Pages

Thursday 19 September 2024

Mah E Mohabbat Novel by Kiran Rafique Complete Romantic Novel

Mah E Mohabbat By Fariha Islam Complete Romantic Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading… 

Mah E Mohabbat Novel by Kiran Rafique Complete Romantic Novel 

Novel Name : Mah E Mohabbat

Writer Name : Fariha Islam

New Upcoming :  Complete 

یہ صبح نجانے کتنے لوگوں کی زندگی بدلنے والی تھی ۔۔۔ ایک طرف خان ہائوس کے مکین تھے جو ابھی ابھی جوان اولاد کو موت سے نڈھال تھے تو دوسری طرف خوش بخت کے گھر کے مکین تھے۔۔۔ جو آج جرگے کے فیصلے کے منتظر تھے۔۔۔

صبح کے نو بجے جرگے کی کاروائی شروع ہوئی تھی۔۔۔ 

دونوں طرف سے دلائل دئیے گئے۔۔ لیکن دلاور خان کی طرف سے دلائل کے مضبوطی خوش بخت کی برطرف سے دئیے گئے تمام دلائل کو مات دے گئی تھی۔۔ تو گویا ایک اور فیصلے کا اختتام ونی پر ہوا تھا۔۔۔ خوش بخت کو ایک گھنٹہ دیا گیا تھا اپنی بیٹی کو جرگے میں لانے کا جبکہ دلاور خان نے اپنے ایک ملازم کو اکثم کو بلانے کا حکم دیا تھا۔۔۔ 

بخت خدا کا واسطہ ہے کوئی اور راستہ نکالو۔۔۔ میری معصوم سی بچی ہے وہ۔۔ اسے تو دنیا کا پتہ ہی نہیں ہے ۔۔۔ جانتے ہو نا پانچویں کے بعد میں نے اسے سکول جانے سے روک دیا تھا۔۔۔ اس کی معصومیت کو اتنے سالوں سے بچا رہی ہوں میں بخت وہ لوگ تباہ کر دیں گے میری بچی کو۔۔۔ ہم یہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔۔۔ 

مریم ۔۔ میری مجبوری کو سمجھو ۔۔ وہ لوگ قصاص چاہتے ہیں۔۔ جرگے کے فیصلے کے مطابق یا تو مجھے خان صاحب کو دس کڑوڑ روپے دینے ہوں گے یا ہانم کا نکاح دلاور خان کے دوسرے بیٹے کے ساتھ کرنا ہوگا۔۔۔ 

خوش بخت کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔۔۔ وہ بھلا کب اپنی بچی کو خود سے دور کر سکتا تھا جسے دیکھ کر ہی اس کے سارے دن کی تھکان اتر جاتی تھی۔۔۔ 

بخت تم ان کو یقین دلاتے نہ کہ تم نے جان بوجھ کر ان کے بیٹے پر گولی نہیں چلائی تھی ۔۔۔ تم ایک چور کا پیچھا کرتے ہوئے گولیاں چلا گئے تھے۔۔۔ اور ادھر سے انکا بیٹا گزر رہا تھا اس لئے اسے گولی لگ گئی۔۔۔ 

مریم وہی بات دہرا رہی تھی جو پچھلے دو دن سے دہرا رہی تھی۔۔ جب سے اس نے سنا تھا کہ جرگہ بلایا گیا ہے۔۔۔ 

مریم سب کو یقین آ بھی جائے تو بھی ان کا بیٹا مرا ہے۔۔۔ وہ کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں ۔۔۔ اپنی جان بھی پیش کر چکا ہوں لیکن انہیں میری جان چاہیے ہی نہیں۔۔۔

بخت کے آنسو بھی ضبط کے سارے بندھن توڑ گئے تھے۔۔۔ 

ہانم جو مسکراتے ہوئے ہمسائیوں کے گھر سے اپنے گھر میں آئی تھی سامنے ہی اپنے ماں باپ کو ناسمجھی سے دیکھنے لگی۔۔۔ 

ابا جان۔۔ کیا ہوا ہے؟؟ آپ رو رہے ہیں کیا؟؟؟ 

اور امی بھی رو رہی ہے۔۔۔ کیا آپ دونوں کی لڑائی ہوئی ہے؟؟؟ 

اس کی بات پر مریم کے رونے میں شدت آگئی تھی۔۔۔ ہانم اپنی سمجھ کے مطابق آگے بڑھی اور مریم کے گلے لگ گئی۔۔۔ 

امی چپ کر جائیں۔۔ ابا تو ہی گندے ہیں۔۔۔ میں پوچھتی ہوں ان کو ۔۔ آپ چپ کر جائو نا۔۔ 

اپنے چھوٹے چھوٹے سفید اور گلابی ہاتھوں سے وہ مریم کے آنسو صاف کر رہی تھی ۔۔۔ 

بخت نے اس کے سر پر بوسہ دیا اور نم آنکھوں سے اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔۔۔۔

ہوسکے تو اپنے ابا کا معاف کر دینا۔۔۔

میری امی سے معافی مانگیں ابا کیونکہ وہ رو رہی ہیں آپکی وجہ سے۔۔۔ 

اس کی بات پر مریم نے اسے ذور سے خود میں بھینچ لیا۔۔۔ 

ہانم اندر سے بڑی چادر کے آئو۔۔۔ 

تھوڑی دیر بعد خوش بخت کی آواز کمرے میں گونجی تھی ۔۔۔ 

ابا ۔۔ پہلے وعدہ کریں امی سے لڑائی نہیں کریں گے ۔۔ پھر لے کر آئوں گی چادر۔۔۔ 

اچھا میری ماں نہیں کرتا اب جائو لے کر آئو چادر۔۔۔ تمہیں کہیں لے کر جانا ہے۔۔۔ 

بخت۔۔۔ میری بچی۔۔۔ 

مریم کے آنسو کسی صورت کم نہیں ہو رہے تھے۔۔۔ اضطراب تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔ 

ہانم اندر گئی اور ایک بڑی سی چادر کے آئی۔۔ 

ہانم اسے اوڑھو اور میرے ساتھ چلو۔۔۔ 

بخت یہ بول کر باہر کی جانب چلا گیا جبکہ مریم نے ہانم کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔ 

اپنے ماں باپ سے کبھی بد گمان مت ہونا ہانم۔۔۔ اور جہاں تم جا رہی ہو اب تمہیں وہیں رہنا ہے۔۔۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔۔۔ 

مریم نے یہ بول کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔۔ جبکہ ہانم کے تو سر سے گزر گئی تھیں ساری باتیں۔۔۔ 

ہانم اپنے باپ کے ساتھ چلی گئی تھی بخت گھرانے کی خوشیوں کو ساتھ لے کر۔۔۔۔ جو شاید کبھی واپس نہیں آنی تھیں ۔۔۔ 

خوش بخت کا گھرانہ چار افراد پر مشتمل تھا۔۔۔ 

جس میں خوش بخت، مریم ( خوش بخت کی بیوی ) ہانم خوش بخت کی بڑی بیٹی جو بارہ سال کی تھی اور ریاح ( چھوٹی بیٹی )  جو سات سال کی تھی۔۔۔اور اس وقت اپنی نانی کے گھر دوسرے گائوں میں تھی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

اکثم دلاور خان کے بلاوے پر جرگے میں پہنچا تھا ۔۔ لیکن وہاں جا رک اسے جب جرگے کا فیصلہ معلوم ہوا تو وہ لب بھینچ کر اپنے اندر کے اشتعال کو دبانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ کیونکہ سرعام وہ اپنے باپ کے فیصلے اختلاف نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ 

خوش بخت ہانم کو جب وہاں لے کر پہنچا تو جرگے میں موجود سب لوگوں نے اسے دیکھا ۔۔ ایک نہیں دیکھا تو اکثم خان نے اسے دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی ۔۔۔ 

سفید رنگت جس میں گلابی رنگ بھی نمایاں تھا، نیلی آنکھیں، لمبی مڑی ہوئی پلکیں، چھوٹی سی ناک ، پھولے ہوئے گلابی رخسار، تیکھے نین نقش،  گلابی چھوٹے سے لب، وہ معصومیت سے گندھی بارہ سالہ  لڑکی وہاں موجود ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کر گئی تھی۔۔۔ 

مولوی صاحب نکاح پڑھوائیں ۔۔۔ 

دلاور خان نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔

ہانم بخت،ولد خوش بخت آپکا نکاح اکثم خان ولد دلاور خان سے دس ہزار روپے سکہ رائج الوقت طے پاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے۔؟؟؟ 

مولوی کے الفاظ پر ہانم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔ وہ تو جرگے کے قریب تھوڑی دور کھڑی ایک بکری کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ 

ابا میں اس بکری کے ساتھ کھیل لوں۔۔ دیکھں کتنی پیاری ہے۔۔۔ 

ہانم اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔۔ 

اس کی بات سب جرگے والوں نے سوالیہ نظروں سے خوش بخت کو دیکھا تھا جبکہ اکثم نے بس ایک نظر ہانم پر ڈالی تھی ۔۔۔ 

ہاں کھیل لینا پہلے جب یہ چچا کچھ بولیں تو تم نے قبول ہے کہنا ہے ۔۔۔ 

خوش بخت کی بات پر ہانم کک نیلی آنکھیں خوشی سے چمکی تھیں ۔۔۔ اور اس نے شور ذور سے اپنا سر اثبات میں ہلایا تھا۔۔۔ 

مولوی نے جب دوبارہ نکاح کے کلمات دہرائے تو ہانم نے قبول ہے کہہ دیا ۔۔۔ تین دفعہ مولوی نے ہانم سے قبولیت لی تھی۔۔۔ 

اب مولوی کا رخ  سترہ اکثم کی طرف تھا جو زمین پر نجانے کیا تلاش کر رہا تھا۔۔۔ 

اکثم خان ولد دلاور خان آپکا نکاح ہانم بخت ولد خوش بخت سے دس ہزار روپے سکہ رائج الوقت طے پاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟؟ 

اکثم نے ایک نظر اپنے باپ کو دیکھا جو امید سے اکثم کا چہرہ دیکھے رہے تھے۔۔۔

قبول ہے۔۔۔

ایک گہری سانس لے کر اس نے قبول ہے کہا تھا ۔۔ تینوں دفعہ قبول ہے کہ بعد مولوی نے جب نکاح نامہ ہانم کے آگے بڑھایا اور دستخط کی جگہ اس کا انگوٹھا لگوایا۔۔۔ جبکہ اکثم نے اپنے نام کے دستخط کئے تھے۔۔۔ 

ابا اب ہاتھ چھوڑ دیں۔۔۔ بکری چلی جائے گی ۔۔۔ 

ہانم نے خوش بخت کو دیکھ کر کہا۔۔۔ 

خوش بخت نے بے ساختہ ہاتھ چھوڑا۔۔۔ اور وہ بھاگتی ہوئی بکری کے پاس پہنچی۔۔۔ اس کو ہاتھ لگا کر وہ خوش ہو رہی تھی۔۔۔ جبکہ جرگے میں موجود لوگ اب اپنے گھروں کو روانہ ہو رہے تھے۔۔۔ خوش بخت بھی ایک آخری نظر ہانم لڑ ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔ 

سب کے جانے کے بعد اکثم اپنے باپ کے پاس آیا۔۔۔ 

باباجان۔۔۔ یہ اچھا نہیں ہوا۔۔۔ 

اکثم کا لہجہ گستاخانہ نہیں لیکن سخت ضرور تھا۔۔۔ 

کیا اچھا ہے کیا برا اس کا فیصلہ تم مت کرو۔۔ کیونکہ  اس کے لئے میں موجود ہوں ابھی ۔۔۔ اب جلدی سے اس لڑکی کو لے کر گھر پہنچو۔۔۔ 

دلاور خان یہ بول کر وہاں سے اپنے ملازمتوں کے ساتھ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔۔۔ جبکہ اکثم نے بمشکل اپنا اشتعال کنٹرول کیا تھا۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم کب سے اسے دیکھ رہا تھا جو بکری کے ساتھ پتہ نہیں کون سے راز ونیاز کر رہی تھی۔۔۔ جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہے تھے۔۔۔ 

اکثم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی اس لڑکی کو مخاطب کیسے کرے جو اس کی بیوی بن چکی تھی ۔۔۔

اے لڑکی۔۔۔ 

ہانم نے سر اٹھا کر اکثم کو دیکھا ۔۔۔اور پھر سے بکری کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی۔۔۔ 

اکثم نے اسے گھورا جو اسے نظر انداز کر گئی تھی ۔۔۔

اے لڑکی میں تم سے مخاطب ہوں ۔۔ بہری ہو کیا؟؟؟ 

ہانم نے پھر سے نظریں اٹھائیں اور نرمی سے بولی۔۔ 

جی۔۔۔ بولیں۔۔۔ 

چلو گھر جانا ہے۔۔۔ 

تم کون ہو؟ اور میں تمہارے ساتھ گھر کیوں جائوں گی؟؟؟ 

ہانم کی بات پر اکثم نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔۔۔ 

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو نکاح ہوا ہے ہمارا ۔۔۔۔ اور پوچھ رہی ہو کہ میں کون ہوں؟؟؟ 

نکاح۔۔۔۔

ہانم خود سے بڑبڑائی۔۔۔

ہاں جی نکاح۔۔۔ اب چلو۔۔ 

اکثم نے غصے سے اسے دیکھا تھا جس پر کوئی اثر نہیں تھا۔۔ 

نکاح کا کیا مطلب ہے؟؟ اور میں نہیں جا رہی آپکے ساتھ ۔۔ میں اپنے ابا کے ساتھ جائوں گی۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر بولی۔۔ اکثم نے ضبط سے مٹھیاں بند کیں تھی ۔۔۔ 

مطلب ہماری شادی ہوگئی ہے اور ہم دونوں میاں بیوی ہیں۔۔

اوو جیسے امی اور ابا ہیں۔۔۔ 

ہانم لبوں پر انگلی رکھے پرسوچ انداز میں بولی۔۔۔ 

مجھے پتہ نہیں کیوں لگ رہا ہے کہ تم میرے ہاتھوں قتل ہونے والی ہو۔۔۔ 

اکثم نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑا اور تقریبا گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی تک لایا اور پٹخنے کے انداز میں اسے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا ۔۔۔ خود گہرہ سانس ہوا میں خارج کرتا ڈرائیونگ سیٹ پر آیا۔۔۔ اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا جب ہانم کی رونے کی آواز اس تک پہنچی۔۔۔ 

کیا ہوا تمہیں؟؟ اب رو کیوں رہی ہو؟؟؟ 

اکثم نے ناچاہتے ہوئے بھی اس سے سرد انداز میں ہوچھا۔۔۔

مجھے ابا کے ساتھ گھر جانا ہے ۔۔۔ 

وہ چادر کے ساتھ اپنی چھوٹی سی ناک کو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔۔

آئندہ اگر اپنے باپ کا نام لیا تو میں جان لے لوں گا تمہاری۔۔۔ 

اس بار اس  کی دھاڑ سے ہانم کا ننھا سا دل واقعی سہم گیا تھا۔۔۔لیکن میں نے تو اپنے ابا کا نام لیا ہی نہیں ۔۔۔ ان کا نام تو خوش بخت ہے ۔۔۔ 

اکثم نے اپنا سر اسٹیئرنگ سے ٹکا دیا ۔۔۔ پاس بیٹھی لڑکی اس کی برداشت کو آزما رہی تھی ۔۔۔ وہ خود کو کمپوز کرتے ہوئے اس کی طرف مڑا اور نرمی سے بولا۔۔

دیکھو لڑکی۔۔۔ 

ہانم نام ہے میرا۔۔۔ 

ہانم جلدی سے بولی۔۔۔ 

اس کی بات مقابل کے لبوں پر مسکراہٹ کی جھلک دکھا کر لمحے میں غائب ہوئی تھی۔۔۔ 

دیکھو ہانم۔۔۔ آج سے تمہارے ماں باپ جہاں ہم جا رہے ہیں وہ ہوں گے۔۔ مطلب میرے ماں باپ تمہارے ماں باپ ہوں گے۔ وہ تمہارے ماں باپ نہیں ہیں جن کے پاس تم رہتی تھی۔۔ اس لئے ان کو بھول جائو۔۔۔ 

اس کی بات پر ہانم کی آنکھیں پھر سے نم ہوئی تھیں۔۔۔ اکثم کو لگا وہ بات کو سمجھ گئی ہے اس لئے رو رہی ہے۔۔۔ لیکن اس کے اگلے الفاظ اکثم کو شاک کر گئے تھے۔۔۔ 

اگر وہ میرے ماں باپ جن کے پاس جا رہی ہوں تو مطلب آپ میرے بھائی ہیں۔۔۔؟؟ کہاں تھے آپ بھائی؟؟؟ 

لاحول و لاقوت ۔۔۔ خبردار مجھے بھائی کہا۔۔۔ میں بھائی نہیں تمہارا دوست ہوں۔۔۔ 

لیکن ابھی تو آپ نے کہا کہ آپکے ماں باپ میرے ماں باپ ہیں تو۔۔۔ 

یہ دیکھو میرے ہاتھوں کی طرف اور چپ کر جائو۔۔۔ میرا سٹیمنا یہیں تک کا تھا۔۔۔ 

وہ باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر بولا۔۔۔۔ 

اکثم اتنا تو سمجھ گیا تھا یہ لڑکی معصوم ہی نہیں باتونی بھی تھی ۔۔۔ اسے اس پر ترس آیا لیکن وہ کیا کر سکتا  تھا اپنے باپ کے آگے جو سخت دل ہوگئے تھے۔۔۔۔ 

ہانم خاموشی سے رونے لگی۔۔۔ شاید اتنی سی بات وہ سمجھ گئی تھی کہ اس کا باپ اسے چھوڑ کر جا چکا ہے۔ کبھی نا واپس آنے کے لئے۔۔۔ وہ بچی تھی معصوم تھی ۔۔ لیکن باپ کی غیر موجودگی اسے کافی کچھ سمجھا گئی تھی۔۔۔۔ 

اکثم کے منہ سے بے ساختہ الحمداللہ نکلا تھا۔۔۔ ہانم کی خاموشی پر۔۔۔۔ 

اسے لگ رہا تھا یہ لڑکی ونی نہیں ہوئی بلکہ اسے سزا دی گئی تھی۔۔۔ باپ سے محبت کی سزا ۔۔۔ جو شاید وقت آنے پر اسے معلوم ہونے والی تھی۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم اسے حویلی کے اندر حال میم چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔۔ ہانم وہاں موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔ 

کون ہو تم؟؟؟

ایک نرم آواز ہانم کے کانوں میں پڑی تو وہ اچھل کر صوفے سے کھڑی ہوئی۔۔۔ 

میں ہانم ہوں۔۔۔۔ 

سامنے کھڑی ایک درمیانی عورت کو دیکھ کر ہانم نے جلدی سے جواب دیا۔۔۔ 

اچھا اچھا۔۔۔ تم  ہو وہ  لڑکی ۔۔۔۔ 

یسرا بیگم کو دلاور خان نے گھر آ کر ہی بتا دیا تھا جرگے کے فیصلے کا ۔۔۔ اس لئے اب وہ ہانم کو دیکھ کر بولی تھیں ۔۔۔۔ 

ہانم نے جلدی سے اپنا سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔ 

میں اکثم کی اماں جان ہوں تو تم بھی مجھے اماں جان کہو گی۔۔۔ 

انہوں شفقت سے ہانم کی گال پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ تو ہانم نم آنکھوں سے مسکرا بولی ۔۔۔

آپ بھی بہت پیاری ہیں۔۔اور۔۔۔

اس کے الفاظ ابھی منہ میں تھے جب اس کے منہ پر پڑنے  والے تھپڑ نے مزید بولنے سے روک دیا۔۔۔ 

ہانم ایک تھپڑ سے ابھی سنبھلی تھی جب دوسرا تیسرا ۔۔۔ یکے بعد کئی تھپڑ اس کے چہرے پر اپنا نشان چھوڑ رہے تھے۔۔۔ 

اقصی کیا ہو گیا ہے تمہیں؟؟؟ بس کرو۔۔ پیچھے ہٹو ۔۔۔ کیا حال کر دیا ہے بچی کا تم نے۔۔۔ 

اماں جان  نے آگے بڑھ کر سختی سے اقصی کو ٹوکا تھا۔۔۔ 

چھوڑیں مجھے۔۔۔ میں مار ڈالوں گی اس کو۔۔ اس کے باپ کی وجہ سے میرے احمر مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔ میں جان سے مار دوں گی اسے۔۔۔ 

اقصی۔۔۔ بس کرو۔۔۔ اس حالت میں یہ سب کرنا تمہارے لئے ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔

اماں جان کا اشارہ اس کے امید سے ہونے کی طرف تھا ۔۔۔ جو کچھ ہی دنوں میں ممتا کے عہدے پر فائز ہونے والی تھی۔۔۔  

اماں جان ۔۔۔ میرا بچہ تو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی یتیم ہو گیا ۔۔۔ کیا میرے دکھ کا اندازہ کر سکتی ہیں آپ؟؟؟ مجھے اس کی شکل نہیں دیکھنی اس یہاں سے کہیں بھی دفعہ کر دیں۔۔۔۔ 

اقصی تقریبا چیختے ہوئے بولی تھی جبکہ ہانم اپنے سرخ گالوں پر ہاتھ رکھے رو رہی تھی۔۔۔ 

رشیدہ ۔۔۔ رشیدہ۔۔۔ 

رشیدہ نامی ملازمہ کیچن سے تقریبا بھاگتے ہوئے آئی تھی ۔۔۔

جی بڑی بیگم۔۔۔۔

اس لڑکی کو بڑے خان کے کمرے میں لے جائو۔۔۔ 

آواز کے ساتھ لہجہ بھی بلا کا نرم تھا۔۔۔ 

ہانم بنا کچھ بولے اس کے ساتھ اکثم کے کمرے کہ طرف چلی گئی تھی۔۔۔ وہ بیچاری تو سمجھ ہی نہیں سکی کی اسے کس چیز پر سزا ملی ۔۔۔ اس کا معصوم سا دل ڈر گیا تھا اقصی کے تھپڑوں سے۔۔۔ اسے درد ہو محسوس ہو رہا تھا گالوں پر جہاں انگلیوں کے نشانات ابھر کر واضح ہو رہے تھے۔۔۔۔ کیا قسمت اسے بھی ونی کی تعریف سمجھانے والی تھی ۔۔۔۔۔ کیا وہ ونی کی ایک نئی تعریف رقم کرنے والی تھی۔۔۔۔ 

ہانم چالیس سالہ رشیدہ کی راہ نمائی میں کمرے میں داخل ہوئی تو اپنی نیلی آنکھوں کو بڑا کر کے کمرے کی ہر چیز کو دیکھنے لگی۔۔۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے ایک جہازی سائز بیڈ تھا جس پر کالے رنگ کی پالش ہوئی تھی اور باریک سا ڈیزائن پھولوں کی صورت میں بنا تھا، کالے رنگ کی ہی بیڈ شیٹ جس کے کناروں پر سرخ رنگ کا کام ہوا تھا نفاست سے بچھائی تھی۔۔ اس کے ساتھ ایک سائیڈ ٹیبل تھا جس پر شیشے کا پرپل رنگ کا پانی سے بھرا جگ تھا اور ایک گلاس تھا، اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک دروازہ تھا جو سٹڈی روم کو جاتا تھا۔۔ دروازے کے ساتھ کالے رنگ کے تین صوفے تھے جن کے آگے شیشے کا ٹیبل تھا۔۔۔ دائیں طرف ایک بڑی سے لکڑی کی الماری تھی جس پر کالے اور سرخ رنگ سے ہی پینٹنگ کی گئی تھی ۔۔۔ صوفہ سیٹ کے بالکل سامنے ایک دروازہ تھا جو واش روم کا تھا اور اسی دروازے کے ساتھ دیوار میں بڑا سا آئینہ نصب تھا۔۔۔ ہلکے سرخ رنگ کا دبیز قالین جس پر کالے رنگ کے پھول بنے تھے کمرے میں بچھا ہوا تھا۔۔۔ دیواروں پر سفید رنگ کا پینٹ اور  ہر جگہ اکثم کی تصاویر تھیں ۔۔ جو گھر والوں کے ساتھ تھیں۔۔۔ اور کچھ اکیلے کی۔۔۔کمرے کی ہر چیز کالے اور سرخ رنگ سے سجی تھی۔۔۔ ہانم ہونقوں کی طرح منہ کھولے اندر آنے لگی تو رشیدہ نے اسے ٹوک دیا۔۔۔ 

اے لڑکی ۔۔۔ اپنا جوتا اتارو ۔۔ بڑے خان بہت صفائی پسند ہیں غصہ کر جائیں گے تمہارے جوتے کو اندر دیکھ کر۔۔۔۔ 

ہانم نے جو چپل پہنی تھی اتاری اور آہستہ سے قدم اٹھاتی غور سے اکثم کی تصاویر کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ 

سفید رنگت، بھوری آنکھیں،  کالی گھنی پلکیں، ہلکی سی داڑھی، کھڑی مغرور ناک، عنابی لب، مغرورانہ نین نقش۔۔ غرض کے وہ ہر لحاظ سے ایک خوبصورت لڑکا تھا۔۔۔۔

 ہائے یہ تو وہی ہے جو مجھے گاڑی میں یہاں چھوڑ کر گیا ہے۔۔۔ کتنا پیارا لگتا ہے یہ تصویروں میں۔۔۔

ہانم خود سے بولی۔۔۔۔

رشیدہ نے حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا جو سوجے ہوئے گال پر ہاتھ رکھ کر اکثم کی تعریف کر رہی تھی۔۔۔ 

تم ادھر بیٹھو میں تمہارے گال پر یہ ٹیوب لگا دیتی ہوں ۔۔۔ 

رشیدہ بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر ہانم کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔۔۔۔

ہانم نے رشیدہ کے ہاتھ میں ٹیوب دیکھی جو اس نے فرسٹ ایڈ باکس سے نکالی تھی۔۔۔ اور معصومیت سے بولی۔۔۔۔۔ 

اس سے میرا رنگ کالا تو نہیں ہوگا؟؟؟

اس کی بات پر رشیدہ کو پہلے تو شاک لگا پھر ہنستے ہوئے بولی۔۔۔

نہیں ہوگا کالا۔۔۔۔ 

قسم کھائیں۔۔۔۔

ہانم کی آواز ہی نہیں لہجے میں بھی ڈر تھا شاید رنگ کالا ہونے کا ڈر۔۔ 

تمہیں کس نے کہا ہے کہ ٹیوب لگانے سے رنگ کالا ہوتا ہے؟؟؟ 

وہ ایک دفعہ میں نے اپنی سہیلی عائشہ کی بڑی بہن کی کریم  چھپ کر لگائی تھی تب امی نے جوتوں سے بڑا مارا تھا اور کہا تھا کہ  ہانم کوئی کریم نہیں لگانی کالی ہو جائو گی۔۔۔ اور پھر کوئی تمہیں دیکھے گا بھی نہیں ۔۔۔ 

ہانم حسب عادت باتیں کرنا شروع ہوگئی تھی جبکہ رشیدہ مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

وہ واقعی معصوم تھی۔۔ رشیدہ کو بے ساختہ اس پر ترس آیا تھا۔۔

لیکن یہ ٹیوب ہے اس سے کچھ نہیں ہوگا۔۔ کریم نہیں ہے یہ۔۔۔

رشیدہ نے اسے سمجھانا چاہا لیکن وہ ہانم ہی کیا جو سمجھ جائے۔۔

ہاں تو اسی کی بہن ہوگی ۔۔۔ جیسے میری بہن ہے ریاح ۔۔یہ ٹیوب بھی اسی کریم کی بہن ہوگی۔۔۔

تم اگر یہ ٹیوب نہیں لگائو گی تو تمہارا گال کالا نہیں لیکن نیلا ضرور ہو جائے گا۔۔۔اس لئے یہ  تھوڑی سے لگانے دو تاکہ تمہارا گال نیلا نہ ہو۔۔۔ 

رشیدہ نے اسے پیار سے پچکارنے کی کوشش کی۔۔ ۔۔

اچھا ۔۔۔۔ چلیں پھر تھوڑی سی لگا دیں۔۔۔ ورنہ ہانم کالی ہوگئی تو اسے وہ اماں جان پیاری بھی نہیں بولیں گی۔۔۔۔ 

ہانم اس کے سامنے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔ رشیدہ نے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے پر انگلیوں کے نشانات پر ٹیوب لگانی شروع کی تو ہانم کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔

آہ۔۔۔ چاچی کیا کر رہی ہیں۔۔۔ جلن ہو رہی ہے ۔۔۔ میں نے نہیں لگانی یہ۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر بولی ۔۔۔ جبکہ رشیدہ کو اب صحیح معنوں میں سنجیدہ ہونا پڑا۔۔۔ کیونکہ یسرا بیگم کا حکم تھا اسے ٹیوب لگانے کا۔۔۔۔ 

اگر اب تم نے میری بات نہ مانی تو میں اماں جان سے تمہاری شکایت کروں گی۔۔ پھر وہ تمہیں پیاری بالکل نہیں کہیں گی۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے لگا دیں۔۔۔ 

ہانم اپنے گلابی لبوں کو آپس میں پیوست کر کے شاید ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ 

رشیدہ نے ٹیوب لگائی اور مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔

تم نے یہاں سے باہر نہیں نکلنا میں تمہیں کھانا لا دیتی ہوں۔۔۔ 

ہاں مجھے کافی بھوک لگی ہے۔۔۔

ہانم اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر معصومیت سے گویا ہوئی۔۔۔ 

رشیدہ اپنا سر اثبات میں ہلا کر وہاں سے چلی گئی جبکہ ہانم کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ بیٹھے کہاں۔؟؟ اپنی نیلی آنکھوں  میں الجھن اور پریشانی بیک وقت لے کر وہ ہر چیز کو دیکھ رہی تھی پھر تھک ہار کر قالین پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ 

کتنی گندی تھی وہ موٹی لڑکی ۔۔۔ میں نے تو اماں جان کی تعریف کی تھی ۔۔۔ اور اسے نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔۔۔ میں جب واپس اپنے امی ابا کے پاس جائوں گی تو سب کچھ اپنے ابا کو بتائوں گی۔۔۔ پھر وہی پوچھیں گے اس لڑکی سے۔۔۔۔ 

ہانم خود سے بول رہی تھی جب امی اور ابا کے نام پر اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسو آ گئے۔۔۔ 

ابا آپ مجھے وہاں چھوڑ کر نہ جاتے تو میں یہاں اس گھر میں نہیں آتی ۔ لیکن آپ مجھے چھوڑ کر کیوں گئے ابا۔۔ مجھے تو گھر کا راستہ بھی معلوم نہیں ہے۔۔ پتہ نہیں کن راستوں سے لا کر آپ نے مجھے اس بکری کے پاس چھوڑ دیا۔۔۔ ابا وہ لڑکی بہت گندی ہے۔۔۔ آپ کی ہانم کو مارا اس نے۔۔۔ وہ موٹی بالکل اچھی نہیں ہے۔۔۔۔

آنسو جانے کب اس کا چہرہ تر گئے تھے اور وہ روتے روتے ہی اپنے ماں باپ کو یاد کر کے سو گئی تھی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلاور خان اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے۔۔رویے میں نرمی اور سختی دونوں کا عنصر پایا جاتا تھا۔ شہر جا کر بے ای کیا اور دوبارہ واپس گائوں آ گئے۔۔۔ باپ کا نام ارباز جبکہ ماں کا نام زرتاج گل تھا ۔  ان کی گائوں  کافی زمینیں تھیں۔۔ وہ گائوں میں سب سے ذیادہ  امیر تھے۔۔ دولت کی کافی ریل پیل تھی ان کے گھر میں۔۔ماں باپ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی ذات برادری کی ایک لڑکی سے شادی کی جس کا نام یسرا تھا۔۔۔ شادی کے دو ماہ بعد ہی باپ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے زندگی سے ناطہ توڑ گئے۔۔۔ صدمہ بڑا تھا لیکن احمر کی آمد نے گھر والوں میں گویا ایک نئی زندگی کی لہر دوڑا دی۔۔۔۔ احمر کی پیدائش کے پانچ سال بعد زرتاج گل  دماغ کے کینسر کی وجہ سے اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔۔۔ ان کہ وفات کے دو سال بعد اکثم پیدا ہوا ۔۔۔ اور اکثم کی وفات کے سات سال بعد ارتسام پیدا ہوا۔۔۔ خدا نے ان کو بیٹی جیسی نعمت سے محروم رکھا تھا ۔۔ 

دلاور خان اور یسرا بیگم کی یہ کمی اقصی کی صورت میں پوری ہوئی جب احمر نے اپنی پسند کا اظہار اپنے باپ سے کیا۔۔۔ دونوں کو اعتراض تو تھا ذات سے باہر شادی کرنے پر لیکن بیٹے کی خوشی کے آگے خاموش ہوگئے۔۔۔ اقصی اور احمر یونیورسٹی سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔۔۔ یونیورسٹی ختم ہوتے ہی دلاور خان احمر کی فرمائش پر شہر گئے اور اقصی کے ماں باپ سے اس کا ہاتھ مانگا۔۔ دونوں طرف سے بنا کسی تردد کے رشتہ طے پایا۔۔ اور شادی کے بعد سب خوش تھے کیونکہ اقصی اور احمر ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے۔۔۔ شادی کے دو مہینے بعد اقصی کے امید سے ہونے کی خبر نے گویا اس گھر میں خوشیوں کی بارش کر دی تھی۔۔۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ خوشی کے ساتھ غم کی امید بھی لازمی رکھو۔۔۔ ایک رات احمر اپنے کسی دوست کو شہر چھوڑ کر واپس آ رہا تھا جب اس کی گاڑی خراب ہوگئی۔۔۔ اور وہ پیدل حویلی کی طرف چلنے لگا۔۔۔ جب خوش بخت نے ایک ڈاکو سمجھ کر اس پر فائر کر دیا ۔۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ دیکھ نہ سکا ۔۔۔ لیکن جب قریب گیا تو حواس باختہ ہوگیا کیونکہ سامنے ہی احمر خون میں لت پت بے سدھا پڑا تھا۔۔۔ گولی دماغ پر لگی تھی جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر سانس نہ لے سکا۔۔۔ اور یہ خبر دلاور خان کو ان کے ایک ملازم نے دی جو احمر کی دیر کی وجہ سے اسے لینے نکلا تھا۔۔۔ دلاور خان اور اس کے گھر والوں کے لئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔۔۔پھر جرگہ بٹھایا گیا اور جیسا ہر بار ہوتا ہے ایک لڑکی کی زندگی کو کٹ پتلیوں کی طرح بدل دیا تھا۔۔۔ ہانم کو بھی ونی لڑ دیا گیا تھا۔۔۔۔ بس اب وقت نے یہ طے کرنا تھا کہ ہانم کو ہر لڑکی طرح سزا دینی جانی تھی یا خان حویلی والوں کے لئے بیٹی کا پیار اسے دیا جانا تھا۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم رات کو دیر سے گھر آیا تھا۔۔۔ وہ کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ خاص طور پر اپنی ماں کا جس کی تربیت نے ہی اسے معاف کرنا سکھایا تھا۔۔۔۔ وہ خان حویلی کے گیٹ سے گاڑی کو اندر لایا اور گاڑی کو چوکیدار کے حوالے کرتے خود حویلی کے لان کو دیکھنے لگا۔۔۔ جہاں ہر طرف ویرانی تھی ۔۔۔ لائیٹس کی روشنی میں گارڈن میں موجود پھول خوبصورتی کی مثال قائم کر رہے تھے۔۔ گارڈن کے ایک سائیڈ پر بڑا سا لکڑی کا جھولا نصب تھا جہاں وہ بچپن میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ جھولتا تھا۔۔۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر چار لکڑی کی کرسیاں اور دو صوفے تھے۔۔۔ جن کے درمیان میں مستطیل نما میز تھا۔۔۔ ایک زخمی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی۔۔۔ قدم باقدم اسے بھاری محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ حویلی کے اندر والے دروازے پر پہنچ کر اس نے اردگرد نظر دوڑائی تو حال میں کوئی انسان نہیں تھا۔۔۔ بڑے سے ہال میں  دائیں طرف لکڑی کے صوفے پڑے تھے جن کے سامنے ہی بڑی سی ایل سی ڈی دیوار میں نصب تھی۔۔۔ جبکہ بائیں سائیڈ پر چار کمرے تھے۔۔۔ سامنے ہی چھوٹی سی راہداری تھی جس کے آگے بڑا سا کیچن تھا ۔۔۔ جبکہ سڑھیاں درمیان میں سے دونوں اطراف سے ایسے چڑھائی گئی تھیں کہ وہ یو شیپ کو ظاہر کرتی تھیں۔۔۔۔ اکثم بائیں اطراف کے کمروں میں سے دوسرے نمبر والے کمرے کی طرف بڑھا جو اس کا تھا۔۔۔۔ اور جہاں اس کا سامنا ایک بار پھر سے ہانم کے ساتھ ہونے والا تھا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم بغیر لائیٹ آن کئے اپنے بیڈ کی طرف بڑھ رہا تھا جب اچانک سے اس کا پائوں کسی چیز سے ٹکرایا اور وہ دھڑام سے نیچے گرا۔۔۔۔ 

ہائے اللہ۔۔۔۔ 

ہانم کی چیخ نما آواز کمرے میں گونجی تھی۔۔ اکثم کو ایک لمحہ لگا تھا یہ آواز اور صورت حال کو سمجھنے میں۔۔ اس نے جلدی سے اٹھ کر سائیڈ ٹیبل کے اوپر لگے بٹنز میں سے ایک بٹن دبایا تو سارا کمرہ روشنی میں نہا گیا ۔۔ لائٹ آن کرکے جیسے ہی وہ مڑا۔۔ ہانم کو چادر میں چھپے بیٹھے دیکھ کر شاک رہ گیا۔۔۔ لیکن جلد ہی شاک کی کیفیت پر غصہ غالب آ گیا۔۔۔

تم میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو؟؟؟؟ 

اکثم کی دھاڑ پر ہانم  نیلی آنکھوں کو ذور سے بند کر گئی تھی۔۔۔ 

وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔

کیا وہ وہ لگا رکھی ہے ؟؟ میں نے پوچھا یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟

ماں جان نے چاچی کے ساتھ بھیجا تھا اس کمرے میں۔۔ 

ہانم کا سر ابھی بھی جھکا ہوا تھا۔۔۔ 

اماں جان کے نام پر اس کا غصہ کم ہوا تو چاچی کے نام پر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

کونسی چاچی؟؟؟ 

وہ جو آپ کے گھر میں رہتی ہیں۔۔۔ مجھے ٹیوب لگا کر گئی تھیں پتہ نہیں اب میں کالی ہوگئی ہوں یا نہیں ۔۔۔۔

ہانم کی بڑبڑاہٹ پر اکثم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔

کونسی ٹیوب؟؟ اور کون کالا ہو رہا ہے؟؟؟

وہ چاچی نے گال پر لگائی تھے۔۔ آپ دیکھیں نا کیا میں کالی تو نہیں ہوگئی۔۔۔

ہانم یہ بول کر دی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے آگے اپنا دایاں گال کیا۔۔۔۔ اکثم کی آنکھیں میں سرخی اترنے لگی تھی۔۔۔ وہ ضبط کر رہا تھا اپنے غصے کو۔۔۔ وہ تو کسی بے زبان پر ظلم برداشت نہیں کر سکتا تھا پھر  ایک معصوم لڑکی پر کیسے برداشت کر لیتا؟؟؟ 

کس نے مارا ہے تمہیں ؟؟؟ 

اکثم نے نرمی سے پوچھا۔۔۔۔

وہ جو گندی لڑکی تھی نا اس نے مارا۔۔۔ پتہ ہے کیوں ۔۔۔ کیونکہ میں نے اماں جان کو پیاری کہا تھا۔۔۔ اب بھلا اس میں مارنے والی کونسی بات تھی۔۔۔ میں اسے بھی پیاری بول دیتی ۔۔۔۔ 

ہانم ایک بار پھر نان سٹاپ شروع ہوچکی تھی جبکہ اکثم نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھی۔۔۔ جب وہ بھائی ہو کر بھائی کا قتل معاف کر سکتا تھا تو اقصی کیوں معاملہ خدا پر نہیں چھوڑ رہی تھی۔۔۔ 

اگر آئندہ وہ تمہیں کچھ بھی کہیں تو تم نے مجھے ضرور بتانا ہے۔۔۔ 

اکثم نے اسے ہدایت کی۔۔۔

لیکن وہ موٹی لڑکی مجھے پھر سے کیوں مارے گی؟؟ میں تو اب ماں جان کو پیاری نہیں بولوں گی۔۔۔ 

ہانم نے اپنی طرف سے سمجھداری کی بات کی لیکن اس کی موٹی لڑکی کی بات پر اکثم کے لبوں پر مسکراہٹ آئی تھی جسے وہ کمال مہارت سے چھپا گیا تھا۔۔۔

دیکھو ہانم۔۔۔ ایسے کسی کو موٹی نہیں کہتے۔۔۔ بلکہ کسی کی بھی برائی نہیں کرتے بڑی بات ہوتی ہے اللہ تعالی گناہ دیتے ہیں۔۔۔

اکثم نے نرمی سے سمجھایا تو ہانم نے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔ 

لیکن اگر اس نے دوبارہ مارا تو؟؟؟ 

تو بولا تو ہے مجھے بتانا؟؟؟

لیکن مجھے تو آپ کا نام ہی نہیں آتا اور آپ نے بھائی بولنے سے بھی منع کر دیا ہے۔۔ پھر میں آپکو کہا بول کر شکایت لگائوں گی؟؟؟

ہانم کی بات پر اکثم نے رخ موڑ مسکراہٹ کو لبوں سے آزاد کیا تھا۔۔۔

تم مجھے خان بولو گی۔۔ اور ہم دوست ہیں۔۔۔ جیسے تمہاری  سہیلی ہوتی ہے نا ویسے دوست۔۔۔

اکثم نے اسے سمجھایا۔۔۔

لیکن عائشہ کی تو دو چوٹیاں ہوتی ہیں آپکی تو نہیں ہیں۔۔۔ پھر آپ سہیلی کیسے ہوئے؟؟؟

ہانم کی بات پر اکثم کا دل کیا کہ اسے اٹھا کر کہیں دور پھینک دے۔۔۔ 

کیونکہ میں ایک لڑکا ہوں۔۔۔ اور وہ ایک لڑکی ہے ۔۔۔ 

اکثم نے اسے گھورا تھا۔۔۔

اچھا۔۔۔ تو لڑکے بھی سہیلی ہوتے ہیں۔۔۔ چلیں ٹھیک ہے آج سے آپ میری سہیلی ہیں۔۔۔ 

ہانم دونوں ہاتھوں کی تالی بجاتی خوشی سے بولی۔۔۔

ہاں میری ماں ۔۔ اب جائو بیڈ پر سو جائو میں دوسرے کمرے میں جا رہا ہوں۔۔۔

اکثم یہ بول کر وہاں سے جانے لگا جب ہانم اس کے سامنے آ گئی۔۔۔

 مجھے اکیلے ڈر لگتا ہے۔۔ آپ یہی سو جائو میرے پاس۔۔۔

اس کی بات پر اکثم نے اسے گھورا تھا۔۔۔ 

میں تمہارے ساتھ بیڈ پر نہیں سو سکتا۔۔ ایسا کرو تم بیڈ پر سو جائو میں یہاں صوفے پر سو جاتا ہوں۔۔۔

اکثم نے گویا مسئلہ کا حل نکالا۔۔۔

ہانم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر خاموشی سے بیڈ کی جانب بڑھنے لگی۔۔ لیکن پھر رک کر جیسے ہی اکثم کی طرف پلٹی اکثم نے غصے سے اسے دیکھا۔۔۔

اب اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو باہر کتوں کے پاس چھوڑ آئوں گا۔۔۔

کتوں کی بات پر ہانم بھاگ کر بیڈ پر پہنچی تھی۔۔ جبکہ اکثم اس کی تیز ترین رفتار پر  اپنی مسکراہٹ کا گلا گھونٹ گیا تھا۔۔۔۔۔۔

اکثم صوفے پر نیم دراز تھا ۔۔ کافی مشکل سے وہ اس صوفے پر سو رہا تھا۔۔ کیونکہ اس کا قد چھے فٹ چار انچ تھا۔۔۔ بار بار کروٹ بدلتے ہوئے مشکل سے ہی سویا تھا جب اس کسی نے اسے ذور سے کندھے سے ہلا کر پکارا۔۔۔

خان۔۔۔

اکثم ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔۔۔ 

یااللہ خیر ۔۔۔ 

بے ساختہ اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے۔۔۔ 

لیکن جیسے ہی اس کی نظر سامنے کھڑی ہانم پر پڑی اسے غصہ آگیا۔۔۔

کیا ہے؟؟؟ 

مجھے بھوک لگی ہے؟؟ میں نے کھانا بھی نہیں کھایا ۔۔ چاچی لینے گئی تھی کھانا ۔۔ لیکن وہ نہیں لائی۔۔۔

ہانم کی بات پر اکثم صوفے سے اٹھا اور جا کر کمرے کی لائٹ آن کی۔۔۔ 

تم نے اتنی رات کو مجھے اپنی بھوک کی وجہ سے اٹھایا ہے؟؟ 

اکثم نے اسے گھورا ۔۔۔۔

ہانم نے ذور ذور  سے اپنا سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔ 

تو جب رات کو میں آیا تھا تب مجھے بول دیتی کھانے کا۔۔۔

اکثم کو غصہ آ رہا تھا۔۔۔

 تب میں بھول گئی تھی کہ مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر بولی۔۔۔

اس کی بات پر اکثم عش عش کر اٹھا تھا۔۔۔ 

کوئی کھانا کھانا کیسے بھول سکتا ہے ہانم؟؟

میں بھول جاتی ہوں۔۔ آپ کو معلوم ہے رات کو جب میں کھانا نہیں کھاتی تھی۔۔تو امی اٹھا کر کھلاتی تھیں ۔۔ کیونکہ میں بھول جاتی تھی نا۔۔۔ 

ہانم چپ کر جائو۔۔۔۔  اور تم یہیں رکو  میں کھانا لے کر آتا ہوں۔۔۔ 

اکثم یہ بول کر باہر چلا گیا جبکہ ہانم وہیں بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔ 

تقریبا دس منٹ بعد وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ہاتھ میں ایک باول تھا جس میں ایک چمچ تھا۔۔۔

اس نے وہ بائول ہانم کے آگے رکھا۔۔۔

کھانے کو اس وقت کچھ نہیں تھا اس لئے یہ بنا کر لایا ہوں۔۔۔۔ 

ہانم نے ایک دفعہ بائول کو دیکھا اور ایک اکثم کو جو اب دوبارہ صوفے پر جا رہا تھا۔۔۔ 

خان ۔۔ یہ تو دھاگے ہیں ۔۔۔ وہ بھی موٹے موٹے ۔۔۔۔ 

ہانم کی بات پر اکثم نے صدمے سے ہانم کو دیکھا تھا جو نوڈلز کو دھاگے بول رہی تھی۔۔۔۔ اور بیڈ سے اٹھ گئی تھی۔۔۔ 

یہ نوڈلز ہیں۔۔۔ 

اکثم نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔ 

ہانم بیچاری کبھی اس بائول کو دیکھ رہی تھی اور کبھی اکثم کو۔۔ بالآخر دو منٹ کی خاموشی کے بعد وہ بولی۔۔۔۔

ان دھاگوں  کا نام نوڈلز ہے یا جو بھی ہے میں کیا کروں ۔۔۔ آپ مجھے کھانا لا کر دیں۔۔۔ 

ہانم ۔۔۔ یہ نوڈلز ہیں اور اب اگر تم نے انہیں دھاگے  بولا تو قسم سے دو تھپڑ لگائوں گا۔۔ انہیں  کھاتے ہیں۔۔۔ سمجھی تم اب کھانے ہیں تو کھائو ورنہ میری طرف سے بھاڑ میں جائو۔۔۔

اکثم غصے سے بول کر صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔ 

ہانم کی نیلی آنکھوں میں نمی آنسوئوں کی صورت گالوں پر نکلی تھی۔۔۔ 

میں ابا کو بتائوں گی کہ آپ بہت برے ہیں۔۔۔ مجھے دھاگے نہیں نوڈلز۔۔۔ 

اکثم کی گھوری پر جلدی سے بولی تھی ۔۔۔

آپ مجھے یہ کھلا رہے تھے دیکھنا وہ آپکو بہت ماریں گے۔۔۔۔ میں اپنی امی کو بھی بتائوں گی وہ بھی آپکو مارے گی ڈنڈے سے جیسے مجھے مارتی ہے بات نہ ماننے پر۔۔۔ میں روح کو بھی بتائوں گی وہ بھی آپ کے بال کھینچے گی جیسے عائشہ کے کھینچتی ہے۔۔۔ لیکن آپ کے بال تو چھوٹے ہیں وہ کیسے پکڑے گی؟؟؟ 

ہانم روتے ہوئے بول رہی تھی اور اکثم صدمے سے اسے سن رہا تھا۔۔۔ اور ہانم کی نئی پریشانی پر اکثم نے دانت پیسے تھے۔۔۔ 

یہ روح کونسی ہستی ہے جو میرے بال کھینچے گی؟؟؟ 

میری بہن ہے چھوٹی۔۔۔ نانی کے گھر گئی ہے۔۔ ریاح نام ہے لیکن سب اسے روح بلاتے ہیں۔۔۔ وہ سکول بھی جاتی ہے۔۔ اور اگر کوئی مجھے کہے تو اسے مارتی بھی ہے۔۔۔ اور۔۔۔

بس کر دو ہانم۔۔۔۔ 

ہانم کی زبان کینچی کی طرح چلتی تھی یہ بات اکثم چند گھنٹوں میں جان گیا تھا۔۔۔۔ 

ہانم کی زبان کو بریک لگی اور پھر سے رونے لگی۔۔۔ 

مجھے بھوک۔۔۔۔ 

ہانم چپ کرو میں کھانا لاتا ہوں۔۔ 

یہ بول کر اکثم  نے نوڈلز کا بائول پکڑا اور دوبارہ سے کیچن کی طرف چلا گیا جبکہ ہانم نے جلدی سے آنسو صاف کرتی صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔

جس عمر میں لوگ ڈاکٹر اور بزنس مین بننے کا سوچتے ہیں میں اس عمر میں اب بیوی پالوں گا۔۔۔۔

اکثم انڈہ فرائی کرتے ہوئے مسلسل بڑبڑا رہا تھا۔۔۔۔ 

بیس منٹ میں بریڈ کے اندر انڈہ اور کیچپ  لگا کر اس نے وہ پلیٹ میں رکھے اور کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔ 

پلیٹ کو ہانم کے سامنے رکھتے ہوئے وہ اس کے ساتھ صوفے پر  کچھ فاصلے پر بیٹھا ۔۔۔۔

ہانم یہ کھا لو چپ چاپ اور یہ کوئی گندی چیز نہیں ہے ۔۔  انڈہ ہے اس میں ۔۔۔ اور کھانے سے پہلے تمہاری آواز اگر آئی تو میں تمہیں باہر جو کتے ہیں ان کے آگے پھینک آئوں گا۔۔۔۔ 

اکثم کی دھمکی کام کر گئی تھی وہ چپ چاپ کھانے لگی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھی اور بیڈ پر جا کر لیٹ گئی جبکہ اکثم نے بے ساختہ اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔۔ پتہ نہیں باقی زندگی اس کی کیسے گزرنے والی تھی۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح دستک کی آواز سے وہ اٹھا اور اس کی نظریں سامنے اٹھیں ۔۔ بیڈ کی بائیں جانب کھڑکی سے روشنی ہانم کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں۔۔

کالے بال جو چوٹی سے باہر بکھرے ہوئے تھے۔۔ لیکن بائیں سائیڈ پر چادر سے خود ڈھانپا ہوا تھا۔۔۔ بس چہرہ نظر آ رہا تھا۔۔۔ وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا تھا۔۔۔۔ 

وہ صوفے سے اٹھا اور دروازہ کھولا۔۔ سامنے ہی اماں جان کھڑی تھیں ۔۔۔۔۔ وہ نظریں جھکا گیا تھا۔۔۔ ان کی نظروں میں موجود سوالوں سے وہ نظریں چرا گیا تھا ۔۔۔۔ 

میں تمہارا اپنے کمرے میں انتظار کر رہی ہوں بڑے خان۔۔۔ آ جائو۔۔۔۔ 

اکثم نے دیوار پر لگی بڑی سی گھڑی کی طرف دیکھا جہاں صبح کے دس بج رہے تھے مطلب بابا جان زمینوں کو جا چکے تھے۔۔۔۔ 

جی ابھی آتا ہوں۔۔۔۔ 

وہ جانتا تھا وہ خود کیوں بلانے آئی تھیں کیونکہ رشیدہ کے بلاوے پر وہ گھر سے ہی چلا جاتا۔۔۔ ان کے سوالوں کے جوابات جو نہیں تھے اس کے پاس۔۔۔ 

میرے ساتھ چلو بڑے خان۔۔۔

یسرا بیگم نے سنجیدگی سے حاکمانہ انداز میں کہا۔۔۔ تو وہ ایک نظر سوئی ہوئی ہانم کو دیکھ کر دروازہ بند کر کے ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔۔۔۔۔۔ 

کمرے میں پہنچ کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئیں جبکہ اکثم ابھی کھڑا ہی تھا۔۔۔ 

کیا ہم اپنی تربیت پر سوال اٹھائیں خان ؟؟؟ کیوں کیا آپ نے اس سے نکاح؟؟؟ اس معصوم بچی کو دیکھ کر مجھے ہول اٹھ رہے ہیں۔۔۔ جانے کیسے اس کے گھر والے برداشت کر رہے ہوں گے۔۔۔۔؟؟ کیوں تم نے انکار نہیں کیا ؟؟؟ 

یسرا بیگم نے نرمی سے استفسار کیا۔۔۔ 

اماں جان وہ بابا جان نے اچانک بلایا تھا۔۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔ 

بس کر دو خان۔۔۔ جانتے ہو نا کہ احمر کو سخت ناپسند تھی یہ رسم ۔۔ وہ تو اسے سرے سے ہی ختم کر دینا چاہتا تھا لیکن تم نے اس رسم پر عمل کرکے اس کی روح کو تکلیف دی ہے ۔۔ کیوں تم سب ماں نہیں لیتے اس کی زندگی اتنی ہی تھی۔۔۔ خدا خاموش ہونے والوں کا بدلہ خود لے لیتا ہے۔۔ اس لئے میں بھی خاموش ہو چکی ہوں اگر اس شخص کا قصور ہوا تو اللہ دیکھ لے گا معاملہ ۔۔۔۔ اللہ کے انصاف پر یقین کیوں نہیں رکھتے تم لوگ۔۔۔۔۔ ماں ضرور ہوں میں اس کی لیکن میرا ظرف یہ اجازت نہیں دیتا کہ ایک بچی کی زندگی کو اس طرح سے برباد کیا جائے۔۔۔۔ 

تم اس بچی کو طلاق دے کر ۔۔۔۔

بس بیگم ۔۔۔۔ 

دلاور خان جو کب سے زمینوں سے واپس آ گئے تھے ۔۔۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہ یسرا کی آخری بات سن چکے تھے۔۔۔ ان کی دھاڑ نما آواز پر یسرا بیگم ایک جھٹکے سے اٹھی تھیں ۔۔۔۔ جبکہ اکثم نے سپاٹ چہرے کے ساتھ ان کو دیکھا تھا۔۔۔ 

آپ ہوتی کون ہیں میرے بیٹے کا خون معاف کرنے والی؟؟؟

دلاور خان طیش میں آگے بڑھے تھے۔۔۔

بابا جان پلیز۔۔۔۔ آپ پہلے ہی اپنی ضد پوری کر چکے ہیں۔۔۔ اب مزید کسی کو تکلیف نہ دیں۔۔۔۔ 

اکثم نے سرد انداز میں انہیں کہا۔۔۔۔

جان تھا وہ خان حویلی کی۔۔۔ چھین لیا اس بدبخت نے ہم سے۔۔۔ 

تو آپ بھی اسے قتل کروا دیتے حساب برابر ہو جاتا۔۔۔

اس بار یسرا بیگم نے اپنا لہجہ مضبوط بنانے کی پوری کوشش کی تھی۔۔۔ 

جیسے ہم مریں گے پل پل لاڈلے خان کو یاد کر کے ویسے وہ بھی تڑپے گا اپنی بیٹی کے لئے۔۔۔ یہ سزا وہ زندگی بھر بھگتے گا۔۔۔۔ سمجھیں آپ۔۔۔ اب بلائیں اس لڑکی کو سب کے لئے ناشتہ بنائے جا کر۔۔۔۔۔ 

دلاور خان کی بات پر اکثم کے اندر غصے کی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جبکہ یسرا بیگم نے تاسف سے ان کے چہرے کو دیکھا تھا جو احمر کی موت کے بعد سخت دل ہوگئے تھے۔۔۔ 

آپ نے اسے میرے نکاح میں دیا ہے بابا جان۔۔۔ گستاخی معاف لیکن میں اسے عام لوگوں کی طرح سزا برداشت کرنے نہیں دوں گا۔۔۔ آپ کا ناشتے کا دل چاہ رہا ہے تو اماں جان سے کہیں لیکن ہانم کسی صورت آپکی کی کوئی سزا نہیں بھگتے گی۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو آپ اپنا دوسرا بیٹا بھی کھو دیں گے۔۔۔۔

اکثم مضبوط لہجے میں بول کر وہاں سے چلا گیا جبکہ دلاور خان نے غصے سے یسرا بیگم کے جھکے سر کو دیکھا۔۔۔۔ 

یہ ہے آپ کی نافرمان اولاد۔۔۔۔ 

ان کی بات پر یسرا بیگم نے بے ساختہ مسکراتے ہوئے سر اٹھایا تھا۔۔۔ کیونکہ ایک اکثم ہی تھا جس کی ضد دلاور خان سے ذیادہ پکی ہوتی تھی۔۔۔۔ دلاور خان انہیں گھور کر وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔۔ 

یااللہ ہم سب کو صبر عطا کر دے۔۔۔ آمین۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم نے کمرے میں قدم رکھا تو سامنے ہانم غائب تھی ۔۔ وہ اندر آیا تو واش روم کا دروازہ کھلا تھا۔۔ پہلے تو جھجک کر رکا۔۔ پھر ہانم کو آواز دی۔۔۔۔

ہانم۔۔۔۔

خان میں یہاں ہوں کپڑے دھو رہی ہوں۔۔۔ 

ہانم کے جواب پر اکثم بنا تاخیر کے واش روم کا دروازہ کھول کر اندر بڑھا تھا۔۔ اندر کا منظر دیکھ کر اکثم نے اسے کمرے میں سوتے وقت تنہا چھوڑ کر جانے والے وقت کو کوسا تھا ۔۔۔۔

سامنے ہی ہانم بڑے مصروف انداز میں اکثم کی شلوار قمیض پہنے اپنی چادر اوڑھے ۔۔۔ اپنے کل والے کپڑوں کو واش روم کے فرش پر پھیلا کر دھو رہی تھی۔۔۔ اور وہ اس کا شیمپو صابن ہر چیز سے اپنے کپڑوں کو دھونے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔ اس کا شیمپو کا ڈھکن کہیں تھا تو شیمپو کی بوتل خالی تھی جبکہ صابن کو رگڑ رگڑ کر اس نے چھوٹا کر دیا تھا۔۔۔ توتھ پیسٹ آدھا زمین پر تھا اور آدھا سنک میں ۔۔۔ 

اکثم کے تو مانو چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔۔۔ 

یہ تم کیا کر رہی ہو؟؟؟ 

خان ایک ہفتے سے یہ کپڑے پہنے تھے تو اب ان کو دھو رہی ہوں ۔۔۔ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں نا۔۔ اس لئے۔۔ اور گندے کپڑوں میں اماں جان مجھے پیاری نہیں بولیں گی۔۔۔ اس لئے میں نے سوچا کہ ان کو دھو کر سوکھا لیتی ہوں۔۔۔ اور۔۔۔۔

ہانم تم نے میری ساری مہنگی چیزیں خراب کر دیں اور میری نئی شلوار قمیض کا کیا حال کیا ہے تم نے؟؟؟ 

اکثم کا صدمہ گہرا تھا۔۔۔

خان یہ شلوار قمیض تو یہاں کھونٹی پر لٹکی ہوئی تھی۔۔۔ 

اکثم کو یاد آیا تھا اس نے یہ شلوار قمیض کل رات ہی ہانم کے سونے کے بعد واش روم میں رکھی تھی تاکہ صبح جلدی نہا کر قبرستان جا سکے۔۔۔ اور ہانم نے اس کا سارا ارادہ ملیا میٹ کر دیا تھا۔۔۔ 

تم ابھی کے ابھی نکلو یہاں سے۔۔۔

اکثم اسے غصے سے دیکھ کر بولا۔۔۔ 

تو خان میرے کپڑے کون دھوئے گا؟؟

ہانم نے معصومیت سے پوچھا۔۔۔ 

تمہارا باپ دھوئے گا۔۔ اب نکلو یہاں سے۔۔۔

اکثم کا غصہ کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔ جو غصہ اسے دلاور خان کی بات پر چڑھا تھا وہ بیچاری ہانم پر نکل رہا تھا۔۔۔ 

لیکن ان کو تو کپڑے دھونے نہیں آتے۔۔۔ کپڑے تو امی دھوتیں ہیں ۔۔۔ 

ہانم نے بروقت سمجھداری دکھائی تو اکثم بنا کسی لحاظ کے اس کے پاس پہنچا اور اس کا باذو پکڑ کر اسے واش روم سے باہر نکال دیا۔۔۔۔ 

خان میرے کپڑے تو دے دیں۔۔۔ وہ سوکھانے بھی ہیں۔۔۔ 

دفعہ ہو جائو یہاں سے جاہل انسان ۔۔۔۔

ہانم کی آواز پر اکثم کا دل کر رہا تھا  کسی دیوار پر سر دے مارے اس لئے دھاڑتے ہوئے بولا ۔۔ اکثم کی دھاڑ پر ہانم منہ بسورتے ہوئے باہر چکی گئی جہاں اکثم بیچارے کو مزید شرمندگی ہونے والی تھی ۔۔۔۔۔۔ 

ہانم کمرے سے نکل کر باہر آئی تو ہال میں دو تین عورتوں کو کام کرتے دیکھا ۔۔۔ ایک جھاڑو لگا رہی تھی۔۔ دوسری کپڑا اور تیزی عورت وہاں موجود چیزوں کو کپڑے سے صاف کر رہی تھی۔۔۔۔۔  ہانم آگے بڑھی اور ہر چیز کو حسرت سے دیکھنے لگی۔۔۔ کتنی پیاری تھی یہ حویلی۔۔۔ وہ ہر چیز کو غور سے دیکھ رہی تھی جب اس کے کانوں میں ان تین عورتوں کے ہنسنے کی آواز آئی۔۔۔۔ اس نے ان تینوں کو دیکھا تو اسے دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔۔۔۔ 

میں پیاری لگ رہی ہوں نا؟؟ 

ہانم خوش ہوتے ہوئے بولی جبکہ وہاں سے گزرتی یسرا بیگم ٹھٹھک کر رکیں ۔۔۔ ہانم کو اکثم کے کپڑوں میں دیکھ کر وہ بے ساختہ اس کی طرف بڑھی تھیں۔۔۔ 

ہانم۔۔۔ بیٹا ادھر آئو۔۔۔ 

یسرا بیگم نے اسے پکارا ۔۔۔۔ یسرا بیگم کی پکار پر ہانم ان کی جانب بڑھ گئی۔۔۔ 

اماں جان دیکھیں وہ   سب مسکرا کر مجھے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ کیونکہ میں پیاری لگ رہی ہوں۔۔ اور آپکو معلوم ہے جب بھی میری امی مجھے مسکرا کر دیکھتی ہیں ان کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ میں پیاری لگ رہی ہوں۔۔۔۔ 

ہانم کی خوشی اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔۔ یسرا بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اکثم کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔ اکثم جو ارتسام کے کمرے سے نہا کر ابھی کمرے میں آیا تھا ۔۔۔ یسرا بیگم کو ہانم کے ساتھ دیکھ کر سارا معاملہ سمجھ گیا۔۔۔ یسرا بیگم نے ہانم کو دیکھا جو نیلی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی پھر اکثم کو جو ان کے دیکھنے پر جلدی سے بولا۔۔۔۔ 

اماں جان وہ۔۔۔۔۔

بڑے خان ایک منٹ۔۔۔۔

یسرا بیگم نے انہی  ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔۔۔ 

ہانم آپ نے خان کے کپڑے کیوں پہنے ہیں؟؟؟

یسرا بیگم کے انداز میں بلا کی نرمی تھی ۔۔۔۔

اماں جان وہ میرے کپڑے گندے تھے تو انہیں دھونا تھا۔۔۔ یہ کپڑے اندر موجود تھے تو میں نے پہن لئے۔۔ اب بتائیں نا میں پیاری لگ رہی ہوں نا؟؟؟ 

اس کی بات پر اکثم نے اسے گھورا جو اسے بلاوجہ اس کی ماں کے سامنے شرمندہ کروا رہی تھی ۔۔۔ جبکہ یسرا بیگم بے ساختہ مسکرائی تھیں۔۔۔۔ 

بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔ لیکن آئندہ ایسے کپڑوں میں تم باہر  نہیں جائو گی۔۔۔ میں نے رشیدہ کو بھیجا تھا کل رات کو بازار تمہارے کپڑے لانے کے لئے  وہ لے آئی ہے تمہارے کپڑے ۔۔۔ میرے کمرے میں  رکھے ہیں دیتی ہوں تمہیں ۔۔۔اور آئندہ ایسے کپڑے نہیں پہننے تم نے۔۔۔۔ 

یسرا بیگم نے نرمی سے سمجھایا تو وہ اپنا سر اثبات میں ہلا کر اکثم کی طرف بڑھی۔۔۔۔ 

خان آپ نے میرے کپڑے دھو دئیے؟؟؟

ہانم کے سوال پر جہاں اکثم سٹپٹایا وہیں یسرا بیگم نے مسکراہٹ دبائی۔۔۔ 

جائو پڑے ہیں اندر ۔۔۔۔ 

اکثم نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔ 

اماں جان میں جائوں۔۔۔۔ 

ہانم نے یسرا بیگم کو دیکھ کر اجازت مانگی۔۔۔

جائو اور جلدی واپس آئو۔۔۔ پھر میرے ساتھ جانا ہے تم نے کمرے میں۔۔۔۔ نئے کپڑے لینے۔۔۔۔ 

ہانم اندر گئی تو اکثم نے سکھ کا سانس لیا اور کمرے میں موجود آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگا تھا جب ہانم اپنے گیلے کپڑوں کو ہاتھوں میں پکڑ کر باہر لائی۔۔۔۔ 

خان آپ نے میرے کپڑے  کیوں نہیں دھوئے؟؟؟ اور مجھے بھی نہیں دھونے دیا۔۔۔۔ کتنے گندے ہیں آپ۔۔۔۔ جانتے ہیں امی نے کتنی محنت سے سلائی کئے تھے میرے کپڑے ۔۔۔

ہانم اپنی آنکھوں کو چھوٹا کر کے اسے گھور رہی تھی۔۔۔  

اکثم تو اس کے انداز پر عش عش کر اٹھا تھا۔۔۔ جبکہ یسرا بیگم کی مسکراہٹ بے ساختہ تھی۔۔۔۔ 

تمہارا ملازم ہوں میں جو تمہارے کپڑے دھوتا پھروں۔۔۔۔

اکثم غصے سے اسے دیکھ کر بولا۔۔۔ 

نہیں ملازم نہیں سہیلی ہیں آپ میرے۔۔۔ ارے رات کو ہی تو آپ نے کہا تھا۔۔۔ اماں جان آپکو معلوم ہے رات کو مجھے بھوک لگی تو یہ میرے لئے دھاگے لے آئے تھے۔۔ اب بھلا دھاگے بھی کھاتے ہیں کیا۔۔۔؟؟ میں نے منع کیا تو مجھ پر غصہ کرنا شروع ہو گئے۔۔۔ 

ہانم کی نان سٹاپ باتوں کو بریک لگنی نہیں تھی اس لئے وہ اپنے بال بنا کر کمرے سے نکل گیا جبکہ اماں جان ہانم کی باتیں سنتی ہوئیں اسے اپنے کمرے میں لے گئیں۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔ 

فیروزی رنگ کی پٹیالہ شلوار قمیض پہن کر وہ خود کو بار بار آئینے میں دیکھ رہی تھی۔۔۔ گیلے کال لمبے سے بالر کمر پر بکھرے تھے۔۔۔ یسرا بیگم نے رشیدہ کو اسے کمرے سے لینے بھیجا تو وہ شلوار قمیض میں نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔ رشیدہ اندر آئی تو ہانم سامنے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔ 

ہانم بیٹا باہر آ جائو سب آپ کا ناشتے پر انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ 

رشیدہ کی آواز پر ہانم مڑی اور بے ساختہ ان سے لپٹ گئی۔۔۔ 

چاچی یہ کپڑے دیکھو کتنے پیارے ہیں؟؟؟ 

ہانم گول گول گھوم کر بول رہی تھی ۔۔۔ 

ہاں بہت پیارے ہیں اب چلو۔۔۔ 

رشیدہ کی آواز پر اس نے ان کپڑوں کے ساتھ کا ہم رنگ ڈوپٹہ اچھے سے اوڑھا ۔۔۔ ڈوپٹہ وہ نہیں اتارتی تھی کیونکہ اس کی ماں نے اسے سختی سے ڈوپٹہ اتارنے سے منع کیا ہوا تھا۔۔۔ 

وہ مسکراتے ہوئے رشیدہ کی پیروی کرتے ہوئے باہر آئی تو سڑھیوں کی دائیں جانب سیدھے بڑے سے کیچن میں داخل ہوئی ۔۔ وہ کیچن کم ایک بڑا سا حال ذیادہ تھا۔۔ جہاں ایک دو عورتیں برتن دھونے اور چیزیں سمیٹنے کا کام کر رہی تھیں وہیں دائیں جانب ایک بڑا سا لکڑی کا  ڈائینگ ٹیبل تھا جہاں گھر کے سب لوگ براجمان تھے سوائے اقصی اور ارتسام  کے۔۔۔ اکثم کی ضد کی وجہ سے وہ چپ تھے ۔۔۔ 

رشیدہ نے ہانم کو اکثم کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ 

ہانم نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر رشیدہ سے بولی۔۔۔۔

چاچی یہ مونچھوں والے چچا کون ہیں؟؟؟

ہانم کی آواز پر یسرا بیگم نے ڈر کر دلاور خان کو دیکھا جو سپاٹ چہرے کے ساتھ ہانم کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔۔۔

ہانم یہ میرے  بابا جان ہے۔۔۔ اور آج سے تمہارے بھی بابا جان ہیں۔۔۔اب بیٹھو اپنی جگہ پر ۔۔۔۔

رشیدہ سے پہلے اکثم نے جواب دیا۔۔۔ 

خان مجھے اس پر نہیں بیٹھنا ۔۔۔ میری ٹانگیں درد کرتی ہیں ۔۔۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میری ٹانگیں ہوا میں لٹکی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔ 

ہانم کی بات پر اکثم نے دانت پیسے جبکہ دلاور خان نے سپاٹ چہرے سے اس چھوٹی سے پانچ فٹ کی لڑکی کو دیکھا جہاں معصومیت تھی۔۔۔۔۔ 

ہانم چپ کر کے بیٹھو اس پر ۔۔۔۔

اکثم نے اسے گھورا۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر اس کے ساتھ کرسی پر آلتی پالتی مار کر  بیٹھ گئی ۔۔۔ اکثم نے اپنا سر نفی میں ہلایا ۔۔۔۔

خاموشی سے سب ناشتہ کر رہے تھے جب دس سالہ ارتسام کیچن میں داخل ہوا۔۔۔۔ 

اسلام و علیکم ۔۔۔۔ 

ارتسام نے مسکرا کر سب کو سلام کیا۔۔۔ لیکن جیسے ہی اس کی نظر اکثم کے ساتھ بیٹھی ایک لڑکی پر پڑی وہ سوالیہ نظروں سے یسرا بیگم کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔ 

اماں جان یہ کون ہے؟؟؟ 

تمہاری بھابھی ہے۔۔۔ اکثم کی بیوی ۔۔۔۔

جواب  یسرا بیگم کی بجائے دلاور خان نے  طنزیہ انداز میں دیا تھا۔۔۔

ارتسام کو شاک لگا تھا۔۔۔

بھائی۔۔۔ اتنی جلدی آپ نے شادی کر لی۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں ۔۔۔ سچ کہتے تھے احمر بھائی کہ صرف وہی مجھے پیار کرتے ہیں اکثم بھائی نہیں کرتے۔۔۔۔ 

ارتسام کے الفاظ وہاں موجود ہر شخص کے دل کو چیر گئے تھے سوائے ہانم کے جو ہونقوں کی طرح منہ کھولے اسے روتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ اس نے شاید پہلی بار کسی لڑکے کو روتے دیکھا تھا۔۔۔۔ 

چھوٹے خان۔۔۔ ایسی بات نہیں ہے ۔۔ بڑے خان بھی تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔ 

یسرا بیگم نے اسے اپنی گود میں بٹھا کر پچکارنے کی کوشش کی۔۔۔ دلاور خان ناشتہ چھوڑ کرچلے گئے تھے۔۔۔ جبکہ اکثم لب بھینچ کر رہ گیا تھا۔۔۔۔ کچھ زخموں کو بھرنے کے لئے واقعی ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔۔۔۔۔ 

تم بارش میں نہاتے ہو؟؟؟ 

ہانم نے ارتسام کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔ اکثم اور یسرا سمیت ارتسام نے بھی ہانم کو دیکھا ۔۔۔۔ 

کیوں؟؟؟ 

ارتسام نے اپنی آنکھوں کو چھوٹا کر کے پوچھا۔۔۔۔ 

وہ تمہاری ناک بہہ رہی ہے نا۔۔۔ میری امی کہتی ہیں جو بچے بارش میں نہاتے ہیں ان کی ناک بہتی ہے۔۔۔ میں تو نہیں نہاتی ۔۔ ہاں روح نہاتی ہے اس کی ناک بھی بہتی ہے جب وہ روتی ہے۔۔۔  

ہانم کی باتوں پر ارتسام نے منہ کھولے اسے دیکھا جبکہ یسرا بیگم کے لبوں پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا ۔۔۔ اکثم نے بمشکل خود کو مسکرانے سے روکا تھا۔۔۔ 

میری ناک نہیں بہتی ۔۔۔۔ 

ارتسام ہانم کو گھور کر بولا۔۔۔ 

خان آپ نے دیکھا نہ یہ جھوٹ بھی بولتا ہے۔۔۔ ابھی اس کی ناک بہہ رہی تھی جب یہ رو رہا تھا ۔۔ اس نے اپنی قمیض کے بازو سے صاف کی تھی ۔۔۔۔۔ 

ہانم اکثم کو دیکھ کر معصومیت سے بولی تو ارتسام ہانم کو گھور کر وہاں سے چلا گیا کیونکہ اس نے روتے ہوئے واقعی ایسے کیا تھا۔۔۔۔۔ 

یسرا بیگم بھی وہاں سے چلی حئی تھیں۔۔۔ 

خان یہ آپکا بھائی ہے نا؟؟؟ 

ہاں میرا چھوٹا بھائی ہے کیوں؟؟؟ 

اکثم جو اپنی کرسی سے اٹھ رہا تھا اس کی بات پر پلٹا اور اسے ناسمجھی سے دیکھنے لگا۔۔۔۔ 

تو یہ بھی میری سہیلی ہوا نا۔۔؟؟ 

ہانم نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو اکثم نے اسے گھورا۔۔۔ 

بھائی ہے وہ تمہارا ۔۔۔ جیسے میرا چھوٹا بھائی ہے ویسے تمہارا بھی چھوٹا بھائی ہے۔۔۔ سمجھی تم ۔۔۔ 

اکثم اسے گھور کر چلا گیا جبکہ ہانم ناشتہ کرنے میں مصروف ہوگئی ۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم کھانا کھا کر کمرے میں آگئی۔۔۔ جہاں بیڈ پر لیٹتے ہی اسے نیند آگئی ۔۔۔ دوپر کے وقت اس کی آنکھ کھلی تو وہ بال سمیٹ کر باہر آئی ۔۔ حال میں صوفے پر ارتسام بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا جبکہ رشیدہ پاس بھی ٹی سبزی بنا رہی تھی۔۔۔ 

ہانم چلتے ہوئے ان ے پاس آئی۔۔۔ 

چاچی کیا پکانے لگی ہیں؟؟؟

ٹینڈے ۔۔۔۔ بڑے خان کو بہت پسند ہیں۔۔۔ 

رشیدہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ 

اسی لئے وہ غصہ کرتے ہیں۔۔۔ میں تو نہیں یہ کھاتی ۔۔۔ روح بھی نہیں کھاتی ۔۔۔۔ اس لئے ہم دونوں ہی غصہ نہیں کرتیں ۔۔۔۔ 

ارتسام نے اسے گھورا ۔۔۔ 

تم چپ کر کے بیٹھ سکتی ہو۔۔۔ نظر نہیں آ رہا میں کارٹون دیکھ رہا ہوں۔۔۔ 

ہانم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر غصے سے اپنی چھوٹی سی ناک کو پھلایا ۔۔۔۔ 

تم چھوٹے ہو مجھ سے۔۔۔ خان نے بتایا ہے مجھے ۔۔۔ تو اس لئے تم مجھ سے آپ بول کر بات کرو۔۔۔ میرے ابا کہتے ہیں بڑوں کو آپ اور چھوٹوں کو تم کہہ کر پکارتے ہیں ۔۔۔ 

ہانم کی بات پر رشیدہ کئ چہرے پر مسکراہٹ آئی تو ارتسام شرمندہ سا ہوگیا ۔۔۔ اسے تو بس غصہ تھا اکثم کہ شادی بھی ہوگئی اور اسے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ 

چاچی اماں جان کہاں ہیں؟؟؟ 

بیٹا وہ چھوٹی بی بی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی تو اسے ہسپتال لے کر گئی ہیں۔۔۔ بڑے خان اور مالک بھی ان کے ساتھ ہی ہیں۔۔۔۔ 

رشیدہ کے جواب پر ہانم نے ایک نظر ارتسام کو دیکھا اور پھر رشیدہ کے کان میں سرگوشیانہ انداز میں بولی۔۔۔ 

وہ جو موٹی لڑکی تھی ۔۔ اس کی بات کر رہی ہو آپ ؟؟؟ 

رشیدہ نے اپنا سر اثبات میں ہلادیا ۔۔۔ 

اسے کیا ہوا ہے؟؟ 

ہانم نے فکر مندی سے پوچھا ۔۔۔ 

اس کی بات پر رشیدہ کا دل کیا اپنا سر پھاڑ لے جبکہ ارتسام اسے گھور کر رہ گیا جو دوبارہ سے اونچا بولی تھی ۔۔۔ 

ان کے سر میں درد تھا۔۔۔

رشیدہ جواب دے کر وہاں سے چلی گئی جبکہ ہانم اب ارتسام کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ 

خان نے کہا تھا تم میرے بھائی ہو۔۔۔

ہانم کی بات پر ارتسام نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ 

تو ۔۔۔۔۔

تو پھر تم کہاں تھے؟؟؟ امی اتنا یاد کرتی ہیں تمہیں جبکہ ابا بیچارے بھی اکیلے کام کرتے ہیں۔۔۔ روح بھی بہت یاد کرتی ہے تمہیں۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔

ہانم کی بات پر ارتسام نے بے ساختہ شاک کی کیفیت میں اسے دیکھ کر ٹوکا۔۔۔۔

بس کریں ۔۔۔ کیا بولے جا رہی ہیں آپ؟؟ آپ خان بھائی کی بیوی ہیں۔۔ وہ شوہر ہیں آپ کے تو اس لحاظ سے میں آپکا بھائی ہوں۔۔۔ 

ارتسام اس کے نسبت زیادہ سمجھدار اور ایکٹیو بچہ تھا۔۔۔۔ 

لیکن خان نے تو کہا تھا وہ میری سہیلی ہیں۔۔۔ اور شوہر کیا ہوتا ہے؟؟ 

یہ آپ اپنے خان سے ہی پوچھیے گا۔۔ مجھے معاف کر دیں۔۔۔

ارتسام گویا ہار مان کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔۔۔ 

تم مجھ سے معافی کیوں مانگ رہے ہو چھوٹے خان۔۔ تم نے کوئی غلطی کی ہے کیا؟؟؟ 

 ہانم کی معصومیت پر ارتسام کا دل بے ساختہ دیوار کے ساتھ سر پھاڑنے کا کر رہا تھا۔۔۔ 

ہاں غلطی کی ہے آپ جیسی عظیم ہستی کے ساتھ باتیں کر کے۔۔۔ 

ارتسام اسے گھور کر وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ج کہ ہانم منہ کھولے اسے جاتے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا اسے پھر کیوں چلا گیا یہ؟؟؟

ہانم خود سے بڑبڑائی ۔۔۔ اور پھر ایل سی ڈی پر لگے کارٹونز ٹام اینڈ جیری کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔۔۔

یسرا بیگم مسلسل تسبیح کے دانے پھیر رہی تھیں۔۔ جبکہ دلاور اور اکثم دونوں بینچ پر بیٹھے تھے۔۔۔۔ جب ایک لیڈی ڈاکٹر ایمرجنسی وارڈ  سے مسکراتے ہوئے باہر آئی۔۔۔ یہ ایک سرکاری ہسپتال تھا جہاں اقصی کو لایا گیا تھا۔۔۔ 

مبارک ہو خان صاحب۔۔ مآشاء اللہ سے بیٹا ہوا ہے۔۔۔اور آپکی بہو بھی بالکل ٹھیک ہے۔۔۔

اقصی کو چیک اپ کے لئے اسی لیڈی ڈاکٹر کے پاس لایا جاتا تھا اس لئے وہ جانتی تھی سب کو۔۔۔۔ 

سب کے چہرے پر خوشی اور غمی تاثرات بیک وقت چھائے تھے۔۔۔پوتے کی آنے کی خوشی اور بیٹے کے جانے کا غم ۔۔۔۔۔ لیکن خوشی غم پر بھاری پڑ گئی تھی ۔۔۔ 

یسرا بیگم نے بے ساختہ آسمان کی طرف دیکھا تھا۔۔۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔ دلاور خان خوشی سے اکثم کے گلے ملے تھے۔۔۔۔ آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔۔۔

تھوڑی دیر بعد ایک نرس انہیں کپڑے میں لپٹا وجود تھما کر گئی تھی۔۔۔ وہ کمزور اور سرخ و سفید  سابچہ بالکل احمر کی کاپی تھا۔۔۔

یسرا بیگم نے اس کی پیشانی پر نم آنکھوں سے بوسہ دیا۔۔۔ جبکہ دلاور خان تو اسے اپنی گود میں لے کر ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے احمر کو گود میں اٹھا لیا ہو۔۔۔۔ اکثم نے اس کے چھوٹے چھوٹے سفید ہاتھوں پر بوسہ دیا تھا۔۔۔۔ 

بابا جان یہ کتنا پیارا ہے ماشاءاللہ ۔۔۔ 

اکثم بے ساختہ بولا تھا۔۔۔ دلاور خان نے نم آنکھوں سے مسکرا کر اپنا سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔ 

یہ میرا احمر ہے۔۔۔ اللہ نے اسے مجھے لوٹا دیا ہے ۔۔۔۔ 

دلاور خان کے لہجے میں خوشی تھی۔۔۔ 

تھوڑی دیر بعد اقصی کو ہوش آیا تو اسے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔۔۔ سب اس کے پاس جمع ہوگئے۔۔۔ اقصی اپنے بیٹے کو گود میں لے کر زارو قطار رو دی تھی۔۔۔۔ 

یسرا بیگم نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔ 

اماں جان۔۔۔ احمر نے کہا تھا کہ سب سے پہلے وہ اپنے بیٹے کو اٹھائے گا۔۔۔ اماں جان اسے بولیں نہ کے اس کا بیٹا انتظار کر رہا ہے۔۔۔ 

اقصی کے رونے پر دلاور خان کی آنکھیں بھی نم ہو گئی تھیں جبکہ اکثم وارڈ سے باہر آ گیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ اقصی کی باتیں اس کی برداشت کو آزما رہی تھیں۔۔۔ 

ڈاکٹر نے آج کا دن ہاسپٹل رکنے کا کہا تھا کیونکہ اقصی کافی کمزور تھی ۔۔۔ دلاور خان نے سب سے پہلے اقصی کو بچے سمیت روم میں شفٹ کروایا تھا ۔۔ پہلے روم کا مسئلہ ہو رہا تھا اس لئے انہیں اتنی دیر وارڈ میں رکنا پڑا۔۔۔ لیکن پھر ڈاکٹر سے بات چیت کر کے انہوں نے روم لے لیا تھا۔۔ ایک دن کے لئے۔ یسرا اور دلاور خان اقصی کے پاس رک گئے تھے ج کہ اکثم کو انہوں نے زبردستی گھر بھیج دیا تھا کیونکہ ارتسام اور ہانم گھر میں اکیلے تھے۔۔۔۔۔ اور اس وقت وہ دونوں ان کی نظر میں بچے تھے۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم کو شدید کوفت ہو رہی تھی اس گھر کی تنہائی سے۔۔۔ وہ اکثم کے کمرے میں موجود ہر چیز کو تقریبا دس دفعہ دیکھ چکی تھی۔۔۔۔ اب تو وہ خاموش رہ رہ کر بھی بیزار ہو چکی تھی۔۔۔ وہ کمرے سے باہر نکلی اور کیچن میں چلی گئی۔۔۔ سامنے رشیدہ ٹینڈے پکانے میں مصروف تھی ۔۔۔۔۔ 

چاچی۔۔۔ ابھی پکی نہیں ہنڈیا؟؟؟ 

ہانم نے رشیدہ سے پوچھا جو دھنیا کاٹ رہی تھی۔۔۔ 

نہیں بس دم پر رکھی ہوئی ہے ۔۔ کیوں تمہیں بھوک لگی ہے؟؟؟ 

رشیدہ نے مسکراتے ہوئے اس کے معصوم چہرے کو دیکھا ۔۔۔ 

ہانم نے معصومیت سے اپنا سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔۔

اچھا میں فریج میں دیکھتی ہوں کچھ کھانے کو۔۔۔۔۔ 

یہ بول کر رشیدہ نے کیچن میں موجود سنک پر ہاتھ دھوئے اور فریج کو دروازہ کھولا۔۔۔ 

سامنے ہی ٹوکری میں  سیب پڑے ہوئے تھے۔۔۔ رشیدہ نے نکال کر ہانم کو دئیے تو ہانم نے ایک سیب ٹوکری سے اٹھایا اور اسے کھانا شروع کر دیا ۔۔۔۔ 

رشیدہ بی۔۔۔ رشیدہ بی۔۔۔۔۔ 

چاچی یہ تو خان کی آواز ہے نا؟؟؟ میں ابھی پوچھتی ہوں کہاں گئے تھے مجھے چھوڑ کر۔۔۔۔ 

ہانم اکثم کی آواز سنتے ہی خوشی سے سیب وہیں چھوڑ کر باہر بھاگی تھی جبکہ رشیدہ بھی اس کی پیچھے ہنستے ہوئے گئی تھی۔۔۔۔

خان۔۔۔ آپ آ گئے۔۔۔ کہاں گئے تھے مجھے بغیر بتائے۔۔ آپ جانتے ہیں میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔۔ نہیں آپکو کیسے معلوم ہوگا آپ تو گھر پر ہی نہیں تھے۔۔۔ ہاں میں خود ہی بتا دیتی ہوں۔۔۔ خان میں آپ کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔ اور۔۔۔۔

ہانم حال میں صوفے پر بیٹھے اکثم کے پاس بھاگ کر پہنچی تھی اور مسکراتے ہوئے نان سٹاپ بولنا شروع ہو گئی تھی جبکہ اکثم آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ جس کے چہرے پر خوشی کے رنگ واضح تھے۔۔۔۔ اور انداز بیویوں والا تھا۔۔۔

اکثم نے بے ساختہ اس کے منہ میں گلاب جامن ڈال کر اسے  ٹوکا تھا۔۔۔۔ 

بس کرو تم۔۔۔ تھکتی نہیں بول بول کر۔۔۔ 

اکثم کی بات پر ہانم نے منہ بنایا۔اور گلاب جامن کھاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ 

بول بول کر کون تھکتا ہے؟؟؟ 

اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا رشیدہ وہاں پہنچ گئی۔۔۔ 

بڑے خان آپ نے بلایا۔۔۔؟؟؟

رشیدہ بی ایک منٹ روکیں۔۔۔ آپ یہ مٹھائی کھائیں پہلے۔۔۔ چھوٹے خان ۔۔۔۔ چھوٹے خان۔۔۔ جلدی باہر آئو۔۔

اکثم رشیدہ بی کے سامنے مٹھائی کا ڈبہ کر تے ہوئے  اٹھا اور ارتسام کو آوازیں دینے لگا۔۔۔۔ 

ارتسام اپنے کمرے سے باہر آیا اور آہستہ سے چلتے ہوئے اکثم کے پاس آیا۔۔۔

جی بھائی۔۔۔۔ 

مبارک ہو میری جان ۔۔ تم چاچو بن گئے ہو۔۔۔ احمر بھائی کا بیٹا آیا ہے دنیا میں؟؟؟ 

اکثم خوشی سے اسے گلے لگا کر بولا تو ارتسام بھی خوش ہو گیا۔۔۔ جبکہ رشیدہ بیگم نے مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا تھا۔۔۔ ہانم بیچاری منہ کھولے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی جو خوشی سے ایک دوسرے کے گلے لگے ہوئے تھے۔۔۔۔ 

خان۔۔۔ یہ احمر بھائی کون ہیں؟؟ اور ان کا بیٹا کہاں سے آیا ہے؟؟؟ 

ہانم نے اکثم سے سوال کیا تو اکثم نے اسے گھورا جبکہ ارتسام نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔ گو کہ اس بندی کا علاج ناممکن تھا۔۔۔ رشیدہ مسکراہٹ دباتے ہوئے کیچن میں چلی گئی۔۔۔۔ 

خان آپ نے خواب نہیں دیا۔۔۔ کہاں سے آیا بیٹا اور احمر بھائی کون ہیں؟؟ 

ہانم احمر میرے بڑے بھائی کا نام ہے جو اللہ کے پاس جا چکے ہیں۔۔۔ اور ان کا بے بی ہاسپٹل سے آیا ہے۔۔۔ 

اکثم نے اسے اس کی عقل کے مطابق سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔ جو کہ ناکام ٹھہری ۔۔۔۔ 

بے بی۔۔۔۔

ہانم کے الفاظ ابھی منہ میں تھے جب اکثم نے اس کو جواب دیا۔۔۔ 

چھوٹے سے بچے کو بےبی کہتے ہیں۔۔۔ اب کوئی سوال مت کرنا۔۔۔

بھائی یہ پیزا آپ میرے لئے لائے ہیں نا؟؟؟ 

ارتسام نے اکثم سے کہا جو ہانم کو گھور رہا تھا جو منہ بسور کر رہ گئی تھی۔۔۔ 

ہاں چھوٹے خان کیونکہ میں جانتا ہوں تمہیں ٹینڈے پسند نہیں ہیں۔۔۔ 

اکثم نے ٹیبل پر پڑے ہوئے ڈبے کو کھول کر ارتسام کو دیا۔۔۔۔ 

جب پیزے کی خوشبو ہانم تک پہنچی تو وہ جلدی سے آگے آئی۔۔۔ 

خان یہ تو سبزیوں والی روٹی ہے۔۔۔ وہ بھی موٹی سی۔۔۔ میری امی پکاتی ہیں ۔۔ جب ہم گھر میں سبزیوں کا سالوں بناتے ہیں تب جو سالن بچ جاتا ہے امی اس کی روٹیاں پکاتی ہیں۔۔۔ وہ بھی ایسی ہی ہوتی ہیں ۔۔۔ لیکن اس کی سبزیاں باہر نکلی ہیں۔۔کیا یہ صحیح نہیں پکی ہوئی۔۔۔؟؟؟

ہانم کی سمجھ پر دونوں بھائی عش عش کر اٹھے تھے۔۔۔ 

ارتسام کو تو سکتہ ہو گیا تھا۔۔۔ اس کی پسند کا نقشہ کتنی بےدردی سے اس نے کھینچا تھا۔۔۔۔ 

ہانم یہ سبزیوں کی روٹی نہیں ہے اسے پیزا بولتے ہیں ۔۔۔ 

اکثم نے دانت پیس کر کہا ۔۔۔ 

میں بھی کھائوں گی یہ سبزیوں ۔۔۔ نہیں پیزا۔۔۔

اکثم کی گھوری پر ہانم نے جلدی سے کہا۔۔۔۔

ارتسام نے اسے ایک پیس نکال کر دیا اور خود بھی وہیں صوفے پر بیٹھ کر کھانے لگا ۔۔۔۔ جبکہ اکثم اپنے کمرے کی طرف چلا گیا فریش ہونے کے لئے۔۔۔۔ 

اور ارتسام کی بدقسمتی کہ ہانم اس سے بنا پوچھے پانچ پیس کھا گئی جبکہ ارتسام شاک  کی حالت میں تھا اسے کھاتا دیکھ کر۔۔۔ 

 ہانم بھابھی ۔۔۔۔ 

ارتسام کی صدمے بھری آواز ہانم کے کانوں میں پڑی تھی۔۔۔ 

ہانم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔ 

کہاں بھیج رہی ہیں پیزے کو؟؟؟ 

ارتسام نے غصے سے پوچھا۔۔ 

 میرا پیزا تو پیٹ میں جا رہا ہے کیوں تم کہیں اور بھیج رہے  ہو؟؟؟ 

ہانم کی بات پر ارتسام نے پیزے کا ڈبہ اٹھایا جس میں صرف ایک ہی پیس تھا وہ بھی ہانم کی گود میں رکھا اور خود اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔۔ 

ہانم نے پہلے تو ارتسام کی پشت کو دیکھا پھر پیزے کو اور کھانا شروع کر دیا۔۔۔ 

امی تو پیزا اتنا مزیدار نہیں بناتیں ۔۔ جبکہ یہ تو اتنے مزے کا ہے۔۔۔۔ 

ہانم خود سے بڑبڑائی اور آخری پیس کھا کر ڈبے کو اٹھائے اکثم کے  کمرے کی طرف چل دی۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خان میں آپ کو پیاری نہیں لگتی کیا؟؟؟ 

ہانم کمرے میں داخل ہر کر اکثم سے بولی۔۔۔ اکثم جو ابھی پاجامہ شرٹ پہنے بیڈ پر تھوڑی دیر سونے کی غرض سے لیٹ ہی رہا تھا اس کی بات پر پلٹا ۔۔۔ اور شاک کی کیفیت میں اسے دیکھا جو دائیں ہاتھ میں  پیزے کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑے اور بائیں ہاتھ کو کمر پر ٹکائے اپنی نیلی آنکھوں کو چھوٹا کئے اس سے پوچھ رہی تھی۔۔۔ 

یہ کیسا سوال ہے ہانم؟؟؟ 

اکثم نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹائی تھیں ۔۔۔ کیونکہ اس کی معصومیت ہی اسے خوبصورت بنا رہی تھی۔۔۔۔ 

خان بتائیں نا؟؟؟ 

ہاں تم بہت پیاری ہو۔۔۔۔

اکثم اس کی طرف دیکھے بغیر بول کر سونے کے لئے لیٹ گیا۔۔۔ 

تو پھر آپ میرے لئے بھی یہ سبزی والی روٹی۔۔۔ نہیں پیزا لائیں گے نا؟؟؟ 

ہانم کی بات پر اکثم کے لبوں پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔ مطلب یہ ساری کوشش پیزا کھانے کے لئے ہو رہی تھی۔۔۔

تمہارے لئے پیزا میں کیوں لائوں گا؟؟؟

اکثم نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔ 

کیونکہ میں آپکو پیاری لگتی ہوں۔۔ اور۔۔۔

اور امی کہتی ہیں جو آپ کو پیارا لگتا ہے آپ اس کی ہر بات مانتے ہیں اس کے لئے پیزا بھی لاتے ہیں ۔۔ یہی نا؟؟؟

اکثم نے اس کی بات  کو درمیان میں ہی کاٹ کر مکمل کیا۔۔۔۔

ہانم نے منہ کھولے اسے دیکھا جو اب مسکرا رہا تھا۔۔۔۔ 

 خان آپ کو کیسے معلوم ہوا؟؟ 

ہانم کی حیرانگی پر اکثم نے بمشکل اپنا قہقہ ضبط کیا۔۔۔۔ 

جادو۔۔۔۔

اکثم نے آہستہ آواز میں اسے کہا ۔۔۔۔

خان آپ جادو کرتے ہیں؟؟؟

ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ 

اکثم پیٹ پکڑ کر قہقہ لگا رہا تھا جبکہ ہانم نا سمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ 

تم پاگل ہو ۔۔۔۔ 

اکثم ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔ احمر کی موت کے بعد آج وہ ہنسا تھا۔۔۔۔ 

آپ نے مجھے گالی دی؟؟

اکثم نے اسے دیکھا جو غصے سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

ہیں کب دی گالی ؟؟؟ 

 ابا کہتے ہیں کسی کو پاگل نہیں بولتے یہ گالی ہوتی ہے۔۔اور آپ نے ابھی مجھے پاگل کہا۔ اب میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔۔آپ گندی سہیلی ہو۔۔۔۔ 

ہانم یہ بول کر کمرے سے چلی گئی جبکہ اکثم کی ہنسی اب مسکراہٹ میں بدل گئی تھی ۔۔۔ 

لگتا ہے ناراض ہو گئی ہے ۔۔۔ چلو بعد میں منائوں گا۔ ورنہ گلے پڑنے میں دیر نہیں لگائے گی۔۔۔۔۔ جھلی۔۔۔

اکثم بڑبڑاتے ہوئے لیٹ کر آنکھیں موند گیا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم حویلی کی چھت پر چلی گئی تھی اور وہاں جا کر دیوار کے ساتھ بیٹھ کر رونا شروع کر دیا۔۔۔۔ 

امی آپ مجھے بہت یاد آ رہی ہیں۔۔ روح بھی بہت یاد آ رہی ہے۔۔۔ ابا کیوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے وہاں ۔۔۔ اور اب مجھے لینے بھی نہیں آ رہے؟؟ مجھے آپ کے پاس واپس آنا ہے۔۔۔۔ مجھے نہیں رہنا  خان کے گھر ۔۔۔ وہ میری کوئی بات نہیں مانتے۔۔۔ 

ہانم روتے ہوئے اونچا اونچا بول رہی تھی ۔۔۔ اس کی نیلی آنکھیں کافی سرخ ہوچکی تھیں ۔۔۔۔ ارتسام جو چھت پر پتنگ اڑانے کی غرض سے آیا تھا ایک کونے میں ہانم کو روتے دیکھ کر پریشان ہو گیا۔۔۔ اس نے پتنگ  اور ڈور وہیں رکھی اور خود ہانم کے پاس آ گیا۔۔۔۔ 

ہانم بھابھی ۔۔۔۔ 

ارتسام نے اس پکارا تو اس نے آنکھیں اوپر اٹھائیں۔۔۔ نیلی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کے پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔۔

تم مجھے بھابھی کیوں بلاتے ہو۔۔۔ میرا نام ہانم ہے۔۔۔ ہانم بخت۔۔۔۔ 

ہانم غصے سے سرخ ہوتی ناک کو پھلا کر بھولی۔۔۔ 

کیونکہ آپ خان بھائی کی بیوی ہیں۔۔۔ جس طرح اماں جان بابا جان کی بیوی ہیں ان کے ساتھ رہتی ہیں۔۔ اس طرح آپ بھی خان بھائی کے ساتھ رہتی ہیں تو آپ بھی ان کی بیوی ہیں۔۔۔ اور ان کی بیوی میری بھابھی ہے کیونکہ میں ان کا بھائی ہوں۔۔۔۔ 

ارتسام کی وضاحت پر ہانم نے اپنا سر اثبات میں ہلایا جسے سمجھ گئی ہو۔۔۔۔ 

آپ رو کیوں رہی ہیں؟؟؟ 

ارتسام نے اس کا  چہرہ دیکھ کر پوچھا۔۔۔ جہاں آنسوئوں نے لکیریں کھینچ دیں تھی۔۔۔۔ 

تمہارے بھائی بالکل بھی اچھے نہیں ہیں۔۔۔ وہ میری کوئی بات نہیں مانتے۔۔۔ اور انہوں نے مجھے گالی بھی نکالی۔۔۔۔ 

ارتسام کو اچھا خاصہ شاک لگا تھا سن کر۔۔۔۔ 

اکثم بھائی نے گالی دی؟؟؟

ارتسام نے صدمے کی کیفیت میں پوچھا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا اس کا بھائی غصے میں بھی تمیز کا دامن نہیں چھوڑتا تھا۔۔۔۔۔۔ 

جائو جا کر پوچھ لو اپنے بھائی سے ۔۔۔ انہوں نے خود اپنی زبان سے مجھے پاگل کہا۔۔۔۔ 

ہانم کی بات پر ارتسام نے اسے دیکھا جس کے لئے پاگل ایک گالی تھی۔۔۔ 

تو کہا غلط کہا بھائی نے؟؟ اچھی خاصی پاگل ہیں۔۔۔۔ 

ارتسام بڑبڑایا۔۔۔۔ تو ہانم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔ 

تم کیا بول رہے ہو؟؟؟ 

کچھ نہیں۔۔۔ 

یہ بول کر ارتسام وہاں سے اٹھ گیا جبکہ ہانم بھی دونوں ہاتھوں سے اپنے آنسو صاف کرتے اس کے پیچھے آئی۔۔۔ 

تم پتنگ اڑانے لگے ہو؟؟؟ 

ہانم نے خوش ہوتے ارتسام سے پوچھا تو ارتسام نے حیرت سے اس دھوپ چھائوں سے لڑکی کو دیکھا ۔۔۔ جو تھوڑی دیر پہلے رو رہی تھی اور اب خوش ہو رہی تھی۔۔۔ 

ہاں۔۔۔ لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟؟؟ 

ارتسام نے اسے مشکوک نظروں سے گھورا۔۔۔ 

وہ عائشہ کا بھائی بھی پتنگ اڑاتا تھا۔۔۔ میرا بہت دل کرتاتھا اڑانے کو لیکن مجھے کوئی اڑانے نہیں دیتا تھا۔۔۔ اب تم میرے بھائی ہو نا۔۔۔ تو تم مجھے اڑانے دو گے نا پتنگ؟؟؟ 

اس کی بات پر ارتسام نے اسے گھورا تھا۔۔۔ آج وہ دلاور خان اور یسرا بیگم کی غیر موجودگی میں پتنگ اڑانے اوپر آیا تھا۔۔۔ اور آنے سے پہلے اکثم کے نیند میں ہونے کی مکمل تصدیق کر چکا تھا۔۔۔

لیکن اب ہانم جان نہیں چھوڑ رہی تھی۔۔۔ 

میں اپنی پتنگ آپکو اڑانے نہیں دوں گا۔۔۔۔ 

ارتسام نے حتمی انداز میں کہا۔۔۔ 

میں اماں جان کو بتائوں گی تم نے مجھے پتنگ اڑانے نہیں دی۔۔۔ 

ہانم رونے والا منہ بنا کر بولی ۔۔۔ 

اماں جان کے نام پر ارتسام نے غصے سے ہانم کو دیکھا جو اسے اچھا خاصہ بلیک میل کر چکی تھی ۔۔۔۔

دیکھیں بھابھی۔۔۔ پتنگ لڑکیاں نہیں اڑارتیں ۔۔۔۔۔۔ 

ارتسام نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔۔۔ 

کیوں نہیں اڑاتی لڑکیاں پتنگ؟؟؟ میں اڑائوں گی پتنگ۔۔۔ تم نہ دو مجھے اپنی پتنگ۔۔۔ میں خان سے بولتی ہوں وہ لا کر دیں گے مجھے پتنگ۔۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر مڑی تو ارتسام جلدی سے بولا۔۔۔ 

ہانم۔۔ بھابھی میں تو مذاق کر رہا تھا۔۔۔ آپ اڑائیں پتنگ۔۔ لیکن صرف تھوڑی دیر کے لئے۔۔ اور وہ بھی اس شرط پر کہ آپ کسی کو گھر پر پتنگ اڑانے کا نہیں بتائیں گی۔۔۔ وعدہ کریں۔۔۔

ارتسام نے جلدی سے اس کے آگے ہاتھ پھیلایا ۔۔۔ ہانم خوش ہوتے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ گئی۔۔۔ 

وہ خوشی خوشی پتنگ اڑانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ ارتسام منہ پھلا کر اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ 

ابھی پانچ منٹ ہی ہوئے ہوں گے جب ہانم کا پائوں چھت پر موجود چارپائی سے ٹکرایا اور وہ منہ کے بل  چھت کے فرش پر گری۔۔۔ 

امی۔۔۔

 ہانم کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی تھی۔۔۔۔ ارتسام جو غصے سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ ڈور کو وہیں پھینک کر اس کی طرف بھاگا۔۔۔ 

بھابھی۔۔۔ 

ارتسام نے اسے سیدھا کیا تو اس کے سر سے بہتے خون کو دیکھ کر ڈر گیا۔۔ جبکہ ہانم نے باقاعدہ اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا تھا۔۔۔ 

ارتسام اسے چھوڑ کر نیچے کی طرف بھاگا۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم کو سوئے ابھی کچھ ہی دیر  ہوئی تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ کسی نے ذور ذور سے بجانا شروع کر دیا ۔۔۔ ہانم کے جانے کے بعد اس نے دروازہ لاک کر لیا تھا تاکہ کوئی اسے ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔ وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے اٹھا تھا۔۔۔ سر میں درد بھی شروع ہو گیا تھا۔۔ نیند ٹوٹنے کی وجہ سے۔۔۔ 

بھائی۔۔۔ جلدی دروازہ کھولیں۔۔۔ 

ارتسام کی پریشان آواز پر وہ جلدی سے اٹھا اور دروازہ کھولا۔۔۔۔ 

کیا ہوا ہے چھوٹے خان؟؟؟ تم رو کیوں رہے ہو؟؟؟ 

ارتسام کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ  فکرمندانہ  انداز میں بولا۔۔۔ 

بھائی ۔۔ وہ چھت پر ہانم بھابھی کا خون نکل رہا ہے۔۔۔۔ 

ارتسام نے اکثم کو روتے ہوئے بتایا تو اکثم ننگے پائوں ہی چھت کی طرف بھاگا۔۔۔ سڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ چھت پر پہنچا تو سامنے ہی ہانم سر پر ہاتھ رکھے رو رہی تھی۔۔ اور خون سے اس کا سفید ہاتھ سرخ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ 

یااللہ خیر۔۔۔

اکثم جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور اس کا ہاتھ ہٹا کر دیکھنے لگا۔۔۔ 

نیچے چلو میں تمہیں ڈا کٹر کے پاس لے کر جاتا ہوں۔۔۔ 

اکثم نرمی سے بولا۔۔ حالانکہ غصہ تو بہت آ رہا تھا۔۔۔ بیچاری ہانم کا خون جو نکل رہا تھا۔۔۔۔

اکثم نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا ۔۔۔ وہاں پڑی پتنگ کو دیکھ کر سب سمجھ گیا تھا۔۔ ہانم کو پکڑ کر وہ نیچے آیا۔۔۔ اور اسے حال میں صوفے پر بٹھایا ۔۔۔۔

رشیدہ بی ۔۔۔ رشیدہ بی۔۔۔

اکثم کی آواز سے اس کا غصہ واضح ظاہر ہو رہا تھا۔۔۔ 

رشیدہ جلدی سے کیچن سے آئی۔۔۔ 

جی بڑے خان۔۔۔ 

برف اور کوئی پرانا کپڑا لے کر آئیں۔۔۔

اکثم نے رشیدہ بی کو دیکھ کر کہا ۔۔۔ 

ارتسام بھی وہیں صوفے پر بیٹھ کر سر جھکا گیا۔۔۔ بھائی کو غصے میں دیکھ کر تو اس کی جان بھی جان رہی تھی۔۔۔۔ جبکہ ہانم ہچکیوں سے رونے میں مصروف تھی۔۔۔۔ 

رشیدہ بی نے برف اور کپڑا لا کر اکثم کو دیا تو اکثم نے کپڑا اٹھایا اور ہانم کا خون صرف کرنے لگا۔۔۔ 

جو خون ہلکا ہلکا جم گیا تھا۔۔۔ اسے اس نے برف کی مدد سے اتارا تھا۔۔۔ 

شکر تھا کہ چوٹ گہری نہیں تھی۔۔۔ لیکن خون بہت ذیادہ نکل گیا تھا۔۔۔ 

اکثم خاموشی سے اٹھا تھا اور اپنے کمرے سے فرسٹ ایڈ باکس لے کر آیا تھا۔۔۔ 

ڈیٹول سے زخم صاف کرنے لگا تو ہانم کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔۔

آہ۔۔۔ آرام سے درد ہو رہا ہے۔۔۔ 

ہانم کی بات پر اس نے آہستہ سے پھونک مار کر اسے ڈیٹول لگایا اور پھر پایوڈین لگا کر پٹی کر دی۔۔۔۔ اس دوران سب خاموش تھے۔۔۔ 

تمہیں چوٹ کیسے لگی؟؟؟ 

اکثم نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے بے ساختہ ارتسام کا جھکا ہوا سر دیکھا۔۔۔ 

وہ میں گر گئی تھی چھت پر۔۔۔۔ 

وہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن کیسے گری مجھے یہ بتائو؟؟؟

اکثم نے اسے سرخ آنکھوں سے گھورا تھا۔۔۔ 

وہ۔۔۔ 

ہانم انگلیاں چٹخاتے ہوئے  اتنا ہی بولی تھی جب اکثم کی دھاڑ پر سہم کر صوفے کے ساتھ لگ گئی تھی۔۔۔۔ 

چھوٹے خان مجھے ساری بات بتائو وہ پتنگ چھت پر کیا کر رہی تھی۔۔۔۔

ارتسام نے جھکے سر کے ساتھ ہی اسے سب بتا دیا۔۔۔ 

اکثم کو بس نہیں چل رہا تھا کہ دونوں کو ایک ایک لگا دیتا۔۔۔ 

تم جیسی جاہل لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی؟؟؟ بتائو کیا کمی ہے تمہیں یہاں؟؟ تم ایک بیوقوف لڑکی ہو جو کبھی سمجھدار نہیں ہو سکتی۔۔۔ صحیح کہتے ہیں بابا جان تم نرمی کے لائق بالکل نہیں ہو۔۔۔ اگر تمہیں سر پر چڑھائوں گا تو ایسے ہی نتائج ملیں گے مجھے۔۔۔ کرتا ہوں تمہارا علاج میں۔۔۔ بہت کر لی تم نے اپنی من مانی۔۔۔ میری نظروں کے سامنے سے دور ہو جائو ہانم اس سے پہلے میں تمہارا قتل کر دوں۔۔۔ 

اکثم ہانم پر اپنا غصہ نکال رہا تھا جبکہ ہانم نیلی آنکھوں میں پانی لئے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اسے برا لگا تھا اکثم کا ڈانٹنا ۔۔۔۔ 

رشیدہ بی اسے دور کر دیں میری نظروں سے۔۔ جیسا جاہل باپ ہے ویسی جاہل بیٹی ہے۔۔۔۔ 

بھائی میری بھی غلطی تھی ۔۔۔۔

ارتسام ہانم کو روتے دیکھ کر بولا۔۔۔ 

ہاں بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا یے نا تم دونوں نے ۔۔ جو ایسے سرعام مان رہے ہو کہ میری بھی غلطی تھی ۔۔۔۔ جائو یہاں سے تم بھی اپنے کمرے میں اور اگر اب مجھے رات کے کھانے سے پہلے تم باہر نظر آئے تو یاد رکھنا بہت بری طرح پیش آئوں گا۔۔۔ 

اکثم نے اسے بھی غصے سے کہا اور وہاں سے حویلی کے باہر چلا گیا۔۔۔ 

ارتسام ہانم کے پاس آیا۔۔۔ 

بھابھی۔۔۔ خان بھائی غصے میں ہیں ابھی تھوڑی دیر بعد دیکھنا وہ پھر سے پہلے جیسے ہو جائیں گے۔۔۔۔ 

ہانم روتے ہوئے اکثم کے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔۔ 

جبکہ رشیدہ بی بھی اس کے پیچھے گئی تھیں۔۔۔۔ 

مجھے میری امی کے پاس جانا ہے ابھی۔۔۔ مجھے نہیں رہنا یہاں ۔۔۔ یہ مجھے ڈانٹتے ہیں۔۔۔ ابا نے کبھی نہیں ڈانٹا۔۔۔۔ خان مجھے گالیاں بھی دیتے ہیں۔۔۔ مجھے امی کے پاس جانا ہے۔۔۔ میں انہیں جا کر سب بتائوں گی۔۔۔۔ 

ہانم روتے ہوئے بول رہی تھی جب رشیدہ بی نے اسے گلے لگایا۔۔۔۔ 

بڑے خان  تمہارا خون دیکھ کر پریشان ہوگئے تھے نا  ۔۔۔ اس لئے وہ اتنا غصہ کر گئے۔۔۔ 

نہیں چاچی ۔۔۔ مجھے میری امی کے پاس ہی جانا ہے ۔۔۔ مجھے نہیں رہنا یہاں ۔۔۔۔ خان بالکل اچھے نہیں ہیں۔۔۔ 

وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔ 

ہانم بیٹا ۔ خان تھوڑی دیر میں آکر آپ لے جائیں گے۔۔۔ رونا بند کرو۔۔۔ 

رشیدہ بی نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس کی آنسو صاف کئے۔۔۔ ہانم نے اپنا چہرہ ان کے ہاتھوں سے آزاد کروایا اور نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔ 

مجھے ان کے ساتھ کہیں نہیں جانا۔۔۔ میں خود جائوں گی گھر۔۔۔ اور ابھی جائوں گی۔۔۔۔ 

ہانم یہ بول کر کمرے سے باہر بھاگی تھی۔۔۔ رشیدہ بی بھی اس کے پیچھے گئی تھیں ۔۔۔ 

مجھے نہیں رہنا یہاں۔۔۔۔ میں امی کے پاس ہی جائوں گی۔۔۔ 

ہانم بھاگتے ہوئے بول رہی تھی ۔۔ ابھی حویلی کے داخلی دروازے تک ہی پہنچی تھی جب اکثم اندر آگیا اس بھاگتے دیکھ کر اس کی پیشانی پر ان گنت بلوں کا اضافہ ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ سارے مرد ملازم باہر تھے ۔۔۔ 

اکثم کو آتے دیکھ کر رشیدہ بی نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔۔ 

ہانم نے غصے سے اکثم کو دیکھا ۔۔۔ 

مجھے امی کے پاس جانا ہے پیچھے ہٹیں ۔۔۔۔ 

ہانم کی بات پر اکثم نے اسے دیکھا جو تھوڑا سا غصہ کرنے سے ہی رو رو کر خود کو ہلکان کر چکی تھی ۔۔۔ آنکھیں اور چھوٹی سی ناک بہت ذیادہ سرخ ہو گئی تھی۔۔۔۔ اور پیشانی پر بندھی پٹی دیکھ کر  اکثم نے لمبی سانس لی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر  زبردستی اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے آیا۔۔۔ کمرے میں لا کر اس نے دروازہ بند کیا۔۔۔۔ ہانم کو اس نے تقریبا بیڈ پر دھکا دیا تھا۔۔۔ 

مجھے امی کے پاس جانا ہے۔۔۔ 

ہانم ڈرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ 

 مر چکے ہیں تمہارے ماں باپ اور آج کے بعد اگر میں نے تمہارے منہ سے ان کا نام سنا تو میں زبان کاٹ دوں گا تمہاری ۔۔۔۔ 

اکثم نے اسے غصے سے دیکھ کر کہا۔۔۔ 

ہانم نے ڈر کر اسے دیکھا۔۔۔۔ 

اس کی آنکھوں میں اپنے لئے ڈر دیکھ کر اکثم کو اب خود پر غصہ آیا تھا۔۔۔

خود کو پرسکون کرنے کے لئے وہ واش روم میں گیا اور چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا۔۔۔۔ 

وہ کیوں اتنا غصہ کر گیا تھا؟؟ معمولی چوٹ ہی تو تھی۔۔۔ مجھے درد کیوں ہو رہا ہے۔۔۔ مجھے تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔۔۔۔ 

اکثم نے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ کر سوچا۔۔۔ اس کیوں کا جواب تو تھا لیکن شاید وہ اس کیوں کے جواب کو ابھی سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دس منٹ بعد باہر نکلا تو ہانم کو سامنے بیڈ پر گھٹنوں میں سر دئیے روتے دیکھا۔۔۔ اکثم آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے پاس آیا۔۔۔۔ 

رو کیوں رہی ہو؟؟؟

ہانم نے اپنے گھٹنوں کے گرد بندھے ہاتھوں کو مزید سخت کر لیا ۔۔۔ وہ واقعی ڈر گئی تھی اکثم کے غصے  کو دیکھ کر۔۔۔۔ 

اکثم اس کے پاس بیٹھا اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔۔۔ 

تمہیں چوٹ لگی ہے ہانم۔۔۔ اور اماں جان تمہیں اس حال میں دیکھیں گی تو وہ مجھ سے سوال کریں گی۔۔۔ میں کیوں تمہارا خیال نہیں رکھ سکا۔۔۔تم جانتی ہو نا کہ اماں جان تم سے کتنا پیار کرتی ہیں ۔۔۔۔

اکثم کے لہجے میں بلا کی نرمی تھی ۔۔۔۔ 

ہانم نے سر اٹھایا اور نیلی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر اکثم نے اپنے غصے پر ہزار دفعہ لعنت بھیجی تھی ۔۔۔۔

آپ نے ہانم پر غصہ کیا۔۔۔۔

ہانم ڈرتے ہوئے بولی۔۔۔ 

اب نہیں کروں گا ۔۔۔ پکا وعدہ ۔۔۔ 

اکثم مسکرا کر بولا۔۔۔۔ 

ہانم نے اس ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔ اور مسکراتے ہوئے بولی۔۔

آپ مجھے پیزا بھی لا کر دیں گے ۔۔۔

ہانم کی بات پر وہ بے ساختہ مسکرایا ۔۔۔۔

ٹھیک ہے لیکن تم اب پتنگ کبھی بھی نہیں اڑائو گی۔۔۔ 

اکثم کی بات پر ہانم مسکرائی ۔۔۔۔ 

ٹھیک ہے۔۔۔۔ 

اکثم بے ساختہ نظریں چرا گیا تھا کیونکہ اس کی آنکھوں کی پلکوں پر جمے آنسو اکثم کو خود کو چننے کی دعوت سرعام دے رہے تھے۔۔۔۔ 

وہ اٹھ کر باہر کی جانب جانے لگا جب ہانم بولی۔۔۔ 

آپ میرے شوہر ہیں نا جیسے ابا امی کے اور بابا جان اماں جان کے ۔۔۔ 

اکثم حیرت سے مڑا  اور اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔ 

جو مسکرا رہی تھی۔۔۔ 

تو ۔۔۔ 

اکثم کے جواب پر ہانم اس کے پاس آئی اور بولی۔۔۔ 

تو ابا تو امی کی ہر بات مانتا ہے نا ۔۔

تو مجھے کیوں بتا رہی ہو۔۔۔۔ ؟؟؟ 

مجھے وہ پیزا کھانا ہے کیونکہ میں ٹینڈے نہیں کھاتی ۔۔۔۔ 

ہانم کی بات پر وہ مسکرایا ۔۔۔ 

مکھن لگانا خوب آتا ہے تمہیں۔۔۔۔

مکھن۔۔۔ مگر میں نے کس کو مکھن لگایا۔۔۔۔ ؟؟؟؟ 

ہانم کو جواب دینے کی بجائے وہ باہر نکل گیا تھا۔۔۔ کیونکہ اس کے سوال کبھی ختم نا ہونے والے تھے۔۔۔ 

میرے پاس تو مکھن تھا ہی نہیں ۔۔۔ 

خان کی نظر کمزور ہوگئی ہے۔۔۔ 

ہانم خود سے بڑبڑائی اور واش روم کی طرف چلی گئی۔۔۔۔۔ 

رات کے پہر اقصی کی آنکھ اپنے بیٹے کے رونے کی آواز سے کھلی تھی۔۔۔ وہ بے بی کاٹ میں تھا اور رو رہا تھا۔۔۔ اقصی آہستہ سے اٹھی کر اپنی جگہ پر بیٹھی تھی ۔۔۔ اتنے میں یسرا بیگم کی آنکھ بھی کھل گئی تھی انہوں نے بچے کو اٹھا کر اقصی کو دیا۔۔۔ اقصی نے اسے گود میں لیا اور اس کے سر پر بوسہ دیا۔۔۔  اسے بھوک لگی تھی۔۔۔ اقصی نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور اس کی ضرورت پوری کرنے لگی ۔۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ سو گیا تو اس نے اسے اپنے پاس بیڈ پر ہی لٹا لیا۔۔۔۔ یسرا بیگم نے اقصی کی پیشانی پر بوسہ دیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔۔۔ 

آپ جانتی ہیں اماں جان۔۔۔ احمر کہتے تھے کہ وہ اپنے بچے کو رونے نہیں دیں گے اور کسی کو بھی اسے مارنے نہیں دیں گے۔۔۔ اگر میں نے بھی اسے کچھ کہا تو وہ مجھ سے بھی ناراض ہو جائیں گے۔۔۔ 

اقصی روتے ہوئے بول رہی تھی اور یسرا بیگم کی آنکھیں بھی نم کر گئی تھی۔۔۔۔ چوٹ ایسی تھی جس کا علاج کوئی نہیں تھا۔۔۔ زخم ایسا تھا جو زندگی بھر کے لئے ناسور بن گیا تھا۔۔۔ یہ سوچ ہی اقصی کی جان لے رہی تھی کہ اس بیٹا یتیم کہلایا جائے گا۔۔۔۔ 

اقصی بچے چپ کر جائو۔۔۔ ہمت سے کام لو۔۔۔۔ وہ نہیں ہے لیکن اس کا بیٹا ہے تمہارے پاس ۔۔۔۔ جسے تم ہر وقت محسوس کر سکتی ہو۔۔۔۔ 

اماں جان ۔۔۔ اسے نہیں جانا چاہیے تھا ابھی۔۔۔ مجھے اس کی ضرورت تھی ۔۔۔۔ میری ماما پاپا اور بہن بھائیوں نے مجھ سے رخ موڑ لیا ہے کیونکہ میں نے ان کی بات نہیں مانی ۔۔۔ ان کے ساتھ نہیں گئی۔۔۔ لیکن اماں جان اگر میں ان کے ساتھ چلی جاتی تو میرا احمر تنہا رہ جاتا یہاں ۔۔ میں کیسے اسے چھوڑ کر جا سکتی ہوں۔۔۔۔ ؟؟؟ 

اقصی روتے ہوئے مسلسل بول رہی تھی ۔۔۔ احمر کی موت کے بعد وہ آج کھل کر رو رہی تھی ۔۔۔۔ یسرا بیگم بھی نم آنکھوں سے اسے روتا دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔ 

اقصی ماں ہوں میں اس کی ۔۔۔ میری پہلی اولاد ۔۔۔جس نے مجھے ماں کے لفظ کا معنی سمجھایا ۔۔۔ وہ بہت عزیز تھا مجھے ۔۔۔ لیکن پھر چلا گیا۔۔۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ ہمارے گائوں سے ہر بری رسم کو ختم کر دے گا۔۔۔ لیکن دیکھو وہ وعدہ نبھائے بغیر چلا گیا۔۔۔۔ 

ان کی بات پر اقصی نے رخ موڑ لیا تھا ۔۔۔ 

جانے والے کو روکا نہیں جا سکتا اقصی لیکن جو ہیں ان نظرانداز نہیں کرو۔۔۔ اپنے بیٹے پر توجہ دو۔۔۔۔ اور کسی بھی رشتے سے پہلے انسانیت کو سامنے رکھو۔۔۔ زندگی آسان ہو جائے گی۔۔۔ 

یسرا بیگم نم آنکھوں سے مسکرائی تھیں۔۔۔ 

اقصی جانتی تھی ان کا اشارہ ہانم کی طرف ہے۔۔۔ وہ بس سر ہلا کر لیٹ گئی تھی۔۔۔ 

ہمارے پوتے کا کیا نام سوچا ہے تم نے اقصی؟؟؟؟

یسرا بیگم نے بیڈ پر لیٹے بچے کو دیکھ کر پوچھا۔۔۔ 

ثمامہ خان۔۔۔ 

احمر نے سوچا ہوا تھا۔۔۔۔ 

اقصی کی آواز ایک دفعہ پھر سے آنسوئوں سے تر ہو گئی تھی۔۔۔

مآشاء اللہ ۔۔۔ بہت پیارا نام ہے۔۔۔۔ اب سو جائو تم۔۔ اللہ پاک صبر دے ہم سب کو۔۔۔۔ آمین

یسرا بیگم خود ہی بول کر اٹھ گئی تھیں۔۔۔۔ 

جبکہ اقصی کے آنسو اب تکیہ بھگو رہے تھے۔۔۔۔ 

کچھ بھی تو نہیں تھا اس کے پاس سوائے احمر کی یادوں  اور ثمامہ خان کے ۔۔۔ لیکن یہی تو اس کی دنیا تھی اب۔۔۔ جس کے سہارے اس نے زندگی گزارنی تھی۔۔۔ یا شاید وقت اس کا مرہم بن کر اس کی خوشیاں لوٹانے والا تھا۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہانم اٹھی تو اس کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہو رہا تھا ۔۔۔ اکثم کو دیکھا تو کمرے میں کہیں نہیں تھا۔۔۔ 

خان ۔۔۔ خان۔۔۔ کہاں ہیں آپ۔۔۔ 

ہانم نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنا سر تھامتے ہوئے پوچھا۔۔۔ 

کچھ چوٹ اور کچھ کل رونے کی وجہ سے اب اس کے سر میں درد ہو رہا تھا ۔۔۔ 

اکثم جو صبح سویرے سیر کرنے نکلا تھا اپنے کمرے کا دروازہ کھولنے ہی لگا تھا جب اس کے کانوں میں ہانم کی آواز گونجی۔۔۔۔ 

وہ دروازہ کھول کر اندر آیا تو سامنے ہی ہانم بیڈ پر سر پکڑ کر  بیٹھی تھی۔۔۔۔ وہ تشویش زدہ انداز میں آگے بڑھا اور اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پریشان کن انداز میں پوچھنے لگا۔۔۔۔۔

ہانم کیا ہوا؟؟؟ سر میں درد ہو رہا ہے کیا؟؟؟ 

ہانم نے اپنی نیلی آنکھیں سامنے وجود پر ٹکائیں اور معصومیت سے سر ہلاتے ہوئے بولی۔۔۔ 

ہاں درد ہو رہا ہے۔۔۔ 

اچھا تم جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر آئو۔۔۔ میں رشیدہ بی سے ناشتہ بنوا کر یہاں لاتا ہوں ۔۔۔ پھر تم دوائی کھا لینا ۔۔۔ سر درد کی۔۔۔ 

اکثم نے اسے نرمی سے دیکھ کر کہا اور وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔ 

لیکن میرے سر پر تو پٹی ہے میں منہ کیسے دھوئوں گی؟؟؟ پٹی گیلی ہو جائے گی نا۔۔۔ پھر سوکھے گی کیسے؟؟؟ 

ہانم کی بات پر اکثم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔ 

میں دوسری لگا دوں گا اب اٹھو۔۔۔ 

لیکن آپ کے پاس تو تھوڑی سے پٹی تھی کل میں نے دیکھا تھا اور اگر مجھے دوبار چوٹ لگ گئی تو پھر آپ پٹی کہاں سے لائیں گے۔۔۔۔؟؟؟ 

ہانم نے فکر مندانہ انداز میں پوچھا تو اکثم نے اسے گھورا۔۔۔۔ 

تمہیں اب دوبارہ کبھی چوٹ نہیں لگے گی۔۔۔ سمجھی تم ۔۔ اب جائو اور منہ دھو کر آئو۔۔ اور کوئی سوال نہیں۔۔۔ 

اکثم اسے منہ کھولتا دیکھ کر بولا۔۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر واش روم کی طرف چلی گئی۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رشیدہ بی ۔۔۔ 

اکثم کیچن میں داخل ہوا تو سامنے ہی رشیدہ بی ناشتے کے لئے پراٹھے بنا رہی تھیں ۔۔۔

جی بڑے خان۔۔۔۔ 

رشیدہ بی نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔ 

ہانم کے لئے ناشتہ بنا دیں۔۔۔ جلدی سے ۔۔۔ اس کے سر میں درد ہے اور اس نے دوائی کھانی ہے۔۔۔ 

اکثم بول کر حال میں چلا گیا ۔۔۔ جہاں ارتسام بیٹھا ڈرائنگ کر رہا تھا۔۔۔ اس کی یہی عادت تھی جب بھی اکثم  اس سے ناراض ہوتا تھا صبح صبح اٹھ کر وہ اس کے لئے ایک دل بناتا تھا اور پھر اس میں اپنا اور اس کا نام لکھتا تھا۔۔۔ جسے دیکھ کر وہ مسکرا کر ارتسام کو گلے لگاتا تھا۔۔۔ آج بھی وہ یہی کر رہا تھا۔۔۔۔ 

اکثم پاس ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔ اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔۔۔ 

چھوٹے خان کیا کر رہے ہو؟؟؟ 

اکثم نے جان بوجھ کر پوچھا۔۔۔ 

میں آپ کے لئے یہ بنا رہا تھا۔۔۔ مجھے معاف کر دیں آئندہ کبھی بھی پتنگ نہیں اڑائوں گا۔۔۔ 

ارتسام نے اس ایک کاغذ دیا ۔۔۔ جس پر ایک دل بنا ہوا تھا اور اندر اکثم کے ساتھ ہانم کا نام لکھا تھا ۔۔۔ 

اکثم جو مسکرا رہا تھا ہانم کا نام دیکھ کر  اس کی مسکراہٹ سمٹی اور وہ ناسمجھی سے ارتسام کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

ہانم بھابھی کی وجہ سے آپ ناراض ہو گئے تھے نا۔۔ کیونکہ میری وجہ سے انہیں چوٹ لگی تھی ۔۔۔ اس لئے یہ ان کے لئے بھی ہے۔۔۔۔ 

ارتسام مسکرا کر بولا تو اکثم نے اسے گلے لگایا ۔۔۔۔ 

میرے نام کے ساتھ تمہارا نام لکھا جاتا ہے خان یہاں اس میں کوئی ردو بدل نہیں ۔۔۔ وہ بھابھی ضرور ہے تمہاری لیکن تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔۔

اکثم نے اسے پیار سے سمجھایا تو وہ مسکرا کر اپنا سر اثبات میں ہلا گیا۔۔۔ 

اچھا تم دوبارہ سے بنائو۔۔۔ میں تب تک ہانم کو ناشتہ کروا دوں۔۔۔۔ 

اکثم یہ بول کر وہاں سے اٹھ گیا جبکہ ارتسام دوبارہ سے بنانے میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد اکثم ناشتے کی ٹرے کئے کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی ہانم اپنے بالوں کو کنگھی کر رہی تھی۔۔۔ اکثم کو دیکھتے ہی اس نے جلدی سے ڈوپٹہ لیا تھا ۔۔۔ 

اکثم کے لبوں پر ایک دم مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا جسے وہ کمال مہارت سے چھپا گیا تھا۔۔۔ 

جبکہ ہانم منہ بسور کر واش روم کی طرف ہاتھ دھونے چلی گئی تھی۔۔۔ 

جب باہر آئی تو اکثم ناشتے کی ٹرے کو ٹیبل پر رکھے خود صوفے پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔ 

ہانم صوفے پر بیٹھی اور خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی۔۔۔ اکثم نے مسکرا کر اس کے سفید اور گلابی چہرے کو دیکھا تھا جہاں صرف معصومیت تھی۔۔۔ 

خان ۔۔ خان۔۔۔ 

ہانم نے اس کے آگے اپنا ہاتھ ہلایا تو اکثم کا ارتکاز ٹوٹا ۔۔۔۔ وہ جلدی سے رخ موڑ گیا تھا۔۔۔ 

ہاں۔۔۔۔ 

ہاں نہیں جی بولتے ہیں۔۔۔۔ 

ہانم نے اسے گھورا تھا۔۔۔ 

اس کے جواب پر اکثم نے اسے دیکھا جو اپنی نیلی آنکھوں سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔۔ 

جی بولیں ۔۔۔ 

خان یہ پٹی گیلی ہو گئی ہے۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں کی خود ہی ہو گئی ہے۔۔۔۔ 

ہانم نے نچلا لب باہر نکال کر معصومیت سے کہا۔۔۔ 

اکثم نے دایاں آبرو اچکا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔ 

پانی خود چل کر تمہاری پٹی کو گیلا کرنے پہنچ گیا ہوگا ۔۔۔ ہے نا؟؟ 

ہاں جی۔۔۔۔ 

ہانم بعض آ جائو۔۔۔۔ جھوٹ بولنا بری بات ہوتی ہے۔۔۔۔ 

اکثم یہ بول کر اٹھا اور فرسٹ ایڈ باکس جو سائیڈ ٹیبل کے دراز میں تھا نکال کر لایا  اور  دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ 

آہستہ سے اس کی پٹی کھولی۔۔۔ وہ سے معمولی سی تکلیف دینے کا بھی روادار نہیں تھا۔۔۔۔ 

دوبارہ پٹی کرتے وقت اس کی انگلیاں ہانم کی پیشانی سے ٹکرائی تو اکثم کو ایسے لگا جیسے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔۔ اس نے جلدی سے پٹی باندھی ۔۔۔ اور بنا اس کی طرف دیکھے باہر چلا گیا۔۔۔ جبکہ ہانم خاموشی سے اسے جاتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم باہر آئی تو ارتسام کو صوفے پر لیٹے دیکھا جو پیٹ پکڑ کر بیٹھا تھا اور رشیدہ بی اسے کے سر کو گود  میں رکھے بیٹھی تھیں ۔۔۔۔ 

ہانم ان کی طرف بڑھی اور ارتسام کو دیکھنے لگی جو رو رہا تھا۔۔۔۔ 

چاچی چھوٹے خان کو کیا ہوا ہے؟؟؟ یہ تو کیوں رہا ہے؟؟؟ 

پتہ نہیں بیٹا صبح سے یہاں بیٹھا کاپی پنسل لئے کچھ بنا رہا تھا پھر اچانک سے میرے پاس کیچن میں آیا تو بولا کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔۔۔ اور تب سے مجھے کھینچ کر یہاں لے آیا ہے ۔۔۔۔ 

چھوٹے خان کیا ہوا ہے تمہیں رو کیوں رہے ہو؟؟؟ 

اکثم جو چھت سے نیچے آ رہا تھا اسے روتے دیکھ کر پریشان ہوا۔۔۔ 

پتہ نہیں پیٹ پکڑ کر رو رہا ہے ۔۔۔ 

رشیدہ بی نے اکثم کو بتایا۔۔۔ 

تم نے ناشتہ کیا چھوٹے خان؟؟؟ 

اکثم نے ارتسام سے پوچھا تو اس نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا ۔۔۔ 

رشیدہ بی آپ چھوٹے خان کے لئے ناشتہ بنائیں ہو سکتا ہے خالی پیٹ درد ہو رہا ہو۔۔۔۔ صبح سے تو بھوکا بیٹھا ہوا ہے ایک ہی جگہ پر۔۔۔۔ 

اکثم نے ارتسام کا سر اپنی گود میں رکھا اور اس کے آنسو صاف کرنے لگا جبکہ رشیدہ بی وہاں سے کیچن میں ارتسام کے لئے ناشتہ لینے  چلی گئی تھیں۔۔۔ 

ہانم آہستہ سے اس کی ٹانگوں کی طرف  بیٹھی اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ارتسام کو  کے پیٹ سے ذور ذور سے دبانے لگی۔۔۔ ارتسام چیختے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔ 

جبکہ اکثم اس کے چیخنے پر ہانم کو گھورنے لگا۔۔۔

کیا کر رہی ہو تم؟؟؟ 

اکثم اسے گھور کر پوچھنے لگا۔۔۔۔ 

میں تو چھوٹے خان کا پیٹ دبا رہی تھی اسے درد ہو رہا تھا نا۔۔۔ ابا کی جب بھی ٹانگوں میں درد ہوتا تھا میں انہیں بھی دباتی تھی ۔۔۔۔ان کو آرام آ جاتا تھا۔۔۔۔ اس لئے میں چھوٹے خان کا پیٹ دبا رہی تھی ۔۔۔ 

ہانم معصومیت سے بول رہی تھی جبکہ ارتسام صدمے سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ 

پاگل ہو کیا ؟؟ پیٹ ہے اس کا ۔۔۔ 

اکثم نے اسے گھورا تھا ۔۔۔ 

آپ نے پھر گالی نکالی وہ بھی چھوٹے خان کے سامنے۔۔۔۔ 

ہانم نے جواب میں  اسے گھورا تھا۔۔۔۔ 

بھائی ۔۔۔۔ 

اکثم مزید کچھ بولتا ارتسام نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔۔۔

ہانم منہ بسور کر وہاں پڑے کاغذوں کی طرف متوجہ ہوگئی تھی ۔۔۔

بھائی یہ لاعلاج ہیں۔۔۔ 

ارتسام پیٹ پکڑ کر بولا تو اکثم مسکرا دیا۔۔۔ کیونکہ انجانے میں  ارتسام کی توجہ بھی درد سے ہٹا چکی تھی۔۔۔

تھوڑی دیر بعد رشیدہ بی ناشتہ لے کر آئیں تو اکثم نے اسے ناشتہ کروا کر اس کے کمرے میں بھیج دیا کیونکہ اس کے پیٹ میں درد اب کم تھا۔۔۔۔ اور خود حویلی سے باہر چلا گیا۔۔۔۔ 

اکثم اور ارتسام  حویلی کے بیرونی دروازے پر جبکہ ہانم رشیدہ بی اور دوسرے ملازموں کے ساتھ حال کے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔۔۔۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیوں یہاں کھڑی ہے۔۔بس معلوم تھا تو اتنا کہ اکثم نے اسے وہاں کھڑا رہنے کے لئے کہا ہے ۔۔۔۔

یسرا بیگم اقصی کو سہارا دیتے ہوئے گھر میں داخل ہوئیں تو سامنے ہی ارتسام اور اکثم کو کھڑے دیکھا۔۔۔ دونوں نے ایک آواز میں سلام کیا۔۔۔ اس کے بعد دلاور خان اپنے پوتے ثمامہ خان کو ساتھ لے کر گھر کے اندر داخل ہوئے۔۔۔۔ اکثم نے آگے بڑھ کر ان سے ثمامہ کو لیا اور اسے ارتسام کو دکھایا۔۔۔۔ 

بھائی یہ کتنا پیارا ہے ماشاءاللہ ۔۔۔

ارتسام کی آواز میں  سب نے خوشی واضح طور پر محسوس کی تھی۔۔۔۔ 

حویلی کے اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اقصی کی نظر ہانم پر پڑی جو مسکرا  کر اماں جان اور اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ 

ان کے داخل ہوتے ہی وہ خوشی سے بولی۔۔۔۔ 

اسلام وعلیکم اماں جان۔۔۔ 

وعلیکم اسلام ۔۔۔ 

یسرا بیگم نے مسکرا کر اسے جواب دیا جبکہ اقصی نے اسے دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی تھی ۔۔۔۔

دلاور خان مسکراتے ہوئے حویلی کے داخلی دروازے کی طرف آئے تو ہانم نے انہیں بھی سلام کیا۔۔۔ 

اسلام و علیکم ۔۔۔ بابا جان۔۔۔۔ 

اس کی آواز پر دلاور خان نے سر کو جنبش دی اور اندر چلے گئے۔۔۔ 

اکثر مسکراتے ہوئے بچے کو اٹھائے گھر میں داخل ہو رہا تھا جب ہانم کی نظر اس پر پڑی۔۔۔۔ بچے تو ویسے بھی ہانم کی کمزوری تھے۔۔۔۔ وہ اکثم کے پاس آئی اور خوش ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔ 

خان یہ کون ہے؟؟؟ 

یہ احمر بھائی کا بےبی ہے۔۔۔ بےبی بوائے ۔۔۔۔ 

اکثم مسکراتے ہوئے ثمامہ کو دیکھ رہا تھا جو سویا ہوا تھا۔۔۔۔ 

خان مجھے بھی دیں نا۔۔۔ میں بھی اس بے بی کو اٹھائوں گی۔۔۔۔ 

ہانم کی پرجوش سی آواز جب اقصی کے کانوں تک پہنچی تو وہ وہیں سے تقریبا چیختے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔ 

بڑے خان۔۔۔ میرے بیٹے کو اس منہوس کے سائے سے بھی دور رکھئے گا۔۔۔ ورنہ میں اپنے بیٹے کو لے کر یہاں سے چلی جائوں گی۔۔۔۔ 

اقصی کی بات پر حال میں موجود سب لوگوں پر سکتہ طاری ہو گیا ۔۔۔۔ جبکہ اکثم نے بے ساختہ ہانم کو دیکھا تھا جو نم آنکھوں سے سر جھکا گئی تھی۔۔۔۔ 

مطلب وہ اتنی بھی ناسمجھ نہیں تھی کہ مقابل کے غصے اور خوشی کا اندازہ نہ لگا سکے۔۔۔۔ 

اقصی بیٹا تمہیں اب آرام کرنا چاہیے۔۔۔۔ 

رشیدہ  اقصی کو لے جائو اس کے کمرے میں اور اس کے ساتھ ہی رہنا۔۔۔ اسے کسی بھی چیز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔۔۔ اور ثمامہ خان کو بھی لے جائو۔۔۔۔ 

یسرا بیگم نے رشیدہ بیگم کو حکم دیا تو انہوں نے اقصی کو سہارا دیتے ہوئے ثمامہ کو دوسرے ہاتھ سے اٹھایا اور اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔۔۔۔ 

ہانم۔۔۔۔ 

اکثم نے اسے آواز دی۔۔۔۔ جو سر جھکائے اپنے گلابی  لب چبانے میں مصروف تھی۔۔۔ 

اس نے اکثم کی آواز پر سر اٹھایا اور  اسے دیکھا۔۔۔۔ 

مجھے وہ گالی کیوں دیتی ہیں؟؟؟ میں تو منہوس نہیں ہوں۔۔۔ امی کہتی ہیں یہ گندی بات ہوتی ہے۔۔۔ پھر انہوں نے مجھے منہوس کیوں کہا؟؟؟ کیا میں گندی ہوں؟؟؟ 

ہانم کی بات پر اکثم لب بھینچ گیا جبکہ یسرا بیگم نے بے ساختہ ہانم کو پکارا۔۔۔۔ 

ہانم بیٹا ادھر آئو میرے پاس۔۔۔۔ 

یسرا بیگم کے بلاوے پر وہ آہستہ سے چلتے ہوئے ان کے پاس گئی اور دائیں طرف  ان کے پہلو میں بیٹھ گئی۔۔۔ جبکہ دلاور خان دوسرے صوفے پر بیٹھے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئے تھے۔۔۔۔ 

ہانم بہت اچھی ہے ۔۔ اس لئے تو اسے ہم اپنے گھر اپنے بڑے خان کی دلہن بنا کر لے آئے۔۔۔ کیونکہ ہم سب کو ہانم بہت زیادہ اچھی لگتی ہے اور ہم اس سے دور نہیں رہ سکتے تھے۔۔۔ 

یسرا بیگم نے اسے پیار سے سمجھایا ۔۔۔۔ 

لیکن اماں جان میں تو دلہن بنی ہی نہیں؟؟؟؟

ہانم نے معصومیت سے کہا تو دلاور خان ایک دم سے اٹھ کر اسے دیکھنے لگے جبکہ یسرا بیگم نے لبوں کو آپس میں پیوست کر کے اپنی مسکراہٹ کو روکا تھا۔۔۔۔ 

اکثم نے اپنا سر نفی میں ہلایا تھا ۔۔۔ جیسے کہہ رہا ہو یہ واقعی لاعلاج ہے ۔۔۔۔ 

تمہیں معلوم ہے ہم تمہیں یہاں کیوں لائیں ہیں؟؟؟ 

اس بار سوال دلاور خان نے پوچھا تھا۔۔۔ 

دلاور خان کی آواز پر اکثم نے اپنے ہاتھوں کو ذور سے بند کیا تھا جبکہ یسرا بیگم نے انہیں التجائیہ نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔۔ 

کیونکہ چھوٹے خان نے کہا تھا یہ میرے شوہر کا گھر ہے۔۔۔ جیسے امی ابا کے ساتھ رہتی ہے ویسے مجھے بھی  خان کے ساتھ رہنا ہے۔۔۔۔ 

ہانم کے جواب پر دلاور خان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی جبکہ یسرا بیگم نے حیرانگی سے دلاور خان اور ہانم کو دیکھا تھا جیسے دونوں سے اسے اس چیز کی توقع نہیں تھی۔۔۔۔ 

اکثم بھی مسکرایا تھا جبکہ ارتسام نے اسے گھورا تھا جو پاگل ہونے کے ساتھ  حاضر جواب بھی تھی۔۔۔۔۔ 

اچھا۔۔۔ تو خان نے نہیں بتایا کہ وہ تمہارا شوہر ہے؟؟؟ 

دلاور خان نے اکثم کو ایک نظر دیکھ کر ہانم سے پوچھا۔۔۔ نجانے کیوں انہیں ہانم کی باتیں متاثر کر رہی تھیں۔۔ اس کی معصومیت اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔۔ 

خان نے کہا تو وہ میری سہیلی ہیں۔۔۔ 

ہانم کے جواب پر دلاور خان نے بے ساختہ قہقہ لگایا جبکہ یسرا بیگم نے مسکراہٹ کو لبوں سے آزاد کیا تھا۔۔۔۔ اکثم نے اسے گھورا تھا ۔۔۔۔ 

ہانم چلو کمرے میں ۔۔۔ تمہاری چوٹ پر دوائی لگانی ہے۔۔۔ 

اکثم نے جان بوجھ کر بات بدل دی۔۔ یسرا بیگم نے ہانم کی پیشانی کو دیکھا جہاں ایک چھوٹا سا زخم کا نشان تھا۔۔۔ جو انہوں نے پہلے غور سے نہیں دیکھا تھا۔۔۔ کیونکہ اس کا ڈوپٹہ تھا اس زخم پر جو صوفے پر بیٹھنے سے تھوڑا سا سرک کر پیچھے ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ 

ہانم تمہیں کو چوٹ کیسے لگی؟؟؟

یسرا بیگم کے سوال پر ارتسام نے اکثم اور اکثم نے ہانم کو دیکھا تھا۔۔۔ 

وہ اماں جان کل چھت پر  چارپائی کی ٹھوکر لگنے سے گر گئی تھی۔۔۔

خان نے پٹی کی تھی۔۔ اب تو درد بھی نہیں ہے۔۔۔ 

ہانم مسکرا کر بولی جبکہ اکثم تو آج اس کے جوابات سن کر حیران کم شاکڈ ذیادہ ہو رہا تھا۔۔۔۔ 

لگتا ہے چوٹ نے گہرا اثر چھوڑا ہے دماغ پر ۔۔۔۔

اکثم نے سوچا اور وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔ جبکہ ہانم اماں جان سے باتوں میں مصروف ہوگئی۔۔۔ دلاور خان تو اس باتونی لڑکی کو دیکھ رہے تھے جو مسلسل یسرا بیگم سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔ اور وہ مسکرا کر اسے سن رہی تھیں۔۔۔ ارتسام وہاں سے دلاور خان کے پاس آگیا اور ان سے باتیں کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کا وقت تھا جب ہانم کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔ سامنے ہی اس کی نظر اکثم پر پڑی جو بیڈ پر بیٹھا اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے مسل رہا تھا۔۔۔۔ 

ہانم اندر آئی اور اسے دیکھنے لگی۔۔۔ 

خان آپ کو کیا ہوا ہے؟؟؟ 

ہانم کی پریشان کن آواز پر اکثم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور ہانم کو دیکھا۔۔ جو اپنی نیلی آنکھوں میں فکر لئے کھڑی تھی۔۔۔۔ 

 کچھ نہیں بس دماغ درد سے پھٹ رہا ہے۔۔۔۔

اکثم نے بمشکل مسکرا کر جواب دیا۔۔۔۔

خالی ہوگا نا اس لئے درد ہو رہا ہوگا۔۔۔۔ 

ہانم کے جواب پر اکثم نے اپنی آنکھیں پوتی کھولیں اور شاک کی کیفیت میں اسے دیکھا جو اس کے  دماغ کو خالی  کہہ رہی تھی۔۔۔۔ 

تمہیں میں خالی دماغ نظر آتا ہوں؟؟؟ 

اکثم نے اسے گھورا تھا ۔۔۔۔

صبح چھوٹے خان کے پیٹ میں بھی خالی پیٹ درد ہو رہا تھا نا۔۔۔ تو پھر آپ کے سر میں بھی تو۔۔۔۔ 

اللہ ۔۔۔ ہانم چپ کر جائو۔۔۔۔ 

اکثم نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ٹوک دیا تھا ۔۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔ اور اکثم  اٹھ کر صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔

خان میں آپ کا سر دبا دوں۔۔۔ 

ہانم اسے مسلسل ہاتھ سے پیشانی مسلتے ہوئے دیکھ کر بولی۔۔۔ 

اکثم نے اسے دیکھا اور مسکرا کر کہا۔۔۔۔ 

تمہیں سر دبانا آتا ہے کیا؟؟؟۔۔۔ 

 ہاں میں سب کچھ دبا لیتی ہوں ۔۔۔ کندھے بھی ، ٹانگیں بھی ، بازو بھی سر بھی ، پائوں بھی۔۔۔۔

ہانم معصومیت سے بتا رہی تھی۔۔۔ جب اکثم ہنستے ہوئے بولا۔۔۔ 

ہاں پیٹ دبانا بھی آتا ہے ۔۔۔۔ 

ہاں آتا ہے لیکن آپ نے مخھے چھوٹے خان کا پیٹ نہیں دبانے ہی نہیں دیا۔۔۔۔ 

ہانم تاسف سے بولی۔۔۔اکثم کی ہنسی کمرے کی خاموشی کو توڑ رہی تھی۔۔۔۔ 

ویسے تمہیں تو پھر گردن دبانی بھی آتی ہوگی۔۔۔ ہے نا؟؟؟

اکثم نے مصنوعی سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔

ہانم اس کے نزدیک آئی اور بولی۔۔۔

 نہیں مجھے گردن دبانی تو آتی ہی نہیں۔۔ کیا آپ سکھا دو گے مجھے۔۔۔

ہاں سکھائوں گا اور پھر جیل جائوں گا۔۔۔ کیونکہ ہانم خان کوشش کئے بغیر مانیں گی تو ہے نہیں ۔۔۔۔۔ 

اکثم خود سے بڑبڑایا تو ہانم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔۔ 

سر دبا دو میرا۔۔۔۔ 

اکثم صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر بولا۔۔۔ تو ہانم صوفے کے پچھلے حصے کی طرف جا  کر کھڑی ہوگئی اور اپنے چھوٹے چھوٹے سفید ہاتھوں سے اس کی پیشانی کو دبانے لگی۔۔۔۔ اس کی نرم اور روئی جیسے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے ہی اکثم کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔۔۔ اسے اس لمس کے ساتھ سکون مل رہا تھا اور ایک انوکھا اور پیارا سا جذبہ اس کے دل کے تہہ خانے سے نکلنے کو بے تاب ہو رہا تھا۔۔۔۔ اس کی جذبے کی دستک اکثم کو جب اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی تو اکثم بے ساختہ اس کے ہاتھ پکڑ کر اسے روک گیا تھا۔۔۔۔ 

میں ٹھیک ہوں اب تم جائو سو جائو جا کر ۔۔۔۔ 

اکثم نے اس کہ طرف دیکھے بغیر کہا۔۔۔ 

دیکھا آپ ٹھیک ہو گئے۔۔۔ میرے دبانے سے ۔۔۔ چھوٹے خان نے بھی ہو جانا تھا۔۔ لیکن کوئی بات نہیں اگلی دفعہ میں اسے دبائوں گی۔۔۔ 

ہانم خوشی سے بول رہی تھی جب اکثم اس کی آخری بات پر لب بھینچ گیا تھا ۔۔۔۔ 

تم میرے علاوہ کسی کو نہیں دبائو گی ۔۔۔ سمجھی تم۔۔۔ اب جائو سو جائو جا کر۔۔۔۔ 

اکثم اسے سخت نظروں سے دیکھ کر بولا۔۔۔ تو ہانم منہ بسور کر بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ 

اکثم ابھی سیدھا ہو کر لیٹا ہی تھا جب ہانم نے اسے پکارا۔۔۔۔ 

خان ۔۔۔۔ خان۔۔۔۔ 

ہانم اگر آج تم نے بھوک کا نام لیا تو میں قسم سے واقعی تمہیں حویلی سے باہر چھوڑ آئوں گا اندھیرے میں۔۔۔۔ 

اکثم اس کی آواز پر اسے گھورتے ہوئے بولا جو بیڈ پر بیٹھی معصومیت سے اپنی آنکھوں کو چھوٹا کر کے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ 

نہیں خان آج بھوک نہیں لگی۔۔۔ میں نے پوچھنا تھا کہ ۔۔۔ وہ بےبی آپ ہسپتال سے لائے ہیں نا؟؟؟؟

ہانم کے سوال پر اکثم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا اب بے تکے سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو جائے گی۔۔۔۔

ہاں تو۔۔۔۔ 

تو وہ کتنے کا لائے ہیں؟؟؟ میں نے بھی لینا ہے ۔۔۔۔ میرے پاس پیسے تو ابھی نہیں ہیں لیکن میں جمع کروں گی اور۔۔۔۔ 

ہانم کی باتوں پر اکثم لیٹے سے اٹھ بیٹھا تھا۔۔۔۔۔ 

تمہیں کس نے کہا ہے بےبی پیسوں سے آتا ہے؟؟؟ 

عائشہ کی امی بھی ہسپتال سے ایک چھوٹا سا بےبی لے کر آئی تھیں۔۔۔۔ وہ بھی بہت پیارا تھا۔۔۔ جب میں نے امی سے پوچھا تو انہوں نے کہا مجھے بھی بےبی لا کر دیں تو انہوں نے کہا ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں بےبی لانے کے۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔

ہانم بس کردو۔۔۔۔۔ اور اب بے بی نامہ بند کرو مجھے سونا ہے۔۔ ہم اس بارے میں صبح بات کریں گے۔۔۔۔ 

اکثم اسے غصے سے دیکھ کر بولا تو ہانم نا چاہتے ہوئے بھی خاموشی سے لیٹ گئی ۔۔۔۔ 

پتہ نہیں اس کی ماں نے اس کے دماغ کو بڑا کیوں نہیں ہونے دیا۔۔؟؟؟ 

اکثم سوچتے ہوئے آنکھیں موند گیا تھا۔۔۔۔ 

کبھی کبھی ذیادہ احتیاط بھی انسان کی شخصیت کو برے طریقے سے متاثر کرتی ہے۔۔۔ اور یہی حساب ہانم کے معاملے میں اس کی ماں نے کیا تھا اسے سکول نا بھیج کر اور اسے الٹے سیدھے جوابات دے کر۔۔۔۔ جب انسان ضرورت سے زیادہ کسی کہ فکر کرتا ہے تو تاریخ گواہ ہے وہ بندہ بڑی مصیبتوں میں جکڑا جاتا ہے۔۔۔ پھر اس کے پاس اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہوتا۔۔۔ کیونکہ اس کے دماغ کو آپ پہلے ہی کمزور کر چکے ہوتے ہیں۔۔۔ 

انسان کو بچوں پر ضرورت سے زیادہ نہ ہی سختی کرنی چاہیے اور نہ ہی حد سے زیادہ محبت دینی چاہیے کیونکہ ذیادتی ہر چیز کی نقصان دہ ہوتی ہے۔۔۔۔ 

اگلی صبح ہانم اٹھی تو بے ساختہ اس کا دھیان صوفے پر گیا جہاں  اکثم سویا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ مسکرائی تھی۔۔۔ لیکن کیوں ؟؟ یہ تو وہ جانتی ہی نہیں تھی۔۔۔ وہ اٹھ کر واش روم کی طرف گئی اور منہ ہاتھ دھو کر ڈوپٹے کو صحیح سے اوڑھ کر باہر نکل گئی۔۔۔۔ ۔۔ 

وہ حال میں آئی جہاں اماں جان بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے ان کی جانب بڑھی اور بنا کوئی آواز کئے ان کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ اماں جان نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔ اور تلاوت جاری رکھی۔۔۔ تقریبا آدھے گھنٹے تک تلاوت کرنے کے بعد وہ قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹ کر حال میں موجود ایک لکڑی کی الماری میں رکھ کر واپس آئیں۔۔۔اور اس کے سر پر پھونک ماری۔۔۔۔ 

اماں جان مجھے بھی قرآن پاک پڑھنا ہے۔۔۔۔ 

ہانم کی بات پر یسرا بیگم نے اسے مسکرا کر دیکھا ۔۔۔ 

ہاں تو پڑھ لو کس نے روکا ہے؟ وضو تو تمہارا ہوگا نا نماز بھی پڑھی ہوگی۔۔۔ جائو پڑھ لو۔۔۔۔ 

لیکن مجھے تو بس نماز پڑھنی آتی ہے۔۔۔ وضو کرنا تو امی نے سکھایا تھا۔۔۔ لیکن میں نے بس پانچ سپارے ہی پڑھے ہوئے ہیں۔۔بعد میں امی نے مدرسے جانے ہی نہیں دیا۔۔۔۔ 

ہانم معصومیت سے بولی تو یسرا بیگم کی مسکراہٹ ایک پل میں سمٹی تھی۔۔۔ 

کیوں نہیں جانے دیا مدرسے؟؟؟ 

یسرا بیگم نے ہانم کے بائیں رخسار  پر دایاں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔۔ 

وہ کہتی تھیں کہ ہانم گھر پر پڑھے گی لیکن پھر ان کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا مجھے قرآن پڑھانے کا۔۔۔۔ 

اچھا میں کل سے تمہیں اسی وقت پڑھائوں گی ۔۔۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تم تمام نمازیں پڑھو گی۔۔۔۔ 

یسرا بیگم کی بات پر وہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔۔۔ 

اماں جان وہ تو میں پہلے بھی پڑھتی ہوں۔۔۔ آپ جانتی ہیں جب میں چھوٹی تھی نا تب سے پڑھتی ہوں۔۔۔۔ 

اس کی بات پر یسرا بیگم کے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔۔۔ 

اچھا تو اب تم بڑی ہوگئی ہو؟؟ ویسے پہلے تم کتنی چھوٹی تھی؟؟؟ 

پہلے تو میں اس صوفے جتنی تھی نا لیکن اب دیکھیں میں کتنی بڑی ہوگئی ہوں۔۔۔ 

ہانم خوش ہوتے ہوئے  کھڑے ہو کر بول رہی تھی جبکہ یسرا بیگم بے ساختہ ہنسنے لگیں۔۔۔۔ 

بڑے خان اٹھ گئے کیا؟؟؟

نہیں وہ ابھی نہیں اٹھے۔۔۔۔ 

ہانم نے معصومیت سے جواب دیا۔۔۔۔ 

کیوں ۔۔۔ خان کی طبعیت ٹھیک ہے نا؟؟؟ 

یسرا بیگم نے پریشانی سے پوچھا کیونکہ اکثم کبھی بھی صبح دیر تک نہیں سوتا تھا۔۔۔ 

ان کے سر میں کل رات کو درد ہو رہا تھا میں دبایا تھا۔۔۔ پھر وہ سوگئے ۔۔۔ 

ہانم کے جواب پر وہ اٹھیں اور ہانم کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے بولیں۔۔۔ 

تم وہ آئینہ ہو جس کا عکس بالکل شفاف ہے۔۔۔ دنیا کی گرد سے بچانے کے چکر میں تمہاری ماں  اس آئینے کو صاف کرنا بھول گئی۔۔۔ لیکن میں وعدہ کرتی ہوں اس آئینے کو اتنا شفاف کر دوں گی کہ ذرا سی گرد بھی اس کی خوبصورتی کو کم نہ کر سکے ۔۔۔۔۔ 

یسرا بیگم کی باتوں پر ہانم منہ کھولے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔ مطلب صاف تھا کہ سب باتیں اوپر سے گزر رہی ہیں۔۔۔۔ 

جائو خان کو اٹھا کر لائو میں تب تک ثمامہ خان کو اور اقصی کو دیکھ لوں۔۔۔۔ 

یسرا بیگم کی بات پر ہانم مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم کمرے میں آئی تو اکثم کمرے میں نہیں تھا۔۔۔ واش روم سے پانی گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔۔ مطلب وہ نہا رہا تھا۔۔۔ وہ بیڈ پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی۔۔۔ اکثم جو ہاف سلیوز شرٹ اور ٹراوزر پہنے واش روم سے نکلا تھا سامنے ہانم کو دیکھ کر رک گیا۔۔۔۔ اس کے گیلے بال پیشانی پر بکھرے تھے۔۔۔۔ جن سے پانی کی بوندیں نیچے گر کر قالین میں جذب ہو رہی تھیں۔۔۔۔ 

خان آپ نے کہا تھا صبح بات کریں گے۔۔۔۔ اب بتائیں نا بےبی کب لائیں گے؟؟؟ 

اکثم جو اب آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر تولیے سے بال خشک کر رہا تھا اس کی بات پر مڑا۔۔۔ 

دیکھو ہانم ۔۔۔ مجھے ابھی بہت کام ہیں۔۔۔ میں آج کالج جا رہا ہوں ۔۔۔ اس لئے میرا دماغ صبح صبح خراب مت کرنا۔۔۔ ورنہ کوئی بےبی لاکر نہیں دوں گا۔۔۔۔ 

اکثم اسے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔ 

ہانم منہ بنا کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔ اور الماری سے اپنی ایک کالے رنگ کی شلوار قمیض لے کر واش روم کی طرف چلی گئی۔۔۔ اکثم جو خاموشی سے اس کی تمام کاروائی مو ملاحظہ کر رہا تھا  دروازے کے بند ہونے کی آواز پر ہوش میں آیا۔۔۔ کیونکہ دروازہ کافی ذور سے بند کیا گیا تھا۔۔۔ 

اکثم مسکرایا تھا۔۔۔۔ اس کی ناراضگی پر ۔۔۔۔ 

چھوٹی سی ہے لیکن حرکتیں کبھی کبھی بیویوں والی کرتی ہے۔۔ ۔ 

اکثم بڑبڑاتے ہوئے باہر چلا گیا۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم بائیولوجی کا لیکچر لے کر باہر آیا تو اس کا دوست اسامہ بھی اس کے پیچھے آیا۔۔۔۔ 

اکثم یار رک تو سہی۔۔۔۔ صبح سے غائب ہے ۔۔۔ اور اب بھی مجھ سے ایسے بھاگ رہا ہے جیسے میں تمہیں کھا جائوں گا۔۔۔  

اسامہ اس کے پیچھے کوریڈور میں آیا تھا۔۔۔۔ اکثم نے رک کر اسے دیکھا ۔۔۔۔ 

کیا ہوا ہے؟؟؟ تم مجھے کیوں ڈھونڈ رہے ہو؟؟؟

اکثم نے اسامہ سے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔ 

اتنے دن کہاں غائب تھا۔۔۔ اور احمر بھائی کو کیا ہوا ہے؟؟ ساری کلاس میں ان کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔۔۔

اسامہ اس کا شہر کا دوست تھا۔۔۔جس سے اس کہ دوستی یہاں آ کر ہی ہوئی تھی۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا ۔۔۔ اس کا باپ شہر کا مشہور ڈاکٹر تھا ۔۔۔ اور بیٹے کو بھی وہ ڈاکٹر ہی بنانا چاہتا تھا ۔۔۔۔ 

احمر بھائی کی ہفتہ پہلے دیتھ ہوگئی ہے ۔۔۔ 

اکثم یہ بول کر کالج کے گرائونڈ میں چلا گیا جبکہ اسامہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا۔۔۔۔ 

اکثم نم آنکھوں سے سامنے گرائونڈ کی دیوار کو دیکھ رہا تھا جب اسامہ اس کے پاس آیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔ 

کہا ہوا تھا انہیں؟؟؟؟ 

اسامہ کے سوال پر اس نے سرجھکا کر اسے احمر کے قتل سے لے کر ہانم سے نکاح تک ساری بات بتا دی۔۔۔۔ 

اسامہ شاکڈ رہ گیا تھا اکثم کے منہ سے سب سن کر۔۔۔۔ 

یہ تو بہت ہی برا ہوا یار۔۔۔ اللہ تمہارے گھر والوں کو صبر دے۔۔۔ آمین۔۔۔ 

اسامہ کی بات پر وہ زخمی سا مسکرایا ۔۔۔۔ 

جس دکھ کا علاج نہیں ہوتا نا اسے سہنا پڑتا ہے ۔۔۔ اسامہ لغاری ۔۔۔۔ خیر چھوڑو یہ بتائو ڈیٹ شیٹ کب تک آ رہی ہے پیپرز کی؟؟؟ 

یار پتہ نہیں۔۔۔ سر افتخار نے کہا تھا کہ اگلے سوموار تک آئے گی اب دیکھو۔۔۔ ویسے بھی پرائیوٹ کالجز والے ان کا بس چلے تو پیپرز کے بعد بھی بلا لیں ۔۔۔۔۔

اسامہ کی بات پر اکثم کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی تھی ۔۔۔۔ 

چلو کینٹین چلتے ہیں؟؟؟ 

اکثم اسامہ کو دیکھ کر بولا۔۔۔ 

کیوں کینٹین کیوں؟؟؟ کیا بھابھی گھر میں کھانا نہیں دے گی؟؟؟ 

اسامہ شرارت سے بولا تو اکثم نے اسے گھورا۔۔۔ 

بھابھی نہیں ہے بارہ سالہ کی بچی کہو جسے میں نے گود لیا ہے۔۔۔۔ 

اکثم جل کر بولا تو اسامہ کا قہقہ نکل گیا ۔۔۔۔ 

یار۔۔۔ ویسے ایک دفعہ تو میں ضرور ملوں گا اپنی بارہ سالہ بھابھی سے۔۔۔۔۔ 

اسامہ یہ بول کر وہاں سے بھاگا تھا کیونکہ اکثم کے تیور سخت ہو گئے تھے۔۔۔۔ 

کمینہ انسان میں تمہاری پر چھائی نہ اس پر پڑنے دوں ۔۔۔ ملاقات تو دور کی بات ہے۔۔۔۔ 

اکثم بڑبڑاتے ہوئے اس کے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم کالج سے گھر آیا تو سیدھے اپنے کمرے کی طرف گیا۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت اس کی لبوں پر ایک مسکراہٹ تھی ۔۔۔ جو کمرے میں داخل ہوتے ہی غائب ہوگئی تھی۔۔۔۔ بے ساختہ اس کی نظروں نے ہانم کو ڈھونڈا تھا لیکن وہ کہیں نہیں تھی۔۔۔۔ 

میں کیوں اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔؟؟ ویسے یہ گئی کہاں ہے اس وقت؟؟؟ 

اکثم خود سے بولتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا اور اماں جان کے کمرے کی طرف گیا ۔۔۔ دروازہ ادھ کھلا ہوا تھا اور ہانم کی چہکتی ہوئی آواز اس کے لبوں پر مسکراہٹ واپس لے آئی تھی۔۔۔۔

اماں جان۔۔۔ اس کے ہاتھ دیکھیں ۔۔۔ کتنے پیارے ہیں؟؟؟ اور یہ آنکھیں بھی دیکھیں۔۔۔۔ یہ تو مجھ سے بھی زیادہ پیارا ہے۔۔۔۔ 

اس کی بات پر اکثم نے بمشکل اپنا قہقہ ضبط کیا سلام کرتے ہوئے اندر داخل ہوا۔۔۔۔ 

اسلام وعلیکم اماں جان۔۔۔ 

وہ اندر داخل ہوا تو سامنے بیڈ پر ہانم ثمامہ کے ہاتھوں کو آہستہ سے پکڑے ہوئے مسکرا رہی تھی ۔۔۔ جبکہ اماں جان بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں ۔۔۔ اور ہانم کی باتوں پر  مسکرا رہی تھیں۔۔۔ 

وعلیکم اسلام۔۔۔ کب آئے تم؟؟؟ 

اماں جان نے مسکرا کر جواب دیتے ہوئے ہوچھا۔۔۔ 

جی بس ابھی آیا تھا۔۔۔۔ 

اکثم جواب یسرا بیگم کو دے رہا تھا اور سیکھ ہانم کو رہا تھا۔۔۔ جس کے گلابی لبوں پر مسکراہٹ چپک کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ 

کھانا تو پھر کھایا نہیں ہوگا۔۔۔ رشیدہ بھی اقصی کے کمرے میں ہے اور دوسری ملازمہ کے ہاتھ کا تم کھانا کھائو گے نہیں تو میں خود لے کر آتی ہوں ۔۔۔۔ 

یسرا بیگم کی بات پر وہ ان کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ 

نہیں اماں جان ۔۔۔ میں بعد میں کھا لوں گا۔۔۔

آپ بیٹھی رہیں۔۔۔ 

اکثم یہ بول کر بیڈ پر نیم دراز ہوگیا اور ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔۔۔ ہانم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے بےبی کے ساتھ مصروف ہو گئی ۔۔۔۔ 

یسرا بیگم نے جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔۔۔۔ 

اماں جان ۔۔۔ مجھے بھی ایسا بےبی لینا ہے؟؟ جسے ہر وقت میں اپنے پاس رکھ سکوں ۔۔۔۔  

ہانم کی بات پر اکثم لیٹے سے اٹھ بیٹھا تھا۔۔۔ جبکہ یسرا بیگم نے مسکراتے ہوئے اکثم کو دیکھا تھا جو ہانم کو گھور رہا تھا۔۔۔۔ 

ہانم کبھی بے بی کے علاوہ بھی کوئی بات کر لیا کرو۔۔۔۔ 

اکثم نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔ 

خان آپ مجھے غصے سے مت دیکھیں۔۔۔ میں نے آپ سے نہیں کہا بےبی لانے کو۔۔۔۔ میں تو اماں جان سے بول رہی ہوں۔۔۔۔ 

ہانم اپنی چھوٹی سی ناک پھلا کر بولی۔۔۔۔  

اس کی بات پر یسرا بیگم نے قہقہ لگایا جبکہ اکثم اسے گھورتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا تھا۔۔۔۔ 

ہانم ابھی تم چھوٹی ہو۔۔۔ تو بےبی کیسے سنبھالو گی؟؟؟ جب تم بڑی ہو جائو گی تب میں تمہیں بےبی لا کر دوں گی۔۔۔۔ 

یسرا بیگم نے اس کی ذہنیت کے مطابق اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔۔۔۔ 

اس سے پہلے ہانم کچھ بولتی اکثم اسے پکارنے لگا۔۔۔۔ 

اماں جان۔۔۔ خان مجھے بلا رہے ہیں۔۔ میں ابھی ان کی بات سن کر آئی آپ نے بےبی اپنے پاس رکھنا ہے میں آ کر اس سے باتیں کروں گی۔۔۔ 

ہانم یہ بول کر وہاں سے اٹھی اور کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ یسرا بیگم نے بے ساختہ اس کی خوشیوں کی دعا کی تھی۔۔۔۔ 

کیا ہوا ہے خان ؟؟ کیوں مجھے چیخ کر بلا رہے تھے؟ میں بےبی کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔۔ لیکن نہیں جی ۔۔۔ خان تو مجھے کھیلتے ہوئے دیکھ ہی نہیں سکتے ۔۔۔ 

ہانم کمرے میں داخل ہوتے ہی غصے سے نان سٹاپ بولنا شروع ہو چکی تھی جبکہ اکثم اسے حیرانگی سے دیکھنے لگا۔۔۔ 

تم اماں جان کے سامنے ابھی کیا بول رہی تھی؟؟؟ 

اکثم نے اسے گھورتے ہوئے دانت پیسے تھے۔۔ 

 وہ میں ان کو بےبی کا پوچھ رہی تھی کہ کتنے کا آتا ہے؟

ہانم منہ بسور کر بولی۔۔۔

تم نے کھانا کھایا۔۔۔۔۔؟؟؟ 

اکثم جان بوجھ کر بات بدل گیا کیونکہ فلحال اس کی ہمت بالکل نہیں تھی ہانم کے سوالوں کے جواب دینے کی۔۔۔۔ 

ہاں کھا لیا ہے۔۔ آج کریلے گوشت بنا تھا ۔۔۔ بہت مزہ آیا مجھے ۔۔۔ میں نے تین روٹیاں کھائی تھیں ۔۔۔۔ 

ہانم کے جواب پر اکثم نے اسے سر سے لے کر پائوں تک دیکھا۔۔۔۔ 

ہانم تم نے سچ میں تین روٹیاں کھائیں؟؟؟ 

اکثم کے انداز میں بے یقینی تھی۔۔۔ہانم نے اسے دیکھا ۔۔۔۔ 

کم کھائی ہیں نا؟؟؟ مجھے اسی لئے اب بھوک لگ رہی ہے۔۔۔ ہمارے گھر میں جب بھی گوشت پکتا تھا ۔۔۔ میں چار روٹیاں کھاتی تھی۔۔۔ 

اور تمہارے گھر گوشت کب بنتا تھا؟؟؟ 

اکثم نے اب کی بار سنجیدگی سے سوال کیا۔۔۔۔ 

بڑی عید پر ۔۔ ابا تب ہی لاتے تھے۔۔ آپ کو معلوم ہے میں اور روح بڑی عید کا کتنا انتظار کرتی تھیں۔۔۔۔ 

ہانم خوش ہوتے ہوئے بتا رہی تھی اور اکثم مسکرا کر رہ گیا۔۔۔ 

تو ہانم کا تعلق بھی ایک غریب گھرانے سے ہے۔۔۔ 

اکثم صرف سوچ ہی سکا۔۔۔ 

میری پوری کوشش ہوگی کہ تمہیں ہر وہ چیز لا کر دوں جس کی تم خواہش کرو۔۔۔۔ 

اکثم مسکراتے ہوئے بڑبڑایا ۔۔۔ تو ہانم ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ 

خان ۔۔۔ آپ نے کچھ کہا کیا؟؟ 

نہیں کچھ نہیں ۔۔۔ تم ایسے کرو ادھر بیٹھو میں کھانا لے کر آتا ہوں۔۔ پھر دونوں مل کر کھائیں گے۔۔۔۔ 

اکثم مسکراتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔ جبکہ ہانم کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔ 

مجھے بھوک تو نہیں ہے لیکن میں خان کے کہنے پر ایک روٹی کھا لوں گی۔۔۔۔ 

ہانم خو د سے بڑبڑائی ۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھوٹے خان تم کہاں جا رہے ہو؟؟ 

اگلی صبح ہانم نماز اور اماں جان سے قرآن پاک پڑھ کر کیچن میں آئی تو ارتسام کو تیار دیکھا۔۔۔۔ 

ہاں سکول جا رہا ہوں۔۔۔۔ 

ارتسام نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔ 

تمہاری استانی تمہیں مارتی بھی ہے کیا؟؟  

ہانم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔ 

ہاں کبھی کبھی جب میں صحیح سبق نہیں سناتا۔۔۔۔ 

ارتسام کے جواب پر ہانم کے چہرے پر افسوس کا تاثر ابھرا۔۔۔ 

میری استانی بھی مجھے بڑا مارتی تھی۔۔۔ وہ تو اچھا ہوا امی نے سکول جانے دیا ورنہ میں نے تو استانی کے لئے دعائیں کر کر کے چھوٹا ہو جانا تھا۔۔۔ لیکن کبھی کبھی میری دعا قبول ہوتی تھی ۔۔۔ 

ہانم کی بات پر ارتسام نے نا سمجھی  سے اسے دیکھا۔۔۔

کیسی دعائیں بھابھی؟؟ 

ان کے پیٹ میں درد کی۔۔۔۔ 

ہانم کی  آواز کیچن میں داخل ہوتے اکثم کے کانوں میں پڑی تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔  

بھابھی یہ تو اچھی نہیں دعا تھی۔۔۔ 

ارتسام نے ہانم کو گھورا۔۔۔ 

ہاں تو ۔۔۔ جب وہ مجھے اور عائشہ کو مارتی تھیں وہ بھی بالوں سے پکڑ کر وہ اچھا ہوتا تھا۔۔۔ بس سبق ہی یاد نہیں کرتے تھے نا؟؟ اتنی سی بات پر بھلا کون مارتا ہے؟؟؟ 

ہانم نے جواب میں اسے گھورا۔۔۔ 

اور تم سبق کیوں یاد نہیں کرتی تھی؟؟؟ 

اکثم اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔ 

جب میں سکول سے واپس آتی تھی عائشہ کے گھر چلی جاتی تھی اور وہاں  میں اور عائشہ ان کی مرغیوں سے پکڑن پکڑائی کھیلتی تھیں ۔۔۔ پھر شام کو میں واپس آتی تھی۔۔۔ تو ابا کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سو جاتی تھی۔۔۔ میرے پاس وقت نہیں ہوتا تھا سبق یاد کرنے کے لئے۔۔۔۔۔ 

ہانم کے تفصیلی جواب پر دونوں بھائیوں نے منہ کھولے اسے دیکھا جو اپنی مصروفیت کے قصے ان کو سنا رہی تھی۔۔۔۔ 

میں کرتا ہوں بابا جان سے بات ۔۔۔ 

اکثم اسے گھورتے ہوئے بولا ۔۔۔ اور اس سے پہلے ہانم کچھ بولتی دلاور خان یسرا بیگم کے ہمراہ کیچن میں داخل ہوئے جو غالبا اکثم کی آخری بات سن چکے تھے۔۔۔۔ 

کس بارے میں بات کرنی ہے خان؟؟؟ 

دلاور خان کی آواز پر اکثم نے انہیں دیکھا جو اب اپنی نشست سنبھال رہے تھے۔۔۔۔ 

بابا جان وہ میں سوچ رہا تھا کہ ہانم کو لڑکیوں کے سکول میں داخل کروا دیں۔۔۔۔

اکثم جانتا تھا کہ ان کا ردعمل سخت ہوگا ۔۔۔ اس لئے نظریں جھکا کر مئودب انداز میں بولا۔۔۔۔ 

بڑے خان اب تم ایک ونی میں آئی لڑکی کو پڑھائو گے؟؟؟

لوگ تھوکیں گے دلاور خان کے نام پر۔۔۔۔ 

دلاور خان کی دھاڑ نما آواز پر ہانم کانپ گئی تھی جبکہ ارتسام نے سختی سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔۔ یسرا بیگم نے التجائیہ نظروں سے اکثم کو دیکھا جس کا چہرہ ایک لمحے میں ضبط کی منازل طے کرتے ہوئے سرخ ہوا تھا۔۔۔۔ 

بابا جان گستاخی معاف لیکن اسے ونی کرنے والے بھی آپ ہی ہیں؟ اور کن لوگوں کی بات کر رہے ہیں آپ؟؟ وہ لوگ جو صرف تماشا دیکھتے ہیں۔۔۔ بابا جان لوگوں کی بجائے نہ خدا سے ڈرنا سیکھیں۔۔۔ جس کو کل آپ جوابدہ ہوں گے۔۔۔ لوگوں سے ڈرنے کی بجائے خدا سے ڈریں بابا جان۔۔۔۔ 

اکثم نے حتی المقدور اپنے لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔ 

تم ہماری رسموں کے خلاف نہیں جا سکتے بڑے خان۔۔۔ 

دلاور خان کے لہجے میں اب کی بار سختی نہیں تھی لیکن رعب اتنا ہی تھا۔۔۔ 

اگر بات رسموں کی ہے تو ہانم میری بیوی ہے ۔۔۔ نکاح میں ہے میرے۔۔۔ ذمے داری ہے وہ میری ۔۔۔ اس کی ضرورتوں کو پورا کرنا فرض ہے میرا۔۔۔ اگر وہ اپنی ضرورتوں سے انجان ہے تو میں بھی غافل نہیں ہوسکتا ۔۔۔  اسے پڑھنا ہے اور وہ سکول جائے گی۔۔۔۔۔ 

اکثم نے نرمی سے دو ٹوک انداز میں بات ختم کی۔۔۔۔ باقی سب کبھی دلاور خان کو دیکھ رہے تھے اور کبھی اکثم کو ۔۔۔۔ 

تو تم اپنے باپ کے حکم کی نافرمانی کرو گے؟؟؟ تم اتنے بڑے ہوگئے ہو کہ فیصلے لے سکو؟؟؟

دلاور خان کے لہجے میں تکلیف تھی اس بار۔۔۔۔ 

اکثم نے انہیں دیکھا اور اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔ ان کے دائیں ہاتھ کو پکڑ کر اس پر بوسہ دیا۔۔۔ 

آپکا حکم سر آنکھوں ۔۔۔ فیصلہ اب بھی ہمیشہ کہ طرح آپ ہی کریں گے ۔۔۔ وہ سکول جائے گی یا نہیں یہ آپ ہی طے کریں گے۔۔۔ میری بیوی ہے وہ اس کی وکالت فرض ہے مجھ پر۔۔۔ باقی آپ کو جو فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہے۔۔۔۔۔ 

اکثم مسکرا کر بولا تو اس کے الفاظ گویا دلاور خان کے چہرے پر سکون بکھیر گئے تھے۔۔۔ وہ مطمئن  تھے اپنی بیوی کی تربیت پر ۔۔۔ ان کی بیوی نے واقعی انہیں اس قابل بنایا تھا کہ وہ سر اٹھا کر سچ کا ساتھ دے سکتے تھے۔۔۔۔ 

ہانم نیلی آنکھوں کو گھما کر دونوں کو دیکھ رہی تھے جو اب  مسکرا رہے تھے۔۔۔۔ 

مجھے اس کے پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔

دلاور خان نے سنجیدگی سے کہا تو یسرا بیگم نے بے یقینی سے انہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ جبکہ اکثم نے مسکرا سر کو خم دیا تھا جیسے ہر شرط قبول ہو۔۔۔۔ 

یہ اس گائوں میں نہیں بلکہ تمہارے ساتھ شہر میں پڑھے گی۔۔ اس کا کسی شہر کے سکول میں داخلہ کروا لو۔۔۔۔۔ 

دلاور خان کی بات پر وہ خوش ہوتے ہوئے  ہانم کو دیکھنے لگا جو معصومیت سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ 

میں چلتا ہوں ۔۔۔ کالج کے لئے دیر ہو رہی ہے۔۔۔ ناشتہ بھی وہیں کر لوں گا۔۔۔

اکثم یہ بول کر وہاں سے چلا گیا جبکہ یسرا بیگم نے مسکرا کر دلاور خان کو دیکھا تھا۔۔۔ 

کچھ معاملوں میں وہ اگر سخت تھے تو دلائل انہیں قائل کر سکتے تھے۔۔۔۔ بس لہجے کی نرمی شرط تھی۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تم آج جلدی کیوں جا رہے ہو ؟؟؟ ابھی تو فزکس کا لیکچر بھی رہتا ہے۔۔۔۔ 

اکثم جو پروفیسر سے طبیعت خرابی کا بہانہ کر کے پارکنگ کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔ اسامہ کو گھور کر رہ گیا جو پتہ نہیں کیوں اس کے پیچھے آ گیا تھا۔۔۔۔ 

تم سے مطلب؟؟ 

اکثم کے گھورنے کا اثر لئے بغیر وہ دایاں آبرو اچکا کر اکثم کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ 

تمہاری نظریں بتا رہی ہیں کہ معاملہ بارہ سالہ بھابھی کا ہے۔۔۔۔

اسامہ کی بات پر اکثم نے ایک گہرا سانس لیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کچھ بھی ہوجائے وہ سب جانے بغیر  نہ تو خود یہاں سے ہلے گا اور نہ ہی اکثم کو جانے دے گا۔۔۔۔ 

کسی اچھے سکول کا پتہ کرنے جا رہا ہوں ۔۔۔ کیونکہ تمہاری بھابھی کو داخل کروانا ہے۔۔۔ اب مل گیا جواب تو میں جائوں ؟؟؟ 

اکثم نے دانت پیس کر جواب دیا ۔۔۔۔ 

اس کے جواب پر اسامہ نے بمشکل اپنا قہقہ روکا تھا۔۔۔ 

قسم سے یار کیا قسمت پائی ہے تو نے ۔۔۔ اب دیکھو اتنی جلدی شادی ہوگئی  اور وہ بھی ایک کم عمر لڑکی۔۔نہیں نہیں بچی سے۔۔۔ بہت قسمت والا ہے جو بیوی کی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے تجھے۔ ویسے اس میں بھی تیرا ہی فائدہ ہے روڈ بیوی کے ساتھ ڈرائیونگ پر جائے گا۔۔۔۔ یار میرے لئے بھی دعا کر دیا کر ۔۔۔ 

اسامہ شرارت سے بول رہا تھا جب اکثم نے ایک ذور دار پنچ اس کے دائیں باذو پر مارا۔۔۔ 

آہ۔۔۔ ظالم مار ڈالا ۔۔۔۔ 

اسامہ اکثم کو گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔ 

میرا وقت ضائع نہیں کر خبیث انسان۔۔۔ 

اچھا نہیں کرتا۔۔۔ بیوی کے آتے ہی دوست کھٹکنے لگ گیا ہے بھئی۔۔ اچھا ہے جائو جائو۔۔۔ اور اب مجھ سے بات تب کرنا جب بھابھی کو سکول داخل کروا دو گے۔۔۔ 

اسامہ شرارت سے بول کر وہاں سے بھاگ گیا تھا۔۔۔ جبکہ اکثم مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگا۔۔۔۔ 

اتنی چھوٹی بیوی تو اللہ کسی کو نہ دے۔۔۔۔ 

اکثم مسکرا کر بڑبڑایا اور پارکنگ کی طرف چلا گیا۔۔۔۔۔ 

۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم رشیدہ کو بولو کہ ثمامہ کو آ کر لے جائے۔۔۔ اسے شاید بھوک لگی ہے اس لئے رو رہا ہے۔۔۔ 

ہانم جو ابھی یسرا بیگم کے کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔۔ یسرا بیگم نے اس سے کہا تھا۔۔بےبی کو روتے دیکھ کر آگے بڑھی۔۔۔ 

اماں جان لائیں میں دے آتی ہوں اقصی آپی کو۔۔۔ 

اس کی بات پر یسرا بیگم مسکرائیں اور ثمامہ خان کو اسے پکڑا دیا۔۔۔۔ 

تم کتنے پیارے ہو بےبی۔۔۔۔ اچھا تم مجھے یہ بتائو کہ ہسپتال میں اور بےبی ہیں نا؟؟؟ میں وہاں سے ایک اور بےبی لائوں گی۔۔۔۔ 

ہانم باتیں کرتی ہوئی اقصی کے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔ اقصی جو رشیدہ کو بھیجنے لگی تھی ثمامہ کو لینے ۔۔ ہانم کو دیکھ کر اس کی پیشانی پر بل پڑے اور بمشکل اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔ 

ادھر لائو اسے۔۔۔ 

اقصی اپنے بیڈ کے پاس کھڑی تھی جب ہانم نے ثمامہ خان کو اسے پکڑایا ۔۔۔ اقصی نے اسے بیڈ پر لٹایا اور ہانم کو دیکھنے لگی جو مسکرا کر ثمامہ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اقصی کو اس کی مسکراہٹ زہر لگی تھی ۔۔۔ 

وہ آگے بڑھی اور ایک ذور دار تھپڑ اس کے دائیں گال پر رسید کیا۔۔۔ 

میرے بیٹے سے دور رہنا ورنہ بہت برا پیش آئوں گی۔۔۔۔ 

ہانم نے نم آنکھوں سے اقصی کو دیکھا ۔۔۔۔ دلاور خان جو ثمامہ سے صبح سے نہیں ملے تھے اب اقصی کے کمرے میں آئے تو سامنے کا نظارہ دیکھ کر انہیں بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔ 

کیا ہو رہا ہے یہاں؟؟؟ 

ان کی رعب دار  آواز پر اقصی اور ہانم پلٹی تھیں ۔۔۔۔ ہانم نے جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کی تھیں ۔۔۔ 

بابا جان اس سے بول دیں کے میرے بیٹے سے دور رہے۔۔۔۔ 

اقصی غصے سے  اونچی آواز میں بولی تھی۔۔۔ 

دلاور خان کو اس کا یہ انداز بالکل پسند نہیں آیا تھا۔۔۔ 

اقصی خان آواز کو اونچا تب کریں جب کرنے کے لئے کہا جائے اور رہی بات اس لڑکی کی لاڈلے خان سے دور رہنے کی تو وہ ہمارا خون ہے اس لئے ہم فیصلہ کریں گے کہ اس کے نزدیک کون رہے گا اور دور کون رہے گا۔۔۔۔؟؟؟ آئندہ ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کیجئیے گا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔

دلاور خان کے لفظوں میں ہی نہیں بلکہ لہجے میں بھی سختی تھی ۔۔۔ 

اقصی ان کے لہجے کو پہلی بار اپنے سامنے سخت محسوس کر رہی تھی۔۔ وہ خاموشی سے سر جھکا گئی تھی جبکہ ہانم آہستہ سے چلتے ہوئے ان کے قریب آئی اور معصومیت سے بولی۔۔۔۔ 

امی کی جب بھی بات نہیں مانتی تھی وہ بھی ایسے ہی مارتی تھیں۔۔۔ آپی نے کہا تھا کہ میں بےبی سے دور رہوں لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی ۔۔۔ میری غلطی ہے ۔۔۔ آپ ان پر غصہ نہیں کریں۔۔۔۔ 

ہانم کی بات پر اقصی نے سر اٹھایا اور اس بچی کو دیکھنے لگی جو اپنی معصومیت سے اس کا دفاع کر رہی تھی ۔۔۔۔ 

دلاور خان بے ساختہ مسکرائے تھے۔۔۔ 

 مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے اکثم خوش قسمت ثابت ہونے والا ہے۔۔۔ 

یہ بول کر انہوں نے ہانم کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔ 

ہانم نے آج میرا دل خوش کر دیا ہے ۔۔۔ بولو کیا چاہیے۔۔۔؟؟؟ 

بابا جان ۔۔۔ مجھے بھی بےبی چاہیے ۔۔ بالکل اس بےبی جیسا ۔۔۔ 

ہانم کی فرمائش پر دلاور نے بمشکل اپنا قہقہ روکا تھا جبکہ اقصی سر جھٹک کر بیڈ پر لیٹے ثمامہ خان کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔۔۔ 

بڑے خان ۔۔ آتے ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں ۔۔۔ وہ آپ کو بےبی لا کر دیں گے ۔۔۔ 

دلاور خان ہنستے ہوئے بولے تو ہانم خوشی سے ان کے گلے لگ گئی ۔۔۔ 

بابا جان آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔ 

ہانم کے ردعمل پر دلاور خان مسکرائے تھے۔۔۔ 

وہ معصوم نہیں تھی وہ بہت زیادہ معصوم تھی۔۔۔۔ 

تین گھنٹے کی تگ و دو کے بعد اسے ایک سکول ملا تھا جہاں ہانم کا داخلہ وہ کروا سکتا تھا۔۔۔ جو سکول اس نے ہانم کے لئے منتخب کیا تھا اس کا ماحول،  پڑھانے کا طریقہ، اس کی کینٹین یہاں تک کہ یہ بھی اپنے ذہن میں رکھا تھا وہاں صرف لڑکیاں ہوں۔۔۔۔ 

شام کو وہ تھک ہار کر واپس آیا تو ہانم اسے کمرے میں کہیں نظر نہیں آئی ۔۔۔ اس نے بے ساختہ خدا کا شکر ادا کیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر وہ کمرے میں ہوئی تو سوالات کی دوکان کھول کر بیٹھ جائے گی۔۔۔

وہ جلدی سے واش روم سے نکل کر صوفے پر لیٹ گیا اور جلد ہی نیند کی وادی میں گم ہوگیا۔۔۔ 

ہانم کمرے میں آئی تو اکثم کو دیکھ کر الجھن لئے خود سے بولی۔۔۔۔ 

یہ کب آئے؟؟ اور مجھے بتایا بھی نہیں کہ ہانم میں آگیا ہوں۔۔۔۔

ہانم خود سے بڑبڑائی اور پھر سر جھٹک کر بیڈ پر جا کر سو گئی۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح جب سب ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھے تھے سوائے اقصی کا تب اکثم نے بابا جان کو مخاطب کیا۔۔۔

بابا جان ۔۔۔ کل ایک سکول دیکھا ہے میں نے ہانم کے لئے ایک دو دن میں وہاں اس کا داخلہ بھی کروا دوں گا۔۔۔ وہ سکول میرے کالج سے قریب ہی ہے ۔۔۔ 

ٹھیک ہے ۔۔۔ جیسا تمہیں مناسب لگے۔۔۔۔ 

دلاور نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔ 

بابا جان آپ خان سے کچھ بات کرنے والے تھے نا؟؟؟

ہانم نے معصومیت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے دلاور خان سے کہا۔۔۔ 

وہ متبسم سا مسکرائے تھے جبکہ اکثم نے ہانم کو دیکھا ۔۔۔ 

کیا بات کرنی یے بابا جان نے مجھ سے؟؟

اکثم نے ہانم کو دیکھ کر نامسجھی سے پوچھا۔۔۔ 

کچھ نہیں بڑے خان آج واپسی پر بات ہوگی۔۔۔۔ 

دلاور خان کی بات پر ہانم نے منہ بسورا تھا۔۔۔ جبکہ باقی سب ناسمجھی سے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔

اکثم کالج چلا گیا تھا ۔۔ ارتسام سکول اور بابا جان زمینوں پر چلے گئے تھے ۔۔۔ ہانم اپنے کمرے میں تھی جب یسرا بیگم اس کے پاس آئیں ۔۔۔ 

ہانم بیٹا۔۔ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے؟؟

یسرا بیگم نے مسکرا کر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ 

جی اماں جان ۔۔۔ 

تم یہاں خوش ہو نا؟؟؟ 

یسرا بیگم نے سوالیہ نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے ہوچھا۔۔۔؟؟ 

اماں جان ۔۔۔ میں خوش ہوں ۔۔۔ 

ہانم مسکرا کر بولی۔۔۔

تمہیں اپنے امی ابا کی یاد تو نہیں آتی۔۔۔ ؟؟؟

یسرا بیگم کے سوال پر وہ سرجھکا گئی تھی ۔۔۔ شاید آنسوئوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔۔۔

اماں جان مجھے وہ بہت یاد آتے ہیں لیکن خان نے کہا تھا وہ مر گئے ہیں۔۔ اور جو مر جاتا ہے وہ تو اللہ کے پاس چلا جاتا ہے۔۔۔ اس لئے میں ان کے لئے دعا کرتی ہوں وہ اللہ کے پاس  خوش رہیں ۔۔۔ 

ہانم کے لئے میں دکھ تھا ۔۔ یسرا بیگم نے آگے بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لیا تھا۔۔۔۔ 

تسلی نہیں دے سکتی تھی وہ اسے کیونکہ ونی میں آئی ہوئی لڑکی کی واپسی کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں۔۔۔ دلاور خان اس معاملے میں کسی کی بھی نہیں سننے والے تھے کہ ہانم کبھی اپنے ماں باپ سے ملے ۔۔۔

اچھا یہ بتائو ہانم کو اس گھر کے لوگ کیسے لگے؟؟؟ 

یسرا بیگم کے بات بدلنے پر ہانم مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔ 

سب بہت اچھے ہیں ۔۔ بابا  جان بھی بہت اچھے ہیں ۔۔۔ آپ بھی مجھے اچھی لگتی ہیں۔۔ چاچی رشیدہ بھی بہت اچھی ہے کیونکہ وہ مجھے کھانا دیتی ہے۔۔چھوٹے خان بھی اچھے ہیں ۔۔۔ مجھے بس اقصی آپی اچھی نہیں لگتی وہ مجھے مارتی ہیں۔۔۔۔ 

آخری بات پر ہانم نے منہ بسورا۔۔۔۔ 

اچھا تو بڑے خان کے بارے میں تو بتایا ہی نہیں آپ نے ؟؟ 

یسرا بیگم نرمی مسکراتے سے بولی تھیں۔۔ 

اکثم کے ذکر پر ہی اس کے لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک آگئی تھی جیسے یسرا بیگم نے باخوبی دیکھا تھا۔۔۔ 

وہ تو اس گھر میں سب سے اچھے تھے ۔۔۔ کبھی کبھی غصہ کرتے ہیں ۔۔ میری ہر  بات مانتے تھے ۔۔۔ لیکن اب میری بات نہیں مانتے۔۔ نہ ہی اب وہ اچھے ہیں؟؟ 

ہانم منہ بسور کر بولی تو یسرا بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔ 

اچھے تھے سے کیا مطلب؟؟ کچھ کہا ہے اس نے تمہیں؟؟ 

نہیں کہا تو کچھ نہیں۔۔۔ لیکن مجھے بےبی نہیں لا کر دے رہے۔۔۔ 

ہانم کے شکایتی انداز پر یسرا بیگم کا قہقہ نکل گیا۔۔۔ 

ہانم ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔ 

اچھا تم نہا کر کپڑے بدل لو تب تک  بڑے خان بھی آ جائیں گے پھر ان سے بےبی کے متعلق بات کریں گے۔۔۔ 

یسرا بیگم نے بمشکل اپنا قہقہ ضبط کرتے ہوئے ہانم سے کہا تو ہانم خوش ہوتے یسرا بیگم کے گلے لگ گئی۔۔۔۔ 

آپ بہت اچھی ہیں اماں جان۔۔۔ 

اچھا اب پیچھے ہٹو ۔۔۔ مجھے اقصی کے پاس جانا ہے ثمامہ خان کو دیکھنے۔۔۔ 

ان کی بات پر وہ پیچھے ہوئی اور مسکراتے ہوئے الماری کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ جبکہ یسرا بیگم اس کے لئے خوشیوں کے دعا مانگتے ہوئے کمرے سے چلی گئی تھیں۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم ابھی گھر آیا تھا جب اسے حال میں بابا جان نظر آئے جو یسرا بیگم کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھا۔۔۔۔ 

اسلام وعلیکم ۔۔۔ 

وعلیکم اسلام ۔۔۔۔ 

دونوں نے جواب دیا۔۔۔ 

کیسا گزرا تمہارا دن؟؟

یسرا بیگم نے مسکرا کر اکثم سے پوچھا جو صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھا تھا۔۔۔ 

بہت تھکا دینے والا۔۔۔۔ کل ہانم کو ساتھ لے کر جائوں گا ۔۔۔ اس کا ایک ٹیسٹ ہوگا ۔۔۔ اور اس ٹیسٹ کے بعد سکول انتظامیہ کا فیصلہ ہوگا کہ اسے کس جماعت میں بٹھانا ہے۔۔۔ 

اکثم کے تفصیلی جواب پر دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔۔ 

ہے کہاں وہ؟؟؟ 

اکثم نے اردگرد دیکھ کر یسرا بیگم سے پوچھا۔۔۔۔ 

اپنے کمرے میں ہے۔۔۔ 

اچھا ٹھیک ہے۔۔ میرا کھانا لگوائیں میں ہاتھ منہ دھو کر آتا ہوں۔۔۔ 

بڑے خان مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔

اکثم اپنی جگہ سے اٹھنے ہی لگا تھا جب دلاور خان کی سنجیدہ آواز اسے دوباہ وہیں بیٹھنے پر مجبور کر گئی۔۔۔۔ 

اس سے پہلے وہ کچھ بولتے ارتسام بھی اکثم کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا ۔۔۔ 

بڑے خان ہمیں اس گھر کے لئے ایک اور وارث چاہیے ۔۔۔ 

دلاور خان کی بات پر اکثم نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا تھا۔۔۔ 

میں سمجھا نہیں آپ کی بات؟؟؟ 

اس میں نا سمجھنے والی تو کوئی بات نہیں۔۔۔ میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم جلدی سے ہمیں پھر سے دادا بنا دو۔۔۔

اکثم ان کی بات سمجھتے ہی غصے سے اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔۔۔۔ 

میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا۔۔۔

دلاور خان بھی غصے سے اٹھ کر اس کے مقابل آئے تھے۔۔ جبکہ یسرا بیگم اور ارتسام خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔۔۔

میں کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کر رہا جو تم اس طرح غصہ کر رہے ہو ۔۔۔ ہمیں پوتا چاہیے تو مطلب چاہیے۔۔۔

اور ویسے بھی جب ہم تمہاری بات مان سکتے ہیں تو تمہیں ہمارا حکم ماننا ہوگا۔۔۔ 

دلاور خان نے سنجیدگی سے گویا بات ختم  کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔   

بابا جان پلیز میں یہ نہیں کر سکتا ؟؟؟ 

کتنی بے بسی تھی اکثم  کے لہجے میں جو پاس کھڑی اس کی ماں نے واضح محسوس کی تھی لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔ 

تو ٹھیک ہے برخوردار تم ابھی اسی وقت اس کو اپنے نکاح سے آزاد کرو میں ارتسام کو بول دیتا ہوں مجھے یقین ہے وہ ضرور میرا حکم مانے گا۔۔۔۔

دلاور خان کے لہجے میں کوئی نرمی نہیں تھی۔۔۔ 

ان کی بات پر اکثم نے بے یقینی سے اپنے باپ کو دیکھا تھا۔۔۔۔ 

بابا جان۔۔۔۔ 

کیوں ارتسام تم کرو گے نہ اس لڑکی سے نکاح؟؟؟

دلاور خان نے تھوڑے فاصلے پر کھڑے اپنے چھوٹے بیٹے کو کہا تھا۔۔جبکہ دس سالہ ارتسام کبھی اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا  اور کبھی سترہ سالہ بھائی کو جس کی سفید رنگت میں سرخی گھل گئی تھی۔۔۔ 

لیکن بابا جان آپ نے تو کہا تھا ہانم میری بھابھی ہے۔۔۔ 

ارتسام معصومیت سے بولا تھا ۔۔ اکثم نے بمشکل خود کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنے باپ کو دیکھا اور ارتسام سے بولا۔۔۔۔

اپنے کمرے میں جائو چھوٹے خان۔۔۔ اور اب واپس باہر مت آنا۔۔۔۔ 

ارتسام ایک لمحہ ضائع کئے بنا اپنے کمرے کی طرف بھاگا تھا کیونکہ باپ سے ذیادہ وہ اپنے بھائی کے غصے سے ڈرتا تھا۔۔۔۔ 

دلاور خان نے غصے سے اکثم کو دیکھا تھا۔۔۔۔ 

آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا بس مجھے کچھ وقت چاہیے ۔۔۔۔

اکثم کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا تھا جبکہ پاس کھڑی اس کی ماں کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر دائیں گال سے نیچے ہوا میں منتشر ہو گیا تھا۔۔۔۔ 

صرف دو ماہ خان اس کے بعد ہمیں خوشخبری ہی چاہیے۔۔۔۔۔ 

دلاور خان یہ بول کر وہاں سے چلے گئے تھے جبکہ اکثم نے غصے سے پاس پڑے ٹیبل کو ٹھوکر ماری تھی۔۔۔ 

میں کیسے اس کی معصومیت کو چھین لوں اماں جان ۔؟؟؟ صرف بارہ سال کی ہے وہ۔۔۔ اس کا کیا قصور ہے؟؟؟ قتل اس کے باپ نے کیا تھا تو اسے سزا دے دیتے ۔۔۔۔ 

میں تو اسے بچی سمجھتا ہوں اور بابا جان اس سے بچہ چاہتے ہیں ۔۔ یہ کیسی آزمائش ہے؟؟؟ 

وہ سر تھام کر وہاں موجود صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔اس کی ماں آگے بڑھی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔ 

تم جانتے ہو اکثم تمہارے بابا جان احمر کی موت کے بعد ایسے ہوگئے ہیں ۔۔۔ وہ اگر ضد کر رہے ہیں تو اسے پورا ہر حال میں کریں گے ۔۔۔ تھوڑے دن گزرنے دو پھر ان کو تحمل سے سمجھائو مجھے یقین ہے وہ سمجھ جائیں گے۔۔۔۔

اس سے پہلے اکثم کچھ کہتا ہانم کی آواز کو دونوں نے متوجہ کیا۔۔۔۔ 

خان بےبی لے آئے آپ۔۔۔۔۔ 

اس کی بات پر اکثم نے اسے گھورا جبکہ پاس بیٹھی یسرا خان نے سر جھکا کر مسکراہٹ کو روکا تھا۔۔۔

لیں دیکھیں اس کو ۔۔۔۔ بابا جان کے سامنے بھی ایسے ہی ضد کی ہوگی ۔۔۔۔ 

اکثم جو پہلے ہی تپا بیٹھا تھا اسے گھور کر یسرا خان سے بولا۔۔۔۔ 

نہیں خان میں نے بابا جان سے نہیں کہا۔۔۔ وہ تو کل اقصی آپی کے بےبی کو میں نے اٹھایا تھا تو انہوں نے مارا مجھے ۔۔۔ بس بابا جان وہیں تھے وہی ان  کو ڈانٹا اور مجھے کہا کہ آپ بےبی لائیں گے اس لئے میں آپ کے پاس آگئی ۔۔۔ کہاں ہے بےبی؟؟؟ 

میری جیب میں ہے لے لو آ کر۔۔۔۔ 

ہانم بھاگ کر اس کے پاس آئی اور معصومیت سے بولی۔۔۔ 

خان کس جیب میں ہے۔۔۔ جلدی سے بتائیں ۔۔۔ 

اکثم نے باقاعدہ اپنا سر پیٹ لیا تھا جبکہ پاس بیٹھی یسرا خان کی مسکراہٹ اب قہقے میں بدل گئی تھی۔۔۔۔۔ 

اکثم نے اس کا باذو پکڑا اور کسی بھی طرف دیکھے بغیر اپنے کمرے میں لے گیا۔۔۔۔ جبکہ یسرا خان نے دل ہی دل میں اللہ سے ان دونوں کی خوشیوں کی دعا کی تھی۔۔۔۔

دماغ خراب ہے تمہارا ؟ یا جان بوجھ کر مجھے سب کے سامنے شرمندہ کرنے کے طریقے ڈھونڈتی ہو؟؟؟ 

اکثم اسے کمرے میں لا کر بیڈ پر پٹخا اور دھاڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔ ہانم ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ 

میں نے کیا کیا ہے خان ؟ جو آپ اس طرح مجھے مار رہے ہیں۔۔۔۔ 

نیلی آنکھوں میں آنسو رخساروں کو بھگو کر اکثم کے غصے کو پل میں ہوا کر گئے تھے۔۔۔ اکثم خود کو کوستے ہوئے آگے بڑھا۔۔۔ 

دیکھو ہانم ایسے بےبی کی بات سب سے نہیں کرتے ۔۔۔۔ 

اکثم کی بات پر ہانم نے اسے گھورا۔۔۔ 

تو آپ مجھے بےبی لا دیں میں نہیں کروں گی سب کے سامنے بےبی کی بات۔۔۔۔ لیکن جب آپ لائیں گے تو سب دیکھ لیں گے ۔۔۔۔ 

ہانم کے خود ہی سوال جواب پر اکثم کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔ 

اچھا میری بات سنو ۔۔۔ تم کل میرے ساتھ جائو گی تمہیں ایک سکول میں داخل کروانا ہے۔۔ جہاں تم پڑھو گی۔۔۔۔ 

میں نہیں جائوں گی سکول ۔۔۔ استانی مارے گی۔۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر بولی تو اکثم نے اسے گھورا۔۔۔ 

نہیں مارے گی ۔۔۔۔ اور تم سکول جا رہی ہو سمجھی۔۔۔۔ 

خان میں اگر سکول جائوں گی تو آپ مجھے بےبی لا کر دیں گے نا؟؟ 

ہانم نے معصومیت سے پوچھا۔۔

اکثم نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا تھا۔۔۔۔ وہ اس وقت خود کو دنیا کا سب سے بے بس اور لاچار شوہر تصور کر رہا تھا۔۔۔۔ 

خان کیا ہوا سر میں درد ہے ؟؟؟ 

ہانم اس کے سر پکڑنے پر پریشانی سے بولی۔۔۔۔ 

ہانم دیکھو جس ڈاکٹر سے ہم پہلے بےبی لائیں ہیں ابھی اس کے پاس اور بےبی نہیں ہے جب اس کے پاس ایک اور بےبی آ جائے گا ہم تب لے آئیں گے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔ 

اکثم نے اس کی ذہنیت کے مطابق جواب دیا۔۔۔۔ 

ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن  ڈاکٹر کے پاس کب تک آئے گا بےبی ؟؟؟ 

یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم لیکن میں اس سے کہوں گا کہ ہمیں جلدی بےبی لا دے۔۔۔ اب تم دوبارہ بےبی کا ذکر نہیں کرو گی۔۔۔ 

اکثم کی بات پر ہانم نے اپنا سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔۔ تو اکثم نے شکر کا سانس لیا۔۔۔۔ 

اچھا جائو میرے لئے کھانا لے کر آئو۔۔۔ میں تب تک فریش ہو جائوں۔۔۔۔

اکثم  مسکرا کر اس کا دایاں گال تھپتھپا لڑ بیڈ سے اٹھ گیا تھا جبکہ ہانم کا ہاتھ بے ساختہ اپنے گال پر گیا تھا۔۔۔۔ 

اتنی ذور سے مارا ہے سارا سرخ ہو گیا ہے۔۔۔۔ لیکن درد تو نہیں ہوا مارنے پر۔۔۔ 

خود کو آئینے میں دیکھ کر وہ خود سے بڑبڑائی اور پھر سرجھٹک کر باہر کی جانب اس کے لئے کھانا لینے چلی گئی۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم ناشتے کے لئے ہانم کو بلانے آیا تو اسے آئینے کے سامنے دیکھ مر ٹھٹھک گیا۔۔۔ کالے رنگ کی فراک پر چوڑی پاجامہ زیب تن کئے۔۔ سر پر ڈوپٹے کو حجاب کی شکل میں لپیٹے اور میک اپ کے نام پر صرف آنکھوں میں سرمہ لگائے وہ اکثم دلاور خان کے دل کے آگے کھڑی دیوار کو پاش پاش کر گئی تھی۔۔۔ چند لمحے تو وہ کچھ بول ہی نہ سکا۔۔۔ لیکن جلد ہی خود کو کمپوز کرتے ہوئے اندر آیا اور چہرے پر سختی کے تاثرات سجائے اس نے ہانم کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔ 

یہ کیا پہنا ہوا ہے تم نے ؟؟ ابھی اسی وقت کپڑے بدلو۔۔۔ 

اکثم کہ آواز پر ہانم جو حجاب کو سیفٹی پن لگا رہی تھی ۔۔مڑی اور نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ 

لیکن خان یہ کپڑے تو اماں جان نے دئیے ہیں آج کے دن پہننے کے لئے۔۔۔ پھر تو وردی پہن کر ہی جانا ہے سکول ۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی دیکھیں کتنی پیاری لگ رہی ہوں میں۔۔۔۔ 

نیلی آنکھوں کی چمک اور گلابی لبوں کی مسکراہٹ مقابل کے دل کو جھنجوڑ رہی تھی۔۔۔ 

ہانم میں نے کہا ابھی اسی وقت کپڑے بدلو ورنہ دوسری صورت میں تم گھر ہی رہو گی۔۔۔ اور اب اگر مجھ سے بحث کرنے کی کوشش کی تو یقین مانو تمہیں کوئی بےبی لا کر نہیں دوں گا۔۔۔۔ 

اکثم کے لہجے میں سختی تھی ۔۔ ہانم نے خفگی سے اسے دیکھا اور الماری سے ایک سفید رنگ کی شلوار قمیض نکال کر بغیر اکثم کی طرف دیکھے  واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ جبکہ اکثم اس کی حرکت پر مسکرا دیا۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم کو پرنسپل آفس میں چھوڑنے اور کچھ ہدایات کرنے کے بعد وہ اپنے کالج کے لئے روانہ ہوگیا تھا ۔۔۔ 

ہانم پرنسپل آفس میں بیٹھی ہر چیز کو  غور سے دیکھ رہی تھی جب ایک درمیانی عمر کی عورت اندر آئی ۔۔

وہ شاید اس سکول کی پرنسپل تھی۔۔ وہ عورت مسکرا کر ہانم کے سامنے والی کرسی پر بیٹھی اور نہایت نرمی سے بولی۔۔۔ 

اسلام وعلیکم بیٹا۔۔۔ کیا نام ہے آپکا ؟؟؟ 

وعلیکم اسلام ۔۔۔ میرا نام ہانم بخت۔۔ نہیں ہانم خان ہے۔۔۔ 

ہانم نے جلدی سے بولا کیونکہ اکثم نے اسے ہدایت کی تھی کہ اب وہ سب کو اپنا نام ہانم خان بتائے گی۔۔۔ پرنسپل اس کے جواب پر مسکرا دی۔۔ 

اچھا تو آپ کا ایک چھوٹا سا امتحان ہوگا ۔۔ جس کی بنیاد پر ہم فیصلہ کریں گے کہ آپ کو کونسی کلاس میں بٹھانا ہے۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔؟؟؟

لیکن ابھی تو میں نے کچھ پڑھا ہی نہیں تو امتحان کیوں دوں ؟؟ اور ویسے بھی میں پانچویں تک پڑھی ہوئی ہوں ۔۔۔۔ 

ہانم معصومیت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ پرنسپل نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔۔۔ 

بیٹا یہ بس جو آپ نے پانچویں تک پڑھا ہے اس میں سے کچھ سوال پوچھوں گی۔۔۔۔تاکہ ہم آپ کے علم کی بنیاد پر پرکھ سکیں ۔۔۔۔۔ 

پرنسپل نے مسکرا کر اسے سمجھایا۔۔ 

پوچھیں سوال لیکن ایک شرط پر۔۔۔

ہانم جلدی سے بولی ۔۔۔ پرنسپل نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔ 

کیسی شرط؟؟ 

یہی کہ اگر میں ٹیسٹ میں پاس ہوگئی تو آپ مجھے آٹھویں کلاس میں بٹھائیں گی۔۔۔ وعدہ کریں۔۔۔۔ 

ہانم نے پرنسپل کے آگے اپنا چھوٹا سا گلابی ہاتھ پھیلایا تو پرنسپل نے شاک کی کیفیت میں اسے دیکھا۔۔۔ 

لیکن اکثم خان نے کہا تھا آپ کو ششم کلاس میں ہی بٹھایا جائے۔۔۔

خان کی تو  بات ہی مت کریں۔۔۔ وہ تو مجھے آگے بڑھتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔۔۔ میں نے بابا جان سے پوچھا تھا انہوں نے کہا تھا میں جس کلاس میں چاہے بیٹھ سکتی ہوں۔۔۔ 

ہانم کے بات پر پرنسپل نے اسے گھورا ۔۔۔ 

یہ سب ہمارے سکول کے قواعد وضوابط کے خلاف ہے۔۔۔ میں آپ کو آٹھویں کلاس میں نہیں بٹھا سکتی۔۔۔۔ 

پرنسپل نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کر کے ہانم سے کہا تھا۔۔۔ 

میں بابا جان کو بتائوں گی کہ آپ نے میری بات نہیں مانی ۔۔۔ دیکھنا اقصی آپی کی طرح وہ آپ کو بھی ڈانٹیں گے۔۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر بولی تو پرنسپل اپنے سامنے بیٹھی بارہ سالہ بلیک میلر کو دیکھ کر رہ گئی۔۔۔۔ 

تم دلاور خان سے شکایت کیوں کرو گی۔۔۔ میں نے تو تمہیں کچھ نہیں کہا؟؟؟

پرنسپل جانتی تھی کہ دلاور خان اپنے گائوں کا بہت بڑا زمیندار ہے اور شہر میں بھی اس کے مشہور  لوگوں سے تعلقات ہیں۔۔۔ وہ ناچاہتے ہوئے بھی ہانم کی بات ماننے پر مجبور ہوگئی تھی۔۔۔۔ 

جھوٹ بولنا بری بات ہے استانی جی ۔۔۔ ابھی تو آپ نے مجھے غصے سے دیکھا اور اب آپ بول رہی ہیں کہ میں نے کیا کیا؟؟؟ اچھا چھوڑیں یہ باتیں مجھے یہ بتائیں کہ امتحان کے بعد مجھے آٹھویں کلاس میں ہی بٹھائیں گی نا؟؟؟؟ 

ہانم ٹیبل پر ذرا سا جھک کر آگے ہوتے ہوئے بولی تو پرنسپل نا چاہتے ہوئے اپنا سر اثبات میں ہلا گئی۔۔۔ 

میں تم سے کچھ سوالات کروں گی تم نے ان کے جوابات دینے ہیں ۔۔ اگر جواب صحیح ہوا تو ہی تم امتحان میں کامیاب ہوگی ورنہ دوسری صورت میں تم فیل ہو جائو گی اور پھر تم دوبارہ پانچویں جماعت میں بیٹھو گی۔۔۔ منظور ہے۔۔۔ 

پرنسپل نے سنجیدگی سے ہانم کا چہرہ دیکھ کر کہا تو ہانم نے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔۔ 

 پہلا سوال #

بہرے انسان کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟؟؟ 

ہانم نے ایک نظر پرنسپل کو دیکھا اور معصومیت سے بولی۔۔۔۔ 

بہرے انسان کو تو سنائی ہی نہیں دیتا استانی جی تو پھر اسے جو مرضی کہہ لیں اسے کونسا سنائی دے گا۔۔۔۔۔ 

پرنسپل نے اسے گھورا اور دانت پیستے ہوئے بولی۔۔۔۔ 

اسے ڈیف کہتے ہیں ۔۔۔۔ 

یہ کیسا نام ہوا ؟؟؟؟ 

ہانم کی نیلی آنکھوں میں ناسمجھی کے تاثرات ابھرے تھے۔۔۔۔

پرنسپل نے لمبا سانس لے کر خود کو نارمل کیا تھا۔۔۔۔

اچھا یہ بتائو ۔۔۔۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کون ہیں؟؟ 

قائداعظم ۔۔۔۔ 

ہانم کے جواب پر پرنسپل نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔  

اچھا یہ بتائو ۔۔۔ رمضان کے مہینے میں کتنے عشرے ہوتے ہیں ؟؟؟ 

تین عشرے ہوتے ہیں ۔۔۔ امی نے بتایا تھا ۔۔۔ پہلا رحمت کا ،دوسرا مغفرت کا اور تیسرا بخشش کا۔۔۔۔ 

ہانم انگلیوں پر گن کر معصومیت سے بتانے لگی تو پرنسپل کے لبوں پر  تبسم نے اپنی جھپ دکھائی۔۔۔۔ 

اچھا اب ایک سوال سائنس کا؟؟ 

یہ بتائو ۔۔۔۔ انسانی جسم میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں؟؟؟ 

ان کے سوال پر ہانم نے انہیں دیکھا اور ناسمجھی سے بولی۔۔۔۔ 

یہ تو مجھے نہیں معلوم ۔۔۔ میں نے کون سا ان کی گنتی کی ہوئی ہے۔۔۔۔ ہاں آج  گھر جا کر خان کی ہڈیوں کی گنتی کروں گی۔۔۔۔۔

ہانم خان انسانی جسم میں 206 ہڈیاں ہوتی ہیں۔۔۔۔ 

پرنسپل نے اسے گھورا ۔۔۔۔ 

آپ کو کیسے معلوم ہے کہ انسانی جسم میں 206 ہڈیاں ہوتی ہیں ؟؟؟ کیا آپ نے ان کی گنتی کی ہے؟؟؟

ہانم نے الٹا سوال کیا تو پرنسپل کا دل شدت سے چاہا تھا دیوار پر مارنے کو۔۔۔۔ 

نہیں میں نے نہیں گنتی کی۔۔۔۔ 

جب گنتی نہیں کی تو پھر آپ کو کیسے معلوم کی 206 ہڈیاں ہوتی ہیں ۔۔۔ آج میں گھر جا کر گنتی کروں گی پھر آپ کو بتائوں گی کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں انسان کے جسم میں۔۔۔۔

ہانم نے تسلی دینے والی انداز میں پرنسپل کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔ 

پرنسپل ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دیں۔۔۔۔ پھر گھنٹی بجائی تو ایک ادھیڑ عمر آدمی اندر آیا۔۔۔۔ 

شفیق صاحب انہیں مس شائستہ کی کلاس میں چھوڑ آئیں۔۔۔۔ 

ہانم آپ کو میں آٹھویں جماعت میں بٹھا رہی ہوں۔۔۔ لیکن آپ کو وعدہ کرنا ہوگا آپ بہت زیادہ پڑھو گی۔۔۔ اب آپ جائو ان کے ساتھ ۔۔ یہ آپ کو کلاس میں چھوڑ دیں گے۔۔۔ 

پرنسپل کی بات پر ہانم خوش ہوتے ہوئے اٹھی اور جوش سے بولی۔۔۔ 

میں بہت اچھا پڑھو گی استانی جی۔۔۔ 

ہانم یہ بول کر اس آدمی کے پیچھے چلی گئی ۔۔جبکہ پرنسپل مسکرا دی تھیں۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی دھمکی کی وجہ سے اسے آٹھویں کلاس میں بھیجا تھا پرنسپل نے بلکہ  اس کے دماغ کو ذرا سا علم کا پانی دینے سے وہ گلدستے کی شکل اختیار کر سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ 

کہتے ہیں اصلی  ہیرے کی پرکھ جوہری کو ہوتی ہے اس طرح ایک استاد کو بچوں کی ذہنیت بتا دیتی ہے وہ کس مقام تک جائے گا۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم جیسے ہی کالج میں داخل ہوا اسامہ اس کے بالکل سامنے آگیا ۔۔۔ 

اکثم نے بروقت اپنے قدموں کو روکا تھا ورنہ ممکن تھا دونوں کے سر آپس میں ٹکرا جاتے۔۔۔۔ اکثم نے اسے گھورا تو وہ بتیس دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ 

اسلام وعلیکم ۔۔۔۔ 

وعلیکم اسلام۔۔۔ اور یہ کونسا طریقہ ہے سلام کرنے کا؟؟؟ 

اکثم اسے دائیں ہاتھ سے ایک طرف کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔۔۔ 

وہ آج تم بارہ سالہ بھابھی کے ساتھ آئے ہو گے تو مجھے خوشی میں کچھ معلوم نہیں رہا کہ سلام کیسے کی جاتی ہے؟؟ ویسے سفر تو کافی خوشگوار بلکہ رومینٹک گزرا ہوگا۔۔۔۔ 

اسامہ اس کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے مسلسل شرارت سے بول رہا تھا۔۔۔ جب اکثم رکا اور اسے سخت نظروں سے گھورنے لگا۔۔۔۔ 

واللہ تمہاری زبان بھی تمہاری بھابھی کی طرح فضول چلتی ہے۔۔۔ 

اس کی بات پر اسامہ نے قہقہ لگایا۔۔۔ 

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ بھابھی کو نہیں بلکہ تمہیں ونی کیا گیا ہے؟؟؟ 

اسامہ کی بات پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا۔۔۔ 

سچ میں مجھے بھی کبھی کبھی یہی لگتا ہے ۔۔۔ اپنی الٹی سیدھی باتوں سے خوامخواہ مجھے سب کے سامنے شرمندہ کرواتی ہے۔۔۔ 

اکثم کے لبوں پر موجود مسکراہٹ کو دیکھ کر اسامہ کو شرارت سوجھی۔۔۔ 

ویسے ایسی کونسی باتیں بول دی بارہ سالہ بھابھی نے جو اکثم دلاور خان کو شرمندہ کر گئی ہیں؟؟؟ 

یہ تمہاری بھول ہے کہ میں تمہیں اپنی پرسنل باتیں بتائوں گا۔۔۔

اکثم نے دانت پیسے اور اسے گھورا۔۔۔۔ وہ ڈھیٹ بن کر مسکرا دیا۔۔۔۔ 

ہاں یہ بھی ہے۔۔۔۔ ویسے کیا تمہارے اور بارہ سالہ بھابھی کے درمیان کچھ پرسنل ۔۔۔۔۔۔۔ 

اسامہ کی بات ابھی منہ میں تھی جب اکثم نے ایک پنچ اس کے بائیں کندھے پر رسید کیا۔۔۔۔ 

خبیث انسان سدھر جائو۔۔۔ ورنہ بہت طریقے ہیں میرے پاس تم جیسے بگڑے ہوئے رئیس زادے کو سدھارنے کے۔۔۔۔

میرے بچوں کی شادیاں جب تک نہ دیکھ لوں سدھرنے کا کوئی چانس نہیں۔۔۔۔

ڈھٹائی کی تمام حدیں تو اسامہ پر ختم ہوں جیسے۔۔۔۔

کمینے انسان تو واقعی کسی دن ضائع ہو جائے  گا میرے ہاتھوں۔۔۔اب چل کلاس کا وقت ہو رہا ہے ۔۔۔ اور اپنی زبان کو ایلفی لگا کر میرے پیچھے آنا۔۔۔ ورنہ آج تیری وہ دھلائی کروں گا کہ صرف ایکسل بھی شرمندہ ہو جائے۔۔۔۔ 

اکثم یہ بول کر کلاس کے اندر چلا گیا جبکہ اسامہ منہ بسورتے ہوئے اس کے پیچھے گیا تھا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹھیک اڑھائی بجے اکثم نے ہانم کو سکول سے پک کیا تھا۔۔۔ ہانم گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تو اکثم نے مسکرا کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔ 

کیسا گزرا آج کا دن ہانم خان؟؟ 

اکثم نے گاڑی میں موجود خاموشی کو توڑنے کے لئے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔ 

ہانم نے ایک نظر اکثم کو دیکھا اور اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔۔۔ اکثم جو گاڑی چلا رہا تھا خواس باختہ ہوگیا ۔۔۔ اس نے جلدی سے سڑک کے کنارے گاڑی کو بریک لگائی تھی۔۔۔۔ 

ہانم کیا ہوا ہے؟؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟؟ یا ٹیچر نے مارا ہے؟؟ مجھے بتائو میں ابھی جا کر پوچھتا ہوں۔۔۔۔ 

اکثم اس کی طرف چہرہ کر کے پریشانی سے بولا۔۔۔۔ تو ہانم نے نیلی آنکھوں میں آنسوئوں کی آمیزش لئے اسے دیکھا۔۔۔۔ 

میں نہیں جائوں گی سکول۔۔۔۔ 

اس کی چھوٹی سی سفید ناک سرخ ہوگئی تھی ۔۔۔ 

لیکن ہوا کیا ہے؟؟؟ 

اکثم کی پریشانی ہنوز برقرار تھی۔۔۔ 

وہاں ایک لڑکی تھی میری جماعت کی اس نے مجھے گالی دی۔۔۔۔۔ 

ہانم بازئوں سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے ہچکیاں لے کر بولی۔۔۔۔ 

کونسی لڑکی اور کیا کہا اس نے تم سے ؟؟؟ 

اس کا نام مشا ہے اور اس نے مجھے پاگل کہا۔۔۔۔۔ 

ہانم کی بات پر اکثم نے اپنا سر اسٹیئرنگ پر رکھ دیا۔۔۔۔ یہ لڑکی پاگل ہی تھی ۔۔۔۔۔ 

اچھا اب چپ کرو۔۔۔ میں کل تمہاری استانی سے بات کروں گا۔۔۔۔ اب رو مت ۔۔۔۔ 

اکثم اس کی طرف دیکھ کر نرمی سے بولا۔۔۔۔ 

آپ کریں گے نا بات استانی سے ؟؟؟ 

ہانم نے بھیگی پلکوں کی جھالر کو اٹھا کر پوچھا تو اکثم تو جیسے سانس لینا بھول گیا۔۔۔ نیلی آنکھوں پر ان آنسوئوں کا نظارہ اسے پھولوں پر موجود شبنم کا احساس دلا رہے تھے۔۔۔ جسے وہ اپنی انگلیوں کی پوروں سے چننا چاہتا تھا ۔۔۔ دل کی خواہش پر دماغ نے پرزور مذمت کی تھی۔۔۔ دل باغی ہو رہا تھا تو دماغ اسی دل کے آگے سنگ مرمر کی دیواریں کھڑی کر رہا تھا۔۔۔ وہ کئی لمحے اس کے معصوم اور پاکیزہ چہرے کو تکتا رہا ۔۔۔۔ ہوش میں تو تب آیا جب اسے کے کانوں میں ہانم کی آواز گونجی۔۔۔۔ 

خان۔۔۔ خان۔۔۔۔ 

ہا۔۔ہاں۔۔۔ کیا ہوا؟؟؟ 

اکثم ہڑبڑاتے ہوئے بولا۔۔۔ 

گھر چلیں ۔۔۔۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔۔۔ 

ہانم کی بات پر وہ مسکرایا اور جلدی سے گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔ دوبارہ اس نے ہانم کی طرف دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی۔۔۔ اتنا تو وہ جان گیا تھا اس کی معصومیت جان لیوا ہے۔۔۔۔ وہ اپنی معصومیت سے قتل کرنے کا ہنر رکھتی تھی تو مقابل بھی جگر کو بڑا کر کے قتل ہونے کو تیار تھا۔۔۔۔۔۔ 

خان حویلی میں سب رات کا کھانا کھا رہے تھے جب دلاور خان نے ہانم کو مخاطب کیا۔۔۔۔ 

ہانم ۔۔۔۔ سکول کیسا تھا ؟؟؟ اور امتحان کیسا رہا تمہارا؟؟؟ 

دلاور خان کی بات پر ہانم نے سر اٹھایا اور بولی ۔۔۔۔۔ 

سکول تو اچھا تھا۔۔ اور امتحان بھی میں نے پاس کر لیا اس لئے تو استانی نے مجھے آٹھویں جماعت میں بٹھا دیا۔۔۔۔ 

ہانم کے جواب پر پانی پیتے ارتسام کو اچھو لگ گیا۔۔۔ پاس بیٹھی اماں جان نے اس کی پیٹھ سہلائی۔۔۔ جبکہ اکثم نے اپنا پورا رخ ہانم کی طرف کیا تھا ۔۔۔۔ 

ایسا کونسا تیر مارا تم نے جو استانی نے تمہیں آٹھویں جماعت میں بٹھا دیا ۔۔۔۔ 

تیر تو نہیں مارا تھا۔۔۔ اور ویسے بھی وہ کہاں بٹھا رہی تھیں ۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر بولی تو اکثم سمیت سب کی توجہ وہ اپنی جانب کھینچ چکی تھی۔۔۔۔ 

مجھے ساری بات بتائو ہانم وہاں سکول میں کیا ہوا تھا ؟؟؟ تم نے استانی سے کیا کہا تھا؟؟؟ 

اکثم نے سنجیدگی سے سوال کیا۔۔۔ 

میں نے استانی سے بس اتنا ہی کہا تھا کہ انہوں نے اگر مجھے آٹھویں جماعت میں نہ بٹھایا تو میں اپنے بابا جان کو بتائوں گی۔۔۔۔ پھر وہ آپ کو ڈانٹیں گے۔۔۔ 

ہانم نے معصومیت سے جواب دیا جبکہ دلاور خان نے اونچی آواز میں قہقہ لگایا۔۔۔۔ 

اکثم اور ارتسام کا پورا منہ کھل گیا تھا جبکہ اماں جان نے بمشکل مسکراہٹ کو لبوں میں دبایا تھا۔۔۔ 

تم نے پرنسپل کو بلیک میل کیا تھا؟؟؟؟؟

اکثم کی صدمے بھری آواز پر ہانم نے اسے دیکھا۔۔۔۔ 

میں نے کسی کو کچھ نہیں کیا۔۔۔ آپ استانی سے پوچھ لیجئے گا ۔۔ میں نے تو ان کو ہاتھ تک نہیں لگایا ۔۔۔ 

ہانم  کی ذہانت پر سب لوگ غش کھا کر رہ گئے تھے۔۔۔ 

میں تمہارے ساتھ کل سکول جائوں گا اور تم چھٹی جماعت میں بیٹھو گی۔۔۔ اور استانی سے اپنے آج کے رویے کی معافی بھی مانگو گی ۔۔۔۔سمجھی تم ۔۔۔۔۔

اکثم کی بات پر ہانم نے منہ پھلایا اور دلاور خان کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ 

بابا جان۔۔۔ میں آٹھویں جماعت میں ہی بیٹھوں گی۔۔۔ آپ بولیں نا خان کو۔۔۔۔ 

بڑے خان ہماری بیٹی جس جماعت میں چاہے گی ہم اسے اسی میں بٹھائیں گے۔۔۔ اب اس موضوع کو یہیں ختم کریں۔۔۔ ویسے بھی ہانم کسی سے معافی نہیں مانگےگی ۔۔۔ 

دلاور خان کی بات پر اکثم نے تاسف سے دلاور خان اور پھر ہانم کو دیکھا تھا جو خوش ہوتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔ 

مجھے تو لگتا ہے یہ قبضہ مافیہ کی لیڈر بنے گی۔۔۔

اکثم خود سے بڑبڑایا اور کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔۔۔ 

انسان کی خواہش کو پورا کرنا چاہیے مگر تب جب وہ جائز ہو لیکن جب یہی خواہش بے جا ضد کی شکل اختیار کر لے تو یہ انسان کے اخلاق کو قطرہ قطرہ کر کے ختم کر دیتی ہے ۔۔۔ خودسری پروان چڑھتی ہے۔۔۔ اور خاتمہ عبرتناک ہوتا ہے۔۔۔ اگر پہلی ضد پر بچے کو بہلا کر روک لیا جائے تو آنے والے وقت میں بڑے بڑے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارتسام رات کو چھت پر بیٹھا تھا جب اکثم اسے ڈھونڈتے ہوئے چھت پر آیا۔۔۔ وہ چھت کی چھوٹی سی دیواروں پر دونوں بازئوں کی کہنی رکھے اور ہاتھوں کے پیالے میں چہرے کو لئے وہ نم آنکھوں سے آسمان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ اتنا محو تھا کہ اپنے کام میں کہ اکثم کے آنے کو محسوس ہی نہ کر سکا ۔۔۔

اکثم اس کے پاس کھڑا ہوا اور اس کے چہرے پر رات کے روشنی میں چمکتے آنسو اکثم کو تکلیف میں مبتلا کر گئے تھے۔۔۔۔ 

چھوٹے خان کیا ہوا ہے؟؟؟؟

اکثم کی نرم آواز پر اس کی محویت ٹوٹی تھی۔۔۔ اس نے جلدی سے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے آنسو صاف کئے تھے اور اکثم کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ 

کک۔۔۔کچھ نہیں ہوا بھائی۔۔۔۔۔ 

بھاری لہجے میں جواب دیتے ہوئے وہ ایک بار پھر اپنا ضبط کھو رہا تھا۔۔۔ 

اکثم نے تھوڑا سا جھک کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے گلے لگا گیا۔۔۔۔۔ 

ارتسام کا ضبط جواب دے گیا تھا وہ اکثم کے گلے لگے زاروقطار رو رہا تھا۔۔۔ اکثم جانتا تھا وہ احمر کے لئے رو رہا ہے کیونکہ کل احمر کی سالگرہ تھی اور ارتسام اسے سب سے پہلے وش کرتا تھا۔۔۔ 

بھائی مجھے احمر بھائی بہت یاد آ رہے ہیں ؟؟؟ وہ کیوں ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔ ہم نے تو کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا ؟ پھر اللہ نے کیوں انہیں اتنی جلدی اپنے پاس بلا لیا؟؟؟ ابھی تو انہوں نے مجھے باہر کے ملک بھی بھیجنا تھا۔۔۔ میں نے انہیں خوب تنگ کرنا تھا۔۔۔ وہ کیوں نہیں سمجھے کہ ان کے سامی کو ان کی ضرورت ہے؟؟؟ 

احمر کی موت کے بعد وہ آج کھل کر رویا تھا اور اپنے اندر کا غبار نکال رہا تھا۔۔۔ اکثم کی آنکھوں میں بھی نمی چمکی تھی جسے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ سختی سے آنکھوں کو بند کر کے چھپا گیا تھا۔۔۔ ارتسام تو بچہ تھا وہ اپنے جذبات کو رو کر دکھا سکتا تھا۔۔ لیکن وہ تو دنیا کی نظر میں سمجھدار تھا جسے رونا نہیں تھا ۔۔۔ بلکہ خود پر ضبط کر کے اپنے گھر والوں کو سنبھالنا تھا۔۔۔ درد تکلیف تو اسے بھی ہوتی تھی ۔۔۔۔ لیکن خود کو مضبوط بھی تو ثابت کرنا تھا۔۔۔۔۔

چھوٹے خان۔۔۔ ادھر دیکھو میری طرف؟؟ 

اکثم نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر اپنی طرف کیا۔۔۔ 

 بھائی تم سے بہت  محبت کرتے تھے چھوٹے خان۔۔۔ وہ تمہارے لئے بہت حساس تھے ۔۔۔ خود تو  تمہیں سامی کہتے تھے لیکن دوسروں کے لبوں سے انہیں تمہارا نام سننا پسند نہیں آتا تھا۔۔۔ تمہیں یاد ہے بھائی کی شادی سے پہلے ایک دفعہ میں نے بھی جان بوجھ کر تمہیں سامی پکارا تھا۔۔۔۔ کتنے خفا ہوئے تھے وہ مجھ سے اس بات پر کیونکہ وہ کہتے تھے سامی صرف وہ پکار سکتے ہیں اور کوئی نہیں۔۔۔ یہاں تک کہ اماں جان اور بابا جان بھی نہیں ۔۔۔۔ تمہیں روتا ہوا تو وہ بالکل بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔چھوٹے خان۔۔۔ اب وہ اللہ کے پاس ہیں تمہیں اس طرح روتے دیکھ کر ان کی روح کو تکلیف ہو رہی ہوگی ۔۔۔ کیا تم چاہتے ہو ان کو تکلیف ہو؟؟؟؟ 

اکثم نے اسے پیار سے سمجھایا تھا اور وہ کامیاب بھی ٹھہرا تھا۔۔۔ ارتسام نے جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلایا۔۔۔۔ اور اپنے آنسو صاف کئے۔۔۔ 

اب میں بالکل بھی اپنے آنسوئوں سے ان کو تکلیف نہیں دوں گا۔۔۔۔ 

یہ ہوئی نا احمر بھائی کے سامی والی بات۔۔۔ 

اکثم اس کی ناک کو ہلکا سا دبا کر مسکرایا تھا۔۔۔

بھائی مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی ۔۔۔

ہاں بتائو میرے شیر کو کیا بات کرنی تھی؟؟؟ 

بھائی مجھے بھی شہر سکول میں پڑھنا ہے۔۔۔ 

ارتسام جلدی سے بول کر آنکھیں بند کر گیا جبکہ اکثم نے غور سے اسے دیکھا ۔۔۔ 

کیوں؟؟؟ 

اکثم کے لفظی سوال پر اس نے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔  

وہ میرا دل کرتا ہے شہر کے سکول میں پڑھنے کو۔۔۔۔ 

ارتسام معصومیت سے بولا۔۔۔ جبکہ اکثم نے گہری سانس لی۔۔۔۔ 

میں بابا جان سے بات کروں گا۔۔۔ اگر انہیں مناسب لگا تو ٹھیک ورنہ تم  ضد نہیں کرو گے ۔۔۔۔ 

بھائی آپ انہیں منا لیں نا۔۔۔۔ جیسے بھابھی کے لئے منایا تھا۔۔۔ 

ارتسام کی بات پر اکثم نے اسے دیکھا۔۔۔۔۔ 

انہیں قائل کر کے ہی تو پچھتا رہا ہوں میں۔۔۔۔۔ 

اکثم خود سے بڑبڑایا تو ارتسام نے ناسمجھی سے اکثم کو دیکھا۔۔۔ 

بھائی آپ نے کچھ کہا ؟؟ 

ہاں۔۔۔نہیں ۔۔ رات بہت ہوگئی ہے تم جا کر سو جائو میں کل کالج سے واپس آ کر بابا جان سے بات کروں گا۔۔ اور ہاں اب میں کبھی تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں ۔۔۔۔ سمجھے تم۔۔۔ 

اکثم کی بات پر وہ خوش ہوتے ہوئے اس کے گلے لگا تھا۔۔۔ 

شکریہ بھائی۔۔۔۔ 

اچھا بس بس۔۔۔۔ اب جائو نیچے۔۔۔ 

اکثم نے اسے مصنوعی رعب سے کہا تو وہ پیچھے ہوا۔۔۔ 

بھائی ویسے ایک بات ہے جب سے بھابھی آئی ہیں آپ کا غصہ کم ہوگیا ہے۔۔۔ 

یہ بول کر ارتسام تیزی سے نیچے کی طرف بھاگا تھا جبکہ اکثم مسکرا کر رہ گیا تھا۔۔۔۔ 

یااللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے حرام رشتے کی بجائے حلال رشتہ عطا کیا۔۔۔ نکاح میں واقعی بہت طاقت کے ۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ کب کیوں کیسے؟؟؟ لیکن وہ اپنی معصومیت سے اس گھر اور میری زندگی میں جگہ بنا چکی ہے۔۔۔۔ یا رب تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں ظالم بننے نہیں دیا۔۔۔ اگر ہم ایک معصوم کی معصومیت کو قتل کر دیتے تو ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ مکافات عمل سے سب کو گزرنا پڑتا ہے۔۔۔  شاید اسی ڈر کی وجہ سے وہ لڑکی آج یہاں سب کی زندگی کا اہم حصہ بنتی جا رہی ہے۔۔۔۔ یارب مجھے اتنی ہمت اور برداشت ضرور دینا کہ میں اس کی معصومیت کو برقرار رکھ سکوں اور زمانے کی دھوپ سے بچا سکوں۔۔۔۔۔ آمین

اکثم آسمان پر جگمگاتے ستاروں کی روشنی کو دیکھ کر دل میں اللہ سے دعا مانگ رہا تھا۔۔۔۔اور پھر خود ہی آمین بول کر نیچے کی طرف چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم جلدی سے آ جائو  ورنہ ہمیں دیر ہو جائے گی شہر پہنچنے میں۔۔۔۔ 

اکثم نے حال میں کھڑے ہو کر ہانم کو آواز دی جو اپنے کمرے میں سکول کے لئے تیار ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ 

ہانم سی گرین کلر کی فراک پہنے سر پر حجاب لئے، کندھوں پر بیگ پہنے  تقریبا  بھاگتے ہوئے حال میں پہنچی تھی۔۔۔۔ 

چلیں خان۔۔۔۔۔ 

اکثم نے ایک نظر اسے دیکھا اور آہستہ سے سر کو جنبش دیتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔۔۔۔ 

جیسے ہی ہانم گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اکثم نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔ 

خان آپ سے ایک بات پوچھوں؟؟؟ 

گاڑی میں موجود خاموشی کو ہانم کی آواز نے توڑا تھا۔۔۔ 

اکثم نے بنا اس کی طرف دیکھے اسے اجازت دی تھی۔۔۔ 

میرے نہ کہنے سے تم کونسا پوچھو گی نہیں اس لئے پوچھ لو۔۔۔۔ 

خان آپ کے جسم میں کتنی ہڈیاں ہیں؟؟؟

ہانم نے معصومیت سے اکثم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔ اکثم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر ونڈ سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔

جتنی تمہارے جسم میں ہیں۔۔۔ مطلب 206۔۔۔۔ 

خان لیکن میں تو آپ سے چھوٹی ہوں پھر میرے جسم میں اتنی ہڈیاں کیسے آ گئی ؟؟؟ 

ہانم کی صدمے بھری آواز پر اکثم نے اسے دیکھا اور بمشکل اپنا قہقہ روکا تھا۔۔۔۔ 

دیکھو ہانم انسان بڑا ہو یا چھوٹا اس میں 206 ہڈیاں ہی ہوتی ہیں۔۔۔۔ 

اکثم کی بات پر اس کا صدمہ کچھ کم ہوا تھا۔۔۔ 

خان میں آپ سے کتنی چھوٹی ہوں نا؟؟؟ 

ہاں تو؟؟؟ 

اکثم کی نظریں ابھی بجی ونڈ سکرین کی طرف تھیں۔۔۔۔ 

تو سب کہتے ہیں آپ میرے شوہر ہیں۔۔۔ لیکن آپ تو مجھ سے اتنے بڑے ہیں۔۔۔ ابا تو امی سے بڑے نہیں تھے۔۔۔ اور اماں جان بھی تو بابا جان جتنی ہیں۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔

ہانم چپ کر جائو۔۔۔۔ بے تکے سوالوں کو لاتی کہاں سے ہو تم؟؟؟ اب مجھے تمہاری آواز بالکل نہیں آنی چاہیے ۔۔۔سمجھی تم۔۔۔ 

اکثم نے اسے گھور کر سختی سے کہا تھا۔۔۔ ہانم منہ بسور کر دوسری طرف سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ 

یااللہ اس لڑکی کے دماغ کے جتنے بھی پرزے ڈھیلے ہیں ۔۔۔ انہیں سختی سے جوڑ دے۔۔۔ ورنہ مجھے لگتا ہے عنقریب میں پاگل خانے کی دیواروں سے ٹکریں مارتا پھروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہانم نے دل میں سوچا اور گاڑی اس کے سکول کے آگے روکی۔۔۔ 

ہانم بنا اس کی طرف دیکھے گاڑی سے اتری اور سکول کے اندر چلی گئی۔۔۔ 

لگتا ہے بیوی ناراض ہوگئی پھر سے۔۔۔ چلو اکثم خان ابھی کالج واپسی پر بیوی کو منانے کا سوچتے ہیں۔۔۔۔۔ 

اکثم خود شٹ بڑبڑایا اور گاڑی کو سٹارٹ کر دیا۔۔۔۔۔ 

عقل کا عمر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ سات سالہ بچہ آپکو وہ سکھا دیتا ہے جو پچاس سالہ شخص نہ سکھا سکا ہو۔۔۔ علم والے اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔ علم آپ کو عقل دیتا ہے زندگی کے تلخ تجربات سے گزرنے کی ہمت دیتا ہے ۔۔۔ لیکن جاہلیت آپکو سب سے پہلے مایوسی کی راہ دکھاتی ہے جو کہ کفر ہے۔۔۔۔

ہانم اپنے کلاس روم میں ڈیسک پر بیٹھی تھی جب ایک لڑکی اس کے پاس آئی اور اس کے ساتھ ہی ڈیسک پر بیٹھ گئی ۔۔۔ ہانم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کاپی پر بورڈ سے لکھے جملے  نوٹ کرنے لگی ۔۔۔۔۔ جو اس کی اردو کی کلاس ٹیچر لکھوا کر گئی تھی۔۔۔ ابھی دوسری ٹیچر کے آنے میں چونکہ وقت تھا اس لئے وہ بورڈ پر لکھے جملوں  کو کاپی پر لکھ رہی تھی۔۔۔۔ 

تمہارا نام کیا ہے ؟؟؟

اس لڑکی نے ہانم سے پوچھا تو ہانم نے اسے دیکھا اور مسکرا کر بولی۔۔۔

ہانم خان۔۔۔۔۔ 

تمہاری آنکھیں بہت پیاری ہیں ۔۔۔ 

اس لڑکی نے مسکرا کر ہانم کی آنکھوں کی  تعریف کی۔۔۔۔ 

ہاں مجھے معلوم ہے میں بہت پیاری ہوں۔۔۔ میری امی بھی یہی کہتی ہیں۔۔ میری چھوٹی بہن روح تو کبھی کبھی مجھ سے لڑتی بھی تھی کہ میں اس سے زیادہ پیاری ہوں۔۔۔۔ 

ہانم بول رہی تھی جبکہ وہ لڑکی ہانم کو منہ کھولے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

بس بس۔۔۔ تم واقعی پیاری ہو۔۔۔ یہ بتائو میری سہیلی بنو گی؟؟؟ 

لیکن مجھے تو تمہارا نام بھی نہیں معلوم ؟؟؟ 

ہانم نے معصومیت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔۔ 

میرا نام جاثیہ ہے۔۔۔ لیکن سب پیار سے جاثی بلاتے ہیں۔۔۔ تم بھی مجھے اسی نام سے بلا سکتی ہو۔۔۔

لیکن مجھے تو تم سے پیار نہیں ہے پھر میں تمہیں اس نام سے کیوں پکاروں؟؟؟

ہانم کے جواب نے جاثیہ کو بہت شرمندہ کر دیا ۔۔۔ وہ بمشکل مسکرا کر اپنی شرمندگی کو چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ 

کیا تم مجھے اپنی سہیلی نہیں بنانا چاہتی ؟؟؟ 

جاثیہ کے سوال پر ہانم مسکرائی ۔۔۔ 

ٹھیک ہے تم میری تیسرے نمبر والی  سہیلی ہو۔۔۔ 

ہانم نے گویا احسان کرنے والے انداز میں جواب دیا ۔۔۔ جاثیہ مسکرائی تھی اسے ہانم بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اس کے پاس آئی تھی۔۔۔ 

اس سے پہلے وہ مزید کچھ بولتی کلاس میں ایک ٹیچر داخل ہوئیں ۔۔۔۔ تمام طالبات ان کی تعظیم میں کھڑی ہوگئی تو ہانم بھی سب کو دیکھتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

گڈ آفٹر نون ٹیچر ۔۔۔۔ 

تمام طالبات نے ایک آواز میں کہا ۔۔۔ 

گڈ آفٹر نون ۔۔۔۔ سٹ ڈائون سٹوڈنٹس ۔۔۔ 

اس تیس سالہ ٹیچر نے مسکرا کر سب کو بیٹھنے کو کہا۔۔۔ تو سب بیٹھ گئے ۔۔ 

یہ کونسی استانی ہے۔۔۔کل تو نہیں نظر آئی تھی۔۔۔ 

ہانم خود سے بڑبڑائی تو پاس بیٹھی جاثیہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔ 

یہ ہماری ریاضی کی ٹیچر ہیں ۔۔۔ کل چھٹی پر تھیں۔۔۔۔ آج آئی ہیں۔۔۔ 

جاثیہ نے اسے سرگوشیانہ انداز میں بتایا۔۔۔

اچھا ۔۔۔

ہانم اپنا سر اثبات میں ہلا کر اتنا ہی بولی جب اس ٹیچر نے ہانم کو دیکھ کر اسے پکارا۔۔۔ 

سبز رنگ  کے کپڑوں والی لڑکی آپ کھڑی ہوں۔۔۔۔۔ 

ہانم نے ایک نظر ٹیچر کو دیکھا اور ایک نظر ساری کلاس کو دیکھا تمام لڑکیوں کی توجہ ہانم پر ہی تھی۔۔ ہانم کھڑی ہوگئی اور نرمی سے بولی ۔۔۔ 

جی استانی جی۔۔۔۔ 

اس کے استانی کہنے پر کلاس میں دبی دبی ہسی کی آوازیں گونجی تھیں۔۔۔۔ 

نئی آئی ہو کیا؟؟؟ 

ٹیچر نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔ 

جی کل آئی تھی ۔۔۔ 

نام کیا ہے تمہارا؟؟؟ 

ہانم خان۔۔۔۔ 

ہانم ٹیچر کی طرف دیکھ کر اعتماد سے بولی۔۔۔۔۔ 

پہلے کونسے سکول پڑھتی تھی؟؟؟ 

ٹیچر کی سنجیدگی ہنوز برقرار تھی۔۔۔ 

اپنے گائوں کے سکول میں۔۔۔

ہانم کے جواب پر ٹیچر نے ضبط سے مٹھیاں بند کیں۔۔۔۔ 

اس سکول کا نام کیا تھا ؟؟؟ 

نام تو نہیں یاد ۔۔۔ لیکن ہاں راستے میں ایک نہر آتی تھی جہاں سے گزر کر میرے ابا سائیکل پر مجھے سکول چھوڑنے جاتے تھے۔۔۔ میں ہمیشہ سائیکل کے اگلے ڈنڈے پر بیٹھتی تھی کیونکہ پیچھے بیٹھنے سے مجھے ڈر لگتا تھا ۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ 

شٹ اپ۔۔۔۔ بس کرو ۔۔۔ جاہل۔۔۔ جتنا پوچھا جائے اتنا جواب دو۔۔۔ 

ٹیچر نے غصے سے کہا تو ساری کلاس میں خاموشی چھا گئی جبکہ ہانم تو ان کا غصے والا چہرہ دیکھ کر ہی ڈر گئی تھی۔۔۔۔

بیٹھو نیچے اور کل سے مجھے سکول کے یونیفارم میں نظر آئو۔۔ ورنہ کلاس سے باہر دھوپ میں کھڑا کر دوں گی۔۔۔۔ 

ٹیچر کی آواز پر ہانم نے بمشکل اپنا سر اثبات میں ہلایا اور نیچے بیٹھ گئی۔۔۔ نیلی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر کاپی پر لکھے لفظوں کو مٹا رہے تھے۔۔۔ وہ کم عقل ضرور تھی لیکن رویوں کو سمجھ جاتی تھی۔ اسے اپنی ٹیچر کا رویہ اپنے ساتھ بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔۔ کلاس ختم ہونے کے بعد جاثیہ اس کے ساتھ ہی رہی اسے کافی بہلاتی رہی ادھر ادھر کی باتوں سے لیکن وہ خاموش ہی رہی۔۔۔۔ اڑھائی بجے وہ سکول سے باہر نکلی تو سامنے ہی اکثم بلیو جینز پر وائیٹ شرٹ پہنے اور آنکھوں پر گلاسز لگائے گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔۔۔ وہ آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے قریب آئی تو اکثم نے دروازہ کھول دیا۔۔۔

ہانم خاموشی سے سرجھکا کر بیٹھ گئی اکثم کو کچھ عجیب لگا ۔۔ اکثم دروازہ بند کرکے دوسری طرف آیا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ ایک بار پھر اس نے ہانم کو دیکھا تھا جو سر جھکائے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اکثم کو لگا وہ اس سے صبح والی بات پر ناراض ہے۔۔۔ اس لئے خاموش ہے۔۔۔ 

ہانم دن کیسا گزرا آج کا؟؟؟ 

اکثم نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔۔۔ 

ٹھیک۔۔۔۔۔

ہانم کے لفظی جواب پر اکثم نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر ایک بیکری کے آگے گاڑی کھڑی کی اور بنا اس کی طرف دیکھے وہ بیکری کے اندر گیا ۔۔۔ تقریبا پندرہ منٹ بعد وہ باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں دو پیزے اور ایک کیک کا شاپر تھا۔۔۔ اس نے وہ شاپر پچھلی سیٹ پر رکھے اور خود دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی چلانے لگا۔۔۔۔ اسے ہانم کی خاموشی سے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی۔۔۔ 

ہانم ناراض ہو مجھ سے کیا؟؟؟ 

اکثم نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔ 

نہیں۔۔۔۔ 

ہانم کے لہجے میں اس بار نمی تھی جس سے اکثم کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔۔۔ 

ہانم سکول میں کچھ ہوا ہے کیا؟؟؟ 

نہیں۔۔۔۔ 

اس بار نمی رخساروں پر نکل کر مقابل کے دل کو جھنجھوڑ گئی تھی ۔۔ وہ تکلیف میں تھی تو دل اس کا بھی بے سکون ہوا تھا۔۔۔ 

ہانم اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔۔ 

تو رو کیوں رہی ہو۔؟؟؟؟ 

مجھے میری امی اور ابا کے پاس جانا ہے ۔۔۔ وہ اللہ کے پاس ہیں نا خان تو مجھے بھی وہیں جانا ہے ۔۔۔۔ 

ہانم یہ بول کر ہاتھوں میں منہ کو چھپائے رونا شروع ہو چکی تھی جبکہ اکثم نے بروقت بریک لگا کر اسے دیکھا تھا۔۔۔۔ 

ہانم ۔۔۔ ہانم۔۔۔ میری بات سنو۔۔۔۔ 

اکثم بے بسی کا مطلب آج سمجھ رہا تھا۔۔۔ 

نہیں مجھے ان کے پاس جانا ہے۔۔۔ 

میری بات سنو ہانم ۔۔۔ 

اس بار اکثم نے اس کے دونوں ہاتھوں کو  پکڑ کر سختی سے کہا تھا۔۔۔۔ 

تمہاری امی ابا گائوں میں ہی ہیں لیکن وہ تم سے تب ملیں گے جب تم پڑھ لکھ کر ان کا نام روشن کرو گی۔۔۔ ابھی وہ تم سے نہیں مل سکتے کیونکہ وہ چاہتے ہیں ہانم بہت سارا پڑھے۔۔۔ اور پڑھ لکھ کر اچھی سی ڈاکٹر بنے۔۔۔۔ 

اکثم کی باتوں پر اس نے اکثم کی طرف دیکھا ۔۔۔ 

مجھے نہیں بننا ڈاکٹر۔۔۔۔ 

ہانم منہ بسور کر بولی۔۔۔ 

اچھا مت بننا اب یہ بتائو سکول میں کچھ ہوا ہے کیا؟؟؟ 

اکثم نے نرمی سے اس کے آنسوئوں کو اپنی انگلیوں سے صاف کیا تھا۔۔۔ 

خان۔۔۔ جاہل کسے کہتے ہیں؟؟؟ 

اس کی بات پر اکثم نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔۔ اور نرمی سے بولا ۔۔۔ 

تم کیوں پوچھ رہی ہو ؟؟؟ کیا تمہیں کسی نے جاہل کہا ہے ؟؟ 

اکثم کی پیشانی پر لاتعداد شکنوں نے اپنی جگہ بنائی تھی ۔۔۔ 

نہیں پہلے آپ مطلب بتائیں ۔۔۔ 

ہانم کی ضد پر اس نے گہری سانس لی اور اس کے ہاتھوں کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے بولا۔۔۔ 

جاہل اس شخص کو کہتے ہیں جسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کب کیا بات کرنی ہے۔۔۔ جو بلاوجہ بات کا بتنگڑ بنادے۔۔ چھوٹی سی بات پر لڑنا شروع ہو جائے۔۔۔۔ جو اپنے بڑوں سے بدتمیزی کرے۔۔۔ جو پڑھا لکھا نہ ہو۔۔۔ جسے علم اور عقل کا معنی نہ پتہ ہو۔۔۔ اب تم بتائو تم کیوں پوچھ رہی ہو۔۔۔۔ ؟؟؟؟ 

مجھے آج ایک ٹیچر نے جاہل کہا۔۔۔ خان میں تو بدتمیزی نہیں کرتی اور میں تو سب کی بات مانتی ہوں ۔۔۔ آپ جانتے ہیں انہوں نے مجھ پر ساری جماعت کے سامنے غصہ کیا۔۔۔ مجھے بہت برا لگا۔۔۔ اتنا برا لگا کہ میرے آنسو خود ہی نکلنا شروع ہوگئے۔۔۔۔۔ 

ہانم کی بات پر وہ اکثم نے سختی سے سٹئیرنگ کو تھاما تھا۔۔۔۔ آنکھوں میں سرخی سمندر کے پانی کی طرح بڑھنے لگی تھی۔۔۔ 

کونسی ٹیچر تھی؟؟؟ 

ریاضی کی ٹیچر تھی۔۔۔۔ مجھے بالکل اچھی نہیں لگی۔۔۔۔ 

ہانم نے معصومیت سے جواب دیا ۔۔۔ 

اچھا ٹھیک ہے کل میں تمہارے ساتھ تمہارے سکول جائوں گا ۔۔۔ اور ان سے بات کروں گا۔۔۔ اب تم نے رونا نہیں ۔۔ سمجھی اور کوئی بھی بات ہو مجھے بتانی ہے۔۔۔ 

اکثم نے بمشکل اپنا لہجہ نارمل کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔ ہانم اب کافی حد تک پرسکون ہوگئی تھی۔۔۔۔ 

باقی سفر خاموشی کی نظر ہوا تھا۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوپہر کے کھانے پر بریانی بنی تھی جو ہانم بنا کسی کی طرف دیکھے کھائے جا رہی تھی۔۔  دو پلیٹ بریانی کھانے کے بعد کھیر کی ایک پیالی کھا کر اٹھ گئی تھی۔۔۔۔ اور سیدھا کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔ سب نے دو پہر کا کھانا کھایا اور اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے ۔۔۔ اس گھر کا اصول تھا جب بھی دلاور خان دوپہر کے وقت گھر پر ہوتے تھے سب اکھٹے بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھاتے تھے۔۔۔۔ 

ہانم اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی جب اسے ثمامہ خان کے رونے کی آواز آئی پہلے تو وہ اقصی کے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔۔ لیکن پھر اس دن والے تھپڑ کو یاد کرکے واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی اس سے کمرے میں موجود صوفے کے قریب رکھے ٹیبل پر ایک بڑا سا شاپر نظر آیا۔۔۔ وہ جلدی سے ٹیبل کے قریب آئی تو شاپر کو کھول کر دیکھا۔۔۔ شاپر کے اندر پیزا تھا۔۔۔ ہانم کی آنکھیں ایک دم سے چمکی تھیں۔۔ بنا کسی تاخیر کے اس نے پیزا نکالا اور ٹیبل پر رکھ کر خود صوفے پر بیٹھ کر کھانے لگی۔۔۔ اکثم کمرے میں داخل ہوا تو ٹھٹھک گیا۔۔۔ لیکن پھر یہ سوچ کر بیڈ پر بیٹھ گیا کہ وہ ایک دو پیس ہی کھائے گی۔۔۔۔ 

 وہ کب سے بیٹھا اسے گھور رہا تھا جسے دنیا جہاں کی شاہد بھوک لگی تھی ۔۔۔  جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ اٹھ کر ہانم کے پاس صوفے پر بیٹھا۔۔۔ 

تم روز ہی اتنا کھاتی ہو یا آج میں تمہیں اتنا کھاتے دیکھ رہا ہوں۔۔۔ 

اکثم جب سے کالج سے گھر آیا تھا ہانم کو کچھ نہ کچھ کھاتے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ وہ حیران تھا کہ وہ پھر بھی پتلی سی تھی۔۔۔۔ 

آپ کے باپ کا کھاتی ہوں جو میرے نوالے گن رہے ہیں۔۔۔ 

ہانم اپنے کھانے کے بارے میں توہین برداشت نہیں کرسکی اس لئے غصے سے اکثم کو گھور کر بولی لیکن جیسے ہی اکثم کی طرف دیکھا اسے سمجھ آگئی تھی ہمیشہ کی طرح کوئی غلط بات کر گئی ہے ۔۔۔۔ 

اوکے۔۔۔ اوکے۔۔۔ گھوریں نہیں۔۔۔ آپ کے باپ کا ہی کھاتی ہوں ۔۔۔ وہ بھوک مجھ سے برداشت ہی نہیں ہوتی ۔۔۔ اگر میرے بس میں ہو تو میں ہو تو ان کو بھی کھا۔۔۔۔ 

ہانم نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی کیونکہ اکثم کے تیور سخت ہوگئے تھے۔۔۔ 

تم بہت زیادہ بولنے لگی ہو ۔۔۔ 

اکثم نے دانت پیس کر کہا ۔۔۔

اگر یہ غصہ آپ پیزا کھانے کے لئے کر رہے ہیں تو میں پہلے ہی بتا دوں میں صرف  زیادہ سے ذیادہ ایک پیس کا ایک چھوٹا سا حصہ   ہی دے سکتی ہوں وہ بھی اس شرط پر کہ آپ مجھے کل بے بی لا کر دیں گے۔۔۔

 اکثم اسے گھور کر اٹھ گیا تھا کیونکہ اقصی کی ڈیلوری کے بعد اس کی ہر بات کا اختتام بےبی لا کر دیں پر ہوتا تھا ۔۔۔۔

اکثم واش روم چلا گیا جبکہ وہ آرام سے پیزے سے انصاف کرنے لگی۔۔۔ اکثم کو لگا تھا وہ سکول جا کر بےبی والی بات بھول جائے گی لیکن یہ اس بیچارے کو یہ نہیں معلوم تھا یہ اس کی صرف خوش فہمی ہی ثابت ہوگی۔۔۔۔۔۔

محبت کی سر  حدوں کو توڑ کر 

تمام قسموں وعدوں کو جوڑ کر 

دیوانے عشق کی محفل سجاتے ہیں 

سارے  بے وفائوں کو موڑ کر

جذبے جب انتہائوں کو پہنچتے ہیں

سودائی جھومتے  ہیں خودی کو چھوڑ کر

۔۔۔۔۔۔۔( کرن رفیق )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن وہ سکول میں پرنسپل آفس میں پرنسپل سے جواب طلب کر رہا تھا کہ کیوں ایک ٹیچر بچوں کو ذہنی ٹارچر کر رہی تھی؟ پرنسپل نے  اس ٹیچر کو بلایا تو اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے اکثم سے معافی مانگی تھی۔ ہانم اپنے کلاس روم میں بیٹھی پڑھ رہی تھی۔ جب پرنسپل کا بلاواہ آیا اسے۔ وہ آہستہ سے چلتے ہوئے پرنسپل آفس کے اندر اجازت لے کر داخل ہوئی تھی۔ سامنے ہی اکثم کو دیکھ کر اس کے چہرے پر چمک اور لبوں پر مسکراہٹ آ گئی تھی۔ 

"ایم سوری چھوٹے خان صاحب کہ ہماری ایک ٹیچر کی وجہ سے آپ کی بہن کو۔۔۔۔"

ابھی پرنسپل بول رہی تھی جب اکثم نے بہن کے لفظ پر اسے ٹوکا۔

"شی از مائے وائف میم۔"

وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اور اس کے رشتے کو وہاں موجود دونوں عورتوں پر واضح کر گیا تھا۔ پرنسپل اور ٹیچر نے حیرانگی سے دونوں کو دیکھا تھا۔ جبکہ ہانم کے سر کے اوپر سے اکثم کی انگلش گزر گئی تھی۔ جلد ہی پرنسپل نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے اکثم سے ایکسکیوز کیا اور  ہانم کو کبھی بے وجہ نہ ڈانٹنے کی یقین دہانی کرائی۔ اکثم نے مسکرا کر ہانم کو دیکھا جو اب اس کے ساتھ پرنسپل آفس کے باہر کھڑی تھی۔

"آج سے تمہیں میں خود پڑھائوں گا۔ٹھیک ہے اور کوئی بھی کچھ کہے تو مجھے بتا دینا۔ اب میں چلتا ہوں۔"

 ہانم نے جلدی سے اپنا سر اثبات میں ہلایا  تو اکثم مسکرا کر وہاں سے چلا گیا۔  جاثیہ جو پانی پینے کے بہانے باہر آئی تھی ہانم کے ساتھ اکثم  کو دیکھ کر وہ حیرت ذدہ رہ گئی تھی۔ وہ جلدی سے ہانم کے پاس آئی۔

"ہانم یہ لڑکا تمہارا بھائی تھا کیا؟ قسم سے بڑا پیارا تھا۔ بالکل تمہاری طرح۔"

جاثیہ کی بات پر ہانم نے آنکھیں چھوٹی کر کے جاثیہ کو دیکھا اور کمر پر دونوں ہاتھ ٹکائے لڑاکا عورتوں کی طرح بولی تھی۔

"خان میرے بھائی نہیں ہیں۔وہ میرے شوہر اور سہیلی ہیں۔"

ہانم کے جواب پر جاثیہ نے اسے سر سے لے کر پائوں تک  دیکھا اور صدماتی کیفیت میں بولی۔

"تم اس کی بیوی ہو؟"

"ہاں۔"

ہانم نے معصومیت سے جواب دیا۔ اس وقت اسے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ اسے جاثیہ کا اکثم کی تعریف کرنا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ 

"اللہ تم دونوں کے نصیب اچھے کرے آمین۔ ویسے ہانم سہیلی لڑکی کو کہتے ہیں اور تمہارے شوہر تمہارے دوست ہیں۔"

جاثیہ نے مسکرا کر اسے سمجھایا۔

"لیکن خان نے کہا تھا کہ وہ میری سہیلی ہیں۔"

ہانم نے اپنی آنکھوں کو گھماتے ہوئے جواب دیا تو جاثیہ نے مسکرا کر اس کے معصوم چہرے کو دیکھا تھا۔ 

"اچھا چلو خان کی چمچی کلاس میں اردو کی ٹیچر پڑھا رہی ہیں۔"

جاثیہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کلاس کی طرف لے گئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے  خان؟"

دلاور خان رات کو اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹے تھے جب یسرا بیگم نے نماز پڑھ کر جائے نماز اپنی جگہ پر رکھا اور دلاور خان کے پاس بیٹھ کر جازت طلب لہجے میں کہا۔

"بولیں۔"

دلاور خان نے یسرا بیگم کے چہرے  کو دیکھا جہاں کچھ پریشانی بھی تھی۔

"خان میں سوچ رہی تھی ۔۔ مطلب اگر آپ کو مناسب لگے تو کیوں نہ ہم لوگ اقصی کی دوبارہ شادی کر دیں۔ اس کی تنہائی سے ڈرتی ہوں میں۔ کل کو اگر احمر نے ہم سے پوچھ لیا کہ ہم نے اس کی محبت کو تکلیف سے کیوں نہیں نکالا تو ہم کیا جواب دیں گے۔"

دلاور خان نے تحمل سے یسرا بیگم کی بات کو سنا تھا۔

"آپ جانتی ہیں کہ  اس  فیصلے کا اختیار  پہلے بھی اقصی کے پاس تھا اور آج بھی  اسی کے پاس ہے۔ آپ بات کرلیں اس سے پھر کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کر دیں تاکہ میرے لاڈلے خان کی روح بے چین نہ رہے۔"

دلاور کی بولتے ہوئے آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ یسرا بیگم نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔

"آپ دعا کیا کریں اس کے لئے کیونکہ جب میرے دل کی تڑپ بڑھ جاتی ہے تو میں بھی اپنا سکون اسی سے مانگتی ہوں۔"

احمر کی یاد تو یسرا بیگم کو بھی آتی تھی۔ دل تو ان کا بھی دکھ سے بھر جاتا تھا۔ لیکن وہ قرآن پاک اور نماز سے سکون حاصل کرتی تھیں۔ 

"ہانم کا سکول کیسا جا رہا ہے یسرا؟"

دلاور خان کے لبوں پر ہانم کے نام سے ہی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔

"اچھا جا رہا ہے۔ آج تو اکثم بول رہا تھا کہ اسے خود  بھی پڑھائے گا گھر پر ۔ تاکہ وہ اچھے سے امتحان دے سکے۔اور ہمارا نام روشن کر سکے۔"

یسرا بیگم کی بات پر دلاور خان مسکرائے تھے۔ 

"اکثم کی برداشت واقعی بہت زیادہ ہے یسرا کیونکہ اگر ایسی نالائق اور کند ذہن بیوی میری ہوتی تو میری تو بس ہو جاتی۔"

دلاور خان کی بات پر یسرا بیگم نے انہیں مصنوعی سا گھورا تھا۔جس پر دلاور خان کا قہقہ کمرے میں گونجا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہا؟ دھیان کہاں ہے تمہارا؟ مجھے یہ تو سمجھ نہیں آرہی تمہیں آٹھویں کلاس میں بٹھا کس نے لیا؟" 

اکثم کافی دیر سے اسے ریاضی کا ایک سوال سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اور اسے سمجھاتے ہوئے انداز باخوبی ہوگیا تھا کہ وہ ریاضی میں ایک نالائق سٹوڈنٹ ہے۔ جب کافی دیر سمجھانے پر بھی ہانم کو سمجھ نہیں آیا تو دانت پیس کر بمشکل اپنے غصے کو ضبط کئے اسے دیکھ کر بولا۔ 

"خان میں کیا کروں مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی۔"

ہانم نچلے لب کو باہر نکالے معصومیت سے روہانسی ہو کر بولی۔

"اچھا ٹھیک ہے ایک دفعہ اور کوشش کرتے ہیں۔"

اکثم اس کے معصومیت سے نظریں چرا کر گیا۔

"اچھا فرض کرو تمہارے پاس پانچ ہزار روپے ہیں ۔۔۔ اور مجھے دوہزار روپوں کی ضرورت ہے تو دو ہزار تم مجھے دے دئیے۔۔۔ اب بتائو تمہارے پاس کتنے پیسے باقی ہیں؟"

"لیکن خان میرے پاس تو پیسے ہے ہی نہیں۔"

ہانم اپنا دایاں ہاتھ دائیں گال پر رکھے آنکھیں گھما کر بولی۔

اکثم اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے بابا جان کے سامنے اسے پڑھانے کی ذمے داری لی تھی۔

"ہانم میں نے کہا فرض کرو۔"

اکثم نے اسے گھورا کر کہا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ کر لیا فرض۔۔۔ لیکن میں آپکو اپنے پیسے کیوں دوں گی؟ آپکو ضرورت ہے تو بابا جان سے یا اماں جان سے لے لیں نا۔" 

ہانم نے اپنی طرف سے عقل مندی کی بات کی جبکہ اکثم نے لمبی سانس لے کر خود پر ضبط کیا تھا۔ 

"جو میں نے کہا ہے ہانم اسے فرض کرو۔"

اکثم نے دانت پیسے اور اسے تیز نظروں سے گھورا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ دے دوں گے پیسے لیکن اس طرح گھوریں تو مت۔۔۔ مگر واپس تو کر دیں گے نا؟"

اکثم اس دفعہ اٹھ کر بیڈ پر چلا گیا تھا کیونکہ اسے یقین تھا وہاں رہتا تو ہانم کو ایک لگا دیتا جو پتہ نہیں کونسے سکول سے پڑھ کر آئی تھی۔

سائیڈ ٹیبل پر موجود گلاس سے پانی پی کر اس نے ہانم کو دیکھا جو اپنی نیلی آنکھوں سے ناسمجھی سے اکثم کو دیکھ رہی تھی۔

اکثم دوبارہ صوفے پر واپس آیا اور نرمی سے بولا۔

"ہاں دے دوں گا واپس تمہارے پیسے۔۔۔ اب بتائو تمہارے پاس کتنے پیسے باقی ہوں گے؟"

"چار ہزار۔"

ہانم خوش ہوتے ہوئے بولی جبکہ اکثم نے اس بار غصے سے اس کا بازو پکڑ کر کھینچا جو سیدھے اس کے سینے سے آ کر ٹکرائی۔دونوں ایک دوسرے سے صرف چند انچ کے فاصلے پر تھے۔ اکثم کا دل اس اچانک افتاد پر  تیز رفتار سےدھڑکنا شروع ہوگیا جبکہ ہانم کے سفید رنگ میں سرخی نمایاں ہونے لگی۔ اور ساتھ ہی دھڑکنوں کا شور کمرے میں گونجنے لگا تھا۔اکثم کی سانسیں ہانم کے چہرے پر تپش لے آئیں تھیں۔ اکثم نے لمحہ ضائع کئے بغیر اسے خود سے دور کیا اور اس کی طرف دیکھے بغیر کمرے سے نکل گیا۔جبکہ ہانم کا دایاں ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پر گیا تھا۔ ایک انوکھا سا احساس اس کے دل ودماغ پر حاوی ہوا تھا۔ جسے وہ سمجھنے سے فلحال قاصر تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دھڑکتے دل کو سنبھالتے ہوئے چھت پر آ گیا تھا۔ وہ کیسے اس کے اتنے قریب جا سکتا ہے؟ یہ سوچ ہی اس کے دماغ مفلوج کر رہی تھی۔ 

جیسے ہی اس نے اپنے ہاتھ کو دیکھا ایک بار پر اس پر ہانم کا لمس جاگ گیا تھا۔ اس نے ہاتھ کو اپنی آنکھوں کے سامنے کیا تو اس کے لب بے ساختہ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔ وہ نہیں جانتا تھا یہ مسکراہٹ کیوں تھی؟ اس نے ہاتھ کو لبوں کو نزدیک کر کے  اس پر تشنہ لب رکھے اور پھر اردگرد دیکھ کر جلدی سے ہاتھ نیچے کیا تھا۔ وہ اپنی حرکت پر خود شرمندہ ہوگیا تھا۔ 

"خود کو کنٹرول کرو اکثم۔ دل پر اختیار نہیں ہے تمہارا لیکن اپنے نفس کو بے لگام مت کرو۔ ورنہ وہ پچھتاوا حصہ آئے گا جس پر تم رو بھی نہیں سکو گے۔"

خود سے باتیں کرتے ہوئے وہ خود کو کمپوز کر رہا تھا۔ رات کی ٹھنڈی ہوائیں اس اپنے دل میں موجود پنپتی حرارت کو کم کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہی تھیں۔ الواہی مسکراہٹ کو لبوں کا مکین بنائے وہ چھت کی دیوار پر دونوں ہاتھ ٹکائے بہت ساری سوچوں میں گر گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے ۔۔۔۔

سرپرائز کے لئے تھوڑا نیچے آ جائیں ۔۔

 #ماہ_محبت 

#کرن_رفیق 

#قسط_16

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Don't copy paste without my permission.......

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے ہی وہ روم میں واپس آیا ہانم  پر اس کی نظریں ٹھہر سی گئی تھیں۔ وہ بے پرواہ سی بیڈ پر باہوں میں تکیے کو سمیٹے سو رہی تھی۔ اس کے سلکی ریشمی بال آدھے تکیے اور آدھے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھے۔ وہ آہستہ سے چلتے ہوئے آگے بڑھا تھا۔ اس کے نزدیک پہنچ کر اس نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے بالوں کو اس کے چہرے سے ہٹایا تھا۔ ہانم مسکراتے ہوئے کروٹ بدل گئی تھی۔ اکثم بے ساختہ وہاں سے صوفے پر گیا تھا۔

آنکھوں کے حصار میں اس کے بے خبر وجود کو لئے وہ اپنی آنکھوں کی تشنگی کو مٹا رہا تھا۔ یہ سب وہ بے خودی میں کر رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ہانم کی ذرا سی قربت پر وہ مضبوط اعصاب کا مالک شخص چاروں شانے چت ہو جائے گا۔ اسے دیکھتے ہوئے معلوم نہیں کب وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ 

قربان جائوں میں

 اس عشق پر

جو لمحوں میں 

حدوں کو چھو گیا

تشنگی ان گستاخ 

نظروں کی نہ بجھ سکی

اور میرا انگ انگ 

تیرا سودائی ہوگیا 

(کرن رفیق )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہانم کو سکول چھوڑنے کے بعد وہ جیسے ہی کالج پہنچا اسامہ کلاس روم کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا اکثم کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا۔ اکثم کی مسکراہٹ اس کے دیکھنے پر گہری ہو گئی تھی۔ 

"کیا ہے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟"

اکثم اپنی  ازلی مسکراہٹ سے بولا تھا۔

"اکثم تم آج کچھ زیادہ ہی مسکرا رہے ہو؟ کیا وجہ جان سکتا ہوں میں؟"

اسامہ کا انداز اسے قہقہ لگانے پر مجبور کر گیا تھا۔ اسامہ نے اسے مصنوعی گھورا تھا۔ 

"بیٹا تیرے ارادے مجھے بالکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہے؟ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ آج تم نے بارہ سالہ بھابھی کے ساتھ ڈرائیونگ کو کافی انجوائے کیا ہوگا۔"

اسامہ کی بات پر اس نے بے ساختہ اس کے دائیں کندھے پر پنچ رسید کیا تھا۔ اور اسے گھورتے ہوئے بولا۔

"اپنی فالتو بکواس کا پٹارہ وہاں کھولا کرو جہاں فارغ لوگ اسے سننے کے لئے تیار ہوں۔"

"ہاں بھئی اب بھابھی کی دل چھو لینی والی باتوں کے آگے دوست کی باتیں بکواس ہی لگے گیں۔ ویسے ملنا پڑے گا ایک دفعہ بھابھی سے کہ آخر ایسا بھی کیا جادو کیا انہوں نے تم پر کہ تم اپنے اردگرد منڈلاتے اکلوتے دوست کو بھول گئے ہو۔"

اسامہ نے مصنوعی تاسف کو چہرے پر سجانے کی کوشش کی تو اکثم نے اسے گھورا۔ 

"تجھے میں کلاس کے بعد اچھے سے ملواتا ہوں۔ تو دیکھ اب۔"

اکثم یہ بول کر کلاس کے اندر چلا گیا جبکہ اسامہ کے قہقے نے اس کا مزید دل جلایا تھا۔

"ہائے بچے کا جلن کے مارے برا حال ہو رہا ہے۔ محبت ہو گئی اس ڈفر انسان کو وہ بھی بارہ سالہ بھابھی سے۔"

اسامہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے اس کے پیچھے گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اتوار تھا تو ہانم گھر پر ہی تھی جبکہ اکثم صبح سے ہی حویلی سے نکلا ابھی واپس نہیں آیا تھا۔ اقصی ثمامہ خان کو اٹھائے حال میں آئی تو ہانم کے دل میں ثمامہ کو گود میں لینے کی خواہش شدت سے جاگی تھی۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اقصی کسی صورت ثمامہ کو اسے ہاتھ لگانے نہیں دے گی۔ وہ تھوڑی دیر اماں جان سے بات کر کے واپس اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔

"خان نے مجھے بےبی نہیں لا کر دیا آج آتے ہیں تو میں پوچھتی ہوں ان سے۔"

ہانم خود سے بولتے ہوئے بیڈ پر لیٹی اور نرم بستر پر جلد ہی نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی۔ 

اکثم شام کو گھر واپس آتے ہی سیدھے اپنے کمرے میں آیا جہاں ہانم اپنی نیند پوری کر رہی تھی۔

"اللہ ہی جانے اس بندی کو اتنی نیند کیوں آتی ہے؟ پتہ نہیں کونسے ہل جوتی ہے جو اس قدر اسے نیند سے پیار ہے۔"

اکثم خود سے بڑبڑاتے ہوئے واش روم  کی طرف چلا گیا۔ جیسے ہی اس نے واش روم کا دروازہ بند کیا۔ ہانم کی کھٹکے سے آنکھ کھل گئی۔ ڈریسنگ ٹیبل پر اکثم کا موبائل دیکھ کر وی سمجھ گئی تھی کہ وہ گھر آ چکا ہے۔ جلدی سے ڈوپٹہ اوڑھے وہ اپنی ہلکی ہلکی سرخ آنکھوں کو کھول کر اس کا انتظار کرنے لگی۔اکثم نہا کر واش روم سے باہر آیا تو ہانم کو دیکھا جو سر پر ڈوپٹہ جمائے، اپنی آنکھوں کو بمشکل کھولے، نیند پر جبر کر کے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ مسکرا کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ہانم جلدی سے واش روم کی طرف بڑھی اور منہ دھو کر واپس آئی۔ 

"خان مجھے آپ سے بات کرنی ہے؟"

ہانم نے اکثم سے کہا جو اپنے بالوں کو کنگھی کر رہا تھا۔ 

"ہاں بولو۔"

اکثم نے ایک نظر اس کے الجھن بھرے چہرے کو دیکھ کر نرمی سے اجازت دی۔

"خان مجھے اس ڈاکٹر کا  فون نمبر چاہیے جس کے پاس بے بی ہوتے ہیں۔"

ہانم کی بات پر وہ سرعت سے پلٹا تھا۔ اسے لگا تھا ہانم بھول گئی ہوگی اس بات کو کیونکہ پچھلے ایک مہینے سے وہ اسے کہتا آ رہا تھا ڈاکٹر نہیں آتا۔ اکثم نے اسے دیکھا جو امید چہرے پر سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔

"دیکھو ہانم وہ ڈاکٹر ابھی بزی ہے۔ میں کل جائوں گا ان سے ملنے اور ویسے بھی میرے پاس اس کا نمبر نہیں ہے۔"

اکثم نے پیار سے اسے پچکارا۔

"خان مجھے کچھ نہیں معلوم ۔۔۔ مجھے آج ہی بےبی لا کر دیں۔ آپ مجھے بےبی لا کر دینا ہی نہیں چاہتے؟"

ہانم کے ضدی انداز پر اکثم نے اسے گھورا تھا۔ 

"پاگلوں کی طرح حرکتیں کرنا بند کرو۔ بول رہا ہوں نا کہ کل جائوں گا ڈاکٹر کے پاس۔اور اگر ایسے ہی ضد کی تو بےبی لا کر نہیں دوں گا سمجھی تم۔"

اکثم نے اس بار اپنے لہجے کو سخت کیا تھا تاکہ ہانم اپنی ضد چھوڑ دے لیکن ہانم کی دھمکی پر اب اس کے چودہ طبق روشن ہو چکے تھے۔

"میں ابھی جا کر اماں جان اور باباجان کو بتاتی ہوں ۔۔ کہ آپ نے مجھے ڈانٹا۔"

ہانم نم آنکھوں سے بول کر باہر کی جانب چلی گئی اور اکثم کو ہوش تب آیا جب کمرے کا دروازے ذور سے بند ہوا تھا۔ وہ حواس میں لوٹتے ہی اس کے  پیچھے بھاگا تھا۔

"یااللہ اس چھوٹے دماغ کو بڑا کر دے اور بچا لے مجھے۔"

اکثم بے ساختہ دل میں دعا مانگ کر اس کے پیچھے گیا تھا اور اسے آوازیں دینے لگا۔ جو اب حال میں پہنچ چکی تھی۔ جہاں سب موجود تھے سوائے اقصی کے جو ثمامہ کو لے کر سونے چلی گئی تھی۔

"ہانم ۔۔۔ ہانم۔۔۔ بات سنو"

ہانم روتے ہوئے بھاگ کر حال میں آ رہی تھی جہاں گھر کے سب افراد بیٹھے تھے۔ جبکہ اکثم اس روکتا ہی رہ گیا تھا۔

ہانم سیدھے دلاور خان کے پاس جا کر بیٹھ گئی تھی۔۔اس کی نیلی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر دلاور خان نے ایک نظر اکثم کو دیکھا جس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہانم کا گلہ دبا دیتا۔ 

"ہانم۔۔۔۔ بچے رو کیوں رہی ہو؟"

یسرا جو دلاور کے پاس بیٹھی تھیں  نے پریشانی سے پوچھا۔

"اماں جان ۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ خان نے مجھے ڈانٹا۔"

ہانم ہچکیوں سے روتے ہوئے معصومیت سے بولی تھی جبکہ دلاور خان نے شکنوں بھری پیشانی سے اکثم کو دیکھا تھا جو اس کی عقل پر ماتم کرتے سٹپٹا گیا تھا۔ 

"تم نے ہانم کو ڈانٹا؟"

دلاور خان نے سخت لہجے میں پوچھا جبکہ وہ بس ہانم کے جھکے سر کو گھور کر رہ گیا۔

"بابا جان ۔۔۔ آپ جانتے تو ہیں اس کو ۔۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا دل پر لگا لیتی ہے۔۔۔۔ کچھ نہیں کہا میں نے۔"

"کیوں کچھ نہیں کہا ۔۔۔ آپکو معلوم ہے بابا جان انہوں نے بےبی لانے سے منع کر دیا۔"

"ہانم چلو کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں۔"

اکثم جلدی سے بولا کیونکہ سب کے سامنے اپنی عزت کا فالودہ ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔

"کیوں جائوں آپ کے ساتھ؟میں نہیں جا رہی۔۔ اماں جان میں نے خان کو ایک مہینے پہلے کہا تھا بے بی لانے کو لیکن روز نہیں لاتے۔ کہتے ہیں ڈاکٹر نہیں آیا تھا جس نے بے بی دینا تھا۔۔۔ آج میں نے ڈاکٹر کا نمبر مانگا تو مجھے ڈانٹ دیا۔۔ مجھے بےبی چاہیے ۔۔۔ اماں جان ان کو بولیں مجھے بے بی لا کر دیں پھر میں ان سے بات کروں گی۔"

ہانم منہ بسور کر بولی جبکہ باقی گھر والوں نے بے ساختہ قہقہ لگایا تھا۔ اکثم کسی بھی طرف دیکھے بغیر اپنے کمرے کی طرف چلا جبکہ ہانم ہونقوں کی طرح سب کو ہنستے دیکھ رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں چکر  اضطرابی کیفیت میں کاٹتے ہوئے اکثم مسلسل ہانم کی بچگانہ حرکتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جب ہانم کمرے میں آئی۔ 

"دماغ ہے تمہارے پاس ہانم یا بیچ کر آئسکریم کھا آئی ہو؟"

اکثم اس کو دیکھ کر گھورتے ہوئے بولا۔ ہانم نے اپنی آنکھوں کو چھوٹا کیا اور اکثم کو دیکھنے لگی۔

"خان آپ نے بیچا ہے اپنا دماغ جو آپ مجھے بول رہے ہیں۔"

ہانم کے جواب پر اکثم کو باقاعدہ صدمہ ہوا تھا کیونکہ وہ باقاعدہ اب بیویوں کی طرح تاثرات لئے اسے گھور رہی تھی۔ یا شاید اکثم کے دیکھنے کا انداز بدل چکا تھا۔

"ہانم کیا اپنی تمیز کو تم سکول میں ہی بھول آئی ہو جو تمہیں یہ نہیں معلوم کہ خود سے بڑوں سے کیسے بات کی جاتی ہے؟"

اس کی بات پر ہانم واقعی شرمندہ ہو گئی تھی۔اور خاموشی سے بیڈ کی طرف چلی گئی۔ اکثم نے حیرانگی سے اس کی خاموشی کو نوٹ کیا تھا۔ 

"ہانم تم ٹھیک ہو؟"

وہ متفکر انداز میں چاہ کر بھی اپنے جذبات کو چھپا نہ سکا۔ 

"مجھے امی اور ابا کی بہت یاد آ رہی ہے۔ کل بھی وہ میرے خواب میں آئے تھے لیکن مجھ سے نہیں ملے۔"

ہانم بیڈ پر بیٹھی شکایتی انداز میں بولی تو اکثم نے متبسم سے انداز میں مسکرا کر لبوں کو آپس میں پیوست کر لیا۔ 

"کیونکہ تم پڑھتی نہیں ہو اس لئے وہ تم سے ناراض ہیں۔"

"لیکن میں تو ہر روز سکول جاتی ہوں خان۔"

ہانم نے نم آنکھوں سے چہرے پر معصومیت لئے اسے دیکھا تھا۔ 

"لیکن پڑھتی تو نہیں ہو نا؟ تمہیں تو بس بے بی چاہیے اور کچھ نہیں۔"

اکثم کی بات پر ہانم نے منہ بسورا تھا۔

"اگر میں پڑھ کر ڈاکٹر بنوں گی تو پھر مجھے بےبی مل جائے گا خان؟"

ہانم کی بات پر اکثم کے جذبات اس کی آنکھوں میں چمک بن کر ابھرے تھے۔ وہ اپنی نیلی آنکھوں سے اکثم کا چہرہ دیکھ رہی تھی جو ضبط کے کڑے مراحل میں سے گزر رہا تھا۔

"ہاں ۔۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آج کے بعد تم بےبی کا نام تب تک نہیں لو گی جب تک ڈاکٹر نہ بن جائو۔"

اکثم صوفے پر تکیہ سیٹ کرتے ہوئے اس سے نظریں چرا گیا تھا۔

"ٹھیک ہے جب میں خود ڈاکٹر بنوں گی تو تین بے بی لے کر آئوں گی۔"

ہانم کی پرجوش آواز پر مسکراتے ہوئے آنکھوں پر بازو رکھ کر لیٹ گیا تھا۔ 

"سو جائو ہانم۔ صبح سکول بھی جانا ہے۔"

اکثم کی بھاری آواز پر ہانم خوش ہوتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔ ایک پر نیند مہربان ہوئی تو مقابل کروٹ کروٹ بدل رہا تھا۔ یہ لڑکی اس کے لئے خاص نہیں بہت خاص ہوچکی تھی۔ اکثم کو اس بات کا اندازہ باخوبی ہو رہا تھا۔ 

معلوم نہیں وہ یار تھا

یا اس سے ملتا کوئی ہو بہو

دھڑکنیں منتشر ہوئیں جب

سمجھ گئے جان ہے ہماری روبرو

دو ماہ ہوگئے تھے ہانم کو سکول جاتے ہوئے اور ان دو ماہ میں اکثم کے جذبات اس پر اس قدر غالب آ چکے تھے کہ اسامہ اب اسے کالج میں جب بھی ہانم کی بات کرتا ایک مسکراہٹ اس کی لبوں پر چپک کر رہ جاتی۔

آج بھی وہ کالج کی کینٹین میں بیٹھے تھے جب اسامہ کو شرارت سوجی اور وہ خود پر سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ کر بولا۔ 

"اکثم ایک بات پوچھوں؟"

اسامہ کی بات پر اکثم جو برگر کھانے میں مصروف تھا نے اپنا دایاں بھنوا اچکایا اور سوالیہ انداز لئے اسے دیکھا۔ 

"ہارون یا انفال؟"

اسامہ کی سنجیدگی پر اکثم نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔

"کیا ہم کوئی گیم کھیل رہے ہیں؟"

اکثم نے اسے گھورا تھا۔

"ایسا ہی سمجھ لو؟"

اسامہ نے کندھے اچکائے تھے۔

"لیکن یہ دونوں ہیں کون میں تو آن کو جانتا بھی نہیں؟"

اکثم کی بات پر اسامہ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ کو لبوں میں دبا کر روکا تھا۔

"یار بتاتا ہوں نا پہلے ایک سیلیکٹ کر۔"

"انفال"

"ایک سال یا دو سال؟"

اسامہ کے بے تکے سوال اکثم کی سمجھ سے باہر تھے اکثم اب اپنا کھانا بھول کر اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ 

"ایک سال۔ اب بتائے گا تیرے دماغ میں چل کیا رہا ہے؟"

اکثم نے سنجیدگی سے پوچھا۔ اسامہ اپنی جگہ سے اٹھا اور سنجیدہ تاثرات چہرے پر سجائے وہ اکثم کو دیکھنے لگا جو الجھن لئے اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"تیری بیٹی کا نام ہے جو ایک سال بعد اس دنیا میں آئی گی۔"

یہ بول کر اسامہ وہاں سے بھاگا تھا جبکہ اکثم  اسے ہزاروں گالیوں سے دل میں نوازتے ہوئے اس کے پیچھے گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اقصی مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے؟"

یسرا بیگم اقصی کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔ اقصی جو ثمامہ کو سلا کر اب اس کے کپڑے تہہ کر رہی تھی یسرا بیگم کی طرف مڑی اور مسکراتے ہوئے بولی۔

"جی اماں جان بولیں۔"

یسرا بیگم اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں اور اپنے لفظوں سے تمہید باندھنے لگیں۔

"زندگی اور موت کے درمیان فقط ایک سانس کہ بات ہوتی ہے اقصی۔ یہی سانس بند ہوجائے تو انسان موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے لیکن اگر یہی سانس مل جائے تو  زندگی کو ناچاہتے ہوئے بھی گزرانا پڑتا ہے۔ احمر کے جانے کے بعد ہم سب کی زندگی میں ایسا خلا آ چکا ہے جسے ہم چاہ کر بھی پر نہیں کر سکتے۔بیٹا ہماری زندگی اس کی یادوں اور سہارے سے گزر جائے گی۔لیکن۔۔۔"

اقصی نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا اور نرمی سے بولی۔

"اماں جان ایسی کیا بات ہے جس کے لئے آپ  اتنی لمبی تمہید باندھ رہی ہیں؟"

"اقصی تم ابھی جوان ہو پڑھی لکھی ہو۔ ہم تمہیں احمر کی وجہ سے یا اپنے اصولوں کی وجہ سے اس گھر سے باندھنا نہیں چاہتے۔ اس لئے میں نے اور تمہارے بابا جان نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر تم راضی ہو تو تمہاری دوسری شادی۔۔۔۔"

"خداراہ بس کر دیں اماں جان۔۔۔ آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا؟ کیا میں آپ لوگوں پر بوجھ بن گئی ہوں یا احمر کے جانے سے میرے لئے محبت بھی آپ کے دل میں دفن ہو گئی ہے؟"

اقصی نم آنکھوں سے انہیں ٹوک کر اپنے لفظوں سے ان کے لبوں پر قفل لگا گئی تھی۔

"میں جانتی ہوں اماں جان آپ سب میری بھلائی ہی چاہتے ہیں لیکن میں نہیں کر سکتی احمر سے بے وفائی۔ مجھے موت منظور ہے لیکن دوسری شادی نہیں۔ اور ویسے بھی ثمامہ ہے میرے پاس جس کے سہارے میں زندگی گزار سکتی ہوں۔"

قدرے توقف کے بعد وہ لرزتے لبوں سے بمشکل بولی تھی یسرا بیگم نے آتی بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لیا تھا۔ 

"یہ تمہارے بابا جان کا فیصلہ ہے اس میں رد و بدل کی گنجائش نہیں ہوگی اقصی۔"

یسرا بیگم کسی بھی طرح اسے منانا چاہتی تھیں۔ 

"اماں جان میں مر جائوں گی؟ میں کیسے رہوں گی ثمامہ کے بغیر؟"

اقصی سسکتے ہوئے بولی تھی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ دلاور خان اپنے فیصلوں سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔

"ہمیں احمر کے سامنے کل کو جوابدہ ہونا ہے اقصی ۔۔ میدان حشر جب وہ ہم سے سوال کرے گا کہ ہم نے اقصی کو اپنے نام نہاد اصولوں کی وجہ سے اپنے پاس کیوں رکھا تو ہم کیا جواب دیں گے اسے؟ میں جانتی ہوں  کہ احمر کی روح کو اس فیصلے سے مطمئن ہوگی۔"

اقصی بے بسی سے لب بھینچ گئی تھی۔ لیکن آنسو آنکھوں کو سے اس کے سارے دکھوں کو بہا کر اسے پرسکون کرتے جا رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تم جھوٹ بول رہے ہو سامی۔ میری ڈرائنگ زیادہ پیاری بنی ہے۔"

اکثم جیسے ہی حال میں داخل ہوا اس کی سماعتوں سے ہانم کی آواز ٹکرائی تھی۔ وہ دلاور خان کے کہنے پر زمینوں سے ہو کر اب رات کو واپس آیا تھا جہاں اس کے سارے تھکن اس دشمن جان کی آواز سن کر ہی دور ہو گئی تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے ان دونوں کی جانب بڑھا جو حال میں موجود صوفے پر براجمان ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔ 

"اسلام و علیکم۔"

اکثم کی آواز پر وہ دونوں متوجہ ہوئے۔ 

"وعلیکم اسلام ۔۔ خان آپ کہاں گئے تھے؟"

ہانم نے جواب کے ساتھ ہی سوال کیا تھا۔ 

ارتسام نے اس کے سوال پر مسکرا کر اکثم کو دیکھا تھا۔ 

"بابا جان کے ایک کام سے گیا تھا۔ تم بتائو تم دونوں جھگڑ  کیوں رہے تھے؟"

اکثم نے ان دونوں کو گھورا تھا۔

"بھائی آپ بتائیں کس کی ڈرائنگ پیاری ہے؟"

"مجھے معلوم ہے خان کو میری ڈرائنگ زیادہ اچھی لگے گی۔"

جیسے ہی ارتسام نے اکثم کے آگے اپنی ڈرائنگ کی ہانم نے اسے زبان چڑھا کر اکثم کی طرف دیکھا جیسے یقین دہانی چاہ رہی ہو۔

اکثم نے دونوں کی ڈرائنگ دیکھی اور بولا۔

"دونوں کی اچھی ہے۔"

حالانکہ اسے ارتسام کی زیادہ اچھی لگ رہی تھی جس نے ابھرتے سورج کا منظر بنایا تھا جبکہ ہانم نے پتہ نہیں کس شہر کا نقشہ کھینچا تھا۔ لیکن وہ سچ بول کر اس کے مان کو 

توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ 

"خان ایک بتائیں نا؟"

ہانم نے اس بار اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کر التجائیہ انداز اپنایا تھا۔ جبکہ اکثم اس کے اس قدر پاس آنے سے اپنے جذبات پر سخت پہرا لگانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ 

"بھائی جھوٹ نہیں بولنا بتائیں میری ڈرائنگ زیادہ اچھی ہے یا بھابھی کی؟"

ارتسام کی آواز پر وہ جیسے حواس میں لوٹا تھا۔ 

"تمہاری زیادہ اچھی ہے۔"

اکثم نے جلدی سے سچ بولا۔ ارتسام نے چڑانے والی مسکراہٹ سے ہانم کو دیکھا تھا۔ 

"دیکھا بھابھی ۔۔۔ بھائی کو بھی میری ہی ڈرائنگ پسند آئی ہے۔"

ارتسام کی بات پر ہانم نے شکوہ کناں نظروں سے اکثم کو دیکھا۔

"آپ دونوں بالکل بھی اچھے نہیں ہیں۔"

ہانم بھرائی آواز میں بول کر وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔ جبکہ دونوں بھائی اس کی نم آنکھوں کو دیکھ کر شرمندہ ہو گئے تھے۔

"سوری بھائی۔ مجھے نہیں معلوم تھا بھابھی اس بات کو دل رہ لے جائیں گی۔"

ارتسام کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔

"تمہاری بھابھی کے دماغ کا کوئی نہیں بلکہ سارے سکرو ڈھیلے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ہی سیٹ ہوں گے۔"

"بھائی وہ بہت اچھی ہیں آپ میرے سامنے ان کی برائی نہیں کر سکتے۔"

ارتسام نے اکثم کو گھور کر کہا تو اکثم نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"اوو بھابھی کے چمچے بس کرو ڈرامے اور جا کر رشیدہ بی سے کہو میرے لئے کھانا لگائیں تب تک میں تمہاری بھابھی سے دو دو ہاتھ کر کے آتا ہوں۔"

اکثم کی بات پر ارتسام مسکراتے ہوئے کیچن کی طرف چلا گیا جبکہ اکثم اپنے کمرے کی طرف چلا گیا تھا جہاں اسے سچ بولنے پر اپنی بیوی کو منانا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم کمرے میں آیا تو وہ بیڈ پر لیٹی شاید سونے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ اکثم کے لبوں پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا۔ وہ آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے پاس بیڈ پر پہنچا۔ 

"ناراض ہو؟"

محبت بھرے لہجے میں پوچھتے ہوئے وہ اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔ ہانم نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اکثم نے اس کا بازو آنکھوں سے ہٹایا تو  اس کی مسکراہٹ نے لمحے کی تاخیر کئے بنا اس کے لبوں کا ساتھ چھوڑا تھا۔ نیلی آنکھیں اس وقت سرخ اور نمکین پانی سے بھری ہوئی تھیں۔ اکثم کا دل بے چین ہو گیا تھا ہانم کو اس حال میں دیکھ کر۔ 

"ہانم ایم سوری میں مذاق کر رہا تھا تمہاری ڈرائنگ بہت اچھی بنی تھی۔"

اکثم اس کے دودھیا نرم ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر یقین کروانے والے انداز میں بولا۔

ہانم نے اکثم کو آنکھیں سکیڑ کر دیکھا۔ 

"آپ مجھ سے زیادہ سامی سے پیار کرتے ہیں۔ میں نہیں بات کر رہی آپ سے جائیں یہاں سے آپ۔"

ہانم کے شکوے پر اس نے گہری سانس فضا میں خارج کی تھی۔ 

"ارتسام کی جگہ تم نہیں لے سکتی ہانم وہ بھائی ہے میرا۔۔ بہت محبت کرتا ہوں اس سے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تم اس جگہ قابض ہو چکی ہو جہاں سے اگر تم اب ذرا سا بھی پیچھے ہٹتی ہو تو سانسیں اٹک جاتی ہیں میری۔"

بالواسطہ طور پر اپنے جذبات کو آج وہ اس کے سامنے عیاں کر گیا تھا جو ہونقوں کی طرح منہ کھولے اکثم کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

"اچھا چلو منہ ہاتھ دھو کر آئو۔۔ ایسے بالکل چڑیل لگ رہی ہو۔"

اکثم اس کی چمکتی نیلی آنکھوں کی پلکوں پر ٹھہرے موتیوں سے نظریں چراتے ہوئے بیڈ سے اٹھ گیا تھا جو ناچاہتے ہوئے بھی اس کی جذبات کو بے لگام کر رہے تھے۔ 

"آئندہ آپ سامی کی طرف داری نہیں کریں گے۔ اور اسے یہ بھی بتائیں گے کہ اس سے زیادہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔"

ہانم کی معصوم شرط پر اکثم جو واش روم کی طرف جا رہا تھا ٹھٹھکا اور سرعت سے ہانم کو دیکھنے لگا۔ جن احساسات کی وہ نفی کر رہا تھا وہ ہانم کے لبوں سے انکشافات بن کر باہر نکلے تھے۔ اکثم بنا کچھ کہے واش روم کے اندر چلا گیا۔ 

منہ دھوتے ہوئے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ کر وہ بہت ساری سوچوں میں  خود کو گرا چکا تھا۔ 

اسامہ کی شرارت بھری باتیں، ہانم کی معصومیت، وہ اس سے محبت کر بیٹھا تھا۔ 

"کیا میں واقعی اس سے محبت کرتا ہوں؟"

آئینے میں خود کو دیکھ کر وہ دھیمی آواز میں خود سے سوال کرنے لگا۔ 

"نہیں یہ صرف جذباتی کیفیت ہے میری اور کچھ نہیں۔"

خود کو سرزنش کرتے ہوئے وہ اپنے تمام احساسات کی نفی کر گیا تھا جو بہت جلد اس پر سختی سے غالب آنے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مہینے کے اندر اندر اقصی کی شادی اس کے چچا زاد عزیر سے طے پا گئی تھی۔ اقصی اپنے ماں باپ کی ناراضگی ختم کرنے کے لئے ماں گئی تھی۔ عزیر ایک پڑھا لکھا لڑکا تھا۔ جو بچپن سے ہی اقصی کو پسند کرتا تھا۔ اقصی کی شادی کے بعد وہ کافی مایوس ہو گیا تھا۔ پھر اقصی کو خوش دیکھ کر اس نے گویا خود کو دنیا کے سامنے مضبوط کر لیا تھا۔ عزیر کا شمار پاکستان کے بہترین کاروباری آدمیوں میں ہوتا تھا۔ اقصی نے بھی بابا جان اور اماں جان کے فیصلے کی حامی بھرتے ہوئے اپنے ماں باپ کی ناراضگی دور کرتے ہوئے اس رشتے کے لئے حامی بھر لی تھی۔ کل اقصی کا نکاح تھا اسی سلسلے میں گائوں کی ایک لڑکی اقصی کو مہندی لگانے آئی تھی۔ جسے اقصی نے انکار کرتے ہوئے کمرے سے نکال دیا تھا۔ یسرا بیگم نے نم آنکھوں سے اس کی بے بسی اور اذیت کو دیکھا تھا جسے وہ چاہ کر بھی کسی سے بیاں کرنے سے قاصر تھی۔ ہانم جو پانی پینے کی غرض سے کیچن کی طرف جا رہی تھی اس لڑکی سے ٹکرا گئی۔

"اف اللہ۔۔۔ ہلا دیا میرے دماغ کو۔۔ دیکھ کر نہیں چل سکتی تھیں آپ۔ اتنی ذور سے اپنا سر میرے سر پر مارا ہے کہ میں نے جو سکول کا سبق یاد کیا تھا سارا اپنی جگہ سے ہل کر ادھر ادھر ہو گیا ہے۔"

ہانم اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے اس نوجوان لڑکی کو گھور رہی تھی جس نے خود اپنا ایک ہاتھ اپنے سر پر رکھا تھا۔ 

"معافی چاہتی ہوں۔ دھیان نہیں دیا تھا میں نے۔"

وہ لڑکی نرمی سے معذرت کرتے ہوئے ہانم کو مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔

"کوئی بات نہیں۔ آپ یہ بتائیں آپ کون ہیں؟ اور یہاں کیا کر رہی ہیں؟"

"وہ مجھے خان بیگم نے بلایا تھا چھوٹی بی بی کو مہندی لگانی تھی نا اس لئے۔ انہوں نے منع کر دیا لگوانے سے اس لئے واپس گھر جا رہی ہوں۔"

وہ بائیں سالہ لڑکی مسکراتے ہوئے ہانم کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولی۔

"آپ کو مہندی لگانی آتی ہے؟"

ہانم کی پرجوش سی آواز پر اس لڑکی نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔

"ہاں ۔۔ بالکل آتی ہے؟"

"اچھا ۔۔ آپ میرے ساتھ آئیں۔ میں لگواتی ہوں مہندی۔۔ مجھے تو اتنی پسند ہے مہندی ۔۔ میری امی کہتی ہیں کہ میرے ہاتھوں پر مہندی بہت پیاری لگتی ہے۔ میں ہر عید پر لگواتی تھی۔ ہاں دو تین دفعہ ایسے بھی لگوائی تھی اپنی سہیلی کی بہن سے۔"

ہانم کی پرجوش اور کبھی نا ختم ہونے والی باتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا جبکہ وہ لڑکی حیرانی سے ہانم کی باتونی خاصیت کو دیکھ رہی تھی۔ اسی دوران وہ دونوں  حال میں موجود صوفے پر بیٹھ چکی تھیں۔

"یہاں سے نہیں یہاں سے لگائو۔"

اس لڑکی نے مہندی کا ڈیزائن ہانم کے ہاتھ سے شروع کرنا چاہا تو ہانم نے اس کے آگے اپنا باذو کر دیا۔ اس کے دودھیا بازو پر مہندی بہت پیاری لگ رہی تھی جب اکثم اسے ڈھونڈتے ہوئے حال میں آیا جہاں وہ مہندی سے اپنے ایک ہاتھ کو سجائے دوسرے پر لگواتے ہوئے نیند میں جھول رہی تھی۔ اکثم نے مسکرا کر اپنا سر نفی میں ہلایا تھا۔ 

"ہانم۔"

ان دونوں سے کافی فاصلے پر کھٹے ہو کر اکثم نے ہانم کو پکارا تھا۔ ہانم جو اپنی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی اکثم کی آواز پر اپنی پوری آنکھیں وا کر کے اسے دیکھنے لگی۔ جبکہ وہ لڑکی جس کی اکثم کی طرف پشت تھی اپنی چادر ٹھیک کرنے لگی۔ 

"جی۔"

"یہ کوئی وقت ہے مہندی لگوانے کا؟ اب باقی کل لگوا لینا ابھی چلو اور جا کر سو جائو۔"

اکثم اس کی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر بولا جو بمشکل ہی وہ کھول کر اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"نہیں خان۔۔ میں مہندی لگوا کر آئوں گی۔ آپ دیکھیں کتنی پیاری لگ رہی ہے مہندی۔"

اس سے پہلے اکثم کوئی جواب دیتا اس لڑکی کی آواز پر وہ دونوں متوجہ ہوئے۔ 

"آپ کی مہندی مکمل ہو چکی ہے۔ آپ کے بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں آپکو اب سونا چاہیے۔"

"یہ اکثم خان یعنی میری بیوی ہے۔"

اکثم کی سخت آواز پر اس لڑکی نے شاک کی کیفیت میں ہانم کو دیکھا تھا جو آدھ کھلی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اپنے مہندی بھرے ہاتھوں پر پھونکیں مار رہی تھی۔ کمال کی بے نیازی برت رہی تھی وہ۔

سارا گائوں یہ بات جانتا تھا کہ ہانم کو ونی کیا گیا ہے۔ لیکن ونی کی گئی لڑکی اتنی پرسکون اور مطمئن تھی کہ وہ لڑکی اندازہ ہی نہ کر سکی کہ وہ ہانم بخت ہے خوش بخت کی بیٹی۔ 

"معافی چاہتی ہوں چھوٹے خان مجھے معلوم نہیں تھا۔"

"رشیدہ بی ۔۔۔ رشیدہ بی۔"

اکثم کو خود نہیں معلوم کہ اسے غصہ کیوں آ رہا تھا۔ رشیدہ بی جلدی سے اکثم کی آواز پر کہطن سے باہر آئی تھیں۔ 

"شہزاد کو ساتھ لے جائیں اور اس لڑکی کو اس کا معاوضہ دیتے ہوئے اس کے گھر باحفاظت پہنچا کر آئیں۔"

اکثم کی بات پر وہ لڑکی اچھے سے اپنی چادر کو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے صوفے سے اٹھی اور بنا اکثم کی طرف دیکھے رشیدہ بی کے ساتھ چل پڑی۔

اکثم نے گہری سانس فضا میں خارج  کرتے ہوئے ہانم کو دیکھا تھا جس کا سر اب صوفے کی پشت پر تھا جبکہ نیند میں جھولتے ہوئے بھی وہ اپنی مہندی کو مکمل احتیاط کے ساتھ خشک کر رہی تھی۔ اکثم آگے بڑھا اور اسے کندھوں سے تھام کر کھڑا کیا۔ 

"ہانم"

ہانم نے نیند میں جھٹکے کھاتے ہوئے اپنا سر اس کے سینے سے ٹکا دیا۔ 

"مجھے نیند آئی ہے۔ لیکن اگر سو گئی تو مہندی خراب ہو جائے گی۔"

دھیمی آواز میں بڑبڑاتے ہوئے وہ اکثم کو اپنے جگہ ساکت کر گئی تھی۔ وہ بہت کم اس کے نزدیک جاتا تھا۔ کیونکہ اس کی دھڑکنیں اس قدر شور مچاتی تھیں کہ اس ڈر تھا وہ باآسانی ان کا پیغام نہ سن لے۔ اکثم نے جلدی سے خود کو کمپوز کرتے ہوئے اسے کندھوں سے تھاما اور اسے دو تین جھٹکے دئیے۔ 

"ہانم کمرے میں چلو۔"

ہانم کے آنکھیں کھولنے پر اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ لیکن اسے پھر سے آنکھیں بند کرتے دیکھ کر اکثم نے اس کے  کندھوں کے گرد بازو پھیلائے اور اپنے ساتھ آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے وہ کمرے کی طرف گیا تھا۔ اماں جان جو اقصی کے کمرے سے نکلی تھیں۔ سامنے ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر مسکراتے ہوئے ان دونوں کے لئے دعا کرنے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خان حویلی کے مکین، اقصی کے ماں باپ اور عزیر کے ماں باپ کے علاوہ چند ایک لوگ تھے جو اس نکاح میں شرکت کر رہے تھے۔اقصی بغیر میک اپ کے بس سفید جوڑا پہنے، سر پر سرخ ڈوپٹہ اوڑھے،ثمامہ کو گود میں لئے رو رہی تھی۔ آج اس کا رشتہ اس گھر سے ختم ہو گیا تھا۔ عزیر سے نکاح نامے پر دستخط گویا اب اسے دنیا کے نئے رنگوں سے آشنا کروانے والے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ ثمامہ کی پرورش اس گھر میں اچھی ہوگی کیونکہ اگر وہ اسے ساتھ لے جاتی تو یقینا وہ اپنے باپ کو بھول جاتا جو کہ اقصی کسی صورت نہیں ہونے دے سکتی تھی۔

وہ اپنی سوچوں میں اس قدر گری ہوئی تھی کہ دلاور خان اور یسرا بیگم کی کمرے میں آمد بھی اس کا ارتکاز نہ توڑ سکی۔ 

"اقصی۔"

یسرا بیگم نے بیڈ پر بیٹھی اقصی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اقصی کی سوچوں کا تسلسل ایک دم سے ٹوٹا تھا۔ ویران آنکھوں میں نمی لئے اس نے یسرا بیگم کو دیکھا تھا۔ دلاور خان پر نظر اٹھتے ہی اس نے بھیگتے گالوں کو صاف کیا۔ مسکرانے کی کوشش میں آنسو ایک بار پھر اس کا گال بھگو گئے تھے۔ وہ ضبط کے تمام حدوں کو توڑ کر ان کے گلے لگی تھی۔

اس قدر وہ شدت سے اپنے دکھ کو آنسوئوں کے ذریعے ان تک پہنچا گئی تھی کہ دلاور خان کی آنکھیں بھی نم ہو گئی تھیں۔ آگے بڑھ کر انہوں نے اقصی کے سر پر دستک شفقت رکھا تھا۔

"اللہ تمہارے نصیب اچھے کرے اور تمہیں دنیا جہاں کی تمام خوشیوں اور نعمتوں سے نوازے۔ آمین"

دلاور خان یہ بول کر کمرے سے چلے گئے تھے جب یسرا بیگم نے اقصی کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔ 

"ہمیں سرخرو کرنے کے لئے شکریہ۔ احمر کے سامنے ہمیں معتبر کرنے پر میں نہیں جانتی میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟ تم جب چاہو یہاں آ سکتی ہو۔۔ یہ تمہارا آج سے میکہ ہے۔ ثمامہ کی فکر مت کرنا اپنی جان سے زیادہ اس کا خیال رکھوں گی۔"

یسرا بیگم کی بات پر اس نے اپنی کالی سرخ آنکھوں کو ان کے چہرے پر گاڑا۔ اور لرزتے لبوں کو حرکت دیتے ہوئے بولی۔

"میں نہیں جانتی اماں جان کہ میں اس رشتے کو کیسے اور کب تک نبھا سکوں گی؟ میں مجبور تھی آپ کے فیصلے کے آگے کیونکہ میں آپ لوگوں کو احمر کے سامنے مجرم بنا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اور رہی ثمامہ کی بات تو میں جانتی ہوں آپ اس کو اتنی محبت دیں گی کہ وہ مجھے بھول جائے گا۔ میں کوشش کروں گی میری وجہ سے آپکو کسی شکایت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور۔۔۔"

ابھی اقصی کے  باقی کے الفاظ منہ میں تھے جب ہانم اندر آئی۔ وائیٹ کلر کی فراک پہنے، جس پر سرخ اور سفید نگوں سے کام کیا گیا تھا،  سر پر ڈوپٹہ اوڑھے، میک اپ کے نام پر صرف کاجل اور لبوں کو سرخ لپ اسٹک سے سجائے وہ مسکراتے ہوئے ان دونوں کے پاس آئی تھی۔ 

"اماں جان وہ بابا جان آپ کو بلا رہے ہیں۔"

ہانم نے اقصی کے روئے ہوئے چہرے کو دیکھ کر یسرا بیگم سے کہا۔

"اقصی تم نے اب رونا نہیں اور خدا کا شکر ادا کرو جس نے تمہارا نصیب اتنے اچھے انسان سے جوڑا ہے۔ تم چادر لے لو میں تب تک تمہارے بابا جان کی بات سن لوں۔"

یسرا بیگم یہ بول کر کمرے سے باہر چلی گئیں جبکہ ہانم جو تذبذب میں کھڑی تھی ۔ وہ اقصی سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ رو کیوں رہی ہے؟ لیکن اس کے رویے کو یاد کرتے ہوئے وہ کمرے سے جانے لگی جب اقصی نے اس کا پکارا۔ 

"ہانم۔"

ہانم نے اقصی کی آواز پر پلٹ کر اس کے چہرے کو دیکھا تھا جہاں اس وقت ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی تھی۔ 

"جی۔"

ہانم نے وہاں سے قدم اٹھائے بغیر نظریں جھکا کر انگلیاں چٹخاتے ہوئے جواب دیا۔ 

"ادھر آئو۔"

اقصی کا نرم لہجہ ہانم کے لئے حیرانگی کا باعث تھا۔

ہانم آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے پاس آئی  اور اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔

"آپ رو کیوں رہی تھیں آپی؟"

اس کی بھیگی پلکوں کو دیکھ کر ہانم نے معصومانہ انداز میں پوچھا۔

"مجھے معاف کر دو ہانم ۔۔۔ معلوم نہیں کیسے میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا؟ احمر سے محبت ہی اتنی تھی کہ اس کی موت نے پاگل کر دیا تھا۔ کچھ سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں تھی میں۔۔ خیر یہ سب چھوڑو اور مجھ سے ایک وعدہ کرو گی؟"

اقصی اس کے ہاتھوں کو نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے امید بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"میری امی کہتی ہیں کہ وعدہ نہیں کرتے کیونکہ وعدے ٹوٹ جاتے ہیں پھر گناہ ملتا ہے۔"

ہانم کے جواب پر اقصی کے لبوں پر مسکراہٹ آئی تھی جسے وہ کمال مہارت سے چھپا گئی تھی۔

"تمہیں بےبی چاہیے ہانم؟"

اقصی کی بات پر ہانم کی آنکھیں چمکی تھیں۔

"ہاں مجھے دو بےبی لینے ہیں اب۔۔ آپکو معلوم ہے خان نے کہا ہے پہلے میں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائوں پھر وہ میرے لئے بے بی لے کر آئیں گے۔"

ہانم کی نان سٹاپ اور سر تا پیر گفتگو اقصی کے چہرے پر مسکراہٹ گہری کرتی جا رہی تھی۔

"میرا بےبی سنبھالو گی؟"

قدرے توقف کے بعد اقصی کی آواز پر ہانم متوجہ ہوئی تھی۔

"لیکن وہ تو آپکا بےبی ہے۔۔ اور آپ مجھے کیوں دو گی اپنا بےبی؟"

"وہ میرا بےبی تھا لیکن آج سے وہ تمہارا بےبی ہے۔ تم نے اس کا بہت سارا خیال رکھنا ہے اور بہت سارا پیار بھی دینا ہے۔ کیونکہ آج سے وہ تمہارا بےبی ہوگا۔"

"آپ سچ بول رہی ہیں۔۔ مطلب وہ میرا بےبی ہوگا؟"

ہانم کی خوشی کا اندازہ اس کے چہرے سے ہو رہا تھا جو بےبی کے ملنے پر ہی سرخی مائل ہوگیا تھا۔ آنکھوں کی چمک خیرہ کن تھی۔

"ہاں بالکل آج سے وہ تمہارا بےبی ہے۔"

اقصی کے جواب پر ہانم نے اسے خوشی سے گلے لگا لیا۔

"شکریہ آپی ۔۔۔ آپ بہت اچھی ہو۔میں ابھی بےبی کو دیکھتی ہوں۔"

ہانم یہ بول کر اس سے جدا ہوئی اور کمرے سے تقریبا بھاگنے والے انداز میں نکلی تھی۔

اقصی نے بے ساختہ آسمان کی طرف دیکھا تھا۔ شاید نہیں وہ یقینا مطمئن ہو گئی تھی اپنے فیصلے سے۔ زندگی کبھی بھی ایک جگہ رکنے کا نام نہیں ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بہت سارے زخموں کو دنیا سے چھپا کر خود کو مضبوط ظاہر کرنا بھی ایک عورت کی سب سے منفرد خاصیت ہے۔ وقت کے ساتھ بڑھنے میں عقلمندی جبکہ کچھ غموں کا سوچ زندگی بھر منانا سراسر بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خدا کی آزمائشوں پر شکوے نہیں کرنے چاہیے بلکہ صبر و تحمل کا دامن انسان کے بہت سارے دکھوں کو خوشیوں اور تشکر میں بدل دیتا ہے۔ بس یقین کامل شرط اولین ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم تیز تیز چلتے ہوئے حال کی طرف جا رہی تھی جب کمرے کی طرف جاتے اکثم سے بے ساختہ ٹکرائی تھی۔ 

"اللہ اللہ ۔۔۔۔ میرا سر توڑ دیا۔"

ہانم اپنے سر کو تھامتے ہوئے بولی جبکہ اکثم جو صبح سے نکاح کی تیاریاں دیکھ رہا تھا اور حویلی سے باہر تھا اب ہی حال سے گزرتے ہوئے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔ ہانم کو دیکھ کر وہ چند پل کے لئے گویا اپنی تمام ساعتوں سے محروم ہو گیا تھا۔ وہ اسے خوبصورت نہیں بلکہ خوبصورتی کا اصل معنی سمجھا گئی۔ 

"خان نظر نہیں آتا آپ کو کیا؟"

ہانم اپنی نیلی آنکھوں کو چھوٹا کئے اس کے آگے اپنے سفید ہاتھ لہراتے ہوئے خفگی بھری آواز میں بولی تھی۔ اکثم کا ارتکاز ایک لمحے سے پہلے ختم ہوا تھا۔ اپنی بے اختیاری کو کوستے ہوئے اس نے اردگرد دیکھا تو کوئی متوجہ نہیں تھا۔ اس نے ہانم کا ہاتھ نرمی سے اپنی گرفت میں لیا اور بنا اس کی ہلکی سی مزاحمت کو دیکھے اپنے ساتھ کمرے میں لے آیا۔ اسے دروازے کے ساتھ لگا کر اس نے دروازہ بند کر دیا تھا اور اپنے بازو دائیں بائیں ٹکا کر فرصت سے اس کے چہرے کے نقوش کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے جذبات کو بے لگام کر رہا تھا۔ 

"خان مجھے جانا ہے بےبی کے پاس۔"

ہانم اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولی جو شاید نظروں سے اپنی تشنگی بجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔

"تم بہت پیاری لگ رہی ہو ہانم۔ اتنی پیاری کہ مجھے میرا دل بغاوت کرنے پر اکسا رہا ہے۔"

اکثم کی بات پر ہانم کو خوشی ہوئی تھی۔ اور اپنی ناسمجھی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے بولی تھی۔

"آپ سچ بول رہے ہیں نا؟ میں پیاری لگ رہی ہوں نا؟ یہ دیکھیں میری مہندی بھی کتنی پیاری لگ رہی ہے خان۔"

ہانم اس کے آگے اپنے مہندی کے رنگ سے بھرے ہاتھ کرتے ہوئے بولی۔ اکثم نے بمشکل اس کے چہرے سے نظریں ہٹائیں۔ اور اس کے دودھیا ہاتھوں کو دیکھا۔ بے ساختہ ان کو تھامتے ہوئے وہ تمام حدود کو بلائے طاق رکھ کر جھکا تھا اور ان پر اپنے تشنہ آور لبوں سے محبت بھری مہر ثبت کرتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا۔ اکثم کی اس حرکت پر ہانم کا دل اپنی روانگی سے ہٹ کر دھڑکا تھا۔ لبوں پر کپکپاہٹ فطری تھی۔ گالوں پر سرخیاں مقابل کو مزید بے لگام ہونے پر اکسا رہی تھیں جب ہانم کی لرزتی آواز پر وہ حواس میں واپس لوٹا تھا۔

"خان میرے ہاتھ چھوڑیں۔"

ہانم کی آواز پر وہ بے ساختہ اس کے ہاتھ چھوڑ کر دو قدم دور ہوا تھا۔ نظریں چراتے ہوئے وہ خود کو ملامت کرنے لگا تھا۔ ہانم نے بے خودی میں اپنا  دایاں ہاتھ دل پر رکھا تھا۔ جو اکثم کی ذرا سی قربت پر اپنی رفتار تیز کر گیا تھا۔

اپنی بدلتی کیفیت پر وہ خود حیران ہو رہی تھی۔ 

"ابھی منہ دھو کر واپس آئو اور تمہارے چہرے پر یہ لپ اسٹک اور آنکھوں میں کاجل بالکل نہیں ہونا چاہیے۔"

کمرے میں گونجتی دھڑکنوں کے شور کو اکثم کی سخت آواز نے توڑا تھا۔ ہانم نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا۔

"لیکن خان ابھی تو آپ طول رہے تھے کہ میں پیاری لگ رہی ہوں۔اور۔۔۔۔"

"جتنا کہا جائے ہانم اتنا کرو ورنہ تمہیں  اس کمرے میں بند کر کے میں یہاں سے چلا جائوں گا اور رات تک واپس نہیں آئوں گا۔"

اکثم نے اسے گھورا تو ہانم منہ بسورتے ہوئے وقت روم کی طرف چلی گئی۔ 

"یااللہ یہ کیا کرنے جا رہا تھا میں۔۔ مجھے خود پر کنٹرول رکھنا ہوگا ورنہ اس کی معصومیت کو میں کسی دن انہی جذبات کے ریلے میں بہا دوں گا ۔۔ اور پھر سوائے پچھتاوے کے میرے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔"

اکثم کمرے میں موجود آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ اتنی دیر میں ہانم بھی باہر آگئی تھی۔ اکثم نے اس بار اسے دیکھنے سے مکمل اجتناب کیا تھا۔ اور کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گیا تھا۔ جبکہ ہانم منہ بسورتے ہوئے اس کے پیچھے گئی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقصی کے نکاح کو ایک مہینہ ہو گیا تھا۔ اس دوران خان حویلی کے مکینوں کی زندگی بدل سی گئی تھی۔ اس ایک مہینے میں اقصی ہر ہفتے کو خان حویلی میں ثمامہ سے ملنے آتی تھی اور عزیر بھی اس کے ہمراہ ہوتا تھا۔ وہ خوش نہ سہی لیکن شاید خدا کے فیصلے پر پرسکون اور مطمئن ہو گئی تھی۔ اس کی بے چینی شاید ختم ہو گئی تھی۔ ہانم سکول سے آنے کے بعد ثمامہ کے ساتھ مصروف ہو جاتی تھی۔ رات کو وہ اکثم کے پاس پڑھتی تھی۔ اور ثمامہ تب بھی ہانم کے پاس اس کے کمرے میں موجود ہوتا تھا۔ رات کو وہ یسرا بیگم کے پاس سوتا تھا کیونکہ رات کو ہانم اتنا تھک جاتی تھی کہ اسے اپنی ہوش نہیں رہتی تھی۔ ایک دفعہ ہانم نے ثمامہ کو اپنے پاس سلانے کی ضد کی تھی تو اکثم نے اسے ڈانٹ دیا تھا۔ اور سختی سے ثمامہ کو رات کو یسرا بیگم کے کمرے میں پہنچانے کی ہدایت کی تھی۔ جس پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی عمل کر رہی تھی۔ آج وہ ثمامہ کو گود میں لئے اس سے باتوں میں مصروف تھی۔ سب گھر والے اس کی ثمامہ کے لئے بے لوث محبت کو روک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ جب اکثم حال  با آواز بلند سلام کرتے ہوئے حال میں داخل ہوا۔

"اسلام و علیکم۔"

اکثم کی آواز پر ہانم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے ثمامہ کے ساتھ ایسے باتوں میں مصروف ہوگئی جیسے وہ اس کی زبان کو سمجھ رہا تھا۔ اقصی کے جانے کے بعد اسے مشکل ہوئی تھی ثمامہ کو سنبھالنے میں لیکن یسرا بیگم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وہ یہ فریضہ باخوبی انجام دے رہی تھی۔

"بڑے خان تم اس وقت کہاں گئے تھے؟"

اکثم جو صوفے پر عین ہانم کے سامنے بیٹھا تھا۔ دلاور خان کی بات پر ان کی طرف متوجہ ہوا۔

"بابا جان وہ زمینوں سے ہو کر ایک دوست کی طرف گیا تھا۔ وہاں کچھ وقت لگ گیا۔"

اکثم نے مسکرا کر جواب دیا لیکن اس دوران اس نے دلاور خان کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ کیونکہ اگر وہ دیکھ لیتا تو یقینا وہ اپنا فیصلہ بدل لیتا جو وہ ایک مہینہ پہلے ہی لے چکا تھا۔

اس سے پہلے دلاور خان مزید کچھ بولتے ہانم کی آواز پر وہ اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ 

"اماں جان میں بےبی کو اپنے پاس سلانا چاہتی ہوں۔ لیکن خان نہیں مانتے آپ انہیں بولیں نا کہ مجھے بےبی کے ساتھ ہی سونا ہے۔"

ہانم کی بات پر اکثم نے بے بسی سے لب بھینچے تھے کیونکہ دلاور خان کی موجودگی میں وہ ان کی لاڈلی کو گھورنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یسرا بیگم اور دلاور خان نے بمشکل اپنے مسکراہٹوں کو چھپایا تھا۔ 

"بھابھی ۔۔ یہ آپ کا بےبی نہیں ہے نا اس لئے بھائی اسے آپکے پاس سونے نہیں دیتے۔"

ارتسام جو اپنا ہوم ورک کر رہا تھا ہانم کی بات پر سر اٹھا کر گویا اسے سمجھانے لگا۔ 

"میرا بےبی سے کیا مطلب ہے تمہارا سامی ۔۔ یہ اقصی آپی نے خود مجھے دیا تھا اور کہا تھا یہ بےبی میرا ہے۔"

ہانم کے صدمے پر اکثم نے اپنا سر تھام لیا تھا۔ 

"مجال ہے یہ لڑکی کبھی میری عزت رہنے دے میری فیملی کے سامنے۔"

اکثم خود سے بڑبڑایا تھا۔ 

"بھابھی میں تو بس آپ کو سمجھا رہا تھا کہ آپ کا بےبی وہ ہوگا جو آپ خود ہاسپٹل سے لے کر آئیں گی۔"

ارتسام نے اپنی وضاحت سے اسے مطمئن  کرنا چاہا اور ساتھ ہی اکثم کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا جو خود اپنا سر نفی میں ہلا کر اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر کر کے گویا ہار مان چکا تھا۔ 

"چھوٹے خان یہ میرا بےبی ہے سنا تم نے اور اگر آئندہ تم نے کہا نا کہ یہ میرا بےبی نہیں ہے تو میں اس کے ساتھ تمہیں کھیلنے بھی نہیں دوں گی اور تم سے بات بھی نہیں کروں گی۔"

"بھابھی میں تو مذاق کر رہا تھا آپ تو سریس ہی ہو گئی ہیں۔"

ارتسام جلدی سے کان پکڑ کر بولا تو دلاور اور یسرا بیگم کے چہروں پر بے ساختہ مسکراہٹوں نے اپنا مسکن بنایا تھا۔ جبکہ اکثم صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گیا تھا۔

"اماں جان بولیں نا خان کو۔"

ہانم نے پھر سے اپنا یسرا بیگم کے سامنے اپنی بات دہرائی تھی۔ 

"تم خود بول لو۔۔ مجھے یقین کے وہ منع نہیں کرے گا۔"

یسرا بیگم کا جواب اکثم کے لبوں پر مسکراہٹ لے آیا تھا۔ 

"اماں جان آپ کو نہیں معلوم خان بہت عجیب ہو گئے ہیں۔ میری بات نہیں سنتے اب۔ آپ کو معلوم ہے جب یہ مجھے پڑھاتے ہیں تو میری طرف دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں اور جب میں ان سے پوچھتی ہوں کہ کیوں دیکھ رہے ہیں تو کہتے ہیں میں پیاری لگ رہی ہوں اس لئے اور اس دن انہوں نے۔۔۔۔"

"بس کرو ہانم۔"

اکثم نے اس کی چلتی زبان کو ٹوک کر اپنے والدین کو دیکھا جو اس کے دیکھنے پر نظریں چرا گئے تھے جبکہ ارتسام نے سر اٹھانے کی غلطی نہیں کی تھی۔ 

"کیوں بس کر دوں ۔۔۔ میں بتائوں گی اماں جان کو کہ اس دن آپ نے میرے۔۔"

"ہانم بچے ثمامہ کو مجھے دو اور جائو جا کر رشیدہ بی کو بولو کہ اکثم کے لئے دودھ گرم کریں۔"

یسرا بیگم نے اکثم کے سرخ چہرے کو دیکھ کر ہانم کو بے ساختہ ٹوکا تھا۔ ہانم ثمامہ کو یسرا بیگم کو پکڑا کر اکثم کو گھورتے ہوئے کیچن کہ طرف چلی گئی تھی جبکہ اکثم کسی سے نظریں ملائے بغیر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا تھا۔

"سامی۔۔۔ میں بتا رہی ہوں اگر میری چاٹ کی پلیٹ تم نے واپس نہ کی تو میں بابا جان سے تمہاری شکایت لگائوں گی۔"

ہانم نےصوفے پر بیٹھے ارتسام کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔ ارتسام جو ابھی سو کر اٹھا تھا ہانم کے ہاتھ میں چاٹ کی پلیٹ دیکھ کر اس نے مانگنے کی بجائے اس سے پلیٹ لے کر اپنے قبضے میں کر لی تھی اور اب مزے سے صوفے پر بیٹھا وی چاٹ سے لطف اندوز ہو رہا تھا جبکہ ہانم اسے گھور رہی تھی۔

"بھابھی ایسے تو نہ دیکھیں۔ میں نہیں واپس کرنے والا۔ آپ جا کر کیچن سے اور لے آئیں۔"

ارتسام ہانم کے چہرے کی طرف دیکھ کر مسکراہٹ کو بمشکل لبوں میں دبا گیا تھا۔ 

"بس یہی ایک پلیٹ بابا جان نے منگوا کر دی تھی اور اب وہ بھی تم کھا رہے ہو۔"

ہانم کی معصومیت سے بھرپور شکایتی انداز پر ارتسام کا منہ میں جاتا چمچ والا ہاتھ رکا تھا۔ اس نے ہانم کو دیکھا۔

"بھابھی آپ ایک اور چمچ لے آئیں اور میرے ساتھ بانٹ لیں کیونکہ چاٹ تو میں آپکو اکیلے بھی نہیں کھانے دے سکتا۔"

ارتسام کے انداز پر ہانم نے کڑوا گھونٹ بھرا تھا اور اسے گھورتے ہوئے کیچن سے دوسرا چمچ لانے چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ کیچن سے واپس آئی اور ارتسام کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانے لگی۔ دونوں اس وقت حال میں موجود ایل سی ڈی پر کارٹونز دیکھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ تبصرہ کرتے ہوئے چاٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب اکثم کی آواز پر دونوں متوجہ ہوئے۔ 

"کیا ہو رہا ہے یہاں؟"

اکثم اپنے انداز میں جلن کی شدت کو چاہتے ہوئے بھی کم نہ کر سکا۔ 

"اللہ اللہ۔۔۔ خان ڈرا دیا آپ نے تو۔ کچھ نہیں میں اور سامی چاٹ کھا رہے تھے اور ساتھ کارٹونز دیکھ رہے تھے۔ آپ بھی آ جائیں۔"

ہانم اسے جواب دے کر دوبارہ سکرین پر چلتے کارٹونز کی طرف متوجہ ہوگئی جبکہ ارتسام اپنے بھائی کے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ وہاں سے جانے میں ہی عافیت ہے۔ 

"بھابھی میں ہوم ورک کر لو ۔۔ آپ دیکھو کارٹونز۔"

وہ جانے لگا جب ہانم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور اکثم جو دونوں کو دیکھ رہا تھا بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کرنے لگا۔ 

"سامی بیٹھو نا بعد میں کر لینا۔ ویسے بھی اتنا مزہ آ رہا تھا۔"

ارتسام نے بے ساختہ اکثم کی طرف دیکھا جو ہانم کی حرکت پر لب بھینچ گیا تھا۔ 

"بھابھی میں ذرا واش روم سے ہو کر آتا ہوں۔"

ارتسام یہ بول کر وہاں سے بھاگنے والے انداز میں اپنے کمرے کی طرف گیا تھا۔ اکثم خود کو کمپوز کرتے ہوئے اس کے پاس بیٹھا۔ ہانم جو چاٹ کا چمچ منہ کی طرف لے کر جا رہی تھی اکثم نے وہی ہاتھ پکڑ کر اس چمچ کا رخ اپنی طرف کر لیا اور مزے سے ہانم کے تاثرات دیکھنے لگا جو اس کی حرکت پر اب اسے گھور رہی تھی۔

"خان آپ اپنا چمچ لے آئیں میرا چمچ گندہ نہیں کریں۔"

"کیوں کیا میرے ساتھ باٹنے میں مسئلہ ہو رہا ہے؟"

اکثم اپنی جلن کو کسی صورت چھپا نہیں سکا۔

"خان میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ اور آپ غصہ کیوں ہو رہے ہیں؟ آپ نے کھانی ہے چاٹ تو یہ لیں۔ ویسے بھی میرا پیٹ بھر گیا ہے۔"

ہانم کا نارمل انداز اکثم کو مزید غصہ دلا گیا تھا۔

"آپ یہ کھا لیں میں بے بی کو دیکھ لوں۔"

اس سے پہلے ہانم صوفے سے اٹھتی اکثم نے اس کا بازو پکڑ لیا۔ 

"آئندہ تم چھوٹے خان کے ساتھ نہ ہی زیادہ کھیلو گی اور نہ ہی اس کے ساتھ کچھ بانٹ کر کھائو گی۔ اور صرف چھوٹے خان ہی نہیں بلکہ کسی کے ساتھ بھی مجھے تم زیادہ بات کرتی نظر نہ آئے سمجھی تم۔"

اکثم کا آنچ دیتا لہجہ مقابل کی جان جلا گیا تھا۔ ہانم کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثر کو بھانپتے ہوئے وہ مزید گویا ہوا۔

"مجھے اچھا نہیں لگتا تمہارا یوں ہر کسی سے ایسے بات کرنا اور چیزیں شئیر کرنا۔"

اکثم نے بولتے ہوئے اس کے چہرے پر آئے بالوں کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں سے ہٹاتے ہوئے ہلکی سے پھونک اس کے چہرے پر ماری تھی۔ جذبوں کے حصار میں اس وقت وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے میں مصروف تھے جب ثمامہ کی رونے کی آواز پر ہانم ہڑبڑاتے ہوئے پیچھے ہوئی تھی اور اکثم سے نظریں چراتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف گئی تھی جہاں ثمامہ اپنی نیند پوری کر کے اٹھ گیا تھا۔اکثم نے مسکرا کر اس کی پشت کو دیکھا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن سب رات کا کھانا کھا رہے تھے جب اکثم نے دلاور خان سمیت سب کی توجہ اپنی طرف کھینچی تھی۔ 

"بابا جان ۔۔ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"

اکثم کے چہرے سے زیادہ اس وقت اس لہجے میں موجود سنجیدگی پر سب بے ساختہ اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔

"کیا ہوا بڑے خان؟ سب ٹھیک ہے نا؟"

اکثم نے سب گھر والوں پر ایک نظر ڈالی اور گہری سانس فضا میں خارج کر کے وہ دلاور خان سے مخاطب ہوا تھا۔

"بابا جان آپ جانتے ہیں ڈاکٹر بننا میرا خواب ہی نہیں میرا جنون بھی ہے۔اور۔۔۔"

"بڑے خان بغیر کسی تمہید کے بات کرو۔"

دلاور خان نے اکثم کو درمیان میں ہی ٹوک کر کہا تھا۔ اکثم نے اپنے خشک  لبوں کو تر کیا تھا۔

"بابا جان مجھے کینیڈا یونیورسٹی سے سکالرشپ آفر آئی ہے۔ اور میں اس آفر کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا اس لئے میں باہر جانا چاہتا ہوں مزید پڑھائی وہاں جا کر کرنا چاہتا ہوں۔ کاغذی کاروائی ساری مکمل ہوچکی ہے۔ پرسوں دوپہر تین بجے کی  فلائٹ ہے۔ مجھے بس آپکی اجازت درکار ہے۔"

اکثم نظریں جھکائے اپنا مدعا بیان کر چکا تھا۔ جبکہ سب کھانے سے ہاتھ روکے اکثم کو دیکھ رہے تھے۔ 

"بڑے خان تم ہم سب کو چھوڑ کر جانا چاہتے ہو؟"

یسرا بیگم کی لرزتی آواز نے اسے سر اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔ وہ بے ساختہ اپنی جگہ سے اٹھا اور یسرا بیگم کے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ 

"اماں جان میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا بس اپنا کرئیر بنانا چاہتا ہوں پلیز اس طرح جذباتی ہو کر آپ مجھے کمزور مت کریں۔"

اکثم کے لفظوں میں التجا تھی۔

"کتنا عرصہ ہمیں تم سے دور رہنا ہوگا؟"

دلاور خان نے مسکرا کر اکثم کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا۔ 

"چند سالوں کی بات ہے بابا جان۔ پھر واپس مجھے یہی آنا ہے۔"

اکثم ان کے لفظوں میں موجود اجازت کو محسوس کرتے ہوئے وہ مطمئن ہوگیا تھا۔ وہ جانتا تھا دلاور خان اس کے کسی فیصلے پر اعتراض نہیں کریں گے۔ 

"ٹھیک ہے ۔۔ اللہ تمہیں کامیاب کرے آمین۔"

دلاور خان نے یہ بول کر اکثم کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔ جبکہ یسرا بیگم وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھیں۔ ہانم نم آنکھوں سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔ جبکہ ارتسام سر جھکائے وہاں ہی کشمکش میں کھڑا شاید نہیں یقینا رو رہا تھا۔

اکثم اس کے قریب آیا اور دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ اوپر کیا۔ سفید گالوں پر آنسوئوں نے لکیریں کھینچی ہوئی تھیں۔ اکثم نے بے ساختہ اسے خود میں بھینچا تھا۔

"بھائی نہیں جائیں نا۔۔ میں یہاں تنہا ہو جائوں گا۔"

ارتسام اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے گرد حصار باندھتے ہوئے نم لہجے میں التجا کر رہا تھا۔ 

"چھوٹے خان تم بہت بہادر ہو یار۔ تم اس طرح کرو گے تو باقی گھر والوں کا خیال کون رکھے گا؟ میں تو تمہارے بھروسے یہاں سے جا رہا ہوں کہ میرا شیر سب سنبھال لے گا۔"

اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے اکثم نے اس کے بالوں پر بوسہ دیا تھا۔ جواب میں ارتسام نے خاموشی سے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔ سوائے اکثم کی بات ماننے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اکثم نے گہری سانس فضا کا حصہ بناتے ہوئے اپنی ماں اور بیوی کے کمرے کی طرف دیکھا تھا۔ یقینا دونوں کو راضی کرنا مشکل تھا۔ وہ کسی جذباتی دبائو کے زیر اثر اپنا فیصلہ بدلنا نہیں چاہتا تھا۔ پڑھائی سے زیادہ شاید وہ اپنے بے لگام ہوتے جذبات سے ڈر گیا تھا جو اسے ہر وقت ہانم کے سامنے اسے شرمندگی سے دوچار کر دیتے تھے۔ وہ ہانم کو اس رشتے کو سمجھنے اور سوچنے کے لئے وقت دینا چاہتا تھا۔ اسامہ کے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ نہیں مانا تھا۔ اس لئے اسامہ بھی اپنے پیرنٹس سے بات کر کے اس کے ساتھ ہی کینیڈا جا رہا تھا۔ آنے والا کل کیسا ہوگا اس کا انداز کرنا بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور گزرے کل کے اوراق کو پلٹنا اعلی درجے کی  حماقت میں شامل ہوتا ہے۔ جو وقت میسر ہے اسے عقلمندی سے خوبصورت بنانا چاہیے۔ خدا کی مصلحت کا راز کوئی نہیں جانتا اس لئے جو میسر ہے اس سے فائدہ اٹھائو، جو ہو چکا اسے بھول جائو اور جو ہونے والا ہے اس کے بارے میں گمان مت پالو۔ بے شک وہ بہتر سے بہترین کی طرف لے جاتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثم نہیں جانتا تھا کہ دلاور خان نے یسرا بیگم کو کیسے منایا؟ انہیں کیا تسلی دی؟ وہ جانتا تھا تو بس اتنا کہ اب اس کی ماں کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اور ہانم اس دن سے اقصی کے کمرے میں ثمامہ کو لے کر سو جاتی تھی۔ اس کی ناراضگی کا واضح اظہار بھی اکثم کے دل کو پگھلانے میں ناکام ثابت ہوا تھا۔ آج اس کی فلائٹ تھی۔ وہ اپنی پیکنگ میں مصروف تھا جب ہانم کمرے میں داخل ہوئی۔ اکثم نے اسے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ پیکنگ میں مصروف ہو گیا۔

"خان آپ پلیز مت جائیں نا۔۔۔ میں کوئی ضد نہیں کروں گی لیکن آپ مجھے چھوڑ کر مت جائیں ۔۔۔میں آپ سے بےبی بھی نہیں مانگوں گی۔۔۔ پلیز مت جائیں۔"

ہانم روتے ہوئے اس کے سامنے آئی تھی۔جو اسے اگنور کئے اپنی پیکنگ میں مصروف تھا۔ وہ اس کے آنسوئوں سے پگھلنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اگر وہ رک جاتا تو یقینا وہ اپنے جذبوں سے بے بس ہو کر اس کی معصومیت کو ختم کر دیتا۔ 

"ہانم مجھے پیکنگ کرنی ہے پلیز جائو یہاں سے۔"

اکثم نے اسے دیکھے بغیر کہا۔

"نہیں آپ کہیں نہیں جا رہے۔۔۔ میں بتا رہی ہوں آپکو۔۔۔ اگر آپ گئے تو میں سامی سے بھی بات کروں گی اس کے ساتھ کھانا بھی کھائوں گی۔۔ اور اس کو اپنا پکا والا دوست  بھی بنا لوں گی۔"

اکثم کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی تھی اس کی دھمکیوں کی وجہ  سے جسے وہ کمال مہارت سے چھپا گیا تھا۔

"میرا جانا ضروری ہے ہانم۔"

اکثم نے اسے شانوں سے پکڑ کر نرمی سے کہا۔

"میں اپنے ابا کے پاس واپس چلی جائوں گی۔"

ہانم منہ بسور کر بولی تو اکثم کی پیشانی پر لاتعداد شکنیں نمودار ہوئیں۔

"بس کرو۔۔۔ اور آئندہ فضول قسم کی بکواس کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔"

اکثم نے اسے گھورتے ہوئے کہا جبکہ مقابل کے رونے میں شدت آگئی تھی۔

"آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں۔"

نیلی آنکھوں سے نکلتے آنسو اور لرزتے لبوں سے نکلے الفاظ۔ اس نے  ہانم کو بے ساختہ اپنے حصار میں لیا تھا۔ ہانم نے اس کی شرٹ کو ذور سے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں دبوچ لیا تھا۔ وہ یقینا اپنے جذبات سے بے خبر ہوتے ہوئے بھی اس کی جدائی کا خوف دل میں لئے ہوئے تھی۔ آنسوئوں میں روانگی آئی تو اکثم نے بے بسی سے لب بھینچ لئے تھے۔ وہ اسے جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہتا تھا۔ 

"ہانم بس بھی کرو یار۔۔ کتنا روتی ہو تم۔"

اکثم اس کے چہرے پر چمکتے موتیوں کی صورت میں بہنے والے اشکوں کو اپنی انگلیوں کی پوروں پر چن کر اسے معتبر کر رہا تھا۔ 

"خان اگر میں اللہ کے پاس چلی گئی تو۔۔۔"

"ہانم فضول بکواس نہیں کرو۔ ورنہ ایک لگائوں گا۔۔"

اکثم کو اس کے الفاظ تکلیف دے گئے تھے۔ اس کو گھورتے ہوئے وہ دوبارہ سے پیکنگ میں مصروف ہو گیا۔

"میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر؟"

"تمہارا بےبی ہے تمہارے پاس۔"

تھوڑی دیر پہلے والی سختی اب نرمی کا لبادہ اوڑھ چکی تھی۔ 

"خان میں۔۔"

ہانم کے الفاظ ابھی لبوں پر تھے جب اکثم نے پلٹ کر اس کے لبوں پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کروایا۔ 

"تم اکثم خان کی جان ہو۔ تم سے دور نہیں جا رہا ہوں۔ ہر روز کال کروں گا۔ کیونکہ تمہاری آواز سنے بغیر اور تمہیں دیکھے بغیر اب خان کی سانسیں رک جاتی ہیں۔ تمہیں اس دل میں قید کر کے لے جا رہا ہوں اور امید کرتا ہوں اس قید سے رہائی تم بھی نہیں چاہو گی۔ "

بھوری آنکھوں کی چمک اور خمار آلود لہجہ ہانم کو لرزنے پر مجبور کر گیا تھا۔ چہرے پر پڑتی سانسوں کی تپش پر ہانم کو اپنے رخسار تپتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔ حیا ایسی غالب آئی کہ وہ پلکوں نے اٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ لفظوں کو سمجھنے سے فلحال  قاصر تھی لیکن مقابل کا آنچ دیتا لہجہ اور قربت اس کی فطری حس کو اجاگر کر رہی تھی۔ اکثم نے چند ثانیے تک اس منظر کو نظروں میں قید کیا تھا پھر وہ نہیں جانتا کہ اسے کیا ہوا؟ وہ سب بھلائے جھکا تھا اور اس کے لرزتے لبوں پر رکھے ہاتھ پر اپنے تشنہ آور لب رکھ کر مقابل کی سانسیں روک گیا تھا۔ہانم ایک لمحہ ضائع کئے بغیر پیچھے ہٹی تھی۔ جبکہ اکثم اس کے پیچھے ہٹنے پر جیسے اپنے  حواس میں واپس آیا تھا۔ خاموشی نے بسیرا کیا تو مجبورا اکثم کو ہی اسے ختم کرنا پڑا۔

"اپنا خیال رکھنا اور آج جو کچھ ہوا اس کا ذکر کسی سے نہیں کرنا۔ میں  روزانہ کال کروں گا۔ اب فلائٹ کا وقت ہو رہا ہے مجھے جانا ہے۔"

اکثم نظریں چراتے ہوئے بولا اور بیگ کی طرف بڑھا تھا جب ہانم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ 

"آپ بھی میری بات دھیان سے سن لیں میں آپ سے بات نہیں کروں گی کبھی نہیں کروں گی اگر آپ مجھے چھوڑ کر گئے تو۔"

اس کی دھمکی پر وہ مسکرایا تھا۔ 

"تم ایک دن بھی مجھ سے بات کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔"

اکثم نے اس کی دھمکی خو گویا ناک سے مکھی کی طرح اڑایا تھا۔ جبکہ ہانم لب بھینچ کر ایک الوداعی نظر اس پر ڈال کر کمرے سے چلی گئی تھی۔ اکثم نے مسکرا کر اس کی پشت کو دیکھا تھا۔ اسے یقین تھا ہانم کی یہ دھمکی صرف باتوں تک ہی ہوگی لیکن بہت جلد وقت اس کی تمام سوچوں کو غلط ثابت کرنے والا تھا۔ 

ایک لفظ  کی جدائی سے 

تین لفظوں کی موت اچھی ہے

محبت وقت مانگتی ہے تاکہ 

وہ بتلائے کہ وہ کتنی سچی ہے۔

"خان۔"

ایک چیخ نما آواز کے ساتھ وہ آج پھر جاگ گئی تھی۔ بیڈ پر لیٹی رشیدہ بی بھی اس کی چیخ پر اٹھ گئی تھیں۔ جبکہ ثمامہ سویا ہوا تھا۔ پسینے شرابور ہوتے ہوئے وہ اپنے تنفس کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ رشیدہ بی نے جلدی سے اٹھ کر کمرے کی لائٹ آن کی تھی۔ پچھلے ایک ہفتے سے اس کا یہ معمول بن چکا تھا۔ سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس بھرتے ہوئے وہ ہانم کے پاس بیٹھی تھیں۔ نیلی آنکھوں میں ویرانی لئے وہ رشیدہ بی کو دیکھنے لگی۔ رشیدہ بی نے اس کے لرزتے لبوں کے ساتھ پانی کا گلاس لگایا تو اس نے ایک دو گھونٹ بھرا اور بائیں ہاتھ سے گلاس کو پیچھے کر دیا۔ رشیدہ بی نے گلاس کو دوبارہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور ہانم کو دیکھنے لگیں۔ جو آنسوئوں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے گھٹنوں کو سمیٹ کر ان میں سر دئیے اپنے ضبط کی تمام حدود کو توڑ گئی تھی۔ ایک ہفتہ ہوگیا تھا اکثم کو کینیڈا گئے ہوئے۔ اور اس ایک ہفتے میں وہ سر تا پیز بدل چکی تھی۔ جس کی باتوں پر سب گھر والے مسکراتے تھے وہ اب خاموش ہو چکی تھی۔ مسکراہٹ نے گویا اس کے لبوں سے تعلق توڑ دیا تھا۔رشیدہ بی نے آگے بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لیا تھا۔ 

"ہانم بیٹا بس کرو نا ۔۔ اس طرح کرنے سے بڑے خان واپس تو نہیں آ جائیں گے نا؟ اور خود کو تکلیف دے کر تم کیوں سب گھر والوں کو دکھ دے رہی ہو؟"

رشیدہ بی نے اس کے بالوں کو دائیں ہاتھ سے سہلاتے ہوئے نرمی سے سمجھایا۔

"چچی ۔۔۔۔ وہ ۔۔ مجھے۔۔ کیسے۔۔ چھوڑ۔۔ کر۔۔۔ جا۔۔ سکتے۔۔۔ ہیں؟ انہیں۔۔ معلوم۔۔ تھا۔۔ کہ۔۔ ہانم۔۔ نہیں۔۔۔ رہ ۔۔۔ سکتی۔۔ ان۔۔ کے۔۔ بغیر۔۔ اس۔۔ لئے۔۔ وہ۔۔ جان۔۔ بوجھ۔۔ کر ۔۔ مجھے۔۔ چھوڑ ۔۔ گئے۔"

ہچکیوں میں بمشکل لفظوں کو لبوں سے آزاد کرتے ہوئے وہ رشیدہ بیگم کی آنکھیں بھی نم کر گئی تھی۔ 

"ہانم بڑے خان نے کہا تو ہے کو وہ جلدی آ جائیں گے۔"

"میں ان سے ناراض ہوں چچی وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے کون جاتا ہے ایسے چھوڑ کر؟"

ہانم اپنے آنسوئوں کو صاف کرتے ہوئے بولی تو رشیدہ بیگم کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی۔ جسے وہ بروقت چھپاتے ہوئے ہانم سے گویا ہوئی تھیں۔

"کیا وہ تمہارے لئے اتنے اہم ہیں جس کی وجہ سے تم سب گھر والوں کو نظر انداز کر رہی ہو؟ چھوٹے خان، بڑی بیگم اور خان صاحب اتنے پریشان ہیں تمہاری وجہ سے۔۔۔ ان کا ہی سوچ لو بیٹا اور بس کردو۔ ویسے بھی اتنی مشکلوں سے تمہارا بخار کل اترا ہے اب پھر سے بیمار نہ ہو جانا۔"

رشیدہ بی نے ہانم کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا تو ہانم خاموشی سے انہیں دیکھنے لگی۔

"میرا کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا چچی ۔۔۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے کوئی میری گردن دبا رہا ہو۔ میرا سانس رک جاتا ہے جب میں اس کمرے سے باہر نکلتی ہوں۔"

معصومیت سے بولتے ہوئے وہ رشیدہ بیگم کو حیرانگی سے دوچار کر گئی تھی۔ اس عمر میں وہ اس حد تک اکثم کی دیوانی ہو چکی تھی۔

کہ سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی تھی اسے۔ رشیدہ بی کو بے ساختہ اکثم کی قسمت پر رشک آیا تھا۔ 

"اچھا یہ بتائو آج بڑے خان سے بات کیوں نہیں کی تم نے؟ ایک ہفتہ سے وہ تم  سے بات کرنا چاہتے ہیں تو پھر بات کیوں نہیں کر رہی تم ان سے؟"

رشیدہ بی نے اپنے ذہن میں ابھرتے سوال کو لبوں سے آزاد کیا تھا۔ 

"جب وہ مجھے چھوڑ کر جا چکے ہیں تو میں بھی ان سے بات نہیں کروں گی۔ انہوں نے میری بات نہیں مانی تو میں بھی ان کی بات نہیں مانوں گی۔ میں ان سے کبھی بات نہیں کروں گی۔"

ہانم کے لہجے میں سختی نے رشیدہ بی کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ 

"ہانم بیٹا۔۔۔"

"مجھے نیند آ رہی ہے چچی اور آپ  بھی سو جائیں۔"

ہانم رشیدہ بی کو درمیان میں ہی ٹوک کر لیٹ گئی تھی۔ اس وقت وہ ایک بچی نہیں بلکہ ایک سمجھدار لڑکی لگ رہی تھی۔ جو اپنے ارادوں میں پختگی ظاہر کر چکی تھی۔ 

رشیدہ بی نے گہری سانس فضا میں خارج کی اور مسکرا کر ہانم کی پشت کو دیکھا ۔ ان کا خیال تھا کہ ہانم  زیادہ دن اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکے گی۔ لیکن ان کی یہ سوچ صرف ان کی خام خیالی ہی ثابت ہونے والی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاسٹل کے ٹیرس پر وہ کھڑا دور چاند کو دیکھ رہا تھا جو اپنی آب و تاب سے اسے اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے تھا۔ ٹھنڈی ہوائوں میں اس کا جسم سن ہو چکا تھا۔ لبوں پر مسکراہٹ غائب تھی۔ ایک عجیب بے چینی کے زمرے میں کھڑا وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔ بہت ساری سوچوں نے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا تھا۔ وہ اسے سوچنا نہیں چاہتا تھا پر سوچنے پر مجبور تھا کیونکہ وہ دل میں بس چکی تھی۔ روح پر لگے زخموں کو اپنی معصومیت سے پیوند لگا چکی تھی۔ 

"اکثم یار تم یہاں ہو اور میں کب سے تمہیں نیچے ڈھونڈ رہا ہوں؟"

اسامہ کی خفگی بھری آواز پر وہ پلٹ کر مسکرایا تھا لیکن اس کی مسکراہٹ اجنبی لگی تھی اسامہ کو اس کے چہرے پر۔ اسامہ جانتا تھا یہ مسکراہٹ صرف ایک شخص کی عنایت کردہ ہے جو اکثم خان کی دنیا ہے۔ 

"بات ہوئی بھابھی سے؟"

اسامہ نے بنا تمہید کے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر نرمی سے پوچھا۔

جواب میں اکثم رخ موڑ گیا تھا۔ وہ شاید نہیں یقینا رونے والا ہو چکا تھا۔ آنکھوں میں چمکتی نمی کو دیکھ کر اسامہ نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا۔ 

"وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی اسامہ۔"

اکثم کے لہجے میں نمی اسامہ کو حیران کر گئی تھی۔ صرف ایک ہفتہ ہی تو ہوا تھا اسے یہاں آئے ہوئے۔ 

"پریشان نہیں ہو اکثم وہ کر لیں گی بات۔۔ ویسے بھی ان کی ناراضگی زیادہ دیر نہیں رہے گی۔"

"وہ دن بھر کی ساری روداد مجھے رات کو سناتی تھی اور کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا تھا جب وہ مجھ سے اتنا ناراض ہوئی ہو۔ وہ کبھی ایسا نہیں کرتی یار۔۔ اس دفعہ وہ بیویوں والا ناراض ہو گئی ہے۔"

آخر بات پر اس کے لب مسکرائے تھے لیکن دل کا درد بڑھ چکا تھا۔ بھوری آنکھوں میں چمکتے آنسو اب گالوں پر زینت بنے تھے۔ وہ عشق کے الگ مقام پر تھا۔ اس مقام پر جہاں مقابل کی ذرا سی بے اعتنائی اسے بے موت مار رہی تھی۔ 

"یار اکثم سب ٹھیک ہو جائے گا خدا پر یقین رکھو۔"

اسامہ نے اپنا دایاں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تھا۔ وہ چمکتی آنکھوں سے اسامہ کے ہاتھ کو دیکھنے لگا۔ 

"اسی یقین پر تو سانسیں لے رہا ہوں۔"

یہ بول کر وہ رخ موڑ گیا تھا جبکہ اسامہ لاجواب ہو چکا تھا اکثم کے آگے۔۔ وہ تسلی کے االفاظ کیا ڈھونڈتا کیونکہ وہ تو خود بے بسی کی انتہا پر تھا۔ 

یقین کامل کر تو سہی

 عشق تاثیر رکھے گا

وہ لفظ جدائی بولے گا جب 

تو دل پر ہاتھ رکھے گا

ڈھونڈ نہ زمانے میں

 اس جیسا  ثانی کوئی

فقط وہی  دشمن جان

تیرے عشق کی نگری میں

وفائوں کو ساتھ رکھے گا

زخموں کو اس قدر تو ادھیڑ

کہ وہ جاتے ہوئے بھی

 مرہم ساتھ رکھے گا

( کرن رفیق )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت کبھی کسی کے لئے نہ رکا ہے نہ رکے گا۔ اس کی یہی عادت سب سے اچھی ہوتی ہے کہ لوگ اپنے درد کے ساتھ جینا سیکھ جاتے ہیں۔ دس سال کا عرصہ گزر چکا اور ان دس سالوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔  ہانم کی اکثم سے بات نہ کرنے کی ویسے ہی قائم و دائم تھی۔ ہانم شروع شروع میں ایک دو مہینہ کافی روئی تھی لیکن پھر گھر والوں اور ثمامہ کے لئے وہ بدل گئی تھی۔ اسے اب رات کی تنہائی اچھی لگنے لگتی تھی۔ وہ اندھیرے میں اپنے آنسوئوں کو سب سے چھپا لیتی تھی۔ اس کی عدم توجہ کی وجہ سے ڈاکٹر تو نہیں البتہ باٹنی میں ماسٹرز کر چکی تھی۔اس کی زندگی اب صرف ثمامہ کے گرد گھومتی تھی۔ پہلے پہل سب نے اسے اکثم سے بات کرنے پر بہت سمجھایا لیکن اس کی نہ کو ہاں میں کوئی نہیں بدل پایا۔ ظاہری طور پر بھی وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگئی تھی۔ ارتسام سے اس کی نوک جھونک جا رہی تھی۔ اقصی کا ایک سات سال اور تین سال کی بیٹی تھی۔ وہ خان حویلی میں پندرہ دن بعد آتی تھی اور دو دن رک کر جاتی تھی۔ ثمامہ اس سے زیادہ ہانم کے پاس ہوتا تھا وہ جانتا تھا کہ اس کی سگی ماں اقصی ہے لیکن ہانم سے محبت اس کی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ ارتسام بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لے کر اب اپنے باپ کی زمینوں کو دیکھتا تھا اور ساتھ ہی شہر میں اپنا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس شروع کر چکا تھا۔ آج رات کے کھانے کے بعد سب گھر والے سو چکے تھے جب ارتسام سگنل ایشو کی وجہ سے ایک کال سننے چھت پر آیا تو سامنے منڈیر کے ساتھ کھڑی ہانم کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ ہانم کی ارتسام کی طرف پشت تھی وہ ارتسام کی موجودگی کو محسوس ہی نہ کر سکی شاید وہ اپنی زندگی کی اتار چڑھائو میں کھو کر جیسے خود سے ہی بیگانہ ہو چکی تھی۔ ارتسام نے ایک گہری سانس فضا کا حصہ بناتے ہوئے اس کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ 

"بھابھی۔"

ارتسام نے نرمی سے ہانم سے چار قدم کے فاصلے پر رک کر اسے پکارا۔ ہانم جو یقینا رو رہی تھی جلدی سے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے پلٹ کر مسکرائی تھی۔ وہ سیکھ چکی تھی اپنے درد کو ہنسی میں چھپانے والی عادت کو لیکن ارتسام سے وہ شاید  چاہ کر بھی کچھ چھپا نہیں پاتی تھی۔ 

"تم اتنی رات کو یہاں کیا کر رہے ہو؟"

ہانم نے مسکرا کر ارتسام سے پوچھا تو ارتسام نے اپنی آنکھوں کو چھوٹا کر کے اسے گھورا تھا۔ 

"آپ رو کیوں رہی تھیں مجھے یہ بتائیں۔"

ارتسام نے بنا تمہید اس سے پوچھا تھا۔ 

"میں کب رو رہی تھی سامی۔۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔"

ہانم اپنی نظروں کا زاویہ بدل چکی تھی کیونکہ میں واضح تحریر کردہ دکھ مقابل سے پوشیدہ نہیں تھا۔ 

" بھابھی کل سے رمضان مبارک شروع ہو رہا ہے اور آپ مجھ سے جھوٹ بول رہی ہیں۔ اس مہینے میں تو کم ازکم انسان کو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے؟"

" سامی تم جانتے ہو میں  پچھلے سات سالوں سے ہر رمضان میں دعا کرتی تھی  کہ خان واپس آ جائیں لیکن پچھلے تین سالوں سے یہ دعا کرنا چھوڑ چکی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں پڑھائی کو بہانہ بنا کر وہ مجھ سے اپنی جان چھڑا کر گئے ہیں۔زندگی کو سمجھنا آسان نہیں ہے چھوٹے خان یہ ایسے آپکو گھما دیتی ہے کہ قسمت حیرانگی سے دور کھڑے ہو کر آپکا تماشہ دیکھتی ہے۔"

وہ مضبوط لہجے میں بول کر وہاں سے جانے لگی جب ارتسام نے اسے روک لیا۔ 

"بھابھی نہیں کیا کریں نا ایسا۔۔ اگر آپ روتی ہیں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے اور پھر میں آپ کے لاڈلے کو مزید تنگ کرنے لگتا ہوں۔"

ارتسام کی بات پر ہانم نے اسے گھورا تھا۔ 

"خبردار اگر میرے بیٹے کو ذرا سا تنگ بھی کیا تو۔۔ میں تمہاری پٹائی سرعام بھی کر سکتی ہوں یاد رکھنا۔ پٹائی سے یاد آیا ڈھیٹ انسان کل شام کو کہاں گئے تھے تم مجھے بتائے بغیر ؟ کہیں اسی لڑکی سے ملنے تو نہیں گئے تھے جو آپ جناب کو پسند آگئی ہیں؟"

ہانم شائستگی سے بات بدل کر اب کمر پر ہاتھ ٹکائے، دایاں آبرو اچکا کر  اسے گھورنے کی کوشش کر رہی تھی جو سر کجھاتے ہوئے مسکراہٹ کو لبوں میں دبا گیا۔ 

"بھابھی آہستہ بولو بچے کو مروائو گی کیا؟"

ارتسام اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے بولا۔ ایک سال پہلے ہی ارتسام نے اسے بتایا تھا کہ اسے گائوں کی ایک لڑکی پسند آ گئی ہے۔ جسے ایک دن وہ معجزاتی طور پر اپنی زمینوں پر دیکھ چکا تھا۔ پہلی نگاہ میں ہی وہ دل ہار چکا تھا۔ ہانم نے مسکرا کر اس کے دائیں گال پر ہلکا سا تھپڑ رسید کیا۔ 

"یہ بچہ بڑا ہوچکا ہے۔ یہاں تک کے گدھے بھی اس کے سامنے اب چھوٹے لگتے ہیں۔"

ہانم کی بات پر ارتسام نے مصنوعی خفگی سے اسے دیکھا تھا۔ 

"بھابھی اب آپ کے لاڈلے کو مجھ سے بچا لے کوئی؟"

ارتسام نے اسے دھمکی دی جسے ہانم مسکرا کر سنتے ہوئے اس سے گویا ہوئی تھی۔ 

"تمہاری ہڈیوں کا سرمہ پیس کر تمہاری ہی آنکھوں میں ڈال دوں گی اگر میرے بچے کے ساتھ کوئی الٹی سیدھی شرارت کرنے کا سوچا بھی تو؟"

اس کے لہجے میں ثمامہ کے لئے ممتا اور محبت تھی ارتسام نے مصنوعی ناراضگی جتاتے ہوئے  اس سے رخ موڑ لیا تھا۔ 

"ہاں میں تو انڈے بیچنے والا ہوں نا جیسے۔۔ میری تو کوئی قدر ہی نہیں ہے اور اس دس سال کے پٹاکے کے لئے آپ کے پاس محبت کا دریا ہے لیکن میرے لئے تو اس دریا کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔"

بچوں کی طرح منہ بسورتے ہوئے وہ ہانم کو ہنسنے پر مجبور کرگیا تھا۔ وہ قہقہ لگاتے ہوئے آنکھوں میں ابھرتی چمک کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

"جو انسان خود خالی دامن ہو اس کے سائے سے بھی دور رہو کیونکہ اس کے پاس محبت تو دور کی بات شاید کوئی احساس ہی نہیں ہوتا۔"

ہانم کی بات پر وہ اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی اور ایک دم سنجیدگی نے اپنی جگہ بنائی تھی۔ 

"ارتسام خان کی بہن ہیں آپ۔۔۔ اس طرح مایوسی بھری باتیں مت کیا کریں میں آپ کو آخری بار سمجھا رہا ہوں ورنہ میں سریس والا ناراض ہو جائوں گا۔"

"ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ اچھے میرے بھائی نہیں کرتی ایسی باتیں اب۔۔ خیر رات ہوگئی ہے اور صبح مجھے سحری کے لئے بھی اٹھنا ہے اس لئے میں جا رہی ہوں سونے۔۔ شب بخیر۔"

ہانم اس کے بال بکھیر کر نیچے کی طرف چلی گئی تھی جبکہ ارتسام دور خلا میں اپنی سوچوں میں غرق ہوتے ہوگیا تھا۔ اس دوران اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تھی۔ وہ آن والے وقت کا شاید سوچ کر پرسکون ہو چکا تھا۔ 

وہ مجھ سے محبت

 بے مثال کرتے ہیں

واللہ یہ گمان بھی

کمال کرتے ہیں

(کرن رفیق )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یااللہ روزہ کب کھلے گا؟"

ہانم عصر کی نماز پڑھ کر حال میں آئی تھی اور با آواز بلند آسمان کی طرف دیکھ کر دعا مانگی اور  پھر پیٹ پکڑ کر وہی صوفے پر  بیٹھ گئی تھی۔ اکثم جو نماز پڑھ کر حال میں داخل ہوا تو ہانم کی دعا سن کر مسکرا دیا۔ 

"ہانم ۔۔۔ کیا ہوا بھوک لگی ہے؟"

اکثم اس کے سامنے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا تو ہانم نے معصومیت سے نچلا لب باہر نکالا اور مدھم آواز میں بولی۔

"خان مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔ صبح آپ کی وجہ سے میں نے صرف دو روٹیاں کھائی تھیں۔ آپ نے مجھے تیسری روٹی نہیں کھانے دی تھی اور اذان ہو گئی۔"

ہانم کے الزام پر اکثم نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔

"میں نے کب کہا کہ تم نہ کھائو؟"

"خان آپ نے کہا تھا اگر میں نے تیسری روٹی کھائی تو میں موٹی ہو جائوں گی اور پھر مجھے سکول میں سب چڑائیں گے۔"

ہانم نے اپنی آنکھوں کو چھوٹا کر کے اسے گھورا تھا۔ 

"ہاں تو مجھے کیا معلوم تھا تمہیں بھوک لگ جائے گی۔"

"خان  اماں جان کہتی ہیں جھوٹ بولنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اب آپ جھوٹ بول رہے ہیں وہ بھی بہت بڑا کیونکہ آپکو معلوم تھا مجھے بہت زیادہ بھوک لگتی ہے۔"

ہانم رو دینے کو تھی جبکہ اکثم نے اسے گھورا۔

"مجھے الہام نہیں ہونا تھا کہ تمہیں بھوک لگی ہوئی ہے اور ویسے بھی میں نے صرف مذاق میں کہا تھا کہ موٹی ہو جائو گی حالانکہ جتنا تم کھاتی ہو مجھے لگتا تھا تم دو ماہ میں ہاتھی بن جائو گی لیکن تم تو ماچس کی تیلی ہی رہی۔"

"خان آپ نے مجھے ہاتھی کہا؟"

ہانم اپنی سمجھ کے مطابق اسے گھور کر  بولی تھی۔ اکثم نے گڑبڑا کر اسے دیکھا تھا۔ 

رمضان کی وجہ سے جھوٹ بھی نہیں بول سکتا تھا اور سچ بولتا تو اماں جان اور بابا جان سے ڈانٹ پڑ جانی تھی۔ 

"دیکھو ہانم وہ تو میں نے مثال دی تھی۔"

"خان آپ نے مجھے ہاتھی کہا ہے اور اب آپ پھر سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں بتاتی ہوں اماں جان کو۔"

ہانم اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور وہاں سے یسرا بیگم کے کمرے کی طرف جانے لگی جب اکثم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب  کھینچا تو وہ لڑکھڑاتے ہوئے اکثم سے ٹکرائی تھی۔ 

دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھے  وہ اپنی منتشر ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالنے کی بمشکل کوشش کر رہی تھی۔ اکثم کی قربت پر پچھلے کچھ دنوں سے اس کے ساتھ یہی ہو رہا تھا۔  چہرے کی تپش پر وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی سانسوں کو ہموار نہیں رکھ سکی تھی۔ اکثم نے مہبوت ہو کر یہ منظر دیکھا تھا۔ وہ بے خود نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن مقابل اپنی نیلی آنکھوں پر موجود پلکوں کی جھالر کو سرسراتے ہوئے وہ اسے بے خود ہونے پر مجبور کر رہا تھی۔ بائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں سے اس نے ہانم کے گال کو چھوا تھا ۔ ہانم کے سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی تھی ۔ وہ بے ساختہ بولی تھی۔

"خان مجھے چھوڑ دیں۔"

ہانم کی آواز کی لرزش پر وہ اپنے  حواسوں میں لوٹا تھا۔ بے ساختہ اس نے ہانم کو چھوڑا تھا جو لڑکھڑاتے ہوئے صوفے پٹ تقریبا گری تھی۔

"ایم سوری پتہ نہیں کیسے؟ ایم سو سوری ہانم۔"

اکثم شرمندگی سے بول کر بنا اس کی طرف دیکھے وہاں سے باہر کی جانب چلا گیا تھا۔

"خان۔"

ایک چیخ نما آواز سے وہ اپنی منتشر ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے اٹھی تھی۔ پسینے سے شرابور وہ اندھیرے میں اس ظالم ہرجائی کے عکس کو تلاش کرنے لگی جو دس سال پہلے ہی اسے چھوڑ کر جا چکا تھا۔ ہانم نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ آن کی اور گھڑی پر وقت دیکھا تھا جو تین بجا رہی تھی۔ دس سال سے وہ اس کی یادوں کے سہارے زندگی گزار رہی تھی۔ 

"خان کاش آپ مجھے زندہ درگور کر دیتے لیکن یوں تنہا چھوڑ کر نہیں جاتے۔ وقت نے مجھے آپ کے بغیر جینا سکھا دیا ہے۔ خدا راہ اب تب آئیے گا جب میری آخری سانسیں چل رہی ہوں۔"

ہانم اس کے تصور سے مخاطب ہو کر واش روم کی طرف چلی گئی اور پھر وضو کر کے اس نے تہجد کی نماز ادا کی اور کمرے سے باہر چلی گئی جہاں اس نے رشیدہ بی کے ساتھ مل کر سحری کی تیاری کرنی تھی۔

"ڈاکٹر روم نمبر 317 والے  پیشنٹ کی حالت کافی سریس ہے ۔۔۔ ان کا ہارٹ رسپونس بہت کم کر رہا ہے آپ پلیز جلدی چلیں۔"

سفید یونیفارم میں ملبوس ایک نرس نے ہانپتے ہوئے بنا ناک کئے اس کی کیبن میں داخل ہوتے ہوئے کہا تھا۔ ڈاکٹر جو اپنے کیبن میں بیٹھا کوئی کیس فائل ریڈ کر رہا تھا نرس کی بات پر اسے دیکھنے لگا۔ پیشانی پر تین لکیریں بروقت نمودار ہوئی تھیں۔ بھوری آنکھوں میں غصے کی رمق ابھری تو نرس کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تھا۔ 

"آپ کو یقینا یہاں مینرز سیکھنے کی ضرورت ہے مس نینا۔"

سرد انداز میں بولتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بنا اس کی طرف دیکھے روم نمبر 317 کی طرف بڑھ گیا۔ نرس بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے روم میں داخل ہوئی جہاں پیشنٹ بڑے مزے سے جوس پینے میں مصروف تھا۔ نرس نے شاکڈ نظروں سے پیشنٹ کو دیکھا تھا جو دل جلا دینے والی مسکراہٹ سے ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔ 

"روم نمبر 216 میں جو پیشنٹ ہیں مجھے ان کی فائل چاہیے مس نینا۔"

ڈاکٹر کی آواز پر وہ جیسے ہوش میں واپس آئی تھی۔ تقریبا بھاگنے والے انداز میں وہ وہاں سے گئی تھی۔ 

"اس طرح کے مذاق پر آپ کو یہاں جیل بھی ہو سکتی ہے مسٹر اسامہ۔"

ڈاکٹر نے گھور کر دیکھا تو اسامہ کا قہقہ نکل گیا۔ 

"چلو کوئی نہیں دونوں ساتھ ساتھ جائیں گے کیونکہ مریض اپنے ڈاکٹر کے بغیر تو کہیں جائے گا نہیں؟"

"جسٹ شٹ اپ۔۔۔ مذاق ہے تمہارے لئے کسی کی احساسات سے کھیلنا؟"

مقابل کی دھاڑ نما آواز پر بھی وہ سنجیدگی کو لہجے میں سمو نہیں سکا تھا۔

"اوئے بس کر تیرا پٹھانوں والا خون ابل رہا  ہے لگ گئی سمجھ مجھے۔ ویسے اگر میں مر جاتا تو یقینا تیری جان چھوٹ جاتی۔"

"تم یقینا چاہتے ہو میں تمہاری گردن کو اپنے ہاتھوں سے دبائوں۔"

"ہاہاہاہا۔۔۔ ضرور پھر کل کے اخبار میں آئے گا اکثم خان دا گریٹ ہرٹ سپیشلسٹ نے اپنے ایک مریض کو گردن دبوچ کر جان سے مار دیا۔"

اسامہ ہنستے ہوئے جیسے اس کے فیوچر کا نقشہ کھینچ گیا تھا۔ 

اکثم کے عنابی لبوں پر مسکراہٹ آئی تھی۔ اور گردن کو نفی میں ہلاتے ہوئے اس نے آگے بڑھ کر اسامہ کے کندھے پر ہلکی سی چپت لگائی تھی۔ 

"تو سدھر جائے یہ نہیں ہوسکتا۔"

"سدھر کر کیا کرنا یار۔۔ زندگی کا کیا بھروسہ کہ کب ختم ہو جائے اب پانچ سال پہلے جو ہوا اس کا خمیازہ میں نے کم تم نے زیادہ بھگتا ہے۔ مجھے معاف کر دے میری وجہ سے تم نے اتنی مصیبتوں کو فیس کیا۔"

اسامہ نم آنکھوں سے مسکرایا تھا اکثم نے اسے گھورا تھا۔ 

"دنیا میں تو واحد کمینہ انسان ہے جو اکثم خان کی جان ہے۔"

"آہ۔۔ مطلب بھابھی سے ابھی تک صلح نہیں ہوئی؟"

اسامہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں اب کوئی بھی تاثر نہیں تھا۔ 

"وہ جان نہیں ہے خان کی وہ سانسیں اور روح ہے اکثم خان کی۔ دور رہا ہوں اس سے لیکن مجھے امید ہے وہ مجھے سمجھ جائے گی۔"

اکثم نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا۔ 

"پاکستان کب جا رہے ہیں ہم؟"

اسامہ اس کے چہرے کی سنجیدگی دیکھ کر بات بدل گیا تھا۔

"ایک ہفتہ ہوا ہے تجھے ہوش میں آئے اور تو پاکستان جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک مہینے سے پہلے تو کہیں سفر نہیں کر سکتا سمجھا یا لگائوں کان کے نیچے ایک؟"

اکثم نے اسے گھورا تھا۔ 

"زیب کیسی ہے؟"

اسامہ نے کافی دیر خاموشی کے بعد اپنا سوال پوچھا تھا۔ 

"وہ بالکل ٹھیک ہے۔ گھر پر تمہارا انتظار کر رہی ہے انفیکٹ انتظار کر رہے ہیں تمہارا۔"

اکثم کی مسکراہٹ پر اسامہ نے اسے ناسمجھی سے دیکھا تھا۔

"تمہارے ایکسیڈنٹ کے دس دن بعد جب تو کوما میں جا چکا تھا تب مجھے معلوم ہوا تھا کہ تم باپ بننے والا ہے۔ بس اسی وقت سے زیب کو اپنی بہن بنا لیا۔ حالانکہ تم جانتے ہو یونیورسٹی میں  ہماری بالکل نہیں لگتی تھی۔ اور اللہ نے تمہیں ایک بیٹے سے نوازہ ہے جسکا نام اس نے موسی رکھا ہے۔ بہت پیارا ہے ماشاءاللہ سے۔ بہت شرارتی ہے۔ تجھ سے ملنے بھی آتا تھا۔ جب تو دنیا سے بیگانہ ہو گیا تھا۔ تجھے وہ ڈیڈ بولتا ہے اور مجھے  پاپا۔۔ حالانکہ زیب نے کافی دفعہ اسے کہا کہ ماموں بولا کرو لیکن ڈھیٹ پن میں وہ تم سے چار نہیں آٹھ قدم آگے ہے۔"

اکثم کے تفصیلی جواب پر اسامہ کے گال آنسوئوں سے بھیگ گئے تھے۔ وہ خوش تھا بہت خوش لیکن اس کی خوشی کی انتہا اس کے آنسوئوں پر ختم ہو رہی تھی۔ 

"مجھ پر خدا اس قدر مہربان ہو سکتا ہے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔"

اسامہ کی آواز میں لرزش تھی۔ اکثم نے مسکرا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ 

"جب تجھے ہوش آیا تھا میں تب ہی بتانا چاہتا تھا لیکن تمہاری کنڈیشن ایسی تھی کہ کوئی بھی شاک تمہیں واپس کوما میں لے جاسکتا تھا۔ اس لئے آج بتا رہا ہوں کیونکہ تمہارے ڈاکٹر سے بات ہو چکی ہے میری دو دن میں تمہیں ڈسچارج کر دیا جائے گا۔ اور یہ جو تم نے ابھی نرس کو میرا پتہ دے کر بھیجا تھا مجھے غصہ  بہت آیا تھا اور اس کی سزا تمہیں گھر جا کر دوں گا۔ اور آخری بات کہ خدا پر اس قدر اپنا یقین پختہ کر لو اسامہ کہ جو دوسروں کی نظر میں ناممکن ہو وہ تم ممکن کر دو لیکن اس ذات کے سامنے عاجزی اور انکساری دکھانا کبھی نہ چھوڑنا۔"

اکثم کی بات پر اس نے اپنا سر اثبات میں ہلایا تھا۔ اکثم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور نرمی سے بولا۔

"مجھے ایک پیشنٹ کو دیکھنا ہے میں ابھی آتا ہوں اور پلیز اب یہ اوچھی حرکت مت کرنا ورنہ تمہارے دل کہ دھڑکن کو سچ میں روک دوں گا۔"

اکثم اسے مصنوعی دھمکاتے ہوئے باہر چلا گیا جبکہ اسامہ ماضی کے اوراق کو پلٹنا شروع ہو چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی:

اکثم کو اسامہ کی دوستی زیب سے یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ زیب ایک یتیم لڑکی تھی بو سکالرشپ پر پڑھنے پاکستان سے کینیڈا آئی تھی۔ اسامہ کی محبت جلد ہی دوستی میں بدل گئی تو اس نے اپنے والدین سے اجازت لے کر زیب سے شادی کر لی تھی۔ تعلیم مکمل ہونے سے تقریبا ایک ہفتہ پہلے ان کی نکاح ہوا تھا جس میں اکثم نے بطور گواہ اپنا فریضہ سر انجام دیا تھا۔ اکثم نے اپنے بابا جان سے مشورہ کر کے وہاں ایک فلیٹ خریدا تھا۔ جہاں اب وہ تینوں رہ رہے تھے۔ اسامہ ایک دن ہاسپٹل سے واپس آ رہا تھا جب اس کا ایک گاڑی سے بری طرح ایکسیڈنٹ ہوا۔ اتفاق تھا یا کچھ اور کہ اکثم نے اسی دن پاکستان واپس جانا تھا۔ پانچ سال اس نے ہانم کی آواز اور اسے دیکھے بغیر گزارے تھے۔ لیکن اسامہ کے ایکسیڈنٹ کی خبر ملتے ہی وہ اپنا ارادہ بدل چکا تھا۔ پھر جب ڈاکٹر نے اس کے کوما میں جانے کا بتایا تو اس نے بابا جان اور اماں جان کو سب بتا کر ان سے معذرت کرتے ہوئے اپنا پاکستان نہ جانے کا فیصلہ بھی سنا دیا۔ یسرا بیگم جانتی تھیں کہ اکثم کبھی بھی اسامہ کو تنہا چھوڑ کر واپس نہیں آئے گا اس لئے انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر اسے اجازت دے دی تھی۔ ارتسام نے کافی واویلا مچایا تھا لیکن دلاور خان کی ڈانٹ نے اسے بھی خاموش کروا دیا تھا۔ ہانم ان سب سے لاعلم تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اکثم کو وہاں کیوں اتنے سال رکنا پڑا۔ وہ کافی حد تک اس سے بدگمان ہو چکی تھی۔ بدگمانی اب کیا رنگ والی تھی یہ تو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اتنا ضرور تھا کہ اب ہانم نے وقت پر سب چھوڑ دیا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"چاچو میں موم کو دیکھ رہا ہوں کافی دنوں سے ۔۔ مجھے لگتا ہے کہ موم موٹی ہوگئی ہیں؟"

ارتسام اور ثمامہ حال میں بیٹھے آئسکریم کھا رہے تھے جو کہ ثمامہ کی فرمائش پر ارتسام لے کر آیا تھا۔ تب ثمامہ نے ہانم کی طرف دیکھ کر کہا جو کسی ملازمہ کو کچھ سمجھا رہی تھی۔ ارتسام نے ہانم کو دیکھ کر ثمامہ کو گھورا اور دانت پیستے ہوئے بولا۔

"ایسا کچھ نہیں ہے وہ تو بالکل نارمل ہیں۔ تمہاری آنکھیں موٹی ہو گئی ہیں۔"

ارتسام کی بات پر ثمامہ نے اپنی گرین کلر کی آنکھوں کو چھوٹا کیا اور چھوٹی سی ناک کو پھلاتے ہوئے بولا۔ 

"چاچو ۔۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں آپکا سوتیلا بھتیجا ہوں اور موم آپکی سگی بہن۔"

ثمامہ کے شکوے پر ارتسام نے قہقہ لگایا تو ثمامہ نے اسے گھورا۔

"بات مت کیجئے گا اب مجھ سے۔"

ثمامہ کی بلیک میلنگ پر ارتسام نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا مطلب وہ اب پکا ناراض ہونے والا تھا۔ ارتسام نے ایک نظر ہانم کو دیکھا جس کے خلاف وہ مذاق میں کچھ برداشت نہیں کرتا تھا اور ایک نظر ارتسام کو جو اپنی ہی ماں کو موٹا نہ کہنے پر اسے بلیک میل کر رہا تھا۔ 

"اب ناراضگی کیسے ختم ہوگی؟"

ارتسام کی بات پر ثمامہ کی آنکھیں چمکی تھیں۔ 

"اب موم کو آپ بتائیں کہ وہ کتنی موٹی ہو گئی ہیں۔"

ثمامہ کی بات پر ارتسام کی پوری آنکھیں کھلی تھیں۔ اچھا خاصہ وہ اس کی شامت کو دعوت دے رہا تھا۔ ایک طرف کھائی تھی تو دوسری طرف کنواں ۔ ثمامہ نے اسے اچھا خاصہ بے بس کیا تھا۔ ارتسام اسے گھور رہا تھا جب ہانم بھی وہاں آ گئی۔ 

"کیا ہو رہا ہے یہاں؟"

ہانم مسکراتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی تو ثمامہ نے آنکھوں سے ارتسام کو اشارہ کیا۔ وہ اپنا گلا کھنکار کر ہانم کی طرف متوجہ ہوا۔

"بھابھی آپ کو اب ڈائٹنگ کرنی چاہیے کیونکہ آپ موٹی ہو گئی ہیں۔"

ارتسام کی بات پر ہانم کو صدمہ ہوا تھا۔ اس نے ارتسام کو گھورا اور دھیمی آواز میں بولی۔

"سامی پٹو گے تم مجھ سے اب؟"

ہانم نے ارتسام کو گھورا تھا جو ثمامہ کے ساتھ مل کر اسے تنگ کر رہا تھا۔ 

"موم ریلکیس کریں۔چاچو کے دماغ کا کوئی سکرو ڈھیلا ہے بس۔"

دس سالہ ثمامہ نے ہانم سے کہا تو ہانم پیارے سے اس کی پیشانی کے بال بکھیرے۔

"میری جان۔"

ہانم نے اس کے دونوں گالوں پر بیک وقت بوسہ دیا تھا۔ 

"اوئے موم کے چمچے ۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے کون کہہ رہا تھا کہ ہانم بھابھی موٹی ہوگئی ہیں؟"

ارتسام نے ثمامہ کو گھورا تھا۔ جبکہ ثمامہ معصوم سی شکل بنائے ہانم کی گود میں بیٹھ گیا۔

"موم چاچو رمضان میں بھی جھوٹ بولتے ہیں۔"

ثمامہ نے معصومیت سے ہانم کو دیکھ کر کہا ۔

"آئی نو میری جان تمہارے سامی چاچو جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں جانتی ہوں میرا بیٹا میرے بارے میں  کبھی ایسے الفاظ نہیں بولے گا۔"

ہانم نے ارتسام کو گھورا تھا جبکہ ثمامہ نے مسکراتے ہوئے ارتسام کو دیکھا اور اپنی دائیں آنکھوں کا کون دبا گیا۔ 

"بھابھی یہ جھوٹ بول رہا ہے۔"

ارتسام نے احتجاج کیا حالانکہ جانتا تھا ان دونوں ماں بیٹے کے درمیان بولنا بیوقوفی ہے بس۔

"سامی بس کر دو اور ثمامہ تم یہ بتائو ہوم ورک کیا؟"

ہانم کی آواز پر ارتسام منہ بناتے ہوئے آئسکریم کھانے لگ گیا جبکہ ثمامہ نے معصوم بننے کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے ہانم کو دیکھا اور بولا۔ 

"موم میں تو کرنے والا تھا لیکن چاچو نے مجھے یہاں بلا کر آئسکریم ہاتھ میں تھما دی اور بولے۔ ثمامہ تم یہ پہلے کھائو ہوم ورک بعد میں کر لینا۔"

اس کی بات پر ارتسام کا آئسکریم کھانے والا ہاتھ رکا تھا اور اس نے گھور کر اس چھوٹے پیکٹ کو دیکھا تھا جو دھماکے کر رہا تھا۔ ہانم نے دایاں آبرو اچکا کر ارتسام کو دیکھا۔

"بیٹا آپ کے چاچو تو ہے ہی نالائق آپ جلدی سے جائو اور ہوم ورک کرو جا کر میں ابھی آ کر چیک کرتی ہوں۔"

ثمامہ دلا جلا دینے والی مسکراہٹ ارتسام کی طرف اچھالتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف گیا تھا جبکہ ارتسام اس کی پشت دیکھ کر مسکرا دیا تھا۔ 

"آپ جانتی ہیں وہ جھوٹ بول کر گیا ہے؟"

ہانم کو اپنی طرف گھورتے دیکھ کر ارتسام جلدی سے بولا۔ 

"تم اس کے ہاتھوں جلدی بیوقوف بن جاتے ہو سامی۔۔ کیا ضرورت ہوتی ہے اس کی بلیک میلنگ میں آنے کی۔۔ مجھے تو حیرانگی ہوتی ہے اس بات پر  کہ تم بزنس کیسے چلاتے  ہو؟"

ہانم کی تاسف زدہ آواز پر ارتسام مسکرایا تھا۔ 

"بس دیکھ لیں۔"

"تم بیٹھو میں ذرا ثمامہ کو دیکھ لوں یقینا سکول کی ڈائری سے اپنی شکایت کو مٹانے کی ناکام کوشش کر رہا ہوگا۔"

ہانم بولتے ہوئے کمرے کی طرف چلی گئی جبکہ ارتسام پانے موبائل پر آنے والی بیل کی طرف متوجہ ہو گیا۔ بھائی کالنگ دیکھ کر اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ اس نے کال ریسیو کی اور اکثم سے باتوں میں مصروف ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مہینے بعد:

وہ ائیرپورٹ پر کھڑا ان کا منتظر تھا۔ جیسے ہی وہ باہر آئے ارتسام کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ دس سال بعد اکثم خان اس کے روبرو تھا۔ چند قدموں سے فاصلے پر وہ شہزادوں کی آن بان لئے اس کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ اس سے دو قدم کے فاصلے پر زیب اپنے بیٹے موسی کو اٹھائے اس کی تقلید میں چل رہی تھی۔ اسامہ مزید ایک ہفتہ لیٹ اس لئے تھا کیونکہ اس کے کاغذات کا کچھ ایشو ہو گیا تھا۔ اس کی صحت کی وجہ سے جو ایک ہفتہ اسے مزید وہاں رکنا پڑا تھا۔ اس نے زبردستی اکثم کو واپس بھیجا تھا۔ زیب کو بھی وہ ایک ہفتے بعد ہی اپنے گھر واپس لے جانے والا تھا۔ ارتسام نے زیب کو دیکھا اور مسکرایا۔ سب گھر والوں کو معلوم تھا کہ وہ اسامہ کی بیوی ہے۔ سوائے ہانم خان کو۔ 

"خوش آمدید بھائی۔ کیسے ہیں آپ؟"

ارتسام اکثم سے بغلگیر ہوتے ہوئے بھرائی آواز میں بولا۔ اکثم نے اسے ذور سے خود میں بھینچ لیا۔ آنکھیں تو اس کی بھی نم ہوئی تھیں لیکن وہ مضبوط رہنا چاہتا تھا۔ 

"میں بالکل ٹھیک تم سنائو۔ ویسے چھوٹے خان اب تو تم کافی بڑے ہوگئے ہو۔"

اکثم نے مسکرا کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔ ارتسام نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔ 

"اسلام علیکم بھابھی۔۔۔ کیسی ہیں آپ؟ میں اکثم خان کا چھوٹا بھائی ہوں مطلب اسامہ بھائی کا بھی بھائی تو اسی لئے آپ میری بھابھی ہیں۔"

اسامہ کی رشتے کی وضاحت پر زیب اور اکثم دونوں مسکرا دئیے تھے۔ 

"وعلیکم اسلام بھائی میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟"

"الحمداللہ ۔۔ اور چھوٹو تم سنائو کیسے ہو؟"

ارتسام نے موسی کو گود میں اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ 

"میں چھوٹا نہیں ہوں انکل دیکھیں اتنا بڑا ہوں میں۔ چھوٹے سکول نہین جاتے جبکہ میں سکول جاتا ہوں۔ ہیں نا پاپا"

موسی کو ارتسام کی بات پسند نہیں آئی تھی۔ اس لئے وہ اکثم سے وضاحت طلب کرنے لگا۔ 

"ہاں بھئی موسی بالکل چھوٹا نہیں ہے۔ اچھا چھوٹے خان گھر میں کسی کو بتایا تو نہیں نا؟"

اکثم نے کچھ یاد آنے پر پوچھا۔

"بھائی فکر نہ کریں کسی کو نہیں معلوم کہ آپ نے آج پاکستان آنا ہے۔ اچھا اب چلیں گھر ۔ آپ کو گھر چھوڑ کر مجھے ایک میٹنگ میں بھی جانا ہے پھر انشاء اللہ رات کو ملاقات ہوگی۔"

ارتسام موسی کو اٹھائے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا جبکہ اکثم نے ایک لمبی سانس اپنے اندر کھینچی تھی گویا اس خوشبو کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی جس سے وہ پچھلے دس سال سے محروم تھا۔ زیب اس کی تقلید میں گاڑی تک پہنچی اور گاڑی پر بیٹھ کر وہ خان حویلی کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔ 

"اماں جان اسے بولیں میر موبائل واپس کرے مجھے جاثیہ سے بات کرنی ہے۔"

ثمامہ جس کے ہاتھ میں ہانم کا موبائل تھا۔ وہ ہنستے ہوئے آگے آگے بھاگ رہا تھا جبکہ ہانم اس کے پیچھے اسے گھورتے ہوئے بھاگ رہی تھی۔ یسرا بیگم صوفے پر بیٹھی تسبیح پڑھتے ہوئے دونوں ماں بیٹے کو دیکھ رہی تھیں۔ ہانم کی آواز پر وہ مسکراتے ہوئے ہانم کو دیکھنے لگیں۔ ان کی نظر میں ہانم ابھی بھی بچی ہی تھی کیونکہ کبھی کبھار اس کی حرکتیں ثمامہ کی ہی طرح کی ہوتی تھیں۔ 

"ثمامہ بیٹا اپنی ماں کا تنگ نہیں کرو اور اس کو موبائل دے دو۔۔ تمہاری خالہ سے ضروری بات کرنی ہوگی اسے۔"

یسرا بیگم کی آواز پر ثمامہ نے ہانم کو دیکھا جو اسے دیکھ کم گھور ذیادہ رہی تھی۔ 

"پہلے موم کو بولیں مجھ سے پرامس کریں کہ مجھے رافع کی برتھ ڈے میں جانے دیں گی اور کوئی اعتراض نہیں کریں گی؟"

ثمامہ کی شرائط پر یسرا بیگم کی مسکراہٹ گہری ہوگئی تھی۔

"تمہاری پٹائی کر دوں گی اگر جانے کا نام بھی لیا تو۔ جانتے ہو کتنی دور ہے ان کا گھر دو گھنٹے شہر جانے میں لگیں گے اور دو گھنٹے ہی واپس آنے میں ۔۔ ایک گھنٹہ تم وہاں سٹے کرو گے تو پورے پانچ گھنٹے میں تمہیں اپنی نظروں سے دور نہیں کروں گی وہ بھی ایک فالتو کام کے لئے۔"

ہانم نے سنجیدگی سے ثمامہ کو دیکھ کر کہا۔ 

"موم پلیز نا۔۔ ویسے بھی آپ کہیں جانے کب دیتی ہیں؟"

"ثمامہ خان میں ایسی کوئی اجازت نہیں دے رہی۔"

ہانم کی بات پر ثمامہ نے منہ بسورا تھا۔ 

"موم پلیز۔۔۔ "

"بس کرو ثم۔۔۔"

ہانم ثمامہ کی بات درمیان میں ہی کاٹ کر بولنے لگی مگر جیسے ہی اس کی نظروں نے دروازے پر کھڑے اکثم کو دیکھا اس کے لفظوں نے اس کی آواز کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ہانم نے پلک جھپکے بغیر اسے دیکھا تھا۔ ویسا ہی تو تھا وہ۔ ہاں تھوڑا بہت بدلائو آیا تھا اس میں۔ بھوری آنکھوں پر چشمہ تھا، فرنچ کٹ داڑھی اس کی شخصیت کو سنوار رہی تھی، لیمن کلر کی شرٹ اور بلیو جینز پہنے، بالوں کو اچھے سے جیل سے سیٹ کئے وہ ہانم کے دل کو دھڑکنے پر مجبور کر رہا تھا۔ اکثم کا حال بھی مختلف نہ تھا۔

وہ پتلی سی ہانم اب تھوڑی ہیلدی ہو چکی تھی، دودھیا رنگت مزید نکھر گئی تھی، یہ اتفاق ہی تھا کہ وہ بھی لیمن کلر کی شلوار قمیض پہنے، سر پر ڈوپٹہ اوڑھے اپنی شخصیت سے مقابل کو دل و جان سے اپنی طرف متوجہ کر گئی تھی۔ دس سال بعد وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ حواسوں نے گویا کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ بے خودی اتنی تھی کہ اردگرد کون ہے۔ ہوش کی دنیا میں قدم ارتسام  کی آواز پر رکھے گئے تھے۔ ہانم نے گڑبڑا کر نظروں کا زاویہ بدلا تھا۔ 

"اماں جان دیکھیں کون آیا ہے؟"

یسرا بیگم نے نم آنکھوں سے اکثم کو دیکھا تھا۔

"اسلام علیکم اماں جان کیسی ہیں آپ؟"

اکثم آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گیا تھا۔یسرا بیگم نے لرزتے ہاتھوں سے اکثم کے چہرے پر ہاتھ رکھے تھے۔ وہ رونا نہیں چاہ رہی تھیں لیکن وہ ضبط کھو رہی تھیں۔ 

"ا۔۔۔اک۔۔اکثم۔ میرا بچہ۔"

اکثم کے آنسو ان کے ہاتھوں کی ہتھلیوں کر بھگو گئے تھے۔ وہ بچہ بن چکا تھا اپنی ماں کو دیکھ کر بے ساختہ اس نے یسرا بیگم کو اپنی آغوش میں لیا تھا۔ دس سالوں کا غبار تھا جو نکل رہا تھا۔ 

"اماں جان بس کر دیں ۔۔ اب آگیا ہوں نا کبھی نہیں جائوں گا آپ کو چھوڑ کر۔"

اکثم اپنے ہاتھوں میں ان کا چہرے تھام کر بولا اور پھر جھک کر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ جواب میں وہی عمل یسرا بیگم نے دہرایا تھا۔ 

ان کے عمل میں شدت تھی، ممتا کی  پیاس تھی محبت تھی، انہوں نے چار پانچ بار اکثم کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔ ثمامہ کو یسرا بیگم کے پیار کرنے کا انداز اکثم کے ساتھ پسند نہیں آیا تھا۔ اس نے بھی ہانم کی طرح اکثم کو آج تک نہیں دیکھا تھا اور یہ ہانم کی ہی ضد تھی کہ اس کا اور اس کے بیٹے کا اکثم سے کوئی واسطہ نہیں اس لئے وہ دونوں اس سے بات نہیں کریں گے۔ اکثم کی تمام تصاویر کو خان حویلی سے ہٹا کر ایک صندوق میں بند کر کے سٹور روم میں رکھوا دیا تھا ہانم نے وہ سخت دل نہیں بہت ذیادہ سخت دل ثابت ہوئی تھی اکثم کے معاملے میں۔ لیکن اس کی ایک جھلک ہی اس کے پتھر دل کو موم کر گئی تھی۔ 

"آپ کون ہیں ہٹیں یہاں سے یہ میری دادی جان ہیں۔"

ثمامہ نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اکثم کے ہاتھ جو یسرا بیگم کے چہرے کو تھامے ہوئے تھے ہٹائے اور اسے گھورنے لگا۔ اکثم نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا۔ 

"اماں جان یہ ۔۔"

اکثم نے ثمامہ کی طرف اشارہ کر کے جیسے یقین چاہا تھا یسرا بیگم سے۔ 

"یہ ثمامہ خان ہے" 

یار بیگم نے ثمامہ کے سر پر بوسہ دے کر اسے اپنی گود میں بٹھا لیا تھا۔ 

اکثم نے مسکرا کر ثمامہ کو دیکھا اور نرمی سے اس کے بال بکھیر کر بولا۔

"مجھ سے نہیں ملو گے چیمپ؟"

"آپ کون ہیں؟"

"یہ تمہارے پاپا ہیں ثمامہ۔"

یار بیگم نے ثمامہ کو دیکھ کر جواب دیا۔ 

"نہیں یہ صرف موسی کے پاپا ہیں۔"

موسی جو کب سے اکثم کو دیکھ رہا تھا ثمامہ کو پیارے سے دیکھتے کر بول پڑا۔ زیب جس کی موجودگی کو سب افراد ہی تقریبا نظر انداز کر چکے تھے۔ اس پر توجہ اس کے بیٹے نے دلوائی تھی۔ ہانم نے چونک کر موسی کو دیکھا تھا۔ جو حق سے اکثم کو پاپا  بول رہا تھا۔ 

"ہاہاہا میرے شہر ادھر آئو تمہیں تمہاری دادی جان سے ملوائوں۔ زیب تم بھی آیا ادھر۔"

اکثم کے لہجے میں موجود محبت ہانم کو جلتے انگاروں پر لٹا گئی تھی۔ یقین کا محل چھن کر کے ٹوٹا تھا۔ ہانم کو اس ماحول میں سانس لینے میں جیسے دشواری محسوس ہونے لگی تھی۔ کسی اور کے لئے وہ خان کی آنکھوں محبت کیسے دیکھ سکتی تھی۔ 

"اسلام علیکم اماں جان کیسی ہیں آپ؟"

"وعلیکم اسلام بیٹا۔۔ الحمداللہ میں بالکل ٹھیک تم سنائو اور سفر کیسا رہا؟ 

زیب کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے یسرا بیگم نے مسکرا کر پوچھا۔ 

"میں بالکل ٹھیک ہوں اماں جان اور سفر بھی بہت اچھا گزرا  بس آپ کا بیٹا مجھے کافی تنگ کر رہا تھا "

"زیب میں نے کب تنگ کیا تمہیں؟"

اکثم نے اسے  مصنوعی گھورا تھا۔

"ماں جائو اکثم تم نے تنگ کیا تھا مجھے اور میں بابا جان سے بھی تمہاری شکایت لگانے والی ہوں۔"

زیب نے مسکرا کر اکثم کو دھمکی دی۔ ہانم کو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوا تھا کہ سب آگاہ تھے اس لڑکی کی حثیت سے۔ وہ نظر انداز نہیں بالکل اس کے وجود کو ثانوی کر دیا گیا تھا۔ مختلف سوچوں میں گری وہ آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے کمرے میں چلی گئی تھی۔ 

اکثم نے جب مڑ کر اسے دیکھا تو وہ کہیں نہیں تھی۔ مطلب وہ ناراضگی کا اظہار کر چکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ارتسام اپنی میٹنگ کے لئے جا چکا تھا موسی اور ثمامہ دونوں اکثم کی گود میں بیٹھے تھے دلاور خان بھی اکثم کے پاس ہی بیٹھے اس سے باتیں کر رہے تھے اور اسامہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ زیب اماں جان کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ اگر کوئی خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا وہ تھی ہانم۔ صبح سے شام ہو چکی تھی مگر وہ کمرے سے باہر نہ آئی۔ اکثم کی منتظر نظریں ہر آہٹ پر اپنے کمرے کے دروازے کی طرف اٹھتی لیکن مایوسی کا سامنا کرتے ہوئے وہ دوبارہ دلاور خان کی طرف متوجہ ہو جاتا۔  وہ جب سے کمرے میں آئی تھی بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی روئے جا رہی تھی۔ محبت کی یہی تو برائی ہے کہ جب شدت پسند ہوتی ہے تو شراکت کا خیال بھی سانسیں روک دیتا ہے۔ 

"کیوں کیا آپ نے ایسا؟ کیوں کسی اور کو مجھ پر فوقیت دی؟ میں تو محبت کرتی تھی آپ سے؟ لیکن آپ نے تو مجھ سے میرے تمام حقوق کو ہی چھین لیا۔ کیسے میں برداشت کروں آپ کی تقسیم؟ آپ کی توجہ صرف ہانم کے لئے تھی خان۔ آپکی محبت پر صرف میرا حق تھا پھر کیسے وہ شریک بن گئی؟ اسی لئے چھوڑ کر گئے تھے مجھے تاکہ کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو ٹھیک ہے میں بھی اب آپ کو اپنی زندگی میں شامل ہونے نہیں دوں گی۔ نہیں ٹوٹ سکتی میں روز روز۔ میرے لئے میرا بیٹا کافی ہے خان۔۔ کافی ہے۔"

اکثم کے تصور سے مخاطب ہوتے ہوئے وہ خود اذیتی کی انتہا پر تھی۔ آدھے گھنٹے بعد کمرے کا دروازہ کسی کھٹکھٹایا تو ہانم نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کئے اور اپنی آواز کو نارمل کرتے ہوئے بولی۔ 

"کون"

"ہانم بیٹا کھانا لگ گیا ہے آ کر کھالو۔"

رشیدہ بی کی آواز پر وہ زخمی سا مسکرائی تھی۔ ابھی تو مضبوط بننا کا سوچا تھا تو کیا اتنی جلدی وہ سب مان لے۔ وہ کیسے دیکھ سکے گی خان کے پہلو میں اس لڑکی کو؟ 

"نہیں میں نہیں جا سکتی"

ہانم خود سے بڑبڑائی۔

"چچی میرے سر میں درد ہے میں دوائی کھا کر سونے لگی ہوں اور ویسے بھی مجھے بھوک نہیں ہے اماں جان سے معذرت کر لیجئے گا۔"

ہانم یہ بول کر واش روم کی طرف چلی گئی تھی جبکہ رشیدہ بی وہاں سے کیچن میں چلی گئی تھیں۔ 

"کیا ہوا رشیدہ بی ہانم کہاں ہے؟"

دلاور خان نے ہانم کا انتظار کرتے ہوئے پوچھا۔ اکثم نے بھی جواب کے لئے رشیدہ بی کو دیکھا تھا۔

"وہ خان صاحب چھوٹی بی بی بول رہی ہیں ان کے سر میں درد ہے اور انہیں بھوک بھی نہیں ہے وہ دوائی کھاکر سونے لگی ہیں۔"

"پاگل ہے کیا وہ صبح سے کچھ نہیں کھایا اور اب ایسے ہی دوائی کھا کر سوئے گی۔ آپ اسے بلا کر لائیں اور بولیں میں بلا رہا ہوں۔"

اکثم پریشانی سے رشیدہ بی کو دیکھ کر سخت لہجے میں بولا۔ سب گھر والوں نے حیرانگی سے اس کا غصہ دیکھا تھا۔ 

"بڑے خان وہ نہیں آئے گی اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے اسے پریشان نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہوگا۔"

دلاور خان کی بات پر اکثم نے اپنے لب بھینچ لئے تھے جبکہ ارتسام نے بمشکل مسکراہٹ کا گلا گھونٹا تھا۔ 

"ایک تو وہ بھوکی ہے اور بجائے اسے سمجھانے کے سب اس کی بے جا ضد مان رہے ہیں۔"

اکثم خود سے بڑبڑایا تو ارتسام نے اپنے قہقے کو بمشکل لب بھینچ کر ضبط کیا۔

"بھائی یقینا آج رات آپ میرے کمرے میں رکنے والے ہیں۔"

ارتسام کی بات پر اکثم نے اسے گھورا تھا جبکہ پاس بیٹھی زیب اس کی بات پر مسکرا دی تھی۔ موسی اور ثمامہ دونوں ایک دوسرے کو کھانا کھلانے میں مصروف تھے۔ جب سے ثمامہ کو معلوم ہوا تھا وہ اکثم کے دوست کا بیٹا ہے وہ کچھ زیادہ ہی موسی پر مہربان ہو رہا تھا۔ ثمامہ جانتا تھا آج رات اسے بھی کمرے میں جگہ نہیں ملنی کیونکہ اس کی ماں اپنی ضد میں اسے بھی پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔ کھانا کھا کر زیب موسی کو لے کر اقصی والے کمرے میں چلی گئی جبکہ اکثم اور ثمامہ ارتسام کے کمرے میں چلے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو دن سے وہ تقریبا کمرے میں بند تھی کھانا بھی ادھر ہی کھا رہی تھی۔ آج اکثم حویلی سے باہر رہے گا یہ خبر سن کر ہی وہ تھوڑی دیر کے لئے چھت پر گئی تھی مگر وہاں بھی دس منٹ بیٹھ کر ہی واپس آگئی تھی۔وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی سامنے اکثم کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔لیکن جلد ہی خود کو کمپوز کرتے ہوئے اندر آئی اور اکثم کو مک۔ل نظر انداز کرتے ہوئے سیدھے الماری کی طرف بڑھی۔ اکثم خاموشی سے صوفے پر بیٹھا متبسم سے انداز میں مسکراتے ہوئے اس پری پیکر کا چہرہ دیکھ رہا تھا جو اب الماری سے کپڑے لے کر واش روم کی طرف چلی گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ واش روم سے کپڑے چینج کر کے نکلی تو اکثم وہیں موجود تھا۔ ہانم کو غصہ آ رہا تھا اسے کمرے میں دیکھ کر لیکن لبوں کو بھینچ کر وہ خود کو کچھ بھی کہنے سے باز رکھ رہی تھی۔

"کیا اتنا برا ہوں میں ایک نظر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کر رہی تم؟"

اکثم آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے پاس آیا جو ڈوپٹے کو سر پر سجائے ڈریسنگ ٹیبل سے چیزیں اٹھا کر ادھر ادھر کر رہی تھی۔ 

ہانم نے اکثم کی بات پر اسے دیکھنے کی زحمت تک نہیں کی تھی۔

"مانتا ہوں غلطی ہوئی ہے مجھ سے لیکن۔۔۔"

"غلطی؟"

اکثم کی بات کو درمیان میں سے کاٹ کر وہ پلٹ کر غصے سے بولی تھی۔ اکثم نے لب بھینچ کر اس کے سرخ چہرے کو دیکھا تھا۔ 

"غلطی نہیں خان۔۔ بھلا آپ غلط ہو سکتے ہیں؟ غلطی تو میری تھی جس نے آپ جیسے دھوکے باز شخص پر اعتبار کیا؟ آپ سے محبت کی؟ آپ کی امانت میں خیانت نہیں کی؟لیکن آپ نے جو کیا وہ غلطی نہیں تھی خان ۔۔ آپ کا تو حق ہے چار شادیوں کا تو میری طرف سے آپ کو کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ دوسری بیوی لے آئے ہیں نا بچے سمیت اب تیسری یا چوتھی بھی لے آئیں لیکن میری جان چھوڑ دیں۔"

ہانم تو گویا پھٹ پڑی تھی اکثم پر آخری بات پر اس کی آواز ناچاہتے ہوئے بھی رندھ گئی تھی۔ اکثم نے بے بسی سے اسے دیکھا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھایا تھا تاکہ اس کے آنسوؤں کو سمیٹ کے مگر ہانم اس سے دور ہو گئی تھی۔ 

"چلے جائیں یہاں سے۔۔ اور میرے سامنے مت آیا کریں آپ۔ جب جب آپ میرے سامنے آتے ہیں مجھے شدت سے اپنے خسارے کا احساس ہوتا ہے۔"

بلآخر وہ اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے آج خود کو اس پر عیاں کر گئی تھی۔ اکثم کے لبوں پر مسکراہٹ نے جھلک دکھائی تھی جسے وہ کمال مہارت سے چھپا گیا تھا کیونکہ ہانم کے سامنے مسکرا کر وہ اس کے غصے میں مزید اضافہ نہیں کر سکتا تھا۔

"پہلی بیوی ہو تم میری؟ ایسے کیسے چھوڑ دوں تمہیں۔۔ دس سال کا وقفہ کم تو نہیں تھا جو اب مزید تمہاری دوری برداشت کروں۔"

اکثم سنجیدگی سے بولتے ہوئے اس کی جانب بڑھا تو ہانم آہستہ قدموں کو پیچھے کی سمت اٹھانے لگی۔

"خان میں بول رہی ہوں میرے پاس مت آئیں آپ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔"

ہانم کمرے میں ارد گرد نگاہیں دوڑاتی اپنے دفاع کے لئے کچھ تلاش کر رہی تھی۔ اکثم نے مسکرا کر اس کی آنکھوں کی ہیر پھیر دیکھی تھی۔

"بیوی ہو میری تم کیسے دور رہوں تم سے؟ اور ۔۔"

"آآآآ۔۔"

ابھی اکثم کے الفاظ منہ میں تھے جب ہانم نے ڈریسنگ ٹیبل سے پرفیوم اٹھا کر اکثم کی طرف پھینکا جو اکثم کے کندھے پر لگا تھا۔ 

"جنگلی بن چکی ہو تم ان دس سالوں میں۔"

اکثم اپنے کندھے کو سہلاتے ہوئے بولا تو ہانم نے اسے گھورا اور خاموشی سے وہاں سے جانے لگی۔

جب اکثم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

وہ رکی تھی اور اکثم کو دیکھنے لگی۔ جو مسکرا کر اس کے قریب ہوا تھا۔

"تم سے دور رہ کر میں بھی تڑپا ہوں۔ سزا اتنی سنائوں جس کے لئے بعد میں تمہیں پچھتانا نہیں پڑے۔"

یہ بول کر وہ جھکا تھا اور اسکی پیشانی کو اپنی محبت اور عقیدت کا شرف بخشتے ہوئے پیچھے ہوا تھا۔ ہانم تو اس کی ذرا سی قربت پر حواس باختہ ہو چکی تھی۔ دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تو سانسوں نے بھی روانگی سے چلنا چھوڑ دیا۔ رخسار تپنے لگے تو لبوں نے کپکپانا شروع کر دیا۔ پلکوں پر حیا کا بوجھ اتنا گرا کہ وہ اٹھنے سے انکار ہو گئیں۔ اکثم نے مسکرا کر اس دلفریب منظر کو نظروں کو قید کیا تھا اور پھر اس کے دائیں کان کی جانب جھکا تھا۔

"آئی وانٹ آ بےبی گرل ہانم۔"

اس کی سرگوشیانہ انداز میں کہی گئی ذو معنی  بات پر اس کے جسم میں جیسے کرنٹ سا دوڑ گیا تھا۔ وہ سانس روکے زمین کو گھورنے لگی تھی۔ اکثم نے اس کی جان مزید ہلکان نہ کرتے ہوئے اسے چھوڑا تو وہ تقریبا بھاگنے والے انداز میں دوبارہ واش روم کے اندر جا کر گھس گئی تھی۔ اکثم نے بمشکل اپنے قہقے کا گلاگھونٹا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ حویلی سے باہر جا کر وہ کھل کر ہنسا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ہانم اس سے ناراض ہے مگر وہ تو کسی اور بات پر ہی ناراض تھی جس کا نہ سر تھا نہ پیر ۔ وہ پرسکون ہو چکا تھا۔ وہ اسے تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا وہ تو اسے منانے گیا تھا مگر اس کی جلن اسے مزید تنگ کرنے پر اکسا رہی تھی ویسے بھی کل اسامہ نے واپس آ جانا تھا اور تب ہانم کی کیا حالت ہونے والی تھی یہ سوچ ہی اکثم کے لبوں پر مسکراہٹ لانے کے لئے کافی تھی۔

ایک ہفتے سے پہلے ہی اسامہ کے کاغذات کا مسئلہ  حل ہو گیا تھا اس لئے وہ تین دن بعد ہی پاکستان واپس آنے والا تھا۔ ہانم آج خلاف معمول ناشتہ کرنے کے لئے کیچن میں آئی تو وہاں سب موجود تھے۔ اکثم کی ساتھ والی کرسی پر زیب کو بیٹھے دیکھ کر وہ جی جان سے کڑی تھی۔ خود پر ضبط کرتے ہوئے وہ اندر آئی اور بمشکل خود کو کمپوز کرتے ہوئے دھیمی آواز میں بولی۔ 

"اسلام علیکم"

ہانم کی آواز پر سب متوجہ ہوئے تھے۔ ثمامہ تو اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس پہنچا تھا۔ 

"وعلیکم اسلام اینڈ گڈ مارننگ موم"

ثمامہ خوشی سے اس کے گلے لگ کر بولا۔ سب نے اس کی سلام کا جواب دیا۔ وہ اکثم کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ثمامہ اور ارتسام کے درمیان والی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ 

"آپ کی طبعیت کیسی ہے اب ہانم؟"

ہانم ثمامہ کے لئے ناشتہ پلیٹ میں نکال رہی تھی جب زیب نے اسے مخاطب کیا۔ہانم نے بنا کوئی جواب دئیے ثمامہ کو ناشتہ دیا اور خود بھی ناشتہ نکال کر کھانے لگی۔ سب گھر والوں نے حیرت سے اس کا زیب کو نظر انداز کرنا دیکھا تھا۔ اکثم زیب کا شرمندہ سا چہرہ دیکھ کر ہانم کو گھورنے لگا جو سب سے بے نیازی برتتے ہوئے ناشتے میں مشغول تھی۔ 

"ہانم زیب نے تم سے کچھ پوچھا ہے؟"

اکثم کی دھیمی مگر سخت آواز پر ہانم نے اپنا سر اٹھایا۔

"جو بھی کہا میں نے سن لیا اور جواب دینا نہ دینا میری مرضی ہے مسٹر اکثم خان۔ اب آپ خاموشی سے ناشتہ کریں اور مجھے بھی کرنے دیں۔"

ہانم نے اکثم کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔ دلاور خان اور یسرا بیگم نے شاکڈ نظروں سے ہانم کو دیکھا تھا جبکہ ثمامہ اور ارتسام کبھی ہانم کو دیکھ رہے تھے تو کبھی اکثم کو۔ اکثم نے غصے سے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا جب زیب نے اس کے بازو پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کروا دیا۔ ہانم کو یہ منظر دنیا کا سب سے بدترین منظر لگا تھا۔ وہ سلگتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی اور کرسی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کیچن سے نکلتے چلی گئی تھی۔ اکثم بنا کسی تاخیر کے اس کے پیچھے گیا تھا۔ 

"یااللہ خیر۔"

یسرا بیگم بے ساختہ بولتے ہوئے ان کے پیچھے گئی تھیں۔ آہستہ آہستہ سب کیچن سے نکل کر حال میں جانا شروع ہوگئے تھے جہاں ہانم کے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ 

ہانم اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی جب اکثم نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روکا۔ 

"کب عقل آئے گی تمہیں ہانم؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خود سے بڑوں سے  کیسے بات کی جاتی ہے؟"

اکثم اسے گھورتے ہوئے بولا۔ ہانم نے اس سے بازو چھڑوانے کی کوشش کی تو مقابل کی گرفت سخت ہوگئی۔ 

"مجھے تمیز سکھانے سے پہلے اگر آپ اپنے گریبان میں جھانک لیں تو اس طرح سوال کرنے کی ضرورت آپ کو بالکل محسوس نہیں ہوگی۔"

اکثم کو اس کا جواب دینا ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ 

"تم حد سے بڑھ رہی ہو ہانم۔"

سب گھر والے خاموشی سے دونوں کو کو دیکھ رہے تھے۔ کسی کی ہمت نہیں تھی ان دونوں کے معاملے میں بولنے کی سوائے دلاور خان کے جو خود خاموشی سے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ 

"میں حد سے بڑھ رہی ہوں خان کیا واقعی؟"

ہانم کو اس کی بات اس کی تمام حدوں کو توڑنے پر مجبور کر گئی تھی۔

"دس سال بنا کسی غلطی کے سزا کاٹی ہے میں نے؟ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی موت کی دعائیں مانگی ہیں۔ آپ تو چلے گئے تھے نا مجھے تنہا چھوڑ کر۔ مجھ سے پوچھیں کیسے دس سال گزرے میرے؟ کن اذیتوں اور تکلیفوں کو سینے میں دبائے میں مسکراتی رہی ہوں۔ میری حدوں کا تعین آپ تب کریں جب آپ اس قابل ہوں۔ مجھے خود پر حیرت ہوتی ہے اکثم خان کہ میں زندہ کیوں ہوں اب تک؟  ایک ونی کی گئی لڑکی کو عزت اگر مل بھی جائے تو آپ سب اسے سزا دینا نہیں بولتے؟ میں جانتی ہوں ونی کو عزت ظرف والے دیتے ہیں لیکن آپ سب نے تو مجھے آسمان پر پہنچا کر زمین پر پٹخ دیا۔ جو چیز میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی آپ نے وہ کر دیا اکثم خان۔ سوتن لا کر مجھے بے مول کر دیا اور مجھے بتا دیا کہ ونی کو عزت تو دی  جا سکتی ہے مگر گھر کی بہو بنایا جائے ناممکن ہے یہ بات۔ میں کیسے شکوہ کر سکتی ہوں آپ لوگوں سے آپ نے تو مجھے اپنا مشکور بنا دیا کیونکہ مجھے رہنے کو چھت دی، پیٹ کی بھوک کو مٹانے کے لئے کھانا دیا، جسم کو ڈھانپنے کے لئے کپڑا دیا۔ خیر مجھے تو میرے سگے باپ نے اپنی زندگی کے سودے کے بدلے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا تو پھر آپ لوگوں سے شکوہ کیوں کروں؟"

بولتے ہوئے آنسو مسلسل اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے رخساروں پر پھسل کر نیچے فرش پر گر کر بے مول ہو رہے تھے۔ سب گھر والے ہانم کی بدگمانی پر حیران کم شاکڈ ذیادہ تھے۔ اکثم نے لب بھینچ کر اس کے شکوے سنے تھے۔ 

"ہانم تم غلط سمجھ رہی ہو اکثم صرف میرا۔۔"

زیب بات کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھی تھی اور ہانم کو اکثم کی صفائی دینے لگی جب ہانم نے اس کی بات کو درمیان میں کاٹ کر اپنے لفظوں سے وہاں موجود سب لوگوں کو دکھ میں مبتلا کر دیا تھا۔ 

"آپ سے مخاطب نہیں ہوں میں اس لئے آپ ہمارے معاملے میں مت بولیں۔ اور خان آپ نے کہا سب بھول جائو۔ ماں، باپ، بہن یہاں تک کہ خود کو بھی۔ میں بھول گئی تھی خان۔ اندھا اعتبار کیا آپ پر، لیکن مجھے کیا ملا سوائے آپ کی شراکت سے۔ محبت کرتی تھی آپ سے یہ سوچ ہی میری جان لے رہی کہ آپ کسی اور کے ساتھ میرا حق بانٹ چکے ہیں۔ چھوڑیں دیں اب مجھے میرے حال پر۔ آپکو بیٹا چاہیے تھا وہ رہا آپکا بیٹا اب مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ مجھے آپ سے طلاق۔۔۔"

چٹاخ۔

اس کے الفاظ ابھی منہ میں تھے جب اکثم کا ہاتھ اس پر اٹھا اور اس کے دائیں گال کی زینت بن گیا۔ ہانم لڑکھڑا کر نیچے گری تھی۔ 

"اکثم خان"

دلاور خان کی دھاڑ نما آواز پر سرخ ہوتی آنکھوں کو میچ گیا تھا۔ ارتسام اور ثمامہ نے آگے بڑھ کر ہانم کو کندھوں سے تھاما تھا۔ 

دلاور خان آگے بڑھ کر اس کے مقابل آئے اور اسے دیکھتے ہوئے بولے۔ 

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی پر ہاتھ اٹھانے کی؟"

"بابا جان آپ سب کے سامنے اس نے طلاق کا مطالبہ کیا ہے۔ نہیں رکھ سکا خود پر کنٹرول۔"

اکثم شرمندگی سے بولا ۔ نظریں ملانے کی ہمت اس کی ویسے بھی نہیں تھی۔ ہانم دائیں گال پر ہاتھ رکھے ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔ زیب منہ پر ہاتھ رکھے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ 

"ہماری تربیت نے تمہیں عورت پر ہاتھ اٹھانا نہیں سکھایا بڑے خان اور جہاں تک بات ہے طلاق کی تو اسے ابھی جو غلط فہمی ہے تم اسے دور کرنے کی بجائے الٹا اسے بڑھا رہے ہو۔"

دلاور خان کو تاسف ہوا تھا وہ تو ہانم سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہے تھے۔

"آپ کی ہمت کیسے ہوئی میری موم پر ہاتھ اٹھانے کی؟ نہیں ہیں آپ میرے پاپا۔ جہاں یہاں سے آپ کے بغیر خوش ہیں ہم لوگ۔"

ثمامہ اکثم کو دیکھ کر غصے سے بولا۔ اکثم کو مزید شرمندگی ہوئی تھی اپنے رویے پر۔ وہ آہستہ سے چلتے ہوئے ہانم کے پاس آیا جو فرش پر نگاہیں جمائے اپنے آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

"ایم سوری ہانم ۔۔ غلطی سے ہاتھ اٹھ گیا۔ میری زندگی تم سے شروع اور تم پر ختم ہے ہانم۔ یہ زیب اور موسی۔۔۔"

"میری فیملی ہیں"

اسامہ کی آواز پر وہ سب گھر والے اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ 

"اکثم مسکراتے ہوئے اس کی جانب بڑھا اور اسے گلے سے لگا کر ویلکم کیا۔ وہ اکثم سے مل کر ہانم کے پاس آیا۔

"زیب میری بیوی ہے اور موسی میرا بیٹا ہے بھابھی۔ جب ہم پڑھائی کے لئے ۔۔۔۔۔ اور آج یہاں آ کر میں مزید اپنے محو کو شرمندہ ہوتے نہیں دیکھ سکا۔"

اسامہ الف سے لے کر یے تک ساری بات بتاتے ہوئے رو دیا تھا۔ زیب نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ ہانم شرمندگی سے نظریں اٹھانا بھول گئی تھی۔ زندگی میں پہلی بار وہ اکثم پر غصہ ہوئی تھی اور سارا غصہ اب اس کی شرمندگی میں بدل چکا تھا۔ 

"بھابھی یہ تو اس قدر محبت کرتا ہے آپ سے کہ مجھے آپ کی قسمت پر رشک محسوس ہوتا ہے۔ محبت کے نام سے بھی جب واقفیت نہیں تھی اس اس نے تب سے چاہا ہے آپ کو۔ اس کے خلوص پر آپ شک نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے پاکیزہ عشق کا میں گواہ ہوں۔"

اسامہ رشک سے اکثم کو دیکھ کر بولا جو ہانم کے جھکے سر کو دیکھ رہا تھا۔ 

"اسامہ ناشتہ کر لو۔ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔"

اکثم نے گویا ماحول کہ سوگواریت کو کم کرنا چاہا۔

"نہیں یار ابھی تو گھر جائوں گا موسی اور زیب کو لے کر ماما انتظار کر رہی ہوں گی۔ ہاں اس ویک اینڈ پر تم لوگوں کہ ہماری طرف دعوت ہے تو آپ سب نے لازمی آنا ہے۔"

اسامہ زیب کو محبت سے دیکھتے ہوئے اکثم سے بولا اور پھر دس منٹ وہاں رکنے کے بعد موسی اور زیب کو لے کر چلا گیا۔ اس دوران ہانم اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ اور ثمامہ ابھی بھی غصے سے اکثم کو گھور رہا تھا۔ جو بھی تھا وہ اپنی ماں کے بارے میں کافی حساس تھا۔ 

"سیم۔۔۔۔بیٹا پاپا سے ابھی بھی ناراض ہو؟"

اکثم حال میں بیٹھے ثمامہ کو دیکھ کر بولا۔ 

"میرا نام ثمامہ خان کے اور جب تک میری موم کی ناراضگی ختم نہیں ہو جاتی آپ مجھ سے بات نہیں  کریں گے۔"

ثمامہ یہ بول کر ارتسام کے کمرے کی طرف چلا گیا جبکہ اکثم نے حیرانگی سے باقی گھر والوں کو دیکھا تھا جو اسے گھور رہے تھے۔

"اچھا جاتا ہوں آپ کی بیٹی کو منانے اس طرح گھوریں تو مت۔ بیٹی نہ ہوگئی کوئی شہزادی ہوگئی۔"

اکثم بڑبڑاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا تھا۔ جبکہ یسرا بیگم بے ساختہ ان دونوں کے درمیان سب کچھ صحیح ہونے کی دعا مانگی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں داخل ہوا تو ہانم بیڈ پر لیٹی رونے میں مصروف تھی۔ اکثم کو بے ساختہ خود پر غصہ آیا تھا۔ اس کا مذاق اس حد تک بڑھ جائے گا اگر اسے معلوم ہوتا تو شاید کبھی بھی ہانم سے نہیں چھپاتا۔ وہ آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے پاس آیا جس کا وجود ہچکولے کھانے میں مصروف تھا۔ اکثم نے اسے غور سے دیکھا آنکھوں پر بازو رکھے وہ دنیا جہاں سے بے خبر رونے میں مصروف تھی۔ لمبی سانس فضا میں خارج کرتے ہوئے وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا۔ ہانم نے اس کے بیٹھتے ہی آنکھوں سے بازو ہٹایا اور سامنے اکثم کو دیکھ کر وہ بیڈ سے اٹھ کر دوسری طرف سے نیچے اتر گئی۔ اکثم جلدی سے اٹھ کر اس تک پہنچا اور اس کے راستے میں حائل ہوگیا جو یقینا کمرے سے باہر جانے والی تھی۔ 

"کب تک اپنی بے رخی کی مار مارو گی؟"

اکثم نے اس کے دونوں پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

نیلی آنکھوں میں ڈھیروں شکایتیں تھی تو بھوری آنکھوں میں صرف جذبات تھے۔ 

"م۔۔مجھے ۔۔مم۔۔معاف۔ کر۔۔دیں ۔۔مم۔۔میری وجہ۔۔ سے۔۔ آپ۔۔کو۔ شرمندگی۔۔ اٹھانی ۔۔ پڑی۔"

وہ بالکل بارہ سالہ ہانم کی طرح منہ بسورتے ہوئے بولی تھی۔ اکثم کو بے ساختہ اس پر پیار آیا تھا۔ وہ سمجھدار تھی لیکن شاید گھر والوں کی نظروں میں۔ اس کے لئے تو آج بھی وہی ہانم تھی جسے وہ دس سال کے لئے چھوڑ کر گیا تھا۔ 

"غلطی کسی کی نہیں ہے ہانم بس وقت اور حالات ہمارے حق میں بہتر نہیں تھے۔ یہ جدائی ہمارے نصیب میں لکھی تھی یہ غلط فہمیاں ہمارے رشتے کا حصہ ضرور ہیں لیکن اعتبار کی زنجیر ان کو قید کر سکتی ہے۔ غلطی میری بھی ہے اس لئے تم مجھے بھی معاف کر دو۔"

"خان میں نے آپ سے بدتمیزی کی، آپ سے ناراض رہی، آپ سے بات بھی نہیں کی، میری غلطی زیادہ ہے۔"

ہانم کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔ وہ آج بھی معصوم تھی۔ کون کہتا ہے وقت معصومیت چھین لیتا ہے اگر محبت کرنے والے زندگی میں موجود ہوں تو معصومیت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔

"سوری تمہیں تھپڑ مار دیا۔لیکن وعدہ کرو آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کرو گی۔ دس سال اگر تم نے اذیت میں کاٹے ہیں تو سکون میں تو بھی نہیں تھا۔ تمہیں تو اپنی محبت کا اندازہ ہماری جدائی پر ہوا تھا لیکن میں تو محبت کو جان بوجھ کر خود سے دور کر گیا تھا۔ تکلیف اگر تم محسوس کرتی رہی ہو تو درد کے سمندر میں غوطے میں نے بھی لگائے ہیں۔"

اکثم کی بات پر وہ نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔ 

"آپ کبھی دوسری شادی تو نہیں کریں گے نا؟"

ہانم کے سوال پر اکثم نے بمشکل اپنا قہقہ ضبط کیا تھا۔ 

"تمہاری بے رخی اگر ایسے ہی رہی تو سوچا جا سکتا ہے۔"

اکثم نے اس کے ہاتھوں کو جھٹکا دے کر اسے خود سے قریب کیا تھا۔

ہانم تو اس کی قربت پر ہی اپنے حواس چھوڑ چکی تھی۔ دھڑکنوں کا شور کمرے میں گونجا تو حیا نے پلکوں پر ٹھہر کر مقابل کے جذبات کو دہکا دیا تھا۔  رخساروں پر بڑھتی اس کی سانسوں کی تپش گلال کو گہرا کر گئی تھی۔ لرزتے لبوں پر خاموشی چھا گئی تھی۔ وہ بے خود ہوتے ہوئے جھکا اور اس کے بائیں کان کے قریب سرگوشیانہ انداز میں بولا۔

"کیا خیال ہے اب ہاسپٹل سے بے بی لینے کب جانا ہے؟ اب تو ڈاکٹر کا نمبر لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔"

بولتے ہوئے وہ جان بوجھ کر اس کے کان کی لو کو لبوں سے چھو کر پیچھے ہوا۔ وہ کانپ سے گئی تھی اس کے لمس پر۔ دودھیا رنگت میں سرخیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ وہ اب ناسمجھ تو نہیں رہی تھی کہ اس کی ذو معنی باتوں کو نا سمجھتی۔ اکثم نے اس کے گال پر اپنی انگلیوں کے نشان دیکھے تو وہ جھک کر اس کے رخسار کو اپنے تشنہ آور لبوں سے   اپنی دیوانگی ظاہر کرتے ہوئے اسے مرہم فراہم کر گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ مزید کوئی گستاخی کرتا ثمامہ کے دروازے کھٹکھٹانے کی آواز پر وہ دونوں جیسے حواس میں لوٹے تھے۔

اکثم سخت بد مزہ ہوا تھا ثمامہ کی مداخلت پر۔ جبکہ ہانم نظریں چراتے ہوئے خود کو جلدی سے اکثم سے دور کر گئی اور اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھی۔

"تمہارے بیٹے کی مداخلت مجھے بالکل اچھی نہیں لگی۔ رات کو اس کو ارتسام کے کمرے میں بھیج دینا۔"

اکثم اسے کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اس کو ساکت کر گیا تھا اور خود دروازہ کھولتے ہوئے ثمامہ کو اندر آنے کا راستہ دے کر باہر نکل گیا تھا۔ 

"موم پاپا نے کیا پھر مارا آپ کو؟"

ثمامہ نے اس کے سرخ چہرے کو دیکھ کر پریشانی سے پوچھا۔

"نہیں وہ تو سوری کرنے آئے تھے۔ اچھا تم اپنا بیگ لے کر آئو میں تمہیں ہوم ورک کروا دیتی ہوں۔"

ہانم یہ بول کر واش روم کی طرف چلی گئی جبکہ ثمامہ سر ہلاتے ہوئے باہر کی جانب بھاگ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کا خاموشی سے سب کھا رہے تھے جب ہانم کی آواز پر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ 

"بابا جان مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے۔"

ہانم کی لرزتی آواز پر سب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ رو رہی ہے۔ 

"کیا بات ہے ہانم؟"

یسرا بیگم کی نرم آواز پر ضبط نہیں کر سکی اپنے آنسو۔ 

"اماں جان مجھے آپ سب سے اپنے رویے کے لئے معافی مانگنی ہے میں ذیادہ نہیں بلکہ بہت ذیادہ جذباتی ہوگئی تھی۔ مجھے معاف کر دیں۔"

ہانم کی بات پر دلاور خان اور یسرا بیگم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور مسکرا دئیے۔ یہ لڑکی بہت حساس تھی وہ جانتے تھے۔ 

"ہمیں تمہارا رویہ برا نہیں لگا ہانم کیونکہ تمہارا ردعمل فطری تھا۔ اور ہماری بیٹی معافی مانگتے ہوئے بالکل اچھی نہیں لگ رہی۔"

دلاور خان کی نرم اور مسکراتی آواز پر ہانم کا احساس ندامت کچھ کم ہوا تھا۔ 

"ہاں بھابھی اور روتے ہوئے تو آپ بالکل چڑیل لگ رہی ہیں۔"

ارتسام کی آواز پر ثمامہ نے اسے گھورا تھا اور اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے دونوں ہاتھ کمر پر ٹکا کر وہ بالکل لڑاکا عورتوں کی طرح ارتسام خان کا بھانڈا پھوڑ گیا تھا۔

"میری موم چڑیل نہیں ہیں چاچو۔ بلکہ چڑیل تو وہ آنٹی ہے جس سے آپ ملنے جاتے ہو زمینوں پر، عجیب سی آنکھیں ہیں اس کی۔ اور اس کے ساتھ مسکراتے ہوئے بات کرتے آپ بالکل ایک جن ہی لگتے ہیں۔"

ثمامہ کی بات پر سب نے حیرت سے ارتسام کو دیکھا تھا جو اب مدد طلب نظروں سے ہانم کو دیکھ رہا تھا۔ ہانم اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے کندھے اچکا گئی۔ جیسے کہہ رہی ہو تمہارا معاملہ ہے میں کیا کروں۔ 

"چھوٹے خان کیا آپ کسی لڑکی سے ملتے ہیں؟"

یسرا بیگم کی صدمے سے بھری آواز پر وہ گڑبڑا گیا تھا۔ 

"اماں جان وہ۔۔۔"

"دادی جان میں آپ کو بتاتا ہوں یہ پچھلے ایک سال سے اس چڑیل کو ملنے جاتے ہیں جو کھیتوں کے پاس باغ ہے نا امرود والا وہاں۔ ہیں نا چاچو؟"

ارتسام اب ثمامہ کو گھور رہا تھا جو اچھی خاصی اس کے بینڈ بجوا کر اب معصوم بن رہا تھا۔ ارتسام تو اس وقت کو کوس رہا تھا جب وہ ثمامہ کو ساتھ لے کر جاتا تھا۔ 

"ہمیں تم سے یہ امید بالکل نہیں تھی چھوٹے خان۔"

دلاور خان نے تاسف سے کہا۔

"بابا جان سامی کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ خان کا ہی انتظار کر رہا تھا کہ جب وہ آئیں گے تب آپ سے بات کرے گا۔ وہ بہت محبت کرتا ہے اس لڑکی سے دیکھا تو میں نے بھی نہیں اسے ابھی اور نام بھی نہیں جانتی کیونکہ ارتسام خان بھی نام جانے بغیر ہی اس سے محبت کرتے ہیں۔ پلیز ارتسام کو غلط مت سمجھیں کیونکہ ثمامہ جو مرچ مصالحہ لگا رہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے۔"

ہانم نے شائستگی سے بات سنبھالی تھی۔

"آج کے بعد تم اس لڑکی سے نہیں ملو گے کیونکہ کل ہم اس کے گھر رشتہ لے کر جائیں گے۔"

دلاور خان نے مسکرا کر ارتسام کو دیکھتے ہوئے کہا۔ 

"شکریہ بابا جان۔ اور شکریہ بھابھی۔"

ارتسام کی خوشی اس کے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی۔ 

"اور میرا شکریہ؟"

ثمامہ نے ارتسام کو گھورا تھا۔

"بیٹا تیری تو ہڈیاں مضبوط کرتا ہوں آج میں۔"

ارتسام نے دھیمی آواز میں اس کے کان میں سرگوشی کی۔ 

"دادا جان چاچو۔"

"اچھا اچھا شکریہ میرے باپ۔خبردار اب بابا جان  سے کوئی شکایت کی تو؟"

ارتسام اس کی بلیک میلر کو گھورتے ہوئے بولا تو ثمامہ نے اپنے فرضی کالر جھاڑے۔

"ڈیٹس بیٹر۔۔۔ اور اگلی دفعہ مجھے دھمکی نہیں دینی ورنہ بہت پچھتائیں گے آپ۔"

"وہ تو نہ بھی دوں تب بھی پچھتاتا ہوں۔"

ارتسام بڑبڑاتے ہوئے کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا جبکہ اکثم نے مسکراتے ہوئے فیملی کو دیکھا تھا۔ اکثم کی نظریں ہانم پر رک سی گئی تھیں۔ وہ بے خودی میں اس دشمن جان کو دیکھ رہا تھا جو کھانا کھانے میں مصروف تھی۔ اچانک اکثم کو کچھ یاد آیا تو وہ ہانم کی طرف تھوڑا سا جھکا اور بولا۔

"سبزیوں والی روٹی کھانے چلیں؟"

اکثم کی سب کے سامنے اس قدر نزدیکی پر وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی تھی۔ اور اسے گھورتے ہوئے بولی۔

"ہٹیں پیچھے اور خبردار جو میری ناسمجھی میں کی گئی باتوں پر میرا مذاق اڑایا آپ نے۔"

ہانم کی دھیمی آواز پر وہ بمشکل اپنے قہقے کا گلا گھونٹ گیا تھا۔

"ورنہ کیا کریں گی مسز خان؟"

"ذیادہ کچھ نہیں بابا جان سے شکایت کروں گی آپ کی۔"

ہانم بھی اسی کے انداز میں بولی۔

"بھائی رومینس بعد میں کر لیجئے گا ابھی پلیز سب دیکھ رہے ہیں۔"

ارتسام کی شرارت بھری سرگوشی پر ہانم اور اکثم دونوں نے اسے گھورا تھا۔ جبکہ وہ مسکراتے ہوئے کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔

"ہانم بیٹا کیا ہوا نیند نہیں آ رہی کیا؟"

یسرا بیگم جو حال سے ہوتے ہوئے کیچن میں جا رہی تھیں وہاں صوفے پر موجود ڈوپٹہ چھوٹی ہانم کو دیکھ کر بولیں۔ ہانم جو اکثم کو اپنے کمرے میں جاتا دیکھ کر اب سوچ رہی تھی کمرے میں جائے یا نہیں یسرا بیگم کی آواز  پر وہ اپنی حالت کو درست کرتے ہوئے اٹھی اور بولی۔ 

"اماں جان میں بس جا رہی تھی۔"

ہانم یہ بول کر اپنے کمرے کی طرف آہستہ سے قدم اٹھانے لگی۔ اکثم کی باتیں اس کے دل کی دھڑکن کو مزید تیز کر رہی تھیں۔ ثمامہ کو بھی اکثم نے صبح پیزا کھلانے کی لالچ دی جسے اس نے خوش اسلوبی سے مان لیا تھا۔ اور آج رات وہ بھی ارتسام کے کمرے میں تھا۔ ہانم آہستہ سے دروازہ کھول کر جیسے ہی اندر داخل ہوئی سامنے بیڈ پر اکثم کو لیٹے دیکھ کر وہ چند پل اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔ اکثم جو دروازہ کھلنے کی آواز پر دروازے کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ سامنے ہی وہ ناخن چباتے ہوئے دروازہ بند کر رہی تھی۔ 

"شکر ہے تمہیں یاد آیا کہ ایک عدد شوہر بھی ہے کمرے میں جو تمہارا انتظار کر رہا ہے۔"

اکثم نے مسکراتے لہجے میں اس سے شکوہ کیا تھا۔ 

"خان میں بس آ رہی تھی۔ ثمامہ کہاں ہے؟"

ہانم اس سے نظریں ملائے بغیر بات بدل گئی۔

"وہ اپنے چاچو کے کمرے میں ہے کیونکہ اس نے صبح میرے ساتھ سبزیوں والی روٹی کھانے جانا ہے نا اس لئے۔"

اکثم کی بات پر ہانم نے اسے گھورا۔

"آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں خان؟"

"میرے باپ کی توبہ جو میں تمہارا مذاق اڑائوں۔"

اکثم اپنے کانوں کا ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔

ہانم نے بس اکثم کو گھورنے پر اکتفا کیا۔

"ویسے میرا ایک دوست ہے جو بےبی دیتا ہے تو کیا خیال ہے ہانم بےبی لینے چلیں؟"

اکثم مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا۔ ہانم نے اکثم کو دیکھنے کی غلطی بالکل نہیں کی تھی۔ اس کی بےضرر سی بات پر اس کے رخسار دہک اٹھے تھے۔ سرخیوں نے اس کے چہرے کا جیسا بسیرا کر لیا۔ اکثم بے خود ہوتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے مقابل آیا جو فرش پر نگاہوں کا تسلسل برقرار رکھے بیڈ سے ذرا فاصلے پر کھڑی تھی۔ اکثم نے اسے شانوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور خمار آلود لہجے میں بولا۔

"نظریں تو تب بھی تم سے ہٹنے سے انکاری تھیں جب تم شرم و حیا کے معنی سے واقفیت نہیں رکھتی تھی لیکن اب تو دل فقط تمہاری اس سرخی کا اسیر ہو گیا ہے۔ بخدا اس سے حسین نظارہ اکثم خان نے آج تک نہیں دیکھا۔"

بولتے ہوئے وہ جھکا تھا اور اس کی پیشانی پر اپنی محبت کا لمس چھوڑتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا۔ ہانم نے آنکھیں بند کر کے اس لمس کو محسوس کیا تھا۔ اکثم جیسے ہی پیچھے ہٹا ہانم کی آنکھوں سے نکلتے آنسو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔

"کیا ہوا ہانم؟ تم رو کیوں رہی ہو؟ میری کوئی بات بری لگی ہے کیا؟"

اکثم اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے  تھامتے ہوئے ایک دیوانے کی طرح سوال کر رہا تھا۔ ہانم نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔ اکثم نے اسے کندھوں سے تھامتے ہوئے بیڈ پر بٹھایا اور خود گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے بولا۔

"کیا تم اس رشتے کے لئے تیار نہیں ہو؟"

ہانم نے پھر اپنا سر نفی میں ہلایا اور منہ سے کچھ نہ بولی۔

"ہانم ہوا کیا ہے یار؟ اب تو مجھے پریشانی ہو رہی ہے۔"

"خان آپ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے نا؟"

ہانم نے  معصومیت سے پوچھا تو اکثم کا رکا سانس بحال ہوا۔

"نہیں جائوں گا یار وعدہ کرتا ہوں۔"

اکثم اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے مسکرا کر بولا۔ ہانم نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔ بارش کے بعد پھولوں پر ٹھہری شبنم کی طرح اس کی پلکوں پر آنسو چمک رہے تھے۔اکثم بے ساختہ اس کے قریب ہوا تھا اور اپنے لبوں سے ان موتیوں کو چنتے ہوئے پیچھے ہوا تھا۔ 

"انتہائے عشق ہو تم میری"

یہ بول کر وہ اس کے مقابل بیڈ پر بیٹھا تھا جو اپنی روانگی سے ہٹتی دھڑکنوں کو مزید منتشر ہونے سے روک رہی تھی اور گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کر رہی تھی۔ اکثم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اس کے سر پر بوسہ دے کر اٹھ گیا۔ اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پر جا کر لیٹ گیا۔ 

تھوڑی دیر بعد ہانم اپنی کیفیت پر قابو پا کر اکثم کے سونے کا یقین کرتے  ہوئے وہ بیڈ کے دوسری طرف کروٹ بدل کر لیٹ گئی تھی۔ ابھی چند لمحے ہی ہوئے تھے جب اکثم نے اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا وہ سیدھے اس کے سینے سے ٹکرائی تھی۔ 

"میرا دل بغاوت کر چکا ہے ہانم اسے صرف تمہاری قربت لگام ڈال سکتی ہے۔"

اکثم یہ بول کر کروٹ بدل گیا اور ساتھ ہی لائٹ آف کر گیا تھا۔ ہانم نے پرسکون ہوتے ہوئے اکثم کی پناہوں میں خود کو سونپ دیا تھا۔ قسمت بھی ان کے ملن پر مسکرائی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح جب وہ اٹھا تو ہانم کہیں نہیں تھی گزری شب کے سیاق و سباق اس کے ذہن میں آئے تو وہ بے ساختہ مسکرایا تھا۔ اسی مسکراہٹ کو اپنے لبوں پر سجائے وہ واش روم کی طرف فریش ہونے کے لئے چلا گیا تھا۔ سب ناشتے کی میز پر اکثم کا انتظار کر رہے تھے۔ اکثم اپنی پرجوش آواز میں سلام کرتے ہوئے کیچن میں داخل ہوا تو سامنے ہی ہانم بیٹھی تھی جو اکثم کے دیکھنے پر اپنی نظریں جھکا گئی تھی۔ اکثم آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے اس کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

"بھائی آج آپ لیٹ آئے ہیں ناشتے کے لئے خیریت ہی تھی نا؟"

ارتسام کی زبان پر کجھلی ہوئی تو ہانم کا جھکا سر مزید جھک گیا۔ وہ اکثم سے نگاہیں ملانے سے اجتناب برت رہی تھی۔ 

"چاچو پاپا کو چھوڑیں اور یہ بتائیں کہ آج صبح آپ کہاں گئے تھے؟ فجر کی نماز پڑھنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں کیا؟"

ثمامہ ارتسام کو دیکھ کر معصومیت سے بولا تو ارتسام نے اسے گھورا تھا جو ہر وقت اس پر دھماکے کرتا رہتا تھا۔ آج صبح وہ فجر کی نماز کے بعد اس لڑکی سے ملنے گیا تھا اور اسے بتانے گیا تھا کہ اس کے بابا جان آج ان کے گھر آئیں گے۔ اور یہ بات ثمامہ سے اس نے رات میں کچھ ذیادہ ہی خوش ہوتے ہوئے ڈسکس کر دی تھی اور نتیجہ ہر بار کی طرح بھیانک نکلا تھا۔ سب کی توجہ خود پر محسوس کرتے ہوئے اس نے اپنے بتیس دانتوں کی نمائش کرنا ضروری سمجھا تھا۔ 

"میں تو سیر کرنے گیا تھا بھاگ تک۔"

ارتسام کی بات پر اکثم نے بمشکل مسکراہٹ دبائی تھی جبکہ یسرا اور دلاور خان نے اسے گھورا تھا۔ 

"موم میں یہ ناشتہ نہیں کھائوں گا مجھے نوڈلز بنا دیں پلیز۔"

ثمامہ اپنے سامنے پڑے پراٹھے کو دیکھ کر منہ بناتے ہوئے ہانم سے بولا۔ اس سے پہلے ہانم کوئی جواب دیتی اکثم کی بات سب گھر والوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔

"سیم تم موٹے دھاگے کھاتے ہو؟"

سب جانتے تھے کہ اکثم نے ہانم کو چڑانے کے لئے ایسا کہا ہے۔ ہانم نے اکثم کو دیکھنے کی زحمت اب بھی نہیں کی تھی۔ 

"پاپا نوڈلز بولتے ہیں ان کو اور آپ کو نہیں معلوم میری موم بہت اچھے نوڈلز بناتی ہیں۔"

ثمامہ کا مکھن لگانا اپنے عروج پر تھا۔ 

"ہانم کیا واقعی ان کو نوڈلز بولتے ہیں؟"

اکثم نے مسکراہٹ لبوں پر روکے  براہ راست اب ہانم کو مخاطب کیا تھا جو اکثم کو گھورتے ہوئے اٹھ کر ثمامہ کے لئے نوڈلز بنانے چلی گئی تھی۔ 

"بھائی جان بوجھ کر آپ شیرنی کے پنجرے میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔"

ارتسام کی سرگوشی پر اکثم مسکرایا تھا۔ 

"بڑے خان یہ ناشتہ کر کے تیار ہو جائو کیونکہ ہمیں ارتسام کی پسند کی ہوئی لڑکی کے  گھر جانا ہے۔ جتنی دیر ہم کریں گے یہ گدھا اتنا ہی بے صبرا ہوتا جائے گا۔"

دلاور خان ناشتہ کر کے اپنی جگہ سے اٹھے اور اکثم کو حکم دیتے ہوئے کیچن سے باہر چلے گئے۔ 

"کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا؟"

ارتسام نے خود کو چٹکی کاٹتے ہوئے بے یقینی سے کہا۔

"چاچو آپ بالکل خواب نہیں دیکھ رہے کیونکہ جن لوگ خواب نہیں دیکھتے۔"

ثمامہ نے ارتسام کو گویا یاد دلایا تھا کہ وہ انسان ہے ہی نہیں۔ ارتسام نے اسے گھورا تو ثمامہ نے دایاں آبرو اچکا کر اسے دیکھا۔ 

"بھائی آپ کا بیٹا دشمن ہے میرا۔"

ارتسام کی مصنوعی خفگی پر اکثم مسکرایا تھا۔

"ماں نے سکھایا ہوگا سب اس کو۔"

"پاپا۔ موم کے بارے میں مذاق مین بھی کچھ نہیں"

"بھائی بھابھی کے بارے میں کچھ نہیں سنوں گا میں۔"

ثمامہ اور ارتسام کی آواز پر اکثم نے دونوں کو گھورا تھا۔ 

"ایک چمچہ کم تھا اب دوسرا بھی آگیا۔"

اکثم بڑبڑاتے ہوئے بولا۔

"بھائی کچھ کہا کیا؟"

ارتسام اسے بڑبڑاتے دیکھ کر بولا۔

"نہیں۔۔ ہانم میرے کپڑے نکال دو آ کر مجھے بابا جان کے ساتھ جانا ہے۔"

اکثم ارتسام کو جواب دے کر ہانم سے بولا جو ثمامہ کے آگے نوڈلز رکھ رہی تھی۔ ہانم نے اکثم کو گھورا مگر وہ بغیر کسی کی پرواہ کئے مسکراتے ہوئے دائیں آنکھ کا کونا دبا کر اپنی جگہ سے اٹھا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ جبکہ ہانم نے بمشکل اس کی حرکت کو ہضم کرنے کی کوشش کی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارتسام کے بتائے ہوئے ایڈریس پر جیسے ہی اکثم اور دلاور خان پہنچے   سامنے خوش بخت کو دروازہ بند کرتے دیکھا۔ خوش بخت نے بھی دلاور خان کو پہچان لیا تھا۔ 

"تم۔"

دلاور خان کی حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔ 

"خان صاحب آپ یہاں؟"

خوش بخت کی کمزور لرزتی آواز پر دلاور خان نے اپنی کیفیت پر قابو پایا تھا۔ 

"ہمیں تم سے کچھ بات کرنی ہے خوش بخت۔"

ارتسام کا خیال آتے ہی دلاور خان نے خوش بخت سے کہا تو اس نے گھر کا دروازہ کھولتے ہوئے دونوں کو اندر داخل ہونے کا اشارہ کیا اور پھر خود بھی ان کے ساتھ ہی داخل ہوگیا۔ 

وقت سب کا اب کہاں کھڑا کرنے والا تھا یہ تو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن شاید اب بچھڑے لوگوں کا ملن ہونے والا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوپہر کو ہانم ثمامہ کو کھانا کھلانے کے بعد کیچن میں برتن رکھ کر واپس آ رہی تھی جب حال میں داخل ہوتی شخصیت کو دیکھ کر وہ ساکت رہ گئی تھی۔ خوش بخت اور مریم کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ ریاح اکثم اور دلاور خان کے ساتھ پیچھے تھی۔ 

مریم  تقریبا بھاگنے والے انداز میں ہانم کے پاس پہنچی اور اس کے چہرے کو تھامتے ہوئے اس پر دیوانہ وار بوسے دینے لگی۔ ہانم ویسے ہی بے حس و حرکت کھڑی تھی۔ 

"ہانم میری بچی۔"

مریم کی آواز پر وہ جیسے ہوش میں آئی تھی۔ بے ساختہ اس نے اپنے   قدم پیچھے کی طرف اٹھائے تھے۔ 

"نہیں ۔۔۔ نہیں ہوں میں آپ کی بچی۔۔ سنا آپ نے نہیں ہوں میں آپ کی کچھ لگتی۔"

ہانم چیختے ہوئے بولی تھی اکثم نے آگے بڑھ کر اسے کندھوں سے تھاما تھا۔ ہانم ہانپ رہی تھی اور اس کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ 

"ہانم ریلیکس۔"

اکثم نے اس کو شانوں سے پکڑ کر نرمی سے کہا۔

"جان ان کو بولیں یہ یہاں سے چلی جائیں مر گئی ان کی بیٹی ان کے لئے۔ اب کیا دیکھنے آئے ہیں یہ لوگ کہ ہانم واقعی مری ہے یا نہیں؟"

ہانم کا رد عمل سب کی توقع کے بر عکس تھا۔

"سٹاپ اٹ ہانم کیا بچپنا ہے یہ۔"

اکثم نے سختی سے ہانم کو شانوں سے تھام کر کہا تھا۔

"خان ان لوگوں نے ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا۔ اگر آپ کی جگہ کوئی ظالم انسان ہوتا تو میں تو مر جاتی خان۔ وہ تو خدا کو نا جانے کونسی میری ادا پسند آ گئی تھی کہ مجھے اس فیملی کا حصہ بنا دیا ورنہ یہ تو مجھے سرعام بیچ۔۔۔۔"

"آپی بس کریں۔ اگر آپ تڑپی ہیں تو ہم نے بھی ہر ابھرتے سورج کے ساتھ اس امید کو باندھا تھا کہ ایک نہ ایک دن ہم ضرور ملیں گے۔ ہم بھی تڑپے ہیں آپی آپ سے ملنے کے لئے۔"

ریاح کی آواز پر وہ رکی تھی۔ سترہ سالہ ریاح ہوبہو اس کے جیسے تھی سوائے آنکھوں کے رنگ کے تھوڑے نین نقش بھی مختلف تھے لیکن نزدیک سے دیکھنے پر وہ بالکل اس جیسی ہی لگتی تھی۔ ہانم نے پلٹ کر ریاح کو دیکھا تھا جو نم آنکھوں سے ہانم کو دیکھ رہی تھی۔

"روح۔"

ہانم اکثم کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے اس کے پاس آئی اور اسے گلے سے لگا کر خوب روئی۔ آنسوئوں نے دس سال کی محبت کو دوبارہ اجاگر کر دیا تھا۔ ساری رنجشوں کو دھو کر وہ اب اپنے باپ اور ماں کے گلے لگی تھی۔ سارے شکوے ختم ہونے کے بعد اسے معلوم ہوا تھا کہ ارتسام ریاح کے بارے میں سب جانتا تھا اور اس نے جان بوجھ کر اس سے سب چھپایا تھا۔دلاور خان نے خوش بخت سے مل کر پرانی باتوں کو بھلائے ایک نئی شروعات کی طرف قدم بڑھائے تھے۔ ٹھیک ایک ماہ بعد کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی دونوں کی اور اس سب سے کوئی بے خبر تھا تو وہ تھا ارتسام جو ایک میٹنگ کے سلسلے میں باہر تھا۔ ہانم اپنے ماں باپ کے پاس گھر رکنے کے لئے چلی گئی تھی جبکہ اکثم کا منہ بن گیا تھا اس کے فیصلے پر اس نے کافی دفعہ ہانم کو اشاروں  اشاروں میں منع کیا لیکن وہ اسے مکمل نظر انڈا کرتے ہوئے دلاور خان سے اجازت لے کر اپنے گھر چلی گئی تھی۔ رات کو ارتسام کی واپسی ہوئی تو گھر میں خاموشی کا راج تھا۔ وہ فریش ہو کر اکثم کے کمرے کی طرف آیا۔ ناک کر کے وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا سامنے کا منظر دیکھ کر وہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا۔

اکثم کا سارا کمرہ بکھرا پڑا تھا۔ بیڈ شیٹ آدھی بیڈ پر اور آدھی قالین پر بکھری ہوئی تھی۔ سرہانے ایک بیڈ پر اور ایک واش روم  کے دروازے کے قریب پڑا تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل سے آدھی چیزیں نیچے گری ہوئی تھیں۔ کپڑے الماری سے باہر نکل کر جھانک رہے تھے۔ اور اکثم صوفے پر بیٹھا ثمامہ کے ساتھ موبائل پر گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔ دونوں باپ بیٹا اس قدر مگن انداز میں گیم کھیل رہے تھے کہ ارتسام کے اندر داخل ہونے پر بھی وہ متوجہ نہ ہوئے۔ ارتسام نے گہری سانس فضا میں خارج کر کے اپنے نفاست پسند بھائی کو دیکھا تھا جو اس وقت بکھرے کمرے میں سکون سے بیٹھا تھا۔ 

"لگتا ہے بھابھی سے لڑائی ہوگئی ہے جو کمرے کا یہ حال ہو گیا ہے؟"

ارتسام خود سے بڑبڑایا اور آہستہ سے چلتے ہوئے ان کے پاس آیا اور دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

"بھائی بھابھی کہاں ہے؟نظر نہیں آ رہیں۔ کیا اماں جان کے کمرے میں ہیں؟ اور کمرے کا کیا حال بنایا ہوا ہے آپ نے؟"

ارتسام کے سوالوں پر دونوں باپ بیٹے اس دیکھنے لگے۔ 

"تمہاری بھابھی تمہارے سسرال گئی ہے چھوٹے خان اور یہ سارا کمرہ اس کے لاڈلے نے غصے میں بکھیرا ہے۔ کیونکہ وہ اسے ساتھ لے کر نہیں گئی۔"

اکثم مسکراتے ہوئے ثمامہ کو دیکھ کر بولا جو دوبارہ موبائل پر گیم کھیلنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ 

"مطلب بھابھی کو سب معلوم ہوگیا ہے؟"

ارتسام نے دھیمی مگر صدماتی آواز میں پوچھا۔

"ہاں اسی لئے تو ناراض ہو کر چلی گئی ہم سب سے اپنے گھر۔"

اکثم نے اپنی مسکراہٹ کو ضبط کرتے ہوئے بمشکل اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا۔

"بھائی یار میں تو ان کو سرپرائز کرنا چاہتا تھا یہ کیا ہوگیا؟ اور اگر وہ ناراض ہو کر جا رہی تھیں تو پا نے روکا کیوں نہیں ان کو؟"

ارتسام نے پریشانی سے اپنی پیشانی مسلی۔

"ہاں جیسے میری باتوں پر تو وہ صدا ہی لبیک کہتی ہے۔ کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے تمہاری بھابھی جب اس کے طبیعت کے برعکس کو کوئی بات ہو جائے۔"

اکثم ارتسام کو مزید تنگ کر کے مزے سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ ارتسام پانچ منٹ کمرے میں ادھر دے ادھر چکر کاٹنے کے بعد وہاں سے جانے لگا تو اکثم نے اسے روکا۔

"چھوٹے خان کہاں جا رہے ہو؟"

"بھائی بھابھی کو لے جانے جا رہا ہوں۔ غلطی میری ہے تو سزا بھی مجھے ہی ملنی چاہیے نا کہ آپ سب کو۔"

ارتسام کے سنجیدہ جواب پر اکثم کا قہقہ کمرے میں گونجا تھا جبکہ ارتسام نے ناسمجھی سے اکثم کو دیکھا تھا جو پاگلوں کی طرح ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔

"تم واقعی جلدی بیوقوف بن جاتے ہو۔"

اکثم ہنستے ہوئے بولا۔ ارتسام نے اکثم کو گھورا تھا۔

"یار وہ کچھ دنوں کے لئے اپنے میکے گئی ہے آ جائے گی۔"

اکثم کے جواب پر ارتسام کے چہرے پر سکون کی پرچھائی  اکثم کو واضح اترتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔

"بھائی سچ بول رہے ہیں نا؟"

"پاپا سچ بول رہے ہیں اور ہم کل موم کو واپس بھی لے آئیں گے۔ ہیں نا پاپا؟"

ثمامہ نے ان دونوں کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے آخری بات پر اکثم کی یقین دہانی چاہی۔

"بالکل تمہاری موم کو کل واپس آنا ہی ہوگا۔"

اکثم مسکراتے ہوئے اس کے بال بکھیر گیا تھا۔

"اوو تو مطلب یہاں ہر گزرتے لمحے کا شمار کیا جا رہا ہے؟"

ارتسام شرارت سے بولا تو اکثم جھینپ گیا تھا اس کے سوال پر کیونکہ وہ واقعی ہانم کو بہت مس کر رہا تھا۔ 

"ہاہاہاہا ۔۔ بھائی آر یو بلشنگ؟"

ارتسام نے اس کے جھینپنے پر چوٹ کی تو اکثم نے اسے گھورا اور صوفے سے ایک کشن اٹھا کر اس کا نشانہ باندھا۔ جو اس نے بروقت دروازے کے پاس پہنچ کر خطا کیا تھا۔ 

"بھائی بوڑھے ہوگئے ہیں آپ اس لئے آپ کا نشانہ بھی خطا ہوگیا۔"

ارتسام اس کو چڑاتے ہوئے باہر کی جانب بھاگا تھا کیونکہ اکثم اب اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے نزدیک آ رہا تھا۔ اس کے جانے کے بعد اکثم نے ایک نظر خالی بیڈ کو دیکھا اور لمبی سانس لی۔

"یار ہانم واپس آ جائو کیسے نیند آئے گی مجھے؟"

اکثم خود سے بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں بکھری چیزوں کا سمیٹنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن جب ثمامہ اور اکثم تیار ہو کر ہانم کو واپس گھر لانے کے لئے جانے والے تھے دلاور خان نے دونوں کو ڈانٹ کر سختی سے انہیں منع کر دیا تھا کیونکہ ان کا بھی ماننا تھا ہانم کافی دیر بعد اپنے والدین سے ملی ہے تو اس لئے وہ جب تک رہنا چاہے رہے گی۔ اکثم اور ثمامہ نے ارتسام کو اس بات پر خوب پیٹا تھا کیونکہ اسی نے بابا جان کے کان بھرے تھے۔ اکثم کی جہاں بے چینی میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا وہیں ہانم مزے سے اپنی بہن کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو چکی تھی۔ اس دوران اکثم نے دلاور خان سے مشورہ کر کے گائوں میں ہسپتال کھولنے کا ارادہ کیا اور اس پر کام شروع کروا دیا۔ وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ گزر ہی جاتا ہے۔ آخرکار وہ دن بھی آ گیا جب ریاح ارتسام کی دلہن بنی اس کے کمرے میں بیٹھی تھی اور ہانم بھی حویلی واپس آ چکی تھی۔ ارتسام اپنے دوستوں سے فارغ ہو کر کمرے میں پہنچا تو بیڈ پر ریاح کے ساتھ ثمامہ کو باتیں کرتے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ 

"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"

ارتسام ثمامہ کو گھورتے ہوئے بیڈ کے نزدیک آیا۔ ریاح نے مسکراہٹ لبوں میں دبا کر ارتسام کو دیکھا تھا۔

"چاچو میں آج آپ کے پاس ہی سونا چاہتا ہوں کیونکہ میرا تنہا اپنے کمرے میں سونے کا دل نہیں کر رہا۔"

ثمامہ کے جواب پر وہ دانت پیس کر رہ گیا۔ جبکہ ریاح کی مسکراہٹ لبوں سے آزاد ہو چکی تھی۔ 

"نکلو ابھی کے ابھی میرے کمرے سے ورنہ میں تمہیں اٹھا کر باہر پھینک آئوں گا۔"

ارتسام اسے گھورتے ہوئے بولا جو مزے سے بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔ 

"میں نہیں جائوں گا اور اگر مجھے ہاتھ بھی لگایا تو میں آنی کو سب سچ بتا دوں گا کہ آپ کی یونیورسٹی فرینڈ رابی آپ کر پرپوز کر چکی ہے۔"

ثمامہ کی بات پر ریاح نے ارتسام کو دیکھا جو اس کے دیکھنے پر اپنا سر نفی میں ہلا گیا تھا۔ 

"یار یہ جھوٹ بول رہا ہے میں تو جانتا بھی نہیں کسی رابی کو؟"

ارتسام نے ریاح کے دیکھنے پر جلدی سے کہا۔ 

"ثمامہ بیٹا آپ آج یہی سونا اپنی آنی کے پاس۔"

ریاح ارتسام کو گھورتے ہوئے بیڈ سے اٹھ گئی تھی جبکہ ارتسام ثمامہ کو گھورتے ہوئے بیڈ کی جانب آیا اور اسے اٹھا کر کمرے سے باہر نکالا جو دو منٹ میں اس کی سال کی محنت پر پانی پھیر گیا تھا۔ دروازہ لاک کر کے جیسے ہی وہ مڑا سامنے ریاح اسے گھور رہی تھی۔ 

"یار تمہاری قسم میں نے تمہارے علاوہ کبھی کسی کو دیکھا تک نہیں یہ جھوٹ بول کر گیا ہے۔"

ارتسام کی بات پر وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور اس کے قریب چند انچ کے فاصلے پر رک گئی۔

"آپ پر اعتبار ہی تو کیا ہے ڈئیر ہزبینڈ اور میں جانتی ہو آپ یہ کبھی نہیں توڑو گے۔ جب میں نے آپ کو اپنے گھر والوں کے بارے میں سب بتایا تھا تب ہی آپ نے میری ہمت باندھی تھی کہ مجھے میری فیملی کو ٹوٹنے نہیں دینا اور آپی سے بھی ملوانا کا وعدہ سچ کیا آپ نے۔ آپ پر شک کرنا گویا خود پر شک کرنے کے مترادف ہے۔ میری کوشش ہوگی خان کہ میں آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہ دوں؟"

ارتسام یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا جو مسلسل بولتے ہوئے اس کے تمام جذبات کو ایک پل میں جگا گئی تھی۔ اکثم نے اس کا بایاں ہاتھ پکڑا اور اس پر بلیک ڈائمنڈ سے بنا ہوا ایک بریسلیٹ پہنا کر اس کی پیشانی پر اپنا حق استعمال کرتے ہوئے گویا ہوا۔

"میری کوشش ہوگی خان کی جان کے کبھی تم پر کوئی آنچ نہ آئے اور تمہیں اپنے فیصلے پر کبھی شرمندگی محسوس نہ ہو۔"

یہ بول کر اس نے ریاح کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ ریاح نے پرسکون ہوتے ہوئے خود کو اس کے حصار میں محفوظ محسوس کیا تھا۔ قسمت بھی دور کھڑی ان کی خوشیوں کے لئے دعا کر رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے جھمکے اتار رہی تھی جب اکثم کمرے میں داخل ہوا۔ وہ مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے آیا اور اسے اپنے حصار میں لے کر اس کے کندھے پر اپنے تھوڑی ٹکاتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں بولا۔

"مجھے واقعی خدا نے نوازہ ہے تمہاری صورت میں۔"

اکثم کی حرکت کے بعد اس کے الفاظ ہانم کی پلکوں کر لرزنے پر مجبور کر گئے تھے۔

"خان چھوڑیں نے مجھے چینج کرنا ہے۔"

ہانم اس کا حصار توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔

"اتنے دن دور رہی ہو بیوی اب تو گن گن کر بدلے لینے والا ہوں میں۔"

اکثم کی ذومعنی بات اس کے جسم میں سنسنی دورڑا  گئی تھی۔ شرم و حیا سے اس کے رخسار دہک اٹھے تھے۔ اکثم نے اس کا رخ اپنی طرف کیا اور دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کو اس کی تھوڑی کے نیچے رکھے اس کا چہرہ اوپر کیا تھا۔ نیلی آنکھوں پر لرزتی پلکوں کی جھالر نے اسے بے خود کیا تو اس نے جھک کر باری باری اس کی دونوں آنکھوں پر اپنا محبت بھرا لمس چھوڑا  تھا۔ ہانم نے ذور سے اس کی قمیض کو تھام لیا تھا۔ اکثم نے مسکرا کر اس کی غیر ہوتی حالت کو دیکھا تو اس بے ساختہ اس پر بہت ذیادہ پیار آیا وہ ہانم کو اپنے حصار میں لے کر اسے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ہانم نے مسکرا کر خود کی اس کی پناہوں میں چھپایا تھا اور اللہ کا شکر ادا کیا تھا جس نے اسے اکثم جیسا ہمسفر دیا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک سال تین ماہ بعد:

"مبارک ہو ڈاکٹر اکثم آپ کو اللہ نے اپنی رحمت سے نوازہ ہے۔"

لیڈی ڈاکٹر کے  لبوں سے نکلے الفاظ گویا اکثم کے ساتھ ساتھ کوریڈور میں موجود ہر شخص کے دل کو سر شار کر گئے تھے۔

"اور میری وائف کیسی ہیں ڈاکٹر؟"

اکثم نے بے چینی سے پوچھا۔

"وہ بالکل ٹھیک ہیں ابھی آدھے گھنٹے تک ہم انہیں روم میں شفٹ کر دیں گے۔"

ڈاکٹر یہ بول کر وہاں سے چلی گئی جبکہ اکثم نے وہاں موجود دلاور خان، ارتسام اور خوش بخت کو گلے لگا کر مبارک دی تھی۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ یسرا بیگم، اور مریم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر اسے دعا اور مبارک باد دی تھی۔ ریاح ثمامہ کے ساتھ گھر پر تھی جسے اب ارتسام موبائل پر کال کر کے باخبر کر رہا تھا۔ 

ہانم کی آج طبعیت خراب ہونے پر اکثم اسے اپنے ہاسپٹل ہی لایا تھا جس کا افتتاح اس نے چاہ ماہ پہلے کیا تھا۔ وہ ہاسپٹل میں موجود مسجد کی طرف بڑھ گیا تھا۔ 

آدھے گھنٹے بعد ہانم کو کمرے میں شفٹ کیا گیا تو سب ہی اس ننھی پری کی آمد پر ہانم کو مبارک باد دینے وہاں پہنچ گئے۔ یسرا بیگم، مریم اور خوش بخت نے اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر جبکہ دلاور خان نے اس کے سر پر دستک شفقت رکھ کر اسے مبارک باد دی تھی۔ ارتسام ثمامہ اور ریاح کو گھر اے لینے جا چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اکثم کمرے میں داخل ہوا تو سب ہی آہستہ آہستہ سے کمرے سے نکلتے چلے گئے۔ بےبی کاٹ میں موجود اپنی بیٹی کو دیکھتے ہی وہ نمی اس کی آنکھوں میں چمکی تھی۔ بے ساختہ اس نے اسے اپنی گود میں نرمی سے اٹھایا اور اس کی بند آنکھوں پر بوسہ دیا۔وہ جا بجا نرمی سے اپنی بیٹی کو محسوس کر رہا تھا جب اس کا دھیان ہانم کی طرف گیا جو آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھ رہی تھی۔وہ چلتے ہوئے اس کے پاس آیا اور بولا۔

"خدا کے بعد میں تمہارا شکر گزار ہوں ہانم جس کی وجہ سے میں اپنی بیٹی کو محسوس کر رہا ہوں۔ شکریہ ہانم۔"

اکثم اپنی بیٹی کو ہانم کی گود میں دیتے ہوئے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر اسے مسکرانے پر مجبور کر گیا۔ 

"اس کا نام انفال اکثم خان ہوگا۔"

اکثم اس بچی کو دیکھتے ہوئے مزید بولا تو ہانم نے اسے گھورا۔

"اس کا نام ہادیہ ہوگا۔"

"دیکھو ہانم یہ بات پہلے ہی ڈیسائیڈ ہو چکی تھی کہ بیٹی ہوئی تو نام میں رکھوں گا اور بیٹا ہوا تو تم اب بیٹی ہوئی ہے تو اصولا میں ہی نام رکھوں گا۔"

اکثم نے ہانم نرمی سے سمجھایا۔

اس سے پہلے ہانم کچھ بولتی ثمامہ دروازہ کھولتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ اکثم جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ ریاح بھی ارتسام کے ہمراہ اندر داخل ہوئی تھی۔

"مبارک ہو آپی، مبارک ہو بھائی۔"

ریاح اور ارتسام نے یک آواز میں کہا تو ہانم اور اکثم مسکرا دئیے۔

"خیر مبارک تم لوگوں کی بھی مبارک ہو۔"

"موم شی از سو کیوٹ اینڈ پریٹی"

ثمامہ اس سرخ و سفید بچی کو دیکھ کر خوشی سے بولا تو ہانم نے مسکرا کر ثمامہ کی پیشانی پر بوسہ دیا۔

"میرا بیٹا"

"موم یہ باربی میری ہے نا؟"

ثمامہ نے ہانم سے پوچھا تو اکثم نے مسکرا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

"بالکل تمہاری ہے اور اس کا نام انفال اکثم خان ہے"

اکثم کے جواب پر وہ خوش ہوتے ہوئے ارتسام کو دیکھ رہا تھا۔

"چاچو شی از مائن۔"

ارتسام کو زبان چڑاتے ہوئے وہ بولا تو سب اس کی حرکت پر مسکرا دئیے تھے۔ خوشیوں نے خان حویلی کا بسیرا کر لیا تھا۔ اقصی نے ہانم کو موبائل پر مبارک باد دے دی تھی اور رات کو آنے کا وعدہ کرتے ہوئے کال بند کر گئی۔ زندگی میں دکھ کے ساتھ خوشی اور مشکل کے ساتھ ہی آسانی ہوتی ہے۔ 

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Mah E Mohabbat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mah E Mohabbat written Fariha Islam  Mah E Mohabbat   by Fariha Islam  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment