Ain Se Ishq Novel by Samina Jannat Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 7 September 2024

Ain Se Ishq Novel by Samina Jannat Complete Romantic Novel

Ain Se Ishq By Sameena Jannat New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ain Se Ishq Novel by Samina Jannat Complete Romantic Novel 

Novel Name: Ain Se Ishq 

Writer Name:Sameena Jannat

Category: Complete Novel

ع " سے عشق ،  " ش" سے شکست ہوا ۔۔۔۔

عشق مکمل تب ہوا جب "ق" سے قلندر ہوا۔۔۔۔

تم نے دیکھی ہی نہیں عشقِ قلندر کی دھمال ۔

پاؤں پتھر پہ بھی پڑتا ہے تو دھول اڑتی ہے ۔

انشاءبنت بیگ احمد بحق مہردس لاکھ روپے سکے راج الوقت عبدلاحد خان  ولد اسلم خان کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ 

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟

-

اپنی زندگی کا اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے ۔۔۔۔۔ انشا ایک لمحے کو پھر رکی تھی۔۔۔۔۔۔۔

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟ 

۔

کہیں میں خود غرض تو نہیں ہورہی ۔۔۔

کہیں میری وجہ سے احد کی زندگی کو خطرہ تو نہیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ اگر بھائی اور ڈیڈ کو پتہ چل گیا تو وہ ۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔۔

انشاء سوچ کر ہی گھبرائی تھی ۔

مولوی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں انشاء ۔۔۔۔۔۔۔ سارہ نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

انشاء نےنظراٹھا کر  سارہ کو دیکھا ۔۔۔

عشق میں رسک لینا پڑتا ہے ۔۔۔۔سارہ نے سرگوشی کی ۔۔

قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قبول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قبول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

سب نے دعائے خیر کے لئے ہاتھ اٹھائے ۔۔۔

مبارک ہو ، مبارک ہو ۔۔۔۔۔۔سب نے انشاء اور احد کو مبارکباد دی ۔۔۔

سارہ انشاء کو اس کے روم تک لے گئی ۔۔۔

بہت بہت مبارک ہو تمہیں ۔۔۔سارہ نے اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے کہا ۔۔

شکریہ بھابھی ۔۔۔۔۔

یہ کیا تم رورہی ہو ۔۔۔سارہ نے انشاء کی نم آنکھیں دیکھ کر کہا ۔۔۔

نہیں ۔۔۔یہ تو خوشی کے آنسو ہیں ۔۔۔ایک آنسو اس کے رخسار پر پھسلا تھا  ۔۔۔۔۔

انشاء مت رو ۔۔۔سارہ نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔

بھابھی کاش ہماری فیملی ہمارے ساتھ ہوتی ۔۔۔کاش بھائی اور ڈیڈ مان جاتے ۔۔۔۔۔۔اور اپنے اسٹیٹس کو بیچ میں نہ لاتے ۔۔۔۔تو آج مجھے یہ قدم نہ اٹھانا پڑتا ۔۔۔۔

انشاء کی آنکھوں میں پھر سے پانی ابھر آیا 

۔

انشاء اب ان باتوں کا کیا فائدہ۔۔

جو فیصلہ کر چکی ہو ۔۔۔۔۔۔۔اس پر ملال کیسا ۔۔۔؟

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

دو گھنٹے ، صرف دو گھنٹوں میں انشاء کہاں غائب ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔

تم سے دو گھنٹے بھی انشاء کی نگرانی نہیں ہوسکی ۔۔۔۔۔۔

کیسی ماں ہوتم۔۔۔۔۔

راؤ بیگ اپنی بیگم پہ چلا رہے تھے ۔۔۔

میں ، وہ میں ۔۔۔میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے ۔۔

فائزہ بیگم ڈرتے ڈرتے کہہ رہی تھیں ۔۔۔

پھر کس کا قصور ہے ۔۔۔۔

تمہارا قصور نہیں ہے تو کیا میرا قصور ہے ۔۔۔۔۔۔۔ راؤ بیگ کی آواز بلند ہوئی تھی ۔۔۔

فائزہ بیگم راؤ بیگ کی بلند آواز سے دبک کررہ گئی ۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سارہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی ۔

ملال نہیں ہے..۔۔۔۔۔بالکل نہیں ہے ۔۔۔۔احد کو پالینے کا ملال کیسا ۔۔۔۔۔؟

۔

میں بہت خوش ہوں کہ میں احد کی زندگی میں شامل ہوئی ۔۔۔۔۔ورنہ تو بھائی اور ڈیڈ میری شادی اس لفنگے ، شرابی جاوید سے کروا دیتے ۔۔۔

۔

مجھے تو بس دکھ اس بات کا ہے کہ میری شادی میں میرے ماں باپ ، بہن بھائی شامل نہیں ہوسکے ۔۔۔

۔

ان باتوں کو مت سوچو ۔۔۔۔۔

اس پل تمہیں جو خوشیاں ملی ہیں ۔۔۔ان خوشیوں کو دل سے ویلکم کہو ۔۔۔

اس پل کو جیو ۔۔۔یہ پل بار بار نہیں آتا زندگی میں ۔۔۔سارہ نے اسے حوصلہ دیا

جی بھابھی ۔۔

چلو ، اب میں چلتی ہوں ۔۔ احد ویٹ کررہا ہوگا نہ تمہارا ۔۔۔

اور ہاں ۔۔۔سارہ جاتے جاتے رکی ۔۔

تم بھی مجھے احد کی طرح صرف سارہ کہہ سکتی ہو ۔۔۔۔۔یہ بھابھی کہنا ضروری نہیں ہے ۔۔۔۔

نہیں بھابھی ۔۔!!

مجھے رشتوں کو ان کے نام سے بلانا اچھا لگتا ہے ۔۔۔۔ انشاء نے مسکرا کر سارہ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

سارہ بھی جواباً مسکرائی۔۔۔۔

اوکے ایز یو وش ۔۔۔۔۔۔اور بیرونی دروازے سے باہر چلی گئی ۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہونے سے پہلے پہلے انشاء کو ڈھونڈو ۔۔۔

 جہاں سے مرضی ڈھونڈ کر لاؤ ۔۔۔۔۔

۔

صاحب ہم نے ائیرپورٹ ، ریلوے اسٹیشن ، بس اسٹینڈ سب دیکھ لیا ہے ۔۔۔ بی بی صاحبہ کہیں نہیں ملیں ۔۔۔

۔

کہیں نہیں ملی ۔۔۔کیا مطلب ۔۔۔۔؟

ایک دو گھنٹوں میں ، صرف ایک دو گھنٹوں میں انشاء کو آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی ۔۔۔

دفع ہوجاؤ۔۔۔۔۔میری نظروں سے ۔۔ 

اور اب تب آنا جب انشاء کو ڈھونڈ لو۔۔۔

ارباب نوکروں پہ چلارہا تھا ۔۔۔

جی چھوٹے صاحب ۔۔۔۔۔کہتے ہوئے تین سے چار نوکر وہاں سے خوف کے مارے چلے گئے ۔۔۔

۔

ڈیڈ ۔۔۔۔ ماں پہ مت چلائیں ۔۔۔۔۔

انشاء کو ہم ڈھونڈ ہی لیں گے ۔۔۔آپ فکر نہ کریں ۔۔۔۔

ارباب نےراؤ بیگ کا غصہ ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

۔

کیسی ماں ہے یہ۔۔۔جس سے اپنی ایک بیٹی نہیں سنبھالی گئی۔۔۔

وہ چھٹانک بھر لڑکی ہماری عزت کو یوں روند کر چلی گئی ۔۔۔۔۔۔

الیکشن سر پر ہیں ۔۔۔

لیکن !!!!

اسے ، اور اس کی بیٹی کو کوئی پرواہ نہیں ۔۔۔۔۔راؤ بیگ ابھی تک فائزہ بیگم پرچلارہے تھے ۔۔۔

۔

الیکشن کے نام پر۔۔۔راؤ ارباب کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوا تھا ۔۔۔

۔

آپ فکر نہ کریں ڈیڈ۔۔۔ انشاء کو تو میں کہیں سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا ۔۔۔۔۔۔چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چھپ کر بیٹھ جائے ۔۔۔

۔

چھوڑوں گا نہیں میں اس لڑکی کو ۔۔۔۔۔۔۔

ارباب نے پانچوں انگلیاں مٹھی میں بند کرتے ہوئے کہا ۔

۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ گھونگھٹ اوڑھے بیڈ پہ لہنگا پھیلائےگردن جھکائے بیٹھی احد کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

جب دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔۔۔۔

انشاء کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی ۔۔۔

وہ دبے قدموں سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب وہ اس کے سامنے بیڈ پہ آبیٹھا ۔۔۔

۔

سارے کمرے کو گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔۔۔

ایک خوبصورت سی ، پھولوں سے بھری سیج بنائی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔

پورا کمرہ گلاب کی خوشبو سے مہک رہا تھا ۔

بیڈ پہ پھولوں سے 

" A Loves I "

لکھا ہوا تھا ۔۔۔

انشاء گھونگھٹ آڑھے احد کے سامنے بیٹھی تھی ۔

جب  احد نے انشاء کا گھونگھٹ اٹھایا ۔۔۔۔۔۔

وہ نظر اٹھائے بغیر نیچی نظریں کئے بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔

احد نے ہاتھ بڑھا کر  انشاء کا چہرہ اوپر اٹھایا ۔۔۔

ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔۔ 

بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔

انشاء  نظریں جھکائے بیٹھی تھی ۔انشاء نے نظر نہیں اٹھائی تھی ۔۔۔

انشاء ۔۔۔۔۔

ادھر دیکھو ۔۔۔میری طرف ۔۔۔

احد نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

انشاء نے نظر اٹھا کر احد کو دیکھا ۔۔۔

۔

انشاء یہ کیا ۔؟

تمہاری آنکھیں نم ہیں ۔۔۔؟

یہ آنسو کیوں ؟

۔

احد نے انشاء کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پوچھا ۔۔۔اور ہاتھ بڑھا کر اس کی آنکھ کا کنارہ صاف کیا ۔

۔

احد ۔۔۔۔۔

بھائی اور ڈیڈ ۔۔۔۔

۔

میری وجہ سے ۔۔۔۔ صرف میری وجہ سے وہ تمہاری جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔

احد ۔۔۔۔۔۔

شاید میں خود غرض ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ میں اپنی محبت کی قیمت تمہاری جان دے کر نہیں ادا کرسکتی ۔۔۔

انشاء بول رہی تھی جب احد نے اس کے لبوں پہ ہاتھ رکھا ۔۔

بس ۔۔۔۔۔۔اور کچھ مت کہنا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بیٹا میں نے کچھ نہیں کیا ۔

اس سب میں میرا کوئی قصور نہیں ۔

مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ انشاء اس شادی سے راضی نہیں ۔۔۔

فائزہ بیگم ارباب کے سامنے خود کو انجان اور بے خبر ظاہر کررہی تھیں ۔اور ہر طرح سے اسے اپنی لاعلمی کا یقین دلانے کی کوشش کررہی تھیں ۔۔

مام !!

آپ جائیں یہاں سے ۔

ارباب نے سنجیدگی سے کہا ۔

مگر بیٹا ۔مجھے سچ میں اس بارے میں کوئی علم نہیں ۔

فائزہ نے ایک اور کوشش کی اپنا یقین دلانے کی ۔

مام ۔۔۔جائیں یہاں سے آپ ۔

ارباب کی آواز بلند ہوئی جس سے فائزہ بیگم کا رنگ اڑگیا۔

آپ نے جو کرنا تھا ۔۔۔

کر چکیں ۔۔۔

اب مجھے وہ کرنے دیں جو مجھے کرنا ہے ۔۔۔

ارباب نے فائزہ بیگم کو گھورتے ہوئے کہا ۔

فائزہ نے نظریں چرانی چائیں۔

یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انشاء بنا کسی کی مدد سے یہاں سے نکل گئی ہو ۔۔۔

ضرور کسی نے اس کی مدد کی ہے ۔۔ارباب نے اپنی ماں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا ۔

فائزہ بنا کچھ کہے وہاں سے نظریں چراتی چلی گئی ۔

۔

بہت پیار کرتا ہوں میں آپ سے مام ۔

اور پولیٹیشن میرا خواب ہے ۔۔۔

انشاء کے یوں گھر سے بھاگ جانے کی خبر اگر زرا سی بھی میڈیا کو لگ گئی تو میرا کیرئیر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا ۔۔

آپ نے صرف انشاء کی ماں بن کر سوچا ۔

کاش میرا بھی سوچا ہوتا ۔۔

ارباب نے خود سے کہا ۔اور اپنی نم آنکھیں صاف کیں ۔

انشاء خالی خالی نظروں سے احد کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

احد نے انشاء کی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔۔۔

اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔

آئی لو یو انشاء ۔۔۔

تم ہو نہ میرے ساتھ ۔۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔

کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔

سنا تم نے ۔۔۔۔احد نے انشاء کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔

انشاء نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔

۔

یہ فضول وسوسوں کو اپنے دل میں جگہ مت دو ۔۔۔۔

اب تم میرے نکاح میں ہو ۔۔اب ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔۔۔

۔

اور تمہیں میری جان کی پرواہ ہے نہ۔۔۔تو میں نے اپنی جان ہی تو بچائی ہے ۔۔۔

انشاء ۔۔۔۔۔احد نے انشاء کے ہاتھ پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔

اگر تم میری زندگی میں شامل نہ ہوتی تو میں مرجاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

اپنی جان ، اپنی زندگی ہی تو بچائی ہے میں نے ۔۔۔۔

انشاء کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے ۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے احد کے ہاتھوں کواپنے ہاتھوں میں لیا اور چوم لیا ۔۔۔

آئی لو یو احد ۔۔۔۔

آئی رئیلی لویو ۔۔۔۔۔تمہارے بنا میں بھی نہ جی پاتی ۔۔۔۔۔


❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️


۔صاحب جی ۔ ہم نے ہر جگہ بندے لگا رکھے ہیں مگر بی بی جی نہ ہی تو بس اسٹینڈ سے کہیں گئی ہیں ۔نہ ریلوے اسٹیشن ، اور نہ ہی ائیر پورٹ ۔۔۔

ایک نوکر نے بتایا ۔

تو گئی کہاں ؟

ارباب نے چلاتے ہوئے نوکر کو ایک زوردار طمانچہ مارا ۔جس سے وہ زمین پہ جا گرا ۔

باقی سب نوکر ڈر خوف سے کانپ رہے تھے ۔

دفع ہو جاؤ میری نظروں سے ۔۔۔۔۔ ارباب کی آواز بلند ہوئی ۔

نوکر بامشکل اٹھا اور دوڑتے ہوئے وہاں سے غائب ہو گیا ۔

تم سب کیا میرا منہ دیکھ رہے ہو ۔۔۔

دفع ہوجاؤ تم سب بھی ۔۔۔ارباب نے سب نوکروں کی نظر خود پہ مرکوز پا کر غصے سے کہا ۔

ارباب !!!!!

راؤ بیگ نے پکارا جو چھت سے کھڑے سارا تماشا دیکھ رہے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کا وقت تھا ۔ہرسو اندھیرا تھا ۔۔

مگر راؤ بیگ کی حویلی مکمل طور پہ روشن تھی ۔۔۔

ہر طرف لائٹس لگی ہوئی تھیں ۔گویا دن کی روشنی ہو ۔

راؤ بیگ کی آواز پہ ارباب نے چونک کر اوپر دیکھا ۔

راؤ بیگ صاحب نے اشارے سے اوپر بلایا ۔

ارباب نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔


❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️


انشاء ۔۔۔

"جب روح اپنی جیسی روح سے ملتی ہے نہ ۔۔۔۔۔۔تو وہ مرمت بھی ہوتی ہے، عافیت بھی پاتی ہے۔اور مکمل بھی ہوتی ہے ۔۔۔۔"

۔

آج میں ،میری روح اور میری محبت مکمل ہوئی ۔۔۔۔

اب مجھے نہ تو اپنی جان کی پرواہ ہے نہ ہی کسی اور چیز کی ۔۔۔۔۔

اب میں آزاد ہوں ۔

کھلی فضاء میں سانس لے سکتا ہوں ۔۔۔۔مجھے اب کسی چیز کا ، کسی بات کا ، کسی انسان کا خوف نہیں ہے

۔

ہمیں جینا ہے ایک دوسرے کے ساتھ ۔

احد نے انشاء کا ہاتھ اپنے سینے پہ رکھتے ہوئے کہا۔

مرنا ہے تو ساتھ ۔۔۔

ڈرڈر کر زندگی نہیں جینی ۔۔۔

انشاء نے آنکھوں میں آنسوں لئے اثبات میں سر ہلایا ۔

احد بھی مسکرایا ۔۔۔۔۔


❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️


جی ڈیڈ ؟

ارباب کی آواز پہ راؤ صاحب مڑے اور ارباب کو سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔

ڈیڈ ۔۔۔

میں انشاء کو چھوڑوں گا نہیں ۔

آپ فکر نہ کریں ۔۔۔میں اسے کہیں سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا ۔۔

ارباب نے ندامت سے کہا ۔

چھوڑوں گا نہیں میں اسے ۔۔۔۔ارباب نے غصے سے کہا ۔

چھوڑ دو اسے ۔۔۔

راؤ صاحب کی آواز پہ ارباب چونکا اور نظر اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھا ۔۔۔

ڈیڈ ۔!!!

یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟

ارباب نے بے یقینی سے پوچھا ۔

ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔راؤ صاحب نے منہ سے دھواں خارج کرتے ہوئے کہا ۔

مر گئی وہ ہمارے لیے ۔

۔

یہ ضروری نہیں کہ انشاء کہاں ہے ،

یہ ضروری ہے کہ صبح انشاء نے مایو بیٹھنا تھا ۔۔

ہم جاوید کے گھر والوں کو کیا جواب دیں گے ؟


❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️


جی ڈیڈ۔

یہی تو ۔اس لڑکی نے ہمیں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ۔

اور آپ کہہ رہے ہیں کہ چھوڑ دوں انشاء کو۔۔۔

کیوں ؟

کیا چل رہا ہے آپ کے دماغ میں ۔

ارباب نے ایک لمبی سی تقریر کی اور راؤ بیگ صاحب سگریٹ پھونکتے ہوئے منہ سے دھواں خارج کرتے ہوئے ارباب کو صرف سن رہے تھے۔

کوئی جواب نہ پاکر ارباب نے ایک بار پھر پکارا ۔

ڈیڈ ؟

ارباب ۔

اگر ایک کامیاب پولیٹیک بننا چاہتے ہو تو اپنے غصے پہ قابو پانا سیکھو۔

پولیٹیکل کیرئیر میں جذبات کا کوئی کام نہیں ۔۔۔

اس لئے اپنے غصے اور جذبات کو کنٹرول میں رکھا کرو اور دماغ اور آنکھیں کھلی رکھا کرو ۔۔۔۔۔

ارباب خاموشی سے راؤ بیگ کی بات بڑے غور سے سن رہا تھا ۔۔۔

کل انشاء نے مایو بیٹھنا تھا ۔۔۔

اب رمشا مایو بیٹھے گی ۔۔۔

بتا دو جا کر اپنی مام کو ۔۔

شادی جس دن کی فکس تھی ۔اسی دن ہوگی اور جاوید سے ہی ہوگی ۔

مجھے اب اور کچھ نہیں سننا ۔

انڈرسٹینڈ۔۔۔

راؤ بیگ نے منہ سے دھواں خارج کرتے ہوئے کہا ۔

جی ڈیڈ ۔

لیکن رمشا ؟

وہ تو جاوید سے بہت چھوٹی ہے عمر میں ۔

اور ویسے بھی رمشا کی شادی کی عمر نہیں ہے یہ ۔

ارباب نے ڈیڈ کی بات سننے کے بعد اپنی رائے دی ۔

میں نے تم سے ابھی کیا کہا ہے ارباب ۔

پولیٹیکس میں جذبات کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔۔

صرف عقل سے کام لینا ہوتا ہے ۔

تم کیا چاہتے ہو کہ جا کر جاوید کی فیملی کو یہ بتائیں کہ ہماری لڑکی عین شادی کے وقت گھر سے بھاگ گئی ہے ؟

یہ کہاں کی عقلمندی ہوگی ؟

راؤ بیگ نے بغور ارباب کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

جی ڈیڈ ۔میں بتاتا ہوں مام کو ۔

پر وہ نہیں مانیں گی ۔

کبھی نہیں مانیں گی ۔ ارباب کہتا جانے لگا ۔جب راؤ بیگ کی آواز پہ اس کے قدم رکے ۔

اس کی رائے ، اس کا چاہنا نہ چاہنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

یہ سب اسی کی وجہ سے تو ہورہا ہے ۔

اور جاوید ، اس کی فیملی ۔

انہیں کیا کہیں گے ؟

ارباب نے سوال کیا ۔

وہ سب میں سنبھال لوں گا ۔

تم جا کر اپنی مام کو ریڈی کرو اور ان سے کہو کہ رمشا سے بات کرے اور اسے ریڈی کرے ۔

اس کی شادی ہے ۔

راؤ بیگ اپنی بات مکمل کرچکے تھے ۔اور ارباب اثبات میں سر ہلاتا اپنی مام کے روم میں جانے کی غرض سے سیڑھیاں اترنے لگا ۔

سارہ کیا ہوا ۔

پریشان لگ رہی ہو ؟

آہان نے سارہ کو گم صُم پاکر سوال کیا ۔

مگر سارہ کچھ نہیں سن رہی تھی ۔۔۔وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی ۔

سارہ ؟ 

آہان نے دوبارہ پکارا ۔

ہاں ۔۔۔۔

جی ۔۔۔سارہ متوجہ ہوئی ۔

کہاں گم ہو ۔کیا ہوا ہے۔

نہیں کچھ نہیں ۔میں ٹھیک ہوں ۔

آر یو شیور ۔۔۔آہان نے ہاتھ سے گھڑی اتارتے ہوئے پوچھا ۔

آہان ۔۔۔سارہ مکمل طور پہ آہان کی طرف مڑی ۔

احد اور انشاء نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے ۔۔۔۔

اور انشاء کے گھر والے یقیناً اسے ڈھونڈ رہے ہونگے ۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔

اور انشاء ۔۔۔وہ بھی بہت خوفزدہ ہے ۔۔

آہان ۔ارباب راؤ نے احد کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی نہیں چھوڑنا۔۔۔

سارہ دل کی بات آہان کے سامنے رکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔

سارہ ۔۔۔۔

مگر سارہ صرف بول رہی تھی ۔

سارہ ۔۔۔۔آہان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا ۔

سارہ خاموش ہوئی اور آہان کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔جہاں کوئی خوف کوئی ڈر نہیں تھا ۔۔

احد دوست ہے میرا ۔۔۔

اور انشاء احد کی محبت اور اب وائف بھی ۔

اس مشکل وقت میں ایک دوست کے ساتھ ایک سچا دوست ہی کھڑا ہوگا نہ ۔۔۔

کیا تمہیں اس بات کی خوشی نہیں کہ تمہارے شوہر نے مشکلات سے منہ پھیرنے کی بجائے ، اپنی دوستی نبھائی ہے ۔۔

کچھ نہیں ہی ہوگا ۔۔

نہ احد کو اور انشاء کو ۔

نہ مجھے اور تمہیں ۔

اللّٰہ ہے نہ ۔سب ٹھیک کردے گا ۔۔

لیکن آہان۔۔۔۔

مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں آپ کی اولاد کے اس دنیا میں آنے سے پہلے آپ کو کچھ ہونہ جائے ۔۔

آپ نے اپنی دوستی نبھائی ۔۔۔مجھے فخر ہے کہ میرا شوہر مشکلات سے گھبراتا نہیں ۔

لیکن فلحال اب صرف آپ کو میرے لئے اور اپنی ہونے والی اولاد کے لئے جینا ہے ۔

آپ کو پہلے ہمارا سوچنا ہے ۔۔۔

سارہ نے پریشانی کے عالم میں کہا ۔

سارہ ۔۔۔۔آہان نے سارہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔

تم کسی بات کی فکر مت کرو ۔۔۔میں کہیں نہیں جا رہا ۔۔۔

اپنی اولاد کو گود میں لئے بغیر ، اس سے کھیلے بغیر ۔اسے اپنے پاس سلائے بغیر تو میں کہیں نہیں جاؤں گا ۔

تم اپنا بہت سارا خیال رکھنا اور انشاء کا بھی ۔وہ چند دنوں کی مہمان ہے یہاں ۔

میری اس معاملے میں احد سے بات ہوئی تھی ۔۔۔

انشاء اپنا نام چینج کروا رہی ہے ۔۔۔اور نام چینج ہونے کے بعد وہ لوگ ملتان شفٹ ہو جائیں گے ۔۔۔۔

بس کچھ دنوں کی بات ہے ۔پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔

سارہ نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ارباب تم یہ کیا کہہ رہے ہو ۔۔

تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے ۔۔۔

رمشا اور جاوید ؟

جانتے ہونہ کہ ان کے درمیان کتنا ایک ڈیفرنس ہے ۔۔

فائزہ بیگم کا رنگ اڑ گیا ارباب کی بات سن کر اور وہ ارباب کو سمجھانے لگیں۔

مام۔۔۔۔

یہ میرا فیصلہ نہیں ہے۔ڈیڈ کا فیصلہ ہے ۔

اور انہوں نے کہا ہے کہ ویسا ہی ہوگا جیسا میں نے کہہ دیا ہے ۔

آپ رمشا کو بتا دیں تاکہ وہ مینٹلی طور پہ پریپئیر ہو اس رشتے کے لئے ۔

ایسا نہیں ہوگا ارباب ۔۔۔

تم اکلوتے بیٹے ہو ان کے ۔۔

پلیز سمجھاؤ اپنے ڈیڈ کو ۔

کیوں اپنی اولاد پہ ظلم کررہے ہیں ۔

وہ تمہاری بات ضرور سنیں گے ۔تم ایک بار بات تو کرکے دیکھو۔۔۔

دیکھیں مام  !

ارباب نے ہاتھ کے اشارے  سے انہیں چپ کرواتے ہوئے کہا ۔

ڈیڈ میری مانتے ہیں یا نہیں ۔۔۔میں آپ کی بات کیوں سنوں ۔۔۔

یہ سب آپ ہی کی وجہ سے تو ہورہا ہے نہ ۔

ظلم ڈیڈ کررہے ہیں یا آپ نے کیا ہے ۔

ارباب نے احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے فائزہ سے سوال کیا۔

یہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔۔۔

میں نے ظلم کیا ہے ؟ 

فائزہ نے بات کو نہ سمجھتے ہوئے پوچھا ۔

ہاں ۔۔۔ارباب چلایا۔

کیا ہے آپ نے ظلم ۔

مجھ پہ ظلم کیا ہے ۔

رمشا پہ ظلم کیا ہے ۔۔ڈیڈ پہ ظلم کیا ہے ۔

آپ نے صرف انشاء کی ماں بن کر سوچا۔۔۔ اس کی مدد کی ۔

آپ نے ایک پل کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ ارباب کا کیا ہوگا ۔

میرا شروع سے صرف ایک خواب رہا ہے کہ میں ایک پولیٹیک بنوں ۔۔۔۔

ایک ایسا پولیٹیک جو پبلک میں ہر دلعزیز شخصیت ہو ۔۔۔

میرے فین ہوں ۔لوگ مجھ سے محبت کریں ۔۔۔

لیکن انشاء کے گھر سے بھاگ جانے کی خبر اگر میڈیا کو لگ گئی تو وہ دو کی چار بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کریں گے ۔۔۔

میرا کیرئیر خطرے میں ہے ۔۔۔

صرف آپ کی وجہ سے ۔۔۔

فائزہ کامنہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔

وہ صرف ارباب کو سن رہی تھی ۔۔۔

صرف میرا نہیں ۔۔۔۔آپ نے رمشا کی زندگی بھی برباد کردیا ۔۔۔

صرف آپ کی وجہ سے اب وہ انشاء کی بجائے دلہن بنے گی ۔۔۔

میں جانتا ہوں اس کی شادی کی عمر نہیں ۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جاوید کسی بھی اینگل سے رمشا کے لئے بیسٹ نہیں ۔

لیکن ڈیڈ کچھ سننے کو تیار نہیں ۔

مجھے بتائیں میرا کیا قصور ہے اس سب میں ۔۔۔

ابھی تو ڈیڈ نے جاوید کی فیملی سے بھی بات کرنی ہے ۔

پتہ نہیں ان لوگوں کا کیا ریکشن ہوگا ۔

فائزہ خاموش کھڑی بے یقینی سے صرف ارباب کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج ایک نیا سورج ابھرا تھا ۔۔۔۔

انشاء کی جب آنکھ کھلی تو خود کو احد کے قریب پایا ۔۔۔

ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔یہ صبح ان کے لئے بہت خاص تھی ۔۔۔۔ محبت سے احد کو دیکھا اور سر احد کے سینے پر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں اور اس سکون کو محسوس کرنے لگی جو اسے احد کی قربت میں ملا تھا ۔

احد گہری نیند سورہا تھا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

راؤ بیگ کی حویلی میں ایک طوفانی صبح ہوئی تھی ۔۔۔

۔

واٹ ؟

مما یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔

میں اور جاوید بھائی ۔۔۔۔؟

کبھی نہیں ۔۔۔

میں مرجاؤں گی ۔۔مگر یہ شادی نہیں کروں گی ۔

آج ایک نیا سورج ابھرا تھا ۔۔۔۔

انشاء کی جب آنکھ کھلی تو خود کو احد کے قریب پایا ۔۔۔

ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔یہ صبح ان کے لئے بہت خاص تھی ۔۔۔۔ محبت سے احد کو دیکھا اور سر احد کے سینے پر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں اور اس سکون کو محسوس کرنے لگی جو اسے احد کی قربت میں ملا تھا ۔

احد گہری نیند سورہا تھا ۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

راؤ بیگ کی حویلی میں ایک طوفانی صبح ہوئی تھی ۔۔۔

۔

واٹ ؟

مما یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔

میں اور جاوید بھائی ۔۔۔۔؟

کبھی نہیں ۔۔۔

میں مرجاؤں گی ۔۔مگر یہ شادی نہیں کروں گی ۔

آپ کو ہو کیا گیا ہے۔۔۔جو آپ نے اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کہہ دی ۔

رمشا فائزہ بیگم کی بات سن کر بے یقینی اور طیش میں آکر بولے جا رہی تھی ۔۔۔

جبکہ فائزہ بیگم کھڑی اپنی بے بسی کا رونا رورہی تھی ۔

بیٹا میں کیا کرسکتی ہوں ۔

یہ تمہارے ڈیڈ اور بھائی کا فیصلہ ہے۔پہلے کبھی میری کوئی بات مانی گئی ہے آج تک۔

جو آج میری سنیں گے تمہارے ڈیڈ ؟

۔

مما جو بھی ہے ۔

میں کچھ نہیں جانتی ۔

آپ جا کر ڈیڈ سے صاف صاف کہہ دیں کہ رمشا یہ شادی کسی صورت نہیں کرے گی ۔

رمشا نے اپنا آخری فیصلہ سناتے ہوئے کہا ۔

۔

فائزہ بیگم رمشا کے کمرے میں اس سے بات کرنے گئی تھیں ۔

۔

شادی تو ہر حال میں ہوگی ۔

سنا تم نے ؟

راؤ بیگ کی آواز سن کر رمشا اور فائزہ دونوں سمٹ سی گئیں اور آواز کی سمت مڑ کر دیکھا ۔

راؤ بیگ دونوں ہاتھ پشت پہ باندھے بڑے حکمانہ انداز میں کہہ رہے تھے ۔

۔

اب راؤ بیگ صاحب رمشا کی طرف قدم اٹھائے اس کے قریب آرہے تھے ۔

۔

تمہیں یہ شادی ہر صورت کرنا پڑے گی ۔

راؤ بیگ رمشا کے روبرو آ کھڑے ہوئے ۔

الیکشن سر پر ہیں ۔

بڑی مشکل سے میں نے بات سنبھالی ہے ۔اب تم کوئی نہیں مشکل پیدا مت کرو ۔

رمشا تم جانتی ہو ۔تمہارے ڈیڈ تم سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔ آج تک تم نے جو مانگا ، جو چاہا ۔

میں نے دیا۔

آج تمہارے ڈیڈ تم سے ایک چیز مانگ رہے ہیں ۔۔۔۔

بیٹا میری مجبوری ہے ۔سارے کارڈز چھپ چکے ہیں ۔ انویٹیشنز جا چکے ہیں ۔

شادی کا دن آ پہنچا ہے اور اس وقت یہ کہنا کہ انشا شادی کے لیے تیار نہیں ہے اور شادی کینسل کرنا ۔

یہ سب میرے پولیٹیکل کیرئیر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا ۔

۔

تم میری بہت سمجھدار بیٹی ہو ۔۔

راؤ بیگ نے رمشا کے سر پہ بڑے مان سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔

ڈیڈ !!

رمشا نے ڈیڈ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔

۔

اس سے اچھا ہے آپ مجھ سے میری جان مانگ لیں ۔۔۔

انکار نہیں کروں گی ۔

لیکن جاوید بھائی مجھ سے عمر میں بہت بڑے ہیں ۔۔۔

میں یہ شادی نہیں کرسکتی ۔

رمشا نے صاف صاف انکار کرتے ہوئے کہا ۔

راؤ بیگ کا مان مٹی میں مل گیا ۔

وہ بے یقینی سے رمشا کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا ہاتھ رمشا کے ہاتھوں سے چھڑایا ۔۔۔۔

اوربے یقینی کے عالم میں دو قدم پیچھے ہوئے ۔

رمشا !!!!!

تم اپنے ڈیڈ کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل کروانا چاہتی ہو ۔۔؟

سارا میڈیا ہم پے تھوتھو کرے گا ۔

بات کو چٹ پٹا بنا کر پیش کیا جائے گا ۔

میری عزت کا جنازہ پہلے ہی انشاء نکال چکی ہے ۔اب تم بھی وہی کررہی ہو ۔

ٹھیک ہے ۔۔مت کرویہ شادی ۔

میں جاکر نواز صاحب کو سب کچھ سچ سچ بتا دیتا ہوں ۔

جب میری اولاد کو ہی میری کوئی پروا نہیں ۔۔۔ تو پھر دنیا سے کیا امید رکھنی ۔

راؤ صاحب یہ سب رمشا کو ایموشنل کرنے کے لئے نہیں کہہ رہے تھے ۔

بلکہ اپنا مان ٹوٹنے پہ اپنا ڈارک فیوچر دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔

ٹھیک ہے مت کرو تم یہ شادی ۔

کہتے ہی راؤ صاحب مڑے اور داخلی دروازے سے باہر جانے لگے ۔

جب رمشا کی آواز نے انہیں رکنے پہ مجبور کردیا ۔

ڈیڈ ۔۔۔۔وہ مڑے ۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

۔

سب ڈائننگ ٹیبل پہ موجود تھے ۔

۔

آج میں نے آپ دونوں کے لئے سپیل بریک فاسٹ بنایا ہے ۔

سارہ نے کھانا سرو کرتے ہوئے کہا ۔

تھینکس سارہ ۔ احد نے کہا اور کھانا شروع کرنے لگا ۔

۔

انشاء ، ، اٹھو بیٹا ۔۔۔بریک فاسٹ ریڈی ہے ۔ 

مام ابھی سونے دیں نا ۔

انشاء صبح کے دس بج رہے ہیں ۔۔بس کردو نہ اب ۔

اٹھو ۔ آج میں اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کرواؤں گی ۔

فائزہ کی یہ بات سنتے ہی انشاء آنکھیں ملتی اٹھ بیٹھی ۔

آآآ۔۔۔۔۔

انشاء نے منہ کھولا ۔۔۔

ایسے ہی کھاؤ گی کیا ؟

انشاء ، جلدی سے جاؤ اور فریش ہوکر آؤ۔

فائزہ نے کہا تو انشاء فریش ہونے چلی گئی ۔

۔

چلو منہ کھولو۔۔۔۔

اور فائزہ اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے لگی ۔

۔

۔

انشاء سامنے پلیٹ لئے اپنے خیالوں میں کھوئی تھی ۔

سب کی نظریں اسی پر مرکوز تھیں مگر اسے ہوش نہ تھا ۔

۔

احد جانتا تھا اسے اپنا گھر اور گھروالے یاد آرہے ہیں اس لئے وہ بھی بس خاموش بیٹھا انشاء کو دیکھ رہا تھا ۔

۔

نہ جانے کب اور کیسے انشاء کی آنکھ سے ایک آنسو رخسار پہ پھسلا ۔

۔

انشاء منہ کھولو ...

انشاء حال میں واپس آئی ۔

احد اس کے منہ کے سامنے نوالہ کرتے ہوئے بولا تھا ۔

خوشی سے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔

اور انشاء احد کے ہاتھ سے کھانا کھانے لگی ۔

۔

سارہ اور آہان بھی مسکرا دیئے ۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

آج رمشا مایو بیٹھی تھی ۔

پیلے رنگ کا سوٹ پہنےگلاب کےپھولوں اور چنبیلی کے پھولوں سے بنی جیولری پہنے  ، اس کا حسن مزید نکھر رہا تھا ۔۔۔

ہر طرف چہل قدمی تھی ۔ ہر طرف لائٹنگ تھی ۔

پورا گھر روشنیوں اور ڈیکوریشن سے سجا تھا ۔۔۔۔۔۔ مگر رمشا کے اندر تاریکی پھیلی تھی ۔ وہ خود کو بہت کمزور ، بے بس اور لاچار محسوس کررہی تھی ۔

کاش میں بھی انشاء کی طرح بہادر ہوتی ۔۔۔۔ کاش میں بھی اپنی خوشیوں کے لئے لڑ سکتی ۔۔۔ 

اس کے دل میں خیال آیا تھا ۔

۔

فائزہ بیگم بہت پریشان تھی ۔ جس آگ میں جھونکنے سے اس نے اپنی ایک بیٹی کو بچایا تھا ۔۔۔۔۔ اسی آگ میں اس کی دوسری بیٹی کودنے جارہی تھی ۔۔۔۔ 

ایک عجیب سی بے چینی تھی ۔۔۔۔

ارباب بھی اس شادی سے بالکل خوش نہیں تھا ۔۔۔۔ سنجیدہ سا ،وہ کبھی یہاں تو کبھی وہاں ہوتا۔ 

مایو کی رسم ہوئی ۔۔۔۔۔۔

راؤ بیگ بہت خوش دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔۔ آخر انہوں نے اپنا نام اور اپنا مقام جو بچا لیا تھا ۔۔۔

۔

والدین کتنی آسانی سے اپنی عزت بچانے کے لئے ، تو کبھی اپنی جھوٹی انا بچانے کے چکر میں اپنی اولاد کی خوشیاں تو کبھی  ان کی زندگی قربان کر دیتے ہیں ۔

جانے وہ کیسے ماں باپ ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی خوشی کے لئے دنیا سے لڑ جاتے ہیں ۔۔۔۔

رمشا نے دل میں سوچا تھا ۔۔۔۔آنکھ میں ایک موتی ابھرا تھا ۔۔۔

مگر شاید اس کا دل ایک پل میں پتھر کا ہوگیا تھا ۔۔۔

کیونکہ اسے اب آزادی کی امید نہیں تھی ۔۔۔۔وہ اس قید کو ، اس سزا کو اپنا نصیب مان چکی تھی ۔۔ 

۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

شام کے پانچ بج رہے تھے ۔۔۔۔

انشاء لان میں اکیلی بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی جب ہی احد آیا ۔۔۔

انشاء کو دیکھا جسے اس کے آنے کی خبر ہی نہیں تھی ۔

انشاء کے روبرو آبیٹھا ۔

ام ہممم۔۔۔۔۔۔ احد کے کرنے پہ انشاء متوجہ ہوئی ۔۔۔۔ احد آپ،  آپ کب آئے  ۔

یہ گلاب آپ کے لئے ، جو پھولوں سے بھی زیادہ حسین ہے ۔۔

احد نے گلاب کا پھول انشاء کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔

تھینک یو ۔۔۔۔ انشاء نے پھول تھامتے ہوئے کہا ۔ لبوں پر مسکراہٹ تھی ۔۔۔

انشاء ۔۔۔۔

ہممم۔

کیا بات ہے۔۔۔۔۔ تم صبح سے بہت پریشان ہو ۔۔ احد نے انشاء کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔

نہیں کچھ نہیں ۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔ انشاء نے اپنے تاثرات ٹھیک کرتے ہوئے کہا ۔

مام، ڈیڈ ، رمشا اور ارباب کی یاد آرہی ہے ،۔   یا تم اپنے اس فیصلے پر پچھتا رہی ہو ؟

احد نے انشاء کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔ ۔

احد !!!!

ایسی بات نہیں ہے ۔۔۔مجھے اپنے کیے گئے اس فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے ۔

احد ، کیا آپ ابھی تک میری محبت نہیں پہچان پائے ؟

انشاء نے افسردگی سے پوچھا ۔۔

تو پھر اداس کیوں ہو ؟ 

یہ ہمارا فرسٹ ڈے ہے ۔۔۔ ہمارے ساتھ کا، ہماری محبت کی تکمیل کا ۔۔ ۔۔۔۔۔ پر تم بہت اداس ، بہت سنجیدہ اور بہت سہمی ۔۔۔۔۔

❤️

یہ ہمارا فرسٹ ڈے ہے ۔۔۔ ہمارے ساتھ کا، ہماری محبت کی تکمیل کا ۔۔ ۔۔۔۔۔ پر تم بہت اداس ، بہت سنجیدہ اور بہت سہمی ۔۔۔۔۔

مام ڈیڈ یاد آرہے ہیں ۔۔۔ انشاء نے احد کی بات مکمل ہونے سے پہلے کہا۔

۔

احد مجھے مام ڈیڈ بہت یاد آرہے ہیں ۔۔۔ ڈیڈ کا پتہ نہیں کیا ریکشن ہوگا جب انہیں پتہ چلے گا کہ ان کی بیٹی گھر چھوڑ کر بھاگ گئی ہے ۔۔ ڈیڈ نے مجھے کتنا ڈھونڈا ہوگا۔۔۔ شاید اب بھی ڈھونڈ رہے ہونگے ۔۔ 

مام ، نہ جانے ان کا کیا حال ہوگا ۔۔۔

جاوید اور اس  کی فیملی ، نہ جانے انہوں نے کیا کیا ، کیا ہوگا ۔۔۔

احد ، میں ایک اچھی بیٹی نہیں بن سکی ۔ ایک اچھی بہن نہیں بن سکی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔میں خود غرض ہوں ۔۔۔

انشاء مام ڈیڈ کے بارے میں بات کرتے کرتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔۔

مجھے کسی کی پرواہ نہیں ، مجھے کسی کی فکر نہیں ۔۔۔ میں نے اپنے والدین کی عزت کا جنازہ نکال دیا ۔۔ میری وجہ سے تمہاری جان خطرے میں ہے ۔۔۔ میری وجہ سے آہان اور سارا بھابھی بھی خطرے کے دائرے میں ہیں ۔۔

انشاء ، ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ تم بہت زیادہ سوچ رہی ہو ۔۔۔ احد نے انشاء کو اپنے کندھے کا سہارا دیتے ہوئے کہا ۔ 

احد کی شرٹ، کندھے سے انشاء کے آنسوؤں سے بھیگ چکی تھی ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات کا وقت تھا ۔ہر طرف گہری تاریکی پھیلی تھی ۔۔۔ 

رمشا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے چھت کو گھور رہی تھی ۔پنکھا اپنی سست رفتاری سے چل رہا تھا۔

ایک لمحے کو رمشا کا دل چاہا کہ وہ پنکھے سے لٹک کر اپنی جان لے لے لیکن کیا کرتی ۔۔۔ اسے اپنی زندگی پر، اپنی جان پر کوئی حق نہیں تھا ۔ ۔۔۔۔

۔

اچانک دروازے پہ دستک ہوئی ۔رمشا نے دروازے کی طرف دیکھا اور ارباب اندر داخل ہوا ۔

سوئی نہیں ابھی تک ؟

ارباب نے داخل ہوتے ہی سوال کیا ۔

نیند نہیں آرہی ۔۔۔ رمشا نے کہا اور آٹھ بیٹھی ۔۔۔

ارباب اسکے پاس بیڈ پہ آ بیٹھا ۔۔۔ 

تم رو رہی ہو ؟ 

ارباب نے رمشا کا جھکا چہرہ اوپر اٹھایا ۔

کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔۔ اب تو ساری عمر مجھے رونا ہی ہے۔۔۔۔ رمشا نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ بامشکل اتنا ہی کہا ۔۔

کسی کی اتنی ہمت نہیں کہ میری بہن کو رلائے۔ ۔۔۔ ارباب نے اس کے رخسار پہ پھسلا آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔

رمشا کی آنکھ سے ، پھر سے آنسوں کا دریا بہنے لگا ۔ ۔۔۔۔

میرے کچھ خواب ہیں ، میری زندگی ہے ۔۔۔میں اسے اپنی مرضی سے جینا چاہتی تھی اپنے طریقے سے جینا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ مجھے اپنی ایجوکیشن مکمل کرنی تھی ۔۔۔۔۔ مجھے ایک کامیاب بزنس وومن بننا تھا ۔مگر ڈیڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ڈیڈ کیا کررہے ہیں میرے ساتھ ۔۔۔میری شادی ایک ایسے انسان سے کروا رہے ہیں جس سے میری بہن کی شادی ہونی تھی ۔۔۔۔ جو عمر میں مجھ سے چھ سال بڑا ہے ۔۔۔۔۔ جو میری بہن کو پسند کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔

میں کیا ہوں ارباب ؟

مجھے اپنے آپ پر شک ہونے لگا ہے کہ میں ان کی سگی اولاد ہوں بھی کہ نہیں ۔۔۔

رمشا اپنے دل کا سارا غبار ارباب کے سامنے نکال رہی تھی ۔آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔

میری گڑیا ۔۔۔ میری ڈول ۔۔۔۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔۔۔ ارباب رمشا کے قریب ہوا اور اسے گلے لگاتے ہوئے بولا۔

کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔ دیکھو ایج ڈیفرنس آج کل بہت عام ہے اور پھر لڑکا بڑا ہے نہ ، تم تو نہیں ۔۔۔۔

وقت کے ساتھ ساتھ تم دونوں کو ایک دوسرے کی عادت ہو جائے گی ایک دوسرے سے محبت بھی ہوجائے گی ۔۔۔

تمہیں بس اس رشتے کو دل سے نبھانے کی کوشش کرنا ہوگی اس رشتے کو وقت دینا ہوگا ۔۔۔

اور اگر پھر بھی تمہیں لگے کہ تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرسکتے تو تم اپنے اس بھائی کو ہمیشہ اپنے ساتھ کھڑا پاؤ گی۔ ۔۔ ۔

پھر تمہاری خوشی کے لئے میں کچھ بھی کر گزروں گا لیکن ابھی سیچویشن سنبھالنا بہت مشکل ہے ۔

ارباب نے رمشا کو سمجھایا بھی ، صورتحال سے آگاہ بھی کیا ، قربانی دینے کا بھی کہا اور ساتھ کھڑا ہونے کا حوصلہ بھی دیا ۔۔۔۔۔

رمشا نے ہر ایک بات سنی اور سینے میں دفن کرلی ۔ ۔۔۔۔۔

وہ اپنا حال دل کس سے کہتی ، کس کو بتاتی کہ اس کے دل میں کیا ہے ۔۔

وہ کیا چاہتی ہے ۔۔۔۔ بھائی ایک بات کہوں ۔۔۔ کافی دیر خاموشی کے بعد رمشا بولی ۔۔۔۔

ہاں کیوں نہیں ۔۔۔۔ ارباب اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ۔۔

انشاء نے بالکل ٹھیک کیا ۔۔۔۔ کسی نے اس سے اس کی رضامندی نہیں پوچھی تھی ۔۔۔ صرف فیصلہ سنایا تھا ۔۔۔۔۔ ایک لڑکی اتنا پڑھتی ہے ، ان ڈیپینڈینٹ بنتی ہے ، کس لئے ، کہ جس سے کہا جائے شادی کرلو وہ شادی کرلے۔۔۔ ایک لڑکی کی اپنی کوئی پسند نہیں ہوتی ۔۔۔۔ اس کا خود کا کوئی آئیڈیل نہیں ہوتا۔۔۔۔ آخر پوری زندگی کا سوال ہوتا ہے کوئی ایک دو دن یا ایک دو سال کی بات تو نہیں ہوتی نہ ۔۔۔۔۔۔۔

رمشا نے بلا خوف اپنے دل کی بات اپنی زبان پہ رکھ دی ۔۔۔۔ 

ارباب لب بھینچ کر رہ گیا ۔۔۔۔کہیں نہ کہیں وہ اس بات کو مانتا تھا کہ رمشا بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے مگر پھر اس کا خواب ، اس کی پولیٹیکل کیرئیر ۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔ آڑےآجاتا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

اب تم سو جاؤبے فکر ہوکر  ۔۔۔فکر نہیں کرنا تمہارا یہ بھائی تمہارے ساتھ کھڑا ہے تمہارے ہر فیصلے میں۔ ۔۔۔۔۔

ارباب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔

رمشا مجبوراً مسکرائی۔۔۔۔۔۔ ارباب بھی رمشا کو دیکھ کر مسکرایا اور داخلی دروازے سے باہر کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔

رمشا نے آنکھوں میں ٹہرےآ نسوؤں کو بہنے دیا اور تکیہ کو گلے لگائے لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

انشاء ۔۔۔۔۔۔ میں نے بات کی تھی تمہارا نام تبدیل کروانے کےلئے اپنے دوست سے۔۔۔۔۔۔۔

تم ایک بار پھر سوچ لو ۔۔۔۔۔۔کیونکہ میں تو تمہارا نام تبدیل کروانے کے حق میں بالکل نہیں ہوں۔۔۔۔

احد نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

انشاء نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب بند کی اور سائیڈ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولی۔۔۔

احد ، اب سوچنے کو بچا ہی کیا ہے ۔۔میں فیصلہ کرچکی ہوں۔۔۔۔۔۔

لیکن انشاء ، تمہاری صورت پہ انشاء نام ہی جچتا ہے ۔۔۔۔۔اور میں نے انشاء سے محبت کی تھی ۔۔۔۔۔۔ میں نے شادی بھی انشاء سے کی ہے ۔۔ میری وائف بھی انشاء ہے ۔۔۔۔۔۔

تو پھر اب یہ عیشاء ؟؟؟

مجھے تمہارا یہ فیصلہ بالکل پسند نہیں ۔۔۔۔

جو قسمت میں لکھا ہے وہ تو ہو کر رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔ نام تبدیل کروانے سے ہم اپنی عمر تو نہیں بڑھا سکتے نہ ۔۔۔۔

۔

احد نے سنجیدگی سے انشاء کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

اوکے ، جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔۔ انشاء نے خفا سے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔

اور کمفرٹر اوڑھتی لیٹ گئی۔۔۔

انشاء ۔۔۔۔۔ مائی لو ، مائی لائف ۔۔۔۔ مجھ سے روٹھ گئی ہو ۔۔۔۔۔ 

احد انشاء  کے قریب لیٹتے ہوئے اس کے بال سہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔

نہیں تو ، آپ سے روٹھ کے کہاں جاؤں گی ۔۔۔۔ انشاء نے احد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

تو پھر ۔۔۔۔۔۔؟۔  

احد نے سوال کیا

آپ سمجھتے ہی نہیں ہیں ، میں ہم دونوں کے بھلے کے لئے ہی تو کہہ رہی ہوں ۔۔۔۔ آپ میرے بھائی اور ڈیڈ کو نہیں جانتے ۔۔۔۔۔

وہ اپنی سیاست کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔

کچھ بھی ۔۔۔۔۔۔۔

انشاء نے اپنا خوف ظاہر کیا۔۔۔

انشاء ،۔ ۔۔۔

احد نے سنجیدگی سے پکارا ۔۔۔

انشاء نے آنکھ اٹھا کر احد کو دیکھا ۔۔۔۔

میرا ہاتھ تھام لو۔۔۔ احد نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔انشاء اٹھ بیٹھی اور احد کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔۔

اور اب اپنی  آنکھیں بند کر لو۔۔۔ احد نے انشاء کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

انشاء نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔۔

۔

اب دیکھو ۔۔۔۔۔ایک تالاب ہے ۔۔۔۔ 

ہاں ہے ۔۔۔۔۔بہت خوبصورت ۔۔۔۔انشاء نے محسوس کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

جس میں مچھلیاں تیر رہی ہیں ۔۔۔۔۔ پورے زور وشور سے موجیں اٹھتی اور بیٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ لہراتی ہوئی۔ 

ہاں ، یہ منظر بہت خوب صورت ہے ۔۔۔۔ انشاء نے تصور کرتے ہوئے کہا ۔۔

تالاب کے قریب ایک چھوٹا سا مکان ہے ۔۔۔۔۔۔

جہاں تم میں اور ہماری چھوٹی سی فیملی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری ایک چھوٹی سی دنیا میں ۔۔۔۔۔ 

۔

ہاں ۔۔۔۔ میں تمہارا ہاتھ تھامے پانی میں پاؤں ڈالے سردی میں بھی ایک عجب سا سکون ، ایک عجب سا احساس محسوس کررہی ہوں جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔۔۔ انشاء نے تصور کرتے ہوئے کہا۔۔

اب ہماری بیٹی آئی ہے ۔۔۔ 

ہاتھ میں ڈول لیے اور ہمیں پکارا ہے ۔۔۔

ممی پاپا۔۔۔۔۔ 

انشاء نے ایک معصوم ، پیاری سی ننھی سی بچی دیکھی جو احد اور انشاء کو ممی پاپا بول رہی تھی ۔۔۔

گویا اپنی ڈول دکھانے آئی تھی۔۔۔۔

فاطمہ ۔۔۔۔۔

انشاء نے پکارا ۔۔۔۔۔

کوئی خوف نہیں ہے ۔۔۔۔ ؟

نہیں ۔۔۔۔

کوئی ہمیں جدا نہیں کرسکتا ۔۔۔

نہیں ، کوئی نہیں ۔۔۔

ہم خوش ہیں ؟ 

بہت خوش ۔۔۔۔۔

احد سوال کرتا گیا اور انشاء آنکھیں بند کئے تصوراتی دنیا سے جواب دیتی گئی۔۔۔۔

۔

اب آنکھیں کھول لو ۔۔۔۔

احد نے اسکی بند آنکھیں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

انشاء نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں ۔۔۔

ہمیں کوئی جدا نہیں کرسکتا انشاء ۔۔۔

احد نے اپنی گرفت ڈھیلی کی ۔۔۔

ہم آزاد ہیں اور خوش بھی ۔۔۔۔۔

انشاء کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔

احد یو آر دا بیسٹ ہسبیند ۔۔۔۔

انشاء  کہتے ہوئے احد کے گلے لگ گئی ۔۔۔

تھینک یو ۔۔۔۔ آئی نو آئی ایم بیسٹ ۔۔

احد نے انشاء کے شانوں کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے شرارت سے کہا ۔

۔

فاطمہ ۔۔۔۔۔؟

 ہممم تو تم نے نام بھی سوچ رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔احد نے پھر شرارت سے کہا ۔

انشاء پیچھے ہوئی اور نظریں چرانے لگی ۔۔۔

احد نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا ۔۔۔۔۔۔ بہت پیارا نام ہے ۔۔۔۔

انشاء شرمائی ۔۔۔۔۔

احد نے انشاء کے گال پہ بوسہ دیا ۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج رمشا کی مہندی تھی ۔۔۔۔ 

مہمان آچکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ پورے گھر کو پھولوں سے سجایا گیا اور ہر طرف رنگ برنگی  لائٹنگ تھی ۔۔۔۔

سٹیج بہت اعلیٰ سجایا گیا تھا ۔۔۔

فرش پر بھی پھول بچھائے گئے ۔۔۔۔

رمشا کو دوپٹے کے سائے میں سٹیج تک لایا گیا ۔۔۔۔۔ گلاب کے پھولوں پہ چلتی ہوئی، مرجھایا چہرہ مگر پھر بھی لبوں پر پھیکی  مسکراہٹ لئے وہ اسٹیج پر جا بیٹھی ۔۔۔۔

ہر طرف چہل قدمی تھی ۔۔۔

رمشا کی دوستوں نے ڈانس کرنا شروع کیا۔۔۔

مگر رمشا ایسے بیٹھی تھی ، جیسے کوئی شوپیس رکھا ہو ۔۔۔۔ اور اس وقت اس کی ویلیو کسی شو پیس جتنی ہی تو تھی ۔۔۔۔۔

رمشا کی ایک دوست آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ڈانس فلور پر لے گئی ۔۔۔

نہ چاہتے ہوئے بھی رمشا کو انکے ساتھ ڈانس کرنا پڑا ۔۔۔۔

مگر جلد ہی رمشا واپس اسٹیج پر آکر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

فائزہ کو یہ سب بہت تکلیف دے رہا تھا ۔۔۔۔۔ رمشا کے چھپے آنسو ، فائزہ سے نہ چھپے تھے ۔۔۔۔وہ انہیں صاف صاف دیکھ سکتی تھی ۔۔۔

۔

ارباب کچھ لوگوں میں کھڑا بظاہر گفتگو کررہا تھا مگر سارا دھیان حمنہ کی طرف تھا ۔۔۔۔ اس کا ہر ایک اسٹیپ ۔۔۔ ارباب کو اس کی طرف متوجہ کررہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ نہ چاہ کر بھی اسکی طرف دیکھنے پر مجبور تھا ۔۔۔۔۔۔

جب ہی حرا آئی اور ارباب کا ہاتھ پکڑ کر ڈانس فلور پر لے گئی ۔۔۔ارباب نے بہت کوشش کی کہ حرا کو روک سکے مگر ۔۔۔۔ وہ ڈانس فلور پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔

ارباب نے ڈانس شروع کیا ۔۔۔۔۔۔

حرا بھی ساتھ ڈانس کررہی تھی ۔۔۔۔۔

حمنہ بھی ڈانس کررہی تھی ۔۔۔۔ 

یہ گانا پلے تھا۔۔۔۔۔

" جد مہندی لگ لگ جاوے ، 

جد جڑا سج سج جاوے ، 

تے راتاں کٹدیاں نہی نہی نہی، 

وے سجناں تیری ہی صورت

آنکھوں میں بس جاوے 

کچھ ، اور نظر نہ آوے ،

او راتاں کٹدیاں نہی نہی نہی ،  "

۔

تینوں نے مل کر ڈانس فلور سنبھال رکھا تھا ۔۔۔۔

ارباب نے پھر ہاتھ بڑھا کر رمشا کو بھی اٹھا لیا اور وہ بھی ڈانس کرنے لگی ۔۔۔۔

۔

مہندی کی رسم ادا ہوئی ۔۔۔۔

۔

میں بہت تھک گئی ہوں آرام کرنا چاہتی ہوں کچھ دیر ۔۔ کہتی رمشا اٹھ کر جانے لگی ۔۔۔

ارے رمشا بیٹھو نہ ۔۔۔۔ حرا نے کہا ۔۔۔

نہیں ، میرا سر دکھ رہا ہے تم لوگ بیٹھو نہ ۔۔۔۔ کہتی رمشا اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔

دروازہ لوک کیا اور بیڈ پر اوندھی لیٹی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔۔۔ 

میں دیکھ کر آتی ہوں کہتی حمنہ بھی اٹھ کر چلی گئی ۔

دروازہ نوک کیا۔۔۔۔

کون ہے، مجھے کسی سے بات نہیں کرنی ۔ رمشا نے تکیہ سے سر اتھا کر بڑے اکھڑے انداز میں جواب دیا۔

رمشا میں  حمنہ، 

پلیز اوپن دا ڈور۔ رمشا نے درخواست کی۔۔۔۔۔۔

حمنہ ، رمشا نے دوہرایا اور بھاگ کر اتھی ، دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔اور بیڈ کی طرف جارہی تھی ۔۔۔۔ جب حمنہ نے سوال کیا ۔۔۔۔

کیوں کررہی ہو؟

کیا ؟ 

 کیوں کررہی ہوں میں ؟

رمشا نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔

حمنہ نے رمشا کو سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔

رمشا نے نا سمجھی سے پوچھا ،

کیا؟

شادی ۔۔۔۔۔۔۔۔ حمنہ نے بیڈ پہ رمشا کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

کوئی کیوں شادی کرتا ہے ؟

رمشا نے جواب میں سوال کیا ۔

کیونکہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوتے ہیں۔۔۔۔ 

رمشا نے حمنہ کو دیکھا، ہر کوئی اتنا لکی نہیں ہوتا، کہ جس سے محبت کرے ، اسی سے شادی کرے۔۔۔۔۔

لیکن تم ہو لکی ۔۔۔۔۔۔ حمنہ نے رمشا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔

رمشا نے نظریں چرالیں ۔۔۔۔۔

لکی ، اور میں ؟

ہاں تم اور لکی ۔۔۔۔۔۔ تم لکی ہو رمشا ۔۔۔۔۔

۔

حمنہ مت کرو ۔۔۔۔۔ میں پہلے ہی بہت اپ سیٹ ہوں ۔۔۔۔۔۔ رمشا نے چہرہ پھیرتے ہوئے کہا

تو تم مت کرو نہ رمشا ، 

مت کرو یہ شادی ۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ نے التجا کی ۔۔۔۔۔

صبح میری بارات ہے حمنہ ۔۔۔۔۔

رمشا نے آنکھوں میں آنسو چھپائے کہا۔۔۔

فون کہاں ہے تمہارا؟

حمنہ نے سوال کیا۔۔۔۔۔

آف ہے ۔۔۔۔

ہاں تو یہی تو میں پوچھ رہی ہوں کہ فون کیوں آف ہے تمہارا۔۔۔

کیونکہ مجھے اس سے کوِئی بات نہیں کرنی ۔۔۔۔ رمشا نے حمنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

وہ تمہیں کال کررہا ہے ۔۔۔۔۔۔ کل سے وہ تمہارا نمبر ٹرائے کرررہا ہے اور تمہارا نمبر مسلسل بند آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اسے تمہاری شادی کی خبر مل چکی ہے ۔۔۔۔ حمنہ نے بتایا۔۔

رمشا چونکی اور حمنہ کو دیکھا ۔

ہاں میں نے بتایا ہے ۔ اور ویسے بھی اگر میں نہ بھی بتاتی تو بھی اسے پتہ تو چل ہی جانا تھا نہ ۔ حمنہ نے اپنی بات کی وضاحت کی۔

تو تب پتہ چل جاتا نہ، ابھی اسے یہ بات نہیں پتہ چلنی چاہیے تھی ۔۔۔ رمشا نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ 

اپنا فون آن کرو ، حمنہ نے اسے اس کا فون پکڑاتے ہوئے کہا۔

حمنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

رمشا نے موبائل پکڑتے ہوئے سوالیہ نظروں سے حمنہ کو دیکھا ۔۔

حمنہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

رمشا نے اپنا موبائل آن کیا۔۔۔

میں اس سے کیا کہوں گی حمنہ ؟

رمشا نے موبائل آن کرکے الجھے انداز میں حمنہ سے ہوچھا ۔۔۔تب ہی رمشا کا موبائل بجا۔۔

اسکرین پر چمکا ۔۔۔   لائف لائن کالنگ ،،،

حمنہ ۔۔۔۔؟

رمشا نے حمنہ کو دیکھا ،

تم بات کرو ۔ میں چلتی ہوں ٹیک کیئر ، کہتے ہوئے حمنہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔

����������

۔

رمشا نے کال ریسیو کی،اور موبائل کان سے لگایا۔۔۔

 شادی مبارک ہو رمشا ، 

ارے تم نے بلانا تو کیا ، بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔۔ خیر خبر تو مل ہی جاتی ہے ۔۔

مخاطب نے طنزیہ انداز میں کہا ۔۔۔

رمشا نے آنسو سے بھری آنکھیں بند کیں ، 

بے آواز آنسو بھی فہد کو سنائی دیے تھے ۔۔

تم رو رہی ہو رمشا ؟

فہد نے فکر مندی سے پوچھا ، 

رمشا نے اپنے آنسو صاف کیے ، نہیں تو ۔۔

شادی کے لئے ہاں کرتے وقت تمہیں میرا خیال نہیں آیا رمشا؟

کہ میرا کیا ہو گا ؟

فہد ، میں بہت مجبور ہوں ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔

میں نے شادی سے انکار کیا تھا مگر پھر ڈیڈ نے ۔۔۔۔

رمشا اتنا ہی بول پائی اور پھر رونے لگی 

-

پھر کیا رمشا ؟

پھر ڈیڈ نے کیا ؟

آگے بولو ۔۔۔۔ فہد نے پوچھا ۔

ایم سوری فہد ، میں چاہ کر بھی تمہارے لئے ، اپنے لئے ، ہمارے لئے 

کچھ نہیں کرپائی۔۔ 

رمشا نے آنکھوں میں آنسو لئے بتایا۔۔۔

شادی تو انشاء کی تھی نہ ، تو پھر تمہاری کیسے ؟

فہد نے سوال کیا 

رمشا صرف رو رہی تھی۔۔۔۔ رمشا رونا بند کرو ، اور مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے ۔ فہد نے سنجیدگی سے سوال کیا۔۔۔۔

فہد ، آج میری مہندی تھی اور کل میری بارات ہے ، بس یہی ہوا ہے اور یہی ہونے والا ہے۔۔۔۔۔

ت، ت،تم مجھے بھول جاؤ اور اگ اگر ہو سکے تو م، مجھے مع، معاف کردینا ۔۔۔

رمشا نے اٹک اٹک کر جملہ مکمل کیا اور کال کاٹ دی ۔۔۔

اور بیڈ پہ اوندھا لیٹے بے آواز رونے لگی ۔۔۔۔ اب آنسو بھی نہیں تھے ،،،آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔۔۔

����������۔

صبح فجر کا وقت تھا ۔۔۔ جب 

فجر کی اذان ہورہی تھی جب احد کی آنکھ کھلی۔۔۔

احد آنکھیں ملتا ہوا اٹھا ، انشاء کی طرف دیکھا جو پرسکون نیند سورہی تھی ۔۔۔۔۔

انشاء کے بالوں کو پیار سے سہلاتے ہوئے ، احتیاط سے اٹھا کہ کہیں انشاء کی نیند نہ کھل جائے ۔۔۔۔

وضو کیا اور قریبی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا ۔۔۔۔

انشاء کی جب آنکھ کھلی تو دیکھا احد نہیں تھا ، ۔۔

احد ، احد ، کہاں ہیں آپ۔۔۔

احد کہاں چلے گئے ہیں آپ ۔۔۔۔

احد ، احد ۔۔۔۔

انشاء پریشانی کے عالم میں چلانے لگی ۔۔۔

انشاء کیا ہوا ، تم ٹھیک ہو ۔۔۔۔

انشاء کی آواز سن کر سارہ بھاگتی ہوئی انشاء کے کمرے میں آئی ۔۔۔

بھابھی ، احد ۔۔۔۔

پت، پتہ نہیں کہاں چلے گئے ہیں ۔۔۔

بھابھی احد کہاں ہیں ۔۔۔

احد ، احد ۔۔کہاں ہو آپ۔۔

انشاء سارہ سے بات کرکے پھر پاگل وارانہ احد کو آوازیں دینے لگی ۔۔۔

سارہ مسکرائی۔۔۔

انشاء ، میری جان ۔۔۔۔احد آجاتے ہیں ابھی ۔۔۔

سارہ نے انشاء کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔

آپ جانتی ہیں احد کہاں گئے ہیں ؟

انشاء نے بے تابی کے عالم میں پوچھا ۔۔۔

ہاں ۔۔۔ احد اور آہان قریبی مسجد میں نماز پڑھنے گئے ہیں ۔۔۔

آتے ہی ہونگے ۔۔۔

تم سورہی تھی تو احد نے تمہیں اٹھانا مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔

سارہ نے بتایا ۔۔۔

شکر ہے بھابھی ، انشاء سارہ کے گلے لگ گئی ۔۔۔۔ شکر ہے اللّٰہ کا۔۔۔

میں بہت ڈر گئی تھی بھابھی ۔۔۔

انشاء ، سارہ نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

اللّٰہ کا شکر ادا کرو اور نماز پڑھو ۔۔۔

سارہ نے تلقین کی ۔۔

جی بھابھی ۔۔۔ انشاء وضو کرنے چلی گئی ۔۔۔ جبکہ سارہ نماز پڑھ چکی تھی وہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگی ۔۔۔۔

احد جب گھر آیا تو دیکھا انشاء نماز پڑھ رہی تھی ۔۔۔

نماز پڑھ کر انشاء نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اللّٰہ کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔

یا اللّٰہ مجھے معاف کر دے ۔۔میں جانتی ہوں میں نے اپنے ماں باپ کا دل دکھایا ہے لیکن اللّٰہ پاک جی ، اسلام میں تومن پسند ساتھی چننے کی آزادی ہے نہ ۔۔

یا اللّٰہ ، جس انسان سے میرے والدین میری شادی کروانا چاہتے تھے وہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا ۔۔۔

یا اللّٰہ میں جانتی ہوں ، میں گناہگار ہوں ، یا اللّٰہ مجھے سکون کی تلاش ہے۔۔۔

مجھے سکون عطا کردے ۔۔ یا اللّٰہ احد مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور میں احد کے ساتھ بہت خوش ہوں لیکن یہ جو بے چینی ، بے یقینی اور ندامت کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے ۔۔

یہ بوجھ  میرے کندھے برداشت نہیں کر پارہے ۔۔۔

اللّٰہ پاک جی ، احد کی حفاظت فرمانا ۔۔۔

میں احد کو نہیں کھو سکتی ، احد کو کچھ نہیں ہونا چاہیے اللّٰہ پاک جی احد کو کچھ نہ ہو ۔۔۔

وہ دعا کے لئے ہاتھ جوڑے اللّٰہ کے سامنے رورو کر ، گڑگڑا کر دعا مانگ رہی تھی جبکہ احد خاموش کھڑا پیچھے سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔

انشاء اٹھی اور جائے نماز کو تہ لگائی ۔ جب مڑی تو احد اسی پوزیشن میں کھڑا انشاء کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

احد ، انشاء بے اختیار احد سے لپٹ گئی ۔۔۔

کہاں چلے گئے تھے آپ، مجھے اکیلا چھوڑ کر ۔۔۔ پتہ ہے میں کتنا ڈر گئی تھی ۔۔۔۔

احد آئندہ آپ مجھے جگا کر جائیے گا ۔۔۔

انشاء نے سر اٹھا کر کہا ۔۔۔

انشاء ،میری جان ۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔ تمہاری دعائیں اور تمہاری محبت ۔۔۔

احد نے انشاء کی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔۔

میری ڈھال ہیں ۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ہونے دیں گی ۔۔۔

احد نے محبت سے انشاء کو دیکھتے ہوئے کہا اور انشاء پھر احد سے لپٹ گئی ۔۔۔۔

مجھے چاہے اپنی جان دینی پڑے ، مگر میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی احد ۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔

انشاء نے مضبوط ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

����������۔

راؤ بیگ کی حویلی ۔۔۔

آج رمشا کی بارات تھی ۔۔۔

سارے مہمان آچکے تھے ۔۔۔۔ 

حمنہ، تم رمشا کو سیلون لے جاؤ۔۔۔

فائزہ بیگم نے کہا ۔۔۔

جی آنٹی آپ بے فکر رہیں ۔۔۔ ہم چلے جائیں گے ۔۔۔ حمنہ نے یقین دھانی دلائی ۔۔۔

میں  پک اور ڈراپ کردوں گا  آپ دونوں کو۔۔۔ ارباب نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہاں یہ ٹھیک رہے گا ۔۔۔۔ فائزہ بیگم نے تسلی بخش انداز میں کہا ۔۔

ارے آپ کو خواہ مخواہ زحمت ہوگی ۔۔۔۔۔

ہم چلے جائیں گے نہ ۔۔حمنہ نے کہا ۔۔

ارے نہیں نہیں ، زحمت کیسی ۔۔۔

آخر میری اکلوتی بہن کی شادی ہے ۔۔

ارباب نے دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔

ہاں ، میں ارباب کے ساتھ چلی جاؤں گی ۔۔۔ آپ رہنے دیں نہ حمنہ ۔۔۔

ارباب اور میں رمشا کے ساتھ چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ حرا جو ارباب کے پیچھے پیچھے تھی ۔۔۔اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ۔۔

رمشا اپنے ہی خیالوں میں کھوئی تھی ۔۔۔اسے کچھ خبر نہ تھی اس بحث کی ۔۔۔

اوکے ، حمنہ پیچھے ہٹ گئی، ارباب کا بھی موڈ آف ہوگیا جبکہ حرا خوش تھی ۔۔۔

حمنہ میرے ساتھ چلے گی بس ، رمشا نے خیالوں کی دنیا سے باہر آتے ہوئے کہا ۔۔

حرا کے چہرے کے تاثرات بگڑے ، جبکہ ارباب پھر سے مسکرانے لگا ۔۔۔

۔

ارباب۔ ڈرائیونگ کررہا تھا ، جبکہ رمشا اور حمنہ پیچھلی سیٹ پہ ساتھ بیٹھی تھیں ۔۔

ارباب پہلی بار ڈرائیونگ کررہا تھا ، وہ بھی صرف حمنہ کی خاطر ۔۔۔

ورنہ وہ ہر جگہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ ہی جاتا تھا ۔۔۔

شیشہ سیدھا کیے وہ شیشے میں حمنہ کا عکس دیکھ رہا تھا ۔۔۔ جبکہ حمنہ رمشا سے گفتگو میں مصروف تھی ۔۔۔اور رمشا فہد کے ان لفظوں میں ۔۔۔

" شادی مبارک ہو رمشا ، 

ارے تم نے بلانا تو کیا ، بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا"

"خیر خبر تو مل ہی جاتی ہے "

"شادی کے لیے ہاں کرتے وقت تمہیں ایک بار بھی میرا خیال نہیں آیا "

کہ میرا کیا ہوگا "

تم یہ شادی نہیں کرسکتی رمشا ۔۔۔

رونا بند کرو اور مجھے سب کچھ بتاؤ کہ ہوا کیا ہے ۔ شادی تو انشاء کی ہونے والی تھی نہ تو پھر تمہاری کیسے ۔۔۔۔۔؟  "

اس کے ذہن میں بار بار فہد کے کہے سارے جملے گردش کررہے تھے ۔۔۔

۔

وہ سیلون پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔

اب آپ جائیں ، ہمیں وقت لگے گا ۔۔۔۔ حمنہ نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا ۔۔

جب فری ہوجاؤ تو مجھے کال کرلینا، میں آجاؤں گا ۔۔۔

میرا نمبر نوٹ کرلو ۔۔۔ ارباب نے کہا ۔۔

حمنہ نے نمبر نوٹ کیا ، ارباب نے واپس گاڑی موڑ لی جبکہ حمنہ رمشا کی طرف مڑی ۔۔

۔

رمشا ، ابھی بھی سوچ لو ۔ ابھی بھی وقت ہے ۔۔۔ 

کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بعد میں پچھتانا پڑے ۔۔۔

حمنہ نے رمشا کے چہرے کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

اب سوچنے کو بچا ہی کیا ہے حمنہ ۔۔۔

اب وہی ہوگا جو میری قسمت میں لکھا جا چکا ہے ۔۔۔ رمشا نے نہایت مایوسی سے کہا ۔

 چلو اندر چلتے ہیں ۔۔۔ رمشا کہتی اندر داخل ہوگئی ، حمنہ بھی اس کے پیچھے چل دی ۔۔۔

۔

حمنہ باہر انتظار کررہی تھی جبکہ رمشا اندر تیار ہورہی تھی ۔۔۔

۔

-

ماشاءاللہ ، آپ پر تو بہت نکھار آرہا ہے ۔۔۔ آپ کو تو میک اپ کی ضرورت ہی نہیں ۔۔۔ آپ تو ویسے ہی بہت خوبصورت ہیں ۔۔۔

میک اپ کرنے والی نے کہا جبکہ رمشا خاموش تھی ۔۔۔۔

میک اپ ہورہا تھا جب رمشا کا فون بجا ۔۔۔

آپ کی کال آرہی ہے ، آپ ریسیو کرسکتی ہیں ۔۔۔ 

۔

رمشا نے موبائل اٹھایا ، 

لائف لائن کالنگ ،۔۔۔

رمشا نے موبائل پاور آف کردیا ۔۔۔۔

-

۔

میک اپ ہوچکا تھا ۔۔۔ اب وہ دوپٹہ سیٹ کررہی تھی ۔۔۔

پن اپ کرکے دوپٹہ برائیڈل سٹائل میں سیٹ کیا ۔۔۔۔۔

ماشاءاللہ ، اللّٰہ پاک نظر بد سے بچائے ۔۔۔

آپ تو بہت پیاری لگ رہی ہیں ، ۔۔بہت خوبصورت ، بالکل باربی ڈول کی طرح ۔۔۔

۔

آپ نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر خود کو نہیں دیکھا ۔۔۔۔

مخاطب نے کہا ۔۔۔

رمشا نے نظر اٹھائی اور سامنے خود کو آئینے میں دیکھا ۔۔۔

۔

جب تم میری دلہن بنو گی نہ ۔۔۔تو سب سے پہلے تمہیں میں دیکھوں گا ، فہد نے پیار سے رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا جی ، بالکل بھی نہیں ۔۔۔ 

آپ تو مجھے رخصتی کے بعد ہی دیکھیں گے ۔۔۔

رمشا نے شرارتی انداز میں کہا۔۔

بالکل نہیں ، بلکہ تم اور میں ایک ہی سیلون جائیں گے ۔۔۔۔

فہد نےپیار سے رمشا کو دیکھتے ہوئے اس کے منہ پہ آتے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

۔

آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔

آپ رورہی ہیں ؟

دیکھیں آپ روئیں نہیں ، ورنہ سارا میک اپ خراب ہو جائے گا ۔۔۔

۔

آپ اپنی شادی سے خوش نہیں ہیں ؟

مخاطب نے پوچھا تو رمشا نے بے یقینی میں نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

۔

اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا ۔۔۔

کچھ دیر خاموش نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی اور پھر اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔

میں خوش ہوں اپنی شادی سے ۔۔۔

۔

حمنہ دروازے پہ کھڑی رمشا کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

-

اوکے ، اب میں چلتی ہوں ۔۔ آپ کو شادی بہت بہت مبارک ہو ۔۔ کہتی وہ باہر چلی گئی ۔۔۔

تم خوش ہو اپنی شادی سے ؟

وہی سوال حمنہ نے اندر آتے ہوئے دوہرایا۔۔۔

میرے خیال سے تم اس سوال کا جواب بخوبی جانتی ہو۔۔۔

رمشا نے حمنہ کو دیکھتے ہوئے کہا

ہاں مگر ابھی ابھی میں نے کچھ اور سنا توبس کنفرم کررہی ہوں کہ جو مجھے پتہ  ہے وہ سچ ہے یا جو میں نے ابھی سنا ہے ، وہ سچ ہے؟

حمنہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔

-

تمہیں جو ٹھیک لگے ، تم وہی سمجھو ۔۔۔ رمشا نے تنگ آتے ہوئے کہا 

ارباب کو کال کرو ، ہمیں پک کرلے ۔۔۔ رمشا نے کہا۔۔۔

آرہا ہے ، کی ہے میں نے کال ۔۔۔۔

تم ٹھیک نہیں کررہی رمشا ، نہ اپنے ساتھ ، نہ فہد کے ساتھ ۔۔

حمنہ نے آخر کار مایوس ہوتے ہوئے کہا۔۔۔

تو میں کیا کروں حمنہ ؟

میری بہن شادی والے دن گھر سے چلی گئی ہے ، کیونکہ وہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ اب میری بہن کی جگہ میری شادی ہو رہی ہے تو کیا میں بھی گھر سے بھاگ جاؤں۔ 

بتاؤ ، کیا کروں میں ۔۔۔ یا میں عین نکاح کے وقت انکار کردوں ۔۔۔

میرے پاس کوئی اور آپشن ہے تم بتاِؤ،،

میرے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں اور میرے پیروں میں زنجیریں ڈال دی گئی ہیں ، جنہیں میں چاہ کر بھی نہیں توڑ سکتی۔۔۔۔  

تب ہی ہارن کی آواز سن کر دونوں متوجہ ہوئیں ، ارباب آگیا ہے

����������۔

وہ ٹیرس پہ کھڑی رنگین دنیا کو دیکھ رہی تھی ۔ جب پیچھے سے احد آیا۔۔۔

تم یہاں ہو ، میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں دیکھا ۔۔۔۔ میں تو گھبرا ہی گیا ۔۔۔۔ بولتے بولتے وہ اچانک رکا اور انشاء کو دیکھنے لگا ۔۔

انشاء اس کی طرف متوجہ نہ تھی ۔۔۔

کہاں گم ہو انشاء ، احد نے اس کا  کندھا تھپتھپاتے ہوئے پوچھا

 ،،،

احد آپ ! آپ کب آئے ، مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔انشاء حال میں واپس آئی ۔۔۔

بس ابھی آیا ہوں ۔۔۔ تم بتاؤ،،، سب ٹھیک ہے ۔۔۔ احد نے بغور انشاء کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔

ہاں فائن، 

احد !!

ہمم ، 

احد میرا گھر میں دن ہی نہیں گزرتا ، ہم کہیں باہر چلیں ،

انشاء نے لاڈ سے کہا ۔۔۔

لیکن انشاء ، ابھی باہر جانے میں خطرہ ہے یو نو ۔۔۔۔

احد پلیز ، ساحل پہ چلتے ہیں ، ورنہ آئس کریم کھانے چلتے ہیں ۔۔۔۔

کراچی اتنا بڑا شہر ہے ، ایسے کیسے ہم ڈر کر گھر میں ہی بیٹھے رہیں ۔۔۔

میں بہت بور ہو جاتی ہوں ۔۔۔ انشاء نے لاڈ سے کہا ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے میری جان ، ہم ابھی باہر چلتے ہیں آؤٹنگ کے لئے ۔۔۔۔۔ احد نے انشاء کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

تھینک یو ، یو آر دا بیسٹ۔۔۔۔۔ انشاء نے سر اٹھا کر کہا ۔۔۔

احد نے انشاء کی پیشانی پہ بوسہ دیا ۔۔۔ جائو ، جلدی سے ریڈی ہو آؤ ، میں ویٹ کررہا ہوں ۔۔۔۔

پانچ منٹ بس ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی آئی ۔۔۔۔۔ انشاء کہتی اپنے کمرے کی طرف دوڑ گئی جبکہ احد اہر دیکھ کر مسکرانے لگا ۔۔۔۔۔۔

����������

۔

رمشا اپنا لہنگا سنبھالتی اٹھی ، حمنہ  بھی اس کے پیچھے چل دی ۔۔۔۔

دونوں  سیلون سے بایرنکلیں ۔۔۔۔۔۔

ارباب گاڑی سے اترا  ، بیک ڈور کھولا ۔۔۔۔ رمشا لہنگا سنبھالتی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔

حمنہ بیٹھنے کے لئے آگے ہوئی مگر ارباب نے دروازہ بند کردیا ۔۔۔۔

حمنہ نے الجھتے ہوئے ارباب کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ جبکہ ارباب نے حمنہ کی طرف دیکھے بنا اگلا دروازہ کھولا ،

حمنہ نےارباب کی طرف دیکھا جو نظریں جھکائے اس کے بیٹھنے کا انتظار کررہا تھا ۔۔۔ حمنہ اپنی میکسی سنبھالتی گاڑی میں بیٹھی ۔۔۔۔

ارباب نے اس کا زمین سے لگتا دوپٹہ اٹھا کر اندر کیا اور آ کر ڈرا یٔنگ سیٹ سنبھالی ۔۔۔۔

اور یہ سونگ پلے کردیا ۔۔۔

ٗ محبت ، محبت ، عبادت دلوں کی 

 محبت ، محبت ،اجازت دلوں کی 

محبت عادت بھی ہے ، یہ دل کی مجبوری

محبت لکھ کر دے میں جاں

محبت پاگل بھی ہے، کبھی جو پوری نہ ہو

محبت ایسی ایک دعااااااا۔۔

����������۔

آہان ، یار کی دینا کار کی ۔۔۔۔

سارہ اور آہان لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے جب احد ہان کے پاس گیا 

آہان نے جیب سے چابی نکال کر اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

سب خیریت ہے ، کہاں کی تیاری ہے ۔۔۔

وہ انشاء اور میں آؤٹنگ پہ جا رہے ہیں ۔۔۔ 

احد کا بولنا تھا کہ سارہ کے منہ سے چائے نکلی ۔۔۔

-

-

احد آر یو کریزی ، ان حالات میں تم لوگوں کا باہر جانا بالکل غیر مناسب ہے ۔۔۔

آئی نو ، لیکن انشاء ضد کررہی ہے اور اس کی ضد کے سامنے میں ہار جاتا ہوں ۔۔

احد نے شرماتے ہوئے بتایا ،،

سو لولی کپل ، دھیان سے جانا ۔۔۔ آہان نے پیار سے کہا ۔۔۔

تھینک یو یار ، پتہ نہیں میں کبھی تمہارے یہ احسان چکا پاؤں گا بھی ، کہ نہیں 

احد احسان مند تھا ۔۔۔

چل ، چل ، انشاء ویٹ کررہی ہے تیرا ۔۔۔۔ آہان نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا ۔۔۔

����������۔

ارباب سست رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا ۔۔۔جب سگنلز پر وہ لوگ رکے ۔۔۔

آگے ارباب کی گاڑی تھی اور تھوڑا پیچھے احد کی گاڑی رکی ۔۔۔۔

اتنے دن بعد گھر سے نکلنے کی وجہ سے انشاء بہت خوش تھی اور ونڈو کھولے باہرکا نظارہ کررہی تھی جب اچانک اس کی نظر ارباب پہ پڑی ۔۔۔۔

انشاء نے بے یقینی کے عالم میں دوبارہ دیکھا ۔۔۔۔۔

حم ، حمنہ،،،،، ارباب کے ساتھ ۔۔۔۔ وہ چونکی ۔۔۔۔۔

ارباب بھی سگنل کھلنے کے انتظار میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک ارباب نے اس طرف دیکھا ۔۔۔۔

انشاء گھبرا گئی ۔۔۔ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔۔۔ گرین سگنل ہوتے ہی احد نے گاڑی چلا دی ۔۔۔۔۔ 

ارباب اسی طرف دیکھے کچھ کھوج رہا تھا ۔۔۔ ایک جانا پہچانا سا احساس تھا ۔۔۔ 

کیا سوچ رہے ہیں ؟ ۔۔۔۔ 

چلیں ، سگنل گرین ہوگئے ہیں ۔۔۔ حمنہ نے ارباب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہمم ، ارباب چونکا ۔۔۔۔ 

ہاں ،،، ارباب نے گاڑی چلائی۔۔۔۔

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں نے ابھی انشاء کو دیکھا ۔۔۔

جیسے وہ میرے آس پاس تھی ۔۔۔ یا یہ صرف میرا وہم ہے ۔۔۔۔ ارباب نے خود سے سوال کیا اور جواب میں کچھ سیکنڈ پہلے ہونے والا لمحہ سامنے آگیا۔۔۔۔۔

کیا یہ میرا وہم ہے یا سچ میں انشاء ۔۔۔۔؟ 

وہ خود سے الجھ رہا تھا ۔۔۔

سونگ ابھی تک پلے تھا ۔۔۔۔

آپ کتنے حسین ، آپ خود بھی نہیں جانتے

ہم تو مدہوش تھے ، ہم تو کچھ نہ کہے 

ہوش والوں کے ہوش بھی اڑ سے گئے 

ہوش اڑ سے گئے ۔۔۔۔۔

آپ کتنے حسین، اپ خود بھی نہیں جانتے 

میرے ہر راستے کا سفر آپ ہیں ۔۔۔۔

ارباب نے  سپیکرکی آواز آہستہ کی۔۔۔

عاشقوں کی گلی میں خبر آپ ہیں ۔۔۔

ہووووووو۔۔۔

میرے ہر راستے کا سفر۔۔۔۔۔۔۔

ارباب نے اکتاتے ہوئے میوزک بند کردیا ۔۔۔۔

حمنہ نے یہ بات نوٹ کی ۔۔۔۔

مگر وہ خاموش رہی ۔۔۔۔۔ اس کے اور ارباب کے درمیان بے تکلفی تھی ہی کب ؟ 

جو وہ ارباب سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھتی ۔۔۔۔

حمنہ رمشا کی بیسٹ فرینڈ ، اور شہر کے بڑے بزنس مین کی بیٹی تھی اور رمشا کے گھر آتی جاتی رہتی تھی اور اس لحاظ سے ارباب اور حمنہ ایک دوسرے کو اچھے سے جانتے تھے ، معمولی بات چیت بھی کرلیتے تھے۔۔۔۔ 

اس سے بڑھ کر دونوں کے درمیان کچھ نہ تھا ۔۔۔

مگر اب ، رمشا کی شادی پر ارباب کے دل میں شاید حمنہ کے لئے محبت جاگ رہی تھی یا یہ صرف وقتی اٹریکشن تھی کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

����������۔

وہ بہت ڈر سی گئی تھی۔۔۔ 

اگر آج ارباب مجھے دیکھ لیتا ، تو کیا ہوتا ۔۔۔ 

میں اس پل زندہ بھی ہوتی یا ،،،،،

وہ بہت سہم سی گئی ۔۔۔

احد نے اسٹیرنگ گھماتے ہوئے انشاء کو دیکھا ۔۔۔

وہ خود سے الجھ رہی تھی ، جانے کیا سلجھا رہی تھی ۔۔۔

شاید خود سے باتیں کررہی تھی ۔۔۔

احد نے اندازہ لگایا ۔۔۔۔۔

نہیں ، کچھ اس سب سے بہت زیادہ تھا۔۔۔۔ انشاء کچھ سوچ سوچ کر سہم رہی تھی ۔۔۔

احد نے بریک لگائی ۔۔۔۔

کار جھٹکا دے کر رکی ۔۔۔

انشاء ، آر یو اوکے ۔۔۔۔ احد نے اسٹیرنگ پہ دونوں ہاتھ جمائے پوچھا ۔۔۔۔۔۔

انشاء نے کچھ نہیں سنا تھا ۔۔۔۔۔

انشاء ؟

احد نے انشاء کے کندھے پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔

انشاء جھٹکے سے پیچھے ہوئی ۔۔۔۔۔

احد ، انشاء نے پکارا ۔۔۔۔ جانے کیوں آنکھیں بھر ائیں اور احد کے بازو میں بازو ڈالے اس کے کندھے پہ سر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔

ایم سوری ، مجھے لگا کوئی اور ہے ۔۔۔۔ انشاء نے اپنی اس انجانی حرکت کی وضاحت دی ۔۔۔

مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے احد ۔۔۔۔ ارب۔ ارباب ہمیں ڈھونڈ رہا ہے ۔۔۔۔۔ می، میں نے اسے سگنلز پر دیکھا ۔۔۔ وہ ، وہ ، اس کے ساتھ حمنہ تھی ۔۔۔۔ رمشا کی دوست ۔۔۔۔

آج قسمت نے بچا لیا ورنہ ،،،،، انشاء جو سوچ کر بوکھلا بوکھلا کر بول رہی تھی ۔۔۔ بات ادھوری چھوڑ کر احد کے بازو کو مضبوطی سے تھام لیا ۔۔۔۔۔

میں تمہیں نہیں کھو سکتی ۔۔۔۔۔۔ انشاء نے سر اٹھا کر احد کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں نے کبھی نہیں سوچا تھا انشاء ، کہ ایک دن میں اتنا لکی ہو جاؤں گا کہ مجھے تم جیسی ، اتنی خوبصورت ، اتنی خوب سیرت اور اتنا پیار کرنے والی وائف ملے گئی ۔۔۔۔

آئی ایم ویری لکی ۔۔۔۔۔

احد نے محبت سے انشاء کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

چلیں ؟

احد نے شائستگی سے پوچھا ۔۔۔۔ انشاء نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔۔۔

����������۔

را ؤبیگ کی حویلی۔۔۔۔۔

ہر طرف ادھم مچ گئی ۔۔۔۔ بارات آگئی ، بارات آگئی ۔۔۔۔

سب کے سب بارات کو خوش آمدید کہنے کے لئے مین گیٹ کی طرف جا رہے تھے ۔۔۔۔

رمشا کے کمرے میں صرف حمنہ تھی ، 

میں بارات دیکھ کر آتی ہوں ۔۔۔۔۔

کہتی حمنہ بھی چلی گئی ۔۔۔۔۔

رمشا خالی خالی نظروں سے بیٹھی سامنے لگے مرر میں خود کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک اپنا عکس دیکھ کرچونکی۔۔۔۔۔۔

رمشا کے پیچھے ، اس کے کندحے سے سر لگائے فہد کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔

ضرور میرا وہم ہوگا ، رمشا نے خیال جھٹکا ۔۔۔

تعاقب سے اواز آئی۔۔۔

اچھی لگ رہی ہو ، یہ آوازوہ پہچانتی تھی ۔۔۔۔

اس نے بے یقینی سے پہلے اپنے عکس کو دیکھا جہاں فہد اسکے پیچھے کھڑا تھا اور پھر پلٹی ۔۔۔۔

فہد تھوڑا پیچھے ہوا ۔۔۔۔۔

لیکن پھر بھی اچھی نہیں لگ رہی ، ۔۔۔۔۔۔۔ اب فہد اس کے قریب ہوا ۔۔۔۔

بلکہ زہر لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔ فہد نے آگ بگولہ ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

رمشا ڈر کر سہم گئی ، پھر دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔۔۔

جانتی ہو کیوں ؟

فہد دو قدم آگے ہوا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہنے لگا ۔۔۔۔۔

ت، تم ، ان، اند، اندر کیسے آئے ۔۔۔۔۔۔۔؟

رمشا نےہچکچاتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔۔

فہد نے ایک زور دارقہقہہ لگایا ۔۔

کیوں ؟ تمہیں اچھا نہیں لگا میرا آنا ۔۔۔۔

فہد رمشا کے قریب ہوا اور اسکو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا 

یا مجھے اکسپیکٹ نہیں کررہی تھی تم ۔۔۔۔  

����������۔

رمشا مارے ڈرکے صرف خاموشی سے فہد کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

یہ تو وہ فہد نہ تھا ۔۔۔۔ یہ تو کوئی اور ہی تھا ۔۔۔۔ اس نے دل میں سوچا ۔۔۔۔

خون خوار سرخ  آنکھیں ۔۔۔

فہد نے جھٹکے سے اسے چھوڑا ۔۔۔۔

ارے واہ !!!! تمہاری بارات آرہی ہے ۔۔۔۔

بڑا ڈھول اور بینڈ باجا ہے ۔۔۔۔ بڑی دھوم دھام سے شادی کررہی ہوتم تو ۔۔

فہد نے پھر رمشا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

کسی کے ارمانوں کا قتل کرکے ۔۔۔۔ فہد نے اپنی بات مکمل کی ۔۔۔۔

رمشا کی آنکھیں بھر آئیں ۔۔۔۔

ارے ، تم کیوں رو رہی ہو ۔۔۔۔

رخصتی کے وقت رونا ، ابھی سے رورہی ہو ۔۔۔۔

فہد نے اس کا آنسو اپنی انگلی پر اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔

بہت قیمتی ہیں یہ آنسو ۔۔۔ انہیں صیح ٹائم پر ، صیح جگہ استعمال کرنا ۔۔۔۔

۔

دلہا کیا کرتا ہے تمہارا ؟ 

فہد نے منہ موڑتے ہوئے پوچھا ۔۔

جبکہ رمشا کے آنسو اب سسکیوں میں بدل گئے ۔۔۔ 

اچھا ، ضرور کوئی پولیٹیک ہی ہوگا ، یا کوئی رچ بزنس مین ۔۔۔۔

۔

صیح ، ہم جیسے کہاں تم بڑے لوگوں کو نظر آتے ہیں ۔۔۔۔

فہد نے پھر رمشا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

فہد ، پلیز ایسی باتیں مت کرو ۔۔۔۔۔ رمشا نے فہد کے منہ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

تم جانتے ہو میں بھی تم سے کتنی محبت کرتی ہوں ۔۔۔۔

یہ سب میرے لئے پہلے ہی بہت مشکل ہے ۔۔۔۔

رمشا نے اب ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا جبکہ فہد رمشا کی آنکھوں میں بسی بے بسی دیکھ رہا تھا ۔۔۔

تم اسے اور مشکل مت بناؤ پلیز فہد ، پلیز ۔۔۔۔

رمشا روتے روتے کہنے لگی ۔۔۔۔

تم ، پلیز یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔

اس سے پہلے کہ کوئی آئے اور تمہیں دیکھے ۔۔۔۔

پلیز ۔۔۔۔ رمشا نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔۔۔

فہد رمشا کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

پلیز فہد ، میرے لئے ۔۔۔

پلیز ۔۔۔۔ رمشا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

مگر رمشا میں تمہارے بغیر ۔۔۔۔۔

فہد ابھی بول رہا تھا کہ دروازہ نوک ہوا اور فائزہ بیگم اندر داخل ہوئی۔ ۔۔۔

تم ٹھیک ہو رمشا ۔۔۔۔

جی مما ۔۔۔۔

رمشا نے اپنی پیشانی پہ ٹشو رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

تم کھڑی کیوں ہو ؟ 

فائزہ نے اسے کھڑے دیکھا تو سوال کیا ۔۔۔

وہ ، میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی تھی ۔۔۔۔

رمشا نے صفائی سے جھوٹ بولا ۔۔۔

رمشا ، میرا بچہ ، میری جان کا ٹکڑا ۔۔۔۔ مجھے معاف کر دینا ۔۔۔ میں تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکی ۔۔۔۔

اپنے گھر میں خوش و خرم رہنا ۔۔۔۔ میں ہمیشہ تمہارے لئے دعا گو رہوں گی ۔۔۔۔

فائزہ نے پیشانی پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

نکاح کا وقت ہوگیا ہے ۔۔۔ ارباب نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

رمشا گھونگھٹ لئے بیٹھ گئی ۔۔۔

مولوی صاحب اور گواہ اندر آئے ۔۔۔

راؤ بیگ ، فائزہ ، ارباب ، حمنہ ، حرا بھی اندر موجود تھے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

سب نے دعائے خیر کے لئے ہاتھ اٹھائے ۔۔۔۔

فہد بیڈ کے نیچےقالین پہ لیٹا تھا ۔۔۔۔۔۔ کتنی عجیب بات ہے ، رمشا کے نکاح کا ایک گواہ میں بھی بن گیا ۔۔۔۔ اس نے خود سے کہا تھا ۔۔۔۔ آنکھیں نم تھیں ۔۔۔۔ رمشا کسی اور کی ہوچکی تھی ۔۔۔۔ کوئی معجزہ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔

اس نے رمشا کو ہمیشہ کے لئے کھو دیا تھا ۔۔۔۔

وہ دونوں ساحل سمندر پہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سست رفتاری سے چل رہے تھے ۔۔

تیز ہوا چلنے کی وجہ سے انشاء کے بال اڑ اڑ کربار بار اس کے چہرے پہ آرہے تھے ۔۔۔۔۔ 

وہ احد کا ہاتھ تھامے ، محبت سے اسے دیکھتی، کبھی اس کی بات سن کر مسکرانے

لگتی تو کبھی شرما جاتی ۔۔۔۔ کبھی اپنے چہرے پہ لہراتی زلفوں کو پیچھے کرتی ۔۔۔

انشاء کے بال بہت خوبصورت تھے ۔۔ سنہری رنگ کے ، گھنے اور لمبے ۔۔۔۔

جو اس کی خوبصورتی میں مزید نکھار پیدا کرتے تھے ۔۔۔۔

اس کی آنکھیں بلی تھیں ۔۔۔۔ اور چہرہ سفید ملائی جیسا ۔۔۔۔۔۔

وہ بالکل ایک باربی ڈول لگتی تھی ، جیسے کوئی پلاسٹک کی گڑیا ہو ۔۔۔۔۔

وہ اتنی خوبصورت تھی کہ کوئی بھی اسکے عشق میں گرفتار ہوجائے ۔۔۔۔

یہ احد کی خوش نصیبی تھی کہ انشاء کا دل احد پہ آگیا ۔۔۔ اور احد اپنی اس خوش نصیبی کی قدر کرتا تھا

����������۔

رخصتی کا وقت ہوگیا ہے ۔۔۔۔

راؤ بیگ نے رعب دار آواز میں کہا ۔۔۔۔

رمشا کو چادر میں لپیٹا گیا ۔۔۔۔

ارباب ہاتھ میں قرآن مجید لئے اس کے سائے میں اپنی بہن کو رخصت کرنے لگا ۔۔۔

راؤ بیگ نے رمشا کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔۔۔

میرا فخر ہو تم رمشا ۔۔۔۔ تم نے مجھے شرمندہ ہونے سے بچا لیا ۔۔۔۔ میری عزت کا مان رکھا ۔۔۔۔

پراؤڈ آف یو بیٹی ۔۔۔۔

راؤ بیگ نہایت محبت اور مان سے کہہ رہے تھے ۔۔۔

رمشا کو لگا اس کا دل پھٹ جائے گا ۔۔۔۔

لیکن نہیں ، سب کچھ ہورہا تھا اور وہ خاموشی سے سہہ رہی تھی ۔۔۔

سب باری باری رمشا سے ملے اور آخر وہ ایک انجانے چہرے ، ایک انجانے اور ان چاہے انسان کے ساتھ اس کے نکاح میں بندھ کر اس کے ساتھ رخصت ہورہی تھی ۔۔۔۔

وہ سہرا سجائے شیروانی پہنے رمشا کے برابر میں چل رہا تھا ۔۔۔۔ 

کار کے قریب جانے تک انہیں پیدل چلنا تھا ، ۔۔۔

پھر جاوید اور رمشا دونوں کو پیچھلی سیٹ پر اکھٹے بیٹھا دیا گیا ۔۔۔۔۔

����������۔

تمہیں پتہ ہے آج مشہور پولیٹیک بیگ صاحب کی بیٹی کی شادی تھی ۔۔۔۔

بڑی ہی دھوم دھام سے شادی کی ہے انہوں نے اپنی بیٹی کی ۔۔۔۔

ایک لڑکی نے اپنے ساتھ والے لڑکے سے کہا ۔۔۔۔ 

ہاں بھئی کیوں نہ کرے گا دھوم دھام سے ۔۔۔ آخر اتنا رچ بندہ ہے ۔۔۔۔ اس لڑکے نے جواب میں کہا۔۔۔۔

 انشاء کے کان میں ان کی آواز پہنچی تھی ۔۔۔۔ اور وہ بے یقینی کے عالم میں ان کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔ کہ کیا یہ سچ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔ شادی تو آج میری ہونی تھی ، میں تو وہاں ہوں نہیں تو پھر۔۔۔۔۔۔

انشاء نے دل میں سوچا ۔۔۔

ضرور انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی  ہوگی ۔۔۔۔ انشاء نے خود ہی اپنے گمانوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

����������۔

فائزہ آنکھوں میں آنسو لئے ، رمشا کو رخصت ہوتے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

۔۔۔

سب کمرے سے باہر چلے گئے تھے ۔۔۔۔ فہد بیڈ کے نیچے سے باہر آیا ۔۔۔۔

پاس پڑے میزسے رمشا کی تصویراٹھائی  اور اس سے باتیں کرنے لگا ۔۔

ہم نے تو ایک ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں نہ ، تو پھر تم مجھے کیسے چھٔوڑ کر جاسکتی ہو ۔۔۔۔ 

کیسے ؟ ۔۔۔۔۔ وہ بھی ایک انجان اور ان چاہے انسان کے لئے ۔۔۔

میں تمہیں کبھی خود سے دور نہیں ہونے دوں گا ، کبھی نہیں ۔۔۔ فہد نے کہتے ہوئے تصویر کوسینے سے لگایا تھا ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

یہی صیح وقت ہے نکلنے کا ، کچھ لمحے بعد اسے خیال آیا ۔۔۔۔ اور وہ حویلی سے بارات کی بھیڑ میں باآسانی باہرآگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

����������۔

انشاء نے احد سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی ۔۔۔

گھر چلیں ؟

انشاء نے پوچھا ۔۔۔۔

تم چلنا چاہتی ہو ؟ ۔۔۔ احد نے پوچھا ۔۔ 

ہممم۔۔۔۔ انشاء نے سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

چلو ۔۔۔۔۔ چلتے ہیں

احد انشاء کو لیتا کار  کی جانب بڑھا۔۔ 

دروازہ کھولا ، انشاء بیٹھی ۔۔۔۔

احد نے ڈرائیونگ سیٹ آ کر سنبھالی ۔۔۔۔۔۔ اور اسٹیرنگ پہ ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ گاڑی چلانے لگا ۔۔۔

انشاء خاموش تھی ۔۔۔۔

وہ عام طور پر خاموش نہیں رہتی تھی جب پریشان ہوتی تو خاموشی اختیار کرلیتی ۔۔۔۔۔

احد نے اس کی پریشانی محسوس کی مگر کچھ نہ پوچھا۔۔۔۔

یونہی سارا سفر خاموشی میں گزر گیا۔۔۔۔

۔

وہ لوگ گھر پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔

انشاء اپنے  کمرے کی طرف تقریباً دوڑتی ہوئی گئی ۔۔۔۔۔

آہان ہاتھ میں اخبار لئےلان میں ہی بیٹھا تھا ۔۔۔۔

احد اس کے پاس آںیٹھا ۔۔۔۔

چابی واپس کی ۔۔۔۔ شکریہ آہان ۔۔۔۔

ویلکم ۔۔۔۔ آہان نے خوش اخلاقی سے جواب دیا اور اخبار کی طرف متوجہ ہوگیا ۔۔۔۔

اچانک نظر اٹھا کر احد کو دیکھا جو کچھ الجھا ہوا سا لگ رہا تھا ۔۔۔

احد ، کیا ہوا ہے ؟

اب وہ اخبار لپیٹنے لگا ۔۔۔۔

تم لوگ تو آؤٹنگ پہ گئے تھے نہ ۔۔۔۔

پھر بھی تم لوگوں کے مزاج میں کوئی فرق نہیں آیا ۔۔۔۔

آہان نے اخبار سامنے ٹیبل پہ رکھی ، اب  وہ مکمل طور پر احد کی طرف متوجہ تھا ۔۔۔۔

ایک مسئلہ ہے آہان ۔۔۔

احد اسے راز داری سے بتانے لگا ۔۔۔

سب خیریت ہے نہ ؟ 

آہان نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

پتہ نہیں ، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔ احد نے دونوں ہاتھ سر پر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

مجھے بتاؤ، کیا ہوا ہے ؟ 

آہان اس کے قریب ہو کر پوچھنے لگا ۔۔۔۔

راؤ بیگ صاحب نے ،،،، 

وہ لمحہ بھر کو سانس لینے کے لئے رکا ۔۔۔۔۔۔

کیا کیا ہے راؤ بیگ نے ؟ 

آہان نے بے تابی سے پوچھا ۔۔۔۔

انہوں نے رمشا کی شادی کردی ہے ۔۔۔۔

احد نے دونوں ہاتھ اب منہ پہ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ ۔۔

واٹ ؟ 

آہان چونکا ۔۔۔

جس سے انشاء کی شادی ہونی تھی ۔۔۔ اسی سے رمشا کو بیاہ دیا ہے انہوں نے ۔۔۔۔ احد نے اپنی بات مکمل کی ۔۔۔۔

احد یہ ۔۔۔۔۔ ؟ 

آہان کو کچھ سمجھ نہیں آیا ، کہ وہ کیا بولے ۔۔۔ 

انشاء ،،،، انشاء جانتی ہے یہ بات ؟ 

آہان نے اچانک خیال آنے پر پوچھا ۔۔۔

نہیں ۔۔۔۔

وہ پہلے ہی بہت ڈسٹرب ہے۔۔۔

ہروقت کھوئی کھوئی سی رہتی ہے، پریشان رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کون سے خیال ، کون سے گمانوں نے اسے گھیر رکھا ہے ۔۔۔

وہ ایسی نہیں تھی ، وہ بالکل ایسی نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ مسکرانا بھول گئی ہے ۔۔۔۔۔ 

مجھے ڈر ہے اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ایک دن وہ زندہ لاش بن کر رہ جائے گی ۔۔۔۔

کہتے کہتے احد کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔۔۔

میں اسے بتانے کا رسک نہیں لے سکتا ، نہ جانے اس کا کیا ریکشن ہوگا ۔۔۔ احد نے اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بھاری آواز میں کہا ۔۔۔

آہان نے تسلی کے لئے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔۔

سب ٹھیک ہو جائے گا، تو پریشان مت ہو۔۔۔۔ بس جلد سے جلد یہاں سے کہیں بیت دور چلے جاؤ۔۔۔

آہان نے مشورہ دیا تھا ۔۔۔

ہاں ، جلد ہی کچھ کرتا ہوں ۔۔۔ احد ے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا

"

وہ بیڈ پہ لہنگا پھیلائے اپنے شوہر کا انتظار کررہی تھی مگر وہ نہیں آیا تھا ابھی تک ۔۔۔۔ سیکنڈ، منٹ اور پھر گھنٹہ گزر گیا ۔۔۔۔ آٹھ سے نو بج گئے مگر وہ نہیں آایا ۔۔۔۔

سارے دن کی تھکاوٹ ، اور پھر یہ رسم و رواج اور پھر کب سے وہ بت بنی بیٹھی 

لہنگا پھیلائے جاوید کا انتظار کررہی تھی مگر وہ ابھی تک اپنے کمرے میں نہیں آیا تھا ۔۔

اب رمشا بیٹھی جھول رہی تھی ، نیند سے اس کا برا حال ہورہا تھا ۔۔۔

کبھی دائیں تو کبھی بائیں وہ گرتی ۔۔۔۔

وہ ہار مان چکی تھی ۔۔۔ اٹھ کر سنگھار شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور اپنا بھاری سا ایک جھمکا اتارے لگی ۔۔۔۔ ابھی کان کو ہاتھ ہی لگایا تھا کہ دروازے کی سرسرائٹ سن کر وہ جلدی  

سے واپس بیڈ پہ جا بیٹھی ۔۔۔۔

وہ لڑکھڑاتا ہوا اندر داخل ہوا اور دروازہ لاک کرکے لڑکھڑاتے قدموں سے بیڈ کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔

رمشا کی دھڑکنے تیز ہوئیں ۔۔۔۔ اس کا دل چاہا کہیں دور بھاگ جائے مگر وہ اپنی جگہ مارے خوف کے منجمند بیٹھی تھی ۔۔۔۔

وہ بیڈ پہ اس کے روبرو آبیٹھا ۔۔۔

وہ گھونگھٹ اوڑے اس کے سامنے بیٹھی تھی ۔۔۔۔  

سب کہہ رہے تھے کہ میری  دلہن ، لمحے بھر کو وہ رکا اورایک لمبا سانس خارج کیا۔۔۔۔۔۔ 

بدل گئی ہے ۔۔۔۔ اس نے اپنی ادھوری بات مکمل کی اور زور دار قہقہہ لگایا ۔۔۔۔

۔

اوہ!!!

وہ ہنستے ہوئے رکا ،، میں نے تو چیک ہی نہیں کی ۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اس نے گھونگھٹ اٹھانے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھانا چاہا ۔۔۔۔

رمشا کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔۔۔۔ اب وہ اس کا محرم تھا ۔۔۔اسے یہ حق حاصل تھا مگر ۔۔۔۔۔ رمشا نے تو کبھی اسے یہ حق نہ دیا تھا ، نہ دینا چاہتی تھی ۔۔۔

رمشا اس کا بڑھتا ہوا ہاتھ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے گھونگھٹ کو ہاتھ لگانا چاہا۔۔۔۔۔ رمشا نے ایک زور دار چھینک ماری ۔۔۔۔۔ جاوید نے جلدی سے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا ۔۔۔۔

جبکہ رمشا سر جھٹک کر جب سیدھی ہوئی تھی تو اس کا گھونگھٹ اتھ چکا تھا ۔۔۔

۔

  اس نے خود کو مضبوط کیا اور جاوید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہنے لگی ۔۔۔

ہاں ، بدل گئی ہے تمہاری دلہن ۔۔۔ چیک کرلو۔۔۔ دیکھ لو اچھے سے ۔۔۔ رمشا اسے آنکھیں دیکھائے تھوڑی آگے ہو کے کہنے لگی ۔۔۔

ام ہمممم ، اس نے ناک پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔۔

تم نے ڈرنک کی ہے ۔۔۔ رمشا نے اتنے رعب سے پوچھا کہ جاوید ایک پل کو ڈر گیا

اور پیچھے ہوئے منہ پہ ہاتھ رکھ کر بولا ۔۔۔

نہیں تو، نہیں تو میں تو ڈرنک نہیں کرتا ۔۔۔۔

رمشا نے خود کو بہادر نہیں ، بلکہ پتھر بنا لیا تھا ۔۔۔۔

ہٹو ، مجھے سونے دو۔۔۔۔ سارے دن کی تھکاوٹ ہے ۔۔۔۔

اس نے اپنا جھمکا اتارا ، پھر دوسرا جھمکا اتارا ۔۔ جاوید بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔۔

گلے میں پہنا ہار ، جو اس کے لئے ایک پھندہ تھا ۔۔۔ زور سے پکڑ کر کھینچا ۔۔۔

۔ 

سو جائو تم بھی ۔۔۔ کل ولیمہ بھی ہے ۔۔۔۔ رمشا نے لیٹتے ہوئے کہا ۔۔۔

اور لیمپ آف کردیا ۔۔۔ 

جاوید کچھ دیر تو دیکھتا رہا کہ ہوا کیا ہے ، وہ بھی نشے کی حالت میں تھا ۔۔۔ جیسے ہی لیٹا ۔۔۔ نیند نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا ۔۔۔

اور وہ خراٹے مارنے لگا ۔۔۔۔

رمشا جاوید کی طرف پیٹھ کیے لیٹی تھی ۔۔۔ اس کے خراٹوں کی آواز سن کر اس کی طرف پلٹی ، ایک نظر سوتے ہوئے جاوید پہ ڈالی اور پھر دوسری طرف منہ کئے رونے لگی،۔۔۔۔۔۔۔ اپنی قسمت کو ، اپنے والدین کو ۔۔۔۔ اپنے باپ کی جھوٹی ریپوٹیشن کو ۔۔۔۔ 

آج وہ خود کو قربان کرچکی تھی ۔۔۔ اب وہ پتھر کی ہو چکی تھی ۔۔۔ 

اسے یہ تعلق نبھانا تھا ، مگر اس تعلق کو بنانا نہیں تھا ۔۔۔

اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونجھتے ہوئے فیصلہ لیا تھا ۔۔۔

������

وہ گہری نیند سورہی تھی ۔ جب فجر کی اذان اس کے کانوں میں پڑی ۔۔۔۔ 

معمول کے مطابق اس کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔

وقتی طور پہ وہ گھبرا گئی کیونکہ  اس نے خود کو ایک انجان جگہ پر پایا ۔۔۔

آہستہ آہستہ اسے خود پہ گزرا سارا طوفان یاد آنے لگا ۔۔۔۔

وہ لیٹی ہوئی چھت کو گھور رہی تھی۔۔۔۔

"اور پھر اس کی شادی فہد سے نہیں بلکہ جاوید سے ہوگئی "

یہ آخری بات اسے یاد آئی ۔۔۔اس نے گردن موڑ کر جاوید کو دیکھا جو ابھی بھی فراٹے  مار رہا تھا ۔۔۔۔

اسے خود سے نفرت سی ہوئی۔۔۔ میں نے کیسے اس انسان کے ساتھ رات گزار لی ہے ۔۔۔۔ آنکھ میں آنسو ابھرا مگر اس نے بڑی بے دردی سے اسے نکلنے سے پہلے ہی کچل ڈالا ۔۔۔۔

نہیں ، اب مجھے رونا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اب رونے کو بھی کچھ نہیں بچا ۔۔۔۔

اس نے خود سے کہا ۔۔۔۔۔

وہ اٹھی ، وضو کیا ، فجر کی نماز کے لئے جائے نماز بچھائی اور نماز ادا کرنے لگی ۔۔۔۔

لائٹ آن ہونے کی وجہ سے جاوید بھی بڑبڑاتا ہوا اٹھ بیٹھا ۔۔۔۔

کیا مصیبت ہے ، لائٹ کیوں آن کی ہے ۔۔۔؟

اس نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا۔۔

رمشا تشہد کے لئے بیٹھی تھی ۔۔۔

 دھندلی سی اسے رمشا جائے نماز پہ نظر آئی ۔۔۔۔

اس نے آنکھیں مسل کر دوبارہ دیکھا ۔۔۔۔ اب رمشا سلام پھیر رہی تھی ۔۔۔

ہیںں !!! تم نماز بھی پڑھتی ہو ؟

اس نے بے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

جی الحمداللہ ۔۔میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان پہ نماز فرض ہے ۔۔۔۔ رمشا نے روکھے روکھے انداز میں جواب دیا ۔۔۔ اور پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے لگی ۔۔۔۔

ت، تو،تو میں  کیا کافر ہوں ۔۔۔۔ میں بھی تو مسلمان ہوں ۔۔۔۔ جاوید نے اپنی بےعزتی محسوس کرتے ہوئے جواب میں کہا۔۔۔

حرکتیں تو ایسی ہی ہیں ۔۔۔ رمشا بڑبڑائی ۔۔۔

ک، کیا کہا ہے تم نے ۔۔؟

اس نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا ۔۔۔مگر رمشا نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا اور ہاتھ اٹھائے دعا مانگنے لگی ۔۔۔۔

"اے اللّٰہ ، زندگیوں کے فیصلے تیرے ہاتھ میں ہیں ۔۔۔ اور تو ہی کرتا ہے ۔۔۔ اے اللّٰہ ، کیا اس انسان کو آپ نے میری قسمت میں لکھا ہے ؟ 

یا یہ میرے گناہوں کی کوئی سزا ہے ۔۔۔۔۔ اے اللّٰہ! میں نے فہد سے محبت کی تھی اسی سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ میں تو بس اپنی ایجوکیشن کمپلیٹ ہونے کا ویٹ کررہی تھی اور میری قسمت !!!!

مجھے کہاں سے کہاں لے آئی ۔۔۔

اے اللّٰہ ، شاید میں نے غلط فیصلہ کیا ہے ، شاید ٹھیک ۔۔۔۔ میں نہیں جانتی ۔۔۔ مجھے کچھ بھی  سمجھ نہیں آرہا۔۔۔

اے اللّٰہ ، جو انسان اپنی شادی کی پہلی رات نشے کی حالت میں گھر آئے ۔۔۔ وہ ایک اچھا شوہر کیسے ثابت ہوسکتا ہے ۔۔۔۔؟ 

اللّٰہ جی ۔۔۔ جانے یہ کیسا امتحان ہے میری زندگی کا ، یہ کیسی آزمائش ہے ۔۔۔ اور انشاء ؟ 

نہ جانے وہ کہاں ہوگی ۔۔۔۔ کیسی ہوگی ۔۔۔۔  نہ جانے اسے میری شادی کی خبر ہوگی بھی کہ نہیں ۔۔۔

یا اللّٰہ ،اسے خوش رکھنا ، اسے کبھی  کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔۔۔ یا اللّٰہ، میں اب انشاء سے کب مل پاؤں گی ؟ 

مجھے اس کی بہت یاد آتی ہے ۔۔۔ اور اسے بھی تو میں یاد آتی ہونگی نہ ۔۔۔۔

۔

۔

-

����������۔

انشاء چینخ مار کر اٹھی تھی ۔۔۔ اس کی چینخ کی آواز سن کر احد بھی ڈرکر اٹھا ، لیمپ آن کیا ۔۔۔۔

انشاء مارے خوف کے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی ۔۔۔۔۔

انشاء تم ٹھیک ہو ؟

لو ، پانی پیو ۔۔۔ اس نے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلتےہوئے کہا ۔۔۔

انشاء ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئی ۔۔۔۔

انشاء ، آر یو اوکے ۔۔۔؟ 

کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے کیا ؟ 

احد نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھے پوچھا ۔۔۔

احد ، میں نے خواب دیکھا کہ ۔۔۔

۔

۔

لمحے بھر کو وہ رکی تھی لفظوں کو ترتیب دینے کے لئے ۔۔۔۔

کہ ؟ 

احد نے دوہرایا ۔۔۔

کہ رمشا اور میں کسی گہری کھائی میں گر گئیں ہیں ، بہت کوشش کی مگر ہم باہر نہیں آپارہیں ۔۔۔

بہت چینخ رہی ہیں ، چلا رہی ہیں ۔۔۔ مگر ہماری آواز سننے والا ، ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔۔۔ 

احد یہ کیسا خواب ہے ؟ 

کیا رمشا کسی مصیبت میں ہے ؟ 

کیا رمشا کو میری ضرورت ہے ؟ 

وہ احد کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اس سے پوچھ رہی تھی مگر احد نے نظریں چرا لیں ۔۔

-

انشاء ، وہ ٹھیک ہے ۔۔۔ وہ بالکل ٹھیک ہے ۔۔تم یونہی پریشان ہو رہی ہو ۔۔۔

احد نے انشاء کو مطمئین کرنے کی کوشش کی۔۔۔

تم سچ کہہ رہے ہو ؟

وہ ٹھیک ہوگی ؟ 

انشاء نے معصومیت سے پوچھا ۔۔۔ جس پہ احد نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔

چلو ، دونوں مل کر فجر کی نماز ادا کرتے ہیں اور رمشا کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں ۔۔۔

احد نے بستر سے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔ انشاء نے بھی رضامندی ظاہر کی ۔۔۔

����������۔

صبح کے سات بج رہے تھے ۔۔۔ 

بھئی جلدی کرو ۔ رمشا کے گھر ناشتہ لے کر جانا ہے وہ انتظار کررہی ہوگی ہمارا ۔۔۔۔

راؤ بیگ فائزہ بیگم سے مخاطب تھے ۔۔

جی سب تیار ہے ، بس پیک کررہی تھی ۔۔۔۔ فائزہ بیگم نے کچن سے نکلتے ہوئے بڑے مصروف انداز میں کہا ۔۔۔

چلو ، چلو ، جلدی چلو۔۔۔۔۔

ارباب نے اپنا کالا چشمہ  پہنتے ہوئے کہا ۔۔۔

وہ لوگ کار میں بیٹھنے لگے جب فائزہ نے یاد کرایا ۔۔

حمنہ نے بھی جانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

حرا جلدی سے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئی ۔۔۔

حمنہ کو راستے میں لینا تھا ۔۔۔۔

۔

نسیم کچن میں مصروف تھی جب رمشا کچن میں داخل ہوئی ۔۔۔

آنٹی ، آپ لوگ ناشتہ مت بنائیں ۔۔ میرے گھر سے ناشتہ آرہا ہے ۔۔۔ ابھی بھائی کی کال آئی ہے وہ لوگ آتے ہی ہونگے ۔۔

رمشا نے بڑے ادب سے کہا ۔۔

۔

او بی بی ۔ تمہارے گھر والے صرف تمہارا ناشتہ لے کر آرہے ہیں نہ ۔۔۔ تم سکون سے بیٹھ کر کرنا ۔۔۔

میں اپنے فیملی میمبرز کے لئے ناشتہ بنا رہی ہوں ۔۔۔

بڑی آئی ، ناشتہ لے کر آرہے ہیں ۔۔۔ نسیم نے بڑی اکڑ سے کہا ۔۔۔

نہیں آنٹی ، وہ ہم سب کا ناشتہ لے کر آرہے ہیں ۔۔۔

رمشا نے غصہ آنے کے باوجود احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے کہا ۔۔

نسیم کچھ بولنے ہی لگی کہ ہارن کی آواز آئی ۔۔۔

لو آگئے بھائی لوگ ۔۔۔ رمشا کہتی دوڑی ۔۔۔

وہ لوگ گیراج میں گاڑی کھڑی کرتے آرہے تھے ۔۔جب رمشا ان سب سے جا لپٹی ۔۔

اسلام وعلیکم مما، اسلام وعلیکم ڈیڈ، 

کیسے ہو بھائی ، حمنہ ۔۔۔ وہ باری باری سب سے ملی ۔۔۔

میں نے آپ سب کو بہت مس کیا ۔۔۔ رمشا لاڈ سے کہنے لگی ۔۔۔

ارے ابھی سے ۔۔۔۔ اب وہ لوگ ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ رہے تھے جب ارباب نے رمشا کو تنگ کرنا چاہا ۔۔۔

ابھی کل ہی تو تمہیں رخصت کیا ہے ۔۔۔ ارباب نے اپنی کرسی سنبھالتے ہوئے کہا ۔۔۔

بیٹا کھانا نکالو ۔۔۔۔ راؤ بیگ نے رمشا سے کہا ۔۔۔

بیٹا جاوید نہیں اٹھا ؟ 

اسے بھی جگا آتی ۔۔۔۔ نواز صاحب نے رمشا سے پوچھا ۔۔۔

۔

وہ رات کو دیر سے گھر آئے تھے ۔ میں تو ان کا انتظار کرتے کرتےتب تک سو چکی تھی ۔۔۔۔۔

تو اب اپنی مرضی سے ہی اٹھیں گے نہ ۔۔۔ رمشا نے صاف صاف کہہ دیا ۔۔

سب رمشا کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے ، اس نے بولا کیا ہے ۔۔۔۔؟ 

حمنہ بھی حیران تھی ۔۔۔

نسیم کو رمشا پہ بہت غصہ آرہا تھا ۔۔۔ اس نے سب کے سامنے جاوید کی بے عزتی جو کردی تھی نہ ۔۔

چھوڑیں نہ ، آپ لوگ ناشتہ کریں ۔۔۔۔ رمشا نے بات کو نظر انداز کرتے ہوئے نارمل انداز میں کہا ۔۔۔

۔

سب کھانا کھانے لگے ۔۔۔

 میں جاوید کو دیکھ کر آتی ہوں ، کہتے ہوئے نسیم اٹھ گئی ۔۔۔

۔

رمشا بھی بیٹھ کر سکوں سے ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔

۔

����������۔

انشاء کھانا کھا رہی تھی جب اس نے احد کو دیکھا ۔۔۔ وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا ۔۔

احد ، انشاء نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پکارا ۔۔۔

ہممم ، احد متوجہ ہوا ۔۔

کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے ۔۔۔۔

انشاء نے پلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔

ہاں کھا رہا ہوں ۔۔۔ احد کہتا کھانے کی ایکٹنگ کرنے لگا ۔۔۔

۔

میں جانتی ہوں احد ، آپ میرے لئے پریشان ہیں ۔۔۔

ایم سوری ، بس وہ خواب دیکھا تو ڈر گئی ۔۔۔

انشاء نے ندامت سے کہا۔۔۔

۔

نہیں انشاء ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔

احد ناشتہ کرنے لگا ۔۔۔۔

آؤ بیٹھو ۔۔ رمشا نے اپنا سوٹ ہینگر میں لٹکاتے ہوئے کہا۔۔

رمشا ، تم ناشتے پہ کیا کہہ رہی تھی ؟ 

کیا واقعی تم نے سچ کہا تھا ؟ 

حمنہ نے رازداری سے پوچھا ۔۔۔

اس میں جھوٹ بولنے والی کونسی بات تھی ۔۔۔

وہ رات کو لیٹ ہی آیا تھا اور اس میں اتنا حیران ہونے والی کونسی بات ہے ؟ 

رمشا نے ہینگر الماری میں لگاتے ہوئے کہا ۔۔

یار تمہاری فرسٹ نائٹ، اور ۔ ۔ ۔

حمنہ اس سے پہلے کچھ بولتی جاوید اندر آیا ۔۔

حمنہ نے شکر ادا کیا کہ اس نے وقت پہ جاوید کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور بات اُدھوری چھوڑ دی ۔۔۔

میں آتی ہوں کہتے ہوئے حمنہ باہر چلی گئی۔۔۔

۔

رمشا بڑے آرام سے آکر بیڈ پہ بیٹھ گئی ۔۔۔

یہ کیا حرکت ہے ؟ 

جاوید دونوں ہاتھ سینے پہ جوڑے اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور پوچھنے لگا ۔۔۔

کیا ، کیا حرکت ہے ؟

رمشا نے اس کی طرف دیکھے بنا پوچھا ۔۔

تم نے ناشتہ پہ کیا بکواس کی ہے ۔۔ جاوید کی آواز کچھ بھاری ہوئی ۔۔

ایک پل کو تو رمشا ڈر سی گئی ، لیکن اگلے ہی لمحے اس نے خود کو مضبوط کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

ہاں ، تو کچھ غلط کہا میں نے ؟ 

۔

اب وہ پاس پڑے ٹیبل سے ماڈلز کی تصویروں والی کتاب کھولے کہنے لگی ۔۔

۔

جاوید نے اپنے غصے کو ضبط کرنے کی کوشش کی ۔کیونکہ

اسےایسا کرنے کا اسکے والد نے حکم دیا تھا ۔۔

۔

ابھی تم شکر کرو میں نے یہ نہیں بتایا کہ تم نشے کی حالت میں گھر آئے تھے ۔۔

اب رمشا نے نظر اٹھا کر جاوید کے تاثرات دیکھنے چاہے ۔۔

۔

تم سمجھتی کیا ہو خود کو ؟ 

جاوید نے زور سے اسے کہنی سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔

چھوڑو مجھے۔ رمشا نے درد سے کراہتے ہوئے کہا مگر جاوید نے غصے سے اس کا بازو موڑا ۔

مجھے درد ہورہا ہے مجھے چھوڑو۔۔ جاہل انسان ۔۔

رمشا نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ۔

۔

یہ تو صرف ٹریلر ہے ۔۔۔ جاوید نے اس کا بازو چھوڑتے ہوئے کہا ۔

آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا ۔۔۔

جاوید کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی جبکہ رمشا کی آنکھ میں ایک ننھا سا موتی ابھرا تھا ۔۔۔ جو اس کی بے بسی کی انتہا کو ظاہر کررہا تھا ۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖

بھابھی ، اتنے دن ہوگئے میری شادی کو ۔ لیکن آپ ابھی تک مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتیں ۔۔

اتنا لاڈ تو کوئی سگی بھابھی بھی نہ کرے جتنا آپ نے کیا ہے ۔۔۔

سارہ لان میں بیٹھی فروٹ کاٹ رہی تھی جب انشاء اوپر سے آئی اور بیٹھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔

کوئی بات نہیں ، میری گڑیا ۔

تم کچھ دنوں کی تو مہمان ہو ۔۔ اور مہمانوں سے بھلا کام کرایا جاتا ہے ؟ 

سارہ نے سیب کاٹتے ہوئے پیار سے کہا ۔

جس مہمان کی واپسی کا کوئی پتہ نہ ہو اس سے تو سارے گھر کا کام کرانا چاہیے ۔

انشاء نے سارہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس پہ سارہ کھل کھلا کر ہنس پڑی ۔۔

ہاہاہا ، یہ تو تم نے ٹھیک کہا لیکن 

سارہ کچھ بولتی ، انشاء نے بات کاٹی ۔۔

آج میں کھانا بناؤں گی اور آپ  کچھ نہیں بولیں گی ۔۔

انشاء نے حکم دیا ۔

۔

لیکن انشاء ۔۔۔ 

سارہ نے ہاتھ کے اشارے سے کچھ کہنا چاہا ۔

بس بہت ہوا ، اب لیکن ویکن کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔

انشاء نے کہا۔

اچھا لو یہ ایپل تو لو ۔۔

سارہ نے پلیٹ انشاء کی طرف بڑھائی ۔۔

انشاء نے ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔

بھابھی ، بالکل من نہیں ہے اور مجھے بہت کام کرنا ہے میں کچن دیکھ لوں ۔۔

انشاء کہتی کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔

۔

بالکل جھلی ہے یہ لڑکی ۔۔

سارہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔

۔

احد آہان کے ساتھ باہر گیا ہوا تھا ۔۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ سب میریج ہال میں موجود تھے ۔۔ 

آج رمشا اور جاوید کا ولیمہ تھا ۔۔۔۔ وہ دونوں اسٹیج پہ دو انجان لوگوں کی طرح بیٹھے تھے ۔۔۔

۔

ارباب ہاتھ میں موبائل لئے نظریں موبائل پہ جمائے تیز تیز قدم چل رہا تھا جب وہ انجانے میں حرا سے ٹکرا گیا ۔۔

جب کہ حرا جان بوجھ کر اس کے راستے میں آئی تھی ۔

۔

او سوری ، تمہیں لگی تو نہیں ۔۔

اس کے جواب کا انتظار کیے بنا، ارباب نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

اسے سلامت دیکھ کر وہ پھر سے موبائل پہ نظریں جمائے چلنے لگا ۔۔۔

اف ، آ آ ، 

حرا پاؤں کو پکڑے درد سے چلائی ۔۔

اوہ ، سوری تمہیں لگی ہے ۔۔۔

ارباب واپس اس کے قریب آیا اور دیکھنے کے لئے نیچے جھکنے ہی لگاجب حرا نے اس کا فون چھین لیا اور بھاگنے لگی ۔۔

حرا میرا فون دو ۔۔ ارباب نے سنجیدگی سے کہا ۔۔

نہیں دوں گی ۔۔۔ 

آج کا دن بھی آپ کو اس سے فرصت نہیں ۔۔

آج تو اسے چھوڑ دیں ۔۔۔ حرا فون لئے کبھی کہیں ، تو کبھی کہیں ہوتی ۔

جبکہ ارباب موبائل لینے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے ۔۔

حرا فون دو میرا ۔۔۔ میں ایک ضروری کام کررہا ہوں ۔۔

اب کی بار ارباب کے لہجے میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ غصہ بھی تھا ۔۔

اوکے ، اوکے بابا لے لو فون ۔۔۔ حرا نے فون آگے کرتے ہوئے کہا ۔۔

ارباب نے فون لینے کے لئے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا ۔۔

حرا نے فون پیچھے کرلیا ۔۔۔

ہممم، پہلے یہ بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں ۔۔۔

حرا نے اپنا لہنگا پہلا تے ہوئے پوچھا ۔۔۔

۔

زہرلگ رہی ہو۔۔۔ 

ادھر دو میرا فون ۔۔۔۔ ارباب نے اپنا فون چھینتے ہوئے کہا ۔۔۔

اور آئندہ مجھ سے ایسا مذاق ، اور ایسا سوال مت کرنا ۔۔۔۔

ارباب نے انگلی کے اشارے سے وارننگ دی تھی ۔۔۔

۔

اسٹیج پہ فوٹو گرافی شروع ہوئی ۔۔۔۔ جاوید جان بوجھ کر رمشا کے قریب سے قریب تر ہوکر فوٹوز بنوا رہا تھا ۔۔۔

کبھی اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتا ، تو کبھی اسکی قمر پہ ۔۔۔

جس سے رمشا بہت زیادہ تنگ ہورہی تھی مگر اسے اپنے چہرے پہ مسکراہٹ سجانی پڑی ۔۔ کیونکہ وہاں میڈیا تھی ۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ سب کھانے کی میز پر موجود تھے ۔۔۔

واہ سارہ ۔۔۔ آج تو بہت اچھی اچھی خوشبو آرہی ہے۔

 لگتاہے کچھ خاص بنایا ہے ۔

آہان نے پیار سے سارہ کو دیکھتے ہوئے ڈھکن اتارا ۔۔۔

۔

واہ چکن کڑھائی اور قورمہ ۔۔۔

آہان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔

آج کھانا میں نے نہیں بنایا بلکہ انشاء نے بنایا ہے ۔

سارہ جو کب سے اپنی تعریف سن رہی تھی آخر اسے اسکی اصل حقدار تک پہنچاتے ہوئے کہا۔

احد جو گم صُم تھا ۔۔۔ سارہ کی بات سن کر چونکا اور انشاء کی طرف دیکھا جو اسے ہی بیٹھی دیکھ رہی تھی ۔۔

ارے واہ انشاء ، تم اتنا کمال کھانا بناتی ہو ۔۔ مجھ سے تو انتظار نہیں ہورہا ۔۔ پلیز سارہ جلدی سے کھانا ڈال دو ۔۔

ویسے ہی آج بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔ 

آہان نے کھانے کو چٹ پٹی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔

جی ۔۔ سارہ کھانا ڈالنے لگی ۔۔۔

۔

انشاء نے احد کے دیکھنے پہ نظریں جھکا لیں اور پھر احد کو کھانا نکال کر دینے لگی ۔۔۔

۔

احد محبت سے انشاء کو دیکھتا رہا ۔۔۔

رات کا وقت تھا ۔۔ ہر چیز تاریکی میں ڈوبی تھی ۔۔۔

انشاء بیڈ پہ بیٹھی اپنے کانٹے اتار رہی تھی جب احد اندر آیا ۔۔۔

انشاء ، میں مدد کردیتا ہوں ۔۔۔ احد نے کہتے ہوئے اس کے کان سے ایک جھمکا نکالا۔۔۔ پھر دوسرا ۔۔۔۔

جھمکااتارنے کے لئے ، احد انشاء کے قریب ہوا تھا ۔۔۔۔ احد انشاء کے بہت قریب تھا ۔۔۔

اس نے انشاء کے کان کی لو پہ لب رکھ دیئے ۔۔۔

پھر اس کے رخسار پہ لب رکھ دیئے ۔۔۔

تھینک یو انشاء ۔۔۔ اس نے انشاء کے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ۔۔

وہ کس لئے ، ؟

انشاء نے محبت سے احد کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

میرے لئے ، میرا فیورٹ کھانا بنانے کے لئے ۔۔۔

احد نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ پہ بوسہ دیا ۔۔۔

تمہارے لیے تو میں روز اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا کروں گی ۔۔۔۔ بس تم یونہی مجھ سے پیار کرتے رہنا ۔۔۔

انشاء نے احد کے گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

منظور ہے ۔۔۔۔

احد نے پیار سے انشاء کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

رمشا اپنے کمرے میں تھی ۔۔ کبھی دائیں تو کبھی بائیں چکر لگا رہی تھی جب جاوید اندر داخل ہوا۔۔۔

ارے واہ !! میری بیوی میرا انتظار کررہی ہے ۔۔

کیا بات ہے ۔۔۔ جاوید نے رمشا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

انتظار ، مائی فٹ ۔۔۔

رمشا نے پوری قوت سے اپنا چھڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔

تمہاری ہمت کیسےہوئی مجھے چھونے کی ۔۔۔

رمشا نے جاوید کو کالر سے پکڑا تھا ۔۔۔

وہ بھی میڈیا کے سامنے ۔۔۔۔ رمشا چلائی تھی ۔۔۔

میرا کالر چھوڑو ۔۔۔ جاوید نے غصے سے رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

مجھے چھونے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے ۔۔

رمشا نے جاوید کو کالر سے پکڑ کر اپنی نظروں کے قریب کرتے ہوئے کہا ۔۔

اور کالر چھوڑ دیا۔۔۔

۔

تم سمجھتی کیا ہو خود کو ۔۔۔  جاوید نے اسے پکڑ کر دیوار سے لگایا تھا ۔۔اور اس کے قریب ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

جاوید کے منہ سے بدبو آرہی تھی جس سے رمشا نے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا ۔۔۔

جاوید نے اس کا منہ پہ رکھا ہاتھ دیکھا ۔۔اور پھر اپنے منہ سے آنے والی بدبو محسوس کی ۔۔۔

۔

اب عادت ڈال لو اس سمیل کی۔۔۔۔ یہی تمہارا مقدر ہے۔۔۔ جاوید نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے اس کا ہاتھ منہ سے ہٹاتے ہوئے اس کے اور قریب ہوکر کہا تھا ۔۔۔

۔

چھوڑو مجھے ، چھوڑو جاہل انسان ۔۔۔

رمشا نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا ۔۔

جاوید نے اسے چھوڑا ۔۔۔

اور ایک زور دار طمانچہ اس کے نازک سے چہرے پہ دے مارا ۔۔۔

شوہر ہوں تمہارا ۔۔۔ کوئی نوکر نہیں ۔۔۔

جاوید نے شہادت کی انگلی دیکھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ جبکہ رمشا کے سارے بال آگے اس کے منہ پہ آچکے تھے ۔۔۔ 

۔

جاہل ہو تم ، جاہل ہو ، جاہل ہو ، جانور کہیں کے ۔۔۔

رمشا نے اپنے منہ پہ گرے بال اٹھائے بنا کہا ۔۔۔

کیا ہوں میں ؟ 

جاوید اسکے قریب ہوا ۔۔۔

تم ایک انتہائی گھٹیا اور جاہل انسان ہو ۔۔۔۔ رمشا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔

جاوید نے اسے بالوں سے پکڑ کر پیچھے کیا ،اور اس کے چہرے کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں نوچتے ہوئے کہا ۔۔۔

حد میں رہا کرو اپنی ۔۔۔ اور تمہیں چھونے کا حق تو صرف میرا ہے ۔۔۔۔ اور اس حق سے میں کبھی دستبردار نہیں ہوں گا ۔۔۔۔

۔

 نہ میں تمہیں چھوڑوں گا ۔ نہ تمہاری اس بھگوڑا بہن کو ۔۔۔

تم دیکھو تو میں تمہارے ساتھ کرتا کیا ہوں ۔۔۔ جاوید نے اس کے چہرے کو ایک جھٹکے سے چھوڑا اور دروازہ لوک کردیا ۔۔۔

۔

رمشا بظاہر خود کو مضبوط دکھاتی رہی مگر اندر سے وہ بالکل خالی ہوچکی تھی ۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

فائزہ بیگم سونے کے لئے لیٹی ہوئی تھی ۔ راؤبیگ نے اپنی گھڑی اتار کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھی ۔۔۔ اور سونے کے لئے لیٹنے ہی لگے جب انہوں نے فائزہ کی سسکیوں کی آواز محسوس کی ۔۔

تم رورہی ہو ؟

فائزہ بیگم نے راؤ بیگ کی بھاری آواز سنی ۔۔

فائزہ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں ۔۔

میں جانتا ہوں تم جاگ رہی ہو ۔۔۔ راؤ بیگ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

کیا جانتے ہیں آپ ؟ 

نہیں ، مجھے بتائیں کیا جانتے ہیں آپ ۔۔ فائزہ اپنے آنسوؤں پہ قابو نہ رکھ سکی اور روتے ہوئے اٹھ بیٹھی ۔۔۔

کیا ہوگیا ہے ؟ 

آج ہماری بیٹی کا ولیمہ تھا وہ اپنے گھر کی ہوگئی ہے ۔۔۔ ہمارا فرض پورا ہوگیا اور تم ۔۔ تم کیا یہ رورو کر نحوست پھیلا رہی ہو ۔۔۔

راؤ بیگ نے مصروف انداز میں کہا ۔۔۔ اب وہ تکیہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔۔

شادی، ولیمہ ، اپنا گھر ۔۔۔۔

ارے آپ کو اپنی بیٹی کی سنسان آنکھیں دکھائی نہیں دیں ۔۔۔۔ کتنی ویرانی تھی اس کی آنکھوں میں ۔۔۔

کتنی خاموش تھی وہ ۔۔۔

کیا ہماری بیٹی ایسی تھی جیسی آج آپ نے دیکھی ۔۔۔

فائزہ بیگم نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اونچی آواز میں کہا ۔۔

چلاؤ مت ۔۔۔ اور ہر لڑکی کو اپنے سسرال میں اڈجسٹ ہونے کے لئے کچھ وقت تو لگتا ہے ۔۔۔ بس رمشا کو بھی کچھ وقت لگے گا اڈجسٹ ہونے میں ۔۔۔ راؤ بیگ نے بڑی شائستگی سے جواب دیا ۔۔۔

ارے کیسے باپ ہیں آپ ؟ 

آپ کو اپنی اولاد کی خوشی اور پریشانی ہی دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔

بظاہر آپ کو انشاء سے، رمشا سے بہت محبت ہے ۔۔۔  فائزہ بیگم جذبات میں بولتے ہوئے انشاء کا نام لے گئیں ۔۔

انشاء کا نام مت لینا  آئندہ میرے سامنے  ۔۔

مر گئی ہے وہ میرے لئے ۔۔۔ رمشا کی شادی کی تیاری میں ، میں گھر کی صفائی نہیں کرا سکا ۔۔۔

صبح انشاء کی ساری فوٹوز ڈسٹ بین میں ہوں اور میں صبح نوکروں سے کہہ کر اس کے کمرے کو  سٹور روم بنوا دوں گا ۔۔۔

راؤ بیگ کی پیشانی پر انشاء کا نام آتے ہی بل پڑے تھے ۔۔۔

کیا ہوگیا ہے آپ کو ۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔

ہوش میں تو ہیں ۔۔فائزہ بیگم نے ڈرتے ڈرتے کہا ، کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ جس بات کا فیصلہ یہ کرلیں ۔۔۔ وہ کرکے ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔

پورے ہوش میں ہوں میں ۔۔۔۔ راؤ بیگ کی آواز بلند ہوئی جس سے فائزہ بیگم دبک کر رہ گئیں ۔۔۔

رات کافی ہوگئی ہے ۔۔۔ سو جاؤ ۔۔۔ راؤ بیگ نے کہتے ہوئے لیمپ آف کردیا جبکہ فائزہ بیگم کچھ دیر تک بیٹھی ان کی بے حسی اور انہیں سکون کی نیند سوئے دیکھتی رہیں ۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سب مہمان جاچکے تھے ۔۔۔ ارباب سونے کی کوشش کررہا تھا مگر بار بار اسے حمنہ کا چہرہ دکھائی دیتا ۔۔۔

ڈانس کرتے ہوئے اس کا ہاتھوں اور پیروں کو حرکت دینا ۔۔ ہاتھوں کا لہرانا۔۔۔

جب اس نے حمنہ کے لئے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تو حمنہ کی وہ نظر ۔۔۔

جب مجھے انشاء کو دیکھنے کا وہم ہوا تو حمنہ کا یوں بار مجھے دیکھنا ۔۔۔

یہ مجھے کیا ہورہا ہے ۔۔

میں راؤ ارباب بیگ ہوں ۔۔۔ مجھے صرف اپنے  پولیٹیکل کیرئیر پر فوکس کرنا چاہیے ۔۔۔ بس اور کہیں نہیں ۔۔۔

ارباب نے اپنے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کیں اور سو گیا ۔۔۔۔

صبح کا وقت تھا۔۔

سب ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے ۔۔۔ رمشا نے ایک طرف سے دوپٹہ آگے کرکےاپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا۔۔

۔

ارے بیٹا یہ دوپٹہ کیوں منہ کے آگے کیا ہوا ہے تم نے ۔۔۔ نواز صاحب نے رمشا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

رمشا خاموش تھی جبکہ نسیم نے ناک چڑھا لی ۔۔۔

ہاں بھابھی ، آپ نے یہ گھونگھٹ سا کیوں لے رکھا ہے ۔۔۔؟ 

واجد نے بھی رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

بالکل سوٹ نہیں کررہا ۔۔ اتار دیں اسے ۔۔۔ واجد نے مشورہ دیا ۔۔

بھائی آپ کہیں نہ ۔۔۔ واجد نے جاوید کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

جاوید نے طنزیہ انداز میں رمشا کو دیکھا ۔۔۔

جیسے ہے ، ٹھیک ہے ۔۔۔ تم ناشتہ کرو ۔۔۔ جاوید نے واجد کو جھڑکا ۔۔ جس پہ واجد خفا سا ہوکر ناشتہ کرنے لگا ۔۔۔

نسیم بھی مطمئین سی ہوئی جبکہ نواز کو شک ہوا ۔۔۔

رمشا ، کیا مسئلہ ہے ۔۔۔ اتارو دوپٹہ ۔۔۔

کیا چھپا رہی ہو۔۔۔ کیا ہوا ہے ۔۔

رمشا غصے سے جاوید کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔

اسے کیا دیکھ رہی ہو ۔ میں نے کہا نہ دوپٹہ سائیڈ پہ کرو ۔۔۔ نواز صاحب کی آواز گونجی جس پہ رمشا نے دوپٹہ چہرے سے ہٹایا ۔۔۔

نواز صاحب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔۔ نسیم نے بے یقینی سے رمشا کے گال کو دیکھا ۔۔۔ جبکہ جاوید پرسکون سا ہوکر ناشتہ کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔

واجد بھی حیران و پریشان ہوکر رہ گیا ۔۔۔

رمشا کا گال سرخ ہورہا تھا ۔۔۔ اور ہونٹ سے بہنے والا خون بھی سوک چکا تھا ۔۔۔

یہ کیا ہے جاوید ۔۔۔  نواز صاحب نے غصے سے جاوید کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

بیوی اگر زبان چلائے ۔۔ تو اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے ۔۔

جاوید نے پرسکون انداز میں کہا ۔۔۔

تمہاری شادی کو دن کتنے ہوئے ہیں جو تم اس حد تک آن پہنچے ہو ۔۔۔

میں نے تو تمہاری ماں کے ساتھ کبھی یہ سلوک نہیں کیا ۔۔

نواز نے بلند آواز میں کہا۔۔

کیونکہ میری ماں ایک فرمانبردار بیوی اور ماں ہیں ۔۔۔

جاوید نے عام سے لہجے میں کہا ۔۔۔۔

شٹ اپ۔۔۔۔ نواز چلایا ۔۔۔

ابھی اور اسی وقت معافی مانگو  رمشا سے ۔۔۔

نواز نے حکم صادر کیا ۔۔۔ لیکن ڈیڈ۔۔۔

جاوید نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔

میں نے کہا معافی مانگ ۔۔۔۔ 

جاوید نے رمشا کی طرف دیکھا جو خون خوار آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

سوری ۔۔۔۔ جاوید نے غصے سے رمشا کو دیکھتے ہوئے اکھڑے انداز میں کہا ۔۔۔

ایسے مانگتے ہیں معافی ۔۔۔۔

دوبارہ مانگو ۔۔۔ نواز نے غصے سے جاوید کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

آپ بھی نہ ۔۔۔

بس کریں ۔۔۔ اس نے مانگ تو لی ہے معافی ۔۔۔ نسیم نے کہا۔۔۔

میں نے کہا معافی مانگو ۔۔۔ نواز نے اپنی بات دوہرائی ۔۔۔

جاوید نے غصے سے پہلے نواز کو اور پھر رمشا کو گھورا اور کچھ بولنے ہی لگا ۔۔۔جب رمشا نے ہاتھ آگے کرکے اسے روک دیا ۔۔ 

رہنے دیں انکل ۔۔۔ مجھے اس کی معافی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔

میں آج اپنے گھر چلی جاؤں گی ۔۔۔

رمشا نے کہا اور وہاں سے جانے لگی ۔۔

لیکن بیٹا ، ایسے تم کیسے جا سکتی ہو۔ اور وہ بھی اس حلیہ میں ۔۔۔

نواز نے بات سنبھالی چاہی مگر رمشا رکے بنا جا چکی تھی ۔۔۔

۔

ارے الو ۔ تمہارا دماغ کہاں ہے ۔۔۔ کیا تم نہیں جانتے ، ہم نے ان سے رشتہ کیوں جوڑا ہے ۔۔۔

تم کیسے اتنی بڑی بے وقوفی کرسکتے ہو ۔۔ نواز صاحب نے سرگوشی کی ۔۔

ڈیڈ وہ مجھے انسلٹ کررہی تھی ۔۔۔ اور میں اپنی انسلٹ کبھی برداشت نہیں کر سکتا ۔۔۔

جاوید نے بتایا۔۔  

ارے تو کیاہوگیا۔۔۔ انسلٹ ہی تھی نہ ۔۔۔

کرنے دیتے ۔۔۔ 

ڈیڈ آپ جانتے ہیں میری شادی انشاء سے ہونی تھی ۔۔ اور میں صرف انشاء کو ہی اپنی لائف پارٹنر بنانا چاہتا تھا ۔۔ رمشا کے معاملے میں مجھ سے کوئی امید مت رکھیے گا ۔۔۔

جاوید نے صاف صاف کہہ دیا ۔۔۔

ارے بے وقوف ۔۔۔ کیا تم نے وہ کہاوت نہیں سن رکھی ۔۔

کہ ضرورت پڑنے پر گھدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے ۔۔۔۔ تو بس یہی سمجھ لے کہ ضرورت پڑنے پہ گدھے کو باپ بنانا ہے ۔۔۔ اپنی اکڑ سنبھال کر رکھ ۔۔۔ 

رمشا کو کہے، جیسا کہے بس وہی کر ۔۔۔ سنا تم نے ۔۔۔ نواز صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔

جی ڈیڈ ۔۔۔  جاوید نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا ۔۔

۔

نسیم خاموش تھی ۔۔۔۔

 اور تو بھی بہو سے بنا کر رکھا کر ۔۔۔۔

بلکہ اسے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھ ۔۔۔

یہ رمشا ہمارے دن پھیرنے والی ہے ۔۔۔ نواز نے خیالی دنیا میں جاتے ہوئے کہا ۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

انشاء اور احد گھر سے نکلنے لگے ۔۔۔جب آہان کی آواز پہ وہ دونوں رکے۔۔

ارے ارے ، اتنی عجلت میں کہاں جارہے ہو ۔۔

بتایا بھی نہیں ۔۔۔ آہان نے ان کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا ۔۔

آج انشاء نے اپنا نام تبدیل کروانے جانا ہے ۔۔۔ بس اسی سلسلے میں جارہے ہیں ۔۔۔

احد نے بتایا ۔۔۔

انشاء بہت پیارا نام ہے ، اب کیا نام رکھ رہی ہو بدل کے ۔۔۔ 

آہان نے پوچھا ۔ ۔۔

عیشاء ۔۔۔۔ انشاء نے بتایا ۔۔۔۔

ماشاءاللہ ۔۔۔ اچھا نام ہے ۔۔۔

چلو اللّٰہ تم دونوں کو خوش رکھے ۔۔۔ آہان نے اجازت دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

آمین ۔۔۔

دونوں نے یک آواز ہو کر کہا۔ ۔

اور بیرونی دروازے سے باہر کی طرف چلے گئے۔۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

آج بیگ صاحب کے حکم پر انشاء کا کمرہ خالی کیا جا رہا تھا ۔۔

اس کی ساری تصویریں ، اور باقی سارا سامان اٹھا کر سٹور روم میں رکھ دیا گیا تھا ۔۔

اگرچہ انشاء کا کمرہ بھی سٹورروم ہی بنایا جارہا تھا لیکن پھر بھی بیگ صاحب نے اس کے کمرے سے اس کا سارا سامان باہر نکلوا دیا تھا ۔۔

فائزہ نے انشاء کی ۲ فوٹوز اپنے پاس چھپا لی تھیں ۔۔

ارباب بھی یہ سب دیکھ رہا تھا ۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ انشاء کے کمرے کو یوں ختم کردیا جائے۔۔۔ 

انہوں نے سب سے یہی کہا تھا کہ انشاء ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ پڑھنا چاہتی تھی ۔اور اپنا کئیریر بنانا چاہتی تھی ۔۔

اس لئے وہ بیرون ملک چلی گئی ہے۔۔۔۔

نواز صاحب کو بھی یہی بتایا گیا تھا ۔۔۔ 

انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ بیگ صاحب کی بڑی بیٹی ان کی بہو بنے یا چھوٹی ۔۔۔ انہیں تو صرف بیگ صاحب سے تعلقات بڑھانے تھے ۔۔۔

ویسے تو انشاء اور رمشا دونوں ہی بہت خوبصورت تھیں مگر جاوید انشاء کو پسند کرتا تھا۔ اور جب اسے پتہ چلا کہ انشاء یہ شادی نہیں کرنا چاہتی اور وہ بیرون ملک چلی گئی ہے 

تو جاوید کا خون خول ٹھا تھا ۔۔۔۔ اسے یقین تھا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے ۔۔۔

اب سے انشاء اس کی پسند نہیں بلکہ ضد بن چکی تھی۔

اس نے رمشا سے شادی صرف اس لئے کی کہ انشاء کی کوئی بھی خبر اگر بیگ صاحب کو ملے تو اس بھی ملے۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

بیگ صاحب اپنے کمرے میں کھڑے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کسی گہری سوچ می گم تھے ۔۔

مام میں یہ شادی نہیں کرسکتی ۔۔۔ آپ پلیز سمجھائیں نہ ڈیڈ کو۔۔

میں نہیں کرتی جاوید کو پسند۔۔ نہ ہی میں یہ شادی کروں گی ۔

انشاء اپنی مام کے سامنے فریاد کررہی تھی ۔

لیکن بیٹا تمہارے ڈیڈ کمینٹمنٹ کرچکے ہیں 

فائزہ نے جواب میں کہا ۔۔۔

بیگ صاحب کمرے میں داخل ہونے لگے جب انہوں نے انشاء اور فائزہ کی گفتگو سن کر قدم روک لیے ۔۔

تو مام میں بھی کسی کے ساتھ کمیٹیڈ ہوں ، میں بھی انہی کا خون ہوں ۔۔ میں بھی اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی ۔۔

انشاء نے کمزور لہجے میں کہا۔۔

بیگ صاحب اندر داخل ہوچکے تھے ۔۔

کیا کہا تم نے ۔۔۔۔؟

بیگ صاحب نے انشاء کو گھورتے ہوئے پوچھا۔۔۔

ڈیڈ میں ، وہ میں ،۔۔۔۔۔

ڈیڈ میں یہ شادی نہیں کرسکتی ۔۔۔۔ انشاء نے چہرہ جھکائے کہا۔۔

کیوں ، وجہ ۔۔۔۔۔۔۔؟

ڈیڈ ، میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں ۔۔۔ کچھ بننا چاہتی ہوں ۔۔

میں ابھی شادی وادی کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتی ۔۔۔۔

انشاء نے بات بدلی تھی ۔۔۔

اور روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف دوڑ گئی۔۔۔

صاحب یہ تصویریں جلانی ہیں یا سٹور روم میں رکھ دوں ۔۔۔

نوکر نے انشاء کی تصویروں کا ایلبم اٹھائے پوچھا ۔۔۔

بیگ صاحب ماضی کی یاد سے باہر آئے ۔۔۔

جلا دو ،

اس کی ہر ایک تصویر، ہر ایک یاد جلا دو ، مٹا دو۔۔۔

بیگ صاحب نے انتیائی غصہ سے کہا 

مگر جانے کیوں آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔۔۔

مام پلیز ۔

کچھ کریں ۔۔۔ میں یہ شادی نہیں کروں گی ۔۔۔ میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔ میں جاوید سے کسی صورت شادی نہیں کروں گی ۔۔۔

مام پلیز ۔۔۔۔ 

انشاء اپنے کمرے میں تھی جب فائزہ اسے دیکھنے آئی تھی کچھ بات کرنےکے لئے ۔۔۔

وہ فائزہ کے سامنے رونے ، گڑگڑانے اور التجا کرنے لگی ۔۔۔

انشاء ، پلیز ایسے مت روؤں ۔۔

ایسے مت تڑپو۔۔ 

مجھ سے نہیں دیکھا جا رہا ۔۔۔

فائزہ سے اس کی حالت نہیں دیکھی جارہی تھی ۔۔۔ اس نے انشاء کو شانوں سے پکڑتے ہوئے کہا ۔۔

مام میں احد کے بنا مر جاؤں گی ۔۔

میں نہیں جی سکتی احد کے بنا ۔۔۔ پلیز مام ۔۔۔۔

انشاء فائزہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے روتے ہوئے زمین پہ بیٹھ گئی ۔۔۔

انشاء ۔۔۔ اٹھو بیٹا ۔۔۔

اٹھو ۔۔۔ فائزہ نے شانوں سے پکڑ کر انشاء کو اٹھایا۔۔

انشاء کو اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔۔

اس کے آنسو پونچھتے ہوئے فائزہ بیگم نے کہا ۔۔

صرف ایک حل ہے ان سب مسئلوں کا ۔۔۔

فائزہ نے خود کو مضبوط بناتے ہوئے کہا ۔۔۔

انشاء خالی خالی نظروں سے بات کو نہ سمجھتے ہوئے فائزہ کو دیکھنے لگی ۔۔۔

احد سے کہو ۔۔۔۔ تمہیں بھگا کر لے جائے ۔۔۔

اگر وہ تم سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ تمہیں ضرور یہاں سے لے جائے گا ۔۔۔

جبکہ انشاء فائزہ کی یہ بات سن کر ساکن رہ گئی ۔۔۔ 

وہ بے یقینی سے فائزہ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

ہاں انشاء ۔۔۔ فائزہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا

اگر تم اور احد ایک دوسرے سے سچ میں محبت کرتے ہو ۔۔۔ تو یہ ایک واحد طریقہ ہے اپنی محبت بچانے کا ۔۔ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا ۔۔۔

ہاں انشاء ۔۔۔ تم بھاگ جاؤ ۔۔۔

جاؤ جی لو اپنی زندگی ۔۔۔

فائزہ بیگم نے انشاء کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا ۔۔۔

لیکن مام ۔۔۔

ڈیڈ ، بھائی ، رمشا ۔۔۔

میں آپ سب کو چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں ۔۔۔۔ انشاء نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

نہیں مام۔۔۔ میں یہ نہیں کرپاؤں گی ۔۔۔

انشاء نے بے چینی کے عالم میں کہا ۔۔

انشاء ، دو ہی راستے ہیں ۔۔۔

یا تو اپنی محبت ، اپنی زندگی قربان کر کے ان رشتوں کو بچا لو۔۔۔

یا پھر اپنی محبت ، اپنی زندگی بچا کر ان بےحس رشتوں کی قربانی دے دو۔۔۔

فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے ۔۔۔ تم جو بھی فیصلہ کروگی میں اس میں تمہارے ساتھ ہوں ۔۔۔

سوچ لو ۔۔۔ احد سے مشورہ کرلو ۔۔۔ آج شام تک کا وقت ہے تمہارے پاس ۔۔۔

فائزہ اسے کہتی چلی گئی ۔۔۔

۔

۔

فائزہ کو یاد آرہا تھا ۔۔۔

فائزہ نے انشاء کی تصویر جوکہ فریم میں جڑی ہوئی تھی ۔۔۔ اٹھاکر سینے سے لگا لی ۔۔۔۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

رمشا کیا کررہی ہو ۔۔

انشاء رمشا کے کمرے میں گئی اور پوچھا ۔۔۔

رمشا جو ہاتھ میں موبائل لئے بیڈ پر بیٹھی تھی ۔۔۔ 

کچھ نہیں ، آؤ بیٹھو ۔۔۔

کوئی کام تھا تمہیں ۔۔۔ رمشا نے موبائل بیڈ کی سائیڈ پہ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

رمشا ، انشاء اس کے قریب بیڈ پہ جا بیٹھی اور اسے گلے لگا لیا ۔۔۔۔

انشاء ، کیا ہوا ۔۔۔

تم ٹھیک ہو ۔۔۔ رمشا نے بھی اپنے بازوں اس کے شانوں کے گرد حمائل کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

انشاء کچھ لمحے اس کے گلے لگنے کے بعد اس سے جدا ہوئی ۔۔۔

۔

رمشا ، میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔ ڈیڈ زبردستی کررہے ہیں۔ ۔۔۔

میں شاید کوئی بڑا قدم اٹھا لوں ۔۔۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔

انشاء نے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

موجودہ صورتحال سوچ سوچ کر میرا سر پھٹنے لگتا ہے ۔۔۔

انشاء رمشا سے کہنے لگی ۔۔۔

انشاء ۔۔۔۔

رمشا نے اس کے ہاتھ سر سے ہٹا کر اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے پکارا ۔۔

انشاء نے رمشا کی طرف دیکھا ۔۔۔

کیا تم کسی اور سے محبت کرتی ہو ؟

رمشا نے انشاء کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

انشاء چونکی ۔۔۔

۔

ہاں انشاء ، رمشا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

جو بے چینی تمہیں ہورہی ہے ، یہ تو محبت میں ہوتی ہے نہ ۔۔۔۔ اس کا مطلب تمہاری لائف میں کوئی ہے ۔۔۔

ہنا ۔۔۔ رمشا نے انشاء کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

انشاء نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔

اور آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔۔

رمشا مجھے اپنی محبت اور فیملی میں سے کسی ایک کو چوز کرنا ہے ۔

میں بہت ڈسٹرب ہوں ۔۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔ انشاء نے بے چینی کے عالم میں کہا ۔۔۔

انشاء ، تم اپنی محبت کو چوز کرو ۔۔۔

محبت کا نعم البدل اور کچھ نہیں ہے ۔۔

جاؤ اپنی محبت کو گلے لگا لو ۔۔۔۔ اپنی محبت کو اپنے ہاتھوں سے گنوانا مت ۔۔۔۔ رمشا نے انشاء کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

تھینک یو رمشا ۔۔۔۔

تھینکس آلوٹ۔۔۔

انشاء نے نم آنکھوں سے رمشا کو ایک بار پھر گلے سے لگا لیا ۔۔۔

۔

۔

میں جارہی ہوں اس گھر سے ۔۔۔

انشاء نے جدا ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہنے لگا ۔۔۔۔

انشاء اٹھ کر جانے لگی ۔۔۔ ابھی دروازے کے پاس ہی پہنچی تھی کہ رمشا کی آواز پہ وہ رکی ۔۔۔۔

انشاء ، رمشا نے پکارا اور اٹھ کر اس سے پھر لپٹ گئی ۔۔۔

انشاء اپنا بہت سارا خیال رکھنا ۔۔۔

ہماری فکر مت کرنا ۔۔۔ اور ہم سے کنٹیکٹ کرنے کی غلطی مت کرنا ۔۔۔

مناسب وقت دیکھ کر ہم خود تم سے کنٹیکٹ کرلیں گے ۔۔۔۔ رمشا کی بھی آنکھیں بھیگ گئیں ۔۔۔۔

یو آر دا موسٹ بیسٹ سسٹر ان دا ورلڈ ۔۔۔۔۔ انشاء نے رمشا کے گال پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

۔

رمشا نے موبائل پہ انشاء کی اور اپنی تصویر نکالی ہوئی تھی اور اسے زوم کرکے دیکھ رہی تھی جب اسے یہ سب یاد آیا تھا ۔۔۔

انشاء میں تمہیں کبھی بلیم نہیں کروں گی کہ تمہاری وجہ سے میری زندگی جہنم بنی ہے ۔۔ 

یہ سب تو شروع سے میری ہی قسمت میں لکھا جا چکا تھا ۔۔۔۔

رمشا نے نم آنکھوں سے کہا ۔۔۔

۔

بہت دل چاہ رہا ہے تم سے بات کرنے کا ۔۔۔ ایک بار پھر سے تمہیں سینے سے لگانے کا۔۔۔

آئی مس یو میری پیاری بہن ۔۔۔

مس یو سو مچ انشاء ۔۔۔۔ رمشا نے موبائل کی اسکرین پر انشاء کی تصویر کو زوم کیے اسے بوسہ دیا تھا ۔۔ 

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

اچھا مام ۔۔۔۔ 

اپنا اور رمشا کا بہت سارا خیال رکھنا ۔۔۔ آپ لوگوں کی کال کا انتظار رہے گا ۔۔۔۔ انشاء نے فائزہ کے گلے لگتے ہوئے کہا ۔۔۔ جو باہر کے دروازے کی طرف اس کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔

تم بھی انشاء ۔۔۔

احد کو بہت سارا سلام اور پیار دینا ۔۔۔

اب جلدی جاؤ، تمہارے ڈیڈ آتے ہی ہونگے ۔۔۔ فائزہ نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ فائزہ کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔۔

مام آپ ایسے رو گی تو میں کیسے جا پاؤں گی ۔۔۔ انشاء نے فائزہ کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔۔۔

بیٹیوں کو رخصت کرتے ہوئے آنسو خودبخود آجاتے ہیں انشاء ۔۔۔۔

تم جاؤ، تمہارے پاس وق ت بہت کم ہے ۔۔۔۔

فائزہ نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے اسے باہر کی طرف دھکیلا ۔۔۔

احد کار میں بیٹھا انشاء کا انتظار کررہا تھا ۔۔

کچھ لمحے گزرنے کے بعد اسے عبایا میں لپٹی ہوئی ایک لڑکی نظر آئی جو اسی کی کار کی طرف آرہی تھی ۔۔۔

وہ انشاء تھی ۔۔۔۔ احد انشاء کی ہر آہٹ پہچانتا تھا ۔۔۔

جیسے ہی وہ کار میں بیٹھی ، احد نے گاڑی چلادی ۔۔۔۔

۔

انشاء ہاتھ میں اپنا فیملی فوٹو فریم لئے کھڑی تھی جب اسے یہ سب یاد آیا ۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖 

چلیں انشاء ، احد کی آواز پہ وہ ماضی کی جھرکیوں سے نکلی ۔۔۔

ہممم۔۔۔ انشاء نے مختصر جواب دیا اور فوٹو سوٹ کیس میں رکھے ، اسے بند کرکے ، دھکیلے احد کے ساتھ چل دی ۔۔۔

اچھا سارہ بھابھی ، اچھا آہان بھائی ۔۔۔

آپ لوگوں نے بہت ساتھ دیا ہمارا اس مشکل وقت میں ۔۔۔

انشاء نے دونوں سے ملتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہاں آہان ،سارہ ۔۔۔۔

تم دونوں نہ ہوتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا ۔۔۔

احد نے بھی شکریہ ادا کیا ۔۔۔

چل یار کوئی بات نہیں ۔۔۔

ہم نہ ہوتے تو کوئی اور ہوتا ، ۔۔

کوئی اور نہ ہوتا تو کوئی اوور ہوتا ۔۔۔

اللّٰہ نے تم دونوں کا ساتھ لکھا تھا تو کسی نہ کسی کو تو وسیلہ بھی لکھا ہوتا نہ ۔۔۔۔ آہان نے احد سے گلے ملتے ہوئے کہا ۔۔

کبھی پھر کراچی آؤ ، تو ضرور ملنے آنا ۔۔۔ سارہ بھی انشاء سے گلے ملتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔

کبھی اگر کراچی آئے تو !!!!

ضرور ۔۔۔ انشاء اللہ

انشاء نے کہا ۔۔۔۔

سامان ڈگی میں رکھا گیا ۔۔۔

احد اور انشاء گاڑی میں بیٹھے اور ملتان کے لئے روانہ ہوگئے ۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

بیگم آج ڈنر پہ باہر چلتے ہیں ۔۔۔

رمشا اپنے ورڈروب میں کچھ ڈھونڈھ رہی تھی جب جاوید کی آواز پہ وہ پلٹی اور اسے گھورنے لگی ۔۔۔

۔

ارے ایسے کیا دیکھ رہی ہو ۔۔۔۔

سچ کہہ رہا ہوں ۔۔۔ 

ارے یار میں اتنا بھی برا نہیں ہوں ۔۔۔

بیوی ہو تم میری ۔۔۔ اور تمہیں خوش رکھنا میرا فرض۔۔۔

جاوید نے مسکراتے ہوئے رمشا کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

رمشا بس خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

چلو ریڈی ہو کر باہر آجاؤ۔۔

میں باہر تمہارا انتظار کررہا ہوں ۔۔۔ کہتا جاوید باہر چلا گیا ۔۔۔

رمشا کچھ دیر اپنی جگہ پہ ساکن کھڑی کچھ سوچتی رہی ۔ 

پھر ورڈروب سے اپنا سوٹ نکالنے لگی ۔۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ارباب ہاتھ میں  کاغذ کا ٹکڑا لئے اپنے کمرے میں کھڑا تھا ۔۔۔

نظریں اس کاغذ کے ٹکڑے پہ لکھے ہوئے لفظوں پر تھیں ۔۔۔

۔

میں جارہی ہوں ڈیڈ، بھائی ۔۔۔

میں نے بہت کوشش کی کہ میری شادی جاوید سے نہ ہو ۔۔۔ آپ لوگوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی ۔مگر کسی نے میری بات نہیں سنی ۔۔۔

آپ لوگوں کی بے حسی نے مجھے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے ۔۔۔ لیکن میں آپ سب لوگوں سے بہت پیار کرتی ہوں ۔۔۔

آپ سب لوگ میرے دل میں ہمیشہ رہیں گے اور آپ سب کی عزت کرنا مجھ پہ فرض ہے ۔۔۔ مگر میں اپنی زندگی آپ لوگوں کی پولیٹکس کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتی ۔۔۔

مجھے جینا ہے ۔۔۔ اس لئے میں آپ سب کو چھوڑ کر جا رہی ہوں ۔۔۔

ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا ۔۔۔

۔

۔

۔

انشاء کے جانے کے بعد سے لے کر اب تک ارباب اس خط کو کئی بار پڑھ چکا تھا ۔۔۔

۔

ارباب نے خط کو اپنے ہاتھوں میں نوچتے ہوئے کہا ۔۔

میں اس خط کو تمہاری آخری نشانی سمجھ کر ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا انشاء ۔۔۔

تاکہ یہ مجھے یاد دلاتا رہے کہ کس طرح تم نے ہمارے منہ پہ کالک ملی ہے ۔۔۔

ارباب نے اپنی جینز کی جیب سے موبائل نکالا اور ایک نمبر ڈائل کیا۔۔

۔

ہاں، کچھ پتہ چلا ۔۔۔

ارباب نے موبائل کان سے لگائے پوچھا ۔

مخاطب نے جواب میں کچھ کہا۔۔۔

نظر رکھنا ، کچھ بھی پتہ چلے تو مجھے اپ ڈیٹ کرنا ۔۔۔ ارباب نے مخاطب کی بات مکمل ہونے پہ کہا اور کال کاٹ کے موبائل اپنی جیب میں واپس رکھا ۔۔۔

۔

تم مجھ سے بچ نہیں سکتی انشاء ۔۔

تمہیں کہیں سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا میں۔۔۔۔

ارباب نے اپنی پانچوں انگلیاں مٹھی میں بند کرتے ہوئے کہا ۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

واؤ احد، یہ تو بہت بڑا اور بہت خوبصورت گھر ہے ۔۔۔

It is so beautiful 😍

انشاء لاؤنج میں کھڑی پورے گھر کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔

صرف تمہارے لیے بنوایا تھا یہ میں نے ۔۔۔ احد نے انشاء کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں نے یہ گھر تب ہی بنوانا شروع کردیا تھا جب تم میری زندگی میں آئی تھی ۔۔۔ سوچا تھا کہ جب تمہارے گھر تمہارا ہاتھ مانگنے جاؤں گا تو تمہارے گھر والوں کو ایک بار بھی ہاں کرنے سے پہلے سوچنا نہ پڑے ۔۔۔

احد نے انشاء کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔۔

انشاء نظریں چرا گئی کیونکہ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں ۔۔۔

انشاء ، ادھر میر آنکھوں میں دیکھو ۔۔۔

اب صرف یہ ہماری دنیا ہے ، جہاں صرف تم اور میں ہونگے ۔۔۔

اس نے انشاء کا چہرہ تھوڑی سے اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔

انشاء نم آنکھوں سے احد کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔۔۔

ہمیں ایک دوسرے سے اب سب کچھ شیئر کرنا ہے ، سب کچھ ۔۔۔ خوشی غم، تکلیف یا پھر ماضی کی یادیں ، کچھ بھی اکیلے نہیں سہنا ہے ۔۔۔ احد اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

انشاء یہ مت بھولنا کہ فیملی صرف تم ہی نہیں ، میں بھی چھوڑ کر آیا ہوں ۔۔۔

احد کی بھی آنکھیں بھیگ گئیں ۔۔۔

مما پاپا یاد آرہے ہیں ؟ 

انشاء نے اس کی نم آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔

وہ کب نہیں یاد آتے ۔۔۔ ان کی یاد تو ہر پل،  ہر لمحہ میرے ساتھ ہے ۔۔۔

احد نے کہتے ہوئے انشاء کو سینے سے لگا لیا ۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ دونوں ریسٹورنٹ میں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے آرڈر کے آنے کا انتظار کررہے تھے ۔۔۔

جب ایک ویٹر ہاتھ میں بکے لیے ان کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔ 

میم ، یہ آپ کے لئے ۔۔۔ ویٹر نے بکے رمشا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔

میرے لئے ، آر یو شیور ۔۔۔ 

رمشا چونکی ۔۔۔

نہیں نہیں ، آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ، مجھے بھلا کوئی کیوں بکے بھجوائے گا ؟

رمشا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔

یس میم ، ایم شیور ۔۔۔

آپ ہی کے لئے ہیں ۔۔۔ ویٹر نے بکے رمشا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔

رمشا نے جاوید کی طرف دیکھا ، اس نے اشارے سے کہا ۔۔۔

لے لو ۔۔۔

رمشا کبھی بکے کی طرف دیکھتی ، تو کبھی جاوید کی طرف ۔۔۔

جاوید کے کہنے پہ رمشا نے بکے تھام لیا ۔۔۔

تھینک یو میم۔۔۔ کہتا ویٹر چلا گیا ۔۔۔

دیکھو ، بھیجنے والے نے اپنا نام تو لکھا ہوگا ۔۔۔

جاوید نے بکے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہاں دیکھتی ہوں ، یہ کارڈ تو ہے ساتھ ۔۔  رمشا نے بکے کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو اسے اس کے ساتھ ایک کارڈ بھی نظر آیا ۔۔۔

دیکھو کیا لکھا ہے ۔۔۔

رمشا نے جب کارڈ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے پڑھا تو اس کا رنگ اڑ گیا ۔۔۔

کیا لکھا ہے ، جاوید نے پوچھا ۔۔۔

رمشا کے ہاتھوں سے کارڈ نیچے گرنے ہی والا تھا جب جاوید نے کارڈ سنبھال کر پکڑ لیا ۔۔۔

اور اسے کھول کر پڑھا ۔۔۔

جس پہ لکھا تھا ۔۔۔

Happy wedding Ramsha , 

Sorry yr, tmhari shadi Py nae aa saka .. but don't worry flowers tmy bhjwa diye Hain or gift tmhary ghr pohncha dia hy ...

From  F .. 

جاوید نے پڑھا ۔۔۔ رمشا یہ کون ہے

 F 

تمہارا کوئی دوست ہے ۔۔۔ یہ سب پڑھ کر تو صاف صاف پتہ چل رہا ہے کہ وہ تمہیں اچھے سے جانتا ہے ، بلکہ تم بھی اسے اچھے سے جانتی ہو ۔۔۔ 

تو پھر ساکن کیوں ہو ۔۔۔ بتاؤ نہ کون ہے یہ ۔۔۔

۔

رمشا اپنی جگہ ساکن تھی ۔۔۔ وہ کچھ نہیں سن رہی تھی۔ ۔۔

چلو جی آرڈر آگیا ۔۔۔ 

ڈنر کرتے ہیں ۔۔۔ جاوید نے ہاتھ میں چمچ اور کانٹا پکڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

کھاؤ نہ رمشا ۔۔۔ جاوید نے بت بنی رمشا سے کہا ۔۔۔

مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔ آپ کھا لیں ۔۔جلدی کریں پھر ہمیں گھر پہنچنا ہے ۔۔۔ رمشا نے اپنی کرسی پیچھے کی طرف کھنچتے ہوئے کہا ۔۔ 

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

انشاء ، تم ریسٹ کرو ۔۔۔ میں باہر سے کچھ کھانے کے لئے لاتا ہوں ۔ ۔ احد نے کہا اور اپنی بائیک پہ باہر چلا گیا ۔۔۔

جبکہ انشاء اپنا گھر سیٹ کرنے لگی ۔۔۔ ویسے تو سب کچھ سیٹ تھا ۔۔۔

مگر وہ بھی انشاء تھی ۔۔۔ اسے اپنی مرضی سے کچھ تبدیلیاں کرنی تھیں ۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ارباب ہاتھ میں موبائل لئے رمشا کی شادی کی تصویریں دیکھ رہا تھا جب اچانک اس کی نظر حمنہ پہ پڑی۔ ۔۔

جو کہ رمشا کے ساتھ کھڑی تھی ۔۔۔

حمنہ ۔۔۔ ارباب کی زبان سے نکلا ۔۔۔

تم کیا کررہی ہو حمنہ ۔۔۔

میرا چین ، سکون ، سب کچھ مجھ سے چھین رہی ہو ۔۔۔ تم راؤ ارباب بیگ کے دل پہ راج کرنے لگی ہو ۔۔۔

میں ابھی محبتوں کے چکروں میں نہیں پڑسکتا ۔۔۔ ابھی کچھ وقت انتظار کرو ۔۔۔

ارباب حمنہ کی تصویر زوم کیے اس سے باتیں کرنے لگا ۔ ۔

کبھی محبت نے بھی انتظار کیا ہے ۔ 

اس کے کانوں میں حمنہ کی آواز گونجی ، اس نے آواز کی سمت دیکھا ۔۔  حمنہ اس کے قریب بیڈ پہ بیٹھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔

تم یہاں ؟

میرے بیڈ روم میں ۔۔۔ ارباب چونکہ ۔۔

ہممم، کیوں نہیں آسکتی ۔۔۔ یہ یقین نہیں آرہا ۔۔۔ حمنہ نے اس کے قریب ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

ن، ن، نہیں حمنہ ۔۔۔ دور ہٹو مجھ سے ۔۔۔

میں تم سے محبت نہیں کرتا ، میرے پاس ان فضولیات کے لئے وقت ہی نہیں ہے ۔۔۔ ارباب نے پیچھے ہوتے ہوئے کہا ۔۔ 

سوچ لو، محبت کو فضول کہہ رہے ہو تم ۔۔۔۔ اگر محبت برا مان گئی تو کوئی بھی منا نہیں پائے گا ۔۔۔ حمنہ نے اس کے اور قریب ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

مجھے تم میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے ، تم جاؤ یہاں سے ۔۔۔ ارباب نے خود میں سمٹتے ہوئے کہا ۔۔۔

مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو ۔۔۔

ٹھیک ہے ، مگر خود سے تو سچ بولو ۔۔۔

مجھے یوں اپنے کمرے میں دیکھ کر من میں لڈو پھوٹ رہے ہیں ۔۔۔

ہاں نہ ۔۔۔ حمنہ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔

ارباب نے کوشن اٹھا کر اپنے سامنے کرلیا ۔۔۔نہیں نہیں ۔۔۔

ارباب نے خاموشی محسوس کی تو کوشن پیچھے کیا ۔۔۔

وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔۔

کیا یہ صرف میرا وہم تھا ۔۔۔۔ کیا سچ میں میں حمنہ کے بارے میں اتنا سوچنے لگا ہوں ۔۔۔

ارباب نے خود سے سوال کیا۔۔۔

"مجھے یوں اپنے کمرے میں دیکھ کر من میں لڈو پھوٹ رہے ہیں ۔۔۔"

اسے یاد آ یا ۔۔ ویسے کہہ تو صیح رہی تھی حمنہ ۔۔۔۔ارباب کہتے ہوئے خود سے شرمایا تھا ۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ دونوں سامنے کھانا لئے ڈائننگ ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔۔۔

انشاء نے کھانا نکالا اور احد کے سامنے رکھا ۔۔۔

احد نے نوالہ توڑ کر انشاء کی طرف بڑھایا ۔۔۔ انشاء پہلے چونکی ، پھر مسکرائی اور منہ کھولا ۔۔۔

احد نے انشاء کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا ۔۔۔

پھر انشاء نے بھی نوالہ توڑ کر احد کی طرف بڑھایا ۔۔۔

احد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور وہ انشاء کے ہاتھوں سے کھانا کھانے لگا ۔۔۔

۔

۔

انشاء میری شرٹ پریس کردینا ۔۔۔

کل سے آفس جانا ہے ۔۔۔ احد نے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔

جی ۔۔۔ انشاء کہتی برتن سمیٹنے لگی ۔۔۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ دونوں گھر کے لئے روانہ ہوئے تھے ۔۔۔جب جاوید نے رمشا کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔

انشاء واقعی فردر سٹڈی کے لئے بیرون ملک گئی ہے ۔۔۔

رمشا ایک پل کو ٹھٹکی ۔۔۔ 

ج، جی ۔۔۔ کیوں ۔۔۔ ؟

رمشا نے اسے دیکھتے ہوئے جوابا سوال کیا ۔۔۔

۔

نہیں ، مطلب اس کا کہیں کوئی چکر وکر تو نہیں تھا ۔۔۔

کیونکہ مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ انشاء کسی کے ساتھ عشق معشوقی کے چکر میں تھی ۔۔۔۔ ورنہ سٹڈی تو وہ شادی کے بعد بھی کنٹینیو رکھ سکتی تھی ۔۔۔

جاوید نے سامنے دیکھتے ہوئے اسٹیرنگ گھماتے ہوئے کہا ۔۔۔

گاڑی گیراج میں جا کر رکی ۔۔۔

رمشا جلدی سے گاڑی سے اتری اور تیس تیز قدم اٹھاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی ۔۔۔

جب واجد نے لاؤنج  ان کا رستہ روکا ۔۔۔

بھابھی سوری ، میں یوں آپ کے رستے میں آگیا ۔۔۔

ایکچلی ، آپ کی کسی فرینڈ نے آپ کے لئے گفٹ بھیجا ہے ۔۔۔ بہت بڑا سا بوکس پیک تھا ۔۔۔

میرا بہت دل کیا کہ کھول کر دیکھو کہ آخر ایسا کون سا گفٹ ہے جو اتنے بڑے بوکس میں پیک کیا گیا ہے ۔۔۔ مگر یہ اخلاقیات کے خلاف تھا ۔۔۔ اس لئے ، قسم سے میں نے اوپن نہیں کیا ۔۔۔

بٹ مجھے اپنا گفٹ دیکھائیے گا ضرور ۔۔۔

واجد نے ان کا رستہ چھوڑتے ہوئے کہا کہ آپ کے کمرے میں رکھوا دیا ہے آپ کا گفٹ ۔۔۔

رمشا کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔ وہ بہت بے چین تھی ۔۔۔

جیسے ہی واجد نے رمشا کا رستہ چھوڑا۔۔۔ وہ دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ سب لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔۔۔

سرپرائز ۔۔۔۔ حرا نے داخل ہوتے ہوئے کہا۔۔۔

ارے حرا تم، آؤ بیٹھو ۔۔۔  چائے پیو ۔۔۔

فائزہ نے خوش اخلاقی سے کہا جبکہ ارباب اس کے آنے سے بالکل خوش نہ تھا ۔۔۔

ضرور ۔۔۔ حرا نے اپنی کرسی سنبھالتے ہوئے کہا ۔۔۔

۔

کچھ لمحے گزرنے کے بعد ارباب نے اٹھتے ہوئے کہا 

اچھا ، میں جارہا ہوں ۔۔۔ 

ارے تم کہاں جارہے ہو ۔۔؟

حرا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

میری ایک امپورٹنٹ میٹنگ ہے جو میں نے اٹینڈ کرنی ہے  ارباب نے حرا کو نظر انداز کرتے ہوئے فائزہ کو بتایا اور گاڑی کی چابی اٹھاتا جانے لگا ۔۔ 

۔

ارے رکو تو ۔ حرا بھی جلدی سے اٹھ کر اس کے پیچھے دوڑی ۔۔۔

ارباب اس کی آواز پہ رکا اور مڑ کر اسے دیکھا ۔۔

مجھے شاپنگ کے لئے جانا تھا ۔۔۔ تم مجھے شاپنگ مال چھوڑ دوگے ۔۔

حرا نے اس کے روبرو ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔

تم نے سنا نہیں ۔ میں نے کہا ہے کہ مجھے ایک امپورٹنٹ میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے ۔۔

ارباب نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

میرے پاس ان فضولیات کے لئے وقت نہیں ہے ۔۔ ارباب کہتا گیراج کی طرف بڑھ گیا ، جبکہ حرا حسرت سے اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔۔۔۔

وہ جا چکا تھا ۔۔۔۔ 

ارے حرا ، تم اب تک یہی ہو ۔۔ گئی نہیں ۔۔ فائزہ نے گزرتے ہوئے حرا کو دیکھا تو پوچھنے لگی ۔۔

آپ کے بیٹے کے پاس میرے لئے وقت ہو ، تب نہ۔۔۔ حرا بھی پیر پٹھکتی الٹے پاؤں واپس چلی گئی۔۔۔ جبکہ فائزہ اس کی بات پہ غور کرنے لگی ۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

رات کا وقت تھا ۔۔۔

احد آج بہت پرسکون اور مطمئین تھا ۔۔

انشاء بیڈ پہ بیٹھی احد کی مسکرائٹ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جبکہ احد کا دھیان انشاء کی طرف بالکل نہیں تھا ۔۔۔

میں دیکھ رہی ہوں ہم جب سے ملتان شفٹ ہوئے ہیں ۔۔ آپ بہت خوش نظر آرہے ہیں ۔۔ کیا بات ہے ۔۔

انشاء نے احد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

انشاء ، احد نے انشاء کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔۔

ہم کراچی سے بہت دور آگئے ہیں ۔۔ اب ہمیں کوئی نہیں ڈھونڈ سکتا ۔۔۔ 

اب ہمیں کسی کا ڈر نہیں ۔۔۔ اب ہم آزادی کے ساتھ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جی سکتے ہیں ۔۔۔ 

ہم نے ساتھ مل کر ایسی ہی زندگی کا تو خواب دیکھا تھا نہ ۔۔۔

ہمارا ایک پیارا سا گھر ہوگا جس کی رونق صرف تم اور میں ہوگے۔۔۔ 

میں روز آفس جایا کروں گا ، تم میرے لئے کھانا بنایا کروگی ۔

میں رات کو کبھی تمہارے لئے گجرے لایا کروں گا تو کبھی ہم رات کو ڈنر کرنے باہر جایا کریں گے۔۔۔ 

ہاں انشاء ، آج میں بہت خوش ہوں کیونکہ آج میرے خوابوں کی تعمیر ہوئی ہے۔۔

انشاء کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔ 

یہ کیا ، تم رو رہی ہو۔۔ احد نے انشاء کا آنسو اپنی شہادت کی انگلی پہ اٹھاتے ہوئے پوچھا ۔۔

نہیں ، یہ تو خوشی کے آنسو ہیں ۔۔ انشاء کہتی احد کے سینے سے لگ گئی ۔۔ 

احد نے بھی اپنے بازو اس کے شانوں کے گرد حمائل کرلئے ۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

رمشا نے دیکھا ، ایک بڑا سا بوکس اس کے کمرے میں پڑا تھا جس پہ سرخ کور چڑھا تھا۔۔

رمشا آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی اس بوکس کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔

بہت ہی آہستگی سے اس نے اس بوکس کا کور پھاڑا ۔۔۔

اب اس کے سامنے ایک لکڑی کا بوکس تھا ۔۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ اس نے آہستگی سے بوکس کھولا ۔۔ اس کے اندر ایک بہت ہی خوبصورت نیوی بیلیو کلر کا باربی فراک تھا ۔۔۔

واءو ، رمشا کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔۔۔ اب وہ اسے چھو کر دیکھنے لگی ۔۔

کس نے بھیجا ہے؟

اب تو بتا دو۔۔۔ جاوید کی آواز اسے اپنے عقب سے سنائی دی ۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو جاوید دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے اس کے قریب کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔

میں ، وہ ، مجھے نہیں معلوم۔۔۔ آپ کے سامنے ہی تو ویٹر نے اکر بکے دیئے ۔۔۔ اور ۔۔آپ نے خود تو وہ کارڈ پڑھا تھا ۔۔ 

مجھے نہیں پتہ کس نے بھیجا ہے۔۔۔ رمشا بوکھلا بوکھلا کر بول رہی تھی جب جاوید نے اسے شانوں سے پکڑا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا 

کہہ کیوں نہیں دیتی کہ تمہارے عاشق نے بھیجا ہے ۔۔

جاوید کی بات سن کر رمشا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔ 

تو تمہارا عاشق تمہیں بھگا کر نہیں لے گیا ؟

انشاء کا عاشق تو بڑا ہی سچا نکلا بھئی ۔۔ بیگ صاحب اور ارباب کی مخالفت مول لے گیا ۔۔ اب جاوید نے اسے چھوڑ کر اس کی طرف پیٹھ کیے کہہ رہا تھا ۔۔

تمہیں پتہ ہے میں نے تم سے کیوں شادی کی ہے ۔۔۔؟

اب وہ پھر رمشا کی طرف مڑا اور کہنے لگا 

جبکہ رمشا خاموش کھڑی اس کی بکواس سن رہی تھی ۔۔

تاکہ میں تمہارے زریعے انشاء تک پہنچ سکوں ۔۔۔

رمشا بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔

تمہیں اگر اپنے عاشق سے تعلقات رکھنے ہیں تو تم رکھ سکتی ہو۔۔۔۔ یہ اس کا بھیجا ہوا ڈریس پہن کر اس سے ملنے بھی جا سکتی ہو۔۔۔ میں اعتراض نہیں کروں گا ۔۔

ارے یار میں ان شوہروں میں سے نہیں ہوں جنہیں اپنی بیوی کے افئیر ہونے پہ اعتراض ہوتا ہے ۔۔۔ 

ایک زور دار طمانچہ اسے اپنے چہرے پہ محسوس ہوا 

اس نے اپنے گال پہ ہاتھ رکھے اپنا چہرہ اٹھایا اور سامنے کھڑی رمشا کو دیکھا جو سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔

  تمہاری اتنی ہمت ، کہ تم مجھ پہ ہاتھ اٹھاءو۔۔ جاوید نے اسے طمانچہ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا کہ رمشا نے اس کا ہاتھ روک دیا ۔۔

ایک بار یہ غلطی کرچکے ہو ، دوبارہ یہ غلطی غلطی سے بھی مت کرنا ۔۔

رمشا نے غصے سے کہا اور اس کا ہاتھ جھٹکتی بوکس کی جانب بڑھ گئی اور ماچس کی تیلی جلا کر اس ڈریس کو آگ لگا دی اور اپنے کمرے سے باہر چلی گئی 

جبکہ جاوید وہی کھڑا دھواں دھواں ہو گیا ۔۔۔

رمشا نے دوپٹہ سر پر لیا اور بنا کسی کو کچھ بتائے گھر سے باہر روڈ پہ آگئی ۔۔

ایک آٹو والے کو روکا اور اس میں سوار ہو کر اپنے میکے ، اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

رمشا بیٹا ، تم ۔۔۔

اس وقت ، سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔ 

فائزہ نے اسے گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو فکرمندی سے سوال کرنے لگی۔۔۔ بیگ صاحب بھی لاءونج میں آگئے ۔۔۔

نہیں مام ،کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔۔رمشا اپنی مام کے گلے سے لگ کر رونے لگی ۔۔

کیا ہوا ہے رمشا ، بتاءو۔۔

بیگ صاحب نے اسے فائزہ سے الگ کرتے ہوئے پوچھا ۔۔

ڈیڈ وہ مجھ پہ ہاتھ اٹھاتا ہے ۔۔

اس نے مجھے ولیمے والی رات بھی مارا تھا ۔۔ میں تو اسی دن گھر آجانا چاہتی تھی مگر انکل نے روک لیا تھا اور اس بات کی گارنٹی لی تھی کہ آئندہ جاوید کبھی مجھ پہ ہاتھ نہیں اٹھائے گا مگر آج پھر اس نے مجھ پہ ہاتھ اٹھایا ہے۔۔

رمشا رورو کر ساری بات بتا رہی تھی۔۔

کیا وہاں کسی کو معلوم ہے کہ تم گھر آگئی ہو ۔۔

فائزہ نے پوچھا ۔۔

نہیں مام، میں نے کسی کو بتانا ضروری نہیں سمجھا ۔۔

اور ڈیڈ وہ آج مجھ سے کہہ رہا تھا کہ اس نے مجھ سے شادی اس لئے کی تاکہ وہ انشاء تک پہنچ سکے ۔۔

بیگ صاحب کسی گہری سوچ میں ڈوبے یہ سب سن رہے تھے۔۔۔

اور ڈیڈ آج تواس نیچ انسان نے مجھ سے یہ تک کہہ دیا کہ میں کسی دوسرے انسان سے اگر کوئی تعلق رکھنا چاہوں تو رکھ سکتی ہوں ۔۔۔ اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔

رمشا آج اس چیپٹر کو ہمیشہ کےلئے کلوز کرنا چاہتی تھی اس لئے سب کچھ اپنے والدین سے کہہ ڈالا ۔۔۔

راءو بیگ صاحب نے سرخ انکھوں سے رمشا کو دیکھا اور اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے اپنی مٹھی بند کی 

ڈیڈ ، میں ڈیورس چاہتی ہوں ۔۔۔

میں اب اس گھٹیا اور نیچ انسان کے ساتھ ایک پل بھی اور نہیں رہوں گی۔۔

رمشا کہتی اپنے کمرے کی طرف دوڑتی ہوئی چلی گئی جبکہ بیگ صاحب ابھی تک کسی گہری سوچ میں گم تھے ۔۔۔

صبح فجر کی اذان ہورہی تھی جب انشاء کی آنکھ کھلی ۔  

۔

 احد کو دیکھا جو بڑی سکون کی نیند سورہا تھا ۔۔

پیار سے احد کے بالوں میں سے اپنی انگلیاں گزارتی ہوئی اس کی پیشانی پہ آ رکی ۔۔۔ اور بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔

I Love You Ahad

میں خوش نصیب ہوں جو مجھے تمہاری محبت ملی ۔۔۔

پھر وضو کرکے آئی اور جائے نماز بچھائے نماز پڑھنے لگی ۔۔۔

۔

۔

احد کی جب آنکھ کھلی تو انشاء کو بیڈ پہ نہ پاکر پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔۔۔۔

نظر نماز پڑھتی ہوئی انشاء پر جاکر ٹھہر گئی۔۔۔۔

وہ پیار اور عقیدت سے انشاء کو دیکھنے میں مصروف تھا ۔۔۔

انشاء اب سلام پھیر کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تھی ۔۔۔

وہ دعا مانگ رہی تھی ۔۔۔

اور احد اسے دیکھنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔

سیاہ رنگ کا حجاب کیے ،ہاتھ اٹھائے وہ دعا مانگتی ہوئی پہلے سے کئی زیادہ حسین اور معصوم لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔

اس نے ہاتھ منہ پر پھیرے اور آیت الکرسی پڑھتے ہوئے جائے نماز تہ کرنے لگی ۔۔۔۔

آپ اٹھ گئے احد ۔۔۔۔۔۔

میں آپ ہی کو جگانے آرہی تھی ۔۔۔۔ 

آج آپ کا آفس میں فرسٹ ڈے ہے نہ ۔۔۔

انشاء نے احد کے پاس بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

ہممم ، میں جب ہی جاگ گیا تھا جب تمہارے لبوں کا لمس اپنی پیشانی پر محسوس کیا تھا ۔۔۔ احد نے انشاء کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء نے نظریں جھکا لیں ۔۔۔ احد نے انشاء کی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

I Love You Too my Better half ...

۔

۔

چلیں اٹھیں نہ ۔۔۔

اب آپ نماز ادا کرلیں وقت جارہا ہے۔۔۔۔ انشاء نے جلدی سے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔

احد نے انشاء کا دوپٹہ پکڑ لیا ۔۔۔

انشاء کے قدم رک گئے ۔۔۔۔

وہ انشاء کا دوپٹہ اپنے ہاتھ پہ لپیٹتا اس کے قریب جا رہا تھا ۔۔۔۔

جونہی انشاء اپنا دوپٹہ چھڑانے کے لئے مڑی ۔۔۔ بے اختیار وہ احد کے سینے سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔

احد تھوڑا سا پیچھے ہوا اور پھر مسکراتا ہوا آگے ہوا ۔۔۔۔۔

اس کا دوپٹہ اس کے سر پہ اوڑھتے ہوئے بولا۔۔۔

"  ایسے اور بھی اچھی لگتی ہو ۔۔۔۔۔"

کہتا نماز پڑھنے کے لئے چلا گیا ۔۔۔۔

جبکہ انشاء وہی اپنے دوپٹے کو پکڑے ساکن کھڑی احد کے کہے لفظوں میں کھو گئی۔۔۔۔

۔

"  ایسے اور بھی اچھی لگتی ہو ۔۔۔۔۔"

اس کی سماعت سے لفظ ٹکرائے ۔۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

۔

ڈیڑھ گھنٹے بعد ۔۔۔

انشاء احد کی ٹائی بنا رہی تھی جبکہ احد کو اپنی نظروں پہ یقین نہیں ہورہا تھا ۔۔۔۔

۔

۔

ایک سال پہلے ۔۔۔

انشاء ، جب میں آفس جانے کے لئے تیار ہوا کروں گا تو میری ساری تیاری تم کروایا کرو گی ۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں یونیورسٹی کی سیڑھیوں میں بیٹھے تھے جب احد نے بڑے مان سے کہا ۔۔۔

۔

میں ؟ 

میں کیا کرسکتی ہوں ۔۔؟

سوائے تمہارا ناشتہ بنانے کے  ؟

انشاء نے معصومیت سے معصوم سا سوال کیا ۔۔

لو۔۔۔۔۔ تو تم صرف میرا بریک فاسٹ بنایا کروگی ۔۔۔۔۔۔

بس ۔۔۔۔۔۔۔ ؟

احد نے شرارت سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

تو کیا میں تمہارے شوز پولش کروں گی ؟

۔

انشاء نے پھر معصوم سا سوال کیا ۔۔۔۔ 

ارے نہیں میری جان ۔۔۔

۔

کون تم سے شو پولش کروا کر رہا ہے ۔۔۔

۔

تم تو بس ۔

تم میری ٹائی بنایا کروگی ۔۔۔۔۔۔

مجھے کوٹ اپنے ہاتھوں سے پہناؤگی ۔۔

میری شرٹ کے بٹن خود اپنے ہاتھوں سے بند کروگی ۔۔۔۔۔۔

۔

اور 

۔

احد سوچنے کے لئے ایک پل کو رکا تھا ۔۔۔۔

۔

اور  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ 

انشاء نے سرخ آنکھوں سے پوچھا ۔۔۔

۔

او ۔۔۔۔ ر ۔۔۔۔۔  

اور تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔

بس مجھے دروازے تک الوداع کہنے آیا کرنا ۔۔۔۔

۔

احد نے ڈرتے ڈرتے کہا اور ہنستے ہوئے وہاں سے اٹھ کر بھاگ گیا ۔۔۔۔۔۔۔

انشاء بھی احد کے پیچھے بھاگنے لگی ۔۔۔۔

۔

نہیں ، کچھ اور بھی کہہ دو ۔۔۔۔۔

یہ تو بہت کم ہے نہ۔۔۔۔۔ انشاء کہتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑ رہی تھی ۔۔۔

۔

۔

حال میں ۔۔۔۔

اب انشاء احد کو کوٹ پہنا رہی تھی ۔۔۔

۔

تم بھی وہی سوچ رہی ہو جو میں سوچ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ 

کچھ لمحے گزرنے کے بعد احد نے انشاء کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔

۔

آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

انشاء کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیلی ۔۔۔

۔

اور پھر دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انشاء نے ہنستے ہوئے سر احد کے کندھے پہ رکھ دیا۔۔۔۔

آنکھیں نم ہوگئیں ۔۔۔۔۔  

احد ۔۔۔ ہم کتنے ٹائم بعد یوں کھل کھلا کر ہنسے ہیں ۔۔۔۔

انشاء نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

ہممم ، لیکن اب یہ مسکراہٹ دائمی ہے ۔۔۔۔۔۔ 

میں اس مسکراہٹ کو ہمیشہ قائم رکھوں گا ۔۔۔ تم ہمیشہ یوں ہی مسکراتی اور چہکتی رہو گی ۔۔۔۔

یہ وعدہ ہے احد کا تم سے ۔۔۔۔

احد نے انشاء کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

اوکے اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔

اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔۔۔ احد نے انشاء کی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہوئے اسے الوداع کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

کچھ کھانے میں مت بنانا ۔۔۔۔

کھانا باہر کھائیں گے آج ہم ۔۔۔۔

احد کہتا گاڑی کی چابی لیتا چلا گیا  ۔۔۔۔۔۔

انشاء وہی کھڑی احد کو دیکھتی رہی ۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

۔

۔

رمشا ہاتھ میں ٹیڈی بیئر لیئے بیڈ پہ لیٹی تھی جب دروازہ نوک ہوا اور پھر فائزہ ہاتھ میں ٹرے لئے اندر داخل ہوئی۔۔۔

۔

رمشا بیٹا اٹھ جاؤ ۔ دیکھو میں تمہارے لئے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنا کر لائی ہوں  ۔۔۔۔۔۔۔  فائزہ نے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

مام مجھے بھوک نہیں ہے ۔ رمشہ نے روکھے سے انداز میں جواب دیا ۔۔

رمشہ ، میری بچی  ۔

تھوڑا سا کھا لو ۔۔۔ تم نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا ۔۔۔ 

فائزہ نے رمشہ کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

۔

مام ، رمشہ اٹھی اور فائزہ کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہنے لگی ۔۔

میں اب اس گھر میں واپس نہیں جاؤں گی ۔۔۔ کبھی نہیں جاؤں گی ۔۔۔

وہ ایک جاہل انسان ہے ۔۔۔ یا جانور کہیں تو زیادہ بہتر ہے ۔۔۔

مام میں وہاں واپس کبھی نہیں جاؤں گی ۔۔۔

آپ ڈیڈ سے بات کریں ۔۔۔ رمشہ فائزہ کا ہاتھ تھامے درخواست کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا میری پرنسس ۔۔۔ تم وہاں واپس نہیں جاؤ گی ۔۔۔۔۔۔

فائزہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔

۔

مام نہیں ، آپ وعدہ کریں ۔۔۔۔۔۔ 

آپ مجھے وہاں واپس نہیں بھجیں گی ۔۔۔۔

فائزہ نے رخ موڑ لیا ۔۔۔

مام ۔۔۔۔۔۔۔ ؟ 

رمشہ نے بے یقینی سے اپنی مام کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔

آپ وعدہ کریں ۔۔۔ رمشہ نے وعدہ لینے کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اپنی بات دہرائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

فائزہ نے پہلے رمشہ کو دیکھا ، اور پھر اس کے آگے بڑھے ہوئے ہاتھ کو ۔۔۔۔۔

آئی پرومس ، فائزہ نے ہاتھ رمشہ کے ہاتھ پہ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

تم وہاں واپس نہیں جاؤ گی ۔۔۔۔

۔

اب تم ریلیکس ہو جاؤ اور ناشتہ کرلو ۔۔۔۔ ٹھنڈا ہورہا ہے ۔۔۔۔

۔

تھینک یو مام ، آئی لو یو ۔۔۔۔ رمشہ نے پرسکون انداز میں کہا اور فائزہ نے اسے سینے سے لگا لیا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

چلو شاباش ، اب ناشتہ کرلو ۔۔۔۔ فائزہ نے اسے خود سے جدا کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

رمشہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

فائزہ نے سائیڈ ٹیبل سے ناشتے کی ٹرے اٹھائی اور اپنے ہاتھ سے رمشہ کو کھانا کھلانے لگی ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

۔

۔

تم کیسے انسان ہو جاوید ۔۔۔۔ تمہاری بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی ۔۔۔۔

اور تمہیں خبر تک نہیں ہوئی ۔۔۔۔

نواز صاحب جاوید پہ چلا رہے تھے ۔۔۔۔

۔

مجھے پتہ ہی نہیں چلا ڈیڈ ۔۔۔۔

مجھے لگا کہ صرف غصے سے باہر گئی ہے ۔۔۔۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ گھر سے ہی بھاگ جائے گی ۔۔۔۔۔

۔

غصے سے ۔۔۔۔۔۔۔ ؟ 

کیا کہا تم نے اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ 

میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا کہ اس سے ایک اچھے شوہر کی طرح پیش آؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

مگر تم ۔۔۔۔۔ ؟

 نواز صاحب لیونگ روم میں کھڑے جاوید پہ چلا رہے تھے ۔۔۔۔۔

۔

وہ کل رات 9 بجے سے گئی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ 

اور اب شام کے 4 بج رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

۔

مگر ابھی تک راؤ بیگ صاحب کی طرف سے خاموشی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

اور مجھے یہ خاموشی کسی طوفان کی منتظر لگ رہی ہے ۔۔۔۔۔

۔

نواز صاحب نے اپنے خدشات ظاہر کیے ۔۔۔

۔

ڈیڈ ہوا کچھ یوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاوید نے کل ڈنر سے لے کر رمشہ کے جانے تک کی ساری کہانی سنا ڈالی ۔۔۔۔۔

۔

نواز صاحب خاموشی سے سنتے رہے ۔۔۔۔

۔

مجھے بتائیں ڈیڈ ۔۔۔ میرا کیا قصور ہے اب ۔۔۔۔ ؟

جاوید نے ساری کہانی سنانے کے بعد پوچھا ۔۔۔

۔

تمہارے پاس کوئی پروف ہے کہ رمشہ کے عاشق نے یہ سب کیا ہے ؟ 

۔

نہیں ،  تم نے یہ سب صرف شک کی بنیاد پہ کیا ۔۔۔۔۔

تم سے بڑا بے وقوف بھی کوئی ہوگا ۔۔۔

نواز صاحب نے جاوید کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

اتنا کچھ ہو جانے کے بعد شک کی کوئی گنجائش ہے ڈیڈ ۔۔۔۔

۔

جاوید اپنی ڈھٹائی پہ قائم تھا ۔۔۔۔

انشاء لیونگ روم میں کبھی دائیں تو کبھی بائیں چکر لگاتے ہوئے احد کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔۔

۔

۔

پتہ نہیں کہاں رہ گئے ۔۔

یہ بھی نہیں سوچا کہ مجھے اکیلے ڈر لگتا ہے ۔۔

میں ان کے بغیر اتنا وقت کیسے رہ سکتی ہوں ۔۔۔

۔

آنے دو انہیں ۔۔۔ ان کی تو میں کلاس لیتی ہوں ۔۔۔۔ کوئی اپنی بیوی سے اتنی دیر بھی دور رہتا ہے بھلا ۔۔۔

۔

۔

انشاء خود میں بڑبڑا رہی تھی ۔۔ 

جب ہی ہارن کی آواز آئی اور انشاء بھاگتی ہوئی باہر کی طرف گئی ۔۔۔

۔

احد نے گاڑی گیراج میں کھڑی کی اور مسکراتے ہوئے انشاء کی طرف بڑھنے لگا جب ہی انشاء بجلی کی سی رفتار سے بھاگتے ہوئے احد کے گلے لگ گئی ۔۔

۔

آپ کو پتہ ہے آپ نے آنے میں کتنی دیر کردی ۔۔۔۔ 

میں کب سے آپ کا ویٹ کررہی تھی ۔۔

میں نے آپ کو بہت مس کیا ۔۔۔

انشاء نے احد کو زور سے ہگ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

انشاء۔۔۔۔ ؟

احد پریشان سا ہوا ۔۔۔۔۔

۔

اور اس کو خود سے جدا کرتے ہوئے اس کو اپنے سامنے کھڑا کیا ۔۔۔

۔

کیا ہوا ہے میری جان ۔۔۔۔۔

احد نے انشاء کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور اندر کی طرف جاتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔۔۔۔

۔

احد ، مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں بے تابی سے آپ کے آنے کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

میری جان ، ڈر کیسا ؟

تمہارا اپنا گھر ہے ۔۔۔۔۔ اپنے گھر میں بھی بھلا کوئی ڈرتا ہے ؟

احد انشاء کو لے کر اپنے کمرے میں آچکا تھا ۔۔۔

۔

ابھی کل ہی تو ہم شفٹ ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ احد مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔۔

انشاء نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے احد سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

اچھا تو میں ۔۔۔۔۔۔

تمہارے لئے کچھ لایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ 

احد نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

میرے لئے ؟

انشاء نے خوش مزاجی سے پوچھا ۔۔۔۔

۔

کیا کوئی اور ہے یہاں ؟ 

احد نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

احد ۔۔۔۔  چلو میں نہیں بولتی تم سے ۔۔۔۔۔۔ انشاء نے احد کی طرف پیٹھ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

۔

اچھا سوری ، سوری ۔۔۔۔۔۔۔ احد نے انشاء کا منہ اپنی طرف گھمایا ۔۔۔۔ اور پھر ایک شاپر میں سے کچھ نکالنے لگا ۔۔۔۔

۔

انشاء بڑی بے تابی سے احد کے گفٹ کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔

جلدی کرو نہ ۔۔۔۔ مجھ سے انتظار نہیں ہورہا ۔۔۔۔۔۔۔ انشاء نے کہا تو احد نے گجرے نکالے ۔۔۔۔

۔

گجرے ۔۔۔۔۔ واؤ ۔۔۔۔ وہ بھی گلاب کے ۔۔۔۔۔ مجھے بہت پسند ہیں ۔۔۔۔ انشاء نے خوشی سے کہا اور احد نے انشاء کے دونوں ہاتھوں میں گجرے پہنا دیے ۔۔۔۔۔

۔

کتنے پیارے لگ رہے ہیں نہ ۔۔۔۔ انشاء نے احد کو اپنے ہاتھ دکھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

ہاں اور تمہارے ہاتھوں میں تو بہت ہی خوبصورت لگ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ احد نے انشاء کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ان پہ بوسہ دیا ۔۔۔۔۔۔

۔

میں اس رب کا جتنا شکر ادا کروں ، کم ہے ۔۔۔ کہ تم میری زندگی میں آئی۔۔۔۔۔۔۔۔

احد نے کہتے ہوئے انشاء کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔۔۔ اور انشاء نے آنکھیں بند کر لیں اور احد کی دھڑکن کی آواز سننے لگی ۔۔۔۔

۔

۔

چلو ڈنر کے لئے چلتے ہیں ۔۔۔ بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔ احد نے پیٹ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ 

۔

اس وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

بہت دیر نہیں ہوگئی احد ۔۔۔۔ انشاء نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔۔

۔

نہیں کوئی دیر نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔ تم جلدی سے ریڈی ہوجاؤ ۔۔۔۔۔

میں بھی چینج کرکے آتا ہوں ۔میری شرٹ دے دو ۔۔۔کہتے ہوئے احد چینج کرنے چلا گیا ۔۔

۔

۔

۔

اور دونوں ڈنر کے لئے نکل گئے ۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

رمشہ ہوا کیا ؟

مجھے سب ڈیٹیل سے بتاؤ ۔۔۔۔

ارباب بہت غصے میں تھا اور رمشہ سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

رمشہ نے سب کچھ شروع سے بتانا شروع کیا ۔۔۔۔۔ اور اے ٹو زی سب سچ سچ بتا دیا جبکہ ارباب اپنی مکمل توجہ سے رمشہ کی بات سن رہا تھا اور جاوید کی بد تمیزی سن سن کر خود کو با مشکل کنٹرول کررہا تھا ۔۔۔۔

 ۔

۔

اتنا سب ہوگیا ۔۔۔۔ اور مجھے کسی نے کچھ بتانا ضروری نہیں سمجھا ۔۔۔۔

ارباب نے اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

۔

تمہیں سب بتا تو رہی ہوں ۔۔۔۔۔

۔

رمشہ نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔۔۔۔۔

۔

ایک منٹ ۔۔۔۔۔۔ ارباب اچانک رکا اور رمشہ کے قریب ہوکر اس سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔

۔

یہ ایف (F) ہے کون ؟

کیا تم جانتی ہو ۔۔۔۔ ارباب نے رمشہ کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

۔

م ، می ، میں ۔۔۔۔۔ رمشہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہاں تم ۔۔۔۔۔ ؟

۔

مجھے ۔۔۔ کنفرم نہیں ہے ۔۔۔ بٹ ایک میرا کلاس میٹ ہے فہد ۔۔۔۔۔ شاید یہ حرکت اسی کی ہو ۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایسا ہی ہے ۔۔۔۔۔ کبھی بھی ، کچھ بھی کرتا ہے ۔۔۔ انجام کی فکر کیے بنا ۔۔۔۔۔

۔

رمشہ نے سچ بتا دیا مگر ایک حد تک ۔۔۔۔

۔

ہممم ، فہد ۔۔۔۔ کوئی کلوز فرینڈ ہوگا یقیناً ۔۔۔۔ ارباب نے تصدیق کرنا چاہی ۔۔۔۔

۔

ہاں ۔۔۔۔ ہمارا ایک فرینڈز گروپ ہے تو بس وہ بھی ہمارے فرینڈز گروپ میں سے ایک ہے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

لیکن مجھے کنفرم نہیں ہے ۔ کہ یہ حرکت فہد کی ہے کہ نہیں ۔۔۔۔ رمشہ نے ارباب کے اس حد تک سوال جواب دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

۔

ہممم ، اٹس اوکے ۔۔۔ تم پریشان مت ہو ۔۔۔۔ ۔۔۔ ابھی تمہارا بھائی زندہ ہے ۔۔۔۔ دیکھ لوں گا سب کو ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

اور اس جاوید کا تو وہ حشر نشر کروں گا نہ کہ دنیا دیکھے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارباب نے اپنی بند مٹھی کھولتے ہوئے غصے سے کہا ۔۔۔۔۔

۔

رمشہ ارباب کے اس غصے سے ڈر سی گئی ۔۔۔

۔

۔

تم ریلیکس کرو ۔۔۔ 

میری گڑیا ۔۔۔ سو جاؤ ۔۔۔ گڈ نائٹ ، کہتے ہوئے ارباب رمشہ کے کمرے سے چلا گیا جبکہ رمشہ کے دل میں کئی طرح کے خدشات پیدا ہونے لگے ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

میں تمہیں کیسے بتاؤ ۔۔۔۔۔۔ شک کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں ارباب ۔۔۔۔۔۔

یہ فہد ہی تھا ۔۔۔۔ اور اس نے ایسا کیوں کیا ۔ میں یہ بھی جانتی ہوں ۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

ارباب اپنے کمرے میں تھا ۔۔۔۔ اور رمشہ کی کہی ہر ایک بات پہ غور کررہا تھا ۔۔۔۔

۔

ارباب کے تاثرات بگڑے ۔۔۔۔ 

فہد ۔۔۔۔ ؟ 

اور جاوید ۔۔۔۔  میں تم دونوں کو نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔ تم دونوں نے مل کر میری بہن کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

وہ راؤ ارباب کی بہن ہے ۔۔۔۔۔ کوئی عام لڑکی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

" اگر کچھ بھی ہوا تو تم اپنے اس بھائی کو اپنے ساتھ پاؤ گی ۔۔۔۔۔۔ لیکن ابھی یہ شادی کرلو ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔

ارباب کو اپنے کہے لفظ یاد آئے جب شادی سے ایک دن پہلے وہ رمشہ کے پاس گیا تھا اسے سمجھانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

راؤ ارباب اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے گا ۔۔۔۔۔ کیونکہ راؤ ارباب اپنی بات کا پکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

فائزہ بیگم اپنے کمرے میں تھی جب راؤ بیگ صاحب اندر داخل ہوئے ۔۔۔۔۔۔

۔

کیا ہوا ؟ 

تم سوئی نہیں ابھی تک ۔۔۔۔۔۔۔ ؟ 

راؤ صاحب نے اپنی بیگم کو بیڈ پہ بیٹھے اپنا انتظار کرتے پایا تو پوچھنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

جس کی بیٹی اتنی تکلیف میں ہو ۔۔۔ وہ ماں بھلا سو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

فائزہ نے راؤ صاحب کی طرف دیکھے بنا جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

راؤ صاحب بیڈ پہ فائزہ کے قریب بیٹھے اور اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

فکر مت کرو ۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ فائزہ نے نظر اٹھا کر راؤ صاحب کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اسے راؤ بیگ صاحب میں ایک باپ نظر آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

تو آپ رمشہ کو واپس اس گھر نہیں بھیجیں گے نہ ۔۔۔۔ ؟ 

فائزہ نے بڑے مان سے پوچھا ۔۔۔۔۔

۔

کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔۔ اگر رمشہ کو اس کے گھر واپس نہ بھیجا تو کیا میری بیٹی طلاق یافتہ ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

کیا تم یہ چاہتی ہو کہ ہماری بیٹی کی طلاق ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔  راؤ صاحب نے فائزہ سے اس کا مشورہ مانگا ۔۔۔۔

شادی کے بعد پینتیس سال دونوں نے ساتھ گزارے مگر صرف آج راؤ صاحب نے اپنی بیگم سے مشورہ مانگا اور فائزہ کے پاس کہنے کو کچھ نہ بچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں شادی کو ۔۔۔۔۔۔ اور یہ سب ۔۔۔ ؟ 

۔

میرا تو دماغ ہی نہیں کام کررہا ۔۔۔۔ کیا کروں ۔۔۔  کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔۔۔

۔

راؤ صاحب آج پہلی بار اتنے پریشان نظر آرہے تھے ۔۔۔۔۔

۔

اتنے پریشان تو وہ تب بھی نہیں ہوئے تھے جب انشاء گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔

۔

آپ ارباب سے مشورہ کریں ۔۔۔۔ وہ بھائی ہے رمشہ کا ۔۔۔۔ اس کا حق ہے فیصلہ کرنے کا ۔۔۔۔۔۔ فائزہ نے جب راؤ صاحب کو اتنا پریشان اور الجھا ہوا دیکھا تو مشورہ دیا ۔۔۔۔۔

۔

ہممم ، گڈ آئیڈیا ۔۔۔۔۔۔۔ راؤ صاحب کو اپنی بیگم کا مشورہ پسند آیا ۔۔۔۔

۔

چلیں اب آپ سو جائیں ۔۔۔ کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہیں ۔۔۔۔۔

فائزہ نے کہا تو راؤ صاحب مسکرائے ۔۔۔

۔

ہممم ، مجھے واقعی بہت تھکاوٹ ہورہی ہے اور نیند بھی آرہی ہے ۔۔۔ 

گڈ نائٹ ۔۔۔ کہتے ہوئے راؤ صاحب لیٹ گئے ۔۔۔۔۔

فائزہ نے ان پر کمفرٹر اوڑھا اور خود بھی لیٹ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

حمنہ لیونگ روم میں داخل ہورہی تھی اور ارباب ہاتھ میں موبائل لئے ، نظریں موبائل پہ جمائے باہر کی طرف جا رہا تھا جب بے دھیانی میں دونوں کی ٹکر ہوگئی ۔۔۔۔۔۔

۔

آؤج کہتے ہوئے ارباب اپنے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پیچھے ہوا ۔۔۔۔

۔

اوہ ۔۔۔۔۔ ایم سوری ۔۔۔ آپ کو لگی تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ 

۔

حمنہ شرمندہ سی ہوئی ۔۔۔۔۔

۔

ارباب حمنہ کی آواز سن کر چونکا ۔۔۔

۔

تم ۔۔۔۔ ؟ 

اوہ سوری ۔۔۔ آئی مین آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

۔

واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز ۔۔۔۔۔ ارباب کے چہرے پہ ایک دلفریب مسکراہٹ آئی ۔۔۔ اور وہ اپنا سارا درد بھول گیا ۔۔۔۔۔

۔

جی ۔۔۔۔ وہ رمشہ ۔۔۔۔۔ سے ملنے آئی تھی میں ۔۔۔۔

 حمنہ نے ڈرتے ڈرتے لفظ ادا کیے ۔۔۔۔

۔

جی جی بالکل آپ رمشہ سے ہی ملنے آئی ہونگی ۔۔۔۔۔ 

ورنہ ہماری اتنی اچھی قسمت کہاں ۔۔۔ بے اختیار ارباب کے منہ سے یہ لفظ نکل گئے ۔۔۔۔

۔

جی ۔۔۔۔۔۔ ؟ 

حمنہ چونکی ۔۔۔۔

۔

اوہ سوری ۔۔۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

آپ جائیں نہ ۔۔۔ رمشہ سے مل لیں ۔۔۔۔۔۔ ارباب نے رستہ چھوڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

۔

اور ہاں ایک چھوٹی سی فیور پلیز ۔۔۔۔ ارباب رک کر مڑا اور کہنے لگا ۔۔۔

۔

جی جی پلیز ۔۔۔ کیوں نہیں ۔۔۔ حمنہ نے خوش اخلاقی سے جواب دیا ۔۔۔۔

۔

رمشہ کو آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے  مگر اس نے ایک دن ڈھنگ سے کھانا نہیں کھایا ۔۔۔۔

۔

ناجانے کون سے خوف میں مبتلا ہے ۔۔۔۔

نہ کسی سے بات کرتی ہے ۔۔۔ نہ کچھ کھاتہ پیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ نہ باہر نکلتی ہے ۔۔۔۔۔۔ بس اپنے روم میں قید رہتی ہے ۔۔۔۔۔

۔

آپ پلیز اسے تھوڑا ریلکس کریں ۔۔۔ اسے کھانا کھلا دیجیئے گا ۔۔۔۔۔۔

۔

بلکہ ایسا کیجیئے اسے اپنے ساتھ باہر لے جائیں شاپنگ پر ، لنچ پر ۔۔۔۔

۔

پلیز ۔۔۔ آئی ریکوئسٹ یو ۔۔۔۔ راؤ ارباب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

آپ فکر مت کریں ۔۔۔ میں اس کا موڈ ٹھیک کرکے ہی یہاں سے جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔ حمنہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور رمشہ کے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

۔

ویسے راؤ ارباب تمہاری چوائس ہے کمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارباب نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھتے ہوئے حمنہ کو جاتے دیکھا اور دل میں سوچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

جب ہی ارباب کا فون بجا ۔۔۔۔ ارباب نے اپنی جینز کی پاکٹ سے اپنا موبائل نکالا ۔۔۔۔۔۔

۔

حرا کالنگ ۔۔۔۔

۔

حرا ۔۔۔۔ ارباب کے تاثرات بگڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

کال بند ہونے کے بعد ارباب نے ایک میسج کر ٹائپ کیا اور حرا کو بھیج دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

میں میٹینگ میں ہوں ۔۔۔۔۔۔ سو ڈونٹ کال می اگین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

حرا نے میسج پڑھا ۔۔۔۔۔ ارباب کیوں مجھ سے اتنا بھاگتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

میں کتنی محبت کرتی ہوں آپ سے ۔۔۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتی میری محبت ۔۔۔۔۔ حرا نے خود سے سوال کیا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

دو ماہ بعد !

رمشہ کیا تم واقعی خلع لینا چاہتی ہو ۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر سوچ لو ۔۔۔۔

راؤ بیگ نے رمشہ سے اس کی مرضی معلوم کرنا چاہی ۔۔۔۔۔

۔

ڈیڈ اب سوچنے کو کچھ نہیں بچا ۔۔۔۔ میں ابھی بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں ۔۔۔۔۔۔

۔

مگر بیٹا جاوید نے تم سے معافی مانگی تو ہے ۔۔۔ اور وہ اپنی مام کے ساتھ تمہیں واپس لے جانے کے لئے بھی آیا تھا ۔۔۔۔

۔

غصہ تھوک دو اور اپنا گھر بچا لو ۔۔۔۔۔۔ فائزہ نے سمجھانا چاہا ۔۔۔۔

۔

مام پلیز ۔۔۔۔ یہ سب صرف ان کے ڈرامے ہیں اور کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔

آپ لوگ پلیز مجھے فورس مت کریں ۔۔۔۔۔ رمشہ نے تنگ آتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ 

۔

رمشہ پہ اب کوئی زبردستی نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔ وہ جیسا کہہ رہی ہے ویسا ہی ہوگا ۔۔۔۔۔۔ارباب کی آواز پہ سب چونک گئے ۔۔۔۔ وہ ابھی لاؤنج میں داخل ہورہا تھا ۔۔۔۔۔۔

۔

ٹھیک ہے ۔۔۔ اگر رمشہ یہی چاہتی ہے تو الیکشن کے فوراً بعد ہم خلع کا کیس فائل کردیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔

راؤ بیگ صاحب نے ہامی بھری جبکہ فائزہ اپنی بیٹی کا گھر اجڑتے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

انشاء ، انشاء کہاں ہو تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  احد گھر آتے ہی چلانے لگا ۔۔۔۔۔

۔

ہاں ، میں یہاں ہوں ۔۔۔ 

کچن میں ۔۔۔۔۔ انشاء نے جواباً چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

۔

احد تقریباً بھاگتا ہوا کچن کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔۔۔

انشاء ، احد نے ہانپتے ہوئے اس کو پکارا ۔۔۔۔۔۔۔

ہاں بھئی ۔۔۔۔ یہی ہوں ۔۔۔۔ کیا ہوا ہے ۔۔بہت خوش نظر آرہے ہو ۔۔۔۔۔۔

اور گھر بھی جلدی آگئے ہو ۔۔۔۔

انشاء نے بریانی دم پہ لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

یہ پھول 

تمہارے لئے ۔۔۔۔۔ احد نے بکے انشاء کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

تھینک یو ۔۔۔۔۔۔

اب بتاؤ بھی ۔۔۔۔۔ اس خوشی کا راز ۔۔۔۔۔اور کتنا انتظار کرواؤ گے ۔۔۔۔

انشاء نے کچھ لمحے گزرنے کے بعد پوچھا ۔۔۔۔۔

۔

تم چلو ۔۔۔۔ ہم کہیں باہر ڈنر کرنے چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ احد نے انشاء کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

۔

ارے ، ارے ۔۔۔۔ 

ایسے ہی باہر ڈنر کرنا ہے ؟ 

یہ سب جو میں نے اتنے پیار سے آپ کے لئے بنایا ہے ۔۔۔۔۔

ان کا کیا ؟ 

انشاء نے کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بڑے رعب سے پوچھا ۔۔۔۔

۔

اب بتاؤ بھی احد ۔۔۔۔

ورنہ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انشاء بول رہی تھی جب احد نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھا اور اس کے قریب ہوکر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا ۔۔۔۔۔

۔

انشاء خاموشی سے احد کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

احد نے ہاتھ ہٹایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انشاء کا ہی ہاتھ تھامے اسے گھمانے لگا ۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء ، میری پرموشن ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ احد نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

کیا سچ ۔۔۔۔۔۔؟ 

انشاء نے بے یقینی سے احد کو دیکھا ۔۔۔۔

ہاں ۔۔۔۔۔ اب میں تمہیں لے کر کراچی جا سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔

ک، کر، کراچی ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔ ؟ 

انشاء پریشان سی ہوئی ۔۔۔۔۔

۔

تمہیں تمہارے پیرنٹس سے ملوانے ۔۔۔۔۔ بہت مس کرتی ہو نہ تم انہیں ۔۔۔۔ تو بس ۔۔۔۔۔

اب میں اتنا کمانے لگ گیا ہوں کہ تمہارے گھر والوں کو مجھ سے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

احد نے انشاء کا ہاتھ تھامے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

جبکہ انشاء کچھ کہہ نہ سکی بس بے یقینی سے احد کو دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔

حمنہ اور رمشہ شاپنگ مال میں تھیں ۔۔۔۔

رمشہ یہ کلر دیکھو  ۔ تم پہ سوٹ کرے گا ۔۔۔۔ حمنہ نے ایک شرٹ رمشہ کو دکھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

ہاں لگ تو اچھا رہا ہے ۔۔۔۔رمشہ نے شرٹ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

رمشہ ۔۔۔۔۔ 

۔

۔

عقب سے آواز آئی تو رمشہ اور حمنہ نے ایک ساتھ مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔۔۔

۔

چلو حمنہ ۔۔۔۔ ہوگئی ہے میری شاپنگ ۔۔۔۔۔ گھر چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ رمشہ نے جاوید کو دیکھ کر شرٹ وہی پہ چھوڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

۔

حمنہ بھی جانے کے لئے مڑی ۔۔۔۔۔

رمشہ پلیز ۔۔۔۔۔ جاوید نے اس کا رستہ روکا ۔۔۔۔۔ ایک بار میری بات سن لو ۔۔۔

پھر تمہیں جو فیصلہ کرنا ہو تم کرلینا۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں بولو ۔۔۔سن رہی ہوں میں ۔۔۔۔

رمشہ نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

یہاں ، یہاں کیسے بات ہوسکتی ہے ۔۔۔۔

چلو ہم لوگ کافی شاپ چلتے ہیں ۔۔۔۔ وہی بات بھی ہوجائے گی ۔۔۔۔۔ جاوید نے مشورہ دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اگر تمہیں بات کرنی ہے تو یہی کرو ۔۔۔ ورنہ ہم لوگ الریڈی لیٹ ہورہے ہیں ۔۔۔۔۔ رمشہ نے اکڑ سے کہا ۔۔۔۔۔

۔

۔

تم بیوی ہو میری ۔۔۔۔۔ اتنا حق ہے میرا تم پہ ۔۔۔کہ میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر جا سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ 

جاوید نے رمشہ کا ہاتھ پکڑے اسے دھکیلتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

چھوڑو مجھے ۔۔۔ رمشہ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔

۔

دیکھیں آپ یہاں سے چلے جائیں ۔۔۔۔ ورنہ مجبوراََ ہمیں شور مچانا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔ حمنہ نے جاوید کو وارن کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

اچھا !  تو تم شور مچاؤ گی ۔۔۔۔

مچاؤ شور ۔۔۔ 

مچاؤ شور ۔۔۔۔

میں بھی دیکھتا ہوں مجھے کون روکتا ہے اپنی ہی بیوی کو اپنے ساتھ لے جانے سے ۔۔۔۔۔

جاوید ڈھٹائی سے کہتا پھر سے رمشہ کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور اسے کھنچتے ہوئے لے کر جانے لگتا ہے ۔۔۔۔۔

۔

حمنہ جلدی سے ارباب کو کال کرتی ہے جو اپنے آفس میں بیٹھا تھا ۔۔۔۔

۔

حمنہ ! اس وقت مجھے کال کیوں کررہی ہے ۔۔۔

 ارباب نے حیرت سے ٹائم دیکھا اور پھر حمنہ کی کال ۔۔۔۔

صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔ ۔۔۔۔۔

ارباب نے کال ریسیو کرکے موبائل کان سے لگایا ۔۔۔۔

۔

حمنہ ۔۔۔۔ ارباب نے پکارا ۔۔۔۔

۔

چھوڑو مجھے ۔۔۔۔ مجھے تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا ۔۔۔۔۔۔

۔

رمشہ کی آواز ارباب کو سنائی دی ۔۔۔۔ کیسے نہیں جانا ۔۔۔۔ جائے گا تو تمہارا باپ بھی ۔۔۔۔۔۔۔

۔

جاوید نے چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

چھوڑو میری دوست کو ۔۔۔۔ 

ہیلپ ۔۔۔ ہیلپ ۔۔۔۔۔۔

 پلیز ۔۔۔۔۔!!!

حمنہ چلا چلا کر ارباب کو صورتحال سے آگاہ کررہی تھی ۔۔۔۔۔

۔

ہیل، ہلیو ۔۔۔۔ حمنہ کہاں ہو تم لوگ ۔۔۔۔۔

۔

حمنہ مجھے لوکیشن بھیجو ۔۔۔ میں ابھی پہنچ رہا ہوں ۔۔۔۔ ارباب نے اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

ڈرائیور ، جلدی سے گاڑی نکالو ۔۔۔۔۔۔۔ ارباب نے آفس سے نکلتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

حمنہ نے لوکیشن شیئر کردی تھی ۔۔۔۔۔

۔

کچھ ہی پل میں ارباب جاوید کی گاڑی کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔

۔

۔

ارباب ۔۔۔۔ جاوید کا رنگ اڑ گیا ۔۔۔۔۔

۔

حمنہ جاوید کی گاڑی میں نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ صرف رمشہ کو اپنے ساتھ لے جارہا تھا ۔۔۔۔۔

۔

ارباب ۔۔۔۔ حمنہ نے جیسے ہی ارباب کو دیکھا ۔۔۔۔۔ جھپٹ کر ارباب کے سینے سے لگ گئی ۔۔۔۔

۔

میں بہت ڈر گئی تھی ارباب ۔۔۔۔۔

یہ جاہل انسان میری دوست کو ناجانے کہاں لے کر جانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسے دھکیلتے ہوئے گاڑی میں ڈالا اور ۔۔۔۔۔۔۔

۔

شکر ہے آپ آگئے ۔۔۔۔ حمنہ کپکپاتے ہوئے ارباب کے سینے سے لگے اسے سب بتا رہی تھی ۔۔۔۔۔

۔

جبکہ ارباب حمنہ کے یوں خود سے لپٹ جانے کے احساس سے باہر نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔

۔

حمنہ ۔۔۔۔ ارباب نے اس کی کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

حمنہ نے سر اٹھا کر ارباب کو پر امید نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔۔

۔

کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔ میں آگیا ہوں نہ ۔۔۔۔

ارباب نے حمنہ کو دیکھتے ہوئے کہا اور خود کو اس سے جدا کرتے ہوئے جاوید کی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔۔۔

۔

تو اس چڑیل نے ارباب کو خبر دی ہے ۔۔۔۔۔۔ جاوید نے سارا منظر دیکھتے ہوئے دل میں سوچا ۔۔۔۔

۔

باہر نکل ۔۔۔۔ ارباب دھاڑا ۔۔۔

۔

جاوید گاڑی سے باہر آیا ۔۔۔۔

میں ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔ ارباب بھائی ، رمشہ سے کچھ بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاوید ابھی بول رہا تھا کہ ایک زوردار طمانچہ اس نے اپنے چہرے پہ محسوس کیا ۔۔۔۔۔۔

۔

خبردار!!!

اپنی گندی زبان سے تم نے رمشہ کا نام بھی لیا تو ۔۔۔۔۔

۔

ایک ہجوم اکھٹا ہوگیا تھا ۔۔۔۔

۔

رمشہ کار سے نکل کر حمنہ سے جا لپٹی تھی ۔۔۔۔۔۔

۔

کیا دیکھ رہے ہیں آپ سب ۔۔۔۔ جائیں ، یہاں کوئی تماشا ہورہا ہے کیا ؟

۔

حمنہ نے ایک ہجوم اکھٹا ہوتا دیکھا تو کہا ۔۔۔۔۔

۔

ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ 

۔

مگر اچانک وہاں ناجانے کیسے میڈیا آپہنچی ۔۔۔۔۔

۔

۔

۔

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم اس وقت شانگ مال میں موجود ہیں اور یہاں موجود ہیں راؤ ارباب صاحب اور ان کے بہنوئی ۔۔۔۔۔

۔

علی ابھی کیمرے کے سامنے کھڑا بول رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جب راؤ ارباب کی دھاڑتی ہوئی آواز سے وہ دبک سا گیا ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

کچھ نہیں ہورہا راؤ ارباب اور اس کے بہنوئی کے درمیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

بند کرو یہ کیمرہ ۔۔۔۔ تم لوگوں کو بھی ہر چھوٹی چھوٹی بات بڑھا چڑھا کر خبریں چھاپنے کا شوق ہے ۔۔۔۔۔۔

۔

حمنہ ، تم رمشہ کو لے کر گاڑی میں بیٹھو ۔۔۔۔۔۔ ارباب کے حکم پر رمشہ اور حمنہ ارباب کی گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔۔۔۔۔

۔

چلو پھر جاوید ۔۔۔۔ 

۔

گھر پہ چکر لگانا ۔۔۔۔۔۔ وہی ڈیٹیل میں بات ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارباب جاوید کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے مسکرا کر کہتا اپنی گاڑی میں آ بیٹھا ۔۔۔۔۔

۔

رمشہ بہت ڈری اور سہمی ہوئی سی تھی ۔۔۔۔۔

۔

۔

رمشہ تم ٹھیک ہو ۔۔۔۔ ارباب نے سامنے شیشے سے رمشہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

۔

ج، جی بھائی ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔

۔

رمشہ نے ارباب کو پہلی بار بھائی کہا تھا ۔۔۔ ورنہ وہ ہمیشہ ارباب کو نام سے ہی بلاتی تھی ۔۔۔۔۔۔

۔

رمشہ ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ فکر مت کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم دونوں آپ ہی کی وجہ سے ٹھیک ہیں ۔۔۔۔۔

۔

شکر ہے آپ وقت پہ آگئے ورنہ نہ جانے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

میں آگیا نہ ۔۔۔۔ تو پھر اوور تھینکنگ کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔۔ ارباب نے حمنہ کی بات کاٹی ۔۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

۔

۔

انشاء کچن میں مصروف تھی جب اس کا فون بجا ۔۔۔۔

۔

احد ۔۔۔۔

ہاں بولو ۔۔۔۔

۔

لگتا ہے مصروف تھی ۔۔۔۔۔

کیا کررہی تھی ۔۔۔؟

۔

کھانا بنانے کی تیاری ۔۔۔۔

۔

انشاء نے مصروف انداز میں بتایا۔۔۔

۔

یار تمہیں جب کال کروں ۔۔۔ تم کچن میں ہی ہوتی ہو ۔۔۔۔

ہاں تو اور کیا کروں ۔۔۔۔ ؟ 

انشاء نے پیاز کاٹ لئے تھے اب وہ موبائل کان سے لگائے باہر لان کی طرف چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔

۔

اچھا میں آج لیٹ ہوجاؤں گا ۔۔۔۔۔۔ پر تم کھانا مت بنانا ۔۔۔۔۔ آج ہم کہیں باہر چلیں گے ۔۔۔۔

۔

احد ، کتنا لیٹ۔۔۔۔۔ ہو جائیں گے آپ ۔۔۔۔ ؟ 

۔

انشاء احد کے لیٹ آنے کا سن کر ہی افسردہ ہوگئی تھی ۔۔۔۔

۔

انشاء ، ایک میٹنگ ہے ۔۔۔۔۔ کبھی بھی ختم ہوسکتی ہے کچھ کنفرم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

تم بس میرا انتظار کرنا ۔۔۔۔ میں کوشش کروں گا جلد آجاؤں ۔۔۔۔

اوکے بائے ۔۔۔۔

 لو یو میری جان ۔۔۔۔۔۔

ٹیک کیئر ۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے احد نے موبائل رکھ دیا تھا ۔۔۔۔

۔

جبکہ انشاء پریشان سی وہی لان میں کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اس کی نظر سامنے گلاب کے پودے پہ گئی جس پہ بہت سارے گلاب کھلے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ پھولوں کو دیکھ کر وہ مسکرائی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہاتھ بڑھا کر بڑی محتاط سی ہوکر انہیں محسوس کرنے لگی ۔۔۔ اور انہیں اپنے ناک کے قریب کرکے ان کی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگی ۔۔۔۔۔

۔

۔

مجھے یقین ہے انشاء ۔۔۔۔۔۔۔ 

تمہیں تو یاد ہی نہیں ہوگا کہ تمہاری برتھڈے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پر کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ میں ہوں نہ یاد رکھنے کے لئے ۔۔۔۔۔ احد ایک بار پھر انشاء کے بارے میں سوچ کر مسکرایا تھا ۔۔۔۔۔

زندگی نے ہمیں ایک دوسرے کی محبت تو دے دی ۔۔۔۔۔۔ مگر اس محبت کی ہم دونوں نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افسوس صرف اتنا ہے کہ میں تم سے کیا ہوا وعدہ نہیں نبھا سکا ۔۔۔۔۔۔

تمہیں خوش رکھنے کا وعدہ ۔۔۔۔۔۔

مگر اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنا وعدہ نبھاؤں۔۔۔۔۔

اب سب کچھ ٹھیک کرنے کا وقت آگیا ہے انشاء ۔۔۔۔۔۔

۔

بس تھوڑا سا انتظار اور ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

۔

۔

ارباب اپنے کمرے میں تھا ۔۔۔۔ اپنے سر پہ ہاتھ رکھے اپنی بے بسی کو رو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

میں ۔۔۔۔۔۔۔۔

راؤ ارباب بیگ ۔۔۔۔۔۔

ایک مشہور پولیٹیک اور اتنا پیسہ ،پاور ہونے کے باوجود بھی ۔۔۔۔۔ اپنی ایک  بہن کو نہیں ڈھونڈ پایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

اور ۔۔۔۔۔ دوسری ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

دوسری بہن کی حفاظت نہیں کر پارہا۔ ۔۔۔۔

وہ راؤ ارباب بیگ کی بہن ہے ۔۔۔۔ پھر بھی وہ جاہل انسان میری بہن کو ایسے ٹریٹ کرتا ہے جیسے رمشہ کسی مڈل کلاس فیملی سے بلیونگ کرتی ہے ۔۔۔۔۔

۔

اب میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا جاوید ۔۔۔۔۔ بس بہت کرلی تم نے اپنی من مانی ۔۔۔۔۔ اس نے غصے سے فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔

۔

۔

"چھوڑو مجھے ۔۔۔۔ مجھے تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

 کیسے نہیں جانا ۔۔۔۔ جائے گا تو تمہارا باپ بھی ۔۔۔۔۔۔ "

۔

ارباب کو یاد آیا تھا ۔۔۔۔۔

اس نے موبائل نکال کر اپنے فیملی لایر کر کال کی تھی ۔۔۔

۔

جی ارباب صاحب ۔۔۔۔۔۔

۔

ہیلو !!

مجھے خلع کے پیپرز ریڈی چاہیے ۔۔۔۔ آج ۔۔۔۔ اور ابھی ۔۔۔۔۔۔

ارباب نے سیدھا پوائنٹ کی بات کی تھی ۔۔۔۔۔

۔

اوکے ارباب صاحب ۔۔۔۔۔ نوٹس ہماری طرف سے جائے یا آپ بذات خود یہ کام سر انجام دینا چاہتے ہیں ۔۔۔۔

۔

مخاطب نے پوچھا ۔۔۔۔

آپ بھیج دیں ۔۔۔۔لیکن مجھے تاخیر نہیں چاہیے اس کام میں ۔۔۔۔۔

ارباب نے غصے سے کہا تھا ۔۔۔۔

۔

اوکے ۔۔۔۔ آپ ریلیکس ہو جائیں ۔۔۔۔ میں کام مکمل کرتے ہی آپ کو اپ ڈیٹ کردوں گا ۔۔۔۔

۔

تھینک یو ۔۔۔۔ ارباب نے کہتے ہوئے کال کاٹ دی تھی ۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

اسلام وعلیکم آنٹی ۔۔۔۔

کیسی ہیں آپ ۔۔۔۔ حرا فائزہ کے گلے لگی تھی ۔۔۔۔

وعلیکم السلام ۔۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ۔۔۔۔

تم بہت دنوں بعد آئی ہو ۔۔۔۔

 کیا بات ہے ۔۔۔۔ ناراض تھی ہم سے کسی بات پہ ۔۔۔۔۔ فائزہ نے پیار سے پوچھا تھا ۔۔۔۔

۔

جی آنٹی ۔۔۔۔ تھی تو میں ناراض ۔۔۔

پر آپ سے نہیں ۔۔۔۔۔

اور جس سے ناراض تھی ۔۔۔۔ اسے پرواہ تک نہیں میری ۔۔۔۔

۔

حرا نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔۔۔۔۔۔

۔

بیٹا وہ شروع سے ہی ایسا ہے ۔۔۔۔

تم جانتی تو ہو اسے بچپن سے ۔۔۔۔۔

فائزہ اس کی شکایت سمجھ گئی تھی ۔۔۔۔

۔

ہے کہاں وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

۔

اپنے روم میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور حرا ارباب کے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کتنے غلط وقت پر ارباب کے پاس جا رہی تھی ۔۔۔۔

۔

۔

ارباب ۔۔۔۔ حرا ڈور ناب گھما کر اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔

۔

ارباب شاور لے رہا تھا ۔۔۔۔ 

ارباب ۔۔۔۔

ارباب ۔۔۔۔۔

حرا پورا کمرہ دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔۔

۔

ارباب ٹاول سے اپنے بال سکھاتا ہوا باہر آیا ۔۔۔۔۔

اور حرا کی نظریں ارباب پہ جا کر ٹھہر گئیں ۔۔۔

۔

تم ۔۔۔۔ ارباب چونکا ۔۔۔۔۔ 

۔

ہاں میں ۔۔۔۔ اور میرا نہیں خیال ۔۔۔۔

کہ اس وقت یہاں میرے علاوہ کسی اور کو ہونا چاہیے تھا ۔۔۔۔

حرا دیوار سے ٹیک لگائے ارباب کی طرف منہ کیے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

۔

تم جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔

ارباب خود میں سمٹا تھا ۔۔۔

میں کہیں نہیں جاؤں گی ارباب ۔۔۔۔

آخر کب تک آپ مجھ سے یوں بھاگتے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔ 

آخر اس گھر میں ۔۔۔۔۔ اور اس کمرے میں مجھے ہی تو آنا ہے ۔۔۔۔

حرا نے بڑے رعب سے کہا تھا ۔۔۔۔

۔

اگر تم میری کزن نہ ہوتی نہ ۔۔۔ تو میں تمہیں بتاتا ۔۔۔۔ ارباب نے اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔

۔

تو بھول جائیں نہ ۔۔۔۔۔ کہ میں آپ کی کزن ہوں ۔۔۔۔۔۔

مجھے صرف اپنی عاشق سمجھیں ۔۔۔۔۔ حرا ارباب کے قریب آتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔

۔

حرا ۔۔۔۔۔۔ ارباب نے ہاتھ اٹھاکر اسے ہوا میں ہی روک لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

اور حرا کی سانسیں تک رک گئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ارباب اس پہ ہاتھ بھی اٹھا سکتا ہے ۔۔۔۔۔

۔

تم ۔۔۔۔۔ مجھ پہ ہاتھ اٹھاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔ حرا نے بے یقینی سے پوچھا تھا ۔۔۔۔۔

۔

چلی جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔

چلی جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔۔۔ ارباب چلا اٹھا تھا 

۔

اور دوبارہ کبھی یہاں یہ سوچ کر مت آنا ۔۔۔۔۔ کہ یہ گھر ۔۔۔۔ اور یہ کمرہ تمہارا ہے ۔۔۔۔

۔

یہاں کچھ بھی تمہارا نہیں ہے ۔۔۔۔ اس لئے یہ فضول کے وسوسے اپنے دل و دماغ میں دوبارہ کبھی مت آنے دینا ۔۔۔۔۔

ارباب نے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔ جبکہ حرا بت بنی کھڑی ارباب کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

۔

ارباب ۔۔۔۔۔ حرا نے ایک اور کوشش کرنا چاہی ۔۔۔۔۔

۔

آؤٹ۔۔۔۔۔

ارباب کی آواز قدرے اونچی تھی ۔۔۔۔ کہ سب وہاں اکھٹے ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔

۔

حمنہ ۔۔۔۔۔۔

رمشہ ۔۔۔۔۔۔۔

فائزہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور گھر کے چند نوکر ۔۔۔۔۔

۔

۔

حمنہ کو دیکھ کر حرا آگ بگولا ہو گئی۔۔۔۔۔

تم ۔۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے یہ سب ہورہا ہے ۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے ارباب میرے سے دور ہوا ہے ۔۔۔۔۔

حرا نے آگے بڑھ کر حمنہ کا گریبان پکڑنا چاہا ۔۔۔۔۔

مگر ارباب حمنہ کے سامنے اس کی ڈھال بن کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔

۔

حمنہ کو الزام دینے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔۔۔۔۔۔

ارباب نے شہادت کی انگلی اٹھا کر حرا کو وارن کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

۔

مگر ارباب ۔۔۔۔۔ حرا نے ایک بار پھر کہا تھا۔۔۔۔۔

۔

بس ۔۔۔۔۔

گیٹ ۔۔۔۔۔ آؤٹ۔۔۔۔۔۔ ناؤ۔۔۔۔۔

۔

۔

لیو ۔۔۔۔۔۔۔ ارباب چلایا تھا ۔۔۔۔

اور حرا وہاں سے روتے ہوئے منہ پہ ہاتھ رکھ کر چلی گئی تھی ۔۔۔۔

۔

اور حمنہ ۔۔۔۔۔

اپنی جگہ بت بنی کھڑی رہ گئی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔

۔

یہ سب  ہو کیا رہا ہے اس گھر میں ۔۔۔۔۔ 

کوئی مجھے بتائے گا ۔۔۔۔۔۔ فائزہ صورتحال دیکھ کر بہت حیران ہوئی تھی ۔۔۔۔

اور ارباب تم ۔۔۔۔

تمہیں کس نے حق دیا کہ تم حرا سے اس طرح بات کرو ۔۔۔۔۔

تم نہیں جانتے کیا کہ وہ اس گھر کی ہونے والی بہو ہے ۔۔۔۔۔۔

فائزہ ارباب سے مخاطب تھی ۔۔۔۔

اور ارباب چونک گیا تھا فائزہ کی بار سن کر ۔۔۔۔

مام ۔۔۔ میں نے حرا کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔ تو یہ غلط فہمی تو آپ دور کرلیں کہ وہ اس گھر کی ہونے والی بہو ہے ۔۔۔۔

اور رہی بات کہ مجھے کس نے حق دیا اس سے ایسے بات کرنے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔

تو اسے کس نے حق دیا حمنہ سے ایسے بات کرنے کا ۔۔۔۔

میرے روڈ بی ہیو کا زمہ دار وہ حمنہ کو کیوں ٹھہرا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔

۔

نہیں کرتا میں اس سے محبت ۔۔۔۔۔ تو اسے یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔ کیوں بار بار اپنی محبت کا رونا دھونا لے کر میرے پاس آجاتی ہے ۔۔۔۔

ارباب بولے جارہا تھا ۔۔۔۔

۔

حمنہ اپنی جگہ ساکن کھڑی رہ گئی تھی ۔۔۔ کیونکہ وہ اتنی سادہ اور بے وقوف نہیں تھی کہ ساری صورتحال دیکھ کر بھی کچھ سمجھ نہ پاتی ۔۔۔۔

اور فائزہ ۔۔۔۔

اپنی جگہ شاکڈ تھی ۔۔۔۔۔

۔

ارباب ۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی۔۔۔۔۔۔۔  محبت کو یوں رسو نہیں کرتے ہوتے ۔۔۔۔

اور نہ محبت کرنے والوں کو یوں ذلیل ۔۔۔۔۔

فائزہ اتنا ہی کہہ پائی تھی ارباب کی ساری باتیں سننے کے بعد ۔۔۔۔۔ اور وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔۔۔

۔

اس کے پیچھے رمشہ بھی چلی گئی تھی ۔۔

۔

حمنہ بھی وہاں سے جانے لگی تھی جب ارباب نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا ۔۔۔۔

اور وہ رکنے پہ مجبور ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔

انشاء لان میں ٹہل رہی تھی جب احد کی کال آئی ۔۔۔

ہاں احد ۔۔۔۔ 

انشاء تم ریڈی ہو ۔۔۔۔۔ احد نے کال ریسیو ہوتے ہی پوچھا ۔۔۔۔

۔

ن، نہیں ۔۔۔ ریڈی ۔۔۔۔ ؟

وہ کس لئے ۔۔۔۔۔ انشاء کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔

۔

اوفوہ ۔۔۔۔ انشاء ۔۔۔۔۔۔

صبح بتایا تھا نہ کہ تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے ۔۔۔۔۔ ریڈی رہنا ۔۔۔۔

۔

اوہ ۔۔۔ سوری میں بھول گئی ۔۔۔۔۔

میں ابھی ریڈی ہو جاتی ہوں ۔۔۔۔ 

مگر ۔۔۔۔

احد ۔۔۔۔۔

میرے پاس کوئی ڈریس ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ انشاء جاتے جاتے رکی تھی ۔۔۔

کوئی اچھا ڈریس نہیں ہے میرے پاس ۔۔۔۔

۔

مجھے پتہ تھا ۔۔۔۔۔

تم جاؤ ۔۔۔

جا کر اپنا وارڈروب کھولو ۔۔۔

اور کال کٹ مت کرنا ۔۔۔۔

اوکے کہتی انشاء اپنے کمرے میں گئی اور اپنا وارڈروب کھول کر دیکھا ۔۔۔۔۔

۔

یہ ۔۔۔۔ یہ سب احد ۔۔۔۔

۔

وہاں سب نئے ڈریسس تھے ۔۔۔۔۔ کوئی پرانا ڈریس نہیں تھا ۔۔۔۔

۔

چلو اب ۔۔۔۔

یہ جو بلیک والی ساڑھی ہے نہ ۔۔۔

یہ پہن کر ریڈی ہوجاؤ ۔۔۔ 

۔

تمہیں سب سے اچھا دکھنا ہے ۔۔۔۔ احد نے مسکراتے ہوئے کہہ کر موبائل رکھ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء نے خوشی سے سارے کپڑے نکال کر دیکھے تھے ۔۔۔۔۔

اور پھر وہ بلیک ساڑھی ۔۔۔۔۔

۔

آئی ریلی لو یو احد ۔۔۔۔  انشاء نے اس ساڑھی کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا تھا اور پھر ریڈی ہونے کی غرض سے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

۔

۔

کیا ۔۔۔۔۔ ؟ 

خلع کا نوٹس ۔۔۔۔ ؟ 

نہیں ۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔

میں یہ ڈایورس ہونے ہی نہیں دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔

جاوید کا نہیں  ۔۔۔۔۔ بلکہ نواز صاحب کا خلع کا نوٹس دیکھ کر رنگ اڑ گیا تھا اور ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔

۔

۔

تمہیں کتنی بار سمجھایا ۔۔۔

کتنی بار بتایا ۔۔۔۔۔ 

کہ رمشہ سے بگاڑ کر نہیں ۔۔۔ بنا کر رکھنی ہے ۔۔۔۔

۔

تم نے میرے سارے پلین پہ پانی پھیر دیا ۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں یہ خاندان زمین سے اٹھا کر عرش پر بٹھا سکتا تھا ۔۔۔۔

۔

راؤ بیگ کا صرف ایک وارث تھا جسے رستے سے ہٹانا کچھ مشکل بات نہیں تھی ۔۔۔۔

انشاء بھاگ گئی جس سے اس کا اس خاندان سے ہر تعلق ، ہر رشتہ ختم ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔

۔

اور رمشہ ۔۔۔ 

رمشہ ہیرا تھی ہیرا ۔۔۔

جو ہمیں بیٹھے بٹھائے کروڑ پتی بنا سکتی تھی ۔۔۔۔۔

مگر تم ۔۔۔۔ اور تمہاری ماں کی بے وقوفی سے سب برباد ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

تم دونوں کو تو اپنی انا پیاری تھی ۔۔۔۔

اب بیٹھو اپنی انا کو اپنی گود میں لے کر ۔۔۔۔۔۔۔

۔

میں راؤ بیگ سے بات کرتا ہوں ۔۔۔۔

۔

کہتا نواز اپنی فیملی سے الگ ہوکر راؤ بیگ کو کال ملاتا ہے ۔۔۔۔

۔

۔

لیکن اس کی کال ریسیو نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔

۔

کئی بار کوشش کرنے کے بعد ۔۔۔ آخر کار وہ ہار تسلیم کرلیتا ہے ۔۔۔۔

۔

کچھ لمحے گزرنے کے بعد ۔۔۔۔۔

۔

راؤ ارباب کالنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیڈ ۔۔۔ ارباب کی کال آرہی ہے ۔۔۔۔

جاوید نے ارباب کا نام دیکھتے ہی آنے باپ کو اطلاع دی تھی ۔۔۔۔

۔

اٹھاؤ ۔۔۔۔۔ اور اسپیکر پہ ڈالو ۔۔۔

نواز صاحب واپس اپنی فیملی کے درمیان آبیٹھے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

ہاں تو تمہیں نوٹس تو مل گیا ہوگا نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اس معاملے کو کورٹ کچہری تک نہیں لے کر جانا چاہتا ۔۔۔۔

سو تم چپ چاپ اس پہ سائن کرو اور یہ معاملہ یہی ختم کرو ۔۔۔۔۔۔۔

۔

اگر رقم چاہتے ہو بدلے میں رقم مل جائے گی ۔۔۔۔

اور اگر راؤ ارباب بیگ کے ساتھ کوئی گیم کرنا چاہی ۔۔۔۔۔ 

تو یاد رکھنا ۔۔۔۔ جیت ہمیشہ راؤ ارباب کی ہوتی ہے ۔۔۔۔

۔

کیونکہ راؤ ارباب بیگ کو ہار پسند نہیں ۔۔۔۔

۔

ارباب نے اتنا کہہ کر کال رکھ دی تھی ۔۔۔۔۔۔

اس کی اتنی ہمت ۔۔۔۔

مجھے دھمکی دے رہا ہے ۔۔۔ جاوید آگ بگولا ہوا ۔۔۔۔

 ۔

۔

بس ۔۔۔۔ بس ۔۔۔۔

اپنا غصہ اپنے کنٹرول میں رکھو ۔۔۔۔۔۔

۔

پہلے ہی ہم  یہاں تک تمہارے اس غصے کی وجہ سے پہنچے ہیں ۔۔۔۔

۔

تم اب ویسا ہی کرو گے ۔۔۔۔۔۔ جیسا میں تم سے کہوں گا ۔۔۔۔

۔

تم راؤ ارباب سے رقم کی ڈیمانڈ کرو گے ۔۔۔۔ 

مگر ڈیڈ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ جاوید کچھ کہتا ۔۔۔۔ نواز صاحب نے ہاتھ آگے کرکے اسے خاموش کروا دیا تھا ۔۔۔۔

۔

۔

سونے کی چڑیا ہاتھ سے جا رہی ہے ۔۔۔۔ جتنا لٹ سکتے ہو ۔۔۔ لوٹ لو ۔۔۔۔۔

۔

نواز صاحب نے ایک بڑا قہقہہ لگایا تھا ۔۔۔۔۔

اور جاوید ابھی تک الجھن میں تھا کہ نہ جانے اس کے ڈیڈکے دماغ میں چل کیا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

۔

۔

حمنہ اپنے کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

۔

وہ خود کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔۔۔۔

۔

حمنہ مجھے ابھی اپنی زندگی کی کہانی میں ایک بھائی کا کردار نبھانا ہے ۔۔۔۔ میں اپنے ذاتی فیصلے ابھی نہیں کرسکتا ۔۔۔۔۔۔ میں ابھی اپنے بارے میں نہیں سوچ سکتا ۔۔۔۔۔

۔

مگر تم میرا انتظار کرنا۔۔۔۔ کیونکہ میرا ہر فیصلہ تمہارے حق میں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

ارباب نے جب حمنہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا تھا تو کہا تھا ۔۔۔۔۔۔ حمنہ جواباً مسکرائی تھی تب ۔۔۔۔

اور ارباب کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا تھا تسلی کے لئے ۔۔۔۔۔ 

ارباب مسکرایا تھا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ یہ محبت کی آگ ایک طرفہ نہیں ہے ۔۔۔۔ 

وہ جان گیا تھا کہ حمنہ بھی اس سے محبت کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس بات سے وہ بہت مطمئن ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

۔

ارباب مجھے یقین ہے تم پہ۔۔۔  میں تمہارا انتظار کروں گی ۔۔۔ ہمیشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

 " ارباب ۔۔۔۔ حمنہ نے جیسے ہی ارباب کو دیکھا ۔۔۔۔۔ جھپٹ کر ارباب کے سینے سے لگ گئی ۔۔۔۔

۔

میں بہت ڈر گئی تھی ارباب ۔۔۔۔۔

یہ جاہل انسان میری دوست کو ناجانے کہاں لے کر جانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسے دھکیلتے ہوئے گاڑی میں ڈالا اور ۔۔۔۔۔۔۔

۔

شکر ہے آپ آگئے ۔۔۔۔ حمنہ کپکپاتے ہوئے ارباب کے سینے سے لگے اسے سب بتا رہی تھی ۔۔۔۔۔

۔

جبکہ ارباب حمنہ کے یوں خود سے لپٹ جانے کے احساس سے باہر نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔ "

حمنہ کو شاپنگ مال میں خود کا ارباب سے لپٹ جانا اور ارباب کا شوکڈ ہونا یاد آیا تھا ۔۔۔۔۔

۔

۔

وہ بیڈ پہ جا کر بیٹھی ۔۔۔۔ اور ارباب کی فیس بک آن کیے اس کی تصاویر دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔

۔

 " ‏یقین کیسا گمان کیسا  

عروج کیسا زاول کیسا

 سوال کیسا   جواب کیسا

 محبیتں تو محبیتں ہیں..!!   

محبتوں میں حساب کیسا "

۔

۔

انشاء بلیک ساڑھی پہنے بلیک ائیر رنگز پہنے ، لپسٹک لگائے ، میک اپ کیے ، ہائی ہیلز پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء چلیں ۔۔۔۔۔ احد کی آواز پہ وہ چونکی اور اپنی ساڑھی کا پلو سنبھالتے ہوئے وہ احد کے ساتھ احد کی گاڑی میں جا بیٹھی ۔۔۔۔۔۔

۔

احد کو گاڑی بھی آفس کی طرف سے ملی تھی ۔۔۔۔۔

۔

رات کا وقت تھا ۔۔۔۔۔۔ ہر طرف تاریکی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

۔

گاڑی ایک خوبصورت سی جگہ پہ جا کر رکی ۔۔۔۔۔۔۔

۔

احد گاڑی سے اترا اور جا کر انشاء کی سائیڈ سے دروازہ کھولا ۔۔۔۔

اور ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔۔۔

۔

انشاء اپنی ساڑھی سنبھالتی احد کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھے ایک قدم گاڑی سے باہر رکھتی ہے ۔۔۔۔۔

۔

چلیں ۔۔۔۔۔؟

احد نے ایک بار پھر پوچھا ۔۔۔۔

انشاء احد کے بازو میں بازو ڈالے اندر جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

اندر ہر طرف تاریکی تھی ۔۔۔۔۔۔

احد۔۔۔۔ یہ اندھیرا ۔۔۔۔۔ انشاء نے سوال پوچھا ۔۔۔۔۔۔

جب ہی ایک اسپاٹ لائٹ ان پہ آ کر ٹہری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔

Happy Birthday Insha

Happy birthday to You 

Happy birthday dear Insha

چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں۔۔۔۔ ہر طرف روشنی پھیل گئی ، ہر چیز روشن سی ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہجوم سا اکھٹا ہوگیا جو انشاء کو برڈے وش کررہا تھا ۔۔۔۔۔

۔

اور انشاء کو بکے ملنے لگے ۔۔۔ تھینک یو ۔۔۔ تھینک یو ۔۔۔ کہتے ہوئے انشاء بکے پکڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ 

۔

کافی سارے بکے ہوگئے تو احد نے انشاء سے سارے بکے پکڑ کر سائیڈ پہ رکھ دیئے ۔۔۔۔

۔

اور انشاء کو ایک گلاب کے پھولوں کا بکے دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

۔

Happy birthday my life ,my Better half... My wife ... 

۔

اور انشاء کی پیشانی پہ بوسہ دیا اور گلے لگا لیا ۔۔۔۔

۔

تھینک یو سو مچ احد ۔۔۔۔ تھینک یو سو مچ ۔۔۔۔۔

مجھے تو یاد ہی نہیں تھا کہ آج میرا برڈے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تھینکس آگین کہ تم نے ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی مجھے سب سے پہلے وش کیا اور میرا برڈے یاد رکھا ۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء نے احد کے سینے سے لگے کہا تھا ۔۔۔۔۔ 

کیسے نہ یاد رکھتا ۔۔۔۔ تم میری زندگی ہو ۔۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔ میری ہر خوشی ۔۔۔۔۔۔ 

میں کیسے بھول سکتا تھا ۔۔۔۔۔

۔

چلو بھئی۔۔۔۔ کیک کاٹتے ہیں ۔۔۔۔ احد نے تالیاں بجاتے ہوئے سب کو متوجہ کیا تھا ۔۔۔۔۔

۔

کیک پہ انشاء کی تصویر بنی تھی ۔۔۔۔۔

۔

پورے ہال کو پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔۔۔ ۔۔ ایک بڑا سا بورڈ رکھا تھا جس پہ انشاء کی تصویر تھی اور ساتھ ہیپی برتھڈے لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔

۔

تالیوں کی گونج میں انشاء نے کیک کاٹا اور سب سے پہلے احد کو کھلایا ۔۔۔۔۔۔ احد نے وہی کیک کا ٹکڑا پکڑ کر انشاء کے منہ میں بھی ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔

پھر انشاء نے سب کو ایک ایک کرکے کیک کھلایا ۔۔۔۔۔

۔

سب نے انشاء کو تحائف دئیے ۔۔۔۔ جوکہ لفافوں میں بند تھے ۔۔۔۔۔

۔

احد نے اپنے کوٹ میں سے ایک گلاب کا پھول نکالا اور انشاء کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

۔

 " لوگ خاص نہیں ہوتے

خاص تو ہماری چاہت ہوتی ہے۔

جو کسی کو ہمارے لئے خاص بناتی ہے ورنہ

یہاں تو حسین و جمیل چہرے بھی دل سے اُتر جاتے ہیں اور

کوئی عام سا چہرہ بھی دل میں اُتر جاتا ہے......"

۔

انشاء نے پھول پکڑ لیا ۔۔۔۔

۔

کھانا سٹارٹ کریں ۔۔۔۔ احد نے کہا تو سب کھانا کھانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

انشاء بتاؤ۔۔۔۔ کیا گفٹ چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

میں جانتا ہوں میں تمہیں کچھ بھی گفٹ کردوں تمہیں پسند آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

مگر میں چاہتا ہوں میں تمہیں جو بھی گفٹ کروں ۔۔۔تم اسے استعمال کرو ۔۔۔۔۔ اس لئے مانگو ۔۔۔۔۔

۔

کیا چاہیے ۔۔۔۔۔

احد انشاء کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

۔

سوچ لو ۔۔۔۔ کچھ بھی ۔۔۔۔۔؟

انشاء نے احد کو شرارتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

۔

کچھ بھی ۔۔۔۔ 

۔

احد ۔۔۔۔۔ انشاء نے احد کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تھا ۔۔۔۔۔۔

۔

احد متوجہ سا ہوکر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔

۔

احد ۔۔۔۔۔۔ میں  ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔میں

۔

کیا انشاء ۔۔۔  جھجکو مت ۔۔۔۔۔

بولو ۔۔۔۔۔۔۔

میں زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ میں جاب کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ میں ایک ہاؤس وائف بن کر نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔۔

احد کا چہرہ مرجھا گیا ۔۔  

میں جانتی ہوں کہ تمہیں میری پرواہ ہے ۔۔۔۔۔۔ تم مجھے میرے ہی لئے جاب نہیں کرنے دینا چاہتے ۔۔۔۔ 

احد ایسی بات نہیں ہے کہ تم نے مجھے کسی چیز کی کمی دی ہے.....   مگر پلیز میں جاب کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔

۔

۔

انشاء ۔۔۔۔۔ احد نے سنجیدگی سے پکارا۔۔۔۔۔

انشاء اپنی جگہ تھم سی گئ۔۔۔۔۔۔۔ کہ شایداحد انکار کردے ۔۔۔۔۔

۔

بس اتنی سی بات ۔۔۔ احد نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔

انشاءکی جان میں جان سی آئی ۔۔۔ 

تھینک یو احد ۔۔۔۔ انشاء احد کے گلے لگ گئی۔۔۔۔

۔

۔

احد نے انشاء کو خود سے الگ کیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور ایک خوبصورت سا بریسکلیٹ انشاء کی کلائی میں باندھ دیا ۔۔۔۔

۔

اٹس سو بیوٹیفل احد ۔۔۔۔

تھینکس اگین۔۔۔۔۔

چلو کھانا کھاتے ہیں ۔۔۔

انشاء نے اثبات میں سرہلادیا ۔۔۔۔۔

میں رمشہ کو ڈائیورس نہیں دوں گا ۔۔۔۔ میں اسے منانے جا رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور منا کر گھر لے آؤں گا ۔۔۔۔۔

جاوید نے بتایا ۔۔۔۔

۔

تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ 

تمہیں پتہ بھی ہے تم کیا کہہ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔

۔

نواز صاحب دھاڑے ۔۔۔۔

جی ڈیڈ ۔۔۔۔۔ میں رمشہ سے علیحدگی نہیں چاہتا ۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ 

لیکن جب بھی رمشہ سے جدا ہونے کا خیال میرے دل میں آتا ہے ۔۔۔۔

میں تڑپ سا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔

۔

جاوید تمہارا دماغ ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟

پاگل ہو گئے ہو کیا ۔۔۔۔۔۔؟

کیا اول فول بکے جارہے ہو ۔۔۔۔؟

۔

نواز صاحب آگ بگولا ہوئے ۔۔۔۔۔ 

۔

جی ڈیڈ ۔۔۔۔ میں ہوگیا ہوں پاگل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید مجھے رمشہ سے اٹیچمنٹ ہوگئی ہے ۔۔۔۔ میں اس سے الگ نہیں ہونا چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

جس پل ارباب نے مجھ سے کہا نہ کہ ۔۔۔۔

۔

"میں اس معاملے کو کورٹ کچہری تک نہیں لے کر جانا چاہتا ۔۔۔۔

سو تم چپ چاپ اس پہ سائن کرو اور یہ معاملہ یہی ختم کرو ۔۔۔۔۔۔۔

۔

اگر رقم چاہتے ہو بدلے میں رقم مل جائے گی ۔۔۔۔ "

۔

۔

اس پل مجھے احساس ہوا کہ یہ میں کیا کررہا ہوں ۔۔۔ اور کیا کررہا تھا ۔۔۔۔

۔

رمشہ میری بیوی ہے۔۔۔۔۔

میری ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔۔ اور میں اپنی زمہ داری سے کیسے پیچھے ہٹ گیا ۔۔۔۔

۔

رمشہ سے محبت کرنا ، اس کی عزت کرنا ۔۔۔۔۔۔ اس کی ہر خوشی کا خیال رکھنا ۔۔۔ اس کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا تو میرا فرض ہے ۔۔۔۔۔

۔

ہاں ڈیڈ ۔۔۔۔

مجھے رمشہ سے محبت ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔ اور میں اپنی بیوی کو واپس لینے جارہا ہوں ۔۔۔۔

کہتے ہوئے جاوید نے باہر کی طرف قدم اٹھایا ۔۔۔۔۔

۔

رمشہ اس گھر میں اب واپس نہیں آئے گی ۔۔۔۔۔۔۔

نواز صاحب کی بات سن کر جاوید کے قدم رک گئے ۔۔۔۔

۔

کیا کہا آپ نے ۔۔۔۔۔۔؟

جاوید نے مڑکر اپنے ڈیڈ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

۔

بالکل صیح سنا تم نے ۔۔۔۔۔۔

رمشہ اس گھر میں واپس نہیں آئے گی ۔۔۔۔۔۔

تم اسے ڈایورس دو ۔۔۔۔ اور ارباب سے رقم لو ۔۔۔۔۔

نواز صاحب نے بتایا ۔۔۔۔۔

۔

ٹھیک ہے ۔۔۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ رمشہ اس گھر میں واپس نہیں آئے گی تو نہیں آئے گی رمشہ اس گھر میں واپس ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

میں رمشہ کو لے کر کہیں اور رہ لوں گا ۔۔۔۔ کیونکہ رمشہ کو تو میں نہیں چھوڑنے والا ۔۔۔۔۔۔

۔

کیونکہ وہ میری بیوی ہے ۔۔۔۔ 

میری زمہ دادی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ 

اور میں اپنی زمہ داری اچھے سے نبھانا جانتا ہوں ۔۔۔۔۔۔

۔

نواز صاحب کے تو رنگ اڑ گئے جاوید کی بات سن کر ۔۔۔۔۔۔

۔

سوچ لو جاوید ۔۔۔۔ 

۔

سوچنے کے لئے اب بچا ہی کیا ہے ڈیڈ ۔۔ ۔۔

۔

کیا ہوگیا ہے تمہیں ۔۔۔۔۔ 

اس نے کوئی جادو وادو تو نہیں کردیا تم پہ ۔۔۔۔۔۔

۔

نواز صاحب اب حیران ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

۔

ڈیڈ ، محبت بذات خود ایک سحر ہے ۔۔۔۔۔۔

۔

خدا حافظ ۔۔۔۔ کہتے ہوئے جاوید گھر سے نکل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔

۔

نواز صاحب اپنی جگہ ساکن رہ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

۔

۔

رمشہ ، تم پہلے  فہد کی کال نہیں ریسیو کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر تم نے اسے بلاک کردیا ۔۔۔۔۔

۔

حمنہ نے رمشہ سے پوچھا ۔۔۔۔

۔

مجھے کوئی بات نہیں کرنی کسی سے بھی ۔۔۔۔۔ رمشہ سنجیدہ تھی ۔۔۔۔

۔

اوکے بٹ ، ایز آ فرینڈ  مجھے فہد کی مدد کرنا پڑی ۔۔۔۔۔

۔

۔

وہ  مجھے کال کررہا ہے تم سے بات کرنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔ تم اسے بات کرو ۔۔۔ میں آنٹی سے مل کر آتی ہوں ۔۔۔۔۔

۔

حمنہ اپنا موبائل رمشہ کو پکڑا کر باہر لان کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

رمشہ نے کال ریسیو کی ۔۔۔۔۔۔۔

ہممم بولو ۔۔۔۔۔

کیا بات کرنا چاہتے ہو ۔۔۔۔۔۔

رمشہ کا لہجہ اسپاٹ تھا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

رمشہ ، مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے کیا ۔۔۔۔۔۔۔؟

تم مجھ سے بات کیوں نہیں کررہی ۔۔۔۔اور میرا نمبر کیوں بلاک کیا ہے ۔۔۔۔۔

پتہ ہے میں کتنا پریشان ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔

۔

فہد انتہائی فکر سے بول رہا تھا ۔۔۔۔۔

۔

کام کی بات کرو ۔۔۔۔۔۔  رمشہ نے اسی لہجے میں کہا ۔۔۔۔

۔

رمشہ ، میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ تمہارے بنا نہیں جی سکتا ۔۔۔۔۔۔۔

تم ، تم  اسے چھوڑ دو ۔۔۔۔  ہم شادی کریں گے ۔۔۔۔۔ میں تمہیں بہت خوش رکھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ 

میں تمہارے گھر رشتہ لے کر آؤں گا ۔۔۔ ۔۔۔ میں تمہارے پیرنٹس کو منا لوں گا ۔۔۔۔

۔

ٹرسٹ می ۔۔۔۔ فہد کے لہجے میں التجا تھی ۔۔۔۔

۔

۔

محبت ۔۔۔۔؟ 

اسے چھوڑ دو ۔۔۔۔؟ 

تم سے شادی ۔۔۔۔۔؟ 

۔

فہد ۔۔۔۔۔ کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔

میں تم سے اب کبھی شادی نہیں کروں گی ۔۔۔۔ جاوید سے اگر  میری  طلاق ہو بھی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔

میں جب بھی تمہیں نہیں ملوں گی ۔۔۔۔۔۔۔ 

بھول جاؤ مجھے ۔۔۔۔۔ 

۔

۔

رمشہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ 

میری محبت یک طرفہ تو نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔

تم بھی مجھ سے محبت کرتی تھی ۔۔۔ تو ایسے کیوں کہہ رہی ہو ۔۔۔۔۔؟

۔

۔

کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اب نہیں کرتی ۔۔۔۔۔۔

۔

تم نے میرے کردار پہ کیچڑ اچھالا ہے ۔۔۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے میری ذات داغ دار ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ 

۔

مجھے بدکردار کہا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

کیا ہوں میں بدکردار ۔۔۔۔۔؟ 

کیا میرا دامن داغ دار ہے ۔۔۔۔۔؟ 

۔

کیا شادی کے بعد کبھی میں نے تم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔؟ 

۔

تمہیں کوئی تسلی ، کوئی وعدہ کیا میں نے ۔۔۔۔۔؟ 

۔

لیکن تمہارے بھیجے ہوئے اس ایک گفٹ نے سب برباد کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

رمشہ ایک گفٹ ہی تو تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ایک دوست دوسرے دوست کو گفٹ نہیں دے سکتا۔۔۔۔؟ 

۔

دے سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بالکل دے سکتا ہے ۔۔۔۔ خود آکر بھی دے سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

۔

اور اگر خود نہیں دینے آیا تھا تو کم سے کم اپنا نام تو لکھ کر بھیج سکتا تھا نہ ۔۔۔۔۔۔

۔

مگر تم نے جان بوجھ کر صرف 

 "ایف "  لکھا ۔۔۔۔ 

تاکہ میرے شوہر کو مجھ پر شک ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اور وہ غصے میں آکر مجھے چھوڑ دے ۔۔۔۔۔۔

۔

لیکن جانتے ہو ۔۔۔۔ ایسا نہیں ہوا ۔۔۔۔۔

۔

بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔

۔

رمشہ نے اپنی بات اُدھوری چھوڑ دی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔۔

۔

رمشہ پلیز ۔۔۔۔۔

ایم سوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا ۔۔۔۔

۔

لیکن پھر بھی جو ہوا اس کے لئے میں تم سے معافی مانگتا ہوں ۔۔۔۔

۔

رمشہ پلیز ۔۔۔۔ رو مت ۔۔۔۔

پلیز رمشہ ۔۔۔۔۔

۔

آئندہ مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

خدا حافظ ۔۔۔۔۔

۔

رمشہ ، پلیز ، رمشہ سنو ۔۔۔۔۔

۔

مگر رمشہ نے کال کاٹ دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

اور رونے لگی ۔۔۔۔۔۔

۔

۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

۔

۔

آج انشاء کا آفس میں پہلا دن بہت مصروف گزرا تھا ۔۔۔۔۔

۔

۔

مگر وہ بہت خوش تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

چھٹی کے وقت احد اسے پک کرنے آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

انشاء گاڑی میں جا کر بیٹھی ۔۔۔۔۔

۔

کیا بات ہے ۔۔۔۔ 

بہت خوش لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ احد نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

۔

ہممم، میں خوش تو بہت ہوں ۔۔۔۔۔۔۔

مگر صرف تمہاری وجہ سے ۔۔۔۔۔

۔

تھینک یو احد ۔۔۔۔۔۔

۔

تھینک یو سو سو سو مچ ۔۔۔۔۔۔ 

۔

اچھا ، وہ کس لئے ۔۔۔۔؟ 

احد نے اسٹیرنگ گھماتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

مجھے سرپرائز برتھڈے پارٹی دینے کے لئے ۔۔۔۔

۔

میرا برتھڈے یاد رکھنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

اور سب سے بڑھ کر ، میرے برتھڈے گفٹ کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء نے احد کے بازو میں اپنا بازو ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

تم خوش ہو نہ ۔۔۔۔۔ 

احد نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

خوش۔۔۔۔۔۔۔ ؟ 

بہت خوش ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء نے پرجوش انداز میں کہا ۔۔۔۔۔۔

۔

چلو پھر اسی خوشی میں آئسکریم کھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

۔

احد نے کہتے ہوئے آئسکریم والے کے پاس گاڑی روکی ۔۔۔۔۔

۔

اور دو آئسکریم لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

اور کھانے لگے ۔۔۔۔۔

۔

انشاء وہ ۔۔۔۔۔۔ احد نے اس کے منہ کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔۔۔

۔

کہاں ۔۔۔۔۔؟ 

یہاں ۔۔۔۔۔؟

انشاء نے اپنے منہ کے دائیں طرف ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔

۔

نہیں ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔

۔

احد نے ہاتھ بڑھا کر انشاء کا منہ صاف کیا ۔۔۔۔۔ جہاں تھوڑی سی آئسکریم لگ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

۔

چلیں ۔۔۔۔۔۔؟ 

احد نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔اور دونوں گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

آج موسم بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

لگتا ہے بارش ہوگی ۔۔۔۔۔

احد نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

۔

بارش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انشاء نے کار میں بیٹھے ہوئے ہاتھ ونڈو سے باہر نکال کر اپنی ہتھیلی پر بارش کی ایک بوند محسوس کی ۔۔۔۔۔

۔

انشاء جلدی چلو ۔۔۔۔

بارش شروع ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کے تیز ہو ۔۔۔۔۔

۔

احد نے انشاء کی طرف سے دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

۔

انشاء باہر نکلی اور آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں پھیلائے جوش سے گھمانے لگی ۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء ، بیمار پڑ جاؤ گی ۔۔۔۔۔۔۔

چلو اندر ۔۔۔۔۔ احد اسے اندر لے جانے کی کوشش کررہا تھا ۔۔۔۔۔

۔

مگر وہ جوش سے بارش میں جھومنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

احد ، آپ نے کبھی بارش کی آواز محسوس کی ہے ۔۔۔۔۔

۔

انشاء نے احد کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

۔

نہیں ۔۔۔۔۔۔

تمہیں پتہ تو ہے ۔۔۔۔ مجھے بارش نہیں پسند ۔۔۔۔۔۔۔

احد نے چھتری لیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء نے احد کے ہاتھ سے چھتری لے کر دور گرا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور احد کا ہاتھ اسے گھمانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء ۔۔۔۔۔۔۔ احد کی چینخ نکل گئی ۔۔۔۔ بارش میں وہ دونوں بری طرح بھیگ چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

۔

بادل پورے زور سے گرج رہے تھے ۔۔۔۔۔۔

ابھی بارش اور تیز ہونی تھی ۔۔۔۔۔۔

۔

آج میری خاطر بارش میں بھیگ لو نہ احد ۔۔۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

انشاء نے معصومیت سے کہا ۔۔۔۔۔۔

۔

اور احد اس کا ہاتھ تھامے اسے گول گول گھمانے لگا ۔۔۔۔۔۔ 

۔

دونوں نے بارش میں بھیگتے ہوئے کپل ڈانس کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد ۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ain Se Ishq  Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ain Se Ishq  written by Sameena Jannat. Ain Se Ishq  by Sameena Jannat is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages