Pages

Tuesday 27 August 2024

Tera Fitoor By Hina Rashid New Complete Romantic Novel

Tera Fitoor By Hina Rashid  New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tera Fitoor By Hina Rashid  New Complete Romantic Novel 


Novel Name: Tera Fitoor

Writer Name: Hina Rashid 

Category: Complete Novel

خاموش... 

جب ہم نے کہہ دیا کے خون بہا میں ونی ہی چاہیے تو ہمارے فیصلے سے اختلاف کرنے والے کون ہیں یہاں..

.

سردار کی بات سن کر ایک دفعہ چاروں اور خاموشی چھا گئی....

عتیق احمد خان  جو سر جھکائے جرگے کا فیصلہ سن رہے تھے.. بے ساختہ سردار کی طرف دیکھا.. جن کا فیصلہ ان کی سمجھ سے باہر تھا..

. کیوں کہ ان کے خاندان میں لڑکی زات کا نام و نشان ہی نہیں تھا....

یہ بات تو پورا گاؤں جانتا تھا کہ خان برادرز کے ہاں بیٹیاں نہیں ہوتی.... شاید کسی کی بد دعا لگی ہے.. یہ بھی سننے میں آیا...

..

تو عتیق احمد خان بے ساختہ بول اٹھے لیکن سردار سائیں  آپ تو جانتے ہیں ہمارے پورے خاندان میں لڑکی نہیں ہے

ہم خون بہا کے بدلے زمین جائداد دینے کو تیار ہیں

تو سردار کے منہ پر طنزیہ مسکراہٹ آئی جسے گاؤں کے لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں...

ہاں تو کیا ہوا اگر تمھارے خاندان میں لڑکیاں نہیں ہیں... لڑکے تو ہیں ناں

ہمیں خون بہا میں آپ کا پوتا چاہیے عتیق احمد خان....

......................... 

خان ہاؤس میں آج پہلی دفعہ سناٹے کا عالم تھا ہر کوئی اک دوسرے سے آنکھیں چرا رہا تھا....

جرگے میں جو ونی کا فیصلہ ہوا اس نے سب کی آنکھیں اشک بار کی ہوئ تھیں...

خان حویلی کے لاڈلے سپوت بھی خاموشی کے عالم میں بیٹھے تھے جب عتیق احمد خان کی آواز حویلی میں گھونجتی  ہے.... جاؤ بہو ملِحان خان کو لے کر آو... جھرگے کا ٹائم ہو گیا

... تو مومنہ بیگم تڑپ اُٹھتی  ہیں پلیز دا جی یہ ظلم نہ کریں میرا معصوم بیٹا.

.. اسے تو ابھی ماں کے بغیر جینا بھی نہیں آیا اور آپ.... آپ اسے و ونی دے رہے ہیں...

بہو ہم نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے جو ہم نے کہا وہی ہو گا... جاؤ ملحان خان کو لے کر آؤ...مومنہ بیگمنے  بے ساختہ سردار حاتم کی طرف دیکھا جو ان سے نظریں چرا جاتے ہیں.... دا جان کے سامنے وہ بھی نہیں بول سکتے اور پھر حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے کہ اسکے علاوہ اور کوئ راستہ ہی نہیں بچا

مومنہ بیگم جیسے ہی سسکتے ہوۓ بچوں کے روم  کی طرف بڑھی

سردار حاتم بھی دا جی کے اشارے پر ان کے پیچھے گئے قیس خان جو کے چوری چھپے ہوئے بڑوں کی باتیں سن رہا تھا ماں کو روم کی طرف بڑھتے دیکھ جلدی سے ملحان کی جگہ بستر میں گھس گیا اور آنکھیں بند کر کے سونے کا ناٹک کرنے لگا مومنہ بیگم نے جیسے ہی سوۓ ہوۓ ملحان کو دیکھا تو بے ساختہ سینے سے لگا کر سسکنے لگیں . سردار حاتم کمرے میں آئے اور ان کے کندھے پر ہاتھ کر دلاسہ دینے لگے مومنہ پلیز حوصلہ رکھو

اللہ سب بہتر کریں گے...

سائںں میں کیسے حوصلہ کر لوں کیسے

آپ کو پتا ہے ملحاں کتنا معصوم ہے وہ تو میری تیز آواز پر ڈر جاتا ہے وہ کیسے ان حالات کا سامنہ کرے گا...

تو حاتم سردار بے ساختہ بولے مومنہ تمہیں پتا ہے قیس خان میں دا جی کی جان بستی ہے وہ کبھی بھی قیس خان کو ونی نہیں کریں گے... ونی کا لفظ آتے ہی سردار حاتم کی زبان کانپ جاتی ہے...

تو مومنہ بیگم ملحان کو لیٹا کر سردار حاتم کے ہاتھ پکڑ لیتی ہے...

سردار پلیز ہماری ایک بات مان لیں آپ نے ہمیشہ دا جی کا حکم مانا ہے لیکن اس دفعہ آپ ہماری مان لیں... پلیز سائیں

ہم.. ہم ملحان کی جگہ قیس.... قیس کو بھیج دیتے ہیں وہ.. وہ سمجھدار اور عقل مند ہے ملحان کی نسبت.... پلیز سائیں ایسا کرنے میں میرا ساتھ دیں...

یہ  تم کیا کہہ رہی ہو.. اگر دا جی کو پتا چل گیا تو طوفان آ جاۓ گا...سردار حاتم دھیمی آواز میں چلائے سائیں ادھر دیکھے وہ بیڈ پر لیٹے ملحان اور قیس کی طرف اشارہ کرتی ہیں... آپ دیکھے بتائیں ان میں سے ملحان کون ہے اور قیس کون

میں ماں ہو کر نہیں پہچان پاتی تو دا جی کو کیسے پتا چلے گا

...

مومنہ آپ جانتی ہو حان کتنا ڈر پوک ہے دا جی کو دیکھتے ہی پتا چل جاۓ گا... ہمیں نہیں پتا سائیں آپ کو ہماری یہ بات ماننی ہو گی... ونی میں ملحان کی جگہ قیس جاۓ گا...

تو سردار حاتم سوچ میں پڑھ جاتے ہیں

انہیں با خوبی اندازہ تھا کہ ملحان کی نسبت قیس ایک ہوشیار بچہ ہے...

ٹھیک ہے مومنہ ہم آپ کی بات مان رہے ہیں...

قیس جو کے تب سے آنکھیں بند کئے ماں اور باپ کی باتیں سن رہا تھا... بستر سے نکلتے ہوئے بولا بابا ہم دا جی کو نہں بتائیں گے کے ہم حان نہیں ہیں... تو مومنہ بیگم بے ساختہ سردار حاتم کی طرف دیکھتی ہیں کہ دیکھ لے اپنے بیٹے کی ذہانت... جو 10 سال کی عمر میں اپنے عقل سے زیادہ ہوشیار تھا...

جسے ماں اور باپ کی پوری بات تو سمجھ نہیں آئی لیکن اتنا اندازہ ہو گیا کہ ما ں اسے حان کی جگہ کہیں بیجھنا چاہتی ہیں...

قیس آپ تو ہمارے بہادر بیٹے ہو نہ آپ جائیں گے نہ ادھر... جی مما میں جاؤں گا حان کی جگہ آپ روئیں مت....

قیس آپ ہماری بات ہمیشہ یاد رکھیے گا آپ نے ہمیشہ بڑوں کی بات ماننی ہے ان کا احترام کرنا ہے...بیٹا آپ نے اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھنا ہے اور روز اللہ کو یاد کرنا ہے...

نمار بھی پڑھنی ہے میرے بچے نے

جی مما میں ایسا ہی کروں گا... مما میں آیت الکرسی بھی پڑھ کر سوؤں گا اور کسی کو تنگ بھی نہیں کروں گا....

آں میرا بہادر بیٹا...

وہ اک دفعہ قیس کو زور سے سینے سے لگاتی ہیں اور سرادر حاتم کو قیس کو باہر لے جانے کا کہتی ہیں..

.

سرادر حاتم جیسے ہی قیس کو لے جاتے ہیں دا جی قیس کو ملحان سمجھتے ڈھیروں پیار کرتے ہیں ملحان بیٹا آپ نے ڈرنا نہیں ہے سب کا بہادری سے سامنا کرنا ہے

جیسے ہی نکاح شروع ہوا دا جی کا موبائل بجنے لگا وہ کال اُٹھاتے سائیڈ پر ہو گئے تو سردرا حاتم نے دلہا کے نام میں قیس کا نام لکھوا دیا...

قیس احمد خان ولد سردار حاتم احمد خان آپ کا نکاح نمل شاہ ولد منور حسین شاہ حق مہر 1 کروڑ سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے... مولوی صاحب نےجیسے ہی الفاظ دہرائے تو قیس اپنے بابا کی طرف دیکھا...

بابا جان میں کیا بولو...

بولو بیٹا قبول ہے.... تو قیس خان بولا.. بولو بیٹا قبول ہے... سب کے چہروں پر مسکراہٹ چھا گئی......

بیٹا آپ نے بس قبول ہے بولنا ہے... پھر قیس کے تین بار قبول ہے کہتے ہی مولوی صاحب اندر کی طرف بڑھے جہاں نمل شاہ اک ہاتھ کا انگوٹھا منہ میں ڈالے دوسرے ہاتھ میں اپنی گڑیا پکڑے اس کے ساتھ کھیل رہی تھی...

نمل شاہ 8 سال کی اک معصوم گڑیا.... لال پھولے گالوں کے ساتھ ایک نظر دیکھنے والے کو خود کو پیار کرنے پر مجبور کر دے... لیکن دیکھنے والے کی دوسری نظر میں پیار کے ساتھ ساتھ ہمدردی بھی شامل ہو جاتی ہے.. کیونکہ نمل دماغی طور پر ابنارمل ( اپنی عمر سے چھوٹا زہن)  ہے..

.

نمل کے بابا کے سمجھانے پر نمل بھی نکاح قبول کرتی ہے...

اس طرح شروع ہوتی ہے محبت کی اک انوکھی داستان...

.............

‍‍‍سرادر عتیق احمد خان اپنے قبیلے کے ایک ظالم سردار جن کے ظلم کی داستانیں پوری گاؤں میں مشہور تھی... 

گاوں کے لوگ ان کی وجہ سے بہت تنگ تھے سرادر نے گاؤں کے لوگوں پر زندگی تنگ کر رکھی تھی.. 

سردار عتیق احمد خان کی انہی ظالمانہ روایات کی وجہ سے انہیں ہزاروں بد دعائیں ملتی تھی شاید انہیں بددعاؤں کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے انہیں دو بیٹوں کے بعد کوئ بیٹی عطا نہیں کی تھی .. یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ سردار اسماعیل کی آنے والی نسلوں میں بیٹی ذات  کا نام و نشان نہیں تھا... 

سردار عتیق احمد خان کو اللہ نے دو بیٹے   سردار حاتم احمد خان  اور سردار حاکم خان سے نوازہ تھا لیکن ان کی سرداری کا غرور ہی ان پر اتنا ہاوی تھا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت پر دیہان نہ دے پائے.. 

سردارنی خنسا ماں... جو کہ اماں بی کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی پرورش میں بہت دیہان دیا لیکن سردار  عتیق احمد خان کی بے جا ڈھیل نے ان کی اولاد کو بگاڑ رکھا تھا.....

حاتم خان  تو بس حکم چلانا جانتے تھے ہاں البتہ... سردار حاکم شاہ شراب کے ساتھ ساتھ شباب کا بھی شوق رکھتے تھے......

اور ان کے اسی شوق کی وجہ سے کئ جانیں ہار گئ تھیں

انہوں نے اپنے بیٹوں کی شادیاں چھوٹی عمر میں کر دی تھی سردار حاتم کی شادی کو 15 سال ہو گئے تھے... اللہ نے سردار حاتم خان کو 3 بیٹے عطا کئے.... 

قیس خان اور ملحان سلام خان ایک ہی شکل کے جڑواں بھائ تھے اور ان کا چھوٹا بھائ عارب  خان  جو کے 5 سال کی عمر میں ہی انتہا کا ضدی تھا..... کہ ان کی ضد سے ان کی نرم دل ماں مومنہ شاہ خان بھی پریشان تھی... 

سردار حاتم خان اپنے شوق کی وجہ سے شادی جیسے نیک بندھن سے دور تھے.... 

.............

اور اب زکر شروع ہوتا ہے ان ہستی کا جن کی نرم دلی کی مثالیں اپنے گاؤں تو کیا آس پاس کے سبھی علاقوں میں مشہور تھیں سردار سراج الدین شاہ  جو کے انتہائی نرم دل اور شریف انسان ہیں.... 

سردار سراج الدین شاہ کو اللہ نے 3 بیٹوں اور اک بیٹی  سے نوازہ تھا سردار منور حسین شاہ  اور سردار سعد حسین شاہ، سردار سعید حسین شاہ۔ ان کے تینوں  بیٹے ان کا پرتو بلکل باپ جیسی نرم طبیعت کے مالک تھے... اور سردارنی حمائمہ شاہ اپنی ماں جیسی تھوڑی سخت طبیعت کی مالک تھیں.... 

سردار سراج الدین شاہ نے اپنے دونوں بیٹوں   کی شادیوں میں جلد بازی کی اور چھوٹی عمر میں ہی انہیں شادی جیسے پاکیزہ بندھن میں باندھ دیا... جبکہ سردار سعید خان ابھی کنوارے تھے 

ان کی چھوٹی بہو امامہ بھی انہی کی طرح نرم دل جبکہ بڑی بہو خولہ  لگتا تھا خان قبیلے پر ہی  چلی گئیں تھیں  انتہا کی کٹھور اور سخت دل ... سردار منور شاہ کو اللہ نے دو جڑواں بیٹیاں  نمل شاہ رمل شاہ جبکہ سردار سعد خان کو اک  بیٹی انابیہ شاہ  سے نوازہ تھا... 

شاہ خاندان میں  بیٹوں کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جاتا تھا... لیکن اللہ کی مرضی کے آگے ہم انسان خاک بھی نہیں.... 

............... 

سردار حاکم خان نشے کی حالت میں دھت گاڑی سڑکوں پر لیے گھوم رہے تھے جب ان کی گاڑی ایک جیپ سے ٹکرا جاتی ہے اپنی غلطی ہونے کے باوجود وہ سامنے والے کو گالی گلوچ دینا شروع کر دیتے ہیں... 

سردار سعید شاہ جو شہر سے اپنی ڈگری پوری کر کے لوٹ رہے تھے اس اچانک افتاد پر بوکھلا کے رہ گئے کیوںکہ حاکم خان کی بد تمیزی ہر جگہ مشہور تھی..... 

حاکم خان دیکھیے غلطی آپ کی ہے ہم تو سیدھے رستے پر آ رہے تھے.....سردار سعید نے دھیمے لہجے میں کہا 

جب کہ حاکم خان چلاتے ہوۓ بولے ابے تو کون ہوتا ہے مارے کو غلط کہنے والا... کوئی مائ کا لال ہمیں غلط  کہہ کر دکھاۓ ام اس کی جان لے لے گا... بولتے ساتھ ہی انہوں نے اپنا پستول جیب سے نکال لیا ... 

حاکم خان یہ کیا کر رہے ہیں آپ یہ کوئ کھلونا نہیں اسے واپس جیب میں ڈالے..... سردار سعید نے تھوڑا گھبراتے ہوئے کہا 

تبھی حاکم خان نشے میں ڈولتا پستول ادھر ادھر کرتا ہوا بولا... او بچے کو کھلونا لگ رہا ہے چلا کر دکھاؤں بولتے ساتھ ہی سڑک کی طرف  3 فائر بھی کئے نشے میں ہونے کی وجہ سے 2 نشانے ہوا میں اور اک سیدھا سردار سعید شاہ کے سینے میں لگا... اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے... 

سعید شاہ کو گرتے دیکھ حاکم شاہ کا سارہ نشہ اڑن چھو ہو گیا... 

یہ یہ کیا ہو گیا... نہیں ہم نے نہیں کیا یہ......ہمیں جانا ہو گا یہاں سے.. ہاں ہم... ہم بھاگ جاتے ہیں.... کسی کو نہیں پتا چلے گا کہ یہ قتل ہم سے ہوا.سردار حاکم نے گھبراتے ہوئے سوچا۔اور جلد بازی میں وہ اپنی پستول اٹھانا بھول گئےاور فرار ہو گئے.... 

......... 

سردار سعید شاہ  کو مردہ حالت میں دیکھ کر شاہ حویلی  پر قیامت ٹوٹ پڑی  ... سردار سراج شاہ... جوان بیٹے کی موت پر دھاڑے مار مار کر رو رہے تھے  ماہرہ بیگم اپنے بیٹے کا غم نہ برداشت کرتے ہوۓ بے ہوش پڑی ہوئی تھی .... دونوں بھائیوں کی آنکھیں اشک بار تھی ... نمل اور رمل اپنے چاچو کو سفید لباس میں دیکھ کر کچھ بھی سمجھنے سے کاثر  تھیں ....گاؤں والوں کا دل درد سے پھٹ رہا تھا ... کیوںکہ سردار سعید شاہ گاؤں کے لوگوں کی بہت مدد کرتے تھے.... ان کے اچانک قتل نے سب کو اشک بار کیا ہوا تھا.......... 

.... 

دو دن بعد 

نرم دل سردار سراج شاہ کو بیٹے کی موت نے سب کو پتھر دل کر دیا تھا وہ جرگے میں بیٹھے ونی کا مطالبہ کر رہے تھے.... 

خاموش.....

جب ہم نے کہہ دیا کے خون بہا میں ونی ہی چاہیے تو ہمارے فیصلے سے اختلاف کرنے والے کون ہے یہاں...

سردار کی بات سن کر اک دفعہ چاروں اور خاموشی چھا جاتی ہے....

عتیق احمد خان  جو شاید زندگی میں پہلی دفعہ سر جھکائے جرگے کا فیصلہ سن رہے تھے.. بے ساختہ  سردار کی طرف دیکھا... جن کا فیصلہ ان کی سمجھ سے باہر تھا ... کیوں کہ ان کے خاندان میں لڑکی زات کا نام ونشان ہی نہیں تھا....

یہ بات تو پورا گاؤں جانتا تھا کہ خان برادرز کے ہاں بیٹیاں نہیں ہوتی.... شاید کسی کی بد دعا لگی ہے.. یہ بھی سننے میں آیا.....

تو عتیق احمد خان بے ساختہ بول اٹھتے لیکن سردار سائیں  آپ تو جانتے ہیں ہمارے پورے خاندان میں لڑکی نہیں ہے

ہم خون بہا کے بدلے زمیں جائداد دینے کو تیار ہیں

تو سردار کے منہ پر طنزیہ مسکراہٹ آئی جسے گاؤں کے لوگ حیرت سے دیکھنے لگے...

ہاں تو کیا ہوا اگر تمھارے خاندان میں لڑکیاں نہیں ہیں... لڑکے تو ہیں ناں

ہمیں خون بہا میں آپ کا پوتا چاہیے عتیق احمد خان......

‍سرادر عتیق احمد خان اپنے قبیلے کے ایک ظالم سردار جن کے ظلم کی داستانیں پوری گاؤں میں مشہور تھی... 

گاوں کے لوگ ان کی وجہ سے بہت تنگ تھے سرادر نے گاؤں کے لوگوں پر زندگی تنگ کر رکھی تھی.. 

سردار عتیق احمد خان کی انہی ظالمانہ روایات کی وجہ سے انہیں ہزاروں بد دعائیں ملتی تھی شاید انہیں بددعاؤں کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے انہیں دو بیٹوں کے بعد کوئ بیٹی عطا نہیں کی تھی .. یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ سردار اسماعیل کی آنے والی نسلوں میں بیٹی ذات  کا نام و نشان نہیں تھا... 

سردار عتیق احمد خان کو اللہ نے دو بیٹے   سردار حاتم احمد خان  اور سردار حاکم خان سے نوازہ تھا لیکن ان کی سرداری کا غرور ہی ان پر اتنا ہاوی تھا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت پر دیہان نہ دے پائے.. 

سردارنی خنسا ماں... جو کہ اماں بی کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی پرورش میں بہت دیہان دیا لیکن سردار  عتیق احمد خان کی بے جا ڈھیل نے ان کی اولاد کو بگاڑ رکھا تھا.....

حاتم خان  تو بس حکم چلانا جانتے تھے ہاں البتہ... سردار حاکم شاہ شراب کے ساتھ ساتھ شباب کا بھی شوق رکھتے تھے......

اور ان کے اسی شوق کی وجہ سے کئ جانیں ہار گئ تھیں

انہوں نے اپنے بیٹوں کی شادیاں چھوٹی عمر میں کر دی تھی سردار حاتم کی شادی کو 15 سال ہو گئے تھے... اللہ نے سردار حاتم خان کو 3 بیٹے عطا کئے.... 

قیس خان اور ملحان سلام خان ایک ہی شکل کے جڑواں بھائ تھے اور ان کا چھوٹا بھائ عارب  خان  جو کے 5 سال کی عمر میں ہی انتہا کا ضدی تھا..... کہ ان کی ضد سے ان کی نرم دل ماں مومنہ شاہ خان بھی پریشان تھی... 

سردار حاتم خان اپنے شوق کی وجہ سے شادی جیسے نیک بندھن سے دور تھے.... 

.............

اور اب زکر شروع ہوتا ہے ان ہستی کا جن کی نرم دلی کی مثالیں اپنے گاؤں تو کیا آس پاس کے سبھی علاقوں میں مشہور تھیں سردار سراج الدین شاہ  جو کے انتہائی نرم دل اور شریف انسان ہیں.... 

سردار سراج الدین شاہ کو اللہ نے 3 بیٹوں اور اک بیٹی  سے نوازہ تھا سردار منور حسین شاہ  اور سردار سعد حسین شاہ، سردار سعید حسین شاہ۔ ان کے تینوں  بیٹے ان کا پرتو بلکل باپ جیسی نرم طبیعت کے مالک تھے... اور سردارنی حمائمہ شاہ اپنی ماں جیسی تھوڑی سخت طبیعت کی مالک تھیں.... 

سردار سراج الدین شاہ نے اپنے دونوں بیٹوں   کی شادیوں میں جلد بازی کی اور چھوٹی عمر میں ہی انہیں شادی جیسے پاکیزہ بندھن میں باندھ دیا... جبکہ سردار سعید خان ابھی کنوارے تھے 

ان کی چھوٹی بہو امامہ بھی انہی کی طرح نرم دل جبکہ بڑی بہو خولہ  لگتا تھا خان قبیلے پر ہی  چلی گئیں تھیں  انتہا کی کٹھور اور سخت دل ... سردار منور شاہ کو اللہ نے دو جڑواں بیٹیاں  نمل شاہ رمل شاہ جبکہ سردار سعد خان کو اک  بیٹی انابیہ شاہ  سے نوازہ تھا... 

شاہ خاندان میں  بیٹوں کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جاتا تھا... لیکن اللہ کی مرضی کے آگے ہم انسان خاک بھی نہیں.... 

............... 

سردار حاکم خان نشے کی حالت میں دھت گاڑی سڑکوں پر لیے گھوم رہے تھے جب ان کی گاڑی ایک جیپ سے ٹکرا جاتی ہے اپنی غلطی ہونے کے باوجود وہ سامنے والے کو گالی گلوچ دینا شروع کر دیتے ہیں... 

سردار سعید شاہ جو شہر سے اپنی ڈگری پوری کر کے لوٹ رہے تھے اس اچانک افتاد پر بوکھلا کے رہ گئے کیوںکہ حاتم خان کی بد تمیزی ہر جگہ مشہور تھی..... 

حاکم خان دیکھیے غلطی آپ کی ہے ہم تو سیدھے رستے پر آ رہے تھے.....سردار سعید نے دھیمے لہجے میں کہا 

جب کہ حاکم خان چلاتے ہوۓ بولے ابے تو کون ہوتا ہے مارے کو غلط کہنے والا... کوئی مائ کا لال ہمیں غلط  کہہ کر دکھاۓ ام اس کی جان لے لے گا... بولتے ساتھ ہی انہوں نے اپنا پستول جیب سے نکال لیا ... 

حاکم خان یہ کیا کر رہے ہیں آپ یہ کوئ کھلونا نہیں اسے واپس جیب میں ڈالے..... سردار سعید نے تھوڑا گھبراتے ہوئے کہا 

تبھی حاکم خان نشے میں ڈولتا پستول ادھر ادھر کرتا ہوا بولا... او بچے کو کھلونا لگ رہا ہے چلا کر دکھاؤں بولتے ساتھ ہی سڑک کی طرف  3 فائر بھی کئے نشے میں ہونے کی وجہ سے 2 نشانے ہوا میں اور اک سیدھا سردار سعید شاہ کے سینے میں لگا... اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے... 

سعید شاہ کو گرتے دیکھ حاتم شاہ کا سارہ نشہ اڑن چھو ہو گیا... 

یہ یہ کیا ہو گیا... نہیں ہم نے نہیں کیا یہ......ہمیں جانا ہو گا یہاں سے.. ہاں ہم... ہم بھاگ جاتے ہیں.... کسی کو نہیں پتا چلے گا کہ یہ قتل ہم سے ہوا.سردار حاکم نے گھبراتے ہوئے سوچا۔اور جلد بازی میں وہ اپنی پستول اٹھانا بھول گئےاور فرار ہو گئے.... 

......... 

سردار سعید شاہ  کو مردہ حالت میں دیکھ کر شاہ حویلی  پر قیامت ٹوٹ پڑی  ... سردار سراج شاہ... جوان بیٹے کی موت پر دھاڑے مار مار کر رو رہے تھے  ماہرہ بیگم اپنے بیٹے کا غم نہ برداشت کرتے ہوۓ بے ہوش پڑی ہوئی تھی .... دونوں بھائیوں کی آنکھیں اشک بار تھی ... نمل اور رمل اپنے چاچو کو سفید لباس میں دیکھ کر کچھ بھی سمجھنے سے کاثر  تھیں ....گاؤں والوں کا دل درد سے پھٹ رہا تھا ... کیوںکہ سردار سعید شاہ گاؤں کے لوگوں کی بہت مدد کرتے تھے.... ان کے اچانک قتل نے سب کو اشک بار کیا ہوا تھا.......... 

.... 

دو دن بعد 

نرم دل سردار سراج شاہ کو بیٹے کی موت نے سب کو پتھر دل کر دیا تھا وہ جرگے میں بیٹھے ونی کا مطالبہ کر رہے تھے.... 

خاموش.....

جب ہم نے کہہ دیا کے خون بہا میں ونی ہی چاہیے تو ہمارے فیصلے سے اختلاف کرنے والے کون ہے یہاں...

سردار کی بات سن کر اک دفعہ چاروں اور خاموشی چھا جاتی ہے....

عتیق احمد خان  جو شاید زندگی میں پہلی دفعہ سر جھکائے جرگے کا فیصلہ سن رہے تھے.. بے ساختہ  سردار کی طرف دیکھا... جن کا فیصلہ ان کی سمجھ سے باہر تھا ... کیوں کہ ان کے خاندان میں لڑکی زات کا نام ونشان ہی نہیں تھا....

یہ بات تو پورا گاؤں جانتا تھا کہ خان برادرز کے ہاں بیٹیاں نہیں ہوتی.... شاید کسی کی بد دعا لگی ہے.. یہ بھی سننے میں آیا.....

تو عتیق احمد خان بے ساختہ بول اٹھتے لیکن سردار سائیں  آپ تو جانتے ہیں ہمارے پورے خاندان میں لڑکی نہیں ہے

ہم خون بہا کے بدلے زمیں جائداد دینے کو تیار ہیں

تو سردار کے منہ پر طنزیہ مسکراہٹ آئی جسے گاؤں کے لوگ حیرت سے دیکھنے لگے...

ہاں تو کیا ہوا اگر تمھارے خاندان میں لڑکیاں نہیں ہیں... لڑکے تو ہیں ناں

ہمیں خون بہا میں آپ کا پوتا چاہیے عتیق احمد خان......

‍اور اس طرح زندگی میں پہلی دفعہ سردار سراج الدین شاہ کٹھور فیصلہ کرتے ہوے قیس خان کا نکاح اپنی نیم پاگل پوتی سے کروا دیتے ہیں... 

جرگہ ختم ہوتے ہی سراج شاہ، قیس خان کو اپنی گاڑی میں بٹھاۓ حویلی لے گئے... قیس ڈرا سہما سا ان کے ساتھ بیٹھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا.... حویلی داخل ہوتے ہی وہ اپنی چھوٹی بہو امامہ کو آواز لگاتے ہیں.... امامہ آج سے یہ تمھارا بیٹا ہے اس کی پرورش آپ نے  سگھی ماں کی طرح کرنی ہے... ہمیں ان کی پرورش میں کوئ کمی نظر نہ آۓ.. 

جی آغا جان اپکو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔چھوٹی بہو امامہ نے عاجزی سے کہا

.. آغا جان ماہرہ بی سے نظریں چراۓ اپنے روم میں چلے گئے... جب ماہرہ بی ان کے پیچھے روم میں داخل ہوئی... 

یہ آپ کیا کر رہے ہیں سردار جی آپ ایسے کیسے بہو کو ونی کی پرورش کرنے کا کہہ سکتے ہیں وہ ہمارے بیٹے کے قتل کے بدلے یہاں لایا گیا ہے 

ماہرہ بیگم اگر وہ آپ کا بیٹا تھا تو ہمارا بھی لختِ جگر تھا.. لیکن ہم کسی معصوم پر ظلم کر کے اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتے... 

ونی پر ظلم کرنے سے ہمیں ہمارا بیٹا واپس نہیں مل جاۓ گا الٹا ہم اللہ کے نا فرمان بھی ہوںگے 

آپ ہمیشہ  ایسا کرتے ہیں لیکن کوئی کسی پر رحم نہیں کرتا دنیا بے رحم ہے.... 

تو ساری دنیا کے ساتھ ہم بھی مل جائیں... ماہرہ بیگم جو ہم کر رہے ہیں سوچ سمجھ کر رہے ہیں آپ پلیز اس میں ہمارا ساتھ دے... ٹھیک ہے  جو آپ کا دل کرتا کریں لیکن ہمیں وہ لڑکا ہماری آنکھوں کے سامنے نظر نہ آۓ....... 

................ 

ادھر مومنہ خان اپنے بیٹے کی جدائ میں تڑپ رہی ہوتی ہیں 

گھر اوپس آتے ہی دا جی جب قیس کو آواز لگاتے ہیں قیس پتر دا جی کے پاس آو... تو ملحان اپنی ماں کے پیچھے چھپ جاتا ہے... 

آ جاؤ قیس بیٹا آج آپ گھر آتے ہی ہما رے پاس نہیں آۓ... 

تو حاتم خان بولتے ہیں وہ دا جی... وہ قیس نہیں ہے.... کون قیس نہیں ہے... وہ دیکھو وہ کھڑا ہے قیس دا جی کی جان 

وہ ملحان ہے... ملحان... حاتم خان بولے

قیس کو ہم ونی  دے آۓ ہیں.....

قیس کو ہم ونی  دے آۓ ہیں

یہ تم کیا کہہ رہے ہو... حاتم خان ہم خود ملحان کو ساتھ لیکر گۓ تھے ایسا کیسے ہو سکتا ہے...دا جی پہلے حیران ہوئے پھر غصے میں چلائے 

تو مومنہ بیگم نے جواب دیا۔ معاف کیجئے گا دا جی لیکن ہم نے ملحان کی جگہ قیس کو بھیجا تھا.... 

دا جی دھاڑتے ہوۓ بولے تم لوگوں کی ہمت کیسے ہوئی مارے ساتھ چالاکی کرنے کی قیس مارا لختِ جگر... ہمیں جان سے پیارا.. 

کیوں کیوں کیا تم لوگوں نے ایسا.... 

دا جی ملحان بھی تو آپ کا ہی پوتا ہے پھر آپ قیس.... 

بہو خاموش بہت زبان چلنے لگی ہے تھاری.... حاتم خان ہمارے حکم کی نافرمانی پر آپ کو اور آپکی بیگم کو  سزا ملے گی.. سخت سے سخت سزا..

لیکن دا جی ظلم تو ہم پر ہوا... قتل آپ کے آوارہ بیٹے نے کیا اور بدلے میں مجھ سے میرا بیٹا چھیںن لیا گیا.... مومنہ بیگم چیختے ہوۓ بولی ۔

اس سے پہلے کے دا جی کوئی سزا سناتے

حاتم خان مومنہ بیگم کو پکڑ کر روم میں لے آئے۔

مومنہ بیگم پلیز خاموش ہو جائیں آپ کیوں دا جی کے عتاب کا شکار بننا چاہتی ہیں... 

کیا کر لیں گے دا جی.. انہیں ظلم کے علاوہ اور کرنا ہی کیا آتا ہے... مومنہ بیگم حاتم خان کے سینے سے لگی بلک بلک کر رو پڑیں۔

..............

رمل شاہ اور نمل شاہ... سردار منور حسین شاہ اور خولہ شاہ کی جڑواں بیٹیاں جو اپنے باپ کی تو لختِ جگر تھیں لیکن ماں کو کچھ خاص پسند نہیں تھیں... کیونکہ خولہ شاہ کو بیٹے کی چاہ تھی... لیکن اللہ کی کرنی ایسی کہ اللہ نے انہیں 2 بیٹیاں ہی عطا کیں....

 رمل شاہ تو لڑ جھگڑ کر ماں سے پیار لے لیتی تھی... جبکہ نمل شاہ ابنارمل ہونے کی وجہ سے کسی کے پاس کم ہی جاتی تھی یا یوں کہنا بہتر ہو گا کہ نمل شاہ خولہ بیگم کے لیے اک فضول وجود تھی جس کی ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں .

......................

دا جی کے جاتے ہی خولہ بیگم یک دم سے باہر آئیں اور آتے  ہی قیس کے منہ پر تھپڑ مارنے لگیں. تم منحوس تمھاری ہمت کیسے ہوئ یہاں آنے کی.. 

بھابھی یہ آپ کیا کر رہی ہیں پلیز چھوڑیں... 

اگر آغا جان کو پتا چل گیا وہ بہت غصہ ہونگے 

ہم نھیں ڈرتے آغا جان سے اور تم کیوں ونی کی اتنی حمایتی بن رہی ہو... 

پلیز بھابھی یہ اب سے ہمارا بیٹا ہے

آپ ونی مت کہیں... اووو تو آغا جان نے یہ بھیک تمھاری جھولی میں ڈال دی ہے... 

خولہ بیگم کی آواز سن کر سردار منور حسین شاہ تنزیہ بولے۔

بس کریں آپ اور کمرے میں جائیں... دوبارہ آپ ہمیں قیس کے قریب نظر نہ آئیں.

خولہ بیگم کے جاتے ہی امامہ ڈرے سہمے قیس کو لے کر اند ر کی جانب بڑھیں۔ بیٹا ڈرو نہیں۔ آپ کا نام کیا ہے؟

.

ہمارا نام قیس خان ہے اور ہم اچھے بچے ہیں....ہم نے کچھ نہیں کیا وہ آنٹی غصہ ہو رہی تھیں۔

قیس خان معصومیت سے بولتا امامہ خان کو بہت پیارا لگا 

ماشاءاللہ آپ تو بہت پیارے ہو....اور آپ ٹینشن نہیں لیں، اب وہ  ایسے نہیں کریں گیں ۔آج سے آپ ہمارے بیٹے ہو۔

ٹھیک ہے پھر ہم آپ کو مورے بولائیں گے..

مورے... بیٹا لیکن مورے تو خان لوگ بولتے ہیں...

تو قیس خان ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولا ..... ارے ابھی تو بتایا آپکو کہ ہمارا نام..... قیس خان ہے..... تو ہم خان ہیں نہ...

آپ ہمیں اچھی لگی ہیں پلیز نہ ہم آپ کو مورے بولائیں گے۔

ٹھیک ہے بیٹا جیسے آپ کو ٹھیک لگے.

قیس کی شکل میں امامہ خان کی بیٹے کی خواہش پوری ہو رہی تھی۔

تبھی 5 سالہ انابیہ دوڑتی ہوئ اپنی ماں کے پاس آئی ...

آلے مما جی... یہ تون ہے... اور یہ ہمالے گھل کیوں ہے...

بیٹا یہ آپکے بھائ ہیں آپ انہیں لالہ بولائیں  گی....

واؤ مما میلا بھائی یہ ہمارے ساتھ رہے گا...

جی بیٹا یہ ہمارے ساتھ رہے گا......

مورے اس ڈول کا نام کیا ہے؟ تبھی قیس امامہ بیگم سے پوچھنے لگا۔

بیٹا یہ انابیہ ہے آپ کی چھوٹی بہن.

ماشاءاللہ مورے ہم ان کا خیال رکھیں گے.

قیس آپ نے ماشاءاللہ کیوں کہا؟

ارے ہماری مما کہتی ہیں جب کوئ آپ کو پیارا لگے تو ماشاءاللہ کہتے ہیں اور میری بہن بہت پیاری ہے.اور ہم انہیں پروٹیکٹ کریں گے. قیس کی اس بات پر امامہ بیگم نے بے ساختہ مسکراتے ہوۓ قیس خان کو  سینے سے لگایا

 .

ماشاءاللہ آپ بھی بہت پیارے ہو.

تبھی انابیہ تا لیاں بجاتی ہوئی بہت پیالے بہت پیالے کا ورد  کر نے لگی.

ٹھیک ہے قیس بیٹا آپ بہنا کے ساتھ کھیلو... ہم کھانا تیار کروا لیں...

ٹھیک ہے مورے ہم خیال رکھیں گے آپ جائیں ...

ہم بہنا کو ماریں گے بھی نہیں...

امامہ قیس کی باتیں سنتی مسکراتی ہوئ کمرے سے باہر نکل گئیں۔ انہیں  اندازہ ہونے لگا کہ قیس خان بہت جلد اس گھر کے مکینوں میں جگہ حاصل کر لے گا۔۔۔

امامہ بیگم قیس کے زخموں پر مرہم لگا رہی تھیں جب رمل اپنے ساتھ ساتھ نمل کو بھی کھینچتی اچانک کمرے میں آدھمکی اور بولی۔

چھوٹی ماں یہ کون ہے...

اس  سے اس سے پہلے کے وہ جواب دیتیں ۔ انابیہ بولی.

آپو مما نے بتایا یہ ہمارے لالہ ہیں...

تو رمل نے ناک چڑھاتے ہوئے جواب دیا۔ اپن کا  کوئ لالہ نہیں. یہ تیرا  اور نمل کے لالہ ہو گا. ہم تو خود لالہ ہے تم لو گوں کا.... 🤣 🤣 

رمل میں سٹارٹ سے لڑکوں والی روح بستی تھی جو خود کو لڑکی کی بجائے لڑکا سمجھتی تھی.. 

بوائز کٹ ہیر سٹائل میں وہ ہمیشہ پینٹ شرٹ ہی پہنتی تھی... 

رمل کی بات سن کر امامہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ آئ.... 

رمل بیٹا بری بات! ... یہ انابیہ اور آپ کے لالہ ہیں... 

نمل جو تب سے خاموش کھڑی تھی امامہ بیگم کی طرف دیکھ کر رونے لگ گئی

ارے ارے کیا ہوا آپ کو نمل بیٹا....  نمل نے روتے ہوۓ جواب دیا. ہمیں بھی چاہیے ایسے.. امامہ بیگم مسکرانے لگیں... نمل کی شروع سے عادت تھی جب بھی کوئی کچھ مانگ لیتا... اسے بھی سیم چاہیے ہوتا تھا.... 

نمل بیٹا..

. اب امامہ بیگم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ نمل کو کیا جواب دیں.

نمل یہ آپ کے لالہ نہیں ہیں.... 

نمل سنتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی. تبھی کب سے چپ کھڑا قیس نمل کے پاس آ کر اسے چپ کروانے لگا. ارے گڑیا آپ کیوں رو رہی ہیں.آپ تو اتنی کیوٹ سی ہو

ہاں نہ گڑیا نے نہیں کھانی....روتے اچھی نہیں لگتی. آپ مجھے خان کہہ لینا. لالہ تو انابیہ اور رمل کے لیے ہے نہ.... 

نمل تو سب سے الگ ہے نہ... 

نمل مجھے خان کہا کرے گی. کیوں مورے ہم سہی کہہ رہے ہیں نہ.... 

ہاں ہاں قیس بیٹا آپ سہی کہہ رہے ہو.... 

لیکن نمل چپ ہونے کی بجائے اور زیادہ رونے لگی۔ 

مورے آپ نمل کے لیے کچھ کھانے کو لے کر آئیں ہم نمل کو چپ کرواتے ہیں...

رمل تو نمل کے رونے سے تنگ ہوتی روم سے باہر نکل چکی تھی. 

انابیہ بھی اپنی ماں کے پیچھے ہی روم سے باہر نکل  گئی. 

ارے گڑیا ادھر آۓ آپ ادھر بیٹھے.... 

نہیں شب گندے ہو شب کوئی ممل شے پیار نہیں کرتا... شب گندے... 

ارے نہیں گڑیا آپ تو اتنی اچھی ڈال ہو... 

سب آپ کا خیال رکھتے ہیں.... 

جھوٹ نہیں بولو گندے خان .... 

ارے نہیں ہم جھوٹ نہیں بولتے... 

مورے آپ سے پیار کرتی ہیں رمل بھی انابیہ بھی... 

اورخان.... 

خان تو ابھی آپ کو جانتا نہیں ہے نہ... اگر آپ خان سے دوستی کر لو گی تو خان بھی آپ سے پیار کرے گا.... 

تبھی امامہ بیگم نمل کے لیے کچھ سنیک اور دودھ کے ساتھ کچھ ٹیبلٹ لے کر آئیں۔

نمل بیٹا یہ کھا لو پھر آپ کو ٹیبلٹ بھی کھانی ہے 

نہیں کولی.... یہ گندی نہیں کھانی... 

امامہ بیگم نے قیس کو اشارہ کیا

ہاں نہ گڑیا نے نہیں کھانی........

نہیں کولی.... یہ گندی نہیں کھانی. امامہ بیگم نے قیس کی طرف دیکھا تو قیس نے سمجھتے ہوئے نمل سے کہا. 

ہاں نہ گڑیا نے نہیں کھانی.... 

قیس کی بات سن کر نمل خوش ہوتے بولی آپ اچھے ہو 😍

نمل کی اس معصومیت پر امامہ بیگم بے ساختہ مسکرانے لگیں. اور کہا

قیس بیٹا آپ نمل کو کھانا کھلا دیں

ہم باورچی خانے میں جا رہے ہیں 

قیس نے ہاں میں سر ہلایا اور نمل کو کھانا کھلانے لگا۔

..... 

امامہ خان نمل کو قیس سے باتیں کرتے دیکھ مطمئین  ہو جاتی ہیں... 

شکر ہے جو نمل بھی کسی سے گھل مل رہی ہے۔ورنہ اس کی طبیعت خراب ہوتے پتا نہیں چلتا.

شکر ہے اب قیس سنبھال لے گا.

قیس نے نمل کو آہستہ آہستہ باتوں میں لگا کر کھانا کھلایا اور پھر باتوں میں لگا کر کب دوائ کھلائی نمل کو بھی پتا نہیں چلا.

ٹیبلٹ کھاتے  کچھ دیر بعد نمل کو نیند آنے لگی ۔اسے بستر پر لیٹا کر جب قیس روم سے جانے لگا. نمل نے پھر سے رونا شروع کر دیا۔ 

ارے کیا ہوا گڑیا.. 

گندے ہو آپ گندے چھوڑ جاتے ہو... 

ارے نہیں نہیں میں آپ کے پاس ہی ہوں... قیس نے جلدی سے کہا۔

تبھی نمل نے اپنے بیڈ کی طرف اشارہ کیا۔

ادھر بیٹھ جاؤ

قیس نمل کے پاس بیٹھ گیا اور نمل قیس کا ہاتھ پکڑ کر آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی۔ 

قیس کو پتا ہی نہیں چلا کب اس کی بھی آنکھ لگ گئی اور وہ بھی وہاں ہی سو گیا۔ 

سعد شاہ امامہ بیگم کو آوازیں لگاتے کمرے میں آئے اور قیس کو نمل کے بیڈ پر دیکھ کر حیران رہ گئے... لیکن اس سے زیادہ حیرانی انہیں نمل کے اتنی جلدی سو جانے پر ہوئی. کیونکہ نمل کو سلانا جان جوکھن کا کام تھا جو سعد شاہ ہی سر انجام دیتے تھے۔ 

تبھی امامہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی. جی آپ نے بلایا لیکن قیس اور نمل کو دیکھ کر مسکرانے لگیں. 

تبھی سعد شاہ کے پوچھنے پر بتایا کہ  کس طرح قیس نے اس گڑیا کو ہینڈل کیا..... 

شکر ہے امامہ جو کہ نمل بھی سنبھلی ورنہ ہم نمل کے لیے بہت پریشان تھے..... 

ارے آپ پریشان نہ ہوں مجھے امید ہے قیس نمل کو سنبھال لے گا.... 

لیکن شاہ جی کیا ان کا اک روم میں رہنا مطلب...امامہ ہم آپ کی بات سمجھ رہے ہیں لیکن آپ نمل کو دیکھیں وہ کتنے سکون سے سو رہی ہیں... 

نمل کے سکون کے لیے قیس ادھر ہی رہے گا اور ویسے بھی آپ نے بتایا کے قیس نمل کو ہنڈل کر لے گا.. 

سعد شاہ نے قیس کو سیدھا لیٹا کر اس کے اوپر بھی کمبل دیا اور نمل کا ماتھا چوم کر امامہ بیگم کو ساتھ لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

                      ❣️❣️❣️❣️

حویلی کے دوسرے کمرے میں خولہ بیگم نے منور شاہ کا دماغ خراب کر رکھا تھا اک ہی بات کر کر کے... 

آغاجان ہمیشہ ہی ایسا کرتے ہیں امامہ کو مجھ سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اب بھی وہ لڑکا آغا جان نے امامہ کی گود میں دیا... 

بس کرے خولہ  بیگم نہ جانے آپ کے دماغ میں 24 گھنٹے کیا کھچڑی پکتی رہتی ہے جو آپ اپنے ساتھ ساتھ ہمارا بھی جینا مشکل کر دیتی ہیں... 

آپ اپنی بچیوں کی پرورش تو کر نہیں رہی اور چلی ہیں اس لڑکے کی پرورش کرنے..... 

لائٹ بند کر دیں پورے دن کی بھاگ دوڑ سے ہمارا سر دکھ رہا ہے اور ہمیں نماز کے لیے بھی اٹھنا ہے..خولہ بیگم جلتے کڑتے لائٹ آف کر کے بستر پر لیٹ جاتی ہیں..... 

........ 

قیس کی آنکھ صبح اپنے گالوں پر کسی کے ہاتھوں کے ننھے منے لمس سے کھلی۔  تبھی وہ آنکھیں بند کیۓ بولا۔ 

مما سونے دیں نہ پلیز

خان اٹھو نہ ہمیں بھوک لگی ہے...

قیس نے منی منی آنکھیں کھول کر نمل کو دیکھا اور پوچھنے لگا۔کیا ہوا گڑیا؟ 

ہمیں بھوک لگی ہے . نمل نے معصوم سا منہ بنا کر جواب دیا۔اچھا روکو ہم کچھ کھانے کو لاتے ہیں 

                              ❣️

قیس روم سے باہر جاتا اس سے پہلے ہی امامہ بیگم کمرے میں آتی ہیں... 

قیس نے جھٹ سے انہیں سلام کیا. سلام مورے ۔

وعلیکم السلام میرا بچہ

آٹھ گۓ آپ دونوں ۔ 

چلو آو نمل بیٹا آپ کو فریش کروا دوں۔ وہ نمل کو اٹھاے واش روم کی طرف بڑھی ۔ 10 منٹ میں وہ نمل کو پنک کلر کے بے بی فراک میں لیے باہر آئی اور  قیس کو اداس سا بیٹھا دیکھ کر پوچھا.. کیا ہوا آپ کو قیس بیٹا

مورے ہمارے پاس تو کپڑے ہی نہیں ہیں ہم کیا پہنیں. 

ارے بیٹا آپ پریشان نہ ہو ابھی انہیں کپڑوں میں فریش ہو جاؤ پھر ہم آپ کے لیے شہر سے کپڑے منگوا لیں گے... اس سے پہلے کے قیس واش روم کی طرف بڑھتا... نمل اپنا سر پکڑے زور زور سے چیخنے لگی... مما مما بچاؤ درد مما.... قیس کو تو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہو کیا رہا ہے... 

)چیختے چیختے نمل بے ہوش ہو گئی.قیس کو سکتے کی عالم میں دیکھ کر امامہ بیگم نے کہا۔ قیس بیٹا آپ پریشان نہ ہو نمل کو ایسا اکثر ہوتا ہے ابھی کچھ دیر میں اسے ہوش آ جاۓ گا... آپ چلیں میرے ساتھ ناشتہ کر لیں... 

وہ قیس کو لۓ جب باہر کی طرف چلی گئیں۔

سب ڈائیننگ ہال میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔

آؤ قیس بیٹا آپ بھی ہمارے ساتھ ناشتہ کرو... آغا جان کی آواز پر قیس ان کی طرف بڑھا اور بہت عقیدت کے ساتھ ان کے ہاتھ لبوں سے لگا کر آنکھوں کو لگائے۔

صبح بخیر  پیارے دا جی.... قیس کی اس حرکت پر سواۓ مومنہ بیگم کے لبوں پر مسکراہٹ چھا گئی... یہ کہاں سے سیکھا آپ نے... ہم اپنے دا جی سے بھی ایسے ہی پیار کرتے تھے.... قیس کی بات پر اک دفعہ خاموشی چھا گئی۔

پھر آغا جان بولے ۔ بیٹھو قیس بیٹا آپ بھی ناشتہ کرو.. بہو قیس کو بھی ناشتہ کروا.. 

نہیں آغا جان ہم بعد میں کھا لیں گے ابھی ہمیں بھوک نہی ۔

لیکن بیٹا

آغاجان ہم اپنی گڑیا ساتھ کھائیں گے ورنہ وہ ناراض ہو جاۓ گی... گڑیا کون.. 

قیس کے بولنے سے پہلے ہی امامہ بیگم نے  آغا جان کو نمل کا بتایا۔ 

ٹھیک ہے قیس بیٹا آپ نمل گڑیا کے ساتھ کھا لینا.... 

قیس مسکراتے ہوۓ واپس کمرے کی طرف چلا گیا۔

سعد بیٹا آپ نمل اور رمل کے سکول میں قیس کو بھی داخل کروا دیں... اس سے پہلے کے مومنہ بیگم بولتی منور شاہ ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر چپ کروا گئے۔

جی ٹھیک ہے آغا جان ہم آج ہی کروا دیتے ہیں..

                      ❣️❣️❣️❣️

ملحان بیٹا اٹھ جاؤ آپ کو سکول بھی جانا ہے.....

مومنہ بیگم کی آواز پر مِلحان ڈرتے ڈرتے بولا۔

مما ہمیں نہیں جانا لالہ کے بغیر سکول سب میرا مزاک بناتے ہیں....

مِلحان جب ہم نے کہہ دیا لالہ پڑھائی کے لیے دور گۓ ہیں آپ کیوں مما کو تنگ کر رہے ہیں..مومنہ بیگم نے آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے جواب دیا۔

ملحان نے آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے ماں کو دیکھا ۔

مما آپ ہمیں بھی بھائ کے ساتھ بیجھ دیتی...

چپ کر جاؤ مِحان ورنہ مار کھاؤ گے

کب تک آپ نے بھائی کے سہارے رہنا تھا خود کو پروٹیکٹ کرنا سیکھو.....

مِلحان جی مما کہتا واشروم کی طرف چلا گیا۔ 

ڈرا سہما سا مِلحان جس کی شکل و صورت تو قیس سے ملتی تھی لیکن عادت میں قیس کے بر عکس تھا.... ڈرپوک سا،آنکھوں پر چشمہ لگائے کمزور سا... 

پوری کلاس مِلحان کا  رک رک کر بولنے کی وجہ سے مزاک بناتی... تب قیس سب کے منہ بند کرواتا.... 

اب قیس کے سکول نہ جانے کی وجہ سے سب مِلحان کو چشمش، ڈرپوک اور للو جیسے لقب سے پکارتے.... 

اور ملحان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ سب کو جواب دے سکے... 

15 سال بعد‍

زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں تھی...... وقت تھا کے پر لگا کر اُڑتا ہی جا رہا تھا.جہاں قیس کے آنے سے نمل کی زندگی میں بہار آگئی تھی... 

وہیں ملحان پر زندگی کے دروازے تنگ ہو گۓ تھے.... 

گزرتے وقت کے ساتھ قیس نے شاہ ہاؤس کے مکینوں کے دلوں میں ایک اعلی مقام حاصل کر لیا تھا... خولہ بیگم کے علاوہ سنجیدہ سا قیس سب کی آنکھوں کا تارا تھا... 

قیس شاہ ہاؤس کے لیے اک بہار کی طرح تھا جس نے سب کو خوش رکھنے کا ذمہ اُٹھا رکھا تھا

قیس کے لیے زندگی اس کے اپنوں کی خوشیاں تھی......

گزرے 15 سالوں میں قیس،   6 فٹ سے نکلتا قد، گوری رنگت، ہلکی بیرڈ، سنہری دھوپ کی طرح چمکتے بال اور سونے پر سھاگہ اس کی بیرڈ میں چھپے میں ڈمپل کے ساتھ اک خوبرو نوجوان بن چکا تھا.. 

میڈیکل جیسی ٹف فیلڈ کے ساتھ ساتھ اپنے آغا جان کا رائٹ ہینڈ بھی  تھا...

کوئ پنچایت کوئ فیصلہ آغاجان قیس کے بغیر نہیں کرتے تھے....

...

وقت کے ساتھ ساتھ نمل اور رمل بھی جوانی کی دہلیز عبور کر رہی تھی....

نمل کا بے پناہ حسن اپنی مثال آپ تھا...

5 فٹ سے نکلتا قد... گوری گلابی رنگت، کٹورے نین جو دیکھنے والے کو گھائل کردیں..... گھٹنوں تک آتے  مسمرائز کر دینے والےبال ..... 

دیکھنے میں وہ کسی قیامت سے کم نہیں تھی.... 

شکل و صورت رمل کی بھی نمل جیسی ہی تھی لیکن وہ اپنے بوب کٹ بال اور بوئیز والی ڈریسنگ کی وجہ سے نمل سے بلکل مختلف لگتی تھی.... 

انابیہ تیکھے نقوش اور گندمی رنگت کے ساتھ دیکھنے والے کو اپنی جانب اٹریکٹ کرتی تھی.

                    ❤️❤️❤️❤️

گزرے وقت میں جہاں شاہ ہاؤس میں بہار کے دن آۓ تھے وہیں دوسری طرف... 

خان ہاؤس کا شیرازہ بکھرتا جا رہا تھا..... 

حاتم خان اور 

حاکم خان میں جائداد کو لے کر ہونے والی لڑائی نے دونوں بھائیوں کا خون سفید کر رکھا تھا..... 

حاتم خان اپنا کاروبار الگ کرنے کے ساتھ ہی گاؤں چھوڑ کر شہر شفٹ ہو چکے تھے....... 

ملحان کی شخصیت میں کوئ خاص فرق نہیں آیا تھا الٹا گزرے وقت کے ساتھ اس کی شخصیت مزید دبو ہو گئ تھی... 

قیس سے ملتا جُلتا مِلحان.... آنکھوں پر نظر کے گول گلاسسز لگاۓ... بالوں کو اچھے سے تیل لگاۓ(یوں لگتا جیسے تیل سے شاور لیا ہو) کسی نمونے سے کم نہیں لگتا تھا....

وقت کی دہلیز پار کرتے عارب خان اپنے چچا کا پر تو بن رہا تھا..... جو سگریٹ کے ساتھ ساتھ  شراب کا بھی شوق رکھتا تھا.... صد شکر کے ابھی تک وہ شباب جیسی حرام لت سے بچا ہوا تھا... 

لیکن حت المکان کوشش تھی کہ وہ جلد ہی اس حرام چیز کو بھی شوقیہ منہ لگا لے... 

عارب خان اپنے بھائی قیس کی طرح خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا... 

                        ❣️❣️❣️❣️

قیس بیٹا ہم نے صرف آپ کے کہنے پر رمل اور انابیہ کو شہر پڑھنے کے لیے بھیجا... ورنہ آپ کو پتا ہے کہ ہمیں نہیں پسند لڑکیوں کا گھر سے باہر نکلنا...

آغا جان آپ فکر نھیں کریں ہمیں ہماری بہنوں پر جان سے زیادہ بھروسہ ہے وہ کوئ کام ہماری مرضی کے خلاف نہیں کریں گی۔

قیس کی بات سن کر آغا جان مسکرانے لگے...

قیس آپ ہماری کسی نیکی کے بدلے میں ہمیں ملے ہیں

ہم اللہ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے

آغا جان.. ہم آپ کے احسان مند ہیں جو آپ نے ونی میں آۓ لڑکے کی دنیا سنوار دی...

تبھی آغا جان غصے سے بولے ۔

خبر دار جو دوبارہ تم نے کچھ ایسا بولا

جی آغا جان

قیس ہم نمل کو لے کر بہت پریشان ہیں

وہ تو آپ سے بہت اٹیچ ہے

آپ اگر کہیں باہر جاتے ہیں وہ بیمار ہو جاتی ہے

تبھی قیس شرمندہ سا سر جھکا گیا۔

قیس بیٹا ہم آپ کو شرمندہ نھیں کرنا چاہتے

بلکہ ہم تو خوش ہیں کہ آپ نے نمل کو بہت اچھے سے  سنبھالہ ہے...

جی دا جی آپ ٹینشن نہ لیں ہم گڑیا کو سمجھا دیں گے

تبھی آغا جان بے ساختہ قہقہہ لگا اٹھے۔

کیا ہوا آغا جان؟ قیس نے حیرت سے پوچھا۔

قیس بیٹا کب تک نمل کو گڑیا کہنے کا ارادہ ہے

ہم تو اب آپ کی رخصتی کا سوچ رہے ہیں...

تبھی قیس نے حیران ہو کر آغا جان کی طرف دیکھا ۔

لیکن آغا جان ہم ان کے قابل نہیں...

بس قیس.... آپ اپنے مائنڈ کو تیار کر لیں جلد ہم اب نمل کی رخصتی چاہتے ہیں

آغا جان

رمل ہمارے رشتے کے بارے میں کچھ نہیں جانتی...اور نہ ہی ابھی وہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں

آغاجان ان کا ٹریمنٹ ابھی پورا نہیں ہوا تو ایسے میں۔۔۔

قیس ہم فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتے ہیں...

آپ اگر رخصتی نھیں چاہتے تو اب جب شھر گۓ تو نمل کو ساتھ لے جائیے گا

بس بات ختم..

جی آغا جان.

                    ❣️❣️❣️❣️

قیس اٹھتے اپنی مورے کے روم کی طرف بڑھا .

سلام مورے 

کہتے ہی  مورے کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگائے

آں میرا شہزادہ.. کب آۓ آپ

جے مورے ابھی کچھ دیر پہلے

کہا ں تک پہنچا ہوسپٹل کا کام 

جی مورت بس ان شاءاللہ جلد پورا ہو جائے گا

اللہ کامیاب کرے میرے لال کو

جی مورے جب تک آپ کی دعائیں ہیں تب تک سب آسان ہے... 

نمل سے ملے 

وہ.... نہیں اب بس انہی کے پاس جاؤں گا.... 

اوکے آپ جائیں میں نمل کے روم میں ہی آپ کا کھانا بھیج دیتی ہوں

ٹھیک ہے مورے۔

                            ❤️❤️

قیس جیسے ہی نمل کے روم کی طرف بڑھا۔

اندر سے توڑ پھوڑ کی آواز آرہی تھی.. 

Oh my God

قیس جلدی سے روم میں داخل ہوا... 

جہاں نمل کی ملازمہ

اسے کھانا کھانے کے لیے کہہ رہی تھی جبکہ نمل کی اک ہی تکرار تھی

خان ساتھ کھانا 

ایسے نہیں کھانا

خان کو بلائیں۔

بولتے ساتھ وہ چیزیں اٹھا اٹھا کر یہاں وہاں پٹخ رہی تھی۔

جیسے ہی وہ گلدان اٹھا کے دروازے کی طرف پھینکنے لگی ... 

خان کو کھڑا دیکھ کر گلدان اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور سیدھا اسی کے پاؤں پر گرا ... 

ہاۓ اللہ جی... رمل بے ساختہ چیخی ... 

قیس بھاگ کر نمل کی طرف بڑھا ۔

گڑیا یہ کیا کیا آپ نے...

دیکھو کتنا خون نکل رہا ہے... 

نمل کو بازو میں اٹھایا اور جلدی سے بیڈ پر لٹایا ... 

خون.. خون خان جی.. خون

جائیں آپ کھڑی کیا دیکھ رہی ہیں فرسٹ ایڈ باکس لے کر آئیں قیس ملازمہ پر چلایا 

جی جی ابھی لائ ۔ملازمہ نے بوکھلاتے ہوئے کہا اور جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس لا کر قیس کو دیا۔

یہ لیں ... قیس نے فرسٹ ایڈ باکس پکڑا اور کہا 

گڑیا پلیز مجھے زخم دیکھنے دو... وہ خان کو ہاتھ ہی نہیں لگانے دے رہی تھی پاؤں کو... 

تبھی قیس نے ملازمہ کو باہر جانے کا کہا .. 

ملازمہ کے جاتے ہی قیس نے  نمل کو سینے سے لگاتے ریلکس کرنے کی کوشش کی... 

پلیز گڑیا میری جان خاموش ہو جائیں

آپ کے خان کو بھی درد ہو رہا ہے... 

قیس نمل کے درد پر اپنا دل پھٹتا محسوس کر رہا تھا.... 

خان جی پلیز بہت درد ہو رہا بہت زیادہ... 

اوکے آپ آنکھیں بند کریں...

بس اک منٹ کا کام ہے

پکہ نہ

جی پکہ

تبھی نمل کے آنکھیں بند کرنے پر قیس نے  ایک جھٹکے سے اس کے پاؤں سے کانچ نکالا .... 

نمل چنختے ہوۓ پھر سے خان کے گلے لگی اور زور و شور سے رونے لگی 

بس گڑیا ہو گیا.... 

قیس نے نمل کو پیچھے کرتے ہوئے اس کے پاؤں کی ڈریسنگ کی..... 

نمل کے مسلسل رونے پر قیس پریشان ہو رہا تھا... 

نمل آپ روئیں مت... ہا ہمیں یاد آیا ہم تو آپ کو سرپرائز دینے آ ۓ تھے... 

کیسا سرپرائز؟ 

نمل اپنا درد بھولے سرپرائز کا سنتے ہی خوش ہو گئی... 

کون سا سرپرائز بتائیں نہ..... 

کون سا بتائیں نا

ایک شرط پر بتائیں گے

جی جی جلدی بتائیں ہم آپ کی بات مانیں گے... 

اوکے پہلے کھانا کھاؤ اس کے بعد... 

تبھی مورے کھانے کی ڈش لے کر کمرے میں داخل ہوئیں۔ 

نمل یہ کیا حال کیا ہوا ہے کمرے کا...  قیس نے فوراً مورے کو آنکھوں سے خاموش ہونے کا اشارہ کیا. 

مورے نے سمجھتے ہوۓ کہا۔

آپ لوگ کھانا کھا لیں... 

جی مورے دیں ہمیں بہت بھوک لگی ہے 

قیس نے مسکراتے ہوۓ نمل کو دیکھا۔

جی جی مورے دیں گڑیا کو بہت بھوک لگی ہے

ٹھیک ہے قیس بیٹا آپ نمل کے پاس ہی رکنا... ہم نماز پڑھ لیں

 جی مورے.

                             💞

قیس نے نمل کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے کے بعد ٹیبلٹ دی...

خان جی اب بتا بھی دیں نا

ہم نے گندی دوائ بھی کھا لی...

اوکے بتاتا ہوں

ویٹ نہ

جی جی جلدی بتائیں

اوکے پہلے آپ لیٹیں

ہاں تو آپ پاس آئیں پھر میں لیٹوں گی...

قیس ٹھنڈی سانس بھرتا نمل کے پاس لیٹ گیا۔

 نمل نے بے ساختہ اس کے سینے پر سر رکھا...اب بتائیں نہ

ہممممم تو وہ سرپرائز یہ ہے کہ اب ہم اپنی گڑیا کو بھی اپنے ساتھ شہر لے جائیں گے... رمل اور انابی دیدی کے پاس

سچی خان

مچی....

قیس نے بھی اسی کے انداز میں کہا .

لیکن خان پھر ہم بھی پڑھنے جائیں گے

ارے آپ کو خان پڑھائیں گے نہ

جیسے آپ اب پڑھتی ہو...

ٹھیک ہے نمل نے برا سا منہ بنا کر  کہا۔

اوکے اب آپ سو جاؤ ہمیں نماز پڑھنی ہے...

اوکے خان جی لیکن آپ نماز پڑھ کر ادھر ہی لیٹیں گے...

اوکے آپ سو جائیں۔

جیسے ہی نمل کی آنکھ لگی قیس نے پہلے نمل کا کمرہ صاف کیا پھر عشا کی نماز ادا کی۔

نماز پڑھتے ... قیس کو اپنی ماں کی بات یاد آئی..

قیس بیٹا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا.. اللہ تمھیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا....

اور بے شک ایسا ہی ہوا تھا....

قیس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اللہ کی رسی کو تھام لیا تھا

اور آج تک اللہ نے قیس کو تنہا نہیں چھوڑا تھا.....

                       ❤️❤️❤️❤️

فجر کے بعد قیس ڈیرے کا چکر لگا آیا تھا

اور اب آغا جان کے پاس بیٹھا زمین کے مسلے پر بات کر رہا تھا

جب سردار منور حسین شاہ اور سردار سعد شاہ مردان خانے میں داخل ہوئے

قیس ان کے احترام میں کھڑا ہوا اور انھیں سلام کیا ۔ 

قیس بیٹا بیٹھو.... سلام کا جواب دیتے منور حسین نے کہا۔قیس سر ہلاتے ایک طرف بیٹھ گیا

تبھی آغا جان بولے ۔

ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے... 

جی شاہ سائیں بتائیں

منور حسین بعض اوقات آغا جان کو شاہ سائیں پکارتے تھے... 

ہممم... ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب سے گاؤں کے سارے فیصلے آپ دونوں بھائی دیکھیں گے.قیس کی پڑھائی مکمل ہونے تک.. 

سردار سعد حسین جلدی سے بولے ۔ 

لیکن آغاجان ہم ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے... 

بس ہم نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا

قیس کا آخری سال چل رہا ہے پڑھائی کا... کبھی شھر کبھی گاؤں کے چکر لگا لگا میرا بچہ تو باولا ہو گیا ہے... 

ٹھیک ہے شاہ سائیں۔ 

منور حسین جلدی سے بولے .... 

اور اس دفعہ ہم نے نمل کو بھی قیس کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے.... 

لیکن شاہ سائیں... ابھی رخصتی نھیں ہوئ

ہم بہتر جانتے ہیں کہ رخصتی نھیں ہوئ

ہمیں قیس پر بھروسہ ہے... 

ویسیے بھی نمل کو قیس کے علاوہ کوئ نھیں سنبھال سکتا... 

جی ٹھیک ہے شاہ سائیں... 

                       ❣️❣️❣️❣️

مورے نمل کی پیکنگ ہو گی.... 

جی بیٹا ہو گئی 

ہمیں کہنے کی ضرورت تو نہیں لیکن بیٹا نمل کا خیال رکھنا... اور اسے رمل سے دور رکھنا... 

رمل کے نام پر قیس نے بے ساختہ مسکراہٹ چھپائی... 

جی مورے.... 

آ بھی جاو نمل کتنی دیر ہو گئی 

جی مورے

نمل اپنا...ڈوپٹہ سنبھالی ڈریسنگ روم سے باہر نکلی  تو قیس کی نظریں نمل کے سراپے سے الجھ کر رہ  گئی...دل بے ساختہ سینے میں پھڑ پھڑا اٹھا.. 

مورے کے خیال سے قیس نے فوراً نظریں چرائی۔

او خان جی آپ دیکھے نہ ہم کیسے لگ رہے ہیں.... 

قیس نے ایک نگاہ پھر اس پر ڈالی... جو واپس پلٹنا بھول گئی... 

بلیک کلر کی فراک پر ریڈ ڈوپٹہ لیے.... وہ کوئ حور ہی لگ رہی تھی....

مورے بے ساختہ اپنی مسکراہٹ چپھاتے کمرے سے باہر نکل گئیں.... 🤭🤭

 نمل ایک ادا سے چلتے ہوئے قیس کے پاس آئی اور کہا 

بتائیں نا خان جی... 

بہت بہت پیاری لگ رہی ہو.... 

قیس ٹرانس کی کیفیت میں بولا.  نمل جھٹکے سے اس کے سینے لگی ۔

دیکھا خان جی ہم نے بتایا تھا مورے کو ہم پیارے لگیں گے یہ پہن کر.... 

نمل کے سینے سے لگنے پر قیس ہوش میں آیا... 

گڑیا چلیں.... 

تبھی نمل نے منہ بنا لیا۔

کیا ہوا... 

وہ یہ ابھی پاؤں ٹھیک نہیں ہوا ہم سیڑھیاں کیسے اتریں گے۔

آپ ہمیں اٹھا کر لے جائیں۔

لیکن گڑیا باہر سب ہوں گے... 

آپ ہماری بات نہیں مانتے... کبھی نہیں مانتے... ہم ناراض ہیں آپ سے.... 

اس سے پہلے کہ قیس کچھ کہتا

نمل  یک دم سر کو پکڑے چلائی .. 

آں آں میرا سر..... خان جی

کیا ہوا نمل.... قیس نے جلدی سے نمل کو  اپنے بازوں میں اٹھایا تو نمل ہنسنے لگی۔ 

ہاہاہا بدھو بنایا بڑا مزہ آیا... 

نمل کی حرکت پر خان کو غصہ تو بہت آیا لیکن وہ چپ کر کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

ارے خان جی ناراض ہو گۓ اچھا نہ سوری میں مزاک کر رہی تھی

لیکن قیس نے کوئ بھی جواب دیئے بغیر نمل کو گاڑی میں بیٹھاتے گاڑی سٹارٹ کر دی.... 

خان جی ہم نے مزاق کیا تھا... 

مزاق... نمل آپ کی زندگی مزاق ہے آپ کے لیے؟ آپ کو پتا ہے نہ آپ کو زرہ سا کچھ ہو ہماری جان نکل جاتی ہے... 

خان ہم... نمل نے آنسوؤں سے بھری آنکھیں اٹھا کر قیس کو دیکھا۔

قیس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ 

ارے نہیں گڑیا رونا نہیں  ہم بھی مزاق کر رہے تھے۔

نہیں خان آپ ہمیں ڈانٹ رہے تھے... 

ارے نہیں نہیں میں تو مزاق کر رہا تھا

میں بھلا اپنی گڑیا کو ڈانٹ سکتا ہوں

اچھا پھر ٹھیک ہے.. لیکن خان جی آئندہ  ایسا مزاق بھی نہیں کرنا... ہاں جی ہم تو کچھ کر نہیں سکتے سب کچھ آپ نے ہی کرنا ہے.. قیس بڑبڑا کر رہ جاتا ہے... 

                       ❣️❣️❣️❣️

قیس کے لاڈ پیار اور وقت پر نمل کو ٹیبلٹ دینے سے نمل کافی حد تک نارمل ہو گئ تھی.. لیکن بعض اوقات نمل کے سر میں اچانک سے درد اٹھتا جو اسے تڑپا کر رکھ دیتا تھا... 2 گھنٹے لگتے اسے واپس نارمل ہونے میں.... 

قیس نمل کو اپنی شھر والے فلیٹ میں لے آیا تھا

جہاں پہلے سے رمل اور انابیہ بھی رہتی تھی... 

2 فلور پر انابیہ اور رمل کا فلیٹ تھا... لیکن رمل زیادہ تو لاسٹ فلور والے فلیٹ میں رہتی تھی... بقول رمل اسے اونچائ پسند تھی.... 

اس لیے انابیہ اب اکیلے رہتی تھی... قیس انابیہ کے فلیٹ پر نمل کو لے آیا تھا....

                      ❣️❣️❣️❣️

نمل کے جانے کا سن کر خولہ بیگم آپے سے باہر ہو گئیں

نمل ہماری بیٹی ہے آپ نے کس کے کہنے پر اسے... اس ونی کے ساتھ بجھا...

بھابھی... آغا جان نے کہا تھا اور پلیز وہ نمل کا شوہر اور اس گھر کا بیٹا ہے اسے مت کہیں...

واہ شوہر.... وہ میں رہنے دوں گی پھر ہی رہے گا نہ

مجھے اب جلد کچھ کرنا پڑے گا....

                    ❣️❣️❣️❣️

 قیس نمل کو چھوڑ کر کسی ضروری کام سے چلا گیا..

پیچھے نمل نے انا بیہ کا سر کھایا ہوا تھا..

" بتاؤ نہ انا... خان جی کدھر گۓ... 

ارے لالہ آ جائیں گے آپ تھوڑی دیر ریسٹ کر لو... 

لیکن نمل کو منانا  😒کونسا آسان کام" ....

تبھی فلیٹ کا دروازہ کھولتے رمل اندر داخل ہوئ ...

"او ہو...... آج تو وڈے وڈے لوگ آۓ"

نمل بھاگ کر رمل کے سینے سے لگی ...

نمل ہمیشہ رمل کو آپیہ بولاتی تھی..

" آپیہ دیکھے نہ خان جی چلے گۓ... 

ارے تیرے خان جی کی تو ایسی کی تیسی"... 

تبھی" انابیہ بولی... پلیز دی... گالی نہیں" 

ارے نہیں نھیں گالی کب دے رہی ہوں

" ہاں تو نمو کو خان جی یاد آ رہے... 

جی آپیہ" .. نمل ہونٹ باہر کو نکالتی بولی... 

رمل کو پہلے ہی قیس بتا چکا تھا کہ وہ ضروری کام سے گیا ہے نمل کو ہینڈل کر لے... 

" ارے میری گڈو رانی چل تینوں پاستہ کھلاتی ہوں"

آرڈر کر کے... اب بنانا تو بچاری رمل کو بھی نھیں آتا تھا😂😂😂

" ہاۓ پاستہ

اوکے آپیہ"

پاستہ کھاتے ہی نمل سو چکی تھی... رمل... انا کو اس کا خیال رکھنے کا کہتی خود اپنے فلیٹ کی طرف بڑھ گئ ۔

                       ❣️❣️❣️

نمل کی معصومیت کی وجہ سے رمل اکثر اسے قیس کی سامنے بہت تنگ کرتی تھی... لیکن اکیلے میں اس کا بہت خیال رکھتی تھی... نمل کو قیس کے بعد صرف رمل ہی ہینڈل کر سکتی تھی..... 

اور نمل کو تو اپنی آپو رانی بہت پسند تھی.... 

رمل جب بھی گھر جاتی.... نمل اس کے ساتھ ساتھ رہتی... اس سے اپنے نخرے اٹھواتی...

پچھلی بار بھی قیس کی غیر موجودگی میں نمل نے رمل سے اپنے بال کاٹنے کی ضد کی تو ابھی رمل نے کینچی ہی پکڑی تھی اوپر سے قیس کی حاضری ہو گئی.. پھر جو رمل کے ساتھ ہوا.... 

"کتنی دفعہ کہا ہے تمھیں دور رہا کرو گڑیا سے" ... 

"اور یہ کیا کر رہی تھی تم خبردار اگر تم نے گڑیا کے بالوں کو ہاتھ لگایا... 

ہاتھ توڑ دوں گا میں تمھارے" 

"او.... میں تو ڈر گئ.... لو لو توڑو ہاتھ... پہلے توڑ دو"

وہ رمل ہی کیا جو ڈر جاۓ 

اور پھر قیس نے ہی تو اسے سب کچھ سکھایا تھا

" Fitting, firing, swimming, driving, each and every thing

On other words Ramal is Right hand of Qais 

"

*قیس کے ساتھ تو وہ ہوا 

ساڈی بلی  سانوں منیاؤں 

" رمل میرا دماغ مت خراب کرو.... اور  آئندہ نمل کے قریب بھی مت آنا..." 

رمل اوں ہوں کرتی باہر کو بڑھی .. 

" "جو کرنا اے کر لیو... میں تے جو دل کیتااو کراں گی

اور رات کو قیس نے رمل پر اپنا ٹائگر چھوڑ دیا ... 

بھاگ بھاگ کر پھر رمل کی جو حالت ہوئ.... دوبارہ رمل نے نمل کے بالوں کو ہاتھ نہ لگانے کی قسم کھا لی 

 رمل کو بس اک ڈوگز سے ڈر لگتا اس کے علاوہ تو وہ جگی تھی جگی اپنے گاؤں کی

رمل کی یونی کا آخری سال چل رہا تھا... کہنے کو تو رمل میڈیکل پڑھ رہی تھی... لیکن اندر کا راز بس رمل اور اس کا پارٹنر ہی جانتے تھے😉

انابیہ کو شروع سے میتھس کا شوق تھا اس لیے اس کا ڈیپارٹمنٹ الگ تھا... 

انابیہ کی عادت ان دونوں بہنوں سے بہت مختلف تھی

سنجیدہ سی انابیہ ہمیشہ گاؤن پہنے اس کے اوپر حجاب کیے یونی جاتی تھی... 

اور انابیہ اپنی اس عادت کی وجہ سے انابیہ اپنے بھائی قیس کی آنکھوں کا تارہ تھی... 

لیکن انابیہ کسی سے جلد فری ہی نہیں ہوتی تھی کلاس میں بھی انابیہ کی کوئ دوست نھیں تھی 

نقاب سے جھلکتی انابیہ کی موٹی آنکھیں بہت دلکش لگتی تھی... کافی لڑکوں نے اس سے دوستی کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی سنجیدگی کی وجہ سے ممکن نہیں ہو سکا... 

.......... 

نمل کو شہر آۓ آج دو دن ہو چکے تھے

قیس ان دو دنوں میں انتہا کا بزی رہا تھا

اس کے گاؤں جانے کی وجہ سے اس کے بہت سے کام پینڈنگ تھے

آج جب کام نپٹا کے وہ واپس آیا اسے بے ساختہ نمل کا خیال آیا

O my God 

نمل کو پتا نہیں کیسے ہینڈل کیا ہو گا... شٹ یار میں کیسے بھول گیا... 

اور ہوا بھی یہی وقت پر ٹیبلٹ نہ لینے کی وجہ سے نمل کا سر درد شدت پکڑ چکا تھا.... 

قیس جب فلیٹ میں داخل ہوا نمل کی چیخ سن کر جلدی سے روم کی طرف بڑھا۔ یہاں نمل بیڈ پر الٹی گری ہوئی درد  کی شدت سے چیخ رہی تھی  اور انابیہ اسے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی... 

دیکھیے نہ لالہ کیا ہوا دی کو. قیس کو دیکھتے ہی انابیہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔ انا بیٹا پلیز آپ تو چپ کریں میں دیکھتا ہوں

نمل کو ٹیبلٹ دی تھی وقت پر؟ قیس نے پوچھا۔ نہیں بھائ وہ دی ضد کرتی تھی تو... 

مجھے اسے ہسپتال لے کر جانا ہو گا.... 

آپ جلدی سے ڈور اوپن کرو

قیس نمل کو اٹھاۓ باہر کی جانب بڑھا . 

چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے قیس کو کافی کچھ سنایا۔

مسڑ قیس ہم آپ کو پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ آپ کی کزن ابھی بھی مینٹلی ڈس ایبل ہے. ٹینشن کی وجہ سے ان کے دماغ کی نس بھی پھٹ سکتی تھی... 

I am sorry ڈاکٹر 

نیکسٹ ایسا کبھی نہیں ہو گا پلیز بتائیں اب وہ کیسی ہیں 

خطرے سے باہر ہیں لیکن مسڑ قیس اگر یہی کنڈیشن رہی... ان کا زہن پھر سے پیچھے چلا جاۓ گا

نھیں ڈاکٹر اب ایسا نہیں ہو گا

کیا میں اسے گھر لے جا سکتا ہوں

جی لے جائیں لیکن دیہان رکھئے گا انہیں کئیر کی ضرورت ہے۔

جی ڈاکٹر 

قیس نیم بے ہوش سی نمل کو بازو میں اٹھاۓ ہوسپٹل سے نکلا 

کتنے ہی لوگوں نے رشک سے اس پیارے جوڑے کو دیکھا تھا

قیس نمل کو اس دفعہ اپنے فلیٹ پر لے  آیا.... 

تبھی رمل بائک کی کیز گھماتے اندر داخل ہوئی اور بیڈ  پر بے سود لیٹی نمل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اسے کیا ہوا؟

رمل میں نے تمھیں کہا تھا کہ نمل کا دھیان رکھنا تمھاری ہمت کیسے ہوئی اسے اکیلا چھوڑ کر جانے کی.

 لیکن پارٹنر میں بس آدھا گھنٹہ پہلے گئی تھی۔

جسٹ شٹ اپ ٹیبلٹ کیوں نہیں دی ٹائم پر نمل کو؟

لیکن ٹیبلٹ تو انابیہ کھلا رہی تھی

رمل تمھیں اچھے سے پتہ ہے اُسے تمھارے اور میرے علاوہ کوئی ہینڈل نہیں کر سکتا پھر بھی تم نے۔۔۔۔۔

آیم سوری سو سوری لا لا مجھے آئیڈیا نہیں تھا۔

نیکسٹ ٹائم ایسا نہیں ہوگا

دفع ہو جاؤ رمل یہاں سے اِس سے پہلے کہ میں غُصے کچھ غلط کر دوں

لیکن۔۔۔۔۔رمل نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔

آئی سے گیٹ آؤٹ

رمل ٹینشن میں باہر کی طرف بڑھی۔

اُسے آئیڈیا نہیں تھا کہ نمل ٹیبلٹ یوز نہیں کر رہی

ورنہ وہ خود اُسے ٹیبلٹ کِھلا دیتی.....

انابیہ کہاں ہو تم

جی

جی دیدی

دیدی کی کچھ لگتی نمل کو ٹیبلٹ کیوں نہیں دی۔

انابیہ تو رمل کو غُصے میں دیکھ کر ہی ڈر  گئی

دیدی وہ.... وہ

وہ مجھے قیس لالہ کی قسمیں دے رہی تھیں اِس لیے۔

او مائی گاڈ

انابیہ اُس کی کنڈیشن بہت خراب ہے

اور لالہ مجھے اُسے دیکھنے بھی نہیں دے رہے

پلیز آپ ٹینشن نہ لیں لالہ سنبھال لیں گے اُسے

ہممم یہ تو ہے

دُعا کرو وہ ٹھیک ہو جائے.....

قیس نے نمل کو زبردستی بٹھاتے ہوئے

اُسے سوپ پلایا  اور پھر ٹیبلٹ دی۔

نمل کے سر کا درد کچھ بہتر ہوا تو اس نے قیس کو پکارا۔

خان جی آپ کب آئے۔

لیکن قیس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

خان جی

نمل چُپ کر جاؤ میرا دماغ خراب نہ کرو

لیکن خان جی۔۔۔۔ نمل نے کچھ بولنا چاہا

او شٹ  قیس کو اچانک سے ڈاکٹر کی بات یاد آئی۔

او سوری گُڑیا اِدھر دیکھو

ہمم میں ابھی ابھی آیا آپ سو رہی تھی تب

خان جی آپ کیوں گئے تھے مجھے چھوڑ کر

آپ مجھے اِدھر لا کر بھول گئے

سوری گُڑیا اب آپ کے خان جی آپ کو ساتھ رکھیں گے۔

سچ خان جی

جی بالکل سچ..

                       💖💖💖💖

رمل کل سے تم یونی  ری جوائن کرو گی...بہت ہو گئیں چھٹیاں... 

اوکے باس

اور کچھ.. 

ہمممم میرا دیا ہوا کام ہو جانا چاہئے اور پلیز اپنے ہاتھوں پر کنڑول رکھنا ساتھ ساتھ اپنی زبان پر بھی... 

یس باس😉😁

اور دوسرا کام

ہو گیا پارٹنر ڈونٹ وری

بہت معصوم  ہے..میری لاڈو... اسے ایک آنچ بھی نہیں آنی چاہیے 

آہو آہو میں سمجھ گئ

بے بی کو لگا دیا میں نے کام پر

او شٹ آپ رمل 

بےبی مت کہا کرو اب اسے... 

میں تو کہو گی 🤷‍♀️

اوکے جاؤ یہاں سے

پارٹنر آپ کتنے وہ ہو... کل مجھے کتنا ڈانٹا

کل کا زکر مت کرنا.... آوٹ

اوکے اوکے

اب بلانا مجھے میں بھی نہیں آنا

اوکے آج تمھارا آکاؤنٹ بند کروا دیتا ہوں😉🤣

ارے نہیں نہیں اب بندہ مزاک بھی نہ کرے.... 

ہممم... جاؤ.... 

                    💖💖💖💖

ہممم تو رمل کل سے یونی سٹارٹ 

واؤ پھر سے موجیں.. کافی دنوں سے دھلائ نھیں کی کسی کی

ویسے بھی ابھی اس بڈھے پروفیسر کا پتہ صاف کرنا ہے... 😁

تبھی کچھ سوچتے ہوۓ رمل نے اپنا موبائل پوکٹ سے نکالا اور گلے میں پہنی چین سے کھیلتے ہوئے کال ملائی ۔

ہیلو ماۓ بے بی ہاؤ آ ر یو

او پلیز باجو اب تو بے بی مت کہا کرو 

اب میں بڑا ہو گیا ہوں

ہاں ہاں جانتی ہوں لیکن میں نے تمھیں بے بی ہی کہنا ہے

وہ بیچارہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

تو کل کے لیے ریڈی ہو۔ رمل نے پوچھا۔

جی۔ آگے سے جواب آیا۔

کل کا زکر سنتے ہی وہ سنجیدہ ہو گیا۔

وہ ایسا ہی تھا صرف اپنے سر اور باجو کے سامنے لاڈلہ۔

اور باقی دنیا کے لیے وہ اک ٹائیگر تھا... 

جو آنکھیں بند کر کے بھی نشانہ لیتا تو اگلے بندے کی کھوپڑی اڑا دیتا تھا

بے بی پلیز اپنے غصہ پر کنڑول کرنا... کوئی مسئلہ نہ بن جاۓ

اوکے آئ کین ہینڈل

ہممم

رمل اب بے فکر ہو چکی تھی کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ اس کا بے بی اپنی رسپونسیبلٹی اچھے سے نبھاۓ گا

اب بس رمل کو پروفیسر دلاور کا انتظار تھا

                      💖💖💖💖‍‍

اوۓ سن........

رمل نے یونی کے کوریڈور میں چلتے ایک لڑکے کو آواز دی ....

جی...

وہ بیچارہ تو رمل کے پکارنے پر ہی ڈر گیا...

رمل کی دہشت پوری یونی میں پھیلی ہوئی تھی..

یونی میں وہ Fire 🔥 lady کے نام سے مشہور تھی....

لڑکی تو دور کسی لڑکے میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اسے تنگ کر سکے....🤣 

سر دلاور آگۓ.... 

نہیں وہ وہ... انہوں نے یونی چھوڑ دی آج اک نیو پروفیسر آۓ ہیں... 

اس لڑکے کی بات سن کر رمل نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔ 

خس کم جہاں پاک🤣🤣😂😂

پروفیسر دلاور نے یونی میں لڑکیوں کو ہراس کرنا شروع کر دیا تھا... 

اس لیے رمل نے رات انہیں خوب مزہ چکھایا... جس کا نتیجہ اب اس کے سامنے تھا... 

چل رمل کڑیے... نیا پروفیسر وی ویکھ ای لیے ... 

رمل کو پنجابی بولنے کی بہت عادت تھی وہ اکثر پنجابی ہی بولتی تھی

تبھی رمل پرنسپل آفیس کی طرف بڑھی .. 

رمل کو آفیس میں داخل ہوتا دیکھ کر پرنسپل بے ساختہ بولے ... 

ارے آوُ رمل بیٹا... 

ان سے ملیں یہ ہیں آپ کے نیو پروفیسر  مسٹرمِلحان خان  ....

مِلحان پر نظر پڑھتے ہی اک دفعہ رمل کی نظر ساکت ہوئی. 

پھر فوری مسکراتے ہوۓ پرنسپل کا لحاظ کئے بغیر گھبراۓ سے بیٹھے مِلحان خان کی طرف ہاتھ بڑھایا.. 

ہیلو سر آئی ایم رمل شاہ..... 

ملحان نے جو پہلے ہی رمل کے حلیے پر حیران تھا اس کے ہاتھ بڑھانے پر حیرت سے پسینہ صاف کرتا اسکی جانب دیکھا ۔

ارے ملحان بیٹا یہ رمل ایسی ہی ہے جولی سی آپ گھبرائیں نہیں....

تبھی ملحان نے رمل کے بڑھے ہوۓ ہاتھ کو دیکھا اور سلام کیا... 

رمل نے سیٹی کی طرح ہونٹوں کو گول کرتے ہوئے اووووووو کی آواز نکالی۔

وعلیکم السلام... وعلیکم السلام.... 

رمل دو دفعہ جواب دیتی ہے 

تبھی پرنسپل صاحب رمل کو گورتے ہوۓ ملحان کو کلاس دکھانے کا کہا... 

رمل نے پرنسپل کی گھوری کو نظر انداز کرتے ہوۓ کہا... 

چلیں سررررررر جی........... 

ملحان بیچارہ  پہلے ہی گبھرایا دل میں اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے یونی آنے کی حامی بھری تھی... 

رمل کو دیکھ اور گبھرا جاتا ہے...

                       💖💖💖💖

بڑی شدت سے آزماتے ہو صبر میرا،،

کبھی جو خود پہ گزری تو بکھر جاؤ گے... 🖤

آج پھر وہ ڈائری نکالے کچھ لکھنے میں مگن تھی

جب لیکچر کی بیل ہوئی... اوپپس سر ظہیر زرہ اچھے نہیں لگتے جب دیکھو گھورتے رہتے ہیں

دل میں سوچتی وہ کلاس روم کی طرف بڑھی۔

جب اچانک سے کلاس میں داخل ہوتے ایک لڑکے سے ٹکرا گئی 

او سوری آیم سوری

مجھے پتہ نہیں چلا بے دھیانی میں آتے آپ سے ٹھکرا گئی 

وہ اٹس اوکے بولتا آگے بڑھ گیا۔

پیچھے انابیہ اِس عجیب و غریب کی کمر تکتی رہ گئی

اِس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ انابیہ کو اُس کی چیزیں ضرور پکڑاتا

اوپر سے انابیہ اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھ پائ تھی..

اوپر سے انابیہ اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھ پائ تھی.. 

انابیہ جب کلاس میں انٹر ہوئی 

وہ لڑکا کلاس میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا

پوری کلاس جانتی تھی کہ یہ انابیہ کی سیٹ ہے

ہیلو مسٹر یہ میری جگہ ہے آپ پلیز اُٹھ جائیں

اس لڑکے نے بغیر بولے اِک چیر کھینچ کر اپنے برابر رکھی اور انابیہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

انابیہ تو اُسکا ایٹیٹوڈ دیکھ حیران رہ گئ تھی لیکن کڑوا گھونٹ بھرتے اس کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہو گئ ۔

اگر اس وقت انابیہ کے چہرے پر نقاب نہ ہوتا تو یقننا اس کا لال چہرہ دیکھ کر اس لڑکے کو انابیہ کے غصہ میں ہونے کا اندازہ ہو جاتا ۔

تبھی سر کے داخل ہونے پر انابیہ غصہ تھوکتی سر کی طرف متوجہ ہو گئی۔

اوکے تو گائیز کیسی رہی چھٹیاں.... 

بہت اچھی سر جی

سب یک آواز میں بولتے ہیں 

تبھی سر نے نیو  لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔

Intro plz.... 

I am qamar  khan from lahore.... 

اتنا بولنے کے بعدوہ خاموش ہو گیا اور

سر اسے غور سے دیکھنے لگے

اگر پرنسپل کا حکم نہ ہوتا سر ظہیر اس لڑکے کی بدتمیزی پر کلاس سے باہر کر دیتے 

لیکن سر بھی انابیہ کی طرح کڑوا گھونٹ بھر کر رہ گئے.. 

لیکچر سٹارٹ ہوتے ہی انابیہ نے لیکچر نوٹ کرنا سٹارٹ کر دیا جبکہ قمر کی نظریں انابیہ کے ہاتھوں پر ٹک گئیں۔

ساتھ ساتھ بیٹھے ہونے کی وجہ سے 

وہ انابیہ کے ہاتھ پر  نظریں جماۓ بیٹھا تھا

انابیہ کے ہاتھ پر بنا تل اسے اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا

ٹھنڈی سانس بھرتا وہ پھر سے سر کی طرف متوجہ ہوا تھا 

لیکچر ختم ہوتے ہی انابیہ باہر کی طرف بڑھی۔

تبھی قمر بھی اپنا بیگ اٹھاۓ انابیہ کے پیچھے آیا 

چلتے چلتے کچھ یاد آنے پر انابیہ اچانک سے مڑی کہ اپنے پیچھے آتے  قمر سے ٹکرا گئی

اس سے پہلے کے وہ گرتی قمر اسے کمر🤣 سے تھام گیا۔

چھوڑو مجھے تمھاری ہمت کیسے ہوئ مجھے ہاتھ لگانے کی

وہ کچھ بولے بغیر بس انابیہ کو تکے جا رہا تھا

انابیہ کی بڑی بڑی ہیزل آئیز اسے اپنی جانب آٹریکٹ کر رہی تھی

ادھر انابیہ کی ہمت جواب دے چکی تھی اور اس نے رکھ کر ایک تھپڑ قمر کے منہ پر لگایا۔تبھی قمر ہوش میں آتے

اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا

اس سے پہلے کہ انابیہ کچھ بولتی 

A am sorry 

کہتا وہ دوسری جانب چلا گیا۔

انابیہ تو اسے دیکھ کر رہ گئی۔ ایک لمحے کو انابیہ کو اپنے تھپڑ مارنے پر افسوس ہوا لیکن فوراً سر جھٹک کر وہ کیفے کی طرف بڑھ گئی۔ 

وہاں سے اپنے لیے سنیک اور چاۓ لی اور گراؤنڈ میں ایک درخت کے نیچے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی.

یہ درخت کچھ اس طرح بنا تھا کہ ادھر بیٹھی انابیہ کو کوئ دیکھ نہیں سکتا تھا

اس لیے وہ ادھر بیٹھ کر اپنا لنچ کرتی تھی

ابھی اس نے چاۓ کا کپ  منہ کو لگایا ہی تھا کہ  درخت کی بیک سائیڈ سے کچھ گنگنانے کی آواز نے اپنی جانب متوجہ کیا۔

وہ جو کوئ بھی تھا انتہائ پیارے اندازے میں گانے کے بول ادا کر رہا تھا

ہوا ہے آج پہلی بار 

جو ایسے مسکرایا 😊ہوں

تمھیں دیکھا تو جانا یہ کہ کیوں دنیا میں آیا ہوں

میں تم سے عشق❤️ کرنے کی اجازت رب سے لایا ہوں

انابیہ کپ نیچے رکھتی سر آگے کو کیۓ درخت کی بیک سائڈ  دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔لیکن اسے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ وہ جو کوئ بھی تھا منہ پر ٹوپی رکھے گا رہا تھا😁

انابیہ اپنی چاۓ بھی ادھر ہی چھوڑے پرئر روم کی جانب بڑھ گئی۔

تسلی کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی اور پھر کلاس کی جانب چل دی۔

آخری لیکچر بھی انابیہ نے اس لڑکے کے ساتھ ہی بیٹھ کر لیا تھا اور پھر رمل کو بتا کر گھر چلی گئ۔ انابیہ کو اس بات کا اندازہ ہر گز نہیں تھا کہ کسی نے اس کا پیچھا اس کے فلیٹ تک کیا ہے

انابیہ کو فلیٹ میں داخل ہوتا دیکھ وہ خاموشی سے واپس چلا گیا۔

                      💖💖💖💖

ہیلو ہاں کیا پروگرام ہے رات کو

ارے یار پروگرام تو ہے اگر تم چلو

اس دفعہ تمہیں شراب کے ساتھ ساتھ شباب کا مزہ بھی دیں گے۔

اوکے میں آتا ہوں

عارب خان کو اُس کے دوستوں نے بُری طرح شراب اور شباب کی لت لگا دی تھی ۔اب تو اُس کی کوئی رات بھی شراب و شباب کے بغیر نہیں گزرتی تھی

وہ نشے میں اندھا ہوتا حرام حلال کی تمیز بھول چکا تھا۔

سردار حاتم خان کو بچوں سے کوئی واسطہ نہ تھا ملحان تو ڈرپوک طبیعت کے باعث زیادہ باہر ہی نہیں نکلتا تھا اور ویسے بھی اُس کا دھیان سٹڈی پر زیادہ تھا۔

مومنہ شاہ کی وجہ سے ملحان تو نیک اور سلجھا ہوا تھا جبکہ عارب کو بُری صحبت نے بگاڑ دیا تھا

عارب یار آج مست مال ہے دیکھ دل خوش ہو جائے گا

ہاں ہاں کیوں نہیں کہاں ہے

چل اندر چل وہ دیکھ پہلے تُو ہاتھ صاف کر لے پھر ہم کریں گے

عارب جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا سامنے ایک لڑکی چیر پر بندھی ہوئی تھی۔

یہ کیا شکورے یہ تو زبردستی لے کر آیا ہے اِسے

چھوڑ یار سالی نخرے کر رہی تھی میں نے باندھ دیا

تُو اپنا کام کر 😉

لیکن یار زبردستی نہیں کرنی میں کسی کے ساتھ

او یار چل دیکھ تو سہی کتنا مست مال ہے

لڑکی کی طرف دیکھ کر عارب پر بھی حوس حاوی ہوگئی

اوکے چل تُو باہر

ارے ہمارے سامنے شروع ہو جا اب ہم سے کیا چھپانا اور عارب بھی کمینہ بنا

اُس لڑکی کی عزت تار تار کرنے لگا۔

پلیز چھوڑ دو مجھے میں ایسی لڑکی نہیں ہوں

پلیز جانے دو

عارب شراب کی بوتل اس کے اوپر انڈیلتا اسے اپنی حوس کا نشانہ بناتا بے دردی سے مسل گیا۔

اس لڑکی نے عارب کی حوس کا نشانہ بنتے ہی پاس گری کانچ کی بوتل اٹھا کر اپنا گلہ کاٹ لیا۔

شکورے او شکورے یہ اس نے کیا کر دیا

ایک دفعہ تو شکورا بھی دیکھ کر گھبرا گیا۔

لیکن پھر عارب کو تسلی دیتے ہوئے بولا 

چل یار ٹینشن نہ لے تُو بےفکر ہو کر گھر جا میں اس کا بندوبست کر دیتا ہوں

لیکن یہ یہ تو مر گئ

او یار اچھا ہوا مر گئ اس نے بچ کر بھی کیا کرنا تھا

جا تُو گھر جا اور نیند پوری کر اور ہاں کل پیسے ٹرانسفر کر دینا۔ ہاں ہاں میں کر دونگا۔

عارب کے جاتے ہی شکورے نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لڑکی کی لاش ٹھکانے لگائی اور روم میں چھُپا موبائل نکال لیا۔

یہ بہت کام آئے گا وہ کمینی ہنسی ہنستا خوش ہو رہا تھا

                      💖💖💖💖

آج پھر ہوا کی اک بیٹی حوس کا نشانہ بن گئ

لیکن اسے بچانے والا کوئی نہ تھا

کاش والدین بیٹیاں پیدا کر کے اس کی حفاظت بھی کرنا سیکھتے۔

حیا نور کوٹھے پر پیدا ہوئی ایک ناجائز اولاد جو آج حوس کا نشانہ بن گئ تھی

حوس کی نظر سے نہ دیکھ اے ابن آدم.... 

حوا کی ہر بیٹی طوائف نہیں ہوتی..... 🥀

❣️❣️❣️

رمل ملحان کے ساتھ چلتے ساتھ ساتھ اسے یونی کے ایریا کے بارے میں بھی بتا رہی تھی جب کوئی لڑکا رمل کی طرف اشارہ کر کے ہنسا۔ 

ارے وہ دیکھ fire lady کے ساتھ ice man جا رہا یے... 

اس بیچارے کی پھوٹی قسمت جو یہ بات رمل نے سن لی.... 

ابے رک تینوں تے میں سیدھا کر دی آں

یہ کہتے ہی رمل نے اس لڑکے کو کالر سے پکڑ

کر کھنچتے ہوئے 2 تھپڑ لگائے تھے

بتاؤ تمہیں میں fire lady کا مطلب کیا ہے ٹھرو اچھے سے سمجھاتی ہوں

کینٹین کے ٹیبل سے چھری اٹھاۓ اس کی گردن پر رکھ چکی تھی. 

اب کر بکواس... 

بول کون ادھر ice man or fire lady.. 

ارے نہیں دیدی پلیز معاف کر دو دوبارہ نہیں ہو گا... پلیز دیدی... 

تبھی دوسرے لڑکے بھی جلدی سے ساتھ بولے پلیز رمل دیدی اب نہیں ہو گا معاف کر دیں

رمل نے  جھٹکے سے اس کا کالر چھوڑا  کہ وہ بیچارا کنٹین کی کرسیوں میں جا لگا .. 

نئیے پروفیسر کی وجہ سے آج تیری جان بخشی ہو گئی ورنہ رمل دی گریٹ کو سبھی جانتے ہیں... کسی کو معاف نہیں کرتی 

چل پھوٹ اب یہاں سے... 

رمل  نے پیچھے مڑ کر ملحان کی طرف دیکھا جو پورا پسینے سے بھیگ چکا تھا. تو رمل کا زور دار قہقہہ گونجا ۔

ارے پروفیسر جی آپ نہ گھبرا ئیں آپ کو بھلا ہم کچھ کہہ سکتے ہیں 

سر جی آئے وہ رہا کلاس روم آپ  کلاس میں جائیں میں زرہ ہاتھ دھو لوں... جو اس کمینے کی وجہ سے گندے ہو گۓ...

وہ ملحان سے کہتی واش روم کی طرف بڑھ گئی...

ملحان ڈرتے ڈرتے کلاس روم میں داخل ہوا ... 

ملحان کے کلاس میں داخل ہونے پر سب نے ملحان کو نیو سٹوڈنٹ سمجھ کر نظر انداز کیا.. وجہ ملحان کی پرسنیلٹی تھی آنکھوں پر گول چشمہ لگاۓ بالوں کو تیل سے بھرے اک عجیب لک دے رہا تھا..... 

ملحان آہستہ آہستہ سٹیج کی طرف بڑھا.... 

 ملحان کو سٹیج کی طرف بڑھتا دیکھ... کلاس منہ کھولے ملحان کو دیکھنے لگی ... 

اس اسلام و ع علیکم وہ میں.... میں آپ کا نیو ٹیچر..... 

ملحان کے  رک رک کر بولنے کی وجہ سے پوری کلاس  نے قہقہہ لگایا۔

اوے رک رک کر چلنے والی مشین چل آجا ہمارے ساتھ بیٹھ بہت ہو گیا اپریل فول... 

دروازے سے داخل ہوتی رمل نے یہ الفاظ با خوبی سنے تھے... 

رمل چلتی ہوئی ملحان کے پاس کھڑی ہوتی بولی ... سو گائیز یہ ہیں ہمارے میڈیکل کے  نیو پروفیسر ملحان خان.... 

رمل کے بولنے پر پوری کلاس دم سادھے خاموش ہو چکی تھی .... 

اسلام علیکم سر تبھی اک لڑکی نے ملحان کو سلام کیا ... 

ملحان سلام کا جواب دے کر رمل کو دیکھنے لگا۔

ارے سر جی اب آگے آپ پڑھائیں ہمارا کام تو یہی تک تھا.. کہتی ہوئ سیٹ پر بیٹھ چکی تھی... 

پھر ملحان نے گھبراتے ہوۓ لیکچر سٹارٹ کیا تھا... 

رمل کی نظریں ملحان کے ساتھ چپک کر رہ چکی تھی.... 

بے شک ملحان کا انداز دبو تھا لیکن.... اس کے پڑھانے کا سٹائل  بہت پیارا تھا... اور رمل نے غور بھی کیا کہ جب وہ لگاتار بولتا  تو بلکل رک رک کر نہیں بولتا تھا... 

ٹھیک ہے کلاس اتنا کافی ہے... 

تبھی پوری کلاس  نے جی سر کہا ... 

ملحان اک نظر رمل پر ڈال کر کلاس سے باہر نکل چکا تھا... 

جب رمل بھاگ کر ملحان کے سامنے آئ 

ارے رکیے استاجی 😂

وا سر جی تسی تے بہت چنگا پڑھاتے ہو... 

جی... ملحان نہ سمجھی سے اس کی طرف دیکھا... 

او ہو سر جی آپ کو  پنجابی سمجھ نہیں آتی.... 

میں نے کہا کہ آپ اچھا پڑھاتے ہیں.. 

تبھی ملحان نے مسکراتے ہوۓ تھینکس کہا .. 

 رمل کی نظریں بے ساختہ اس کے ڈمپل پر رک گئی ... 

استاجی آپ کو یونی میں کوئ پرابلم ہوئ تو ضرور بتائیے گا....

جی ٹھیک ہے اب اب ہم جائیں

جی جی جائیں جائیں

.                   ...... ❣️❣️❣️.....

‍‍‍‍قیس سر ہاتھوں میں گراۓ بیٹھا تھا

نمل کے ساتھ آنے کی وجہ کی سے اس کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی تھی

اب رمل کو ہر وقت قیس چاہیے تھا

ورنہ رمل کی طبیعت بگڑ جاتی 2 دنوں میں قیس جب بھی کہیں باہر گیا  نمل نے کال کر کر کہ دماغ کھا لیا ۔اب قیس سوچ رہاتھا کہ وہ ایسا کیا کرے

جس سے رمل سٹیبل رہ

"ارے خان جی آپ یہاں بیٹھے ہیں آپ کو پتا ہے میں بھلا کیا سوچ رہی ہوں

" جی بتائیں کیا سوچ رہی ہے ہماری گڑیا

خان جی میں سوچ رہی میں نہ وہ سییکھ لوں

" وہ جو لڑکیاں شادیوں پر کرتی ہیں

وہ کیا

ارے خان جی آپ کو بھی کچھ سمجھ نہیں آتا جلدی"

ارے آپ بتائیں گی تو سمجھوں گا نہ گڑیا

ارے وہ جو ادھر آنکھوں پر کرتے ادھر ہونٹوں پر بھی لڑکیاں کرتی ہیں

وہ قیس کی آنکھوں اور ہونٹوں کو چھوتے ہوۓ بولی ۔

قیس نے تو اپنی سانس ہی روک لی 

ارے کل میں نے ٹی وی میں دیکھا تھا

میک...... اب

ارے نہیں ہاں میک اپ

میک اپ سیکھ لیتی ہوں نہ

ویسے بھی کالج میں نے جانا نہیں ہوتا

اور پیپر میں نے بس آخری 2 ماہ پڑھ کر دینے ہوتے ہیں تو خان جی میں میک اپ سیکھ لیتی ہوں

اگر کوئی رمل کو ایسے بات کرتے دیکھ لے تو حیران رہ جاۓ وہ کہی سے بھی اک ابنارمل بچی نہیں لگ رہی تھی

لیکن گڑیا آپ میک اپ سیکھ کر کرو گی کیا

ارے خان جی میں آپ کی شادی پر آپ کا میک اپ کروں گی نہ

رمل روک خان شاک

رمل آپو

انا ابھی میں بزی ہوں پھر آنا

آ پو آپ ہمیشہ ایسا کرتی ہیں آپ کے پاس میرے لیے ٹائم ہی نہیں ہوتا

آ میلا بچہ

بولو بولو۔۔ رمل نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔

آپو مجھے شاپنگ پر جانا ہے

ہاں تو جاؤ اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے رمل نے آرام سے کہا۔

آپو میں اکیلی۔ انبیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا

ہاں جی اکیلی میں نہیں جارہی آپ کے ساتھ۔

لیکن آپو۔۔۔۔

رمل نے انابیہ کی بات درمیان میں ہی کاٹ کر کہا۔ ارے آپو کی جانو مانو

توسی کلے جاؤ گے آپو نے کہہ دیا

اب جاؤ میرا گارڈ تمھارا خیال رکھے گا

اوکے آپو ہم ناراض ہیں ۔انابیہ نے برا سا  منہ بنایا۔

رمل مسکراتے ہوۓ بے بی کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔

ہممم جہاں بھی ہو فورن شاپنگ مال پہنچو

تمھاری جانی ادھر ہے

آپو......... 

میرا کام انفارم کرنا تھا۔آگے تم جانو تمھارا کام... 

ہممم اوکے

ابھی انا شاپنگ مال میں انٹر ہی ہوئ تھی کہ سامنے سے آتے عارب خان سے ٹکرا گئی۔ٹکرانے کی وجہ سے انا کا نقاب اتر چکا تھا۔تبھی کوئی ایک سیکنڈ سے بھی پہلے انا کے اگے کھڑا ہوا۔

لیکن ایک سیکنڈ میں ہی عارب کی نظر انابیہ کے ناک پر چمکتی لونگ پر پڑ چکی تھی

لیکن کسی کے سامنے آ جانے پر وہ مٹھیاں بھنچ کر رہ گیا ۔وہ جو کوئ بھی تھا اپنے ہاتھوں سے  انابیہ کا نقاب سہی کرتے اس کا ہاتھ پکڑتے سائیڈ پر لے کر آیا۔

انابیہ نے حیرت سےاس انجان شخص کو دیکھا جس نے فرشتہ بن کر پہلے اسے بے پردہ ہونے سے بچایا اور اب اس کا ہاتھ پکڑ  کر خا لی جگہ پر لے آیا۔

کون ہو تم چھوڑو میرا ہاتھ... انابیہ نے غصے سے کہا ۔

وہ جو کوئی بھی تھا اس نے کچھ بولے بغیر ہاتھ چھوڑ دیا۔

انابیہ نے بے ساختہ اس انجان شخص کی جانب دیکھا ۔

سر پر ٹوپی پہنے منہ پر رومال باندھے، بال ماتھے پر بکھیرے  وہ کچھ عجیب الگ رہا تھا۔

کون ہو تم اور...... ابھی انابیہ کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ  وہ شخص انابیہ کو وہی چھوڑتا خود دوسری جانب بڑھ گیا۔

ہیے کون ہو تم...... 

انابیہ اسے پکارتی رہی لیکن وہ ان سنی کرتا آگے بڑھ گیا۔

جب تک انابیہ نے شاپنگ نہیں کر لی اس نے محسوس کیا وہ رومال والا لڑکا اس کے پیچھے ہی رہا تھا گھر آتے تک وہ انابیہ کے پیچھے ہی تھا

انابیہ غائب دماغی کے ساتھ گھر میں داخل ہوئ ۔

کیسی رہی شاپنگ رمل نے پوچھا۔  انابیہ غائب دماغی سے بولی اچھی اور یہ  کہتے روم کی طرف بڑھ گئی۔

اوۓ دیکھا تو سہی کیا لائ ہو رمل نے حیرت سے پوچھا۔

لیکن انا کچھ ڈھنگ کا لائ ہوتی تو ہی دکھاتی نہ. وہ تو شاپنگ کے دوران اس ٹوپی والے لڑکے کو خود کا پیچھا کرتے دیکھ کر پریشان تھی

وہ کچھ کہے بغیر روم میں بند ہو گئی۔

انابیہ نے  شاور لے کر نماز ادا کی اس کے بعد سورہ ملک کی تلاوت کی ۔اس لڑکے کا خیال زہن سے جھٹکتے وہ سونے کے لیے لیٹ گئ تھی

                        ❣️❣️❣️

کیاااا میری شادی.... میرا  میک اپ قیس بچارا تو صدمے میں ہی چلا گیا اور تھوڑی اونچی آواز میں چلایا۔

گڑیا لڑکے میک اپ نہیں کرتے

ہاں تو لڑکے نہ کریں میں لڑکوں کا کرنا بھی نہیں

میں تو خان جی آپ کی بات کر رہی ہوں نمل نے معصومیت چہرے پر سجا کر کہا 

رمل میں بھی تو لڑکا ہوں قیس نے خود کو بہت بے بس محسوس کیا۔

خان جی مجھے میک اپ کرنا ہے کرنا ہے تو بس کرنا ہے مجھے نہیں پتا۔ نمل نے ضدی بچے کی طرح کہا 

اوکے میں انابیہ کو بلاتا ہوں آپ اس کا میک اپ کر لینا۔

خان جی

رمل نے آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لاۓ قیس کو دیکھا۔

رمل میری گڈو میری شہزادی میرا بچہ 

آپ روؤ نہیں میں کرواتا ہوں میک اپ 

ہرےےےےےےے نمل نے خوشی سے نعرہ لگایا اور کہا چلیں آپ میرے ساتھ اور یہاں بیٹھیں۔ 

وہ قیس کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سٹول پر بٹھاتے جوش میں بولی۔

آپ کو پتا کل ہم نے رمل دی سے میک اپ منگوایا تھا اور مجھے انہوں نے کہا تھا کہ تم اپنے خان جی کا میک اپ کر نا 

آپو گندی انہوں نے مجھ سے میک اپ نہیں کروایا۔ نمل معصومیت کے ساتھ قیس کو بتا رہی تھی اور قیس کا غصے سے برا حال تھا

اس رمل کو تو میں چھوڑوں گا نہیں 

چڑیل بھوتنی کہیں کی۔قیس نے غصے سے دانت کچکچاتے سوچا۔

نمل مجھے ننید آ رہی ہے ہم  کل کریں گے میک اپ۔ قیس نے جان چھڑانے کی ناکام کوشش  کی۔اور کہا۔

شاباش چلو آؤ ہم سوتے ہیں 

نہیں... مجھے ابھی کرنا ہے

قیس بچارہ کڑوا گھونٹ بھر کر رہ گیا۔

اوکے اب آپ نے بولنا نہیں آپ آئیز بند کریں 

مسلسل آدھے گھنٹے سے نمل قیس کے منہ پر پینٹ کر ہی تھی

گڑیا بس کرو نہ باقی پھر 

اوکے بس 2 منٹ یہ  بس لاسٹ سٹیپ

نمل ریڈ  لپ سٹک اٹھاتے بولی اور اسے

قیس کے ہونٹوں پر چلایا😂

ہممم ہو گیا اب آپ دیکھ سکتے ہیں۔

قیس نے جیسے ہی شیشے میں خود کو دیکھا  زور سے چلا اٹھا 

یہ تم نے مجھے کیا بھوت بنا دیا ہے

نمل قیس کو دیکھتے بے ساختہ قہقہے لگانے لگی۔

خان جی.. ہاہاہاہا آپ کتنے فنی لگ رہے

ہاہاہا وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے دہری ہوئ جا رہی تھی۔

ادھر آؤ خان جی کی بچی میں بتاتا ہوں تمھیں قیس نے مصنوعی غصے سے کہا۔

ارے نہیں خان جی نہیں کہتے وہ کمرے میں بھاگی۔ قیس بھی اس کے پیچھے کمرے کی طرف بڑھا۔ نمل کبھی بیڈ پر تو  کبھی صوفے پر کود رہی تھی اور قیس سے کہ رہی تھی۔آپ ہمیں نہیں پکڑ پائیں  گے خان جی

اچھا تو ایسا ہے قیس نے ایک ہی جھٹکے میں نمل کو  پشت سے پکڑے اپنے سینے سے لگایا۔اپنی ٹھوڑی اس کے کندھے پر رکھتے ہلکے سے اس کے کان کی لو کو چھوا۔نمل کی سانسیں اتھل پتھل ہونے لگیں۔ اور وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ اس کا چہرہ گلاب جیسا سرخ ہونے لگا ۔قیس نے نمل کا رخ اپنی طرف کیا اور زندگی سے بھرپور اس خوش کن نظارے کو آنکھوں میں بسایا ۔

 قیس نے خود کو سنبھالتے ہوئے نمل کو نارمل کرنے کے لیے اس کی ناک کھینچی اور کہا ۔ اب بتاؤ کہاں بھاگو گی اب یہ سارا میک اپ میں نمل کے منہ پر لگاؤں گا۔

ہاہاہا نہیں خان جی پھر میں بھی بھوتنی بن جاؤ گی اور آپ  مجھ سے ڈر جائیں گے نمل نے بیچارہ سا منہ بناتے کہا۔

نہیں آج میں یہ میک اپ آپ کے فیس پر ضرور لگاؤں گا

قیس نے بولتے ہوۓ اپنے گال نمل کے گال سے مس کیے۔

پلیز خان جی نہیں کرے نہ

گدی گدی ہوتی ہے

ہاہاہا

گدی گدی کی بچی اب بتاتا ہوں

اس سے پہلے کہ قیس پھر سے نمل کے چہرے سے اپنے گال مس کرتا 

نمل نے  قیس کو دھکا دے کر بھاگنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں وہ دونوں الجھ کر بیڈ پر ایک دوسرے کے اوپر گرے۔ 

قیس کے ہونٹ بے ساختہ نمل کے ہونٹوں سے تکرائے ۔

نمل نے سختی سے آنکھیں بند کیں۔

جب کے قیس کے دل کی دھڑکنیں بے ساختہ بڑھی ۔

قیس جلدی سے پیچھے ہٹنے کی کوشش میں اک بار پھر نمل کے ڈوپٹے سے الجھتے نمل کے اوپر گرا اور اب اس کے ہونٹ نمل کے رخسار سے ٹکرائے ۔ 

نمل جو قیس کو اٹھتا دیکھ کر آنکھیں کھول چکی تھی

اب پھر آنکھیں زور سے میچ گئی۔

اور قیس تو اس اچانک افتاد پر بوکھلا کر رہ گیا اور دونوں کی دھڑکنیں طوفان برپا کرنے لگیں۔ 

سونے پر سھاگہ قیس کے پوکٹ میں رکھے  فون کی ایمرجنسی بیل بجی

قیس جو پہلے ہی گھبرایا ہوا تھا

ایمرجنسی بیل سن کر اور گھبرا گیا۔

یہ بیل صرف تب ہی ہوتی تھی

جب اس کا رائٹ ہینڈ مشکل میں ہوتا تھا

او گاڈ کہا پھنس گیا میں قیس نےویسے ہی لیٹے تھوڑا اوپر ہوتے پوکٹ سے سیل نکالا اور کان سے لگایا۔

ہاں خیریت 

ارے ہاں میں نے ویسے ہی کال کی

دفعہ ہوجاؤ ویسے کال کرنی تھی تو ایمرجنسی والے نمبر سے کیوں کی قیس ہلکی آواز میں غرایا۔

 او ہو سر جی غلطی ہوگی

قیس کال کاٹتا موبائل بیڈ کے اک طرف پھنکتا نمل کو دیکھنے لگا جو آنکھیں بند کیے ایک سائیڈ سے تھوڑی سی آنکھ کھولے چوری چوری قیس کو دیکھ رہی تھی

خان جی پلیز اٹھ جائیں ہمارے دل کو کچھ ہو رہا ہے نمل  کی بات  سن کر قیس  دھیما سا مسکرایا ۔

لیکن نمل کے ہونٹوں اور گالوں پر لگی لپ سٹک دیکھ کر اس کا قہقہہ بے ساختہ نکلا تھا۔

خان جی کیا ہوا نمل نے حیرت سے پوچھا

اوکے اوکے میں اٹھتا ہوں

قیس اٹھنے کی کوشش کرتا ایک بار پھر دھڑم سے نمل کے اوپر گرا ۔

اب کی بار نمل کا قہقہہ بھی قیس کے قہقہے میں شامل تھا۔

خان جی وہ ہمارے ڈوپٹے کی وجہ سے ہو رہا ہے وہ ہمارے نیچے ہے 

آپ ہمیں اوپر گھمائیں  

نمل کی بات  سنتے قیس کا قہقہہ رکا

نمل کی اس قدر قربت پر قیس کی دھڑکنیں رک رک کر چل 🤫 رہی تھیں

جب کہ نمل کو تو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ قیس پر کیا بیت رہی ہے خان جی کہاں کھو گۓ

گھمائیں مجھے

اچھا کہتے قیس نے نمل کی کمر میں ہاتھ ڈال کر تھوڑا اوپر اٹھاتے اسے گھمایا  

اب سیچویشن کچھ ایسی تھی کہ قیس کے اوپر لیٹی نمل کے کھولے بال قیس کے منہ پر آ رہے تھے

خان جی آپ بال سنبھالیے (وہ کمرشل سنی ہو گی آپ نے  

زویا جی آپ اپنے بال سنبھالیے  گرمی پسینہ کہیں ان کی شان و شوکت نہ بگاڑ دے🤣🤣🤣🤣

ادھر وہ حال تھا خان جی بال سنبھالیے کہیں ان کی خوشبو آپ کی ہوش و حواس نہ بگاڑ دے😂😂😂😂😁😁😁😁

یہ جسٹ فن کے لیے ایڈ کیا😉😉😄😜) 

ہم ڈوپٹہ نکالتے ہیں 

خان  نےنمل کے بالوں کو ایک سائیڈ سے پکڑا

اور نمل اپنے ہاتھ سے ڈوپٹہ نکالنے کی کوشش کرنے لگی بل آخر 5 منٹ کے بعد نمل ڈوپٹہ نکالنے میں کامیاب ہو گئ ۔

او شکر خان جی ہو گیا

تبھی قیس نے مسکراہٹ چھپائے نمل کا ہاتھ پکڑتا اسے شیشے کے سامنے کیا

ہاۓ خان جی یہ کیا کیا آپ نے

جب کہ خان کے قہقہے دیکھنے لائک تھے

نمل نے خان کو پہلی دفعہ اتنا ہنستے دیکھا تھا

وہ بے ساختہ دل میں ماشاءاللہ کہ اٹھی

خان جی چلیں میرا منہ دھو کر لائیں اب

جیسے آپ نے گندہ کیا ہے اور جو میرا سارا چہرہ اپ نے خراب کیا وہ

اوہ تو آئیں نہ ہم اپ کا چہرہ صاف کر دیتے ہیں 

اوکے

قیس نے  بہت شرافت کے ساتھ نمل کا چہرہ صاف کیا۔

لیکن نمل کو مستی چڑھی ہوی تھی تبھی قیس کا چہرہ صاف کرواتے

اس کے منہ پر پانی پھینکا۔

گڑیا بعض آ جاؤ ورنہ پھر ۔۔۔۔۔۔۔

نہیں نہیں خان جی

ہم جا رہے ہیں کہتے اس نے  باہر کو دوڑ لگا دی۔

بلا شبہ نمل قیس کی زندگی کی وہ بہار تھی جس نے قیس کو جینا سیکھایا تھا

پیچھے قیس  شیشے میں اپنے چہرے سے بہتا میک اپ دیکھ کر خود ہی ڈر گیا تھا

ہاہاہا

                 ....... ❣️❣️❣️.......

Next day

رمل کہاں ہوں تم

ہاں پارٹنر میں بس تھوڑی دیر میں فلیٹ پر پہنچ جاؤں گی

نہیں فلیٹ میں نہیں رنگ میں آؤ

لیکن پارٹنر

رمل جلدی 

اوکے

رمل جیسے ہی فائٹنگ ایریا میں داخل ہوئی قیس اک سانڈ کے ساتھ مقابلہ کر رہا تھا

او..... آج اگر فائیٹ تھی تو پہلے بتاتے نہ

آدھی گزر گئ

قیس نے رمل کو دیکھتے اپنے ساتھی سے رکنے کا بولا۔

آؤ رمل رنگ میں آ جاؤ

ابھی آئ بوس

ہممم جاو احمد لیزا کو بلا لاؤ

اوکے

2 منٹ بعد لیزا رنگ میں داخل ہوئی 

کالے رنگ کی موٹے سانڈ جیسی لڑکی وہ شکل سے ویسٹ انڈیز کی پیداوار لگ رہی تھی

اوکے تو فائٹ سٹارٹ کرو

اور احمد تم رمل کو گھر ڈراپ کر دینا 

اوکے سر

لالہ لیکن میں کیا

کیا غلطی ہوئ مجھ سے

گڑیا کو میک اپ سکھانے کا آئیڈیا اچھا تھا۔قیس نے دانت کچکچاتے کہا 

لالہ کچھ رحم کریں  اس کا سائز دیکھیں یہ مجھے کچل دے گی

رمل یو کین ڈو.... 

قیس کہتے ہوئے باہر کو بڑھ گیا 

لیزا نے رمل کو پکڑنے کی کوشش کی 

لیکن رمل کبھی ادھر بھاگ کبھی ادھر اس کے ہاتھ کے نیچے سے نکل جاتی  تقریباً 5 منٹ یہی  سب چلتا رہا لیکن جب کوئی اور راستہ نہ نظر آیا تو رمل نے لڑائی کا فیصلہ کرتے اس موٹی کالی لیزا کو للکارا۔ 

ادھر آ موٹی تینوں میں دسا

تو  نے مجھے ہلکے میں لے لیا

رمل اس کے گھٹنے پر پاؤں رکھ کر

اس کے سر پر سوار ہو گئی اور اسے سر سے پکڑ کر اتنے زور کا جھٹکا دیا کہ وہ بچاری منہ کے بل نیچے گری تھی

گرتے ہی اس کے دانت منہ سے باہر تھے

ہائے نی میری مو ٹو

دانت تڑوا لیے نہ

اوۓ احمد اٹھا یہ کچرا

اس سے پہلے کے رمل رنگ سے باہر نکلتی لیزا نے نمل کا پاؤں کھنچا اور یہ رمل خود بھی نیچے

اوۓ سانڈ مار دیا  

رمل کی کمر پر زور سے لگی تھی 

میں نے سوچا تھا موٹی تجھے اتنے میں چھوڑ دوں گی لیکن تو اب بھگت

رمل نے اس کے اپر بیٹھ کر 4، 5   گھوسے اس کے منہ پر مارے جب اچانک پیچھے سے کسی نے آ کر کہا۔

ارے بس کرو باجو کیوں موٹو کی جان لینی ہے

بے بی چھوڑ دو مجھے اس کی وجہ سے میری کمر میں اتنا درد ہو رہا ہے

ارے باجو چلیں چلیں۔ آپ کو اپنے حان کے پاس بھی جانا ہے نا ۔

او ہو میں تو بھول گئ۔ یہ کہتے ہوئے رمل اس انجان شخص کے ساتھ چلی گئی۔

                    ....... ❣️❣️❣️......

آج ملحان کو یونی پڑھاتے اک ماہ ہو چکا تھا 

جہاں ملحان کو کسی پرابلم کا سامنہ ہوتا وہی رمل ڈٹ کر مقابلہ کرتی... 

لیکن پچھلے اک ہفتے سے رمل نے ملحان کو تنگ کر رکھا تھا... 

رمل اک لیکچر لینے کے بعد جس کلاس میں ملحان کی کلاس ہوتی اسی کلاس میں جا کر بیٹھ جاتی

آخر یونی جو اس کے باپ کی تھی .اتنی اکڑ تو بنتی تھی.... 

پورے لیکچر کے دوران وہ ملحان کو گھورتی رہتی.... جیسے ملحان نے ر مل کا کچھ چرا لیا ہو... 

چرا تو واقعی ہی لیا تھا😉😉😉 

ہو.... آج ملنا ضروری ہے

ہوووو 

آج ملنا ضروری ہے 

آج کہنا ضروری ہے 

کہ رمل کو پیار ہوا ہے 

یونی سے واپسی کے وقت رمل مزے سے ملحان کے کیبن کی طرف بڑھی اور وہاں بیٹھے پروفیسر صاحب کو اگنور کرتی بڑے پیار سے ملحان سے بولی... 

چلیں استاجی آج آپ کے ساتھ چاۓ پینی ہے ہمیں.. 

ملحان بیچارہ تو پروفیسر صاحب کا منہ ہی دیکھتا رہ گیا. 

ارے استاجی ان کی طرف مت دیکھیں ان کے پیغام میڈم شبانہ تک میں ہی پہنچاتی ہوں کیون پروفیسر جی

جی جی پروفیسر بھی بولتا ہوا کیبن سے نکل گئے.. 

تبھی ملحان نے دل میں سوچا اللہ یہ رمل تو بہت خطرناک ہے... 

جی استاجی آپ سہی سوچ رہے ہیں اپن بہت خطرناک ہے 

چلیں اب... 

رمل ملحان کا ہاتھ پکڑے باہر کی طرف بڑھی تبھی ملحان کی گھبرائ ہوئ آواز سن کر رکی۔

پلیز رمل جی ہاتھ چھوڑ دیں سب کیا کہیں گے... 

کیا کہا آپ نے دوبارہ بولیں زرا۔۔۔

سوری وہ پلیز ہاتھ چھوڑ دیں. 

ارے نہیں میرا نام کیا لیا

ررمل ج جی.... ملحان کے رک رک کر بولنے پر رمل نے زور دار قہقہہ لگایا۔

ہاۓ رمل صدقے جاۓ آپ کے جی پر

اپنی جند جان ہی وار دے... 

باقی ر ہی ہاتھ چھوڑنے کی بات چلیں یہ وقتی طور پر چھوڑ دیتے ہیں..... 

معانی خیز انداز میں بولتے باہر کی طرف بڑھی... 

ملحان بھی رمل کے پیچھے پیچھے ہی چل پڑا جب رمل کے بے ساختہ بریک لگانے پر اس سے ٹکرا گیا.. 

او سوری سوری... وہ

ارے کوئ بات نہیں سر جی 

اپنی گاڑی کی چابی دیں

لیکن وہ مجھے تو ڈرائیور چھوڑنے آتا ہے

واٹ ڈرائیور 

جی 

پر وجہ 

وہ وہ مجھے ڈرائیونگ نہیں آتی 

رمل پر سوچ انداز میں سر کی طرف دیکھتے ہوۓ اپنی گاڑی کی طرف بڑھی 

چلے پھر آ جائیں۔میری بائیک پر چلتے ہیں... 

ارے نہیں نہیں ہمیں بائیک پر نہیں بیٹھنا ۔اماں گھر میں ہمارا انتظار کر رہی ہوں گی وہ پریشان ہو جائیں گی پلیز رمل جی 

رمل تو ملحان کے رمل جی کہنے پر ہی فدا ہوئے جا رہی تھی۔

ہاۓ آپ کا اتنے پیار سے ہمارا نام لینا...... 

ہاں ننھے کاکے ہو نہ آپ جو اماں پریشان ہوں گی.... ویسے کاکے ہی لگتے ہو حرکتوں سے... 

دل میں سوچ کر مسکراہٹ چھپائی... 

چلیں کل آپ نے اپنی اماں سے اجازت لے کر آنی ہے پھر ہم چلیں گے چاۓ پینے.... 

لیکن رمل جی میں چاۓ نہیں پیتا

واٹ

بلکل ایلین جیسے لگتے ہو.... 

یہ بھی دل میں سوچا ۔

ٹھیک ہے ہم کچھ اور پی لیں گے آپ نے پوچھ کر آنا ہے.

تبھی ملحان کا ڈرائیور ملحان کو بلانے آیا چلیں صاحب جی گاڑی آ گی ہے

ملحان کے رمل کی طرف دیکھنے پر رمل  نے ہاں میں سر ہلایا 

جیسے رمل کی اجازت ملحان کے لیے بہت ضروری تھی. 

                          💖💖

ملحان کے گاڑی میں بیٹھنے پر رمل کھل کر مسکرائی... 

میرا بدھو دلدار

واہ رمل دل بھی ہارا تو کہاں.... 

               ........ ❣️❣️❣️.....

ماں کی گود میں سر رکھ کر اپنے پورے دن کی روداد ماں کو سنانے والی ملحان کی عادت بلکل نہیں بدلی تھی... 

گھر داخل ہوتے ہی ملحان اپنی ماں کی طرف بڑھا ... ان کے دونوں ہاتھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگایا۔

جی ماں جی... 

کھانا لگاؤں اپنے بیٹے کے لیے... 

بھوک لگی ہو گی 

جی مورے لگا دیں ہم آپ کے ہاتھ سے ہی کھائیں گے... 

او میرا بیٹا کب تک مورے کے ہاتھ سے ہی کھاۓ گا.. 

مورے جب تک بھابھی نہیں آجاتی

پیچھے سے آتے عارب نے تنزیہ یہ لائن بولی تو مومنہ بیگم کے منہ پر مسکراہٹ آ گئی بنا عارب کا تنز سمجھے .... 

میرا بدھو بیٹا شادی کرے تو نہ۔

شادی کے نام پر ملحان کی آنکھوں میں رمل کا سراپہ لہرا گیا... 

لیکن اس کے حلیے کا سوچ کر ہی بے ساختہ جھر جھری لی... 

کیا سوچ رہا ہے میرا لال 

کچھ نہیں مورے چلیں کھانا کھلائیں آپ کو کچھ بتانا بھی ہے اوکے تم روم میں جاؤ میں وہی آتی ہوں کھانا لے کر... 

جب تک ملحان فریش ہو کر آیا ہے مومنہ بیگم کھانا لے آئیں 

ہاں جی بتاۓ آج کیا خا ص کیا آپ کی رمل جی نے... 

وہ مما آپ کو پتا آج رمل جی نے مجھے چاۓ پر لے جانے کا بولا

پوری دنیا کے سامنے اڑ ڑ کر بولنے والا ملحان ماں کے سامنے بن بریک بولتا تھا... 

اچھا جی پھر

مورے آپ مسکرائیں  تو نہ

ارے نہیں نہیں میں کہاں مسکرا رہی ہوں آپ بتائیں 

آپ گۓ کیوں نہیں پھر

مورے ایک تو ہم نے آپ سے اجازت نہیں لی تھی اور پھر ہمارے پاس گاڑی بھی نہیں تھی.... رمل جی تو بائیک پر چلنے کا بول رہی تھی لیکن آپ کو پتا ہمیں بائیک دیکھ کر ہی ڈر لگتا ہے بیٹھنا تو دور کی بات

ملحان کی بات سن کر مومنہ بیگم کو اپنے سیدھے سادھے بیٹے پر بے ساختہ پیار آیا۔

 ماں کا چاند اب کیا کہوں میں آپ سے... 

ارے مورے سنیں نہ

پھر رمل جی نے ہمیں کہا کہ ہم اپنی مورے سے اجازت لے کر آئیں... 

لیکن مورے ہم نہیں جائیں گے وہ تو بائیک بھی بھت تیز چلاتی ہیں 

ملحان آپ جاؤ گے مومنہ بیگم نے فوراً کہا۔

لیکن مورے۔۔۔

ملحان صبح جب ڈرائیور آپ کو یونی چھوڑنے جائے گا 

آپ ان سے گاڑی کی چابی لے کر اپنے پاس رکھ لینا

ہمیں پورا یقین ہے آپ کی رمل جی کو گاڑی چلانی آتی ہو گی

ہاں نہ ماں رمل جی کو سب کام آتے ہیں

بس بس میرا بیٹا اب آپ تھوڑی دیر ریسٹ کر لو مورے کیچن میں کام دیکھ لے... 

ٹھیک ہے مورے.... 

                    ❣️❣️❣️

اگلے دن لیکچر کے بعد رمل ملحان کے پاس گئی  چلیں حان

جی ہا مورے کہتی تھی آپ چلے جاؤ

ہم اپ کے ساتھ جائیں گے

لیکن رمل جی یہ لیں گاڑی کی چابی ہم گاڑی پر جائیں گے

رمل کو اندازہ تھا کہ کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے 😁

اوکے اوکے ہم گاڑی پر ہی جائیں گے

رمل ملحان کو کیفے لے جانے کی بجاۓ اپنے فلیٹ پر لے آئ تھی

یہ ہم کہاں آ گۓ رمل جی

رمل نے  جیسے ہی فلیٹ کی لائٹس اون کی پورا فلیٹ غباروں، پھولوں سے سجایا گیا تھا

Happay birthday 🎂 han G

Many many happy return of the day

حان کو آج تک کسی نے ایسے birthday وش نہیں کی تھی اس کا تو خوشی سے برا حال تھا

واؤ رمل جی ہماری birthday واؤ آپ کو کیسے پتا

وہ بلکل ایک بچے کی طرح کر رہا تھا

رمل کو سب پتا ہوتا ہے رمل نے فخر سےکالر اٹھا کر کہا ۔ چلیں حان جی کیک کاٹتے ہیں۔

کیک کاٹتے رمل نے  حان کو کیک 🍰 کھلایا۔

اب مجھے بھی کھلائیں رمل نے منہ بنا کر کہا۔

 آپ خود کھا لیں نہ رمل جی مجھے شرم آتی ہے۔

حان جی آپ اپنی birthday کے دن مجھے ناراض کریں گے؟

 نہیں نہیں میں کھلا رہا ہوں

اس نے  چھوٹا سا پیس رمل کی جانب بڑھایا جو رمل نے جلدی سے کھا لیا اور ملحان کی انگلی آہستگی سے دانتوں میں لی ۔ملحان کی بے ساختہ چیخ نکلی جس پر رمل کا قہقہ گونجا۔

یہ لیں حان یہ آپ کا گفٹ

رمل نے  اک پیک شدہ گفٹ حان کی جانب بڑھایا۔

کیا ہے اس میں؟ ملحان نے تجسّس سے پوچھا۔ آپ خود دیکھو رمل نے عام سے انداز میں جواب دیا۔

اس گفٹ میں اک بہت خوبصورت رسٹ واچ تھی

جو رمل حان کی کلائ پر باندھ چکی تھی

دیکھو کتنی پیاری لگ رہی ہے رمل نے خوشی سے کہا 

لیکن رمل جی ہم یہ کیسے لے سکتے ہیں؟

کیوں نہیں لے سکتے رمل نے ملحان کو گھورتے ہوئے کہا۔ 

جی جی لے لیتے ہیں 

رمل کے غصہ سے بولنے پر وہ جلدی سے بولا تھا

اور یہ کارڈ بھی تمھارے لیے حان

اس میں کیا ہے

دیکھو 

کارڈ کھولتے ہی حان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گرا تھا

کارڈ پر 

Ramal 💘 loves han g

لکھا ہوا تھا

رمل جی آپ مزاق کر رہی ہیں نہ

ہے 

کیا ہوا 

رمل جی یہ

اچھا آپ مزاج کر رہی ہیں 

سچ میں آپ بہت فنی ہیں 

ہم اینویں ڈر گئے تھے

تبھی رمل نے  آنکھوں میں جنون لیے ملحان کا کالر پکڑا تھا

آپ کو ہماری محبت مذاق لگ رہی ہے... دیکھیں ان آنکھوں میں اور بتائیں کیا نظر آ رہا ہو آپ کو؟

ارے محبت کرنے لگی ہوں آپ سے میں بہت محبت رمل کے  چلانے پر ملحان کی طبعیت بگڑنے لگی... 

ملحان کی سانسس رک چکی تھی

O My God Han... where is your inhelor ?

Han plz tell me 

وہ گاڑی میں..... 

گاڑی کا نام سن کر رمل کی آنکھیں باہر کو آگئیں کیوں کہ وہ لوگ اس وقت عمارت کی آخری منزل پر تھے

اور لفٹ کے ذریعے بھی رمل کو 5 منٹ سے زیادہ ٹائم لگ جانا تھا 

تبھی رمل اک سکینڈ میں فیصلہ کرتے ہوۓ ملحان کو مصنوعی سانس انہیل کرنے لگی.... کچھ دیر بعد ملحان کی طبیعت سنبھلی تو رمل اپنا سر پکڑے بیٹھ چکی تھی... 

بیشک رمل کافی بولڈ تھی لیکن آج تک اس نے کبھی کسی لڑکے کو اپنا ہاتھ پکڑنے کی بھی اجازت نہیں دی تھی... 

اور اب اچانک سے یہ سب... 

ملحان نے  رمل کو سر پکڑے دیکھا تو بولا

Am sorry Ramal G 

پتا نہیں ہم کیسے انھیلر رکھنا بول گۓ 

اٹھو حان اور چلو میرے ساتھ... 

رمل کسی فیصلے پر پہنچتے حان کو یونی چھوڑ واپس چلے گئی.......

انابیہ کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد 

عارب پاگل ہوا پھر رہا تھا۔

شکورے پتا کراؤ کون لڑکی ہے وہ

مجھے ہر حال میں وہ لڑکی چاہیے 

کیا یار اتنی لڑکیاں ہیں اللہ جانے کون تھی

شکورے اگر صبح تک اس لڑکی کا پتا نہیں کیا تو تیری خیر نہیں۔ 

اچھا یار کچھ کرتا ہوں شکورے نے جھنجھلا کر کہا۔

ایک تو اس سالے کو سہی لڑکیوں کا چسکا لگوایا ہے

اب سالہ لڑکی دیکھتے ہی رال ٹپکانے لگ جاتا ہے

چل شکورے چھوڑ جاسوسی پر بندے صبح تک کہی دانا پانی نہ بند ہو جائے 

.......... 

‍رمل آپو کہاں ہیں آپ...

کیوں کیا ہوا؟

آپو آپ کو پتا نہ آج قیس لالہ کا birth day ہے۔ انابیہ نے رازداری سے کہا۔

ہاں میں جانتی ہوں اور سب تیاری بھی کر چکی ہوں...

تیاری لیکن کہاں۔انابیہ حیران رہ گئی۔

شہر والی حویلی میں یار اور کہاں

تم کسی طرح لالہ کو اور نمل جانو کو ادھر لے آؤ۔ میں  مورے کو کال   چکی ہوں وہ لوگ بھی پہنچنے والے ہوں گے 

اور ہاں میری الماری میں نمل اور قیس کے ڈریسز پڑے ہیں. 

جی جی آپو میں سمجھ گئ 

میں نمل اور لالہ کو انہی ڈریس میں لے کر آؤں گی۔انابیہ نے بات سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

تمھارے پاس 1 گھنٹہ ہے

اوکے آپو... 

          ..... ❣️❣️...... 

نمل آپو.... کدھر ہیں آپ. انابیہ نے پوچھا۔

کیا ہوا بیو میں ادھر ہوں کچن میں 

او آپو آپ کیا کر رہی کچن میں پوچھتے ہوئے انابیہ کچن میں داخل ہوئی اور

کچن میں داخل ہوتے ہی اس کی ہنسی چھوٹ گئی

ہاہاہاہا نمل آپو اپ کو کس نے کہا کچن میں آنے کا... 

نمل شاید آٹا گوندھنے کی کوشش کر رہی تھی

اور یوں لگ رہا تھا اس نے خود آٹے والی ڈرمی میں چھلانگ لگا دی ہو

بیو تم ہنس رہی ہو

پہلے وہ تمھارے گندے لالہ مجھے آدھے گھنٹے کا کہہ کر ابھی تک نہیں آۓ اور ہمیں اتنی بھوک لگ رہی ہے نمل نے رونی شکل بناتے ہوئے کہا۔

ارے ارے بجو آپ کو بھوک لگ رہی ہے

چلیں آج آپ کو اچھی سی جگہ سے ٹریٹ دیتی ہوں

واؤ ٹریٹ۔ نمل خوشی سے چلائی۔

لیکن وہ تمھارے گندے لالہ جانے نہیں دیں گے نہ۔ساتھ ہی منہ بناتے نمل نے کہا۔

ارے لالہ سے میں پوچھ چکی ہوں 

آپ یہ ڈریس لیں اور پیارا سا تیار ہو جائیں ۔انابیہ نے ڈریس نمل کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔

واؤ میرا ڈریس تم لے کر آئ ہو ۔نمل کی آنکھوں میں ڈریس کو دیکھتے ایک الگ چمک آئی۔

ہاں نہ آپو تیار ہو جائیں۔ 

اوکے کہتے نمل تیار ہونے کمرے کی طرف چلی گئی ۔

اور ہاں بیو آپ نےںمیرا میک اپ کرنا ہے۔

میک کا کہتے نمل کے چہرے پر خوبصورت مسکان آئی جسے انابیہ نے بڑے غور سے دیکھا اور پھر پوچھا۔

ارے کیا ہوا

کچھ نہیں چلو۔نمل نے شرماتے ہوئے کہا

مجھے تیار ہونے میں مدد دو۔

آدھے گھنٹے میں بیہ.. نمل کو تیار کر چکی تھی

واؤ آپو 

ماشاءاللہ ❤️ بلیک کلر تو بنا ہی آپ کے لیے ہے

بلیک کلر کی پاؤں تک آتی میکسی پہنے، بالوں  کا جوڑا بناۓ کچھ بالوں کی لٹییں فرنٹ پر چھوڑے ہونٹوں پر ریڈ لپ سٹک لگاۓ بلیک ہی ہیل پہنے وہ کسی پری کی طرح لگ رہی تھی

اوکے آپو 

لالہ بس پہنچ ہی رہے ہیں 

آپ ان کا انتظار کریں میں بھی چینج کر لوں ۔ 

اوکے بیو.... 

انابیہ کو گۓ دس منٹ ہو چکے تھے لیکن قیس ابھی تک نہیں آیا تھا 

ہم بھی بات نہیں کریں گے ۔نمل نے تصور میں قیس سے کہا۔

کہہ کر گۓ تھے گڑیا.. پکا پرومس آدھے گھنٹے میں آ جاؤں گا لیکن دیکھو شام ہو گئ  اب تو ہمیں بھوک بھی اتنی لگی ہےبہم بلکل بات نہیں کریں گے

روم میں داخل ہوتے قیس نے نمل کے فقرے با خوبی سنے تھے

ارے میری چندہ ناراض ہو گئ

ہم ابھی اپنی چندہ کا منا.... 

نمل جو دوسری طرف چہرہ  کیۓ بیٹھی ہوئ تھی قیس کی آواز پر پلٹی اور قیس کے منہ سے الفاظ چھن چکے تھے

نمل تو سادگی میں اس کے دل پر قیامت ڈھاتی تھی آج تو وہ ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔

خان جی ہم بلکل بات نہیں کریں گے

ہم بتا رہے ہیں..آج ہم سخت ناراض ہیں 

لیکن قیس کچھ سنتا تو جواب دیتا

وہ ٹرانس کی کیفیت میں نمل کی جانب بڑھا تھا

کیا ہوآ خان جی آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں کیا ہم اچھے نہیں لگ رہے؟

 بیہ آپی نے کیا یہ سب... 

خان چلتے ہوۓ بلکل اس کے سامنے رک گیا وہ بنا پلک جھپکے نمل کو دیکھ رہا تھا۔

نمل یار مت کرو ایسے کیوں اپنے خان کی جان لے رہی ہو۔

قیس ٹرانس کی کیفیت میں بولا 

لیکن نمل کے پلے ایک بات نہیں پڑی ۔

قیس جیسے ہی نمل کے چہرے کی طرف جھکا نمل نے  قیس کو کندھوں سے پکڑ کو ہلایا ۔خان  ن ن ن ن جی یییییییی کیا ہوا۔۔

ہاں ہاں کیا ہوا۔ کچھ بھی تو نہیں 

قیس نے  بالوں میں ہاتھ پھیرتے ادھر اُدھر  نظر دوڑائ ۔

خان جی کیا ہو گیا آپ کو ابھی کیا بول رہے تھے آپ۔

ہم کہہ رہے ہم ناراض ہیں نمل نے برا سا منہ بنایا۔

او اچھا اور  گڑیا کیوں ناراض ہے؟

خان کافی حد تک خود کو نارمل کر چکا تھا

ارے آپ اتنے لیٹ آۓ او ہاں سچ خان جی 

بیو آئ تھی وہ مجھے یہ ڈریس پہنا کے تیار کر گئ اور انہوں نے کہا کہ آپ یہ ڈریس پہن لیں انہوں نے آج ہمیں باہر کھانا کھلانا ہے

او..... اچھاااا

تو اس لیے گڑیا نے آج یہ میک اپ کیا

ہاں جی 

دیکھیں اچھی لگ رہی ہوں نا۔

خان کی گڑیا ہمیشہ اچھی لگتی ہے اور اب اتنا اچھا لگنے پر انعام تو بنتا ہے نا یہ سن کر نمل بہت خوش ہوئی اور کہا جلدی سے دیں انعام۔

قیس آگے بڑھا اور نمل کے ماتھے پر اپنے لب رکھے۔قیس کی اس حرکت سے نمل کے چہرے کا رنگ بدلہ ۔

نمل نے جلدی سے بات بدلتے کہا 

ارے خان جی آپ کو تو تعریف بھی نہیں کرنی آتی

اچھا کیسے کرتے ہیں تعریف  قیس نے دلچسپی سے نمل کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھتے پوچھا۔

ارے آپ نہ بدھو رہنا خان جی. پرسوں نہ رمل آپو نہ موبائل پر نہ وہ دیکھ رہی تھی ارے وہ کیا ہوتا جس میں ہیرو ڈیشوں ڈیشوں کرتا 

مووی قیس نے بتایا۔

ہاں ہاں خان جی مووی 

تب مجھے آپو نے بتایا کہ وہ ہیرو اپنی گڑیا کی تعریف کر رہا تھا 

اچھا وہ کیسے؟

 ارے خان جی ہم کیسے بتائیں ہمیں شرم آتی ہے نا۔ 

شرم کا نام سنتے ہی خان سمجھ چکا تھا کہ رمل نے نمل کو کیا دیکھا 

رمل کی تو خیر نہیں اب خان نے دل میں سوچا تھا

گڑیا ہم تیار ہو جائیں پھر ہم نے بیو کے ساتھ بھی جانا ہے 

جی خان جلدی سے تیار ہو جائیں 

یہ لیں اپنا ڈریس 

نمل نے  بلیک کلر کا کرتا شلوار خان کی طرف بڑھایا تھا

10 منٹ میں خان شاور لے کر تیار ہو چکا تھا

چلیں نمل

ارے رکیں رکیں خان جی

کیا ہوا

خان جی آنکھیں بند کریں

کیوں کیا ہوا

خان جی کریں نہ

اوکے یہ لو

خان کے آنکھیں بند کرتے ہی نمل  نےباری باری اپنے ہونٹ زور سے خان کے رخساروں پر رکھے تھے

اور پھر پیچھے ہوتے قہقہہ لگاتے ہنسی 

نمل روک خان شوکڈ۔

خان تو بچارہ نمل کی حرکت پر کوما میں جا چکا تھا اسے کہاں امید تھی نمل سے ایسی حرکت کی

ہاہاہا خان جی

کل آپ نے ہمارے لپ سٹک لگائ تھی

آج ہم لگا چکے ہاہاہا 

روکو خان کہ بچی 

آج تمہاری خیر نہیں 

میری ساری تیاری خراب کر دی

ارے ارے خان جی نہیں نہیں ہمارا فیس گندہ مت کرنا

ہم اتنے پیارے لگ رہے ہیں

ہاں جی سارہ پیارا آپ نے ہی  لگنا ہے نا۔

خان کو ساتھ گندہ لے کر جانا 

خان نمل کے پیچھے بھاگتے ہوئے بولا تھا

ارے نہیں خان جی ادھر آئیں ہم صاف کر دیتے ہیں۔ 

اوکے جلدی کریں 

خان نمل کے ہاتھ میں ٹشو پکڑاتے ہوئے بولا۔

یہ لیں ہو گئ صاف... 

دیکھیں ڈن 😁

تبھی انابیہ فلیٹ میں داخل ہوئ ۔

ماشاءاللہ 

اللہ پاک جوڑی سلامت رکھے

بہت پیارے لگ رہے ہیں آپ دونوں ساتھ میں 

دیکھا نہ بیو ہم ہیں ہی اتنے سونے اور خان جی ہمارے ساتھ کھڑے اور بھی اچھے لگتے ہیں۔

نمل آپ آجکل کچھ زیادہ تیز نہیں ہو گئیں۔

ہاہاہاہا ہی ہی ہی  وہ تو ہم ہیں 

اوکے چلو دیر ہو رہی ہے

اوکے انابیہ لیکن جانا کہاں ہے؟

قیس نے انابیہ سے پوچھا 

ارے لالہ لگ جائے گا پتا چلیں اوکے چلو

....... ❣️❣️❣️.... 

بیہ حویلی کیوں لے کر آئ ہو؟

جیسے ہی وہ لوگ حویلی پہنچے قیس نے انابیہ سے پوچھا۔

ارے لالہ اندر تو چلیں 

قیس اور نمل جب  اندر داخل ہوۓ چاروں طرف اندھیرا تھا

اور بیہ بھی غائب تھی

قیس سمجھ چکا تھا ضرور یہ رمل کی کوئی شیطانی تھی

خان جی اندھیرا ہمیں ڈر لگ رہا ہے

اس سے پہلے کہ خان کوئی جواب دیتا

حویلی کی لائٹس روشن ہوئ 

اور ساتھ میں سب کی آوازیں 

Happy birthday qais 

Happy birthday dear Qais

نمل تو خوشی سے پاگل ہونے کو تھی

اور قیس نے  غصہ سے رمل کو گھورا تھا

قیس بیٹا رمل کو کچھ مت کہنا یہ سب ہمارا پلین تھا

ہمیں پتا ہے آپ birthday نہیں مناتے لیکن بیٹا اپنی مورے کی خوشی کے لیے

مورے کی بات سن کر قیس  نے ان کے ہاتھ  پکڑ کر چومے ۔

آپ کے لیے تو جان بھی حاضر ہے مورے

میرا لال چلو کیک کاٹتے ہیں۔

تبھی خولہ بیگم جلدی سے نمل کی جانب بڑھیں۔

ماں صدقے جائے میری بچی کیسی ہو 

خولہ بیگم کے اچانک نمل کو گلے لگانے سے نمل گھبرا گئی اور فوراً بولی۔

خان جی

ارے میں تمھاری ماں ہوں نمل بیٹا 

اپنی ماں سے نہیں ملو گی خولہ بیگم نے نمل کا رخ اپنی طرف کرتے کہا

لیکن نمل جلدی سے خولہ بیگم کو دھکا دے کر قیس کے سینے سے جا لگی۔

خان جی ہمیں نہیں جانا ان کے ساتھ 

اوکے اوکے آپ کہیں نہیں جا رہی قیس نے نمل کو نارمل کرتے کہا۔

آئیں ہم کیک کاٹتے ہیں 

قیس نمل کو لیۓ آگے بڑھ چکا تھا

پیچھے خولہ بیگم غصے سے کھول کر رہ گئیں۔

وہ کیک کاٹے بغیر واپس جا چکی تھیں

مجھ سے میری بچیاں چھین لی ہیں اس ونی نے اسے تو میں چھوڑوں گی نہیں خولہ بیگم نے غصے میں کھولتے سوچا ۔

خوشگوار ماحول میں سب نے ہنسی خوشی کیک کاٹا

قیس بیٹا ہمیں گاؤں واپس جانا ہے

مورے کچھ دیر تو اور رکیں... 

نہیں بیٹا کافی رات ہو گئ ہے

ٹھیک ہے مورے ہم آپ کو چھوڑ آتے ہیں. ارے نہیں بیٹا ہم ڈرائیور کے ساتھ ہی چلے جائیں گے 

آپ نمل کا دھیان رکھیں۔

جی مورے

قیس مورے کو گیٹ تک چھوڑنے آیا تھا

جب مورے نے ان سے کہا تھا

قیس بیٹا ہمیں اک بات کرنی ہے جی مورے  بولیں 

بیٹا ہمیں بھابھی کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے

آپ کو نمل کو اپنے رشتے کی سچائی بتا دینی چاہیے وہ بہت معصوم ہے اگر کوئی اور بتاۓ گا تو وہ بہت ہرٹ ہوں گی۔

جی مورے ہم  بس سہی وقت کے انتظار میں ہیں 

ٹھیک ہے بیٹا جیسا آپ کو بہتر لگے 

جی مورے

...... ❣️❣️...... 

آپو میں تھک گئی مجھے سونا ہے

او میری لاڈو چلو آپو آپ کو روم میں چھوڑ آۓ

روکو رمل میں خود ہی لے جاؤں گا

اور تم 5 منٹ بعد باہر گاردڈن میں میری بات سننا

اللہ خیر

اب تو میں نے کوئی کانڈ بھی نہیں کیا

جی آ جاؤں گی

جتنا نمل تھکی ہوئ تھی وہ 5 منٹ میں ہی سو چکی تھی

قیس نمل پر کمبل سہی کرتے. خود گارڈن کی جانب بڑھا تھا

تبھی رمل بھی وہاں آئ تھی

لالہ قسم سے ہمیں مورے نے کہا تھا

رمل ہم آپ سے کچھ نہیں کہہ رہے 

ہمیں پتا ہے آپ نے ہماری خوشی کے لیے سب کیا لیکن رمل ہمیں خوشیاں ادھوری پسند نہیں اور اس کے بغیر تو بلکل بھی نہیں

ارے لالہ 

اپ ابھی رمل دی گریٹ کو جانتے نہیں 

آپ کی خوشیاں ادھوری نہیں رہی

ہم نے انہیں بھی آج بہت خوش رکھا

رمل اسے دکھ مت دینا کبھی

پارٹنر آپ ٹنشن مت لیں 

ہم سنبھال لیں گے

ہممممم

اور رمل کل تم سکوٹی (بائیک ) کے بغیر جاؤ گی

لیکن لالہ

لالہ یہ تو بتا دیں کس بات کی سزا ہے

نمل سے اپنا موبائل دور رکھو

ہاہاہاہا

اوکے پارٹنر

                           ..... ❣️❣️❣️.......

کل 10 بجے

ہاں شکورے بول 

یار زیادہ تو نہیں بس اتنا پتا چلا ہے کہ وہ اسی یونی میں پڑھتی ہے جس میں تم نے ایڈمیشن لے کر چھوڑ دیا تھا

مطلب بھائی والی یونی میں 

ہاں اسی میں 

اور بتا نام کا پتا چلا

ہاں انابیہ نام ہے اس لڑکی کا

اوکے چل پھر آج تیرا یار یونی جا رہا

او عارب یار چھوڑ اس لڑکی کو

اوۓ نہیں شکورے وہ سیدھا دل پر لگی ہے

اب تو اس کا نقاب تیرا یار اپنے ہاتھوں سے اتارے گا

چل جو دل کرتا ہے وہ کر

اوکے کہتے اس نے فون رکھ دیا۔

بلیک شرٹ اور بلیک پینٹ پہنے وہ اپنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیۓ یونی میں داخل ہوا۔ 

ارے یار اس لڑکی کا ڈیپارٹمنٹ تو پتا نہیں کہاں ڈھونڈوں اب۔

چل یار ہو جا شروع کہیں تو ہو گی

1 گھنٹہ لگاتار گھوم گھوم کر وہ تھک چکا تھا۔ لیکن اسے کہیں بھی انابیہ نظر نہیں آئی۔

تھک ہار کر وہ ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔

چل یار میں اگر آج یونی آ ہی گیا ہوں تو اپنی کلاس ہی لے لیتا ہوں یہ سوچتے 

ہوئے وہ  میتھس ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھا۔

کلاس روم میں داخل ہوتے ہی اس کی آنکھیں چمکیں۔

وہ لڑکی فرنٹ چئیر پر بیٹھی پوری توجہ کے ساتھ لیکچر لکھنے میں مگن تھی  لیکن جلد ہی اس کے ماتھے پر بل پڑے جب ساتھ والے لڑکے کو انابیہ کے ہاتھوں پر نظریں جماۓ دیکھا۔

اسے پتا نہیں کیوں بہت برا لگا تھا

جی آپ کون تبھی سر کے بلانے پر اپنا نام بتایا۔

نام سنتے ہی قمر نے اسے سرد نظروں سے گھورا۔

اپ کو پتا ہے عارب بچے کلاسز سٹارٹ ہوۓ اک ماہ ہوگیا اور اپ اب آ رہے ہیں یونی

جی جی وہ سر جی بس کچھ گھریلو مسلہ تھا

اوکے نیکسٹ ٹائم ایسا نہیں ہونا چاہیئے 

آپ بیٹھیں

کلاس میں سب چئرز فل تھیں

سر جی وہ ادھر سیٹ نہیں 

اوکے سی آر اپ ان کے لیے فرنٹ پر چیر لگوا دیں

اوکے سر

اوکے کلاس کل ملتے ہیں اور آپ لوگ اسائنمنٹ کے لیے گروپ فائنل کر کے مجھے نیم بھیج دینا 

اوکے سر جی

سر کے کلاس سے باہر جاتے ہی افراتفری مچ گئی۔

عارب بہت سکون سے سی آر کی چئر اٹھا کر انابیہ کے ساتھ رکھتے بیٹھ گیا ۔

سی آر کے دیکھنے پر کہنے لگا۔

چل تو اور لے آ

سر نے کہا تو سی آر بچارہ اس کا منہ تکتا رہ گیا

تبھی وہ انابیہ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا ۔

ہاۓ ایم عارب خان اینڈ یو

انابیہ اس پر اک سرد نگاہ ڈالے کلاس سے باہر کو چل دی ۔

پیچھے قمر، عارب کو تنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے انابیہ کے پیچھے بڑھا ۔

انابیہ اور قمر کو ساتھ 1 ماہ ہو چکے تھے نہ کبھی انابیہ نے قمر کو بلایا تھا نہ ہی قمر نے انا بیہ کو لیکن قمر ہر اسی جگہ پایا جاتا تھا جدھر انابیہ ہو

پیچھے عارب کا غصے سے برا حال تھا

وہ غصہ ضبط کرتے انابیہ کے پیچھے گیا

انابیہ کنٹین سے چاۓ لیتی اپنی فیورٹ پلیس پر بیٹھ چکی تھی

لیکن اس سے پہلے کہ وہ بیٹھتی

عارب غصے میں اس کی جانب بڑھا 

رمل کے ہاتھ سے کپ چھوٹ کر  چائے اس کے پاؤں پر گری تھی

آہہہہہہہ



عارب کے کچھ بولنے سے پہلے ہی

مال والا لڑکا ادھر آ چکا تھا

ٹوپی والے لڑکے نے عارب کے منہ ہر ایک موکا مارا اور اس کے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی اس کی گردن کی مخصوص نس دبا دی ۔

عارب بے ہوش ہو کر ایک طرف گرا۔

ٹوپی والے لڑکے نے سکتے میں کھڑی انابیہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے یونی کی بیک سائڈ پر اک خالی روم میں لے گیا 

انابیہ کو ادھر بیٹھا کر خود باہر کی طرف بھاگا۔

ٹھیک 2 منٹ بعد وہ ہاتھ میں ٹیوب پکڑے واپس آیاجب وہ انابیہ کے پاؤں کو ہاتھ لگانے لگا تب انابیہ کا سکتا ٹوٹا 

نہیں نہیں میں خود کر لوں گی پلیز

لیکن اس نے  کچھ بھی بولے بغیر

انابیہ کا  گاؤن تھوڑا سا اوپر کئے اس کا پاؤں  اپنے گٹھنے ہر رکھا اور بہت آرام سے اس کے پاؤں ہر مرہم لگایا ۔

دوسرے پاؤں پر مرہم لگاتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔

انابیہ نے اچانک اس کا ہاتھ پکڑا

لیکن جیسے ہی اس  اجنبی نے انابیہ کی طرف دیکھا اس نے فورن ہاتھ چھوڑ دیا 

وہ وہ مجھے اتنا تو پتا چل گیا کہ اپ مجھے نقصان نہیں پہنچائیں گے لیکن آپ کون ہیں اور بولتے کیوں نہیں اور یہ آپ نے چہرہ کیوں چھپایا ہوا ہے؟

اجنبی کچھ بھی بولے بغیر انابیہ کا ہاتھ پکڑے اسے یونی سے باہر لے گیا اور

اسے گاڑی میں بٹھا کر خود وہ انا کا بیگ اس کا موبائل اور فائل اٹھا لایا ۔

انابیہ اس کے ہاتھ میں اپنی چیزیں دیکھتی مسکرا دی۔

انابیہ کو اس کے فلیٹ کے سامنے ڈارپ کر کے جانے لگا ۔ انابیہ ایک دم بولی 

کچھ نہیں بتانا چلو اپنا نام بتا دو میں کیسے بلاؤں گی آپ کو

لیکن پھر بھی کچھ بولے بغیر

گاڑی کا گیٹ کھول کر اس اجنبی نے اسے اندر کی جانب بڑھنے کا اشارہ کیا 

تبھی انابیہ غصے سے بڑبڑائی۔ لگتا ہے َگونگا بولا ہے

میری کوئی سنتا ہی نہیں 

انابیہ کی بڑبڑاہٹ اس  اجنبی نے غور سے سنی تھی

اور بہت مشکل سے اپنا قہقہہ کنڑول کیا ۔

جب تک انابیہ نے  لیفٹ کے زریعے اوپر جا کر اپنی کھڑکی سے کرٹن نہیں ہٹا دیے تب تک وہ اجنبی ادھر ہی کھڑا رہا 

انابیہ کو کھڑکی سے دیکھتے ہی اس نے گاڑی میں بیٹھںکر گاڑی آگے بڑھا دی تھی

ہیلو ہاں احمد

عارب کو ہوش آ گیا

اوکے اسے کچھ کہنا مت چھوڑ دو

ہممم میں خود دیکھ لوں گا

اوکے.... 

اپنے ہاتھوں پر. انابیہ کا ہاتھ کا لمس یاد کرتے وہ مسکران دیا تھا

ہمارا شمار ہوتا ھے ان نایاب لوگوں میں🥀

جن کے ہونے سے جہاں اور بھی حسیں لگتاہے🥀

                  ...... ❣️❣️❣️.....

ادھر انابیہ بیڈ پر لیٹی اس اجنبی کے بارے میں سوچ رہی تھی آخر کون تھا وہ جو اسے ہر جگہ پروٹیکٹ کرتا تھا

انابیہ کو غصہ بھی بہت آیا تھا کہ اس نے کیوں اس اجنبی کا ہاتھ پکڑا... پھر سر جھٹک کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئی۔

اے اللہ مجھے بھٹکنے سے بچا لیں۔

یا اللہ مجھے سیدھی راہ دیکھا دیں۔

اپنے رب سے ڈھیروں باتیں کر کے وہ نیند کی آغوش میں جا چکی تھی

"ایک رب ہی ہے جو بغیر کسی مطلب کے سنتا ہے 😊"

اس کی رسی  ضرور پکڑا کریں😇😇

                 ............. ❣️...........

پچھلے دو دن سے ملحان چھٹی پر تھا... 

اور رمل کا ٹینشن کے مارے برا حال تھا.. تبھی رمل نے تنگ آ کر... م ملحان کا نمبر ڈائل کرنے لگی. لگاتار 3 بیلز کے بعد کال اٹھا لی گئی۔

رمل کے سلام کے جواب پر آگے سے کسی عورت کی آواز آئی ہ۔  کیا یہ حان او میرا مطلب ملحان کا نمبر ہے

جی کیا آپ رمل بیٹی بول رہی ہو

جی جی میں رمل ہی بات کر رہی ہوں آپ کون

کیسی ہو بیٹا میں ملحان کی مورے بات کر رہی ہوں

الحمدللہ میں ٹھیک آپ کیسی ہیں مورے اور حان کیسے ہیں وہ دو دن سے یونی نہیں آرہے پلیز مورے ہمیں بتائیں... 

ارے بیٹا سانس تو لو حان کو کل سے بخار ہے تو اس لیے. اس........ مومنہ بیگم کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی... رمل بولی  کیا حان کو بخار ہے اسی لیے میرا دل اتنا پریشان ہے

پلیز مورے آپ مجھے اپنے گھر کا ایڈریس بتائیں ہمیں حان کو دیکھنا ہے

اوکے بیٹا لکھو

مومنہ بیگم کے ایڈریس لکھوانے پر رمل گاڑی کی چابی اٹھاۓ باہر کی طرف بھاگتی ہے 

ملحان کا گھر آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہوتا ہے.. 

جسے رمل نے 20 منٹ میں طے کیا۔

باہر گارڈ کو ملحان کی دوست ہونے کا بتاتے اندر کی جانب برھی .. تبھی اندر سے آتے عارب سے ٹکرا گئی.. 

او شٹ دیکھ کر نہیں چل سکتے

مجھے جلدی بتاؤ ملحان کا روم کونسا ہے

عارب نے  نا سمجھی کے عالم میں اس ٹوم بواۓ کو دیکھتے  ملحان کے روم کی جانب اشارہ کیا... 

تبھی رمل کچن سے نکلتے مومنہ بیگم کو دیکھے بغیر اوپر کی جانب بڑھی اور ٹھک کر کے ملحان کے روم کا دروازہ کھولا... بیڈ پر لیٹے حان کی طرف بڑھتے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتی بخار چیک کرنے لگی۔

او مائ گاڈ 

اتنا تیز بخار..... سائڈ ٹیبل پر پڑے برف والے باؤل سے اس کے ماتھے پر پٹیاں رکھنا شروع کر دیں۔

حد ہے لا پرواہی کی...  لڑکیوں سے زیادہ نازک مزاج ہے یہ لڑکا.. زرہ سا ڈانٹ کیا دیا بخار چڑھا کے بیٹھ گیا. ساتھ ساتھ وہ مسلسل بول بھی رہی تھی

مومنہ بیگم پیچھے کھڑے رمل کی باتیں سن کر مسکرا رہی تھی

رمل بیٹا... 

تبھی رمل... مومنہ بیگم کے بلانے پر بے ساختہ کھڑی ہوئی... ارے بیٹا بیٹھی رہو بہت اچھی لگ رہی ہو میرے نالائق بیٹے کی فکر کرتے ہوئے۔

O Anti Thank God

* آپ ظالم سماج والی ساس نہیں بنے گیں بولتے ہی دوبارہ وہ حان کے پاس بیٹھ گئی  

ویسے مورے آپ کا بیٹا بہت لاڈلہ ہے میرا زرہ سا غصہ بھی نہیں برداشت کر پایا.. 

تو بیٹا آپ نے غصہ کیا ہی کیوں.... حرکتیں ہی ایسی ہیں حان کی جو مجھے غصہ آ جاتا ہے 

پھر بھی بیٹا ہوا کیا... 

ہونا کیا تھا آنٹی میرے پرپوز کرنے پر ہی  ہوش کھو بیٹھا ہے آپ کا بیٹا

رمل کی بات پر مومنہ بیگم بے ساختہ قہقہہ لگا اٹھی۔

رمل بلکل ویسی ہی تھی جیسا ان کے بیٹے نے بتایا تھا

اک دم بنداس... 

ارے مورے آپ بھی ہنس رہی ہیں 

اس سے پہلے کہ مومنہ بیگم کوئ جواب دیتی حان ہوش میں آیا اور بولا 

 رمل جی آپ.... 

جی میں.... 

آپ یہاں کیا کر رہی ہیں جائیں مورے دیکھ لیں گی تو کیا سمجھیں گی 

چپ کرو حان کچھ نہیں سمجھیں گی 

اور وہ بیٹھی ہیں ہماری مورے.... 

رمل بیٹا آپ ملحان سے باتیں کرو آپ کے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں.... 

مومنہ بیگم کہتے ہو ۓ روم سے باہر نکل گئیں... 

کیا ہوا ہے آپ کو حان کیوں بیمار ہو گۓ ہیں آپ ایسا کیا کہہ دیا ہے میں نے. پلیز رمل جی غصہ نہ کریں اور آپ پلیز ادھر صوفے پر بیٹھ جائیں۔

حان کیا مسلہ ہے آپ کے ساتھ رمل نے چڑھ کر کہا 

رمل پلیز آپ جائیں ہم کل پکا آئیں گے یونی پلیز ابھی آپ جائیں

آغا جان کے گھر آنے کا ٹائم ہے پلیز آپ جائیں۔

اوکے میں جا رہی ہو حان اور کل آپ لازمی یونی موجود ہوں رمل نے وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔

اور کل پیپر بھی ہے جس میں آپ کا ہونا لازمی ہے 

اوکے میں ضرور آؤں گا ان شاءاللہ 

عارب کو یونی آۓ ایک ماہ ہو چکا تھا لیکن اب تک نہ تو وہ انابیہ سے بات کر پایا تھا اور نہ ہو اسے دیکھ پایا تھا

جب جب اس نے انا بیہ کے قریب جانے کی کوشش کی اس کے بعد اس نے خود کو بے ہوش پایا😉

اس نے سوچ لیا تھا کہ ہر حال میں انابیہ کا چہرہ لازمی دیکھنا ہے

انابیہ کلاس روم میں بیٹھی نوٹس بنا رہی تھی کہ اچانک عارب اس کے پاس آیا اور بولا۔

ہاۓ انا.... یہ مجھے ایک سوال سمجھ نہیں آ رہا ہلپ کر دو

لیکن انابیہ جواب دیۓ بغیر لائبریری کی طرف بڑھ گی ۔

دور کھڑا کوئی یہ سین بہت غور سے دیکھ رہاتھا

آج تو میں سالی کو چھوڑو گا نہیں 

عارب غصے سے اس کے پچھے بڑھا اور انابیہ کو کھینچ کر لائبریری کے ساتھ والے روم میں لے گیا تھا

کیون اتنے نخرے دکھا رہی ہو.. بوو

چھوڑو چھوڑو مجھے انابیہ چلائی۔

آج تو میں تیرا یہ گلاب چہرہ دیکھ کر رہوں گا

جیسے ہی عارب نے اپنا ہاتھ انابیہ کے چہرے کی طرف بڑھایا ایک فائیر اڑتا ہوا اس کے ہاتھ ہر لگا۔وہ اجنبی سامنے ہاتھ میں پستول لیے کھڑا تھا

عارب ااپنا ہاتھ پکڑتے نیچے  کو جھک گیا۔

انابیہ بھاگ کر اس اجنبی کے سینے سے لگی۔ دونوں کی دھڑکنیں  رک چکی تھی

دونوں اپنی جگہ پر جامد ہو چکے تھے

اجنبی تو اپنے عشق کو اپنے سینے سے لگا دیکھ سانسیں لینا بھول گیا دل تو ایسے تھا کہ دھڑک دھڑک کر ابھی باہر آ جاۓ گا

انابیہ کے آنسؤں کی نمی اپنے  سینے پر محسوس ہوتے ہی وہ بولا۔

بیا کچھ نہیں ہوا ڈونٹ وری 

اس اجنبی کی آواز پہلی دفعہ سن کر انابیہ نے آنسوؤں سے بھیری آنکھیں اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھا تھا

لیکن ادھر اس کی آنکھوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔

وہ تو انابیہ کی آنسو بھری آنکھیں دیکھ کر ہی مدہوش ہو چکا تھا

اس سے پہلے کے انابیہ اپنا ہاتھ اس کے رومال کی طرف بڑھاتی عارب کی آواز پر وہ دونوں ہوش میں آۓ ۔

اوئے کون ہو تم میرا ہاتھ زخمی کر دیا 

آہ.... 

یہ تمھارے لیے آخری وارننگ ہے اگر اس کے بعد تم نے بیہ کے قریب بھی جانے کی کوشش کی ہاتھ تو کیا تمھارے  پورے  وجودکو زخمی کر دوں گا

وہ اجنبی غصے سے غراتے ہوۓ بولا تھا

ہاتھ کا درد برداشت نہ کرتے عارب  بے ہوش ہو کر گرا تھا

فون پر احمد کو اسے سنبھالنے کو بولتے خود انابیہ کا ہاتھ پکڑے اسے گاڑی میں بٹھاتے فل سپیڈ سے گاڑی چلا چکا تھا

انابیہ تو ڈر کر دل پر ہاتھ رکھے بولی پلیز آہستہ چلائیں۔مجھے ڈر لگ رہا ہے 

انابیہ کا ڈر دیکھ کر وہ گاڑی کی سپیڈ سلو کر گیا۔

کافی دیر سڑکوں پر گاڑی بھگاتا اپنا غصہ کم کرتا وہ انابیہ کو اس کے فلیٹ ڈراپ کر کے چلا گیا۔

آنے سے پہلے   انابیہ کا موبائل پکڑتے اس میں اپنا نمبر سیو کر دیا  فلیٹ میں داخل ہوتے انابیہ نے اپنے موبائل کو دیکھا اس میں کیا... کیا اس نے

گنتی کے 5 نمبر انابیہ کے موبائل میں تھے لیکن ایک نمبر پر آ کر انابیہ کی آنکھوں کی چمک بڑھی ۔

$oulmate  ❣️

کے نام سے وہ  اپنا نمبر سیو کر چکا تھا

انابیہ کے لبوں کو بے ساختہ مسکراہٹ نے چھوا ۔

ہرےےےےےےے

میں نے کر دیکھایا ہرےےےے🤣🤣🤣🤣

.                ....... ❣️❣️❣️........

‍‍‍رات سے ہی قیس کے دماغ میں مورے کی باتیں گھوم رہی تھی

مجھے لگتا ہے مورے سہی کہہ رہی ہیں ہمیں نمل کو اب اس رشتے کا احساس دلانہ چاہیے

لیکن ابھی وہ شاید... یہ سب قبول نہ کر پائے ہم کیا کریں کچھ سمجھ نہیں آ رہا

نمل کے معاملے میں وہ ہمیشہ ایسا ہی ہو جاتا تھا ۔پنچایت کے فیصلے منٹوں میں کرنے والا جب بات اس کی گڑیا پر آتی تو وہ بے بس ہو جاتا ۔

نہیں ابھی کچھ دن اور ہمیں پہلے یہ جاننا ہو گا کہ نمل بھی ہم سے محبت کرتی ہے یا نہیں لیکن اگر وہ ہم سے محبت نہ کرتی ہوئی پھر ہم کیسے رہ پائیں گے

یہ ہم کیا سوچ رہے ہیں

یا اللہ

کیسی کو بھی محبت  نہ ہو

وہ بچارہ تھک کر خود ہی بولا تھا

ایک ہـی شخص پر مرکُـوز ہے دنیا میـری

یعنی ایک شخص مجھے ارض و سما جیسا ہے ___❤️

........

گڑیا کہاں ہو آپ آج ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا تھا

خان جی ہم سوۓ ہوۓ ہیں

نمل نے  کمبل میں سے سر نکال کر کہا

الے میلا بچہ سویا ہوا

خان اٹھا کر لے جائے گا

جلدی اٹھ جاؤ

خان جی ادھر آئیں کان میں ایک بات بتاؤں

ہاں جی بتائیں

خان بیڈ کے کنارے پر بیٹھتے اس کے چہرے کی طرف جکھا 

تبھی نمل نے  جھٹ  اپنے ہونٹ خان کے رخسار پر رکھے اور اس کے گلے میں بازو ڈالے۔ خان تو اس جھٹکے پر سنھبل نہیں پایا

خان جی مان جائیے نہ ہم پھر کبھی جائیں گے ڈاکٹر پاس

خان جی.......... 

قیس کی طرف سے مسلسل خاموشی ہر نمل نے زور سے قیس کو پکارا تھا

جی جی

مان جائیں نہ

نو

پلیز خان جی

اس نے کہتے ساتھ خان کے دوسرے رخسار پر بھی اپنے لب رکھے تھے

پلیج

نمل کے اتنے پیارے انداز پر خان کو اپنا دل پگھلتا محسوس ہو رہا تھا

تبھی وہ غصے میں بولا

کہاں سے سیکھا آپ نے یہ

خان  جی وہ.... کل ہم نے ٹی وہ میں دیکھا تھا۔

بس بہت ہو گیا... آپ کا دماغ اس ٹی وی نے خراب کر رکھا ہے

اب آپ کیسی سے بھی بات منوانے کے لیے اسے کس کریں گی ؟

اصل غصہ قیس کو نمل کی معصومیت پر تھا.

نہیں خان جی ہم نے تو بس آپ کو ہی ایسے کیا

ٹی وی میں بھی سب غلط آتا ہے

ادھر تو اس لڑکے نے فوری لڑکی کی بات مان لی تھی آپ تو غصہ کر رہے ہیں۔ 

جائیں میں نہیں بولتی آپ سے

قیس نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے نمل کو سینے سے لگایا .... 

گڑیا ایسے سب کو کس کر کے ہم بات نہیں منوا سکتے ۔ہان تو ہم کونسا سب کے ساتھ ایسا کریں گے نمل نے رونی شکل بنا کر جواب دیا۔

ہم نے تو بس اپنے خان جی کو ہی پیار کیا ہے

اب ہم آپ سے بھی نہیں کریں گے

نمل نے اپنے موٹے موٹے گالوں کو مزید پھلا کر کہا تھا 

قیس نے بے ساختہ اپنی مسکراہٹ روکی 

ارے نہیں نہیں ناراض نہیں ہونا آپ نے

آپ جیسے مرضی اپنے خان کو پیار کر سکتی ہیں لیکن صرف خان کو اور کسی کو نہیں 

سچی..... نمل نے آنکھیں ٹپٹپاتے ہوۓ بولا 

مچی... قیس نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا ۔

کچھ سوچتے ہوئے قیس نے نمل کی گردن سے اپنی بیئرڈ مس کی تھی

ہاہاہاا

خان جی نہیں کریں گد گدی ہوتی ہے

اک تو اس گدگدی کی وجہ سے خان کا رومینس شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا تھا

اچھا نہیں کرتا چلو اب ڈاکٹر کے پاس چلیں

خان جی آپ کو اتنے پیارسے میں نے کسی دی آپ پھر بھی نہیں مانے

ہاہاہاہا

چلو اٹھو بہت باتیں ہو گئیں

...... 

داکٹر صاحب کوئ ٹینشن والی بات تو نہیں 

مسڑ قیس ہم نمل کی رپورٹ دیکھ کر حیران ہیں 

نمل اب بلکل نارمل ہے.... لیکن

لیکن کیا ڈاکٹر.. پلیز جلدی بتائیں 

نمل کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ وہ ایک ابنارمل لڑکی ہے... یہی بات اسے نارمل نہیں ہونے دے رہی

تو ڈاکٹر صاحب ہمیں کیا کرنا ہو گا کہ وہ نارمل بیہو کرے

آپ اسے احساس دلائیں مسٹر قیس کہ

اب وہ بچی نہیں رہی... 

شاید آپ کا اس کے ساتھ بچوں والا رویہ بھی اسے بڑا نہیں ہونے دے رہا

جی ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ آپ کا

قیس ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرتا 

جلدی سے باہر کی  جانب بڑھااور باہر کھڑی نمل کو زور سے اپنے سینے سے لگایا۔

خان جی کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ۔نمل نے حیرت سے پوچھا۔

خان کی جان سب ٹھیک ہے سب ٹھیک

قیس کی آواز میں نمی کا عنصر تھا

کیا ہوا خان جی ہمیں بھی بتائیں 

گھر جا کر بتائیں گے چلیں 

جی.... 

..... 

پورے راستے قیس کا خوشی سے برا حال تھا

گھر پہنچتے ہی قیس نے شکرانے کے نوافل ادا کرتے اللہ سے ڈھیروں دعا کی تھی

اللہ پاک تیرا شکر ہے

یا اللہ میں بہت خوش ہوں آج... یااللہ

بولتے قیس کے ہونٹ کپکپا گۓ تھے

خوشی سے اس کے انسو بہہ رہے تھے

جبھی نمل کمرے میں داخل ہوئ ۔

خان جی کیا ہوا ہے

اور آپ رو کیوں رہے ہیں

نمل نے قیس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا 

یہ یہ تو خوشی کے آنسو ہیں 

قیس نے کہتے اپنی آنکھیں پونچھی ۔

خان جی ہمیں بھی بتائیں کیا ہوا

گڑیا آپ ٹھیک ہو گئیں ہیں بلکل ٹھیک..... 

اب آپ بلکل نارمل ہیں 

قیس نے کہتے ساتھ نمل کو سینے سے لگایا.

لیکن نمل قیس کی بات سنتے مسکرا بھی نہ سکی.

(میں ٹھیک ہو گئ بلکل ٹھیک

یہ ایسے کیسے ٹھیک ہو گئ میں) 

گڑیا آپ خوش ہو نہ

میں بہت خوش ہوں بہت زیادہ

قیس اپنی خوشی میں نمل کے چہرے پر چھائ زبردستی کی مسکراہٹ دیکھ نہیں پایا تھا 

ہم مورے کو بتاتے ہیں وہ بھی سن کر بہت خوش ہو گی

قیس نے جاۓ نماز سائڈ. پر رکھتے 

مورے کو کال ملائ .

اسلام علیکم مورے

مورے کیسی ہیں آپ

آپ کے لیے ایک گڈ نیوز ہے گیس کریں کیا

ہم دادی بننے والے ہیں کیا قیس بیٹا

مورے کی بات سنتا قیس شرما گیا۔

نہیں مورے ایسی کوئی بات نہیں 

دراصل نمل کی رپورٹ بلکل سہی آئی ہے وہ نارمل ہو چکی ہے

ماشاءاللہ ہم ابھی گاؤں میں خیرات بانٹتے ہیں 

کیسی ہے نمل ہماری بات کروائیں 

وہ نمل وہ روم سے باہر ہے ہم بعد میں آپ کی بات کروائیں گے

مورے ہم گڑیا کو دیکھ کر آتے ہیں 

اللہ حافظ 

...... 

گڑیا کہاں ہو آپ 

جی خان جی ہم ادھر ہیں 

کیا ہوا گڑیا آپ اداس کیوں ہیں

خان کے پوچھنے کی دیر تھی

نمل نے زور زور سے رونا سٹارٹ کر دیا تھا

گڑیا کیا ہوا ہے

رونا بند کرو تمھارے آنسو خان کو تکلیف دے رہے ہیں 

خ خان جی

ہم بولو 

پہلے یہ آنسو صاف کرو

خان نے نمل کی آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے کہا تھا

خان جی آپ آپ ہم سے اس لیے پیار کرتے تھے کیوں کہ ہم ابنارمل تھے

لیکن اب آپ ہم سے پیار نہیں کریں گے

آپ ہمیں گاوں چھوڑ آئے گے

ارے گڑیا 

رونا بند کریں 

اور ہم آپ کو گاؤں کیوں چھوڑ کر آئیں گے ایسا کبھی بھی نہیں ہو گا

اور رہی بات پیار کرنے کی تو اب تو خان آپ سے اور زیادہ پیار کرے گا

آپ کیوں رو رہی ہیں .آپ رونا بند کریں آپ کے انسو خان کو پریشان کر رہے ہیں 

لیکن پھر بھی نمل نے رونا بند نہیں کیا تو خان نے باری باری نمل کی آنکھوں پر اپنے  ہونٹ رکھے , پھر اس کے رخسار پر

پل میں نمل کے چکس ریڈ. ہوئے تھے

خان جی

نمل کہتے ساتھ ہی جھٹکے سے پیچھے ہوئی تھی

ہاہاہا

ابھی کوئی کہہ رہا تھا خان جی آپ ہمیں پیار نہیں کریں گے

خان جی کی جان اب ہم آپ سے ڈبل پیار کریں گے پہلے تو اپ کو رعایت مل جاتی تھی اب نہیں ملے گی

آپ کیا کہہ رہے ہیں ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا

جلد سمجھ آ جائے گا

خان کی جان

نمل اٹھ کر روم کی طرف بھاگی تھی

ہاہاہا کب تک خیر مناؤ گی اب ابھی تو ہمارے دن آۓ ہیں 

.........

..............

رمل نے سوچ لیا تھا اب حان کو کیسے قابو کرنا ہے....  اگلے دن پیپر ہال میں جانے سے پہلے حان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئ تھی اور ساتھ میں اس نے  کچھ کرنے کا سوچ رکھا تھا....

‍کلاس میں ہو کا عالم  اور تمام بچے سر جھکائے اپنا پیپر لکھنے میں مگن تھے .... کچھ تو بس لکھنے کا نام ہی کر رہے تھے ... کہ جیسے ان سے بڑا نیوٹن کوئی نہیں...

تبھی وہ آفت کی پرکالہ جس نے سب کو عذاب میں ڈال رکھا تھا، بولی، سر جی پیپر ڈن...

تو سر بیچارے بے ساختہ اس آفت کی پرکالہ کا منہ تکنے لگے جس نے 2 گھنٹے کا پیپر 20 منٹ میں کر لیا تھا.. اس نے جیسے ہی پیپر پکڑایا  تو سر تجسس کے مارے کھول کر دیکھنے لگے

اور پھر سر کو لگا جیسے پوری دنیا ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئ اور سر چکرانے لگا

پورے پیپر پر...

I love you Han G

Love you.... Love you so much Han G....

لکھا ہوا تھا

* اور بچارے حان سر کا دل کیا وہ  اپنا سر دیوار میں دے ماریں کیونکہ اس لڑکی نے یونی کے  پہلے دن سے ان کا  جینا حرام کیا ہوا....

وہ جو بڑے پیار سے  آنکھوں میں روشنیاں لیے حان سر کے تاثرات دیکھ رہی تھی ملحان کے ہاتھ سے جیسے ہی پیپر گرا   وہ بے ساختہ قہقہہ لگا اٹھی.اور  ملحان کے رخسار پر ہاتھ رکھے بہت پیار سے ایک آنکھ دباتے بولی   ارے حان جی گبھرائیں نہیں پوری رات  سوچ کر صبح ہاں میں جواب دے دیجیے گا.... اور پلٹ کر کلاس سے نکل گئی... 

ملحان نے بے ساختہ سوچا رمل اس کا پیچھا نہیں چھوڑنے والی 

ملحان  کی آنکھوں میں جب جب اس کا چہرہ لہراتا تو ملحان دھڑکتے دل کے ساتھ سوچتا اسے بیوی چاہیے.. یا .بیوا🤣🤣🤣

وجہ اس کا حلیہ تھا 

بواۓ کٹ ہیر سٹائل... ایک ہاتھ میں چین ڈالے تو دوسرے ہاتھ میں ڈھیروں بینڈز کے ساتھ اک عجیب نمونہ لگ رہی تھی اور سونے پر سھاگہ اسکی بوائز سٹایل ڈریسنگ... پنیٹ شرٹ کے ساتھ ساتھ اپر پہنے دیکھنے والے کو لڑکی کم اور منی لڑکا زیادہ لگتی تھی...

.........

اگلے دن بھی حان کے کوئ جواب نہ دینے پر رمل حان کے کیبن پہنچ گئی

یہ لیں یہ آپ کے لیے رمل نے ایک کاغز ملحان کی طرف بڑھایا

کیا ہے اس میں... ملحان کے کاغذ کھلونے ہر اسے لگا جیسے ابھی اسے دل کا دورہ پڑھ جاۓ گا....

له تا سره مينه کوم

٢زما په زړه او ذهن کښې بس يوازې ته يې

٣ستا بغېر ژوند نه غواړم 

(میں تم سے پیار کرتی ہوں

میرے دل و دماغ میں صرف تم ہی ہو۔ میں تمہارے بغیر جینا نہیں چاہتی) 

یہ کیا ہے....  اس سے پہلے کہ حان بات پوری کرتا 

ارے استاجی میں نے  اردو میں اظہارِ محبت کر کے دیکھ لیا 

انگلش میں کر کے دیکھ لیا

لیکن مجھے لگتا آپ کو سمجھ نہیں آیا آخر کو خان ہو آپ 

پھر اپن نے سوچا کیوں نہ آپ کی زبان میں ہی بتایا جاۓ

کیا پتا تب ہی آپ کو سمجھ آ جاۓ 

اب تو سمجھ آ گیا نہ استاجی 

تو بتاۓ رشتہ آپ بھیجیں گے یا میں بھیجوں۔

میں خود ہی بھیج دیتی ہوں 

چلے رشتے کے جھنجھٹ میں بھی کیوں پڑنا استاجی

بھاگ کر ہی نکاح پڑھ لیتے ہیں 

رمل کے ایسا بولنے پر حان کا ایک رنگ آ رہا تھا اور اک جا رہا تھا..  اور رمل ایسے شو کر رہی ہوتی جیسے وہ کسی پارٹی کے پلین بنا رہی ہو... 

رمل جی یہ آپ آپ کیا کہہ رہی ہیں 

تبھی رمل نے  جھٹکے سے ملحان کا کالر پکڑا اور بولی۔ 

دیکھو استاجی اپن نے 3 دفعہ بڑے پیار سے آپ کو پرپوذ کر دیا ہے... اب اگر کوئی جواب نہ دیا تو نتائج کے زمہ دار آپ خود ہوں گے....

بولتے ہی ملحان کا کارلر چھوڑتی باہر کی طرف بڑھی اور حان کو اب اپنی عزت کا خطرہ پڑ چکا تھا 

نمل ہمیں یہ ٹاول تو پکڑانا

قیس نے واشروم سے ہاتھ باہر نکالتے ہوئے کہا تھا

یہ لیں خان جی

نمل نے جیسے ہی ٹاول خان کی طرف بڑھایا .خان نے نمل کو اندر کی جانب کھینچتے اسے شاور کے نیچے کھڑا کیا ۔

آں... خان جی یہ کیا 

ہم بھیگ جائیں گے 

خان جی چھوڑیں ہمارے بازو

شش.... 

قیس نے نمل کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش کروا دیا تھا

نمل نے قیس کی جانب دیکھا تو اس کی نظر قیس کے سینے سے ٹکرائی ۔ 

نمل کان کی لو تک سرخ ہو گئی۔

قیس بس خاموش  کھڑا نمل کے تاثرات دیکھ رہا تھا

خان جی چھوڑیں پلیز 

یہ یہ سہی نہیں نمل نے گھبراتے ہوئے کہا۔ 

کیا سہی نہیں 

جہاں محبت ہو وہاں سب سہی ہوتا ہے

قیس نے کہتے ساتھ ہی اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اپنے بے حد قریب کیا ۔

خان

لیکن اس سے پہلے کہ نمل اپنا فقرہ مکمل کرتی خان اس کے ہونٹوں پر جھکا تھا

خان نے بہت پیار سے اس گلاب کی پنکھڑیوں کی نرماہٹ کو محسوس کیا 

تھوڑی دیر میں ہی نمل کا سانس رکنے لگا اس  نے اپنے ہاتھ قیس کے سینے پر رکھتے اسے زور سے پچھے دھکیلا 

لیکن قیس پر رتی بھر اثر نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے جذبات اور بڑھ چکے تھے

نمل کی سانسوں کی خوشبو میں وہ مدہوش ہو گیا تھا

کچھ دیر میں جب وہ پیچھے ہٹا تو.. نمل کا سانس پھولا ہوا تھا 

قیس کے پیچھے ہوتے ہی نمل نے جلدی سے باہر نکلنے کے کوشش کی ۔لیکن قیس نے پھر سے اسے بانہوں میں بھر لیا اور شدت سے اپنے اندر بھینچا۔

خان جی پلیز... 

خود ہی تو کہا تھا خان آپ نے پیار کرنا چھوڑ دینا ہے تو ابھی بس تھوڑا سا ٹریلر دکھایا ہے آپ کو

نمل کے جسم سے آتی خوشبو اسے پاگل کر رہی تھی

خان نے نمل کی گردن میں اپنا چہرہ چھپائے کہا تھا

خان جی ہمیں نہیں چاہیئے ایسا پیار

پلیز بس کریں.. ہمیں کچھ ہو رہا ہے

نمل کے دل کی دھڑکنیں بڑھی ہوئی تھیں شاور کے نیچے کھڑی وہ مکمل بھیگ چکی تھی لیکن قیس تو خود کو کہیں اور ہی تصور کر رہا تھا

خان جی ہم ناراض ہو جائیں گے

پلیز بس کریں جانے دیں ہمیں کیا ہو گیا ہے آپ کو

نمل کی ناراضگی کا سنتے ہی وہ پیچھے ہٹا اور کہا

اوکے جاؤ

جیسے ہی نمل دروازے کی جانب بڑھی ،قیس نے اسے پیچھے سے آواز دی

نمل 

جی جی

نمل تو قیس کے پھر سے بلانے پر گھبرا چکی تھی

لکنگ ہاٹ قیس نے ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا۔

تبھی نمل کی نظرر خود کے بھیگے کپڑوں پر گئ وہ کانوں کی لو تک سرخ ہو گئی۔نمل نے جلدی سے ہاہر کی جانب دوڑ لگائ ۔

 قیس کےقہقے نے دور تک اس کا پیچھا کیا ۔

                             💞

نمل نے الماری سے اپنے کپڑے نکالتے ڈریسنگ کی جانب دوڑ لگائ 

خان جی ایسا کیسے کر سکتے میرے ساتھ 

وہ ہمارے خان جی ہیں تو کیا ایسے کریں گے ہمارے ساتھ

ہم کیسے روکیں انہیں

ہمیں زرہ اچھا نہیں لگ رہا ایسے

نمل بچاری سر پکڑ کر بیٹھ گئی کہ خان کو کیا ہو گیا 😁

....

خان جی ہمیں مورے کی یاد آ رہی ہے 

ہم نے مورے کے پاس جانا ہے نمل نے انگلیاں مروڑتے ہوئے خان سے کہا ۔

خان  نمل کے فرار کو اچھے سے سمجھ رہا تھا

خان نے نمل کا ہاتھ پکڑتے اسے اپنی گود میں بٹھایا اور نمل کی گردن پر اپنی ناک رگڑتے ہوئے کہا

اچھا تو گڑیا کو مورے کے پاس جانا ہے. سوچ لو

اپنے خان جی کو چھوڑ کر جاؤ گی

نہیں خان جی وہ ہم بس مورے سے ملنا چاہتے ہیں

او اچھا

ہم لے جائیں گے آپ کو

گڑیا ہم نے آپ کا ایڈمیشن کروا دیا ہے اب آپ ریگولر سٹڈی کریں گی اچانک قیس نے سنجیدگی سے کہا 

خان جی ہمیں نہیں پڑھنا اور نہ ہی ہمارا دل کرتا ہے کہیں جانے کو

ہم پہلے کی طرح ہی پیپرز دیں گے نمل نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

خان کی جان پہلے کی بات اور تھی

اب آپ ریگولر جائیں گی

ہم نہیں جائیں گے خان جی ہم بتا  رہے ہیں ورنہ ہم ناراض ہو جائیں گے

اوکے دیکھیں گے قیس نے کہتے ہوئے رمل کے رخسار پر لب رکھے تو رمل نے قیس کی گود سے اٹھتے روم کی طرف دوڑ لگا دی 

ہاۓ اللہ 

یہ خان جی کیوں کر رہے ایسا بار بار. روم میں آکہ نمل نے خود کو سنبھالتے ہوئے سوچا۔

......

گڑیا ہم کام سے جا رہے ہیں آپ خیال رکھنا بیہ آ جائے گی اپ کے پاس...

لیکن خان جی...

تبھی خان نے پاس آتے نمل کے ماتھے پر اپنے لب رکھے ۔

ہم تھوڑی دیر میں آ جائیں گے ٹینشن مت لیں

                           💞💞💞

حیلو.....

کون بات کر رہا ہے

ارے ارے اتنی جلدی بھول گئ آپ ہمیں

تم.. تمھاری ہمت کیسے ہوئی ہمیں کال کرنے کی

ہاہاہاہا

ہمت کی تو تم بات ہی نہ کرو خولہ جی.وعدے کے مطابق اب تک زمین ہمارے نام ہو جانی چاہیے تھی

لیکن ہم منظر سے غائب کیا ہوۓ آپ تو ہمیں بھول ہی گئیں

دیکھو...

تم کس زمین کی بات کر رہے ہو

ہم کچھ نہیں جانتے خولہ بیگم نے گھبراتے ہوئے کہا۔

ہاہاہا لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں

ہماری بھیجی گئ ایک ریکارڈنگ آپ کی زندگی برباد کر دے گی

اب آپ خود فیصلہ کریں کہ بڑھاپے میں دھکے کھانے ہیں یا پھر....

دیکھو تو کیا تم نے اس دن سعید شاہ کو۔۔۔۔۔۔

بولتے ہوئے خولہ بیگم کے ہونٹ کپکپا گۓ تھے

جی جی سہی سمجھیں آپ.

دیکھو ہم نے انہیں جان سے مارنے کا نہیں کہا تھا

ارے خولہ بیگم آپ کو زمین چاہیے تھی اس کے لیے جو بھی ہوا بھول جائیں

لیکن ہمیں ابھی تک خود اک تنکا نہیں ملا۔جب سے وہ ونی آیا ہے یہاں۔خولہ بیگم نے پریشانی میں کہا۔

یہ تو سوچنا اب آپ کا کام ہے ہمیں تو ہمارا حصہ چاہیے ۔

اس شخص نے کہتے ہوئے کال کاٹ دی ۔

یہ کیا کر دیا اس پاگل نے.. ہم نے سعید کو قتل کرنے کا نہیں کہا تھا

لیکن اگر ہم نے کچھ بولا تو ہم خود پھنس جائیں گے

اب اس مصیبت سے جان کیسے چھڑائیں۔کچھ تو کرنا پڑے گا خولہ بیگم.... 

....... ❣️❣️❣️........

میرا شہزادہ 

کب آۓ تم 

بس آغاجان ہم ابھی آۓ ہیں قیس  نے کہتے ہوئے آغا جان کے ہاتھ چومے۔

جیتے رہو میرے لال اغا جان نے خوشی سے کہا۔

آغاجان آپ کل پھر اکیلے زمینوں پر گۓ تھے

ارے میرے لال مجھے کچھ نہیں ہو سکتا بھلا میرے قیس کے ہوتے کوئی مجھ پر بری نظر ڈال سکتا... 

آغا جان ہم سخت ناراض ہیں اگر.... 

چل  بیٹا  اب غصہ تھوک دے

ہم بلکل ٹھیک ہیں 

اور نمل کیسی ہے 

آغا جان ٹھیک ہیں وہ بھی لیکن ہمیں بہت تنگ کرتی ہیں 

ہاہاہا

تو میرا بیٹا کس نے کہا  تھا اسے کے اتنے نخرے اٹھاؤ اور آپ نے تو بیوی کو ہاتھوں کا چھالہ بنا کر رکھا ہوا ہے۔

کچھ زمیداری ڈالو اس پر... 

بیوی کہنے ہر قیس چھینب گیا۔

ہاہا میرا پتر شرما رہا ہے

آغا جان پلیز.. 

ہم کوئی ضروری بات کرنے آۓ تھے

جی بتائیں 

آغا جان ہم اپنے اور نمل کے رشتے کو لے کر سخت پریشان ہیں... جب نمل کو سچائی پتا لگے گی کہ ہم ونی میں آۓ ہوئے ہیں تو شاید وہ ہم سے نفرت کریں.. 

یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ قیس بیٹا نمل کیوں آپ سے اس بات پر نفرت کرے گی

آغاجان ہمیں پتا نہیں کیوں ایسا لگتا ہے

سچائی جاننے کے بعد شاید نمل ہمارے ساتھ نہ رہے

قیس یہ آپ کا وہم ہے اور کچھ نہیں آپ نمل کو اعتماد میں لے کر سب بات کلیر کر دیں۔

آغا جان یہی تو مشکل ہے ہم کیسے انہیں بتائیں 

قیس بیٹا ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا آپ ایک دفعہ نمل سے بات تو کر کہ دیکھیں 

جی ٹھیک ہے اور آغا جان یہ وہ فائل جو آپ نے کہا تھا ہم نے تیار کروا لی ہے

لیکن آغا جان آپ ایک دفعہ پھر سوچ لیں کیا یہ فیصلہ سہی ہے 

ہممم قیس ہم نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ لیا ہے.... 

آغا جان بابا سائیں اور چچا سائیں خفا ہوں گے

قیس آپ کیوں ان کی فکر کرتے ہیں 

یہ جو کچھ بھی ہے ہمارا ہے اور ہم جسے چاہے یہ دے دیں 

 آغاجان ہمیں یہ فیصلہ کچھ سہی نہیں لگ رہا

قیس بیٹا آپ کیوں فکر رہے ہیں 

ہمیں فکر ہے آغاجان قیس نے پریشانی سے کہا۔

ہم نہیں چاہتے کہ کل کو زمین کو لے کر کوئی مسئلہ بنے اور ہمیں اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے ہمیں ایک بیٹے جنتا مان دیا بیٹے جتنی محبت دی

قیس آپ ہمارے بیٹے ہو  ہمیں ہمارے بیٹوں سے زیادہ عزیز ہو آغا جان نے فوراً کہا۔

آغا جان ہم جانتے ہیں اسی لیے تو ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایک کوڑی بھی نہیں چاہیے آپ ساری جائداد بابا سائیں اور چچا سائیں کے نام کر دیں ۔قیس خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا اسے لگ رھا تھا کہ وہ اپنی بات آغا جان کو نہیں سمجھا پائے گا اور وہی ہوا۔

قیس بس خاموش ۔آغا جان کسی صورت قیس کی بات نہیں مانے۔اور قیس کو ایک نیا حکم دیا۔

ہمیں اس فائل پر نمل؛ رمل اور انابیہ کے سائن چاہیں 

آغا جان خولہ بیگم سخت ناراض ہوں گیں۔ قیس نے ایک اور کوشش کنا چاہی۔

ان کی ناراضگی کی ہمیں رتی بھر پروا نہیں۔ آغا جان نے دو ٹوک جواب دیا۔ 

اور اگر آپ بات ہمارے بیٹوں کی کر رہے ہیں تو آپ کو بہتر علم ہوگا کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہوں گے 

جی جی آغا جان ہم جانتے ہیں قیس نے نظر چراتے ہوئے کہا ۔

اور آپ پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم جائیداد ان کے نام کر دیں تا کہ وہ جوۓ میں ہار جائیں آغا جان نے اس بار تھوڑا غصے میں کہا۔

ٹھیک ہے آغاجان ہم سائن کروا لیں گے

ہممم کل تک سائن کروا کہ فائل سنبھال لینا قیس 

اور یہ راز ہم دونوں کے درمیان رہے

جی آغاجان..... 

لیکن وہ دونوں اس بات سے انجان تھے کہ ان کی باتیں کوئی اور بھی سن چکا تھا

....... ❣️❣️❣️..یہ کیا آغاجان نے ساری جائداد قیس کے نام کر دی اس ونی کے نام یہ کیسے ہو سکتا ہے ہم برسوں سے اس جائداد کو حاصل نہیں کر پا رہےاور وہ کل کا لڑکا... 

ہمیں کچھ کرنا ہو گا

ورنہ سب ہاتھ سے نکل جائے گا

ہم آج ہی منور حسین سے بات کریں گے...... 

رات 12 بجے کے قریب منور حسین گھر آۓ تھے

آ گۓ آپ ہمیں ضروری بات کرنی ہے

خیر تو ہے خولہ بیگم جو آج آپ ہمارا انتظار کر رہی ہیں نیند نہیں آئ کیا. 

منور حسین  تنزیہ  انداز میں بولے تھے

ہماری بات سن کر نیندیں آپ کی بھی اڑ جائیں گی

خولہ بیگم آپ منحوس خبر ہی سنا سکتی ہیں 

آغا جان نے  ساری جائداد اس ونی کے نام کر دی

کیاااااا

منور حسین کو تو یقین ہی نہیں آ رہاتھا کہ آغا جان کچھ ایسا بھی کر سکتے ہیں

ارے نہیں خولہ بیگم آپ کو سننے میں کوتاہی ہوئ ہو گی ایسا نہیں ہو سکتا

ہم ٹھیک سن کر آ رہے ہیں 

ساری جائیداد کا وہ اکلوتا وارث بن چکا ہے 

منور حسین تو سکتے میں چلے گئے۔

آغا جان کیسے کر سکتے ہیں ایسا ہم ان کے بیٹے ہیں 

کبھی آپ نے بیٹا ہونے کا حق تو ادا نہیں کیا آپ کو باہر سے فرصت ملے تو ہی پتا چلے گھر کیا ہو رہا ہے

خولہ بیگم حق کی  بات تو  آپ نہ ہی کریں آپ نے کبھی بیوی ہونے کا حق نبھایا ہے جو آپ حق کی بات کر رہی ہیں۔

آپ ان باتوں کو چھوڑیں ونی کا سوچیں 

خولہ بیگم ہمیں آئیڈیا نہیں تھا کہ آغاجان اس حد تک چلے جائجں گے

ہم تو اس ونی کو اس لیے کچھ نہیں کہتے تھے کہ چلو وہ زمینوں کہ کام سنبھال لیتا ہے اور ہم پر زمیداری کم آتی ہے

تو پھر دیکھ لے کام سنبھالتے ہوئے وہ زمین بھی لے گیا

ارے خولہ بیگم آپ ٹینشن مت لیں 

ہم کچھ کرتے ہیں 

                    ...... 🥀 🖤....

ایک ہـی شخص پر مرکُـوز ہے دنیا میـری

یعنی ایک شخص مجھے ارض و سما جیسا ہے ___❤️

‍‍‍اگلے دن ملحان پھر چھٹی پر تھا... اور رمل نے سوچ لیا تھا اسے اب کیا کرنا ہے... 

اگلے دن جیسے ہی ملحان یونی کے گیٹ پر پہنچا یک دم سے کسی نے اس کے منہ پر کلوروفارم لگا رومال رکھا اور اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالے آگے بڑھ گیا ۔

یہ لو پیسے اور تمھارا کام ختم

 اوکے میڈم 

رمل بیڈ پر لیٹے ملحان کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگی جیسے ہی ملحان ہوش میں آیا رمل کو سامنے دیکھ کر پھر سے ہوش اڑنے لگے . 

رمل جی آپ 

ملحان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی رمل نے بے ساختہ شعر پڑھا۔

تیرے دل پر میرا اختیار ہو جائے 

رب کرے تجھ کو بھی پیار ہو جائے

رمل جی مجھے ادھر کیوں لے کر آئیں ہیں 

تبھی رمل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا.

اپن نے کہا تھا نہ جواب چاہیے ورنہ.....

اب بھگتو

تبھی رمل کے موبائل پر کال آئی تھی... 

ہیلو جی... اوکے اوکے 

سب ریڈی ہے آپ بس مولوی صاحب کو اٹھا لاؤ

دلہے کو بہت جلدی ہے... 

ملحان آنکھیں کھولے رمل کی باتیں سن رہا تھا... 

چلو حان جلدی سے اٹھو مولوی صاحب آتے ہوں گے

اچھا لیکن نکاح کس کا ہے....

ارے واہ

جانے نہ جانے گل نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے.... 

رمل جی ہمیں نہیں سمجھ آرہی آپ کس کی بات کر رہی ہیں..... 

او ہو... 

دلھے میاں ہم آپ کی اور ہماری بات کر رہے ہیں... 

آج نکاح ہے نہ ہمارا.... 

ملحان نےفک رنگت کے ساتھ رمل کو دیکھا جس کے چہرے پر مزاک نام کا شبہ تک نہیں تھا.... 

رمل جی پلیز مجھے آپ سے ن نکاح نہیں کرنا.... 

رمل جسے پہلے سے اندازہ تھا ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے اپنی پینٹ کی ویسٹ سے ریوالور نکال کر حان کی طرف رخ کیا تھا.. 

حان تم نے اپن کی  فیلنگز کو مزاک ہی سمجھ لیا ہے...  آج یا تو تمھاری ڈولی اٹھے گی.. یا پھر ایک جنازہ.... 

حان کے منہ پر پسینہ آتا دیکھ کر رمل بے ساختہ بولی۔

ارے حان جی آپ کیوں گبھرا رہے ہیں... 

آپ میں تو رمل کی جان بستی ہے.... 

آپ کو کچھ کہنے سے پہلے رمل خود مر جائے... بولتے ہوۓ رمل نے ریوالور کا رخ اپنی طرف کیا تھا... 

بولے نکاح کرنا ہے یا میرے جنازے کو کندہ دینا ہے. 

پلیز رمل جی یہ کیا پاگل پن ہے گن نیچے کریں گولی لگ جائے گی... 

ہاں ہاں ہے پاگل پن..... میرے دماغ پر فتور چھا گیا ہے آپ کی محبت کا..... نہیں رہ سکتی میں آپ کے بغیر... نہیں دیکھ سکتی میں آپ کو یوں ڈر ڈر کر جیتے... میرا عشق میری محبت میرا جنون میرا فتور.... سب بن گۓ ہو آپ... رمل کے جینے کی وجہ بن گئے ہو... 

رمل پلیز... 

حان

say yes or No

رم..... 

Yes or no۔۔۔۔۔۔

رمل نے چلاتے ہوئے کہا۔

لیکن کے حان کے اس بار بھی خاموش رہنے پرٹھاہ کی آواز گھونجی... 

رمل.......... ملحان چلایا۔

یہ کیا کر دیا... 

رمل کا پورا بازو خون سے بھرا ہوا تھا... 

درد کی شدت سے رمل کے ہونٹ پھڑپھڑا رہے تھے.... 

حان کے قدم جیسے ہی رمل کی طرف بڑھے رمل نے کہا

* رررک  جاؤ حان وہی.... 

ہاں یا نہ....... 

ہاں ہاں کروں گا نکاح

لیکن پلیز رمل مجھے اپنا بازو دیکھنے دیں... 

درد کی شدت سے ریوالور رمل کے ہاتھ سے گرا تھا اور  رمل زمین پر بیٹھ گئی ۔

تبھی حان نے درد سے بلکتی رمل کو بے ساختہ سینے سے لگایا تھا... 

ملحان کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے 

رمل جی.... 

اس سے پہلے کے حان کچھ بولتا.... وہ خور بے ہوش ہو کر گر پڑا.حان کی برداشت بس یہیں تک تھی... 

درد سہتے رمل مسکرا دی۔

تبھی دروازہ کھلتے کوئی تیزی سے روم میں آیا تھا... 

رمل یہ کیا پاگل پن ہے میں نے گن تمہیں صرف ڈرانے کے لیے دی تھی اور تم نے کیا کیا.... 

اربے یار پارٹنر غصہ بعد میں کر لینا... ابھی پٹی کرو مجھے بہت درد ہو رہا ہے... 

تبھی پارٹنر حان کی طرف بڑھا اور اسے   اٹھاتے ہوئے بیڈ پر لٹاتے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر مسکرایا ۔اور کہا۔ کوئی اتنا معصوم کیسے ہو سکتا ہے ... 

 فرسٹ ایڈ بکس نکالتے رمل کی ڈریسنگ کی تھی...

صد شکر کے گولی چھو کر گزری تھی... 

کیا پارٹنر منہ کیوں بنایا ہوا ہے..... 

بس چھوٹا سا زخم ہے اور ویسے بھی حان کو منانے کے لیے یہ ضروری تھا.. اب تم سے بہتر کون جان سکتا حان کتنے ضدی ہیں... 

رمل دماغ نہیں کھاؤ... 

پارٹنر تو رمل کی ہمت پر حیران تھا کوئ عام لڑکی ہوتی ہو اب تک بے ہوش ہو گئ ہوتی..... 

پٹی مکمل ہوتے ہی کچھ ٹیبلٹ رمل کی طرف بڑھائ تھی کھاؤ انہیں.. 

ارے یہ تو نکاح کے بعد کھاؤں گی... 

مولوی صاحب کو لاۓ ہو... 

ہاں لایا تو ہوں اگر وہ گولی کی آواز سن کر بھاگ نہ گۓ ہوئے تو... 

جلدی سے اسے ہوش میں لاؤ 

نکاح ہوتے ہی مجھے واپس جانا ہے... پارٹنر بولتے ہوئے باہر کی طرف بڑھا۔

اوکے اوکے بس 2 منٹ

سائیڈ ٹیبل پر پڑا پانی سےبھرا جگ اٹھایا اور رمل نے حان کے منہ پر الٹ دیا۔ 

حان بارش بارش کہتے اٹھ بیٹھا۔

بارش بارش کے کچھ لگتے اٹھو باہر مولوی صاحب آگۓ ہیں

رمل کی آواز پر وہ ہوش میں آیا تھا.. 

رمل جی آپ آپ ٹھیک تو ہیں... 

ہاں میں ٹھیک ہوں چلو نکاح بھی کرنا ہے.پہلے ہی تم نے اپن کا اتنا ٹائم ضائع کروا دیا فضول میں... 

حان تو آنکھیں پھاڑے رمل کو دیکھ رہا تھا.

رمل حان کو کھینچتے باہر کی طرف بڑھی ۔ 

حان کی ذہنی حالت اس کدھر خراب تھی کہ اسے کچھ آئیڈیا نہیں ہوا کہ کب نکاح ہوا کون کون گواہ بنا.... 

ہوش میں تو وہ تب آیا جب رمل دپ سے اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھی تھی.... 

نکاح مبارک ہو میرے چنو منو..... 

حان نے حیران نظروں سے رمل کو دیکھا۔ 

ارے کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہو نظر لگانی ہے کیا

اب تو آپ کی ہی ہوں.... 

تبھی حان ہوش کی دنیا میں لوٹتے جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہا. 

ہمیں گھ گھر جانا ہے...

ہمیں گھ گھر جانا ہے...  ہاں ہمیں گھر جانا ہے... 

او او ہیلو کون سا گھر ابھی تو نکاح ہوا بھول گۓ کیا..... 

ہاں لیکن گھر... 

تبھی رمل ایک قدم آگے بڑھی اور حان کے سینے سے لگتے بے ساختہ بولی.

اب تو درو رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ڈئیر ہبی ❤️

لیک.... 

شش... کسی کی فکر نہیں کرو... بس اب سے رمل اور اس کا حان.. اک دوجے کی جان

چلے رات کافی ہوگئ کچھ کھانے کے بعد  ریسٹ کریں آپ.... 

رمل نے کیچن سے بریانی کی بھری پلیٹ لا کر حان کے سامنے رکھی تھی.. اور ساتھ ہی دل ہی دل میں پارٹنر کو دعائیں دیں تھی ... جیو پارٹنر اتنی مزے دار بریانی کے لیے... 

حان تو بیچارہ اللہ جانے کہاں گھم تھا... 

رمل نے  ہی اسے بریانی کھلائی جو وہ چپ چاپ کھا چکا تھا... رمل نے بھی فل حال کچھ بولنا مناسب نہیں سمجھا . حان کو لیے روم کی طرف بڑھی۔

یہ لو حان سر درد کی ٹیبلٹ سکون ملے گا... 

رمل نے حان کو نیند کی گولی دی تا کہ وہ کچھ پرسکون ہو جائے۔اور پھر ایک پین کلر خود کھا کر اسی بستر پر لم لیٹ ہو گئی۔

‍ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے 

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے 

ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں 

آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے 

بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری 

جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے 

ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی 

اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے

Soulmate

والے نمبر سے آئ اس غزل نے انابیہ کی دھڑکنیں بڑھا دی تھی

نام کیا ہے تمھارا 

انابیہ نے 3 دفعہ میسج لکھ کر مٹایا 

پھر ہمت کر کے  بھیج ہی دیا۔

اگلہ بندہ جیسے انتظار میں تھا

کیا کریں گی آپ نام جان کر؟ آپ کے لیے اتنا کافی ہے کہ سانسوں سے زیادہ ضروری ہو آپ میرے لیے۔

انابیہ تو میسج پڑھ کر سکتے میں چلی گئی۔

میں کیا بلاؤں آپ کو نام تو بتا دیں؟

اگر بات بلانے کی ہے تو جس نیم سے نمبر سیو کیا  ہے آپ نے اس نام سے بھی بلا سکتی ہیں آپ مجھے۔

آپ نے نیم نہیں بتانا؟

انابیہ نے غصے سے میسج سینڈ کیا۔

اوکے میں نیم بتا رہا ہوں اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں آپ؟

بدر نیم ہے میرا...

میسج پڑھتے ہی انابیہ بے اس کا نیم پکارا تھا

بدر یعنی 

اس سے پہلے کے انابیہ کچھ اور پوچھتی میسج دوبارہ آیا تھا

اپنا خیال رکھیے گا❤️

اب سو جائیں رات کافی ہو گئ ہے

اللہ حافظ 

انابیہ کو پتا نہیں کیوں اس کا یوں اللہ حافظ کہنا برا لگا تھا

اس لیے بغیر اللہ حافظ کیے ہی موبائل سائیڈ پر پھینک دیا اور منہ میں بڑبڑائی

میں کیوں رکھوں اپنا خیال... اتنا اسے میرا خیال ہے تو خود رکھ لیا کرے۔

اللہ معاف کرے یہ میں کیا کہہ رہی ہوں.... انابیہ نے اپنے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے سوچا۔

آیتلکرسی پڑھتے وہ سونے کو لیٹ گئی۔

صبح فجر کے وقت ملحان کی آنکھ سینے پر بوجھ کی وجہ سے کھلی

ملحان نے سر اٹھا کر رمل کو دیکھا جو اس کے سینے کو تکیہ سمجھے گہری نیند میں تھی....

ملحان کی نظر سامنے لگی گھڑی پر گئی تو بے ساختہ دل دھڑکا . 

حان کو شاید پہلی با رمل کے ملنے پر افسوس ہوا تھا... 

کل حان رمل کی وجہ سے کوئی نماز نہ پڑھ سکا اور ایسا شاید پہلی بار ہوا کہ حان کی نماز قضا ہوئ... 

ملحان نے آہستہ سے رمل کا سر سرہانے پر رکھا اور خود وضو کرنے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔وضو کرنے کے بعد پورے کمرے میں جاۓ نماز کہی نظر نہ آیا تو ملحان پریشان سا روم سے باہر آیا تا کہ نماز پڑھنے کے لیے کچھ ڈھونڈ سکے۔ادھر ادھر دیکھنے کے بعد حان سامنے والے روم میں کھسا تو بے ساختہ اس کی آنکھوں کی چمک بڑھی کیونکہ کہ اس روم کی ایک سائیڈ پر بہت پیارے انداز میں کشن لگاۓ چھوٹا سا پرئیر روم بنایا گیا تھا اور اوپر ایک الماری میں کچھ جاۓ نماز اور قرآن مجید پڑھے ہوتے تھے۔ ملحان خوش ہوتا تسلی کے ساتھ نماز ادا کرنے لگا۔اور اپنے اللہ سے ڈھیروں باتیں کی کیونکہ ایک وہی تو ہے ملحان کا ساتھی... جو ملحان کے دکھ سکھ میں... ملحان کی خوشی ملحان کے غم میں ملحان کو سنتا تھا... 

اللہ تو رحیم کریم ہے کرم کرنے والا ہے... میں تیرا گناہ گار سا بندہ ہوں... اپنی رحمت نازل فرما... یا اللہ مجھے ایک پکا اور سچا مومن بنا دے.... 

اے اللہ کل جو بھی ہوا یا ہو رہا ہے اللہ تو سب جانتا ہے... یا اللہ میری زندگی میں آسانیاں پیدا فرما... 

ملحان آنکھیں بند کۓ دل میں اللہ سے دعا مانگ رہا تھا... وہ اتنا مگن تھا کہ اسے بلکل اندازہ نہیں ہوا کہ کب دروازہ کھول کر رمل روم میں داخل ہوئی .. 

ملحان کو تو تب پتا چلا جب رمل نے نیچے ملحان کے پاس بیٹھتے اپنا سر حان کی گود میں رکھا. 

ملحان آنکھیں کھول کر  رمل کو دیکھا  

جو مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی

حان نے دعا پوری کی اور اپنے ہاتھ رمل کی آنکھوں پر رکھ کر اس پر پھونک ماری. 

رمل کو یک دم ایسے لگا جیسے کسی نے جادو ہی کر دیا ہو.... 

تبھی اس نے ملحان کے ہاتھ ہٹاتے.... اپنے ہونٹوں سے لگائے. جس پر ملحان نے سٹپٹاتے ہوئے رمل کا سر اپنی گود سے اٹھانے کے کوشش کی جو کہ ناکام ٹھہری۔

حان پلیز بہت سکون مل رہا ہے یہاں لیٹے رہنے دیں... ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی جادو سا ہو... 

رمل جی اگر آپ  نماز پڑھیں گی تب بھی آپ کو ایسا ہی فیل ہو گا.پہلے آپ نماز پڑھ لیں.. 

پلیز حان ہمیں نہیں پڑھنی... نہ ہی ہم پڑھتے ہیں... دوبارہ مت کہیے گا... 

لیکن کیوں رمل جی.... 

ملحان نے پیشانی پر بل ڈالے رمل کی طرف دیکھا۔

بس نہیں پڑھنی 

تبھی ملحاننے ایک قرآنی آیت ترجمے کے ساتھ پڑھی۔ 

*وَ نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ*

ترجمہ:

"اور ہم اِس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے."

کیا آپ کو یہ خواہش نہیں ہے.؟

رمل نے خاموشی سے ملحان کو سنا اور آنکھیں بند کر لیں۔

رمل اگر آپ نماز پڑھو گی تو  وہ آہستہ آہستہ تمہارے دکھ کم کر دے گا  اور تمہیں ایک سیدھی راہ ضرور دکھائے گا، اور تمہارے دل کو سکون اور اپنی محبت سے بھر دے گا  اور تمہارا تڑپنا اور بے چینی ختم ہو جائے گی....!!♥️"

حان ہمیں نیند آ رہی ہے چلے روم میں چلیں.... 

ملحان کو سمجھ آ گئی کہ ابھی رمل پر کوئی بھی بات اثر نہیں کرے گی تبھی بولا۔

رمل جی ہمیں قرآن مجید پڑھنا ہے آپ پلیز روم میں جا کر سو جائیں.... 

ٹھیک ہے آپ پڑھیں... میں ادھر ہی ہوں 

ملحان نے الماری سے قرآن ِ پاک اٹھاۓ... بیڈ کے اک سائیڈ پر بیٹھتے تلاوت شروع کی۔ 

حان تھوڑا ادھر کو ہو کر بیٹھیں یہ کہتے ساتھ ہی رمل نے پھر سے اپنا سر ملحان کی گود میں رکھتے بیڈ پر لیٹ گئی۔

رمل جی ہم ایسے کیسے پڑھیں گے. ملحان نے حیران ہو کر پوچھا۔

جیسے مرضی پڑھیں ہمیں ادھر ہی لیٹنا ہے...رمل نے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے کہا۔

ملحان نے ٹھنڈا سانس بھرتے سورہ رحمان کی تلاوت شروع کی۔ بلاشبہ ملحان کی آواز میں ایک جادو تھا.لیکن ملحان کو آیات کے ساتھ ترجمہ کرتے دیکھ کر رمل حیران رہ گئی کیونکہ قرآن مجید تو ترجمے کے بغیر تھا... 

دل میں بعد میں پوچھنے کا سوچتی آنکھیں بند کر گئی... 

پھر رمل کو کچھ پتا نہ چلا کب اس کی آنکھ لگی اور کب وہ سوئ

رمل جی اٹھ جائیں ہمیں ہمارے گھر جانا ہے مورے پریشان ہو رہی ہوں گیں... 

کیا ہے سونے دیں.رمل نے بنا آنکھیں کھولے جواب دیا۔ 

رمل جی پلیز اٹھ جائیں نہ پلیز... 

تبھی رمل اٹھ کر بیٹھتے ہوۓ بولی۔

لیں اٹھ گئی اب خوش

جی جی بہت خوش  پلیز میرے گھر چھوڑ آئیں۔ملحان نے بہت معصومیت سے کہا۔

حان آپ مجھے غصہ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں.کل بھی بتایا تھا کہ اب یہی آپ کا گھر ہے کہیں نہیں جانا آپ نے اب۔

لیکن مورے 

او ہو حان مورے سے میری بات ہوئی تھی کل. میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ تم میرے ساتھ ہو وہ بے فکر رہیں. اس سے پہلے کہ ملحان اپنی بات پوری کرتا رمل نے درمیان میں ہی اس کی بات کاٹ کر جواب دیا۔

چلو اب اٹھو ناشتہ کریں... 

لیکن رمل جی وہ مورے نے کچھ کچھ کہا نہیں 

نہیں بابا کچھ نہیں کہا..... 

چلو آؤ آپ کو ناشتہ کرواؤں. اور ہا ں

حان آپ 1 ہفتے کے لیے یونی نہیں جا رہے میں نے پرنسپل کو انفارم کر دیا ہے. حان منہ کھولیں۔رمل نے مٹھائی ملحان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ 

لیکن رمل جی کس خوشی میں..... 

ارے ہماری شادی کی خوشی میں... 😉😉

رمل  آنکھ دباتے ہوئے بولی... 

رمل کے لیے یہی کافی تھا کے ملحان بغیر گھبراۓ بغیر ڈرے اس کے ساتھ باتیں کر رہا تھا اس کے ساتھ رہ رہا تھا... 

کیچن میں آتے ہی ملحان تو کیچن کی حالت دیکھتے صدمے میں چلا گیا... 

جگہ جگہ پڑے انڈے کے چھلکے... 

برتنوں سے بھرا سینک. کیچن بیچارا اپنی حالت کا رونا رو رہا تھا۔

تبھی رمل بغیر شرمندہ ہوۓ بولی۔

یہ سب تمھاری وجہ سے

میری وجہ سے۔۔۔ ملحان نے حیرت سے اپنے سینے پر انگلی رکھ کر پوچھا۔

ہا‌ں تو اور کیا پچھلے کچھ دنوں سے تم نے مجھے اپنے پیچھے پاگل بنایا ہوا تھا

جس کی وجہ سے میں صفائی نہیں کر پائ... 

بولتے ساتھ رمل فریج سے انڈے نکال کر پھینٹنے لگی. رمل کو انڈے پھینٹتے دیکھ کر حان کا دل خراب ہونے لگا۔

رمل جی ہٹیے آپ میں کرتا ہوں آپ ادھر  بیٹھیں۔رمل کا بازو پکڑے اسے کرسی ہر بیٹھاتا خود کیچن کو سمیٹنے لگا. وہ اتنی مہارت سے ہاتھ چلا رہا تھا کہ رمل حیران رہ گئی۔اور ملجان سے پوچھا۔

حان یہ سب آپ نے کہاں سے سیکھا

ارے ہمیں آتا ہے نہ 

مورے نے سب سیکھایا ہے۔ ملحان نے کام کرتے ہوئے جواب دیا۔

ارے واہ حان پھر تو تم کافی سگھڑ ہو

چلو میں کک ڈھونڈ رہی تھی اب پیسے بچیں گے... 

کیا رمل جی 😒اب آپ ایسے تو نہ کہیں 

آدھے گھنٹے میں ملحان نے کچن صاف کرنے کے ساتھ ساتھ انڈے اور ایک کپ چائے کا ناشتہ رمل کے سامنے رکھا۔

رمل تو حان کی پھرتی پر حیران تھی... 

حان آپ کی چاۓ۔ 

ہم نہیں پیتے نہ 

او اچھا اچھا

چلے بیٹھے آپ بھی کریں ناشتہ رمل نے ملحان کو بھی ساتھ ناشتہ کرنے کا کہا۔

اوکے بس یہ ساس پین دھو لوں

ارے میرے سگھڑ شوہر جی... 

پہلے ناشتہ 

اوکے... 

رمل نے انڈے بریڈ کا نوالہ بنات ملحان کی طرف بڑھایا۔

ملحان جھجکتے ہوۓ بوکا۔ نہیں 

پلیز آپ کھائیں ہم خود کھا لیتے ہیں.... 

چپ کر کے کھاؤ کل بھی تو کھائی تھی نہ بریانی... 

زبردستی اس کے منہ میں نوالہ ڈالتے  ہوۓ بولی.... حانن جلدی سے کھائیں پھر شاپنگ پر جانا ہے. 

آج کا دن بہت بزی رہنے والا ہے... 

اوکے

                        💞💞💞

ناشتہ ختم کرتے رمل ملحان کو دو منٹ رکنے کا کہتی خود روم کی طرف بڑھی۔

رمل جلدی سے ڈریس چینج کرتے گاڑی کی چابی اٹھاۓ باہر کی طرف آئی۔اور پوچھا

چلیں حان.... 

ملحان نے رمل کی طرف دیکھا جو اپنے بوب کٹ بالوں میں ہاتھ چلاتی باہر کی طرف بڑھ رہی تھی ... 

رمل کے پیچھے پیچھے چلتے ملحان نے پوچھا۔ رمل جی ہم کہا جارہے ہیں 

شاپنگ کرنے 

اچھا... 

ہم صرف آپ کی وجہ سے گاڑی پر آۓ نہیں تو ہم زیادہ بائیک ہی استعمال کرتے ہیں۔ رمل نے ایک انکھ ونک کرتے ہوئے کہا۔ 

نہیں نہیں گاڑی ٹھیک ہے۔ ملحان جلدی سے بولا مبادہ وہ بائک ہی نہ نکال لے۔

رمل جی پلیز آہستہ چلائیں۔گاڑی کی تیز سپیڈ پر ملحان نے رمل سے کہا۔

ارے کچھ نہیں ہوتا... نازک پرے آپ کو😂😂🤣

10 منٹ بعد رمل نے ایک شاپنگ مال کے سامنے گاڑی روکی۔

چلیں گاڑی پارک کرنے کے بعد حان کا ہاتھ پکڑے اندر کی جانب بڑھی...

حان کے لیے اپنی پسند کی ڈھیروں پینٹ، شرٹس  اور بہت سی چیزیں لیے وہ اگلے فلور کی جانب بڑھی تھی

رمل یہ سب آپ پہنیں گی

لیکن آپ تو سمارٹ سی ہیں 

یہ تو کافی بڑے ڈریسز ہیں 

حان 10 منٹ چپ رہو سب سمجھ آ جاۓ گا

تبھی رمل.نے حان سے اس کی عینک 👓 کا نمبر پوچھا تھا .... 

یہ اس کا نمبر 1.5 ہے شاید ملحان نے اپنی عینک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

اوئے چھوٹو 1.5 نمبر کے پرمانینٹ لینز چاہیں رمل نے دوکاندار سے کہا

جی میم۔ لیکن تھوڑے مہنگے  ملیں گے ۔ٹھیک ہے  پیک کر دیں۔

پھر ملحان کو ڈھیروں شوز پہنا کر دیکھے۔ یہ سب پیک کر دیں 

لیکن رمل جی اتنے زیادہ ملحان نے ایک بار پھر بولنا چاہا۔

حان کہا نہ چپ رہو

حان آپ کا موبائل کدھر ہے

پتا نہیں رمل جی ہمیں نہیں پتا

اللہ آپ کا کیا بنے گا.. کچھ تو سنبھال لیا کرو

سوری رمل جی لیکن جب میں یونی کے لیے گھر سے آیا تھا تب میرے پاس تھا

اوکے اوکے چلو

موبائل شاپ سے حان کے لیے آی فون لیا... اس کی پرانی سم بھی ایکٹو کروائی۔

حان دل میں سوچ رہا تھا جتنی شاپنگ رمل نے ایک دن میں کی اتنی تو حان پورے ایک سال میں بھی نہیں کرتا 

رمل جی کتنا ٹائم اور لگے گا ہمیں نماز پڑھنی ہے

او اچھا چلو آپ اسی مال کی مسجد میں نماز پڑھ لو میں تب تک کچھ کھانے کو آرڈر کرتی ہوں

اوکے.... 

20 منٹ ہو گئے تھے اب تو کھانا بھی آچکا تھا لیکن ملحان کا کچھ اتا پتا نہیں تھا... 

تبھی حان سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیا ۔

اتنی دیر حان

رمل جی ابھی ہم جلدی آگئے ہیں 

ٹھیک ہے شروع کریں... 

رمل حان کی پلیٹ میں کھانا نکالے اسی کے ساتھ خود بھی کھانے لگی تھی

پہلا نوالہ ہمیشہ کی طرح رمل نے حان کی طرف بڑھایا تھا

رمل جی ہم کھا لیں گے۔کتنے لوگ بیٹھے ہیں 

اپن کو لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں کھاؤ

رمل آنکھیں نکالتے ہوئے  بولی 

کھانے سے فارغ ہو کر رمل نے  بل ادا کیا

کچھ بیگز ملحان کو پکڑاۓ کچھ خود پکڑے پارکنگ کی طرف بڑھی تھی... 

رمل نے  گاڑی سٹارٹ کر کے روڈ پر ڈالی  جب ملحان نے پوچھا۔

رمل جی اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟

بس دیکھ لو پہنچ گئے ادھر پاس ہی ہے۔ 

کاشی سیلونز ادھر کیا کرنا ہے

چلو میرے ساتھ 

رمل اک شاپنگ بیگ ہاتھ میں پکڑے اندر کی جانب بڑھی تھی... 

ہیلو میم ہیلو سر

ہیلو.... 

ان کا لک چینج کرنا ہے

لیکن صرف میل سٹاف.. * فی میل کوئی پاس نہ جاۓ۔ رمل نے وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔ 

اوکے میم چلیں سر میرے ساتھ

لیکن رمل ہم ٹھیک ہیں ایسے ہہی

کیا حان اتنی سی بات نہیں مانیں گے

رمل حان کی طرف جکھتے ہوۓ بولی 

نہیں نہیں ہم جا رہے ہیں۔

رمل نے بے ساختہ قہقہہ لگایا...... 

ٹھیک 1 گھنٹے بعد 

میم سر کا ڈریس

یس آفکورس یہ لیں

رمل شاپنگ بیگ پکڑاتے ہوۓ بولی تھی.... 

ٹھیک 10 منٹ بعد

 یہ دیکھیں میم سر ریڈی ہیں 

رمل جو شیشے سے باہر کی طرف دیکھ رہی تھی.... 

پلٹنے پر ساکن ہی ہو گئی.... 

ملحان.... بلیک پینٹ، بلیک شرٹ جس کے ہاف بازو فولڈ کیے... شرٹ کے اوپری 2 بٹن کھولے بلیک سیاہ بالوں کو ماتھے پر بکھیرے.... ایک ہاٹ بلا ہی لگ رہا تھا

جو اس حلیے میں رمل کا چین و سکون لوٹ چکا تھا... 

دیکھا نہیں نہ اچھا لگ رہا.... 

حان اپنا چشمہ سیدھا کرتے ہوے بولا۔

حان کے بولنے پر رمل کا سکتا ٹوٹا تھا... 

O my God han

Looking Hot 🔥 its gorgeous fabulous.....  oops Han it's heart touching look

رمل کے بولتے ہی حان کے گالوں پر سرخی چھا گئی 

آوے ہوۓ منڈا بلش کر رہا ہے.... 

رمل جی پلیز....  ایک منٹ... 

رمل نے ملحان کا چشمہ اتارتے اس کی آنکھوں میں لینز لگاۓ تھے

اب پرفیکٹ ہے.... ❤️

آہ... حان آج تو میری جان لے رہے ہو..... 

رمل جی آپ پلیز جان نہ دے میں پھر سے وہی ڈریسنگ کر لیتا ہوں

حان مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بولا.. تبھی رمل کی نظر اس کے ڈمپل پر پڑی۔

رمل نے  بے ساختہ آگے بڑھتے اس کے ڈمپل پر لب رکھے اور کہا

او حان تمھارا ڈمپل...... 

I love himmmm😍😍😍😘

حان تو رمل کی ہمت پر فک تھا..... 

او حان کبھی بتایا نہیں کہ ڈمپل بھی ہے آپ کے... 

رمل جی آپ  کبھی مجھ سے کچھ پوچھتی بھی ہیں 

ہاہاہا.... میرا شونو مونو..... 

چلو اب نیکسٹ سٹیپ.... 

وہ کونسا.... 

چلو گے تو پتا چل جائے گا... 

اوکے... 

تبھی رمل حان کو ایک بڑے سے ڈرائیونگ ہال کی طرف لائ تھی....

ادھر کیا کرنا ہے... 

حان  نے ارد گر چلتی گاڑیوں کو دیکھ کر پوچھا تھا

چلو آپ کو ڈرائیونگ سیکھنی ہے... 

نہیں نہیں پلیز نہیں 

مجھے نہیں سیکھنی... رمل جی

حان بھاگتے ہوئے بولا تھا... 

رمل نے ملحان کا بازو پکڑ کر روکا تھا.. 

رمل جی کے حان جی ڈرائیونگ تو آپ کے فرشتے بھی سیکھیں گے... 

نہیں پلیز آپ کیوں جابر ساس بن کر میری جان لینے پر تلی ہوئ ہیں.... 

ہاہاہا جابر ساس

سو فنی پر ڈرائیونگ تو آج سیکھ کر جانا ہے. رمل نے ایک قدم آگے بڑھاۓ حان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا تھا 

ادھر دیکھیں حان میری آنکھوں میں 

آئ پرومس رمل اپنے حان کو کچھ نہیں ہونے دے گی آئ پرومس... 

لیکن رمل جی ہم سے نہیں ہو پاۓ گا... 

آپ کریں گے اور اپنی رمل کے لیے کریں گے یہ سب... 

شش

اس سے پہلے کے حان کچھ بولتا رمل نے اس کی دونوں آنکھوں پر؛ باری باری اپنے لب رکھے تھے 

چلیں.... 

حان کو ڈرائونگ سیٹ پر بٹھا کر خود اس کے ساتھ بیٹھتے اسے گاڑی ساڑٹ کرنے کا طریقہ سمجھایا تھا... 

اوکے اب کریں سٹارٹ...

حان نےگھبرائ نظروں سے رمل کو دیکھا تھا.. 

آئ پرومس کچھ نہیں ہوگا... 

حان اللہ کا نام لیتے گاڑی سٹارٹ کرچکا تھا . 

پھر لگاتار 2 گھنٹے کی ان تھک محنت سے ملحان گاڑی کو کافی حد تک سنبھالنا سیکھ لیا تھا... 

رمل جی پلیز بس

ہمیں عصر کی نماز ادا کرنی ہے

اوکے چلو بس آج کے لیے اتنا کافی ہے

حان بھاگ کر گاڑی ایسے سے نکلا جیسے اس کے پیچھے پولیس لگی ہو... 

ہاہاہا حان کیا بنے گا آپ کا... 

رمل جی مجھے لگتا ہے ان قریب میرا مقبرہ بنے گا

شٹ اپ حان.... 

سوچ سمجھ کر بولا کرو

اوکے اوکے

.....

گھر جاتے ہی حان نماز ادا کرتے تھکا ٹوٹا بستر پر گرا تھا.... 

او رمل جی بس کروا دی 

حان جی ابھی تو آگے آگے  دیکھئے ہوتا ہے کیا... 

اوکے ریسٹ کرو تم اب

عشا کے بعد پھر ملے گے

آپ کہاں جا رہی ہیں... 

آتی ہوں تھوڑا کام ہے

لیکن ہم اکیلے

او حان بچے بننا چھوڑ دو اب تو شادی بھی ہوگی تمھاری

اور ہاں اب یہ ہی ڈریس پہننے ہیں جو میں لے کر آی ہوں.... 

اور سو جاؤ تھوڑا

میں چلتی ہوں

...... 

رمل کے جاتے ہی حان نے آنکھیں بند کئے 

گزرے ہوۓ دن کے بارے میں سوچا

کیسے رمل نے ایک ہی دن میں اسے بدل کے رکھ دیا تھا

کب اس کی آنکھ لگی اسے کوئی خبر نہیں.... رمل کی کال پر دوبارہ آنکھ کھلی تھی

حان جلدی کرو ہمیں کہیں جانا ہے

رمل جی ہم بتا رہے ہیں ہم کار نہیں ڈرائیو کریں گے

او حان جی کار تو آپ کے اچھے بھی ڈرائیو کریں گے

رمل جی... حان پاؤں پٹکتا اندر کو بڑھ گیا تھا

اور پھر وہی ہوا رمل نے حان سے ہی گاڑی چلوائ

ٹھیک 15 منٹ بعد وہ لوگ نمل کی شہر والی حویلی کے گیٹ پر تھے

یہ کس کا گھر ہے اور ہم ادھر کیا کرنے آۓ ہیں

یہ ہمارا گھر ہے اور اندر چلو پتا لگ جائے گا کہ کیا کرنے آۓ ہیں

اندر داخل ہوتے ہی حویلی کی خوبصورتی دیکھ کر حان گنگ رہ گیا۔

واؤ ماشاءاللہ بہت پیارا گھر ہے آپ کا۔ ملحان بے ساختہ بولا۔

ہمم اس طرف چلو

رمل نے پول کی جانب اشارہ کیا۔

رمل جی ہم نے مغرب پڑھنی ہے

اس کے بعد ہم آپ کی بات مانیں گے

 ٹھیک ہے

آدھے گھنٹے میں ملحان نماز پڑھ کر فری ہوا تھا

یہ لو ڈریس چینج کرو

لیکن یہ ان کپڑوں کو کیا ہوا

جاؤ حان ورنہ پھر میں خود چینج کرواؤں گی

نہیں نہیں ہم کررہے ہیں

ملحان نے چیک کیا وہ سیومنگ ڈریس تھا

حان چینج کیے باہر آیا تو

رمل بھی کچھ اس طرح کا ڈریس پہن کر کھڑی تھی

رمل جی یہ کیسا ڈریس ہے

ہاہاہا

حان نے ہنستے ہوئے کہا تھا

ابھی پانی میں چلو دیکھنا تمھارے دانت بند ہوتے

رمل نے دل میں سوچا تھا

اور حان کا ہاتھ پکڑے پول سائیڈ کی طرف بڑھ گئی۔

ہممم چلو...

پول کو دیکھ کر ملحان سمجھ گیا کہ رمل کیا کرنے کی کوشش میں ہے

رمل میں بتا رہا ہوں مجھے پانی سے بہت ڈر لگتا ہے

میں نہیں جاؤں گا پانی میں

حان جی یہ ڈرہی تو ختم کرنا ہے آپ کا

ملحان رمل کے سامنے پول کی طرف بیک کیے کھڑا تھا

رمل جی.... پلیز 

حان جی پلیز

رمل نے  مسکراہٹ چھپاتے ایک قدم حان کی بڑھایا تھا

اور ملحان نے اک قدم پیچھے کی جانب

اور یہ ملحان پانی میں...... 

ہاہاہا اب آیا مزہ

لیکن جلد رمل کی ہنسی رکی تھی جب ملحان نے پانی میں ہاتھ پاؤں چلانے سٹارٹ کیے تھے

بدھو اتنا بھی نہیں پتا کہ کھڑے ہو جاؤ پول میں... 

تبھی رمل اک ڈائ کے ساتھ پول میں کودی ۔ ملحان کی طرف بڑھتے اس نے ملحان کو کھڑا کیا۔

حان پاؤں نیچے لگاؤ

رمل کے کہتے ہی ملحان نے پاؤں نیچے لگاۓ تھے

ہممم گڈ

رمل جی ہم... ہم. نہیں بولیں گے آپ سے ہمیں نکالیں پانی سے باہر پلیز ہمیں ڈر لگ رہا ہے۔

حان ادھر دیکھو میری طرف 

رمل نے حان کا فیس ہاتھوں میں بھرتے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا

رمل چاہتی ہے اس کا حان ہر مقام پر کامیاب ہو رمل حان کو ہر جگہ آگے دیکھنا چاہتی ہے حان سب کر سکتا ہے

حان بس رمل کی آنکھوں میں گم اس کی باتیں سن رہا تھا

وہ بھول چکا تھا کہ وہ پانی میں کھڑا ہے

وہ بھول چکا تھا کہ اسے پانی سے ڈر لگتا ہے

وہ سب بھول چکا تھا

اسے یاد تھا تو بس اتنا کہ سامنے وہ لڑکی ہے جو اسے ہر مقام پر کامیاب دیکھنا چاہتی ہے

رمل نے کہتے ہی ملحان کی طرف جھکتے بہت نرمی سے اس کے ہونٹوں کو اپنے لبوں میں لیا تھا

صرف کچھ سیکنڈ کا کام تھا

جو ملحان کا کام تمام کر چکا تھا

حان کرو گے سوئمنگ رمل نے بہت مان سے پوچھا۔

اور حان کا سر خود بہ خود ہاں میں ہلا تھا

اور پھر لگاتار 3 گھنٹے کی ان تھک محنت سے حان سوئمنگ سیکھ گیا تھا

واؤ رمل جی بہت مزہ آ رہا ہے

اچھا جی مزہ. آرہا ہے

اور ابھی تھوڑی دیر پہلے کوئی کہہ ریا تھا کہ مجھے پانی سے ڈر لگتا ہے

ارے آپ کے ہوتے ہوئے حان کے سارے ڈر دور بھاگ جاتے ہیں 

اچھا جی... 

چلو اب بہت ہو گیا

نکلو پانی سے یا تم نے رات بھی ادھر رہنا ہے

رمل جی اگر آپ ساتھ ہیں تو رہ لیتے ہیں 

حان نے کہتے ہی پانی سے نکلتے ہاہر کو دوڑ لگائ تھی

لیکن حان کی ماڑی آئ 

وہ پانی کہ پھسلن سے یہ گرااا... وہ گیا

ہاہاہا بہت باتیں آ رہی تھی اب آیا مزہ

ہاۓ رمل جی مر گیا

ہاہاہا چلو اٹھو

رمل نے حان کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا

لیکن یہ کیا حان اپنے ساتھ رمل کو بھی نیچے گرا چکا تھا

اب ہنسنے کی باری حان کی تھی

ہاہاہا رمل جی بدھو بنایا بڑا مزہ آیا

رمل حان کے سینے پر لیٹی اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی

کیا ہوا آپ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں 

حان کتنے پیارے ہو تم۔ تم اتنے پیار کیوں لگتے ہو مجھے؟میرا دل کرتا ہے تمہیں اپنے سینے میں چھپا لوں۔حان تم میرا جنون بنتے جا رہے ہو۔

رمل جی محبت جنون کی حد تک ہو تو مزہ نہیں آتا ۔محبت میں مزہ تب آتا ہے جب انسان پر فتور سوار ہو جاۓ

جیسے میرے حالات ہیں نہ حان فتور سوار ہوتے وقت نہیں لگے گا بس تم کبھی دور نہ ہونا ورنہ رمل اس فتور میں کیا کر گزرے تمہیں بھی اندازہ نہیں ۔تمھارے بغیر تو اب رمل کا گزرہ مشکل ہو جاۓ گا۔

رمل نے ملحان کے لیے گانے کے کچھ بول بولے

میں جان یہ وار دوں

ہر جیت بھی ھار دوں 

قیمت ہو کوئی تجھے 

بے انتہا پیار دوں۔

ساری ہدیں  میری

اب میں نے توڑ دی

دے کر مجھے پتا

آوارگی بن گئے 

ہاں ہنسی بن گئے

ہاں نمی بن گئے

تم میرے آسماں

میری زمیں بن گئے۔۔۔۔۔

قید کرتی ہوں حسرتیں دل میں 

پھر انہیں خودکشی سکھاتی ہوں ۔🖤

باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو

جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو

۔

پھر تمہیں روز سنواریں تمہیں بڑھتا دیکھیں

کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو

۔

جیسے بالوں میں کوئی پھول چنا کرتا ہے

گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجا لیں تم کو

۔

کیا عجب خواہشیں اٹھتی ہیں ہمارے دل میں

کر کے منا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو

۔

اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے

اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو

۔

کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو

کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو

۔

ہے تمہارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں

اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھا لیں تم کو

۔

جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو

ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو

۔

جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور

اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو

۔

اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم

ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو

....

‍‍‍

....... 

رمل جی اب ہم کیا پہنیں... 

 رمل قیس کے روم کی طرف بڑھی ادھر سے قیس کا بلیک کرتا شلوار لے آئی اور کہا

یہ پہنو

شلوار قمیض... یہ تو ہم نے کبھی نہیں پہنا۔ملحان نے حیرت سے کہا۔

جو تم آج کل پہن رہے ہو وہ کبھی پہنا ہے کیا؟ رمل نے آئبیرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔

اوکے ہم پہن لیتے ہیں۔

ملحان کہتے ہوئے ڈریسنگ کی طرف بڑھا۔

تھوڑی دیر بعد ملحان وہ بلیک کرتا شلوار پہنے باہر آیا تو رمل کو لگا قیس لالہ کھڑے ہیں 

کیا ہوا رمل جی ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں 

حان تم... بہت بہت پیارے لگ رہے ہو

وہ تو ہم ہر وقت لگتے آپ کو کوئی نئیی بات کریں ملحان کہتا بازو فولڈ کرنے لگا

ہاہاہا ہماری بلی ہمیں کو میاوں

بہت تیز ہوتے جا رہے ہو

ہاں جی اک آفت کی صحبت کا اثر ہے

حان تم... ہا..... میں آفت 

جاؤ اب بات مت کرنا 

ہاہا ہا رمل جی آپ ناراض ہو ہی جائیں ہم تب تک نماز پڑھ لیں 

ویسے رمل جی یہ کرتا کس کا ہے

بہت پیاری دل کو چھو لینے والی خوشبو ہے اس کی ۔ایسے لگ رہا جیسے کیسی اپنے کا ہے

ہمم ہمارے لالہ کا ہے

آپ کے لالہ بھی ہیں 

 جی ہیں ملاوائیں گے کبھی آپ کو

ارے نہیں نہیں وہ بھی آپ کی طرح پہلوان ہی ہوں گے

اینوے ہمیں 4، 5 لگا ہی نہ دیں

ہاہاہا نہیں وہ پہلوان نہیں ہیں 

اوکے اب ہم نماز پڑھ لیں 

اوکے رمل کہتے اپنا ڈریس چینج کرنے چلی گئی۔

یہ جاۓ نماز کدھر ہے

ساتھ والے روم میں دیکھتا ہوں

لیکن اس میں بھی جاۓ نماز نہیں ملا تو ملحان نے دوسری سائیڈ والے روم میں دیکھا ۔

ملحان چلتے ہوئے قیس کے روم میں آ گیا۔ قیس جو کچھ دیر پہلے روم سے فائل لینے آیا تھا ۔ملحان کو اپنے روم میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ تو شکر کے سٹدی روم سے  ہی صرف باہر  نظر آتا تھا

باہر سے دیکھنے پرر مرر لگتا تھا 

قیس کا دل ملحان کو سامنے دیکھ کر تڑپا تھا۔ اس کا دل کیا ابھی جائے اور ملحان کو سینے سے لگا لے۔ لیکن ابھی وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتا تھا

بس کچھ دیر اور پھر ہم دونوں بھائی ساتھ ہوں گے انشاءاللہ 

رمل ملحان کو ڈھونڈتے قیس کے روم تک آئی اور ملحان کو وہاں دیکھ کر بوکھلا گئی اور جلدی سے پوچھا۔

حان ادھر کیا کر رہے ہو؟

وہ جاۓ نماز نہیں مل رہا تھا

ہممم اس طرف ہے پرییر روم چلو

رمل  اس کا ہاتھ پکڑے  باہر کو لے گی 

.......

اگلے دن ناشتے کے بعد حان نے خود ہی رمل سے پوچھ لیا .

آج کہاں جانا ہے اور کیا سیکھنا ہے؟

ارے واہ

آج  تو حان تم نے خود ہی پوچھ لیا

ہممم چلو چلتے ہیں 

کچھ ہی دور کی مسافت پر رمل اسے رنگ میں لے آئ تھی

او فائٹنگ سیکھنی ہے

لیکن رمل جی اس میں تو چوٹ بھی لگتی ہے 

ہاں جی چوٹ تو لگتی ہے

لیکن اب کیا کریں سیکھنی تو ہے

حان مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق رنگ میں داخل ہوا اور پر شوق انداز میں پوچھا۔

سیکھاۓ گا کون

او... رمل دی گریٹ سیکھاۓ گی نہ اور کس نے سیکھانا ہے رمل نے اپنا کالر جھٹکتے ہوئے کہا۔

ارے نہیں رمل چوٹ لگ جائے گی تمہیں 

او ہو چلو آؤ دیکھتے ہیں 

رمل کہتے ہوئے رنگ میں داخل ہوئ۔

سب سے پہلے ہم نے اگلے انسان کی ٹانگوں کی حرکت دیکھنی ہوتی  ہے پھر ہاتھوں کی... اس کے بعد یہ دیکھنا ہے کہ اگلا انسان ہاتھوں سے وار کرتا ہے یا ٹانگوں سے

رمل جی یہ سب چھوڑیں آپ آئیں ہم سٹارٹ کرتے ہیں 

رمل نے جیسے ہی ٹانگ گھما کر ملحان کو مارنی چاہی ملحان نے رمل کی ٹانگ پکڑ ایک ہی جھٹکا دیا اور یہ رمل گھوم کر ملحان کی بانہوں میں ۔

ہاہاہا رمل جی اب میں اتنا بھی کاکا نہیں کہ آپ سے ہار جاؤں ملحان نے ہنستے ہوئے کہا۔

حان تمہیں فائیٹنگ آتی ہے؟ رمل حیران ہوتی بولی۔

چھوڑو مجھے

فائیٹنگ تو نہیں آتی لیکن اپنا بچاؤ تو کرنا آتا ہے نہ۔ ٹھیک ہے چھوڑو مجھے۔

دم ہے تو چھڑوا لیں ملحان نے رمل کو چیلنج کرتے انداز میں کہا۔ 

حان تمھارے بہت پر نکل آئے ہیں 

ایک دفعہ چھوڑو مجھے پھر بتاتی ہوں تمہیں ۔ رمل نے دانت کچکچاتے کہا۔

ملحان نے جسے ہی رمل کو چھوڑا 

رمل نے یہ گھما کر ایک پنچ حان کے کندھے پر مارا۔

رمل جی یہ آپ کے پھولوں جیسے ہاتھ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے 

حان seriosu ہو جاؤ

لیکن رمل جی serious ہو کہ تو میں ہسپتال چلا جاؤں گا

رمل نے غور کیا کہ ملحان کا اٹکنا اب بند ہو گیا تھا اور اس کی دبو پرسنلٹی کہی کھو گئی تھی۔ اب اس کے سامنے کھڑا لڑکا zero نہیں ایک ہیرو تھا

جو اب اس کو ہی چکر دے رہا تھا

حان کی شخصیت میں یہ نکھار صرف رمل کی 4 دن کی صحبت سے تھا

اور رمل کو یہ چینج بہت اچھا لگ رہا تھا

چلو اب سٹارٹ کرتے ہیں

پھر رمل نے ملحان کو سب اصول سمجھاۓ۔ مسلسل پریکٹس سے ملحان تھک کر نیچے گر پڑا۔اور بمشکل بولا 

رمل جی بس کریں اب تو میری بس ہو گئ ہے ۔

ہاہاہا

اتنا کافی ہے

اب تم اپنا سیلف ڈیفنس سیکھ گۓ ہو 

چلو اٹھو چلیں رمل نے جیسے اس پر احسان کرتے کہا ۔

لیکن جیسے ہی رمل آگے بڑھی ملحان نے اپنا پاؤں اٹکایا اور یہ رمل سیدھا  ملحان کے اوپر۔

سیلف ڈیفنس تو آپ کو بھی سیکھنا چاہیئے رمل جی ملحان نے اس سب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔

حان تمھاری مستی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے. نکال دوں ساری؟ 

رمل نے اس کے چہرے پر  جھکتے ہوئے کہا تھا

ہاہاہا

نہ نہ رمل جی میں ایسے ہی اچھا ہوں۔

نہیں نہیں اب تو میں تمہیں سیٹ کر کہ ہی رہوں گا۔ رمل نے لڑکے کی ایکٹنگ کرتے ایک ادا سے کہا۔

ہاہا رمل جی یہ پہلے آپ لڑکی بن جائیں۔ 

حان۔۔۔۔۔

رمل نے مصنوعی غصہ سے گھورا 

چلو اٹھو چلتے ہیں 

پرسوں سے تم نے یونی سٹارٹ کرنی ہے

اوکے جی چلیں۔

اوکے اب آپ فلیٹ پر جاؤ مجھے ضروری کام سے جانا ہے۔ 

                      ❣️❣️❣️  

‍‍انابیہ پوری رات اس لڑکے کے بارے میں سوچتی رہی ۔ انابیہ کے زہن سے اس کا تصور نکل ہی نہیں رہا تھا اسے وہ اپنا آئیڈیل لگ رہا تھا 

آج جب وہ یونی کیفے کی طرف بڑھی 

اسی وقت کسی نے اسے بازو سے پکڑ کر سٹور روم میں کھینچا۔

کون ہو۔ انابیہ نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔

اوۓ گھبراؤ نہیں میں ہوں

آپ سامنے اس اجنبی کو دیکھ کر انابیہ کی آنکھیں چمکی تھی

ہمممم میں

کیسی ہو۔

الحمدللہ آپ کیسے ہو

انابیہ کو اندازہ نہ تھا کہ وہ اس وقت جس کے قریب کھڑی ہے وہ نامحرم ہے اس کا

وہ تو بس اس اجنبی کو آنکھوں کے رستے دل میں اتار رہی تھی

آج اس اجنبی نے بھی انابیہ کی آنکھوں میں الگ چمک محسوس کی تھی

کچھ سوچتے ہوئے وہ انابیہ کی جانب جھکا تھا

اسے لگا تھا کہ اس کے قریب آنے پر انابیہ غصہ کرے گی لیکن اس کو دھچکا تب لگا جب آ سکے جھکنے پر انابیہ آپنی آنکھیں بند کر چکی تھی

اس اجنبی نے آہستہ سے اپنے لب انابیہ کی آنکھوں سے ٹچ کیے لیکن انابیہ نے کوئی حرکت نہ کی وہ اجنبی حیران سا پیچھے ہوا تھا۔ یہ وہ انابیہ نہیں تھی جیسے وہ جانتا تھا تبھی وہ غصے سے پاگل ہوتا اسے جھٹکے سے چھوڑ کر وہاں سے غائب ہو گیا۔ 

کیسے کر سکتی ہے وہ ایسا

کیوں کسی کو وہ اپنے اتنا قریب آنے دے سکتی ہے کیا وہ اپنی راہ سے بھٹک رہی ہے؟ یہ وہ انابیہ نہیں جس سے میں نے عشق کیا یہ تو کوئی اور لڑکی ہے جو نہ محرم کی محبت میں اپنا رستہ بھولتی جا رہی ہے۔ مجھے لگا تھا وہ میری محبت کبھی قبول نہیں کرے گی۔

مجھے لگا تھا وہ کہے گی کہ پہلے نکاح کرو۔

اس اجنبی کے اچانک غائب ہونے پر انابیہ نے پریشانی سی آنکھیں کھولیں ۔

ہمم کہاں گئے۔

انابیہ نے اپنا موبائل نکالتے سولمیٹ والے نمبر پر کال کی تھی

فوری کال پک ہوئی تھی

کہاں ہیں آپ؟ 

مجھے یہاں چھوڑ کر کہاں گۓ آپ؟

اس نے کچھ بھی بولے بغیر کال کٹ کر دی۔

اللہ

انابیہ میری محبت میں اس حد تک جا چکی ہے کہ وہ محرم نہ محرم کا تصور بھول گئ ہے۔ مجھے کچھ کرنا ہو گا اس سے پہلے کہ بات بہت آگے بڑھ جائے۔

                       ❣️❣️❣️

دغا باز ہو تم ستم ڈھانے والے

فریبِ محبت میں اُلجھانے والے🖤

قیس نے آغا جان سے ضروری بات کرنی تھی۔اس لیے نمل سے بولا۔

نمل میں آج گاؤں جا رہا ہوں چلو گی آپ بھی?

خان جی میں ہاں نہیں نہیں آپ جائیں

میں پھر جاؤں گی۔

لیکن اس دن تو آپ کہہ رہی تھی کہ جانا ہے مورے کی یاد آ رہی ہے آپ کو... 

جی لیکن اب ہم نے نہیں جانا

پھر جائیں گے۔

خیر تو ہے۔

قیس نے گہری نظر سے اسے دیکھا تھا ( ایک نمل ہی تو اس وقت قیس کو سکون دے رہی تھی ورنہ انابیہ کی حالت دیکھ کر قیس کا برا حال تھا) 

جی جی خیر ہے

وہ بس ایسے ہی نمل بات کو ٹال گئی

اچھا چلو ادھر آؤ ۔قیس نے بازو کھولتے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا .

نمل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے قیس کی طرف بڑھی .

قیس بے نمل کو کھینچتے اپنے سینے سے لگایا اور زور سے اپنی بانہوں میں بھینچا تھا

خان جی

اب خان جی پورا دن آپ سے دور رہیں گے اتنا تو ڈوز چاہیے نہ۔

خان جی آپ بہت بدل گۓ ہیں 

خان نے نمل کو سینے سے ہٹاۓ حیرت سے دیکھا تھا

کیسے

جب سے آپ کو پتا لگا ہم ٹھیک ہو گۓ ہیں آپ تب سے.... 

نمل نے شرماتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی تھی

قیس نے اس کی بات کا مطلب سمجھتے مسکراہٹ چھپائ تھی

بتائیں کیا تب سے

کچھ نہیں خان جی آپ جائیں آپ کو دیر ہو رہی ہو گی

آ میلا شرماتو بچہ

اس دفعہ میں مورے سے بات کر کے آؤں گا

کونسی بات

یہ تو آکر بتاؤں گا آپ کو

قیس نے اپنے لب نمل کے ماتھے پر رکھے تھے

قیس کی سانسوں کی خوشبو نمل کے حواس معتل کر رہی تھی

خان جی بس کریں کافی دیر تک قیس نمل کو بانہوں میں لیے کھڑا رہا تو

نمل نے قیس کو پکارا تھا

گڑیا پتا نہیں کیوں ہمارا دل گھبرا رہا ہے

ہمیں ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے آج کے بعد کچھ ٹھیک نہیں رہے گا

خان جی یہ کیا بول رہے ہیں آپ 

نمل کو پریشان ہوتا دیکھ کر قیس نے جلدی سے بات بدلی تھی

اوکے خان کی جان

ہم جا رہے ہیں 

ہمیشہ قیس کے ایسے بولنے پر نمل شرما جاتی تھی اب ھی ایسا ہی ہوا تھا

نمل قیس کو دروازے تک چھوڑنے آئی تھی ۔قیس نے جیسے ہی باہر قدم رکھا پھر سے پلٹ کر نمل کو بانہوں میں بھرا تھا اور اس کا گال چومتے باہر  بھاگ گیا تھا پیچھے نمل دیکھتی رہ گی۔

آہ خان جی کتنے شرارتی ہو گۓ ہیں 

اپنا خیال رکھنا 

قیس  کہتے  نیچے کو بڑھا تھا

رمل کو نمل کے پاس جانے کا میسج کرتے خود وہ گاؤں روانہ ہو گیا

قیس کے جانے کے بعد نمل نے ڈور لاک کیا اور صوفے ہر بیٹھتے اپنے اور قیس کے رشتے کو سوچنے لگی تھی

نمل کو زیادہ تو کچھ یاد نہیں تھا اسے بس اتنا ہی یاد تھا کہ مورے نے کہا تھا اس کا سب کچھ اب قیس ہی ہے تو وہ جو کہے جیسے کہے ویسے کرنا ہے

لیکن اب نمل کو قیس کا اپنے اتنے قریب آنا عجیب لگ رہا تھا

قیس کے قریب آنے پر اب اس کی دھڑکنیں بڑھنے لگی تھیں

اس کا دل بے قابو ہونے لگا تھا

لیکن وہ پریشان تھی کہ وہ اب قیس کےساتھ ایسے تو نہیں رہ سکتی 

کل کو خان جی کی شادی ہو جائے گی تب ان کی بیوی کیسے برداشت گرے گی اور ہم.. کیا رہ پائیں گے خان جی

پہلے تو ہمیں سمجھ نہیں تھی لیکن اب ہم خان جی سے دور رہیں گے

ہممم ہم یہی کریں گے۔اب خان جی کو اپنے پاس بھی نہیں آنے دیں گے

وہ دل میں سوچتی پلیننگ کر رہی تھی

لیکن اسے نہیں پتا تھا آنے والی شام اس کے لیے کسی طوفان کی طرح ہو گی

                     ❤️❤️❤️

تھوڑی دیر بعد رمل فلیٹ میں داخل ہوئی ۔

واہ نمو آج آپ گئی نہیں خان جی کے ساتھ ہاں نہ ہمیں کچھ شاپنگ کرنی تھی پرسنل والی اور رمل آپو آپ کہاں بزی تھیں

جلدی کرو نمل میرے پاس وقت کم ہے 

آپ قیس لالہ سے کہہ دیتی 

نمل کا منہ لال اناری ہوا۔ آپو شرم کرو خان جی کو کیسے کہتے ہم

اوکے چلو آپ کو میں لے جاتی ہوں 

رمل نے قیس کو میسج پر بتایا تھا 

رمل ہم انابیہ کو بھی لے چلتے ہیں 

انابیہ میری جان آپ بھی چلیں ہمارے ساتھ

آپو پلیز ہمیں مجبور مت کرے 

ہم کہیں نہیں جانا چاہتے انابیہ نے بیزاری سے کہا۔

آپ کو میری قسم چلو

انابیہ نمل کو کچھ نہیں معلوم آپ ایسا کرو گی تو وہ پریشان ہو گی

انابیہ نے گاؤن پہنا تھا اور پھر وہ تینوں بازار کے لیے نکل پڑی۔

                         ❣️❣️❣️

ہیلو.. ہم کہا ہو تم... جی لالہ میں بس فری حکم کریں

ہممم شاپنگ مال جاؤ

گڑیا اور بیہ رمل کے ساتھ  گئ ہیں لیکن بیہ کے ساتھ تمھارا ہونا ضروری ہے دھیان رکھنا

جی لالہ

                      ❣️❣️❣️

آپو

جی بولو گڑیا

آپو ہمیں بھی ویسا ڈریس لینا ہے جیسا آپ پہنتی ہیں سوتے وقت

او....

نائٹ ڈریس

ہاں جی نائٹ ڈریس

اوکے چلیں اس سائیڈ پر ہے

نمل نے ایک بلیک کلر نیٹ کا نائٹ ڈریس پسند کیا تھا

کیسا ہے یہ

بہت پیارا

اوکے تو پیک کروا لوں

جی کروا لیں

انابیہ تم بھی لے لو

نہث آپو میں نہیں 

میں تو بس ٹراؤزر شرٹ میں کمفرٹیبل رہتی ہوں

لے لو نہ 

آپی کیا کرنا ہے ہم نے 

رمل نے ایک ریڈ کلر کا ڈریس بیہ کی طرف بڑھایا تھا 

جاؤ بیہ ٹرائی کرو

ارے نہیں آپو

مجھے گاؤن اتارنا پڑے گا

ارے جاؤ نہ

اوکے 

انابیہ چینجنگ روم کی طرف بڑھی تھی اور نمل شاپ میں لٹکے ڈریسز دیکھنے لگی تھی

انابیہ نے  ابھی گاؤن ہی اتارا تھا کہ

لائٹ آف ہو گئی

اس سے پہلے کہ وہ چینخ مارتی کسی نے پیچھے سے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اس کے کان کے پاس بولا۔

شش چلانا نہیں میں ہوں

انابیہ پہچان چکی تھی کہ بدر ہی ہے

بدر نے جیسے ہی اس کے چہرے سے ہاتھ اٹھایا انابیہ چیخی۔

چھوڑیں مجھے 

اندھیرا ہونے کی وجہ سے بدر نے اپنا رومال اتار دیا تھا شش خاموش بدر نے اس کی کان کے لو پر اپنے لب رکھتے پھر سے خاموش رہنے کا کہا تھا

بدر کا ہاتھ انابیہ کی کمر پر تھا اور انابیہ کی سانسوں کی روانی وہ آسانی سے سن رہا تھا

کس قدر پاگل ہیں آپ.. آپ کو زرہ اندازہ نہیں ہیں کہ ان جگہوں پرcameras لگے ہوتے ہیں آپ ادھر چینج کرنے آ گئی تھی

با خدا اگر آپ  یہاں چینج کرتی   تو.. 

بدر نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔

اس کی گھمبیر آواز اور بولے جانے والے فقرے سن کر انابیہ کی سانسیں رکی تھی

تو ہم اس شاپنگ مال کو آگ لگا دیتے

ہم نہیں جانتے تھے چھوڑے ہمیں... 

چھوڑے گاون پہننا ہے ہمیں 

کتنے دنوں بعد مل رہے ہیں آج آپ

بدر نے آہستہ سے بیہ کی کمر سے ہاتھ نکلا اور اس کا گاؤن اپنے ہاتھ میں پکڑتے اندھیرے میں ہی بازو کھولتے اسے گاؤن پہنا چکا تھا

آپ کو ایسے دیکھنے کا حق صرف میرا ہے صرف میرا

بدر سانسیں چھین لے گا اس انسان کی جس نے آپ پر بری نظر ڈالی

انابیہ تو اس قدر جنون دیکھ کر ڈر گئی

لیکن یہ سنتے ہی انابیہ غصے سے پاگل ہو گئی

پروا ہے آپ کو میری اتنے دن سے غائب ہیں آپ

بدر نے انابیہ کا سٹالر اٹھاتے اس کا حجاب بنایا اور نقاب کرتے پینز لگا دی 

انابیہ جلدی سے باہر کو بڑھتی کہ بدر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔

وہ بے ساختہ اس کے سینے سے ٹکرائی 

اپنا خیال رکھیے گا میرے لیے کہتے اس نے انابیہ کا ہاتھ چھوڑا اور چپکے سے باہر نکل گیا تھا

جب انابیہ کو کافی دیر ہو گئی تو

نمل نے پکارا ۔

بیو آ بھی جاؤ یار

انابیہ ہوش میں آتے باہر کو بڑھی۔

نقاب ہونے کی وجہ سے نمل  انابیہ کے ایکسپریشن نہیں دیکھ پائی تھی

باقی رمل تو سب سے واقف تھی

پ پورا ہے پورا 

چلو آپو گھر چلیں 

اوکے یہ چیزیں میں نے پسند کی ہیں

چلو پیمنٹ کر لیں 

پیمنٹ کرتے وہ تینوں مال سے باہر نکلی تھی

اف میں تھک گی 

آپو ابھی ہم نے لیا ہی کیا یہ 4 چیزیں اور اپ تھک گئیں

ہاہاہا میں تو اتنے میں ہی تھک جاتی ہوں

اوکے اب ریسٹ کر لیں

اوکے کہتے وہ ریسٹ کرنے  چلی گی ۔

                    ❣️❣️❣️❣️

او تو ونی صاحب آئے ہیں۔ آئیے آییے آپ کا ہی انتظار تھا۔

اسلام علیکم

قیس کے سلام کرنے پر خولہ بیگم نے بولا تھا

ہممم خوش تو بہت ہو گے نہ تم

آخر اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے تم نے

جی کونسا کارنامہ

قیس نے نا سمجھی میں خولہ بیگم کو دیکھا تھا

تبھی پیچھے سے رمل کے بابا کی آواز سن کر قیس نے محبت سے ان کے آگے اپنا سر جھکایا تھا

آؤ برخوردار

کیسے ہو

جی الحمدللہ اللہ پاک کا بہت کرم بابا جان آپ کیسے ہیں 

بیٹا اتنے دونوں بعد آۓ ہو اور نمل کو بھی نہیں لاۓ ساتھ

جی بابا جان وہ نمل کا ایک ٹیسٹ تھا اس لیے نہیں آئ وہ

سہی

آج آپ کھانا ہمارے ساتھ کھا کر جائیں گے 

بابا جی نمل اکیلی ہو گی. کوئی بات نہیں بیٹا آپ ادھر انابیہ کو بھیج دیں

جی بابا جیسا آپ کہیں۔

آغاجان کدھر ہیں 

وہ ڈیرے پر ۔

ٹھیک ہے بابا جان میں ان سے مل لوں

ٹھیک ہے بیٹا

قیس کے جاتے ہی خولہ بیگم غصے سے پھنکاری.... یہ کیا بہت پیار آرہا تھا اس ونی پر 

ہاہاہا

خولہ بیگم... کام کچھ ایسے کرنا چاہیے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے

او آپ تو بہت تیز نکلے سائیں 

بس تم آج قیس کی پسند کا کھانا بنواؤ

دیکھو ہم قیس کو کیسے رام کرتے ہیں 

جی ٹھیک ہے

                       ❣️❣️❣️

آغا جان یہ عمر ہے آپ کی ڈیرے پر آنے کی آپ سے کہا تھا کوئی مسئلہ ہوا مجھے بلا لیجیے گا

قیس بیٹا ہم روز روز آپ کو بلانے سے رہے گاؤں میں سو مسئلے ہو جاتے ہیں

اچھا بتاو گڑیا کیسی ہے

جی ٹھیک ہے وہ بھی آغا جان

اسے نہیں لائے (نمل کا نام سنتے ہی قیس کو اس کی آج صبح والی حرکت یاد آئ تھی... اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی) 

کیا ہوا بیٹا خود ہی مسکرا رہے ہو ۔جی وہ کچھ نہیں 

ہاں نمل کا ٹیسٹ تھا اس لیے

سہی  چلو

آغا جان میں نے غلام سے کہہ دیا وہ حل کر لے گا پانی کا مسلہ آپ ٹینشن نہ لیں

ارے میرا لال آپ کے ہوتے ہمیں کوئی ٹینشن نہیں 

                      ❣️❣️❣️

رات کا کھانا سب قیس کی پسند کا تھا

قیس نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا تھا

قیس یہ لو کھیر.... تبھی مورے کھیر کا باؤل لے کر آئ تھیں۔

میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے اپنے بیٹے کے لیے

لائیں مورے

ہممم بہت مزے کی ہے قیس نے چمچ منہ میں ڈالتے ہی کمنیٹ پاس کیا تھا

قیس نے پورا باؤل ختم کر دیا تھا

مورے نمل کے لیے بھی کھیر دیجیئے گا

ٹھیک ہے بیٹا 

لیکن نمل کا نام سنتے ہی خولہ بیگم کے چہرے پر سایہ سا گزرہ تھا

واپسی پر مورے بیگم نے قیس کو نمل کے لیے کھیر دی تھی

لیکن سامنے سے آتی خولہ بیگم جان بوجھ کر قیس سے ٹکرائ اور کھیر والا باؤل نیچے گر گیا۔ ساری کھیر فرش پر بکھر گئی تھی

او sorry سوری

وہ پتا نہیں کیسے ہو گیا

او یہ کیا کیا بھابھی آپ نے اب تو اور کھیر بھی نہیں ہے نمل کے لیے. ارے کوئی بات نہیں مورے ہم اگلی دفعہ لے جائیں گے

ٹھیک ہے مورے ہم چلتے ہیں 

نمل اکیلی ہو گی 

اوکے بیٹا 

فی امان اللہ

ابھی قیس نے سفر سٹارٹ ہی کیا تھا کہ اس کا سر بھاری ہونے لگا تھا عجیب سا دل ہو رہا تھا لیکن قیس نے سر جھٹکتے ڈرائیورنگ تیز کی تھی

لیکن گھر تک پہنچتے قیس کی سچویشن عجیب ہو چکی تھی

اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے اس کے جسم میں آگ بھر دی تھی

گاڑی پارک کرتے وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ لفٹ کی طرف بڑھا ۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہو کیا رہا ہے

آنکھیں لال سرخ ہو گئی تھیں جیسے لال انگارہ ہوں

اس نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ پوکٹ سے چابی نکا کر بہت مشکل سے دروازہ کھولا تھا

                         ❣️❣️❣️

نمل جو قیس کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی سوچ میں پڑھ گئی۔

ہمم کیا کروں۔

ہاں جو آج شاپنگ کی وہ چیک کرتی ہوں 

اس نے اپنا نائٹ ڈریس نکالا اور چینج کرنے چلی گئی  نیٹ کا بلیک کلر کا نائٹ گاؤن پہن کو جب وہ باہر آئ تو 

منظر قیامت خیز تھا

پہلی دفعہ نائٹ گاؤن یوز کرنے کی وجہ ہے اسے اچھے سے پہہنا بھی نہیں آیا تھا

اووہ یہ سیٹ کیوں نہیں ہو رہا ہے 

گردن سے سٹیپ بند نہ کرنے کی وجہ سے وہ کبھی اک کندھے سے گر رہاتھا تو کبھی دوسرے کندھے سے... 

اوپپپس اسے میں کیسے سہی کروں

ہاں خان جی آئیں گے تو ان سے پوچھوں گی... 

اپنے ہولیے سے بے نیاز وہ.... خود سے باتوں میں مگن تھی.... 

تبھی فلیٹ کا دروازہ کھولتے قیس لڑکھڑاتے قدموں سے روم میں داخل ہوا  

لیکن شیشے کے سامنے نمل کو نائیٹ گاؤن میں کھڑا دیکھ کر شدت جذبات کی ایک لہر اس کے اندر اٹھی تھی

خان کو دیکھتے نمل بھاگ کر اس کے سینے سے لگی تھی۔

خان جی آ گئے آپ

نمل کے سینے سے لگتے ہی قیس ساکن ہو چکا تھا... 

جذبات کا ایک طوفان تھا جو اس وقت اسے بہا لے جانے کے در پر تھا

دیکھیے نہ خان جی ہم بیو کے ساتھ یہ ڈریس لے کر آ ۓ لیکن یہ اب ہم سے سیٹ نہیں ہو رہا 

بچپنے میں نمل نے نہ تو قیس کے حصار کی گرمی محسوس کی تھی نہ اس کے دل کی تیز ہوتی دھڑکن... 

قیس نے اپنی لال سرخ انگارہ آنکھوں سے نمل کی طرف دیکھا تواسے لگا آج کی رات بڑی مشکل ہے جذبات کے سمندر میں وہ پاگل ہو جائے گا

قیس نے نمل کو اپنی طرف کھینچتے اپنے سینے میں بھینچا تھا

اور اپنے ہونٹوں کا دھکتا لمس اس کی گردن پر چھوڑا تھا

قیس کی بدلتی سچویشن نمل کے لیے حیران کن تھی

خان جی ہمارا سانس بند ہو رہا ہے خان جی چھوڑیں

لیکن خان کو ہوش ہوتا تو سنتا

نمل کو اچانک ایسے لگا جیسے وہ کیسی آگ کی لپیٹ میں آچکی ہے.. قیس کا گرم حصار اس کی گرم دھکتی سانسوں نے نمل کی حالت خراب کر دی تھی.... 

خان جی پلیز چھوڑیں

لیکن قیس نے اسے اور اپنے سینے میں بھینچا تھا۔ آج خان نمل کو اپنے سینے میں فٹ کر لینا چاہتا تھا

اپنے منہ زور جذبات سے تنگ آ کر قیس نے نمل کو ایک جھٹکے سے سیدھا کیا اور اس کے گلاب پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر اپنے دھکتے  لب رکھ دیۓ ۔

نمل جو پہلے قیس کی قربت پر گھبرا رہی تھی اب تو اس کے اوسان ختہ ہو گئے۔کچھ دیر تو نمل کو سمجھ نہیں آئی کہ ہو کیا رہا ہے

لیکن جیسے ہی اس کا سانس بند ہونا شروع ہوا اس نے اپنے ہاتھوں سے قیس کے کالر کو زور دار جھٹکا دیا 

لیکن ایسے کرنے سے قیس نے اور شدت دکھائی تھی

قیس کے اندر لگی آگ کسی صورت کم نہیں ہو رہی تھی

قیس اپنی من مرضی کرتا آہستہ سے پیچھے ہوتے نمل کو بازو  میں اٹھا گیا 

جب نمل بولنے کے قابل ہوئی تو کانپتی آواز میں بولی خان جی پلیز یہ کیا کر رہے ہیں آپ چھوڑیں ہمیں... نمل کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر اس کی گردن پر گر رہے تھے

لیکن قیس کو پروا کہاں تھی 

قیس کو ہوش کہاں تھا کہ وہ اپنی گڑیا کو تکلیف دے رہا ہے

قیس نمل کو شاور کے نیچے کھڑا کرتا شاور آن کر چکا تھا

ٹھنڈا پانی گرتے ہی قیس کو اپنے جذبات اور بھڑکتے ہوۓ محسوس ہوۓ تھے قیس ایک دفعہ پھر سے نمل کی گردن پر جھکا اپنی شدت دکھانے لگا۔

نمل کی دودھیا گردن پر گرتا پانی دیکھ قیس کو اپنے ہلک میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوئی۔ 

جا بجا نمل کی گردن پر اپنا لمس چھوڑتے وہ نمل کی جان ہلکان کر رہا تھا

 مت کریں خان جی مت کریں

ہمیں کچھ ہو رہا ہے

نمل کے مسلسل بولنے کی وجہ سے

قیس ایک بار پھر اس کے ہونٹوں کو قابو کر گیا

اسے اپنی بانہوں میں اٹھائے بیڈ کی جانب بڑھا تھا

نمل کی ہر فریاد رد کرتے وہ نمل کے وجود پر اپنی چھاپ چھوڑ چکا تھا

رو رو کر نمل کی آنکھیں سوج گئی تھیں

قیس بے ہوش بیڈ پر لیٹا ہوا تھا 

بکھرے بال.گردن پر قیس کی وحشت کے نشان... نمل کے رونے کو مزید بڑھا رہے تھے

خان جی کیوں کیا آپ نے ایسا 

آج آپ نے نمل کو خود کی نظروں میں گرا دیا خود سے زیادہ بھروسا تھا آپ پر

وہ چلتے ہوئے روم کے دروازے کے باہر بیٹھ گئی۔

ہم کبھی معاف نہیں کریں گے کبھی معاف نہیں کریں گے 

تبھی فلیٹ کا دروازہ کھلا تھا اور کوئی جلدی سے فلیٹ میں داخل ہوا تھا

میرا بچہ نمل ہم نے خواب اچھا نہیں دیکھا کیا ہوا آپ کو

اور یہ کیا حال بنایا ہوا ہے۔

نمل کا بکھرا سراپا اس کی گزری رات کا چیخ چیخ کر اعلان کر رہا تھَا

اماں.... خان جی بہت گندے ہیں بہت گندے 

یہ ہمارا حال کیا کر دیا

رات ہمیں اتنی تکلیف دی 

اماں 

روتے روتے نمل چیخ رہی تھی

بس میرا بچہ بس.... چلو میرے ساتھ اب تم ادھر ایک منٹ نہیں رہو گی

کہتے وہ نمل کے سر پر اپنی چادر پہناتے اسے لیے باہر کی طرف بڑھی تھیں۔

قیس کو دن 12 بجے ہوش آیا تھا

اپنا بھاری سر پکڑتے وہ اٹھ بیٹھا تھا

کچھ دیر تو اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کدھر اور کس حال میں ہے پھر اپنے سینے پر نظر پڑتے ہی وہ ساکت رہ گیا تھا۔ اس کے سینے پر بنے نشان اس کی گزری رات کی وضاحت کر رہے تھے

وہ اچانک بیڈ سے اٹھا تھا

گڑیا... گڑیا کہاں ہو آپ

پورا فلیٹ چھان مارا تھا لیکن نمل اسے نظر نہیں آئ تھی

نمل وہ چیختے ہوئے نیچے بیٹھ گیا

پاگلوں کی طرح چیختے وہ نمل کو آوازیں دے رہا تھا

کیا کر چکا تھا وہ.... اتنا بے بس کیسے ہو گیا کہ اپنی گڑیا کو تکلیف دے دی

نمل کی چیخیں اس کی فریادیں کیا کچھ یاد نہیں آ رہا تھا قیس کو

کیسے وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکا

اس کا دماغ معاؤف ہو رہا تھا اتنا معاؤف کہ اس کے زہن میں یہ خیال نہیں آ رہا تھا کہ کل کی رات اس کی یہ حالت ہوئی کیوں

اچانک اس کے دماغ میں دھماکہ سا ہوا تھا

نمل اکیلی کہاں جا سکتی ہے 

وہ ٹھیک تو ہو گی

کہی اس نے خود کو کچھ کر تو نہیں لیا

                         ❣️❣️❣️

ادھر حویلی میں خولہ بیگم نے ہنگامہ کھڑا کیا ہوا تھا

ہاۓ میری بچی میری پھولوں جیسی بچی کا اس نے کیا حشر کر دیا میری بچی کا... 

دیکھا میں نے کہا تھا وہ ونی وہ بدزات اس پر اعتبار نہ کریں۔ لیکن نہیں آغا جان کو تو وہ بہت اچھا لگا تھا

اب اس نے آپ کی پوتی کو داغ دار کر دیا۔ اب تو یقین آ گیا ہو گا نہ کہ کتنا اچھا ہے وہ

نمل روتے ہوئے مورے کے سینے سے لگی ہوئی تھی

رو رو کر اس کی حالت خراب ہو چکی تھی جب بھی کوئی پوچھتا وہ چیخنے لگتی۔

بلاؤ قیس کو

جلدی... 

آغا جان کے کہتے ہی نمل کے بابا نے قیس کا نمبر ملایا تھا

2 دفعہ کال کرنے پر بھی نہیں اٹھائی گی تھی

3 بیل پر

قیس جلدی حویلی پہنچو

بابا جان خیریت 

یہا ں آکر پتا لگ جائے گا کتنی خیریت ہے جلدی پہنچو

وہ پہلے نمل کے نہ ملنے پر پریشان تھا

اب بابا کا حکم 

جلدی سے شاور لیتے وہ ڈریس آپ ہوا تھا

اپنی شال اٹھاتے وہ باہر کو بھاگا تھا

آدھے گھنٹے میں قیس کی جیپ حویلی کے گیٹ پر رکی تھی

قیس جلدی سے اندر کی جانب بڑھا ۔

مورے پہلے ہی نمل کو روم میں لے جا چکی تھیں

قیس نے آگے بڑھتے آغا جان کے ہاتھ چومنے چاہیے لیکن آغا جان کے ہاتھ سے پڑنے والا تھپڑ اسے ساکت کر  گیا۔

آغاجان 

وہی رک جاؤ.... 

بدزات ہوئے نہ تم بھی گندے باپ کا گندا خون

تم نے بھی وہی کیا جو تمھارا باپ اور چاچا کرتے تھے

ہم نے تم پر اعتبار کیا اپنی پھولوں جیسی بچی کو تمھارے حوالے کیا

اور تم نے کیا کیا ہماری بچی کو ہی تکلیف پہنچائ

آغا جان

قیس سکتے کے عالم میں کھڑا ان کے الفاظ سن رہا تھا

الفاظ تھے یا زہر جو اسے چیر رہے تھے

بولو کیوں کیا تم نے میری بچی کے ساتھ ایسا 

نمل کے بابا نے گریبان سے پکڑتے ایک تھپڑ اور لگایا تھا قیس کے منہ پر

بابا ہماری غلطی ہے

قیس سر جھکائے بولا تھا

غلطی تم اپنی حوس ہماری بچی پر نکال کر اب اپنی غلطی مان رہے ہو

با خدا بابا جان وہ بیوی ہے میری.. محبت ہے میری ایسے تو مت کہیں

ایسا سلوک کرتے ہیں بیویوں کے ساتھ جیسا تم کر چکے ہو وہ کسی کو قریب آتے دیکھ چیخنے لگتی ہے

آغا جان کی بات سن کر قیس کا سر جھکا تھا

جو حالت رات وہ نمل کی کر چکا تھا اسے با خوبی اندازہ تھا کہ نمل کی اب کیا حالت ہو گی

آغاجان یقین کریں ہم ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن کل واپسی پر

بس کر دو ونی... بس کر دو

اب تم بہانے بناؤ گے

خولہ بیگم جلدی سے بولی تھیں

دفعہ ہو جاؤ یہاں سے 

اس ھویلی کے دروازے تم پر ہمیشہ کے بند ہو چکے ہیں دوبارہ تم قدم نہیں رکھو گے اس ھویلی میں 

یہ ہمارا حکم ہے

جاؤ گاؤں میں اعلان کر دو کہ اب سے قیس اس گھر کا بیٹا نہیں رہا.. 

آغا جان مت کریں ایسا.. مجھ پر یقین کریں لیکن اس سے پہلے ہی 2 گارڈز اندر داخل ہوۓ تھے

ہاتھ مت لگانا

قیس نے چیختے ہوئے کہا تھا

چلے جاؤ قیس یہاں سے اس سے پہلے کہ ہم تمہیں دھکے مار کر نکالیں۔

بے بس سا قیس کیسے ہارے ہوئے جواری کی طرح کندھے جھکائے باہر نکلا تھا

قیس کی عقل نمل کے بارے میں ہمیشہ مات کھاتی تھی

اس کا دماع ابھی بند تھا.... 

اس لیے وہ اپنے ساتھ ہوئ سازش کو پہچان نہیں پایا تھا

‍آج رمل اور ملحان ایک ساتھ یونی کے گیٹ سے اندر داخل ہوۓ ۔

ملحان بلیک کرتا شلوار، پاؤں میں بلیک سینڈل پہنے، ہاتھ میں رولکس واچ پہنے آنکھوں میں لینز لگاۓ. ماتھے پر بکھرے بال دیکھنے والے کو مسمرائز کر رہے تھے

سیم بیلک بوائز ڈریسنگ میں ہی رمل موجود تھی

ملحان کی کاپی کیٹ...

یونی کے سٹوڈنٹس ملحان کو منہ کھولے دیکھ رہے تھے۔ سب سے بے نیاز ملحان اپنے آفس کی طرف بڑھا تھا

گرلز تو ملحان کے سٹائل پر فدا ہی ہوئے  جا رہی تھیں۔ سب کو سکتے میں دیکھ کر رمل بہت خوش تھی۔

جیسے ہی پرنسپل صاحب نے ملحان کو دیکھا ۔وہ بھی اپنی جگہ ساکت رہ گئے ۔

سر جی کیا ہوا

واؤ ملحان سو wonder full

Looking admirable 

تھینکس سر

ملحان مسکراہٹ چھپائے بولا تھا

کلاس میں سب بچے منہ کھولے ملحان کو دیکھ رہے تھے

کیسے ہو سب کیسا رہا لاسٹ ویک 

لیکن سب تو آنکھیں پھاڑے سر کو دیکھ رہے تھے

سو گائیز میں کلاس سے باہر چلا جاؤں؟

نو سر

سب ایک آواز میں بولے ۔

لڑکیاں تو چلو حیران تھی

لڑکوں کے بھی منہ کھلے ہوئے تھے

سِٹ ڈاؤن۔ چلیں لیکچر سٹارت کرتے ہیں 

مس رمل آپ لاسٹ ویک کہاں تھیں؟

رمل کو اندازہ نہیں تھا کہ حان اس سے یہ بات پوچھے گا

جی سر

میں نے پوچھا آپ لاسٹ ویک کہاں تھیں؟

اب رمل حان کی شرارت سمجھی تھی

ہمم سر جی وہ کیا ہے نہ کے میرے husband کا دل نہیں لگ رہا تھا میرے بغیر اس لیے میں نے ایک ہفتہ ان کے ساتھ گزارہ۔ دراصل انہیں پیار بہت ہے نہ مجھ سے۔

رمل کے ایسے بولنے پر پوری کلاس اب منہ کھولے رمل کو دیکھ رہی تھی.... 

رمل کا جواب سنتے قیس نے مسکراتے ہوتے لیکچر سٹارٹ کیا .

اور اس طرح پوری یونی میں ملحان کی پرسنیلٹی ڈسکس ہو رہی تھی

.... رمل آج ہم اپنے گھر جائیں گے مورے سے ملے بہت دن ہو گئے ہیں۔ 

اوکے ٹھیک ہے مورے سے مل کر فلیٹ پر آنا میرے مسنگ لیکچر سمجھا دینا 

اوکے 

اس سے پہلے کہ ملحان گاڑی کی طرف بڑھتا ۔رمل اپنے پاؤں اوپر اٹھاۓ یونی ایریا کی پرواہ کئے بغیر اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ گئی۔

حان نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔

ہاہاہا جاو کسی نے نہیں دیکھا

                 ... ❣️❣️❣️... 

ایک ہفتہ ہو گیا تھا عارب اب انابیہ کو تنگ نہیں کرتا تھا۔ عارب کی طرف سے مسلسل خاموشی انابیہ کو چب رہی تھی ۔لیکن وہ تو اپنی دنیا میں اداس تھی 

اس دن کہ بعد سولمیٹ نہ تو انابیہ سے ملا نہ کوئی میسج کیا تھا

انابیہ سہی معنوں میں پریشان ہو چکی تھی ۔انابیہ کو اس کی نمازیں بھول گئیں۔ وہ اللہ کی رسی چھوڑ چکی تھی وہ نماز پرھتی بھی تو اس شخص کا تصور نماز میں اسے ہر پل رہتا

جھکتی وہ خدا کے آگے لیکن تصور اس شخص کا

تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں اقبال

تو جھکتا کہیں اور ہے سوچتا کہیں اور ہے

انابیہ کے دلو و دماغ پر اس انسان کا قبضہ تھا 

وہ بھول چکی تھی کہ نا محرم  ہمیشہ نامحرم ہی رہتا ہے

سولمیٹ والے نمبر پر بار بار کال ملا رہی تھی لیکن نہ کال پک ہوتی نہ میسج کا رپلائے آتا

آخر ہفتے بعد اسے اس نمبر سے کال ائی تھی وہ خوشی میں پاگل ہو چکی تھی

ہیلو کیسے ہیں آپ کہا‌ں تھے طبیعت ٹھیک ہے آپ کی 

آپ نے میری کال کیوں نہیں پک کی

وہ نان سٹاپ بولنا سٹارٹ کر چکی تھی

جب  سولمیٹ کی آواز موبائل سے آئی۔

اک ایڈریس بھیج رہا ہوں وہاں آ جائیں اگر مجھ سے ملنا ہے تو

اوکے میں ابھی آتی ہوں فوراً  سینڈ کریں۔ انابیہ  کہتے ساتھ فوراً الماری کی طرف بڑھی ۔

آج ان سے ملنا ہے ہمیں..... ہو

گنگناتے ہوئے وہ اپنے لیے ڈریس سلیکٹ کررہی تھی 

اپنے لیے ایک پنک کلر کا پیارا سا ڈریس سلیکٹ کرتے وہ فوراً شاور لیتے گاؤن پہنتے حجاب کرتے آنکھوں پر مسکارہ کاجل لگاۓ جس سے اس کی گھنی پلکیں اور بھی قاتل لگ رہی تھی

وہ 10 منٹ میں تیار تھی

روڈ سے رکشہ لیے اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ وہ آج پہلی بار گھر سے باہر اکیلی جا رہی ہے 

اسے خیال نہیں تھا کہ وہ اتنا سج دھج کر اک نامحرم سے ملنے جا رہی ہے

ٹھیک 15 منٹ میں وہ اس گھر کے گیٹ پر موجود تھی دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اندر داخل ہوئی چوکیدار بنا اس سے  کچھ پوچھے اسے اندر لے جا گیا۔

یہاں اس طرف ہیں صاحب 

دھڑکتے دل کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے روم کا دروازہ کھولا تھا

ونڈو کی جانب منہ کیۓ کوئی باہر کی دنیا دیکھنے میں مگن تھا

انابیہ کے سلام کرنے پر وہ یک دم پیچھے پلٹا تھا

اسے 1 پرسنٹ یقین نہیں تھا کہ انابیہ آۓ گی۔ اس کی آنکھوں نے غصے سے رنگ بدلہ تھا

بیٹھو 

پاس پڑے صوفے کی جانب اشارہ کرتے انابیہ کو بیٹھنے کا کہا تھا

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے انابیہ صوفے پر بیٹھی۔

ایزی ہو جائیں آپ ویل اتار سکتی ہیں 

سولمیٹ کے بولنے پر انابیہ نے  ایک دفعہ اس کی جانب دیکھا تھا پھر آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اپنا ویل اتار دیا تھا

اگر آپ کمفرٹیبل نہیں ہیں تو چینج روم میں گاؤن اتار سکتی ہیں 

پھر مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے 

نہیں نہیں ایسے ہی ٹھیک ہوں انابیہ نے بولتے اپنے ہاتھوں کو زور سے دبایا تھا

اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا

لیکن پھر اس اجنبی کی طرف دیکھتے وہ خوش ہو چکی تھی کہ 1 ہفتے بعد وہ اس کے سامنے ہے 

اوکے جیسے آپ مناسب سمجھیں 

اس اجنبی نے انابیہ کے چہرے پر اپنی آنکھیں گاڑتے ہوئے کہا تھا

سولمیٹ کے اس طرح دیکھنے پر انابیہ کچھ تزبز ہوئئ تھی لیکن خاموشی سے بیٹھی رہی تھی

وہ چلتے ہوئے انابیہ کے پاس تھوڑا فاصلے پر بیٹھ گیا۔

آپ کہاں تھے اتنے دنوں سے

کیوں آپ پریشان ہو رہی تھیں؟

جی

کیوں ہو رہی تھی پریشان 

کیوں کہ میں آپ سے محب....

کہتے کہتے انابیہ اپنے لب روک لیے

اسے اچانک یاد آیا کہ مھبت کا اظہار لڑکے کرتے ہیں 

محب.. کیا بات پوری کریں 

کہتے وہ انابیہ کے ساتھ جڑ کر بیٹھا

اس طرح بیٹھنے پر انابیہ تھوڑا سے پیچھے کو ہوئی تھی لیکن اٹھی نہیں تھی

اندر کہیں انابیہ کا ضمیر چیخا تھا کہ یہ غلط ہے لیکن انابیہ خاموش بیٹھی رہی۔

انابیہ کی خاموشی دیکھ کر وہ انابیہ کا ہاتھ پکڑے اپنے ہونٹوں سے لگا گیا اچانک سے انابیہ کھڑی ہوئی ۔اسے یک دم احساس ہوا کہ وہ اس لڑے کے ساتھ اکیلی ہے ادھر... 

مجھے واپس جانا ہے واپس 

ابھی تو آئ ہیں ابھی تو ملاقات بھی نہیں ہوئ اچھے سے تھوڑی دیر رک جائیں. 

نہیں نہیں مجھے واپس جانا ہے 

یک دم اس اجنبی نے انابیہ کو کھینچتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا تھا۔لیکن انابیہ اسے دھکا دیتی اس کے منہ پر تھپڑ مار کر جانے لگی لیکن اس اجنبی نے پیچھے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور تمسخر اڑانے والے انداز میں بولا۔

ارے کیا ہوا میرا چھونا برا لگا کیا

جب اس دن خود بھاگ کر میرے سینے سے لگی تھی، جب ہفتہ پہلے میں نے تمھاری آنکھوں پر بوسہ دیا تھا تب تو کچھ نہیں کہا تھا۔

میں نے تمہیں پہچاننے میں بہت بڑی غلطی کر دی بہت بڑی۔تم وہ نہیں ہو جیسے میں نے چاہا ۔میرا آئیڈیل ایسا نہیں ہو سکتا ۔انابیہ خود کو مضبوط بناتے ہوئے بولی۔

ارے آئیڈیل کی بات کر رہی ہیں آپ 

میرا عشق تھی آپ میں نے خود سے زیادہ آپ کو چاہا لیکن مجھے یقین تھا کہ آپ کبھی راستہ نہیں بھٹکے گیں لیکن آپ ایک نا محرم کی محبت میں اپنے رب کو بھول بیٹھی آپ ایک نا محرم کے اس قدر قریب آ گئیں کہ اس کے ساتھ تنہا اس روم میں موجود ہیں وہ کچھ بھی کر سکتا ہے آپ کے ساتھ کچھ بھی

اس شخص کی باتوں سے انابیہ کی آنکھیں کھلی تھی

نہیں نہیں میں ایسی نہیں ہوں انابیہ نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا جبکہ اس آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔

ارے آپ بھی ایسی ہی ہیں ۔اس گاؤن کے پیچھے آپ میں بھی ایک ایسی لڑکی چھپی ہے جو نامحرم کی محبت میں کچھ بھی کر سکتی ہے اجنبی نے انابیہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔

نہیں  نہیں 

انابیہ روتے ہوئے چنخی تھی

میں کچھ غلط کرنے نہیں آئی تھی

جتنا غلط ہو چکا نہ اس سے زیادہ کچھ غلط ہونا باقی رہ چکا ہے کیا؟

جائیں چلی جائیں یہاں سے اس سے پہلے کہ میں اپنا ضبط کھو دوں 

وہ انابیہ کی طرف بڑھتا اس کا نقاب اوپر کرتے اسے باہر کی جانب دھکیل گیا۔ غصے میں بھی اس شخص کو فکر تھی کہ انابیہ کو بے نقاب کوئی نہ دیکھ پائے۔

انابیہ روتے ہوئے باہر کی جانب بھاگی ۔

جتنا کڑوا آج وہ بولا تھا شاید انابیہ کی حالت دیکھتے یہ ضروری تھا۔ 

انابیہ کے جاتے ہی اس اجنبی نے اپنا رومال اتار کر پھینکا

وہ کیوں ہو گئی ایسی کیوں وہ نامحرم کی محبت میں اس حد تک آگے بڑھ  گئی کہ صحیح علط سب بھول  گئی۔

وہ غصے میں ٹارچر روم کی جانب بڑھا 

ادھر وہ ایک بلنڈر کر چکا تھا جس کا اندازہ اسے بہت جلد ہونے والا تھا

                 ...❣️❣️❣️...

عارب کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کون ہے وہ لڑکا جو انابیہ کی حفاظت کر رہا تھا

ہیلو شکورے

تیری مدد کی ضرورت ہے.... 

ہممم بات سمجھ گیا کیا کرنا ہے

اور شکورے سن لڑکی کی طرف بری نظر سے مت دیکھیں...

ٹھیک ہے یارا

اوکے پھر ملتے ہیں

                        ❣️❣️

انابیہ روتے ہوئے سڑک پر بھاگے جا رہی تھی ۔ابھی وہ تھوڑا ہی آگے گئی تھی کہ کسی نے اس کے منہ پر کلوروفام لگا رومال رکھتے اسے بے ہوش کر دیا تھا.. 

وہ جو کوئی بھی تھا انابیہ کو بانہوں میں اٹھائے خباثت سے ہنستے اسے لے کر غائب ہو گیا تھا

                   ...❣️❣️❣️... 

ابے بات سن لڑکی کو ہوش آنے سے پہلے بنا اس کی ویڈیو. زرہ اس کے عاشق سے پہلے ہم مزے لیں 

لیکن ابھی اس نے انابیہ کے نقاب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ عارب اندر داخل ہوا تھا

اوئے شکورے 

ہاتھ نہیں لگانا۔ ہاتھ توڑ دوں گا

ارے عارب یار کیا ہو گیا مست مال لگ رہا ہے مجھے بھی مزے لینے دے

شکورے کی بات سنتے ہی عارب نے ایک زور دار پنچ اس کے منہ پر مارا تھا 

شکورے میں نے کہا تھا نا کہ اس کے بارے میں ایسی کوئی بات نہ کرنا

پھر بھی

شکورہ اپنا غصہ ضبط کرتا باہر کو بڑھا تھا

اس سالے کو تو میں بعد میں دیکھوں گا

کہتے وہ اپنے آدمی لیتا باہر کو نکل گیا 

بہت انتظار کیا ہے جانِ من تمھارا 

آہ! آج تو تمھارا حسین مکھڑا دیکھ کر ہی رہوں گا۔کہتے ساتھ ہی اس نے انا بیہ کے چہرے سے نقاب ہٹا دیا تھا

رونے کی وجہ سے اس کا کاجل پھیل کر اس کی آنکھوں کو مزید نکھار رہا تھا

واؤ انابیہ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں حوس بڑھی تھی

مال تو مست ہے

اس نے انابیہ کا گاؤن اتار کر سائیڈ پر پھینکا تھا اور ہاتھ اس کے سٹالر کی طرف بڑھا کی پنز اتار دیں تھیں... 

انابیہ کے جسم پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں چمک آئ تھی اب اور صبر نہیں ہوتا جلدی سے اسے ہوش میں لے کر آ عارب ۔بے ہوشی میں وہ مزہ کہاں 

جو ہوش میں آۓ گا

عارب نے کہتے ہی ایک رسی پکڑتے انابیہ کے بازو بیڈ کراون سے باندھ دیے اور پانی سے بھرا جھگ انابیہ کے اوپر پھینکا۔

پانی پھینکنے کی وجہ سے انابیہ کی پنک قمیض اس کے جسم سے چپک گئی۔

انابیہ کی نظر آنکھیں کھلتے ہی چھت سے ٹکرائ تھی

پہلے تو اس نے نا سمجھی سے ادھر اُدھر دیکھا آج والا واقعہ زہن میں آتے ہی اس نے اٹھنے کی کوشش کی .لیکن سامنے عارب کو دیکھتے ہی انابیہ کو اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہوئ . اس نے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن یہ کیا اس کے ہاتھ کسی چیز سے بندھے ہوۓ تھے .

نہیں نہیں پلیز مجھے کیوں لاۓ ہو یہاں چھوڑو مجھے.میرے ہاتھ کھولو

اللہ کا واسطہ ہے تمہیں ۔ چھوڑ دو مجھے جانے دو انابیہ نے عارب سے بھیک مانگنے والے انداز میں کہا۔

ہاہاہا اب آئی نہ لائن پر اب آۓ گا مزہ جب میں تیرے ساتھ اپنی رات رنگین کروں گا۔پیار سے بات کرنے کی کوشش کی تو سالی نخرہ دکھا رہی تھی۔عارب نے خباثت سے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔

پانی گرنے کی وجہ سے انابیہ کا گلا بھیگ چکا تھا۔ اور عارب انابیہ کو دیکھتے مست ہو رہا تھا۔

عارب انابیہ پر جھکا اس کے بدن پر ہولے ہولے اپنا ہاتھ چلانے لگا ۔

نہیں نہیں پلیز مت کرو ایسا انا یہ کو عارب کا لمس جھلسا رہا تھا وہ بے بسی 

سے روتے ہوئے بولی۔

چھوڑو مجھے۔ جانے دو پلیز۔تمہیں خدا کا واستہ ہے ۔انابیہ عارب سے بچنے کے لیے اپنا سر یہاں وہاں مار رہی تھی۔ ہاتھ بندھے ہونے کی وجہ سے وہ بے بس تھی۔ 

ارے چھوڑ دوں گا۔پہلے مزے تو لینے دو

عارب نے حوس زدہ نظریں انابیہ کے جسم پر گاڑھتے ہوئے کہا۔اور ساتھ ہی انابیہ کے کندھے سے اس کی شرٹ پھاڑ دی  ایک چیخ انابیہ کے منہ سے نکلی تھی۔

نہیں مت کرو

اللہ کا واسطہ مت کرو

یا اللہ مدد کر میں بھٹک گی تھی لیکن اللہ یہ رسوائی قسمت میں نہ لکھ

روتے ہوئے وہ اللہ سے بس ایک ہی فریاد کر رہی تھی

لیکن عارب مست سا اس کے اپر جھکا اس کی گردن پر اپنی حوس کے نشان چھوڑنے لگا۔

آہہہہہہ.... نہیں کرو پلیز انابیہ مسلسل چیخ رہی تھی۔ روتے روتے انابیہ کا گلا بیٹھ گیا تھا اور وہ کمزور پڑھتے نڈھال ہوئی ۔

بس اب اور صبر نہیں کہتے ہی عارب نے  انابیہ کی شرٹ کا گلا مزید پھاڑ دیا تھاجس سے انابیہ کے نشیب و فراز ظاہر ہونے لگے۔

آہہہہہہہہہہ.... 

اس بار انابیہ کی چیخ پہلے سے زیادہ زور کے تھی۔انابیہ مسلسل اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی 

رسی رگڑنے کی وجہ سے اس کی  نازک کلائیاں خون سے بھر گئی تھیں۔

لگتا ہے تمہارا منہ بھی بند کرنا پڑے گا

عارب کہتے ہی انابیہ کے لبوں پر جھکا تھا لیکن اس سے پہلے کہ اس کے لب انابیہ کے لبوں کو چھوتے 

ٹھا کے ساتھ دروازہ کھولا تھا

اور کوئ بھاگ کر اندر داخل ہوا تھا

تیری اتنی ہمت تو نے انابیہ کو ہاتھ لگایا۔ اسے ہاتھ لگا کر تو نے اپنی موت کو دعوت دی ہے۔

آنے والا عارب پر ٹوٹ پڑا تھا

مکے گھونسوں سے عارب لہو لہان ہوتا بے حال ہو کر نیچے گرا تھا

وہ جلدی سے انابیہ کی طرف مڑا۔

جو آنکھیں بند کیے مسلسل رو رہی تھی

انابیہ کی حالت دیکھ کر اس کا خون کھولا ۔اس نے  صوفے کا کور اتارتے انابیہ کے  بدن کو  ڈھانپا اور اس کے ہاتھوں کو رسیوں سے آزاد کرنے لگا تھا

انابیہ نے تھوری سی آنکھیں کھول اپنے مسیحا کو دیکھا تھا

لیکن وہ دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ سامنے والا جو بھی تھا اسے انابیہ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔  

انابیہ روتے ہوۓ اپنے  مسیحا کے سینے سے لگی تھی۔

شش چپ میں جان سے مار دوں گا اسے جس نے تمھاری یہ حالت کی

لیکن انابیہ بے حال ہوتے اس کی بانہوں میں جھول گئی۔

اس نے جلدی سے انابیہ کو بانہوں میں اٹھاتے اچھے سے کور کیا 

اور  باہر کھڑے اپنے ساتھیوں کو عارب کو  ٹارچر روم لے جانے کا کہتے خود جلدی سے باہر کی جانب بڑھا۔

انابیہ کی حالت دیکھ کر اس کا دل کر رہا تھا خود کو جان سے مار دے

وہ کیوں اتنا لاپرواہ ہو گیا 

اپنا ہاتھ سٹرنگ پر مارتے خود کو ازیت دیتے وہ پاگل ہوتا  سوچ رہا تھا

کیا فائدہ اس کی اتنی سکیورٹی کا آج اس کا عشق بے لباس ہو چکا تھا 

جلدی سے گاڑی اپنے فلیٹ کے پر روکتے وہ اندر کو بڑھا تھا 

جہاں سامنے اس کی آپو اور سر کھڑے تھے۔ انابیہ کو اس طرح بے ہوش دیکھتے ان دونوں کا خون کھولا۔

وہ جیسے ہی انابیہ کو بیڈ پر لیٹاۓ باہر آیا۔ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر لگا تھا۔اور پھر ایک کے بعد ایک کئی تھپڑ اس کے منہ پر لگے تھے۔

یہ کی تم نے حفاظت وہ تم سے ملنے گئی تھی نہ۔تم نے کہا تھا میں جان سے بڑھ کر خیال رکھوں گا اس کا۔

یہ رکھا تم نے خیال؟

وہ خاموش کھڑا اپنے سر کی ڈانٹ سن رہا تھا۔لبوں سے اف تک نہیں کہا تھا

نہ اپنی جگہ سے ہلا تھا۔آنکھیں جھکائے وہ بے بس کھڑا تھا

میرا دل کر رہا ہے جان سے مار دوں تمہیں 

دفعہ ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے

لیکن یہ کیا یہ بات سنتے ہی وہ پہاڑ جیسا مرد اپنے سر کے سینے سے لگا زارو قطار رویا تھا

مجھے مار دیں جان سے شاید ایسے مجھے سکون مل جائے۔ اس کی یہ  حالت دیکھ کر میں پل پل مر رہا ہوں 

پلیز لالہ

قیس  اپنی بانہوں میں کھڑے اس چھوٹے سے لڑکے کو  زارو قطار  آنسو بہاتا دیکھ کر خود کی آنکھوں کی نمی کو پیچھے دھکیلا تھا۔

مجھے نفرت ہو رہی خود سے میں کیسے لاپروا ہو گیا

لالہ مار دیں مجھے... 

شش خاموش ہو جاو

تبھی انابیہ کے روم سے آتی رمل نے اسے اپنی طرف کھینچا تھا

تھیک ہے وہ بلکل پاگلوں کی طرح رونا بند کرو اور مولوی صاحب کو فون کرو جلدی

آپو.... اس نے روتے ہوئے رمل کو پکارا تھا

شش..... اگر تم ایسے کرو گے تو اسے کون سنبھالے گا۔ اسے ابھی تمھاری ضرورت ہے تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے۔

قیس نے کچھ سوچتے ہوئے احمد کو کال کی تھی

احمد مولوی کو لے کر جلدی  سے  فلیٹ پر آؤ ۔ تمھارے پاس صرف دس منٹ ہیں 

اوکے سر

رمل نے جلدی سے انابیہ کے کپڑے چینج کرواۓ ۔اور اسے ہوش میں لائی تھی ہوش میں آتے ہی انابیہ چیخنیے لگی مت کرو پلیز مت کرو

مجھے ناپاک مت کرو

اللہ 

ہوش کرو انابیہ میں ہوں تمھاری آپو رمل 

انابیہ رمل کو سامنے دیکھتے ہی روتے ہوئے اس کے سینے سے لگی تھی

آپو اس نے ادھر ادھر چھوا

ہوش کرو انابیہ کچھ نہیں ہوا تمہیں اللہ کا شکر ہے تمھاری عزت سلامت ہے

تبھی قیس کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر انابیہ بھاگ کر اپنے لالہ کے گلے لگی تھی

لالہ  روتے ہوئے اس نے اپنے لالہ کو پکارا تھا۔

میری گڑیا شش چپ ایک آنسو نہ آئے آپ کی آنکھ میں ۔جس نے آپ کے ساتھ یہ سب کیا اسے عبرت ناک موت دوں گا میرا وعدہ ہے آپ سے۔

لالہ.. شش لالہ کی جان ابھی کچھ دیر میں آپ کا نکاح ہے۔ہم نے  آپ کے لیے ایک فیصلہ کیا ہے۔

نکاح 

لالہ نہیں کرنا ہمیں نکاح 

پلیز لالہ 

شش اپنے لالہ کی اتنی سی بات نہیں مانوں گی

لالہ.... انابیہ نے روتے ہوئے کہنا چاہا لیکن قیس نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔

پلیز 

ٹھیک ہے لالہ جیسا آپ کہیں انابیہ نے قیس کے آگے اپنا سر جھکا دیا 

پھر کب مولوی آۓ کب اس کا نکاح ہوا کس سے ہوا اسے کچھ خبر نہیں 

اس نے خاموشی سے سائن کر کے رضا مندی دے دی ۔

رمل نے اسے نیند کی ٹیبلٹ دے کر 

سلا دیا تھا ۔

قیس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس لڑکے کو جان سے مار دے جس نے اس کی جان سی پیاری بہن کا یہ حال کر دیا... 

لیکن بےبی کی قسم نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا تھا

پلیز لالہ اس نے میری بیہ کو نقصان پہنچایا اسے موت کے گھاٹ میں خود اتاروں گا اسے اتنی تکلیف دوں گا کہ وہ موت کے لیے تڑپے گا 

لیکن جیسے ہی بےبی ٹارچر روم میں داخل ہوا تھا وہ لڑکا غائب تھا

احمد کہاں ہے وہ لڑکا

چھوٹے مالک ہم خود ادھر چھوڑ کر گۓ تھے اسے 

یو احمد تم ایک لڑکا نہیں سنبھال سکے

رمل دیدی آئ تھی چھوٹے لالہ 

بے بی سب سمجھ گیا تھا

اب تک تو رمل نے اس انسان کا بھرتا بھی بنا دیا ہو گا

اپنے موبائل سے رمل کا نمبر ملاتے ہوئے سوچا۔

آپو اچھا نہیں کیا آپ نے یہ.دوسری طرف سے فون اٹھائے جانے پر وہ بے بسی سے بولا. 

بےبی پلیز کام ڈاؤن مجھے آئیڈیا ہے تمہارا غصہ کس قدر خوف ناک ہے 

میں خود اس سے نبٹ لوں گی 

آپو میں دیکھ لوں گا جس نے میری زندگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی.... 

اس نے بولتے ہی فون بند کر دیا تھا 

                  ...❣️❣️❣️...

انابیہ کی حالت کی وجہ سے رمل بھی کچھ دن یونی نہیں آئی تھی۔ ملحان کو بھی اس نے اپنی مورے سے ملنے بھیجا ہوا تھا آج وہ کافی دنوں بعد یونی آئی تھی 

ہاۓ رمل کیسی ہو.... 

رمل کی کلاس فیلو نے رمل سے پوچھا تھا

فائن آینڈیو

می آلسو فائن

وہ رمل میں نے تم سے سر ملحان کا پوچھنا تھا

ہم پوچھو کیا پوچھنا ہے

وہ اب تم تو شادی شدہ ہو تو سر ملحان ساتھ میری سیٹنگ کروا دو

کیوں کہ پہلے تو تم سر کو بیٹری اور پتا نہیں کیا کیا کہتی تھی

ارے یار اب دیکھی نہ سر کی پرسنیلٹی ایسا ایک بھی لڑکا نہیں یونی میں تو اب ان پر میرا دل آ گیا

رباب حسن پرست لڑکی تھی.... ملحان کا حسن دیکھ کر وہ پھسل گئی تھی

اپنی عادت کے خلاف رمل بہت تحمل سے اس کی بات سن رہی تھی

(‏"مرد کیلیے  خوبصورت بیوی قابلِ فخر ہوتی ہے جبکہ عورت کیلئے  خوبصورت شوہر وبالِ جان ہے"

رمل سوچ کر رہ گئ تھی) .....

اوکے ٹھیک ہے کروا دوں گی سیٹنگ

لیکن بدلے میں تمہیں اپنے بواۓ فرینڈ وکی کی ساری انفو مجھے دینی ہو گی

اوکے ڈن

ویسے رمل تم ملحان کو کیسے جانتی ہو

وہ دونوں چلتی کینٹین میں ایک ٹیبل پر بیٹھی تھیں۔

یار میں نہیں جانو گی تو کون جانے گا

آفڑ آل ملحان خان کی محبت ہوں میں

کیاااااا

وہ چیخ کر بولی تھی. اور یار سلو بولو میرے ایک قیس لالہ ہیں جو سٹارٹ سے مجھے کوئی نہ کوئی ٹاسک دیتے رہتے ہیں ۔یہ بھی ان کا ٹاسک تھا کہ ملحان کی حفاظت کرنا اسے ایک جنٹل مین بنانا۔ اور یو نو رمل دی گریٹ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں

رمل دی گریٹ نے ملحان کو اپنا دیوانہ بنا لیا اور قیس لالہ کا دیا گیا ٹاسک بھی پورا ہو گیا

رمل نے ہارنا تو سیکھا نہیں....

کہتے رمل نے قہقہ لگایا تھا

اس بات سے انجان کہ کوئی اور ان دونوں کی ساری باتیں سن چکا تھا

ملحان جو رمل کو ڈھونڈتا اس َسائیڈ پر آیا تھا اس کے ہاتھ سے گلاس نیچے گرا تھا رمل اور بھی بہت کچھ بول رہی تھی لیکن ٹھا کی آواز پر رمل کا قہقہ رکا تھا۔

ملحان نے جن نظروں سے رمل کو دیکھا تھا رمل کا دل کیا ابھی مر جائے

ملحان لمبے لمبے ڈھگ بھرتا باہر کو بڑھا تھا۔

حان رکو پلیز حان ۔رمل نے سسے پیچھے سے پکارا لیکن ملحان اپنی گاڑی زن سے آڑا لے گیا۔رمل جلدی سے اس کے پیچھے بڑھی تھی

                        💔💔

گھر پہنچتے ہی ملحان نے غصے میں پورا کمرا بکھیر دیا۔

کیوں کیوں کیا ایسا وہ غصے سے چلایا۔

میری محبت کا مزاق بنا دیا

‍‍

مضبوط لوگ ... جبــــــــ ٹوٹتے ہیــــــــں ... تو کسی پہاڑ کی طرح ... ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیــــــــں ........!!!*

‍‍کیوں کیوں کیا تم نے ایسا میں نے کہا تھا آؤ آ کر مجھ سے محبت کرو،مجھے سنوارو مجھے ایسا بناؤ

میں خوش تھا اپنی زندگی... تم آئ اور... پھر پھر میں نے زندگی کو جینا سیکھا...

کیوں چھین لی مجھ سے میری زندگی

یہ سب ایک پلاننگ کے تحت ہوا 

ہاں واؤ

ملحان خان کو محبت کے نام پر بے وقوف بنایا گیا

وہ پاگلوں کی طرح ہنستے ہوئے بولا تھا

رمل اس تک پہنچتی ساری باتیں سن چکی تھی

نہیں حان ایسا کچھ نہیں

میں مانتی ہوں سب اک پلاننگ تھی

لیکن میری محبت

خبردار، خبردار اگر تمھارے منہ سے میں نے محبت کا نام بھی سنا ملحان غصے سے دھاڑا۔

تم تم محبت کی بات کرتی ہو

جسے انسانیت کا نہیں پتا

جسے یہ نہیں پتا

کہ کسی کی فیلنگز اس کے ایموشنز کا مزاق بنانا اسے موت دینے کے برابر ہوتا ہے۔ ارے میرے پاس آ کر ایک بار کہہ دیتی۔میرے اس نام نہاد بھائ نے بھیجا ہے۔میں ویسے ہی تمھاری بات مان لیتا

لیکن تم نے میری محبت میرے عشق کا مزاق بنا دیا۔ملحان بے بسی سے اپنے بال نوچتے ہوئے بولا 

اور ہاں کیا کہتی تھی تم

فتور ہے تمھیں میرے عشق کا

فتور اب تم میرا دیکھو گی

جدائی کا فتور

بے وفائی کا فتور

اب میں تمھیں بتاؤں گا 

اصل فتور کیا ہوتا ہے

حان پلیز 

نام مت لو اپنی زبان سے میرا

ملحان نے  اپنا ہاتھ مار کر ڈریسنگ پر پڑی چیزیں بکھیر دیں۔

حان آپ کے ہاتھ ہاتھ زخمی ہوگۓ

حان 

تم جاتی کیوں نہیں ہو جاؤ یہاں سے  میری بے بسی کا تماشہ ابھی کم ہے کیا جو اور بنانا چاہتی ہو؟

ملحان چلتے ہوۓ اس کے قریب آیا

اور اس کے گرد اپنے بازو پھیلائے

رمل کو لگا ملحان اسے سینے سے لگانے لگا ہے لیکن اسے اصل جھٹکا تب لگا

جب ملحان نے اس کی گن نکال کر اپنی کن پٹی پر رکھی تھی

اب بھی جاؤ گی یہ مار لوں گولی خود کو؟

ارے نہیں دماغ نہیں اس دل پر گولی چلاؤں گا جس میں تم بستی تھی

نہیں حان پلیز نہیں 

میں میں جا رہی ہوں 

رمل نے روتے ہوۓ بولا۔

یہ یہ گن پھینک دو میں بس جا رہی ہوں

ملحان نے  رمل کو بولتا دیکھ کر گولی اپنی ٹانگ پر چلائی(اگر رمل جنونی تھی تو آج ملحان کا جنون بھی رمل دیکھ چکی تھی) 

ح حاااان..... 

نھیں

جاؤ

جاؤ یہاں سے

I said leave.... 

وہ غصے سے چلایا۔

میں میں جا رہی ہوں 

پلز اب اب دوبارہ مت کرنا کچھ خود کو پلیز

Get out

رمل کے باہر نکلتے ہی ملحان کےچیخنے کی آوازیں باہر تک انے لگیں۔ 

کیوں کیوں آئ تم میری زندگی میں 

کیوں

اللہ 

کیوں ہوا ایسا 

میں نے تو محبت کی تھی پھر یہ دھوکہ 🥺

اللہ جی

ملحان نے بے ساختہ روتے ہوۓ اپنے رب کو پکاا

           ...💔💔💔... 

رمل نے باہر نکلتے ہی اپنے پارٹنر کو فون ملایا۔

ہیلو پارٹنر پلیز حان وہ حان رمل سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا 

رمل کیا ہوا ہے پلیز چپ کر کہ بتاؤ 

مجھے تمھاری کسی بات کی سمجھ نہیں آ رہی

حان.. حان نے خود کو گولی مار لی۔

واٹ

کہاں ہو تم اور ملحان کہاں ہے میں ابھی آتا ہوں

پلیز تم جلدی آ جاؤ

اس نے خود کو روم میں بند کر لیا ہے 

اور مجھے اندر بھی نہیں جانے دے رہا

اوکے  میں آتا ہوں

ٹھیک 15 منٹ بعد پارٹنر بھاگتے ہوۓ اندر داخل ہوا 

ادھر اس روم میں ہے حان رمل نے کمرے کی طرف اشارہ کیا

پلیز اس کا بہت خون بہہ رہا ہے

اسے ہوسپٹل لے جاؤ

ملحان اوپن دی ڈور 

ملحان میرے بھائی 

میری جان پلیز دروازہ کھولو

ملحان خون زیادہ بہنے کہ وجہ سے بے ہوش پڑا تھا

قیس دروازے کو زور سے دھکا دیتے ہوئے اندر داخل ہوا۔

رمل گاڑی سٹارٹ کرو میں اسے لے کر آیا اسے ہوسپٹل لے کر جانا ہے قیس ملحان کی حالت دیکھتے وہیں سے چلایا۔

جلدی میں وہ یہ بھی بھول چکا تھا کہ اس نے بھی میڈیکل پڑھا ہوا ہے

قیس جلدی سے ملحان کو اٹھاتے باہر کی جانب بڑھا لیکن رمل کو سکتے میں دیکھ کر چلایا۔

رمل پاگل ہو گئ ہو

ہماری زرہ سی بھی دیر ملحان کی جان لے سکتی ہے

میں میں آئی

رمل نے بھاگ کر گاڑی سٹارٹ کی ۔

لیکن رمل کے مسلسل کپکپانے سے اس سے گاڑی سٹارٹ نھی ہو رہی تھ

او شٹ رمل پیچھے آو تم میں کرتا ہوں ڈرائیو

قیس نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی 

گاڑی فل سپیڈ میں بھگائی۔

5 منٹ میں وہ ہوسپٹل کے آگے تھا

پلیز ڈاکٹر یہ دیکھیں پلیز میرا بھائ

ڈاکٹر قیس آپ گھبرائیں نہیں پلیز 

نرس انھیں فوراً ایمرجنسی میں لے جاؤ

اور آپریشن کی تیاری کرو

.... 

آپریشن سٹارٹ ہوۓ 20 منٹ ہو چکے تھے جب نرس بھاگتے ہوۓ باہر آئی ۔ آپ پلیز بلڈ ارینج کریں 

O نیگیٹو 

میرا میرا بلڈ لے لو بھائ ہے وہ میرا 

میرے خون کا ایک ایک قطرہ لے لو لیکن پلیز میرے بھائی کو کچھ نہ ہو

چلیں آپ میرے ساتھ

خون دیتے ہی قیس باہر آیا ۔

لالہ آپ پلیز بیٹھ جائجں

مر نہیں جاؤں گا میں 

رمل میں نے تمھیں پہلے کہا تھا اسے آنچ بھی نہیں آنی چاہیے 

کیا کیا ہے تم نے اس کے ساتھ

لالہ میں نے کچھ

رمل مجھے سچ جاننا ہے

تبھی ڈاکٹر روم سے باہر نکلے

آپ کا بھائ اب خطرے سے باہر ہے

آپ تھوڑی دیر بعد ان سے مل سکتے ہیں 

ڈاکٹر پلیز کیا میں ابھی مل سکتا ہوں

اوکے لیکن دیہان رکھیے گا

ان کے پاس شور نہ ہو

تمھیں میں بعد میں پوچھتا ہوں 

قیس رمل سے کہتا اندر کی جانب بڑھا

پیچھے رمل اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی

.... 

ملحان میرے بھائی یہ کیا حال بنا لیا تم نے اپنا

قیس ملحان کا ہاتھ پکڑے اس سے باتیں کر رہا تھا

جب ملحان کو ہوش آیا 

ہاتھ چھوڑو میرا

حان میں تمھارا لالہ

میرا کوئ بھائی نہیں ہے

ہاتھ چھوڑو 

حان لالہ کی جان

تبھی ملحان نے غصے میں ہاتھ میں لگی ڈرپ کی سوئی نکال کر پھینکی اور چلایا۔

جائیں یہاں سے میرا کوئی بھائ نہیں ہے

حان پلیز نہیں کرو ایسا اتنے سالوں بعد ملے ہو اپنے لالہ کے سینے سے نہیں لگو گے

قیس نے زبردستی ملحان کو پکڑے اپنے سینے سے لگایا۔

ناراضگی اپنی جگہ لیکن اتنے سالوں بعد اپنے لالہ کے سینے سے لگتے ملحان بلک بلک کر رونے لگا۔

قیس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر ملحان کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے

لالہ کی جان خاموش ہو جاؤ تمھارے آنسو لالہ کو تکلیف دیتے ہیں 

جھوٹ جھوٹ

جھوٹ بولتے ہیں 

کیوں چھوڑ کر گۓ پھر مجھے پتا تھا آپ کو میں نہیں رہ سکتا تھا آپ کے بغیر

آپ تو میرا سایہ تھے نہ ہم تو ایک دوجے کی جان تھے

کیوں چھوڑا مجھے

حان پلیز یہ وقت ان باتوں کا نہیں تمھاری طبیعت نہیں ٹھیک

پہلے دوائ کھا لو پھر بات کریں گے

قیس نے زبردستی اسے ٹیبلٹ دی  اور اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتے اسے سلا دیا 

.......

قیس جو پہلے ہی اپنی گڑیا کی جدائی اور انابیہ کی حالت سے بے بس تھا

اپنے بھائی کی حالت دیکھ کر وہ اور بے بس ہو گیا تھا۔

یا اللہ کیا کروں کیوں اتنا بے بس ہو گیا ہوں میں..

یاللہ میرے بھائی کو کچھ نہ ہو....

اسے میری بھی زندگی لگ جائے

بس بہت دیکھ لیا میں نے سب کی طرف اب میں بتاؤ گا سب کو قیس کیا ہے۔قیس نے سب کی محبت میں خود کو بھلا دیا اور میرے ہاتھ خالی رہ گیے مجھ سے میری ہی خوشیاں چھین لی گئ

قیس نے نماز ادا کرتے دل کھول کر دعا مانگی تھی

رمل بتاو مجھے کیا ہوا

لالی قسم سے میں صرف رباب کو مزاق کر ہی تھی ۔حان نے سب سن لیا

لیکن بہت غلط انداز میں۔

قیس  رمل پر سختی کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی بکھری حالت دیکھ کر خاموش ہو گیا ۔

لالہ پلیز حان سے کہیں مجھ سے ایک بار بات کر لے بس ایک بار

میں اسے سچائ بتانا چاہتی ہوں 

اوکے میں کرتا ہوں کچھ

ابھی تو اس کے ہوش میں آنے سے پہلے میں اسے اپنے فلیٹ میں لے جاتا ہوں 

ہوش میں آ کر وہ شور کرے گا

قیس لالہ حان کی مورے پریشان ہوں گی 

تم ٹنشن مت لو میں سنبھال لوں گا

مل‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍حان کو ایک ہفتہ ہو گیا تھا قیس کے ساتھ رہتے ہوئے۔ قیس نے ہر لمحہ اس کے ساتھ گزارا تھا

قیس اس وقت دوہری اذیت کا شکار تھا

ایک تو اس کی گڑیا اس سے دور تھی دوسرا اس کا جان سے پیارا بھائی درد میں تھا۔

ملحان کی ٹانگ کا زخم اب کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا۔ 

وہ قیس سے بے حد غصّہ تھا،  لیکن اس نے تینوں وقت کا کھانا قیس کے ہاتھ سے کھانا ہوتا تھا، سونا قیس کے ساتھ ہوتا تھا، یہاں تک کہ اگر قیس  باہر جانے لگتا تو اس کی طرف دیکھتے رہتا کہ نہ جائے، لیکن منہ سے کچھ نہ کہنا۔

آج قیس نے سوچ لیا تھا کہ وہ مورے سے ملنے جائے گا ملحان بن کر۔

وہ ملحان کو بتاۓ بغیر حویلی گیا۔

جیسے ہی اس نے حویلی میں قدم رکھا ملازم اسے دیکھتے ہی بولا۔

ارے چھوٹے خان اتنے دنوں بعد آئے آپ 

اماں بی آپ کا انتظار کر رہی تھیں

قیس ہمممم کہتا مورے کے کمرے کی طرف بڑھا تھا. ماں کو سامنے دیکھتے ہی قیس کی آنکھیں بھر آئیں ۔

ماں صدقے جائے میرا بیٹا کتنے دنوں بعد آیا ہے۔مومنہ خان نے اپنی بانہیں پھیلائے کہا تھا۔

کہاں تھے تم؟

قیس مورے کہتا اپنی ماں کے سینے سے لگا تھا اور زور سے اپنی ماں کو سینے سے لگایا تھا کتنا ترسا تھا وہ اپنی ماں سے ملنے کے لیے۔وہ آنکھیں بند کیے ماں کے لمس کو محسوس کر رہا تھا اور سکون اس کے اندر تک اتر رہا تھا۔

ارے میرا بیٹا لگتا ہے اداس ہو گیا ہے 

ماں صدقے جائے اب آ گئے ہو نہ کہیں نہیں جانے دوں گی.مومنہ خان نے پیار سے اس کے  چہرے کو چھوتے ہوئے کہا۔

پورا دن قیس اپنی مورے کے ساتھ رہا تھا. ان کے ہاتھ سے کھانا کھایا تھا... ان سے پیار بھری باتیں کی اور پھر انہیں ضروری کام کا کہتا باہر چلا گیا۔

                       .. ❤️❤️.. 

رمل بہت احتیاط کے ساتھ قیس کے فلیٹ میں داخل ہوئی ۔ ملحان  پورا دن بور بیٹھا قیس کو مس کر رہا تھا 

پتا نہیں لالہ کدھر گئے ہیں ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ رمل کو سامنے دیکھ کر اس کا دل بے ساختہ دھڑکا تھا پورے 7 دن بعد وہ رمل کو دیکھ رہا تھا لیکن فوری نظریں پھیر گیا تھا

حان 

رمل ملحان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی 

حان سوری میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا.

"من پسند شخص کے ہزار فقرے اس کی بولی گئ ایک لائن کا مداوا نہیں کر سکتے"

تمہارا مقصد مجھے ہرٹ کرنا نہیں تھا" 

"لیکن تم نے کیا🙂"

ملحان کا لہجہ برف جیسا سرد تھا

ہاں میرا انداز وہ نہیں تھا

پر میں نے سمجھا.ملحان تنزیہ گویا ہوا 

تم میری بات سمجھ کیوں نہیں رہے ہو؟رمل بے بسی سے بولی 

تو تم سمجھا دو۔ملحان نے عام سے لہجے می کہا جیسے کوئی بڑی بات نہ ہو۔

میں نے وہ صرف  مزاق میں کہا ۔

رمل جھنجھلاتے ہوئے ملحان کی طرف دیکھتے بولی۔

"میں حقیقت سمجھا" 

مجھے" معاف" 

جاؤ" کیا" ابھی رمل کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ملحان درمیان میں ہی بولا۔

" تم ناراض ہو" رمل نے ملحان کی طرف دیکھتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔

" کیا نہیں ہونا چاہیے" 

ملحان کا لہجہ آج رمل کو مات دے رہا تھا۔ یہ تو وہ ملحان نہیں تھا جسے وہ جانتی تھی

" لیکن میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا" 

پر تم نے کیا۔ ملحان نے ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔

ہاں" مجھ سے غلطی ہو گئ" رمل نے سر جھکائے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔

ہممممم

" غلطی" 

اچھا لفظ ہے

"معافی" 

اس سے بھی اچھا

" زبردست

 غلطی کی معافی مانگ لینا کتنا آسان ہے نہ۔کسی کی فلینگز، ایموشنز کا مزاق بنانا" ملحان نے پہلے تنزیہ پھر دکھ بھرے انداز میں رمل کی طرف دیکھتے کہا۔

" میں نے یہ کبھی نہیں چاہا" ر بے نے بسی سے ہلکی آواز میں احتجاج کرنا چاہا۔

لیکن" ایسا ہوا" ملحان آج۔ رمل کی کوئی بھی بات سننے کے موڈ میں نہیں تھا 

" تم میری بات کو سمجھو" 

اوکے تم" سمجھاؤ"

جو تم نے سنا

ہاں" جو میں نے سنا

وہ سب جھوٹ تھا کیا؟

"نہیں سچ..." رمل جھنجلائی

تو سچ میں معافی کون مانگتا ہے رمل بیگم؟ سچ تو بس بیان کرتے ہیں ۔چاہے وہ جتنا بھی بھیانک کیوں نہ ہو بس بیان کیا جاتا ہے۔ سچ میں لفظوں کی ترتیب کب ہوتی ہے؟ سچ کو گواہی کی ضرورت ہی کب ہوتی ہے؟

سنا تو ہو گا نہ" سچ تو کڑوا ہوتا ہے" 

ہاں پر" رمل نے پھر سے کچھ کہنا چاہا۔

ارے سچ میں پر کب نہیں ہوتا۔ سچ تو سچ ہوتا ہے۔

وہ لفظوں کے جال بچھانے والی آج اس رک رک کر بولنے والے انسان کے لفظوں سے ہار گئ تھی۔ ملحان نے رمل کی بولتی بند کروا دی تھی 

سچ کو تمیز ہی نہیں بات کرنے کی 

جھوٹ کو دیکھو کتنا میٹھا بولتا ہے

ملحان اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تو رمل آنکھیں چرا گئ 

رمل نے خود کو بے بس محسوس کیا تھا کیونکہ ملحان شائید زندگی میں پہلی بار اتنا تلخ اور رووڈ ہوا تھا 

ویسے تمھارا جھوٹ بہت دل فریب تھا" 

اور تمھاری دلگی ہاں شاید وہ دلگی تھی

"ویسے تمھارے الفاظ ہاں الفاط تمھارے کتنے خوبصورت تھے نہ سیدھا دل پر لگتے تھے" 

وہ بے ربط سا دل پر ہاتھ رکھے بول رہا تھا

ہاں لیکن تمہیں کیا پتا.الفاظ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں انسانی احساس کی حقیقی ترجمانی کرنے سے

قاصر ہیں۔ انسانی احساس کا بہترین ترجمان انسانی رویے ہیں. اگر انسانوں کے آپسی رویے خوبصورت نہ ہوں تو ان کے کہے ہوئے خوبصورت الفاظ بھی ان کے بدصورت رویوں کے زیرِ سایہ اپنی خوبصورتی کھو بیٹھتے ہیں۔

اور ہمارے رشتے کی خوبصورتی تمھارے رویے نے.... 

پلیز مت بولو کچھ بھی۔رمل نے ملحان کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اسے بات پوری کرنے سے روکا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے نم آنکھوں سے بولی

"کیوں تم اپنے الفاظ سے میری جان نکال رہے ہو؟

ارے نہیں جان نکالنا اسے کب کہتے ہیں ملحان نے رمل کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے کہا۔

پھر ایک دم اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے مزید بولا۔

جان نکالنا تو اسے کہتے ہیں

" جب کوئی بھری محفل میں کہے

ؤاو میں نے اس بدھو کو جنٹلمین بنا دیا" 

حان... رمل کے لب کپکپا گئے اس کے الفاظ ختم ہو گئے تھے۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ملحان کو منانا اتنا مشکل ہو گا وہ بہت آسان سمجھ رہی تھی ۔

ہمم اور پتا ہے جان نکالنا کسے کہتے ہیں ملحان ایک بار پھر گویا ہوا۔

 جب کوئی کہے اسے پٹانا تو بہت آسان تھا زرہ سی گولی دکھائی اور بسٹھوس...." 

یہاں رمل کی بس ہوئی تھی اور روتے روتے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے زور سے چیخ اٹھی۔

"آہہہہہہہہ.. بس کرو میں پاگل ہو جاؤں گی ملحان خدا کا واستہ ہے بس کر دو 

چپ کرو تم اور خاموشی سے میری بات سنو۔ملحان غصے سے دھاڑا۔

خبردار جو ایک لفظ بھی بولی" 

وہ رمل سے اپنا ہاتھ چھوڑاتے کھڑا ہوا جو بات کرتے رمل نے تھاما تھا۔

وہ دن گۓ رمل بے بی جب میں تم سے ڈرتا تھا اب جو میرا دل کیا وہ کروں گا

وہ بولوں گا" 

کہتے ساتھ ہی وہ باہر کی جانب بڑھ گیا

چلتے چلتے اس نے اچانک پیچھے مڑ کر دیکھا 

"دل ہے ہر فریب کی لذت سے آشنا 

وہ لاکھ بے وفا سہی پر مجھ کو چاہئے ۔۔🖤" 

  بولتے وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا

رمل روتے ہوئے اپنے فلیٹ کی طرف چلی گئی۔

                   ..💔💔💔..

تو ذمے دار ہے میری اداس آنکھوں کا

‏تو مان جا حفاظت نہیں ہوئی تجھ سے....

نمل کو ہفتہ ہو گیا تھا حویلی آئے ہوئے۔ ایک ہفتے میں وہ کملا کر رہ گئ تھی۔ ہر وقت بس روتی رہتی تھی۔کیا واقعی ماں اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کر سکتی ہے؟

کیا واقعی دولت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ خون سفید کر دے؟

                     ...💔💔💔... 

‏مانا کہ تُو خُوب بُہت خُوب ہے مگر! 

میں بھی بُہت خاص ہُوں کِسی خاص سے پُوچھ....

انابیہ 1 ہفتے سے  سکتے کے عالم میں تھی ۔اسے خود سے نفرت ہو رہی تھی کہ وہ اس حد تک چلی گئی ۔اسے پتا چل گیا تھا کہ اللہ نے اسے نا محرم سے محبت کرنے کی سزا دی ہے

آج وہ اپنی حالت سے گھبراتے ہوئے درگاہ گئی تھی ۔وہاں اسے ایک بزرگ خاتون بیٹھی ہوئی ملی۔اس نے انابیہ سے پوچھا۔

کیا ہوا بیٹا اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنا درد تمھاری آنکھوں میں ؟

تبھی انابیہ گھنٹوں کے بل اس خاتون کے پاس بیٹھ گئی اور نم آنکھوں سے بولی۔

آنٹی

نہیں مجھے بی بی جی پکارو۔ اس عورت نے فوراً ہی انابیہ کی بات کاٹ دی۔

انابیہ دوبارہ سوچ میں ڈوبی گویا ہوئی۔بی بی جی بھٹک گی تھی اللہ کی راہ سے ۔غلط راستہ چن بیٹھی تھی اللہ کی رسی چھوڑ  دی تھی۔

تو میرا پتر اب پکڑ لو اللہ کی رسی وہ رب تو اپنے بندے کی توبہ کے انتطار میں ہوتا ہے اس عورت نے نرمی سے سمجھایا۔

بی بی  جی بہت گناہ گار ہو گئی ہوں اللہ کی بارگاہ میں اپنا ناپاک وجود لے جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے

نہ میری دھی ایسے نہیں بولتے۔ وہ اللہ تو انتطار میں ہے تیرے کہ کب تو اس کی بارگاہ میں لوٹے۔ جا میری دھی لوٹ جا وہ رب انتظار میں ہے جا وہ تجھے خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا۔

دھی جب اللہ کا کوئی نیک بندہ اس کی راہ سے بھٹک جاتا ہے وہ اسے تھوڑا درد دیتا ہے تا کہ وہ پھر سے اللہ کی طرف زیادہ شدت سے لوٹے ۔ تو اللہ نے تجھے اب یہ درد اسی لیے دیا کہ تو لوٹ جاۓ اس کی طرف پہلے سے بھی زیدہ محبت سے۔ وہ مہربان ہے تجھ پر ابھی تجھے 

محسوس نہیں ہو رہا بہت جلد تجھے پتا چل جائے گا اللہ کس قدر مہربان ہے 

ہاں اللہ مجھ پر مہربان ہے بہت مہربان ہے اس نے مجھے درد دیا تا کہ میں پھر سے اس کی طرف لوٹ جاؤں

میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے بی بی جی سچ میں ہوتا ہے  ایسا میں جب جب غلط راہ پر چلتی ہوں اللہ میرا ہاتھ تھام لیتا ہے مجھے بھٹکنے نہیں دیتا ۔انابیہ ٹرانس کی سی کیفیت میں بولے جا رہی تھی۔بیبی جی اب خاموش انابیہ کی باتیں سن رہی تھی اور انابیہ مسلسل روتے ہوئے بول رہی تھی 

آپ کو پتا ہے ایک بار چھوٹے ہوتے میں نے ایک لڑکی کا مزاق بنایا تھا 

پھر وہی ہوا 

لیکن آپ کو یہ بھی نہیں پتا کہ بڑے ہونے پر میں اپنی کلاس فیلو کی محبت کا مزاق بناتی تھی پھر وہی ہوا میرے ساتھ مجھے لگتا ہے مجھے اس کی بد دعا مار گئی بی بی جی اس کی بددعا مار گئی۔ انابیہ نے اپنا دل اس عورت کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ 

مجھے میری غلطیوں کی فوری سزا ملتی ہے بی بی جی مجھے آج پتا چلتا ایسا کیوں ہوتا ہے ۔

اللہ مہربان ہے مجھ پر بی بی جی بہت مہربان ۔وہ رحیم ہے وہ چاہتا نہیں کہ میں بہت زیادہ بھٹک جاؤں اس لیے وہ میرے تھوڑا سا بھٹکنے پر مجھے درد دے دیتا ہے تا کہ میں سنبھل جاؤں 

مجھے سمجھ آ گئی بی بی جی مجھے بے چینی، بے سکونی کس چیز کی ہے

میں ختم کرو گی اس بے چینی بے سکونی کو۔

ہاں ان شاءاللہ بہت جلد ختم کروں گی وہ خود سے سوال کرتی خود سے جواب دیتی اٹھ کر جانے لگی جب اچانک کچھ یاد آنے پر رکی تھی

بی بی جی  ایک بات پوچھوں 

ہاں پوچھو ۔

ہم دین اور دنیا کو ساتھ ساتھ لے کر کیوں نہیں چل سکتے ؟

اپنے سامنے موجود اس چھوٹی سی بچی کی بات سن کر بی بی جی کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا تھا

جھلی ہے میری دھی ۔

بھلا کوئی شخص ایک وقت میں جنت اور جہنم میں موجود ہو سکتا ہے؟

بی بی جی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

تو میری دھی دین تو جنت ہے اور آج کل کی دنیا..! 

پھر کیسے دین اور دنیا ساتھ چل سکتے ہیں 

ان دونوں میں سے کسی ایک کو چنوں گی تو ہی سکون ملے گا

اللہ کی عبادت میں چھوڑ نہیں سکتی بی بی جی 

اور میری دھی شیطان تجھے نہیں چھوڑ سکتا۔ جو شخص جتنا اللہ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے شیطان اتنی شدت سے اس پر حملہ آور ہوتا ہے 

اب یہ تو انسان کا کام ہے کہ کس طرح شیطان کے وار سے بچنا ہے 

بی بی جی کیسے بچنا ہے؟ انابیہ نے معصوم سا منہ بناتے ہوئے پوچھا 

میری دھی جا اور جا کر اس بات کا جواب ڈھونڈ اگر نہ ملے پھر آ جانا 

لیکن ابھی جا میری نماز کا وقت ہو گیا 

بی بی جی اپنے حجرے کی جانب لوٹ گئی تھی

اس درگاہ سے واپس آتے انابیہ کو اپنے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے تھے...❣️❣️❣️...

‍‍

انابیہ جب سے درگاہ سے ہو کر آئی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ زندگی کا مقصد مل گیا ہو۔اس نے اچھے سے وضو کر کے اپنے اللہ سے رو رو کر معافی مانگی تھی اسے بہت حد تک سکون مل گیا تھا ۔

‍‍ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﺻﺮﻑ ﻣیﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ.. 

ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺭﮔﻮﮞ ﺗﮏ ﺍُﺗﺮ ﮔﯿﺎ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ....

رمل گھم سم سی بیٹھی آسمان کو تک رہی تھی جب انابیہ وہاں آئی اور رمل کو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ میں ڈوبا ہوا پایا ۔

آپو کیا ہوا. انابیہ نے اس کے پاس بیٹھتے پوچھا ۔

ہمیں پتا ہے آپ  ملحان کی وجہ سے اداس ہو۔

آپو! آپ نہ اللہ سے  دوستی کر لو اللہ سے دعا کرو کہ آپ کو آپ کے حان جی مل جائیں آپ کو پتا ہم نے ایک دعا یاد کی ہے ۔

*ہدایت کی دعا!*

نبی اکرمﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے

*اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى* 

اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت پرہیزگاری پاکدامنی اور دل کی مالدرای چاہتا ہوں

اور جب ہم نے یہ دعا پڑھنی سٹارٹ کی تب سے ہمارا دل اللہ کی طرف مائل ہونے لگا ہے

آپ بھی دعا مانگیں نہ اللہ آپ سے بھی محبت کریں گے۔ وہ آپ کو آپ کے حان  سے ملا دیں گے۔

آپو آپ کو پتا ہے ہر سچی "استغفار" کے بعد ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔۔۔۔

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ

تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ 

اور ویسے بھی آپو ہدایت مانگنے سے ملتی ہے بن مانگے نہیں 

شکریہ انابیہ مجھے یہ سب بتانے کے لیے

میں ضرور اللہ کو یاد کروں گی 

رمل کہتے ساتھ باہر کی طرف بڑھی۔

آپو کمرے اس طرف ہیں آپ کدھر جا رہی ہیں ؟

انابیہ آپ اندر جاؤ میں تھوڑی تک آ جاؤں گی کہتے رمل باہر نکل گئی۔

فل سپیڈ میں بائیک چلاتے وہ ملحان کے فلیٹ پر پہنچی۔ ڈپلیکیٹ کیز سے ڈور اوپن کرتے وہ ملحان کے بیڈروم کی طرف بڑھی۔

فل اندھیرا کیے ملحان بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ رمل نے روم کی لائٹ جلائی اور ملحان کو پکارا۔

حان... حان اٹھیں ناراضگی اپنی جگہ

ہمیں نماز پڑھنی ہے ہمیں وضو کرنا سیکھائیں ۔رمل نے ملحان کو جھنجوڑتے ہوئے کہا ۔

ملحان حیران کن نظروں سے رمل کو دیکھتا رہا ۔اس سے پہلے ملحان ہزاروں بار رمل کو نماز کا کہہ چکا تھا لیکن مجال ہے جو رمل کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔

حان پلیز ایسے مت دیکھو مجھے پتا ہے تم بہت ناراض ہو لیکن پلیز مجھے وضو کرنا ہے۔ کروا دو" 

ملحان نے کچھ کہے بغیر واش روم کی طرف اشارہ کیا۔

رمل کو اندازہ تھا ملحان چاہے جتنا بھی ناراض ہو اس کام میں اس کا ساتھ ضرور دے گا۔

حان میرے پاس چادر نہیں ہے۔رمل نے بچوں جیسی معصومیت سے ملحان کو دیکھتے کہا۔

ملحان  کچھ بولے بغیر الماری کی طرف بڑھا اور وہاں سے ایک پیکٹ نکال کر رمل کی طرف بڑھایا۔

رمل  نے مسکراتے ہوۓ اس پیکٹ میں سے وائٹ کلر کی چادر نکال کر سر پر لی ۔

وہاں بیٹھو ۔ملحان اسے صوفے ہر بٹھاتے خود گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھتے ہوۓ وضو کر فرائض اور مطلب سمجھانے لگا۔

"(وضو کے فرائض

اللہ پاک نے ہمیں اس دنیا میں اپنی عبادت کے لئے بھیجا۔ اسلام میں کثیر عبادات کا مکمل انحصار طہارت و پاکیزگی پر ہے۔ جس طرح روح کو نماز، روزہ اور دیگر عبادات کے ذریعے پاک و صاف کیا جاتا ہے، اسی طرح بدن کو ربِ کائنات کی بارگاہ میں حاضر کرنے سے پہلے پاک و صاف کرنا ضروری ہے۔

وضو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید میں وضو کرنے کا نہ صرف واضح حکم موجود ہے بلکہ نماز کے لئے وضو کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ: اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: 

ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! جب

 نماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنے منہ کو دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گھٹنوں تک پاؤں دھوؤ۔ (پارہ 6، المائدہ:6)وضو کی تعریف:

نماز یا اس جیسی کوئی عبادت ادا کرنے کے لئے چہرہ، پیشانی (میں جہاں سے بال اُگتے ہیں) سے تھوڑی کے نیچے اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک دھونے اور دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت اور دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھونے اور سر پر مسح کرنے کو وضو کہتے ہیں۔

وضو کے چار فرائض ہیں:

· چہرہ دھونا۔

· کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا۔

· چوتھائی سر کا مسح کرنا۔

· ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا۔ (بہارِ شریعت، 1/288)

وضو کے فرائض میں دھونے کا ذکر ہے، آیئے دھونے کی تعریف ملاحظہ فرمایئے:

دھونا کسے کہتے ہیں؟

جسم کے کسی حصے کو دھونے کا یہ مطلب ہے کہ اُس عُضْوْ کے ہر حصّے پر کم از کم دو قطرے پانی بہہ جائے۔ صرف بھیگ جانے یا پانی کو تیل کی طرح چپڑ لینے یا ایک قطرہ بہ جانے کو دھونا نہیں کہیں گے نہ اِس طرح وُضو یا غسل ادا ہو گا۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ، 1/218)

وضو سے پہلے بِسْمِ اللہ کہنے کی فضیلت:

وضو سے پہلے بِسْمِ اللہ کہنے کی عادت بنانی چاہئے، چنانچہ دو حدیثوں کا خُلاصہ ہے: جس نے بِسْمِ اللہ کہہ کر وُضو کیا اس کا سر سے پاؤں تک سارا جسم پاک ہوگیا اور جس نے بغیر بِسْمِ اللہ کہے وُضو کیا اُس کا اُتنا ہی بدن پاک ہوگا جتنے پر سے پانی گزرا۔ (سُننِ دارقُطنی 6/109،حدیث229،228)

حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ابوہریرہ! جب تم وُضو کرو تو بسم اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کہہ لیا کرو، جب تک تمہارا وُضو باقی رہے گا، اُس وقت تک تمہارے فرشتے یعنی کِراماً کاتِبِین تمہارے لئے نیکیاں لکھتے رہیں گے۔ (اَلْمُعْجَمُ الصَّغیر لِلطَّبَرَانِی)) "

.. 

آ گئ سمجھ ملحان نے رمل سے سنجیدگی سے پوچھا ۔

جی

ملحان نے اس قدر پیارے انداز سے سمجھایا تھا کہ رمل تو کیا کوئی ان پڑھ بھی سمجھ لیتا 

ہممم چلو اب وضو کرو

ملحان اسے ساتھ لیتا واش روم کی طرف بڑھا۔

نہیں ایسے نہیں سہی سے کہنیوں تک پانی ڈالوں 

ملحان نے خود اس کے بازو پکڑ کر دھلوائے۔

ہمممم اب ایسے کرو

پھر اپنے ہاتھ سے اسے مسح کر کے دکھایا ۔

پاؤں دھلوانے کے بعد اسے باہر لے کر آیا ۔

رمل کو دوپٹے میں اٹکتا دیکھ کر

اس کا ڈوپٹہ اپنے ہاتھ میں اٹھاتےچہرے کے گرد لپیٹتے اس کے سر پر رکھا۔اور

بہت پیارا حجاب بنا دیا۔

رمل سفید چادر کے حجاب کے ہالے میں اس قدر پیاری لگ رہی تھی کہ ملحان کا بے ساختہ دل چاہا کہ وہ آج اپنے ہونٹوں کو رمل کے ماتھے کا زائقہ چکھا دے 

لیکن پھر اپنی ناراضگی کا سوچتے الماری سے جاۓ نماز نکال کر بچھایا ۔

جیسے جیسے میں نماز ادا  کروں ویسے ہی تم بھی پیچھے پیچھے پڑھنا۔

پھر بہت آہستہ اور عاجزی کے ساتھ

ملحان نے عشاء کی نماز ادا کی۔

رمل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا اور کیسے پڑھ رہی ہے ۔لیکن اس کے دل کو بے اختیار گھبراہٹ ہوئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

رمل کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر اس کی گود میں گر رہے تھے

نماز ادا کرتے ہی ملحان جائے نماز سے اٹھ گیا اور رمل سے بولا۔

اب تم دعا مانگ لو۔ یہ کہتے ہوئے وہ باہر نکل گیا۔

پیچھے رمل دھاڑیں مار مار  کر روئی ۔

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اتنے آنسو اسے کیوں اور کیسے آ رہے ہیں 

اسے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا مانگے۔ وہ چپ چاپ ہاتھ اٹھائے بس

اللہ 

اللہ 

پکار رہی تھی

کپکپاتے لبوں میں بس ایک فریاد تھی

اللہ

اس کی پکار میں اتنا درد تھا کہ دروازے سے اندر آتا ملحان اس کی تڑپ دیکھ کر کچھ سوچتے ہوئے پلٹ گیا 

رمل کو کچھ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کب جاۓ نماز پر روتے ہوئے سو گئی 

1 گھنٹے بعد بھی جب رمل باہر نہ آئی تو ملحان اندر داخل ہوا اور  رمل کو جاۓ نماز پر ہی سوتا دیکھ کر مسکرانے لگا ۔دھیرے سے رمل کو اٹھاتے بیڈ پر لٹایا اور جاۓ نماز اکٹھا کر کے رکھا۔

سفید حجاب کے ہالے میں چہرے پر مٹے مٹے آنسو لیے رمل بے حد پیاری لگ رہی تھی۔بے ساختہ جھکتے  رمل کی نیند کا فائدہ اٹھاتے اس نے رمل کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھےںاور پھر کتنی ہی دیر اسی پوزیشن میں بیٹھا رمل کو محسوس کرتا رہا۔

ملحان کی طرف سے ملنے والا رمل کو یہ پہلا بھوسہ تھا۔ورنہ اس سے پہلے  ہر بار رمل ہی ملحان کے قریب گئی تھی۔

ملحان نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔

رمل کا حجاب ڈھیلا کرتا وہ خود بھی بیڈ ہر لیٹ گیا۔ آیت لکرسی کا ورد کرتے وہ بھی رمل کے ساتھ نیند کی وادیوں میں گم ہو گیا۔

                 ...❣️❣️❣️...رمل کی آنکھ صبح الارم کہ آواز پر کھلی. وہ آنکھیں کھول کر سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ کہاں ہے؟

لیکن ناکام رہی کیونکہ ملحان اپنے بازو بہت زور سے اس کے گرد باندھے نیند میں گم تھا۔

رمل نے مسکراتے ہوئے الارم بند کیا اور ملحان کے ماتھے ہر بکھرے بال سمیٹے 

رمل کو ماننے میں کوئ عار نہیں تھا کہ 

"بلاشبہ دنیا کے نیک مردوں میں اسے نیک شوہر ملا" 

بلاشبہ ملحان اک مکمل مرد تھا جس نے ناراضگی کے باوجود اللہ کی راہ پر چلنے پر اپنی بیوی کا ہاتھ تھام لیا تھا" 

"مت پوچھو کیسے لگتے کو

جیسے بھی ہو دل پر لگتے ہو"

رمل نے سوچتے ہوۓ ملحان کے ماتھے پر اپنے لب رکھے۔جیسے ہی رمل نے ملحان کے ماتھے پر لب رکھے ملحان نے اپنی آنکھیں کھول دی۔ جاگ تو وہ آلارم کی آواز پرہی گیا تھا بس چپ کر کے لیٹا ہوا تھا۔

او آپ اٹھ گئے 

نماز پڑھ لیں۔

ہممممم

ان دونوں نے اکٹھے نماز ادا کی ۔

آج کا دن ملحان کی زندگی کا سب سے اچھا دن تھا ۔اس کی ہمیشہ سے خواہش تھی رمل کو اس روپ میں دیکھنے کی

لیکن رمل کا یہ روپ صرف ملحان کی محبت میں تھا۔ اللہ کی محبت میں نہیں اور یہی بات حان کو تکلیف دے رہی تھی۔

نماز ادا کرتے ہی ملحان باہر کی جانب بڑھا۔ جب  رمل  نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا

حان" اب بھی بات نہیں کریں گے"

"کیوں اب کیا ہو گیا ہے"ملحان نے حیرت سے پوچھا ۔

رمل شاید تم نے سنا نہیں 

"اللہ کی محبت کے  سوا ہر محبت دکھ دیتی ہے ۔اللہ تمہیں انسان کی محبت سے گزار کر خود تک لاتا ہے"

رمل میں انتظار کروں گا تمھارے اللہ تک جانے تک کے سفر کا 

میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں اب تب میرے سامنے آنا جب تم اللہ اور اس کی محبت کو پا لو وہ احساس بہت خوبصورت ہوتا ہے جب اللہ کی محبت کو محسوس کرتے ہوئے آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو جاتے ہیں"

اور مجھے انتظار ہے اس وقت کا جب تم یہ احساس پا لو گی۔

کیا تمہیں یہ چیلنج قبول ہے؟

حان میں اکیلے...

رمل نے کچھ کہنا چاہا لیکن ملحان نے درمیان میں ہی اس کی بات کاٹ دی اور بولا۔

"کچھ چیزیں اپنی حیا کی وجہ سے انمول ہوتی ہیں۔ خاص ہوتی ہیں ، قیمتی ہوتی ہیں ، نایاب ہوتی ہیں۔ جیسے جنت میں چھپی  حوروں کی حیا ، بند سیپ میں چھپے گوہر کی حیا ،کوئلے کی کان میں چھپے ہیرے کی حیا ، آنکھ میں چھپے آنسو کی حیا ، اور پردے میں لپٹی عورت کی حیا۔میں دیکھنا چاہتا ہوں آپ کو ایسا قیمتی، ایسا نایاب، میں دیکھنا چاہتا ہوں آپ میں جنت کی حوروں کی حیا، بند سیپ میں چھپے گوہر کی حیا،پردے میں لپٹی عورت کی حیا 

میں آپ کو خاص دیکھنا چاہتا ہوں "

بنو گی آپ ایسی خاص؟

ملحان کے الفاظ کسی امرت کی طرح رمل کے کانوں میں اتر رہے تھے

رمل تم نے آج تک ہر کام اکیلے ہی کیا ہے

جاؤ اب یہاں سے اب تب آنا جب اپنا چیلنج پورا کر لو۔ملحان نے اپنے چہرے کا رخ دوسری طرف کرتے کہا۔

اوکے حان اگر ایسا ہے تو ایسے ہی

سہی اب میں تبھی تمھارے سامنے آؤں گی جب اللہ کی رضا کو پا لوں

جانے سے پہلے میری ایک خواہش نہیں پوری کرو گے؟

بہت امید سے رمل نے سوال کیا ۔

ہمممم بولو

ایک بار سینے سے لگا لو

کہتے ہوۓ وہ سسک پڑی ۔

ملحان نے بے ساختہ اس کے بلکتے وجود کو اپنی بانہوں میں بھرا ۔

اس کے سینے سے لگی رمل بلک بلک کر رو دی۔اور بولی 

حان یہ دوری کہیں میری جان نہ لے لے

لیکن ملحان دل ہر پتھر رکھے خاموش تھا بلکل خاموش۔اسے اندازہ تھا رمل کو راہِ راست پر لانے کے لیے یہ سب سے اچھا موقع تھا۔

کافی دیر رمل اس کے سینے سے لگی رہی پھر بولی ۔

اگلے سال اسی مہینے اسی دن اسی وقت میں دوبارہ ملوں گی آپ سے حان

یہ میرا وعدہ ہے آپ سے

ملحان نے کچھ کہے بغیر اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے۔

ملحان کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرتے رمل سسکی۔ 

ملحان کے آنسو رمل کے چہرے پر گر رہے تھے۔

اگر اس جدائی سے رمل خوش نہیں تھی. تو دل ملحان کا بھی رو رہا تھا

لیکن یہ ضروری ہو چکا تھا

شامِ وداع تھی مگر اُس رنگ باز نے 🥺

ماتھے پہ ہونٹ رکھ دیئے، جانے نہیں دیا.....!!🍁

تبھی ملحان اک جھٹکے سے پیچھے ہوا

جاؤ رمل پلیز جاؤ یہاں سے

رمل اپنے منہ پر ہاتھ رکھتی باہر کو بھاگی تھی

رمل کی سفید چادر ابھی بھی اس کے سر پر تھی

وہ روتے سڑک ہر چلی جارہی تھی

اسے کچھ آئیڈیا نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے  وہ بس چلے جا رہی تھی

جب زور و شور سے بارش برسنے لگی۔

بارش میں بھیگتی رمل کو آج اندازہ ہوا تھا کہ جب کوئی اپنا بچھڑے تو جان کیسے نکلتی ہے۔

تبھی پیچھے سے کسی نے  رمل کو بازوں سے پکڑا 

آپو میں کب سے آپ کو آوازیں دے رہا ہوں آپ سنتی کیوں نہیں 

رمل کو ہوش ہوتا تو کچھ کہتی

اس نے  رمل کو بازو سے پکڑتے گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی گھر کی جانب بڑھا دی تھی۔

آپو جان کچھ بولے پلیز کیوں میری جان نکل رہی ہے۔

پلیز بدر آج نہیں... 

رمل کی اس بات پر بدر کی آنکھیں پھیل گئی ۔کیونکہ اس کی آپی نے آج پہلی دفعہ اسے بےبی کی بجائے 

اس کے نام سے پکارا تھا

گھر آتے ہی رمل اپنے روم میں بند ہو گئی ۔کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ

اس سے پوچھ سکے کہ کیا ہوا ہے؟

                  ...💔💔💔....نمل بیٹا

مورے نے نمل کو آواز دی تھی

پلیز مورے آپ اب تو یہ بیٹا بیٹا کا ورد نہ کریں اب تو آپ اور آپ کے بیٹے کا مقصد پورا ہو گیا ہے نمل کے لہجے میں نفرت ہی نفرت تھی

ایسی کوئی بات نہیں ہے میری جان

مورے نے بیٹھتے ہوئے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا

نمل نے جھٹکے سے مورے کا ہاتھ پیچھے کیا اور غصے سے پھنکاری 

بس کریں آپ ۔

آپ اور آپ کے بیٹے کا ابھی دل نہیں بھرا کیا جو مجھے اور ازیت  دینا چاہتی ہیں آپ 

میرا بیٹا میرا بیٹا کیوں لگا رکھا ہے آپ نے وہ آپ کا بھی کچھ لگتا ہے

میرا صرف ان سے نفرت کا رشتہ ہے اور کوئی رشتہ نہیں 

نمل بیٹا ایک بار میری بات سن لو اگر قیس بہک بھی گیا تھا تو اس نے کچھ غلط نہیں کیا تھا آپ کے ساتھ آپ اس کی محر.... 

اس سے پہلے کہ مورے اپنا فقرہ پورا کرتی خولہ بیگم جلدی سے اندر داخل ہوئ تھی کیا کر رہی ہو آپ ادھر جائیں ادھر سے 

ہم اپنی بیٹی کے پاس ہیں 

امامہ بیگم آج پھر نمل سے بات نہیں کر پا رہی تھی انہیں بہت افسوس ہو رہا تھا کہ خولہ نمل کو مس گائیڈ کر رہی ہے 

وہ چپ کر کہ کمرے سے باہر نکل گئی 

کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ خولہ اب انہیں نمل کے پاس بھی  پھٹکنے نہیں دے گی

نمل بیٹا اب وقت آ گیا ہے آپ اپنا کام شروع کر دیں۔

مما آپ جیسا کہیں گی ویسا کرو گی آپ مجھے بتائیں کیا کرنا ہے

نمل میری بات تحمل سے سننا

تمہیں اب عشق کی بازی کھیلنی ہو گی

مطلب

مطلب یہ کہ جیسے قیس  تمہیں دھوکہ دے کر ساری جائیداد وہ اپنے نام کروا چکا ہے۔ اب تمہیں قیس کو دھوکہ دے کر ساری جائیداد اپنے نام کروانی ہو گی

لیکن اس کے لیے تمہیں قیس کے پاس جانا ہو گا

مما ہم اس انسان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے

میری بیٹی ہمیں اندازہ ہے اس نے کتنا غلط کیا آپ کے ساتھ

لیکن اب آپ بھی اس کے ساتھ وہی کرو دھوکہ دو اسے اور بدلہ لے لو

ٹھیک ہے مما ہم کریں گے ایسا آپ سمجھا دیں ہمیں کیا کرنا ہے

ٹھیک ہے نمل لیکن آپ نے یہ ٹیبلٹ اور انجکشن بند نہیں کرنا

ورنہ آپ کے بےبی ہو سکتا ہے جو کسی صورت اس دنیا میں نہیں آنا چاہیے

اور نمل اس بات کا دھیان رکھنا آپ کو قیس سے جائیداد کے کاغذات پر سائن کروانے کے لیے جس حد تک پر بھی جانا پڑے آپ جائیں گی

لیکن مما وہ محرم نہیں ہمارا

نمل کی بات سن کر خولہ بیگم اس کی بات پر مسکرائی تھیں

ارے نمل جب ایک بار کوئی مرد ایک عورت کے قریب آ جائے اس کے بعد کیا محرم کیا نہ محرم

نمل خولہ بیگم کی بات کا مفہوم نہیں سمجھ پائی تھی

لیکن اب ہم قیس کے پاس جائیں گے کیسے

میں بتاتی ہوں.......

آئ سمجھ جی مورے آ گئ

اوکے اب آپ بازو کریں میں انجکشن لگا دوں ٹھیک ہے مورے

انجکشن لگتے ہی نمل کو اپنے جسم میں نشہ اترتا محسوس ہوا تھا لمبے لمبے سانس لیتی ہو مدہوش ہو گئی تھی ۔

                 ..... ❣️❣️❣️.....

بہت مل گئ نمل میڈم آپ کو چھوٹ اب آپ کو اپنے خان کے پاس آنا ہو گا

قیس نے کہتے اپنے خاص ملازم سے کال کر کے حویلی کا حال معلوم کیا تھا۔

اوکے کو نسے ہوسپٹل جانا ہے نمل نے اور کون کون ساتھ ہے

ابھی قیس نے کال بند ہی کی تھی کہ اسے اک unknown نمبر سے کا آئی تھی

خان جی

نمل روتے ہوئے بولی تھی

خان کی جان گڑیا آپ ہو نہ بولو کیا ہوا رو کیوں رہی ہو آپ؟

خان جی وہ خولہ بیگم ہمارا نکاح زبردستی اپنے کسی جاننے والے سے کروا رہی ہیں۔ خان جی ہم نے نہیں کرنا نکاح خان جی ہمیں لے جائیں یہاں سے

نمل میری جان آپ رونا بند کریں صبح آپ میرے پاس ہوگی میرا وعدہ ہے آپ سے

جی خان جی

نمل نے کوئی اور بات سنے بغیر کال کاٹ دی ۔

خولہ بیگم کو تو میں چھوڑوں گا نہیں

کیسے میرے گڑیا کو مجھ سے دور کر سکتی ہے وہ۔

اگلے دن خولہ بیگم نے نمل کے پرس میں ایک موبائل اس کی ٹیبلٹ اور انجکشن ڈال دئے تھے

نمل ان کا استعمال مت بھولنا۔وہ نمل کو ہدایت کرنا نہیں بھولی تھیں۔

 جی مما

اور ہاں جلد جلد کام کر کے لوٹنا ہے آپ نے گھبرانا نہیں ہے

جی مما

اوکے اب چلیں 

ہوسپٹل سے نمل کا ریگولر چیک اپ کرواتے ہی خولہ بیگم جان بوجھ کر ادھر ادھر ہو گئی تھیں ۔

جب قیس بہت احتیاط کے ساتھ نمل کو بے ہوش کرتا وہاں سے غائب ہو گیا ۔

قیس نمل کو اپنی شہر والی حویلی لے آیا تھا۔

 تمہاری ہمت کیسے ہوئ میری بہن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی

میں جان سے مار دوں گی تمہیں....

رمل نے آگے بڑھتے ایک پنچ عارب کے منہ پر مارا۔

عارب نے گندی نظروں سے رمل کو گورا تھا

تم تمھاری یہ مجال رمل نے کہتے ساتھ عارب کی دھلائی شروع کر دی ۔

ہاہاہا مار لو جتنا مارنا ہے

لیکن انا میری ہے صرف میری

ویسے تو تم بھی کمال ہو لیکن وہ چارم نہیں ۔عارب نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا ۔

تمہیں خوف نہیں آ رہا مجھ سے میں تمہیں جان سے مار دوں گی ۔رمل نے عارب کو دیکھ کر دانت کچکچائے۔

ہاہاہا مار سکتی ہو تو مار لو۔لیکن مجھے پتا ہے تم صرف مجھ پر تشدد ہی کر سکتی ہو تم مجھے مار نہیں سکتی 

ہاہاہا اچھا اور یہ خوش فہمی کیوں تمہیں ۔رمل نے ہنستے ہوئے کہا ۔

ہاہاہا۔ وہ تمھارے نام نہاد لالا میرے بھی کچھ لگتے ہیں رمل۔ اس لیے تو تم نے مجھے اس لڑکے سے بچایا

عارب کی بات سنتے رمل ایک بار سکتے میں آ گئی تھی۔ یہ بات تو وہ کبھی زبان پر بھی نہیں لائی تھی کہ اسے عارب کی حقیقت کا پتا ہے۔

اسے پتا تھا بےبی کا غصہ کتنا خطرناک ہے اس لیے اس نے عارب سے خود نبٹنے کا سوچا تھا۔ لیکن عارب کو یہ بات کیسے معلوم اور قیس اتنا لاپرواہی کیسے ہو سکتا ہے اپنے بھائی کے بارے میں ۔یہ کیسے کو سکتا ہے کہ قیس ملحان سے اتنی محبت کرتا ہو اور عارب کے بارے میں اسے کچھ پتا نہ ہو

ایسا کون سا راز ہے جو ہم نہیں جانتے 

رمل کڑی سے کڑی ملا کر بالآخر بات کی جڑ تک پہنچ گئی تھی۔ 

رمل نے سکینڈ میں اپنے  تاثرات پر قابو پایا اور عارب سے بولی تھی

بھول ہے تمھاری کہ جو کچھ تم نے کیا اس کے بعد بھی لالہ تمہیں بچائیں گے یہ تماری بھول ہے۔  

اور رمل بلکل سہی کہہ رہی ہے مسڑ عارب ۔قیس نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے رمل کی بات درمیان میں ہی اچک لی۔

بیشک آپ ہمارے بھائی ہو لیکن یاد کرو وہ وقت جب میں تم سے فریاد کرتا تھا مت کرو ایسا۔ یاد ہے وہ دن جب میں تمھارے روم میں آ کر تمہیں سمجھاتا تھا ہمارا رشتہ تم نے اسی دن ختم کر دیا تھا جب تم نے انابیہ پر پہلی نظر ڈالی تھی۔ انابیہ مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہے اس کے لیے مجھے میرے خون کے رشتے بھی نہیں چاہئیں ۔

اگر مجھے انابیہ اور تم میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو میرا انتخاب میری بہن ہوگی جس کے لیے میں تمھاری جان لے بھی سکتا ہوں اور اپنی جان دے بھی سکتا ہوں ۔

بھائی تو بہنوں کی عزتوں کے محافظ ہوتے ہیں تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ قیس کو اپنی بہن کی عزت سے زیادہ اس کے خون کے رشتے پیارے ہوں گے 

قیس ٹارچر روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا تھا

عارب تو قیس کی بات سن کر حیران رہ گیا 

بھائی 

خبردار بھائی مت کہنا مجھے

آپ اس دن روم میں ملحان لالہ نہیں تھے

نہیں اس دن روم میں قیس تھا

اور جو بکواس تم ملحان سمجھ کر رہے تھے وہ میں نے سنی تھی

تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ جو انسان اپنے ایک بھائی پر جان دیتا ہے وہ دوسرے سے بے خبر رہ سکتا ہے۔میں نے پل پل ملحان بن کر تمہیں سمجھایا 

لیکن جس دن حیا نور اس معصوم کو تم نے اپنی حوس کی بھینٹ چڑھایا اس دن سے میں نے خود اپنے ہاتھوں سے تمھارے خلاف ثبوت جمع کرنے شروع کر دیے۔ ایک شرابی ایک زانی میرا بھائی نہیں ہو سکتا کبھی نہیں 

مجھے ساری زندگی پچھتاوا رہے گا کہ میں حیا نور کو تمھاری حوس سے نہیں بچا پایا لیکن میں حیا نور سے کیا وعدہ ضرور نبھانے آیا ہوں

یور آر انڈر اریسٹ مسڑ عارب

یہ رہا اریسٹ وارنٹ 

آپ پولیس... لیکن آپ تو ڈاکٹر ہیں نہ

سی آئ ڈی آفیسر قیس خان جو آفیسر خان کے نام سے مشہور ہے جانتے تو ہو جس نے پچھلے ہفتے ہی تم لوگوں کی شراب کی مل بند کروائی بھول گئے کیا

قیس نے تمسخر اڑاتی نظر عارب پر ڈالتے ہوئے کہا ۔

آفیسر خان

عارب نے کپکپاتے لبوں سے قیس کا نام لیا تھا 

اینڈ میٹ ماۓ پارٹنر آفیسر شاہ 

قیس نے رمل کی جانب اشارہ کیا تھا ۔Oh my God

یہ یہ کیسے ہو سکتا ہے 

شاہ اور خان تم دونوں 

یس اور ابھی ہمارا ایک پارٹنر اور ہے لیکن مجھے نہیں لگتا تم اسے جاننا چاہو گے

رمل یہ رہے ثبوت اسے ٹیم کے حوالے کر دو۔قیس نے رمل کے ہاتھ میں ثبوت والی فائل دیتے ہوئے وہاں سے باہر نکل گیا۔

لالہ نہیں نہیں لالہ بات سنیں میری مجھ سے غلطی ہو گئ لالہ پلیز بات سنیں۔ عارب تڑپتے ہوۓ قیس کے پیچھے بھاگا  لیکن قیس جلدی سے بہر نکل گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھنے کی غلطی نہیں کی ۔

                 ...❤️❤️❤️... 

لال انگارہ آنکھون سے قیس جب اپنے فلیٹ میں داخل ہوا تو بے بی اس کا انتظار کر رہا تھا

لالہ آپ وہ بھاگ کر اپنے لالہ کے سینے سے لگا تھا اسے آئیڈیا تھا کہ قیس کس کرب سے گزر رہا ہو گا

میں مر جاؤں گا ایک دن یہ ازیت سہتے سہتے اب مجھ میں برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ حیا نور سے کیا گیا وعدہ پورا کرتے کرتے قیس لٹ گیا آج۔

کیا جواب دونگا میں اس ماں کو 

جب سی آی ڈی والے اس کے جوان بیٹے کی لاش گھر پہنچائیں گے۔

آج میں نے اپنا فرض نبھا دیا لیکن فرض نبھاتے نبھاتے میں اپنے رشتے ہار گیا ہوں 

قیس کی یہ حالت آج پہلی بار ہوئی تھی

پلیز لالہ آپ سنبھالیں خود کو ۔

تم تم جانتے ہو ہم نے ہر پل اسے اس سب سے بچانا چاہا ہم نے بہت کوشش کی لیکن قیس کیا کرے قیس مر جائے 

سب کی فکر ہے قیس کو ۔سب کی زمہ داری قیس پر ہے ۔ سب کس نے دیکھنا ہے قیس نے

مورے آغا جان گڑیا،رمل، انابیہ سب کی زمہ داری قیس پر ہے۔لیکن قیس ایک اچھا بیٹا نہیں بن سکا کیا منہ دکھاؤں گا مورے کو۔ ایک اچھا بھائی نہیں بن سکا قیس زمہ داری نہیں نبھا پایا اپنی

بےبی کی بانہوں میں بکھرا قیس... 

اس سے سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا

لالہ پلیز 

کب سے دروازے میں کھڑے ملحان کو سب باتیں سمجھ میں آ رہی تھیں 

وہ بھاگ کر اپنے لالہ کے پاس آیا اور

قیس کو سینے سے لگاتے وہ دھاڑیں مار مار کر رویا ۔

لالہ آپ نے اپنے سب فرض پورے کیۓ ہیں آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قیس زمہ داری نہیں نبھا پایا 

لالہ مجھے ہمیشہ آپ سے شکوہ رہا کہ آپ میری جگہ ونی ہو کر کیوں گۓ مجھے اس ظالم دنیا میں چھوڑ گۓ تھے لیکن لالا آج آپ کی حالت دیکھ کر مجھے ترس آ رہا آپ پر

قیس تو ایک روبوٹ بن گیا سب کی زمہ داری نبھاتے نبھاتے قیس خود کو ہی بھول گیا۔

لالہ I am proud of you lala 

آپ نے اپنا فرض نبھایا لالہ آپ نے کچھ غلط نہیں کیا رہی بات مورے کی تو وہ عارب کی حقیقت سے واقف ہیں 

انہیں اپنے بیٹے کا سن کر دکھ ہو گا

لیکن مجھے پتا ہے وہ انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گی اور حیا نور کو انصاف دلوانا ہم پر فرض تھا

آج آپ نے اپنا فرض پورا کر دیا لالہ

پورا کر دیا

روتے ہوئے ملحان کے الفاظ قیس کو زندگی دے گئے تھے

تم اپنے لالہ سے ناراض تھے نہ 

نہیں لالہ ملحان مر سکتا ہے لیکن اپنے لالا سے ناراض نہیں ہو سکتا۔ 

ملحان کی بات سنتے قیس نے اسے گھورا تھا۔

ہاہا لالہ اب آپ نے ہمیں کھا جانا ہے

اٹھیں لالہ یہاں سے آج ہمیں حقیقت جاننی ہے بتائیں ہمیں سب کچھ

ملحان نے قیس کو بیڈ پر بٹھاتے خود اس کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے کہا تھا 

بےبی دونوں بھائیوں میں خود کو مس فٹ سمجھتا کچن میں کچھ بنانے چلا گیا ۔

جب ہم نے ہوش سنبھالا تب ہی ہم نے آپ اور عارب کے بارے میں پتا لگوانا سٹارٹ کر دیا تھا۔ جب ہمیں پتا چلا کہ آپ ابھی تک ویسے ہی ہیں اور ہمارے جانے کا خوف آپ کے دل میں بیٹھ گیا ہے ۔ہمیں لگا رمل آپ کے لیے بیسٹ اوپشن رہے گا ہم نے رمل کی ٹریننگ سٹارٹ کروا دی ہم نے اسے اتنا مضبوط بنا دیا کہ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی ہم رمل سے آپ کے بارے میں باتیں کرتے ہم نے اس میں تجسس پیدا کر دیا آپ کو جاننے کا... پھر جب ہمیں لگا اب سہی وقت ہے ہم نے آپ ہی کی یونی میں رمل کو ایڈمیشن دلوایا اور پھر آگے آپ جانتے ہو

ہم آپ کی اور عارب کی پل پل کی خبر رکھتے تھے

ہم نے کافی بار عارب کو ملحان بن کر سمجھایا لیکن وقتی طور پر سمجھنے کے بعد عارب پھر سے وہی کام کرتا جو ہمیں ازیت دیتے تھے۔

قیس نے بولتے ہوئے اپنی آنکھیں زور سے بند کی تھیں۔

ملحان نے اپنا ہاتھ قیس کے ہاتھ پر رکھ کر اسے تسلی دی تھی

آغا جان کی موت کے بعد بابا بھی غلط کاموں میں ملوس ہوگئے۔ ایک دن جب ہم آپ سے مل کر واپس آرہے تھے ہم نے بابا جان کے منہ سے شراب کی فیکٹری کچھ ڈرگز اور بہت سی اور باتیں سنیں

پھر ہم نے سوچا کہ ہم نے ان دونوں خاندانوں کی دشمنی ہر حال میں ختم کرنی ہے لیکن اس سب سے پہلے یہ کارخانے بند کروانے ہیں اس لیے ہم نے سی آی ڈی جوائن کی ہم نے جیسے ہی ٹیسٹ پاس کیا رمل بھی کہنے لگی کہ لالا ہم بھی سی آی ڈی جوائن کرنا چاہتے ہیں لیکن رمل کی ایج کم تھی پھر ہم نے اپنے کچھ سنیر آفیسر سے مشورہ کر کے رمل کو کچھ مش دیئے 

جن میں سے ایک پروفیسر دلاور کی حقیقت جو رمل سامنے لے کر آئی

رمل چھوٹی سی ایج میں بہت ایکٹو تھی رمل کی کامیابی اس کا جنون دیکھ کر ڈین نے اسے سلیکٹ کر لیا تھا

ہم دونوں مل کر انڈر گراونڈ کام کرتے تھے سب کی نظروں میں ہم میڈیکل کے سٹودنٹ تھے لیکن حقیقت اس کے الٹ تھی۔

جس دن حیا نور کو کڈنیپ کیا گیا ہم دونوں مشن پر تھے جب ہم واپس آۓ بہت دیر ہو چکی تھی ۔حیا نور ہمیں بکھری حالت میں باہر کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھی۔قیس نے کرب سے اپنی آنکھیں بند کرتے مزید بتایا 

اس کی نبض بہت آہستہ چل رہی تھی

اس نے ہم سے وعدہ لیا کہ اس کے مجرم کو موت کے گھاٹ اتارا جائے۔ اس دن ہمیں عارب سے نفرت محسوس ہوئی تھی۔اسی دن سے ہم  اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے لگ گئے ۔جب ہمیں پتا چلا کہ عارب کی نظر انابیہ پر پڑ چکی ہے ہم نے اپنے رائیٹ ہینڈ بےبی کو انابیہ کے لیے....

لیکن لالہ بےبی تو ابھی خود چھوٹا ہے تو وہ کیسے آفیسر ہو سکتا ہے 

تب سے خاموش بیٹھا ملحان جلدی سے بولا تھا

ہممم بےبی چھوٹا ہے لیکن وقت اور حالات نے اسے بہت بڑا کر دیا بہت بڑا۔

لالہ بےبی کون ہے نام کیا ہے اس کا۔

قمر الدین بدر خان نام ہے اس کا

آفیسر بدر خان

خان لالہ... بےبی خان ہے

ہمممم خان ہے ابھی اس کے متعلق کچھ مت پوچھنا ابھی ہم کچھ نہیں بتائیں گے۔ اٹھو اب کچھ کھا لو۔

تبھی بدر روم میں سینڈوچ اور چاۓ لے کر حاضر ہوا تھا

یہ لیں بھئی بےبی کے ہاتھوں کی گرما گرم چائے اور سینڈوچ

ملحان کھڑا ہوتا اپنے لالہ کی گود میں بیٹھ گیا۔ لالہ مجھے آپ کے ہاتھ سے کھانا ہے جیسے بچپن میں کھاتا تھا

ہاہا لالہ کی جان اب آپ بڑے ہوگئے ہیں لالہ کی گود چھوٹی ہے بیڈ پر بیٹھ جاؤ اب۔قیس نے شرارت سے کہا۔

نہیں نہیں مجھے ادھر ہی بیٹھنا ہے ۔

بےبی اداس شکل بنائے دونوں بھائیوں کا پیار دیکھ رہا تھا

ارے میری ننھی جان ادھر آؤ تم بھی

قیس کے بلانے پر بےبی بھاگ کر قیس کے اوپر چڑھا اور یہ بےبی کی بنائی ہو گرما گرم چاۓ کی ڈش فرش پر تھی

پیچھے ان تینوں کے قہقے گونج رہے تھے

               ..... ❣️❣️❣️...... 

تو نے سمجھا ہی نہیں شوق کا عالم ورنہ ...

ہم دل و جاں سے ترا صدقہ اتارا کرتے! 

ہم تــــــرے ہاتھ پہ لکھ لیتے مقــدر اپنـــا ...

ہم تری آنکھ سے دنیا کو سنوارا کرتے! 

ہمیں ملتی تیری دھلیز کی سوغات اگر ...

خاک کو چومتے ماتھے کا ستارا کرتے!

‍‍‍‍قیس بیڈ پر بے ہوش لیٹی نمل کو آنکھوں کے رستے دل. میں اتار رہا تھا

اسے لگ رہا تھا کہ اس نے صدیوں بعد آج گڑیا کو دیکھا ہے

بار بار کبھی وہ اس کے آنکھوں پر اپنے لب رکھتا کبھی ماتھے پر تو کبھی رخسار پر ۔

ایم سوری گڑیا ایم سوری

بہت غلط کیا ہم نے آپ کے ساتھ 

لیکن سچ میں ہمیں نہیں پتا ہم کیسے بہک گئے۔ نمل جو تب سے آنکھیں بند کیۓ لیٹے ہوئ تھی خولہ بیگم کی باتیں زہن میں آتے اس نے اپنی آنکھیں کھولتے قیس کے گلے میں بانہوں کا ہار بنایا تھا

قیس ایم سوری ٹو غلطی میری تھی میں اور ری ایکٹ کر گئی مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔آپ کی گڑیا پر آپ کا حق تھا لیکن ہم سمجھ نہیں پائے

خولہ بیگم کی بات الف سے ے تک نمل نے رپیٹ کی تھی

قیس نے نمل کو شدت سے اپنے گلے لگایا تھا

آئی ایم سوری نمل... آپ کو نہیں پتا ہم نے یہ دن کیسے گزارے ہیں آپ کے بنا آپ کی دوری ہمیں پاگل کر دے گی

وعدہ کرو اب جو بھی ہو جائے ہمیں چھوڑ کر نہیں جاؤ گی 

کبھی نہیں جاؤ گی قیس نے جنونی انداز میں کہا۔

قیس کی بات سنتی نمل اس بات پر بلکل خاموش ہو گئی۔

بولو نمل

جی جی قیس ہم کہیں نہیں جائیں گی۔ 

نمل کا قیس کوخان کی بجائے قیس کہنا قیس کو برا تو لگا تھا لیکن فی الحال نمل کی حالت کا سوچتے قیس نظر انداز کر گیا۔

نمل تم نے کسی بھی طرح پیار محبت میں قیس سے سائن کروانے ہیں بیٹا ایک بات میں آپ کو بتا دوں مرد سب سے زیادہ بےوقوف اپنی من پسند عورت کی قربت میں ہوتا ہے تم نے انہی لمحوں میں اس سے سائن کروانے ہیں 

خولہ بیگم کے الفاظ نمل کے کانوں میں گونج رہے تھے

قیس بار بار نمل کے ماتھے پر اپنے لب رکھ رہا تھا ۔میری گڑیا میری جان کبھی دور مت جانا خان مر جائے گا

خولہ بیگم کی وجہ سے نمل خاموش قیس کی من مانیاں برداشت کر رہی تھی۔دل عجیب لے پر دھڑک رہا تھا جبکہ نمل کو یہ غلط فہمی تھی کہ اب وہ قیس سے نفرت کرتی ہے۔

ہمیں بھوک لگی ہے بہت بھوک نمل قیس کو خود سے دور کرتے بولی ۔

سوری گڑیا میں آپ کو ابھی پاستا بنا کر کھلاتا ہوں

قیس کہتے ساتھ ہی جلدی سے کیچن کی طرف بڑھا تھا

نمل جلدی سے واش روم کی طرف بڑھی اور شاور کے نیچے کھڑی وہ قیس کا لمس مٹانے کی کوشش کر رہی تھی جانے کتنی دیر وہ شاور کے نیچے کھڑی رہی۔اسے کچھ ہوش نہ تھا۔

نمل پاستا تیار ہے قیس پاستے والا باؤل لیے روم میں داخل ہوا لیکن نمل کو روم میں نہ پا کر اس کی سانسیں بند ہونے لگی۔قیس نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی لیکن نمل کہیں نہیں تھی۔

واشروم سے پانی گرنے کی آواز پر جلدی سے واشروم کی طرف بڑھا۔نمل کو کپڑوں سمیت شاور کے نیچے دیکھ کر وہ جلدی سے نمل کی جانب بڑھا سور حیرت سے بولا۔

گڑیا یہ کیا کر رہی ہو؟ تمہیں سردی لگ جائے گی

قیس نے جلدی سے شاور بند کیا لیکن اس دوران وہ خود بھی بھیگ گیا۔ نمل کا بھیگا سراپہ دیکھ کر قیس کے جسم میں ایک لہر سی دوڑی ۔ وہ ٹکٹکی باندھے نمل کو دیکھ رہا تھا

مثالِ بُت ! تُجھے تَکتے ہیں۔۔ ٹکٹکی باندھے !

تُو سامنے ہو تَو ! ہم آنکھ" کم جھپکتے ہیں۔🔥

قیس نے بے ساختہ نمل کو بانہوں میں بھرا تھا

نمل جلد سے جلد قیس سے وہ فائل نکلوا کر سائن کروانا چاہتی تھی ۔

خولہ بیگم کے الفاظ سوچتے وہ بہت دور نکل گئی اسے ہوش تو تب آیا جب قیس نے اسے اپنی بانہوں میں بھرا تھا

خان جی اس نے سرگوشی میں بولا تھا اس کی سرگوشی خان کو پاگل کرنے کے لیے کافی تھی

نمل... قیس نے سردآہ بھرتے نمل کو پکڑا 

نمل اتنا ظلم کیوں ہم پر؟ آپ کا یہ بھیگا سراپہ ہمیں بہکنے ہر مجبور کر رہا ہے 

. مت پوچھو کہ میرا دل کہاں کھو گیا

تجھے دیکھتے ہی تیرا ہو گیا

خان جی بہک جائیں آپ کا حق ہے آپ کی گڑیا پر

نمل کی بات سنتے قیس نے نمل کو گود میں اٹھاتے بیڈ کی جانب قدم بڑھائے تھے

نمل کی سانسوں کی رفتار 400 کی سپیڈ سے چل رہی تھی

اس کی بند پلکوں کی لرزش قیس کے ہوش اڑا رہی تھی نمل کے بھیگے اور کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کو دیکھ کر قیس کو حلق میں کانٹے اگتے محسوس ہوئے۔

قیس نے اسے نرمی سے بیڈ پر لٹاتے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الجھائے ۔ نمل کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرتے بیڈ کراؤن سے لگا لیا اور نمل کی قربت میں مدہوش ہونے لگا ۔

نمل کی خاموشی اس کی اجازت قیس کو پاگل کر رہی تھی

نمل کی گردن پر بے جا اپنا لمس چھوڑتے وہ کسی اور جہاں میں پہنچ گیا تھا

خان جی۔ نمل کی کانپتی آواز میں اس نے اپنی آنکھیں نمل کی آنکھوں سے ملائی۔قیس نمل کی قربت میں اس قدر بہک گیا تھا کہ اس نے غور بھی نہیں کیا کہ نمل کے چہرے پر قربت کے کوئی رنگ نہیں تھے۔ بلکہ نمل کا چہرے بلکل تاریک تھا کچھ کھوجتا ہوا

خان جی وہ

کیا ہوا گڑیا خان نے کہتے ساتھ نمل کے ماتھے پر ر اپنے لب رکھے تھے 

خان جی کچھ نہیں 

ارے نہیں میری جان بتاؤ کیا ہوا

خان جی وہ ایک دن آپ ایک فائل لے کر آۓ تھے آپ نے وہ بہت چھپا کر رکھی تھی بس ہمارے ذہن میں آ گیا کہ اس میں کیا تھا 

گڑیا کی بات سنتے قیس کا قہقہہ بے ساختہ تھا

گڑیا ہماری قربت کے ان لمحوں میں آپ کوم وہ فائل کیسے یاد آ گئ

آپ کو میرے بارے میں سوچنا چاہیئے صرف اور صرف میرے بارے میں ۔

جی خان جی وہ بس اینوے زہن میں آیا تو پوچھ لیا

بس وہ کچھ ضروری ڈاکومنٹس تھے اس لیے سنبھال کر رکھے ہیں 

قیس کہتے ساتھ ایک دفعہ پھر سے نمل کی گردن پر جھکا اس میں کھونے لگا ۔

جب نمل کو بات بنتے نظر نہ آئی تو جلدی سے بولی 

خان جی وہ ہمیں بھوک لگی ہے

 اوہ سوری سوری ہم پاستا بنا کر لائے تھے آپ کے لیے

آپ چنج کر لیں پھر ہم آپ کو پاستا کھلاتے ہیں 

........... 

لالہ.... 

کوئی زور سے آواز دیتے قیس کے فلیٹ میں داخل ہوا تھا نمل جو ڈریس چینج کیۓ مرر کے سامنے اپنے بال بنا رہی تھی

دروازے میں قیس کو دیکھتے حیران رہ گئ کیونکہ ابھی تو قیس اس کے سامنے واشروم میں گیا تھا تو یہ کون ہے؟

ایک پہلے ہی انجکشن نہ لینے کی وجہ سے اسے چکر آ رہے تھے

اب اس سیچویشن میں وہ چیخ مارتے کلین پر گری تھی

ملحان جو کل مورے سے  ملنے گیا تھا اب قیس کے فلیٹ پر رمل کو دیکھ کر حیران ہوا تھا

رمل .... اس نے سرگوشی کی تھی لیکن دیکھتے دیکھتے وہ لڑکی بے ہوش ہو گی تھی تبھی قیس ڈریس چینج کرتے نمل کی چیخ سنتے جلدی سے باہر آیا تھا

نمل کیا ہوا ۔نمل کو کالین پر بے سدھ پڑے دیکھ کر جلدی سے اس کی جانب بڑھا اور اسے بانہوں میں اٹھاۓ بیڈ. پر لٹایا۔

لالا 

ملحان کی آواز پر قیس بے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا

میرا بچہ تم کب آۓ

ابھی لالہ اور یہ رمل 

ہاہاہا اچھا تو نمل تمہیں دیکھ کر بے ہوش ہوئی ہے 

جی لالہ لیکن یہ تو رمل کی... 

ہاہاہا ہاں جی یہ رمل کی کاپی ہے بلکل 

تمھاری بھابھی... رمل کی جڑواں بہن 

واؤ لالہ اس قدر مشابہت 

ہاں جی اور وہ تمہیں دیکھ کر بھی اسی لیے بے ہوش ہوئی ہے 

ہاہاہا لالہ یہ تو جڑواں 2 والا کام ہو گیا ملحان نے ہنستے ہوئے کہا ۔

ہاں جی

اچھا لالہ آپ بھابھی کو دیکھیں میں بےبی سے مل لوں

لالہ یار کیا سب نے فلیٹ والا چکر پال رکھا ہے سب ایک پیلس پر شفٹ ہو جاؤ نہ ملحان نے جھنجلاتے ہوئے کہا ۔

اوکے کچھ سوچتے ہیں 

ملحان بےبی سے ملنے اس کے فلیٹ کی طرف بڑھا تھا 

قیس نے جھک کر نمل کی نبض چیک کی جو کہ معمول سے تیز چل رہی تھی

بخار تو نہیں ہے پھر نبض کیوں تیز ہے

نمل کا جسم ہلکا ہلکا کپکپا رہا تھا 

قیس نے پاس پڑے جگ سے نمل کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔

نمل نے مندی مندی آنکھیں کھول کر خود پر جھکے قیس کو دیکھا تھا

کیا ہوا نمل یار قیس نے اسے بیٹھاتے بیڈ سے اس کی ٹیک لگائی تھی

خان جی وہ بھوت تھا ادھر بھوت

ہاہاہا بھوت نہیں وہ میرا جڑواں بھائی تھا

خان جی جڑواں لیکن وہ تو آپ ہی تھے 

جی ہم بلکل ایک جیسے ہیں بس آئیز کی شیڈ 1 پرسنٹ چینج ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی ۔اٹھو میں نے سوچ لیا ہے اب ہم شہر والی حویلی شفٹ ہو جائیں گے

لیکن آغا جان 

آغا جان کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ وہ میری اپنی حویلی ہے

سب کچھ تو آپ کا ہی ہے نہ۔

نمل نے دل میں سوچتے ہنکارا بھرا تھا

چلو میں انابیہ اور رمل کو بھی پیکنگ کا کہتا ہوں

قیس کہتے باہر کی جانب بڑھا تھا

نمل نے جلدی سے اپنے ہینڈ بیگ کھولتے انجکش بھرا تھا اور جیسے تیسے کر کے اپنی وین میں لگایا تھا۔

انجکش لگتے ہی نمل کو لگا اس کی رگ رگ میں سکون اتر رہا ہے اس نے سرد آہ بھرتے اس سکون کو اپنے اندر اتارا تھا 

گولیاں کھاتی وہ بیڈ پر بیٹھی 

انجکش سے جو سکون نمل کو ملا تھا اس پر نشہ تاری ہونے لگا تھا 

کچھ دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی تھی 

....... 

قیس نے ابھی نمل کے فلیٹ میں قدم ہی رکھا تھا جب اس کا موبائل بجا تھا

آغا جان کا نمبر دیکھتے اس کا دل دھڑکا تھا۔

نمل کے غائب ہونے کی خبر سب تک پہنچ چکی ہو گی

اسلام علیکم آغا جان

رمل اور انابیہ کو فوری گاؤں کے لیے روانہ کرو ہمارا ڈرائیور انہیں لینے آرہا ہے

لیکن آغا جان ان کی پڑھائی 

بھاڑ میں گئ پڑھائی ہم تمھارے جیسے شخص کا سایہ بھی اپنی بچیوں پر برداشت نہیں کریں گے

ہمارا حکم ہے شام سے پہلے دونوں مجھے حویلی نظر آئیں

آغا جان نے کہتے کال کٹ کر دی تھی 

کیا ہوا لالہ نمل اور انابیہ قیس کی آواز سنتی باہر آئی تھیں 

قیس نے آگے بڑھتے انابیہ اور رمل کے سر پر ہاتھ رکھا تھا

پیکنگ کر لو آپ دونوں نے گاؤں جانا ہے گاڑی آ رہی ہے لینے

لیکن لالہ

یہ آغا جان کا حکم ہے جس ضبط سے قیس نے یہ کہا تھا وہی جانتا تھا

ٹھیک ہے لالہ ہم تیاری کرتے ہیں 

قیس نے اپنی دونوں بہنوں کی حالت پر تیش سے مٹھیاں بھینچی تھی

رمل کی بکھری حالت بھی قیس کے سامنے تھی اور ملحان کی بھی

اسے اپنا آپ مجرم لگ رہا تھا 

لیکن وہ بے بس تھا

لالہ ہم چاہتے ہیں جانے سے پہلے بےبی اور انابیہ کی ایک ملاقات ہو جائے تا کہ انابیہ اسے دیکھ لے اور تھوڑی بات چیت ہو جاۓ۔ رمل نے سنجیدگی سے کہا۔ 

ہمممم محرم ہے وہ اس کا

ویسے بھی وہ کافی بار ہم سے پوچھ چکا ہے لیکن ہم انابیہ کی حالت کی وجہ سے خاموش تھے

انابیہ جو تب سے خاموش کھڑی تھی آنسو سے بھری آنکھیں اٹھا کر اپنے لالہ کو دیکھا تھا

لالہ کی جان 

گھبراؤ نہیں 

وہ شخص تمھارا اپنی جان سے زیادہ خیال رکھے گا 

لالہ ہم اس کے قابل.... 

شش وہ آپ کی حقیقت جانتا ہے اور ویسے بھی وہ دنیا کو آگ لگا دے گا اگر آپ نے اس سے دور جانے کا سوچا

نمل تم بھی ایک بار ملحان کو دیکھ لو

نہیں لالہ وہ. ہم سے نہیں ملیں گے

نمل نے آنسو ہلک سے اتارتے کہا تھا

ویسے بھی ہم نے ان سے کیا وعدہ پورا کرنا ہے 

اوکے جیسے تمھاری مرضی 

نمل آپ پیکنگ کرو

اور انابیہ آپ میرے ساتھ آؤ

قیس انابیہ کا ہاتھ پکڑتے باہر کو بڑھا تھا

ایک فلیٹ کے سامنے کھڑے ہوتے 

قیس نے انابیہ کے سر پر دوپٹہ سہی کیا تھا

میں ایسا بھائی نہیں ہوں جو اپنی بہن کی خوشیوں میں رکاوٹ بنوں گا 

بہت اچھا انسان ہے وہ ۔میں نے ان ہاتھوں سے پالا ہے اسے کیا تمہیں میری پرورش پر شک ہو سکتا ہے 

انابیہ نے نہ میں سر ہلایا تھا

گھبرانا نہیں میرا بچہ 

جی لالہ 

قیس نے اندر داخل ہوتے بےبی کو آواز دی تھی قیس کی آواز سنتے وہ جلدی سے روم سے باہر آیا تھا 

لیکن قیس کے ساتھ کھڑی انابیہ کو دیکھ کر ساکت رہ گیا۔ شرم کرو کچھ 

ہمارے سامنے ہماری بہن کو گھور رہے ہو 

ہم آنکھیں نکال لیں گے

قیس نے مصنوعی غصے سے کہا تھا

شرم کیسی  بیوی ہے میری 

بےبی نے قیس کی شرارت سمجھتے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا۔

بیوی نہیں منکوحہ تصیح کر لو

واٹ ایور۔بےبی نے ہوا میں ھاتھ لہراتے ہوئے کہا 

ہاہاہا 

اچھا آج رمل اور انابیہ نے گاؤں جانا ہے آغا جان کا حکم ہے تو میں نے سوچا تم پر احسان کر دیا جائے۔ ایک ملاقات کروا دی جائے۔اس لیے  لو سنبھالو اپنی بیوی 

اور میری بہن کو تنگ نہیں کرنا ورنہ مجھے جانتے ہو

ہاہاہا لالہ میں معصوم ہوں 

ہاں جی تمھاری معصومیت مجھے نظر آرہی ہے ۔قیس نے اس کی مسلسل انابیہ پر نظر رکھنے پر چوٹ کی تھی

....

وہ جو کوئی بھی تھا قیس  کے جاتے ہی انابیہ کو اپنے سینے میں بھینچ گیا

انابیہ کا تو حال کاٹو تو جسم میں لہو نہیں...جیسا تھا 

اس شخص کے کلون سے اٹھتی خوشبو نے انابیہ کو کسی اور شخص کی یاد دلا دی تھی.انابیہ نے پیچھے ہونے کی کوشش کی لیکن وہ اور زور سے اسے اپنے سینے میں بھینچ گیا۔ 

. مت پوچھو کہ میرا دل کہاں کھو گیا

تجھے دیکھتے ہی تیرا ہو گیا

پلیز چھوڑیں انابیہ نے آہستہ آواز میں کہا تھا۔ انابیہ کی آواز سنتے اس نے اپنے بازو کھول دیئے ۔ انابیہ جھٹکے سے پیچھے ہٹی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ باہر  کی طرف بھاگتی وہ اجنبی اس کا بازو تھام چکا تھا

اپنے شوہر کو دیکھو گی نہیں 

انابیہ نے آنکھیں زور سے میچ لی تھیں

جب اس اجنبی نے انابیہ کو کندھے سے پکڑ کر  اپنے سامنے کیا تھا

آنکھیں کھولو اس نے انابیہ کی کان کی لو پر اپنے لب رکھتے آہستہ آواز میں کہا تھا

انابیہ تو کانپ کر رہ گئی۔

Open your eyes biyo 

انابیہ نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں 

لیکن سامنے والے شخص پر نظر پڑتے ہی وہ ساکن رہ گئی ۔

اتنا مکمل حسن اس کی آنکھ نے آج تک نہیں دیکھا تھا

وہ بنا پلک چھپکے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ رہی تھی

آنکھوں میں کوئی بھی پہچان کا تاثر نہیں تھا

اب نظر لگانی ہے کیا

پہلے شوہر کو دیکھ نہیں رہی تھی اور اب نظر نہیں ہٹا رہی 

کون... کون ہیں آپ

جانتی تو ہو آپ مجھے اپنے تمام تر جملہ حقوق آپ میرے نام کر چکی ہیں 

جملہ حقوق کا لفط سنتے ہی انابیہ کو اپنے ساتھ ہوا حادثہ یاد آیا تھا

بیہ نے سامنے والے کو زور سے دھکا دیا تھا

دور رہو دور میں تمھارے قابل نہیں دور رہو انابیہ زور سے چلائی 

شش بیہ کیا ہو گیا ہے آپ کو

آپ جیسی بھی ہیں صرف اور صرف میرے قابل ہیں اب دوبارہ میں آپ کے منہ سے یہ الفاظ نہ سنو

انابیہ زوارو قطار روتے اس کے سینے سے لگی تھی

شش چپ زندہ نہیں چھوڑوں گا اسے جس نے آپ کا یہ حال کیا ہے میرا وعدہ ہے آپ سے

ویسے بیہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں 

اس اجنبی کے اچانک پوچھنے پر انابیہ نے حیران آنکھوں سے سامنے والے کو دیکھا تھا

جیسے کہہ رہی ہو کہ میں نے تو پہلی دفعہ دیکھا ہے آپ کو

اچھا چلو پہچان لو گی 

یہاں آؤ وہ خود صوفے پر بیٹھتے انابیہ کو اپنی گود میں بٹھا چکا تھا

انابیہ نے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی  لیکن اس نے اپنے بانہوں کا ہار بنا دیا۔

7 سال کا تھا جب آپ کو دیکھا تھا

تب سے ان نسوں کی رگ رگ میں بس چکی ہیں آپ

انابیہ نے حیرت سے اس اجنبی شوہر کو دیکھا تھا 

پچھلے 11 سال سے آپ کے عشق میں تڑپ رہا ہوں اب تو آپ کے عشق کو فتور سر چڑھ کر بولتا ہے۔ آپ کیسے انجان رہ سکتی ہیں کہ کوئی آپ کے عشق میں پاگل ہو اور آپ کو خبر تک نہ ہو

سولمیٹ

انابیہ کے لب آہستہ سے ہلے تھے

ہمممم سولمیٹ

آپ کی روح کا ساتھی

اس کی بات سنتے انابیہ کو اپنے ساتھ گزرے واقعات یاد آئے تھے

کیسے وہ ملنے گئ اور کیسے اس کے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا تھا انابیہ ایک جھٹکے سے اس کی گود سے اٹھی تھی 

تم... تم بدر

ہممممم بدر........ انابیہ کی آنکھیں باہر کو آئ تھیں 

کیا ہو گیا ہے بیہ آپ کو

اتنی حیران کیوں ہو رہی ہیں آپ نکاح کے وقت ہمارا نام نہیں سنا تھا

انابیہ نے سکتے کی حالت میں نہ میں سر ہلایا تھا

انابیہ کی آنکھوں میں نفرت دیکھتے بدر جلدی سے اس کی جانب بڑھا تھا 

ہاتھ مت لگانا

انابیہ بدر نے کچھ کہنا چاہا لیکن انابیہ بنا اس کی بات سنے غصے سے پھنکاری ۔

میں نے کہا ہاتھ مت لگانا

میری فیلنگز میری ذات کا مذاق بنا دیا تم نے 

بیہ آپ غلط سوچ رہی ہیں 

ابھی تو سہی سوچ آئی ہے مجھے 

پہلے میری حفاظت کی مجھے دنیا کے کتوں سے بچا کر رکھا۔ پھر اس دن خود ان کتوں کی خوراک بنا دیا

باخدا انابیہ ایسا نہیں ہے 

باخدا ہم اس پل کا سوچتے پل پل مرے ہیں کہ اگر ہمیں زرہ سی دیر ہو جاتی بدر نے کرب سے سوچتے اپنی آنکھیں بھینچی۔اور کہا 

ہماری غلطی ہے جو چاہے سزا دیں لیکن پلیز پاس آئیں پاس رہ کر جو مرضی سزا دیں

پاس آؤں 

ہاہاہاہاہ پاس آؤں 

تاکہ بہت پاس آنے پر پھر مجھے تعنہ  دو نامحرم کا؟

پہلے خو کو میری نظروں میں اچھا بنایا ہر پل میری حفاظت کی

پھر جب محبت کرنی لگی آپ سے 

محرم نا محرم کا زکر یاد آ گیا

ارے تب آپ کو نامحرم یاد نہیں تھا جب مجھ سے پیار کی پینگیں بڑھائی تھیں تب کچھ یاد نہیں تھا پھر مجھے اپنے پاس بلایا اور بنا دیا تماشا میرا اس دن آپ سے تو بچ گئ لیکن نہیں بچا پاۓ نہ مجھے بے پردہ ہونے سے

یہ سزا تھی میری آپ کے عشق میں بہکنے کی اپنے رب سے دور جانے کی

پلیز بیہ ایسا مت کہیں میرا عشق ہیں آپ میرا جنون میرا فتور

اس فتور میں آپ یہ بھول گیۓ کہ آپ ایک لڑکی جو کہ آپ کی نامحرم ہے اس کے اس حد تک قریب جا رہے ہیں کہ وہ تصور میں آپ کو ہی اپنا محرم ماننے لگی ہے

ائ ایم سوری. بیہ ساری غلطی میری ہے

سوری بیہ

انابیہ کی باتیں کافی حد تک سہی تھی 

اگر انابیہ بہکی تھی تو بہکانے والا بھی بدر خود تھا پھر خود اسے نامحرم کے تعنے دیئے حالانکہ یہ بات وہ اسے آرام سے بھی سمجھا سکتا تھا

نہ اس دن آپ مجھے آزماتے 

نہ وہ آذزمائش ہماری زندگی میں آتی

ائ ایم سوری بیہ معاف کر دو ہمیں بدر نے بے بسی سے انابیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

ایک صورت میں معاف کریں گے

ہمیں طلا.... 

انابیہ کے الفاظ پورے ہونے سے پہلے بدر نے سختی سے اس کے لبوں سے اپنے لب الجھائے تھے بدر کے لمس میں اتنی سختی تھی کہ انابیہ کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی 

اس نے اپنے ہاتھ بدر کے کالر پر رکھتے جھٹکا دیا لیکن بدر نے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں الجھاتے اس کے لبوں کو اور شدت سے اپنے لبوں میں الجھایا تھا

جب انابیہ بلکل ڈھیلی پڑھ گئ تو

بدر  بہت نرمی سے اس سے الگ ہوا ۔

انابیہ لمبے لمبے سانس لیتی بے جان ٹانگوں کے ساتھ اس کی بانہوں میں کھڑی تھی انابیہ نے بے دردی سے اپنے ہونٹوں کو پونچھا تھا

صرف کچھ سیکنڈ کی بات تھی بدر نے پھر سے انابیہ کے ہونٹوں پر قبضہ جمایا تھا  اس بار نرمی سے اس کے ہونٹوں کو چومتے وہ پیچھے ہٹا تھا

پہلا بھوسہ اس لیے دیا کہ دوبارہ تم کبھی یہ گھٹیا لفظ پر اپنی زبان پر نہ لے کر آؤ

اور دوسرا اس لیے دیا کہ تم خود سے میرا لمس چاہ کر بھی مٹا نا پاؤ

رہی بات الگ ہونے کی تو انتطار کرو

کہ بدر مر جائے پھر ایسا ممکن ہے ورنہ بھول جاؤ جو کچھ ہوا میری غلطی ہے میں مانتا ہوں لیکن کیا ہم اب نارمل بی ہیو نہیں کر سکتے

انابیہ نے نہ میں گردن ہلائی تھی

گاؤں جا رہی ہو اگلی ملاقات ناجانے کب ہو۔ اپنی قربت کے کچھ خوبصورت پل میرے نام نہیں کرو گی 

انابیہ نے پھر سے نہ میں سر ہلایا۔

محبت کرتی ہو

انابیہ نے پھر سے نہ میں سر ہلایا تھا 

میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو

سر پھر سے نہ میں ہلا تھا

میں اچھا لگتا ہوں 

سر پھر انکار میں ہلا۔

بدر  کچھ سوچتے ہوۓ بولا

نفرت کرتی ہو سر پھر نہ میں ہلا تھا

بدر نے مسکراہٹ چھپائی تھی

دور ہو جاؤ

پھر سر نہ میں ہلا تھا

بدر نے مسکراہٹ چھپاتے ماتھے پر لب رکھے قہقہہ لگایا تھا

محبت بھی نہیں کرتی ہو نفرت بھی نہیں کرتی ہو پاس بھی نہیں رہتی ہو دور بھی نہیں جانے دیتی ہو

کیا چاہتی ہو

تمہیں۔۔۔۔ 

ٹرانس کی کیفیت میں جواب آیا تھا 

جسے سنتے بدر نے زور سے اسے سینے میں بھینچا ۔

انابیہ جھٹکے سے الگ ہوئی اور ہوش میں آتے بولی 

تمہیں نہیں چاہتی یہ خوش فہمی نکال دو دل سے اس محبت اس عشق اس فتور کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں نہ اس رشتے کی۔

اگر میرا ساتھ چاہتے ہو تو اپنے ماں باپ کے ساتھ حویلی آ کر آغا جان اور بابا جان سے میرا ساتھ مانگ لینا

پتا ہے بہت مشکل ہے یہ لیکن تمہیں تو فتور ہے نہ پھر ڈرنا کیسا

انابیہ کی بات سنتا بدر ساکت رہ گیا 

کہاں سے لاتا وہ ماں باپ

بیہ 

کیا ہوا اتر گیا بھوت عاشقی کا

بس یہیں تک تھی محبت 

دوبارہ میرے رستے میں مت آنا کبھی مت آنا نفرت ہے مجھے بزدل لوگوں سے

تبھی بدر نے باہر جاتی انابیہ کا بازو پکڑتے اپنے سامنے کیا تھا

آؤں گا ماں باپ کو لے کر لیکن اگر تمہارے گھر والے نہ مانے تو کیا تھاموں گی میرا ہاتھ پھر پورے خاندان کے سامنے؟

بھول ہے تمھاری.... 

مجھے چاہتے ہو تو عزت سے رخصت کر  کے  لاؤ

انابیہ کہتے اس کا ہاتھ جھٹکتی باہر کو بڑھ گئ ۔

ایسا تو نہیں سوچا تھا بدر نہیں اسے تو بہت آسان لگا تھا

لیکن یہ کیا ہو گیا تھا

....... 

انابیہ کے باہر جاتے ہی رمل ملحان سے دوری کا سوچتی پاگل ہو رہی تھی

بیڈ پر بیٹھی وہ زارو قطار رو رہی تھی 

جب کوئ دوبارہ روم میں داخل ہوا 

رمل کو بیڈ پر بیٹھے روتے دیکھ کر وہ وجود تڑپ اٹھا تھا وہ جلدی سے رمل کی جانب برھا تھا

رمل قیس سمجھتے اس کے سینے سے لگی تھی

لالہ سمجھاؤ نہ حان کو مت کریں ایسا 

جیسے وہ کہے گا ویسے کروں گی جیسے اسے پسند ہے ویسے بن جاؤں گی

لیکن یہ دوری نہیں 

ملحان جو قیس کو دیکھنے آیا تھا 

رمل کو روتے دیکھ کر بے تابی سے اس کی جانب بڑھا تھا لیکن اس کے الفاظ ملحان کو ساکت کر گئے تھے

ملحان نے زور سے اسے بانہوں میں بھینچا تھا بانہوں کی گرفت اور ملحان کے مخصوص پرفیوم کی خوشبو محسوس کرتے رمل ساکت ہوئی تھی

حان آپ 

شش... کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اپنی 

مرا نہیں ہوں ابھی میں اگر میرا چیلنج ایکسپٹ کرنا ہے تو خوشی خوشی کرو 

روتے ہوئے نہیں میں نے کونسا سولی پر لٹکا دیا ہے یہ کچھ پل میں نے صرف قیس لالہ کے کہنے پر تمھارے نام کیۓ ہیں میں ان کی بات ٹال نہیں سکتا 

لیکن تم اپنا وعدہ مت بھولنا

مانتا ہوں مشکل ہو گا لیکن 

جب بھی تم بھٹکنے لگو گی میں تمھارے ساتھ ہوں گا زمانہ بہت باتیں کرے گا بہت سی باتیں سننی پڑیں گی بہت سی سہنی پڑیں گی بہت کچھ ایسا ہو گا جو برداشت سے باہر ہو گا

بس صبر کرنا پڑے گا

ان شاءاللہ ایک دن تم اپنا چیلنج پورا کرو گی وعدہ کرو

وعدہ کرتی ہوں حان وعدہ

اور ایک کام اور تمھارے زمے لگا رہا ہوں 

مجھے وہ شخص چاہیے جو قیس لالا کا دشمن ہے جو اندر ہی اندر قیس لالہ کو ختم کرنے کے چکر میں ہے ۔جس دن تم نے مجھے اس کا نام بتا دیا اس کی بعد تمہیں مجھ سے کال پر بات کرنے کی اجازت مل جائے گی مجھے اتنا تو یقین ہے وہ جو کوئی بھی ہے حویلی سے ہے

آنکھیں کھلی رکھنا

جی... 

ادھر دیکھو 

ملحان نے رمل کا چہرہ سامنے کرتے اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملائی تھیں 

اعتبار ہے

جی

حان صرف رمل کا ہے پھر یہ مایوسی کیوں

اگر وعدہ پورا نہ ہو سکا کہتے رمل کی آواز کپکپا گئی تھی

میری محبت نے رمل کو کمزور کر دیا ہے رمل تو کمزور نہیں تھی وہ تو مشکلات کا سامنا ڈٹ کر کرتی تھی پھر اب ایسا کیوں؟ 

حالات جو بھی ہوں ملحان رمل کا ہے اور رمل ملحان کی سنا تم نے اب تم مجھے ایسے نظر نہ آؤ 

ملحان نے کہتے ساتھ اسے ایک بار پھر سینے سے لگاتے دور کیا اور باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔ 

جب رمل اس کا بازو پکڑتے سامنے آئی اور نم آنکھوں سے بولی 

حان کچھ پل تو میرے نام کر دیں جن کے سہارے میں یہ وقت گزار سکوں

رمل نے آنکھیں بند کرتے کہا تھا ملحان کو اپنے سامنے کھڑے اس منی لڑکے پر ترس آیا تھا کیا سے کیا ہو گئی تھی وہ اس کی محبت میں.... 

ملحان بہت نرمی سے اس کے لبوں ہر جھکا تھا

صرف کچھ سیکنڈ کے لیے اس کے لبوں پر اپنے لب رکھتے پیچھے ہوا تھا 

وہ کیا ہے نہ کہ پہلا تجربہ ہے 

ایک سال میں اچھی خاصی پریکٹس کر لوں گا ملحان شرارت سے بولا تھا

خبردار جو کسی کے قریب بھی گئے

رمل نے غصے سے کالر پکڑتے اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملائے تھے

جزبات کا ایک طوفان تھا جو ان دونوں کے وجود میں سرایت کر گیا تھا

ملحان نے رمل کو کمر سے تھامتے خود میں بھینچا تھا۔

دروازے پر ہونے والی دستک نے دونوں کو ہوش دلایا تھا

رمل جلدی سے پیچھے ہٹی تھی

ایک بات ملحان کو سمجھ آ گئی تھی شاید وہ رمل کی طرح اپنی فلینگز کا اظہار کبھی نہ کر پائے کیونکہ اس وقت اس لمس کے لیے اس کا دل بھی تڑپا تھا

رمل تیا ہو گئ ہو چلو ڈرائیور آگیا 

رمل ایک نظر ملحان پر ڈالتے بیگ گھسیٹتے باہر نکل گئی ۔

لو سفر شروع ہو گیا.... 

ملحان نے پیچھے سے ہنکارا بھرا تھا 

رمل نے پلٹ کر دیکھا تھا

بچھڑنے کے تجھے آداب سکھانے ہونگے🍂

یار جاتے ہوئے مُڑ کر دیکھا نہیں کرتے۔۔۔🖤

رمل ایک بار پھر بھاگ کر ملحان کے سینے سے لگی تھی

ہاہاہا ملحان کا قہقہہ گونجا تھا

بہت بتمیز ہو تم

تم نہیں آپ

ملحان نے کہتے اپنے کندھوں سے شال اتارتے رمل کے سر پر ڈالی تھی 

اب جاؤ 

رمل مسکراتے ہوئے باہر کو بڑھ گئی ۔

ڈرائیور کے نزدیک قیس لالہ کو ملتے انہیں تھینکس کہا تھا

 کس لیے قیس نے شرارت سے پوچھا ۔

 ملاقات کے لیے ۔کہتے وہ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی

انابیہ کے بیٹھتے ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی۔ 

قیس کے اشارہ کرنے پر بدر کی گاڑی بھی ان کے پیچھے تھی

بدر گاؤں تک ان کے ساتھ آیا تھا حویلی میں ان کی گاڑی داخل ہوتے واپسی کی راہ پر چل پڑا۔

اپنا خیال رکھنا تُم  

رمل اور انابیہ جیسے حویلی میں داخل ہوئیں سامنے آغا جان کے ساتھ ان کے بابا بھی بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔

آغا جان سے پیار لیتی وہ اپنے بابا سے مل رہی تھیں کہ آغا جان کی بات پر ساکت رہ گئیں 

"جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا آپ دونوں نے اب آپ دونوں مجھے حویلی سے باہر نظر نہ آئیں....!!! 

چھوٹی بہو ۔

جی_آغاجان

میرے ایک دوست کی فیملی آۓ گی بہترین کھانے کا انتظام کیجیے گا

اور اب بچیوں کو گھر داری سکھاؤ بہت ہو گئی پڑھائی 

جی آغا جان ۔۔۔۔۔۔۔

غصے میں رمل تیزی سے اپنے روم کی جانب بڑھی جب آغا جان کے الفاظ نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا ۔

رمل اپنا حلیہ چینج کرو کبھی انسانوں والے حلیے میں بھی نظر آجایا کرو 

رمل نے آنکھیں گھما کر آغا جان کو دیکھا لیکن کچھ بولے بغیر اندر چلی گئی  .....

بہو سمجھاؤ رمل کو قیس کی بے جا ضد پر ہم اسے کچھ نہیں کہتے تھے لیکن اب تم یہ بات دھیان میں رکھو وہ نہیں ہے یہاں .آغا جان نے روعب دار آواز میں کہا ۔

جی آغا جان میں سمجھا دو گی۔۔۔۔

                 𖣘𖣘𖣘𖣘𖣘

رمل غصے سے روم میں آتی اپنا ہاتھ غصے میں ڈریسنگ پر مارنے لگی  جب ملحان کی باتیں اس کے دماغ میں گھومنے لگی .بے ساختہ بیڈ پر گرتے اس نے اپنا غصہ ضبط کیا تھا......

سب رمل کو انڈر اسٹیمیٹ کرتے ہیں نہ میں بتاؤ گی سب کو کہ رمل کیا چیز ہے !!!!

انابیہ کے ذہن  میں تو یہی بات گھوم رہی تھی کہ کونسے مہمان آئیں گے اور  میری سٹڈی اس بات کی فکر اسے کھائے جا رہی تھی ۔اچانک اس کے موبائل کی میسج ٹیون بجی اور سولمیٹ والے نمبر سے سکرین پر پیغام نمودار ہوا 

❤اپنا خیال رکھنا تم 😍

کہ کوئی جی رہا ہے تمہیں دیکھ کر ❤️

سولمیٹ کے نمبر سے آنے والے میسج نے انابیہ کی دھڑکنوں کا تسلسُل بگاڑا۔۔۔

لیکن ناراضگی کا سوچتے انابیہ نے موبائل سائیڈ پر پھینک دیا اور اوندھے منہ بیڈ پر گری تخیل میں اس سے بولی۔۔۔۔

اتنی محبت ہے تو لے جاٶ آ کر اس قید میں میرا دم گھٹ جائے گا۔۔۔۔۔

سوچتے وہ اٹھتی وضو کرنے چلی گی تھی  !!!::

                ༆★༆★༆★༆

نمل کے غائب ہونے پر خولہ بیگم نے گھر آ کر سب کو یہی بتایا تھا کہ نمل کی خراب طبعیت کی وجہ سے اس کا ٹریٹمنٹ پھر سے کرنا پڑ رہا ہے...

سب نمل کی کنڈیشن سے واقف تھے.....

امامہ بیگم کے علاوہ کوئی بھی کچھ  نہیں بولا تھا لیکن انہیں آغاجان نے امامہ بیگم کو یہ کہہ کر خاموش کروا دیا کہ خولہ بیگم نمل کی ماں ہیں اپنی بیٹی کا جہاں سے مرضی چاہیں علاج کروا سکتی ہیں

امامہ بیگم نے قیس کو بتایا تو قیس نے اُنہیں سب سچویشن بتا دی۔

لیکن قیس بیٹا خولہ اتنی سکون میں کیسے ہے نمل کے غائب ہونے پر..امامہ بیگم نے کچھ سوچتے ہوئے حیرت سے کہا۔

مورے یہی تو ہمیں سمجھ نہیں آ رہا

باقی ہم آپ کو سب بتائیں گے جیسے حالات ہوں۔قیس نے پریشانی سے کہا۔

ہممم ٹھیک ہے نمل کا دھیان رکھو۔۔۔

اور اسے اپنے  رشتے کے بارے میں بتا دو۔۔۔۔۔

مورے میرا خیال ہے کہ وہ جان چکی ہے۔۔۔۔۔

چلو پھر تو اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!

                     ༆❀༆❀༆

قیس بات کرتے کرتے جیسے ہی روم میں داخل ہوا سامنے رمل کو آڑا ترچھا پڑا دیکھ کر جلدی سے فون بند کرتے اس کی جانب بڑھا.......

گڑیا گڑیا... قیس نے بے چینی سے نمل کے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے آوازیں دینے لگا۔لیکن نمل ہوش میں ہوتی تو جواب دیتی۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!

وہ مست سی سو رہی تھی.....

اتنی جلدی سو گئی لیکن اتنی گہری ننید تو گڑیا کو کبھی نہیں سوتی ۔قیس حیران ہوا پھر سوچا شاید تھک گئ ہو.

نمل کو سہی سے لٹاتے اس پر کمبل سہی کرتے خود ضروری کام سے چلا گیا 

               💛💛💛💛💛

بدر....؟

جی لالا۔۔۔

چلو یار

جی

لالہ یار 6 ماہ ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک اس مشن کا کوئی سراغ نہیں ملا.....

ہممممم میں بھی سوچ رہا ہوں کچھ تو ہے جو مس پلیس ہے۔بدر نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے کہا ۔

چلو دیکھتے ہیں۔

ان دونوں کو باہر کی جانب بڑھتا دیکھ ملحان بھی بھاگتا ہوا آیا۔اور پوچھا

کدھر جارہے آپ مجھے چھوڑ کر۔۔۔؟؟؟

ملحان کی بات پر قیس اور بدر کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔۔۔۔۔

ہاہاہا یار کہیں نہیں جا رہے ادھر ہی ہیں۔دونوں نے ہنستے ہوئے کہا 

میں بھی جاؤں گا ساتھ۔ ملحان نے اٹل لہجے میں کہا 

ہاہا چلو آجاؤ۔!

بدر اسے ہم کالے ڈوگی کے آگے پھینکیں گے۔۔۔۔۔😜😂۔۔۔ قیس نے شرارت سے ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا 

لالا ملحان منہ بسورتا ہوا بولا۔۔۔۔

قیس نے اسے بچپن کی بات یاد دلائی تھی جب وہ ڈوگز سے ڈرتا تھا۔۔۔۔۔

                      ❁༆❁༆❁

بدر کل سے میں شہر والی حویلی شفٹ ہو رہا ہوں تم دونوں بھی ساتھ رہو گے۔۔۔۔قیس نے ان دونوں کے سر پر بمب پھوڑا۔

لیکن لالہ میں مورے۔۔۔۔ 

ملحان نے کچھ کہنا چاہا لیکن قیس نے اس کی بات کاٹتے فوراً کہا

ہاں تو کبھی ادھر کبھی اپنے سسرال تم جمپ کرتے رہنا

قیس کی بات پر بدر نے قہقہہ لگایا۔

لالہ آپ میرا مزاق بنا رہے ہیں۔؟

ملحان نے معصوم سا منہ بناتے ہوئے کہا۔

نانا میری جان میں ایسا کر سکتا ہوں تمہارے ساتھ...؟

قیس نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا۔

بدر تم کل سے پھر یونی جوائن کرو

اور ہاں ابھی تک یہ بات تم پتا نہیں کروا سکے کے یونی کا اصل اونر کون ہے کل تک وہ نام میرے سامنے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ملحان تم ایز آ پروفیسر ہی جاؤ گے 

بس چکنا رہنا اگر کچھ غیر معمولی لگے تو بتانا ۔قیس نے سنجیدگی سے کہا۔ملحان نے قیس کو سنجیدہ دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔ 

لالہ خیریت تو ہے ۔

ہممم بدر تمہیں ڈیٹیل بتا دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ملحان ابھی تم فلیٹ میں جا کر ریسٹ کرو میں اور بدر آتے ہیں ۔۔۔

لیکن لالہ

گو ملحان۔قیس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

اوکے کہتے ملحان منہ بناتے فلیٹ کی طرف چلا گیا۔

لالہ ملحان لالہ کو رہنے دے مشن خطرناک ہے انہیں نقصان نہ ہو جائے .بدر نے پریشانی سے کہا۔

ڈونٹ وری وہ سیلف ڈیفنس جانتا ہے ۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے لالہ !!!!!!

بدر

جی انابیہ سے کیا بات ہوئی .....

لالہ وہ.... 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا وہ دونوں اپنی منزل پر پہنچ گئے اور ایک دم الرٹ ہوتے وہ اندر داخل ہوٸے تھے۔۔۔۔۔۔۔

دھیان سے بےبی

اوکے لالا

کہتے وہ دونوں اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھنے لگے ۔۔

ٹھیک 15 منٹ بعد وہ دونوں اپنا کام خاموشی سے کرتے واپس جا چکے  تھے

                       ༆❁༆❁

صبح کی نیوز میں ایم این اے عارف چوہدری کی خبر نے دھوم مچا رکھی تھی۔۔۔۔۔۔

رات ان کے پیلس پر حملہ ہوا اور کسی بھی گارڈ کو نقصان پہنچاۓ بغیر صرف اس گھر سے عارف چوہدری کی لاش ملی تھی۔۔۔۔۔۔۔

سب حیران پریشان تھے۔۔۔۔۔

                     ༆❁༆❁

صبح کے 10 بج رہے تھے لیکن نمل اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی اب تو قیس بھی پریشان  ہو گیا تھا۔۔۔۔۔

11 بجے نمل اٹھی اور پورے کمرے میں نظر دوڑاتے اس کی نظر قیس پر پڑی تھی جو بیگ میں کچھ فاٸلز رکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🌸

جن میں وہ بلیو فائل بھی موجود تھی۔۔۔۔۔۔۔

نمل نے مسکراتے قیس کی جانب قدم بڑھاۓ  اور بھاگ کے اسے کمر سے ہگ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!

قیس اس اچانک افتاد پر بوکھلا گیا اور

فائل اس کے ہاتھ سے نیچے گر پڑی.....

خان جی کیا کر رہے ہیں آپ....؟

اس سے پہلے کے وہ فائل کی طرف ہاتھ بڑھاتا  نمل،قیس کے سامنے آتی اس کے گلے میں بازو ڈال گئی۔۔۔۔۔

اتنی حسین صبح ۔۔۔۔۔۔۔

قیس نے کہتے نمل کو بازوں میں بھرا۔

ہاہا اب تو روز ہی ایسی ہو گی۔۔۔۔۔

اچھا جی

گڑیا نے کون سی رومانس کی گولی کھا لی ۔قیس نے نمل کو سامنے کرتے اس کے گال پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔

آپ کا فتور سر چڑھ کر بول رہا ہے خان نمل نے ایک ادا سے قیس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔ 

اوہ ہو خان سے ڈائلاگ بازی ۔۔۔

نہیں جی یہ ڈائیلاگ نہیں ۔۔۔۔۔

میری محبت ہے۔۔۔۔

اوہ وہ کب ہوئی 

خان نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا۔

نمل کو اس وقت وہ فائل اٹھانی تھی اس کے لیے اسے جو بھی کرنا پڑے بس اسے کرنا تھا۔اسی لیے کچھ سوچتے ہوئے جلدی سے بولی۔

خان جی آپ کے ہاتھوں کا ناشتہ چاہئیے ؟

کیون نہیں خان کی جان ابھی ملے گا۔۔۔۔

لیکن اب خان کو بھی کچھ چاہیے نہ ۔قیس نے نمل کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا

اچھا وہ کیا ؟

خود سوچو۔۔۔

قیس کی بات سمجھتے نمل نے جلدی سے اپنے لب قیس کے سینے پر رکھے ۔

کافی دیر ویسے کھڑے رہنے کے بعد اس نے قیس کی طرف دیکھا جو بند آنکھوں سے کھڑا اس کا لمس محسوس کر رہا تھا. ایک بار نمل کے ضمیر نے اسے جھنجھوڑا لیکن خود پر بےبسی کا خول چڑھا کر پھر سے ڈرامہ جاری رکھا۔۔۔

قیس نے بند آنکھیں کھولتے نمل کے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور بولا۔

اوکے بتاؤ کیا کھانا ہے۔۔۔؟

چیز آملیٹ کھانے کو بہت دل ہے وہ بنا دیں نہ نمل نے معصوم سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔

 اوکے فریش ہو جاؤ۔ ابھی بنا دیتا ہوں۔

قیس کہتے کیچن کی طرف چلا گیا تھا۔ نمل نے فائل اٹھاتے پہلا  پیج کھولا جس پر پراپرٹی کے کاغذ کا سائن دیکھتے بنا

پڑھے جلدی سے فائل اپنے بیگ میں رکھی اور فریش ہونے چلی گئی۔۔

               ꧁꧁꧂꧂ 

1 ہفتے سے نمل اور قیس ساتھ تھے......

پچھلے کچھ دنوں سے نمل کو اپنی حالت بگڑتی دکھائی دے رہی تھی...

کھانا کھاتے وومیٹ، دل گھبرانا

لیکن وہ دھیان دیے بغیر اپنا مشن  پورا کرنے کے چکر میں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے بس فائل پر سائن چاہیے تھے پھر وہ آرام سے چلی جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن اب وہ پریشان تھی کہ سائن کیسے کروائے۔۔۔؟

اس دوران ان کے درمیان چھوٹی موٹی گستاخیاں تو ہوئی  تھیں لیکن قیس حد سے نہیں بڑھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

                          ☘︎☘︎☘︎

وہ لوگ حویلی شفٹ ہو چکے تھے۔۔۔۔۔

قیس صوفے پر بیٹھا بدر سے کچھ ڈسکس کر رہا تھا جب نمل ان کے پاس آئی۔

بدر کم ہی گھر آتا تھا۔زیادہ تر وہ باہر رہتا تھا۔ملحان بھی بس 1، 2 بار ہی آیا تھا۔سب  قیس کا دیا مشن پورا کررہے تھے۔

بدر کا دھیان کیۓ بغیر ہی وہ قیس کی گود میں بیٹھ گئی۔وجہ وہ انجکشن تھا جو ابھی وہ لے کر آئی تھی۔ آج اس نے انجکشن کے بعد ٹیبلٹ نہیں لی تھی۔

اس لیۓ اسے نیند نہیں آئی  تھی۔۔

قیس تو نمل کے اس طرح بیٹھنے پر سٹپٹا گیا۔ بدر بھی شرمندہ ہوتا بعد میں آنے کا کہتے اپنے روم کی جانب بڑھ گیا۔

خان جی آپ مجھ سے بلکل پیار نہیں کرتے۔

بدر کے جاتے ہی قیس نمل کو بازوں میں اٹھاۓ سیڑھیاں چڑھتے اپنے روم کی جانب بڑھا ۔۔۔۔

                        ꧁꧂

کمرے میں داخل ہوتے نمل کو بیڈ پر بیٹھاتے خود اس کے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔

جب نمل نے قیس کو اپنی جانب کھینچا 

خان جی کتنا پیار کرتے ہیں آپ مجھ سے۔نمل نے خمار زدہ لہجے میں قیس سے پوچھا ۔

بہت زیادہ۔۔ قیس نے ٹرانس کی کیفیت میں جواب دیا ۔

اچھا کتنا زیادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنا کہ اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔۔

سچی ۔۔۔۔۔۔۔۔

مچی۔۔۔✨✨

اچھا نہ جان نہیں آپ کچھ اور مجھے دے دیں ؟

لیکن میرے پاس ایک جان کے علاوہ ہے ہی کیا ۔۔۔؟

آپ اپنی جائداد میرے نام کر دیں ۔۔۔۔۔۔

نمل کی معصوم خواہش سنتے قیس نے قہقہہ لگایا تھا۔۔۔۔۔۔

لیکن خان کی جان آپ تو خان سے بھی زیادہ امیر ہیں ۔۔۔۔

آپ میری ایک چھوٹی سی حویلی کا کیا کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

ارے یہ نہیں بس پوری چاہیے ۔۔۔۔۔

اس نے بازو کھولتے پوری کا اشارہ کیا تھا۔۔۔۔

ہاہاہا میری جان میری سب سے قیمتی جائیداد آپ ہی ہو بس ۔اس کے علاوہ خان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ 

 جھوٹے کہتے وہ آنکھیں بند کر گئی۔

اس کا سر بھاری ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں گم ہو چکی تھی۔۔۔۔۔ 

جب قیس نے مسکراتے ہوئے اس پر کمبل سہی کیا اور خود باہر کو چلا گیا تھا

                 ✨✨✨✨✨

1 ماہ ہو گیا تھا نمل کو 

اب تو نمل کی حالت پہلے سے بھی خراب رہنے لگی تھی۔۔۔

سر چکرانا وومیٹ ہونا، دل بھاری رہنا اب لگاتار یہ علامت شو ہو رہی تھی۔۔۔۔۔

وہ پریشان ہو رہی تھی۔۔۔؟؟؟

لیکن خولہ بیگم کی وجہ سے وہ ابھی قیس کو چھوڑ نہیں سکتی تھی؟؟

آج جب خان گھر سے باہر گیا تو وہ

ڈرائیور کو لے کر چیک اپ کے لیے گئی 

ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کے وہ گھر واپس آگئی تھی کیونکہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ریورٹ شام تک میل کر دی جائے گی ابھی سسٹم میں تھوڑی خرابی ہے۔۔

وہ راستے میں سوچ رہی تھی کہ اب سے اسے خولہ بیگم کا دیا لپ گلوز استعمال کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔

خولہ بیگم نے آتے ہوئے اسے ایک لپ گلوز دیا تھا۔اور کہا تھا اس لپ گلوز میں نشہ ہے اگر اس کا ذائقہ قیس چکھ لے گا تو اس پر نشہ طاری ہو جاۓ گا۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر تم ایزیلی سائن کروا سکتی ہو۔۔۔

آخرکار نمل نے تھک ہار کر اسے استعمال کرنے کا سوچا تھا ۔

وہ کھانے میں 2 دفعہ نشے کی دوائی ملا چکی تھی لیکن حیرت کی بات یہ کہ قیس کو نشہ نہیں ہوا تھا بلکل۔ الٹا انجکشن لیتے اور ٹیبلٹ کھاتے وہ خود ٹن ہو جاتی تھی۔۔۔۔۔۔ 

آج اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ لپ گلوز کا استعمال ہی کرے گی ۔

باہر سے بادل گرجنے کی آواز سنتے وہ ہوش میں آئی اور الماری سے نائٹ  گاؤن نکالتے اسے چیک کرنے لگی ۔

یہ بھی خولہ بیگم نے دیا تھا۔۔۔۔۔

نیٹ کا ریڈ کلر کا  گھنٹوں تک آتا گاؤن جس پر سلور پرل لگے ہوئے تھے ۔۔۔۔

گلے اور بیک سے کپڑا ندارد تھا۔۔

اس لیے وہ پہننے اور نا پہننے کی کشمکش میں مبتلا تھی۔بلا آ خر یہ ڈرامہ ختم کرنے کا سوچتے گاؤن پہنے کا فیصلہ کرتی واش روم کی طرف بڑھ گئی

                          ✵✵✵

جب قیس کو ڈرائیور نے رمل کےہوسپٹل جانے کا بتایا تو وہ خراب موسم میں ہی بھاگا گھر آیا۔

امامہ بیگم کے فورس کرنے پر وہ آج نمل سے اپنا رشتہ کھل کر ڈسکس کرنے کا سوچ چکا تھا۔۔۔

قیس جیسے روم میں داخل ہوا نمل شیشے کے سامنے کھڑی ہونٹوں پر لپ اسٹک کے کوڈ لگا رہی تھی۔۔۔۔

نمل کا سراپا دیکھ کر قیس کا سانس رکا تھا۔نمل آج پھر سراپا قیامت بنے اس کے سامنے تھی۔لیکن آج قیس ہوش میں تھا ۔۔۔

ریڈ بیک لیس گھنٹوں تک آتا گاؤن پہنے وہ جیسے ہی قیس کی جانب موڑی

قیس نے بے ساختہ دل پر ہاتھ رکھا ۔

آج تو لگتا ہے اپنے خان کی جان لینے کا ارادہ ہے۔

قیس تو نمل کے تیور دیکھتے حیران تھا کیونکہ اسے نمل سے اتنی بولڈنیس کی امید ہر گز نہیں تھی۔۔۔

خان جی آ گئے آپ میں آپ کا ویٹ کر رہی تھی۔نمل نے خان کے پاس آتے اس کے گلے میں اپنی بانہیں ڈالتے کہا۔

نمل خیریت تو ہے نہ۔۔۔۔۔؟

جی خان جی بس آج دل کیا تو پہن لیا۔آپ کو اچھا نہیں لگا چینج کر لوں؟ 

نمل نے معصومیت کے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا ۔

نہیں اب ایسے بھی نہیں کہا

لیکن        I am shocked 

قیس کی نظروں میں حوس نہیں تھی!!!

حالانکہ خولہ بیگم کے بقول قیس کو بس نمل کے جسم سے پیار تھا۔۔۔

اگر قیس کی جگہ کوٸی  اور مرد ہوتا تو اب تک نمل کی حالت خراب کر چکا ہوتا ۔لیکن نمل کو سکتا تب ہوا۔۔۔۔۔۔

جب قیس نے اپنے اوپر لی شال نمل کے کندھوں پر ڈالتے اسے ڈھانپ دیا ۔

ہم جانتے ہیں گڑیا صرف اب اپنے خان  کی ہے۔لیکن اب ہم پورے حق سے آپ کے قریب آنا چاہتے ہیں۔ہم بہکنا نہیں چاہتے 

ہم سب کے سامنے ایک  بار پھر آپ کو اپنا کر ہی اب آپ سے اپنا حق لیں گے۔۔

قیس کی بات ہر نمل حیران  ہو رہی تھی لیکن پھر اپنا ڈرامہ کنٹیو رکھا کیونکہ اس نے جلدی سے اپنا کام کرنا تھا۔ خولہ بیگم نے اسے بتایا تھا کہ 3 منٹ سے زیادہ یہ لپ اسٹک تمھارے ہونٹوں پر نہ رہے۔۔۔

اس لیے نمل نے جلدی سے خان کی طرف بڑھتے اس کے ماتھے پر لب رکھے اور بولی۔

خان جی آپ نے نمل کا دل جیت لیا ہے

ہمارا دل کر رہا ہے ہم آپ کو دل کھول کر پیار کریں اس سے پہلے کو قیس کچھ بولتا ،باہر سے بارش کی آواز پر نمل ٹیرس کا ڈور اوپن کرتے باہر نکل گئی ۔

واؤ بارش خان جی آپ بھی آئیں ۔۔۔۔

اب خان اسے کیا بتاتا کہ وہ تو پہلے اپنے جذبات بہت مشکل سے قابو کر رہا تھا۔

اب بارش نے اور کام خراب کر دیا تھا نمل اس کا ہاتھ تھامے بارش میں لے آئی ٹیرس کی لائٹ بند ہونے کی وجہ سے مکمل اندھیرا تھا۔۔

کبھی کبھی بجلی چمکتی تو پورا آسمان جگمگا جاتا تھا۔۔۔۔۔

کمرے سے آنے والی مدھم روشنی میں قیس نمل کو بچوں کی طرح بارش میں بھیگتے دیکھ رہا تھا۔۔۔

نمل کی چادر اس کے کندھوں سے ڈھلکتی نیچے گری ۔اچانک بجلی چمکنے پر نمل بھاگ کر قیس کے سینے سے لگی 

قیس تو پاگل ہونے لگا تھا۔۔۔۔

جاٸز ملکیت اور بھرپور ہوش ربا سراپا

اسے کچھ کر گزرنے پر مجبور کر رہا تھا۔

روم کی روشنی سیدھا قیس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔نمل نے اپنا چہرہ قیس کے سینے سے نکالتے اپنے پاؤں اوپر اٹھائے اس کے لبوں پر اپنے لب رکھے تھے اور ادھر قیس کی بس ہوئی تھی۔

آخر کب تک وہ جذبات پر قابو پاتا۔

نمل کو کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے وہ شدت سے اس کے لبوں پر جھکا اپنی پیاس بجھانے لگا جو بہت مشکل کام تھا کیونکہ یہ وہ پیاس تھی جو بجھنے کی بجائے بڑھتی جا رہی تھی ۔

نمل آنکھیں بند کرتی قیس کی منمانیاں برداشت کرنے لگی۔ زوردار بارش میں وہ دونوں مدہوش ایک دوجے میں گم تھے۔۔

اس وقت نمل بھول گئی تھی کہ اس کا مقصد کیا ہے وہ تو بس قیس کی قربت میں مدہوش تھی۔ قیس اس کے لبوں کو نرمی سے چھوڑے اس کی گردن پر جھکے وہاں اپنی محبت کے گل کھلا رہا تھا۔ اس کی گردن کو نشانہ بناتے وہ لو باٸٹ کرتے اپنی شدت کے نشان چھوڑ رہا تھا۔۔نمل نے ہوش میں آتے قیس سے دور ہونے کی کوشش کرتے کچھ کہنا چاہا۔۔

خان جی۔۔۔۔۔۔۔

شش چپ کھڑی رہو کہا تھا نہ مت بہکاو مجھے اب بھگتو۔ قیس نے کہتے ساتھ نمل کو گود میں  اٹھاتے،کمرے میں لاتے بیڈ پر لٹایا اور خود اس کی گردن پر جھکا تھا۔

گھڑی پر 10.30 کا وقت ہو چکا تھا۔۔

وقت تیزی سے گزر رہا تھا نمل نے کچھ سوچتے ہوئے قیس کے بالوں میں ہاتھ ڈالے اس کا سر اوپر کیا تھا اور ایک بار پھر اس کے لبوں سے اپنے لبوں کو الجھایا تھا۔۔۔۔۔۔

قیس جتنا کنڑول کرنے کی کوشش میں تھا نمل اتنا اسے بہکا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

قیس کو کچھ غیر معمولی احساس ہوا لیکن نمل پر اسے خود سے زیادہ اعتبار تھا ۔

کافی دیر اس کی قربت میں مدہوش رہتے قیس نے خود کو حد پار کرنے سے روکا تھا۔۔۔۔

خان کی جان کیوں آج خان کو ختم  کر دینے کر در پر ہو جاؤ چینج کرو۔بیمار ہو جائو گی۔ قیس نے خمار زدہ آواز میں کہا ۔

نمل کا کام بھی ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔

اس نے جلدی سے بیڈ سے بھاگنا چاہا جب قیس نے ایک بار پھر اس کے لبوں کو نشانہ بناتے اسے آزاد کیا۔ نمل جلدی سے چینج کر کے باہر آئی تھی۔

شیشے کے  سامنے اس نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا تھا اس کے ہونٹوں سے لپ اسٹک غائب ہو چکی تھی۔۔۔۔؟؟؟؟؟

اس نے گردن موڑ کر قیس کو دیکھا جو اپنی آنکھوں کو زبردستی کھولنے میں ہلکان ہو رہا تھا۔

نمل نے جلدی سے قیس کی طرف بڑھتے اس کے سامنے کچھ کاغذات رکھے ۔

خان جی مجھے یاد آیا یہ میرے کچھ سٹڈی کے کاغذ ہیں ان پر سائن کر دیں۔

صبح ابھی مجھے نیند آ رہی ہے۔ قیس نے مشکل سے اپنی آنکھیں کھولتے ہوئے کہا ۔

خان جی پلیز ۔نمل نے انتہائی معصوم سی شکل بناتے ہوئے کہا ۔

اوکے لاؤ دو خان نے جلدی سے سائن کرتے کاغذات نمل کی طرف بڑھائے ۔

نمل بہت خوشی سے کاغذات ریکھ رہی تھی. جب اس کے موبائل کی بیل بجی 

میل تو 4 بجے کی ہوٸی تھی لیکن شاید بارش کی وجہ سے اب ملی تھی۔۔۔۔۔؟

میل اوپن کرتے اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تھا

خان جی میں ۔۔۔

کیا ہوا نمل قیس کا سر پہلے بھاری ہو رہا تھا؟

خان جی نمل روتے زمین پر بیٹھتی گئی 

کیا ہوا؟

خان جی میں ماں بننے والی ہوں

نمل کے الفاظ قیس کو ساکت کر گئے۔

قیس لڑکھڑاتے قدموں سے نمل کی جانب بڑھا اور خوش ہوتے اسے سینے سے لگایا۔ اور خوشی سے بھرپور اواز میں بولا۔ تو میری جان یہ تو خوشی کی بات ہے نہ؟

نمل نے خان کو زور سے دھکا دیا اور غصے سے پھنکاری ۔

یہ آپ کی ناجائز اولاد ہے آپ کی حوس کی نشانی۔ 

نمل یہ کیا بول رہی ہو۔ قیس نے بے یقینی سے نمل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

سچ بول رہی ہوں میں جان سے مار دوں گی اس بچے کو۔نمل کی حالت پاگلوں جیسی ہو رہی تھی۔

نمل تم اتنا غلط کیسے سوچ سکتی ہو۔۔

یہ ہمارا بچہ ہے تمہارا اور میرا میں مانتا ہوں اس دن کچھ بھی تمھاری مرضی سے نہیں ہوا تھا لیکن یہ جائز اولاد ہے ہماری ۔۔ قیس نے نمل کو سمجھانے کی کوشش کی ۔

جائز کب کیا نکاح آپ نے مجھ سے آپ تو حق حق کرتے مجھے  اپنی رکھیل بنا چکے ہیں ۔۔۔

نمل قیس کا بے ساختہ ہاتھ اٹھا تھا۔

لیکن وہ درمیان میں ہی روک گیا۔

ماریں نہ مجھے ماریں لیکن اس سے سچائی بدل نہیں جاۓ گی۔۔۔

میں ختم کر دوں گی اس بچے کو۔۔۔۔۔۔

نمل کہتے ساتھ  باہر کی طرف بھاگی۔

قیس نے اٹھتے نمل کو بازو سے پکڑا اور دراز سے ایک لفافہ اٹھاتے نمل کی جانب بڑھایا۔

یہ کھول کر دیکھو ۔

لیکن نمل کے لفافہ کھولنے سے پہلے ہی  خولہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔ رات کے 11 بجے خولہ بیگم کو دیکھ کر قیس حیران ہوا تھا۔۔

نمل نے خولہ بیگم کو میسج کر کے سب بتا دیا تھا۔

اتے ہی خولہ بیگم نے نمل سے پوچھا ۔

کہاں ہے فائل ۔۔۔۔؟؟؟؟؟

یہ لیں اس پر قیس کے سائن موجود ہیں۔ نمل نے فائل خولہ بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔

قیس کی آنکھوں میں کرچیاں سی چبھی تھی۔ کچھ چھن سے ٹوٹا تھا اس کے اندر جس کی تکلیف اس کی آنکھیں بہت اچھے سے بیان کر رہی تھیں ۔

اس نے چکراتے سر کے ساتھ نمل کی طرف دیکھا۔

وہ لفافہ ابھی تک نمل کے ہاتھ میں تھا۔

جب کہ خولہ بیگم قہقہے لگاتی قیس کے سامنے آئیں اور غرور سے بولی۔۔

تم ہار گئے ایک بار پھر سے اور وہ بھی بہت بری طرح سے ۔۔۔

گو ٹو ہیل کہتے وہ نمل کا ہاتھ پکڑے باہر کی جانب چلی گئیں ۔

قیس کو سیکنڈ لگا تھا سمجھنے میں کہ یہ سب خولہ بیگم کا پلین ہے

تب تک لپ گلوز اپنا کام کر چکا تھا ایک خون کی الٹی قیس کو آئی اور وہ بیڈ پر گرا تھا ۔۔۔

خولہ بیگم نے جھوٹ  بولا تھا کہ لپ گلوز میں نشہ ہے جب کہ اس میں زہر تھا۔۔۔۔۔۔

بدر جو رات کے اس وقت گاڑی کی آواز سن کر کمرے سے باہر نکلا تھا نمل کو خولہ بیگم کے ساتھ جاتے دیکھ کر وہ جلدی سے قیس کے روم کی جانب بڑھا ۔

قیس کے منہ سے نکلتے خون کو دیکھ کر وہ جلدی سے قیس کی جانب بھاگا 

لالہ کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔۔؟؟؟

قیس کو بازو میں اٹھائے وہ گاڑی کی طرف بڑھا اور ریش ڈرائیو کرتے وہ ساتھ قیس کو آنکھیں بند نہ کرنے کا کہہ رہا تھا۔۔۔

                  💔💔💔💔💔

بند آنکھوں میں قیس کو نمل کا اسے فون کرنا، اس کے قریب آنا اس کا ایک دم سے چینج ہونا سب یاد آ رہا تھا ۔۔۔

آخری دفعہ قیس نے نمل کو خود کو اپنے ہونٹوں پر جھکتے محسوس کر کے آنکھیں بند کر لیں ۔

بدر نے جلدی سے ہسپتال میں داخل ہوتے افراتفری مچادی۔یہ سپیشل ہسپتال تھا جہاں پر صرف آفیسرز کو ہی لایا جاتا تھا۔آفیسر خان کی یہ حالت دیکھ کر سب پریشان ہوئے تھے۔۔۔۔۔

انہیں جلدی سے آپریشن تھیٹر لے کر جاؤ۔آی تھنک انہیں زہر دیا گیا ہے۔ڈاکٹر نے قیس کو دیکھتے ہوئے وارڈ بوائے سے کہا۔

               ✵✵✵✵✵✵✵✵✵✵

پچھلے 2 گھنٹوں سے بدر انتظار کی سولی پر لٹکا ہوا تھا۔جب ڈاکٹر باہر آیا۔

آفیسر خان کو بہت ہیوی قسم کا زہر دیا گیا ہے یہ زہر صرف امریکن سی بی آئی کے پاس ہوتا ہے۔ڈاکٹر نے بدر کو بتایا ۔

اب کیسے ہیں وہ۔بدر نے بے چینی سے قیس کے بارے میں پوچھا۔

زہر ان کی رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے۔۔میدہ واش کر دیا ہے لیکن اچھی امید نہیں۔ ڈاکٹر نے بدر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

ڈاکٹر کی بات سنتے بدر کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔ 

پیچھے سے آتا ملحان بھی ڈاکٹر کے الفاظ سن چکا تھا۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کے سینے سے لگے زاروقطار رو رہے تھے۔

 لالہ۔۔۔بدر نے کچھ کہنا چاہا لیکن ملحان نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کروا دیا اور بولا 

کچھ نہیں ہو گا میرے لالہ کو وہ بہت بہادر ہیں۔میں اسے موت کے گھاٹ اتار دوں گا جس نے یہ سب کیا ہے

..🍁🍁🍁🍁🍁🍁

نمل نے  گھر جاتے ہی وہ لفافہ ڈریسنگ پر پھینکا۔

رمل اچانک سے اس کے روم میں آئی اور نمل سے پوچھا۔

 نمو اس وقت کس کے ساتھ آئی ہو؟

آج میں بہت خوش ہو رمل آج میں نے اپنی عزت خراب کرنے کا بدلہ لے لیا۔

نمل کے رمل کے بازوؤں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

کیا بکواس کر رہی ہو؟

رمل نے تیش میں نمل کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے اس سے پوچھا ۔

ہاں جس طرح قیس نے مجھے دھوکہ دیا میری عزت خراب کی۔۔۔۔۔

ویسے ہی آج میں اسے چھوڑ آئی ہوں۔۔۔

کیا بکواس کر رہی ہو شوہر ہے وہ تمھارا۔۔۔۔رمل غصے سے چلائی۔

کیا میرا شوہر نو نو ایسا نہیں ہوا کبھی بھی۔۔۔

تم پاگل کیا کر کے آئی ہو۔۔رمل نے غصے سے نمل کو جھنجھوڑ کر پوچھا۔

جب نمل نے رمل کو ساری سچاٸی  بتائی تو حیرت سے رمل کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔

آللہ نمل تم کیسے خولہ پر یقین کر سکتی ہو؟جھوٹ بولا انہوں نے تم سے ویٹ وہ لپ گلوز دکھاٶ مجھے ابھی کے ابھی۔

یہ لو اس نے لپ گلوز اپنے بیگ سے نکالتے رمل کی جانب بڑھایا۔

نمل وہ گلوز دیکھتے ہی پہچان گئی تھی کہ یہ تو زہر ہے

اللہ میں مر جاؤ نمل یہ زہر ہے نشہ نہیں ....

رمل مزاق نہ کرو مما نے کہا تھا کہ  نشہ ہے .....

تم نے اپنے ہاتھوں سے اہنے شوہر کو موت کے منہ میں اتار دیا۔۔۔۔۔

تم ایسا کیسے کر سکتی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟

نہیں ہے وہ میرا شوہر اور ویسے بھی وہ. نشہ تھا۔۔۔ٹھیک ہو گا وہ۔۔۔۔۔۔۔

مر نہیں جاۓ گا نشے سے....؟؟؟

وہ لفافہ کدھر ہے ؟ رمل نے پوچھا

یہ پڑا ہے نمل نے جواب دیا ۔

کھولو اسے پڑھو جلدی

رمل نے اپنا موبائل نکالتے بدر کو کال ملائی۔

بدر قیس لالا۔۔۔؟؟؟؟؟

بدر کی روتی آواز پر رمل کے پیروں سے زمین کھسک گئی۔۔۔۔۔

آپو لالہ... 

مجھے بتاؤ بدر کیا ہوا ہے لالہ کو جلدی۔۔

لالہ کو کسی نے زہر دیا ہے وہ اس وقت  زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔بدر نے روتے ہوئے رمل کو بتایا ۔

فون سپیکر پر ہونے کی وجہ سے نمل نے یہ الفاظ با خوبی سنے تھے ۔

وہ جو پہلے اپنا اور قیس  کا نکاح نامہ دیکھ کر ساکت تھی بدر کے الفاظ سنتے بے ہوش ہو کر زمین پر  گری تھی۔۔۔۔۔!!!!!

نمل..... 

رمل کی آواز رات کے اندھیرے میں حویلی میں گونجی تھی..... 

اس نے جلدی سے نمل کو بستر پر لٹاتے ڈاکٹر کو کال کی تھی لیکن رات کے 12 بجے کوئج ڈاکٹر کہاں ملنا تھا...

اس نے خود ہی پانی کا جگ نمل کے. منہ پر پھینکا تھا۔۔۔

قیس نمل نے ہوش میں آتے قیس کو پکارا تھا۔۔۔۔

مار آئی ہو تم اپنے ہاتھوں سے اپنے سہاگ کو اب مناؤں خوشیاں اور سنبھالوں یہ جائیداد ۔۔۔۔۔۔۔

نہیں رمل وہ نشہ تھا قسم  سے

یہ یہ زہر ہے امریکن سپیشل اور اس کا اینٹی ڈوز بھی نہیں ہے رمل غصے سے پاگل ہوتی گلوز نمل کی طرف پھینک کر چلائی۔

مرو تم میں جا رہی ہوں۔ اتنا کہتے رمل باہر کی جانب بڑھی ۔

آپو ۔نمل نے اسے روکنا چاہا۔

مت کہو آپو جان لے لو گی تمھاری اگر میرے لالہ کا کچھ ہوا تو

رمل جلدی سے ڈرائیور کو ساتھ لیتے گھر سے نکلی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

‍‍‍24 گھنٹے گزر چکے تھے... لیکن قیس کو ہوش نہیں آیا تھا

ملحان، بدر اور  رمل  کے لیے موت کا عالم تھا....

چاروں طرف چھائی  خاموشی ان کی جان نکال رہی  تھی۔۔۔۔

2 دن سے نمل صدمے سے بے ہوش تھی۔

جب بھی ہوش آتا خان کا نام لے کر چلانے لگتی۔انجیکشن نہ لینے کی وجہ سے اس کی حالت مزید خراب ہو رہی تھی۔مورے ہر پل اس کے ساتھ تھیں۔۔۔۔

خولہ بیگم تو جائیداد، زمین اور ان کی فیکٹریاں اپنے نام ہونے پر بہت خوش  تھی۔نمل کی خراب طبیعت کی وجہ سے وہ وکیل کو کاغذات نہیں دیکھا پاٸی  تھی۔حویلی میں چاروں طرف خاموشی چھائی ہوٸی تھی ۔ہر کوٸی  نمل کی وجہ سے ٹنشن میں تھا۔۔۔۔

         ❤💔❤✨🌟💫

آغا جان کو جیسے ہی قیس کی طبیعت کا پتا چلا تھا وہ فوری شہر کے لیے روانہ ہوۓ ۔۔۔۔

ملحان کو سامنے دیکھ آغاجان نے بھاگ کر اسے سینے سے لگایا.اور والہانہ محبت کا اظہار کرتے اسے قیس سمجھتے سینے سے لگایا اور بولے۔

میرا قیس میرا لال، میرا بچہ ٹھیک ہو تم ۔ملحان خاموش ساکت کھڑا تھا۔

جب رمل کی آواز گھونجی ۔آغا جان قیس لالہ اندر ہیں یہ تو ان کے بھائی ہیں . آغا جان نے پیچھے ہوتے حیرانی کے عالم میں ملحان کو دیکھا تھا۔۔

تبھی ڈاکٹر کی آواز پر وہ ہوش میں آتے ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوۓ تھے۔۔۔۔۔

خان صاحب آپ۔۔!!!

جی ڈاکٹر صاحب ہمارا پوتا ہمارے جگر کا ٹکڑا ہے ادھر ہے

قیس کے روم کی طرف اشارہ کر تے آغا جان بولے تھے .....

اوہ..... آپ کے پوتے کو بہت خطرناک قسم کا زہر دیا گیا ہے ۔یہ زہر امریکیوں کی ایجاد ہے اس کا انٹی ڈوز بھی موجود نہیں اور اس میں سب سے خطرناک جو بات ہے یہ زہر سب سے پہلے دماغ کی وینز اور آنکھوں پر اثر کرتا ہے.پچھلے 24 گھنٹے سے انہیں ہوش نہیں آیا۔دعا کریں کہ کوئی معجزہ ہو جاۓ اور وہ زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔ڈاکٹر کی بات سنتے آغا جان ڈھے سے گئے تھے۔

انہیں قیس پر وقتی غصہ آیا تھا....

لیکن قیس نے انہیں ساری سچاٸی  بتاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ قیس سےناراضگی کا ڈرامہ کریں تا کہ قیس کو اپنا دشمن ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔لیکن اب قیس کی حالت دیکھتے وہ بے جان ہو رہے تھے۔۔۔۔۔

قیس کے ساتھ کون تھا بتاؤ ہمیں کس نے کی ہمارے پوتے کی یہ حالت... آغا جان گرجدار آواز میں غرائے۔

آغاجان لالہ کے ساتھ نمل تھی.لیکن 2 دن سے وہ بھی بےہوش ہے۔۔۔۔

آغاجان نے ہنکارہ بھرا تھا ۔۔۔۔

جب تھوڑی دیر بعد رمل کے موبائل کی بیل بجی تھی۔۔۔۔

جی واٹ آپ پلیز جلدی سے اسے  ہوسپٹل لے آئیں

کیا ہوا بیٹا۔۔۔۔

آغاجان نمل کی طبعیت اچانک بگڑ گی ہے۔۔۔۔رمل نے پریشانی سے کہا۔

یا اللہ کس کی نظر لگ گی ہمارے گھر کی خوشیوں کی 

آغاجان نے تڑپ کر اللہ سے فریاد کی تھی۔۔۔۔

کچھ دیر میں اب قیس کے ساتھ نمل بھی اسی ایمرجینسی وارڈ بھی دوسرے بیڈ پر موجود تھی ۔دونوں کے  درمیان اک پردہ حاٸل تھا۔نمل کا معائنہ کرتے 

ڈاکٹر پریشان تھے کچھ انجکشن لگانے پر اسے ہوش آیا۔ لیکن ہوش میں آتے ہی اس نے چلانا شروع کر دیا.

خان جی ۔۔۔۔۔

نمل کی آواز پورے وارڈ میں گونجی تھی چھوڑو مجھے میں نے  خان جی کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔۔

نمل نے دروازہ کھولتے باہر کو بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس کے بے جان جسم میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ دروازے کا لاک بھی کھول سکتی۔۔۔۔

اس نے پردہ سائیڈ  پر کرتے بھاگنے کی کوشش کی .

نرس مسلسل اسے قابو کرنے کی کوشش میں تھی۔لیکن نمل نے جلدی سے پردہ سائیڈ پر کرتے دوسرے دروازے کی طرف سے بھاگنا چاہا جب مشین میں جکڑے قیس کو دیکھ کر وہ بے ساختہ اس کی طرف آٸی  تھی۔۔۔

خان جی ۔۔۔۔۔

گرتے پڑتے ،لہراتے ہوۓ وہ قیس کے بیڈ پر گری ،قیس کے  سینے پر اپنا سر رکھتے اس نے آہستہ آواز میں قیس کو پکارا۔

نرس جو نمل کو پکڑنے اس کے پاس آٸی تھی ڈاکٹر کے اشارے پر حیرانی سے  ڈاکٹر کو دیکھا تھا۔۔۔۔

تبھی ڈاکٹر نے اسے قیس کے دل کی دھڑکن کی طرف اشارہ کیا تھا جو نمل کے پاس آنے سے تیز تیز چلنے لگی تھیں۔۔۔۔

خان جی مر جائے گی نمل اگر آپ کو کچھ ہوا تو 

خان جی ہوش میں آۓ۔۔۔۔۔

نمل کی آواز  قیس کو دور گہراٸی  سے آتی ہوں سنائی دی تھی ۔۔۔۔۔

نمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟

قیس کے ہونٹوں نے بے آواز جنبش کی تھی

خان جی پلیز اٹھیں....

قیس کی ہارٹ بیٹ خطرناک حد تک تیز ہو چکی تھی۔۔۔۔

نرس انجکشن لاؤ۔۔۔۔۔

کچھ دیرکی ان تھک محنت کے بعد قیس کو آہستہ آہستہ ہوش آنے لگا تھا

لگتار چکر آنے کی وجہ سے نمل مسلسل گر رہی تھی

لیکن وہ با ضد وہاں کھڑی تھی۔۔۔۔۔

کہ جب تک قیس کو ہوش نہ آیا وہ ہلے گی نہیں جیسے ہی قیس کو ہوش آیا نمل بے ہوش ہو کر گری تھی۔۔۔۔

قیس نے ہوش میں آتے ہی نمل کو گرتے دیکھا تھا۔۔۔

وہ اچانک سے اٹھ بیٹھا تھا۔۔۔۔

نمل.......

اچانک اٹھنے سے اسے لگا جیسے کسی نے اس کا جسم آرے سے چیر دیا ہو۔۔۔۔۔

درد اس کی رگ رگ میں سرائیت کر رہا تھا.خود کو مشینوں میں جکڑا دیکھ کر اس رات کا گزرا واقعہ آنکھوں کے سامنے گھوما تھا....

نمل کو اٹھا کر نرس بیڈ پر لٹا چکی تھی.....

مسڑ قیس پلیز آپ لیٹ جائیں. ابھی آپ کی کنڈیشن اس حالت میں نہیں کہ آپ چل پھر سکیں۔۔۔۔

ڈاکٹر کیا آپ بتا سکتے کہ میری مسز کو کیا ہوا؟؟؟؟

مسڑ قیس آپ فل حال ریسٹ کریں پلیز

پلیز ڈاکٹر بتائیں کیا ہوا ہے میری مسز کو اگر وہ ٹھیک ہوں گی تو میں بھی ٹھیک ہوں۔۔۔۔

مسڑ قیس مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑھ رہا کہ آپ ایک اچھے ہیزبینڈ نہیں بن پاۓ ۔۔۔۔۔

شاید آپ کو آئیڈیا نہیں ہے کہ آپ کی مسز کی کنڈیشن کس حد تک خراب ہے۔۔۔۔ 

پلیز ڈاکٹر بتائیں کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟؟

قیس چلاتے ہوا بولا ۔

آپ کی مسز پچھلے کچھ عرصہ سے مسلسل ڈرگز استعمال کر رہی ہیں  وہ بھی ہیوی قسم کی وہ ان کا اِستعمال انجکشن اور ٹیبلٹ دونوں صورت میں کرتی رہی ہیں ۔۔۔۔

ان کا اندرونی سٹرکچر بہت حد تک ڈیمج ہو چکا ہے۔۔۔۔

ڈاکٹر کی بات سن کر قیس سکتے میں  تھا اس کا دماغ سن تھا یہ کیسے ہو سکتا ہے اس کا دماغ بند ہو رہا تھا۔۔۔

اور مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کو مبارک دوں یا افسوس کروں کہ آپ کی مسز پریگنٹ ہیں اور اس کنڈیشن میں ماں اور بچہ دونوں کی حالت کو نقصان ہے

قیس کی حالت تو ایسی تھی کہ کاٹو تو جسم میں لہو نہیں.... 🥀

ریلکس مسڑ قیس آپ کی خود. کی کنڈیشن نارمل نہیں ہے آپ ٹینشن مت لیں آپ سنبھالے خود کو

اس کا کوٸی  علاج... 

قیس نے ٹرانس کی کیفیت میں پوچھا تھا

ان کا علاج صرف محبت ہے کوئی ایسا انسان جو انہیں ڈرگز سے دور رکھے...جو ہر وقت ان کے پاس موجود ہو ان کا ایک بچے کی طرح خیال رکھے ڑاکٹر نے تفصیل سے سب قیس کو بتایا ۔

کوئی  ڈاکٹری علاج؟ 

قیس نے بے چینی سے پوچھا ۔

جی آپ کو ان کا انٹی ڈرگز کورس کروانا ہو گا۔لیکن مسڑ قیس فل حال آپ آرام کریں کیونکہ آپ کو خود کو آرام کی ضرورت ہے۔آپ کو جو زہر دیا گیا تھا اس کی وجہ سے آپ کی باڈی بھی بہت ڈیمج ہوٸی ہے تو پلیز آپ آرام کریں میں آپ کے گھر والوں کو اندر بھیجتا ہوں  وہ بہت بے صبری سے آپ کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

میری مسز کی کنڈیشن کا کسی کو انفارم مت کیجیے گا میں خود ہینڈل کر لوں گا۔ قیس نے ڈاکٹر کو ہدایت کی ۔

اوکے کہتا ڈاکٹر کمرے سے باہر چلا گیا ۔

                         ❥︎❥︎❥︎

خان صاحب آپ کے پوتے کو ہوش آ گیا ہے.باہر آتے ہی ڈاکٹر نے سب کو زندگی کی نوید سنائی سب میں ایک دم خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔

آغاجان جلدی سے روم کی جانب بڑھے 

قیس میرے پتر ٹھیک ہو تم...؟؟؟

قیس آغاجان نے جلدی سے قیس کو سینے سے لگایا تھا

میرا بچہ 

آغاجان کی آنکھیں نم تھیں ۔۔۔۔

آغاجان میں ٹھیک ہوں بلکل آپ پلیز پریشان مت ہوں آپ کی طبیعت خراب ہو جاۓ گی۔۔۔۔

ہم اس کی جان اپنے ہاتھوں سے لیں گے جس نے آپ کو نقصان پہنچایا ہمیں بتائیں کون ہے وہ۔۔۔؟؟؟

آغاجان کی بات سنتے ہی قیس خاموش ہو گیا ۔کچھ وقفے کے بعد سپاٹ انداز میں بولا۔

ہم نہیں جانتے آغاجان کہ کس نے کیا یہ سب

ہم خود پتا لگوا لیں گے قیس بیٹا۔آغا جان نے اٹل لہجے میں کہا ۔

تبھی ملحان اور بدر روم میں داخل ہوئے ۔

لالہ وہ دونوں بھاگ کر قیس کی جانب بڑھے۔

لالہ آپ ٹھیک ہو

میں ٹھیک ہوں میرے شیرو... یہ تم دونوں نے اپنی حالت کیا بنا رکھی ہے۔۔۔۔

لالہ ملحان روتے قیس کے گلے لگا اور روندھی ہوئی آواز میں بولا اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں بھی مر جاتا۔

شش میں ٹھیک ہوں بلکل چپ کر جاؤ

ایسے روتے نہیں..... 

ادھر آؤ بدر لالہ کے پاس

بدر جو تب سے ضبط کیے کھڑا تھا

قیس کے بلانے پر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

لالہ آپ نے ایسا کیسے ہونے دیا۔۔۔

یہ کیسے ہو سکتا کہ آپ کو پتا نہ ہو کہ اس گلوز میں زہر تھا۔۔۔۔

لالہ آپ کیسے جانتے بوجھتے اپنی زندگی خطرے میں  ڈال سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔

بدر کی بات سن کر قیس نے خاموش نظروں سے بدر کر دیکھا لیکن بولا کچھ نہیں

رمل اس دوران واپس حویلی جا چکی تھی ۔۔۔

آغاجان کے کہنے پر قیس  کو حویلی  لے جایا گیا نمل نیم بے ہوشی کی کیفیت میں ہی تھی۔۔۔

قیس نے سب سے یہی کہا تھا کہ اس کی خراب طبیعت کی وجہ سے نمل ڈپریشن میں ہے۔

قیس کے جسم کے اندرونی زخم ابھی تک سہی نہیں ہوۓ تھے۔۔

آج نمل مکمل طور پر ہوش میں آئی تھی۔۔۔

طبیعت خراب ہونے کے با وجود قیس نمل کے ساتھ ساۓ کی طرح رہا تھا۔۔۔۔

نمل نے ہوش میں آتے ہی قیس کو پکارا تھا۔خان جی آپ... آپ ٹھیک ہیں نہ ۔۔۔

خان نے خاموش نظروں سے نمل کو دیکھا تھا

خان جی بتائیں پلیز 

جی گڑیا میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔

خان جی معاف کر دیں پلیز 

نمل نے بیٹھنے کی کوشش کی تھی لیکن چکر آنے پر پھر سے لیٹ گئی۔

قیس نے آگے بڑھتے نمل کو بازو سے پکڑا اور پیچھے سرہانہ رکھتے بٹھایا تھا 

اچانک نمل روتے ہوئے قیس کے سینے سے لگی تھی

خان جی مجھے مر جانا چاہیے جو میں نے آپ کے ساتھ کیا

قیس ایک لفظ نہیں بولا تھا اس نے خاموشی سے نمل کو سینے سے لگائے رکھا اور اپنے بازو اس کے گرد باندھ کر اسے گرنے سے بچایا.

خان جی اپنے ہاتھوں سے میری جان لے لیں مجھے یہ درد جینے نہیں دے گا.نمل نے شدت سے روتے ہوئے اپنے بازو قیس کے گرد لپیٹے جیسے وہ اسے چھوڑ جائے گا۔

شش رونا بند کرو گڑیا.. 

چلو سیدھے ہو کر بیٹھو میں آپ کو کچھ کھانا کھلاؤں اس کے بعد آپ نے ٹیبلٹ لینی ہے۔۔۔۔۔خان جی میں ۔۔۔۔۔؟؟؟؟

نمل پلیز چپ کر جاؤ ورنہ میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔

قیس نے بہت پیار سے نمل کو کھانا کھلایا اور پھر اسے ٹیبلٹ دی ۔

خان جی آپ کی طبیعت کیسی ہے۔۔۔

ٹھیک ہوں بس کچھ زخم اپنے نشان چھوڑ گئے ہیں ۔قیس نے سپاٹ انداز میں کہا۔

خان جی

نمل ہمارے درمیان اس موضوع پر  بات نہیں ہو گی 

ٹیبلٹ لیتے نمل پھر سے نیند میں چلی گئی ۔

                         𖣔𖣔𖣔

رمل کو قیس پر شدید غصہ تھا۔۔۔

جیسے ہی قیس کمرے سے باہر آیا۔ رمل نے اس پر حملہ کر دیا۔

لالہ آپ کیسے کر سکتے ہیں ایسا

اس نے آپ کی جان لینے کی کوشش کی آپ پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیس نے رمل کو بیچ میں ہی روک دیا اور بولا ۔

رمل یہ میرا اور نمل کا معاملہ ہے ۔۔۔۔۔

آپ فل حال زرا اپنا چیلنج پورا کرنے کا سوچو

لالہ لیکن

رمل پلیز میں نہیں چاہتا کہ اس موضوع پر کوئی بھی بات ہو۔۔۔۔۔۔۔

اور کوئی ثبوت ملا 

جی یہ رہی وڈیو... 

کیا ہے اس میں دیکھ لیں 

یہ اس دن کی وڈیو ہے جب میں ہوسپٹل سے  واپس آ ٸی تب خولہ بیگم کسی سے فون ہر بات کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔

ہاہاہا بھینس بھی مر گئ  اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔۔۔۔

قیس تو مر رہا ہے نمل بھی اپنی بے وفائی پر مر رہی ہے 

ایک تیر سے 2 شکار۔

جائداد بھی ساری میرے نام ہو گئی اور وہ ونی بھی راستے سے ہٹ گیا

وڈیو دیکھتے قیس کا خون کھول اٹھا تھا 

اس نے مٹھیاں بھینچتے  غصہ کنڑول کیا پر اسرار سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آٸی تھی ۔۔۔۔

اب آے گا گیم کا مزہ 

قیس نے سوچتے مسکراہٹ چھپاٸی تھی۔۔۔

                  ༆★༆★༆★༆

رات کے کھانے پر سب موجود تھے جب قیس کو سہی سلامت دیکھتے خولہ بیگم حیران اور پریشان ہوئی ۔

اوہ تو تم زندہ ہو۔۔۔۔

جی الحمدللہ۔۔۔

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے

آغاجان ابھی اور اسی وقت اس ونی کو نکالیں گھر سے جلدی میں اسے ایک لمحہ یہاں برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔

خاموش بہو اگر تم نے ڈنر کرنا ہے تو ٹھیک ورنہ تم یہاں سے جا سکتی ہو۔آغا جان نے جلال میں آتے کہا.

خولہ بیگم خاموشی سے کچھ سوچتے ہوئے اندر کی جانب بڑھی۔۔۔۔ 

قیس بیٹا آپ اس دن کس کس سے ملے ہمیں سب ڈیٹیل چاہیے

آغاجان بس کچھ دن میں ،میں آپ کو سب بتا دوں گا۔قیس نے احترامْ کہا

اوکے بیٹا۔۔۔۔۔۔

                   ༆᯽༆᯽༆᯽༆

قیس جیسے ہی روم میں داخل ہوا نمل الماری کے سامنے کھڑی کپڑے اٹھا اٹھا کر باہر پھینک رہی تھی۔۔۔۔۔

نمل یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔۔

خان جی ادھر میرے انجکشن پڑے تھے۔خان جی پلیز وہ لگا دیں مجھے ۔۔۔۔۔

میری جان نکل رہی ہے مجھے کچھ ہو رہا ہے میرا جسم ٹوٹ رہا ہے 

نمل کی حالت دیکھ کر قیس کو خود پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ اتنا لاپرواہ کیسے ہو گیا‍ ادھر آؤ گڑیا میری بات سنو

قیس نے نمل کو سینے سے لگاتے اس کے گرد اپنے بازوں کا حصار بنایا۔

اچھا میری گڑیا آئس کریم کھاۓ گی

خان جی مجھے وہ ٹیبلٹ دے دیں

آپ کو اللہ کا واسطہ ہے

قیس کی بانہوں میں نمل بکھری ہوئی حالت میں کھڑی تھی۔

اوکے بیٹھو

میں لے کر آتاہوں

قیس نے نمل کو بیڈ پر بٹھاتے سائڈ ٹیبل سے انجکشن بھر کر نمل کو لگایا۔ قیس کو آئڈیا تھا کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے

اس لیے اس نے ڈاکٹر سے مشورہ کر کے پہلے سے ہی  طاقت کے کچھ وٹامن  لے لیے تھے تا کہ وقت پر وہ استعمال کر سکے۔

خان جی آپ بہت اچھے ہیں بہت اچھے

میں بری ہوں آپ کے قابل نہیں ہوں

قیس نے لیٹتے نمل کو اپنے سینے پر لٹایا 

گڑیا آپ کو بےبی کیسے لگتے ہیں 

خان جی بے بی تو اچھے ہوتے ہیں نہ

لیکن بہت تنگ کرتے ہیں ۔نمل نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔

اوہ 

نمل اگر اللہ اپ کو بےبی دے پھر

خان جی ابھی تو میں خود بےبی ہوں نہ

ہمممممم

آپ کو پتا ہمارے گھر چھوٹا بےبی آنے والا ہے

آپ مما بننے والی ہو اور میں بابا

کیا خان جی میں لیکن خان جی میں کیسے سنبھالوں گی چھوٹا سا بےبی 

نمل کی بات سن کر قیس مسکرایا۔اچھا نہ میں سنبھال لوں گا

خان جی ایک بات پوچھوں 

نمل  سو جاؤ  پھر صبح اٹھ کر نماز بھی پڑھنی ہے۔

نمل نے قیس کی بات سنتے آنکھیں بند کر لیں ۔

قیس کے زہن میں ڈاکٹر کی باتیں گھوم رہی تھی

جو لوگ کسی چیز کے ایڈکٹ ہو جاتے ہیں پھر انہیں وہ لازمی چاہیے بے شک وہ ان کے لیے نقصان دہ کیوں نہ ہو

اسی طرح مسڑ قیس نمل انجکشن لگواتے ہی پر سکون ہو جائے گی کہ اس کا نشہ پورا ہو گیا ہے لیکن چونکہ ان کا نشہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے ان کے جسم میں ٹوٹ پھوٹ رہے گی

اس لیے آپ کو ان کی اور اپنے بچے کی صحت کے لیے ہر حال میں ہر پل ان کے ساتھ رہنا ہو گا

قیس کے لیے اگر ابھی کچھ ضروری تھا تو وہ تھا اس کا عشق 

لوگ کہتے ہیں کہ عشق میں بے وفائی کی معافی نہیں ہوتی لیکن اس بے وفائی کا مطلب سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں 

بے وفائی اور معصومیت میں فرق ہوتا 

بے وفائی تب ہوتی اگر نمل قیس کو چھوڑ کر کسی اور کے پاس جاتی 

لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا 

نمل نے صرف اپنی معصومیت کی وجہ سے دھوکا کھایا اس نے اپنی ماں کے پیار کے لیے اپنی ماں کی بات پر یقین کیا ۔قیس بیڈ پر لیٹا مسلسل زہن میں تانے بانے بن رہا تھا۔اگر ایسی حالت میں قیس نمل کو اکیلا چھوڑ دیتا تو 

اس کا عشق اس کا فتور کہاں جاتا 

اگر قیس نمل کو چھوڑ دیتا تو شاید وہ مرجاتی اس لیے "قیس کے بقول عشق تو وہ ہے

محبوب کہے مر جاؤ تو تم پر مرنا فرض ہے "

نمل نے تو اسے بس زہر دیا تھا انجانے میں وہ بھی بہت حسین طریقے سے...... 

نمل کی سزا تو بنتی ہے لیکن اس کے ٹھیک ہونے کے بعد ۔۔۔

یہ سب سوچتے قیس بھی نمل کے ساتھ نیند کی وادیوں میں کھو گیا ۔

                               ....... 

رمل اور انابیہ حویلی آ کر باؤنڈ ہو گئی تھیں۔انابیہ تو نماز قرآں پڑھنے میں مصروف رہتی تھی

کبھی کبھی سولمیٹ کے نمبر سے کچھ میسج آتے  دل کرتا تو رپلائے کر دیتی ورنہ بس خاموشی 

ملحان کی طرف سے مسلسل خاموشی تھی

رمل کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں سے سٹارٹ کرے۔بہو

جی آغاجان

جو اس دن مہمان آۓ تھے وہ انابیہ کو پسند کر گئے ہیں۔تو میں  سوچ رہا تھا کہ رمل کا بھی ہو جاتا تو ٹھیک تھا لیکن......

چلو جو اللہ کو منظور 

لیکن آغاجان کیسے لوگ کون ہیں وہ ہم تو  اتنا  خاص جانتے بھی نہیں انہیں 

ٹینشن والی بات نہیں میرے دوست کا بیٹا ہے لندن کی فیملی ہے باقی ہمیں اچھا لگا سب

آج چھوٹی موٹی رسم کر دیتے ہیں 

لیکن آغاجان انابیہ

مجھے پتا ہے میری بیٹی نہ نہیں کرے گی

انابیہ جو تب سے خاموش کھڑی باتیں سن رہی تھی

خاموشی سے سر جھکاتے وہ اندر کی جانب بڑھ گئی تھی

ٹھیک ہے آغاجان لیکن آپ پلیز 1 ہفتے کا وقت لے لیں تا کہ ہم اچھے سے تیاری کر سکیں

چلو ٹھیک ہے

......

ہیلو لڑکے سن مجھ سے ہوشیاری کرنے کی کوشش بھی مت کرنا

میں بتا رہی ہوں 

ورنہ تیرا بھائی مارا جائے گا

نہیں نہیں پلیز آپ نے جیسا کہا میں نے ویسا ہی کیا ہے

گڈ ہمیں امید ہے اگے بھی ایسا ہی ہو گا 

جی جی ایسا ہی ہو گا

وہ اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس کا چھوٹا بھائی اس عورت کی کار سے ٹکرایا تھا اور اس کی زندگی میں مصبیت شروع ہوئی تھی

اگر آپ کو گاڑی چلانی نہیں آتی تو آپ ڈرائیور رکھ لیں 

ایسے کسی غریب کی جان تو مت لیں 

اوے اب تم سکھاؤ گے کہ خولہ بیگم کو کیا کرنا ہے

لیکن کچھ سوچتے خولہ بیگم مسکرائی تھی

اوئے لڑکے سن 

امیر ہونا چاہتا ہے کیا

جائیں بی بی جی آپ اپنا کام کریں مجھے بھی دہاڑی پر جانا ہے

10 لاکھ دوں گی سوچ لے

10 لاکھ سن کر اس لڑکے کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔

10 لاکھ ھ....... 

اچھا چلو 20 لاکھ

لیکن میڈیم 

50 لاکھ

چلو اب گاڑی میں بیٹھو

مجھے پتا ہے اتنا پیسا تم نے ساری زندگی میں نہیں دیکھا ہو گا

وہ لڑکا اور اس کا  چھوٹا بھائی ڈرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے تھے 

میڈیم کرنا کیا ہو گیا

جیسے جیسے خولہ بیگم بول رہی تھی ویسے ویسے اس لڑکے کا رنگ اڑ رہا تھا

میڈیم مجھے نہیں کرنا کچھ بھی پلیز آپ مجھے نیچے اتاریں.. میری امی ہم دونوں کا انتطار کر رہی ہوں گی

ہاہا ایک بار جو خولہ بیگم کے ہاتھ آ جائے پھر انکار پر جان سے جاۓ

اب تم ہی یہی کام کرو گے

میڈیم پلیز... میں اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا میں کسی کی بیٹی کو دھوکا نہیں دے سکتا

تم دو گے اور تم ہی دو گے 

کیوں کہ تمھارا انکار اور تمھارا بھائی جان سے گیا..... 

اپنے بھائی کا زکر سن کر اس نے اپنے بھائی کو زور سے پکڑا تھا

تبھی ایک جگہ گاڑی رکی تھی

تمہں کل ہی ملنا ہو گا ان لوگوں سے تمھارے امی ابو کا انتظام ہو جائے گا

میڈیم جی میں نہیں کر سکتا

تمھارا بھائی تمہیں اب کام ہونے کے بعد ہی ملے گا کہتے خولہ بیگم نے ایک چیک اس کے منہ کی طرف پھنکا تھا

جا کر شاپنگ کر لو تا کہ لندن والے لگ سکو.... 

..... 

رمل قیس اور بدر تینوں اس وقت بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے

لالہ آپ کا دماغ کتنا شارپ ہے

لیکن آپ نے سچائ تبھی کیوں نہیں کھولی 

بس مجھے سہی وقت کا انتظار تھا

ہمممم تو سب کچھ ریڈی ہے رمل 

جی لالہ آپ ٹینشن مت لیں

بدر تم ریڈی ہوبدر نے آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتے ہاں میں سے ہلایا تھا

تمھارا لالہ تمھارے ساتھ ہے کسی  قدم پر تمہیں لڑکھڑانے نہیں دے گا 

تبھی بدر جو تب سے ضبط کیے بیٹھا تھا زاروقطار رونے لگا۔

لالہ باپ ایسے نہیں ہوتے کیوں انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا

میں ان کی ناجائز اولاد تھا لیکن ان کا خون تو تھا

بدر شش میرا بیٹا میں نے تمہیں ایک باپ بن کر پالا ہے اور میں اپنے بیٹے کو ایسے نہیں دیکھ سکتا

لالہ..... 

بےبی شش.... کیا ہو گیا ہے

آپو بھی روۓ گی

جی آپو اب بےبی نہیں روۓ گا بدر کی بات سن کر رمل نم آنکھوں سے مسکرائی تھی 

لالہ آپ کو لگتا ہے کہ وہ شخص اس منگنی پر آ ۓ گا

رمل شاید تمہیں یاد ہو تو وہ تو تب سے تاک میں ہے کہ خولہ بیگم سے ملاقات ہو

اپنی ماں کا نام سن کر رمل کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے

رمل اب آپ بھی

لالہ مائیں ایسی نہیں ہوتی

شش میری گڑیا آپ تو بہادر ہو نہ

لالہ نمل بکھر جائے گی سب سننے کے بعد 

ڈونٹ وری میں سنبھال لوں گا سب

لالہ آپ کو دکھ نہیں ہوا جو نمل نے کیا

رمل یہ بات مت کرو

قیس کی ازیت سمجھ کر وہ خاموش ہو گئی۔

اوکے تو پھر رمل سب تیار رکھنا

اب اس موضوع پر تبھی بات ہو گی

.... 

قیس بیٹا 

جی آغاجان

بیٹا نمل کی طبیعت کیسی ہے اب

جی آغاجان نارمل ہے اب لیکن... 

قیس بولتے خاموش ہوا تھا  کیونکہ آغاجان کے موبائل پر کال آنے لگی تھی

وعلیکم السلام! 

جی.... ٹھیک ہے اوکے تیاریاں مکمل ہے ہماری طرف سے

ارے نہیں یار زبان دی ہے

اوکے ٹھیک ہے

قیس بیٹا آپ خود کل کے سارے انتظام دیکھ لینا

جی آغاجان 

اچھا بیٹا میں زرہ ریسٹ کر لوں

جی آغاجان 

...... 

مورے میں آ جاؤں 

ہاں میرا لاڈلہ آجاؤ

قیس نے بیڈ پر لیٹتے مورے کی گود میں سر رکھا تھا۔

کیا ہوا بیٹا کچھ نہیں مورے بس تھوڑی دیر سکون چاہیے 

قیس نمل... میری معصوم بچی

اتنا کہنا تھا کہ قیس کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت میں بہنے لگے 

میں مر رہا ہوں مورے پل پل مر رہا ہوں.لیکن میں کچھ کر نہیں پا رہا قیس نے رندھے لہجے میں کہا۔

قیس بیٹا 

مورے مجھے بولنے دے ورنہ یہ خاموشی میری جان لے لے گی

وہ خاموشی سے قیس کو سننے لگی تھی

وہ کیسے مجھے پہچان نہ پائی مورے

ان ہاتھوں میں اسے بڑا کیا ہے

بچپن اکٹھا گزارہ ہے 

پھر بھی

مورے میں پل پل مر رہا ہوں 

میں مانتا وہ معصوم ہے لیکن مورے وہ کیسے میری محبت کی توہین کر سکتی ہے کیسے وہ ہمارے رشتے کو بھول گئی

مجھے شروع سے لگتا تھا کہ وہ جانتی ہو گی بس مجھے تنگ کرتی ہے 

لیکن مورے وہ رات سب تباہ کر گئی

قیس نے روتے ہوئے نم آنکھوں سے بولا تھا

اور تو اور 

مورے اس نے خود کے ساتھ جو کیا میں کبھی معاف نہیں کرو گا کبھی نہیں 

کیا مجھے بتاؤ اس نے کیا... کیا خود کے ساتھ... 

تبھی قیس جھٹکے سے مورے کی گود سے اٹھا تھا

کیا ہوا بیٹا 

مورے میں مجھے ایک ضروری کام ہے میں آتا ہوں 

بیٹا کہیں باہر جا رہے ہو

نہیں نمل کے پاس

اوکے جاؤ

قیس جلدی سے روم کی جانب بڑھا تھا 

نمل قیس نے اندر داخل ہوتے نمل کو پکارا تھا

نمل نے پورا کمرہ بکھیر رکھا تھا 

ایک ایک چیز بکھری پڑی تھی

مجھے چاہیے مجھے چاہہے اس نے کہتے گلدان اٹھا کر دروازے میں مارا تھا

قیس بر وقت پیچھے ہوا تھا

برے ہیں آپ برے ہیں 

گندے ہو آپ

مجھے وہ لا کر دیں۔ نمل سامنے بکھرے شیشوں کی پروا کیے بنا قیس کی جانب بڑھی تھی

لیکن قیس نے آگے بڑھتے جلدی سے نمل کو بازوؤں میں اٹھا لیا تھا

پاگل ہو گئی ہو گڑیا ابھی زخمی ہو جانا تھا آپ نے

خان جی آپ کو میری قسم مجھے وہ انجکشن دے دیں خان جی نمل نے بکھرے لہجے میں کہا تھا آنکھیں ڈرگز کی طلب سے سرخ ہو رہی تھیں

قیس نمل کو لے کر اس کے روم کی جانب بڑھا تھا

خانساماں  میرا روم صاف کروا دیں

راستے میں ان سے کہتا نمل کے روم میں داخل ہوا تھا 

شش گڑیا کیا ہو گیا ہے 

خان جی مجھے کچھ ہوتا ہے یہ ادھر دیکھیں 

نمل نے قیس کا ہاتھ پکڑتے اپنے سینے پر رکھا تھا

نمل کی ہارٹ بیٹ خطرناک حد تک تیز تھی 

تبھی قیس نے جلدی سے نمل کو سینے سے لگا یا تھا

شش کچھ مت سوچو 

اچھا بس ایک بات کا جواب دو

سب بتاؤں گی اگر آپ وہ دیں گے تو اوکے 

اچھا بتاؤ نمل کو بےبی بواۓ چاہیے یا گرل

قیس کی بات سنتے اس حال میں بھی نمل کے رخساروں پر لالی بکھر گی تھی

خان جی مجھے کیا پتا 

اچھا نہ بتاؤ نہ نمل کو کیا پسند ہے زیادہ۔ قیس نمل کا دھیان بھٹانے میں کامیاب ہو چکا تھا 

خان جی آپ کو کیا پسند ہے ؟

مجھے..... 

امممممم

بتا دوں

جی بتائیں 

مجھے تو... وہ بہت پسند ہے 

کون خان جی 

ارے ہے ایک جھلی سی

جلن سے نمل کی آنکھوں میں مرچی سی چبنے لگی تھی

خان جی کون ہے وہ بتائیں جلدی سے 

میں کیوں بتاؤں 

تبھی نمل نے نم آنکھوں سے قیس کی جانب دیکھا تھا

خان کا کالر اپنے ہاتھوں میں جکڑتے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی تھی

نمل جان لے لے گی آپ کی اگر کسی کو پسند کرنا تو دور کسی کا خیال بھی زہن میں لایا تو نمل نے جنونی انداز میں قیس کا کالر پکڑتے کہا۔

قیس صرف اپنی لیلیٰ کا ہے قیس نے جزب سے کہا۔

اور یہ اس زمانے کی لیلیٰ نہیں جو دوریوں میں مر جائے گی ۔یہ اس زمانے کی لیلی ہے جو ہمارے درمیان آنے والی دوریوں کو آگ لگا دے گی شاید آپ ابھی میرے فتور سے واقف نہیں 

لیلی قیس کو اپنے ہاتھوں سے مار دے گی پر کسی اور کا ہونے نہیں دے گی

قیس تو نمل کی باتیں سن کر حیران تھا

نمل نے کہتے اپنے لب قیس کے ماتھے پر رکھے تھے 

پھر اس کے رخسار پر، اس کے ڈمپل پر... 

قیس کا مقصد اس کا دھیان بٹانا تھا جو کہ وہ کر چکا تھا

لیکن نمل کی قربت میں اس کا ساتھ قیس نہیں دے رہا تھا

نمل نے اپنا ماتھا قیس کے ماتھے سے جوڑتے اس کی سانسوں کو اپنی سانسوں میں اتارا تھا

قیس نے سانسیں روک لی تھی جب نمل کے ہونٹ قیس کے ہونٹوں سے ٹکرائے تھے ۔آنکھوں کے سامنے کچھ منظر آتے ہی قیس جلدی سے پیچھے ہوا تھا

ریسٹ.. چلو ریسٹ کرتے ہیں 

پھر صبح گھر میں فنکشن بھی ہے

کیسا فنکشن خان جی

یہ سرپرائز ہے 

اوکے نمل قیس کے سینے پر سر رکھتے لیٹ گئی تھی 

تھوڑی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں گم  تھی

........ 

شاہ حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا

لگ ہی نہیں رہا تھا کہ صرف منگنی کا فنکشن ہے

ہر طرف لائٹنگ اور پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی 

انابیہ نے بہت بار بدر سے رابطہ کرنا چاہا تھا لیکن اس کا نمبر مسلسل بند تھا

لالہ کی طرف سے مسلسل خاموشی پر وہ پریشان تھی لیکن ہونٹوں سے ایک لفظ نہیں بولا تھا

رمل 

جی لالہ... 

یہ آپ کا اور نمل کا ڈریس

نمل کو ریڈی ہونے میں ہیلپ کر دینا

جی لالہ

لالہ وہ ملحان سے رابطہ ہوا

ہمممممم

اوکے

جاؤرمل وقت کم ہے مجھے تیاریاں دیکھنی ہے 

اچھا... 

رمل مل کچھ سوچتے اندر چلی گئی تھی

❣️❣️❣️ 

انابیہ بیٹا یہ آپ کا ڈریس ابھی آپ کو ایک لڑکی تیار کرنے آۓ گی  تو تیار ہو جانا

مورے میں نہیں ۔انابیہ نے کچھ کہنا چاہا۔

انابیہ جب آغاجان نے پوچھا تھا تب تو تم بولی نہیں اب کیوں ؟

مورے میں کسی کے نک.... 

اس سے پہلے کے انابیہ  کچھ بولتی باہر سے آوازیں سنتے وہ روم سے نکل گئیں

انابیہ سفید پرل والی فراک پہنے سٹیج پر بیٹھی تھی

اس سے پہلے کہ رسم پوری ہوتی کوئی اونچی آواز میں بولا 

رک جاؤ یہ منگنی نہیں ہو سکتی

‍‍قیس اپنے دھیان  اندر داخل ہوا لیکن

سامنے نمل کو بال سیٹ کرتا دیکھ کر ساکت رہ گیا۔

بلیک کلر کے پاؤں تک آتے فراک جس پر گولڈن کلر کے بیٹس لگے ہوئے تھے... کندھوں پر نیٹ کا کپڑا لگا ہوا تھا  ریڈیش شیڈ کے بال کمر ہر بکھرے پڑے تھے

آنکھوں کو ہلکا سموکی ٹچ دیا گیا تھا لپس پر ریڈ لپ سٹک کے بھر بھر کر کوڈ لگاۓ گئے تھے

قیس بنا پلک جھپکے نمل کو دیکھ رہا تھا ۔بے خودی کے عالم میں وہ نمل کی جانب بڑھا۔نمل کا رخ جھٹکے سے اپنی طرف کرتے اس کو بانہوں میں بھرا تھا 

لیکن جیسے ہی قیس کی نظر نمل کی ریڈ لپ اسٹک پر گئی۔قیس نے جھٹکے سے نمل کو چھوڑا اور اپنا رخ موڑتے، بالوں میں ہاتھ چلاتے اس نے اپنی کیفیت پر قابو پایا تھا

خان جی کیا ہوا ہم اچھے نہیں لگ رہے 

وہ رمل آپو نے کہا کہ یہ ڈریس آپ نے دیا ہے ۔نمل نے معصومیت سے پوچھا ۔

ہممم اچھی لگ رہی ہو۔

قیس نے جذبات پر قابو پاتے ہوئے بولا تھا۔ نمل کی طبیعت کے پیشِ نظر وہ کچھ بھی کہنے سے رک جاتا تھا

ورنہ آج نمل کے ہونٹوں پر لگی ریڈ لپ اسٹک اس کے جذبات کو بہت برے طریقے سے ابھار گئی تھی ۔

اس کے ہونٹوں پر نظر پڑتے کیا کچھ  اس کے ذہن میں نہیں آتا تھا

لیکن اپنے محبوب کو اس کی بے ہوشی کے عالم میں کچھ کہنا اسے زیب نہیں دے رہا تھا۔قیس اپنی سوچوں میں گم تھا جب نمل کی آواز سے اپنی سوچوں سے باہر آیا۔

خان جی کیا ہوا

قیس کو مسلسل کھویا ہوا دیکھ کر نمل نے پکارا تھا

کچھ نہیں گڑیا

قیس نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا کیچر اٹھا کر نمل کے بالوں کو بائنڈ کیا اور میچنگ سٹولر اٹھا کر نمل کے سر پر حجاب بنانے لگا۔ اچانک نمل نے سی کیا

کیا ہوا

خان جی پن لگ گئی. نمل نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔

اوہ سوری گڑیا اب نہیں کرتا ایسے 

خان جی یہ حجاب کیوں بنا رہے ہیں

میں نہیں چاہتا میرے علاوہ کوئی میری گڑیا کی خوبصورتی کو دیکھے 

خان جی آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں 

نمل کی بات سنتے خان نے دھیرے سے جھک کر اس کی مسکارے سے سجی پلکوں پر اپنے لب رکھے تھے

اچھا گڑیا آج بہت سے سرپرائز ملیں گے آپ کو تو سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے خان آپ کے ساتھ ہے اور ایک بات گڑیا کبھی کبھی خون کے رشتے بہت دکھ دے جاتے ہیں لیکن ہمیں ہر حال میں صبر سے کام... 

خان جی کیا بول رہے ہیں آپ نمل نے قیس کی بات درمیان میں کاٹتے پوچھا۔

کچھ نہیں چلو پتا لگ جائے گا

...... 

رمل بھی نمل کی طرح سیم ڈریسنگ کیے چہرے پر حجاب بنائے کھڑی تھی 

تبھی اس کے موبائل کی بیل بجی 

ہمممم سب ریڈی ہے میں آتی ہوں 

اوکے 

جیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکلی سامنے ملحان کھڑا تھا

لالہ کیا ہوا

رمل نے بھاگ کر اس کا بازو پکڑا تھا

ملحان نے رخ موڑ کر دیکھا تو رمل کو اپنے من پسند روپ میں دیکھ کر  ساکت رہ گیا۔

رمل کی آنکھوں میں جیسے ہی ملحان نے دیکھا رمل سمجھ گئی کہ یہ ملحان ہے 

ملحان، رمل کے ہونٹوں نے سرگوشی کی 

خواب کی کیفیت میں اس نے رمل کے ماتھے پر لب رکھے اور  کتنی دیر وہ اسی پوزیشن میں کھڑا رمل کی خوشبو خود میں بساتا رہا۔

جب پیچھے سے خولہ بیگم کی آواز پر دونوں ہوش میں آ ئے تھے

جہاں دیکھو بے شرمی پھیلاۓ کھڑے رہتے ہو نمل تم ادھر آؤ مما کی بات سنو

نمل کہنے پر رمل نے بے ساختہ سکون کا سانس لیا تھا کہ آج اس کے حجاب نے اسے  بچا لیا تھا ورنہ.... 

آگے کا سوچ کر ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

اس سے پہلے کے رمل کوئی جواب دیتی خولہ بیگم کا فون رنگ ہوا تھا

اوہ آگئے تم اوکے سیدھا حویلی آجاؤ 

ملحان اور رمل نے جلدی سے دوڑ لگاتے روم کا دروازہ بند کیا تھا

بچ گئے 

دونوں ایک ساتھ بولے تھے

پھر ایک دوجے کی طرف دیکھ کر دونوں نے بے ساختہ قہقہہ لگایا تھا

ہنستے ہنستے رمل کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے

آپ کیوں آۓ آ گئی میری یاد 

ملحان کے سینے پر ہاتھ مارتے اس نے نم آنکھوں سے بولا تھا

شش.... ملحان نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھتے خاموش کروایا تھا

پہلے ہی تم سے لیا وعدہ توڑ کر آیا ہوں 

کچھ مت کہو اگر میرا ضبط ٹوٹا تو فنکشن اٹینڈ نہیں کر پاؤ گی 

ملحان 

رمل نے بے ساختہ ملحان کے سینے پر لب رکھے تھے

حان یہ دوری بہت تڑپاتی ہے ایسا ظلم مت کریں 

ادھر دیکھو 

پہلے یہ بتائیں اعتبار نہیں مجھ پر

خود سے بھی زیادہ ہے

پھر بار بار یہ مت کہو کہ ظالم ہوں میں 

اس پر آ کر بات کرتے ہیں 

ابھی فنکشن شروع ہونے والا ہے 

ہممم چلیں 

..... 

انابیہ وائٹ کلر کا پرل والا ڈریس پہنے سٹیج پر بیٹھی تھی 

پتا نہیں ان لوگوں نے آغا جان سے کیا کہا تھا جو وہ  کمبائن فنکشن کرنے پر تیا ر ہو گئے تھے

تبھی سٹیج پر لڑکے والوں کے آنے کا شور مچا ۔

بڑے لوگ بڑے کام .. اتنے میں تو غریب لوگ 2 شادیاں کر لیتے جتنے میں یہ لوگ منگنی کر رہے تھے 

حویلی کا بیک ایریا پھولوں سے سجا ہوا تھا رنگ برنگی لائٹنگ 

وی آئ پی ماحول بنا ہوا تھا 

لڑکے کے سٹیج پر بیٹھتے ہی آغا جان نے رسم شروع کرنے کا بولا۔

اس سے پہلے کہ وہ لڑکا انابیہ کا ہاتھ پکڑتا اچانک سب لائٹس بند ہوئی۔

قیس سامنے مائک پکڑے کھڑا تھا

لیڈیز ایند جنٹل مین یہ رسم شروع کرنے سے پہلے کچھ یادیں آپ لوگوں کے ساتھ شیر کرنا چاہتا ہوں

سامنے والی دیوار پر کچھ پکس اور وڈیوز چلنے لگی تھی

سب سے پہلی پک میں نمل اور انابیہ آگے بھاگ رہی تھیں اور ان کے پیچھے رمل ڈنڈا اٹھا کر کھڑی تھی

پک دیکھتے سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی

پھر ایک ایک کر کے کچھ ویڈیوز چلنے لگی ۔ایک ویڈیو میں رمل اور قیس لڑائی کر رہے تھے

پھر اگلی ویڈیو میں چھوٹا سا قیس نمل کو سینے سے لگائے کھڑا تھا گڑیا ڈرو نہیں میں آپ کے ساتھ ہوں.. 

پھر انابیہ اور رمل قیس سے عیدی مانگ رہی تھیں پھر اگلی ویڈیو میں 

خولہ بیگم کمرے میں کھڑی تھی

 وہ ونی وہ سمجھتا کیا ہے خود کو میں برباد کر دوں گی اس کو۔

ہیلو مجھے ڈرگز انجکشن چاہئیں ہای ڈوز اگلے انسان نے پتا نہیں کیا کہا تھا

جب خولہ بیگم بولی تھی نہیں وہ اس ونی کے لیے نہیں وہ نمل کے لیے

ویڈیو دیکھتے سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

اگلی ویڈیو میں۔۔۔  

میں نے تمہیں اسے ڈرانے کا کہا تھا لیکن تم نے اسے مار دیا تھا 

تمھارے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ اس کا قتل میں کرنے کو کہا تھا

ہاہاہا خولہ جائیداد کے لیے جان لے بھی سکتی ہے اور دے بھی سکتی ہے

خولہ بیگم اندھیرے میں آگے بڑھی تھی جب کسی نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا 

رک جاؤ یہی 

پھر ایک کے بعد ایک سب ویڈیوز چلنے لگیں 

نہیں نہیں پلیز میں کسی کی بیٹی کی زندگی برباد نہیں کر سکتا اوے تمھارے بھائی کو جان سے مار دوں گی 

تمہیں ہی انابیہ سے نکاح کر کے اس کی جائیداد میرے نام کروانی ہوگی 

پھر تمھارا بھائی آزاد ہو گا

سامنے ویڈیو والے لڑکے کو دیکھ کر انابیہ نے ساتھ بیٹھ لڑکے کی طرف دیکھا تھا

میری جان آپ کا ہی ہوں میرے علاوہ آپ کے پہلو میں بھی کوئی بیٹھ نہیں سکتا

بدر کے الفاظ پر انابیہ نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑا ۔

ہاہاہا میں نے ساری جائداد اپنے نام کروا لی

واہ نمل بے وقوف کیا سمجھی میں اس سے پیار کرتی ہوں آئی بڑی مما والی

نفرت ہے  مجھے ان دونوں سے ان دونوں کی وجہ سے میں طلاق نہیں لی پائی 

خولہ بیگم کے الفاظ نمل کو ساکت کر گئے تھے

ایک ایک کر کے ویڈیوز ختم ہو چکی تھیں لائیٹس جلنے کی وجہ سے ہر طرف روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔سب کچھ واضح تھا 

سب اپنی جگہ ساکت تھے۔خولہ بیگم نے آگے بڑھتے قیس کے ہاتھ سے رموٹ چھینا۔ اس سے پہلے کے وہ قیس کے منہ پر تھپڑ مارتی اگلے بندے نے ان کا ہاتھ پکڑا۔

قیس نہیں ہوں میں جو سب خاموشی سے برداشت کر لوں گا

سی بی آئی آفیسر ملحان خان 

یو آر انڈر اریسٹ خولہ بیگم

تم تم.... تمہیں تو میں جان سے مار دوں گی ۔تم نے آج تک میرا کوئی کام نہیں ہونے دیا 

تمھاری وجہ سے میرے سب پلینز فیل ہوۓ تمھاری وجہ سے میری ڈرگز کی ڈیلنگ فیل ہوتی رہی اور میں سمجھتی رہی یہ سب قیس کرتا رہا ہے ۔ملحان چلتا ہوا قیس کے پاس آ کر کھڑا ہوا اور بولا ۔

ہم 2 جسم اور ایک جان ہیں۔ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ ہم الگ ہو سکتے ہیں ۔ہم کبھی الگ تھے ہی نہیں جتنی راتیں اس حویلی میں قیس نے گزاری ہیں اتنی ہی ملحان نے قیس بن کر گزاری ہیں۔ 

رمل ساکت نظروں سے ملحان کا دیکھ رہی تھی 

ہر کوئی ساکت تھا۔دھچکے پر دھچکا لگ رہا تھا۔ یہ سب پلین میرا تھا

شروع سے لے کر اب تک مجھے آپ پر شک تھا۔یہ میرا رچایا کھیل تھا 

جو تم سب لوگ کھیل رہے تھے

تم لوگوں کو لگا تھا کہ تم لوگ حاکم ہو 

حالانکہ ماسڑ مائنڈ میں تھا جو

تم لوگوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح چلا رہا تھا۔ملحان نے سب کو ساکت دیکھتے سب بتایا۔

خولہ بیگم نے ملحان کو دھکا دیتے بھاگنا چاہا۔

ہاہاہا کوئی فائدہ نہیں خولہ بیگم

وہ کیا ہے نہ کہ میں پکے انتظام کرتا ہوں چاروں طرف میرے بندے کھڑے ہیں۔ واقعی  ہر طرف ہاتھوں میں پسٹل پکڑے لڑکے کھڑے تھے

ملحان نے کرسی پکڑتے اس پر بیٹھتے ٹانگ پر ٹانگ رکھی تھی

ہممم خولہ بیگم اب آپ خود بتائیں گی یا میں اپنے طریقے سے بلواوْں؟

ملحان نے گن خولہ بیگم کی طرف کرتے ہوئے کہا۔

ہاں ہاں میں نے کیا سب کچھ 

اس گھر کے چھوٹے بیٹے کو میں نے مروایا ہاہا جائداد چاہیے تھی مجھے اس کے لیے میں نے ہر غلط کام کیا۔ سمگلنگ بھی کی لیکن تم لوگ کچھ نہیں بگاڑ سکتے میرا۔ میرے ہاتھ بہت اونچے ہیں 

خولہ بیگم کا اتنا بولنا تھا،ملحان نے اشارہ کیا یہ لیں آپ کے ہاتھ بھی آپ کے برابر کھڑے ہیں ۔ملحان کے بندوں نے خولہ بیگم کے ساتھی اس کے ساتھ کھڑے کیے تھے 

اب ہسنے کی باری قیس کی تھی

خولہ بیگم کے ساتھیوں میں حاکم خان بھی موجود تھا

تم تم نکارہ انسان تم کوئی کام ڈھنگ سے نہ کر پائے تمھاری وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے اگر تب ہی تم اپنا جرم قبول کر لیتے تو یہ سب نہ ہوتا آج

تم سے عشق لڑانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ خولہ بیگم کے الفاظ سب کو ساکت کر رہے تھے اگر تم مجھ سے بے وفائی نہ کرتے تو آج ہم دونوں خوش حال زندگی گزار رہے ہوتے لیکن تم تو طوائف کی زلفوں کے اسیر ہو گئے اور کہاں ہے تمھاری وہ ناجائز اولاد۔

خولہ بیگم اپنے پاگل پن میں سب سچ بتاتی چلی گئیں ۔ہر راز سے خود یی پردہ اٹھا دیا۔

چپ کر جاؤ میں نے نکاح کیا تھا نکاح

اور وہ رہی میری اولاد

حاکم خان نے سٹیج پر بیٹھے بدر کی جانب اشارہ کیا۔ سب لوگوں نے بدر کی جانب دیکھا۔

ملحان کے اشارے پر اس کے بندے پہلے ہی حال خالی کروا چکے تھے اب صرف ان کے فیملی ممبرز ہی تھے

بدر سٹیج سے اترتے اپنے باپ کی جانب بڑھا اور آنکھوں میں نفرت لیے اپنے باپ کو دیکھتے ہوئے بولا 

او تو پہچان لیا آپ نے کہ میں سردار حاکم کی اولاد ہوں۔ہاہا شکر کہ آپ نے ناجائز نہیں کہہ دیا ورنہ شاید میں مر ہی جاتا

بدر بیٹا۔حاکم خان نے بدر کے قریب جانا چاہا لیکن بدر نے ہاتھ کھڑا کر کے انہیں وہیں روک دیا اور لہجے میں نفرت لیے جب بولا تو حاکم خان کی ہستی ہی مٹی میں ملا گیا 

مت کہو بیٹا آپ باپ کہلانے کے لائک نہیں لے جاؤ انہیں اور ان کے جرموں کی کڑی سے کڑی سزا دلانا ۔

ہاہاہ باپ بیٹے کا ایموشنل ڈرامہ شروع ہو گیا خولہ بیگم کی زبان نے پھر زیر اگلا ۔ایک راز کی بات بتاؤں 

تمھاری بیوی کو مروانے والی بھی میں ہی تھی میں خولہ بیگم

ہاہاہا خولہ نے سب کو برباد کر دیا

تبھی سکتے میں کھڑی نمل آگے بڑھی 

خولہ بیگم نے خود کو برباد کر دیا

پیسے اور جائداد کی خاطر آپ نے کتنوں کی جانیں لی آپ نے کتنے گناہ کیے خولہ بیگم آپ نے کیا کچھ نہیں کیا آپ نے اپنی بیٹی کو ڈرگز کا عادی بنا دیا

آپ نے اپنی بیٹی کے شوہر کو مروانے کی کوشش کی اور تو اور آپ نے کسی کے نکاح میں ہوتے ہوئے کسی اور انسان سے عشق کی پینگیں بڑھائیں مجھے نفرت ہو رہی ہے کہ آپ میری ماں ہیں

لیکن ایک بات میں بتاتی ہوں آپ کو خولہ بیگم۔اب رمل آگے بڑھی تھی

بے شک اس دن نمل نے آپ کی ہر بات مانی تھی لیکن جو فائل آپ کو دی تھی وہ جائداد کی فائل نہیں تھی اور اس پر موجود قیس کے سائن بھی بے کار تھے

پتا ہے کیوں

کیونکہ جائداد تو آغاجان بہت پہلے ہی ہم تینوں بہنوں کے نام کر چکے تھے

آغا جان نے کہا تھا قیس کے نام کروانے کو۔لیکن قیس نے وہ ہم تینوں کے نام کروا دی تھی۔

اور بابا آپ مجھے دکھ ہوا جان کر کہ آپ کو بھی اپنی بیٹیوں سے زیادہ جائداد عزیز ہے یہ لیں فائل اس میں ساری جائداد کے ساتھ ہم تینوں بہنوں کے سائن بھی موجود ہیں 

کر دی سب آپ لوگوں کے نام۔لیکن ایک بار بابا ہمیں اپنے سینے سے لگا کر ایک باپ کی طرح پیار کر دیں۔

رمل کی بات پر سب کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔

تبھی ملحان کی آواز گونجی۔پلیز یہ سب بعد میں کرنا ابھی مجھے لیٹ ہو رہا ہے

چلو

خولہ بیگم آپ کو جیل کی سیر کروائیں 

خولہ بیگم پاگل ہوتے چیخنے چلانے لگی۔نہیں نہیں میں نے کیا کچھ نہیں کیا اس جائیداد کے لیے

قیس کو زہر دیا 

نمل کو ڈرگز دی

اس لڑکے کو پیسے دے 

لیکن ملحان کے ساتھ موجود لیڈی آفیسر نے انہیں ہتھ کڑی لگائی اور

اس سے پہلے کہ وہ باہر کی جانب بڑھتے

ایک آواز فضا میں گونجی۔

میں منور حسین شاہ اپنے  حوش و ہواس میں خولہ بیگم کو طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں۔

خولہ بیگم بہت چیخی چلائی لیکن وہ آفیس انہیں لے گئی۔باقی سب کو بھی ملحان کے بندے لے گئے تھے

اب وہاں سب ساکت  کھڑے تھے

اب آگے کیا ہونا تھا کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔

سب اس وقت چونکے  جب  تھپڑ کی گونج حال میں گونجی

سب نے حیرانگی سے رمل کی جانب دیکھا ۔کیونکہ یہ رمل ہی تھی جس نے ملحان کو تھپڑ مارا تھا۔ ایک جیسی ڈریسنگ کی وجہ سے رمل اور نمل میں فرق نہیں محسوس ہو رہا تھا

لیکن نمل یہ حرکت کبھی نہیں کر سکتی  تھی۔۔۔۔۔

ملحان کو آئیڈیا تھا کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے اس لیے وہ چپ کھڑا تھا اور خاموش نظروں سے رمل کو دیکھ رہا تھا۔ آج تو رمل کو اس کے دیکھنے کا انداز بھی بدلہ بدلہ لگ رہا تھا

قیس بھاگ کر آگے آیا اور کچھ کہنا چاہا 

رمل۔۔۔۔۔۔

لالہ پلیز یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔۔۔۔

پوری زندگی رمل نے بس ایک ملحان کو سریس لیا اس کے علاوہ دنیا کی مجھے رتی بھر پرواہ نہیں رہی

لیکن ملحان آپ... جب خود پر بیتی تو محسوس ہوا تھا نہ کہ ٹوٹنے کا درد کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔

یا وہ سب بھی ڈرامہ تھا۔۔۔۔۔۔

ملحان خاموش سرد نظروں سے رمل کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔

میں نے آج تک کسی کو  نہیں چاہا۔

بس ایک آپ سے محبت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانتے ہو مُجھے تُم سے کتنی محبت ہے ؟ 

اتنی ہی جتنی کسی مصور کو اپنی تصویر سے ,

کسی مصنف کو اپنی تصنیف سے 

کسی فقّیر کو اپنی گٹھری سے 

کسی بد حال کو خوش حالی سے 

کسی قیدی کو رہائی سے

کسی پرندے کو اڑان سے

اور بس

نہیں یہ سچ نہیں ہے  میں تُمہیں اس سے کئی گنا زیادہ محبت کرتی ہوں 

مجھے تُم سے اتنی محبت ہے جتنی ** عورت کو اپنی شادی کے بیس سال بعد پیدا ہونے والی اکلوتی اولاد سے ہوتی ہے. ❤️

غرض یہ کہ میری محبت کا نا کوئی پیمانہ ہے اور نا ہی یہ الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے۔

البتہ تم سمجھو لو ناں  آخر کتنی محبت ہے تم سے

اور تم.....

لیکن میں کچھ کہہ نہیں سکتی تمہیں

پتا ہے کیوں.....

کیونکہ مکافات عمل

یہ نام بس سنا تھا آج تک آج جان بھی لیا.....

کہ

جس تن نوں لگ دی اے او تن ہی جانے....

رمل نے نم آنکھوں اور بھیگے لہجے میں کہتے اپنا رخ آغاجان کی طرف کیا تھا...  

بے ساختہ چلتی وہ آغاجان کے سامنے آئی اور سر جھکاتے ہوئے نم آواز میں بولی 

شرمندہ ہوں آغاجان معاف کر دیجئے گا

سامنے کھڑا شخص بے شک ہرجائی ہے لیکن میرا فتور ہے اس پر

پھر رمل نے آغاجان کو بتایا کہ کیسے اس نے ملحان کو کڈنیپ کر کے اس سے نکاح کیا......

آغاجان معافی چاہتی ہوں جو آپ کا سر جھکا دیا

لیکن دل کے ہاتھوں مجبور ہو چکی تھی

آغاجان خاموشی سے سب سن رہے تھے

رمل ہچکیاں لیتے سب بتا رہی تھی

جب رمل کے بابا نے رمل کو سینے سے لگایا ۔

شش رمل تو میرا بیٹا ہے کیا ہو گیا اگر پسند سے نکاح کر لیا

ویسے بھی رمل شاہ کو کچھ تو یونیک کرنا چاہیئے تھا

منور حسین کے اشارے پر آغاجان نے بھی رمل کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔۔

خولہ بیگم کے جھٹکے سے ابھی سب سنبھلے نہیں تھے کہ جھٹکا پہ جھٹکا مل رہا تھا. ۔۔۔۔۔

آغاجان نے بھی دل بڑا کر کے رمل کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔۔

تبھی آغاجان نے سب کے سامنے قیس اور نمل کے ریسپشن، ملحان اور رمل کے نکاح کا علان کیا تھا۔۔۔۔۔

جب قیس نے سب کے سامنے انابیہ کا ہاتھ بدر کے لیے مانگا تھا۔۔۔۔

آغا جان بدر کو میں نے پالا ہے بہت چھوٹے ہوتے سے میں نے اسے سنبھالا ہے 

میری بہن کو اس سے اچھا لڑکا نہیں مل سکتا ۔۔۔۔۔

میں چاہتا ہوں کہ  انابیہ اور بدر کا نکاح بھی ہم لوگوں کے ساتھ ہی ہو۔۔۔۔۔

آغا جان نے کچھ سوچتے ہامی بھر لی 

                 💕💕💕💕

سب خوش تھے ۔۔۔۔

قیس نے نمل کے پریگننٹ ہونے کی خبر سب کو سنا دی تھی

سب نے نمل کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔۔۔۔۔

سب نمل کا بہت خیال رکھ رہے تھے کبھی جوس کبھی فروٹ نمل کھا کھا کر تنگ آ چکی تھی۔۔۔۔۔

خان جی بس کریں ورنہ اب میں نے ناراض ہو جانا ہے۔۔۔۔۔

میں کھا کھا کہ ڈھول بن جاؤں گی۔ نمل نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔

ارے میری جند جان 

اگر آپ صحت مند رہو گی تو ہی بےبی... 

اس سے پہلے کے خان کچھ بولتا نمل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور سرخ اناری چہرے کے ساتھ دھیمی آواز میں بولی۔

خان جی آپ کتنے وہ ہو گئے ہیں ۔۔۔۔

ہاہاہا

اچھا جی 

چلو جلدی کرو پھر ہم آپ کو شاپنگ پر لے کر جائیں گے۔ آغاجان کا کہنا ہے کہ عید کے دوسرے دن فنکشن کر دیا جائے 

اتنی جلدی۔ نمل نے حیرت کی زیادتی سے آنکھیں بڑی کتے ہوئے کہا۔

نہیں تو اب بے بی کے آنے کے بعد ۔۔۔۔۔ قیس نے نمل کو تنگ کرتے ہوئے شرارت سے کہا۔

خان جی بس کریں ۔

اوکے میں بس کرتا ہوں ۔۔۔۔

لیکن

گڑیا آپ شاپنگ پر چلو گی

خان جی 

نمل نے خان کے گلے میں بازو ڈالتے بہت پیار سے پکارا تھا

ہاں جی اب کونسی فرمائش

خان جی میری خواہش رہی نہ کہ میرا لہنگا میرا دلہا پسند کرے

اوہ

اچھا اور یہ کب ہوا

آپ لائیں گے یا نہیں؟

ارے میں لاؤں گا نہ لیکن آپ بھی ساتھ جاؤ گی۔۔۔۔۔۔

قیس کو پتا تھا نمل کیوں ضد کر رہی ہے۔ جس ڈرگز کی وہ عادی ہو چکی تھی

اتنی جلدی وہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔تنہاٸی میں تو اور زیادہ کمی محسوس ہوتی تھی

خان نے جھکتے نمل کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے اسے سرہانے پر گرایا تھا۔۔۔۔۔

نمل تو  اس اچانک حملے پر حیران رہ گئی۔

جیسے ہی قیس اس کی گردن پر جھکا نمل فوراً بولی۔

خان جی چلیں چلیں دیر ہو رہی ہے 

شاپنگ کرنی ہے نا۔

نمل کی بات سنتے خان مسکرایا تھا

ارے نہیں میں خود لاؤں گا نہیں ۔۔۔۔

خان جی مجھے کچھ ہو رہا ہے پیچھے ہو جائیں۔۔۔

خان نے نظریں پل میں بدلی اور بولا اوکے

چلو چلیں                                                 💕🔥💕

شادی کی تیاریاں زورو شور سے چل رہی تھیں 

قیس نے کافی بار ملحان سے کہا تھا کہ وہ گھر میں مورے کو بتا دے سب

لیکن پتا نہیں وہ کیا سوچ کر چپ تھا۔۔۔۔۔

رمل اور ملحان کی مسلسل خاموشی قیس کو بہت کھٹک رہی تھی ۔۔۔

                  💕✨💕✨💕

آج مہندی کی رسم تھی۔۔۔۔

ہر طرف شورو گل ہلا گُلہ تھا۔۔۔۔

رمل نے طبعیت خرابی کا بہانہ بنا کر صبح سے خود کو کمرے میں بند کیا ہوا تھا۔۔۔۔

نمل اسے کافی بار بلا چکی تھی لیکن مسلسل خاموشی 

2 دن سے نمل پردے میں تھی 

قیس کو تو اس رسم کا پتا تھا۔۔۔۔۔

لیکن نمل سب کا سر پھاڑنے کر جا رہی تھی کہ مجھے خان جی کے پاس ہی جانا ہے۔۔۔۔

آج بھی جب مہندی لگانے والی آئی تو نمل نے اسے بھگا دیا۔

جاؤ یہاں سے مجھے نہیں لگوانی مہندی

اپنا دوپٹا اتارتے اس نے زمین پر پھینکا 

اور چلائی 

خان جی کو بلائیں ورنہ میں کوئی رسم نہیں کروں گی ۔۔۔۔

آخر کار تنگ آ کر قیس کو پیغام بھیجا گیا۔

قیس جیسے ہی ہال میں داخل ہوا سب نے دبی دبی ہنسی سے قیس کو دیکھا۔

وہ حیرانگی سے اندر کی جانب بڑھ گیا۔

ڈھولکی کی آواز پوری حویلی میں پھیلی ہوئی تھی

قیس جیسے ہی روم میں داخل ہوا

اڑتا ہوا گلاس آ کر قیس کے پاؤں میں گرا تھا۔

میں نے کہا نہ خان جی کو بلائیں مجھے نہیں لگوانی مہندی... 

قیس کو کچھ پل لگے تھے سب صورت حال سمجھنے میں 

گڑیا..... 

قیس کے بلانے پر نمل جھٹکے سے مڑی تھی ۔۔۔۔

خان جی ۔۔۔۔۔

وہ بھاگتے ہوئے قیس کے سینے سے لگی تھی۔۔۔۔

خان تو اچانک افتاد پر بوکھلا گیا تھا۔۔۔

خان کے سینے سے لگتے وہ ہچکیوں سے رو دی تھی۔۔۔۔

خان جی سب گندے ہیں آپ سے دور کر دیا مجھے ۔میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ پوری رات مجھے نیند نہیں آئی 

مجھے اتنی بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔۔

خان جی

وہ بے ربط سا بولتی خان کا دل دھڑکا رہی تھی

بھلا کوئی اتنا معصوم بھی ہو سکتا ہے 

خان کی جان آپ نے مجھے کال کر لینی تھی نہ خان فوری آ جاتے۔قیس نے اس کے آنسو اپنے ہونٹوں سے پیتے ہوئے کہا ۔

خان جی مورے میرا موبائل لے گئیں

خان جی🥺

جان کی جان رونا نہیں 

بس آج کا دن کل سے آپ میرے پاس ہوں گی

نو نیور... 

نمل نے کہتے ساتھ غصے  میں قیس کی گردن پر زور سے کاٹا تھا

اتنی زور سے کہ جدھر نمل کے دانت لگے تھے ادھر قیس کی گردن پر خون جمع ہو گیا تھا۔

مجھے نہیں جانا دور

دور ہوتے اس نے بولا تھا

قیس نے حیران نظروں سے نمل کو دیکھا تھا پھر اس کی سیچویشن سمجھتے اپنا سر جھٹکا تھا

اس سیچویشن میں تو اس سے قتل کی امید تھی یہ تو صرف اس نے کاٹا تھا۔

ارے میری چندہ۔۔۔۔

بات تو سنو

ابھی میں آپ کو کھانا کھلاؤں گا

پھر آپ نے مہندی لگوانی ہے

اس کے بعد ہم باہر رسم کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے

لیکن خان جی رات مجھے نیند نہیں آتی 

قیس کچھ کہتے کہتے رک گیا۔

اوکے میں آ جاؤں گا

پھر خان نے نمل کو کھانا کھلا کر مہندی لگوانے کے لیے بٹھایا تھا

نمل روٹھے منہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔

2 گھنٹے آپ کو بیٹھنا  پڑے نہ مہندی لگوانے کے لیے پھر پوچھوں آپ سے 

بیٹوشن کا خیال کرتے قیس چپ ہو گیا تھا ۔۔۔

گڑیا پلیز آپ ریڈی بھی ہو جانا

آٸی  پرامس میں ٹائم سے آ جاؤں گا۔۔۔۔۔

اوکے کر دوں گی احسان آپ پر

خان مسکراہٹ چھپاتا باہر کو بڑھا تھا ۔۔۔۔

اچانک نمل نے مہندی والی سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر خان کے پاس جاتے اپنے پاؤں اٹھاتے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے

شکریہ میرا اتنا خیال رکھنے کے لیے

خان تو سٹپٹا کے رہ گیا تھا۔۔۔۔

ادھر ادھر دیکھتے وہ جلدی سے باہر نکل گیا.

میرا شرمیلا پیا نمل نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے سوچا ۔

پھر نمل نے شرافت سے مہندی لگواٸی  اور میک اپ بھی کروایا تھا۔آخر اس کے خان جی کا حکم تھا۔

               💕✨✨💕

انابیہ ۔۔۔۔۔۔

جی مورے آپ تیار نہیں ہوٸی  

جی مورے ہو رہی ہوں

اوکے آپ پہلے تیار ہو. جاؤ پھر مہندی لگوانا 

جی مورے ۔۔۔۔۔

انابیہ گھم سم سی  بیڈ پر بیٹھی  تھی 

جب اچانک کمرے کی لائٹس بند ہو گئی 

اس سے پہلے کے انابیہ چیختی کسی نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔۔۔

شش 

آپ جی میں 

اب بتائیں اداس کیوں ہیں آپ 

اور مہندی کیوں نہیں لگوا رہی آپ

لیکن انابیہ کچھ بھی کہے بغیر اس کے سینے سے لگی تھی۔۔۔

I am sorry

Sorry for each & every thing 

For my every word which heart you😑

Sorry from bottom of my heart۔۔۔۔

انابیہ نے روتے ہوئے کہا تھا

کیا ہو گیا ہے بیہ آپ کو کیون اتنی پریشان ہیں آپ؟ ابھی تو غم کے دن ختم ہوۓ ہیں اور اب ھی آپ ایسے کر رہی ہیں 

بدر 

جی میری جان بولیں۔

میں نے اس دن آپ کو ہرٹ کیا تھا

جب آپ سے آپ کے والدین کو لانے کا کہا تھا

شش... چپ بلکل نہیں رونا میں بلکل ہرٹ نہیں ہوا تھا بلکہ مجھے اچھا لگا کہ میری جان سب کی دعا سے میری زندگی میں داخل ہونا چاہتی ہے

آپ نے کیسے برداشت کر لیا یہ سب

چپ بلکل چپ اتنی خوشی کا دن ہے ہمارے لیے اور آپ اداس باتیں کر رہی ہیں ۔مہندی لگوائیں جلدی سے اور خبردار اگر اب اداس ہوئی تو۔۔۔

مہندی مجھے آپ سے لگوانی ہے انابیہ نے نروٹھے پن سے کہا۔ 

واٹ مجھ سے 

جی۔

 لیکن میں کیسے

جیسے مرضی ۔میں جانتی ہوں آپ بہت اچھی ڈرائنگ کرتے ہیں۔تو بس میرے ہاتھوں پر خود کا عکس بنا دیں 

بیہ یار۔۔۔۔۔۔۔

جائے نہیں لگوانی مہندی ۔۔۔۔۔۔

اوکے میں لگا رہا ہوں لیکن اگر خراب ہو گئی نہ تو مجھے مت کہنا

انابیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بدر کے رخسار کھینچے تھے

ایسا نہیں ہو سکتا جناب کہ آپ خراب لگائیں انابیہ نے چہکتے ہوۓ مہندی اس کے ہاتھوں میں دی تھی

جیسے ہی بدر نے انابیہ کے ہاتھ پکڑے 

اسکے ہاتھوں کا سرد لمس بدر کی روح تک کو سیراب کر گیا۔انابیہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ بدر نے محسوس کی تھی۔۔۔۔۔

اتنے انتطار کے بعد بالآخر اس نے اپنا فتور حاصل کرلیا تھا اس نے گہری نظروں سے انابیہ کو دیکھا تھا۔۔۔۔

انابیہ نے نظریں جھکا دی اور جھنجلاتے ہوئے کہا ۔

اب آپ تنگ کریں گے مجھے

ہاہاہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ 

                      💕❤💕

لگاتار ایک گھنٹے کی محنت سے بدر نے انابیہ کے ہاتھوں کو پھولوں کی طرح سجا دیا تھا۔۔۔

انابیہ کی ہتھیلیوں میں ایک کپل بنا کر سائیڈوں پر ڈیزائن بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔

واؤ بہت پیاری

انابیہ نے چہکتے اپنے لب اس کی داڑھی پر رکھے پھر خود ہی شرمندہ ہوتے ہوئے اپنے ہاتھ منہ پر رکھنے لگی جنہیں تیزی سے بدر نے کلائی سے پکڑتے روکا۔

او شرمیلی عورت ابھی مہندی خراب ہو جانی تھی بدر نے کہتے اسے آنکھ ماری 

یہ مجھے بہت پیارے لگ رہے ہیں اگر نظر لگ گئی تو 

اگر آپ دوسری سائد پر بھی اپنے لبوں کا لمس چکھائیں گی تو پھر میں اس کی نظر اتارنے کے بارے میں سوچ سکتا ہوں

انابیہ نے بدر کو گھورا تھا

جلدی بولے یہ گھوری کام نہیں کرنے والی

پھر انابیہ نے آہستہ سے اپنے لب دوسرے رخسار پر بھی رکھے ۔

بدر نے انابیہ کا بازو پکڑتے بازو سے شرٹ اور اوپر کرتے اس کے بازو کے سٹارٹ. پر ماشاءاللہ لکھ دیا۔

اب نہیں نظر لگے گی

شکریہ اتنی پیاری مہندی کے لیے

اب آپ مجھے اداس نظر نہ آئیں اور پلیز مہندی پر گھونگھٹ ڈال کر آنا میں نہیں چاہتا میرے علاوہ کوئی اور آپ کو دیکھے 

جو حکم سرتاج

اوکے اب جائیں کوئی آگیا نہ تو۔۔۔۔ 

ہاں جی مہندی لگوانی تھی تب تو کسی کا ڈر نہیں تھا۔بدر نے مصنوعی غصے سے کہا ۔

پیار کیا تو ڈرنا کیا انابیہ نے کہتے واشروم کی جانب دوڑ لگا دی۔                                         

                  💞💞💞

رمل کمرہ بند کیۓ بیٹھی ماضی کی یادوں میں گھم تھی۔۔۔

سب کچھ ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا۔۔۔۔۔

جب دروازہ ایک بار پھر سے ناک ہوا تھا

کون ہے۔۔۔

رمل آپو ہم ہیں۔۔۔۔ 

باہر سے انابیہ اور نمل کی آواز آئی تھی

تم دونوں کیا کرنے آئی ہو

رسم کرو جا کر

وہ دونوں مہندی کے لباس میں کھڑی نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھیں 

اورنج اور گرین کنڑاسٹ  شرارے پہنے دونوں بہنیں بہت پیاری لگ رہی تھیں 

آپو چلیں ہم آپ کو ساتھ لے جا کر ہی رسم شروع کریں گے 

لیکن.. 

اس سے پہلے کے رمل َکچھ بولتی نمل جزباتی انداز میں اس کے گلے سے لگی تھی

آپو آپ ہماری خوشی کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتی

رمل کو اپنا آپ خود غرض لگا تھا وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی ۔

اوکے میں ہو رہی ہوں تیار

نمل کے کہنے پر بیوٹیشن نے جلدی سے رمل کو تیار کیا تھا۔

مہندی بھی لگا دیں اپ دونوں مل کر جلدی جلدی 

پلیز ہیوئ نہ ہو مجھے سمپل پسند ہے

اوکے میم

رمل کے مہندی لگتے ہی مورے اندر داخل ہوئی اور تینوں کو ایک ساتھ دیکھ کر ان کے منہ سے بے اختیار ماشاءاللہ نکلا۔

اللہ پاک نظر بد سے بچائے آمین 

چلو بیٹا سب انتظار کر رہے رسم شروع کرنی ہے

تینوں ایک ساتھ باہر نکلی تھیں 

مورے نے تینوں کے چہرے پر ہلکا سا گھونگھٹ کر دیا کہ صرف لب ہی نظر آ رہے تھے

جیسے وہ تینوں ہال میں داخل ہوٸیں

تینوں دلہے جو پہلے سے سٹیج پر بیٹھے تھے کھڑے ہو گئے .

گولڈن کلر کے کرتے کے ساتھ سفید شلوار پہنے وہ تینوں ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہے تھے ۔۔۔۔

قیس اور ملحان میں تو فرق کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن لگ رہا تھا۔۔۔

انابیہ کو تو فوری بدر نے ہاتھ پکڑ کر سٹیج پر کھینچ لیا۔لیکن اب رمل اور نمل گھونگھٹ نکالے کنفیوژن میں تھی کہ اس کے والا کونسا ہے ؟

ادھر ملحان اور قیس کا بھی یہی حال تھا

سیم ڈریسنگ نے بیڑا غرق کر دیا تھا

اس سیچویشن میں سب کا مشترکہ قہقہہ نکلا تھا

ہاہاہا

اب یہ تو آپ لوگوں کو پتا ہو کہ کون کون ہے

مورے کی آواز پر نمل اور رمل نے اپنے گھونگھٹ سرکا دیے۔

اب قیس اور ملحان کا برا حال تھا۔۔۔۔۔

ان دونوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ رمل کونسی ہے اور نمل کونسی

رمل کے بالوں سے شاید پہچان لیتے اگر وہ ایکسٹنشن یوز نہ کرتی

اب بوائے کٹ میں وہ عجوبہ ہی لگنی تھی

آپو سٹیج پر تو چلیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے 

نمل نے رمل کے کان میں کہا اور اس کا ہاتھ پکڑے سٹیج پر چڑھی۔

پھر ان دونوں میں سے ایک اگے بڑھی اور تیزی سے رمل  کا ہاتھ جو نمل کے ہاتھ میں تھا وہ ملحان کو پکڑایا اور خود جا کر قیس کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے بولی۔

خان جی یہ کیسے ہو سکتا کہ نمل اور آپ کو نہ پہچانے یہ تو پھر نمل کی محبت کی توہین ہو گی

نمل نے کہتے قیس کی گردن کو آہستہ سے سلہایا تھا

خان جی کہنے پر قیس نے بے ساختہ شکر کا سانس بھرا تھا کہ نمل ہی ہے

کیمرہ مین نے یہ لمحہ جلدی سے کیپچر کیا تھا سب ہوٹنگ کرنے لگے۔

اور بدر نے تو بے ساختہ سیٹی بجائی ۔

اس کی شوخی عروج پر  تھی

ویسے بھابی کیسے پہچانا بدر نے نمل سے پوچھا ۔

یہ تو میں خان جی کو ہی بتاؤں گی۔نمل نے ایک ادا سے جواب دیا ۔

قیس سمجھ چکا تھا کہ نمل نے اسے گردن کے نشان سے پہچانا ہے۔

بہت تیز ہو گئ  ہیں آپ۔ قیس نے ساتھ بیٹھی نمل کے کان میں سرگوشی کی ۔

ہاہا خان جی آپ سے ہی سیکھا ہے

نمل کے قہقہے پر رمل نے اس کے قہقے کے دائمی ہونے کی دعا کی تھی

سب نے نمل کو قیس کے ساتھ خوش دیکھتے انہیں دعا دی تھی

بدر کی شرارتیں بھی عروج پر تھی

بس ایک رمل اور ملحان ساکت بیٹھے تھے 

ملحان نے جیسے ہی رمل کا ہاتھ پکڑا 

رمل نے فوری چھڑوا لیا۔

ملحان نے بھی دوبارہ پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔ دونوں کے درمیان خاموشی کو سب نے محسوس کیا لیکن کسی نے کچھ کہا نہیں تھا

سب سے عجیب تو مورے امامہ بیگم کو لگ رہا تھا کہ ملحان نے  اپنے فیملی ممبرز کو نہیں بلایا

لیکن سب خاموش تھے

شاید اسی میں سب کی بہتری تھی

ڈی جے نے بھی سونگ تباہی کے لگاۓ ہوۓ تھے 

مہندی ہے رچنے والی.... 

مہندی لگا کر رکھنا... 

لکھ کر مہندی سے سجنا کا نام..... 

تمام سونگ کا mashap  چل رہا تھا۔۔۔۔

رمل کی عجیب  فیلنگز تھی

وہ مسلسل سوچ رہی تھی

کیا اس کا اور ملحان کا رشتہ چل سکے گا

کیونکہ پہلے وہ ملحان کو سِکھا رہی تھی پھر ملحان اسے

کیا اس رشتے میں محبت  ہے یا صرف ڈائیلاگ... 

وہ سرد نگاہوں سے سب کو دیکھ رہی تھی

رسم کرتے وقت کسی نے بھی اس کے ساتھ شرارت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔۔

اسے حیرانگی ملحان پر  تھی کہ وہ اتنا خاموش کیوں ہے پھر  ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

جیسے ہی سب بڑوں نے رسم کی سب کو کھانے کا کہا گیا۔

رسم ختم ہوتے ہی دولہنوں کو حویلی کے ہال میں بیٹھا دیا۔

رمل نے فوٹو شوٹ سے منع کر دیا۔۔۔۔

قیس بھی نمل کی طبیعت کا سوچتے اٹھ کھڑا ہوا تھا

جبکہ 

بدر نے دل کھول کر فوٹو شوٹ کروایا تھا۔۔۔۔

ایک ہی تو شادی ہوتی ہے بندے کی اب وہ بھی سڑے منہ کے ساتھ کراؤ کیوں ۔

اس کا طنز ملحان اور رمل خوب سمجھے تھے لیکن خاموش تھے۔۔۔۔۔۔۔

بہت رات ہو گئ ہے چلو اب سب آرام کرو۔

آغاجان سب کو کہتے خود بھی آرام کرنے اپنے کمرے کی طرف چل پڑے ۔

بابا بیٹھے نہ ہمارے پاس۔

جیسے ہی رمل کے بابا اندر جانے لگے رمل نے انہیں روک لیا۔

وہ صوفے پر رمل کے پاس بیٹھ گئے 

رمل نے کارپٹ پر بیٹھتے ان کی گود میں سر رکھ دیا۔جبکہ نمل صوفے پر ان کے ساتھ بیٹھی تھی

قیس اور ملحان چینج کیے آرام دہ ڈریسز میں باہر آۓ تھے

بابا.. کیا ہوا بیٹا رمل

آپ اداس کیوں ہیں؟

کچھ نہیں بابا۔۔۔۔

بس مما

رمل نے کہتے اپنے آنسو روکے تھے

شش وہ عورت ماں کہلانے کے لائک ہی نہیں ۔مجھے معاف کر دو میری بچیوں 

جو میں تم لوگوں کو خوشیاں نہیں دہ پایا۔ 

نہیں بابا ہم خوش ہیں بس ہماری ماں ہی ایسی کیوں 

 بیٹا انہوں نے کھڑے ہوتے رمل کو سینے سے لگایا تھا

میری تو شہزادی بیٹی ہے نا

شیر پتر ہے نا میرا پھر کیوں رو رہی ہے

ادھر آؤ ملحان

انہوں نے ملحان کو آواز دی تھی 

جی انکل

پہلی بات تو یہ کہ  آپ بھی رمل کی طرح مجھے بابا کہو

ملحان نے کچھ ہچکچاہٹ میں بابا کہا تھا

مجھے یقیں ہے بیٹا آپ رمل کو ہمیشہ خوش رکھو گے کوئ دکھ میری بیٹی کے پاس نہیں آنے دو گے

جی بابا۔۔۔۔۔

انہوں نے کہتے رمل کا ہاتھ ملحان کے ہاتھ میں دیا تھا

اور قیس کا ہاتھ نمل کے ہاتھ میں 

ساڈا چڑیا دا چنبا اے بابل اساں اڑھ جانا

تبھی پیچھے سے بدر کی آواز گونجی تھی سب کا مشترکہ قہقہہ گونجا ۔

چلو آپ لوگ انجوائے کرو

یہ دن بار بار تھوڑی آتے ہیں 

میں آرام کر لوں ۔۔۔۔

ان کے جاتے ہی انابیہ بھی چہکتے ہوۓ آئی تھی

چلو نہ کچھ ڈھولکی ہو جائے 

نو نیور مجھے ریسٹ کرنی ہے

نمل نے سب سے پہلے ہری جھنڈی دکھائی تھی۔۔

کہتے ساتھ ہی اس نے قیس کے روم کی جانب دوڑ لگا دی تھی

رمل آپو آپ کا روم اس طرف ہے

یہ بھی میرا روم ہی ہے اچھا

نمل کی حرکت پر قیس فری میں شرمندہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔

ارے بھائی آپ شرمندہ نہ ہو بھابھی آپ کی جدائی برداشت نہیں کر سکتی 

جس طرح صبح انہوں نے گھر سر پر اٹھایا تھا ۔کاش ہماری بیوی بھی ہماری دوری پر ایسا ہی کرے

ہاہاہا خوش فہمی  انابیہ نے منہ بنا کر بولا تھا

💕✨✨💕

‍‍

کبھی کبھی ہم کس حد تک ضبط کا 

مظاہرہ پیش کر رہے ہوتے ہیں دل تکلیف سے چور ہوتا ہے لیکن آنکھ سے ایک اشک بھی نہیں گرنے دے سکتے چہرے پر بناوٹی ہنسی سجائے رکھتے ہیں۔"🙂🖤

رمل اس کیفیت میں زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ پائی تھی اور کمرے کی طرف بڑھ گئ

باری باری سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ۔

                     ❣️❣️❣️

قیس اپنے کمرے کے قریب پہنچا تو 

اندر سے میوزک کی آواز آ رہی تھی

وہ حیرانی سے اندر داخل ہوا اور نمل کو پکارا۔

گڑیا

کیا ہے یہ سب

خان جی ڈانس کرنا ہے آپ کے ساتھ

لیکن...

اس سے پہلے کہ خان انکار کرتا نمل فوراً بولی

خان جی مجھے پتا ہے کہ آپ کو اچھا نہیں لگتا یہ سب لیکن میں کسی کے سامنے تو نہیں کر رہی آپ کے ساتھ کروں گی  بس تھوڑا سا

خان نے کچھ سوچتے ہاں میں سر ہلایا 

تو جو کہہ دے اگر تو میں جینا چھوڑ دوں

بن سوچے ایک پل سانس لینا چھوڑ دوں

نہ رہوں نہ جیوں کوئی لمحہ تیرے بن

گانے کے بول فضا میں گونجنے لگے جس سے ماحول میں ایک فسوں سا بن گیا کمرے میں معنی خیز خاموشی تھی۔

خان نے دھیرے سے نمل کو کھینچتے اپنی باہوں میں  گھمایا تھا

اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے بے حد قریب کیا تھا 

نمل تو ڈانس بھول کر اب خان کو دیکھ رہی تھی جیسے ہی نمل کی سانسیں قیس کی سانسوں سے الجھی۔نمل گھبراتے ہوئے بولی 

مجھے.. مجھے نیند آ رہی ہے ۔

قیس کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔اسے پتا تھا کہ جیسا ڈانس وہ کرے گا وہ نمل کے بس کا روگ نہیں ۔قیس نے بھی جلدی سے حامی بھرتے نمل کو اٹھا کر بیڈ پر ر لٹایا اور خود اس کے سرہانے بیٹھ گیا تھا۔

کچھ دیر نمل کے بالوں میں ہاتھ چلاتا رہا۔ تھوڑی دیر میں نمل سو گئ ۔

میوزک دھیرے دھیرے چل رہا تھا وہ بند کرتے ڈور لاک کرتے خود بدر کے روم کی جانب بڑھ گیا۔

کچھ وقت کا تقاضہ تو پورا کرنا تھا نہ اب نمل کی  طرح وہ بھی بچہ تو نہیں بن سکتا تھا

                  ...🔥🔥🔥...

صبح کا سورج عروج پر تھا

ہر طرف گہماگہمی تھی

سب کو ایک دوسرے سے زیادہ پیارا لگنا تھا

دولہنوں کو بیوٹیشنز تیار کر رہی تھیں 

انابیہ اور نمل تو چہک رہی تھیں 

رمل بس جاموشی سے مسکرا رہی تھی

آنے والے وقت کا سوچ کر انابیہ کی دھڑکنیں بڑھ رہی تھی

آغا جان  کے کہنے پر تینوں کے نکاح دوبارہ ہوئے تھے 

نمل ڈیپ ریڈ کلر کا لہنگا جس پر گولڈن کلر کا کام ہوا تھا پہنے کوئی اپسرا ہی لگ رہی  تھی اس کی آدھی سموکی آئیز دیکھنے والے کا دل دھڑکا رہی تھی

انابیہ بھی ریڈ کلر کا لہنگا پہنے دیکھنے والے کو مسمرائز کر رہی تھی

سفید رنگ کا لہنگا پہنے رمل سب سے یونیک لگ رہی تھی

قیس نے  کالے رنگ کی شیروانی بدر نے گولڈن رنگ کی، جب کے ملحان نے سفید رنگ کی شیروانی پہنی تھی ۔

سب کنفیوز تھے کہ کونسا دلہا زیادہ پیرا لگ رہا 

دلہنوں کے سٹیج پر آتے ہی شور مچا تھا

مختلف قسم کی رسموں کے بعد رخصتی کا وقت ہوا۔

سب سے پہلے نمل کو رخصت کیا گیا ۔

بے شک وہ اسی گھر میں رہنے والی تھی لیکن رخصت ہوتے وقت باپ کے گلے لگ کر خوب روئی۔

پھر رمل کی باری آئی جس کی آنکھ سے ایک آنسو نہیں گرا تھا

اور آخر پر بدر کی باری

بابا آپ پریشان نا ہوں آپ کی بیٹی نے عنقریب مجھے پاگل کر دینا ہے بدر کے کہنے پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔

ملحان اور رمل نے آج رات یہیں رکنا تھا

پھر اگلے دن شہر روانہ ہو جانا تھا

ملحان سرد تاثرات کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ لیکن اسے حیرت ہوئی کہ پورا کمرہ خالی تھا۔رمل کا نام ونشان بھی موجود نہیں تھا۔وہ جلدی سے بیڈ. کی جانب بڑھا جہاں پر ایک پیج پڑا تھا

آفیسر ملحان... 

....

نمل جیسے قیس کے ساتھ روم میں داخل ہوئی تھی اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔

نمل کیا ہوا

خان جی میرا دل...

اس سے پہلے کے وہ فقرہ پورا کرتی

وہ بھاگ کر واش روم کی جانب گئ

اسے وومٹ شروع ہو گئی تھی

جو رکنے کا نام نہیں لے  رہی  تھی

قیس پریشان سا نمل کی طرف آیا تھا

جو بے حال ہو چکی تھی

وہ بے دم سی قیس کی بانہوں میں تھی خان جی

وہ اچانک سے رونے لگی تھی

نمل میری جان

کیا ہو گیا ہے

خان جی بےبی بہت تنگ کرتا ہے

نمل  کی بات پر خان کے چہرے کو مسکراہٹ چھو گئ۔

خان نے نرمی سے اسے بیڈ پر بٹھاتے پانی پلایا تھا

نمل آپ نے ٹیبلٹ نہیں کھائی نا

خان جی میرا منہ کڑوا ہو گیا ہے دوائ کھا کھا کر یوں لگتا ہوسپٹل بن گیا ہو پیٹ میں 

ہاہاہا خان کی ننھی سی پری

کتنی معصوم ہو آپ

چلو پہلے چینج کر لو پھر 

کیوں کیوں.. میں کیوں چینج کروں

آج تو ویڈنگ نائٹ ہے نہ

میری تعریف کریں مجھے پیار کریں

نمل کی بات پر قیس کے چہرے پر سایا سا لہرایا۔

خان کی جان اتنا پیار تو کرتا ہوں آپ کو

ابھی آپ جینچ کریں میری جانو کو آرام کی ضرورت ہے

نو نو.. نیور 

قیس پریشان تھا نمل کی ضد پر

آج آپ کو مجھے سپیشل والا پیار کرنا چاہیے 

نمل کی بات قیس با خوبی سمجھ رہا تھا

لیکن اپنے دل کا کیا کرتا وہ جو اب نمل کے قریب جانے پر بے حال ہو جاتا تھا

نمل کا دھوکہ قیس بھول کر بھی بھول نہیں پا رہا تھا 

نمل بہت آہستہ سے قیس کے قریب ہوتے اس کے گلے میں بازو ڈالتے اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی 

نمل کی خواہش اس کی آرزو... 

قیس سمجھ کر بھی اگنور کر رہا تھا

جب کافی دیر قیس کی جانب سے پیش رفت نہ ہوئ نمل نے آنکھیں کھول کر قیس کو دیکھا تھا

پتا تھا مجھے سب سمجھ رہی ہوں میں خان جی اس دن کے بعد آپ نے مجھے پیار نہیں کیا آپ کو برا لگا نہ 

بلکہ مجھے پتا آپ کو بہت برا لگا ہو گا

خان بس خاموش تھا

لیکن نمل کی طبیعت پھر سے بگڑتی دیکھ اسے بولنا پڑا تھا

ایسی کوئ بات نہیں میری چندہ

ابھی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آپ کو آرام کی ضرورت ہے تو اس لیے... 

قیس خاموش ہوا تھا 

ڈاکٹر نے کس کرنے سے بھی منع کیا ہے کیا خان جی

نمل نے معصومیت سے پوچھا تھا

یہاں قیس کی بس ہو گئی تھی 

بے ساختہ نمل کو اپنی جانب کھنچتے اس کی سانسوں پر اپنا قبضہ جمایا تھا

نمل نے قیس کے بالوں کو زور سے پکڑا تھا

اب ایسی بھی بات نہیں چھوٹی موٹی گستاخیاں ہو سکتی ہیں جانِ من

قیس نے کہتے نمل کے چہرے پر اپنے پیار کے پھول کھلائے 

نمل تو اتنے میں ہی بھوکھلا کر رہ گئ تھی

ہاہاہا میری چندہ اگر

میں سپشل پیار کروں تو آپ کا کیا حال ہو

خان جی اتنی شدت پسندی بھی اچھی نہیں ہوتی 

میری شدت پسندی سے آپ واقف تو ہیں پھر بھی شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال رہی ہیں قیس نے ایک دفعہ پھر سے نمل کو تکیے پر گراتے  اپنے قبضے میں کیا تھا

خان جی ڈاکٹر نے ریسٹ کا کہا

اس سے اگے وہ بول نہیں پائ تھی

اتنے دن سے صبر کر رہا ہوں 

اب ایک دفعہ میں تو یہ  پیاس بھجنے سے رہی

قیس جیسے نمل کی گردن پر جھکا تھا

نمل نے جلدی سے قیس کا کالر پکڑا تھا 

خان جی پلیز... 

اس نے بھیگی آنکھوں سے خان کو دیکھا تھا

شش اب کوئ دکھ نہیں دوں گا آپ کو

پچھلی بار کے لیے معاف کر دو خان کی جان

قیس نمل کی آنکھوں کی نمی کو سمجھ چکا تھا

خان نے بہت نرمی سے نمل کو چھوا تھا

بیک پر ہاتھ لے جاتے قیس اس کی کمر سے ڈوریاں کھول چکا تھا

اس سے پہلے کہ وہ مزید بہکتا

جلدی سے پیچھے ہٹا تھا

نمل آنکھیں بند کیے لمبے بے سانس لے رہی تھی ۔قیس نے جھکتے اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے

آج کے لیے اتنا کافی ہے کیا

خان نے مسکراہٹ چھپا کر پوچھا تھا

نمل نے ایک آنکھ سے خان کو  دیکھتے اس کے سینے میں منہ چھپایا تھا

بہت تیز ہیں آپ

آپکی مرضی سے ہوا سب

اچھا جی اور سپیشل پیار کرنے کو کون کہہ رہا تھا

وہ تو آپ کے دل کی بات بتائ تھی میں آپ کو

ہاہاہا اچھا جی دل کی بات 

چلو ابھی چینج کروپھر ٹیبلٹ لے کر سونا ہے 

مججھے نہیں کرنا چینج

اس ڈریس میں آپ سوئیں گی کیسے لیکن وہ خاموشی سے آنکھیں بند کر چکی تھی

خان نے الماری سے نمل کا نائٹ دریس نکال کر لایٹ آف کرتے اسے چیینج کروایا تھا

نمل کی جب سے طبیعت خراب تھی

لایٹ آف کر کہ یہ کام بھی خان خود سر انجام دے رہا تھا 

                   ...💖💖💖... 

انابیہ روایتی دلہنوں کی طرح گھونگھٹ نکال کر بیڈ پر بیٹھی تھی

کمرے میں پھیلی پھولوں کی خوشبو کو بدر نے سینے میں اتارا تھا

بدر کے بڑھتے قدم انابیہ کی دھڑکنیں بڑھا رہے تھے

بدر نے انابیہ کا گھونگھٹ اٹھایا تو ساکت رہ گیا۔

ماشاءاللہ 

ماشاءاللہ

ماشاءاللہ 

اس کے 3 دفعہ ماشاءاللہ کہنے پر 

انابیہ نے مصنوعی پلکوں سے سجی آنکھیں اوپر اٹھائیں 

کیو ں مارنے کا ارادہ ہے آج

بیہ نے غصے سے گھورا تھا

لیکن زیادہ دیر تک اس کی آنکھوں میں دیکھ نہیں پائ تھی

بدر نے ڈائمنڈ کی رنگ اس کے ہاتھ میں پہنائی تھی

کچھ بھی ہو جائے یہ اتارنی نہیں ہے

ماشاءاللہ بہت پیاری ہے 

بدر

جی

شکرانے کے نوافل ادا کریں۔

جی میری جان

آپ کو پا کر یہ نوافل مجھ پر فرض ہو چکے ہیں 

انابیہ نے بدر کی امامت میں نوافل ادا کیۓ تھے

پھر خوب دعا مانگ کر اللہ سے اس رشتے کی خوشیوں کی دعا کی تھی

پھر سائڈ ٹیبل کے دراز سے ایک خاکی کاغذ نکال کر بدر کی جانب بڑھایا تھا

بدر کی سوالیہ نظروں پر اس نے وہ لفافہ کھولنے کو کہا تھا

بدر نے جیسے وہ  کھولہ خوشی سے اس کی آنکھوں میں پانی آ گیا

یہ یہ کب کیا آپ نے سب

میری ہمیشہ سے خواہش رہی کہ میں بھی اپنے ہمسفر کو منہ دکھائ دوں تو یہ آپ کی منہ دکھائ

شکریہ آللہ جی آپ کا اتنی پیاری بیوی دینے کے لیے۔بدر نے دل سے اللّٰہ کا شکریہ ادا کیا۔ 

اس سے اچھا سرپرائز میرے لیے ہو ہی نہیں سکتا۔عمرے کی ٹکٹس کو آنکھوں سے لگاتے وہ رو پڑا تھا

میں بہت خوش ہوں بہت زیادہ

تھینکیو تھینکیو سو مچ

یہ تھینکس سنبھال کر رکھیں کیوں کہ آپ کو پل پل اب اس کی ضرورت پڑنے والی ہے

میں اپ کو بہت خوشیاں دینے والی ہوں

ہر وہ خوشی جس سے آپ محروم رہے ہیں آج تک۔

بدر کی جان

میری سولمیٹ

اجازت ہے کہ آپ کے قیریب آ جاؤں 

اتنا قیریب کے یہ روحیں مل جائیں 

انابیہ کے سر ہلانے پر وہ بے ساختہ اس پر جھکا تھا

دور کھڑکی پر چاند ان کے ملن پر مسکرا دیا تھا

ایک محبت امر ہو چکی تھی

ایک فتور اپنا مقام حاصل کر چکا تھا

                ۔۔۔❤️❤️❤️..۔ 

دل سے پتهر دل ہونے کا سفر اتنا آسان نہیں تها 🙂🥀

پیج پر لکھی یہ لائنز ملحان کو ساکت کر گئ تھی

جس دن آپ کے قابل بن گئ اس دن آپ سے سامنا کر لوں گی....

ڈھونڈنا بےکار جائے گا سو کوشش مت کیجئے گا

آپ کی رمل

پیج ملحان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے گرا تھا وہ تو رمل کا پہلا فقرہ سمجھنے سے کاثر تھا

اس نے رمل کو جو سرپرائز دینا تھا وہ بھی بے کار گیا تھا

سہی کہا تھا قیس نے کہ رمل سے ایک دفعہ بات کر لوں لیکن اس نے سرپرائز کے چکر میں رمل کو ہی گنوا دیا تھا

کون جانے کہاں گئ تھی

قیس اور بدر کے پریشان ہونے کا سوچتے وہ چپ کر کے گھر سے باہر نکل گیا

اپنے بندوں کو اس نے گلی گلی پھیلا دیا تھا

لیکن رمل کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا

‍سب ڈائنگ ہال میں بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے جب انہوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی سفید لہنگا پہنے فل برائیڈل لک کے ساتھ ان کے ڈائنگ ہال میں داخل ہوئی۔سب نے حیران نظروں سے اس کی جانب دیکھا

۔

ہال میں داخل ہوتے ہی اس لڑکی نے سلام کرتے گردن جھکا دی۔

سب حیران نظروں سے اس دلہن کو دیکھ رہے تھے جو گردن جھکا کر کھڑی تھی۔

مومنہ شاہ رمل کو پہچانتے جلدی سے اس کی جانب بڑھیں اور حیران ہوتے رمل کو بازوؤں سے پکڑ کر بولی 

رمل بیٹا

لیکن رمل ان کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی  روتے ہوئے ان کے سینے سے لگی۔

رمل کے سچائی بتانے پر ہر طرف سکوت چھا گیا۔ ان کی کوئ غلطی نہیں میں نے زبردستی ان سے نکاح کیا۔

رمل نے صرف اپنی سچائی بتائی ملحان کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا۔

رمل کو زاروقطار روتا دیکھ حاتم خان جلدی سے رمل  کی طرف بڑھے اور اسے سینے سے لگاتے دلاسا دیتے ہوئے کہا

بیٹا آپ رویۓ مت آنے دیں اس نہجار کو 

اس کا علاج میں کرتا ہوں 

نہیں بابا آپ انہیں کچھ نہیں کہیں گے

اور آپ انہیں میرے یہاں ہونے کا بھی نہیں بتائیں گے۔ رمل نے روتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے بیٹا جیسے آپ کی مرضی

مومنہ آپ انہیں روم میں لے  جائیں

بابا خان سے میں خود بات کر لوں گا۔

حاتم خان نے رمل کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے مومنہ بیگم سے کہا۔

جی ٹھیک ہے ۔

                    ..⭐⭐⭐.. 

رمل بیٹا کب ہوا یہ سب آپ نے مجھے بھی نہیں بتایا.مومنہ بیگم نے کمرے میں جاتے رمل سے پوچھا ۔

مورے وہ بس

رمل نے شرمندگی سے سر جھکا دیا.

کوئ بات نہیں بیٹا .وہ نالائق کدھر ہے

مورے وہ تو ادھر حویلی میں ہی ہیں۔

بہت اچھا کیا جو آپ اسے چھوڑ کر آ گئیں ۔مومنہ بیگم نے تھوڑا غصے میں کہا ۔گھر آۓ اس کی عقل ٹھکانے  لگاؤں گی۔ مورے پلیز آپ انہیں مت بتلائیے گا۔رمل نے ان کے ہاتھ پکڑتے ہوئے التجا کی

لیکن بیٹا وہ پاگل ہو جائے گا آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے 

مورے یہ ان کی سزا ہے 

ٹھیک ہے بیٹا

لیکن ایک بار سوچ لو

سوچ کر آئی ہوں مورے

ٹھیک ہے ویسے بھی وہ اس حویلی بہت کم آتا ہے ۔وہ زیادہ تو اپنے فلیٹ پر ہوتا ہے .اس کی جوب کی نوعیت ہی ایسی ہے 

جی مورے

رمل یہاں بہت گبھراتے ہوئے آئی تھی لیکن سب کا پیار دیکھ کر اسے اپنا فیصلہ سہی لگا تھا

ملحان کا وہ معصوم... اور آخری حد تک معصوم  ہونا وہ سب فراڈ تھا

رمل کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا ایسے جیسے سب مر گیا ہو ۔کوئی خواہش باقی نہیں رہی تھی ۔اور نا ہی ملحان کے لیے کوئی جذبات باقی تھے 

اس کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی طرح بہہ رہے تھے۔ رمل کو اپنا اپ ٹکڑوں میں بٹا ہوا لگ رہا تھا ۔

اس نے شاور لیتے چینج کیا اور  وضو کرتے نماز کے لیے کھڑی ہو گئ.

وضو کرتے اسے ملحان کی یاد آئی لیکن 

پھر سر جھٹکتے نماز کی طرف دھیان کر گئی۔

بہت مشکل کے ساتھ آنسو بہاتے 

کانپتے ہوئے اس نے نماز ادا کی تھی۔

یا اللہ میں نے  تو بس ایک جھوٹ بولا تھا اور وہ انسان سر سے پاؤں تک جھوٹا تھا ۔یا اللہ  مجھے صبر دے.... اے میرے رب وہ زاروقطار روتے اللہ سے فریاد کر رہی تھی اور روتے روتے جاۓ نماز پر ہی سو گئی۔ مومنہ خان  اس کے لیے کھانا لے کر آئی تو اسے جائے نماز پر سوئے دیکھ کر دکھی ہوئیں۔ اور خود سے سوچا ۔

اللہ جانے کیا کہا ہے ملحان نے اس معصوم سے جو اس طرح تڑپ رہی ہے۔آگے بڑھتے انہوں نے رمل کو اٹھانا چاہا۔

رمل بیٹا 

لیکن رمل تو جیسے صدیوں بعد آج سوئی تھی

انہوں نے رمل کو  سہارا دیتے بیڈ پر لٹایا اور کمبل سہی کر کے کھانا واپس لے گئیں۔

                   ...💔💔💔... 

اگلی صبح انابیہ اور بدر کے لیے روشن صبح تھی۔بدر نے آنکھیں کھولتے ہی انابیہ کا چہرہ دیکھا جو سکون سے سب بھلائے سو رہی تھی۔سارے جہان کی معصومیت اس وقت اس کے چہرے پر رقصاں تھی۔بدر اپنی متاع ِ جان کو ایسے سکون سے سوئے اور اپنے پاس دیکھ کر مطمئن ہوا ۔اسے ایسے پورے حق سے دیکھنا بدر کو زندگی کی ایک نئی امید دے رہا تھا۔وقت کا خیال کرتے اس نے انابیہ کو اٹھایا۔

بیو اٹھ جاؤ نماز لیٹ ہو رہی ہے 

بدر سونے دو مجھے ابھی میری آنکھ لگی ہے  پھر اٹھا رہے ہیں آپ۔انابیہ نے بند آنکھوں سے ہی جواب دیا۔

اچھا تو تم اسے نہیں اٹھو گی

بدر نے جب گستاخیاں شروع کی تو انابیہ جھٹ سے اٹھ بیٹھی۔

لیکن اپنا حلیہ دیکھ کر دوبارہ کمبل میں گھس گئی۔شرم سے پانی پانی ہوتے اس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ بدر کی طرف دیکھ سکے۔اس پر بدر کی معنی خیز باتوں سے انابیہ کا چہرہ سرخ قندھاری ہو رہا تھا۔

بیگم اب کیا فائدہ چھپنے کا اب تو ہم نے آپ کو جی بھر کر دیکھ لیا

بے شرم ہٹو مجھے واش روم جانا ہے

 انابیہ نے بدر کو دھکا دیتے ہوئے کہا ۔

ہاہاہا اچھا جی کیوں ہٹوں

بدر پلیز 

نو

اوکے بتاؤ کیسے مانو گے انابیہ نے ہار مانتے پوچھا ۔

میری شرٹ واپس کرو ابھی کے  ابھی بدر نے شرارت سے ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا ۔

بدر😳 انابیہ کی آنکھیں باہر کو آگئ تھی

ہاہاہا 

اچھا مزاق کر رہا تھا

ادھر اپنے ان پیارے پیارے ہونٹوں سے کچھ نشانیاں دے جاؤ 

اپنی رخسار پر ہاتھ رکھتے ہوئے بدر بولا 

انابیہ نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے بدر کو گھورا اور بولی ۔

کل سے تمھارے کچھ زیادہ پر نہیں نکل آۓ 

اتنا حق تو بنتا ہے میرا بے وفا لڑکی۔

پوری رات تمھارے کہنے پر تمہیں پیار کر کر کے میرا منہ دکھنے لگا ہے۔

بدر روک انابیہ شوکڈ😏😏😏

بدررررررر

انابیہ کی چیخ بے ساختہ تھی

اور بدر کا قہقہہ 

بدر کی شوخیاں عروج پر تھیں 

ادھر آؤ ایسی نشانی دوں گی بھولو گے نہیں ۔انابیہ نے کہتے بدر کو گریبان سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور اس کی رخسار پر بہت زور کی بائٹ کی۔

بائٹ واقعی زور کی تھی ۔بدر کی ہلکی سی چیخ نکلی اور رخسار پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

میری جنگلی بلی روکو تمہیں تو میں بتاتا ہوں۔ 

لیکن انابیہ جلدی سے چکمہ دے کر واش روم میں گم ہو گئی۔ 

انابیہ کی بچی

بدر نے دانت پستے ہوئے اسے پیچھے سے آواز لگائی ۔

ابھی بچی آنے میں کافی وقت ہے

انابیہ سے کام چلا لو... 

                 ...💞💞💞... 

1 سال بعد 

گزرا ایک سال 

انابیہ اور بدر کے لیے خوشیوں کی برسات لایا تھا

حرم شریف دیکھنے کے علاوہ وہ دونوں بہت سے ممالک گھوم آۓ تھے

اور شاید گھومتے رہتے اگر انابیہ کی طبیعت خراب نہ ہوتی 

انابیہ کی پریگننسی کی رپورٹ پر بدر خوشی سے پاگل ہو رہا تھا

انابیہ تھوڑا ڈر رہی تھی لیکن بدر نے اسے بھی سنبھال لیا تھا

قیس اور نمل کو اللہ نے ایک پیارے سے بیٹے سے نوازہ تھا جو بلکل اپنے باپ پر گیا تھا اور نمل کو یہ غم کھاۓ جا رہا تھا کہ خان جی اب اس سے پیار نہیں کرتے

نمل کا بیٹا 4 ماہ کا تھا ۔نمل نے محسوس کیا قیس کا رویا بےبی کے بعد نمل سے سرد سا تھا۔پہلے تو شاید بےبی کی وجہ سے وہ اس کی کیر کرتا تھا لیکن اب اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ نمل کہاں ہے

وہ ہر وقت اپنے بےبی کے گرد پایا جاتا تھا۔

قیس نے اپنے بیٹے کا نام ودان خان رکھا جو سب کو بہت پسند آیا تھا

قیس کے رویے پر نمل کڑھتی تھی لیکن زبان سے کچھ نہ بولتی تھی... 

 ملحان نے رمل کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی  لیکن ہر کوشش ناکام ٹھہری تھی۔اسے اس وقت پر پچھتاوا ہو رہا تھا جب اس نے قیس لالہ کے کہنے پر سب ڈرامہ کیا تھا۔

جی ہاں! سہی سمجھے آپ ملحان کوئی آفیسر نہیں .اس نے یہ سب قیس کے کہنے پر کیا تھا لیکن اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ رمل اس حد تک بد گمان ہو جائے گی۔اس نے خود اپنے پاؤں پر کلھاڑی ماری تھی۔اسے یاد تھا آج بھی وہ دن۔۔

قیس لالہ میں کبھی اتنا سب  گھر والوں کے سامنے نہیں بول سکتا سب سچائی آپ کو ہی بتانی ہو گی۔

بدر قیس سے کسی بات پر بحث کر رہا تھا

ارے کیا باتیں ہو رہی ہے مجھے بھی بتاؤ

ملحان کو دیکھتے بدر کی آنکھیں چمکی تھی۔وہ جھٹ سے بولا۔

ارے لالہ یہ ملحان ہے نہ یہ کر لے گا سب ہینڈل ۔

ہاں ہاں بتاؤ اب میں اتنا تو کر ہی سکتا ہوں ۔ملحان بھی شوخی میں سب مان گیا۔

قیس نے بہت کہا تھا کہ ملحان آپ رہنے دو رمل غصہ ہو گی لیکن ملحان ایڈونچر کے شوق میں مارا گیا

پھر قیس نے تھپڑ کے بعد بھی کہا کہ رمل کو بتا دو لیکن وہ بس اپنی فرسٹ نائٹ کا انتظار کر رہا تھا اور سب بگڑ گیا۔اور چپ چاپ اپنے شہر والے فلیٹ میں شفٹ ہو گیا۔ کبھی کبھار مورے سے ملنے چلا جاتا لیکن فوری واپس آجاتا۔

آج  پھر سے رمل کی یاد اسے بےبس کر رہی تھی اس کے سر میں شدید درد تھا 

اس کا شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سو جاۓ اس لیے وہ حویلی چلا آیا اور سیدھا اپنی ماں کے کمرے میں داخل ہوا ۔

رمل بخار سے ہوش گنوائے مومنہ بیگم کے کمرے میں سوئی ہوئی تھی ۔

مومنہ بیگم نے ملحان کو دیکھ کر ایک دفعہ آنکھیں پھیری تھیں کہ کہیں اسے رمل کا پتا نہ چل جائے لیکن رمل سر منہ لپیٹے کمبل میں لیٹی ہوئی تھی۔

ملحان نے بستر پر چڑھتے ہی اپنی ماں کی گود میں سر رکھ دیا۔

مورے بہت درد ہے سر میں پلیز بالوں میں انگلیاں چلا دیں ۔کس بات کی ٹینشن ہے میرے شہزادے کو ؟کیوں ہے سر میں درد؟

 مومنہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا ۔

کچھ نہیں مورے بس تھکاوٹ ہے

کچھ ہی دیر میں ملحان بھی نیند میں گم تھا۔ مورے اس کا سر بستر پر رکھتے باہر نکل گئیں۔ اللہ پاک ان دونوں کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے ۔مومنہ بیگم کے دل سے بے ساختہ دعا نکلی۔

ایک دوسرے سے دور رہ کر دونوں بے سکون ہیں ۔

                ۔۔۔❤️❤️❤️۔۔۔

ملحان نے نیند میں کروٹ بدلتے اپنا بازو رمل کے اوپر رکھا۔اسے لگا شاید وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔اس نے رمل کو زور سے اپنے سینے میں بھینچا تھا

رمل کو جب اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا تو اس نے جلدی سے اپنی مندی مندی آنکھیں کھولیں ۔لیکن خود کو کسی کی بانہوں کے حصار میں پا کر اس کی نیند بھک سے اڑی تھی اس نے جھٹکے سے اپنا سر اوپر اٹھایا۔اس کے ریشمی بال سامنے والے کے منہ پر سایا کر گئے۔ اپنے بالوں کو ایک ہاتھ سے پیچھے ہٹاتے اس نے سامنے والے کا چہرہ دیکھنا چاہا۔ لیکن ملحان کو سامنے دیکھتے اس پر جیسے سکتا چھا گیا۔

حان ادھر۔

خواب کی کیفیت میں اس نے اپنے لب ملحان کے ماتھے پر رکھے۔بار بار اور کئی بار یہ عمل دہراتے وہ اپنے سے کیا ہر عہد بھول چکی تھی۔ اسے کچھ یاد نہیں تھا۔ یاد تھا تو بس اتنا کہ اس کے سامنے اس کا عشق،اس کا جنون،اس کا فتور ہے۔ جسے حاصل کرنے کے لیے اس نے سب کچھ بھلا دیا۔جس سے ایک سال کی دوری نے اسے پاگل کر دیا تھا۔

ملحان کے چہرے پر اپنی محبت کے پھول کھلاتے وہ کسی اور ہی دنیا میں چلی گئی تھی۔

ملحان کی آنکھوں میں ہلکی سی جنبش پر وہ پیچھے ہٹی اور اپنا دوپٹہ اٹھانا چاہا جو ملحان کے نیچے دبا ہوا تھا 

لیکن ملحان کو آنکھیں کھولتے دیکھ وہ دوپٹہ وہی چھوڑے باہر کو بھاگی تھی اور جلدی سے ساتھ والے کمرے میں گم ہو گئی۔

ملحان کی نیند میں خلل خود پر بوجھ محسوس کرتے ہوا تھا لیکن وہ اپنا وہم سمجھتے سویا رہا۔لیکن جب اسے اپنے پیچھے کھنچاؤ محسوس ہوا تو

اس نے جلدی سے آنکھیں کھولی۔

آنکھیں کھولتے اس نے کسی لمبے بالوں والی  لڑکی کو  باہر بھاگتے دیکھا۔

وہ جلدی سے دوپٹہ ہاتھ میں لیتا باہر نکلا اور مومنہ بیگم کو آوازیں دینے لگا 

مورے مورے

کیا ہوا بیٹا

مورے آپ کے روم میں لڑکی کون تھی

بیٹا وہ میری دوست کی بیٹی ہے 

مومنہ بیگم نے بہت مشکل سے بہانا بنایا 

اللہ جی

مورے آپ مجھے بتا دیتیں نا میں آپ کے بیڈ پر نہ لیٹتا۔میں کیسے کسی نا محرم کے ساتھ ایک بستر پر لیٹ گیا

ملحان کی بات سنتے کمرے میں موجود رمل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نے ہلکی سی چھب دکھلائی۔ اور مورے بھی مسکرا دیں۔

کچھ نہیں ہوتا بیٹا آپ کونسا جان بوجھ کر لیٹے تھے بس میرے بھی دھیان سے نکل گیا

مورے یہ اس کا ڈوپٹہ دے دیں اسے۔

ہممم لاؤ 

مومنہ بیگم نے ملحان کے ہاتھ سے دوپٹہ پکڑ لیا۔

خوشبو جو ملحان کے ہاتھوں سے آ رہی تھی ہاتھ کو ناک کے قریب کرتے اس کے ہونٹ ہلکی سی سرگوشی میں ھلے تھے

رمل

جو دروازے کی اوٹ میں سے رمل نے بخوبی سنا تھا 

رمل کا دل کیا ابھی کے ابھی جا کر

ملحان کے سینے سے لگ جائے 

لیکن وہ اپنے دل پر پتھر رکھتے ملحان کو خود سے دور جاتا دیکھتی رہی ۔

                      ..❤️❤️❤️.. 

ملحان کے گھر جاتے ہی رمل مورے کی جانب بڑھی۔ 

کیسا ہے میرا بیٹا  بخار اترا۔مومنہ بیگم نے فکر مندی سے پوچھا ۔

جی مورے پہلے سے بہتر ہوں

مورے آپ نے اچھا نہیں کیا

ہاہاہا

آپ کو تو مورے کا شکر ادا کرنا چاہیے 

ایک ملاقات کروا دی

اور اگر میں پکڑی جاتی تو؟

ارے میرا معصوم بیٹا 

دیکھو تو کیسے میری بات کو سچ مان گیا 

ہمممم بہت معصوم 

رمل بھی تنزیہ بولی تھی

ہاں جی اب کب تک میرے بیٹے کو سزا دینے کا ارادہ ہے۔دیکھا ہے وہ پہلے سے کتنا کمزور ہو گیا ہے۔

مورے آپ پھر یہی بات لے کر بیٹھ گئیں 

ہاں تو کیا کروں ۔مجھ سے نہیں دیکھا جاتا وہ ایسے ۔تم نے ایک سال کا وقت مانگا تھا میں نے دے دیا۔ایک ہفتہ ہے تمھارے پاس۔ اس ایک ہفتے میں مجھے جواب دے دو ۔ورنہ پھر جو میں کروں گی آپ یاد رکھیں گی۔مومنہ بیگم نے دھمکی بھرے انداز میں کہا۔

مورے.... 

رمل احتجاجاً بولی تھی 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی حاتم خان کیچن میں آۓ تھے

میرے بیٹے کا بخار اترا۔ 

جی بابا جان

کیا باتیں ہو رہیں تھی ساس بہو میں 

بابا مورے مجھے ڈانٹ رہی ہیں۔رمل نے معصوم سا منہ بناتے ہوئے مومنہ بیگم کی شکایت لگائی۔ 

کیوں بھئ مومنہ کیا کر دیا میری بیٹی نے ۔

آپ کی بیٹی جو میرے بیٹے کو جدائی کے انتظار  میں سوکھا رہی ہے نہ... 

آپ پھر سے یہی بات لے کر بیٹھ گئ مومنہ بیگم 

ہممم میں نہیں بولتی کچھ

وہ منہ بنا کر بولی تھی

تبھی رمل اور حاتم خان کا قہقہہ گانجا تھا

رمل اس دوران حویلی والوں کی آنکھ کا تارا بن گئ تھی ۔سب کی دلاری بن چکی تھی رمل نے مورے سے تیل، دہی انڈہ اور جڑی بوٹیاں لگوا کر  بال لمبے کر لیے تھے شاید اسی لیے ملحان بھی اسے پہچان نہیں پایا تھا۔

گزرتے وقت کے ساتھ رمل کی شخصیت میں بہت فرق  آیا تھا۔5 وقت کی نماز کے ساتھ وہ تہجد گزار بن چکی تھی 

مورے نے اس کے لیے گلی کا ایک چھوٹا بچہ جو قرآن حفظ کرنے جاتا تھا وہ بھی لگوا دیا تھا۔اب اسے بہت سی صورتیں حفظ تھیں ۔

پردے کا خاص خیال رکھتی تھی

                     ..💞💞💞.. 

1 ہفتے بعد 

آج نمل  نے بہت خوبصورت نائٹ ڈریس پہن کر خود کو خان کے لیے تیار کیا تھا

آج اس نے آر یا پار کا سوچ لیا تھا

کیونکہ وہ اس آنکھ مچولی سے تنگ آ گئی تھی ۔خان جیسے کمرے میں داخل ہوا ۔کاٹ سے ودان غائب تھا۔

نمل ودان کہاں ہے؟ 

اپنے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز سنتے وہ پیچھے موڑا تھا

جہاں نمل خوبصورت ترین سرخ رنگ کی نائٹی پہنے تیار کھڑی تھی

خان نے آنکھیں چراتے ودان کا پوچھا تھا۔

وہ مما کے پاس ہے

اس نے خان کے گلے میں بازو ڈالتے بولا تھا

میں لے کر آتا ہوں 

نہیں وہ آج مما کے پاس رہے گا

میں فیڈر بھی دے آئی ہوں 

نمل نے کہتے خان کی گردن میں منہ دیا تھا جس وقت سے خان بچ رہا تھا۔نمل وہ پھر قریب لا رہی تھی

قیس نے نمل کو بازو سے پکڑتے دور کیا اور سرد انداز میں بولا۔

مجھے نیند آ رہی ہے

قیس کی بات سن کر نمل کو غصہ آیا۔

ہاں ابھی جب اپنے بیٹے کو لینے جا رہے تھے تب تو آپ کو نیند نہیں آ رہی تھی

ننید آپ کو پچھلے ایک سال سے بہت آ رہی ہے خان جی مجھے سب سمجھ آ رہا ہے دل بھر گیا نا اب آپ کا مجھ سے اچھی نہیں لگتی نہ اب میں آپ کو یا کسی اور کے چکر میں ہیں؟ 

کیا بکواس کر رہی ہو مجھے ایسا سمجھتی ہو؟

پھر کیوں کر رہے آپ ایسا؟

نمل نے قیس کو بری طرح غصہ دلا دیا تھا قیس نے نمل کو بازوؤں سے کھینچ کر اپنے قریب کیا اور اس کے کان کے قریب غرایا۔

ہاں کر رہا ہوں ایسا 

کیونکہ جب میں تمھارے ان خوبصورت زہریلے ہونٹوں کی طرف دیکھتا ہوں نہ تو مجھے وہ پل یاد آ جاتے ہیں 

جب ان ہونٹوں کا جام چکھ کر میں بستر مرگ پر پڑا تھا ۔جب کسی نے میرے اعتبار کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ جب میری  محبت اتنی اندھی ہو گئی تھی کہ میں سب کچھ جان بوجھ کر بھی صرف ان ہونٹوں کا جام چکھنے کے لیے  پہلی  بار اپنی  طرف بڑھی اپنی بیوی کو جھٹلا نہ سکا۔ نمل تم نے رستہ اختیار کیا بھی تو کونسا؟ 

تمہیں پتا تھا کہ میں تمھارا خود کے قریب آنا جھٹلا نہیں پاؤں گا۔اس لیے تم نے اپنے ان حسین ہونٹوں کا زہر مجھے چکھایا۔ مر گیا تھا تمھارا خان اسی دن

اس دن ہوسپٹل سے واپس ایک عاشق ایک شوہر نہیں ایک باپ لوٹا تھا جسے صرف اپنے بچے کی فکر تھی

قیس تو نمل کی باتیں سنتے پھٹ پڑا تھااور نمل ساکت سی قیس کی جانب یک ٹک دیکھتے پیچھے کو ہو رہی تھی اس کے زہن میں قیس کی باتیں گونج رہی تھیں ۔ اتنی نفرت قیس کے الفاظوں کے نشتر اس کی برداشت سے باہر تھے۔اور ایک دم ہواس کھوتے وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔

...قیس نمل کو روتا چھوڑ کر کمرے سے باہر جانے لگا ‍اس سے پہلے کے قیس باہر کی جانب بڑھتا نمل نے اس کا بازو پکڑتے اپنے سامنے کیا اور آخری امید کے تحت بولی۔

خان جی آپ ابھی تک اسی بات پر ہیں م ج ھ.. مجھے  لگا آپ وہ سب بھول گئے نمل نے کپکپاتی آواز میں کہا تھا

ہاں میں بھول جاتا اگر تم محبت میں میرے قریب آتی پر میں کیا کروں نمل میں کیا کروں تم نے مجھے جیتے جی مار دیا جب مجھے یاد آتا ہے نہ کہ تمھارا وہ میرے  قریب آنا شدت دکھانا ایک دھوکا تھا اس کے سوا کچھ بھی نہیں میری بیوی جو  اپنی شرم و حیا کی وجہ سے خود کبھی میری طرف بڑھتی نہیں تھی وہ بدلے کی آگ میں اتنی آندھی ہو گئ کہ وہ اپنے وقار سے نیچے آگئی

قیس کی باتیں سن کر نمل کا دل کر رہا تھا زمین پھٹے اور اس میں سما جائے

خان جی

نمل نے بھیگی آواز میں پکارا تھا

مر گیا تمھارا خان جی

تمھارے ان خوبصورت ہونٹوں کے نشے سے۔

سب مسلہ ان ہونٹوں کا ہیں نہ تو

اب دیکھیں میں کیا کرتی ہوں

نمل نے آگے بڑھتے  جلدی سے فروٹ کے پاس چھری پکڑ کر اپنے ہونٹوں پر کٹ لگایا تھا ۔خون کی ایک تیز دھار اس کے ہونٹوں سے نکلی تھی سرخ لپ اسٹک  سے سجے ہونٹ خون سے بھر چکے تھے

قیس چیختے ہوۓ اس کی جانب بڑھا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ پھر سے وہی عمل دہراتی قیس نے آگے بڑھتے جلدی سے چھری اس کے ہاتھ سے کھینچی تھی۔

ہاؤ ڈیر یو پاگل ہو گئی ہو۔تمھاری ہمت کیسے ہوئی ۔بتاؤ مجھے کیوں کیا ایسا

قیس نے اسے کندھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔لیکن اس کے ہونٹوں سے نکلتا خون قیس کو بے بس کر رہا تھا

قیس نے جلدی سے اسے بیڈ پر بٹھاتے

دراز سے فرسٹ ایڈ باکس نکالا اور زخم صاف کرتے اس پر سپرٹ لگایا تھا

نمل کی چیخ نکلی تھی

قیس نے اسے جن نظروں سے گھورا تھا وہ سر جھکا گئی۔پٹی کرتے قیس نے نمل کو کندھوں سے پکڑا اور پھر سے اس سے وہی سوال کیا ۔

ہمت کیسے ہوئ تمھاری خود کو نقصان پہنچانے کی بولو جواب دو۔

میں کہہ رہا ہوں بولو۔ نمل کی خاموشی نے قیس کے غصے کو مزید بھڑکایا۔اور وہ غصے سے پھنکارا۔

خان جی

نمل نے کپکپاتے ہونٹوں سے ہلکے سے لب ہلاۓ تھے

قیس نے جب نمل کو زاروقطار روتے دیکھا تو کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا

سب غلط کرتی ہو پھر ناراض بھی نہیں ہونے دیتی ہو جیسے قیس کا تو کوئی حق نہیں ہے نہ اپنی لیلیٰ پر۔ 

خان جی لیلی مت کہیں۔ یہ لیلی اپنے قیس سے دوری برداشت نہیں کر پاۓ گی

کبھی معاف نہیں کروں گا کبھی نہیں اس غلطی کے لیے خود کو تکلیف پہنچا کر مجھے جو اذیت دی نہ  کبھی معاف نہیں کروں گا۔ قیس نے اس کے پٹی لگے ہونٹوں پر اپنے لب رکھتے دھیرے سے کہا تھا۔

نمل نے بے ساختہ اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔نمل کی نم آنکھیں  دیکھ کر قیس کا  دل کیا خود کو ختم کر لے جس کی وجہ سے نمل اس حال کو پہنچی تھی۔ 

نمل سو جاؤ چپ کر کہ ورنہ میں اٹھ کر باہر چلا جاؤں گا۔  

قیس کی بات سنتے نمل نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کی تھیں 

قیس کا سال سے چھپا غصہ نکل چکا تھا اب شاید وہ کچھ ٹھنڈا ہو جائے 

                    ...💔💔💔... 

انابیہ کو مسلسل وومٹ کرتے دیکھ کر بدر پریشان ہو گیا تھا۔انابیہ اور بدر ٹور کے بعد  قیس اور بدر کی شہر والی حویلی میں قیام پذیر تھے ۔انابیہ نڈھال سی واش روم سے باہر آئی ۔جب ہنستہ مسکراتا بدر  کمرے میں داخل ہوا لیکن انابیہ کی بری حالت دیکھتے اس کی جانب بڑھا تھا۔

بیو میری جان کیا ہوا اس نے جیسے ہی انابیہ کا ہاتھ پکڑا انابیہ نے اسے زور کا دھکا  دیا۔ 

تم تم کمینے انسان یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا.... 

اماں..... 

خود پوری رات مزے لے لے کر سوتے ہو.... اور تو اور صبح کے کہاں دفعہ ہو گۓ تھے۔ آنے دو قیس لالہ کو تمھارے جو نٹ ڈھیلے ہیں نہ میں کسواتی ہوں 

انابیہ اسے دھمکی دیتے زاروقطار رونے لگی تھی

بدر تو اس اچانک افتاد ہر بوکھلا گیا۔

بیہ میری جان کیا ہو گیا میرے شونے مونے کو ادھر آو ادھر بیٹھو۔

اچھا نہ میری جان سوری نہ 

لالہ نے کام سے بھیجا تھا اسی میں دیر ہو گئ آئی پرومس اب ایسا نہیں کروں گا

آپ کو پتا ہے نہ صبح اگر آپ کو نہ دیکھوں تو میرا دن اچھا نہیں گزرتا

اور آپ مجھے چھوڑ کر چلے گۓ ناشتہ بھی نہیں کروایا۔ سب پتا ہے مجھے اب دل بھر گیا نہ آپ کا مجھ سے۔اب چھوڑنا چاہتے ہو نہ

بیہ... 

بدر حیرت سے بیہ کو دیکھ رہا تھا 

کیا بیہ 

اچھا میلا شونا مونا رونا تو بند کرو نہ 

انابیہ نے  سوں سوں کرتے بدر کی شرٹ سے ناک صاف کیا تھا

بدر تو ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا تھا

بدر نے جھکتے ہوئے انابیہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے۔ پھر رخسار پر اور پھر اس کی ٹھوڑی پر

انابیہ بلکل ساکت کھڑی اس کے لمس کی حدت اور شدت محسوس کر رہی تھی اور پر سکون ہوتی جا رہی تھی ۔

یہ شخص اس قدر اسے اپنا عادی بنا گیا تھا کہ اس کا نا نظر آنا انابیہ کے لیے سوہان روح بن جاتا تھا۔ وہ غصے سے بھڑک اٹھتی تھی۔

میرا بےبی کیسا ہے

بدر کی بات سنتے انابیہ نے بدر کو نم آنکھوں سے دیکھا تھا

شش میری جان رونا نہیں 

اب اگر لالہ مجھے کوئی کام کہیں گے نہ تو میں نے کہنا ہے میری بیوی سے اجازت لے لیں بدر بے آنکھ مارت انابیہ سے کہا تھا۔

سب پتا ہے مجھے جو تم بیوی کے مرید ہو نا۔

آہ میری تو خواہش ہی رہے گی کہ میری بیوی مجھے آپ کہے گی

کیوں بھئی چھوٹے ہو تم مجھ سے بھول جاؤ کہ میں آپ کہوں گی

بدر نے بیہ کو آنکھیں دکھائی تھی

لیکن بیہ اسے ٹھینگا دکھاتی باہر کو بڑھ گئی۔

ناشتہ کرواؤ آ کر مجھے ایک نیا حکم صادر ہوا تھا۔

بدر تو حیرانی سے اس کے انداز دیکھ رہا تھا لیکن پھر خود ہی مسکرا دیا تھا یہ اسی کی محبت کا اعزاز تھا جو وہ اس سے اس قدر لاڈ اٹھواتی تھی

                     ..💞💞💞.. 

رمل مومنہ خان سے سر میں تیل لگوا رہی تھی جب کوئ آندھی طوفان بنا گھر میں داخل ہوا تھا۔ 

مورے بابا کہاں ہیں 

ملحان نے مومنہ بیگم کی کمر کو دیکھتے سوال کیا تھا

وہ اپنے کمرے میں ہیں۔

کیا ہوا بیٹا اتنی جلدی میں کیوں ہو 

آکر بات کرتا ہوں مورے 

رمل ملحان کی آواز سنتے اپنے منہ پر دوپٹہ کر چکی تھی

ملحان کو تو اس وقت آگ لگی ہوئی تھی وہ جلدی سے اپنے باپ کے روم کی جانب بڑھا۔

بابا کیا ہے یہ سب ہاتھ میں پکڑا کارڈ اپنے باپ کے سامنے کر کے اس نے پوچھا تھا

حاتم خان کو اندازہ تھا کہ کچھ ایسا ہونے والا ہے 

کیا ہے یہ وہ مسکراہٹ چھپا کر بولے تھے

بابا یہ شادی کا کارڈ.... 

آپ کیسے کر سکتے ہیں ایسا وہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ بابا

ملحان تلخ لہجے میں بولا تھا

کیا ہو گیا یار تمھاری شادی ہی تو کر ریا ہوں میں کونسا اپنے لاڈلے سپوت کو جھیل بھیجھ رہا ہوں جو اتنا بھڑک  رہے ہو

اس سے اچھا تھا کہ آپ مجھے جھیل بھیجھ دیتے وہ منظور ہے مجھے 

نہ پتر میں نے تو تمہیں عمر قید کی سزا سنائی ہے تم جھیل کی بات کرتے ہو 

بابا پلیز سمجھنے کی کوشش کریں میں نہیں کر سکتا یہ شادی... 

اوکے جیسے تمھاری مرضی شادی کے کارڈز بٹ چکے ہیں نہیں کرنا چاہتے تو تمھاری مرضی ہے بیٹا 

زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا تمھارے باپ کی انسلٹ ہو جائے گی ٹینشن سے ان کا ہارٹ فیل ہو جائے  گا۔

بابا

ملحان نے تڑپ کر انہیں پکارا تھا

ٹھیک ہے تیار ہوں میں  یہ شادی کرنے کے لیے لیکن میں کبھی معاف نہیں کروں گا آپ کو اس کے لیے 

کہتے وہ روم سے باہر نکل گیا۔

رمل جو ملحان کے روم میں جاتے ہی اٹھنے لگی تھی

مورے کی قسم پر اپنے جگہ ساکت رہ گئی لیکن منہ سے ڈوپٹہ نہیں ہٹایا تھا

تبھی اندر روم سے  آنے والی آوازیں رمل کو ساکت کر گئیں۔

ملحان کا اپنے باپ سے شادی کی حامی بھرنا اس کی جان نکال گیا تھا

تبھی وہ جھٹکے سے باہر آیا تھا

مورے آپ دیکھ لیں بابا سائیں کے کام 

وہ چلتا ہوا رمل کے قریب نیچے صوفے ہر بیٹھ کر  اپنی ماں کی گود میں سر رکھ چکا تھا 

رمل جلدی سے پیچھے ہوئی منہ پر ریشمی دوپٹہ ہونے کی وجہ سے ملحان تو اسے دیکھ نہیں پایا تھا

لیکن رمل باخوبی ملحان کی آنکھوں میں چھائی نمی دیکھ رہی تھی

اس کا دل بے ساختہ دھڑکا تھا

مورے سمجھائیں نہ بابا کو ملحان مر جائے گا مورے اپنی رمل کے بغیر... 

نہیں جی سکتا میں اس کے بغیر... آج ایک سال 1 ہفتہ 8 گھنٹے اور پتا نہیں کتنے منٹ ہو گئے ہیں مجھے اس سے بچھڑے ہوئے ماں 

میری کیا خطا تھی.. مجھے لگا پوری دنیا میرے خلاف ہو جائے لیکن میری رمل مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گی لیکن مورے وہ مجھے چھوڑ گئی اکیلا کر گئ

قیس لالہ نے مجھے بہت کہا کہ میں رمل کو بتا دوں وہ سب ڈرامہ تھا سب قیس لالہ نے کیا تھا میں تو بس اپنا نام لے کر وہاں ہیرو بن رہا تھا تا کہ رمل کے بابا میری اور رمل کی شادی میں کوئی روکاٹ نہ ڈالیں لیکن مورے سب بگڑ گیا

کیا کہا تم نے قیس لالہ کہاں ملے تم قیس سے بتاؤ مجھے ملحان۔

مورے.. لالہ کافی بار ملحان بن کر آپ سے ملنے آچکے ہیں

بہت بار... 

میں جب جب کہیں آپ سے دور ہوتا تو لالہ ہی گھر آتے آپ سے لاڈ اٹھوتے لیکن انہوں نے کبھی آپ کو شک نہیں ہونے دیا مورے  آپ کی جدائی میں قیس لالہ بہت تڑپے ہیں مورے۔ پھر مجھ سے ملنے کے بعد وہ اکثر یہاں آنے لگے

کیا میرا قیس یہاں آتا رہا مجھے بتایا کیوں نہیں  ماں صدقے جائے 

رمل تو یہ سن کر کہ ملحان نے وہ سب ہیرو بننے کے لیے کیا وہ ساکت تھی ۔

مطلب اس نے ملحان کو دوری کا عذاب چھکا کر اچھا نہیں کیا تھا تو جلدی سے اٹھتے اپنا دوپٹہ منہ سے اتارتے بھاگی تھی ۔ملحان نے جب تک مڑ کر دیکھا وہ غائب ہو گئی تھی۔

اس کے قد کاٹھ سے ملحان کو لگا کہ وہ رمل ہے لیکن بال... 

ملحان نے سر جھٹکا تھا

مورے میں آپ کو قیس لالہ سے ملواتا ہوں۔

اہ بس بابا سے کہیں مجھے رمل کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرنی

کمرے میں جاتے رمل بیڈ پر گرتے زاروقطار روئی تھی اس کی ایک غلط فہمی نے دوریاں بڑ ھا دی تھیں 

آئی ایم سوری حان

آئی ایم سوری 

آزان کی آواز سنتے اس نے جلدی سے دوپٹہ سر پر اوڑھا تھا

آذان کے ہر ایک فقرے کا دل سے جواب دیتے وہ آنکھیں بند کر گئی

آزان کے بعد کی دعا پڑھ کر درود پاک پڑھنا اس کا معمول تھا 

معمول کے مطابق اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے اور آج سال بعد اپنا اور ملحان کا ساتھ مانگا تھا

ملحان بیٹا آپ پریشان نہ ہو میں بابا سے بات کرتی ہوں اور آج آپ کہیں نہیں جا رہے آپ اب سے گھر ہی رہو گے 

کچھ سوچتے ہوۓ انہوں نے فیصلہ کیا تھا

دونوں حویلیوں میں شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں ۔

نمل کو قیس نے سمجھا بجھا کر چپ کروا دیا تھا اب اگر رمل ساری زندگی نہیں ملے گی تو کیا ملحان کنوارہ رہے گا

لیکن ملحان لالہ ایسے کیسے کر سکتے ہیں وہ تو محبت کرتے ہیں نہ آپو سے

اس کا مطلب اگر میں غائب ہو جاؤں تو آپ بھی دوسری شادی کر لیں گے

قیس نے شدت سے نمل کے بال اپنے ہاتھ میں جکڑے تھے

خان جان لے لے گا اگر ایسا سوچا بھی تو کرنا تو دور کی بات.. 

خان جی میں مزاق.. 

مزاق میں بھی مجھ سے دور جانے کی بات مت کرنا نمل۔

قیس نے شدت سے کہا ۔

ہاں تو جیسے اب تو مجھے گود میں بٹھایا ہوا ہے نہ اب تو جیسے بہت قریب ہیں ۔ نمل نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔

 کر دوں گا یہ شکوہ بھی دور

جس دن  سر سے لے کر پاؤں تک   پور پور میرے لیے سجی سنوری دلہن بنی ادھر بیٹھی ہو گی

قیس نے بیڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا

قیس کی بات سنتے نمل کا دل زوروں سے دھڑکا تھا

تمہاری الماری میں ایک ڈریس پڑا ہے

جس دن خود کو میری شدتیں سہنے کے قابل سمجھو گے اس دن تیار ہو جانا

اسے ساکت چھوڑ کر  قیس باہر کی جانب چلا گیا تھا

 ودان کے رونے کی آواز سن کر نمل اس کی جانب بڑھی۔اور اس سے قیس کی شکایت کرنے لگی۔

آپ کے بابا بوڑھے ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک ان کا ٹھرک پن نہیں گیا

                    ..❤️❤️❤️.. 

ررمل ہمیـــــــــں آپ سے ضروری بات کرنی ہے

جی مورے 

رمل ہم سب بڑوں نے تمھاری شادی کا فیصلہ کیا ہے 

مورے میں شادی شدہ ہوں

بس چپ 

وہ نکاح جس میں کوئ گھر کا کوئ سائبان شامل نہ ہو ہم. بڑوں کی. نظر میں وہ نکاح نہیں ہوتا

ہم نے تمھارے لیے ایک رشتہ دیکھا ہے اگر تم سچ میں مجھے اپنی ماں مانتی ہو تو اس شادی سے انکار نہیں کرو گی لیکن مورے

لیکن وہ رمل  کی کوئ بھی بات سنے بغیر باہر چلی گئیں۔

یا اللہ یہ کس عذاب میں پھنس گئ ہوں میں۔ میں اپنے بڑوں کی شفقت کے ساۓ میں رخصت ہوئی تھی لیکن... 

یا اللّٰہ 

وہ زاروقطار روتے بستر پر گری۔

حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا

قیس کی خواہش پر ملحان نے قیس کی حویلی سے دلہا بن کر آنا تھا

یہ بھی قیس کی ضد تھی جس پر سب نے ہامی بھری تھی۔

ملحان ساکت سا تھا جیسے اس کی نہیں کسی اور کی شادی ہو

اپنے بھائی کو وہ جیسے نظروں سے قتل کرنے کا اردہ رکھتا تھا

بدر اگر تم آج بھی انابیہ کو لے کر حویلی نا آۓ نا تو بہت جوتے لگنے ہیں تمہیں۔قیس نے بدر کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ۔

جی لالہ میں بس پہنچ گیا

اپنے پیچھے سے آواز سن کر قیس پلٹا 

کیسی ہے میری بہن انا یہ کو دیکھتے قیس اس کی جانب بڑھا

لالہ یہ چول انسان مجھے بہت تنگ کرتا ہے انابیہ نے سوں سوں کرتے بدر کی شکایت لگائی اور بدر قیس کے جوتوں کے ڈر سے جلدی سے بھاگا تھا 

شش میرا بیٹا میں اس کے کان کھینچوں گا۔قیس نے پیار سے انابیہ کو پچکارتے ہوئے سمجھایا ۔

لالہ کان نہیں کھینچنے پورے کو کھینچنا ہے  بہت تنگ کرتے ہیں مجھے 

ہاہاہاہا ٹھیک ہے بیٹا لیکن تھوڑی اسے عزت بھی دے دیا کرو

ہاں ہاں لالہ سمجھائیں اسے

بدر جو پلر کے پیچھے چھپا تھا منہ باہر نکال کر بولا تھا

قیس انابیہ کو چھوڑتے اس کی جانب بڑھا تھا

مورے بچائیں... 

بدر چیختا ہوا اندر کو بھاگا تھا

شاہ ہاؤس کی جان تھا یہ لڑکا۔

                       ..❤️❤️❤️.. 

رمل بیٹا مہندی لگوا لو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ رسم کرنی ہے

رمل نے ایک شکایتی نظر ان پر ڈالی تھی لیکن وہ اگنور کر گئیں ۔

مجھے نہیں لگوانی مہندی 

لیکن نہ نہ کرنے کے باوجود امامہ بیگم نے نا صرف رمل کے مہندی لگوائی تھی بلکہ اسے تیار بھی کیا تھا 

ماشاءاللہ 

چشم بدور 

چاند اور سورج کی جوڑی ہو گی تم دونوں کی امامہ بیگم نے رمل کی بلائیں لیتے ہوئے کہا۔

لیکن رمل خاموش ساکت بیٹھی تھی

مہندی کی رسم خوش اسلوبی سے گزری تھی

دنیا کے پہلے دلہا دلہن تھے کہ دلہا دلہن  کے گھر رسم کر رہا تھا اور دلہن دلہے کے گھر

(سمجھ گئے نہ ریڈرز لوگ😁😁🙈😉)

....

بارات والے دن افراتفری مچی ہوئی تھی 

خان جی پکڑیں اسے یہ مجھے تیار نہیں ہونے دے رہا نمل نے اپنا بیٹا قیس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا 

ارے بابا کی جان مما کو تنگ کرتے ہو

کرنا بھی چاہیے آپ کی مما نے کونسا بابا کو کم تنگ کیا ہے

قیس کی بات پر نمل نے قیس کو 

گھورا تھا

اوکے آپ تیار ہو جائیں۔ میں اسے مما کے پاس چھوڑ آتا ہوں 

نمل  نے کالے رنگ کی ساڑھی پر، بالوں کو ہلکے ہلکے  کرل ڈال کر کھلا چھوڑ رکھا تھا 

قیس روم میں داخل ہوا تو نمل کو دیکھتے ساکت رہ گیا۔ 

آج رمل نے پنک لپ اسٹک لگای ہوئی تھی ۔یہ وہی لباس تھا جو قیس نے اس دن نمل کو بتایا تھا

تو کیا 

تو کیا نمل.... قیس کی شدتیں برداشت کرنے کے لیے تیار تھی 

قیس بے خودی کے عالم میں نمل کی جانب بڑھا تھا 

ماشاءاللہ ❤️ 

آج خان کی جان نکالنے کا ارادہ ہے کیا

جب نمل نے تڑپ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا

خان جی اللہ آپ کو  میری بھی عمر لگا دے

نمل کی بات سن کر قیس نے اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے

کیسی لگ رہی ہوں خان جی

نمل کے سوال پر  قیس بے ساختہ اس کے ہونٹوں پر جھکا تھا

پتا لگ گیا یا اور بتاؤں 

اس کے ہونٹوں پر شدت بھرا لمس چھوڑتے بولا 

نمل نے شرما کر اس کے سینے  میں منہ دیا اور سرخ اناری چہرے کے ساتھ بولی

آہ بہت بے شرم ہیں میں نے تو لفظی پوچھا تھا نمل نے شرماتے ہوئے کہا

اور میں نے عملن بتا دیا۔ قیس نے شرارت سے ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا ۔

قیس نے الماری سے ایک پیارا سا ساڑھی سے میچنگ سٹولر نکال کر نمل کے بالوں کو کیچر کرتے حجاب بنا دیا۔اور اس کے سر پہ اپنے لب رکھتے ہوئے بولا

اب مکمل ہے میری جان

قیس کی نظر نمل کی پھیلی لپ سٹک پر گئی تو اس نے ٹشو سے پنک لپ اسٹک صاف کرتے نمل کے ہاتھوں میں ریڈ لپ سٹک پکڑائی اور لاڈ سے بولا۔

بلاشبہ ان حسین ہونٹوں پر ریڈ لپ اسٹک ہی جان نکالتی ہے 

کہتے وہ باہر کی جانب بڑھ گیا تھا

پیچھے قیس کی بات کا مطلب سمجھتے نمل مسکرا دی تھی

قیس کی ناراضگی ختم ہو چکی تھی یہ بات ہی اسے سرشار کر گئی تھی

                       ..❤️❤️..

بیہ یار ریڈی نہیں ہوئی ابھی

بیہ لایٹ پنک کلر کے ڈریس میں پنکی ہی لگ رہی تھی

اس کا بھرا بھرا وجود اسے مزید خوبصورت بنا رہا تھا

ماشاءاللہ 

میری جانم آج تو قیامت ڈھا  رہی ہے

انابیہ جو رونے کو تیار کھڑی تھی

بدر کو دیکھتے رو  پڑی تھی

کیا ہوا ڈارلنگ 

بدر دیکھو نہ وومٹ رک  نہیں رہی 

اب میں تیار ہو کر بار بار واش روم کی جانب بھاگوں 

ارے میری جان یہ دیکھو آپ کے لیے ٹیبلٹ لینے گیا تھا اور رونا بند کرو ورنہ کاجل پھیل گیا تو بھوتنی لگو گی

بدررررر

ارے مذاق کر رہا تھا  یہ لو ٹیبلٹ کھاؤ 

اور جلدی کرو ورنہ ملحان لالہ نے اکیلے گھوڑی چڑھ جانا ہے

                     ..❤️❤️❤️.. 

ملحان بلیک شروانی پہنے انتہا کا جوبصورت لگ رہا تھا

ماشاءاللہ 

بہت پیارے لگ رہو میرے بھائی 

قیس نے بے ساختہ ملحان کی تعریف کی تھی

ملحان مسکرا بھی نہ سکا تھا

قیس نے ملحان کی خاموشی دیکھتے ہوئے اس سے آنکھیں چرائی تھیں 

چلو بیٹا دیر ہو رہی ہے

                    ..❤️❤️❤️.. 

برات آ گئی برات آگئی کا شور ہر طرف اٹھا تھا ۔ساتھ ہی رمل کے دل سے درد بھی اٹھا تھا ۔سینے پر ہاتھ رکھتے اس نے پانی کا گلاس پیا تھا

ریڈ کلر کے ٹیل گاؤن لہنگے میں وہ آسمان سے اتری کوئی حور ہی لگ رہی تھی  دیکھنے والا ساکت رہ جاتا تھا۔

چلو رمل بیٹا برات آگئی 

رمل کا گھونگٹ نکال کر امامہ بیگم اس کا ہاتھ تھامے اسے سٹیج کی جانب لائیں جہاں دلہے میاں پہلے سے براجمان تھے نکاح آمنے سامنے ہونا تھا

سٹیج کے درمیان میں ایک سفید رنگ کا پردہ لٹک رہا تھا 

جی مولوی صاحب نکاح شروع کریں آغا جان کی آواز پر مولوی صاحب نے نکاح شروع کیا تھا ۔

رمل منور حسین شاہ آپ کا نکاح ملحان خان ولد حاتم خان سے 10 لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا ہے۔کیا آپ کو یہ نکاح منظور ہے

رمل کو لگا اس کے کان بج رہے ہیں 

اور دوسری طرف بیٹھے ملحان کو بھی لگا کہ اس نے دلہن کا نام غلط سنا ہے

رمل کی طرف سے خاموشی پر مولوی صاحب نے پھر دہرایا تھا

رمل منور حسین شاہ آپ کا نکاح ملحان خان ولد حاتم خان سے 10 لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح منظور ہے 

اس بار رمل واقع حیران تھی 

رمل جلدی سے اپنی جگہ پر کھڑی ہوئی اور اپنا گھونگھٹ الٹتے وہ مردوں والی سائڈ پر گئی تھی اس نے جلدی سے ملحان کے منہ پر سے قلہ اتار کر پھنکا تھا

تم.... تم....... بے شرم انسان  تم....تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے ساتھ ناٹک کرنے کی

ملحان بیچارہ جو خود کنفیوز کھڑا تھا؛ 

رمل کو سامنے دیکھ کر اسے لگا کہ جیسے جنت مل گئی ہو۔

قیس کو پتا تھا کہ کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے اس لیے اس نے صرف گھر کے لوگوں کو ہی اکٹھا کیا تھا

آغا جان، حاتم خان  سب ملحان کی درگت بنتا دیکھ رہے تھے

رمل اس کے سینے پر مکوں کی برسات کرتے اسے مارنے کے در پر تھی

تم تم منحوس انسان 

میں رخصتی کے بعد اپنے سسرال آگئ اور تمہیں پورا سال لگا اپنے گھر آنے میں کہاں تھے تم

رمل میں.. مجھے... وہ

ملحان سے تو کچھ بولا نہیں جا  رہا  تھا

جب سب کا مشترکہ قہقہہ گونجا تھا۔

رمل بیٹا آج تو میرے بیٹے کو معاف کر دو

اچھا تو یہ  آپ  سب کی ملی بھگت تھی 

ہاں تو کیا رمل ہی سب کو سرپرائز کر سکتی ہے ہم لوگ نہیں قیس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا

ملحان تو بس آنکھوں میں فتور لیے رمل کو تک رہا تھا 

تبھی ملحان قیس کو غصے سے گھورتا آگے بڑھا تھا

دیکھ چھوٹے اب اگر کچھ کہا نہ تو پھر سے رمل کو غائب کر دوں گا

لالہ اس بار یہ نوبت نہیں آۓ گی

اس دفعہ میں خود رمل کو لے کر غائب ہو جاؤں گا 

پہلے دلہن سے تو پوچھ لو جاۓ گی کہ نہیں ایک اواز حال میں گونجی ۔

میں اٹھا کر لے جاؤں گا

رمل نے سب کے سامنے ملحان کی اس حرکت پر سلام کیا تھا

پھر آغا جان بے اپنی سرپرستی میں نکاح دوبارہ کروایا

رمل کا ہاتھ پکڑتے ملحان نے خود سائن کرواۓ تھے سب کی گھوریوں کو نظر انداز کرتے وہ شوخا بنا ہوا تھا 

نکاح ہوتے ہی سب کو کھانے کی پڑ گئ تھی جب کہ ملحان تو رمل کو دیکھے جا رہا تھا

رمل شاید پہلی بار ملحان کی نظروں سے پزل ہورہی تھی

اس کی ڈیپ ریڈ لپ اسٹک سے سجے ہونٹ.. ملحان کو اپیل کر رہے تھے

ملحان ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا ۔ 

ابھی اور انتظار 

افففففففففف

ملحان نے رمل کے کان میں سرگوشی کی تھی اور ساتھ ہی اس کی کان کی لو پر اپنے لب رکھے تھے

رمل بولڈ ہونے کے باوجود سب کی موجودگی میں کانپ گئی تھی 

جانم ابھی سے کانپنا شروع کر دیا 

ابھی تو عشق کے اور امتحان ہیں باقی

کھانے کے بعد رخصتی کا شور اٹھا اور ایسے سب کی دعاؤں کے سائے میں رمل کو سسرال رخصت کیا گیا ۔

                   ۔۔❤️❤️۔۔

گھر آتے ہی امامہ بیگم نے بہت سی رسمیں کیں۔ملحان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ رمل کو اٹھا کر کمرے میں بھاگ جائے۔وہ اب اس سب سے بیزار سا ہو رہا تھا لیکن چہرے میں مسکراہٹ تھی بہت خوبصورت مسکراہٹ جیسے ہفتِ اقلیم پا لیا ہو 

آخ کار سب کو ملحان پر رحم آ ہی گیا اور رمل کو کمرے میں لے جانے کی بات ہوئی ۔یہاں پہلی بار حاتم خان بولے ۔

بیٹا جی جب ہماری شادی ہوئی تھی ہم اپنی بیگم کو اٹھا کر کمرے میں لے کر گئے تھے اب آپ کی باری ہے آپ بھی رمل کو ایسے ہی لے کر جائیں گے۔

باپ کی بات پر ملحان اور رمل دونوں کا ہی منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔لیکن پھر چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے اس نے کسی گڑیا کی طرح رمل کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا۔اس کے ایسا کرتے ہی ہوٹنگ کا ایک طوفان ِبدتمیزی اٹھا لیکن ملحان کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر رمل کو لیے کمرے کی طرف بڑھا ۔ رمل نے شرم سے اپنا چہرہ ملحان کے سینے میں چھپا لیا۔

جیسے ہی سب ملحان کے کمرے کے باہر پہنچے سب نے یہاں ہی رمل کو کھڑا کرنے کا بولا کیوں کہ رمل کو یہاں سے خود کمرے میں جانا تھا ملحان کو بنا نیگ کے کمرے میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ ملحان کے نیچے اتارتے ہی رمل جلدی سے کمرے میں چلے گئی مبادہ کوئی نیا حکم نہ جاری ہو جائے۔

کمرے کو دیکھتے ہی رمل کی آنکھیں اور منہ دونوں ہی ایک ساتھ کھلے تھے۔

ملحان کے کمرے کو پھولوں اور لائٹوں سے قیس نے اپنے ہاتھوں سے سجایا تھا

ملحان کا کمرہ خوبصورتی کی اعلی مثال لگ رہا تھا.

کمرے میں کھڑی رمل اپنے دلہناپے کا خیال کیے بغیر کمرے کو یک ٹک دیکھ رہی تھی 

ہاہا آپو یہ خان جی نے کروایا ہے آپ لوگوں کے لیے. نمل نے مسکراتے ہوۓ کہا 

آپو آپ کے ہاتھ کتنے ٹھنڈے ہو رہے ہیں.آج نمل بھی پورا تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔ اس لیے موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی تھی۔ 

نہیں نہیں کچھ نہیں ۔رمل جلدی سے بولی۔

آپو ادھر بیٹھ جائیں اور جیجو کے آنے تک چینج بلکل نہیں کرنا ۔نمل نے رمل کو بیڈ پر بیٹھاتے اس کا  لہنگے سائڈو پر پھیلا دیا۔ رمل چہرے پر گھونگھٹ لیے سر جھکائے راویتی دلہنوں کی طرح بیٹھی ہوئ تھی

جب باہر سے شور کی آواز پر اس کے دل کی دھڑکن ساکت ہوئی تھی 

ملحان لالہ

پورے 1 لاکھ چاہیں 

اور 1 لاکھ مجھے

انابیہ اور نمل ملحان کو اندر نہیں انے دے رہی تھی 

یہ لو میرا. Atm کارڈ اور پلیز مجھ ترسے ہوۓ کو اندر جانے دو۔ملحان نے جلدی سے ان کے ہاتھ میں کارڈ تھمایا اور کچھ بھی سمجھنے کا موقہ دیئے بنا کمرے میں گھس کر دروازہ بند کر لیا۔

پیچھے سب کا جاندار قہقہہ گونجا تھا۔

نمل نے کچھ کہنا چاہا لیکن قیس نے اچانک اسے اپنی بانہوں میں بھرا اور اسے لے کر اپنے روم  کی جانب بڑھ گیا تھا پیچھے بدر نے بھی یہی عمل دہرایا تھا

شکر ہے

ملحان ٹھنڈا سانس بھرتے آگے بڑھنے لگا 

لیکن وہ حیران سا دروازے میں ہی رک گیا کیونکہ سامنے دلہن بنی رمل جاۓ نماز پر بیٹھی تھی وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں چلتا رمل کی ایک سائڈ پر بیٹھ گیا۔

ریڈ اور گولڈن کلر کا لہنگا جس پر پرل کا کام تھا... ملحان کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا ۔سر پر گولڈن کلر کا حجاب بناۓ ماتھے پر ٹیکا لگائے وہ پردے میں بھی ایک مکمل دلہن لگ رہی تھیاور ہونٹوں پر جھکی نتھلی نے مزید قیامت برپا کی ہوئی تھی

رمل آنکھیں بند کیۓ اپنے اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی

ملحان نے دھیرے سے اس کی گود میں سر رکھا اور آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا 

رمل نے بے ساختہ جھکتے ملحان کو دیکھا تھا جو رمل کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا

رمل کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر ملحان کے ہونٹوں پر گرے تھے

ملحان جلدی سے اٹھ کر بیٹھا اور پریشان ہوتا ہوا رمل سے پوچھنے لگا۔

رمل شش کیوں رو رہی ہو اب تو جدائی کا موسم ٹل گیا اب تو ہجر کی رات ختم ہو گئ اب تو وصل کا موسم ہے پھر بھی

یہ آنسو؟

یہ تو خوشی کے آنسو ہے حان آپ کو پا لینے کے آنسو۔رمل نے نم آنکھوں سے ملحان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

شش رونا بند کرو ملحان نے رمل کا ہاتھ پکڑتے اسے بیڈ پر بٹھایا اور جاۓ نماز اٹھا کر الماری میں رکھا تھا

رمل آنکھوں میں آنسو لیے ملحان کو یک ٹک دیکھ رہی تھی 

ملحان چلتا ہوا رمل کے قریب آیا تھا

اور رمل کے قدموں کے پاس نیچے بیٹھ گیا ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا نمل بولی۔

حان آئی ایم سوری... 

مجھے آپ پر یقین کرنا چاہیے تھا۔

شش کچھ مت بولنا بس مجھے ان لمحوں کو محسوس کرنے دو... مجھے یقین دلانے دو کے میری رمل میرے پاس ہے مجھے کوئی گلہ نہیں تم سے

آج تمہیں اس مکمل روپ میں اپنے سامنے دیکھ کر میری تمام خواہشات پوری ہو گئ رمل.... ملحان نے اس کے مومی لبوں پر انگلی رکھتے اسے مزید کچھ کہنے سے روکا۔

پھر ملحان نے اپنی پاکٹ سے ایک پائل نکال کر رمل کے پاؤں کی زینت بنائ 

پھر بازو میں کنگن پہناتے ان پر اپنے لب رکھے 

رمل تو بس مسکراتے ہوئے ملحان کو دیکھ رہی تھی 

ملحان نے دھیرے سے رمل کے حجاب کی پنز نکالی تھی

ملحان کے ہاتھوں کی حرکت پر رمل کا دل زوروں سے دھڑکا تھا 

حان

شش

آج کچھ مت بولنا آج میں بولو گا اور تم سنو گی مجھے عشق سے تمہاری ان آنکھوں سے ملحان نے رمل کی آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے کہا تھا

ملحان کی  گرم سانسیں رمل کو بے خود کر رہی تھی

حجاب اتارتے ہی رمل کے جوڑے میں بندھے بال اس کی پشت پر بکھر گئے 

ملحان تو بالوں کی لمبائی اور خوبصورتی دیکھ کر حیران تھا

تبھی حیرت سے بولا تھا رمل وگ تو بہت اچھی ہے

رمل تو جذبات میں بہتی پتا نہیں کہاں پہنچی ہوئی تھی

ملحان کی آواز پر ہوش میں آئی ۔

حان یہ میرے اصلی بال ہیں. وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی

اور ملحان بیچارہ حیرت میں اپنے سامنے کھڑی رمل کو دیکھ رہا تھا

جو کھلے بالوں میں بلکل نمل لگ رہی تھی

میں.. میں.. ملحان سے کچھ بولا نہیں گیا تھا

کیا ہوا حان

رمل میں کیسے پہچانوں گا کہ کونسی آپ ہو اب تو آپ بلکل بھابھی جیسی ہو گئی ہو

ملحان کی بات سن کر رمل کا قہقہہ بے ساختہ تھا.

حان آپ ہمیشہ اتنے معصوم رہیں گے

رمل کہتے ڈریسنگ کے سامنے اپنی جیولری اتارنے لگی تھی

لیکن اس سے پہلے ملحان اس کی جانب بڑھتا اسے گود میں اٹھا چکا تھا

رمل کی آنکھوں میں دیکھتے وہ اسے بیڈ پر لے آیا تھا 

ملحان جتنا بھی معصوم ہے لیکن اتنا معصوم ہر گز نہیں ہے کہ اپنی بیوی سے دور رہے کہتے ساتھ وہ رمل پر جھکا تھا رمل کے سرخ لپ اسٹک سے سجے ہونٹ اسے پاگل کر رہے تھے ۔اسے اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہو رہا تھا ۔اس کا دل ان گلاب پنکھڑیوں کو چھونے کا تھا اس سے پہلے کہ وہ دل بات پر عمل کرتا رمل کی ہلکی سی آواز گونجی۔  

حان... پلیز لائٹ.... 

رمل نے دھڑکتے دل کو سنھالتے ہوئے کہا تھا

ملحان نے لایٹ آف کرتے سائڈ لیمپ روشن کر دیا تھا اور اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے رمل کے ہونٹوں پر شدت سے جھکا تھا۔کمرے میں پھیلی معنی خیز سی خاموشی اور ان دونوں کی چلتی سانسیں ان دونوں کے مکمل ہونے کی گواہی دے رہی تھی 

                  ..❤️❤️❤️❤️..

قیس جیسے روم میں داخل ہوا تو 

حیران رہ گیا ۔

روم کی لایٹ آف تھی اور پورے روم میں چھوٹے چھوٹے  دیے جل رہے تھے

اور ان کے اردگرد گلاب کے پھولوں  کی پتیاں خواب ناک سا ماحول بنا رہی تھیں۔ بیڈ کے درمیان میں نمل کو گھونگھٹ اوڑھے بیٹھا دیکھ کر قیس کی دھڑکنیں بڑھی تھی

تو وہ  حسین لمحہ آ چکا تھا 

جس کا قیس کو بے صبری سے انتظار تھا ۔دھیرے سے چلتا وہ نمل کے نزدیک بیڈ پر بیٹھا تھا اور شوخ ہوتے ہوئے بولا۔

مجھے نہیں پتا تھا کہ آج اتنا اچھا سرپرائز ملے گا ورنہ کب کا کمرے میں آ جاتا ۔قیس نے نمل کا گھونگھٹ اٹھاتے سرگوشی میں کہا تھا

کسی کی خواہش تھی  مجھے اس روپ میں دیکھنے کی  پھر کیسے نہ پوری کرتی۔ نمل نے اپنے خان کا مان رکھتے ہوئے کہا تھا۔ 

صدقے جاؤں بہت شکریہ جناب قیس مزید شوخ ہوا۔

میرا رونمائی کا تحفہ۔نمل نے قیس سے کہا۔

یہ پورے کا پورا خان آپ کا ہے میری جان ابھی بھی تحفہ چاہیے 

الحمدللہ کہ یہ خان میرا ہے۔نمل نے آگے بڑھتے قیس کے ماتھے پر لب رکھے تھے۔

اجازت ہےقیس نے دھیرے سے نمل کی طرف جھکتے اجازت لی تھی 

نمل نے مسکراتے اس کے سینے میں چہرہ چھپایا تھا.قیس نے اسے سیدھا کرتے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھے پھر آہستہ آہستہ چہرے کے ہر نقش کو چھوتے لب نمل کے لبوں پر رکھے۔آج قیس کے لمس میں شدت نہیں بلکہ پیار ہی پیار تھا۔

دور چاند ان سب کے ملن پر دل سے مسکرایہ تھا

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Tera Fitoor Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Tera Fitoor  written by Hina Rashid  . Tera Fitoor  by Hina Rashid is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment