉ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ . ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻡ ﺑﮍﮬﺎﺗﯽ ﮨﻮﺉ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮔﺊ .

____________________________

ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺁﭨﮫ ﺑﺞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺳﮯ ﺁﺗﺶ ﺩﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﭘﯽ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ . ﻓﯿﺼﻞ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﺑﺪﻻ ﯾﻮﺍ ﺭﻭﯾﮧ ﻧﻮﭦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺁﺉ ﮨﮯ .

ﻓﯿﺼﻞ , ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺍ .

ﺟﯽ ﺟﺎﻥ ﻓﯿﺼﻞ , ﻓﯿﺼﻞ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ .

ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ

ﺗﻮ ﮐﮩﻮ ﻧﺎ . ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ . ﻓﯿﺼﻞ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﻮﻻ

ﯾﮩﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ , ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮨﻮﮞ . ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺟﮩﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮨﻮﮞ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ .

ﻓﯿﺼﻞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ

________________//////,,______

ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﻧﻮ ﺑﺠﮯ ﮐﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ .

ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ , ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮩﺖ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ . ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﺎ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ . ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻞ ﺭﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﻭﮞ , ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ......... ﻓﯿﺼﻞ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .

ﮔﺎﮌﯼ ﺭﻭﮐﻮ , ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ .

ﻓﯿﺼﻞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﺭﻭﮐﯽ . ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ . ﺍﮔﻼ ﺣﮑﻢ

ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﺁﮨﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭼﮭﮍﺍﯾﺎ . ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ . ﻓﯿﺼﻞ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ .

ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﺎ ﺟﻨﮕﻞ ﺗﮭﺎ . ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﮐﻮﺉ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ . ﮔﮭﭗ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺗﮭﺎ . ﮔﺎﮌﯼ ﮐﯽ ﮨﯿﮉ ﻻﺋﭩﺲ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮨﻮﺉ ﺗﮭﯽ .

ﺁﺅ ﻓﯿﺼﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ . ﺍﺱ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﻮ ﺗﻢ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﮯ . ﻋﻨﺎﯾﺎ ﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ .

ﻓﯿﺼﻞ ﺟﻮ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺍ ﺭﻭﭖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﺗﮭﺎ . ﻭﮦ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ . ﺍﺳﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﭼﮭﺮﯼ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻧﭗ ﺩﯼ .

ﺁﺁﺁﺁﺁ . ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﺯﻭﺭﺩﺍﺭ ﭼﯿﺦ ﭘﻮﺭﮮ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻧﺠﯽ . ﻓﯿﺼﻞ ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﺖ ﭘﺖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮﺍ . ﻓﯿﺼﻞ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ

آآآآآ. فیصل کی زوردار چیخ پورے جنگل میں گونجی. فیصل خون میں لت پت  زمین پر گرا. فیصل کے جسم سے خون نکل کر تیزی سے زمین پر پھیل رہا تھا. 

عنایا یہ ممنظر دیکھ کر سہم گئ تھی. فیصل زمین پر داد سے تڑپ رہا تھا. فیصل کے خون کے چھینٹے عنایا کے کپڑوں پر پڑے تھے. عنایا کے ہاتھوں پر بھی فیصل کا خون لگا ہوا تھا. عنایا کو اور کچھ سمجھ نہ آیا. اس نے ایک طرف کو بھاگنا شروع کر دیا. وہ تیزی سے وہاں سے بھاگ رہی تھی کا اچانک سامنے سے آنے والی کار سے ٹکرا گئ. 

_________________________

اوہ نو شٹ یار, کار سے عادل اور تانیہ باہر نکلے. 

یہ کیا کیا تانیہ تم نے, عادل نے پریشان ہو کے پوچھا.

مم مجھے کیا پتا تھا کہ یہ لڑکی پاگلوں کی طرح بھاگ رہی ہو گی. تانیہ نے گھبراتے ہوۓکہا

اسی لیے کہہ رہا تھا کہ صبح ڈرائیونگ سکھا دوں گا بٹ نہیں. تمہیں بھی رات کے وقت ہی گاڑی مارنے کا شوق تھا. اب بھگتو. عادل نے غصے سے کہا.

بس تم اب شروع ہو جاۓ. میں نے جان کر تھوڑی نہ مارا. تانیہ نے گھبراتے ہوۓکہا.

تانیہ نے عنایا کی نبض چیک کی. یہ صرف بے ہوش ہوئ ہے. چلو ہاسپٹل لے چلیں. تانیہ نے کہا.

ہاں ہاں بالکل, اس کے بعد تھانے چلیں گے. بے وقوف. عادل نے غصے سے کہا.

پھر اب ¿¿ تانیہ نے گھبراتے ہوۓکہا

اب کیا, گاڑی میں ڈالو, گھر لے جا کر ہوش میں لاکر معافی مانگ کر گیبھیج دیں گے اسے. مجھے ہاسپٹل, تھانے کے چکروں میں نہیں پڑنا. عادل نے کہا.

___________________________

عادل اور تانیہ اور ان کی پانچ سالہ بیٹی زویا کراچی میں رہتے تھے. عادل اسلام آباد میں جاب کرتا تھا. دس دن کی چھٹی پر کراچی آیا تو بیگم کی فرمائش پر اسے ڈرائیونگ سکھانے نکل پڑا. گاڑی کی سپیڈ کم ہونے کی وجہ سے عنایا کو چوٹ نہیں لگی. صرف ڈر اور خوف کی وجہ سے وہ بےہوش ہو گئ تھی.

____________________________

رات کے دو بجے دروازے پر زوردار دستک ہوئ. آنے والا دروازہ توڑنا چاہتا تھا. کاشان نے دروازہ کھولا. آگے سعد پولیس کے ساتھ کھڑا تھا.

عنایا کہاں ہے, بول کہاں چھپایا ہے اسے. سعد نے کاشان کا گریبان پکڑا ہوا تھا. 

امی, ابا اور ثمن بھی شور سن کر باہر آ گۓ.

دیکھو بیٹا, ہم خود بہت پریشان ہیں. عنایا کا کچھ پتا نہیں. ابا نے بےبسی سے کہا.

دیکھیں جی, آپ کی بیٹی قتل کر کے بھاگی ہے. وارنٹ گرفتاری ہیں ہمادے پاس اس کے. انسپکٹر صاحب بولے

قق قق قتل . نہیں نہیں میری بیٹی قتل نہیں کر سکتی. وہ وہ تو بہت معصوم ہے. میں جانتی ہوں اپنی بیٹی کو , عنایا نہیں مار سکتی کسی کو. اماں چلاتے چلاتے رونے لگیں.

تلاشی لو گھر کی. انسپکٹر نے اہلکاروں کو اشارہ کرتے ہوۓکہا

گھر کی تلاشی لینے پر عنایا نہ ملی تو پولیس والے کاشان کو پکڑ کر لے گئے. 

____________________________ 

عنایا کو ہوش آیا تو وہ ایک کمرے میں بیڈ پر تھی. تانیہ بیٹھی عنایا کو دیکھ رہی تھی.

ہیلو, تانیہ نے عنایا کی آنکھون کے آگے ہاتھ لہراتے ہوۓ کہا.

تم کون ہو, کہاں رہتی ہو, گھر کہاں ہے تمہارا, اتنی رات کو جنگل میں کیوں بھاگ رہی تھی¿¿¿ تانیہ نے ایک ہی سانس میں سارے سوالات کر ڈالے.

عنایا سوچ میں پڑ گئ. اس نے سوچا کہ اگر وہ ان لوگوں کو حقیقت بتا دے گی کہ وہ فیصل کو مار کر بھاگ رہی تھی تو یہ لوگ اسے پولیس کے حوالے کر دیں گے. پھانسی سے بچ بھی گئ تو فیصل کے گروپ کے لوگ اسے مار دیں گے. اس کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا, یادداشت چلے جانے کا ڈرامہ کرنا.

مجھے کچھ نہیں یاد, عنایا نے سر پکڑتے ہوۓکہا

-----__________---------_ ______

         تین دن بعد

___________________________

آپ کے patient کو ہوش آ رہا ہے اور وہ کسی عنایا کا نام لے رہے ہیں.

نرس نے سعد کو اطلاع دی. 

کیا میں فیصل سے مل سکتا ہوں, سعد نے جلدی سے پوچھا

جی ہم نے انہیں ICU سے روم میں شفٹ کر دیا ہے. آپ مل سکتے ہیں. نرس نے جواب دیا

سعد تیزی سے روم کی طرف بھاگا.

عنایا, عنایا, فیصل مسلسل عنایا کا نام لے رہا تھا. 

فیصل, تم ٹھیک ہو نا¿ سعد نے فیصل کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ پوچھا.

ﻋﻨﺎﯾﺎ , ﻋﻨﺎﯾﺎ , ﻓﯿﺼﻞ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﻋﻨﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .

ﻓﯿﺼﻞ , ﺗﻢ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﻧﺎ ¿ ﺳﻌﺪ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮﺗﮯ ﮨﻮﮰ ﭘﻮﭼﮭﺎ.

سعد, عنایا کہاں ہے ¿ فیصل نے درد سے کراہتے ہوۓکہا

فکر نہ کر فیصل, ایک بار پتہ چل جاۓ اس کا تو دیکھ, کیا حشر ____ سعد بولا.

نہیں سعد پلیز, وہ میری زندگی ہے, جان ہے وہ میری, مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ میری ضد سے میری محبت بن گئ. پلیز سعد, مجھے اس سے ملوا دو پلیز, میں مر جاؤں گا اس کے بنا, میں نہیں رہ سکتا, فیصل آج بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا.

سعد کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے. فکر نہ کر فیصل, مل جاۓ گی بھابھی. پولیس اور ہمارے گروپ کے آدمی اسے جگہ جگہ تلاش کر رہے ہیں. سعد نے تسلی دیتے ہوۓکہا.

سعد, وہ کب آۓ گی. بس ایک بار مجھے اس سے ملوا دے. چلو, میں بھی اسے ڈھونڈنے نکلتا ہوں, فیصل اٹھنے کی کوشش کرنے لگا.

فیصل, میرے بھائ, تو آرام کر, مجھ پہ یقین کر, بہت جلد بھابھی تیرے سامنے ہوں گی. سعد نے فیصل کو لٹاتے ہوۓکہا.

سعد کا موبائل بجنے لگا. 

ہاں عمر بول, سعد نے کال اٹینڈ کرتے ہوۓکہا.

کیا, عنایا بھابھی مل گئیں. سعد نے خوشی کا اظہار کیا. 

فیصل ایک دم بیڈ سے اترنے لگا. سعد نے اسے زبردستی بیڈ پر لٹایا. 

___________________________

پولیس نے عادل کے گھر چھاپا مار کر عنایا کو گرفتار کر لیا تھا. ثمن جیل میں عنایا سے ملنے آئ. 

کیوں کیا عنایا تم نے ایسا,  ثمن نے بھرائ آواز میں پوچھا.

آپی اس نے یاسر کو, یاسر کو _____ عنایا کپکپاتے لہجے میں بول رہی تھی. 

پاگل لڑکی, کاش تم تھوڑا سا صبر کر لیتی. ثمن, عنایا کی بات کاٹ کر بولی. جانتی ہو, اس دن تمہارے جانے کے بعد یاسر آیا تھا. پھپھو کو ساتھ لے کر واپس انگلینڈ چلا گیا وہ. تمہارے بارے میں ایسی باتیں بول کر گیا وہ کہ تم سن لیتی تو شاید فیصل کی جگہ یاسر کو مارتی. 

ثمن کی باتوں نے عنایا کو شرمندہ کر دیا.

___________________________

دو دن بعد

___________________________

چلو بی بی تمہاری ضمانت ہو گئ ہے.  عنایا کو اطلاع دی گئی

عنایا باہر نکلی تو فیصل کو سامنے مسکراتے دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئ. 

___________________________

عنایا کرسی پر بیٹھی تھی اور فیصل اس کے قدموں میں بیٹھا تھا. آج فیصل کی آنکھیں نم تھیں.

بیت برا ہوں نا میں عنایا, فیصل نے بھرائ آواز میں پوچھا

عنایا چپ چاپ اسے دیکھتی رہی. 

اب بھی یقین نہیں ہے نا مجھ پر, فیصل کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے. 

عنایا, بہت دکھ دیے نا میں نے تمہیں. زبردستی نکاح. زبردستی حق جتانا, زبردستی پاس بلانا, مگر اب اور نہیں. میں نے جان لیا ہے کہ محبت میں زبردستی نہیں ہوتی. تم کہو تو بہت جلد میں تمہیں آزاد ...........

 فیصل کے رونے میں شدت آ گئی.

فیصل پلیز, عنایا نے فیصل کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیے.  عنایا جو کب سے ضبط کیے بیٹھی تھی. فیصل کے گلے لگ کر رونے لگی

___________________________

عنایا کا گھر آ گیا تھا. عنایا اترنا چاہتی تھی مگر دروازہ لاک تھا. 

عنایا نے فیصل کی طرف دیکھا. جو آنکھوں میں چاہت کے رنگ بھرے اسی کو دیکھ رہا تھا. 

دروازہ کھولو, عنایا نے نظریں جھکا کر کہا. 

 ایک شرط پر, فیصل نے دلکش مسکراہٹ سجاۓ کہا.

کیا, عنایا نے سوالیہ نظروں سے پوچھا

رخصتی کی ڈیٹ بتاؤ, فیصل ایک خمار سےبولا

فیصل للل لللل لل, عنایا نے فیصل کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا. 

گاڑی میں دونوں کے جاندار قہقہے گونج اٹھے.

     ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dastaan e Junoon Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Dastaan e Junoon  written by Hamna Mohsin. Dastaan e Junoon  by  Hamna Mohsin is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment