Pages

Saturday 21 September 2024

Hasil E Zeest Novel By Mehwish Ghaffar Complete Romantic Novel

Hasil E Zeast By Mehwish Ghaffar New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hasil E Zeest Novel  By Mehwish Ghaffar Complete Romantic Novel 

Novel Name: Hasil E Zeest  

Writer Name: Mehwish Ghaffar 

Category: Complete Novel

یہ خدا کی حکمت پر ہمارا تبصرہ کیسا ۔۔۔۔۔

جو ہو گیا ہے اسے سوچ کر رونا کیسا ۔۔۔۔۔۔۔

چار سال بعد اپنی سر زمین پر قدم رکھ کر وہ پرسکون سا مسکرایاتھا ۔

ویلکم بیک ٹو دا پاکستان ارتضی شاہ ۔۔۔۔

بلیک پینٹ پر سلیو کو کہنیوں تک موڑ وہ بلیک ہی شرٹ میں اپنی پیشانی پر بکھرے ہوئے بالوں سیٹ کرتا ہوا اپنے مغرور نقوش سمیت اپنی خوبرو شخصیت اور پر وقار وجاہت لیے اپنے اوپر اٹھنے والی ہر نظروں کو بنا خاطر میں لائے بے نیاز کھڑا وہ ائیر پورٹ پر کھڑا آدھے گھنٹے سے  اپنے ڈرائیور کا انتظار کررہا تھا ۔

جسے آنے میں کچھ زیادہ ہی وقت لگ گیا تھا ۔۔

خود پر جمی لوگوں کی نظروں سے اکتاہٹ کا شکار ہوتا ہوا وہ اپنی آنکھوں پر بلیک گلاسسز سے ڈھانپ گیا تھا ۔

بظاہر تو وہ سنجیدہ اور بے نیاز بنا کھڑا تھا مگر یہ تو اب وقت بتانے والا تھا ۔

کہ طوفان کے آنے سے پہلے کی خاموشی اس ڈرائیور پر کیا قہر برسانے والی تھی۔  

اسلام وعلیکم سائیں سرکار ۔۔۔۔۔

سر کو جھکائے ڈرائیور کی آواز میں صاف ارتضی شاہ کے قہر کا ڈر جھلک رہا تھا۔

 ہوتا بھی کیوں نا ارتضی شاہ نے کبھی اپنے دل میں کسی کے لیے بھی نرم گوشہ نہیں رکھا تھا۔

 وہ تو تھا ہی زمانہِ سنگ دل مشہور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔

میرا خیال بہت جلدی آ گئے تم ابھی کچھ دیر اور کردیتے آنے میں ۔

ویسے بھی سائیں سرکار کو انتظار کروانا تو تم لوگوں کے فائدے میں ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔

گلاسسز کو نیچے کرتا ہوا وہ حد درجہ غصے کی وجہ سے سرخ ہوتی آنکھوں میں قہر  لیے وہ دانت دبا کر ایئر پورٹ پر موجود لوگوں کی وجہ مسکرا کر ضبط سے بولا رہا تھا ۔۔۔

سائیں سرکار گاڑی خراب ہوگئی تھی اس وجہ سے دیر ہوگئی ۔۔۔نوکری سے نکل جانے کا ڈر ڈرائیور کو کپکپانے پر مجبور کرگیا تھا۔۔۔

دیر ہورہی ہے چلو  ۔۔۔۔۔۔مسکرا کر کہتا ہوا وہ خود آگے کی طرف بڑھا تھا ۔

جبکہ ڈرائیور سامان اٹھائے مرے ہوئے قدموں سے چلتا ہوا اپنی قسمت پر ماتم کررہا تھا ۔۔

بظاہر مسکرا کر بولنے والا ارتضی شاہ اب اسے مزید اپنی نظروں کے سامنے برداشت نہیں کرسکتا تھا اور اسے نوکری سے نکال دینے میں ذرا تاخیر نہیں کرنے والا تھا۔

سامنے آتی ہوئی لڑکی کے جان پوچھ کر اپنے ساتھ ہوئے تناسب پر وہ کڑوا گھونٹ بھر کر رہ گیا تھا ۔ 

ایم سو سو  سوری ۔۔۔۔اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی ہوئی وہ ارتضی کو دیکھ مسکرائی تھی ۔  

بائے دا وئے ایم ۔۔۔۔۔اپنی قسمت کا ستارہ چمکانے کی غرض سے وہ ارتضی کی جانب بڑھی تھی ۔۔۔

مجھے  کوئی انٹرسٹ نہیں ہے آپ کے نام  میں

 سائیڈ پلیز ۔۔۔۔۔۔۔لڑکی کی بات کو بیچ میں کاٹتا  ہوا وہ کڑے ضبط کے باوجود بھی مسکرا کر بولتا ہوا لڑکی کو سائیڈ کرتا ہوا پارکنگ  ایریا کی بڑھا تھا ۔۔۔

اف ۔۔۔۔۔کیا جاتا ایک نظر  مجھے دیکھ لیتے تو ۔

ارتضی شاہ جو اپنی ایک نظر سے کسی کو بھی اپنا اسیر کردے یہ صلاحیت تو ارتضی شاہ کو حاصل تھی۔۔۔۔

مگر عجیب بات تھی کہ اپنی ایک نظر سے اسیر کردینے والے ارتضی شاہ نے اب تک کسی لڑکی کو نظر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت تک نا کی تھا ۔۔

گاڑی کی چابی دو ۔۔۔۔۔

سائیں سرکار دوبارہ غلطی سے بھی غلطی نہیں ہوگی ۔۔۔

وہ جلدی سے ارتضی کے پیروں کو پکڑ گیا تھا۔

یہ کیا کر رہے غلام رسول اٹھو ۔۔۔جھٹکے سے ایک قدم پیچھے لیتا ہوا وہ غصے سے غرالایا تھا۔

سائیں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔۔

دونوں ہاتھ جوڑے نم ہوتی آنکھوں کو اپنی قمیض کی آستین سے صاف  کررہا تھا ۔

تو میں کیا کروں مجھ سے پوچھ کر پیدا کیے ہیں یا میں نے کہا تھا کہ کرکٹ ٹیم کھڑی کرلو ۔۔۔۔۔چبا کر کہتا ہوا ایڑھیوں کے بل گھومتا ہوا اپنا رخ موڑ گیا تھا۔

ارتضی شاہ کبھی نرم نہیں پڑسکتا ۔۔۔۔۔خود سے مخاطب ہوتا ہوا وہ غلام رسول نے نظریں پھیر گیا تھا۔

سائیں آپ جو حکم کریں میں کرنے کو تیار ہوں سائیں مگر نوکری سے نکالیں  ۔۔۔۔منت بھرے لہجے میں کہتا ہوا وہ واپس سے ارتضی کے سامنے آکھڑا ہوا تھا ۔

اس مہینے کی تنخواہ بھول جاؤ ابھی کے لیے اتنا کافی ہے باقی حویلی چل کر فیصلہ ہوگا ۔۔۔

مہربانی سائیں سرکار ۔۔۔۔۔بنا غلام رسول کی پکار سنے وہ

کار کی چابی اس کی سمت اچھلتا ہوا کار میں جا بیٹھا تھا ۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

گلاس ونڈو سے اندر آتی سورج کی کرنوں سے تنگ آکر تکیہ کو منہ پر رکھتی ہوئی وہ کروٹ بدل گئی تھی۔

کیا ہے سورج صاحب نیند خراب کردی آپ نے میری ۔کنفرٹ کو زمین بوس کرتی ہوئی وہ منہ پر رکھے تکیہ کو سائیڈ پر پھینکنے کے انداز سے ڈالتی ہوئی وہ چھلانگ لگاتی ہوئی ونڈو سے سامنے اپنی پوری تاب لیے سورج کو غصے سے دیکھتی ہوئی بولی تھی ۔

جیسے ابھی سورج صاحب اسے جواب دے دیں گے ۔۔۔

ایک نا آپ کی نا سمجھ آنے والی زبان ۔۔۔۔خود جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی وہ لائیٹ پرپل کلر کے کاٹن کے پردے کھینچ گئی تھی ۔۔۔۔۔

اب آکر دکھاؤ اندر سورج صاحب ۔۔۔۔اپنے طرف سے وہ سورج سے بدلا لے گئی تھی۔

پھر سے بیڈ پر دراز ہوتی ہوئی کروٹ بدل بدل کر تھک گئی تھی مگر نیند تھی کہ آہی نہیں رہی تھی۔۔۔

غصے سے پیر پٹختی ہوئی فریش ہونے کی غرض سے واشروم میں گئی تھی ۔ 

وال کلاک  میں  ساڑھے بارہ ہوتے دیکھ وہ اپنا سر کھجا کر رہ گئی تھی ۔

آج تو حد ہی ہوگئی ۔۔۔۔ پورے گھر میں نظریں دوڑاتی ہوئی وہ ڈھیلی سی وائیٹ شرٹ کے ساتھ ریڈ ٹراؤزر پہنے  رف سے حلیے میں اپنے سنہری بالوں کو کیچر میں مقید کیے  کچن سے آتی ہوئی آواز پر کچن کی طرف مڑی تھی ۔  

ٹائم دیکھا ہے  میری بیٹی نے ۔۔۔

کچن  میں داخل ہوتے ہی ریاض کے سوال پر سر ہلا گئی تھی ۔

میں یہاں لنچ کی تیاری کررہا ہوں اور میری صاحبزادی اب نیند سے بیدار ہوکر آرہی ہے ۔۔

شکوہ کن لہجے میں کہتے ہوئے ریاض صاحب اس کے جھکے سر کو دیکھ کر مسکرائے تھے ۔

سوری بابا میں نا آج بریک فاسٹ اور لنچ دونوں ساتھ ہی کروں گی ۔

پلیز آپ ناراض نا ہوں مجھ سے۔

الارم بھی لگایا تھا پر آنکھ نہیں کھلی میری اس سے ۔۔۔

سر کو جھکائے وہ منمنارہی تھی ۔

نماز پڑھی تھی ۔۔۔کچن شلیف سے مصالحہ جات نکال کر رکھتے ہوئے وہ ماہی کو ہمیشہ کی شیف لگ رہے تھے۔

پڑھی تھی نا جب ہی تو آنکھ نہیں کھلی نا بابا ۔۔

ہہہم ۔۔۔۔

ویسے نا بابا آپکو  کچن میں دیکھ مجھے ریلائز  ہوا کہ آج سنڈے ہے ۔۔

نصیب ہی کھل جاتے ہیں سنڈے پر میرے ۔۔۔

ویسے بابا سنڈے کو ہی کیوں کچن میں آتے ہیں آپ ۔

جبکہ آپ کو تو ہر روز ہی میرے لیے بریک فاسٹ بنانا چاہیے آخر کو میں آپ کی چھوٹی سی  پیاری سی بیٹی جو ہوں ۔

سلیپ پر بیٹھتی ہوئی وہ لاڈ سے بول رہی تھی ۔۔

آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ ہماری ایک اور بھی بیٹی ہے ۔۔شیلف پر پیاز کو چاپ کرتے ہوئے ریاض صاحب بھی اس کے ہی انداز میں بولے تھے ۔

ہاں نا وہ تو اب پرائی ہوگئی ہیں ۔۔پیچھے بچی میں یعنی آپ کی ماہی ۔۔۔۔۔۔۔

ویسے آپ بنا کیا رہے ہیں بابا ۔نا سمجھی میں ریاض صاحب کو مصروف دیکھ کر وہ سلیپ سے اترتی ہوئی ان کے برابر میں کھڑی ہوئی تھی ۔

وائیٹ کڑائی ۔۔۔

ماہی ذرا سرکا تو پاس کروانا ۔۔مصروف سے انداز میں کہتے ہوئے سلیپ پر رکھے سرکے کی بوتل کی طرف اشارہ کررہے تھے ۔

جبکہ وہ نا سمجھی میں کبھی ریاض صاحب کو دیکھ رہی تھی تو کبھی سلیپ پر رکھی بوتل کو ۔۔۔

میرے  پیارے بابا یہ تو پانی ہے اور مجھے سرکہ ،سرکہ کہہ رہے ہیں یہ کون سی بلا ہے ۔۔۔

بوتل کا جائزہ لیتی ہوئی وہ منہ بنا کر بولی تھی ۔

میری پڑھاکو بیٹی یہ "vinegar" ہے اور اسے اردو میں سرکہ کہتے ہیں ۔۔۔۔ 

اور میری جان آپ پہلے سمیل کرو اسے پھر بولنا یہ یا سرکہ ہے یا پانی  ۔۔

بابا اٹس سمیل سو یک ۔۔۔۔۔۔برا سا منہ بناتی ہوئی وہ بوتل کو واپس سے بند کرگئی تھی۔

اور ریاض صاحب اس کی سکڑتی ہوئی چھوٹی سی ناک اور آنکھوں کو زور سے مچے ہوئے دیکھ وہ ماہی کو دیکھ کر مسکرائے  تھے۔

پلیز بابا یہ مت ڈالیں اس میں ۔

ماہی کی بات پر بنا دھیان دئیے وہ فقط اپنے کام میں مصروف تھے ۔

ماہی اگر آپکو کہیں جانا ہے تو  آپ ابھی لنچ کے بعد ہو آؤں ۔

پھر آپکو اپنی پیکنگ بھی تو کرنی ہو گی نا۔۔

کیوں ۔۔۔۔۔پیکنگ کے نام  پر ماہی سانس اٹکی تھی ۔

 کیونکہ شام کو ہمیں گاؤں کے لیے نکلنا بھی ہے ۔۔۔

پر کیوں بابا ۔۔۔۔۔۔

سوال کی دوکان ہے ایک تو میری بیٹی ۔۔۔

تمہارے تایا ابو نے بلایا ہے اس لیے اور رہی پیکنگ کی تو ایک دو ہفتے لگ سکتے ہیں وہاں ۔۔

ماہی کو مزید آگاہ کرتے ہوئے ریاض صاحب مسلسل مسکرا رہے تھے ۔

آپکو نہیں لگتا کہ دو ہفتے زیادہ ہیں ۔۔۔۔۔گاؤں کی زندگی سے تو وہ گھبراتی تھی ۔

ایک دن  وہاں گزارنا اسے پہاڑ چڑھنے کی طرح مشکل لگتا تھا اور اب تو دو ہفتے کا سن کر ہی اسے چکر آرہے تھے۔

اس سے زیادہ تو لگ سکتے ہیں پر کم نہیں  لگ  سکتے دن ۔۔

اچھے سے جانتے تھے ماہی کو گاؤں رہنا پسند نہیں تھا مگر اسے گھر پر اکیلے بھی تو وہ چھوڑ کر نہیں جاسکتے تھے ۔

اچھا ۔۔۔۔۔۔ماہی کے لفظ تو مر گئے تھے گاؤں میں اتنے دن رہنے کا سن کر ۔۔

بابا وہ مجھے عبیرہ کے ساتھ شاپنگ پر جانا تھا تو میں اس کے ساتھ چلی جاؤں ۔کچھ توقف کے خود کو ریلکس کرتی ہوئی وہ شاپنگ پر جانے کی اجازت مانگ رہی تھی۔

کیوں نہیں آپ اپنے لیے بھی شاپنگ کرلینا ۔اتنی دیر بعد ماہی کے  بولنے پر ریاض صاحب اپنے  ساتھ لگا گئے تھے  ۔۔۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حیدر بھائی پلیز لے چلیں نا شہر بس تھوڑی دیر کے لیے ۔۔صبح سے کبھی اپنی ماں سے منت کرتی ہوئی وہ تھک گئی تھی ۔

ارتضی بھائی آرہے ہیں پھر بھی ۔۔

جی بھائی بس تھوڑی دیر کے لیے ۔۔۔۔۔

حیدر کو دیکھ کر امید کی چھوٹی سی کرن جگی تھی رائمہ کے دل و دماغ میں ۔

اور ویسا ہی ہوا حساس نرم طبعیت  کا مالک حیدر شاہ آج بھی رائمہ کی امید پر پورا کھڑا ہوا تھا ۔

تم تیار ہوجاؤ گڑیا میں ماں کو مناتا ہوں ۔  رائمہ کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر حیدر شاہ کے پروقار چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیلی تھی۔

ماں سرکار کچھ دیر کے لیے میں شہر جارہا تھا اگر کوئی کام ہو تو بتا دیں میں آتے ہوئے کرتا آؤ گا۔۔۔عام سے لہجے جال بُنتا ہوا وہ مسلسل مسکرا رہا تھا ۔ 

ملازماؤں کو کھانے کا مینیو بتاتی ہوئیں وہ حیدر کی طرف دیکھ کر مسکرائی تھیں ۔

حیدی ایک کام کرو اپنے ساتھ رائمہ کو لے جاؤ صبح سے ضد کیے ہوئے ہے شہر جانا ہے شہر جانا ہے ۔مگر تھوڑا جلدی آنا ارتضی آتا ہوگا اور تم دونوں کی غیر موجودگی اسے اچھی نہیں لگے گی نا۔اپنے مخصوص انداز میں بول رہی تھیں ۔

جو حکم ماں سرکار ۔۔سر کو خم کرتا ہوا وہ رائمہ کو جلد آنے کا کہہ کر نکلا تھا ۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ایک سے ایک برینڈ ہے کیا لوں اور کیا نا لوں ۔۔۔عیبرہ کے بے صبرے پن پر وہ فقط مسکرا رہی تھی ۔

جو بھی لینا ہے جلدی سے لے لو مجھے دیر ہورہی ہے ۔۔سیل فون میں ٹائم دیکھتی ہوئی ماہی دیر ہونے کی دہائی دے گئی تھی ۔۔

ماہی یہ والا سب سے اچھا ہے میں یہ لوں گی ۔۔۔۔

بھائی یہ والا بہت پیارا ہے ۔۔۔۔

لائیٹ پنک کلر کی شرٹ پر عبیرہ کے ساتھ ایک اور ہاتھ نے بھی اس ہی ڈریس پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔

رائمہ تم دیکھو مجھے ضروری کام آن پڑا ہے میں تمہیں تھوڑی میں یہاں سے ہی پک کرتا ہوں ڈرنا نہیں اوکے ۔۔۔۔  

ہاتھ ہٹاؤ یہ ڈریس میں نے پسند کیا ہے ۔رائمہ کے ہاتھ کو دور کرتی ہوئی عبیرہ کو ماہین کی سخت گھوری سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔

ٹھیک ہے آپ لے لیں میں کوئی اور دیکھ لوں گی ۔۔۔۔رائمہ  کے  فورا سے پیچھے ہونے پر جہاں عبیرہ خوش ہوئی تھی وہیں ماہین کو اس معصوم سی لڑکی ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔

میں مدد کروں آپ کی ڈریس سلیکٹ کرنے میں ۔۔ایک قدم رائمہ کی طرف بڑھتی ہوئی ماہین رکی تھی پیچھے سے آتے لڑکے کو دیکھ کر ۔

او میری معصوم گائے یہاں اکیلی کیا کر رہی ہو ۔آؤ میرے ساتھ ۔اس کا استحق سے ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھتا ہوا وہ 

فکر مندی سے پوچھتا حیران ہوا تھا رائمہ کو مال میں اکیلے دیکھ کر ۔

ان دونوں کو جاتے دیکھ ماہین واپس سے عبیرہ کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔

غلام رسول یہاں کے سب سے بڑے مال چلو ۔۔ایک نیا حکم صادر کرتا ہوا وہ سیل فون میں آئی رائمہ لسٹ میں اضافہ  دیکھ کر  مسکرایا تھا ۔

وہاج ہاتھ چھوڑیں میرا حیدر بھائی نے دیکھ لیا تو بہت غلط ہوجائے ۔منمنا کر بولتی ہوئی وہ اردگرد کے لوگوں میں حیدر کو ڈھونڈ رہی تھی ۔

خونخوار نظروں سے وہاج کے ہاتھ میں رائمہ کے ہاتھ کو دیکھ کر ارتضی شاہ کا خون خول اٹھا تھا ۔

بررفتاری  سے ان دونوں کا پیچھا کرتا ہوا ارتضی شاہ اپنا ضبط کھو رہا تھا ۔

رائمہ معصوم جو حیدر کے ڈر سے گھبرا رہی تھی اسے کیا خبر تھی کہ اس کے سر پر حیدر نہیں ارتضی شاہ کا قہر برسانا تھا۔  

اوکے بابا چھوڑ دیتا ہوں ہاتھ تمہارا تم میں یہاں پر رکو میں ہمارے آئسکریم  لے کر آتا ہوں۔مسکرا کر کہتا وہاج تو وہاں سے چلا گیا تھا یا شاید اس کی قسمت آج اس کے ساتھ وفا کرگئی تھی

یہاں کیا کرنے آئی ہو تم ۔جب منع کیا گیا تھا کہ تم گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھوں گی ۔

تو کیا کرنے آئی ہو یہاں پر۔ایک زور دار تھپڑ اس نازک صنف کے گال پر  جڑتا وہ طیش میں دھاڑا تھا ۔

 یہ ایک شاپنگ مال کا منظر تھا جہاں وہ آس پاس سے گزرتے ہوئے  لوگوں کو فراموش کیے بس  کھا جانے والی نظروں سے اپنے سامنے کھڑی نازک صف لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔

جوایک ہاتھ گال پر رکھے نم آنکھوں میں وحشت لیے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ رہی تھی ۔

سنیں ۔۔۔۔پیچھے سے آتی معصوم آواز پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی وہ مڑا تھا ۔

یہ آپ کی کیا لگتی ہیں  ۔خود کو گھورتے  اس شخص سے اسے ڈر کے ساتھ  کوفت ہوئی تھی  ۔

مگر ڈر کو ایک ہی پل میں ہوا میں اڑاتی ہوئی ہمیشہ کی طرح آج بھی دوسروں کے معاملات کو اپنا سمجھتی ہوئی  بیچ میں کودی تھی۔

بہن ہے میری آپ کو کوئی پروبلم ہے۔دانتوں کو دباتا ہوا وہ ضبط سے بولا تھا ۔

یہ اور بات تھی کہ مقابل کھڑی دوشیزہ کے سامنے ضبط رکھنا ایک مشکل امر تھا ۔

اور یہ شاپنگ مال ہے آپ کا گھر نہیں ہے ۔ اس لیے مجھے پروبلم  ہوئی ہے ۔

دوسری بات بھائی ہیں تو بھائی بنے ،جلاد یا کسائی نا بنے ۔

بھائی عزت کا رکھوالا ہوتا ہے ناکہ سرِ بازار عزت نیلام کرنے والا ۔

پہلے اپنی بہن کو عزت دینا سیکھیں ،اگر کوئی بات بری لگی ہے تو گھر پر ہینڈل کریں نا کہ پبلک پلیس میں  ۔

برائے مہربانی نا یہاں تماشہ کریں اور نا ہی اپنا تماشہ بناوائیں  ۔

شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنا بریک کے چلتی ہوئی زبان کے ساتھ تقریر جھاوہ وکٹری کا نشان اپنی دوست کی سمت کرتی ہوئی مڑی تھی۔

جب پیچھے سے اپنی نازک کلائی پر مضبوط گرفت محسوس کرتی وہ گھبرائی تھی۔

کہاں جارہی ہیں متحرمہ مجھے عزت ،شرم و تمیز کا لیکچر دے کر ۔

ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا وہ اس کے برابر میں کھڑا ہوتا ہوا وہ کھوئے ہوئے انداز میں بول رہا تھا ۔

ہاتھ چھوڑیں میرا ۔ مقابل کی مضبوط گرفت کی وجہ سے وہ درد سے منمنائی تھی۔

ہاتھ پکڑ چھوڑا نہیں جاتا ۔ مقابل اپنے  جتاتے ہوئے انداز کے ساتھ  اسے بہت کچھ باور کروانا کا ارادہ رکھتا تھا ۔

بکواس بند کرو اپنی اور ہاتھ چھوڑو میرا ۔اب کی بار وہ مقابل کے انداز  سے وہ لرز اٹھی  تھی ۔

کیونکہ اس جلاد کی بہت جلد عزت بننے والی ہیں آپ ۔اس کے کان میں سرگوشی کرتا  ہوا وہ اپنے پیچھے کھڑی بہن کا ہاتھ پکڑتا  ہوا اپنی دلفریب مسکراہٹ اس کے ساکت وجود کی طرف اچھالتا ہوا اس پری پیکر  کے معصوم چہرے کو اپنے دل اور ذہن  میں حفظ کرتا ہوا۔

 اسے حیران چھوڑ مال سے نکلا تھا ۔

یہ رائمہ کہاں گئی کہا بھی یہاں پر ہی کھڑی رہنا مجال ہے جو میری کبھی سن لے ۔آئسکریم کے دونوں کپوں کو افسردگی سے دیکھتا ہوا بد مزہ ہوا تھا ۔

ارتضی نام کے آئے طوفان سے بے خبر وہ آئسکریم کو ہی دیکھ رہا تھا ۔  

کیا کہہ رہا تھا وہ تمہارے کان۔۔

بکواس کر رہا تھا منحوس جلاد انسان  ۔۔۔۔۔۔عبیرہ کے پوچھنے پر غصے سے کہتی ہوئی خود بھی مال سے نکل رہی تھی کہ سامنے سے آتے ہوئے  حیدر شاہ سے بری ٹکرائی تھی ۔۔

دیکھ کر نہیں چل سکتے اندھے نا ہو تو  ۔غصے سے بولتی ہوئی بنا حیدر شاہ کے شاکڈ چہرے کو دیکھے وہاں چلی گئی تھی ۔

اندھے نا ہو تو ۔ماہین کی نقل اتارتا ہوا مسکرایا تھا ۔

سنو ۔۔۔۔۔۔۔پورے مال میں رائمہ کو ڈھونڈنے کے بعد پریشان ہوتا حیدر شای پارکنگ ایریا میں آیا تھا جہاں اپنے کے ساتھ آئے ڈرائیور  کو آواز لگاتا ہوا اس کے پاس آیا تھا ۔

جی سائین سرکار ۔۔۔۔۔۔۔

عاجزی سے سر کو جھکائے وہ حیدر شاہ کے حکم کا منتظر تھا ۔

چھوٹی بی بی کو دیکھا ہے یہاں سے جاتے ہوئے ۔۔۔۔۔دونوں ہاتھ کمر پر رکھتا ہوا وہ مزید  پریشان ہوا تھا ۔۔۔۔

جی سرکار سائیں ۔۔۔وہ بڑے سائین سرکار کو  انہیں اپنے ساتھ لے کر جاتے ہوئے دیکھا ہے میں نے ۔۔۔۔

ارتضی بھائی ۔۔۔۔۔۔

جی سائیں سرکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ وقت کے ملازم بھی حیران ہوا ارتضی شاہ کے پیچھے رائمہ کو جاتے دیکھ کر ۔۔

گاڑی نکالوں سائین  سرکار حکم ہوتو ۔۔۔۔۔  

ہہمہم۔۔۔۔نکالوں۔۔۔۔۔۔بھائی یہاں پر مگر کیسے ۔۔۔۔۔۔۔ارتضی کی اچانک مال میں آنے کی خبر اسے پریشان کرگئی تھی۔ 

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ایک گھنٹے کی مسلسل مسافت طے کرتے ہوئے ارتضی شاہ کے ذہن چلتی ہوئی سوچیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی  تھیں ۔۔

کبھی اس پری پیکر کا خیال اسے مسکرانے پر اکساتا تو کبھی وہاج کے ہاتھ میں رائمہ کا ہاتھ یاد کرکے وہ ضبط سے دونوں  مٹھیاں بھیچ جاتا ۔۔۔۔۔ 

گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھتا ہوا وہ رائمہ کی آواز پر متوجہ ہوا تھا 

ب۔۔۔۔بھ۔۔۔۔۔۔بھا۔۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ ارتضی اور اپنے بیچ کے فاصلے کو پار کرتی ہوئی سمی اپنے بھائی کے قریب ہوبیٹھی تھی ۔

رائمہ کے آنسوؤں سے بھیگے  چہرے  سے ارتضی شاہ نظریں چرارہا تھا ۔۔۔

جس سمی سے اس نے آج تک اونچی آواز میں بات تک نہکی تھی آج وہ اس پر ہاتھ اٹھا گیا تھا ۔۔۔ 

یہ سوچ سوچ کر الگ اس کے دماغ کر رگیں پھٹنے کو ہورہی تھی ۔۔۔۔

بڑے ہی ضبط کے ساتھ رائمہ کے پکارنے پر ارتضی شاہ کی سرد خاموشی ٹوٹی تھی ۔۔

کیا کرنے آئی تھی تم اس بےغیرت انسان کے ساتھ ۔۔۔

بھاگنے کی تیاری تھی اس کے ساتھ ٹھیک ویسے ہی جیسے پھپھو نے ابا سائیں اور بابا سرکار کی غرت کو خاک تر کرکے  اپنے عاشق کو فوقیت دی تھی۔

 ویسے ہی تم بھی اس بغیرت کے ساتھ مل  ہمیں بھی پورے خاندان میں  رسوا و ذلیل کرنا چاہتی ہو ۔۔۔ 

سرد لہجے میں پوچھتا ہوا وہ دبے دبے انداز میں ڈھاڑا تھا۔۔۔۔

ن۔۔۔نہ۔۔۔۔۔۔۔نہی۔۔۔۔۔نہیں بھ۔۔۔۔۔۔۔ائی۔۔۔۔۔۔۔نفی میں گردن ہلاتی وہ ارتضی کی سرخ آنکھوں سے خوفزدہ ہوئی تھی۔ 

اگر ایسا ہے تو یہ تمہاری اور اس بے غیرت کی بہت بڑی بھول ہے کہ تم دونوں ارتضی شاہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کبھی کامیاب  ہوسکوں گے ۔۔۔۔احساس سے عاری لہجے میں کہتا ہوا تمخسرانہ انداز میں مسکرایا تھا ۔۔ 

آج تو وہ بے غیرت بچ گیا اس لڑکی کی وجہ سے لیکن کب تک وہ ارتضی شاہ سے بچ پائے گا ۔۔۔۔۔۔۔اس لڑکی کو سوچتا ہوا وہ پچھتایا تھا وہاج کے بچ جانے پر ۔۔۔۔

اگر ارتضی شاہ اپنی بہن کی خاطر کسی کی  جان لے سکتا ہے تو بھی یاد رکھنا رائمہ شاہ ،،،،،کہ ارتضی شاہ اپنی عزت کی خاطر اپنی اس ہی بہن کی  جان لیتے ہوئے ذرا نہیں کترائے گا ۔۔۔۔۔لہجے میں حد درجہ سنجیدگی لیے وہ اس وقت وہاج کے خون کا پیاسا ہو بیٹھا تھا ۔

بھ۔۔۔۔بھا۔۔۔بھائی ۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔۔غلط ۔۔۔۔۔۔سمجھ۔۔۔۔۔۔۔ رہے۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔۔۔ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ماں ۔۔۔۔سے۔۔۔۔۔۔ اجازت۔۔۔۔۔ لے۔۔۔۔۔ کر۔۔۔۔۔۔ آئی۔۔۔۔۔تھی ۔۔۔۔

می۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔وہاج۔۔۔۔۔کے۔۔۔ساتھ ۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔ آئی۔۔۔۔ تھی۔۔۔۔۔ بمشکل خود کے آنسوؤں پر ضبط کرتی ہوئی وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا تو کہاں ہے مجھے تو کہیں نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔رائمہ کے حد درجہ رونے کی وجہ سرخ ہوتے چہرے کی رخ کرتا ہوا وہ واپس سے اپنی نظر  پھیر گیا تھا۔۔۔۔

بھائی میں سچ کہہ رہی ہو ۔۔۔۔۔جس بہن کی آنکھوں میں ایک آنسو بھی برداشت نا کرنے والا ارتضی شاہ آج خود اس کے آنسوؤں کی وجہ بنا ہوا تھا۔

چلو مان لیا کہ تم حیدر کے ساتھ آئی تھی ۔۔۔اپنے آنسوؤں صاف کرو ۔۔۔۔۔۔۔ لہجے میں فکر سموئے وہ پہلے سے نرم پڑا تھا رائمہ کے آنسوؤں سے ۔۔۔۔۔

سچ میں بھائی آپ کو یقین ہے نا اپنی سمی پر ۔۔۔۔۔۔آنسوؤں صاف کرتی وہ ارتضی کے کندھے پر سر رکھ گئی تھی ۔۔

اگر سمی مجھے ذرا بھی بھنک پڑی نا کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے تو خدا کی قسم میں وہ کر گزروں گا جو شاید تصور  میں بھی سوچ نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔رائمہ کے بالوں کو سہلاتا ہوا وہ ابھی کشمکش کا شکار تھا ۔۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

میری معصومیت پر نا جانا۔۔۔

 میرے دوکھے میں ہرگز نا آنا ۔۔۔۔۔

لوٹ لیتی ہوں میں مسکرا کر ،،،،

میرے حسن سےحساس لڑکوں اللہ بچائے ۔۔۔۔۔۔

اپنی دھن میں گنگناتی ہوئی وہ گھومتی ٹیبل پر رکھے واز سے ٹکرائی تھی۔۔۔ 

اففففففففففف۔۔۔۔۔۔یا اللہ پھر سے ۔۔۔۔۔۔امو نے تو آج جان ہی لے لینی ہے تیری حیا آخر کو تو ان کے پیرس سے لائے ہوئے واز کا قتل جو کردیا ہے  ۔۔۔۔۔وہ واز جو کچھ دیر پہلے لیونگ روم میں سجا ہوا  اپنی خوش قسمتی پر ناز کررہا تھا ۔۔

مگر حیا کو ذرا دیر نا لگی تھی اسے  زمین بوس کرنے میں وہ بھی کرچی کرچی کردینے میں ۔۔۔  

پھر سے کچھ توڑ دیا کیا حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیونگ روم سے کچھ ٹوٹنے کی آواز پر جلدی سے اندر آتی ہوئی شاکرہ بیگم کے لب سل گئے تھے اپنے دل عزیز واز کو زمین بوس دیکھ کر ۔  

امو۔۔۔۔۔وہ نا ۔۔۔۔۔۔۔۔شاکرہ بیگم کے تنے ہوئے تاثرات کا جائزہ لیتی ہوئی سختی سے آنکھیں میچ گئی تھی۔

کب سدھرو ۔۔۔۔۔حیا کی بے دھیانی کی وجہآئے دن کچھ نا کچھ نقصان ہوتا تھا اور آج جب شاکرہ بیگم پورے گھر اپنی نگرانی میں صفائی کرواتی ہوئیں تھک سی گئی تھی  ۔

حیا کو لیونگ روم کی طرف جاتے دیکھ سکون کا سانس  بھی نا لے سکیں تھیں کہ واز گرنے کی آواز پر بھاگتی ہوئی وہاں آئیں تھیں جہاں ان پسندیدہ واز اپنی قسمت پر ماتم کررہا تھا ۔ 

جب سدھارنے والا مان جائے گا  ۔۔۔۔۔۔

کیا کہا تم نے۔۔۔۔۔۔منہ ہی منہ بڑبڑاتی ہوئی وہ شاکرہ بیگم کی بلند آواز پر سہمی تھی۔

مما میں آپ کی اکلوتی اولاد ہوں اور آپ کا یہ لہجہ مجھے ہمیشہ یہ احساس دلاتا ہے جیسے میں آپ کی سگی اولاد نہیں ہوں  ۔۔۔۔۔۔

جیسے کہ کسی کوڑے دان سے مجھے اٹھایا ہو۔۔۔۔۔آنکھوں میں مضنوئی آنسوؤں لیے وہ پوری کی پوری  معصومیت کی مثال بنی ہوئی تھی ۔

بس یہ ہی ڈرامے لگانے آتے ہیں یا پھر یہ توڑ پھوڑ ۔۔۔۔۔

حیا یہ آنکھیں اللہ نے ہمیں دیکھنے کے لیے ہی دی ہیں نا تو ان استعمال بھی کیا کروں ۔۔۔

اب یہاں کی ساری صفائی اب تم کروں گی بنا کسی ملازمہ کی مدد کے ۔۔۔۔حیا کی معصومیت و ڈرامے آڑے نا لاتے ہوئیں وہ تاسف سے گردن ہلا کر رہے گئی تھیں حیا کی بات کی پر۔

آپ مجھ سے ذرا پیار نہیں کرتی آپ سے تو اچھے بابا ہیں وہ کرتے مجھ سے پیار ۔۔۔۔۔

مس اوور ایکٹنگ کی دوکان یہ ساری اداکاری آپ اپنے بابا کے سامنے کیا کریں میرے سامنے مت کیا کریں خومخواہ اپنی انرجی ویسٹ کرتی ہیں ۔۔۔

چلو شاباش کام پر لگو شام میں ریاض بھائی اور ماہین آرہے ہیں مجھے اور بھی بہت کام ہیں۔

سچ  میں ماہین آپی بھی آرہی ہیں ۔۔وہ بھی گاؤں ۔۔۔۔۔

حکم صادر کرتی ہوئی وہ جانے کے لیے مڑی تھیں کہ حیا کی حیرت زدہ آواز پر واپس سے اس کی طرف مڑی تھیں ۔

ہاں ۔۔۔۔۔۔۔اب چلو تم یہ کام کرو ۔۔۔

امو یار یہ مجھ سے نہیں ہوا یہ خود مجھ سے ٹکرا گیا اور پھر یہ خود ہی ٹوٹ گیا ۔۔۔۔۔۔

میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔خود کو بری الزامہ قرار کرتی ہوئی وہ شاکرہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر منمنائی تھی ۔

یہ بے چیزیں کب چلنے پھرنے لگ گئیں ۔اپنے ہاتھ کو حیا سے چھوڑواتی ہوئیں اپنی مسکراہٹ ضبط کرگئیں تھیں ۔

پلیز ارتضی بھائی آرہے ہیں بلکہ پہنچ ہی گئے ہونگے اور پھر خالہ جان بھی ناراض ہوجائیں گی مجھ سے اگر میں نا گئی تو۔۔

اور آپا کیوں ناراض ہونے لگی تم سے ۔۔۔

ایک اور سوال شاکرہ بیگم کی طرف سے سن کر حیا اپنی کی تفتیش پر کلسی تھی۔

یہ ابھی نہیں بتا سکتی امو جب وقت آئے گا نا خود پتا چل جائے گا آپکو ۔۔ 

اچھا اب جارہی ہوں جلدی جاؤں گی تو جلدی آؤ گی نا ۔۔ امو کی پیشانی پر لب رکھتی ہوئی وہ منظر سے غائب  ہوئی  تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سب بدل سکتا ہے سارے نظام بدل سکتے ہیں مگر اس گاؤں کی سڑکیں نہیں بدل سکتی ۔۔۔جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر مہارت سے ڈرائیونگ کرتا ہوا غلام رسول ارتضی شاہ کے غصے سے غرالانے پر مزید دھیان سے ڈرائیو کرتا  ہلکان ہورہا تھا ۔

پہلے ہی ارتضی شاہ کے غصے کا خمیازہ بھگتنا رہتا تھا اگر اب کوئی کوتاہی برتنا اس کے لیے خطرے سے خالی نا تھا۔

وہ دیکھو تم سے اچھی تو ڈرائیونگ وہ کررہا ہے ۔اپنی گاڑی سے آگے جاتی گاڑی کو دیکھ کر ارتضی کا خون خولہ تھا۔

بھائی آپ غصہ نا ہوں ویسے پہنچ ہی گئے ہیں ہم ۔۔۔ارتضی کے بے وجہ غصے پر رائمہ مسکرائی تھی ۔

رائمہ کے بولنے پر ارتضی خاموش ہو بیٹھا تھااور اس کی خاموشی غلام رسول کو پرسکون کرگئی تھی ۔

یا اللہ تیرا شکر ہے ۔۔۔حویلی کے اندر گاڑی روکتا ہوا غلام رسول بلکل پرسکون ہوا تھا ۔۔۔۔۔

کوئی حال نہیں ہے یہاں کے ۔۔۔اس سے بہتر لندن ہے ۔۔۔۔دل میں سوچتا ہوا وہ کار ڈور پر غصہ نکال گیا تھا ۔

رائمہ آپی ۔۔۔۔۔۔لائن بنائے بھاگ کر آتے ہوئے چھ سے سات بچوں کو دیکھ کر ارتضی کو حیرت ہوئی تھی رائمہ کو ان کے آپی  پکارنے پر۔۔۔ 

یہ کون سی اور کس کی کرکٹ ٹیم ہے ۔۔رائمہ کی ٹانگوں چمگادڑ کی چیپکے ہوئے رنگ برنگے نین نقوش کے بچوں کو دیکھ کر ارتضی کو کوفت ہوئی تھی۔

غلام رسول کے بچے ہیں بھائی ۔۔۔۔۔مسکرا کر جواب دیتی ہوئی وہ واپس سے بچوں کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔

یہ وہ ہی بھائی ہیں جو آنے والا تھا وہ باہر سے۔۔۔۔غلام رسول کا سب بڑا بیٹا رحیم ارتضی کو دیکھ  کر چہکا تھا ۔

رحیم کے پوچھنے پر رائمہ نے مثبت میں گردن ہلائی ہی تھی

کہ وہ اور بھاگتا ہوا  ارتضی کی ٹانگ سے لپیٹ گیا تھا خود لپیٹنے کے بعد سب کو اپنے پاس بلاتا ہوا مسکرایا تھا ۔

اپنے اوپر ہوئی اچانک بچوں کی بم باری پر اپنے ہاتھوں کو اوپر کرتا ہوا طیش میں آگیا تھا۔

پیچھے۔۔۔، پیچھے ۔۔۔دور رہو ۔خود سے چمٹے بچوں کو خود سے دور نا ہوتے دیکھ وہ ضبط کے آخری مرحلے پر کھڑا  بلند آواز میں دھاڑا تھا۔

غلام رسول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔غلام رسول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی سائین سرکار ۔۔۔۔۔۔بھاگ کر آتا ہوا غلام رسول گھبرایا تھا۔

ارتضی کی دھاڑ پر پوری حویلی میں گونج اٹھی تھی ۔۔

سائین ارتضی  آگیا ۔۔۔۔نم آنکھوں سے مسکراتی ہوئیں شاہدہ بیگم دلاور شاہ کو دیکھ کر بولی تھیں ۔

 جبکہ حویلی میں ملازمین کانپ اٹھے تھے ارتضی شاہ کی دھاڑ پر۔۔۔ 

اپنے بچوں کو مجھ دور کرو ابھی اسی وقت ۔۔۔۔دانت دبا کر بولتے ہوئے ارتضی کی حالت پر رائمہ مسکرائی تھی ۔

جانتی تھی کہ ارتضی کو ہمیشہ سے ہی بچوں سے کوفت محسوس ہوتی تھی ۔  

بھائی بچے تو ہیں ۔۔۔مزہ لیتی ہوئی وہ خود کو بولنے سے باز نارکھ سکی تھی۔

بچے ہیں یہ ۔۔ چبا کر بولا تھا۔

 مسکراتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر اسے وہ اپنا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آئے تھے۔

بچوں کے دور ہوتے ہی وہ برق رفتاری سے حویلی کے اندر گیا تھا۔۔

غلام رسول برا مت منانا بھائی تھکے ہوئے ہیں اس لیے اس تھوڑے روڈلی بی ہیو کر رہے تھے ۔۔

ورنہ بہت نرم و حساس طبیعت کے مالک ہیں ۔۔۔۔۔

جی بی بی ۔۔غلام رسول کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھتی ہوئی رائمہ مسکرا کر وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی۔

ان سائیں سرکار سے دور رہنا ۔۔۔۔۔اپنے بچوں کو سمجھاتا ہوا غلام رسول سرونٹ کوارٹر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ 

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اس لیے نہیں پسند نہیں کرتی میں یہاں آنا ۔۔۔۔کتنی گندی جگہ جگہ شہید ہوئی سڑکیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

برا سا منہ بنا کر وہ اپنی بھڑاس نکالتی ہوئی بولی تھی ۔

کون سا میری جان ہر روز آنا ہوتا ہے ہمارا ۔۔

وہ تو حمدان بھائی نے بڑے مان سے بلایا تو میں منع نہیں کرسکا میری جان اور ویسے بھی کسی چیز کی کمی نہیں ہے وہاں ہر چیز کی سہولت  موجود ہے آپ اچھے سے جانتی ہیں ۔۔۔

اور حیا  بھی تو ہے آپ کو انٹرٹین کرنے کے لیے ۔۔۔ریاض صاحب کی بات پر حیا کو سوچتی ہوئی ماہین کھلکھلا اٹھی تھی ۔

بس ایسے ہی ہنستی رہا  کرو بابا کی جان ۔۔۔۔ماہین کے سر بوسہ دیتے ریاض صاحب اسے اس طرح ہنستے  دیکھ خود بھی مسکرائے تھے ۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

گئی تم حیدر کے ساتھ تھی اور آئی ارتضی کے ساتھ ۔۔ویسے حیدر کیوں نہیں آیا تم دونوں کے ساتھ۔۔۔

شاہدہ بیگم کے منہ سے حیدر کا رائمہ کے ساتھ جانے کا سن کر ارتضی پرسکون ہوگیا تھا ۔

کام تھا اسے اس لیے ۔۔مسکرا کر بات سنبھالتا ہوا وہ رائمہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کرگیا تھا۔

بہت کمزور ہوگیا ہے میرا بیٹا سائین ۔۔۔۔۔۔۔ہر ماں کے ڈائیلاگ کو بولتی ہوئیں شاہدہ بیگم ارتضی کو ہنسنے پر مجبور کرگئی تھیں۔۔۔

کیا ماں سرکار میرے  آتے ہی آپ کی شکایتیں شروع ہوگئیں بابا سرکار سے ۔۔۔۔۔

ہاں تو خومخواہ میرے بیٹے کو لندن بھیج کر کمزور کردیا ہے ۔۔

سن لیں بابا سرکار ۔۔۔۔ارتضی کو اتنے عرصے بعد روبرو ہنستے مسکراتے دیکھ شاہدہ بیگم نم آنکھوں سے مسکراتی ہوئی رائمہ کو دیکھ رہی تھیں ۔

سائین سرکار پانی ۔۔۔۔۔۔آدھے سے زیادہ چہرے کو ڈوپٹہ میں چھپائے ہاتھ میں پانی کا گلاس  تھامے کھڑی تقریبا سولہ سال کی ملازمہ کو آنکھوں میں حیرت لیے دیکھتا ہوا وہ رخ موڑ گیا تھا۔۔۔۔

ماں سرکار میں نہیں پی رہا پانی اسے جانے کا کہہ دیں ۔۔۔۔

اچھے سے ہاتھ سینٹائز کیے ہیں اس نے وہ بھی میری نگرانی میں  لے لو۔۔۔۔

ارتضی کی عادت سے وہ اچھی طرح واقف تھیں ۔

نفاست پسند ارتضی شاہ کبھی بھی ملازماؤں کے ہاتھوں کھانا پسند نہیں کرتا تھا جب ہی فورا سے پہلے  بولیں تھیں ۔

جاؤں تم مجھے نہیں ہے اس کی ضرورت ۔۔۔نہایت عاجزی سے بولتا ہوا وہ اس ملازمہ سے کترایا تھا۔۔۔

تم جاؤ میں آتی ہوں اپنے نفاست بیٹے کے لیے پانی لینے کے لیے۔۔ارتضی کے جھکے سر کو مسکرا کر دیکھتی ہوئیں وہ کچن کی سمت بڑھی تھیں ۔۔۔

چار سال لندن میں رہ کر اور بگڑ گئے ہو تم ارتضی ۔۔دولار شاہ کی بات پر ارتضی سر کھجا کر رہ گیا تھا ۔

بابا سرکار یہ بچے کب سے حویلی میں کام کرنے لگ گئے ہیں ۔۔۔سنجیدگی سے پوچھتا ہوا پھر سے اس بچی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔

اپنی مرضی سے ایک آدھ کام کرتی ہے تمہیں دیکھنے کے لیے صبح سے  ضد کررہی تھی تو میں نے کہہ دیا تھا پانی لانے کے لیے ۔۔۔

یہ لو پانی ۔۔۔۔۔

پانی کا گلاس ارتضی کی سمت بڑھاتی  ہوئی شاہدہ بیگم صبح کی ہوئی بات کا حوالہ دیتیں  ہوئی مسکرائیں تھیں کہ  اچانک سے کچھ گرنے کی آواز سن کر کانوں پر ہاتھ رکھ گئیں تھیں ۔۔

کیا ہوا یہ کس چیز کے گرنے کی آواز  ہے۔

ماں سرکار تباہی آگئی ہے شاہ حویلی میں ۔۔۔۔۔۔۔حیدر شاہ کی ہانک پر ناسمجھی سے ماں سرکار کو دیکھتا ہوا ارتضی شاہ  حیران ہوا تھا۔

یااللہ خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحم فرما میرے مالک شاہ  حویلی میں آئی اس تباہی سے ہم شاہ حویلی کے معصوم مکینوں کی حفاظت فرما۔۔

آمین ۔۔۔۔۔۔۔دونوں ہاتھ منہ پر پھیرتا ہوا اپنی مسکراہٹ ضبط کرگیا تھا ۔۔

میں تباہی ہوں ۔۔۔۔اور کونسی تباہی مچائی ہے میں نے اور  اللہ سے تو پناہ مانگ رہے ہو جیسے خدا ناخواستہ میں کوئی شیطان ہوں ۔۔۔۔ نیچے گرے میٹل کے شوپیس کو اٹھا کر واپس سے اس کی جگہ پر رکھتی ہوئی وہ تپ کر بولی تھی ۔

تمہیں گرنا ہی تھا تو مجھ سے ٹکرانے کی کیا ضرورت تھی ۔حیدر کو سنا کر بھی اس بھڑاس کم نا ہوئی تھی باقی کی بھڑاس شوپیس پر نکالتی ہوئی حیدر کو ہنسنے  پر مجبور کرگئی تھی ۔۔۔۔

نادانیاں جھلکتی ہیں میری عادتوں سے ۔۔۔۔،

میں خود حیران ہوں مجھے عشق ہوا کیسا ۔۔۔۔۔۔۔،،

اب یہ دانتوں کی نمائش کیوں کررہے ہو  ۔۔۔۔۔ مضنوئی تلخ لہجہ رکھتی ہوئی وہ حیدر کو ہنستے دیکھ کچھ پل کے لیے اسے یک ٹک دیکھ کر اپنی نگاہیں جھکا گئی تھی ۔

بچپن سے ہیاپنے دل میں چھپی محبت کو سب سے چھپاتی آئی تھی تو آج کیسے اتنی آسانی سے حیدر پر افشاں کرجاتی۔۔۔

حرکتیں جب تم پاگلوں والی کرو گی تو ایک عام انسان کو ہنسی تو آئے گی نا ۔۔۔۔

حیدی تم نا ۔۔۔۔۔۔۔ سب لوگوں کو وہاں آتے ہوئے دیکھ حیا کو حیدر پر جی بھر کر غصہ آیا تھا۔۔۔۔

فرمائیں یہ ہی نا کہ میں بہت ہینڈسم ہوں ۔۔۔آبرو اچکاتا ہوا وہ حیا کی سامنے ٹکی نظروں کا تاکب کرتا سب کو آتے دیکھ سنجیدہ ہو کھڑا ہوا تھا  ۔۔۔

ہینڈسم اور تم ہہہنہنہہ ۔۔۔۔۔ہو ہی نا جاؤ کہیں تم ہینڈسم ۔۔ ارتضی بھائی  جیسے مرد ہوتے ہیں 

 اسمارٹ ،ہینڈسم ،ڈیشنگ ،، اور اصولوں کے پکے ۔۔۔

تمہارے جیسے سڑے ہوئے ککڑی جیسے  لڑکے صرف پرندوں کو پانی دیتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں ۔۔ 

حیا بخاری سے پنگا ناٹ چنگا۔۔۔ گیٹ اٹ ۔۔۔۔

خوش فہم نا ہو تو ۔۔۔منہ ہی منہ بڑبڑاتی ہوئی وہ حیدر کو چھوٹی سی بچی لگی تھی  ۔۔۔۔

خالہ جانی ۔۔۔

رکو حیا میں خود ہی تمہارے پاس آتی ہوں ۔۔

کیوں میں خود آپ کو ہگ کروں گی ۔۔۔روٹھے ہوئے بچوں کی طرح بولتی ہوئی وہ شاہدہ بیگم کی  جانب بڑھی تھی ۔گلے میں ڈالے اسٹولر کو جھٹکتی ہوئی آگے بڑھی کہ پیچھے رکھی ٹیبل پر تھوڑی دیر پہلے والا شوپیس دھماکے کے ساتھ نیچے آن گرا تھا ۔۔۔

سہی ہی کہا تھا حیدر نے پوری کی پوری تباہی ہے ۔شاہدہ بیگم کے دیکھنے پر ارتضی فقط یہ ہی کہہ سکا تھا ۔

ٹوٹل تباہی ۔۔۔حیا کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا وہ اندر کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔

کچھ نہیں ہوتا حیا بیٹا تم اندر چلو  ۔۔۔۔معصوم سی شکل بنائے شوپیس اور شاہدہ بیگم کو دیکھتی ہوئی وہ شرمندہ ہوئی تھی ۔

نوری اس ٹیبل کو مزید سائیڈ پر لگوادو اور اس شوپیس کو تھوڑا دیوار سے ملا کر رکھنا ۔۔۔تاکہ دوبارہ نا گر پائے ۔۔ ملازمہ کو آگاہ کرتی ہوئی رائمہ بھی سب  کے پیچھے اندر گئی تھی۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اسلام وعلیکم تائی امی ۔۔۔۔

گھر میں داخل ہوتے ہی ماہین  کی بلند آواز پر شاکرہ بیگم مسکرائیں تھیں۔۔

وعلیکم اسلام تائی امی کی جان ۔۔۔۔ماہین کو گلے لگاتی ہوئی وہ اس ہی کے انداز میں بولی تھیں ۔۔

ماہین انہیں ہمیشہ سے حیا کی طرح عزیز تھی ۔

ماہین کی ماں کے انتقال کے بعد سے انہوں نے ماہین کو اپنی بیٹی بنالیا تھا۔

اندر چلو ۔۔۔۔ماہین کو اپنے ساتھ لگائے وہ لیونگ روم کی طرف بڑھی تھیں ۔۔۔ 

اسلام وعلیکم بھابھی ۔۔۔۔ماہین اور شاکرہ بیگم کے سامنے رکھے دیوان پر بیٹھتے ہوئے وہ خوش ہوئے تھے ماہین کو خوش دیکھ کر ۔۔

وعلیکم اسلام ۔۔کیسے ہیں  بھائی صاحب   ۔

الحمداللہ بلکل ٹھیک اور یہ لیں آپ کی ماہین کو بلآخر میں منا کر للے آیا ہوں آپ کے پاس اس ۔۔۔۔

نہیں تائی امی بابا نے مجھے کوئی نہیں منایا بس یہ کہا کہ ہمیں گاؤں جانا ہے اور میں مان گئی ۔

ریاض صاحب ماہین کی تیز چلتی زبان کو سن کر حیران ہوئے تھے ۔

میری بیٹی کی اتنی لمبی زبان ہے مجھے تو اب پتا چل رہا ہے ۔۔۔۔

ورنہ تو میں پورے سفر یہ ہی سمجھتا آرہا تھا کہ میری ماہین تو سنجیدہ اور مستقل مزاج کی حامل ہے ۔۔۔۔ 

بابا ۔۔۔۔۔ماہین کی گھوری پر ریاض صاحب کو خاموش ہوتے دیکھ شاکرہ بیگم مسکرائیں تھیں ۔

ویسے حمدان بھائی کہاں دیکھ نہیں رہے کہاں گئے ہوئے ہیں  ۔۔۔ حمدان صاحب کی عدم موجودگی محسوس کررہے تھے۔

وہ بھائی ابھی آتے ہی ہونگے۔۔۔۔

آج کل کچھ زمینوں کا مثلہ چل رہا ہے تو وہیں مصروف رہنے لگ گئے ہیں ۔۔۔

لو بھئی آپ کو یاد کیا اور آپ آگئے ۔۔۔۔حمدان صاحب کے بغل گیر ہوتے ریاض صاحب کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں ۔

میرا بھائی یاد کرے اور میں نا آؤں ایسا کبھی ہوسکتا ہے ۔۔

اور میری ماہین بیٹی کیسی ہے اتنے عرصے بعد آپ کو تایا ابو یاد آگئے ۔۔ماہین کے اتنے عرصے بعد گاؤں آنے پر وہ شکوہ کرے بغیر رہ ناسکے تھے۔

ایسی بات نہیں ہے تایا ابو بہت یاد آتے ہیں آپ مجھے مگر  یہاں آتے ہی مما کی بہت یاد آتی ہے اسی لیے  یہاں آنے سے کتراتی ہوں ۔۔۔۔ نم آنکھوں سے اپنی دلی کیفیت بیان کرتی ہوئی وہ انہیں بھی افسردہ کرگئی تھی ۔ 

 مما نہیں ہے تو تائی امی تو ہے نا ماہین کے پاس ۔۔۔۔

جی تائی امی ۔۔۔شاکرہ بیگم کے کاندھے پر سر رکھتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

تائی امی ہماری آفت میڈم کہاں ہیں وہ نہیں آئی مجھ سے ملنے ابھی تک ۔۔۔پورے لیونگ روم میں نظریں دوڑاتی ہوئی حیران ہوئی تھی حیا کو موجود نا پا کر ۔

وہ آپا کی طرف گئی ہوئی ہے بس آتی ہی ہوگی ۔

میں کھانا لگوادیتی ہوں تھک گئے ہو گے نا آپ لوگ ۔۔

آپ بابا اور تایا ابو کھالیں ۔۔  میں حیا کے ساتھ ہی کھانا کھاؤں گی۔

 ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ماہین کے آنے پر حیا گھر پر موجود نہیں تھی ۔ 

ایسے کیسے اتنے عرصے بعد آئی ہو اور کھانا بھی نہیں کھاؤ گی ہمارے ساتھ۔شاکرہ بیگم کو ماہین کی بات بلکل بھی پسند نہیں آئی تھی ۔

فکر نا کریں ایک دو ہفتے میں آپ کے ہی پاس ہوں اور جب تک میں یہاں ہوں جب تک آپ کے ساتھ ہی کھاؤ گی ٹھیک ہے ۔۔

اب آپ کھانا لگوا دیں یہ نا ہو پھر میری وجہ سے بابا کا شوگر لو ہوجائے ۔۔

کہاں رہ گئی ہے یہ حیا بھانجا میرا آیا ہے اور وہ میڈم وہاں کی ہو کر رہے گئیں ہیں ۔ حیا کی لاپروائی پر شاکرہ بیگم کلسی تھیں ۔۔۔

میری کیوٹ سی تائی امی میں فون کرکے ابھی بلاتی ہوں ۔

پھر ہ۔ دونوں مل کر اس تباہی کی بچی کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔ماہین کی بات پر متفق ہوتیں شاکرہ بیگم مسکرا کر کچن کی جانب بڑھی تھیں۔

ایسا کیا جادو کیا ہے اس شخص نے جو مجھ سے زیادہ حیا کے لیے وہ عزیز ہوگیا ۔۔۔حیا کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے نا چاہتے ہوئے بھی اسے جلن محسوس ہوئی تھی اس شخص سے۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ارتضی سے بات کرتے ہوئے اسے اندازہ نہیں ہوا وقت گزرنے کا اور نا ہی ماہین کا خیال آیا تھا ۔

ارتضی ،حیدر ،رائمہ کے ساتھ خوش گپیوں لگی وہ اچانک سے ارتضی کو چائے کی پیشکش کرگئی تھی ۔

چائے پیئے گے ارتضی بھائی میں بہت اچھی چائے بناتی ہوں ۔۔۔۔۔۔پرجوش ہوتی حیا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی چائے بنانے کے لیے ۔۔۔۔

خدا کا واسطہ ہے تمہیں حیا تم کچن میں مت جانا ۔۔۔۔۔

دونوں ہاتھ جوڑے حیدر کو دیکھ کر ارتضی مسکرایا تھا ۔

دیکھ رہی ہیں خالہ جانی آپ ۔۔۔حیدر کو غصے سے دیکھتی ہوئی وہ شاہدہ بیگم کے ہنسی  ضبط کرنے کی وجہ سے سرخ ہوتے چہرے کو بنا دھیان دئیے بولی تھی ۔

حیدر ایسے نہیں کہتے ۔۔۔

ماں سرکار اگر یہ کچن میں گئی تو وہاں پر بھی اپنی تباہی مچانے والی عادات سے کچن کی حالت خراب کردے ۔۔

اور پھر بیچاری ملازماؤں کو ڈبل محنت کرنی پڑے گی ۔

میں کوئی تباہی نہیں مچاتی وہ تو بس مجھے چیزیں دیکھائی نہیں دیتی اور پھر مجھ سے ٹکرا کر گر جاتی ہیں ۔

حیدر کی ملازماؤں کے لیے فکر مندی سے وہ افسردہ ہوئی تھی ۔

حیدی ۔۔حیا آپ بنالاؤں چائے اور حیدی کے لیے نہیں بنانا ۔۔۔

حیدر کو ڈانٹتا ہوا وہ نرم لہجے میں حیا سے مخاطب ہوا تھا ۔

اور ہاں ۔حیا کو پیچھے سے روکتے ہوئے ارتضی کو سب نے دیکھا تھا۔

اچھے سے ہاتھ دھونا اور پھر چائے بنانا ۔۔۔

آپ تو بلکل نہیں بدلے ارتضی  بھائی ۔۔ ارتضی کو دیکھتی ہوئی وہ وہاں سے گئی تھی ۔

جو وقت کے ساتھ اپنے اصولوں کو روند دے وہ ارتضی شاہ نہیں ۔۔۔۔

میرے اصول ہی مجھے سب سے الگ بناتے ہیں ۔ دل میں سوچتا ہوا وہ سب کی نظروں کو خود پر مرکوز دیکھ کر بولا تھا ۔  

 اب ایسے کیا دیکھ رہے ہیں آپ سب لوگ مجھے ۔۔۔

نڈر بے خوف لہجے میں پوچھتا ہوا وہ دلاور شاہ کے مسکراتے چہرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

اب بدل دو یہ اصول ارتضی شاہ اب تمہارے ساتھ وہ سب دوبارہ سے نہیں ہوگا ۔۔۔دلاور شاہ کی بات پر وہ تمسخرانہ انداز میں مسکرایا تھا ۔

نا سمجھی حیدر اور رائمہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے دونوں کو سن رہے تھے جبکہ شاہدہ بیگم بھی ارتضی کو ہی دیکھ رہی تھیں ۔

 "ٹوٹ سا گیا ہے میرے اعتبار کا وجود ۔۔۔۔

اب کوئی مخلص بھی ہوتو یقین نہیں آتا ۔۔۔"

ایسا اب ہو بھی نہیں سکتا بابا سرکار کیونکہ میں اب پہلے والا  ارتضی نہیں ہوں میرا حساس پن کہیں مر گیا ہے ۔۔۔

اب بڑے سے بڑے طوفانوں سے نا گھبرانے والا ، چٹانوں کی طرح مضبوط ارتضی شاہ بن گیا ہوں ۔۔۔۔۔

میرے دل احساس نامی کوئی جذبہ نہیں رہا ہے کیونکہ اب میں زمانہِ سنگ دل مشہور جو ہوں۔۔۔۔۔

دلاور شاہ سے نظریں چراتا ہوا ضبط سے سرخ ہوتی آنکھوں سے وہ مسکرانے میں ناکام رہا تھا ۔

ارتضی کو اس طرح دیکھ شاہدہ بیگم افسردہ ہوئی تھیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے احساس کا جذبہ آج بھی آپ کے دل میں ہے بھائی ۔۔۔

ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ اس سے انکاری ہیں ورنہ پندرہ سالہ بچی کو حویلی میں  کام کرتے دیکھ آپ بابا سرکار سے شکایت نا کرتے ۔اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولتے  ہوئے حیدر کو دیکھ کر ارتضی اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔

تم یہ کہہ سکتے ہو ۔۔۔۔جو پرندوں کو دیکھ کر رو پڑے اس کے منہ سے یہ احساس لفظ بہت اچھا لگتا ہے ۔حیدر کے بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا وہ دل سے مسکرایا تھا ۔ 

 ایکسیوز می ۔۔۔۔ ڈرائینگ روم سے جاتے ہوئے صوفے پر پڑے حیا کے سائلینٹ کردہ فون پر اچانک سے نظر پڑتے ہی ارتضی فون اٹھا گیا تھا ۔

ٹین مسڈ کالز ۔آبرو ریس کرتا وہ واپس سے ڈائل کرتا ہوا حیا کے پاس جانے کے لیے کچن کی جانب بڑھا تھا ۔

حیا کی بچی کہاں رہ گئی ہو ۔۔

پتا ہے کب سے تمہارے انتظار میں ہلکان ہوئے جارہی ہوں ۔

کب سے بھوکی بیٹھی ہوں تمہارے انتظار میں  اور تم ہو کہ اپنے کزنوں کے ساتھ مل کر مجھے بھول گئی ہو ۔ایک سانس میں بولتی ہوئی لڑکی کی آواز ارتضی کو شناسائی لگی تھی ۔

سنیں محترمہ ۔۔۔ارتضی کی گھمبیر آواز پر ماہین کی نان اسٹاپ بولتی زبان پر بریک لگی تھی ۔

آپ کون اور حیا کا فون آپ کے پاس کیسے اور کیوں ہے ۔

حیا کے نمبر کو ریچیک کرتی ہوئی بولی تھی ۔

میں حیا کا وہی کزن ہوں جس کی وجہ سے وہ آپ کو بھول گئی ہے ۔

مگر بے فکر رہے میں اسے بھیجتا ہوں آپ کے پاس واپس ۔۔

قدرے سنجیدگی میں بولتا ہوا وہ بنا ماہین کی بات سنے کال ڈیسکنیٹ کرگیا تھا ۔

ہااااااااااا۔۔۔فون کاٹ دیا ۔۔۔۔بنا میری بات سنے ۔آئی تم گھر حیا ۔۔۔پھر بتاؤں گی تمہیں ۔۔۔۔۔بیڈ پر فون پھینکتی ہوئی وہ واشروم میں شاور لینے کے لیے گئی تھی۔ 

لاؤ میں کرتا ہوں تم جانے کی تیاری پکڑوں کیونکہ تمہاری کوئی کزن تمہارا کا انتظار کررہی ہیں پتا نہیں کب سے اور اپنے بھوکے ہونے کی دہائی دے رہی تھی حیدر کے ساتھ چلی جانا ۔۔۔حیا کے ہاتھ کیٹل لیتا ہوا وہ عام سے لہجے میں بول رہا تھا ۔

ماہین۔۔۔۔۔اف اللہ میں کیسے بھول گئی ۔۔۔نہیں بھائی ڈرائیور ہے میں اس کے ساتھ چلی جاؤں گی ۔بے دھیانی میں بولتی ہوئی وہ بری طرح  کچن میں آتی ہوئی نوری سے ٹکرائی تھی ۔

ٹوٹل تباہی ۔۔حیا کو جاتے دیکھ ارتضی منہ ہی منہ بڑبڑایا تھا۔

سائین سرکار میں کردو ۔۔۔ارتضی کو چائے ڈالتے دیکھ نوری آگے بڑھی تھی ۔

نہیں میں خود کرلوں گا شکریہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کپوں میں چائے انڈیلتا ہوا وہ نوری کو سائیڈ ہونے کا کہتا  ٹرے اٹھائے وہاں سے نکلا تھا ۔۔  

اچھا خالہ جانی میں چلتی ہوں ۔

کیا ہوا اتنی جلدبازی میں جانے کی وجہ تو بتاؤ ۔شاہدہ بیگم کے گلے لگ کر الگ ہوئی تھی ۔

خالہ ماہین آپی آگئی ہیں اور میرا انتظار کررہی ہیں ۔

اچھا ماہین آئی ہے ۔۔۔

جی جی اب اجازت دیں ۔۔حیرت سے پوچھتی ہوئیں شاہدہ بیگم کو خدا حافظ کہتی ہوئی باہر نکلی تھی ۔

دھیان سے جانا تباہی اور پہنچتے ہی فون کردینا مجھے۔۔۔۔۔ 

حیا کو گاڑی تک چھوڑنے کے لیے آتا ہوا حیدر اس بار سنجیدگی سے بولا  تھا۔

ہمہم ۔۔۔حیدر کی اتنی سی ہی فکر اسے سرشار کرگئی تھی ۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

"شب تنہائی میں میں  پل پل راکھ ہوتا ہوں ۔    

میں کیا ہوں میں سے خود سے انجان رہتا ہوں ۔۔"

آسمان پر اپنی پوری تاب سے چاندنی پھیلائے  چاند کو افسردگی سے دیکھتا ہوا وہ اپنے اندر چھڑی سرد جنگ سے تھک سا گیا تھا  مگر جنگ تھی کہ اسے نا ہارنے دے رہی تھی اور نا خود ہار رہی تھی۔

اللہ مجھے رہائی دے دے اس کرب سے ۔۔۔۔

مجھے میں اب اور ساکت نہیں رہی ہے اس آگ میں جلتے رہنے کی کوئی تو راہ دیکھا جو مجھے سکون بخش جائے ۔۔

ایک طویل عرصے سے اپنے اندر پکتے ہوئے لاوے کے ساتھ وہ اب اندر ہی اندر جھلسنے لگا تھا ۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سوری ،،،،،، سوری ،،،،،،،،ماہین آئی ام ویری ویری سوری ۔۔۔۔۔

بیڈ پر بیٹھی ماہین کی گردن میں دونون ہاتھ ڈالتی ہوئی بولی تھی ۔

کوئی معافی نہیں ملنے والی تمہیں جاؤ اور اپنے اس کزن کے آنے کی خوشیاں مناؤ ۔۔۔شکوہ کرتی ہوئی وہ حیا کو مسکرانے پر اکسا گئی ۔

ماہین ریاض جلیس  ہورہی میرے کزن سے ۔ماہین کے سامنے بیٹھتی ہوئی وہ شرارت سے بولی تھی ۔

حیا کو غصے سے دیکھ کر ماہین رخ موڑ گئی تھی ۔

ارے بے بی تو نالاج ہوگیا ۔۔۔۔۔۔

حیا کا بے بی نالاج ہوگیا حیا سے ۔۔حیا کے بچکانہ  انداز پر اپنی مسکراہٹ ضبط کرتی ہوئی وہ مسلسل حیا کی طرف پیٹھ کیے ہوئے تھی۔

مجھے جیسے پتا چلا میں فورا سے وہاں سے نکلی تھی ۔اور آپ اب بھی ناراض ہیں ۔۔ماہین کی طرف کوئی جواب نا پاکر وہ پھر بولی تھی 

اچھا نا سوری اب تو ناراضگی ختم کردو ۔۔۔

ماہین کو منا منا کر وہ اب تھک چکی تھی مگر ماہین کئ ناراضگی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں ۔

اتنی جلدی ہار نہیں مان لی ہے اور میں جو کب سے تمہارے انتظار میں بھوکی بیٹھی ہوئی ہلکان ہورہی تھی ۔ناراض بیویوں کی طرح شکوہ کررہی تھی ۔

اچھا نا سوری باقی کی ناراضگی بعد کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور پہلے ہم کھانا کھا لیتے ہیں ۔ماہین کی گردن میں ہاتھ ڈالتی ہوئی وہ منمنائی تھی ۔

میں نہیں ماننے والی چاہے تم جتنے پاپڑ بیل لو ۔۔۔ 

تھک ہار کر ماہین سے الگ ہوتی ہوئی وہ رو دینے کو ہوئی تھی ۔

اب خود کو بھوک لگی تو ناراضگی ختم کردو سہی ہے بیٹا ۔

حیا کے انداز پر شرارت سے مسکرائی تھی ۔

مطلب آپ مان گئی اور ساری ناراضگی ختم ۔۔۔۔

وہ  تو میں دیکھتے ہی مان گئی تھی ۔۔۔حیا کے گال کھینچتے ہوئے مسکرا رہی تھی ۔

آئی لو یو ۔۔۔۔کہاں ہے حیدر ۔۔۔آنکھوں میں شرارت لیے کمرے میں نظریں دوڑاتیہوئی ماہین اپنی مسکراہٹ ضبط کرگئی  تھی ۔۔

ماہین ۔۔۔۔۔۔ماہین کی بات پر منہ پر تکیہ رکھتی ہوئی وہ بیڈ پر دراز ہوئی تھی ۔

بریکنگ نیوز حیا کے گال حیا و شرم سے لال ہوگئے ہیں ۔۔

حیا کے چہرے پر سے تکیہ اٹھاتی ہوئی ماہین فل شرارت کے موڈ میں تھی۔

کوئی اس شخص سا دنیا میں کہاں ہوتا ہے...

لاکھ چہروں میں جسے دل نے چُنا ہوتا ہے!!!

ہم تو اس موڑ پر آہ پہنچے ہیں محبت میں جہاں...

دل کسی اور کو چاہے تو گناہ ہوتا ہے!!! 

ایمپوسیبل حیا کی ساری حیا شرم اس کے نام میں آگئی ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مجھے شرم آجائے ۔۔۔ڈھٹائی سے کہتی ہوئی وہ اپنے آپ کو کمپوز کرتی ہوئی ماہین سے نظریں جھکا گئی تھی ۔۔۔

 تم جو کہتے ہو  مان لیتے ہیں ۔

کہ صرف فرشتے ہی جان لیتے ہیں ۔۔۔۔،

بیڈ پر سے اٹھتی ہوئی ماہین کے شعر پر مسکراتی ہوئی وہ بھی اس کے ساتھ ہولی تھی ۔ڈائینگ روم میں جانے کے لیے ۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شاہ حویلی کے مکین اور ملازمین سب ا پنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے جاچکےتھے۔

 سب کے سب سو بھی گئے ہونگے یہ ارتضی کا خیال تھا ۔

اتنے لمبے سفر کی تھکان کے باوجود بھی نیند ارتضی کی آنکھوں سے کوسوں دورتھی ۔

ذہن کے پردوں پر چلتی دن بھر کی سوچ اسے سونے نہیں دے رہی تھی ۔

کبھی وہاج کے ہاتھ میں رائمہ کا ہاتھ یاد آرہا تھا ۔۔۔

تو کبھی جذبات و غصے میں رائمہ پر اٹھایا گیا اپنا ہاتھ اسے شرمندہ کررہا تھا  ۔۔۔۔۔

کتنا خوش تھا آج چار سال بعد اپنے وطن اپنے گاؤں واپس آکر مگر اسے خوشیاں کب راس تھیں جو آج اسے خوشی راس آجاتی ۔۔

اپنی قسمت پر ماتم کرتے ہوئے اسے ذہن کے پردوں پر اچانک سے اس پری  پیکر کا عکس کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی لہرایا تھا ۔۔

مغرور ارتضی شاہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی ۔۔۔

آج کے اس قدر تھکا دینے والے دن میں اس کا خیال اسے سکون بخش رہا تھا۔

بڑی دلچسپ غفلت ہوگئی ہے 

اچانک ان سے اپنے ہوگئی ہے ۔۔،

غم جاناں بھی گو اک حادثہ ہے

غم دوراں سے فرصت ہوگئی ہے ۔۔،

تمہیں کچھ علم ہے کہتی ہے دنیا 

کہ مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے ۔۔۔۔،

اسے سوچتے سوچتے کب نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اسے خبر تک نا ہوئی تھی  ۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شاہ حویلی کے ساتھ بنا انصاری ولا دلوں میں نفرت و گہرے  تناسب کے باوجود بھی دونوں کی چھتیں ایک دوسرے کی چھتوں سے ملی ہوئی تھیں ۔ 

کئی کالز کرنے باوجود بھی رائمہ کی طرف فقط سرد خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔آخر کار میسج پر دھمکی دے گیا تھا ۔

چھت ملی ہونے کی وجہ ٹپ کر آتا ہوا وہاج کافی دیر سے رائمہ کا انتظار کررہا تھا ۔

رائمہ کو آتے دیکھ وہ فورا سے بولا تھا ۔

کہاں رہ گئی تھی تم اور کالز بھی اٹینڈ نہیں کر رہی تھیں ۔

پتا ہے میں کتنا پریشان ہوگیا تھا ۔۔

وہاج سے وہ ذرا فاصلے پر کھڑی ہوئی تھی ۔

اگر تم تھوڑی دیر میں اوپر نہیں آئی تو میں تمہارے کمرے میں آتے ہوئے ذرا نہیں کتراؤں گا ۔۔

وہاج کے پریشان چہرے کو دیکھ کر نگاہ پھیر گئی تھی ۔

یہ ارتضی بھائی اچانک سے کیسے  ٹپک پڑے تھے ۔

ان کی ہمت کیسے ہوئی تم ہاتھ اٹھانے کی وہ بھی مال میں تمیز نام کی کوئی چیز ہوتی ہے یا وہ بھی اب ختم ہوگئی ہے ان کے اندر سے ۔۔ بدتمیزی سے بولتے ہوئے وہاج کو حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔

پہلی بات یہ مت بھولو کہ جس کے بارے تم اس وقت بات کررہے ہو وہ ارتضی بھائی اور دوسری بات اگر وہ اس تھپڑ کے بجائے اگر میں جان بھی لے لیتے تو بھی کچھ غلط نا کرتے وہ ۔

ارتضی بھائی کی جگہ کوئی بھی بھائی ہوتا تو وہ بھی ایسے اپنی بہن کو کسی اور شخص کے ساتھ دیکھ کر اس بھی زیادہ غلط کرتا ۔۔۔

وہاج کو وہ کہیں سے بھی ڈری سہمی سی رائمہ نہیں لگی تھی جس سے وہاج نے محبت کی تھی یہ تو کوئی اور ہی رائمہ تھی جو اس وقت اس کے سامنے کھڑی تھی۔

رہی بات ہمت کی تو وہ چار سال پہلے اپنی ہمت کا مظاہرہ تمہاری اور میری جان لےکر آرام سے دے سکتے تھے ۔

لیکن نہیں انہوں نے تو اپنی تمیز اور بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور چار سال کی طویل اذیت ناک خاموشی اختیار کی ۔آج وہ وہاج کو لاجواب کرنے کا پکا ارادہ کیے ہوئی تھی ۔

اگر وہ تمیز سے تمہارے ساتھ پیش نا آتے تو ہم دونوں یہاں نا ہوتے ۔۔۔آنسوؤں کو واپس سے اندر دھکیلتی ہوئی وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئی تھی ۔

محبت کرنا گناہ نہیں ہوتا ۔۔۔رائمہ کے ٹھوس لہجے کو محسوس کرتا ہوا وہ محبت کا حوالہ دے گیا تھا ۔

محبت کرنا گناہ نہیں ہے مگر محبت میں صحیح غلط کا فرق نا کرنا وہ گناہ ہوتا ہے ۔۔

اور جو میں کرنے جارہی تھی تمہارے ساتھ مل کر ۔۔

بابا سرکار، ماں سرکار اور اپنے دونوں بھائیوں کی محبت کو فراموش کیے میں تمہارا انتخاب کر گئی تھی ۔

آنسوؤں کی لڑی ٹوٹ کر اس کے رخسار پر گری تھی ۔

یہ سب جاننے کے بعد بھی ارتضی بھائی مجھ سے بات کرتے ہیں مجھ سے آج بھی اتنے ہی پیار سے پیش آتے ہیں ۔۔

مگر آج چار سال بعد پھر میں انہیں واپس سے وہی تکلیف دے گئی ہوں یہ بھی تمہاری وجہ سے ۔۔آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتی وہ بھاگ کر سیڑھیاں اتر گئی تھی ۔

شرمندگی سے سر کو جھکائے کھڑا وہاج نم آنکھوں سے ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھ کر خالی ہاتھ لیے واپس  اپنی منزل کی طرف موڑا تھا ۔۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سنیں ۔۔۔۔وہاج کی آواز پر وہ پیچھے مڑی تھی ۔ 

جی ۔۔۔آپ تو وہی مال والے لڑکے ہیں نا جو اس بیچاری کو اسے کے جلاد بھائی کے حوالے کر کے خود منظر سے ہی غائب ہوگئے تھے ۔وہاج کو دیکھتے ہی ماہین کو وہ یاد آگیا تھا۔

گاؤں میں آئے اسے آج تیسرا دن تھا ۔۔کچھ دیر کے لیے  شاکرہ بیگم سے نظر بچا کر وہ باہر آئی تھی گھر میں بند رکھ اوب گئی تھی۔

ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہی ہیں ۔اس دن کی ساری بات ماہین کو گوشگزار کر گیا تھا ۔

یہ سب مجھے بتانے کا مقصد ۔۔سوال کرتی ہوئی وہ کندھے اچکا گئی تھی ۔

آپ ہی ہیں جو میری مدد کرسکتی ہیں ۔

وہ کیسے ۔۔۔۔

آپ  نے ارتضی شاہ کو باآسانی کنٹرول کرلیا تھا ۔

پلیز پلیز اس بادشاہ جلال کی سنگدلی سے میری محبت کو بچا لیے ۔۔۔

شکل سے آپ بہت سخی لگتی ہیں ۔۔۔

اپنی دال نا گلتے دیکھ وہ مکھن بازی پر آیا تھا ۔

یہ مکھن مجھے نا لگاؤ جاکر اپنے سالے کو لگاؤ اور سخی کی تو وہ تو میں ہوں الحمداللہ ۔۔

تو آپ میری مدد کررہی ہیں ۔۔ماہین کی باتوں سے وہ یہ ہی اخذ کررہا تھا۔

صرف اور صرف اس لڑکی کے لیے ۔۔۔روب جماتی ہوئی وہ راضا مندی  دے گئی تھی ۔

اسے جلاد کے پاس جانا مطلب شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہوگئی۔ 

حیا بھی نہیں ہے ۔دل میں اس جلاد کو سوچ کر وہ گھبرائی تھی ۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کہاں چلی سواری ارتضی شاہ کی ۔۔۔جینز کی پینٹ پر ایش گرے شرٹ پہنے وہ عام روٹین کی طرح تیار ہوکر لیونگ روم کے پاس سے گزرتا ہوا دلاور شاہ کی آواز پر رکا تھا۔

بابا سرکار ڈیری فارم جانے کا ارادہ ہے ۔۔

سر کو جھکائے وہ جیسے اپنا جرم قبول کر رہا ہو اس انداز میں بولے رہا تھا ۔

جاؤ جاؤ ۔۔۔

خدا حافظ ۔۔۔وہ کہہ وہاں رکا نہیں تھا ۔

آپ بھی نا سائین ،دلاور شاہ کو ہنستے دیکھ شاہدہ بیگم مسکرائیں تھیں ۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

انصاف دو ،،،،انصاف دو ،،،،،، 

محبت کے دشمنوں کی اب نہیں چلے گی ۔۔۔۔۔

 ہم معصوموں کو انصاف دو ۔۔

 انصاف دو، ،،انصاف دو  ۔۔۔۔۔۔  

رائمہ اور سنو کیا نام ہے تمہارا ۔۔۔۔گیٹ کے پیچھے چھپے اس لڑکے سے بلند آواز میں نام پوچھ گئی تھی ۔

شاہ ڈیئری فارم  کے مین گیٹ کے سامنے زمین پر التی پلتی مارے وہ اپنا سا دھرنا لگائے بیٹھی تھی۔۔۔

آج وہ شاہ خاندان کی عزت کا جنازہ نکالنے پر تولی ہوئی تھی ۔

اف اللہ اتنا بھی کوئی بزدل ہوسکتا ہے ۔

دل میں سوچتی ہوئی وہ دھرنا بھی اس شخص کے اکسانے پر کرکے بیٹھی تھی جس کے نام تک سے وہ ناواقف تھی ۔ 

وہاج ۔۔۔۔۔وہاج منہ پر ہاتھ رکھے وہ قدرے ہلکی آواز میں جواب دیتا ہوا قدموں کی چھاپ سن کر  واپس سے گیٹ کے پیچھے چھپ گیا تھا ۔

بزدل لوگوں کو محبت نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔

محبت بھی جگرے والوں کا کام ہے تم جیسے بزدلوں کا نہیں ۔۔وہاج کے چھپنے پر چوٹ کرتی ہوئی اپنے دھرنا دینے کے فیصلے پر جی بھر کر پچھتائی تھی ۔۔۔

ارتضی شاہ کی زندگی اور اس کے ڈیئری فارم میں خوش آمدید ۔۔۔مسسز ارتضی شاہ ٹو بی ۔۔۔۔فورتھ  فلور پر اپنے کیبنٹ کی گلاس ونڈو سے ماہین کو دیکھتا ہوا مسکرایا تھا  ۔۔۔

آج دل نے اسے دیکھنے کی چاہ کی تھی اور وہ اس کے سامنے تھی اسے اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا تھا ۔

ٹک ۔ٹک ۔۔۔دروازہ ناک کرتے ہوئے ملازم کے ہاتھ کانپ رہے تھے ارتضی کے کیبنٹ کے اندر جانے کا سوچ کر ۔۔ 

کہ نجانے کون غلطی سی ایسی غلطی اس سے سرزرد ہوگئی تھی جو سائیں سرکار نے بلایا ہے اسے ۔

کم ان ۔۔۔بنا مڑے  ملازم کو اندر آنے کی اجازت دیتا ہوا وہ ماہین کی حرکتوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔۔۔

سائین سرکار وہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے جاؤ اور بی بی کو جا کر کہوں میں بلایا ہے انہیں ۔۔۔ملازم کی بات بیچ میں کاٹتا ہوا ریوالونگ چیئر پر بیٹھا تھا ۔۔۔

ارتضی کا حکم ملتے ہی سکھ کا سانس لیتا ہوا  ملازم سر ہلا کر وہاں سے گیا تھا۔

بی بی آپ کو سائیں سرکار نے بلایا ہے ۔۔۔۔

کیوں ۔۔۔۔بلانے کے نام پر ہی ماہین کے دم خشک ہوئے تھے۔

مال کا منظر آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی مانند چلا گیا تھا ۔۔

ارے جاؤ نا ۔۔ وہاج کی آواز پر ملازم کے پیچھے چلتی وہ اپنے  پسینے سے تر ہوتی ہتھیلیوں کو آپس میں مسلتی ہوئی وہ گھبرا رہی تھی ۔۔۔۔

بس ایک بات یاد رکھ ماہین ۔۔جب تک تو نا چاہے جب تک کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا سمجھی ۔سب سے فاسٹ ماہین ریاض ۔

یااللہ اپنی معصوم بندی پر رحم فرما اور اس جلاد سے میری حفاظت فرما ۔۔۔

ارتضی کے کیبنٹ باہر ماہین کو چھوڑ کر جاتا ہوا ملازم اسے ترس بھری نظروں سے دیکھتا ہوا وہاں سے گیا تھا ۔

آؤ ۔۔۔۔۔۔۔ماہین کے ڈور ناک کرنے سے پہلے ہی وہ بے صبری سے  ڈور کھولے کھڑا تھا ۔۔

حیران ہوتی ہوئی وہ ارتضی کو سائیڈ ہوتے دیکھ  لب دبائے اپنی گھبراہٹ چھپانے کی کوشش کررہی تھی ۔

کیا لیں گی آپ ۔۔۔۔آخری کو تم پہلی بار آئی ہو مجھ سے ملنے ۔

انصاف ۔۔۔۔۔۔چاہیے ۔۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔

توبہ کرو لڑکی انصاف بھی بھلا کوئی کھانے کی شے ہوتی ہے ۔ماہین کی بات پر وہ ناچاہتے  ہوئے بھی ہنس پڑا تھا ۔۔

یہ جلاد ہنستا بھی ہے ۔۔۔ارتضی کو ہنستے دیکھ وہ حیران ہوئی تھی ۔

رہی بات انصاف کی تو یہ میرے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی  ۔۔۔۔۔اگر تم کچھ نہیں لوں گی تو ۔ 

آخر میں گھمبیر لہجے میں کہتا ہوا وہ  ماہین کے حیران چہرے کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔

مجھ سے آپ کرکے بات کریں میں کوئی آپ کی دوست نہیں ہوں ۔۔

ارتضی کے آپ سے تم تک آتے سفر پر چوٹ کرگئی تھی۔

کون کمبخت بنانا چاہتا ہے میرے ارادے تو تمہیں لے کر بہت نیک ہیں ۔

ماہین کی بات کو سیریس نا لیتا وہ الٹا مسکرا کر اسے کلسا رہا تھا ۔

ماہین کو جواب دے کر وہ واپس سے اپنے مغرور چہرے پر سنجیدگی سجائے چیئر پر بیٹھا تھا ۔۔۔

کیا مطلب ہے  ۔۔۔حیرت سے پوچھتی ہوئی وہ ارتضی کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی ۔

پہلی بار آئی ہو دا گریٹ ارتضی شاہ سے ملنے اور بنا کچھ چائے پانی پیے تم فقط انصاف مانگ رہی ہو ۔

تھوڑی بیٹھو کچھ میری سنو کچھ اپنی سناؤ  ۔۔۔ 

کچھ میرے بارے میں پوچھو کچھ اپنے بارے بتاؤ۔۔  

ٹیبل پر کہونی ٹکا کر بیٹھتا ہوا وہ ماہین کے شاکڈ فیس کو دیکھ کر اپنی مسکراہٹ دبا گیا تھا۔

اپنی یہ فالتو کی بکواس اور یہ چائے پانی کی آفر کو اپنے ہی پاس رکھیں کس اور کے کام آئے گی ۔۔۔۔

مجھے فقط انصاف چاہیے ۔۔۔۔ہمت جمع کیے وہ ٹھوس لہجے میں بولی تھی ۔

کس کے لیے انصاف چاہیے ۔۔۔

رائمہ کے لیے کتنا جانتی ہو رائمہ اور وہاج کو ۔۔۔۔۔

مجھ سے زیادہ جانتی ہو ایک بھائی سے زیادہ جانتی ہو تم۔

کرخت لہجے میں پوچھتا ہوا وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

نہیں جانتی مگر جانتے آپ بھی نہیں ہیں ۔۔۔۔مسٹر ارتضی شاہ ۔۔

یا یہ کہنا زیادہ بہتر رہے گا آپ جاننا ہی نہیں چاہتے اپنی غرور اور نام نہاد غیرت کی خاطر ۔۔۔۔۔ارتضی کی لہو رنگ ہوئی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولتی ہوئی وہ پل بھر کے لیے کانپ گئی تھی ۔  

آؤٹ ۔۔۔۔۔ماہین کو کچھ کہنے سے باز رکھتا وہ خود پر ضبط کرگیا تھا ۔

واٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارتضی کے اچانک بولنے پر اسے حیرت ہوئی تھی ۔

آئی سیڈ گیٹ آؤٹ ۔۔

رکنا بھی کون چاہتا ہے ۔۔آپ جیسے سنگدل انسان کے پاس جو فقط لوگوں کے جذباتوں کو اپنی جھوٹی شان اور انا  کی روند دیتا ہے ۔

پر یہ بات رکھیئے گا مسٹر ارتضی شاہ کسی خوشیوں کو مٹی تلے روند دینے والے انسان کو کبھی خوشیاں نصیب نہیں ہوتیں ۔۔ٹھوس لہجے میں کہتی ذرا نا کانپی تھی ۔

نکلو یہاں سے ۔۔۔۔یہاں پر ارتضی کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا تھا اور غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتا ہوا سارا سامان نیچے گرا گیا تھا ۔

کانچ کے ٹکڑوں سے بچنے کے لیے وہ اچھل کر پیچھے ہوئی تھی ۔

نکلو یہاں سے یا بلاؤ گارڈز کو ۔۔سرخ آنکھوں سے ماہین کو گھورتا ہوا وہ غصے دھڑا تھا۔

انسان نہیں وحشی ہیں۔۔

اب اس وحشی کی وحشت اگر تم پر طاری نا کردو تو میرا نام بھی ارتضی شاہ نہیں  ۔۔۔۔۔آؤؤؤٹٹٹٹ۔۔

ارتضی کے بڑھتے ہوئے غصے کو دیکھ وہ فورا سے ہی وہاں اپنی جان بچاتی ہوئی نکلی تھی ۔

کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا غصے سے  انگلیوں سے بال نوچ رہا تھا ۔

جلاد ،سنگدل ،اور اب وحشی ایک ساتھ اتنے لقب وہ بھی اس لڑکی سے پاکر جس کے لیے پہلی بار دل نے بغاوت کا اعلان کیا تھا اس کے منہ سے یہ سب سن کر ارتضی شاہ کرلا اٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔

سکونِ دل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں..

اور ذرا نظر ملے پھر اُنہیں سلام کروں!!!

مجھے تو ہوش نہیں، آپ مشورہ دیجیے...

کہاں سے چھیڑوں افسانہ کہاں تمام کروں!!! 🖤 🥀

ضبط سے سرخ آنکھیں لیے وہ ماہین کو جاتے دیکھ وہ اسے روک بھی نا سکا تھا ۔۔

روکتا بھی کیسے اس کے پاس کون سا اسے روکنے کا جائز حق تھا ۔۔

داخلی دروازے سے سر ٹکائے وہ اسے جاتے دیکھ خود کو  بے بس محسوس کررہا تھا ۔

اتنا سب ہونے کے باوجود بھی وہ لڑکی کے دل میں اپنی محبت نہیں جاگا سکتا تھا ۔مگر اپنے غصے و جنوں کی وجہ سے وہ اس کی نفرت کا ضرور حق دار بن گیا تھا ۔۔

ارتضی شاہ کے ڈر سے اپنے وجود میں اٹھے وسوسوں اور  عجیب سی بے چینی سے جنھجھلاتی ہوئی وہ وہاج کے ساتھ یہاں آنے پر پچھتاتی ہوئی آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتی ہوئی لفٹ سے نیچے آئی تھی ۔

شاہ ڈیئری فارم دیکھ کر اسے کہیں سے ڈیری فارم  گاؤں کا حصہ نہیں لگا تھا ۔۔

ہر طرح کی  مشینیں اور حد درجہ صفائی دیکھ کر حیران رہ وہ حیران رہ گئی تھی۔۔

اب جب وہ ارتضی شاہ کے ہاتھوں ہوئی اپنی تذلیل پر اسے ڈیری فارم  سے نکلنا اسے سب سے مشکل امر لگ رہا تھا ۔

 پیروں میں جیسے چلنے کی سکت ہی نا ہو ایسے تو کبھی اس سے کسی نے بات نہیں کی تھی ۔

ایسا تو نہیں تھا کہ اس نے پہلی بار  کسی کے حق میں آواز  اٹھائی ہو  ۔

وہ تو ایسی ہی تھی دوسروں کے درد کو اپنا مان لینے والی ۔

مگر زندگی میں ایسا پہلی بار ہوا تھا اس کے ساتھ کہ اس کو اس طرح  بےعزت کرکے نکالا گیا ہو ۔

اسے یاد نہیں پڑرہا تھا کہ اسے اس طرح نکالا گیا ہو اس کے ساتھ ایسا کرنے والے ہزار بار سوچتے تھے اس کے معصوم چہرے کو دیکھ کر ۔

مگر ارتضی شاہ کی آنکھوں پر تو فقط جنوں و غصے کی سیاہ پٹی بندھ گئی تھی ۔

اپنی کہی ساری باتیں جو ارتضی شاہ کے غصے وہ جنوں کی وجہ بنی تھی وہ سب فراموش کیے وہ فقط اپنی ہوئی تذلیل پر ماتم کنا تھی ۔۔

آنکھوں میں آنسو لیے نڈھال قدموں سے چلتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر وہ ملازم نظر جھکا گیا تھا جو اسے ارتضی کے کیبنٹ تک چھوڑ کر آیا تھا ۔

اندازہ تو تھا ہی اسے اس سب کا ۔۔۔

مگر ارتضی شاہ کچھ بھی کر گزرنے کی طاقت رکھ سکتا ہے  یہ اسے آج یقین ہوگیا تھا آنسو صاف کرتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر ۔

کیا کہا ارتضی بھائی نے ۔۔۔۔۔اور آپ رو کیوں رہی ہیں ۔۔

سب کچھ  ٹھیک سے ہوا نا یا بھائی نے کچھ ایسا کہہ دیا جو نہیں کہنا چاہیے تھا آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہین کی متورم آنکھیں دیکھ وہاج پریشان ہوا تھا ۔

بزدل انسان ہیں آپ جو شخص اپنی محبت حاصل کرنے کے لیے دوسروں کا کاندھا ڈھونڈتا ہو وہ کبھی بھی اپنی محبت حاصل نہیں کرسکتا ۔اپنی ساری فرسٹیشن وہاج پر نکالتی اسے حیران کرگئی تھی ۔

میں تو حیران ہوں کہ رائمہ کو آپ سے محبت ہو کیسے گئی ۔۔

ایک ایسے انسان سے جو اس کے لیے اسکے بھائی سے لڑنہیں سکتا۔ کسی اور کو بلکہ کسی لڑکی سے مدد مانگتا ہے ۔

شرم آنی چاہیے آپ کو تو ڈوب مرنے کا مقام ہے آپ کے لیے ۔۔۔۔۔لمبا سانس خارج کرتی ہوئی وہ کچھ حد تک پرسکون ہوئی تھی ۔ 

اور وہ  غلط نہیں سہی کر رہے ہیں کیونکہ غلط تو آپ ہیں ۔۔

کون سا بھائی اپنی بہن کا ہاتھ کسی بزدل کے ہاتھ میں دیتا ہے ۔

جو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا وہ دنیا سے کیا خاک لڑے گا اس کی بہن کے لیے۔۔۔جانے انجانے میں ماہین اسے اکسا گئی تھی ۔

محبت کے لیے جذبہ جنون لانا پڑتا ہے ۔خود کو پہاڑ جیسا مضبوط بننا پڑتا ہے جب جاکر محبوب نصیب ہوتا ہے ۔

ایسے ہی محبت حاصل نہیں ہوتی ۔۔۔

تو بہتر ہوگا پہلے خود محبت کرنے کے قابل بنائیں ۔پھر آپ کے منہ سے محبت کی دہائیاں اچھی لگیں گی ۔۔

سہی تو کہہ رہی تو وہ آخر وہ کب ارتضی کے سامنے کھڑے ہونے کی تاب رکھتا تھا۔

وہاج کے شرمندگی سے جھکے سر کو دیکھ وہ وہاں چلی گئی تھی ۔

انجان راستوں پر بہتے آنسوؤں کو صاف کرتی ہوئی اپنے آپ سے عہد کر گئی تھی ۔۔

نا کسی کے معملات میں ٹانگ آڑائے گی اور نا ہی کسی کے لیے اپنے دل میں ہمدردی رکھے گی ۔۔۔

ارتضی شاہ کی دھاڑ کے ساتھ آخر میں کہی بات کو سوچ کر واپس سے آنکھوں سے آنسو پھر سے بہنے شروع ہوئے تھے۔

خدا کرے تمہارا اور میرا کبھی سامنہ نا ہو ارتضی شاہ۔۔

زندگی اگر ماہین ریاض نے کسی شخص سے نفرت کی ہے تو وہ تم ہو صرف اور صرف تم ارتضی شاہ ۔۔

تم انسان نہیں جلاد ہو جلاد ۔۔۔۔

زندگی ان دونوں کو محبت سے پہلے ہی اس دوہرائے پر لے آئی تھی ۔

جہاں مشہورِ سنگدل دا گریٹ ارتضی شاہ محبت کی آگ میں جلنے والا تھا ۔

اور وہین ماہین ریاض خود کی اخذ کی نفرت کی آگ میں ۔۔۔

دونوں کی زندگی اس کٹھن راہ پر آکر رکی گئی تھی۔۔۔

 جہاں ہر قدم پر دونوں کو درد کا سامنا کرنا تھا ۔۔۔

🍁🍂🍁🍂🍁🍂

حیا تم ماہین کے ساتھ نہیں تھی تو پھر ماہین کہاں گئی ہے اور کس کے ساتھ ۔۔۔

حیا کو دیکھ شاکرہ بیگم پریشان ہوئیں تھیں ۔

کیا مطلب ماہین آپی گھر پر نہیں ہیں تو پھر کہاں جاسکتی ہیں ۔۔وہ الٹا شاکرہ بیگم سے سوال کرگئی تھی ۔

یہ ہی تو میں تم سے پوچھ رہی ہوں وہ اگر تمہارے ساتھ نہیں گئی تو کس کے ساتھ گئی ہے ۔۔

یااللہ رحم فرمانا میری بچی پر اسے تو یہاں کے راستوں کا بھی نہیں پتا ۔۔دونوں ہاتھوں میں سر گرائے وہ پریشان ہوئیں تھیں ۔۔

کم از کم انہیں ماہین سے ایسی لاپروائی کی امید نہیں تھی ۔

امو آپ ٹینشن نہ لیں میں کال کرتی ہوں ماہین آپی کو ۔۔شاکرہ بیگم کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ خود بھی پریشان ہوئی تھی ۔

کال تو جارہی پر وہ نہیں اٹھا رہیں ۔۔۔ ماہین کے بارے سوچ کر ہی حیا روہانسی ہورہی تھی ۔

تم ٹرائے کرتی رہو شاید اٹھا لے۔۔ 

یااللہ میری معصوم بیٹی کی حفاظت کرنا ۔۔۔ماہین کو لے برے برے خیالات ان کے ذہن میں آرہے تھے ۔

ان سے مزید پریشان ہوتی ہوئیں دعا گو تھیں ۔

ہیلو ماہین آپی کہاں ہیں یار آپ ۔۔۔

مسلسل چار کالز کے فون اٹینڈ  کرتی ہوئی ماہین حیا کی آواز سن کر رو دی تھی ۔

یااللہ تیرا شکر ہے میرے مالک ۔۔۔

ماہین کا فون اٹینڈ کرنا شاکرہ بیگم تھمی ہوئی سانسیں بحال کرگیا تھا ۔

حیا۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔آجاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ میں مر جاؤں گی ۔۔۔۔

مسلسل رونے کی وجہ سے بھاری ہوتی ماہین کی آواز حیا مشکل سے سمجھ میں آئی تھی ۔

اچھا نا رونا بند کریں یہ بتائیں آپ ہیں کہاں میں آتی ہوں ڈرائیور کے ساتھ ۔

پتا نہیں کیوں مجھے بس رونا آرہا ہے یہ آنسو بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔۔۔کیا کروں میں۔۔۔۔۔معصوم بچوں کی روتی ہوئی فٹ پاتھ پر بیٹھی تھی ۔

اچھا یہ بتائیں کہاں پر ہیں آپ اس وقت ۔۔۔ماہین کی حالت کا سوچ کر ہی حیا کے ہاتھ پیر پھولے تھے۔

مجھے میں پتا کون یہ شہر ہے جہاں پر بورڈز لگے ہونگے ۔۔چڑ کر کہتی اپنی سو سو کرتی ہوئی ناک سے تنگ آئی تھی ۔

اوکے بابا ۔۔۔کوئی جگہ کی پہچان بتا دیں جہاں پر آپ اس وقت ہیں ۔۔۔حیا کی سمجھداری پر شاکرہ بیگم حیران ہوئیں تھیں ۔

یہاں پر تو بس درخت ہی درخت ہیں ۔۔۔۔

ہاں یہاں سے شاہ ڈیری فارم قریب پڑتا ہے اس زیادہ نہیں پتا مجھے ۔۔۔

ٹھیک ہے آپ وہیں رکے میں آرہی ہوں ۔

شاہ ڈیری فارم کا نام لیتے ہی پھر سے ارتصی شاہ کے ہاتھ ہوئی اپنی تذلیل یاد آئی تھی اور آنسوؤں میں روانگی بھی ۔

اللہ کرے ارتضی شاہ گنجی بیوی ملے ۔۔معصوم سی بدعا دیتی ہوئی اپنی غلطی پر پچھتائی تھی ۔

 آج کا دن ہی منحوس ہے پہلے اس وہاج کی باتوں میں آکر جلاد سے پنگا لے لیا اور پھر ڈرائیور کو بھی جانے کا کہہ دیا ۔

آجاؤ حیا  ۔۔۔۔گھٹنوں میں سر دیے حیا کے انتظار میں بیٹھی بھی رو رہی تھی۔

ماہین آپی  ۔۔۔حیا کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھتی ہوئی ماہین حیران ہوئی تھی حیا کے اتنی جلدی آجانے پر ۔

تم سچ میں ہو نا یا میرا وہم ہے ۔

میں سچ میں ہوں ۔ماہین کے آنسو صاف کرتی ہوئی وہ مسکرائی تھی ۔

پر اتنی جلدی کیسے ۔۔حیا کے گلے سے لگی وہ اب شاکڈ تھی ۔

وہ ایسے ہمارا ذرا سے فاصلے پر ہے اس لیے ۔اب چلیں ۔۔۔

ہہمہم۔۔۔۔آنسو صاف کرتی ہوئی وہ حیا کے ہم قدم ہوئی تھی ۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کون پُرسانیں حال ہے میرا،

زندہ رہنا کمال ہے میرا...

توں نہیں تو تیرا خیال سہی،

 کوئی تو ہم خیال ہے میرا...

میرے اعصاب دے رہے ہیں جواب..

حوصلہ کب نڈھال ہے میرا...

چڑھتا سورج بتا رہا ہے مجھے..

بس یہی سے زوال ہے میرا...

سب کی نظریں میری نگاہ میں ہیں..

کس کو کتنا خیال ہے میرا !!!! 🖤 🥀

کیسا رہا دن گاؤں کے ڈیری فارم میں ۔۔دلاور شاہ کی مسرور کن آواز سن کر ان کے سامنے وہ نظریں جھکائے کھڑا ہوا تھا ۔

اچھا رہا ۔۔۔دلاور شاہ کر حیران چھوڑ وہ مختصر سا جواب دیتا وہ اپنے روم میں جانے کے لیے بڑھا تھا ۔

حیدر کی آواز پر بنا مڑ وہ رک گیا تھا ۔

لندن سے کال آئی تھی آپ نے کچھ مشینوں کا آرڈر دیا تھا کیا ۔

ہاں کل دیا تھا آرڈر کنفرم ہوگیا کیا ۔۔۔خود کی کیفیت کو چھپانے کی کوشش میں وہ کامیاب ٹھہرا تھا ۔

جی بھائی ہوگیا ہے اگر کہہ تو اس بار میں لندن  چلا جاتا ہوں   ۔۔

ویسے بھی کافی مہینے ہوگئے ہیں گئے ہوئے ۔۔۔ارتضی کی پیٹھ کو دیکھتا ہوا وہ حیران ہوا تھا ۔

ہاں کیوں نہیں ۔۔حیدر اور دلاور شاہ کو حیران چھوڑ وہ وہاں سے ہوا کے جھونکے کی غائب ہوا تھا۔۔

آپ کو کچھ پتا ہے بابا سرکار کہ کیا ہوا ہے ارتضی بھائی کو ۔

دلاور شاہ کے برابر میں آکر بیٹھتا ہوا حیدر ارتضی کی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر پریشان ہوا تھا ۔

صبح ڈیری پر جاتا بڑا خوش دِکھ رہا تھا مگر اب نجانے کیوں مجھے تھوڑا پریشان لگ رہا ہے ۔

اللہ خیر کرے بس سب ٹھیک ہوا ہو ڈیری میں کہیں کسی ملازم کی شامت نا لگا کر آیا ہو ۔۔دلاور شاہ کی پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا ۔

یہ تمہیں کیا اچانک سے لندن جانے کی پڑگئی ۔۔۔۔ارتصی کو چھوڑ وہ گھوم کر  حیدر پر آرکے تھے۔

 گندمی رنگت کا مالک حیدر شاہ اپنی صوبر پرسنلیٹی اور مستقل مزاج شخصیت کا حامل تھا ۔

حیدر شاہ کی شخصیت پر چار چاند لگاتی اس کی بات بہ بات مسکرانے کی عادت ہمیشہ ہی اسے شاہ خاندان سے مختلف بناتی تھی ۔

ایسے ہی دل چاہ رہا تھا جانے ۔۔۔اپنے مخصوص صوبر انداز میں مسکراتے ہوئے سر جھکائے بیٹھا تھا ۔

یہ جو تمہاری ناک پر تل ہے نا تمہارے دادا سرکار کی یاد دلاتا ہے مجھے ۔۔۔۔حیدر کی ستواں کھڑی ناک دباتے ہوئے وہ مسکرائے تھے ۔۔

آپ بھی نا بابا سرکار ۔۔۔۔ دادی سرکار پر ملتے ہیں اور کبھی دادا سرکار پر ۔۔۔حیدر کی بات پر سیٹنگ ایریا میں دلاور شاہ کا جاندار قہقہ گونجا تھا ۔

اب حساس دل ہی اتنے ہو مجال ہے جو کسی ملازم پر چِلاؤ بلکل اپنی اماں سرکار کی طرح اور پھر یہ جو تمہاری ناک پر تل ہے بابا سرکار کی طرح تو بتاؤ کیسے تمہیں ایک پر ملاؤں ۔۔۔

تم تو مجھے بہت عزیز ہو حیدر شاہ اگر ارتضی شاہ دلاور شاہ کا دل ہے تو تم اس دل کی دھڑکن ہو ۔۔۔دلاور شاہ کی باتیں سن کر حیدر ان کاندھے پر سر رکھے مبہم سا مسکرا رہا تھا ۔

جب اچانک نظر سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ایک ساتھ دو سے تین اسٹیپ کو پھلانگ کر سیاہ سوٹ میں گیلے بالوں کو بنا ڈرائے کیے آتے ارتضی کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا ۔۔۔

جو کچھ دیر پہلے اپنے روم میں گیا تھا اور اب فریش ہو کر ان دونوں کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔

غلام رسول ۔۔۔۔۔بلند آواز میں پکارتا ہوا وہ بابا اور حیدر کو خود کو دیکھتے پا کر جبراً مسکرایا تھا ۔

خیر ہے جو غلام رسول کو بلا رہے ہو ۔۔۔۔

خیر ہی خیر ہے بابا سرکار بس مردان خانے کی صفائی کروانی تھی میرے کچھ دوست آرہے ہیں ۔

 اس لیے یاد کیا ہے اسے ۔۔۔

دلاور شاہ کے سامنے رکھے دیوان پر بیٹھتا ہوا وہ عام سے لہجے میں بولا تھا ۔

ارتضی کے جواب پر دلاور شاہ خاموش ہوئے تھے ۔

بھائی یہ آپ کی آنکھیں سرخ کیوں ہورہی ہیں ۔۔حیدر کے سوال پر وہ پھیکا سا مسکرایا تھا ۔

رات بھر نیند نہیں آئی اور اب تھکن کی وجہ سے اور سرخ  ہوگئی ہیں۔ حیدر سے نظریں چرائے وہ صاف جھوٹ بول گیا تھا ۔

بہت تیز رفتار ہے تمہاری اور کان بھی بڑے تیز ہیںتمہارے  ۔۔۔

جب ہی تمہیں ایک آواز سنائی نہیں دیتی  ۔۔۔سر جھکائے غلام رسول پر لفظوں کے تیر چلا رہا تھا ۔

معذرت سرکار سائین ۔۔

بس یہ ہی لفظ بولنا سیکھ لیا تم لوگوں نے ۔۔۔

وقت پہ تم لوگوں کی تنخواہ حاضر ہو مگر تم لوگ ایک آواز پر حاضر نہیں ہوسکتے ۔۔  

کانوں میں روئی ٹھونسی یا گھنٹوں میں پانی پڑگیا تھا۔۔۔اپنے اندر اٹھے طوفان سے وہ سب تہس نہس کردینے کا خواہ تھا ۔

سرکار وہ ۔۔۔حیدر کو مددی  نظروں سے دیکھتا ہو غلام رسول ارتضی شاہ سرخ قہر برساتی آنکھوں سے ڈر رہا تھا۔

غلام رسول تم جاؤ اور مردان خانے کی کرواؤ ۔۔۔حیدر کی اجازت پاتے ہی غلام رسول وہاں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوا تھا۔۔۔

حیدی کیا تھا یہ ۔۔۔۔۔

یہ جو تمہاری رحمدلی ہے یہ پی انہیں سر پر چڑھا رہی ہے ۔

اچھے سے جانتا تھا حیدر کہ ارتضی اس پر ذرا سا غصہ ہو کر خاموش ہوجائے گا ہوا بھی کچھ ایسا ارتضی اپنے دکھتے سر کو انگلیوں کے پوروں سے دباتا ہوا دیوان پر دراز ہو گیا تھا ۔

بھائی سر میں درد ہورہا ہے ۔۔چائے کا کہہ دوں ۔۔۔

ارتضی کو دیوان پر لیٹتے حیدر اس کے پاس آیا تھا ۔

یہ بھی پوچھنے والی بات ہے حیدر جاؤں اور اپنی ماں سرکار یا رائمہ کو کہنا چائے بنانے کا۔۔۔۔آنکھوں پر کونہی رکھے لیٹے ارتضی کو دیکھ دلاور شاہ فکر سے بولے تھے۔ 

ارتضی اپنے روم میں چلو وہاں پر اچھے سے آرام کرلینا ۔۔

نہیں بابا سرکار میں ٹھیک ہوں آپ جائیں جاکر آرام کریں چائے پی کر ٹھیک ہوجائے گا ۔۔

سردرد تو ہے ۔۔۔۔دلاور شاہ کے فکرمندانہ انداز پر وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

میری سنتے ہی کب ہو ۔۔۔۔۔دلاور شاہ کے شکوے پر مسکراتا ہوا انہیں جاتے دیکھ  واپس سے آنکھیں موند گیا تھا ۔۔۔ 

نوری تم جاؤ اور ارتضی سائین کا سر دباؤ ۔۔۔وہاں سے گزرتی ہوئی نوری کو دیکھ حیدر حکم کرتا ہوا وہاں سے گیا تھا ۔ 

جی سرکار سائین۔۔۔ارتضی کا نام سنتے ہی سر کو جھکائے وہ مسکرا کر وہاں سے گئی تھی۔

پیشانی پر نرم ملام دباؤ محسوس کرتا ہوا ارتضی شاہ نیند کی وادی میں اترتا ہوا مسکرا رہا تھا ۔۔

سرکار سائین سکون مل رہا ہے آپ کو ۔۔۔ارتضی کو اتنے قریب سے مسکراتے نوری نے مسرور کن لہجے میں پوچھا تھا ۔

 نیند میں ہونے کی وجہ سے آواز  کو پہچانتا ہوا وہ اپنی دونوں  بھنویں سکیڑ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔

سرکار سائین۔۔۔۔۔نوری کے دوسری بار پکارنے پر فورا سے آنکھیں کھولتا ہوا اپنی پیشانی پر رکھتا نوری کے ہاتھ کو غصے سے جھٹک گیا تھا ۔۔

ہمت کیسے ہوئی تمہاری ۔۔۔میں نے کہا تھا کہ میرا سر دبانے کے لیے ۔۔۔غصے سے دھاڑتا ہوا نوری کے سر پر آ دوڑا تھا۔

س۔۔۔س۔۔۔سر۔۔۔۔۔ککککا۔۔ر۔وووہہہ  ۔۔ارتضی کے خوف سے وہ سہم گئی تھی ۔

نکلو میری نظروں کے سامنے ۔۔۔جاؤ ۔۔۔منہ پر ڈوپٹہ رکھتی ہوئی وہ سسکی دبائے وہاں سے بھاگی تھی ۔۔

اندر آتی شاہدہ بیگم کو اشکبار نظروں  سے دیکھتی ہوئی وہ گئی تھی ۔

کیا ہوا شاہ۔۔۔ارتضی کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ نوری کو روتے دیکھ پریشان ہوئیں تھیں ۔

یہ لڑکی میری نظروں کے سامنے نا آئے دوبارہ ۔۔۔۔

ورنہ میں وہ کر گزروں گا جس کا کوئی تصور میں بھی سوچ سکتا ۔۔۔

 آپ اچھے سے جانتی ہیں کہ میں اپنی زبان کا کتنا پکا ہوں۔  دانت دبا کر ضبط سے بولتا ہوا وہ شاہدہ بیگم کو حیران چھوڑ وہاں سے  چلا گیا تھا ۔ 

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

جب سے آئیں ہیں خاموش بیٹھی ہوئی ہیں ۔۔کیا بات ہوئی ہے اور کیوں اکیلی گاؤں گھومنے گئیں تھیں ۔

اور یہ کیا طریقہ تھا آپ گاؤں کے راستوں  سے انجان ہونے کے باوجود ڈرائیور کو کیوں واپس بھیجا تھا ۔

جب سے ماہین اس کے ساتھ آئی تھی جب بس خاموش بیٹھی ہوئی تھی ۔

اور اب جب وہ اسے زبردستی کھانا کھا کر اپنے روم میں آئی تھیں اب تو حیا کا ضبط جواب سے گیا تھا ۔

دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر پوچھتی ہوئی ماہین کی اتنی طویل خاموشی سے زچ آئی تھی۔

یار کوئی لڑکی اتنی دیر تک کیسے خاموش اور مسلسل رو سکتی ہے۔۔

اگر تم پر اس وحشی کی وحشت طاری نا کردو تو میرا نام بھی ارتضی شاہ نہیں ۔۔۔بار بار گونجتی ارتضی کی آواز سے وہ خوفزاہ ہورہی تھی ۔

ماہین ۔۔۔۔۔دونوں کاندھوں کو بری طرح جھنجھوڑتی ہوئی حیا چلائی تھی ۔

حیا ۔۔۔۔۔۔بہت برا ہے  ۔۔۔۔۔۔۔وہ  ۔۔۔۔۔حیا کے گلے لگی وہ پھر سے رونا شروع ہوئی تھی ۔

پتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔۔۔کرنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ۔۔۔۔۔

سسکیوں کے ساتھ بولتی ہوئی اس کے بارے میں سوچ کر اپنی جان ہلکان کررہی تھی ۔

کون  برا ہے ماہین نام کیا ہے اس کا۔۔۔اور کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا آپ کے ساتھ میں ہوں نا امو بابا ہیں چاچو بھی ہیں تمہارے ساتھ تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے  ۔۔۔۔

ماہین کے بالوں میں ہاتھ چلاتی ہوئی وہ اسے پرسکون کرنی لی کوشش کررہی تھی ۔

تم مجھے اکیلا مت چھوڑ کر جانا بلکہ میں بابا کو کہتی ہوں ہم واپس شہر چلے جاتے ہیں ۔۔۔حیا سے الگ ہوتی ہوئی وہ اپنے آنسو صاف کر رہی تھی۔۔

مگر وہ تو شہر میں آجاتا ہے ۔۔۔ہائے اللہ میں کہاں جاؤں ۔۔۔گھٹنوں میں سر دیے سسکیوں سمیت رو رہی تھی ۔

ماہین ۔۔۔۔۔ریلکس کریں کچھ نہیں ہوگا ۔

کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تمہارا سمجھی صرف تمہیں ڈرایا دھمکایا ہوگا اس نے ۔۔۔

ایسے دھمکی نہیں دی جاتی ۔۔۔حیا کی بات کی وہ نفی کرگئی تھی۔

اسے آپ نے کچھ کہا تھا اسے۔۔جواب میں ماہین مثبت میں گردن ہلا گئی تھی ۔۔۔

بس پھر اس نے آپ کو  ڈرایا ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔

سمجھی آپ چلیں اب آنسو صاف کریں ۔۔۔۔ماہین کے  آنسوؤں کو صاف کرتی ہوئی وہ مسکرائی تھی ۔

سچ میں اس نے ڈرایا تھا مجھے کچھ نہیں کرے گا وہ میرے ساتھ  ۔۔۔

نہیں کرے گا نام تو بتائیں اس کا ۔۔۔حیا کی باتوں سے وہ کافی حد تک پرسکون ہوگئی تھی ۔

انسان روپ میں جلاد ہے ۔۔۔متورم آنکھوں لیے وہ حیا کو حیران کرگئی تھی ۔

اچھا چھوڑیں نا مجھے نا نیند آرہی ہے ہم سوتے ہیں ۔۔ماہین کو ہاتھ پکڑ کر  اٹھاتی ہوئی اس شخص کو سوچ رہی تھی ۔

کون ہے وہ جلاد ۔۔۔۔۔نیند میں ماہین کو سسکیاں لیتے دیکھ وہ پریشان ہوئی تھی ۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

مردان خانے لگی آج ارتضی اور اسے دوستوں کی محفل کو شروع ہوئے ابھی کچھ ہی وقت ہوا تھا ۔۔ کہ غلام رسول کا بیٹا رحیم دروازے پر کھڑا ہوا ارتضی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔

یہاں کیا کر رہے ہو تم جاؤ۔رحیم کو دیکھتے ہی ارتضی نے نرم لہجے میں اسے جانے کو کہا تھا ۔

مگر اسے ٹس سے مس نا ہوتے دیکھ وہ اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا رحیم کو ہاتھ سے پکڑ باہر لایا تھا۔

بچے بڑوں کی محفل میں نہیں آتے جاؤں ۔۔آرام سے کہتا ہوا اسے پھر بھی نبھاتے دیکھ غلام رسول کو آواز لگا گیا تھا ۔ 

جی سرکار ۔۔رحیم کو یہاں  دیکھ غلام رسول جان گیا تھا کہ اسے یہاں کیوں بلایا گیا تھا ۔

اپنے ان بچوں کو مردان خانے سے دور رکھنااگر میں نے ان میں سے کسی کو بھی اردگرد بھٹکتے ہوئے دیکھا نا تو تمہاری اس حویلی میں آخری رات ہوگی سمجھے ۔۔۔

پلر کے پیچھے چھپے بچوں کو دیکھ کر ارتضی کا خون خولہ ہوا تھا ۔

جی سرکار ۔۔۔مردان خانے میں ارتضی کو جاتے دیکھ غلام رسول اپنے شرارتی بچوں پر چاہ کر بھی غصہ نا کر سکا تھا۔۔

کیا ہورہا ہے یہاں پر ۔اپنے کان میں سرگوشی سنتا ہوا رحیم اپنے دل  پر ہاتھ رکھتا ہوا پیچھے مڑا تھا مگرحیدر شاہ کو دیکھ مسکرایا تھا ۔

شکر حیدر سائین آپ تھے ورنہ میں تو ڈر ہی گیا تھا ۔

اور کیوں ڈر گئے تھے ۔گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا حیدر رحیم کے معصوم چہرے کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔

میں سمجھا سرکار سائیں ہونگے ۔۔۔

اوہ  تو ارتضی بھائی سے چھپا جارہا ہے ۔رحیم کا ہاتھ پکڑ کر چلتا ہوا وہ گارڈن میں آیا تھا ۔

ویسے کیوں چھپ کر دیکھا جارہا تھا انہیں ۔۔رحیم کو اپنی گود میں بیٹھتا ہوا مارے تجسس کے پوچھ رہا تھا ۔

وہ مجھے اچھے لگتے ہیں ۔۔بلکل ہیرو کی طرح ۔۔شرما کر منہ پر ہاتھ رکھ گیا تھا ۔

میں ہیرو نہیں لگتا ۔۔مضنوئی ناراضگی میں پوچھتا ہوا وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرگیا تھا ۔

آپ تو پیارے والے معصوم ہیرو ہو نا ۔۔۔۔حیدر کے چہرے کو اپنے ننھے ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتا ہوا وہ شرارت مسکرایا تھا ۔

ڈرامے باز ۔۔۔۔۔رحیم کی حرکت پر اسےجی بھر کر پیار آیا تھا ۔

ارتضی بھائی سے دور رہا کرو انہیں تنگ نہیں کیا کرو ۔۔۔

اچھے بچے بڑوں کو تنگ نہیں کرتے ۔۔۔

جی ۔۔۔۔حیدر کی گود سے اتر کر بھاگ گیا تھا ۔

کھلی فضا میں سانس لیتا ہوا حیدر اپنی بند آنکھوں کے پردے پر لہراتے عکس کودیکھ کر مسکرایا تھا ۔

یہ بچہ کون تھا شاہ ۔۔ارتضی کو رحیم کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے جاتے ہوئے دیکھ سب حیران ہوئے تھے ۔۔۔

غلام رسول کا بڑا بیٹا تھا ۔۔۔۔۔بدمزگی سے جواب دیتا ہوا وہ اپنی جگہ پر آبیٹھا تھا۔

سمجھ سے باہر ہے ان غریب لوگوں کے کھانے کے لیے گھر میں دانے نہیں ہوتے اوربچوں کی یہ ایک لمبی قطاریں  کھڑی کرلیتے ہیں ۔۔۔

ایسے میں نا ٹھیک سے بچوں کی پرورش کرپاتے ہیں  اور نا  ہی اچھی تعلیم دلوا پاتے ہیں ۔۔۔۔غلام رسول کے چھوٹے بچوں کو سوچتا ہوا وہ پریشان ہوا تھا ۔۔

ہمارے پاس اتنا سب ہونے کے باوجود بھی ہم دو سے تین بچے کرتے ہیں یار ۔۔

کیونکہ ہمیں ان کے بہتر مستقبل کی فکر ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو بس کرکٹ ٹیم بنانے سے مقصد ہے ۔۔

بچوں کے فیوچر سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے ۔۔۔

بلکل سہی ۔۔۔۔ارتضی کی بات پر سب پہلے اسد نے ہامی بھری تھی وہ جو خود بھی اپنے ملازموں کے بچوں کو دیکھ یہ ہی سوچتا تھا جو ارتضی نے بات کہی تھی ۔

اب تو حکومت نے بھی کہہ دیا ہے چھوٹا گھرانہ خوشحال پاکستان ۔۔۔

شیراز کی بات پر سن کر ارتضی  مسکرایا تھا ۔۔

پر حکومت کی سنتا کون ہے ۔۔۔

میں نے سنی ہے نا صرف دو ہی بچے ہیں میرے ۔۔۔ریحان ملک اپنی بات پر قہقہ لگاتا ہوا سب کے  چہروں پرمسکراہٹ بکھیر گیا تھا۔۔۔۔

یہ محفل ساتھ بندوں پر مشتمل تھی جس میں ارتضی شاہ بھی شامل تھا ۔۔۔

کہنے کو تو سب  ارتضی کے دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے ۔۔۔۔

مگر ارتضی شاہ کا ان میں سے کوئی دوست نہیں تھا سب مخالف تھے ایک دوسرے کے ۔

ایک شاعر نے بہت خوب کہا ہے ۔۔۔۔۔

یہ دنیا ہے صاحب ۔۔۔یہاں سب ۔۔۔۔۔۔۔۔

 تیرے منہ پہ تیرے میرے منہ پر میرے ۔۔۔

یہاں بھی کچھ یہی حال تھا بظاہر تو آج ایک ساتھ محفل لگائے بیٹھے تھے۔۔۔

 یہ سب مرد حضرات  بس ایک موقعے کی تاک میں تھے ارتضی شاہ کی دکھتی رگ پر پاؤں رکھنے کے لیے۔۔۔

جس کا اب تک ارتضی کی طرف سے  کوئی بھی موقع فراہم نہیں ہوا تھا ۔۔

ایک دوسرے کے لیے دل میں کینہ و بغض پالے ہوئے لبوں پر شاطرانہ مسکراہٹ سجائے بیٹھے تھے ۔

ارتضی کی طرف سے کوئی موقع نا پاتے دیکھ سراج کی برداشت جواب دے گئی تھی ۔

بڑے عرصے بعد تمہیں یہاں  دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ارتضی شاہ ۔۔

ایسا کیا ہوا تھا کہ سیاست میں آنے کا اعلان کروا کر تم خود لندن میں آباد ہوگئے ۔۔خلوص میں چھپے طنز کو سمجھتا ہوا ارتضی شاہ مسکرایا تھا ۔

وہ کیا ہے نا کچھ لوگ وقت کے ساتھ بدلنے کے بجائے ویسے ہی رہتے ہیں ایک ہی جگہ پر ۔۔۔۔جو کبھی نہیں بدل سکتے ۔۔۔میٹھا سا طنز اب کی بارارتضی شاہ کی طرف سے آیا تھا ۔

اور رہی بات سیاست کی تو مجھے اس میں ذرا انٹرسٹ نہیں ہے ۔۔۔۔

جو چیز دل کو نابھائے میں اسے کرنے سے ذرا گریز ہی کرتا ہوں ۔۔۔بڑے ہی تحمل سے بولتاہوا وہ اپنی نشست پر ریلکس ہو بیٹھا تھا۔

انٹرسٹ نہیں ہے تو لے لو ویسے بھی تمہاری تو بڑی شریں زبان ہے ۔۔

جس سے تم کبھی بھی کسی کو بھی پیار پیار سے لتاڑ کر رکھ دیتے ہو ۔۔۔۔ سراج کی بات پر ارتضی شاہ کا بلند باک قہقہہ مردان خانے میں گونج اٹھا تھا ۔۔۔

شریں لہجے اور چاپلوسی کرنے میں  دن اور رات کا فرق ہے سراج اور مجھے شوق نہیں ہے کہ میں کسی کے جمے جمائے پیر اکھاڑ دوں ۔۔۔۔۔

الحمداللہ مٹی کو سونے کردینے والے نصیب سے نوازا ہوا ہے  خداتعالی نے مجھے ۔۔۔۔ تشکرانہ انداز میں بولتا ہوا وہ سب کو پل بھر کے لیے خاموش کروا گیا تھا ۔

ویسے ہی بہت برا ہوں میں کچھ خاص اچھائی نہیں ہے مجھ میں ۔۔دل میں سوچتا ہوا وہ تلخ مسکرایا تھا۔

اور پھر میں اپنی خاطر کسی کی نظر میں برا نہیں بننا چاہتا۔۔۔۔۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھے وہ بڑے ہی آرام سے سراج کو اپنی قابلیت کا آئینہ دیکھا گیا تھا ۔۔

اچھا تو یہ میڈیا میں تمہارے سیاست میں آنے کی خبریں کیوں گردش کررہی ہیں ۔۔۔اصل بات پر آتے ہوئے سراج کے ساتھ سب ارتضی کے جواب کے منتظر تھے آخر وہ لوگ آج آئے ہی اس لیے تھے۔

ایسی بات ہے ۔۔۔۔ارتضی خود حیران ہوا تھا میڈیا میں اپنے سیاست کی خبر کے بارے میں  سن کر ۔

ریکٹ تو تم ایسے کررہے ہو جیسے تمہیں کچھ علم ہی نا ہو ۔۔۔

ارتضی کے انداز پر بلال خان نے بھی میدان میں انڑی دی تھی ۔

میرے سیاست میں آنے کی خبر تم لوگوں کو  کیوں بے چین کررہی ہے ۔۔۔

سیاست دانوں کی فیملی سے ہوں تو جب چاہے آرام سے آسکتا ہوں ۔۔۔دونوں ہاتھ صوفے کی پشت پر رکھتا ہوا ان سب کے کڑے تیوروں کا جائزہ لیتا ہوا وہ دلاور شاہ کے نئے کارنامہ کو تاسف سے سوچ کر مسکرایا تھا ۔۔۔

چار سال پہلے بھی یہاں سے جانے کی سب سے بڑی وجہ سیاست بنی تھی اور یہ سب جاننے کے باوجود بھی آپ نے پھر سے۔۔۔۔۔

 ارتضی شاہ ان لوگوں میں سے ہر گز نہیں  ہے جو وقت گزرنے کے باوجود ایک ہی جگہ پر ٹھہرا رہ جائے ۔۔۔

بلکہ میرا شمار تو سمندر کی شوخ لہروں میں کیا جاتا ہے ۔۔۔۔

کب اپنا رخ موڑ لوں مجھے خود پتا نہیں چلتا ۔۔۔۔اپنی ذہن میں چلتی سوچوں کو بنا کسی پر ظاہر کیے وہ ان سب کے سکت  چہروں  کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔۔

ارے چھوڑو یہ سیاست کی باتیں اتنے عرصے بعد ہم سب ایک ساتھ ہیں ۔۔۔اپنے خالص دوغلے پن پر اترتا ہوا ریحان بات بڑھ نا جانے کے ڈر سے بولا تھا ۔۔۔

ارتضی شاہ کے ساتھ کی بحث میں نقصان تو ان کا ہی ہونا تھا ناکہ ارتضی کا ۔۔

اس کا تو کوئی بال بھی باکا نہیں کرسکتا تھا ۔

بڑی سونی محفل کا اہتمام کیا ہے تم ارتضی شاہ نا شراب نا ہی شباب ۔۔۔۔ریحان کی بات پر سب متفق ہوئے تھے ۔

شراب تو پھر بھی مل سکتی ہے تم سب کو مگر شباب کا خیال ذہن سے نکال دو کیونکہ یہ ارتضی شاہ کی موجودگی میں ہر گز نہیں مل سکتا ۔۔۔۔اپنے مخصوص انداز میں بولتا ہوا وہ ہری جھنڈی دیکھا گیا تھا ۔

بڑا آیا مولوی تو مولوی کا بیٹا ۔۔۔۔ارتضی کی بات کو تمخسر میں اڑاتا ہوا اسد بد مزہ ہوا تھا ۔

پتا ہے سب سے پہلے تم مولوی ہی جہنم میں جاؤں گے۔۔۔۔ارتضی کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتا ہوا وہ بے رونق محفل کا سوچ کر کرلا رہا تھا۔ 

اتنا یقین  ذرا مجھے بھی تو پتا چلے۔۔۔ شیراز کی بات پر ارتضی کو ذرا حیرانی نا ہوئی  تھی ۔اچھے سے جانتا تھا کہ وہ ان سب کی دکھتی رگ پر پاؤں رکھ گیا تھا ۔۔

پتا ہے قیامت والے دن ہم سب پیچھے کھڑے ہونگے اور مولوی سب پہلے جہنم میں جائے گے ۔۔۔۔اور ان مولویوں میں سب سے آگے ہوگے تم ۔۔۔۔

شیراز کی بات فلک شگاف قہقہ لگاتا وہ حیران ہوا تھا ۔۔۔۔

ہر جگہ میں جب تم لوگوں سے آگے رہتا ہوں تو وہاں پر بھی رہنا میرا حق بنتا ہے ۔۔۔۔ارتضی کے انداز پر سب مسکرائے تھے مگر اگلے ہی لمحے سب کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی ۔

لو بھئی حق بنتا ہے میرا تم لوگوں کو جہنم کی راہ دیکھانے کا پھر میرے پیچھے پیچھے چل کر جہنم تک جاؤ گے

اور پھر تم لوگ جہنم میں رونق لگاتے رہنا اور میں اپنے رب کو راضی کرکے  جنت میں بیٹھ کر  تم لوگوں کے تماشے دیکھ کر ہنستا رہوں گا ۔۔۔اپنا قہقہے ضبط کرتا ارتضی شاہ کی حد درجہ سنجیدگی میں کہی بات پر سب اپنا منہ سا لے کر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔

ابھی ان پر گزارا کرو میں اور منگواتا ہوں ۔۔۔۔شراب کی کئی بوتلیں ان سب کی طرف بڑھاتا ہوا خود شراب پینے سے گریز کیے ہوئے تھا۔

ان کو شراب پانی کی طرح پیتے دیکھ اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا وہ غلام رسول کو آواز لگا گیا تھا جو مردان خانے کے باہر کھڑا ارتضی شاہ کے حکم کا منتظر بس حکم ملنے کی دیری تھی وہ فورا سے حویلی کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کہاں ہو ۔۔۔۔۔ماہین کو گہری نیند میں سوتے دیکھ وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑی کے پاس آ کھڑی ہوئی تھی ۔۔

آسمان پر ابھرے چاند کو دیکھ کر وہ جب بھی اپنی پریشانی ختم نا ہوتے دیکھ بھی وہ حیدر کا نمبر ڈائل کرگئی تھی ۔

جس سے محبت ہوتی ہے اس کے ساتھ اپنی ہر پریشانی شیئر  کرکے انسان پرسکون ہوجاتا ہے ۔

یہ کیا بچکانہ سوال ہے حیا گھر پر ہی ہوں ۔۔۔۔گارڈن میں اکیلے بیٹھا ہوا حیدر اپنی خیالی دنیا میں خود کو اس لڑکی  کے ساتھ تصور کرتا ہوا مسکرا رہا تھا ۔جس کے نام تک سے وہ ناواقف تھا۔۔ 

حیا کی کال اسے اس وقت کسی دشمن سے کم نہیں لگی تھی۔

سوری اگر تمہیں پریشان کیا ہوا ہو تو ۔۔۔

کر تو دیا ہے اب کیا سوری ۔۔۔حیدر کا سرد رویہ اس کے درد میں اور اضافہ کرگیا تھا ۔۔۔

ایم سوری دوبارہ سے تنگ نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔خدا حافظ ۔۔

دانتوں تلے لب دبائے وہ کال ڈیسکنیٹ کرگئی تھی ۔۔۔

ماہین کی بند آنکھیں جو نیند میں ہونے کے باوجود بھی لرزتی پلکوں کو اداسی سے دیکھ کر ان پر لب رکھ گئی تھی ۔۔

حیا حمدان بخاری کو آپ سے زیادہ کوئی بھی عزیز سے نہیں ہوسکتا پھر چاہے میرے سامنے حیدر شاہ ہی کیوں نا ہو ۔آنسوؤں  کی لڑی ٹوٹ کر حیا کے رخسار پر گری تھی ۔

معمول کے حساب سے آج حیا کے لہجے میں کھنکھی نا محسوس کرکے حیدر اپنے رویے پر پشیمان ہوا تھا ۔۔۔

کئی بار حیا کا نمبر ٹرائے کرنے کے باوجود فون بند جارہا،تھا ۔۔

یہ کیا کردیا حیدی ملکہ جذبات کو ناراض کردیا تو نے ۔

کوئی نہیں کل صبح اسے گھر جاکر منا لوں گا ۔۔۔۔سونے کے ارادے سے اٹھتا ہوا وہ اپنا فون سائیڈ جیب میں ڈال کر حیا کو سوچ کر مسکرایا تھا ۔

وہ سرکار سائیننے لوازمات منگوائے ہیں مردان خانے میں ۔

ارے غلام رسول تمہارا بیٹا رو رہا تھا تمہیں یاد کرکے جاکر اسے چپ کرواؤ میں جب تک ٹرے تیار کرتی ہوں ۔۔

اماں رشیدہ کی بات سنتا ہوا غلام رسول پریشان ہوتا سرونٹ کوارٹر کی طرف گیا تھا ۔۔

او نوری اری او نوری ادھر جلدی سے ۔۔۔نوری کو آواز لگاتی ہوئی اماں رشیدہ پرسوچ انداز میں مسکرائی تھیں ۔

کیا ہے اماں ۔۔ارتضی شاہ کی بے رخی و سنگدلی سے پیش آنے پر صدمے میں اپنے بستر پر پڑی نوری اماں کی آواز پر کچن میں آئی تھی ۔

یہ لے اور جا مردان خانے میں دے آ ۔۔ٹرے نوری کی سمت بڑھاتی ہوئی وہ نوری کو حیران کرگئی تھیں ۔

پر میں اور وہ مردان خانے میں ۔نا اماں میں نہیں جاؤں گی ۔۔

۔اے پاگل پن نا کر سب بڑے اور نوجوان لوگ ہیں مردان خانے  شاید تیری خوبصورتی سے ہمارے نصیب جاگ جائیں ۔

نہیں اماں یہ غلط ہے اور سائین سرکار ۔۔۔نوری منمنائی تھی۔

کیا ہوا میرے بیٹے کو ۔۔۔اپنے کمرے میں داخل ہوتا ہوا غلام رسول اپنے بیوی بچوں کو سوتے دیکھ اماں رشیدہ کی غلط بیانی سوچ کر پریشان ہوا تھا ۔

کچھ نہیں ہوتا اور سائین  سرکار نے ہی بلوایا ہے تجھے ۔نوری کے انکار پر جھوٹ کا سہارا لیتی ہوئیں وہ ارتضی کے نام پر اسے قائل کر گئی تھیں ۔

حویلی میں داخل ہوتا ہوا حیدر  نوری کو لوازمات کی ٹرن تھامے مردان خانے کی جانب جاتے دیکھ حیران ہوا تھا ۔۔۔

یہ وہاں کس لیے جارہی ہے ۔۔۔

غلام رسول ۔۔۔۔  پہلی بار حیدر شاہ کی گرجدار آواز حویلی کی چار دیواری میں گونجی تھی ۔

اب تمہارے کام اب نوری سر انجام دے گی ۔۔

سہی کہتے ہیں سر پر چڑھ گئے ہو تم جاؤ اور اس نوری سے ۔۔سامنے نوری کو نا پاکر حیدر شاہ اپنی پریشانی پر ہاتھ رکھ کر لمبا سانس باہر نکال گیا تھا ۔

اب بھگتنے کے لیے تیار رہنا ۔۔ارتضی کے ہونے والے ردعمل سے وہ خود بھی انجان تھا ۔

غلام رسول کو حیران و پریشان چھوڑ حویلی کے اندر قدم رکھ گیا تھا ۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ہلکے آسمانی کالر کے سادہ سے سوٹ میں ملبوس نوری کو  مردان خانے میں آتے دیکھ ارتضی شاہ حیران رہ گیا تھا 

اس طرح تو پہلے کبھی بھی شاہ حویلی میں ایسا نہیں 

ہوا تھا ۔کہ مردان خانے میں مشروبات پیش کرنے کوئی 

ملازمہ آئی ہو ۔۔۔۔

میں نے تو غلام رسول کو بلایا تھا تو یہ ۔۔۔اپنے ذہن پر زور دیتا ہوا وہ نوری پر اٹھنے والی محفل میں موجود سب کی ہوس بھری نظریں دیکھ وہ نوری کو پکار اٹھا تھا ۔۔۔

نوری تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔

سرکار سائین اماں نے بھیجا تھا کہ آپ نے بلایا ہے ۔۔۔

وہ ارتضی کت سامنے سر جھکائے کھڑی ہوئی تھی ۔

تم غلام رسول نہیں ہو جاؤ تم یہاں سے ۔۔۔۔۔ارتضی شاہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسے منظر سے ہی غائب کردے ۔

کہنے وہ شاہ حویلی کی ملازمہ تھی مگر ارتضی شاہ کی نظر میں وہ رائمہ جیسی ہی تھی ۔۔

جی سرکار ۔۔۔

ارے روکو آہی گئی ہو تو ذرا ہمیں یہ تو دیتی جاؤ جو تم ابھی لائی ہو ۔۔۔۔ریحان کی لڑکھڑاتی زبان اس کے نشے میں 

ہونے کا ثبوت دیے رہی تھی۔

سر پر سے سرکتے ہوئے ڈوپٹے کو سنبھالتی ہوئی وہ سر ہلا کر آگے بڑھی تھی ۔۔۔

ارتضی کی بھنیچی  ہوئی مٹھیاں دیکھ باقی سب خاموشی سے ریحان کو دیکھ رہے تھے جس کی کچھ دیر میں شامت آنے والی ارتضی شاہ کے ہاتھوں ۔۔۔

واہ سائیں واہ ۔۔۔۔۔یہ ہوئی نا بات شراب بھی شباب بھی ۔۔۔

رونقیں تو یہاں بکھری ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔ارتضی شاہ ۔۔۔

نوری کو دیکھ اسے نشہ کچھ زیادہ ہی چڑھ گیا تھا ۔

کیا چیز تم نے چھپا رکھی تھی ہم سے اب تک ۔۔۔۔۔۔۔۔

آنٹی کیسی ہیں ۔۔۔۔۔۔نوری کو غصے سے دیکھتا ہوا وہ اچانک سے سوال کرگیا تھا ۔

ارتضی کے سوال پر سب ریحان کے لیے دعا گو ہوئے تھے۔

ٹھیک ہی ہیں ۔۔۔بدمزگی کے ساتھ مختصر سا جواب دیا گیا تھا ۔

نوازش ہے آپ کی ۔۔۔۔۔

رشنا کیسی ہے کہاں ہوتی ہے آج کل ۔۔۔۔۔پھر سے سوال کیا گیا ارتضی کی طرف سے ۔۔۔

کیا یار سوال پر سوال ۔۔ک کیا باتیں لیے بیٹھا ہے تو ۔۔۔ارتضی کے سوال کا جواب نا دیتا ہوا وہ نوری کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔

کیا نازک سراپا ہے یار ۔۔۔۔۔

بھابھی کیسی ہیں ۔۔۔۔

سہی ہے وہ بھی ۔۔۔۔ موڈ نا خراب کر ۔۔۔   ارتضی شاہ کے  شروع ہوئے سوالات سے وہ زچ آیا تھا ۔۔۔

شراب کے خالی گلاس اٹھاتی ہوئی نوری اپنے متعلق باتیں سنتی ہوئی آنسو ضبط کیے ہوئی تھی ۔

ہوش روبا حسن ہے تمہارا کہاں سے آئی ہو ۔۔۔۔لڑکی ۔۔  

میرے خیال سے دو بیٹیاں ہیں نا تمہاری ۔۔۔۔وہ کیسی ہیں ۔۔

خوبصورت ہیں یا بس ۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے ارتضی کو خود سے  شرمندگی محسوس ہوئی تھی ۔ 

کیا مطلب ہے تمہارا ارتضی شاہ ۔۔۔

بیٹیوں کے ڈاکڑ پر ریحان کی نشے  سے بند ہوتی آنکھیں پھٹی تھی ۔

جو تم سمجھ رہے ہو ملک ریحان ۔۔۔۔۔

تم جاؤ یہاں ۔۔۔۔نوری کو وہاں سے جاتے دیکھ ریحان کی طرف ہلکا سا جھکتا ہوا ارتضی شاہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔ 

نا ماں کے نام پر غیرت جاگی نا ہی بہن پھر بیوی پر تو کیا خاک جاگتی ۔۔۔۔

چلو بیٹیوں کے نام پر تو جاگ ہی گئی ۔۔۔۔

ہمت کیسے ہوئی تمہاری ۔۔۔۔لڑکھڑتے لہجے میں ریحان ارتضی پر دھاڑا تھا ۔

ہمت کی تو بات ہی نا کرو کیونکہ اپنی دیکھانے میں ذرا  بھی تاخیر نہیں کروں گا ۔۔۔

نکلو یہاں سے محفل ختم ہوئی ۔۔۔داخلی دروازے پر کھڑا ہوا وہ بدتہذبی سے بولا تھا ۔

تم تو برا مان گئے میں مذاق کررہا تھا۔۔۔۔لڑکھڑاتے قدموں سے دروازے تک آتا ہوا ریحان ارتضی کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا تھا ۔

ریحان کے ہاتھ کو اگلے ہی پل جھٹکتا ہوا ارتضی خود پر ضبط کیے کھڑا تھا ۔

مردان خانے کے خالی ہونے کے فورا بعد ارتضی حویلی کے باورچی خانے میں موجود تھا جہاں سر جھکائے کھڑی اماں رشیدہ اور ان کے پیچھے کھڑی نوری کو خون خوار نظروں سے دیکھتا ہوا ضبط کی انتہا پر کھڑا تھا ۔

کتنا عرصہ ہوگیا ہے یہاں پر کام کرتے ہوئے۔یہ نہیں پتا آپکو مردان خانے میں فقط مرد آتے ہیں چاہے محفل لگی ہو یا نا۔۔

بتائیں۔۔ 

پھر کس کی اجازت سے آپ نے اسے مردان خانے میں بھیجا تھا ۔

جبڑے بھینچے وہ اپنے کڑے ضبط کا مظاہرہ کرتا احترام کے دائرے میں رہتا ہوا  بول رہا تھا ۔

سرکار سائین غلطی ہوگی ۔اماں رشیدہ کو وہ چاہ کر بھی تلخ نہیں ہو پارہا  تھا۔

غلطی نہیں ہے یہ گناہ کیا ہے آپ نے اپنی بیٹی کو مردان خانے میں بھیج کر ۔۔۔

اور تم نوری بی بی تمہیں ذرا اندازہ نہیں ہے اگر عورت چاہے جتنی بھی نیک کیوں نا ہو اگر وہ پردوں  میں چھپ کر بھی مردان خانے میں آئے تو وہ فحاشہ ہی کہلواتی ہے  ۔۔۔

سرخ انگارہ آنکھوں سے دونوں کو گھورتا ہوا اپنی پیشانی پر بکھرے ہوئے بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔

آج آپ لوگوں کی اس شاہ حویلی میں آخری رات ہے جاکر سامان پیک کریں اپنا ۔۔۔

ایسے نا دیکھیں مجھے اب کہہ سو کہہ دیا جائیں ۔۔

اماں رشیدہ کی آنکھوں میں رحم کی آس دیکھ کر وہ فورا سے بولا تھا۔

تمہیں الگ سے انویٹیشن کارڈ دینا پڑے گا۔۔۔۔ 

مردہ قدموں سے چلتی ہوئی اماں رشیدہ وہاں سے گئی تھی جبکہ نوری کو ہنوز وہاں کھڑے دیکھ وہ نوری پر غرالایا تھا ۔

سائین سرکار میں وہاں میں آپ کے لیے آئی تھی ۔

وہی پر رک جاؤ اور میرے لیے کیوں آئی تھی مین نے بلوایا تھا آپکو ۔۔۔نوری کے خود کی طرف بڑھتے قدم دیکھ ارتضی کا خون خولہ تھا۔

محبت کرتی ہوں میں سائیں آپ سے ۔۔چار سال سے آپ کی تصویروں سے محبت کرتی آئی ہوں سائیں ۔۔

بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔۔

کیوں سائیں جب ایک بادشاہ کو اپنی باندی سے محبت ہو سکتی ہے تو کیا ایک نوکرانی کو اپنے سائین سرکار سے محبت نہیں ہوسکتی ۔۔

کیا ہم ملازماؤں کو محبت کرنے کا حق نہیں ہے کسی کو چاہنے کا۔۔۔

 کیا ہم غریبوں کے  پاس دل نہیں ہوتا ،احساس جذبات نہیں رکھتے ہم غریب لوگ ۔

نوری کی باتوں سے ارتضی کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔

دیکھو نوری تمہیں حق ہے محبت کرو مگر خود کو دیکھ کر ۔

آسمان کی طرف منہ کرکے چلنے والا انسان ہمیشہ منہ کے بل گرتا ہے ۔

رہی بات اس کی جو بکواس تم نے کی ہے دوبارہ مت کرنا ۔انگشت کی انگلی سے اسے وارن کرتا وہ وہاں سے جانے کےلیے مڑا تھا ۔

جب نوری کی کہی بات پر حیران ہوتا ہوا اپنا چہرہ اوپر  کرگیا تھا۔۔

سائیں میں ساری عمر نہیں مانگ رہی آپکی بس ایک رات 

اس حد تک گری ہوئی ہو تم تو اور میں تمہارے لیے ریحان کو سنا کر آیا ہوں ۔

میں چوک گیا تمہیں  پہچاننے میں  مگر  وہ تمہاری اصلیت پہچان گیا۔

یہ بات یا رکھنا اس گاؤں کی ہر لڑکی کو ارتضی شاہ نے اپنی عزت کی نظر سے دیکھا ہے اپنی بہن ،بیٹی سمجھ کر دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔جبڑے بھینچے وہ غرالایا تھا۔   

 سرکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بکواس بند کرو اپنی دفع ہو یہاں سے ۔غصے سے ڈھاڑتا ہوا وہ اپنا ضبط کھو بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر یوں ہوتا ہے غریب کی

 محبت امیری چھین لیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،

محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے سائین ۔۔۔

اور اب یہ نوری ہر ناجائز کام کو جائز کرکے دیکھائے گی آپ کو ۔۔۔

جاتے ہوئے ایک بات اور کہنا چاہوں گی سائین ۔۔۔

ہم غریب لوگ اپنی وفاداری اور مہمان نوازی کے نام پر بہت مشہور ہوتے ہیں ۔۔

ساری عمر آپ سے محبت کرکے وفاداری نبھائے گی یہ نوری اور رہی بات مہمان نوازی کی تو میرے دل اور گھر کے دروازے ہمیشہ کھولے ملے گے آپ کو ۔۔۔۔۔

رخ موڑے وہ بے دلی سے نوری کو سن رہا تھا ۔

دعا کرتی ہوں آپ کا سامنہ روز محشر سے پہلے ہو ۔۔۔

کیونکہ یہ نوری بنا آپ کو حاصل کیے مانے گی نہیں ۔۔۔۔

تم جیسی بدکردار لڑکی کو اپنے ساتھ سوچ کر بھی مجھے گھن آتی ہے خود سے ۔۔۔۔۔ تنے ہوئے اعصاب کئ ساتھ دانت دبائے وہ سرد لہجے میں بولا تھا ۔

واہ سائیں واہ میری محبت سے گھن آرہی ہے سوچے اگر مجھ سے زیادہ کوئی بد کردار لڑکی پر آپ کا دل آجائے تو اس سے گھن نہیں آئے گی آپ کو ۔۔۔۔بے خوف لہجے میں پوچھتی ہوئی وہ ارتضی کے ضبط  کی انتہا آزما رہی تھی ۔

بہت ہوگئی تمہاری بکواس اب نکلو یہاں ۔۔۔۔۔

نکلو۔۔۔۔۔۔۔۔خود پر ضبط کرنے کے باوجود بھی دھاڑ اٹھا تھا ۔

حویلی سے نکال رہے ہیں سائین دماغ سے نہیں  نکال پائیں گے ۔۔۔دل پر نا سہی دماغ پر تو نوری کا راج ہوگا ۔۔۔۔تمسخرانہ انداز میں وہ نم آنکھیں لیے قہقہ لگا رہی تھی ۔

ارتضی شاہ کے تو نا تو کبھی دماغ میں جگہ ہوسکتی ہے تم جیسی گھٹیا عورت کی اور پھر دل میں تو کیا ہی ہوگی ۔۔۔

تمخسر سے کہتا ہوا وہ اسے دو کوڑی کا کر گیا تھا ۔۔۔

ارتضی شاہ کے لفظوں پر کب اس کے رخسار آنسوؤں سے بھیگ گئے تھے ۔۔

جو اس دل راج کرے گی وہ مضبوط کردار کی ہوگی ۔۔۔اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھتا ہوا وہ پر اعتماد لہجے میں بولتا ہوا خود میں نہیں تھا ۔

نا کہ تم جیسی مردوں کے سامنے اپنا آپ پیش کرنے والی کمزور قردار کی مالک تو وہ ہر گز نہیں ہوگی ۔۔۔۔ماہین کو سوچتا ہوا وہ اور پراعتماد ہوا تھا ۔

دوسروں کو جج نا ناکرنے والا ارتضی شاہ آج وہ خود ایک لڑکی کے کردار کی دھجیاں اڑا گیا تھا۔۔۔۔

وہ ایسی تو نہیں تھی خود کو مردوں کے سامنے پیش کرنے والی اس نے تو فقط اپنے سائین سرکار سے محبت کی تھی ۔۔

اور اس ہی کے منہ خود کو بد کردار جیسی گالی  سن کر اس کا دل رویا تھا اپنی بے قدری پر ۔۔۔

اتنا یقین سائین  ۔۔۔

خدا پاک آپ کا یقین برقرار رکھے اور مجھ "بد کردار " خود کے منہ سے خود کو بد کردار کہتی ہوئی وہ کچھ پل کے لیے ٹھہری تھی۔

 سائین جس سے آپ کو آپ سے محبت ہو اسے بھی آپ سے اتنی ہی محبت ہو جتنی اسے آپ کرو ۔۔۔

بس وہ کبھی آپ کے کردار پر انگلی نا اٹھائے بس آپ کو اپنا مجازی خدا نیک اور شریف انسان جانے ۔۔۔۔  

بددعا دے رہی ہو مجھے ۔۔۔۔۔بے فضول کیونکہ تم جیسی لڑکی کی بد دعا کرنے سے رہی مجھے ۔۔۔۔

نوری کے طرز بیان پر ارتضی کو شک گزرا تھا اور کہیں نا کہیں  ڈر لگنا بھی بنتا تھا ۔

جس طرح سے وہ نوری کی بےعزتی کر رہا تھا۔۔۔۔

سیانے کہتے ہیں کہ جس سے محبت  کی جائے نا انہیں بد دعا نہیں دی جاتی انہیں تو بس دعا دی جاتی ہے ۔

اور اس نوری میں اتنی تاب اوعچاوقت  کہاں سائیں سرکار کہ میں آپ کو بدعا دے سکے ۔۔۔۔

نوری کی باتوں سے اپنے سن ہوتے دماغ پر وہ نوری کے آنسوؤں سے بھیگے چہرے کو دیکھتا ہوا حیران ہوا تھا ۔۔۔۔

چار سال بعد پھر سے ارتضی شاہ آج کسی کے آنسوؤں کی وجہ بنا تھا ۔۔

جب تک نا لگے بے وفائی کی ٹھوکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،

جب تک ہر ایک کو اپنی پسند پر ناز ہوتا ہے ۔۔۔۔۔،

آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتی ہوئی وہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی چلی گئی تھی اس حویلی سے اور ارتضی شاہ کی زندگی سے ۔۔۔۔

************

نکھری ہوئی صبح کے روشن سورج  صاحب کی کرنوں سے بیدار ہوتی ماہین حیا کی جگہ خالی دیکھ کر پورے روم میں متلاشی نظروں سے حیا کو ڈھونڈ رہی تھی مگر وہ روم میں ہوتی تو اسے ملتی نا ۔۔۔

اپنے کھلے سنہری بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھتی ہوئی رات سے زیادہ پرسکون محسوس کررہی تھی ۔

میرر پر لگی چٹ کو پڑھتی ہوئی بے ساختہ ہی قہقہ لگا گئی تھی ۔

بیگم اگر آپ کو یہ چٹ مل گئی ہے تو یقیناً آپ بیدار ہوگئی ہیں ۔۔۔ 

اب اپنی مجازی خدا نو ۔۔۔۔نو ۔۔۔ مطلب مجازی خدی پر ذرا رحم کھائیں اور واشروم کا رخ کریں ۔۔۔۔۔

آگے آپ کو کیا کرنا ہے نیکسٹ چٹ کے ذریعے آپ کو معلوم ہوجائے گا ۔۔۔

نیچے سمائلی کے ساتھ وہ ماہین کی خوبصورت مسکان کو اور زیادہ خوبصورت بنا گئی تھی۔

مجازی خدی ۔۔۔۔واشروم میں ٹنگے  وائیٹ اور پرپل کلر کے ڈریس کو متاثر کن نظروں سے دیکھتی ہوئی مسکرائی تھی ۔۔۔

واوووو اتنا اچھا اور اتنا سرپرائزنگ مجازی خدی ہوسکتی ہے ۔۔۔

مجھے ایسا ہی ہزبینڈ چاہیے اب تو ۔۔۔

دس منٹ کے شاور کے بعد وہ واشروم کے گیٹ پر لگی چٹ کو دیکھ چہک اٹھی تھی ۔۔۔ 

اب جب میری بیگم صاحبہ فریش ہوگئی ہیں تو لائٹ لپ اسٹک لگائیے گا ورنہ یہ میرا نازک دل بے ایمانی اتر آئے گا ۔

اچھے سے تیار ہوکر نیچے ڈائینگ روم میں آجائیں میں وہاں آپ کا ناشتے پر انتظار کررہی ۔۔۔

پھر سے غلطی ہوگئی ہے آپ اوپر والی لائن مت پڑھانا اوکے ۔۔

میں آپ کا ناشتے پر انتظار کررہا ہوں بیگم صاحبہ ۔۔۔ 

منہ پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ اپنے قہقہ کو منہ میں ہی دبا  گئی تھی ۔۔۔ 

کہاں سے لاتی ہو اتنا دماغ وہ بھی ایسی حرکتیں کرنے کے لیے ۔۔۔

بالوں کو ڈرائے کرتی ہوئی لائت لپ اسٹک لگاتی ہوئی حیا کی کہی بات پر عمل کر گئی تھی ۔۔۔

حیا جوصبح جلدی اٹھ کر کچن میں حاضری لگوائے ہوئے تھی ۔

اس بات کا الگ ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں ماہین اٹھ نا گئی ہو ۔۔۔۔

یہ کیا کر رہی ہو ایسے تھوڑی نا ٹرے سجائی جاتی ہے ۔۔۔

ملازمہ کے ہاتھ سے ٹرے لیتی ہوئی وہ ٹرے میں رکھے بریک فاسٹ کو بڑی خوبصورت سی شکل دے گئی تھی ۔

ڈن ۔۔۔ اب تم جاسکتی ہو ۔۔۔۔اور ایک بار پھر سے کہو یہ بریک فاسٹ کس نے تیار کیا ہے ۔۔۔

بی بی آپ نے ۔۔۔۔۔سر جھکائے ملازمہ کو حیا نے دس سے زائد بار اس یقین دہانی کرواتی ہوئی اب کی مسکرائی تھی۔

گڈ ۔۔۔۔اب جاؤں اور جو فریزر سے جوس نکال کر لے جاؤ اور بیٹی کو پلا دینا ۔۔۔

ہر بار اپنے نام پر ملازمہ سے کھانا بنوا کر وہ اسے اس طرح ہی رشوت دیتی تھی خاموش رہنے کی ۔۔۔

بی بی یہ سیب بھی لے جاؤں ۔۔ہر بار کی طرح آج بھی وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آئی تھی۔

ہاں لے جاؤ کبھی باز نا آنا تم ۔۔۔اگر مجھے کھانا بنانا آتا نا تمہارا کبھی منہ نا دیکھتی جلدی سے لو جاؤ کبھی امو آجائیں ۔۔۔۔ٹرے اٹھا کر ڈائینگ روم کی طرف بڑھتی ہوئی ملازمہ کو ساتھ جھاڑ  پلا گئی تھی ۔۔۔

آج ڈائینگ روم میں میرے اور ماہین کے علاوہ  کسی کی بھی انٹری الاو نہیں ہے ۔۔

So please stay away ......  

افففففف۔۔۔۔حیا تمہارے بابا میں  اور چاچو کہاں پر جائیں کھانا کھانے ۔۔۔حیا کی بچکانی حرکتوں سے وہ تنگ آگئیں تھیں ۔۔۔

یہ میرا درد سر نہیں ہے امو آپ اچھے سے جانتی ہیں ماہین آپی کل کتنی افسردہ تھیں اس لیے ان کو خوش رکھنے کی چھوٹی سی کوشش ہے ۔۔۔

اور ویسے بھی جب تک بابا اور چاچو اٹھیں گے جب تک میں ماہین آپی کو اپنے ساتھ  لے کر پورا گاؤں گھوماؤں گی ۔۔

اپنے ارادوں سے آگاہ کرتی ہوئی سیڑھیوں سے اترتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر شاکرہ بیگم کو ہاتھ سے چھپ جانے کااشارہ کرتی وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ گئی تھی خود ڈائینگ روم کے اندر چھپ گئی تھی ۔۔

اسلام وعلیکم ۔۔۔صبح بخیر تائی امی ۔۔۔ 

نا سمجھی میں ڈائینگ روم میں جاتی ہوئی حیا کو دیکھ کر اپنی جگہ پر کھڑی تھیں ۔

ماہین کی آواز پر اُنہیں حیا کا اشارہ سمجھ آیا تھا ۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔ماہین کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہوئیں وہ ماہین کو مسکراتے دیکھ خوش ہوئی تھیں ۔

یہ حیا کی بچی کہاں ہے ۔۔۔۔۔

میری ابھی کوئی بچی نہیں ہے جب ہوگی نا تو سب سے زیادہ آپ کو ہی تنگ کرے گی دیکھ لینا ۔شاکرہ بیگم کی جگہ جواب حیا کی طرف  سے آیا تھا ۔۔

سن لو ۔۔۔اور جاؤ جب تک تم ناشتہ نہیں کرو ہمیں انڑی نہیں ملے گی ڈائینگ روم میں ۔۔ماہین کے روئی سے زیادہ نرم گالوں کو پیار سے چٹکی کاٹ گئیں تھیں ۔۔۔

تائی امی ۔۔۔۔۔۔شاکرہ بیگم کو شکوہ کن انداز میں دیکھتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

ایسے ہی صدا مسکراتی رہو ۔۔۔۔

تائی امی کا پیار لے لیا ہو تو اندر آجائیں مجھے بہت زور سے بھوک لگی ہے ۔۔۔

ماہین دعا دیتی ہوئیں وہ حیا کی بلند آواز پر وہاں سے مسکراتی ہوئیں کچن کی سمت بڑھ گئی تھیں ۔۔

ویسے میری مجازی خدی مینیو میں کیا کیا ہے ۔۔۔ڈائینگ ٹیبل پر کہونی ٹکائے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے ہوئے تھی ۔

ایک تو یہ بیگمیں ذرا سی توجہ دی نہیں اور یہ سر پر چڑھ جاتی ہیں ۔۔ہر روز کی طرح آج  بھی ٹخنوں سے اوپر تک آتی بلیو جینز پر شوکنگ پنک کلر کی سیلوو لیس شرٹ پہنے وہ بالوں کو ہائی ٹیل میں باندھے میک سے پاک چہرہ لیے کیوٹ لگ رہی تھی ۔

اچھا جی ایسی بات ہے ۔۔۔

ویسے شکر ہے خدا کا تم میری سچ کی مجازی خدا نہیں ہو ورنہ تو تم مجھ سے سال میں ایک بار ہنس کر بات کرتیں ۔۔۔ 

یہ تو ہے چلیں جلدی جلدی بریک فاسٹ کریں پھر ہمیں جانا بھی ہے ۔۔۔گلاس میں اورنج جوس ڈالتی ہوئی وہ ایک سانس میں بولی تھی۔

کہاں ۔۔۔

پورا گاؤں گھومنا ہے آپ کو ۔۔۔۔۔

ہمہم ۔۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔ بنا اپنے چہرے پر اس جلاد کا خوف لائے وہ مسکرائی تھی ۔

 اتنا وہ جان گئی تھی حیا کی کوششوں سے کہ وہ اسے بہلانے کی کوشش کررہی ہے ۔

اور ماہین اس کو اداس نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔

بس خاموشی سے حیا لی باتوں پر مسکرائے جا رہے تھی۔

*************

سلیمہ یہ رشیدہ اور نوری صبح سے  کہیں نہیں دِکھ رہی ہیں ۔۔۔شاہدہ بیگم کے پوچھنے پر ڈائینگ روم میں آتے ارتضی کے قدم تھمے تھے ۔

آپ جائیں ۔۔سلیمہ کو جانے کا کہتا ہوا ارتضی اپنی چیئر پر بیٹھا تھا ۔۔

شاہ تم نے سلیمہ کیوں بھیج دیا ۔۔۔شاہدہ بیگم کے ساتھ دلاور شاہ بھی ارتضی کے جواب کے منتظر تھے۔

جہاں سے آئی تھیں ۔۔۔وہیں بھیج دیا ہے میں نے انہیں ۔۔

رات بھر نوری کی باتوں کو سوچتا ہوا وہ سو نا سکا تھا اور اب صبح صبح نوری کا ذکر سن کر بد مزہ ہوا تھا ۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔۔حیدر شاہ کی طرف سے پوچھے گئے  سوال پر  ارتضی شاہ ۔مسکرایا تھا۔

فرصت میں مطلب بھی بتا دوں گا ۔۔۔

سمی یہاں پر بیٹھوں میرے پاس ۔۔۔عام سے لہجے میں جواب دیتا ہوا وہ رائمہ کو آتے دیکھ مسکرایا تھا ۔

بابا سرکارمیں چار سال پہلے سیاست میں نا آنے کی وجہ سے ہی لندن گیا تھا میرے خیال میں ۔

تو پھر یہ میڈیا میں میرے سیاست میں آنے کا شوشہ کس خوشی میں چھوڑا ہے آپ نے بتائیں گے مجھے ۔۔۔اپنے مغرور انداز سے ہٹ کر وہ آج مسکرا کر بول رہا تھا۔

میرے بڑے بیٹے ہو تو میرے بعد میری کرسی پر تو تم ہی بیٹھو گے نا ۔۔وہ بھی اس کے بابا سرکار تھے بنا کوئی رکھ رکھاؤ کے بولتے ہوئے ارتضی کی سمت چائے کا کپ بڑھا گئے تھے ۔

آپ کبھی بھی نہیں بدل سکتے بابا سرکار ۔۔دلاور شاہ کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر حقیقتاً مسکرایا تھا ۔

آخر بابا کا کا ہوں ۔۔

کل یہ شام میں میرے بابا تھے اور اب آپ کے بابا بن رہے ہیں ۔شرارت سے کہتا ہوا انجانے بھی ارتضی کو مشورہ دے گیا تھا ۔

بلکل سہی کہا حیدی نے میں ہی تھوڑی نا ہوں آپ کا بیٹا حیدر بھی ہے نا تو وہ آپ کرسی پر بیٹھ جائے گا ۔۔

اور تو اور اسے تو گھر گھر جاکر ووٹ مانگنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ارتضی کی بات پر حیدر کو اچھو لگا تھا ۔

حیدر کی پیٹھ سہلاتی ہوئی رائمہ حیدر کی حالت پر مسکرائی تھی۔

اپنی رائے دیتا ہوا ارتضی پرسکون ہوگیا تھا ۔

اگر یہ سیاست کرے گا نا تو ہم سب کنگال ہوجائیں گے اس رحم دلی کے ہاتھوں ۔۔۔ارتضی کا مشورہ انہیں ذرا نا بھایا تھا۔

بابا سرکار سہی کہہ رہے ہیں میں اور سیاست اللہ بچائے جھوٹ بولنے سے ۔۔کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا حیدر دلاور شاہ کی سخت  گھوری کا نشانہ بنا تھا۔

تو پھر طے ہوگیا بابا سرکار آپ کی یہ سیاست میں آخری کرسی تھی اب کوئی آپ کی آل اولاد میں سے راضی نہیں ہے اس دوغلے پن کا حصہ بننے کے لیے ۔۔دلاور شاہ کے چہرے کے اڑے رنگوں سے محفوظ ہوتی شاہدہ بیگم مسکرائیں تھیں ۔ 

تو کوئی بات نہیں تم دونوں سے مجھے کوئی امید بھی نہیں ہے ایک گاؤں میں فلاحی ہسپتال چلائے گا اور دوسرا ڈیری فارم چلائے گا ۔۔۔ارتضی اور حیدر دونوں کو لتاڑتے ہوئے وہ اصل بات پر آئے تھے۔

میرا پوتا میری جگہ پر بیٹھے گا ۔۔

بیٹے تیار نہیں ہیں اور آپ پوتے کی بات کررہے ہیں واہ بابا سرکار ۔۔۔ارتضی اور حیدر کا یکجا قہقہ آج کئی سال بعد ڈائینگ روم میں گونج رہا تھا۔

دونوں بیٹوں کو ہنستے دیکھ دلاور شاہ بھی قہقہ لگا اٹھی تھے۔۔

کیسا لگا تمہیں تمہارا فلاحی ہسپتال ۔۔

سہی ہے بس ۔۔دلاور شاہ کے طنز کو سمجھتا ہوا ارتضی بھی ان کے ہی انداز میں بولا تھا۔

مفت کے ڈاکٹر کہاں سے لاؤ گے۔۔۔۔اور کچھ سوچا ہے اس کے بارے میں ۔اس بار دلاور شاہ کو فکر لاحق ہوئی تھی ڈاکڑز کو سوچ کر  ۔۔

ہوجائے گا اس کا بھی بندوبست بابا سرکار ۔۔۔

ابھی کہاں جانے کا ارادہ ہے آپ کا۔۔حیدر کو سوال کرتے دیکھ کر ارتضی تاسف سے گردن ہلا رہا تھا۔

تمہارے فارم میں ہرگز نہیں جانے والا مجھے دیکھ کر سارے ملازمین ایسے کانپ رہے تھے جیسے خدانخواستہ میں ان لوگوں کی موت کا پروانہ لیے کھڑا ہوں ۔۔اپنی بات پر ارتضی خود سے ہی مسکرایا تھا ۔

آپ کا روب ہی بہت ہے بھائی ۔ارتضی کے انداز پر سمی مسکراتی ہوئی بولی تھی ۔

کل کیا ہوا تھا ڈیری میں ۔۔۔ایک اور سوال حیدی  یار تم وکالت پڑھ لو ابھی بھی وقت ہے ۔۔۔حیدر کے سوال سے تنگ آیا تھا۔

چھوڑ دو حیدر مجھے سب پتا ہے کل ڈیری میں کیا کیا ہوا تھا ۔

دلاور شاہ کے مضبوط لہجے پر سر جھکاتا ہوا ارتضی خاموش ہو بیٹھا تھا ۔

جبکہ حیدر بے خبر تھا کل لے واقعے سے ۔

آپ دوبارہ سے ہسپتال جوائن نہیں کریں گے۔۔۔

کب تک ایک حادثے کی وجہ سے خود کو سزا دیتے رہیں گے ۔۔ ارتضی کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کر حیدر نے استفسار کیا تھا۔

کتنی دفعہ منع کیا ہے کہ حویلی میں بچے کام نہیں کریں گے تو یہ بچی کیوں کام کررہی ہوتی ہے  ۔آج پھر اس پندرہ سالہ بچی کو صفائی کرتے دیکھ ارتضی حیدر کے سوال کو نظر انداز کرتا ہوا وہ  اس بچی کے ہاتھ سے کپڑا لے کر دور پھینک گیا تھا  ۔

آپ جاؤ اور اپنی اماں کو بھیجوں ماں سرکار کے پاس ۔۔۔نرم لہجے میں کہتا ہوا وہ شاہدہ بیگم کی جانب  دیکھتا ہوا ڈائینگ روم سےنکل گیا  تھا ۔

حیدر کیوں کرتے ہو ایسے سوال جن کا جواب نہیں ہے ارتضی کے پاس ۔۔ارتضی کو جاتے دیکھ شاہدہ بیگم افسردگی سے بولی تھیں ۔

کب تک بھائی بیرون ممالک میں جاکر اپنے آپ کو پرسکون کرنے کی کوشش کریں گے اور کب تک اپنی نا پسندیدہ جگہ ڈیری فارم کا ہر کام سرانجام دیتے رہے گے ۔۔

جبکہ ہم سب اچھے سے جانتے کہ بھائی خود سے لڑرہے ہیں وہ آج بھی ایک اچھے ڈاکڑ ہیں تو پھر ہم انہیں اس طرح کیوں ان کے  پروفیشن سے بھاگنے دے سکتے ہیں ۔۔حیدر کی بات کو خاموشی سے سنتے ہوئے دلاور شاہ آج فیصلہ لے چکے تھے۔

بس اس فیصلے کو  عملی جامہ پہنانے کی دیر تھی ۔۔۔۔

یہ سر شاویز نیازی کون ہیں ۔۔۔گاڑی میں بیٹھتے ہی حیا کے سوال پر وہ مسکرائی تھی ۔

سر شاویز نیازی میرے اسکول کے وائس پرنسپل ہیں ۔۔  عام سے لہجے میں بولتی ہوئی وہ حیا کے دماغ میں چلتی سوچوں سے انجان تھی ۔

اچھا جی مجھ سے جھوٹ اگر وہ آپ کے اسکول کے وائس پرنسپل ہیں تو آپ سے آپ کی خیریت اور کب واپس آنے کا ارادہ ہے آپ کا کیوں دریافت کررہے ہیں وہ بھی واٹس ایپ پر میسج کرکے ۔۔آبرو ریس کرتی ہوئی وہ اپنی ذہانت کا ثبوت دے گئی تھی ۔

مطلب تم نے سر میسج ریڈ کیے تھے اور مجھے بتایا بھی نہیں ۔۔

حیا جو صبح اٹھتے ہی ماہین کے فون کی بجتی نوٹیفکیشن سے الرٹ ہوئی تھی ۔

فورا سے سارے نوٹیفکیشن ریڈ کرتی ہوئی اپنے خرافاتی دماغ کے گھوڑے دوڑا رہی تھی۔

بات مت پلٹیں صاف صاف بتائیں کیا ماجرہ ہی یہ ۔۔۔حیا کے آگے بڑھنے پر گاڑی کے گیٹ سے لگ کر بیٹھ گئی تھی ۔ 

وہ اس لیے کیونکہ میری کلاس ان کے انڈر میں ہے ۔

ٹھہر ٹھہر کر جواب دیتی ہوئی وہ گاڑی کی ونڈو پر سر رکھ گئی تھی ۔

 اچھا بس یہ پوچھنے کے لیے میسج کیے گئے تھا کوئی اور تو چکر نہیں  ہے نا ۔۔۔ابھی بھی اسے شاویز اور ماہین پر شک ہورہا تھا ۔

کہیں آپ دونوں ایک دوسرے کو پسند وسند تو نہیں کرتے ۔۔۔دل کا ڈر زبان پر آہی گیا تھا ۔۔۔ 

انہوں نے بہت بار پرپوز کیا ہے مجھے ۔۔۔

اتنی بڑی بات آپ اتنے آرام سے کیسے کہہ سکتی ہیں ۔۔۔ماہین کے عام انداز پر وہ شاکڈ ہوئی تھی ۔

اتنی بڑی بات تو نہیں ہے جب ہم لڑکیاں گھر سے باہر کام کرنے جاتی ہیں تو بہت سے راہ میں بھی آتے ہیں مگر ایسا تھوڑی ہوتا ہے ہر راہ گیر کو ہاتھ تھما دیا جائے ۔۔۔اپنی مخصوص دھیمے لہجے میں بولتی ہوئی وہ حیا کو سمجھ رہی تھی ۔ 

میں نے تو چلو شوق شوق میں ٹیچنگ شروع کی مگر ایسی بہت سی لڑکیاں ہیں جو اپنے گھر کے تنگ مسائل کی وجہ سے باہر جوب کرتیں ہیں عام سی بات ان سب کو بھی یہ کچھ فیس کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔  

اور تم بے فکر رہو میری مجازی خدی میری طرف سے کچھ بھی  نہیں اور نا ہی ہونے والا ہے کبھی ۔۔۔مسکراتی ہوئی وہ حیا کے گالوں کو کھینچ گئی تھی ۔۔

اور کیوں نہیں ہوسکتا ۔۔۔اب اسے ایک فکر لاحق ہوئی تھی ۔

کیونکہ ماہین ریاض بخاری فقط اپنے محرم سے محبت کرے گی اور اس کو ہی اپنے دل میں بسائے گی ۔۔۔ 

کاش میرا کوئی بھائی ہوتا اگر بھائی ہوتا نا تو آپ کو اپنی بھابھی جان بناتی ۔۔۔حیا کی کہی بات پر ماہین مسکرائی تھی ۔

جو ہے نہیں اسے سوچ کر خود کو پریشان کرنا ۔جو ہمیں خدا نے دیا ہے بس اس کا شکر ادا کرنا چاہیے   ۔۔۔ماہین کی بات حیا کے دل میں  گھر گئی تھی ۔۔۔

اووووو میرے بچہ اداس ہوگیا ۔۔۔۔۔ حیا کو خاموش بیٹھے دیکھ ماہین آنکھوں میں  شرارت لیے پوچھ رہی تھی۔جو سوچ کے ساتھ ساتھ آنکھیں مٹکا رہی تھی ۔

سگا بھائی نہیں ہے تو کیا ہوا ۔۔۔۔ارتضی بھائی بھی تو میرے ہی بھائی ہیں ۔۔۔۔

ماہین ارتضی شاہ ۔۔۔

حیا حیدر شاہ ۔۔۔۔۔۔دونوں کو ایک ساتھ تصور کرتی ہوئی وہ ساتھ میں خود کو حیدر کو دیکھ کر چہکی تھی ۔

 ہاؤ کیوٹ کپلز ۔۔۔۔دونوں ہاتھ ماہین کے ہاتھوں پر رکھتی ہوئی وہ کھوئے ہوئے انداز میں بڑبڑا رہی تھی ۔۔۔۔

کون ہیں  کیوٹ کپلز ۔۔۔۔۔ وہ حیا کی بس اتنی ہی بڑبڑاہٹ  سن پائی تھی۔

بعد میں بتاؤں گی ۔۔۔۔۔ماہین کے گلے لگتی ہوئی وہ چہکی تھی ۔

حیا کے اچانک گلے لگنے پر وہ فقط مسکرائی تھی ۔

************   

حیا سے معافی مانگنے کی خاطر حیدر شاہ بخاری ولا آیا تھا ۔ 

مگر حیا کے ساتھ ماہین کو گھر سے نکلتے دیکھ حیدر ان کے پیچھے ہی چل دیا تھا خود کی تسلی کے لئے ۔

 وہ جس لڑکی کی تلاش میں تھا اسے اپنے ہی گاؤں میں دیکھ کر اسے اپنی بصارت پر شک گزرا تھا ۔۔

میں    نے    کہا    وہ    اجنبی     ہے

دل  نے  کہا   یہ   دل   کی  لگی   ہے

میں     نے     کہا    وہ     سپنا   ہے

 دل   نے   کہا    پھر    بھی   اپنا   ہے

میں نے کہا  وہ دو  پل  کی ملاقات ہے

دل  نے  کہا  وہ  صدیوں  کا  ساتھ ہے

میں  نے   کہا    وہ    میری    ہار    ہے

دل   نے   کہا    یہ   ہی    تو    پیار ہے

 وائیٹ کلر کے ڈوپٹے کو اچھے سے  سر پر رکھتی ہوئی ماہین کو کار سے اترتے  دیکھ حیدر شاہ کی نظریں عاجزی سے جھکی تھی ۔۔۔۔

ماہین کو دیکھ کر حیدر کو انجانی سی خوشی محسوس ہورہی تھی ۔

جیسے کسی ڈوبتے ہوئے شخص کو سہارا مل گیا ہو۔۔۔۔۔

 ویسے ہی ماہین کو دیکھ کر حیدر کے لبوں پر جو مسکراہٹ آئی تھی جو اسے اور بھی وجیہہ بنا رہی تھی ۔

کیسی ہو ٹوٹل تباہی ۔۔۔ حیدر کی آواز پہچاننے میں حیا کو ذرا دیر نا لگی تھی ۔

بنا مڑے وہ  ماہین کا ہاتھ پکڑ کر  وہ اسے لہراتے سر سبز کھیت دیکھاتی ہوئی خود کو حیدر کی موجودگی سے انجان ظاہر کر رہی تھی ۔

اتنا تو وہ جان گئی تھی جس شخص سے ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے وہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھاحیدر کے سوا ۔۔۔مسکراہٹ دبائے ماہین اس کی ناراضگی والا روپ دیکھ کر حیران تھی۔

یہاں سے لے وہاں ہماری زمینیں ہیں اور یہ یہاں سے شروع ہورہی ہے یہ اس سڑی ہوئی ککڑی کی ہیں ۔۔۔اپنے پیچھے حیدر پر ترچھی نظر ڈال کر وہ ناراضگی سے بولی تھی ۔

سڑی ہوئی ککڑی یعنی حیدر کی ۔۔۔سرگوشیانہ انداز میں پوچھتی ہوئی وہ گردن موڑ کر  حیا کے پیچھے کھڑے حیدر کا جائزہ لیتی ہوئی واپس سے حیا کی طرف گردن موڑ گئی  تھی ۔

ویسے چوائس کمال ہے تمہاری ۔۔۔۔۔میں بات کروں ۔۔۔

کوئی ضرورت نہیں ہے  ۔۔۔۔۔۔۔بد مزہ ہوتی ہوئی وہ ماہین کو اپنے ساتھ گھیسٹتی ہوئی کار میں اسے بیٹھا کر خود اپنے پیچھے آتے حیدر کو گھور رہی تھی ۔

یہ تم ہمارے پیچھے کیوں آرہے ہو ۔

معافی مانگنے کے لیے ۔۔۔۔۔حیا کے سامنے نظریں جھکائے وہ ملزموں کی طرح کھڑا تھا ۔

کیوں ۔۔۔۔

کل رات میں نے جس طرح سے تم سے بات کی تھی اس طرح سے نہیں کرنی چاہیے تھی مجھے اس لیے سوری ۔۔۔۔

کیا کہا۔۔۔کان پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ اسے ظاہر کر رہی تھی جیسے کچھ سنا ہی نا ہو ۔۔

حیا کی اداکاری پر گاڑی میں بیٹھی ماہین قہقہ لگا گئی تھی۔

معافی چاہتا ہوں اپنے کل کے رویے کے لیے ۔۔۔ بلند آواز میں حیا کے کان میں چلاتا ہوا اپنا حساب برابر کرگیا تھا ۔۔

آرام سے بولو بہری نہیں ہوں ۔۔اپنے سن ہوتے ہوئے کان پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ خفگی سے بولی تھی۔

اب تو معاف کردو تباہی ۔۔۔کان پکڑے وہ سچ میں شرمندہ تھا ۔

معاف کیا ۔۔۔۔کیا یاد کرو گے ۔۔۔۔۔کہ حیا بخاری نے تمہیں معاف کردیا ۔۔۔۔شان بے نیازی سے کہتی ہوئی وہ گاڑی میں جا بیٹھی تھی ۔۔۔۔

یہ لڑکی کون ہے تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حیا سنو تو ۔۔۔۔۔۔ وہ پیچھے سے پکارتا رہ گیا اور وہ 

اپنی دھول اڑاتی گاڑی لیے وہاں سے جاچکی تھی ۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 ہر فیسیلٹی یہاں موجود ہے کہیں سے بھی مجھے یہ گاؤں نہیں لگ رہا بلکہ ایک چھوٹا سا شہر لگ رہا ہے  ۔۔۔آدھے سے زیادہ گاؤں گھومنے کے بعد ماہین کو حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی ہوئی تھی ۔۔۔

ابھی سب سے بڑی فیسیلٹی تو آپ نے دیکھی نہیں آپی ۔۔۔

وہ کیا ہے ۔۔۔۔تجسس میں پوچھتی ہوئی ماہین پرجوش ہوئی تھی جاننے کے لیے ۔۔

یہاں کا سب سے بڑا ہسپتال تو آپ نے ابھی تک دیکھا ہی نہیں ہے اس کو دیکھنے کے بعد آپ یہ چھوٹا سا شہر بھی ہٹا دیں گی ۔۔۔حیا کے لہجے میں الگ ہی کھنک تھی اپنے گاؤں کی پذیرائی پر ۔۔۔

ایسا ہے کیا۔۔۔۔

 تو میں بہت بے چین ہورہی ہوں دیکھنے کے لیے ۔۔۔

منت ہسپتال کی طرف لے چلیں ۔۔۔حیا کا حکم ملتے ہی گاڑی منت ہسپتال کی طرف گامزن ہوئی تھی ۔۔۔

 چوہرائے سے موڑ پر مڑتی ہوئی گاڑی کے ساتھ ساتھ  ماہین کی زندگی عجیب موڑ پر مڑ گئی تھی ۔۔۔۔

اس نئے سفر سے وہ بے خبر ،،، بس بے صبری سے منت ہسپتال کی راہ دیکھ رہی تھی ۔

***********

کہاں تک پہنچ گئے ہو ۔۔۔آخری ڈاکٹر کا انٹرویو لے کر وہ پھر سے ڈاکٹر عامر شہزاد کو فون کر گیا تھا۔

میرے گھر سے تمہارے گاؤں کا سفر چار گھنٹے کا ہے ۔۔ارتضی کی صبح سے اسے کوئی بیسویں کال تھی اب کی بار وہ مسکرایا تھا ارتضی کے پوچھنے پر ۔

کیا ہوا ۔۔۔۔ارتضی کی آواز میں افسردگی محسوس کرتا ہوا وہ سوال کرگیا تھا ۔

کچھ نہیں بس یہ ناکام ڈاکٹر قابل ڈاکٹرز کے انٹرویو لے کر تھک گیا ہے اب ۔۔۔ 

آجاؤ پھر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔افسردگی سے کہتا ہوا وہ کال ڈیسکنیٹ کرگیا تھا ۔

صبح سے ہسپتال میں بیٹھا ہوا وہ ہر آنے والے ڈاکٹرز کے انٹرویو کلیئر  کرچکا تھا ۔

انگلیوں کے پوروں سے گردن و سر کو دباتا ہوا وہ چیئر کی پشت پر سر رکھ کر آنکھیں موند گیا تھا ۔۔ 

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا 

متاع جاں کسی کو سونپ کے مجبور ہوجانا۔۔۔،

قدم ہیں راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی 

یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا ۔۔۔،  

یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو

کوئی آسان ہے کیا سرمد سے منصور ہوجانا ۔۔۔،

بسا لینا کسی کو دل میں ،یہ دل ہی کا کلیجہ ہے ۔ 

پہاڑوں کو تو آتا ہے جل کر طور ہوجانا ۔۔۔۔۔۔

نظر سے دور رہ کر بھی تقی وہ پاس ہیں  میرے

کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،

آنکھیں بند کیے وہ ماہین کے صبیح چہرے کو سوچ کر واپس سے سیدھا ہو بیٹھا تھا ۔

کافی حد تک آج وہ کافی ڈاکٹرز کے انٹرویو کلیئر کرچکا تھا ۔ ان سب کو ساتھ ساتھ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت سے دےکر انہیں صبح سے جوائن کرنے کا کہہ چکا تھا ۔۔۔۔

واوو حیا یہ تو واقع میں ہی بہت شاندار ہسپتال ہے ۔۔۔

اور نام تو اور بھی پیارا منت واوووو ۔۔۔

ابھی یہاں پر ڈاکٹرز نہیں ہیں بس نرسس ہیں جو مریضوں کو دیکھتی ہیں ۔۔۔۔ماہین کو آگاہ کرتی ہوئی وہ متلاشی نظریں دوڑاتی ہسپتال کے اندر داخل ہوئی تھی ۔

یہاں بلڈ ڈونیٹ بھی کیا جائے گا ۔۔۔

حیا پھر تو یہ بہت مہنگا ہوگا اور گاؤں والوں کی پہنچ سے دور بھی ۔۔

کیونکہ اتنا خرچہ اس ہسپتال کے مالک نے کیا ہے تو وہ گاؤں والوں سے وصولوں گا نا ۔۔۔۔

اپنے تحت وہ صحیح سوچ رہی تھی ۔۔۔

یہ فلاحی ہسپتال ہے میری آپی ۔

اور رہی بات مہنگے ٹریٹمینٹ کی تو جو افورڈ نہیں کرسکتے ان کے لیے سب فری اور جو افورڈ  کرسکتے ہیں ان کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے ۔۔۔۔ماہین کو آگاہ کرتی ہوئی وہ سامنے سے آتی نرس کو دیکھ مسکرائی تھی ۔ 

بڑے دل والا اور حساس طبیعت کا مالک ہوگا اس منت ہسپتال کا مالک ہوگا۔۔۔۔جو شخص سنگدل ،جلاد تھا اس کی نظر میں آج وہ جانے انجانے میں اس کی تعریف کررہی تھی ۔

انجانے احساس کے ساتھ خوبصورت و ہر آرائش کے ساتھ بنے منت ہسپتال کو دیکھتی ہوئی مسکرا رہی تھی ۔ کہیں سے بھی یہ ہسپتال اسے گاؤں کا حصہ نہیں لگ رہا تھا ۔

آپ دیکھیں میں ابھی آئی ۔۔۔جس مقصد سے وہ ماہین کو یہاں لائی تھی وہ بھی تو اسے پورا کرنا تھا ۔۔

ارتضی کا پوچھتی ہوئی وہ خالی وارڈز کے سامنے سے گزرتی ہوئی ارتضی کے کیبنٹ تک پہنچی تھی ۔ 

شکر ہے ارتضی بھائی آپ یہاں پر ہے ورنہ تو میں بنا آپ سے ملے جاتی ۔۔۔کیبنٹ میں داخل ہوتی چیئر سے ٹکرائی تھی ۔۔

تباہی ۔۔۔وہ زیر لب بڑبڑایا تھا ۔

دھیان سے ۔۔۔ مسکراتا ہوا وہ اپنی چیئر سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

اب میں تمہیں کچھ دن  یہاں پر ہی ملوں گا ۔حیا کے برابر میں کھڑا ہوتا وہ اس کو یہاں دیکھ کر حیران ہوا تھا۔۔

اور ڈیری پر ۔۔۔

جس کی ہے وہ خود سنبھالے گا میں تو وزٹ کرنے گیا تھا  

اور کیا لو گی ۔۔۔

عام سے میں پوچھتا ہوا وہ حیا کو خاموش دیکھ مسکرایا تھا ۔

کیا ہوا ۔۔۔۔۔

وہ ارتضی بھائی میری کزن آئی ہوئی ہے میرے ساتھ باہر کھڑی ہے وہ بھی آپ سے ملنا چاہتی ہے ۔۔۔بنا رکے وہ جھوٹ بول گئی تھی ۔۔۔

اچھا تو پھر تم انہیں اپنے ساتھ لے آتیں ۔۔۔واپس سے اپنی چیئر بیٹھتا ہوا وہ حیا کے ہاتھوں میں ہوتی حرکت کو نوٹس میں لیے ہوئے تھا ۔

وہ بہت شرمیلی ہیں اس لیے وہ یہاں نہیں آئیں آپ چل کر مل لیں ان سے ۔۔۔ارتضی شاہ کے سامنے جھوٹ بولنے کی ہمت جمع کرتی ہوئی وہ پسینہ پسینہ ہورہی تھی ۔

حیرت ہے مجھ سے ملنا چاہتی ہے اور شرم بھی آرہی ہے ۔۔بات کو دھراتا ہوا وہ کنفیوز ہوا تھا ۔

چلو مل لیتے ہیں ۔اچانک سے اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا وہ گیٹ کھول کر باہر کی طرف  جاتا ہوا رکا تھا ۔

اف شکر ۔۔۔دل پر ہاتھ رکھے ہوئی وہ لمبا سانس باہر نکال کر مسکرائی تھی۔

 تم  بھی آؤ نا ۔۔۔گردن موڑ کر حیا کو بھی ساتھ آنے کا کہتا ہوا حیران ہوا تھا حیا کو یوں ہنوز کھڑے دیکھ ۔

آپ چلیں میں آتی ہوں پانی پی کر ۔پانی کا گلاس منہ سے لگاتی ہوئی وہ ارتضی کی طرف پیٹھ کر گئی تھی ۔

حیا کو پانی پیتے دیکھ وہ اپنے کندھے اچکاتا ہوا وہاں سے گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*************

مغرور چال چلتا ہوا وہ وارڈز میں کھڑے نرس اسٹاف کے سلام کا جواب دیتا ہوا ۔۔۔

سامنے مسکراتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر پل بھر کے لیے رکا تھا ۔۔۔

آنکھوں کو ہتھیلی سے مسلاتے ہوئے وہ اس کے ہونے پر مسکرایا تھا ۔

سکونِ دل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں..

اور ذرا نظر ملے پھر اُنہیں سلام کروں!!!

مجھے تو ہوش نہیں، آپ مشورہ دیجیے...

کہاں سے چھیڑوں افسانہ کہاں تمام کروں!!! 

اسلام وعلیکم کیسی ہیں آپ ۔۔۔شناسائی آواز پر وہ اچانک سے مڑی تھی ۔۔۔

ج۔۔۔ججل۔۔۔۔جللا۔۔۔۔۔

جلاد ۔۔۔۔۔۔۔ماہین کی آنکھوں میں اپنے لیے خوف اور اپنے سامنے اٹکتے دیکھ ارتضی خود سے ہی ماہین کا لفظ پورا کرگیا تھا۔

کیوں ۔۔۔۔ارتضی کو دیکھ وہ آنکھیں بند کرگئی تھی جیسے آنکھیں کھول لینے کے بعد وہ وہاں نہیں ہوگا ۔۔

تھوڑی دیر بعد آنکھ کھولتی ہوئی وہ اپنے سامنے کھڑے ارتضی کو دیکھ کر وہاں جانے کے لیے مڑی تھی ۔

آہہہہہہہہ۔ پچھلی ملاقات یاد کرتی وہ دھندلی ہوتی نگاہ سے وہاں سے جاتی ہوئی اچانک سے ٹیبل پر رکھے کانچ کے ٹکڑوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی اپنا ہاتھ زخمی کروا گئی تھی۔

کرلیا نا خود کو زخمی لو اب مزے  ۔۔۔ماہین کا ہاتھ پکڑتا ہوئے وہ خفگی و فکر سے بولا تھا ۔

چھوڑیں میرا ہاتھ ۔۔۔ خون دیکھ کر ہی ماہین کی آنکھوں میں جیسے سیلاب امڈ آیا تھا ۔

پہلے بینڈیج کروالو پھر چھوڑ دوں گا ۔۔کٹ لگی جگہ پر ہاتھ سے دباؤ دیتا ہوا وہ ماہین سے زیادہ پریشان ہوا تھا ۔

میں ڈاکٹر سے بینڈیج کرواؤ گی ۔۔۔ضدی بچوں  کی طرح روتی ہوئی کیوٹ لگ رہی تھی ۔

آپ اطلاع کے لیے عرض کہ میں ڈاکٹر ہی ہوں اب بینڈیج کرسکتا ہوں آپکی ۔۔حیرانگی سے ارتضی کو دیکھتی ہوئی وہ اس کے ساتھ چل رہی تھی ۔

یہاں بیٹھو   ۔۔۔۔۔۔ ماہین کو چیئر پر بیٹھا کر وہ خود گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ڈیٹول سے خون صاف کرنے میں مصروف تھا ۔

 ارتضی شاہ کو ایسے دیکھ وہ حیران ہوئی تھی ۔

جلاد ڈاکٹر کیسے بن سکتا ہے ۔۔۔وہ منہ ہی منہ بڑبڑائی تھی ۔

ماہین کی بڑبڑاہٹ سنتے ہوئے ارتضی کے لبوں کو مسکراہٹ چھو کر گزری تھی  ۔۔۔۔ 

ہمہم ۔۔۔۔۔۔۔۔اب تو یہ ہی سچ ہے ۔۔۔سنجیدگی سے بولتے ہوئے ارتضی کو سن کر  ماہین  کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔

ڈاکٹر جلاد ۔۔۔۔وہ زیر لب بولی تھی جس پر ارتضی مثبت میں گردن ہلا کر یقین دہانی کروا گیا تھا ۔

اچھے سے کریں نا دھیان دے کر ۔۔آہہہہہہ ۔۔۔۔۔۔آرام سے کریں درد ہورہی ہے ۔۔۔۔

یہ کیا کر رہے ہیں کس نے بنایا ہے آپ کو ڈاکٹر کوئی پاگل ہی ہوگا جس نے دی آپکو پی ،ایچ ڈی کی ڈگری ۔۔۔تواتر آنسو بہائے ہوئی وہ ساتھ ہی اپنی زبان کے جواہر دیکھا کر ارتضی کو ایرٹیٹ کررہی تھی ۔

اچھے سے ۔۔۔اسپرٹ سے گیلی روئی کو دیکھ کر بار بار اپنے ہاتھ کو پیچھے کرتی ہوئی وہ ارتضی کو مجبور کررہی تھی ایسا کچھ کرنے پر جو نہیں کرنا چاہتا تھا ۔

آہہہہ آرام سے درد ہورہی ہے ۔۔۔خون بند ہوچکا تھا ۔۔۔اسپرٹ سے کی گئی گیلی روئی کو سائیڈ پر رکھتا ہوا وہ ایک ہاتھ میں  ماہین کا ہاتھ پکڑے ہوئے ٹھوڑی کے نیچے اپنا دوسرا ہاتھ رکھ کر بیٹھا ہوا ارتضی اس کی اداکاری دیکھ کر مسکرایا تھا جو آنکھیں بند کیے بس دہائیاں دے رہی تھی ۔

درد ہورہا ہے ۔۔۔۔نرم لہجے میں پوچھتا ہوا وہ ہنوز مسکرا رہا تھا ۔

بہت زیادہ ہورہا ہے ۔۔۔۔بچوں کی طرح منمناتی وہ ارتضی کو قابل رحم لگی تھی ۔

آپ اچھے ڈاکٹر نہیں ہے جلدی جلدی بینڈیج کریں  ورنہ میرا سارا خون ضائع ہوجائے ۔۔اندر سے کچھ چھناکے کے ساتھ  کچھ ٹوٹا تھا اور وہ ہی ایک پل تھا جسے ارتضی کو سنگدل بنادیا تھا ۔  

آہہہہہہہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔زخم پر ہاتھ سے زور دیتا ہوا سنجیدگی سے ماہین کو چیختے دیکھ پرسکون ہوا تھا ۔

جلاد ،سنگدل ۔۔۔۔آنسو بہاتی وہ ارتضی کو مسکراتے دیکھ کلسی تھی ۔

اور اس سنگدل اور جلاد کو آپ ہی بیدار کیا مس نام کیا آپ کا ۔۔۔۔۔

ماہین ریاض ۔۔۔۔۔ارتضی کے سخت گیر لہجے میں پوچھتے ہوئے دیکھ خوفزدہ ہوتی  وہ فورا سے نام بتا گئی تھی ۔

ماہین ریاض آپ کے نازک و ملائم ہاتھ پر جو بہت گہرا کٹ آیا ہے اس میں خون آنا بند ہوگیا ہے ۔۔۔ہلکے سے کٹ پر طنز کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔

تو بینڈیج کون کرے گا ۔۔ارتضی کو شان بے نیازی سے جاتے دیکھ وہ سے اسے پکار گئی تھی ۔

مجھ جیسا جلاد ،سنگدل ناکام ڈاکٹر ایک چھوٹے سے مطلب اتنے گہرے کٹ کی بینڈیج کرتا ہوا اچھا تھوڑی لگے گا ۔۔ 

آپ ایک کام کریں ماہین ریاض کسی اسپیشلسٹ سے بینڈیج کروایں۔۔۔۔ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولتا ہوا وہ کندھے آچکا کر واپس سے جانے کے لیے مڑا تھا ۔۔

پلیز کردیں ۔۔۔بھرائی آواز میں منت کرتی ہوئی وہ اسے جاتے ہوئے قدموں پر روک گئی تھی ۔

ایک شرط پر ۔۔۔گردن موڑ کر وہ ماہین کے آنسوؤں سے تر چہرے کو دیکھ لب دبائے کھڑا ہوا تھا ۔

کیا ۔۔۔۔۔۔۔ 

کل کے اور آج کے میرے ساتھ کیے گئے اپنے رویے پر سوری کرو ۔۔۔پھر بینڈیج کرنے کا سوچ سکتا ہوں ورنہ ۔۔۔۔۔

وہ بھی اپنے نام کا ایک سارے حساب برابر کرنے کھاتہ کھول بیٹھا تھا ۔ 

یہ کیسا وقت آگیا ہے ماہین ریاض تجھ پر کہ تو اب اس جلاد سے معافی مانگے گی ۔۔۔حیا کہاں ہو مجھے اس جلاد کے پاس چھوڑ کر کہا دفع ہوگئی تم ۔حیا کو سوچ کر  مسلسل آنکھوں سے بہتے  آنسوؤں میں روانگی آئی تھی ۔

جب ہی فون پر آئے حیا کے ٹیکسٹ کو فورا سے پڑھتی ہوئی اپنی قسمت پر ماتم کرتی ہوئی وہ سارے ہسپتال کو اپنے آنسوؤں سے ڈوبنے کا ارادہ کیے ہوئی تھی ۔

سوری ماہین آپی بنا بتائے جارہی ہوں ضروری کام آن پڑا ہے جس وجہ سے آپکو اکیلے چھوڑ کر جارہی ہوں ۔۔

یہاں آپ کسی کو بھی کہہ دی گی کہ تو وہ آپ بخاری ولا تک چھوڑ دے گا ۔ماہین کے زاویے دیکھنے سے قاصر رہی تھی مگر ارتضی کو مسکراتے دیکھ وہ بے صبری سے گھر کے لیے نکلی تھی ۔

عجیب سی بے بسی محسوس ہورہی تھی ارتضی کو ماہین کو یوں روتے دیکھ ۔

اچھا چھوڑیں لائیں میں بینڈیج کردیتا ہوں ۔بنا چوچراں کیے بینڈیج کرواتی ہوئی ماہین کو ایک اور نئی پریشانی نے گہر لیا تھا۔اب وہ گھر کیسے اور کس کے ساتھ جائے گی ۔

کس کے ساتھ آئیں ہیں آپ ۔۔

کزن کے ساتھ آئی تھی۔اور وہ اب مجھے یہاں اکیلے چھوڑ کر چلی گئی ہے ۔۔ارتضی کے نرم لہجے نے اسے بولنے کی ہمت دی تھی ۔

کزن ۔۔۔۔ارتضی بھائی وہ میری کزن آئی ہوئی ہے میرے ساتھ باہر کھڑی ہے وہ بھی آپ سے ملنا چاہتی ہے ۔۔حیا کی بات یاد کرتا ہوا وہ حیران ہوا تھا ۔

کیا ماہین ہی وہ لڑکی ہے جس کا ذکر حیا کررہی تھی ۔ذہن میں چلتی سوچ کو سوچتا ہوا ماہین کو دیکھ کر نظریں جھکا گیا تھا۔

حیا نام ہے آپ کی کزن کا ۔۔۔بلآخر وہ پوچھ ہی گیا تھا ۔

جس کا جواب ماہین نے مثبت میں گردن ہلا کر دے گئی تھی ۔ 

آئیے میں چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔ایک منٹ کی تاخیر کیے وہ اس لفٹ دینے کی آفر دے گیا تھا ۔

بدلہ تو نہیں لیں گے نا ۔۔رونے کی وجہ سے سرخ ہوتی آنکھیں لیے وہ سوال کررہی تھی ۔

نہیں لوں گا آجائیں ۔۔۔خالی وارڈ سے باہر نکلتا ہوا اسے اپنے پیچھے آنے کا کہتا ہوا ریسپشن کی طرف بڑھا تھا۔

بائیں ہاتھ سے آنسو صاف کرتی ہوئی وہ ارتضی کے پیچھے پیچھے چل تھی ۔

اس کا کیا بھروسہ وہ کب اپنی بات سے پھر جائے ۔

*************

ڈاکٹر عامر شہزاد آئے تو میرے کیبنٹ میں بیٹھا دیجئے گا۔

ماہین آئیں ۔۔۔ارتضی شاہ کے پیچھے چلتی ہوئی اس نازک صنف لڑکی کو دیکھ کر سب اسٹاف نے نظریں جھکا گئے تھے ۔

وہ ہونٹ بے مثل وہ رخسار ،، کمال است ،،

وہ آنکھ وہ آبروئے طرحدار ،، کمال است ،،

آواز میں وہ ساز کہ گفتار ،، کمال است ،،

سانسیں وہ عطر بیز کہ مہکار ،، کمال است ،،

وہ قامتت_دراز کہ شہکار ،، کمال است ،،

کاندھے پہ سچے گیسوئے خمدار ،، کمال است ،،

دیکھا ہے کئی بار بھی ہر بار ،، کمال است ،،

دھیمی ہو بھلے تیز وہ رفتار ،، کمال است ،،

پرکھا جو محبت میں تو کردار ،، کمال است ،،

دل بھی بے رقص میں کہ ملا یار ،، کمال است ،،

بل کھاتی ہوئی کچی پکی سڑکوں پر مہارت سے  ڈرائیوو کرتا ہوا ارتضی شاہ وقفہ وقفہ سے اپنے برابر میں بیٹھی  ماہین کے صبیح چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔

جو خاموش بیٹھی ہوئی  ونڈو سے باہر دیکھتی ہوئی جلاد کے نئے انداز پر حیران تھی ۔

حیا کو کیسے جانتے ہیں آپ ۔۔اچانک سے دماغ میں سوال کو وہ ارتضی سے پوچھ گئی تھی ۔

کیوں ۔۔وہ الٹا سوال پوچھ گیا تھا۔

ایسے ہی ۔۔۔۔

کیوں بھول گئی ماہین جلاد ہے تو جلاد ہی رہے گا ۔اپنا سا منہ لیے وہ بڑبڑائی تھی ۔

کچھ کہا آپ نے ۔۔۔۔ بظاہر وہ ڈرائیونگ کررہا مگر اس کا سارا دھیان ماہین کی طرف  تھا ۔  

سن تو وہ سب چکا تھا پھر بھی وہ اس کے منہ سننے کا خواہش مند تھا اس کے منہ سے جلاد نام سننا بھی ایک الگ سرور بخشتا تھا ۔

نہیں  تو ۔۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ۔۔۔وہ ارتضی کے پوچھنے پر وہ ڈگمگائی تھی ۔

اپنی مسکراہٹ دبائے وہ ڈرائیونگ کرتا ہوا اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

***********

چاچو ،،،،  چاچو ۔۔۔ماہین کو ہسپتال چھوڑ خود وہ ڈرائیور کے ساتھ بخاری ولا آگئی تھی ۔

امو جان ،،،چاچو گھر پر ۔۔۔اندھا دھند بھاگتی ہوئی حیا ریاض صاحب کو گھر نا پا کر پھولے ہوئے سانسوں کے ساتھ شاکرہ بیگم سے پوچھ رہی تھی ۔

سانس تو لے لو پہلے اور یہ کیا تم  دنداناتی ہوئی اکیلی آگئی ہو ماہین کہاں ہے ۔۔حیا کے ساتھ کو دیکھ وہ حیا کو ڈانٹ رہی تھیں مگر اس کے سر پر جوں تک نا رینگی تھی ۔۔

آجائیں گی وہ چاچو کہاں ۔

کیسے آجائے گی کل بھی گم ہوگئی تھی وہ اور تم پھر اسے اکیلا چھوڑ آئی ہو ۔۔۔

امو وہ جہاں پر ہیں محفوظ ہیں ۔۔شاکرہ بیگم کو پریشان دیکھ انہیں تسلی دے گئی تھی ۔

چاچو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔گاڑی کے ہارون کی سن کر خفگی سے امو کی طرف دیکھتی ہوئی باہر بھاگی تھی ۔۔۔ 

شکر ہے چاچو آپ آگئے پتہ ہے کب سے انتظار کر رہی ہوں آپ کا ۔۔ترکی بہ ترکی بولتی ہوئی وہ ریاض صاحب کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں ۔۔

واہ بابا جان کی آج چاچو کی جان بن گئی ہیں اور بابا کو بھول گئی ہیں ۔۔۔۔حیا کو ریاض صاحب کے ساتھ جاتے دیکھ حمدان صاحب لہجے میں مضنوئی ناراضگی لیے پیچھے سے بولے تھے ۔

ہا ۔۔۔۔۔۔بابا جانی سوری میں نے آپ  کو دیکھتا ہی نہیں ۔۔۔ہنوز ریاض صاحب پکڑے ہوئے وہ افسردگی سے بولی تھی۔۔

چلو کوئی بات نہیں بابا نے معاف کیا اپنی جان کو ۔۔۔۔

آئی لوو یو بابا جانی۔۔۔۔حمدان صاحب اور ریاض صاحب کے درمیان میں دونوں کے ہاتھ تھامے وہ چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی۔

چاچو ۔۔۔۔۔

جی چاچو کی جان ۔۔۔ریاض کے بیٹھنے کا بھی انتظار نا کرتی ہوئی وہ فورا سے بولی تھی ۔

نرجس آپی کی شادی کو کتنے سال ہوگئے ہیں ۔۔۔حمدان صاحب مسکرائے تھے اپنی بیٹی کی معصومیت پر ۔۔

پتہ نہیں اب کیا نیا کارنامہ انجام دینے والی ہے ۔شاکرہ بیگم دل ہی دل میں حیا کے چہرے سے شرارت دیکھ کر پریشان ہوئی تھیں۔۔

تین سال ۔۔۔ریاض صاحب کو اندازہ نا تھا وہ آج ان سے اتنی گرم جوشی سے ملنے کے بعد یہ سوال پوچھے گی ۔

تین سال ۔۔۔اور انہیں پاکستان آئے ہوئے کتنے سال ہوگئے ہیں ۔۔۔

ایک اور سوال جس کی کسی کو بھی امید نہیں تھی آج وہ سوال پوچھ رہی تھی ۔۔

تقریبا ایک سال پہلے ۔۔۔حمدان صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے وہ مسکرائے تھے ۔

ان کے دیکھنے سے صاف ظاہر تھا وہ ان کی ہمت کو داد دے رہے تھے ۔۔جس پر حمدان صاحب نے بھی  مسکرا کر داد وصول کی تھی ۔

ماہین اور حیا کی شرارتوں مین رات دن کا فرق محسوس کرتے ہوئے ماہین کو یہاں موجود نا پا کر نظریں جھکا گئے تھے ۔ 

تو پھر سے بندوبست کرتے ہیں انہیں یہاں بلانے کا ۔۔۔ریاض صاحب کے برابر میں آکر بیٹھتی ہوئی وہ شاکرہ بیگم کی مسلسل گھوریوں کو جھٹکتی ہوئی پرجوش ہوئی تھی ۔

جیسے کہ کیا ۔۔۔۔۔حمدان صاحب کے پوچھنے پر وہ شاکرہ بیگم کی سوالیہ نظروں کو دیکھ کر محفوظ ہوئی تھی ۔

سلیمہ چاچو اور بابا جانی کے لیے  پانی لاؤ اور ساتھ ادرک والی کڑک چائے ۔۔۔

امو جان۔۔۔۔آپ بناکر لائیں اچھی سے چائے اور ایک کپ میرے اور ہاں آپ کا دل کرے تو آپ اپنے لیے بھی بنا لیجئے گا ۔۔۔۔۔ بنا حمدان صاحب کے جواب دیے وہ شاکرہ بیگم کو یہاں سے بھیجنے کے لیے ان کو چائے کا کہہ گئی تھی ۔

آپ جائیں گی تو بات شروع کروں گی نا امو ورنہ آپ نے بیچ میں ہی ٹوک دینا ہے ۔۔شاکرہ بیگم کی گھوری سے شرمندہ ہوتی ہوئی وہ دل میں سوچ کر نظریں جھکا گئی تھی ۔ 

چائے کے ساتھ کچھ کھانے کے لیے بھی لے آئیے گا ۔۔حمدان بخاری کے بولنے پر اپنی جگہ سے اٹھتی ہوئی حیا کی چالاکی پر تاسف سے گردن ہلا کر رہ گئی تھیں ۔۔۔

اتنا تو وہ جانتی تھیں کہ وہ کچھ ایسی بات ضرور کرنے والی ہے جو وہ ان کی موجودگی میں ہرگز نہیں کرسکتی تھی ۔

ہم کہاں تھے ۔۔۔

ہم نہیں آپ کو جواب دینا تھا۔۔۔جیسے کہ ایسا کیا کرنا چاہیے ہمیں  کہ نرجس آرام سے یہاں آجائے بنا کوئی بہانا بنائے ۔۔حمدان صاحب کے ساتھ ریاض صاحب  بھی حیا کے جواب کے منتظر تھے ۔

جیسے کے ماہین آپی کی شادی فکس کردیتے ہیں پھر تو وہ نچاتی ہوئیں پاکستان آئیں گی ۔۔۔

ریاض صاحب کے ساتھ حمدان صاحب بھی حیا کی بات پر حیران ہوئے تھے ۔

دونوں کو بھنویں سکیڑ کر خود کو دیکھتے پا کر وہ اپنا نچلا لب دانتوں تلے دبائے وہ اداس ہوئی تھی ۔

ارتضی اور ماہین کو ایک ساتھ دیکھ کر وہ کیا سے کیا سوچ چکی تھی ۔۔

مگر یہاں تو شادی کے نام پر ہی اسے دونوں ایسے دیکھ رہے جیسے اس نے ماہین کی شادی کا کہہ کر کوئی گناہ کردیا ہو ۔

شادی کروانے کے لیے لڑکا بھی ہونا چاہیے ۔۔۔ایسے ہی تھوڑی شادیاں ہوتی ہیں ۔۔کہیں نا کہیں حیا نے ریاض صاحب کے دل کی بات کی تھی ۔۔

کیا ۔۔۔۔مطلب آپ کو غصہ نہیں آیا ۔۔۔۔ریاض صاحب کی بات اسے سکون بخش گئی تھی ۔

اور رہی بات لڑکا ڈھونڈنے کی اپنی ورڈ بیسٹ ماہین آپی کے لیے ورڈ کا بیسٹ لڑکا دیکھا ہے ۔۔

ہینڈسم ،ڈیشنگ اور ہیرو جیسا ۔۔۔۔۔۔روانگی سے بولتی ہوئی وہ چہکی تھی ۔

ہینڈسم سے کیا ہے بیٹا سیرت معنی رکھتی ہے ۔۔۔وہ حیا کی بچکانہ حرکت پر مسکرا کر سنجیدگی سے بولے تھے ۔

بلکل ۔۔۔حمدان صاحب نے بھی اب تائید کی تھی ۔

لو سیرت ہی دیکھنی ہے نا تو منت ہسپتال منہ بولتا ثبوت ہے اور ان کی نیک سیرت اور رحم دلی کی ۔۔۔کچھ توقف کے بعد وہ بنا جھجھکے بولی تھی ۔

ایک منٹ آپ ارتضی کی بات کررہی ہیں کیا ۔۔۔۔

جی بابا جانی ارتضی بھائی اور ماہین آپی ایک ساتھ بہت پیارے لگتے ..

ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر ایسا لگا جیسے وہ ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں ۔۔۔بے دھیانی میں بولتی ہوئی وہ حمدان بخاری اور ریاض صاحب کی خاموشی کو سمجھ نا سکی تھی۔

ارتضی شاہ کا نام سن کر ہی ریاض صاحب کو چپ سادھ لی  تھی۔

حیا آپ کا دماغ ٹھیک تو ہے ۔ایسے کیسے ہم آپ کے کہنے پر ماہین کے رشتے کے لیے شاہ حویلی چلے جائیں ۔۔۔

اور رہی بات ماہین کے رشتے کی بار تو یہ ہمارا فیصلہ ہوگا کہاں کرنا اور کہاں نہیں آپ کو بیچ میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔سمجھ میں آئی بات ۔۔۔ ریاض صاحب کو چپ دیکھ کر حمدان بخاری حیا کو ڈنپٹتے ہوئے ریاض صاحب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر انہیں حوصلہ دے گئے تھے۔

سوری بابا جانی   ۔۔۔۔بھرائی آواز میں منمناتی ہوئی انگلیوں کو آپس میں الجھاتے ہوئی خود ضبط کیے ہوئی تھی ۔   

حیا ۔۔۔۔۔

جی چاچو ۔۔۔۔حمدان بخاری کے ڈپٹنے پر وہ نم آنکھیں لیے خاموش بیٹھی ہوئی تھی ۔

اچھا نہیں لگتا نا بچے لڑکی والے خود لڑکے والوں کے گھر رشتہ لے کر جائیں ۔۔تحمل کے ساتھ حیا کو سمجھاتے ہوئے ریلکس ہوئے تھے ۔

اگر خالہ جان  خود آئیں تو ۔۔۔نم آنکھوں میں امید جاگ اٹھی تھی ۔

سوال پوچھتی ہوئی وہ کچھ توقف کے لیے ان دونوں کو خاموش کروا گئی تھی ۔

پھر سوچا جا سکتا ہے۔۔۔۔ریاض صاحب کے کہنے کی دیر تھی اور وہ خوشی سے ان کے گلے لگ گئی تھی ۔

تو پھر تیار رہیں ۔۔۔۔۔۔کہہ کر وہ وہاں سے بھاگتی ہوئی شاکرہ بیگم سے ٹکراتے ہوئے بچی تھی ۔

سوری ۔۔۔۔اسے کیا دے دیا آپ لوگوں کے اتنی چہکتی ہوئی گئی ہے ۔۔۔چائے کا کپ حمدان صاحب کو دیتی ہوئی وہ حیا کو خوش دیکھ کر حیران ہوئی تھیں۔

ارتضی کی شادی کی بات کی ہے آج تک آپ کی آپا نے آپ سے۔۔۔چائے کی سیپ لیتے وہ عام سے لہجے میں پوچھتے ہوئے شاکرہ بیگم کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھے ۔

نہیں  مگر  آپ اچانک سے کیوں پوچھ رہے ہیں سب ٹھیک ہے نا ۔۔۔حمدان صاحب کے پوچھنے پر وہ پریشان ہوئیں تھیں ۔

کوئی بات نہیں ہے بیگم ۔۔۔۔شاکرہ بیگم کی نظریں اب ریاض صاحب کے چہرے پر ٹکی تھیں ۔

میں اپنے روم میں جارہا ہوں ۔۔۔۔شاکرہ بیگم کی نظریں خود پر ٹکے دیکھ ریاض صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاں سے چلے گئے تھے ۔

************

جہاں کے رنج سے پھر بھی پیار کرتے رہے 

خزاں تھی زیست میں لیکن بہار کرتے رہے ۔۔،

فقط وفا ہی ہمارا نہیں رہا شیوہ

وفا میں اپنی جان بھی نثار کرتے رہے ،،،

خبر تھی وہ نہ پلٹ کر کبھی بھی واپس آئیں گے

تمام عمر پھر بھی انتظار کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔،

بچھڑتے وقت یونہی مسکرا دیے تھے کبھی

بچھڑ کے آنکھوں کو پھر اشکبار کرتے رہے ۔۔۔،

طلسم کیا تھا ان آنکھوں میں ہم نے نہ جانا

بس ان کی یاد میں دل بے قرار کرتے رہے۔۔۔۔۔،

ہزار بار کسی سے فریب کھایا ہے 

ہزار بار مگر اعتبار کرتے رہے ۔۔۔،

سماج کے بھی مسائل بیان کئے زاہد

ہم اپنے شعروں میں سب آشکار کرتے رہے ۔۔۔۔ 

آج بڑے دنوں بعد رائمہ کو بنا کسی ملازمہ کے ساتھ چھت پر اکیلا پتنگ اڑتے دیکھ کر وہاج کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی ۔

ہائے آسمان پر اڑتی یہ گلابی پتنگ دل چاہتا ہے اس کے ساتھ پیچ لڑاؤں ۔۔۔۔

آنکھوں میں ڈوب جاؤں اس کے

 کناروں کو اس کی باہوں میں ڈھونڈ لوں 

خود میں بسا کر اسے خود میں کہیں چھپالوں

من گھڑت بولتا ہوا دونوں ہاتھوں کا ہار بنائے  وہاج سامنے گلابی سوٹ میں کھڑی رائمہ کو دیکھ کر بےخودی میں بلند آواز میں  بولتا ہوا رائمہ کو ہسنے پر اکسا رہا تھا ۔

میرا بھی نا بڑا دل کر اس سیاہ پتنگ کو آڑے ہاتھوں لوں اتنے برے طریقے سے کاٹوں نا ساری عمر یاد رکھے گا پتنگ اڑانے والا ۔ پتنگ کو ڈھیل دیتی ہوئی چبا کر بولی تھی ۔

سمجھا کیا ہوا ہے تم نے سیاہ پتنگ والے کو ۔

میں تو دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر تمہاری پتنگ کو ڈھیل دیے ہوئے تھا اور تم میری ہی پتنگ کو کاٹنے کی تیاری میں لگی ہوئی ہو ۔ رائمہ کو مسکراتے ہوئے دیکھ شکایت بھی اس دشمن جاں سے مہنگی پڑتی نظر آرہی تھی وہاج کو ۔

میرے مانجھے کی دھار بہت تیز ہے تو ذرا خیال رہے وہاج انصاری ۔

یہ جو تمہارے دل کے ہاتھ ہیں نا کہیں چھلی چھلی نا ہوجائے میرے تیز دھار مانجھے سے ۔

نیلے شفاف آسمان پر اڑتی ہوئی اپنی گلابی پتنگ کے ساتھ سیاہ پتنگ سے ہوتے پیچ کو دیکھ کر وہاج کی طرف الوادعی اشارہ کرتی ہوئی فاتح انداز میں دیکھتی ہوئی مسکرا رہی تھی ۔جبکہ اپنی پتنگ کے ساتھ ہوئی اچانک افتاد پر ہاتھ میں پکڑی ٹوٹی ہوئی ڈور کو بے بسی سے دیکھتا رہ گیا تھا ۔

 پتنگ ہوا میں بےجان اڑتے ہوئے دیکھ کر چونکا تھا۔ 

غصے سے بڑے بڑے سانس بھرتا ہوا دیوار پھلانگ کر وہاج رائمہ کے پیچھے دبے پاؤں آکھڑا ہوا تھا ۔

اپنی خوشی میں مگن رائمہ خود کے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کرتی ہوئی  گھبرائی تھی ۔

تم یہاں ،،بھائی نے دیکھ لیا تو ۔۔آنکھوں میں ڈر لیے وہ ڈور کو چھوڑتی ہوئی اس سے دو قدم دور ہوئی تھی ۔

لپک کر ڈور پکڑتا ہوا وہ رائمہ کے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔۔ 

بھائی سے ڈر نہیں جانم 

ان کی دھلائی سے لگتا ہے ۔۔۔ 

وہ جو وہاج کے منہ خود جانم سن کر سرخ ہوئی تھی وہیں وہایک ادا کے ساتھ بولتا ہوا رائمہ کی پتنگ کو ڈھیل دے کر واپس سے دیوار ٹپتا ہوا اپنی چھت پر آکھڑا ہوا رائمہ سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔

ٹھرکی انسان میری پتنگ لے لی تم نے ۔۔اپنی پتنگ کو وہاج میں دیکھ کر وہ اپنی بےوقوفی پر پچھتائی تھی ۔۔۔

آج تم سے تمہاری پتنگ لے کر اپنی چھت پر آگیا ہوں بہت جلد تمہارے ساتھ یہاں پر  پتنگ اڑانے کا ارادہ رکھتا ہوں   ۔۔ رائمہ کو دیکھتا ہوا وہ مسکرایا تھا ۔

خوابوں پر کس کی پابندی ہوتی ہے دیکھتے رہو تم ۔۔۔

 جب تک تم اپنے بازوں میں دم خم پیدا نہیں کرو گے نا جب تک یہ خواب ادھورا ہی رہے گا ۔۔۔ ترچھی سے کہتی ہوئی وہ وہاج کو افسردہ چھوڑ وہاں سے چلی گئی تھی ۔

کیا کروں رائمہ ایسا جس سے سب ٹھیک ہوجائے ۔۔۔ہاتھ سے ڈور کو رہا کرتا ہوا اپنی فیملیز کے بگڑے ہوئے  تعلقات کو سوچ  کر ہمت ہار گیا تھا ۔

خالہ جانی کیا آپ کو نہیں لگتا اب کی ساس بننے کی عمر ہوگئی ہے ۔۔۔۔جب سے بخاری ولا سے آئی بیٹھی حیا موقعے کی تاک میں تھی شاہدہ بیگم سے اکیلے میں بات کرنے کے لیے  ۔۔۔

مطلب کیا ہے تمہارا میں بوڑھی ہوگئی ہوں ۔۔۔شاہدہ کے استفسار سے وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ گئی تھی ۔۔

میری پیاری سی خالہ جانی ۔۔۔آپ بوڑھی نہیں ہوئی ہیں بس آپ کو نہیں لگتا کہ آپکی کوئی بہو ہو جو آپ کی خدمت کرے  آپ کے چھوٹے چھوٹے پیارے پوتا پوتی ہوں ۔۔۔۔

جو آپ کو تنگ کریں آپ ان کے کھیلیں ۔۔۔۔شاہدہ بیگم کی  آنکھوں کے سامنے آن کے چھوٹے چھوٹے اپنے پوتا پوتی کھیلتے ہوئے دیکھ وہ مسکرائی تھیں ۔

بتائیں ۔۔۔۔۔۔حیا کے پوچھنے پر وہ موجودہ حال میں آتی ہوئیں افسردہ ہوئی تھیں۔

کیا کیا جائے ۔۔۔وہ الٹا حیا سے ہی رائے مانگ رہی تھیں ۔

شاہدہ بیگم کے پوچھنے پر وہ دل ہی دل خوش ہوئی آخر کو وہ چاہتی ہی یہ ہی تھی کہ شاہدہ بیگم خود اس سے رائے مانگیں ۔۔۔

سمپل ارتضی بھائی کی شادی کروادیں ۔۔۔ہاتھ میں لیے ایپل کی بائٹ لیتی ہوئی وہ اپنے تحت بہت آسان  رائے دے گئی تھی ۔۔ 

ارتضی مانے تب ہی ہوگی نا اس کی شادی ۔۔افسردگی سے حیا کے ہاتھ سے اپیل لے کر  کھانے میں مصروف ہوئیں تھیں ۔

وہ مان جائیں گے آپ نے کوئی لڑکی دیکھی ہے یا وہ بھی میں ہی سیجیسٹ کروں آپ کو ۔۔۔اپنا ایپل واپس سے لیتی ہوئی وہ مضنوئی خفگی سے پوچھ رہی تھی ۔

حیدر کے لیے تو میں دیکھ لی ہے اس کی دلہن۔۔۔۔ہاں اچھے جانتی ہوں آپ کی چھوٹی بہو کو ۔۔۔۔ان کی بات بیچ میں کاٹتی ہوئی وہ شرارت سے گویا ہوئی تھی ۔ 

مگر ارتضی کے لیے آج تک کوئی لڑکی نظر میں چڑھی  ہی نہیں ۔۔خاندان بھر کی لڑکیوں کو سوچتی ہوئیں وہ توبہ توبہ کر گئیں تھیں ۔

میری نظر ہے ایک لڑکی ،خوبصورت ،خوش مزاج اور سگھڑ بھی ۔۔۔

کون ہے وہ لڑکی اور کہاں سے ہے ۔۔۔ دیوان پر بیٹھی ہوئی وہ اور چوڑی ہوئی تھی شاہدہ بیگم کے اسرار پر ۔

کون ہے کہاں سے ہے بلکہ سب بتاؤ گی کیا دیکھا دیتی ہوں آپ کو ۔۔۔۔۔سیل فون میں محفوظ کی ہوئی ماہین کی چند فوٹوز شاہدہ بیگم کو دیکھاتی ہوئی وہ ساتھ ساتھ ان کے چہرے کے زاویے پڑھ رہی تھی ۔۔

ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے اور میرے شاہ کے ساتھ تو اور بھی پیاری لگے گی نام کیا ہے ۔۔۔کچھ توقف کے بعد زوم کرکے ماہین کی فوٹوز دیکھنے کے بعد  ماہین  کی تعریفوں کے قصیدے پڑھنے شروع ہوگئی تھیں ۔۔۔

ہاں۔۔۔۔ ہاں ۔۔جانتی ہوں خالہ جانی ماہین آپی جب تک آپ کی بہو نہیں بن کر آجاتی ہیں جب تک آپ ان کی تعریفیں کریں  گی ۔

ماہین آپی ہیں یہ ریاض چاچو کی بیٹی ۔۔۔۔

اچھا ماشاءاللہ ماں سے بھی بڑھ کر خوبصورت ہے ۔۔۔۔ماہین کے مسکراتی ہوئی فوٹو کو دیکھ کر وہ سچے دل سے اس کی خوبصورتی پر قائل ہوئیں تھیں ۔

نظر نا لگا دینا آپ میری آپی کی اور ویسے بھی جب وہ آجائیں گی بہو بن کر تو آپ میں خطرناک ساس والا روپ آجائے گا ۔۔۔آنکھوں میں شرارتی لیے وہ سنجیدگی سے بولتی ہوئی شاہدہ بیگم کے ہاتھ سے اپنا فون واپس لے گئی  تھی ۔

چل پاگل میں بہت اچھی ساس بنوں گی دیکھنا تم ۔۔۔۔حیا کے کندھے پر ہلکی سی چیت لگاتی ہوئی وہ ماہین کو دل سے پسند کر گئیں تھیں ۔

تمہارے لیے سخت گیر ساس بنوں گی ۔۔۔حیا کا کان کھینچتی ہوئیں وہ بھی شرارتی ہوئیں تھیں ۔ 

اگر میرے ساتھ یہ بری ساس بنی نا  تو مجھ سے کوئی امید مت رکھیئے گا کہ میں اسٹار پلس کی بیچاری بہو بنوں گی ۔۔۔وہ کیا کسی سے کم تھی ۔

اچھے سے جانتی ہوں تمہیں ۔۔مگر ایک بات تنگ کررہی ہے ارتضی کو کیسے راضی  کیا جائے ۔۔۔۔سنجیدگی سے پوچھتی ہوئی وہ پریشان ہوئیں تھیں ارتضی کو منانے کا سوچ کر۔

وہ تو راضی ہی راضی ہیں آپ بس شادی کی بات چھیڑیں پھر دیکھئے گا ارتضی بھائی کے بدلتے رنگ ۔۔۔۔پراعتماد لہجے میں بولتی ہوئی وہ مسکرائی تھی ۔

بس آپ وہ کریں جو میں کہوں گی پھر دیکھنا آپ ارتضی بھائی کے سہرے کے کھلتے ہوئے پھول ۔۔۔۔آنکھیں مٹکاتی ہوئی وہ پر یقین ہوئی تھی۔

جیسے کہ کیا کرنا ہے ۔۔وہ بھی تیار تھیں حیا کا ساتھ دینے کا سن کر انہیں ڈھارس ملی تھی ۔

اپنے شیطانی دماغ میں چلتی ہوئی واردات کو ان کے گوش گزار کرتی ہوئی وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں تھیں ۔

میشن ارتضی شاہ کی شادی پر آج سے عمل درآمد کرنا ہے ۔۔۔

************

مس ماہین آپ کا گھر آگیا ہے ۔۔۔۔قدرے آرام سے کہتا ہوا وہ ماہین کو استحقاق بھری نظروں سے دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا تھا ۔

بنا ارتضی کو دیکھ وہ گاڑی سے اتری تھی ۔۔

شکریہ کہوں یا نا کہوں ۔۔۔کچھ توقف سوچنے کے بعد وہ شکریہ کہنے کے لیے مڑی تھی ۔۔

کہ ارتضی گاڑی اسٹارٹ کرتا ہوا وہاں سے گیا تھا ۔

جلاد ۔۔۔۔۔ارتضی کو جاتے دیکھ وہ اندر کی سمت بڑھی تھی ۔

ماہین کو بخاری ولا تک چھوڑ وہ  اس کے شکریہ ادا کرنے سے پہلے وہاں سے آگیا تھا ۔۔

سارے راستے  ماہین  اور اپنے اس کے ساتھ  گرزے لمحات  کو سوچ کر  مسکراتا رہا تھا ۔

 جب سے اسے یہ پتہ تھا کہ ماہین حیا کی کزن ہے زیادہ خوش ہورہا تھا ۔

ان ہی سوچوں کو سوچ کر وہ ہسپتال جانے کے بجائے سیدھا حویلی آیا تھا  ۔

اچانک سے برابر میں بنے انصار ولا کی چھت پر کھڑے وہاج کو دیکھ کر اس کی مسکراہٹ کی جگہ سرد سنجیدگی نے لی تھی ۔

دونوں ہاتھ سینے پر باندھے ہوئے وہ وہاج کے نڈر چہرے کو دیکھ کر آبرو آچکا کر داد دے رہا تھا ۔۔۔

آج وہاج انصاری کسی سے نہیں ڈرنے والا ہے ۔۔۔۔آنکھوں میں خوف لیے وہ ارتضی کے سرد داد پر دل ہی دل میں عہد لے رہا تھا ۔۔

وہاج کو آبرو سے نیچے آنے کا اشارہ کرتا ہوا ارتضی اس کے اڑتے رنگ دیکھ کر لب دبا گیا تھا ۔۔۔۔

کیوں آؤں میں تو نہیں آرہا آج دور سے فیس کرکے اتنا خوف آرہا ہے سامنے جاکر کیا ہوگا ۔۔لیکن میں ہمت نہیں ہاروں گا ۔۔۔۔ 

 خاموش چلتی جنگ  سے وہاج اپنے قدم پیچھے لیتا ہوا سامنے سے ہٹا تھا ۔۔۔

اسے پیچھے ہٹتے دیکھ بے اختیار ہی ارتضی قہقہ لگا گیا تھا ۔

ہنستا ہوا وہ اپنی پینٹ کی پاکٹ سے سیل فون نکالتا ہوا وہ کچھ سوچ کر نمبر ڈائل کرگیا تھا ۔

جو پہلی ہی کال پر اٹینڈ کرلیا گیا تھا ۔جسے اس کے ہی فون کے انتظار میں ہو مقابل ۔۔۔۔

ہر لحاظ میں کمال ہے بس تھوڑی ہمت و جذبے کی کمی ہے اور وہ مین خود اس بزدل میں ڈال دوں گا ۔۔۔

سنجیدگی سے بولتا وہ حویلی میں داخل ہوا تھا ۔۔۔

ہماری تو تمام تر کوشیش  ناکام رہی ہیں۔۔۔۔

 اگر تم اس کے سوئے ہوئے جذبے کو جگانے کی تاب رکھتے ہو تو کیوں نہیں تم بھی اپنی قسمت آزما لو ۔۔۔مقابل کی بات پر حیران ہوا تھا ۔

مطلب شک ہے آپ کو میری قابلیت پر ۔۔۔۔غلام رسول کے لیے گئے سلام پر ہلکا سا سر کو خم کرتا ہوا معمول کے خلاف  مسکرا کر جواب دیتا ہوا وہاں سے گزرا تھا ۔

ہرگز نہیں ۔۔۔۔مقابل نے فورا سے ارتضی کو جواب دیا تھا ۔۔۔

چلیں پھر بات ہوتی ہے آپ سے ۔۔۔۔کوشش کو تو ملاقات کرنے کی ہے دیکھتے ہیں کس وقت ہماری ملاقات کا وقت مقرر کیا ہے خداوند نے ۔۔۔لیونگ روم میں رکھے صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھتا ہوا وہ کال ڈیسکنیٹ کرتا ہوا آنکھیں موندے گیا تھا ۔۔۔

************

تائی امی ۔۔۔۔حیا کہاں ہے ۔۔گھر آتے ہی ماہین کا پہلا سوال تھا ۔۔

خیر ہے آج حیا بھی گھر میں آتے ہی چاچو چاچو کی رٹ  لگائے ہوئے آئی تھی اور اب تم  اس کے نام کی رٹ لگائے ہوئے آئی ہو۔۔۔۔ 

یہ کیا لگا ہے تمہارے ہاتھ پر ۔۔۔۔ماہین کے ہاتھ پر بندھی پٹی کو دیکھ کر وہ پریشان ہوئیں تھیں ۔

کچھ نہیں تائی امی بس ہلکا سا کٹ ہے ۔۔۔آپ حیا بتائے نا  حیا کہاں  ہے ۔۔۔پانی کا گلاس منہ سے لگاتی ہوئی وہ پھر سے استفسار کررہی تھی ۔

اپنی خالہ جانی کی طرف گئی ہے ۔۔۔ماہین کے ہاتھ دیکھتی ہوئیں وہ پریشان ہوئیں تھیں ۔

تم سچ کہہ رہی ہو نا کہ چھوٹا سا کٹ ہے ۔۔ان ہیں ماہین پر شک گزرا تھا ۔

جی تائی امی بس بینڈیج کی وجہ سے زیادہ لگ رہا ہے آپکو ۔۔ان کے پریشان چہرے کو دیکھ کر وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسے ان پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا ۔

تم کہہ رہی ہو اس لیے مان رہی ہو جب تک دیکھوں گی نہیں یقین نہیں آئے گا مجھے ۔۔

تم حیا کے ساتھ گئی تھی نا تو اس کے ساتھ واپس کیوں نہیں آئی  ۔۔۔ماہین کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھ رہی تھیں ۔

تائی امی اسے ضروری کام آگیا تھا تو میں ہی اسے فورس کیا جانے کے لیے ۔سچ کے ساتھ وہ حئا حمایت میں جھوٹ کا سہارا لیتی ہوئی بولی تھی ۔

چلو تم فریش ہوجاؤ ریاض بھائی تمہارا کب سے پوچھ رہے ہیں ۔۔۔

بابا گھر پر ہیں ۔۔۔۔ماہین کے سوال پر وہ مثبت میں گردن ہلاتی  ہوئیں مسکرائیں تھیں ۔

***********

ارے واہ آج تو قسمت کی دیوی مہربان ہورہی ہے تجھ پر حیا  بخاری ۔۔حویلی کے پچھلے گارڈن میں بنے حیدر کے پرند نگر  کے دروازے کو کھولہ چھوڑ حیدر کو جلد بازی میں جاتے دیکھ وہ حیران ہوئی۔۔۔

 کیونکہ حیدر  اس پر ہمیشہ ہی بڑا سا تالا لگا کر رکھتا تھا ۔

مگر آج کھلا دیکھ وہ بنا موقع ضائع کیے اندر داخل ہوئی تھی ۔

پرند نگر جو بڑے سے کمرے کی طرح بنا ہوا بغیر چھت کے ۔

چار دیواری کے  بیچ میں لگے گھنے درخت پر بیٹھے رنگ برنگے پرندوں کو دیکھ کر وہ حیرت انگیز انداز میں مسکرائی تھی ۔

دبے قدم چلتی ہوئی درخت پر ٹنگے اکلوتے پنجرے کو دیکھ کر آگے بڑھی تھی ۔

یہ چنگیز خان کہاں ہیں ۔۔اردگرد نظریں دوڑاتی ہوئی اس پنجرے کے پاس آکر بیٹھی تھی ۔

ارے واہ آپ تو بہت ہی خوبصورت ہیں  میاں میٹھو ۔۔

پنجرے میں قید رنگ برنگے پروں والے خوبصورت طوطے کو دیکھ کر اس سے مخاطب ہوئی تھی ۔

مائے سلیف نہال ۔۔۔۔آنکھیں پھاڑ کر طوطےکو دیکھتی ہوئی وہ حیران ہوئی تھی ۔

جادوئی طوطا ۔۔۔منہ ہی منہ بڑبڑائی تھی ۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو  تباہی ۔۔۔۔۔ حیدر جو دلاور شاہ کے بلانے پر یہاں سے گیا تھا۔

وہاں سے پریشان ہوتا ہوا وہ اس کی پریشانی کو مزید تول حیا کی پرند نگر میں موجودگی نے بڑھائی تھی۔

تباہی میں کچھ پوچھ رہا ہوں ۔۔ سخت گیر لہجے میں وہ چبا کر پوچھ رہا تھا ۔

اگر ایک بار اور مجھے تباہی کہا نا تو۔۔۔۔۔۔۔۔

تو۔۔۔۔     

تو میں یہ تمہارا جادوئی طوطا اڑا دوں گی ۔۔پنجرے میں چکر کاٹتے ہوئے طوطے کو دیکھ کر حیدر کو دھمکی دیتی ہوئی بولی تھی ۔

اڑا کر تو دکھاؤ ۔۔حیا کی دھمکی پر اسے تاؤ چڑھا تھا ۔

اڑا دیا تو ۔۔۔دونوں ہاتھ کمر پر رکھتا ہوئی میدان میں اتری تھی ۔

ٹوٹل تباہی ۔۔۔۔۔چبا کر بولتا ہوا وہ حیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولاتھا ۔

نگاہوں کے تصدم سے عجب تکرار کرتا ہے ۔۔۔،

یقین کامل نہیں لیکن ،گماں ہے پیار کرتا ہے ۔۔،

لرز جاتی ہوں یہ سوچ کر ،کہیں کافر نا ہوجاؤں۔۔،

دل اس کی پوجا پر بڑا اسرار کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔،

اسے معلوم ہے شاید "میرا دل ہے نشانے پر "۔۔۔،

لبوں سے کچھ نہیں کہتا، نظر سے وار کرتا ہے ۔۔۔،

میں اس سے پوچھتی ہوں خواب میں"مجھ سے محبت ہے"۔،

پھر آنکھیں کھول دیتی ہوں ،جب وہ اظہار کرتا ہے۔۔۔۔۔ !

کیا ہوا ۔۔۔حیا کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتا ہوا اسے ہوش میں لایا تھا ۔۔

میں تباہی ہوں ۔۔۔اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں خود کو ڈوبتے دیکھ وہ ہڑبڑائی تھی ۔

خود ہی مان لیا ہے تم تو اب میں کیا کر سکتا ہوں ۔پینٹ کی جیب میں ہاتھ دیے وہ کندھے آچکا کر شرارت سے مسکرایا تھا ۔

تباہ کردو تمہیں سڑی ہوئی ککڑی ۔۔۔پیر پٹختی ہوئی وہ غصے سے چلائی تھی ۔

تباہی ہو تو تباہی ہی مچاؤ گی نا اور کر ہی سکتی ہو تم تباہی ۔حیا کو چڑتے دیکھ وہ اسے اور چیڑا رہا تھا ۔

اللہ کرے تمہارے سارے پرندے اڑ جائے ۔۔۔معصوم سی بد دعا جو کبھی بھی پوری نہیں ہوسکتی تھی ۔

اڑنے ہوتے نا تو یہ سب یہاں نا ہوتے۔۔ درخت پر بیٹھے اپنے پالتو پرندوں کو دیکھ کر فاتح انداز میں مسکرایا تھا ۔

ان سب پرندوں کو دیکھ وہ اپنی دی گئی بد دعا پر پچھتائی تھی ۔

اگر یہ تو جادوئی طوطا اڑا دیا جائے ۔۔۔۔پنجرے کی طرف بڑھتی ہوئی وہ حیدر کا منہ چڑہتی ہوئی طوطے کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔جو بے صبری سے باہر آنے کی راہ دیکھ رہا تھا ۔

تباہی نو ۔۔۔۔حیا کو پنجرا کھولتے دیکھ حیا کا ہاتھ پکڑ گیا تھا ۔

حیا اٹھو ۔۔۔۔

حیا کیوں اب بولو نا تباہی ۔۔۔حیدر کو لائن پر آتے دیکھ وہ  خوش ہوئی تھی ۔

زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تباہی ،تباہی ہی رہتی ہے ۔۔

حیدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  حیا اور حیدر کی ہوتی ضد بحث سے فائدہ اٹھاتا ہوا طوطا اپنی چونچ کے ذریعے پنجرے کی اٹکی ہوئی کنڈی کھو ہوا میں پر پھڑپھڑاتا ہوا دونوں کو خود کی طرف متوجہ کیے ہوا میں تیرتا ہوا گم ہوا تھا ۔

اڑ گیا کہاں تھا نا جادوئی طوطا ہے مگر نہیں مانے تم ۔۔

بنا کسی کے کھولے اڑ گیا ۔۔۔حیران ہوتی حیا حیدر کو خود کو گھورتے  پاکر اپنا نچلا لب دانتوں تلے دبا گئی تھی ۔

ویسے پرندے اڑتے ہوئے زیادہ اچھے لگتے ہیں ناکہ قید میں ۔۔ 

 حیدر کی ناراضگی کا اندازہ کرنے کی خاطر وہ نرم لہجے میں بولی تھی ۔

میرا نہیں یار تباہی وہ دوست کا تھا ۔۔

سوری ۔۔۔۔حیا کو منمناتے دیکھ وہ چاہ کر بھی غصہ نہیں کرسکا تھا۔

ابھی جاؤ یہاں سے ۔۔۔پیشانی پر ہاتھ رکھ کر وہ خود پر ضبط کررہا تھا۔

سوری ۔  وہ کہہ وہاں سے چلی گئی تھی واپس سے بخاری ولا جانے کے لیے ۔۔۔۔۔

سوری سے کیا نہال واپس آئے گا ۔۔اپنے دوست کے سامنے جانے کا سوچ کر وہ پریشان ہوا تھا ۔

***********

میں آپ سے ناراض ہوں ۔۔۔روم ناک کرکے اندر آتی ہوئی وہ شکوہ کن انداز میں بولی تھی ۔

کیا بابا جان سکتے اپنی بیٹی کی ناراضگی کی وجہ ۔۔ماہین کو اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے لاڈ اٹھانے کے انداز سے پوچھ رہے تھے ۔

پہلے آپ مجھے گاؤں لائے میں کچھ نہیں کہا اور ساتھ آگئی آپ کے ۔۔۔

اور آپ یہاں آکر مجھے بھول گئے  ۔۔ بابا کے سینے پر سر رکھتی ہوئی وہ نم لہجے میں بولی تھی ۔

یہ آپ کو کس نے کہا کہ بابا اپنی جان کو بھول گئے ہیں ۔۔ماہین کی نم آنکھوں میں دیکھ کر پوچھتے ہوئے وہ مسکرائے تھے ۔

کسی نے بھی نہیں میں نے خود فیل کیا ہے ۔۔وہ ہنوز سینے پر  سر رکھے ہوئے ناراضگی ظاہر کر رہی تھی ۔

ریاض بخاری سب کچھ بھول سکتا مگر اپنی ماہین کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا ۔سمجھی آپ ۔۔۔ماہین کے بالوں کو سہلاتے ہوئے ماہین کی پرسکون مسکراہٹ دیکھ کر ریلکس ہوئے تھے ۔

بابا ہم گھر کب جائیں گے ۔۔۔کچھ توقف بعد وہ سیدھی ہو بیٹھی تھی ۔

دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ آپ نے کھانا کھایا ہے ۔۔۔ماہین کی بات پلٹتے ہوئے وہ فکر مندی سے پوچھ رہے تھے ۔

نہیں آج ہم دونوں مل کر کھائیں گے ۔۔۔ماہین کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر وہ چاہ کر بھی اسے سچ نہیں بتا پائے تھے۔

 کہ وہ حمدان صاحب کو وعدہ دے چکے تھے  ہمیشہ کے لیے گاؤں رہنے کے لیے ۔۔

ماہین بیٹا یہ آپ کے ہاتھ پر کیا لگا ہے ۔۔ماہین کی تمام تر کوشش کے بعد بھی وہ اس کے ہاتھ پر بندھی پٹی کو دیکھ چکے تھے ۔

معمولی سی چوٹ ہے بابا ۔۔۔۔چلیں نا مجھے بھوک لگ رہی ہے ۔ اپنے ہاتھ پیچھے کرتی ہوئی وہ منمنائی تھی ۔

معمولی سی ہے نا ۔۔۔

ہاں نا اگر بڑی چوٹ ہوتی تو میں شور  مچا کر یہ گھر سر نا اٹھا لیتی ۔۔

یہ بات تو آپ نے سہی کہی ۔۔۔اپنی ہی حرکت یاد دلاتی ہوئی وہ ریاض صاحب کو ہنستے دیکھ کھلکھلائی تھی ۔

**************

یہ لو شاہ پانی لو ۔۔۔۔۔۔۔اف اللہ ۔۔۔۔۔۔سر پکڑ ارتضی کے سامنے بیٹھتی ہوئیں شاہدہ بیگم اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے شروع کیے تھے ۔

کیا ہوا ماں ۔۔۔۔۔پانی کا گلاس ٹیبل پر رکھتا ہوا وہ پریشان ہوا شاہدہ بیگم کی حالت دیکھ کر ۔

چلتے پھرتے چکر آتے ہیں نہیں ہوتا مجھ سے کام مگر کیا کروں تمہیں ملازماؤں کے ہاتھ سے پانی نہیں لیتے کھانا تو پھر دور کی بات ہے ۔ اب بس تمہاری دلہن دیکھ لوں  بس اب اس زندگی سے کوئی امید اور خواہش نہیں ہے   ۔۔دونوں ہاتھوں سے سر تھامے ہوئے آنکھیں بند کیے ہوئے تھیں۔۔

جی سرکار سائین۔۔۔ بی بی سائیں کی طبیعت ناساز رہنے لگی ہے ۔۔شاہدہ بیگم کی سیکھائی ہوئی ملازمہ کو دھیان سے سنتا ہوا ارتضی پریشان ہوا تھا ۔

بس میری بہو آجائے تمہاری ساری ذمہ داری اسے سونپ کر آزاد ہوجاؤں گی ۔۔ملازمہ کو جانے کا اشارہ کرتی ہوئی وہ ارتضی کے پریشان چہرے کو دیکھ کر واپس سے آنکھیں بند کرگئیں تھیں ۔

آپ کو بہو کی نہیں وٹامن ڈی کی ضرورت ہے کمزوری ہورہی ہے آپ کو ۔۔شاہدہ بیگم کی تکلیف کا حال نکالتا ہوا وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

یاد سے وٹامن ڈی کی میڈیسن سونے سے پہلے دودھ سے لے لیجئے گا ۔۔اپنی سناتا ہوا وہ وہاں بڑے بڑے قدم لیتا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔

ارتضی کو جاتے دیکھ وہ اپنا پلین فیل ہوتے دیکھ افسردہ ہوئی تھیں۔۔

************

ہیلو ۔۔۔اَن نون نمبر کو دیکھ کر برا سا منہ بنا کر اٹھاتی ہوئی وہ بیزاریت سے بولی تھی ۔

ماہین کی معصوم آواز سن کر وہ مسکرایا تھا ۔

زخم کیسا ہے اب آپ کا ۔بنا دل کی سنے وہ مدعے پر آیا تھا ۔

ڈاکٹر جلاد ۔۔ارتضی کی آواز سنتے ہی دماغ میں یہ نام آیا تھا۔

ٹھیک ہے پر مگر میرا نمبر کیسے آیا آپ کے پاس ۔ارتضی کی کال پر وہ حیران ہوئی تھی ۔

یہ میرے لیے کوئی مشکل امر نہیں رہا آپ اسے چھوڑیں یہ بتائیں درد تو نہیں ہورہا ۔کار کی بیک سیٹ پر سر رکھے وہ پرسکون انداز میں مسکرا رہا تھا ۔

آپ سے مطلب ۔۔ترچھی سے کہتی ہوئی وہ فون رکھ گئی تھی۔

مگر اگلے ہی پل ارتضی کا میسج پڑھ کر اس کے لب خود بخود  مسکرائے تھے ۔

پین کلر بھیج رہا ہوں آپ کے لے لیجئے درد نہیں ہوگا ۔۔۔

اتنا برا بھی نہیں ہے یہ ڈاکٹر جلاد ۔۔مگر ہے تو جلاد ہی نا ۔۔اپنے ذہن میں ارتضی کے لیے مثبت سوچوں جھٹکتی ہوئی فون کو بیڈ پر پھینکنے کے انداز رکھتی ہوئی کھڑی کے پاس کھڑی ہوئی تھی ۔

پہلی ملاقات میں ہی ارتضی بھائی رات کے اس پہر یہاں پہنچ گئے اور وہ بھی گفٹ لے کر  واہ بھئی واہ ۔۔۔

کھڑی  سے کار میں بیٹھے ہوئے ارتضی کو دیکھ کر شاہ حویلی کے ملازم  گارڈ کو بکس پکڑا کر واپس سے گاڑی میں جا بیٹھا تھا۔۔۔

اپنے کمرے سے بھاگتی ہوئی وہ گارڈ سے شاپر  لے کر اسے جانے کا کہتی ہوئی تجسس سے بکس کو کھول کر دیکھتی ہوئی حیران ہوئی تھی ۔

ایک بھائی جسے محبت دیکھائی نہیں دیتی اور ایک یہ ہیں جنہیں محبت تو ہو گئی ہے پر کرنی نہیں آتی ۔

بندہ پھول بھیجواتا ہے کوئی جیولری ،کوئی بھی گفٹ بھیجتا ہے مگر یہاں تو میڈیسن بھیجی جارہی ہیں ۔ جس تجسس کے ساتھ اس نے بکس کھولا اتنی ہی بدمزگی سے بند کرتی ہوئی وہ ماہین کے روم کا دروازہ بجانے لگی تھی۔

ماہین آپی دروازہ تو کھولیں یار ۔۔۔

جب سے وہ شاہ حویلی سے آئی تھی جب سے ہی ماہین نے اس سے بات تک نہیں کی تھی یہاں تک کہ اپنا روم بھی علیحدہ کروالیا تھا۔۔

اب بھی ماہین کی طرف سے کو ریسپونس نہیں ملا تھا ۔۔

کوئی نہیں کب تک روم میں بند رہیں گی صبح تو کھولیں گی نا۔

ملازمہ کو بکس دیتی ہوئی  وہ ماہین کے روم کے بند دروازے کو دیکھ کر اپنے روم کی سمت بڑھی تھی ۔

سچ میں میڈیسن بھیجوادی اس ڈاکٹر جلاد نے۔۔۔۔۔سلیمہ سے میڈیسن بکس لیتی ہوئی وہ حیران ہوئی تھی ۔

یہ سنگدل انسان مجھ پر اتنا مہربان کیوں ہورہا ہے ۔۔

کہیں اپنی وحشت طاری کرنے کے لیے تو نہیں ابھی اتنا اچھا بن رہا ہے جب میں اسے اچھا سمجھنے لگ جاؤں گی تو یہ  پھر سے اپنا وہ مال والا روپ دیکھائے گا۔۔۔جھرجھری لیتی ہوئی وہ  میسج ٹون پر متوجہ ہوتی ہوئی وہ ارتضی کا میسج پڑھ کر اور زیادہ حیران ہوئی تھی ۔

میں اس پہلی کے مانند ہوں ماہین بخاری جسے اگر تم سلجھانے بیٹھوں گی تو خود سے ہی غافل ہوجاؤ گی ۔

اور یہ مت سمجھنا کہ یہ میڈیسن میں نے تمہیں قائل کرنے کے لیے بھیجی ہیں ۔

یہ صرف ایک ڈاکٹر ہونے کا فرض ادا کیا ہے میں نے اور کچھ نہیں ۔۔۔

 میڈیسن لے کر آرام سے سو جائیں میں آپ کو آپ کے خواب  میں ڈرانے کوئی ارادہ نہیں رکھتا  ۔۔۔ایک ایک لفظ کو دھیان سے پڑھتی ہوئی وہ آخری لفظ پر منہ بنا کر بولی تھی ۔

آیا بڑا سمجھتا کیا ہے خود کو جیسے میں ڈرتی ہوں ۔

 ماہین ریاض اپنا بابا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈری تو یہ جلاد کون سی کھیت کی گوبھی ہے جس سے  میں ڈر جاؤں گی ۔ارتضی کے خوف کو ہوا میں اڑاتی  ہوئی پیں کلر لے کر بیڈ پر دراز ہوتی ہوئی  منہ تک کنفرٹ لیے آنکھیں بند کر گئی تھی ۔

***********

کوئی اثر نہیں ہوا تمہاری ترکیب کا الٹا مجھے وٹامن ڈی کی میڈیسن کی ہدایت دے کر جاتا بنا ۔۔ارتضی کے لیے لنچ تیار کرتی ہوئی وہ رات والی ارتضی کی ہدایت پر ہمت ہار گئی تھیں ۔

کوئی بات نہیں  ایک پلین فیل ہوا ہے نا ابھی تو اور بھی ہیں میرے دماغ میں ۔۔۔۔ویسے کیا کررہی ہیں آپ ۔۔۔۔

اپنے پلین کے فیل ہونے کا اسے ذرا دکھ نا ہوا تھا ۔

ارتضی کے لیے کھانا بنا رہی ہوں ۔۔۔اور کیا کر سکتی ہوں ۔۔۔مصروف سے انداز میں وہ افسردگی سے بولی تھیں ۔

مرچی تیز کردیں اور نمک بھی زیادہ ہی ڈال  دیں ۔۔اپنےبالوں کو ہائی ٹیل میں باندھتی  ہوئی وہ ڈریسنگ ٹیبل پر فون اسپیکر پر رکھتی وہ اب اپنی جھیل سی آنکھوں میں بھر بھر کر کاجل ڈالتی ہوئی اچانک سے بولی تھی ۔

پاگل ہوگئی ہو کیا حیا ۔۔۔انہیں حیا کی ذہنی حالت پر شک گزرا تھا ۔

میں ہوش میں ہی ہوں خالہ جانی آپ کو بہو چاہیے کہ نہیں ۔۔یا کنوارے بیٹے کو دیکھ دیکھ کر عمر گزرنے کا ارادہ ہے آپ کا۔

چاہیے ۔۔۔۔فرائی پین میں اپنی پکائی ہوئی فرائیڈ بھنڈی کو دیکھتی ہوئی وہ حیا کو جواب دے گئیں تھیں ۔

شاہدہ بیگم کے فورا سے جواب دینے پر وہ مسکرا رہی تھی ۔ 

تو  آپ اپنی ممتا کو سائیڈ پر رکھیں اور نمک مرچ  ٹھوک دیں ۔۔۔۔

ٹھوک دوں مطلب ۔۔۔۔نا سمجھی میں پوچھتی ہوئی وہ اگر اس وقت حیا کو مسکراتے دیکھ لیتی تو وہ اس کی کلاس لگا دیتیں ۔۔۔

مطلب بنا ہاتھ روکے ڈال دیں ۔ویسے بنا کیا رہی ہیں آپ ۔۔۔

فرائیڈ بھنڈی۔شاہ نے آج فرمائش کرکے بنوائی ہے ۔لہجے میں پیار سموئے وہ دل کھول کر مسکرائیں تھیں ۔

فرائیڈ بھنڈی۔۔۔۔۔

اپنی ڈریس کے ساتھ اسٹولر میچ کرتی ہوئی وہ فرائیڈ بھنڈی کا سن کر منہ میں پانی لیے وہ افسوس کررہی تھی شاہ حویلی میں نا ہونے کے ۔۔

اسپائسی کھانے سے الرجی ہے شاہ کو ۔۔۔ممتا نے پھر سر اٹھایا تھا۔

میڈیسن سے ٹھیک ہوجائے گے ۔۔۔

ویسے ہی میڈیسنز  بانٹتے پھر رہے ہیں آج کل ۔۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے فون کو وہی پر چھوڑ واشروم میں ہاتھ دھونے کی غرض سے گئی تھی ۔

زیادہ طبیعیت بگڑ تو ویسے ہی بہت حساس ہے ۔۔۔۔

حیا ۔۔۔۔کو پکارتی ہوئی ماہین شاہدہ بیگم کی آواز پر متوجہ ہوتی ہوئی فون ہاتھ میں اٹھ چکی تھی ۔

کہاں گئی تم حیا کوئی جواب تو دو ۔۔۔

اسلام وعلیکم آنٹی میں ماہین بات کررہی ہوں حیا واشروم میں ہے ۔۔

آپ کو کام تھا حیا سے ۔۔۔۔اپنے مخصوص انداز میں بولتی ہوئی وہ شاہدہ بیگم کے جواب کی منتظر تھی ۔

کیسی ہو ماہین بیٹا آپ نے تو چکر ہی نہیں لگایا ہماری طرف ۔۔۔ماہین کی آواز سن کر ہی انہیں ارتضی کا خیال آیا تھا ۔۔

ایسی ہی نرم طبعیت کی بیوی وہ ڈھونڈ رہی تھیں ارتضی کے لیے ۔۔

بس آنٹی آپ کی بھانجی مجھے اپنے ساتھ لانا ہی پسند نہیں کرتی ۔واشروم سے حیا کو باہر آتے دیکھ ماہین اس سے شکوہ کرگئی تھی ۔

وہ تو ہے ہی پاگل آپ تو سمجھدار ہیں آپ خود آجائیں ۔۔ماہین کے ہاتھ سے فون لیتی ہوئی وہ تڑخ کر بولی تھی۔ 

خالہ جانی آپ کو نہیں لگتا آج کے لیے اتنا کافی ہے ۔ حیا کی آواز سن کر انہیں واپس سے اس کی ترکیب کا خیال آیا تھا۔

اگر زیادہ اسپائیسی ہوگیا تو الرجی ہوجائے گی نا ۔۔

تو آنٹی آپ اسپائسی بنائیں ہی مت ۔۔۔شاہدہ بیگم کی پریشان آواز سن کر ماہین سے رہا نا گیا تھا ۔

بنا دیکھے بنا جانے اتنا خیال ہے تو میرے ارتضی سے ملنے کے بعد کتنا ہوگا ۔۔۔دل ہی دل میں خوش ہوتی ہوئیں وہ بھنڈی میں ایک ساتھ نمک اور مرچ ڈال گئیں تھیں ۔

خالہ جانی جو کہا ہے وہ کریں ۔۔۔ماہین سے نظریں چراتی ہوئی وہ لفظوں پر زور دیتی ہوئی وہ فون رکھ گئی تھی ۔

  **********

آپ یہاں کیا کررہی ہیں ۔۔۔ماہین کو دیکھ کر وہ رخ موڑ گئی تھی ۔

ناراض میں ہوں تم سے اور نخرے تم دِکھا  رہی ہو ۔۔۔حیا کے 

لیے دیے سے انداز پر ماہین حیران ہوئی تھی ۔۔

ہاں تو ناراض ہونا صرف آپ کو آتا ہے میں نہیں ہوسکتی ناراض آپ سے ۔

کل رات کی بات پر پہلے آپ نے اپنا روم چینج کرلیا اور اوپر سے دروازہ بھی نہیں کھولا میرے لیے اس سلیمہ کے لیے تو بڑی جلدی دروازہ کھل گیا تھا آپ سے ۔

اب جواب دیں نا اب ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں آپ مجھے۔۔ترکی با ترکی بولتی وہ ماہین کے حیران چہرے کو دیکھ کر استفسار کرگئی تھی ۔

پانی کا گلاس ایک سانس میں خالی کرتی ہوئی وہ بیڈ پر بیٹھتی ہوئی فون اسکرین پر انگلیاں چلانے لگی تھی ۔

ہاں تو تھی میں بلکہ ہوں کس کے سہارے پر مجھے ہسپتال چھوڑ کر آئیں تھی تم ۔۔۔ماہین کے پوچھنے پر اپنے منہ کو بند رکھتی ہوئی انجان بنی بیٹھی تھی ۔

اگر میں پھر سے گم ہوجاتی تو ۔۔میرا سامنا کرنے کے بجائے تم اپنی خالہ جانی کے گھر چلی گئی پھر تم مجھ سے یہ امید رکھتی ہو کہ میں روم بھی چینج نا کروں اور تم سے ناراض بھی نا ہوں ۔۔۔۔غصے میں بھی خود پر ضبط رکھتی ہوئی حیا کو فون پر مصروف دیکھ کلسی تھی ۔

جواب ہے آپ کے پاس حیا بی بی ۔۔حیا کئ ہاتھ فون چھینتی ہوئی وہ اس کے روبرو آن کھڑی ہوئی تھی ۔

ہاں تو سوری کہا تو تھا اور میسج بھی کیا تھا ۔اور رہی بات آپ کو وہاں ہسپتال میں چھوڑ کر جانے کی بات تو وہاں سب بابا کو جانتے ہیں اس لیے آپ کو چھوڑ کر آئی تھی ۔۔۔نم آنکھیں لیے وہ بڑی آسانی سے بات دبا گئی تھی۔

اب رو کیوں رہی ہو ۔۔ حیا کی آنکھوں میں آنسو دیکھ وہ خود افسردہ ہوئی تھی ۔

آپ ناراض جو ہیں ۔۔ہنوز آنکھوں میں آنسو لیے معصوم بچوں کی طرح بولی تھی ۔۔۔

نہیں ہوں ناراض میں تم رونا بند کرو ۔۔۔ وہ حیا کو روتے دیکھ خود بھی روہانسی ہوئی تھی ۔

سچی ۔۔۔مچی ۔۔۔۔ماہین کے گلے لگتی ہوتی ہوئی وہ خوشی سے چلائی تھی ۔

آج نا بہت اچھا دن ہوگا آپ کے لیے اور میرے لیے ۔۔۔ماہین کے ہنوز گلے سے لگی ہوئی وہ سوچ کر مسکرائی تھی ۔۔

اب دوبارہ تو نہیں کرو گی ایسا ۔۔حیا سے الگ ہوتی ہوئی وہ اپنی آنکھوں میں آئی ہوئی نمی کو صاف کرتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔

کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔کان پکڑ کر گردن نفی میں ہلاتی ہوئی حیا کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔۔

امو جانی نے بتایا تھا کی آپ کے ہاتھ پر کٹ لگا ہے وہ کیسا ہے اب ۔۔

ٹھیک ہے اب رات میں پین کلر لی تھی تو اور بہتر ہوگیا ہے ۔۔  کٹ کو دیکھتی ہوئی وہ مسکرائی تھی ۔

بڑی مسکراہٹ آرہی ہے پین کلر کو سوچ کر مطلب محبت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ کیا ہے ۔۔ماہین کو مسکراتے دیکھ وہ دل ہی دل میں سوچ کر خوش ہوئی تھی ۔ 

آپ مسکرا رہی ہیں کیا بات ہے ۔۔۔زبان تو آخر زبان ہے پاگل ہی جاتی ہے اور وہ ہی ہوا حیا کی زبان پھیسل گئی تھی ۔

یہ سوچ کر مسکرا رہی تھی اس معمولی سے کٹ کو دیکھ کر میں اتنا روئی تھی اب جب صبح پٹی کھولی تو دیکھا ۔۔۔اپنی بیوقوفی پر ہنس رہی تھی ۔

ویسے آپی کس نے لفٹ دی آپکو میرا مطلب کون چھوڑ کر گیا تھا آپ  کو گھر تک ۔۔۔مارے تجسس کے پوچھتی ہوئی انجان بنی ہوئی تھی ۔

منت ہسپتال کے ڈاکٹر ہی تھے ۔۔۔ کسی بھی احساس سے عاری لہجے میں جواب دیتی ہوئی حیا کے خیالوں پر پانی ڈال گئی تھی ۔

اچھا ۔۔۔

تمہیں کیا ہوا ۔۔ حیا لٹکے ہوئے منہ کو دیکھ کر وہ پوچھ گئی تھی ۔۔

کچھ نہیں ایسے ہی آپ تیار ہوجائیں آج شام خالہ جانی آئیں گی ۔۔اپنی ٹون میں آتی ہوئی وہ چہکی تھی ۔

میرا تیار ہونا لازمی ہے کیا ۔۔حیا کی بات پر وہ شاکڈ ہوئی  تھی۔

ایسے ہی بول رہی تھی میں تو ۔۔۔آپ کی مرضی ۔۔۔

 کندھے آچکا کر کہتی ہوئی وہ ماہین  کے دماغ کو داد دے گئی تھی ۔

*********

آپ بھائی کو کھانا دے کر دور کیوں کھڑی ہوگئی ہیں آپ ۔

شاہدہ بیگم کی جلدبازی حیدر کی آنکھوں سے مخفی نا رہی تھی۔۔

مرچی تیز ہے آج کھانے میں اس لیے ۔۔بنا کوئی بہانہ بنائیں وہ حیدر کو سچ بتا گئیں تھیں ۔

پوچھ سکتا ہوں کیوں ۔۔سرگوشیانہ انداز میں پوچھتا ہوا وہ ارتضی کے کھانے کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ دیکھ کر اسے کھانا کھانے سے روکنا چاہتا تھا  ۔۔

یہی کہ میں بوڑھی ہوگئی ہوں اور اب اسے شادی کرلینی چاہیے ۔ 

ماں جانتی ہیں آپ کہ بھائی اسپائسی کھانوں سے الرجیک ہیں پھر ۔۔

شاہدہ بیگم کے پرسکون چہرے کو دیکھتا ہوا وہ حیران ہوا تھا ۔

ایسے مشورے تباہی کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا آپکو ۔۔حیدر کے بلکل صیحح اندازے پر وہ مسکرائیں تھی ۔۔

 آہہہہہہہ۔۔۔۔افففففف ۔۔۔پہلا نوالہ منہ میں لیتے ہی ارتضی نے اپنی ماں سرکار کو دیکھا تھا جو اس وقت اس کے سامنے ہی حیدر کے ساتھ کسی بات پر مسکرا رہی تھیں ۔

دوسرا نوالہ منہ میں رکھتا ہوا وہ پانی کےگلاس کو ایک سانس میں حلق میں اتار گیا تھا ۔ 

لندن سے واپسی پر آپ سے ضروری بات کرنی ہے جب تک آپ بھائی دلہن تلاش کریں ۔۔ماہین کے بارے میں انہیں فلحال بتانے سے گریز کرگیا تھا ۔

خیر سے جاؤ اور خیر سے آؤ ۔۔۔ارتضی کی سرخ آنکھیں خود پر محسوس کرتی ہوئیں  وہ خود ارتضی کے سوالوں کے لیے تیار کرچکی تھیں۔

وجہ جان سکتا ہوں سسسسس اتنی تیز مرچی کی سسسس آہہ ۔۔۔ ماں ۔۔تیز مرچی  سے جلتی زبان اور حلق کے ساتھ وہ پوچھتا ہوا ایک گلاس اور منہ کو لگا گیا تھا۔

مرچی تیز ہوگئی ایک تو یہ عمر کا تقاضہ میرے بچے بھول کر ڈال دی اتنی مرچی ۔۔کمال کی اداکاری کرتی ہوئیں وہ حیدر کو حیران کرگئی تھیں ۔

اب تو عمر بڑھتی رہے گی اور حافطہ کمزور ہوتا جائے گا۔

میری مانو ارتضی اب شادی کرلو کب تک میں تمہاری بیمار بوڑھی ماں کھانا بناکر تمہیں تکلیف پہنچاتی رہے گی۔ڈوپٹے کے پلوں سے آنکھوں پر زور دیتی ہوئی وہ زبردستی کے آنسو نکال کر بولی تھیں ۔

جبکہ ارتضی انہیں آنکھوں میں حیرت لیے دیکھ رہا تھا ۔

کل تک جو ٹپ ٹاپ سی اپنی ماں کو سوچتا ہوا وہ آج بڑھاپے کا رونا روٹی ہوئی اپنی ماں کو دیکھ حیران ہوا تھا ۔

جی بھائی مان جائیں ماں ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔۔رائمہ جو حیدر اور شاہدہ بیگم کے باتیں سن کر آگے بڑھی تھی ۔

اب بھابھی آجانی میری ۔۔ارتضی کے ہاتھ ہر دباؤ دیتی ہوئی وہ آنکھوں میں امید لیے بولی تھی۔

 کہاں کی تیاری ہورہی ہے ۔۔رائمہ کی طرف مسکرا کر دیکھتا ہوا وہ حیدر کے پاس رکھے سامان کو دیکھ کر حیران ہوا تھا ۔

بتایا تو تھا بھائی اس بار لندن میں جاؤں گا تو بس وہیں کی تیاری ہے ۔۔

اور میرے آنے سے پہلے میری بھابھی ڈھونڈ لیں ۔۔جانے انجانے میں وہ خود کو ماہین سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا کرگیا تھا۔

تم بھی ۔منہ کی جلن کم ہوتی ہوئی محسوس کرتا ہوا وہ مسکرا کر پوچھ رہا تھا ۔

کل رات سے جو ماں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہی ہیں تو ضرور لڑکی بھی دیکھ لی ہوگی آپ نے ۔۔ارتضی کے لہجے میں چھپا ماہین کو کھو دینے کا ڈر صاف عیاں تھا۔

ہاں دیکھ لی ہی ہے میں نے اور آج شام کو ہی جارہی ہوں رشتہ مانگنے کےلیے ۔۔مضبوط لہجے میں بولتی ہوئیں ارتضی کا ڈر نادیکھ سکی تھیں ۔۔

ضرور بابا سے مشورہ کیا ہے ۔بڑے ضبط کے ساتھ لبوں پرمسکراہٹ سجائے وہ حامی بھر گیا تھا۔

وہ تو خود راضی ہیں ۔۔ارتضی کی حامی انہیں سرشار کرگئی تھی ۔

 ائیرپورٹ تک تمہیں چھوڑنے چل سکتا ہوں ۔اپنی کیفیت کسی پر ظاہر کیے بغیر وہ حیدر کو سب سے اجازت لینے کے بعد جاتے دیکھ وہ پیچھے سے بولتا ہوا اس کے برابر میں آکر کھڑا ہوا تھا ۔

آپ کو اجازت کی ضرورت ہے کیا ۔۔

وہ تو میں دیکھ رہا تھاکہ تم کیا کہوں  گے ۔۔ہم قدم چلتے ہوئے وہ دونوں مسکراتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ کر ایک منزل طے کرنے چلے تھے۔

****************

کیا کر رہے ہو ارتضی تم اپنے ساتھ ۔۔۔۔۔

چھوٹا سا حادثہ تھا یار وہ کسی بھی نیو ڈاکٹر سے ایسی غلطیاں ہوجاتی ہیں ۔۔۔

ارتضی کے مسلسل ہسپتال جوائن  نا کرنے پر ڈاکٹر عامر شہزاد اسے سنجیدگی سے سمجھا رہے تھے مگر اس کی طرف سے ہر بار انکار ہی مل رہا تھا۔

نیو ڈاکٹر کتنا سمپل ہے نا خود یہ بری الزمہ کرنا ۔۔۔تلخی سے کہتا ہوا وہ گلاس ونڈو سے باہر دیکھتا ہوا کرلایا تھا ۔

غلطیوں سے سیکھا جاتا ناکہ پیچھے ہوجانا ۔۔۔۔ایک پھر کوشش کی گئی تھی ڈاکٹر عامر شہزاد کی طرف سے۔

ان گزرے ہوئے سالوں میں اس ہی غلطی کو سدھارنے کی کوشش کر رہا ہوں اور ہر روز اسے دیکھ کر مرتا ہوں ۔کیا بے بسی کی انتہا نہیں ہے عامر ۔۔۔ کرب سے آنکھیں میچتا ہوا وہ اپنی بے بسی پر مسکرا بھی نا سکا تھا۔

غلطی تمہاری نہیں تھی ارتضی تم جونئیر تھے اس وقت اور جونئیرز سے اکثر غلطیاں ہوجاتی ہیں ۔۔ارتضی کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا وہ ارتضی کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔

میں جونئیر نہیں تھا میں اپنے کیریئر کے اس موڑ پر تھا جہاں مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے فقط کامیابی دِکھ رہی تھی ۔۔

World the best ophthalmologis Irtaza Shah ....

 مجھے بس دنیا میں نام چاہیے طیب چشم کا ۔۔دونوں ہاتھوںسے چہرے کو رگڑتا ہوا وہ اپنی درد سے پھٹتی نسوں پر دباؤ دیتا ہوا اپنا ضبط کھو رہا تھا ۔ 

ایک اَن دیکھا تمغہ اعزاز چاہیے تھا مجھے تو ۔۔۔آنکھوں سے گرتے آنسو کو بے دردی سے رگڑتا ہوا وہ مسلسل بول رہا تھا ۔

عامر میری خواہش مجھے روند گئی وہ ایک غلطی میری زندگی سے سب کچھ چھین کر لے گئی اور مجھے ایسا بنا دیا ۔

جو میں کبھی نہیں تھا ۔۔۔ایسا نہیں تھا میں ۔۔۔۔۔

ایسا نہیں تھا کہ وہ پہلی بار عامر کے سامنےٹوٹ  کر رو رہا تھا ہر بار جب جب عامر اس رات کا ذکر کرتا تھا جب جب ارتضی شاہ ٹوٹ کر بکھرتا تھا۔

ارتضی تمہیں حساس بننا تھا مگر تم نے کچھ اور راہ اختیار کرکے لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھا دیا ۔۔۔عامر کی بات پر تمخسر سے ہنستا ہوا وہ کوئی بھٹکا ہوا مسافر لگ رہا تھا۔

جو اندھیرے میں مسلسل اپنی راہ کی تلاش میں بھٹک رہا تھا ۔۔

حساس تھا جب ہی تو  روند دیا گیا ۔

شوخ تھا تو سنگدل بنا اگر ۔۔۔۔

سنگدل ہوتا تو وہ غلطی سے بھی غلطی نا ہوتی ہاتھ نا کانپتے میرے ۔ ۔لب بھینچے وہ خود پر ضبط کرنے کی ناکام کوشش رہا تھا۔

ارتضی ۔۔۔۔۔کب ارتضی کو اس طرح روتے دیکھ عامر کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں اسے خود خبر نہیں ہوئی تھی ۔

کرب سے پکارتا ہوا وہ ارتضی کی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر چاہ کر بھی کچھ نا کہہ سکا تھا۔

گھرجاؤ اور آرام کرو ۔صبح ملتے ہیں ۔۔۔

آرام ۔۔۔۔۔۔۔اسے اس وقت بے بسی خود پر قہقہ لگاتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔

آرام وہ اس رات مجھ سے دور چلا گیا تھا اب فقط اپنی ناکامی کی آگ میں جلتا ہوں ۔۔۔کہنی آنکھوں پر رکھتا ہوا اپنے آنسو صاف کرتا ہوا تلخ مسکرایا تھا ۔۔۔

حوصلہ رکھو ۔۔۔۔

اس ہی کے دم پر تو جی رہا ہوں ورنہ مر تو کب کا گیا ۔۔۔احساس سے عاری انداز میں مسکراتا ہوا وہ عامر کے کاندھے کو تھتھپاتا ہوا اپنے بکھرے وجود کو سمیٹتا ہوا وہاں سے ٹوٹے ہوئے قدموں سے گیا تھا۔۔۔

اللہ رحم کرے تمہارے حال پر ۔۔۔ارتضی کو جاتے دیکھ وہ صرف یہ ہی کہہ سکا تھا۔

اللہ رحم کرے میرے حال پر ورنہ میرے حال پورے ہیں ۔

انگشت کی انگلی اٹھائے وہ بنا عامر کی سمت مڑے بولا تھا ۔

اس نے کہا تھا غرور نا کرنا اور میں مغرور بن گیا ۔

اس نے کہا تھا گھمنڈ نا کرنا اور میں گھمنڈی بن گیا ۔۔

اس نے کہا تھا اپنی نفس کی چاہتوں  کے آگے گھٹنے نا ٹیکنا 

ایسے ایسے چٹکی بجاتا رہا اور نفس کی چاہ کا شوخ  پجاری بن گیا اور بڑے بڑے خواب بُنتا ہی چلا گیا ۔۔۔۔ایک ہی لمحے عرش سے فرش کا بھیکاری  بن گیا ۔۔خود پر ہنستا ہوا وہ کہہ کر وہاں رکا نہیں تھا ۔ ارتضی کا کرب اپنے دل پر محسوس کرتا ہوا عامر اس کے لیے دل سے دعا گو ہوا تھا ۔

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

شور برپا ہے خانہ دل میں

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا

ہم سخن تیری خاموشی ہے ابھی

یاد کے ہیں نشاں جزیروں سے

تیری آواز آرہی ہے ابھی

شہر کی ہے چراغ گلیوں میں

زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی 

سو گئے لوگ اس حویلی کے

ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے

شہر کی رات جاگنی ہے ابھی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

رات گئے حویلی میں داخل ہوتا ہوا وہ خود  سے نظریں چرائے حویلی کے آخری کونے میں بنے بند کمرے کو کھولتا ہوا اندر داخل ہوکر دروازہ اندر سے بند کرگیا تھا ۔۔۔۔

بہت خوشی ہوئی آپا آپ کو بھائی صاحب کو یہاں دیکھ کر ۔۔شاہدہ بیگم اور دلاور شاہ کو دیکھ کر شاکرہ بیگم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نا تھا ۔

خوشی تو مجھے بھی بہت ہور ہی  ہے شاکرہ جس وجہ سے میں یہاں آئی ہوئی یہ جاب کر تمہیں بھی اتنی ہی خوشی ہوگی۔۔پراعت۔اس لہجے میں کہتی ہوئیں حیا کو دیکھ کر مسکرائیں تھیں ۔

کمال کردیا آپ نے تو خالہ جانی بلآخر آپ نے ارتضی بھائی کو منا ہی لیا ۔۔۔شاہدہ بیگم کے گلے لگتی ہوئی وہ چہکی تھی ۔

کمال میں نے نہیں تم نے کیا ہے اگر تم میری آنکھیں نا کھولتی تو میں یہاں تھوڑی نا ہوتی ۔۔۔حیا کے گال پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ پیچھے سے آتی ہوئی پیلے کلر کی سادہ سی شرٹ کے ساتھ شاکنگ پنک کلر کے پاجامہ پہنے ہوئے وہ 

 ڈوپٹہ سر پر درست کرتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر وہ مسکرائیں تھیں ۔

ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔میک اپ سے پاک ماہین کے چہرے کو دیکھ کر وہ اپنی پسند پر سرشار ہوئیں تھیں ۔

اسلام وعلیکم انکل ۔۔دلاور شاہ کو سلام کرتی ہوئی اپنے لبوں پر مسکراہٹ لیے اور بھی زیادہ پیاری لگ رہی تھی ۔

بس خالہ جانی اتنا نا دیکھیں کہیں نظر نا لگ جائے میری ماہین آپی کو ۔۔۔میری پر زور دیتی ہوئی وہ شرارت سے گویا ہوئی تھی ۔

پاگل اپنوں کی نظر نہیں لگتی ۔۔۔ہنوز ماہین کو دیکھتی ہوئی وہ حیا کی بات پر دلاور شاہ کی سمت دیکھتی ہوئی دلاور شاہ کی نظروں میں اپنے لیے داد دیکھ وہ اور بھی پرجوش ہوئی تھیں۔

ماہین بیٹا ۔۔۔۔جی بابا ۔۔۔۔ شاہدہ بیگم کے مسلسل ماہین کو دیکھنے پر ریاض صاحب ماہین کو پکار اٹھے تھے ۔

آپ جاؤ اور کھانے کا انتظام دیکھ لو کچن میں سلیمہ کت ساتھ ۔۔۔

جی بابا  ۔۔۔۔ریاض صاحب نے ماہین کو اس وقت یہاں سے بھیجنا ہی صحیح لگا تھا۔

میرے یہاں آنے کا مقصد تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے ریاض بھائی ۔۔۔شاہدہ بیگم کی بابت انہوں نے مثبت میں  گردن ہلائی تھی ۔جبکہ شاکرہ بیگم نا سمجھی میں ریاض صاحب کو دیکھ کر شاہدہ بیگم کی طرف متوجہ ہوئیں تھیں ۔وہیں حیا شاہدہ بیگم کے برابر میں اپنی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے بیٹھی ہوئی تھی ۔

ماہین کو میں اپنے شاہ کے لیے مانگے آئی ہوں آپ ریاض بھائی ۔۔۔دلاور شاہ جو ہنوز خاموش بیٹھے ہوئے دیکھ وہ کلسی تو تھی مگر انہیں اپنے کیے فیصلے کو انجام بھی دینا تھا ۔۔۔

اور تم سے شاکرہ تمہارے گھر کی رونق کو اپنے حیدر کے لیے مانگنے آئی ہوں ۔شاکرہ بیگم کے ہاتھ پر دباؤ دیتی ہوئی وہ حیآ کے شاکڈ چہرے کو دیکھ کر مسکرا اٹھی تھیں ۔

واووو مطلب ارتضی بھائی اور ماہین آپی کو ایک کرنے کا اتنا بڑا انعام ۔۔۔آنکھوں سے عیاں تھی حیا کی کیفیت ۔

کب تمہیں خود سے شرم آئے گی ۔۔۔۔

حیا بیٹا آپ جاؤ اور ماہین آپی کی مدد کروا دو ۔۔۔ڈھیٹوں کی طرح حیا کو دیکھ  دانت دبائے وہ حیا کو ہنوز وہیں بیٹھے دیکھ کلسی تھیں ۔

مگر ۔۔۔۔۔۔اگر تم کو ارتضی یا حیدر کے بارے جو چھان بین کروانی ہے تم  کروا سکتے ہو آخر کو باپ ہو تم دونوں ۔۔روبدار آواز میں بولے تھے  ۔۔۔۔

ایسی بات نہیں ہے ہمارے لیے تو بہت مان کی بات ہے آپ کے گھر سے رشتہ جرڑنے کی ۔

اور  گھر کے ہی بچے ہیں چھان بین کی تو کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔حمدان صاحب سہولتاً بولے تھے۔

تو پھر اگر۔۔۔مگر ۔۔۔۔وگر  کچھ نہیں ۔  شاہدہ بیگم کو خاموش رہنے کا کہتے ہوئے دلاور شاہ نے ریاض صاحب کو واپس سے بولنے کا کہا تھا۔

میرے کہنے کا مطلب ہے کہ نا ماہین ارتضی کو جانتی ہے اور میرے خیال سے نا ہی ارتضی نے ماہین کو دیکھا ہوگا ۔۔

زیادہ بہتر ہوگا کہ ہم ان دونوں کی رائے لے لیں تو ۔۔ اپنا موقف بیان کرتے ہوئے ریاض صاحب حمدان کو اپنی بات سے اتفاق کرتے دیکھ مسکرائے  تھے ۔

آپ لگتا ہے چاچو جانی کہ وہ دونوں نہیں ملے ۔

 میں نے خود ہی تو کروائی ہے ان دونوں کی ملاقات ۔۔آنکھیں مٹکاتی ہوئی وہ خود شاباشی دیتی ہوئی شاکرہ بیگم کی گھوریوں کو اگنور کیے ہوئے تھی ۔

 اس میں تو کوئی بڑی بات نہیں ہے بھائی صاحب منگنی کے بعد تو وہ دونوں آرام سے ملے لیں گے ۔۔۔شاکرہ بیگم کو دیکھتی ہوئی پرجوش ہوئی تھیں ۔۔

آپا بلکل درست کہہ رہی ہیں ۔۔بھائی صاحب ۔۔۔۔شاکرہ بیگم کی رضامندی پر حمدان صاحب ریاض صاحب کے ہاتھ پر دباؤ دے گئے تھے ۔

جیسا آپ کو صحیح لگے میری  طرف سے ہاں ہے ۔۔ فخرایہ انداز میں وہ ماہین سے پوچھے بغیر ہاں کرگئے تھے ۔  

سچ چاچو ۔۔۔۔۔ریاض صاحب کے بولنے پر وہ خوشی سے چلائی تھی ۔

حیا آپ ماہین کے پاس جاؤ اور سلیمہ کے ہاتھ مٹھائی بھجوادینا ۔۔۔حیا کو غصے سے گھورتی ہوئی شاکرہ بیگم کو دیکھ شاہدہ بیگم مسکرائیں تھی ۔

پتہ نہیں کیا ہے امو آپ خو بس ہر وقت مجھے ہر جگہ سے جانے کا کہتی رہتی ہیں ۔منہ بنائے وہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے گئی تھی۔

پرسوں منگنی کرکے پورے خاندان بھر میں اعلان کردیتے ہیں ۔۔اپنی بیگم کی جلدبازی پر دلاور شاہ خود بھی نا خوش تھے ۔

آج ارتضی نے ہاں کی ہے اگر صبح ہوتے ہی ناکردی تو ۔۔ریاض صاحب کے شاکڈ چہرے کو دیکھ وہ دل ہی دل میں سوچ کر خاموش ہوئی تھیں ۔

ٹھیک ہے پھر پرسوں ہم ارتضی اور ماہین کی منگنی کردیتے ہیں اور ان دونوں کے ولیمے پر حیدر اور حیا کی منگنی کردے گے ۔۔دلاور شاہ کی بات پر سب ہی متفق ہوئے تھے ۔

آپ کو پتا ہے اندر آپ کا اور میرا رشتہ فکس ہوگیا ہے ۔اور اس نئے رشتے کے لحاظ سے آپ میری جٹھانی بنے گی اور میں آپ کی چھوٹی سی  پیاری سی  دیورانی ۔منہ میں گلاب جامن رکھتی ہوئی اپنے اور حیدر کے رشتے پر زیادہ خوش ہورہی تھی ۔

آپ کو حیرت نہیں ہوئی اور برا بھی نہیں لگا چاچو نے بنا پوچھے آپ سے آپ کا رشتہ فکس کردیا میرے کزن کے ساتھ ۔تاثرات سے پاک ماہین کے چہرے کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی ۔

برا کیوں لگے گا مجھے اور شادی تو ایک نا ایک دن کرنی ہی تھی ۔تو وہ تمہارا کزن سے ہی سہی اور رہی بات بابا کی مجھ سے نا پوچھنے کی تو وہ اگر پوچھتے بھی نا تو میں کبھی بھی انکار نا کرتی کیونکہ ہمارے حق میں لیے ہمارے ماں باپ کے فیصلے زیادہ بہتر ہوتے ہیں ۔۔عام سے لہجے میں بولتی ہوئی وہ ریاض صاحب کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔

مجھے پتہ تھا میری ماہین میرا مان اور غرور ہے جب ہی تو بنا پوچھے اپنی بیٹی کی زندگی کا رونا بڑا فیصلہ کردیا ہے ۔ماہین کی پیشانی پر بوسہ دیتا ہوئے وہ پرسکون ہوئے تھے ۔

وہ ماہین کے پاس یہ سوچ کر آئے تھے کہیں انہوں نے جلد بازی میں ماہین سے پوچھے بغیر ہاں کرکے غلط کرگئے تھے ۔

مگر ماہین کی باتیں سن کر بلکل ہلکے پھلکے ہوگئے تھے۔

نا ماہین نے حیا  سے کچھ پوچھنے کی زحمت کی تھی اور نا ہی حیا  کے بتانے کی زحمت کی تھی  کیونکہ اس وقت تو وہ خود کو دنیا جہان کی سب سے خوش قسمت لڑکی تصور کیے خوشی سے جھوم رہی تھی ۔

***********

ذرا سی رات ڈھل جائے تو شاید نیند آجائے 

ذرا سا دل بہل جائے تو شاید نیند آجائے 

ابھی تو کرب ہے بے چینیاں ہیں بے قراری ہے 

طبعیت کچھ سنبھال جائے تو شاید نیند آجائے 

ہوا کے نرم جھونکوں  نے جگایا تیری یادوں کو 

ہوا کا رخ بدل جائے تو شاید نیند آجائے ۔۔۔۔

ہر رات تو نیند ویسے ہی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور رہتی تھی اور آج ماہین کو کھو دینے کا دکھ اسے بے چین کیے ہوئے تھا ۔۔

ہمیشہ سے ہی ایسا ہی ہوا تھا اس کے ساتھ جب جب وہ زندگی سے امید لگاتا تھا کسی خوشی کو پانے کے لیے اور وہ عین وقت پر دغا دے جاتی تھی ۔

بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہ سائیڈ ٹیبل پر رکھے لیمپ کو آن آف کرتا ہوا مسلسل ماہین کو سوچ کر وہ تلخ مسکرایا تھا ۔۔

ابھی تک جاگ رہے ہو ارتضی ۔ارتضی کے روم کی جلتی لائیٹ دیکھ کر دلاور شاہ  روم داخل ہوتے ہی استفسار کیا تھا ۔

جی بابا سرکار نیند نہیں آرہی تھی اس لیے ۔۔وہی پرانہ بہانا سناتا ہوا دلاور شاہ نے نظریں چرا رہا تھا ۔

ناراض ہو ۔۔

میں خود سے ناراض ہوں بابا اور پھر میں کون ہوتا ہوں کسی سے ناراض ہونے والا خاص کر آپ سے اور ماں سرکار  سے ۔۔دلاور خان کو  بیڈ پر بیٹھنے  پر وہ ٹانگیں لٹا کر سیدھا ہو بیٹھا تھا وہیں ارتضی شاہ کے اس انداز پر وہ مسکرائے تھے ۔

ہمیشہ ہی  سرہانے بیٹھا ہوتا تو وہ یا جگہ سے اٹھ کھڑا ہوجاتا تھا یا کبھی اپنی پاؤں  سمیت کر بیٹھ جاتا تھا  ۔

یہ شاید  ارتضی کا اپنے بڑوں کو مان عزت دینے کا طریقہ تھا ۔ 

عزت میں دل میں ہوتی ہے ان چیزوں سے کیا ہوتا ہے ۔

مجھے اچھا لگتا ہے ۔دو ٹوک انداز میں کہتا ہوا لیمپ کو آن کرگیا تھا ۔

پرسوں منگنی ہے فکس کردی ہے تمہاری ماں نے تمہاری ۔۔ارتضی کے چہرے پر نگاہ ٹکائے وہ سنجیدگی سے بول رہے تھے ۔

لڑکی مان گئی اتنی جلدی ۔۔۔شک گزرا تھا اسے ۔

لڑکی نہیں ہے ماہین نام ہے اس کا ۔میں خود حیران تھا تمہاری ماں کی جلدبازی پر ۔۔دلاور شاہ کے بتائے گئے نام پر وہ اٹک کر رہ گیا تھا ۔

کیا نام لیا آپ نے ۔۔نام سن کر ہی ایک امید کی لہر جاگ اٹھی تھی اس کے دل میں ۔

ماہین نام ہے اور تمہارے انکل حمدان کے بھائی کی بیٹی ہے ۔

اب تک بات چیت میں وہ پہلی بار مسکرایا تھا ۔ 

مان کیسے گئی میرے لیے ۔حیرت کا شکار ہوتا وہ پریشان ہوا تھا۔

دلاور شاہ کی بات اسے مزید پریشان کرگئی تھی۔ 

اب تو ہسپتال میں ڈاکٹرز بھی موجود ہیں اور جس حساب سے تمہاری ماں جلدبازی دیکھا رہی ہیں تمہاری شادی میں دیر نہیں ہے ۔

پھر کب جوائن کررہے ہو ہسپتال ۔۔ارتضی کے بدلتے تاثرات دیکھ وہ افسردہ ہوئے تھے ۔

ہاتھ کانپتے ہیں میرے بابا ۔۔ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں پھر کسی اور کی۔۔۔۔وہ چاہ کر بھی کہہ نہیں سکا تھا ۔

اور وہ پاگل کہتا ہے کہ سرجری کروائے گا تو مجھ سے ۔اسے کیسے بتاؤں مجھ میں کوئی امید اور خواہش نہیں رہی ڈاکٹری کی ۔مگر وہ بضد ہے ۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں بابا کاش میں ڈاکٹر نا بنتا کم از کم اس کرب اور اذیت سے نجات ہوتی مجھے سکون سے عام لوگوں کی طرح گھوڑے بیچ کر سوتا ۔۔افسردگی سے کہتا وہ دلاور شاہ کی نم انکھوں کو دیکھ کر سرجھکا گیا تھا ۔

کب تک کرو گے اپنے ساتھ ایسا ۔۔

یہ نہیں ہے کہ ہر ڈاکٹر پرفیکٹ ہوتا ہے کہیں نا کہیں کرئیر کے کسی حصے میں  غلطی ہوجاتی ہے سب سے ہوتی ہے ۔ پر وہ اپنے پیشے سے منسلک رہتے ہیں اپنی غلطی سے سیکھتے ہیں  ناکہ اپنی غلطی کی وجہ سے خود کو سنگدل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔آج پھر وہ ارتضی کو سمجھانے کی کوشش کررہے تھے ۔۔

میں سنگدل ہوں بابا سرکار ۔کھوکھلے لہجے میں کہتا ہوا وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

ہمہم ۔وہ سنگدل ہو تم جو پندرہ سال کی بچی کو کام کرتے دیکھ حمایت کرتا ہے ۔اسے ہی تو سنگدل کہتے ہیں ۔

غلام رسول کی لاکھ غلطیوں پر تم اس کے بچوں کو دیکھ کر اسے کام سے نکالتے نہیں ہو بلکہ اسے اپنے ساتھ رکھتے ہو ۔اور ایسے سنگدل ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں ۔ارتضی کی پیٹھ کو دیکھتے ہوئے وہ تاسف سے مسکرائے تھے ۔

باپ ہوں تمہارا شاہ ۔۔۔۔پہلے دن سے خود کو سنگدل دیکھانے کی کوشش میں وہ ناکام ہوگیا تھا ۔

آپ کو نہیں لگتا تو کیا ہوا پر میں ہوں سنگدل ہی ۔مضبوط لہجے میں کہتا ہوا اپنے بات پوری کرنے کا وہ عادی تھا۔

چلو بن جاؤ سنگدل  ۔۔ہار مان گئے تھے وہ ارتضی کے سامنے ۔

سو جاؤ  کل صبح  تمہارے  ساتھ ساری شاپنگ کرنے کا پلین بنایا ہوا ہے ۔۔ارتضی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دلاور  شاہ وہاں سے گئے تھے ۔

سوری بابا سرکار ۔دلاور شاہ کو جاتے دیکھ وہ افسردہ ہوا تھا ۔

کیسے مان گئی تم مس ماہین ریاض بخاری مجھ سے شادی کے لیے ۔کچھ تو مس ہورہا مجھ سے مگر کیا ۔۔

بیڈ پر دراز میں سونے کی کوشش کررہا تھا مگر آنکھوں کے سامنے آتے ماہین کے چہرے کو دیکھ وہ پریشان ہوا  تھا ۔

********

شاہ آج تم کہیں نہیں جاؤ گے ۔

جانتا ہوں آپ تیار ہوجائیں میں لے چلوں گا آپ کو شاپنگ پر ۔شاہدہ بیگم کے پکارنے پر وہ فورا سے پہلے بولا تھا ۔

سمی تم بھی تیار ہوجاؤ تم بھی چل رہی ہو ہمارے ساتھ ،شاہدہ بیگم کے ساتھ بیٹھی ہوئی رائمہ کو دیکھ وہ مسکرایا تھا ۔

بھائی میں  ۔۔حیرت سے ارتضی کو دیکھتی ہوئی وہ شاہدہ بیگم کو وہاں سے جاتے دیکھ بولی تھی۔

تمہارے علاوہ کون ہے میری سمی ۔آج رائمہ کو وہ پہلے والا ارتضی لگا تھا ۔جو ہمیشہ پیار سے پیش آتا تھا ۔

پر بھائی ۔۔اس دن  مال میں جو ہوا ۔وہ بولتی ہوئی  بیچ میں روکی تھی ۔

بنا تم سے پوچھے ہاتھ اٹھا دیا تھا مگر کیا کرتا چاہ کر بھی بھول نہیں پایا ہوں میں وہ رات جب تم ۔

غلطی ایک بار کی جاتی ہے بھائی اور وہ غلطی میں کرچکی ہوں ۔ارتضی کی بات بیچ میں کاٹتا ہوئی وہ افسردگی سے بولی تھی ۔

کون بھائی اپنی بہن کا ہاتھ ایک بزدل انسان کے ہاتھ میں دینا پسند کرتا ہے جو میرا سامنہ نہیں کرسکتا وہ کیسے تمہارے لیے دنیا سے کیا لڑے گا ۔

اگر وہ بزدل تھوڑا سا بہادر ہوکر مجھے یہ کہہ دے کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے میں اس ہی دن تمہارا  اس کے ساتھ نکاح کروا دوں گا ۔رائمہ کو دیکھتا ہوا وہ اپنے دل کی بات کرگیا تھا۔

مگر آئے جب نا اس میں اتنی ہمت نہیں ہے ۔وہاج کی بزدلی پر وہ ہمت ہار گئی تھی۔

ایسی بات بھی نہیں ہے دو دن پہلے میرا اور اس کا سامنا ہوا تھا اور وہ پانچ منٹ تک آنکھوں کی تاب جھیل چکاہے ۔ارتضی کی بات پر امی کبھی مسکرائی تھی ۔

آئی لوو یو بھائی  ۔پر میں آپ کو معاف نہیں کروں گی آپ مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا ۔ارتضی کے ساتھ لگی ہوئی وہ ناراضگی سے بولی تھی ۔

اور میں معافی مانگ بھی نہیں رہا ۔شرارت سے کہتا ہوا وہ کسی کی خفگی بھری نظریں دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

بھائی آپ کو پتا ہے بھابھی کون ہیں ۔ارتضی کو خاموش دیکھ وہ پھر سے بولی تھی ۔

وہی مال والی ہیں ۔میں تو حیران رہ گئی تھی ۔انہیں دیکھ کر واقع میں دنیا گول ہے ۔کھلکھلاتی ہوئی سنی کو دیکھ وہ دل سے مسکرایا تھا ۔

********* 

پتا نہیں کیا بنے گا بابا کا ۔آتے ہی نرجس کے شکوے شروع ہوچکے تھے ۔

اگر یہ گیا مجھے دو دن پہلے فون کرکے آنے کا نہیں کہتی تو میں تمہاری منگنی میں شامل ہی نا ہو پاتی ۔پاپ کارن کھاتی ہوئی حیا شرارت سے مسکرائی تھی ۔

ویسے تم بازی مار گئی ماہین ۔

وہ کیسے آپی ۔ڈیڑھ سالہ حورین کو گود میں لیے وہ اس کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی ۔ 

بھئی میرے ہزبینڈ سے زیادہ ہینڈسم ہے ۔۔حیا کو دیکھ وہ ماہین کے چہرے پر آئے رنگ دیکھ کر مسکرائی تھی ۔

آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے ہماری کوئی شرط تھی ایسی ۔عام سے لہجے میں بولتی ہوئی وہ حورین کے پھولے ہوئے گالون گالوں پر لب رکھتی ہوئی مسکرائی تھی ۔۔

اور رہی بات ہینڈسم کی تو یہ میرے نصیب ہیں ۔

ماہین کی بات پر نرجس اور حیا دونوں مسکرائی تھیں ۔ 

اپنی کہی بات کے بعد ارتضی کا چہرہ خیالوں میں لہراتے ہی وہ توبہ توبہ کرگئی تھی ۔

اللہ پاک اس جلاد کا خیال کیوں آرہا ہے مجھے ۔۔۔خوف سے آنکھیں بند کرتی ہوئی حدیں کو لیے اپنے روم کی جانب بڑھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

سلام پھوپھو ۔۔۔بلند آواز میں سلام کہتا ہوا وہ ڈرائینگ روم خوبصورت پر فخریہ انداز میں براجمان ہوا تھا ۔

صائمہ اور وہاں دونوں ارتضی کو دیکھ خوش ہوئے تھے مگر 

ارتضی کو اچانک اپنے گھر میں دیکھ وہاج کے رنگ اڑ گئے تھے ۔

بے فکر رہو آج تمہارے لیے نہیں آیا ہوں میں یہاں پر اپنی منگنی پر مدعو کرنے آیا ہوں ۔۔

وہاج کے اڑے رنگوں کو دیکھ وہ مسکرایا تھا ۔

کچھ لو گے ٹھنڈا یا گرم ۔ارتضی کو یوں اپنے گھر پوری شان سے بیٹھے دیکھ صائمہ انصاری کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نارہا تھا۔

اچھے سے جانتی ہیں آپ کے گھر کا پانی پینا بھی مجھ پر حرام ہوگا ۔۔تلخ لہجے میں کہتا ہوا وہ وہاب انصاری کو دیکھ کر بولا تھا ۔ 

بابا سرکار نے مجھے اجازت دی تھی اپنی منگنی کی خوشی میں جن لوگوں لو میں چاہوں بلاسکتا ہوں  ۔

 اس لیے آپ لوگوں کواپنی خوشی میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں میں ۔

کل دوپہر تین بجے آجائیے گا ۔

بنا رہے بولتا ہوا وہ واپس سے کھڑا ہوا تھا ۔

مگر بھائی ۔۔۔صائمہ انصاری گھبرائی تھیں ۔

بابا  سرکار کو میں خود منا لوں گا ۔آپ لوگ ضرور آئیے گا۔

اور تم اپنی نظریں اور اپنی حرکتوں سے باز رہنا ۔۔۔وہاج کے کندھے کو تھتھپاتا  ہوا اسے وارن کرگیا تھا ۔

ویسے کون ہے وہ بیچاری جس کے نصیب پھوٹنے والے ہیں آپ کے ساتھ ۔

میرا مطلب ہے کون ہیں وہ خوش نصیب ۔۔ارتضی کی آنکھوں سے خوف کھاتا ہوا وہ فورا سے بات بدل گیا تھا۔

وہی ہے جس کے نازک کندھوں کا سہارا لے کر تم ڈیری آئے تھے ۔دانت دبائے ارتضی سے اسے وحشت محسوس ہوئی تھی ۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔۔حیرت سے فقط وہ سوچ ہی سکا تھا ۔

ایک اور بات میری بہن کو بہلانے کی ناکام کوشش مت کرو کیونکہ اب وہ تمہاری بزدل محبت کے شکنجے میں نہیں آئے گی ۔وہاج کا کالر سیٹ کرتا ہوا صبح رائمہ سے کہا گیا اپنا جھوٹ یاد کرکے فاتحانہ انداز میں بول رہا تھا۔

کیا نیا کھیل کھیلا ہے آپ نے ۔۔

تمہاری سوچ سے بھی آگے کا کھیل کھیلا ہے میں نے ۔۔صائمہ اور وہاب انصاری کی سمت مسکراہٹ اچھل کر وہاج کو حیران چھوڑ شوخ چال چلتا ہوا جیسے ہوا کی طرح آیا تھا ویسے ہی وہاں چلا گیا تھا۔

***********

بخاری ولا کے گارڈن میں تقریب کا انتظام کیا گیا تھا۔

خاندان بھر چیدہ چیدہ کو مدعو کیا گیا تھا  ۔۔۔

ساری ڈیکوریشن حمدان بخاری اور ریاض صاحب کی نگرانی کی جارہی تھی ۔

صبح سے کسی نا کسی بہانے سے وہ ارتضی کی تصویر دیکھنے سے قاصر رہی تھی ۔

کبھی حورین کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تو کبھی حیا اور نرجس کی کردہ شاپنگ سے ۔

خاموشی سے بیٹھی ہوئی نرجس اور حیا کے تیار ہونے کا انتظار کرتی ہوئی وہ خود بخود مسکرا رہی تھی ۔

کس بات پر مسکرایا جارہا ہے پتا تو چلے ہمیں بھی ۔حیا کی نظر ماہین کے مسکراتے چہرے پر پڑی تو وہ فورا سے  پوچھ  گئی تھی ۔

پتا نہیں کیا ہورہا ہے میرے ساتھ مجھے بات بے بات ہنسی آرہی ہے پتا نہیں کیوں اتنی خوشی محسوس ہورہی ہے جیسے پتہ نہیں کیا مل گیا ہو ۔۔اپنی کیفیت سے انجان ماہین کو بولتے دیکھ نرجس نے اسے سنجیدگی سے دیکھا تھا ۔

اللہ پاک تمہاری خوشیاں سلامت رکھے ۔۔نرجس لہجے میں انجانہ سا ڈر لیے بولی تھی ۔

آمین ۔۔۔حیا کی کھلکھلاتی آواز سے وہ مسکرائی تھی ۔

شاید یہ خوشی اس جلاد کی ناکامی کی تو نہیں ۔۔میک اپ کروانے کے لیے میرر کے سامنے بیٹھتی ہوئی وہ مسکرائی تھی ۔

اپنے شولڈر کٹ بالوں کو اسٹریٹ کروائے وہ لبوں پر شوکنگ پنک  لپ اسٹک لگائے وہ براون لائیٹ میک اپ کے ساتھ اپنے پہنے ہوئے سلور گولڈن کے کلر کے  خوبصورت کام دار شارٹ فراک کے ساتھ ٹائٹ سلک کے پجامے زیب تن کیے ہوئی وہ تیار تھی مگر اپنے پاؤں میں سیلپر پہنے دیکھ وہ بیڈ کے نیچے رکھی ڈریس سے میچنگ اپنی ہائی ہیل پہنتی ہوئی وہ اپنے کھلے بالوں کو آگے کرتی  خود کو میرر دیکھ کر مسکرائی تھی۔

کاش حیدر بھی ہوتا ۔۔یہاں ۔خود کے خوبصورت سراپے کو دیکھ اسے حیدر کی کمی محسوس ہوئی تھی۔

سنا ہے حیدر صاحب کی آج رات کی فلائٹ ہے ۔۔شرارت سے کہتی ہوئی سمپل مہرون کلر کے گہردار فراک  کے ساتھ ہم رنگ چوڑی دار پجامے کے ساتھ ہم رنگ رنگ ڈوپٹہ کندھے پر پھیلائے ہوئے نرجس کہیں سے بھی ایک بیٹی کی ماں نہیں لگ رہی تھی ۔۔ 

ہاں تو آج تھوڑی نا شامل ہوگا ہمارے ساتھ کل رات کو آئے گا ۔نرجس کی گود مہرون کلر کی فیری فراک پہنی حورین کوکھولتی ہوئی وہ اداس ہوئی تھی ۔

سب تیار ہو ۔روم میں داخل ہوتی شاکرہ بیگم حیا اور نرجس کو تیار دیکھ چپ ہوگئی تھیں ۔۔

ہم دونوں  تیار ہیں بس  ماہین رہتی ہے ۔کیسی لگ رہی ہوں امو جانی ۔۔ وہ شاکرہ بیگم کے سامنے کھڑی ہوئی تھی 

بہت پیاری لگ رہی ہے میری بچی ۔۔شاکرہ بیگم اپنی اکلوتی بیٹی کی نظر اتارتی ہوئیں وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتی  مسکرائیں تھیں ۔

یہ بہت ڈارک ہوگیا ہے  پلیز لائیٹ کردیں ۔۔ماہین کے بار بار بولنے پر بیوٹیشن نے غصہ سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا ۔

میم  ۔اس سے زیادہ کیا لائیٹ ہوگا ۔۔۔وہ زچ آئی تھی ۔

ماہین بہت پیاری لگ رہی ہو ۔کوئی ضرورت نہیں ہے زیادہ لائیٹ میک اپ کی ضد کرنے کی ،آپ  بیٹا اس کی مت سنیں ۔ بیوٹیشن کو کہتی ہوئی وہ ماہین کو پیار سے ڈانٹ کر خود بھی چینج کرنے کے لیے وہاں سے گئیں تھیں ۔ 

شاکرہ بیگم کی ڈانٹ کھانے کے بعد وہ خاموشی سے بیٹھ گئی تھی ۔

وہیں شاہ حویلی میں تیاریاں عروج پر تھیں ۔

شاہدہ بیگم اپنے پھولے ہوئے ہاتھ پیروں کے ساتھ ملازماؤں پر حکم صادر کرتی ہوئی رائمہ کو اپنے ساتھ لیے بلآخر تیار ہونے کے لیے اپنے روم کی طرف بڑھی تھیں جہاں بیوٹیشن ان کا انتظار کررہی تھیں ۔

*********

لندن کا موسم آج خاصا خوشگوار تھا ۔گلاس ونڈو کے پاس کھڑا وہ مدھم سی دھوپ کو دیکھ کر اسے پاکستان کی چمک دار و روشن دھوپ یاد آئی تھی ۔

یہاں گزرے دو دن بھی اسے صدیوں کی مانند لگ رہے تھے ۔

آسمان میں اڑتے پرندوں کو دیکھ اسے اپنے پرند گھر کے پرندوں کی یاد ستائی تھی   ۔

آنے سے پہلے تباہی کے ہاتھوں اڑے طوطے اور  حیا کو یاد کرکے افسردگی سے  مسکرایا تھا ۔ 

افسردگی سے ونڈو کے پاس سے واپس بیڈ پر بکھرے  سامان کو پیک کرتے ہوئے اس کے ہاتھ رکے تھے ۔

کیا ہورہا ہے ۔دل میں اٹھی بےچینی سے پریشان ہوتا ہوا وہ بیڈ پر گرنے کے انداز سے لیٹا تھا۔

اپنے بجتے ہوئے فون کی طرف متوجہ ہوتا ہوا وہ تباہی کالنگ دیکھ کر حیران ہوا تھا ۔

تباہی کو یاد کیا اور تباہی کی کال آگئی ۔فون پک کرتے ہی وہ حیا کو کلسانے کے لیے بول گیا تھا۔

اسے تباہی نہیں دل کو دل سے راہ کہتے ہیں سڑی ہوئی ککڑی ۔چبا کر کہتی ہوئی وہ اسے بہت زیادہ مس کررہی تھی ۔

کیسی لگ رہی ہو آج ۔ حیدر کا سوال اسے حیران کرگیا تھا ۔

ہمیشہ کی طرح بہت پیاری ۔شان بے نیازی سے بالوں کو پیچھے کرتی ہوئی اترائی تھی جیسے حیدر فون پر نہیں اس کے سامنے ہو ۔

میک اپ کے بعد پیاری لگ رہی ہوگی کیونکہ ویسے تو تم صدا بہار ایک ہی شکل لیے پھرتی ہو ۔حیا سے بات کرتا ہوا وہ اپنے دل میں اٹھی بےچینی پر  قابو پاگیا تھا۔

سڑی ہوئی ککڑی یوں ہی رہنا ہمیشہ جل ککڑ ۔۔حیا کے زچ آنے پر وہ قہقہ  لگا گیا تھا ۔ 

بے فکر رہو تمہارے معملے میں ایسا ہی  رہوں گا ۔۔حیدر کی کہی بات پر وہ سرشار ہوئی تھی ۔

اور میں بھی ایسی ہی رہوں گی ۔اس کے انداز میں بولی تھی ۔

تیری خوشبو کا پتہ کرتی ہے 

مجھ پر احسان ہوا کرتی ہے ۔،

شب کی تنہائی میں اب تو اکثر 

گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے ۔۔،

دل کو اس راہ پر چلنا ہی نہیں 

جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے ۔۔،

زندگی میری تھی لیکن اب تو

تیرے کہنے پر رہا کرتی ہے۔۔،

اس نے دیکھا ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ

دل کا احوال کہا کرتی ہے ۔۔۔۔۔،

**********

سفید کاٹن کے کڑکڑاتے سوٹ پر براؤن چادر کندھوں پر ڈالے وہ پیروں میں پہنی بروان کلر کی کھیڑی جوتی اسکی پروقار وجاہت میں چار چاند لگا رہی تھی ۔

 مضبوط قدم اٹھاتا ہوا سامنے وہ کھڑی ماہین کی سمت بڑھا تھا ۔

ہائے مس ماہین ریاض ۔۔۔وہ اپنی دلفریب مسکراہٹ لبوں پر سجائے اس کے روبرو کھڑا ہوا تھا ۔

انہیں جو شہر سے آئی اپنی فرینڈز کے ساتھ سلفی لینے میں میں مصروف تھی اسے اپنے سامنے دیکھ چونکی تھی ۔

ساتھ کھڑی اس کی فرینڈز ارتضی کی شاندار پرسنلٹی کو دیکھ کر متاثر ہوئیں تھیں ۔

ماہین ریاض میں ہی ہوں  ۔۔ماہین کے سامنے ہاتھ ہلاتا ہوا اسے دیکھ کر مسلسل مسکرا رہا تھا ۔

تم لوگ جاؤ یہاں سے ۔۔سخت لہجے میں کہتی ہوئی وہ اپنے ساتھ کھڑی دوستوں سے مخاطب ہوئی تھی ۔

مآہین کے اس طرح بھیجنے پر عبیرہ اسے گھورتی ہوئی باقی سب کو لیے وہاں سے نکلی تھی۔

آج آپ کچھ زیادہ ہی تیار نہیں ہوگئی ہیں آپ ۔پیچ کلر کے بھاری کام دار پیروں تک آتے فراک پہنے مہارت سے کیا گیا لائیٹ میک اپ جو ماہین نے بیوٹیشن کو کہہ کہہ کر لائیٹ کروایا تھا۔مقابل کی تعریف کرنے کے انداز سے وہ بھڑک اٹھی تھی ۔ 

ماہین کی ہرنی جیسی خوبصورت آنکھیں دیکھ ارتضی اپنی  دائیں آبرو کھجاتا ہوا مسکرا رہا تھا ۔

بسمل کا خدا حافظ ، قاتل کا خدا حافظ ۔،

تم جس پر نظر ڈالو، اس دل کا خدا حافظ ۔۔،

آجاؤ جو محفل میں اک جان سی آجائے 

آٹھ جاؤ جو محفل سےمحفل کا خدا حافظ، 

ساتھی ہو اگر تم سا منزل کی تمنا کیا 

ہم کو تو عشق پیارا منزل کا خدا حافظ ۔،،

اب ہم بھی تمہارے ہیں کشتی بھی تمہاری ہے

اب مڑ کر نا دیکھیں گے ساحل کا خدا حافظ ۔۔۔۔۔۔،

آج  ارتضی شاہ کو اپنی نظریں اس کے خوبصورت چہرے پر سے ہٹانا مشکل ترین امر لگ رہا تھا ۔

ہاں تو منگنی ہے میری تیار تو ہونگی ہی نا ۔جوش سے ہاتھ نچاتی ہوئی وہ اپنے اندار اچانک پیدا ہوئے کانفیڈنٹ سے پرجوش ہوئی تھی ۔

خوش ہیں منگنی سے کافی آپ ۔۔ماہین کی آنکھوں میں خوشی کی چمک صاف دیکھائی دے رہی تھی ۔

خوش نہیں بہت خوش ہوں آخر کو جسا چاہا وہی مل رہا ہے ۔لوو میرج ہے میری ۔۔۔سر پر ٹکائے ڈوپٹے کو آگے کرتی ہوئی اترائی تھی ۔  

ویسے تم سے جلاد کیا خبر لوو میرج کی ایسائٹمنٹ  کا ۔۔ جتا کر بولتی ہوئی ارتضی شاہ کے چہرے پرآئی سنجیدگی کو دیکھ جتانے کے انداز میں بولی تھی ۔

لوو میرج ۔۔وہ چونکا تھا ۔مطلب اس کا شک صحیح ثابت ہوا تھا ۔

انہیں اس کے اوڑھ اپنے رشتے سے بے خبر تھی ۔

ہمہم ۔۔مسکراہٹ دبائے وہ ارتضی شاہ کی دل کی دنیا کو تہس نہس کرگئی تھی ۔

اچھا کیسا دیکھتا ہے تمہارا فیانسے  ۔ماہین کے چہرے پر نظریں جمائے میں وہ مسکرا رہا تھا۔

کیوں تمہیں نہیں پتا منت ہسپتال کے مالک ہے ۔۔ماہین کی آج ہر ادا پر اسے ٹوٹ کر پیار آرہا تھا۔

چھ فٹ کو چھوتا  دراز قد  ۔۔ارتضی اپنے قد سے موازنہ کرتا حیران ہوا تھا ۔۔اس کی لمبی ہانک پر ۔

گہرے سیاہ بال ،اپنے بالوں کو آج اس نے بھی غور سے نہیں دیکھا تھا ۔

عنابی لب ،لب دبائے وہ ماہین کے مغرور زوایہ دیکھ حیرت کا شکار ہوا تھا ۔

کھڑی ستوان ناک بنا ہتھیار کے اپنی ناک سے کسی کو بھی چاک کرسکتا ہے   ۔۔ناک کی سیدھ سے اپنی انگشت کی انگلی  پھیر گیا تھا ۔

اور آنکھیں ایسی کہ دل کرتا ہے ان میں ڈوب ہی جاؤں  ۔۔وہ کسی ریاست کے شہزادے کا حوالہ دیتی ہوئی پہلے پہل تو گھبرائی تھی مگر مقابل کے کڑے تاثرات دیکھ وہ اپنی گھبراہٹ کو تھپک کر سلاتی ہوئی پرجوش ہوئی تھی۔

ہمہم اچھا ۔۔مسکراہٹ جو اب تک ارتضی کے چہرے پر بکھری ہوئی تھی اب سمٹ گئی تھی ۔

دیکھا ہوا ہے ۔۔ارتضی شاہ کو تفتیش ہوئی تھی ۔

بتایا تو پے ابھی لوو میرج ہورہی ہے ہماری ۔۔لوو میرج  پر زور دیتی ہوئی اسے جلانے کے لیے جتا کر بول رہی تھی ۔

دیکھا ہی نہیں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر گھومی ہوں اس کےساتھ ۔  ماہین کی ذہنی حالت پر اسے شک گزرا تھا۔

اس کی ڈوبتی ہوئی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی ہیں ۔ماہین ارتضی کے پوچھنے کے انداز پر ہل کر رہ گئی تھی ۔

دیکھا تو اس نے تھا ہی نہیں  نرجس کے بار بار اسے لڑکے کی تصویر دیکھنے کے اسرار کو وہ ہوا میں اڑتی ہوئی منگنی کے لیے تیار ہوئی تھی ۔

ارتضی پر اپنا روم جھاڑتی ہوئی وہ پچھتائی تھی اپنی حد درجہ بیوقوفی پر ۔

اس کی چلتی زبان پر بریک لگا تھا ۔

تو منگنی کیوں کررہی ہو ڈائریکٹ نکاح کرلو ۔سنجیدگی سے کہتے ہوئے ارتضی کو یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس شخص سے ماہین کی منگنی ہورہی ہے وہ وہی ہے مگر بھی اسے جلن محسوس ہورہی تھی ۔۔

وہ تو میرے کہنے پر ہورہا ہے یہ سب ۔ ایگجمنٹ کے بعد کا گولڈن پریڈ کا بھی اپنا مزہ ہوتا ہے ۔واپس سے اپنے بائیں ہاتھ کو نچاتی ہوئی وہ اپنی خجلت مٹاتی ہوئی بولی تھی  ۔

نام کیا ہے ۔۔ارتضی کے حد درجہ سخت لہجے سے وہ گھبرا گئی تھی ۔

آئے گا تو مل بھی لینا اور پوچھ بھی لینا ۔۔انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کے ساتھ حرکت کرتی ہوئی وہ اسے بہت پیاری لگی تھی ۔

شاید آگیا ہے تمہارا فیانسے تم جاؤ اور دوبارہ سے ٹچ اپ کر آؤ ۔ماہین کے جھکے سر کو دیکھتا ہوا وہ اس کے قریب سے گزرا تھا ۔

ٹچ اپ کرآؤ جلاد ۔۔ارتضی کی نقل اتارتی ہوئی وہ پیر پٹختی اپنے گہرے فراک کو اٹھاتی ہوئی ڈریسنگ روم میں میں آئی تھی ۔

ٹچ اپ لے لیا ۔ڈریسنگ روم میں انٹر ہوتی نرجس اپنی معصوم سی بہن کو پہلی بار اتنے میک اپ میں  دیکھ کر حیران ہوئی تھی ۔

بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔ماہین کو خود سے لگاتی ہوئی دل سے مسکرائی تھی ۔

آپی وہ مجھے اپنے فیانسے تصویر دیکھنی ہے ۔۔ماہین کی اچانک مانگ  پر اپنے خالی ہاتھ اسے  دیکھاتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

جہاں کل سے نہیں دیکھی ہے تصویر تو تھوڑی دیر اور انتظار کرلو ۔۔ماہین کی دن بھر کی خوشی بے چینی میں بدل گئی تھی ۔۔۔۔۔

مجھے آپ سے سب ایک بات کرنی ہے ۔۔پلیز سائیڈ پر آجائیں ۔۔ارتضی شاہ کے سب کو اچانک سے سب کو ایک ساتھ بلانے پر حیران ہوتے ہوئے رائمہ اور حیا کے علاوہ سب ارتضی کے پیچھے گھر کے اندر گئے تھے ۔

ارتضی بھائی کیا بات کرنے والے ہیں سب سے تمہیں کچھ اندازہ ہے ،بلیک کلر کے  خوبصورت مگر سمپل سی ڈریس میں اپنے ساتھ کھڑی رائمہ سے حیا نے تجسس سے پوچھا تھا ۔

پتا نہیں آئے بھی بھائی ہم سے دیر سے ہی تھے اور پتہ نہیں آتے ہی کیا دماغ میں چل گیا ہے ۔۔سامنے سے آتے وہاج اور اس کے ساتھ صائمہ انصاری اور وہاں انصاری کو آتے دیکھ وہ نظریں چرا گئی تھی ۔

جو وہاج نے بخوبی محسوس کیا تھا ۔

یا اللہ خیر ۔آپ کی پھوپھو یہاں کیا کر رہی ہیں وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ ۔حیا حیران ہونے کے ساتھ پریشان ہوئی تھی انہیں دیکھ کر ۔

ارتضی بھائی نے بلایا ہے انہیں بھی ۔۔چاہ کر بھی رائمہ وہاج کو دیکھ کر خوش نا ہوسکی تھی  ۔

دور سے سب کو یکجا سلام کرتی ہوئی وہ وہاں سے گئی تھی جبکہ حیا ان سے ملتی ہوئی مسکرانے کی اداکاری کررہی تھی  ۔۔۔۔۔۔

**********

سوری میں نے آپ سب لوگوں کو اس طرح اچانک سے اپنے ساتھ اندر آنے کو کہا مگر بات ہی کچھ ایسی تھی ۔

سر جھکائے وہ سب کی نظریں خود پر محسوس کرتا ہوا مسکرایا تھا ۔

ایسی کیا بات ہے ارتضی ۔۔ریاض صاحب پریشان ہوئے تھے۔

ہاں ارتضی بے فکر ہوکر بولو کیا بات ہے ۔اتنی سنجیدہ حالت میں سئچویشن میں بھی دلاور شاہ کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی تھی  ۔

ایسی بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ریاض انکل آپ سے ایک اجازت چاہیے ۔۔۔دو قدم کے فاصلے ہر کھڑے ریاض صاحب کے ہاتھ تھامتا ہوا کسی بھی تاثرات سے پاک چہرہ لیے ساتھ کھڑے حمدان صاحب کو دیکھ کر بولنا شروع ہوا تھا ۔

میں منگنی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔ارتضی کی بات پر جسے کوئی آسمان ٹوٹ کر ان کے سر پر گرا ہو ۔

ہمارے خاندان میں ماہین،اور ارتضی کی منگنی کی خبر پھیل گئی تھی اور اس سب میں ارتضی کا انکار  ان کے دماغ کو سن کرگئے تھے۔

یہ کیا کہہ رہے ہو ارتضی ہوش میں تو ہو ۔۔۔شاہدہ بیگم بھڑک اٹھی تھیں ۔ 

میں ہوش میں ہی ہوں ۔ریاض صاحب کے ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ گیا تھا ۔

حمدان صاحب اپنے بھائی کے ساکت وجودکو دیکھ کر غصے سے سائیڈ ہر کھڑی شاکرہ بیگم کو دیکھ رہے تھی ۔

آپا ۔۔شاکرہ بیگم کی آواز میں کرب محسوس کرتا ہوا وہ ساکت وجود لیے ریاض صاحب کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔

مجھے منگنی نہیں  کرنی آپ کی بیٹی سے بلکہ ڈائریکٹ نکاح کرنا ہے کروادیں گے ۔ارتضی کے الفاظ ان کے بے جان ہوتے وجود میں سکون کی لہر دوڑا گئے تھے ۔ 

ڈرا ہی دیا ارتضی تم ۔سب سے زیادہ پرسکون ہونے والی شاکرہ بیگم تھیں جنہیں حمدان صاحب کے قہر سے بچنے کی سب سے زیادہ خوشی ہوئی تھی ۔ 

بتائیں ۔۔۔۔نکاح کروائے گے میرا آج اس ہی وقت اپنی بیٹی سے  ۔۔۔ارتضی کے پوچھنے کے انداز پر وہ نم آنکھوں سے مثبت میں سر ہلاگئے تھے ۔

تو بس پھر مولوی صاحب کا انتظام کروائیں ۔۔۔مسرور کن لہجے میں کہتا ہوا وہ شاہدہ بیگم کی خفگی بھری نظروں کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

ارتضی مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔سب کے جانے کے بعد دلاور شاہ کی آواز پر وہ جاتا ہوا رکا تھا ۔

نکاح کرنے سے پہلے مجھے ایک وعدہ دیتے جاؤ ۔۔۔

کیسا وعدہ بابا سرکار ۔دلاور شاہ کے روبرو کھڑا ہوتا ہوا وہ حیران ہوا تھا ۔

وعدہ دو پہلے ۔۔۔ارتضی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے وہ الگ ہی انداز میں بول رہے تھے ۔

یہ بھی کوئی انکار کرنے والی بات ہے دیا وعدہ آپ کو ۔۔دلاور شاہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہوا وہ مسکرا رہا تھا ۔

دلاور شاہ کے کہے الفاظوں سے اس کی دلفریب مسکراہٹ اگلے ہی پل سمٹی تھی ۔

ارتصی کو ہاتھ پیچھے کرتے دیکھ وہ اپنی پکڑ مضبوط تر کر گئے تھے ۔

یہ صحیح نہیں ہے ۔وہ ضبط سے بولا تھا   ۔

کیا صحیح ہے کیا غلط ہے یہ چھوڑو ۔تم وعدہ دے چکے ہو مجھے ۔۔۔۔ضبط سے سرخ ہوتی آنکھیں لیے وہ اپنے ہاتھ کو پیچھے کرگیا تھا ۔

ارتضی شاہ ۔۔۔اپنا وعدہ نبھانا ۔۔۔تمخسرانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ قہقہ لگا گئے تھے ۔

ٹھیک ہے میں اپنا وعدہ نبھاؤں گا پر میری ایک شرط ہے ایک ہفتے بعد ہر حال میں شادی کروانی ہوگی آپ کو ۔۔

کیسے بھی کریں اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔پھر آپ میں آپ کو دیا ہوا وعدہ بہت جلد پورا کرکے دیکھاؤں گا ۔ضبط کے آخری مرحلے پر کھڑا وہ اپنے بابا سرکار کے آج دوغلے پن کو دیکھ کر شاکڈ تھا ۔۔

بس اتنی سی ڈیمانڈ ۔۔۔ہوجائے گی پوری ۔۔۔ دلاور شاہ کو بنا دیکھے وہ وہاں سے گیا تھا ۔۔

***********

کیا ہوا ہے آپی اور یہ سب کیا ہے  ۔۔۔نرجس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا ڈوپٹہ اور جیولری بکس دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی ۔

کچھ نہیں بس تم یہ جلدی سے پہن لو بنا چوچرا کیے ۔۔ماہین کو جیولری پہناتی ہوئی وہ پریشان ہورہی تھی ۔

کیا ہوا ہے آپی اور یہ آپ مجھے اتنی جیولری کیوں پہنا رہی ہیں ۔

ایگجمنٹ کے لحاظ سے بہت ہیوی ہے یہ جیولری بلکہ میں یہ سب پہن کر آدھی دلہن لگ رہی ہوں ۔۔۔میرر میں ابھرتے اپنے عکس کو دیکھ جھرجھری لے گئی تھی ۔

آدھی دلہن تو لگو گی ہی نکاح جارہا ہے تمہارا ۔۔یہ اب اپنے چہرہ بھی ڈھانپ لو ۔۔۔مولوی صاحب آتے ہی ہونگے ۔۔سرخ رنگ کے  کام دار  ڈوپٹے سے ماہین کا چہرہ ڈھانپ گئی تھی ۔۔

پر آپی آج تو منگنی ہے تو مولوی کیوں آرہے ہیں ۔نا سمجھی میں گھونگھٹ سے چہرہ باہر نکال کر پوچھتی ہوئی وہ چونکی تھی ۔

میرے بہنوئی اور تمہارے ہونے والے شوہر سے صبر نہیں ہورہا یا شاید ڈر لگ رہا ہے انہیں کہیں تم منگنی نا توڑ دو اس لیے نکاح میں باندھ رہے ہیں تمہیں ۔۔اپنے شک کو عام سے انداز میں ماہین پر ظاہر کرتی ہوئی اچانک ہوئے فیصلے پر اب تک شاکڈ تھی۔۔

ابھی کوئی اپنے ماں باپ کا بہادر بیٹا پیدا نہیں ہوا جو ماہین ریاض بخاری کو باندھ سکے ۔۔اپنے ڈر کو دبائے وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی ۔۔

آپی بابا کو بلوادیں ۔۔مولوی صاحب کو دیکھ وہ کانپ اٹھی تھی ۔

ٹھنڈے پڑتے وجود کے ساتھ وہ ریاض صاحب کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھی ۔

آپی ایسا لگ رہا ہے جیسے میری سننے سمجھنے کی ساری صلاحیت کھو گئی ہو ،عجیب سی گھبراہٹ ہور ہی ہے دل کر رہا ہے یہاں سے کہیں دور بھاگ جاؤں  ۔۔

ایسے نہیں کہتے بس ریلکس کرو ۔۔۔ماہین کے سرد پڑتے ہاتھوں کو اپنی ہاتھوں میں لیے نرجس اس کی گھبراہٹ اچھے سے جانتی تھی ۔

تین بار مولوی صاحب کے ارتضی شاہ کا  نام پکارنے پر بھی وہنوز روتی ہوئی مثبت میں گردن ہلا کر منظوری دے گئی تھی ۔

 اپنے خدا اور اس کے رسول( صہ) کو حاضر ناظر رکھتی ہوئی اس نئے  رشتے کو دل و جان سے قبول کرگئی تھی ۔۔ 

بیٹا بولو ۔۔۔۔

قبول ہے  ۔۔۔قبول ہے۔۔۔۔قبول ہے ۔۔ہچکیوں کے ساتھ بولتی ہوئی وہ ریاض صاحب کے سینے سے ایسے لگ گئی تھی جیسے اسے اور اس کے بابا کو سب مل کر دور کردیں گے ۔۔

کچھ توقف کے بعد وہ ماہین ریاض بخاری سے ماہین ارتضی شاہ بن گئی تھی ۔۔

وہیں ارتضی شاہ بڑے شاہانہ انداز میں نکاح نامہ پر سائن کرتا ہوا حیدر کی کمی کو دل سے محسوس کرتا ہوا افسردہ ہوا تھا ۔

ریاض صاحب لے ساتھ بغل گیر  ہوتا ہوا اپنے لبوں پر مسکراہٹ سجائے سوائے دلاور شاہ کے سب سے مبارکباد وصول کرتا ہوا خود کو دنیا بھر پر خوش قسمت انسان سمجھ کر مسکرا رہا تھا ۔

*********

کچھ توقف کے بعد ماہین کو  اسٹیج پر لے جانے کے لیے کہا گیا تھا ۔

 آپی اب انگیجمٹ  نہیں ہوگی میری ۔۔۔ماہین کی انڑی پر سرخ گلاب کی پتیاں ڈالتی ہوئی لڑکیاں ماہین کی بلند آواز میں پوچھے گئے سوال پر کھلکھلائیں تھیں ۔

وہیں نرجس نے اسے سخت گھوری سے نوازا تھا ۔

آپ تو مجھ سے بھی زیادہ پرجوش ہورہی ہیں ماہین آپی ۔حیا کی سرگوشی پر وہ  خود پر ہنسی تھی ۔

نکاح ہوگیا ہے مگر تمہارے شوہر کا دل نہیں بھر رہا نکاح کروا کر ہی جائے گا ۔عبیرہ شرارت سے بڑبڑائی تھی ۔۔

سامنے اسٹیج کی صورت میں بنائی گئی جگہ جس پر ارتضی اور ماہین کے ساتھ بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا ۔

گارڈن کی ڈیکوریشن کسی میرج ہال کی طرح کی گئی تھی ۔

اسٹیج پر بیٹھے ارتضی کی نظر سامنے سے کسی بات پر مسکرا کر آتی ہوئی ماہین پڑی تھی جو ایک ایک قدم بڑھا کر آتی ہوئی اس کے قریب تر آگئی تھی ۔

اسے آتے دیکھ وہ اپنا چہرہ کبھی ہاتھ سے چھپانے کی کوشش کررہا تھا تو کبھی رخ موڑ کر ۔۔لب دبائے وہ ماہین کو اپنے عین سامنے رکتے دیکھ  شاہدہ بیگم کی آواز پر متوجہ ہوا تھا ۔

شاہ ہاتھ دو ماہین کو ۔ارتصی کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئیں وہ مسکرا کر بولی تھیں ۔

ماہین کو آج پورے استحقاق سے دیکھتا ہوا وہ زندگی سے بھرپور مسکرایا تھا ۔

نرجس کے ڈانٹنے پر بلآخر وہ شرمائی تھی اور اب حال یہ تھا کہ اسے اپنی نگاہ اٹھانے میں حد سے زیادہ شرم آرہی تھی ۔

بھابھی بہت پیاری لگ رہی ہیں ماں سرکار ۔۔رائمہ کی تعریف پر ماہین کو دیکھ کر وہ سرشار ہوا تھا۔ 

میرا عشق ہو  ۔۔۔۔

 تیری ذات  ہو ۔۔۔۔۔

پھر حسن عشق کی بات ہو ۔۔۔

کبھی میں ملوں ۔۔۔۔۔

کبھی تو ملے۔۔۔۔   

کبھی ہم ملیں ملاقات ہو ۔۔

کبھی تو چپ ہو ۔۔۔۔

کبھی میں ہوں چپ ۔۔۔۔

کبھی ہم دونوں چپ چاپ ہوں ۔۔۔۔

کبھی گفتگو ۔۔۔۔۔۔

کبھی تذکرے ۔۔۔۔ 

کوئی ذکر ہو ۔۔۔۔۔

کوئی بات ہو ۔۔۔۔۔

کبھی حجر ہو دن کو ہو ۔۔۔۔

کبھی وصل ہو تو وہ رات ہو ۔۔۔ 

کبھی میں تیرا کبھی تو میری ۔۔۔۔

کبھی آپ دوجے کے ہم رہیں ۔۔۔۔

کبھی ساتھ میں ۔۔۔۔ 

کبھی ساتھ تو ۔۔۔۔۔ 

کبھی آپ ڈوبے کے ساتھ ہوں ۔۔۔۔۔

کبھی صعوبتیں  ۔۔۔ 

کبھی رنجیشیش ۔۔۔۔

کبھی دوریاں ۔۔۔۔

کبھی قربتیں ۔۔۔۔

کبھی الفتیں ۔۔۔۔

کبھی نفرتیں۔۔۔۔۔۔

کبھی جیت ہو۔۔۔۔۔

 کبھی ہار ہو ۔۔۔۔۔

کبھی پھول ہو ۔۔۔

کبھی دھول ہو ۔۔۔۔

کبھی یاد ہو ۔۔۔

کبھی بھول ہو ۔۔۔۔۔

نا نشیب ہوں ۔۔۔۔

نا اداس ہوں ۔۔۔۔۔۔

صرف تیرا عشق ہو ۔۔۔ 

میری ذات  ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاتھ دیجئے اپنا ۔اپنے سامنے بڑھائے گئے ہاتھ اور شناسائی آواز پر اسے عجیب سا احساس ہوا تھا ۔

ماہین کا ہاتھ ارتضی کے ہاتھ پر رکھتی ہوئی حیا نے مسکرا کر پیچھے ہوئی تھی ۔

 ارتضی اب ماہین تمہاری ذمہ داری ہے ۔۔شناسائی آواز پھر ارتضی نام سن کر ماہین کی نگاہ اچانک اپنے سامنے کھڑے مسکراتے ہوئے ارتضی کو دیکھ کر ساکت ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہین کے ساکت چہرے کو دیکھ جھٹکے سے اسے اوپر کی طرف کھینچ کر اسے اسٹیج پر چڑھا گیا تھا ۔

ارتضی کو اپنے محرم کے روپ پر میں دیکھ کر ہی اس اوسان خطا ہوگئے تھے ۔

مسسز ماہین ارتضی شاہ ۔۔۔ارتضی کی گھمبیر سرگوشی سے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس کررہی تھی ۔

ارتضی کے مسکراتے چہرے کو لمبے لمبے سانس بھرتی ہوئی اپنے چکراتے سر کو پکڑ کر بے ہوش ہوئی تھی ۔

ماہین کے بے ہوشی سے لڑکھراتے وجود کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں  فورا سے تھام گیا تھا  ۔۔

بس اتنا حوصلہ ماہین شاہ ۔۔تمخسرانہ انداز میں ماہین کو دیکھ کر وہ فقط سوچ ہی سکا ۔۔۔۔

کیا ہوا ہے اسے ارتضی ۔۔۔ارتضی جو خاموشی سے بیڈ کے پاس رکھی چیئر پر بیٹھا ماہین کو ہی دیکھ رہا تھا شاہدہ بیگم نے اس سے فکر سے پوچھا تھا ۔

بی پی لو ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہوئی ہیں ۔ دن بھر کی تھکان کی وجہ سے  بی لو ہوجانا نارمل ہے ۔۔ارتضی با آسانی ماہین کو  شاکڈ کی وجہ سے ہوئی بےہوشی کو بی پی لو کا نام دے گیا تھا ۔

انہیں آرام کرنے دیں ۔۔۔ماہین کے سرہانے بیٹھی ہوئی شاہدہ بیگم اور شاکرہ بیگم کو نرم لہجے میں کہتا ہوا خود ہنوز ماہین کے ہاتھ کو تھامے ہوئے تھا ۔

میرا خیال ہے کہ ارتضی بھائی صحیح کہہ رہے ہیں ہمیں ماہین آپی کو آرام کرنے دینا چاہیے ۔

اور پھر نیچے مہمانوں کو بھی دیکھنا ہے ۔۔حیا کی بات سے متفق ہوتی نرجس بھی ارتضی کو ماہین کا ہاتھ پکڑے دیکھ لب دبائے مسکرائی تھی ۔

ارتضی بھائی جب تک ہم مہمانوں کو دیکھ رہے ہیں جب تک آپ آپی کے پاس ہی رہیئے گا کیا پتا کب ہوش آجائے ۔۔حیا نے فورا سے جواز پیش کیا تھا ارتضی کو ماہین کے پاس روکے رکھنے کا ۔

جی ۔۔۔ماہین کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہوئی شاہدہ بیگم ایک کونے میں کھڑے دلاور شاہ کے تنے ہوئے اعصاب دیکھ کر حیران ہوئی تھیں ۔

آئیں آپا ۔۔۔۔شاکرہ بیگم کے پیچھے شاہدہ بیگم روم سے نکلی تھیں ۔۔

ماہین کے میک زدہ چہرے کو نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ریاض صاحب اور حمدان صاحب بھی روم سے گئے تھے ۔

انکل چلیں ۔۔۔خاموش کھڑے دلاور شاہ کے قریب آکر حیا نے انہیں پکارا تھا ۔

جی بیٹا ۔۔۔۔۔روم سے جاتے ہوئے حیا اور نرجس نے مڑ کر ارتضی کو ماہین کے پاس بیٹھتے ہوئے دیکھ مسکرائی تھیں ۔۔۔

مَیں نے ہر بار نَئی آنکھ سے دیکھا تُجھ کو🥀❣️

مُجھ کو ہر بار نَیا عِشق ہُوا ہے تُجھ سے..🥀❣️

یہ کیا ماہین ارتضی شاہ! آپ تو بہت کمزور دل کی واقع ہوئیں ہیں ۔

مجھے لگا تھا ماہین بخاری بہادر ہے دوسرے کے حق میں بنا کسی فائدے کے لڑنے کا جذبہ رکھتی ہے ،پھر مجھے دیکھتے ہی اپنے ہوش کھو گئیں آپ ۔۔۔ماہین کو بے ہوش دیکھ وہ بس بولتا ہی جارہا تھا ۔

میں مانتا ہوں ہماری پہلی ملاقات کا اثر ہے آپ کے چھوٹے سے دماغ پر مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مجھ سے بلاوجہ نفرت کریں ۔۔۔

میں ایسا تو نہیں چاہتا تھا ! کہ آپ مجھ سے نفرت کریں۔۔،

یہ جو تمہاری بے فضول کی بدگمانیاں ہیں مجھے لے کر انہیں دور کرنے کی پوری کوشش کروں گا یہ میرا وعدہ ہے آپ سے ۔۔ماہین کے نازک ہاتھ کو نرمی سے سہلاتا ہوا وہ اسے دیکھ کر پر امید ہوا تھا ۔

میں اتنا برا نہیں ہوں ماہین اور آپ کے معملے میں تو میں خود سے بھی لڑ سکتا ہوں مگر آپ کو تکلیف دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔

پتہ نہیں کب آپ  میرے دل و دماغ پر قابض ہوگئیں احساس ہی بھی نہیں ہوا مجھے ۔۔۔

پتا ہے جب ماں سرکار نے میرا رشتہ طے کیا تو یوں لگا جیسے سب کچھ ختم ہوگیا ہے ایک دم سے سب کچھ رک گیا ہو ۔۔۔

دل تو کیا ایک ہی پل میں خود کو ختم کردوں۔۔اپنا حال دل بیان کرتا ہوا وہ ماہین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔

جب آپ کا نام بابا کے منہ سے سن تو پل بھر کے لیے میں حیران ہوگا تھا کہ میں اتنا خوش قسمت کیسے ہوسکتا ہوں جسے ایک بار مانگنے پر وہ مل رہا ہے جس کی اس نے خواہش کی تھی ۔

اپنی حالت پر وہ خود ہی مسکرایاتھا ۔

اب آپ کے بغیر ارتضی شاہ ادھورا ہے ماہین ۔۔بے خودی میں ماہین کے ہاتھ پر لب رکھتا ہوا اس کے صبیح چہرے کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

**__لہو میں گونجتی تم ہو 

ثبوتِ زندگی____تم ہو___،،

جدھر جاؤں تمہیں پاؤں 

جدھر دیکھوں تمہی تم ہو! 

تمہیں پایا دعاؤں سے

حصولِ بندگی تم ہو__،، 

مرا ہر غم تمہی سے ہے

مری ہر اک خوشی تم ہو_،، 

کہا یہ حسن والوں نے

معیارِ عاشقی تم ہو__،، 

چلی یہ سانس تو جانا

کہیں مجھ میں تھمی تم ہو! 

مجھے سب کچھ میسر ہے

مری بس اک کمی تم ہو__،، 

زمانہ ساتھ تھا لیکن 

مرے سنگ بس جچی تم ہو! 

نہیں آسیب کا خدشہ 

مرے دل میں بسی تم ہو_،، 

میں تم میں ڈوب جاتا ہوں

کہ خوابوں کی ندی تم ہو_،، 

جو دیکھوں ہاتھ کی ریکھا 

لگے یوں کہ___لکھی تم ہو! 

پیرانِ شہر سے پوچھو 

زمیں پہ اک پری تم ہو__،، 

اکڑتے ہیں ترے دم پر

غرورِ دوستی تم ہو__،، 

ہے کتنی خوب یہ نسبت 

سوالی میں سخی تم ہو_،، 

مری پہلی محبت کی 

دعائے آخری تم ہو__،، 

نا میرا تذکرہ ہو تو 

کہانی ان سنی تم ہو! 

ذرا حالات بدلے ہیں 

وہی میں ہوں وہی تم ہو__،، 

وہ رستے چوم لے 

کبھی جن پر چلی تم ہو________

آپ میری طاقت ہیں ماہین اور کمزوری بھی ۔۔۔

پتہ نہیں کیوں ایسا لگتاہے آپ کبھی میری محبت کو سمجھ نہیں پائیں گی ۔۔۔عجیب سے بے چینی محسوس کرتا ہوا وہ اداس ہوا تھا ۔

مگر میں آپ کو ہر بار زندگی کے ہر موڑ پر اپنی محبت کا احساس دلواتا رہوں گا ۔خود سے عہد کرتا ہوا وہ پراعتمادی سے بول رہا تھا۔

 کیونکہ ارتضی شاہ نے کبھی ہارنا سیکھا ہی نہیں ہے ۔۔

جانتا ہوں ہوش میں آنے کے بعد میری شکل بھی نہیں دیکھنا  چاہیں گی بھی اس لیے آپ کو اس حال میں چھوڑ کر جارہا ہوں ۔۔

اپنا خیال رکھیئے گا ماہین اپنے لیے نا سہی پر میرے لیے رکھیئے گا ۔۔۔

اپنی جگہ سے اٹھتا کھڑا ہوا تھا چاہنے کے باوجود بھی  ماہین کے چہرے پر نظر ڈالے بغیر وہ وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔

*******

کیسی ہے اب ماہین ،ریاض صاحب کو افسردہ دیکھ صائمہ انصاری ان کے پاس آئی تھیں ۔

بہتر ہے ماشاءاللہ سے اب ۔۔سرسری سا جواب دیتے ہوئے ان کے پیچھے آتے وہاب کو دیکھ کر سرد آہ بھر گئے تھے ۔

کھانا کھایا آپ لوگوں ۔۔

جی ۔۔۔۔مختصر سا سوال وہاب انصاری سے پوچھتے ہوئے وہ وہاں سے گئے تھے ۔

میں زندگی بھر صائمہ ریاض کا مقروض رہوں گا ۔

میں بھی ۔۔۔۔ریاض صاحب کو جاتے دیکھ وہ شرمندہ ہوئے تھے۔

بہت پیاری لگ رہی ہو ۔رائمہ کو اکیلے دیکھ وہاج سرگوشی کرتا ہوا مسکرایا تھا ۔

شکریہ ۔۔بنا وہاج کو دیکھے وہ تعریف وصول کرگئی تھی ۔

کیا ہوا ہے ۔وہ زچ آیا تھا رائمہ کے لیے دیئے لہجے سے ۔

تمہارے لیے کچھ نہیں ہوا اور نا ہی کبھی ہوگا  ۔چبا کر کہتی ہوئی وہ ارتضی لو آتے دیکھ فورا سے اس کے پاس گئی تھی ۔

ایسا کیا کھیل کھیلا ہے ارتضی بھائی آپ نے ۔ارتضی کو دیکھ وہ سوچ ہی سکا تھا۔

اجازت دیجئے انکل پھر ملاقات ہو۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کیا اب تو ہر روز ملاقات ہوگی کل صبح تیار رہنا ہمارے ساتھ شہر چلنا ہے تمہیں شادی کی شیروانی لینے کے لیے ۔۔ارتضی کی بات کاٹتے ہوئے حمدان صاحب دلاور شاہ کو دیکھ کر بولے تھے۔

انشاءاللہ انکل ۔۔۔سر جھکائے وہ عاجزی سے بولا تھا ۔

یہ خوب کہا بھائی صاحب آپ نے کل تک تو حیدر بھی آجائے گا ۔۔۔

مگر خالہ جانی وہ تو رات تک آئیں گے نا ۔۔شاہدہ بیگم کی بات پر حیا حیران ہوئی تھی ۔

ہاں آنے والا تھا مگر اب وہ صبح تک ہمارے ساتھ ہوگا ۔ارتضی کے نکاح کا سن کر ہی حیدر نے لندن سے پاکستان آنے  کی پہلی فلائٹ لی تھی ۔۔

انشاءاللہ ۔۔حیدر کے آنے کی خبر حیا کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔

*********

مجھے یہاں نہیں  رہنا مجھے جانا ہوگا ورنہ وہ جلاد انسان۔۔۔نہیں میں نہیں رہوں گی یہاں ۔۔اپنے برابر میں سوئی ہوئی حیا کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی  تھی ۔

آدھی رات کو کہین جاکر اسے ہوش آیا تھا اور تھوڑی دیر پہلے ہی حیا  کی آنکھ لگی تھی ۔

دبے قدم سیڑھیاں اترتی ہوئی وہ منہ اندھیرے گھر سے باہر نکلی تھی ۔

حیا ماہین کہاں ہے بیٹا ۔۔شاکرہ بیگم جو پہلے نرجس کو اکیلے آتے دیکھ اس سے پوچھ گئی تھیں اب گیا کو آتے دیکھ وہ حیا سے بھی پوچھ گئی تھی ۔

امو جانی آپی نہیں ہیں اوپر میں تو سمجھی تھی کہ وہ نیچے ہیں ۔۔وہ حیران ہوئی تھی ۔

یااللہ یہ لڑکی کہ ان چلی گئی ہے ۔تمہارے بابا اور ریاض بھائی بھی گھر پر نہیں ہیں ۔۔پیشانی پر ہاتھ رکھ کر وہ صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھی تھیں ۔

امو پریشان نا ہوں میں دیکھتی ہوں وہ کہاں گئی ہیں ۔

جی تائی امی آپ پریشان نا ہوں آجائے گی پاس میں ہی گئی ہوگی ۔خود پریشان ہونے کے باوجود وہ شاکرہ بیگم کو ہمت سے کام لینے کا کہتی ہوئی دل ہی دل میں  ماہین کے لیے دعاگو  تھی ۔

*********

بھائی کو سلام پیش کروں گا جاتے ہی چار سال کیسے لندن میں گزار لیے انہوں نے ۔

عجیب خوشی محسوس ہورہی ہے مجھے جیسے صدیوں بعد کوئی قیدی رہا ہوتا ہے نا بلکل ایسی ہی فیلینگ محسوس ہورہی ہے ۔۔ڈرائیور کے ساتھ دوستانہ لہجےکرنےمیں بات کرتا ہوا چار دن میں لندن سے اکتا گیا تھا ۔

جی سرکار اپنی سر زمین کی بات ہی اور ہے ۔وہ بھی حیدر کے ساتھ کسی پرانے دوست کی طرح مسکرا رہا تھا ۔

یہ غلام رسول کیوں نہیں آیا مجھے لینے ۔۔ونڈو سے باہر دیکھتا ہوا وہ غلام رسول کے نا آنے پر حیران ہوا تھا ۔

ایک عرصے سے وہ ہی ائیر پورٹ سے سب کو لانے کی ذمہ داری نبھاتا آیا تھا۔

وہ بی بی سرکار کے ساتھ شہر ہی آئے گا  سرکار سائیں کے ساتھ شادی کی خریداری کے لیے ۔۔کار کے سامنے کسی لڑکی کو آتے دیکھ وہ فورا سے بریک لگا گیا تھا ۔

کیا ہوا راشد اچانک بریک کیوں لگایا ۔۔اچانک بریک لگنے کی وجہ سے فرنٹ چیئر پر اس کا سر لگا تھا  ۔۔

سائین سامنے کوئی لڑکی آئی ہے اور مجھے لگاتا ہے زخمی ہوگئی ہے ۔۔راشد کی آواز میں کپکپاہٹ حیدر نے بخوبی محسوس کی تھی ۔

سائین ہم چلتے ہیں ۔۔۔۔

کیا بکواس کر رہے ہو تم ایک لڑکی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ہماری کار سے اور تمہیں اسے زخمی حالت میں ہسپتال لے جانے کے بجائے یہاں سے بھاگنے کی بات کررہے ہو ۔۔تپ کر کہتا ہوا حیدر گاڑی سے اتر کر اپنی گاڑی کے عین سامنے سیاہ سوٹ میں ملبوس لڑکی کو دیکھ کر حیران ہوا تھا ۔

ماہین کو اٹھائے وہ گاڑی کی سمت بڑھا اور راشد گاڑی اسٹارٹ کرو جلدی اور فارم ہاؤس کی طرف لو،ماہین کو دیکھ کر اس کے ہاتھ پیر پھولے تھے ۔

ماہین کی پیشانی پر لگی ہلکی سی کھروچ دیکھ کر ہیاس کا دل مٹھی میں آگیا تھا ۔

کچھ دیر کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ فارم ہاؤس میں موجود اللہ بخش کی بیوی زرینہ کی مدد سے ماہین کو اندر لے کر گیا تھا ۔

زرینہ آپ بی بی کا خیال رکھنا میں صبح یہاں کا چکر لگاؤں گا جب تک بی بی آپ کی ذمہ داری اور آں کا ہر لحاظ رکھنا ہے کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے ۔۔۔اپنی پوری تسلی کے بعد ماہین کو زرینہ کے حوالے کرتا ہوا وہ حویلی کے لیے نکلا تھا جہاں اس کا انتظار کیا جارہا تھا ۔

*********

آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے

اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

بامِ مینا سے ماہتاب اُترے

دستِ ساقی میں، آفتاب آئے

ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو

سامنے پھر وہ بے نقاب آئے

عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر

تیری مہر و وفا کے باب آئے

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

نہ گئی تیرے غم کی سرداری

دل میں یوں روز انقلاب آئے

جل اُٹھے بزم غیر کے در و بام

جب بھی ہم خانماں خراب آئے

اس طرح اپنی خامشی گونجی

گویا ہر سمت سے جواب آئے

فیض تھی راہ سر بسر منزل

ہم جہاں پہنچے، کامیاب آئے

رات بھر ماہین کے بارے میں سوچ کر ویسے ہی اسے نیند نہیں آئی تھی اور صبح سے حمدان اور ریاض صاحب کے شیروانی کا سائز دینے کے بعد شہر سے دور اور گاؤں سے کچھ دور مسافت پر سنسان راستوں پر گاڑی دوڑاتا ہوا وہ  تھک گیا تھا ۔

آرام کی غرض سے دور جنگل کے بیچوں بیچ اپنی منشا مطابق بنائے گئے فارم ہاؤس پر نظر پڑتے ہی اس کے لب مسکرائے تھے ۔

انٹر گیٹ پر سیاہ ڈریس میں ہاتھوں ہتھیار لیے کھڑے دو  گارڈز نے اسے دیکھ کر بلند آواز میں سلام کیا تھا ۔

اپنی بلیک پراڈو سے اتارتا ہوا وہ سنجیدگی سے سر کو خم  کرتا وہ جواب دے گیا تھا ۔

سرکار سائین ۔آپ آنے سے قبل بتا دیتے تو میں زرینہ سے کہہ کر تیاری کروا دیتا ۔۔ اللہ بخش نے سر کو جھکا کر بولا تھا ۔

اللہ بخش جو کافی عرصے فارم ہاؤس کی نگرانی کے لیے اپنی بیوی زرینہ کے ساتھ یہاں رہتا تھا۔

بنا کوئی تاثرات دیئے وہ اندر داخل ہوا تھا ۔

سب سے ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا ۔یہ دیکھ کر ارتضی کے لب مسکرائے تھے ۔

سلام سائین سرکار  ۔۔۔سادہ سے کاٹن کے سوٹ میں سر جھکا  کھڑی زرینہ نے ایک بھرپور جائزانہ نظر اپنے سائیں سرکار پر ڈالی تھی ۔جو جب سے آیا تھا۔

چہرے پر سنجیدگی لیے کھڑا تھا ۔۔

بلیک پیٹ شرٹ پہنے اپنی کشادہ پیشانی پر بکھرے بالوں کو سائیں ہاتھ سے پیچھے کرتا ہوا وہ زرینہ کو خود کو دیکھتے پاکر مسکرایا تھا ۔

ماشاءاللہ آپ تو بلکل بدل گئے ہیں، ،زرینہ مسکرائی تھی ۔

اور آپ بلکل نہیں بدلی۔۔۔۔جب سے وہ یہاں آیا تھا پہلی بار مسکرا کر جواب دیتا ہوا زرینہ کے دیکھنے پر چوٹ کرگیا تھا ۔

جس پر زرینہ مزید مسکرائی تھی ۔

سرکار سائین وہ بی بی جب سے آئی ہیں وہ کچھ نہیں کھا رہی ہیں ۔دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلتی ہوئی زرینہ ڈری تھی ۔

کون بی بی ۔۔۔۔نا سمجھی میں زرینہ کو دیکھتا ہوا وہ استفسار کررہا تھا ۔

وہ ہی سرکار  سائین جو صبح چھوٹے سرکار کے ساتھ آئی تھیں ،تھوڑی زخمی تھیں مگر میں نے مرہم پٹی کردی ہے ان کی ۔۔ارتضی کی لاعلمی پر زرینہ پچھتائی تھی ۔

حیدر کے ساتھ ۔۔۔اس نے یقین دہانی چاہی تھی ۔

جی سرکار ۔۔۔زرینہ نے سر ہلایا تھا۔۔۔

کون سے روم میں ہیں وہ اس وقت ۔۔اسے پریشانی ہوئی تھی حیدر کو کسی لڑکی کے ساتھ سوچ کر ۔

سائین سرکار انہیں تو چھوٹے سرکار نے آپ کے کمرے میں ٹھہرایا ہے ۔زرینہ کے بتانے پر وہ دیوانہ وار اپنے روم کی سمت بڑھا تھا ۔

یہ خوبصورت اور عالیشان فارم ہاؤس امریکن کچن ،لیونگ روم کے ساتھ تین رومز پر مشتمل تھا ۔

اس فارم ہاؤس کا سب سے خوبصورت اور وسیع روم ارتضی شاہ کا تھا جس میں ارتضی شاہ کے علاوہ وہاں کسی کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی ۔

حیدر لڑکی کو میرے روم ٹھہرایا ہے تم نے  ۔۔خود پر ضبط کرتا گیٹ کے لاک پر ہاتھ رکھ کر کھول گیا تھا ۔

گیٹ کھولتے ہی کوئی چیز اس پر پھینکی گئی تھی ۔ اس اچانک ہوئے حملے سے خود کو بچاتا ہوا جھک گیا تھا ۔

سامنے بیڈ پر سیاہ سوٹ میں ملبوس  بیٹھی ماہین کو دیکھ  کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی ۔۔

اپنے مضبوط قدم بڑھاتا ہوا وہ ماہین کے عین سامنے کھڑا ہوا تھا ۔

ہا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کونسا طریقہ ہے بیگم اپنے ایک رات پرانے شوہر کا استقبال ایسے واز پھینک کر کرتے ہیں کیا ۔۔۔۔

چچچچچچچ۔۔۔۔۔۔افسوس صد افسوس ۔۔۔۔۔

اب ایسے مجھے دیکھو گی تو یہ میرا معصوم سا دل بغاوت پر اتر آئے گا ۔۔۔۔۔

"اس پیار سے میری طرف نا دیکھو پیار ہوجائے گا 

یہ پیار ہوگیا تو تیرے دل کے پار ہوجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

حد درجہ رونے کی وجہ سے سرخ ہوئی ماہین کی آنکھوں پر چوٹ کرتا ہوا وہ اپنی فطرت کے برعکس شوخ ہوتا  گنگنایا تھا ۔

گھٹیا انسان ہیں آپ ۔۔بھرائی آواز میں وہ بمشکل بولی تھی ۔

یہ کس بتایا تمہیں، ،جس نے بھی بتایا ہے بلکل صحیح بتایا ۔ڈھٹائی سے بولتا ہوا وہ ماہین کی پیشانی پر بندھی پٹی دیکھ کر پل بھر کے لیے افسردہ ہوا تھا۔

ڈھیٹ ہیں آپ ۔۔۔

میری بیگم مجھے اتنے اچھے سے جانتی ہے ۔جان کر خوشی ہوئی خانم ۔۔ماہین کو اپنے روم میں دیکھ کر اسے  عجیب سی خوشی محسوس ہورہی تھی ۔

نہیں ہوں میں آپ کی بیوی ۔۔ہنوز روتی ہوئی وہ ارتضی کو سنجیدہ کرگئی تھی ۔

ویسے بیگم اگر آپ کو رخصتی کی اتنی جلدی تھی بے ہوش ہونے سے پہلے مجھے بتا دیتی تو میں کل ہی رخصتی کا انتظام کروادیتا ۔۔ڈریسنگ ٹیبل پر اپنی ریسٹ واچ رکھتا ہوا جان بوجھ کر اسے کلسا رہا تھا ۔۔   

گھر پر انفارم کیا تھا گھر سے نکلنے سے پہلے ۔۔ سنجیدگی سے پوچھتا ہوا وہ میرر سے نظر آتی ماہین نے نفی  میں گردن ہلا گئی تھی ۔

جس پر لب دباتا ہوا وہ اپنی  پاکٹ سے سیل فون نکالتا ہوا ماہین کے قریب آبیٹھا تھا۔۔

یہ میرے سامنے اچھا بننے کی ادکاری مت کریں ۔ریاض صاحب کا نمبر ڈائل کرتے دیکھ اسے باور کرواگئی تھی ۔

کس نے کہا خانم میں اچھا انسان ہوں ۔۔سنگدل ہوں جلاد ہوں جلاد ۔ایک آنکھ دبائے وہ شرارت سے گویا ہوا تھا ۔

اسلام وعلیکم ۔۔خیر سے پہنچ گئے گھر آپ ۔۔نرم لہجہ لیے وہ ماہین کو حیران  کرگیا تھا ۔

جی بیٹا پہنچ گئے ہیں خیریت ہے آپ نے اچانک سے فون کیا ۔

جی جی انکل سب ٹھیک ہے آپ فکر مت کیجئے گا۔

  وہ اصل میں ماہین کا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا ۔۔

ماہین کا ایکسیڈنٹ ہوگیا کیسی ہے وہ کہاں ہے وہ ۔۔ریاض صاحب کے ساتھ باقی سب بھی پریشان ہوئے تھے ماہین کے ایکسیڈنٹ کا سن کر ۔

پریشان نا ہوں انکل ملازمہ نے بتایا ہت ذرا سی کھروچ آئی ہے ۔جھوٹ بولتا ہوا وہ ماہین کے منہ پر ہاتھ رکھتا ہوا اسے بولنے سے باز رکھ گیا تھا۔

میری بات ہوسکتی ہے اس سے ۔فون اسپیکر پر کرتا ہوا ریاض صاحب کی ڈیمانڈ پر وہ بھنویں سکیڑ کر ماہین کے ضبط سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ وہ مسکرایا تھا ۔

کروا تو دوں انکل پر میں دوسرے روم میں ہوں اور ماہین دوسرے روم میں ہیں ۔۔لہجے میں معصومیت سموئے وہ خود کی اداکاری پر مسکرایا تھا ۔

جھوٹا مکار ۔۔۔۔دل ہی دل میں ہی اسے نئے ناموں سے نواز سکی بول تو سکتی نہیں تھی ۔ 

کیوں بیٹا بیوی ہے آپکی شرعی اور قانونی حق ہے  آپ کا جائیں اور دیکھیں زیادہزیادہ تو چوٹیں نہیں لگی اسے ۔۔سنو آبرو سے اشارہ کرتا ہوا وہ ماہین کی غصے سے پھٹی آنکھوں کو دیکھ کر واپس سے سنجیدہ ہوا تھا ۔

جی انکل آپ کہتے ہیں تو میں دیکھ لیتا ہوں ۔آپ فکر مت کیجئے گا میں ماہین کو سیفلی گھر ڈراپ کردوں گا ۔۔ 

اب فکر کی کوئی بات نہیں ہے ماہین آپ کے ساتھ ہے یہ جان کر میں پرسکون ہوگیا ہوں۔۔۔حمدان صاحب پرسکون ہوتے اپنے روم کی جانب بڑھے تھے ۔

وہیں شاکرہ بیگم شکر خدا کرتی  ہوئیں مسکرائیں تھیں ۔

سنا میرے سسر صاحب کیا کہا  ۔قانونی اور شرعی طور میری بیوی ہیں آپ اور کیا کہہ رہی تھیں آپ ۔۔۔۔۔

ہاں ۔۔۔یاد کرتا ہوا وہ ہنوز ماہین مے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا ۔

نہیں ہوں میں آپ کی بیوی ۔۔۔ماہین کی نقل کرتا ہوا وہ قہقہ لگا گیا تھا ۔

اللہ پوچھے گا جلاد انسان تمہیں ۔۔۔ مسلسل روتی ہوئی  ارتضی کو قہقہ لگاتے دیکھ اس کے رونے میں روانگی آئی تھی ۔ 

ماہین کو زارو قطار روتے دیکھ وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر گیا تھا ۔

ت۔ جیسے جلاد سے اپنی جان بچا کر گھر سے بھاگی تھی ۔

مگر میری قسمت نے آج بھی میری ساتھ دغا کردی اور پھر سے تمہاری قید میں آگئی ہوں ۔

میری وجہ سے آپ گھر سے بھاگی تھیں ۔وہ شاکڈ ہوا تھا ۔

ہاں ۔۔۔۔نہیں منظور مجھے یہ رشتہ  نفرت کرتی ہوں میں تم سے ۔۔۔وہ ہذیانی انداز میں  چلائی تھی ۔۔

میرا نہیں خیال کہ میں تمہیں کبھی تکلیف پہنچائی ہے ۔ہماری تو ملاقات بھی دو تین بار ہی ہوئی ہے ۔اور ہر بار  تم مجھ سے لڑنا شروع کرتی ہو نا کہ میں ۔ نجانے وہ کیا چاہتا تھا مگر ماہین کے نفرت کے اظہار پر ماہین کی موجودگی میں بے قابو ہوئے دل پر ضبط کی بیڑیاں ڈال کر  بیٹھا تھا ۔

مجھ سے نفرت کی وجہ ۔۔سوال کرتا ہوا وہ پہلی بار ڈرا تھا ۔

نفرت کی وجہ جاننی ہے تمہیں ۔۔جو شخص اپنی بہن کی عزت نہیں کرسکتا ۔

جس شخص کے پاس دل و احساس نامی شے ہی نہیں ہے ۔

مجھے میری زندگی ایسا شخص نہیں  چاہے جو سنگدل ہو جسے دوسروں کو درد دے کر خوشی محسوس ہوتی ہو مجھے ایسا شخص اپنی زندگی میں نہیں چاہیے ۔نہیں چاہیے ۔اپنے سر کو دونوں ہاتھوں پکڑ کر وہ بلند آواز میں چلاتی ہوئی  بیڈ سے اتری تھی  ۔

آرام سے بولو یہ تمہارے باپ کا گھر نہیں  ہے ۔۔وہ ضبط کیے بولا تھا ۔

اور ویسے یہ چیخنے چلانے کا اب تو کوئی فائدہ نہیں ہے تمہارے پاس نکاح میں باندھ چکی ہو میرے ساتھ ۔چہرے پر سنجیدگی لیے وہ سرد مہری  سے باور کروا گیا تھا ۔

نہیں  مانتی میں۔۔۔

 تمہارا اور میرا اگر کوئی رشتہ ہے تو فقط نفرت کا ۔۔لہو چھلکتی آنکھوں میں خوف لیے وہ ارتضی کے چہرے پر سے نگاہ ہٹائے اس کی جانب پیٹھ کرتی ہوئی  وہ منمنائی  تھی ۔

محبت اور نفرت ایک سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں ماہین شاہ ۔

اگر پہلو نفرت پلٹ دو تو محبت جیت جاتی ہے ۔۔۔

اور پھر پہلو محبت پلٹ دو تو نفرت اپنا راج کرتی ہے۔

 تاریخ گواہ ہے  جس سے زیادہ محبت کی جاتی ہے اس ہی سے حد درجہ نفرت ہوتے دیر نہیں لگتی  ۔اچانک سے اس کی آنکھیں نم ہوئی تھیں ۔

ایک بات یاد رکھنا نفرت کے بعد محبت تو آسانی سے ہوجاتی ہے ۔

مگر محبت کے بعد ہوئی نفرت بہت طاقتور ہوتی ہے ۔۔باور کرواتا ہوا ماہین کی پیٹھ کو دیکھ کرب سے آنکھیں میچ کر واپس سے کھولتا ہوا مزید بولا تھا ۔

اس ہی شخص سے  واپس سے محبت ہونا ناممکن ہوجاتی ہے  ۔ارتضی کے لفظوں میں الجھتی ہوئی وہ سن ہوئی تھی ۔۔

میں تمہاری باتوں میں نہیں آنے والی کیونکہ مجھے تم سے کبھی محبت نہیں ہوگی ۔۔۔۔ڈرے سہمے میں وہ خود کو مضبوط کرتی ہوئی بولی تھی ۔ 

یہ گھمنڈ یہ مغروری جچتی ہے اس پر

آخر کو ہم نے  اسے چاہا ہی اتنا ہے ۔۔

مجھے بس یہاں سے جانا ہے پلیز  دو ۔۔۔ارتضی کی خاموشی پر وہ ارتضی کی جانب مڑتی ہوئی نم آنکھوں سے التجا کررہی تھی ۔

کہہ دیا ایک بار میرے نکاح میں ہو تم ۔۔۔دانت دبائے وہ غرلایا تھا ۔ 

ارتضی کے غرلانے پر وہ سہمی تھی ۔

پلیز جانے دو مجھے ۔۔۔دونوں ہاتھ جوڑے وہ فرش پر بیٹھتی چلی گئی تھی ۔

سنگدل ہوں میں میرے دل میں رحم کہاں سے آئے گا ۔ماہین کو روتے دیکھ اس کا دل کرلایا تھا ۔

مگر وہ لاپرواہ بن گیا تھا ۔

ایک گھٹنے سے مسلسل ارتضی کی منت کرتی ہوئی وہ  گھٹنوں میں سر دیئے پتھر پر سر مار مار کر تھک گئی تھی ۔

ارتضی جو خاموش سے ماہین سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوا اسے ہی دیکھ کر خود پر ضبط کیے کھڑا وہ کچھ توقف کے لیے کمرے سے باہر گیا تھا ۔

دس منٹ کے اندر اندر تم گارڈز کو لے کر پہنچوں ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر میں برداشت نہیں کروں گا ۔

سمجھے ۔سخت گیر لہجے میں غلام رسول کو حکم دیتا ہوا تمخسرانہ انداز میں مسکرایا تھا ۔ کچھ دیر بعد کمرے میں واپس آتے ہوئے ماہین کو ویسے ہی بیٹھے دیکھ اس کے قریب آکر رکا تھا۔

بھاگنا چاہتی ہو مجھ سے ۔۔کمرے میں سرد خاموشی اور ماہین  کی ہچکیوں کی آواز کے ساتھ ارتضی کی گھمبیر آواز گونجی تھی ۔ 

ب۔۔ہ۔۔۔بہ۔۔ت۔۔بہت ۔۔۔۔ دو۔۔۔۔۔ر جججج۔۔۔ہہہہاں۔۔۔ تتتمہہہہارررا سسسسایہ ۔۔۔۔ ببببببھیییی نا ہہہو ۔۔۔۔سسکیوں کے بیچ بولتی ہوئی وہ ارتضی کو قابل رحم لگی تھی ۔

ماہین کے جواب پر اپنی سرخ آنکھیں لیے وہ اپنے خشک لبوں کو زبان سے تر کرگیا تھا ۔ 

اپنے دل میں آئے رحم کو اپنی بے حسی کے ذریعے روندتا ہوا ماہین کے پاس آکھڑا ہوا تھا  ۔

*******

خالہ جانی آپ کو پتا ہے ارتضی بھائی اور ماہین آپی ایک ساتھ ہیں ۔

ماہین کے لیے شاہدہ بیگم  کی ہوئی شاپنگ دیکھتی ہوئی حیا ارتضی اور ماہین کو ایک ساتھ سوچ کر چہکی تھی ۔

بتایا ہے ارتضی نے مگر یہ حیدر کیوں نہیں آیا ابھی تک  ۔حیدر کے اب تک نا آنے پر وہ  پریشان ہوئیں تھیں ۔

حیدر کے نام پر حیا کے دل میں ہلچل مچ گئی تھی وہ جو خود حیدر کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی ۔

حیا فون تو کرو ۔

جی خالہ جانی ۔گاڑی کے ہارون کی آواز سنتی ہوئی وہ حیدر کو سوچ کر مسکرائی تھی ۔

لو نام لیا اور آگیا حیدر ۔۔۔شاہدہ بیگم مسکرا کر اٹھی تھیں ۔

جس پر حیا فقط مسکرائی تھی ۔

چلو ویلکم کر لو حیدر کا ۔رائمہ نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔

آپ جائیں میں یہاں پر ہی ٹھیک ہوں ۔ڈریسز کو دیکھتی ہوئی وہ مصومروف انداز میں بولی تھی ۔

سوچ لو ۔۔شرارت سے کہتی ہوئی وہ حیا کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئی تھی ۔

سوچ لیا آپ جائیں رائمہ آپی ۔۔رائمہ لے دیکھنے پر شرم محسوس کرتی ہوئی وہ زچ آئی تھی ۔

چلو میں تو جارہی ہوں حیدر بھائی سے ملنے ۔۔۔رائمہ کو جاتے دیکھ وہ اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپا گئی تھی ۔

*********

دور بھاگنا چاہتی ہو مجھ سے ۔مقابل کے سوال پر ڈری سہمی سی بیٹھی ہوئی وہ گردن کو مثبت میں ہلا گئی تھی ۔

لفظ تو جیسے منہ میں ہی دم توڑ گئے تھے  ۔

چلو تمہیں موقع دیا ۔جتنا بھاگ سکتی ہو بھاگوں میں یا میرے بندوں میں سے تمہیں کوئی نہیں روکے گا ۔مقابل کے لہجے میں سنجیدگی محسوس کرتی وہ اپنی آزادی کا سوچ کر مسکرائی تھی ۔

اس کو یوں مسکراتے دیکھ ارتضی کو اس پر سے اپنی نظریں ہٹانا مشکل ترین عمل لگا تھا ۔

اگر تم بھاگتی ہوئی کہیں پر بھی تھک کر رک گئیں۔

 تو میرے بندے تمہیں دھر لیں گے اور  پھر تمہیں ہتھیار ڈالنے ہونگے ۔

میرے پاس واپس آنا ہوگا تمہیں کبھی نا جانے کے لیے ۔ایک پل میں اس کے معصوم چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ ڈر نے لی تھی ۔

پ۔۔پ۔۔ر۔۔پپر اب۔۔۔۔۔۔۔بھی۔۔۔۔۔۔تتتو۔۔۔۔۔۔۔کککہا۔۔۔۔می۔۔۔میں ۔۔۔۔۔ییہاااں۔۔س۔سے۔۔۔بھ۔ھاااگ۔۔۔سسک۔سسکتی۔۔۔ہ۔۔ہہوں۔ بمشکل ارتضی  کے ڈر سے وہ ہچکچاتے ہوئے بولی تھی ۔

تو میں نے کب منع کیا ہے ۔ 

ابھی بھی تم بھاگ سکتی لو راہ کھل گئیں ہیں تمہاری جاؤ.

اسے جانے کی اجازت مقابل کسی ضبط سے کی تھی یہ اس سے بہتر کوئی نہیں جان  سکتا تھا۔

اس کے سامنے سے ہٹاتا ہوا وہ سائیڈ ہو کھڑا ہوا تھا ۔

سامنے کھلے دروازے کو دیکھتی ہوئی وہ ایک نظر دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑے مقابل کے سنجیدہ چہرے پر ڈالتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔جب مقابل کی آواز نے اس کے قدم جکڑے تھے۔

تیرے" ہاتھ" بناؤں پینسل سے   

پھر "ہاتھ"پہ تیرے ہاتھ رکھوں،

کچھ "الٹا سیدھا" فرض کروں 

کچھ " سیدھا الٹا " ہو جائے،،

میں" آہ "لکھوں تو ہائے کرے

بے چین لکھوں " بے چین " ہو تو،،،

پھر بے چین کا "ب" کاٹوں

تجھے "چین "زرا سا ہو جائے،،،،

ابھی "ع " لکھوں تو سوچے مجھے

پھر " ش" لکھوں تیری نیند اڑے ،،،،،

جب " ق " لکھوں تجھے کچھ کچھ ہو

میں  " عشق  "  لکھوں  تجھے ہوجائے ۔۔۔۔۔!

ارتضی  کے لفظوں کو آڑے نا لاتے ہوئے وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔

آنکھوں میں ہلکی سی نمی لیے وہ اسے جاتے دیکھ کر کرب سے مسکرایا تھا ۔

سرکار سائین ۔۔۔غلام رسول کی بات سنے بغیر وہ کال کاٹ گیا تھا ۔

 ڈھلتے سورج کے سائے میں وہ سنسان راہوں پر اندھا دھند بھاگتی ہوئی اپنے پیچھے کسی کو بھی نا آتے دیکھ ہلکی رفتار سے بھاگی تھی ۔

طویل مسافت طے کرنے کے باوجود بھی  وہ رکی نہیں تھی ارتضی  کی بات یاد کرکے ۔

سائیں بی بی ابھی تک بھاگ رہی ہیں ۔ڈرائیونگ کرتے ہوئے گارڈ نے اسے آگاہ کیا تھا۔

جتنا بھاگ سکتی ہے بھاگنے دو تم بس فالو کرتے رہو اسے۔

آخر کہیں نا کہیں تو تھک کر روکے گی ۔بیک سیٹ کی ٹیک پر سر رکھ کر اپنی آنکھیں بند کرتا ہوا وہ خود کو پرسکون رکھنے کی سعی کر رہا تھا۔

کافی دیر بعد بھی اپنے پیچھے کسی کو نا آتے دیکھ وہ تھک کر 

 فٹ پاتھ پر لگے گھنے درخت سے ٹیک لگاتی ہوئی گہرے گہرے سانس بھرنے لگی تھی ۔

جب اچانک فضا میں وہ اڑتے پیڑول کے دھوئیں کی سمیل محسوس کرتی اردگرد گاڑیوں کی ٹائروں کی چرچڑاہٹ کانوں کو چیرتی ہوئی سنائی دی تھی۔

دونوں آنکھیں وا کرتی ہوئی وہسامنے کانوں پر بلیو ٹوتھ اور ہاتھوں میں لی گن اس پر تانے بلیک کلر کی پینٹ شرٹ پہنے ایک جیسی ڈریسنگ میں کھڑے گارڈز کو دیکھ کر ڈری تھی ۔

 سامنے گاڑیوں کی لگی قطار کو چیرتا ہوا اشارے سے گارڈز کو دور کرتا ہوا ۔

وہ ایک ایک قدم بڑھاتا اس کے ڈرے ہوئے چہرے کو دیکھ  تمخسرانہ انداز میں مسکرایا تھا۔

مقابل اور اس کے اور اپنے بیچ کے فاصلے کو مٹا کر آتے ہوئے  دیکھ وہ اپنی بے بسی پر رو بھی نا سکی تھی ۔

بہت تیز بھاگتی ہو ویسے ۔وہ ماہین کے عین سامنے رکا تھا ۔

اگر بھاگنے کا شوق پورا ہوگیا میری بیگم کا ۔۔یا اور بھی بھاگنے کا ارادہ ہے ۔۔تمخسر سے پوچھتا ہوا وہ دو زانوں پر اس کے سامنے بیٹھا تھا ۔

ارتضی کی بات پر وہ آنکھیں بند کرگئی تھی ۔جیسے آنکھیں کھولنے پر ارتضی سامنے نہیں ہوگا ۔

بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے سے کبوتر بچتا نہیں ہے ۔

اپنی آنکھیں کھول لو ۔۔ارتضی سے وہ خوفزدہ ہوئی تھی ۔

زمانہ مشہور سنگدل تھا میں اور۔۔۔۔۔۔۔،

 تیرے عشق نے مجھے خاکستر کردیا ،، ۔

چلیں اب شادی کی تیاریاں بھی کرنی ہے ۔گارڈز کو ہاتھ سے  جانے کا اشارہ کرتا ہوا عام سے انداز میں بولا تھا۔

نم آنکھوں سے ارتضی کو دیکھتی ہوئی وہ کھڑی ہوئی تھی ۔

تم پچھتاؤ گے ۔۔۔

تمہیں گھر چھوڑ کر آنے کے بجائے تمہیں مجھے اپنے ساتھ حویلی لے چلنا چاہیے اس لیے ۔۔ارتضی کو تاسف سے دیکھتی ہوئی وہ اپنے درد سے پٹھتے سر کو تھام گئی تھی ۔

پچھتانے کے دن تو میرے آج سے شروع ہوگئے ہیں ۔مجھے اس سے لڑکی سے محبت ہوگئی جسے محبت کرنے والوں کی قدر نہیں ہے ۔۔

اب لگتا ہے ساری زندگی تمہارے ہاتھوں خوار ہونا ہے مجھے ۔ماہین کو مسکرا کر دیکھتا ہوا آسمان پر غروب ہوتے سورج کی سرخی پھیلی دیکھ وہ فقط سوچ ہی سکا تھا ۔

کہاں رہے گئے تھے ۔۔۔حیدر سے ملتے ہی دلاور شاہ نے فکر سے پوچھا تھا ۔

کہیں نہیں بابا بس شہر کی سرحد کے قریب ہی کوئی لڑکی گاڑی کے سامنے ڈر کے مارے بے ہوش ہوگئی  تھی ۔

بس اس لیے آنے میں دیر ہوگئی تھی ۔حیدر نے سب بتانے میں ہی عافیت جانی تھی اگر وہ نا بھی بتاتا تو راشد سے وہ سب پوچھ کچھ لیتے اور وہ باآسانی سب سچ سچ بتا دیتا ۔

آتے ہی آپ نے عدالت لگا دی ہے میرے بچے کے سامنے سائین ۔شکوہ کرتی ہوئیں شاہدہ بیگم حیدر کا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف بڑھی تھیں ۔

میں نے تمہارے بتانے سے پہلے تمہارے دل کی خواہش کو پورا کردیا ہے حیدی۔سرگوشیانہ انداز میں بولتی ہوئیں وہ حیا کو سوچ کر مسکرائی تھیں۔

کیا مطلب ۔نا سمجھی میں مسکرایا تھا ۔

مطلب میں نے تمہارا اور حیا کا رشتہ طے کردیا ہے ۔حیرانگی سے شاہدہ بیگم کو دیکھ رہا تھا ۔

لگی ہوئی ہے کوئی بدعا تعاقب میں 

سکوں شکل دکھاتا ہے لوٹ جاتا ہے ۔۔۔

اور یہ ہی نہیں  شاہ کے ولیمے پر تمہاری اور حیا کی منگنی فکس کردی ہے ۔بنا حیدر کے تاثرات دیکھے وہ بس بولے جارہی تھیں ۔

ماں پر ۔حیا اور اپنی منگنی کا سن کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔

اس نے تو کبھی بھی حیا کے بارے میں ایسا سوچا ہی نہیں تھا ۔شادی تو دور کی بات تھی ۔

ہاں میری جان ماں ہوں نا تو اپنے بچوں کے دل کا حال کیسے نہیں سمجھوں گی ۔ حیدر کے معاملے میں وہ غلط ثابت ہوئیں تھیں ۔

حیا جانتی ہے ۔۔۔بمشکل وہ پوچھ سکا تھا۔

آئی ہوئی ہے تم سے ملنے ۔۔۔ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے ہی انہوں نے حیا کو دیکھ کر کہا تھا ۔

میں سب بتا دوں گا حیا کو ،میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں اور وہ ضرور سمجھے گی بھی ۔۔حیا کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر وہ پرامید ہوا تھا۔

حیدر بھائی کیا ہوا آپ کا  منہ کیوں لٹکا ہوا ہے ۔۔حیدر کے شاکڈ چہرے کو گھور سے دیکھتی ہوئی رائمہ نے استفسار کیا تھا ۔

کککچھ نہیں بس تھکان ہورہی ہے ۔بنا حیا پر نظر ڈالے سر کو انگلیوں سے دباتا ہوا وہ صوفے پر گرا تھا ۔

کیسا رہا سفر ۔۔پہلے کی طرح ہی وہ اس سے مخاطب ہوئی تھی ۔

 اچھا تھا ۔سرد لہجے میں جواب دے کر وہ اپنی آنکھیں موندے صوفے کی پشت پر سر رکھ گیا تھا ۔ 

بس اچھا مجھے تو لگا تمہیں بہت  مزہ آیا ہوگا ۔۔حیدر کے مختصر سرد سے جواب پر وہ خود سے بات بڑھانے کے لیے بولی تھی ۔

رائمہ بیٹا شاہ کے نکاح کی فوٹوز تو دیکھاؤں کل تو دیکھ نا سکا ۔

اگر تم اس وقت ہی فلائٹ نا لیتے نا تو تم اسکائپ کے ذریعے نکاح میں شامل ہوجاتے ۔شاہدہ بیگم کی آواز سے ہی ان کی خوشی کا اندازہ لگاتا ہوا مبہم سا مسکرایا تھا ۔

جبکہ اس کے ساتھ بیٹھے دلاور شاہ کڑے تاثرات چہرے پر سجائے بیٹھے تھے ۔

حیا تم یہاں میرے پاس آکر بیٹھ جاؤ ۔۔رائمہ کے ساتھ بیٹھتی  ہوئی وہ حیدر کا اپنے ساتھ سرد لہجے کو سوچ کر اداس ہوئی تھی ۔

کچھ پرسکون ہوتا ہوا وہ ارتضی کی فوٹوز دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

جبکہ اس کے سامنے بیٹھی حیا اسے یوں مسکراتے دیکھ کھوئی تھی ۔۔

اور یہ ہے تمہاری بھابھی اور شاہ کی بیوی ماہین ارتضی شاہ ۔تجسس میں شاہدہ کے ہاتھ سے فون لیتا ہوا مسکرایا تھا ۔کہاں خبر تھی اسے ایک ضرور دار جھٹکا اسے لگنے والا تھا ۔

مگر اگلے ہی پل ماہین کو دلہن کے روپ میں دیکھ کر آنکھیں ٹھہری تھیں،  ذہن ماؤف ،جسم ساکت ،اور  اعصاب ڈھیلے پڑے تھے ۔۔

جیسے اچانک سے ساتوں آسمان اس کے سر پر آن گرے تھے ۔

لمحہ بہ لمحہ ایک مصیبت کے ساتھ ساتھ

ہم جی رہے ہیں اس کی صورت کے ساتھ ساتھ

یونہی نہیں قبول کیا تیرا ہجر

اس میں سکون بھی ہے اذیت کے ساتھ ساتھ

اس گفتگو کا ڈھنگ بھی دل میں اتر گیا 

تھا کچھ تو جھوٹ جس میں صداقت کے ساتھ ساتھ

بولو تمھارے فن سی فقیری کدھر گئی

نفرت بھی کر رہے ہو محبت کے ساتھ ساتھ

ہر ایک کے دکھ کو روتے ہیں اپنے کو چھوڑ کر

اتنے تو ہم امیر ہیں غربت کے ساتھ ساتھ

شاید وہ تبھی ہاتھ چھڑاتا ہے تھام کر

دوری بھی چاہیے اسے قربت کے ساتھ ساتھ

ہم نے مٹا کر رکھ دیا اس دل سے  آخری

 تیرا خیال بھی تیری صورت کے ساتھ ساتھ

لوگوں میں ہی لیتا ہے گھبرا کر میرا نام 

ہے اس کے دل میں خوف بھی جرات کے ساتھ ساتھ

اسباب تھے جدائی کے کتنے ہی اور زین 

کچھ تو میرا بھی قصور تھا قسمت کے ساتھ ساتھ

اپنی قسمت کی بےوفائی  پر اس کی سیاہ آنکھیں نم ہوئی تھیں ۔

کیا ہوا حیدر کیسی لگی بھابھی ۔شاہدہ بیگم اسے خاموش دیکھ پوچھ گئی تھیں ۔

وہیں حیا حیرانگی سے حیدر کے چہرے پر آتے جاتے مرغوں کو دیکھتی ہوئی پریشان ہوئی تھی ۔

بہت ۔کچھ توقف کے بعد گہرا سانس بھرتا ہوا وہ رکا تھا ۔

کیا ہورہا ہے حیدر ۔۔۔اسے لمبے سانس بھرتے دیکھ شاہدہ بیگم کے ساتھ دلاور شاہ بھی پریشان ہوئے تھے ۔

یہاں کی ہوا میں آلودگی ہے نا بس اس ہی لیے سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے ۔گریبان کے بٹن کھولتا ہوا وہ اپنے سینے کو ہاتھ سے مسل کر اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے مسکرانے کی سعی کرتا ہوا بول رہا تھا ۔

تھوڑی دیر میں شاور لے کر آرام کرلیتا ہوں  پھر ملاقات ہوتی ہے آپ سب سے ۔۔حیدر کی غیر ہوتی حالت دیکھ حیا پریشان ہوئی تھی ۔

خالہ جانی میں پھر آجاؤں گی ۔حیدر کی حالت خو دیکھ اس کا دل تو نہیں تھا جانے کا مگر ماہین کا خیال آتے ہی وہ فلحال وہاں سے جانے کا سوچ گئی تھی ۔

ڈرائیور کو ساتھ لے جانا ۔۔حیا کے افسردہ چہرے کو دیکھ کر وہ فقط اتنا ہی کہہ سکی تھیں ۔

خدا حافظ ۔۔۔وہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھی ۔

بے جان قدموں سے چلتا ہوا وہ اپنے کمرے تک آیا تھا ۔

دروازہ لاک کرتا ہوا وہ وہیں دروازے کے پاس ہی فرش بیٹھتا چلا گیا تھا ۔

کیا سے کیا سوچ چکا تھا وہ ماہین کو لے کر ۔آج ماہین کو دیکھ کر اسے انجانی خوشی محسوس ہورہی تھی ۔

اپنے بالوں کو نوچتا ہوا اپنے ضبط  کردہ آنسوؤں کے بند توڑ گیا تھا ۔

کیا یہ ہی وجہ تھی جو وہ جب جب ماہین کو دیکھتا تھا ناچاہتے ہوئے بھی اس کی نظریں خود بخود عاجزی میں جھک جاتی تھی ۔

کیا یہ وجہ تھی کہ وہ جب بھی اس سے ملی اس سے کبھی طویل ملاقات نا ہوسکی تھی ۔ 

کیونکہ وہ ارتضی بھائی کے نصیب  میں تھی تو مجھے کیوں ہوئی اس سے محبت کیوں اللہ پاک میرے دل میں ماہین کے محبت کیوں پیدا کی آپ نے ۔

اور وہ حیا وہ تو معصوم ہے اس سے  بےوفائی نہیں کرسکتا میں ۔۔

انکار کرکے اس کا دل بھی نہیں توڑ سکتا کہاں لاکر کھڑا کردیا ہے آپ نے ۔

ایک طرف اپنے ہی بھائی کی منکوحہ کی محبت میں گرفتار ہو کر گناہ کر بیٹھا ہوں اور دوسری طرف اس معصوم سے منگنی توڑ کا اس کا دل توڑنا اس کی خوشیاں چھیننا۔۔عجیب کشمکش میں گھیرا اپنے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتا ہوا وہ شاور کے نیچے جا کھڑا ہوا تھا ۔

___________

آگیا کچھ دنوں کا گھر آپ کا ۔پورے سفر میں  دونوں میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کو مخاطب نہیں کیا تھا ۔

آرام سے ۔۔غصے میں سیٹ بیلٹ کو کھولتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی بولا تھا ۔

خونخوار نظروں سے ارتضی کو گھورتی ہوئی وہ ارتضی کو مسکرانے پر اکسا رہی تھی ۔

ماہین ۔۔نام بھی مت لیں میرا ۔وہ غرلائی تھی ۔

تمہیں نہیں لگتا تم کچھ زیادہ ہی نفرت کا اظہار کر رہی ہو مجھ سے اب تمہیں  تمہارے نام سے نہیں پکاروں گا تو کس نام سے مخاطب کرو تمہیں  ۔ماہین کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیتا ہوا وہ سختی سے بولا تھا ۔

بلکل بھی نہیں ۔ہاتھ چھوڑیں میرا ۔۔

نہیں چھوڑو گا کیا کر لو گی ۔۔۔جبڑے بھینچے کر وہ پوچھ رہا تھا ۔  

 جو شخص اپنی بہن کی عزت کرنا نا جانتا ہو وہ میری عزت کیا خاک کرے گا ۔یہ ہے میری آپ سے نفرت کرنے کی سب سے بڑی وجہ ۔

تمہارے ساتھ کیا ہے کبھی  ۔۔ماہین کے جواب ہر وہ الٹا اس سے سوال پوچھ گیا تھا  ۔

جو شخص اپنی بہن کو سر بازار تھپڑ مار سکتا ہے تو سوچیں بیوی کے ساتھ کیا کرے گا یہ سوچ سوچ کر مجھے نفرت ہوتی ہے آپ سے۔اسے آئینہ دکھاتی ہوئی اپنے اور ارتضی کے رشتے کو قبول کرگئی تھی ۔

تم نہیں جانتی اس سب کی وجہ ۔ماہین کے ہاتھ کو  رہا کرتا ہوا وہ شرمندگی سے نظر جھکا گیا تھا ۔

جاننا بھی نہیں چاہتی ۔کار کا فرنٹ ڈور کھولتی ہوئی بنا ارتضی کو دیکھے کار سے  اتر گئی تھی ۔

سنو۔۔ایک عجیب احساس کو محسوس کرتی ہوئی وہ نا چاہتے ہوئے بھی  رکی تھی  ۔۔

ہوسکے تو اس واقعے کو بھول کر مجھے دیکھنا شاید مجھ میں کوئی اچھی مل جائے تمہیں ۔ارتضی کی بات پر وہ طنزیہ انداز میں مسکراتی ہوئی گردن موڑ کر ارتضی کو دیکھ گئی تھی ۔

کوشش ۔۔تمسخر سے ارتضی کی طرف دیکھ کر وی واپس سے گردن موڑ گئی تھی ۔

کوشش تو ضرور کروں گی ارتضی شاہ تم میں اچھائی ڈھونڈنے کی آخر کو میرے بابا نے تمہیں میرے لیے چنا ہے تو کچھ سوچ کر ہی ۔۔سنجیدگی سے سوچتی ہوئی وہ وہاں رکی نہیں تھی  ۔۔

ماہین کو جاتے دیکھ وہ گاڑی اسٹارٹ کر گیا تھا۔

 آج کی رات بھی گزری ہے مری کل کی طرح 

ہاتھ آئے نہ ستارے ترے آنچل کی طرح 

حادثہ کوئی تو گزرا ہے یقیناً یارو 

ایک سناٹا ہے مجھ میں کسی مقتل کی طرح 

پھر نہ نکلا کوئی گھر سے کہ ہوا پھرتی تھی 

سنگ ہاتھوں میں اٹھائے کسی پاگل کی طرح 

تو کہ دریا ہے مگر میری طرح پیاسا ہے 

میں تیرے پاس چلا آؤں گا بادل کی طرح 

رات جلتی ہوئی اک ایسی چتا ہے جس پر 

تیری یادیں ہیں سلگتے ہوئے صندل کی طرح 

میں ہوں اک خواب مگر جاگتی آنکھوں کا امیرؔ 

آج بھی لوگ گنوا دیں نہ مجھے کل کی  طرح

پلیز سر آپ ہسپتال آجائیں اذہان میڈیسن ری ایکٹ کرگئی جس سے اس کے بلڈ میں الرجی ہوگئی ہے اور وہ کسی سے  انجیکشن بھی نہیں لگوارہا ہے  بضد ہے آپ سے ہی انجیکشن لے گا ورنہ نہیں ۔۔اسے جی بھر کر اذہان کی حرکت پر غصہ آیا تھا ۔

آپ کوشش تو کریں ۔

سر ہم نے اپنی  پوری کوشش کی ہے وہ نہیں مان رہا ۔

میں آرہا ہوں ۔۔۔ڈاکٹر ہیر کے لہجے میں تھکان محسوس کرتا ہوا وہ ہسپتال کی سمت گاڑی موڑ چکا تھا ۔

کب عقل آئے گی تمہیں اذہان   ۔انجیکشن کے دینے کے بعد اذہان کو  پرسکون ہوتے دیکھ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے ارتضی نے فکرمندانہ انداز میں استفسار کیا تھا ۔

جب کے وہ ارتضی کی بات پر مبہم سا مسکرایا تھا ۔

ہو تم سترہ سال کے اور یہ ضد اتنی بڑی ،اذہان کی ناک کو دباتا ہوا وہ چار سال پہلے والے اذہان کو سوچ کر افسردہ ہوا تھا ۔

کیوں ڈاکٹر صاحب آپ کے گھٹنے ٹیکوادیے نا اس لڑکے نے ۔اپنے الگ انداز بیان میں وہ ارتضی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز لگا تھا ۔

جی ڈاکٹر صاحب کے پیشنٹ صاحب ۔میں بہت ڈر گیا تھا ۔اگر ری ایکشن زیادہ بڑھ جاتا تو تمہاری جان بھی جا سکتی تھی ۔چھت پر نگاہ ٹکائے اذہان کو دیکھ کر اس کی آنکھیں نم ہوئی تھیں ۔

  اذہان وعدہ کرو اپنے ڈاکٹر صاحب سے دوبارہ ایسی ضد نہیں کرو ۔۔بجائے کسی جواب کے وہ فقط شرارت سے  مسکرایا تھا ۔

میں آپ کو وعدہ دینے کو تیار ہوں پہلے آپ بھی مجھے ایک وعدہ دیں ۔پلکیں جھپکتا ہوا وہ ارتضی کے اپنے قریب رکھے ہاتھ کو محسوس کرتا ہوا ان پر ہاتھ رکھ کر بولا تھا ۔

کیسا وعدہ ۔اس کے ہاتھ پر دباؤ دیتا ہوا ارتضی اس کے منہ سے  وعدہ کا سن کر حیران ہوا تھا ۔

میری سرجری آپ کریں ورنہ میں کسی اور ڈاکٹر سے ٹریٹمنٹ نہیں کرواؤں گا ۔ضدی لہجے میں کہتا ہوا وہ بضد ہوکر ارتضی کا سہارا لے کر  بیٹھ گیا تھا ۔

یہ جانتے ہوئے تم جس حال میں ہو میری وجہ سے ہو پھر بھی ۔اذہان کی ضد ہمیشہ ہی اسے تکلیف پہنچاتی تھی ۔

میں یہ بھی تو جانتا ہوں اس حادثے کے بعد مجھے دو بابا مل گئے ہیں ۔

ایک بابا وہ جنہیں اپنی شہرت عزیز رہی اور دوسرا وہ جو ہر وقت میری فکر میں رہتا ہے خود کو قصور وار مان کر ۔ارتضی کا ہاتھ اب بھی اس کی گرفت میں تھا۔

مجھے تو اندھیرے بہت پسند ہیں ۔کھوکھلی ہنسی ہنستا ہوا وہ ارتضی کو حوصلہ دینے کی غرض سے بول رہا تھا ۔

اس میں کوئی شک نہیں تم سچ میں میرے بیٹے جیسے ہو اذہان ۔

اور میں ایک ہونے کی وجہ سے تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔

یہ میں اچھے سے جانتا ہوں اذہان جو کچھ بھی ہوا اس میں خدا کی مصلحت تھی لیکن اگر میں احتیاط کرتا تو شاید آج تم نابینا نہ ہوتے ۔

آنکھیں ہونے کے باوجود تم دنیا کی خوبصورتی دیکھنے سے محتاج نا رہتے ۔اب کی بار ارتضی کی آنکھیں نم ہوئی تھیں ۔

میں محتاج نہیں ہوں ڈاکٹر صاحب اور آپ کے رہتے ہوئے تو بلکل بھی نہیں ۔پر اعتمادی سے کہتا ہوا ارتضی کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیے بولا تھا ۔

آپ وعدہ دیں اور آپ میری سرجری کریں نا ۔اذہان کے  پوچھنے پر وہ کرب سے آنکھیں میچ گیا تھا ۔

آپ جلدی سے وعدہ دیں پھر میری جلدی سے سرجری کریں تاکہ میں آپ کی ماہین اور اپنی نیو مما کو دیکھ سکوں ۔

پھر میں آپ دونوں کے ساتھ آپ لوگوں کے ہنی مون پر بھی تو جاؤں گا ۔

آپ مسکرا رہے ہیں نا ۔شرارت سے کہتا ہوا وہ ارتضی  کے مسکراہٹ سے پھیلے ہوئے لبوں کو چھو کر محسوس کرتا ہوا چہکا تھا ۔

وعدہ ۔اذہان کے دونوں ہاتھوں کو تھماتا وہ ان پر لب ر کھ کر وعدہ کرچکا تھا جسے اسے ہر حال میں پورا کرنا تھا اذہان کی خاطر ۔

ویسے ایک بات بتائیں ڈاکٹر صاحب ۔

جی پوچھیں پیشنٹ صاحب ،اس کے ہی انداز میں تجسس سے پوچھ رہا تھا ۔

یہ جو ڈاکٹر ہیر ہیں کیسی دکھتی ہیں مطلب خوبصورت ہیں ۔کسی کے قدموں کی چھاپ محسوس کرتا ہوا وہ سرگوشی میں پوچھ رہا تھا ۔

کیوں ۔ بھنویں سکیڑ کر ارتضی نے اسے گھورا تھا جس کے چہرے پر شرارت کا نام و نشان تک نہیں تھا۔

آپ دیکھ سکتے ہیں نا اس لیے آپ سے پوچھ رہا ہوں اگر خوبصورت ہیں تو میں ان سے انجکشن لے لوں گا ورنہ ۔ڈور کھولنے کی آواز پر وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ خاموش ہو بیٹھا تھا ۔

جبکہ ارتضی اندر آتی ہیر کو دیکھ کر اذہان کو خاموش ہوتے دیکھ حیران ہوا تھا ۔

اب تو سامنے ہی ہیں وہ آپ کے اب تو بتا دیں دیکھ کر ،پھر سے سرگوشی کرتا ہوا وہ بضد ہوا تھا ۔

پوچھ کر بتاؤں ان سے ،ویسے تمہیں کیسے پتہ کہ ڈاکٹر ہیر آئی ہیں ۔حیرانگی سے اذہان سے پوچھتا ہوا وہ اذہان کو لب دباتے دیکھ  مسکرایا تھا۔

چار سال کا تجربہ ہے ڈاکٹر صاحب قدموں کی چھاپ سن کر پہچان جاتا ہوں اور مجھے تو یہ بھی پتا ہے اس وقت وہ آپ کو دیکھ رہی ہیں ۔رازدانہ انداز اپناتا ہوا وہ اپنی آبرو ریس کرتا ہوا بول رہا  تھا ۔  

ارتضی حیران ہوا تھا ہیر کو مسکراتے ہوئے دیکھ خود کی طرف متوجہ پاکر ارتضی کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔

کیوں لگا نا جھٹکا ڈاکٹر صاحب اب زیادہ غور سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ڈاکٹر ہیر کو ورنہ ماہین کے ساتھ بےوفائی کہلائے گی ۔بڑے بوڑھوں کی طرح بولتا ہوا وہ لب دبائے مسکرا رہا تھا ۔

 ڈاکٹر ہیر یہ اذہان کی میڈیکل فائل ہے اس میں سب ڈیٹیل ہے اذہان کو کس چیز سے الرجی ہے اور کونسی میڈیسن اسے ری ایکٹ کرتی ہے ۔

اچھے پڑھ لیجئے گا جب تک میں شادی سے فری نہیں ہوجاتا ہوں جب تک اذہان آپ کی تمام تر ذمہ داری آپ کے حوالے ہے ۔اپنے مخصوص انداز میں ہیر کو فائل پکڑاتا ہوا وہ اذہان کو دیکھ کر افسردہ ہوا تھا ۔

چار سال میں پہلی بار اذہان سے اتنے دن دور رہنے کا سوچ کر ہی وہ اداس ہوا تھا ۔

جائیں جائیں ڈاکٹر صاحب اچھے سے شادی کریں پر انہیں مطلب میری نیو مما کو مجھ سے ملوانے ضرور لائیے گا ۔

ضرور میرے بچے ۔سنجیدہ کھڑی ہیر پر نظر ڈالتا ہوا وہ وہاں چلا گیا تھا ۔

ارتضی کو جاتے دیکھ اذہان کی طرف بڑھی تھی ۔

کب سے ساتھ ہو ڈاکٹر ارتضی کے ۔نارمل انداز میں پوچھتی ہوئی وہ مسکرائی تھی ۔

چار سال سے ۔عام سا انداز جواب دیتا ہوا وہ آنکھیں بند کرگیا تھا ۔

بہت اچھے سے جانتے ہو ڈاکٹر ارتضی کو ۔نجانے وہ اس کیا پوچھنا چاہ رہی تھی ۔

ڈاکٹر صاحب پہلی  کی مانند ہیں کوئی سمجھ نہیں سکتا انہیں اور میں تو بلکل بھی نہیں ۔اپنی اندھیرزدہ آنکھیں بند کیے وہ اسے کچھ بھی  بتانے سے انکاری  تھا ۔

تمہاری سرجری ڈاکٹر ارتضی سے ایسی کون سی کوتاہی ہوگئی تھی جس کی وجہ انہوں نے ہسپتال سے ریزائن کردیا تھا۔اذہان کی طرف سے کوئی بھی جواب نا پاکر وہ

اپنا سا منہ لیے خاموشی سے اذہان کی رپورٹ فائل پڑھنے لگی تھی ۔

******** 

بڑی ملاقاتیں ہورہی ہیں ۔خاموش  بیٹھی ماہین کو چھیڑنے کی غرض سے حیا بولی تھی ۔

ماہین جو سب سے ڈانٹ کھانے کے بعد اپنے روم میں خاموشی سے آکر بیٹھ گئی تھی ۔

شاہ حویلی سے آتے ہی اسے ماہین کے گھر آنے کی خبر ملی تھی۔

 مارے تجسس کے ماہین کے روم میں آتی ہوئی حیا مسکرا رہی تھی ۔

ملاقات کرنے نہیں گئی تھی مگر اچانک سے ملاقات ہوگئی ۔ماہین کے جواب کی اسے ذرا امید نہیں تھی ۔

اچھا پھر کیا بات ہوئی آپ دونوں کی ۔بیڈ پر بیٹھتی ہوئی وہ پرجوش ہوئی تھی ۔

یہ باتیں چھوڑو شاپنگ پر کب چلنے کا ارادہ ہے ۔سہولت وہ بات بدل گئی تھی ۔

کل صبح ۔ماہین کی  پیشانی پر لگے چھوٹے سے نشان  کو دیکھ کر وہ نظریں جھکا گئی تھی ۔

حیا ۔اسے اس طرح خاموش دیکھ ماہین نے اسے پکارا تھا۔

آپ بتانا نہیں چاہتی تو میں فورس نہیں کروں گی آپ کو ۔مضنوئی مسکراہٹ سجائے وہ ماہین کی نم ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر پریشان  ہوئی تھی ۔

آپ رو کیوں رہی ہیں ۔

تم سے دور ہوجاؤں گی نا کچھ دنوں میں اس لیے ۔ماہین کی زانوں پر سر رکھتی ہوئی حیا کی پلکیں بھی نم ہوئی تھی ۔

پہلی بات یہ دوری کچھ مہینوں  کی ہے کیونکہ میں آپ کی  دیورانی بن کر آپ کے پاس آجاؤں گی ۔

اور دوسری بات ارتضی بھائی کےہوتے ہوئے کسی کو بھی  یاد کرنے کی آپ کو ضرورت ہی نہیں پڑے گی ان کی شخصیت میں سحر ہی اتنا ہے۔

اوپر سے ہیں بھی بہت کیئرنگ  آپ کو اداس دیکھ ہی نہیں سکے گے اور بس پھر آپ کو اپنے آپ میں مصروف رکھے گے ۔

 پوری دنیا سے غافل کرکے رکھ دیں گے ۔حیا کو خاموشی سے سن رہی تھی ۔

یہ تو میں نے بتایا ہی نہیں احرار بھائی نہیں آپائیں گے شادی میں ۔

جب ہی تو نرجس آپی اداس اداس پھر رہی ہیں ۔ ماہین کا اس بات پر بھی کوئی ری ایکشن نا پاکر وہ سیدھی ہو بیٹھی تھی ۔

کیا ہوا ہے ۔گم سم بیٹھی ہوئی ماہین کو دیکھ کر اسے اکتاہٹ محسوس ہوئی تھی ۔

کچھ نہیں ۔حیا  مجھے آرام کرنا ہے پھر بات کروں گی تم سے ۔کشن پر سر رکھ کر لیٹتی ہوئی  وہ آنکھیں بند کرگئی تھی ۔

ماہین کو دیکھ کر اس کے برابر میں خود بھی لیٹتی ہوئی خود پر ماہین کی نظریں جمی دیکھ ڈھٹائی  سے مسکرائی تھی ۔

اسے اس طرح مسکراتے دیکھ اپنی آنکھیں واپس سے بند کرگئی تھی ۔

*******

اپنی مرمت کرواؤں گا تھوڑا

یوں ہوش میں آؤں گا تھوڑا

ذہن دل پہ نقش کر گئی وہ دوشیزہ

آنکھوں کا علاج کرواؤں گا تھوڑا

محمار یار دھڑکن بھی اچھے سے دیکھ لے

روح کو تفصیل سے دیکھاؤں گا تھوڑا

جب سے وہ آیا تھا اپنے کمرے میں بند تھا ۔بلآخر اپنے دکھتے سر کو پکڑے  شاور کی غرض سے وہ باتھروم میں بند ہوا تھا۔

ایک گھنٹے سے مسلسل سے شاور لینے کے بعد وہ کہیں جاکر تھوڑا پرسکون ہوا تھا ۔اپنی سیاہ سرخ آنکھوں کو دیکھ کر وہ پھیکا سا مسکرایا تھا ۔

حیدر شاہ کمزور نہیں ہے اور نا ہی کبھی کمزور پڑ سکتا ہے ۔بالوں کو سیٹ کرتا ہوا گرے کلر کے سوٹ پہنے عام روٹین کی طرح تیار ہوا تھا ۔

ڈور ناب پر ہاتھ رکھے وہ حوصلہ جمع کرتا ہوا کمرے سے باہر نکلتا ہوا سیدھا کچن کی سمت مڑا تھا ۔جہاں پر شاہدہ بیگم کے ساتھ  رائمہ وہیں پر موجود تھیں ۔

میرے لیے تو کبھی بھی کچھ نہیں بناتی آپ اور دیکھیں ارتضی بھائی کے ساتھ آج آپ حیدر بھائی کے لیے بھی ان کی پسند کا کھانا بنا رہی ہیں ۔رائمہ کے افسردہ سے چہرے کو دیکھ کر وہ کچن میں داخل ہوا تھا ۔

یہ بات تو بلکل درست کی ہے رائمہ نے ۔۔آپ اسے سچ بتا دیں نا۔۔خود کو نارمل ظاہر کرنے کی خاطر وہ بیچ میں کوشش تھا۔

وہیں حیدر کی بات پر رائمہ کی بھنویں سکڑی تھیں ۔

نہیں حیدی ہم سچ نہیں بتا سکتے اسے ۔۔۔بیچاری کا چھوٹا سا دل ٹوٹ جائے گی ۔ایک آنکھ دبائے ارتضی نے شرارت سے بھرپور لہجے کے ساتھ دونوں کو خاموش رہنے کا اشارہ بہت گیا تھا ۔

شاہدہ بیگم مسکرائیں تھیں ۔جانتی تھی اب رائمہ کی خیر نہیں تھی ۔

کون سا سچ بھائی ۔رائمہ کی آواز کسی کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔

بتائیں نا ۔۔  ارتضی  اور حیدر  کو خاموش دیکھ وہ اسرار کر  رہی تھی ۔

اب تم اتنا فورس کر ہی رہی ہو تو سن لو لیکن پلیز رونا مت ورنہ ہم انہیں کونسا منہ دیکھائے گے ۔لہجے میں افسردگی لیے حیدر نے ارتضی کی طرف دیکھ کر خاموش ہوا تھا ۔

کسے کونسا منہ دیکھانے کی بات کر رہے ہیں ۔۔وہ اب کی بار منمنائی تھی ۔

اب وقت آگیا ہے سمی تمہیں سب سچ بتانے کا ۔کب تک تم سے چھپائے رکھ سکتے ہیں اب تو تم سمجھدار ہوچکی ہو اپنے فیصلے خود سے لے سکتی ہو ۔ٹھہرے ہوئے لہجے میں وہ سنجیدگی سے بول رہا  تھا ۔

حیدر اور شاہدہ بیگم ارتضی کے اتنی سنجیدگی سے کہانی کہتے دیکھ حیران ہوئے تھے۔

ماں کون سے سچ کی بات کررہے ہیں ارتضی بھائی ۔نم آنکھیں لیے وہ ارتضی اور حیدر کی باتوں سے گھبرائی تھی ۔

ارتضی کی بات پر اس وقت کوئی بھی  آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتا اگر حیدر اور شاہدہ بیگم اس کے ساتھ شامل نا ہوتے تو ۔

رائمہ یہ سچ تو شاہ اور حیدر ہی تمہیں بتائیں گے ۔۔اتنے عرصے بعد ارتضی کو شرارت کرتے دیکھ شاہدہ بیگم خاموش ہی رہی تھیں ۔

یہ ہی کہ تمہارا اور ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے تم ہماری بہن نہیں ہو سمی اور نا ہی بابا اور ماں سرکار کی اولاد ہو ۔۔۔رائمہ کے ساکت چہرے کو دیکھ حیدر کی ہنسی چھوٹ رہی تھی مگر خود پر ضبط کرتا رخ پھیر گیا تھا ۔جبکہ شاہدہ بیگم ارتضی کو خاموش ہونے کا اشارہ کررہی تھی مگر اس پر تو آج شرارت سوار تھی ۔

کیا  مطلب ۔بھرائی آواز میں ارتضی سے پوچھتی ہوئی اپنے سامنے سر جھکائے کھڑی شاہدہ بیگم کو دیکھ کر رونے کو تیار تھی ۔

میں اور حیدر چھوٹے تھے جب بابا تمہیں حویلی لائے تھے ۔

اس دن بہت بارش ہورہی تھی مانو طوفان آیا ہو ۔

اور ہمیں بتایا تھا بابا سرکار نے کہ تم انہیں کسی درخت کے نیچے روتی ہوئیں ملی تھیں ۔۔رائمہ کی غیر ہوتی حالت دیکھ ارتضی لب دبا گیا تھا ۔

میں سچ میں آپ لوگوں کی بہن نہیں اور آپ کی بیٹی نہیں ہوں ۔آنسو بہاتی ہوئی وہ ارتضی کی بات پر یقین کرگئی تھی ۔

ممی۔۔می۔میں ۔اس حویلی کی  بیٹی نہیں ہوں ۔۔رائمہ کے رونے میں روانگی آگئی تھی جسے دیکھ ارتضی کے ہاتھ پیر پھولے تھے ۔

سمی ۔۔۔۔میری بات سنو ۔حیدر اور شاہدہ کی گھوری خود پر محسوس کرتا ہوا وہ رائمہ کی سمت بڑھا تھا ۔

نہیں میں نہیں ہوں آپ کی سمی  ۔پتا نہیں میں کون ہوں۔رائمہ کو حد درجہ اپنی باتیں سنجیدہ لیتے دیکھ ارتضی اسے خود سے لگا گیا تھا۔

اب جو بھی ہو تم اب تو ہماری بہن ہو نا تم۔رائمہ ے سر پر ہاتھ رکھے وہ اب بھی باز نہیں آیا تھا ۔

بھائی صحیح کہہ رہے ہیں رائمہ اب تو تم ہماری بہن ہو ۔حیدر نے بھی حصہ لیا تھا۔

رائمہ اپنے آنسوؤں سے ارتضی کی شرٹ گیلی کرگئی تھی ۔ 

مذاق کررہا تھا سمی ۔تم تو ہماری جان ہماری چھوٹی سی بہن ہو ۔رائمہ کے بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔

بس اتنا سا دل ہے رائمہ ہم تو مذاق کررہے تھے یار ۔ہچیکیوں سے روتی ہوئی رائمہ کو دیکھ حیدر بھی اس کے  قریب آیا تھا ۔

ایسا ہوتا ہے مذاق ۔ارتضی کے ساتھ لگی وہ ناراضگی سے بولی تھی ۔

ہاں نا ایسے ہی ہوتے ہیں مذاق ۔  حیدر کا موڈ کافی بہتر ہوگیا تھا ۔

جب تم ماں سرکار سے ایسے شکوے کرو گی تو ہم ایسے ہی مذاق کرے گے نا ۔رائمہ کو خود سے الگ کرتا ہوا ارتضی اس کے آنسو صاف کررہا تھا ۔شاہدہ بیگم خاموش کھڑی تینوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھیں ۔

میں آپ کی بہن ہوں نا  ۔ارتضی  اور حیدر کا ہاتھ تھام کر اس نے یقین دہانی چاہی تھی ۔

میری پیاری چڑیل جیسی بہن تم ہماری ہی بہن ہو ۔

بھائی ۔۔۔حیدر کے چڑہانے پر وہ چلائی تھی ۔

رائمہ اور حیدر کو خود سے لگائے ارتضی مسکرایا تھا ۔

مبارک ہو بھائی ۔رائمہ کے سائیڈ ہوتے ہی حیدر پھر سے  ارتضی سے بغلگیر ہوتا مسکرایا تھا ۔حیدر کی مبارک باد پر وہ مبہم سامسکرایا ۔

یہ تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ۔حیدر کی سرخ آنکھوں پر غور کرتا ہوا وہ فکر مندی سے پوچھ رہا تھا ۔ 

کچھ نہیں بھائی تھکان کی وجہ سے سر میں درد ہورہا ہے اس ہی وجہ سے ۔ انگوٹھے اور انگلی کے پور سے آنکھوں پر دباؤ دیتا ہوا وہ ارتضی کے سامنے کنفیوز ہوا  تھا ۔

آنکھوں پر دباؤ دینے سے سر درد  ختم نہیں ہوگا ۔وہ ٹوک گیا تھا ۔

جی بھائی ۔حیدر کی بات پر اسے یقین تو نہیں آیا تھا مگر اسے سچ بتانے پر وہ فورس بھی نہیں کر سکتا تھا ۔

ماں سرکار حویلی کے اس کمرے کی بھی صفائی کروادیجئے گا ۔  حیدر پر اچٹکی سی نظر ڈالتا ہوا وہاں سے گیا تھا ۔

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے 

عشق کیجئے پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے!

 ارتضی شاہ اپنی وجیہہ شخصیت کے ساتھ مہندی کے فنگشن کے لیے گاؤں میں لگائے گئے پنڈال میں داخل ہوا تھا ۔

جہاں سامنے اسٹیج پر نظریں جھکائے بیٹھی ماہین دیکھ کر اس کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی تھی ۔  

مہندی اور مایوں کی نسبت کے حساب سے چہرے پر ہلکا سا  میک اپ کیے ماہین  یلو اور گرین کلر کے شرارے کے ساتھ جیولری کے نام پر کانوں میں ہلکے سے آویزے پہنے ہوئے وہ  اپنے خوبصورت و پرنور چہرے کے ساتھ  ارتضی شاہ کو مبہوت کرگئی تھی ۔

 ان سے نظریں کیا ملی روشن قضائیں ہوگئیں 

آج جانا کہ پیار کی جادو گری کیا چیز ہے ۔۔!

خود پر نظروں کی تپش محسوس کرتی ہوئی ماہین کی نگاہیں اپنے عین سامنے کھڑے ارتضی پر ٹھہری تھیں ۔

ارتضی شاہ جو اس وقت وائیٹ کاٹن کے سوٹ پر واسکٹ پہنے بالوں سیٹ کرنے کے بعد بھی پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے جنہیں وہ اپنے بائیں ہاتھ کی مدد سے سیٹ کرتا ہوا الجھن کا شکار ہوا تھا ۔

دلفریب مسکراہٹ لبوں پر سجائے یک ٹک ماہین کو ہی دیکھ رہا تھا ۔

بکھری زلفوں نے سکھائی معصوموں کو شاعری

جھکتی آنکھوں نے بتایا کہ مے کشی کیا چیز ہے !

ارتضی شاہ کی محبت لٹاتی  نظروں سے خائف ہوتی  ہوئی وہ واپس سے نظریں جھکا گئی تھی ۔

یہ دیکھ ارتضی کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی تھی ۔

مضبوط قدموں کے ساتھ وہ اسٹیج کی سمت بڑھا تھا ۔

ہم لبوں سے کہہ نا پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے ۔۔۔

 اپنے برابر میں ارتضی کو بیٹھتے دیکھ ماہین اس پر ترچھی نگاہ ڈالتی ہوئی مزید سر جھکا گئی تھی ۔

ارتضی کو اپنے اتنے قریب آرام سے بیٹھے ہوئے دیکھ اسے  گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی ۔

پسینے سے بھیگی ہتھیلیوں کو آپس میں مسلتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر ارتضی سامنے سے مہمانوں کو آتے دیکھ مسکرا کر سرگوشیانہ انداز میں ماہین سے مخاطب ہوا تھا ۔

ریلکس تھوڑی دیر کی بات ہے رسم کے بعد میں یہاں سے اٹھ کر چلا جاؤں گا  ۔عام سے لہجے میں ارتضی کو بولتے سن  وہ حیرانگی سے ارتضی کو دیکھ گئی تھی ۔

جو بظاہر سامنے نظریں جمائے مسکرا رہا تھا ۔

نظریں نیچے کرلو کسی نے دیکھ لیا تو سب مذاق بنائے گے میں تو انجوائے کروں گا مگر شاید تم برداشت نا کر پاؤ ۔ہنوز سامنے دیکھتا ہوا وہ ماہین کو مزید حیران کرگیا تھا ۔

اب تمہارا ہی ہوں کل فرست سے دیکھ لینا بلکل بھی منع نہیں کروں گا ۔ماہین کی جمی ہوئی نظریں اب بھی خود محسوس کرتا ہوا شرارت سے مسکرایا تھا ۔

ارتضی کو مسکراتے دیکھ فورا سے نظریں جھکا گئی تھی ۔

********  

بہت پیارے لگ رہے ہیں دونوں ایک ساتھ ۔یلو کلر کی گہردار فراک پر شوکنگ پنک کلر کے ڈوپٹے کو شانوں پر اسٹال سے پھیلائے ہوئی حیا شاکرہ بیگم کے برابر آکر کھڑی ہوئی تھی ۔

یہ کیا ہے حیا ۔حیا کو نیچے سے اوپر تک دیکھتی ہوئی وہ اپنا ماتھا پیٹ گئی تھیں ۔

کیا۔پھٹی ہوئی آنکھوں سے وہ پوچھ رہی تھی ۔

ہاتھوں میں بھر بھر کر پہنی چوڑی اور گجرے پہنے ہوئے دیکھ کر انہیں زیادہ عجیب نہیں لگا تھا ۔

مگر گردن میں ڈالے ہوئے گولڈ کے بھاری نیکلیس ساتھ کانوں میں ڈالے وزنی آویزے دیکھ وہ اپنی بیٹی کے سجنے سنورنے کے پاگل پن کو دیکھ کر حیران  ہوئیں تھیں ۔

یہ کیسے آیا تمہارے پاس۔رہی  سہی کسر کشادہ پیشانی پر لگائے ہوئے  شاکرہ بیگم کی شادی کے مانگ ٹیکے نے پوری کردی تھی ۔

مانگ ٹیکے پر ہاتھ لگا  کر پوچھتی ہوئیں حیرانگی سے پوچھ رہی تھیں وہ مانگ ٹیکا جو انہوں نے ہمیشہ سے ہی حیا سے چھپاتی آئی تھیں آج حیا کو پہنے دیکھ وہ پوچھ گئی تھیں ۔

یہ اتنی ساری جیولری کیوں پہنی ہے تم نے۔ماہین دلہن ہے وہ تو اتنا نہیں سجی سنوری ہے وہ بھی تو بچی ہے ۔

مگر نہیں ساری نزاکتیں اور ادائیں تو تم میں ہیں ۔شاکرہ بیگم کی بات پر حیران ہوتی ہوئی وہ رخ پھیر گئی تھی ۔

اب جاؤ اور یہ ساری جیولری اتار کرآؤ ۔

کیوں ۔حیرت سے پوچھ رہی تھی ۔

کیونکہ تم دلہن سے زیادہ تیار ہوئی ہو ۔وہ اس کی ماں تھی اس کے ہی انداز میں بولی تھیں ۔

میرا کیا قصور ہے ماہین آپی تو ویسے  ہی اتنی پیاری ہیں انہیں ان اب کی ضرورت نہیں پڑتی اور نا ہی انہیں شوق ہے ہیوی جیولری کا ۔

مگر مجھے تو ہے نا تو میں کیوں اتار دوں میں تو نہیں اتارنے والی ۔ڈھٹائی سے بولتی ہوئی وہ حمدان صاحب کے پاس کھڑی ہوگئی تھی ۔

ارے واہ آج تو میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے ۔

سچ بابا جانی ۔۔سنیں امو ایسی ہوتی ہے تعریف آپ کی طرح نہیں ۔حمدان صاحب اور حیا کو دیکھ وہ مسکرائیں تھیں ۔

بابا جانی چاچو وہاں کیوں کھڑے ہیں ۔ریاض صاحب کو ایک کونے میں اکیلے کھڑے اسٹیج پر ارتضی کے ساتھ بیٹھے دیکھ حمدان صاحب  ان کی طرف بڑھے تھے ۔

ریاض ۔حمدان صاحب کی آواز پر اپنی نم آنکھیں صاف کرتے   

ہوئے ان کی سمت مڑے تھے ۔

افسردہ ہورہے ہو ۔حمدان صاحب کے سوال پر ان کی آنکھیں پھر نم ہوئی تھیں ۔

نرجس کے وقت اتنا احساس نہیں ہوا تھا مگر ماہین کو اپنے سے دور جانے کا سوچ کر ہی آنکھیں خود بخود نم ہوجاتی ہیں ۔واپس سے اسٹیج کی طرف رخ موڑ گئے تھے ۔

حوصلہ رکھو ۔ریاض صاحب کا کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے خود بھی حیا کو سوچ  کر افسردہ ہوئے تھے ۔

حوصلہ ہی حوصلہ ہے چلیں رسم بھی تو کرنی ہے ۔مسکرا کر کہتے ہوئے حمدان صاحب کے ساتھ اسٹیج کی سمت بڑھے تھے ۔

******* 

کیسی لگ رہی ہوں ۔حیدر کے سامنے کھڑی ہوتی ہوئی حیا مسکرائی تھی ۔

اچھی لگ رہی ہو ۔مختصر بے لچک سے لہجے میں جواب دیتا ہوا چیئر پر بیٹھا تھا ۔

یہ کیا ہوتا ہے اچھی لگ رہی ہو !خوبصورت نہیں لگ رہی کیا ۔حیا کو اپنی ساری تیاری پر حیدر کے بے لچک لہجے سے پانی پھیرتے دیکھ بدمزہ ہوئی تھی ۔

حیا کے پوچھے گئے سوال پر حیدر نے ہلکی سی آواز میں کچھ بولنے لگا تھا جسے سننے کی خاطر حیا اس کے برابر میں رکھی چیئر کو گھسیٹ کر اس کے قریب ہو بیٹھی تھی ۔

 اپنے چہرے پہ ہی چہرہ نیا بنواؤں گا 

جیسا تو چاہے ویسا ہی نظر آؤں گا 

حیا کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی تھی ۔جبکہ سیاہ سوٹ میں گردن میں گولڈن وائیٹ کلر بنارسی شال ڈالے حیدر شاہ اپنی پروقار شخصیت کے ساتھ حیا پر سحر طاری کیے ہوئے تھا ۔  

میں شجر ہوں تیرے ہونے سے ہی سر سبز ہوں

تجھ سے بچھڑوں گا تو اک دن میں ہی اجڑ جاؤں گا

اب کی بار حیدر شاہ کی نظریں مخملی کارپیٹ پر ٹھہری تھی۔

روز محشر مجھے خالق نے اگر مہلت دی 

ایک غزل تجھ پہ میر تقی میر سے لکھواؤں گا

حیا کو یقین نہیں آرہا تھا کہ حیدر کبھی اس کی تعریف میں غزل کہے گا۔حیرانگی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجائے وہ حیدر شاہ کو سن رہی تھی ۔

دھڑکنیں دل کی  تیرے نام سے منسوب ہیں اب

تجھ سے چاہت روکوں گا تو  مر جاؤں  گا

عجیب احساس کے تحت ماہین کا عکس اس کی آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا ۔ 

مصر والے بھلے دشمن سمجھے مجھے اپنا 

میں ذولیخا کی حمایت میں چلا جاؤں گا 

ماہین کا خیال آتے ہی اس کی آنکھیں نم  ہونے لگی تھی ۔آنکھوں میں آئی کو وہ واپس سے دھکیلتا ہوا حیا کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کررہا تھا ۔

تو اپنا قدم ساتھ بڑھا میرے بہاؤ کی طرف

انتہا  پر  میں  سمندر  ہی  نظر  آؤں  گا 

حیدر کو خود دیکھتے پاکر حیا  سرشار ہوئی تھی ۔

مطلب میں اکیلی نہیں تھی تم سے محبت کے سفر میں ۔اس کی سمجھ میں یہ ہی آسکا تھا ۔

ہم کو رہتا ہے نمازوں میں بھی اس کا ہی خیال 

جانے کیا رب سے میں سجدوں کی جزاء پاؤں گا۔

اب کی بار اوپر کی طرف دیکھتا ہوا وہ لب دبا گیا تھا ۔

مہندی کی تمام تر رسموں کے بعد شاہ حویلی کے مکین اپنی منزل جانب رواں دواں ہوئے تھے سوائے حیدر اور ارتضی شاہ کے ۔

وہیں پسینے میں شرابور ارتضی شاہ اپنی مہندی میں خوب ہلاغلا مچانے کے بعد حیدر شاہ کے ہمراہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تھا ۔ایک آخر نظر ماہین پر ڈالتا ہوا وہ مسکرا رہا تھا۔

اتنا آسان نہیں تھا ارتضی شاہ کے لیے یہ سفر آگے بہت سے مشکلات بانہیں کھولے ارتضی شاہ کی منتظر تھیں ۔

یہ سب جاننے کے باوجود بھی ارتضی شاہ ماہین کو حاصل کرلینے کی خوشی کو محسوس کررہا تھا ۔

بالوں کو پیچھے کرتا ہوا وہ گاڑی میں جا بیٹھا تھا ۔

مسکرا لو ارتضی شاہ یہ مسکراہٹ کچھ گھنٹوں کی مہمان ہے تمہارے پاس ۔سرد مہری سے اپنے حنائی ہاتھوں کو دیکھ کر ماہین اپنے منصوبے کو سوچ کر تلخی سے مسکرائی تھی ۔

رات کی چار بجے سب تھکان کی وجہ سے بے خبر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے ۔

وہیں ماہین شاہ سیاہ چادر میں خود کو چھپائے ریاض صاحب کو کمرے  کے درواز کے پاس نم آنکھیں لیے کھڑی تھی ۔

میں بہت بری ہوں بابا اس لیے آپ کے فیصلے کا ماں نہیں رکھ پائی ،ارتضی اتنے برے نہیں ہیں مگر وہ جب مسکراتے ہیں نا تو  مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں ہار گئی ہوں خود کے ہی  دعوے الٹے پڑتے محسوس ہوتے ہیں ۔

اور میں نہیں چاہتی کہ وہ فاتح ہوں اور شکست یاب اس لیے جارہی ہوں بابا آپ کی عزت کی پاسبان نہیں بن پاؤں گی ۔خدا حافظ 

آنسوؤں سے تر چہرے کو لیے وہ آخری نظر پورے گھر میں دوڑاتی ہوئی داخلی دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔

بھائی کیا آپ مجھے شہر تک چھوڑ دیں گے ۔گارڈ کو سوئے دیکھ وہ سامنے سے گزرتی ہوئی کار کو اشارے سے رکواتی ہوئی  ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر  ہلکی سی آواز میں بولی تھی ۔

سرکار سائین  ،بی بی سرکار سیاہ چادر میں رات کے اس پہر بخاری ولا سے نکلی ہیں ۔

اور خدا بخش کو انہوں نے شہر چھوڑنے کی گزارش کی ہے۔بخاری ولا میں تعینات کیے ارتضی شاہ کے چند گارڈز جو عام حلیے میں ہر وقت بخاری ولا پر نظر رکھے ہوئے تھے ۔

فارم ہاؤس پہنچوں انہیں لے کر ۔حکم صادر کرتا ہوا وہ خود بھی حویلی سے نکلا تھا ۔

پلیز ۔آجائیں، ،نظریں نیچی کیے ڈرائیور نے بیٹھنے کو کہا تھا ۔

ماہین۔۔۔کرب سےآنکھیں میچ کر کھولتا ہوا  وہ ریش ڈرائیونگ کرنے لگا تھا ۔

کچھ دیر بعد ارتضی شاہ فارم ہاؤس کے پورچ ایریا میں پریشانی سے چکر کاٹتا ہوا ماہین کے اس پہر گھر سے بھاگنے کا سوچ کو خود کے غصے پر ضبط کیے ہوئے تھا ۔

یہ کہاں لے کر جارہے ہیں آپ مجھے گاڑی روکیں ۔گاڑی کو کسی بڑے سے گھر میں داخل ہوتے دیکھ وہ اپنی بے وقوفی پر پچھتائی تھی ۔

میں کہا گاڑی روکیں، اب کی بار بھرائی آواز میں چلائی تھی ۔ 

بی بی سرکار تھوڑی دیر کی بات ہے ۔سائیں سرکار آپ کو سب بتا دیں گے ۔پورچ میں گاڑی کو بریک لگاتا ہوا ڈرائیور سامنے کھڑے ارتضی کو دیکھ کر فورا سے گاڑی سے اترا تھا ۔

بی بی سرکار سن کر ماہین کے اوسان خطا ہوگئے تھے ۔

عجیب سی سرسراہٹ پورے جسم میں دوڑی تھی ۔

جس شخص سے بھاگنا چاہتی تھی آج پھر گھوم پھر کر وہ اس ہی شخص کے پاس پہنچ گئی تھی ۔

جاؤ ۔سر جھکائے کھڑے ملازموں کو جانے کا کہتا ہوا کار کا بیک ڈور کھول کر ماہین کو باہر آنے کا کہہ گیا تھا ۔

آپ باہر نکل رہی ہیں یا میں خود نکالوں ۔ڈانٹ دبائے وہ دھاڑا تھا ۔

لرزتے وجود کے ساتھ باہر نکلتی ہوئی وہ ارتضی کے چہرے پر چھائے کڑے تاثرات دیکھ کر مزید ڈری تھی ۔

ماہین کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتا ہوا اندر کی طرف بڑھا تھا ۔

وہ تو فقط گھیسٹتی ہوئی ارتضی کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ۔

لائن قطار سے کھڑے ملازمین سر جھکائے ان کو دونوں کو جاتے دیکھ مزید نگاہ جھکائے ہوئے تھے ۔

روم میں لاتے ہی ماہین کو پکڑے ہوئے ہاتھ سے آگے کرتا ہوا ارتضی اسے جھٹکے سے بیڈ پر بیٹھا گیا تھا ۔

خود ایک ٹانگ بیڈ پر رکھتا ہوا وہ ماہین پر جھکا تھا ۔

بہت بھاگنے کا شوق ہے نا آپ کو مجھ سے دور ۔جبڑے بھینچے وہ ضبط سے بولا تھا ۔

ارتضی کے خوف سے لرزتے ہوئے وجود کے ساتھ ماہین کے آنسو بہنے شروع ہوئے تھے ۔

جن ٹانگوں سے آپ ہر وقت بھاگنے کے لیے تیار رہتی ہیں نآ ان ہی ٹانگوں کو چلنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا ماہین شاہ پھر بھاگ کر دکھانا مجھے ۔غرلاتے ہوئے وہ ماہین کے آنسوؤں کو یکسر اگنور کرگیا تھا ۔

ہر ایک شخص بھی اعتبار لائق نہیں ہوتا ماہین شاہ ۔

ایسے حیرانگی سے مجھے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، ماہین کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں اچانک سے اٹھی تھیں ۔

جب سے آپ میرے نکاح میں آئی ہیں نا جب سے میری تمام تر سورسز اور کڑی نظر ہر وقت آپ پر ہی رہتی ہے، 

سو ٹو بی کیئر فل فار دا نیکسٹ ٹائم مائے ڈیئر وائف ۔ماہین کے آنسوؤں سے تر رخسار کو اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلاتا ہوا ماہین کی آنکھوں میں خود کے لیے خوف دیکھ کر محفوظ  ہوا تھا۔

ساری بات اب ماہین کی نظریں آئی تھی، رات کے اس پہر بخاری ولا کرتیں سامنے کار میں موجود شخص اور پھر اسے اتنی آرام سے شہر تک چھوڑنے پر راضی ہوجانا مطلب وہ شخص ارتضی شاہ کا تعینات کیا ہوا تھا اس پر نظر رکھنے کے لیے ۔

اب اپنے آنسو صاف کریں اور گھر جائیں،نیند تو اب آپ کو ویسے بھی نہیں آئے گی تو بہتر رہے گا جلدی سے تیار ہوجائیے گا۔

ایک بات اور ماہین شاہ آخری بار آپ کو معاف کررہا ہوں اگر دوبارہ آپ نے اپنے قدم میری اجازت کے بغیر باہر نکالے تو میں اپنی بات پوری کرتے ہوئے ایک پل کے بھی پیچھے نہیں  ہٹوں گا ۔ارتضی شاہ کی خون خوار نظروں سے وہ رخ موڑ گئی تھی ۔

چلیں ۔ماہین کے سر پر چادر اوڑھاتے ہوئے ارتضی شاہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔

مضبوط قدموں کے ساتھ چلتا ہوا وہ ماہین کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا ۔

ماہین جو ارتضی شاہ کے سرد رویے اور خود کے پکڑے جانے پر نم پلکیں لیے مردہ قدموں سے چل رہی تھی ۔

بی بی کو واپس سے بخاری ولا  چھوڑ آؤ اور زرینہ آپ ساتھ جاؤ بی بی کے ۔ماہین کو گاڑی میں بیٹھا کر وہ زرینہ کو مزید ہدایت دیتا ہوا دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر ماہین کو جاتے دیکھ رہا تھا ۔

********

اب وقت  آگیا ہے ارتضی مجھ کو دیئے وعدہ کو پورا کرنےکا ۔وائیٹ گولڈن کلر کی شیروانی پہنے وہ بلکل تیار تھا دلاور شاہ کی بات پر اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی تھی ۔

سن گن ملی ہے مجھے کہ صائمہ پھوپھو رات سے شاہ حویلی میں ہی ہیں ۔

میں نے تو فقط شادی میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا یہ نہیں پتہ تھاکہ آپ دونوں پچیس سال بعد اچانک میری شادی پر صلح ہوجائے ۔چلیں یہ ایک دن تو ہونا ہی تھا۔ارتضی کو نا سمجھی سے دیکھتے ہوئے اس کے بالوں کو کومب کرتے ہاتھوں کی حرکت پر زچ ہوئے تھے ۔

 مگر ان کی محبت کے آگے آپ سب کچھ فراموش کرنے کو تیار ہیں اپنےبیٹے کی خوشیاں تک آپ کو نظر نہیں آرہی  بابا ،شیشے میں ابھرتے دلاور شاہ کے عکس کو دیکھ کر وہ افسردگی سے سوچ کر رہ گیا تھا ۔

کہنا کیا چاہ رہے ہو آخر تم ۔

یہی کہ میں آپ کا بیٹا ہوں اور بلکل بھی آپ پر نہیں گیا رہی بات وعدے کی تو وہ پورا ہونے کے لائق لگا تو ضرور پورا کروں گا ۔

تم اپنی زبان سے پھر رہے ہو ارتضی ۔ارتضی کا لہجہ انہیں بغاوت کا اعلان کرتا ہوا لگا تھا ۔

میں نے یہ کب کہا بابا سرکار کہ میں  وعدہ پورا نہیں کرنے والا کروں گا ۔

آجائیں پھوپھو اندر ۔دروازے پر کھڑی صائمہ کو دیکھ کر وہ انہیں پکار گیا تھا ۔

صائمہ انصاری اور وہاں ہی ارتضی کی شادی میں شامل ہوئے تھے وہاج نے صاف انکار کردیا تھا شادی میں شرکت کرنے سے ۔کمرے میں داخل ہوتی ہوئی وہ دلاور شاہ کے برابر میں کھڑی ہوئی تھیں ۔

آپ سے ایک سوال پوچھنا تھا ۔ 

ہاں کیوں نہیں ۔ارتضی کے انداز پر وہ بھی دلاور شاہ کو دیکھ رہی تھیں ۔

آپ سب سے زیادہ کس شخص کی مقروض ہیں ،اچانک سوال پر وہ بکھلائی تھیں ۔ 

ابھی کے لیے اتنا کافی ہے ارتضی بس تم اپنی زبان پر قائم رہو ،ارتضی کو تنبیہ کرتے ہوئے صائمہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر دلاور شاہ وہاں سے گئے تھے ۔

دیکھتے ہیں بابا سرکار میں بھی ایک سیاست دان  کا بیٹا ہوں  ۔کلون کی خود پر بارش کرتا ہوا وہ اپنی سوچ پر مسکرایا تھا ۔

********

خوبصورت میک اپ کے ساتھ  پنک گولڈن کلر کے برائیڈل ڈریس میں آج برات کی نسبت کافی ہیوی جیولری بے دلی سے پہنے ہوئی تھی، ساری جیولری خاص طور پر شاہ حویلی سے اس کے لیے آئی تھی ، 

 اپنے سوگوار حسن کے ساتھ اپنی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہی تھی، 

 ریڈ کلر کا نیٹ کا کام دار ڈوپٹہ ہاتھوں میں لیے بیٹھی تھی جو نرجس اسے پکڑا کر گئی تھی ۔

یہ ڈوپٹہ ہاتھ لے بیٹھی ہو اب چہرہ ڈھانپنا ہے اس سے پاگل لڑکی ،اب صحیح ہے ۔ نرجس کے سامنے لبوں پر مسکراہٹ سجائے وہ پلکیں جھکا گئی تھی ۔

میرائن کلر کے غرارے اور شارٹ فراک زیب تن کیے سیمپل سے میک اپ پر حیا آج جیولری کے نام پر فقط جھومر لگائے ہوئے تھی۔

ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ آج تو ارتضی بھائی کی خیر نہیں ۔حیا شرارت سے بولی تھی ۔

ارتضی کے نام پر ماہین کو صبح کی اپنی اور ارتضی کی ہوئی ملاقات یاد آئی تھی ۔

حیا جلدی آؤ نیچے، شاکرہ بیگم کی آواز پر وہ فورا سے نیچے  بھاگی تھی ۔

سارا ٹائم حیدر شاہ اپنی سرخ  آنکھیں سب سے چھپائے پھر رہا تھا ،

وہیں دلاور شاہ کو ہول اٹھ رہے تھے ارتضی کو خاموش دیکھ کر ۔

بھابھی اب تک تیار نہیں ہوئی کیا ،رائمہ کے حیا سے پوچھے گئے سوال پر ارتضی کے کان کھڑے ہوئے تھے ۔

بس ابھی آجائے گی آپ کی بھابھی،حیدر کو خود سے کتراتے دیکھ حیا پریشان ہوئی تھی ۔

کچھ دیر بعد ماہین کو ارتضی کے ساتھ لاکر بٹھایا گیا تھا ۔

مگر ارتضی نے ماہین کو ایک نظر دیکھنے کی زحمت تک نا کی تھی ،اس کا احساس ماہین  کو بخوبی ہوا تھا ۔

رسموں کے دوران بھی دونوں ایک دوسرے سے انجان بنے ہوئے بے دلی سے رسموں کا حصہ بنے ہوئے تھے ۔

حیدر سب کو کام کا کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا ،مزید دیر وہاں رکنا اس کے لیے محال تھا ۔ 

سب کی دعاؤں اور قرآن پاک کے سائے میں ماہین رخصت ہوکر ارتضی کے ہمراہ شاہ حویلی اپنے گھر پہنچی تھی ۔

ماہین کی جانب ہاتھ بڑھاتا ہوا ارتضی شاہ اس کا منتظر تھا ۔

جو گھونگھٹ سے ارتضی کے بیزار چہرے کو دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی  افسردہ ہوئی تھی ۔

ارتضی کی چوڑی ہتھیلی پر اپنا نازک ہاتھ رکھتی ہوئی آنکھیں جھکائے ہوئی تھی ۔

اپنی ہمراہی میں ماہین کو حویلی میں لاتا ہوا ارتضی شاہ سرشار ہوا تھا۔

 مگر چہرے پر سنجیدگی لیے وہ ماہین کے ساتھ ہی لیونگ روم میں رکھے کاؤچ پر بیٹھا تھا ۔

کوئی مزید رسم نہیں ہوگی اب آپ سب بھی تھک گئے ہونگے  ۔آرام کرلینا چاہئے اور ماہین بھی تھک گئی ہوگی ،رائمہ بھابھی کو لے جاؤ ۔شاہدہ بیگم کی بات پر سب متفق ہوئے تھے ۔

رائمہ چند ملازماؤں کے ساتھ ماہین کو ارتضی کے کمرے تک چھوڑنے  گئی تھی ۔

ایک ایک کرکے سب کو جاتے دیکھ ارتضی شاہدہ بیگم کو وہیں بیٹھے دیکھ ان کے پاس آیا تھا ۔

ماں آپ تھک گئی ہونگی آپ بھی آرام کرلیں ،ارتضی ان سے خاطب ہوا تھا۔

اور تم ۔شاہدہ بیگم اپنی جگہ سے اٹھی تھیں ۔

میں بھی چلا جاؤں ۔گرنے کے انداز سے وہ کنفرٹ کی پشت سے ٹیک لگائے وہ مبہم سا مسکرایا تھا ۔

جلدی چلے جانا زیادہ انتظار نہیں کروانا ماہین کو ۔ارتضی کے بالوں کو بکھرتی ہوئیں وہ اپنے کمرے کی سمت بڑھی گئی تھیں ۔

وہ میرا انتظار کر ہی نا لے ۔تلخی سے سوچتا ہوا وہ حویلی کے کونے والے کمرے میں بند ہوا تھا ۔

*******

تازے گلاب کے پھولوں اور کینڈلز کے ساتھ سجایا گیا ارتضی شاہ کا کمرہ جس کا دروازہ کھولتے ہی چار سو گلاب کی خوشبو پھیل گئی تھی ۔

عجیب احساس کے ساتھ رائمہ کا ہاتھ تھامے وہ اندر داخل ہوئی تھی ۔

ویسے مجھے یقین نہیں آرہا آپ میری بھابھی بن گئی ہیں ۔رائمہ کی بات پر وہ ہلکا سا مسکرائی تھی ۔

اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیے گا میں فورا سے حاضر کروا دوں گی ۔ماہین کو بیڈ پر بیٹھا کر وہ وہاں چلی گئی تھی ۔

کینڈلز جلنے کی وجہ سے کمرے کافی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔

جہازی بیڈ کے سامنے رکھی ڈیسنٹ سی ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں ابھرتے اپنے  عکس کو دیکھ کر بیڈ سے اترتی ہوئی وہ پورے کمرے کا جائزہ لینے لگی تھی ۔

پورے کمرے بک ریکرز کے علاوہ جہازی بیڈ  ایک عدد دیوان اور اس کے سامنے رکھی ٹیبل دکھی تھی ورنہ تو سارا کمرہ ہی بک ریکرز پر مشتمل تھا۔

گلاس ونڈو پر سے پردہ ہٹا کر وہاں کھڑی ہوئی تھی ،آسمان پر چودہویں کے چاند کر کو دیکھ کر وہ افسردہ ہوئی تھی ،

کتنا کچھ بدل گیا تھا اس کی زندگی میں ارتضی جیسے شخص کو تو اسے نے تصور میں بھی اپنے ہم سفر کے روپ نہیں دیکھا تھا۔

اس نے تو خود پر پابندی عائد کی ہوئی تھی محبت کرے گی تو  فقط اپنے  ہمسفر سے اپنے محرم سے  مگر یہاں تو سب الٹا ہوگیا تھا ،

محبت تو دور وہ ارتضی سے نفرت بھی کرتی تھی یا نہیں وہ خود ان سوچوں میں الجھی ہوئی تھی ۔

نم آنکھیں لیے وہ واپس سے بیڈ پر آبیٹھی تھی ۔

مسلسل بیڈ پر بیٹھی ہوئی وہ تھک گئی تھی ۔

جب تک ارتضی نا آئے جب تک اس کا انتطار کرنا ہے تمہیں یہ نا ہو وہ آئے اور تم سوئی ہوئی ہو  نرجس کی بات یاد کرتی ہوئی انتطار کرتی ہوئی ہلکان ہوئی تھی ۔

ارتضی کا انتظار کرتے ہوئے  ماہین کب سو گئی اسے خود کو خیال نہیں رہا تھا ۔

صبح چھ بجے کے قریب کمرے میں داخل ہوتا ہوا ارتضی ماہین کو بیڈ پر بنا کپڑے چینج کیے آرام سے سوئے ہوئے دیکھ حیران ہوا تھا۔

اتنی بڑی غلطی ہوگئی مجھ سے ،ماہین کے پاس دونوں زانوں کے بل بیٹھتا ہوا وہ اپنی حماقت پر پشیمان ہوا  تھا ۔

غلطی آپ کی ہے بلاوجہ  بنا کسی جواز کے آپ مجھ سے نفرت کرتی ہیں، 

آپ مجھے بتائیں تو سہی کہ میں نے ایسا کیا کیا ہے جس وجہ سے آپ مجھ سے نفرت کرتی ہیں، سوئی ہوئی ماہین سے سوال کرتا ہوا اسے اس اپنے اتنے قریب دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

سوری ،میں آپ کو اپنے رویے سے بہت ہرٹ کرنے والا ہوں آپ کی وہ سے ہی ۔ کھڑا ہوتا ہوا کرتے کی سائیڈ جیب سے شاہدہ بیگم کا دیا ہوا مخلمی کیس ڈریسنگ ٹیبل کے داز رکھ کر ڈریسنگ روم سے اپنے کپڑے نکالتا ہوا ماہین پر ایک نظر ڈال کر شاور لینے کی غرض سے باتھروم میں گیا تھا ۔

پندرہ منٹ کے شاور کے بعد باہر آتا ہوا وہ ماہین کو ہنوز سوتے دیکھ مسکرایا تھا ۔

مس ایٹیٹوڈ سوتے ہوئے کیوٹ لگ رہی ہیں آپ ،

تھوڑی دیر ماہین کو کسمساتے دیکھ وہ اپنے چہرے پر سنجیدگی لیے دیوان پر براجمان ہوا تھا۔

ارتصی ڈریسنگ ٹیبل کے داز سے خاکی لفافہ نکال کر ماہین کے پاس آکھڑا ہوا تھا  ۔

یہ لیں آپ کے حق مہر کی رقم ،بیڈ ہر ہنوز رات کے بکھرے حلیے میں بیٹھی ہوئی ماہین ارتضی کو دیکھ سیدھی ہو بیٹھی تھی ۔

جب میں کمرے میں آیا تھا تو آپ بڑے ہی آرام سے میری بیڈ پر سوئی ہوئی تھیں، ارتضی نے طنز کیا تھا جسے وہ سمجھ نہیں سکی تھی۔

 آپ کو جگانا مناسب نہیں لگا مجھے اس لیے  اب یہ رقم آپکو دے رہا ہوں ،عام سے انداز میں بولتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل کی سمت بڑھا تھا ۔

اپنے سامنے پڑے ہوئے لفافہ کو ماہین حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔

اور یہ لیں آپ کی منہ دیکھائی ،سرخ مخملی کیس ماہین کی سمت بڑھاتا ہوا وہ ماہین کے حیرت زدہ تاثرات دیکھ کر مزید سنجیدہ ہوا تھا ۔

ویسے دس بار دیکھی گئی شکل پر منہ دیکھائی کا گفٹ بنتا تو نہیں ہے پر کیا جا سکتا ہے روایت ہے پوری تو کرنی ہوگی ۔بیزاری سے کہتا ہوا وہ ہاتھ میں پکڑے مخملی کیس کے ساتھ کھیلتا ہوا ماہین کے ضبط کو آزما رہا تھا۔

 آپ کے دیکھے ہوئے چہرے کو گفٹ  دینے کا  مجھے بلکل بھی  شوق نہیں ہے اور ناہی اس روایت کو پورا کرنے کا پر کیا کروں مجبور ہوں،کندھے اچکاتا ہوا صبح صبح ماہین کو حیران کرنے پر تولہ تھا۔

 کیونکہ نیچے سب سے پہلے آپ سے یہ ہی سوال کریں گے سب ارتضی نے کیا دیا ، شاہ نے کیا دیا ،کیا ملا ذرا دیکھاؤ تو سہی ۔ تمخسرانہ ہنسی ہنستا ہوا وہ ماہین کے حیرت سے کھولتے منہ کو دیکھ کر رخ موڑ گیا تھا ۔

ایک منٹ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ دس دفعہ دیکھا ہوا چہرہ صاف جھوٹ بول رہے ہیں آپ ،ارتضی تو اس کے آپ کہنے پر حیران ہوا تھا ۔

اور منہ دیکھائی کا گفٹ دینا شوہر کا فرض  ہوتا ہے  ۔

اس لیے  بیوی کو دیاجاتا ہے چاہے پھر کچھ بھی ہو  اور ویسے  بیوی کے روپ میں تو آپ نے مجھے پہلی بار ہی دیکھا ہے ،ارتضی کے روبرو کھڑی ہوتی ہوئی وہ دو دو ہاتھ کرنے کو تیار تھی ۔

بیوی جی آپ کو بیوی کے روپ میں پہلے بھی تین بار دیکھ چکا ہوں ،تازی تازی ملاقات تو یاد ہی ہوگی آپ کو صبح پانچ بجے والی، ارتضی کے طنز پر وہ شرمندہ ہوئی تھی ۔

اب جواب ہے آپ کے پاس ہے بیوی جی ،بیوی پر خاصا زور دیتا ہوا وہ واپس سے اپنی جگہ پر جا بیٹھا تھا ۔

ہاں تو یہاں مطلب رخصتی کے بعد تو پہلی بار دیکھ رہے ہیں نا آپ مجھے ،دونوں ہاتھ کمر پر رکھتی ہوئی وہ ارتضی کے سر پر آدوڑی تھی ۔

تو رخصتی سے پہلے گھر سے کیوں بھاگی تھیں آپ ،چبا کر پوچھتا ہوا ماہین کو ہنوز خاموش دیکھ اپنا سیل فون چلانے لگا تھا۔

 میں تیار نہیں  تھی آپ کے ساتھ شادی پر ۔وہ منمنائی تھی ۔اسے کہاں ارتضی تلخی برداشت ہورہی تھی ۔ 

اب تیار ہوگی ہیں آپ، بھنویں سیکڑ ہوئے ارتضی کو حیرت ہوئی تھی ۔

نہیں میں یہ بھی نہیں کہا ،اور یہ میرا گفٹ ہے ،ارتضی کے ہاتھ سے چھینتی ہوئی وہ واپس سے اپنی جگہ پر بیٹھی تھی ۔

میں آپ کی طرح نہیں ہوں نا کسی سے بھی بلاوجہ نفرت پالنے والا ،ماہین کے حق جمانے والے انداز پر وہ خوش تو بہت ہوا تھا مگر اپنی خوشی ظاہر نا کرتا ہوا وہ شکوے کن انداز میں جتا گیا تھا ۔

اتنا تو مجھے یقین ہے کہ میں آپ سے نفرت نہیں کرتی ۔ارتضی کو دیکھتی ہوئی وہ دل میں سوچ رہی تھی ۔

ہاں تو ہم مجھے کسی سے نفرت کرنے کے لیے کسی جواز کی ضرورت نہیں پڑتی اور آپ کے لیے تو بلکل بھی نہیں پڑی ،خود کو کمپوز کرتی ہوئی عام سے انداز میں بولی تھی ۔   

اور آج جو میں اتنے اچھے سے بات کررہی ہوں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے  ،آپ جلاد ہیں اور رہے گے ،آج بھی جلاد پن ہی دکھایا ہے ۔رات بھر ارتضی کا انتظار کرنے والی اپنی  بیوقوفی کو سوچ کلسی تھی ۔

ساری سوچیں جھٹکتی ہوئی  مخملی کیس کھول کر سمپل سے گولڈ بریسلیٹ کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔

اور آپ کو بھی زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ گفٹ میری طرف سے نہیں ہے ۔ماہین کے مسکراتے چہرے کو دیکھ وہ اس کے ہی انداز میں  بے دلی سے بولا تھا ۔  

جس پر ماہین نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا ۔

ماں سرکار نے دیا تھا یہ آپ کے لیے مجھے بخاری ولا سے واپسی پر  ۔ماہین کے چہرے پر نا سمجھی کے تاثرات دیکھتا ہوا گہرا سانس باہر  خارج کرگیا تھا ۔

ہمارے ہاں یہ روایت ہے اور بھی بہت سے فیملیز میں یہ بھی ہوتا ہوگا ،

 شادی والی رات اپنے بیٹے کو کمرے میں جانے سے پہلے بابا تحفہ دیتے ہیں اسے  تاکہ وہ اپنی بیوی کو دے دے اس  لیے،  اس لیے مجھے ماں سرکار نے دے دیا تھا۔انہیں لگا میں نے آپ کے لیے کچھ نہیں خریدا ہوگا اس لیے ۔تفصیل سے بتاتا ہوا وہ کندھے اچکا کر  مسکرایا تھا ماہین کے شاکڈ فیس کو دیکھ کر ۔

جلاد سے مجھے نا کوئی امید ہے اور نا ہی کوئی اچھے کام کی توقع ہے ۔

ارتضی کا اس کے لیے گفٹ نا لانا اسے برا لگا تھا ۔کیس کو بیڈ پر پھینکنے کے انداز سے اٹھتی ہوئی اپنے بھاری ڈریس کو سنبھالتی ہوئی بمشکل  ڈریسنگ روم میں رکھے اپنے سوٹ کیس سے کپڑے نکالتی ہوئی وہ غصے سے باتھروم گئی تھی ۔

میڈم کو فرق پڑتا ہے  ۔ماہین کو اس طرح غصے سے باتھروم میں جاتے دیکھ وہ اپنا قہقہ ضبط کرگیا تھا۔

جلدی سے فریش ہوجائیں نیچے ساتھ چلنا ہے ہمیں ۔اونچی آواز میں بول رہا تھا ۔

بول تو ایسے رہے ہیں ساتھ جائیں گے کوئی پوچھے تو سہی رات بھر  کہاں تھے۔

فریش ہوکر باہر آتی ہوئی وہ ارتضی کو بیڈ پر دراز دیکھ  بڑبڑائی  تھی ۔

ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی چھوٹی سی بلیو کلر کی مخملی ڈبیہ کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی ۔

حیران نا ہوں آپ کا منہ دیکھائی کا گفٹ ہے جو دینا لازم تھا مجھ پر ۔دیکھا تو نہیں تھا اچھے سے آپ کو مگر صبح بھوتنی کی شکل دیکھ کریہ گفٹ  دینا پڑا ۔اپنی ہنسی ضبط کرتا شیشے میں ابھرتے ماہین کے عکس کو دیکھ وہ بظاہر عام سے لہجے میں بول رہا تھا ۔

نہیں چاہیے مجھے ،دل پر پتھر رکھ کر بولی تھی ورنہ اسے ہمیشہ سے ہی گفٹ لینا پسند رہا تھا اور ارتضی شاہ کا رکھا ہوا گفٹ اسے عجیب سی خوشی دے رہا تھا۔  

نا لیں مرضی ہے آپ کی ویسے بھی میں منتیں نہیں کرتا ،وہ ارتضی شاہ تھا اسے لوگوں کی منتیں کرنی کہاں آتی تھی اسے۔

بدمزگی سے ڈبیہ کو کھولے بغیر دیکھے اس نے دراز میں ڈال دی تھی۔ 

کتنا ٹائم اور لیں گی آپ ویسے ہی لیٹ ہوگئے ہیں ۔ماہین نے اس بار اسے گھورا تھا ۔

اب ایسے مسکینوں  کی طرح مجھے مت دیکھیں  مجھے ترس بہت جلدی آتا ہے خاص کر لڑکیوں پر ،جھوٹ بولتا ہوا دل میں توبہ کرگیا تھا ۔

شادی کے پہلے ہی دن کوئی اپنی بیوی سے ایسے اپنے قصے سناتا ہے ۔ حیرت اور دکھ کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجائے ارتضی کو کمرے سے باہر جاتے دیکھ وہ اس کے پیچھے چلی تھی ۔ 

نیچے آتے ہی سب سے پہلے شاہدہ بیگم نے انہیں دیکھا تھا،ان کے پیچھے سے آتے ہوئے دلاور شاہ انہیں دیکھ کر ان دیکھا کرتے ہوئے لیونگ روم کی سمت بڑھے تھے ۔

صبح بخیر بھابھی، نظریں جھکائے حیدر شاہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔

جواب میں وہ بھی مسکرا کر اسے سلام کرتی ہوئی ارتضی کے پیچھے چل رہی  تھی ۔

اللہ پاک آپ دونوں کی جوڑی کو ہمیشہ سلامت رکھے اور ہمیشہ خوش رکھے ،انہیں جاتے دیکھ دل سے دعا گو ہوا تھا ۔

شاہدہ بیگم کچن میں ناشتے کی تیاری میں مصروف تھیں ۔

دلاور شاہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ارتضی کو دیکھ  حیدر شاہ ان کے برابر میں آکر بیٹھا تھا ۔

حیدر شاہ اور دلاور شاہ کے  ساتھ محو گفتگو کرتے ہوئے ہوئے ارتضی کا دھیان ماہین پر ہی تھا۔

میں دیکھائی کا گفٹ کیا ملا ہے آپ کو ۔ارتضی کی بات پوری ہوتے دیکھ وہ حیران ہوئی تھی اس سے منہ دیکھائی کے گفٹ کا سب ہی مہمانوں نے پوچھا تھا ۔

اپنے سامنے کاؤچ پر سفید کاٹن کے کڑکڑاتے سوٹ پہنے ٹانگ پر ٹانگ رکھے ہوئے ارتضی جو اس کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا،جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہا تھا نا ۔

فورا سے نظریں جھکاتی ہوئی وہ اکتائی تھی سب کو بریسلیٹ دیکھا دیکھا کر ۔  

یہ تو تائی امی نے خریدہ تھا آپ کے لیے ارتضی بھائی نے کچھ نہیں دیا آپ کو ۔ ارتضی کی چچا زاد کے پوچھنے پر وہ ارتضی کو دیکھ رہی تھی ۔

مگر اپنے مقابل بیٹھے ارتضی نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے تھے ۔

اب بتاؤ ،آنکھوں سے اشارہ کرتا ہوا وہ مسکرایا تھا ۔ 

وہ ۔ ردا آپ کو شاید ماں سرکار نے آواز دی ہے شاید، ماہین کے برابر میں آکر بیٹھتا ہوا وہ صاف رہا کو یہاں سے جانے کا کہہ گیا تھا۔

*******

سلور کلر کی گہر دار پیروں کو چھوتی فراک میں سمپل سے میک کیے وہ سیاہ سوٹ میں ملبوس ارتضی کے ساتھ کھڑی  خوبصورت لگ رہی تھی ۔ 

 بڑے ہی خوبصورت انداز میں ارتضی اور ماہین  کے ولیمے کے ساتھ حیدر اور حیا کی منگنی ہوئی تھی۔

 حیدر کے چہرے پر جتنی سنجیدگی تھی اس سے دگنی لائیٹ  پنک  کلر کی ڈریس زیب تن کیے حیا کا  چہرے خوشی سے گلابی ہوگیا تھا ۔

حیا کو خوش دیکھ ماہین کے چہرے پر بھی خوبصورت مسکراہٹ سجی دیکھ کر  ارتصی شاہ کے یہی اپنے لیے غنیمت لگی تھی ۔

 ارتضی اور ماہین  کے ساتھ حیدر اور حیا کو دعائیں دیتے ہوئے ریاض صاحب نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے مسکرائے تھے ۔

ارتضی ڈاکٹر ہیر کی کال آئی ہے اذہان کے جو  چند ٹیسٹ تم نے  کروانے کے لیے کہے تھے ان کی رپوٹس آگئی ہیں ۔ڈاکٹر عامر شہزاد اور بہت سے اسٹاف میں ولیمے میں شرکت کی تھی ۔

سب سے اجازت لیتا ہوا ارتضی ڈاکٹر عامر کے ساتھ ہسپتال کے لیے نکلا تھا  ۔

ارتضی کو جلد بازی میں جاتے دیکھ ماہین اداس ہوئی تھی، اسے ارتضی کی عدم موجودگی خلی تھی ۔

خدا خدا کرکے فنگشن اختتام پر پہنچا تھا اور ماہین نے سکھ کا سانس لیا تھا۔

مجھے کیوں عجیب لگ رہا ہے ڈاکٹر جلاد کے جانے سے ،اپنے ہی سوالوں میں الجھتی ہوئی ملازمہ کے ساتھ کمرے تک آئی تھی ۔

سنو ،جی بی بی سائین، 

آپ کے سائین سرکار کہاں گئے ہیں ۔کمرے میں داخل ہوتے ہی ماہین نے پوچھا تھا ۔

ہسپتال گئے ہیں سائین سرکار، کوئی ضروری کام آگیا تھا ۔سر جھکائے وہ عاجزی سے بولی تھی ۔

ٹھیک ہے تم جاؤ۔

جی بی بی سرکار۔سر کو ہلاتی ہوئی ملازمہ دروازہ بند کرگئی تھی۔

ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھتی  ہوئی وہ دراز سے ڈبیہ نکلتی ہوئی بے خیالی میں مسکرائی تھی ۔

چوائس اچھی ہے ڈاکٹر جلاد آپ کی ،ریڈ روبی ڈائمنڈ کی رنگ دیکھ کر تعریف کیے بغیر رہ نا سکی تھی ۔

ڈبی کو واپس اے بند کرکے رکھتی ہوئی اپنی جیولری اتار کر ڈریس چینج کرنے کی خاطر ڈریسنگ روم کی سمت بڑھی تھی ۔ 

******** 

ماں اذہان کی سرجری تک میں ہسپتال میں ہی رہوں گا ۔آپ ماہین کو بتا دیجئے گا ۔

تین دن ہوگئے تھے ارتضی کو ہسپتال میں اذہان کے پاس رہتے ہوئے اس نے بس فون کرکے اتنا ہی بتایا تھا۔

شاہدہ بیگم اس سے بہت اسرار کیا اسے آنے کے لیے مگر اس نے انکی ایک نا سنی تھی ۔

تم ٹھیک تو ہو نا بیٹا۔ماہین سے پوچھتی ہوئی وہ اسے ارتضی کے آج بھی نا آنے کا بتا گئی تھیں ۔

جی میں ٹھیک ہوں آپ بس آرام کریں ٹینشن نالیں ،مجھے بھی نیند آرہی ۔بیڈ پر کراؤن  سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی  شاہدہ  بیگم کے پاس وہ کافی دیر سے بیٹھی ہوئی تھی ۔بہانہ بناتی وہ مسکرا کر کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔

شروع کے دن ہوتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے اور اس وقت میں شاہ تم اپنے چار سال پرانے ڈاکٹر پن پر آگئے ۔

ماہین کو جاتے دیکھ کر وہ مزید اداس ہوئی تھیں۔

 خالی جانی ،شاہدہ بیگم کو سوتے ہوئے دیکھ وہ دروازہ کو بنا آواز کیے بند کرتی ہوئی ماہین کے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔

یاد آگئی تمہیں میری ،حیا کے آتے ہی ماہین نے شکوہ کیا تھا۔

منگنی کے بعد وہ اب آئی تھی ۔

ایسی بات نہیں ہے کل آنا چاہ رہی تھی پر امو جانی نے منع کردیا تھا اس لیے ۔منمناتے ہوئے وہ ماہین کے پاس آبیٹھی جو  دیوان پر بیٹھی ہوئی بیڈ کے سرہانے لگی ہوئی ارتضی کی فوٹو دیکھ رہی تھی جو شاید چند سال پرانی تھی جس میں ارتضی کی عمر کم اور مسکراہٹ  شوخ لگ رہی تھی ۔

ارتضی بھائی نا سہی ان کی فوٹوزپر گزارا کیا جارہا ہے ،ماہین کی نظروں کا تاکب کرتی ہوئی وہ شرارت سے گویا ہوئی تھی ۔

ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔اپنی چوری پکڑے جانے پر وہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی نظریں جھکا گئی تھی ۔

یاد آرہی ہے ۔

پتا نہیں ۔شادی سے پہلے ہوئی ارتضی کے ساتھ ملاقات سے اس عجیب کیفیت محسوس ہونے لگی تھی اسے ارتضی سوچ کر۔اور ان دنوں میں تو بہت کچھ بدل گیا تھا ۔

فون کروں ،کئی بار کرنے کی کوشش تو کی تھی مگر ہر بار انا آڑے آگئی تھی ۔

حیدر سے ملی ہو تم ۔بڑی آسانی سے بات بدل گئی تھی ۔

نہیں ۔تو جاؤ جاکر مل لو ۔حیا کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

اوکے میں ابھی آئی ۔چہک کر کہتی ہوئی وہ ماہین کے روم سے گئی تھی ۔

کیا ہورہا ہے مجھے، آنکھیں بند کرتی ہوئی وہ اپنی کیفیت سے انجان تھی  ۔

*******

" خود مزاجی بھی مشہور تھی ۔۔۔اب سادگی بھی کمال ہے ۔۔

ہم شرارتی بھی انتہاہ کے تھےاب سنجیدگی بھی بے مثال ہے

تم یہاں پر بیٹھے ہو اور میں پاگلوں کی طرح پوری حویلی میں  ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلکان ہورہی تھی ۔حویلی کے پچھلے حصے میں بنے گارڈن میں گم سم سا بیٹھا حیدر شاہ حیا کی آواز پر مبہم سا مسکرایا تھا ۔

تو تم سیدھی یہاں آتی نا ۔خواہ مخواہ خود کو مجھے ڈھونڈنے میں ہلکان کیا ۔ ویسے پوچھ سکتا ہوں کہ تم مجھے کیوں ڈھونڈ رہی تھیں ۔

اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ جینز کی بلو پینٹ پر ایش گرے شرٹ پہنے ہوا وہ سر سبز ہری گھاس پر بیٹھا ہوا افسردگی سے بول رہا تھا ۔

حیدر کے لہجے میں چھپی افسردگی محسوس کرتی ہوئی وہ حیدر کے برابر میں بیٹھی تھی ۔

کتنے برسوں کا سفر خاک ہوا ۔۔۔۔

 اس نے جب پوچھا ،کیسے آنا ہوگیا ۔۔۔۔،

ویسے ہی خالہ جانی  کے پاس آئی تھی تو سوچا تم سے بھی ملتی جاؤں ۔حیدر کے پروقار چہرے پر سے نظریں چراتی ہوئی وہ حیدر کے لیے اپنے دل میں چھپے جذبات کو بڑی آسانی سے چھپا گئی تھی ۔

بڑی مہربانی ،تمہاری کہ تم مجھ سے ملنے آئی ۔جتا کر کہتا ہوا حیا کو دیکھ کر طمانیت سے مسکرایا تھا ۔

حیدر کو تاسف سے دیکھتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ 

حیا کہاں جارہی ہو ۔ حیدر کی پکار پر اس کے لب مسکرائے تھے فقط حیدر کی فکر سے بھری آواز  پر۔

ماہین آپی کے پاس واپس ،بنا مڑے بولی  تھی ۔

جھوٹی، آ تم ماہین کے پاس سے رہی ہو اور نام کا دے رہی ہو ،حیا کو دیکھ کر اسے افسردہ چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔

زیادہ نہیں بولو سڑی ہوئی ککڑی ۔جارہی ہوں میں 

اب آہی گئی ہو تو تھوڑی دیر تک جاؤں۔ حیا کو جاتے دیکھ واپس سے اداس ہوا تھا ۔

اگر تم اتنا کہہ رہے ہو تو رک جاتی ہوں ،حیدر کے برابر میں بیٹھی ہوئی جتانے والے انداز میں بولی تھی ۔جس ہر حیدر کھل مسکرایا تھا ۔

کال کروں یا نہیں، ویسے میں کیوں کروں ،وہ تو یہ سمجھے گے کہ میں انہیں یاد کررہی ہوں ،رات کے آٹھ بجے وہ کھانا کھانے کے بعد آپ ے کمرے میں آئی تھی، 

کمرے میں آڑے ہی اسے ارتضی کا خیال آیا تھا اس ہی  کو سوچتی ہوئی  سیل فون ہاتھ میں پکڑے وہ کشمکش کا شکار تھی ۔

ویسے یاد تو نہیں کررہی انسانیت کے ناطے تو حال چال پوچھ ہی سکتی ہوں ایسی کوئی بڑی دشمنی بھی نہیں ہے ڈاکٹر جلاد کے ساتھ ،

ماہین تجھے بھی سکون برداشت نہیں ہے اچھا تو ہے وہ جلاد یہاں نہیں ہے کتنا سکون ہی ہے ،اپنی  ہی بات کی نفی کرتی ہوئی وہ فون سائیڈ پر رکھتی ہوئی دیوان پر ہی سیدھی لیٹی تھی ،

سکون نا ملنے پر کچھ دیر بعد ہی واپس سے فون ہاتھ میں لیتی ہوئی وہ فون ملانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ ناک ہوتے دروازے کی طرف متوجہ ہوئی تھی ،

آجائیں ، رائمہ تم مجھے بلالیتی میں خود ہی آجاتی تمہارے پاس ،ان کچھ دنوں میں ماہین اور رائ۔ہ کی اچھی خاصی انڈرسٹینڈنگ ہوگئی تھی ۔

میں نے سوچا میں خود ہی چلی جاتی ہوں شاید بھائی کی تھوڑی سی  کمی  میری موجودگی دور کردے ،رائمہ کی بات پر ماہین کے لبوں پر خود بخود  مسکراہٹ رینگی تھی ۔

رائمہ ایک بات پوچھوں تم سے ۔کافی توقف کے بعد ماہین نے اس سے پوچھنے کی ہمت کی تھی ۔

جی بھابھی ،ماہین کے پوچھنے پر رائمہ مسکراتے ہوئے بولی تھی  ۔

اس دن مال میں جو ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماہین کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے پوچھے ۔

 مطلب ارتضی نے تم پر ہاتھ اٹھایا تھا وہاں سب کے بیچ میں تم پھر بھی  ناراض نہیں ہو ارتضی سے کیوں ،ڈر ڈر کے پوچھتی ہوئی وہ رائمہ کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ گھبراہٹ میں اپنے خشک لب تر کرگئی تھی ۔

بھائی کی غلطی نہیں تھی اور نا میری بس سچویشن ہی کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ پہلی بار بھائی کا ہاتھ اٹھ گیا مجھ پر ،کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کمرے میں رائمہ کی آواز گونجی تھی ۔

اگر بھائی چاہتے تو کچھ عرصے پہلے ہی ہاتھ اٹھا سکتے تھے مجھ پر مگر انہوں نہیں اس وقت بھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا جب میں گناہ کخرنے جارہی تھی ایک نامحرم کو سب کچھ مان کر گھر سے بھاگ رہی تھی، 

  بلکہ میری غلطی کو اس طرح چھپا دیا جیسے کبھی میں نے وہ غلطی کی ہی نا ہو ۔بھرائی آواز میں بولتی ہوئی رائمہ کی شاکڈ کرگئی تھی ۔

اس دن مال میں بھائی کو یہ لگا تھا کہ میں وہاج کے ساتھ ،،،کچھ دیر کے ٹھہرتی ہوئی اپنے آنسوؤں پر ضبط کرتی ہوئی دوبارہ سے بولی تھی ۔

انہیں دھوکا دے کر  ان کی عزت خاک کو میں ملا کر وہاج کے ساتھ بھاگ آئی ہوں۔آنکھوں میں آئی نمی کو انگلی کے پوروں سے صاف کرتی ہوئی لمبا سانس خارج کرتی ہوئی خود کو ریلکس کرتی وہ پھر سے مخاطب ہوئی تھی ۔

 آج سارا غبار  نکالنے کی خاطر وہ نم لہجے میں میں بولنا شروع ہوئی تھی ۔

رائمہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی ماہین خاموشی سے بس اسے سن رہی تھی۔

 ایک دوسرے سے چھتوں پر ملتے ہوئے میری اور وہاج کی ملاقاتیں عروج پر پہنچ گئی تھیں ،بیس سال کی تھی میں اور پھر بھی بہت ہی آسانی سے محبت میں اندھی ہوگئی تھی نا بابا سرکار اور  بھائی  کی محبت سے کوئی سروکار تھا نا ہی کسی اور چیز سے ذہن  پر  سوار تھا  تو فقط وہاج ،سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے بس وہاج اور اس کے ہی کہنے پر میں نے ایک دن اپنا سارا سامان باندھ لیا تھا ۔

عجیب سی رات تھی میری آنکھوں اور ذہن کی طرح ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی، عجیب سی گھوٹن تھی فضا میں پر میں ہر چیز سے بے خبر سب کے سونے کا بے صبری سے انتظار کررہی تھی ۔

سب کچھ وہاج کی پلینگ کے حساب سے چل رہا تھا سب لوگ گہری نیند میں سو چکے تھے کہ اچانک سے وہاج کی سرگوشی کی آواز بھائی کے کانوں میں نجانے کیسے  پڑ گئی اور ۔

_______________

نیند تو کوسوں دور تھی گزری  کئی راتوں کی طرح  ارتضی کی آنکھوں سے،

 عجیب سی بےچینی محسوس کرتا ہوا وہ کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا کہ کسی کے قدموں کی چھاپ کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔

اس ہی چھاپ کا دبے قدموں سے پیچھا کرتا ہوا وہ سرگوشی کی آواز  پر چوکنا ہوا تھا ۔

سرگوشی اور قدموں کی چھاپ رائمہ کے کمرے کے پاس رکتے ہوئے محسوس کرتا ہوا اس کا دماغ سن ہوا تھا ۔

ششش،کیا ہے جب کہا تھا میں نے خود ہی آجاؤ گی چھت پر تو پھر تم یہاں کیوں آئے ہو ،

تمہیں لینے کہاں ہے تمہارا سامان ۔رائمہ کی بات کا جواب چہل کر دیا گیا تھا ۔

یہ رہا ہے ۔رائمہ کے کمرے سے اب رائمہ اور اس شخص کی آواز سن کر ارتضی کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔

چلیں ۔رائمہ کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے وہاج نے رائمہ کے مسکراتے چہرے کو محبت پاش نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔

 شرم سے نظریں جھکائے وہاج کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی ہوئی سامنے دروازے پر کھڑے ارتضی کو دیکھ ناسکی تھی ۔

دعائیں نہیں لے کر جاؤ گی سمی اپنے  بابا سرکار ،ماں سرکار ،اور جان لٹانے والے بھائیوں کی، کرب سے کہتا ہوا ارتضی ایک درد کے مرحلے پر کھڑا تھا جہاں اس کی سمت اس کے ساتھ بے وفائی کرنے جارہی تھی ۔

ارتضی بھائی ،ارتضی کی آواز پر وہاج کی گرفت رائمہ کے ہاتھ پر سے ڈھیلی پڑی تھی ۔

اگر رات کے اندھیرے میں سیاہ چادر میں خود ڈھانپ کر جاؤ گی تو زندگی بھر سرجھکائے روشنی کی تلاش میں بھٹکوں  گی ۔

اور اگر سورج کی روشنی میں سب کی دعاؤں کے سائے تلے جاؤں گی تو سر اٹھا کر جیو گی ۔ارتضی کی باتوں پر وہ ساکت کھڑی تھی ۔

اب مرضی تمہاری ہے، وہاج کے ہاتھ سے نیچے گرے بیگ کو دیکھ کر وہ سائیڈ پر کھڑا ہوا تھا ۔

ارتضی کے سائیڈ ہوتے ہی رائمہ کو اکیلے چھوڑ وہاج وہاں سے  فرار ہوا تھا ۔

یہ پل تھا کہ رائمہ کو اپنا آپ بے مول لگا تھا جس شخص کی خاطر وہ سب رشتے ناطے چھوڑ کر جانے کو تیار تھی وہ شخص اسے ارتضی کے ڈر سے اکیلا چھوڑ بھاگ گیا تھا۔

کچھ کہنا چاہوں گی رائمہ ۔ارتضی کے منہ سے رائمہ سن کر کرب سے آنکھ میچ گئی تھی ۔

سوری بھائی ۔ارتضی  تمخسر سے ہنسا تھا۔

بھائی کہاں  تھی وہ بہن جب بھاگنے کی تیاری کررہی تھی تم ۔کرب سے پوچھتا ہوا وہ اپنے رائمہ کے درمیان میلوں کا فاصلہ کھینچ گیا تھا۔

سوری بھائی میں بھٹک گئی تھی ۔۔کوئی لفظ ہی نہیں بن پارہے تھے رائمہ سے ۔

راہ مل گئی۔حد درجہ غصے میں ہونے کے باوجود بھی ارتضی نے ہلکی آواز میں پوچھ رہا تھا۔

آئیندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی ۔وہ  منمنائی تھی ۔

اسے غلطی نہیں گناہ کہتے ہیں ۔اب ایسا دوبارہ میں ہونے ہی نہیں دوں گا ۔کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑا تھا۔

بھائی پلیز معاف کردیں، میں وعدہ کرتی ہوں وہاج سے کبھی نہیں  ملوں گی ،پلیز کسی کو مت بتائیے گا ۔ہچکیوں سے روتی  ہوئی وہ منت بھرے لہجے میں بولی تھی ۔

تم اپنی بات پر قائم رہنا اور میں زبان دیتا ہوں تمہیں یہ بات ہمارے درمیان رہے گی ،اگر تم اپنی زبان سے پھری تو تمہاری جان اپنے ہاتھوں سے لوں گا۔وہ کہہ  وہاں رکا نہیں تھا ۔

ہوا بھی یہ ہی آج تک رائمہ اور وہاج کے بارے میں حویلی کے ملازمین تک کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوئی تھی ۔

********

بلاوجہ کی نفرت ،بنا جواز کے بدتمیزی ،بنا مطلب کے اپنی شادی کے سارے فنگشن خراب کردیے میں نے ،رائمہ کب سے جاچکی تھی مگر جاتے جاتے وہ ماہین کو پشیمانی میں گرفتار کرگئی تھی ۔

ساری فوٹوز خراب آئیں گی ،یہ سوچ کر اسے الگ رونا آرہا تھا ۔

یااللہ کیا کروں بلاوجہ جلاد سے پنگا لے بیٹھی ہوں اب معافی کس منہ سے مانگوں گی ، کھڑکی سے باہر اچانک ہوتی ہوئی بارش کو دیکھ کر ساری باتیں بھلائے افسردگی سے مسکرائی ہوئی وہ کمرے سے باہر نکلی تھی ۔

سنو ۔ملازمہ کو پکارتی ہوئی وہ آگے بڑھی تھی ۔

چھت پر جانا ہے مجھے ۔

بی بی سائیں بہت تیز بارش ہورہی  ہے ۔سر جھکائے  ماہین کو وہ اپنی طرف سے آگاہ کررہی تھی۔

اس لیے ہی تو جارہی ہوں اور تم بھی چل رہی ہو میرے ساتھ ۔حکم دیتی ہوئی وہ آگے بڑھی تھی جبکہ ملازمہ حیرانگی سے اسے دیکھتی ہوئی پیچھے پیچھے چل دی تھی۔ 

*********

اگرچے تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا

مگر یہ دل تیری جانب سے صاف بھی نہ ہوا

تعلقات کی برزخ میں ہی رکھا مجھ کو 

وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا 

عجب تھا جرم محبت جس پہ دل نے میرے

سزا پائی بھی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا ۔۔۔۔۔،

اذہان کی میڈیکل رپورٹس کئی بار اچھے سے پڑھنے کے باوجود بھی ارتضی دوبارہ سے اپنے سامنے کھولے بیٹھا تھا مگر سوچ کے گھوڑے اپنی لگام توڑے ماہین کی سمت دوڑ رہے  تھے ۔

کئی بار ماہین کو دیکھنے کی چاہ میں دل نے سر توڑ کوشش کی تھی مگر اس کوشش کو ارتضی شاہ نے بڑی آسانی سے  تھیک کر سلادیا تھا ۔

رپورٹس آگے رکھے اب بھی ماہین کو سوچ کو جھٹکتا ہوا ارتضی سامنے کھلی رکھی رپورٹس پر جھکا تھا ۔

کیا میں اندر تشریف لا سکتا ہوں ڈاکٹر ارتضی شاہ ۔کافی دیر سے دروازے پر کھڑے ڈاکٹر عامر شہزاد جو ارتضی کو گہری سوچ میں کھوئے چہرے پر  کبھی مسکراہٹ تو کبھی سنجیدگی کے تاثرات دیکھتے ہوئے وہ اندر آنے کی اجازت طلب کررہے تھے ۔

آپ کو کب سے میرے کیبنٹ میں آنے کے لیے اجازت کی ضرورت پڑنے لگی ۔رپورٹس بند کرتا ہوا ڈاکٹر عامر کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

جب سے تمہاری شادی ہوئی ہے جب سے ،کیا پتا کس ٹائم بھابھی جی یہاں تشریف فرماں ہوں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ،

اب ہزبیڈ اور وائف کے پرائیوٹ مومنٹس میں دخل دے کر مجھے کباب میں ہڈی تھوڑی نا بننا ہے ۔شوخی سے کہتے ہوئے وہ چیئر پر بیٹھتے ہوئے ارتضی کو دیکھ کر لب دبائے وہ اب مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کررہےتھے ۔

آپ کو زیب نہیں دیتی اس عمر میں  ایسی باتیں ،ڈاکٹر عامر کی بات پر چبا کر کہتا ہوا ان کی عمر پر چوٹ کرگیا تھا ۔

اب اس میں عمر کہاں سے بیچ میں آگئی ظاہر سی بات نئی نئی شادی ہوئی ہے تمہاری اور چھیڑنے کا حق تو بنتا ہے  ۔عام سے لہجے میں بولتے ہوئے مسکرائے تھے ۔ 

ارتضی کو خاموش بیٹھے دیکھ وہ اپنی بات پر آئے تھے جس وجہ سے وہ یہاں ارتضی کے پاس موجود تھے۔

چلو مذاق سے ہٹ کر پوچھتا ہوں کیا تم  بھابھی کو مس کررہے ہو ،جواب کی جگہ خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔

اس کا خاموشی کا مطلب میں یہ سمجھوں کہ تمہیں بھابھی کی  شدید یاد آرہی ہے .عامر سے نظریں چرائے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

حقیقت میں تو اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اب اڑ کر ماہین کے پاس چلا جائے مگر انا آڑے آئی  ہوئی تھی ماہین کی طرف سے کوئی پہل جو نہیں ہوئی تھی ۔

لب دبائے وہاپنے لفظوں کا گلا گھوٹ گیا تھا  تلخی سے سوچتا ہوا مسکرایا تھا ۔

ماہین کی طرف سے کوئی کال یا میسج نہیں آیا کیا تمہیں، بلکل درست اندازے پر ارتضی حیرانگی سے عامر کی طرف گردن موڑ کر اسے مسکراتے ہوئے دیکھ واپس سے رخ مڑ گیا تھا ۔

میاں بیوی کے رشتے میں انا نہیں ہونی چاہیے ،جس رشتے میں  یہ انا آجاتی ہے پھر وہ رشتہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا ارتضی، 

اور میاں بیوی کے رشتے میں تو انا ہونی ہی نہیں چاہیے ،اگر دونوں میں سے کوئی ایک جھک جائے تو اس رشتے کی عمر طویل اور مضبوط ہوجاتی ہے ۔

اب مجھے ہی دیکھ لو  بہت بار میرے اور شیزہ کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے،ارتضی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ اسے سمجھانے  کی کوشش کررہے تھے ۔

 اگر غلطی میری ہوتی ہے تو منانے میں پہل بھی میں ہی کرتا ہوں اور اگر غلطی شیزہ کی ہو تو بھی میں ہی پہل کرتا ہوں ،آخر میں شرارت سے مسکرائے تھے ۔

اور یہاں غلطی تمہاری ہے ارتصی اور ماہین کی ناراضگی بر حق ہے ،

کوئی اپنے ولیمے کی دلہن کو بنا بتائے ایسے آتا ہے کیا ،

اسے کون سا فرق پڑتا ہے ،دل ہی دل ماہین کی سرد رویے کو سوچ کر افسردہ ہوا تھا ۔

جبکہ تم اچھے سے جانتے ہو تمہارا یہاں رہنا اتنا ضروری نہیں ہے پھر بھی ۔عامر کی بات پر ارتضی کی نظریں شرمندگی سے جھکی تھیں ۔

تمہاری اور ماہین کی کوئی لوو میرے نہیں ہوئی ہے جو تم اس کی  کالز کی آس لگائے ضد میں یہاں بیٹھے ہو تین دن سے ،

 ارینجڈ میرج ہے تمہاری  وقت کے ساتھ  ہی تم ایک دوسرے کو سمجھوں گے، ایسے نہیں چلے گا یہاں تم انا لگائے بیٹھے   ہو اور وہاں ماہین ناراض بیٹھی ہیں تم سے، 

 یہ ہی دن ہیں تم دونوں کے پاس ایک دوسرے کو سمجھنے اور اچھے سے جاننے کے،

 اسے کہیں لے کر جاؤ بلکہ ہنی مون پر چلے جاؤ ایک ساتھ گھوموں گے  پھروں گے ایک دوسرے کو سمجھوں ناکہ ایک دوسرے کے درمیان فاصلے کے فاصلے مٹاؤ نا کہ بڑھاؤ۔خاموشی سے ڈاکٹر عامر کی باتیں سنتا ہوا ارتضی پشیمان ہوا تھا ۔

تم یہاں ہسپتال میں پیشنٹ کے ساتھ ہنی مون منا رہے ہو اور وہاں وہ بیچاری حویلی میں ملازماؤں کے ساتھ اپنی نئی زندگی کے حسیں پل خراب کررہی ہیں  ۔ 

ارتضی ڈاکٹر عامر کے سنجیدہ چہرے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔

آپ کو کیسے پتا یہ سب ،

تمہارے چہرے پر صاف صاف لکھا ہوا ہے ،ڈاکٹر عامر کی بات پر وہ سر کجھاتے ہوئے وہ مسکرا کر انہیں ہی دیکھ رہا تھا ۔

مجھے بعد میں دیکھتے رہنا چلو اب فون ملاؤ بھابھی کو ،ارتضی کے دیکھنے پر چوٹ کرتے ہوئے وہ مسکرائے تھے 

کیوں  وہ بھی تو کرسکتی تھی نا۔الٹا سوال پوچھتا ہوا وہ اپنی چیئر پر بیٹھا تھا ۔

کیوں کو چھوڑو اور تم بھابھی کے ساتھ یہ اپنی مضنوئی ناراضگی ختم کرو اچھے سے جانتا ہوں تمہاری شکل پر بجنے بارہ کی وجہ ۔ڈاکٹر عامر کی بات پر وہ لب دبائے مسکرایا تھا ۔

چار سال بنا کسی قصور کے تم نے بہت کچھ گنوا دیا ہے ارتضی، 

 خود کو مجرم ٹھہرا کر اب غلطی مت کرو اور بھابھی کو فون کرو ،سرخ آنکھوں سے عامر کو دیکھتا ہوا ارتضی ٹیبل پر رکھے اپنے سیل فون کو ہاتھ میں لیے عامر سے مخاطب ہوا تھا ۔

 آپ کے سامنے تو بلکل بھی نہیں کروں گا ،پچوں کے انداز میں بولتا ہوا ارتضی ڈاکٹر عامر کے فلک شگاف قہقہے پر مبہم سا مسکرایا تھا  ۔

چلو بھئی ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں تم آرام سے بات کرو،

مسکرا کر ارتضی کی طرف  دیکھتے ہوئے وہ دروازے کی طرف بڑھے تھے ۔

آج کی ہے آپ نے اپنی عمر کے حساب سے بات ،ارتضی کے شرارتی انداز وہ فقط مسکرائے تھے ۔

کل ڈنر میرے  گھر پر ہے تمہارا اور ماہین کا ،

کس خوشی میں ۔

پہلی تمہاری اور دوسری دوبارہ سے تمہارے ہسپتال جوائن کرنے کی خوشی میں اور میں کوئی انکار نہیں سننے والا۔

ارتضی کے کھولتے لبوں کو دیکھ انگشت کی انگلی سے تنبیہ کرگئے تھے ۔ 

جو حکم سائین،اپنے سر کو ہلکا سا خم دیتا ہوا وہ کھل کر مسکرایا تھا ۔

ارتضی کو اپنی کہی باتوں پر اتنے اچھے تاثرات پر وہ خوشی محسوس کرتے ہوئے وہاں سے گئے تھے ۔

کاش بابا سرکار یہ ساری باتیں آپ مجھے سیکھاتے ،ماہین کو فون کرنے کا ارادہ ترک کرتا ہوا وہ حویلی جانے کے لیے کھڑا ہوا تھا۔

********

غلام رسول آرام سے چلاؤ گاڑی ،بن موسم برستی بارش سے اسے اکتاہٹ محسوس ہوئی تھی ۔

بارش کی وجہ سے آدھے گھنٹے کا سفر دو گھٹنے میں جو بدلنے والا تھا ،

ایک پل کی تاخیری بھی اس کی جان نکل رہی تھی ۔

جی سرکار سائین، آرام سے گاڑی چلاتا ہوا وہ اپنے ساتھ بیٹھے ارتضی کو سیٹ کی پشت پر سر ٹکائے  دیکھ مسکرایا تھا ۔

گاڑی جیسے ہی حویلی میں داخل ہوئی تھی ارتضی  کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ رینگی تھی ۔

جاؤ تم تمہاری بیوی انتظار کررہی ہوگی ،تین دن سے غلام رسول بھی ارتضی کے ساتھ ہسپتال میں تھا ۔

جی سرکار سائین ۔ارتضی کے خوشگوار  لہجے پر وہ مسکراتا ہوا گاڑی سے اتراتھا ۔

سرونٹ کوارٹر کی طرف خود کو بھیگنے سے بچاتے ہوئے  غلام رسول کو بھاگتے دیکھ وہ دل کر مسکرایا تھا ۔

*******

نام کیا ہے تمہارا ،کافی دیر وہ برستی بارش میں پوری  بھیگ چکی تھی ۔

اپنے سامنے ہی خود کو بھیگنے سے بچاتی ہوئی ملازمہ  شیلڈ کے نیچے جاکھڑی ہوئی تھی، ماہین کے پکارنے پر وہ مسکرا کر اپنی بی بی سائیں کو دیکھ رہی تھی  ۔

سوکھاں نام ہے میرا بی بی سائیں  ،

بہت پیارا نام ہے تمہارا ۔ماہین کی اس طرح تعریف کرنے پر اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی ۔

کب سے ہو تم یہاں پر سوکھاں ،اچانک سے بارش مزید تیز کے ساتھ گرجتے بادلوں اور کڑکتی ہوئی بجلی کے خوف سے وہ بھاگتی ہوئی سوکھاں کے قریب آئی تھی 

ماہین کو اپنے گیلے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے دیکھ ملازمہ  یک ٹک اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

میں تو بی بی سائیں پیدا بھی اس ہی حویلی میں ہوئی ہوں ۔ماہین کو اس طرح خود سے بات کرتے دیکھ وہ خود کو آسمان پر محسوس کررہی تھی ۔

اچھا ،سوکھاں کے انداز پر وہ مسکرائی تھی ۔

اس وقت کون آیا ہے ،گاڑی کی آواز پر ماہین نے سوال کیا تھا ،دل میں تو ارتضی کے آنے کا خیال آیا تھا فورا سے جھٹک گئی تھی ۔

میں بی بی دیکھ کر آتی ہوں ،بند آنکھیں کرتی ہوئی ماہین آسمان کی طرف منہ کیے ہوئے تھی سوکھاں کی آواز پر اسے گردن ہلا کر جانے کی اجازت دیتی ہوئی وہ مسکرائی تھی ۔

بہت غلط کیا میں نے اپنے ہی ساتھ بنا سمجھے غلط فہمی پال لی ،اور اب اس ڈاکٹر جلاد کو دیکھنے کا دل کر رہا ہے ،

ہسپتال میں ہوئی اپنی اور ارتضی کی ملاقات یاد کرتی ہوئی وہ پہلی بار ارتضی کو سوچتی ہوئی مسکرا رہی تھی ۔

قریب تھا تو کہا ہم نے سنگ دل بھی اسے 

ہوا جو دور تو لگتا ہے جان جاں وہ شخص

وہ مسکراتی ہوئی زیر لب  بڑبڑائی تھی ۔

اس ایک شخص میں تھیں دلربائیاں کیا کیا 

ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ شخص۔۔۔

بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنی ہوئی ارتضی کی دے گئی رنگ پر وہ لب رکھ گئی تھی ۔

ڈاکٹر جلاد میں انسانیت بھی ہے یہ جان کر مجھے اتنی خوشی کیوں ہورہی ہے ۔اپنے آپ سے سوال کرتی ہوئی وہ پر سوچ انداز میں آنکھیں بند کیے خود پر گرنے والی بارش کی بوندوں سے پرسکون محسوس کررہی تھی ۔

********  

تم اوپر کیا کررہی تھیں اتنی تیز بارش میں، سوکھاں کو چھت پر سے آتے دیکھ ارتضی نے استفسار کیا تھا ۔

وہ سرکار سائین، بی بی سائین کے ساتھ تھی ، سر جھکائے وہ ڈری تھی ارتضی کے اچانک موجودگی سے ۔

بی بی سائین، رائمہ کی بات کررہی ہو ،ارتضی کو رائمہ کا گماں ہوا تھا۔

کیونکہ شاہدہ بیگم تو ویسے ہی بارش کے شروع ہوتے ہی بستر میں گھس جاتی تھیں۔

وہ سرکار سائین ،وہ ماہین بی بی سائین  ،نظریں جھکائے وہ بولی تھی ۔

ماہین ہیں اوپر ،ماہین کے نام پر وہ حیران ہوا تھا ۔

جی سرکار سائین وہ بی بی سائین کا بارش میں نہانے کا دل چاہ رہا تھا اس لیے ۔مزید آگاہ کرتی ہوئی وہ واپس سے چھت پر جانے کے لیے مڑی تھی تاکہ وہ جاکر ماہین کو ارتضی کے آنے اطلاع دے سکے ۔

تم جاؤ اور حویلی کی ساری لائٹیں بند کروا دو، ماہین کے بارش میں بھیگنے کی خبر پر وہ ضبط سے حکم کرتا ہوا خود چھت پر جانے کی خاطر بڑھا تھا ۔

ایک بات اور سب ملازمین اپنے کمرے میں جاؤں ،مجھے حویلی میں کوئی بھی نا دیکھے اگر کوئی ایک بھی ملازم مجھے دکھا تو تم اور وہ اپنے جانے کی تیاری باندھ لینا ۔ غصے سے تنبیہ کرتا ہوا ارتضی  سوکھاں کے وجود میں خوف کی لہر دوڑا گیا تھا ۔فورا سے پہلے وہ وہاں سے بھاگی تھی ۔

آپ یہاں کررہی ہیں ماہین ،ارتضی کی آواز اسے اپنا وہم  لگا تھا ۔

ماہین ،اب کی بار وہ تھوڑی اونچی آواز میں پکار رہا تھا۔

اتنی اچھی بارش میں بھی مجھے اپنے جلاد شوہر کی آواز کیوں آرہی ہے ،خود سے مخاطب ہوتی ہوئی وہ واپس سے مگن ہوئی تھی ،

پاگل ہے کیا یہ لڑکی ،خود سے بول رہی ہے بات کر رہی ہے ،ایسے بی ہیوو کررہی ہے جیسے میری آواز سنائی ہی نہیں  دے رہی ہو ،ماہین کو خود سے بڑبڑاتے دیکھ وہ پریشان ہوا تھا ۔

گرجتے ہوئے بادلوں اور کڑکتی ہوئی  بجلی  سے ڈر کر وہ دوبارہ سے شیلڈ کے نیچے آکھڑی ہوئی تھی ۔

کہاں رہ گئی سوکھاں، خوف سے سوچتی ہوئی اپنے پیچھے کسی کا سایہ دیکھ کر گھبرائی تھی ۔

کون ہے ،ڈر میں آواز بھی جیسے گلے میں اٹکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔

ارتضی شاہ، ماہین کے خوف کو بخوبی سمجھا تھا ۔

ارتضی شاہ مطلب ،پیچھے مڑتی ہوئی وہ  نام دہرا گئی تھی ۔

مطلب میں ہوں ارتضی شاہ ،لفظوں پر زور دیتا ہوا ماہین کے  کنفیوزڈ چہرے کو حیرت سے  دیکھ رہا تھا ۔

یہ سچ میں ہیں یا وہم ہے میرا ، زیب لب بڑبڑاتی ہوئی ارتضی کے چہرے پر اپنے ٹھنڈے ہاتھ رکھتی ہوئی اپنا کنفیوژن دور کرتی ہوئی ایک دم سے پیچھے ہوئی تھی، جیسے کرنٹ لگ گیا ہو ۔

ماہین ۔ ماہین  کی عجیب و غریب حرکتوں کو دیکھتا ہوا وہ زچ آیا تھا۔

ماہین آپ سن رہی ہیں ،اب کی بار وہ ذرا غصے سے مخاطب ہوا تھا ۔

ہ۔۔ہ۔ہہاں سن رہی ہوں۔ارتضی کو اپنے روبرو دیکھ وہ اب بھی حیران تھی ۔

********

 سوکھاں یہ لائٹس کیوں بند کروا رہی ہو ۔اپنے  کمرے سے باہر آتی ہوئیں شاہدہ بیگم لائٹس آف کرتی ہوئی سوکھاں سے پوچھ رہی تھیں ۔

شاہدہ بیگم کے پوچھنے وہ مزید گھبرائی تھی ۔

بی بی سرکار وہ سائین سرکار کا حکم ہے ،

ارتضی آگیا ہے ،حیدر تو اپنے کمرے میں کب سے جاچکا تھا اور دلاور شاہ تو کب سے سو چکے تھے ۔شاہدہ بیگم کے پوچھنے پر وہ گردن ہلا گئی تھی ۔

کہاں ہے ،ارتضی کے آنے کی خبر انہیں خوشی بخش گئی تھی ۔

بی بی سرکار وہ بی بی سائیں کے ساتھ ہیں چھت پر ،

اچھا اچھا تم جاؤ اور جو حکم شاہ نے دیا ہے وہ پورا کرو ،

شاہدہ بیگم کے کہنے کی دیر تھی وہ کچن میں موجود سب ملازموں کو جانے کا کہتی ہوئی خود بھی ان کے جانے کے لیے پیچھے چل دی تھی  ۔

شکر ہے شاہ تم آگئے ۔ماہین اور ارتضی کو سوچ کر مسکراتی ہوئی وہ اپنے کمرے کی سمت بڑھی تھیں ۔

******* 

کیا کر رہی ہیں آپ یہاں وہ بھی اتنی تیز بارش میں بیمار پڑگئیں تو ،ماہین کو شیلڈ کے نیچے سے واپس باہر جاتے دیکھ ماہین کا پیچھے سے ہاتھ پکڑ گیا تھا ۔ 

میں بیمار نہیں پڑوں گی مجھے عادت ہے ،نظریں جھکائے وہ ارتضی کے فکرمندانہ انداز کو سمجھتی ہوئی عام سے انداز میں جواب دے گئی تھی ۔

ماہین  آپ کو ایسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا، 

وہ ،،وہ می۔۔میر۔۔میرا دل کر رہا تھا بارش میں بھیگنے کا اس لیے ۔اپنی کلائی پر ارتضی کی مضبوط تر گرفت سے وہ گھبرائی تھی ۔

اگر اتنا ہی بھیگنے کا دل کررہا تھا تو آپ شاور کے نیچے کھڑی ہوکر بھیگ سکتی تھیں بارش سمجھ کر ،کم از کم اسے ارتضی سے اسی بات کی توقع نہیں تھی ۔

یہ آپ کا شہر والا گھر نہیں ہے جہاں صرف آپ اور آپ کے بابا رہتے تھے،نرم لہجے میں بول رہاتھا۔

  یہ شاہ حویلی ہے جہاں مکینوں سے زیادہ ملازمین کی تعداد ہے ،اگر ایسے حلیے میں شاہ خاندان کی بہو ملازموں کے بیچ سے گزرتی ہوئی اپنے کمرے میں جائیں گی تو کیا عزت رہ جائے گی اس کی ،ماہین کے جسم پر  چپکے ہوئے کپڑوں  پر سے وہ استحقاق ہونے کے باوجود بھی نظریں چرا گیا تھا ۔

خود پر نظر ڈالتی ہوئی اپنے گیلے ڈوپٹے سے خود کو ڈھانپنے کی کوشش کرتی ہوئی وہ شرمندہ ہوئی تھی ارتضی کے سامنے ۔ 

سوری ،نظریں نیچی کیے وہ انگلیوں کو آپس میں الجھائے ہوئی تھی ۔

سوری کرنے ضرورت  نہیں ہے ،حویلی کی ساری لائٹس آف کرنے کا کہہ دیا ہے ۔ارتضی کا غصہ پل بھر میں غائب ہوا تھا ۔

کچھ توقف کی خاموشی کا راج ہوا تھا ان دونوں کے درمیان جسے ماہین نے توڑنے میں پہل کی تھی ۔

آپ بارش میں نہیں بھیگتے کیا ،ارتضی کو خاموشی سے برستی بارش کو دیکھتا پاکر وہ سوال کرگئی تھی ۔

نہیں ۔مختصر سا جواب دیتا ہوا وہ سامنے ہی دیکھ رہا تھا ۔ماہین کا ہاتھ اب بھی ارتضی کی گرفت میں تھا۔

تو مجھے ہی بھیگنے دے دیں اب تو ساری حویلی کی لائٹس آف ہوگئی ہیں، کافی دیر سے ارتضی کے ساتھ برستی بارش کو دیکھ کر وہ اکتاہٹ کا شکار ہوئی تھی ۔

آپ میری بات تھوڑی مانے گی ،وہ بھی اس کی جس جلاد  سے آپ نفرت کرتی ہیں ۔ماہین کا ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کرتا ہوا ناراضگی سے بولا تھا ۔

میں نفرت نہیں کرتی آپ سے اور اب تو بلکل بھی نہیں ۔

بلاوجہ میں آپ سے اب نفرت کیوں کروں ،

پھر سرد رویہ کیوں میرے ساتھ، ماہین کی ہلکی سی آواز میں دیئے گئے جواب پر وہ سوال کرگیا تھا۔

مجھ سے مال والی آپ کی حرکت بھولی نہیں جاتی اس لیے آپ کو دیکھ کر میرا لہجہ خود بخود سرد ہوجاتا تھا ۔ماہین کا انداز کسی ملزم کے اعتراف جرم کے جیسا تھا۔

مگر اب تو اچھے سے بات کررہی ہوں نا اور آگے بھی اچھے سے کروں گی ۔ارتضی کا ہاتھ پکڑتی ہوئی وہ ارتضی کو حیران کرگئی تھی ۔

بخار تو نہیں ہوگیا ہے آپ کو ،اپنے ماتھے پر رکھے ارتضی کے ہاتھ کو وہ غصے سے جھٹک گئی تھی ۔

ماہین  کے ہاتھ جھٹکنے پر وہ دل کھول کر مسکرایا تھا ۔

اب نیچے نہیں چلنا آپ کو ،خفگی سے کہتی ہوئی ارتضی مسکراتے ہوئے دیکھ کر نظریں جھکا گئی تھی ۔

چلیں،   ماہین کے ہاتھ کو واپس سے تھام گیا تھا ۔

آپ تو سرجری کے بعد آنے والے تھے نا ،اندھیرے میں ارتضی کا ہاتھ پکڑے چلتے ہوئے  وہ ارتضی کے اچانک آنے کا سبب جاننا چاہ رہی تھی ۔

آپ کہہ تو واپس چلا جاتا ہوں ۔عام سے انداز مین کہتا ہوا وہ رکا تھا ۔

میں ایسا کب کہا آپ نے ہی کہا تھا سرجری کے بعد آئیں گے، اس لیے پوچھا تھا میں تو ۔خود کو کمپوز سے کرتی ہوئی اداس ہوئی تھی ارتضی کے واپس جانے کا سن کر ۔

 آپ کمرے میں جائیں اور چینج کرلیں میں ماں سرکار سے مل کر آتا ہوں ۔ارتضی کو جاتے دیکھ وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔

*******

سوئے ہوئے تھے تم ،رات گیارہ بجے حیا  کی کال پر وہ ذرا حیران نا ہوا تھا ۔

نہیں جاگ رہا تھا ۔عام سے انداز میں بولتا ہوا وہ بیڈ کراؤنسے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔

مجھے تو نیند ہی نہیں آرہی تھی یہ سوچ کر یہ ہماری منگنی کے بعد کی پہلی بارش ہے ۔حیا کی چہکتی ہوئی آواز پر  مسکرایا تھا ۔

پر مجھے تو آرہی ہے ،حیا کو چھیڑنے کی غرض سے بول رہا تھا ۔

بڑے ہی کوئی بد مزہ انسان ہو تن جب ہی میں  تو تمہیں سڑی ہوئی ککڑی کہتی ہوں ۔چڑتے ہوئے وہ چبا کر بولی تھی ۔

برائے مہربانی مجھے سونے دو اور تم جاگتی رہو تباہی ،حیا کی اب کی بار ہٹ گئی تھی۔

بگاڑ میں جاؤ تم دیکھنا شادی کے بعد یہ تباہی تمہیں اور تمہاری نیند کو تباہ کردے ،بنا حیدر کی سنے وہ غصے سے فون کاٹ گئی تھی ۔

کاش مجھے پہلے ہی تم نظر آجاتی ،یہ سوچ کر اسے ملال ہوا تھا۔

ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے  تم ہی ہو جو میری زندگی میں تباہی مچانے کا حوصلہ رکھتی ہو  ۔حیا کے فون کاٹنے کے بعد بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہ آنکھیں بند کیے  کافی دیر تک اسے سوچ کر  مسکرا رہا تھا ۔

*********

شاہدہ بیگم کے کمرے کا دروازہ لاک دیکھ وہ اپنے کمرے کی سمت بڑھا تھا ۔

بھوک اور تھکن کی وجہ سے ان کے کمرے کی سمت آیا تھا مگر لائک دیکھ کر وہ کچن میں جانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔

لائٹس اون کرتا ہوا وہ پہلے چینج کرنے کا سوچ کر اپنے کمرے میں گیا تھا ،

جہاں ماہین کو بیڈ پر دراز دیکھ اس کی بھنویں سکڑی تھیں ۔

تھوڑی دیر بعد شاور لینے کے بعد وہ دروازے کی طرف بڑھا ہی  تھا لہ ماہین کے پکارنے پر رکا تھا۔

کہاں جارہے ہیں آپ ،ارتضی کو جاتے دیکھ وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔

بھوک لگ رہی ہے مجھے اس لیے کچھ کھانے کے لیے لینے جارہا ہوں ،ناب پر ہاتھ رکھے ہوئے تھکن سے چور لہجے میں بولا تھا۔

 آپ بیٹھے میں لا دیتی ہوں آپ کے لیے کھانا ،بیڈ سے اترتی ہوئی وہ  فرماں بردار بیویوں کی طرح مسکرا کر بولتی ہوئی اسے ہی دیکھ  رہی تھی ۔

ایک غیر نے لکھا ہے تو غیر نہیں ہے 

لگتا ہے اس بار میری خیر نہیں ہے 

تم مجھے کتنی محبت سے دیکھ رہے ہو

حالانکہ میرا تم سے بیر کوئی نہیں ہے 

ماہین کا بدلہ ہوا انداز اسے حیرت میں مبتلا کر رہا تھا۔

ٹھیک دس منٹ بعد ہاتھوں میں ٹرے تھامے ماہین کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔

ٹرے لاتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر مسکرایا تھا مگر یہ مسکراہٹ کچھ سیکنڈ کی مہمان تھی ۔

یہ رہا آپ کا کھانا ۔ارتضی کے سامنے ٹرے رکھتی ہوئی وہ چہک کر بولی تھی ۔

تھینک یو، مسکرا کر ماہین کو دیکھتے ہوئے ارتضی نے  اپنے سامنے رکھی ٹرے کو دیکھ کر مسکراہٹ سمٹی گئی تھی ۔

کیا ہوا ،ارتضی کی ٹرے پر ٹھہری نظر کو نوٹس کر گئی تھی ۔

کچھ نہیں، جبران مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ ٹرے رکھے  بریڈ کے سوکھے سلائس اور چائے کے دو کپوں کو دیکھ کر اپنی قسمت پر ماتم کنا تھا۔

کیا ہوا یہ کھانا اچھا نہیں لگتا آپ کو ،چہرے پر معصومیت سجائے وہ ارتضی کے صبر کا امتحان لے رہی تھی ۔

اسے کھانا کہتے ہیں  ،زیر لب بڑبڑایا  تھا۔

دس منٹ میں تو صرف یہ ہی بنایا جاسکتا ہے، ارتضی کی بڑبڑاہٹ وہ بخوبی سن چکی تھی ۔

یہ آپ نے بنایا ہے ،بریڈ کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں پوچھ رہا تھا ۔

یہ تو میں نے فریزر سے نکال کر ٹرے میں سجائی  ہیں بنائی تو میں نے صرف چائے ہے ،

کھانا اس لیے نہیں لائی کیونکہ وہ رحیم کی مما(ملازمہ ) نے بنایا تھا اور مجھے رائمہ نے بتایا تھا کہ آپ ملازماؤں کے ہاتھ سے پانی لے کر نہیں پیتے کجا کہ کھانا ،

اس لیے مجھے یہ ہی مناسب لگا ۔تفصیل سے بتاتی ہوئی ارتضی کو  بریڈ کے سوکھے سلائس  کھاتے دیکھ خاموش ہوئی تھی ۔

ماہین کو بیڈ پر بیٹھے آرام سے چائے پیتے دیکھ وہ سوکھے سلائس کو بمشکل  چائے گھونٹ بھر کر حلق سے نیچے اتارتا رہا تھا۔

ارتضی جو اپنے آنے والے دنوں کو سوچ کر پریشانی سے گہرا سانس بھر گیا تھا۔

*******

چسکیوں کے ساتھ چائے پیتی ہوئی ماہین کو وہ تاسف سے دیکھ رہا تھا ،

صحیح کہا ہے کسی نے اپنی لسی کس کو کھٹی لگتی ہے ویسے ہی ماہین کو اپنے ہاتھ کی بنائی بدذوق چائے بڑی ہی لاجواب لگ رہی تھی جب ہی تو اتنے آرام سے بیٹھی ہوئی پی رہی تھی۔

برا سا منہ بنائے ہوئے جیسے جیسے وہ ماہین کی بنائی ہوئی بد مزہ چائے پی رہا تھا ویسے ہی اسے لگ رہا تھا کہ اب ساری کی ساری چائے باہر آئے گی چائے ختم کرکے وہ کمرے سے باہر جانے کے لیے اٹھا تھا۔ 

 اب کہاں جارہے ہیں کھانا تو کھالیا ہے آپ نے پھر ،  ماہین کو آنکھیں پھاڑ کر سوال کرتے دیکھ ارتضی کو آج صحیح معنوں اپنے شادی شدہ ہونے کا احساس ہوا تھا۔

واک کرنے کے لیے جارہا ہو ،اب اسے کیا بتاتا بد ذوق چائے کا ذائقہ ختم کرنے کی خاطر وہ کچن میں جانے کا ارادہ رکھتا تھا کچھ نا کچھ تو اسے ضرور ملے گا کھانے کے لیے جس سے اس کے منہ ذائقہ چینج ہوجائے گا ۔

اچھا چلیں میں بھی چلتی ہوں آپ کے ساتھ ۔ارتضی حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

کیا کریں گی آپ واک کرکے آپ آرام کریں ابھی بارش میں بھیگی تھیں آپ کہیں ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے آپ کو سردی نا لگ جائے ،بارش کے بعد چلتی ہوئی تیز ٹھنڈی ہوا کا حوالہ دے رہا تھا۔

مجھے کچھ نہیں ہونے والا ان ٹھنڈی ہواؤں سے ،شہر کی میں ہوں پھر بھی حساس آپ ہیں ،ارتضی کے حساس پن پر چوٹ کرتی اپنے سر پر ڈوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی مسکرا رہی تھی ۔

چلیں ،ارتضی سے پہلے وہ جانے کو تیار کھڑی ہوئی تھی ۔

میرا ارادہ بدل گیا ہے اب واک کرنے کا، تھکان بھی محسوس ہورہی ہے ،انگڑائی لیتا ہوا وہ بیڈ کی سمت بڑھا تھا ۔

اچھے سے جانتی ہوں ڈاکٹر جلاد یہ واک کرنے کا تو مہذ بہانا ہے آپ کا ،حقیقت میں تو میری بدذوق چائے کا اثر دور کرنے  کی خاطر نیچے جایا جارہا تھا ۔لب دبائے وہ اپنی کی شرارت کو سوچ کر مسکرا رہی تھی ۔

تین دن بنا مجھے بتائے گھر سے باہر رہے ہیں جلاد صاحب کچھ تو میں بھی بیویوں والا بدلہ لوں ، فریزر میں رکھے مکھن اور جیم کو نظرانداز کرتی ہوئی دیکھی بریڈ کو ٹرے پر رکھتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

اپنے لیے چائے کپ میں انڈیلتی ہوئی باقی کی بچی ہوئی چائے میں پانی ڈالتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

اچھے سے جانتی ہوں سب میری غلطی ہے مگر صحیح انہوں نے بھی نہیں کیا ،مجھے سب بتاتے تو کیا میں نہیں مانتی ،دل میں ہوتے ملال کو وہ سائیڈ کر گئی تھی ۔

آنکھوں پر دایاں ہاتھ رکھ کر لیٹے ہوئےارتضی کو دیکھ وہ اس کے برابر میں آکر بیٹھی تھی ۔

مجھے دیکھنے سے جب آپ کو فرصت مل جائے تو پلیز لائٹ آف کر دیجئے گا، آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ ماہین کی نظریں پر محسوس کررہا تھا۔

میں آپ کو نہیں دیکھ رہی تھی میں تو کچھ سوچ رہی تھی ،اپنی چوری پکڑے جانے پر فورا سے خود کو کمپوز کرگئی تھی ۔

جب آپ اپنی سوچوں سے فارغ ہو جائیں تو سو جائیے گا ۔سائیڈ لمپ آف کرکے  وہ ارتضی سے ذرا فاصلے پر لیٹی تھی ۔

پھر سے چلے گئے کیا، رات کے دوسرے پہر میں ارتضی کی جگہ خالی محسوس کرتی ہوئی وہ لیمپ آن کرکے اٹھ بیٹھی تھی ۔

کیا ہوا ماہین ۔دونوں ہاتھوں سے سر تھامے ماہین کو بیٹھے دیکھ ڈریسنگ روم سے باہر آتے ہوئے ارتضی نے پوچھا تھا  ۔

آپ کہاں چلے گئے تھے ۔ارتضی کو سامنے دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی ۔

کہیں بھی نہیں آپ  کے سامنے ہی تو ہوں ۔ماہین کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہوا وہ اسے اپنے موجودگی کا احساس دلا رہا تھا ۔

آپ کیا سمجھ رہی تھیں، ماہین کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوا ماہین کے اچانک سے بدلے ہوئے انداز چونکا رہے تھے ۔

کچھ بھی نہیں بس ایسے ہی ۔آنکھیں بند کیے اسے اپنے بالوں میں ارتضی کی چلتی ہوئی انگلیاں سکون بخش رہی تھیں ۔

کچھ دیر بعد نیند کی وادیوں میں اترتی ہوئی ماہین کو دیکھ اپنی اچانک سے بدلی قسمت پر رشک کررہا تھا ، 

اسے تو لگا تھا ماہین کے ساتھ اور اعتبار کے لیے اسے ساری عمر ہی خاک چھانی پڑے گی مگر اتنی جلدی ماہین کو بدلے دیکھ وہ ٹھیک سے خوش بھی نہیں ہو پارہا تھا ، 

عجیب سی کشمکش چل رہی تھی اس کے دماغ میں ۔

فضا میں گونجتی فجر کی آذان کی آواز پر وہ اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا وضو کرنے کی غرض سے  باتھروم کی سمت بڑھا تھا ۔

نماز پڑھنے کے بعد سوئی ہوئی ماہین کو مسکرا کر دیکھتا ہوا   سائیڈ ٹیبل پر رکھے اپنے سیل فون کو اٹھا کر وہ گلاس ونڈو کے پاس جاکھڑا ہوا تھا ۔۔ 

وعلیکم اسلام:

ڈاکٹر ہیر کیسی طبعیت ہے اذہان کی،میڈیسن تو دی ہیں نا آپ نے اسے وقت پر ،فون اٹینڈ کرتے ہی ارتضی نے سوال کیا تھا ۔

آپ نے فکر رہیں سر میں نے اسے وقت پر انجکشنبھی دے دیا تھا اور میڈیسنز بھی ،

آپ سوئی ہوئی تھیں، ڈاکٹر ہیر کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز کو بخوبی محسوس کرگیا تھا ۔

جی سر بس تھوڑی دیر پہلے ہی آنکھ لگ گئی تھی،پر اب میں اٹھ گئی ہوں، ارتضی کے ڈر سے صفائی دیتی ہوئی وہ جلدی سے بولی تھی ۔

آپ سے لاپروائی کی امید نہیں تھی مجھے ڈاکٹر ہیر ، ہلکی آواز میں غرلایا تھا،

سوری ٹو سے سر ،اذہان صرف دیکھ نہیں سکتا ہے آپ ایسے پریشان ہورہے ہیں جیسے خدانخواستہ اسے کوئی بڑی بیماری ہو ،ارتضی کی اذہان کو لے کر اتنی فکر پر وہ پھٹ پڑی تھی ۔

آپ نے اذہان کی میڈیکل رپورٹ اچھے سے پڑھی تو تھی نا ڈاکٹر ہیر یا اسے اپنے سامنے رکھ کر آپ سو گئیں تھیں ۔چبا کر بولتا ہوا ڈاکٹر ہیر کی نیند پر چوٹ کرگیا تھا ۔

جی ،اب کی بار ہیر منمنائی تھی ۔

تو پھر آپ نے رپورٹ کے  پیج نمبر فائف  کی تھرڈ لائن تو آپ نے  پڑھی ہی ہوگئی جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اذہان کی ذہنی مریض بگڑ رہی ہے   ، 

زیادہ دیر سونے سے وہ بے ہوش بھی ہوسکتا ہے ،پڑھا تھا نا آپ نے یہ ڈاکٹر ہیر ۔

لفظوں پر زور دیتا ہوا ہیر کی خاموشی پر گہرا سانس بھر گیا تھا ۔

ہیر کی خاموشی اس کا شک یقین میں بدل گیا تھا، ڈاکٹر ہیر نے رپورٹس ٹھیک سے نہیں پڑھی تھیں جب ہی تو وہ چونک گئی تھی ارتضی کے منہ سے اذہان کی خراب ہوتی ذہنی حالت کا سن کر ،

سکتے سے باہر آئیں اور اذہان کو چیک کریں وہ سو ہی رہا ہے یا بے ہوش ہے، ارتضی کے بولنے پر فورا سے اذہان کی نبض  چیک کرتی ہوئی وہ اسے سوتے دیکھ پرسکون ہوئی تھی ۔

سو رہا ہے سر ،وہ گھبرائی ہوئی آواز میں بولی تھی ۔

ابھی ساڑھے چار بج رہے ہیں ٹھیک سات بجے تک اذہان کو اٹھا دیجئے گا ، جب وہ اٹھ جائے تو میل اسٹاف کو بلا لیجئے گا تاکہ وہ اس کی چینج کرنے میں مدد کرسکے  ،جب وہ  فارغ ہوجائے تو اسے اچھے سے بریک فاسٹ کروا دیجئے گا اور پھر ٹھیک آدھے گھنٹے بعد اسے واک کروانی ہے آپ کو ،یہ سب یاد سے کرنا ہے آپ کو ،اپنی سنا کر وہ فون رکھ گیا تھا ۔

واپس سے ماہین کے برابر میں کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھتا ہوا آنکھیں بند کرگیا تھا ،

صبح صادق کے وقت حویلی کے تمام ملزمین اٹھ جاتے تھے یہ رول شروع سے ہی شاہ حویلی میں چلتا ہوا آرہا تھا،

جیسے جیسے سورج چار سو اپنی کرنیں بکھر رہا تھا ویسے ہی حویلی کے مکین اپنے اپنے بستر چھوڑ کر فریش ہوکر ڈائینگ روم اکھٹے ہورہے تھے ۔

کراؤن کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے وہ سو گیا تھا ،سورج کی روشنی سے اس کی آنکھ کھولی تھی ،

 ماہین کو اپنے سینے پر سر رکھے سوئے دیکھ وہ مسکرایا تھا،ماہین کی نیند کا خیال کرتا ہوا وہ جاگنے کے باوجود بھی ایک سمت لیٹا ہوا تھا ،

ایسا کیا ہوا ہے ماہین شاہ جو آپ اتنی جلدی بدل گئی ہیں ،ماہین کے چہرے پر آئے بالوں کو کان کے پیچھے کرتا ہوا اس کی سکڑتی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر دلفریب انداز میں مسکرا رہا تھا ۔

ارتضی کے سینے پر سر رکھے سوئی ہوئی ماہین کسمساتی ہوئی مسکرا کر آنکھیں کھول گئی تھی ،

سوری ،خود کو ارتضی کے اتنے قریب لیٹے دیکھ فورا سے  بدک کر پیچھے  ہوئی تھی ۔

اٹس اوکے، ارتضی کے نارمل تاثرات دیکھ وہ شرم نظریں جھکائے ہوئی تھی ۔

آپ آج شام چار بجے تک تیار رہیئے گا، ہمیں ڈنر کے لیے ڈاکٹر عامر کے گھر جانا ہے ،ماہین کے مثبت میں ہلتے سر کو دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا ڈریسنگ روم سے اپنے کپڑے لیے باتھروم میں گیا تھا ۔

افففففففف،ماہین ،ارتصی کے اتنے قریب خود کو سوچ کر بھی اسے شرم محسوس ہورہی تھی ۔

*******

تمہیں پتا ہے تمہارے سائین کی شادی ہوگئی ہے ،ریحان کی آواز پر سر جھکے وہ اس کی چھوٹی بیٹی کے ساتھ کھیل رہی تھی ،

جانتی ہوں، نکاح ہوا تھا جب بھی آپ ایسے ہی آئے تھے مجھے بتانے ،نوری کے جواب پر وہ قہقہ لگا گیا تھا۔

بہت ہی منحوس رات تھی وہ جب میں آپ کی گاڑی کے سامنے آئی تھی کاش اس رات میں مر جاتی تو زیادہ اچھا رہتا ،ریحان کی اپنی پیٹھ پر رینگتی ہوئی انگلیوں کو محسوس کرتی ہوئی خود کے فیصلے پر ۔

اس رات شاہ حویلی سے نکال دینے کے بعد وہ بنا اپنی کو لیے اکیلی ہی حویلی سے نکلی تھی ۔

اندھا دھند بھاگتی ہوئی وہ اپنی آنکھوں میں پڑتی کار کی ہیڈ لائیٹ کی روشنی سے آنکھوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی رکی تھی اور اس ہی وقت اپنے گھر جاتا ہوا ملک ریحان جو نشے کی حالت میں  اپنے  کار ڈرائیوو کرریا تھا،کسی کو گاڑی کے سامنے کھڑے دیکھ اچانک سے بریک لگا گیا تھا ۔

ارے واہ ، نوری کو سامنے دیکھ وہ چہکا تھا ،

کیا ہوا اتنی رات کو اپنے اس دلبربا حسن کو لیے بھاگتی پھر رہی ہو اگر اپنا حسن سنبھالا نہیں جارہا تو مجھے برا دو میں سنبھالنے میں مدد کردیتا ہوں، نشے میں بہکتا ہوا نوری کی جھکا تھا جس پر نوری نے اسے خود سے دور کرنے کے لیے دھکا دیا تھا،  

جس پر وہ ہنستا ہوا پیچھے ہوگیا تھا،

آؤچھوڑ دیتا ہوں تمہیں شاہ حویلی کیا یاد کرے گا تمہارا ارتضی سائیں کہ ملک ریحان نے اس کی حویلی کی نوکرانی کو باعزت چھوڑ کر گیا ہے  ،شام بے نیازی سے کہتا ہوا ارتضی کے نام پر آئے نوری کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر سنجیدہ ہوا تھا ۔

مجھے نہیں جانا شاہ حویلی واپس ،وہ بھرائی آواز میں  بولی تھی ۔

پھر کہاں جاؤ گی اتنی رات میں، آنکھوں پر زور دیے وہ پوچھ رہا تھا۔

کسی ایسی جگہ جہاں میں شاہ حویلی کی نوکرانی کے نام سے جانی نا جاؤ،جہاں میرا نام اور اوقات دونوں سے کوئی بھی واقف نا ہو  ۔نم آنکھوں سے بولتی ہوئی خود انجان تھی کہ اسے کہ ان جانا ہے،۔

اگر تم چاہوں تو میں تمہیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاسکتا ہوں مگر ایک شرط پر  ،بنا لڑکھڑائے لہجے میں وہ سنجیدہ سے بول رہا تھا۔

کیسی شرط، ریحان جیسے شخص سے اسے ویسے اچھے کی امید کہ ان تھی پھر بھی وہ پوچھ گئی تھی ۔

مجھے تم چاہیے ہو اور تمہیں نام، اوقات کے ساتھ دولت اور شہرت چاہیے ،صحیح کہا نا ،ریحان کو پھٹی نظروں سے دیکھتی ہوئی وہ مثبت میں گردن ہلا گئی تھی ۔

آؤ گاڑی میں بیٹھوں تم شہرت کی دنیا میں اپنے ساتھ لے کر چلتا ہوں، مکرنا مت تم میری بن کر رہو گی، جیسا میں کہوں گا ویسا ہی کرو گی پھر دیکھنا کیسے آسمان کو چھوٹی ہو تم ،اوپر سے لے نیچے تک اسے دیکھتا ہوا نوری کا ہاتھ پکڑ کر اسے کار میں بیٹھا گیا تھا،

تھوڑی دیر کی مسافت کے بعد گاڑی  ملک ہاؤس کے پورچ ایریا میں رکی تھی ،

گاڑی کی آواز سن کر باہر آنے والی شمازیہ تھی ریحان ملک کی بیوی جو اس وقت ریحان کے انتظار میں پریشانی سے گھر میں  چکر کاٹ رہی تھی ۔

شکر ہے آپ آئے میری تو جان ہی نکلی جارہی تھی ،ریحان کے پیچھے آتی ہوئی نوری کو دیکھ کر وہ پل بھر کے شاکڈ ہوئی تھی ۔

یہ کون ہے ریحان، 

یہ میرے دوست کی بہن ہے ماں باپ نہیں ہے اس کے ایک بھائی ہی تھا جس کا کچھ عرصے پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا ،اب چچا والوں نے اسے گھر سے نکال دیا ہے یہ تو شکر ہے کہ رات کے اس پہر یہ مجھے مل گئی اگر کسی اور کے ہاتھ لگ جاتی تو نجانے بیچاری کے ساتھ کیا ہوجاتا یہ سوچ کر میں اسے اپنے ساتھ لے آیا اگر تمہیں اچھا نہیں لگا تو میں واپس سے وہیں چھوڑ آتا ہوں جہاں سے یہ مجھے ملی ہیں ۔شمازیہ کی نرم و حساس طبیعت کو اچھے سے جانتا تھا تبھی اس نے دکھی کہانی سنائی تھی ،

وہیں نوری اسے نشے میں بھی اتنے اچھے سے جھوٹ بولتے دیکھ حیران کھڑی تھی ۔

نہیں مجھے ذرا بھی بڑا نہین لگا بلکہ آپ نے تو یہ بہت نیک کام کیا ہے اللہ پاک آپ کو اس اجر دیں گے ۔

اللہ کی گائے ۔نوری کی سمت بڑھتی ہوئی شمازیہ کو دیکھ وہ بڑبڑایا تھا ۔

بہت افسوس ہوا سن کر ویسے نام کیا ہے تمہارا ،سارے سوال یہاں پر ہی پوچھ لینا ،شمازیہ کی بات کاٹتا ہوا تلخ لہجے میں بولا تھا۔

 آؤ میرے ساتھ ،ریحان کے ایسے رویے کی وہ عادی تھی تبھی بنا کوئی تاثرات دیئے وہ نوری کو اپنے ساتھ لیے گھر کے اندر کی طرف  بڑھی تھی۔

آپ کے اور ملک صاحب کے بچے ہیں کیا ،نوری نے اچانک سے پوچھا تھا جس پر وہ مسکرائی تھی ۔

 نوری کو کھانا کھلانے کے بعد شمازیہ اسے اپنے ساتھ لیے گیسٹ روم میں لے جارہی تھی، 

جی میری اور ریحان کی دو جڑواں بیٹاں ہیں ،شمازیہ کے بتانے پر نوری کی نظر اپنے پیچھے کھڑے ریحان پڑگئی تھی ،

جو اسے خاموشی سے جانے کا اشارہ کررہا تھا ۔

نوری کی آنکھیں خود بخود نم ہورہی تھی ان دونوں بچیوں کا سوچ کر۔ 

پچھے سے نوری کو جاتے دیکھ وہ اپنے کمرے میں گیا تھا جہاں اس کی دونوں بیٹیاں بڑی ہی شان سے بیڈ پر سوئی ہوئی تھیں ۔

مجھے معاف کردیں ،ارے پاگل تک معافی کیوں مانگ رہی ہو تمہاری مرضی سے تھوڑی  یہ سب  ہوا ہے،

اس سب میں اللہ پاک کی مرضی شامل ہے اور دیکھنا اس میں تمہاری بھلائی ہی چھپی ہوگی ۔نوری کو گلے سے لگائے وہ انجان بھولی بھالی سی لڑکی مسکرا رہی تھی ،

نوری کو یہاں آئے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا تھا ریحان کی دونوں بیٹیاں انابیہ اور ابیہا دونوں ہی اس سے کافی اٹیچڈ ہوگئی تھی ۔

شمازیہ کو نوری کے پاس ناپا کر ریحان مسکراتا ہوا اس کے آیا تھا ۔

آج ارتضی شاہ کا نکاح ہوگیا ہے، لفظوں پر زور دیتا ہوا ریحان ملک نوری کو دیکھ کر بول رہا تھا ،جیسے اسے سنا رہا ہو۔

نم آنکھوں سے ریحان کو دیکھتی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔

مجھے شہر جانا ہے آج ہی ،

تیار رہنا شام تک لے چلوں گا ،دن بدن نوری کے لیے ریحان کے احساسات بدل رہے تھے ۔

کہاں کھو گئی پریہا نور ،نوری کے آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہراتا ہوا مسکرایا تھا ۔ 

آئس کریم کھانے چلیں، نوری کے انداز سے وہ ایک پل کے چونکا تھا۔

لے کر چلیں گے ۔ریحان کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی وہ پوچھ رہی تھی ،بس یہنی ریحان نے ہار مان لی تھی اور ساتھ لے جانے پر حامی بھر گیا تھا۔

*******

بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ ماہین ،گرین کلر کی کامدار شارٹ فراک کے ساتھ ہم رنگ ڈوپٹہ اور کپری زیب تن کیے ہوئی تھی، لائیٹ سا میک اپ کیے وہ سر پر ڈوپٹہ رکھتی ہوئی اسکن کلر کی کڑھائی  والی چادر کاندھوں پر لیے ہوئے تھی ۔

ارتضی کی ٹکی ہوئی نظریں محسوس کرتی ہوئی ارتضی کے سامنے نظر  اٹھانے سے  گھبرا رہی تھی ۔

تعریف جب کی جاتی ہے تو اسے مسکرا کر وصول کرنا چاہیے ،ماہین کے سر پر ڈوپٹے کو اچھے سیٹ کرتا ہوا وہ اس کے گھبرائے ہوئے چہرے کو  مسکرا کر دیکھ  رہا تھا ۔

چلیں ،نظریں جھکائے ماہین کو ارتضی کے سامنے مزید دیر کھڑے رہنا محال لگ رہا تھا ۔

اب چلتے ہیں ،ماہین کی پیشانی پر عقیدت سے لب رکھتا ہوا ماہین کی بند آنکھیں ہونے کے باوجود پلکیں جھپکتی ہوئی  دیکھ وہ مسکرایا تھا ۔

ارتضی کا ہاتھ پکڑے وہ پیچھے پیچھے چل رہی تھی ۔

ارتضی کے لمس کو پہلی بار اپنی پیشانی پر محسوس کرتی ہوئی وہ مسکرا رہی تھی ۔

ڈاکٹر عامر کے گھر بڑے ہی خوشگوار ماحول میں ڈنر کرکے ارتضی اور ماہین اجازت لے کر وہاں سے واپس سے گاؤں کے لیے روانہ ہوئے تھے، 

ٹریفک آج نا ہونے کے برابر تھا مگر پھر بھی ریڈ سنگل پر ارتضی نے گاڑی روک دی تھی ،ساتھ ہی اس کے پیچھے دو مرسیڈیز بھی رکی تھیں جس میں دولاور شاہ کے بھیجے ہوئے گارڈز موجود تھے جو ارتضی کے لاکھ منع کرنے کے بعد بھی وہ اس کے پیچھے آگئے تھے ۔

کہاں جارہے ہیں آپ ،ارتضی کوسیٹ بیلڈ کھولتے  دیکھ وہ پریشان ہوئی تھی ۔

شادی کے بعد پہلی دفعہ آپ میرے ساتھ کسی لمبے سفر پر آئی ہیں، کچھ خاص کرنا بنتا ہے نا اس لیے آپ یہاں بیٹھیں میں بس ابھی واپس آتا ہوں ،نا سمجھی میں دیکھتی ہوئی وہ ارتضی کو ڈور کھولتے دیکھ رہی تھی ۔  

 ارتضی گاڑی سے اترا کر رائیٹ  سائیڈ پر بنی فلور شاپ کی طرف بڑھا تھا، اس کے پیچھے پیچھے دو گارڈز بھی ساتھ گئے تھے ۔

وہاں سے ماہین کے لیے سرخ گلاب کے کجرے اور وائیٹ لِیلی اور سرخ گلاب کا بکے لیے وہ مسکراتا ہوا واپس سے گاڑی کی سمت بڑھا تھا ۔

گرین سنگل ہوتے ہی وہ گاڑی سائیڈ پر روک گیا تھا۔ 

ہاتھ آگے کریں اپنے ، روبدار لہجہ لیے وہ ماہین کے مسکراتے چہرے کو دیکھ رہا تھا ،

ارتضی کے ہاتھوں میں اپنے لیے لائے پھول دیکھ کر وہ سرشار ہوئی تھی ،فورا سے ہاتھ آگے کرتی ہوئی وہ خاموشی سے  ارتضی کو کجرے پہناتے دیکھ رہی  تھی ۔

سوری ،بکے جو ماہین پرجوش ہو کر لیے تھے مگر ارتضی کی سوری کہنے پر وہ لب دبا گئی تھی ۔

سوری آپکو نہیں مجھے کہنا چاہیے خامخواہ میں نے  آپ کو برا بھلا کہا ہے ،نظریں جھکائے وہ ارتضی کو معصوم لگی تھی ۔

اس لیے یہ بہت میری طرف سے آپ کے لیے ، ارتضی کے دیا ہوا بکے واپس سے اس کی سمت بڑھا گئی تھی ۔

اچھا جی میرے لائے ہوئے پھول آپ مجھے ہی لوٹا رہی ہیں، 

تھوڑی دیر ماہین اسے معصوم لگ رہی تھی مگر اب اس کے انداز پر وہ اسے چالاک بھی نہ کہہ سکا ،

آپ کے نہیں میرے شوہر کے لائے ہوئے پھول ہیں جو میں آپ کو یعنی ڈاکٹر جلاد کو دے رہی ہوں ،شرارت سے کہتی ہوئی ارتضی کو حیران کرگئی تھی ۔

زہے نصیب، مسکراتے ہوئے سر کو خم کرتا ہوا وہ ماہین سے بہت لے کر ڈیش بورڈ پر رکھ گیا تھا ۔

ارتضی کے قریب ہوتی ہوئی وہ کار ڈرئیوو کرتے ہوئے ارتضی کے کندھے  پر  سر رکھ کر اپنی آنکھیں بند کرگئی تھی ۔

نیند آرہی ہے آپ کو ،ماہین کے اس طرح سے اپنے کندھے پر سر رکھنے سے اسے یہ ہی گماں ہوا تھا۔

نہیں ،سر اوپر کرتی ہوئی وہ ارتضی کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔

آپ گانے نہیں سنتے کیا ،اس دن بھی جب آپ مجھے ہسپتال سے چھوڑنے بخاری ولا جارہے تھے ،تب بھی کوئی گانا نہیں چلایا تھا آپ نے ،

چلیں جب تو مینرز کے خلاف ہوتا ،مگر اب تو چلا ہی سکتے ہیں نا ۔ارتضی کے کندھے پر سر رکھے ہوئی وہ شکوہ کن انداز میں بول رہی تھی ،

میں ایسے ایسے گانے سنتا ہوں پھر آپ ہی شرم سے پانی پانی ہوجائیں گی، شرارت سے کہتا ہوا وہ پوری طرح سے  ڈرائیونگ پر متوجہ تھا۔

پھر نا ہی چلائیں تو بہتر ہے  ،ارتضی کے کہہ الفاظ پر وہ پہلے ہی انکار گئی تھی ۔

اب تو چلانے پڑے گے کیونکہ میری بیوی نے مجھ سے پہلی بار کوئی شکوہ کیا ہے، میوزک پلیئر آن کرتا ہوا وہ ماہین کی پھٹی ہوئی آنکھوں کو یکسر اگنور کرگیا تھا۔

کیسے بتائیں کیوں تجھ کو چاہیں یارا بتا نا پائیں 

باتیں دلوں کی دیکھوں جو باقی آکے تجھے سمجھائیں

                 تو جانے  نا تو جانے 

ماہین کے لب مسکرا اٹھے تھے  جبکہ ارتضی اسے اس طرح مسکراتے دیکھ لب دبائے ہوئے تھا ،

مل کے بھی ہم نا ملے تم سے نجانے کیوں 

میلوں کے ہیں فاصلے تم سے نجانے کیوں 

ارتضی کے کندھے پر سر رکھے ہوئی وہ ٹکٹکی باندھے ارتضی کو ہی دیکھ رہی تھی ۔

انجانے ہیں سلسلے تم سے نجانے کیوں 

سپنے ہیں پلکوں کو تلے تم سے نجانے کیوں   

ارتضی کے ہلتے لبوں کو وہ بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔

کسے بتائیں کیوں تجھ کو چاہیں یارا بتا نا پائیں 

باتیں دلوں کی دیکھوں جو باقی آکے تجھے سمجھائیں 

تو جانے نا ، تو جانے نا تو جانے نا تو جانے نا، ،،

  نگاہوں دیکھوں میری جو ہے  بس گیا 

   وہ ہے ملتا تم سے ہوبہو 

ماہین کے ساتھ ہوئے نظروں کے تناسب پر وہ چند پل کے لیے خود کو ان میں ڈوبتہ ہوا محسوس کررہا تھا ،

جانے تیری آنکھیں تھیں یا باتیں تھی وجہ 

ہوئے تم جو دل کی آرزو 

اگلے ہی پل وہ واپس سے نگاہیں سامنے کی طرف کرتا ہوا اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا مسکرایا تھا،

اپنے ساتھ رکی گاڑی سے بھی اس ہی گانے کی آواز پر وہ ماہین کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔ 

تم پاس ہوکے تم آس ہوکے بھی احساس ہوکے بھی 

اپنے نہیں ایسے ہم کو گلے تم سے نجانے کیوں 

تو جانے نا تو جانے نا تو جانے نا تو جانے نا تو جانے نا 

اگلے ہی پل سگنل پر  اپنے ساتھ رکی گاڑی کے شیشے کے ساتھ سر کو ٹکائے ہوئی آف سلیوو وائیٹ ٹی شرٹ پہنے ہوئے اپنے بالوں کی ہائی ٹیل پونی بنائے ہوئی لڑکی جسے پہچاننے میں اسے ذرا تاخیر نہیں لگی تھی ،

نوری کو ریحان کے ساتھ دیکھ کر وہ چونکا تھا ،  

نوری ، زیر لب وہ بڑبڑایا تھا ۔

کچھ کہا آپ نے، کندھے پر ہنوز سر رکھے ہوئے ماہین کو ارتضی کی بڑبڑاہٹ سمجھ نہیں آئی تھی، 

کچھ نہیں، فورا سے گاڑی کا شیشہ اوپر کرتا ہوا سگنل توڑتا ہوا گاڑی کو ہوا کی طرح اڑا کر وہاں سے گم ہوا تھا،

دھول اٹھاتی  گاڑی کو جاتے دیکھ نوری جو پہلے ہی گانا سنتی ہوئی ارتضی کو سوچ رہی تھی ۔

فضا میں اڑتی دھول کو دیکھ  افسردگی  سے  مسکرائی  تھی ۔

کیا کررہی ہو تم لڑکی اپنے ساتھ ،ڈرائیوو کرتا ہوا ارتضی نوری کے بارے میں سوچ رہا تھا، 

پھر اپنے کندھے پر سر رکھے سوئی ہوئی ماہین کو دیکھ وہ تشکرانہ انداز میں مسکرایا تھا 

*******

چار سال پہلے ۔

گڈ مارننگ ڈاکٹر ارتضی ،ستائیس سالہ ارتضی جو بلیو جینر پر لائیٹ پنک کلر کی شرٹ کو کہونیوں تک فولڈ کیے ہوئے اپنے ڈارک براؤن والوں کو پیشانی پر بکھرائے ہوئے تھا، جو اس کا مخصوص انداز تھا 

جوکر کے کھلے ہوئے تسموں کی فکر کیے بغیر ہر فی میل نرس کی ستائش بھری نظروں کا مسکرا کر جواب دیتا ہوا ریسپشن ایریا سے گزرتا ہوا اپنے وارڈ کی جانب بڑھ رہا تھا ۔

جب سامنے سے آتی ہوئی ڈاکٹر رامین کو دیکھ کر خود پر سنجیدگی طاری کرگیا تھا۔

گڈ مارننگ ڈاکٹر ارتضی، جذبات سے لبریز لہجے میں مسکرا کر ڈاکٹر رامین بولی تھیں ۔

گڈ مارننگ، جبران مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بول گیا تھا ۔

آپکو یاد ہے نا آپ کا پرومس ،ارتضی کے نا سمجھی والے تاثرات دیکھ وہ مسکرائی تھی ۔

آج شام سرجری سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو میرے ساتھ کافی کے لیے چلنا ہے، وہ یاد دلاتی ہوئی ارتضی کے ساتھ کافی ہر جانے کے لیے سوچ کر ہی  پرجوش ہورہی تھی۔

اوہ تو کافی کا وعدہ میں نے آپ کو دیا تھا سوری میرے دماغ سے نکل گیا تھا، ڈاکٹر رامین کے سامنے اپنی پھسلتی  زبان کو دانت  تلے دبا گیا تھا،

میں کچھ سمجھی نہیں، 

اچھا ہی ہوا کہ آپ کچھ نہیں سمجھی ،دانتوں کی نمائش کرتا ہوا وہ رامین کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت اس کو ہنستے دیکھ کھوئی ہوئی تھی ۔

شکر ہے ۔دل ہی دل اپنے نا پکڑے جانے کا شکر ادا کرتا ہوا وہ رامین کے چہرے کے آگے ہاتھ ہلا کر اسے ہوش کی دنیا میں لایا تھا۔

ایک گھنٹے کے اندر اندر میں سرجری سے فری ہوجاؤں گا، جب تک آپ بھی فری ہوجائیں گی پھر ہم ساتھ چلیں گے ۔وہ کہہ کر وہاں رکا نہیں تھا ۔

وارڈ میں داخل ہوتے ہی فی میل نرس اسٹاف سے سرخ گلاب لیتا ہوا وہ مزید مغرور ہوا تھا ۔

سدھر جاؤ ارتضی شاہ، پیچھے سے ڈاکٹر عامر کی سرگوشی پر ہنسا تھا 

میں تھوڑی کہتا ہوں کہ مجھے پھول دیں خود ہی مجھے مسکرا کر پھول دیتی ہیں تو میں لے لیتا ہوں ۔

آپ تو جانتے ہی ہیں ارتضی شاہ اپنے گاؤں کی لڑکیوں کے علاوہ کسی لڑکی کو انکار نہیں کرتا پھر چاہے وہ پھول دیں یا پھر کافی کی آفر، چیئر پر جھولتا ہوا مسکرا رہا تھا ۔

گاؤں کی لڑکیوں کو بھی کیوں چھوڑا ہے تم نے ،چیئر پر بیٹھتے ہوئے ارتضی کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔

شہر کی اور گاؤں کی لڑکیوں میں فرق ہے یہاں کسی پر پابندی نہیں ہے اور وہاں فقط پابندی ہی پابندی ہے ، ہنوز چیئر پر جھولتا ہوا تھوڑی سنجیدگی سے بول رہا  تھا۔

ہمہم، پھر کتنی لڑکیوں کے ساتھ ڈیٹ ہے آپ کی ،ٹیبل پر کہونی ٹکرائے وہ دلچسپی سے پوچھ رہے تھے ۔

چار کے ساتھ ہے ،لب دبا کر وہ نظریں جھکائے جواب دیتا ہوا ڈاکٹر عامر کے ری ایکشن کی وجہ سے ایسے بول رہا تھا ۔

چار کم نہیں ہیں، طنزیہ انداز میں استفسار کیا تھا ۔

ہیں نآ مجھے بھی کم ہی لگ رہی تھیں، پرکیا کرسکتے آج سرجری بھی کرنی ہے ،تو اس لیے صرف چار ہی ڈیٹ کے لیے ٹائم نکال سکا ،ڈاکٹر عامر کے طنز کو وہ بنا سمجھے بول رہا تھا۔

توبہ استغفار ،کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے وہ اپنی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

اللہ معاف کرے ارتضی تم سے ،جوابا ارتضی زندگی کے سے بھرپور قہقہ لگا گیا تھا ۔

تیار ہو سرجری کے لیے ویسے، ڈاکٹر عامر کے سوال پر وہ سنجیدہ ہوا تھا ۔

آج تک میرے کیرئیر کی کوئی بھی سرجری ناکام ٹھہری ہے ،مغرور لہجہ خود پر حددرجہ اعتماد لیے وہ تیار تھا ،

انشاءاللہ کہنے کی عادت ڈال لو ارتضی شاہ  ،نصیحت کرتے ہوئے وہ وہاں سے گئے تھے ۔

*******

یار ماں فون اٹینڈ کرنے کے بعد کہاں چلی جاتی ہیں آپ ،ارتضی کی شوخ آواز سن کر وہ مسکرا اٹھی تھیں ۔

کہیں نہیں بس تمہیں خاموشی سے سنتی ہوں۔

اچھا میں نے آپ کو یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا آج مجھے سرجری کرنی ہے دعا کیجئے گا، کہ کامیاب ٹھہروں ،   

 سنجیدگی سے کہتا ہوا سرجری کرنے کے لیے تیار کھڑا ہوا تھا ۔

اللہ پاک اپنا کرم کرے اور میرا بیٹا کامیاب ٹھہرے ہمیشہ کی طرح، ڈھیر ساری دعائیں لیتا ہوا وہ فون آف کرکے آپریشن تھیٹرر کی جانب مضبوط و شوخ قدموں  کے ساتھ بڑھا تھا ۔

ڈاکٹر ارتضی آپ تیار ہیں، سنیئر ڈاکٹر امتیاز نے اسے مسکراتے دیکھ پوچھا تھا ،

ہمیشہ کی طرح آج بھی تیار ہوں ،آنکھوں میں مغروریت چھلکتی صاف دیکھائی دے رہی تھی ۔

مغرور ہونا بنتا بھی تھا اس کا کیریئر کی شروعات ہی کامیابی سے کرنے والا ارتضی شاہ سینئرز کے آگے بھی آج تک ڈر سے نہیں کانپا تھا۔

ویری گڈ ڈاکٹر ارتضی، ارتضی کے کانفیڈینٹ لیول کو دیکھ ڈاکٹر امتیاز خوش ہوئے تھے۔

لائٹس آن ہوتے ارتضی کا جسم پل بھر کے لیے ساکت ہوا تھا اسٹریچر پر لیٹے ہوئے بچے کو دیکھ کر ،

اس کی سرجری کرنی ہے ،حیرانگی سے پوچھتا ہوا وہ اس بچے کو ہی دیکھ رہا تھا۔

آپ نے رپورٹس پڑھی تھیں ۔ڈاکٹر امتیاز نے اسے سے حیرت سے پوچھا تھا ۔

پڑھی تھی مگر اس چھوٹے سے بچے کا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا ،ارتضی کو تو صرف اتنا معلوم تھا کہ جس کی آج وہ سرجری کرنے جارہا ہے اس کی آنکھ کی بینائی پر ایکسیڈنٹ اثر ہوا تھا۔

ارتضی ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے سوچنے کا جلدی سے سرجری اسٹارٹ کرنی ہوگی ہمیں ،ساکت کھڑے ارتضی کو دیکھ وہ سرجری اسٹارٹ کرنے کا کہہ چکے تھے ۔۔

آئی ایم سوری میں یہ سرجری نہیں کرسکتا  ،دو قدم پیچھے ہوا تھا ۔

اب آپ مکر نہیں سکتے ارتضی شاہ، سرجری آپ کو ہی کرنی ہے ارتضی شاہ، اور آپ کرسکتے ہیں۔حوصلہ افزائی کرتے ہوئے وہ اسے کندھے پر ہاتھ رکھ گئے تھی ۔

یہ سرجری ریزکی ہوسکتی ہے بچہ بہت کم عمر ہے سر ،ارتضی کے لہجے ڈر عیاں تھا ،کاش وہ پہلے ہی رپورٹس میں بچے کی عمر  پڑھ لیتا تو شاید آج سرجری کی نوبت ہی نہ آتی ۔

ارتضی کے منع کرنے باوجود بھی ڈاکٹر امتیاز سرجری شروع کر چکے تھے ۔

سرجری کرتے ہوئے ارتضی کے ہاتھ پہلی بار کانپ رہے تھے ساتھ ساتھ اسے اس بچے کی بینائی جانے کا ڈر الگ ستائے جارہا تھا۔۔

ہوا بھی کچھ یہ ہی اذہان کی آنکھیں اپنی روشنی کھو گئی تھیں، ارتضی شاہ کے کیریئر کا پہلا کیس ناکام ٹھہرا تھا جو ارتضی شاہ کو بدل گیا تھا۔

آپریشن ناکام ٹھہرا تھا کیونکہ اذہان کی آنکھ پر لگائے گئے لینز ری ایکٹ کرگئے تھے ۔

ارتضی شاہ وہیں اپنا ساکت وجود لیے ایک ہی جگہ جم گیا تھا ۔

********

میں کہا تھا ڈاکٹرامتیاز اس وقت یہ بچہ سرجری کے لیے تیار نہیں ہے،بے بسی کی کیفیت میں کہتا ہوا غرلایا تھا ۔

غلطی میری نہیں ڈاکٹر ارتضی شاہ غلطی آپ کی ہے،ارتضی کے منع کرنے کے باوجود بھی ڈاکٹر امتیاز کی ضد پر اس نے سرجری اسٹارٹ کی تھی ،اور اب اسے ہی مجرم ٹھہرا کر وہ خود کو بڑی آسانی سے بری الذمہ کرگئے تھے،

 اگر آپ بچے کی رپورٹ اچھے سے پڑھ لیتے تو یہ سب نا ہوتا ،

پہلے اس بچے کی ایک آنکھ بینائی کم تھی مگر تمہاری غلطی کی وجہ سے آج یہ بچہ نابینا ہوگیا ہے، اس سب کے زمیدار تم ڈاکٹر ارتضی، صرف اور صرف تم ،پھٹی ہوئی آنکھوں سے کبھی اذہان کو دیکھ رہا تھا تو کبھی مسلسل اسے غلط کہتے ہوئے اپنے سے سینئر ڈاکٹر امتیاز کو جو ہر لحاظ میں اس سے بہتر ڈاکٹر کہلواتے تھے مگر آج اس ناکام سرجری کا زمیدار وہ اکیلا ہی ٹھہرا تھا ۔

تم ڈاکٹر کہلوانے کے لائق نہیں ہو ارتضی شاہ ،آج کے بعد تم ڈاکٹر کے نام پر سیاہ دھبہ کہلوائے جاؤ گے ،  

اب اس کی فیملی کو جواب تم ہی دو گے کیونکہ یہ سرجری تمہاری زیرنگرانی میں کی گئی تھی ،ارتضی کو زمیدار ٹھہراتے اپنا پلہ جھاڑ کر  وہ وہاں سے گئے تھے، 

کبھی کبھی غلطیاں سینئرز  کرجاتے ہیں  اور الزام جونئیرز کے سر ڈال دیتے ہیں فقط اپنے کامیاب کیرئیر کی خاطر دوسروں پر الزام رکھ وہ خود بڑی آسانی سے بچا جاتے ہیں ۔

یہاں پر بھی ارتضی شاہ کے ساتھ یہ ہی سب ہوا تھا ،سرجری بیشک ارتضی کی زیر نگرانی ہوئی تھی مگر کرنے والے ڈاکٹر امتیاز تھے جن کی ضد اور جلد بازی پر سرجری کا آغاز کیا گیا تھا، 

ارتضی اچھے سے جانتا تھا اگر وہ زمیدار ہے تو اس سے کئی زیادہ زمیدار  ڈاکٹر امتیاز تھے ۔

نم آنکھوں سے اذہان کو دیکھتا ہوا ارتضی شاہ آج ٹوٹ گیا تھا، ٹوٹے ہوئے قدموں سے چلتا ہوا وہ اذہان کے پاس آیا تھا،

اس وقت آپریشن تھیٹر میں ارتضی اور اذہان کے سوا کوئی بھی ذحی روح موجود نہیں تھی ،

ایم سوری بچے ،میری وجہ سے تمہاری بینائی چلی گئی مگر میرا وعدہ ہے ارتضی شاہ کا وعدہ ہے تم سے،

 میری وجہ سے تمہاری بینائی گئی ہے نا تو میں ہی تمہاری بینائی واپس لاؤں ،آنکھوں کی جگہ سفید رنگ کی بندھی پٹی کو دیکھتا ہوا بے ہوش پڑے اذہان کا ہاتھ پکڑ کر رو رہا تھا،

تم تو ڈاکٹر کہلوانے کے لائق نہیں ہو ارتضی شاہ ،ڈاکٹر امتیاز کے کہے الفاظوں کو یاد کرتے ہوئے اس کے آنسوؤں میں روانگی آئی تھی ۔

ارتضی ۔

میں واقع ہی ڈاکٹر کہلوانے کے لائق نہیں  ہوں،اذہان کے ہاتھ پر سر گرائے روتا ہوا ارتضی ڈاکٹر عامر کی آواز پر سر اٹھا گیا تھا،

میں نے اس کی بینائی چھین لی ڈاکٹر عامر، جو عمر اس کی دنیا دیکھنے کی تھی میں دیکھنے کی قوت چھین لی اس سے ،مجھے نہیں پتا یہ کیسے ہوگیا میں نے منع کیا تھا سرجری کرنے سے مگر میری نہیں ایک نہیں سنی  ،اور یہ دیکھیں نا یہ ،ہچیکوں کے ساتھ بچوں کی طرح روتا ہوا اذہان کے نابینا ہونے کا سوچ سوچ کر ہلکان ہورہا تھا ،

مجھ سے غلطی کیسے ہوگئی ،دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنے بالوں کو نوچتا ہوا وہ زانوں کے بل بیٹھتا چلا گیا تھا،۔

سب ٹھیک ہوجائے گا ارتضی، تمہاری غلطی نہیں ہے میں جانتا ہوں ،نرسسز نے بتایا ہے مجھے ،ارتضی کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے نم لہجے میں بول رہے تھے،

کیسے نہیں ہے میری غلطی ،میں نے رپورٹس نہیں پڑھی اچھے سے یہ سب سے بڑی غلطی ہے میری ،خود کو دنیا کا قابل ڈاکٹر مان بیٹھا میں ، 

میں کیا جواب دوں گا اس ماں کو جو مجھ پر آس لگائے بیٹھی ہوئی ہے اور اس باپ کو جو اپنے بیٹے کی ایک آنکھ کی بینائی صحیح کروانے کے لیے آئے تھے مجھ سے اور میں نے دونوں  آنکھوں کی بینائی چھین لی ان کے بیٹے سے،

ڈاکٹر عامر کے شانے پر سر رکھ کر وہ خود کو الزام دیتے ہوئے اذہان کے والدین کا سامنہ کرنے سے ڈر رہا تھا، 

صحیح کہا ڈاکٹر امتیاز نے میں ڈاکٹر کہلوانے کے قابل نہیں ہوں ،ایک سیاہ دھبہ ہوں ڈاکٹرز کے نام پر ۔

ایک حل ہے جس سے اذہان کی بینائی واپس آسکتی ہے ،کافی دیر مسلسل خود مجرم ٹھہراتا ہوا ارتضی کچھ توقف کے بعد بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتا  کھڑا ہوا تھا ۔

کیا ،ڈاکٹر عامر بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے ۔

میں اپنی آنکھیں دے دیتا ہوں پھر سب ٹھیک ہوجائے گا، ہذیانی انداز میں کہتا ہوا ڈاکٹر عامر کو اس وقت ہوش میں نہیں لگا تھا،

تم پاگلوں جیسی باتیں مت کرو ہوش میں آؤ ڈاکٹر ارتضی شاہ، 

میں ڈاکٹر کہلوانے کے لائق نہیں ہو، دانت دبائے وہ چلایا تھا ۔

ارتضی کی حالت دیکھ وہ خود کو رونے سے باز رکھنے کی کوشش کے باوجود بھی رو دیئے تھے ۔

ڈاکٹر تو لوگوں کے مسیحا ہوتے ہیں خدا کا دوسرا روپ کہلاتے ہیں، انہیں ٹھیک کرکے انہیں نئی زندگی دیتے ہیں اور میں نے تو اس سے زندگی کے سارے  رنگ ہی چھین لیے ہیں۔  

بے بسی اے اپنے ہاتھوں کو دیکھتا ہوا وہ اپنے لبوں کو دانتوں تلے دبا گیا تھا ۔

لمبے لمبے سانس لے کر خود کو پرسکون کرو   ،ارتضی انہیں اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز تھا جب ہی اسے تکلیف میں کر وہ خود بھی تکلیف محسوس کررہے تھے ۔

لمبے سانس خارج کرتے آنسوؤں سے بھیگے ارتضی کے چہرے کو دیکھ کچھ دیر پہلے والے شوخ و پراعتماد ارتضی کو سوچ کر انکی آنکھیں مزید نم ہورہی تھی ۔

ریلکس کرو ،اب چلو باہر اذہان کے والدین کو جواب بھی تمہیں ہی دینا ہے ،آنکھوں کو بے دردی سے رگڑتا ہوا وہ باہر جانے کے لیے تیار ہوا تھا،

میں انہیں کیا جواب دوں گا ،جاتے ہوئے وہ کرب سے پوچھ رہا تھا،

بس تمہیں امید کا دامن تھامنا ہے اور پھر انہیں بھی امید دلوانی ہے ،ڈاکٹر عامر کی بات پر لب دبائے آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تھا ساتھ ڈاکٹر عامر بھی اس کے ساتھ ہی تھے ۔

حددرجہ سرخ ہوئی ارتضی کی سیاہ آنکھیں بکھرا حلیہ دیکھ اذہان کے والدین کو کھٹکا تھا،

ایم ویری سوری مسٹر اینڈ مسسز خان ،اذہان کی سرجری ناکام ٹھہری ہے ،اس سے آگے بولنے کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی ارتضی کی۔

 ہمت جمع کرتا ہوا وہ بولنے کی سعی کرتا ہوا پھر سے بول رہا تھا،

وہ سرجری کے لیے اسٹیبل نہیں تھا جس وجہ سے وہ اس کی بینائی چلی گئی ہے ،لڑکھڑاتے لہجے میں وہ ابھی بول رہا تھا کہ اچانک سے اذہان کے والد نے اسے گریبان سے پکڑ لیا تھا، 

جب وہ سرجری کے لیے اسٹیبل تھا ہی نہیں تو تم نے سرجری کی کیوں ،

بنا خود کو چھوڑانے کی کوشش کیے وہ سر کو جھکائے  اپنی نم آنکھیں بند کرے ہوئے تھا۔

مسٹر خان ،ارتضی کو چھوڑیں ،ڈاکٹر عامر کی اور چند میل اسٹاف نے مل کر ان سے ارتضی کو چھڑوایا تھا،

آپ پلیز ہمت مت ہاریں کچھ عرصے انشااللہ پھر سے اذہان کی سرجری کی کوشش کی جاسکتی ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، کسی لوٹے ہوئے مسافر کی طرح بے بس کھڑا ارتضی منہ پر ہاتھ رکھے روتی ہوئی اذہان کی ماں کو دیکھ رہا تھا جو کچھ بھی کہنے یا سننے سے قاصر فقط اذہان کی بینائی چلے جانے کے سوگ منا رہی  تھیں ۔

آنٹی میں نے منع کیا تھا سرجری کے لیے ،ان کی زانوں ہر ہاتھ رکھے وہ یقین دہانی کرا رہا تھا ،

میرے بیٹے کے ساتھ ایسا کیوں کیا تم نے ،تم تو شہر کے جانے مانے ڈاکٹرز میں سے ایک ہو نا تو پھر کیسے سرجری ناکام ٹھہری، کیا دشمنی تھی میرے بیٹے کے ساتھ تمہاری ،ان کی بات پر کرب آنکھیں میچتا ہوا پہلی بار کسی کے سامنے اس طرح بے بس ہوا تھا ۔

میری کوئی دشمنی نہیں ہے اس بچے کے ساتھ ،مراد خان نے اسے قہر  برساتی نظروں سے گھورا  تھا ،

آخر کو اذہان ان کے خاندان بھر کا سب سے لاڈلا اور اکلوتا وارث تھا۔

آپ لوگ مجھے ایک موقع تو دیں میں آپ کے بیٹے کو واپس سے ٹھیک کرنے کا، گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا ارتضی شاہ اس وقت کسی بھیکاری کی طرح بھیک مانگتے ہوئے ہاتھ جوڑ گیا تھا ۔

دیا موقعہ ،مراد خان سے پہلے مسسز خان بول گئی تھیں ۔

میں اپنے بیٹے کا علاج اچھے اسپیشلسٹ سے کرواؤں گا، یہاں نہیں تو میں اسے آؤٹ آف کنٹری لے کر جاؤں گا ،مگر اس شخص کے حوالے پھر سے نہیں کروں گا، مسٹر خان کے سخت گیر لہجے میں کہتے سن ارتضی نے نم آنکھوں سے ڈاکٹر عامر کو دیکھا تھا جو اس وقت آنکھوں میں نمی لیے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔

آپ بھروسہ تو کریں اگر مجھے اذہان کو اپنی آنکھیں تک دینی پڑی تو میں ذرا تاخیر نہیں کروں گا ،

میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں ،پلیز میرے حال ہر رحم کھائیں ورنہ میں ساری زندگی پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہوں گا، 

بے بسی سے ہاتھ جوڑتے دیکھ مراد خان  کے اعصاب ڈھیلے  پڑے تھے ۔

دیا موقعہ تمہیں ارتضی شاہ اگر اس بار کوئی بھی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا سیدھا اریسٹ کرواؤں گا تمہیں، ارتضی کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ انہیں قائل کرگیا تھا ،

اب کوئی کوتاہی کوئی غلطی نہیں ہو گی مجھ سے ،زیر لب بڑبڑاتا ہوا وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

اذہان سے ملنے کے بعد وہ اذہان کو ارتضی کے حوالے کیے  وہاں سے مردہ قدموں کے ساتھ گئے تھے ،

*******

دن ہفتوں سے مہینوں میں بدل گئے تھے ،ارتضی اور مسٹر خان کا رابطہ مضبوط ہوتا جارہا تھا۔

ساری ساری رات حویلی کے آخری کونے والے کمرے میں ارتضی اذہان کے ساتھ سارا سارا دن بنا کھائے بنا گزار دیتا تھا ۔

اور راتیں سجدوں میں گڑگڑا کر دعائیں مانگنے میں ،مگر ملال تھا کہ کم ہونے کو ہی نہیں ہورہا تھا ۔

شوخ ہنس مکھ مزاج کا حامل ارتضی شاہ، اپنی شخصیت پر سنگدلی کا خول چڑھا گیا تھا ،

بات بے بات پہلے وہ مسکراتا تھا اور اب وہ ارتضی شاہ مسکرانہ بھول گیا تھا ۔

اس دوران ارتضی کے اچانک لندن جانے کے فیصلے نے سب کو حیران کیا تھا ،

ارتضی کوسیاست کا نامور کارکن بنے دیکھنا دلاور شاہ کی دلی خواہش تھی جسے  روندتا ہوا ارتضی شاہ اذہان کو لیے لندن جا بسا تھا ،

کیسا لگی لندن کی آب و ہوا،اذہان کے لب مسکرائے تھے ارتضی کے پوچھنے کے انداز پر ۔

میں اندھیرا کا جگنو کسے بتا سکتا ہوں کہ لندن کی آب و ہوا کیسی ہے ،اذہان کے الفاظ کسی برچھی کی طرح ارتضی کے سینے میں چبھے تھے۔

محسوس کرسکتے ہو نا تو محسوس کرو اس ہوا کی آواز  کو ،قدموں کی آہٹ کو ،پرندوں کو چہچکاہٹ  کو ،پانی کے قطروں کی آواز کو ،محسوس کرو گے تو دیکھنے سے  زیادہ خوبصورت لگے گا محسوس کرنے کا عمل، 

ارتضی کی کہی بات  پر غور کرتا ہوا اذہان دن بدن اپنی دیکھنے کی کمی کو بھولنے لگا تھا ۔

آئے دن کسی نا کسی ہوسپٹل میں اذہان کے ٹیسٹ کروانے کے بعد ارتضی کی چار سال کی محنت آخر  رنگ لے آئی تھی ،

اذہان کی میڈیکل رپورٹس لیے وہ واپس پاکستان  آنے سے پہلے اذہان کے والدین کو اطلاع دے گیا تھا،

ارتضی شاہ اور اذہان نے جیسے ہی پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھے تھے ویسے ہی مسٹر خان اذہان کو اپنے ساتھ چند دن کے لیے لے گئے تھے ،

********

حال ۔۔۔۔۔

 ماہین کے ساتھ گزرے یہ چند دن ارتضی شاہ کے لیے بہت زندگی کے خاص ترین دنوں میں سے ٹھہرے تھے ،

بہت حد تک ماہین کو ارتضی کی عادت ہوچکی تھی  رات کو اس کے سینے پر سر رکھ کر سونا تو کبھی راتوں کو اٹھ کر اس کی غیر موجودگی سے پریشان ہوجانا ،

کبھی ماہین بے وجہ بات بے بات ارتضی کو تنگ کرنا تو کبھی رات میں اپنے ہاتھوں کی بد مزہ چائے بنا کر ارتضی کو دینا جو ارتضی اس کی خوشی کی خاطر مسکرا کر پی جاتا تھا ۔

اور ہر بار ماہین اس کے بولنے کے انتظار میں ہی رہتی تھی مگر وہ شخص اپنی خاموشی سے اسے یہاں پر بھی حیران کر جاتا تھا ۔

آج ارتضی شاہ کی زندگی وہ دن آگیا تھا جسے سوچتے ہوئے    رات بھر جاگتا تھا ،جس وجہ سے  نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور رہتی تھی ،

آج بھی ساری جاگ کر اس نے اذہان کی رپورٹس پڑھی تھیں ،اس کے بعد بھی وہ دوبارہ سے پڑھ رہا تھا کہ کہیں کوئی بھی پوائنٹ اس کی نظر سے چھوٹ نا گیا ہو  ،

ڈر لگ رہا ہے آپ کو ،ارتضی کو کئی بار رپورٹس کو پڑھتے دیکھ ماہین نے اس سے پوچھا تھا ،

تھوڑا تھوڑا، عجیب سی بے چینی لیے وہ مخاطب ہوا تھا ۔

مجھے ڈاکٹر جلاد پر تو نہیں پر منت ہسپتال کے رحم دل ڈاکٹر اور اپنے شوہر ڈاکٹر ارتضی شاہ پر پورا یقین ہے ،ارتضی کے ہاتھ پر ہلکا سا دباؤ دیتی ہوئی خود بھی گھبرا رہی تھی، 

جب سے اسے ارتضی کی آخری سرجری  کے بارے میں معلوم ہوا تھا ۔

انشاءاللہ اللہ پاک نے چاہا نا تو آپ ضرور کامیاب ہونگے ،ارتضی کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ ماہین اس پر اعتبار کرتی تھی ۔

انشاءاللہ ،ماہین  کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا تھوڑا پرسکون ہوا تھا ۔

آپ چلیں گی میرے ساتھ ،آس بھرے لہجے میں اس نے پوچھا تھا ۔

آپ جائیں میں سب کے ساتھ آؤں گی وہاں ،جانے کا تو بہت دل تھا اس کا بھی مگر خود کو مضبوط ظاہر کرنے کے لیے اس تھوڑا وقت درکار تھا۔

جیسی آپ کی مرضی ،ماہین کی پیشانی پر رکھتا ہوا ہاتھوں میں رپورٹس پکڑے وہ جانے کے لیے مڑا تھا جب اچانک سے ماہین کو اپنی روکے  دیکھ حیران ہوا تھا ۔

تھوڑا جھک سکتے ہیں آپ ،وہ نا سمجھی میں بھنویں سیکڑ کر ہلکا سا جھک گیا تھا ۔

تھوڑا  اور جھک جائیں ،ارتضی کے ہلکے سے جھکنے پر زچ آئی تھی ۔

اوکے ،ارتضی کے جھکنے سے پہلے ہی ماہین پیروں کے پنجوں پر کھڑی ہوتی ہوئی ارتضی کی کشادہ پیشانی پر اپنے نازک لب رکھ گئی تھی ۔

ارتضی جو ماہین کے عمل پر  شاکڈ کھڑا ہوا تھا ۔

فی امان اللہ، آیت الکرسی سے اس ہر حصار باندھتی ہوئی اسے جانے کی اجازت دیتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

جلدی آئیے گا ،جاتے ہوئے وہ اسے جلد آنے کا کہنا نہیں بھولا تھا۔

سب کی دعاؤں کے ساتھ ارتضی شاہ ہسپتال کے لیے نکلا تھا ۔

کچھ دیر بعد کسی سرجری کے لیے اس نےہسپتال میں قدم رکھے تھے ویسے تو وہ عموما ہی ہسپتال میں راونڈ لگاتا رہتا تھا ۔ 

چار سال پہلے اور آج کے ارتضی میں رات دن کا فرق تھا ، چار سال پہلے والا شوخ و مضبوط قدم والا ارتضی شاہ جیسے کہیں کھو گیا تھا،

آج  اس کے قدموں میں سستی و سرجری کا ڈر صاف عیاں تھا ،

ہر چھوٹے سے چھوٹے سے پوائنٹ پر زیر غور کیے آج چار سال بعد  ارتضی شاہ کی زیر نگرانی میں اذہان کی سرجری شروع ہوئی تھی ،

ڈر کو سائیڈ کیے اپنی آنکھوں پر آئی گلاسس لگائے ہوئے ارتضی شاہ نے اپنے دائیں ہاتھ پر ڈاکٹر ہیر کو کھڑا کیا ہوا تھا ،

جو ارتضی کے کہنے سے پہلے ہی تیار کھڑی تھی آخر کو اس کی پہلی سرجری تھی ارتضی کے ساتھ جبکہ ارتضی کے بائیں ہاتھ پر کھڑے ڈاکٹر عامر شہزاد جو فقط ارتضی کا حوصلہ دینے کی غرض سے آج آپریشن تھیٹر میں موجود تھی ،

ارتضی شاہ کو ملا کر بارہ نرسسز پر مشتمل ڈاکٹر ارتضی شاہ کی ٹیم تیار کھڑی تھی ۔

جبکہ بیرون ملک کے معزز ڈاکٹرز جو سہولت یہاں موجود تھے جو خاص طور پر ارتضی نے اذہان کی سرجری کے لیے بلوائے تھے ،

سرجری شروع ہوتے ہی ڈاکٹر عامر تھوڑے فاصلے ہر کھڑے ہوئے تھے ساتھ میں بیرون ملک سے آئے ڈاکٹرز کو بھی وہ اپنے ساتھ سائیڈ پر لے گئے تھے ۔

ارتضی کے سرجری کرنے انداز کو دیکھ ڈاکٹر عامر اچھے سے پہچان گئے تھے کہ ارتضی شاہ اس وقت خود کی ذات کو بھی بھولائے ہوئے تھا ۔

 وہ اس وقت اپنی پوری توجہ سرجری پر مرکوز کیے ہوئے تھا، 

ایک گھنٹے بعد آپریشن تھیٹر کی تمام لائٹس آف کردی گئی تھیں ساتھ میں تالیوں کی آواز پر ارتضی ان لوگوں کی جانب متوجہ ہوا تھا۔

 ریلکس ڈاکٹر ارتضی شاہ، اب رونے کا وقت نہیں ہے اب تو خوش ہونے کا وقت ہے آخر کو سرجری کامیاب ٹھہری ہے ،  اپنا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ لیےارتضی وہیں زمین پر سجدہ ریز ہوا تھا ،

ڈاکٹر عامر کی آواز پر سجدہ سے سر اٹھاتا ہوا آنکھیں بندکرتا ہوا چہرہ اوپر کیے مسکرا رہا تھا۔

ارتضی کے چار سال کے انتظار اور لاکھ کوششوں کے بعد آج  اذہان کی سرجری کامیاب ٹھہری تھی  ۔

مبارک ہو ،ارتضی کے ساتھ بغلگیر ہوتے ڈاکٹر عامر  نم لہجے میں بولے تھے ،ان سے الگ ہوتے ہوا وہ اذہان کی طرف بڑھا تھا۔

شکر الحمداللہ ،تمہاری ضد کامیاب ٹھہری اذہان خان ،آئی گلاسس اتار کر نرس کو پکڑاتا ہوا  اذہان کو اسپیشل وارڈ روم میں شفٹ کرنے کا حکم دیتا ہوا خود کو آج چار سال بعد ہلکا محسوس کرتا ہوا آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تھا ،جہاں پر آج اذہان کی فیملی کے ساتھ آج ارتضی شاہ کی فیملی بھی موجود تھی ۔

میں نے آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کیا ہے مسٹر اینڈ مسسز خان ۔نم آنکھوں سے مسکراتا ہوا وہ ان دونوں کے پریشان چہروں کو دیکھ رہا تھا ۔

اذہان کی سرجری کامیاب رہی ہے ،بس کچھ دنوں کا انتظار باقی رہ گیا ہے اس کے بعد اذہان واپس سے دیکھنے لگے گا ،ارتضی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نا تھا، 

وہیں مسٹر اینڈ مسسز خان دونوں ایک دوسرے کے جذبات واقف کچھ بھی کہنے سے قاصر فقط نم آنکھیں لیے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہے تھے ،

تھینک یو ڈاکٹر ارتضی شاہ، میرے بیٹے کی بینائی واپس لانے لے لیے ،مراد خان نم آنکھیں لیے تشکرانہ انداز میں بولے تھے ،

میں نے کچھ نہیں کیا سب اس خدا پاک کا کرشمہ ہے،مراد خان کو  جواب دیتا ہوا وہ مسکرا رہا تھا ۔

تھوڑی دیر بعد اذہان کو ہوش آجائے گا پھر آپ اس سے مل سکتے ہیں، پیشہ وارنہ انداز کہتا ہوا وہ شاہدہ بیگم کی سمت بڑھا تھا ۔

 مجھے پورا یقین تھا میرا شاہ ضرور کامیاب ہوگا ۔ارتضی کی پیشانی پر بوسہ دیتیں ہوئی وہ مسکرا رہی تھیں  ،جبکہ ان کے ساتھ کھڑے دلاور شاہ ارتضی کو  دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔

مبارک ہو بھائی ،ارتضی کے بغلگیر ہوتا حیدر دلاور شاہ کے ساتھ ارتضی کے سرد لہجے کو نوٹ کرگیا تھا ۔

ماہین نہیں آئیں کیا، ارتضی کے پوچھنے پر دلاور شاہ خود پر ضبط کرگئے تھے ،

 ماہین اور ارتضی کو ایک ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھ انہیں لگا تھا کہ ارتضی ان کو دیا ہوا وعدہ بھول گیا ہے ،

ابھی تک تو نہیں آئی مگر حئا کے ساتھ آجائے گی، ارتضی کو برا تو بہت لگا تھا مگر بنا کسی پر ظاہر کیے وہ وہاں سے گیا تھا ۔

*******

ڈاکٹر صاحب یہ پٹی کب کھولے گی، ایک ہفتے سے مسلسل اذہان ایک ہی سوال پوچھ پوچھ کر ارتضی کو تنگ کیے ہوئے تھا ۔

کیوں ،اذہان کے چہرے پر نظریں جمائے وہ مسکرا رہا تھا ،

ان چار سالوں میں اذہان ارتضی کے لیے کتنا اہم ہوگیا تھا یہ ارتضی کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا تھا۔

کیونکہ مجھے سب سے پہلے اپنی نیو مما اور آہ کو دیکھنا ہے اور پھر، 

اور پھر ،اذہان کو رکتے دیکھ وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

پھر میں ڈاکٹر ہیر کو دیکھوں گا، شرارت سے لبریز لہجے میں بولتا ہوا وہ خود بھی مسکرا رہا تھا ۔

شرم کرو وہ بڑی ہیں تم سے ،ہنستے ہوئے ارتضی نے وارڈ روم میں داخل ہوتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر اذہان کے شانے پر ہاتھ رکھا تھا اسے چپ کروانے کی خاطر مگر وہ بھی اذہان تھا ۔چپ ہونے والوں میں سے کہاں تھا۔

اب دیکھیں نا ڈاکٹر صاحب میری آنکھیں واپس آگئی ہیں اور عمر بھی اتنی ہوگئی ہے کہ میری ایک عدد گرل فرینڈ بھی ہونی چاہیے ۔اذہان کی بات پر آبرو ریس کرتی ماہین حیران ہوئی تھی ۔

اذہان تمہیں آرام کرنا چاہیے  ۔دانت دبائے ارتضی اپنی شامت بلوا گیا تھا۔

آپ کی بھی تو کتنی گرل فرینڈز تھی ،ہر روز تین سے چار لڑکیوں کے ساتھ کافی پر جاتے تھے ،میں نے آپ کو کبھی کہا کہ آپ نے غلط کیا یا وہ آپ سے بڑی ہونگی نہیں نا ،ماہین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں ۔

جبکہ ارتضی اذہان کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے چپ کروانے  کی کوشش میں ناکام رہاتھا ۔

چلیں میں تو پھر صرف ان سے دوستی کے حق میں ہوں آپ تو ہر نرس سے مسکرا مسکرا کر پھول لیتے تھے ،

یہ تو آپ چار سال سے اتنے سڑو ڈاکٹر بنے ہیں ورنہ تو دل پھیک عاشق مزاج ڈاکٹر مشہور تھے ،آج ارتضی کو لگا تھا کہ اس کی سہی معنوں میں اذہان کو بتائی ہوئی باتیں مہنگی پڑنے والی تھی۔

ماہین آئیں ہیں تم سے ملنے ،لفظوں پر زور دیتا ہوا وہ ماہین کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر پریشان ہورہا تھا ۔

او نیو مما، اذہان کی چہکتی ہوئی آواز پر وہ مبہم سا مسکرائی تھی ۔

جی ،کیسے ہو اذہان تم اب ،نارمل انداز میں بولتی ہوئی ارتضی کے ساکت چہرے کو دیکھ کر نظروں کا زاویہ بدل گئی تھی ۔

ٹھیک ہوں اور اب آپ کی آواز سن کر اور بہتر محسوس کررہا ہوں ۔ارتضی شاہ سمجھنے سے قاصر تھا ماہین کو جس کے چہرے پر ذرا سی بھی ناراضگی نہیں تھی الٹا وہ تو مسکرا کر بول رہی تھی ۔

 اذہان کے سونے کے  بعد ارتضی ماہین کے پیچھے آیا تھا۔

 ماہین جو آپ نے سنا وہ ماضی کی باتیں تھی ،نظریں جھکائے وہ خود کو کمپوز کررہا تھا۔

جانتی ہوں ہر ایک مرد کا ماضی ہوتا ہے آپ کا بھی ہوگا ،اس لیے مجھے آپ کے ماضی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،

ہاں اگر یہ سب حال کی بات ہوتی تو شاید تھوڑا بہت فرق پڑتا یا نہیں بھی ،کندھے اچکاتی ہوئی صاف گوئی سے کہہ  کر  ارتضی کو حیران کرتی ہوئی وہاں سے گئی تھی ۔

وہ ارتضی پر ظاہر تو کر گئی تھی کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر کہیں نا کہیں اذہان کی کہی باتیں اس کے دماغ میں گھر کر گئی تھیں ۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے ،پرسوچ اندازمیں ماہین کے پیچھے گیا تھا ۔

********

 اذہان کی سرجری سے بھی فارغ ہوگئے ہو تم اب شاہ ،

ماہین کو لے کر کہیں گھومنے پھرنے چلے جاؤ،شاہدہ بیگم کی کہی  بات پر دلاور شاہ کے اعصاب تنے تھے ،

حیدر تم کہوں نا شاہ سے ،حیدر جو خاموشی سے بیٹھا ہوا سن رہا تھا اپنے نام کی پکار پر گردن ہلاگیا تھا ،

جی بھائی ماں سرکار صحیح کہہ رہی ہیں، بڑے ضبط سے کہہ رہا تھا۔

ماں سرکار  اذہان کی طبعیت تھوڑی اور سیٹ ہوجائے پھر ،

میں کچھ نہیں سننے والی تم دونوں  بس جارہے ہو، حتمی فیصلہ سناتی ہوئی دلاور شاہ کی خوف ناک سنجیدگی کو محسوس کرگئی تھیں ۔

ٹھیک ہے جیسی آپکی مرضی ،کہہ کر وہ اپنے کمرے کا رخ کرگیا تھا جہاں ماہین پہلے سے شاہدہ بیگم کے کہنے پر پیکنگ کرنے میں مصروف تھی ۔

یہ سب کیوں پیک کررہی ہیں آپ ماہین ،شادی کا لہنگا اور ارتضی کی شادی والے دن پہنی گئی شیروانی سوٹ کیس میں پیک کرتی ہوئی ماہین ارتضی کو گھور کر واپس سے اپنے کام کی سمت متوجہ ہوئی تھی ۔

میں کچھ پوچھ رہا ہوں ماہین آپ سے ،ماہین کے جواب نا دینے پر وہ لفظوں پر زور دیتے ہوئے بولا تھا ۔

پیکنگ کررہی ہوں ،سرسری سا جواب دیتی ہوئی وہ کبڈ سے جیولری بکس نکل کر بیڈ پر رکھ رہی تھی ،

وہ مجھے بھی دکھ رہا ہے کہ آپ پیکنگ کررہی ہیں ،حیرانگی سے ماہین کو سوٹ کیس کے ساتھ زور زبردستی سامان  ٹھونستے دیکھ رہا تھا ۔

ہوگیا ،دونوں ہاتھ جھاڑتی ہوئی وہ ایسے خوش  ہورہی تھی جیسے کوئی قعلہ فاتح کرلیا ہو ،

ہم ہنی مون پر جارہے ہیں ناکہ کسی کی شادی پر جو آپ یہ سب بھی لے کر چل رہی ہیں، ماہین کو بیڈ پر آرام سے  بیٹھے دیکھ وہ کلس رہا تھا ۔

ہاں جانتی ہوں ہم ہنی مون پر جارہے ہیں، شان بے نیازی سے کہتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

پھر ،ماہین کی عقل پر ماتم کرتا ہوا اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے ہنی مون پر جانے کی ہامی بھری تھی ۔

کل حیا نے ہماری شادی والے دن کی پکس سینڈ کی تھی ،دونوں ہاتھ کمر پر رکھے ہوئے ارتضی کو دیکھ کر وہ نظریں جھکائے ہوئی تھی ۔

کوئی بھی ایسی پک نہیں ہے جس میں مسکرا رہی ہوں ایسے لگ رہا ہے جیسے مجھے کسی نے مار پیٹ کر بٹھایا ہوا ہے ،ماہین کی منمناہٹ پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا ۔

تو اس کا کیا مطلب ہوا ،

مطلب یہ ہوا ہم وہاں جاکر دوبارہ سے فوٹو شوٹ کروائیں گے ۔چہک کر اٹھتی ہوئی وہ ارتضی کا ہاتھ پکڑے ہوئی تھی ۔ 

واٹ، وہ چونکا اٹھا تھا۔

کیا ہوا آپ کو اچھا نہیں لگا میرا آئیڈیا ،

نہیں مجھے بلکل بھی پسند نہیں آیا تمہارا آئیڈیا،  سوٹ کیس خالی کرتا ہوا وہ چبا کر بولا تھا ۔

اپنی اپنی کرنی ہے میری سنی ہی کب ہے جلاد نے جو آج سنے گا ،خالی سوٹ کیس دیکھ وہ روہانسی ہوئی تھی ۔

اب صرف آپ وہ کپڑے رکھیں گی اس میں جو میں آپ کو دوں گا ،اپنے بجتے ہوئے سیل فون کو لیے باہر نکل گیا تھا ۔

اللہ پوچھے گا جلاد انسان تمہیں، ہاتھوں میں شادی کا لہنگا لیے وہ رونے کو تیار بیٹھی تھی ۔

کچھ دیر بعد کمرے میں داخل ہوتا ارتضی ماہین کی گود میں رکھے لہنگے اور ماہین کے لٹکے ہوئے چہرے کو دیکھ کن دبا گیا تھا ۔

ماہین ہم پھر کبھی ہنی مون پر جائیں گے، ماہین کے برابر میں آکر بیٹھتا ہوا ماہین کے بدلتے زاویوں کو نوٹس میں لیے ہوئے تھا ۔

کیوں ،وہ شاکڈ ہوئی تھی ۔

کیونکہ مجھے کل اسلام آباد کے نکلنا ہوگا سمینار کے لیے اس کے بعد آؤٹ آف کنٹری بھی جانا پڑسکتا ہے ،شرارت سے کہتا ہوا وہ ماہین کو افسردہ ہوتے دیکھ کر مسکراہٹ دبا گیا تھا ۔

ہمہم ٹھیک ہے ،اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی ہوئی بے دلی بیڈ پر بکھرے سامان کو سمیٹنے لگی تھی ۔

ایک آئیڈیا ہے میرے پاس ،ماہین کے ہاتھوں سے کپڑے لے کر واپس سے بیڈ پر رکھتا ہوا مسکرایاتھا ۔

کیا ،بے زاری سے پوچھتی ہوئی وہ ارتضی کو ہی دیکھ رہی تھی ۔

آپ بھی میرے ساتھ چل لیں کام بھی ہوجائے گا اور ہمارا چھوٹا سا ہنی مون پریڈ بھی ہوجائے گا ۔

ایسا ہوسکتا ہے، آنکھوں میں حیرت لیے وہ مسکرائی تھی ۔

ہوسکتا ہے تو آپ کو کہہ رہا ہوں نا ،ماہین  کو مسکراتے دیکھ وہ خود بھی مسکرا اٹھا تھا۔

بس اب آپ اسلام آباد کے حساب سے پیکنگ کرلیں کیونکہ ہم رات میں ہی شہر کے لیے نکلے گے ،مسکراتی ہوئی ماہین کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر بولتا ہوا وہ کمرے سے گیا تھا ۔

*******

ملک اور بیرون ملک  کے تمام معزز ڈاکٹرز سمینار میں موجود تھے ،

سیمینار اٹینڈ کرنے کے بعد تمام ڈاکٹرز کے لیے پارٹی کا انتظام کیا گیا تھا ۔

ارتضی ماہین کو بھی ہوٹل سے اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا ،اور بھی بہت سے ڈاکٹرز کی فیملی پارٹی میں موجود تھی ۔

ماہین کا ہاتھ پکڑے ہوئے وہ مسکراتا سب سے اس کا تعارف کروا ریا تھا ،

ماہین جو اس وقت سلوار کلر کے سادہ مگر قیمتی سوٹ پر ریڈ  کلر کا ڈوپٹہ سر پر لیے ہوئی چہرے پر لائیٹ سا میک اپ کا ٹچ اپ دیئے  نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی  تھی ،جبکہ اس کے ساتھ کھڑا ارتضی شاہ  بلیک کلر کی سوٹ میں ملبوس اپنی شاندار پرسنلٹی لیے وجیہہ لگ رہا تھا  ۔

میں ابھی ڈاکٹر عامر سے بات کرکے آتا ہوں، آپ یہاں پر رہیئے گا ،

ارتضی کے سمجھانے ہر وہ گردن ہلا گئی تھی ۔

ڈاکٹر عامر کے اشارہ کرکے بلانے پر وہ ماہین کے پاس سے گیا تھا ۔

ساری پارٹی میں ارتضی ماہین کے ساتھ ساتھ ہی ریا تھا ،

 کافی دیر اکیلی کھڑی ہوئی ماہین  ارتضی کو دیکھ رہی تھی جو ہر پانچ سیکنڈ بعد ماہین کو دیکھ رہا تھا ۔

تمہارا قصور نہیں ہے ماہین ،انسان تو ہوتا ہی ناشکرا ہے ،تمخسرانہ انداز میں بولتی ہوئی وہ ماہین کے نا سمجھی میں خود کو دیکھتے پاکر وہ مسکرا اٹھی تھی ۔

 جو چیز انسان کے پاس ہوتی ہے وہ ہمیشہ ہی بے معنی سی لگتی ہے اور جو اس کے پاس نا ہو اسے حاصل کرنے کی چاہ لیے انسان اندھا دھند  اس لاحاصل شے کے پیچھے بھاگنے لگ جاتا  ہے ،بنا کسی جواز کے بات شروع کرتی ہوئی لڑکی جو اس وقت سیاہ نیٹ کی ہاف بلاوز ساڑی پہنے ہوئی تھی۔ ماہین کو اکیلے کھڑے دیکھ وہ اس کے پاس آکھڑی ہوئی تھی، 

مل جائے تو مٹی نا ملے تو سونا ،ارتضی شاہ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی وہ ماہین کی قسمت پر رشک  کر رہی تھی ۔

کیا مطلب ،میں کچھ سمجھی نہیں، اچانک سے اس لڑکی کو اپنے پاس کھڑے ہوتے دیکھ وہ ذرا نہیں چونکی تھی ۔

 اس لڑکی کے  بولنے کے انداز پر  ماہین کے چہرے پر نا سمجھی کے تاثرات واضح تھے  ۔

 اس لڑکی  کی نظروں کا تاکب کرتی ہوئی ماہین کی نظریں ارتضی پر جا رکی تھی ۔جو ڈاکٹر عامر کی کسی بات پر ہنس رہا تھا ۔

ارتضی پر سے نظریں ہٹاتی ہوئی وہ اس لڑکی کی آنکھوں میں ارتضی کے لیے حددرجہ پسندگی دیکھ چونک گئی تھی ۔

وقت آنے کی دیر ہے پھر تم سب سمجھ جاؤں گی معصوم لڑکی ،ماہین کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتی ہوئی اپنی دلفریب مسکراہٹ اس کی سمت اچھالتی ہوئی اس کے کان کی طرف ہلکا سا جھکی تھی ۔

پریہا نور  ،سرگوشیانہ انداز میں اپنا نام بتاتی ہوئی وہ جاتے  ہوئے ماہی  کے ہاتھ میں چٹ پکڑاگئی تھی ۔ 

کہاں چلی گئی تھی تم ،نوری کے چہرے پر کمینگی مسکراہٹ دیکھ ریحان نے استفسار کیا تھا ۔۔

آپ سے مطلب ،

اپنی اوقات مت بھولو کہ تم ایک نوکرانی تھی جو مہری دولت پر ایسے کود رہی ہو ،ریحان بھی اپنے نام کا ایک تھا کب موقعہ ہاتھ سے جانے دیتا تھا نوری کو اس کی اوقات یاد دلانے کا ۔

چلیں آڈیشن دے دیتے ہیں کافی دیر ہوگئی ہے پہلے ہی، ریحان کے ہاتھ کو پکڑتی ہوئی ایک ادا سے بولی تھی ۔

ہاں ضرور تو تم نہیں بتاؤ گی اس انجان پارٹی میں جانے کی وجہ ،ریحان نے دوبارہ سے پوچھا اس امید میں شاید اس بار وہ بتا دے مگر آگے بھی نوری تھی اسے کہاں  پوچھتی تھی وہ جو آج اس کے سوال کا جواب دے دیتی ۔

بات ٹالتی ہوئی وہ وہاں سے ریحان کو لے کر گئی تھی تھی ،ایک نظر پیچھے پریشان کھڑی ماہین پر ڈالنا نہیں بھولی تھی ۔

کیا ہوا میری بیوی جی کو جو ایسے پریشان کھڑی ہیں، ماہین کے پریشان چہرے کو دیکھ کر ارتضی خود بھی پریشان ہواتھا ۔

وہ یہاں ایک لڑکی تھی اور اس نے یہ ،ہاتھ میں پکڑی چٹ کو ارتضی سے چھپاتی ہوئی ہاتھ سے اشارہ  کرتی ہوئی سامنے کسی کو نا پاکر چونکی تھی ۔

کون ،کسی کو نا پاکر ارتضی حیران ہوا تھا ۔

اسےچھوڑیں پارٹی کب ختم ہوگی، پریہا نور کے جانے کے بعد وہ اداس ہوئی تھی ۔

جب میری بیوی چاہے گی پارٹی جب ہی ختم ہوجائے گی ۔ماہیں کے شانے کے گرد ہاتھ رکھتا ہوا لاڈ سے بولا تھا ۔

چلیں ،جس شخص سے کچھ مہینے قبل وہ نفرت کی دعوے دار تھی آج اس شخص کی مسکراہٹ میں خود کو ڈوبتے ہوئے محسوس کرتی تھی ۔

 ایک منٹ میں ابھی ڈاکٹر عامر کو بتا کر آتا ہوں ،ارتضی کی بات پر وہ مثبت میں گردن ہلا گئی تھی ۔

*******

آپ میرے تہجد کے امام  ہیں ،معمول کے مطابق ڈاکٹر عامر کے ساتھ تہجد پڑھ کر  مسکراتے ہوئے بول کہا تھا ۔

چلو کسی ایک نماز کا تو میں امام بنا ،وہ بھی جواب مسکرا کر بولے تھے ۔

ایک آپ ہی تو جن کی وجہ سے باقاعدہ نمازی ہوگیا ہوں ورنہ تو سرجری سے پہلے دو نفل پڑھ کر ثواب حاصل کرلیتا تھا ۔اپنی ہی بات وہ قہقہ لگا گیا تھا ۔

 ڈاکٹر عامر آپ کی وجہ سے میں ہنستا بولتا ہوں ورنہ تو مین کب کا مر چکا ہوتا۔آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔اب کی بار ارتضی کا لہجہ نم ہوا تھا۔

میرا فرض تھا اپنے چھوٹے بھائی کا خیال رکھنا سمجھے ،ارتضی کو خود سے لگاتے ہوئے وہ مسکرائے تھے جتنا ارتضی کے لیے وہ پریشان رہتے تھے یہ ان سے بہتر کوئی نہیں  جانتا تھا ۔

اب تم جاؤ اپنے روم میں اور میں اپنے روم میں جاتا ہوں ۔ ڈاکٹر عامر کو جاتے دیکھ وہ خود بھی اپنے روم میں جانے کے بڑھا تھا ۔

کہاں تھے آپ، رات کے ڈھائی بجے کے قریب کمرے میں داخل ہوتے ارتضی کو دیکھ کر وہ حیرانگی سے پوچھ رہی تھی ۔

کہیں نا کہیں اذہان کی باتیں اور پریہا نور کی چٹ کا اثر ہوا تھا جو وہ روم میں آتے ہی پڑھ چکی تھی ۔

تم اپنے شوہر کے ماضی کو نہیں جانتی ہو اور میں اس کے ماضی کا ہی ایک حصہ ہوں ،پریہا نور سے وہ انکاری ہوگا  اگر تم اس کے سامنے نوری نام لو گی تو حیران ہوکربات پلٹ جائے گا بہت شاطر شخص ہے ارتضی شاہ ۔

پہلے مجھے پاگل بنایا اب تمہیں بنانے جارہا ہے ۔

میری باتوں پر یقین نہیں آرہا ہوگا تمہیں اس لیے آج رات کے دوسرے پہر میں تمہین میری بات یقین آجائے گا ۔

کبھی سوچا ہے تمہارا شوہر رات کے دوسرے پہر میں کہاں ہوتا ہے ۔

پوچھ کر دیکھنا اس سے ۔

معصوم لڑکی ،اس پر میرا نمبر لکھا ہواہے ،جب بھی تمہیں میری ضروت پڑے تو بے فکر ہوکر مجھے کال کرسکتی ہو تم،

تم یہ سوچ رہی ہو نا کہ میں انجان لڑکی ہوکر بھی تمہیں اپنا نمبر کیوں دے کر گئی ہوں ،

کیونکہ مجھے تمہاری فکر ہے کہیں تم بھی میری طرح پاگل نا بن جاؤ ،اپنا خیال رکھنا۔نوری کی چٹ پڑھ کر اسے عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی تھی ۔

مگر اب ارتضی کو اس پہر روم میں آتے دیکھ کہی نا کہیں نوری کی بات کو یقین میں بدل گیا تھا ۔

ڈاکٹر عامر کے پاس تھا ۔ارتضی  بات پر اسے یقین نہیں آیا تھا مگر پھر بھی خاموشی اختیار کیے ہوئی تھی ۔

آپ جاگ رہی ہیں اب تک ،ریسٹ واچ اتارتا  ہوا نارمل انداز میں پوچھ رہا تھا۔

ہمہم، بس اچانک سے آنکھ کھل گئی تھی ۔پر اب سو رہی ہوں ،ارتضی کے نارمل  تاثرات دیکھ وہ نم لہجے میں بولتی ہوئی لیٹ گئی تھی ۔

اتنے میں ڈور ناک ہونے کی آواز پر وہ واپس سے سیدھی ہو بیٹھی تھی ۔

اپنے فون کو میرے پاس ہی بھول آئے تھے تم ،ڈاکٹر عامر کی آواز سن کر ماہین کے لب بے ساختہ ہی مسکرا اٹھے تھے ،

بہت بہت شکریہ ،مسکرا کر اپنا فون لیتا ہوا ارتضی ڈور لاک کرتا ہوا مڑا تھا ۔ماہین کو مسکراتے دیکھ حیرت کا شکار ہوا تھا ۔

یااللہ تیرا شکر ہے ۔ارتضی کو خود کو دیکھتے پاکر وہ کنفرٹ میں منہ چھپا گئی تھی ۔

*******

ارتصی اور ماہین کو ہنی مون کے لیے گئے ہوئے ایک  مہینہ ہونے کو آرہا تھا ،

ایک دوسرے کے ساتھ بتائے گئے حسین پل کیمرے کی آنکھ میں قید کیے وہ حیدر کی اچانک شادی کا سن حیرت کے ساتھ خوش ہوئے تھے ۔

اب بس شاہ حویلی میں ارتضی اور ماہین کا انتظار کیا جارہا تھا ،

ان دونوں کی آمد کے اگلے ہی دن حیدر اور حیا کا نکاح طے پایا تھا۔

اچانک ہی حیدر کی سادگی سے شادی کی ڈیمانڈ پر شاہدہ بیگم پھولے ہاتھوں کے ساتھ سارے کام کرواتی پھر رہی تھیں ۔

وہیں حیا کو صدمہ لگ گیا تھا۔

مجھے سادگی سے شادی نہیں کرنی ۔کشن گود میں رکھے ہوئی وہ بھرائی آواز میں اپنا دفاع کررہی تھی ۔

 شادی کرنی ہے یا نہیں ویسے بھی میرے بھانجے کو لڑکیاں بہت ہیں ۔حیا کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتی ہوئیں بولی تھیں ۔

نہیں مجھے کرنی ہے شادی پر ،فورا سے پہلے بولتی ہوئی وہ شاکرہ بیگم کے چہرے پر بکھری  شرارت سے انجان تھی ۔

پر ور کچھ نہیں پرسوں تمہارا نکاح ہے اور ساتھ ہی رخصتی بھی ،جو ڈریس پسند کرنا ہے کرلو خواہ وہ کتنا ہی مہنگا کیوں نا ہو ۔وہ جانے کے لیے اٹھی تھیں ۔

سچ میں، جاتیں ہوئی وہ حیا کو خوش کر گئی تھیں۔

سچ میں، حیا کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ ہی ان کی زندگی بھر کی خوشی تھی ۔

*******

ونڈو سے باہر دیکھتی ہوئی وہ کچھ مہینے پہلے کی ارتضی کی کہی بات سوچ کر وہ مسکرا رہی تھی ۔

ماہین ،پلیز آپ دوبارہ کبھی کچن کا رخ مت کیجئے گا،  شہد کی بوتل ہاتھ میں لیے وہ اپنی سرخ ہوتی آنکھیں کو مسلتا ہوا بول رہا تھا ،

کیوں ،جبکہ ماہین پشیمانی سے ارتضی کو شہد کھاتے دیکھ  پوچھ رہی تھی ۔

آپ چائے کی دشمن تو تھیں ہی،

  آج آپ نے  مجھ سے بریانی کے ذریعے دشمنی نکالی ہے ،چمچ بھر کر شہد کی منہ رکھتا ہوا وہ تھوڑا پرسکون محسوس کررہا تھا ،

 ہا ،،،یہ کیا آپ کی اسکن یہ کیا ہو رہا ہے ،ارتضی کی اسکن پر ریشیز دیکھ کر وہ حیرانگی سے پوچھ رہی تھی ۔

الرجی ہے مجھے اسپائسی کھانوں سے ، نارمل لہجے میں کہتا ہوا پانی کا گلاس منہ سے لگا گیا تھا ۔

تو ہوا کچھ یہ تھا ،

ماں سرکار ،سب کی دیکھا دیکھی وہ بھی شاہدہ بیگم کو ماں سرکار کہہ کر مخاطب ہوئی تھی ۔

جو انہیں سرشار کر گیا تھا ۔

 آج میں ارتضی کے لیے کھانا بناؤں ،کچن میں داخل ہوتے ہی ماہین نے شاہدہ بیگم کو کام کرتے دیکھ پوچھا تھا ۔

۔

ضرور کیوں نہیں ،سائیڈ  پر ہوتی ہوئیں وہ ماہین کو اس طرح ارتضی کے لیے کھانا بنانے کا کہنا ہی انہیں راحت بخش گیا تھا ۔

ارتضی کو اور کیاکیا پسند ہے ،فریزر کھولے ہوئے کنفیوز ہوئی تھی کہ کیا پکائے ارتضی کے لیے، 

آپ جو بھی بناؤ گی وہ آرام سے لگا لے گا ،کھانے کے معملے میں میرے بیٹے میں حیرت نہیں ہیں، ماہین کی کنفیوزن دور ہوئی تھی ۔

بریانی بنا لوں ارتضی کے لیے ،

ضرور  ،ماہین کو پرجوش دیکھ وہاں سے گئی تھیں ۔

بنا اسے ارتضی کی اسپائسی کھانوں سے الرجی بتائے ۔

ارتضی کی الرجی سے بے خبر وہ اپنی پسند کے مطابق تیز مرچ کی بریانی بنا گئی تھی ،

بہت خوب، یہ سچ میں آپ نے بنائی ہے ،ارتضی کو شک گزرا تھا ۔

حیدر جو مکمل طور پر کھانے پر جھکا ہوا تھا جیسے وہ یہاں موجود ہی نا ہو ۔جبکہ ارتضی کے اس طرح پوچھنے پر رائمہ ماہین کو دیکھتی ہوئی لب دبا مسکرا رہی تھی  ۔

دلاور شاہ ارتضی اور ماہین کو دیکھ کر اپنی نظریں جھکائے ہوئے تھے ،انہیں کہاں برداشت ہورہا تھا ارتضی اور ماہین کو ایک ساتھ دیکھنا ،

کوئی شک ،ویسے تو بریانی بہت اچھی بنی تھی مگر اس کے اچھائی پر تیز مرچ مات دے گئی تھی ۔

پہلی چمچ ہی ارتضی کے حلق کو چیرتی ہوئی گئی تھی، مگر ماہین  کے تجسس بھرے چہرے کو دیکھ وہ بنا کچھ کہے بڑی مشکل سے آدھی پلیٹ کھا کر اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

کیا  ہوا اچھی نہیں لگی  ۔ماہین کے پوچھنے پر سب کی نظریں ارتضی پر رکی تھی ۔

بہت اچھی بنائی ہے آپ نے ، مرچی کے باعث اس کے منہ پانی آرہا تھا فورا وہاں سے لمبے ڈہانگ بڑھتا ہوا کچن کی جانب بڑھا تھا ،

ارتضی کو اس طرح جاتے دیکھ ماہین بھی اس کے پیچھے گئی تھی ۔

ماں ،بریانی بہت زیادہ اسپائسی بنی ہے اس لیے بھائی بھاگے ہیں، رائمہ جو مزے سے بیٹھی ہوئی بریانی کھا رہی تھی شاہدہ بیگم کے آگے اپنی پلیٹ بڑھاتی ہوئی مسکرا رہی تھی ۔

میری غلطی ہے میں نے ہی نہیں بتایا بیچاری بچی کو ،شاہدہ بیگم پچھتائی تھیں  ۔

باپ کی بات نہیں مانو گے تو ایسا ہی ہوگا ارتضی، دل ہی دل میں ارتضی کی فکر کرتے ہوئے نفی میں گردن ہلا رہے تھے ۔

سوری،منمنائی ہوئی وہ ارتضی کو بہت کیوٹ لگی تھی ۔

اٹس اوکے ،محبت پاش لہجے میں مسکرا کر کہتا ہوا وہ ماہین کے معصوم چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔

********

کیسے آرام سے بیٹھا ہوا سڑی ہوئی ککڑی،ایسے کسی کی شادی ہوتی ہے بے رونقی سی، ڈارک میک اپ کے ساتھ ریڈ اورنج کلر کا بھاری بھرکم برائیڈل ڈریس کے ساتھ وہ بھاری ہی جیولری پہنے ہوئی اپنے سارے ارمانوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے ہوئی وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی ۔

افففف ،اللہ یہ کیسے اتنا بھاری ڈریس پہنے سکتی ہے اوپر سے اتنی جیولری  بھی ،تباہی کچھ تو اپنی صحت کا خیال کرتی تم ۔

ترچھی نظر سے حیا کے اتنا سجے سنورے سراپے دیکھ کو حیدر کو اس کی فکر لاحق ہوئی تھی ۔

اس بات سے بے خبر کی کہ اس کی شامت آنے والی تھی۔

سڑی ہوئی ککڑی اللہ پوچھے گا تمہیں،  میری تو مہندی کا فنگشن ہوا دھوم دھام سے نہیں ہونے دیا تم نے  ،اپنی شادی پر خود سے ڈانس کرنے کا پلین بھی رائیگاں ہوا تھا حیدر کی سادگی سے شادی کرنے کے کہنے سے ۔

ایسے کیا دیکھ رہے ہو ۔حیدر کو خود کو دیکھتے پا کر کنفیوز ہوتی ہوئی حیا  نے استفسار کیا تھا ۔

حیدر کے ساتھ جڑے اس نئے رشتے کے باعث اسے گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی ۔

کیوں شرم آرہی ہے ۔حیا کے چہرے پر نظریں جمائے وہ پہلی بار شوخ ہوا تھا۔

شرم اور مجھے آ ہی نا جائے کہیں،حیدر کی بات کو ہوا میں اڑاتی ہوئی وہ طنزیہ انداز میں بولی تھی ۔

ہاں تمہیں کیوں آنے لگی شرم وہ ساری تو تمہارے نام میں آگئی ہے حیا ہے نا،دانت دبائے وہ کہتا ہوا اپنی نظروں کا رخ سامنے کرگیا تھا ۔

لو بھئی شادی ہماری ہوئی ہے اور کھانے کا ہم سے کوئی پوچھ بھی نہیں رہا ہے ۔حیدر کے ہاتھ پر چٹکی کاٹتی ہوئی وہ اسے غصے سے گھور رہی تھی ۔

کیا ہے تباہی ،اپنے ہاتھ کو مسلتا ہوا چبا کر بول رہا تھا ۔

تباہی کہنے سے پہلے سوچ لو میرے حیدر جی ،اب  یہ تباہی آپ کی زندگی میں نا تباہی مچانے کو تیار  ہے ۔میک اپ زدہ چہرہ لیے آنکھیں چھوٹی کرتی ہوئی غصے سے بولی تھی ۔

میں تو ڈر گیا تباہی تمہاری میری زندگی میں تباہی مچانے کی دھمکی پر ،سنجیدگی سے کہتا ہوا آخر میں سوچ مسکرا گیا تھا ۔

مجھے پورا یقین ہے حیا تم پر اور تمہاری معصوم حرکتوں پر تم ایک دن میرے دل تک رسائی حاصل کر لو گی، اگر تم کوشش ناسکی تو میرا تم سے وعدہ ہے میں خود کو مجبور کردوں گا تم سے محبت کرنے پر ۔

 بھوک لگ رہی ہے مجھے ۔کھانا کھانے کے لیے جاتے مہمانوں کو دیکھ کر وہ منمنائی تھی ۔

اب کیا کیا جاسکتا ہے انتظار کرنے کے سوا، کندھے اچکا کر وہ سامنے نظریں کیے مسکرایا تھا ۔

اچانک سے سامنے سے آتی ہوئی ماہین کو دیکھ کر وہ عاجزی سے نظریں جھکا گیا تھا ۔

کب سے دیکھ رہی ہوں تمہیں چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہو تم ۔بلیک کلر کی ساڑی پہنے کانوں میں جیولری کے نام پر پہنے ہوئے ٹاپس جو بالوں میں چھپ گئے تھے۔

 ہمیشہ کی طرح آج بھی سمپل سی تیار ہوئی وہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔

دلہن ہوں تو مطلب بولوں بھی نا اب ، منہ لٹکائے وہ ماہین کو دیکھ کر بولی تھی ۔

مجھے بھوک لگ رہی ہے ماہین آپی ،حیا کی بات پر ماہین کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی تھی ۔

سڑی ہوئی ککڑی تم کچھ نہیں بولو گے،حیدر کے کچھ بولنے کے لیے کھولتے منہ کو دیکھ کر وہ تنبیہ کرگئی تھی ۔جس پر حیدر نے فورا سے اپنے لب آپس میں پیوست کرلیے تھے ۔ 

بس اتنی سی بات ہے میں ابھی کہہ دیتا ہوں خالہ کو وہ تمہارے لیے کھانے بھیج دیں گی ۔حیا کے تنبیہ کرتے ہی حیدر کو خاموش رہتے دیکھ ارتضی اپنےقہقہے پر ضبط کرتا ہوا ان تینوں کے پاس اسٹیج پر آیا تھا ۔۔

سچ میں، آرام سے ۔حیا کے چلانے پر ماہین نے اس کے کندھے پر رکھ کر چپ کروایا تھا۔

چلیں ماہین اذہان آیا ہے خاص کر آپ سے ملنے، 

تھوڑی دیر کے لیے خاموش رہنا ،حیا کو کہہ وہ ماہین ارتضی  کا پکڑ کر اسٹیج سے نیچے اتر گئی تھی ۔

میری تباہی ، حیدر شاہ کی تباہی ۔۔

دونوں کو ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر  جاتے دیکھ حیدر مسکرا کر اپنے برابر میں بیٹھی  حیا کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت اپنی انگلی میں پہنی ہوئی رنگ سے کھیل رہی تھی ۔

********

 واہ بھئی واہ آج تو میری نیو مما بہت پیاری لگ رہی ہیں ۔اذہان کے تعریفی کلمات سن کر ماہین کی نظریں شرم سے جھکی تھیں ۔

ارتضی سر کم نہیں لگ رہے ہیں، عام سے سوٹ میں ملبوس ارتضی کو دیکھ کر تعریف کیے بغیر رہ نا سکی تھی۔

 ڈاکٹر ہیر کو ارتضی کی تعریف کرتے سن ماہین کی بھنویں سکڑی تھیں ۔

نیو مما کے بیٹے اب کیسا فیل کررہے ہو ۔اذہان کو ماہین کے ساتھ بات کرتے دیکھ ارتضی نے اس کی طبیعیت کے بارے میں پوچھا تھا۔

آپ کے سامنے ہوں ۔اذہان کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر وہ واپس سے ڈاکٹر ہیر کی جانب متوجہ ہوا تھا ۔

ذرا دھیان دیں آپ ڈاکٹر صاحب پر نیو مما، کیونکہ خوبصورت پرندے زیادہ دن قید میں نہیں رہتے ،ڈاکٹر ہیر کے ہر سوال کا جواب مسکرا کر دیتا ہوا ارتضی شاہ اس وقت ماہین کی نظروں انجان تھا ۔

ماہین کو ارتضی کو گھورتے دیکھ اذہان مسکراہٹ دبائے ہوئے تھا ۔

ایکسکیوزمی پلیز ،مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ ارتضی کا ہاتھ پکڑے ہوئے وہ اسے اپنے ساتھ مہمانوں کے بیچ سے سائیڈ پر لے جاتی ہوئی ڈاکٹر ہیر کے شاکڈ چہرے کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔

بڑی ہنس ہنس کر باتیں کی جارہی تھی ڈاکٹر ہیر کے ساتھ ۔ماہین کے لہجے سے صاف عیاں تھی اس کی جلیسی کو سمجھتا ہوا ارتضی خوش ہوا تھا ۔

کونسے شوہر اپنی بیوی کے سامنے دوسری لڑکی کے ساتھ ہنس ہنس کر بات کرتے ہیں ۔دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر وہ لڑنے کے لیے تیار کھڑی تھی ۔

 جلیس ہورہی ہیں نا آپ ڈاکٹر ہیر سے ،سنجیدگی سے کہتا ہوا وہ ماہین کے قریب بڑھا تھا ۔

 اپنی چوری پکڑے جانے پر وہ فورا سے بول اٹھی تھی ۔

نہیں تو ۔آنکھیں بڑی کرتی ہوئی  وہ خود کو کمپوز کررہی تھی ۔

اچھا تو پھر میرے ڈاکٹر ہیر کے ساتھ مسکرا کر بات کرنے پر  آپ کو مثلہ کیوں ہورہا ہے ۔پہلی بار ماہین کو جلیس ہوتے دیکھ وہ اپنے اور ماہین کے درمیان کے فاصلے کو دور کرگیا تھا ۔

ہاں تو آپ بہت برے ہیں ۔ارتضی اور اپنے درمیان فاصلہ برقرار رکھتی ہوئی وہ پیچھے ہوئی تھی ۔۔

میں برا ہوں  ۔سنجیدگی سے پوچھتا ہوا وہ ماہین کو کنفیوز ہوتے دیکھ اپنی مسکراہٹ کو لبوں کے کناروں پر دبائے ہوئے تھا ۔

پلیز یہ ڈاکٹر جلاد والا روپ گھر دھار لیجئے گا، ماہین کے جھکے سر کو دیکھ کر ارتضی کا فلک شگاف قہقہ فضا میں گونج اٹھا تھا ۔

بہت برے ہیں ارتضی آپ ،اچانک سے اپنے اور ارتضی کے درمیان کے فاصلے کو مٹاتی ہوئی ارتضی کے کشادہ سینے پر سر رکھ گئی تھی ۔

برا ہوں یا اچھا ہوں صرف اور صرف آپ کا ہوں ،اب کسی بھی لڑکی کے بارے سوچنا بھی گناہ ہوگا ۔

کیونکہ ارتضی شاہ اب صرف ماہین شاہ کا ہے ،ماہین کے گرد اپنا مضبوط حصار باندھتا ہوا گھمبیر لہجے میں کہہ رہا تھا ۔

اب مطلب پہلے ٹھرکی ڈاکٹر تھے آپ ۔ ارتضی کے سینے پر سر رکھ کر وہ شرارت سے بولی تھی ۔

لیکن ایک لڑکی کو اجازت ہے مجھے اپنا کہنے کی ۔

کون ہے وہ ۔ارتضی سے دور ہوتی ہوئی وہ حیرانگی سے پوچھ رہی تھی ۔

منت ،آپ بہت بہت برے ہیں،  پل بھر میں اس کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں ۔

جھوٹے، جلاد ،ٹھرکی ہیں آپ، غصے سے بولتی ہوئی وہ جانے کے لیے مڑی تھی کہ اچانک سے ارتضی نے ہاتھ سے کھینچ کر واپس سے اپنے مضبوط حصار میں لیا تھا ۔

چھوڑیں مجھے ڈاکٹر جلاد، ارتضی کے سینے پر اپنے نازک ہاتھ مارتی ہوئی ارتضی کی زندگی میں دوسری لڑکی کو سوچ کر ہی ہلکان ہورہی تھی ۔

پہلے بات تو پوری سن لو ،منت  شاہ ہوگی وہ لڑکی ارتضی اور ماہین کی بیٹی منت شاہ ۔ارتضی کی بات پر وہ ساکت ہوئی تھی ۔

سچ بول رہے ہیں نآ آپ ۔بے یقینی اور شرم کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجائے وہ پوچھ رہی تھی ۔

کوئی شک، ماہین کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوا مسکرایا تھا ۔

نہیں ،اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ ارتضی کے سینے پر سر رکھ کر وہ آنکھیں بند کیے اس کے ہی اسے ہر کھڑی  تھی ۔ 

کچھ توقف کے بعد کچھ سوچ کر ماہین بولی تھی ۔

 منت بیٹی کا پھر بیٹے کا نام مراد رکھ لیں گے۔ماہین نے طنز کیا تھا ۔

مراد خیال اچھا ہے ۔ماہین کے طنز کو سمجھتا ہوا اسے چھیڑنے کی غرض سے کہتا ہوا وہ ماہین کی کمر پر گرفت مضبوط کر گیا تھا ۔ 

ہاں نا پھر سب لوگ سن کر یہ کہے گے ارتضی شاہ کو بچے بڑی منت مرادوں سے ہوئے ہیں جب ہی تو بچوں کے بھی منت مراد رکھ دیئے ۔  کتنا اچھا لگے گا نا ۔

سر اٹھا کر ارتضی کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر چبا کر بولی تھی ۔

اچھا تو بہت لگے گا، لیکن پھر بھی آپ جو نام سیجیسٹ کریں گی ہم وہ رکھ لیں گے ۔ماہین کی ناراضگی سے ڈر کر وہ فورا اس کے حق میں بول گیا تھا ۔

ہم دونوں مل کر رکھے گے سہی ہے نا،ماہین کے معصوم انداز ہر ارتضی مثبت میں گردن ہلاتا ہوا اپنے فیوچر کو سوچ کر مسکرا رہا تھا ۔

********

زبردست کمال کردیتی ہو تم ہر فوٹو شوٹ پر ،

 ایسا لگتا ہے جیسے کیمرے کے ساتھ تمہاری کوئی پرانی دوستی ہو ،

نا گھبراہٹ نا ہی کوئی شرم ،،،

بہت ہی کانفیڈینٹ ہو تم ،کیمرہ مین سے تعریف وصول کرتی وہ مغرور انداز میں چلتی ہوئی ڈائریکٹر کے برابر میں رکھی چیئر پر بیٹھی تھی ۔

بنا بولے ہی سب حال دل بیان کر جاتی ہیں تمہاری آنکھیں ،خدا کی طرف سے بہت ہی خاص تحفہ ہے تمہارے لیے تمہاری آنکھیں ،اس کی آنکھوں کی تعریف میں ہر ایک ہر قصیدے پڑھتے آئے تھے ۔وہ سب کی تعریف مسکرا کر ہی وصول کرتی آئی تھی۔

  ویسے بھی اسے اب اپنی تعریف سننے کی عادت جو پڑگئی تھی ،

تنگ و نازیبا لباس زیب تن کیے وہ اپنے بے باک فوٹو شوٹ  کی فوٹوز کو فخریہ انداز میں مسکراتی ہوئی  دیکھ رہی تھی ۔

 اس کی ہر ایک ادا میں مغروریت چھلکتی تھی کچھ ہی عرصے میں وہ میڈیا انڈسٹری کا ایک چمکتا ہوا ستارہ جو بن گئی تھی ،

صحیح، غلط  سے اسے سروکار تھا ہی نہیں سروکار تھا تو فقط نام ،شہرت اور دولت سے جو آج اس کے پاس موجود  تھی اور اسے چاہیے ہی کیا تھا جس چیز کو اس نے پانا چاہا سب ہی کچھ اس کے پاس موجود تھا،

 سوائے ایک شخص کی چاہ کے جو اس کی راتوں کا سکون برباد کیے ہوئے  تھا ۔

اس کی ایک نگاہ شوخ اٹھنے کی دیر تھی اور سامنے والے شخص اس کے قدموں میں ڈھیر ہوتے آئے تھے ۔

ابھی بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا اس کے ساتھ  پروڈیوسر صاحب کے بار بار اسے مسکرا کر دیکھنے کو نوٹس کرتی ہوئی وہ جواب میں خود بھی مسکرائی تھی ۔

 اگلے تین پروجیکٹس بھی میں تم سے کروانے کا ارادہ رکھتا ہوں ،آنکھیں گھوماتی ہوئی وہ سرخ لپ اسٹک سے سجے  اپنے کٹاؤ دار لب دبائے مسکرا رہی تھی ۔ 

مجھے کوئی پروبلم نہیں ہے ،آپ مجھے شوٹ کی ٹائمنگ اور لوکیشن سینڈ کردیجئیے گا، اپنی گہری جھیل سی آنکھوں  پر گلاسس چڑھائے وہ مغرور چال چلتی ہوئی اسے پارکنگ ایریا میں کافی دیر سے کھڑے شخص کا خیال آیا تھا جو باہر اس کا انتظار کررہا تھا۔

اپنے حسن کی بجلیوں سے مجھ کمزور دل پر  وار کررہی ہو تم ، پروڈیوسر احسان خان اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اسے جاتے دیکھ کمینگی سے مسکرایا تھا ۔

بہت دیر ہوگئی آج تمہیں ،کار کا فرنٹ ڈور کھول کر گلاسس پیچھلی سیٹ پر پھینکتی ہوئی وہ اسے گھور  کر سیٹ پر بیٹھی تھی ۔

اب آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے ،کار ڈرائیوو کرتا ہوا وہ اپنے اور اس کے بیچ چھائی خاموشی کی توڑنے کی خاطر بولا  تھا۔

سیٹ کی پشت پر سر رکھے ہوئی وہ اپنی آنکھیں بند کیے ہوئی تھی ۔

محبت کے ہاتھوں رسوا ہوئی تھی اب اس محبت کو رسوا کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں ۔آنکھیں بند کیے وہ تلخی سے مسکرائی تھی ۔

مطلب ۔

مطلب یہ کہ وقت آگیا ہے لاحاصل کو حاصل کرنے کا ،مضبوط لہجے میں بولتی ہوئی بل کھاتی سڑکوں پر نظریں جمائے ہوئی تھی ۔

گھر پہنچتے ہی وہ اپنے سیل فون میں محفوظ نمبر کو مسکرا کر دیکھتی کال ملا گئی تھی ۔

اسے زیادہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی کیونکہ فون دوسری کال پر اٹینڈ کرلیا گیا تھا ۔

ہیلو کون بات کررہے ہیں ۔مقابل کی سحر انگیز آواز اتنے عرصے بعد سن کر پرسکون محسوس کررہی تھی۔

کیسے ہیں سرکار سائین ۔

کون  ۔ارتضی  انجان تھا مقابل کی  نسوانی آواز سے۔

اف اللہ آپ اتنی جلدی بھول گئے مجھے اور مجھے دیکھیں اب تک آپ کی کوئی بھی بات نہیں بھولی ہوں ۔ایک ادا سے کہتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوئی تھی ۔

نوری،،ارتضی زیر لب  بڑبڑایا تھا ۔جو نوری بخوبی سن گئی تھی ۔

ہائے اللہ کتنا پیارا لگتا ہے آپ کے منہ سے میرا نام نوری ۔دل کے مقام پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ شیشے میں ابھرتے اپنے عکس کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔

ویسے مجھے ماہین جیسی معصوم سوتن سے کوئی مثلہ نہیں ہے سائین ۔

بکواس بند کرو اپنی ۔ماہین کو خود کی طرف متوجہ پاکر وہ اپنے چہرے پر جبران مسکراہٹ سجائیے ہوئے تھا ۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے کون پوچھ رہے تھے ۔جیسے بھول گئے ہیں مجھے ،اپنے بالوں کے ساتھ حرکت کرتی ہوئی بول رہی تھی ۔

یاد انہیں رکھا جاتا ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہوں یا دل کے قریب ہوں جہاں تک مجھے یاد ہے کہ میرا آپ کے ساتھ ایسا

کوئی تعلق نہیں ہے ۔

شاہ حویلی کی ملازمہ رہ چکی ہیں آپ پورا گاؤں اچھے سے جانتا ہے کہ ارتضی شاہ  ملازمہ کے لائے ہوئے پانی کے گلاس کو منہ تک نہیں لگاتا ملازمہ کو منہ لگانا تو بہت دور کی بات ہے ۔جتا کر کہتا ہوا ارتضی کو  اس پر ترس بھی ناآسکا تھا۔

رہی بات نام یاد رکھنے کی تو اس رات حرکت ہی ایسی کی تھی تم نے جو کوئی بھی شریف انسان بھول نہیں سکتا ۔

بہتر ہے سیدھی راہ اپنا لو کیونکہ جس راہ کی تم مسافر بننا چاہ رہی ہو وہاں کے راستے تمہارے لیے نہیں بنے ہیں ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے پلٹ جاؤ ۔ایک آخری کوشش کررہا تھا وہ نوری کو سمجھانے کی ۔

آپ کی وجہ سے میں یہاں تک آئی ہوں اور اب واپس مڑ جانا میرے بس میں نہیں ہے ۔ارتضی اس کی بات پر گہرا سانس خارج کرتا ہوا فون کاٹ گیا تھا ۔

 کیوں نہیں ہوسکتے آپ میرے سائین،ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے سامان پر غصے سے ہاتھ مار کر گراتی ہوئی زمین پر ڈھے گئی ۔ 

*******

ایک شرط پر رخصتی ہوگی میری اگر حیدر مجھے گود میں اٹھا کر گاڑی تک لے کر جائیں گے اور پھر حویلی میں بھی مجھے ایسے ہی لے کر داخل ہوں گے ۔

اپنی شرط بتا کر وہ آرام سے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑی ہوئی تھی ۔

کب سدھرو گی تم اور یہ کیا بے ہودہ شرط لگا کر کھڑی ہوگئی ہو ،

کون سی دلہن اپنی شادی کا کھانا کھولتے ہی کھانے کی فرمائش کرتی ہے بنا کسی شرم و لحاظ کے چلو وہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن یہ شرط نہیں مانی جائے گی تمہاری ۔حیا کی شرط پر حیران تو سب ہی ہوئے تھے مگر شاکرہ بیگم غصے سے اس کے سر پر آن دوڑی  تھیں۔

بابا جانی ،نم آنکھیں لیے وہ حمدان صاحب کو پکارا تھا جو فورا سے بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئے تھے۔

 اپنی بیوی اور میری سوتیلی ماں کو چپ کروا دیں ،کیونکہ میری رخصتی ایسے  ہی ہوگی ،حتمی فیصلہ سنا کر وہ حیدر کے لٹکے ہوئے چہرے کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔

یہ بیس کلو کا لہنگا اور اتنی بھاری بھرکم جیولری ایسے ہی نہیں پہنی تم سے بدلہ لینے کی خاطر پہنے ہوئی ہوں ،تمہیں بھی تو پتا چلے سادگی سے شادی کرنے کی سزا بیوی کیسے دیتی ہے ۔دل میں سوچ کر خود کی بھی جان ہلکان کیے ہوئی تھی ۔

میرے بھانجے کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے یہ  ،حمدان صاحب انہیں لے کر سائیڈ پر آئے تھے ۔ 

حیا حیدر بھائی کیسے اٹھائے گے تمہیں، رائمہ کے بولنے پر حیدر نے حیا کو امید بھری نظروں سے دیکھا تھا، جو شان بے نیازی سے رخ  موڑ گئی تھی ۔

 حیدر مجھے گود میں اٹھائیں گے تو رخصتی ہوگی ورنہ رخصتی کینسل ۔آرام سے اپنے لہنگے کو سنبھالتی ہوئی سائیڈ پر رکھی چیئر پر بیٹھ گئی  تھی ۔

کوشش کر کے دیکھ لوں ،شاہدہ بیگم نے حیدر کو گیا کو گھورتے دیکھ کہا تھا۔

بھائی آپ نے دیکھا ہے اس کا بھاری بھرکم لہنگا دیکھا ہے اور اوپر سے میڈم جیولری سے لدی ہوئیں ہیں ،خود کا وزن کم تھا جو اتنا سب پہن کر آئی  ہے ۔حیا کی آنکھیں آنکھیں حیرت سے پھٹی تھیں۔

اگر اس کو اٹھایا نا تو میں گر جاؤ گا اس تباہی کو لے کر۔

بدلہ لے رہی ہے مجھ سے ۔اپنا ڈر ظاہر کرتا ہوا وہ بے بسی سے بول رہا تھا۔

حیدر کے رونے جیسے چہرے کو دیکھ کر ارتضی کو اس پر ترس آیا تھا۔

حیدر بھائی اٹھا لیں نا اور ارتضی ہیں نآ آپ کے ساتھ وہ نہیں گرنے دیں گے آپ کو ۔ماہین کے کہنے پر وہ نظریں جھکائے گیا تھا۔

بھروسہ ہے نا مجھ پر حیدی۔حیدر کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا ارتضی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

خود سے زیادہ ہے ،کہہ کر وہ حیا  کی سمت بڑھا تھا۔

مجھے  نہیں پتا تھا کہ تباہی اتنی بھاری بھی ہوسکتی ہے ۔اگلے ہی ہل اسے اپنی گود میں اٹھاتا ہوا  اسے چھیڑنے کی غرض سے بول رہا تھا۔

میرے پیارے شوہر  حیدر جی اب تیار ہوجائیں کیونکہ تباہی آپ کے گلے پڑگئی ہے ،دونوں ہاتھ حیدر کی گردن میں ڈالتی ہوئی حیدر  کی ٹون میں بولی تھی ۔

ماءشااللہ سے دونوں کتنے کیوٹ لگ رہے ہیں نآ ایک ساتھ ۔حیدر اور حیا کے پیچھے پیچھے چلتےہوئے ماہین ارتضی کی بازوں میں ہاتھ ڈالے مسکرا کر بولی تھی ۔

آج تمہارا کام ختم ہوگا ،ماہین ریاض بخاری، خونخوار نظروں سے حمدان صاحب کے ساتھ کھڑے ریاض صاحب اور ماہین کو ارتضی کے ساتھ مسکراتے دیکھ وہ ان دونوں کو گھورتے ہوئے دلاور شاہ صائمہ انصاری کے ساتھ گاڑی میں جا بیٹھے تھے ۔

دلاور شاہ اور صائمہ انصاری کو جاتے دیکھ شاہدہ بیگم پریشان ہوئیں تھیں ۔

********

تمام تر رسموں کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں جاچکے تھے ،

ماہین گیا کو حیدر کے کمرے میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں جاچکی تھی ۔

مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے ارتضی ۔

ارتضی جو ڈاکٹر عامر کو گیٹ تک چھوڑ کر اپنے کمرے کی سمت بڑھا تھا ۔جب پیچھے سے دلاور شاہ کی آواز پر رکا تھا۔

صبح بات کرتے ہیں بابا سرکار، ابھی آپ بھی تھک گئے ہونگے اور میں بھی تھک گیا ہوں ۔وہ کہہ کر واپس سے اپنے کمرے کی سمت بڑھا تھا۔

مجھے تم سے ابھی اسی وقت بات کرنی ہے ۔مضبوط لہجے میں کہتے ہوئے ارتضی کی سمت بڑھے تھے ۔

ایسی کیا ضروری بات کرنی ہے بابا سرکار جو صبح نہیں ہوسکتی ۔دلاور شاہ کے چہرے پر حددجہ سنجیدگی دیکھ اسے اپنا ان کو دیا ہوا وعدہ بھول گیا تھا ۔

تمہارے دیئے ہوئے وعدے کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے ارتضی شاہ ۔دلاور شاہ ارتضی کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر تھے۔

کونسا وعدہ بابا سرکار ،نا سمجھی میں پوچھتا ہوا اپنے بابا کے انداز پر چونک گیا تھا ۔

وہ ہی وعدہ جو تم نے مجھے اپنے  نکاح سے پہلے  دیا تھا ۔دلاور شاہ کے یاد دلانے پر ارتضی کو وہ وعدہ اور حالات یاد آئے تھے ۔

یاد آیا تمہیں اپنا دیا ہوا وعدہ ارتضی شاہ ۔ارتضی کو غصے سے گھورتے ہوئے وہ غرلائے تھے۔

اچھے سے یاد ہے  ۔مختصر جواب دیتا ہوا وہ جانے کے لیے مڑا تھا۔

تم آج اسی وقت ماہین کو طلاق دے کر اپنا وعدہ پورا کرو ارتضی شاہ ۔دلاور شاہ کے منہ سے طلاق کا لفظ سن کر وہ کرب سے آنکھیں میچ گیا تھا ۔

یہ ہی وعدہ دیا تھا تم نے مجھے کہ شادی کے فورا بعد ماہین کو طلاق دے دو گے ،مگر تم نے چھ مہینے نکال دیئے ،پر آج تم اپنا وعدہ پورا کرو گے ،

ایک شرط پر تمہارا اور ماہین کا نکاح ہوگا آج، 

کیسی شرط بابا سرکار ،سب لوگوں کے جانے کے بعد دلاور شاہ نے تنہائی میں ارتضی سے بات کرنا شروع کی تھی ۔

مجھے وعدہ چاہیے تم سے آج ۔

کیسا وعدہ ،وہ ناسمجھی میں پوچھ رہا تھا ۔

پہلے وعدہ دو ، انہوں نے اپنا ہاتھ ارتضی کے سامنے کیا تھا ۔

آپ کو کبھی انکار کرسکتا ہوں میں ۔دیا وعدہ ۔

شادی کی رات کو تم ماہین کو طلاق دو گے ،دلاور شاہ کے ہاتھ پر ارتضی کی گرفت ڈھیلی پڑگئی تھی ۔

نہیں بابا سرکار یہ غلط ہے ،پیچھے ہوتا ہوا ارتضی اپنے بابا سرکار کی بات پر ہل گیا تھا۔

تم وعدہ دے چکے ہو ،اب ریاض بخاری کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو چھبیس سال پہلے ہمارے ساتھ ہوا تھا ۔ دلاور شاہ کو دیئے ہوئے وعدہ پر ارتضی کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں ۔

ان کی کوئی غلطی نہیں تھی بابا یہ آپ اچھے سے جانتے ہیں ۔

انہوں نے تو آپ کی اور اپنے خاندان کی عزت بچائی تھی ۔

اگر وہ نکاح پڑھ لیتے تو ہمارے خاندان کی عزت پر کیچڑ اچھالا جاتا کیونکہ پھوپھی تو نکاح سے پہلے ہی وہاب پھوپھا کے ساتھ بھاگ گئیں تھیں ۔

پھر کس چیز کا بدلہ لینا ہے آپ کو کو ان سے جبکہ انہوں نے تو سارا کا سارا الزام خود کے ماتھے لے لیا تھا ۔

مگر ہماری اور پھوپھی کی عزت آنچ  نہیں آنے دی تھی ۔

اپنے تھے وہ انہیں  سمجھانا چاہ رہا تھا۔

مگر وہ جیسے کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔

بولو ارتضی شاہ یاد ہے نا وعدہ اپنا ۔  دلاور شاہ کو دئیے  وعدہ کو سوچ کر وہ پشیمان ہوا تھا ۔

ہاں یاد ہے مجھے اپنا وعدہ اور پورا بھی کروں گا لیکن ،ارتضی کے منہ سے نکلے لفظ جہاں دولاور شاہ کو راحت بخش گئے تھے، وہیں دروازے کے ساتھ کھڑی ماہین کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی ۔

ماہین جو ارتضی کو ڈھونڈتی ہوئی حویلی کے مہمان خانے کے قریب سے گزر رہی تھی ۔

ارتضی کی آواز سن کر وہاں رکی تھی ۔

میں اپنا وعدہ پورا کروں گا بابا سرکار ،مضبوط لہجے میں  کہتا ہوا وہ ماہین کی موجودگی سے انجان تھا ۔

ارتضی کے مضبوط لہجے پر اپنی سسکی دبائے وہ وہاں سے دبے قدموں سے واپس اپنے کمرے کی سمت بھاگی  تھی ۔

صائمہ پھوپھو بلائیں ،ارتضی کے کہنے پر انہوں نے صائمہ انصاری کو بلوایا تھا ۔

تھوڑی دیر مہمان خانے میں ارتضی اور دلاور شاہ کے ساتھ اب صائمہ بیگم بھی آگئی تھیں ۔

پچس سال بعد آپ کو آپ کا بھائی ملا ہے پھوپھو بہت مبارک ہو آپ کو  ۔آپ کے بھائی کی محبت جاگ گئی ہے آپ کے لیے۔ ارتضی کی بات پر ناسمجھی کے تاثرات ان کے چہرے پر آئے تھے۔

اب تو وہاج اور رائمہ کا رشتہ بھی فکس کردیا ہے بابا نے ،ارتضی کو غلام رسول کے ذریعے رائمہ اور وہاج کے رشتے کا پتا چلا تھا۔

تمہیں کیسے پتا چلا ،دلاور شاہ چونکے تھے کیونکہ انہوں نے سب سے چھپا کر یہ رشتہ فکس کیا تھا۔

اور وہ بھی ارتضی کی غیر موجودگی میں کیا تھا جب وہ ماہین کے ساتھ ہنی  مون پر گیا ہوا تھا ۔

آپ کا ہی بیٹا ہوں بابا سرکار ،جتا  کر کہتا ہوا  وہ اب تک کی گفتگو میں پہلی بار مسکرایا تھا۔

آپ بتائیں پھوپھو میری شادی والے دن میں نے آپ سے سوال پوچھا تھا  ۔

آپ کا کی مقروض ہیں آج بتائیں بابا کو بھی ۔

بتائیں نا پھوپھو کا شخص کی احسان مند ہیں آپ، لفظوں پر زور دیتا ہوا سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

ریاض بخاری کی ۔صائمہ کی ہلکی سی آواز میں ریاض صاحب کے نام کو سن کر دلاور شاہ چونکے تھے ۔

آپ سے تو سب بتایا نہیں جائے گا،اس لیے میں بتاؤں گا بابا کو سب سچ ،

چھبیس سال پہلے ریاض انکل کی کوئی غلطی نہیں تھی بلکہ انہوں نے تو آپ کی عزت بچائی تھی ۔

ارتضی آج نہیں پھر کبھی یہ بات کریں گے ۔منت بھرے لہجے  صائمہ نے اسے بیچ میں ٹوکا تھا۔

کیوں پھوپھو آج ہی صحیح وقت ہے بتائیں آپ، 

میں وعدہ کرتا ہوں آپ سے وہاج اور رائمہ کی شادی میں کرواؤں گا ۔صائمہ بیگم کے ہاتھ پر دباؤ دیتا ہوا انہیں بولنے کے لیے اکسا رہا تھا۔

ریاض کی کوئی غلطی نہیں تھی بھائی میریمیری وجہ سے ہی انہوں نے نکاح سے انکار کیا تھا ۔کیونکہ میں اور وہاں پہلے سے نکاح کر چکے تھے ۔نظریں جھکائے وہ ساری روداد سناتی ہوئی آخر میں رو پڑی تھیں ۔

ایک بات اور بابا میں نے آپ کو کبھی یہ وعدہ دیا ہی نہیں کہ میں ماہین کو طلاق دوں گا ۔یہ یاد رکھیئے گا بابا ماہین کو مجھ سے الگ صرف میری موت کر سکتی ہے ۔

کوئی وعدہ یا قسم تو بلکل بھی نہیں، صائمہ بیگم حیرانگی سے دونوں کو دیکھ رہی تھیں ۔۔

اب آپ دونوں بیٹھ کر مصلحت کریں، شب بخیر ،شرمندگی سے نظریں جھکائے دلاور شاہ جو چھبیس سال سے ریاض بخاری کو قصور وار سمجھ صائمہ سے بھی قطعی تعلق  ہوگئے تھے ،آج انہیں صائمہ بیگم کے ساتھ آبی تعلق کا فیصلہ صحیح لگا تھا ۔

میں کیسے نظریں ملاؤں گا اپنے بیٹے سے ،دونوں ہاتھوں سے  سر کو تھامے ہوئے سوچ کر بھی پشیمان ہورہے تھے ۔

بھائی ،جاؤں یہاں سے ،صائمہ بیگم  کو آج پھر اپنا بھائی دور ہوتا لگ رہا تھا ۔۔

آنسو صاف کرتی ہوئی وہ وہاں سے چلی گئیں تھیں ۔

*******

کمرے میں مسلسل روتی ہوئی چکر کاٹتی ہوئی وہ تھک کر بیٹھی تھی ۔

ارتضی کو کمرے میں آتے دیکھ وہ فورا سے اسے کے پاس آئی تھی ۔

کیا ہوا ماہین آپ اب تک سوئی نہیں، واسکٹ اتار کر بیڈ پر رکھتا ہوا وہ نارمل اندازہ بول رہا تھا جیسے اس کی اور دلاور شاہ کے بیچ عام سی  بات ہوئی ہو۔

کب دے رہے ہیں آپ مجھے طلاق ،ماہین کے بولنے پر ارتضی شاکڈ ہوا تھا۔

کیا کہہ رہی ہیں آپ کو اندازہ بھی ہے ۔ماہین کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا نرم لہجے میں بول رہا تھا ۔

آپ وعدہ کرسکتے ہیں تو کیا میں آپ کو پورا کرنے نہیں دے سکتی  ارتضی کے ہاتھ جھٹکتی ہوئی وہ دور ہوئی تھی  ۔

دیں طلاق مجھے آپ ،سرخ متورم آنکھیں لیے  وہ بھرائی آواز غرلائی تھی ۔

میں آپ کو طلاق نہیں دے سکتا ،

اب مزید جھوٹ مت بولیں، ارتضی کی بات اب اسے اعتبار کہاں آنا تھا۔

ماہین پلیز یقین کریں میرا وہ صرف بابا کو ہمارے نکاح کی رضامندی کے لیے دیا تھا ۔

مجھے ذرا علم نہیں تھا کہ بابا مجھ سے ایسا وعدہ لیں گے ۔بے بسی سے کہتا ہوا وہ ماہین کے قریب آیا تھا۔

مجھے کچھ نہیں سننا بس اب آپ اپنا وعدہ پورا کریں ۔

کسے خبر تھی کہ پتھر و بے حس انسان کے نام سے مشہور ارتضی شاہ ایک عام سی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو کر اتنا بے بس ہوجائے گا کہ وہ خود کی ہی ذات کو فراموش کر دے گا ۔۔،

کسی سے بھی نا ہارنے والا ارتضی شاہ آج تمہارے ساتھ کی گئی  محبت سے شکست کھا گیا ہے ۔

خود پر سے ضبط کھوتے ہوئے محسوس کرتا ہوا وہ کچھ منٹوں کے لیے ماہین کو سننے کے لیے رکا تھا۔

میں اب یہاں نہیں  رہوں گی۔حتمی فیصلہ سنا گئی تھی ۔

سیدھے لفظوں میں کہہ دو نا کہ ارتضی شاہ مر جاؤں تم۔۔،

خدا کی قسم ایک سیکنڈ بھی ضائع کیے بغیر میں مرنے کے لیے تیار ہوجاؤں گا ۔ماہین کی جان نکال لینے والی خاموشی سے خود کے ہاتھ پیروں سے جان نکلتی محسوس ہوئی تھی ۔

بے بسی کی حد کو چھوتا ہوا وہ پہلی بار کسی کے سامنے اپنے اندر کا حال کھول کر کھول کر رکھتا ہوا  ،

اپنے  چہرے پر لگائے ہوئے مغرور شاہ کا نقاب اتار کر

ماہین کے آگے وہ اپنی محبت کی بھیک مانگ رہا تھا ۔۔

ارتضی کی تکلیف کو محسوس کرتی ہوئی وہ کچھ منٹوں کے لیے اپنے کیے فیصلے سے ڈگمگائی تھی فقط کچھ منٹوں کے لیے ۔۔۔۔۔

واپس سے خود کو مضبوط کرتی ہوئی وہ ارتضی کی طرف پیٹھ کیے کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

ماہین ۔۔۔۔۔،میں اپنی دیے وعدے سے بندھ گیا تھا ۔۔پر میں پورا نہیں کیا ۔

پلیز آپ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ جاؤ  ۔۔۔گھٹنوں کے بل بیٹھتا وہ اپنے کیے وعدے پر پچھتایا تھا ۔

آپ مرد ہمیں سمجھتے کیا ہیں  ۔کٹھ پتلی ہیں ہم جو آپ لوگوں کے ایک اشارے پر اپنی پوری زندگی گزار دیں ۔

آپ کی دی گئی زبان ،کی اہمیت رکھتی ہے ۔۔۔،آپ کا دیا گیا وعدے بہت اہمیت کا حامل ہوتے ہیں ۔۔۔ارتضی کا نکاح سے پہلے ہی طلاق دینے کا وعدہ اسے اندر سے توڑ گیا تھا۔

مگر ہمارا کیا  ۔ارتضی شاہ اس کی ٹوٹتی ہوئی خاموشی پر کچھ پل کےلیے پرسکون ہوا تھا مگر ماہین کی سرخ ہوتی ہوئی سوال کرتی سنہری آنکھیں ارتضی شاہ اپنے   چہرے پر مرکوز ہوتے دیکھ اپنی بے قابو ہوتی دھڑکنوں سے گبھرایا تھا۔

ارتضی کے ساکت چہرے کو دیکھ کر  سوال کرتی ہوئی وہ خود کو رونے سے باز رکھنے کی سعی کررہی تھی ۔

ماہین ،نہیں رہ سکتا میں آپ کے بغیر مر جاؤں گا   ۔۔۔۔ماہین کے دونوں  کندھوں پر ہاتھ رکھتا ہوا اپنی محبت کا یقین دلاتا ہوا بے بس ہوا تھا ۔

سب کہنے کی باتیں ہوتی ہیں ، کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا ۔۔۔۔۔ارتضی کے دونوں ہاتھوں کو جھٹکتی ہوئی اس سے  دور  ہوئی تھی ۔

اس زبردستی کے رشتے میں بندھ کر مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ ۔آج پھر وہ ارتضی شاہ کو چھوڑ کر جارہی کبھی نا واپس آنے کے لیے ۔

اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوتی ماہین شاہ مڑ کر ارتضی شاہ کے بکھرے ہوئے وجود کو کرب سے دیکھتی ہوئی آنکھیں میچ گئی تھی ۔

تو جانے لگا ہے تو پلٹ کر مت دیکھ ۔۔۔۔،

موت لکھ کر تو قلم توڑ دیئے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔،،

ارتضی کے لفظوں کو سنتی وہ وہاں سے خود کو ارتضی کی محبت کی گرفت سے آزاد کرواتی ہوئی نکلی تھی۔

بھرائی آواز میں کہتاہوا ارتضی شاہ آج اپنی جگہ اسے سنگ دل بنے دیکھ کچھ عرصے پہلے اپنے وعدہ کی وجہ سے  ہوئی ماہین کی کیفیت کووہ  محسوس نہیں  کرسکتا  تھا۔۔۔

******

ماہین کو گئے ہوئے آج دوسرا دن تھا ،شاہ حویلی میں کسی کو بھی خبر نا تھی ماہین کے اچانک سے بخاری ولا جانے کی اور نا ہی کسی کو ارتضی سے پوچھنے کا موقع ملا تھا۔

کیونکہ وہ ان دو دنوں میں زیادہ تر ہسپتال میں بری رہا تھا۔

اب بھی ایسا ہی ہوا تھا ہسپتال سے واپس آکر وہ سیدھا اپنے کمرے میں بند ہوگیا تھا ۔ 

گھپ اندھیرے کمرے کے بیچوں بیچ  ترتیب سے رکھے جہازی بیڈ پر نیم دراز لیٹا ہوا کمرے میں ماہین کی موجودگی نا پاکر افسردہ ہوا تھا ۔

جب اچانک بجتے اپنے سیل فون کی طرف متوجہ ہوتا وہ ابھی خوش ہوا ہی تھا ماہین کی کال سمجھ کر مگر اگلے ہی پل حیدی کالنگ فون اسکرین پر جگمگاتے دیکھ بے دلی سے فون اٹینڈ کرگیا تھا۔

بولو حیدی کیا کام تھا۔۔۔۔۔۔

ہمیشہ کی طرح آج بھی اس نے حیدر کی کال اٹینڈ کرتے ہی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔

ضروری تھوڑی ہے حیدر شاہ ہر بار ارتضی شاہ کو مطلب کے لیے فون کرے ۔۔۔عام سا ٹھہرا ہوا لہجہ ارتضی اور اس میں دن رات کا فرق تھا ۔

ارتضی سورج کی مانند گرم لہجے تپیش اور روب لیے وہیں حیدر چاند کی مانند ٹھنڈا خوش مزاج ۔۔۔

آپ اگر فری ہوں تو تھوڑی دیر مجھ سے بات کرلیں ۔بڑے دنوں بعد حیا کی موجودگی کے باعث حیدر شاہ کے لبوں پر مسکراہٹ کی ہلکی سی رینگی تھی ۔

اس کی یاد مجھے تنہاہ کہاں رہنے دیتی ہے حیدی ۔۔

بس کسی سائے کی طرح ہر وقت میرے اردگرد مڈلاتی رہتی ہے ۔۔افسردگی سے کہتا وہ سائیڈ ٹیبل پر رکھے لیمپ کو آن کرتا سیدھا ہو بیٹھا تھا ۔

آپ ہمت نا ہاریں بہت جلد آجائے گئیں گی بھابھی واپس ۔

یہ فقط حیدر شاہ جانتا تھا کہ کس کرب کو جھیل کر بھابھی لفظ اس نے ادا کیا تھا۔

پتا ہے حیدی جب بھی کوئی شخص مرتا ہے نا اس کے پیچھے بھی یا تو بیماری ہوتی ہے یا اچانک حادثے ۔

کیونکہ دنیا سے جانے والوں کے پاس کوئی نا کوئی بہانا ہوتا ہے یہ دنیا چھوڑ کر جانے کا ۔۔۔۔

"مگر ارتضی شاہ کو ماہین شاہ کی بے رخی اور جدائی بن آئی موت مار دے گی ۔۔،"

نم لہجے میں بولتا ہوا ارتضی شاہ پہلی بار خود کو بے بس محسوس کررہا تھا ۔۔۔۔

یہ وقت بتائے گا کہ زندگی کس کے ساتھ وفا کرتی ہے اور کس کے ساتھ بے وفائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ فیصلے صرف وقت کرتا ہے جس سے ہم سب انجان ہوتے ہیں، ویسے ہی ارتضی اور حیدر دونوں انجان تھے آنے والے طوفان سے ۔۔۔

ایسا نہیں کہتے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔

زندگی سے اچھی توقع رکھنی چاہیے کیونکہ زندگی بہت خوبصورت ہے اگر ہم اسے خوبصورت نظریے سے دیکھیں تو ۔۔

ارتضی شاہ کی تکلیف اس سے بڑی تو نا تھی مگر درد ناک ضرور تھی ۔

کسی سے یک طرفہ محبت کرنا اور اسے نا پانے سے کئی زیادہ کسی کو حاصل کر کے بھی لاحاصل رہنا بڑا درد ناک سفر ہوتا ہے 

غلام رسول ۔آج کے دن ہی تین سرجری کرکے وہ شہر سے واپس  منت ہسپتال گیا تھا ۔

جہاں پر اپنے ریگولر پیشنٹس کے ساتھ وقت  گزارنے کے بعد ارتضی حویلی واپس آیا تھا ۔

مگر آتے ہی اپنے کمرے میں رحیم کو دیکھ کر ٹھٹھکا تھا۔

معذرت سائین سرکار! پتا نہیں یہ کیسے آپ کے کمرے میں آگیا ، ۔ارتضی کے بیڈ پر آرام سے سوئے ہوئے رحیم کو دیکھ کر غلام رسول کو اپنی شمات آتی دیکھائی دی تھی ۔

رحیم جو کھیل کھیلتا ہوا ارتضی کے کمرے چھپنے کی غرض سے آیا تھا ۔

سب کا انتظار کرتے ہوئے اس کی وہیں آنکھ لگ گئی تھی ۔

میں ابھی اسے یہاں سے لے جاتا ہوں اور شمیم سے کہہ کر بیڈ کی چادر بھی تبدیل کروا دیتا ہوں۔سر جھکائے وہ جلدی سے بیڈ پر سوئے اپنے بیٹے رحیمکی سمت بڑھا تھا۔

رہنے دو ۔

جی سرکار سائین ۔ارتضی کی سرگوشی وہ سن نہیں سکا تھا۔

میں نے کہا ہے سونے دو اسے یہاں پر آج ۔بچوں کی نیند خراب نہیں کرنی چاہیے ۔بچوں کے ساتھ اپنے بیر کو سائیڈ رکھتا ہوا وہ فکر سے بولا تھا ۔

مگر آگے سے دھیان رکھنا ،بیزاریت سے کہتا ہوا وہ کہہ کر ڈریسنگ روم کی سمت بڑھا تھا ۔ 

تم گئے نہیں ۔

تھوڑی دیر بعد شاورلے کر باہر آتا ہوا ارتضی دروازے کے پاس کھڑے غلام رسول کو دیکھ کر حیرت کا شکار ہوا تھا ۔ 

جارہا  ہوں ۔شب بخیر ۔۔دروازہ بند کرکے جاتے ہوئے غلام رسول کو دیکھ ارتضی اپنی بیڈ پر سوئے ہوئے رحیم کو دیکھ کر اس کے قریب آکر لیٹا تھا ۔

رحیم کو نا بھیجنے کی سب سے بڑی وجہ ماہین کی کمی تھی جو اسے پریشان کیے رکھتی تھی ۔

آج رحیم کو اس طرح پرسکون سوتے دیکھ کر  ارتضی کو رشک ہوا تھا ۔

کتنا عرصہ ہوگیا تھا اسے پرسکون سوئے ہوئے ،

رحیم کو کنفرٹ اوڑھاتے ہوئے وہ ونڈو کے پاس آکھڑا ہوا تھا، جہاں چاند اپنی پوری تاب کے ساتھ رات کے سیاہ اندھیرے کو اپنی چاندی سے مٹائے ہوئے تھا۔

*******

حیدر ارتضی بھائی کیوں نہیں گئے ماہین آپی کو لینے ،لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرتے حیدر کے ہاتھ رکے تھے۔

آج بخاری ولا ماہین کو لینے کے لیے اپنی کی گئی غلطی کو سدھارنے کے لیے دلاور شاہ خود گئے تھے شاہدہ بیگم کے ساتھ ۔

 سرجری میں بزی ہونگے وہ اس لیے ۔ارتضی اور ماہین کی ناراضگی کے بارے میں سب جاننے لے بعد بھی حیدر با آسانی حیا سے حقیقت چھپا گیا تھا۔

حیدر کو سنجیدگی سے کام کرتے دیکھ حیا کو شرارت سوجھی تھی ۔۔

میں نے تو آج غور کیا ہے کی تمہاری آنکھیں مینڈک جیسی دیکھتی ہیں ۔کاؤچ پر حیدر کے ساتھ بیٹھی ہوئی وہ حیدر کی ٹکی نظروں سے وہ کنفیوز ہوتی ہوئی وہ خود کو کمپوز کرگئی تھی ۔

تمہیں نہیں لگتا حیا کے تم کچھ زیادہ ہی میری شکل پر کمنٹ پاس کرنے لگ گئی ہو ۔جتاتے ہوئے انداز میں کہتا ہوا وہ حیا کو گھور رہا تھا ۔

اچھا ایسا ہے پر مجھے لگا کہ میں تمہیں آج کل کم تنگ کرنے لگی  ہوں ۔حیدر کی ستوان ناک کھینچتی ہوئی وہ محبت سے لبریز لہجے میں بولتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

چلو کوئی بات نہیں اب میں تمہیں کم تنگ کروں گی ۔حیدر کے کندھے پر سر ٹکاتی ہوئی شرارت سے مسکرائی تھی ۔

مطلب تم باز نہیں آؤ گی اپنی حرکتوں سے ۔حیا کے مسکراتے چہرے کو دیکھ وہ چاہ کر بھی سنجیدہ نہیں ہوسکا تھا۔

ہر گز نہیں میری سڑی ہوئی ککڑی ۔آنکھیں بند کیے وہ حیدر کو مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی ۔

حیا ۔۔۔۔۔۔مضنوئی ناراضگی سے پکارتے ہوئے وہ حیا کے سر پر  اپنی تھوڑی ٹکا گیا تھا۔

جواب میں فقط کھلکھلائی تھی ۔

*******

ماہین بیٹا تمہاری ارتضی سے بات ہوئی کب آرہا  ہے وہ تمہیں لینے ،کھانا کھاتی ہوئی ماہین کے تھمے تھے شاکرہ بیگم کے پوچھنے پر ۔

جی تائی امی میں نے ہی انہیں منع کیا ہے آنے کے لئے حیا کے بعد گھر بلکل خالی ہوگیا ہے نا اس لیے تھوڑے دن اور یہاں پر رہنے کا سوچا ہے میں نے ارتضی سے اجازت لے لی ہے میں نے ۔نکاح سے پہلے کیے گئے ارتضی کے وعدے کو وہ چاہ کربھی بھول نہیں پا رہی تھی ۔

شادی شدہ بیٹیاں اپنے میکے میں نہیں سسرال میں اچھی لگتی ہیں ۔اور ویسے بھی ایک نا ایک دن یہ سب ہونا ہی تھا ۔شاکرہ بیگم کی بات پر سر جھکا گئی تھی انہیں اب کیا بتاتی وہ خوف سے یہاں پر آئی تھی نا کہ ارتضی کی اجازت لے کر ۔

جی تائی امی ۔آنسو ضبط کرتی ہوئی وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے روم کی سمت بڑھی تھی ۔

مجھے سب ٹھیک کیوں نہیں لگ رہا ماہین تمہارے اور ارتضی کے درمیان ،اپنے دل میں چلتے خدشات کے باعث انہوں نے ماہین سے پوچھا تھا ۔

*******

مجھے زلیل و خوار کروا کر خود کہاں سکون سے بیٹھ گئے ہو، 

میں اپنے فیصلے پر پچھتا رہی ہوں کاش میں تمہارے ساتھ ہاتھ نا ملاتی کم از کم اپنی نظروں میں تو نا گرتی ،ایک مہینے سے مسلسل اسے فون کرتی ہوئی نوری آج مقابل کے کال اٹینڈ کرنے پر برس پڑی تھی ۔

میں نے سوچ لیا ہے اب میں مزید ارتضی شاہ کے سامنے اپنی محبت  کی بھیک نہیں مانگو گی ،اور نا ہی تمہارا ساتھ دوں گی ۔نوری کی بات پر مقابل کے چہرے پر حددجہ سنجیدگی چھائی تھی ۔

آواز نیچی رکھو میرے سامنے ہوگی تم دنیا کے لیے ماڈل پریہا نور  پر میرے لیے آج بھی تم وہی شاہ حویلی کی ملازمہ نوری ہی ہو ،نوری کی آواز آواز پر چوٹ کرتا ہوا وہ گلاس ونڈو کے پاس آکھڑا ہوا تھا ۔

تم پچھتانے کی بات کر رہی ہو ارے پچھتا تو میں رہا ہوں تمہارے ساتھ ہاتھ ملانے پر ،

تمہارے لیے میں کیا کیا نہیں کیا ،اپنی چند اداؤں سے بھی ارتضی شاہ کو رحجا نا کسی تم ،

اسے عورتیں تو اپنی چند اداؤں سے مردوں کو زیر کردیتی ہیں اور تم وہ بھی نا کرسکی بات کرتی ہو پچھتانے کی ،تمخسرانہ انداز میں کہتا ہوا وہ غروب ہوتے سورج کو دیکھ کر کچھ توقف کے لیے خاموش ہوا تھا ۔

اور آج جو شوبز کی دنیا میں تمہارا اتنا نام ہے جس کے بل پر اتنا کود رہی ہو ، بھولو مت یہ سب میری بدولت ہے ورنہ تم جیسی لڑکیوں کو کون پوچھتا ہے ،اگر میںسفارش نا کرواتا تو آج بھی وہی نوکرانی ہی رہتی تم پھر چھوٹی سی جھونپڑی میں دیکھتی رہتی سائین سرکار کے ساتھ کے خواب ،طنز کرتا ہوا وہ نوری کے زبان پر قفل لگا گیا تھا ۔ 

اب کہاں گئے زبان کے جوہر تمہارے ۔ونڈو پر مخملی پردے کھینچتے ہوئے وہ ہوٹل روم میں رکھے کاؤچ پر براجمان ہوا تھا ۔

میں بس اتنا ہی جانتی ہوں کہ مجھے مزید اب تمہارا ساتھ نہیں  دینا ،آنسو صاف کرتی ہوئی مضبوط لہجے میں بولی تھی ۔

ارتضی کے ساتھ کی گئی آخری کنروسیچش  پر وہ ارتضی کے ساتھ کا اپنا ارادہ بدل گئی تھی ۔

سوچ لو پھر ریحان کے  ہاتھوں کی کٹ پتلی بن رہ کر جاؤ گی ۔اس شخص نے نوری کو ڈرانا چاہا تھا ۔

مجھے فرق نہیں پڑتا کم از کم ملک صاحب تمہاری طرح گھٹیا نہیں ہیں جو کرتے ہیں سامنے کرتے ہیں تمہاری طرح پیٹھ پیچھے وار نہیں کرتے ۔پہلی بار وہ ریحان کے حق میں بول رہی تھی مقابل اس کے اس طرح بدل جانے پر پریشان ہوا تھا ۔

سوچ لو تمہارے پاس وہ بہت اچھا موقع ہے ،

کیسا موقع ۔لفظوں کا آخری جال بنتا ہوا وہ نوری کا شکار کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔ 

سنا ہے ماہین صاحبہ تمہارے سائیں سرکار کو چھوڑ کر اپنے گھر جا چکی ہیں، شاہ حویلی کی سن گن سن کر اسے خوشی تو بہت ہوئی تھی ،

اس سب مجھے کیا فائدہ ہونے لگا،نا سمجھی میں پوچھتی ہوئی وہ مقابل کے قہقہ لگانے پر فون کان سے ہٹا کر اس کی ذہنی حالت پر شک گزرا تھا ۔

مطلب یہ کہ تمہارے سائین سرکار کے برے دن ہیں اور غلط ماہین بھ،،،

مطلب ماہین صاحبہ کی غلط فہمی عروج پر ہے ،

میرے خیال سے یہ بہت اچھا وقت ہے ماہین  کا برین واش کرنے کا ۔پر سوچ انداز میں کہتا ہوا اپنے لیپ ٹاپ پر ارتضی اور ماہین کی ساتھ کی فوٹوز دیکھ کر تلخ مسکرایا تھا ۔

مین سمجھ نہیں پا رہی تم کہنا کیا چاہ رہے ہو ۔وہ اب بھی انجان تھی مقابل کے شاطر دماغ سے ۔

مطلب لوہا گرم ہے تم وار کرو اور اپنی قسمت آزما لو ،ماہین  کو اتنا بد گمان کردو ارتضی سے کہ پلٹ کر کبھی بھی اسے نا دیکھے، دونوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ کردو اور ماہین کی جگہ تم لے لو ،

نوری کی خاموشی پر وہ مزید بول گیا تھا ۔

قسمت ایسے موقعے بار بار نہیں دیتی ۔مقابل نوری کو سوچنے پر مجبور کرگیا تھا ۔

آخری بار میں تمہارا ساتھ دوں گی ۔

اور وہیں ہوا مقابل کی منشا کے مطابق نوری ہامی بھر گئی تھی اپنی قسمت کو آخری بار آزمانے کے لیے ۔

یہ آخری بار تمہاری زندگی بدل دے گی ،کہہ کر وہ کال ڈیسکنیٹ کرگیا تھا۔

مجبور کردیا مجھے ارتضی شاہ تم نے ،

جب میری محبت مجھے نہیں مل سکتی تو میں تمہیں تمہاری محبت سے دور کردوں گا ۔

فون اسکرین پر اپنی دشمن جاں کی فوٹو دیکھتا ہوا وہ کرب سے آنکھیں میچ گیا تھا ۔

******

ہم اپنی بہو کو لینے آئے ہیں ۔خوشگوار ماحول میں کھانا کھانے کے بعد سب لاونچ میں آبیٹھے تھے۔

  شاہدہ بیگم کے ساتھ بیٹھی ہوئی رائمہ ماہین کے پاس بیٹھتی ہوئی اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔

بھابھی آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا ،ماہین کی آنکھوں کے گرد حلقے اور مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر وہ فکرمندانہ میں استفسار کرگئی تھی ۔

ہاں ٹھیک ہوں ، کچھ دنوں سے ماہین کی طبعیت میں عجیب و غریب بدلاؤ آیا ہوا تھا۔ جس سے انجان وہ ارتضی کی عادت کا نام دیئے ہوئے تھی ۔

نہیں بھابھی مجھے تو آپ ٹھیک نہیں لگ رہی ہیں۔میں نے دیکھا تھا  کھانا بھی آپ نے ٹھیک سے نہیں کھایا تھا ۔رائمہ کی فکرمندانہ انداز پر وہ دل سے مسکرائی تھی ۔

ماہین ۔دلاور شاہ کے پکارنے پر لاونچ روم سے باہر جاتی ہوئی ماہین کے قدم تھمے تھے ۔ 

دلاور شاہ کے پکارنے پر وہ ان کے پاس آئی تھی ۔

میں آج ریاض تم سے معافی مانگنے بھی آیا ہوں، چھبیس سال سے میں تم سے بلاوجہ نفرت کرتا آیا ہوں ،

میں یہ سمجھتا آرہا تھا کہ تم نے میری اتنی قابل بہن کو ٹھکرایا ہے مگر میری اس غلط فہمی کی وجہ سے میں نفرت کی آگ میں جلتا ہوا میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرنے والا تھا مگر ارتضی نے میری آنکھوں پر بندھی نفرت کی پٹی کھول دی ۔ریاض صاحب جو ناسمجھی میں انہیں  دیکھ رہے تھے وہیں  ماہین کے کانوں میں ارتضی کے آخری لفظ کانوں میں گونجے تھے ۔

کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہیں ۔حمدان صاحب کو دیکھتے ہوئے وہ دلاور شاہ سے پوچھ رہے تھے۔

آج میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ،اگر تم چھبیس سال پہلے ہماری عزت کی خاطر نکاح سے انکار نا کرتے تو ہماری عزت خاک خاک میں مل جاتی ۔دونوں ہاتھ جوڑے وہ ریاض صاحب کے سامنے کھڑے ہوئے تھے ۔

جو مجھے اس وقت سہی لگا میں نے فقط وہ کیا تھا اب آپ ایسے ہاتھ جوڑ کر مجھے شرمندہ ناکریں ۔بلکہ گلے لگیں ۔دلاور شاہ کے ساتھ بغلگیر ہوتے وہ مسکرائے تھے ۔

ماہین بیٹا مجھے معاف کردو اور اپنے گھر چلو ،آپ معافی مت مانگیں پلیز۔دلاور شاہ کے اپنے سامنے جڑے ہاتھوں کو دیکھ وہ فورا سے بولی تھی ۔

ان سب میں میرے ارتضی کی کوئی غلطی نہیں تھی مگر سزا اسے مل رہی ہے آپ سے دوری کی ۔

میں اچھے سے جانتا ہوں ارتضی کبھی بھی آپ کو طلاق تو دور کبھی  سوچ بھی نہیں سکتا ہے وہ ۔نم آنکھوں سے اپنی غلطی پر پشیمان ہورہی تھی ۔

میں سامان لے کر آتی ہوں ۔ماہین کے پیچھے ہی شاکرہ بیگم بھی گئی تھیں ۔

ماں نہیں سمجھا نا تم نے مجھے ،سامان پیک کرتی ہوئی ماہین کرب سے آنکھیں میچ گئی تھی ۔

ماں سمجھا تھا تو آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہا ۔آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے شاکرہ بیگم کو دیکھتی ہوئی وہ ان کا ہاتھ تھام کر بیڈ پر بیٹھا گئی تھی ۔

رہنے دو ،

سچ میں تائی امی ۔ان کی زانوں ہر سر رکھ کر آنکھیں موندے وہ رو دی تھی ۔

اب رونا بند  کرو اور سب سچ سچ بتاؤ کیا ہوا تھا ۔شاکرہ بیگم کو ساری روداد گوش گزار کرتی ہوئی آخری میں پھر سے رو دی تھی ۔

ٹائی امی ارتضی نے مجھے کال تک نہیں کی ہے ۔اب بھی اسے ارتضی سے شکوہ تھا 

غلطی تمہاری ہے ماہین آدھی ادھوری بات سن کر سب کچھ چھوڑ کر آگئی  ،شرمندگی  سے نظریں جھکائے وہ ہنوز شاکرہ بیگم  کے پیروں میں بیٹھی ہوئی تھی ۔

میاں بیوی کے درمیان اعتبار کا ہونا بہت ضروری ہے،  ماہین کو اپنے ساتھ بیٹھاتی ہوئیں وہ اسے سمجھا رہی تھیں ۔

اب میں ان پر خود سے زیادہ اعتبار کروں گی تائی امی  ۔شاکرہ بیگم کے کندھے پر سر رکھے وہ ارتضی کی ناراضگی سے ڈر رہی تھی ۔

ایسا ہی کرنا ہے تم نے ،اب جلدی سے فریش ہوکر اچھے سے تیار ہوجاؤ ۔ماہین کی پیشانی پر بوسہ دے کر وہ وہاں سے گئی تھیں ۔

سوری ارتضی ہر بار میں کیوں آپ سے بدگمان  ہوجاتی ہوں ،اپنی بیوقوفی پر ملال کرتی ہوئی باتھروم میں بند ہوئی تھی ۔ 

کچھ توقف بعد وہ شاہ حویلی آئی تھی ۔

مسلسل ایک گھنٹے کے انتظار کرنے کے بعد ارتضی کی گاڑی کی آواز پر ماہین  کا انتظار ختم ہوا تھا۔

حویلی واپسی پر آج بھی ارتضی نے کھانا  کھانے سے منع کیا تھا ۔

اور سیدھا اپنے کمرے کی سمت بڑھا گیا تھا جہاں  صبری سے اس کے انتظار میں ماہین کی جان ہلکان ہوئی جارہی تھی ۔

******

نیم اندھیرے کمرے میں داخل ہوتے ارتضی نے لائٹس آن کرنا گورا نہیں سمجھا تھا ۔

 کمرے میں ماہین کی محسور کن خوشبو ارتضی کو کمرے میں محسوس ہوئی تھی ۔

جسے نظر انداز کرتا ہوا وہ ڈریسنگ ٹیبل پر اپنی ریسٹ واچ رکھتا ہوا سر جھکائے اسے آج پھر ماہین کے ہونے کا الہام ہوا تھا ۔

سیل فون بیڈ پر پھینکنے کے انداز سے رکھتا ہوا وہ قدموں کی آہٹ پر اچانک سے پیچھے مڑا تھا ۔

سامنے کسی کو نا پاکر وہ اپنے دکھتے سر کو پکڑ کر وہ ڈریسنگ روم کی سمت بڑھا تھا ۔

انہیں پتا کیوں نہیں چل رہا اب تو ضرور ڈھونڈ لیں گے ۔بیڈ کی پیچھے چھپ کر بیٹھی ہوئی ماہین زچ ہوئی تھی ارتضی کی بے خبری پر ۔

مگر کچھ سوچ کر ماہین نے ضرور سے اپنے چوڑیوں کو کھنکھاتی ہوئی اپنی سمت متوجہ کرنے سعی کرگئی تھی ۔

چوڑیوں کی کھنکھاہٹ  پر  فورا سے ڈریسنگ روم  سے باہر آتا ہوا وہ دیوانہ وار اپنی نظریں دوڑا رہا تھا ۔

مگر ماہین اسے نہیں نظر نہیں آرہی تھی ۔

میں ہی بے سکون نہیں تھی ڈاکٹر جلاد ۔ارتضی کے اس طرح خود کو ڈھونڈنے پر وہ مسکراتی ہوئی ارتضی کو خود کو ڈھونڈتے دیکھ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا تھا ۔

ماہین ۔ارتضی کی پکار پر اپنے منہ ہاتھ رکھتی ہوئی وہ اپنی چلتی سانسوں کو دبا گئی تھی ۔

کچھ دیر جواب کا انتظار کرنے کے ارتضی کو باتھروم میں  جاتے دیکھ ماہین دبے پاؤں چلتی ہوئی ڈریسنگ روم میں آئی تھی ۔

دس منٹ کے انتظار کے بعد بالوں کو ٹاول سے خشک کرتا ہوئے ارتضی کو باہر آتے دیکھ ماہین نے پیچھے سے ارتضی کے گرد حصار باندھ دیا تھا ۔

ایم سوری ارتضی، ماہین کی موجودگی اور لمس کو سانس روکے محسوس کرتا ہوا وہ ساکت کھڑا تھا ۔ 

ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی تھی اسے ماہین کی ہونے پر ۔

کس کے ساتھ آئیں ہیں آپ ،خود کو پرسکون کرتا ہوا وہ کچھ توقف بعد بول رہا تھا ۔

ماں سرکار اور بابا کے ساتھ ۔ارتضی کی پیٹھ سے سر ٹکائے آنکھیں بند کیے ہوئے وہ ارتضی کو خود سے ناراض نا سمجھ کر مسکرائی تھی ۔

تو یہاں میرے کمرے کیا کر رہی ہیں آپ ،جائیں بابا اور ماں سرکار کو کہہ کر اپنے لیے کوئی اور کمرے صاف کروا لیں ۔

کیونکہ آپ آئیں تو انہوں کے لیے ہیں ۔خود کو ماہین کے حصار سے آزاد کرواتا ہوا ضبط سے جبڑے بھینچے ہوئے تھا ۔ جو کرب وہ جھیل رہا تھا یہ اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔

میں صرف اور صرف آپ کے لیے آئی ہوں ۔لب دبائے وہ ارتضی کے لہجے سے ڈری تھی ۔

مذاق اچھا کرلیتی ہیں آپ ،تمخسرانہ انداز میں ہنستا ہوا وہ ماہین کو دیکھنے سے قاصر تھا ۔

کیونکہ وہ اسے دیکھ کر کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا ۔

ایم سوری ارتضی ایم رئیلی ویری سوری ۔ارتضی کی طرف سے کوئی جواب نا پاکر وہ پھر سے بھرائی آواز میں  بولتی  ہوئی واپس سے ارتضی کے گرد حصار باندھ گئی تھی ۔

سوری ۔۔سرد لہجے میں کہتا ہوا وہ اگلے ہی لمحے میں ماہین کی نازک گرفت سے خود کو رہا کرتا ہوا بنا ماہین کی طرف رخ کیے ماہین سے دو قدم پیچھے ہوا تھا ۔

ارتضی کو خود سے  دور ہوتے دیکھ ماہین کے تھمے ہوئے آنسو ٹوٹ کر رخسار پر بہنا شروع ہوئے تھے ۔

میرے خیال سے اس لفظ کو سننے کی مجھے عادت ڈال لینی چاہیے اب ۔ماہین کی سمت رخ کرتا ہوا وہ حد درجہ سرد لہجہ لیے ہوئے تھا ۔

 کیونکہ آپ کو تو ہر بار غلط فہمی ہوجاتی ہے اور بنا کچھ جانے بنا کچھ سنے آپ مجھے مجرم ٹھہرا کر گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہیں، 

چاہیے روکنے والا اپنی زندگی ہی کیوں نا ہار جائے  آپ کو فرق کہاں پڑتا ہے ۔ارتضی کا ایک ہفتے سے کیا ضبط آج ٹوٹ گیا تھا ۔

میں وعدہ کرتی ہوں آپ سے ایسا نہیں ہوگا پھر سے ارتضی ۔ارتضی کے ہاتھ کو پکڑتی ہوئی نم لہجے میں بول رہی تھی ۔

ایسا ہی ہوگا کیونکہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے ہمارے درمیان ماہین ،

بنا میرے بارے جانے آپ نے مجھ نفرت کا دعوا کیا ،اور عین شادی والے دن بھی آپ گھر سے بھاگ گئی تھیں، 

اور اب لاسٹ ٹائم بھی تو یہ ہی کچھ کیا تھا آپ نے  بنا پوری بات سنے آپ نے فیصلہ کیا اور مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔

آگے بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ آپ سب پر اعتبار کرسکتی ہیں ایک نہیں کر سکتی ہیں تو صرف ارتضی شاہ پر ۔کچھ توقف کے لیے کمرے میں فقط ماہین کی سسکیاں گونج رہی تھی ۔

آپ چاہیں تو جا سکتی ہیں اب میری طرف سے آپ پر کوئی پابندی عائد  نہیں ہوگی ۔ماہین کے روانگی سے بہتے آنسوؤں سے نظریں چراتا ہوا وہ رخ موڑ گیا تھا ۔

ارتضی میں وعدہ کرتی  ہوں میں آئیندہ کے بعد سے صرف اور صرف آپ پر اعتبار کروں گی ،جو آپ کہیے گے وہ بات مانو گی باقی کسی کی بھی بات پر یقین نہیں گی ۔ارتضی کے روبرو آتی ہوئی وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی ۔

میں وعدہ کرتی ہوں پر پلیز آپ میرے ساتھ ایسا بی ہیوو مت کریں مجھ سے برداشت نہیں ہورہا آپ کا ایسا رویہ ۔ارتضی کے سینے پر سر رکھتی ہوئی وہ تواتر روتی ہوئی ارتضی کی شرٹ بھیگو رہی تھی ۔

پھر سے ماہین کو خود کے ساتھ لگے دیکھ وہ اپنے لب آپس میں پیوست کر گیا تھا ۔

ماہین رونا بند کریں ،ماہین کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنے کوشش کرتا ہوا ماہین کے گرفت میں مضبوطی دیکھ وہ حیران ہوا تھا ۔

سوری پلیز ارتضی لاسٹ ٹائم معاف کردیں ،سرخ نم آنکھیں لیے وہ ارتضی کے چہرے کو دیکھ کر امید بھری نظروں التجا  کررہی تھی ۔

ماہین مجھے نیند آرہی ہے آپ کو بھی سو جانا چاہیے ۔بلآخر خود کو آزاد کرواتا ہوا وہ بیڈ پر دراز ہوا تھا ۔

نم آنکھیں لیے وہ ارتضی کو حیرانگی سے دیکھ رہی تھی ۔

مجھے بہت نیند آرہی ہے اگر آپ کو سونا ہے تو سو جائیں کیونکہ مجھے لائیٹ آف کرنی ہے ۔آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے   وہ بنا ماہین کو دیکھے آج اسے اپنے سنگدل ہونے کا ثبوت دے گیا تھا ۔

مردہ قدموں سے خود کو گھیسٹتی ہوئی وہ ارتضی کے برابر میں آکر لیٹی تھی ۔

ماہین کو لیٹے ہوئے دیکھ وہ کمرے میں چلتا سائیڈ پمپ بھی آف کرگیا تھا ۔

کافی دیر ایک ہی سمت میں لیٹی ہوئی وہ ارتضی اور اپنے درمیان کے فاصلے کو مٹاتی ہوئی ارتضی کے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں موند گئی تھی ۔

ماہین کے عمل پر وہ چاہ کر بھی اسے دور نا کرسکا تھا فقط خاموشی سے آنکھیں میچ گیا تھا ۔

*******

کب آرہے ہو ،مما کالنگ دیکھ وہ اپنے بکھرے سامان  کو جلدی جلدی پیک کررہا تھا ایک گھنٹے بعد اس کی پاکستان  کی  فلائٹ تھی جو وہ صائمہ انصاری سے چھپا رہا تھا سرپرائز دینے کی خاطر۔

بہت جلد مما ۔۔لب دبائے وہ شرارت سے گویا ہوا تھا ۔

وہاج کے جواب پر وہ اپنے ساتھ بیٹھے وہاب انصاری کو دیکھ کر نگاہ جھکا گئی تھیں ۔

تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے وجی ۔۔بڑی ہمت باندھ کر انہوں نے کہا تھا ۔

جی مما کہیے  ۔عام سے لہجے میں کہتا ہوا اپنا سامان باندھ رہا تھا ۔

وہ کچھ مہینے پہلے میں نے تمہیں ایک خوشخبری سنائی تھی ،انہوں نے تہمیت باندھی تھی ۔

جی ،بے ساختہ ہی اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی تھی ۔

اس ہی کو لے کر ۔وہ بولتی ہوئی  ٹھہر گئیں تھیں ۔

کیا مما صاف صاف کہیے کیا کہنا چاہ رہی ہیں آپ ،سامان پیک کرتے ہوئے وجہ کے ہاتھ تھمے تھے ۔

وہاج کو ڈر لگا تھا صائمہ انصاری کی باتوں سے ۔

 تمہارا اور رائمہ کا رشتہ ختم ہوگیا ہے وہاج ۔صائمہ انصاری کی کہی بات سن کر اس کے لبوں کی مسکراہٹ سمٹی تھی ۔

کیا مطلب مما ۔شاکڈ ہوتا ہوا وہ فقط یہ ہی پوچھ سکا تھا ۔

کتنا خوش تھا وہ اپنے اور رائمہ کے رشتے فکس ہوجانے پر ،جلدی جلدی اپنے تمام  کام نمٹا کر وہ بس جلد از جلد رائمہ سے ملنے کا خواہ تھا ۔

مگر اچانک سے یہ خبر سن کر اسے دھچکا لگا تھا ۔

مطلب اب تمہارا اور رائمہ کا رشتہ کبھی بھی نہیں جوڑ سکتا ۔ساری باتیں اسے گوشگزار کرتیں ہوئیں وہ آخر میں رو پڑی تھیں ۔

میں بعد میں بات کرتا ہوں آپ سے ۔فون ڈیسکنیٹ کرتا ہوا وہ بیڈ پر رکھے اپنے سارے سامان کو زمین بوس کرگیا تھا ۔

ارتضی شاہ ۔۔حلق کے بل چلاتا ہوا وہ اپنی پوری قوت سے چلایا تھا۔

بہت ہوگیا اب ،بہت بن گیا میں بزدل ،اب اور نہیں اب دیکھنا مسٹر ارتضی شاہ تمہاری زندگی میں کیسا طوفان لاتا ہے یہ وہاج انصاری ۔۔نفرت انگیز لہجے میں کہتا ہوا کچھ ماہ پہلے ہوئی اپنی اور نوری کی ملاقات کو سوچ کر اس کا نمبر ڈائل کرگیا  تھا ۔

جب میں اور رائمہ ایک نہیں ہوسکتے تو تمہیں بھی کوئی حق نہیں ہے ماہین کے ساتھ ہنستی مسکراتی زندگی گزارنے کا ۔

*******

ارے تم تو وہی شاہ حویلی کی ملازمہ ہو نا ،نوری کا بدلے ہوئے  حلیے کے باوجود وہاج اسے پہنچان گیا تھا۔

 شہر کے مشہور کیفے میں نوری کو دیکھ کر وہ حقیقت حیران ہوا تھا ۔

فورا سے اس کے پاس آتا ہوا وہ اس سے مخاطب ہوا تھا۔

اور یہ اس وقت ریحان کے ساتھ یہاں کیا کررہی ہو تم ۔حیرانگی سے نوری کو ریحان کے ساتھ دیکھ کر وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔

اپنی غریبی مٹانے کی خاطر مجھ جیسی بے بس لڑکیوں کو ریحان ملک جیسے لوگوں کا سہارا درکار ہوتا ہے ۔سامنے سے کافی کا آرڈر کینسل کروانے کے لیے جاتے ہوئے ریحان کو دیکھ کر وہ افسردگی سے بولی تھی ۔

تمہیں کیا ضرورت پڑی اپنی غریبی مٹانے کی ،ناسمجھی میں نوری کو تو کبھی سامنے سے جاتے ریحان کو دیکھ رہا تھا۔

اپنے سے اونچے قد کے آسمان کو چھونے کی خواہش مجھے یہاں تک لے آئی ،افسردگی سے کہتی ہوئی وہ وہاں کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات دیکھ کر پھیکا سا مسکرائی تھی ۔

سائین ارتضی سرکار سے محبت کرنے کی سزا ملک صاحب کے روپ میں جھیل رہی ہوں ۔وہاج شاکڈ ہوا تھا سن کر ۔

کیا مطلب۔

ایک ایک بات بتاتی ہوئی وہ آخر میں خود اپنی بے بسی پر کرلائی تھی ۔

ارتضی  بھائی نے تمہیں آدھی رات کو بے عزت کرکے نکالا تھا ،نوری اپنی کہی تمام باتیں با آسانی اس سے چھپا گئی تھی اور ارتضی کی کہی ہر بات کے ساتھ اپنے لفظوں کا اضافہ کرتی ہوئی رو رہی تھی ۔

ہاں ۔۔

مجھے محبت کا درس دینے والے خود اتنے گرے ہوئے ہیں ۔ مجھے اور رائمہ کو دور کرنے کی سزا آپ کو نوری کے روپ میں ملے گی  ارتضی شاہ ۔دل میں سوچتا ہوا وہ نوری کے بھیگے رخسار کو دیکھ رہا تھا ۔

میں تمہاری مدد کرو گا ارتضی شاہ کو تباہ و برباد کرنے میں 

یہ رہا میرا نمبر تمہیں جس چیز کی ضرورت پڑے تم مجھے کال کرسکتی ہو۔ریحان کو آتے دیکھ وہ فورا سے وہاں سے گیا تھا ۔

جبکہ نوری اپنے ہاتھ میں وہاج کا نمبر چھپا گئی تھی ۔

نوری اور وہاج کے بڑھتے رابطے کو بریک دلاور شاہ کے اچانک سے رائمہ اور وہاج کے رشتے نے لگائی تھی ۔

ارتضی سے بدلہ لینے کا وہ ارداہ ترک کرگیا تھا ،

مگر صائمہ انصاری کی کال نے اسے دوبارہ سے اس کے اندر جلتی بدلے کی آگ کو بھڑکا دیا تھا۔

*******

ماں سرکار آج شام کو حیدر اور حیا سے ملنے کی خاطر ہسپتال کا استاد آرہا ہے اور اس لیے مین آج چھوٹی سی شاعری کی محفل رکھوانے کا ارادہ کیا ہے آپ سب تیاریاں اپنی نگرانی مین کروا لیجئے گا ۔

بریک فاسٹ کرتا ہوا وہ اپنے برابر مین بیٹھی ماہین اور سامنے بیٹھے دلاور شاہ کو یکسر اگنور کیے ہوئے تھا ۔

واووو، حیا کی چیخ پر حیدر  اس کے ہاتھ پر دباؤ دے کر اسے چپ کروا گیا تھا ۔

جو رائمہ کی نظروں سے مخفی نا رہ سکا تھا ۔

اوکے خدا حافظ ۔ارتضی کو اٹھتے دیکھ ماہین بھی اپنی جگہ سے اٹھی تھی ۔

آپ آرام سے ناشتہ کیجئے ماہین ،کل رات سے اس نے اسے اب مخاطب کیا تھا ۔

ارتضی کے سب کے سامنے ایسے منع کرنے پر وہ اپنا افسردہ سا منہ لیے کھانے پر جھکا تھی 

رات کے آٹھ بجے محفل کا آغاز کیا گیا تھا جس میں ارتضی  کے دوست سمت منت ہسپتال کا لگ بھگ پورا اسٹاف مدعو تھا۔ 

 وہ راستے ترک کرتا ہوں وہ منزل چھوڑ دیتا ہوں، 

جہاں عزت نہیں ملتی وہ محفل چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔،

شاہ حویلی میں لگی گئی شاعری کی محفل میں آج ارتضی شاہ نے خود پہل کی تھی ۔

اپنے جذباتوں کو شاعری  میں بیان کرتا ہوا وہ فقط اپنی دشمن جاں کی خاطر عرض کررہا تھا ۔

سب کی موجودگی میں بھی ارتضی شاہ چاہ کر بھی اس پر سے نظر نہیں ہٹا پارہا تھا۔

ماہین کے جھکے سر کو دیکھتا ہوا وہ ٹھہر ٹھہر کر کہتا ہوا افسردہ  چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہوئے تھا۔

کناروں سے اگر میری خودی کو ٹھیس پہنچےتو ،

بھنور میں ڈوب جاتا ہوں وہ ساحل چھوڑ دیتا ہوں ۔۔،  

ارتضی کے لفظوں میں چھپی اس کی کیفیت پر وہ درد سے آنکھیں میچ گئی تھی ۔  

مجھے مانگے ہوئے سائے ہمیشہ دھوپ لگتے ہیں،

مین سورج کے گلے پڑتا ہوں بادل چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔،

ضبط سے کہتا ہوا وہ اسے بہت کچھ باور کروا گیا تھا ۔

اپنی اپنی نشستوں پر براجمان شاہ حویلی کے مکین اور اسٹاف  سے لے کر سنگ مرمر کے فرش پر بچھائی گئی مخملی کارپیٹ پر بیٹھے ملازمین بھی اپنے سائیں سرکار کی خوبصورت انداز بیان پر داد دینے والے انداز میں مسکرا رہے تھے ۔

ارتضی اور ماہین کی کیفیت سے بے خبر سب ارتضی کو داد دے رہے تھے۔   

تعلق یوں بھی نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔، کبھی رکھا کبھی چھوڑا،

جسے میں چھوڑتا ہوں پھر مسلسل چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔۔۔،

آخری لائن دل پر پتھر رکھ کر بولتا ہوا ارتضی شاہ کرب سے آنکھیں میچ کر کھولتا ہوا جبرا مسکرا رہا تھا ۔

 ایک زبان اور اپنے وعدوں کا پابند ارتضی شاہ پورے گاؤں میں اپنا نام کا تھا ۔

اس کی کہی بات اور اس کا فیصلہ پتھر پر کھینچی گئی  لکیر کی مانند  تھا ۔ 

واہ واہ کیا خوب کہا ہے ، کمال کردیا ارتضی بھائی آپ نے ۔

سمی کی تعریف مسکراتے ہوئے وصول کرتا ہوا ارتضی ماہین کے جھکے سر کو دیکھ کر وہ اس کی اپنے اوپر  پڑی ایک نگاہ کا خواہ تھا  ۔

جو دنیا جہان سے بے نیاز بیٹھی اپنے ہاتھوں کی الجھی ہوئی  لکیروں میں نجانے کیا ڈھونڈنے میں مشغول تھی ۔

جب خود پر نظروں کی تپیش محسوس کرتی ہوئی بے ساختہ نگاہ اٹھا کر دیکھتی ہوئی وہ  اپنے سامنے کھڑے ارتضی شاہ کی ضبط سے ہوئی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر خوف  سے نگاہ جھکا گئی تھی ۔

کہ کہیں ارتضی اپنی بات پوری نا کردے اور اسے چھوڑ دے ۔

ارتضی شاہ کی منعقد کردہ شاعری کی محفل عروج پر تھی ۔

سب ہی بھرپور انداز میں حصہ لے رہے تھے ۔

وہیں اچانک سے حیدر شاہ کی خوبصورت آواز پر سب لوگ خاموش ہو بیٹھے تھے اسے سننے کی خاطر ۔

مجھ کو شاید ہرا بھرا کردے 

تیری آواز معجزہ کردے ،،،،،،

مسکراتی ہوئی حیا حیدر کو دیکھ رہی تھی جبکہ حیدر سر جھکائے ہوئے کہہ رہا تھا ۔

رونے والوں کی خیر ہے سائین 

خود کے بارے میں سوچ کر وہ پھیکا سا مسکرایا تھا ۔

ہسنے والوں کا ہی بھلا کردے ،

اب کی بار  حیدر کی نظر بے ساختہ ہی حیا پر ٹھہری تھی جس کے چہرے پر دھنگ کے رنگ بکھرے ہوئے تھے ۔

یہ میری قید کا تقاضا ہے 

ہر رہائی سے اب رہا کردے ،،

حیدر کے لہجے میں گھلے غم کو محسوس کرتا ہوا ارتضی شاہ حیران ہوا تھا ۔

آج سے پہلے تو حیدر کبھی اس طرح کی غزل نہیں پڑھتا تھا ۔

کیوں ساتھ رکھ دیا ہے اسے 

جو جدا ہوگیا ،جدا کردے ۔۔۔۔ضبط سے دونوں لب آپس میں پیوست کیے آنکھیں بند کرگیا تھا ۔

تالیوں اور اوپر واہی پر نم آنکھوں سے حیا کے پر رونق چہرے کو دیکھ کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔

جو ارتضی بخوبی محسوس کرگیا تھا ۔

میں بھی کچھ عرض کروں  ۔حیا کی شوخ آواز سن کر ارتضی نے اسے اشارہ سے ہاں کی تھی ۔

ارتضی کی موجودگی میں یہاں کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی ۔

مجھے تو دیکھنا بھی گوارا نہیں کررہے اور سب کے ساتھ مسکرا کر بات کررہے ہیں ۔ارتضی کو حیا کے ساتھ مسکراتے ہوئے دیکھ ماہین  کو مزید تکلیف ہورہی تھی ۔

جو ارتضی بخوبی جانتا تھا۔

مختلف طریق سے ہر طرح ستایا اس نے 

مجھ کو ہر وقت،،،،،،،،،ہر بار رلایا اس نے

حیا کے الفاظ کسی برچھی کی طرح ارتضی کے سینے کو چیرتے ہوئے جارہے تھے کرب سے ماہین کو دیکھ رہا تھا ۔

ارتضی کے دیکھنے کا انداز جتانے والا تھا ۔

ہر طرف شور تھا،،،،،،،،،جلتی حسرتوں کا 

مرے  سینے  میں دشت کو  بسایا اس نے

نفی میں گردن ہلاتا ہوا وہ ماہین کو شرمندہ کرکے نگاہوں کا رخ موڑ گیا تھا ۔ 

پھر کہیں جاکر بنی تصویر مرے ہونے کی 

پہلے خوشبو میں مرے خواب کو ملایا اس نے

حیدر کی سمت محبت لٹاتی ہوئی نظروں سے دیکھتی ہوئی سب سے بے خبر ہوگئی تھی ۔

دعوے کرتا رہا وفاؤں کے خوب مجھ سے 

مگر  کسی غیر کو دل میں  بسایا اس نے

حیا کے الفاظوںسے حیدر کے اوسان خطا ہوئے تھے ۔

اپنے ہی لوگوں کو،،،،،،،،،،،،آگ میں ڈال کر 

یوں پھر فتح کا،،،،،،،،،جشن  منایا اس نے

حیا کے الفاظ حیدر کی کیفیت غیر ہورہی تھی ۔

کاٹ کر  میری ساری دلیلوں کو  

فیصلہ اوروں کے حق  میں سنایا اس نے

ڈاکٹر ہیر کے ساتھ ارتضی کو بات کرتے دیکھ ماہین حیا کے پاس سے اٹھ کر ارتضی کے برابر میں آکر بیٹھ گئی تھی ۔

ڈاکٹر ہیر جو اسے اس طرح اچانک سے ارتضی کے برابر میں بیٹھتے دیکھ حیرانگی سے مسکراتی ہوئی وہاں سے گئی تھی ۔

میسج ٹون سے الرٹ ہوتا ارتضی ماہین کی نگاہیں سامنے جاتی ہوئی ڈاکٹر ہیر پر جمے دیکھ مسکرایا تھا ۔

******

آپ یہاں اور ماہین میم وہاں پر اکیلی بیٹھی ہیں سب ٹھیک تو ہے نا سر ۔ ڈاکٹر ہیر کے منہ سے نکلے لفظ شاید ارتضی کی ذہن میں چلتے خیال کے عین مطابق تھے ۔

سب ٹھیک ہے ۔مبہم سا مسکراتے ہوئے ارتضی کو دیکھ کر ماہین سلگی تھی ۔

مجھے کیا دیکھے گے جب یہ چڑیل سامنے رہے گی تو ۔ماہین پر ترچھی نظر ڈالتا ہوا وہ مزید مسکرایا تھا ۔

آپ دیکھ لینا تھوڑی دیر بعد وہ یہاں پر ہونگی ۔اعتماد بھرے لہجے میں کہتا ہوا وہ ماہین اٹھتے ہوئے دیکھ چکا تھا ۔

ہوا وہی جو ارتضی شاہ چاہتا تھا ۔

آپ نے سہی کہا تھا سر میم آگئیں ۔ماہین کے بیٹھتے ڈاکٹر ہیر وہاں سے گئیں تھیں اور ساتھ ہی ارتضی کو میسج کرکے اس کے صحیح اندازے پر داد دے گئی تھی ۔

آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے

اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

ارتضی کے بازوں پر سر رکھتی ہوئی وہ آنکھیں بند کیے سرگوشیانہ انداز میں بولنے لگی تھی ۔

جسے سننے کی خاطر ارتضی اپنی گردن کو ہلکا سا جھکا گیا۔

بامِ مینا سے ماہتاب اُترے

دستِ ساقی میں، آفتاب آئے

ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو

سامنے پھر وہ بے نقاب آئے

عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر

تیری مہر و وفا کے باب آئے

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

نہ گئی تیرے غم کی سرداری

دل میں یوں روز انقلاب آئے

جل اُٹھے بزم غیر کے در و بام

جب بھی ہم خانماں خراب آئے

اس طرح اپنی خامشی گونجی

گویا ہر سمت سے جواب آئے

فیض تھی راہ سر بسر منزل

ہم جہاں پہنچے، کامیاب آئے

 نم آنکھیں لیے وہ ارتضی کو دیکھتی ہوئی واپس سے آنکھیں بند کرگئی تھی ۔

میں آپ ناراض نہیں ہوں ماہین بس آپ کو ریلائز کروا رہا ہوں ۔

میں اچھے سے جانتا ہوں جیسے میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا ویسے ہی آپ بھی نہیں رہ سکتی پھر کیوں مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھی آپ ۔سب سے آخری نشست پر بیٹھے ہوئے ارتضی اور ماہین کو دیکھ کر ڈاکٹر عامر مسکرائے تھے ۔

******

حیدر بھائی میرا بھی دل کررہا ہے ۔ڈاکٹر شاہ زین جو ڈاکٹر عامر کے چھوٹے بھائی تھے آج اس محفل میں ان کے ساتھ ہی آئے تھے مگر اپنا دل ہار بیٹھے تھے رائمہ کو دیکھ کر ۔

رائمہ کی منمناہٹ پر کافی دیر سے اسے  اپنی نظروں کے حصار میں لیے ہوا شاہ زین مسکرایا تھا ۔

تم بھی سنا لینا مگر پہلے ڈاکٹر شاہ زین کو سنانے دو پھر ۔

اٹس اوکے حیدر پہلے انہیں سنانے دیئجے ۔رائمہ کی نظریں اچانک سے ڈاکٹر شاہ زین پر اٹھی تھی مگر اگلے ہی لمحے وہ ںطر جھکا گئی تھی ۔

نہیں ڈاکٹر شاہ زین آپ پہلے آپ سنا لیجئے پھر سنا دے گی ۔رائمہ کے ہاتھ پر دباؤ دیتا ہوا حیدر ارتضی کو یہاں نا دیکھ کر پریشان ہوا تھا ۔

بھول ھو گئ ہم سے جو تیری محفل میں آ بیٹھے ...

زمین کی خاک ہو کے آسمان سے دل لگا بیٹھے..

نظریں جھکائے وہ فقط رائمہ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔

اب میری باری ،ڈاکٹر عامر جو لب سے اپنے بھائی کی رائ۔ہ پر جمی نظریں دیکھ کر مسکرا اٹھے تھے ۔

 اشک تھے اسکی ہتھیلی پہ وہی رکھ دئيے ہیں

خالی  لوٹا  نہیں ،  دہلیز  پہ  آیا  ہوا  شخص

ٹوٹتے ٹوٹتے اس خواب کی بس راکھ بچی

دیکھتے دیکھتے اک روز  پرایا ہوا  ! شخص

وہاج کا خیال ہی اسے اذیت سے دو چار کرگیا تھا ۔

کتنا مشکل امر تھا اسے بھول جانا ہر روز وہ خود سے لڑ کر استنبول کے کی کوشش میں خود کو ہلکان کررہی تھی ۔

سب نے شعر یا غزل سنائے ہیں سوائے ماہین بھابھی کے ۔ڈاکٹر عامر کی آواز پر ماہین نے فورا سے ارتضی کے بازوں پر سے اپنا سر اٹھایا تھا ۔

کیوں ارتضی سب سے چھپا کر کیوں بیٹھ گئے ہو ۔ارتضی کے ست پر آن کھڑے ہوتے ہوئے وہ سب کو ارتضی اور ماہین کی سمت متوجہ کروا گیا تھا ۔

جی ماہین آپ بھی سنا دیں ،کسی اور کے بہانے سہی ارتضی نے اسے مخاطب کیا تھا ۔

میں نے سنا دیا ہے آپ کو ۔سرگوشی کرتی ہوئی وہ کنفیوز ہوئی تھی ۔

میں نے تو کچھ نہیں سنا آپ سنا دیں سب کو ،نظریں چراتا ہوا وہ مکر گیا تھا ۔

کاغذ پہ نہیں لکھتے کُچھ راز مُحبت کے

پل بھر میں بدل جاتے ہیں الفاظ مُحبت کے

ارتضی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے ہوئی وہ اپنے چکراتے ہوئے سر کو دوسرے ہاتھ سے تھامے ہوئے تھی ۔

اُسے ٹوٹ کر چاہا تو ہم خود بکھر گئے

ایسے بدل جاتے ہیں انداز مُحبت کے

ماہین کے الفاظ اسے سرشار کرگئے تھے ۔

اپنے بھاری ہوتے سر کو تھامے وہ وہاں سے گئی تھی ۔

ماہین کو اچانک جاتے دیکھ ارتضی اس کے پیچھے جانے کے لیے اٹھا تھا مگر ڈاکٹر عامر کے روکنے پر رک گیا تھا ۔

*******

کیا حال ہیں معصوم لڑکی ۔۔بمشکل اپنے چکراتے و بھاری ہوتے سر کو پکڑے وہ اپنے کمرے میں جانے کے سیڑھیوں کی سمت بڑھی تھی ۔

جب اپنے رنگ کرتے فون کو بنا دیکھے وہ اٹینڈ کرگئی تھی ۔

کون ہیں آپ ،،بھاری ہوتا سر اوپر سے مقابل کی آواز پر وہ پریشان ہوئی تھی ۔

میں ارتضی شاہ کی پہلی محبت ۔نوری کی طرف سے پہلا وار کیا گیا تھا ۔

جو ماہین کے دماغ کو سن کرگیا تھا ۔ 

کیا بکواس ہے یہ ۔۔مقابل کے  دعوے پر وہ اپنے بھاری ہوتے سر کو تھامے سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئی تھی ۔

بکواس نہیں سچ ہے یہ معصوم لڑکی، میں ارتضی شاہ کی وہ محبت ہو جسے وہ آج تک بھول نہیں سکا ہے ،

راتوں کو اٹھ کر باتیں کرتا ہے مجھے سے ۔نوری کی چہکتی ہوئی آواز پر ماہین کے اوسان خطا ہوئے تھے ۔

جھوٹ بول رہی ہو تم مجھے اپنے ارتضی پر پورا یقین ہے ۔اپنے دماغ کی نسیں اسے پھٹی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔

پریہا نور کبھی جھوٹ نہیں بولتی ۔پراعتماد لہجہ لیے وہ ماہین کو بد گمان کرنے کی بھر پور کوشش کررہی تھی ۔

کیا تمہارے نکاح سے پہلے ارتضی نے تمہیں طلاق دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔نوری کے سوال پر ماہین چونکی تھی ۔

وہ مہذ ایک غلط فہمی تھی ۔بنا لڑکھڑائےوہ نوری کو لاجواب کرگئی تھی ۔

اور میں تمہاری باتوں میں نہیں آؤ گی مس جو بھی تمہارا نام ہے ۔

کیونکہ مجھے اپنے شوہر پر آنکھ بند کرکے یقین ہے وہ کچھ بھی ہوسکتے ہیں بے وفا نہیں سکتے ،

ان کی محبت فقط میں ہوں تم جیسی اے ٹو زی نہیں ۔مضبوط لہجے میں بولتی ہوئی وہ نوری سے زیادہ خود کو اعتماد دلا رہی تھی ۔

چلو چھوڑو  ان سب باتوں کو، کبھی سوچا ہے کہ آدھی رات کو تمہارا شوہر نمازیں پڑھ کر کون سے گناہوں کی تلافی کرتا ہے ۔ماہین  کی باتوں سے لاجواب ہوتی ہوئی وہ کچھ توقف بعد بولتی ہوئی ماہین کی خاموشی پر مسکرائی تھی ۔

مگر اگلے ہی پل ماہین کے قہقہ پر فون کان سے ہٹا کر دیکھتی ہوئی حیران ہوئی تھی ۔

دوسروں کے ہنستے بستے گھروں میں آگ لگانے سے بہتر ہے تم اپنے کام سے کام رکھو ۔

میں کوئی بیوقوف نہیں ہوں جو تمہاری باتوں میں آکر اپنے شوہر پر شک کروں ،

نوری کی خاموشی پر وہ پھر سے مخاطب ہوئی تھی ۔

کوشش اچھی تھی مگر مجھے ارتضی کے خلاف نا کرسکی ۔

کہہ کر وہ کال ڈیسکنیٹ کرگئی تھی ۔

حیرت سے فون دیکھتی ہوئی نوری وہاج کو کال ملا گئی تھی ۔

میں نے اپنی آخری کوشش کرلی ہے مگر ماہین پر کچھ اثر نہیں ہوا ۔ وہاج کو  اپنی اور ماہین کے درمیان ہوئی ساری باتیں بتاتی ہوئی فون بند کرکے بیڈ ہر  غصے سے فون کو پھینک گئی تھی ۔

تمہارا شوہر نمازیں پڑھ کر کون سے گناہوں کی تلافی کرتا ہے۔ نوری کی کہی بات ماہین  ذہن میں بازگشت کررہی تھی ۔

سامنے سے لوازمات کی ٹرے لے جاتی ہوئی سوکھاں کو دیکھ کر اسے پکار گئی تھی ۔

سوکھاں ۔چکراتے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئی وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گری تھی ۔

بی بی سرکار ۔ماہین کو بے ہوش دیکھ سوکھاں بھاگ کر   اس کے پاس آئی تھی ۔

کیوں نا ہم اپنی دوستی کو رشتے داری میں بدل دیں ارتضی ۔ڈاکٹر عامر کی بات پر حیدر کے ساتھ بیٹھے ہوئے شاہ زین پر ارتضی کی نظر ٹھہری تھی ۔

بہت خوب ارتضی، بلکل صیحح جگہ نگاہ ٹھہری ہے تمہاری ،میں شاہ زین کے لیے رائمہ کا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں دلاور انکل سے ،تم اچھے سے جانتے ہو شاہ زین کی نیچر کے بارے میں، ایک طویل عرصہ آسٹریلیا میں گزارنے کے باوجود بھی اساس مین کسی قسم کی کوئی بری نہیں ہے ۔ایک قابل ڈاکٹر بن گیا ہے اب تو وہ ۔  ارتضی کو ابھی شاہ زین کو دیکھتے پاکر وہ پھر سے مخاطب ہوئے تھے ۔

اگر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو یہاں پر ہی بات ختم کردیتا ہوں ۔ارتضی کی خاموشی انہیں انکار لگی تھی ۔

بہت اچھا خیال ہے آپ کا ڈاکٹر عامر، بیشک ڈاکٹر شاہ زین بہت ہی قابل ہیں اور ویسے شاہ زین جیسے سنجیدہ انسان کے لیے میں کبھی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ارتضی کی بات آنکھیں کو تھوڑی دیر کے لیے خوشی بخش گئی تھی ۔

 مگر بابا سرکار نے رائمہ ،،،،دلاور شاہ نے ارتضی کی بات بیچ میں کاٹی تھی ۔

رائمہ کے رشتے کے بارے میں ہم کچھ سوچا نہیں  ہے ،ارتضی کے حیرت زدہ چہرے کو دیکھ کر ڈاکٹر عامر ناسمجھی میں مسکرائے تھے ۔

کیا مطلب انکل ۔دلاور شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے وہ ناسمجھی میں پوچھ رہے تھے ۔

مطلب یہ ہے کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔آخر کو شاہ زین آپ کا بھائی ہے تو انکار کی کوئی وجہ ہو ہی نہیں سکتی ۔ارتضی کی طرف دیکھ کر وہ مسکرائے تھے ۔

جبکہ ارتضی انہیں مسکراتے دیکھ اپنی نگاہ کا رخ موڑ گیا تھا ۔

بہت شکر گزار ہوں آپ کا کہ مجھے اتنا مان دیا مجھے ۔دلاور شاہ کے ساتھ بغلگیر ہوتے ڈاکٹر عامر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا تھا ۔

اللہ پاک دونوں کو ہمیشہ ایک ساتھ خوش رکھے ۔آمین ۔ڈاکٹر عامر کی خوشی کو دیکھ کر ارتضی بھی مسکرایا تھا ۔

جب آپ نے وہاج کے ساتھ رائمہ کا رشتہ فکس کرچکے ہیں تو ڈاکٹر عامر کو ہاں کیوں کی آپ نے ۔ڈاکٹر عامر کے جاتے ہی ارتضی ان سے مخاطب ہوا تھا ۔

کون سی نئی سیاست کھیل رہے ہیں آپ میری سمی کے ساتھ ۔دلاور شاہ حیران ہوئے تھے ارتضی کے سرد لہجے کو سن کر ۔یہ بھی ان کے خود کی ہی کی گئی سیاست کا اثر تھا جو ارتضی ان سے بدگماں ہوگیا تھا ۔

صائمہ کو میں معاف کرچکا ہوں پر اس کے ساتھ کوئی بھی رشتے داری کرنے کا میرا اب ارادہ نہیں ہے ۔اپنے پاس کھڑے ارتضی کو دیکھ کر شرمندگی سے کہہ کر وہاں سے چلے گئے تھے ۔

انہیں جاتے دیکھ ارتضی شاہ چاہ کر بھی انہیں روک نہیں سکا تھا ۔

*******

محفل اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی ،آدھے سے زیادہ  مہمان الوداعی کلام کرتے ہوئے ارتضی شاہ کے اجازت طلب کرکے جاچکے تھے ۔

چند ایک مہمان باقی تھے جن ڈاکٹر عامر ،شاہ زین ،ہیر اور چند ایک اسٹاف میں سے جو ڈاکٹر عامر کے ہمراہ شاہ حویلی سے نکلے تھے ۔

ڈاکٹر ہیر کے علاوہ جنہیں ارتضی نے اپنے ڈرائیور کے ساتھ بھیجنے کا کہہ کر ڈرائیور کو بلانے کے لیے گیا تھا ۔

بی بی سرکار وہ بی بی بے ہوش ہوگئیں ہیں ۔بھاگ کر آنے کی وجہ سے سوکھاں کے سانس اکھڑے ہوئے تھے ۔

ماہین آپی کی بات کررہی ہو تم ،شاہدہ بیگم کے ساتھ حیا اور بھی پریشان ہوئیں تھیں ۔

جی بی بی سائیں ۔ماہین کا سن کر حیا سب سے پہلے حویلی کے اندر کی طرف بھاگی تھی ۔

رائمہ تم جاؤ اور ارتضی کو بلاؤ اور  ڈاکٹر ہیر کو فورا سے لے کر آؤ ۔حیا کے پیچھے وہ بھی وہاں سے گئیں تھیں ۔

ارتضی بھائی ماہین بھابھی بیہوش ہوگئی ہیں آپ جلدی سے چلیں ۔ڈاکٹر لے ہمراہ وہ ارتضی کو سائیڈ پر لے جاتی ہوئی نم لہجے میں بول رہی تھی ۔

ماہین کا نام سنتے ہی ارتضی بنا کوئی تاثرات دیئے فورا ماہین کے پاس گیا تھا۔

کچھ توقف کے بعد ماہین کا ٹریٹمنٹ کرتی ہوئی ڈاکٹر ہیر ارتضی کو پریشانی میں کمرے کے چکر کاٹتے دیکھ مسکرائی تھی ۔

کیا ہوا ہے ہیر میری بچی کو ۔حیا اور رائمہ دونوں ایک سائیڈ پر کھڑی ہوئی تھی جبکہ ماہین کی پیشانی پر ہاتھ رکھے ڈاکٹر ہیر  سے پوچھ رہی تھیں ۔

بتائیں نا ڈاکٹر ہیر کیا ہوا ہے ماہین کو ۔ارتضی کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا تھا ۔

گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے سر ،کمزوری کے باعث میم بے ہوش ہوگئی ہے اور ویسے اس کنڈیشن میں تو یہ سب نارمل ہی ہے ۔ڈاکٹر ہیر کے الفاظوں پر غور کرتے ہوئے ارتضی کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی تھی مگر اگلے ہی پل وہ سنجیدہ کھڑا ہوا تھا ۔

کیا مطلب ہیر ۔شاہدہ بیگم کے پوچھنے پر وہ حئا اور رائمہ کو دیکھ رہی تھی جو نا سمجھی میں کھڑی ہوئی ڈاکٹر ہیر کو دیکھ رہی تھیں ۔

انہیں کچھ دیر میں ہوش آجائے گا اور انہیں کیا ہوا ہے  یہ تو آپ کو ڈاکٹر ارتضی ہی بتائے گے ۔اور پھر آپ انہیں صبح ہسپتال لے کر آئیے گا مجھے کچھ ٹیسٹ کرنے ہیں میم کے ۔اب مجھے اجازت دیجئے اللہ حافظ ۔

مسکراہٹ سمٹے وہ ارتضی کے سامنے کھڑی ہوئی تھی ۔

کونگریچولیشن ڈاکٹر ارتضی ۔ڈاکٹر ہیر کے جانے کے بعد شاہدہ بیگم سمت حیا اور رائمہ کی نظریں خود پر جمے دیکھ وہ اپنی پر ہاتھ پھیرتا ہوا مبہم مسکرایا تھا ۔

زیادہ کچھ نہیں ہے بس آپ دا۔۔دی مطلب دادی بننے والی ہیں ۔خوشی و حیرت کے ملے جلے تاثرات چہرے پر سجائے وہ کہہ کر وہاں سے گیا تھا ۔

ارتضی کو اس جاتے دیکھ شاہدہ بیگم  دل سے مسکرائی تھیں ۔

مبارک ہو خالہ جانی ۔شاہدہ بیگم کی گردن میں ہاتھ ڈالتی ہوئی وہ چہکی تھی ۔

مطلب میں پھوپھی بننے والی ہوں، رائمہ اب بھی حیرت کا شکار ہوئی تھی ۔

ہاں پگلی ،میں خالہ پلس چچی بننے والی ہوں ۔ بے ہوش ہوئی ماہین کے رخسار پر لب رکھتی ہوئی وہ مسکرائی تھی ۔

پتا ہے حیا شاہ کے منہ سے سن کر کتنا اچھا لگ رہا ہے مجھے کہ میں دادی بننے والی ہوں ورنہ یہ تو میں پہلے ہی جان چکی تھی ۔ماہین کی پیشانی پر بوسہ دیتیں ہوئی رائمہ اور حیا کو حیران کرگئی تھیں۔

کیسے خالہ جانی ۔وہ چونکی تھی ۔

یہ بات دھوپ میں سفید تھوڑی کیے ہیں میں نے ۔

ماہین کے بالوں میں انگلیاں چلاتی ہوئی وہ مسلسل مسکرا رہی تھیں ۔

مجھے تو ایسا ہی لگا تھا کہ آپ نے کوئی ہیر کلر لگایا ہے ۔حیا شرارت سے گویا ہوئی تھی ۔

اب ہمیں چلنا چاہیے تاکہ شاہ ماہین سے مل سکے ۔شاہدہ بیگم اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھیں۔

نہیں خالہ جانی ماہین آپی کو جب تک ہوش میں نہیں آتی جب تک میں یہاں پر ہی ہو ان کے پاس ۔ماہین کے چہرے کو محبت سے دیکھتی ہوئی حیا جانے سے انکاری تھی ۔

ہماری موجودگی میں شاہ نہیں آئے گا ماہین کے پاس دیکھا نہیں تم نے کیسے گم ہوا ہے بتا کر ۔

اور ویسے بھی یہ خوش خبری حیدر اور سائین کو بھی تو سنانی ہے ۔شاہدہ بیگم کے انداز پر رائمہ قہقہ لگا گئی تھی ۔

بڑے شرمیلے ہیں ارتضی بھائی مجھے تو آج پتا چلا ۔حیا کے کان میں سرگوشیانہ انداز میں کہتی ہوئی رائمہ حیا کو قہقہ لگانے پر مجبور کر گئی تھی ۔

ان دونوں کو اس طرح ہنستے دیکھ شاہدہ بیگم بھی مسکرائی تھیں ۔

******

پوری شاہ حویلی میں رات کے اس پہر بھی  جشن کا سماء بندھا ہوا تھا۔ شب سے نظر بچاتا ہوا  کچھ دیر بعد ارتضی اپنے کمرے میں آیا تھا ۔

جہاں ماہین ہوش میں آنے کے بعد پھر سے سو گئی تھی ۔

میں تو ویسے بھی آپ سے ناراض نہیں رہ پارہا تھا اور اب آپ نے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دے کر ناراضگی کا جواز ہی چھین لیا ہے ۔ماہین کا ہاتھ تھامے وہ دو زانوں کے بل بیٹھتا ہوا ماہین کے معصوم چہرے کے خوبصورت نقوشوں  میں کھویا تھا  ۔

میں بہت خوش ہوں ماہین ،آپ سے ناراضگی تو اس ہی وقت ختم ہوگئی تھی کل آپ کو واپس سے اپنے پاس دیکھ میرا دل جھوم اٹھا تھا ،

پھر آپکے الفاظ  مجھے ساتواں آسمان پر لے گئے تھے ۔

مگر پھر بھی اپنی خوشی پر ضبط کرتا  ہوا آپ پر ناراضگی جتارہا تھا ۔

لگاتار دو دن میری زندگی کے خاص ترین دنوں میں سے ایک ہیں ۔ 

پر ڈر بھی بہت لگ رہا ہے اپنے اتنا زیادہ خوش ہونے سے ،خوشیاں آج تک راس نہیں آئی ہے نا ،

جس دن بھی زیادہ خوش ہوتا ہوں اس ہی دن کچھ نا کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سب ختم اور سارے دکھ و غم باہیں کھول کر میرے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔آؤ ارتضی شاہ ہمیں گلے سے لگا لو ۔نم لہجے میں کہتا ہوا وہ ماہین کے  تھامے ہاتھ سے سر ٹکا گیا تھا ۔

کچھ دیر ماہین کے ہاتھ سے سر ٹکائے وہ ماہین کے حرکت کرتے وجود کو محسوس کرتا ہوا وہ فورا سے ماہین سے دور ہو کر سیدھا کھڑا ہوا تھا ۔

نیند سے سرخ ہوتی ہوئی آنکھوں سے اپنے سامنے کھڑے ارتضی کو دیکھ کر وہ سیدھی ہو بیٹھی تھی ۔

کافی دیر کمرے میں سرد خاموشی کا راج ہوا تھا جسے توڑنے میں پہل ارتضی نے کی تھی ۔

کیسا فیل کررہی ہیں اب آپ ۔

بہتر محسوس کررہی ہوں مگر سمجھ نہیں آرہا میں بے ہوش کیسے ہوئی اس گھٹیا عورت کو اچھی خاصی سنا کر پھر ۔ماہین اپنی کنڈیشن سے بے خبر تھی اور نا ہی اب تک کسی نے اسے بتایا تھا۔

کس کی بات کررہی ہیں ۔ماہین کے پاس آکر بیٹھتا ہوا وہ پریشان ہوا تھا ۔

وہ کوئی پریہا نور تھی شاید اور آپ اسے جانتے ہیں  ،پریہا نور کے نام پر ارتضی کے چہرے پر شناسائی کے تاثرات نا دیکھ کر اپنے کیے ارتضی پر اعتبار پر وہ سرشار ہوئی تھی   ۔

آپ کسی پریہا نور جانتے ہیں ۔ارتضی کو غور سے سنتے دیکھ وہ پوچھ رہی تھی ۔

نہیں آج تک تو کسی پریہا نور نامی لڑکی سے ملا تک نہیں ہوں ۔ماہین کے سوال پر دماغ پر زور دیتا ہوا سنجیدگی سے بولا تھا ۔

ایک سوال پوچھنے کے لیے کہا تھا اس نے ،تفتیش بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی ارتضی کی بھنویں سکڑی تھیں ماہین کے انداز پر ۔

آدھی رات کو آپ نمازیں پڑھ پڑھ کر اپنے کون سے گناہوں کی تلافی مانگتے ہیں ۔ماہین کے پوچھنے پر ارتضی شاکڈ ہوا تھا، وہی ہوا تھا آج پھر ارتضی کے ساتھ اس کی تمام تر خوشی ماہین کا ایک سوال چھین کر لے گیا تھا ۔

اذہان کے لیے نماز پڑھتا تھا مگر اب اپنے خدا کو راضی کرنے کے لیے پڑھتا ہوں ۔سنجیدگی سے کہتا ہوا وہ ماہین کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔جب ماہین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے روکا تھا۔

میں نے اس لڑکی کی بات پر یقین نہیں کیا ارتضی ،میں نے صرف آپ پر اعتبار کیا اور آپ کی ہر بات پر اعتبار کروں گی ۔بھرائی آواز کہتی ہوئی  ارتضی کو ساکت کیے ہوئی تھی ۔

اب تو آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں نا ۔ارتضی کی خاموشی پر وہ اپنے ہاتھوں میں پکڑے ارتضی کے ہاتھ کو ہلا کر پوچھ رہی تھی ۔

اور کیا کیا کہا ہے آپ کو اس لڑکی نے ،ارتضی کو ساری روداد سنا گئی تھی ۔

آپ کال ملائیں اسے اور جیسا میں آپ کہوں گا ویسے ہی آپ اسے کہیں گی  ،ارتضی کو اس لڑکی کی باتیں سن کر نوری کا گمان ہوا تھا۔

جی پر پہلے یہ بتائیں آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہے نا اب۔ماہین کے انداز پر ارتضی نے اپنے لب آپس میں پیوست کرلیے تھے ۔

نہیں ہوں اب کال ملائیں، سنجیدگی سے بولتا ہوا ماہین کے ہاتھ سے اپنا چھڑوا گیا تھا ۔

سچ میں پر میں یہ کیسے یقین کرلوں کہ آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں جبکہ آپ مجھے دیکھ کر مسکرا بھی نہیں رہے ہیں ۔ماہین کے کہتے ہی ارتضی مسکرایا تھا ۔

اب کرتی ہوں کال ۔مسکرا کر فون ملاتی ہوئی وہ ارتضی کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی   ۔ 

******

کیسے ممکن ہے کہ ماہین تمہاری باتوں میں نہیں آئی ۔تمہاری ہی کوتاہی رہی ہوگی اسے ورغلانے میں ورنہ وہ تو بہت چھوٹے دماغ کی لڑکی ہے کسی کی بھی باتوں باآسانی آجاتی ہے ۔ایک گھنٹے بعد وہاج کی کئی کالز کرنے کے بعد نوری نے کال اٹینڈ کی تھی ۔

تمہاری سوچ ہے یہ کہ وہ چھوٹے دماغ کی لڑکی ہے مجھے تو کہیں سے بھی نہیں لگا ۔

بلکہ اس کے مضبوط لہجے کو سن کر میں دنگ رہ گئی تھی ۔نوری جو کب سے خود پر ضبط کیے ہوئے تھی آخر کو پھٹ پڑی تھی ۔

ہاؤ از ڈیٹ پاسبل  اس کے اور ارتضی کے درمیان میں تو غلط فہمی تھی اس کے باوجود وہ کیسے اتنے مضبوط لہجے بات کرسکتی ہے وہ تم سے ۔ضبط کے ساتھ کہتا ہوا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اب پاکستان جاکر ارتضی کی زندگی برباد کردے ۔

تم منجھے ہوئے کھلاڑی نہیں ہو وہاج انصاری اور مجھے نہیں لگتا کہ تم کبھی کامیاب ہو بھی سکوگے ۔اس لیے بہتر ہے تم یہ سوچ اپنے دماغ سے نکال دو کہ تم ارتضی اور ماہین کو الگ کرنے کا دم رکھتے ہو ۔تمخسرانہ انداز میں کہتی ہوئی وہ وہاں کو اکسا رہی تھی ۔

ویٹ ویٹ ،ماہین کی کال آرہی ہے ۔وہ چونکتی ہوئی کہہ رہی تھی اسے سن کر  وہاج کے چہرے پر مسکراہٹ رینگی تھی ۔

کال کٹ کرکے میری کال ایڈ کرو  ماہین کی کال کے ساتھ ۔

وہ مجھے نہیں آتی کیسے کی جاتی ہے ۔ماہین کے نمبر کو دیکھتی ہوئی وہ پہلی بار اپنے کم پڑھے لکھے ہونے پر افسردہ ہوئی تھی ۔

میں بھی پاگل ہوں جو بار بار بھول جاتا ہوں ہو تو تم ایک نوکرانی ہی نا ۔کال ریکارڈ  تو کر ہی سکتی ہو نا یا یہ بھی نہیں ہوسکتا تم سے ۔چبا کر کہتا  نوری کو زہر لگا تھا ۔

کرلوں گی ۔ ڈاکٹر دبائے وہ غرلائی تھی ۔

 اب دوبارہ تم کال مت کرنا مجھے کرنی ہوگی تو میں خود کرو گا سمجھی تم ۔تنبیہ کرتا ہوا وہ کال ڈیسکنیٹ کرگیا تھا ۔

سمجھی تم ۔۔بڑبڑاتی ہوئی وہ ماہین کا نمبر ڈائل کرگئی تھی ۔

******** 

 مجھے پورا یقین تھا معصوم لڑکی، تم میری بات پر ضرور یقین کرو گی ۔پر یقین و سفاکی سے بولتی ہوئی وہ ارتضی کے شک پر یقین کی مہر لگا گئی تھی ۔

آخر کو ہو تو تم بھی عورت ہی نا اور ویسے بھی یہ مرد ذات یقین کے قابل نہیں ہوتے ۔نوری کے انداز پر ماہین کا غصے میں منہ کھولا تھا ۔جو ارتضی کے ہاتھ کے دبا دباؤ  سے منہ بنا کر خاموش ہی رہی تھی ۔

کیا ہوا شوہر کے کارنامے سن کر بولتی بند ہوگئی تمہاری ۔

ماہین کی خاموشی پر چوٹ کرگئی تھی ۔

تم بلکل سہی کہہ رہی تھیں، ارتضی نے مجھے دکھا دیا ہے ۔تمہیں دل میں بسا کر میرے جذباتوں کے کھیل رہے ہیں ،مگر اب اور نہیں میں اب اور پاگل نہیں بننے والی ۔آواز تو ویسے ہی اس کی بھرائی ہوئی تھی اوپر سے ادکاری بھی کمال کی کررہی تھی ۔

ارتضی حیرانگی  سے ماہین کو دیکھ رہا تھا۔

ماہین کے الفاظ نوری کے جلتے دل و دماغ پر اوس کی مانند ٹھنڈا کرگئی تھی ۔ 

وہ ۔۔۔۔کچھ توقف کے لیے ماہین خاموش ہوئی تھی ۔

کیا وہ معصوم لڑکی ۔۔ماہین کی خاموشی پر وہ فورا سے پہلے بولی تھی ۔

میں تم سے ملنا چاہتی ہوں ، تاکہ ارتضی شاہ سے بدلہ لے سکوں ۔ارتضی کو گھورتی ہوئی وہ دانت دبائے بولی تھی ۔ 

ارتضی اپنا سر کھجا کر رہ گیا تھا ۔

ضرور کل ہی ملتے ہیں میں تمہیں لوکیشن سینڈ کردوں گی ۔اوکے اپنا خیال رکھنا اس گھٹیا انسان سے ۔تلخ لہجے میں بولتی ہوئی نوری مسکرائی تھی اپنی کامیابی پر ۔

اس سے بے خبر وہ خود کئ بچھائے جال میں خود ہی پھسنے 

والی تھی ۔

جی ۔۔برا سا منہ بناتی ہوئی وہ کال ڈیسکنیٹ کرگئی تھی ۔

آئی بڑی گھٹیا تو خود ہے کمینی  ۔اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ارتضی کو دیکھ رہی تھی ۔

کون ہے یہ چڑیل اور آپ پر اس کا برا سایہ کیسے پڑگیا ۔نوری کی باتیں ماہین کو غصہ دلا گئی تھی ۔

ملازمہ تھی یہاں کی ۔ایک ایک بات ماہین کو بتاتا ہوا ماہین کے حیرت زدہ زاویہ دیکھ نوری کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوا تھا ۔

حیدر آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں جیسے میں آپ سے کرتی ہوں ۔ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوئی وہ اچانک سے بولی تھی ۔

جبکہ بیڈ پر لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر حیدر کی انگلیاں رکی تھی حیا کے سوال پر ۔

بولو بھی  ۔اسرار کرتی ہوئی وہ حیدر کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ لے کر بند کرتی ہوئی پھر سے پوچھ رہی تھی ۔

محبت کا تو پتا نہیں ۔مگر مجھے ان چند دنوں میں  تمہاری عادت ہوگئی ہے حیا ۔

اور اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے ۔اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں جواب دیتا ہوا ساتھ سوال کرگیا تھا ۔

میں نے آپ سے محبت کا پوچھا ہے ۔آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں یا نہیں ۔ارتضی کی فکر اور آنکھوں مین ماہین کے لیے محبت دیکھ حیا کو رشک ہواتھا ،کیونکہ آج تک اس نے اپنے لیے حیدر کی نگاہوں میں ایسے جذبات نہیں دیکھے تھے ۔اس لیے وہ ضدی ہوئی تھی ۔

جاننے کے لیے کہ حیدر اس محبت کرتا ہے یا نہیں ۔

میں اپنے حصے کی محبت تو کب سے کرچکا حیا !حیا کو دیکھتا ہوا وہ دل میں سوچ ہی سکا تھا۔

تمہارے بغیر مجھے اچھا نہیں لگتا، تم اگر مجھے دیکھائی نا دو تو مجھے گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے، 

تم مجھے اگر روم میں دیکھائی نا دو تو میرا روم میں آنے کو دل نہیں کرتا ۔

تمہارے بغیر کھانا نہیں اچھا لگتا ،تم سے نوک جھوک کیے میرا دن اچھا نہیں گزرتا، 

کیا اب بھی محبت کا ہونا ضروری ہے ۔

محبت سے زیادہ طاقتور عادت ہوتی ہے جو مجھے ہوگئی ہے تمہاری ۔

کیا یہ کم ہے ۔حیا کے ہاتھوں پر اپنا رکھتا ہوا وہ مسکرایا تھا ۔

عادت تو بدلی بھی جاسکتی ہے ۔افسردگی سے بولی تھی ۔

میری یہ عادت مرتے دم تک نہیں بدلے گی ۔وہ حیدر کے مضبوط لہجے سے دنگ رہ گئی ۔

تو پھر یہ محبت ہی ہوئی نا ،پھر آپ عادت کا نام کیوں دے رہے ہیں صاف صاف کہہ دیں میری طرح کہ آپ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔حیدر کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ پیچھے کرگئی تھی ۔

اچھا بابا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں، حیا کی ناراضگی کے ڈر سے وہ فورا سے پہلے بولی گیا تھا ۔

مجھے پتا تھا میری سڑی ہوئی ککڑی ۔حیدر کے منہ سے وہ الفاظ سن کر وہ خوش ہوئی تھی جو وہ سننا چاہتی تھی ۔

کچھ توقف بعد حیا کی باتوں سے لیفٹ سائیڈ پر اٹھتی ٹھیس پر وہ خود پر ضبط کیے لیٹا ہوا تھا ۔

 کافی دیر تک وہ حیا کے سونے کا انتظار کررہا تھا ۔ 

جیسے حیا کے سونے کا یقین اسے ہوا تو فورا سے اپنی سونے سے پہلے لینے والی میڈیسن لیتا ہوا درد کی شدت سے آنکھیں زور سے بند کیے ہوئے تھا جب اچانک سے حیا کی آواز پر گھبرا گیا تھا ۔

کیا کر کررہے ہو حیدر اور یہ اتنی رات کو کون سی میڈیسن کھا رہے تھے ،نیند میں ڈوبی ہوئی آواز لیے حیا حیدر کو پانی کے ساتھ میڈیسن لیتے دیکھ چکی تھی ۔

بلآخر  پریشانی سے اٹھ بیٹھی تھی ۔  

کچھ نہیں بس پین کلر لے رہا تھا ۔نارمل انداز میں وہ ضبط سے بول رہا تھا ۔

ارتضی میں درد ہورہا ہے کیا ۔پریشانی سے پوچھتی ہوئی وہ اپنی جگہ سے اٹھنے لگی تھی کہ حیدر نے اسے بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا تھا ۔

ہاں سر میں ہی درد ہورہا ہے ،۔تم سوئی نہیں تھی  ۔حیا کے برابر میں آکر بیٹھتا ہوا وہ گہرا سانس بھر گیا تھا ۔

نہیں بس تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگ گئی تھی ۔مجھے خوشی میں نیند ہی نہیں آرہی ۔حیدر کے شانے پر سر رکھتی ہوئی وہ حیدر کی کیفیت سے انجان تھی ۔

ہمہم واقع میں ہے ہی اتنی خوشی والی بات کہ نیند کہاں آنی ہے ۔ٹھہر ٹھہر کر کہتا ہوا وہ ارتضی اور ماہین کے لیے بہت خوش تھا ۔

 پتا ہے میں نے تو ابھی سے اپنے بیبیز لے نام بھی سوچ لیے ہیں ۔ حیا کی بات سن کر حیدر نے اسے مسکرا دیکھا تھا ۔

پوچھو گے نہیں کہ کیا نام سوچے ہیں میں نے ہمارے بیبیز کے خفگی سے کہتی ہوئی وہ حیدر کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر چڑی تھی ۔

تمہیں ہی تو سن رہا ہوں ۔مسکرا کر کہتا ہوا وہ حیا کی مضنوئی خفگی دور کی تھی ۔

حیا اور حیدر کا بیٹا حدید حیدر شاہ اور بیٹی کا نام ہوگا ہدیہ کیسے لگے دونوں نام زیادہ بے بی نہیں کریں گے بس دو ہی کافی ہے کیوں صحیح کہہ رہی ہو نا ۔سنجیدگی سے حیا کو سنتے ہوئے حیدر کا درد اب برداشت سے باہر ہو رہا تھا ۔

بہت اچھے نام ہیں ہم ان پر کل صبح بات کریں گے مجھے کافی نیند آرہی ہے ۔اپنی جگہ پر دراز  ہوتا ہوا اپنے بائیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں موند گیا تھا ۔

اوکے ہم ینہی سے بات شروع کریں گے ۔ حیدر کو لیٹے دیکھ وہ خود بھی سونے کے لیے لیٹی تھی ۔

********

ماہین سو جائیں آپ ،ماہین کو جاگتے دیکھ فکر سے بولا تھا ۔

مجھے نیند نہیں آرہی ۔آنکھوں میں چمک لیے وہ ارتضی کی سمت کروٹ ہوئی مسکرائی تھی ۔

اور کیوں نہیں آرہی ہے آپ کو نیند ،ماہین کو مسکراتے دیکھ ارتضی بھی مسکرایا تھا ۔

خوشی میں ایک الگ سا احساس محسوس مجھے سونے نہیں دے رہا ۔جب سے ارتضی نے اسے اس کے پریگنیسی کا بتایا تھا جب سے وہ فقط مسکرا رہی تھی ۔

اچھا پر مجھے تو بہت نیند آرہی ہے ۔آنکھوں پر کہونی رکھے ہوئے شرارت سے گویا ہوا تھا ۔

کوئی ضرورت نہیں ہے سونے کی جب تک میں جاگ رہی ہوں جب تک آپ بھی میرے ساتھ جاگے گے ،ارتضی کے آنکھوں پر رکھے ہاتھ کو ہٹاتی ہوئی وہ غصے سے بولی تھی ۔

تو کیا اب ساری رات جاگنا پڑے گا صبح اس نوری سے ملنا بھی ہے آپ کو ،منہ لٹکائے وہ ماہین کو چھیڑنے کی غرض سے بول رہا تھا ۔

اس نوری چڑیل کا ذکر نا کریں  ۔وہ بھی ماہین تھی جو بنا ارتضی کے تاثرات دیکھے بس اپنی کروانے کی کوشش تھی ،کافی حد تک وہ کوشش کامیاب ٹھہری تھی ۔

ایک بات پوچھوں آپ سے ۔ارتضی کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی وہ سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی ۔

پوچھیں ۔۔ماہین کو دیکھ کر وہ بھی سنجیدگی سے مخاطب ہوا تھا ۔

آپ خوش تو ہیں نا ۔ماہین کے سوال پر ارتضی مسکرایا تھا ۔

آپ کو ایسا کیوں لگا کہ میں خوش نہیں ہوں ،وہ الٹا اس سے سوال کرگیا تھا۔

کیونکہ آپ نے ظاہر نہیں کیا کہ آپ خوش ہیں اس لیے ،ارتضی کی خود پر جمی ہوئی نظروں سے وہ کنفیوز ہوئی تھی ۔

کتنا خوش ہوں یہ نہیں پتا مگر میں اپنے خدا کا بہت شکرگزار ہوں جس نے پہلے مجھے میری محبت سے نوازا اور اب اولاد کی نعمت سے نواز رہا ہے ۔تشکرانہ لہجے میں کہتا ہوا وہ ماہین کی آنکھوں میں چمک دیکھتا ہوا حیرانگی سے دیکھ رہا تھا۔

کیا ہوا ،ماہین کے شاکڈ چہرے کو دیکھ اسے گمان گزار تھا کہ کہیں اس نے کچھ غلط تو نہیں کہہ دیا ۔ وہ پوچھے بغیر رہ نا سکا تھا ۔

مطلب آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں یہ ہی کہا نا آپ نے ،خوشی و حیرت کے ملے جلے تاثرات لیے وہ ارتضی کو حیران کرگئی تھی ۔

نہیں میں آپ کی بات تھوڑی کررہا تھا ۔میری بیوی تھوڑی ہیں آپ ۔ارتضی کے طنز پر وہ کھلکھلا اٹھی تھی ۔

نہیں جی آپ میری ہی بات کررہے ہیں ۔شرارت سے ارتضی کے گال کھینچتی ہوئی ارتضی کو مزید حیران کرگئی تھی ۔

اب مجھے نیند آرہی ہے ۔ارتضی کی حیرت سے پھٹی آنکھوں کو مسکرا کر دیکھتی ہوئی اپنی آنکھیں بند کرگئی تھی ۔

اب میں آپ کو سونے نہیں دوں گا جب تک مجھے نیند نہیں آتی ۔ارتضی کی اونچی آواز پر ماہین اپنی آنکھیں وا کیے اسے گھور رہی تھی ۔

نہیں مجھے نیند آرہی ہے ۔

اب آپ نے آنکھیں بند کی نا تو اچھا نہیں ہوگا آپ کے لیے ۔ماہین کو آنکھیں بند کرتے دیکھ وہ تنبیہ کرگیا تھا ۔

اچھے کی مجھے فکر ہے بھی نہیں کیونکہ میرے شاہ ہیں ہی بہت اتنے اچھے کہ وہ سب اچھا اچھا ہی کرتے ہیں ۔

اور وہ مجھے سونے سے بھی نہیں روکے گے کیونکہ وہ مجھ سے محبت جو کرتے ہیں، ہیں نا ارتضی کو اپنے شیریں لہجے میں الجھاتی ہوئی وہ کب ارتضی کے بازوں پر سر رکھ کر آنکھیں موند گئی تھی ۔اور ارتضی جو فقط اسے سن رہا تھا ماہین کی شرارت سے بے خبر مسکرا رہا تھا ۔

ہاں ۔۔

میری چالاک بیوی ،ماہین کی آنکھوں پر لب رکھتا ہوا  مسکرایا تھا ۔

*******

مبارک ہو نوری بلآخر کل ہمیں فتح ملنے والی ہے ۔ریکارڈنگ سن کر وہاج کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔اس ہی خوشی میں وہ صبح صبح ملک ہاؤس میں موجود تھا ۔

یہ سب میری بدولت ہوا ہے ،فخرانہ انداز میں کہتی ہوئی وہ اترائی تھی  ۔

ہنہہ ۔تمہاری بدولت ہاہاہاہا ،نوری کے انداز پر وہ قہقہ لگا گیا تھا ۔

یہ تم کیوں بھول جاتی ہو پریہا نور اپنی اوقات کیوں بھول جاتی ہو تم کہ تم ایک نوکرانی تھی شاہ حویلی کی ملازمہ نوری ۔ وہاج کی بلند آواز سن کر کمرے میں داخل ہوتی ہوئی شمازیہ کے قدم ساکت ہوئے تھے ۔

ہاں تھی مگر تم آرام سے بولو شمازیہ سن لے گی ۔نوری کی آواز سن کر وہ دروازے کی اوٹ میں ہوئی تھی ۔

مطلب پریہا نور ریحان کے دوست کی بہن نہیں ہے ۔ریحان نے جھوٹ کیوں بولا مجھ سے ۔ریحان کا بولا جھوٹ اسے افسردہ کرگیا تھا ۔

آج میں بہت خوش ہوں اور میں دل سے چاہتا ہوں کہ شمازیہ بھابھی سن لے جسے وہ بہن بہن کہہ کر تھکتی نہیں ہیں ۔ کمرے میں موجود جہازی بیڈ پر پڑی شرٹ کو دیکھ کر وہ ضبط سے دونوں لب آپس میں پیوست کرگیا تھا۔

وہ تو ان کے شوہر کی خوشامد کرنے کی خاطر یہاں رہتی ہے ۔

تھوڑی شرم حیا کرو بکواس کیے جارہے ہو ۔انگشت کی انگلی سے تنبیہ کرتی ہوئی وہ غرلا اٹھی تھی ۔

کیوں تمہیں کرتے ہوئے شرم نہیں آتی میں سب بولتے ہوئے شرم کیوں کروں ۔

کیا کیا ہے میں نے ۔چبا کر پوچھتی ہوئی اچانک سے وہاج کے بدلتے روپ کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی ۔

یہ بھی میں ہی بتاؤں  ،یہ ریحان کی شرٹ اور یہ ریسٹ واچ تمہارے روم میں کیا کررہی ہے ۔بیڈ پر لٹکی ہوئی شرٹ اور سائیڈ ٹیبل پر رکھی ریحان کی ریسٹ واچ کی طرف اشارہ کرتا ہوا وہ بھڑک اٹھا تھا۔ وہاج کے الفاظ کے ساتھ ریحان کے سامان کو دیکھ کر  شمازیہ کے قدم لڑکھڑائے تھے ۔

گھن آرہی ہے مجھے خود سے کہ میں نے تمہارے ساتھ کیسے ہاتھ ملا لیا ۔آج وہاج کو افسوس ہوا تھا اپنے فیصلے پر ۔

کتنی گھٹیا عورت ہو تم نوری محبت کے دم بھرتی ہو تم ارتضی کے نام کے اور اپنی راتیں ریحان کے نام کرتی ہو ۔

پل بھر میں نوری کے رنگ فق  ہوئے تھے ۔

تمہیں ذرا سی بھی شرم نہی آتی کہ تم اس عورت کو دکھا دے رہی ہو جو تمہیں اپنی سگی بہنوں کی طرح مانتی ہے ۔ 

منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چلتی سانسیں دباتی ہوئی شمازیہ پل بھر میں عرش سے زمین پر اوندھے منہ آگری تھی۔

بکواس بند کرو اپنی ۔دبے لہجے میں وہ غرلائی تھی ۔

کیوں ڈر لگ رہا ہے کہیں شمازیہ نا سن لے کرتے ہوئے کیوں ڈر نہیں لگتا تمہیں ایک ہی چھت کے نیچے کے کالے کرتوت کرتے ہوئے ۔

ارے لعنت ہے تم اور تمہاری محبت پر محبت کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے تم نے۔

محبت تو پاکیزگی کا نام ہے اور تم نے محبت کا تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے ۔نوری کا اس طرح ریحان کے ساتھ رہنا وہاج کو ذرا پسند نہیں تھا مگر آج نجانے کیوں وہ اسے آئینہ دیکھا رہا تھا ۔

میں گھٹیا عورت ہوں تو تم بھی کم گھٹیا انسان نہیں ہو ،

جس لڑکی کی محبت میں تم میرے ساتھ ہاتھ ملائے ہوئے ہو اس کے ہی بھائی کا گھر برباد کرنا چاہتے ہو ۔

اگر غلطی سے بھی تمہارے ان اعمالوں کا ارتضی شاہ کو پتا چل گیا تو تمہیں کیا لگتا ہے سب جاننے کے بعد بھی رائمہ سے ارتضی شاہ تمہاری شادی اس سے کروادیں گے  ۔

تو یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے وہاج انصاری  ۔ایک دوسرے کو لاجواب کرتے ہوئے وہ شمازیہ کی موجودگی سے بے خبر لڑنے میں مصروف تھے ۔

میں تمہاری طرح گھٹیا تھوڑی نا ہوں ۔صرف ارتضی شاہ کو ریلائز کروانا چاہتا ہوں کہ محبت کے بغیر انسان خود کو کتنا بے بس محسوس کرتا ہے ۔دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کتے بلی کی طرح ایک دوسرے پر لفظوں سے جھپٹتے لڑتے ہوئے دیکھ شمازیہ اہنے مردہ جسم کو گھسیٹتے ہوئے وہاں سے گئی تھی ۔

آج اس کے اعتبار کی موت ہوئی تھی جو وہ دبا میں سے زیادہ ریحان پر کرتی تھی ۔برداشت کرنا مشکل تھا مگر نا ممکن نہیں ۔شمازیہ اچھے سے جانتی تھی اسے آگے کیا کرنا تھا۔

مگر تم تو بڑی گھٹیا ہو میں حیران ہوں کہ میں تمہاری باتوں میں آکیسے گیا کہ تم ریحان کو نشہ آور گولیوں سے بے ہوش کرتی ہو اگر یہ سب سامان اہنی ان گناہگار آنکھوں سے نادیکھتا تو ۔

آج کے بعد میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہوں گا ،ارتضی شاہ نے صحیح کہا تھا تمہیں تم ہو ہی ان الفاظوں کے لائق۔کہہ کر وہاج روم سے جانے کے لیے بڑھا تھا ۔

جب نوری اس کے سامنے نیند کی گولیوں کی بوتل سامنے لہراتی ہوئی نم آنکھیں لیے کھڑی ہوئی تھی ۔

میں گھٹیا ہوں مگر گری ہوئی نہیں ہوں ،اپنی زندگی میں بس ایک شخص کے سامنے خود پیش کرنے کی بھول کی تھی میں نے اور اس کی سزا ادھر رہ کر بھگت رہی ہوں ۔

مگر تمہیں کوئی حق نہیں  ہے مجھے گھٹیا عورت کہنے کا ۔

یہ وہ بوتل ہے جس سے میں اپنی حفاظت کرتی ہوں جب جب ریحان ملک میرے کمرے  میں اپنے کمزور نفس و کردار کو لیے آتا ہے جب جب میں اسے یہ کبھی دودھ میں کبھی شراب میں ملا کر دیتی ہوں ۔

یہ مت سمجھنا کہ میں  تمہیں صفائی دے رہی ہو ۔کیونکہ میں اپنی صفائی صرف اپنے خدا کو دوں گی ۔

گولیوں سے آدھی بھری ہوئی بوتل بیڈ پر اچھالتی  ہوئی وہ وہاج کو  خاموش کروا گئی تھی ۔

دیر ہورہی ہے ماہین ہمارا انتظار کررہی ہوگی اس فتح کے بعد میں خود بھی تمہارا چہرہ دیکھنا پسند کروں گی ۔وہاج کو ساکت چھوڑ وہ  کمرے سے چلی گئی تھی ۔

سکتے سے نکلتا ہوا وہ بھی نوری کے پیچھے گیا تھا ،جہاں آج ان کی شکست ارتضی شاہ کے روپ میں ان کا انتظار کررہی تھی ۔ 

********

جائیں نا ماہین ۔کئی بار اسے گاڑی سے اترنے کا کہتا ہوا ارتضی اب کی بار غصے سے بولا تھا ۔

میں نہیں جارہی اس چڑیل کے پاس ۔ماہین نے ارتضی کی گھوریون کو اگنور کیا تھا ۔

میں ہوں نا تو آپ ڈر کیوں رہی ہیں ۔ماہین کے ہاتھ پر دابو دیتا ہوا اس کا حوصلہ باندھ گیا تھا ۔

جلدی آئیے گا ۔گاڑی سے اترتی ہوئی وہ کہنا نہین بھولی تھی ۔

جائیں تو سہی  ماہی  کو نہوز وہی کھڑے دیکھ ارتضی زچ ہوا تھا ۔

کہاں جارہے ہیں حیدر اتنی صبح صبح ۔حیدر کے پیچھے پیچھے چلتی حیا آخر کار زچ آئی تھی اس کے نا بتانے پر ۔

یہ صبح تو نہیں ہے گیارہ بج رہے ہیں ۔عام سے لہجے میں بولتا اپنی تباہی کے اترے چہرے کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔

پھر بھی کہاں جارہے ہیں ۔حیا کے سوال پر وہ خاموش رہا تھا۔

تمہیں عزت راس ہی نہیں ہے سڑی ہوئی ککڑی کہاں جارہے ہو اس وقت وہ بھی مجھے بنا بتائے ۔حیدر کے سامنے کھڑی ہوئی تھی  غصے سے بولی تھی ۔ 

اپنی زندگی کی خاطر زندگی سے مہلت لینے ،حیا کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کرتا ہوا اسے حیران وپریشان چھوڑ کر گیا تھا ۔

********

کیا ہوا میری خوبصورت بیوی کو اور یہ بیگ کیوں پیک کیے ہوئے بابا کے پاس جارہی ہو کیا ۔پیچھے سے شمازیہ کو اپنے حصار باندھتا ہوا گھمبیر لہجے میں بول رہا تھا ۔

جبکہ بیگ پیک ہوئے دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوا تھا  ۔

نہیں اس بار میں کہیں نہیں جارہی ۔خود کو ریحان کی گرفت آزاد کرواتی ہوئی سرخ آنکھیں لیے ریحان کو کہیں سے بھی پہلے والی شمازیہ نہیں لگی تھی ۔

جس کی نظروں میں اس نے آج تک اپنےے لیے پیار اور عزت دیکھی تھی آج ان آنکھوں میں خود کے اجنبیت محسوس ہوئی تھی ۔

کیا ہوا سوئیٹی ۔ریحان کے لہجے میں ڈر محسوس کرتی ہوئی وہ اس کی جانب بڑھتے دیکھ پیچھے ہوئی تھی وہی ریحان کے قدم بھی ساکت ہوئے تھے بیڈ پر اپنا سامان دیکھ کر ۔

یہ کیا ہے شمازیہ ۔سامان کی طرف اشارہ کرتا ہوا وہ شمازیہ کے کھوکھلے قہقہے پر  چونک اٹھا تھا ۔

میں کہیں نہیں جارہی آپ جارہے ہیں یہ آپ کا سامان پیک کیا ہے میں نے ۔ریحان کے ساکت چہرے کو دیکھ کر اسے گھن محسوس ہورہی تھی ۔

میں کہاں جارہا ہوں ۔حیرت سے پوچھتا ہوا وہ پھر سے شمازیہ کی سمت بڑھا تھا کی شمازیہ نے اسے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا کہا تھا۔

یہ خلع کے پیپرز ہے جو میں نے سائن کردیئے ہیں آپ بھی کر دیجئے ۔ریحان کا دماغ سن ہوا تھا خلع کے پیپرز کا سن کر ۔

میں نے کچھ غلط سن لیا ہے شاید تم کیوں خلع لینے کی بات کرنے لگی مجھ سے ۔خود کی ذات کو دلاسہ دیتا ہوا وہ شمازیہ کے کڑے تیوروں سے پہلی ڈرا تھا ۔

آپ نے بلکل سہی سنا ہے میں نے یہ کہا ہے کہ مجھے اب آپ کے ساتھ نہیں رہنا ۔

 حق مہر کے حساب سے یہ گھر میرے نام ہے  اور آپ کی جائیداد میں میرا برابر کا حصہ بھی ہے اس لیے میں تو یہ گھر نہیں چھوڑ رہی ہوں مگر آپ کو مزید یہاں برداشت نہیں کر پاؤں گی  ۔نفرت سے کہتی ہوئی وہ ریحان کو طیش دلا گئی تھی ۔

کون سے حق مہر کی بات کررہی ہو تم ۔حق مہر کی شرائط بھول گئی تم ۔ریحان کے لہجے کی مضبوطی دیکھ وہ مزید ٹوٹی تھی ۔

اگر میں تمہیں خود سے طلاق دیتا ہوں جب تمہیں یہ گھر ملے گا ۔اور یہاں تو تم خود خلع  لینا چاہ رہی ہو ۔تمخسرانہ انداز میں کہتا ہوا وہ شمازیہ کا مذاق بنا کر قہقہ لگا گیا تھا ۔

نہیں چاہیے مجھے آپ کی نام نہاد دولت جب مجھے آپ کا نام اپنے نام کے ساتھ برداشت نہیں ہورہا لعنت بھیجتی ہوں آپ کی اس حرام دولت پر یہ آپ کو ہی مبارک ہو ۔شمازیہ کے الفاظ اسے ساکت کرگئے تھے ۔

ریحان ملک آج میں آپ کو اپنی اور اپنی بیٹیوں کی ہر ذمہ داری سے  آزاد کرتی ہوں ۔جس شخص کو وہ اپنا سب کچھ مان بیٹھی تھی آج اس کو کسی دوسری عورت کے ساتھ مل کر دکھا دینا اسے جیتے جی مار گیا تھا۔

تاکہ آپ اپنی  اس سوکولڈ نوری کے ساتھ ایک حرام رشتے میں بندھے نارہیں ،اور ایک حلال رشتہ قائم کرلیں اس کے ساتھ ۔خود پر ضبط کیے وہ بمشکل بول رہی تھی ۔

شمازیہ کے منہ سے نوری کا نام سن کر ریحان کے چاروں طبق روشن کرگئی تھی ۔فورا سے اپنا رخ بدلتا ہوا شمازیہ کے سمت بڑھا تھا ۔

سوئیٹی ایسی کوئی بات نہیں ہے یقینا تمہیں کوئی غلطی فہمی ہوئی ہے ورنہ تمہیں لگتا ہے کہ تمہارا ریحان اتنی گندی حرکت کرے گا ۔شیریں لہجے میں کہتا ہوا وہ شمازیہ کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کررہا تھا ۔

گندی حرکت ارے تم جیسا گھٹیا انسان میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا جو ایک ہی چھت کے نیچے بیوی اور رکھیل دونوں رکھے ہوئے ہے داد دینی پڑے گی تمہارے نڈر پن کی ۔ جھوٹ پر جھوٹ بولتے آرہے ہیں آپ ۔

یہ نیچ گرا ہوا انسان میرا ریحان ہوہی نہیں سکتا جس سے میں نے محبت کی تھی ۔وہ تو تم نہیں ہو ۔تم تو کوئی ہوس پرست انسان ہو جسے اپنی دو بیٹوں کے باپ ہونے کے باوجود بھی مکافات عمل سے ڈر نہیں لگتا  ۔خاموش بت بنا شمازیہ کو سن رہا تھا بنا کوئی جواب دیئے سننے کے علاوہ اس کے پاس بچا ہی کیا تھا ۔

جو وہ شمازیہ کو خاموش کرواتا ۔

جو بات وہ شمازیہ سے چھپاتا آیا تھا آج اچانک ایسے اس کے سامنے سب سچ آجائے گا یہ تو اس میں سوچا بھی نہیں تھا۔

پر مجھے لگتا ہے ڈر کہیں آپ کے کیے گھٹیا اعمال میری معصوم پھول جیسی بچیوں کے سامنے ناآجائیں ۔بھرائی آواز میں بولتی ہوئی آنکھوں میں نفرت لیے اپنے سامنے خاموش کھڑے ریحان کو دیکھتی ہوئی گویا ہوئی تھی  

اس لیے میں اپنی دونوں بیٹوں کو لے کر یہاں سے بہت دور جارہی ہوں جہاں آپ کا گندہ سایہ تک میری بچیوں پر نا پڑے ۔ اپنا فیصلہ سناتی ہوئی وہ جانے کے لیے مڑی تھی ۔

 مجھے ایک موقع تو دو اپنی صفائی دینے کا ۔نوری نے مجھے ورغلایا تھا ورنہ تم بتاؤ کیا میں ایسا ہوں ۔ریحان کی بات ہر اس بار وہ قہقہ لگا گئی تھی ۔

کتنا اور گرے گے آپ مجھے نوری سے شکایت ہے بھی کیونکہ میرےاپنے شوہر مجھے دکھا دیا ہے ۔

بس اس نے تو میری آنکھوں پر بندھی محبت اور اعتبار کی پٹی کھول دی ہے ۔

نجانے کتنی لڑکیوں کو تن نے اپنی ہوس کانشانہ بنایا ہے سوچ کر بھی گھن آتی ہے مجھے ۔

شمازیہ ۔ریحان کے پکارنے پر شمازیہ نے اسے بیچ میں روک دیا تھا ۔

اپنی گھٹیا غلیظ زبان سے میرا نام بھی مت لینا ورنہ مجھ سے بڑا کوئی نہیں ہوگا تمہارے لیے ۔وہ جاتی ہوئی رکی تھی۔

میری بیٹیاں نہیں جائے گی تمہارا ساتھ سنا تم نے ۔وہ پیچھے سے چلا اٹھا تھا۔

خلع کے پیپرز کے ساتھ کسڈی پیپرز بھی ہے جب تک انابیہ اور ابیہا ساتھ سال کی نہیں ہوجاتی جب تک وہ میرے ہی ساتھ رہے گی اور اسے کے بعد بھی ۔وہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی ۔

اپنی زندگی کی سب سے بڑی ہار ریحان ملک کے مقدر میں ٹھہری تھی ۔جسے وہ کھونے سے ڈرتا تھا آج وہ اسے  چھوڑ کر جاچکی تھی ۔ 

زیست کے اس کٹھن سفر میں وہ لاحاصل ٹھہرا تھا ۔

*******

سب سے فاسٹ ماہین ریاض ۔

سب سے فاسٹ ماہین ریاض ۔

کیا بول رہی ہیں ماہین ۔دونوں ہاتھ باندھے وہ خود کو حوصلہ دیتی ہوئی بڑبڑا رہی تھی ۔جو ارتضی صاف سن پا رہا تھا کان میں لگے ہوئے بلیوٹوتھ کے ذریعے ۔

آپ چپ ہو جائیں میں خود کا حوصلہ باندھ رہی ہو ۔جیسے جیسے وہ قدم نوری کی بتائی ہوئی جگہ کی سمت بڑھا رہی تھی ویسے ہی اسے اس خوبصورت چڑیل سے ڈر محسوس ہورہا تھا ۔

یہ تباہی کیوں فون کررہی ہے تمہیں، ارتضی کے اچانک سوال پر وہ رکی تھی ۔

کرے گی ہی نا کیونکہ آپ مجھے وہاں ہسپتال کا کہہ کر لائے ہیں فکر ہورہی ہوگی اسے ۔سر پر رکھے ڈوپٹے کو سیٹ کرتی ہوئی سامنے نوری کے ساتھ کسی شخص کھڑے دیکھ چونکی تھی ۔

ارتضی نوری اکیلی نہیں ہے اس کے ساتھ کوئی شخص اور بھی جو یہاں موجود ہے اس کے ساتھ ۔ماہین کی خبر ارتضی کو حیران کرگئی تھی۔

کون ہے وہ شخص آپ نے پہلے دیکھا ہے اسے ۔پوچھتا ہوا ارتضی گاڑی پارک کرکے ماہین کی سمت بڑھا تھا ۔

کب آئیں گی ماہین صاحبہ تم نے ٹائم کرو صحیح سے بتایا تھا نا ۔مسلسل آدھے گھنٹے سے ماہین کا انتظار کرتا ہوا بھڑک اٹھا تھا ۔

نہیں  اس کی پیٹھ ہے میری طرف ۔بلیک پینٹ کے ساتھ ایش گرے کلر کی شرٹ پہنے ہوئے  وہ شخص نوری کے ساتھ محو گفتگو تھا کہ اچانک ہی وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھے غصے سے پیچھے مڑا تھا ۔

وہاج ۔۔اسے دیکھ ماہین کے منہ سے بے ساختہ ہی نکلا تھا۔

وہاج کہاں سے آگیا یہاں ۔ماہین کی بات سے زچ آیا تھا ۔

وہاج اور نوری  ایک ساتھ ہیں ارتضی ۔وہاج ایسا کیسے کرسکتا ہے ۔پل بھر میں ماہین کی آنکھوں میں گھلی تھی ۔

تم اتنے گھٹیا نکلو گے وہاج یہ میں نے سوچا نہیں تھا مگر اب تمہیں تمہاری اس حرکت کے بعد تمہیں چھوڑو گا نہیں  چبا کر کہتا ہوا وہ ماہین کی سمت متوجہ ہوا تھا ۔

ماہین آپ کو مضبوط ہونا ہے کمزور نہیں پڑنا ۔

جی میں اندر جارہی ہوں بس آپ بھی جلدی سے آجائیں ۔ریسٹورینٹ میں داخل ہوتی وہ حیران ہوئی خالی ریسٹورینٹ کو دیکھ کر ۔

آؤ معصوم لڑکی مجھے تمہارا ہی انتظار تھا ۔نوری کی آواز سن کر وہاج فورا سے چھپا گیا تھا تاکہ ماہین اسے نا دیکھ سکے ۔

کیسی ہو  ۔لہجے میں محبت سموئے وہ ماہین کے ساکت چہرے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی تھی ۔

اچھی ہوں ۔اسے دیکھ کر اپنی گھبراہٹ دبائے ماہین مبہم سا مسکرائی تھی ۔

پتا ہے لوگ میری خوبصورتی پر مرتے ہیں میری ایک نظر پر جان لٹانے کو تیار رہتے ہیں ۔

مگر تمہاری معصومیت میری خوبصورتی کو مات دے گئی معصوم لڑکی ،رشک بھرے لہجے میں بولتی ہوئی ماہین کے عام سے سراپے کو دیکھ رہی تھی ۔

 چوڑی دار پجامے کے ساتھ سرخ پیروں تک آتی فراق  کے پہنے ہوئی سر پر سفید رنگ کا ڈوپٹہ ٹکائے ہوئے اپنے کندھے پر رکھی براؤن کلر کی چھوٹے چھوٹے شیشوں کے کام والی شال کی دونوں سائیڈ پکڑے ہوئی تھی  ۔

تمہاری اس ہی معصومیت کا فائدہ ارتضی شاہ  اٹھا رہا ہے تمہیں بےوقوف بنا کر ۔ماہین کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں ۔

ارے ارے رو مت معصوم لڑکی میں ہوں  نا تمہارے ساتھ ۔

اب ارتضی شاہ تمہاری معصومیت کا مزید فائدہ نہیں اٹھا پائے گا ۔ماہین کو ہاتھ پکڑے وہ آگے بڑھی تھی مگر ماہین نے اس کا ہاتھ غصے سے جھٹک دیا تھا ۔

ہاتھ مت لگانا مجھے ۔ماہین کے کڑے تیوروں دیکھ نوری شاکڈ ہوئی تھی ۔

اپنے پلین کو دیکھ ہوتے دیکھ وہاج کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔

شرم نہیں آتی تمہیں اس طرح کسی کے کردار پر انگلیاں اٹھاتے ہوئے ۔ماہین کے سوال پر نوری نے ڈھٹائی سے گردن ہلائی تھی ۔

کیوں شرم آئے گی مجھے کردار کی دھجیاں اڑانے کی شروعات تو ارتضی شاہ نے کی تھی میں تو بس وہی واپس لوٹا رہی ہوں تمہیں اور ارتضی شاہ کو الگ کرکے ۔ماہین کی آنکھوں میں حیرت نا دیکھ وہ پھر سے مخاطب ہوئی تھی ۔

سوچو ارتضی شاہ کو پتا چلے گا جب کہ تم مجھ سے ہاتھ ملانے آئی تھی سب سے چھپ چھپا کر ،کیا تم سے تعلق برقرار رکھے گا تمہارا ارتضی ۔نوری کی بات پر وہ تاسف سے گردن ہلا گئی تھی ۔

 اتنے خوبصورت چہرے کے پیچھے اتنا سفاک چہرہ چھپا ہوگا یہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔

شرم محسوس ہورہی ہے تمہیں ایک عورت کہتے ہوئے بھی۔

کیونکہ عورت بے حد انمول ہوتی ہے ،شیشے کی طرح کردار کی شفاف ہوتی ہے ۔شرم و حیا عورت کا زیور کہلاتا ہے ،پاکیزہ محبت کی گواہی عورت ،یقین کامل عورت ،عورت ہی ہے وہ جسے قرآن پاک نے عزت بخشی ہے ،عورت ہی جسے خدا اوع اسکے رسول صہ نے عزت بخشی ہے ،عورت ہی جو دنیا اور آخرت  میں سب سے زیادہ عزت کی مستحق  ہے ۔ ایک سانس میں بولتی ہوئی کچھ پل کے لیے رکی تھی مگر  نوری کی خود پر جمی نظروں کو دیکھ کر پھر سے گویا ہوئی تھی ۔

مگر تم جیسی عورتیں عورت ذات کے نام ہر دبا ہوتی ہیں ۔جو خود کو مردوں کے سامنے اپنی محبت کے نام پر فحاش پھیلا کر خود کو دوکوڑی کا کر دیتی ہیں ۔اس رات کا حوالہ دیتی ہوئی نوری کو لاجواب کیے ہوئی تھی ۔

اپنے ان گھٹیا کاموں سے ہم جیسی پردہ دار عورتوں کو بھی بدنام کردیتی ہیں ۔ماہین کی باتیں سن وہاج بھی ساکت کھڑا ہوا تھا ۔

عورت ذات کا تم وہ بھیانک چہرہ ہو جس سے ہر باعزت عورت حوس پرست مردوں  کی نظروں سے داغدار ہو جاتی ہیں ۔مردوں کی گھٹیا نظروں سے گھبراہٹ کا شکار ہوکر وہ گھر سے قدم تک باہر نہیں نکالتی ہیں ۔

تم جیسی عورتوں زمیدار ہوتی ہیں مردوں کو راہ راست سے بھٹکانے والی ۔

یہ تو شکر ہے تم نے اس رات میرے ارتضی مضبوط کردار کے حامل ارتضی شاہ کے سامنے خود کی ذات کو روندا تھا سوچو اگر ارتضی کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کیا تم خود سے کبھی نظریں ملا پاتی ۔نوری کے ساکت وجود میں سنسناہٹ پھیلی تھی یہ سوچ کر بھی اگر ارتضی اس رات اس کی باتوں میں آکر بہک جاتا  تو واقع میں خود کی ذات کو کہیں کھو دیتی جس ذات کی حفاظت وہ اب تک ریحان ملک سے کرتی آئی تھی وہ پہلے سے ہی روند دہ جاتی اپنے ہی کیے عمل سے۔   

تم بھی باہر آسکتے ہو وہاج انصاری ،نوری کو خاموش دیکھ وہ بلند آواز میں چلائی تھی ۔

کچھ توقف بعد وہاج اس کے سامنے تھا ۔

تم بزدل ہی اچھے تھے وہاج افسوس ان سب کے بعد بھی رائمہ تمہاری نہیں ہوسکتی ۔تاسف سے کہتی ریسٹورنٹ مین انٹر  ہوتے ارتضی کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔

شاہانہ انداز میں چلتا ہوا اپنے کان میں لگی بلیوٹوتھ پھینکتا ہوا وہاج کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا ۔

تم سے میں بعد میں بات کروں گا نوری ۔اپنے سامنے ساکت کھڑی  نوری کی سائیڈ سے گزرتا ہوا وہاج  کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا ۔

تمہیں  میں بزدل سمجھتا آیا تھا مگر تم تو ایک سفاک انسان نکلے ۔وہاج کو گریبان سے پکڑا ہوا وہ غرلایا تھا ۔

مجھ بزدل کی ہمت دیکھو ارتضی شاہ سیدھا تمہاری شہ رگ  پر پاوں رکھا ہے ۔کوشش کے باوجود بھی خود کو ارتضی کی مضبوط گرفت سے رہا نا کروا سکا تھا۔

تمہیں کیا لگا اگر تم رائمہ کو میرا نہیں ہونے دو گے تو کیا میں خاموش بیٹھ جاؤں گا نہیں ارتضی شاہ نہیں میرا انتقام تمہارے نکاح والے دن سے شروع ہوگیا تھا جب میں نے اپنی رائمہ کی نظروں میں اجنبیت دیکھی تھی۔۔ارتضی کی گرفت اس کے گریبان پر سے ڈھیلی پڑی تھی ۔

جب جب میرے اور رائمہ کے درمیان سب ٹھیک ہونے لگتا جب جب تم ارتضی شاہ کسی دیوار کی مانند ہم دونوں کے درمیان حائل ہوئے ہو ۔کب تک تمہیں برداشت کرتا تمہیں ماہین کے ساتھ دیکھ کر مجھے آگ لگتی تھی جب میں اپنی محبت کو انہیں سکتا تو تمہین کیسے خوشیاں حاصل کرنے دے دوں ۔نفرت انگیز لہجے میں کہتا ہوا وہ کہیں سے بھی پہلے والا ویاھ نہیں لگ رہا تھا جس کی آنکھوں میں ارتضی کا ڈر صاف دیکھتا تھا ۔آج تو فقط انتقام بول رہا تھا اس کے لہجے اور ہر عمل میں ۔

ماہین تو ناسمجھی میں فقط اسے سن رہی تھی جو اس سے اور ارتضی اپنی نفرت کا اظہار کر رہا تھا ۔ 

 اس دم میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر رائمہ میری نہیں ہوگی تو ماہین صاحبہ کو بھی آپ سے دور کرکے ہی رہوں گا مگر یہاں میں مات کھا گیا آپ کی یہ ماہین بہت زیادہ ہی سمجھدار  نکلی یا یہ کہوں کہ میرا سکہ ہی کھوٹا نکلا جو اسے اپنی باتوں میں لے سکا ۔نوری کو نفرت سے چھوڑتا ہوا ماہین کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا جس کی سمجھداری کے باعث وہ اور نوری ناکام ہوئے تھے اپنی سازش میں ۔

 تم تو کیا مجھے اور ماہین کو کوئی الگ نہیں کرسکتا کیا تمہاری مما مے نہیں بتایا تھا تمہیں ۔کافی دیر تک اسے سننے کے بعد ارتضی نے بولنا شروع روع کیا تھا ۔

ویسے بہت اچھا کیا بابا نے جو تمہارا میری بہن کے ساتھ جڑا رشتہ وقت سے پہلے ہی ختم کردیا جو شخص شادی سے پہلے ہمارے خاندان کا دشمن ہے وہ شادی کے بعد کیا کرتا میری بہن کے ساتھ ۔ارتضی کی بات پر وہاج نے ناسمجھی میں بولتے ہوئے ارتضی کو دیکھا تھا ۔

کیا مطلب۔وہاج کے سوال پر ارتضی مسکرا اٹھا تھا ۔

مطلب یہ کہ پہلے تو مجھے زیادہ برائی نظر نہیں آتی تھی تمہارے اور رائمہ کے رشتے میں مگر اب رائمہ کو بھول جاؤ تم کیونکہ اب میں ارتضی شاہ تمہارے ساتھ اپنی بہن کا رشتہ تو دور کی بات ہے اس پر تمہارا سایہ بھی پڑنے نہیں دوں  گا یہ میرا وعدہ ہے تم سے  ۔مضبوط لہجے میں کہتا ہوا وہاج کو ساکت کرگیا تھا ۔

اس کا مطلب ارتضی شاہ تمہیں  میرے اور رائمہ رشتے سے کوئی اعتراض نہیں تھا ۔وہاج کے سوال پر ماہین نےطبھیچارتصی کو دیکھا تھا ۔

اب ہے ۔بات ختم کرتا ہوا وہ نوری کو خود کو دیکھتا پاکر اس کی سمت بڑھا تھا ۔

اس رات میں نے آپ کو جو بھی کہا بہت شرمندہ ہوا تھا میں خود کے لفطوں پر کہ میں کون ہوتا ہوں کسی عورت کے کردار کو جج کرنے والا کسی کے کردار کی دھجیاں اڑانے والا ۔

مجھے غلط الفاظ استعمال کرنے کے لیے آپ اور آپ کے الفاظوں نے اکسایا تھا ۔

میں اپنے نفس پر تو فتح پاگیا تھا مگر اپنے لفظوں پر نہیں رکھ سکا غصے میں جو منہ میں آیا بولتا گیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے الفاظ آپ کو اندر سے توڑ رہے ہیں۔

  مگر میں پھر بھی بولتا گیا تاکہ آپ سیدھی راہ سے نا بھٹکیں ۔

اور جب آپ  پر اپنی باتوں سے کوئی فکر نا پڑتے دیکھا تو میں نے آپ کو حویلی سے جانے کے لیے کہہ دیا ۔ماہین خاموشی سے نوری اور ارتضی کو دیکھ رہی تھی ۔

اپنی زندگی میں بار اس نے نوری جیسی عورت دیکھی تھی جو محبت کی خاطر سب کرنے کو تیار تھی ۔

ہوں تو میں بھی مرد ذات ہی کب تک آپ اور آپ کی پیشکش کو فراموش کرتا ایک دننا دن حد ہے ایک عرصہ کبھی نا کبھی میں بھی بھٹک جاتا اور آپ کے ساتھ مل کر گناہ کر بیٹھتا  ۔

کیونکہ گھر سے باہر نکلنے والی عورت کے پیچھے تو فقط ایک شیطان ہوتا ہے جبکہ ہم مردوں کے پیچھے دس ہوتے ہیں جو بڑی آسانی ہم مردوں کو نفس کا پجاری بنا دیتے ہیں ۔اپنے نفس پر قابو پاتے ہوئے میں نے آپ کو جانے کے لیے کہا تھا ۔

 تاکہ آپ کو اور خود کو اس سنگین گناہ سے بچانے کی خاطر آپ کوجانے کے لیے کہا تھا ۔

مگر میری کوشش ناکام ٹھہری آپ  ایک دلدل سے نکل کر دوسری دلدل میں خود گرگئی۔

آپ کے حق میں میں جس شخص کے ساتھ لڑا آپ اس ہی گھٹیا شخص کے ساتھ مل گئی اس دن مجھے اپنی کی گئی غلطی پر  پشیمانی کرگئی تھی ۔

نم آنکھوں سے ارتضی کو دیکھتی ہوئی اس کے برابر میں کھڑی کو ماہین کو راہ بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔

میں آج بھی شرمندہ ہوں نوری اپنے الفاظوں سے تمہیں آج یہاں تک لانے کے پیچھے بھی میرا ہی ہاتھ ہے  ،ہوسکے تو معاف کردیں  ۔ارتضی کو خاموش ہوتے دیکھ اپنے ہاتھوں کی پشت سے آنسوؤں صاف کرتی ہوئی سرخ آنکھوں سے ارتضی کو دیکھ رہی تھی ۔

معاف کردوں گی آپ کو سائیں صرف ایک سوال کا جواب دے دیں مجھے ۔روکنے کے باوجود بھی آنسو اس کے رخسار پر بہے تھے ۔

کیا نہیں ہے مجھ میں جو اس میں ہے ،ماہین کی سمت اشارہ کرتی ہوئی ارتضی کے عین سامنے آکھڑی ہوئی تھی ۔

آپ اب بھی سمجھنے کے بجائے بیوقوفی کررہی ہیں ۔ماہین کی نظریں کیے وہ نوری سے مخاطب ہوا تھا ۔

اس سے کئی زیادہ خوبصورت ہوں بس ایک کمی رکھ دی اللہ سائیں نے مجھ میں کہ مجھے غریب بنایا ۔شاکی نظروں سے نوری کو دیکھتی ہوئی ماہین اس کے اس سے زیادہ  خوبصورت ہونے کی بات دل سے ہامی بھر گئی تھی ۔

چلیں غریب بنایا بھی آپ کی حویلی کی ملازمہ نا بناتا ،پھر تو آپ سے محبت کرسکتے تھے ۔ 

کرتے نا آپ مجھ سے محبت ۔ہذیانی انداز میں بولتی ہوئی وہ وہاں کو پہلی بار قابل رحم لگی تھی ۔

نہیں ہوتی پھر ،ماہین کے ہاتھ کو تھامے ہوئے ارتضی کو دیکھ کر وہ پیچھے ہوئی تھی ۔

بخش دیا آپ کو ،آج کے بعد یہ نوری کبھی بھی آپ راہ نہیں دیکھے گی ،اپنے لیے جیئے گی عزت کے ساتھ ۔کہتی ہوئی ارتضی اور ماہین س دور ہوکر دوسری سائیڈ ہوگئی تھی ۔

 ہر عورت قابل عزت اور قیمتی ہوتی ہے نوری اور تم بہت قیمتی ہو خود کو اس طرح بے مول مت کرو  ۔ماہین کے اپنے ساتھ اتنے نرم لہجے پر وہ کرب سے آنکھیں میچ گئی تھی ۔نوری کو کندھوں سے تھامے ہوئے وہاج کو دیکھ  ارتضی ماہین کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے گیا تھا ۔

دونوں کا درد برابر تھا ایک کو محبوب حاصل ہوتے ہوتے رہ گیا تھا جبکہ دوسری نوری لاحاصل کے پیچھے باہر کر اپنے پاؤں چھلنی کروا چکی تھی ۔ 

شاید ان کی زیست میں یہ لاحاصل رہنا قرار پایا تھا ۔

********

نیکسٹ ویک آپ کو پھر سے ٹریٹمنٹ کے لیے آنا ہوگا ۔یہ جو ڈائٹ پلین میں نے آپ کو لکھ کر دی ہے یہ صرف ون ویک کے لیے ہیں نیکسٹ ویک جب ٹریٹمنٹ کے لیے آئیں گے تو آپ کی ہلتھ کو دیکھ کر دوبارہ سے ڈائٹ شیٹ دوں گا جب تک کے لیے اس ہی پر عمل کرنا ہے آپ کو ۔اپنے مخصوص انداز میں اپنی پیشنٹ کے ساتھ چلتے ہوئے ڈاکٹر شاہ زین کمال ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے ہوئے تھے، ہلکی سی مسکراہٹ جو ان کی شخصیت کا اہم حصہ تھی ۔

جی ڈاکٹر ،ابھی اپنے پیشنٹ کو مزید ہدایت دیتے کہ سامنے کارڈیالوجی ڈاکٹر نوفل ابراہیم کے ساتھ حیدر شاہ کو محو گفتگو کرتے دیکھ پیشنٹ کو جانے کا کہتے ہوئے ان کی سمت بڑھے تھے ۔

حیدر بھائی یہاں پر ۔پریشان ہوتے ہوئے وہ حیدر اور نوفل ابراہیم کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک ہی نرس کے پکارنے پر اس کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔

حیدر اب مزید دیر نہیں کی جاسکتی جتنی جلدی تمہاری ہارٹ سرجری ہوجائے اتنا ہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔

امید ہے کہ تم میری بات سمجھ رہے ہو ۔رپورٹس ہاتھ میں پکڑے حیدر خاموشی سے سن رہا تھا۔

تین مہینے میں تمہاری ہیلتھ میں بہتری آنے کے بجائے اور بھی بگڑ رہی ہے تمہاری حالت یہ کوئی اچھا سائن نہیں ہے ۔

کہیں پر بھی کسی بھی وقت تمہیں میجر ہارٹ اٹیک ہوسکتا ہے ۔حیدر شاہ تمہارے لیے اتنی سی عمر میں ہارٹ پیشنٹ بننا عام بات تو نہیں ہے ۔

 تم میرے ایسے واحد پیشنٹ ہو جو میرے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے تمہارے ساتھ مجھے بہت ہمدردی ہے ۔کیا کیا میرے ساتھ بھی شیئر نہیں کرسکتے اپنی پروبلم میں تمہارا ڈاکٹر ہوں اور حق بنتا ہے میرا جاننے کا ۔حیدر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فکر سے بول رہے تھے ۔

درد تو ہر ایک کے سینے میں چھپا ہوتا ہے ۔

 بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ کوئی جتا دیتا ہے ۔۔،

اور کوئی دل کے کسی کونے میں ہی دفنا دیتا ہے ۔

کون ہے خوش قسمت جسے دنیا میں بنا ذلالت کے محبت اور محبوب دونوں مل جاتے ہیں ۔۔۔۔۔،سر جھکائے وہ آہستگیسے بول رہا تھا ۔

ہاں جب ہی تو ہارٹ پیشنٹ بن گئے ہو ۔اب کی بار ڈاکٹر نوفل چبا کر بولے تھے ۔ان کی بات پر حیدر مسکرایا تھا ۔جو ڈاکٹر نوفل کو ذرا نہیں بھایا تھا ۔

اپنے لیے نا سہی اپنی وائف کے لیے ہی سرجری کے لیے مان جاؤ ۔ ایک بار پھر سے انہوں نے حیدر کو قائل کرنا چاہا تھا ۔

اس لیے تو آج یہاں موجود ہوں ۔رپورٹ پر نظریں جمائے وہ نوفل ابراہیم کو خوشگوار حیرت کا شکار کرگیا تھا ۔

تو اتنی دیر سے تم مجھے پاگل بنا رہے تھے ۔حیدر کے گلے لگتے ہوئے وہ اس سے زیادہ خوشی محسوس کررہے تھے ۔

اب بس کریں ڈاکٹر صاحب مجھے گھر بھی جانا ہے حیا کو سب بتانے کے لیے ۔نوفل ابراہیم سے الگ ہوتے ہوئے وہ آخر میں سنجیدگی سے بولا تھا ۔

آل دا بیسٹ ۔حیدر کو وہاں سے جاتے دیکھ وہ دل میں اس کی لمبی زندگی کی دعا کرتے ہوئے اپنے کیبنٹ کی سمت بڑھے تھے جب ڈاکٹر شاہ زین کمال کی آواز پر وہ مڑ کر انہیں دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں مسکرائے تھے ۔

کیسے ہیں آپ ڈاکٹر نوفل ابراہیم ۔حیدر کو وہاں سے جاتے دیکھ پرجوش انداز میں بولتا ہوا شاہ زین ان کی سوالیہ نظروں سے دیکھنا اگنور کرگیا تھا ۔

الحمداللہ بلکل ٹھیک ہوں آؤ اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔اپنے کیبنٹ میں اسے بھی ساتھ لے کر جاتے وہ مبہم سا مسکرائے تھے ۔

حیدر شاہ آپ کے پاس مطلب کیا وہ آپ کے پیشنٹ ہیں اگر ہیں تو کب سے ۔ڈاکٹر نوفل ابراہیم کی بھنویں سکڑی تھیں شاہ زین کمال کے پوچھنے پر ۔

میرا کوئی حق نہیں ہے آپ سے آپ کے پیشنٹ کی انفارمیشن  حاصل کرنا کا مگر حیدر شاہ کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا تھا ۔

ایکچولی وہ میرے جانے والے بھی ہیں عنقریب ہی بہت گہرے رشتے میں بندھنے والے ہیں ہم ۔اس لیے آپ سے پوچھ رہا ہوں ۔ڈاکٹر نوفل کی سوالیہ نظروں سے گھبرا کر وہ خود کمپوز کرگیا تھا ۔

کیونکہ آپ بھی ایک ڈاکٹر ہے اس لیے آپ کہہ رہے ہیں تو صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ حیدر شاہ تین ماہ سے ہارٹ پیشنٹ ہیں ۔

ان کے دل میں میں سوراخ ہے اب نوبت سرجری تک پہنچ گئی ہے ۔ڈاکٹر نوفل ابراہیم کے منہ سے نکلے الفاظ شاہ زین کو ساکت کرگئے تھے ۔

بظاہر باہر سے خوش نظر آنے والے حیدر شاہ کو دیکھ کر کہیں سے بھی وہ اندازہ نہیں لگا سکا تھا کہ وہ دل کے معملے میں اس قدر حساس نکلے گا ۔

وہ سرجری کے لیے نہیں مان رہے کیا ۔کافی توقف کے بعد شاہ زین گویا ہوا تھا ۔

بہت بار کہنے کے باوجود وہ اچانک آج ہامی بھر گیا ہے سرجری کے لیے ۔

حیدر شاہ جیسے لوگ اس دنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں حساس نرم طبیعت کے مالک اس لیے خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ میرے دوست کے روپ میں سلامت رہے ۔

آمین ۔ڈاکٹر نوفل کے رکتے ہی وہ فورا سے بول گیا تھا ۔

اتنا کافی ہے یا اور بھی کچھ جاننا ہے ۔دوستانہ لہجے میں پوچھتے ہوئے شاہ زین کے سوال کن چہرے کو پڑھ گئے تھے ۔

تین ماہ پہلے میری اور حیدر کی ملاقات اس ہی کیبنٹ میں ہی ہوئی تھی ۔

آیا تو وہ اپنے بائیں ہاتھ کے درد کو لے کر تھا میرے پاس   نارمل ایس ای جی کرنے اوع چند ٹیسٹ کے بعد اپنے وہ دل میں سوراخ کے بارے میں سن کر بھی ذرا بھی افسردہ نہیں ہوا تھا ۔

الٹا مجھے پریشان دیکھ پتا ہے کیا کہا تھا ۔ڈاکٹر نوفل ابراہیم کے سوال پر وہ آنکھوں سے ہی پوچھ گیا تھا ۔

اللہ پاک جو کرتے ہیں ہم سب کی بہتری کے لیے کرتے ہیں  اس میں بھی میری بہتری ہی ہوگی ۔مضبوط لہجے میں کہتا ہوا وہ مجھے حیران کرگیا تھا ۔

اس کی سب سے بڑی بات جس پر میں ہنس پڑا تھا ۔شاہ زین کمال بس ڈاکٹر نوفل کے تاثرات دیکھ کر ان کی حیدر کے ساتھ اتنی انسیت دیکھ حیران ہوا تھا ۔ 

 اس نے مجھے کہا کہ اب میں  اپنی سنجیدہ زندگی میں تباہی مچادوں گا ۔پوچھوں گے نہیں کیا ۔

میں کہا کیا کرو گے ایسا جس سے تمہاری زندگی میں تباہی مچ جائے ۔

تو کہنے لگا میں اب شادی کروں گا اور اب اپنی زندگی میں تباہی مچانے کے لیے تباہی کو لاؤ گا ،ایک نئی زندگی کے لیے ۔امید بھرا لہجہ جو پل بھر کے لیے میرے وجود کو ساکت کرگیا تھا ۔

ٹھیک ایک ڈیڑھ ماہ بعد مجھے اس کی شادی کی خبر مل گئی خوش ہوئی تھی یہ سوچ کر اس کے دل میں زندگی جینے کی رمق باقی ہے ۔ 

جب ہی میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس شخص کو کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔ڈاکٹر نوفل کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں ۔

انشااللہ حیدر بھائی کو کچھ نہیں ہوگا ۔پر نم لہجے میں کہتے ہوئے شاہ زین نے ارتضی کو کال ملائی تھی ۔

مگر دوسرے ہی لمحے کوئی رسپوزنس نا پاکر وہ فون رکھ گیا تھا۔

*******

 دو مہینے بعد ۔۔۔

۔حیدر کی سرجری کامیاب ٹھہری تھی ۔سرجری کے بعد حیدر شاہ کا استقبال بڑے ہی شاندار طریقے سے  کیا گیا تھا ۔

کیا کے بے جا خیال اور محبت کی وجہ سے حیدر نے بہت جلد ریکور کیا تھا۔

میری پہلے بات سن لو ہم پھر چلتے ہیں ۔حیدر کی بات سنے بغیر وہ شاہدہ بیگم کےپاس آبیٹھی تھی ۔

دیکھیں نا خالہ جانی یہ سڑی ہوئی ککڑی مجھے باہتچلے کر نہی جارہے ۔حیدر جو کتنے دنوں سے اسے اپنی  بتانے کے لیے اس کے آگے پیچھے پھر رہا تھا مگر ہر بار کہنے سے پہل ہی گیا اسے خاموش کروادیتی تھی ۔

 جب اسے کل اپنے پریگنیٹ ہونے کا پتا چلا تھا جب سے اس نے حیدر کو ایک ٹانگ پر نچا  رکھا  تھا ۔اور وہ بیچاری خاموشی سے ناچ بھی رہا تھا ۔

حیدر میرا نا تمہارے ہاتھ کا بنا چیز آملیٹ کھانا ہے ۔پہلی ہی فرمائش سن کر حیدر کا سر چکرایا تھا ۔

کچھ دیر بعد چیز املیٹچاس کے سامنے رکھتا ہوا  لیپ ٹاپ لیے سیدھا ہو بیٹھا  تھا ۔

مجھے اورنج جوس پینا ہے ۔بچوں جیسی شکل بنائے وہ حیدر کو بہت پیاری لگی تھی ۔اسے جوس لاکر دیتا ہوا وہ واپس سے اپنے کام کی جانب متوجہ ہوا تھا ۔

کچھ گھنٹے بعد سونے کے لیے لیتا ہوا حیدر ابھی اپنی آنکھیں بند کیے سونے لگا تھا مگر اگلے ہی لمحے حیا  کی ایک اور فرمائش  وہ مسکراتا ہوا اٹھا تھا ۔

مجھے نیند نہیں آرہی خوشی کے مارے اس لیے تم بھی میرے ساتھ ۔ماہین کی گڈ سن کر بھی اس کا یہ ہی حال تھا۔اب اپنی باری میں تو وہ بہت زیادہ خوش ہوئی تھی ۔

ساری رات جاگنے کے بعد بھی حیا کی فرمائش ختم نہیں ہوئی تھی ۔

اگلی صبح وہ پھر سے شروع ہوگئی تھی ۔

ان سب سے سر پکڑ کر بیٹھتا ہوا حیدر آخر کار تھک گیا تھا حیا کی کل سے شروع ہوئی فرمائشوں سے تھک کر بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹا  تھا ۔

اب بھی جب وہ اسے اپنے دل کی بات بتانے لگا وہ نیچے آگئی تھی ۔

حیدر بیٹا اس حالت میں حیا کی ہر بات ماننی ہے تمہیں اس کا جو دل کرتا ہے اسے لا کر دو جہاں جانا چاہتی ہے وہاں لے کر جاو ویسے بھی یہ اب اپنی میکے تو جا نہیں سکتی ۔حیا کا منہ اتار گیا تھا بخاری ولا کے بارے میں سوچ کر حمدان بخاری شاکرہ  بیگم اور ریاض بخاری  یو ایس میں مکمل طور ہر سفٹ ہونے کی خاطر گئے تھے ۔

جی ماں ہر یہ میری کوئی بات سنے جب نا تب ہی میں اسے کہیں لے کر جاو گا۔حیدر اور گیا کی نوک جھونک دیکھ کر ماہین ہمیشہ سے ہی مسکراتی آئی تھی آج بھی ان دونوں کو دیکھ وہ شاہدہ کے سامنے آ بیٹھی تھی ۔

لے جائیں نا حیدر بھائی ۔ماہین کو بھی گیا کے حق میں بولتے دیکھ حیدر ہار مان گیا تھا ۔

اچھا ٹھیک ہے تم جاکر تیار ہو آو ۔ 

چلیں ماہین آپی ۔ ماہین کو ساتھ لے کر جاتی ہوئی چہکی تھی ۔

اللہ ان میرے دونوں بیٹوں کی خوشیاں سلامت رکھے ۔حیدر کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہوئیں وہ ماہین اور گیا دونوں کی طرف سے خوشخبری سن کر خوشی سے پھولی و سمائی ہوئی تھیں ۔

حیا میں پیاری نہیں لگتی اب ارتضی میری دیکھتے بھی نہیں ہیں۔ارتضی کا زیادہ تر ہسپتال میں وقت گردانا ماہین ناگوار گزر رہا تھا اور اسے یہ ہی وجہ لگی تھی ارتضی کے ہسپتال میں زیادہ وقت گزارنے کی ۔

تو کس نے کہا  ہے آپ کو بانو قدسیہ بنے پھرنے کے لیے ۔ماہین کے رف سے کیچڑ میں قید کیے بالوں اور عام سے حلیے پر چوٹ کی تھی ۔

کبھی مجھے دیکھا ہے حیدر کی نظریں نہیں ہٹتی ہیں میرے سراپے پر  سے ۔اپنی لپ اسٹک کو مزید گہرا کرتی ہوئی ماہین کو اپنا سراپا دیکھنے ہر مجبور کرگئی تھی ۔

شیشے میں اپنا عکس دیکھتی ماہین خود بھی خود بانو قدسیہ ہی لگی تھی بے ساختہ ہی مسکرا دی تھی ۔

خیر سے جاو اور خیر سے آو۔دعا دیتی ہوئی ماہین مسکرا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی ۔

************ 

ملک ریحان کے ساتھ کی گئی بے وفائی بہت مہنگی پڑنے والی ہے نوری میڈم تجھے ،

بہت سر چڑھا لیا تھا تجھے اور تو اپنی اوقات بھول گئی اب وقت آگیا ہے تجھے تیری اوقات دیکھانے کا ،طیش سے بھرا بیٹھا ریحان پچھلے کئی دنوں سے شمازیہ اور اپنی بیٹیوں کی دوری میں بکھرا ہوا سیر  بنا ہوا پھر رہا تھا اوپر سے نوری بھی اس دن کے بعد سے ملک ہاوس میں نہیں آئی تھی ۔

نوری کو کال مالٹا ہوا وہ اپنی بیٹیوں کی تصویر دیکھتا ہوا مزید بھڑک  اٹھا تھا ۔

کیا ہوا ملک صاحب !کئی کالز کے بعد کال پک کرتی ہوئی  نوری کی خوبصورت و معصوم آواز پر وہ  دل پر ضبط کرگیا تھا ۔

کچھ خاص نہیں ،

ویسے کافی عرصے بعد تجھے اپنے سائین سرکار کو اتنے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا تھا ،بڑی خوش ہوئی ہوگی نا تم ،ارتضی کے ذکر پر بنا کوئی تاثرات دیئے وہریحان کے جتاتے ہوئے لہجے کو نوٹس کرتی ہوئی وہ اس کے اسپارٹ بوائے کو جانے کا کہتی ہوئی سائیڈ ہر آبیٹھی تھی  ۔

کیا ہوا ،

کچھ نہیں نوری ڈارلنگ ،ریحان کے لہجے پر وہ کرب سے آنکھیں بند کرگئی تھی ۔

جنتا دیکھنا ہے ارتضی شاہ کو جی بھر کر دیکھ تو لیا ہوگا تم نے ،نوری کے خوبصورت  چہرے کے رنگ فق ہوئے تھے

کیا کرنے کا ارادہ ہے سائین کے ساتھ ،ریحان کے انداز سے وہ ڈری تھی ۔

میں کہاں کچھ کرنے والا ہوں ۔

وہ آج دنیا مطلب گاؤں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجائے گا ۔ فوٹو فریم سائیڈ ٹیبل پر واپس رکھتا ہوا سکون کا سانس بھر گیا تھا ۔

ارتضی سائین کو کچھ نہیں کریں گے آپ ،دبے انداز میں غرلائی تھی ،

مجھے روکنے والی تم ہو کون ،بھولو مت اپنی اوقات دو کوڑی کی ملازمہ ۔چبا کر کہتا ہوا جگہ سے اٹھا تھا ۔

اگر ارتضی سائین کو کچھ بھی ہوا تو میں تمہیں چھوڑو گی نہیں، اچانک سے ریحان کو وارن کرگئی تھی ۔

کون کمبخت چاہتا ہے کہ تم چھوڑو مجھے ،میں تو خود یہ ہی چاہتا ہوں کہ تم مجھے ہر وقت ایسے ہی اپنے حسن کے جال میں جکڑے رکھو اور اب دیکھو شمازیہ بھی چلی گئی ہے ۔   کمینگی ہنسی ہنستا  ہوا نوری کو زیر لگا تھا۔

میں نے تمہیں دوکھا دیا ہے نا تو تم مجھ سے بدلہ لو ،سائین کے ساتھ کچھ نا کرو ،تم جو چاہوں گے میں ویسا ہی کروں گی ،ہاتھ جوڑ کر منت کرتی ہوں ۔فون پر موجود  نوری ریحان کی دل کی دنیا تباہ کیے ہوئی تھی ۔

جیسے جادوگر کی جان طوطے میں ہوتی ہے ویسے ہی تیری جان ارتضی شاہ میں بستی ہے ،نوری کے خیال کو جھٹکتا ہوا وہ نفرت سے گویا ہوا تھا ۔

ڈارلنگ اب بہت دیر ہوگئی ہے، اب تک تو میرے آدمی اپنا کام کرچکے ہونگے ،نوری کے چہرے پر سے  رنگ اڑے تھے وہیں وہ  تمخسرانہ انداز میں قہقہ لگا گیا تھا ۔

سائین ،زیر لب بڑبڑاتی وہ زانوں کے بل زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی ۔

*********

شاہ ،پلیز گھر آجائیں،  فون پک کرتے ہی ماہین کی بھرائی آواز سن کر وہ کرب سے آنکھیں میچ گیا تھا،

آپ کو فرق پڑتا ہے ماہین میرے گھر آنے نا آنے سے ۔شرارت سے پوچھتا ہوا وہ ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا پوچھ رہا تھا، 

پڑتا ہے تو  کب سے فون کررہی ہوں ۔کب آئیں گے ،عجیب سی بے چینی ہورہی تھی ماہین کو کو ارتضی کی غیر موجودگی سے ۔

بس آرہا ہوں آپ تھوڑی دیر اور انتظار کرلیں ۔بس آرہا ہوں ۔ارتضی کے کہتے ہی  وہ مسکرائی تھی ۔

غلام رسول یہ بریک کیوں نہیں لگ رہا ۔اگلے ہی لمحے میں ماہین کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی ۔

غلام رسول ،پریشانی میں ارتضی کا فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرا تھا۔

ارتضی آپ سن رہے ہیں ۔ارتضی ،ماہین کیچاواز سننے سے ارتضی قاصر تھا اپنی تمام تر کوشیش کے بعد بھی وہ گاڑی پر بریک نہیں لگا پارہا تھا ۔

سامنے سے آتے لوڈڈ ٹرک کے ساتھ ارتضی شاہ کی گاڑی ٹکرائی تھی ۔گاڑی کے ٹائروں کی چرچڑاہٹ اور کار اور ٹرک کی زور دار ٹکراو کی آواز کے ساتھ ماہین کی دلخراش چینخ پوری حویلی میں سنسناہٹ پھیلا گئی تھی ۔

ارتضی۔ی۔ی۔ی۔ی۔ی۔۔۔۔

سوچ کبھی ایسا بھی ہو میں 

ہنستے ہنستے رو جاؤں اور تو بات بہ بات ہنستی جائے ۔۔۔ 

سوچ کبھی ایسا بھی ہو میں کچھ 

کہتے کہتے رک جاؤں اور تو بات مکمل کرنے ضد کرے ۔۔

 سوچ کبھی ایسا بھی ہو میں یقین کرواؤں

 اپنی محبت پر تجھے اور تو یقین کرنے سے انکاری   ہو ۔

سوچ کبھی ایسا بھی ہو میں عہد کروں پوری زیست کا 

اور تو شور مچائے بے وفائی کا ۔۔۔ 

سوچ کبھی ایسا بھی ہو میں تیری نادانی پر ہنستے ہنستے مر جاؤں 

سامنے تیرے میرا جنازہ ہو اور پھر تو بے یقینی میں ہنستی جائے ۔

سوچ کبھی ایسا بھی ہو تو میری حاصل زیست اور میں تجھے پاکر ادھورا رہ جاؤں ۔۔۔۔۔

ارتضی آپ سن رہے ہیں نا مجھے ۔ارتضی کی طرف سے کوئی جواب نا پاکر اسے اپنی سانس رکتی ہوئی تھی ۔

کیا ماہین بیٹا ،شاہدہ بیگم کے ساتھ دلاور شاہ بھی ماہین کی دلخراش چیخ سے خوفزدہ ہوتے ہوئے اس کے کمرے میں آئے تھے جہاں وہ زمین پر بیٹھی ہوئی ہذیانی انداز میں ایک ہی سوال بار بار دہرا رہی تھی ۔

دیکھیں نا ارتضی کوئی جواب ہی نہیں دے رہے ۔بھیگے رخساروں کو بے دردی سے رگڑتی ہوئی وہ شاہدہ بیگم سے بھرائی آواز میں شکایت کررہی تھی ۔

ہوا کیا ہے ماہین  بیٹا ارتضی سے آپ کا جواب جھگڑا ہوا ہے ۔ماہین کی بے حال ہوتی حالت دیکھ دلاور شاہ بھی فکرمند ہوئے تھے ۔

نہیں بابا میں بات کررہی تھی ارتضی سے اچانک سے کسی دھماکے کی آواز آئی تھی جیسے کوئی بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ان کا ۔

اس کے بعد سے ارتضی کوئی جواب ہی نہیں دے رہے ہیں ۔ میں کب سے پکار رہی ہوں انہیں وہ کوئی رسپونس ہی نہیں دے رہے  ۔ماہین کے بتانے پر دلاور شاہ کے اوسان خطا ہوئے تھے ۔

حیدر کو میں آپ لوگوں کے پاس آنے کا کہہ دوں گا ۔کپکاتے وجود کے ساتھ کہتے ہوئے وہ دروازے کی سمت بڑھے تھے ۔

آپ کہاں جارہے ہیں ۔ماہین کو خود سے لگائے ہوئی شاہدہ بیگم نے استفسار کیا تھا ۔

میں ارتضی کے پاس جارہا ہوں ۔

میں بھی چلوں گی بابا آپ کے ساتھ ارتضی کے پاس ۔ماہین کی بے قابو ہوتی حالت پر شاہدہ بیگم نے انہیں اس پر قابو کرنا مشکل لگا تھا ۔

ماہین ارتضی کو کچھ نہیں ہوگا ۔اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو ارتضی کو برا لگے گا نا ۔اپنا خیال رکھنا ہے نا آپ کو اگر نہیں رکھو گی تو اس کا اثر بچے پر پڑے گا نا  ۔ماہین کے بکھرے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی ہوئی اپنی بار بار ہوتی نم آنکھوں سے مزید پریشان ہوئیں تھیں ۔

ماہین کو تو انہوں نے حوصلہ دے دیا تھا پر اپنی ممتا کو کیسے حوصلہ دیتی جو فقط اپنی اولاد کو صحیح سلامت دیکھنے کی ضد کیے ہوئی تھی ۔

آپ اپنا اور ماہین کا دھیان رکھیئے گا ۔

ارتضی کو کچھ نہیں  ہونا چاہیے سائیں ۔بلآخر وہ مزید پر ضبط نا رکھ سکی تھیں ۔

بنا کوئی جواب دیئے وہ ماہین کی حالت دیکھ  شاہدہ بیگم کو کرب سے دیکھتے ہوئے وہاں سے فورا گئے تھے ۔

دلاور شاہ کو جاتے دیکھ شاہدہ بیگم کے دل میں الگ ڈر دل میں کنڈلی مارے  بیٹھ گیا ارتضی کو سوچ کر ۔

ارتضی،،، ٹھیک ،،،،ہونگے ،،،،،نا ماں ۔ہچکیوں کے بیچ میں بولتی ہوئی وہ شاہدہ بیگم کی غیر ہوتی حالت دیکھ مزید روئی تھی ۔

بھابھی ارتضی بھائی کو کچھ نہیں ہوگا میں کہہ رہی ہوں نا آپ کو ۔رائمہ اپنے کمرے میں سوئی ہوئی تھی ملازمہ کے اٹھانے پر وہ ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی ماہین اور ارتضی کے کمرے آئی تھی ۔دونوں ہاتھوں میں ماہین کے چہرے کو پکڑے وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی ۔

کچھ نہیں ہوگا میرے شاہ کو ہم اللہ سائیں سے دعا کریں گے تو کچھ بھی نہیں ہوگا ساری بری بلائیں ٹل جائے گی ۔ماہین کے آنسو صاف کرتی ہوئی وہ شاہدہ بیگم کے نم لہجے میں چھپے ڈر کو محسوس کرتی ہوں ضبط سے مثبت میں گردن ہلا گئی تھی ۔

اللہ سب کی سنتے ہیں نا ہماری بھی سنے گے  ۔شاہدہ بیگم اور ماہین کو اپنے اوسان کھوتے دیکھ وہ حیدر اور حیا کی راہ دیکھ رہی تھی ۔

سب کی سنتے ہیں اللہ سائیں تو ۔ماہین کو اپنے ساتھ لے کر جاتی ہوئی وہ خود بھی وضو کر رہی تھی ۔

جبکہ شاہدہ بیگم وہی زمین پر بیٹھی ہوئی دعا گو تھیں ۔

 اللہ پاک ارتضی بلکل صیحح ہوں یہ سب میرے دل کا اہم نکلے اللہ پاک آپ سن رہے ہو نا میرے ارتضی کو کچھ نا ہو،بس وہ بلکل ٹھیک ہوں۔انہیں صحیح سلامت میرے پاس بھیج دیں اللہ پاک ۔

میں بہت بار ان سے دور گئی ہوں پر اس بار میں ان کی دوری برداشت نہیں کرپاؤ گی اللہ پاک پلیز اللہ پاک ۔سجدے میں گڑ گڑا کر روتی ہوئی وہ اپنی کنڈیشن تک کو بھولائے ہوئے تھی یاد تھا تو فقط ارتضی شاہ جس کی موجودگی ہی اس کی زیست کا حاصل تھی ۔

 خدا تعالی تو سب کی سنتے ہیں پر کبھی ایسا ہوجاتا ہے کہ کسی زندگی کی خاطر مانگی گئی ہماری تمام تر دعائیں ایک ہی پل میں رد ہوجاتی ہیں اور ہم بے بس ہوکر اپنی بھیگی پلکوں سے دعا کے لیے اٹھائے گئے اپنے خالی ہاتھوں کو تکتے رہ جاتے ہیں ۔

خدا کے فیصلوں کے آگے کسی کی چلی ہے ہمارے پاس تو فقط ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے صبر کا۔جو لینے میں بہت آسان سا الفاظ ہے پر آتا بہت مشکل سے اپنے پیاروں پر  ۔

*******

ارتضی بھائی ۔خون میں لت پت ارتضی کے وجود کو ریسکیو ٹیم کی مدد سے کار سے باہر نکالا گیا تھا ۔وہیں  ارتضی کے ساتھ ہی غلام رسول کو بھی باہر نکالا گیا تھا نیم بےہوشی کے باعث غلام رسول نے سامنے ٹرک میں موجود ڈرائیور کی سمت اشارہ کیا تھا  ۔

جس کا چہرہ بری طرح خراب ہوا تھا  کسی کے بھی پہچاننے کے قابل نا رہا تھا ۔

ارتضی کی پہنی ہوئی سفید شرٹ جو اپنی رنگت بدل کر سرخ ہوگئی تھی ۔

پیشانی پر لگے گہرے کٹ کے باعث ارتضی  بے ہوش ہوگیا تھا۔

وہیں کار کے سائیڈ ڈور کے ٹوٹے ہوئے کانچ  چہرے پر جگہ جگہ لگنے کی وجہ سے ارتضی کا پورا چہرہ خون سے رنگا ہوا تھا ۔

  ،دائیں ہاتھ پر گہرے کٹ کے باعث خون روانگی سے بہہ رہا تھا ۔ارتضی کی یہ حالت دیکھ دلاور شاہ گھٹنوں کے بل زمین پر گرے تھے ۔

جیسے کسی نے زمین ان کے پیروں کے نیچے سے کھینچ لی ہو ۔حیدر کی حالت بھی ان کے جیسی ہی تھی ارتضی کی حالت دیکھ کر لئی بار پکارنے پر بھی ارتضی کو بے ہوش دیکھ وہ اپنے آنسو پر ضبط کھو گیا تھا ۔

پورے گاؤں میں ارتضی شاہ کے بھیانک ایکسیڈنٹ کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔

حویلی کے تمام ملازم و ملازمہ سمیت بچے تک ارتضی اور غلام رسول کے لیے دعا گو تھے ۔

ہسپتال کے آئی سی یو روم میں آج ارتضی شاہ سمت دو اور شخص  زندگی جینے کی خاطر جدد کررہے تھے ۔ان تینوں میں کی طرف سے کوئی بھی کوشش نہیں دیکھی گئی تھی جیسے زندگی جینے کی رمق چھوڑ گئے ہو  ۔

آئی سی یو روم کے باہر کھڑے دلاور شاہ اور حیدر شاہ خود کو بے بس محسوس کررہے تھے ۔

میری آہ تو نہیں لگ گئی میرے ہی بھائی کی خوشیوں کو ۔حیا کے ساتھ ساکت وجود لیے بیٹھی ماہین جو دنیا جہاں سے غافل ہوچکی تھی ۔

ماہین کی حالت اور اندر آپریشن تھیٹر میں موجود ارتضی کی تشویشناک حالت دیکھ کر حیدر شاہ خود کو ان سب کا قصور وار سمجھ رہا تھا ۔

وہیں دوسری چیئرز پر شاہدہ بیگم کے ساتھ رائمہ اور صائمہ انصاری بھی ان کو تھامے ہوئی تھیں ۔

حوصلہ رکھیں اور خدا پر یقین بنائے رکھیں ۔وہاب انصاری کے ہمدردانہ انداز پر دلاور شاہ اپنی تمام تر نفرت بھولائے ان کے گلے سے لگے تھے ۔

ایک باپ اچھے سے دلاور شاہ کا درد سمجھ سکتے تھے جو وہ اس وقت جھیل رہے تھے ۔

ماہین بھابھی آپ پریشان نا ہوں ارتضی بھائی کو کچھ نہیں ہوگا  ۔وہاج جو کافی دیر سے خاموش کھڑا سب کی بگڑی حالت دیکھ رہا تھا حوصلہ باندھتا ہوا وہ سب سے پہلے ماہین کے پاس کے آیا تھا ۔

جو آئی سی یو روم کے دروازے پر نظریں گاڑے سب سے بے خبر بیٹھی ہوئی تھی ۔

ماہین کی طرف کوئی جواب نا پاکر وہ وہاں سے گیا تھا کہ اپنے بجتے فون پر نوری کالنگ دیکھ پہلی ہی کال پر فون ریسوو کرگیا تھا ۔

سائین کیسے ہیں ۔بھرائی آواز میں بولتی ہوئی وہ وہاج کو سختی سے دونوں لب دبانے پر مجبور کر گئی تھی ۔

کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ضبط سے کہتا ہوا وہ ماہین کی حالت دیکھ کر کرب سے آنکھیں میچ گیا تھا ۔

یہ سب ریحان ملک نے کروایا ہے سائین کے ساتھ ۔نوری کے بتانے پر وہاج کی آنکھیں شاکڈ سے پھٹی تھیں ۔

تم سچ کہہ رہی ہو ۔ایک ایک کرکے سب کو دیکھتا ہوا وہاج رائمہ کے پیچھے آکر کھڑے ہوتے شاہ زین کو دیکھ کر کرب سے  نگاہیں پھیر گیا تھا ۔

پولیس اس کی تلاش کررہی ہے مگر اس کا ابھی تک کچھ پتا نہیں چل سکا ہے ۔نوری کی انفارمیشن ملتے ہی پولیس نے ریحان ملک کی تلاش جاری کردی تھی جو نجانے کہاں چھپ کر بیٹھا تھا ۔

میں فون رکھتا ہوں جیسے ہی ارتضی بھائی کے کوئی خبر ملتی ہے تو تمہیں بتاتا ہوں ۔شرمندگی سے گہرا ہوا وہاج سب سے الگ تھلگ کھڑا ہوا تھا ۔

ہمت مت ہاریں رائمہ جی ارتضی سر کو کچھ نہیں ہوگا ۔شاہ زین کے چند ہمدردی سموئے الفاظ رائمہ کو زیادہ نا سہی مگر کچھ تو حوصلہ دے گئے تھے ۔

آپریشن تھیٹر کے دروازے کے کھلنے کی آواز پر سب کی نظریں باہر آنے ڈاکٹر پر ٹھہری تھی ۔

دو پیشنٹ خطرے سے باہر ہیں جب کہ تیسرے کو ہم اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی نہیں بچا پائے ایم سوری ۔سنیئر ڈاکٹر کہہ کر وہاں سے گئے تھے ۔

انہیں خاموشی سے سر جھکا کر جاتے دیکھ دلاور شاہ نے آنسو سے بھری آنکھوں سے حیدر کی جانب دیکھا تھا جس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر رخسار بہے تھے ۔

ارتضی تو ٹھیک ہیں نا ۔ماہین کا قفل ٹوٹا تھا ۔

مگر اس کے سوال کا جواب یہاں موجود کسی کے بھی پاس نہیں تھا ۔

بتائیں نا ارتضی ٹھیک ہے نا انہیں کچھ نہیں ہوا نا ۔

حیا تم بتاؤ ارتضی ٹھیک ہے نا ۔دانتوں تلے لب دبائے حیا خود پر ضبط کیے حیدر کی سمت دیکھ رہی تھی جس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

کچھ دیر بعد آپریشن تھیٹر سے باہر آتے ہوئے ڈاکٹر عامر نم آنکھیں لیے سب کی آس بھری نظروں سے گھبرائے تھے ۔

اسٹیبل پیشنٹس کو اسپیشل وارڈ میں شفٹ کردیا گیا ہے ۔

جاکر مل سکتے ہیں آپ لوگ ان سے ۔بنا نظریں ملائے ڈاکٹر عامر وہاں سے جانے لگے تھے جب ماہین کے سوال نے ان کے قدم جکڑے تھے ۔

ارتضی ٹھیک ہے نا ڈاکٹر عامر ۔آس بھرے لہجے میں پوچھتی ہوئی وہ ڈاکٹر عامر کی خاموشی سے گھبرائی تھی ۔

ایم ۔

ماہین ۔۔ بے ہوش ہوکر گرتی ہوئی ماہین جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر عامر کو بیچ میں روک گئی تھی ۔

*******

پانچ سال بعد ۔

۔

۔

۔

۔

دیکھ کر چلو تباہی اب میری ساری ڈرائنگ خراب کردیتی تم ۔جمعے کے دن کی نسبت ماہین کی لاکھ منتوں کے بعد مقتدی ارتضی شاہ نے آج سفید شلوار سوٹ پہنا ہوا تھا۔اس سے الجھن کا شکار ہوتا ہوا وہ فرش پر کلرز اور پیپرز بکھرے ہوئے ان پر جھکا ہوا تھا ۔اپنی دھن میں چلتی ہوئی صدا کی چھوٹی تباہی بنا دیکھے مقتدی کے پیپرز پر پیر رکھنے ہی والی تھی کہ مقتدی نے اپنے پیپرز پیچھے کھینچ لیے تھے جس سے اس کی ڈرائنگ خراب ہونے سے بچی تھی ۔

بائی متتد بتائی بولتا  ،مقتدی کے ساتھ ہی نیچے فرش پر بیٹھا ہوا حدید حیدر شاہ مقتدی ایک جیسے ہی  کپڑے پہنے ہوئے تھا ۔

کیا ٹھیک ہی تو کہا ہے مقتدی نے ۔ ہدیہ کی پکار پر اس نے آج بھی مقتدی ہی سائیڈ لی تھی جو جائز بھی تھی ۔۔

حدید کے بولنے کی دیر تھی ہدیہ نے مقتدی کے اچھے سے سیٹ کیے بالوں پر دھاوا بول دیا تھا ۔

تباہی میرے بال چھوڑو ۔ہدیہ کی گرفت مضبوط ہوتے دیکھ مقتدی نے بھی اس کے بالوں کی بندھی چھوٹی سی پونی کو پکڑا تھا ۔

دونوں کو گتھم گتھا  ہوتے دیکھ جلدی سے گیا کو بولا کر لایا تھا جو کچھ دیر پہلے ہی ان دونوں کے پاس سے اٹھ کر گئی تھی۔

یااللہ خیر ۔دنوں کو الگ کرتی ہوئی حیا ہدیہ کے ہاتھوں میں مقتدی کے بھورے بالوں کو دیکھ کر اسے غصے گھور گئی تھی جبکہ مقتدی اپنے بالوں کو اس کے ہاتھوں میں دیکھ کر خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا ۔

تمہیں میں بتاتی ہوں ہدیہ کی بچی ۔مقتدی کو خود سے لگاتی ہوئی حیا غصے سے بولی تھی ۔حیا کے بولنے کی دیر تھی کہ ہدیہ نے سیدھا اسٹاپ ماہین کے پاس لگایا تھا۔

رونا نہیں ہے مقتدی میں ابھی اپنے بیٹوں کے لیے پاستا بنا کر لاتی ہوں اوکے میرے بہادر بیٹے ۔مقتدی کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر وہ دونوں کو پیار کرتی ہوئی کچن کی سمت بڑھی تھی ۔ 

مقتدی یہ کیا حرکت کی ہے آپ نے ۔ہدیہ کی شکایت پر مقتدی کے کان پکڑ  کر پوچھتی ہوئی ماہین ہدیہ کے سرخ چہرے کو دیکھتی ہوئی غصے سے بول رہی تھی ۔

میں نے کیا کیا ہے مما ۔معصومیت سے کندھے آچکا کر پوچھتا ہوا وہ ماہین کو اس میں ارتضی دِیکھا تھا ۔اور ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کا غصے جھاگ کی مانند بیٹھ گیا تھا ۔

ایک آنکھ دبائے مقتدی ماہین کے ہاتھ سے اپنا کان چھوٹتے دیکھ شرارت سے مسکرایا تھا ۔

آنی ۔جھوت بولا ہیے متتد ۔مقتدی کو ایک آنکھ دباتے دیکھ تین سالہ ہدیہ ماہین کو کندھے سے ہلاتی ہوئی ٹوٹے پھوٹے الفاظ استعمال کرتی ہوئی بولی تھی ۔

کیا ہورہا ہے یہاں ۔حیا کی آواز پر جہاں مقتدی کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی وہیں ہدیہ ماہین کی ٹانگوں سے لپٹی تھی ۔

کچھ نہیں تم نے اور تمہارے بے جا لاڈ پیار نے مقتدی کو بگاڑ دیا ہے حیا دیکھو ہدیہ کی کیا حالت کی ہے اس جنونی نے ۔ہدیہ کی پونی جو تھوڑی دیر پہلے ہی ماہین نے بنائی تھی جو اب مقتدی نے کھینچ کر اس کی پونی کو اجڑا چمن بنا دیا تھا۔

اووو میری تباہی کا یہ حال مقتدی نے کیا ہے ۔حیا کو سائیڈ بدلتے دیکھ مقتدی کو بنا کسی غلطی کے ماہین کے ہاتھوں  اپنی شامت آتی دیکھائی دی تھی ۔

یا یہ کارنامہ آپ نے خود انجام دیا ہے مقتدی کو ڈانٹ پڑوانے کے لیے ۔یہ نہیں بتایا بڑی مما کو پہلے آپ نے مقتدی کے بال نوچے تھے ۔ماہین کی نظریں فورا سے مقتدی پر گئی تھیں جو چہرے پر حددرجہ معصومیت سجائے حدید کے ساتھ خاموش کھڑا تھا ۔

ماں ہوں تمہاری ہدیہ تمہیں تباہی بنے صرف  تم تین سال ہوئے ہیں میں سالوں سے تباہی ہوں ۔ماہین سے واپس لپٹتی ہوئی ہدیہ رو دی تھی اپنی چوری پکڑے جانے پر ۔

اچھا نا کچھ نہیں ہوتا اتنا مت ڈانٹوں بچی ہے ۔ہدیہ کو روتے دیکھ ماہین نے حیا کو خاموش کروایا تھا ۔

 کیوں میرا مقتدی بچہ نہیں ہے ۔حیا اور مقتدی کی بے جا محبت پر ماہین فقط مسکرائی تھی ۔

نہیں ہے ۔شرارت سے گویا ہوتی ہوئی وہ مقتدی کے حیرت سے کھلے منہ کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔

خالہ جانی سن رہی ہیں نآ آپ کہ آپ کا مقتدی بچہ نہیں ہے بوڑھا ہوگیا ہے ۔وہ بھی حیا تھی کہاں باز آنے والی تھی ۔

مقتدی کو حدید کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے جاتے دیکھ ماہین گھٹنوں کے بل بیٹھتی ہوئی ہدیہ کے آنسو صاف کرتی ہوئی مسکرائی تھی ۔

مقتدی بڑے بھائی ہیں آپ کے اور اچھے بچے اپنے سے بڑوں کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرتے نا،پیار سے سمجھاتی ہوئی ماہین حیا کو دیکھ گئی تھی جو ہدیہ کو گھور رہی تھی ۔

تھوری باری مما ۔(سوری پیاری مما)۔وہ کہہ کر وہاں سے بھاگ گئی تھی ۔

ہدیہ تو جا چکی ہے تم مجھے کس خوشی میں گھور رہی ہو۔حیا کو خود کو گھورتے پاکر ماہین نے استفسار کیا تھا ۔

میری بیٹی کو یہ بھائی بھائی ناسکھائیں ۔حیا چبا کر بولی تھی ۔

حیا کی بات کو سمجھتی ہوئی وہ قہقہ لگا گئی تھی ۔

ہدیہ کو گود میں لیتے ہی حیا نے مقتدی کو اپنا داماد بنانے کی خواہش ماہین کے سامنے ظاہر کی تھی ۔

جب سے ہی اس نے ہدیہ کو سختی سے تنبیہ کیا تھا مقتدی کو بھائی پکارنے سے۔

جھلی بڑے ہوکر خود فیصلہ کرلیں گے ابھی انہیں بچپن انجوائے کرنے دو ۔حیا کے سر پر ہلکی سی چت لگاتی ہوئی سنجیدگی سے بولی تھی ۔

شاہ زین اور رائمہ کب تک آرہے ہیں ۔ماہین کے اچانک سوال پر گیا نے کندھے اچکائے تھے ۔

شاید حیدر  کے ہی ساتھ آئیں ۔اندازہ لگاتی ہوئی وہ کھیرے کے کٹے ہوئے سلائس منہ میں رکھتی ہوئی بولی تھی ۔

جبکہ ماہین مہذ سر ہلا کر رہ گئی تھی ۔

*******

کب آئیں گی مادام آپ باہر ۔کار میں بیٹھا ہوا کافی دیر سے انتظار کرتا ہوا زچ آیا تھا ۔

سوری مصروفیاتکی وجہ سے دیر ہوگئی ۔ود آوٹ میک اپ کے بالوں کو کیچر میں مقید ہوئے نوری بالون میں انگلیاں چلاتی ہوئی بولی تھی ۔

میں نے تم سے جو سوال کیا تھا ،ڈرائیوو کرتا ہوا وہ سنجیدگی سے بولا رہا تھا ۔

کون سا سوال  ۔آج کل اس کی مصروفیات کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی جس کے باعث وہ اس کے سوال کو بھول گئی تھی ۔

گاڑی کو سائیڈ پر لگاتا ہوا وہ لمبا سانس باہر خارج کرتا ہوا نوری کو پریشان کررہا تھا ۔

کیا تم میرے بچوں کی ماں بننا پسند کرو گی پریہا نور ۔وہاج کے پرپوز کرنے کے انداز پر وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے کھلکھلائی تھی  ۔

یہ سوال پہلی بار پوچھ رہے ہو مجھ سے ۔اور اس کا جواب یہ ہے کہ ۔وہاج اس کے سسپینس دینے پر ضبط سے آنکھیں میچ گیا تھا۔

مجھے اپنے بچوں کے بابا کے روپ میں تم قبول ہو وہاج انصاری۔نم آنکھوں سے وہاج کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر اس کے ساتھ گزرے پانچ سال جس میں اسے فقط عزت ملی تھی ۔

وہ کیوں اپنے مقروض کو انکار کرتی جس کی وجہ سے آج وہ عزت سے پکاری جاتی تھی ۔

دونوں کی زندگی آسان نہیں تھی مگر ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہوئے جہاں وہ پانچ سال کا طویل عرصہ گزار چکے تھے وہیں پوری زندگی بھی ایک دوسرے کو خوش رکھنے میں گزارنے والے تھے ۔

زیست کے اس مسکل سفر میں وہ ایک دوسرے کو حاصل کرکے مسرور تھے ۔

********

فرصت مل گئی میرے بچوں کے ساتھ بچی بنی رہنے والی ایک بیوی کو کہ ان بچوں کا ایک عدد باپ بھی جو اپنی بیوی کی آواز سننے کے لیے بے چین بیٹھا ہے ۔حیدر کے پیار بھرے شکوے پر وہ فقط مسکرائی تھی کیونکہ اس پر اپنی ناراضگی بھی تو جتانی تھی حیا کو ۔

میری چھوٹی تباہی اور میرا معصوم سا بیٹا سو گیا ہے ۔اپنے ساتھ لیتی ہوئی ہدیہ کو دیکھ کر مسکرائی تھی وہ تھی اس ہی جیسی سوتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر شرارت عیاں تھی ۔

بڑی مشکل سے سلایا ہے تمہاری تباہی کو اور رہی بات میرے معصوم ککڑی جیسے بیٹے کی تو وہ اپنے بھائی سے ملنے گیا تھا۔اب میرا حال پوچھوں ۔یہ سہی ہے بھئی شادی کے بعد تھوڑا بہت بیوی کا حال پوچھ لیتے ہیں ان کے شوہر اور بچوں کے بعد کون بیوی کیسی بیوی کہاں کی بیوی ۔حیا کے انداز پر قہقہ لگاتا ہوا وہ حیا کو زہر لگا تھا۔

مجھ سے محبت نہیں کرتے نا آپ حیدر جب ہی تو میری فکر نہیں کرتے آپ ۔حیا کے شکوے پر حیدر کے چہرے پر سنجیدگی طاری ہوئی تھی ۔

تمہیں اپنے دل میں بسا کر دل کی بیماری سے جیتا ہوں اور پھر شکوہ ہے کہ میں محبت نہیں کرتا ۔سنجیدگی سے بولتا ہوا حیدر حیا کو سرشار کرگیا تھا ۔

کب آئیں گے آپ حیدر مجھے بہت یاد آرہی ہے تمہاری۔کچھ توقف کی خاموشی کے بعد حیا نے افسردگی سے پوچھا تھا۔

ایک دو دن میں تمہارے پاس ہوں گا کیونکہ میرا بھی اپنی تباہی کے بغیر دل نہیں لگ رہا ۔ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے دونوں ہی ایک دوسرے کی یاد میں اداس تھے ۔

حدید آنکھیں بند کرو ورنہ مار کھاو گے مجھ سے ۔حیا کے انداز پر مسکراتا ہوا حیا کو ایک اچھی بیوی اور اب ایک اچھی ماں کے روپ میں دیکھ کر حیدر اپنے انتخاب پر سرشار محسوس کررہا  تھا ۔

********

مقتدی مما سوری کررہی ہیں نآ بیٹا ۔مقتدی کو خود سے لگائے ہوئے ماہین لاڈ سے بولی تھی ۔

نو مما آپ ہر بار تباہی کی ہی بات مانتی ہیں میری نہیں ۔خفگی سے بولتا ہوا وہ ماہین کے پیار کرنے پر آنکھیں بند کیے مسکرا رہا تھا جسے ماہین دیکھنے سے  قاصر تھی ۔

جب ہی اسے منانے کی کوشش کررہی تھی ۔

وہ چھوٹی ہیں نا آپ سے اس لیے بیٹا ورنہ مما آپ سے بہت پیار کرتی ہیں ۔مقتدی کے گال پر لب رکھتی ہوئی وہ مسکرائی تھی مسکرانے کی وجہ سے مقتدی کے گال پر ابھرتے گڑے کو دیکھ کر ۔

مطلب میرا بیٹا مجھےتنگ کررہا ہے ۔ماہین کی بات پر فورا سے مقتدی اپنے لب دبا گیا تھا۔

ہاں مما کیونکہ آپ اس تباہی کی سائیڈ لے رہی تھیں نا اس لیے۔ماہین کے چہرے پر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ رکھتا ہوا معصومیت سے بول رہا تھا۔

مما ہمیشہ کی آپ کی سائیڈ پے مقتدی بس آپ ہدیہ کو تباہی مت کہا کریں اسے اچھا نہیں لگتا ۔اس کے ہی انداز میں بولتی ہوئی وہ مقتدی کو مسکراتے چہرے کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔

چاچو صحیح کہتے ہیں وہ ہے ہی تباہی  ۔مقتدی کی بات پر ہستی ہوئی اسے اپنے سینے سے لگا گئی تھی ۔

بڑی ماں بیٹے کی محبت دیکھنے کو مل رہی ہے آج تو ۔ریڈ کلر کے فیری فراک میں نو ماہ کی آمائرہ کو گود میں لیے ارتضی ماہین اور مقتدی کو دیکھ کر کمرے میں داخل ہوا تھا ۔

ہم دونوں کی محبت تو چلو گھر تک محدود ہے آپ کی طرح تو نہیں ہے جب بیٹی کی یاد آئی غلام رسول کو کہا اور اسے اپنے پاس بلوالیا ۔چبا کر کہتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی تھی ۔

میں حدید کو گڈ نائیٹ بول کر آرہا ہوں کیونکہ میں آج آپ دونوں کے  ساتھ سوؤں گا۔ ارتضی سے مل کر خوشی سے کہتا ہوا  مقتدی باہر گیا تھا ۔

بڑی برہم نظر آرہی ہیں بیوی ہماری آج ہم سے ۔آمائرہ کے گرد تکیے رکھ کراسے بیڈ پر بیٹھا کر ارتضی ماہین کے پاس آ کھڑا ہوا تھا ۔

آپ اچھے سے جانتے ہیں ارتضی آپ کا دیر سے گھر آنا میری روح کو جھنجوڑ دیتا ہے پھر بھی آپ اتنی دیر سے آئے  ہیں ۔خفگی سے کہتی ہوئی وہ اب تک اس حادثے کو بھول نہیں سکی تھی ۔

جب جب آپ دیر سے گھر آتے ہیں میرا دل عجیب وسوسوں میں گھر جاتا ہے ۔

وہ حادثہ آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی مانند چلنے لگتا ہے اگر اس ریحان کی جگہ آپ ہوتے تو یہ سوچ کر ہی میری جان نکلتی ہے ۔

اگر اس دن آپ کو کچھ ہوجاتا نا ارتضی موت آتی یا نا آتی مگر میں جیتے جی مرجاتی ۔ارتضی کے سینے پر سر رکھے ہوئے وہ نم لہجے میں بول رہی تھی ۔

جو ہوا نہیں ہے اسے سوچ کر خود کو ہلکان کیوں کریں ۔محبت پاش لہجہ اپنائے وہ ماہین کے بالوں پر  لب رکھ گیا تھا ۔

ریحان نے جو کیا اس نے اپنی بھیانک موت کے ذریعے پایا تھا ۔

ٹرک میں موجود ڈرائیور کی جگہ بیٹھا ہوا  ریحان  اپنی موت آپ بلوا گیا تھا ۔

خدا کی دی ڈھیل کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ریحان کی ارتضی کی موت کی سازش میں خود کی موت کا سامان کرگیا تھا۔

ڈاکٹرز کی لاکھ کوشش کے بعد بھی وہ زندگی کی بازی ہار گیا تھا ۔

مجھے کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا ماہین کیونکہ آپ کی اور باقی سب کی دعائیں تھیں نا میرے ساتھ ۔ماہین کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے ارتضی خود بھی حیران ہوا خدا کے کرشمے کے سامنے جو وہ اتنے بھیانک ایکسیڈنٹ کے باوجود بھی وہ آج اپنے گھر والوں کے درمیان تھا ۔

میری دعائیں اب بھی آپ کے ساتھ ہیں اور ساری عمر آپ کے ساتھ رہے گی۔آنکھیں بند کیے وہ بولتی ہوئی وہ مسکرائی تھی ۔

یہ لیں آپ کے ساتھ مجھے دیکھا نہیں ہے کہ رونا شروع کردیا آپ کی بیٹی نے ۔آمائرہ کو روتے دیکھ خفگی سے بولتی ہوئی ارتضی کو قہقہ لگانے پر اکسا گئی تھی ۔

مجھے جلن ہونے لگ گئی ہے اب اپنی ہی بیٹی سے ۔بیڈ پر رکھے ٹیڈی بیر کے ساتھ کھیلتی ہوئی آمائرہ جو رونا شروع  کرچکی تھی اسے دیکھ کر خفگی سے بولی تھی ۔

ایسی بات ہے مجھے تو اب پتا چلا ہے ۔ماہین کو خود سے لگائے وہ آمائرہ کی سمت بڑھا تھا۔

 آپ نے اس کی عادت بگاڑ دی ہے ارتضی آپ اسے کہیں نا دکھے تو نواب زادی رونے لگ جاتی ہیں اور پھر مجھ سے چپ بھی نہیں ہوتی ۔ارتضی کی گود میں آتے ہی آمائرہ کو

چپ ہوتے دیکھ ماہین افسردگی سے بولی تھی ۔

ہاں تو آپ ویڈیو کال پر میری بات کروا تو دیتی ہیں ۔پھر شکوے کس لیے کررہی ہیں آپ ۔آمائرہ کے گالوں پر پیار کرتا ہوا وہ شرارت سے گویا ہوا تھا ۔

مجھے سے زیادہ ہیر کے ساتھ اٹیچڈڈ ہے ،ایک اور شکوہ جو کہیں   نا کہیں درست بھی تھا ،جب تک ارتضی وارڈز کے راؤنڈ پر جاتا تھا جب تک آمائرہ ڈاکٹر ہیر کے ساتھ رہتی تھی ۔

ماما ۔ماہین کے درد بھرے شکوے پر آمائرہ کے فقط ماما پکارنے پر ٹھنڈی اوس پڑی تھی ۔

لو بھئی میری بیٹی نے آپ کے تمام شکوے ایک بار میں ختم کردیئے ۔ماہین کے مسکراتے چہرے کو دیکھتا ہوا وہ خود بھی مسکرا رہا تھا ۔

ہماری بیٹی نے ۔۔اور میں کہاں  گیا مما ۔ماہین کی بات بیچ میں کاٹتا ہوا مقتدی دونوں کے ساتھ لپتٹا تھا ۔

 مکمل ہوا میری  زیست کا کٹھن سفر

تیرا ساتھ ہی میرے لیے حاصل زیست ٹھہرا ۔۔۔

ختم شد ۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hasil E Zeest Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hasil E Zeest  written by Mehwish Ghaffar .Hasil E Zeest  by Mehwish Ghaffar  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment