Pages

Monday 26 August 2024

Mily Tum Se Kuch Is Tarah By Pareeshy Gull New Complete Romantic Novel

Mily Tum Se Kuch Is Tarah  By Pareeshy Gull New Complete Romantic  Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mily Tum Se Kuch Is Tarah  By Pareeshy Gull New Complete Romantic  Novel 


Novel Name: Mily Tum Kuch Is Tarah

Writer Name: Pareeshy Gull 

Category: Complete Novel

کراچی میں واقع نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سعید صاحب جو کہ ایک خوش اخلاق اور نیک سیرت کے مالک تھے ۔۔

اپنی فیملی کے ہمراہ ایک اچھی زندگی گزار رہے تھے ۔۔

سعید صاحب اور فاطمہ ہر حال میں اللہ کے ہمیشہ شکر گزار رہتے تھے

اللہ نے انہیں 2 بچوں سے نوازا تھا جن میں 1 بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔۔

بڑا بیٹا فاخر سعید ایک پرائیویٹ کمپنی کا ملازم تھا جس کی شادی اسکی پسند سے اسکی کلاس فیلو ایشا سے ہوئی تھی اور اب انکی ایک بیٹی تھی جو کہ 7 سال کی تھی جسکا نام رانیہ تھا۔۔

اور چھوٹی ہانیہ سعید جس کی شادی سعید صاحب نے اپنے دور کے رشتہ دار سے کردی تھی جب وہ صرف بیس سال کی تھی رشتہ مناسب تھا اور پھر مڈل کلاس میں بیٹیوں کو جلد سے جلد رخصت کرنے کا بھی رواج عام تھا۔۔

مگر محض دو سال میں ہی ہانیہ ایک طلاق یافتہ کے طور پر باپ کے گھر واپس آچکی تھی اور وجہ شادی کے دو سال تک کوئی اولاد کا نہ ہونا ساس کے کہنے پر شوہر نے اسے بانجھ سمجھ کر صرف دو سال میں ہی اسے طلاق دے دی تھی۔۔

جبکہ ہانیہ بہت محبت کرنے والی حساس اور اپنے رشتوں سے مخلص تھی مگر انسانوں کی چھوٹی سوچ کی بھینٹ چڑھ گئی تھی ۔۔

طلاق کے بعد ماں باپ اور بھائی کا رویہ تو ہانیہ کے ساتھ بلکل نہیں بدلا مگر دنیا کافی حد تک اس پر تنگ ہوگئی تھی جس میں سب سے بڑا کردار فاخر کی بیوی ایشا نے نبھایا تھا ۔۔

جب تک ہانیہ کی شادی نہیں ہوئی تھی ایشا ہانیہ کے ساتھ بہت اچھے سے رہتی تھی مگر جب سے ہانیہ اس گھر میں واپس ائی تھی ایشا کا رویہ ہانیہ کے ساتھ بہت بدل گیا تھا۔۔

ایشا کے رویّے کے بارے میں فاخر کو کچھ بھی علم نہیں تھا کیوں کے وہ تو جان دیتا تھا اپنی اکلوتی لاڈلی بہن پر۔۔۔

اپنی کم عمر بیٹی کے ساتھ لوگوں کا رویہ دیکھ سعید صاحب ٹینشن سے تھوڑے بیمار رہنے لگے تھے اور فاطمہ بیگم بھی اپنے شوہر اور بیٹی کیلئے بہت پریشان رہتی تھیں۔۔

ایشا کا رویہ ساس سسر کے ساتھ تو اچھا تھا مگر ہانیہ سے وہ بہت برا سلوک رکھتی تھی اور وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے ایشا کو یہ کہہ کر ہانیہ سے دور رہنے کا کہا تھا کہ اسکے ہی پرچھاوے کی وجہ سے اسکے ہاں رانیہ کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی جبکہ اسے بیٹے کی بہت خواہش تھی۔۔

اور ہانیہ خاموشی سے جہاں اپنے ماں باپ اور بھائی کے سائے میں تھوڑا پر سکون تھی وہیں دنیا کے رویّے کی وجہ سے اور بھی زیادہ کم گو ہوگئی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

عالم ولا کراچی کے مہنگے ترین علاقے میں اپنی پوری شان وشوکت کے ساتھ کھڑا تھا۔۔

اس گھر میں کل 5 افراد رہتے تھے ۔۔

سب سے بڑی ساجدہ بیگم تھی جنہیں اللہ نے ایک بیٹا دیا تھا جسکا نام انہوں نے شان عالم رکھا تھا ۔۔

شان عالم ایک بہت ہی کامیاب اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔۔

انہوں نے اپنی زندگی جتنی کامیابیاں دیکھی تھیں وہ شاید کسی کسی نے دیکھیں ہوں مگر پھر وہ اتنے ہی عبادت گزار اور اللہ کے شکر گزار بھی تھے۔۔

شان عالم اور انکی زوجہ عالیہ بیگم کو اللہ نے ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا تھا بڑا بیٹا وجاہت عالم اور چھوٹی بیٹی نیلم عالم تھی۔۔

وجاہت عالم اپنے نام کی ہی طرح مردانہ وجاہت کا شاہکار مانا جاتا تھا اپنی خوبصورت اور چارمنگ پرسنالٹی کی وجہ کئی دلوں کی دھڑکنوں کا مالک تھا جبکہ اسکا دل صرف ایک لڑکی کیلئے دھڑکتا تھا وہ تھی اسکی بچپن کی دوست نور ۔۔

نور جتنی حسین تھی اتنی ہی مغرور بھی تھی وہ اپنے سے کم تر لوگوں کو بلکل بھی پسند نہیں کرتی تھی غرور اور تکبر اسکی ہر ادا سے جھلکتا تھا مگر وہ وجاہت سے محبت کرتی تھی۔۔

نور کے غرور اور تکبر کے باوجود شان عالم اور عالیہ بیگم نے خوشی سے اپنے بیٹے وجاہت کی شادی نور سے کروا دی تھی کیوں وہ جانتے تھے کہ وجاہت اور نور بچپن سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔۔

مگر یہ محبت چند ماہ بعد ہی دونوں کے درمیان کم سے کم تر ہوگئی تھی جب شادی کے 6 ماہ بعد اللہ نے وجاہت اور نور کے ہاں خوشخبری دی 

پورے عالم ولا میں خوشیوں کی ایک مہک آگئی تھی سب بہت خوش تھے سوائے نور کے وہ ابھی ماں نہیں بننا چاہتی تھی مگر وجاہت کی ضد کے آگے وہ خاموش تھی۔۔

پھر کچھ مہینوں بعد وجاہت اور نور ایک پارٹی سے لیٹ نائٹ واپس آرہے تھے کہ کسی کار نے انکی گاڑی کو زوردار طریقے سے ٹکر ماری ۔۔

دونوں ہی بہت زخمی ہوئے تھے مگر نور اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی اور جاتے جاتے وہ اپنی پرچھائی اپنی بیٹی وجاہت کو دے گئی تھی جس کا نام عالیہ بیگم نے حور رکھا تھا ۔۔

نور کے جانے کے بعد وجاہت نے خود کو کام میں اتنا الجھا لیا تھا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ اپنے گھر والوں اور دنیا سے دور ہوتا چلا گیا۔۔

جس مسکراہٹ پر لڑکیاں فدا ہوتی تھیں وہ مسکراہٹ کہیں گم ہی ہوگئی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

بھائی آپ اتنا پریشان کیوں رہنے لگے ہیں ۔۔

ہانیہ فاخر کو ٹی وی لاؤنج میں موجود بیٹھا دیکھ وہیں اسکے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔

کیونکہ فاخر ہانیہ کو بہت پریشان لگا وہ بار بار ٹی وی کا چینل چینج کر رہا تھا مگر دیکھ کچھ نہیں رہا تھا۔۔

کچھ نہیں ہانی بس اپنی جاب کے وجہ سے بہت پریشان ہوں۔۔

فاخر اور ہانیہ ایک دوسرے سے بہت اٹیچ تھے دونوں ایک دوسرے سے کبھی کچھ نہیں چھپاتے تھے۔۔

کیسی پریشانی بھائی؟

ہانی 5 سال ہوگئے ہیں مجھے یہ جاب کرتے ہوئے پوسٹ کو بڑھی ان 5 سالوں میں مگر سیلری بلکل نہیں بڑھی آج تک اور مہنگائی بھی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔۔

بھائی لیکن آج سے پہلے تو آپ کبھی پریشان نہیں ہوئے۔۔

ہانیہ نے فاخر سے دھیمے لہجے میں کہا۔۔

ہانی یہ سال کا شروع ہے اور ابھی سے ہی مہنگائی کتنی ہی گنا بڑھ گئی ہے رانیہ کی فیس اور بابا کی میڈیسن سب سے ضروری ہیں اور گھر کا خرچ اور یہ سب تو پھر بھی اللّٰہ سب کروا ہی رہا ہے۔۔

تو آپ پریشان کس لئے ہیں بھائی۔۔؟

ہانیہ کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ فاخر جو کبھی اپنی آمدنی کو لے کر پریشان نہیں ہوا بلکہ وہ جتنا بھی کماتا تھا اس میں بھی اللہ کا شکر گزار رہتا تھا۔۔

ہانی میں تمہیں ماسٹرز کروانا چاہتا ہوں تمہیں اپنے پیروں پر کھڑا دیکھنا چاہتا ہوں تمہیں اس قابل بنانا چاہتا ہوں کہ لوگ تمہیں دھتکارنے سے پہلے دس بار سوچیں۔۔

مگر چاہ کر بھی میں اپنے بجٹ سے تمہاری پڑھائی کے اخراجات نہیں مینج کرپا رہا ہوں۔۔

آج پہلی بار مجھے یہ احساس ہورہا ہے کہ پیسہ واقعی بہت ضروری ہوتا ہے انسان کی زندگی میں۔۔

بھائی آپ یہ سب ممانی جان کی باتوں کی وجہ سے سوچ رہے ہیں نہ ۔۔

ہانیہ کو اب سمجھ آیا کہ فاخر آج اتنا پریشان کیوں ہے۔۔

وہ ہوتی کون ہیں میری ہانی کے بارے میں کچھ بھی بولنے والی سنا تھا میں نے جب وہ تمہارے لئے ایک بوڑھے آدمی کا رشتہ لے کر آئیں تھی جو کہ پوتے پوتی اور نواسہ نواسی والا تھا۔۔

سمجھ کیا رکھا ہے انہوں نے میری معصوم سی بہن کیا میرے لئے کوئی بوجھ ہے ۔۔

فاخر شدید اشتعال میں بول رہا تھا اور ہانیہ نم آنکھوں سے بس اپنے بھائی کو مان سے دیکھ رہی تھی۔۔

غصہ کم کریں فاخر بھلا ممانی جان نے ایسا بھی کیا کردیا جس سے آپ اتنا غصہ کر رہے ہیں ۔۔

ایشا نے جب فاخر کی غصے بھری آواز سنی تو وہ بھی ٹی وی لاؤنج میں چلی آئی۔۔

اب بھلا ایک طلاق یافتہ اور اوپر سے بانجھ لڑکی سے کون شادی کرتا ہے بھلا۔۔

وہ تو ہانیہ کیلئے اچھا ہی سوچ رہی تھیں نہ۔۔

فاخر اور ہانیہ حیرت سے ایشا کو بولتا دیکھ رہے تھے جو کہ بہت عام سے انداز میں فاخر سے مخاطب تھی پر نظریں ہانیہ کی طرف کی ہوئی تھی۔۔۔

دماغ ٹھیک ہے تمہارا کہاں میری کم عمر بہن اور کہاں وہ 65 سال کا بوڑھا آدمی۔۔

فاخر اب باقائدہ ایشا پر چلا رہا تھا جبکہ ہانیہ ایشا کی باتیں اس سے زیادہ سن نہیں پائی اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت عالم کدھر چلے آپ؟؟

ساجدہ بیگم نے اپنے پوتے کو مخاطب کیا جو تیزی سے گھر کے داخلی دروازے کی سمت بڑھ رہا تھا۔۔

دادو میں روز اس وقت آفس جاتا ہوں۔۔

وجاہت نے دھیمے لہجے میں اپنی دادو کو جواب دیا۔۔

برخودار یہ وقت ناشتے کا ہے اور آپ ابھی اسی وقت یہاں آکر سب کے ساتھ ناشتہ کرو۔۔

ساجدہ بیگم نے بھی پیار سے اپنے پوتے کو حکم دیا۔۔

دادو آپ جانتی ہیں مجھے ناشتہ کرنا نہیں پسند یہ عادت میں بہت پہلے ہی چھوڑ چکا ہوں ۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر گھر کے باہر کی طرف قدم بڑھائے۔۔

ٹھیک ہے ناشتہ مت کرو کم سے کم ہم سب کے ساتھ یہاں بیٹھ ہی جاؤ۔۔

اب کی بار وجاہت سے ہار مانتے ہوئے ڈائیٹنگ ٹیبل پر موجود سب کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔

جی کہئے کیا بات کرنی ہے آپ کو۔۔

پہلے تھوڑا کچھ کھالو پھر آرام سے بات کروگی۔۔

وجاہت اپنی دادو کو شکوے بھری نظر سے دیکھ رہا تھا جبکہ باقی گھر والوں کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی دادو کی چلاکی پر۔۔

دادو پلیز مجھے ناشتہ نہیں کرنا۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر ناشتہ کرنے سے منع کرنا چاہا 

برو جب آپ ہمارے ساتھ بیٹھ ہی گئے ہو تو ناشتہ بھی کرلو۔۔

اب کی بار نیلم نے پیار سے وجاہت کو کہا۔۔

تو اس نے بس جوس ہی پیا۔۔

ناشتے سے فارغ ہوکر وہ دادو کو لئے انکے کمرے میں چلا آیا ۔۔

جی کہئے دادو کیا بات کرنی تھی آپ کو مجھ سے۔۔

بیٹا میں چاہتی ہوں کہ تم پھر سے شادی کرلو۔۔

دادو نے بغیر کسی لگی لپٹی کے وجاہت سے بات کی کیوں کہ وہ ہمیشہ مدعے کی بات کرتی تھیں باتوں کو گھما پھرا کر کرنے کی عادت ان میں بلکل نہیں تھی۔۔

جبکہ وجاہت بس دادو کو حیرت اور صدمے سے دیکھے گیا۔۔

آپ جانتی ہیں دادو نور کو گئے ابھی صرف 4 ماہ ہی ہوئے ہیں اور میں اس زندگی میں نور کی جگہ کبھی کسی کو نہیں دونگا۔۔

وجاہت نے اٹل لہجے میں دادو کو جواب دیا۔۔

میں جانتی ہو بیٹا مگر میں تمہارے لئے نہیں بلکہ حور کیلئے تمہیں شادی کرنے کیلئے کہہ رہی ہوں۔۔

بیٹا حور بہت چھوٹی ہے اور ہر بچے کی طرح اسے بھی ایک ماں کی ضرورت ہے۔۔

دادو نے وجاہت کو سمجھانا چاہا۔۔

دادو پلیز اتنے سارے لوگ ہیں گھر میں اتنے نوکر چاکر ہیں میری بیٹی کو سوتیلی ماں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

وجاہت نے ابکی بار تھوڑے روکھے لہجے میں کہا۔۔

بیٹا نیلم اپنی پڑھائی میں مصروف رہتی ہے تمہاری ماں کتنا بھی حور کو پیار سے رکھیں وہ اسکی دادی ہیں ماں نہیں اور مجھ سے اس عمر میں بچے نہیں سنبھالے جاتے ۔

 عالیہ بیگم حور کو بہت اچھے سے سنبھالتی تھی لیکن وہ بھی اپنی پوری کوشش کے باوجود حور کو وہ توجہ نہیں دے پاتی تھی جو کہ ایک چھوٹے بچے کو چاہئے ہوتی ہے۔۔

عالیہ بیگم بلڈ شوگر کی مریضہ تھیں تو ان کیلئے آرام بہت ضروری تھا اسی لئے وجاہت نے حور کیلئے میڈ بھی رکھی ہوئی تھی۔۔

دادو ماما نہ سہی گھر میں اتنے نوکر چاکر ہیں حور کی الگ سے نینی ہے ۔۔

وہی نینی جو کہ دسویں ہے پچھلے 4 ماہ میں تم 9 نینیوں کو نکال باہر کر چکے ہو کیوں کہ وہ حور کا اچھے سے خیال نہیں رکھ پارہی تھیں۔۔

تو اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ ایک سوتیلی ماں میری بیٹی کو وہ پیار دے گی جو ایک ماں اپنی سگی بیٹی کو دیتی ہے۔۔

وجاہت کی بات پر ابکی بار ساجدہ بیگم چند پل کیلئے لا جواب ہوگئی تھیں۔۔

میں تمہارے خدشات بہت اچھے سے سمجھ سکتی ہو بیٹا مگر اس دنیا میں ابھی بھی اچھے لوگ موجود ہیں ۔۔

دادو پلیز آج کے دور میں کوئی کسی کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ یہ سب چھوڑیں اگر حور کی سگی ماں بھی زندہ ہوتی نہ تو تب بھی حور کسی آیا کی گود میں ہی بڑی ہوتی نور کو تو آپ اچھے سے جانتی تھیں وہ تو حور کو اس دنیا میں ہی نہیں لانا چاہتی تھی اسے پیار کیا کرتی ۔۔

ساجدہ بیگم غور سے اپنے خوبرو پوتے کو دیکھ رہی تھیں جو وقت سے ساتھ ساتھ تلخ ہوتا جارہا تھا۔۔

اور اگر میری بیٹی سے آپ لوگوں کو تکلیف ہورہی ہے تو میں اسے اپنے ساتھ آفس لے جایا کرونگا اور اپنے ساتھ ہی اسے گھر لایا کرونگا۔۔

وجاہت عالم تم جانتے بھی ہو تم کہہ کیا رہے ہو۔۔

ہم اپنی پر پوتی سے بھلا کیسے پریشان ہوسکتے ہیں۔۔

دادو نے بھی ابکی بار وجاہت سے غصے سے بات کی ۔۔

میں کچھ نہیں جانتا دادو بس اب اپنی بیٹی کو میں اپنے ساتھ ہی رکھوں گا۔۔

وجاہت یہ کہہ کر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔

اور ساجدہ بیگم اپنا سر تھامے وہیں بیٹھ گئیں ۔۔۔

وہ وجاہت کو کیا سمجھانا چاہتی تھیں اور وہ کیا سمجھ کے وہاں سے چلا گیا تھا۔۔

ہانیہ تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔

ایشا نے غصے سے ہانیہ کو مخاطب کیا جو کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی۔۔

بھابھی میں تو رات کیلئے کھانا بنا رہی ہوں۔۔

ہانیہ نے ایشا کی بات کا مطلب نہ سمجھتے ہوئے عام سے لہجے میں جواب دیا۔۔

تم اچھے سے جانتی ہو کہ آج تمہارے بھائی گھر پر ہیں اور انہوں نے تمہیں یوں کچن میں دیکھا تو مجھ پر غصہ کریں گے ۔۔

تم تو چاہتی ہی یہی ہو نہ کہ میرے اور میرے شوہر کی ہمیشہ لڑائی ہی ہو ۔۔

یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں بھابھی بھلا میں کیوں ایسا چاہوں گی ۔۔۔

رہنے دو بس اچھے سے جانتی ہوں میں تمہیں اپنا شوہر تو سنبھلا نہیں تم سے اب مجھے بھی تم میرے شوہر کے ساتھ خوش نہیں دیکھ سکتی ۔۔

بھابھی آپ جس کے بارے میں بول رہی ہیں وہ میرے بھائی ہیں بھلا میں اپنے بھائی کو دیکھ کے ناخوش کیسے ہوسکتی ہوں۔۔

رہی بات میرے شوہر کی تو میں نے ہر ممکن کوشش کی تھی اپنے رشتے کو نبھانے کی ۔۔۔

ہانیہ آج پہلی بار تھوڑا تلخ ہوئی تھی ایشا کے ساتھ وجہ صبح کا ممانی کا لایا ہوا رشتہ پھر ایشا کی طنز بھری باتیں اور اب اسکا یوں اسے باتیں سنانا تھا۔۔

نکلو کچن سے ابھی تمہارے بھائی نے مجھے کم باتیں سنائی ہیں جو اور سنوانا چاہتی ہو۔۔

ایشا نے نخوت سے کہہ کر ہانیہ کو کچن سے جانے کا کہا۔۔

پر بھابھی کھانا تو روز میں ہی پکاتی ہوں۔۔

ہانیہ نے اب کے بھرائے لہجے میں کہا۔۔

آج کے بعد تم یہاں مجھے کچن میں نظر نہ آؤ اور ہاں اپنی پڑھائی کا خواب چھوڑو اور کہیں جاکر نوکری کرو میرے میاں اپنے ماں باپ کو پال رہے ہیں یہی کافی ہے اوپر سے تم بھی آگئی ہو اس گھر میں۔۔

ہانیہ ایشا کی باتیں سن کے خاموشی سے کچن سے نکلتی چلی گئی کیونکہ وہ اس سے زیادہ سن بھی نہیں سکتی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت حور کو روز آفس لے آتا تھا اور پچھلے ایک ہفتے سے اس نے حور کیلئے ایک نئی نینی بھی اپائنٹ کی تھی۔۔

حور ایک پری میچور بچی تھی اسی لئے کوئی بھی نینی اسکا ٹھیک سے دیہان نہیں رکھ پا رہی تھی ۔۔

اب بھلا کوئی کوئی نینی ایک ماں کی جگہ تھوڑی لے سکتی تھی۔۔

وجاہت نے حور کیلئے ایک آفس کا کمرا کافی حد تک سیٹ کروا دیا تھا جس میں حور اور اسکی نینی ہی ہوتی تھی۔۔

کمرے میں موجود خفیہ کیمرے کی وجہ سے وجاہت پل پل کی نظر رکھتا تھا اپنی بیٹی پر۔۔

اسی لئے اسنے حور کی پچھلی نینی کو نکال باہر کیا تھا کیوں کہ وہ سمجھی اسے یہاں کوئی نہیں دیکھ رہا تو اس نے حور کی دیکھ بھال میں بہت لاپرواہی برتی۔۔

وجاہت کا حور کو آفس لے جانا گھر والو کو بہت برا لگا خاص کر عالیہ بیگم کو مگر ساجدہ بیگم نے سب کو کچھ بھی کہنے سے منع کیا تھا۔۔

کیوں کہ شاید یہی ایک راستہ تھا وجاہت کو یہ احساس دلانے کا کہ حور بغیر ماں کے کیسے رہے گی۔۔

آج مسلسل ایک ہفتہ ہوگیا تھا وجاہت کو حور کو لئے آفس جانے کا وہ کافی پریشان رہتا تھا حور کو لے کر مگر گھر میں کسی کو کچھ نہیں کہتا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

بابا میں سوچ رہی ہوں کہیں جاب کرلو۔۔

ہانیہ نے جھجکتے ہوئے سعید صاحب سے بات کی۔۔

کیوں میری جان تمہیں کیا ضرورت نوکری کی۔۔

بابا میں پورا دن گھر میں بور ہوجاتی ہوں گھر کے کام کاج بھی اتنے نہیں ہوتے اور گھر سے باہر نکلو گی میرا دماغ دنیا کی باتوں سے تھوڑا دور بھی رہے گا۔۔

اور ویسے بھی بابا بھائی آخر کب ہماری زمہ داری سنبھالیں گے آخر کو اب انکی بھی تو ایک فیملی ہے اور میں بھی تو آپ کی ہی اولاد ہوں میرا بھی تو فرض بنتا ہے نہ کہ میں بھی اپنے ماں باپ کیلئے کچھ کروں۔۔

لیکن بیٹا تم نا سمجھ ہو تمہیں اس دنیا کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کیسے کیسے لوگ ہیں اس دنیا میں تم نہیں جانتی۔۔

اب کی بار ہانیہ کی امی بولیں۔۔

امی میں باہر جاؤنگی تو ہی دنیا سے کیسے ڈیل کرنا ہے سیکھ پاؤنگی ۔۔

اور آخر کب تک آپ لوگ مجھے ایسے دنیا والوں سے چھپا کر رکھیں گے ۔۔

ہانیہ جو سعید صاحب کو سمجھانا چاہتی تھی وہ اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔۔

ٹھیک ہے بیٹا میں آج ہی فاخر سے بات کرتا ہوں ۔۔

ہانیہ خاموشی سے سر اثبات میں ہلا کر وہاں سے چلی گئی۔۔

آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہانی جاب کرے گی۔۔

بیگم اس میں غلط کیا ہے اور یہ بھی تو سچ ہی ہے نہ کہ آخر کب تک ہم اپنی بیٹی کو دنیا کی نظروں سے بچا کر رکھیں گے ۔۔

ہماری آنکھیں میچ جانے کے بعد بھی تو اسے دنیا کا اکیلے ہی سامنہ کرنا ہے اور ایشا کو تو تم جانتی ہو فاخر کتنا ہی اپنی بہن پر جان چھڑکے ایشا کبھی ہانیہ کو برداشت نہیں کرے گی۔۔

تو اس وقت سے بہتر ہے ہانیہ ابھی سے ہی دنیا داری سیکھے کم سے کم ابھی ہم اسے اچھے برے کے بارے میں بتا تو سکیں گے۔۔

ہمم ٹھیک ہے جیسا آپ کو بہتر لگے۔۔

سعید صاحب کی بات سے فاطمہ بھی متفق تھیں۔۔

پھر سعید صاحب نے بہت مشکل سے فاخر کو راضی کیا ہانیہ کی جاب کیلئے ۔۔

پہلے تو فاخر بلکل بھی راضی نہیں تھا ہانیہ کی جاب کیلئے مگر پھر سعید صاحب نے اسے پیار سے سمجھایا اور مستقبل کے بارے میں ہانیہ کیلئے کیا بہتری ہے یہ بھی سمجھایا تو بل آخر فاخر مان ہی گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ شروع سے ہی پڑھائی میں بہت تیز تھی مگر وہ لوگوں سے بہت کم ہی گھل مل پاتی تھی یہی وجہ تھی کہ اسنے کبھی کوئی دوست نہیں بنائی تھی ۔۔

پہلے اسکول اور پھر کالج ہانیہ فاخر کے ساتھ جاتی اور چھٹی کے وقت سعید صاحب کے ساتھ ہی واپس گھر آجاتی ۔۔۔

اور پھر کم عمری میں شادی اور شادی کے بعد گھر کی زمہ داریاں ۔۔

ہانیہ کبھی دنیا اور دنیا داری کے بارے میں کچھ سیکھ ہی نہ سکی۔۔

کچھ دنوں میں ہی اسنے کئی جگاؤں پر انٹرویو دیئے جو بھی اخباروں میں ایڈ آیا یا ان لائن ویکینسی آئی اسنے فاخر سے بات چیت کرکے وہاں پر انٹرویو دئیے مگر صرف گریجویٹ ہونے پر اسے اچھی نوکری ملنے میں تھوڑی دقت آرہی تھی۔۔

اور جو نوکری اسے مل رہی تھی وہ فاخر کو پسند نہیں آرہی تھی ۔۔

اب کل بھی اسکا ایک انٹرویو تھا اور آج وہ تھکی ہاری جب گھر میں آئی تو دیکھا کہ کچن کا کام نہ ہونے کے برابر ہوا تھا اپنا بیگ کمرے میں رکھ کر ہانیہ کچن میں آئی اور ایک بار پھر کام میں لگ گئی۔۔

بیٹا تم کب آئی۔۔

فاطمہ نے ہانیہ کو کچن میں مصروف دیکھا تو بولیں۔۔

امی بس آدھا گھنٹہ ہوگیا ہے گھر آئی تو دیکھا کہ کچن پھیلا پڑا ہے اور بھابھی سورہی ہیں۔۔

اب وقت پر کھانا نہیں بنا تو بابا کھانا دیر سے کھائیں گے اور پھر دوا میں بھی دیری ہوجائے گی۔۔

اسی لئے کھانا پکا رہی ہوں۔۔

بیٹا تم ہٹو میں کر دیتی ہوں تم پہلے ہی صبح سے پتہ نہیں کہاں کہاں دھکے کھاتی رہی ہونگی۔۔

فاطمہ نے اپنی بیٹی کا اترا چہرا دیکھ کے کہا۔۔

امی میں اتنا تھکی نہیں ہوں جتنا حیران ہوں۔۔

کیا مطلب۔۔؟

امی ہمارے معاشرے میں عورتوں کو کیسی نظروں سے دیکھتے ہیں نہ جب وہ نوکری کیلئے گھر سے نکلتی ہیں ۔۔

ہانیہ نے مصروف سے انداز میں کہا۔۔

بیٹا کسی نے تمہیں کچھ کہا ہے کیا یہ پھر راستے میں تو کسی نے تنگ نہیں کیا نہ۔۔

فاطمہ کو ہانیہ کی فکر ہونے لگی۔۔

نہیں امی ہوا کچھ نہیں نہ ہی کسی نے کچھ کہا میں تو بس لوگوں کی نظروں سے تھک گئی ہوں ہر آدمی کی آنکھوں میں لگتا ہے کہ ایکسرے مشین فٹ ہوئی وی ہے ۔۔

ان دنوں میں مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے لڑکیاں کوئی نمائش کی چیز ہوں جسے ہر آدمی  گھور گھور کے اور غوروفکر سے دیکھنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔۔

بیٹا اسی لئے فاخر اور تمہارے بابا نہیں چاہتے کہ تم گھر سے باہر کہیں بھی نوکری کرو۔۔

امی بابا اور بھائی کا سایہ ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے پہلے دن مجھے اکیلے جانے میں بہت ڈر لگا مگر میں پورے پورے راستے بھائی سے یہ بابا کے ساتھ رابطے میں تھی اور پھر دن بہ دن یہ ڈر بھی ختم ہوگیا۔۔

ان دس پندرہ دنوں میں ہی مجھے یہ احساس ہوگیا کہ بھائی اور باپ کی ایک عورت کی زندگی میں کیا اہمیت ہوتی ہے ۔۔

بس یہی سوچتی ہوں کہ جن کے سروں پر باپ اور بھائی جیسی نعمت نہیں ہوتی انکا کیا ہوتا ہوگا کیسے وہ لوگ دنیا کا سامنہ کرتی ہونگی۔۔

ہانیہ اپنا کام کرتی جارہی تھی اور ساتھ میں اپنے دل کی بات بھی اپنی امی سے کر رہی تھی۔۔۔

مشرقی لڑکیاں اپنے دل کا ہر حال اپنی ماؤں کو ہی تو بتاتی ہیں۔۔

مگر کچن کے باہر کھڑے سعید صاحب کی آنکھیں نم ہوگئی تھی وہ کچن میں پانی لینے کی غرض سے آئے تھے مگر ہانیہ کی باتوں کو سن کے وہیں کے وہیں جم گئے۔۔

کتنی خواہشوں سے انہوں نے ہانیہ کی شادی کی تھی یہ سوچ کے کہ اسکے سر پر ہمیشہ ایک مضبوط سایہ رہے گا اور اسکا شوہر اسکا ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دے گا اور اسے ہمیشہ تحفظ فراہم کرے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا جو کچھ انہوں نے سوچا تھا۔۔

ہانیہ شروع سے ہی کم گو تھی مگر خوش رہا کرتی تھی اسکے چہرے کی مسکراہٹ میں اسکے ماں باپ اور اسکے بھائی کی جان بستی تھی۔۔

جو اب زبردستی وہ چہرے پر لانے کی کوشش کرتی تھی مگر زیادہ تر ناکام رہتی تھی۔۔۔

اس وقت سعید صاحب نے دل سے دعا کی کہ ہانیہ کو کوئی ایسا مضبوط سہارا ملے جو اسے دنیا کی ہر نرمی گرمی سے بچا کر رکھے جیسے اتنے سالوں اسکے باپ اور بھائی نے اسے تحفظ فراہم کیا۔۔

اور اس وقت شاید قبولیت کی گھڑی تھی سعید صاحب کی دعا اللّٰہ کی بارگاہ میں قبول ہو چکی تھی جسکا انہیں ابھی اندازہ نہیں ہونا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓 

آج بھی ہانیہ کا انٹرویو تھا اس کمپنی میں جاب کا ایڈ اسنے ایک ان لائن سائٹ پر دیکھا تھا کمپنی بہت بڑی تھی اور جاب ملنے کے چانسس اسے کم ہی لگ رہے تھے ۔۔

بڑی بڑی کمپنیوں میں تو کتنے ہی لوگ جاب کیلئے انتظار میں بیٹھے پوتے ہیں یہ تو ہانیہ کی قسمت ہی تھی جسے اپلائے کرنے پر ہی اسے انٹرویو کی کال آگئی تھی۔۔

ہانیہ اس وقت ایک عالیشان آفس کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھی تھی۔۔

 وہ بار بار اپنے ڈاکومنٹس چیک کر رہی تھی ساتھ میں نظریں آس پاس کے لوگوں پر ڈال رہی تھی ۔۔

اس آفس میں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی اس جاب کیلئے انٹرویو دینے آئی تھی۔۔۔

یہ ملک کی جانی مانی کمپنیوں میں سے ایک تھی جس میں جاب ملنا ہانیہ کیلئے بہت بڑی بات تھی۔۔

اس پاس موجود لڑکیاں چہرے پر میک اپ ایسے لگائی ہوئی تھی جیسے وہ کسی پارٹی میں موجود ہوں ۔۔۔

ایک لڑکی کو اسنے کہتے سنا کہ سنا ہے اس کمپنی کا جو مالک ہے 

 وجاہت عالم وہ بہت وجیہہ شخصیت کامالک ہے مگر مغرور شہزادہ ہے ۔۔

قریب آدھے گھنٹے سے وہ لڑکیوں کی باتیں ہی سن رہی تھی جس میں ذکر صرف وجاہت عالم کا ہی تھا 

ہانیہ کو ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ تو بس اپنے ماں باپ کیلئے کچھ کرنا چاہتی تھی اور اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہتی تھی۔۔

اتنی دیر بیٹھنے کے بعد اسے پیاس کی شدت محسوس ہوئی تو اسنے ریسیپشن سے پانی کا پوچھ کے واٹر ڈسپینسر کے پاس رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئی۔۔

وہ واٹر ڈسپینسر کے پاس چیئر پر بیٹھ کر پانی پی رہی تھی جب اسے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس آواز کی طرف کھنچتی ہی چلی گئی۔۔

پاس کے ہی ایک روم میں ایک عمر رسیدہ خاتون ایک بچے کو لیے ہوئے تھیں جو کہ مسلسل رورہا تھا۔۔

ہانیہ نے اس عورت سے بچے کے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ پتہ نہیں کیوں رورہا ہے۔۔

آپ کا بچہ ہے اور آپ کو معلوم ہی نہیں ہے۔۔ ہانیہ کو حیرت ہوئی۔۔

نہیں بی بی یہ میرا بچہ نہیں ہے میں اسکی آیا ہوں تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں مجھے اس بچی کی آیا بنے ہوئے۔۔

ہانیہ سے جب رہا نہ گیا تو اس نے بچہ ان کے ہاتھ سے لے کر اپنی گود میں لیا اور دونوں بازوؤں سے ایسے پکڑا جس سے بچے کے ہاتھ پیر دب گئے اور وہ چند ہی پل میں خاموش ہوگیا۔۔

ہانیہ نے اسے گلے سے لگا کر آنکھیں موند لیں ڈھیروں سکون نے اسے آن گھیرا۔۔

ایک بچے کی کمی نے ہی تو اسکی ذات کو توڑ دیا تھا ساتھ میں اسکے رشتے کو بھی۔۔

ہانیہ نے سوچا کہ یہ کیسا انصاف ہے میں ایک بچے کیلئے تڑپی اور اللہ نے جسے اولاد کی نعمت سے نوازا ہے اسنے اپنی اولاد آیا کی گود میں ڈالی ہوئی ہے۔۔

کافی دیر تک ہانیہ اس بچی کو گود میں لی ہوئی تھی چونکہ رانیہ کئی سال تک ہانیہ کے پاس ہی پلی تھی تو ہانیہ کو بچوں کا رکھ رکھاؤ اچھے سے آتا تھا۔۔

 ایشا کو تو کبھی اپنی بچی کی فکر ہی نہ ہوئی تھی۔۔

جب وہ بچی سوگئی تو ہانیہ نے اسے شال میں اچھے سے لپیٹ کر اس عورت کو دیا۔۔

ٹھنڈ کا موسم ہے اسی لئے تھوڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے بچوں کی ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں آپ مالش کیا کریں انکی۔۔

ہانیہ ایسے بول رہی تھی جیسے 4 5 بچوں کی ماں ہو۔۔

اس عورت نے اس لڑکی کا شکریہ ادا کیا جو محض 22 یا 23 سال کی ہوگی مگر اپنی عمر سے کئی بڑی باتیں کر رہی تھی۔۔

کمرے میں موجود سی سی ٹی وی کی مدد سے وجاہت عالم کی نظریں اسکرین پر اسے بہت دیہان سے دیکھ رہی تھیں۔۔

اور اب اسکے ذہن میں اسکی دادو کی باتیں گونجی کہ اس دنیا میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں اور کوئی ہوسکتی ہے جو کہ حور کو ایک ماں سے بڑھ کر پیار کرے گی۔۔

پھر چند پل میں ہی وجاہت عالم نے فیصلہ کرلیا اپنی بیٹی کے مستقبل کا۔۔

بغیر یہ سوچے کہ اس فیصلے میں کسی اور کی بھی زندگی جڑی ہے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ویٹنگ ایریا واپس آکر بھی تقریباً دس منٹ بعد اسے آفس میں بلایا گیا ۔۔

مس ہانیہ سعید آپ اندر جاسکتی ہیں۔۔

کسی لڑکی نے اسے آفس میں جانے کا کہا تو وہ اپنا بیگ سنبھالتی دروازہ ناک کرکے آفس میں پہنچی۔۔۔

فائل تھوڑی دیر پہلے ہی اندر جا چکی تھی

سامنے جو بھی شخص تھا وہ چئیر مخالف سمت کئے بیٹھا تھا اور اسکے ہاتھ میں ہانیہ کی ہی فائل تھی جسے وہ پڑھ رہا تھا۔۔

السلام علیکم ۔۔ ہانیہ نے سلام کیا تو سامنے سےبھاری مردانہ آواز میں اسے بیٹھنے کیلئے کہا گیا ۔۔۔

وہ بہت پزل ہورہی تھی کیونکہ سامنے بیٹھا شخص مسلسل خاموش ہی تھا ۔۔

تھوڑی دیر بعد چئیر گھومی تو اس آدمی کا چہرا ہانیہ نے دیکھا۔۔

براؤن گھنے بال اور براؤن ہی گھنی داڑھی مونچھیں اسکے صاف شفاف سرخ و سفید چہرے پر حد سے زیادہ جچ رہی تھی اس پر اس انسان کی بھوری آنکھیں اور گھنی براؤن پلکیں جس میں حد درجہ سنجیدگی تھی ہانیہ کو ایک پل میں چونکا دینے پر مجبور کر رہی تھی ۔۔۔

وہ بلکل کہانیوں میں موجود شہزادوں جیسا تھا جسکا ہر لڑکی خواب دیکھتی ہے۔۔

مگر وہ ہانیہ سعید تھی اسے اپنے جزبات اور احساسات پر عام لڑکیوں سے کہیں زیادہ کنٹرول تھا فوراً اسنے نظروں کا زاویہ تبدیل کر کے اپنی فائل کو دیکھنے لگی ۔۔۔

گندمی صاف شفاف رنگت اور کھڑے ناک نقش کی حامل  وہ سنجیدہ چہرا لئے وہ اپنی بڑی بڑی کالی آنکھوں سے سامنے بیٹھے شخص کے وجود سے تھوڑا گھبرا رہی تھی

وجاہت اسکی نظروں کا مفہوم سمجھ کر اس سے بات کا آغاز کرنے لگا۔۔

سو مس ہانیہ سعید آپ کی کوالیفیکیشن اس جاب کیلئے بہت کم ہے جبکہ اس پوسٹ کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے تو ہم آپ کو یہ جاب نہیں دے سکتے ۔۔۔

سامنے بیٹھے مغرور شخص کی بات سن کے ہانیہ نے کوئی رسپانس نہیں دیا اور اپنا ہاتھ اپنی فائل لینے کیلئے بڑھا دیا نظریں اسنے ابھی بھی نیچی کی ہوئی تھی۔۔

مگر ۔۔۔۔

فائل کی طرف بڑھتا ہاتھ اس لفظ مگر  پر رک سا گیا۔۔

جی ۔۔

آپ کو یہ جاب نہیں مل سکتی مگر میرے لئے آپ کیلئے ایک اور جاب ہے۔۔

ہانیہ کو سمجھ نہ آیا وہ شخص کس جاب کیلئے بات کر رہا ہے۔۔

 مجھے لگتا ہے یہاں اور بھی لوگ موجود ہیں انٹرویو کیلئے اور مجھے چلنا چاہئے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو جاتے دیکھا تو مضبوط لہجے میں ہانیہ کو دریافت کیا۔۔

مس ہانیہ انٹرویو جاری ہیں اور انٹرویو میرے مینیجر لے رہے ہیں  جبکہ میں وجاہت عالم اس کمپنی کا مالک ہوں میں یہ چھوٹی موٹی پوسٹ کیلئے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔۔

تو پھر کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ مجھے انٹرویو والے روم میں جانے کے بجائے اس کمرے میں کیوں بلایا گیا ہے۔۔

آپ کیلئے ایک لائف ٹائم جاب ہے۔۔

اس پر سوالیہ نظروں سے ہانیہ نے وجاہت کو دیکھا ۔۔۔

کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی۔۔۔؟؟ 

یہ کیسا سوال ہے دماغ ٹھیک ہے آپ کا ۔۔

ہانیہ ایک بار پھر کھڑی ہوگئی باہر جانے کیلئے۔۔۔

جاب کی نوعیت سنتی جائیں شاید اس میں آپکا فائدہ ہو اور ایک بات اور یہ آفر صرف آج ابھی اور اسی وقت تک محدور ہے تو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ لیں۔

وجاہت عالم  نے سنجیدگی سے کہا تو ہانیہ نے اسکی طرف دیکھا اشارہ اسکی آفر سننے کا تھا۔۔۔

مجھے شادی کرنی ہے اپنے لئے نہیں اپنی بیٹی کیلئے مجھے بس اسکی ماں چاہئے۔۔

 اگر آپ ہاں کرتی ہیں تو ہمارے بیچ ایک لائف ٹائم کانٹریکٹ ہوگا

 جس میں دنیا کیلئے آپ میری بیوی ہونگی مگر سچ یہ ہوگا کہ آپ کا اور میرا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔۔۔

آپ کو ہر ماہ سیلری ملے گی اپکی ہر ضرورت پوری ہوگی اور ساتھ آپ کو رہنے کیلئے ایک عالیشان زندگی ملے گی ۔۔

ہانیہ بس اسکے چہرے کو دیکھ رہی تھی کہ کتنی آسانی سے وہ یہ بات کر رہا ہے۔۔۔

مجھے آپکی آفر میں کوئی کوئی دلچسپی نہیں ہے میں آج ابھی اور اسی وقت یہ آفر ٹھکراتی ہوں۔۔

ہانیہ کی بات پر وجاہت نے غصے سے اپنے لب بھینچ لئے کیونکہ آج پہلی بار کسی نے اسکی بات کی نفی کی تھی ۔۔

ہمیشہ سے ہی وجاہت کو ہاں سننے کی عادت تھی مگر اسنے یہ ایک بار نہیں سوچا کہ جسے وہ اپنی بیٹی کی زندگی میں لانا چاہتا ہے اس سب میں اسکی زندگی بھی تو شامل تھی۔۔

وجاہت کو رہ رہ کر ہانیہ پر غصہ آرہا تھا۔۔

کہ کیسے ایک معمولی سی لڑکی نے وجاہت عالم کو نہ کہا۔۔

اور ہانیہ تھی جسے ڈھیروں حیرت نے آن گھیرا تھا کہ کیسے ایک انسان کسی کی زندگی کا فیصلہ اتنی آسانی سے لے سکتا ہے۔۔

مجھے لگتا ہے مجھے یہاں سے چلنا چاہیئے۔۔

ہانیہ نے اب کی بار آرام سے جانے کی اجازت چاہی۔۔

رکو ایک منٹ۔۔ وجاہت نے ایک بار پھر اسے رکنے کیلئے کہا۔۔

دیکھیں آپ جو چاہتے ہیں میں وہ نہیں کر سکتی۔۔

ہانیہ نے مظبوط اور اٹل لہجے میں کہا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو جواب دینے کے بجائے انٹرکام پر کسی کو کال کی اور اسے بلایا بھی۔۔

اگلے منٹ میں ہی ایک عورت ایک چھوٹی بچی کو لئے آفس کے روم میں داخل ہوئی۔۔

وجاہت اپنے آپ کو بہت زیادہ کنٹرول کر رہا تھا شائد آج زندگی میں پہلی بار وہ کسی کو کنوینس کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔

اور یہ بات وجاہت عالم کی انا کو ٹھیس پہنچا رہی تھی مگر اس وقت جو ہانیہ کے سامنے بیٹھا تھا وہ وجاہت عالم نہیں بلکہ حور کا باپ تھا 

جو یہ سمجھ چکا تھا کہ اسکی دادو اسے کیا سمجھانا چاہ رہی تھیں۔۔

کہ واقعی حور کو ایک ماں کی ضرورت ہے اور ہانیہ کو دیکھ اسے یہ یقین ہوگیا کہ حور کیلئے ہانیہ سے بہتر شاید ہی کوئی ہوگی۔۔

ہانیہ اس بچی کو دیکھ رہی تھی جو کہ ابھی تک سورہی تھی ۔۔

ہانیہ نے ہی تو اسے سلایا تھا وہ کیسے اتنی سی دیر میں اسے بھول سکتی تھی۔۔

میڈ سے حور کو لینے کے بعد وجاہت نے میڈ کو افس سے جانے کا اشارہ کیا تو وہ تابعداری سے سر جھکا کے وہاں سے چلی گئی۔۔

یہ میری بیٹی ہے۔۔

میری وائف کی ڈیتھ ایک ایکسیڈنٹ میں ہوگئی تھی اسی لئے حور ایک پری میچور بے بی پیدا ہوئی ہے ۔۔

وجاہت بہت ٹہر ٹہر کے بات کر رہا تھا جیسے اپنا لہجہ نارمل رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہو۔۔

میری دادو چاہتی ہیں کہ حور کو ایک ماں کا پیار ملے مگر میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔

اسی لئے آپ سے شادی کا کانٹریکٹ کرنا چاہتا ہوں اس سے اپ حور کی ماں کہلائیں گی اور میری زندگی میں کوئی دخل اندازی بھی نہیں کریں گی۔۔

ہانیہ کا دل تو اس بچی کو دیکھ کے ہی پگھل گیا تھا اور اب اسکی ماں کی ڈیتھ کا سن کے اب وہ اور زیادہ محبت سے حور کو دیکھ رہی تھی۔۔

دیکھئے سر میں سمجھ سکتی ہوں آپ کے خدشات مگر شادی کا کانٹریکٹ میں نہیں کر سکتی اگر آپ چاہتے ہیں تو میں زندگی بھر اپکی بیٹی کی دیکھ بھال کیلئے راضی ہوں مگر شادی جیسی جھنجھٹ میں میں نہیں پڑنا چاہتی۔۔

ہانیہ نے ایک بار پھر اپنا لہجہ مضبوط کرکے کہا۔۔

شادی کی دو وجہ ہیں ۔۔

ایک یہ کہ اگر میں نے آپ سے شادی نہیں کی تو ابھی نہ سہی کچھ ٹائم کے بعد میرے گھر والے میرے پیچھے پڑ جائیں گے جبکہ آپ سے شادی کرکے میرے ساتھ شادی شدہ کا ٹیگ بھی لگ جائے گا۔۔

اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میں آپ کو بغیر کسی رشتے کے اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا کیونکہ پھر ابھی نہ سہی کبھی نہ کبھی آپ کے گھر والے آپ کی شادی کروا دیں گے اور اگر میری بیٹی آپ سے مانوس ہوگئی تو وہ اپ کے بغیر رہ نہیں پائے گی۔۔

اور اگر میں آپ کو اس بات کا یقین دلاؤ کہ میری کبھی کوئی شادی نہیں کرے گا تو۔۔

ہانیہ نے اپنی طرف سے وضاحت دی کیونکہ وہ حور کے ساتھ رہنا چاہتی تھی مگر وجاہت سے شادی وہ کر نہیں سکتی تھی۔۔

ہانیہ کی مسلسل نفی وجاہت کو طیش دلا رہی تھی مگر وہ پھر بھی خود پہ ضبط کئے ہوئے تھا۔۔

آج نہیں کل کوئی تو آپ کی زندگی میں آئے گا نہ آپ شکل و صورت کی بھی اچھی ہو یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی آپ کو اپنا ہمسفر بنانا چاہے گا اور اس سب میں میری بیٹی کا کیا ہوگا۔۔

دیکھئے مسٹر وجاہت عالم میں آپ کی بیٹی کی زمیداری سنبھالنے کیلئے تیار ہوں مگر اپ جو چاہتے ہیں وہ کبھی نہیں ہوسکتا ۔۔

ہانیہ دروازے تک گئی پھر مڑ کے ایک بار پھر وجاہت کو مخاطب کیا۔۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ ایک انتہائی خود سر انسان ہیں صرف اپنی بیٹی کے بارے میں سوچ رہے ہیں اگر اپ اپنی بیٹی کے ساتھ ساتھ کسی اور کی بیٹی کے بارے میں ایک فیصد بھی سوچیں گے نہ تو کبھی بھی کسی سے بھی اس کانٹریکٹ کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔۔

یہ بول کے ہانیہ ایک نظر اس پیاری سی بچی پہ ڈال کے چلی گئی اور وجاہت نے انٹر کام کے زریعے میڈ کو بلا کے حور کو اسکے حوالے کیا کیونکہ اپنے غصے کو بے قابو ہوتا دیکھ وہ حور کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا دے ۔۔۔

حور کے جانے کے بعد وجاہت نے غصے میں اپنے ورکنگ ٹیبل پر موجود ہر چیز کو نست ونابود کر دیا مگر غصہ تھا کہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا...

یہ تو اب طے تھا کہ ہانیہ سعید کی دنیا اب حود سے شروع ہوکے حود پر ہی ختم ہونی تھی ۔۔

ہانیہ کی مرضی سے نہ سہی اب زبردستی ہی سہی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ گھر پہنچی تو سب اپنے اپنے کمرے میں موجود تھے تو ہانیہ بھی خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔

اسے رہ رہ کر وجاہت عالم پر غصہ آرہا تھا ۔۔

وہ ہوتا کون ہے میری زندگی کا فیصلہ کرنے والا۔۔

مگر وہ بچی وہ کیسے اس آیا کہ پاس رہے گی وہ تو اسے ٹھیک سے سنبھال بھی نہیں پارہی تھی ۔۔

مجھے کیا اس کی بیٹی ہے میں کیوں کسی کی اولاد کی فکر کروں ۔۔

مگر وہ بچی تھی کتنی معصوم اور بہت پیاری بھی اس کا باپ ایک اکڑو انسان ہے اس میں اس بچی کا کیا قصور۔۔

مگر میں کیسے ایک ایسے انسان کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں جس سے میرا کوئی واسطہ ہی نہیں ہوگا۔۔

کیسے صرف کسی کے نام کے سہارے میں ساری زندگی گزاروں گی۔۔

اس سے تو بہتر ہے کہ میں اکیلے ہی زندگی گزاروں۔۔۔

ہانیہ اپنے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی اور مسلسل وجاہت عالم اور اسکی بچی کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اس بات کو تقریباً ایک ہفتہ سے زیادہ ہوگیا تھا مگر اس کے بعد ہانیہ نے جہاں بھی اپلائے کیا وہاں سے اسے مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔۔

اور یہ سب وجاہت عالم کی ہی مہربانی کا نتیجہ تھا جس سے ہانیہ لا علم تھی۔۔

ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی جب ہانیہ کو جاب نہ ملی تو ایشا نے ایک بار پھر گھر والوں پر ہانیہ کیلئے آئے ہوئے رشتے پر غور کرنے پر زور دیا۔۔

اس بات پر فاخر نے ایشا کو بہت ڈانٹا مگر شاید اب وہ یہ سوچے بیٹھی تھی کہ کسی بھی طرح اسے ہانیہ کا پرچھاوا خود سے دور کرنا ہے۔۔

یہ دیکھ اب سعید صاحب اور فاطمہ اپنے بچوں کیلئے بہت پریشان تھے۔۔

کیونکہ فاخر اور ایشا کی ہر دوسرے دن ہانیہ کو لے کر لڑائی ہوتی تھی ۔۔۔

سعید صاحب کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہانیہ کی شادی ہم خود کسی اچھے اور مناسب انسان سے کر دیں ۔۔

کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ ایک بیٹی کی خوشی کیلئے ہم دوسرے بیٹے کا بھی رشتہ بھی مصیبت میں ڈال رہے ہیں ۔۔

ایشا کسی بھی حال میں ہانیہ کو اب برداشت نہیں کر رہی پتہ نہیں اسے کیا ہوتا جارہا ہے دن بہ دن اسکا رویہ ہانی کے ساتھ بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔۔

فاطمہ سعید صاحب سے بات کر رہی تھیں اس بات سے انجان کہ ہانیہ دروازے کی اوٹ میں چھپ کر انکی سب باتیں سن رہی تھی ۔۔

آنسو ہانیہ کے چہرے کو بھگو رہے تھے اور وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں بند ہوگئی۔۔

ابھی وہ کچھ سوچتی کہ اسکے موبائل پر کال آنے لگی ۔۔

انجان نمبر دیکھ پہلے ہانیہ نے سوچا کہ کال نہ اٹھائے پھر کچھ  سوچتے ہوئے کال ریسیو کرلی ۔۔

مس ہانیہ سعید بات کر رہی ہیں۔۔

سامنے سے کسی لڑکی کی آواز تھی۔۔

جی میں ہی ہانیہ ہوں آپ کون۔۔

جی میں عالم انٹرپرائزز سے بول رہی ہوں ہمارے باس وجاہت عالم اپ سے جاننا چاہتے ہیں کہ اپ نے کانٹریکٹ کے بارے میں کیا کرنا ہے آپ نے ہاں یا نہ میں جواب نہیں دیا تھا۔۔

ہانیہ نے کوفت سے ایک بار موبائل کو دیکھا ابھی وہ اس لڑکی کو کھری کھوٹی سناتی کہ اسے ایک بار پھر اپنے ماں باپ کی باتیں یاد آئی۔۔

ٹھیک ہے اپ ان سے کہیں میں کل آکر ان سے بات کرونگی۔۔

ہانیہ نے یہ کہہ کے کال کاٹ دی بغیر کوئی جواب سنے۔۔

جبکہ ہانیہ کے جواب پر وجاہت ایک بار پھر آپے سے باہر ہوگیا۔۔

یہ معمولی سی لڑکی سمجھتی کیا ہے خود کو مجھے ایٹیٹیوڈ دکھا رہی ہے مجھے وجاہت عالم کو ۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر غصے سے ہانیہ کو مخاطب کیا اگر وہ اس وقت آفس میں موجود ہوتی تو ممکن تھا کہ وجاہت کا غصہ اس پر کسی لاوے کی طرح برستا۔۔

ان دنوں میں وجاہت نے کئی انٹرویوز لئے تھے حور کیلئے ایک لائف ٹائم میڈ رکھنے کی مگر وہ ہانیہ جیسی  حور سے محبت کرنے والی ایک لڑکی بھی نہ ڈھونڈ پایا۔۔

تو ایک بار پھر مجبور ہوکر اسنے اپنی پی اے کو ہانیہ کو کال کرنے کا کہا کیونکہ کمپنی میں اپلائے کرتے وقت اسنے کانٹیکٹ کیلئے اپنا نمبر دیا تھا۔۔

مگر اب اسکا جواب سن وجاہت خود کو ہی کوس رہا تھا کہ کیوں وہ ایک لڑکی کی منت سماجت کر رہا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اگلے دن ہانیہ وجاہت کے آفس پہنچی تو وجاہت ویسی ہی بے رخی لئے اپنے آفس میں موجود تھا۔۔

سو مس ہانیہ کیا سوچا آپ نے کانٹریکٹ کے بارے میں۔۔

وجاہت نے بغیر اسکی طرف دیکھے ہی کہا۔۔

مجھے لگتا ہے آپ کا جواب ہاں ہی ہوگا کیونکہ ایسی آفر آپ کو کبھی نہیں مل سکتی ۔۔

وجاہت کی باتیں سن کے ہانیہ نے ایک گہری سانس لے کر بات کا آغاز کیا۔۔

مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے ۔۔

جی کہئے۔۔

وجاہت اب ہانیہ کی طرف پوری توجہ مرکوز کئے ہوئے تھا۔۔۔

میں ایک طلاق یافتہ ہوں میری پہلے بھی شادی ہوچکی ہے اور شادی کے دو سال بعد ہی مجھے طلاق ہوگئی تھی وجہ میں اپ کو بتانا مناسب نہیں سمجھتی۔۔

ابھی ہانیہ کچھ اور کہتی وجاہت نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا ۔۔

مجھے آپ میں یا آپ کے ماضی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے میں نے اپ کو بس ہاں یا نہ کہنے کیلئے بلایا ہے۔۔

مجھے جواب چاہیئے۔۔

ہاں یا ناں۔۔

وجاہت نے دو ٹوک الفاظ میں کہا۔۔

میری کچھ شرائط ہیں اگر آپ مانتے ہیں تو ہاں اگر آپ کو اعتراض ہوا تو میری طرف سے نہ ہی سمجھئے گا۔۔

اس رشتے اور وجاہت کے نام کی اب ہانیہ کو بہت ضرورت تھی مگر وہ بلکل بھی یہ بات وجاہت عالم کو جتانا نہیں چاہتی تھی۔۔

بہت کوششوں سے وہ اپنے لہجے کو ہموار رکھ کے وجاہت سے بات کر رہی تھی ورنہ انجان لوگوں کے آگے اسکی کبھی زبان نہیں چلی مگر اب تو یہ اس کی پوری زندگی کا سوال ہے تو اسے ہمت تو دکھانی ہی تھی نہ۔۔

آپ کو ایک عالیشان زندگی مل رہی ہے شان و شوکت ملے گی اس سے زیادہ کیا چاہیئے آپ کو۔۔

مجھے آپکی جیسی شان و شوکت اور عالیشان زندگی کی کبھی کوئی خواہش نہیں رہی یہ میری زندگی کا معاملہ ہے۔۔

ہانیہ نے صاف الفاظ میں وجاہت کو یہ بتا دیا تھا کہ وہ اپنی شرائط کے بغیر حور کی ذمیداری نہیں سنبھالے گی۔۔

ٹھیک ہے بتائیں آپکی شرائط اگر ۔۔ اگر مجھے مناسب لگی تو ہی میں مانو گا۔۔

وجاہت نے اگر لفظ پر زور دے کر کہا۔۔

سب سے پہلی بات اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی زندگی میں دخل اندازی نہ کروں تو اس بات کا خیال آپ بھی رکھیں گے 

اگر مجھے آپ کے معاملات میں بولنے کی اجازت نہیں تو آپ بھی میرے معاملات سے دور رہیں گے۔۔

اگر میرا آپ پر کوئی حق نہیں ہوگا تو آپ بھی مجھ پر کبھی کوئی حق نہیں جتائیں گے۔۔

اور سب سے اہم بات اس کانٹریکٹ کے بارے میں آپ کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے یہ بات ہمیشہ صرف آپ کے اور میرے بیچ ہی رہے گی۔۔

اب آخری بات میں ایک عزت دار گھرانے کی لڑکی ہوں اور ہر عزت دار لڑکی کی جیسے شادی ہوتی ہے ویسے ہی میری رخصتی بھی میرے گھر سے ہی ہوگی ۔۔

اس کے لئے آپ اپنے پیرنٹس کو میرے گھر لے کر آئیں گے ۔۔

ہانیہ نے اپنی شرائط وجاہت کے سامنے رکھی تو وجاہت طنزیہ مسکرانے لگا۔۔

آپ کو لگتا ہے کہ میں آپ کی یہ شرائط مانو گا۔۔

بلکل کیونکہ میں نے کوئی ناجائز مانگ نہیں کی ہے ۔۔

وجاہت کو بھی یہ سب مانگ ناجائز نہ لگی اور اپنی بیٹی کیلئے وہ اتنا تو کر ہی سکتا ہے ۔۔

ٹھیک ہے میں آج شام ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ آپ کے گھر آونگا اور کل ہی ہمارا نکاح ہوگا اور میرے گھر آتے ہی آپ کانٹریکٹ سائن کریں گی۔۔

وجاہت نے بھی اپنی بات مکمل کی۔۔

ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو اپنے گھر کا ایڈریس دیا۔۔

مجھے یقین ہے آپ کبھی کسی کو کانٹریکٹ کے بارے میں نہیں بتائیں گے۔۔

ہانیہ یہ کہہ کر آفس سے چلی گئی۔۔

اور وجاہت اپنی سوچوں میں گم ہوگیا۔۔ 

کیا ایک باپ ہونا ایک آدمی کیلئے کمزور ہونے کی بات ہے۔۔

کیوں وہ ہانیہ کی ہر شرط مان گیا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

مام۔۔

ڈیڈ۔۔

دادو۔۔

وجاہت نے گھر میں آتے ہی زور زور سے سب کو پکارنا شروع کر دیا۔۔

کیا ہوگیا ہے بیٹا اس طرح سے کیوں چلا رہے ہو۔۔

عالیہ بیگم نے وجاہت کو چلاتے ہوئے دیکھا تو بول دیں۔۔

مام سب کو آنے دیں پھر بتاتا ہوں۔۔

عالیہ بیگم کے بعد شان صاحب اور نیلم ساجدہ بیگم کو لئے آگئی۔۔

بولو کیا بولنا ہے تمہیں ۔۔

عالیہ بیگم نے سب کے بیٹھنے کے بعد بات کو شروع کیا۔۔

میں شادی کر رہا ہوں۔۔

وجاہت کے الفاظ نے ہال میں بیٹھے سبھی افراد کو شاک کر دیا۔۔

یہ کیا کہہ رہے ہو تم اور شادی تم جانتے بھی ہو کہہ کیا رہے ہو۔۔

شان صاحب نے تھوڑی سختی سے کہا۔۔

ڈیڈ میں جانتا ہوں میں کیا کر رہا ہوں اور میں شادی اپنے لئے نہیں بلکہ اپنی بیٹی کیلئے کر رہا ہوں ۔۔

وجاہت نے شادی کی اصل وجہ بتائی تو اب شان صاحب تھوڑے نرم پڑھے۔۔

لڑکی کون ہے۔۔ ساجدہ بیگم نے بس اتنا ہی پوچھا۔۔

ہے ایک لڑکی آپ لوگ ابھی میرے ساتھ اس کے گھر چلیں کل ہی نکاح ہوگا کیونکہ پرسوں مجھے ائر لینڈ جانا ہے تین سے چار ماہ کیلئے۔۔

وجاہت بیٹا پہلے تو تم کہہ رہے ہو کہ تمہیں کل شادی کرنی ہے اور دوسری طرف تم تین چار ماہ کیلئے باہر ملک جاؤ گے اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر۔۔

عالیہ بیگم کو وجاہت کی سوچ کبھی سمجھ نہ آئی۔۔

مام میں شادی اپنے لئے نہیں اپنی بیٹی کیلئے کر رہا ہوں اس لڑکی سے میں بات کر چکا ہوں وہ اس گھر میں اور میری زندگی میں صرف میری بیٹی کیلئے ہی آئے گی اور اسے اس بات سے کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔۔

شان صاحب اور عالیہ بیگم وجاہت کو کچھ بولتے اس سے پہلے ہی ساجدہ بیگم بیچ میں بولیں۔۔

ٹھیک ہے کب تک چلنا ہے۔۔

آپ سب لوگ ریڈی ہوجائیں پھر چلتے ہیں۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اگلے دو گھنٹے میں وجاہت اپنے گھر والوں کے ساتھ ہانیہ کے گھر پر موجود تھا۔۔

ہانیہ نے پہلے ہی وجاہت کے بارے میں سب کو گھر میں بتا دیا تھا۔۔

سوائے کانٹریکٹ والی بات کے اس نے وجاہت کا اپنی بیٹی کیلئے شادی کرنے کے بارے میں بھی بتایا تھا۔۔

دونوں گھرانوں میں بات چیت ہوئی اور سبھی کافی حد تک مطمئن تھے ساجدہ بیگم کو ہانیہ کے گھر والے بہت اچھے لگے اور ہانیہ بھی۔۔۔

اور سعید صاحب کو بھی وجاہت بہت بھایا وجاہت سب سے بہت احترام سے ملا ۔۔

فاطمہ تو اپنی بیٹی کیلئے اتنا اچھا رشتہ آنے پر ہی بہت خوش تھیں۔۔ 

اور ایشا تو پھولے ہی نہ سما رہی تھی پہلے تو اسکی ہانیہ سے جان چھوٹ رہی تھی اور سے اتنے امیر کبیر گھرانے سے رشتہ جو جڑ رہا تھا۔۔

سعید صاحب ہم چاہتے ہیں کہ بچوں کا نکاح کل ہی ہوجائے ۔۔

شان صاحب نے اصل مدعے کی بات کی۔۔

یہ کیسے ممکن ہے شان صاحب آپ لوگ رشتہ آج لے کر آئے اور کل نکاح کی بات کر رہے ہیں۔۔

اصل میں سعید صاحب پرسوں وجاہت کو ائر لینڈ جانا ہے اور اسے وہاں کتنا ٹائم لگے یہ بتانا تھوڑا مشکل ہے 

حور بہت چھوٹی ہے اور اسے ایک ماں کی ضرورت ہے صرف اسی لئے ہم جلدی کر رہے ہیں۔۔

سعید صاحب نے تھوڑا سوچا اور پھر ہانیہ کیلئے دوسرے آئے ہوئے رشتے کے بارے میں سوچ کر انہوں نے اللہ کا نام لے کر سب کو ہاں کردی ۔۔

اور اس طرح اگلے ہی دن ہانیہ اور وجاہت کا نکاح سادگی سے کر دیا گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ رخصت ہو کر عالم ولا آئی تو وجاہت کی نظریں اسی پر تھی 

وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ہانیہ اس محل نما گھر کو کن نظروں سے دیکھتی ہے 

مگر وجاہت کی سوچ کے برعکس ہانیہ نے گھر کو نظر بھر کے بھی نہ دیکھا۔۔

ہانیہ نے حسرت سے دیکھا تو صرف حور کو دیکھا وہ چھوٹی سی بچی کسی عورت کی گود میں تھی ہانیہ نے محبت سے حور کو دیکھا تو ساجدہ بیگم نے میڈ کو اشارہ کیا کہ حور کو ہانیہ کو دے۔۔

میڈ نے بھی سر ہلا کے حکم پورا کیا اور حور کو ہانیہ کی گود میں دے دیا۔۔

ہانیہ نے حور کو گود میں لیتے ہی اسے پیار کیا۔۔

وجاہت سب پر ایک نظر ڈال کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔

ساجدہ بیگم نے نیلم سے ہانیہ کو کمرے میں لے جانے کا کہا۔۔

تو نیلم ہانیہ کو لئے وجاہت کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔

نیلم نے دروازہ ناک کیا تو وجاہت کی اجازت ملتے ہی نیلم ہانیہ کو لئے کمرے میں داخل ہوئی۔۔

ہانیہ کو وہاں دیکھ ابھی وجاہت کچھ بولنے ہی والا تھا کہ نیلم پہلے ہی بول پڑی۔۔

برو میں بھابھی کو لے آئی اب میرا نیگ دیجئے۔۔

وجاہت نے نیلم کو گھور کے کہا۔۔

یہ کوئی سیلیبریشن نہیں ہے نیلم کہ تمہیں نیک دیا جائے اور ہانیہ حور کے کمرے میں رہے گی۔۔

اسے حور کے روم میں لے کر جاؤ۔۔۔

وجاہت نے نیلم اور ہانیہ دونوں کو حور کے کمرے میں جانے کا کہا تو پیچھے سے دادو بھی وجاہت کے روم میں چلی آئی۔۔

نیلم بیٹا تم جاؤ تمہارا تحفہ تمہیں مل جائے گا۔۔

دادو ںے نیلم کو وہاں سے بھیج کر رخ وجاہت کی طرف کیا۔۔

ہانیہ تمہاری بیوی ہے اس رشتے سے وہ تمہارے کمرے میں ہی رہے گی وہ الگ بات ہے کہ تمہارے جانے کے بعد وہ حور کے روم میں شفٹ ہو جائے گی مگر اس سے پہلے وہ یہی رہے گی ۔

ساجدہ بیگم نے دو ٹوک بات کی ۔۔

دادو آپکو پتہ ہے یہ شادی میں نے کیوں کی ہے اور اس کے آگے آپ مجھے کسی بھی چیز کیلئے پریشرائز نہیں کر سکتیں۔۔۔

وجاہت عالم نکاح کوئی مزاق نہیں ہوتا ۔۔

دادو یہ نکاح ایک مجبوری سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔۔

وجاہت نے بھی اپنی بات رکھی مگر ساجدہ بیگم کہا ہار ماننے والی تھیں۔۔

ہانیہ کو وہیں رہنے کا کہہ کر وہ وہاں سے چلیں گئی۔۔

اور ہانیہ جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی ہی رہ گئی۔۔

جبکہ دادو کے جانے کے بعد وجاہت نے غصے سے ہانیہ کو صوفے پر بیٹھنے کا کہا۔۔

اب تم کیا وہیں کھڑی رہوگی بیٹھو وہاں جاکر۔۔۔ 

ہانیہ خاموشی سے کمرے میں موجود تھری سیٹر صوفے پر جاکر بیٹھ گئی۔۔

وجاہت نے ایک نظر ہانیہ کو دیکھا ۔۔

سنہرے رنگ کی گھیردار پاؤں تک آتی فراک میں سرخ رنگ کا ڈوپٹہ پہنے کانوں میں چھوٹی مگر خوبصورت جھمکے پہنے ہلکے میک اپ کئے میں وہ صوفے پر بیٹھی تھی۔۔

وجاہت نے اس کے سامنے کانٹریکٹ کے پیپر رکھے۔۔

میں نے آپ کی شرائط مانی اب آپ بھی اپنی ذمہ داری پوری کریں ۔۔

وجاہت نے اب کی بار لہجے کو ہموار رکھ کے کہا۔۔

ہانیہ نے بھی بغیر کچھ کہے ہی پیپرز پر سائن کر دیے۔۔

پیپر لے کر وجاہت کمرے میں بنے اسٹڈی روم میں چلا گیا۔ جبکہ ہانیہ وہیں بیٹھی رہی۔۔

قریب دو گھنٹے بعد وجاہت کمرے میں واپس آیا تو دیکھا ہانیہ وہیں صوفے پر اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی جیسے وہ اسے چھوڑ کے گیا تھا۔۔

وجاہت کچھ کہتا اس سے پہلے ہی ہانیہ نے گھڑی پر ٹائم دیکھ کر وجاہت کو مخاطب کیا۔۔

اس وقت مجھے لگتا ہے آپ کے گھر والے سو چکے ہونگے آپ مجھے حور کا کمرا دکھا دیجئے کونسا ہے میں وہیں جانا چاہتی ہوں۔۔

ہانیہ کا انداز دیکھ وجاہت کا دل کیا کہ اسے خوب باتیں سنائے۔۔

مگر اس نے ایک بار پھر تحمل کا مظاہرہ کیا اور صرف ایک بات کہی۔۔

آپ کیلئے یہی بہتر ہے۔۔

ہانیہ کو حور کے کمرے کو بتایا تو ہانیہ بغیر وجاہت کی طرف دیکھے کمرے سے چلی گئی ۔۔

ہانیہ کے جانے کے بعد وجاہت نے بس ایک بات سوچی۔۔

پتہ نہیں خود کو سمجھتی کیا ہے۔۔

اتنا بول کے وجاہت اپنا لیپ ٹاپ لئے بیٹھ گیا۔۔

اور اسکرین پر حور کے کمرے میں موجود خفیہ کیمرے کی ویڈیو آن کی۔۔

اسی کیمرے کی مدر سے وہ حور پر ہر وقت نظر رکھتا تھا۔۔

ہانیہ کمرے میں آتے ہی حور کو گود میں لئے بیٹھ گئی اس کے ساتھ کھیلنے لگی۔۔

وجاہت کافی دیر تک ان دونوں کو دیکھتا رہا تب تک جب تک ہانیہ نے حور کو سلا کر خود بھی حور کو لئے لیٹ گئی۔۔

وجاہت ویڈیو دیکھتے دیکھتے کب سویا اسے پتہ نہ چلا اس کی آنکھ صبح سے 7 بجے کھلی تو اس نے ایک بار پھر نظر لیپ ٹاپ کی اسکرین پر کی تو دیکھا حور اکیلے کمرے میں بیڈ پر لیٹی رورہی تھی۔۔

یہ دیکھ وجاہت کا پارہ ایک دم ہائی ہوگیا اور وہ تیزی سے اٹھ کے حور کے کمرے میں گیا۔

وہاں جا کے دیکھا تو ہانیہ کہیں بھی نہیں تھی وجاہت نے حور کو چپ کروانا چاہا مگر حور تھی کہ گلہ پھاڑ کے رورہی تھی۔۔

اتنے میں ہی ہانیہ ہاتھ میں تھرماس لئے کمرے میں داخل ہوئی۔۔

وجاہت کی اس پر جیسے ہی نظر پڑی اسنے ہانیہ پر برسنا شروع کر دیا۔۔

تم کو میں یہاں گھومنے پھرنے کیلئے نہیں لایا ہوں ۔۔

کہاں تھی تم حور کب سے رورہی ہے ۔۔

وجاہت نے چلا کر ہانیہ کو کہا۔۔

وہ۔۔ وہ میں کچن میں گئی تھی۔۔

ہانیہ نے آج پہلی بار وجاہت کو اتنا غصہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو وہ تھوڑا گھبرا رہی تھی وجاہت سے۔۔

کیا کرنے گئی تھی تم کچن میں۔۔

وجاہت نے اسی ٹون میں ہانیہ سے سوال کیا۔۔

میں حور کیلئے پانی گرم کرنے گئی تھی۔۔

پانی گرم کرنے گئی تھی کیوں ؟؟

کیونکہ حور کو فیڈر دینی تھی اور اسکا سارا گرم پانی ختم ہوگیا تھا جو رات میں گرم کر کے لائی تھی میں۔۔

گرم پانی کی کیا ضرورت تھی منرل واٹر استعمال کیا جاتا ہے یہاں۔۔

وجاہت کو گرم پانی کرنے کا ہانیہ کا بہانا لگا ۔۔

حور بہت چھوٹی ہے اور بچوں کو نیم گرم پانی میں ہی فیڈر بنا کے دیتے ہیں کیونکہ ٹھنڈے پانی میں یہ پاؤڈر ملک نقصان دیتا ہے ایسا میری امی کہتی ہیں۔۔

وجاہت نے پوری بات سنی مگر ایک بار پھر ہانیہ پہ غصہ کرنے لگا۔۔

تو تم یہ کام گھر کے کسی بھی نوکر سے کہہ سکتی تھی حور کو اکیلا چھوڑ کے کیوں گئی۔۔۔

میں جب گئی تو حور سورہی تھی اور میں اسے ایسے ہی چھوڑ کے نہیں گئی اس کے اس پاس ڈھیر سارے کشن لگا دیئے تھے اور میں بس 5 منٹ میں ہی تو واپس آگئی۔۔

ہانیہ نے اپنی صفائی پیش کی۔۔

وجاہت نے ایک نظر بیڈ پر دیکھا کشن واقعی حور کے آس پاس لگے ہوئے تھے۔۔

یہ دیکھ وجاہت کمرے سے بغیر کچھ بولے چلا گیا ۔۔

اور اپنے کمرے میں آکر اسنے پوری رات کی ریکارڈنگ لگائی اور اسے فاسٹ فارورڈ موڈ پہ کر کے دیکھنے لگا۔۔

وجاہت کو یہ دیکھ کے بہت زیادہ حیرت ہوئی کہ حور رات میں کئی بار اٹھی اور ساتھ میں ہانیہ بھی اٹھی اور رات کو بھی وہ 5 سے 7 منٹ کیلئے کمرے سے باہر گئی اور پھر جب واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں وہی تھرماس تھا جو ابھی کچھ دیر پہلے تھا پھر اسنے حور کو فیڈر بنا کے دی اسے گود میں لئے بیٹھی رہی اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہی تھا ہانیہ پوری رات ہی نہیں سوئی تھی۔۔

یہ سب دیکھ وجاہت کو بہت شرمندگی ہوئی کہ بلا فضول ہی اسنے ہانیہ کو اتنی باتیں سنا دیں۔۔

مگر اپنے کئے کی معافی وہ مانگ نہیں سکتا تھا اور نہ ہی مانگنا چاہتا تھا ہاں وہ پشیمان ضرور تھا جسکا اندازہ وہ کسی کو بھی ہونے نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ناشتے کے وقت نیلم ہانیہ کو اسکے کمرے میں بلانے گئی تو ہانیہ حور کو تیار کر رہی تھی۔۔

بھابی چلیں ناشتہ کرتے ہیں دادو آپ کو بلا رہی ہیں۔۔

نیلم نے پیار سے ہانیہ کو مخاطب کیا۔۔

ٹھیک ہے بس حور کو ریڈی کردوں پھر چلتے ہیں۔۔

ہانیہ نے مسکرا کے مصروف سے انداز میں نیلم کو جواب دیا۔۔

پھر حور کو ریڈی کر کے ہانیہ اور نیلم ساتھ ہی ڈائیننگ ٹیبل تک گئے۔۔

اسلام وعلیکم۔۔ ہانیہ نے سب کو مشترکہ سلام کیا۔۔

سبھی افراد نے ہانیہ کے سلام کا جواب دیا اور عالیہ بیگم نے حور کو ہانیہ سے لے لیا ۔۔

بیٹا آپ آرام سے ناشتہ کرو میں ناشتہ کر چکی ہوں تو میں حور کو سنبھال لونگی۔۔۔

ہانیہ نے حور کو عالیہ بیگم کو دے کر ناشتہ کیا۔۔

وجاہت آج معمول سے ہٹ کر ناشتہ کرنے ٹیبل پر آیا تو کسی نے نہیں بس دادو نے اسے ضرور ٹوک دیا۔۔

برخودار آج آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ۔۔

دادو کی بات پر نیلم مسکرانے لگی جسے عالیہ بیگم نے آنکھیں دکھا کر خاموش رہنے کا کہا۔۔

دادو میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا اسی لئے بھوک رہی ہے اگر آپکو میرا ناشتہ کرنا اچھا نہیں لگ رہا تو میں چلا جاتا ہوں۔۔

ارے بیٹا اتنی صفائی کیوں دے رہے ہو ہم نے تو کچھ پوچھا ہی نہیں خیر تم بچے ناشتہ کرو ہم تو ناشتہ کرچکے چلو عالیہ ہم بھی تھوڑا حور کے ساتھ باتیں کرلیں۔۔

دادو اور عالیہ بیگم ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کر چلی گئی شان صاحب ہانیہ کے آنے سے پہلے ہی ناشتہ کرکے اپنے اسٹڈی روم میں جا چکے تھے اب ڈائننگ ٹیبل پر وجاہت ہانیہ اور نیلم تھی بس ۔۔

وجاہت ہانیہ سے ایکسکیوز کرنا چاہتا تھا پر نیلم کی موجودگی میں وہ ایسا کر نہیں پارہا تھا ۔۔

اور نیلم تو ہانیہ کے ساتھ باتوں میں ہی مگن تھی اور ہانیہ بھی نیلم سے ایسے باتیں کر رہی تھی کہ جیسے اسے کتنے سالوں سے جانتی ہو۔۔

کوفت زدہ ہو کے وجاہت ٹیبل سے اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا ۔۔

آج اسے آفس نہیں جانا تھا بلکہ 11 بجے کی اسکی ائرلینڈ کی فلائیٹ تھی تو وہ ہانیہ سے بات کرنا چاہتا تھا مگر 9 سے 10 بج گئے تھے پر ہانیہ ایک بار بھی اس سے بات کرنے یا کچھ پوچھنے نہیں آئی تھی۔۔

اب غصے میں آکر وجاہت نے اپنا سامان اٹھایا اور ایئرپورٹ جانے کیلئے دادو اور باقی سب سے ملنے چلا گیا۔۔

بھاڑ میں جائے یہ لڑکی میں نے کونسا گناہ کیا ہے جو اس سے معافی مانگو۔۔

یہ سوچ کہ اس نے اپنا سامان نوکر کو دیا گاڑی میں رکھنے کیلئے اور دادو کے کمرے کی طرف چل دیا۔۔

دادو کے کمرے میں گیا تو دیکھا عالیہ بیگم نیلم اور ہانیہ حور سمیت دادو کے کمرے میں ہی موجود تھی ۔۔

وجاہت نے اپنے جانے کی اطلاع دی تو دادو نے بس اتنا کہا ۔۔

ٹھیک ہے بیٹا جب وہاں پہنچ جاؤ تو ہمیں اطلاع کر دینا جاؤ اللہ کی حفاظت میں ۔۔

دادو یہ بول کے ایک بار پھر ہانیہ کی طرف متوجہ ہوگئی تو وجاہت ایک نظر حور اور ہانیہ پہ ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔۔

کمال ہے بہو کیا آگئی بیٹے کو ہی بھول گئے سب۔۔

وجاہت بڑبڑاتے ہوئے گھر سے نکلا۔۔

اور گاڑی میں بیٹھ کر ائیرپورٹ کیلئے روانہ ہوگیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت کو ائیرلینڈ گئے 4 ماہ ہوگئے تھے ۔۔

وہ وہاں کسی پراجیکٹ کے سلسلے میں گیا تھا۔۔

یہاں آنے کے بعد وہ روز ہی ہانیہ اور حور کو اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر دیکھتا تھا کمرے میں موجود ہانیہ کی ایک ایک بات پر وہ نظر رکھتا تھا ۔۔

مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وجاہت چاہ کر بھی ہانیہ کی کوئی غلطی اور کوتاہی دیکھ نہ پایا تھا حور کے معاملے میں ۔۔

ایک دو رات اسکی بار بار جاگتے ہوئے گزری تو اسنے راتوں کو سونا ہی چھوڑ دیا تھا اور یہ بات شاید عالیہ بیگم نے نوٹ کی تھی۔۔

اسی لئے وہ فجر پڑھنے کے بعد حور کو ہانیہ کے پاس سے لے جاتی تھیں اور ہانیہ پھر فجر کے بعد سے لے کر صبح 9 بجے تک سوتی تھی ۔۔

وجاہت دن بھر کے کام کے بعد جب اپنے ہوٹل کے روم میں آرام کرتا تو وہ ہانیہ اور حور کی دن بھر کی مصروفیات دیکھتا تھا۔۔

ہانیہ اور حور دن کے وقت کم ہی ہوا کرتی تھیں روم میں شاید وہ سب گھر والوں کے ساتھ رہتی تھی۔۔

لیکن بیچ بیچ میں وہ کمرے میں آتی تھی حور کو لے کر کبھی اسے سلانے کیلئے کبھی اسے تیار کرنے کیلئے کبھی اسکا پیمپر چینج کرنے کیلئے۔۔

ایسا کوئی کام نہ تھا جو ہانیہ حور کا نہ کرتی ہو قریب ایک ماہ تک ہانیہ کی طرف سے وجاہت کو کوئی لاپرواہی نہ دکھی تو وجاہت نے ہانیہ پر نظر رکھنا چھوڑ دیا۔۔

اسے یہ یقین ہوگیا تھا کہ ہانیہ اسکی بیٹی کا بہت اچھے سے خیال رکھتی ہے۔۔

وجاہت ہفتے دو ہفتے بعد گھر پر کال کیا کرتا تھا مگر ہانیہ کو کبھی کال نہیں کی 

اور نہ اس پورے عرصے میں ہانیہ نے وجاہت سے کبھی بات کی

 گھر والے یہی سمجھتے تھے کہ وجاہت ہانیہ کو کال کرتا ہوگا اسی لئے کبھی کسی نے ہانیہ کو وجاہت سے بات کرنے پر اصرار نہیں کیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانی میری جان۔۔

ادھر آؤ۔۔

دادو نے پیار سے ہانیہ کو بلایا۔۔

اس عرصے میں ہانیہ اپنے ماں باپ کے گھر کی طرح یہاں بھی سب کیلئے ہانیہ سے ہانی ہوگئی تھی بس نیلم ہی اسے بھابی کہتی تھی باقی سب اسے ہانی ہی کہتے تھے۔۔

اور دادو اسے پیار سے ہانی میری جان ہی کہہ کر پکارتی تھی۔۔

جی دادو بلایا اپنے۔۔

ہانیہ نے احترام سے جواب دیا۔۔

بیٹا آج شام کو وجاہت واپس آرہا تھا تو میں چاہتی ہوں کہ تم اسے لینے ائیر پورٹ جاؤ۔۔

دادو کی بات پر ہانیہ تھوڑا گھبرا گئی۔

دادو اسکی کیا ضرورت ہے وہ خود ہی آجائیں گے نہ ڈرائیور لے آئے گا وجاہت کو۔۔

ہانیہ نے بہانا بنایا۔

نہیں بیٹا آپ ہی جاؤ۔۔

دادو کے اصرار پر ہانیہ نے انکی بات مان ہی لی۔۔

سبھی ہانیہ سے بہت محبت کرنے لگے تھے ۔۔

یہ دیکھ سعید صاحب اور فاطمہ بھی مطمئن تھے کہ انہوں نے اتنی جلد بازی میں فیصلہ کر تو دیا تھا مگر وہ تھوڑا ڈر بھی رہے تھے ۔۔

مگر ہانیہ کو خوشحال دیکھ اب سب خوش تھے۔۔

اور جو لوگ ہانیہ پر مصنوعی ترس کھایا کرتے تھے اب وہی لوگ اسے رشک سے دیکھتے تھے۔۔

وجاہت سے شادی کر کے وہ بیوی نہ سہی مگر ایک بہو ایک بھابی سب سے بڑھ کر حور کی ماں بن گئی تھی اور دنیا کی نظروں میں وہ وجاہت عالم کی بیوی بھی تھی۔۔۔

ہانیہ ائیرپورٹ پہنچ چکی تھی اور اب وجاہت کا انتظار کر رہی تھی۔۔

وجاہت کی فلائٹ لینڈ کر چکی تھی۔۔

تھوڑی دیر بعد ہانیہ کی نظروں نے وجاہت کو دیکھا بلیک پینٹ کے ساتھ گرے شرٹ پہنے وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا ہانیہ نے شاید پہلی بار اسے اتنی غور سے دیکھا گھنی داڑھی مونچھیں آج بھی نفاست سے اسکے چہرے پر سجی تھیں بھوری آنکھوں میں آج بھی سنجیدگی تھی۔۔

ہانیہ کو اسے دیکھنا اچھا لگ رہا تھا اور وہ دیکھ بھی سکتی تھی اسکا محرم جو تھا۔۔

ایک دم وجاہت کی نظر ہانیہ پر گئی تو وہ اسے وہاں دیکھ کے چونگ گیا۔۔

وجاہت کو اپنی طرف دیکھ کے ہانیہ نے فوراً اپنی نظروں کا زاویہ بدلہ۔۔

جبکہ وجاہت بھی ہانیہ کو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔

ان چار ماہ میں ہانیہ پوری طرح سے بدل گئی تھی سنہری رنگت میں اب سرخی بھی شامل ہوگئی تھی۔۔

بلیک شارٹ شرٹ پر بلیک کلر کی ہی کیپری پہنے گلے میں سرخ رنگ کا ڈوپٹہ پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی 

ہانیہ کو دیکھتے ہوئے وجاہت نے اپنی چال اور دھیمی کردی تھی۔۔

ہانیہ کو وہ جیسے چھوڑ کے گیا تھا وہ ویسی بلکل نہیں لگ رہی تھی اور سب سے منفرد جو اسے لگی وہ اسکے بالوں کی کٹنگ تھی 

اسکے بال زیادہ لمبے نہ تھے مگر اب ان بالوں میں اسنے فل لئیر کٹنگ کروالی تھی اور فرنٹ سے بھی فرینچ کٹ کروایا تھا جو اسکے چہرے پر حد سے زیادہ سوٹ کر رہا تھا 

وہ اسے ایسے دیکھ رہا تھا کہ ہانیہ کو احساس بھی نہ ہوا اور وجاہت اسکا بھرپور جائزہ بھی لے چکا تھا وہ بھی اتنی سی دیر میں ۔۔

اور وہ اسے دیکھ بھی سکتا تھا محرم جو تھی وہ اسکی۔۔

ہانیہ کے قریب آکر وجاہت نے اس سے سوال کیا۔۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔؟؟

وجاہت کے سوال پر ہانیہ کو سہی کی تپ چڑھی اور وہ خود کو دل ہی دل میں کوسنے لگی کہ کیوں اسنے دادو کی بات مانی ۔۔

اسلام وعلیکم ۔۔

ہانیہ نے وجاہت کے سوال پر اسے صرف سلام ہی کیا۔۔

وعلیکم السلام۔۔ تم سے کچھ پوچھا ہے۔۔

خوشی سے نہیں آئی دادو کے کہنے پر آئی ہوں۔۔

اب ہانیہ کے جواب پر وجاہت کو تپ چڑھی ۔۔

تو کس نے کہا تھا ان کی بات ماننے کیلئے۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر طنزیہ لہجہ اپنایا ۔۔

ہمیں ہمارے بڑوں نے اپنے بڑے بزرگوں کی ہر بات ماننا ہی سکھایا ہے۔۔

ہانیہ بھی کونسا پیچھے ہٹنے والی تھی۔۔

ویسے مجھ سے شادی کرکے تم تو بلکل بدل ہی گئی خود کو ہمارے لائف اسٹائل کے مطابق ڈھال ہی لیا۔۔

ایک اور طنز۔۔۔

یہ کل ہی کروایا ہے۔۔

ہانیہ اچھے سے سمجھ رہی تھی وجاہت کا اشارہ کس طرف ہے۔۔

آپکے آنے کی خبر کل ہی ملی دادو کو آپ کے گھر والے کافی خوش بھی ہیں آپ کے آنے سے تو دادو نے زبردستی مجھے نیلم کے ساتھ شاپنگ پر بھیجا اور پھر اسکے بعد سیلون۔۔

نیلم کی پسند کی میں نے شاپنگ کی اور پھر اسی کے اسرار پر یہ لک بھی کیری کیا ۔۔

ہانیہ نے چلتے ہوئے وجاہت کو تفصیل سنائی اور ساتھ میں یہ بھی جتا دیا کہ یہ سب اسنے وجاہت کیلئے بلکل نہیں کیا۔۔

اوہ تو یعنی بہت خرچہ کیا ہے آپ نے خود پر۔۔

وجاہت نے اب کی بار کوئی طنز نہیں کیا تھا مگر ہانیہ کو یہ طنز ہی لگا۔۔

آپ بے فکر رہیں سارے بل میں نے اپنے کارڈ سے پے کئے ہیں ہر مہینے مجھے میری سیلری مل رہی ہے اور خود پر خرچہ بھی میں خود کر سکتی ہوں۔۔

تم نے پے کیوں کیا اور نیلم نے کچھ نہیں کہا۔۔

وجاہت نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے ہانیہ سے سوال کیا۔۔

نیلم ایک بہت سمجھدار لڑکی ہے وہ اتنے سوال نہیں کرتی ۔۔

ہانیہ یہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئی جبکہ وجاہت نے ہانیہ کا جواب سن کے اپنے لب بھینچ لئے جیسے خود پر ضبط کر رہا ہو ۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ مسلسل وجاہت کو زچ کر رہی تھی اور اس سب کا کریڈٹ خالصتاً ساجدہ بیگم کو جاتا تھا۔۔

انہوں نے ہی ہانیہ میں اتنی ہمت پیدا کی تھی کہ وہ وجاہت کی ہر بات کا جواب دیا کرے۔۔

کیونکہ وہ یہ بات شادی والے روز ہی سمجھ گئی تھی کہ ہانیہ وجاہت سے گھبراتی ہے۔۔

انہوں نے ہانیہ کو وجاہت کے کمرے میں ہی رہنے کا کہا تھا مگر کچھ گھنٹے بعد ہی ہانیہ حور کے کمرے میں جا چکی تھی ۔۔

اور ساجدہ بیگم اپنے پوتے کو بھی اچھے سے جانتی تھیں۔۔

اسے ڈرپوک لوگوں سے چڑ ہوتی تھی۔۔

ہانیہ کو بھی اسنے اسی لئے چنا تھا کیونکہ اسنے اپنے لئے وجاہت کے سامنے شرائط رکھی تھیں۔۔

اور وجاہت کو بھی ہانیہ مضبوط کردار کی لگی اسی لئے اسنے اسکی تمام شرائط قبول کی تھیں۔۔

اور ہانیہ اور وجاہت کی جوڑی آپ سب کو کیسی لگ رہی ہے۔۔

ہانیہ اور وجاہت گھر پہنچے تو سبھی گھر والے ان کے انتظار میں تھے ۔۔

سبھی وجاہت سے پرجوش ہو کر ملے کیونکہ وجاہت 4 ماہ کے بعد گھر آیا تھا۔۔

وجاہت بھی سب سے خوشدلی سے ملا اتنے میں ہانیہ کمرے میں جا کر حور کو لے آئی۔۔

وجاہت تو بس حور کو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔

جب وہ 4 ماہ پہلے گیا تھا تو حور بہت کمزور سی بچی تھی ۔۔

اور اب جس حور کو وہ لیا ہوا تھا وہ 8 ماہ کی بہت صحت مند بچی تھی نہ جانے کتنی دیر تک تو وجاہت حور کو لئے بیٹھا رہا اسے پیار کرتا رہا۔۔

مگر حور تھی کہ تھوڑا کھیلنے کے بعد ہانیہ کے پاس جانے کی ضد کرنے لگی۔۔

یہ دیکھ کے وجاہت کو تھوڑا برا ضرور لگا کہ اسکی بیٹی اس پر ہانیہ کو ترجیح دے رہی تھی۔۔

ہانی بیٹا آپ حور کو لے لو وجاہت بہت لمبے سفر سے تھک گیا ہوگا اسے آرام کرنے دو۔۔

عالیہ بیگم نے ہانیہ کو کہا۔۔

ہانیہ نے حور کو وجاہت سے لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھائے تو وجاہت نے اسے منع کر دیا۔۔

رہنے دو میں اپنی بیٹی کے ساتھ تھوڑا وقت گزارنا چاہتا ہوں۔۔

وجاہت ہانیہ کو منع کرتا اپنے کمرے میں جانے لگا۔۔

ہانی آپ بھی وجاہت کے ساتھ جاؤ حور اسے تنگ کرے گی۔۔

دادو نے ہانیہ کو بھی وجاہت کے ساتھ جانے کا کہا۔۔

ہانیہ بھی حور کیلئے وجاہت کے ساتھ چلدی۔۔۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو ہانیہ کو اپنے ساتھ چلتا دیکھ وجاہت نے اسے ٹوکا۔۔

وہ حور آپکو تنگ کرے گی اسی لئے آپکے ساتھ آگئی۔۔

ابھی وجاہت ہانیہ کو کچھ کہتا اس سے پہلے ہی وہ کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے دنگ رہ گیا۔۔

وجاہت کا کمرہ پوری طرح سے بدلا ہوا تھا پہلے اسکا کمرا بلیک اور گرے کلر کے کامبینیشن کا تھا مگر اب وائٹ اور ڈارک رائل بلو کلر کا تھا ۔۔

پورا روم ہی رینوویٹ ہوا تھا۔۔

کوئی بھی چیز پہلے جیسی نہیں تھی۔۔

یہ سب کس نے کیا۔۔

وجاہت نے ہانیہ سے سوال کیا۔۔

وہ دادو نے ہی آپکے کمرے میں کام کروایا ہے اور مجھے کہہ رہی تھیں کہ آپ کے آنے کے بعد میں برابر والے روم میں ہی شفٹ ہوجاؤ۔۔

دو مہینے پہلے ہی ان دو کمروں میں کام ہوا تھا۔۔

ہانیہ جو جانتی تھی وہ وجاہت کو بتا چکی تھی۔۔

وجاہت نے اب کمرے کا جائزہ لیا۔۔

پورا کمرہ اب کافی روشن اور خوبصورت لگ رہا تھا۔۔

وجاہت کو اپنا کمرا بہت پسند آیا۔۔

وجاہت حور لئے بیڈ پر گیا اور اسکو گود میں لے کر پیار کرنے لگا۔۔

مگر حور تھی کہ وجاہت کی گود میں رورہی تھی ہانیہ دور ہی کھڑی ہوئی تھی۔۔

یہ اتنا رو کیوں رہی ہے۔۔

وجاہت نے ہانیہ سے سوال کیا۔۔

یہ میڈم بہت شرارتی ہیں آپ انہیں نیچے چھوڑ دیں یہ گود سے زیادہ خود سے ادھر ادھر گھومنا پسند کرتی ہیں۔۔

وجاہت نے ہانیہ کی بات پر حور کو نیچے اتار دیا تو وہ گٹھنے گٹھنے چل کر ادھر سے ادھر گھومی اور پھر ہانیہ کی طرف چل دی۔۔

حور مسلسل وجاہت کو اگنور کر رہی تھی اور اسی وجہ سے وجاہت کو ہانیہ پر غصہ آرہا تھا۔۔

یہ تم نے کیا کر دیا میری بیٹی کو یہ مجھ سے دور کیوں بھاگ رہی ہے۔۔

وجاہت نے دبے دبے غصے سے ہانیہ کو کہا۔۔

جب 4 ماہ اپنی بیٹی سے دور رہیں گے تو وہ کیا خاک آپکا لمس پہچانے گی۔۔

وہ بڑی ہورہی ہے لوگوں کو پہچاننے لگی ہے اس بیچ آپ یہاں نہیں تھے۔۔

ایک دو دن میں وہ اپ کے ساتھ بلکل پہلے جیسے ہوجائے گی۔۔

ہانیہ نے حور کو گود میں لیا اور کمرے سے جانے لگی ۔۔

مما کہہ رہی ہیں تھی آپ تھک گئے ہونگے آرام کریں۔۔

یہ کہہ کر ہانیہ روم سے چلی گئی۔۔

جبکہ وجاہت غصے سے بس مٹھیاں بھینچ کے رہ گیا ابھی کچھ کر بھی تو نہیں سکتا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

تھکن کی وجہ سے وجاہت بیڈ پر لیٹتے ہی سوگیا تھا

 اب اسکی آنکھ بھوک کی شدت سے کھلی تو رات کے 8 بج رہے تھے۔۔

وجاہت واشروم فریش ہونے چل دیا۔۔

کچن میں عالیہ بیگم نے اپنی نگرانی میں وجاہت کا پسندیدہ کھانا بنوایا ۔۔

کھانا بلکل ریڈی تھا تو عالیہ بیگم نے ہانیہ کو وجاہت کو جگانے اور کھانے کیلئے بلانے کا کہا۔۔

تو ہانیہ سر ہلا کے وجاہت کے کمرے کی طرف چل دی ۔۔

زیادہ کچھ نہیں کرنا اگر وہ سورہے ہونگے تو انہیں آواز دے دونگی کہ اٹھ جائیں اور آکر کھانا کھالیں اور اگر جاگے ہوئے ہونگے تو دروازے سے ہی بول کر واپس آجاؤ گی۔۔

ہانیہ یہ سب سوچتے ہوئے وجاہت کے کمرے کے دروازے پر گئی۔۔

پہلے دروازہ ناک کیا مگر کوئی جواب نہ پاکر دروازہ کھول کے خود ہی کمرے کے اندر گئی مگر کمرے میں بھی کوئی نہ تھا۔۔

ممکن تھا کہ وجاہت واشروم میں ہو۔۔

وہ دروازہ ناک کر کے عالیہ بیگم کا پیغام وجاہت تک پہنچا کے وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔۔

مگر ہائے رے قسمت۔۔

جیسی ہی اسنے دروازہ ناک کرنے کیلئے ہاتھ اٹھایا اسی وقت وجاہت نے دروازہ کھول دیا ۔۔

وجاہت وائٹ ٹراؤزر پر بغیر شرٹ کے گلے میں تولیہ ڈالے فریش فریش سا واش روم کے دروازے پر تھا۔۔

ہانیہ نے اسے دیکھ کے فورا رخ پھیر لیا 

وہ آپکو مما کھانے کیلئے بلا رہی ہیں۔۔

ہانیہ یہ کہہ کر کمرے سے بھاگنے لگی کہ اچانک وجاہت نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنی جانب کھینچا۔۔

وجاہت کی اس حرکت پر ہانیہ کی سانس بند ہوتی محسوس ہوئی۔۔

میں جب سے آیا ہوں تم مجھے غصہ دلا رہی ہو۔۔

کچھ زیادہ ہی زبان نہیں چلنے لگی۔۔

وجاہت کی اتنی قربت پر ہانیہ بوکھلا سی گئی۔۔

میں نے کیا کہا مجھے مما نے کہا تھا کہ آپ کو کہو کہ کھانا کھانے آجائیں۔۔

ہانیہ نے بہت مشکل سے الفاظ ادا کئے۔۔

وجاہت کے پاس سے شاور جیل کی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی جسے ہانیہ پوری طرح محسوس کر سکتی تھی۔۔۔

اپنی لمٹ میں رہو اور مجھ سے دور رہو سمجھی تم۔۔

وجاہت نے اسکے بازو پر گرفت اور مضبوط کی تو ہانیہ درد کی شدت سے کراہ اٹھی۔۔

مجھے درد ہورہا ہے۔۔

ہانیہ بس اتنا ہی بول پائی۔۔

مگر وجاہت پر تو جیسے کچھ اثر ہی نہیں ہورہا تھا۔۔

میں نے تمہیں پہلی ملاقات میں ہی یہ بات باور کروا دی تھی کہ مجھ سے اور میرے معاملات سے دور رہنا مگر تمہارے تو کچھ زیادہ ہی پر نکل آئے ہیں۔۔

وجاہت نے نخوت سے ہانیہ کو دیکھا جسکی آنکھوں سے ایک آنسو بہہ کر اسکے گال پر آگیا تھا۔۔

آئیندہ اگر تم نے مجھ سے زبان درازی کی تو اس سے بھی زیادہ برا پیش آسکتا ہوں میں۔۔

وجاہت نے جھٹکے سے ہانیہ کو خود سے دور کیا۔۔

ہانیہ تیزی سے کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ڈائننگ ٹیبل پر وجاہت سب سے ساتھ کھانے میں مصروف تھا جب دادو نے ہانیہ کے بارے میں وجاہت سے پوچھا۔۔

وجاہت بیٹا ہانی کہاں ہے تمہیں بلانے گئی تھی خود آئی ہی نہیں۔۔

پتہ نہیں دادو مجھے کھانے کا بول کے وہ وہاں سے چلی گئی۔۔

وجاہت کے الفاظ پیچھے سے آتی ہوئی ہانیہ نے سنے مگر وہ بغیر کچھ کہے ہی اپنی چئیر پر بیٹھ گئی حور کو گود میں لئے۔۔

ہانی بیٹا کہاں رہ گئی تھی۔۔

عالیہ بیگم نے ہانیہ سے سوال کیا۔۔

مما وہ حور سونے کیلئے تنگ کر رہی تھی تو اسے ہی سلا رہی تھی مگر اتنی دیر بعد بھی وہ نہیں سوئی تو میں اسے نیچے ہی لے آئی۔۔

ہانیہ کی بات سن کے سب ایک بار پھر کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے ۔۔

صرف وجاہت نے ہی یہ بات نوٹس کی کہ ہانیہ بہت بے دلی سے صرف چمچ ہی چلا رہی تھی پلیٹ میں کھا کچھ نہیں رہی تھی ۔۔

اور اوپر سے حور بھی اسے کھانا کھانے نہیں دے رہی تھی جس پر ہانیہ کے منہ سے حور کیلئے اف بھی نہ نکلا۔۔

کھانے سے فارغ ہو کر سبھی گھر والے ایک ساتھ بیٹھے چائے کے مزے لیتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔

تو وجاہت بیٹا کیسا رہا تمہارا پراجیکٹ۔۔

شان صاحب نے وجاہت کو مخاطب کیا جسکی نظریں اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیلتی ہوئی حور پر ہی تھی۔۔

ڈیڈ پراجیکٹ بہت بہت اچھا رہا اس پراجیکٹ کے ذریعے ہمیں بہت بڑی کامیابی ملی ہے اور ہماری کمپنی ترقی کی ایک نئی اونچائی پر پہنچ گئی ہے۔۔

وجاہت نے پر جوش لہجے میں شان صاحب کو بتایا۔۔

واؤ برو اس بات پہ تو سیلیبریشن ہونا چاہئیے نا۔۔

نیلم نے وجاہت کی بات سن کے چہک کے کہا۔۔

ہاں کیوں نہیں بس ایک بار ہادی آجائے پھر سیلیبریشن بھی کریں گے۔۔

وجاہت نے بھی خوشی سے ہی جواب دیا۔۔

بیٹا ہادی کو گئے 6 ماہ ہوگئے وہ آیا کیوں نہیں۔۔

دادو نے ہادی کے بارے میں وجاہت سے سوال کیا۔۔۔

دادو بس وہ سارا کام فائنل کر کے آب کافی عرصے تک پاکستان میں ہی رہے گا آپ کے ساتھ۔۔

ہاں بیٹا ہادی سے ملے ہوئے 6 ماہ گزر گئے اسکو تو اپنی دادو کی یاد بھی نہیں آتی۔۔

دادو نے اپنے پلو نے اپنی آنکھیوں میں آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔

ایسا نہیں ہے دادو اس بار کام ہی اتنا ہے کہ مجھے بھی 4 ماہ لگ گئے تو وہ تو پھر سارا کام ہی سنبھالتا ہے اسے تو وقت لگتا ہی ہے نہ۔۔

ہمم۔۔ دادو نے بس سر اثبات میں ہلا دیا۔۔

ہانی بیٹا آپ کیوں خاموش ہو ورنہ تو ہماری بیٹی سبھی سے باتیں کرتی ہے۔۔

شان صاحب نے ہانیہ کو مخاطب کیا جو خاموشی سے صوفے پر بیٹھی بس حور کو ہی دیکھے جارہی تھی۔۔

کچھ نہیں بس حور کو دیکھ رہی ہوں۔۔

ہانیہ نے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجا کے کہا۔۔

ہانی میری جان کیا ہوا ہے بیٹا بہت چپ چپ سی ہو۔۔

دادو نے بھی اب ہانیہ کی خاموشی کو اب نوٹ کیا۔۔

دادو کے کہنے پر سبھی نے ہانیہ کی طرف دیکھا سب کی نظروں میں اس نے وجاہت کی نظروں کو بھی خود پر محسوس کیا۔۔

ہانیہ ایسی ہی تھی وہ اپنے جزبات چھپانا جانتی ہی نہیں تھی خوشی ہو یہ غم وہ اسکے چہرے سے ہی جھلکتا تھا۔۔

کچھ نہیں دادو بس بابا کی یاد آرہی ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ دنوں کیلئے بابا کے گھر چلی جاؤ۔۔

ہانیہ نے اس گھر سے فرار کا راستہ یہی سوچا۔۔

وجاہت کے الفاظ اور اسکا رویہ اسے بہت برا لگا تھا۔۔۔

وہ اس سے کوئی واسطہ رکھنا نہیں چاہتی تھی مگر اتنے دنوں میں اس نے وجاہت کے بارے میں اتنا کچھ سنا اور اسکا نام ہمیشہ اپنے نام سے جڑا محسوس کیا۔۔

اور پھر دادو نے بھی اسکو اتنا سمجھایا کہ وہ وجاہت کو اپنی اہمیت کا احساس دلائے۔۔

اسی لئے وجاہت کی بات اسے بہت بری لگی اسکی نظروں میں اس نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا جس پر وجاہت نے اسے ڈانٹا۔۔

ٹھیک ہے بیٹا آپ کل چلی جاؤ حور کو لے کر وجاہت آپ کو چھوڑ آئے گا 

ویسے بھی شادی کے بعد سے ہی وجاہت ایک بار بھی آپ کے گھر والوں سے نہیں ملا۔۔

دادو کے حکم پر وجاہت فوراً بولا۔۔

دادو کل مجھے بہت کام ہیں اور حور کہیں نہیں جائے گی میں اتنے مہینوں بعد آیا ہوں میں حور کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ۔۔

ٹھیک ہے تو بس تم ہانی کو چھوڑ آنا اور حور کو بھی پھر خود ہی سنبھالنا۔۔

ہانیہ کچھ بولنا چاہتی تھی مگر دادو نے اسے کچھ بولنے نہ دیا۔۔

ساجدہ بیگم بھانپ چکی تھی کہ وجاہت کے آنے کے بعد ہانیہ خاموش خاموش سی تھی شاید وجاہت نے اسے کچھ کہا ہوگا۔۔

ہانیہ کی اہمیت وجاہت کو سمجھانے کیلئے یہ ضروری تھا کہ وجاہت حور کو کچھ وقت ہی سہی خود سنبھالے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

دادو یہ ہادی کون ہے جس کے بارے میں آپ لوگ بات کر رہے تھے۔۔

ہانیہ روز کی طرح آج بھی رات کے وقت دادو کے ساتھ بیٹھی تھی ۔۔

یہ اسکا معمول تھا وہ اپنا زیادہ تر وقت ساجدہ بیگم کے ساتھ ہی گزارا کرتی تھی ۔۔

بیٹا ہادی شان عالم کے دوست کا بیٹا ہے ہادی کی پیدائش کے وقت اسکی ماں چل بسی تو ہادی زیادہ تر عالیہ کی گود میں ہی پلا بڑا ہے ۔۔

جنید نے دوسری شادی نہیں کی کبھی اور ہادی کیلئے بھی وہ بے فکر ہوگیا تھا کیونکہ وہ یہی ہمارے پاس رہا ہے ہمیشہ سے۔۔

بس جب بھی جنید پاکستان آتا تھا تبھی ہادی کچھ دن کیلئے اپنے بابا سے ملنے جاتا تھا۔۔

جنید اپنی بیوی کے مرنے کے بعد پاکستان سے باہر چلا گیا۔۔

مگر چونکہ تب تک ہادی عالیہ سے کافی مانوس ہوگیا تھا اسی لئے وہ اسے ساتھ لے کر نہیں گیا۔۔

ہادی وجاہت کا ہم عمر ہے وہ دونوں بہت اچھے دوست بھی ہیں ۔۔

ہادی پاکستان سے باہر کا بزنس سنبھالتا ہے اور وجاہت پاکستان کا۔۔

دونوں ہی مل کر بزنس چلاتے ہیں جب ہادی کو وجاہت کی ضرورت ہوتی ہے تو وجاہت کو بھی ملک سے باہر جانا ہوتا ہے۔۔

ایسا سمجھ لو ہادی بھی اس گھر کا ایک فرد ہے۔۔

دادو نے اسے تفصیل سے سب بتایا۔۔

اس پر ہانیہ نے صرف جی اچھا ہی کہا۔۔

ہانی میری جان۔۔

جی دادو بولیں۔۔

بیٹا وجاہت گھر آگیا ہے وہ تمہارا شوہر ہے تمہیں اس کے ساتھ بھی تھوڑا وقت گزارنا چاہئے۔۔

دادو نے ہانیہ کو سمجھانا چاہا کیونکہ وجاہت دوپہر سے گھر آیا ہوا تھا مگر گھر میں کسی نے بھی ان دونوں کو آپس میں بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔۔

دادو مانتی ہوں وہ میرے شوہر ہیں مگر دادو آپ اچھے سے جانتی ہیں کہ ہماری شادی کیوں اور کس لئے ہوئی ہے۔۔

یہ شادی تو انہوں نے مجبوری میں اپنی بیٹی کیلئے کی ہے تو اس حساب سے میرا ان سے کسی بھی قسم کا تعلق نہیں بنتا۔۔

ہانیہ نے سر جھکا کر دادو سے کہا۔۔

مگر بیٹا مانتی ہوں تم لوگوں کا رشتہ مجبوری کے تحت جڑا مگر رشتہ تو ہے نہ۔۔

دادو آپ مجبوری کو رشتے کا نام دے رہی ہیں۔۔

ہانیہ نے مسکرا کے جواب دیا۔۔

دادو اس کے آگے کچھ نہ بولیں تو ہانیہ بھی حور کو لئے انکے کمرے سے چلی گئی۔۔

وجاہت اپنے کمرے میں لیٹا آج کے دن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔

اور گھوم پھر کے اسکی سوچ کا مرکز ہانیہ ہی ہوتی۔۔

میں بھلا کیوں اس لڑکی کے بارے میں اتنا سوچ رہا ہوں مجھے کیا اسے برا لگے بھلا لگے ۔۔

میں بلا سے وہ کھانا کھائے یا بھوکی رہے۔۔

وجاہت کو ہانیہ کا بھوکی رہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا اسی نے اسے اتنی باتیں سنائی تھی اور اب اسی کیلئے پریشان بھی ہورہا تھا 

مگر یہ مان نہیں رہا تھا۔۔

اگر وہ بیمار پڑگئی تو میری بیٹی کا خیال کون رکھے گا۔۔

وجاہت نے اپنی سوچوں کو ایک نیا رخ دیا۔۔

وجاہت نے کچھ سوچ کے اپنا لیپ ٹاپ کھولا وہ اب ہانیہ پر نظر رکھنا نہیں چاہتا تھا مگر رہ بھی نہیں پارہا تھا 

یہ جاننے کیلئے کہ وہ اس وقت کیا کر رہی ہوگی۔۔

جیسے ہی اس نے ویڈیو ان کی دیکھا ہانیہ کتاب پڑھنے میں مصروف ہے۔۔

وجاہت نے بھی بیڈ کراؤن سے ٹیگ لگا کر اپنی نظریں لیپ ٹاپ پر ہی رکھیں۔۔

ہانیہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد پانی پی رہی تھی۔۔

شاید اسے اب بھوک لگ رہی ہوگی۔۔

یا وجاہت کو ایسا لگا مگر اسے یوں تھوڑی تھوڑی دیر بعد پانی پیتا دیکھ وجاہت تھوڑا جھنجلانے لگا۔۔

بے وقوف لڑکی جب بھوک لگتی ہے تو پانی نہیں پیتے اتنا کھانا کھاتے ہیں۔۔

وجاہت چڑ کر ہانیہ سے مخاطب تھا جو اسے لیپ ٹاپ کی اسکرین میں نظر آرہی تھی۔۔

پھر غصہ میں وجاہت نے اپنا لیپ ٹاپ بند کردیا۔۔

اپنی لمٹ میں رہو۔۔

جیسے ہی وجاہت نے لیٹ کر آنکھیں بند کیں اسکے کانوں میں یہ الفاظ گونجے۔۔

میں نے یہ ہانیہ سے کہا مگر یہ نہیں کہا کہ لمٹ کس بارے میں اس آدھی ادھوری بات کے وہ کئی معنی نکال سکتی ہے۔۔

یہ سوچ کہ وجاہت ایک بار پھر اٹھ کے بیٹھ گیا اور اب اسکا رخ ہانیہ اور حور کے کمرے کی طرف تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ کا یہ معمول تھا کہ وہ رات میں کتاب پڑھا کرتی تھی کیونکہ حور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جاگتی تھی ۔۔

ہانیہ اگر کچی نیند سے اٹھے تو اسکا سر بہت دکھتا تھا اسی لئے اسنے راتوں کو سونا ہی چھوڑ دیا تھا ۔۔۔

ہانیہ کی طبیعت دیکھ کے عالیہ بیگم نے فجر کے بعد حور کو اپنے ساتھ لے جانا شروع کردیا تاکہ ہانیہ 5  سے 6 گھنٹے سو سکے ۔۔

ابھی بھی وہ کتاب پڑھ رہی تھی مگر بھوک کی شدت سے اسکا برا حال ہورہا تھا۔۔

اس وقت وہ کچن میں جانا نہیں چاہتی تھی مگر بھوک سے اسکا برا حال ہورہا تھا ۔۔

دن بھر میں بھی اسنے کچھ نہیں کھایا تھا مگر وجاہت کی باتوں سے اسنے غصے میں کچھ نہیں کھایا۔۔

اور اب رات کاٹنی اسے بہت مشکل لگ رہی تھی سہ بار بار پانی پی رہی تھی کہ شاید پانی پینے سے بھوک کی شدت تھوڑی کم ہوسکے۔۔

مگر ناکام ہی رہی۔۔

اتنے میں ہی کسی نے دروازہ ناک کیا۔۔

ہانیہ نے پہلے گھڑی میں ٹائم دیکھا رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔۔

ہانیہ نے دروازہ کھولا تو دروازے پر وجاہت کو کھڑا دیکھ چونک گئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت کا رخ ہانیہ کے کمرے کی طرف تھا مگر وہ جاتے جاتے رک گیا۔۔

میں وہان جا کر کہونگا کیا۔۔

وجاہت نے کچھ پل سوچا پھر اپنا رخ کچن کی طرف کیا۔۔

کچن میں جا کر کھانا مائیکرو ویو میں گرم کیا اور چل دیا ہانیہ کے کمرے کی طرف دروازہ ہلکے سے ناک کیا کیونکہ حور سورہی تھی۔۔

جیسے ہی ہانیہ کے دروازہ کھولا وہ وجاہت کو اس وقت وہاں دیکھ حیرت زدہ ہوگئی۔۔

وجاہت کو اسے یوں حیرت زدہ دیکھ تھوڑی جھجھک محسوس ہوئی۔۔

تم سے کچھ بات کرنی ہے حور کے حوالے سے ۔۔

وجاہت نے دھیمی آواز میں کہا کیونکہ وہ حور کو جگانا نہیں چاہتا تھا۔۔

ہانیہ نے وجاہت کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے دیکھی۔۔

ہاں وہ مجھے بھوک لگ رہی تھی تو سوچا کچھ کھاتے ہوئے ہی حور کے بارے میں بات کرلونگا

ہانیہ نے وجاہت کو عجیب نظروں سے دیکھا کیونکہ وجاہت بہت سوچ سوچ کے بول رہا تھا۔۔

اور وجاہت کو بھی ہانیہ کا گھورنا برا لگا۔۔

اب راستہ دوگی یہ میری بیٹی کا کمرا بھی ہے۔۔

وجاہت نے دھیمی آواز سے کہا۔۔

ہانیہ نے فوراً ہی وجاہت کو راستہ دیا۔۔

وجاہت کمرے میں جاکر صوفے پر بیٹھ گیا اور کھانا ٹیبل پر رکھا۔۔

وہ میری ایک عادت ہے۔۔

ہانیہ بیڈ پر بلکل وجاہت کے سامنے بیٹھی تھی۔۔

کیسی عادت ؟

ہانیہ نے وجاہت کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔

میں کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتا؟؟

وجاہت نے بے تکا سا بہانا بنایا۔۔

تو اس وقت اپ کے ساتھ کون کھانا کھائے گا۔۔

ہانیہ نے سوچتے ہوئے جواب دیا اور وجاہت کا دل کیا کہ اپنا سر پیٹ لے۔۔

تم آکر میرے ساتھ کھانا کھاؤ پھر مجھے حور کے بارے میں کافی بات کرنی ہے۔۔

مجھے بھوک نہیں ہے۔۔

ہانیہ نے تھوڑے نروٹھے پن سے کہا۔۔

بے وقوف لڑکی بھوک لگی ہے مگر اکڑ ہے کہ کم ہی نہیں ہورہی ۔

وجاہت نے ہانیہ کو گھور کے دل میں کہا۔۔

بھوک ہو یا نہیں یہاں آکر بیٹھو۔۔

اب کی بار وجاہت نے غصے سے کہا۔۔

ہانیہ احسان کرنے کے سے انداز میں وجاہت کے پاس بیٹھ گئی۔۔

وجاہت نے تو کم ہی کھایا البتہ ہانیہ نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا صبح سے بھوکی جو تھی۔۔

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وجاہت نے حور کے بارے میں ہانیہ سے سوالات کئے تو ہانیہ نے اسے حور کے بارے میں بتانا شروع کیا۔۔

اس کی ضروریات 

اس کی پسند

اس کی دن بھر کی مصروفیات۔۔

اور بہت کچھ 

وجاہت خاموشی سے سن بھی رہا تھا اور حیرت زدہ بھی تھا کہ ہانیہ اتنا سب کچھ مینیج کیسے کر لیتی ہے۔۔

ابھی ہانیہ اسے اور بھی بہت کچھ بتاتی اتنے میں حور کی رونے کی آواز آئی تو ہانیہ اور وجاہت دونوں ہی حور کی طرف بڑھے۔۔

ہانیہ نے اسے گود میں لیا اور کندھے سے لگا لیا۔۔

وجاہت بھی حور کی پیٹھ اپنے ہاتھ سے تھپک رہا تھا

حور مسلسل رورہی تھی اور ہانیہ اور وجاہت دونوں ہی اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔

وجاہت اور ہانیہ کو احساس ہی نہ ہوا کہ وجاہت نے حور کو چپ کروانے کیلئے ایک ہاتھ سے اسے تھپک رہا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ ہانیہ کو اپنے بازوؤں میں تھاما ہوا تھا۔۔

جب وجاہت کے کلون کی خوشبو ہانیہ کو محسوس ہوئی تو وہ ایک دم ہی دو قدم پیچھے ہوئی۔۔

چونکہ وجاہت کی گرفت بہت ڈھیلی تھی اسی لئے ہانیہ آسانی سے اسکی گرفت سے آزاد ہوگئی۔۔

وجاہت کو جیسے ہی احساس ہوا وہ خود بھی دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔۔

ہانیہ نے حور کو گود میں لئے لئے ہی اسکا فیڈر ریڈی کیا پھر حور جیسے ہی تھوڑا خاموش ہوئی ہانیہ نے اسے لٹا کے اسے فیڈر پلانے لگی۔۔

فیڈر پورا ختم بھی نہ ہوا تھا کہ حور دوبارہ سو چکی تھی۔۔

یہ رات میں کتنی بار ایسے جاگتی ہے۔۔

حور کے سوجانے کے بعد وجاہت نے ہانیہ سے سوال کیا۔۔

یہی کوئی 3 سے چار بار کبھی کبھی ہر گھنٹے بعد اسی لئے میں رات کو سوتی ہی نہیں کہ کبھی حور اٹھ گئی اور میں سوتی رہی تو اسے سنبھالے گا کون۔۔

ٹھیک ہے حور کو کب کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے مجھے بتاؤ تم کل چلی جاؤگی تو میں خود اسے سنبھال لونگا۔۔

وجاہت نے صوفے سے ٹیک لگا کے آرام دہ انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا۔۔

وجاہت کو اب نیند آرہی تھی رات کے 4 بجنے والے تھے۔۔

ہانیہ کا یہ معمول تھا تو وہ با آسانی جاگ رہی تھی ہانیہ نے رخ موڑ کے نظریں حور کی طرف کرکے وجاہت کو اس کی ہر چیز کے بارے میں بتانے لگی۔۔

تھوڑی دیر بعد ہانیہ کو اندازہ ہوا کہ وجاہت کی کوئی آواز نہیں آرہی۔۔

جب ہانیہ نے وجاہت کو دیکھا تو وہ سو چکا تھا۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو جگانے کی ناکام سی کوشش کی اسے آواز دے کر۔۔

مگر وجاہت ٹس سے مس بھی نہ ہوا۔۔

وجاہت کو جگانا تو تھا کیونکہ فجر کے وقت عالیہ بیگم حور کو لینے آتی تھیں۔۔

اگر مما آگئی تو کیا سوچیں گی کہ یہ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔

ہانیہ اسی سوچ میں تھی۔۔

وجاہت اسے بے وقوف لڑکی ٹھیک ہی کہتا تھا بھلا عالیہ بیگم وجاہت کو وہاں دیکھ کیوں کچھ سوچتی وہ ہانیہ کا شوہر تھا اور حود کا باپ وہ وہاں آسکتا تھا۔۔

ہانیہ نے کھانے کی ٹرے سائڈ کر کے ٹیبل پر ہی بیٹھی اور یہ سوچنے لگی کہ اسے جگائے کیسے۔۔

سوتے ہوئے وجاہت کے چہرے پر بچوں جیسی معصومیت ہانیہ کو محسوس ہوئی ۔۔

اسے خبر ہی نہ ہوئی کہ وجاہت کو دیکھتے ہوئے کب اسکے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔۔

دل نے ایک عجیب خواہش کی ۔۔

کہ وجاہت کا چہرا چھو کر دیکھے ۔۔

مگر ہانیہ نے اپنے دل کو ڈپٹ دیا۔۔

ممکن تھا کہ ہانیہ کے چھونے پر وجاہت جاگ جائے۔۔

ہانیہ اسے ایسے ہی تکے جارہی تھی۔۔

کسی کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرکے وجاہت نے ایک دم سے آنکھیں کھولیں۔۔

اور ہانیہ کو خود کو تکتا ہوا دیکھ وجاہت چونگ گیا۔۔

جبکہ ایک دم سے وجاہت کو جاگتا دیکھ ہانیہ تھوڑا گھبرا گئی۔۔

وہ آپ سوگئے میں نے آپ کو آواز بھی دی مگر آپ جاگے نہیں ۔

ہانیہ گھبراتے ہوئے بولنے لگی۔۔

میں یہی سوچ رہی تھی کہ آپ کو جگاؤں کیسے مگر آپ خود جاگ گئے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے جواب میں کچھ نہ بولا۔۔

وہ فجر ہونے والی ہے مما آتی ہونگی آپ اپنے کمرے میں چلے جائیں۔۔

آپ کو یہاں دیکھ کے مما پتہ نہیں کیا سوچیں۔۔

کیا کہا تم نے مام مجھے یہاں دیکھ کیا سوچیں گی۔۔

وجاہت نے ہانیہ کی بے تکی بات سن کے کہا ۔۔

وہ۔۔ وہ۔۔ وہ

ہانیہ وہ وہ کرتا دیکھ وجاہت نے اپنا چہرا ہانیہ کے چہرے کےقریب کیا۔۔

ہمارے بیچ جو رشتہ ہے دنیا کیلئے اسے مدے نظر رکھتے ہوئے کوئی کچھ نہیں سوچے گا۔۔

ہانیہ کی تو وجاہت کی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کرکے ہی آنکھیں پٹھی کی پٹھی رہ گئی۔۔

جبکہ وجاہت اسکے حیران پریشان سے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔

ایک خواہش وجاہت کے دل نے بھی کی مگر وہ اسے ڈپٹتا ہانیہ سے دور ہوا اور کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔

ہانیہ اسے بس جاتا دیکھتی رہ گئی۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اگلے دن ہانیہ سب سے مل کر وجاہت کے ساتھ سعید صاحب کے گھر روانہ ہوئی۔۔

اسکا بلکل دن نہیں کر رہا تھا حور کو چھوڑ کے جانے کا اس نے دادو کو منع بھی کر دیا تھا کہ وہ کہیں نہیں جائے گی۔۔

مگر دادو نے اسے زبردستی بھیجا بغیر کوئی وجہ بتائے۔۔

وجاہت اور ہانیہ گاڑی میں سوار تھے۔۔

ہانیہ سیٹ سے ٹیگ لگائے شیشے کے پار دیکھ رہی تھی اور وجاہت گاڑی چلانے میں مصروف تھا۔۔

دونوں بلکل خاموش تھے۔۔

مگر ہانیہ کو رہ رہ کر حور کا خیال آرہا تھا۔۔

اگر حور اپ کو تنگ کرے گی تو آپ اسے مجھ سے ملوانے لائیں گے نہ۔۔

ہانیہ نے دھیمی آواز میں کہا۔۔

میری بیٹی مجھے تنگ کرے گی تو اسے میں خود سنبھال لونگا۔۔

وجاہت نے ایک نظر ہانیہ پر ڈال کر جواب دیا۔۔

ہانیہ افسردہ سی تھی وجاہت نے یہ بات محسوس کی۔۔

میری بیٹی کو تم نے مجھ سے دور کیا اب تمہیں بھی احساس ہوگا کہ کیسا لگتا ہے جب کوئی اپنا آپ کو اگنور کرے ۔۔

کل حور کا وجاہت کی گود میں رونا اور بار بار ہانیہ کی طرف بڑھنا وجاہت کو بہت برا لگا تھا۔۔

بس اسی غصے میں اس نے ہانیہ کو اتنی باتیں بھی سنا دیں جو کہ اسے بری بھی نہ لگی تھیں۔۔

بلکہ وجاہت کو تو ایسے لوگ پسند تھے جو دوسروں کو خاموش کروانا جانتے ہوں۔۔

اور ایسے لوگ وجاہت سے کم ہی ٹکراتے تھے۔۔

گاڑی سعید صاحب کے گھر کے باہر رکی۔۔

ہانیہ گاڑی سے اتری تو ساتھ ہی وجاہت بھی گاڑی سے اتر گیا۔۔

دادو اور شان صاحب نے اسے بہت سی ہدایات دے کر بھیجا تھا جس پر اسے اب عمل کرنا تھا۔۔

ہانیہ نے بیل بجائی تو دروازہ سعید صاحب نے کھولا۔۔

اپنے بابا کو دیکھ کے ہی ہانیہ کی آنکھوں میں نمی تیر گئی ۔۔

وہ جب بھی اپنے گھر آتی تھی شادی کے بعد اپنے بابا سے مل کر اسکی آنکھوں میں نمی آجاتی تھی۔۔

وجاہت نے سعید صاحب کو سلام کیا تو سعید صاحب نے خوشدلی سے وجاہت کے سلام کا جواب دیا اور دنوں کو لئے گھر میں اندر گئے۔۔

سبھی کو وجاہت کا آنا بہت اچھا لگا۔۔

فاخر جاب پر تھا اسی لئے اسکی ملاقات وجاہت سے نہ ہوسکی۔۔

فاطمہ نے اپنے داماد کی خوب خاطر داری کی۔۔۔

وجاہت سعید صاحب کی ہر بات کا جواب اچھے سے دے رہا تھا اور ہانیہ اسے چونک کر دیکھ رہی تھی 

ہانیہ اسی سوچ میں تھی کہ کیا ہوجائے اگر یہ شخص مجھ سے بھی آرام سے بات کرلے۔۔

ہانیہ کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وجاہت نے ایک آئی برو اٹھا کے ہانیہ کی طرف دیکھا جیسے سوال کر رہا ہو کہ دیکھ کیوں رہی ہو۔۔

وجاہت نی نظروں کا مفہوم سمجھ کے ہانیہ نے اپنی نفی میں سر ہلا کے وہاں سے اٹھ کر ہی چلی گئی۔۔

کھانا کھانے کے بعد وجاہت نے سب سے جانے کی اجازت چاہی اور ہانیہ کے ساتھ دروازے تک گیا۔۔

جب بھی آنا ہو بتا دینا ڈرائیو آجائے گا تمہیں لینے۔۔

وجاہت کے جانے کے بعد ہانیہ ایک بار پھر اپنے بابا کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔۔

ہانی تم خوش ہو نہ وہاں۔۔

فاخر نے ہانیہ کا اترا ہوا چہرا دیکھ کے کہا۔۔

ایسا کیوں کہہ رہے ہیں بھائی میں تو بہت خوش ہوں۔۔

ہانیہ دل میں سوچنے لگی کہ کیوں وہ اپنی فیلینگس چھپا نہیں سکتی۔۔

اچھا خوش ہو تو یہ چہرا کیوں اترا ہوا ہے۔۔

فاخر نے جانچتی ہوئی نظروں سے ہانیہ کو دیکھا۔۔

بھئی میاں 4 ماہ بعد گھر آیا اور یہ یہاں آگئی تو اداس تو ہوگی نہ۔۔

ایشا نے ہانیہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی کہا۔۔

ایشا کی بات پر ہانیہ خجل سی ہوگئی اور فاخر نے ایشا کو آنکھیں دکھائی۔۔

ایسا کچھ نہیں ہے بھابھی میں تو بس حور کیلئے پریشان ہوں۔۔

ہاں بیٹا تم حور کو لے کر کیوں نہیں آئی۔۔

فاطمہ جو کب سے سوچ رہی تھی وجاہت کے جانے کے بعد پوچھ بیٹھیں۔۔

امی مجھے دادو نے حور کو ساتھ لانے ہی نہیں دیا 

وہ کہہ رہی تھیں کہ حور کو میں دن رات سنبھالتی ہوں تو مجھے بھی ایک دو دن کا بریک ملنا چاہیئے۔۔

ہانیہ نے سب کو ادھوری بات ہی بتائی وجاہت کی بات وہ کسی کوبتانا نہیں چاہتی تھی۔۔

ہانیہ کی بات سن کے سبھی مطمئن ہوگئے سبھی جانتے تھے کہ ساجدہ بیگم جان چھڑکتی تھیں ہانیہ پہ اگر انہوں نے حور کو ساتھ لے جانے سے منع کیا ہے تو کچھ سوچ کے ہی کیا ہوگا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت ہانیہ کو چھوڑ کے گھر واپس آکر سیدھے اپنے کمرے میں گیا اور بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں گر گیا۔۔

ہانیہ کے گھر وہ گیا تو شان صاحب اور دادو کے کہنے پر تھا مگر کھانا اس نے وہاں خوب ڈٹ کے کھایا تھا۔۔

ہانیہ کی امی نے سارا کھانا خود بنایا تھا اور مٹن کڑاہی تو وجاہت کو حد سے ذیادہ لزیز لگی۔۔۔

اب وجاہت کو نیند آرہی تھی تو اسنے سوچا کے ابھی تو بس دن کے 3 بجے ہیں۔

تھوڑا سولیتا ہوں آفس تو کل ہی جانا ہے۔۔

جیسے ہی وجاہت نے اپنی آنکھیں موندیں کسی نے اسکا دروازہ ناک کیا۔۔وجاہت نے کوفت سے انکھیں کھولیں اور اندر آنے کا کہا۔۔

ایک ملازمہ گود میں حور کو لئے کمرے میں داخل ہوئی۔۔

وہ سر بڑی بیگم صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ حور کو آپ کھانا کھلا کے سلا دیجیئے گا۔۔

وجاہت نے ایک نظر حور کو دیکھا اور ایک نظر ملازمہ کو۔۔

دادو سے کہو ابھی حور کو نیلم کو دے دیں۔۔

میں ابھی سورہا ہوں شام میں حور کو دیکھ لونگا۔۔

پر سر نیلم بی بی تو یونیورسٹی گئی ہوئی ہیں ۔۔

ملازمہ نے نیلم کے بارے میں بتایا۔۔

اچھا تو مام کہاں ہیں۔۔

وجاہت نے ایک اور سوال کیا۔۔

بیگم صاحبہ بھی اس وقت آرام کر رہی ہیں۔۔

تو گھر میں اتنے ملازم ہیں کسی سے بھی کہہ دو وہ بس دو گھنٹے حور کو سنبھال لیں۔۔

وجاہت کے ایک بار پھر لیٹتے ہوئے کہا۔۔

سر وہ بڑی بیگم صاحبہ کا حکم ہے کوئی ملازم بے بی کو نہیں سنبھالے گا۔۔

اب کی بار وجاہت نے غصے سے حور کو ملازمہ کے ہاتھ سے لے لیا۔۔

ٹھیک ہے اسے جو کھلانا ہے وہ مجھے لا کر دو میں کھلا دونگا۔۔

وجاہت نے تھوڑی سختی سے کہا۔۔

معافی چاہتی ہوں مگر ہمیں نہیں پتہ کہ بے بی کیا کھاتی ہے بہو بیگم ہی بے بی کو سنبھالتی ہیں وہ کسی کو بھی بے بی کا کام کرنے نہیں دیتی خود ہی سارا کام کرتی ہیں۔۔

وجاہت نے اب غصے سے ملازمہ کو کمرے سے بھیج دیا اور حور کو گود میں لئے بیٹھ گیا۔۔

چھوٹے بچے کیا کھاتے ہونگے۔۔

وجاہت سوچنے لگا پھر حور کو گود میں ہی لئے وہ ہانیہ کے کمرے میں گیا۔۔

وہاں اسکی نظر شیشے پر لگی چٹ پر گئی 

وجاہت نے وہ چٹ پڑھی اس پر لکھا تھا کہ حور کی تمام ضروریات کے بارے میں ٹیبل پر رکھی ڈائری میں سب لکھا ہے۔۔

وجاہت وہ چٹ پڑھ کے سوچنے لگا کہ کیا وہ لڑکی جانتی تھی کہ میں اس کمرے میں آونگا۔۔

ٹیبل پر رکھی ڈائری جب وجاہت نے اٹھا کر پڑھی تو اس میں سب کچھ لکھا تھا۔۔

کب کس وقت حور کو کیا کھلانا ہے اور اسکا سامان کیا کیا ہے اور کہاں رکھا ہے اس ڈائری میں سب لکھا تھا۔۔

ڈائری میں لکھا تھا کہ 3 بجے حور کو دلیہ دینا ہے۔۔

وجاہت نے ملازمہ سے کہہ کر حور کیلئے دلیہ بنوایا اور اب اسے کھلانے لگا۔۔

مگر حور تھی کہ وجاہت کے ہاتھ سے کھا ہی نہیں رہی تھی۔۔

حور میرے بچی کچھ تو کھالو۔۔۔

وجاہت حور کو پچکارنے لگا مگر حور بھی اپنے نام کی ڈھیٹ تھی ایک نوالا بھی نہ کھایا۔۔

اپنی مما جیسی نہ بننا حور وہ بہت اکڑو اور بے وقوف ہے۔۔

وجاہت نے حور کو ضد کرتے ہوئے دیکھا تو اسے سمجھانے لگا جیسے وہ 8 ماہ کی نہیں 8 سال کی بچی ہو۔۔

دیکھو بیٹا تھوڑا کھالو پھر میں آپ کو مما کے پاس لے جاؤنگا۔۔

وجاہت کے یہ کہنے کہ دیر تھی کہ حور نے واقعی اسکی طرف بڑھائے ہوئے چمچ سے دلیہ کھالیہ۔۔

وجاہت کو یہ دیکھ بہت حیرت ہوئی کہ وہ کب سے اسے کھلانے کی کوشش کر رہا تھا مگر اب صرف اپنی مما کے پاس جانے کی بات سے ہی حور نے دلیہ کھالیا۔۔

باقی کا کھانا وجاہت نے ایسے ہی باتیں کر کے حور کو کھلا ہی دیا۔۔

آج وجاہت کو احساس ہوا کہ اس کی بیٹی کتنی باتونی ہے۔۔

جب تک وہ اس سے بات کرتا وہ خاموش رہتی جیسے ہی وہ خاموش ہوجاتا حور رونے لگ جاتی ۔۔

ساڑھے چار ہوچکے تھے اور اب وجاہت کا تھکن اور نیند سے برا حال ہوگیا تھا۔۔

اسے پچھلا ڈیڑھ گھنٹہ ڈیڑھ دن کے برابر محسوس ہورہا تھا۔۔

وجاہت حور کو اسکے کمرے میں لے گیا اور بیڈ پر لٹا دیا مگر حور پھر سے اٹھ کے بیٹھ گئی 

بیٹا سو جاؤ بابا کو بھی نیند آرہی ہے 

وجاہت نے حور سے التجا کی مگر حور اپنے کھلونوں کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔

وجاہت نے حور کو اسکے کھلونے پکڑائے اور خود بھی بیڈ پر ہی لیٹ گیا۔۔

اسکی نظریں حور پر تھی مگر نیند اس پر حاوی ہورہی تھی تو جلد ہی اسکی آنکھیں بند ہوگئیں۔۔

ذہن پوری طرح حور کی طرف ہونے کی وجہ سے وجاہت سو نہیں پارہا تھا

مگر آنکھیں کھولنا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔

وجاہت کا دل کیا کہ جب وہ آنکھیں کھولے تو وہی دو آنکھیں اور چہرا اسے نظر آئے جو کل رات کو اسنے دیکھا تھا۔۔

اپنی ہی سوچ پر وجاہت نے آنکھیں کھولیں اور ادھر ادھر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔

سر جھٹک کر اسنے سائڈ ٹیبل پر رکھی ہانیہ اور حور کی تصویر کو اٹھا لیا۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے میں اپنی بیٹی کو سنبھال نہیں سکتا ۔۔

تم دیکھنا جب تک تم اپنے بابا کے گھر پہ ہو حور کو میں اچھے سے سنبھالوں گا۔۔

اور جب تم واپس آوگی نہ تو حور تمہیں ویسے ہی اگنور کرے گی جیسے کل مجھے کیا تھا۔۔

وجاہت ہانیہ کی تصویر سے مخاطب تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ کا حور کیلئے پریشان ہونا ایک فطری عمل تھا۔۔

دن رات وہ ہی حور کے ساتھ ہوتی تھی اسکی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھی۔۔

اب اسے رہ رہ کے یہ خیال آرہے تھے کہ حور نے کچھ کھایا ہوگا کہ نہیں کچھ وہ کیسی ہوگی کیا کر رہی ہوگی ۔۔

یہ سوچ سوچ کہ وہ ہر آدھے گھنٹے میں کبھی دادو کو تو کبھی عالیہ بیگم کو فون کر کے حور کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔۔۔

سامنے سے دادو اور عالیہ بیگم اسے تسلی دے رہی تھی کہ وہ وہاں آرام سے رہے حور بلکل ٹھیک ہے۔۔

مگر ہانیہ پھر تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی کو کال کر ہی رہی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

امی اپنے حور کو وجاہت کو کیوں دے دیا اور ہم سب کو اور ملازموں کو منع کیوں کیا ہے حور کو لینے سے۔۔

عالیہ بیگم ساجدہ بیگم کے کمرے میں ان سے سوالات کر رہی تھی۔۔

کیوں یہ وجاہت کی ہی تو ضد تھی کہ حور ہانی کے ساتھ نہیں جائے گی وہ اسکی بیٹی ہے تو سنبھالے اپنی بیٹی کو خود ہی۔۔

ساجدہ بیگم نے آرام سے کہا۔۔

مگر امی وجاہت حور کو کیسے سنبھالے گا اسے تو بچے سنبھالنے آتے ہی نہیں ہیں ۔۔۔

عالیہ بیگم نے اپنی ساس کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔

اب ذمہ داری لی ہے تو نبھائے بھی۔۔

وہ ہی تو ہانی کو حور کی ماں بنا کے لایا تھا نہ اب جب ہانی اسکی ماں ہے تو وہ اسے جہاں چاہے لے جاسکتی ہے وجاہت کون ہوتا ہے ماں بیٹی کو الگ کرنے والا۔۔

ارے یہ تو اس بچی کی محبت ہی ہے جو ہانیہ نے وجاہت عالم جیسے روکھے انسان سے شادی کی ۔۔

میں نے دیکھا تھا آج صبح کیسے ہانی حور کو بار بار دیکھ رہی تھی جاتے ہوئے اسنے تو منع بھی کیا تھا مجھے کہ وہ نہیں جانا چاہتی مگر میں نے ہی اسے زبردستی بھیجا۔۔

پتہ تو چلے وجاہت کو کہ بچے کیسے سنبھلتے ہیں۔۔

دادو کو رہ رہ کر وجاہت پر غصہ آرہا تھا۔۔

ٹھیک ہے امی میں آج حور کو نہیں لونگی وجاہت سے۔۔

عالیہ بیگم بھی اپنی ساس کی بات سے متفق تھیں اسی لئے انہوں نے بھی ساس کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

کھیلتے کھیلتے حور سوگئی تو وجاہت نے بھی سکھ کا سانس لیا۔۔

حور کو ٹھیک سے لٹا کر وجاہت اسکے ساتھ ہی لیٹ گیا۔۔

مگر تھوڑی دیر بعد اسے کمرے میں بدبو سی محسوس ہوئی۔۔

وجاہت ایک بار پھر اٹھ کے بیٹھ گیا۔۔

اور دیکھنے لگا کہ بدبو کہاں سے آرہی ہے اور دیکھا تو حور کے پاس سے ہی بدبو آرہی تھی ۔۔

شاید اسکی نیپی چینج کرنی تھی ۔۔

اب وجاہت ایک بار پھر سوچ میں پڑھ گیا کہ نیپی چینج کیسے کرے گھر میں کسی کو بھی بولنا بے کار تھا 

وہ جانتا تھا کہ سب کو کس نے منع کیا ہے حور کو لینے سے اور دادو کا حکم کوئی ٹال نہیں سکتا۔۔

تو وجاہت عالم یہ کام بھی آپ کو خود ہی کرنا ہے۔۔

وجاہت نے سر کو کھجاتے ہوئے سوچا۔۔

اپنے موبائل سے اسنے یوٹیوب پر نیپی چینج کرنے کا طریقہ دیکھا اور شروع ہوگیا۔۔

مگر جیسے ہی اسنے حور کا پیمپر کھولا اسے ابکائی سی محسوس ہوئی وہ وہاں سے اٹھ کے کمرے سے باہر آگیا اور ایک ملازمہ کو بلایا۔۔

جا کے حور کی نیپی چینج کرو وجاہت نے ملازمہ کو حکم دیا تو وہ پر پر کرنے لگی مگر وجاہت نے جب اس پہ غصہ کیا تو وہ حور کی نیپی چینج کرنے لگی وہ بھی عجیب آڑے تیڑھے منہ بنا کے۔۔

وجاہت کو ملازمہ پر بہت غصہ آیا۔۔

کہ وہ اسکی بیٹی سے منہ بنا رہی تھی۔۔

غصہ کیوں کر رہے ہو بیٹا وہ گھر کی ملازمہ ہے حور کی ماں نہیں۔۔

ساجدہ بیگم نے وجاہت سے کہا۔۔

دادو آپ یہاں کب آئی۔۔

وجاہت نے دادو کو دیکھ کے کہا۔۔

اسی وقت جب تم ملازمہ پر چلا رہے تھے۔۔

ملازمہ نیپی چینج کر کے جا چکی تھی تو دادو وجاہت کو لئے کمرے میں چلی گئیں۔۔

تم اپنی بیٹی پر حق جتانا چاہتے ہو مگر اسکے زرا سے کام میں تم اپنی بیٹی سے ہی گھبراگئے۔۔

ایسا نہیں ہے دادو مجھ سے بس بدبو برداشت نہیں ہوتی۔۔

وجاہت نے وضاحت دی۔۔

جانتے ہو ہانی یہ سب کام خود کرتی ہے اور ہم نے کبھی اس کے ماتھے پر ایک بل نہیں دیکھا 

تمہیں کیا لگتا ہے اس کے پاس ناک نہیں ہے اسے بدبو نہیں آتی ہوگی کیا مگر وہ یہ سب صرف اس محبت کیلئے کرتی ہے جو ایک ماں ہی اپنی اولاد کیلئے کر سکتی ہے۔۔

دادو جو وجاہت کو سمجھانا چاہتی تھی اب وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا۔۔

دادو میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں مگر آپ نے کل دیکھا تھا نہ میری بیٹی میرے ہی پاس نہیں آرہی تھی اس لڑکی نے میری بیٹی کو مجھ سے دور کر دیا ہے۔۔

وجاہت نے اب کھل کے اپنی دادو سے بات کی۔۔

وجاہت ایک بچہ اس کے پاس ہی جاتا ہے جو اس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے۔۔

ہانی نے حور کو تم سے دور نہیں کیا تم ہی حور سے خود دور ہوگئے۔۔

کچھ دن رکو حور تمہارے ساتھ ٹھیک ہوجائے گی بچہ کو تھوڑا وقت لگتا ہے کسی کے لمس کو اپنانے میں۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

رات کے 10 بج رہے تھے اب ہانیہ اپنے کمرے میں لیٹی ایک بار پھر حور کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ وہ کیا کر رہی ہوگی۔۔

وہ صبح سے کئی بار گھر پر کال کر چکی تھی اور سبھی نے اسے تسلی دی تھی کہ حور ٹھیک ہے 

مگر اسے حور کی بہت فکر ہورہی تھی وہ پوری رات تھوڑی تھوڑی دیر بعد جاگتی تھی پتہ نہیں وجاہت کیسے سنبھالے حور کو۔۔

ہانیہ اسی سوچ میں تھی کہ کیا کرے اتنے میں ہانیہ کا فون بجا۔۔

فون کرنے والا وجاہت تھا۔۔۔

ہانیہ کو حیرت ہوئی کہ وجاہت نے شادی کے بعد سے ہی کبھی اسے کال نہیں کی ۔۔

پھر حور کے بارے میں کوئی بات نہ ہو یہ سوچ کے ہانیہ نے کال ریسیو کرلی۔۔

اپنا سارا سامان پیک کرو میں آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں تم ابھی میرے ساتھ واپس گھر آؤ گی ۔۔

اپنے گھر پہ بتادو کوئی مجھ سے سوال نہ کرے۔۔

یہ کہہ کے وجاہت نے کال کاٹ دی بغیر ہانیہ کا جواب سنے اور ہانیہ بس اپنے فون کو دیکھے گئی۔۔

ایسے ہی مجھے پیار دیں ۔۔

 وجاہت تیزی سے گھر سے نکلنے لگا اتنے میں پیچھے سے شان صاحب نے اسے آواز دی۔۔

وجاہت کہاں جارہے ہو رات کو ٹائم دیکھا ہے ۔۔

ڈیڈ میں ہانیہ کو لینے جارہا ہوں حور بلکل بھی نہیں رہ رہی ہے اس کے بغیر مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا اور کوئی بھی میری مدد نہیں کر رہا۔۔

وجاہت نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔

تو بیٹا یہ فیصلہ بھی تو تمہارا ہی تھا۔۔

شان صاحب نے بھی سب کی طرح بہت آرام سے وجاہت پر چوٹ کی۔۔

غلطی ہوگئی ڈیڈ دماغ خراب ہوگیا تھا آپ سب نے مل کر اچھے سے ٹھکانے لگا دیا۔۔

وجاہت کو اس طرح غصے سے بولتا دیکھ شان صاحب کو اپنے بیٹے پر ترس بھی آیا اور پیار بھی۔۔

وجاہت میرے بیٹے ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کوئی کسی کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہر کسی کا ہر انسان کی زندگی میں الگ کردار ہوتا ہے ۔۔

جیسے ہانیہ تمہاری جگہ نہیں لے سکتی حور کی زندگی میں ویسے ہی تم بھی اسکی جگہ نہیں لے سکتے۔۔

شان صاحب کو پیار سے بات کرتا دیکھ وجاہت بھی تھوڑا ٹھنڈا پڑا۔۔

ڈیڈ بس مجھے غصہ آگیا تھا میں نے نور کو کھو دیا اسے واپس نہیں لا سکتا مگر نور کی چھبی کو خود سے دور دیکھا تو برداشت نہ ہوا۔۔۔

شان صاحب اسے صوفے پر بٹھا کے خود اسکے ساتھ بیٹھ گئے۔۔

میں جانتا ہوں تم نور سے کتنی محبت کرتے تھے مگر بیٹا وہ اس دنیا میں اب نہیں ہے۔۔

تمہاری بیوی اب ہانیہ ہے اس کا بھی تو تم پہ حق ہے نہ۔۔

اب میں آپ کو کیسے بتاؤ کے ہم دونوں کا ہی ایک دوسرے پر کوئی حق نہیں۔۔

وجاہت نے دل میں سوچا۔۔

ڈیڈ ہانیہ سے شادی کرنا میری مجبوری تھی بس۔۔

وجاہت نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔

تو پھر شادی کیوں کی اسے دیکھ بھال کیلئے بھی تو رکھ سکتے تھے نہ۔۔

شان صاحب نے وجاہت کو دیکھ کے کہا۔۔

بابا اگر اسے صرف دیکھ بھال کیلئے رکھتا تو کل کو وہ حور کو چھوڑ کے جاسکتی تھی۔۔

آپ نے دیکھا ہے نہ اسے وہ کم عمر کم عقل اور معصوم ہے اپنے احساسات تک تو وہ چھپا نہیں سکتی اپنے چہرے سے اور ہے کتنی کیوٹ کوئی بھی لڑکا اسے اپنا ہمسفر بنانا چاہتا۔۔

وہ اس عمر میں ہے کہ کسی کی بھی محبت کو وہ دل سے اپنا لیتی وہ 24 سال کی ہونے والی ہے مگر میچورٹی نام کی نہیں ہے اس میں۔۔

اسی وجہ سے اس کا ڈائیورس ہوا ہوگا اتنی کم عقل ہے سنبھالتی کیسے اپنے رشتے کو اور مجھے تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اسکے گھر والوں نے اسکی شادی اتنی کم عمر میں کر کیسے دی تھی۔۔

وجاہت بے دھیانی اور غصے میں اتنا کچھ بول گیا۔۔

اور شان صاحب صرف اسکی بات پر مسکرا رہے تھے۔۔

آج پہلی بار وجاہت کے منہ سے انہوں نے ہانیہ کے بارے میں کچھ سنا تھا۔۔

شان صاحب کو ہنستا دیکھ وجاہت تھوڑا سنبھل گیا۔۔

میرا وہ سب کہنا کا وہ مطلب نہیں تھا جسے سن آپ ہنس رہے تھے۔۔

وجاہت نے شکایتی نظروں سے شان صاحب کو دیکھا۔۔

بیٹا ہانی کے پاسٹ میں کیا ہوا اس میں میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں میں بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ ایک بہت پیاری اپنے رشتوں سے محبت کرنے والی اور بہت صابر بچی ہے جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ اسکا نصیب تھا۔۔

مگر تم خود کہتے ہو کہ وہ اتنی اچھی ہے کہ کوئی بھی لڑکا اسے اپنانا چاہتا اور بے شک وہ اس سے محبت بھی کرتا شاید بے شمار۔۔

مگر تم ۔۔ تم کیا کر رہے ہو۔۔

اس لڑکی کے تمام احساسات کا گلہ گھونٹ رہے ہو تم اپنی بیٹی کیلئے اس لڑکی کو کیوں سزا دے رہے ہو 

زرا سوچو جب وہ اتنی اچھی ماں بن سکتی ہے تو وہ ایک اچھی بیوی بھی ثابت ہوگی۔۔

شان صاحب کی باتوں کو وجاہت اور سن نہیں پایا کیونکہ وہ سچ کہہ رہے تھے اور سچ تو ہوتا ہی کڑوا ہے۔۔

ڈیڈ مجھے ہانیہ کو لینے جانا ہے میں نے آدھے گھنٹے کا کہا تھا وہ میرا ویٹ کر رہی ہوگی۔۔

ٹھیک ہے بیٹا جاؤ مگر میری باتوں پر غور ضرور کرنا ورنہ ایسا نہ ہو کل کو تمہیں پچھتانا پڑھ جائے۔۔

وجاہت شان صاحب کی بات سن کے رکا نہیں بلکہ باہر کی طرف بڑھ گیا بغیر کوئی جواب دیئے۔۔

جبکہ شان صاحب اپنے بیٹے کو تاصف سے دیکھتے رہ گئے ۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ کافی دیر سے وجاہت کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ ابھی تک نہیں آیا تھا ۔۔

آدھا گھنٹہ کب کا گزر گیا تھا۔۔

ہانیہ نے اپنا سارا سامان پیک کرلیا تھا مگر وجاہت نہیں آیا۔۔

کہیں انہوں نے میرے ساتھ مزاق تو نہیں کیا مجھے تنگ کرنے کیلئے۔۔

ہانیہ نے سوچا اور واپس اوپر اپنے کمرے میں جانے لگی کہ گاڑی کے رکنے کی آواز آئی ہانیہ فوراً سے دروازے تک گئی اور دروازہ کھولا۔۔

وجاہت بلو ٹراؤزر کے ساتھ وائٹ ٹی شرٹ پہنا ہوا تھا فارمل سے لک میں بھی وہ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔

ٹی شرٹ کی آستینوں سے اسکے سفید کسرتی بازو جھلک رہے تھے۔۔

ہانیہ ایک منٹ تو اسے دیکھے گئی۔۔

وجاہت گاڑی سے اترا اور ہانیہ کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔۔

ہانیہ ابھی بھی وجاہت کو ویسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

میں جانتا ہوں میں بہت ہینڈسم ہوں مگر اتنا مت دیکھو کہیں نہیں جارہا میں ساری زندگی پڑی ہے مجھے دیکھنے کیلئے ابھی گھر چلو۔۔

ہانیہ کی نظریں مسلسل خود پر دیکھ کے وجاہت ہلکی مسکراہٹ لئے بولا۔۔

یہ سن ہانیہ چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔۔

میں تو بس یہ دیکھ رہی تھی کہ آپ کسی بھی طرح سے ڈرائیور نہیں لگ رہے ۔۔

حالانکہ مجھے تو اب یہاں ڈرائیور ہی لینے آنے والا تھا۔۔

ہانیہ کے طنز پر وجاہت نے اسے گھوری سے نوازا ۔۔

چلو یہاں سے ۔۔

وجاہت نے حکم جاری کیا۔۔

ابھی ہانیہ کچھ جواب دیتی سعید صاحب وہاں آگئے۔۔

ارے بیٹا آگئے آپ ۔۔

اسلام علیکم انکل ۔۔ جی بس وہ حور نہیں رہ رہی ہانیہ کے بغیر میں نے ہانیہ سے کہا بھی کہ میں حور کو لے آتا ہوں اسے تم وہیں رکھ لو 

مگر ہانیہ نے کہا نہیں آپ مجھے لینے آجائیں۔۔

وجاہت نے صاف جھوٹ بولا اور ہانیہ بس وجاہت کو گھور کر رہ گئی۔۔

ہانیہ کا چہرا دیکھ وجاہت کو ہنسی آئی مگر وہ ضبط کر گیا۔۔

ہانیہ کے ڈرائیور والے طنز کا وجاہت نے اسے اچھے سے جواب دیا۔۔

کوئی بات نہیں بیٹا اب رات بڑھتی جارہی ہے آپ لوگ جائیں۔۔

سعید صاحب نے گھڑی میں ٹائم دیکھ کے کہا۔۔

ٹھیک ہے انکل پھر اجازت دیں ہانیہ پھر آجائے گی آپ لوگوں سے ملنے۔۔

وجاہت نے مودبانہ انداز میں کہا۔۔

جی بلکل بیٹا جیسا آپ لوگوں کو سہولت ہو۔۔

سعید صاحب نے مسکرا کے جواب دیا۔۔

ہانیہ اپنے بابا سے مل کر وجاہت کے ساتھ گھر کیلئے روانہ ہوگئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

بھئی کوئی ہے گھر میں یا سوگئے سب۔۔

کوئی چلاتے ہوئے گھر میں داخل ہوا۔۔

شان صاحب اپنی اسٹڈی سے نکل کر اپنے روم کی طرف جارہے تھے۔۔

اچانک کسی کی آواز پر پلٹے اور ہادی کو دیکھ کے جاندار قہقہہ لگایا۔۔

ہادی میرے بچے تم آگئے۔۔

وجاہت اور ہادی ایک ساتھ پلے بڑے تھے مگر دونوں کی شخصیت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔

وجاہت جتنا سنجیدہ تھا اتنا ہی ہادی شوخ اور چنچل سا تھا۔۔

گھر بھر کی رونق تھا وہ جب بھی آتا پورا عالم ولا جھوم اٹھتا تھا ہسی اور قہقہوں سے۔۔

جی انکل میں آگیا۔۔

کہاں ہیں سب بلائیں۔۔

ہادی اتنی زور زور سے بول رہا تھا کہ سب لوگ ایک ایک کر کے اپنے کمروں سے باہر آگئے۔۔

ہادی سب سے پرجوش ہوکر ملا۔۔

انکل وجی کہاں ہے۔۔

ہادی نے سب کو دیکھا مگر وجاہت وہاں نہیں تھا۔۔

ابھی شان صاحب کچھ کہتے کہ گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔۔

لو آگیا وجاہت۔۔

شان صاحب نے مسکرا کے کہا۔۔

ہادی کو شرارت سوجھی اور وہ گیٹ کے پیچھے چھپ گیا۔۔

وہ سمجھا وجاہت اکیلا آئے گا پر جیسے ہی ہانیہ اندر داخل ہونے لگی ہادی کسی جن کی طرح نمودار ہوگیا۔۔

بھاؤؤ۔۔۔

ہادی زور سے چلایا تو ہانیہ ایک دم ڈر کے پیچھے ہونے لگی اور پیچھے ہوتے ہوئے اسکا پیر مڑ گیا 

وہ گر ہی جاتی کہ ہادی نے فوراً اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔

اگلے ہی پل ہانیہ ہادی کا ہاتھ پکڑ کے پھر سے کھڑی ہوگئی مگر یہ سب وجاہت کی نظروں سے نہ چھپ سکا۔۔

ہانیہ ہادی کو دیکھنے لگی کہ یہ کون ہے بھلا۔۔

ہانی یہ ہادی ہے یہ ایسا ہی ہے بہت شرارتی ہے تم برا نہیں ماننا اسے لگا وجاہت ہوگا۔۔

پیچھے سے دادو نے ہانیہ سے کہا۔۔

ہانیہ ہادی کو سلام کر کے آگے بڑھ گئی ہادی نے بھی اس کے سلام کا جواب دیا۔۔

وجاہت نے گلا کھنکارا۔۔

ہادی نے اب وجاہت کو دیکھ کے اسکے گلے لگ گیا۔۔

کیسا ہے بھائی۔۔

ہادی خوشی سے ملا۔۔

میں ٹھیک تم تو کل آنے والے تھے نہ۔۔

وجاہت نے بھی اب خوشی سے جواب دیا۔۔

اگر کل آتا تو سب کو یہ سرپرائز کیسے دیتا۔۔

ہادی چہک کر بولا۔۔

ارے بیٹا ساری باتیں کھڑے کھڑے کروگے کیا۔۔

یہاں آکر بیٹھو۔۔

عالیہ بیگم نے ہادی اور وجاہت کو اندر آنے کا کہا۔۔

ہانیہ اپنا سامان لئے حور کے کمرے کی طرف چل دی۔۔

دادو یہ کیوٹ سی لڑکی کون تھی۔

ہادی نے ساجدہ بیگم سے سوال کیا۔۔

ساجدہ بیگم نے کن آنکھیوں سے وجاہت کو دیکھا۔۔

جو ہادی کی بات پر ہادی کی پیٹھ کو گھور رہا تھا ۔۔

وجاہت پیچھے کھڑا تھا جبکہ ہادی دادو کے ساتھ صوفے پر بیٹھا تھا۔۔

بیٹا وہ ہانی ہے۔۔

دادو نے جان بوجھ کے ہانیہ کا پورا تعارف ہی نہیں کروایا۔۔

واؤ۔۔ دادو کتنا پیارا نام ہے ہانی کیوٹ ہے بلکل ان محترمہ کی طرح۔۔

ہادی کی بات پر وجاہت کو تھوڑا غصہ آیا۔۔

ہانی نہیں ہانیہ۔۔

مسز ہانیہ وجاہت عالم۔۔

بیوی ہے میری۔۔

ہانی نہیں ہانیہ۔۔

مسز ہانیہ وجاہت عالم۔۔

بیوی ہے میری۔۔

وجاہت یہ بول کہ ہادی کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔۔

سبھی گھر والے وجاہت کو حیرت سے دیکھنے لگے۔۔

وجی کے بچے تو میرے ساتھ پچھلے چار ماہ سے رہ رہا ہے تو نے ایک بار بھی نہیں بتایا کہ تو نے شادی کرلی۔۔

ہادی تو وجاہت کی شادی کی بات سن کے ہی اچھل گیا تھا۔۔

بیٹا وہ شادی حور کی وجہ سے کرنی پڑی وجاہت کو۔۔

عالیہ بیگم نے ہادی سے کہا۔۔

اور ائرلینڈ کا سارا کام وائینڈ اپ ہوگیا۔۔

وجاہت نے کام کے بارے میں بات کی۔۔

دیکھ بھائی یہ کام کی باتیں پرسوں میرے ساتھ آفس میں کرنا کام کے وقت میں بہت سیریس ہوتا ہو۔۔

پر ابھی میں بہت مستی کے موڈ میں ہوں تو پلیز ہاں۔۔

ہادی نے منہ بنا کے وجاہت کے کام سے متعلق سوال کا جواب دیا۔۔

ٹھیک ہے رات کافی ہوگئی ہے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اب سوجانا چاہیئے۔۔

وجاہت نے کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھ کے کہا۔۔

ہاں بیٹا باقی باتیں صبح کریں گے ابھی چلو سب سوجاؤ۔۔

دادو نے سب کو کمرے میں جانے کا کہا ۔۔

ٹھیک میں جاتا ہوں اپنے کمرے میں مگر پہلے اپنی پرنسس سے تو مل لو۔۔

کہاں ہے حور کتنا ٹائم ہوگیا اسے دیکھا بھی نہیں ۔۔ ہادی نے عالیہ بیگم سے سوال کیا۔۔

بیٹا وہ اوپر اپنے روم میں ہے ۔۔

عالیہ بیگم نے اوپر والے کمرے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔

حور کے ساتھ ہانیہ بھی ہوگی اور وہ سو نہ گئی ہو۔۔

یہ خیال آتے ہی وجاہت نے ہادی کو روکا جو حور کے کمرے کی طرف جارہا تھا۔۔

ہادی اور اس وقت سورہی ہوگی اسکی نیند بہت کچی ہے زرا سی آواز پر اٹھ جاتی ہے تم اس سے صبح مل لینا۔۔

ہاں میں کوئی آواز نہیں کرونگا بس اسگے گال پہ ہلکے سے پیار کر کے واپس آجاؤ گا۔۔

ہادی بھی کونسا کسی کی سنتا تھا تیزی سے اسکے کمرے کی طرف گیا۔۔

وجاہت بھی اس کے پیچھے ہی چل دیا۔۔

یہ سب کیا ہورہا ہے امی وجاہت کو کیا ہوگیا اچانک۔۔

عالیہ بیگم نے اپنی ساس سے کہا۔۔

بیٹا وجاہت ہانیہ کو کتنا ہی خود سے دور رکھے مگر ہے تو وہ اسی کی بھلا وہ کہاں برداشت کرتا ہے کوئی اسکی چیز کو دیکھے بھی اور ہانی تو اسکی بیوی ہے 

اور مرد مرد ہی ہوتا ہے انا اسکی رگ رگ میں شامل ہوتی ہے اب دیکھو ہادی کے انے سے وجاہت کے کون کون سے رنگ سامنے آتے ہیں۔۔

دادو مسکراتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں اور عالیہ بیگم اپنے کمرے کی طرف۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہادی نے جیسے ہی دروازہ کھولا ہانیہ کو وہاں دیکھ تھوڑا جھینپ گیا۔۔

اوہ سوری آپ یہاں میں سمجھا حور اکیلی ہوگی۔۔

ہادی کمرے میں جاتے ہوئے بولا پیچھے سے وجاہت بھی کمرے میں داخل ہوا۔۔

ویسے میں ہادی ہوں آپ جانتی ہیں مجھے۔

ہادی نے ہانیہ سے بات کا آغاز کیا۔۔

ہانیہ نے اپنی کتاب جو وہ پڑھ رہی تھی سائڈ ٹیبل پر رکھ لے بیٹھ گئی۔۔

جی میں جانتی ہوں دادو نے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔۔

پھر تو آپ نے صرف میری تعریفیں ہی سنی ہوگی۔۔

ہادی صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔۔

جی ایسا ہی سمجھ لیں۔۔

ہانیہ نے تھوڑا جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔۔

ہادی حور سورہی ہے وہ اٹھ جائے گی چلو اب یہاں سے۔۔

وجاہت نے دھیمے مگر تھوڑے سخت لہجے میں کہا۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو دیکھا جو بول ہادی سے رہا تھا مگر دیکھ ہانیہ کو رہا تھا۔۔

ہاں ہاں چلتے ہیں۔۔ ہادی نے بھی ٹالنے سے انداز میں کہا۔۔

ویسے ہانی آپ کا نام بہت پیارا ہے آپ خود بھی بہت پیاری ہیں۔۔

ہادی نے ہانیہ کی کھلے دل سے تعریف کی۔۔

اور اس تعریف پر وجاہت نے مٹھیاں بھینچ لی۔۔

جبکہ ہانیہ ہادی کی بات پر وجاہت کو دیکھنے لگی۔۔

ویسے مجھے پتا نہیں تھا آپ یہاں ہونگی میں سمجھا آپ وجی کے کمرے میں ہونگی اسی لئے حور کے پاس چلا آیا۔۔

ویسے کیا آپ یہی رہتی ہیں میرا مطلب ہے آپ وجی کے ساتھ نہیں رہتی۔۔

ہادی کی اتنی صاف گوئی سے وجاہت اور ہانیہ دونوں کی ہوایاں آڑ گئی۔۔

جی میں یہی رہتی ہوں۔۔

وجاہت کچھ بولتا اس سے پہلے ہانیہ بول پڑی۔۔

وہ حور بہت چھوٹی ہے اسی لئے یہ یہاں رہتی ہے ۔۔۔

وجاہت نے ہادی کو کلیریفیکیشن دی۔۔

اوہ۔۔ ہاں یہ تو ہے چلیں ہانی اب میں چلتا ہوں باقی باتیں کل ہونگی۔۔

ہادی حور کو پیار کرکے کمرے سے جانے لگا مگر وجاہت وہیں رہا۔۔

چل بھائی ۔۔ ہادی نے وجاہت کو آواز دی۔۔

تم چلو مجھے ہانیہ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔

وجاہت نے اسے جانے کیلئے کہا تو ہادی کندھے اچکا کر چل دیا۔۔

ہادی کے جانے کے بعد وجاہت نے کمرہ بند کرکے لاک کر دیا۔۔

ہانیہ بس خاموشی سے وجاہت کی کاروائی دیکھ رہی تھی۔۔

تم نے ہادی کا ہاتھ کیوں پکڑا تھا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے قریب آکر اس سے سوال کیا۔۔

کب۔؟

ہانیہ نے سوالیہ نظروں سے وجاہت کو دیکھا۔۔

زیادہ بنو مت جب ہم گھر میں داخل ہورہے تھے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا بازو غصے سے جکڑ کے دھیمی آواز میں کہا کہیں حور نہ جاگ جائے۔۔

وہ اچانک میرے سامنے آگیا تھا میں اگر اسکا ہاتھ نہیں پکڑتی تو گر جاتی۔۔

ہانیہ نے اپنی طرف سے صفائی پیش کی۔۔

گرجاتی وہ اچھا تھا۔۔

حد میں رہو اپنی سمجھی تم ۔۔

وجاہت نے دوسرے ہاتھ سے ہانیہ کے بالوں کو پکڑ کے کہا۔۔

وجاہت کا غصہ دیکھ کے ہانیہ کا بھی پارا ہائی ہوگیا۔۔

میں اپنی حدیں اچھے سے جانتی ہوں بہتر ہوگا آپ اپنی لمٹ میں رہو اور چھوڑو مجھے۔۔۔

ہانیہ نے بھی اب غصے سے وجاہت کو کہا اور  اسے دھکا دے کر خود سے الگ کیا۔۔۔

تم ہوتی کون ہو مجھے یوں دھکا دینے والی۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر ہانیہ کو کندھوں سے پکڑ کے کہا۔۔

وجاہت کتنے غصے میں تھا وہ ہانیہ کو اسکی گرفت سے معلوم ہورہا تھا۔۔

میں آپ کی جاگیر نہیں ہوں مسٹر وجاہت عالم آپ کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے بہتر ہے مجھ سے اور میرے معاملات سے دور رہیں۔

ہانیہ نے بھی آپ وجاہت کو آئینہ دکھایا۔۔

جاگیر نہیں ہو بیوی تو ہو میری۔۔

وجاہت نے ہانیہ کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

غلط کہہ رہے ہیں آپ میں آپکی بیوی نہیں ہوں میں صرف حور کی ماں ہوں اور کچھ نہیں آگر اپنی شرائط آپ بھول گئے ہیں تو جائیں اپنے کمرے میں اور اپنا ہی بنایا ہوا کانٹریکٹ نکال کے اسے غور سے پڑھیں۔۔

وجاہت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ہانیہ نے کہا 

وجاہت کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی تھی ہانیہ کو تکلیف ہونے لگی تو اسکی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کے اسکے گال پر آگیا۔۔

مگر وہ منہ سے کچھ نہ بولی۔۔

وجاہت کی نظر اسکی آنکھوں سے گرتے آنسو پر گئی اور پھر اسنے جھٹکے سے ہانیہ کو خود سے الگ کرکے کمرے سے باہر چلا گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

پوری رات وجاہت کی آنکھوں میں ہی کٹی۔۔

اس کے دماغ میں شان صاحب کی باتیں ہی چل رہی تھی۔۔

کیا میں غلط کر رہا ہوں۔۔

وجاہت نے اپنے آپ سے سوال کیا۔۔

نہیں میں کچھ غلط نہیں کر رہا ہانیہ سے میرا کانٹریکٹ ہوا ہے اسے اس بات پہ کوئی اعتراض نہیں تھا 

یہ فیصلہ ہم دونوں کا تھا ۔۔

وجاہت نے اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کی۔۔

مگر پھر ڈیڈ نے ایسا کیوں کہا۔۔

کہ کہیں مجھے پچھتانا نہ پڑے۔۔

وہ کہنا کیا چاہتے تھے۔۔

اور مجھے کس بارے میں پچھتانا پڑھے گا۔۔

وجاہت کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا پھر اس کی سوچوں کا رخ ہادی کی طرف گیا۔۔

میں جانتا ہوں ہادی شروع سے ہی ایسا ہے ہر کسی سے فری ہونے والا شوخ قسم کا تو مجھے اسکی باتیں چھبی کیوں 

ہانیہ کو تو سبھی ہانی کہتے ہیں تو مجھے ہادی کا ہانیہ کو ہانی کہنا برا کیوں لگا۔۔

بیٹا تم خود کہہ رہے ہو کہ وہ اپنی اچھی ہے کہ کوئی بھی اسے اپنانا چاہے تو شاید وہ اس سے بہت محبت بھی کرے شاید بے شمار۔۔

ایک بار پھر وجاہت کے دماغ میں شان صاحب کی بات گونجی تو وہ اٹھ کے بیٹھ گیا۔۔

اور اپنے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔۔

سگریٹ نکال کر اسے جلائی اور ایک کے بعد ایک کئی سگریٹ پی گیا۔۔

وہ عموماً سگریٹ پیتا نہیں تھا بس جب بہت زیادہ کنفیوز ہوتا تھا تو سگریٹ پیتا تھا۔۔

جب کئی سگریٹ سلگا لی تو پھر ایک بار لیٹ گیا سونے کی کوشش کرنے کیلئے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

صبح اس وقت سبھی ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے 

شان صاحب عالیہ بیگم اور دادو سبھی ہادی کی باتوں پر ہنس رہے تھے 

وہ انہیں آئرلینڈ کے قصے سنا رہا تھا۔۔

اتنے میں وجاہت بھی ڈائیننگ ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا اور اسکے بعد نیلم بھی۔۔

ارے وجی تیری آنکھیں لال کیوں ہورہی ہیں۔۔

ہادی نے وجاہت کی آنکھوں کو دیکھ کے کہا تو سبھی نے وجاہت کی طرف دیکھا۔۔

کچھ نہیں وہ بس رات میں بہت سر درد کر رہا تھا تو سو نہیں سکا۔۔

وجاہت نے بہانا بنایا۔۔

ویسے دادو ہانی اور حور نہیں کرتی کیا ناشتہ سب آگئے مگر وہ دونوں نہیں آئی۔۔

ہادی نے ایک بار پھر ہانیہ کا ذکر کیا تو وجاہت نے ایک بار پھر ہادی کو گھورنا شروع کیا۔۔

بیٹا وہ حور کو صبح ہی تیار کر دیتی ہے بس آتی ہی ہوگی۔۔

عالیہ بیگم نے ناشتہ کرتے ہوئے جواب دیا۔۔

ہانی نے ڈائننگ ہال میں آتے ہی سب کو مشترکہ سلام کیا۔۔

سب نے ایک ساتھ ہانیہ کے سلام کا جواب دیا۔۔

آئیے ہانی یہاں بیٹھیں۔۔

ہادی نے کھڑے ہوکر ہانیہ کیلئے اپنے برابر والی چئیر پل کی ۔۔

نہیں میں ہمیشہ مما کے ساتھ بیٹھتی ہوں حور کی وجہ سے۔۔

ہانیہ ہادی کو نظر انداز کرکے عالیہ بیگم کے ساتھ جاکر بیٹھ گئی۔۔

یہ دیکھ وجاہت کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔۔

ویسے آپ تھوڑی ظالم نہیں ہیں۔۔

ہادی نے ہانیہ کو ایک بار پھر مخاطب کیا۔۔

جی۔۔ ہانیہ نے حیرت سے ہادی کو دیکھا۔۔

ہاں تو میں نے اتنے احترام سے چئیر پل کی اور آپ وہاں جاکر بیٹھ گئی۔۔

وجاہت کا موڈ ایک بار پھر بگڑتا دیکھ دادو نے ہادی کو چپ کروایا۔۔

ہادی ناشتہ کرو اور ہانی کو بھی کرنے دو۔۔

وجاہت نے ایک نظر دادو کو دیکھا تو دادو نے اسے بھی نظر کے اشارے سے ناشتہ کرنے کو کہا۔۔

وجاہت ناشتہ کرتے ہوئے ہانیہ کو دیکھنے لگا۔۔

پیلے رنگ کے جوڑے میں اسکی سنہری رنگت چمک رہی تھی۔۔

اس پر اس کے گلابی گال اور گلابی ہونٹ وجاہت کو بہت اچھے لگے۔۔

اس پر شان صاحب کی باتوں کا بہت اثر ہوا تھا جسے وہ فلحال ماننے کو تیار نہیں تھا۔۔

پھر ناشتہ کر کے وجاہت ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کے چلا گیا۔۔

ویسے بھابھی آپ کو میرا مزاق کرنا برا تو نہیں لگا۔۔

وجاہت کے جاتے ہی ہادی ایک بار پھر ہانیہ سے مخاطب ہوا۔۔

یہ کیا کبھی ہانی کبھی بھابھی۔۔

نیلم نے کنفیوز ہو کر ہادی سے سوال کیا۔۔

بھئی وجی کی بیوی میری بھابھی ہی ہوئی نہ وہ تو بس میں نے کل رات میں وجی کو جلتے ہوئے دیکھا بھابھی کو ہانی بولتے ہوئے تو بس اسکے سامنے ہانی ہی بولنے لگا۔۔

ویسے بھابھی آپ کو پتہ ہے میں وجی سے بہت محبت کرتا ہوں وہ میرا بھائی ہے

مگر مجھے سب سے زیادہ مزا اس اکڑو شہزادے کو چڑانے میں آتا ہے 

ہادی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔

تو اب آپ کو اچھا لگے یا برا میں وجی کے سامنے آپ کو ہانی ہی کہوں گا۔۔

سب ہادی کی بات پر ہنس دئیے ہانیہ بھی ۔۔

اور وجاہت نے ہانیہ کو دور سے ہنستے ہوئے دیکھا تو جل کر اسنے اپنے قدم گھر سے باہر کی طرف بڑھا دئیے۔۔

وجاہت گھر سے باہر جاہی رہا تھا کہ اچانک نیلم نے اسے آواز دی۔۔

برو آپ کہاں چلے ادھر آئیں آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔

نیلم گڑیا مجھے جانا ہے کام سے۔۔

وجاہت نے پھر سے باہر کی طرف قدم بڑھائے تو ہادی بھاگتا ہوا آیا اور وجاہت کو پکڑ کے واپس گھر کے اندر لایا۔۔

بھائی صاحب میں بھی آپ کے ساتھ ہی کام کرتا ہوں میرا نہیں خیال آج کل کوئی بھی ضروری کام ہیں آفس میں تو بس یہی اپنی تشریف فرمائیے۔۔

ہادی نے زبردستی وجاہت کو صوفے پر بٹھا کر خود بھی اسے پکڑ کے بیٹھ گیا کہ کہیں واقعی وہ بھاگ نہ جائے۔۔

نیلم نے سب کو وہیں ہال میں بلایا۔۔

تم مجھے چھوڑ سکتے ہو کہیں نہیں جارہا میں۔۔

وجاہت نے ہادی کو گھور کے کہا۔۔

سب کے آنے کے بعد نیلم نے بات کا آغاز کیا۔۔

بھائی آپ نے کہا تھا کہ جب ہادی آجائیں گے تو آپ ایک گرینڈ پارٹی دینگے تو بتائیں پھر کب ہے پارٹی۔۔

ہاں بھائی پارٹی تو بنتی ہے اتنی بڑی کامیابی کا سیلیبریشن تو پکا ہے 

ویسے پارٹی کا کیا سین ہے۔۔

ہادی نے پرجوش انداز میں کہا۔۔

جب تم کہو۔۔

وجاہت نے ہادی کی گرم جوشی دیکھ کے مسکرا کے کہا۔۔

وجاہت بھی ہادی سے بہت محبت کرتا تھا اسے اپنا سگا بھائی ہی مانتا تھا مگر اسکی حرکتوں سے کبھی کبھی اکتا جاتا تھا۔۔۔

ٹھیک ہے تو پھر کل پارٹی ہے۔۔

ہادی نے اعلان کیا ۔۔

لیکن بیٹا اتنی جلدی تیاریاں کیسے ہونگی۔۔

شان صاحب نے وجاہت اور ہادی سے سوال کیا۔۔

انکل ابھی تو دن شروع ہوا ہے انویٹیشن ہم دوپہر تک سب کو فون پر بھی دے سکتے ہیں 

پارٹی کی تیاری کیلئے ایوینٹ پلانر آجائے گا 

اب وہ اسکا سر درد کیسے کرے تیاری کل تک۔۔

رہی بات گھر والوں کی انہیں بس تیار ہوکر پارٹی میں آنا ہے۔۔

ہادی نے سارا مسئلہ ہی حل کردیا۔۔

نیلم چہک کر بولی وہ ہمیشہ سے ہی ہادی سے انسپائر ہوتی تھی۔۔

تو پھر ٹھیک ہے بھلا کسی کو کیا اعتراض۔۔

شان صاحب نے مسکرا کے کہا تو سبھی نے ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

بھابھی ہم حور کیلئے شاپنگ کرنے چلیں ساتھ میں اپنے لئے بھی شاپنگ کریں گے۔۔

سبھی گھر والے ابھی بھی ہال میں بیٹھے پارٹی کے متعلق بات کر رہے تھے۔۔

ہمم اپنے لئے تو نہیں ہاں مگر مجھے واقعی حور کیلئے شاپنگ کرنی ہے وہ اب بڑی ہورہی ہے تو اس کے لئے اب نئے کپڑوں اور ضروری سامان کی ضرورت پڑ رہی ہے۔۔

ہانیہ نے حور کو گود میں لے کہا۔۔

ٹھیک ہے بھابھی تو ہم ابھی چلتے ہیں شاپنگ پہ۔۔

نیلم چہک کر بولی۔۔

وجاہت اور ہادی ایوینٹ پلانر سے بات کر رہے تھے اتنے میں ہادی وجاہت کے پاس سے سبھی گھر والو کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔۔

کیا باتیں ہورہی ہیں۔۔

ہادی نے سب سے سوال کیا۔۔

ہم شاپنگ پر جارہے ہیں وہ بھی ابھی۔۔

نیلم نے ہادی کو جواب دیا۔۔

ہادی کی نظر وجاہت پر گئی جو بات پلانر سے کر رہا مگر نظریں اسی کی طرف تھیں۔۔

ہادی کو شرارت سوجھی۔۔

ہانی آپ بھی جارہی ہیں نہ۔۔

ہاں بلکل میں بھی جارہی ہوں مگر حور کی شاپنگ کیلئے۔۔

ہانیہ نے ہلکا کا مسکرا کے جواب دیا۔۔

حور کی کیوں آپ بھی کریں نہ شاپنگ آپ کو بھی تو بیسٹ لگنا ہے کل۔۔

وجاہت نے اب غور سے سب کو دیکھنا شروع کردیا 

ہادی کی بات پر عالیہ بیگم بولیں۔۔

ہاں بیٹا تم بھی اپنے لئے اچھا سا ڈریس لینا کل کیلئے۔۔

نہیں مما میرے پاس بہت سارے ڈریسز ہیں جو میں نے ابھی تک پہنے بھی نہیں ہیں۔۔

ہانیہ نے بات ٹالنی چاہی۔۔

ایسے کیسے دادو آپ ہانی سے کہیں کہ وہ اپنے لئے کچھ لے گی اور میں دیکھو گا کہ کیسے آپ کچھ نہیں لیں گی کیونکہ میں آپ لوگوں کے ساتھ چل رہا ہوں۔۔

ہادی نے ضد کی تو ہانیہ نے ہامی بھرلی وقتی طور پہ۔۔

تو پھر ٹھیک ہے ہانی اور نیلم دونوں تیار ہوجاؤ میں آپ لوگوں کو لے کر چلتا ہوں۔۔

ہادی نے حکم جاری کیا تو دادو نے بھی دونوں کو تیار ہونے کا کہہ دیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ کو تو تیار نہیں ہونا تھا وہ تو ویسے بھی سادگی میں ہی رہتی تھی کمرے میں آکر وہ حور کے کپڑے چینج کرنے لگی۔۔

حور کو تیار کر کے ہانیہ اپنے بال ٹھیک کر رہی تھی اسی وقت وجاہت کمرے میں داخل ہوا۔۔

وجاہت کو دیکھ حور اسکے پیر سے لپٹ گئی اشارہ گود میں اٹھانے کا تھا۔۔

وجاہت نے حور کو گود میں لے کر اسے پیار کیا۔۔

تم ان کپڑوں میں باہر جاؤگی۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو پونی ٹیل باندھتے ہوئے کہا۔۔

کیا خرابی ہے ان کپڑوں میں۔۔

ہانیہ نے بغیر وجاہت کی طرف دیکھے جواب دیا۔۔

بہت برے ہیں چینج کرو انہیں۔۔

وجاہت نے حکم جاری کیا۔۔

آپ سے مطلب ۔۔

ہانیہ نے اب ہئیر برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کے کہا۔۔

مجھے کچھ نہیں معلوم تم ابھی اور اسی وقت یہ کپڑے تبدیل کرو 

وجاہت دبے دبے غصے سے بولا۔۔۔

نہیں کروں گی چینج میں بلکل تیار ہوں اور آپ ہوتے کون ہیں میرے معاملات میں بولنے والے۔۔۔

ہانیہ نے بھی اب غصے سے وجاہت کو انکار کیا۔۔

ٹھیک ہے جا کر دکھاؤ باہر وجاہت نے اب کے آرام سے کہا۔۔

ٹھیک ہے نہیں جاتی۔۔ ہانیہ بھی آرام سے بیڈ پر بیٹھ کر بولی۔۔

وجاہت ہانیہ کو گھورنے لگا۔۔

وہ ہانیہ کو اس ڈریس میں باہر بھیجنا نہیں چاہتا تھا وجہ یہ تھی کہ پیلا رنگ ہانیہ پر حد سے زیادہ جچ رہا تھا 

اس پر اسکی سنہری رنگت جب وجاہت کو وہ اتنی اچھی لگ رہی تھی تو اور لوگوں کو بھی وہ اچھی لگتی

 اور کوئی میلی نظر سے اسکی بیوی کو دیکھے وجاہت یہ کہاں برداشت کرنے والا تھا

تم اتنی ضدی کیوں ہو۔۔

وجاہت کوفت سے بولا۔۔

ضد میں کر رہی ہوں۔۔

ہانیہ نے انگلی کا اشارہ اپنی طرف کر کے کہا۔۔

کیا میں نے کبھی آپ سے کہا ہے کہ آپ ایسے کپڑے کیوں پہنتے ہیں نہیں نہ تو پھر آپ کیوں ٹوک رہے ہیں مجھے۔۔

کیونکہ یہ رنگ مجھے نہیں پسند۔۔

وجاہت نے بہانا بنایا۔۔

تو آپ کو دکھانے کیلئے نہیں پہنا مجھے یہ رنگ بہت پسند ہے اسی لئے پہنا ہے۔۔

کچھ بھی ہو سب نیچے انتظار کر رہے ہیں اگر جانا ہے تو چینج کر کے آؤ۔۔

ہانیہ نے اب غصے سے وجاہت کو گھورا اور پیر پٹختی ہوئی ڈریسنگ روم میں چلی گئی اب وجاہت حور کے ساتھ کھیلنے لگا۔۔

سب سہی کہہ رہے تھے کہ حور ایک دو دن میں میرے ساتھ نارمل ہوجائے گی میں ہی جلد باز ہوں۔۔

حور کو پیار کر کے وجاہت نے دل میں سوچا۔۔

پانچ منٹ بعد ہانیہ پنک شارٹ فراق کے ساتھ بلیک کیپری پہنے باہر آئی اور اب پونی ٹیل بنانے کے بجائے بالوں میں برش کر کے اس نے بس کیچر لگا لیا۔۔

وجاہت کو ایک بار پھر غصہ چڑھا کیونکہ ان کپڑوں میں وہ پہلے سے بھی زیادہ اچھی لگ رہی تھی۔۔

اس پر اسکے ادھ کھلے بال اور چہرے پر آئی فرینچ کٹنگ اس کو اور پیارا بنا رہی تھی وہ سچ میں بہت کیوٹ تھی چھوٹے بچوں جیسے معصوم سے گال تھے اسکے جو کہ گلابی سے تھے۔۔

وجاہت نے اسے ایک بار پھر ٹوکا۔۔

کیا تمہارے پاس ڈھنگ کے کپڑے نہیں ہیں۔۔

ہانیہ نے بس وجاہت کو گھورنا ہی بہتر سمجھا۔۔

اور اسے اب مزید تپانے کیلئے اسنے ڈارک پنک کلر ہی لپ اسٹک لگائی اور چل دی باہر جانے کیلئے۔۔

وجاہت نے حور کو نیچے اتار کر ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف کھینچا۔۔

اس اچانک حرکت پر ہانیہ بیلنس نہ برقرار رکھ پائی اور سیدھا وجاہت کے چوڑے کسرتی سینے سے جالگی۔۔

وجاہت کے سینے سے لگے وہ اسکی مخصوص خوشبو کو محسوس کر رہی تھی۔۔

وجاہت نے غصے سے اسکا چہرا تھام کے کہا۔۔

میں کچھ بول نہیں رہا اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم آزاد ہو اس طرح نمائش کا سامان بن کے گھر سے باہر قدم بھی رکھا تو ٹانگیں توڑ دونگا۔۔

وجاہت کے الفاظ سے ہانیہ کو بھی غصہ آگیا۔۔

میں آزاد ہی ہوں مسٹر وجاہت عالم آپ مجھ پر کوئی روک ٹوک نہیں کر سکتے۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو خود سے دور کرنا چاہا مگر وہ اسکی مضبوط گرفت سے نکل نہیں پارہی تھی ۔۔

وجاہت کی نظر ہانیہ کی غصے سے بھری آنکھوں سے ہوتی ہوئی اس کے لبوں پر گئی اور اسکی نظر وہیں جم سی گئی۔۔

 اہم اہم۔۔ 

بھائی بھابھی رومانس بعد میں کر لینا ابھی ہادی ویٹ کر رہا ہے۔۔

نیلم دروازے پر کھڑی ان دونوں کو چونکا گئی۔۔

وجاہت ایک دم ہانیہ سے دور ہوا۔۔

ہانیہ بھی ایک دم حور کی طرف گئی اسے گود میں اٹھایا اور بیگ لئے باہر بڑھ گئی نیلم کے ساتھ۔۔

جبکہ ہانیہ کو ایسے جاتا دیکھ وجاہت نے غصے سے دیوار پر مکا مارا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

لیڈیز کب سے انتظار کر رہا ہوں کہاں رہ گئی تھی۔۔

ہادی نے خفگی سے دونوں سے کہا۔۔

وہ بس حور کو تیار کر رہی تھی اسی لئے دیر ہوگئی۔۔

واؤ بھابھی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔۔

ہادی نے ہانیہ کی تعریف کی۔۔

میں بھی یہیں ہوں میری تعریف بھی کی جاسکتی ہے۔

نیلم نے ہادی کو مخاطب کیا۔۔

تم تو ہمیشہ سے ہی میری پرنسس ہو اب چلیں۔۔

ہادی کی بات پر نیلم بلش کرنے لگی۔۔

ہادی نے تو نہیں مگر ہانیہ نے یہ بات ضرور نوٹ کی۔۔

چلیں اب۔۔

ہادی گاڑی کی چابی ہاتھ میں لئے گاڑی کی طرف بڑھا۔۔

اتنے میں وجاہت بھی پورچ میں آگیا۔۔

میں بھی ساتھ چلو گا۔۔

وجاہت نے ہادی سے کہا۔۔

بھائی خیریت تو ہے تم اور شاپنگ۔۔

ہادی نے حیرت سے وجاہت کو دیکھا۔۔

میں اپنی بیٹی کیلئے خود شاپنگ کروں گا۔۔

وجاہت نے بغیر کسی کی طرف دیکھے جواب دیا تو ہادی نے اسے گاڑی کی چابی تھما کر بولا۔۔

تو ڈرائیو بھی تم ہی کرنا۔۔

ٹھیک ہے بیٹھو سب۔۔

وجاہت چابی لئے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا نیلم نے ہانیہ کو فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور خود حور کو لے کر ہادی سے ساتھ بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔

گاڑی اپنے راستے پر رواں تھی ہادی اور نیلم اپنی باتوں میں مصروف تھے اور ساتھ ساتھ وجاہت اور ہانیہ کو بھی شامل کر رہے تھے ۔۔

جسکا وہ دونوں مختصر سا ہی جواب دے رہے تھے ۔۔

گاڑی چلاتے ہوئے وجاہت کی نظر بار بار ہانیہ پر جارہی تھی جو ونڈو سے باہر ہی دیکھ رہی تھی۔۔

گاڑی شاپنگ مال کے باہر رکی تو سب گاڑی سے اتر گئے وجاہت نے گاڑی ویلے کو دی پارک کرنے کیلئے اور سب کے ساتھ چل دیا مال کے اندر۔۔

نیلم نے تو ڈھیر ساری شاپنگ کی جو کہ اسے ہادی نے کروائی وہ ہمیشہ نیلم کے بہت لاڈ اٹھاتا تھا۔۔

جبکہ ہانیہ اور وجاہت حور کی شاپنگ میں مصروف ہوگئے ۔۔

وجاہت ہانیہ کے ساتھ ایسے چپکا ہوا تھا جیسے اسکا کتنا بڑا عاشق ہو ۔۔

اس پر اٹھنے والی نظر کو وہ گھور کے دیکھنے لگ جاتا۔۔

اس کی پرسنالٹی ہی ایسی تھی کہ اسکا گھورنا ہی بہت تھا لوگوں کیلئے۔۔

اس بیچ ہادی نے اپنے لئے بھی ڈریس لیا اور زبردستی وجاہت کیلئے بھی جو کہ انہیں کل پارٹی میں پہننا تھا۔۔

جب سب کی شاپنگ مکمل ہوگئی تو نیلم اور ہادی ہانیہ کے پیچھے پڑ گئے کہ وہ بھی اپنے لئے پارٹی میں پہنے کا ڈریس لے۔۔

وہ لوگ ایک بوتیک پر گئے جہاں کچھ لڑکیاں ایک ڈریس کو بہت ستائش سے دیکھ رہی تھیں۔۔

وہ ایک وائٹ رنگ کا گاؤن تھا جس پر بہت نفیس کام ہوا تھا دیکھنے میں وہ حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔۔

گڈ آفٹر نون سر آپ کو یہ ڈریس اچھا لگا۔۔

جی اچھا ہے وجاہت نے جواب دیا۔۔

جی سر یہ ڈریس آج ہی شاپ پر آیا ہے اور یہ ہمارے ڈزائینر کا سب سے بہترین ڈریس ہے اپنی نئی کلیکشن کا۔۔

اس پر سونے کے تار سے کام ہوا ہے اور اسکا باقی میٹیریل بھی بہت اعلا قسم کا ہے۔۔

ورکر بہت پروفیشنل انداز میں سب کو بتا رہا تھا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کی نظروں میں اس ڈریس کیلئے پسند دیکھی۔۔

مگر جیسے ہی اس نے اسکے پرائز دیکھے تو وہ حیران رہ گئی ۔۔

وہ جوڑا ساڑھے چار لاکھ کا تھا۔۔

اس میں اور بھی کلرز ہونگے وائٹ بہت کامن کلر ہے ۔۔

نیلم نے ورکر سے سوال کیا۔۔

جی بلکل میم اس میں وائٹ کے علاوہ بس بلیک کلر ہی ہے یہ ڈریس بہت اعلا ذوق کے لوگوں کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے جو کہ ڈیسنٹ اور سٹل لک پسند کرتے ہیں۔۔

ورکر نے انہیں بلیک گاؤن دکھایا۔۔

واؤ۔۔ بھابھی آپ پر یہ بلیک گاؤن بہت خوبصورت لگے گا بلکل پرنسز لگوگی۔۔

نیلم نے ستائش سے اس گاؤن کو دیکھ کے کہا۔۔

مجھے نہیں پسند یہ ہانیہ نے صاف جھوٹ بولا۔۔

مگر کیوں اتنا اچھا تو ہے۔۔

نیلم نے ہانیہ کو حیرت سے دیکھ کے کہا۔۔

نیلم حور بہت چھوٹی ہے میں اسے سنبھالوں گی یا اس وزنی گاؤن کو۔۔

ہانیہ نے بہانا بنایا اور بہانے میں وزن بھی تھا۔۔

نیلم خاموش ہوگئی تو ہادی بیچ میں بول پڑا۔۔

ٹھیک ہے یہ نہ لیں کچھ اور لے لیں۔۔

نہیں کچھ نہیں اب ریسٹورنٹ چلتے ہیں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔

ہانیہ زبردستی سب کو اس بوتیک سے باہر لے آئی۔۔

نیلم اور ہادی تھوڑا آگے چل رہے تھے اور وجاہت حور کو گود میں لئے ہانیہ کے ساتھ چل رہا تھا۔۔

جب ڈریس پسند آرہا تھا تو لیا کیوں نہیں حور کو تو کوئی بھی سنبھال سکتا تھا ۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو دیکھ کے کہا۔۔

جانتی ہوں مگر میں وہ ڈریس میں افورڈ نہیں کر سکتی 

وہ ڈریس ساڑھے چار لاکھ کا تھا اتنی تو میری سیلری بھی نہیں ہے۔۔

ہانیہ نے بغیر وجاہت کی طرف دیکھے بہت صاف گوئی سے جواب دیا۔۔۔

میں تو افورڈ کر سکتا ہوں۔۔۔

وجاہت نے نظریں اب بھی ہانیہ کے چہرے پر جمائے رکھی۔۔

جی آپ کر سکتے ہیں نیلم کیلئے لے لیجئے ۔۔

اب ہانیہ نے بھی وجاہت کو دیکھ کے کہا۔۔

میں تمہاری بات کر رہا ہوں۔۔

میرے لئے بھلا کیوں آپ اتنے پیسے ضائع کریں۔۔

ہانیہ نے اب رک کے وجاہت کی انکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

کیوں کیا کوئی رشتہ نہیں ہے ہمارا۔۔

وجاہت نے بھی رک کر ہانیہ کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

وجاہت کی باتوں پر ہانیہ کو ہنسی آگئی۔۔

ہمارا پتہ نہیں ہاں جس رشتے سے آپ کے گھر میں ہوں اسکی مجھے منتھلی پے ملتی ہے اور اسی منتھلی پے سے میں کچھ ہی دن پہلے شاپنگ کر چکی ہوں۔۔

اور ویسے بھی مجھے اتنے برانڈڈ کپڑے پہننے کی عادت نہیں ہے مجھے اپنی لمٹس اچھے سے پتہ ہے ۔۔

اب کی بار ہانیہ نے مسکرا کے جواب دیا اور آگے بڑھ گئی جبکہ وجاہت واپس اسی بوتیک پر گیا ہانیہ کیلئے وائٹ ڈریس ہی پیک کروایا 

کیونکہ ہانیہ کو وائٹ ہی پسند آیا تھا۔۔

اپنے کارڈ سے پے کر کے اس نے وہ ڈریس اپنے کارڈ پر لکھے ایڈریس پر ڈلیور کرنے کا کہا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ارے میرا اکڑو شہزادہ کہاں ہے۔۔

ہادی نے نظریں ادھر ادھر گھوما کر دیکھا سب تھے سوائے وجاہت اور حور کے۔۔

پتہ نہیں ابھی تو یہی تھے کہاں چلے گئے۔۔

نیلم نے بھی ہادی کی بات کی تائید کی۔۔

یہی کہیں ہونگے آجائیں گے۔۔

ہانیہ نے ان دونوں کو بیٹھنے کا کہا۔۔

وجاہت کو آتا دیکھ ہادی فورا ہانیہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔

وجاہت ہادی اور ہانیہ کو گھرتے ہوئے اب نیلم کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔

بھابھی آپ کو پتہ ہے یہاں کی چنا چاٹ بہت مزے کی ہے پلیز آپ میرے ساتھ وہی کھانا۔۔

نیلم نے پیار سے ہانیہ کو کہا۔۔

ٹھیک ہے۔۔ ہانیہ نے بھی مسکرا کے نیلم کو ہاں کہا۔۔

وجاہت نے اپنے لئے چکن سینڈوچ اور ہادی نے اپنے لئے بیف برگر منگوایا۔۔

اور ساتھ میں سبھی نے ائسکریم کھائی۔۔

اب سب واپس گھر جانے کیلئے گاڑی میں بیٹھنے لگے تو ہانیہ حور کو لے کر بیک سیٹ پر سب سے پہلے بیٹھ گئی۔۔

نیلم بھی ہانیہ کے ساتھ بیٹھی تو ہادی وجاہت کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔

گاڑی چلاتے وقت وجاہت نے بیٹ ویو مرر سے ہانیہ کو دیکھا جو حور کو گود میں لئے بیٹھی ہوئی تھی۔۔

اور حور ہانیہ کی گود میں پرسکون ہو کر سورہی تھی۔۔

اچانک ہانیہ کی نظر وجاہت پر گئی جو گاہے بگاہے مرر میں اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کی نظروں میں شکایت دیکھی تو ہانیہ کو دیکھنا بند کر دیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

گھر اکر وجاہت اپنے کمرے میں گیا اور غصے میں اپنے کوٹ اتار کر زمین پر پھینکا۔۔

یہ لڑکی میرے صبر کے پیمانے کو لبریز کر رہی ہے۔۔

غصے میں وجاہت نے بیڈ پر بیٹھ کر اپنی کنپٹیاں مسلی اور چل دیا ہانیہ کے کمرے کی طرف 

مگر جیسے ہی اسنے دروازہ کھولا وہ کمرے میں نہیں تھی اب وجاہت کا رخ دادو کے کمرے کی طرف تھا۔۔

بیٹا بہت اچھی شاپنگ کی آپ لوگوں نے۔۔

دادو نے سب کا سامان دیکھ کے دل سے تعریف کی۔۔

ہانی میری جان۔۔ 

جی دادو۔۔

بیٹا تم نے کچھ نہیں لیا۔۔

دادو نے ہانیہ سے سوال کیا۔۔

اتنے میں وجاہت بھی کمرے میں داخل ہوگیا۔۔

دادو مجھے کچھ پسند ہی نہیں آیا۔۔

ہانیہ نے صاف جھوٹ بولا جسے وجاہت نے محسوس کرلیا۔۔

وجاہت نے نوٹ کیا تھا کہ ہانیہ جھوٹ بولتے وقت اپنی نظریں جھکا لیتی ہے ۔۔

ایسا کیسے ہوسکتا ہے ہانی کہ تمہیں پورے مال میں کچھ اچھا نا لگا ہو۔۔

دادو نے اب ہانیہ سے سوال کیا۔۔

دادو مجھے اتنی جلدی کچھ بھی پسند نہیں آتا۔۔

اب ہانیہ نے مسکرا کے بات کو ٹالنا چاہا۔۔

وجاہت بیٹا تم ہی کچھ ہانی کو دلا دیتے اپنی پسند سے۔۔

دادو نے اب وجاہت سے کہا جو ہانیہ کے بلکل سامنے جاکر بیٹھ گیا۔۔

میں کسی کے ساتھ زبر دستی نہیں کرتا دادو جسے جو پسند ہو وہ لے سکتا ہے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو نظروں میں لئے کہا۔۔

وجاہت کی نظروں کی تپش ہانیہ محسوس کر رہی تھی اسی لئے وہ نیلم سے بات کرنے لگی ۔۔

دادو بھی ان دونوں سے باتوں میں لگ گئیں۔۔

اتنے میں ہادی کمرے میں آکر وجاہت کے ساتھ بیٹھ گیا اور اسے محسوس بھی نہ ہوا۔۔

پھر ہادی نے وجاہت کی نظروں کو دیکھا جو ہانیہ پر جمی ہوئی تھی۔۔

بس کر دے بھائی کھا جائے گا کیا۔۔

ہادی نے وجاہت کے کان میں کہا۔۔

تو وجاہت ہادی کو بس گھور کے کمرے سے باہر چلا گیا۔۔

لگتا ہے میرے اکڑو شہزادے اور مس کیوٹی کے بیچ کچھ گڑبڑ ہے ۔۔

اب ہادی دی گریٹ کو ہی کچھ کرنا پڑے گا 

نیلم ہادی اور ہانیہ باہر لان میں بیٹھے سجاوٹ کو دیکھ رہے تھے جو کہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی 

باقی کی سجاوٹ کل صبح سے دوبارہ شروع ہونی تھی ابھی سارے ورکر جاچکے تھے 

تو ہادی ہانیہ اور نیلم کو لئے باہر آگیا اور اب سبھی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔

ہانیہ آج ہادی سے اچھے سے بات کر رہی تھی کل کی نسبت کیوں کہ وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ دل کا برا نہیں ہے اور ویسے بھی اس نے ہمیشہ اسکی تعریف ہی سنی تھی۔۔

حور چونکہ عالیہ بیگم اور شان صاحب کے پاس تھی کچھ اس لئے بھی ہانیہ پر سکون بیٹھی تھی۔۔

ویسے بھابھی آپ نے شادی کر کیسے لی اس اکڑو شہزادے سے۔۔

ہادی نے اب سوال ہانیہ سے کیا۔۔

مگر ہادی کے بولنے کے انداز پر ہانیہ مسکرادی۔۔

میں نے شادی حور کیلئے کی تھی جب میں اس سے پہلی بار ملی مجھے اس سے محبت ہوگئی پھر مجھ سے رہا ہی نہیں گیا 

اسی لئے میں نے وجاہت سے شادی کرلی وجاہت کو بھی حور کی دیکھ بھال کیلئے کوئی چاہیئے تھا اسی لئے انہوں نے بھی کرلی مجھ سے شادی۔۔

ہانیہ نے کچھ سچ اور کچھ جھوٹ بتایا۔۔

ہادی کو ڈھونڈتا ہوا وجاہت جیسے ہی باہر آیا اس نے ہانیہ کا یہ جواب سنا۔۔

ویسے ہادی آپ وجاہت کو اکڑو شہزادہ ہی کیوں کہتے ہیں۔۔

ہانیہ جو کب سے پوچھنا چاہ رہی تھی اب پوچھ ہی بیٹھی۔۔

بھئی میرا بھائی کسی شہزادے سے کم تو ہے نہیں اسی لئے اسے شہزادہ کہتا ہوں مگر ہر وقت اکڑا رہتا ہے بات بات پر گھورتا رہتا ہے 

بس اسی لئے اسے اکڑو شہزادہ کہتا ہوں۔۔

اور آپ کو پتہ ہے کالج اور یونیورسٹی میں اتنی لڑکیاں پاگل تھیں اس کے لئے مگر وہ تھا کہ نظر بھر کے بھی کسی کو نہ دیکھتا تھا ۔۔

اس کے دل میں تو بس نور کا ہی نور تھا وہ بس اس سے ہی ملتا تھا اس سے بات کرتا تھا 

وہ ہی اسکی سب سے اچھی دوست تھی۔۔

وجاہت بہت چاہتا تھا نور کو ۔۔

ہادی آسمان کی طرف دیکھ کے بولا ۔۔

وجاہت نے بھی گہرا سانس لے کر ہانیہ کو دیکھا اسے ایسا لگا جیسے ہانیہ کے چہرے پر اچانک اداسی آگئی ہو۔۔۔

کتنی خوشنصیب تھی نہ نور اسے زندگی میں سب کچھ ملا پیار عزت محبت کرنے والا شوہر اور سب سے بڑھ کر اولاد۔۔

ہانیہ نے بہت دھیمی آواز میں کہا مگر جو کہ ہادی اور نیلم نے نہیں سنی مگر اسکے بلکل پاس کھڑے وجاہت نے وہ الفاظ با آسانی سن لئے تھے۔۔

مگر وجاہت وہاں ایسے آکر بیٹھا جیسے کسی کی کوئی بات نہ سنی ہو۔۔

کیا ہوا ہے۔۔

وجاہت نے ہادی کو مخاطب کیا۔۔

اب بھائی تم سے کیا چھپانا خالصتاً تمہاری ہی برائی کر رہے ہیں ۔۔

ہادی کے انداز اور الفاظ پر وجاہت مسکرا دیا۔۔

اور ہاں ہانی کو تمہارے خلاف بڑھکا بھی رہا ہوں۔۔

ہادی نے ایک اور چٹکلا چھوڑا مگر اب کی بار وجاہت کے چہرے سے ہنسی غائب ہی ہوگئی۔۔

ہادی نے نوٹ نہیں کیا اور نیلم کی کسی بات کا جواب دینے لگا۔۔

کچھ دیر وجاہت اور ہانیہ خاموش بیٹھے رہے۔۔

ایک ملازم سب کیلئے کافی لے آیا تو سب اپنا اپنا کپ لے کر بیٹھ گئے۔۔

ہانی آپ ہر وقت چپ چپ اور اداس کیوں رہتی ہیں۔۔

ہانی نے ہانیہ کو مسلسل خاموش دیکھا تو بولے بنا نہ رہا۔۔

کچھ نہیں بس یہی سوچ رہی ہوں کہ جب جب مجھے ایسا لگتا ہے میں مکمل ہوں کوئی نہ کوئی مجھے یہ احساس دلا ہی دیتا ہے کہ نہیں میں مکمل نہیں ہوں۔۔

کمی ہے مجھ میں ہانیہ کافی کے مگ کو گھورتے ہوئے بولی۔۔

کیسی کمی ۔۔

ہادی نے سیریس ہو کر ہانیہ سے پوچھا۔۔

ہانیہ نے دیکھا سب کی نظریں اس پر تھی تو وہ ایک دم بات بدل گئی۔۔

کانفڈینس کی۔۔

ہانیہ نے زبردستی مسکرا کے کہا۔۔

وجاہت کو اسکی ہنسی ایک دم بناوٹی لگی۔۔

ایسا کیوں کہا آپ نے بھابھی۔۔

نیلم نے ہانیہ سے سوال کیا۔۔

کیوں کہ میں تم لوگوں کی طرح ہنسی مزاق نہیں کر سکتی خود سے کسی سے آگے بڑھ کر بات نہیں کر سکتی اور کسی کو جوک سنانا وہ تو مجھے بلکل بھی نہیں آتا۔۔

ہانیہ کے لہجے میں صاف لڑکھڑاہٹ تھی ۔۔

بس اسی لئے ہمیشہ خاموش رہتی ہوں۔۔

ہانیہ نے کہا اور گھر کے اندر جانے لگی ۔۔

چلو دیر ہورہی ہے کل بہت سے کام ہیں۔۔

ہانیہ یہ بول کہ چلی گئی رکی نہیں تو نیلم بھی اسی کے ساتھ چلی گئی۔۔

اب ہادی اور وجاہت اکیلے بیٹھے تھے لان میں۔۔

وجی ایک بات پوچھوں۔۔

ہادی نے وجاہت کو مخاطب کیا۔۔

ہاں بولو۔۔

تو نے ہانی سے شادی کیوں کی۔۔

ہادی نے سوال کیا جو وہ صبح سے سوچ رہا تھا۔۔

حور کیلئے۔۔

وجاہت نے بھی فوراً ہی جواب دیا۔۔

مطلب تجھے ہانی سے محبت نہیں ہے۔۔

ہادی نے اب وجاہت کا چہرا نظروں میں لے کر کہا۔۔

وہ وجاہت کے تاثرات دیکھنا چاہتا تھا جب وہ ہانیہ کے بارے میں بات کرتا تو۔۔

تمہیں میری پرسنل لائف میں دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

وجاہت نے اب کے دو ٹوک جواب دیا۔۔

یعنی تمہارا جواب نہ ہے۔۔

ہادی نے اب بھی ہار نہیں مانی اور پھر سے سوال کرنے لگا۔۔

مین نے بتایا نہ میں نے شادی حور کیلئے کی تو اس میں محبت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔

وجاہت نے اب تھوڑا جھنجھلا کے کہا۔۔

ہادی نے آگے سے کچھ نہیں بولا اور خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔

شب بخیر میرے اکڑو بھائی۔۔

ہادی وجاہت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے گیا۔۔

اس کے یوں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنا وجاہت کو سمجھ میں نہ آیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اگلے دن سبھی اپنی اپنی تیاریوں میں جٹ گئے پارٹی بس شروع ہی ہونے والی تھی تو سب اپنے اپنے کمرے میں ہی تھے۔۔

نیلم نے پرپل کلر کی پیروں کو چھوتی ہوئی فراک پہنی تھی جس پر نگوں سے بہت نفیس کام ہوا وا تھا 

کمر سے تھوڑے اونچے بالوں میں اسنے لوز کرلز ڈالے ہوئے تھے۔۔

وجاہت کی ہی طرح کا کھڑا ناک نقش لئے سرخ و سفید رنگت کی حامل نور اپنے نازک سے سراپے میں بہت حسین لگ رہی تھی ۔۔

ہادی نے بھی بلیک پینٹ کے ساتھ پرپل ٹی شرٹ پہنی تھی جو کہ نیلم نے اس کے لئے لی تھی اور اس پر بلیک پارٹی کوٹ پہنے وہ بھی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔

ہادی بھی وجاہت سے کم ہینڈسم نہ تھا مگر اسکی شخصیت میں ایک شوخ پن تھا جبکہ وجاہت کی شخصیت بہت رعب دار تھی۔۔۔

شان صاحب نے بھی ٹو پیش پہنا تھا اور عالیہ بیگم نے بلو ساڑھی پہنی تھی۔۔

حور کو ہانیہ نے وائٹ کلر کی پرنسس فراک پہنائی تھی جس میں حور کا اپنا رنگ ملتا ہوا رنگ رہا تھا ۔۔

گول مول سی حود اس میں بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔

ساجدہ بیگم نے پارٹی میں آنے سے انکار کر دیا تھا۔۔

وجاہت نے نیوی بلیو پینٹ کے ساتھ گلر شرٹ پہنی تھی اور اس پر نیوی بلیو ہی پارٹی کوٹ پہنا تھا۔۔

ڈارک براؤن بالو کو جیل سے نفاست سے سیٹ کئے اپنی گھنی داڑھی مونچھوں میں وہ غضب ڈھا رہا تھا۔۔

پارٹی میں جانے سے پہلے وہ ہانیہ کے کمرے میں گیا حور کو لینے 

مگر جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا وہیں جم گیا۔۔

ہانیہ سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی جیولری پہن رہی تھی۔۔

وہ اس وقت کاہیا رنگ کی نیٹ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔۔

ساڑھی میں اسکا نازک سراپا صاف جھلک رہا تھا۔۔

ہانیہ نے بہت سلیقے سے ساڑھی پہنی ہوئی تھی اپنے آپ کو پوری طرح سے ڈھانپے ہوئے نیٹ کی ساڑھی میں بھی اسکا جسم بلکل بھی نہیں جھلک رہا تھا۔۔

مگر وجاہت کو تو اسے دیکھ کے ہی آگ لگ گئی۔۔

وجاہت کوئی چھوٹی سوچ کا حامل نہیں تھا وہ ایک کھلے دماغ کا انسان تھا اور ساڑھی تو اسکی مام بھی پہنا کرتی ہیں۔۔ 

اور نور وہ تو سلیولیس بلاؤز والی ساڑھی ہی پہنتی تھی ڈیپ نیک کے ساتھ وہ اسے فیشن کا نام دیتی تھی جس پر وجاہت نے اسے کبھی نہیں ٹوکا۔۔

مگر ہانیہ کے معاملے میں وہ ایسی سوچ چاہ کر بھی نہیں رکھ پا رہا تھا۔۔

جٹھکے سے اسکا ہاتھ پکڑ کے وجاہت نے اسے اپنی طرف کھینچا۔۔

یہ کیا بے ہودہ لباس پہنا ہے۔۔

وجاہت کی آنکھیں غصے سے لال ہورہی تھی ۔۔

بے ہودہ ۔۔ بے ہودہ لباس مسٹر وجاہت عالم یہ لباس اپکی مام نے مجھے دیا تھا اور انہوں نے بھی ایسا ہی لباس پہنا ہے اور اپکی نور بھی ایسے ہی لباس پہنا کرتی تھی 

اس وقت آپ کو یہ بے ہودہ نہیں لگا۔۔

ہانیہ نے بھی غصے سے اپنا ہاتھ چھڑایا

تم اس طرح باہر نہیں جاؤگی۔۔

وجاہت نے نیا حکم جاری کیا۔۔

اب ہانیہ تنگ آرہی تھی وجاہت کی روک ٹوک سے۔۔

آپ ہوتے کون ہیں مجھے یہ بولنے والے۔۔

ہانیہ نے بھی تیش میں آکر کہا۔۔

میں جو بھی ہوں تمہیں میری بات ماننی ہوگی۔۔

وجاہت نے بھی اسے اسی کی ٹون میں جواب دیا۔۔

بھول ہے آپ کی ہمارے کانٹریکٹ میںی ایسا کچھ نہیں لکھا تھا میرے جو جو فرائض ہیں وہ میں دل سے اور اچھے سے نبھا رہی ہوں 

اب آپ میری زندگی میں مداخلت نہ ہی کریں تو بہتر ہوگا۔۔

ہانیہ یہ کہہ کر کمرے سے جانے لگی وجاہت نے زور سے پرفیوم کی بوتل دیوار پر کھینچ کے ماری ۔۔

بات اتنی بڑی تھی نہیں جتنا بڑا اسے وجاہت بنا رہا تھا۔۔

آپ کی پرابلم کیا ہے۔۔ ہو کیا گیا ہے آپ کو۔۔

ہانیہ نے حیرت سے وجاہت کو دیکھ کے کہا۔۔

تم میرا صبر آزما رہی ہو۔۔

وجاہت نے آنکھیں بند کر کے خود کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔۔

میں نے کیا کہا ہے کیا کیا ہے کیوں آپ اتنا عجیب انداز اپنائے ہوئے ہیں۔۔

کچھ دن پہلے تو آپ کو میرے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا اور اب اچانک یہ روک ٹوک ہانیہ نے نم آنکھوں سے وجاہت کو دیکھا۔۔

وہ وجاہت کا یہ جنونی انداز دیکھ کے بہت ڈر گئی تھی۔۔

تم مجھے غصہ دلاتی ہو ۔۔

وجاہت نے اب ہانیہ کے آنسو دیکھے تو نرم انداز میں بولا۔۔

میں غصہ دلاتی ہوں کیسے بتائیں مجھے۔۔

میں نہیں بتانا چاہتا بس یہ ڈریس چینج کرلو کچھ سادہ سا پہنو بہت سادہ اور چہرا ایک دم سادہ رکھنا یہ میک اپ صاف کرو مجھے تم بلکل اچھی نہیں لگ رہی۔۔

وجاہت نے ابھی بھی آواز نیچی رکھ کے کہا ۔۔

آپ کیا چاہتے ہیں میں پارٹی میں شامل نہ ہوں تو ایسے ہی کہہ دیجیئے بہانے کیوں بنا رہے ہیں۔۔

صاف کہئے نہ آپ کو شرم آئے گی میرے ساتھ پارٹی میں جاتے ہوئے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو غور سے دیکھا وہ بات کا کیا مطلب نکال رہی تھی۔۔

جانتی ہوں اپکی پہلی بیوی کی طرح حسین نہیں ہوں مگر حقیر بھی نہیں ہوں 

مانتی ہوں کوئی رشتہ نہیں ہے ہمارا مگر دنیا کیلئے تو بیوی ہوں نہ آپ کی 

کیا میں اتنی بری ہوں کہ آپ کو اب میری ذات سے شرمندگی ہوگی۔۔

ہانیہ نے آنسو لگاتار بہہ رہے تھے۔۔

وجاہت اسے شکایتی نظروں سے بس گھورے جارہا تھا۔۔

دروازے کے باہر کھڑا ہادی اب جا چکا تھا وہ آیا تھا ہانیہ اور وجاہت کو بلانے۔۔

کیونکہ اس نے وجاہت کو ہانیہ کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔

مگر اب جو کچھ اس نے سنا وہ ہمت نہیں کر پایا کمرے کے اندر جانے کی اور الٹے قدم واپس چلا گیا۔۔

تمہیں ایسا لگتا ہے کہ مجھے تمہارے ساتھ شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔۔

وجاہت نے ہانیہ سے سوال کیا۔۔

ہانیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔

وجاہت اسکا ہاتھ پکڑے کمرے سے لے گیا اور جاتے ہوئے ایک میڈ سے کہا کہ کمرے کی اچھے سے صفائی کر دے کیوں کہ کمرے میں ہر طرف کانچ کے ٹکڑے بکھر گئے تھے۔۔

ہانیہ کو نیلم کے کمرے کے پاس چھوڑ کر وجاہت وہاں سے چلا گیا۔۔

 اپنا حلیہ درست کرو 5 منٹ میں نیچے آجانا ۔۔

وجاہت یہ بول کر رکا نہیں چلا گیا اور ہانیہ نے نیلم کے کمرے میں جا کر اپنا چہرا صاف کیا جو آنسوؤں میں بھیگا ہوا تھا۔۔

پھر اس نے ہلکا سا میک اپ دوبارہ کیا لائٹ سی لپ اسٹک لگائی اور تیار ہوکر باہر آئی سب لوگ نیچے پارٹی میں جا چکے تھے۔۔

ہانیہ بھی نیچے جانے لگی مگر سیڑھیوں پر جیسے ہی اس نے قدم رکھا سبھی نے اسکی طرف اپنی نظریں کرلی۔۔

پارٹی میں آئے سبھی لوگ وجاہت کی بیوی کو دیکھنا چاہتے تھے۔۔

اتنے سارے لوگوں کی نظریں خود پر دیکھ ہانیہ وہیں کنفیوز ہوگئی۔۔

سب اسے دیکھ چکے تھے وہ اب واپس بھی نہیں جا سکتی تھی۔۔

اتنے میں وجاہت سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر آیا اور ہانیہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔۔

ہانیہ نے پہلے غور سے وجاہت کو دیکھا جس کا چہرا ایک دم سپاٹ تھا۔۔

ہانیہ نے اپنا ہاتھ اٹھایا مگر وجاہت کے ہاتھ میں دیا نہیں وجاہت نے خود ہی اسکا ہاتھ تھام لیا اور اسے نیچے لے جانے لگا۔۔

ہانیہ نے دیکھا وجاہت کا جیسے ہی رخ سبھی لوگوں کی طرف پوا اسکے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔۔

جو ہانیہ کو بناوٹی ہی لگی۔۔

نیچے جا کر وجاہت نے سب کو ہانیہ سے انٹروڈیوس کروایا اپنی بیوی کے طور پر۔۔

ہانیہ کو دیکھ سبھی باتوں میں لگ گئے۔۔

ہانیہ سب سے مسکرا کر ملی۔۔

وجاہت عالم کی پہلی بیوی کتنی حسین تھی مگر تھی بہت بولڈ اور گھمنڈی جبکہ یہ تو بہت معصوم سی بہت نازک اور پیاری ہے۔۔

کسی عورت کی آواز وجاہت کے کانوں سے ٹکرائی۔۔

ہر کوئی ہانیہ کا نور سے موازنا کر رہا تھا۔۔

مگر تعریف سب ہانیہ کی ہی کر رہے تھے۔۔

یار اس وجاہت عالم کو اتنی خوبصورت اور معصوم حسینہ کہاں سے مل گئی۔۔

دیکھ یار ساڑھی میں کیا کمال لگ رہی ہے 

ارے یہ کیا بول رہے ہو بھائی وجاہت نے سن لیا نہ تو اپنے پیروں پر چل کر گھر نہیں جاؤگے ۔۔

کسی دوسرے آدمی نے اسے سمجھانا چاہا۔۔

وجاہت نے اسکی بات بھی سنی اور غصے سے مٹھیاں بھینچ گیا ۔۔

اس آدمی کی شکل وہ دیکھ چکا تھا مگر اس وقت وہ کوئی تماشا نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ یہ اسکا فیملی فنکشن تھا۔۔

وجاہت ہانیہ کے پاس گیا اور ویٹر کو بھی اپنے پاس بلایا جو سب کو جوس اور کولڈ ڈرنک پیش کر رہا تھا۔۔

وجاہت نے کچھ ایسے اپنا پیر بیچ میں آڑایا کی بغیر کسی کو شک ہوئے اسنے ویٹر کا بیلنس بگاڑ دیا اور ویٹر میں ہاتھ میں پکڑی ٹرے زمیں پر گر گئی جبکہ ساری کولڈ ڈرنک ہانیہ کے کپڑوں پر گر گئی۔۔

فاتحانہ مسکراہٹ چھپاتے ہوئے  وجاہت ویٹر کو ڈانٹنے لگا جو ہانیہ سے معافی مانگ رہا تھا۔۔

کوئی بات نہین ہو جاتا ہے۔۔

ہانیہ نے جب اس ویٹر کو گھبراتا ہوا دیکھا تو اسے اس پر ترس آگیا۔۔

وجاہت اسکا ہاتھ تھام کے اوپر لے گیا سب کے سامنے تو ہانیہ نے کچھ نہیں کہا مگر اب اوپر آتے ہی ہانیہ نے اپنا ہاتھ وجاہت کے ہاتھ سے چھڑوالیا۔۔

ابھی وہ اپنے کمرے میں جانے لگی کہ وجاہت نے اسے ایک بار پھر ٹوک دیا۔۔

وہاں کانچ بکھرا ہوا ہے وہاں مت جاؤ ۔۔

وجاہت ہانیہ کو اپنے روم میں لے آیا اور اسے ایک باکس پکڑایا۔۔

ہانیہ نے ناسمجھی سے وہ باکس کھولا تو اس میں وہیں ڈریس تھا جو ہانیہ کو مال میں پسند آیا تھا۔۔

ہانیہ نے اس ڈریس کو بیڈ پر رکھ دیا۔۔

ہانیہ یہ پہنو۔۔

وجاہت نے بہت آرام سے اس سے کہا۔۔

میں یہ نہیں پہن سکتی۔۔

ہانیہ نے بھی تحمل سے اسے جواب دیا۔۔

مگر کیوں۔۔

وجاہت کا پارا ایک بار پھر ہائی ہونے لگا۔۔

اسے نہ لفظ سے ہی نفرت تھی اور یہ لڑکی اسے ہمیشہ نہ ہی کہا کرتی تھی ہر معاملے میں۔۔

کیونکہ میری اتنی اوقات نہیں ہے کہ میں یہ اتنی مہنگی ڈریس پہنوں۔۔

ہانیہ نے دو ٹوک جواب دیا۔۔

وجاہت بس اسے گھورنے لگا۔۔

اور ویسے بھی میرے کپڑے اتنے خراب نہیں ہوئے میں بس اسے پانی سے صاف کر کے ڈرائیر سے سکھا لونگی 

ہانیہ واشروم کی طرف جانے لگی کہ وجاہت نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔

تم ابھی اور اسی وقت یہ کپڑے تبدیل کرو ورنہ ابھی تو بس کسی کے ہاتھ پیر توڑنے کا ارادہ ہے یہ نہ ہو کوئی ضائع ہی ہوجائے میرے ہاتھ سے۔۔

وجاہت کا اشارہ اس آدمی پے تھا جو ہانیہ کے بارے میں بات کر رہا تھا۔۔

مگر ہانیہ کو اس کی بات بلکل سمجھ نہیں آئی۔۔

جاؤ اور چینج کرو۔۔

وجاہت نے اسے ایک بار پھر آرام سے کہا۔۔

میں نے نہ کہا ہے۔۔

ہانیہ نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلا دیا۔۔

لڑکی تم مجھے چیلنج مت کرو۔۔

وجاہت نے آنکھوں میں تیش لئے کہا۔۔

ہاں کر دیا چیلنج جو کرنا ہے کرلیں ۔۔

ہانیہ نے بھی اسے بس وجاہت کی دھمکی سمجھ کر بول دیا۔۔

مجھے چیلنجز بہت پسند ہیں۔۔

اچانک وجاہت کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی جسے ہانیہ ہوئی نام نہ دے سکی۔۔

وجاہت آگے بڑھا اور اسکے کان میں بولا۔۔

تم چینج نہیں کروگی تو ٹھیک مت کرو میں ہی کر دیتا ہوں تمہارا ڈریس چینج۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔۔

آپ ایسا نہیں کر سکتے۔۔

ہانیہ دو قدم پیچھے ہو کر بولی۔۔

کیوں نہیں کر سکتا شوہر ہوں تمہارا قانونی اور شرعی جائز حق رکھتا ہوں تم پہ۔۔

وجاہت کے تیور دیکھ ہانیہ وہیں جم سی گئی وجاہت نے اپنا ہاتھ اسکے کمر کے گرد باندھ کے اسے اپنے قریب کیا۔۔

اتنا کہ وہ اسکی سانسیں اپنی پیشانی پر محسوس کر سکتی تھی ۔۔

ہانیہ کو لگا وہ ابھی بے ہوش ہوجائے گی۔۔

جیسے ہی وجاہت نے اپنا ہاتھ ہانیہ کے پلو پہ رکھا ہانیہ ایک دم بول پڑی ۔۔

رکو۔۔ رک جاؤ۔۔

میں کرتی ہوں چینج خود ہی۔۔

ہانیہ کے بوکھلا کر بولنے پر وجاہت کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ آگئی۔۔

گڈ گرل اسکی کان میں بولتا ہوا وہ ہانیہ سے دور ہوا اور اسے ڈریس پکڑائی جو ہانیہ تھام کے تیزی سے ڈریسنگ روم میں گئی اور دروازہ اندر سے لاک کر لیا۔۔

جلدی سے اپنا ڈریس چینج کیا مگر باہر نہیں آئی بلکہ وہیں بیٹھ گئی۔۔

5 منت بعد وجاہت نے دروازہ ناک کیا

مگر ہانیہ نے کوئی جواب نہ دیا۔۔

میرے پاس اس کمرے کی چابی موجود ہے اگر تم باہر نہیں ائی تو میں تمہیں خود لے آؤ گا۔۔

ہانیہ نے ناچار دروازہ کھول کے باہر آگئی۔۔

سفید رنگ اس پر بہت جچ رہا تھا اس پر ہانیہ کی رنگت سرخ ہوئی وہ تھی وجاہت کی قربت پر۔۔

وجاہت اسے دیکھ اسکا ہاتھ تھام کے باہر لے جانے لگا اور ہانیہ بھی اسی کے پیچھے خاموشی سے چل رہی تھی۔۔

وجاہت اسے لئے پارٹی میں آیا تو سب ایک بار پھر ہانیہ کو دیکھ کے حیران رہ گئے۔۔

سب سے زیادہ حیران ہادی اور نیلم تھے کہ کب وجاہت نے ہانیہ کیلئے وہ ڈریس خریدا ۔۔

ہانیہ اب پہلے سے بھی زیادہ حسین لگ رہی تھی۔۔

وجاہت اب اس کا ہاتھ تھامے نیچے لے گیا۔۔

ان دونوں کے آنے کے بعد ہادی نے کیک منگوایا اور وجاہت نے حور کو گود میں لے لیا 

وجاہت کی گود میں آتے ہی حور کھلکھلا دی 

حور کو مسکراتا دیکھ وجاہت اور ہانیہ دونوں مسکرا دئیے۔۔

اسی لمحے فوٹو گرافر نے ان تینوں کی تصویر لے لی ۔۔

کیک آیا تو وجاہت اور ہادی نے شان صاحب اور عالیہ بیگم سے کیک کٹ کروایا۔۔

اور سب پھر پارٹی انجوائے کرنے لگے۔۔

وجاہت ایک کے بعد ایک ہانیہ کو اپنے دوستوں اور ساتھ کام کرنے والے ورکرز سے ملوا رہا تھا۔۔

ہانیہ مسکرا کر سب سے مل رہی تھی مگر وہ بار بار کسی کی نظریں خود پر محسوس کر کے بے چین ہورہی تھی۔۔

وجاہت اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا مگر پھر بھی وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہی تھی ۔۔

آنے والے وقت سے انجان وہ اسی پل سے گھبرا رہی تھی۔۔

پارٹی ختم ہوچکی تھی سب اپنے اپنے کمروں میں آرام فرما رہے تھے 

مگر کوئی جاگ رہا تھا کس کے لئے یہ وہ اچھے سے جانتا تھا مگر کیوں یہ نہیں جانتا تھا۔۔

کچھ الگ محسوس ہوا آج کسی کی ہنسی میں بھی اداسی پہلی بار دیکھی۔۔

کسی کے چمکتے ہوئے سنہرے رنگ میں بھی زردی آج دیکھی ۔۔

کسی کی خوبصورت آنکھیں آج بلکل خالی اور اداس دیکھیں ۔۔

وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔۔

جانتا تھا کہ یہ غلط ہے

مگر نظریں بار بار ایک ہی چہرے کے گرد گھوم رہی تھی

جیسے ہی وہ اپنی آنکھیں بند کر رہا تھا وہ ہی چہرا اسے دکھائی دے رہا تھا 

وہ سونا چاہتا تھا مگر کسی کی نظریں اسے سونے نہیں دے رہی تھیں۔۔

وہ نظریں جو شاید بھٹکتی ہوئی ہی اس پر گئی ہونگی وہ بھی صرف ایک پل کیلئے 

مگر وہ ایک پل ہی کافی تھا۔۔

وہ کسی اور کی ہے۔۔ 

اس سوچ کے آتے ہی وہ جھنجلا کے اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔

یہ غلط ہے۔۔ میں یہ سب کچھ کیوں سوچ رہا ہوں۔۔

وہ اپنے آپ کو ہی غلط ٹہرا رہا تھا 

کیونکہ وہ صحیح اور غلط میں فرق کرنا جانتا تھا

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ آج خالی دماغ لئے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی 

آج اسکا کتاب پڑھنے کا دل بلکل نہیں کر رہا تھا

دل ۔۔ دل تو بہت زور سے ڈھڑک رہا تھا 

اسی پل سے جب اسنے وجاہت کے سینے پر سر رکھا تھا

اپنے اوپر اسکا لمس محسوس کیا تھا

وہ جانتی تھی کہ اسکے رشتے کا کیا سچ ہے

مگر وہ جھٹلانا چاہتی تھی

اپنے دل پر ہاتھ رکھے وہ کسی اور کو محسوس کر رہی تھی۔۔

آنکھیں نمکین پانیوں سے چھلکنے کو بے تاب تھی

ہانیہ نے بھی انہیں روکا نہیں تھا

وہ کسی کی بیوی رہ چکی تھی ایک مکمل ازدواجی زندگی جی چکی تھی 

مگر یہ لمس وہ بھلا کر بھی خود سے الگ نہیں کر پارہی تھی

دل کہہ رہا تھا کہ جائے اس کے پاس پوچھے کہ میرے مرے ہوئے دل کو کیوں دھیرے دھیرے جگا رہے ہو

کیوں مجھے وہ خواب دکھا رہے ہو جو کبھی پورے نہیں ہو سکتے

ادھورے خواب کتنی تکلیف دیتے ہیں یہ ہانیہ اچھے سے جانتی ہے

اسی لئے ایک بار پھر خواب دیکھنے سے ڈرتی ہے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت اپنے کمرے میں اندھیرا کئے بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا 

ایک ہاتھ میں لیمپ کا بٹن لئے کبھی لائٹ آن کر رہا تھا کبھی لائٹ اف 

اسکے دل کا بھی یہی حال تھا کبھی دھڑکتا کبھی رک جاتا۔۔

اور دوسرے ہاتھ میں وہ سیگریٹ لیا ہوا تھا 

نہ جانے وہ کتنی سگریٹ سلگا چکا تھا۔۔

مگر اسکے اندر کی آگ بجھ کے ہی نہیں دے رہی تھی۔۔

کیوں آخر کیوں میں اس پر اپنا حق جتانا چاہتا ہوں

کیوں میں اس پر اٹھنے والی نظر کو برداشت نہیں کر پاتا

کیوں میں چاہتا ہوں وہ صرف میری سامنے رہے۔۔

کیوں میں بار بار حور کے بہانے اسے دیکھنے جاتا ہوں۔۔

کیوں میں اپنے ہی الفاظ کو جھٹلانا چاہتا ہوں۔۔

کیوں میں چاہتا ہوں کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے۔۔

کیوں مجھے میرے ہی بھائی سے جلن ہورہی ہے۔۔

وجاہت کے پاس ایسے بہت سے کیوں تھے 

مگر جواب ایک کا بھی نہیں تھا 

اور کوئی جواب نہ پاکر اسکے اندر ایک آگ جل رہی تھی جسے وہ دوسری آگ سے بجھانے کی کوشش کر رہا تھا

کیا ڈیڈ ٹھیک کہتے ہیں میں کسی کی زندگی برباد کر رہا ہوں 

ڈیڈ کو یا گھر میں کسی کو نہیں دکھتا کے میں بھی تو جل رہا ہوں وہ بھی اپنی ہی بنائی ہوئی آگ میں۔۔

نور ہانیہ سے کہیں زیادہ حسین تھی مگر مجھے کبھی اس پر کسی کی اٹھی ہوئی نظر بری ہی نہیں لگی۔۔

وہ تھی ہی اتنی بولڈ اینڈ بیوٹیفل کے ہر کوئی اسے پلٹ پلٹ کے دیکھتا تھا۔۔

اور اسے بھی تو لوگوں کی خود پر اٹھتی ہوئی نظریں پسند تھیں۔۔

اور ہر دوسرے انسان کی آنکھوں میں اپنے لئے ستائش دیکھتا چاہتی تھی۔۔

مجھے تب کچھ کیوں نہیں ہوا۔۔

میں تو کہتا تھا کہ وہ میری بچپن کی محبت تھی اسکی جگہ میں کسی کو نہیں دے سکتا 

مگر کیا وہ سچ میں محبت تھی کیا واقعی اسکی کوئی جگہ تھی میرے دل میں 

اگر تھی تو کوئی اور کیسے آیا اس میں اور اگر نہیں تھی تو وہ کیا تھا۔۔

ہانیہ پر دو بول غلط بولنے والے کی ٹانگیں وجاہت توڑ چکا تھا جب وہ اپنے گھر واپس جارہا تھا۔۔

مگر میں نے ایسا کیوں کیا۔۔

وجاہت کی سوچوں کا رخ جہاں سے شروع ہوا وہیں پر آکر رک گیا۔۔

مگر کوئی جواب نہ ملا اور جواب ہمیشہ صحیح وقت پر ملا کرتے ہیں۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

لان میں ہادی اور نیلم بینچ پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور ہانیہ حور کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔

حور گٹھنے گٹھنے چلتی تھی ہانیہ بھی اس کے ساتھ اسی کی طرح بچی بنی ہوئی تھی۔۔

نیلم ہانیہ کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی جبکہ ہادی ان دونوں کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔۔

اسے رہ رہ کر کل والی باتیں یاد آرہی تھیں جو وجاہت اور ہانیہ کے درمیان ہوئی تھی۔۔

کہاں کھو گئے مسٹر کیا ہوا۔۔

نیلم نے ہادی کی چہرے کے سامنے چٹکی بجائی تو ہادی ایک دم ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔۔

کہاں کھوئے ہوئے تھے۔۔

نیلم نے ایک بار پھر پوچھا۔۔

کچھ نہیں کام کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔

ہادی نے بہانا بنایا جسے نیلم نے سچ مان لیا۔۔

وہ ایسی ہی تھی ہادی کی ہر بات وہ مان جاتی تھی۔۔

کب اسے ہادی سے محبت ہوئی وہ بھی نہیں جانتی تھی 

مگر اسے ہادی کے ساتھ رہنا ہمیشہ سے اچھا لگتا تھا۔۔

ہادی بھی تو جب بھی آتا تھا نیلم کو ایک پرنسس کی طرح ٹریٹ کرتا تھا۔۔

تم جانتے ہو ہادی جب ہانی بھابھی گھر میں نہیں آئی تھی ۔۔

سب حور کیلئے بہت پریشان تھے۔۔

ہم سب حور سے پیار کرتے تھے مگر ایک ماں کا پیار نہیں دے پارہے تھے۔۔

پھر ہانی بھابھی گھر میں آئی انہوں نے حور کو ایسے سنبھالا جیسے وہ ان کی سگی اولاد ہو

بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ اگر حور کی سگی ماں یعنی نور بھابھی زندہ ہوتیں تو کبھی اپنی بیٹی سے اتنا پیار نہیں کرتیں۔۔

نور بھابھی تو کسی سے بھی پیار نہیں کرتی تھیں سوائے خود کے۔۔

میں نے انکی نظروں میں برو کیلئے بھی پیار نہیں دیکھا تھا 

انہوں نے تو بس برو سے اس لئے شادی کی تھی کیونکہ برو ایک بہت ڈیشنگ انسان اور ساتھ میں ایک بلینئر بھی تھے۔۔

برو سے شادی کرکے انکا اسٹیٹس بڑھا تھا اور یہی ان کے لئے کافی تھا۔۔

مگر ہانیہ بھابھی وہ تو بلکل سادہ طبیعت کی ہیں سب سے بہت پیار کرتی ہیں۔۔

پتہ ہے مجھے کیا کہتی ہیں 

کیا۔۔

ہادی نیلم کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔۔

وہ کہتی ہیں نیلم میری نہ کبھی کوئی دوست بنی اور نہ ہی کوئی بہن ہے۔۔

کیا تم میری دوست اور بہن بنو گی ۔

یقین مانو ہادی مجھے اتنی خوشی ہوئی تھی جب ہانی بھابھی نے پیار سے میرا ماتھا چوما تھا۔۔

وہ ہمیشہ ایسے کرتی ہیں جب جب انکو مجھ پر پیار آیا ہے وہ میرا ماتھا چومتی ہیں بلکل ایک بڑی بہن کی طرح جبکہ وہ مجھے بس ایک سال بڑی ہیں۔۔

میں ان سے پوچھتی تھی کہ ماتھا ہی کیوں چومتی ہیں تو وہ کہتی تھیں کہ ماتھا ہم صرف اسکا چومتے ہیں جو ہمیں بے حد عزیز ہوتا ہے جو ہمارا مان ہوتا ہے اور جسے ہم کبھی کھونا نہیں چاہتے۔۔

نیلم انکھوں میں ہلکی سی نمی لئے اپنے دل کی بات ہادی سے کر رہی تھی کیونکہ وہ ہمیشہ اسی سے بات کرتی تھی۔۔

جبکہ ہادی ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان لئے نیلم کی باتوں کو سن رہا تھا۔۔

بینچ کے بلکل اوپر ایک بالکونی تھی جو کہ وجاہت کے کمرے سے منسلک تھی۔۔

اور اسی بالکونی پر کھڑے وجاہت کی نظریں سامنے ہنسے کھیلتے وجود پر تھی مگر الفاظ وہ کسی اور کے سن رہا تھا۔۔

بھوری آنکھوں میں ایک چمک تھی کیا اسے اس کے تمام کیوں کے جواب مل رہے تھے یا ابھی امتحان باقی تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔

ہانیہ شان صاحب کی اسٹڈی میں کتاب رکھنے آئی تھی جو وہ پڑھ چکی تھی اب اسے کوئی دوسری کتاب بھی لینی تھی۔۔

وجاہت آج کافی ٹائم بعد آفس جارہا تھا مگر اسکی کچھ فائلیں شان صاحب کے پاس تھی جو انہوں نے اسٹڈی میں رکھی تھیں۔۔

وجاہت وہی لینے آیا تھا۔۔

مگر ہانیہ کو وہاں دیکھ وہ چونک گیا اور اب جو سوال اسے تنگ کر رہے تھے وہ اس سوال کے جواب ہانیہ سے لینا چاہتا تھا۔۔

مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔

ہانیہ یہ بول کے اسٹڈی سے جانے لگی وہ بھی بغیر کتاب لئے۔۔

مگر وجاہت نے اس کے راستے میں آکر اسکا جانے کا راستہ ہی بند کر دیا۔۔

موسم اچھا ہونے کے باعث سب گھر والے باہر لان میں بیٹھے تھی 

ہادی ہی بس لاؤنج میں بیٹھا کسی سے فون پر بات کر رہا تھا اور اسکے سامنے ایک فائل کھلی ہوئی تھی۔۔

وجاہت آج آفس جارہا تھا اور ہادی کو بھی چلنے کا کہا تھا جس پر ہادی نے وجاہت کو منع کردیا تھا کہ وہ گھر پہ ہی کام کر لے گا اب وہ جلدی جلدی اپنا کام ختم کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ سب گھر والے باہر تھے اور وہ بھی جانا چاہتا تھا 

مگر اگر وجاہت اسے یوں مستیاں کرتا ہوا دیکھ لیتا تو اسے آفس لے جاتا۔۔

ہادی نے ہانیہ کو اسٹڈی میں جاتے ہوئے دیکھا تھا اور پھر اسنے وجاہت کو بھی وہیں جاتا ہوا دیکھا 

وہ دونوں اسٹڈی کیوں گئے تھے وہ جانتا تھا 

مگر جب وہ دونوں ہی 5 منٹ تک باہر نہیں آئے تو ہادی کے لبوں پر ایویل مسکراہٹ آئی اور اسنے دبے قدموں سے جاکر بغیر آواز کئے اسٹڈی کا دروازہ باہر سے لاک کردیا۔۔

کہ چلو شاید اکیلے رہ کر ہی وہ ایک دوسرے کو سمجھے یا پھر کھا جائیں ایک دوسرے  کو۔۔

سب گھر والے باہر تھے ہادی بھی انہی کے پاس چل دیا اب اگر وہ دروازہ بجاتے بھی تو انکی سنتا کون۔۔

نوکر چاکر بھی اپنے کام میں لگے تھے کون اتنا دیہان دے گا۔۔

ہادی مسکراتا ہوا وہاں سے چل دیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہٹیں میرے راستے سے۔۔

ہانیہ نے آرام سے کہا وہ اپنی آواز تیز کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔

کہا نہ تم سے بات کرنی ہے۔۔

وجاہت نے اسکے چہرے پر فوکس رکھتے ہوئے کہا۔۔

ہانیہ سمجھ گئی کہ یہ بلا اتنی آسانی سے نہیں ٹلے گی۔۔

کہیں جلدی کیا بات کرنی ہے۔۔

وہ اپنے ہاتھ سینے پر باندھ کر بولی۔۔

تم کیا مجھ سے ڈر گئی تھی ۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔

کب؟؟

ہانیہ نے حیرت سے وجاہت سے سوال کیا۔۔

جب میں نے تمہیں خود کے قریب کیا۔۔

وجاہت نے ابھی تک اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹائی۔۔

بھول ہے آپ کی۔۔

ہانیہ بول کے وہاں سے جانے لگی کہ ایک بار پھر وجاہت نے اسے ویسے ہی تھام کیا جیسے پارٹی والی رات اپنے کمرے میں تھاما تھا۔۔

وجاہت کے چھوتے ہی ہانیہ کا سانس ایک بار پھر بند ہونے لگا۔۔

اور وجاہت کے دل کی دھڑکنیں بھی ایک دم تیز ہوگئیں جیسے دل باہر آجائے گا۔۔

یہ کیسا احساس ہے اور کیوں اتنا خاص ہے۔۔

وجاہت نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں خوف کا سایہ لہرا رہا تھا۔۔

ڈرتی ہو کیا مجھ سے یا میری قربت سے۔۔

وجاہت کی بات پر اسکی آنکھوں میں پانی بھرگیا۔۔

بغیر کوئی جواب دیتی اس نے وجاہت کو اتنی زور سے دھکا دیا جتنا زور وہ لگا سکتی تھی۔۔

وجاہت اس حملے کیلئے تیار نہیں تھا اور ایک دم پیچھے ہوگیا۔۔

دور رہا کریں مجھ سے سمجھیں آپ۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو خود سے الگ کر کے کہا۔۔

دو دن لگے تھے اسے پھر سے نارمل ہونے میں مگر آج ایک بار پھر وجاہت کا یوں اس کے سامنے آنا وہ اب برداشت نہیں کرپا رہی تھی۔۔

اور اگر میں کہوں کے میں چاہ کر بھی ایسا نہیں کرپا رہا تو۔۔

وجاہت نے اب تھوڑا فاصلہ قائم کرتے ہوئے کہا۔۔

تو میں کیا کروں آپ پلیز جائیں یہاں سے کوئی آجائے گا۔۔

ہانیہ ایک بار پھر جانے لگی مگر وجاہت نے اسکے گرد بازو پھیلا کر اسے ایک بار پھر جانے سے روکا۔۔

کوئی نہیں آئے گا سب گھر سے باہر ہیں اور اگر کوئی آبھی جاتا ہے تو مجھے کسی کا کوئی ڈر نہیں ہے بیوی ہو تم میری۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ طنزیہ ہنسی بیوی نہیں مسٹر وجاہت عالم مجبوری ہوں میں یہی کہتے ہیں نہ آپ۔۔

وجاہت کو ہانیہ کے الفاظ تیر کی طرح چبھ رہے تھے پہلی بار۔۔

ہاں یہی کہا کرتا تھا مگر تم خاص ہوتی جارہی ہو۔۔

دل کی بات وجاہت زبان پر لے ہی آیا تھا جس میں وہ بلکل نہیں جھجک رہا تھا۔۔

جھجھک وجاہت عالم میں کبھی نام کی بھی نہ رہی تھی۔۔

کتنے وقت کیلئے۔۔

ہانیہ کے الفاظ تھے یا امتحان وجاہت سمجھ نہیں پایا۔۔

آخری سانس تک کیلئے۔۔

وجاہت نے بھی بغیر سوچے سمجھے جواب دیا۔۔

آپ بھول رہے ہیں ہمارے بیچ ایک کانٹریکٹ ہوا تھا۔۔

ہانیہ نے اسے یاد دلانا چاہا۔۔

تم ہر وقت کانٹریکٹ کی بات کیوں کرتی رہتی ہو۔۔

وجاہت اب جھنجلانے لگا تھا اس کانٹریکٹ لفظ سے۔۔

کیونکہ یہ آپ کا ہی فیصلہ تھا۔۔

ہانیہ نے نظریں نیچی کر کے کہا۔۔

تم یہ کیوں بھول جاتی ہو کہ اس سے پہلے میں نے نکاح نامے پر بھی تو سائن کیے تھے۔۔

وجاہت اب تھوڑی شوخ مسکراہٹ لئے بولا۔۔

اپنی بیٹی کیلئے۔۔

ہانیہ نے اب بھی تلخی سے کہا۔۔

ہانیہ کی تلخی دیکھ کے وجاہت کا پارا ایک بار پھر ہائی ہونے لگا۔۔

اچانک ہی اس نے ہانیہ کے ارد گرد سے اپنے بازو ہٹا لئے اور اسٹڈی سے جانے لگا 

مگر جیسے ہی اس نے دروازہ کھولنا چاہا وہ باہر سے بند تھا۔۔

یہ کس نے بند کردیا۔۔

وجاہت نے دروازہ بجایا مگر کوئی آس پاس ہوتا تو سنتا ۔۔

وجاہت کو دروازہ بجاتا دیکھ ہانیہ بھی اسکے پیچھے آئی اور دروازہ بند دیکھ کے چونک گئی 

ہانیہ بھی وجاہت کے پاس پہنچی تو دروازے کو بند دیکھ کے وہ بھی چونک گئی۔۔

وجاہت اب جھنجھلایا ہوا تھا 

جبکہ ہانیہ نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔۔۔

یہ کس نے کیا ہے؟

ہانیہ نے وجاہت سے سوال کیا۔۔

بھوت رکھے ہوئے ہیں میں نے انہیں کو آرڈر دیا تھا۔۔

وجاہت نے تپے ہوئے انداز میں کہا۔۔

خیر بھوت تو نہیں ہاں مگر نوکروں کی فوج رکھی ہوئی ہے آپ نے جو آپ کے ہر اشارے پر چلتے ہیں۔۔

ہانیہ نے دروازے کو چیک کرکے کہا ۔۔

ٹینشن ہانیہ کو بھی ہوئی مگر وجاہت کو حد سے زیادہ اکتایا ہوا دیکھ کے ہانیہ کو نہ جانے کیوں ہنسی آرہی تھی۔۔

وجاہت کو ہانیہ کی ہنسی طنزیہ لگی۔۔

جھنجھلاہٹ وجاہت کو اس بات سے ہورہی تھی کہ وہ اپنا موبائل فون کمرے میں چھوڑ آیا تھا اور گھر میں بھی اس وقت کوئی نہیں تھا

سب باہر لان میں موسم کے مزے لے رہے تھے۔۔

تم کیوں ہنس رہی ہو۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو گھور کے دیکھا۔۔

مرضی میری میرا منہ ہے۔۔

ہانیہ نے رخ موڑ کے کہا۔۔

جب وجاہت اسے گھورنے لگا تو وہ دروازے کے پاس سے ہٹ کر کتابوں کے پاس چلی گئی۔۔

وجاہت چاہتا تو ایک بار زور لگانے سے ہی دروازہ کھل جاتا وجاہت کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہ تھا۔۔

مگر ہانیہ کی مسکراہٹ نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔۔

تمہیں ڈر نہیں لگ رہا تم اور میں یہاں اکیلے ہیں 

وجاہت نے اپنی مسکراہٹ دبا کہ کہا

سوچو کہ ہم یہاں پورا دن بند رہیں گے 

سوچو کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ ہم یہاں ہیں 

وجاہت نے مزے سے کہا

مگر ہانیہ کو چونکا دینے والے وجاہت کے الفاظ نہیں تھے اسکا لہجہ تھا۔۔

ایک نظر ہانیہ نے وجاہت کو دیکھا جو اسے ہی شوخ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

ہانیہ جو وجاہت کی جھنجلاہٹ سے مزے لے رہی تھی اب اسکی سہی کی ہوائیاں اڑ گئی تھی

جب وہ کھلے دروازے میں اسکا ہاتھ پکڑ سکتا ہے تو بند دروازے میں۔۔

ہانیہ کو ایک دم خوف آنے لگا ۔۔

مانا کہ وجاہت اسکا شوہر ہے مگر ان کے بیچ ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا۔۔

مجھے ایسا لگتا ہے ہمیں دروازہ بجاتے رہنا چاہئے۔۔

ہانیہ وجاہت سے دور ہوکر دروازے تک جانے لگی تو وجاہت نے ایک بار پھر اسکا راستہ روک دیا۔۔

جب وہ دوسری طرف سے جانے لگی تو دوسری طرف کا راستہ بھی وجاہت نے بند کر دیا۔۔

اب ہانیہ وجاہت کے بازوؤں کے گھیرے میں تھی۔۔

آفس سے دیر تو اب وجاہت کو ہوہی گئی تھی تو کیوں نہ بدلہ لیا جائے۔۔

وہ۔۔ وہ۔۔ وہ۔۔ حور ڈھونڈ رہی ہوگی مجھے۔۔

ہانیہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔

نہیں ڈھونڈ رہی ہوگی سب کے ساتھ ہے وہ ۔۔

وجاہت نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔۔

سب کیا سوچیں گے کہ ہم یہاں بند کیوں ہیں۔۔

ہانیہ نے وجاہت کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی 

وجاہت نے اپنی گرفت شیلف پر مضبوط کردی۔۔

کوئی یہی سوچے گا کہ میرڈ کپل ہیں اکیلے میں رومانس ہی کر رہے ہونگے ۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لی۔۔

ہانیہ کے چہرے پر خوف کے سائے پھیلے دیکھے تو وجاہت کے لبوں پر تبسم پھیل گیا۔۔

بے اختیاری میں وجاہت نے ہانیہ کی پیشانی پر محبت کی پہلی مہر ثبت کر دی 

جسے محسوس کر ہانیہ کو ڈھیروں سکون نے آن گھیرا۔۔

ہانیہ کے چہرے کے بدلتے تاثرات وجاہت بہت غور سے دیکھ دہا تھا کہ اچانک باہر سے تھوڑی کھٹ پٹ کی آواز آنے پر وجاہت نے ہانیہ پر بھرپور نظر ڈال کر دروازے کی طرف گیا 

کوئی نوکر اسٹڈی کی طرف کام سے آیا تو دیکھا اسٹڈی کا دروازہ کوئی بجا رہا تھا۔۔

نوکر نے فوراً دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وجاہت کھڑا تھا 

نوکر وجاہت کو دیکھ کر گھبرانے لگا کہ کہیں اسکی شامت نہ آجائے مگر اپنی عادت کے بر عکس وجاہت وہاں سے خاموشی سے چلا گیا۔۔

جبکہ ہانیہ کافی دیر تک وہیں جمی رہی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہادی دروازہ باہر سے بند کرکے لان میں آگیا تھا اور اب سب کے ساتھ باتوں میں مگن ہوگیا۔۔

نیلم حور کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی 

تھوڑی دیر بعد ہانیہ کی کمی نیلم کو ہی محسوس ہوئی تو اس نے نوکر سے کہا کہ بھابھی کو بھی بلا لائے 

نوکر کو اندر جاتا دیکھ ہادی نے اسے روک دیا۔۔

بیٹا تم منع کیوں کر رہے ہو۔۔

ہادی جھوٹ کم ہی بولا کرتا تھا تو اصل وجہ سب کو بتا دی کہ وہ وجاہت اور ہانیہ کو اسٹڈی میں لاک کر کے اگیا۔۔

ہادی کی بات پر سب ہنس دیئے۔۔

ایسا کیوں کیا تم نے۔۔

دادو نے ہادی سے سوال کیا۔۔

دادو پرسوں دیکھا تھا نہ کیسے پارٹی میں ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ دونوں ایک دوسرے سے زرا بات نہیں کر رہے تھے 

اور پرسوں سے اب تک میں نے ان دونوں کو بات کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں تھا 

اوپر سے سونے پہ سہاگہ دونوں رہتے بھی الگ الگ کمرے میں ہیں۔۔

تو جب میں نے ہانیہ کو کتاب لے جاتے ہوئے اسٹڈی میں دیکھا اور پھر وجاہت کو فائل لینے اسٹڈی میں جاتا دیکھا تو دونوں کو وہیں لاک کر دیا۔۔

ہادی نے پوری بات بتائی اور اب سب کا ری ایکشن دیکھنا چاہ رہا تھا مگر سب کے سپاٹ چہرے دیکھ کر ہادی گھبرا گیا ۔۔

کیونکہ سب اسے نہیں اس کے پیچھے کھڑے وجاہت کو دیکھ رہے تھے۔۔

اچھا تو یہ تمہاری حرکت تھی۔۔

ہادی نے بغیر پیچھے مڑے ہی وجاہت کی بات سنی۔۔

اور لاچار نظروں سے دادو کی طرف دیکھا۔۔

کیا ہوگیا وجاہت ہادی نے بس شرارت ہی تو کی تھی دادو نے وجاہت کے تیور چڑھے ہوئے دیکھا۔۔

ایسا نہیں تھا کہ وجاہت کو غصہ آیا تھا ہادی کو انہیں لاک کرنے پر۔۔

غصہ وجاہت کو ہادی کا کام پورا نہ کرنے پر آیا تھا۔۔

کام ہوگیا تمہارا۔۔

وجاہت نے اب ہادی سے ایک اور سوال کیا جس پر ہادی نے اسے گھور کے دیکھا۔۔

نہیں وہ میں نے سوچا کہ گھر والوں کے ساتھ تھوڑا ٹائم اسپینڈ کرلوں..

تم چار دنوں سے پاکستان آئے ہوئے ہو اور ابھی تک تم نے گھر والوں کے ساتھ ٹائم اسپینڈ ہی نہیں کیا۔۔

ہادی کے پاس وجاہت کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔

ہادی وجاہت سے بلکل ڈرتا نہیں تھا مگر اسے ڈر اس بات کا تھا کہ کہیں وجاہت کو یہ بات ناگوار نہ گزری ہو کہ اس نے اسے ہانیہ کے ساتھ لاک کیا۔۔

چلو ہم آفس جارہے ہیں وجاہت نے ہاتھ پکڑ کے ہادی کو اٹھایا

ہادی بھی خاموشی سے اٹھ گیا اسکا دل بہت بری طرح سے خراب ہوا تھا وجاہت کا ری ایکشن دیکھ کر 

ہادی کو ایسا ہی لگا کہ وجاہت کو ہانیہ کے ساتھ رہنا بہت ناگوار گزرا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اسٹڈی سے نکل کر ہانیہ اپنے کمرے میں آئی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔

نظر اپنی پیشانی پر مرکوز کی جہاں ابھی تک وجاہت کا لمس محسوس ہورہا تھا۔۔

خود کا عکس دیکھا آئینے میں تو ہانیہ کا چہرا ایک بار پھر سرخ ہونے لگا۔۔

کیا اسکا رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ وجاہت جیسے شخص نے خود اسکی طرف قدم بڑھائے تھے۔۔

سوچتے ہوئے آج ہانیہ کو خوف نہیں آرہا تھا بلکہ خوشی ہورہی تھی۔۔

کیونکہ محبت بھرا لمس وجاہت نے اسکی پیشانی پر چھوڑا تھا 

یعنی اسے مجھ پر مان ہے کیا وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ ساری زندگی رہوں۔۔

خود سے بات کرتے ہوئے ہانیہ کو ایسا لگا جیسے وجاہت اسکے آس پاس ہی ہو۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت ہادی کو لئے آفس آچکا تھا مگر اب اسکا ہر چیز سے دل اچاٹ ہورہا تھا۔۔

بار بار اسکے سامنے ہانیہ کا ڈرا ہوا چہرا آرہا تھا 

یہ سوچ کے ہی وجاہت کے لبوں پر مسکراہٹ آرہی تھی کہ جب اسنے جب محبت کی چھاپ اسکی پیشانی پر چھوڑی تو اسکے چہرے پر اس نے سکون دیکھا تھا 

ایک پل کےلئے ڈرے ہوئے چہرے کو سرخ ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔۔

دھیرے دھیرے ہی وجاہت ہانیہ کو خود کے قریب کرنا چاہتا تھا 

اور ان سب کیلئے ضروری تھا کہ وجاہت ہانیہ کے ساتھ وقت گزارے کسی ایسی جگہ جہاں وہ ہو اور بس ہانیہ۔۔

کچھ سوچتے ہوئے وجاہت نے پیرس جانے کا سوچا وہ بھی بزنس کا بہانا کرکے۔۔

اپنے گھر والوں کو وہ بہت اچھے سے جانتا تھا 

اسکے نہ کہنے پر بھی وہ لوگ ہانیہ کو زبردستی وجاہت کے ساتھ بھیجیں گے 

کیونکہ وہ یہ بات محسوس کر چکا تھا کہ اسکے گھر والے یہ چاہتے ہیں کہ ہانیہ اور وجاہت ایک ساتھ رہیں

اور آج کے واقعے سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہادی اپنے کیبن میں بیٹھا وجاہت اور ہانیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا

وہ اس وقت بلکل پہلے والا ہادی نہیں لگ رہا تھا۔۔

پارٹی والی رات سب کچھ سننے کے بعد بھی ہادی نے ایک کوشش کی تھی یہ دیکھنے کیلئے کہ وجاہت اور ہانیہ کو ساتھ ملانے کی کوئی گنجائش ہے بھی کہ نہیں۔۔

مگر وجاہت کا رویہ دیکھ ہادی کو ایسا لگا جیسے اسے ہانیہ کے ساتھ رہنا بلکل اچھا نہیں لگا تھا۔۔

نہیں میں کسی لڑکی کی زندگی ایسے برباد ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا 

ہانیہ جیسی لڑکی تو ہر لڑکے کا آئیڈیل ہوتی ہیں ۔۔

اور وجاہت اسے اپنی بیٹی کیلئے یوں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔۔

ہانیہ کیلئے ہادی کے دل میں ہمدردی آہستہ آہستہ کچھ اور ہی رنگ لے رہی تھی 

جس سے ہادی تھوڑا گھبرا بھی رہا تھا کیونکہ اس کے کچھ بھی کرنے پر وہ اپنے قیمتی رشتے بھی کھو سکتا تھا۔۔

جسے کھونے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔

وجاہت کو اپنا پلان دیہان سے ترتیب دینا تھا اور اس کیلئے ضروری تھا کہ وہ سب کو یہ یقین دلائے کہ آیا وہ واقعی کام سے جانا چاہتا ہے وہ بھی اکیلے

مگر ہادی بھی تو ساتھ ہی کام کرتا ہے اسے کیا کہوں گا۔۔

وجاہت ایک بار پھر سوچ میں پڑگیا۔

کچھ سوچ کر وہ اٹھا اور ہادی کے کیبن کی طرف گیا۔۔

ہادی لیپ ٹاپ میں اپنے عادتوں کے برعکس آج خاموشی سے کام میں مصروف تھا۔۔

وجاہت بغیر ناک کئے اسکے کیبن میں داخل ہوا اور ٹیبل کے ساتھ رکھی ہوئی چئیر پہ بیٹھ گیا۔۔

ہادی نے جیسے ہی وجاہت پر نظر اٹھا کے دیکھا تو اسکو پیپر ویٹ پر نظریں جمائے دیکھا۔۔

کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟

ہادی نے لیپ ٹاپ بند کر کے وجاہت کو غور سے دیکھا۔۔

کچھ نہیں میں سوچ رہا ہوں پیرس چلا جاؤں وہاں میں سوچ رہا ہوں کہ مشہور برانڈ کی کمپنی کے شئیر بک رہے ہیں وہ خرید لوں 

مگر پہلے میں وہاں تھوڑا سٹے کرنا چاہتا ہوں اور کمپنی کی مارکیٹ ویلیو خود دیکھنا چاہتا ہوں۔۔

ہمم ۔۔۔ آئیڈیا تو بہترین ہے مگر تمہارا جانا ضروری ہے کیا۔۔

ہادی نے ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کے کہا۔۔

ہاں جانا ضروری ہے کیونکہ تو جانتا ہے جب تک میں مطمئن نہیں ہوتا تب تک میں نئے بزنس میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔۔

ٹھیک ہے تو چلے جاؤ کب جانا ہے مجھے بتا دینا میں ارینج کروا دونگا۔۔

اسے اتنی جلدی کیوں ہورہی ہے اور کوئی سوال نہیں کچھ نہیں۔۔ وجاہت نے دل میں سوچا۔۔

نہیں میں سب خود دیکھ لونگا پہلے میں ڈیڈ سے بات کرونگا۔۔

وجاہت بولتا ہوا ہادی کے کیبن سے نکل گیا۔۔

مجھے اچانک خوشی کیوں ہوئی وجاہت کے جانے سے ۔۔

ہادی یہ سوچ کے رہ گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ آج بہت خوش تھی وہ وجاہت کے بارے میں سوچ سوچ کے ہی گلنار ہورہی تھی۔۔

دادو ہانیہ کی یہ تبدیلی بھانپ رہی تھی کیونکہ وہ کچھ زیادہ ہی مسکرا رہی تھی آج۔۔

جبکہ شان صاحب اور عالیہ بیگم ہانیہ کو خوش دیکھ کے خوش تھے۔۔

وجاہت ٹھیک کہتا ہے یہ لڑکی اپنے جزبات کسی سے نہیں چھپا سکتی ۔۔

شان صاحب نے پیار سے ہانیہ کو دیکھا جو دھیرے دھیرے ہی سہی اب انکے بیٹے کی زندگی بنتی جارہی تھی۔۔

امی آج ڈنر میں کیا بنواؤں۔۔

عالیہ بیگم اپنی ساس سے پوچھنے لگی۔۔

ارے عالیہ بیٹا مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو جو دل کرے بنوا لو۔۔

دادو نے نرمی سے جواب دیا۔۔

ام۔۔ مما آج میں ڈنر بناؤ کیا میرا دل کر رہا ہے کوکنگ کرنے کا۔۔

ہانیہ دھیمے لہجے میں عالیہ بیگم سے بولی۔۔

کیوں نہیں بیٹا اگر تمہارا دل ہے تو ضرور بناؤ ہم بھی تو دیکھیں ہماری بہو کیسا کھانا بناتی ہے۔۔

عالیہ بیگم نے محبت سے ہانیہ کا گال چھو کے کہا۔۔

ٹھیک ہے تو آپ حور کو سنبھال لیں اور تیار رہیں مزیدار سا کھانا کھانے کیلئے۔۔

ہانیہ خوش ہوکر بولتے ہوئے کچن کی طرف چل دی۔۔

کچن میں آکر اسنے سامان چیک کیا جو جو منگوانا تھا اسکی لسٹ بنا کر اسنے میڈ کو دی سامان لانے کیلئے اور لگ گئی کھانا کی تیاری میں ۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

4 گھنٹے مسلسل محنت کے بعد ہانیہ نے چکن یخنی پلاؤ کے ساتھ شامی کباب بنائے

 اور سالن میں شاہی قورمہ بنایا 

میٹھے میں اسنے فروٹ ٹرائفل بنایا اور سلاد رائتہ بھی تیار کرکے وہ وہ کاؤنٹر ٹیبل پر رکھ دیا تھا 

ایک ملازمہ روٹی بنا رہی تھی جبکہ دوسری ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا سیٹ کر رہی تھی 

ہانیہ شامی کباب فرائی کر رہی تھی

سب جب ڈائیننگ ٹیبل پر آئے تو کھانے کے لوازمات دیکھ کے تھوڑا حیران رہ گئے۔۔

آج کیا کوئی خاص دن کی دعوت ہے۔۔

ہادی گھر اکر ایک بار پھر اپنے شرارتی موڈ میں آچکا تھا۔۔

وجاہت ہانیہ کو اس کے کمرے میں دیکھتا ہوا آیا مگر وہ وہاں نہیں تھی 

وجاہت ابھی بھی ہانیہ کو ڈھونڈتا ہوا آرہا تھا کہ دادو کی بات پر ڈائیننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔۔

آج ہماری بہو نے کھانا بنایا ہے یہ کوئی کم خاص بات ہے کیا۔۔

دادو کے فخر سے بولنے پر وجاہت دھیمے سے مسکرا دیا بغیر کسی کی نظروں میں آئے

وہ پانی پینے کے بہانے کچن میں گیا جہاں ہانیہ کباب ڈش میں سیٹ کر رہی تھی اور ساتھ میں ملازموں کو ہدایات بھی دے رہی تھی۔۔

وجاہت کو کچن میں آتا دیکھ جہاں تمام ملازمین ہکا بکا تھے وہیں کچھ ایسا حال ہانیہ کا بھی تھا۔۔

کیونکہ وہ لاڈ صاحب کبھی کچن کے پاس بھی نہیں بھٹکے تھے آج تک۔

ہانیہ پر ایک نظر ڈال کر وجاہت فریج کھول کر پانی کی بوتل نکال کے کاؤنٹر کی چئیر پر بیٹھ گیا۔۔

اور گلاس میں پانی ڈال کے پینے لگا جبکہ نظریں ہانیہ پر مرکوز تھیں۔۔

ہانیہ ویسے تو اپنے کام میں مصروف دیکھائی دے رہی تھی مگر وہ اچھے سے وجاہت کی نظر خود پر محسوس کر رہی تھی۔۔

شاکنگ پنک کلر کی کرتی کے ساتھ سفید رنگ کا کیپری پہنے اور سفید ہی ڈوپٹہ گلے میں ڈالے وہ تھکی تھکی سی بھی وجاہت کو بہت اچھی لگی ۔۔

اسکے چہرے پر ہلکا ہلکا پسینہ تھا جسے کافی حد تک تو اسکے بالوں کی فرینچ کٹنگ نے چپھا دیا تھا مگر گلابی گالوں پر چمک رہا تھا۔۔

وجاہت کا دل کیا کے ہاتھ بڑھا کے وہ اسکا چہرا صاف کرے۔۔

اور اسے ڈانٹے بھی کہ اتنا کام کرنے کی ضرورت کیا تھی اسے مگر بولا کچھ نہیں 

باہر آکر وہ جان بوجھ کے ہانیہ کی جگہ پر بیٹھ گیا تاکہ وہ اسکے برابر والی خالی کرسی پر ہی آکر بیٹھے۔۔

وجاہت کو دوسری چئیر پر بیٹھا دیکھ نیلم خوش ہوکر ہادی کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔

اسے نور کے جانے کے بعد آج موقع ملا تھا ہادی کے ساتھ بیٹھنے کا۔۔

سارا کھانا ٹیبل پر سیٹ ہوچکا تھا ہانیہ کچن سے باہر آئی تو دیکھا کہ وجاہت اسکی جگہ بیٹھا ہے جبکہ وجاہت کی جگہ پر نیلم بیٹھی ہوئی تھی۔۔

یہ آج تبدیلی کیسے آگئی۔۔

ہانیہ نے دل میں سوچا۔۔

اب کرسی تو بس وجاہت کے برابر والی ہی خالی تھی ہانیہ کچھ پل سوچ میں پڑ گئی کہ بیٹھے یا نہ بیٹھے۔۔

ہانیہ کو کنفیود دیکھ کے ہادی نے اسے مخاطب کیا۔۔

ہانی اگر آپ چاہیں تو میری جگہ پر بیٹھ جائیں میں وجاہت کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں۔۔

ہادی کو ایسا لگا کہ ہانیہ وجاہت کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتی اسی لئے سوچ میں پڑگئی۔۔

اور ہادی کی بات پر جہاں نیلم کا منہ اتر گیا وہیں وجاہت نے غصے سے بھری نظر ہادی کے اوپر ڈالی۔۔

وجاہت کو غصے سے ہادی کو تکتا پاکر ہانیہ جلدی سے ہادی کو منع کرکے وجاہت کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔

سب لوگوں نے کھانا شروع کیا تو سبھی گھر والے کھانے کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے سبھی کھانے ایک سے بڑھ کر ایک ذائقے دار تھے 

سب سے زیادہ جو تعریف کر رہا تھا وہ تھا ہادی جسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ ہر نوالے پر تعریفوں کے پل باندھ دے۔۔

وجاہت کو رہ رہ کر تپ چڑھ رہی تھی اور آگ میں گھی کا کام ہانیہ کی مسکراہٹ کر رہی تھی ہادی کی تعریف پر۔۔

کسی کو کال کرنے کے بہانے سے وجاہت کھانا تھوڑا ہی کھا کر ڈائیننگ ٹیبل سے اٹھ گیا۔۔

ہانیہ کا دل بری طرح سے ٹوٹا اسی کیلئے تو اس نے اتنی محنت کی تھی اور ان لاڈ صاحب نے تعریف تو دور کی بات پیٹ بھر کے کھانا بھی نہیں کھایا۔۔

وجاہت کے جانے کو ہادی نے بھی نوٹ کیا تھا اور اس کے ایکسپریشن بھی وہ دیکھ چکا تھا

کھانے سے فارغ ہوکر سب گھر والے ہال میں بیٹھے تھے۔

وجاہت بھی سب کے ساتھ آکر بیٹھ گیا کیونکہ اسے سب سے بات جو کرنی تھی۔۔

عالیہ بیگم ہاتھ میں ایک باکس لئے ہال میں داخل ہوئی اور وہ باکس دادو کو پکڑایا۔۔

دادو نے وہ باکس لے کر ہانیہ کو اپنے پاس بلایا۔۔

ہانی میری جان۔۔

جی دادو ۔۔

ادھر آؤ میرے بچے۔۔

ہانیہ فوراً اٹھ کے دادو کے پاس گئی 

دادو نے باکس سے چار کنگن نکالے دو عالیہ بیگم کو تھمائے اور دو خود ہاتھ میں لئے ہانیہ کو پہنانے لگی۔۔

یہ کس لئے دادو۔۔ ہانیہ ان خوبصورت کنگنوں کو دیکھ کے چونک گئی۔۔

بیٹا تمہاری شادی پر کوئی رسم تو ہوئی ہی نہیں تھی اسی لئے۔۔

 یہ میری شادی کے کنگن ہیں میں نے آج تک عالیہ کو بھی نہیں دئیے تھے 

یہ میں نے اپنے پوتے کی دلہن کیلئے رکھے تھے مگر اسکی پہلی بیوی تو ہمیں اپنا مانتی ہی نہیں تو اس وقت دل نہیں کیا اسے دینے کا مگر تم سے ہمارا دل جڑ چکا ہے تو اب سے یہ تمہارے ہوئے۔۔

دادو نے پیار سے ہانیہ کو کنگن پہنائے اور عالیہ بیگم نے دوسرے ہاتھ میں باقی دو کنگن پہنائے 

خوش قسمت ہو ہانی ورنہ امی کا ارادہ یہ کنگن کسی کو بھی دینے کا نہیں تھا۔۔

عالیہ بیگم کی بات پر سبھی مسکرا دیئے۔۔

مگر مما دادو مجھے یہ نہیں چاہیئے آپ لوگوں کی دعائیں ہی کافی ہیں میرے لئے ۔۔

ہانی آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو چاہئے کہ نہیں 

دادو نے مزاق میں کہا۔۔

پر ۔۔ پر ور کچھ نہیں ہانی بیٹا ابھی کہا نہ کہ تمہاری شادی پر تو کوئی رسم ہوئی نہیں کیونکہ وجاہت ہی اگلے دن ملک سے باہر چلا گیا تھا 

اسی لئے ہم نے سوچا تھا کہ جب بھی تم کھانا بناؤگی ہم تمہیں تحفے میں یہ دینگے 

عالیہ بیگم نے اسے پیار سے کہا۔۔

وجاہت بھی مان اور محبت بھری نظروں ہانیہ کو دیکھ رہا تھا۔۔

ہانیہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی جسے وہ چھپا گئی تو دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کر رہی تھی اتنے محبت کرنے والے رشتے دینے کیلئے۔۔

سب کو خاموش دیکھ وجاہت نے سوچا کہ وہ بھی اپنی بات کرے 

مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے۔۔

وجاہت نے بات کا آغاز کیا تو سبھی افراد اسکی طرف متوجہ ہوگئے بس ہانیہ نے اسے نہیں دیکھا۔۔

ہاں بولو۔۔

شان صاحب نے اسے بولنے کا کہا۔۔

میں پیرس جارہا ہوں 2 ہفتے کیلئے وہاں مجھے کام ہے۔۔

ڈیڈ میں آپ کو ڈیٹیل بتاؤں گا بعد میں کام کے متعلق۔۔

واؤ بھائی پیرس جائیں گے آپ ۔۔

نیلم چہکی۔۔

بھابھی کو بھی ساتھ لے جائیں نہ۔۔

وجاہت نیلم سے انہیں الفاظ کی توقع کر رہا تھا مگر چہرے کو سپاٹ رکھ کے بولا۔۔

نہیں نیلم میں وہاں کام سے جارہا ہوں گھومنے نہیں تو میں اکیلے ہی جاونگا۔۔

اور ویسے بھی کچھ پتا نہیں کہ وہاں 2 ہفتے سے زیادہ بھی لگ سکتے ہیں۔۔

اب میں وہاں کام کروں گا یا کسی کی ذمہ داری ہی نبھاتا پھروں گا۔۔

وجاہت نے بات کرتے ہوئے کن آنکھیوں سے ہانیہ کو دیکھا جس کے چہرے پر ایک سایہ آکر گزر گیا تھا۔۔

جو چہرا اسے کھانا بناتے وقت اتنی تھکن کے باوجود بھی کھلا ہوا لگ رہا تھا وہ ایک دم مرجھا گیا تھا۔۔

ہادی کو بھی وجاہت کی سفاکی سے کہنے پر غصہ آیا۔۔

ہانیہ کا اترا چہرا دیکھ کے وجاہت کو احساس ہوا کہ وہ شاید کچھ زیادہ ہی بول گیا ہے۔۔

اچانک حور نے رونا شروع کردیا تو ہانیہ دل میں حور کا شکریہ ادا کرتی وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔

لو اب بیٹی بھی ناراض ہوگئی مجھ سے۔۔

وجاہت نے دل میں سوچا۔۔

وجاہت عالم پہلے بھی تم ہانیہ کو شادی کے اگلے ہی دن چھوڑ کر 4 ماہ کیلئے چلے گئے تھے 

اور اب ایک بار پھر جانا چاہتے ہو۔۔

دادو نے وجاہت کا پورا نام لے کر سخت لہجے میں کہا۔۔

یہ انکا انداز تھا وہ جب بھی وجاہت سے ناراض ہوتیں تھیں وہ اسے اسکے پورے نام سے پکارتی تھی۔۔

دادو میرا جانا ضروری ہے۔۔

وجاہت نے ہلکا پھلکا سہ احتجاج کیا۔

اخر سب کو یقین بھی تو دلانا تھا کہ وہ ہانیہ کو ساتھ لے جانا نہیں چاہتا۔۔

تم یہ غلط کر رہے ہو وجاہت 

عالیہ بیگم نے بھی وجاہت کو سمجھانا چاہا۔۔

وجاہت کچھ بولتا کہ دادو نے اپنا فیصلہ سنایا۔۔

وجاہت عالم اگر تمہیں پیرس جانا ہے تو ہانیہ کے ساتھ جاؤگے ورنہ بہتر ہے یہی رہو۔۔

وجاہت تو دادو کی بات پر ہی دل ہی دل میں بہت خوش ہوگیا۔۔

 وہ تھوڑی اور اداکاری کرنا چاہتا تھا مگر ہادی کو دیکھا تو وہ آج اپنی عادتوں کے برعکس بلکل خاموش بیٹھا تھا۔۔

وجاہت کو اسکا نہ بولنا اچھا نہیں لگا اسے لگا جیسے وہ نہیں چاہتا ہانیہ اسکے ساتھ جائے تو وہ بغیر کچھ کہے دادو کی بات مان گیا۔۔

ٹھیک ہے دادو اگر آپ سب یہی چاہتے ہیں تو ہانیہ سے کہہ دیجیئے گا کہ جیسے ہی ویزا اپروو ہوتا ہے وہ اپنی پیکنگ کرلے اور ساتھ میں حور کی بھی۔۔

کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ہانیہ حور کے بغیر رہے۔۔

یہ بات کہہ کے وجاہت وہاں سے چلا گیا۔۔

جو چاہتا تھا وہ ہوگیا تھا اور کسی کو شک بھی نہیں ہوا ۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ کمرے میں حور کو کندھے سے لگائے سلا رہی تھی کہ تبھی نیلم کمرے میں آئی۔۔

بھابھی کل میری چھٹی ہے تو کیا میں آج حور کو اپنے ساتھ سلا لوں وہ کیا ہے نہ پڑھائی کی مصروفیات کی وجہ سے میں حور کے ساتھ وقت ہی بتا نہیں پاتی ۔۔

ہانیہ نے زبردستی مسکرا کے نیلم کو دیکھا۔۔

پوچھ کیوں رہی ہو نیلم لے جاؤ اور ساتھ میں اسکا سامان بھی

 ویسے حور آج دن میں سوئی نہیں بلکل تو مجھے لگتا ہے وہ آج رات کو نہیں جاگے گی 

ویسے بھی اب اسکی سونے کی ٹائمنگ بدل رہی ہے جیسے جیسے وہ بڑی ہورہی ہے۔۔

نیلم نے حور کو گود میں لیا اور اسکا سامان لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔

ایسا کرنے کیلئے نیلم کو عالیہ بیگم اور دادو نے کہا تھا۔۔

کیونکہ وجاہت کی بات پر انہوں نے ہانیہ کا اترا چہرا دیکھا تھا۔۔

تو ضروری تھا کہ وہ تھوڑی دیر آرام کرے ویسے بھی وہ پوری شام کچن میں مصروف رہی تھی ۔۔

حور کے جانے کے بعد ہانیہ بیڈ پر بیٹھ کر وجاہت کے بارے میں سوچنے لگی ۔۔

اسے اسکا ڈائننگ ٹیبل سے اڑھ کر جانا اور پھر اسکا اسے ساتھ لے جانے سے صاف منع کرنا بہت تکلیف دے رہا تھا۔۔

آنسو اب ہانیہ کی آنکھوں سے نکل کر اسکا چہرا بھگو رہے تھے جسے اس نے بے دردی سے صاف کیا۔۔

نظر ہاتھ میں پہنے کنگن پر گئی تو غصے میں وہ اتار دئیے۔۔

جب میں وجاہت کی بیوی ہی نہیں ہوں تو ان کنگن پر بھی میرا کوئی حق نہیں ہے۔۔

مگر دادو نے کچھ پوچھا تو۔۔

اچانک ہانیہ کو دادو کے سوالات کی فکر ہوئی۔۔

کچھ نہیں میں کوئی بہانہ کردوں گی مگر وجاہت عالم کو ابھی اور اسی وقت میں یہ کنگن دونگی ۔۔

ہانیہ یہ کہہ کر کنگن لئے وجاہت کے کمرے تک گئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓 💓💓💓

دروازہ ناک کیا تو وجاہت نے فوراً یس کہا جیسے اسے پتہ ہو کہ کوئی اس وقت آئے گا۔۔

ہانیہ دروازہ کھول کے وجاہت کو دیکھنے لگی جو حسب معمول اپنے لیپ ٹاپ پر کام میں مصروف تھا۔۔

ایک نظر ہانیہ کو دیکھ کے وہ ایک بار پھر نظریں لیپ ٹاپ پر مرکوز کر چکا تھا۔۔

تم یہاں کیسے میری یاد آرہی تھی کیا۔۔

بغیر اسکی طرف دیکھے وجاہت شرارت سے بولا۔۔

وجاہت کے الفاظ اسے مزاق اڑانے والے لگے۔۔

مجھے آپ سے بات کرنی بلکہ نہیں کچھ دینا تھا۔۔

ہانیہ لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔۔

اچانک وجاہت نے لیپ ٹاپ بند کیا اور ہانیہ کی طرف بڑھا جو کہ دروازے پر کھڑی تھی۔۔

مار کے بھاگو گی کیا۔۔

ہانیہ کو دروازے پر ہی جما دیکھ کے وجاہت مسکرا کے بولا۔۔

ہانیہ بس وجاہت کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کے ٹھٹک گئی کیونکہ یہ کوئی طنزیہ مسکراہٹ نہیں تھی یہ ایک سچی مسکراہٹ تھی ۔۔

وجاہت نے اسے کھویا ہوا دیکھا تو ہانیہ کو کندھوں سے تھام کر تھوڑا آگے کیا اور دروازہ بند کر کے ہانیہ کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔۔

میں جانتا ہوں میں بہت ہینڈسم ہوں مگر تمہارا ہی شوہر ہوں اب اس طرح تو مت دیکھو بے ہوش ہوجاؤنگا۔۔

شرارتی مسکراہٹ لئے اب وہ ہانیہ کے تاثرات دیکھ رہا تھا وہ اب گھبرا رہی تھی 

مڑ کے دیکھا تو وجاہت دروازہ بند کر چکا تھا اور اب وجاہت ہانیہ کو ہی غور سے دیکھ رہا تھا 

ہمت جمع کر کے وجاہت کے سامنے اسنے بولنا شروع کیا

میں یہ کنگن آپ کو دینے آئی تھی باہر کچھ نہیں بول پائی مگر میں جانتی ہوں میرا ان کنگنوں پر کوئی حق نہیں ہے 

تو اس سے پہلے آپ مجھے میری لمٹس یاد کروائیں میں نے سوچا خود ہی آپ کو یہ واپس کردوں۔۔

ہانیہ نے نظریں نیچے کر کے جلدی سے سب کچھ کہہ دیا اور کنگن وجاہت کی طرف بڑھائے۔۔

وجاہت نے گہری نظروں سے ہانیہ کو دیکھا پھر کنگن کو

کنگن ہانیہ کے ہاتھوں سے لئے بغیر وجاہت نے ہانیہ کا کنگن کا والا ہاتھ تھاما اور اسے خود کے قریب کیا

دوسرے ہاتھ سے ہانیہ کا چہرا تھوڑی سے پکڑ کے اوپر کیا تو ہانیہ کا چہرا ضبط سے لال ہوا وا تھا۔۔

ہونٹوں کو آپس میں سختی سے بند کئے وہ ناراضگی میں وجاہت کو بہت کیوٹ لگی۔۔

وجاہت نے اسکے دوسرے ہاتھ کو بھی تھام کر اسے کنگن پہنائے 

ہانیہ نے ہاتھ چھڑانے کہ کوشش کی مگر وجاہت نے اسکے ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔۔

کنگن پہنانے کے بعد وجاہت نے پیار سے ہانیہ کے ہاتھوں کو چوما۔۔

ہانیہ نے اپنی آنکھیں زور سے بند کرلیں۔۔

ہانیہ کو اپنے حصار میں لے کر وجاہت نے اپنا منہ اسکے بالوں میں دے دیا۔۔

مجھے یہ نہیں چاہئے اگر کچھ دینا چاہتی ہو تو مجھے وہ محبت دے دو جو میں نے آج کچن میں تمہارے چہرے پر دیکھی تھی۔۔

بول کر وجاہت نے ہانیہ کو خود سے دور کیا تو ہانیہ نے ناراض نظر سے وجاہت کو دیکھا

وجاہت سمجھ گیا کہ وہ اس سے ناراض ہے کیونکہ اس نے ہانیہ کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا شوق سے نہیں کھایا تھا۔۔

ایک بات بولوں مانو گی۔۔

وجاہت نے اب اسکے بالوں کو کان کے پیچھے کیا جو اسکے چہرے پر آرہے تھے۔۔

ہانیہ نے کچھ نہیں کہا وہ تو بس حیران تھی کہ وہ وجاہت کو کچھ بول کیوں نہیں رہی تھی ۔۔

وہ تو آئی ہی وجاہت کو چار باتیں سنانے تھی مگر وجاہت کی قربت پر تو اس کے لب ہی سل گئے تھے۔۔

ہانیہ کا کوئی جواب نہ پاکر وجاہت خود ہی بول پڑا۔۔

مجھے بھوک لگی ہے۔۔

وجاہت نے شوخ نظروں سے ہانیہ کو دیکھ کے کہا۔۔

جی۔۔ 

ہانیہ کے منہ سے بس یہی ادا ہوسکا کیونکہ وجاہت کی نظریں اسے بہت کچھ کہہ رہی تھیں مگر وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔

اسے ہکا بکا دیکھ کے وجاہت کے چہرے پر تبسم پھیل گیا۔۔

مسز ہانیہ وجاہت عالم تمہارے اس شوہر کو بھوک لگی ہے کھانا ملے گا کیا یا میں خود ہی کچن میں جاکر کھانا کھاؤ۔۔

ہانیہ وجاہت کو دیکھ رہی تھی جو اسے ہی دیکھ کے شرارت سے ہنس رہا تھا۔۔

وجاہت ہانیہ کو لئے کچن میں آیا اور خود بیٹھنے کے بجائے ہانیہ کو کچن کاؤنٹر کی چئیر پر بٹھا دیا 

خود جا کر اس نے فریج سے کھانا نکالا اور مائیکرو ویو میں گرم کرنے لگا 

ہانیہ نے وجاہت کو روکنا چاہا کہ وہ گرم کر دے گی مگر وجاہت نے اسے ڈانٹ دیا۔۔

اب جب وجاہت کھانا خود ہی گرم کر لے گا تو ہانیہ کو لگا اسکا کیا کام ۔۔

تو وہ اٹھ کر جانے لگی وجاہت نے اسے جاتا دیکھا تو اسکا ہاتھ پکڑ کے کچن کاؤنٹر کی چئیر پر پھر بٹھا دیا۔۔

آپ کھانا خود ہی گرم کر رہے ہیں تو کھا بھی خود لیں گے میرا یہاں کیا کام

ہانیہ چئیر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔

دیکھو میرا دماغ خراب مت کرو میرا آج بہت اچھا موڈ ہے اسے برباد مت کرو

خاموشی سے یہاں بیٹھو جب میں فری ہو کر بیٹھو گا تو میں چاہتا ہوں تم مجھ سے پیاری پیاری باتیں کرنا۔۔

وجاہت نے کام کرتے ہوئے ہانیہ سے کہا

ہانیہ ہمیشہ وجاہت کو منہ پر ہی جواب دے دیا کرتی تھی 

مگر وہ اسکے جواب کو اب چیلنج سمجھنے لگ جاتا تھا اور پھر جو اسکا شوخ پن شروع ہوتا تھا۔۔

اس سے ہانیہ بہت گھبراتی تھی۔۔

وجاہت نے کھانا کاؤنٹر پہ رکھا اور ہانیہ کے برابر آکر بیٹھ گیا۔۔

پلاؤ نکال کر اسنے پہلے ہانیہ کو دیا پھر اپنی پلیٹ میں نکال لیا۔۔

اتنے دنوں سے وہ ہانیہ کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھ رہا تھا یہ تو وہ سمجھ چکا تھا کہ اسے رائس بہت پسند ہیں چاہے وہ کیسے بھی ہوں۔۔

یہ میرے لئے کھانا کیوں نکالہ آپ نے۔۔

ہانیہ نے پلیٹ اپنی طرف دیکھی تو پوچھ بیٹھی۔۔

میرے ٹیبل سے اٹھنے کے بعد تم بھی اٹھ گئی تھی 

میں نے دیکھا تھا تم نے بھی کھانا نہیں کھایا تھا ٹھیک سے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا چہرا نظروں میں لے کر کہا۔۔

مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔

ہانیہ نے رخ موڑ کے کہا سچ تو یہ تھا کہ اسے بہت زیادہ بھوک لگی تھی مگر وہ وجاہت کو یہ بات جتانا نہیں چاہتی تھی۔۔

ٹھیک ہے بھوک نہیں ہے پھر بھی کھاؤ اور تمہاری بھوک کیسی ہوتی ہے وہ میں پہلے ہی دیکھ چکا ہوں۔۔

وجاہت نے شرارتی مسکان لئے کہا۔۔

ہانیہ سمجھ گئی وہ اس دن کی بات کر رہا ہے جب وہ اسکے کمرے میں کھانا لے کر ایا تھا اور وہ نخرے دکھا رہی تھی مگر کھانا جب کھایا تو پیٹ بھر کے کھایا تھا۔۔

ہانیہ کو خاموش دیکھا تو وجاہت نے اسے وارننگ دی جو وہ جانتا تھا کہ سنتے ہی وہ فوراً کھانے لگ جائے گی۔۔

صاف صاف کہو تم اپنے ہاتھ سے کھانا نہیں چاہتی اگر تم نے خود نہیں کھایا تو میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاو گا اور فورک یا اسپون سے نہیں ہاتھوں سے۔۔

ہانیہ نے جیسے ہی وجاہت کی بات سنی اسنے اسی وقت فورک لے کر کھانا شروع کر دیا۔۔

ہانیہ کو کھانا کھاتے دیکھ وجاہت کو ہنسی آگئی۔۔

ارے یار اتنا ڈرتی ہو مجھ سے۔۔

ہانیہ ابھی بھی خاموش رہی تو وجاہت نے بھی کھانا شروع کردیا۔۔

ویسے مجھے پاکستانی کھانے زیادہ پسند نہیں ہیں مگر تمہاری امی کے ہاتھ کے کھانے بہت مزے کے تھے 

میں نے اس دن بھی بہت شوق سے کھانا کھایا تھا اور آج بھی سوچا تم نے ان سے ہی سیکھا ہوگا تو انکے جیسا ہی پکایا ہوگا۔۔

مگر تم نے ان کے جیسا تو نہیں بنایا ہاں مگر یہ بھی بہت مزیدار ہے 

وجاہت کھانا کھاتے جارہا تھا اور بولتے جارہا تھا جبکہ ہانیہ خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی۔۔

اب تم نے مجھے کبھی رائس کھاتے دیکھا ہے کیا مگر دیکھو آج میں رائس ہی کھا رہا ہوں کیونکہ یہ مجھے بہت اچھے لگ رہے ہیں۔۔

آپ نے اس وقت کھانا کیوں نہیں کھایا۔۔

ہانیہ نے وجاہت کی بات کاٹ کے کہا۔۔

اس وقت موڈ نہیں تھا اور میں سب کے سامنے اپنی فیلینگس کبھی اکسپریس نہیں کرتا 

چاہے وہ غصہ ہو یا خوشی تعریف ہو یا برائی میں کسی کے سامنے ایکسپریس نہیں کرتا۔۔

نور کو بہت شکایت تھی میری اس عادت سے۔۔

وجاہت نے بولتے ہوئے ہانیہ کو دیکھا جو نظریں پلیٹ پر رکھے ہوئے ہی تھی

تم کچھ کہوگی نہیں ۔۔

وجاہت نے ہانیہ سے سوال کیا۔۔

مجھے آپ سے بات نہیں کرنی ۔۔

ہانیہ نے صاف گوئی سے کہا۔۔

کہا بھی ہے مجھے تم سے باتیں کرنی ہے کھانا کھا لیا ہے میں نے مگر تم نے باتیں تو کی نہیں 

ہانیہ وجاہت کو اگنور کرتے ہوئے برتن سمیٹنے لگی وجاہت اس وقت فروٹ ٹرائفل کھا رہا تھا اور مجال ہے جو اس نے ایک نظر بھی ہانیہ کے چہرے سے ہٹائی ہو۔۔

سارے برتن سمیٹ کر ہانیہ ایک بار پھر جانے لگی اسے وجاہت کی موجودگی سے اب پھر سے کوفت ہونے لگی تھی۔۔

مگر وجاہت نے اب اسے غصے سے اسکی کلائی تھامی۔۔

تمہیں سمجھ نہیں آتا کیا بولا ہے کہ مجھے باتیں کرنی ہیں 

وجاہت نے لفظ جما جما کے کہے۔۔

کہہ رہا ہوں موڈ اچھا ہے مت بگاڑو مگر نہیں تمہیں تو اچھا لگتا ہے نہ مجھے تنگ کرنا۔۔

وجاہت نے دھیمے مگر سخت لہجے میں کہا۔۔

مجھے نیند آرہی ہے اور حور ۔۔ حور جاگ نہ جائے۔۔

ہانیہ نے بہانہ بنا کے جانا چاہا۔۔

حور نیلم کے پاس ہے میں جب تک اپنی بچی کو نہ دیکھ لو مجھے نیند نہیں آتی

میں پہلے ہی اسے دیکھ کے اچکا تھا جب نیلم اسے اپنے کمرے میں لے کر جارہی تھی۔۔

وجاہت کا موڈ تھوڑا بگڑ گیا تھا وجہ ہانیہ کا بار بار اسے اگنور کرنا تھا۔۔

مجھے آپ سے باتیں نہیں کرنی ہیں۔۔

ہانیہ نے رخ دوسری طرف موڑ کے کہا۔۔

وجاہت کی آنکھیں ضبط کے مارے لال ہورہی تھیں وہ ہانیہ کے اوپر غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔

اس پہ کیا وہ گھر کے کسی فرد کے سامنے غصہ نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ اپنے غصے کو اچھے سے جانتا تھا

اور غصے میں وہ کیا کرجاتا تھا یہ بھی وہ جانتا تھا۔۔

وہ ہانیہ کا ہاتھ پکڑے باہر لان میں آگیا تھا اور گہرے سانس لے کر خود کو کمپوز کر رہا تھا۔۔

جبکہ ہانیہ یہی سوچ رہی تھی کہ اچانک سے وجاہت کو ہو کیا گیا ہے۔۔

وہ اتنا بدل کیوں گیا ہے ۔۔

دیکھو ہانیہ میں کبھی بھی اپنا ایول سائڈ اپنی فیملی کو نہیں دکھاتا پلیز مجھے کبھی اتنا مجبور مت کرنا کہ مجھے تمہیں اپنا ایول سائڈ دکھانا پڑے۔۔

بہت سے بھی زیادہ جلدی میں اپنا ٹیمپر کھو بیٹھتا ہوں تو اس بات کا خیال رکھا کرو 

اب ساتھ زندگی گزارنی ہے تو تمہیں بس اتنی سی بات کا خیال کرنا پڑے گا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا رخ اپنی طرف کرکے اسکے دونوں ہاتھ تھام کے کہا۔۔

جان سکتی ہوں کہ یہ اتنی تبدیلی وجاہت عالم میں کیسے آگئی۔۔

ہانیہ نے سوالیہ نظروں سے وجاہت کو دیکھا جیسے سمجھنا چاہ رہی ہو وجاہت کو۔۔

میں نہیں جانتا یہ تبدیلی کب کیسے کیوں آگئی مگر مجھے یہ تبدیلی اچھی لگ رہی ہے ۔۔

رشتوں کے معاملے میں میں بہت حساس ہوں۔۔

ایک بہت قریبی رشتہ صرف اپنی ضد کے آگے کھو چکا ہوں 

اور اسکی تکلیف سہہ بھی چکا ہوں۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے ساتھ جھولے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔

کونسا رشتہ اور کسے کھو دیا۔۔

ہانیہ نے اب وجاہت کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا جہاں کوئی تاثر نہیں تھا چہرا ایک دم سپاٹ تھا۔۔

گہرا سانس لے کر اس نے کہا۔۔

نور ۔۔ میری بچپن کی دوست کو میں کھو چکا ہوں 

وہ میری بچپن کی دوست تھی ہادی بھی ہے مگر وہ اپنے پاپا کے پاس جاتا رہتا تھا اسی لئے نور سے ہی میری سب سے زیادہ بنتی تھی

ہمیشہ اپنے دل کی بات صرف اس سے ہی کرتا تھا اسکول میں بھی کالج میں بھی اور یونیورسٹی میں بھی 

میں نے ہمیشہ ڈیڈ کے منہ سے سنا تھا کہ وہ اور نور کے پاپا یہ چاہتے ہیں کہ ہماری شادی ہو ۔۔

مجھے اچھا لگتا تھا سن کے دوست اگر لائف پارٹنر بن جائے تو کتنا اچھا ہوتا ہے نہ۔۔

شادی کیلئے نور بہت آسانی سے مان گئی تھی اسکا کہنا تھا کہ میں اسے وہ آئیڈیل لائف دے سکتا ہوں جو کہ وہ ڈیزرو کرتی ہے۔۔

ہاں البتہ وہ میرے گھر والوں سے تھوڑی خار کھاتی تھی اسے اسکی پرائویسی چاہئیے تھی جبکہ میرے گھر والے ایک ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔۔

لیکن جب انہیں لگا کہ نور میری خوشی ہے تو وہ لوگ مان گئے دادو کو اعتراض تھا مگر مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتیں ہیں وہ تو میں نے انہیں منا لیا۔۔

شادی کے شروعاتی دن اچھے تھے 6 ماہ بہت اچھے گزرے میں خوش تھا کیونکہ نور خوش تھی 

مگر جب اسے پتا چلا کہ وہ ایکسپیکٹ کر رہی ہے تو اسکا رویہ ایک دم چینج ہوگیا ۔۔

وہ مجھے بتائے بغیر ہی ابارشن کروانا چاہتی تھی مگر مجھے پتہ چل گیا ڈاکٹر نے ریپورٹ مجھے سینڈ کردی تھی۔۔

ہاسپٹل میں ایک ڈاکٹر میرا دوست تھا کالج کا جب اسے پتہ چلا کہ نور ایسا اسٹیپ اٹھانے والی ہے تو اس نے مجھے بغیر نور کو بتائے کال کر دی۔۔

میں نے اسے وہ سب کرنے سے روک دیا کیونکہ مجھے میری اولاد چایئے تھی۔۔

اسے بہت ریکوئسٹ کی کہ وہ میرے بچے کو نہ مارے اسے اس دنیا میں لانے کے بعد وہ جیسے چاہے اپنی زندگی جیئے میں اسے کبھی نہیں روکوں گا نہ ہی ٹوکوں گا۔۔

گھر میں جب سب کو یہ بات پتہ چلی تو سب بہت خوش ہوئے ۔۔

مگر نور خوش نہیں تھی اس نے بس میری ضد کے آگے خاموشی اختیار کی ۔۔

وہ بہت تلخ ہوگئی تھی سب کے ساتھ۔۔ اسے اپنی ہی اولاد بوجھ لگنے لگی تھی۔۔

پھر ایک دن وہ پارٹی میں جانا چاہتی تھی میں نے اسے جانے سے روکا بھی مگر وہ میری کبھی نہیں سنتی تھی۔۔

میں نے اس پر بہت غصہ کیا تھا ہمارا جھگڑا بھی ہوا تھا 

مگر وہ چلی گئی اور واپسی میں اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔۔

ایکسیڈنٹ کی خبر جب مجھے ملی تو میں فوراً ہاسپٹل گیا وہاں نور آپریشن تھیٹر میں تھی 

آدھی رات کا وقت تھا آپریشن بہت لمبا تھا ڈاکٹر نے مجھے کہا تھا کہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے پری میچور ڈیلیوری کرنی پڑے گی 

میں نے فوراً ہاں کہہ دی مجھے نور کے ساتھ ساتھ اپنے بچے کی زندگی بھی پیاری تھی 

فجر کے وقت حور میری گود میں آئی مگر نور کی کنڈیشن بہت سیریس تھی ۔۔

حور کے اس دنیا میں آنے کے کچھ گھنٹے بعد ہی نور اس دنیا سے چلی گئی تھی۔۔

میں اتنا پریشان تھا کہ میں نے گھر میں کسی کو بھی اطلاع نہیں دی تھی 

اسکے دنیا سے جانے سے پہلے میں نور سے ملا تھا اسے اسکی بیٹی دکھانا چاہتا تھا مگر اسنے حور کو دیکھنے سے انکار کردیا تھا۔۔

اور جو آخری الفاظ اس نے ادا کئے وہ میں چاہ کر بھی بھلا نہیں پاتا 

اسنے کہا ۔۔ 

تم یہی چاہتے تھے نہ اپنی اولاد کو دنیا میں لانا تو اب تم خود ہی اسے سنبھالنا بن ماں کے۔۔

بولتے بولتے وجاہت کا لہجہ تھوڑا لڑکھڑایا تھا۔۔

ہانیہ نم آنکھوں سے اسکا چہرا دیکھ رہی تھی۔۔

یہ گلٹ مجھے بہت تنگ کرتا ہے کہ میں نے اسے فورس کیا تھا ابارشن نہ کروانے کیلئے 

اور پھر وہ جب جب مجھ سے ضد کرتی تھی میں اسے بہت پیار سے مناتا تھا تو وہ مشکل سے ہی سہی مان جاتی تھی ۔۔

مگر پتہ نہیں کیوں اس دن میں نے اسے کیوں نہیں منایا تھا بلکہ الٹا ڈانٹ دیا تھا اور وہ غصے میں پارٹی میں دوستوں کے ساتھ چلی گئی تھی۔۔

اور پھر اس کے آخری جملے کہ میری اولاد بن ماں کے پلے گی۔۔

یعنی اسے ماں کا پیار نہیں ملے گا

جو کچھ ہوا میرے غصے کی وجہ سے ہوا اور میں نے اپنی بچپن کی دوست کو کھو دیا 

حور سے اسکی ماں چھین لی 

تب سے میں گھر سے اور گھر والوں سے دور ہی رہتا ہوں کہ کہیں کبھی مجھے غصہ آئے تو کوئی میرے سامنے میرا پیارا نہ ہو۔۔

تم بھی اس گھر کیلئے خاص ہوتی جارہی ہو میں نہیں چاہتا کہ میرے غصے کی وجہ سے حور کو اسکی ماں چھوڑ کر چلی جائے۔۔

دل کی بات ابھی بھی وجاہت زبان پہ نہیں لایا تھا کہ وہ ڈرتا ہے ہانیہ کو کھونے سے کیوں وہ یہ ابھی نہیں جانتا ۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

نیلم حور کو بیڈ پر لٹا کر خود بھی بیڈ پر بیٹھ گئی 

ہانیہ نے کہا تھا کہ حور رات کو نہیں جاگے گی مگر نیلم کو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ سوگئی اور حور جاگ گئی تو ہانیہ اس پر کبھی ٹرسٹ نہیں کرے گی حور کے معاملے میں 

نیلم مسلسل جاگی ہوئی تھی کہ ہادی آگیا کمرے میں کافی کے 2 کپ لئے۔۔

مجھے پتہ تھا تم جاگی ہوئی ہوگی۔۔

ہادی کمرے میں آتے ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔۔ 

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔

نیلم نے ہادی کو حیرت سے دیکھا ۔۔

مجھے نیند نہیں آرہی تھی کسی سے بات کرنا چاہتا تھا کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا تمہارا کمرا کھلا ہوا ہے

اسی لئے یہاں آگیا ۔۔

ہاں وہ برو آئے تھے حور کو دیکھنے تو شاید وہ گیٹ ٹھیک سے بند کر کے نہیں گئے ہوں گے۔۔

نیلم کو یاد آیا کہ وجاہت حور کو دیکھنے آیا تھا

ویسے تمہیں نیند کیوں نہیں آرہی اور حور تمہارے پاس کیا کر رہی ہے۔۔

ہادی نے کافی کا مگ نیلم کو پکڑاتے ہوئے کہا۔۔

ہانی بھابھی آج کافی تھکی تھکی اور ڈسٹرب لگ رہی تھی تو مما نے کہا کہ حور کو میں سنبھالوں آج رات تاکہ وہ تھوڑا پیس فل رہ سکیں اور ریسٹ کریں۔۔

ہاں یہ تو ہے بہت اچھا کیا جو حور کو لے آئی ۔۔

ہادی کی نظروں میں ایک دم ہانیہ کا اداس چہرا گھوم گیا۔۔

ہادی آپ کو نہیں لگتا ہمیں برو اور بھابھی کیلئے کچھ کرنا چاہئیے۔۔

پرنسس تمہیں کیا لگتا ہے میں نے کوشش نہیں کی 

مگر پہلی ہی کوشش میں مجھے لگا کہ مجھے کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیئے۔۔

ہادی نے ایک کان پکڑتے ہوئے کہا تو نیلم کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ آگئی۔۔

ہادی کا اسے پرنسس بلانا نیلم کو بہت اچھا لگتا تھا وہ چاہتی تھی کہ ہادی ساری زندگی اسے پرنسس کہے اور خود اسکا پرنس بن جائے۔۔

ڈھیروں باتیں کرنے کے بعد ہادی نے اسے سونے کیلئے کہا ۔۔

چلو پرنسس لگتا ہے یہ ڈول اب نہیں اٹھے گی تم بھی بے فکر ہوکر سوجاؤ۔۔

نیلم کے ہاتھ سے ہادی نے کپ لیا تو نیلم نے کافی کیلئے اسے شکریہ ادا کیا۔۔

بہت مار کھاؤگی اگر شکریہ کہا تو ہادی نیلم کے بال بگاڑتا کمرے سے چلا گیا اور نیلم بھی اب بہت پرسکون ہوکر سوگئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ اور وجاہت لان میں رکھے جھولے پر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔۔

دونوں کے درمیان کافی خاموشی تھی 

ہانیہ نے نظر اٹھا کے دیکھا تو وجاہت اسے بہت ڈسٹرب لگ رہا تھا ۔۔

کہیں سے بھی وہ غصہ کرنے والا یہ پھر اسے اپنی قربت سے زچ کرنے والا نہیں لگ رہا تھا۔۔

نیلم کو تھوڑی تکلیف ہوئی اسے ایسے دیکھ کر۔۔

اپتا ہاتھ اسنے وجاہت کے ہاتھ پہ رکھ کے اسے تسلی دی 

ہانیہ کے لمس پر اسنے چہرا موڑ کے ہانیہ کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

ایک بات بتائیں ۔۔

ہانیہ کو کچھ یاد آیا تو پوچھنے لگی۔۔

ہاں بولو۔۔ 

آپ نے تھوڑی دیر پہلے کہا تھا کہ جب تک آپ حور کو نہ دیکھ لیں تو آپ کو نیند نہیں آتی۔۔

ہاں تو۔۔ ہانیہ کے سوال پر وجاہت سر اثبات میں ہلا کے کہا۔۔

تو ہماری شادی کے بعد آپ 4 ماہ کیلئے ملک سے باہر تھے پاکستان آنے کے بعد بھی ایک ہفتے تک آپ رات کو حور کو دیکھنے نہیں آئے 

اس وقت آپ کیسے سوئے پھر۔۔

ہانیہ نے نظریں وجاہت کی بیرڈ پر جما کے کہا۔۔

اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسکا چہرا چھوئے مگر اسنے اپنے دل کو جلدی ہی ڈپٹ کے خاموش کروا دیا۔۔

ہانیہ کی بات سن کے وجاہت کے چہرے پر بہت شرارتی مسکراہٹ آئی۔۔

تمہیں کس نے کہا کہ میں نے ان چار ماہ میں حور کو نہیں دیکھا ۔۔

میڈم کوئی ایسا دن نہیں تھا جب میں حور کو دیکھے بغیر سویا ہوں۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ سوچ میں پڑگئی۔۔

ہانیہ کو دیکھ کے وجاہت کو ہنسی آرہی تھی جسے وہ بلکل نہیں چھپا رہا تھا۔۔

اس لڑکی کی موجودگی میں اسے خوشی ملنے لگی تھی سکون ملنے لگا تھا وہ بھی ایسا جسے وہ پہلی بار محسوس کر رہا تھا۔۔

لیکن آپ نے دیکھا کیسے حور کو۔۔ ہانیہ نے سوچتے ہوئے کہا ۔۔

سیکریٹ ہے میڈم جس دن تم نے مجھے آئی لو یو کہا اس دن بتاؤ گا

چاہو تو ابھی کہہ سکتی ہو ابھی بتا دونگا۔۔

وجاہت اب شرارت کے موڈ میں تھا۔۔

ہانیہ نے اسے غصے سے دیکھا تو وہاں سے جانے لگی۔۔

مجھے لگتا ہے کافی دیر سے ہم یہاں بیٹھیں ہیں اب ہمیں سوجانا چاہئے۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو اٹھانا چاہا مگر وجاہت نے اسکے گرد بازوؤں کا حصار باندھ کے اسکا سر اپنے کندھے پر رکھ لیا۔۔

ہانیہ نے اٹھنا چاہا تو وجاہت نے اسے روک دیا۔۔

پلیز ایسے ہی بیٹھی رہو مجھے نہیں جانا اندر تم بھی یہیں رہو۔۔

وجاہت کی تھوڑی دیر پہلے کی کیفیت دیکھ کے ہانیہ خاموشی سے اسکے کندھے پر سر رکھے بیٹھ گئی 

مگر جیسے ہی ہانیہ نے آنکھیں بند کی اسے لگا کہ اسے ڈھیروں سکون نے آن گھیرا ہو۔۔

وجاہت نے بھی اپنا سر اس کے سر پے رکھ لیا 

اور وہ دونوں ایسے ہی بیٹھے بیٹھے نیند کی وادیوں میں کھو گئے۔۔

کیونکہ وہ دونوں ہی اس بات سے انجان تھے کہ محبوب کی قربت ہی سب سے بڑا سکون ہوتا ہے۔۔

سورج کی کرن پڑھنے سے وجاہت کی آنکھ کھلی تو خود کو لان میں پایا 

آنکھیں پوری کھولنے کی کوشش کی تو اسے کندھے پر کسی کا احساس ہوا جیسے ہی اسنے دیکھا ہانیہ اسکے کندھے پر سر رکھے ہوئے سورہی تھی۔۔

وجاہت کا ہاتھ اسنے اپنے دونوں ہاتھوں سے تھاما ہوا تھا اس نے

یہ دیکھ وجاہت کے چہرے پر تبسم پھیل گیا۔۔

اتنی خوشی یہ محبت یہ چاہت اس نے کبھی بھی محسوس نہیں کی تھی 

سب کہتے تھے کہ  وہ نور سے محبت کرتا تھا 

مگر ہانیہ کیلئے اس کے دل میں محبت سے بڑھ کر بھی کوئی مقام بن رہا تھا۔۔

سورج کی کرن ٹھنڈی دھوپ اور یہ دلفریب ساتھی وجاہت کو مسحور کر رہی تھی

دل کیا کہ یہ وقت یہی رک جائے 

مگر وقت تو رک نہیں سکتا تھا تو سوچا یہ پل ہمیشہ کیلئے قید کرلیا جائے 

جیب سے وجاہت نے موبائل نکالا اور اپنی اور ہانیہ کی کئی تصویریں لی ۔۔

اور پھر جب اسے احساس ہوا کہ گھر والے انہیں ایسے نہ دیکھ لیں تو اسنے ہانیہ کو سوتے ہوئے ہی بازوؤں میں اٹھایا اور اسے اسکے کمرے میں لے گیا۔۔

سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے  ہانیہ کی آنکھ کھل گئی 

خود کو وجاہت کے بازوؤں میں دیکھ کے ہانیہ کچھ بولنا چاہتی تھی مگر وجاہت نے اسے خاموش کردیا۔۔

ششش۔۔۔ بس اتنا بول کے وجاہت نے ہانیہ کی پیشانی پر لب رکھ دیئے۔۔

ہانیہ کو تو وجاہت سمجھ ہی نہیں آرہا تھا 

ہانیہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھی وجاہت نے جب اسکا چہرا دیکھا تو شرارت سے اسے آنکھ ماری 

ہانیہ کے کمرے کا پیر سے دروازہ کھول کر اسنے ہانیہ کو کمرے میں بیڈ پر لٹایا 

کمفرٹر اسے اچھے سے اوڑھا کر کچھ پل وہ وہیں بیٹھا رہا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ہانیہ کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا

ہانیہ کچی پکی نیند میں تھی تو جیسے ہی اسے سکون ملا وہ دوبارہ سوگئی۔۔

وجاہت نے اسے سوتے دیکھا تو ایک بار پھر اسکے ماتھے پر محبت کی چھاپ چھوڑ کر باہر جانے لگا۔۔

دروازے پر پہنچ کر اسنے مڑکر دیکھا ہانیہ سوچکی تھی 

وجاہت کا اسے چھوڑ کر جانے کا بلکل دل نہیں کر رہا تھا مگر وہ اسے دل سے اپنانا چاہتا تھا۔۔

اسی لئے پہلے اپنے رشتے کو مضبوط کرنا چاہتا تھا 

ہانیہ کا اس پر بھروسہ چاہتا تھا 

اور سب سے بڑھ کر کچھ وہ انا بھی تھی جو اسنے سب گھر والوں کو دکھائی تھی کہ وہ نور کی جگہ کسی کو نہیں دے گا 

اور ہانیہ کے ساتھ رشتے کو اسنے صرف ایک مجبوری ہی کہا تھا مگر تب اسے بلکل بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ رشتہ اسکے لئے اتنا خاص ہوجائے گا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

نیلم اور ہانیہ ٹیرس پر بیٹھی چائے کے مزے لے رہی تھی 

باقی سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے جبکہ ہادی اور وجاہت آفس گئے ہوئے تھے۔۔

حور بھی اپنے کھلونوں سے کھیلنے میں لگی ہوئی تھی ۔۔

ہانیہ نیلم کی کسی بات کا جواب دے رہی تھی کہ اس کے موبائل پر میسج کی بپ ہوئی۔۔

ہانیہ نے سیل فون پر میسج چیک کیا تو میسج وجاہت کا تھا۔۔

ہانیہ نے اسے پڑھنا شروع کیا۔۔

مجھے نہیں پتہ تھا جھولے پر بیٹھ کر اتنی پرسکون نیند بھی آتی ہے کبھی 

یقین کرو میں بہت ٹائم بعد اتنے سکون سے سویا

تم سے کل اپنی باتیں شئیر کر کے بہت اچھا لگا 

تھینکس۔۔

وجاہت کا سادگی سے بھرپور میسج پڑھ کے ہانیہ کو بہت اچھا لگا اور اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ آگئی۔۔

نیلم اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہی تھی تو پوچھ بیٹھی۔۔

بھابھی برو کا میسج ہے کیا۔۔

نیلم کی بات سن کے ہانیہ ایک دم چونک گئی۔۔

نہیں تو میری ایک دوست کا میسج ہے۔۔

ہانیہ کے لہجے میں بولتے ہوئے واضح لڑکھڑاہٹ تھی۔۔

اچھا جی ویسے بھابھی ایک بات پوچھو۔۔

نیلم نے ہانیہ سے ہادی کے بارے میں بات کرنے کا سوچا

اب کسی کو تو اسے اپنے دل کی بات بتانی تھی نہ۔۔

ہاں چندا بولو کیا بات ہے۔۔

ہانیہ نے اسے پیار سے مخاطب کیا۔۔

بھابھی وہ آپ کو ہادی کیسے لگتے ہیں۔۔

نیلم کے سوال پر ہانیہ نے ایک پل نیلم کو دیکھا جو بات کرتے ہوئے بلش کر رہی تھی۔۔

اچھے ہیں ہادی مگر اس بات کی کوئی وجہ۔۔

ہانیہ سمجھ رہی تھی مگر وہ حقیقت جاننا چاہتی تھی 

بھابھی وہ اچھے ہیں یا بہت اچھے۔۔

نیلم نے ایک اور سوال کیا۔۔

اب اچھے ہوں یا برے تمہیں پسند ہیں کافی ہے۔۔

اب ہانیہ نے بھی شرارت سے کہا۔۔

نیلم کچھ کہتی کہ ہانیہ کے موبائل پر پھر رنگ ہوئی اب اسکے پاس ایک پکچر بھیجی گئی تھی۔۔

ہانیہ نے وہ پکچر دیکھی تو ایک بار پھر اسکے چہرے کا رنگ بدل گیا۔۔

وہ تصویر آج صبح کی ہی تھی وہ وجاہت کے کندھے پر سر رکھے سورہی تھی وہ بھی وجاہت کے ہاتھ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر۔۔

پھر ایک اور تصویر بھیجی وجاہت نے جس میں وہ حور کو پیار سے دیکھ رہی تھی 

یہ تصویر بھی آج صبح کی ہی تھی جب وجاہت آفس جارہا تھا اس وقت وہ حور کو گود میں لی ہوئی تھی۔۔

ہانیہ نے نظر اٹھا کے دیکھا تو نیلم اسے ہی دیکھ رہی تھی 

ہانیہ نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے نیلم کو بات کرنے کو کہا۔۔

بھابھی یار آپ موبائل تو رکھ دو میں اتنی سیرئیس بات کر رہی ہوں اور آپ ہو کہ موبائل دیکھ دیکھ کے ہی مسکرا رہی ہو ۔

نیلم نے نروٹھے پن سے کہا تو ہانیہ نے موبائل ٹیبل پر رکھ دیا۔۔

ٹھیک ہے بولو تم ۔۔

بھابھی مجھے ہادی بچپن سے اچھے لگتے ہیں وہ ہمیشہ میرا خیال رکھتے ہیں 

نیلم نے ہانیہ سے کوئی بات نہیں چھپائی۔۔

تم صرف پسند کرتی ہو یہ پسند سے کچھ زیادہ۔۔

ہانیہ اب سنجیدگی سے نیلم کو دیکھ کے بولی۔۔

معلوم نہیں بھابھی پر جب جب ان کے ساتھ ہوتی ہوں تو اچھا لگتا ہے وہ مجھے پرنسس کہتے ہیں اور مجھے ایک پرنسس کی ہی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔۔

میرے منہ سے نکلی ہر خواہش کو پوری کر دیتے ہیں جو میں کہتی ہوں وہ فوراً مان جاتے ہیں۔۔

ہانیہ کے موبائل پر پھر رنگ ہوئی تھی مگر اب کی بار اس نے اگنور کیا۔۔

کیونکہ نیلم سے اس وقت بات کرنا بہت ضروری تھا۔۔

دیکھو نیلم ہادی اچھے انسان ہیں میں نے ہمیشہ سب کے منہ سے انکی تعریف ہی سنی ہے 

مگر۔۔ 

مگر کیا بھابھی۔۔ ہانیہ کے مگر کہنے پر نیلم غور سے ہانیہ کو دیکھنے لگی۔۔

دیکھو نیلم تم میری بہن ہو میری دوست ہو اسی لئے تم سے کہو گی کہ فلحال کیلئے تم اپنے جزبات کو سمجھو۔۔

ہانیہ کا موبائل پر کسی کی کال آرہی تھی مگر اسنے پھر اگنور کیا۔۔

کسی کو پسند کرنا ایک الگ بات ہے اور کسی کو دل میں اہم مقام دینا الگ بات ہے۔۔

لیکن بھابھی میں ہادی سے بچپن سے محبت کرتی ہوں۔۔

نیلم نے ہانیہ کا ہاتھ تھام کر کہا۔۔

چندا میں نے کب منع کیا ہے مگر میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ تم پہلے اپنے آپ سے سوال کرو کیا تم ہادی کے ساتھ لائف اسپینڈ کرنا چاہتی ہو 

اگر ہاں تو میں گھر والوں سے اپنے طور پر بات کر سکتی ہوں۔۔

بھابھی میں سچ میں ان سے محبت کرتی ہوں 

نیلم کو سمجھ میں نہیں آیا کہ ہانیہ اسے کیا سمجھانا چاہ رہی ہے۔۔

ٹھیک ہے تو میں دادو اور مما سے بات کروگی۔۔

ہانیہ نے نیلم کو جواب دیا تو نیلم چونک گئی۔۔

بھابھی کیا آپ کو اچھا نہیں لگا کہ میں ہادی سے محبت کرتی ہوں۔۔

نیلم کی بات ہانیہ سمجھ چکی تھی کہ اسکے دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔۔

موبائل مسلسل رنگ کر رہا تھا مگر ہانیہ کا نیلم سے بات کرنا زیادہ ضروری تھا۔۔

نیلم چندا اچھے یا برے کی بات نہیں ہے اگر تم ہادی کو دل سے چاہتی ہو تو اس محبت کو حلال کرو کسی غیر محرم کو دل میں اتنا بڑا مقام دینا غلط ہے۔۔

مگر ہمیں یہ بھی تو جاننے کی ضرورت ہے کہ ہادی کیا چاہتے ہیں۔۔

نیلم کا اترا چہرا دیکھا تو ہانیہ نے اسکا چہرا تھام کے کہا 

دیکھو میری جان کسی سے محبت کرنا بری بات نہیں ہے مگر یکطرفہ محبت تکلیف دیتی ہے ۔۔

دل میں اہم مقام ہمارے شوہر کیلئے ہوتا ہے تو ہمیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس مقام پر کسی اور کو نہ لائیں۔۔

میں گھر والوں سے بات کروں گی تمہارے اور ہادی کے بارے میں بغیر انہیں تمہاری دلی کیفیت بتائے 

شاید میں جو تمہیں سمجھانا چاہ رہی ہوں وہ ٹھیک سے سمجھا نہیں پارہی مگر اس بارے میں سوچنا اور فلحال کیلئے اپنی فیلینگس اپنے تک ہی رکھنا ٹھیک ہے چندا۔۔

ہانیہ کیا کہنا چاہتی تھی اب نیلم سمجھ چکی تھی تو اسکی بات سن کے نیلم نے ہانیہ کو گلے لگا لیا ۔۔

تھینک ہو بھابھی آپ دنیا کی سب سے اچھی بھابھی ہو۔۔

نیلم کو مسکراتا دیکھ ہانیہ بھی مسکرادی 

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

سیل فون بج بج کے اب خاموش ہوگیا تھا نیلم اب اپنے کمرے میں چلی گئی تھی تو ہانیہ حور کے ساتھ مصروف ہوگئی۔۔۔

ہانیہ حور کو فروٹ جوس پلا رہی تھی تبھی اسنے کسی کی سخت آواز سنی۔۔

تم اتنی مصروف ہو کہ تمہیں میری کال ریسیو کرنے تک کی فرصت نہیں ہے۔۔

وجاہت کی غصے سے بھری آواز سن کے ہانیہ نے مڑ کر دیکھا تو دروازے پر کھڑا وجاہت اسے ہی غصے سے دیکھ رہا تھا۔۔

بلیک پینٹ اور بلیک ہی کوٹ سے ساتھ گرے شرٹ پہنے وہ ہمیشہ کی طرح ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔

وہ پہلے نیلم یہاں بیٹھی تھی پھر حور کے ساتھ مصروف ہوگئی میرا دیہان ہی نہیں گیا سیل فون کی طرف۔۔

وجاہت جو اسے پکچرز اور میسجز بھیج کر اسکے جواب کا انتظار کر رہا تھا مگر کافی دیر بعد جب کوئی جواب نہ آیا تو وجاہت ہانیہ کو کال کرنے لگا

مگر ہانیہ نے کال بھی ریسیو نہیں کی تو وجاہت کا پارا ہائی ہوگیا۔۔

وہ خود دیکھنا چاہتا تھا کہ ایسی کونسی مصروفیت ہے جو اسے کال ریسیو بھی نہیں کرنے دے رہی۔۔

تو نیلم کے سامنے تم کال ریسیو نہیں کر سکتی کیا۔۔

وجاہت نے لہجے کو سخت رکھ کے کہا۔۔

میں اس سے ضروری بات کر رہی تھی۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو سمجھانا چاہا۔۔

کیا مجھ سے بھی زیادہ ضروری بات تھی۔۔

وجاہت نے اب ہانیہ کا بازو پکڑ کے کہا۔۔

آپ غصہ کیوں کر رہے ہیں ایسا بھی کیا ہوگیا۔۔۔

ہانیہ کو وجاہت کا اتنی سی بات پر غصہ کرنا سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔

میں نے کل بھی کہا تھا تمہیں کہ جب مجھے تم سے بات کرنی ہوا کرے تو مجھ سے بات کیا کرو لیکن تم تو بس مجھے غصہ ہی دلاتی ہو۔۔

کیوں کرو آپ سے بات بولیں اکیلے میں آپ کو مجھ سے باتیں کرنی ہیں جب کے سب گھر والوں کے سامنے میرا نام بھی نہیں لیتے۔۔

کھانا زبردستی مجھے کھلاتے ہیں مگر گھر والوں کے سامنے میرے ساتھ بیٹھنا تک پسند نہیں کرتے۔۔

ہانیہ کو جب وجاہت کے غصے کی سمجھ نہ آئی تو وہ خود بھی بولنے لگی۔۔

یہ وہ صبح سے سوچ رہی تھی اسے وجاہت کا دھوپ چھاؤں والا رویہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔

تو تم کیا چاہتی ہو گھر والوں کے سامنے تمہیں اہمیت دوں۔۔

وجاہت کی اس بات پر ہانیہ کو بہت تپ چڑھی۔۔

تو غلط کیا ہے اس میں اکیلے میں آپ میرے اتنے قریب آتے ہیں اور سب کے سامنے ایک نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے 

ہانیہ کو غصہ کرتے دیکھ وجاہت نے خود کو تھوڑا کنٹرول کرنا چاہا۔۔

دیکھو مجھے تھوڑا وقت لگ رہا ہے سب کے سامنے اس سچائی کو ماننے میں 

مجھے تھوڑی جھجھک محسوس ہورہی ہے بس ۔۔

جھجھک ۔۔ کیسی جھجھک بیوی ہوں میں آپ کی اب جب مان رہے ہو تو چھپا کیوں رہے ہو ۔۔

مسٹر وجاہت عالم کہیں آپ مجھے محض ٹائم پاس تو نہیں سمجھ رہے۔۔

ہانیہ کس بات کا کیا مطلب لے رہی تھی وجاہت خود حیران تھا

تم غلط سمجھ رہی ہو ہانیہ۔۔

میں غلط سمجھ رہی ہوں کیسے۔۔

کل آپ نے سب کے سامنے مجھے اپنے ساتھ پیرس لے جانے سے منع کیا کہا کہ میری ذمیداری نہیں اٹھا سکتے اور پھر رات پھر مجھے اپنے ساتھ رکھا 

کیا تھا وہ سب چاہ کیا رہے رہیں آپ ۔۔

میں تمہیں چاہ رہا ہوں بس تم نے مجھ سے بات نہیں کی تو غصہ آگیا تھا 

خیر چھوڑو۔۔

ہانیہ کو ہر بات غلط طریقے سے لیتے ہوئے دیکھا وجاہت نے تو بات ہی ختم کرنے کا سوچا۔۔

مجھے آپ کی کچھ سمجھ نہیں آرہی کبھی آپ غصہ کرتے ہیں تو کبھی اتنا پیار 

تنہائی میں اتنی اہمیت دیتے ہیں اور سب کے سامنے بے مول کر دیتے ہیں ۔۔

کیوں ۔۔؟؟

ہانیہ آنکھوں میں نمی لئے بولنے لگی

دیکھو میں بس یہ چاہتا ہوں کہ پہلے ہم ایک دوسرے کو سمجھیں دل سے اس رشتے کو قبول کریں ایک دوسرے کو جانے اسی لئے تم میرے ساتھ پیرس جاؤگی۔۔

جن حالات میں ہماری شادی ہوئی میں بلکل راضی نہیں تھا مگر حور کیلئے کی 

مجھے نہیں آتا سب کے سامنے اپنی فیلینگ کا اظہار کرنا سب کے سامنے غصہ کر سکتا ہوں مگر پیار کا اظہار نہیں کرسکتا 

میرے لئے یہ سیچیویشن بہت اوکورڈ ہورہی ہے۔۔

مگر میرا یقین کرو دل یہ اس رشتے کو اہمیت دینا چاہتا ہوں میں بس تھوڑا وقت دے دو مجھے۔۔

ہانیہ اور وجاہت ایک دوسرے کے قریب تھے بہت وجاہت نے اپنا سر اسکی پیشانی سے ٹکرا دیا وہ اب ہانیہ وجاہت کی باتوں کو سن کے تھوڑی پر سکون ہوگئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اپنے کیبن میں کام کرتے ہوئے وجاہت کے دماغ میں ہانیہ کے کہے گئے الفاظ گونجے جو اسنے کچھ گھنٹے پہلے کہے تھے۔۔

سوچنے پر اسے یہ احساس ہورہا تھا کہ ہانیہ غلط نہیں تھی نہ ہی اس کے کوئی اندیشے غلط تھے

غلطی پر وہ خود تھا اگر وہ اسے اپنے دل میں مقام دے چکا تھا تو اسے چاہیے تھا کہ سب کے سامنے وہ اس رشتے کو قبول کرے۔۔

کب تک وہ اس سے اس طرح ملے گا 

آج صبح بھی گھر والے کیا سوچیں گے اس ڈر سے وہ سب کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ اسے لان سے اس کے کمرے میں چھوڑ آیا تھا ۔۔

ٹھیک ہے میں نے غلطی کی ہے تو اسے سدھاروں گا بھی میں ہی۔۔

اخر کب تک میں اپنی ہی بیوی کو خود سے دور رکھو پیرس جب جائیں گے تب جائیں گے اس سے پہلے ہی میں سب کو یہ کہہ دونگا کہ میں ہانیہ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔۔

وجاہت نے خود سے کہہ تو دیا مگر وہ یہ سب کرے گا کیسے ۔۔

گھر کے پورچ میں گاڑی میں بیٹھے وجاہت نے سوچا 

ایک دم سے نہ سہی مگر تھوڑا تھوڑا کر کے تو میں سب کو یہ یقین دلا ہی دونگا۔۔

افف۔۔ میں اپنی ہی بیوی کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے اتنے جتن کررہا ہوں۔۔

گاڑی کا اسٹیئرنگ وہیل تھامے وجاہت اکتایا ہوا لگ رہا تھا۔۔

چلو خیر ہے یہ رائتہ بھی تو میں نے ہی پھیلایا ہے صاف بھی مجھے ہی کرنا پڑے گا۔۔

یہ میں کیا بول رہا ہوں رائتہ صفائی۔۔ یا اللّٰہ مجھے ہمت دینا۔۔

وجاہت خود ہی بول کر اپنے ہی الفاظوں پر حیران ہو رہا تھا۔۔

گاڑی سے اتر کر وہ گھر کے اندر داخل ہوا گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔۔

سب اپنے اپنے کمروں میں ہونگے وجاہت تھوڑا شکر ادا کرتا سیدھے اپنے کمرے میں گیا ۔۔۔

8 بجنے والے تھے شام میں جب وہ گھر آیا اور گیا کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا ۔۔

اور اب اسے آنے میں کافی دیر ہوگئی تھی کھانے کا وقت ہورہا تھا تو اس نے کپڑے لئے اور واشروم میں چلا گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

دادو مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔ بولو کیا۔۔؟؟

ہانیہ نے نیلم اور ہادی کے بارے میں بات کرنے کیلئے سوچا 

گھر میں سب سے قریب وہ دادو سے ہی تھی ان سے وہ اپنے دل کی ہر بات بہت آرام سے کرلیا کرتی تھی۔۔

بولو میری جان پوچھنے کب سے لگی تم۔۔

دادو کے پیار سے بولنے پر ہانیہ بولنے ہی لگی تھی کہ ہادی دھڑام سے کمرے میں آگیا۔۔

لو جی آپ دونوں یہاں ہو ۔۔

ہادی جوش سے بولا۔۔

نہیں ہم مارس پر ویکیشن کیلئے آئے ہیں تم نے ہمیں ڈھونڈا کیسے۔۔

ہانیہ نے فوراً ہی جواب دیا۔۔

ہادی اور دادو دونوں ہانیہ کو دیکھ رہے تھے کیونکہ ہانیہ کبھی کسی کو فٹ سے جواب نہیں دیتی تھی۔۔

دونوں کی نظر خود پر دیکھ کے ہانیہ سٹپٹا گئی۔۔

سوری آپ لوگوں کو میرا یوں بولنا برا لگا کیا۔۔

ہانیہ روہانسے لہجے میں بولی۔۔

ہادی کا تو قہقہہ ہی نکل گیا۔۔

لو جی ہم یہاں حیران ہیں کہ ہانی میڈم بھی لوگوں کو چت کرنا جانتی ہیں اور آپ ہیں کہ ڈر گئی۔۔

ہادی کی بات پر دادو بھی مسکرا دیں۔۔

بیٹا ہمیں کیوں برا لگے گا بلکہ اچھا لگا ۔۔

دھیرے دھیرے ہی سہی تم اپنے خول سے باہر آرہی ہو زندگی کی طرف اور یہ تبدیلی بہت بھلی لگ رہیں ہے ہم سب کو۔۔

دادو نے پیار سے ہانیہ کے سر پر ہاتھ پھیر کے کہا۔۔

ہاں جی اور لگتا ہے یہ تبدیلی میری وجہ سے آرہی ہے۔۔

ہادی فرضی کالر اٹھا کے بولا تو ہانیہ بس مسکرا دی کیونکہ وہ جانتی تھی یہ تبدیلی تو کسی اور کی وجہ سے تھی۔۔

اچھا ہانی بیٹا بولو تم کچھ بول رہی تھی۔۔

کچھ نہیں دادو ہم بعد میں بات کریں گے۔۔

ہانیہ نے دادو کو ٹال دیا ہادی کے سامنے فلحال وہ بات نہیں کر سکتی تھی۔۔

چلو پھر باہر چلیں سب مام نے بلایا ہے ڈنر کیلئے۔۔

ہادی یہ بول کے باہر چل دیا ہانیہ دادو کو لئے ڈائننگ ہال کی طرف بڑھ گئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

گرے ٹی شرٹ اور بلیک ٹراؤزر پہنے وجاہت بہت لائٹ فیل کر رہا تھا۔۔

ڈنر کا ٹائم ہوگیا تھا تو وہ نیچے چل دیا 

ڈائیننگ ٹیبل پر صرف عالیہ بیگم اور شان صاحب ہی بیٹھے تھے وجاہت نے ان دونوں کو سلام کیا اور آج بھی وہ عالیہ بیگم کے برابر میں جاکر بیٹھ گیا تاکہ ہانیہ آج بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھے۔۔

خیریت بیٹا جی بہت پیار نہیں آرہا آپ کو اپنی مام پر ۔۔

شان صاحب شرارتی انداز میں بولے۔۔

ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ ڈیڈ۔۔

وجاہت حیرانی سے شان صاحب کو دیکھنے لگا۔۔

کچھ نہیں تم کبھی اپنی مام کے ساتھ بیٹھتے نہیں تھے کیونکہ کوئی تمہیں ممیز بوائے نہ کہہ دے۔۔

شان صاحب ہنسے ہوئے بولنے لگے تو وجاہت بھی مسکرا دیا ۔۔

کیا ڈیڈ آپ بھی نہ کچھ بھی ۔۔

وجاہت کو اتنے عرصے بعد مسکراتا ہوا سب دیکھ رہے تھے۔۔

ہانیہ بھی دادو کو لے کر آئی تو وجاہت کو مسکراتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔

بھوری آنکھیوں میں الگ ہی چمک تھی جو سب نے محسوس کی تھی۔۔

وہ خوبصورت تھا مگر ہنستے ہوئے وہ کسی کا بھی دل بے ایمان کر سکتا تھا ۔۔

ہانیہ نے بھی اس وقت اپنی ایک بیٹ مس کی تھی 

کتنی مسحور کردینے والے مسکراہٹ تھی اس شخص کی جو مسلسل اپنے ڈیڈ سے بات کرتے ہوئے اب قہقہہ لگا رہا تھا۔۔

ہادی اور نیلم بھی ڈائیننگ ہال آگئے تھے ان دونوں کے آنے سے پہلے ہی ہانیہ وجاہت کے برابر والی چئیر پر بیٹھ گئی تھی۔۔

سب کے آنے کے بعد سب نے کھانا شروع کیا تو وجاہت نے اپنی پلیٹ میں کھانا ڈالنے سے پہلے ہانیہ کو سرو کیا اور پھر اپنی پلیٹ میں ڈالنے لگا۔۔

سبھی گھر والوں نے یہ تبدیلی دیکھی مگر کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔۔

آج کھانا سبھی نے بہت خوشگوار ماحول میں کھایا کیونکہ آج وجاہت بھی کافی خوش دکھائی دے رہا تھا اور سب سے بڑھ چڑھ کے بات کر رہا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہال میں بیٹھے سب ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے موضوع حور میڈم تھی 

سبھی اسکی بڑھتی ہوئی شرارتوں کے بارے میں بتا رہے تھے 

حور سب کو ہنستا دیکھ خود بھی تالی بجا بجا کر سب کا دل لبھا رہی تھی ۔۔

ہانیہ نیلم سے کوئی بات کر رہی تھی اور حور اسے بلا رہی تھی ائے ائے کر کے مگر ہانیہ نے اس پر توجہ نہیں دی تو حور نے اسے مما کہہ کر بلایا۔۔

اب جب اس نے بولنا شروع کیا تو بولتی ہی گئی۔۔

مام مام۔۔ما 

مام۔۔ما 

ماما حور کی میٹھی سی آواز سن  کے سبھی خاموشی سے اسے سننے لگے 

حور نو ماہ کی ہونے والی تھی وہ یہ لفظ بھی بہت لیٹ بول رہی تھی عموماً بچے مما بابا 6 یا 7 ماہ میں بول دیتے ہیں مگر حور ایک تو پری میچیور بچی تھی اوپر سے بچپن میں بہت بیمار رہتی تھی 

تو ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یہ بولنا اور چلنا شاید لیٹ شروع کرے مگر 9 ماہ میں ہی اس نے بولا اور بولا بھی مما وہ بھی ہانیہ کو۔۔

ماما بول کے وہ ہانیہ سے لپٹ گئی ہانیہ اور وجاہت کو تو یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ انکی بچی نے بولنا شروع کیا ۔۔

وجاہت صوفے سے اتر کر نیچے گھٹنوں پر بیٹھا اور ہانیہ کی گود سے حور کو لیا۔۔

اور اسے ڈھیروں پیار کیا سبھی کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔۔

کسی کو بھی اتنی جلدی امید نہیں تھی کہ وہ بولے گی گھٹنے گھٹنے چلنا بھی اسنے 7 ماہ میں سیکھا تھا جبکہ بچے تو 5 6 ماہ میں گھٹنے چل جاتے ہیں۔۔

وجاہت نے حور کو پیار کیا اور ہانیہ کو دیکھا تو اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔

کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ کیوں رورہی تھی۔۔

شاید وہ اس خوشی سے محروم تھی جو اب اسے مل رہی تھی۔۔

کسی اور کی اولاد نے اسے ماں کہا اسے ماں کا درجہ دیا۔۔

پہلے وجاہت نے اسے اپنایا پھر اب حور نے اسے ماں کہا۔۔

ہانیہ کا دل کر رہا تھا کہ وہ ابھی سجدہ ریز ہوجائے شکر ادا کرے اپنے رب کا جس نے اگر اسے دکھ دئیے تھے تو اب اسکی سوچ سے بھی بڑھ کر خوشیاں دے رہا تھا ۔۔

جس کی شاید ہی وہ قابل تھی۔۔

سب اپنی اپنی خوشی بانٹ رہے تھے اور ہانیہ تو مانو کسی گہری سوچ میں تھی وجاہت نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا تو اسکا سکتا ٹوٹا۔۔

رو کیوں رہی ہو ۔۔

وجاہت ہانیہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔۔

وہ خوشی میں یہ بات بھول ہی گیا کہ سب گھر والے وہیں موجود تھے۔۔

اور ان تینوں کو ہی دیکھ رہے تھے۔۔

حور وجاہت کی دیکھا دیکھی ہانیہ کے چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھی جیسے وہ بھی آنسو صاف کرنا چاہتی ہو جو کہ وجاہت صافض کر چکا تھا۔۔

کچھ بھی نہیں بس ایسے ہی ۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو اپنے سامنے گھٹنوں پر بیٹھا پایا تو سٹپٹا گئی۔۔

ہانیہ کو دیکھ کے وجاہت کو بھی اپنا احساس ہوا اور وہ وہاں سے اٹھ کر اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔۔

دادو نے اپنے گھر والوں کو اتنا خوش دیکھ کے اپنے انسو صاف کئے اور عالیہ بیگم سے کہا کہ سب کا منہ میٹھا کروائے۔۔

آج واقعی میں بہت عرصے بعد اس گھر میں خوشیاں آئی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ حور کو گود میں لئے بیٹھی تھی اور اسے بار بار کہہ رہی تھی کہ بولو مما۔۔

اور حور بھی اسے دیکھ کے بولے جارہی تھی۔۔

تھوڑی دیر پہلے اسنے اپنی امی بابا فاخر سب کو کال کرکے بتایا تھا کہ حور نے سب سے پہلا لفظ بولا اور اسے ماما بولا۔۔

سب لوگ سن کے بہت خوش ہوئے۔۔

رات کا ایک بج رہا تھا مگر انہیں دیکھ کہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ماں بیٹی کا سونے کا کوئی ارادہ ہے۔۔

دروازہ کسی نے ناک کیا تو ہانیہ نے اسے اندر آنے کا کہا۔۔

آنے والا وجاہت تھا جو شاید پہلی بار ناک کر کے آیا تھا۔۔

آپ کب سے دروازہ ناک کرنے لگے۔۔

ہانیہ نے حیرت سے وجاہت سے سوال کیا۔۔

میں نے سوچا کہ ماں بیٹی کو ڈسٹرب نہ کردوں اسی لئے ناک کرنا بہتر سمجھا۔۔

وجاہت کے انداز پر ہانیہ مسکرا دی ۔۔

وجاہت چلتا ہوا بیڈ پر آکر ایک کروٹ لیٹ گیا سر ہاتھوں پر ٹکائے نظریں ہانیہ کے چہرے پر مرکوز کئے۔۔

ایک بات پوچھوں۔۔

وجاہت نے کچھ سوچ کے کہا۔۔

ہمم۔۔ 

تم باہر سکتے میں کیوں بیٹھی تھی ۔۔

وجاہت نے اسکے ہمم کہنے پر سوال کیا۔۔

پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا پھر مجھے اس بات کا بھی ڈر تھا کہ آپ کو برا نہ لگے 

حور آپکی بیٹی ہے پر اس نے مجھے ماما کہا تو مجھے لگا آپ برا مانیں گے۔۔

ہانیہ تھوڑا ڈرتے ہوئے بولی اسے وجاہت کا رویہ یاد آنے لگا جب وہ آئرلینڈ سے واپس آیا تھا اور حور کا اسکے پاس نہ جانا اسے بہت برا لگا تھا۔۔

پھر وجاہت نے حور کا سارا غصہ ہانیہ پر نکالا تھا۔۔

ہانیہ کا ڈرا ہوا لہجہ سن کے وجاہت اسکی سوچ کو پڑھ چکا تھا۔۔

میں جانتا ہوں تم کیا سوچ رہی ہو مگر میں غلط تھا ۔۔

میں نے جو کیا وہ بھی غلط تھا 

حور جتنی میری بیٹی ہے اتنی ہی تمہاری بھی ہے یا یوں کہو تو غلط نہ ہوگا کہ حور پر مجھ سے زیادہ تمہارا حق ہے۔۔

تم نے ہی اسے سنبھالا اسکا خیال رکھا راتوں کو جاگی نیندیں خراب کی دن رات اس پر صرف کر دئیے۔۔

اور لبوں سے تمہارے اف بھی نہ نکلا۔۔

نور اگر زندہ ہوتی تو یہ سب کبھی نہ کرتی 

ایسے ہی تھوڑی میں نے پہلی ہی نظر میں تمہیں اپنی بیٹی کیلئے چنا۔۔۔

تمہارے اندر میں نے اپنی بیٹی کیلئے محبت دیکھی تھی ایک انجانی تڑپ دیکھی تھی ۔۔

اور ویسے بھی اب تو تمہارا جتنا حق ہماری بیٹی پر ہے اس سے تو کہیں زیادہ حق بیٹی کے باپ پر ہے۔۔

اخری بات وجاہت نے خاصی شرارتی لہجے میں کہی۔۔

ہانیہ جو مبہوت ہوکر وجاہت کی باتیں سن رہی تھی اب اس کے شرارتی انداز پر سرخ ہوگئی۔۔

وجاہت اسے ہی دیکھ رہا تھا ہانیہ کا سرخ ہوتا چہرا دیکھ کے دل کیا کہ چھولے مگر جیسے ہی وجاہت نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔

حور نے وجاہت کا ہاتھ پکڑ لیا وجاہت جو شوخ ہورہا تھا حور کی اس حرکت پر حیرت سے اسے دیکھنے لگا ۔۔

ہانیہ کا وجاہت کی شکل دیکھ کے ایک دم قہقہہ نکل گیا۔۔

وہ ہونقوں کی طرح حور کو دیکھ رہا تھا جو اب وجاہت کو ہاتھ پکڑ کے اس ہاتھ پر ہی بیٹھ گئی تھی ۔۔

ہانیہ کو مسکراتا دیکھ کے وجاہت بھی ہنسنے لگا۔۔

تمہیں پتہ ہے دادو نے جب میرے روم میں کام کروایا تھا تو تمہیں میرے برابر والے روم میں شفت ہونے کا کیوں کہا تھا۔۔

وجاہت نے اب ہانیہ کا ہاتھ تھام کے بولا حور کو کھلونے دے کر وہ اسے اپنے اور ہانیہ کے بیچ سے ہٹا چکا تھا۔۔

ہاں کہا تو تھا مگر آپ اس وقت مجھے دیکھنا تک پسند نہیں کرتے تھے میرا آپ کے برابر والے کمرے میں رہنا کہا برداشت کرتے۔۔

ہانیہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر اسکا ہاتھ تھاما اور اسے دھمکی بھی دی  کہ اگر اس نے دوبارہ ہاتھ چھڑایا تو اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ کے ساتھ ہی باندھ لے گا۔۔

ہانیہ اسکی بات پر حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔

چھوڑو اس بات کو تمہیں پتہ ہے دادو نے وہی کمرہ کیوں چنا تھا تمہارے لئے۔۔

وجاہت نے پھر ہانیہ سے سوال کیا۔۔

نہیں مجھے نہیں معلوم۔۔

آپ بتائیں۔۔

ہانیہ نے معصومیت سے کہا۔۔

اس کمرے میں ایک دروازہ ہے جو کہ میرے کمرے میں آنے کا راستہ ہے۔۔

دادو چاہتی ہیں کہ ہم ساتھ میں رہیں۔۔

تو اب جلد ہی تم میرے کمرے میں شفٹ ہوجاؤ گی اور برابر والے کمرے میں حور کا کمرہ ہوگا۔۔

تاکہ ہم ساتھ میں رہ کر اپنی بیٹی کا بھی خیال رکھیں ۔۔

وجاہت نے بولتے ہوئے ہانیہ کی گود میں سر رکھ لیا۔۔

ہانیہ دل میں سوچنے لگی کہ یہ لاڈ صاحب باتوں باتوں میں کچھ زیادہ ہی قریب نہیں آرہے۔۔

وجاہت بھی اسے یوں تکتا ہوا پاکر دل ہی دل میں ہنسنے لگا وہ جانتا تھا ہانیہ کیا سوچ رہی ہوگی اس کے بارے میں مگر فکر کس کو تھی۔۔

حور نے جب کھلونوں سے کھیلتے ہوئے وجاہت اور ہانیہ کو دیکھا تو کھلونے پھینک کر ہانیہ کے پاس آئی۔۔

اور وجاہت کو اپنے ننھے ہاتھوں  سے ہٹانے لگی ہانیہ کی گود سے۔۔

وجاہت جیسے ہی اٹھا حور خود ماما ماما کہہ کر کر ہانیہ کی گود میں لیٹ گئی۔۔

مجھے لگتا ہے مجھے پیرس اپنی گڑیا کو یہی چھوڑ کر جانا پڑے گا اگر یہ ایسے ہی مجھے اپنی ماما سے دور کرنے گی تو۔۔

وجاہت شرارت سے کہتا ہوا حور کو پیار کرکے جانے لگا مگر پھر واپس آیا اور پیار سے ہانیہ کا گال چوم کر چلا گیا۔۔

جبکہ ہانیہ اپنے گال کو چھوکر وجاہت کو جاتا ہوا دیکھتی رہ گئی۔۔

کتنا پیارا شخص ہے یہ جو اپنی ہر ادا سے مجھے یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کے دل میں میری کیا اہمیت ہے۔۔

ہانیہ سوچ کر مسکرادی۔۔

صبح صبح ہانیہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اپنے بال بنا رہی تھی حور عالیہ بیگم کے پاس تھی 

آئینے میں خود کو دیکھ کے ہی ہانیہ مسکرا رہی تھی گالوں پر ابھی بھی اسے وجاہت کا لمس محسوس ہورہا تھا۔۔

ایسے خوبصورت لمحوں کے بارے میں تو کبھی ہانیہ نے سوچا ہی نہیں تھا ۔۔

یہ رشتہ تو بس ایک مجبوری کے تحت ہی جڑا تھا۔۔

وجاہت کمرے میں آیا تو دیکھا حور کمرے میں موجود نہیں تھی اور ہانیہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی 

نظریں نیچی کئے اسکے چہرے پر بہت خوبصورت مسکان تھی۔۔

وجاہت نے دروازہ لاک کیا اور دبے قدموں سے آگے بڑھ کر پیچھے سے ہانیہ کو اپنے حصار میں لے لیا۔۔

اس اچانک عمل پر ہانیہ ڈر سی گئی وہ چلا جاتی کہ وجاہت نے اسکے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ لیا۔۔

میں ہوں مس بے وقوف ۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے کان میں کہا تو ہانیہ آئینے میں وجاہت کا عکس دیکھ کے مسکرا دی۔۔

مس بے وقوف نہیں مسز اکڑو۔۔

ہانیہ نے آئینے میں وجاہت کو دیکھ کے کہا۔۔

وہ کیسے بھلا۔۔ میں اکڑو ہوں کیا 

وجاہت نے بھی ہانیہ کو آئینے میں ہی دیکھ کے کہا۔۔

جی بلکل آپ بہت بڑے اکڑو ہیں یقین نہ آئے تو کسی سے بھی پوچھ لیجیے۔۔

ہانیہ بول رہی تھی کہ وجاہت نے اسکے کان کی لو چوم لی جس میں اسنے نازک اور خوبصورت سی بالیاں پہنی ہوئی تھی۔۔

مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے تم نے کہہ دیا کافی ہے۔۔

وجاہت نے اسکے بالوں کی خوشبو اپنے اندر اتار کے کہا۔۔

اچھا چلیں ہٹیں اب ورنہ کوئی نہ کوئی آجائے گا ہمیں اوپر بلانے۔۔

ہانیہ نے وجاہت کی گرفت سے نکلنا چاہا تو وجاہت نے اپنی گرفت اور مضبوط کردی۔۔

مجھے نہیں مسز اکڑو آپ کو بلانے آئے گا کوئی اور سوچو کہ کوئی اوپر آیا اور ہمیں اس رومینٹک انداز میں دیکھ لیا تو کتنا مزہ آئے گا نہ۔۔

وجاہت کے مزاق پر ہانیہ گھبرا گئی۔۔

ہانیہ کا گھبرایا ہوا چہرا دیکھ کے وجاہت کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔

ڈرپوک ہو یار تم بہت۔۔

وجاہت نے ہنستے ہوئے کہا۔۔

بہت برے ہیں آپ۔۔

ہانیہ نے روٹھنے والے لہجے میں کہا۔۔

اگر تم نے مجھے برا کہا تو اچھا نہیں ہوگا ۔۔ سوچ لو۔۔

وجاہت نے مصنوعی غصے سے کہا۔۔

کیا کرلیں گے آپ۔۔

ہانیہ نے اب تپے ہوئے انداز میں کہا۔۔

وجاہت بغیر کچھ بولے ہانیہ کو گدگدی(tickle) کرنے لگا۔۔

وجاہت کے گدگدانے پر ہانیہ ایک دم اچھل گئی۔۔

نہیں نہیں نہیں۔۔ پلیز پلیز یہ نہ کرو۔۔

ہانیہ وجاہت سے التجا کرنے لگی۔۔

جبکہ ہلکا سا گدگدانے پر ہانیہ کا ری ایکشن دیکھ کے وجاہت کی حیرت سے آنکھیں پھٹ گئیں۔۔

تمہیں گدگدی ہوتی ہے۔۔؟؟

وجاہت نے اسی حیرت سے سوال کیا۔۔

بہت زیادہ۔۔ ہانیہ نے وجاہت سے اور فاصلہ قائم کرکے کہا۔۔

گہرا سانس لے کر وجاہت نے دھیمی آواز میں خود سے کہا۔۔

وجاہت عالم تیرا کیا ہوگا۔۔ رب خیر ہی کرے۔۔

وجاہت کو بڑبڑاتا دیکھ ہانیہ اسے گھورنے لگی جیسے پوچھنا چاہ رہی ہو کہ وہ کیا بول رہا ہے۔۔

کچھ بولا آپنے مجھے۔۔

کچھ نہیں میں کیا بولو گا بس اپنے فیوچر کو لے کر پریشان ہورہا ہوں ۔۔۔

ہانیہ کو وجاہت کی بات سمجھ نہیں آئی مگر آگے سے اسنے کوئی سوال نہیں کیا 

کہیں پھر سے گدگدانے نہ لگ جائے ۔۔

ہانیہ فوراً کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ وجاہت ہانیہ کے بارے میں سوچ کر ہنسنے لگا ۔۔

پاگل ہے یہ مسز اکڑو۔۔ ہیں میں اکڑو ہوں۔۔؟؟

خود سے بولتے ہوئے وجاہت خود سے ہی سوال کرنے لگا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ دادو سے نیلم اور ہادی کی بات کرنا چاہتی تھی مگر اسے کل موقع ہی نہ ملا تو سوچا اب جا کر بات کرلو۔۔

ہانیہ جانے ہی لگی تھی کہ اسکے سیل فون پر کسی کی کال آنے لگی۔۔

ہانیہ نے دیکھا تو اسکرین پر وجاہت کا نام جگمگا رہا تھا 

کال ریسیو کرتے وقت ہانیہ کے چہرے پر خوبصورت مسکان تھی۔۔

آپ کو گئے ابھی آدھا گھنٹہ نہیں ہوا اور کال بھی کرلی آپ نے۔۔

ہانیہ نے بغیر وجاہت کو بولنے کا موقع دیئے خود بولنے لگی۔۔

بولنے دوگی مجھے۔۔

وجاہت کی سنجیدہ آواز سن کے ہانیہ بھی خاموش ہو گئی۔۔

جی۔۔

میں نے یہ بتانے کیلئے کال کی تھی کہ پیرس کا ویزا اپروو ہوگیا ہے کل شام کی فلائٹ ہے 

تو 2 بجے تک ریڈی رہنا حور کیلئے شاپنگ کرلیں گے اور تمہارے لئے بھی وہاں کافی ٹھنڈ ہے تو اسی حساب سے کپڑے لینگے۔۔

وجاہت بول کے خاموش ہوگیا مگر ہانیہ آگے سے کچھ نہ بولی۔۔

کچھ بولوگی یہ میں کال کاٹ دوں۔۔

وجاہت کی آواز پر ہانیہ صرف اتنا بولی 

میں کیا کہوں آپ نے جو بتانا تھا بتا دیا میں نے سن لیا ٹھیک ہے 2 بجے تک ریڈی رہو گی حور کو بھی ریڈی رکھو گی۔۔

ہانیہ کے اداس لہجے سے وجاہت کو اپنے لہجے کا احساس ہوا ۔۔

وہ ایسا ہی تھا کام کے وقت اس میں خود بہ خود سختی آجاتی تھی 

وہ اپنے کام کے معاملے میں بہت سخت تھا۔۔

ایک بات بولو۔۔

ہانیہ نے وجاہت سے کہا۔۔

ہاں بولو۔۔

کیا ہم نیلم کو لے لیں اپنے ساتھ اسکی چھٹیاں چل رہی ہے تو وہ پھر اکیلے بور ہوجائے گی 

ٹھیک ہے اسے بھی بول دو ریڈی ہونے کیلئے۔۔

ہانیہ کی بات سن کے وجاہت کے چہرے پر فخر کی لہر تھی 

اپنی پسند پر اسے فخر تھا جو کہ اب اسکے دل پر راج کر رہی تھی 

اسکی یہی ادا ہی تو وجاہت کو بھاتی تھی کہ وہ خود سے پہلے دوسروں کے بارے میں سوچتی تھی۔۔

ہانیہ کال کاٹ چکی تھی مگر وجاہت موبائل کان سے ہی لگایا ہوا تھا۔۔

جب اسے احساس ہوا کہ کال کب کی کٹ چکی ہے تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔

اگر آفس میں کوئی وجاہت عالم کو ہنستا ہوا دیکھ لیتا تو وہ خود کی نظروں پر یقین ہی نہ کرتا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت نے 2 بجے گھر سے ہانیہ اور نیلم کو پک کرلیا ۔۔

شاپنگ مال میں انہوں نے سب سے پہلے حور کیلئے شاپنگ کی وجاہت اور ہانیہ کو جو بھی حور کیلئے پسند آیا وہ لیتے ہی گئے۔۔

حور وجاہت کی گود میں بری طرح اچھل رہی تھی

اشارہ صاف تھا کہ اسے نیچے چھوڑ دیا جائے۔۔

مگر وجاہت اسے بہت مشکل سے تھامے ہوئے تھا۔۔

مشہور برانڈ کے آوٹ لیٹ پر جب وہ لوگ داخل ہوئے تو ہانیہ صرف نیلم کیلئے ہی کپڑے دیکھ رہی تھی 

وجاہت نے جب اسے ٹوکا تو اس نے سہولت سے بہانہ بنا کے انکار کر دیا۔۔

وجاہت سمجھ گیا کہ آج بھی ہانیہ اسکے پیسوں سے کچھ نہیں لے گی۔۔

غصہ اس وقت وجاہت کو بہت آیا مگر وہ خاموش رہا کیونکہ اس وقت نیلم اور حور ساتھ میں تھے۔۔

مگر غصہ تو نکالنا تھا پھر بھی۔۔

پھر کیا ہوا جو بھی چیز وجاہت کو سمجھ آئی وہ لیتا ہی گیا

اس میں سینڈلز ڈریسز اور جیولری کاسمیٹکس سب شامل تھا ۔۔

نیلم کی تو ہنسی ہی نہیں بند ہورہی تھی جبکہ ہانیہ کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔۔

مانا وجاہت اسے پسند کرنے لگا تھا مگر وہ کانٹریکٹ وہ تو ابھی تک صحیح سلامت تھا ۔۔

اور اس کے مطابق آج بھی ہانیہ کو وجاہت پر یا اسکی کسی بھی چیز پر کوئی حق نہیں تھا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کیلئے جو اچھا لگا وہ سب لیا پھر اپنے اور باقی گھر والوں کیلئے بھی اسنے کچھ نہ کچھ ضرور لیا۔۔

اب وہ لوگ ریسٹورنٹ میں بیٹھے لنچ کر رہے تھے۔۔

جب وجاہت ہانیہ حور اور نیلم کو پک کرنے آیا تھا تب اسکا موڈ کافی اچھا تھا۔۔

مگر اب تو چہرے پر صاف صاف نو لفٹ کا بورڈ لگا ہوا تھا 

ایک بار پھر ہانیہ کو وہ پہلے والا وجاہت لگا جو اسے ایک نظر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا۔۔

ہانیہ نے اسٹیک کے چند ہی نوالے زبردستی کھائے کیونکہ کوئی بیر نہ تھا وجاہت اسکے نہ کھانے پر بھی غصہ کر سکتا تھا۔۔

کھانے کے دوران ہی وجاہت نے کسی کو کال کی تھی جس سے اس نے کچھ منٹ بات کی تھوڑی دور جاکر ۔۔

واپسی پر بھی وجاہت ایک دم خاموش ہی تھا 

گھر کے پارکنگ ایریا پہنچ کر وجاہت نے نیلم سے کہا کہ وہ حور کو لے جائے ہانیہ اور میں رات تک آئیں گے۔۔

نیلم بھی فوراً ٹھیک ہے کہہ کر ہانیہ سے حور کو لے چلی گئی۔۔

ملازموں نے گاڑی سے سارا سامان بھی لے لیا اور ایک ملازم نے وجاہت کو ایک پیکٹ پکڑایا جسے لیتے ہی وجاہت نے گاڑی ریورس کر کے ایک بار پھر روڑ پر دوڑا دی۔۔

ہانیہ نے تمام کاروائیاں خاموشی سے دیکھی بولنے کی تو جیسے اس میں ہمت ہی نہیں ہورہی تھی۔۔

نہ جانے وجاہت اسے لے کر کہاں جا رہا تھا۔۔

کافی دیر تک ہانیہ چپ ہی رہی مگر جب اس سے صبر نہ ہوا تو پوچھ ہی لیا۔۔

ہم کہاں جارہے ہیں۔۔

تھوڑا ڈرتے ہوئے ہانیہ نے یہ الفاظ ادا کئے۔۔

دیٹس نن اف یور بزنس۔۔

صاف دو ٹوک لہجے میں کہا گیا۔۔

اس جواب کے بعد ہانیہ نے اور کیا کہنا تھا خاموش رہی 

مسٹر اکڑو تو آج کچھ زیادہ ہی اکڑے ہوئے تھے۔۔

سمندر کنارے وجاہت نے گاڑی روکی تو ہانیہ کو بھی اترنے کا کہا۔۔

اتنا حسین منظر دیکھ کے ہانیہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔۔

وہ کئی بار اپنی فیملی کے ساتھ بیچ جا چکی تھی 

کراچی میں ویسے تو بہت سے بیچز ہیں جس کے الگ الگ ہی پوائنٹس ہیں مگر ہانیہ کی سوچ میں بھی نہیں تھا یہ پوائنٹ 

وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ یہ کونسی جگہ ہے مگر وجاہت تو جیسے کسی بھی بات کرنے کے موڈ میں ہی نہیں تھا۔۔

خیر چھوڑو نام میں کیا رکھا ہے مسٹر اکڑو کا تو موڈ خراب ہی رہتا ہے میں کیوں اپنا موڈ خراب کروں۔۔

ہانیہ دل میں سوچتی جگہ کو دیکھ کے مسکرا دی۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو ایک نظر دیکھا مگر نظر دوبارہ پلٹ نہ سکا۔۔

معمول سے ہٹ کر آج ہانیہ نے کرتی کے بجائے آج لیمن کلر کی شیفون انارکلی فراک پہنی ہوئی تھی جو کہ بلکل سادہ تھی بغیر کسی بھی چیز سے لیس

ہانیہ کی سنہری چمکتی ہوئی رنگت پر لیمن رنگ ایک الگ ہی تازگی بخش رہا تھا ۔۔

اوپر سے وہ ایک جگہ کو آنکھیں پھاڑے لبوں پر گہری مسکراہٹ لئے آس پاس دیکھ رہی تھی ۔۔

بچوں جیسی معصومیت دیکھ کے وجاہت کا غصہ سمندر کی ٹھنڈی ہوا میں کہیں گم ہوگیا۔۔

وہ جانتا تھا ہانیہ کو سمندر اور نیچر بہت پسند ہیں 

اسکے کمرے میں ایک پینٹنگ تھی جس میں سمندر کا کنارہ بنا ہوا تھا اور سورج گروب ہورہا تھا ۔۔

وہ پینٹنگ ہانیہ خود ہی لے کر آئی تھی شادی کے بعد۔۔

ہانیہ اب آنکھیں بند کئے ٹھنڈی ہواؤں کو محسوس کر رہی تھی دوسری طرف وجاہت بس اپنی مسز اکڑو کو دیکھنے کا شغل فرما رہے تھے۔۔

ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ وجاہت نے ہانیہ کا ہاتھ تھام کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔۔

وجاہت کے چہرے پر مسکان دیکھ ہانیہ نے بھی سکون کا سانس لیا۔۔

شکر ہے اپکا موڈ تو اچھا ہوا مجھے لگا آج تو میں گئی کام سے۔۔

ہانیہ نے وجاہت کے ہاتھ پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھ کے کہا۔۔

تم کام ہی ایسے کرتی ہو کہ بندہ غصہ نہ کرے تو کیا کرے۔۔

وجاہت اب دھیمے لہجے میں بولا۔۔

میں نے کیا کیا بھلا۔۔

تم نے مجھے روکا تھا شاپنگ سینٹر میں تمہارے لئے کچھ بھی لینے سے۔۔

تو آپ کونسا رک گئے بلکہ ڈبل ٹرپل چیزیں ہی لے لی ہوگیں۔۔

وجاہت کا لائٹ موڈ دیکھ کے ہانیہ نے اپنی بھڑاس نکالنی چاہی۔۔

ایک بات بتائیں آپ نے کچھ کپڑے مجھے ایسے لے کر دئیے ہیں جو کہ مجھے یقین ہے کہ پہننے تو دینگے نہیں 

ہانیہ نے وجاہت کو گھورتے ہوئے کہا۔۔

کونسے کپڑے۔۔ میں نے تو تمہیں کوئی بھی ایسے کپڑے نہیں دلائے جسے پہننے سے میں منع کرونگا۔۔

وجاہت نے کچھ یاد کرتے ہوئے کہا۔۔

اچھا آپ نے مجھے 4 پنک کلر کے ڈریس دلائے ہیں جہاں تک مجھے یاد ہے پنک کلر اپ کو مجھ پر بلکل نہیں پسند ۔۔

دوسرا آپنے فارمل ڈریسز میں مجھے 3 ساڑھیاں دلائی جبکہ آپنے ہی میرے ساڑھی پہننے پر اتنا غصہ کیا تھا۔۔

اتنا سارا کاسمیٹکس کا سامان لے لیا جبکہ زرا سی ڈارک لپ اسٹک لگا لوں تو آپ فوراً اسے لائٹ کروا دیتے ہو اور دھمکی بھی کیا دیتے ہو کہ۔۔

ہانیہ تیزی سے بولتے بولتے ایک دم خاموش ہوگئی۔۔

کہ۔۔ کیا۔۔ وجاہت نے ہانیہ کا سرخ پڑتا چہرا دیکھ کے اسے چھیڑا۔۔

کے بہت ڈانٹوں گا۔۔

ہانیہ کے جو منہ میں آیا وہ بول گئی۔۔

نہیں نہیں۔۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔۔

بولتے ہوئے وجاہت کے چہرے پر بڑی شریر مسکراہٹ تھی جسے دیکھ ہانیہ یہاں سے فرار ہونے کا سوچنے لگی۔۔

میں نے کیا کہا تھا وہ مجھے یاد ہے ایم شور تمہیں بھی یاد ہی ہوگا ویسے مجھے آج بھی تمہاری لپ اسٹک تھوڑی گہری لگ رہی ہے ۔۔

وجاہت شرارت سے بول ہی رہا تھا کہ ہانیہ نے محسوس کیا وجاہت کی گرفت اسکے ہاتھ پر بہت نرم تھی 

فوراً سے اپنا ہاتھ چھڑا کر وہ بھاگی پانی کی طرف ۔۔

ہانیہ بھاگ کر تھوڑی دور گئی اور دور جاکر اسنے مڑ کر وجاہت کو دیکھا جو وہیں حیرت سے کھڑا تھا دور سے ہی ہانیہ نے اسے منہ چڑایا 

تو وجاہت بھی اسکے پیچھے بھاگا۔۔

ہانیہ کتنا ہی تیز بھاگ لیتی وجاہت کا مقابلہ کیسے کرتی۔۔

آخر کار وجاہت نے اسے پکڑ لی لیا اور بہت خوبصورت چھوٹی سی سزا بھی دی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

نیلم بیٹا کیا پورا مال ہی خرید لیا تم لوگوں نے۔۔

دادو اور عالیہ بیگم ہال میں بیٹھے کسی بات میں مصروف دکھائی دے رہے تھے جبکہ ہادی بھی تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے اکر ہال میں بیٹھا دادو اور عالیہ بیگم کے ساتھ بحث کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔۔

نیلم اسے دیکھ جہاں تھی وہی جم گئی۔۔

مگر جیسے ہی عالیہ بیگم پر اسکی نظر گئی اور پھر ملازموں کے ہاتھوں میں اتنا سامان دیکھ کے وہ پوچھنے لگی۔۔

حور نیلم کی گود میں مچلنے لگی ہادی کو دیکھ کے تو نیلم نے چونک کر حور کو دیکھا پھر اسے نیچے اتار دیا وہ گھٹنے چلتے ہوئے ہادی کی طرف بھاگی۔۔

اس میں آدھے سے بھی کہیں زیادہ سامان ہانی بھابھی کا ہے مما۔۔

نیلم عالیہ بیگم کو بتاتے ہوئے سب کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔۔

وہ بہت تھک گئی تھی سیدھے اپنے کمرے میں جانا چاہتی تھی  مگر ہادی کو دیکھ کے وہ وہیں رک گئی۔۔

ہیں۔۔ کیا واقعی تم سچ کہہ رہی ہو ہانی نے یہ سب لیا۔۔

دادو حیرت سے نیلم سے پوچھنے لگی۔۔

بھابھی نے نہیں برو نے لیا ہے یہ سب سامان بھابھی کیلئے۔۔

نیلم نے ہنستے ہوئے کہا۔۔

یہ انقلاب کیسے آگیا وجی میں۔۔

ہادی نے حور کو گود میں لے کر حیرت سے سوال کیا۔۔

میں اور برو بھابھی کیلئے ایک بہت ہی ایکسپینسو برانڈ کا ڈریس دیکھ رہے تھے۔۔

بھابھی نے وہ لینے سے منع کردیا بس پھر کیا تھا برو کو غصہ آیا پھر جو انہیں اچھا لگا وہ لیتے ہی گئے ساتھ میں میرا اور حور کا بھی بھلا ہوگیا۔۔

نیلم ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے بولی۔۔

جبکہ باقی گھر والے بھی وجاہت کا ہانیہ کی پرواہ کرنا اچھا لگا ۔

ہادی بھی مسکرا ہی رہا تھا بس۔۔  اگر وہ ہانیہ کے بارے میں اتنا نہ سوچ رہا ہوتا تو اس وقت وہ بہت زیادہ چہک رہا ہوتا اور وجاہت کو خوب چھیڑتا۔۔

ویسے امی وجاہت کتنا بدل رہا ہے نہ مسکرانے لگا ہے سب سے خوش ہو کے بات کرنے لگا ہے۔۔

سب سے بڑھ کر اب وہ ہانی سے بات بھی کرتا ہے اسکے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور دیکھو اسکے لئے اتنی ساری شاپنگ کی ساتھ لے کر بھی جارہا ہے پیرس۔۔

امی یہ خواب ہی ہے نہ۔۔

عالیہ بیگم خوشی سے اپنی ساس سے سوال کرنے لگیں۔۔

ماشاءاللہ کہو عالیہ تمہارا بیٹا سدھر رہا ہے۔۔

یہ سب ہانی کی وجہ سے ہی ہورہا ہے میں جانتی تھی کہ شادی کے بعد وہ زندگی کی طرف پھر سے لوٹ آئے گا 

وقت لگے گا جو کہ لگا بھی مگر وہ پھر سے خوش رہنا سیکھ گیا۔۔

ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ امی اور ان سب میں ہانیہ نے بہت صبر سے کام لیا۔۔

عالیہ بیگم دل میں ہانیہ کو دعا دیتی ہوئی بولی ۔

عالیہ نکاح کے بول میں بہت طاقت ہوتی ہے دو لوگ جو ایک دوسرے سے انجان ہوتے ہیں انہیں اپنا بنا دیتی ہے۔۔

دادو نے خوشی سے کہا۔۔

نیلم اور ہادی خاموشی سے بس عالیہ بیگم اور دادو کی بات سن رہے تھے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت ہانیہ کو لئے وہیں بیچ پر ایک کاٹیج نما خوبصورت سے گھر میں لے آیا 

وہاں ٹیرس سے سمندر کا بہت خوبصورت نظارہ دکھائی دے رہا تھا ہانیہ کا دل ہی نہیں چارہا تھا وہاں سے کہیں بھی جانے کا جبکہ وجاہت ٹیرس پر رکھی ہوئی چئیر پر بیٹھا ہانیہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔

یہ کتنی پیاری جگہ ہے نہ۔۔

ہانیہ نے وجاہت سے سوال کیا۔۔

ہمم۔۔ بہت میں جب جب ڈسٹرب ہوتا ہوں یہیں آجاتا ہوں۔۔

یہاں آکر اچھا لگتا ہے۔۔

وجاہت ہانیہ کو نظروں میں لے کر کہنے لگا۔۔

بیٹھو بات کرنی ہے مجھے کچھ ۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو چئیر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔

ہانیہ وجاہت کے سامنے رکھی چئیر پر بیٹھ گئی۔۔

وجاہت نے تھوڑا اگے کو جھک کے ہانیہ کا ہاتھ تھاما اور گہرا سانس لے کر بولنے لگا ۔

مجھے تم پر گلابی رنگ حد سے زیادہ پسند ہے وہ رنگ ویسے بھی کسی کسی پر ہی جچتا ہے تم ان لوگوں میں سے ایک ہو۔۔

مگر تمہیں پہننے سے روکتا ہوں وہ بھی بس باہر پہن کر جانے سے گھر میں کبھی نہیں ٹوکتا۔۔

سوچو مجھے اتنا پسند ہے تو اور لوگوں کو بھی پسند آسکتا ہے 

اور مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو پائے گا کہ کوئی تمہیں دیکھے بھی نظر اٹھا کے۔۔

رہی بات ساڑھی کی تو وہ بھی مجھے بہت زیادہ پسند ائی تھی من ہی نہیں کر رہا تھا کہ تم پر سے نظریں ہٹانے کا 

مگر جیسے ہی یہ خیال دل کیں آیا کہ اتنے لوگ ہیں پارٹی میں وہ لوگ بھی تو تمہیں دیکھیں گے 

اسی لئے تم سے کہا کہ چینج کرو جا کے اور وہ ساڑھیاں بھی ہماری پرائیویٹ پارٹیز اور سپیشل دن ہی پہنو گی وہ تو بس تین ہی ہیں اگر اور اچھی لگتی تو اور لیتا۔۔

جانتی ہو نور بھی فارمل ڈریسز میں سب سے زیادہ ساڑھیاں ہی پہنتی تھی مگر ہمیشہ سلیولیس اور ڈیپ نیک کے ساتھ پہنتی تھی جسکا بیک کبھی کبھی نیٹ کا ہوتا تھا۔۔

گھر والے اس کے پہناوے پر اعتراض کرتے تھے مگر میں نے کبھی بھی اسے کچھ نہیں کہا 

لوگ اسکی تعریف کرتے تھے مگر مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔۔

ہم دونوں نے ہی ایک دوسرے کو اسکی اسپیس دی ہوئی تھی ہم دوست تھے اور شاید ہمیشہ دوست ہی رہے کیونکہ اگر ہمارے بیچ محبت ہوتی تو مجھے بھی اس پر کئی اعتراضات ہوتے۔۔

ایسا نہیں ہے کہ میں ٹیپیکل سوچ کا بندہ ہوں جو سات پردوں میں اپنی بیوی کو چھپا کر رکھے۔۔

مگر بس جب یہ خیال دل میں آتا ہے کہ جیسے میں تمہیں دیکھ رہا ہوں اگر کسی اور نے دیکھا تو مجھے کیسا لگے گا۔۔

اور اسی سوچ کے آتے ہی مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ ہاں یہ رشتہ بھلے ہی کاغزی ہو مگر میرے لئے اہم ہے اور بہت زیادہ اہم ہے۔۔

تم پر روک ٹوک نہیں کرنا چاہتا میں اور نہ ہی میں ایسا بندہ ہوں مگر پارٹی میں ایک آدمی کو تمہارے بارے میں بولتے سنا اور نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اسے سبق سکھانا پڑا۔۔

ہانیہ جو دم سادھے وجاہت کی بات سن رہی تھی اس کی آخری بات پر چونک گئی۔۔

کیسا سبق۔۔؟؟

ہانیہ کے سوال پر صرف وجاہت مسکرا دیا ۔۔

کچھ نہیں چھوڑو کیا کروگی جان کر۔۔

میری بات مکمل ہونے دو۔۔

وجاہت نے اسے سہولت سے منع کیا اور آگے بولنے لگا۔۔

مجھے یہ لگنے لگا تھا کہ واقعی اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھیں دل سے ایک دوسرے کو قبول کریں 

میں چاہتا ہوں تم مجھ پر بھروسہ کرو جیسے میں تم پر کرتا ہوں ۔۔

اور مجھے لگا بھی تھا کہ تم مجھے نا پسند نہیں کرتی کیونکہ جب جب میں تمہارے قریب آیا تمہارے چہرے پر انجانی سی خوشی ہی دیکھی میں نے 

مگر آج جو تم نے مال میں کیا وہ بہت غلط تھا 

میں نے کہا بھی تھا کہ مجھے کبھی کسی چیز سے منع مت کرنا ورنہ سزا دونگا۔۔

اب ٹریلر تو تم دیکھ ہی چکی ہو سزا کا آئیندہ ہوشیار رہنا ورنہ مجھے ایسی سزائیں دینا بہت اچھا لگتا ہے۔۔

سنجیدگی سے بات کرتے کرتے وجاہت نے ایک دم سے شرارتی انداز اپنایا۔۔

جسے دیکھ ہانیہ نظریں جھکا گئی۔۔

وجاہت نے اسکا ایک ہاتھ چھوڑ کے سائڈ پر رکھی ٹیبل پر ایک پیکٹ اٹھایا اس میں سے کچھ پیپرز نکالے اور ہانیہ کو تھما دیئے۔۔

پیپرز دیکھ کے ہانیہ کے ہاتھ کانپ گئے۔۔

کیونکہ وہ انکی شادی کے کانٹریکٹ کے پیپرز تھے۔۔

یہ ہی دیوار ہیں نہ ہمارے بیچ ۔۔

میں نے ہی تمہیں یہ پیپرز سائن کرنے کیلئے دیئے تھے اب میں ہی کہہ رہا ہوں کہ انہیں پھاڑ کے پھینک دو۔۔

ویسے میں نے یہ کام پیرس میں کرنے کا سوچا تھا جب ہم اپنی نئی زندگی شروع کرتے مگر تمہاری حالت دیکھ کے لگ رہا ہے کہ یہ کام ابھی ہوجانا چاہیئے۔۔

کیا پتہ تم میرے ساتھ جانے سے ہی منع کردو۔۔

ہانیہ کی نظریں پیپرز پر ہی تھی آنسو لگاتار اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے مگر وہ کوئی حرکت نہیں کر رہی تھی۔۔

وجاہت سمجھ گیا کہ وہ یہ نہیں کر پائے گی اسی لئے اسنے وہ پیپرز ہانیہ کے ہاتھوں سے لئے اور اسے پھاڑ کر ہوا میں پھینک دیئے۔۔

وجاہت نے پیپرز ہوا میں اچھال دیئے جو ہوا کے ساتھ دور چلے گئے 

ہانیہ کو ایسا لگا جیسے اسکے دل پر کوئی کیل تھی جو نکل گئی۔۔

بے یقینی سے اس نے وجاہت کو دیکھا جو اب پرسکون ہوکر بیٹھا ہوا تھا۔۔

وجاہت نے گھڑی میں ٹائم دیکھا جو کہ شام کے 7 بج رہے تھے۔۔

گھر چلیں کیا۔۔

ہانیہ کو خاموش دیکھ کے وجاہت نے ہانیہ کو مخاطب کیا۔۔

ہانیہ نے بنا آواز کے ہی سر نفی میں ہلا دیا۔۔

وجاہت ہانیہ کو نفی میں سر ہلاتا دیکھ مسکرانے لگا۔۔

ٹھیک ہے کچھ وقت اور یہی بیٹھتے ہیں میں زرا کریم سے کہہ دو (کریم وجاہت کا ملازم تھا ) وہ ہمارے لئے کھانا لے آئے گا ۔۔

وجاہت اٹھ کر جانے لگا کہ ہانیہ نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔

مجھے بھی آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔۔

ہانیہ نے وجاہت کی سوالیہ نظروں کے جواب میں کہا۔۔

ٹھیک ہے 5 منٹ تو رکو۔۔ وجاہت نے اپنا ہاتھ چھڑا کے باہر جانا چاہا۔۔

نہیں اگر آج نہیں بولو گی تو کبھی نہیں بول پاؤگی۔۔

ہانیہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کے وجاہت وہیں بیٹھ گیا ہانیہ کا ہاتھ اسنے اب چھوڑا نہیں۔۔

سورج غروب ہوچکا تھا ہر طرف اندھیرا چھا رہا تھا۔۔۔

سمندر کا خوبصورت نظارہ اب ایک الگ ہی انداز سے سکون بخش رہا تھا

ٹھیک ہے بولو کیا بولنا چاہتی ہو۔۔

وجاہت نے اب اسے بولنے کا کہا۔۔

میں آپ کو اپنے بارے میں سب بتانا چاہتی ہوں۔۔

اپنے پاسٹ اپنی شادی اور طلاق کے بارے میں۔۔

مگر میں جاننا نہیں چاہتا میں کوئی ایسی بات جاننا نہیں چاہتا جسے یاد کرکے تمہیں تکلیف ہو اور تمہیں تکلیف میں دیکھ کے میں تکلیف دینے والے کو ہی نہ دنیا کی تکلیفوں سے آزاد کردوں۔۔

وجاہت نے بہت سنجیدگی سے کہا۔۔

پلیز مجھے بولنے دیں اور خاص کر کے آج 

میں نہیں چاہتی کہ کل کو کچھ بھی آپ میرے بارے میں کسی کے بھی منہ سے کچھ بھی سنیں۔۔

وجاہت نے ہانیہ کی بات سن کے سر اثبات میں ہلا دیا۔۔

اپنے ماں باپ کی میں بہت لاڈلی ہوں اور اس سے بھی کہیں زیادہ فاخر بھائی میرے لاڈ اٹھاتے آئے ہیں۔۔

پھر بھائی کی شادی ہوگئی تو ایشا بھابھی بھی مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں بلکل مجھے اپنی چھوٹی بہن ہی سمجھتی تھیں۔۔

مگر بھائی کی شادی کے بعد لوگوں نے باتیں کرنی شروع کردی کہ پہلے بیٹی کی شادی کرتے پھر بیٹے کو نمٹاتے مگر دیکھو زرا جوان بیٹی کو گھر میں بٹھایا ہوا ہے۔۔

ایسی کہیں باتیں ہمیں سننے کو ملی پھر جب پاپا نے کسی سے سنا کہ کہیں کوئی ان کی بیٹی میں عیب تو نہیں تو پاپا کو بہت دکھ ہوا 

بھائی کی شادی کے 3 سال بعد میرے لئے پروپوزل آیا وہ ہمارے دور کے رشتے دار تھے 

ماں باپ تھے ان کے گھر میں دو بہنیں اور ایک انکے بیٹے معظم۔۔

معظم ایک پرائویٹ کمپنی میں ملازمت کرتے تھے 

دکھنے میں بھی کافی بھلے تھے یعنی کہ شریف لگتے تھے۔۔

ہانیہ نے جب وجاہت کے تاثرات دیکھے معظم کے ذکر پر تو فوراً شرافت والی بات بول دی۔۔

میں بیس سال کی تھی گریجویشن کرلیا تھا ماسٹرز کی تیاری کر رہی تھی کہ میرا رشتہ پکا ہوگیا ۔۔

بھائی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں شادی کرنا چاہتی ہوں کہ نہیں 

میں نہ کرنا چاہتی تھی مگر پاپا کی خوشی کی خاطر ہاں کردی اور جلد ہی شادی کر کے اپنے گھر چلی گئی۔۔

معظم کے گھر والے میرے ساتھ بہت اچھے تھے سوائے معظم کے 

وہ تو شادی والی رات گھر ہی نہیں آئے تھے۔۔

بعد میں مجھے پتہ چلا تھا کہ وہ اپنی یونی ورسٹی کے ٹائم سے ہی کسی لڑکی کو پسند کرتے تھے مگر وہ لڑکی معظم کی امی کو پسند نہیں تھی ۔۔

معظم نے مجھے اس لڑکی کی تصویر دکھائی تھی اور میرا ہمیشہ اس سے موازنہ کرتے تھے ۔۔

وہ واقعی بہت خوبصورت تھی۔۔

دودھ جیسی شفاف رنگت تھی اسکی جبکہ میں سانولی تھی ۔۔

وہ ہمیشہ مجھے یہی کہتے تھے کہ انہوں نے یہ شادی صرف اپنے گھر والوں کے پریشر کی وجہ سے کی ہے۔۔

میں خاموش رہتی تھی کیوں کہ ان کے گھر والے میرے ساتھ اچھے سے رہتے تھے۔۔

ایک سال جیسے تیسے گزرا تو معظم کی امی کو پھر پوتا پوتی کی فکر ستانے لگی ۔۔

اور پھر جیسے جیسے دن گزر رہے تھے باقی گھر والو کے رویے بھی بدلنے شروع ہوگئے تھے 

میں اس پر بھی خاموش تھی اپنے گھر والو کو کچھ نہ بتایا کیونکہ جانتی تھی کہ امی ابو تو بعد میں بھائی مجھے ایک پل بھی وہاں رہنے نہیں دینگے۔۔

ویسے بھی مڈل کلاس کی لڑکیاں اپنی ساری زندگی منہ پر تالا لگا کے ہی گزار دیتی ہیں۔۔

بولتے وقت ہانیہ کے لبوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آگئی جسے محسوس کرکے وجاہت نے ایک پل اپنی آنکھیں بند کرلیں۔۔

پھر امی کے کہنے پر میں نے ڈاکٹر کو دکھایا خود کو کچھ ٹیسٹ بھی کروائے ساتھ میں معظم نے بھی اپنے ٹیسٹ کروائے 

2 سال میں انہوں نے بھی آخر کار سمجھوتا کر ہی لیا تھا وہ اب زیادہ تر خاموش ہی رہتے تھے۔۔

پھر جیسے ہی میری رپورٹس آئیں تو پتہ چلا کہ میں تو ماں ہی نہیں بن سکتی 

اس دن مجھے لگا میرے رشتے کی آخری آس بھی ٹوٹ گئی اور ساتھ میں رشتہ بھی۔۔

کیونکہ جیسے ہی معظم کی امی کو پتہ چلا انہوں نے معظم سے کہا کہ مجھے طلاق دے دے۔۔

میں نے انہیں بہت کہا کہ ایسا نہ کرے چاہیں تو دوسری شادی کرلیں مگر وہ نہیں مانے اور طلاق کے بعد مجھے گھر بھیج دیا۔۔

مجھے طلاق یافتہ کے طور پر دیکھ امی پاپا کو بہت دکھ ہوا بھائی کو بھی ہوا مگر انہوں نے کبھی مجھے یہ احساس نہیں ہونے دیا 

پھر اچانک سے بھابھی کا رویہ میرے ساتھ بدل گیا کیونکہ انکا کہنا تھا کہ میں ایک بانجھ ہوں اور میرے سائے کی وجہ سے انکے ہاں دوسری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔۔

جب اپنے مجھے شادی کیلئے کہا تو اس سے پہلے میرے لئے ایک رشتہ ایا تھا جو کہ میری ممانی لائی تھیں وہ ایک 65 سال کا آدمی تھا جسکی پہلی بیوی مر چکی تھی بچے سارے شادی شدہ تھے 

مگر پاپا اور بھائی نے انہیں منع کردیا کیونکہ میں 23 سال کی ہوں اور وہ 65 سال کے بزرگ۔۔

پھر آپ نے پروپوزل دیا تو میں اسی وقت قبول کر لیتی کیونکہ مجھے بس ایک نام چایئے تھا کسی کا جس کے نام کے سائے میں ہی میں اپنی ساری زندگی کاٹ لیتی۔۔

مگر منع اس لئے کیا کہ اگر ہاں کرتی تو میرے کردار پر بات آتی۔۔

لوگ جانے کیسی کیسی باتیں بناتے جب سب کو پتہ چلتا 

اسی لئے آپ سے کہا کہ اپنے والدین کو میرے گھر لائیں۔۔

اور آپ لے آئے سچ مانیں بہت مشکور ہوگئی تھی میں آپکی۔۔

مانتی ہوں کہ میں نے مجبور ہو کر بھی اپکے سامنے شرائط رکھی تھی ۔۔

وہ بھی اسلئے کیونکہ سچ کہو تو یقین نہیں تھا آپ پر

 مگر شادی کے فوراً بعد ہی آپ ملک سے باہر چلے گئے اور مجھے آپکی غیر موجودگی میں آپ کے گھر والوں سے گھلنے ملنے کا موقع ملا۔۔

سب ہی نے مجھے بہت پیار دیا

خاص کر حور کی وجہ سے میں بہت خوش تھی کیونکہ آپ سے شادی کر کے میں حور کی ماں بن چکی تھی جو کہ شاید میری زندگی میں نا ممکن سی بات تھی۔۔

کوئی مجھے ماں کہے یہ امید میری ٹوٹ ہی رہی تھی کہ آپنے میری گود میں اپنی بیٹی دیدی۔۔۔

شکر گزار تھی آپکی کبھی کوئی شکایت نہیں کرنا چاہتی تھی آپ سے۔۔

مگر دادو نے کہا تھا کہ اگر میں آپ کو کچھ نہیں کہو گی آپ کی نظروں میں نہیں آؤنگی تو آپ دوسری شادی کرلو گے۔۔

مجھے دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ مجھے آپ کی خوشی عزیز تھی۔۔

بس ڈر تھا کہ کہیں دوسری بیوی کے کہنے پر آپ نے مجھے چھوڑ دیا تو مجھ سے دادو مما پاپا نیلم اور سب سے خاص حور چھن جائے گی جو کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔

بس پھر دادو کے کہنے پر ہی میں نے آپ کے سامنے اپنا اسٹینڈ لینا شروع کیا۔۔

اور یقین مانے اس وقت مجھے یہ لگنے لگا تھا کہ میں دوبارہ سے زندہ ہوگئی ہوں۔۔

پھر اچانک سے آپ میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔۔

آپکا مجھے دیکھنا مجھ سے باتیں کرنا مجھے اچھا لگتا تھا مگر پھر اگلے ہی پل آپ ایسے ہوجاتے تھے جیسے مجھے جانتے ہی نہ ہو۔۔

نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھے آپ سے دوری ہی بنا کے رکھنی چاہئے۔۔

مگر آپ کی قربت میں میں ہمیشہ خود سے ہی کئے گئے وعدے  بھول جاتی تھی اور خوش ہوجایا کرتی تھی۔۔

مگر ایک بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی کہ معظم جیسے عام انسان کو مجھ میں کوئی اچھائی نہیں دکھی۔۔

تو آپ تو پھر شہزادوں جیسی آن بان رکھنے والے کو مجھ سے محبت کیسے ہوگئی۔۔

نہ تو میں خوبصورت ہوں نہ ہی مجھ میں ایسی کوئی بات ہے جو مجھے اوروں سے الگ دکھتی ہے۔۔۔

تو پھر آپ نے مجھ میں کیا دیکھا۔۔

وجاہت جو اسکی ساری بات خاموشی سے سن رہا تھا کہ آخری بات پر اس نے اسکے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔۔۔

سہی کہتا ہوں میں بہت زیادہ  بے وقوف ہو تم جو خود کو اتنا غیر اہم اور معمولی سمجھتی ہو۔۔

دیکھو مین نہیں جانتا کہ میں کیا واقعی شہزادوں جیسی آن بان رکھنے والا انسان ہوں مجھے ایسا لگتا تو نہیں ہے ویسے۔۔

مگر ظاہری خوبصورتی تو آج کل چند نوٹ خرچ کرنے سے بھی مل جاتی ہے لیکن تمہارا باطن خوبصورت ہے۔۔

جو کہ تمہیں سب سے منفرد بناتا ہے۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے میرے گھر والے تمہیں اتنا پسند کیوں کرتے ہیں 

کیونکہ تمہارا دل خوبصورت ہے 

تمہاری یہ سنہری چمکتی ہوئی رنگت کسی بھی دودھیا رنگت کو بہت آسانی سے مات دے سکتی ہے ۔

یہ کالی شفاف آنکھیں کسی کا بھی دل چرا سکتی ہیں۔۔

معصومیت ہے تمہارے چہرے پر جو ہر کسی کو لبھاتی ہے۔۔

خوبصورت دل ہے تمہارا جسے پانے کیلئے کوئی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔

خوش ہوتی ہو تو اور کھل جاتی ہو۔۔

ناراض ہوتی ہو تو چھوٹی سی بلی لگتی ہو وہ بھی سرخ بلی۔۔

وجاہت نے یہ بولتے وقت ہانیہ کے ناک دبائی۔۔

جب غصہ کرتی ہو تو ان لبوں کو اپس میں زور سے بھینچ لیتی ہو جو کہ بہت کیوٹ لگتے ہیں پھر 

یہ بولتے ہوئے وجاہت نے ہانیہ کے لبوں کو چھوا انگلی سے۔۔

جب حور کے ساتھ کھیلتی ہو تو کہیں سے بھی اسکی ماں نہیں لگتی بلکہ اسی کی طرح چھوٹی بچی معلوم ہوتی ہو۔۔

مجھے کوئی فرق نہیں پڑھتا کہ تم ماں نہیں بن سکتی کیونکہ میرے لئے تم ہماری بیٹی کی ماں ہو اور اگر رب نے چاہا تو سب ممکن ہے ۔۔

ہانیہ وجاہت کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کے رو دی آج اسکے دل سے تمام میل دھل چکے تھے 

سارے سوالوں کے جواب مل چکے تھے۔۔

سارے اندیشے دور ہوگئے تھے۔۔

محبت کی آغاز ہو چکی تھی 

جب آغاز میں ہی اتنی شدت تھی تو آگے کا تو ہانیہ سوچ ہی نہیں سکتی تھی۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو خود سے الگ کر اسکے آنسو صاف کئے 

سچ کہو تو روتے ہوئے بھی بہت پیاری لگتی ہو۔۔

تمہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں تمہیں دنیا سے چھپانا چاہتا ہوں کیونکہ جب مجھ جیسے مضبوط اعصاب کے مالک کا یہ حال ہے یہ تو دنیا تو بھری پڑی ہے دل پھینک عاشقوں سے 

اور اس بات میں کوئی بیر نہیں کہ تمہیں بری نظر سے دیکھنے والے کی میں آنکھیں بھی نکال سکتا ہوں اور اس دنیا سے اسے فنا بھی کر سکتا ہوں 

مگر کرنا نہیں چاہتا کیونکہ خوف خدا ہے مجھ میں اسی لئے کبھی کبھی تم پر روک ٹوک کرتا ہوں کیونکہ تم پر اپنا حق رکھتا ہوں۔۔

وجاہت کی آنکھوں میں ہانیہ نے دیکھا تو اسے نمی سی محسوس ہوئی جیسے ہی نمی باہر آنے لگی ہانیہ نے اس نمی کو ہی اپنے لبوں سے چن لیا۔۔

⁦❤️💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

نیلم ہادی کیلئے بھی سامان لائی تھی مال سے جو ملازم اسے دے گیا تھا اس کے کمرے میں ۔۔

ہادی وہ سامان دیکھ کے مسکرا دیا وہ جانتا تھا کہ یہ سب سامان کون لایا ہوگا۔۔

نیلم اچھے سے جانتی تھی کہ ہادی کو کیا پسند اور کیا نہ پسند ہے آج بھی وہ اسکے ذوق کے این مطابق ہی چیزیں لائی تھی ۔۔

ہادی نے اپنا سامان دیکھا جس میں ایک گھڑی ایک پرفیوم اور ایک شرٹ تھی جو ہادی کو بہت پسند آئی تھی مگر اس سب سامان میں شاید نیلم کے سامان کا ایک بیگ آگیا تھا 

ہادی نے بیگ اٹھایا اور نیلم کو دینے اسکے کمرے میں گیا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔۔

ہادی وہ بیگ اسکی رائٹنگ ٹیبل پر رکھ دیا مگر جیسے ہی اسنے بیگ رکھا ہانیہ کا فوٹو فریم گر کیا 

ہادی نے وہ فریم اٹھایا تو دیکھا کہ اس کہ وہ اس کے کانچ پر دراڑ آگئی تھی۔۔

شٹ یہ کیا ہوگیا مجھ سے۔۔

ہادی نے اس فریم کو دیکھ کے کہا۔۔

یہ وہی فریم تھا جو ہادی نے ہی اسے دیا تھا جس میں نیلم کی مسکراتی ہوئی تصویر تھی 

اور اس پر خوبصورت سا پرنسس لکھا ہوا تھا۔۔

نیلم کووہ فریم بہت پسند تھا ۔۔

ہادی نے سوچا کہ وہ ابھی تصویر نکال کر یہ فریم پھینک دے گا اور ایک اس سے بھی اچھا فریم نیلم کیلئے لے ائے گا۔۔

مگر جیسے ہی اسنے فریم کی بیک کھولی اس میں نیلم کے ساتھ ایک اور تصویر تھی جو کہ ہادی کی تھی ۔۔

اس تصویر پر نیلم نے مارکر سے لکھا ہوا تھا my prince 💞💞

ہادی اپنی تصویر کو دیکھ کے چونک گیا پر جیسے ہی اسے احساس ہوا کہ کوئی کمرے کی طرف آرہا ہے اس نے جلدی سے وہ تصویریں واپس اسی فریم میں رکھ کے اسے بند کردیا۔۔

نیلم کمرے میں داخل ہوئی تو ہادی کو اپنے کمرے میں دیکھ کے چونک گئی 

پھر اسکے ہاتھ میں اپنا فریم دیکھا تو اسکے چہرے کا رنگ ہی اڑ گیا۔۔

آپ یہاں ۔۔ لڑکڑھاتے لہجے سے پوچھا گیا۔۔

ہادی نے اپنے اپکو نارمل کیا پھر عام سے لہجے میں کہا۔۔

ہاں تمہارا ایک بیگ میرے پاس اگیا تھا وہی دینے آیا تھا پر تم یہاں تھی نہیں تو یہیں رکھ کے جارہا تھا 

مگر مجھ سے غلطی سے یہ فریم گر گیا اور اسکا شیشہ ٹوٹ گیا ہے۔۔

نیلم نے وہ فریم ہادی کے ہاتھ سے فوراً جھپٹ لیا۔۔

کوئی بات نہیں میں شیشہ چینج کروا لونگی۔۔

نیلم نے جلدی سے کہہ کر فریم دیکھا جو کہ بند تھا نیلم نے سکھ کا سانس لیا اور ہادی نے اسکے ہر تاثر کو غور سے دیکھا۔۔

میں چینج کروا دونگا دے دو مجھے۔۔

ہادی نے اپنا ہاتھ آگے کیا فریم لینے کیلئے مگر نیلم نے اسے منع کردیا۔۔

نیلم کی ہوائیاں اڑتا دیکھ ہادی مسکرا دیا۔۔

ہانیہ اور وجاہت بیچ سے تقریباً 9 بجے چلے راستے میں ہی ان دونوں نے ڈنر کیا اور اب وہ لوگ گھر واپس جارہے تھے۔۔

ہانیہ کی تو تھکن کے مارے آنکھیں ہی بند ہورہی تھیں۔۔

آج ایک تو وہ صبح سوئی نہیں تھی دوسرا شاپنگ کی اتنے گھنٹے اور پھر شہر سے اتنی دور یہاں آنا راستے سے ہی ہانیہ گھبرا گئی

ورنہ جگہ اسے بہت پسند آئی تھی۔۔

وجاہت بھی کافی تھک چکا تھا مگر ظاہر بلکل نہیں کر رہا تھا۔۔

ایک بات پوچھو۔۔

ہانیہ نے وجاہت کی طرف دیکھ کے کہا ۔۔

ہاں پوچھو۔۔

وجاہت نے ایک نظر ہانیہ کو دیکھا پھر دوبارہ اپنی نظریں سامنے کردیں۔۔

آپ ہمیشہ سے ہی تو ایسے نہیں تھے نہ میرا مطلب ہنسنا مسکرانا مزاق کرنا شرارتیں کرنا مجھے چھیڑنا۔۔

یہ سب میں نے کبھی کسی کے منہ سے نہیں سنا آپ کے بارے میں۔۔

ہانیہ کے سوال پر وجاہت ہلکے سے مسکرا دیا۔۔

یہ سچ ہے کہ میں کوئی جولی ٹائپ کا بندہ بلکل نہیں ہوں ہنسی مزاق کرنا مجھے نہیں آتا تھا۔۔

ہاں سب سے مسکرا کے ہی بات کرتا تھا مگر نور کے جانے کے بعد ایک جو گلٹ تھا مجھ میں وہ میری ہنسی بھی کھا گیا تھا۔۔

چاہ کر بھی میں دل سے مسکرا نہیں پاتا تھا۔۔

جو روپ میرا تمہارے سامنے ہوتا ہے وہ آج تک کسی نے نہیں دیکھا 

سچ کہو تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میں کسی کو ہنسا سکتا ہوں یا اس طرح سے بھی زندگی انجوائے کر سکتا ہوں۔۔

وجاہت سنجیدگی سے بول رہا تھا اور ہانیہ خاموشی سے اسے بس سن رہی تھی۔۔

مگر ایسے آپ کیوں تھے میرا مطلب ہے آپ کے گھر میں کوئی اتنا سنجیدہ نہیں رہتا۔۔

جب وجاہت خاموش ہوگیا تو ہانیہ نے ایک اور سوال کیا۔۔

میں ایسا کیسے ہوں ہمم۔۔

ہانیہ کے سوال پر وجاہت کے تھوڑا سوچ کے کہا۔۔

بچپن سے ہی پڑھائی کا شوق تھا تو کتابوں کو ہی سب سے اچھا دوست مانا 

اسکول ہو کالج ہو پھر یونیورسٹی میں ہر ایکٹیویٹی میں  حصہ ضرور لیا مگر اولین ترجیح کتابوں کو ہی دی 

میری سوچ کسی سے بھی نہیں ملتی تھی اسی لئے کبھی دوست نہیں بنائے۔۔

بس نور اور ہادی ہی تھے ہمیشہ سے ساتھ ہادی پھر بھی اپنے پاپا کے پاس جاتا رہتا تھا اسلئے نور ہی میری واحد دوست تھی۔۔

اسی لئے میں اس سے شادی کرنے پر بھی خوش تھا کہ چلو جو مجھے سمجھتی ہے وہی میری لائف پارٹنر بھی ہوگی ۔۔

جانتی ہو نور میرے کہے بغیر ہی میری ہر بات سمجھ جاتی تھی اتنا جانتی تھی وہ مجھے۔۔

مگر ہماری شادی کے بعد کچھ ہی عرصے میں میری دوست گم ہوگئی تھی۔۔

اسے بس ایک اچھا لائف اسٹائل چاہئیے تھا جو کہ میرے ساتھ اسے ملا۔۔

مجھے بھی کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا کہ اسکی مانگ جائز ہے یہ ناجائز بس جو وہ کہتی تھی میں کرتا تھا۔۔

مگر جب بات میری اولاد پر آئی تو میں نے اسے روکا اور شاید یہی میری غلطی تھی جس کی وجہ سے وہ مجھ سے ایسے روٹھی کہ چھوڑ کر ہی چلی گئی۔۔

وجاہت کا چہرا بولتے وقت ایک دم سپاٹ تھا ہانیہ اندازہ بھی نہیں کر پارہی تھی کہ اس پر اس کے دل میں کیا چل رہا ہے۔۔

آپ کو زبردستی نہیں کرنی چاہئے تھی 

ہانیہ نے رخ موڑ کے کہا وہ اب اپنے تاثرات وجاہت کو دکھانا نہیں چاہتی تھی۔۔

جانتا ہوں غلط کیا مگر جب مجھے پتہ چلا تھا کہ وہ پہلے بھی ابارشن کروا چکی تھی تو مجھے بہت زیادہ غصہ آیا تھا اور میں نے پھر ضد باندھ لی تھی کہ یہ بچہ مجھے ہر حال میں چاہئیے۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ نے فوراً رخ وجاہت کی طرف کر کے کہا۔۔

آپ کو کیسے پتہ وہ یہ پہلے بھی کروا چکی تھی اور جب کروا چکی تھی تو آپ کو پتہ کیسے نہیں چلا۔۔

ہانیہ کو حیرت میں مبتلا دیکھ کے وجاہت تنزیہ ہنسا۔۔

شادی کے 1 ماہ بعد مجھے کینیڈہ جانا پڑا تھا 2 ماہ کیلئے میں نے نور کو ساتھ چلنے کا کہا تھا مگر وہ بلکل نہیں مانی اسی بیچ اسے پتہ چلا تھا کہ وہ ایکسپیکٹ کر رہی ہے تو اس نے میری غیر موجودگی میں یہ سب کیا۔۔

پھر جب حور ہونے والی تھی تب مجھے اسکی ڈاکٹر نے اسکے کیس کے بارے میں ڈیٹیل دی تھی پچھلی پریگنینسی کے بارے میں بھی بتایا تھا۔۔

مجھے معلوم تو ہوگیا تھا مگر میں نے کچھ کہا نہیں تھا اسے کیونکہ وہ تو پہلے ہی حور کو دنیا میں نہیں لانا چاہتی تھی۔۔

جس دن اسکی ڈیتھ ہوئی میرا اور اسکا جھگڑا اسی بات پہ ہوا تھا جب اس نے یہ بات قبول کی تھی تو غصے میں میں نے اسے تھپڑ مار دیا تھا۔۔

اور وہ بہت غصے میں گھر سے گئی تھی کبھی نہ واپس آنے کیلئے۔۔

گاڑی میں اب بلکل خاموشی تھی وجاہت ڈرائیونگ کر رہا تھا 

دوسری طرف ہانیہ شیشے کے پار ہی دیکھ رہی تھی 

آج اسے وجاہت کے سرد رویے کی وجہ معلوم ہوئی تھی وہ ایسا کیوں تھا اسے اب سمجھ آرہا تھا۔۔

پہلے تو اسنے اپنی اولاد کھوئی تھی اسکا دکھ پھر دوست کھوئی اسکا دکھ اور پھر بیوی ۔۔

کافی دیر کی خاموشی کے بعد وجاہت نے محسوس کیا ہانیہ کسی گہری سوچ میں چلی گئی تھی۔۔

گہرا سانس لے کر وجاہت نے خود کو نارمل کیا اور پھر ہانیہ کو مخاطب کیا۔۔

ایک بات بتاؤں۔۔

وجاہت کی آواز پر ہانیہ نے چونک کر وجاہت کو دیکھا۔۔

میری زندگی میں ایسے بہت سے پل آئے ہیں جس نے مجھے سخت بننے پر مجبور کردیا مگر ۔۔

وجاہت مگر پر رکا تو ہانیہ نے مگر کا مطلب پوچھا۔۔

مگر کیا۔۔

ہانیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر وجاہت بولا 

مگر یہ کہ جب سے تم زندگی میں آئی ہو میں پھر سے خوش رہنے لگا ہوں ۔۔

تم سے بات کرنا اچھا لگتا ہے تمہارا ساتھ اچھا لگتا ہے تمہارے پاس آنا اچھا لگتا ہے۔۔

وجاہت نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ہانیہ کو دیکھ کے کہا۔۔

اتنی خوبصورتی سے کہنے پر ہانیہ نے محبت سے اسے دیکھا ۔۔

نور کو کبھی بھلا نہیں سکتا کیونکہ وہ میری بچپن کی دوست تھی مگر تمہارے ساتھ اپنی آخری سانس تک رہنا چاہتا ہوں۔۔

پتہ نہیں ان الفاظوں سے دل کا حال بیان ہوتا ہے کہ نہیں مگر یہ الفاظ خوبصورت ہیں۔۔

وجاہت بولتے بولتے مسکرانے لگا۔۔

کونسے الفاظ۔۔ وجاہت کو ہنسا دیکھ ہانیہ نے سوال کیا۔۔

ارے یار تم دنیا کی پہلی اور آخری لڑکی ہو جسے میں یہ کہہ رہا ہو۔۔

آج پہلی بار ہانیہ نے وجاہت کو کنفیوز ہوتا دیکھا۔۔

بولیں بھی۔۔

ہانیہ کی بات پر وجاہت نے گاڑی روکی اور اسکا دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔۔

مسز ہانیہ وجاہت عالم آئی لو یو۔۔

وجاہت کے انداز پر ہانیہ مسکرادی جب کہ آنکھوں میں نمی آگئی تھی۔۔

جانتا ہوں چیزی لائنز ہیں پر دل کر رہا تھا بولو۔۔

گہری نظروں سے ہانیہ کو دیکھ کے وجاہت نے ایک بار پھر گاڑی اسٹارٹ کی اور گھر کی طرف بڑھادی۔۔

اگلے پانچ منٹ میں وہ لوگ گھر پہنچ گئے۔۔

⁦❤️⁩💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

گھر وہ لوگ 11 بجے واپس آئے تھے ممکن تھا کہ سب سو چکے ہونگے یہ پھر اپنے اپنے کمروں میں ہونگے۔۔

گاڑی پارکنگ ایریا میں پارک کر کے وجاہت نے ہانیہ کا ہاتھ تھاما اور گھر کے داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔۔

وجاہت کا یوں اسکا ہاتھ تھام کر گھر میں داخل ہونے پر ہانیہ کو بہت خوشی ہوئی۔۔

اسے بھی ایسا ہی لگا کہ سب اس وقت اپنے اپنے کمرے میں ہونگے تو اس نے اپنا ہاتھ وجاہت کی گرفت سے نہیں نکالا۔۔

گھر میں جب وہ دونوں داخل ہوئے تو ان دونوں کے ہی چہروں پر مسکراہٹ تھی جو کہ ہال کا منظر دیکھ کے ہی غائب ہوگئی۔۔

کیونکہ آج سبھی گھر والے ہال میں ہی موجود تھے اور وجاہت اور ہانیہ کو غصے سے دیکھ رہے تھے۔۔

سب کی نظریں خود پر دیکھ ہانیہ گھبرا گئی وہ اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہتی تھی مگر وجاہت نے اسکا ہاتھ اور مضبوطی سے تھام لیا۔۔

وجاہت عالم کہاں تھے آپ۔۔

دادو کی غصے سے بھری آواز سن کے اب وجاہت کو بھی جھٹکا لگا۔۔

دادو وہ ہم۔۔

ہانیہ بولنے لگی کہ دادو نے اسے بھی ڈانٹ دیا۔۔

ہانیہ آپ سے بات نہیں کی میں نے اپنے پوتے سے سوال کر رہی ہوں۔۔

دادو کے لہجے پر ہانیہ کو ایک دم رونا آیا اور اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی۔۔

باہر گئے تھے ہم۔۔

وجاہت نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔۔

یہ کیسا باہر جانا ہوا تم لوگوں کا گھر میں بتانا بھی مناسب نہ سمجھا کب سے پریشان ہورہے ہیں ہم سب تم لوگوں کیلئے۔۔

اور تم ہو کہ غائب ہی ہوگئے نیلم نے ہمیں بتایا تھا کہ تم بہت غصے میں ہانیہ کو لے گئے تھے۔۔

شان صاحب نے بھی تھوڑا سخت لہجا اپنایا مگر آواز دھیمی ہی رکھی۔۔

ڈیڈ اپنی بیوی کے ساتھ تھا کسی غیر انسان کے ساتھ نہیں جو آپ لوگ پریشان ہورہے تھے۔۔

وجاہت نے اب تھوڑے سرد رویے سے کہا اسے بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا ہانیہ کا یوں آنسو بہانا۔۔

بیوی کے ساتھ۔۔  وجاہت تم اسی بیوی کے ساتھ گئے تھے جس سے تم نفرت کرتے ہو جسے دیکھنا تک تو گوارہ نہیں ہے تمہیں۔۔

ہمیں ڈر تھا کہ کہیں تم اسے نقصان نہ پہنچا دو اسی لئے پریشان ہورہے تھے ہم سب 

دادو نے اب بھی غصے سے ہی کہا۔۔

عالیہ بیگم اور نیلم بلکل خاموش تھے۔۔

ہاں اور میں نے تو پولیس کو کال بھی کر دی تھی۔۔

ہادی کے بولنے پر وجاہت کا پارہ ایک دم سے چڑھ گیا۔۔

ہو کیا گیا ہے آپ سب کو۔۔

پہلے تو پیچھے پڑے رہتے تھے کہ ہانیہ کو وقت دوں اس سے بات کروں اس کے ساتھ رویہ اپنا بہتر کروں ۔۔

اب میں یہ سب کر رہا ہوں تو بھی آپ سب کو مسئلہ ہے۔۔

وجاہت غصے میں تھا مگر بہت ضبط کے باوجود بھی اسکی آواز تھوڑی اونچی تھی۔۔

مانتے ہیں ہم نے زبردستی کی اور تم بھی مجبور ہو کر ہی ہانیہ  کے ساتھ اس رشتے میں ہو اسی لئے ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر تم لوگ ساتھ میں خوش نہیں تو تم دونوں کو الگ ہوجانا چاہئیے۔۔

دادو نے یہ بات بہت ٹھنڈے لہجے میں کہی۔۔

مگر ہانیہ اور وجاہت کو ایسا لگا کہ جیسے کسی نے گرم دہکتا ہوا سیسہ ان کے کان میں ڈالا ہو۔۔

دادو کی بات پر جہاں ہانیہ کے آنسوؤں میں روانی آگئی وہیں وجاہت نے اب اپنا اپا کھو دیا۔۔

میں ایسا کچھ نہیں کروں گا سن لیں سب 

ہانیہ میری بیوی ہے اسے میں کسی بھی قیمت پر خود سے دور نہیں کروں گا۔۔

اور ہاں کسی نے اگر ایسا کرنے کا سوچا بھی تو اس کی شکل میں ساری زندگی نہیں دیکھو گا۔۔

ہانیہ میری ہے اور میری آخری سانس تک میری ہی رہے گی ۔۔

سختی تھی وجاہت کے چہرے پر مگر لفظوں میں تڑپ تھی۔۔

وجاہت نے جب بات ختم کی تو سبھی کے چہروں پر مسکراہٹ آگئی۔۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہ مسکراہٹ قہقہوں میں بدل گئی ۔۔

سب کو قہقہہ لگاتا دیکھ وجاہت نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا۔۔

کیسے بھول گیا وہ کہ اس کے گھر والے بات اگلوانے کیلئے ہی یہ غصے والی ٹرک اپناتے تھے۔۔

سب کو قہقہے لگاتا دیکھ کے ہانیہ ہونقوں کی طرح سب کو دیکھ رہی تھی۔۔

عالیہ بیگم کو اپنی بہو پر ترس آگیا انہوں نے ہانیہ کو مسکراتے ہوئے گلے لگا لیا۔۔

عالیہ بیگم کے کندھے پر ہانیہ پھوٹ پھوٹ کے روئی ڈر جو گئی تھی سچ میں۔۔

دوسری طرف وجاہت گہرے سانس لے کر اپنا غصہ ختم کر رہا تھا اسکے چہرے پر بھی اب ہنسی آگئی تھی مگر وہ اپنا چہرا جھکائے اسے چھپانے کی ناکام کشش کر رہا تھا۔۔

دیکھا دادو میں نے کہا تھا نہ کہ سیدھے طریقے سے وجی کبھی نہیں مانے گا 

دیکھو میرا آئیڈیا کیسے کام آیا۔۔

ہادی شان سے اپنا کالر پکڑ کے بول رہا تھا جب کے وجاہت نے فوری اسکی گردن دبوچ لی۔۔

دادو کے بچے مزاق کے چکر میں تو میرے ہاتھوں سے ضائع نہ ہوجاتا۔۔

وجاہت نے مصنوعی غصے سے کہا۔۔

ارے ہانی بچاؤ اس جلاد سے مجھے۔۔

ہادی نے ہانیہ کو آواز لگائی تو ہانیہ نے عالیہ بیگم سے الگ ہو کر ہادی کو دیکھا جو اسے ہی بیچارگی سے دیکھ رہا تھا۔۔

ہانیہ کو لگا وجاہت غصے میں ہے اب اس میں کہاں اتنی ہمت تھی کہ وجاہت کو سب کے سامنے کچھ کہتی ۔۔

ہانی نہیں بھابھی بول بھابھی ہے وہ تیری جب دیکھو ہانی ہانی کرتا رہتا ہے۔۔

وجاہت نے اسکی گردن چھوڑ کے کہا۔۔

میں تو ہانی ہی کہوں گا سب لوگ یہی کہتے ہیں اسے۔۔

ہادی بول کر تیزی سے دادو کے پیچھے چھپ گیا۔۔

آئیندہ ایسا مزاق مت کیجیئے گا میرے ساتھ۔۔

وجاہت نے اب بہت نرم لہجے میں سب سے کہا۔۔

برو برا مت مانیں مگر اگر ہم ایسا نہ کرتے تو آپ تو کبھی یہ بات ایکسیپٹ نہیں کرتے کہ کے آپ ہانیہ بھابھی کو پسند کرتے ہیں۔۔

نیلم کے بولنے پر وجاہت نے بس اسے گھورا۔۔

دادو نے سب کو اشارے سے کہا کہ سب اب اپنے اپنے کمرے میں جائیں 

سبھی مسکراتے ہوئے اپنے اپنے کمروں میں جانے لگے۔۔

وجاہت اور ہانیہ وہیں دادو کے ساتھ تھے۔۔

اب جب تم مان ہی چکے ہو کہ تم ہانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو پھر اب یوں الگ الگ کمروں میں نہیں رہوگے بلکہ جو برابر والا کمرہ تمہاری کمرے سے جوڑا گیا ہے اس میں حور رہے گی 

تاکہ تم دونوں ہی اسے دیکھ سکو۔۔

اور اب سے تم دونوں ہی ساتھ میں رہو گے۔۔

تمہاری پیرس جانے کیلئے پیکنگ ہادی کرچکا ہے جبکہ ہانی کی پیکنگ نیلم نے کر دی ہے حور کا سامان بھی عالیہ نے پیک کر دیا ہے بس اسے ایک نظر دیکھ لینا۔۔

اور اب جاکر آرام کرو کل ہانی کے گھر والے لنچ کیلئے یہیں آئیں گے۔۔

اپنے گھر والوں کی آمد کا سن کے ہانیہ خوش ہوگئی۔۔

سچی دادو امی پاپا بھابھی بھائی سب آئیں گے۔۔

جی بیٹا پھر تم دونوں پیرس چلے جاؤگے آنے کے بارے میں تو ابھی تک ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ کب آؤگے تو اسی لئے سوچا کہ سب سے ہی مل کے جاؤ تو بہتر رہے گا۔۔

ہانیہ نے دادو کو گلے لگا کر شکریہ کہا تو دادو نے پیار سے ہانیہ کا ماتھا چوما اور اسے دل سے دعا دی 

ہمیں خوش رہو میرے بچو ۔۔

دادو یہ بول کر چلی گئیں وجاہت نے ہانیہ کو ایک نظر دیکھا جو مسکرا رہی تھی پھر اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔۔

کمرے میں آکر سب سے پہلے انہوں نے ساتھ والے کمرے میں حور کو دیکھا جو کہ اپنے بے بی کوٹ میں سورہی تھی۔۔

حور کا اور ہانیہ کا ضرورت کا سامان بھی اب انہیں کمروں میں تھا۔۔

ہانیہ نے وجاہت کے کمرے کا جائزہ لیا وہ پہلے بھی اس کمرے میں آ چکی تھی مگر کبھی بھی اس کمرے کو اس نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا

ڈارک رائل بلیو اور وائٹ کلر کے کامبینیشن کا کمرہ تھا جو کہ شاید اس گھر کا سب سے خوبصورت کمرہ تھا۔۔

پورا فرنیچر بھی سفید رنگ کا ہی تھا بس سفید رنگ کے صوفوں پر ڈارک رائل بلیو کشن تھے اور بیڈ پر بھی تکیے اور کشنز بلیو رنگ کے تھے۔۔

وہ سادگی سے بھرپور کمرہ ہانیہ کو بہت اچھا لگا تھا۔۔

کمرے میں لیلیز کی خوشبو بہت بھلی لگ رہی تھی کمرے میں موجود ٹیبل پر رکھے واز میں تازے لیلیز تھے جو کہ ہانیہ کو بہت پسند تھے۔۔

سب سے بڑھ کر بیڈ سے منسلک دیوار پر ہانیہ وجاہت اور حور کی بڑی سی تصویر تھی جو کہ پارٹی میں لی ہوئی تھی 

وہ ایک مکمل اور خوبصورت تصویر تھی جس میں دیکھ وہ دونوں حور کو رہے تھے مگر دیکھنے والوں کو ایسا لگتا کہ وہ تینوں ہی ایک دوسرے کو بہت پیار سے دیکھ رہے تھے۔۔

ہانیہ اس تصویر کو غور سے دیکھنے لگی وجاہت نے بھی اس تصویر کو دیکھا اور ہانیہ کو پیچھے سے اپنی گرفت میں لے کر اسکے گرد اپنا حصار مضبوطی سے باندھ دیا۔۔

ٹھوڑی ہانیہ کا کندھے پر رکھ کر وجاہت ہانیہ سے سوال کرنے لگا۔۔

اچھی لگی تصویر ۔۔

بہت۔۔

ہانیہ نے اپنا سر وجاہت کے سر سے ٹکرا کے کہا۔۔

خوش ہو۔۔

بہت زیادہ 

اب ہانیہ نے اپنے ہاتھ سے وجاہت کے گال پر ہاتھ  رکھ کے کہا۔۔

نیچے ڈر گئی تھی۔۔

بہت سے بھی زیادہ ۔۔

ہانیہ کی ڈری ہوئی آواز سن کے وجاہت مسکرا دیا۔۔

ہانیہ کا رخ اپنی طرف کر کے اسے کندھوں سے تھام کے بولا۔۔

میرے گھر والے ایسے ہی ہیں جب انہیں مجھ سے کوئی بات منوانی ہوتی ہے تو مجھے ایسے ہی غصہ دلاتے ہیں جانتے ہیں سب کہ غصے میں میرے دل میں جو ہوتا ہے وہ میں کہہ دیتا ہوں۔۔

اور میری یہ کمزوری سب کو پتہ ہے اور ہادی کا بچہ سب کو گائیڈ کرتا ہے۔۔

وجاہت مسکرا کے بولا اور اپنا سر ہانیہ کے سر سے جوڑ لیا۔۔

آپ ہادی پر غصہ کیوں کرتے ہیں۔۔

ہانیہ کے بولنے پر وجاہت نے اسے گھور کے  دیکھا 

کیونکہ وہ تمہیں ہانی بولتا ہے مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا۔۔

وجاہت کے جیلسی سے بولنے پر ہانیہ ہنس دی۔۔

ہنس کیوں رہی ہو۔۔

ہانیہ کو ہنستا دیکھ وجاہت نے اسے خود سے الگ کر کے دیکھا۔۔

وہ مجھے بھابھی بھی بولتا ہے۔۔

ہانیہ نے کہنے پر وجاہت نے سر نفی میں ہلایا۔۔

نہیں میں نے اسے کبھی بھابھی بولتے ہوئے نہیں دیکھا وہ تمہیں ہانی کہتا ہے۔۔

وہ مجھے ہانی صرف آپ کے سامنے کہتا ہے آپ کو تنگ کرنے کیلئے اور آپ بلا فضول ہی اس بیچارے کو غصے سے گھورتے رہتے ہو۔۔

ہانیہ ہنسی کنٹرول کرکے بولنے لگی۔۔

وجاہت نے اسکا ہاتھ تھام کے اسے اپنے قریب کرکے بولا۔۔

وہ بیچارہ ہے اچھا جی۔۔

اور میں کیا ہوں بتانا پسند کروگی۔۔

وجاہت نے دوسرا ہاتھ ہانیہ کے بالوں میں پھنسا کے کہا مگر گرفت بہت نرم تھی۔۔

آپ۔۔ 

ہانیہ سوچنے لگی پھر بولی۔۔

آپ مسٹر اکڑو ہی ہو۔۔

ہانیہ کے معصومیت سے کہنے پر وجاہت بھی ہنس دیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

صبح 6 بجے الارم کی آواز پر وجاہت کی آنکھ کھلی تو اس نے فوراً آلارم بند کیا کیونکہ ہانیہ سورہی تھی۔۔

اور الارم کی آواز پر وہ تھوڑا کسمسائی تھی مگر پھر دوبارہ سے سوگئی۔۔

وجاہت نے دیکھا تھا کہ وہ رات میں دو سے تین بار تھکن کے باوجود جاگی تھی حور کے رونے کی آواز پر۔۔

اور اب حور بھی پرسکون ہو کر سورہی تھی اور ہانیہ بھی وجاہت کے بازو پر سر رکھے گہری نیند میں تھی۔۔

اسے اپنے بازو پر سر رکھا دیکھ وجاہت کے لبوں پر تبسم بکھر گیا۔۔

سوتے ہوئے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی 

وجاہت کے جاگنگ پر جانے کا وقت ہوگیا تھا مگر آج اسکا کہیں بھی جانے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا۔۔

دوسرے ہاتھ سے وہ ہانیہ کے بالوں سے کھیلنے لگا کبھی اسکے چہرے پر لے آتا تو کبھی چہرے سے ہٹا دیتا۔۔

نہ جانے اسے کیا خوشی مل رہی تھی ایسا کرنے سے مگر پھر جب اسے محسوس ہوا کہ ہانیہ کی نیند خراب ہورہی ہے تو الارم 2 گھنٹے بعد کا سیٹ کر کے وہ ہانیہ کو خود میں بھینچے دوبارہ سے سوگیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

عالم ولا میں ایک طرف ہانیہ اور وجاہت اپنی اپنی تیاریوں کو ایک نظر دیکھ رہے تھے تو دوسری طرف عالیہ بیگم اور نیلم نے لنچ کی تیاریوں کی ذمیداری سنبھالی ہوئی تھی۔۔

عالیہ بیگم اپنی نگرانی میں سارے کام کروا رہی تھیں اور نیلم بھی تھوڑا بہت کام کر رہی تھی۔۔

آج پہلی بار نیلم کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کسی نے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیا ہوا ہے۔۔

مگر جب وہ ادھر ادھر دیکھتی تو اسے کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو اسے ہی مسلسل دیکھ رہا تھا ۔۔

اپنا وہم سمجھ کر اسنے ایک بار پھر کام میں مصروف ہونا چاہا تو ایک بار پھر اسے وہی نظریں تنگ کرنے لگی۔۔

ہادی دور سے ہی نیلم کی بے چینی دیکھ کے مسکرا رہا تھا۔۔

پرنسس محبت کرتی ہو تو امتحان بھی دینا ضروری ہے یہ پرنس بغیر کسی امتحان کے اپنا دل کسی پرنسس کو نہیں دیتا۔۔

کیا پتہ یہ محبت نہیں صرف وقتی ایٹریکشن ہو میرا تو دل ٹوٹ جائے گا نہ پھر تو۔۔

ہادی دور سے ہی نیلم کو اپنی نظروں کے حصار میں لے خود سے کہنے لگا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

سعید صاحب اپنی فیملی کے ساتھ عالم ولا آئے تھے 

اپنی لاڈلی بیٹی کا کھلا ہوا چہرا دیکھ کے سبھی سرشار تھے۔۔

آج تو وجاہت کے چہرے پر سے بھی مسکان ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔۔

فاخر بھی ہانیہ کو خوش دیکھ کے بہت زیادہ مطمئن ہوگیا تھا اور دل سے اس کیلئے خوشیوں کی دعا کر رہا تھا۔۔

جبکہ ایشا ہانیہ کا نصیب دیکھ کے ہی دنگ رہ گئی تھی۔۔

عالیشان گھر محبت کرنے والا شوہر اور اتنی اہمیت دینے والا سسرال۔۔

اس نے تو خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ جسے وہ اتنا دھتکارتی تھی ان لوگوں نے اسے دل میں بسایا ہوا تھا۔۔

ہانیہ کا پہلا شوہر جو کہ ایک عام انسان تھا اسے دیکھنا تک پسند نہیں کرتا تھا۔۔

اور کہاں یہ خوبصورت شہزادہ جسکی آنکھوں میں ہانیہ کیلئے محبت کا ایک سمندر تھا جسے اب ہر کوئی محسوس کرتا تھا۔۔

سب کی ڈھیروں دعائیں لے کر ہانیہ وجاہت کے ہمراہ حور کو لئے ائیرپورٹ کیلئے روانہ ہوگئی۔۔

اپنی زندگی کے ایک نئے باب کیلئے۔۔

12 گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ پیرس پہنچے ۔۔

اس وقت یہاں رات کے 11 بج رہے تھے۔۔

کھانا وہ لوگ راستے میں ہی ایک ریسٹورنٹ سے کھا چکے تھے۔۔

یہاں پر ہادی کے والد جمشید صاحب کا پینٹ ہاؤس اپارٹمنٹ تھا جسکی چابی ہادی اسے دے چکا تھا۔۔

جمشید صاحب چونکہ الگ الگ ملک گھومتے رہتے تھے اسی لئے وہ اس وقت کینیڈا میں تھے۔۔

وجاہت ہانیہ اور حور کو لئے اسی پینٹ ہاؤس اپارٹمنٹ میں لے گیا۔۔

وہ پہلے بھی پیرس آچکا تھا مگر ہمیشہ ہوٹل میں ہی اپنا اسٹے کرتا تھا۔۔

اسے سخت ناپسند تھا کسی کو ڈسٹرب کرنا یہ کوئی اسے ڈسٹرب کرے ۔۔

گھر کا ایک ملازم وجاہت اور اسکی فیملی کو ائیرپورٹ لینے آیا تھا ۔۔

مگر گھر پہنچ کر ہی وجاہت نے اسے واپس بھیج دیا اور صرف صفائی والوں کو صبح آنے کا کہا وہ بھی صرف 2 گھنٹے کیلئے۔۔

یہ کافی بڑا اپارٹمنٹ تھا جو کہ اٹالین طرز کا بنا تھا 

ہر چیز ہی یہاں سفید رنگ کی تھی جو اس اپارٹمنٹ کو اور کشادہ اور خوبصورت دکھا رہی تھی سفید ہی ٹائلز سے بنا صاف شفاف چمکتا ہوا فرش تھا اور ہر چیز سلیقے سے سجائی ہوئی تھی جو کہ کسی کے اعلیٰ ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھی۔۔

لگ ہی نہیں لگا تھا کہ یہ گھر مہینوں بند رہتا تھا۔۔

ہانیہ کو وہ گھر بہت زیادہ پسند آیا تھا ۔۔

اس اپارٹمنٹ میں 3 کشادہ کمرے بھی تھے ایک جمشید صاحب کا تھا دوسرا ہادی کا تھا

ایک بڑا سا ہال تھا جس میں خوبصورت سے صوفوں کے ساتھ جدید ڈیزائن کے ٹیبل تھے اور اسکے ساتھ ہی اوپن کچن اور ٹی وی لاونج تھا۔۔

تیسرا کمرہ ہادی نے وجاہت کیلئے سیٹ کروایا تھا کہ کبھی تو وہ اس گھر میں آئے گا۔۔

اور ہادی نے وہ کمرا کبھی کسی کو استعمال بھی کرنے نہیں دیا تھا۔۔

ہادی اپنے دوست سے بہت محبت کرتا تھا کیونکہ ایک اسی کی بدولت ہی تو وہ اس کے گھر میں رہتا تھا جیسے وہ اسی کا گھر ہو اسکی فیملی کو اپنی فیملی مانتا تھا اگر وجاہت نہ چاہتا تو ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔۔

شان صاحب اور عالیہ کتنا ہی ہادی سے محبت کرتے مگر اگر وجاہت کو اسکا وہاں رہنا اچھا نہیں لگتا تو وہ کبھی اس گھر میں نہیں رہتا۔۔

وجاہت ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کے حور کو گود میں لئے جو کہ سورہی تھی کمرے میں داخل ہوا۔۔

کمرے میں کںگ سائز بیڈ سے منسلک دیوار پر وجاہت کی بڑی سی پورٹریٹ لگی ہوئی تھی 

جس میں وجاہت بلیک ٹو پیش میں ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے آنکھوں پر کالا چشمہ پہنے مغروریت سے کھڑا تھا۔۔

ہانیہ نے وہ پورٹریٹ بہت پیار سے دیکھی۔۔

وجاہت نے حور کو بیڈ پر لٹایا اور ہانیہ کو اپنی گرفت میں لے کر اسکے کان میں بولا۔۔

کبھی مجھے بھی اتنے پیار سے دیکھ لیا کرو میری تصویر کو دیکھ کے تمہیں کیا ملے گا۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ مسکرا دی۔۔

میں تو آپکی تصویر دیکھ رہی ہوں کیونکہ اس میں آپ بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں۔۔

ہانیہ نے نظریں ابھی بھی تصویر پر سے نہیں ہٹائی تھی۔۔

وجاہت نے اسکا رخ اپنی طرف کرکے شرارت سے بولا۔۔

اب میں اس تصویر سے زیادہ ہینڈسم ہوگیا ہوں یہ تو کچھ سالوں پرانی تصویر ہے 

ایسا لوگ کہتے ہیں تم زرا غور کر کے بتاؤ کیا واقعی ایسا ہے۔۔

وجاہت نے اپنا گال ہانیہ کے ہونٹوں کے بلکل سامنے کر کے کہا۔۔

ہانیہ بس مسکرا دی۔۔

چلو جلدی سے چیک کرو ٹائم نہیں ہے میرے پاس۔۔

وجاہت بھی کہا پیچھے ہٹنے والا تھا ۔۔

ہانیہ نے شرارت سے اسے غور سے دیکھا پھر اپنی ہنسی کنٹرول کرکے بولی۔۔

ہینڈسم کا تو پتہ نہیں ہاں بڈھے ہونے لگے ہیں آپ۔۔

ہانیہ کے الفاظ جیسے ہی وجاہت نے سنے اسے لگا اسنے غلط سنا چہرا موڑ کر اسنے ہانیہ کو دیکھا جو اپنی ہنسی ضبط کرنے کی وجہ سے سرخ ہورہی تھی۔۔

وجاہت سمجھ گیاکہ وہ بس اسے چھیڑ رہی تھی۔۔

تیس سال کا جوان آدمی تمہیں بوڑھا لگ رہا ہے۔۔ ابھی بتاتا ہوں کہ میں کیا ہوں۔۔

وجاہت اسے گدگدانے لگا جس سے ہانیہ کی چیخ نکل گئی اور وہ وجاہت سے دور بھاگنے لگی مگر وجاہت نے اسے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا

زور سے کھینچنے پر ہانیہ وجاہت کے سینے سے جا لگی وجاہت ہنستے ہوئے اسے بولا۔۔

تنگ کیا ہے تو سزا بھی بھگتو 

وہ ہانیہ کے چہرے کی طرف جھکا ہی تھا کہ حور کی روتی ہوئی آواز آئی۔۔

وہ ہانیہ کے چیخنے پر ہی آٹھ گئی تھی اور اب باقائدہ گلا پھاڑ کے رو رہی تھی۔۔

ہانیہ نے فوراً خود کو وجاہت کی گرفت سے نکال کر حور کو گود میں لیا اور اسے کندھے سے لگائے اسکی پیٹ تھپکنے لگی۔۔

وجاہت برا سا منہ بنا کر بیڈ پر جاکر لیٹ گیا۔۔

آنکھیں موندیں وہ کروٹ دوسری طرف کرکے سوگیا یا ہانیہ کو ایسا لگا شاید تھکن کی وجہ سے سوگئے ہونگے۔۔

تھوڑی ہی دیر میں حور دوبارہ سوگئی تو ہانیہ نے بھی سوجانے کا ہی سوچا اب کپڑے چینج کرنے تک کا دل نہیں تھا 

وجاہت بھی جیسے آیا تھا انہیں کپڑوں میں سوچکا تھا۔۔

حور کو اپنے اور وجاہت کے بیچ میں لٹا کر ہانیہ بھی لیٹنے ہی لگی کہ وجاہت نے اسے مڑ کر دیکھا۔۔

یہ کیا تم حور کو ہمارے بیچ میں سلاؤگی۔۔

ہانیہ جو لیٹنے ہی لگی تھی وجاہت کی آواز پر اسے چونک کر دیکھنے لگی۔۔

مجھے لگا آپ سوگئے ہونگے۔۔

اور حور کو یہاں نہیں لٹاؤ تو کہاں سلاؤگی یہاں تو بے بی کاٹ بھی نہیں ہے ۔۔

ہانیہ نے بے چارگی سے وجاہت کو دیکھا تو وجاہت اپنی جگہ سے اٹھا اور حور کو سائڈ پر لٹا کر اسکے دوسری طرف کشنز رکھ دیئے تاکہ وہ کروٹ لینے پر گرے گی نہیں۔۔

ہانیہ بس اسکی کاروائی دیکھ کے مسکرا دی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

دادو گھر کتنا خالی خالی لگ رہا ہے۔۔

نیلم صوفے پر بیٹھ کر اداسی سے کہنے لگی وہ لوگ ابھی ناشتے سے فارغ ہوئے تھے اور اس ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔

ارے نیلم کل ہی تو سب گئے ہیں تم ابھی سے بور ہوگئی۔۔

شان صاحب نے نیلم کا اترا چہرا دیکھ کے پیار سے بولے۔۔

ہادی اور شان صاحب آفس جانے کے لئے نکل ہی رہے تھے کہ نیلم کا اترا چہرا دیکھ کے شان صاحب رک کر بولے جبکہ ہادی بس اسے دیکھے ہی گیا۔۔

جانتی ہو ڈیڈ پر حور نے جب سے بولنا شروع کیا تھا ہر وقت گھر میں ایک میٹھا سا شور ہوتا رہتا تھا وہ اپنی زبان میں ہی کچھ نہ کبھ بولتی رہتی تھی۔۔

نیلم نے دادو کو دیکھتے ہوئے معصومیت سے کہا۔۔

تو پرنسس تم کرلو نہ شور حور کی طرح آئیں آئیں آئیں کر کے۔۔

ہادی نے حور کی نکل اتارتے ہوئے کہا تو نیلم کے ساتھ سبھی گھر والوں کا قہقہہ فضا میں گونجا۔۔

سب کو ہنسا کر ہادی نے شان صاحب کو چلنے کا کہا تو وہ باہر کی طرف بڑھ گئے 

ہادی نے جاتے ہوئے ایک نظر نیلم کو دیکھا جو اسے ہی حسرت سے دیکھ رہی تھی 

ہادی کی نظریں خود پر پاکر وہ جلدی سے منہ موڑ گئی۔۔

ہادی اسکی اس حرکت پر مسکراتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

صبح کی روشنی کمرے میں داخل ہوئی تو وجاہت کی آنکھ کھلی۔۔

ہانیہ کو خود میں بھینچے شاید وہ رات سے ایسے ہی سو رہا تھا۔۔

ہانیہ کی دوسری طرف حور سورہی تھی جو کہ اسکے چہرے پر ہاتھ رکھ کے سورہی تھی۔۔

وجاہت نے اسے پیار سے دیکھا ۔۔

واو ۔۔ میری بیٹی ہی مجھے کامپیٹ کرے گی وہ بھی اپنی ماما کیلئے۔۔

وجاہت مسکراتا ہوا اٹھ بیٹھا ۔۔

رات کے واقعے جب اسے یاد آئے تو چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوگئی۔۔

پہلے ہانیہ اور پھر حور کا ماتھا چوم کر وہ واشروم کی طرف بڑھ گیا۔۔

ابھی ان دونوں کے جاگنے کا وقت نہیں ہوا تھا۔۔

واشروم سے فریش ہوکر باہر اپنے کپڑے لینے آیا 

سوٹ کیس اٹھا کے اسکے ٹیبل پر رکھا تو ہلکی سی آواز پر ہانیہ کی آنکھ کھل گئی۔۔

کیا کر رہے ہیں آپ صبح صبح۔۔

ہانیہ نے آنکھ مسلتے ہوئے معصومیت سے کہا۔۔

ہانیہ کے بولنے کے انداز پر وجاہت مسکرا دیا۔۔

ارے بچے تم کیوں اٹھ گئی میں بس اپنے کپڑے لے رہا ہوں تم سوجاؤ ۔۔

وجاہت نے دھیمی آواز میں کہہ کر اپنے کپڑے دیکھنے لگا۔۔

پھر کافی کپڑے ادھر ادھر کرنے کے بعد بھی جب اس نے کوئی سوٹ نہ نکالا تو ہانیہ بیڈ سے اٹھ کر اسکے پاس چلی آئی۔۔

کیا ہوا کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا پہنو تو میں نکال دوں۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو الجھن میں دیکھ کے کہا۔۔

نہیں ضرورت نہیں ہے بس یہ دیکھ رہا ہوں کہ ہادی کے بچے نے میرے کپڑے اس میں پیک ہی نہیں کئے 

وجاہت تاصف سے اپنے بیگ کو دیکھنے لگا جس میں صرف ٹی شرٹ اور جینز ہی تھی جو کہ بلکل نئی تھی 

وجاہت نے سفید ٹی شرٹ اور بلیو جینز لے کر واشروم کی طرف چل دیا۔۔

ہانیہ نے ایک نظر اسے دیکھ کے اپنے بیگ کو کھول کے دیکھا کہ کہیں یہ سب اسکے ساتھ تو نہیں ہوا 

مگر جیسے ہی اسنے اپنا بیگ کھولا اس میں بھی ہانیہ کے کپڑے نہیں تھے 

یہ کپڑے تو ہانیہ نے نیلم کیلئے پسند کئے تھے۔۔

اس میں صرف جینز اور ٹاپ ہی تھے۔۔

ہانیہ نے اپنا دوسرا بیگ کھول کے دیکھا تو اس میں کچھ فارمل ڈریسز تھے۔۔

ہانیہ کو نیلم اور ہادی کی شرارت پر ہنسی آگئی اسی لئے ان دونوں نے وجاہت اور ہانیہ کی پیکنگ کی تھی۔۔

ہانیہ ہنس رہی تھی تبھی وجاہت گلے میں تولیہ لئے باہر آیا اور ہانیہ کو دیکھنے لگا۔۔

تم کیوں اکیلے مسکرا رہی ہو۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو دیکھ کے اپنے بیگ کی طرف اشارہ کیا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے کپڑوں کو دیکھا پھر اپنے کندھے اچکا دیئے۔۔

میں کیا کہہ سکتا ہوں تم نے ہی دونوں کو سر پہ چڑھایا ہوا ہے۔۔

وجاہت نے ہانیہ سے کہا جو اب اسے گھور کے دیکھ رہی تھی۔۔

ویسے یہ کپڑے تم پر بہت اچھے لگے ہیں 

وجاہت نے اپنے بال تولیے سے رگڑتے ہوئے کہا۔۔

ہانیہ نے ایک نظر وجاہت کو دیکھا جو آئینے کے سامنے اپنے گیلے بال سکھا رہا تھا 

تولیہ وہ اب صوفے پر پھینک چکا تھا اور اب آئینے کے سامنے اپنے بال بنا رہا تھا 

ہانیہ اسے دیکھے گئی وہ فریش سا بہت اچھا لگ رہا تھا گیلے بالوں میں وہ جیل لگا کر سیٹ کر رہا تھا۔۔

آئینے میں ہانیہ کا عکس دیکھ کے وجاہت کے چہرے پر تبسم پھیل گیا۔۔

یار جانم ایسے دیکھو گی تو میں گھر سے باہر کیسے جاونگا۔۔

وجاہت نے شرارت سے کہا۔۔

ہانیہ نے ایک دم چونک کر اپنا رخ موڑ لیا اور اپنے لئے کپڑے نکالنے لگی۔۔

وجاہت مسکراتا ہوا اس تک چل کر آیا اور اسکے بیگ سے اسے سفید ٹاپ اور بلیو جینز نکال کے دی ۔۔

آج میرے ڈریس سے کلر میچنگ کرلو پھر باہر چلیں گے 

اور اب ایسے مت دیکھو جاو جاکر فریش ہوجاؤ میں ناشتہ منگواتا ہوں دوپہر تک گروسری اجائے گی تو پھر گھر پہ ہی کھانا بنائیں گے۔۔

اوکے۔۔

ہانیہ کا گال تھپکا کے کہتے ہوئے وہ بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا اور ہادی کو کال کرنے لگا۔۔

ہادی اس وقت گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا وہ آفس سے نکل ہی رہا تھا کہ وجاہت کی کال آتا دیکھ پھر اپنی چئیر پر بیٹھ گیا۔۔

ہاں بول میری جان کدھر چلا گیا تو تیری یاد میں میں صبح سے آنسو بہا رہا ہوں۔۔

ہادی نے شرارت سے کہا تو وجاہت کو اور غصہ آنے لگا۔۔

کمینے انسان یہ کونسے کپڑے پیک کئے ہیں تو نے میرے۔۔

وجاہت جھنجلاتا ہوا بول رہا تھا۔۔

ارے میری جان بلکل نئے اور برانڈڈ کپڑے ہیں تجھ پر بہت سوٹ کرینگے ۔۔

اور نیلم نے ہانی کے کپڑے بلکل تجھ سے ملتے جلتے ہی خریدے تھے۔۔

تو اب تم لوگ ملتے جلتے کپڑے ہی پہننا اور میں جانتا ہوں تو کسی کام سے نہیں گیا بلکہ ہانی کے ساتھ گھومنے گیا ہے جھوٹے آدمی۔۔

زبان سنبھال کر بات کرو ہادی اور ہاں میری گڑیا کو اپنے جیسا بنانے کی بلکل ضرورت نہیں ہے وہ بہت سادہ ہے ۔۔

وجاہت نے نیلم کے بارے میں کہا تو ہادی دل میں سوچنے لگا کہ اب جیسی بھی ہے صرف اور صرف میری ہے۔۔

کہا کھو گئے۔۔ وجاہت کی آواز سے ہادی اپنی سوچ سے باہر آیا۔۔

اب ویکیشنز پر تو انسان ایسے ہی کپڑے پہنتا ہے تو کونسا بزنس کے کام سے گیا ہے جو تیرے لئے سوٹ پیک کرتا۔۔

ہادی کی بات پر وجاہت ایک دم چونک گیا۔۔

یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔

وجاہت اپنی جھجک چھپاتے ہوئے بولا۔۔

بس ہاں مسٹر وجاہت عالم شاید آپ بھول رہے ہیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہی بزنس کرتا ہوں مارکیٹ کے بارے میں مجھے بھی ہر بات پتہ ہوتی ہے 

میں تو اسی دن سمجھ گیا تھا کہ تو جھوٹ بول رہا ہے بہانہ بنا رہا ہے مگر دیہان نہیں دیا تھا تیری بات پر

پھر جب تو ہانی کو ساتھ لے جانے کیلئے مان گیا پھر مجھے شک ہوا تھا 

اور اس کے بعد میں نے تجھے ایکسپوز کرنے کا پلان بنایا گھر والوں کے ساتھ 

ہادی چہرے پر شرارت لئے بول رہا تھا۔۔

گھر میں کسی کو پتہ تو نہیں ہے اس بارے میں ۔۔

وجاہت نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

نہیں مگر میں بتانے ہی جارہا تھا۔۔

ہادی نے مزاق میں کہا مگر وجاہت چڑ گیا۔۔

کیا ضرورت ہے بتانے کی۔۔

ضرورت تو نہیں ہے مگر مزہ بہت ائے گا ۔۔

ہادی بھی چہک کے بولا۔۔

نہ بتانے کا کیا لوگے۔۔

وجاہت نے اپنی آئی برو پر انگھوٹا پھیرتے ہوئے کہا ۔۔

تم مجھے خرید نہیں سکتے وجاہت عالم میں بہت نایاب ہوں۔۔

ہادی نے ایک ہاتھ سے اپنا کالر جھاڑتے ہوئے کہا۔۔

وجاہت نے سر نفی میں ہلایا کہ اس ڈرامے باز کا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔

اچھا چل نہیں بتاؤنگا مگر ایک پرامس چاہئے تجھ سے۔۔

ہادی کی اواز پر وجاہت ایک بار پھر اسکی طرف متوجہ ہوا۔۔

کیا۔۔

میں جب بھی تجھ سے کچھ مانگو تو مجھے دیگا۔۔

ہادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

کیا چاہیئے؟؟

وجاہت نے بغیر بات گھمائے سوال کیا۔۔

ابھی میں اس بارے میں سوچ رہا ہوں جب سوچ لونگا تو بتادونگا اور تو نہ نہیں کرے گا۔۔

ہادی کی باتوں پر وجاہت سوچ میں پڑگیا۔۔

ٹھیک ہے۔۔ مجھے منظور ہے۔۔

وجاہت نے ہامی بھری تو ہادی کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ اگئی ۔۔

چل اپنا حور اور ہانی کا خیال رکھیو۔۔

ہادی بول کے کال کاٹنے ہی لگا تھا کہ وجاہت کے سخت بول اس نے سنے۔۔

بھابھی بول اسے ہانی نہیں۔۔

میں تو ہانی ہی کہو گا ہانی ہانی ہانی۔۔

ہادی اگے بھی بول رہا تھا مگر وجاہت نے غصے سے کال کاٹ دی۔۔

ہانیہ اسے ہی دیکھ رہی تھی جو کہ اب تھوڑا غصے میں لگ رہا تھا۔۔

وہ ابھی واشروم سے باہر آئی تھی اور وجاہت کو جھنجھلایا ہوا دیکھ کے اسنے بس اس سے اشارے سے پوچھا کہ کیا ہوا۔۔

پتہ نہیں مجھے اس ہادی کے بچے سے بدلہ لینا کب نصیب ہوگا ہمیشہ میرا خون جلاتا ہے۔۔

جس دن موقع ملا چن چن کے بدلے لونگا۔۔

وجاہت اکتائے ہوئے لہجے میں بول رہا تھا نظریں فون پر ہی تھی

اس نے ہانیہ کو بس ایک نظر دیکھا تھا ۔۔۔

ہانیہ نے کندھے اچکا کر ائینے کے سامنے کھڑی ہوگئی اور اپنے گیلے بال سلجھانے لگی۔۔

ہادی پہ جو غصہ تھا وہ کم ہوا تو وجاہت بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ہانیہ کو دیکھنے لگا۔۔

بلیو جینس کے ساتھ سفید ٹاپ پہنے وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔۔

وجاہت نے اپنے بیگ میں سے ایک مخملی باکس نکالا اس میں سے اس نے ایک چین نکالی اور ہانیہ کی طرف بڑھ گیا۔۔

وہ اپنے بال سلجھا رہی تھی کہ وجاہت نے اسے چین پہنائی اور اسکا لاک بند کرتے وقت اس چین پر اپنے لب بھی رکھ دیئے۔۔

وجاہت کے لمس پر ہانیہ نے چند پل کیلئے اپنی آنکھیں میچ لیں ۔۔

پھر جب اسنے آنکھیں کھول کے چین دیکھی تو دیکھتی رہ گئی۔۔

وائٹ گولڈ کی وہ بہت خوبصورت ڈیزائن کی چین تھی جس کے لاکٹ میں ڈائمنڈ لگا ہوا تھا ہانیہ نے اس چین کو گور سے دیکھا پھر اپنے ہاتھ میں  پہنے کڑے کو تو وہ دیکھ کے حیران رہ گئی کہ لاکٹ کا ڈیزائن تقریباً اسکے کڑوں سے ملتا تھا۔۔

یہ کڑے تو دادو کے ہیں جو کہ بہت پرانے ہیں مگر یہ چین کا ڈیزائن۔۔

ہانیہ کو بولتا دیکھ وجاہت سمجھ گیا کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہی ہے۔۔

میں نے جب تمہاری پکس لی تھی جب ہم جھولے پر سوئے تھے اس میں تمہارے ہاتھ کی بھی تصویر تھی تو جب تمہارے لئے یہ بنوانے گیا ڈیزائن سمجھ میں نہیں آیا تو اس سے ملتا ہوا بنوا لیا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو تفصیل سے بتایا۔۔

ویسے اس تحفے کی وجہ۔۔

ہانیہ نے اپنا رخ وجاہت کی طرف کر کے اسکی ٹی شرٹ کو پکڑ کے کہا۔۔

نظریں وجاہت کی نظروں میں دیکھ رہی تھیں۔۔

یہ تحفہ میری زندگی کو خوبصورت بنانے کیلئے۔۔

میری زندگی میں آنے کیلئے

مجھے ہر خوشی محسوس کروانے کیلئے۔۔

اور مجھ سے اتنا پیار کرنے کیلئے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا جو کھلے ہونے کے باعث منہ پر آرہے تھے۔۔

ہانیہ تو بس اس کے الفاظوں میں ہی کھو گئی۔۔

کیا تھا یہ شخص جو اسے صرف اپنے الفاظوں سے ہی دیوانہ کر رہا تھا آگے جاکر تو اپنی محبت اور اپنی شدتوں سے اسے پاگل ہی کر دے گا۔۔

ہانیہ سوچ کے مسکرا دی۔۔

ویسے ہم اتنی دیر سے ساتھ ہیں تمہاری گارڈ نہیں اٹھی ابھی تک 

وجاہت نے حور کو دیکھ کے کہا۔۔

میڈم صبح کے پانچ بجے سوئی ہیں تو ابھی کہاں سے اٹھیں گی۔۔

آپ کے سونے کے بعد یہ میڈم جاگ گئی ٹھی۔۔ ہانیہ نے پیار سے حور کو دیکھ کے کہا۔۔

ہانیہ کی بات پر وجاہت نے اسے کندھوں سے تھام کے کہا۔۔

تم رات بھر نہیں سوئی اور پھر اتنی جلدی کیوں اٹھ گئی۔۔

وجاہت نے پریشانی سے اسے دیکھا۔۔

میں ٹھیک ہوں مجھے عادت ہے اتنی نیند لینے کی اور ویسے بھی نئی جگہ پر نیند آتی بھی نہیں ہے۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو پر سکون کیا۔۔

اتنے میں باہر دروازے پر دستک ہونے لگی۔۔

وجاہت نے دیہان نہیں دیا۔۔

لو جی یعنی کے پہلے میں نے تمہیں جگایا پھر میری بیٹی نے۔۔

وجاہت نے شرارت سے کہا تو ہانیہ جھینپ سی گئی۔۔

وہ اور کچھ کہتا کہ دروازے پر پھر سے دستک ہونے لگی۔۔

ضرور ڈیلیوری بوائے ہوگا ناشتہ آرڈر کیا تھا میں نے۔۔

وجاہت سوچتا ہوا کمرے سے باہر گیا تو ہانیہ نے گہرا سانس لیا۔۔

تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل پہ ہانیہ نے ہاتھ رکھا اور پھر مسکرا دی ۔۔

عالم ولا میں اس وقت سب اپنے اپنے کمروں میں تھے

صرف نیلم ہی ہال میں بیٹھی اپنے موبائل میں مصروف تھی 

اصل میں وہ ہانیہ اور حور کو بہت مس کر رہی تھی اور اسکی یونی کی بھی چھٹیاں چل رہی تھی 

وجاہت کے نہ ہونے سے ہادی بھی آفس سے ابھی تک نہیں آیا تھا۔۔

شان صاحب بھی وجاہت کی غیر موجودگی میں ہی آفس جایا کرتے تھے مگر وہ شام میں ہی واپس اگئے تھے۔۔

نیلم موبائل پر دوستوں سے باتیں کر رہی تھی۔۔

اتنے میں اسکے سامنے لال گلاب کا بکے آگیا۔۔

نیلم اسے دیکھ کے ایک دم پہلے تو ڈر گئی پھر لانے والے کو دیکھا 

ہادی چہرے پر بہت خوبصورت مسکراہٹ لئے نیلم کو دیکھ رہا تھا۔۔

نیلم کا بھی بجھا چہرا ہادی کو دیکھ کے کھل گیا۔۔

یہ آپ میرے لئے لائے ہیں۔۔

نیلم نے بکے ہاتھوں میں لے کر کہا۔۔

اور نہیں تو کیا۔۔ کیا میری کوئی اور بھی پرنسس ہے کیا۔۔

ہادی نے پیار سے کہا جس پر نیلم کی ہارٹ بیٹ تیز ہوگئی۔۔

لال گلاب ۔۔

لڑکھڑاتے لہجے سے نیلم نے کہا۔۔

ہادی کا رخ دوسری طرف تھا تو ہانیہ اس کے تاثرات نہ دیکھ سکی۔۔

اب تم سے کیا جھوٹ بولنا۔۔

ہادی چہرے پر شرارتی مسکراہٹ لئے نیلم کی طرف پشت کئے ہنسی کو کنٹرول کر کے بولا۔۔

کیسا جھوٹ۔۔

نیلم پھولوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔

یہ پھول میں اپنی گرل فرینڈ کیلئے لایا تھا اسی کا ویٹ کر رہا تھا مگر وہ آئی ہی نہیں ۔۔

پھر گھر آگیا تم یہی بیٹھی دکھی تو تمہیں دے دئیے۔۔

ہادی مسکراتے ہوئے بول رہا تھا اور اب اسنے مڑ کے نیلم کو دیکھا تو جہاں کچھ پل پہلے انکھوں میں چمک تھی وہیں اب انہیں آنکھوں میں ویرانی تھی۔۔

ہادی بس ان آنکھوں میں دیکھتا رہ گیا۔۔

آپکی گرل فرینڈ ہے کیا کوئی۔۔

نیلم نے خود کو کنٹرول کرکے سوال پوچھا۔۔

ہاں ہے ایک ۔۔

ہادی نے اب سیریس ہو کے جواب دیا۔۔

مگر آپ تو کہتے تھے کہ میں ہی آپکی پرنسس ہوں۔۔

اب کے نیلم نے آنکھوں میں نمی لے کر کہا کیونکہ وہ بہت کنٹرول کے باوجود اپنی انکھوں میں نمی لانے سے روک نہ پائی۔۔

ہاں میں نے کب کہا کہ تمہارے علاوہ میری کوئی پرنسس ہے وہ تو میری کوئین ہے۔۔

ہادی بولنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ دیکھ سکتا تھا نیلم کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر رہی تھی۔۔

مگر وہ نیلم کی محبت کی شدت دیکھنا چاہتا تھا وہ کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے دیکھنا چاہتا تھا کہ نیلم کو کتنا فرق پڑتا ہے جب وہ کسی لڑکی کے ساتھ رشتے میں ہونے کا سنے گی۔۔

نیلم نے وہ بکے صوفے پر بہت آرام سے رکھا ہادی کے دیئے ہوئے وہ گلاب وہ پھینک بھی نہ پائی۔۔

اور زبردستی چہرے پر مسکراہٹ لئے وہاں سے چلی گئی اور سیدھے اپنے کمرے میں جاکر دروازہ لاک کر کے رونے میں مشغول ہوگئی۔۔

ہادی نے پھول اٹھائے اور دروازے کے پاس رکھے ٹیبل سے ایک اور بکے کو لئے وہ ابھی فلحال کیلئے اپنے کمرے میں چلا گیا 

اسے لگا تھا کہ نیلم گرل فرینڈ کی بات پر وہ بکے پھینک دے گی یا پھر اسکے منہ پہ ہی مار دے گی اسی لئے وہ احتیاطاً ایک اور بکے لایا تھا۔۔

مگر ایسا کچھ نہیں ہوا 

کمرے میں آکر اسنے اپنے پاپا کو کال کی۔۔

اسلام و علیکم۔۔ تیسری بیل پر کال اٹھانے پر ہادی نے سب سے پہلے سلام کیا اور پھر جو اسے بات کرنی تھی وہ بولتا گیا 

اور جمشید صاحب خاموشی سے سنتے رہے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ناشتے کے بعد ہانیہ نے حور کو جگایا اور اب وہ اسے ہی ناشتہ کروا رہی تھی 

وجاہت ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اپنا چہرا لئے حور کو ناشتہ کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔

حور تو نخرے دکھا ہی رہی تھی مگر ہانیہ بھی اسی کی ماں تھی اسے کہانیاں سنا کر کبھی الگ الگ نام لے کر اسے کھلا ہی رہی تھی۔۔

یہ ہمیشہ ایسے ہی نخرے دکھاتی ہے۔۔

کافی دیر خاموشی سے ان دونوں کو دیکھنے کے بعد وجاہت بولا۔۔

نہیں ہمیشہ نہیں مگر جب اسکا موڈ نہیں ہوتا تو میری گڑیا ماما کو تنگ کرتی ہے۔۔

ہانیہ چمچ حور کی طرف کرکے بولی جسے حور نے ہنسے ہوئے منہ میں لے لیا۔۔

فون کی بیل پر وجاہت نے کال کرنے والے کا نام دیکھا ڈیڈ کالنگ لکھا آرہا تھا

وجاہت کال ریسیو کی اور پہلے سلام کیا۔۔

کیسے ہیں آپ ڈیڈ۔۔

ڈیڈ نہیں آپکی دادو بات کر رہی ہوں۔۔

دادو نے وجاہت کے سلام کا جواب دے کر کہا۔۔

سوری مجھے لگا ڈیڈ ہیں 

آپ کیسی ہیں۔۔

وجاہت نے آپ بہت پیار سے بات کی۔۔

میں تو بلکل ٹھیک ہوں بس ہمارا گھر سونا ہوگیا ہے ہانیہ اور حور کے جانے سے۔۔۔

دادو نے دھیمے لہجے سے کہا۔۔

کچھ دن کی ہی بات ہے دادو پھر ہم واپس آجائیں گے۔۔

وجاہت کو تھوڑا افسوس ہوا انکی بات سن کے وہ خود بھی سب کو ابھی سے مس کر رہا تھا 

ناشتے کے وقت وہ سب کے ساتھ ہی ہوتا تھا اور آج صرف وہ اور ہانیہ ہی تھی بس۔۔

ہاں میرے بچوں تم لوگ وہاں آرام سے رہو اور ہانیہ اور حور ٹھیک ہیں۔۔

دادو کے پوچھنے پر وجاہت نے ہانیہ اور حور کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولنے لگا۔۔

حور میڈم ناشتہ کرنے میں نخرے دکھا رہی ہیں اور ہانیہ اسے ناشتہ کروانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔۔

وجاہت کا اچھا موڈ دیکھ کے دادو کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔۔

بیٹا تم خوش ہو۔۔

یہ کیسا سوال ہے دادو میں تو بہت خوش ہوں۔۔

وجاہت کو دادو کی بات سمجھ میں نہ ائی۔۔

ٹھیک ہے ذرا ہانی سے بات تو کرواؤ۔۔

دادو کے کہنے پر وجاہت نے فون ہانیہ کو دیا تو ہانیہ نے فوراً فون کندھے سے لگا کر دادو سے بات کرنے لگی ہاتھ اسکے ابھی بھی مصروف جو تھے۔۔

پھر بات کرتے کرتے وہ ہنسنے لگی وجاہت سمجھ گیا کہ دادو نے ضرور اسے اسی کے خلاف کچھ سکھا رہی ہونگی 

اور وہی ہوا ہانیہ نے وجاہت کو حور کے ناشتے کا باؤل دے کر کہا کہ وہ دادو سے بات کرکے آتی ہے اتنے آپ حور کو ناشتہ کروائیں۔۔

وجاہت نے پہلے ہانیہ کو دیکھا اور پھر حور کو اور زبردستی ہنستے ہوئے بس ٹھیک ہے بول کر رہ گیا۔۔

ہانیہ بھی ہنسی ضبط کرکے وہاں سے چلی گئی۔۔

اب وجاہت حور کے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔

میری پیاری سی گڑیا بابا کے ہاتھ سے ناشتہ کرے گی۔۔

وجاہت ہانیہ کی طرح بولتے ہوئے چمچ حور کی طرف لے کر گیا مگر حور نے چمچ پر ہاتھ مار کے چمچ گرا دیا اور چمچ میں موجود سیریل اپنے کپڑوں پر گرا لیا۔۔

وجاہت نے نیپکین سے اسکے کپڑے صاف کئے اور پھر دوبارہ سیریل لے کر اسے کھلانے لگا۔۔

کوئی بات نہیں بابا دوبارہ کھلائے گے اپنی حور کو۔۔

اس طرح بولتے ہوئے وجاہت کو بہت عجیب لگ رہا تھا مگر شاید بچے اسی طرح کھاتے ہونگے تو وہ بھی یونہی بول کر کھلانے لگا۔۔

اب حور نے وجاہت کے ہاتھ سے کھا ہی لیا۔۔

دادو آپ نے مجھے کیوں کہا کہ وجاہت ناشتہ کروائیں حور کو۔

ہانیہ کمرے میں آکر دادو سے پھر بات کرنے لگی۔۔

وہ اس لئے تاکہ وہ تمہارا ہر کام میں ہاتھ بٹائے حور کو سنبھالنے میں بھی۔۔

دادو کے کہنے پر ہانیہ ہنس دی ۔۔ پتہ نہیں کیا کر رہے ہونگے۔۔

ہانیہ نے بات کرتے ہوئے کمرے سے جھانکا تو دیکھا وجاہت اپنی پوری کوشش میں لگا ہوا تھا کہ حور کھالے مگر حور گرا زیادہ رہی تھی کھا کم رہی تھی۔۔

دادو آپکے پوتے کو تو کچھ بھی نہیں آتا بچوں کے بارے میں۔۔

ہانیہ کی بات پر دادو بھی ہنس دی اسی لئے تو کہتی ہوں کہ اس سے بھی کچھ کام کروایا کرو 

باپ ہے وہ اسے بھی تو بچے سنبھالنے آنے چاہئے۔۔

ہانیہ نے تھوڑی اور بات کر کے کال کاٹ دی اور باہر ائی تو حور اور وجاہت کا ہال دیکھ کے اسکا ہنسی روکنا مشکل ہوگیا تھا۔۔

ایک تو وجاہت نے جتنا اسے کھلایا تھا اتنا ہی حور نے ٹیبل پر گرایا ہوا تھا 

دوسرا حور کے آدھے منہ پر بھی سیریل لگا ہوا تھا۔۔

ہانیہ کو مسلسل ہنستا دیکھ وجاہت چئیر سے اٹھ گیا۔۔

مجھے پتہ ہے دادو نے ہی کہا ہوگا کہ مجھے کہو حور کو ناشتہ کروانے کیلئے۔۔

ہانیہ نے ہنستے ہوئے وجاہت کی بات پر سر اثبات میں ہلا دیا۔۔

جانتا تھا کہہ دو اپنی دادو کو کہ میں نے اپنی بیٹی کو خود ناشتہ کروایا ہے اور اب میں اسے کھانا کھلا سکتا ہوں۔۔

وجاہت نے ٹشو سے اپنے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اترا کے کہا۔۔

ایسے کھلائیں گے آپ حور کو اسکے کپڑے گندے کر کے منہ پہ کھانا پھیلا کے۔۔

ہانیہ نے اب اپنی ہنسی روک کے حور کے گلے سے نیپکین نکالا اور اب اسکا منہ دوسرے نیپکین سے صاف کرنے لگی۔۔

حور کا منہ صاف کرکے ہانیہ نے اسکے گال پر پیار کیا اور وجاہت نے یہ دیکھ کے ٹیبل پہ گرا ہوا سیریل اپنی انگلی سے اپنے گال پر لگایا۔۔

اور گال ہانیہ کے آگے کیا کہ اسے بھی صاف کرے ۔۔

وجاہت کی بچکانہ حرکت پہ ہانیہ نے مسکرا کر وجاہت کا گال بھی صاف کیا۔۔

اب ہٹیں بھی کردیا آپکا گال صاف اب زرا میں حور کو تیار کردوں پھر ہم باہر جائیں گے۔۔

حور کو گود میں لئے ہانیہ کمرے میں جانے لگی کہ وجاہت پھر سے بیچ میں آگیا ۔

ٹھیک سے صاف نہیں کیا تم نے جیسے اپنی بیٹی کے گال پہ پیار کیا ویسے میرے بھی کرو۔۔

وجاہت نے چہرا ہانیہ کی طرف کرکے کہا۔۔

ہانیہ اسکی بچوں جیسی ضد دیکھ کے اسے پیار سے دیکھنے لگی پھر اسنے حور کو اشارے سے کہا کہ بابا کو پپا دو 

تو حور نے وجاہت کے گال پہ پیار کردیا۔۔

وجاہت نے مسکرا کے حور کو دیکھا جو اب اپنے بابا کو دیکھ کے کھلکھلا رہی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

جمشید صاحب سے بات کر کے ہادی بہت لائٹ فیل کر رہا تھا 

اس نے ان سے کہا کہ آپ جلد از جلد پاکستان آکر شان صاحب سے نیلم اور اسکے رشتے کی بات کریں اگر وہ ہاں کرتے ہیں تو وہ نیلم کو خود پروپوز کرے گا۔۔

جمشید صاحب تو ہمیشہ سے ہی اپنے بیٹے ہی ہر خوشی میں خوش رہتے تھے اور یہ تو انکی بھی خواہش تھی

نیلم جیسی سلجھی ہوئی اور پیاری لڑکی بھلا کسے نا پسند ہوسکتی ہے تو انہوں نے فوراً ہامی بھرلی کہ جلد از جلد وہ پاکستان آنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔

اب ہادی دونوں بکے ہاتھ میں لئے نیلم کے کمرے کی طرف گیا۔۔

اور دروازے پر دونوں پھولوں کے بکے رکھ کر اس پر ایک چٹ رکھی جس میں لکھا تھا 

سوری مزاق کیا تھا میں نے ۔۔ بھلا ہادی کی پرنسس کی کوئی جگہ لے سکتا ہے کیا ۔۔

مگر تمہارا ری ایکشن برا لگا میں سمجھا تم مجھے اسی بکے سے پیٹ دوگی مگر تم تو خاموشی سے وہاں سے چلی گئی دوسرا بھی تمہارے لئے ہی لایا ہوں 

سمجھا تھا کہ ایک سے پٹ جاونگا تو دوسرا دے دونگا مگر خیر چلو میری پٹائی تم پہ ادھار ہے پھر کبھی سہی۔۔

اپنا کام کرکے اسنے نیلم کا دروازہ ناک کیا اور پھرتی سے وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔

اگلا ری ایکشن اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی وہ جانتا تھا کہ کیا ہوا ہوگا۔۔

نیلم نے دروازہ کھولا تو دیکھا اسکے دروازے پر ایک نہیں بلکہ دو بکے رکھے تھے۔۔

اور ایک چٹ بھی تھی۔۔

نیلم نے پھول اٹھا کے کمرے میں گئی اور چٹ پڑھنے لگی

پڑھتے ہوئے ہی نیلم کے چہرے پر مسکان اگئی۔۔

وہ جو کب سے رورہی تھی اب چٹ پڑھ کے من ہی من ہادی کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

آپ نے یہاں کے سرونٹس کو بھیج کیوں دیا۔۔

ہانیہ ٹیرس پر کھڑی پیرس کا خوبصورت نظارہ دیکھتے ہوئے بولی۔۔

وجاہت چئیر پر بیٹھا حور کے ساتھ باتیں کر رہا تھا جو حور کو  شاید ہی سمجھ آرہی تھیں مگر وہ پھر بھی وجاہت کی گود میں چڑھی ہوئی تھی۔۔

ہانیہ کا سوال سن کے اسے دیکھ کے کہنے لگا۔۔

کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے ہنی مون پر مجھے کوئی بھی ڈسٹرب کرے بس یہ جو کلیننگ کیلئے آئے ہیں وہ بھی اپنا کام کر کے چلے جائیں گے

وجاہت نے اتنے آرام سے کہا کہ ہانیہ نے اسے مڑ کے دیکھا۔۔

جہاں تک مجھے پتہ ہے آپ یہاں کام کے سلسلے میں آئے ہیں نہ۔۔

ہانیہ کی نظریں خود پر دیکھ وجاہت ہنسنے لگا۔۔

وہ تو بس بہانہ تھا تمہارے ساتھ رہنا چاہتا تھا کچھ وقت۔۔

وجاہت نے حور کو اسکا کھلونا پکڑا کر ہانیہ کے پاس چل دیا۔۔

تو آپ کام کیلئے نہیں آئے یہاں۔۔ ہانیہ نے اب کے حیرت سے وجاہت کو دیکھا۔۔

نہیں ہم یہاں ہنی مون پر آئے ہیں۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا ہاتھ تھام کے کہا۔۔

اپنی بیٹی کو لے کر آپ میرے ساتھ ہنی مون پر آئے ہیں۔۔ 

ہانیہ وجاہت کی بات پر اب ہنسنے لگی۔۔

بچی ہے تو کیا ہوا میں تو سوچ رہا ہوں کہ ہم اپنے ہر بچے کی پیدائش کے بعد ہنی مون پر جایا کریں گے جہاں بھی تم کہوگی۔۔

وجاہت نے مزاق میں کہا مگر اسکی بات سن کے ہانیہ کی ہنسی ایک دم رک گئی۔۔

وجاہت جو مذاق میں بول کے ہانیہ کو دیکھ رہا تھا اچانک اسکے چہرے سے ہنسی غائب ہوتی دیکھ خود بھی خاموش ہوگیا۔۔

وہ یہ بات بھول ہی گیا تھا جو ہانیہ نے اسے بتائی تھی کہ وہ ماں نہیں بن سکتی 

اب وہ سمجھ سکتا تھا کہ اسکے مذاق نے ہانیہ کو تکلیف پہنچائی ہوگی۔۔

ہانیہ نے فوراً خود کو نارمل کیا مگر اپنے دل کا حال وجاہت سے نہ چھپا سکی۔۔

وہ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ وجاہت نے اسے خود میں بھینچ لیا۔۔

ایم سوری ۔۔ وجاہت کے سوری بولنے پر ہانیہ نے ضبط سے اپنی انکھیں میچ لی اور اپنے انے والے آنسوؤں کو روکا۔۔

اتنے میں ہی وجاہت کو محسوس ہوا کہ کسی نے اسکا پیر پکڑا ہو۔۔

اسنے نیچے دیکھا تو حور اسکے پیر کو پکڑے اپنے ننھے ہاتھوں سے کھینچ رہی تھی۔۔

اور ساتھ میں با ۔۔با با۔۔ با۔۔ کر کے چلا بھی رہی تھی۔۔

وہ ابھی وجاہت کو بس با ہی بولتی تھی 

وجاہت نے ہانیہ سے الگ ہو کے حور کو گود میں لیا جوکہ اسکی گود میں آتے ہی ہانیہ کی طرف ہاتھ پھیلانے لگی۔۔

حور کے اب ماما بولنے پر ہانیہ نے مسکرا کے حور کو لیا تو حور نے ہانیہ کے گال پر پیار کر کے وجاہت کو دیکھا 

شاید اسے یہ باور کروانا چاہتی ہو کہ اسکی ماما صرف اسکی ہے۔۔

حور کے اس طرح سے دیکھنے پر وجاہت نے بھی ہانیہ کے گال کو لبوں سے چھوا تو حور نے ہانیہ کا گال اپنے ننھے ہاتھوں سے صاف کر کے پھر سے پیار کیا۔۔

اور اسکے گال پر ہاتھ رکھ کے وجاہت کو دیکھ کے اسنے ماما کہا 

تو اسکی اس حرکت پہ وجاہت اور ہانیہ دونوں نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا۔۔

لو بھئی یہ تمہاری گارڈ تو جیلس بھی ہونے لگی۔۔

وجاہت نے جہاں حور کو پیار سے دیکھا وہیں ہانیہ نے حور کو خود میں بھینچ لیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

تمام سرونٹس صفائی کر کے جا چکے تھے وجاہت نے گروسری آرڈر کی تھی وہ بھی آچکی تھی۔۔

اب ہانیہ کچن میں کھڑی لنچ کیلئے چکن سینڈوچ اور پاستہ بنا رہی تھی۔۔

وجاہت کسی کام سے باہر گیا تھا حور کو لے کر۔۔

کام جب تقریباً ختم ہوگیا تو ہانیہ کچن سے باہر آکر گھر کا جائزہ لینے لگی۔۔

اتنے میں وجاہت حور کو لئے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ ہانیہ اپارٹمنٹ کی چھتوں کو گھور رہی تھی۔۔

یہ کیا کر رہی ہو۔۔

وجاہت کو اسکا یوں چھت دیکھا عجیب لگا اسی لئے پوچھنے لگا۔۔

وہ میں یہ دیکھ رہی ہوں کہ میں نے پڑھا تھا کہ باہر ملکوں میں ہر گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوتے ہیں مگر مجھے تو یہاں بس ایک ہی کیمرہ دکھا ہے وہ بھی باہر کے گیٹ پر لگا ہے۔۔۔

وجاہت نے اپنا کوٹ اتار کر ہینگ کیا اور پھر حور کا کیپ اور جیکٹ اتار کر وہ بھی ہینگ کردی۔۔

کیونکہ باہر کافی ٹھنڈ تھی تو وہ حور کو جیکٹ اور کیپ پہنا کر لے گیا تھا اور جود بھی اوور کوٹ پہن کے گیا تھا ۔

ایسا بھی نہیں ہے جسے بس سیکیورٹی پرابلم ہوتی ہے وہ لگواتا ہے گھر میں کیمرے 

یا پھر کسی کو کسی پہ نظر رکھنی ہوتی ہے وہ لگواتا ہے 

تو یہ کیمرے گھر میں لگے ہوئے برے لگتے ہونگے نہ۔۔

ہانیہ سوچتے ہوئے صوفے پر بیٹھی۔۔

نہیں گھر کے اندر جو لگتے ہیں وہ اسپائے کیمرے ہوتے ہیں وہ نظر نہیں آتے جیسے کہ تمہارے روم میں لگا تھا تمہیں نظر۔۔۔۔۔۔

وجاہت بولتے بولتے اچانک رک گیا۔۔

کیونکہ ہانیہ حیرت سے اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔

جلدی جلدی میں وہ شاید کچھ غلط بول گیا تھا۔۔

آپ نے میرے کمرے میں کیمرہ لگوایا تھا۔۔

ہانیہ حیرت سے وجاہت کو گھورتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔

تمہارے لئے نہیں لگوایا تھا حور کیلئے لگوایا تھا۔۔

ہانیہ وجاہت کی پوری بات سنے بغیر ہی کمرے میں چلی گئی اور زور سے دروازہ بند کیا 

اسے لگا وجاہت کو اس پر بھروسہ نہیں تھا اسی لئے اس پر نظر رکھتا تھا۔۔

‏منا بھی لوں گا، گَلے بھی لگاؤں گا میں

ابھی تو دیکھ رہا ہوں اُسے خفا کر کے

(شبانہ ندیم)

کیا میں اندر آسکتا ہوں۔۔

وجاہت نے نہایت معصومانہ طریقے سے دروازہ ہلکا سا کھول کے کہا۔۔

نہیں۔۔

ہانیہ نے بغیر اسکی طرف دیکھے ہی کہا۔۔

ناراض ہو۔؟؟

وجاہت نے پورا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا جہاں کافی اندھیرا تھا 

ہانیہ نے کمرے کی لائٹ اور کھڑکیاں بند کردیں تھیں۔۔

شاید یہ اسکی ناراضگی دکھانے کا طریقہ تھا۔۔

نہیں بہت خوش ہوں ہوں اپکی سمجھداری پر۔۔

ہانیہ نے طنز کیا تو وجاہت بیچارگی سے اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔

ہانیہ صوفے پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔

وجاہت نے پیار سے اسکی تھوڑی تھام کے سر تھوڑا اونچا کیا۔۔

اسے یہ دیکھ کے تھوڑا سکون ملا کہ وہ رو نہیں رہی تھی ہاں البتہ غصے سے چہرا سرخ ضرور ہورہا تھا۔۔

ہانیہ نے شکوہ کناں نظروں سے وجاہت کو دیکھا۔۔

ایسے تو نہ دیکھو ڈر کا پتہ نہیں پیار آجائے گا تم پہ۔۔

ہانیہ نے اسکے یوں بولنے پر اپنا چہرا دوسری طرف موڑ لیا۔۔

دیکھو اگر تم یہ ایکسپیکٹ کر رہی ہو کہ میں تمہیں مناؤں گا تو سوری کیوں کہ مجھے منانا نہیں آتا 

مجھ سے آج تک کوئی لڑکی ناراض ہی نہیں ہوئی اور وجاہت عالم کسی کے آگے جھکا نہیں ہے آج تک۔۔

اب ہانیہ نے وجاہت کو ایک آئی برو اٹھا کے دیکھا۔۔

ہاں ہاں مانتا ہوں تم کوئی عام لڑکی نہیں ہو بہت سے بھی زیادہ خاص ہو مگر سمجھو نہ یار۔۔

وجاہت نے اسے اپنی سیچویشن سمجھانی چاہی ۔۔

آپ نے کیمرے لگوائے وہ بھی میرے بیڈ روم میں۔۔

میں کبھی کبھی سلیولیس شرٹ اور ٹراؤزر پہن کے سوتی تھی۔۔

مجھے تو سوچ سوچ کے شرم آرہی ہے کہ۔۔

کہ کیا ۔۔ ہانیہ جب بولتے بولتے رکی تو وجاہت نے شرارت سے کہا۔۔

آپ ایسا کیسے کر سکتے ہو۔۔

ہانیہ نے شکوہ کیا۔۔

دیکھو میں نے جو کیا وہ صرف حور کیلئے کیا 

اسکے لئے بہت پروٹیکٹو تھا میں اتنی آسانی سے کسی پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتا تھا۔۔

مگر میرا یقین کرو صرف ایک مہینہ یہ شاید اس سے بھی کم تم پہ نظر رکھی جب مطمئن ہوگیا تو پھر ویڈیو دیکھنا بند کردیں۔۔

وجاہت ہانیہ کو اپنی صفائی دے رہا تھا اور وہ شکوے بھری نظروں سے اسے سن رہی تھی۔۔

سچ بتائیں صرف ایک مہینے دیکھی اسکے بعد کبھی نہیں دیکھی۔۔

ہانیہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھ کے کہا۔۔

ہاں ویسے ایک دو بار بعد میں بھی دیکھی ہیں۔۔

وجاہت اب تھوڑا کنفیوز ہوگیا۔۔

ایک دو بار اور وہ کب ؟

ہانیہ نے اب وجاہت کو گھورتے ہوئے کہا۔۔

جب جب تمہین ہرٹ کیا آئی مین تم سے جھگڑا ہوا تو دیکھتا تھا کہ کمرے میں جاکر کیا کرتی تھی بس اس کے علاوہ کبھی نہیں۔۔

اور کیا کیا دیکھا۔۔ ہانیہ نے نظریں اپنے ہاتھوں پر مرکوز کئے بولا۔۔

اسکی بات پر اب وجاہت کے چہرے پر شرارتی مسکان آگئی۔۔

دیکھا تو خیر بہت کچھ ہے۔۔ بلکہ بہت کچھ نہیں سب کچھ۔۔

ہانیہ کا جو غصہ کافی حد تک ختم ہوگیا تھا اور اب وہ نارمل ہوگئی تھی وجاہت کی اس بات پر وہ ایک بار پھر سرخ ہونے لگی 

اور اب کی بار غصے سے نہیں شرم سے۔۔

اسنے مشکل سے نظریں اٹھا کے وجاہت کو دیکھا تو وہ بمشکل ہی اپنی ہنسی کنٹرول کر رہا تھا۔۔

وجاہت کی شرارت سمجھ کے ہانیہ نے صوفے پہ رکھا کشن اٹھا کے اسے مارنا چاہا تو وجاہت نے فوراً اس سے کشن چھین لیا۔۔

مذاق کر رہا ہوں بیڈ روم میں تھا کیمرہ ڈریسنگ روم میں نہیں ۔۔

اتنی اخلاقیات ہیں مجھ میں۔۔

وجاہت کے بولنے پر ہانیہ نے گہری سانس لی کہ شکر ہے ڈریسنگ روم میں کیمرہ نہیں تھا۔۔

ویسے اگر کچھ دیکھ لیتا تو کوئی مسئلہ تھا کیا۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر شرارت سے کہا تو ہانیہ وہاں سے اٹھ کے اب کمرے سے باہر آگئی۔۔

وجاہت بھی اس کے پیچھے آیا اور اسکا ہاتھ تھام کے اسے اپنے سے قریب کیا۔۔

یہ ناراضگی سیشن کب تک چلے گا ۔۔

وجاہت نے اسکے چہرے پر آئے بال اپنے ہاتھوں سے پیچھے کئے اور اب اسکے کندھوں پر اپنے بازو رکھ کے بولا۔۔

کیسی ناراضگی۔۔؟؟ کون ہے ناراض ؟؟ اور اگر کوئی ہے بھی تو کون منانے والا ہے؟؟

ہانیہ نے وجاہت کی ٹی شرٹ کے پرنٹ پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔۔

سیکھ جاؤنگا نا ابھی تو مان جاؤ اب ایک دم سے تو خود کو نہیں بدل سکتا نہ میں۔۔

وجاہت نے ہار مانتے ہوئے کہا تو ہانیہ نے بنی فیس بنا کے اسے دیکھا۔۔

وجاہت نے پیار سے اسکی آنکھوں پر اپنے لب رکھ دیئے۔۔

بہت برے ہیں آپ ۔۔ دیکھنا میں بھی اب آپ کے بیڈ روم میں کیمرے لگاؤ گی اور آپ کی ہر حرکت پر نظر رکھونگی۔۔

ہانیہ کے سادگی سے کہنے پر وجاہت نے ہنستے ہوئے کہا۔۔

محترمہ اسی بیڈ روم میں آپ بھی میرے ہی ساتھ رہیں گی اور ہماری ویڈیو دیکھنے کی تمہیں بھلا کیا ضرورت ۔۔

وجاہت کے شوخ لہجے پر ہانیہ نے آنکھیں بند کرلیں اور دل میں سوچنے لگی۔۔

میں بھی کتنی بے وقوف ہوں سوچ سمجھ کے نہیں بولتی 

ہانیہ نے دل میں سوچا مگر اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ کے وجاہت بولا۔۔

ہاں ٹھیک سوچ رہی ہو بلکل سوچ سمجھ کے نہیں بولتی ایسے ہی تو نہ میں تمہیں مس بے وقوف بولتا ہوں۔۔

وجاہت کے الفاظ سن کے ہانیہ نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔۔

ہیں آپ کو کیسے پتہ چلا میں کیا سوچ رہی ہوں۔۔۔

سنو جانم یہ جو تمہارا چہرا ہے نہ یہ تمہارے دل کی باتیں چھپا نہیں پاتا صاف صاف تمہارے چہرے پر ہر بات لکھی ہوتی ہے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے چہرہ اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلاتے ہوئے کہا۔۔

یہ تو خطرناک انسان ہیں۔۔ ہانیہ نے وجاہت کو دیکھ کے دل میں سوچا۔۔

ہاں بہت زیادہ۔۔ وجاہت بھی اسکے دل کی بات سمجھ کے چہرے پر گہری مسکراہٹ لئے بولا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

آج سنڈے تھا تو سبھی آج گھر پر ہی موجود تھے کل کی بنسبت آج نیلم کا موڈ کافی اچھا تھا۔۔

ایک تو ہادی نے اسے کل رات اتنے خوبصورت پھول دیئے۔۔

دوسرا اسے یہ احساس بھی دلایا کہ وہ اس کے لئے بہت اہم ہے ۔۔

سنڈے تھا تو ہادی کافی دیر سے جاگا پھر ناشتہ اسنے اپنے کمرے میں ہی منگوا لیا کیونکہ باقی گھر والے تو پہلے ہی ناشتہ کر چکے تھے۔۔

نیلم باہر لان میں بیٹھی موسم انجوائے کر رہی تھی سردی کی آمد آمد تھی موسم بھی اب ٹھنڈا ہونے لگا تھا۔۔

تو اس وقت صبح کے دس بجے کی ہلکی دھوپ کافی سکون بخش رہی تھی۔۔

فون پر دوستوں سے چیٹینگ کرتے ہوئے نیلم کو کسی کی نظروں کی تپس اس پر محسوس ہوئی 

چونک کر اسنے ادھر اُدھر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔۔

یہ مجھے کیا ہورہا ہے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ کوئی مجھے غور سے دیکھ رہا ہے۔۔

خود سے کہتے ہوئے نیلم کندھے اچکا کر ایک بار پھر اپنے سیل فون کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔

کیا کر رہی ہو۔۔

ہادی کی آواز پر اسنے پلٹ کر دیکھا تو کریم کلر کی ٹی شرٹ پر براؤن جینز پہنے فریش سا ہادی اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔

کچھ نہیں بس دوستوں سے باتیں کر رہی ہوں۔۔

آپ کب اٹھے اور ناشتہ کیا۔۔

نیلم نے بھی مسکرا کے اسے جواب دیا اور اس سے ناشتے کے متعلق پوچھا۔۔

ہاں ناشتہ کر چکا ہوں کمرے میں ہی کر لیا تھا ۔۔ اور تمہاری چھٹیاں کب ختم ہورہی ہیں۔۔

ہادی اس سے بہت عام سے لہجے میں بات کر رہا تھا۔۔

جبکہ نیلم سوچ رہی تھی کہ صبح وہ اس سے تھوڑی معزرت کریں گے رات کے مزاق کیلئے 

پھر وہ اسے گلاب کے پھولوں کیلئے تھینکس کہے گی مگر یہاں تو ایسے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے تھے۔۔

کیوں بھول جاتی ہے تو نیلم کہ ہادی تو ہمیشہ سے ہی تیرے لئے کچھ نہ کچھ لے ہی آتے رہتے ہیں کل کونسی انوکھی بات ہوگئی۔۔

دل میں سوچتے ہوئے نیلم گہری نظروں سے ہادی کو دیکھ رہی تھی۔۔

اسے یوں خود کو تکتا ہوا پاکر ہادی سمجھ سکتا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہوگی مگر وہ ابھی کوئی بھی رسپونس نہیں دینا تھا چاہتا۔۔

نیلم کیلئے اپنے بدلتے ہوئے احساسات کی وہ ابھی اسے بھنک بھی نہیں پڑنے دینا چاہتا تھا خاص کر کل رات کے واقعے کے بعد۔۔

جب وہ اس پر غصہ ہونے کے باوجود اتنے آرام سے بکے صوفے پر رکھ کے گئی تھی 

یعنی اسکی دی ہوئی ہر چیز کی اسکے دل میں خاص جگہ تھی ۔۔

جب وہ اسکی دی ہوئی بے جان چیزوں کی اتنی اہمیت اپنے دل میں رکھ سکتی ہے تو اس کی فیلنگز جان کر تو وہ پتہ نہیں کیا کرے گی۔۔

اور اگر گھر والوں نے انکے رشتے پر ہامی نہ بھری تو اس پر کیا بیتے گی وہ سوچ سکتا تھا۔۔

اسی لئے فلحال وہ اس کے ساتھ پہلے کی طرح نارمل رہنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔

کیونکہ ہادی جانتا تھا نیلم کا دل کتنا حساس ہے۔۔

آج سنڈے ہے تو کوئی پلان۔۔؟؟

ہادی کو خاموش دیکھ کے نیلم نے اس سے سوال کیا۔۔

نہیں کوئی پلان تو نہیں ہے کیوں کہی جانا ہے کیا۔۔

ہادی نے فون کی اسکرین پر نظریں جمائے کہا۔۔

نہیں میں نے کہا جانا ہے گھر پہ ہی رہو گی۔۔

نیلم نے نظریں ابھی بھی ہادی کے چہرے سے نہ ہٹائی۔۔

نہیں اگر تم گھر پر بور ہورہی ہو تو ہم کہیں باہر چلتے ہیں اگر تم چاہو تو۔۔

فون چیک کر کے اسنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔۔

ٹھیک ہے اگر آپ فری ہیں تو کہیں باہر چلتے ہیں لنچ بھی باہر کریں گے۔۔

نیلم نے خوشی سے کہا۔۔

ہاں مگر پیٹرول اور لنچ کے پیسے تم دوگی۔۔

اپنے فیلنگز پر کنٹرول کر کے ہادی اپنا شرارتی موڈ آن کر چکا تھا۔۔

اتنے امیر ہو کر بھی مجھ سے پیسے مانگ رہے ہیں آپ۔۔ نیلم نے حیرت سے ہادی کو دیکھ کے کہا۔۔

جیب میں پیسے لے کر تھوڑی گھومتا ہوں دیکھو آج تو زرا کیش نہیں ہے میرے پاس فلحال کیلئے غریب ہوں۔۔

ہادی نے اپنا والٹ نیلم کو کھول کے دکھایا جس پر نیلم ہنس دی۔۔

کوئی بہت بڑی فلم ہیں آپ ہادی۔۔

کیش نہیں ہے تو کیا ہوا کارڈ تو ہے۔۔

خیر چھوڑیں آج سب چیزوں کی پے میں کرونگی ٹھیک ہے۔۔

نیلم ہنستے ہوئے بول کے اٹھ کر جانے لگی ہادی کا دل کیا اسکا ہاتھ تھامے اور کہے کہ کچھ دیر اور بیٹھو 

صبح کی ہلکی دھوپ میں اسکی گلابی رنگت بہت اچھی لگ رہی تھی 

مگر وہ کچھ نہ بول سکا اور نہ ہی کچھ کر سکا۔۔

بس ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کے رہ گیا اور اسے جاتا ہوا دیکھنے لگا۔۔

پاپا کب آئیں گے آپ پاکستان۔۔۔

خود سے بولتا ہوا وہ خود بھی گھر کے اندر چلا گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

بات سنیں۔۔ 

ہانیہ کے معصومیت سے کہنے پر وجاہت نے لبوں پر مسکراہٹ لئے اسے دیکھا۔۔

جی جانم سنائیں۔۔

وجاہت کے شوخی بھرے جواب سن کے ہانیہ تھوڑا جھجھک گئی۔۔

بولو بھی۔۔

ہانیہ کو کچھ نہ بولتے دیکھ کے وجاہت نے کہا۔۔

وہ ہم کل سے یہاں آئے ہوئے ہیں مگر آپ کہیں باہر لے کر نہیں گئے جبکہ آپ نے صبح کہا بھی تھا کہ ہم باہر جائیں گے مگر اب تو لنچ بھی کرلیا۔۔

ہانیہ نے اب بغیر کسی جھجھک کے تیزی سے جو بولنا تھا بول دیا۔۔۔

وجاہت نے اسے غور سے دیکھا جو صوفے پر بیٹھی حور کو دیکھ رہی تھی جو فون میں پوئمز دیکھنے میں مصروف تھی۔۔

تم کیا دیکھو گی مجھے دیکھ رہی ہو کافی نہیں ہے ۔

وجاہت کے شوخی بھرے لہجے پر ہانیہ تپ گئی۔۔

یہ کیا بات ہوئی اتنی دور لائے اور کہیں گھمائے گے نہیں 

آپ کو نہیں پتہ پیرس آنا میری کتنی بڑی خواہش تھی اسے سب پیار کا شہر کہتے ہیں۔۔

پتہ ہے میں نے ایک ناول میں پڑھا تھا اس میں ہیرو اپنی ہیروئن کو آئفل ٹاور کے ٹاپ پہ لے جاکر پروپوز کرتا ہے۔

اف۔۔۔ اتنے مزے کا سین تھا میں نے بہت بار پڑھا تھا۔۔

ہانیہ وہ لائنز کو یاد کر کے حسرت سے بولی۔۔

تم رومینٹک ناولز پڑھتی ہو کیا میں نے تو کبھی نہیں دیکھا تمہیں پڑھتے ہوئے۔۔

وجاہت نے ہنستے ہوئے کہا۔۔

کالج ٹائمز میں پڑھتی تھی پھر شادی ہوگئی پتہ ہے کیا سوچتی تھی میں۔۔

جیسے ناول میں کم عمر ہیروئن کی شادی اسکے اپنے سے تھوڑے بڑی عمر کے لڑکے سے ہوتی ہے تو وہ اسکا بہت خیال رکھتا ہے 

(وجاہت اپنی اور ہانیہ کی عمروں کا فرق سوچنے لگا)

اسے اپنی پرنسس بنا کے رکھتا ہے۔۔

بے پناہ محبت ۔۔ بلکہ نہیں حد سے بھی زیادہ عشق کرتا ہے۔۔

میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ جب ہیرو ہیروئن کے قریب جاتا ہے اسکا ہاتھ تھامتا ہے تو اسکی دل کی دھڑکنیں ایک دم تیز کیسے ہوجاتی ہیں 

(وجاہت کو یاد آیا جب وہ ہانیہ کے قریب گیا تھا پہلی بار تو اسکا اور ہانیہ کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا)

کیسے اسکا چہرا شرم کی لالی سے سرخ ہوجاتا ہے۔۔(وجاہت کو ہانیہ کا سرخ چہرا یاد آنے لگا جب جب وہ اسے گہری نظروں سے دیکھتا ہے)

کیسے وہ من ہی من ہنستی بھی ہے اور گھبراتی بھی ہے۔۔

ہیروئن کو اگر کوئی ایک نظر اٹھا کر بھی دیکھ لے تو ہیرو اس شخص کا حشر کردیتا ہے۔۔

(پارٹی والی رات اسنے بھی تو ایک آدمی کا برا حشر کر دیا تھا جس نے ہانیہ کے بارے میں کمنٹ پاس کیا تھا)

اتنی جنونی محبت پڑھی ہے میں نے 

(اس نے پڑھی ہے اور میں نے کی ہے۔۔ وجاہت نے دل میں سوچا)

مگر شادی کے بعد احساس ہوا کہ وہ سب تو صرف فینٹسی تھا

(صحیح کہتا ہوں میں بے وقوف ہے یہ اسے کبھی محسوس نہیں ہوا میں اس سے ایسی ہی محبت کرتا ہوں یا شاید اس سے بھی زیادہ)

اصل زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا

(کیوں نہیں ہوتا ۔۔ ہوتا ہے۔۔ ہمارا رشتہ کیوں نہیں دیکھتی تم)

جانتے ہو کتنے خواب دیکھے تھے میں نے اپنی زندگی کے بہت بری طرح ٹوٹے تھے 

حسرت سے کہتے کہتے ہانیہ کے چمکتے ہوئے چہرے پر کرب کے آثار دکھائی دیئے 

وجاہت جو دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھا اب اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کے اسے غور سے دیکھنے لگا۔۔

محبت کے دو بول تو دور کی بات ایک نظر کیلئے بھی ترستی تھی میں 

سوچتی تھی کہ جیسے ناول میں ہیروئن ہیرو کی جدائی پر اگلا سانس نہیں لے پاتی میں بھی شاید معظم کے بغیر مر جاوگی۔۔

معظم کے ذکر پر وجاہت نے غصے میں اپنی مٹھیاں بھینچ لی۔۔

مگر مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا میں تو زندہ رہی 

ہاں دل مر گیا تھا۔۔

بولتے بولتے ہانیہ کی آنکھوں سے اشک بہنے لگے۔۔

وجاہت غصے سے اپنی جگہ سے اٹھا اور ہانیہ کو صوفے سے اٹھا کے خود میں بھینچ لیا ۔۔

وجاہت کی گرفت بہت مضبوط تھی ہانیہ کو سانس لینا بھی مشکل لگا

مگر وہ منہ سے کچھ نہ بولی۔۔

دیکھو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے 

ہانیہ کی آخری بات سن کے وجاہت کو غصہ بہت آیا مگر وہ ہانیہ پر غصہ کرنا نہیں چاہتا تھا تو پیار سے سمجھانے لگا۔۔

ہمیں زندگی میں جتنے بڑے دکھ ملتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ہمیں خوشیاں ملتی ہیں۔۔

کم سے کم میں نے اپنے ایکسپیرئنس سے تو یہی جانا ہے ۔۔

وجاہت نرم لہجے میں ہانیہ کو سمجھانے لگا۔۔

اب ہانیہ کو احساس ہوا کہیں اس کے الفاظوں سے وجاہت کو دکھ نہ ہہنچا ہو۔۔

افف۔۔ میں بھی کیا کرتی ہوں۔۔

ہانیہ دل ہی دل میں اب خود کو کوس رہی تھی۔۔

چلو تیار ہوجاؤ باہر چلتے ہیں۔۔

ہانیہ کو خود سے الگ کر کے اسکا چہرا تھام کے وجاہت نے پیار سے بولا۔۔

لیکن جائیں گے کہاں ۔۔ ہانیہ نے اسکے اچانک باہر جانے کے بارے سن کے پوچھا۔۔

چلو تمہیں تمہارا پیار شہر اور آئفل ٹاور دکھا کر لاتا ہوں۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی میں لپیٹتے ہوئے کہا۔۔

ٹھیک ہے میں حور کو بھی ریڈی کر دیتی ہوں۔۔

ہانیہ جانے لگی مگر وجاہت نے اسکے بالوں کی لٹ کو چھوڑا نہیں تھا تو ایک دم اسکے بال کھچے ۔۔

بال تو چھوڑ دیں میرے۔۔

ہانیہ نے اپنا سر تھام کے کہا۔۔

لے تو جاؤنگا مگر ٹاپ پر جانے کے بعد مجھے بھی انعام ملنا چاہئے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے بالوں کو چھوڑتے ہوئے کہا۔۔

فری نہ ہوں زیادہ۔۔ ہانیہ نے ناک چڑھا کے کہا۔۔

سوچ لو تم جو انعام دوگی میں خاموشی سے لے لونگا اگر تم نے نہ دیا تو میں خود لے لونگا۔۔

اور تم اندازہ لگا سکتی ہو میں کیا انعام خود لونگا۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ سرخ ہونے لگی ۔۔

اسکا سرخ چہرا دیکھ کے وجاہت نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔

ناول میں ہیروئن کا چہرا سرخ پڑتا امیجن کر سکتی ہو مگر آئینہ نہیں دیکھ سکتی ۔۔

تمہارے ناول کے ہیرو سے بھی کئی گنا زیادہ شدت سے عشق کرتا ہوں میں اپنی ہیروئن سے۔

دھیمے لہجے میں کہہ کر وجاہت نے ہانیہ کے کام کی لو دیکھی جو کہ سرخ ہورہی تھی 

اس سے رہا نہیں گیا تو اسے چوم لی ۔۔

اور اس سے الگ ہوکر دیکھا تو ہانیہ آنکھیں بند کئے بس وجاہت کا لمس محسوس کر رہی تھی۔۔

وجاہت کے چہرے پر خوبصورت مسکان آگئی اپنی محبت کو اسکا لمس محسوس کرتا دیکھ۔۔

ہم یہاں کیوں آئے ہیں مسٹر ۔۔

سویٹ ہارٹ یہاں اس رومینٹک موسم میں سب کیا کرتے ہیں بتاؤ زرا۔۔

وہ شوخ ہو کر بولا۔۔

جہاں تک مجھے یاد ہے تم یہاں سیمینار کیلئے آئے تھے جو کہ ہو چکا ہے اب ہم تینوں یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔

دیکھو سیمینار تو کل میں نے اٹینڈ کرلیا ہے اب بچے 5 دن اس میں ہم گھومیں گے ویسے بھی ہم ہنی مون پر نہیں گئے تھے تو ایسا سوچ لو کہ ہم ہنی مون پر ہیں۔۔

اچھا جی 3 سال کے بچے کے ساتھ ہم ہنی مون پر آئے ہیں واہ یو امیز می ۔۔

دیکھا میں ہوں ہی کمال میرے جیسا کوئی نہیں ہے۔۔

سنو مسٹر یہ کوئی ہنی مون نہیں ہے ہم یہاں تمہارے کام سے آئے تھے جو کہ ہوگیا اب ہمیں اپنے ملک واپس جانا چاہئے۔۔

دیکھو سویٹی شادی کے وقت تم بھپری شیرنی بنی ہوئی تھی میرے ارمان بہت تھے ہنی مون پر جانے کے مگر اس وقت میں نے تم اسپیس دیا

اب اگر میں چاہتا ہوں کہ ہم یہاں انجوائے کریں تو تمہیں مسئلہ کیا ہے۔۔

پہلی بات شادی کے وقت جو بھی ہوا اس میں تمہاری غلطی تھی تم نے میری شادی روکی تھی 

بہت ہیرو بن کے آئے تھے کہ یہ شادی نہیں ہوسکتی وغیرہ وغیرہ

اس سب کے بعد تم کیا اکسپیکٹ کر رہے تھے کہ ہم کوئی نارمل کپل ہوتے ۔۔

ہاں ہاں جانتا ہوں زبردستی شادی کی تھی تم سے مگر اپنے دل سے پوچھ کے بتاؤ کیا مجھ سے زیادہ محبت کرسکتا ہے کوئی تم سے۔۔

وہ جو فل جھگڑے کے موڈ میں تھی اب ریان کی بات پر ایک دم ٹھنڈی ہوگئی 

وہ سچ ہی تو کہہ رہا تھا پریہا ریان سکندر کو ریان سکندر سے زیادہ اس دنیا میں کوئی نہیں چاہ سکتا۔۔

عالیان اتنا چھوٹا بھی نہیں ہے تین سال کا ہوگیا ہے اور سمجھدار بھی کتنا ہے اس کے سامنے یہ رومینس وغیرہ نہ کیا کرو

بچے بہت جلدی ہر بات پک کرتے ہیں۔۔

پریہا ہار مانتے ہوئے بولی کیونکہ وہ آج تک ریان سے جیتی جو نہیں تھی۔۔

پری جانم تم ناراض تو نہ ہو یار ٹھیک ہے عالیان کے سامنے تم سے تھوڑا ۔۔ مطلب تھوڑا سا دور رہونگا۔۔

ریان کے ہاتھ کے اشارے دیکھ پریہا مسکرا دی۔۔

ریان سکندر شیخ ایک بیٹے کے باپ بن گئے ہو مگر اپنا بچپنا چھوڑ نہیں رہے تم۔۔

کیا کریں پری دل تو بچا ہے جی۔۔

ریان پریہا کا ہاتھ تھام کے بولا۔۔

اچھا چلو عالیان وہیں کیفے میں بیٹھا ہے انتظار کر رہا ہوگا ہمارا۔۔

ہاں چلو مین نے کب منع کیا ہے تم ہی آگئی تھی باہر۔۔

میں آئی تھی تم کیوں آئے میرے پیچھے 

پریہا نے ریان کو آنکھیں دکھائی۔۔

میں بھلا اپنی جانم کے بغیر 1 منٹ بھی رہ سکتا ہوں کیا۔۔

تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔ ریان کو ایک بار پھر پلڑی سے اترتا دیکھ پریہا سر نفی میں ہلاتے ہوئے کیفے کے اندر گئی جہاں انکا بیٹا کسی بچی کے ساتھ کھیل میں مصروف تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

میں تمہیں کیا بلاؤ ۔۔ مطلب مجھے تو تمہارا پیار سے کوئی نام رکھنا چاہئے نہ جیسے سب شوہر اپنی بیویوں کو پیار سے بلاتے ہیں۔۔

وجاہت ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہانیہ کو ایک نظر دیکھ کے بولا۔۔

ہیں ۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اچھا بھلا میرا نام ہے اس سے ہی مجھے مخاطب کریں یہ ہانیہ نہیں تو ہانی بول لیا کریں۔۔

ہانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیا 

حور شیشے کے پار پیرس کے مناظر دیکھنے میں مصروف تھی۔۔

نہیں ان ناموں سے تو تمہیں ہر کوئی مخاطب کرتا ہے مجھے کوئی الگ نام چاہئے تم خود بتادو ورنہ میں کوئی بھی نام رکھ لونگا۔۔

وجاہت نے موڑ کاٹتے ہوئے کہا۔۔

اچھا سوچ کے بتاتی ہوں۔۔

ہانیہ سوچتے وقت پر ہونٹوں کو اپنی شہادت کی انگلی سے ٹیپ کرنے لگی۔۔

وجاہت اسکے یہ سوچنے کے طریقے پر ہنس دیا۔۔

آئیسکریم۔۔ 

ہیں ۔۔ کیا۔۔ میں تمہیں آئسکریم کہہ کر بلاؤ۔۔ 

وجاہت نے نظریں روڈ پر مرکوز کئے بولا۔۔

ارے نہیں مجھے آئسکریم کھانی ہے ابھی ایک کیفے گیا ہے روکیں گاڑی۔۔

روڈ پر تھوڑا رش ہونے کے باعث وجاہت پہلے ہی گاڑی آہستہ چلا رہا تھا۔۔

اب ہانیہ کے کہنے پر سائڈ مرر میں کیفے دیکھنے لگا۔۔

تمہیں تو آئفل ٹاور دیکھنا تھا اور اب آئسکریم۔۔

وجاہت نے گاڑی پارک کرنے کیلئے پارکنگ ایریا کی طرف موڑ لی۔۔

وہ ہم بعد میں دیکھیں گے پہلے آئسکریم ۔۔ کیوں حور آئسکریم کھاؤگی نہ آپ۔۔

ہانیہ چہک کر کہتے ہوئے حور کا منہ اپنی طرف کرکے بولی تو حور اس کے اس طرح بولنے پر کھلکھلانے لگی ۔۔

بابا کو بولو آئسکریم کھلائیں۔۔

ہانیہ کے بولنے کی دیر تھی حور وجاہت کو بولنے لگی۔۔

با ۔۔۔ اے اے اے۔۔ با۔۔ ماما۔۔ او۔۔

حور کے اس طرح بولنے پر وجاہت حیرت سے حور کو پھر ہانیہ کو دیکھنے لگا۔۔

یار یہ ایک سال کی بھی نہیں ہوئی اور اشارے دینے لگی ہے۔۔

وجاہت نے گاڑی پارک کرکے ہانیہ سے کہا۔۔

ہاں تو آپ کو کیا لگا میری بیٹی کچھ کہہ نہیں سکتی دیکھنا وقت آنے پر آپ کو بھی ڈانٹا کرے گی۔۔

وہ وقت آچکا ہے کل کی بات بھولا نہیں ہوں میں کیسے تمہارے گالوں پر ہاتھ رکھ کے مجھے گھورتے ہوئے بولی تھی کہ۔۔ ماما۔۔

جیسے جتا رہی ہو ماما اس کی ہے۔۔

وجاہت آپ اپنی بیٹی سے جیلس ہورہے ہیں۔۔

ہانیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔۔

جیلس نہیں ہورہا میں بس یہ بہت شارپ ہے یہ کہہ رہا ہوں اور کیوں نہ ہو بیٹی کس کی ہے آخر۔۔

وجاہت نے فرضی کالر جھاڑے۔۔

ہانیہ وجاہت عالم کی۔۔

ہانیہ اس کے بولنے سے پہلے ہی بول گئی۔۔

کیفے تک کا راستہ انہوں نے پیدل طے کیا کیفے کے باہر پارکنگ کرنا آلاؤ نہیں تھا تو وجاہت کو تھوڑی دور پارک کرنی پڑی اپنی کار۔۔

کیفے پہنچ کر وجاہت نے ہانیہ کے لئے دروازہ کھولا جو کہ حور کو گود میں لئے اندر داخل ہوئی اور دل میں وجاہت سے بولی۔۔

میرے ہینڈسم جینٹل مین۔۔

اب وہ دونوں ٹیبل پر پیٹھ گئے وجاہت نے ویٹر کو بلایا ۔۔

تو بیگم کونسا فلیور کھاؤگی۔۔

ہانیہ نے بٹر اسکوچ فلیور منگوایا جبکہ وجاہت نے ٹوٹی فروٹی اور حور کیلئے اسٹرابری فلیور منگوایا۔۔

تو میں تمہیں آج سے آئسکریم کہہ کر بلاؤ ۔۔ ویسے نام اتنا برا بھی نہیں ہے۔۔

وجاہت نے شرارت سے کہنی ٹیبل پر رکھے سر اپنا ہاتھ پر رکھ کے بولا۔۔

جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہے میں نے ائسکریم اس لئے بولا کیونکہ مجھے کھانی تھی 

ہانیہ مصنوعی غصے سے بولی۔۔

جیسے ہی آئسکریم آئی وجاہت نے ایک بائٹ لے کر ہانیہ کو دیکھا جو کہ پہلے حور کو کھلا رہی تھی پھر خود کھا رہی تھی۔۔

میں تمہیں سن شائن بلاؤنگا ۔۔

وجاہت کے ہانیہ کو انوکھا نام دینے پر ہانیہ نے اسے دیکھا جو کے اب مزے سے آئسکریم کھا رہا تھا۔۔

اس انوکھے نام کی وجہ جان سکتی ہوں میں۔۔

ہاں کیونکہ تم ایک سن شائن ہی تو ہو جو میری زندگی میں خوشیوں بھری روشنی لے آئی ۔۔

اور تمہارا کامپلیکشن بھی تو ایسا ہی جیسے سورج ہی ٹھنڈی دھوپ جسے دیکھو تو سکون ملتا ہے ۔۔

مسٹر اکڑو آپ مسٹر رومینٹک نہیں ہوتے جارہے یہاں آکر۔۔

ہانیہ نے آئسکریم کا بائٹ لے کر مسکراتے ہوئے بولی۔۔

کیا کریں آپ کے عشق کا اثر ہے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کے کہا تو حور نے فوراً ہانیہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا 

اور وجاہت کو گھورنے لگی۔۔

یہ دیکھو اپنی باڈی گارڈ کو کیسے گھور رہی ہے مجھے۔۔

سن شائن میں تو سوچتا ہوں یہ جب پراپر سب کچھ بولنے لگے گی تو مجھے تو تمہیں دیکھنے بھی نہیں دے گی۔۔

جہاں تمہیں ٹچ کرونگا وہیں چلائے گی۔۔

وجاہت حور کو اٹھا کر اپنی گود میں لے کر بولا حور ہانیہ کی طرف جانے لگی تو وجاہت نے اسے اپنے پیر پر بٹھا کے اسکی آئسکریم اسے کھلائی تو حور اب خاموشی سے آئسکریم کھانے لگی۔۔

ہانیہ صرف ہنستی ہی رہی آپ کیوں اپنی ہی بیٹی سے گھبراتے ہیں 

وہ بس مجھ سے پیار کرتی ہے اسی لئے ایسا کرتی ہے چھوٹی ہے بڑی ہوگی تو سمجھدار ہوجائے گی۔۔

ہانیہ نے اسے پیار سے سمجھانا چاہا۔۔

مجھے تو خیر ایسے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے۔۔

وجاہت چئیر سے ٹیک لگا کے بولا تو ایک 3 یا 4 سال کا خوبصورت بچا ان سے پاس آکر حور کو دیکھنے لگا۔۔

یہ بے بی آپکی ہے۔۔

وہ بہت خوبصورت بچا تھا شکل و صورت میں کوئی انگریز لگ رہا تھا مگر بات اردو میں کررہا تھا۔۔

گری شرٹ اور بلیک جینز پر وہ بلیک جیکٹ پہنے چھوٹا سا راک اسٹار لگ رہا تھا۔۔

جی بیٹا یہ ہماری بے بی آپ کہاں سے آئے ہو۔۔

وجاہت کو وہ بچہ بہت پیارا لگا تو اس سے اتنے ہی پیار سے بولا۔۔

ہیلو بے بی میں عالیان ہوں آپ کا نام کیا ہے۔۔

عالیان معصومیت سے اپنی ہلکی سی توتلی زبان میں بولا۔۔

اسکا بولنے کا طریقی اتنا پیارا تھا کہ ہانیہ اور وجاہت کو ہنسی آگئی اور بیک وقت پیار بھی۔۔

حور اسے دیکھ کے ہنسنے لگی اور ہنستے ہوئے اپنے 4 دانت سب کو دکھانے لگی۔۔

انکل میں بے بی کو لو کیا۔۔

عالیان نے پیار سے وجاہت کو کہا۔۔

چندا آپ بہت چھوٹے ہو بے بی گر جائے گی نہ۔۔

ہانیہ نے عالیان کو پیار کرتے ہوئے کہا۔۔

اتنے میں ہی کیفے میں دو لوگ داخل ہوئے اور عالیان کو بلانے لگے۔۔

مما دیکھو بے بی۔۔

عالیان نے زور سے پریہا کو اپنے پاس بلایا تو پریہا اور ریان اس کے پاس گئے۔۔

ائیم رئیلی سوری انہوں نے آپ لوگوں کو تنگ تو نہیں کیا۔۔

ریان نے نرم لہجے میں وجاہت اور ہانیہ سے سوال کیا۔۔

ارے نہیں یہ تو بہت پیارا بچہ ہے ۔۔ ہانیہ نے مسکرا کے کہا تو وجاہت کے چہرے پر سخت تاثرات آگئے۔۔

وجاہت نے اس آدمی کو گھور کے دیکھا۔۔

سرخ و سفید رنگت کا لئے اپنی لمبے قد کاٹھ اور کسرتی جسم میں وہ بلاشبہ ایک بہت خوبصورت آدمی تھا 

وجاہت نے اسے ہنستے ہوئے دیکھا تو کلین شیو میں اسکا چہرا اچھا لگ رہا تھا۔۔

دیکھنے میں وہ انگریز ہی لگ رہا تھا مگر اردو بہت صاف بول رہا تھا۔۔

وجاہت کو بھی وہ اب اچھا لگا کیونکہ اس نے صرف ایک ہی نظر ہانیہ کو دیکھا اور اب وہ پوری طرح سے وجاہت اور اپنی وائف کے طرف متوجہ تھا۔۔

سوری وہ ہم زرا بات کرنے باہر گئے تھے اور یہ آپ کے پاس آگئے۔۔

پریہا نے عالیان کا ہاتھ پکڑ کے کہا۔۔

کوئی بات نہیں آپکا بیٹا بہت پیارا ہے۔ ہانیہ نے پریہا سے کہا۔۔

مما بے بی آپ لو نہ۔۔

عالیان نے پریہا کا ہاتھ تھام کے بولا کہ وہ بے بی کو لے۔۔

نہیں چندا بے بی روئے گی۔۔

حور تو نہیں مگر پریہا کے منع کرنے پر عالیان ضرور روگیا۔۔

پکا تمہارا ہی بیٹا ہے نوٹنکی دیکھو زرا ایک آنسو بھی نہیں ہے آنکھوں میں۔۔

پریہا نے ریان کو دھیمی آواز میں کہا مگر آواز اتنی بھی ہلکی نہیں تھی کہ وجاہت اور ہانیہ سن نہ سکتے تھے۔۔

آپ لوگ ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں ورنہ یہ چپ نہیں ہونگے۔۔

ہانیہ نے پریہا کو بیٹھنے کا کہا تو پریہا نے ریان کو دیکھا 

جب ریان نے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ عالیان کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔

عالیان تو فوراً ہی اپنی جگہ سے اٹھ کے وجاہت کے پاس گیا اور حور کے ساتھ کھیلنے لگا۔۔

حور بھی اسے دیکھ کے تالیاں بجا رہی تھی۔۔

چاروں ہی انہیں دیکھ کے ہنس دئیے۔۔

سوری تعارف تو ہوا نہیں ۔۔

میں ریان سکند شیخ اور یہ میری وائف پریہا ہیں ۔۔

ریان نے ہاتھ بڑھا کے وجاہت سے ہاتھ ملایا 

ریان کو یہ دیکھ کے خوشی ہوئی کہ وجاہت نے ایک بار بھی پریہا کو نہیں دیکھا تھا شاید وہ بھی اسی کی طرح اپنی بیوی کو بہت چاہتا تھا اور اسکے علاوہ کسی لڑکی کو نہیں دیکھتا تھا۔۔

میں وجاہت عالم اور یہ میری وائف ہانیہ۔۔

وجاہت نے بھی گرم جوشی سے ریان کا ہاتھ تھام کے بولا۔۔

پھر دونوں نے ہی کچھ یاد کرکے ایک ساتھ بولے۔۔

آپ عالم انٹرپرائزز کے اونر ہیں ۔۔ ریان کے بولنے پر وجاہت مسکرا دیا۔۔

اور آپ شاید علی سکندر شیخ کے بھائی ہیں میں جانتا ہوں انہیں ان کے منہ سے نام سنا ہے آپکا۔۔

اب وجاہت نے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے بولا۔۔

جی ہاں آپکی کمپنی کے ساتھ کافی پراجیکٹ کئے ہیں بھائی نے وہ اصل میں میں نے 3 سال پہلے ہی کام شروع کیا ہے۔۔

ریان خوشدلی سے بولا۔۔

جانتا ہوں میرا خیال ہے آپ ہادی کے دوست بھی ہیں شاید ۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر ریان کو مخاطب کیا۔۔

جی ہاں ہادی میرا بہت اچھا دوست ہے بہت مزیدار انسان ہے ہنسا ہنسا کے پیٹ میں درد کر دیتا ہے۔۔

ایسے ہی وہ دونوں اپنے بزنس کے بارے میں بات کرنے لگے 

دوسری طرف ہانیہ اور پریہا اپنے اپنے شوہروں کو دیکھتی ہی رہی ۔۔

تنگ آکر پریہا نے ہانیہ کو مخاطب کیا۔۔

مجھے نہیں لگتا ان لوگوں کی آدھے گھنٹے سے پہلے بات ختم ہوگی۔۔

پریہا کی بات پر ہانیہ مسکرا دی۔۔

دونوں نے پہلے اپنے پچوں کو دیکھا جو کہ عالیان بہت آرام سے اور دیہان سے حور کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے آئسکریم کھلا رہا تھا۔۔

میرے بیٹے کو چھوٹے بچے بہت پسند ہیں۔۔

پریہا نے پیار سے حور اور عالیان کو دیکھ کے کہا۔۔

میں پریہا ہوں سب مجھے پری کہتے ہیں ۔۔ پریہا نے ہانیہ سے بات کی۔۔

میرا نام ہانیہ سب مجھے ہانی کہتے ہیں۔۔

ہم لڑکیوں کے کتنے نام ہوتے ہیں نہ سب نام بگاڑتے ہیں۔۔

پریہا نے مسکرا کے ہانیہ کو کہا تو وہ بھی مسکرا دی۔۔

یہ تو ہے۔۔ ویسے پیرس کیسے آنا ہوا۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو دیکھا جو کہ ریان کو لے کر باہر کی طرف بڑھا۔۔

ریان نے ہانیہ کو بس ایک نظر ہی دیکھا تھا اس کے بعد نظر اٹھا کے بھی نہ دیکھا اس کی خود کی بیوی اتنی خوبصورت تھی وہ بھلا کسی اور کو کیوں دیکھے گا۔۔

مگر وجاہت کو کون سمجھائے۔۔

اصل میں ہماری شادی کو 6 ماہ ہوگئے ہیں مگر ہم کہیں باہر نہیں گئے تو بس یہ مجھے پیرس لے آئے۔۔

ہانیہ نے کہہ تو دیا مگر اب بول کے پچھتائی کیونکہ پریہا اسے حیرانی سے دیکھ رہی تھی مگر بولی کچھ نہیں 

ہانیہ اسکی نظروں کا مطلب سمجھ کے مسکرا کے بولی۔۔

حور وجاہت اور انکی فرسٹ وائف کی بیٹی ہے۔۔

نور کی ڈیتھ حور کو ڈیلیور کرتے ہوگئی تھی پھر انہوں نے حور کیلئے ہی مجھ سے شادی کی۔۔

ہانیہ نے نظریں نیچی کئے بولا اسے لگا کسی اجنبی کے سامنے اسے یہ سب نہیں بولنا چاہئے تھا۔۔

خیر جو قسمت میں ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے 

ویسے آپ کے ہسبینڈ کو دیکھ کے ایسا لگتا نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کیلئے آپ سے شادی کی ہے۔۔

پریہا کے بولنے پر ہانیہ نے اسے چونک کے پوچھا۔۔

بھلا وہ کیسے۔۔

کیونکہ جس طرح سے وہ میرے ہسبینڈ کو یہاں سے بہانہ کرکے لے گئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے وہ آپ کے بارے میں کتنے پوسیور ہیں۔۔

پریہا نے مسکرا کے کہا تو ہانیہ بھی مسکرا دی۔۔

ایسے تھے نہیں ہوگئے ہیں مسٹر اکڑو پتہ نہیں کیا ہوتا جارہا ہے انہیں ۔۔

ہانیہ کو ہنستا دیکھ پریہا بولی۔۔

عشق۔۔ یہ سب عشق کروا دیتا ہے ۔۔۔ ریان کی بھی یہی حرکتیں تھیں مگر پھر میں نے ٹوک ٹوک کے اسکی یہ عادت چھڑوائی ۔۔

پوزیسو ہے وہ مگر تمہارے ہسبینڈ جیسے نہیں۔۔

ہانیہ ایک نظر حور اور عالیان کو دیکھ کے پریہا کو دیکھ کے مسکرا دی۔۔

پریہا نے ہانیہ کو غور سے دیکھا۔۔

سنہری چمکتی ہوئی رنگت پر گلابی گال کالی بڑی بڑی آنکھیں معصوم سا چہرا۔۔

تم بہت پیاری ہو جبھی تمہارے ہسبینڈ بہت محبت کرتے ہیں تم سے اور پھر کسی اور کی اولاد کو ماں بن کے پالنا ان کی نظر میں اور دل میں تم بہت اونچے مقام پر ہونگی۔۔

ہانیہ نے پریہا کو دیکھا جو اسے ہی غور سے دیکھ رہی تھی۔۔

میں اتنی بھی پیاری نہیں ہوں آپ کو کاش دکھا سکتی وجاہت کی پہلی وائف نور بہت زیادہ حسین تھی اور پھر انکی بچپن کی دوست بھی تھی۔۔

مگر پتہ نہیں کیوں انہیں مجھ جیسی عام سی شکل و صورت والی لڑکی سے اتنی محبت ہوگئی۔۔

پریہا ہانیہ کی بات پر ہلکے سے ہنس دی۔۔

ایسا نہیں ہے تم پیاری ہو بہت اور معصوم بھی میں تم سے پہلی بار ملی ہوں اور تم مجھ سے اپنے دل کی بات کرنے لگی ۔۔

یہ تمہاری سادگی ظاہر کرتی ہے۔۔

خیر تم کوئی عام نہیں ہو اپنے شوہر کی نظروں سے دیکھا کرو خود کو اور چاہو تو دنیا سے پوچھلو 

ایسی سنہری چمکتی ہوئی رنگت پر میں نے کبھی اتنے پیارے سے گلابی گال نہیں دیکھے۔۔

پریہا نے بہت پیار سے کہا۔۔

آپ اتنی سمجھداری کی بات کیسے کر لیتی ہو عمر میں تو میرے ساتھ کی ہی لگ رہی ہو۔۔

ہانیہ کے سادگی سے بولنے پر پریہا نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔۔

میری عمر کو چھوڑو میں نے پہلے اپنے پاپا کو سنبھالا ہے اور پھر ریان کو میچورٹی تو آنی ہی تھی نہ مجھ میں۔۔۔

پریہا نے عالیان کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔۔

چلو عالیان چندا بے بی کو اتنی آئسکریم مت کھلاؤ۔۔

مما بس تھولی ہی تھلائی ہے بے بی ٹھیک ہے۔۔

عالیان کے لہجے پر ہانیہ کو اس پر ڈھیروں پیار آیا۔۔

چندا بے بی بیمار ہوجائے گی آپ نے کھلا تو دی ہے۔۔

ہانیہ نے عالیان کے گال پر پیار کرکے کہا اور حور کو اب بے بی سیٹ سے اٹھا کر گود میں لے لیا۔۔

جو کہ وجاہت جاتے ہوئے اسے بٹھا کے گیا تھا اور عالیان اسکے ساتھ والی چئیر پر ہی بیٹھ گیا۔۔

میں بے بی کی ساتھ تھیلونگا۔۔

عالیاں نے پریہا کا ہاتھ پکڑ کے کہا۔۔

نہیں جان وہ چھوٹی ہے آپ کے ساتھ نہیں کھیل سکتی۔۔

پریہا نے اسے سمجھانا چاہا مگر عالیان کہا کسی کی سننے والا تھا فوراً ہانیہ کے پاس گیا 

انٹی میں بے بی کے ساتھ تھیل لوں۔۔

ہانیہ نے پریہا کو دیکھا پھر ان دونوں نے ہی وجاہت اور ریان کو آتے ہوئے دیکھا۔۔

چلیں جی یہ لوگ اب آتے ہی جانے کا کہیں گے۔۔

پریہا نے ہانیہ کو دیکھ کے کہا۔۔

چلیں سن شائن۔۔ وجاہت نے آتے ہی ہانیہ کو چلنے کا کہا۔۔

ہانیہ وجاہت کی بات پر پریہا کو دیکھ کے مسکرانے لگی۔۔

جی چلیں ۔۔ تو ٹھیک ہے پری انشاء اللہ پھر ملنا ہوگا بہت خوشی ہوئی تم سے مل کر۔۔

ہانیہ پریہا سے ملی تو پریہا نے بھی پیار سے اس سے ہاتھ ملا کے کہا۔۔

مجھے بھی ایک نئی دوست بنا کے بہت اچھا لگا۔۔

وجاہت ہانیہ کا کھلا ہوا چہرا دیکھنے لگا جو کہ ریان کی وائف سے بات کرتے ہوئے بہت خوش لگ رہی تھی۔۔

چلو بڈی پھر ملیں گے انشاء اللہ۔۔

کل پروگرام بنائیں کہیں جانے کا۔۔

ہانیہ کو خوش دیکھ وجاہت نے شاید زندگی میں پہلی بار کسی جو خود سے کہیں ساتھ چلنے کا کہا۔۔

ہاں بلکل کیوں نہیں تمہارے پاس میرا نمبر ہے جہاں بھی جانا ہو مجھے صبح تک بتا دینا۔۔

ریان وجاہت سے بغلگیر ہو کر بولا پھر عالیان کا ہاتھ پکڑ کے کہا۔۔

چلو یانو بے بی کو بائے بولو۔۔

عالیان نے فوراً بے بی کو بائے بائے کیا اور وہ لوگ کیفے سے چلے گئے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو دیکھا جو پیار سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

ایسے کیا دیکھ رہی ہو سن شائن۔۔

یہی کہ جو انسان کسی غیر سے ہنس کے بات نہیں کرتا اس نے میری خوشی کیلئے کل ان لوگوں کو ملنے کیلئے کہا۔۔

وجاہت ہانیہ کی بات پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔۔

جاننے لگی ہو تم مجھے۔۔ تم خوش دکھائی دے رہی تھی ریان کی وائف کے ساتھ ریان بھی اچھا انسان ہے ہم انکی فیملی کو جانتے ہیں کافی اچھے سے بس ریان لندن میں رہتا تھا شروع سے تو اسے نہیں جانتا تھا میں۔۔

یہ ہادی کا بہت اچھا دوست ہے نام بہت بار سنا ہے میں نے اور بلکل ہادی کی طرح ہی ہے بہت بولتا ہے مگر مجھے اچھا لگا۔۔

وجاہت حور کو ہانیہ کی گود سے لے کر بولتے ہوئے آگے بڑھا۔۔

ہانیہ بھی ہنستے ہوئے وجاہت کے پیچھے پیچھے چل دی۔۔

تھوڑا جلدی چل لو بیگم تمہارا آئفل ٹاور تمہارا انتظار کررہا ہوگا۔۔

وجاہت نے مڑ کے دیکھا تو ہانیہ ہلکے ہلکے چل رہی تھی تو بولے بغیر نہ رہا۔۔

ہانیہ اسکی بات پر تیزی سے قدم بڑھانے لگی پھر وہ تینوں گاڑی میں بیٹھ کے پھر سے اپنے سفر پر روانہ ہوئے۔۔

واؤ یہ سب کتنا خوبصورت ہے۔۔

ہانیہ اشتیاق سے ائفل ٹاور کے ٹاپ پہ کھڑے ہوکر پیرس کا خوبصورت نظارہ دیکھ رہی تھی جو کہ اتنی اونچائی سے دیکھنے پر ایک الگ ہی خوبصورتی پیش کر رہا تھا۔۔۔

وجاہت حور کو گود میں لئے اسے مسکرا کے دیکھ رہا تھا۔۔

انہیں یہاں آئے دس منٹ ہوگئے تھے۔۔

چلیں سن شائین۔۔ یہاں کافی ٹھنڈ ہے اور مجھے لگتا ہے حور کو ٹھنڈ لگ رہی ہے۔۔

وجاہت حور کو دیکھ کے بول رہا تھا جبکہ ہانیہ نے منہ بنا کے اسے دیکھا۔۔

کتنی شوق سے میں نے ان مسٹر کو بتایا تھا اپنے ناول کے بارے میں کہ ہیرو اپنی ہیروئن کو ائفل ٹاور پر پروپوز کرتا ہے ۔۔

مگر دیکھو پروپوز تو دور ایک بار آئی لو یو بھی نہیں کہا مجھے 

وہ بھی اتنی رومینٹک جگہ پر۔۔

ہانیہ نچلہ ہونٹ کاٹ کر دل میں خود سے بولی۔۔

کیا ہوا سن شائین چلنا نہیں ہے کیا۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر اسے کہا تو وہ غصے سے منہ بنائے لفٹ کی طرف بڑھ گئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہادی پچھلے دس منٹ سے نیلم کا ویٹ کر رہا تھا انگلی میں چابی گھماتے ہوئے وہ موبائل میں بار بار وقت دیکھ رہا تھا۔۔

نیوی بلو شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ میں وہ سادگی میں بھی ڈیشنگ لگ رہا تھا۔۔

نیلم کی اس پر نظر پڑی تو ساتھ میں اسکے چہرے پر خوبصورت مسکان آگئی۔۔

ہادی نے نیلم کو دیکھا جو نیوی بلیو لینن کے شرٹ اور ٹراؤز پہنے بالوں کو ہالف فرینچ اسٹائل میں بنائے بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔۔

نیلم کو دیکھ کے ہادی کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک ابھری جسے آج نیلم نے پہلی بار محسوس کیا۔۔

کچھ پل وہ دونوں ایک دوسرے کو تکتے رہے 

نیلم کی آنکھیں بھی وجاہت کی طرح بھوری تھی اور اس پر گھنی پلکوں کی جھالر ان آنکھوں کو اور حسین بناتی تھی۔۔

نیلم کو یوں تکتا پاکر ہادی نے اپنی ایک ہارٹ بیٹ مس کی۔۔

مگر پھر خود کو سنبھالتے ہوئے اس نے نیلم کیلئے گاڑی کا دروازہ کھولا۔۔

نیلم بھی ہادی کو مسکرا کے دیکھ کر کار میں بیٹھ گئی۔۔

جبکہ اسکے بیٹھتے ہی ہادی نے گہرا سانس خارج کیا اور خود بھی کار میں بیٹھ کر کار ڈرائیو کرنے لگا۔۔

تم میری ہی نکل کرنا ہمیشہ۔۔

ہادی نے اپنا موڈ تھوڑا چینج کرنے کیلئے نیلم کو چھیڑا۔۔

میں بھلا آپ کی کیوں نکل کرنے لگی۔۔

نیلم نے گھور کے ہادی کو دیکھا پھر بولی۔۔

اچھا تو پھر سیم کلر کیوں پہنا۔۔

ہادی نے موڑ کاٹتے ہوئے کہا۔۔

مجھے یہ ڈریس اچھا لگا تو پہن لیا ۔۔

نیلم نے شیشے کے پار دیکھ کے کہا۔۔

سگنل ریڈ ہونے پر ہادی نے کار روکی اور ان کے ساتھ ایک اور کار بھی سگنل پر آکر رک گئی۔۔

اس میں کچھ لڑکے تھے جو کہ شکل سے ہی آوارہ لگ رہے تھے۔۔

ایک لڑکے نے نیلم کو دیکھا پھر اپنے ساتھ والے دوست کو کہنی مار کر نیلم کی طرف متوجہ کیا۔۔

ہادی کی نظر جب ان لڑکوں پر گئی تو اسکا کھون کھول اٹھا۔۔

وہ مرد تھا اور مردوں کی نظروں کو اچھے سے پہچانتا تھا۔۔

جیسے ہی سگنل گرین ہوا ہادی نے غصے کو قابو پاتے ہوئے پھر سے گاڑی سٹارٹ کی اور آگے بڑھا دی۔۔

مگر جیسے ہی اس نے کار کی اسپیڈ تھوڑی تیز کری وہ پہلے والی کار ہی نیلم اور ہادی کی کار کی طرف بڑھی۔۔

ہادی کو یہ سب دیکھ شدید غصہ آیا وہ پانچ منٹ میں چاروں لڑکوں کو ڈھیر سکتا تھا مگر اب ساتھ میں اسکی محبت اور اسکی ذمی داری بھی تھی 

وہ چاہ کر بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کر سکتا تھا جس سے نیلم متاثر ہو۔۔

اسی لئے اسنے فوراً نے موڑ کاٹ کر اپنا راستہ ہی الگ کرکیا۔۔

ہاں مگر ان لڑکوں کی شکل اور گاڑی کا نمبر اسے بہت اچھے سے یاد ہوگیا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

تمہیں کیا ہوا جب ہم آئیں تھے یہاں تو بہت خوش تھی اور بہت چہک رہی تھی۔۔

وجاہت نے اپنی سن شائین کا اترا چہرا دیکھ کے کہا جو اپنے گرد بازو لپیٹے بغیر وجاہت کی طرف دیکھے چلے جارہی تھی۔۔

جبکہ وجاہت حور کو بے بی کیرئیر میں لیا ہوا تھا۔۔

یار کچھ تو بولو۔۔ چلو گھر چلتے ہیں اگر تمہیں یہاں اچھا نہیں لگ رہا تو ۔۔

وجاہت کو لگا شاید ہانیہ سے ٹھنڈ برداشت نہیں ہورہی جبکہ وہ ٹاپ کے اوپر سویٹر اور پھر اس پر اوور کوٹ پہنی ہوئی تھی۔۔

سردی کا تو پتہ نہیں ہاں دل جل رہا تھا۔۔

آپ بورنگ انسان ہیں مسٹر اکڑو۔۔ ہانیہ نے منہ بنا کے کہا۔ 

اب یہ بات کہاں سے آگئی گھر پر تو تم کہہ رہی تھی کہ میں مسٹر اکڑو سے مسٹر رومینٹک بنتا جارہا ہوں تو اب ایسا کیوں بول رہی ہو۔۔

جب بھی کوئی کپل آئفل ٹاور پر پہلی بار جاتا ہے تو وہ اپنے پیار کو بہت یونیک طریقے سے ایکسپریس کرتے ہیں ایک دوسرے کو اسپیشل فیل کرواتے ہیں۔۔

ہانیہ نے آدھی بات وجاہت کو کہی جبکہ آخری بات اس نے اپنے دل میں کہی۔۔

لو مجھے کیا پتہ فینٹسی ناولز تم پڑھتی ہو میں نہیں میں بس آفس کی فائلز پڑھتا ہوں۔۔

مجھے کیسے پتہ ہوگا کہ یہ سب کیسے کرتے ہیں۔۔

ہانیہ نے غصے سے رخ موڑ لیا۔۔

تو وجاہت نے ایک ہاتھ سے ہانیہ کو کمر سے تھام کے اسکا رخ اپنی طرف کیا ۔۔

دیکھو سن شائین میں تمہارے لئے خود کو بہت بدل رہا ہوں۔۔

میں ہر وہ چیز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جس سے تمہیں خوشی ملے۔۔

کیا تم مجھے تھوڑا وقت نہیں دے سکتی نہ ہم کہیں جارہے ہیں اتنی جلدی۔۔

نہ یہ آئفل ٹاور کبھی کہیں جانے والا ہے۔۔

آج کا میرا باہر کا پلان صرف صبح کا تھا پھر موسم دیکھ کے میں نے پلان کینسل کیا

مگر تمہارے کہنے پر میں تمہیں باہر لے کر آیا۔۔

اتنی ٹھنڈ ہونے کے باوجود تمہیں اور حور کو آئسکریم کھلائی 

میں کھاتا نہیں تھا مگر تمہاری خوشی کیلئے آئسکریم بھی کھائی۔۔

وقت کے ساتھ ساتھ میں سب بدل دونگا ۔۔ خود کو بھی۔۔

وجاہت نے اسے اتنے پیار سے سمجھایا کہ ہانیہ کے چہرے پر ناراضگی کے باوجود بھی تبسم پھیل گیا۔۔

ہانیہ کو مسکراتا دیکھ وجاہت نے اسکی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کی جسے حور نے فوراً مٹا دیا۔۔

اصل میں ہوا یہ کہ حور وجاہت کی ہی گود میں تھی جب وجاہت نے ہانیہ کے ماتھے پر بوسہ دیا تو حور کو اچھا نہیں لگا۔۔

اور اس نے اپنے ننھے ہاتھوں کو تھوڑا اونچا کر کے ہانیہ کے ماتھے پر سے وجاہت کی محبت کی مہر مٹا دی 

اور وجاہت کی گردن میں ہاتھ ڈال کے بولی۔۔ اے۔۔ مما ۔۔مے۔۔

حور کی اس حرکت پر ہانیہ اور وجاہت دونوں کا قہقہہ فضا میں گونجا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

مما دیتھو۔۔ (دیکھو) وی بے بی(وہی بے بی)...

عالیان نے ریان کا ہاتھ تھامے دوسرے ہاتھ سے پریہا کا کوٹ کھینچا ۔۔

ریان اور پریہا سیلفی لے رہے تھے۔۔

جب عالیان کے زور سے بولنے پر ایک دم اسکے ہاتھ کے اشارے کی طرف انہوں نے دیکھا تو وہاں ہانیہ اور وجاہت انہیں دکھائی دیئے۔۔

حور کو دیکھ کے تو عالیان نے ضد ہی باندھ لی۔۔

نہیں یانو بیٹا ان کو بار بار ڈسٹرب کرنا اچھی بات نہیں ۔۔

ریان نے عالیان کا چہرا تھام کے پیار سے کہا۔۔

نو پاپس بے بی۔۔

عالیان کہاں کسی کی سنتا تھا گھر بھر کا لاڈلا تھا۔۔

خاص کر کے علی اور نائل کا ۔۔

علی کو جتنا اپنا بیٹا نائل عزیز تھا اتنا ہی ریان کا بیٹا عالیان۔۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ نائل اور ماہم سے زیادہ سبھی گھر والے عالیان سے محبت کرتے تھے تو یہ غلط نہ ہوگا۔۔

خود نائل کی بھی اپنے چھوٹے بھائی میں جان بستی تھی۔۔

ابھی بھی جب وہ پری اور ریان کے ساتھ پیرس آرہا تھا تو نائل نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔

پاپس تلو(چلو)۔۔ دیتھو(دیکھو) بے بی۔۔

عالیان اب باقائدہ ریان کا ہاتھ پکڑ کے کھینچ رہا تھا۔۔

پری جانم مجھے لگتا ہے ہمیں اب اپنے بیٹے کی خوشی کیلئے اسکی بہن لانے کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔۔

ریان نے دھیمی آواز میں پریہا کے کان میں کہا۔۔

اس نے اتنے سنجیدہ ہوکر اتنی غیر سنجیدہ بات کہی کہ پری اس وقت بلش کرنے لگی۔۔

لو اس میں شرمانے والی کیا بات ہے۔۔

پری کو بلش کرتا دیکھ ریان اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے چھیڑنے لگا۔۔

پہلے اسے پال لیں پھر سوچیں گے۔۔

پری مسکراتے ہوئے بولی۔۔

ارے جانم سنو تو ابھی تو بس ایک بیٹی کا کہہ رہا ہوں اتنا سوچیں گے تو باقی بچوں کی باری کب آئے گی ۔۔۔

پریہا کا چہرا ریان کی بات پر اور سرخ ہوگیا۔۔

اس نے ایک مکا ریان کے بازو پے مارا۔۔

اے ظالم ہاتھ توڑ دیا میرا۔۔

ریان نے شرارت میں اپنا بازو تھاما۔

مگر جیسے ہی اسنے عالیان کا ہاتھ چھوڑا وہ دوڑتا ہوا حور کی جانب بھاگا۔۔

جانم یہ بچہ کبھی ہمیں رومینس نہیں کرنے دیتا۔۔

عالیان کی طرف چلتے ہوئے ریان نے تاصف سے کہا۔۔

لو ایک سے گھبرا گئے ابھی تو ڈھیر سارے بچوں کی بات کر رہے تھے۔۔

پریہا نے تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔۔

تو کیا ایک بچے کی وجہ سے میں اپنے باقی ڈھیر سارے بچوں کے ساتھ نا انصافی تھوڑی کرونگا۔۔

سب کا اپنا اپنا حق ہوتا ہے بھئی۔۔

ریان کی باتیں سن کے پریہا کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا۔۔

ریان کو دھکا دے کر وہ تیزی سے عالیان کی طرف بڑھی جو کہ حور کے پاس پہنچ چکا تھا اور اب وجاہت سے بات کر رہا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

یار سن شائین تم تو پہلے ہی دن دوسری بار ناراض ہوگئی مجھ سے۔۔

وجاہت حور کا بے بی کیری کا بیلٹ کھولتے ہوئے بولا کیونکہ حور نیچے اترنے کی ضد کر رہی تھی۔۔

وجاہت نے اسے نیچے اتارا اور اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔

یہ دیکھ ہانیہ اور وجاہت دونوں کو ہی حیرت ہوئی۔۔

کہ حور وجاہت کا ہاتھ تھامے اپنے پیروں پر کھڑی تھی۔۔

وجاہت نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا مگر حور ایک بار بھی نیچے نہیں بیٹھی تھی بلکہ اپنے قدم بڑھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔

ہانیہ اپنی ناراضگی بھول کر حور کو حسرت اور محبت سے دیکھنے لگی جو قدم بڑھا تو نہیں رہی تھی مگر کوشش کر رہی تھی۔۔

ہانیہ کی آنکھوں میں یہ دیکھ نمی آگئی ۔۔ حال کچھ ایسا وجاہت کا بھی تھا مگر اس نے اپنے جزبات کو اچھے سے کنٹرول کیا۔۔

اتنے میں وہی بچہ جو کیفے میں ملا تھا وہ بھاگتا ہوا حور کے پاس آگیا۔۔

عالیان کو دیکھ حور بھی کھلکھلانے لگی۔۔

اور وجاہت کی طرف دیکھ کے پھر سے عالیان کو دیکھ کے ہنسنے لگی ۔

انکل بے بی میں تو دو نہ۔۔

عالیان اپنی توتلی زبان میں بولا۔۔

اس بار وجاہت تھوڑا جھک کے بولا۔۔

عالیان بیٹا آپ پھر مما بابا کو بتائے بغیر آئے ہو کیا۔۔

عالیان کچھ کہتا پریہا تیزی سے وہاں آئی۔۔

معافی چاہتی ہوں پر یانو نے حور کو دور سے دیکھ لیا اور ریان کا ہاتھ چھڑا کے یہاں بھاگ آئے یہ موصوف۔۔

پریہا تھوڑا سانس بحال کر کے بولی۔۔

پریہا کو دیکھ ہانیہ خوشی سے مسکرا دی۔۔

دوسری طرف پریہا بھی ہانیہ کو دیکھ کے مسکرائی۔۔

لو جی وجاہت ایک کام کرو میرے یانو کو اپنے ساتھ لے جاؤ ۔۔

ریان نے ہنستے ہوئے وجاہت سے کہا تو عالیان اپنے پاپس کی بات سن کے فوراً ریان کے پاس آیا۔۔

نو پاپس میں بے بی کو دیتھنے(دیکھنے)آیا۔۔

عالیان کی بات پر ریان نے اس کے بال بگاڑے۔۔

میں نے اسے منع کیا تھا کہ آپ لوگوں کو ڈسٹرب نہ کرے مگر یہ سنے تب نہ ہاتھ چھڑا کے یہاں کی طرف دوڑ لگادی۔۔

کوئی بات نہیں بچہ ہے۔۔

وجاہت نے مسکرا کے کہا مگر وجاہت کا ڈس کمفرٹ کسی سے چھپا نہیں تھا اسے عالیان کا آنا برا نہیں لگا تھا۔۔

ہاں اسے ریان کا وہاں آنا تھوڑا برا لگا تھا۔۔

وہ ہادی کو برداشت نہیں کرتا تھا ہانیہ کے آس پاس جو کہ اسکے بھائیوں جیسا تھا پھر ریان تو غیر تھا 

جسے بھلے ہی وہ جانتا تھا مگر ملا تو پہلی بار ہی تھا۔۔

پریہا وجاہت کے چہرے پر کچھ پڑھ کے عالیان کو وہاں سے لے جانے لگی۔۔

مگر عالیان جانا نہیں چاہتا تھا۔۔

پریہا نے جب عالیان کو تھوڑا ڈانٹا تو وجاہت کو تھوڑی شرمندگی ہوئی۔۔

ریان ایک کام کرو تم عالیان کو لے لو ہم زرا بچوں کو تھوڑی واک کروا دیں یہ لیڈیز یہاں بیٹھ جائیں گی اور ہم تھوڑی بات چیت بھی کر لیں گے۔۔

ریان کو اسکا مشورہ پسند آیا تو وہ عالیان کا ہاتھ تھامے چل دیا جبکہ وجاہت نے حور کو گود میں لیا اور آگے بڑھ گیا۔۔

اسے ویسے بھی کسی سے بات کرنی تھی۔۔

ہانیہ کو کچھ شکایتیں تھی وجاہت سے جسے وہ سمجھ نہیں پارہا تھا جیسے کہ آئفل ٹاور کے ٹاپ پر وہ چاہتی تھی کہ وجاہت اسے سر پرائیز کرے 

اب ہادی سے وہ بات تو کر نہیں سکتا تھا کیونکہ پھر یہ سب سن کے اس نے جو ریکارڈ لگانا تھا اسکا ۔۔

اور پھر ریان اسے کافی سلجھا ہوا اور اچھا انسان لگا 

سیدھے سیدھے نہ سہی مگر تھوڑا بہت آئیڈیاز تو وہ لے ہی سکتا تھا۔۔

دوسری طرف پریہا اور ہانیہ قریب ہی ایک بینچ پر بیٹھ گئی اور باتوں میں مصروف ہوگئین۔۔۔۔

وجاہت لگتا ہے ہمارے بچے ایک دوسرے کو صدیوں سے جانتے ہیں۔۔

ریان عالیان اور حور کو ساتھ میں کھیلتا دیکھ کے خوشی سے بولا جبکہ وجاہت کی نظریں ضرور بچوں پر تھیں مگر ذہن کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔

کیا ہوا کہاں کھوئے ہوئے ہو 

وجاہت نے جب ریان کی ایک دو باتوں کا جواب نہ دیا تو ریان پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔۔

وجاہت نے جب اپنے کندھے طر کسی کا ہاتھ محسوس کیا تو ایک پل تو وہ چونک گیا۔۔

کیا ہوا۔۔ وجاہت نے سوالیہ نظروں سے ریان کو دیکھا۔۔

کچھ نہیں تم مجھے تھوڑے پریشان لگ رہے ہو۔۔

دیکھو میں جانتا ہوں کہ ہم آج پہلی بار ملے ہیں مگر مجھے اچھا لگے گا اگر تم مجھ سے اپنی پریشانی شئیر کروگے۔۔۔

ریان نے وجاہت کو کسی سوچ میں گم دیکھا تو بولا۔۔

نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے پریشانی تو مجھے کوئی نہیں ہے بس کچھ اور سوچ رہا ہوں۔۔

وجاہت کو ایک پل ریان کا فکرمندانہ انداز اچھا مگر اگلے ہی پل وہ سنبھل گیا۔۔

میں انسسٹ نہیں کرونگا مگر ایک مشورہ دے سکتا ہوں یہ ضروری نہیں کہ ہم ہمیشہ اپنی پرابلمز اپنے تک ہی رکھیں جانتے ہو

میں نے اپنی لائف میں بھی بہت سی غلطیاں کی ہیں جسکا مججے شاید ساری زندگی پچھتاوا رہے گا 

اور شاید اگے بھی بہت سی غلطیاں کرتا اگر میرے بڑے بھائی مجھے نہ سمجھاتے۔۔

تو شاید میں آج ایک پرسکون اور اچھی زندگی نہ گزار رہا ہوتا بلکہ کچھ پل کہ غصے کی وجہ سے میں پری کو کھو چکا ہوتا۔۔

ریان کی سنجیدہ بات سن کہ وجاہت نے فیصلہ کیا کہ اسے بھی اب کسی سے بات کرنی ہی چاہئے۔۔

خیر میں نے بھی شاید کچھ غلطیاں کی ہیں مگر جان بوجھ کے نہیں جسکی میں دھیرے دھیرے تلافی کر رہا ہوں۔۔

مگر۔۔

وجاہت بہت سوچ سوچ کہ بول رہا تھا اور ریان اسے غور سے سننے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی دیکھ رہا تھا۔۔

میری اور ہانیہ کی لو میرج نہیں ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ میں نے ہانیہ سے مجبوری میں شادی کی اپنی بیٹی کیلئے۔۔

وجاہت کی بات پر ریان نے اب باقائدہ رخ وجاہت کی طرف کر کے دیکھا۔۔

ریان کی نظروں کا مطلب سمجھ کے وجاہت نے گہرا سانس لے کر کہا۔۔

ہاں حور میری اور ہانیہ کی بیٹی نہیں ہے وہ میری اور میری پہلی بیوی کی بیٹی ہے جسکی حور کے پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی ڈیتھ ہوگئی تھی۔۔

حور ایک پری میچور بچی تھی تو اسکی دیکھ بھال کوئی کر نہیں پارہا تھا مجھے اسکے لئے ایک نینی چاہئے تھی

پھر ایک دن ہانیہ میرے آفس جاب انٹرویو کیلئے آئی تو اسنے حور کو دیکھا اور اسے پیار کرنے لگی ۔۔

ریان پوچھنا چاہتا تھا کہ اتنی چھوٹی بچی آفس میں کیا کر رہی تھی مگر اسکی ہمت ہی نہ ہوئی کیونکہ اگر وہ وجاہت کو بیچ میں ٹوکتا تو وہ وہیں خاموش ہوجاتا۔۔

اسے دیکھ کے مجھے احساس ہوا کہ اس لڑکی سے زیادہ کوئی میری بیٹی کو نہیں چاہ سکتا اسی لئے اسے میں نے اس کے سامنے شادی کا پروپوزل رکھا 

پھر حالات کچھ ایسے ہوئے کہ ہانیہ نے مجھ سے شادی کرلی۔۔

کانٹریکٹ کے بارے میں وجاہت نے کچھ نہ کہا۔۔

شادی کے اگلے ہی دن میں ملک سے باہر چلا گیا کیونکہ میں اپنی لائف میں کسی کو نہیں چاہتا تھا۔۔

کافی مہینوں بعد آیا تو ہانیہ سے اٹیچمنٹ ہوگئی شاید ہمارے رشتے کی کشش نے مجھے اسکی طرف راغب کر دیا۔۔

میں اسے پیرس بھی اسی لئے لے کر آیا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھیں ایک دوسرے کو جانیں اور دل سے اس رشتے کو قبول کریں۔۔

مگر میں ایک ایسا انسان ہوں جسے اپنی فیلنگز ایکپریس کرنی نہیں آتی۔۔

مجھے لفظوں میں محبت بیان کرنی نہیں آتی۔۔

تم نے کہا کہ تم پہلے سے شادی شدہ تھے اور اس رشتے سے تمہاری ایک بیٹی بھی ہے اور پھر بھی تم کہہ رہے ہو کہ تمہیں محبت کا اظہار کرنا نہیں آتا۔۔

ریان وجاہت کو حیرانی اور الجھن سے دیکھ کے بولا۔۔

ریان کی بات پر وجاہت کے چہرے پر دھیمی مسکراہٹ آگئی اسی سوال سے بچنے کیلئے وہ کسی سے بات نہہں کر رہا تھا اور یہی سوال ریان نے سب سے پہلے کر لیا۔۔

نور میری بچپن کی دوست تھی وہ مجھے جانتی تھی میرے نیچر کو جانتی تھی مجھے اچھے سے سمجھتی تھی 

ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے بس محبت کا اظہار تو ہم دونوں نے ہی کبھی ایک دوسرے سے نہیں کیا تھا 

اس نے کبھی شکایت بھی نہیں کی تھی۔۔

مگر آج مجھے ہانیہ کی باتوں سے احساس ہوا کہ ہانیہ بہت الگ ہے وہ ایک فینٹسی ورلڈ میں رہنے والی لڑکی ہے جو زیادہ نہیں تو اپنی لائف میں تھوڑی بہت تو فینٹسی چاہتی ہے۔۔

دیکھو میں سمجھا نہیں پاؤنگا وجاہت بولتے ہوئے اپنے الفاظوں میں ہی الجھ رہا تھا۔۔

وہ خوش ہے خوشی اس کے چہرے سے جھلکتی ہے مگر میں چاہتا ہوں میں اسے ایسی لائف دوں جیسی وہ چاہتی ہے۔۔

وجاہت کو اتنی چھوٹی سی بات پر پریشان ہوتا دیکھ ریان اپنے قہقہہ ضبط کرنے لگا مگر جب وجاہت نے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا تو ریان سے ضبط کرنا مشکل ہوگیا اور اسکا قہقہہ فضا میں گونجا۔۔

ریان کو اس طرح قہقہہ لگاتا دیکھ وجاہت کا چہرا غصے سے سرخ ہوگیا۔۔

اور وہ خود کو دل ہی دل میں کوسنے لگا کہ کیوں آخر کیوں اسنے کسی سے اپنی اتنی پرسنل بات شئیر کی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

تمہیں یہاں دیکھ کے مجھے بہت لگا چلو اس غیر ملک میں مجھے ایک دوست مل گئی۔۔

ٹھنڈ کی شدت بڑھتے دیکھ پریہا پاس کے ہی کیفے سے گرما گرم کافی اپنے اور ہانیہ کیلئے لے آئی اور اب وہ دونوں ہی کافی کے مزے لے رہے تھے جب ہانیہ نے پری سے کہا۔۔

ہانیہ کی بات پر پری مسکرا دی۔۔

اگر میں تم سے ایک بات پوچھو تو تم برا تو نہیں مانو گی۔۔

پری نے ہانیہ کو دیکھ کے کہا۔۔

پری کے اس سوال پر ہانیہ نے سوالیہ نظروں سے پری کو دیکھا۔۔

ہاں بولو۔۔

دیکھو غلط مطلب نہیں لینا مگر مجھے لگتا ہے تمہارے شوہر تھوڑے شکی نہیں ہیں۔۔

ابھی ریان کو دیکھ کے انکے تاثرات مجھے کچھ اچھے نہیں لگے تھے ۔۔

پری کی بات پر ہانیہ مسکرا دی ۔۔

نہیں ایسا نہیں ہے وہ شکی نہیں بس میرے آس پاس کسی کو برداشت نہیں کرتے ۔۔

انہیں لگتا ہے میں اس دنیا کی حسین ترین انسان ہوں جسے ہر کوئی دیکھے گا ان کا بس نہ چلے مجھے کسی انجان آئی لینڈ پر لے جائیں۔۔

جبکہ وہ یہ نہیں دیکھ سکتے تھے شاید کہ جس انسان سے وہ چڑ رہے ہیں اسکی اپنی بیوی حد سے زیادہ حسین ہے۔۔

ہانیہ نے پری کو پیار بھری نظروں سے دیکھ کے کہا۔۔

ہانیہ کے بچوں جیسے انداز پر پری بھی مسکرا دی اود مسکراتے ہوئے اسکے ڈمپل واضح ہونے لگے۔۔

ایسا نہیں ہے ہانیہ تمہارے ہسبینڈ کا تھوڑی فکر کرنا تو بنتا ہے۔۔

دیکھو میں ایک عورت ہوں مگر پھر بھی تم مجھے اتنی پیاری لگی پھر آدمی تو آدمی کی نظروں کو سمجھتے ہیں 

تم باقی لڑکیوں سے بہت الگ ہو یہ سنہری چمکتی ہوئی رنگت ہر کسی کی نہیں ہوتی یہ قدرتی ہے جو کہ کسی کسی کی ہی ہوتی ہوگی اور سب سے نمایاں تمہارے اس سنہری رنگت پر تمہارے گلابی گال ہیں جو تمہیں بلکل الگ ہی بناتے ہیں۔۔

پریہا کے نرم سے لہجے پر ہانیہ نے مسکرا کر کافی کا سپ لیا۔۔

اگر تمہارے ہسبنڈ کو میرے ہنبینڈ کی نظروں میں تھوڑی بھی خرابی محسوس ہوتی تو وہ ان کے ساتھ نہ جاتے نہ ہی ہمیں اکیلا یوں بیٹھنے دیتے۔۔

ایک بات کہوں۔۔

ہانیہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔

ہاں بولو نہ۔۔

پریہا نے چھی کافی کا سپ لے کر کہا۔۔

مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آرہی۔۔

ہانیہ نے اتنی معصومیت سے کہا کہ پریہا کو اس پر بے انتہا پیار آیا۔۔

لڑکی ایک بچی کی ماں بن گئی ہو اور سمجھ بلکل نہیں ہے تم میں۔۔

پریہا نے مسکرا کے کہا تو ہانیہ کے چہرے پر ایک پل کیلئے پریہا نے کچھ ایسا محسوس کیا جسے وہ کوئی نام نہ دے سکی مگر بولی کچھ نہیں۔۔

میں تمہیں بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ تمہارے ہسبنڈ تمہیں لے کر بہت پوزیسو ہیں اس بات کا ہمیشہ خیال کرنا۔۔

مرد اس ٹاپک پر بہت حساس ہوتے ہیں جب تم نے ریان سے بات کی تھی آج تو تم نے اسے بھائی کہہ کر ہی مخاطب کیا تھا مگر تمہارے ہسبینڈ کو پھر بھی اچھا نہیں لگا تھا تمہارا ریان کے بات کرنا۔۔

تو اس معاملے میں تمہیں تھوڑا سنبھل کے رہنا ہوگا اور اپنی محبت سے اپنے شوہر کی اس حساسیت کو ختم کرنا ہوگا۔۔

ریان میں بھی ایک وقت میں ایسی ہی عادتیں تھی جس سے مجھے سخت چڑ تھی ۔۔

مگر جانتی ہو میرے غصے کی وجہ تھے میں نے تقریباً اسے کھو دیا تھا۔۔

وہ تو بھلا ہو علی بھائی کا یعنی میرے جیٹھ کا جنہوں نے ریان کو سمجھایا ۔۔

پھر مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے بھی کچھ طریقوں کو بدلنا پڑے گا 

پریہا ہانیہ کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگی جو اسکی باتوں کو بہت غور سے سن رہی تھی۔۔

پھر اپنے کیا کیا۔۔

ہانیہ نے سوال پر پریہا نے اسکا ہاتھ تھام کے کہا۔۔

میں نے پہلے اپنے رشتے کو بہت مضبوط کیا۔۔

پھر اپنی محبت سے ریان کو چینج کیا وقت بہت لگا مگر میں نے صبر سے کام لیا۔۔

تمہیں اس لئے یہ سب کہہ رہی ہوں کیونکہ میں نے آج پہلی باری میں ہی تمہارے ہسبنڈ کے بارے میں یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ  انہیں بلکل نہیں پسند تمہارا کسی انجان آدمی سے بات کرنا۔۔

اب ہانیہ کو پریہا کی باتیں سمجھ میں آئی 

شکریہ پریہا ۔۔ مجھے واقعی اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔۔

ہانیہ خوشدلی سے بولی تو پریہا جانے کیلئے آٹھی۔۔

تمہیں سمجھانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ میری والی غلطی تم نہ دہراؤ۔۔

پریہا اور ہانیہ دونوں ہی اب بچوں کو دیکھنے کی غرض سے وجاہت اور ریان کی طرف چلی گئیں۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت کا غصے سے سرخ چہرا دیکھ کے ریان نے اپنا قہقہہ روکا۔۔

مجھے لگتا ہے ہمیں چلنا چاہئے۔۔

سرد لہجے میں کہتا ہوا وجاہت اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔۔

اسے یوں اٹھتے دیکھ ایک پل تو ریان گڑبڑا گیا۔۔

ارے بھائی تم کہاں چل دئیے تمہیں برا لگا کیا میرا ہنسنا۔۔

ریان نے وجاہت کو دوبارہ بٹھانا چاہا مگر وجاہت کوئی جواب دیئے بغیر بس ریان کو غصے سے گھور رہا تھا۔۔

معافی چاہتا ہوں یار تم اتنے پریشان دیکھائی دے رہے تھے جبکہ بات بہت چھوٹی تھی۔۔

ہنسی اس بات پر آئی کہ ایک وقت میں میں بھی انہیں سوچوں میں گم رہتا تھا بلکہ ٹینشن میں رہتا تھا تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا۔۔

بس اپنا والا حال دیکھ کے خود پر ہنس دیا ۔۔

ریان نے وجاہت کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا۔۔

ریان کی بات سن کے وجاہت بھی تھوڑا نرم پڑا ۔۔

دیکھو یار ہم مرد جب محبت کرتے ہیں تو دلوں جان سے کرتے ہیں۔۔

اسی لئے ہم جس سے محبت کرتے ہیں اسے ہر طرح سے خوش دیکھنا چاہتے ہیں 

تم خود کہہ رہے ہو کہ تمہیں تمہاری وائف کے چہرے پر خوشی دکھتی ہے۔۔

تو بس اسی خوشی کو انجوائے کرو خود کو اتنا بدلنے کی کوشش نہ کرو کہ اپنا آپ ہی کھو دو۔۔

کیا پتا تمہاری وائف کو تمہارا یہی انداز پسند ہو جسے تم بدلنا چاہتے ہو۔۔

دیکھو ہر انسان میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی ہے۔۔

تم میں بھی آئے گی مگر وقت کے ساتھ ایک دم نہیں 

تو آج جیسے ہو ویسے ہی رہو بس اپنی محبت کا احساس دلاؤ سامنے والے کو وہ تمہارے لئے کتنی خاص ہے اسے احساس دلانے کے ساتھ ساتھ لفظوں سے بھی بیان کرو۔۔

محبت جتنی محسوس کی جاتی ہے اتنی ہی الفاظوں میں بیان کی جاتی ہے۔۔

اپنے رشتے میں محبت اور بھروسہ قائم رکھو محبت خود بہ خود پروان چڑھتی جائے گی۔۔

اور رہی بات یہ فینٹسی ٹائپ سرپرائز دینے کی تو انٹرنیٹ زندہ باد وہیں سے کچھ دیکھ لیا کرو میں بھی یہی کرتا ہوں کون اپنا دماغ لڑائے میری تو سوچوں سے پری نکلتی ہی نہیں ہے پلاننگ کیا خاک کرونگا۔۔

آخری بات ریان کے مسکراتے ہوئے کہی۔۔

وجاہت کو ریان کی باتوں نے بہت متاثر کیا۔۔

جتنا وہ شوخ ٹائپ کا لگتا ہے وہ اتنا ہی سنجیدہ بھی ہے۔۔

سالوں بعد وجاہت نے کسی سے یوں کھل کے بات کی جس پر اسے چند منٹ پہلے افسوس ہورہا تھا مگر اب وہ کافی مطمئن تھا۔۔

ہم کہاں جارہے ہیں۔؟؟

ہادی کو مسلسل ڈرائیو کرتا دیکھ نیلم سے جب رہا نہیں گیا تو پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔۔

تمہیں لنچ کرنا تھا تو میں نے سوچا کہ موسم آج کافی اچھا ہے تو کسی اچھی سی جگہ لنچ کرتے ہیں۔۔

ہادی نظریں روڈ پر ہی مرکوز کئے بولا۔۔

ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ کافی دیر سے ڈرائیو کر رہے ہو کب پہنچے گے۔۔

نیلم نے کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھ کے کہا وہ لوگ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے سے بس روڈ پر ہی گھوم رہے تھے۔۔

ریسٹورنٹ تو کافی پیچھے رہ گیا ہے گھر سے نکلنے کے بعد کسی بات پر میرا موڈ خراب ہوگیا تھا تو راستہ بدل لیا 

مگر اب اچھا لگ رہا ہے تمہارے ساتھ یوں اس سوہانے موسم میں گھومنا۔۔

ہادی کے اس طرح معنی خیز بات کرنے پر نیلم نے اپنا رخ شیشے کی طرف کرلیا۔۔

گاڑی کا شیشہ جو ہادی نے آدھے راستے میں بند کر دیا تھا وہ اب نیلم نے دوبارہ کھول دیا پورا۔۔

اچانک سے اسے گھبراہٹ ہونے لگی اور دل بھی زوروں شور سے شور مچا رہا تھا۔۔

آج ہادی اسے پہلے والا ہادی بلکل بھی نہیں لگ رہا تھا۔۔

بلکہ آج تو نہ صرف اسکی نظریں ہی الگ تھی بلکہ اسکے الفاظ بھی بلکل الگ تھے ۔۔

نیلم کو اسکی نظریں غلط نہیں لگ رہی تھی مگر پھر بھی آج ان میں چمک ہی الگ تھی 

کچھ دیر پہلے پتہ نہیں کیوں یہ نظریں شعلہ برسا رہی تھی پھر کسی کی کال آنے پر پھر سے ان آنکھوں میں وہ چمک واپس آگئی تھی۔۔

کراچی کا موسم آج بہت خوشگوار تھا ٹھنڈی ہوا جب نیلم کے چہرے پر پڑ رہی تھی تو اسے کافی سکون مل رہا تھا۔۔

بالوں کی ہالف فرینچ بندھی تھی جبکہ باقی بال کھلے ہوئے تھے جو کہ تیز ہوا کی وجہ سے ہادی کے بازو تک جارہے تھے۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو ہادی نے اپنے پاپا سے بات کی تھی 

انہوں نے بتایا کہ وہ ایک دو دن میں آجائیں گے اور شان صاحب سے وہ فون پر ہادی اور نیلم کے رشتے کے متعلق بات کر چکے ہیں جس پر شان صاحب کو کوئی اعتراض نہیں تھا 

اب جب جمشید صاحب کراچی آئیں گے تو باقاعدہ ان دونوں کا رشتہ پکا کر دیا جائے گا 

اب جب گھر والوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا تو بھلا ہادی کیوں نیلم سے اپنی فیلنگز چھپائے 

وہ تو یہی چاہتا تھا کہ گھر والوں سے بات کرنے سے پہلے وہ خود نیلم کو شادی کیلئے پروپوز کرے۔۔

اپنے پاپا سے بات کرنے کے بعد اسنے اپنے ایک دوست سے کہہ کر ارجنٹ اپنے فارم ہاؤس پر کچھ اسپیشل ڈیکوریشنز کا کہا تھا جو جیسے ہی مکمل ہوجائے گی ہادی کے پاس کال آجائے گی 

تب تک اسے ایسے ہی نیلم کے ساتھ گھومنا اچھا لگ رہا تھا۔۔

ہوا کے ساتھ اسکے نرم ملائم بال ہادی کے بازو کو چھورہے تھے 

جس پر ہادی نے اسکے چہرے کو سائڈ مرر میں دیکھا جوکہ سرخ ہورہا تھا۔۔

ہادی اچھے سے جانتا تھا کہ وہ منہ موڑے کیوں بیٹھی ہے ضرور اسکی باتوں کی وجہ سے۔۔

جو اسکی ہر بات پر اسے ایسا جواب دے رہا تھا جسے سن کے نیلم کچھ دیر تو اسکی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی۔۔

جیسے ہی ہادی کے موبائل پر اسکے دوست نے کال کر کے بتایا کہ سارے انتظامات ہوگئے تو اب ہادی نے گاڑی اپنے فارم ہاؤس کی طرف موڑ لی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت ہانیہ اور حور کو لئے گھر پہنچا تو حور صاحبہ تو تھکن کی وجہ سے راستے میں ہی سوگئیں تھیں۔۔

عالیان کے ساتھ آج کھیل بھی تو بہت رہی تھیں۔۔

ہانیہ نے اسے بیڈ پر لٹایا اور اسکے ارد گرد کشنز لگا کر وہ خود کچن میں آگئی۔۔

شام کے ساتھ بج رہے تھے وجاہت نے کہا تھا کہ باہر ہی ڈنر کر لیتے ہیں مگر حور سوگئی تھی تو ہانیہ نے وجاہت کو منع کردیا 

اب وہ ڈنر کی تیاری کر رہی تھی جبکہ وجاہت گھر آتے ہی اپنا لیپ ٹاپ لئے بیڈ روم میں کسی کام میں مصروف تھا ۔۔

ہانیہ اسی سوچوں میں تھی کہ کھانے میں کیا بنائے تبھی وجاہت نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں قید کرلیا۔۔

اچانک حملے پر ایک لمحے کیلئے تو ہانیہ ڈر ہی گئی۔۔

کیا کر رہی ہو سن شائن۔۔

وجاہت نے چن ہانیہ کے کندھے پر ٹکا کے اسکے کان میں بولا۔۔

ڈنر کیلئے کھانا بنانا ہے وہی سوچ رہی ہوں بناؤ کیا۔۔

ہانیہ نے دھیمے لہجے میں ہی وجاہت کو جواب دیا۔۔

وجاہت کی گرم سانسیں اسے جب اپنی گردن پر محسوس ہورہی تھی تو اسے گدگدی ہورہی تھی مگر وہ برداشت کر رہی تھی بولے گی تو وجاہت اسے اور زیادہ تنگ کرے گا۔۔

چھوڑو یہ سب آج ڈنر میں بناتا ہوں۔۔

وجاہت کے بولنے پر ہانیہ نے باقاعدہ مڑ کے وجاہت کا چہرا دیکھا جو اسے ہی پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

ٹھیک ہے میں ہٹ جاتی ہوں۔۔

بولنے کے ساتھ ساتھ ہانیہ کاؤنٹر کے دوسری طرف آگئی ۔۔

وجاہت نے ایک نظر اسے دیکھ کر فریج کھولا اور اس میں سے جو اسے سمجھ میں آرہا تھا وہ نکال رہا تھا۔۔

چکن اور کچھ سبزیاں نکال کر اسنے کاؤنٹر پر رکھیں اور پھر کیبنیٹ سے نوڈلز کا پیکٹ اور کچھ ساسجز نکالے ۔۔

ہانیہ اسکی تمام کاروائی بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔۔

بناؤ گے کیا۔۔؟؟ کہنی کاؤنٹر پر رکھے اپنا چہرا اپنی ہتھیلی پر ٹکائے کو وجاہت کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔۔

نوڈلز بناونگا ۔۔ وجاہت نے مصروف سے انداز میں کہا۔۔

ٹھیک ہے۔۔

ہانیہ کو حیرت ہورہی تھی کہ اچانک سے ان مسٹر اکڑو کو ہوکیا گیا ہے۔۔

مگر جب اسنے وجاہت کو صرف سامان کو تکتا ہوا پایا تو بول دی۔۔

بنانی آتی ہے؟ 

ہانیہ نے مسکراہٹ چھپا کے کہا۔۔

وجاہت نے ایک نظر ہانیہ کو دیکھا اور پھر سامان کو تھوڑی دیر پہلے جو ریسپی وہ دیکھ کے آیا تھا وہ ہانیہ سے باتوں میں وہ بھول ہی گیا تھا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو بے چارگی سے دیکھا تو ہانیہ ہنس دی۔۔

ہٹیں میں ہی بنا دیتی ہوں۔۔

ہانیہ اٹھ کے وجاہت کے پاس گئی اور سبزیاں ایک بڑے سی سی باسکٹ میں ڈالنے لگی انہیں دھونے کیلئے۔۔

یہ کیا بات ہوئی تم کیوں بناؤگی بناؤنگا میں بس تم مجھے گائیڈ کرتی رہو اور سکھا بھی دو۔۔

وجاہت نے ہانیہ سے سبزیاں لیتے ہوئے کہا۔۔

آج آپ غور سے دیکھ لیں میں کیسے بناتی ہوں پھر آپ کبھی کسی اور دن بنا لینا ۔۔

ہانیہ نے ایک بار پھر وجاہت کے ہاتھوں سے سبزیاں لی اور سنک میں انہیں دھونے لگی۔۔

تمہیں لگتا ہے میں تمہارے سامنے کھانے کو دیکھ پاؤنگا۔۔

وجاہت اب اسکے بلکل پیچھے کھڑا ہوگیا اور ہانیہ کے ہاتھوں کو تھام کے اسکے ساتھ ہی سبزیوں کو دھونے لگا۔۔

ہاں یہ طریقہ ٹھیک ہے دونوں مل کے کام کریں گے کھانا بھی بن جائے گا اور مجھے بنانا بھی آجائے گا۔۔

وجاہت نے عام سے لہجے میں کہا مگر ہانیہ اسکی چلاکی سمجھ کر دل ہی دل میں ہنسنے لگی وجاہت کے اس نئے روپ پر۔۔

ہر دن وہ ایک الگ ہی وجاہت بنتا جارہا تھا اور ہانیہ کو یہ تبدیلی بہت بھلی لگ رہی تھی ابھی تک ۔۔

اور پھر وجاہت نے ایسا ہی کیا ہر کام اسنے ہانیہ کے ہاتھوں کو تھام کے ہی کیا 

ہانیہ کو مشکل ہورہی تھی بہت مگر پھر بھی اسنے کچھ نہیں کہا مگر چڑ اسے کچھ کم نہیں ہورہی تھی کیونکہ وجاہت کام کے ساتھ ساتھ اسے برابر چھیڑ بھی رہا تھا کبھی اسکے گالوں پر اپنے لب رکھ رہا تھا تو کبھی اسے گدگدا رہا تھا۔۔

اور ہانیہ بس خاموشی سے سب کچھ سہہ رہی تھی وہ اپنی کسی بھی بات سے وجاہت کا موڈ خراب کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔

کیونکہ وجاہت کا موڈ کب کس بات پر خراب ہوجائے کون جانتا تھا۔۔

پون گھنٹے میں کھانا تیار ہوا تو ہانیہ نے سکھ کا سانس لیا۔۔

دروازے پر دستک ہوئی تو وجاہت اپنا ایپرین اتار کر دروازے کی سمت چل دیا

ہانیہ نے جلدی جلدی سارا کچن سمیٹا کوئی بیر نہیں تھا وجاہت واپس آکر اسکے ساتھ کچن سمیٹنے لگ جاتا اور ساتھ میں اسے تنگ بھی کرتا۔۔

وجاہت تو نہ آیا پر دو آدمی ایک باکس لے کر گھر میں داخل ہوئے اور پیچھے ہی پھر وجاہت ان کے ساتھ انہیں لئے بیڈ روم میں چلا گیا ہانیہ کچن سے بس ان لوگوں کو جاتا ہوا دیکھا۔

مگر وہاں جانے سے بہتر اسنے اپنا کام ختم کرنا زیادہ بہتر سمجھا۔۔

نوڈلز اسے کچھ خاص پسند نہیں تھے تو اسنے ساتھ میں تھوڑا سیلیڈ بنالیا۔۔

تاکہ وجاہت کی خوشی کیلئے تھوڑی نوڈلز کھا کر وہ سیلیڈ سے پیٹ بھر لے گی۔۔

قریب آدھے گھنٹے بعد وہ لوگ باہر چلے گئے تو وجاہت انہیں چھوڑنے گیٹ تک گیا اور پھر دروازہ بند کرکے واپس کچن میں آیا تو ہانیہ ورکرز کے جانے کے بعد ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا لگا رہی تھی۔۔

ارے تم نے یہ سیلیڈ کب بنایا۔۔

سیلیڈ کا باؤل دیکھ کے وجاہت نے کہا۔۔

آپ مجھے یہ بتائیں یہ وہ لوگ کون تھے جنہیں لے کر آپ بیڈ روم میں گئے تھے۔۔

وجاہت چئیر پر بیٹھتے ہوئے ہانیہ کو بتانے لگا

وہ میں نے حور کیلئے بے بی کوٹ آرڈر کیا تھا تو وہ وہی لے کر آئے تھے روم میں اسے اسیمبل کر رہے تھے۔۔

وجاہت نے پلیٹ میں نوڈلز نکال کر ہانیہ کو دیئے پھر اپنی پلیٹ مین نکالنے لگا۔۔

مگر حور ہمارے ساتھ سو تو جاتی ہے آرام سے اور ہم کتنے دن رہیں گے یہاں آپ نے فضول ہی کاٹ منگوایا۔۔

ہانیہ نے نوڈلز کھاتے ہوئے کہا۔۔

سنو سن شائن میں اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتا ہوں میں نہیں چاہتا کہ میں اسے ڈانٹوں یا اس سے چڑوں۔۔

وہ مجھے برابر کامپیٹ کرتی ہے تمہارے معاملے میں تو اب وہ اپنے کاٹ میں سکون سے سوئے گی اور تم میرے ساتھ میری قید میں۔۔

ہانیہ نے نظریں نیچی کرلی وجاہت کی بات پر اور ایسے کھانا کھانے لگی جیسے اس نے وجاہت کی بات غور سے سنی ہی نہ ہو۔۔

وجاہت اسکو دیکھ کے مسکرا دیا جو اسکی طرف دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔۔

ریان کی بات بلکل سہی تھی اس نے وجاہت کو سمجھایا تھا کہ وہ اپنے آپ کو بلکل نہ بدلے بلکہ جیسا وہ خود ہے اسے ویسے ہی اپنی محبت ہانیہ پر آشکار کرے۔۔

بس پھر ریان کے دوسرے مشورے پر اس نے گھر آتے ہی عمل کیا اور لیپ ٹاپ پر سرچ کیا کہ وائف کو اپنے ہسبینڈ کی سب سے اچھی عادت کونسی لگتی ہے۔۔

کئی آپشن اس نے دیکھے اور فلحال کیلئے اسے کھانا بنانے والا آپشن سب سے آسان لگا 

ہادی نے گاڑی فارم ہاؤس کے گیٹ پر روکی تو گارڈ نے اسے دیکھ پھرتی سے مین گیٹ کھولا ۔۔

ہادی نے گارڈ کے سلام کا جواب دے کر گاڑی اندر لے گیا اور گیٹ پر روک کر وہ گاڑی سے اترا اور نیلم کی طرف کا دروازہ کھولا۔۔

جیسے ہی نیلم گاڑی سے اتری ہادی نے اسکی آنکھوں پر ایک سیاہ رنگ کی پٹی باندھ دی۔۔

یہ میری آنکھیں کیوں بند کر رہے ہیں آپ ہادی۔۔

نیلم کو ہادی کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی وہ آج بہت زیادہ عجیب طریقے سے پیش آرہا تھا۔۔

پرنسس تمہیں مجھ پر یقین ہے نہ۔۔؟؟

ہادی نے نیلم کا ہاتھ تھام کر کہا۔۔

آپ پر تو مجھے خود سے زیادہ بھروسہ ہے۔۔

نیلم نے ہادی کے ہاتھ کا لمس اپنی ہتھیلی پر محسوس کر کے نہ جانے کیسے بغیر کچھ سوچے سمجھے بول گئی۔۔

ہادی نے نیلم کے چہرے کو غور سے دیکھا جو دیکھ تو کچھ نہیں سکتی تھی مگر پھر بھی ہادی کی نظروں کو خود پر محسوس کرکے وہ سرخ ہورہی تھی۔۔

ہادی نے نیلم کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور اسے لئے وہ فارم کے بیک سائڈ پر بنے لان میں آگیا 

نیلم کے پیروں میں پہنے سینڈل ہادی لان میں آنے سے پہلے ہی آتار چکا تھا ۔۔

ہادی نے جب نیلم کے پیروں کو ہاتھ لگایا اور نیلم ایک دم کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی۔۔

یہ آپ کیا کر رہے ہیں میرے پیروں کو مت ہاتھ لگائیں۔۔

نیلم کے چہرے کا رنگ آڑا دیکھ کے ہادی نے مسکرا کر اسے پیار سے سمجھایا۔۔

اب تمہاری آنکھیں بند ہیں تم نے سینڈل ایسی پہنی ہے کہ اسے اتارنا تھوڑا مشکل ہے اسٹیپ تم کھول نہیں پاؤگی اسی لئے میں اتار دیتا ہوں کونسی بڑی بات ہے۔۔

ہادی نے بولتے ہوئے نیلم کے پیر سینڈل سے آزاد کر دیئے۔۔

اب وہ اسے لئے لان میں داخل ہوا 

نیلم کو اپنے پیروں کے نیچے نرم سا لمس محسوس ہورہا تھا جسے محسوس کر کے اسے گدگدی بھی ہورہی تھی اور ساتھ میں خوشی بھی ہورہی تھی جسے وہ لفظوں میں بیان نہیں کر پارہی تھی۔۔

ہادی اسے لئے تھوڑا آگے گیا اور پھر اسے کندھوں سے تھام کے ایک طرف کھڑا کیا۔۔

ریڈی ہو۔۔ نیلم کے کان میں سرگوشی ہوئی تو وہ بس سر اثبات میں ہلا کے رہ گئی۔۔

ہادی نے اس سے کہا کہ آپنی آنکھیں کھولے پھر جیسے ہی اسنے اپنی آنکھیں کھولی ہادی اسکے سامنے ایک گھٹنے پر بیٹھا نیلم کے سامنے ایک مخملی ڈبی کھولے بیٹھا تھا۔۔

یہ منظر دیکھ ایک پل تو نیلم دنگ رہ گئی اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یہ خواب۔۔

الفاظوں میں بیان کرنا بہت ہے جو تمہارے دل میں ہے وہی میرے دل میں بھی ہے 

اور ہمارے رشتے کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ ہم دونوں نے ہی کبھی نہ تو الفاظوں سے نہ ہی اپنے اعمال سے ایک دوسرے کو اس بات کا احساس دلایا کہ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے کتنی محبت ہے 

اور شاید محبت سے زیادہ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے عزت ہے اور مان ہے 

میں ہمیشہ چاہتا تھا کہ میں جس لڑکی سے محبت کروں اسے ایک پاک اور حلال رشتے میں رہ کر محبت کروں 

تمہارے گھر والوں سے پاپا بات کرچکے ہیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔

سب کی رضامندی جان کر اب تم سے تمہاری رضا مندی چاہتا ہوں 

تمہارا جواب کیا ہے وہ میں اچھے سے جانتا ہوں 

پر کیا کروں یہ دل الفاظوں میں اقرار سننا چاہتا ہے 

میں وعدہ کرتا ہوں تمہارا یہ حسین کھلا ہوا خوبصورت چہرا جسکی گلابی رنگت مجھے تمہاری طرف کھینچتی ہے اسے کبھی مرجھانے نہیں دونگا۔۔

زندگی کے ہر موڑ پر تمہارا ساتھ دونگا۔۔

محبت کے ساتھ ساتھ تمہیں میں عزت بھی دونگا جو کہ میں دل سے کرتا ہوں تمہاری ۔۔

بس تمہارے اس حساس سے نازک دل کو سب کی رضامندی سے اپنانا چاہتا ہوں 

اور بتاتا چلو کہ ہاں شوخ قسم کا انسان ہوں سب سے فری بہت جلدی ہوجاتا ہوں مگر یقین کرو کبھی کسی لڑکی کو ہاتھ تک نہ لگایا ہے 

اپنے آپ کو اپنے جیون ساتھی کے معیار کے مطابق رکھنے کیلئے اپنے کردار کو بہت مضبوط رکھا ہے میں نے 

تم ہی اس دل میں پہلی اور آخری جگہ بنا چکی ہو نہ تم سے پہلے کوئی تھا نہ ہی کوئی اور کبھی آسکتا ہے۔۔

تم سے بہت محبت کرتا ہوں نیلم عالم کیا تم مجھے شادی کرکے مسز نیلم ہادی جمشید بننا پسند کروگی۔۔

ہادی کے الفاظوں نے نیلم پر ایک سحر سہ طاری کر دیا تھا۔۔

آنکھوں سے اشک بہہ رہے تھے مگر چہرے پر مسکان تھی وہ دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کر رہی تھی جسنے اسکی محبت اسے دے دی تھی۔۔

کتنا خوبصورت احساس تھا یہ نیلم کیلئے۔۔

بغیر کچھ کہے ہی نیلم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ہادی کو اسکا جواب مل گیا تھا لفظوں میں نہیں تھا جیسے وہ چاہتا تھا مگر جواب تو جواب ہوتا ہے اور آج نہیں تو کل اسے نیلم اپنے الفاظوں سے بھی اپنی محبت کا اظہار ضرور کرے گی۔۔

ہادی نے اسکا ہاتھ تھاما اور اس میں نفیس سی ڈائمنڈ رنگ پہنائی 

ہادی کا دل بہت کیا ان نرم ملائم ہاتھوں میں پہنی اسکی دی ہوئی انگھوٹی پر اپنے لب رکھے مگر اس نے ایسا کچھ نہ کیا

محبت بھرا لمس بھی وہ نیلم کا محرم بن کر ہی اسے دینا چاہتا تھا۔۔

اپنی جگہ سے اٹھ کر ہادی ہٹ پہ لگی ایک ڈوری کھینچی 

تھینک یو سو مچ۔۔ پرنسس میری کوئن بننے کیلئے۔۔

ہادی کے بولنے کی دیر تھی کہ ڈھیروں گلاب کی پتیاں ان دونوں کے اوپر گرنے لگی اور نیلم انہیں دیکھ اپنے ہاتھ پھیلائے دھیمے سے گھومنے لگی چہرا اوپر کئے وہ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ گلاب کی پتیوں کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر محسوس کر رہی تھی 

اور ہادی بس اسے دیکھ ہی رہا تھا خوشی سے محبت سے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت اور ہانیہ کو پیرس آئے ہوئے ایک ماہ ہونے کو آیا تھا

ان دنوں ہانیہ کیلئے وجاہت کی محبت دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی تھی۔۔

گھر والوں سے وہ لوگ تقریباً روز ہی بات کیا کرتے تھے ہادی اور نیلم کے رشتے کے بارے میں ہانیہ کو پتہ تھا جبکہ وجاہت سے یہ بات چھپائی گئی تھی کہ جب وہ لوگ واپس آئیں گے تو اسے سرپرائز دینگے۔۔

وجاہت نیلم کو بہت چاہتا تھا اور ہادی سے تھوڑا چڑتا تھا نفرت نہیں کرتا تھا اور بھائیوں کی طرح اسکا خیال کرتا تھا مگر بس اسکی حرکتوں سے چڑتا تھا۔۔

اور ہادی خود اپنے منہ سے وجاہت کو بتانا چاہتا تھا نیلم اور اسکے رشتے کے بارے میں تاکہ اسکا ری ایکشن دیکھ سکے ۔

سبھی گھر والے ان سے کئی بار پوچھ چکے تھے کہ واپس کب آوگے مگر وجاہت ایک ہی جواب دیتا تھا کہ جب دل کرے گا تب واپس آونگا۔۔

اسے کیا پتہ تھا کہ اسکی وجہ سے اسکی بہن کی انگیجمنٹ سیریمنی رکی ہوئی ہے۔۔

وہ تو بس اپنی سن شائن کے ساتھ خوش تھا۔۔

آفس ہادی اور شان صاحب سنبھال رہے تھے کوئی ضروری کام ہوتا تھا تو وجاہت وہیں سے اپنے لیپ ٹاپ پر کرلیا کرتا تھا اور ضروری میٹنگ ہوتی تھی تو وہ بھی ویڈیو کال کے ذریعے اٹینڈ کرتا تھا۔۔

ریان اور پریہا سے وہ لوگ ملتے رہتے تھے مگر اب تو وہ لوگ بھی 3 ہفتے کی چھٹیوں کے بعد واپس چلے گئے تھے مگر وجاہت کا واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔

رات کو بھی ہانیہ نے اسے اتنا کہا کہ واپس پاکستان چلتے ہیں مگر اس نے باتوں ہی باتوں وہ بات ہی گل کردی 

ہانیہ کو غصہ آیا تو وہ حور کو اپنے اور وجاہت کے درمیان میں سلاکر خود منہ موڑے سوگئی تھی۔۔

اتنا تو اسے اندازہ ہوہی گیا تھا کہ وجاہت کو بلکل نہیں پسند تھا کہ اس کے اور ہانیہ کے بیچ کوئی بھی کسی بھی قسم کی مداخلت کرے 

تو اپنے طور ہانیہ نے اپنا غصہ اور ناراضگی وجاہت پر آشکار کردی تھی۔۔

پہلے پہل تو وجاہت نے اسے بہت غصے سے گھورا مگر ہانیہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی 

یہ ڈھیل بھی وجاہت نے ہی اسے دی تھی جو کہ اب کھل کے اپنی محبت اور ناراضگی دونوں کا اظہار کرتی تھی۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

صبح کی نرم دھوپ جب ہانیہ کے چہرے پر پڑی تو اس نے کسمسا کر آنکھ کھولی تو دیکھا وہ روز کی طرح آج بھی وجاہت کے حصار میں بندھی ہوئی تھی۔۔

وہ اسے نیند میں بھی اتنی مضبوطی سے تھام کے سوتا تھا کہ ہانیہ کروٹ بھی نہیں لے پاتی تھی 

شروع شروع میں اسے مشکل ہوئی مگر 2 ہفتے بعد اسے تقریباً عادت ہوگئی 

جس طرح دن بہ دن وجاہت کی محبت بڑھ رہی تھی اسی طرح وہ دن بہ دن اسے لے کر حساس بھی ہوتا جارہا تھا۔۔

محبت جب اپنی حدود سے آگے بڑھتی ہے تو جنون کی حد تک پہنچنے لگتی ہے 

اور وہ کہتے ہیں نہ محبت میں سکون ہے تو عشق میں جنون ہے اور جنون کا دوسرا نام ڈر بھی ہے

کسی اپنے کو کھو دینے کا ڈر جو کہ شاید وجاہت کے دل میں گھر کر رہا تھا

جتنا وہ ہانیہ سے محبت کرنے لگا تھا اتنا ہی اسے ڈر بھی رہتا تھا کہ وہ کہیں اسے کھو نہ دے۔۔

ہانیہ اٹھنا چاہتی تھی مگر وجاہت کی گرفت مضبوط تھی 

محبت پاش نظروں سے اسنے وجاہت کا خوبصورت چہرا دیکھا سرخ و سفید رنگت پر ڈارک براؤن اسٹبل اسے اور خوبصورت بناتی تھی 

ہانیہ اسکے چہرے پر سجی اسٹل کو ہاتھوں سے چھو رہی تھی 

ہانیہ کی انگلیوں کے لمس پر وجاہت نے آنکھ کھول کے دیکھا تو ہانیہ اسے ہی محبت سے دیکھ رہی تھی۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا چہرا اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلا کر چہرے پر آئے بال کان کے پیچھے کئے اور ہانیہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔۔

چلیں چھوڑیں بھی ۔۔ وجاہت نے جب دوبارہ اپنی آنکھیں موندیں تو ہانیہ نے اسے ٹوکا۔۔

سن شائن یہ تمہاری سزا ہے رات کو مجھ سے دور جانے کی۔۔

آنکھیں بند کئے ہی وجاہت نے ہانیہ سے کہا اور جو گرفت اسنے تھوڑی ڈھیلی کی تھی وہ دوبارہ مضبوط کر دی تھی۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ کو یاد آیا کہ وہ تو رات میں وجاہت سے ناراض تھی اور حور کو ساتھ لے کر سوئی تھی ۔۔

مگر اب جب اسنے تھوڑا سر اٹھا کے دیکھا تو حور اپنے کاٹ میں ہی سورہی تھی۔۔

کیسے ظالم باپ ہیں آپ وجاہت اپنی بیٹی کو بھی زرا سا برداشت نہیں کرتے۔۔

ہانیہ کی بات پر وجاہت نے آنکھیں کھولیں اور اپنا سر کہنی پر ٹکائے اسے گور سے دیکھا۔۔

مجھے اپنی بیٹی سے بہت محبت ہے سن شائن مگر اگر بات تمہارے اور میرے درمیان آنے کی ہوئی تو ہاں یہ سچ ہے میں حور کو بھی برداشت نہیں کرونگا۔۔

مگر حور میں میری جان بستی ہے اسے میں کبھی کچھ نہیں کہونگا یہ تم بھی جانتی ہو تو اسے جان بوجھ کر ہمارے درمیان مت لایا کرو ۔۔

سنجیدہ لہجے میں بات کر کے وجاہت نے ہانیہ کو اپنی گرفت سے آزاد کیا اور واشروم کی طرف چلا گیا۔۔

جبکہ ہانیہ اسی سوچوں میں تھی کہ ناراض تو وہ تھی تو یہ کیوں ایک بار پھر مسٹر اکڑو کی طرح باتیں سنا کے چلے گئے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت جاگنگ پر جا چکا تھا تو اب ہانیہ نے جلدی سے ناشتے کا سامان ریڈی کیا 

اب وجاہت کے آنے پر اسے بس فرینچ ٹوسٹ فرائی کرنے تھے۔۔

اپنے لئے چائے اور وجاہت کی کافی اسنے ریڈی کر دی تھی اب وہ بیڈ روم میں گئی حور کو جگایا اور اسے تیار کردیا۔۔

ناشتہ دونوں ہی کچھ خاص نہیں کرتے تھے۔۔

حور کی بھی روٹین چینج ہوگئی تھی اب وہ راتوں کو سکون سے سوتی تھی اور صبح ہی ہانیہ کے جگانے پر آرام سے آٹھ جایا کرتی تھی۔۔

ہانیہ تو کہتی تھی کہ حور اپنے باپ کی دہشت دیکھ کے ہی سوجاتی تھی جو اسکے جاگنے پر حور کو خود گود میں لئے رکھتا تھا اور ہانیہ کو سوجانے کا کہہ دیتا تھا۔۔

دادو کے کہنے پر ہانیہ وجاہت سے حور کا تھوڑا بہت کام کروانے لگی تھی تو جب وجاہت کو حور کو سنبھالنا تھوڑا آسان لگا تو اس نے سب سے پہلے راتوں کو جاگنے کی ہانیہ کی ڈیوٹی خود لے لی۔۔

اور صرف 2 ہفتے بعد ہی حور نے اپنے بابا کے آگے سرینڈر کردیا اور پھر وہ پوری رات سکون سے سونے لگی۔۔

وجاہت جاگنگ سے واپس آیا فریش ہوکر ایک بار پھر حور کے ساتھ مصروف ہوگیا اتنے میں ہانیہ نے جلدی جلدی ناشتہ ریڈی کرکے ٹیبل پر سیٹ کیا اور وجاہت کی گود سے حور کو لیا اور اسے اسکی چائلڈ سیٹ پر بٹھا کر اسے ناشتہ کروانے لگی۔۔

وجاہت بھی مسکرا کر ناشتہ کر رہا تھا اور ساتھ میں ہانیہ سے بات بھی کر رہا تھا۔۔

تھوڑی دیر پہلے والی ناراضگی شاید وہ کب کی بھول چکا تھا۔۔

ہانیہ نے جب اسکا موڈ پھر سے اچھا دیکھا تو ایک بار پھر کچھ دنوں کی دہرائی بات ایک بار پھر دہرائی۔۔

وجاہت۔۔ ہانیہ نے دھیمے لہجے میں اپنا نام سن کر وجاہت نے اسے غور سے دیکھا۔۔

بولو سن شائن کیا ہوا۔۔

ٹوسٹ کا بائٹ لے کر اسنے ہانیہ سے کہا۔۔

ہم پاکستان کب جائیں گے مجھے اب سب کی بہت یاد آرہی ہے ایک مہینہ ہوگیا ہمیں یہاں آئے اب مجھے واپس جانا ہے۔۔

ہانیہ نے اس بار ضدی لہجے میں کہا تو وجاہت نے فورک اور نائف ٹیبل پر رکھ کے پوری طرح ہانیہ کی طرف متوجہ ہوا۔۔

کیوں تمہیں کیا میرے ساتھ یہاں رہنا اچھا نہیں لگ رہا ۔۔

وجاہت نے دبے دبے غصے سے کہا وہ ہانیہ پر غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اسکا لہجا نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سخت تھا۔۔

اتنے ٹائم بعد ہانیہ نے وجاہت کا غصہ اور اسکی سرد آنکھیں خود پر محسوس کی تو آنکھیں خود بہ خود نمکین پانی سے بھر گئیں۔۔

وجاہت نے جب ہانیہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ٹیرس پر آگیا اور اپنا غصہ قابو کرنے لگا۔۔

کتنے دل سے وہ ہانیہ کے ساتھ یہاں رہ رہا تھا اسکی خوشی کیلئے وہ حور کو بھی ساتھ ہی لایا تھا 

وہ مزید یہاں رہنا چاہتا تھا مگر ہانیہ اسے مسلسل ایک ہفتے سے دن میں کئی بار یہی جملہ کہتی تھی۔۔

پتہ نہیں اسے پاکستان جانے کی کیا جلدی تھی۔۔

وجاہت نے جیب سے فون نکالا اور پاکستان واپس جانے کیلئے 

ٹکٹس کنفرم کئے فلائٹ رات کی تھی تو اسے اب جلد ہی پیکنگ کرنی تھی۔۔

ٹیرس سے نکل کر اسنے کمرہ لاک کیا اور جلدی جلدی اپنا ہانیہ اور حور کا سامان پیک کرنے لگا۔۔

جب تک غصہ ٹھنڈا نہیں ہوجاتا وہ ہانیہ کے سامنے جانا نہیں چاہتا تھا۔۔

کہیں غصے میں وہ کچھ سخت الفاظ نہ بول دے اپنی سن شائن کو جس سے اسے تکلیف ہو اور اسے تکلیف میں دیکھ کے خود اسے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہو۔۔

مما مجھے نہیں کھانا یہ سب آپ لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں۔۔

نیلم نے روتی صورت بنا کے عالیہ کو دیکھا۔۔

تو ہم نے کہا تھا اتنا تیز بخار چڑھا کے بیٹھ جاؤ۔۔

عالیہ بیگم کچھ بولتی پیچھے سے ہادی کی آواز پر دونوں نے مڑ کے ہادی کو دیکھا۔۔

ہاں میں نے تو دعوت نامہ لکھا تھا نہ کہ آؤ بخار اور مجھ پر چڑھ جاؤ 

نیلم کے انداز پر ہادی کے چہرے پر مسکان آگئی جسے اسنے نیلم سے چھپا لیا تھا۔۔

میرا بچہ کچھ دن کھالو یہ سب جب ٹھیک ہوجاؤ گی تو جو کہو گی وہی بنا کے دونگی ۔۔

عالیہ بیگم نے نیلم کو پچکارتے ہوئے کہا 

مما میں دو دن سے صرف ویجیٹیبل سوپ اور یہ سلاد ہی کھا رہی ہوں اور اب یہ دلیہ تھوڑا رحم کرلیں مجھ پر ویسے ہی دوائیوں سے منہ کا ذائقہ بگڑا ہوا ہے اور اوپر یہ اعلا ذوق کے پکوان۔۔

نیلم نے ایک بار پھر منہ بنا کے کہا اور صوفے سے اٹھنے لگی کہ ایک دم اسکا سر چکرایا اور وہ گرنے کے سے انداز پر صوفے پر بیٹھی۔۔

ہادی فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر نیلم کے پاس بیٹھ گیا۔۔

دیکھو پرنسس 2 دن تک تم بخار میں بری طرح تپتی رہی ہو ابھی میں تمہاری ضد پر تمہیں باہر لایا ہوں اگر پھر ضد کروگی تو ایک مہینے تک کمرے سے باہر نہیں آسکو گی ۔۔

ہادی نے مصنوعی غصے سے کہا وہ چاہتا تھا نیلم اسکی ڈانٹ کے اثر سے تھوڑا بہت کچھ کھالے مگر وہ تو آنسو بہانے بیٹھ گئی۔۔

جائیں سب جائیں میں چلی جاؤگی اپنے کمرے میں میرے برو نہیں ہیں تو سب مجھ پر اپنا حکم چلا رہیں 

نیلم نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تو ہادی نے بیچارگی سے عالیہ بیگم کو دیکھا۔۔

رشتہ پکا ہونے کے بعد بھی وہ لوگ ویسے ہی رہ رہے تھے جیسے پہلے رہتے تھے 

ہادی اور وجاہت دونوں ہی نیلم کا بہت خیال رکھتے تھے وہ دونوں سے ہی لاڈ اٹھواتی تھی اپنے مگر نور کے جانے کے بعد وجاہت تھوڑا اپنے آپ میں ہی سمٹ گیا تھا

اور نیلم ہادی کے زیادہ قریب ہوگئی تھی مگر جانے کب اسکے دل میں ہادی کیلئے فیلنگز جاگی وہ خود بھی سمجھ نہیں پائی۔۔

گھر والوں نے ان دونوں کے ملنے اور ساتھ بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور عالیہ بیگم کو اپنی تربیت پر پورا بھروسہ تھا 

ہادی بھلے سے جانتا ہو اپنے اور نیلم کے رشتے کے بارے میں مگر نہ تو کسی نے اس کی نظروں میں فرق دیکھا تھا نہ ہی اسکے برتاؤ میں۔۔

سب کو یہی لگتا تھا کہ یہ رشتہ بڑوں کی مرضی سے ہوا ہے

عالیہ بیگم نے ہادی کے بیچارگی سے دیکھنے پر کندھے اچکا دئیے جیسے کہہ رہی ہوں کہ بگاڑا بھی تو تم نے ہے۔۔

جبکہ نیلم اپنے رونے کا شغل پورا کر رہی تھی اتنے میں ہی اسنے وجاہت کی فکر سے بھری آواز سنی

کیا ہوا گڑیا رو کیوں رہی ہو؟؟

وجاہت ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا اور نیلم کے رونے کی آواز پر نیلم کے پاس آگیا

وجاہت کو دیکھ نیلم جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور وجاہت کے پاس جانے لگی کہ ایک دم پھر اسکا سر چکرایا تو وہ گرنے لگی جسے اب ہادی نے مضبوطی سے تھام لیا۔۔

کیا کر رہی ہو پرنسس بیٹھ نہیں سکتی کیا ایک جگہ۔۔

ہادی نے اسے کندھوں سے تھام کے پھر سے بٹھایا وجاہت بھی فوراً ہی نیلم کے ساتھ بیٹھا اور فکر مندی سے اسکا پیلا زرد چہرا دیکھنے لگا۔۔

ہانیہ حور کو لئے گھر میں داخل ہوئی تو حود نیلم کو دیکھ کے اسکے پاس جانے کی ضد کرنے لگی 

ہانیہ نے اسکا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور وہ خود چلنے کی ضد کر رہی تھی مگر ابھی وہ صرف سہارے سے کھڑی ہوتی تھی۔۔

تو ہانیہ اسے لئے نیلم کے پاس گئی پر اسے دیکھ کے وہ بھی پریشان ہوگئی۔۔

ہوا کیا اسے۔۔

وجاہت نے سختی سے ہادی کو دیکھ کے کہا۔۔ جیسے اسی نے اسے بیمار کیا ہو۔۔

ہادی نے پہلے تو گھور کے وجاہت کو دیکھا پھر گہری سانس لے کر بولا۔۔

یہ محترمہ 3 دن پہلے ہونے والی بارش میں خوب نہائی ہیں ٹھنڈ کی بارش تھی تو بخار چڑ گیا اور اب 3 دن سے بخار میں تپ رہی ہیں۔۔

آج تو پھر بھی بہت بہتر ہے بس کچھ کھا پی نہیں رہی تو یہ حال ہوگیا ہے 

ہادی کے لہجے میں تھوڑی تکلیف تھی جسے وجاہت نے اچھے سے محسوس کیا تھا۔۔

کیوں گڑیا ایسے کیوں ضد کر رہی ہو وجاہت نے نیلم کے سر پہ ہاتھ پھیر کے کہا۔۔

تو نیلم چھوٹے بچوں کی طرح وجاہت کے کندھے پر سر رکھ کے بیٹھ گئی۔۔

برو یہ لوگ مجھے سبزیوں کے سوپ سلاد دلیہ وغیرہ کھلا رہے ہیں 

پہلے ہی میں بیمار ہو اوپر سے یہ بد ذائقہ کھانا مجھ سے بلکل کھایا نہیں جارہا ۔۔

ہانیہ کو دیکھ کے ہادی اپنی جگہ سے اٹھا تو ہانیہ نیلم کی دوسری طرف آکر بیٹھ گئی جبکہ حور کو ہادی ہانیہ سے لے کر اسے باہر لے کر چلا گیا۔۔

چندا کھاؤگی نہیں تو ٹھیک کیسے ہوگی ابھی تم مصالحوں والے کھانے نہیں کھا سکتی جب ٹھیک ہوجاؤ گی تو پھر سے جو دل کرے کھا لینا۔۔

ہانیہ نے نیلم کو پیار سے سمجھایا۔۔

کچن سے نکلتی ہوئی عالیہ بیگم نے جب وجاہت اور ہانیہ کو دیکھا تو تیزی سے انکی طرف آئی۔۔

تم لوگ آگئے سچ میں اب آنکھیں ترس رہی تھی میری تو۔۔

وجاہت پہلے اٹھ کے اپنا مام کے گلے لگا پھر ہانیہ نے عالیہ بیگم کو گلے لگا لیا 

ہانیہ سے الگ ہو کر عالیہ بیگم نے ہانیہ کا ماتھا چوما۔۔

میں نے بہت یاد کیا تم لوگوں کو اور حور کہاں ہے۔۔

وہ اسے ہادی لے کر گئے ہیں ابھی باہر لان میں ہونگے۔۔

ہانیہ نے جواب دیا اور وجاہت پھر سے نیلم کے پاس بیٹھ گیا۔۔

مام آپ نیلم کا کھانا لے کر آئیں میں خود اپنی گڑیا کو اپنے ہاتھ سے کھلاؤ گا۔۔

وجاہت کا بدلہ ہوا روپ دیکھ کے عالیہ بیگم نے حیرت سے وجاہت کو دیکھا 

کچھ ایسا ہی حال نیلم کا بھی تھا

پچھلے ایک سال میں پہلی بار دوبارہ سے وجاہت پہلے والا وجاہت لگ رہا تھا 

عالیہ بیگم نے مسکرا کے سر اثبات میں ہلایا اور کچن کی طرف چلی گئی۔۔

ہانیہ نے بھی ایک نظر وجاہت کو دیکھا جو اسکی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا

پھر نیلم کا ماتھا چوم کر وہ دادو کے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔

یہ وقت دادو کے آرام کا تھا جبکہ شان صاحب آفس میں تھے 

ہادی بھی ساتھ ہی آفس گیا تھا مگر کوئی ضروری کام نہ تھا تو جلدی آگیا ویسے بھی اسکا دل تو گھر میں اٹک کر رہ گیا تھا ۔

وجاہت کی نظروں نے ہانیہ کو جاتے ہوئے دیکھا 

ہانیہ کو جب محسوس ہوا وجاہت اسے دیکھ رہا ہے تو اسنے پیچھے مڑ کے دیکھا مگر اس کے دیکھنے سے پہلے ہی وجاہت نے منہ موڑ کر ایک بار پھر نیلم سے بات کرنے لگا۔۔

ہانیہ سمجھ گئی کہ یہ ناراضگی اتنی آسانی سے نہیں جانے والی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت نے جلدی جلدی اپنا ہانیہ اور حور کا سارا سامان پیک کیا اس سب میں اسے ایک گھنٹے سے بھی زیادہ لگ گیا تھا

اس بیچ ہانیہ کے کئی دفع دروازہ بجایا مگر وجاہت نے اسے یہ کہہ کر منع کردیا کہ وہ کچھ کام کر رہا ہے۔۔

جب وہ اسٹڈی روم سے اپنا لیپ ٹاپ لینے نکلا تو ہانیہ نے کمرے میں جاکر دیکھا کہ وجاہت نے سارا سامان تقریباً پیک کر دیا تھا۔۔

ایک منٹ کیلئے تو وہ حیران رہ گئی وجاہت کے کمرے میں واپس آنے کے بعد اس سے پوچھنے لگی۔۔

یہ سب پیک کیوں کیا ہے 

وجاہت نے ایک نظر ہانیہ کو دیکھا پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔۔

تمہیں گھر والوں کی بہت یاد آرہی تھی تو سوچا انہیں کے پاس لے جاؤں تمہیں۔۔

میں نے ایسا تو نہیں کہا تھا کہ فوراً ہی چلتے ہیں بس پوچھا تھا کہ کب جائیں گے۔۔

اور یہ بات تم ایک ہفتے سے پوچھ رہی ہو صاف کہہ دو کہ تنگ آگئی ہو مجھ سے۔۔

وجاہت کے بولنے پر ہانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔

مجھے بس سب کی یاد آرہی تھی اسی لئے پوچھ رہی تھی میں بھلا آپ سے تنگ کیسے آسکتی ہوں 

آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے بولتے ہوئے ہانیہ کی آواز بھرا گئی۔۔

وجاہت نے گہرا سانس لے کر ہانیہ کو دیکھا جو نم آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

اگر آپ کہیں گے تو ہم ایک مہینے اور یہاں رہیں گے بس میں کبھی اتنی دن دور نہیں رہی گھر والوں سے تو اسی لئے آپ سے بار بار پوچھ رہی تھی 

معاف کردیں مجھے۔۔ ہانیہ نے وجاہت کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کے کہا۔۔

ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اسنے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جو کہ ہانیہ نے پکڑے ہوئے تھے۔۔

نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے میں نے فلائٹ کی ٹکٹس بک کردیں ہیں رات کی فلائٹ ہے 

آپ ناراض ہیں مجھ سے اور غصہ بھی ۔۔

ہانیہ نے اب کے ایک ہاتھ وجاہت کے گال پر رکھ کے کہا۔۔

ہاں ناراض ہوں ہرٹ کیا ہے تم نے مگر غصہ نہیں ہوں 

وجاہت نے ہانیہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔

مانیں گے کیسے ؟؟ بچوں سا لہجا لئے ہانیہ نے وجاہت کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

وجاہت کو اس کے انداز پر بہت پیار آیا جس کا اظہار اس نے ہانیہ کا ماتھا چوم کے کیا۔۔

تمہیں بہتر پتہ ہوگا کہ میں کیسے مانو گا 

مناؤ مجھے۔۔

شوخ نظروں سے وجاہت نے ہانیہ کو دیکھا تو ہانیہ اسے دیکھ ہنسنے لگی۔۔

آپ نے منایا تھا کیا مجھے جو میں مناؤ آپ نے ہی کہا تھا نہ کہ آپ کو منانا نہیں آتا تو مجھے بھی نہیں آتا۔۔

ہانیہ نے ہنستے ہوئے کہا تو وجاہت کا موڈ ایک بار پھر خراب ہوگیا اور وہ ہانیہ کو چھوڑ کے پھر سے اپنے کام میں لگ گیا۔۔

جب سیکھ جاؤ تو منا لینا ۔۔

مصروف سے انداز میں وجاہت نے ہانیہ کو جاتے ہوئے دیکھا تو کہا۔۔

اور وجاہت کی بات سن کے ہانیہ پھر سے مسکرا دی۔۔

جانتی تھی کہ وجاہت کی ناراضگی کیسی ہوگی ۔۔

کچھ اندازہ تو تھا اسے اتنے دنوں کا کہ وہ ہانیہ کے بغیر رہ نہیں سکتا

ہنستے ہوئے وہ کمرے سے نکلی جبکہ وجاہت نے حیرت سے اسکی پیٹھ دیکھی۔۔

کیا اسکی ناراضگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

سارے راستے وجاہت نے ہانیہ کو خود سے مخاطب نہیں کیا ہاں اسکی پوچھی گئی باتوں کا جواب وہ دے رہا تھا۔۔

کہ کہیں اپنی ناراضگی کے چکر میں وہ اسے ہی ناراض نہ کردے۔۔

اپنی تو خیر ہے مگر اپنی سن شائن کی ناراضگی وہ کیسے برداشت کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اس سے دور دور رہتی

فلائٹ میں جب ہانیہ تھک کر سوگئی تو وجاہت نے اسکا سر اپنے کندھے پر رکھ لیا تھا 

پھر جب ہانیہ کی آنکھ کھلی تو اسنے دیکھا کہ وجاہت سیٹ پر سر ٹکائے گہری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

ہانیہ کو جاگتا دیکھ وجاہت نے پیار سے اسکا بالوں کو سہلایا۔۔

یہ دیکھ ہانیہ کے دل کو سکون ملا کہ وجاہت ناراض سہی مگر وہ اس سے کبھی محبت کرنا نہیں چھوڑے گا۔۔

کوئی بات نہیں گھر پہنچ کر میں اپنے مسٹر اکڑو کو منا لونگی۔۔

دل میں سوچتے ہوئے ہانیہ نے ایک بار پھر آنکھیں موند لیں۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ٹھیک ہو پرنسس۔۔

ہادی نے دروازہ کھول کے دیکھا تو نیلم جاگ رہی تھی تو وہ اندر اکر اس کے پاس بیٹھ گیا۔۔

دروازہ اس نے کھلا ہی چھوڑ دیا۔۔

جی ٹھیک ہوں۔۔ ہادی نے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا۔۔

مجھے تم روتی ہوئی بلکل اچھی نہیں لگتی ۔۔

نیلم نے ہلکا سا اسے مسکرا کے دیکھا۔۔

تو پھر میں کیسی اچھی لگتی ہوں۔۔

ہادی نے اسے غور سے دیکھا 

مجھے تم ہر طرح سے ہر روپ میں ہر انداز میں اچھی لگتی ہو مگر جب تم روتی ہو تو مجھے تکلیف ہوتی ہے

اور یہ ابھی سے نہیں ہمیشہ سے ہوتی ہے۔۔

مگر ابھی تو اپنے کہا کہ میں روتے ہوئے اچھی نہیں لگتی 

میرے کہنے کا مطلب تھا کہ روتی ہوئی تو ٹھیک ہے مگر روتے ہوئے جو تمہاری ناک بہتی ہے وہ مجھے اچھی نہیں لگتی

ہادی کے شرارت سے کہنے پر نیلم کا منہ کھل گیا اور غصے سے وہ اپنے ہاتھ چھڑانے لگی جسے ہادی نے مضبوطی سے تھاما ہوا تھا

چھوڑیں میرے ہاتھ ۔۔ نیلم نے کہا تو ہادی نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔۔

سوچ لو چھڑوانا چاہتی ہو اپنے ہاتھ میرے ہاتھوں سے۔۔

ہادی کی اس بات پر نیلم ایک دم خاموش ہوگئی اور سر نفی میں ہلانے لگی۔۔

نیلم کو یوں نفی میں سر ہلاتا دیکھ ہادی نے اسکے ہاتھوں کو چھوڑا اور بس گڈ گرل کہہ کر کمرے سے ہی چلا گیا۔۔

اس سے پہلے دل کوئی بغاوت کرتا وہ اسکے پاس سے اٹھ کر ہی آگیا۔۔

ویسے بھی وجاہت آگیا تھا تو ہادی اب اپنے رشتے کے بارے میں جلد از جلد وجی سے بات کرنا چاہتا تھا اور اب وہ منگنی نہیں سیدھا شادی کرنے کی بات کرے گا سب سے۔۔

ہانیہ دادو سے مل کر اپنے کمرے میں جانے لگی اس سے پہلے ہی وجاہت نے اسے راستے میں روک لیا۔۔

کدھر جارہی ہو۔۔ لہجے میں سختی نہیں تھی مگر پیار بھی نہیں تھا۔۔

اپنے کمرے میں ہانیہ نے جان بوجھ کر صرف وجاہت کو چڑانے کیلئے اپنے اور حور کے پرانے مشترکہ روم کی طرف قدم بڑھا دئیے۔۔

وجاہت نے ایک نظر ادھر اُدھر دیکھا اور پھر بغیر کچھ کہے ہی ہانیہ کو اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا۔۔

ہانیہ پہلے تو حیران ہوئی مگر پھر وجاہت کو دیکھ کر اسنے اپنی ہنسی کو بہت مشکل سے روکا۔۔

وجاہت سپاٹ چہرا لئے ہانیہ کو اٹھائے ہی اپنے کمرے میں لے کر گیا اسے بیڈ پر بٹھایا اور دروازہ لاک کرلیا۔۔

ہانیہ پہلے تو مسکرا رہی تھی مگر وجاہت کے دروازہ لاک کرنے پر گھبرا گئی۔۔

یہ اپنے دروازہ لاک کیوں کیا ہے؟

ہچکچاتے ہوئے ہانیہ نے پوچھا۔۔

تمہیں بہت شوق ہے نہ مجھ سے دور جانے کا تو اب تم میرے ساتھ اسی کمرے میں بند رہو گی تب تک جب تک میں چاہتا ہوں۔۔

اور یہ تمہاری سزا ہے ۔۔

بولتے ہوئے وجاہت ہانیہ کے برابر آکر بیٹھ گیا اور اسکے بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی پر لپیٹنے لگ گیا۔۔

مگر دن میں اس وقت اچھا نہیں لگتا کسی نے دروازہ بجایا تو کوئی کیا سوچے گا کہ کیوں لاک کیا ہوا ہے۔۔

ہانیہ نے گھبراتے ہوئے کہا تو وجاہت نے انگلی پر لپٹی لٹ کو تھوڑا سا کھینچا جس پر ہانیہ سی کرتے ہوئے وجاہت کے اور قریب ہوگئی۔۔

تمہیں لگتا ہے سن شائن کے مجھے کسی کے سوچنے یا بولنے سے کوئی فرق پڑتا ہوگا۔۔

وجاہت نے سنجیدگی سے کہا اور ہانیہ کے چہرے کے اور قریب ہوگیا اتنا کہ اسکی گرم سانسیں ہانیہ کے چہرے کو چھو رہی تھی۔۔

ڈر سے ہانیہ نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔۔

کیا ہوا میری شدتیں برداشت نہیں ہوتی کیا تم سے۔۔ تلخ مسکراہٹ چہرے پر سجائے وجاہت نے ہانیہ کی بند آنکھوں کو دیکھ کے کہا۔۔

آپ کی صرف نظروں میں ہی اتنی تپش ہے جو کہ مجھے اندر سے جھلسا کے رکھ دیتی ہے۔۔

ہانیہ نے بغیر آنکھیں کھولے ہی وجاہت کو جواب دیا۔۔

لو ابھی سے گھبرا گئی۔۔ بے خود ہوتے لہجے کے ساتھ شہادت کی انگلی ہانیہ کے لبوں پر پھیرتے ہوئے وجاہت نے کہا۔۔

وجاہت۔۔ ہانیہ نے بہت دھیمے کہا۔۔

جی وجاہت کی سن شائن۔۔

اسی لہجے میں کہا گیا۔۔

پلیز۔۔ ہانیہ نے التجا کی اسے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔۔

ہانیہ کی حالت دیکھ وجاہت ایک پل کو مسکرانے لگا مسکراہٹ اتنی دلفریب تھی کہ ہانیہ نے آنکھ کھول کے دیکھا تو پھر دوبارہ آنکھ بند نہیں کرپائی۔۔

اپنی پیشانی ہانیہ کی پیشانی سے ٹکرا کر وجاہت نے ہانیہ سے تھوڑا فاصلہ قائم کیا۔۔

ایسے چیلنج مت دیا کرو جس میں تم لڑ بھی نہ سکو۔۔

اس بات پر ہانیہ نے حیرت سے وجاہت کو دیکھا جو اب مسکرا رہا تھا اسکی حالت بگاڑ کے اب وہ دشمن جاں مسکرا رہا تھا۔۔

اصل میں وجاہت نے ہانیہ کو اپنے پرانے کمرے میں جاتا دیکھ مسکراتے ہوئے دیکھ لیا تھا 

اور سمجھ گیا تھا کہ وہ صرف وجاہت کو تنگ کرنا چاہتی ہے 

تو وجاہت نے اس سے ٹھیک طریقے سے بدلا لیا۔۔

بہت برے ہیں آپ۔۔ وجاہت کو مسکراتا ہوا دیکھ ہانیہ اپنا سانس بحال کر کے بولی۔۔

مجھے برا بولنے پر اپنی سزا بھول گئی ہو کیا وجاہت نے ہانیہ کو اپنے قریب کھینچا اور اسے برا کہنے کی سزا دی۔۔

مگر اس سے الگ ہوکر وہ دروازے کی طرف بڑھا تو ایک دم مڑا اور ہانیہ کو دیکھنے لگا۔۔

غصے اور شرم سے سرخ چہرے کو دیکھ کے وجاہت کا دبہ دبہ سا قہقہہ کمرے میں گونجا۔۔

میں سوچ رہا ہوں کہیں تم جان بوجھ کر مجھے برا تو نہیں کہتی 

کیا مطلب ہے آپکا۔۔ ہانیہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔

کیا پتہ تمہیں میری یہ سزا پسند ہو اسی لئے جان بوجھ کر برا بولتی ہو۔۔

وجاہت کو معنی خیزی سے مسکراتا دیکھ ہانیہ نے بیڈ پر پڑا کشن اٹھا کے وجاہت کی طرف پھینکا جسے وجاہت نے کیچ کرلیا۔۔

اب ایسا کروگی سچ سن کے ۔۔ ٹھیک ہے بھئی چلے جاتے ہیں یہاں سے۔۔

وجاہت دروازے کی طرف بڑھا تو ہانیہ نے اسے ایک دم روک دیا۔۔

وہ بلکل تیار کھڑا تھا یعنی کہی جارہا تھا مگر راستے کی تھکن تو اسے بھی ہوئی ہوگی یہ اسنے پہلے کیوں نہیں سوچا

ہانیہ کو سوچوں میں گم دیکھ کے وجاہت نے اسے آواز دی۔۔

سن شائن کیا ہوا آواز دے کر خیالوں میں گم ہو گئی۔۔

نہیں وہ آپ کہاں جارہے ہیں۔۔؟

ہانیہ نے وجاہت کو دیکھ کے پوچھا۔۔

آفس جارہا ہوں ڈیڈ وہاں ہیں تو دو گھنٹے بعد ان کے ساتھ ہی واپس آجاؤں گا۔۔

سائڈ ٹیبل کی دراز سے گاڑی کی چابی لیتے ہوئے وجاہت نے کہا۔۔

مگر آپ بھی تو تھک گئے ہونگے اتنے لمبے سفر سے تھوڑا آرام کر لیجئے۔۔

ہانیہ کا اسکے لئے فکر کرنا وجاہت کو بہت اچھا لگا۔۔

تمہیں دیکھ کے میری ساری تھکن اتر جاتی ہے ہانیہ کا ماتھا چوم کے وجاہت نے اسکا چہرا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔۔

بس دو گھنٹے میں واپس آجاؤں گا ڈیڈ میری جگہ کافی دن سے کام کر رہے ہیں 

تم آرام کرو حور کو مام سنبھال لیں گی نیلم کو ہادی ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ہے ۔۔

ڈنر پر ملاقات ہوگی۔۔ بولتے ہوئے وجاہت نے ہانیہ کو بیڈ پر لٹایا اور اس پر کمفرٹر ڈال کر  کمرے سے نکلنے لگا کہ ایک بار پھر مڑا۔۔

ایک بات تو رہ ہی گئی۔۔

کھلے دروازے کو پکڑ کر وجاہت نے کہا تو ہانیہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔

میں ابھی بھی ناراض ہوں اور امید کرتا ہوں تم مجھے اچھے سے مناؤ گی۔۔

شریر سا مسکراتے ہوئے وجاہت نے ایک ونک ہانیہ کو پاس کی اور دروازہ بند کر کے چلا گیا۔۔

صدقے جاؤں ایسی ناراضگی کے۔۔

 محبت سے ہانیہ نے دروازے کو دیکھ کے کہا جہاں سے ابھی ابھی وجاہت گیا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

نیلم کو لے کر ہادی ہاسپٹل آیا تھا وہ بھی بہت مشکل سے۔۔

گھر پر تو وہ کچھ کھا نہیں رہی تھی کھالی پیٹ اسے دوائی دے نہیں سکتے تھے جبکہ بخار اسکا چڑتا اترتا جارہا تھا۔۔

وائرل فیور سے گلے میں کوئی انفیکشن نہ ہوگیا ہو یا اللّٰہ نہ کرے کوئی اور پرابلم نہ ہو تو اس نے سوچا کہ ڈاکٹر سے چیک اپ کروا لے۔۔

کوئی انفیکشن وغیرہ تو نہیں ہے بس ٹھنڈ کی وجہ سے بخار چڑھا تھا انہیں جو کہ اب انٹرنل ویکنس کی وجہ سے بار بار چڑھ رہا ہے ۔۔

مسئلے کی کوئی بات نہیں ڈائٹ کا خیال رکھیں گی اور ٹائم سے دوائی لیں گی تو ایک دو دن میں ٹھیک ہوجائیں گی۔۔

ڈاکٹر نے ہادی کو نیلم کا چیک اپ کرکے بتایا۔۔

ٹھیک تو تب ہونگی یہ محترمہ جب کچھ کھائیں گی اور کھالی پیٹ ہم دوا کیسے دیں۔۔

ہادی نے ایک نظر نیلم پر ڈال کر ڈاکٹر سے مخاطب ہوا۔۔

ڈاکٹر نے ایک نظر نیلم کو دیکھا جو معصوم سی شکل بنائے ہادی کو دیکھ رہی تھی پھر اسنے ہادی کو دیکھا جو فکرمند نظروں سے نیلم کو دیکھ رہا تھا ۔

دونوں کو دیکھ کے ڈاکٹر مسکرا دیں ۔۔

ٹھیک ہے اگر کچھ نہیں کھا رہی تو کوئی مسئلہ نہیں انہیں ہم ڈرپ لگا دیتے ہیں ایک ہاتھ پر اور دوسرے ہاتھ پر نس کے انجیکشن لگاتے رہیں گے تو یہ کل تک ہی ٹھیک ہوجائیں گی۔۔

ڈاکٹر کی بات سن کے نیلم کی سٹی گم ہوگئی۔۔

جبکہ ایک پل تو ہادی بھی پہلو بدل کے رہ گیا مگر جب اسنے ڈاکٹر کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گیا کہ ڈاکٹر بس نیلم کو ڈرانے کیلئے کہہ رہی ہیں 

اصل میں ڈاکٹر ناز عالیہ بیگم کی بہت اچھی دوست تھی تو ان کی پوری فیملی کو اچھے سے جانتی تھی 

ان کا عالیہ بیگم کے گھر انا جانا بھی کافی تھا۔۔

تو وہ ہادی اور نیلم کی انقریب ہونے والی انگیجمنٹ کے بارے میں بھی جانتی تھی۔۔

ٹھیک ہے ڈاکٹر اگر یہی آخری حل ہے تو یہی سہی 

ہادی نے کمال اداکاری سے تاصف سے سر ہلا کے کہا۔۔

نہیں میں سب کچھ کھالو گی پرہیزی کھانا بھی اور دوائی بھی مگر پلیز انجیکشن نہیں۔۔

نیلم نے جھٹ ہادی کا ہاتھ تھام کے کہا تو ہادی نے اپنا امڈ آنے والا قہقہہ بہت مشکل سے روکا۔۔

ٹھیک ہے اگر تم کہتی ہو تو رہنے دیتے ہیں مگر گھر جاکر تم نے منع کیا تو ڈاکٹر گھر آکر پرنسس کو انجیکشن لگا دیجیے گا۔۔

ہادی کی بات پر ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا تو ہادی نیلم کو لئے ہاسپٹل سے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔۔

راستے میں اسنے دیکھا کہ نیلم سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

کیا دیکھ رہی ہو۔۔ نیلم کو مسلسل خود کو تکتا پاکر وہ پوچھے بغیر رہ نہیں سکا۔۔۔

آپ ایسے کیوں ہیں ۔۔

نیلم کے کہنے پر ہادی نے گردم موڑ کر نیلم کو دیکھا۔۔

کیا مطلب میں کیسا ہوں۔۔

مجھے کبھی بھی کچھ بھی ہوتا ہے آپ اپنا سب کام کاج بھلائے میرے ساتھ رہتے ہو ہمیشہ سے میرا اتنا خیال رکھتے ہو میری اتنی فکر کرتے ہو 

کیوں۔۔؟؟

نیلم کے اس انوکھے سوال پر ہادی مسکرانے لگا۔۔

یہ سوال اگر تم دو ہفتے پہلے کہتی تو کچھ سمجھ آتا مگر اب سب کچھ جاننے کے بعد۔۔۔

یعنی اب جبکہ میں اپنی محبت کا اعتراف کر چکا ہوں تم اب بھی یہ سوال کر رہی ہو۔۔

ہادی نے ایک نظر اسے دیکھ کے پھر سے راستے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

بس ایسے ہی دل کیا تو پوچھ لیا۔۔

ہادی کے جواب پر نیلم نے بس اتنا کہا۔۔

جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ یار اب تو تمہارا وہ سڑا ہوا بھائی بھی آگیا ہے مجھے اس سے بات کرنی ہے۔۔

اور ہاں ایک بات تو میں تمہیں بتانا ہی بھول گیا۔۔

بریک پر پیر رکھ کے  ہادی نے سائڈ پر گاڑی روک کے کہا۔۔

کیسی بات۔۔ نیلم پوری توجہ سے ہادی کو دیکھ کے بولی۔۔

یہی کہ میں وجاہت سے ہماری منگنی کی نہیں بلکہ سیدھے شادی کی بات کرونگا۔۔

ہادی نے اتنے عام سے لہجے میں کہا مگر نیلم اسے ہکا بکا دیکھنے لگی۔۔

مگر اتنی جلدی۔۔ نیلم نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔

جانتا ہوں تھوڑی جلدی ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ ہم دونوں جلد از جلد ایک مضبوط اور پاک رشتے میں بندھ جائیں 

دیکھو نیلم میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔

اب جب میاں بیوی راضی کو کیا کہے گا وجی۔۔

گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کرکے ہادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے نہ ویسے۔۔

ہادی نے نیلم کو دیکھ کے کہا۔۔

نیلم نے کوئی جواب نہ دیا ہاں مگر سائڈ مرر سے ہادی نے نیلم کا مسکراتا ہوا گلنار چہرا دیکھ لیا 

یعنی کے ہاں ہے ۔۔ شرارت سے بولتے ہوئے اس نے ایک بار پھر گاڑی اپنی منزل کی طرف بڑھا دی۔۔

رات گئے وجاہت گھر لوٹا تو سب گھر والے لاؤنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔

شان صاحب کو وہ دوپہر میں آفس پہنچتے ہی گھر بھیج چکا تھا۔۔

سب تھے وہاں سوائے نیلم اور اسکی سن شائن کے شاید دونوں ہی اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہی ہونگی۔۔

تھکا ہارا وجاہت صوفے پر دادو کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔۔

اسلام و علیکم دادو۔۔ بیٹھتے ہی وجاہت نے سلام کیا تو دادو نے شفقت سے وجاہت کے سر پر ہاتھ پھیر کے جواب دیا۔۔

بیٹا تھکے ہارے آئے تھے پھر آفس جانے کی کیا ضرورت تھی ایک دن اور تمہارے ڈیڈ آفس سنبھال لیتے۔۔

عالیہ بیگم نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندیں بیٹھا تھا۔۔

ارے یہ تو سپر مین ہے یہ کہاں تھکتا ہے۔۔ ہادی کی آواز پر وجاہت نے آنکھیں کھول کے اسے دیکھا جو عالیہ بیگم کی طرف دیکھ کے مسکرا رہا تھا۔۔

ویسے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم آفس سے کیوں جلدی گھر آرہے ہو دو دن سے۔۔

وجاہت کے سوال پر پہلے تو ہادی کچھ پل سوچ میں پڑ گیا کہ کیا جواب دے۔۔

میرے ڈیپارٹمنت میں زیادہ کام نہیں تھا تو گھر آگیا۔۔

ہاں مگر تم ڈیڈ کی ہیلپ بھی تو کر سکتے تھے نہ۔۔

وجاہت اب سیدھے ہو کر بیٹھ گیا۔۔

ارے بیٹا اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ میری ہیلپ کردے مگر میں نے ہی اسے گھر بھیجا تھا تم اسے کیوں ڈانٹ رہے ہو۔۔

شان صاحب وجاہت کے تیور دیکھ کے بیچ میں بول پڑے سب گھر والے جانتے تھے کہ ہادی ہمیشہ سے نیلم سے بہت اٹیچ ہے جب بھی وہ بیمار پڑتی تھی اس کے پاس سے ہلتا بھی نہیں تھا اور ابھی سے نہیں بچپن سے وہ ایسا ہی تھا 

ملک سے باہر بھی ہوتا تھا تو فوراً واپس آجایا کرتا تھا۔۔

مگر یہ بات کبھی وجاہت نے نوٹ نہیں کی تھی کیونکہ وہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے والوں میں سے تھا۔۔

شان صاحب کی بات پر وجاہت کے تنے اعصاب تھوڑے ڈھیلے پڑے اسے تو یہ دیکھ کے ہی غصہ آگیا تھا جب وہ آفس پہنچا تو شان صاحب فائلوں کا ڈھیر لئے بیٹھے تھے ۔۔

تھکن ان کے چہرے سے عیاں تھی مگر وہ پھر بھی کام میں لگے ہوئے تھے۔۔

آفس پہنچ کر وجاہت اپنے ڈیڈ سے ملا اور انہیں گھر بھیج دیا 

پھر رہ رہ کر اسے ہادی پر غصہ آرہا تھا۔۔

ہادی پھر بھی تمہیں ڈیڈ کے ساتھ رکنا چاہئے تھا مجھے تم سے ایسی غیر ذمہ داری کی بلکل توقع نہیں تھی۔۔

وجاہت نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا تو ہادی بھی چڑ گیا اور اپنی چڑ میں وہ وجاہت کو سہی سے تپاتا تھا۔۔

لو دیکھو زرا بول بھی کون رہا ہے زمہ دار انسان۔۔

خود تو تم ایک مہینہ ہنی مون پر گھوم کر آئے ہو اور ہمیں کام کا لیکچر دے رہے ہو۔۔

ہادی نے طنزیہ مسکراہٹ لئے کہا تو سب کے چہروں پر دبی دبی سی مسکان آگئی جبکہ وجاہت ہادی کو اور زیادہ غصے سے دیکھنے لگا۔۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا دادو نے وجاہت کو بولنے سے پہلے ہی ٹوک دیا 

وجاہت جاؤ بیٹا فریش ہوجاؤ اور ہانی کو بھی جگا دو رات کا کھانا سب مل کر کھاتے ہیں۔۔

وجاہت جو غصے سے ہادی کو گھور رہا تھا دادو کی بات پر چونک کر انہیں دیکھنے لگا۔۔

کیا مطلب ہے دادو ابھی تک آپ لوگوں نے کھانا نہیں کھایا۔۔

رات کے دس بج رہے ہیں اور آپ لوگ ایسے ہی بیٹھے ہیں۔۔

وجاہت نے سب کو دیکھ کے کہا۔۔

بیٹا جی اتنے دنوں بعد آپ لوگ آئے ہو تو ہم نے سوچا آج کھانا ساتھ میں کھائیں گے بس تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔۔

عالیہ بیگم بولتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھیں۔۔

تم جاؤ فریش ہو اور ہانی کو جگا دو۔۔

بولتے ہوئے وہ کچن کی جانب چلی گئی جبکہ وجاہت کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ ہانیہ دوپہر سے ہی سورہی تھی 

کیا ہانیہ دوپہر سے ابھی تک سورہی ہے ٹھیک تو ہے نہ وہ بولتے ہوئے وجاہت اپنے کمرے کی طرف بھاگا جبکہ سب نے ہی ایک دوسرے کو دیکھا 

کسی نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ہانیہ تو کبھی اتنا نہیں سوتی سب سمجھے کہ تھکن کی وجہ سے وہ آرام کر رہی ہوگی ۔۔

عالیہ بیگم وجاہت کے کمرے کی طرف بڑھی تو دادو نے انہیں روک دیا۔۔

رکو عالیہ وجاہت ابھی گیا ہے ہانی ٹھیک ہوگی اور ابھی وجاہت کے ساتھ نیچے آجائے گی۔۔

تم ملازم سے کہو کہ کھانا لگائے اور جاکر دیکھو کہ حور نیلم کو تنگ تو نہیں کر رہی ۔۔

عالیہ بیگم جی اچھا کہہ کر کچن میں چلی گئیں جبکہ اب سبھی گھر والوں کو ہانیہ کی فکر لاحق ہوگئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کمرے میں گپ اندھیرا کیا ہوا تھا ۔۔

ہاتھ بڑھا کر اسنے جیسے ہی سوئچ آن کیا کمرا ایک دم روشنیوں سے نہا گیا۔۔

اسنے دیکھا ہانیہ کمفرٹر اوڑھے شاید گہری نیند میں تھی 

وجاہت اسکے پاس آکر بیٹھ گیا اور اسے جگانے کیلئے پیار سے اسکا سر سہلانے لگا۔۔

سن شائن چلو اٹھو  

دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے وجاہت نے اسے آواز دی جس پر ہانیہ زرا بھی نہ ہلی۔۔

اب کے وجاہت نے اسکا کندھا ہلایا مگر وہ پھر بھی نہ جاگی 

اب وجاہت کو اسکی فکر ہونے لگی۔۔

اسکا ہاتھ پکڑ کے وجاہت نے اسکی نبض چیک کی جو کہ بہت ہلکی چل رہی تھی۔۔

اب وجاہت کو صحیح معنوں میں ٹینشن ہوئی سائڈ ٹیبل پر رکھے پانی کی بوتل سے اسنے چند قطرے اپنے ہاتھوں میں لئے اور ہانیہ کے چہرے پر چھڑکے جس سے وہ تھوڑا ہلی اور اسکے چہرے کے زاویے بگڑے

وجاہت نے پھر سے اسکے چہرے پر پانی چھڑکا تو ہانیہ ہوش میں آئی۔۔

جب اسنے آنکھیں کھولیں تو وجاہت نے سکھ کا سانس لیا اور اسے اٹھا کے خود میں بھینچ لیا۔۔

پکڑ اتنی مضبوط تھی کہ ہانیہ کو سانس لینا دشوار ہوگیا۔۔

وجاہت چھوڑیں مجھے سانس نہیں آرہا۔۔

ہانیہ نے وجاہت کے کان میں کہا تو وجاہت نے ایک جھٹکے میں اسے خود سے الگ کیا اور تشویش سے اسے دیکھنے لگا۔۔

کیا ہوا سانس کیوں نہیں آرہا بلکل ٹھیک تو چھوڑ کے گیا تھا تمہیں اچانک سے کیا ہوگیا۔۔

وجاہت کا فکر مند چہرا دیکھ کے ہانیہ ہلکے سے مسکرا دی۔۔

اتنی زور سے خود میں بھینچیں گے تو کہاں سے سانس آئے گی مجھے ۔۔

وجاہت نے پہلے تو اسکے چہرے کو غور سے دیکھا پھر گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کیا۔۔

سوری میں گھبرا گیا تھا۔۔ ہانیہ کے بالوں کو کندھے سے پیچھے کرتے ہوئے وجاہت تھکے ہوئے انداز میں بولا۔۔

وہ کیوں بھلا۔۔ ہانیہ اسکے گھبرانے کی وجہ بوجھ نہ سکی تو پوچھنے لگی۔۔

تمہیں جگا رہا تھا مگر تم جاگ ہی نہیں رہی تھی میں ڈر گیا تھا مام نے بتایا کہ تم دوپہر سے سو رہی ہو اور اب رات کے 10 بج رہے ہیں مجھے تمہاری فکر ہوگئی کیونکہ تم کبھی اتنا نہیں سوئی 

ہاں شاید بلڈ پریشر ڈاؤن ہوگیا ہوگا میرا سوتے ہوئے ہوجاتا ہے اور کچھ دنوں سے دن میں بھی ہوجاتا ہے

ہانیہ نے بہت آرام سے کہا مگر وجاہت فکر اور غصے سے اسے دیکھنے لگا۔۔

تمہارا بلڈ پریشر دن میں لو ہوجاتا ہے یعنی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور تم نے اس بات کی بھنک بھی نہ پڑنے دی مجھے 

جانتی ہو کتنا رسکی ہو سکتا ہے یہ بے ہوش پڑی رہتی کون دیکھتا تمہیں پیرس میں اگر میں کہیں باہر ہوتا تو 

وجاہت کو غصہ کرتا دیکھ ہانیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا 

ہاں اسی لئے تو پاکستان واپس آنا چاہتی تھی ۔۔

ہانیہ نے سر جھکا کے کہا تو وجاہت کو اس بات پر اور غصہ آیا 

پاکستان آنے کی بات کر سکتی ہو مگر یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ طبیعت خراب ہے 

ہانیہ کیوں تم مجھ سے باتیں چھپاتی ہو۔۔ وجاہت نے غصے سے ہانیہ کی کلائی پکڑ کے کہا۔۔

آپ پریشان ہوجاتے نہ ۔۔ اور چھوٹی سی تو بات ہے 

ہانیہ نے وجاہت کا چہرا اپنی طرف کرکے اسے سمجھانا چاہا

یہ چھوٹی بات ہے اگر تمہیں اکیلے گھر میں کچھ ہوجاتا یا حور کو کچھ ہوجاتا تو کیا کرتا میں 

کتنی بار تم دونوں کو اکیلے چھوڑ جاتا تھا میں جب کوئی ضروری کام ہوتا تھا تو ۔۔

وجاہت کا لہجہ مزید سخت ہوگیا تھا وہ چلا نہیں رہا تھا مگر اسکی آنکھیں شعلے برسا رہی تھی۔۔

سوری۔۔ جب ہانیہ سے وجاہت کی آنکھوں میں دیکھا نہ گیا تو اسنے نظریں نیچی کر کے کہا۔۔

ہانیہ کے منہ سے سوری لفظ سن کر وجاہت نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کرلیں 

پھر سائڈ ٹیبل پر رکھا گلاس اٹھایا اور اس میں پانی ڈال کر ہانیہ کو پلایا اور اسے اٹھا کر واشروم تک لے گیا۔۔

منہ ہاتھ دھو لو اور چل کر کھانا کھاؤ ۔۔

ہانیہ خاموشی سے وجاہت کو دیکھ کے واشروم کے اندر چلی گئی اور دروازہ بند کرلیا

خود کو کنٹرول کرنے کیلئے وجاہت نے اپنے دونوں ہاتھ کی انگلیاں اپنے بالوں میں پھیرنے لگا۔۔

ایک تو اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور اوپر سے میں نے اسے اتنی باتیں سنا دی 

دل میں سوچتے ہوئے وجاہت کمرے میں ہی ٹہلنے لگا۔۔

ہانیہ باہر آئی تو دیکھا وجاہت کمرے میں ہی ادھر سے ادھر چکر لگا رہا تھا۔۔

آپ بھی فریش ہو جائیں میں کھانا یہیں لے آتی ہوں۔۔

ہانیہ بول کے کمرے سے باہر جانے لگی تو وجاہت نے اسے ٹوکا۔۔

نہیں کھانا سب باہر ہی کھائیں گے کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا چلو ۔۔

ہانیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے وہ اسے لئے باہر جانے لگا۔۔

آپ پہلے فریش تو ہوجائیں۔۔

ہانیہ نے اسے اسکی اجڑی حالت میں دیکھا تو اسے بولنے لگی۔۔

کوٹ اور ٹائی وہ اتار چکا تھا استینوں کو بھی اسنے فولڈ کیا ہوا تھا وہ ہانیہ کو اس رف سے حلیہ میں اور بھی پیارا لگا مگر وہ تھکا ہوا تھا 

اور تھکن اسکے چہرے سے عیاں ہورہی تھی۔۔

نہیں میں ٹھیک ہوں چلو۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو خود کو تکتا ہوا پایا تو اسے لئے کمرے سے باہر چل دیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

کھانے کیلئے سبھی وجاہت اور ہانیہ کا انتظار کر رہے تھے

وجاہت نے پہلے ہانیہ کیلئے چئیر پل کی اسے بیٹھا کے وہ خود اسکے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔

ان کے آتے ہی سب نے کھانا شروع کیا۔۔

حور کو آج صبح سے ہی عالیہ بیگم سنبھال رہی تھی اور اب حور کو دیکھ نیلم کی طبیعت بھی کافی بہتر لگ رہی تھی۔۔

دادو نے وجاہت کو غور سے دیکھا جب وہ اپنے کمرے میں جارہا تھا تو اسکے چہرے پر صرف تھکن تھی مگر اب اسکے چہرے پر فکر مندی تھی وہ بار بار کھانا کھاتے ہوئے ہانیہ کو دیکھ رہا تھا فکر سے ۔۔۔

فلحال کیلئے دادو نے اس وقت خاموش رہنا ٹھیک سمجھا۔۔

کھانے سے فارغ ہوکر سب لاؤنج میں آکر بیٹھ گئے ملازم سب کیلئے کافی لے آئے تھے۔۔

موسم تھوڑا ٹھنڈا ہوگیا تھا تو اس موسم میں گرم گرم کافی سب کو اچھی لگ رہی تھی۔۔

سوائے ہانیہ کے اسنے کافی کا ایک گھونٹ سے زیادہ نہیں پیا تھا مگر اس نے کسی کو بھی شک نہیں ہونے دیا۔۔

ابھی کیا کم لیکچر سنا تھا اسنے 

ہانیہ کو ہنستا مسکرا کر سب سے بات کرتے ہوئے دیکھ کر وجاہت بھی کافی پرسکون ہوگیا تھا اور سبھی سے بات کر رہا تھا۔۔

جبکہ ہادی اس سوچ میں تھا کہ وجاہت سے ابھی بات کرے کہ نہیں۔۔

اسکے پاپا پاکستان صرف ایک ہفتے رہ کر چلے گئے تھے اور اب وہ ایک دو دن بعد پھر واپس آرہے تھے ہادی اور نیلم کی منگنی کی رسم ادا کرنے کیلئے۔۔

ہادی کچھ کہتا وجاہت سے اس سے پہلے ہی اس کے موبائل پر میسج کی بپ ہوئی۔۔

ہادی نے موبائل دیکھا تو اس میں ہانیہ کا میسج آیا ہوا تھا جس میں لکھا تھا کہ مجھے آپ کی ہیلپ چاہئے۔۔

ہادی نے نظر اٹھا کر پہلے ہانیہ کو دیکھا اور ائی برو اچکا کر اسے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہوں کہ کیا کام ہے۔۔

ہانیہ نے موبائل میں پھر کچھ ٹائپ کیا۔۔

کل وجاہت کا برتھ ڈے ہے تو میں اسے سرپرائز کرنا چاہتی ہوں۔۔

ہادی نے وہ میسج پڑھا تو اسکے چہرے پر مسکان آگئی۔۔

ٹھیک ہے جو بھی پلان ہے وہ ہم نیلم کے کمرے میں ڈسکس کریں گے رات کو 

جوابی میسج بھیج کر اسنے موبائل ٹیبل پر رکھا اور وجاہت سے بات کرنے کا اپنا ارادہ کل تک کیلئے ملتوی کر دیا۔۔

کل ہانیہ نے سرپرائز کے بعد وہ گھر میں پارٹی رکھے گا شام میں اور تبھی وجاہت سے نیلم کا ہاتھ مانگے گا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

رات کو ہادی نے نیلم کے کمرے کا دروازہ ناک کیا تو نیلم نے فوراً سے دروازہ کھولا۔۔

آپ کو اتنی رات میں کیا بات کرنی تھی۔۔

دروازہ تھام کے ہادی کے کچھ بھی بولنے سے پہلے ہی نیلم بول پڑی ۔۔

محترمہ اندر آنے دو اس سے پہلے کہ تمہارا جلاد بھائی مجھے دیکھ لے۔۔

ہادی نے سرگوشی نما آواز میں ادھر ادھر دیکھ کے کہا۔۔

نیلم نے بھی فوراً دروازہ کھول دیا ہادی اسے لئے اندر گیا مگر اسنے دروازہ پورا بند نہیں کیا۔۔

بولیں بھی اب۔۔ ہادی جب صوفے پر بیٹھ گیا تو نیلم بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی۔۔

کچھ نہیں بس تمہیں دیکھنے آیا تھا۔۔

ہادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

مگر آپ نے تو کہا تھا کہ سونا نہیں ضروری بات کرنی ہے۔۔

نیلم نے اسے دیکھ کے موبائل کی اسکرین اسے دکھائی جس میں ہادی کا میسج آیا ہوا تھا کہ سونا مت بات کرنی ہے ضروری۔۔

ہادی موبائل کی اسکرین دیکھ کے مسکرانے لگا۔۔

بہانہ کیا تھا تم سے اکیلے میں ملنے کا۔۔ ہادی بس اسے چھیڑ رہا تھا جس پر وہ بلش کر گئی۔۔

مگر اتنی رات میں آپ کا یوں آنا بہتر نہیں تھا آپ ابھی جائیں ہم کل بات کریں گے۔۔

نیلم نے نظریں جھکا کے کہا۔۔ کیونکہ ہادی اسے ہی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

پنک نائٹ سوٹ پہنے ہوئے جو کہ اسکے چہرے کے رنگ سے مل رہا تھا بالوں کی ڈھیلی سی پونی باندھے وہ ہادی کو بہت پیاری لگی۔۔

سوچ لو بھگا رہی ہو مجھے بولو تو چلا جاتا ہوں۔۔

ہادی نے مسکراہٹ چھپا کے کہا تو نیلم سوچ میں پڑ گئی کہ آگے کیا کہے 

وہ اسی سوچ میں تھی کہ تبھی ہانیہ دروازہ ناک کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔۔

میں نے کسی کو ڈسٹرب تو نہیں کیا نہ۔۔

ہانیہ نیلم اور ہادی کو دیکھ کے بولی 

نیلم نے ہانیہ کو دیکھ کے سکھ کا سانس لیا 

نہیں بھابھی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔۔

ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کے نیلم اسے اندر لائی دروازہ اب کے ہادی نے بند کردیا۔۔

جی بولیں کیا کام ہے آپ کو۔۔

ہادی نے ایک نظر نیلم کو دیکھ کے ہانیہ کو کہا۔۔

کل وجاہت کی برتھ ڈے ہے میں نے ابھی تو انہیں وش نہیں کیا مگر کل صبح میں چاہتی ہوں انہیں سرپرائز دوں کوئی اچھا سہ۔۔

ہانیہ نے نیلم اور ہادی کو دیکھ کے کہا۔۔

ویسے بھابھی مجھے وجاہت سے بات کرنی ہے کچھ تو ایسا کرتے ہیں کہ اپکا سرپرائز ہم سی سائڈ والے گھر میں شفٹ کرتے ہیں پھر رات میں یہاں ایک پارٹی ارینج کریں گے

جس میں وجاہت سے میں اپنی اور نیلم کی شادی کی بات کرونگا ائی ہوپ اسکا موڈ اچھا ہوگا تو وہ مجھے نہ نہیں کہے گا۔۔

ہادی پہلے ہی یہ سب سوچ چکا تھا اسی لئے اپنے آئیڈیاز ہانیہ سے شئیر کرنے لگا۔۔

مگر میں تو خود گھر میں پارٹی دینا چاہتی تھی۔۔

ہانیہ نے جو سوچا تھا وہ ہادی کو بتانے لگی۔۔

ارے بھابھی آپ اگر الگ سے اسے سرپرائز دینگی تو اسے زیادہ اچھا لگے گا۔۔

ایسا کرتے ہیں کل وجاہت کے آفس جانے کے بعد آپ سی سائڈ والے گھر چلے جائے گا میں ابھی اپنے ایک دوست سے بات کرتا ہوں وہ کل دوپہر تک وہاں سب کچھ ریڈی کر دے گا۔۔

جب وہاں سارا کام ہوجائے گا تو میں آپ کو وہاں ڈراپ کردوں گا پھر وجاہت کو وہاں کسی طرح بھیج دونگا۔۔

اور جب تک آپ لوگ وہاں ہونگے یہاں کی تیاری بھی مکمل ہوجائے گی 

ہادی کا آئیڈیا ہانیہ کو اچھا تو لگا مگر وہ گھبرا بھی رہی تھی اس طرح کا سرپرائز کے بارے میں تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔

کافی دیر تک وہ تینوں بات چیت کرتے رہے پھر کہیں جاکر ہانیہ مانی مگر اس شرط پر کہ ساری تیاری وہ خود اپنے ہاتھوں سے کرے گی بس سامان وہاں پہنچا دیا جائے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اگلے دن جیسے ہی وجاہت شان صاحب اور ہادی آفس کیلئے نکلے ہانیہ نے حور اور نیلم کو ساتھ لیا اور سی سائڈ جانے کیلئے نکل پڑی۔۔

نیلم کو وہ ساتھ اسلئے لے کر گئی کہ ساتھ میں حور بھی تھی

گھر پہنج کر ہانیہ نے سارا سامان چیک کیا اور لگ گئی کام پر اسے گھر کا ٹیرس ڈیکوریٹ کرنا تھا جہاں سے سمندر کا خوبصورت نظارہ دکھتا تھا۔۔

تقریباً تین گھنٹے کی محنت کے بعد ہانیہ نے جانچتی نظروں سے ٹیرس کو دیکھا جب وہ مطمئن ہوگئی تو نیچے لاونج میں آئی جہاں نیلم حور کو لئے بیٹھی موبائل میں کچھ دیکھ رہی تھی۔۔

ہانیہ کو دیکھ کر حور نیلم کی گود سے اتر ہانیہ کی طرف گھٹھنے چل کر آگئی نیلم بھی اپنی جگہ سے اٹھی

بھابھی ہوگیا کیا آپکا کام نیلم نے چہک کر کہا۔۔ 

وہ کب سے ٹیرس دیکھنا چاہتی تھی جسے ہانیہ سجا رہی تھی۔۔

ہاں ہوگیا آؤ دکھاتی ہوں۔۔

ہانیہ نے حور کو گود میں لیا اور نیلم کو لئے ٹیرس پر آگئی ۔۔

نیلم تو بس ساری سجاوٹ دیکھ کے دنگ ہی رہ گئی۔۔

ٹیرس کے چاروں طرف سفید نیٹ کے پردے وہ پہلے ہی ملازم سے لگوا چکی تھی پوری ٹیرس کو سفید گلابوں سے سجایا گیا تھا۔۔

سفید گلاب ہانیہ اور وجاہت دونوں کو ہی بہت پسند تھے لال گلاب سے بھی زیادہ۔۔

چھوٹی چھوٹی ایل ای ڈی لائٹس پورے طریقے سے ٹیرس پر سجائی گئی تھی جو کہ رات میں جل کر ایک خواب ناک منظر پیش کرتی 

کہیں کہیں کینڈل اسٹینڈ رکھے تھے جہاں سینٹڈ کینڈلز رکھی تھی۔۔

ٹیرس کافی بڑی تھی جسے بہت مہارت سے سجایا گیا تھا۔۔

بیچ میں ایک ٹیبل اور دو چیئرز تھے ٹیبل پر ہانیہ نے سفید کور ڈالا ہوا تھا اور اس کے اوپر لال گلابوں سے بھرا واز اور ایک کینڈل اسٹینڈ تھا 

نیلم منہ کھولے یہ سب دیکھتی رہ گئی۔۔

سب سے حسین جو چیز وہاں لگ رہی تھی وہ تھی کرسٹل کا وینڈ چائن جو کہ ہوا سے بہت خوبصورت آواز دے رہا تھا اور دن کی روشنی میں بہت حسین لگ رہا تھا۔۔

ہانیہ نے مسکرا کر نیلم کا منہ بند کیا اور ہادی کو کال کر دی کہ نیلم اور حور کو آکر لے جائے اور ساتھ میں جو کیک اسنے آرڈر کیا  تھا وہ لے آئے۔۔

کیک بھی ہانیہ خود ہی بنانا چاہتی تھی مگر کام زیادہ تھا اور وقت کم تو کیک اسنے باہر سے ہی منگوالیا۔۔

قریب آدھے گھنٹے بعد ہادی وہاں پہنچا تو ٹیرس کی سجاوٹ دیکھ کے داد دیئے بنا رہ نہ سکا ہانیہ کو۔۔

اس سادی سی جگہ کو آپ نے کتنی خوبصورتی سے سجایا ہے بھابھی۔۔

ہادی نے بھی ٹیرس کا اچھے سے جائزہ لے کر کہا۔۔

شکریہ تعریف کرنے کیلئے آپ کیک لے آئے ۔۔

ہانیہ نے مسکرا کے پوچھا 

جی ہاں کیک میں لے آیا ہوں فریج میں رکھ دیا ہے اور آپ کیلئے کھانا لایا ہوں وجی نے لنچ کرلیا ہوگا اور میں نیلم اور حور کے ساتھ باہر لنچ کرلونگا۔۔

وجی کو یہاں آنے میں آدھا گھنٹہ لگ جائے گا تو آپ کھانا کھا لیجیے گا۔۔

میں چلتا ہوں ۔۔

ہانیہ کو چیز سینڈوچز دے کر ہادی نیلم اور حور کو لئے چل دیا 

ہانیہ نے ان کے جاتے ہی فون لیا اور وجاہت کو کال کی اور اسے وہاں آنے کیلئے کہا۔۔

ہانیہ وہاں اکیلی ہے یہ سن کے ہی وجاہت آفس سے نکلا کہ کہیں اکیلے میں اسکی طبیعت خراب نہ ہوجائے 

ساتھ میں اسے غصہ بھی آرہا تھا کہ وہ وہاں گئی ہی کیوں وہ بھی اکیلے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

پرنسس تم نے غور سے دیکھا نا سب ۔۔

گاڑی چلاتے ہوئے ہادی نے نیلم کو ایک نظر دیکھ کے کہا۔۔

حور کو پیچھے چائلڈ سیٹ پر بٹھا دیا تھا ہادی نے 

کیا مطلب کیا دیکھا۔۔

نیلم نے گردن موڑ کر ہادی کو دیکھ کے کہا۔۔

مطلب کے جیسے بھابھی وجی کو سرپرائز دینے کیلئے اتنی محنت کر رہی تھیں کیا تم بھی میرے لئے کروگی۔۔

ہادی نے نیلم کو دیکھ کے سنجیدگی سے کہا۔۔

نیلم ایک پل کو سوچ میں پڑ گئی 

ہادی نے اسے سوچ میں گم دیکھا تو دھیرے سے اس کے گال پر چٹکی کاٹی۔۔

جس سے نیلم ایک دم چونک گئی اور اپنے گال پر ہاتھ رکھ کے ہادی کو گھورنے لگی۔۔

ہادی اسکے گھورنے پر ہنس دیا۔۔

کیا ہوا پرنسس ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے۔۔

میں سوچ رہی تھی کہ میں یہ سب کروگی کہ نہیں مگر آپ نے جو یہ چٹکی کاٹی ہے نہ تو اب میں ایسا کچھ نہیں کروگی۔۔

نیلم نے منہ بنا کے کہا ۔۔

ٹھیک ہے مت کرنا کچھ بھی بس میرے ساتھ رہنا ہمیشہ مسکراتے ہوئے میرے لئے زندگی کی سب سے بڑی خوشی یہی ہوگی۔۔

موڑ کاٹتے ہوئے ہادی نے مسکراتے ہوئے کہا تو نیلم بس اسے پیار سے دیکھے گئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت وہاں پہنچا تو اسے دیکھ کے چوکیدار نے فوراً دروازہ کھولا وجاہت تیزی سے گاڑی پورچ میں کھڑی کرکے گھر کے اندر داخل ہوا اور زور زور سے ہانیہ کو آوازیں دینے لگا جب ہانیہ نے کوئی جواب نہ دیا تو وجاہت کو اسکی اور زیادہ فکر ہونے لگی۔۔

گھر کا ملازم بھی موجود نہیں تھا گھر میں وجاہت تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر کے فلور پر آیا اور سیدھا ٹیرس کی طرف گیا۔۔

مگر جیسے ہی اس نے ٹیرس کو دیکھا تو اسکے پیر وہیں جم سے گئے۔۔

وجاہت ٹیرس کو دیکھ ہی رہا تھا کہ ہانیہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ جھٹکے سے اسکی طرف منہ موڑا۔۔

ہانیہ بے بی پنک کلر کی ساڑھی پہنے ہوئے تھی بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا جو کہ ایک کندھے پر گرے ہوئے تھے۔۔

ہلکا سا میک اپ بھی کیا تھا آج اور ہونٹوں پر شاکنگ پنک کلر کی لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی 

وجاہت نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور آخر میں اسکی نظر ہانیہ کہ لبوں پر آکر رک گئی۔۔

ہانیہ اچھے سے سمجھ گئی تھی کہ وجاہت کو اسکا سب کے سامنے تیار ہوکر نکلنا بلکل اچھا نہیں لگتا مگر اکیلے میں تو وہ صرف اپنے شوہر کیلئے جتنا چاہے تیار ہوسکتی تھی 

تو اس نے آج کی تمام تیاری صرف وجاہت کیلئے ہی کی اسے یقین تھا کہ وجاہت اسے آج تیار ہونے پر نہیں ڈانٹے گے۔۔

وجاہت کو یوں ہی تکتا ہوا پاکر ہانیہ نے ہاتھ میں موجود رنگ اپنے انگلیوں کے پوروں پر لی اور وجاہت کے سامنے ہی گھٹھنوں کے بل بیٹھی۔۔

اور رنگ اسکی طرف بڑھائی۔۔

وجاہت کو سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔۔

میں جانتی ہوں آپ کو یہ سب تھوڑا عجیب لگ رہا ہوگا مگر کیا کروں آپ کی محبت نے مجھے یہ سب کرنے پر مجبور کردیا۔۔

آپکا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں میں مجھے اپنی زندگی میں شامل کرنے کیلئے 

ایک ادھوری عورت کو مکمل کرنے کیلئے۔۔

آپ سے شادی کرکے میں نہ صرف آپکی بیوی بنی بلکہ ایک ماں بھی بنی۔۔

شکریہ مجھے اتنا چاہنے کیلئے 

شکریہ ہر پل ہر سانس میں مجھے یہ احساس دلانے کیلئے کہ آپ ہر وقت میرے ساتھ ہیں۔۔

میں نہیں سمجھتی کہ اپنے دل کی محبت جو صرف آپ کیلئے ہے وہ کیسے لفظوں میں آپ کو بتاؤ مگر اتنا کہونگی کہ یہ جو سامنے سمندر ہے جتنا یہ گہرا ہے اس سے بھی کئی گنا گہری میری محبت ہے آپ کیلئے۔۔

میں آپ کے ساتھ اپنی آخری سانس تک رہنا چاہتی ہوں۔۔

مرتے دم تک صرف اور صرف آپ کی رہنا چاہتی ہوں۔۔

جب آپ میری فکر کرتے ہیں تو غرور آجاتا ہے مجھ میں ایسا ہمسفر ملنے پر۔۔

جب مجھے مسکرا کر دیکھتے ہیں تو دل میں کئی دفاع میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے میری زندگی میں آپ جیسا پیارا شخص شامل کیا۔۔

مجھے نہیں پتہ کہ میں نے اپنی زندگی میں کونسا ایسا اچھا کام کیا تھا جسکا نتیجہ مجھے اپکی محبت کی صورت ملا ہے۔۔

یہ دن بہت خاص ہے کیونکہ اسی دن مجھ سے محبت کرنے والا شخص میرے لئے اس دنیا میں آیا۔۔

یہ دن بہت خاص ہے کیونکہ آپ بہت خاص ہیں۔۔

جتنی آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں میں بھی اتنی ہی کرتی ہوں مگر آپ کی محبت کی شدت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تو بس یہ ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے امید کرتی ہوں آپ کو پسند آئے گی 

اور آپ مجھ سے جو ناراض ہیں وہ ناراضگی بھی ختم کردیں گے۔۔

ہانیہ محبت سے گٹھنوں کے بل وجاہت کے قدموں کے پاس بیٹھی تھی۔۔

اور اسے ہی محبت سے دیکھ رہی تھی۔۔

اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی جبکہ آنکھیں نم تھی۔۔

یہی کچھ حال وجاہت کا بھی تھا پھر وہ بھی اپنے گٹھنوں کے بل بیٹھا اور ہانیہ کو زور کے خود میں بھینچ لیا۔۔

وجاہت کے سینے سے لگ کے ہانیہ کا ایک آنسو ٹوٹ کر گالوں پر پھسل گیا۔۔

وجاہت نے اسے الگ کیا اور محبت سے اسکے چہرے کے ہر نقوش پر اپنے لب رکھتا گیا۔۔

جسے ہانیہ نے آنکھیں بند کئے ہی دل سے محسوس کیا۔۔

وجاہت نے اسے اٹھایا اور چئیر پر بٹھایا 

ہانیہ نے وجاہت کا ہاتھ تھام کر اس میں ایک رنگ پہنائی اور محبت پاش نظروں میں اسے دیکھ کے کہا۔۔

سالگرہ مبارک ہو۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو مسکرا کے دیکھا پھر اپنے ہاتھ کی انگلی میں پہنی پلیٹینئم کی رنگ کو۔۔

ویسے مرد تحفے دیتے ہوئے اچھے لگتے ہیں تم کیوں لے آئی 

وجاہت نے ہانیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما 

باہر کے مسلم ممالک میں شادی کے بعد لوگ رنگ پہنتے ہیں جسے ویڈنگ رنگ کہا جاتا ہے تو میں آپ کے لئے یہ پلاٹینییم کی رنگ لے آئی اب سب کو پتہ چل جائے گا پاکستان میں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی کہ یہ ہینڈسم ہنک کسی کی قید میں قید ہوچکا ہے 

تو بھلائی اسی میں ہے کہ اس قیدی کے جیلر سے بچ کے رہیں۔۔

ہانیہ نے شان کے گردن اکڑا کے کہا تو وجاہت ہانیہ کے اس نئے انداز کو حیرت اور محبت سے دیکھنے لگا۔۔

ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔ ہانیہ کو مسلسل وجاہت کو تکتا ہوا پایا تو پوچھنے لگی۔۔

بس دیکھ رہا ہوں کہ تم کیسی تھی اور کیسی ہوگئی ہر دن تم میں مجھے ایک نئی ہانیہ دکھتی ہے۔۔

وجاہت نے پیار سے کہا تو ہانیہ سوچ میں پڑگئی۔۔

تو آپ کو کونسی ہانیہ زیادہ پسند ہے۔۔ ہانیہ نے سوچتے ہوئے کہا۔۔

میں نے کہا مجھے ہر روز ایک نئی ہانیہ دکھتی یے مگر محبت تو مجھے میری سن شائن سے ہے۔۔

جسکا ایک دل ہے اور وہ دل بہت حسین ہے مجھے اسی دل سے عشق ہے تو روز بدلنے والی ہانیہ سے مجھے کیا۔۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں نے جس ہانیہ کو دیکھا تھا وہ ایک ڈرپوک اکڑ اور ضدی ہانیہ تھی اور اب اس ہانیہ میں نہ ڈر ہے نہ ضد اور نہ اکڑ پن 

اس میں سادگی ہے معصومیت ہے سب کیلئے دل میں محبت ہے اور ایک پیاری سی مسکان ہے جو کہ اب ہر وقت اسکے پیارے سے چہرے پر سجی رہتی ہے۔۔

آپ کو پتہ ہے آپ کے الفاظوں میں جادو ہے یہ کسی کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لینے کا فن رکھتے ہیں۔۔

ہانیہ نے محبت بھرے لہجے میں کہا تو وجاہت مسکرا دیا۔۔

اسی لئے تو میں لوگوں سے زیادہ بات نہیں کرتا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

اچھا کرتے ہیں بہت ۔۔

ہانیہ نے بھی وجاہت کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

لو باتوں باتوں میں ایک کام تو بھول ہی گئی۔۔

ہانیہ نے سر پہ ہاتھ مارا اور وجاہت سے اپنا ہاتھ چھڑا کے چلی گئی 

وجاہت بس اسے حیرت سے جاتا دیکھتا رہا۔۔

جب وہ چلی گئی تو وجاہت نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ارد گرد کا جائزہ لیا۔۔

جب وہ یہاں پہنچا تو بس ایک نظر ہی اس جگہ کو دیکھا تھا اگلے ہی پل ہانیہ نے اسے اپنی طرف مائل کرلیا

اب اسکی سن شائن سے بڑھ کر کوئی خوبصورت ہو سکتا ہے کیا ہانیہ کو دیکھنے کے بعد وجاہت نے اس پر سے ابھی تک نظر نہیں ہٹائی تھی تو اب اسکے جانے کے بعد غور سے اس جگہ کو دیکھ رہا تھا۔۔

ساری سجاوٹ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ٹیرس کے سامنے کا منظر مل کر اس جگہ کو اور خواب ناک بنا رہے تھے۔۔

وجاہت نے دل ہی دل میں داد دی۔۔

ہانیہ کیک لئے ٹیرس پر آئی اور کیک ٹیبل پر رکھ کے وجاہت کو آواز دی جو ریلنگ تھامے اب سمندر کو دیکھ رہا تھا۔۔

ہانیہ کی آواز پر وجاہت نے مڑ کر دیکھا تو ہانیہ کیک پر لگی کینڈلز جلانے کی کوشش کر رہی تھی جو کہ ہوا سے بار بار بجھ رہی تھی

ٹیبل تھوڑا اونچا تھا تو ہوا ریلنگ سے اوپر آرہی تھی 

وجاہت نے اسے چڑتے ہوئے دیکھا تو مسکرانے لگا 

ہانیہ کے ہاتھ سے لائیٹر لے کر اسنے ٹیبل پر رکھا 

ہانیہ کو چئیر سے اٹھا کے خود چئیر پر بیٹھا اور اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا۔۔

وجاہت کے پیروں پر بیٹھنا ہانیہ کو بہت عجیب لگ رہا تھا۔۔

آپ کو نہیں لگتا آپ دن بہ دن زیادہ ہی رومینٹک ہوتے جارہے ہو۔۔

شرماتے ہوئے ہانیہ نے کہا تو وجاہت نے ہانیہ کا چہرا تھام کے اپنی طرف کر کے کہا۔۔

یا یوں کہہ سکتی ہو کہ میرے عشق میں بلندی آتی جارہی ہے ہر نئے دن کے ساتھ ہر نئے گھنٹے ہر نئے منٹ اور ہر نئے سیکنڈ میں۔۔

کیک کاٹ لیتے ہیں ورنہ یہ میلٹ ہونا اسٹارٹ ہوجائے گا۔۔

ہانیہ کے چلاکی سے ٹاپک چینج کرنے پر وجاہت دھیرے سے ہنسا۔۔

ہانیہ کا ہاتھ تھام کے اسنے کیک کو کٹ کیا اور چھوٹا سا پیس ہانیہ کو کھلایا۔۔

ہانیہ نے بھی کیک کا پیس لیا اور وجاہت کو کھلانے کیلئے اسکے منہ کے آگے کیا 

وجاہت نے اپنا منہ کھولا تو ہانیہ نے شرارت سے کیک اسکی ناک پہ لگا دیا

ہانیہ کی حرکت پر وجاہت اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا جبکہ ہانیہ کا زور دار قہقہہ ہوا میں گونجا۔۔

وجاہت کچھ کرتا اس سے پہلے ہی ہانیہ نے دوبارہ کیک لیا اور اب کے اسکے گال پر مل دیا۔۔

وجاہت نے بھی کوئی مزاحمت نہ کی۔۔

محترمہ آپ بھول گئی ہیں کیا کہ بیٹھی کہاں ہیں اور پھر اس پر اتنی جرت۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو ہنستے ہوئے دیکھ کے کہا۔۔

ہانیہ یہ سب سن کے ایک دم خاموش ہوگئی۔۔

آج بہت خوبصورت لگ رہی ہو یہ سب صرف میرے لئے ہے یہ سوچ کر ہی مجھے کتنی خوشی ہورہی ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی 

مگر تمہاری حرکت کا بدلہ بھی تو لینا ہے۔۔

بولتے ہوئے وجاہت نے اپنا گال ہانیہ کے گال پر رگڑ دیا جتنا کیک اب وجاہت کے رخسار پر تھا اب اتنا ہی ہانیہ کے رخسار پر تھا

وجاہت کی اس حرکت پر ہانیہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

مگر اب کے اسے وجاہت کی نظریں کچھ الگ لگی تو وہ بہانا کر کے وہاں سے جانے لگی مگر وجاہت نے اسے جاتا دیکھ کے اسکا ہاتھ تھام کے اپنے قریب کیا۔۔

تمہیں لگتا ہے کیا مجھ سے تم اتنی آسانی سے دور بھاگ جاؤگی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

چلیں نہ دادو پارٹی میں ۔۔

ہادی تیار ہوکر دادو کو پارٹی میں لے جانے آیا تو دادو نے آج کی پارٹی میں جانے سے بھی انکار کردیا۔۔

دادو آپ دن بہ دن بور ہوتی جارہی ہیں۔۔

ہادی دادو کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا ۔

بیٹا یہ سب تم بچوں کے شوق ہیں میرا بھلا وہاں کیا کام اور تمہیں پتہ ہے مجھے زیادہ لوگوں سے گھبراہٹ ہوتی ہے تو میں یہیں ٹھیک ہوں۔۔

دادو نے سہولت سے ہادی کو منع کردیا تھا۔۔

ٹھیک ہے مگر آپ آتی تو بہت اچھا لگتا مجھے اور وجی کو۔۔

وجاہت کو میں اکیلے میں مبارک باد دے دونگی سالگرہ کی اب تم لوگ جاؤ مزے کرو۔۔

دادو کے کہنے پر ہادی نے انکا ہاتھ تھام کے اسے چوما احتراماً۔۔

آپ جانتی ہیں آپ دنیا کی بیسٹ دادو ہیں۔۔

ہادی نے پیار سے دادو کو دیکھ کے کہا۔۔

جانتی ہوں کوئی نئی بات بتاؤ 

دادو کے کہنے پر ہادی مسکراتا ہوا انکے کمرے سے چلا گیا۔۔

نیوی بلو سوٹ میں آج ہادی روز مرہ سے کہیں زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا نیلم کیلئے بھی اسنے نیوی بلیو سوٹ ہی لیا تھا ویسے بھی ہمیشہ ہر ایوینٹ پر ہادی اور نیلم ایک دوسرے کے  سیم کلر کامبینیشن کے ڈریس ہی پہنتے تھے کیونکہ نیلم ہی اپنا اور ہادی کا ڈریس لاتی تھی ہمیشہ پارٹی کیلئے

مگر آج نیلم سے پہلے ہی ہادی اپنے اور نیلم کیلئے ڈریس لے آیا تھا

نیلم کی ڈیوٹی اس بار ہانیہ اور وجاہت کا ڈریس لینے کی تھی

مگر جب نیلم نے ہانیہ کا ڈریس لیا تو اسی رنگ کا ملتا جلتا ڈریس اس نے حور کیلئے بھی لیا۔۔

آج کل یہ ٹرینڈ بھی چل رہا تھا ماں اور بیٹی کے ایک سے کپڑے بنتے ہیں 

تیار ہو کر جب نیلم نیچے آئی تو دیکھا مہمان تھوڑے بہت ہی تھے اور باقی آہی رہے تھے

سامنے ہی اسکا ہینڈسم پرنس کسی کے بات کرتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔۔

نیلم نے اسے پیار سے دیکھا تو اسکے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی 

کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرکے ہادی نے بے اختیار ہی نظر اٹھا کے سیڑھیوں پر کھڑی نیلم کو دیکھا تو اسکی نظروں نے پلٹنا سے انکار کردیا۔۔

نیوی بلیو گاؤن جس پر کوپر کلر کے پرلز کا کام ہوا وا تھا اسکے نازک سے سراپے پر بہت جچ رہا تھا۔۔

لائٹ میک کیا ہوا مگر ہونٹوں پر آج اسنے سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی بالوں کو اسٹائلش سے جوڑے میں باندھا ہوا تھا

کانوں میں نازک مگر خوبصورت ائرنگ پہنے اسنے ہادی کے دل کو زور سے دھڑکنے پر مجبور کر دیا۔۔

ہادی کے ساتھ کھڑے ہوئے آدمی نے جب اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے ہادی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ہادی چونک کر اسے دیکھنے لگا۔۔

ہادی کو یوں چونکتے دیکھ نیلم مسکرا دی۔۔

وہ ہادی کی ہی طرف جارہی تھی کہ اس کے موبائل پر میسج کی بپ ہوئی۔۔

اس نے دیکھا تو ہانیہ کا میسج آیا ہوا تھا

ہم گھر پہنچنے والے ہیں میوزک سارے آف ہی رکھنا میں وجاہت کو لان کے دروازے سے ڈائرکٹ پیچھے کے راستے سے روم میں لے جاؤگی 

نیلم نے میسج پڑھ کے ہانیہ کو ریپلائی کیا۔۔

نہیں پارٹی شروع ہوچکی ہے تو آپ سیدھے بھائی کو مین راستے سے لے کر آئیں انہیں سرپرائز دینگے پھر آپ لوگ روم میں جاکر ٹھیک سے تیار ہو کر آجانا۔۔

ہانیہ نے وہ میسج پڑھا تو ایک پل تو وہ سوچ میں پڑ گئی اسنے ابھی بھی ساڑھی پہنی ہوئی تھی 

وہ پہلے وجاہت کا ری ایکشن دیکھ چکی تھی جب اسنے ساڑھی پہنی تھی کتنا غصہ کیا تھا اسنے اور بہانے سے چینج بھی کروا دی تھی

اور پھر آج تو اسنے کافی میک اپ بھی کیا تھا بس ہم وہاں پہنچے سب سے مل کر میں جلدی سے روم میں چلی جاؤگی حور کو دیکھنے کے بہانے۔۔

ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔

ہانیہ کو مسلسل کسی سوچ میں گھرا دیکھ وجاہت نے اسے آواز دی۔۔

وجاہت کے آواز دینے پر ہانیہ نے اسے دیکھا۔۔

کن سوچوں میں گم ہو کافی دیر سے۔۔

وجاہت موڑ کاٹتے ہوئے بولا۔۔

ہے ایک انسان جو آج کل میری سوچوں میں کیا میرے ذہن پر سوار رہتا ہے۔۔

ہانیہ نے مسکرا کے جواب دیا تو وجاہت بھی اسکی بات پر مسکرا دیا وہ اچھے سے جانتا تھا کہ ہانیہ کس بارے میں بات کر رہی تھی۔۔

وہ ہر منٹ میں اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

آپ آگے دیکھ کر گاڑی چلائیں مجھے ساری زندگی دیکھتے رہنا۔۔

ہانیہ نے اسے مسلسل خود کو تکتا پاکر کہا۔۔

یار ایک تو جب میں نے یہ لپ اسٹک اچھے سے صاف کر دی تھی تو تم نے دوبارہ کیوں لگالی مجھے یہ ڈسٹریکٹ کر رہی ہے ۔

وجاہت نے معصوم چہرا بنا کے کہا۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ بلش کرنے لگی۔۔

آپ گاڑی چلائیں۔۔ اس نے بس اتنا کہا اور چہرا دوسری طرف موڑ لیا۔۔

منہ دوسری طرف کر کے وہ آنکھیں میچے اپنے لب کاٹنے لگی۔۔

جب وجاہت نے سائڈ مرر میں اسے دیکھا تو اسے ٹوک دیا۔۔

سن شائن ایسا کر کے تم مجھے تکلیف پہنچا رہی ہو۔۔

ہانیہ نے وجاہت کی بات پر اسے دیکھا۔۔

کیا مطلب۔۔

مطلب میں تمہیں بعد میں سمجھاؤں گا ابھی ہم گھر پہنچ چکے ہیں۔۔

وجاہت نے گاڑی گھر کے اندر پارک کی اور اسے لئے گھر میں داخل ہونے لگا 

گھر میں کافی اندھیرا تھا وجاہت نے ملازموں کو آواز دی تو ایک دم ساری لائٹس آن ہوگئیں اور پورا ہال روشنیوں سے چمک گیا۔۔

سب گھر والوں نے اسے برتھ ڈے وش کیا اور مہمانوں نے بھی۔۔

میں کیا کوئی چھوٹا بچہ ہوں جو میرے لئے یہ برتھ ڈے سیلیبریشن رکھا ہے آپ لوگوں نے۔۔

وجاہت کوفت زدہ ہو کر بولا۔۔

ارے میرے اکڑو شہزادے یہ سب تمہاری خوشی کیلئے کیا ہے مگر تم ہمیشہ سڑے ہی رہنا یار کبھی تو خوش ہوجایا کرو۔۔

ہادی نے تاصف سے سر ہلا کے کہا۔۔

میں خوش ہوں مگر تھوڑا اکورڈ بھی لگ رہا ہے۔۔

وجاہت نے بات سنبھالنے کیلئے کہا۔۔

واؤ بھابھی آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں اس ساڑھی میں دیکھیں زرہ سب لوگ صرف آپ کو ہی دیکھ رہے ہیں۔۔

نیلم کے الفاظ جیسے ہی وجاہت کے کان میں پڑے اسنے فوراً مڑ کے آس پاس دیکھا سب ہی نیلم اور ہانیہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔

ویسے تو سب فارملی ہی ہانیہ کو دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ وجاہت عالم کی بیوی تھی اس پارٹی کے خاص لوگوں میں سے ایک تھی تو ظاہر سی بات تھی مہمان اسے دیکھتے ۔۔

مگر وجاہت کا موڈ یہ سب دیکھ کے بگڑنے لگا۔۔

اوپر سے ہانیہ نے اسی کی دی ہوئی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جو کہ بے حد جچ رہی تھی اس پر پھر جب وجاہت کی نظر ایک بار پھر اسکے لبوں پر گئی جو کہ مسکرا رہے تھے

وجاہت تیزی سے ہانیہ کی طرف گیا اور اسے کمر سے تھام کر بولا۔۔

پارٹی کیلئے مجھے لگتا ہے ہمیں بھی ڈریس چینج کرلینی چاہئے۔۔

بولتے ہوئے وہ ہانیہ کو ساتھ چلانے لگا جب نیلم نے انہیں روکا۔۔

برو بھابھی اس ساڑھی میں بہت خوبصورت لگ رہی ہیں انکا ڈریس تو نہ چینج کروائیں۔۔

نیلم کے کہنے پر وجاہت نے اسے گھورا مگر بس اتنا کہا کہ مجھے یہ ڈریس اچھا نہیں لگ رہا اور کہہ کر ہانیہ کو لئے اوپر چلا گیا۔۔

نیلم نے ہادی کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ کے مسکرا رہا تھا نیلم نے اسکی طرف دیکھا تو وہ اسکے پاس ہی آگیا۔۔

اب دیکھنا تمہارا سڑا ہوا بھائی کیسے اپنی بیوی کو بلکل سمپل روپ میں باہر لائے گا۔۔

ہادی نے کہا تو نیلم سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔

وہ کیوں بھلا۔۔ 

کیونکہ تم نے کہا کہ ہانیہ اتنی خوبصورت لگ رہی ہے کہ سب اسے دیکھ رہے ہیں بس ہمارے اکڑو شہزادے نے یہ سن لیا اور لے گیا اپنی بیوی کو 

تم ٹینشن نہ لو پارٹی انجوائے کرو۔۔

ہادی نے پیار سے نیلم سے کہا 

ہادی اگر کوئی میری طرف بری نظر سے دیکھے گا تو آپ کو کیسا لگے گا۔۔

نیلم نے بس ایسے ہی پوچھ لیا مگر پھر اس نے ہادی کے تاثرات پل میں بدلتے دیتے اور پھر اگلے ہی پل وہ پھر سے ویسا ہی ہوگیا۔۔

مجھے کیسا لگے گا یہ تو صرف تمہیں وہ دیکھنے والا شخص ہی بتا سکتا ہے اب اپنے منہ سے میں تمہیں کیا بتاؤں۔۔

بظاہر تو ہادی نے مسکرا کے کہا مگر نیلم کو اسکی مسکراہٹ بناوٹی لگی

بولتے ہوئے ہادی کی نظروں میں ان لڑکوں کا چہرا گھوما جو سگنل پر گاڑی روک کر نیلم کو دیکھ رہے تھے اس وقت تو ہادی نے کچھ نہیں کیا مگر بعد میں اس نے ان لوگوں کا حشر برا کردیا تھا 

وہ بھی اسکی نیلم کو دیکھنے پر 

گاڑی کا نمبر وہ یاد کر چکا تھا تو گھر پہنچتے ہی اسنے گاڑی کے نمبر سے ان لوگوں کا پتہ کروایا اور انہیں اچھی سی سزا دی 

ہادی اور وجاہت کی پرسنالٹی میں کتنا ہی فرق کیوں نہ ہو ایک چیز جو دونوں میں کامن تھی وہ یہ تھی کہ وہ کبھی بھی اپنا ایول سائڈ گھر والوں کے سامنے نہیں دکھاتے تھے بلکہ یہ سب کام وہ بغیر کسی کو بتائے بہت خاموشی سے کردیا کرتے تھے۔۔

ہادی کو سوچ میں ڈوبا دیکھ نیلم نے اسکی آنکھوں میں جھانک کے دیکھا جہاں اسے سرخ ڈورے نظر آئے

ایک پل کیلئے تو نیلم گھبرا گئی مگر جب ہادی نے اسکا گھبرایا ہوا چہرا دیکھا تو ایک پل نہیں لگا اسے اپنا موڈ پھر سے ٹھیک کرنے میں۔۔

ارے پرنسس تمہیں کیا ہوا ۔۔

ہادی نے نیلم کے رخسار کو چھو کر کہا۔۔

مجھے لگا آپ غصے میں ہیں۔۔ نیلم نے دھیمی آواز میں کہا۔۔

میں اور غصہ مجھے بھی اپنے سڑے ہوئے بھائی کی طرح سمجھ لیا ہے کیا۔۔

ہادی نے مسکرا کے کہا تو نیلم بھی پرسکون ہوئی ۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت ہانیہ کو لئے کمرے میں داخل ہوا اور جلدی سے دروازہ بند کرکے اسے لاک کیا ۔۔

ہانیہ بس اسے خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔۔

نیچے اتنے لوگ آئے ہوئے تھے تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں

وجاہت ہانیہ کا ہاتھ تھام کے بولا۔۔

مجھے لگا وہ سرپرائز پارٹی ہے اسی لئے نہیں بتایا۔۔

ہانیہ نے مزاق میں کہا اور ڈریسنگ روم کی طرف جانے لگی۔۔

اسی وقت وجاہت نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اسکے گرد اپنا حصار مضبوط کر دیا۔۔

وجاہت چھوڑیں مجھے نیچے پارٹی چل رہی ہے ہمیں جلدی سے تیار ہوکر نیچے جانا ہے۔۔

ہم کہیں نہیں جائیں گے سب سے کہہ دیتا ہوں میں کہ کھانا کھا کے چلے جائیں اپنے اپنے گھر۔۔

وجاہت کے یوں بولنے پر ہانیہ نے کوفت سے اسے دیکھا۔۔

یہ پارٹی آپ کے لئے رکھی گئی ہے کیا ہوگیا ہے آپ کو گھر آتے ہوئے تو آپکا موڈ بلکل ٹھیک تھا تو اب کیا ہوگیا اچانک 

تمہیں پتہ ہے جب سب لوگ تمہیں دیکھتے ہیں تو مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا نیچے تم یہ ساڑھی پہن کر گھر میں داخل ہوئی ہر کسی کی نظر تم پر تھی۔۔

وجاہت نے غصے سے کہا۔۔

وجاہت سب صرف مجھے نہیں ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے کیونکہ لاسٹ میں ہم ہی تو ہال میں داخل ہوئے 

ہانیہ نے اسے سمجھانا چاہا مگر وجاہت کہاں ماننے والا تھا۔۔

ٹھیک ہے اگر تمہیں نیچے جانا ہے تو کپڑے چینج کرو اور کچھ سادہ سا پہنو اور چہرا صاف کرو اپنا ایک تو اتنی ڈارک لپ اسٹک لگانے کی ضرورت کیا ہے تم کو۔۔

وجاہت نے بہت مشکل سے اسے ڈانٹا۔۔

اچھا جی کچھ گھنٹے پہلے تو یہی ہونٹ آپ کو خوبصورت لگ رہے تھے اور اب برے لگ رہے ہیں۔۔

ہانیہ نے اپنا آپ چھڑاتے ہوئے کہا تو وجاہت نے اپنی پکڑ اور مضبوط کردی۔۔

تب اس لئے تعریف کی تھی کیوں وہ سب صرف میرے تھا نیچے ہر کوئی تمہیں مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا۔۔

مجھے غصہ مت دلاؤ چہرا صاف کرو اپنا ورنہ ہم کہیں نہیں جائیں گے اور یہ چہرا بھی میں خود ہی صاف کردوں گا۔۔

وجاہت بولتے ہوئے ہانیہ کے چہرے پر جھکا ہی تھا کہ ہانیہ بیچ میں بول پڑی۔۔

ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں گے میں ویسا ہی کروں گی ۔

ہانیہ نے ہار مانی تو وجاہت بھی مسکرا دیا۔۔

دیٹس مائی گرل۔۔ ہانیہ کی لپ اسٹک بگاڑنے کے بعد وہ بولا تو ہانیہ سرخ چہرا لئے ڈریسنگ روم کی طرف بھاگی۔۔

جبکہ اسے یوں جاتا دیکھ وجاہت ہنس دیا۔۔

ڈریسنگ روم میں دو ڈریس رکھے ہوئے تھے ہانیہ جانتی تھی کہ نیلم اسکے اور وجاہت کے ڈریسز لے آئی ہے 

ڈریس کھول کے دیکھا تو وہ ایک بلیک کلر کی پیروں کو چھوتی ہوئی فراک تھی جو کہ سمپل سی تھی بس اسکے گلے پر ہلکا سا کام تھا اور استینیں اسکی بلیک نیٹ کی تھی۔۔

ہانیہ نے جلدی سے ڈریس چینج کیا اور باہر آگئی۔۔

وجاہت جو کہ موبائل پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا ہانیہ کو دیکھ کر ایک پل کو موبائل بھول ہی گیا۔۔

بلیک رنگ وجاہت کا پسندیدہ رنگ تھا اور ہانیہ پر اسے یہ رنگ بہت اچھا لگتا تھا۔۔

پیروں کو چھوتی ہوئی فراک ویسے تو سمپل دکھتی تھی مگر اسکی نیٹ کی آستینوں سے اسکے سنہری بازو جھلک رہے تھے۔۔

نیٹ جبکہ اتنی باریک نہ تھی مگر پھر وجاہت کو وہ ایک آنکھ نہ بھائی عام دنوں کیلئے تو وہ کبھی کچھ نہ کہتا مگر پارٹی میں اتنے لوگوں کی موجودگی کا سوچ کے وہ ایک بار ہانیہ کو ڈریس چینج کرنے کہنے لگا۔۔

ہانیہ نے اب اسکی طرف دکھ سے دیکھا وجاہت اگر آپ کو نہیں پسند کوئی میری طرف دیکھے تو بتا دیجیے مجھے میں خوشی خوشی پردہ کیا کرونگی سب سے مگر یوں پل پل اپنا موڈ چینج مت کیا کریں زرا زرا سی بات پر غصہ کرنا یہ سب مجھے تکلیف دیتا ہے 

ہانیہ نے تھکے ہوئے انداز میں وجاہت کو دیکھا تو وجاہت گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کرنے لگا۔۔

ٹھیک ہے رہنے دو مگر چہرا سمپل ہی رکھنا اور لپ اسٹک تو بلکل بھی مت لگانا۔۔

بولتے ہوئے وجاہت بغیر ہانیہ کی طرف دیکھے ڈریسنگ روم کی طرف چل دیا۔۔

ہانیہ نے شکر کا سانس لیا اور جلدی سے تیار ہوگئی اس سے پہلے وجاہت باہر آتا۔۔

میک اپ تو اسنے نام کا ہی کیا جو کہ بلکل واضح نہیں ہورہا تھا ہاں آنکھوں کا لائینر اسنے تھوڑا بولڈ لگایا تھا اس پر نیوڈ لپ گلوس لگائی اور بالوں میں لوز کرلز ڈالے

بالوں کو کرل کرنے میں اسے بس ٹائم لگا مگر پھر بھی وہ 15 منٹ میں ریڈی ہوگئی اتنے میں وجاہت بھی شاور لے کر باہر آیا اور ایک نظر ہانیہ کو دیکھ کے تیار ہونے لگا۔۔

اس سے زیادہ وہ ہانیہ کا موڈ خراب کرنا نہیں چاہتا تھا جبکہ دل تو کر رہا تھا کہ اسے اسی کمرے میں لاک کردے یا پھر یہ اسے لے جائے یہاں سے۔۔

تقریبآ آدھے گھنٹے سے بھی پہلے وہ لوگ دوبارہ پارٹی میں شامل ہوگئے۔۔

ہانیہ کا ڈریس سیاہ رنگ کا تھا تو وجاہت کا سوٹ بھی پورا سیاہ رنگ کا ہی تھا اور تو اور حور نے بھی ساہ رنگ کی ہی فراک پہنی تھی جس پر میچنگ ہئیر کیچ لگائے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔

ہانیہ نے اسے گود میں اٹھایا تو ایک دم اسے چکر سا آگیا۔۔

حور اب کافی صحت مند ہوگئی تھی مگر ہانیہ ہمیشہ اسے اٹھائے اٹھائے ہی پھرتی تھی پھر اچانک سے۔۔

ہانیہ کو لڑکھڑاتا دیکھ عالیہ بیگم نے فوراً سے حور کو اس کی گود سے لیا اور فکر سے اسے پوچھنے لگی۔۔

کیا ہوا ہانی ٹھیک تو ہو۔۔

عالیہ بیگم کو اپنی طرف پریشانی سے دیکھتا دیکھ ہانیہ ایک دم سنبھلی ۔۔

کچھ نہیں بس تھوڑا ڈس بیلنس ہوگئی تھی ہانیہ نے فوراً بات بنائی کیونکہ کوئی بیر نہ تھا کہ وجاہت کو پتہ چلتا کہ اسے چکر آگیا تو ایک پل بھی اسے وہاں کھڑے ہونے نہ دیتا۔۔

ہانیہ پھر سے حور کو لینے لگی تو عالیہ بیگم نے اسے منع کردیا۔۔

رہنے دو تم تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔۔ عالیہ بیگم نے اسے پیار سے کہا ہانیہ اس سے پہلے کچھ کہتی اس نے اپنی امی اور پاپا کو آتے دیکھا۔۔

وہ خوشی سے انکی طرف گئی اور اپنے پاپا سے لپٹ گئی۔۔

وجاہت نے بھی اسے اپنے پاپا کے گلے لگا دیکھا تو مسکرا دیا۔۔

کیسا ہے میرا بچہ سعید صاحب نے ہانیہ کے سر پہ ہاتھ پھیر کے کہا۔۔

آنکھوں میں نمی لئے ہانیہ نے اپنے پاپا کو دیکھا جب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔۔۔

میں ٹھیک ہو پاپا میں نے آپ لوگوں کو بہت یاد کیا۔۔

ہانیہ نے مسکرا کے کہا اتنے میں وجاہت بھی وہاں چلا آیا اور سب سے احترام سے ملا۔۔

سعید صاحب سے مل کر ہانیہ اپنی امی کے گلے لگ گئی اور پھر فاخر کے 

فاخر نے بھی پیار سے اسکے سر پر ہاتھ لگا۔۔

کیسی ہو ہانی ۔۔ فاخر نے پیار سے پوچھا تو ہانیہ مسکرا دی 

میں ٹھیک ہوں بھائی آپ کیسے ہیں اور بھابھی آپ کیسی ہیں۔۔

فاخر کو جواب دے کر ہانیہ نے فاخر کے ساتھ کھڑی ایشا سے پوچھا۔۔

ہم ٹھیک ہیں بلکل ایشا نے مسکرا کے جواب دیا 

ویسے بھی جب سے ہانیہ کی شادی ہوئی تھی ایشا کا رویہ پھر سے ہانیہ کے ساتھ بہتر ہوگیا تھا۔۔

رانیہ تو ہانیہ کو دیکھ کے اس سے چپٹ گئی پھوپھو بول کے۔۔

7 سالہ رانیہ بلکل ہانیہ کی کاپی لگتی تھی ناک نکش اسکا پورا ہانیہ پر ہی تھا۔۔

سبھی گھر والے ایک دوسرے سے خوشدلی سے ملے۔۔

پارٹی جاری تھی کیک آیا تو ہانیہ نے وجاہت عالیہ بیگم اور شان صاحب کے ہاتھوں سے کیک کٹوایا ۔۔

اب سبھی لوگ اپنی اپنی باتوں میں لگے پارٹی آنجوائے کر رہے تھے کہ ہادی نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔

ہادی کے متوجہ کرنے پر سب لوگ ہادی کو دیکھنے لگے۔۔

وجاہت کیا تم میرے پاس آؤگے۔۔

ہادی نے وجاہت کو اپنی طرف بلایا تو وجاہت اسکی طرف چلا گیا۔۔

دنیا میں آج تک لڑکا لڑکی کو پروپوز کرتا ہے مگر میں شاید پہلا شخص ہونگا جو کہ لڑکی کے بھائی سے پرمیشن اس انداز میں لونگا۔۔

ہادی نے مسکرا کے کہا تو سبھی مہمان مسکرا دئیے جبکہ وجاہت ناسمجھی سے ہادی کو دیکھنے لگا۔۔

کہنا کیا چاہتے ہو۔۔

تمہیں یاد ہے میں نے تم سے ایک پرامس لیا تھا کہ میں تم سے جو مانگو گا تم مجھے دوگے۔۔

ہادی کے کہنے پر وجاہت نے یاد کرکے سر اثبات میں ہلایا۔۔

کیا چاہئے۔۔ وجاہت نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔

مجھے تمہاری بہن نیلم کا ساتھ چاہئیے ساری زندگی کیلئے۔۔

ہادی کے لفظوں کو سن کے ایک پل کو وجاہت کے تاثرات بگڑے 

یہ سب بڑوں کے معاملے ہیں۔۔ سپاٹ لہجے میں وجاہت نے جواب دیا اسے ہادی کا یوں نیلم کا ہاتھ مانگنا برا نہیں لگا تھا بس تھوڑا عجیب لگ رہا تھا۔۔

یہ بڑوں کا ہی فیصلہ ہے اور سب اس رشتے پر راضی بھی ہیں بس میں تم سے تمہاری اجازت چاہتا ہوں 

کیونکہ نیلم کو اس گھر میں سب سے زیادہ تم چاہتے ہو تم ظاہر کم کرتے ہو مگر سب جانتے ہیں کہ تم نے ہمیشہ نیلم سے ویسی ہی محبت کی ہے جیسی تم اپنی بیٹی سے کرتے ہو 

اسی لئے مجھے لگا کہ سب سے اہم تمہاری رضا مندی ہے 

ہادی نے امید بھری نظروں سے وجاہت کو دیکھا۔۔

تو کیا تم راضی ہو اس رشتے پر۔۔

ہادی کی بات پر وجاہت نے پہلے شان صاحب اور عالیہ بیگم کو دیکھا جنہوں نے اسے اشارے سے ہاں کہنے کو کہا پھر اس نے نیلم کو دیکھا جو آس بھری نظروں سے وجاہت کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔

وجاہت ہمشہ سے جانتا تھا کہ ہادی نیلم کا بہت خیال رکھتا ہے اسے پرنسس صرف کہتا ہی نہیں ہے بلکہ اسے کسی پرنسس کی طرح ہی ٹریٹ کرتا ہے 

اور سب سے بڑھ کر اگر گھر کے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کے ہی کیا ہوگا تو وجاہت نے اپنی رضامندی دے ہی دی۔۔

جیسے ہی وجاہت نے رضامندی دی حال پوری طرح تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔۔

ہادی نے خوشی سے وجاہت کو گلے لگا لیا تو وجاہت بھی اس کے گلے لگ کر مسکرا دیا۔۔

ہانیہ ایک سجی ہوئی ٹرے وہاں لے کر آئی جس میں دو مخملیں ڈبیہ رکھی تھی کھلی ہوئی جس میں دو انگھوٹیاں تھی۔۔

ایک عالیہ بیگم نے نیلم کو پکڑائی تو دوسری ہانیہ نے ہادی کو شان صاحب دادو کو باہر لے آئے تھے۔۔

ہادی نے نیلم کو انگھوٹی پہنائی تو ہانیہ نے نیلم سے کہا کہ وہ بھی ہادی کو انگھوٹی پہنائے

نیلم نے انگھوٹی ہادی کے ہاتھ کی طرف بڑھائی مگر پہلے وجاہت کو دیکھا جو ہادی کے ساتھ ہی کھڑا تھا 

وجاہت نے مسکرا کے نیلم کو دیکھ کے سر اثبات میں ہلایا تو نیلم نے ہادی کو آنگھوٹی پہنائی 

اسی وقت پھولوں کی بارش کی گئی ان سب پر جس کا انتظام ہادی پہلے ہی کر چکا تھا وہ جانتا تھا وجاہت اس سے کتنا ہی چڑ جائے مگر محبت وہ اس سے بھائیوں جیسی ہی کرتا تھا۔۔

سب خوش تھے۔۔

سب سے زیادہ ہادی اور نیلم ۔۔

پارٹی ختم ہونے کے بعد ابھی بھی سب ہال میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔

ہانیہ نیلم سے بات کرتے ہوئے مسکرا رہی تھی اور وجاہت کی نظر مسلسل اسکے کھلے ہوئے چہرے پر تھی۔۔

آج ویسے بھی وہ معمول سے زیادہ مسکرا رہی تھی اتنی ٹائم بعد اپنے ماں باپ اور بھائی سے جو ملی تھی۔۔

اور وجاہت اسے خوش دیکھ کے خوش ہورہا تھا۔۔

مجھے ایک بات بولنی ہے۔۔

ہادی پہلے تو دادو کے ساتھ ان سے باتیں کر رہا تھا اب اپنی جگہ سے اٹھ کر سب کے سامنے کھڑا ہوگیا۔۔

سب لوگ اسکی طرف متوجہ ہوگئے تھے ۔

فرماؤ کیا فرمانا ہے ویسے بھی آج کچھ زیادہ ہی بول رہے ہو۔۔

وجاہت ہادی کو دیکھ کے سیدھا ہو کر بیٹھا۔۔

مجھے بس سالے صاحب آپکا شکریہ ادا کرنا ہے۔۔

ہادی نے خوشی سے کہا سبھی اسکے وجاہت کو سالے صاحب بولنے پر مسکرا دئیے سوائے وجاہت کے

کیسا شکریہ۔۔ 

وجاہت اب بھی سنجیدگی سے بولا۔۔

مجھے لگا تمہیں منانے کیلئے لاکھوں جتن کرنے پڑیں گے کئی ریکوئسٹ کرنی پڑیں گی پھر کہیں جاکر تم مانو گے 

مگر میری سوچ کے برعکس تم تو بڑی آسانی سے مان گئے۔۔

ہادی نے خوشی سے کہا تو وجاہت دھیرے سے مسکرا دیا۔۔

تمہیں لگتا ہے میں اتنی آسانی سے مان جاؤگا۔۔

وجاہت نے مسکرا کے کہا اسکی مسکراہٹ میں کچھ ایسا تھا کہ ایک پل کو ہادی سوچ میں پڑگیا۔۔

مان کیا جاؤگے تم مان چکے ہو اور اب اور مجھے تم سے کوئی پرمیشن نہیں چاہئیے۔۔

وجاہت کے بدلتے تیور دیکھ ہادی جھٹ بول پڑا۔۔

مانا ہوں مگر شادی تمہاری تبھی ہوگی جب تم میری کچھ شرائط مانو گے۔۔

وجاہت نے اب کے مدعے کی بات کی تو سبھی گھر والے پہلے تو وجاہت اور پھر ہادی کو دیکھنے لگے۔۔

ہادی نے دل میں سوچا کہ کیوں اسنے ابھی اس اکڑو شہزادے کو چھیڑ دیا 

ٹھیک ہے بولو ڈرتا تھوڑی ہوں تم سے۔۔

ہادی نے کچھ سوچ کے کہا۔۔

پہلی شرط یہ ہے کہ۔۔

منگنی وغیرہ کا رواج مجھے نہیں پسند تو سیدھے سیدھے شادی ہوگی۔۔

وجاہت نے سنجیدگی سے کہا مگر ہادی کے دل میں تو لڈو پھوٹ گئے۔۔

نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔ ہادی زیر لب بڑبڑایا مگر چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے بیچارگی سے بولا۔۔

ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی منظور ہے ۔۔

ہادی کو مصنوعی سنجیدگی طاری کرتا دیکھ وجاہت نے تاصف سے سر ہلایا۔۔

دوسری شرط یہ ہے کہ شادی کے بعد تم لوگ اسی گھر میں رہوگے میں اپنی گڑیا سے دور نہیں رہ سکتا تو تمہیں ہمیشہ اسی گھر میں رہنا ہوگا۔۔

وجاہت کی بات سے سبھی گھر والے متفق تھے۔۔

ٹھیک ہے یہ بھی منظور ہادی صوفے پر بیٹھا اپنی چاروں انگلیاں لبوں پر رکھے بے چارگی سے بولا جیسے اس سے زبردستی کی جارہی ہو۔۔

نیلم اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی اور سمجھ سکتی تھی دل ہی دل میں وہ اس وقت کتنا خوش ہوگا مگر ظاہر نہیں کر رہا۔۔

تیسری شرط یہ ہے کہ تو ہانیہ کو ہانی نہیں بھابھی بولے گا۔۔

یہ شرط سن کے سبھی گھر والے ایک بار پھر مسکرا دئیے۔۔

دیکھ بھائی یہ نہیں کر سکتا میں ہانی میری دوست ہے تو کیوں اسے میری بھابھی بنانا چاہتا ہے پھر مجھے اسکا احترام کرنا پڑے گا اور ہسی مزاق بھی سوچ کے کرنا پڑے گا 

میں بولو گا ہانی کو بھابھی جب تم لوگوں کے دس بارہ بچے ہوجائیں گے۔۔

ہادی نے بولنا شروع کیا تو سب کا قہقہہ فضا میں گونجا مگر آخری بات پر ہال میں بیٹھے تمام افراد پر سکتہ سہ طاری ہوگیا۔۔

ہانیہ کی نظریں جھک گئی جبکہ وجاہت اسی کو دیکھنے لگا 

ہادی نے سب کو نہ سمجھی سے دیکھا کیونکہ اسے کچھ معلوم نہ تھا۔۔

دادو نے بات سنبھالنے کیلئے بیچ میں بول پڑی 

ابھی ایک بچی نے ان دونوں کو ستایا ہوا ہے اس کو تو پال لیں یہ لوگ 

دادو نے حور کی طرف اشارہ کر کے کہا جو واکر میں بیٹھی پورے ہال میں گھوم رہی تھی۔۔

سب نے ایک ساتھ حور کو دیکھا تو سب کی نظریں خود پر پا کر حور کھلکھلا کے ہنس دی ہنستے ہوئے اسکے آگے کے دانٹ دکھنے لگے 

سبھی ایک ساتھ مسکرا دئیے اس کی اس ادا پر۔۔

چلو جی سالے صاحب اگلی شرط بتاؤ۔۔

وجاہت جو فل ہادی کو چھیڑنے کے موڈ میں تھا اب اسکا دل بری طرح سے خراب ہوگیا تھا 

کیونکہ بظاہر تو ہانیہ سب کو دیکھ کے مسکرا دی مگر وجاہت کو اسکی ہنسی کھوکھلی لگی۔۔

آخری شرط یہ ہے کہ شادی تک تم اپنے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوجاؤ

جمشید انکل آجائیں تو تم ان کے ساتھ وہیں رہوگے میں چاہتا ہوں میری گڑیا کی شادی تمام رسم و رواج کے ساتھ ہو 

آخری بات بولتے ہوئے وجاہت اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے کمرے میں جانے کیلئے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا 

جبکہ ہادی نے ایک دم اسکا برا موڈ دیکھا تو آگے سے کچھ بول ہی نہ پایا۔۔

وجاہت کے جاتے ہی سب ایک ایک کرکے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔۔

ہادی اور نیلم یہی سوچ رہے تھے کہ اچانک سے سب کو ہوا کیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ حور کو اسکے کمرے میں سلا کر آئی تو دیکھا وجاہت بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے گہری سوچ میں بیٹھا تھا۔۔

کیا ہوا آپ کو نیند نہیں آرہی۔۔

بظاہر تو وہ مسکرا کر بولی مگر وجاہت نے کمرے میں مدھم روشنی میں بھی دیکھ لیا تھا کہ وہ روئی تھی۔۔

نیند نہیں آرہی تم بھی تو مجھے ٹائم نہیں دیتی۔۔

وجاہت کے شکایتی انداز پر ہانیہ اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی 

غلط کہہ رہے ہیں آپ جناب میں آج کل صرف آپ کو ہی ٹائم دے رہی ہوں

ہانیہ نے وجاہت کا ہاتھ تھام کے کہا۔۔

ہاں وہ تو دکھ ہی رہا ہے وجاہت نے حور کے کمرے کی طرف دیکھ کے کہا۔۔

نہیں ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی بیٹی کو بلکل توجہ نہیں دے رہی آج کل مما ہی دیکھ رہی ہوتی ہیں اسے پورا دن۔۔

ہاں تو اب ہماری بیٹی کو بھی تو تھوڑا سوچنا چاہئے نہ کہ ممی پاپا کو پرائویسی دے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا ہاتھ اپنی طرف کھینچا تو ہانیہ جھٹکے سے وجاہت کے قریب ہوگئی۔۔

بھلا ساڑھے گیارہ ماہ کی بچی سے آپکو پرائویسی ایشو کیسے ہوسکتے ہیں۔۔

ہانیہ نے شرارت سے کہا ۔۔

تمہیں پتہ ہے میرا دل کر رہا ہے کہ ہم واپس اسی ٹیرس پر جائیں جہاں سب کچھ اس وقت خواب ناک منظر پیش کر رہا ہوگا 

گلابوں کی مہک کینڈلز کی مدھر روشنی تم اور میں اور سامنے ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر اور اسکی ٹھنڈی ہوائیں ۔۔

وجاہت نے سرگوشی نما آواز میں کہا تو ہانیہ بس اسے پیار سے دیکھے گئی۔۔

مجھے تو ہر وہ جگہ خوبصورت لگتی ہے جہاں آپ میرے ساتھ ہوتے ہیں 

ہانیہ نے وجاہت کی اسٹبل پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔

اب وہ اپنی اس دل کی خواہش کو اپنے تک نہیں رکھتی تھی۔۔

ویسے میرے منع کرنے کے باوجود تم نے آج لپ اسٹک لگائی۔۔

ہانیہ کو دیکھتے ہوئے وجاہت کی نظر جب اسکے لبوں پر گئی تو شکوہ کرنے لگا۔۔

آپ نے لپ اسٹک لگانے سے منع کیا تھا تو میں نے نہیں لگائی یہ تو گلوز ہے 

مسکراتے ہوئے ہانیہ نے کہا تو وجاہت کو بھی شرارت سوجھی۔۔

پہلے تو اسے تھوڑا برا لگا تھا مگر اس نے سوچا کہ پارٹی کے بعد پوچھے گا ہانیہ سے مگر اب چاہ کر بھی وہ اسے اور ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔

اچھا یعنی کے یہ الگ ہے۔۔

وجاہت نے شرارتی مسکان لئے کہا۔۔

ہاں یہ الگ ہے ہانیہ وجاہت کا ارادہ سمجھ کے بولتے ہوئے وجاہت کی گرفت سے نکل کے واشروم کی طرف بھاگی 

اور اس اچانک ہونے والے عمل پر صرف وجاہت ہنستا رہ گیا 

کہاں تک بچو گی واپس یہی آنا ہے تمہیں۔۔

ایک آواز لگا کر وجاہت ہنستے ہوئے لیٹ گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

خیریت اس وقت کال کی۔۔

نیلم نے جب موبائل پر پرنس کالنگ لکھا دیکھا تو ایک نظر پہلے وال کلاک کو دیکھا

جو کہ رات کے تین بجا رہی تھی۔۔

پھر کچھ سوچتے ہوئے کال اٹھا لی۔۔

ہاں وہ مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔۔

ہادی کی سنجیدہ آواز پر نیلم جو لیٹی ہوئی تھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔

کیا ہوا پریشان لگ رہے ہیں آپ۔۔

نیلم کی فکر سے بھرپور آواز سن کر ہادی ایک دم مسکرا دیا۔۔

اسے ہمیشہ سے اچھا لگتا تھا کہ نیلم بغیر کہے ہی ہمیشہ جان جاتی تھی کہ وہ پریشان ہے یہ خوش

اور اب تو وہ اسکی ہمسفر بننے جارہی تھی 

 ہاں سوچ رہا ہوں کچھ مگر پریشان نہیں ہوں بے فکر رہو۔۔

تو پھر کیا بات ہے۔۔

نیلم نے پوچھا تو ہادی نے سوچتے ہوئے کہا۔۔

میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے مذاق ہی مذاق میں ایسا کیا کہا تھا کہ سب لوگ جو ہنس رہے تھے ایک دم خاموش ہوگئے تھے۔۔

ہادی کے بولنے پر نیلم بھی سوچ میں پڑگئی۔۔

سچ کہوں تو میں بھی یہی سوچ رہی تھی مگر مجھے تو ایسی کوئی بات نہیں لگی تھی

نیلم نے بھی رات میں ہونے والی بات کے بارے میں سوچ کے کہا۔۔

خیر چھوڑو اس بات کو میرے سالے صاحب کو کونسا کیڑا کاٹا ہے کہ میں شادی تک اس گھر میں نہیں رہ سکتا بھلا یہ کیا بات ہوئی۔۔

اب کے نیلم ہادی کی بات پر مسکرا دی۔۔

ہاں تو غلط کیا کہا ہے برو نے ٹھیک ہی تو کہہ رہیں تھے ساری رسمیں ہونگیں تو آپ اس گھر میں تھوڑی نہ رہ سکتے ہو۔۔

ارے یہ کیا بات ہوئی میں تمہیں ہر روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں چاہے تو تاریخ ہو نکاح ہو مایوں ہو مہندی ہو سب میں 

جانتی ہو میں تو یہ سوچ رہا تھا کل کہ تم مایوں کے جوڑے میں کیسی لگوگی تمہاری گلابی رنگت پر وہ پیلا زرد رنگ کتنا خوبصورت لگے گا مگر میرے سالے صاحب سے کوئی بیر نہیں تمہیں گھونگھٹ ہی نہ کروادے۔۔

ارے یار یہ اکڑو شہزادہ میرے سارے ارمانوں پر پانی پھیرنے پر طلع ہے۔۔

ہادی کی اکتائی ہوئی آواز پر نیلم سے اپنا قہقہہ روکنا مشکل ہوگیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

صبح وجاہت کے موبائل میں لگا الارم بجا تو سب سے پہلے ہانیہ کی آنکھ کھلی۔۔

مشکل سے ہاتھ بڑھا کر اسنے الارم بند کیا۔۔

وجاہت ہمیشہ کی طرح اسے مضبوطی سے اپنے حصار میں لئے سورہا تھا۔۔

کبھی کبھی تو ہانیہ کو تھوڑی چڑ ہوتی تھی خود تو وجاہت ایک کروٹ ہی سوتا تھا مجبوری میں ہانیہ کو بھی ساری رات ایک ہی کروٹ میں گزارنی پڑتی تھی۔۔

ابھی وہ وجاہت کو جگاتی اس سے پہلے ہی اسے اپنا گلا بھاری بھاری لگا اور متلی سی محسوس ہوئی۔۔

مگر اگلے ہی پل جو وجاہت کا ہاتھ زور سے جھڑک کر واشروم کی طرف بھاگی۔۔

اس کے اس طرح جانے پر وجاہت بھی جاگ گیا اور وہ بھی اس کے پیچھے گیا تو وہ سنک پر جھکی ہوئی تھی۔۔

وجاہت نے اسکی پیٹھ مسلی اور پھر اسکا منہ دھلایا تو وہ نڈھال سی اسکے سینے سے لگ گئی۔۔

وجاہت اسے سہارا دے کر بیڈ تک لایا اور اسے پانی پکڑایا مگر ایک گھونٹ پی کر ہی وہ پھر سے واشروم کی طرف بھاگی۔۔

یہی سلسلہ تیسری بار ہوا تو اب وجاہت پریشان ہوگیا اور جلدی سے جاکر اپنی مام کو بلانے کیلئے جانے لگا۔۔

مگر ہانیہ نے اسے روک دیا کہ کیونکہ اس وقت وہ سورہی ہوتی ہیں اور ابھی تو صرف صبح کے 6 بجے تھے۔۔

قریب پانچویں بار وجاہت اسے واپس واشروم سے لے کر آیا تو وہ نڈھال سی بیڈ پر ہی گر گئی۔۔

سن شائن کیا کھایا تھا تم نے کل۔۔

وجاہت نے پریشان ہوکر ہانیہ نے پوچھا جو کہ آنکھیں موندے بیڈ پر لیٹی تھی۔۔

رات کو بس اسنیکس کھائے تھے کھانا کھانے کا من نہیں تھا۔۔

وجاہت تھوڑا پریشان بھی تھا کہ صبح صبح متلی ہونا تو مارننگ سیکنیس ہوتی ہے جو کہ پریگنینسی میں ہوتی ہیں مگر وہ کچھ بول نہ سکا کیونکہ ہانیہ نے اسے خود کہا تھا کہ وہ ماں نہیں بن سکتی تو ضرور فوڈ پوائزننگ ہوا ہوگا اسے۔۔

سوچتے ہوئے وجاہت نیچے کچن میں گیا ایک ملازم سے اس نے ادرک کی چائے بنوائی اور کچھ کوکیز لے کر واپس کمرے میں آیا۔۔

ہانیہ کو بہت مشکل سے اس نے 2 کوکیز کھلائے اور چائے پلائی جسے اس نے بہت اڑے تیڑھے منہ بنا کر پی۔۔

واپس اسے لٹا کر وہ اسکے ساتھ ہی لیٹ گیا کیونکہ ادرک کی چائے سے اسے تھوڑا فائدہ ہوا اور اب وہ آرام سے لیٹی تھی۔۔

ہانیہ سے بات کرنے سے پہلے اس نے سوچا ڈاکٹر ناز سے بات کرے جو کہ عالیہ بیگم کی دوست ہیں 

ویسے تو انکا ایک پرائیویٹ کلینک ہے مگر وہ شہر کی جانی مانی گائنی کالوجسٹ ہیں۔۔

مگر ابھی صبح صبح کے وقت اسے انہیں کال کرنا اچھا نہیں لگا ہانیہ کے بالوں میں انگلی چلاتے ہوئے اس نے دیکھا تو ہانیہ پھر سے نیند کی وادیوں میں کھو گئی تھی۔۔

حور کے جاگنے پر بھی وجاہت نے ہانیہ کو نہیں اٹھایا اب وہ خود بھی حور کو سنبھال لیتا تھا ۔۔

ہو سکتا ہے یہ سب میرا وہم ہو رات میں صرف اسنیکس کھائے تھے تو ہوسکتا ہے کہ صرف فوڈ پوائزننگ ہو 

وجاہت حور کو لئے یہی سوچ رہا تھا مگر حور نے اسے اسکی سوچ سے نکال دیا تو وجاہت اسی کے ساتھ مصروف ہوگیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

نیلم زرہ حور کو تیار کردو۔۔

نیلم اپنے کمرے سے نکلی ہی تھی کہ وجاہت نے اسے مخاطب کیا وہ اسے ہی لینے جارہا تھا۔۔

کیوں نہیں بھائی کہاں ہے حور۔۔

نیلم مسکراتی ہوئی وجاہت کے پاس آئی۔۔

کمرے میں ہی ہے بس دیکھنا وہ شور نہ کرے ہانیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔

وجاہت کے کہنے کی دیر تھی کہ نیلم ہانیہ کے بارے میں سن کے پریشان ہوگئی۔۔

کیا ہوا بھابھی کو۔۔

کچھ نہیں کل تھکن ہوگئی تھی شاید اسی لئے طبیعت بگڑ گئی ۔۔

وجاہت نے نیلم کو تسلی دی 

ہاں تو منع بھی کیا تھا کہ ساری سجاوٹ خود نہ کریں ملازموں سے کروا لیں مگر انہوں نے سنا ہی نہیں۔۔

نیلم کے کہنے پر وجاہت نے اسے چونک کر دیکھا۔۔

کیا مطلب ہے کل وہاں ٹیرس کی ساری سجاوٹ ہانیہ نے خود کی تھی۔۔

یس برو اور کیا کمال کی ڈیکوریٹ کی تھی بھابھی نے ٹیرس۔۔

نیلم کی آگے کی بات سننے سے پہلے ہی وجاہت غصے میں وہاں سے چلا گیا۔۔

اور نیلم اس سوچ میں پڑ گئی کہ برو کو غصہ کس بات پر آیا۔۔

وجاہت اور ہانیہ کے کمرے میں نیلم آئی تو دیکھا کہ ہانیہ کمفرٹر اوڑھے لیٹی سورہی تھی۔۔

تو وہ وہاں سے ہوتی ہوئی حور کے کمرے میں گئی جہاں وہ اپنے کھلونوں سے کھیل رہی تھی۔۔

نیلم نے اسے وائٹ ٹی شرٹ کے ساتھ ریڈ رومپر پہنایا اور ریڈ ہی کلر کا ہیئر کیچ پہنا کر وہ اسے بے بی لوشن لگا رہی تھی کہ حور نے ایک کھلونا دور پھینکا 

کھلونے کی آواز پر ہانیہ کی آنکھ کھلی اور وہ حور کو دیکھنے اسکے کمرے میں آئی تو نیلم ہانیہ کو دیکھ کے تھوڑی شرمندہ ہوگئی۔۔

سوری بھابھی وہ حور نے کھلونا پھینک دیا اور میں نے دیہان نہیں دیا آپ کی نیند خراب ہوگئی جبکہ برو نے کہا تھا کہ آپ کی نیند نہ خراب ہو۔۔

ہانیہ نیلم اور حور کو دیکھ کے مسکرا دی 

نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے اچھا ہوا آنکھ کھل گئی ورنہ شاید سوتی رہتی۔۔

نیلم نے حور کو مکمل ریڈی کر کے اسکا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا کیا

آج کل ویسے بھی وہ گود میں نہیں آتی تھی بلکہ سہارے سے چلتی تھی۔۔

تو نیلم اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے لے جانے لگی۔۔

بھابھی آپ لیٹ جائیں میں ناشتہ اوپر ہی بھجوا دونگی۔۔

نیلم نے ہانیہ چہرا چھو کے دیکھا کہ کہیں ٹیمپریچر تو نہیں۔۔

ارے نہیں تم چلو میں بس ریڈی ہو کر ابھی آتی ہوں نیچے۔۔

مسکرا کر بولتے ہوئے ہانیہ کبرڈ سے اپنے کپڑے نکالنے لگی۔۔

تھوڑی ہی دیر بعد وہ فریش ہو کر پیلے رنگ کی فراک پہنے ڈائننگ ٹیبل پر آئی۔۔

وجاہت نے پہلے تو اسے غور سے دیکھا پہلے جب اسنے یہی پیلے رنگ کی فراک پہنی تھی تو اس رنگ پر وہ الگ کی کھلی کھلی سی دکھائی دے رہی تھی مگر آج اسی جوڑے میں اسکا رنگ بھی پیلا زرد پڑا ہوا تھا۔۔

ہانیہ وجاہت کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تو وجاہت نے جان بوجھ کر اسکے سامنے آملیٹ رکھ دیا۔۔

جسکی اسمیل سے ہی اس نے اسے خود سے دور کردیا 

وجاہت نے اب غور کیا کہ وہ کچھ دن سے نہ املیٹ کھا رہی تھی نہ ہی کافی یا چائے پی رہی تھی صبح بھی وجاہت نے بہت مشکل سے اسے ادرک کی چائے پلائے تھی۔۔

مگر پھر وجاہت نے اس کے سامنے سیریل رکھ دئیے اور اشارے سے کہا کہ کھاؤ اسے ہانیہ نے منہ بنایا مگر وجاہت نے اسے آنکھیں دکھائی تو وہ زبردستی سیریل کھانے لگی مگر سیریل ہنی فلیور کا تھا تو اسے اچھا لگا 

سب اپنی اپنی باتوں اور ناشتے میں مگن تھے کسی نے بھی ان دونوں پر دیہان نہ دیا۔۔

البتہ وجاہت نے ہانیہ کو لے کر ڈاکٹر ناز کے پاس جانے کا فیصلہ کیا 

کیونکہ صرف وہم سمجھ کر وہ اتنی بڑی بات کو اگنور نہیں کر سکتا تھا۔۔

پہلے بھی وہ یہ غلطی کر چکا تھا نور کے ساتھ 

کیا ہوا کہیں نوکری ملی کیا۔۔؟؟

فرزانہ کچن کاؤنٹر پر سبزی بنا رہی تھی جب انکی نظر اس پر پڑی۔۔

نہیں اماں لگتا ہے قسمت ہی پھوٹ چکی ہے۔۔

وہ اپنے ہاتھوں میں لی ہوئی فائل کو دیکھ کے بولا جس میں اسکا اکیڈمیک ریکارڈ تھا۔۔

ہمیشہ خود کو خوش قسمت سمجھنے والا جسے ہر چیز اسکی سوچ سے بھی بڑھ کر ملی تھی 

آج آزمائش کے اس مشکل وقت میں ہمت ہار رہا تھا۔۔

چلو کوئی بات نہیں فکر مت کرو جلد ہی تمہیں کوئی اچھی جاب مل جائے گی۔۔

فرزانہ نے اپنے اکلوتے خوبرو بیٹے سے کہا جو صوفے پر سر ہاتھوں میں دئیے بیٹھا تھا۔۔

مجھے تو سمجھ نہیں آتا اماں نوکری ہے نہیں اوپر سے دو بہنوں کی ذمہ داری ایک کا رشتہ تو ٹوٹ چکا وقت پر شادی نہ کرنے کی وجہ سے کہیں دوسری کے ساتھ بھی ایسا نہ ہوجائے۔۔

معظم فکر کیوں کرتے ہو جو اللہ نے اسکے نصیب میں لکھا ہوگا وہ ہوجائے گا۔۔

نصیب تو خدا نے میرا بھی اچھا لکھا تھا اماں مگر میں ہی نافرمان تھا۔۔

معظم اپنے ہاتھوں کے انگھوٹوں سے اپنی کنپٹیاں سہلاتے ہوئے بولا۔۔

میری جان تم نے ایسا کچھ غلط نہیں کیا میں جانتی ہوں ہانیہ کو طلاق دے کر تمہیں کافی پچھتاوا ہے مگر بیٹا وہ اس گھر کو وارث نہیں دے سکتی تھی اور تم تو میری اکلوتی اولاد ہو تمہاری اولاد دیکھنا تو میری بہت بڑی خواہش ہے۔۔

معظم نے ان کی بات پر ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا۔۔

لیکن یہ تو آپ مانتی ہیں نا کہ وہ اس گھر کیلئے بہت خوش قسمت ثابت ہوئی تھی۔۔

ہاں یہ تو ہے بہت پیاری بچی تھی مجھے تو آج بھی اتنی ہی عزیز ہے معصوم سی سب سے محبت کرنے والی مگر اسکے عیب کے آگے ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آیا 

اس کے ساتھ جو سلوک کیا شاید یہ سب اسکا ہی صلح ہے جو آج ہم اتنے پریشان ہیں۔۔

معظم نے زخمی سا مسکرا کے اپنی ماں کو دیکھا جو کہ کچھ نہ جانتے ہوئے بھی خود کو قصوروار سمجھتی ہیں اصل میں تو وہ کچھ جانتی ہی نہیں ہیں۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اسلام و علیکم۔۔ مجھے آپ سے ملنا تھا کچھ ضروری کام تھا۔۔

وجاہت نے آفس پہنچتے ہی سب سے پہلا کام ڈاکٹر ناز سے بات کرنے کا کیا۔۔

وجاہت بیٹا میں اس وقت شہر سے باہر ہوں اور یہاں مجھے کچھ دن لگ جائیں گے کیا تم فون پر بتا سکتے ہو۔۔

ڈاکٹر کی بات سن کے وجاہت نے کچھ سوچتے ہوئے ہانیہ کی کنڈیشن ڈاکٹر سے ڈسکس کی۔۔

کیا تم شور ہو۔۔ جی بلکل ڈاکٹر میں نے نور کو دیکھا تھا جب وہ ایکسپیکٹ کر رہی تھی اسکی بھی بلکل یہی کنڈیشن ہوتی تھی۔۔

مگر وجاہت جیسے کہ تم نے بتایا کہ ہانیہ کا کہنا ہے کہ وہ ماں نہیں بن سکتی اسنے اپنی رپورٹس دیکھی ہیں تو ایسے سینسیٹو میٹر پر تم اس سے بات کر سکو گے۔۔

ہوسکتا ہے کہ اسے فوڈ پوائزنگ ہو کیونکہ فوڈ پوائزنگ میں بھی متلی وغیرہ ہوجاتی ہے منہ کا ذائقہ بگڑتا ہے تو کچھ اچھا نہیں لگتا۔۔

ڈاکٹر کی بات وجاہت اچھے سے سمجھ آرہی تھی مگر نہ جانے کیوں اسے یقین تھا کہ ہانیہ ایکسپیکٹ کر رہی ہے۔۔

ہاں مگر سیفٹی کیلئے ٹیسٹ تو کیا جاسکتا ہے نہ۔۔

ائی مین یہ تو سائنس بھی کہتی ہے کہ ہیومن باڈی چینج ہوتی رہتی ہے اور خدا چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا۔۔

وجاہت نے ڈاکٹر کو اپنا پوائنٹ سمجھایا

ٹھیک کہہ رہے ہو اس معاملے میں لاپرواہی بھی نہیں برتی جاسکتی 

تم ایسا کرو کہ کسی اور ڈاکٹر سے کانٹیکٹ کرلو میں دوں کیا کسی کا مشورہ یا پھر سب سے بہتر آپشن ہے کہ گھر میں ٹیسٹ کرلو 

نہیں کسی اور ڈاکٹر سے تو نہیں ہاں گھر پر ٹیسٹ کے بارے میں میں ہانیہ سے بات کرسکتا ہوں۔۔

ٹھیک ہے پھر میں جیسے ہی شہر واپس آؤں گی تو ہانیہ کے میں خود سارے ٹیسٹ پھر سے کرونگی 

ڈاکٹر سے بات کرکے وجاہت نے کال ڈسکنیکٹ کردی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت کو گئے ابھی کچھ گھنٹے ہی ہوئے تھے 

اس بیچ وہ کئی بار ہانیہ کو کال کرچکا تھا اسکی طبیعت کا پوچھنے کیلئے۔۔

ابھی ہانیہ باہر لان میں بیٹھی دھوپ سے لطف اندوز ہورہی تھی 

سردیوں کی دھوپ کافی سکون بخش رہی تھی۔۔

حور کو سنبھالنے کی ذمیداری آج نیلم نے لی ہوئی تھی کیونکہ وجاہت کے علاوہ عالیہ بیگم نے بھی نیلم سے کہا تھا کہ حور کو وہ دیکھے 

ہیلو مائی سن شائن ۔۔

ہانیہ چیئر پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی تبھی وجاہت نے اپنے بازو اسکے کندھوں پر رکھ کے جھک کر اسکے گال پر پیار کیا۔۔

ارے آپ اتنی جلدی آگئے۔۔ ہانیہ وجاہت کو آج جلدی گھر میں دیکھ کے حیران ہوگئی۔۔

ہاں کچھ اتنا خاص کام نہیں تھا اور پھر ذہن تمہاری طرف ہی لگا ہوا تھا تو سوچا کہ گھر ہی چلا آؤں۔۔

وجاہت اسکے ساتھ اسکے سامنے والی چئیر پر بیٹھ گیا۔۔

گرے پینٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ پہنے آستینوں کو تھوڑا فولڈ کئے وہ ہانیہ کے بلکل سامنے بیٹھا اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔۔

کچھ کھایا تم نے۔۔

وجاہت نے اسکا پیلا زرد چہرہ دیکھ کے کہا۔۔

نہیں صبح جو ناشتہ کیا تھا وہ بھی متلی کی صورت سارا باہر آگیا اب تو کچھ کھاتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا ہے پتہ ہے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میری آنتیں باہر آجائیں گی۔۔

ہانیہ نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔۔

ایک کام کہوں گا مانو گی۔۔

وجاہت نے سوچ کے کہا۔۔

کھانے کے علاوہ جو کہیں گے کرلوگی۔۔

ہانیہ تھوڑا سیدھا ہوکر بیٹھی ۔۔

دیکھو مجھے غلط مت سمجھنا مگر تمہاری کنڈیشن بلکل ویسی ہورہی ہے جیسی حور کو ایکسپیکٹ کرتے وقت نور کی تھی ۔۔

وجاہت نے بہت پیار سے کہا مگر ہانیہ اس کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگی۔۔

میں نے آپ کو سب کچھ بتایا تھا کہ۔۔ 

مگر آپ کو لگتا ہے کیا کہ میں نے آپ سے جھوٹ کہا ہے میں نے خود اپنی ریپورٹس اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔۔

دیکھو سن شائن کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا خدا اگر چاہے تو سب ممکن ہے۔۔

وجاہت کی بات پر ہانیہ ایک پل کو سوچ میں پڑگئی۔۔

ہانیہ کو سوچ میں گم دیکھ وجاہت کے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما 

دیکھو ہم ٹیسٹ کر کے دیکھ سکتے ہیں آئی پرامس اگر یہ سب صرف میرا وہم ہوا تو میں تمہیں کبھی اس ٹاپک پر کچھ نہیں کہوں گا۔۔

وجاہت نے اسے پیار سے سمجھانا چاہا مگر ہانیہ کے ذہن میں اس وقت کچھ اور چل رہا تھا۔۔

ٹھیک ہے۔۔ کافی دیر سوچنے کے بعد ہانیہ نے ہامی بھری۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

مام یہ حور بہت شرارتی ہو رہی ہے

نیلم نے حور کو دیکھ کے کہا جو کہ صوفوں کے سہارے سے ادھر سے ادھر چل رہی تھی۔۔

ہاں تو تم کیا کم شرارتی تھی اپنے بچپن میں 

عالیہ بیگم نے نیلم کو دیکھ کے کہا جو کہ حور کے آگے پیچھے گھوم رہی تھی کہ کہیں وہ گر نہ جائے۔۔

مام مگر آپ تو کہتی تھی کہ میں نے آپ کو بلکل تنگ نہیں کیا۔۔

نیلم نے عالیہ بیگم کو معصومیت سے دیکھ کے کہا۔۔

ایسے تنگ نہیں کیا جیسے کہ آج کل کے بچے ہیں مگر جب تم چلنے لگی تھی تب تو مجھے بھی اسی طرح تمہارے آگے پیچھے بھاگنا پڑتا تھا تمہاری دادو کی سخت ہدایات تھی کہ گھر میں چاہے ہزاروں ملازم ہوں بچوں کی دیکھ بھال میں ہی کروں 

تو میں نے ایسا ہی کیا اور میری بہو کو یہ سب مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں ملا وہ پہلے ہی حور کو خود سنبھالتی ہے۔۔

عالیہ بیگم نے مسکرا کے کہا۔۔

مام بھابھی کو کیا ہوا ہے اتنی ویک لگ رہی ہیں۔۔

نیلم نے فکرمندی سے کہا۔۔

وجاہت کہہ رہا تھا کہ اسے فوڈ پوائزننگ ہوئی ہے تبھی ویکنینس ہورہی ہے۔۔

عالیہ بیگم نے وہی بتایا جو کہ وجاہت نے انہیں بتایا۔۔

تو پھر برو بھابھی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر کیوں نہیں جارہے ۔۔

تمہیں لگتا ہے وجاہت نے ایسا کچھ نہیں کیا ہوا بلکہ اب تک تو وہ دنیا جہاں کی دوائیاں کھلا چلا ہوگا ہانی کو۔۔

عالیہ بیگم بولتے ہوئے مسکرا دی تو نیلم بھی ہنس دی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت کمرے میں آیا تو ہانیہ کھڑکی سے ٹیک لگائے باہر لان کا منظر دیکھ رہی تھی 

آنسو لڑیوں کی صورت اسکے گال پر بہہ رہے تھے 

وجاہت نے اسکا رخ اپنی طرف کیا تو اسنے منہ موڑ لیا۔۔

کیا ہوگیا سن شائن اب اس طرح منہ موڑو گی مجھ سے۔۔

وجاہت نے اسکا چہرا ہاتھوں کے پیالے میں  لے کر کہا۔۔

میں آپ کو یہ خوشی نہیں دے سکتی وجاہت آپ کیوں مجھ سے محبت کرتے ہیں۔۔

روتے ہوئے اسنے وجاہت کی شرٹ کو مضبوطی سے پکڑ کے کہا۔۔

میں نے اپنی سن شائن سے محبت کی ہے اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔۔

وجاہت نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا مگر وہ اس وقت کچھ بھی سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔۔

وجاہت کے کہنے پر اسنے ٹیسٹ کیا تھا اور ایک بار نہیں تین چار بار مگر سارے ریزلٹ نگیٹیو تھے۔۔

2 سال لگے تھے اس زخم کو بھرنے میں وجاہت 2 سال۔۔

میں نے اپنا بکھرا وجود بہت مشکل سے سمیٹا تھا۔۔

اس ایک کمی کی وجہ سے دنیا نے مجھے دھتکار دیا تھا۔۔

آپ بھی مجھے چھوڑ دینگے جیسے پہلے سب نے چھوڑا تھا۔۔

ایک ادھورے انسان سے کوئی محبت نہیں کرتا۔۔

مجھے سب کچھ ایک بار پھر سے دیکھنا ہوگا لوگوں کی نظروں میں اپنے لئے حقارت ، نفرت ، غصہ ، بے بسی ، اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں آنسو سب کچھ دیکھنا ہوگا ایک دن آپ بھی مجھے چھوڑ دینگے۔۔

سب مجھے چھوڑ دینگے کوئی مجھ سے پیار نہیں کرے گا کوئی مجھے اپنا نہیں سمجھے گا میں پھر روؤں گی پھر تڑپو گی پھر مجھے لوگوں کی نظروں سے چھپنا پڑے گا۔۔

ہانیہ کے آنسو میں روانی آرہی تھی شرٹ پر گرفت بھی مضبوط ہوتی جارہی تھی اور ہر لفظ کے ساتھ اسکا بھرایا ہوا لہجہ اور بھاری ہورہا تھا۔۔

وجاہت کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے اسے سمبھالے۔۔

اسے اس بات کا زرہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے صرف ایک شک کا نتیجہ یہ نکلے گا اگر اسے پتہ ہوتا تو وہ سب کچھ اللہ پر چھوڑ کر بس ہانیہ کا اچھے سے خیال رکھتا۔۔

وجاہت پلیز مجھے خود سے الگ مت کرنا میں آپ سے کبھی کچھ نہیں کہوں گی جیسا آپ کہو گے میں ویسا ہی کروں گی اگر اولاد کی خاطر آپ شادی کرنا چاہیں تو میں خود ۔۔۔۔

آگے کی بات بولنے سے پہلے ہی وجاہت نے ہانیہ کو خاموش کردیا پھر زور سے اسے خود میں بھینچ لیا۔۔

میں مر کر بھی ایسا کچھ نہیں کروں گا تمہارا اور میرا رشتہ اتنا کمزور نہیں ہے۔۔

تم سے کس نے کہا تم ادھوری ہو میرا وجود تمہیں مکمل کرتا ہے اور پھر ہماری زندگی میں ہماری ایک بیٹی ہے تم کیوں یہ بھول جاتی ہو

وجاہت نے ہانیہ کو خود سے الگ کر کے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔۔

کسی کی نظروں کو تم تک پہنچنے سے پہلے مجھ سے ہو کر گزرنا پڑے گا سمجھی تم اب صرف ہانیہ نہیں مسز ہانیہ وجاہت عالم ہو۔۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کوئی بھی تمہیں اگر بری نظر سے دیکھے گا تو وہ پھر اس دنیا کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکے گا۔۔

میرے لئے سب سے ضروری تمہارا ساتھ ہے اس سے بڑھ کر مجھے کچھ نہیں چاہئے۔۔

وجاہت کے لفظوں میں شدت تھی کہ ہانیہ کو اپنا آپ سنبھالنا پڑا مگر اسکے زخم پھر سے تازہ ہوئے تھے جو کہ اتنی آسانی سے بھرنے والے نہیں تھے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ایک ہفتے بعد ۔۔

بھابھی یہ ڈریس دیکھیں کتنا خوبصورت ہے ہماری حور پر کتنا اچھا لگے گا ۔۔

ایک ہفتے بعد حور کی پہلی سالگرہ تھی تو سبھی گھر والے اسے شاندار طریقے سے منانا چاہتے ہیں 

اسی لئے عالیہ بیگم نے آج زبردستی ہانیہ کو نیلم کے ساتھ شاپنگ پر بھیج دیا۔۔

پچھلے ایک ہفتے سے ہانیہ دوا کے اثر سے تھوڑی بہتر ہوگئی تھی مگر وہ زیادہ تر خاموش ہی رہتی تھی 

اس بات کی وجہ تو خیر کسی کو معلوم نہ تھی سوائے وجاہت کے سب کو یہی لگتا تھا کہ بیمار پڑھنے سے اس کی طبیعت میں کافی چینج آگیا ہے۔۔

وجاہت نے ڈاکٹر ناز کی بتائی گئی دوائیاں اسے دیں جس سے وہ کافی بہتر ہوگئی تھی 

آج بھی حور کے برتھ ڈے سیلیبریشن کیلئے نیلم شاپنگ پر جانا چاہ رہی تھی مگر وجاہت نے اسے ہادی کے ساتھ جانے سے منع کردیا عنقریب ان کی شادی کی تاریخ رکھی جانی تھی۔۔

شاپنگ وہ لوگ تقریباً 3 گھنٹے سے کر رہے تھے ہانیہ پہلے بھی نیلم کے ساتھ شاپنگ پر آچکی ہے کئی بار وہ اچھے سے جانتی ہے نیلم پورا مال گھوم کر ہی کچھ لیتی ہے 

مگر آج اسے بہت زیادہ تھکن محسوس ہورہی تھی جبکہ نیلم اپنی انرجی کے مطابق یہاں سے وہاں بہت آرام سے گھوم رہی تھی۔۔

نیلم چندا ہمیں گھر چلنا چاہئے میں تھک گئی ہوں۔۔

ہانیہ نے تھکے ہوئے انداز میں کہا تو نیلم نے اسے حیرت سے دیکھا۔۔

بھابھی ابھی تو ہم نے حور کا ڈریس لیا ہی نہیں گھر کیسے جاسکتے ہیں۔۔

نیلم نے بوتیک پر ڈریسز دیکھتے ہوئے کہا۔۔

اچھا یہ بتائیں یہ کیسا لگے گا حور پر مجھے تو اس مال میں اس سے بہتر کوئی ڈریس ابھی تک نہیں لگا۔۔

نیلم نے وہی ڈریس ہانیہ کو ایک بار پھر دکھایا جو وہ اسے کوئی دسویں بار دکھا رہی تھی۔۔

نیلم تم پورا مال گھوم پھر کر بار بار یہیں آرہی ہو اور اسی ڈریس کو دیکھ رہی ہو 

ہانیہ نے تھوڑے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ویسے بھی وہ کچھ دنوں سے تھوڑی چڑچڑی بھی ہوتی جارہی تھی۔۔

ٹھیک ہے بھابھی یہی فائنل کرتے ہیں آپ رکیں میں اسکا آرڈر دے کر آتی ہوں مجھے یہ حور کے سائز کا نہیں لگ رہا اور پھر اپکا بھی تو بلکل ایسا ہی ڈریس بنوانا ہے۔۔

پتہ ہے بھابھی میں بھی آپ کے اور حور کے ساتھ پرنسس گاؤن پہنو گی کتنا اچھا لگے گا نہ۔۔

نیلم ہانیہ کے چڑچڑے لہجے کو بھلائے ایک بار پھر اس سے چہک کر بات کرنے لگی اور ہانیہ تھکن کے باوجود اسے دیکھ کے مسکرا دی۔۔

وہ نیلم سے بات کر ہی رہی تھی کہ اسے اسکا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا۔۔

ہاتھوں میں ڈھیروں شاپنگ بیگز پکڑے ہانیہ کو ایسا لگا وہ وہیں گر جائے گی۔۔

دسمبر کی ٹھنڈ میں بھی اسے پسینہ آرہا تھا 

نیلم پلیز گھر چلو 

ہانیہ نے خود کو سنبھال کر کہا تو نیلم سر اثبات میں ہلاتے ہوئے ہانیہ کے ساتھ مال سے باہر جانے لگی مگر اسکی کسی پر نظر پڑی تو وہ رک گئی 

ہانیہ نے جیسے ہی ان لوگوں کو دیکھا تو وہ بھی نظر پلٹنا بھول گئی یہی کچھ ہال سامنے موجود ہستیوں کا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

حرا اگر معظم کو پتہ چلا کہ تم جاب کرنا چاہتی ہو تو وہ پتہ نہیں کیا کہے گا۔۔

فرزانہ اپنی بیٹی کو لئے مال سے باہر جارہی تھی جو کہ یہاں سیلز گرل کے طور پر جاب کی بات کرنے آئی تھی۔۔

اماں بھائی کی خود کی تو جاب ہے نہیں اور انہیں جاب کب ملے گی پتہ نہیں پرانی کچھ سیونگ سے گھر تو چل رہا ہے مگر مہرو کی شادی نہیں ہوسکتی۔۔

میری شادی نہ ہوئی خیر ہے مگر میں مہرو کی شادی رکنے نہیں دے سکتی۔۔

حرا سنجیدگی سے انہیں دیکھ کر بولنے لگی۔۔

یہ مت بھولو جس بھائی کی تم بات کر رہی ہو وہ جان چھڑکتا ہے تم پر۔۔

اماں بھائی نے جو کچھ کیا ہے نہ اپنی زندگی میں اپنی اس سو کالڈ محبت کے پیچھے بھاگ کر اسکا خمیازہ ہم سب بھگت رہیں ہیں۔۔

حرا تلخی سے کہتی مال سے باہر جانے ہی لگی تھی کہ کسی نے اسے آواز دی 

حرا اور فرزانہ نے پلٹ کر دیکھا تو سامنے حرا کی یونیورسٹی کی پرانی دوست نیلم تھی مگر اسکے ساتھ شاید ہانیہ ہے۔۔

ہاں وہ ہانیہ ہی ہے فرزانہ اور حرا نے غور سے اسے دیکھ کے سوچا۔۔

اوشین بلو کلر کے قیمتی سوٹ میں ملبوس جسے دیکھ کر ہی اسکی قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔۔

ہاتھوں میں کئی برانڈ کے شاپنگ بیگز پکڑے اور حیران نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہانیہ کی شخصیت میں نکھار آگیا تھا اب وہ کہیں سے بھی وہ پرانی ہانیہ نہیں لگ رہی تھی جو کہ اپنا پورا دن کچن میں گزار دیا کرتی تھی۔۔

کیسی ہو حرا 2 سال کے بعد تمہیں آج دیکھ رہی ہوں گریجوئیشن کے بعد تو تم غائب ہی ہوگئی تھی۔۔

نیلم نے خوشی سے اپنی پرانی دوست کو دیکھا اور اسکے گلے لگ گئی۔۔

حرا اور فرزانہ نیلم سے خوشی سے ملے تو نیلم نے ہانیہ کا تعارف حرا سے کروایا۔۔

حرا یہ میری پیاری سی بھابھی ہیں ہانیہ اور بھابھی یہ میری بہت اچھی اور گریجویشن کے ٹائم کی فرینڈ ہے حرا۔۔

حرا نے ہاتھ بڑھایا ہانیہ سے مصاحفے کیلئے مگر ہانیہ اس سے پہلے ہی اپنا چکرایا ہوا سر سنبھال نہ پائی اور زمین پر گر گئی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ کو بے ہوش دیکھ نیلم گھبرا گئی اسکے تو ہاتھ پیر ہی پھول گئے تھے ہانیہ کو ایسے دیکھ کر ۔۔

فرزانہ اور حرا کی مدد سے وہ اسے گھر لے کر آئی 

ہادی کو وہ بتا کر چکی تھی وہ گھر پر ہی موجود تھا جیسے ہی نیلم نے گھر میں گاڑی روکی ہادی لان میں ہی ان لوگوں کا انتظار کر رہا تھا۔۔

گاڑی کے رکتے ہی ہادی نے ہانیہ کو گاڑی سے نکالا اور اسے لئے گھر کے اندر داخل ہوا۔۔

نیلم بھی اس کے پیچھے بھاگی 

فرزانہ اور حرا کو بھی ہانیہ کی فکر ہورہی تھی تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی چل دیں۔۔

پہلے تو وہ دونوں گھر کو دیکھ کر ہی حیران رہ گئی تھیں 

گھر تھا یہ کوئی محل دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتی اسی سمت چلتی گئی جس سمت نیلم گئی تھی۔۔

ہانیہ کے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے کمرہ دیکھا 

ایسا کمرہ تو انہوں نے کبھی ٹی وی پر بھی نہیں دیکھا تھا 

اتنا خوبصورت کمرہ اور کمرے میں رکھے بیڈ سے منسلک دیوار پر پورٹریٹ دیکھ کر وہ لوگ ایک پل کیلئے جم سے گئے۔۔

دیوار پر ہانیہ وجاہت اور حور کی بڑی سی تصویر تھی 

جس میں وہ تینوں ایک دوسرے کو پیار سے دیکھ رہے تھے۔۔

تصویر اتنی خوبصورت اور مکمل تھی کہ حرا اور فرزانہ سے اپنی آنکھیں جھپکنا مشکل لگا۔۔

نیلم نے ان دونوں کو دیکھا تو وہ بھی تھوڑا شرمندہ ہوگئی کہ ان کی وجہ سے ان لوگوں کو بھی پریشانی ہوئی۔۔

سوری حرا اور انٹی ہماری وجہ سے آپ کو پریشانی ہوئی وہ دراصل بھابھی کی کچھ دن سے طبیعت ٹھیک نہیں تھی مگر میں ضد کر کے انہیں اپنے ساتھ لے گئی۔۔

آپ لوگوں کو میں ڈرائنگ روم تک لے جاتی ہو آپ لوگ تھوڑا ریسٹ کرلیں۔۔

نہیں بیٹا اگر برا نہ مانو تو ہم اس بچی کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں 

فرزانہ نے التجائیہ انداز میں کہا جسے کمرے میں آتی عالیہ بیگم نے سنا۔۔

ارے کیسی بات کر رہی ہیں بہن آپ یہیں بیٹھ جائیں عالیہ بیگم نے نیلم کو اشارہ کیا تو وہ انہیں لئے کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔۔

جبکہ عالیہ بیگم ہانیہ کو دیکھنے لگی جو کہ بے ہوش پڑی تھی 

ہادی اسے اسکے کمرے میں چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا ڈاکٹر کو کال کر دی تھی 

وجاہت کو بھی بتا دیا تھا جو کہ اپنا سب کام کاج چھوڑ کر گھر آرہا تھا۔۔

عالیہ بیگم نے پیار سے ہانیہ کے سرہانے بیٹھ کر اسکا سر سہلایا اور اسکے ماتھے پر پیار کیا۔۔

فرزانہ نے سامنے بیٹھی اس نفیس سی خاتون کو دیکھا جو کہ پہلے انہیں گھر کے ہال میں دکھی تھیں مگر وہ ہانیہ کو دیکھ کر اسکے ساتھ آنے کے بجائے کسی کے کمرے کی طرف بڑھی تھیں۔۔

مگر اب وہ ہانیہ کے پاس بیٹھے پیار سے اسکا سر سہلا رہی تھیں فکر انکے چہرے سے واضح تھی۔۔

مام پلیز برو سے کہنا مجھے ڈانٹے نہیں بھابھی نے کہا تھا مجھ سے کے گھر چلتے ہیں میں نے ڈریسز دیکھنے کے چکر میں  دیر لگائی 

نیلم ڈری ہوئی تھی عالیہ بیگم نے اسے دیکھا جو کہ ہانیہ کو غور سے دیکھتے ہوئے عالیہ بیگم سے مخاطب تھی۔۔

نیلم پہلے تو تمہیں ہانی کی بات ماننی چاہئے تھی دوسرا یہ سب ہوا تھا تو وہیں سے ہادی یا وجاہت کو کال کرتی اب دیکھو بچی کی کیا حالت ہوگئی ہے۔۔

عالیہ بیگم نے ایک بار پھر ہانیہ کے بے ہوش پڑے وجود کو دیکھ کے کہا۔۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا مام کچھ لوگوں کی مدد سے میں نے بھابھی کو گاڑی تک لے کر گئی اور گھر لے آئی راستے میں مجھے ہادی کی کال آئی تو میں نے انہیں سب بتایا۔۔

عالیہ بیگم کسی بات کا جواب دیتیں اس سے پہلے ہی وجاہت آندھی طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا اور بغیر ادھر ادھر دیکھے سیدھے ہانیہ کے پاس گیا اور اسکا چہرا کرب سے دیکھنے لگا۔۔

سن شائن اٹھو کیا ہوا۔۔ اسکا چہرا تھامے ہوئے وجاہت نے کرب سے کہا 

مام اسے کیا ہوا یہ بول کیوں نہیں رہی وجاہت نے عالیہ بیگم سے پوچھا مگر وہ کیا جواب دیتی 

وہ برو میں بھابھی کے ساتھ شاپنگ پر گئی تھی تو ہم واپس ہی آرہے تھے کہ یہ بے ہوش ہوگئیں۔۔

نیلم نے ڈرتے ہوئے کہا 

کیا!!!  مال میں بے ہوش ہوئی تھی تو یہ گھر کیسے آئی ہاسپٹل لے کر کیوں نہیں گئی مجھے کال کیوں نہیں کی 

وجاہت نے غصے سے کہا تو نیلم ایک دم سے سفید پڑگئی ہادی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وجاہت کی دھاڑ سنی اور نیلم کا سفید پڑتا چہرا ۔۔

ڈاکٹر کو اندر لے جاکر وہ بغیر کسی سے کچھ کہے نیلم کو لئے کمرے سے باہر آگیا 

عالیہ بیگم فرزانہ اور حرا کو لئے کمرے سے باہر آگئی ۔۔

وہ دونوں تو بس اس شاندار سے شخص کو دیکھ کے ہی حیران رہ گئیں

جو کہ ہانیہ کے بے ہوش پڑے وجود کو دیکھ کے پل پل تڑپ رہا تھا۔۔

ہادی نیلم کی کلائی تھامے اسے اسکے کمرے سے لے گیا۔۔

نیلم بھی بغیر کسی مزاحمت کے اسکے ساتھ چلتی جارہی تھی۔۔۔

نیلم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ہادی نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور اسے پانی کا گلاس تھمایا جسے وہ سارا ایک گھونٹ میں ہی ختم کر گئی

گلاس سائڈ ٹیبل پر رکھ کے ہادی گہرا سانس لیتا اسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا 

نیلم نے جب ہادی کو ساتھ بیٹھتے ہوئے دیکھا تو وہ اسکے کندھے پر سر رکھے خاموشی سے آنسو بہانے لگی۔۔

میری وجہ سے ہانی بھابھی کی طبیعت خراب ہوئی ہے نہ۔۔

نیلم نے ہادی کے کندھے پر سر رکھے ہوئے ہی کہا۔۔

نہیں ایسا نہیں ہے اسکی کچھ دنوں سے طبیعت خراب ہی تھی تم تو اسکا موڈ فریش کرنے کیلئے اسے ساتھ لے گئی تھی۔۔

ہاں مگر میں نے بے وقوفی تو کی نہ جب وہ بے ہوش ہوئیں تو مجھے آپ کو یا برو کو کال کرنی چاہئے تھے مگر میں بھابھی کو گھر لے آئی۔۔

ہاں یہ تم نے غلطی کی ہے مگر جان بوجھ کر تو نہیں کی 

ہادی نے اپنا سر اسکے سر سے ٹکرا کے کہا۔۔

کیا تمہیں برا لگا وجی کا تمہین ڈانٹنا۔۔

ہادی نے نیلم کو دیکھ کے کہا۔۔

نہیں مجھے بھلا کیوں برا لگے گا برو پریشان تھے اسی لئے ایسے کہہ دیا ہوگا 

نیلم نے بھی تھوڑا سا سر اٹھا کر ہادی کو دیکھ کے کہا۔۔

ہادی نے اسکے آنسو صاف کئے 

تو پھر یہ آنسو کیوں بہا رہی ہو۔۔

میں بس یہ سوچ رہی ہوں کہ میری اس بے وقوفی کی وجہ سے اگر بھابھی کو کچھ ہوجاتا تو۔۔

نیلم کے لہجے میں ڈر تھا جسے ہادی نے محسوس کر کے اسے کندھوں سے تھاما اور پیار سے سمجھانے لگا۔۔

دیکھو ہانی بھابھی کو کچھ نہیں ہوگا بے فکر رہو وہ مینٹلی بہت سٹرانگ ہیں۔۔

اور یہ آنسو بہانا بند کرو میں وجی کو دیکھ کے آتا ہوں بولتے ہوئے ہادی بے اختیاری میں نیلم کے ماتھے پر لب رکھ گیا اور پھر بغیر اسکی طرف دیکھے وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ڈاکٹر ہانیہ کا چیک اپ کر رہا تھا اور وجاہت دوسری طرف ہانیہ کا ہاتھ تھام کے بیٹھا ہوا تھا۔۔

ڈاکٹر اسے ہوا کیا ہے ۔۔

وجاہت نے فکرمندی سے ڈاکٹر سے کہا۔۔

دیکھیں انکی پلس بہت لو چل رہی ہے شاید کمزوری سے یہ حال ہے یا پھر کوئی مینٹلی صدمے کی وجہ سے انکا یہ حال ہوا ہے۔۔

میرا مشورہ مانیں تو انہیں جلد از جلد ہاسپٹل شفٹ کریں۔۔

ویسے آپکی شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے۔۔

ڈاکٹر بولتے بولتے رکا اور وجاہت سے پوچھنے لگا 

یہی کوئی 8 ماہ ہونے والے ہیں مگر آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔

میں انہیں کوئی دوا یا کوئی انجیکشن نہیں دینا چاہ رہا کہیں اگر یہ اکسپیکٹ کر رہی ہونگی تو پرابلم ہوجائے گی ۔۔

ڈاکٹر نے پیشاورانہ انداز اپناتے ہوئے کہا۔۔

ہاں مگر ہم ٹیسٹ کر چکے ہیں گھر پر ایسا کچھ نہیں ہے۔۔

وجاہت نے ٹینشن سے کہا۔۔

دیکھے گھر پر ٹیسٹ سو فیصد رزلٹ نہیں دیتے آپ ان کو جلد ہی کسی ہاسپٹل لے جائیں 

وجاہت نے ڈاکٹر کی بات سنی اور کمرے میں داخل ہوتے ہادی کو دیکھ کر اسے گاڑی نکالنے کو کہا 

ہادی بغیر کوئی سوال کئے سر اثبات میں ہلا کر چلا گیا اور وجاہت ہانیہ کو بازوؤں میں لئے گھر سے باہر چل دیا۔۔

عالیہ بیگم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تو جلدی سے نیلم کو ہدایات دیں کہ دادو کو اس بارے میں کچھ پتہ نہ چلے 

وہ کب سے اپنی ساس کے پاس ہی جارہی تھی بار بار تاکہ انہیں ہانیہ کے بارے میں کچھ پتہ نہ چلے 

فرزانہ اور حرا ہانیہ کے کمرے سے نکل کر سیدھے اپنے گھر چلی گئیں تھی۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو بیک سیٹ پر لٹایا اتنے میں عالیہ بیگم بھی وہاں پہنچی تو وہ ہانیہ کے ساتھ ہی بیٹھیں اور اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا وجاہت ہادی کے ساتھ ہی بیٹھ گیا آگے 

اور ہادی جتنی اسپیڈ سے کار چلا سکتا تھا اسنے چلائی۔۔

بہت ریش ڈرائیونگ کے بعد وہ لوگ ہاسپٹل پہنچے تو وجاہت ہانیہ کو لئے ایمرجنسی سیکشن میں لے گیا۔۔

ڈاکٹر ناز آج ہی شہر واپس آئی تھی اور آج ایمرجنسی میں انکی ہی ڈیوٹی تھی۔۔

وجاہت ہادی اور عالیہ بیگم کو وہ وہاں دیکھ کے چونک گئی۔۔

کیا ہوا تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو۔۔

ڈاکٹر ناز نے عالیہ بیگم سے سوال کیا۔۔

وجاہت نے انہیں دیکھا تو ان کے پاس گیا

ڈاکٹر میری وائف بے ہوش ہے 3 سے 4 گھنٹے ہوچکے ہیں مگر وہ ہوش میں نہیں آرہی ہے پلیز اسے دیکھیں۔۔

وجاہت نے التجائیہ انداز اپنایا ہوا تھا 

ہادی اور عالیہ بیگم نے پہلی بار وجاہت کو ایسے دیکھا تھا ورنہ وہ ہر کسی سے ہمیشہ اکڑ کے ہی بات کرتا تھا۔۔

ڈاکٹر ناز بغیر کچھ کہے ہی وہاں سے چلیں گئیں ایمرجنسی وارڈ میں۔۔

وجاہت وہیں کاریڈور میں یہاں سے وہاں بے بسی سے چکر کاٹ رہا تھا عالیہ بیگم کو ہادی نے بینچ پر بٹھا دیا تھا 

قریب آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر ناز باہر آئی تو وجاہت نے ان سے ہانیہ کے متعلق سوال کیا۔

ڈاکٹر میری وائف کیسی ہے۔۔

وجاہت ہانیہ ٹھیک ہے شاید مینٹل اسٹریس کی وجہ سے اور ویکنیس سے بے ہوش ہوگئی تھی۔۔

میں نے کچھ ٹیسٹ کئے ہیں اس کے ریپورٹ آتے ہی پتہ چل جائے گا اصل مسئلہ کیا ہے۔۔

ویسے وہ اتنے ٹائم سے بے ہوش تھی تو اسے ہاسپٹل اتنا لیٹ کیوں لے کر آئے تھے۔۔

وجاہت انکی اس بات پر خاموشی سے عالیہ بیگم کو دیکھنے لگا۔۔

خیر کوئی بات نہیں میں نے انجیکشن دیا ہے وہ کچھ گھنٹے بعد ہوش میں آجائے گی۔۔

ریپورٹس کے آتے ہی میں تم سے ڈیٹیل میں بات کروں گی 

ڈاکٹر ناز نے وجاہت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دیا اور عالیہ بیگم سے مل کر دوبارہ ایمرجنسی وارڈ میں چلی گئیں۔۔

آپ لوگ گھر چلے جائیں اور مام نیلم کو دیکھ لینا میں نے غصے میں اسے ڈانٹ دیا تھا اس سے کہنا کہ میں پریشان تھا سمجھ نہیں آیا کیسے کہہ دیا اسے غصے میں۔۔

وجاہت نے تھکے ہوئے انداز میں خود کو سنبھالتے ہوئے بینچ پر عالیہ بیگم کے ساتھ بیٹھ کے کہا۔۔

میری پرنسس اپنے برو سے بہت محبت کرتی ہے وجی اسے بلکل برا نہیں لگا تمہارا اسے ڈانٹنا بلکہ وہ تو خود کو اس سب کا قصوروار ٹہرا رہی ہے۔۔

وجاہت نے ہادی کی طرف دیکھا جو کہ تھوڑے غصے سے اسے دیکھ کر کہہ رہا تھا۔۔

ہادی کو وجی پر غصہ آرہا تھا وہ اتنی زور سے دھاڑا تھا نیلم پر کہ اسکا چہرا ایک دم لٹھے کی مانند سفید ہوگیا تھا جسے کاٹو تو خون بھی نہ نکلے۔۔

نیلم کو ایسے دیکھ کر ہادی کو بہت غصہ آیا تھا مگر وہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ وجی اس وقت پریشان بہت تھا۔۔

اسی لئے نیلم کا ہاتھ پکڑے ہادی اسے خاموشی سے وہاں سے لے گیا۔۔

میری طرف سے اسے سوری کہنا ہادی میں گھر آکر خود ایکسکیوز کرونگا اپنی گڑیا سے۔۔

اور اسے کہنا کہ ہانیہ کی یہ حالت اسکی وجہ سے بلکل نہیں ہے وہ بے فکر رہے جیسے ہی ہانیہ ٹھیک ہوتی ہے میں اسے گھر لے آؤنگا۔۔

ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں مگر ہمیں ہر بات بتاتے رہنا تمہاری دادو کو اس بارے میں کچھ نہیں پتہ میں گھر جاکر سہولت سے انہیں بتا دونگی۔۔

عالیہ بیگم نے وجاہت کا چہرا تھام کے پیار سے اس سے کہا اور ہادی کے ساتھ گھر کیلئے روانہ ہوگئیں۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

فرزانہ اور حرا گھر میں داخل ہوئیں تو دیکھا معظم ان کے ہی انتظار میں بیٹھا تھا 

کہاں تھیں آپ لوگ میں کب سے آپ لوگوں کا انتظار کر رہا تھا

مہرو کو اکیلے گھر میں چھوڑ کر چلیں گئیں آپ 

معظم غصے سے ان لوگوں سے بات کر رہا تھا جبکہ وہ دونوں خاموشی سے صوفے پر جاکر بیٹھ گئیں۔۔

کیا ہوگیا کہاں تھے آپ دونوں۔۔

معظم نے ان دونوں کو غور سے دیکھ کے کہا۔۔

ہانیہ کے گھر گئے تھے۔۔

فرزانہ نے معظم کو دیکھ کے کہا۔۔

ہانیہ۔۔۔ ہانیہ۔۔ یعنی ہماری ہانیہ کے گھر 

معظم نے یقین دہانی کرنے کیلئے ان سے کہا۔۔

ہماری کہاں بھائی وہ تو کسی محل کی ہانیہ تھی۔۔

حرا نے اسے ساری بات بتائی کیسے وہ مال میں ملی اور پھر کیسے وہ اسکے گھر گئے۔۔

کیا بتاؤ بھائی اسکا گھر کسی محل سے کم نہیں تھا اور اسکا کمرہ مانو کسی جنت کا ٹکڑا لگ رہا تھا ہر چیز شفاف سفید رنگ کی تھی 

انکا گھر اتنا بڑا تھا اور جتنا بڑا گھر تھا اتنا ہی بڑا اسکا باغیچہ تھا وہ بھی اتنا خوبصورت 

اور اسکا شوہر بھائی ایسا لگتا تھا کوئی کہانیوں کا شہزادہ لمبا چوڑا خوبصورت وہ بھی حد سے کہیں زیادہ 

اور اسکے گھر والے اسکے لئے اتنے پریشان ہورہے تھے 

اسکی ساس تو بار بار انکا سر سہلا کر انکا ماتھا چوم رہی تھی نند بھی اتنی فکر مند تھی

دیکھ کے ہی لگ رہا تھا کہ ہانیہ بھابھی کی وہاں کتنی قدر ہے۔۔

اور انکا شوہر پاگل ہوا وا تھا انہیں بے ہوش دیکھ لگتا ہے بہت محبت کرتے ہونگے وہ ہانیہ بھابھی سے۔۔

حرا سوچتے ہوئے بولتے جارہی تھی بغیر معظم کی طرف دیکھے۔۔

امی آپ نے دیکھا تھا نہ وہ کمرے میں لگی تصویر جس میں وہ تھیں انکا شوہر اور وہ بچی کون تھی۔۔

بچی کے ذکر پر فرزانہ اور معظم نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔۔

جتنے پیار سے ہانیہ اور اسکے شوہر نے اسے لیا ہوا تھا دیکھنے میں تو ان کی ہی بیٹی لگ رہی تھی۔۔

فرزانہ نے معظم کو دیکھ کے کہا۔۔

جو اس بات پر زرا نہیں چونکا تھا۔۔

مگر امی۔۔ حرا کچھ کہتی کہ معظم نے اسے ڈانٹ دیا۔۔

حرا خاموش ہوجاؤ۔۔ اور امی کچھ کھانے کو ہے تو دیں مجھے بھوک لگی ہے۔۔

معظم کے ڈانٹنے پر حرا پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔۔

تمہیں حیرت نہیں ہوئی معظم ہانیہ کی بیٹی کے بارے میں سن کے۔۔

فرزانہ نے معظم کو غور سے دیکھ کے کہا۔۔

نہیں امی مجھے حیرت نہیں ہوئی اس میں کوئی کمی نہیں تھی وہ ماں بن سکتی ہے ہوسکتا ہے اسکے شوہر سے اسکی بیٹی ہو ۔۔

معظم نے اتنے آرام سے کہا مگر فرزانہ کے تو مانو پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی۔۔

یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔

میں سچ کہہ رہا ہو امی میں نے اسکی جھوٹی ریپورٹ بنوائی تھی وہ آپ لوگوں کو اتنی عزیز تھی مجھے بس یہی راستہ دکھا تھا جب میں نے آپ کو پوتے کی خواہش کرتے سنا تھا۔۔

یہ سب میں نے اس کے علیحدگی اختیار کرنے کیلئے کیا تھا تاکہ اس سے طلاق کے بعد میں سونیا سے شادی کر سکو 

سونیا کی یہی شرط تھی کہ میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دونگا تو ہی وہ مجھ سے شادی کرے گی۔۔

معظم کے اعتراف پر فرزانہ بس اسے دکھ سے دیکھے گئی اور معظم پشیمانی سے سر جھکائے وہیں بیٹھا رہا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہانیہ کو چند گھنٹوں بعد روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔

وجاہت اسکے ساتھ ہی بیٹھا تھا کہ اتنے میں ڈاکٹر ناز کمرے میں داخل ہوئیں۔۔

مجھے تم سے بات کرنی ہے زرا میرے آفس میں آؤ۔۔

ڈاکٹر ناز بولتے ہوئے ایک نظر ہانیہ کو دیکھ کے چلیں گئیں 

وجاہت بھی انکے ساتھ ہی چل دیا۔۔

آفس میں آتے ہی ڈاکٹر نے وجاہت کو بیٹھنے کا کہا اور خود اپنی چئیر پر جاکر بیٹھ گئیں۔۔

کیا تم بتا سکتے ہو ہانیہ کی ایسی کنڈیشن کب سے ہے 

وجاہت نے انہیں وہ سب بتایا جو کہ پچھلے دو تین ہفتوں سے وہ دیکھ رہا تھا۔۔

ہمم۔۔ وجاہت کی پوری بات سننے کے بات ڈاکٹر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔

تمہارا شک ٹھیک تھا ہانیہ ایکسپیکٹ کر رہی ہے وہ 6 ویک پریگنینٹ ہے 

ڈاکٹر ناز کے بولنے پر وجاہت نے انہیں مسکرا کے دیکھا۔۔

آپ سچ کہہ رہی ہیں نہ ۔۔ وجاہت نے دوبارہ پوچھا جیسے پہلی بار اسے سنتے ہوئے یقین نہ آیا ہو۔۔

ہاں یہ سچ ہے ڈاکٹر ناز نے سنجیدگی سے کہا۔۔

مجھے تم سے کچھ سوالات کرنے ہیں۔۔

ڈاکٹر ناز کا سنجیدہ چہرا دیکھ کے وجاہت نے اپنی خوشی پر تھوڑا کنٹرول کیا

جی پوچھیں۔۔ 

تمہیں کس نے کہا کہ ہانیہ ماں نہیں بن سکتی۔۔

ڈاکٹر کے سوال پر وجاہت نے انہیں حیرت سے دیکھا۔۔

مجھے ہانیہ نے بتایا تھا 

وجاہت نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔۔

ہانیہ کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو مجھے۔۔

دیکھو مجھے سب کچھ بتانا یہ سب اسکے کیس اسٹڈی کیلئے جاننا ہے مجھے۔۔

وجاہت نے انہیں پھر سب کچھ بتایا اسکی پہلی شادی اسکے طلاق اور پھر اسکی وجاہت سے شادی سب کچھ بتایا۔۔

ہمم یعنی اسکے ایکس ہسبنڈ نے جھوٹ کہا ہانیہ میں ایسی کوئی پرابلم نہیں ہے وجاہت 

وہ فیزیکلی ایک دم فٹ ہے مگر مینٹلی وہ بہت زیادہ ڈسٹرب ہے۔۔

وجاہت نے جب یہ سنا تو ایک دم اسکا جبڑا بھینچ گیا اور ماتھے کی رگیں ابھر گئیں ضبط کرنے سے۔۔

اس آدمی کے ایک جھوٹ کی وجہ سے ہانیہ آج اس حال میں تھی 

اور اس سے پہلے دو سال وہ تڑپی ایک ایسے الزام پر جو کہ سرے سے ہی غلط تھا۔۔

لوگوں نے اسے دھتکارہ اسے منحوس کہا سوچتے ہوئے ہی اسے کچھ ہو رہا تھا اور وہ سب وہ اتنے وقت سے سہہ رہی تھی

پچھلے ایک ہفتے میں وجاہت نے ہانیہ کی جو حالت دیکھی وہی اسکے برداشت سے باہر تھی

ڈاکٹر ناز نے وجاہت کی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھا جو کہ غصہ ضبط کرنے پر ایسی ہورہی تھی۔۔

دیکھو وجاہت غصہ سے نہیں دماغ سے کام لو ہانیہ کو تمہاری ضرورت ہے وہ مینٹلی بہت ڈسٹرب ہے ابھی اسے اس بارے میں کچھ مت بتانا۔۔

فلحال تو وہ یہ خبر سن کے ہی شاک میں آئے گی کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا۔۔

مگر تم اسے پیار سے ہینڈل کرنا یہ سب خدا کی مرضی ہے فلحال یہی کہنا۔۔

اور جتنا ہوسکے اسے مینٹل اسٹریس سے دور رکھنا۔۔

پریگننسی میں چکر آنا یا بے ہوش ہوجانا خطرناک نہیں ہوتا ایسا ویکنیس سے ہوجاتا ہے مگر مینٹل اسٹریس اس حالت میں نہ صرف تمہارے ہونے والے بچے کی جان لے سکتی ہے بلکہ ہانیہ کی جان بھی جا سکتی ہے۔۔

ڈاکٹر ناز نے وجاہت کو بہت اچھے سے سمجھایا کہ اسے کیا کرنا ہے۔۔

جسے وجاہت نے خاموشی سے سنا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

بات سنو۔۔

ہانیہ ہوش میں آئی تو روم میں صرف ایک نرس کو دیکھ کے کہا۔۔

جی کہیئے۔۔

نرس ہانیہ کے پاس آئی تو ہانیہ نے  نرس سے کہا۔۔

کیا میرے ہسبینڈ ہیں یہاں تو انہیں بلادیں۔۔

ہانیہ نے کہا تو نرس سر اثبات میں ہلا کر باہر چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد وجاہت ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔۔

کیسی ہو ہانیہ ۔۔

ڈاکٹر ناز نے مسکرا کر ہانیہ سے سوال کیا۔۔

میں ٹھیک ہوں مگر مجھے ہوا کیا تھا۔۔

ہانیہ نے پہلے ڈاکٹر اور پھر وجاہت کو دیکھ کے کہا۔۔

کچھ نہیں بس بے ہوش ہوگئی تھی ایسی کنڈیشن میں ایسا ہو جاتا ہے فکر کی کوئی بات نہیں۔۔

ڈاکٹر نے ہانیہ کا چیک اپ کرتے ہوئے مسکرا کے کہا۔۔

کیسی کنڈیشن؟ ہانیہ نے حیرت سے ڈاکٹر کو دیکھ کے کہا۔۔

مبارک ہو تم ایکسپیکٹ کر رہی ہو 

ڈاکٹر ناز نے پیار سے ہانیہ کے سر پر ہاتھ پھیر کے کہا 

یہ اب ٹھیک ہے وجاہت بیٹا آپ انہیں تھوڑی دیر بعد گھر لے جا سکو گے بس ہانیہ کا اچھے سے خیال رکھنا اور دوائیاں وقت پر دینا میں ڈسچارج پیپرز ریڈی کرواتی ہوں۔۔

تھینک یو ۔۔ وجاہت نے بس اتنا کہا تو ڈاکٹر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کمرے سے چلی گئیں نرس کو ساتھ لئے۔۔

وجاہت ہانیہ کے پاس گیا اور اسکا ہاتھ تھام کے بیٹھ گیا۔۔

ہانیہ اسے ہی بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔

کچھ بولو گی نہیں ۔۔

وجاہت نے اسکا ہاتھ چوم کے کہا۔۔

ایسا کیسے ہوسکتا ہے وجاہت بولتے ہوئے ہانیہ کی آنکھوں میں نمی آگئی۔۔

میں نے کہا تھا نہ کہ اگر خدا چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا 

وجاہت نے اسے تکیہ اونچا کر کے ٹھیک سے بٹھایا۔۔

مگر ہانیہ وجاہت کے سینے سے لگے خوب روئی۔۔

وجاہت نے بھی اسے آج رونے دیا۔۔ اسکی بھی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے بے آواز ۔۔

وجاہت نے گھر میں ابھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا۔۔

وہ از خود سب کا ری ایکشن دیکھنا چاہتا تھا یہ خبر سن کے گھر والوں کا۔۔

ہاں البتہ ہانیہ کی خیریت وہ پہنچا چکا تھا۔۔

ریسیپشن پر ساری فرمالیٹی وہ پوری کر کے ڈاکٹر ناز سے ایک بار مل کر دوائیوں اور ہانیہ کی ڈائٹ کے مطالع سوالات پوچھ کر وہ ہانیہ کو گھر لے جانے کیلئے اسکے روم میں گیا 

جہاں وہ لیٹی چھت کو گھور رہی تھی اور کسی گہری سوچ میں تھی۔۔

وجاہت اسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا کسی کو اپنے پاس محسوس کرکے اسکے وجاہت کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ کے مسکرا رہا تھا۔۔

چلیں گھر ؟ وجاہت نے پیار بھرے لہجے میں کہا مگر ہانیہ نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔۔

کیا آپ خوش ہیں ؟

ہانیہ نے وجاہت کو دیکھ کے کہا۔۔

وجاہت کو ایک پل سمجھ نہ آیا اس وقت وہ یہ سوال کیوں کر رہی ہے۔۔

جانتی ہو سن شائن جب مجھے پتہ چلا تھا کہ نور ایکسپیکٹ کر رہی ہے تو یہ خبر سن کے ایک پل کو مجھے خوشی ہوئی مگر اگلے ہی پل مجھے بہت غصہ آیا تھا 

کیونکہ اس خبر کے ساتھ مجھے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ وہ میرے بچے کو مارنے والی ہے۔۔

میں نے بہت مشکل سے اسے روکا ہمارے روز جھگڑے ہوتے تھے وہ کئی کئی دن مجھ سے ناراض رہتی تھی۔۔

ناراضگی میں وہ اپنے پاپا کے گھر چلی جایا کرتی تھی۔۔

یہ خوبصورت مرحلہ میں نے کبھی انجوائے نہیں کیا 

پھر جب حور اس دنیا میں آئی تو میں مانو ساتویں آسمان پر چلا گیا تھا لیکن صرف چند پل کیلئے کیوں کہ اگلے ہی پل مجھے جو خبر ملی وہ میری ساری خوشیاں ہی کھا گئی۔۔

پھر نور سے ملا تو اس نے اپنے آخری وقت میں جو بات کہی وہ سن کر مجھے ایسا لگا جیسے جو کچھ بھی ہوا اس کا قصوروار میں ہی ہوں۔۔

پھر نور چلی گئی میری گود میں ایک بہت کمزور سی مگر بے حد خوبصورت بچی کو دے کر۔۔

میں جب جب حور کو دیکھتا تھا مجھے نور کے ساتھ کیا گیا برا سلوک یاد آتا تھا 

میں نے وہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ مجھے کبھی نور سے اس سب کی معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔۔

زندگی میں پہلی بار میں نے سیلفیش ہو کر نور کو اتنا پریشرائز کیا تھا کہ وہ حور کو اس دنیا میں لائے وہ نہیں چاہتی تھی مگر میں چاہتا تھا۔۔

حور ایک بہت ہی سینسیٹو اور کمزور بچی تھی میں اسکے لئے ہر چیز بہترین کرنا چاہتا تھا مگر میں اسے پیار نہیں کرپاتا تھا۔۔

اپنی زندگی کے وہ خوبصورت لمحے میں نے اپنی خودسری کی نظر کر دیئے تھے۔۔

وجاہت روم میں لگی ایک بچے کی تصویر کو دیکھتے ہوئے وہ سب کہہ رہا تھا۔۔

ہانیہ نے ایک بار بھی اسے نہیں ٹوکا بس خاموشی سے اسے سنتی گئی۔۔

مگر تم سوچ نہیں سکتی میں آج کتنا خوش ہوں ہانیہ میں یہ پل اور تب تک کے ہر پل کو جینا چاہتا ہوں جب ہماری اولاد ہماری گود میں آئے گی۔۔

میں تمہیں ایک شہزادی کی طرح رکھنا چاہتا ہوں ہر طرح سے تمہارا خیال رکھنا چاہتا ہوں اپنی اولاد کو اپنی گود میں لے کر خوشی سے پاگل ہونا چاہتا ہوں۔۔

میں وہ سب کرنا چاہتا ہوں جو میں حور کے وقت نہیں کرپایا۔۔

وجاہت کے چہرے پر ایک چمک تھی خوشی کی جسے ہانیہ نے پیار سے دیکھا۔۔

مگر وجاہت حور تو ابھی بہت چھوٹی ہے کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں اس حالت میں اسے وہ توجہ دے پاؤنگی جسکی وہ حقدار ہے۔۔

ہانیہ نے اب اپنا خدشہ ظاہر کیا تو وجاہت کو سمجھ آیا کہ وہ اتنی دیر سے کن سوچوں میں گھری تھی۔۔

تم دوگی اسے توجہ اور محبت میں جانتا ہوں تم کر سکتی ہو ہاں بس تھوڑی احتیاط کی ضرورت ہے مگر تمہارے ساتھ میں ہوں سب گھر والے ہونگے سب کچھ اچھا ہوگا اتنا مت سوچو۔۔

میں کسی بات سے نہیں حور کیلئے پریشان ہورہی ہوں۔۔

سن شائن اپنے ملٹی ٹیلنٹڈ میاں کے ہوتے ہوئے تم پریشان ہورہی ہو۔۔

وجاہت نے کالر جھاڑ کے محض اسے ہنسانے کیلئے کہا اور واقعی ہانیہ اسکی اس حرکت پر مسکرا دی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہادی عالیہ بیگم کو گھر ڈراپ کرکے گاڑی ریورس کر کے پھر مین سڑک پر لے آیا اسکی پرنسس اپسیٹ تھی 

اسے اسکا موڈ ٹھیک کرنا تھا نیلم کا موڈ کیسے ٹھیک ہوتا تھا وہ اچھے سے جانتا تھا۔۔

مال جاکر اسنے سب سے پہلے نیلم کیلئے ایک بڑا سا ٹیڈی بئیر لیا اور ویسا ہی ایک چھوٹا حور کیلئے کیونکہ وہ بھی تو اسکی چھوٹی سی گڑیا تھی۔۔

پھر نیلم کیلئے اسنے ایک خوبصورت فوٹو فریم لیا جسکا آرڈر وہ کافی دن پہلے دے چکا تھا مگر وہ باہر ملک سے بن کر آنا تھا تو ابھی تک بن کر نہیں آیا تھا پھر جب آیا تو ہادی کو موقع ہی نہ ملا اسے لینے جانے کا۔۔

پرانے فریم کا گلاس نیلم ٹھیک کروا چکی تھی جس پر پرنسس لکھا تھا۔۔

مگر اب جو فریم ہادی نے بنوایا تھا اس پر کوئین لکھا تھا عنقریب وہ اسے اپنی کوئین جو بنانے والا تھا۔۔

پھر کچھ اور شاپنگ کی نیلم کو تحائف لینا بہت پسند تھا وہ بھی صرف ہادی سے۔۔

ہادی یہ بات اچھے سے جانتا تھا۔۔

اسنے کچھ سامان حور کیلئے اور باقی گھر والوں کیلئے بھی لیا تھا سوائے وجاہت کے ابھی تک اس سے وہ تھوڑا ناراض تھا۔۔

پھر جب وہ گھر جانے لگا تو اسے آفس سے کال آنے لگی تو وہ گھر جانے سے پہلے آفس چلا گیا وجی وہاں نہیں تھا تو اسے ہی کام ختم کرنا تھا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

سبھی گھر والے ہال میں بیٹھے ہوئے تھے وجاہت نے کہا تھا کہ وہ بس تھوڑی دیر میں ہانیہ کو لئے گھر آرہا ہے۔۔

شان صاحب کو ہادی گھر بھیج چکا تھا اور دادو کو بھی عالیہ بیگم نے ہانیہ کی طبیعت کے بارے میں مختصر بتا دیا تھا 

نیلم ہال میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی اسکی نظر صرف دروازے پر ہی تھی۔۔

ان سب سے بیگانہ حور اپنے کھلونوں میں مصروف تھی۔۔

وہ اپنے آپ میں خوش رہنے والی بچی تھی کسی کو بھی زیادہ تنگ نہیں کرتی تھی ہاں بس اپنی ماما کے معاملے میں وہ بہت پوزیسو تھی اپنے پاپا کی طرح۔۔

وجاہت ویسے تو پہلے ہی کال کر کے بتا چکا تھا کہ ہانیہ ٹھیک ہے مگر جب تک گھر والے اسے نہ دیکھ لیں انہیں کہاں سکون ملتا۔۔

وجاہت ہانیہ کو لئے گھر میں داخل ہوا تو سب کو ہال میں دیکھ کے مسکرا دیا

لو جی ہمیں کیا پتہ تھا کہ ہمارے گھر والے ہمارے استقبال کیلئے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔۔

ہانیہ کے ساتھ سبھی ہلکا سہ مسکرا دئیے۔۔

نیلم تو فوراً ہی ہانیہ سے لپٹ گئی ۔۔

کیا ہوا چندا ہانیہ نے اسے خود سے الگ کر کے پیار سے دیکھا۔۔

سوری بھابھی میری وجہ سے آپ کی طبیعت بگڑی۔۔

نیلم کچھ اور کہتی وجاہت نے اسے بیچ میں ٹوک دیا۔۔

ایسا نہیں ہے گڑیا تم نے کچھ نہیں کیا وجاہت نے نیلم کو اپنے ساتھ لگاتے کہا۔۔

معافی تو مجھے مانگنی چاہئے اپنی پریشانی میں تمہیں بلا فضول ہی ڈانٹ دیا 

وجاہت کے کہنے پر ہانیہ نے اسے دیکھا کہ اسنے نیلم کو ڈانٹا۔۔

نہیں بھائی وہ سب تو۔۔ نیلم کچھ اور بھی کہہ رہی تھی اتنے میں ہادی ہاتھ میں ڈھیر سارا سامان لئے گھر میں داخل ہوا۔۔

معافی تلافی کا سیشن ختم کرو تم دونوں اور ہانی کو بیٹھنے تو دو۔۔

وجاہت نے ایک بار پھر ہادی کو ہانیہ کو ہانی کہتے سنا تو اسے گھورنے لگا۔۔

ہادی نے بھی شرارتی مسکان وجی کو پاس کی تو وجاہت لب بھینچے ہانیہ کو دیکھ کے کہنے لگا۔۔

یہاں بیٹھو گی یا ریسٹ کروگی ۔۔

وجاہت سب لوگ یہاں ہیں میں روم میں اکیلے رہ کر کیا کروگی۔۔

ہانیہ کے کہنے پر وجاہت نے اسے صوفے پر بٹھایا جسے دیکھ ہانیہ کو ہنسی بھی آرہی تھی جیسے وہ خود تو بیٹھ نہیں سکتی تھی نہ۔۔

سبھی نے ہانیہ سے اسکی خیریت پوچھی دادو جو اسکے ساتھ ہی بیٹھی تھیں انہوں نے تو اسے سینے سے لگا لیا تھا۔۔

میں ٹھیک ہوں بلکل ہانیہ نے مسکرا کر دادو سے کہا جو اسے فکرمندی سے دیکھ رہی تھی۔۔

ہاں جی اگر ٹھیک نہیں بھی ہیں تو میں سب کا موڈ ٹھیک کئے دیتا ہوں۔۔

ہادی سامان لئے صوفے پر بیٹھا جبکہ ایک ملازم دو ٹیڈی بئیر لے کر آیا اور اسے ہادی کے پاس ہی رکھ دئیے۔۔

یہ سب کیا ہے ۔۔ وجاہت جو اسکے بلکل سامنے بیٹھا تھا اتنے سارے تحفے تحائف دیکھ کے پوچھنے لگا۔۔

بے فکر رہو اس سب میں تمہارے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔۔ ہادی نے سامان کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

وجاہت ہادی کے روٹھے لہجے پر مسکرا دیا۔۔ وہ جانتا تھا وہ اس سے کیوں ناراض ہے۔۔

تو پھر یہ سب کس کیلئے۔۔

تم نے میری پرنسس کو اپ سیٹ کیا بس اسی کو چئیر اپ کرنے کیلئے اسکی پسند کی چیزیں لے آیا۔۔

ہادی نے اب وجاہت کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

اب یہ سب چونچلے تھوڑے کم کرو اور جتنی جلدی ہو سکے اس گھر سے روانہ ہوجاؤ۔۔

وجاہت نے یہ سب صرف مذاق میں کہا تھا کیونکہ اسکا آج موڈ بہت اچھا تھا اب ہمیشہ ہادی ہی اسے تھوڑی تنگ کر سکتا تھا یہ کام وجاہت کو بھی اچھے سے آتا تھا۔۔

ہادی سامان الگ کرنے میں ایسے دکھانے لگا جیسے اس نے وجاہت کی بات سنی ہی نہ ہو یہ دیکھ سبھی مسکرا دئیے۔۔

لو پرنسس یہ سب تمہارے لئے 

کچھ شاپنگ بیگز اور بڑا والا ٹیڈی بئیر اسنے نیلم کو تھمایا 

ہادی ان لوگوں میں سے تھا جو کوئی بھی کام چھپ کر نہیں کرتا تھا 

اس کی سوچ ہی یہی تھی کہ وہ کچھ غلط نہیں کر رہا تو لوگوں سے چھپائے کیوں اور اسکی یہ عادت سب سے زیادہ وجاہت کو پسند تھی 

نیلم نے مسکراتے ہوئے مشکور نظروں سے ہادی سے وہ سامان لیا اور اپنے ٹیڈی کو پکڑے کو صوفے پر بیٹھ گئی۔۔

اسکے چہرے پر پھر سے خوبصورت مسکراہٹ آگئی جو صرف ہادی ہی لا سکتا تھا۔

پھر ہادی نے ایک ایک کرکے سب کو ان کے تحفے دیئے ویسے بھی وہ ہمیشہ جب بھی کچھ تحائف لاتا تھا تو سب کیلئے لاتا تھا..

میرے لئے کچھ نہیں لائے وجاہت نے مسکراتے ہوئے کہا تو ہادی نے اسے دیکھ کے کہا۔۔

نہیں میں غصیل اور اکڑو لوگوں کیلئے تحفے نہیں لاتا۔۔

ہادی کے بولنے پر وجاہت ہنس دیا۔۔

سبھی نے یہ بات نوٹ کی آج وجاہت ضرورت سے زیادہ ہنس رہا تھا جبکہ کچھ گھنٹے پہلے کا وجاہت تو کچھ اور ہی تھا جسے ہادی نیلم اور عالیہ بیگم نے دیکھا تھا۔۔

ٹھیک ہے تمہاری مرضی مگر اب تمہیں اپنے تحائف لینے کا بجٹ تھوڑا بڑھانا پڑے گا۔۔

وہ کیوں ؟؟ ہادی نے نہ سمجھی سے وجاہت کو دیکھا۔۔

وجاہت نے پہلے ہانیہ کو دیکھا جو اسے دیکھ کے مسکرا دی 

کیونکہ اب تمہیں ایک اور گھر کے فرد کیلئے تحائف لینے ہونگے جو جلد ہی اس دنیا میں آجائے گا۔۔

وجاہت نے جس لہجے میں کہا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ کتنی خوشی سی یہ کہہ رہا تھا۔۔

کچھ پل تو سب ساکت رہ گئے اسکی اس بات پر مگر پھر سب سے پہلے ہادی نے اٹھ کر وجاہت کو گلے لگا لیا۔۔

باقی سب کو تھوڑا اور وقت لگا سمجھنے میں یا یقین کرنے میں۔۔

تو سچ کہہ رہا ہے میں پھر سے چاچو بننے والا ہوں یا نہیں اب تو میں پھوپھا بنوں گا۔۔

ہادی خوشی سے کہہ رہا تھا وجاہت بھی ہنستے ہوئے سب کو دیکھ رہا تھا۔۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب نے ہانیہ اور وجاہت کو گلے لگا لیا۔۔

ہادی نے حور کو گود میں اٹھا لیا۔۔

شان صاحب نے خوشی سے وجاہت کو گلے لگایا اور پھر محبت اور شفقت سے ہانیہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔

سب نے انہیں مبارک باد دی اور عالیہ بیگم نے جلدی سے ملازم سے کہا کہ سب کو منہ میٹھا کروائے۔۔

جانتی ہو حور تمہارا چھوٹا بھائی یا بہن آنے والی ہے۔۔

ہادی نے حور کو گود میں لئے کہا تو وہ نہ سمجھی سے بس سب کو مسکراتا دیکھ خود بھی کھلکھلا دی۔۔

وجاہت نے حور کو ہادی سے لیا اور اسے گلے لگا لیا۔۔

ہانیہ نے بھی اسے پیار کیا اور پیار سے اسے دیکھنے لگی۔۔

نیلم نے اپنے فون کے کیمرے سے انکا یہ خوبصورت مومنٹ محفوظ کرلیا۔۔

اپنے کمرے کے اسٹڈی روم میں بیٹھا وجاہت اپنے لیپ ٹاپ پر آفس کا کچھ کام کر رہا تھا۔۔

ہانیہ کو وہ دوا کھلا کر سلا چکا تھا حور بھی سکون سے اپنے کمرے میں سورہی تھی 

کام کرنا بھی ضروری تھا پچھلے مہینوں میں اسنے کام پر سے مانو توجہ ہٹا ہی دی تھی۔۔

یہ تو اسکے ڈیڈ اور ہادی کی مہربانی تھی کہ انہوں نے اسکی غیر موجودگی میں سب کچھ بہت اچھے سے سنبھالا۔۔

اب جلد ہی ہادی اور نیلم کی شادی کی ڈیٹ فکس ہوجائے گی تو وجاہت کو اصولاً ہادی کو بھی وقت دینا چاہئے شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی 

اس سب کے دوران اسے ہانیہ کا بھی اچھے سے خیال رکھنا ہے۔۔

وہ وجاہت عالم تھا اتنے سارے کام ایک وقت میں سنبھالنا اسکے کیلئے کوئی بڑی بات نہیں تھی 

مگر وجاہت عالم کا جو دل ہے وہ اسکی سن شائن کے پاس سے ہلنے تک کو تیار نہیں رہتا 

ابھی بھی کام کے دوران وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہانیہ اور حور پر ایک نظر ڈال لیتا تھا۔۔

ایک نئے پروجیکٹ کیلئے پریزینٹیشن ریڈی کر کے وہ وہیں اپنے اسٹڈی ٹیبل کے ساتھ رکھی ریوالونگ چئیر پر ٹیک لگا کے بیٹھ گیا۔۔

اسکا سگریٹ پینے کا دل کر رہا تھا مگر ہانیہ کی موجودگی میں اسنے آج تک سگریٹ نہیں پی تھی 

مگر پھر وہ ٹیرس پر آیا اور ٹیرس کا دروازہ بند کردیا شیشے کے پار اسکی نظریں ہانیہ پر ہی تھیں 

دو انگلیوں میں سگریٹ پکڑے وہ کسی سوچ میں گم تھا 

نظریں ہانیہ کے چہرے پر اٹکی تھی جہاں صرف سکون ہی سکون تھا۔۔

ہانیہ کے ایکس ہسبینڈ نے ایسا کیوں کیا اس نے ہانیہ کی جھوٹی ریپورٹس کیوں بنوائی۔۔

شاید اپنی اس محبت کیلئے جس کے بارے میں ہانیہ نے وجاہت کو بتایا تھا یا پھر کچھ اور بات تھی۔۔

وہ خوش تھا مگر یہ بات اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہانیہ نے اس آدمی کی بات پر اتنی آسانی سے یقین کیسے کرلیا۔۔

مگر اگر ایسا نہ ہوتا تو ہانیہ اسکی زندگی میں کیسے آتی۔۔

افف۔۔ کیوں سوچ رہا ہوں میں یہ سب 

مگر یہ تو طے ہے کہ اس معظم نامی شخص سے ایک بار ملنا تو ہوگا۔۔

وجاہت نے دیکھا ہانیہ نے چہرے کے تاثرات زرا بدلے پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔

وجاہت نے سگریٹ پھینک کر اسے جلدی سے اپنے جوتے سے مسل کے بجھایا اور ٹیرس کا دروازہ کھول کے اندر گیا تب تک ہانیہ اٹھ کے حور کے کمرے میں جاچکی تھی۔۔

ارے یار تم کیوں اٹھ گئی میں جاگ تو رہا تھا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے ہاتھ سے حور کی فیڈر بوٹل لی اور اسے زرا ہٹا کر فیڈر بناتے ہوئے بولنے لگا۔۔

مجھے لگا آپ شاید بزی ہونگے حور کے رونے کی آواز آئی تو میں جاگ گئی۔۔

ہانیہ نے اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے کہا وہ ویسے تو دوا کے اثر سے گہری گیند سورہی تھی مگر حسیات اسکی حور کی طرف ہی تھی۔۔

ماں تھی کیسے نہ جاگتی اپنی بیٹی کی آواز پر ۔

وجاہت نے حور کو گود میں لے کر پہلے چپ کروایا پھر اسے دوبارہ لٹا کر اسے فیڈر دیا جسے حور کے خود ہی پکڑ لیا۔۔

ہانیہ حور کے بے بی کاٹ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی۔۔

میری وجہ سے آپکا کام بڑھ گیا ہے نہ۔۔

ہانیہ نے وجاہت کی نیند سے بھری آنکھوں کو دیکھ کے کہا۔

نہیں ایسا بلکل نہیں ہے اور خبردار جو تم نے ایسا سوچا بھی تو۔۔

وجاہت نے حور سے فیڈر لی اسنے ٹھوڑا ہی پیا تھا وجاہت جان چکا تھا کہ وہ نیند میں چونک کر اٹھ جاتی ہے اور زرا سی فیڈر پی لینے کے بعد پھر سے سوجاتی ہے تو وہ بناتا ہی تھوڑا تھا۔۔

حور کو سوتا پاکر وہ ہانیہ کو لئے بیڈ تک گیا اسے لٹا کر اسکے ساتھ ہی لیٹ گیا 

نیند تو ہانیہ کی اب اڑ چکی تھی تو وہ اٹھ کے بیٹھ گئی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے۔۔

وقت ابھی صبح کے 4 کا تھا ۔۔

ہانیہ نے سوچا وجاہت کو سلا کر وہ تہجد ہی پڑھ لے خدا نے اتنی بڑی خوشی دی ہے تو شکریہ ادا تو بنتا تھا 

وجاہت نے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے وہ فرزانہ اور حرا کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔

وہ ہی تھی مال میں مگر پھر کیا انہوں نے بھی اسے پہچان لیا تھا 

ہاں پہچان تو لیا ہوگا تین سال پہلے کی ہی تو بات تھی یہ۔۔

تم سوجاؤ سن شائن مجھے نیند آرہی ہے میں خود ہی سوجاؤں گا۔۔

وجاہت نے اسکا بالوں میں انگلیاں چلاتا ہاتھ روک کے کہا۔۔

آپ سوجائیں میں نماز پڑھو گی ویسے بھی رات میں جلدی سوئی تھی تو اب نیند نہیں آنے والے۔۔

وجاہت نے اسے ایک نظر دیکھا پھر سر اثبات میں ہلا کر تنبیہ کرتا سوگیا کہ کسی کام کو ہاتھ مت لگانا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

تم سے کہا تھا نہ کہ تم جاب نہیں کر سکتی تو کیا ہے یہ سب۔۔

معظم حرا پر چلا رہا تھا جو مال جانے کیلئے ریڈی ہوکر ناشتہ کر رہی۔۔

بھائی بحث نہ کریں مہرو کی شادی سر پر ہے آپ کے پاس جاب نہیں ہے ہماری شادیوں کی جو سیونگ ابو کر کے گئے تھے وہ آپ نے اس سو کالڈ سونیا پر لٹا دی مگر شادی اس نے پھر بھی آپ سے نہیں کی 

میری شادی ٹوٹی ٹھیک ہے مگر میں مہرو کی شادی ٹوٹنے نہیں دونگی۔۔

حرا بھی اب باقائدہ چلا کر معظم سے بات کر رہی تھی 

فرزانہ اسے بتا چکی تھیں کہ کیسے معظم نے ہانیہ کی جھوٹی ریپورٹس بنوا کر اسے طلاق دی۔۔

حرا کو ہانیہ بہت پسند تھی مگر اس وقت وہ پڑھائی کر رہی تھی تو ہانیہ سے اتنا میل جول نہیں رکھتی تھی ہاں البتہ شادی کے ایک سال کے بعد اس نے مہرو اور اپنی ماں کے منہ سے ہانیہ کی برائی سنی تو وہ پھر ہانیہ سے تھوڑا اور کھچ سی گئی مگر بری وہ اسے پھر بھی نہیں لگی تھی۔۔

اور اب اپنے بھائی کے کارنامے سن کر اسے ہانیہ کیلئے بہت برا لگ رہا تھا کہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی اس نے اتنا کچھ سہا مگر دیکھو اللّٰہ نے اسے اسکے صبر کا پھل بھی دیا۔۔

مگر اسکے بھائی کا کیا اس کے سامنے آیا مگر لگتا یہی تھا کہ معظم کو اس بات سے زرا بھی فرق نہیں پڑا تھا وہ پھر بھی سونیا کا دیوانہ بنا رہا اور پھر جب معظم کی جاب چلی گئی تو سونیا نے فوراً ہی اس سے تمام تعلقات ختم کرلئے اور کچھ وقت بعد معظم کو پتہ چلا تھا کہ سونیا نے ایک بہت ہی امیر مگر اپنے سے کئی سال بڑے بزنس مین سے شادی کرلی تھی۔۔

جس دن میں مر جاؤ اس دن تم گھر سے باہر نکل کر نوکری کر لینا۔۔

معظم کا ایک آنکھ نہیں بھایا حرا کو مال کے یونیفارم میں مال جانا۔۔

بلیک پینٹ کے ساتھ وائٹ ٹی شرٹ اور اوپر بلیک کوٹ پہنے حرا گھر سے جانے لگی۔۔

جس دن آپکی کوئی اچھی جاب لگی میں یہ جاب چھوڑ دونگی مگر بھائی اس سے پہلے آپ کچھ نہیں کہیں گے مجھے۔۔

حرا نے ضبط کر کے نارمل لہجے میں کہا اور بغیر معظم کی بات سنے ہی گھر سے نکل گئی۔۔

دیکھ رہیں ہیں آپ امی کیسے زبان چلا رہی تھی یہ مجھ سے۔۔

فرزانہ نے ایک نظر معظم کو دیکھا 

اب کسی کو تو گھر چلانا ہے نہ کرنے دو اسے جاب جب تک تمہاری نوکری نہیں لگتی ۔۔

برتن سمیٹتے ہوئے انہوں نے اب کے بغیر معظم کی طرف دیکھے کہا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اگلے دن ایک کے بعد ایک دادو کا حکم صادر ہونے لگا جسے سر جھکائے وجاہت ہادی اور شان صاحب سن رہے تھے پھر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے تھے۔۔

دادو نے کہا کہ گھر میں خوشیاں آئی ہے تو صدقہ دیا جائے 

پھر غریبوں میں کپڑے اور نقد امداد بانٹی گئی 

مٹھائیاں بٹیں۔۔

کیونکہ جمشید صاحب بھی پاکستان پہنچ چکے تھے اور ہادی اور نیلم کی شادی کی ڈیٹ اگلے مہینے کی ہی رکھی گئی تھی 

گھر میں دو دو خوشیاں ایک ساتھ آئیں تھیں۔۔

سبھی گھر والے بہت خوش تھے۔۔

وجاہت نے واقعی کام گھر اور ہانیہ کو اچھے سے سنبھالا ہوا تھا وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ ہانیہ اور گھر والوں کو اچھے سے وقت بھی دے رہا تھا۔۔

جبکہ ہادی اور نیلم  کی اب شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔۔

عالیہ بیگم نے شادی کی ڈیٹ فکس کرنے سے پہلے وجاہت سے بات کی تھی کہ اگر ہانیہ کی طبیعت کی وجہ سے نیلم کی شادی کی ڈیٹ آگے بڑھائی جائے کیا مگر وجاہت نے انہیں منع کردیا 

پہلے ہی وہ ان کی انگیجمنٹ لیٹ کروا چکا تھا اب اگر شادی لیٹ کرواتا ہے تو ہادی نے اسے بخشنا نہیں ہے۔۔

اور شادی کے ماحول میں ہانیہ بھی بہتر محسوس کرے گی 

کام تو ویسے بھی کوئی اسے کچھ نہیں کرنے دیگا 

تو بہتر ہے وہ یہ ایوینٹ انجوائے کرے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

آج حور کا برتھ ڈے کا سیلیبریشن تھا۔۔

آج وجاہت اور ہانیہ کی پری ایک سال کی ہوچکی ہے۔۔

پارٹی گھر کے بجائے ایک بڑے سے ہوٹل میں رکھی گئی تھی وجاہت نہیں چاہتا تھا کہ گھر میں کوئی پھیلاوا ہو۔۔

اسی لئے اس نے تمام انتظامات ہوٹل میں کروائے۔۔

ہانیہ اور حور کی سیم شاکنگ پنک کلر کے پرنسس گاؤن تھے جو کہ نیلم اور ہانیہ نے سیلیکٹ کئے تھے۔۔

نیلم کا بھی تقریباً ویسا ہی تھا مگر کلر وہ ہمیشہ ہادی سے میل کھاتا ہی پہنتی تھی 

ابھی بھی وہ گرے رنگ کے گاؤن میں پارٹی میں جانے کیلئے اپنے کمرے سے نکلی۔۔

لائٹ مگر گلیمرس میک کئے بالوں کو میسی بن میں مقید کیا ہوا تھا جسکی کچھ لٹیں نیلم کے چہرے پر تھی۔۔

گلابی لبوں پر گلابی ہی لپ گلوز لگائے وہ ہادی کی سچ مچ کی پرنسس ہی لگ رہی تھی۔۔

ہادی بھی گرے کلر سے سوٹ میں بالوں کو جیل سے سیٹ کئے کلین شیو میں وہ بھی ہانیہ کا پرنس ہی لگ رہا تھا۔۔

چلیں پرنسس ہادی جو کب سے نیلم کے دروازے کے باہر کھڑا اسکا انتظار کر رہا تھا اب اسے بہت غور سے دیکھنے کے بجائے چلنے کا کہا تو نیلم اسے گھورنے لگی۔

اتنی محنت سے اور دل سے تیار ہوئی تھی وہ مگر مجال ہے ہادی نے اسکی تعریف میں ایک جملہ تو دور ایک لفظ بھی کہا ہو۔۔

کیا ہوا کہاں کھو گئی۔۔

ہادی نے اسکے چہرے کے آگے چٹکی بجائی تو نیلم نیلم منہ بنا کر ہادی کے آگے چلنے لگی۔۔

ہادی اسکا نروٹھا سا انداز دیکھ کے مسکرا دیا۔۔

اپنی پرنسس کو منانا اسے بہت اچھے سے آتا تھا 

خوبصورت تو وہ ہادی کو بہت لگی مگر اس نے ابھی نیلم کیلئے کچھ اسپیشل پلان کیا تھا انکی شادی کی ڈیٹ فکس ہونے کی خوشی میں تو ابھی اسے اسکا زرا موڈ بگاڑنہ تھا تاکہ سرپرائز کا مزا دوبالا ہو۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

یار سن شائن تم کر کیا رہی ہو مجھے تمہاری فکر ہورہی ہے۔۔

وجاہت حور کو لئے یہ کوئی تیسری بار ڈریسنگ روم کا دروازہ بجا رہا تھا جہاں ہانیہ پچھلے ایک گھنٹے سے تیار ہونے گئی ہوئی تھی۔۔

حور کو وہ تیار کر چکی تھی شاکنگ پنک کلر کی فراک پہنے سر پر اسنے حور کے لئے آرڈر پر پرینسس کراؤن جیسا ہی ایک ہئیر کیچ بنوایا تھا 

اب کراؤن تو وہ ٹکنے نہیں دیتی ہاں ہئیر کیچ پہننے کی اسے عادت تھی 

اب خود وہ ڈریسنگ روم میں تیار ہورہی تھی دروازہ اسنے اس لئے بند کیا تھا تاکہ وجاہت اسے تیار ہونے پر ٹوک نہ سکے 

کہ یہ نہ لگاؤ بلش تھوڑا ہلکا کرو آئی شیڈو صاف کرو ہائی لائیٹر اتنا کون لگاتا ہے اور لپ اسٹک کے معاملے میں تو وہ ہانیہ کو بہت ٹوکتا تھا۔۔

اب تو ہانیہ کو اسکے ڈائیلاگ تک یاد ہوگئے تھے۔۔

اسی لئے آج کچھ بھی سننے سے پہلے ہی اس نے ڈریسنگ روم سے وجاہت کو نکال باہر کیا تھا ۔۔

اب اپنی اس حالت کا وہ تھوڑا تو فائدہ اٹھا سکتی تھی کیونکہ ایسے میں وجاہت اسے غصے بھری نظر سے دیکھے گا بھی نہیں۔۔

اور وجاہت کو رہ رہ کر ہانیہ کی فکر ہورہی تھی جو کہ ایک گھنٹے سے کمرے میں بند تھی 

وجاہت کے کہنے پر ہر گھنٹے ہانیہ کو جوس پینا تھا مگر ڈیڑھ گھنٹا ہونے کو تھا جوس تو چھوڑو پانی تک نہیں پیا تھا اسنے۔۔

آخر کار ہانیہ نے دروازے کا لاک کھولا تو وجاہت بغیر کچھ کہے ڈریسنگ روم میں تیزی سے داخل ہوا مگر اگلے ہی لمحے وہ جہاں کھڑا تھا وہیں جم سا گیا۔۔

شاکنک پنک کلر کا گاؤن پہنے بالوں میں اگے سے فرنچ اسٹائل بنائے پیچھے کے تمام بالوں کو اسنے کرل کیا ہوا تھا۔۔

میک اپ لائٹ ہی کیا تھا اسنے مگر لپ اسٹک اسنے اپنے ڈریس کے میچنگ ہی لگائی تھی۔۔

گلا چونکہ کالر اسٹائل کا تھا تو گلے میں اسنے سوائے وجاہت کی دی ہوئی چین کے کچھ نہیں پہنا تھا کان میں بھی چھوڑے چھوٹے ڈائمنڈ کے ائیرنگ پہنے تھے۔۔

اسکا ڈریس کافی کام دار تھا تو اسے باقی ایکسیسریز کی ضرورت نہیں تھی۔۔

کچھ پل تو وجاہت اسے دیکھتا رہا ہانیہ بھی مسکرا کر آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔۔

سن شائن تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں وجاہت نے وہ الفاظ کہے تو ہانیہ نے اسے حیرت سے مڑ کے دیکھا۔۔

حیرت اسے اس بات پہ ہوئی کہ وجاہت نے اسے کچھ نہیں کہا وہ بھی اتنا تیار ہونے پر۔۔

مگر جیسے ہی حور نے وجاہت کا ہاتھ پکڑا وجاہت فوراً ہی ٹرانس سے باہر نکلا ۔۔

یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے۔۔ ٹرانس سے نکل کر پہلا جملا وجاہت نے یہی کہا۔۔

ہانیہ کو  اس سے اسی جملے کی امید تھی۔۔

میں آج آپ کی بلکل نہیں سنوگی کیونکہ یہ پارٹی میری بیٹی کی پارٹی ہے اور اپنی خوبصورت بیٹی کی ماں ہونے کے ناطے آج مجھے تھوڑا تو اچھا لگنا تھا 

ہانیہ نے وجاہت کو گھورتے ہوئے کہا ۔۔

وجاہت کچھ کہتا اس سے پہلے ہی ہانیہ نے حور کا ہاتھ تھاما اور اسے لئے روم سے باہر جانے لگی۔۔

رکو۔۔ وجاہت کی سنجیدگی بھری آواز سن کے ہانیہ کو اپنا ہلق خشک ہوتا محسوس ہوا وہ تو سمجھی تھی کہ وجاہت اسے اس حالت میں کبھی ہرٹ نہیں کرے گا 

جی۔۔ ہانیہ نے غور سے وجاہت نے چہرے کو دیکھ کے کہا۔۔

تم نے جوس نہیں پیا وہ پیو پھر چلیں گے۔۔

وجاہت ٹیبل پر رکھا جوس کا گلاس اٹھا کر ہانیہ کے پاس لایا تو ہانیہ نے سکھ کا سانس لیا۔۔

وجاہت میں ہر گھنٹے یہ فروٹ جوسس پیو گی تو موٹی ہوجاؤگی۔۔

گلاس ختم کر کے اس نے وجاہت کو تھمایا تو کہنے لگی۔۔

کوئی بات نہیں ویسے بھی تمہیں تھوڑا ویٹ پروٹون کرنا ہے ڈاکٹر نے کہا تھا 

وجاہت نے گلاس ٹیبل پر رکھ کے حور کو گود میں لیا اور ہانیہ کو کمر سے تھام کر گھر سے باہر چل دیا

گاڑی اسٹارٹ کرنے سے پہلے ایک بار پھر اسنے ہانیہ کو دیکھا جو محبت پاش نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

اگر کسی غیر مرد کے منہ سے میں نے تمہارے بارے میں کچھ بھی سنا تو اسکے حشر کی ذمہ دار تم ہوگی۔۔

وجاہت نے ویسے تو عام سے لہجے میں کہا تھا مگر ہانیہ کو اسکا لہجہ تھوڑا عجیب لگا۔۔

ایسا کچھ نہیں ہوگا پارٹی میں سب جاننے والے ہی ہونگے۔۔

ہانیہ نے اسے سمجھانا چاہا مگر  وجاہت نے سنجیدہ چہرا لئے گاڑی اسٹارٹ کردی ۔۔

یہ سچ تھا کہ اسنے ہانیہ کو ٹوکا نہیں تھا آج کسی بھی چیز کیلئے مگر وہ خوش بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا 

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

پارٹی میں ان لوگوں کو لاسٹ میں داخل ہونا تھا ۔۔

حور کا ہاتھ تھامے وہ لوگ پارٹی میں داخل ہوئے تو انکا بہت اچھا سا استقبال کیا گیا۔۔

کیک لایا تھا گیا تو وجاہت اور ہانیہ نے ہی حور کا ہاتھ پکڑ کے کیک کاٹا۔۔

پارٹی رواں دواں تھی جب ہانیہ کو لگا کوئی اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔۔

رخ موڑ کے ہانیہ نے اس انسان کو دیکھا تو اسے لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی۔۔

ویٹر کی یونی فارم پہنے معظم ہانیہ کو عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا 

وہ حیرت یا غصے کی نظر نہیں تھی ہانیہ کو وہ نظریں بے چین کر گئی تھیں۔۔

کراچی کے مشہور ترین ہوٹل کے باہر کھڑا معظم نے ایک نظر ہوٹل کو دیکھا پھر اندر جانے کے راستے کو 

آج اگر اسے یہاں مینیجمنٹ میں جاب مل جاتی ہے تو وہ حرا کی جاب چھڑوا سکتا ہے اور مہرو کی شادی بھی کرواسکتا ہے۔۔

دل میں اچھے کی امید لیتے ہوئے وہ ہوٹل کے اندر داخل ہوا جہاں انٹرویو چل رہے تھے۔۔۔

قریب ایک گھنٹے انتظار کرنے کے بعد اسے پتہ چلا کہ جس پوسٹ کیلئے وہ جاب تھی وہ تو کسی کو مل چکی ہے 

افسوس کی بات یہ تھی کہ جس کو وہ جاب ملی وہ تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے تو کم تھا مگر سفارشی تعلقات کی بنا پر اسے نوکری مل گئی تھی۔۔

اور دوسری طرف اعلا تعلیمی کارکردگی والے اپنی فائلیں لے کر جانے لگے۔۔

معظم جانے ہی لگا تھا کہ اس نے وہاں کے مینیجر کو بولتے ہوئے سنا کہ ایک ویٹر آج چھٹی پر ہے اور آج بہت اونچے گھرانے کی تقریب ہے۔۔

کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے یہی سوچ کے معظم نے مینیجر سے بات کی اور ویٹر کی جگہ لے لی۔۔

تقریب شروع ہوئی تو معظم ویٹر کی یونیفارم پہنے وہاں پہنچا اسکی ڈیوٹی سب مہمانوں کو ویلکم ڈرنکس سرو کرنے کی تھی۔۔

مگر جیسے ہی مہمانوں کی آمد شروع ہوئی اسنے سب سے پہلے جسے دیکھا وہ فاخر تھا اسکی سابقی بیوی ہانیہ کا بھائی جو کہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ اندر داخل ہوا۔۔

پھر بہت سے مہمان آئے مگر معظم اسی سوچ میں تھا کہ یہ عام سے طبقے کے لوگ اس شاندار جگہ کس کی دعوت میں آئے

جہاں تک اسے پتہ تھا کہ ان کے خاندان میں کوئی اتنا امیرکبیر نہ تھا۔۔

ویلکم ڈرنک اسنے ہانیہ کے گھر والوں کو ساتھی ویٹر کے ذریعے ہہنچائی۔۔

مگر جب ہال میں اندھیرا ہوا اور اسپاٹ لائٹ میں دو افراد ایک بچی کو لئے داخل ہوئے ۔۔

وہ دیکھنے میں بہت خوبصورت کپل تھا جو کہ لوگوں سے گھرا ہوا تھا۔۔

وہ دو لوگ ایک بچی کو لئے اندر کی طرف آرہے تھے۔۔

معظم نے غور کیا لڑکی کا چہرا جانا پہچانا ہے مگر کام میں مصروفیت کی سبب وہ دیہان نہیں دے پارہا تھا۔۔

کیک جب لایا گیا تو معظم نے دیکھا تھا کہ ایسا کیک تو اسنے ساری زندگی نہیں دیکھا تھا 

امیر لوگوں کے تھاٹھ ۔۔ معظم نے دل میں سوچ کر سر جھٹکا۔۔

لیکن جب تمام لائٹس آن ہوئی تب تو مانو معظم کو لگا وہ اپنے جگہ سے ہل ہی نہ سکے گا۔۔

پریوں کی کہانی اسنے بچپن میں سنی تھی مگر جو انسان اسکے سامنے ذرا فاصلے پر تھا معظم کو اپنی آنکھوں پر کچھ پل کیلئے یقین نہ آیا۔۔

سامنے ہانیہ تھی شاکنگ پنک کلر کے پرنسس گاؤن پہنے اپنے دلکش سراپے میں وہ کوئی پری ہی لگ رہی تھی۔۔

جو لڑکی لان کے سادھے سے سوٹ میں اپنا پورا دن کچن کی گرمی میں خاموشی سے گزار دیا کرتی تھی وہ یہ لڑکی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔۔

یہ تو کوئی شہزادی تھی جو کہ اپنے شہزادے کی آغوش میں تھی۔۔

کیونکہ اس کے ساتھ جو آدمی تھا وہ مسلسل اسے کندھوں سے تھامے ہوئے ہی تھا جیسے وہ کوئی کانچ کی گڑیا ہو چھوڑے گا تو ٹوٹ جائے گی۔۔

جس لڑکی کو عام سا سمجھ کر اسنے چھوڑ دیا تھا وہ آج خاص سے بھی کچھ زیادہ لگ رہی تھی۔۔

اور یہ کیا وہ ایک بچی کو لئے یہاں آئی تھی یعنی یہ تقریب اسکی بیٹی کی سالگرہ کی تھی۔۔

جو لڑکی اتنا تڑپی تھی کہ اسے طلاق نہ دی جائے چاہے تو دوسری شادی کر لے کیا اسنے مجھ سے طلاق کے بعد ہی شادی کرلی تھی جو کہ اب اسکی ایک سال کی بیٹی کی ماں  تھی۔۔

بے یقینی تھی معظم کی آنکھوں میں اور ساتھ ساتھ طیش یعنی وہ سب جو وہ کہتی تھی کہ ساری زندگی میرے قدموں میں گزار دے گی اس نے ایک سال بھی اپنے الفاظوں کا بھرم نہ رکھا اور کرلی ایک ارب پتی سے شادی ۔۔

معظم کی نظریں ہانیہ پر ہی تھی جب ہانیہ نے اسکی طرف دیکھا 

ہانیہ کے چہرے پر واضح ڈر تھا بے یقینی تھی اسکی آنکھوں میں خوف تھا جو کہ معظم کی آنکھوں سے نہ چھپا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

کیا ہوا سن شائن تمہیں پسینہ کیوں آرہا ہے۔۔

ہانیہ کے ماتھے پر پسینہ دیکھ کے وجاہت نے فکرمندی سے اسے دیکھا۔۔

وجاہت کی آواز پر ہانیہ نے چونک کر نظریں بدلی اور اپنا رخ وجاہت کی طرف کیا جو اسے ہی فکرمندی سے دیکھ رہا تھا۔۔

کچھ نہیں بس تھوڑی سی گھبراہٹ ہورہی ہے۔۔

ہانیہ نے کن آنکھیوں سے اسی جانب دیکھ کے کہا جہاں اس نے معظم کو دیکھا تھا مگر وہاں اب کوئی ویٹر نہیں تھا۔۔

اپنا وہم سمجھ کے ہانیہ نے گہرا سانس لے کر دیکھا کہ وجاہت اسکے لئے اورنج جوس لے آیا تھا ۔۔

یہ پیو جلدی سے وجاہت نے اسے چئیر پر بٹھایا اور اسے اپنے ہاتھوں سے ہی جوس پلایا۔۔

یہ منظر کسی کی نظروں نے بہت غور سے دیکھا تھا۔۔

ٹھیک ہو اب ۔۔ وجاہت کو اسکی طبیعت ٹھیک نہ لگی۔۔

ہاں میں ٹھیک ہوں وہ بس اس ڈریس میں تھوڑی گھبراہٹ ہورہی ہے۔۔

جنوری کی ٹھنڈ میں تمہیں پسینے آرہے ہیں اور گھبراہٹ وہ کیوں ہورہی ہے۔۔

وجاہت ہانیہ سے کم اپنے آپ سے زیادہ بول رہا تھا۔۔

پھر عالیہ بیگم کے پاس گیا ۔۔ مام ہانیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی میں اسے یہاں سے لے کر جارہا ہوں۔۔

یہ تم کیا کہہ رہے ہو وجاہت یہ سب لوگ تم لوگوں کیلئے یہاں ہیں۔۔

ہانی کو تھکن محسوس ہورہی ہوگی تم ایک کام کرو اسے کسی روم میں لے جاؤ تھوڑا ریسٹ کرے گی تو ٹھیک ہوجائے گی 

عالیہ بیگم کے کہنے پر اس نے سر ہاں میں ہلا کر ہانیہ کو ساتھ لیا اور مینیجر سے بات کرکے ایک روم بک کیا اور ہانیہ کو وہاں ریسٹ کرنے کا کہہ کر ڈاکٹر ناز کو لینے چل دیا جو کہ پارٹی میں مہمان کے طور پر آئی ہوئی تھیں۔۔

وجاہت اسے چھوڑ کر کمرا بند کرکے جاچکا تھا مگر ہانیہ کو یہاں بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔

معظم کو اس نے خود دیکھا تھا مگر وہ یہاں کیوں تھے 

ہانیہ اسی سوچ میں تھی کہ وجاہت 5 منٹ میں ہی ڈاکٹر ناز کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔۔

ہانیہ ڈئیر کیا ہوا آپ کو۔۔

ڈاکٹر ناز میں اپنے شائستہ لہجے میں ہانیہ کی نبض چیک کرتے ہوئے پوچھا۔۔

کچھ نہیں بس گھبراہٹ ہورہی ہے تھوڑی۔۔

ہانیہ نے بظاہر مسکرا کے کہا مگر اسکی مسکراہٹ جھوٹی تھی۔۔

ینگ مین تم نے تو ڈرا ہی دیا تھا ۔۔ ڈاکٹر ناز نے وجاہت کو دیکھ کے کہا 

وجاہت نے مجھ سے کہا کہ جلدی چلیں ہانیہ کی طبیعت بہت خراب ہے میں تو واقعی ڈر گئی کہ اچانک سے کیا ہوا ابھی تو میں نے ٹھیک دیکھا تھا بلکل۔۔

ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے ہانیہ کو بتایا۔۔

ہاں تو یہ پریشانی کی بات نہیں ہے کیا اتنی ٹھنڈ میں ہانیہ کو پسینے آرہے ہیں اور چہرا دیکھیں اسکا ایک دم بجھا ہوا ہے۔۔

وجاہت نے ڈاکٹر سے کہا تو ڈاکٹر اور ہانیہ دونوں مسکرا دی۔۔

ینگ مین ایسا ہوجاتا ہے تم خود تو پریشان ہوتے ہی ہو ساتھ میں اسے بھی کرتے ہو کچھ نہیں ہے بلکل ٹھیک ہے ہانیہ۔ باہر تھوڑا کراؤڈ ہے اسی لئے گھبراہٹ ہورہی ہوگی ابھی تھوڑی دیر یہاں یہ ریسٹ کد لے بلکل ٹھیک ہو جائے گی۔۔

ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ باہر کافی رش ہے ہم یہیں رہتے ہیں۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا تو ڈاکٹر نے نفی میں سر ہلایا۔۔

وجاہت میرے ساتھ چلو اور ہانیہ کو آرام کرنے دو آدھے گھنٹے بعد اسے پھر سے باہر لے جانا 

مگر یہ اکیلے کیسے رہے گی وجاہت نے ڈاکٹر سے کہا۔۔

رہ لے گی تم دونوں ہی اگر پارٹی میں موجود نہیں رہوگے تو اچھا نہیں لگے گا۔۔

ٹھیک ہے سن شائن یہ موبائل رکھو میرا اور اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو نیلم یہ ہادی کے نمبر پر کال کر دینا ٹھیک ہے۔۔

ڈاکٹر کی بات مانتے ہوئے وجاہت ہانیہ کو آرام کرنے کا کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔۔

وجاہت کے جانے کے 10 منٹ بعد دروازے پر دستک ہوئی تو ہانیہ مسکرا دی۔۔

دیکھ لو بے بی تمہارے پاپا 10 منٹ بھی مجھ سے دور نہیں رہ سکتے۔۔

دل ہی دل میں بولتے ہوئے ہانیہ نے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کے وہ مانو پتھر کی ہوگئی کیونکہ سامنے معظم تھا۔۔

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔

ہانیہ نے ہمت کر کے سوال کیا لہجا وہ اپنا کوشش کے بعد بھی مضبوط نہیں رکھ پائی تھی۔۔

یہ دیکھنے آیا ہوں کہ جو لڑکی ساری زندگی میرے قدموں میں رہنے کیلئے تیار تھی وہ آج کیسے ایک بچی کی ماں کی صورت میرے سامنے کھڑی ہے۔۔

آپ سے مطلب میرا آپ سے کوئی واسطہ نہیں ہے میری زندگی میں جیسے چاہے گزاروں جس کے ساتھ چاہے گزاروں۔۔

ہانیہ نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔۔

اسکے اس جواب پر معظم کا قہقہہ فضا میں گونجا۔۔

ویسے پھنسایا تو تم نے بہت امیر آدمی ہے مجھے تو تم نے کبھی نہیں رجھایا تو یہ شہزادوں سا آدمی تمہیں کیسے ملا ۔۔

ہانیہ کو معظم کی باتوں سے گھن سی آنے لگی۔۔

چلے جائیں یہاں سے ورنہ میرے ہسبینڈ آپ کو جان سے مار دینگے۔۔

ہانیہ نے نم آنکھوں سے معظم کو ڈرانا چاہا۔۔

اندر تو آنے دو کیا ایسے ہی راستے میں کھڑا رکھو گی اپنے سابقہ شوہر کو۔۔

میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں ہے میرے شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اگر انہوں نے آپ کو ایسے مجھے تنگ کرتے ہوئے دیکھا تو آپ کی آنکھیں ہی نوچ لینگے۔۔

اپنے سے ہانیہ نے معظم کو باز رہنے کا کہا وہ جانتی تھی وجاہت کی عادت کو اور اسکی کار میں کہی گئی بات وہ بھولی نہیں تھی۔۔

شوہر کتنی ہی محبت کرنے والا کیوں نہ ہو مگر جب اسکا بھروسہ ٹوٹتا ہے نہ تو نفرت بھی وہ ہی سب سے زیادہ کرتا ہے۔۔

معظم نے یہ بات کیوں کہی ہانیہ کو سمجھ میں نہ آیا۔۔

ویسے میں تمہارے شوہر سے ملنا چاہو گا آخر اسے بھی تو پتہ چلنا چاہیئے اپنی موجودہ بیوی کا ماضی۔۔

معظم نے ہنستے ہوئے کہا۔۔

میں نے اپنے شوہر سے کچھ نہیں چھپایا سب کچھ جانتے ہیں وہ جھوٹ نہیں بولتی میں ۔۔

ہانیہ نے چلا کے کہا اور دروازہ بند کرنے لگی مگر معظم نے دروازہ پکڑ لیا۔۔

دھان پان سی ہو تمہیں لگتا ہے کہ تم میرے منہ پر دروازہ بند کر سکتی ہو۔۔

معظم کچھ اور کہتا اس سے پہلے ہی کسی نے اسے گردن سے دبوچ کے پیچھے کیا اور زور سے ایک مکا اسکے چہرے پر مارا۔۔

ہاتھ تھا یا ہتھوڑا معظم ایک ہاتھ کی مار سے ہی زمین پر گر گیا۔۔

وجاہت نے اسے گریبان سے پکڑ کے اٹھایا مگر ہانیہ نے وجاہت کو روک دیا یہ کہہ کر کہ یہ ویٹر تو صرف آرڈر لینے آیا تھا مگر وہ اسے دیکھ کے ڈر گئی تھی اسی لئے دروازہ بند کر رہی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

برو آپ کہاں چلے گئے تھے مسٹر ہمدان آپکا پوچھ رہے تھے۔۔

یہ مسٹر ہمدان تم سے ہی کیوں پوچھ رہے تھے۔۔

نیلم کے کہنے پر وجاہت کچھ کہتا اس سے پے ہی ہادی نے نیلم سے سوال کیا۔۔

میں وہیں تھیں تو انہوں نے مجھ سے ہی پوچھا نہ ۔۔

نیلم نے بغیر ہادی کی طرف دیکھ کے کہا۔۔

وہ میں ہانیہ کو روم میں لے کر گیا تھا۔۔ وجاہت نے آس پاس نظر دوڑا کے کہا۔۔

بھائی رومانس تم لوگ گھر جاکر بھی کر سکتے ہو ابھی تو مہمانوں سے بات چیت کرو جو تمہارے لئے ہی آئیں ہیں۔۔

ہادی کے شرارت سے کہنے پر وجاہت نے اسے گھورا۔ 

ہانیہ کو گھبراہٹ ہورہی تھی اسی لئے لے کر گیا تھا۔۔

وجاہت نے ہادی کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔۔

بھابھی ٹھیک تو ہیں نہ برو۔۔ نیلم نے پریشانی سے پوچھا۔۔

ہاں ٹھیک ہے میں زرا حور کو دیکھ رہا ہو دکھ ہی نہیں رہی۔۔

ارے بھائی حور کو مست ہوئی وی ہے دیکھ وہاں اپنے دادا دادی کے ساتھ ہی ہے۔۔

ہادی نے اسے اشارے سے حور کو دکھایا جو شان صاحب اور عالیہ بیگم کے ساتھ ہی تھی۔۔

ٹھیک ہے دس منٹ ہوچکے ہیں میں ذرا سن شائن کو دیکھ لو۔۔

وجاہت بولتے ہوئے جانے لگا مگر ہادی نے وجاہت کو ہانیہ کو سن شائن کہنے سن لیا۔۔

یہ سن شائن کون ہے بھئی۔۔ ہادی اچھے سے جانتا تھا وجاہت کس کو سن شائن کہہ رہا تھا مگر اسے چھیڑنے کیلئے بولا۔۔

تم سے مطلب اپنا کام کرو۔۔

وجاہت ہادی کو جواب دے کر ہانیہ کے پاس چل دیا۔۔

مگر وہ ابھی کاریڈور میں ہی تھا جب اسنے ہانیہ کی آواز سنی وہ کسی سے بات کر رہی تھی۔۔

لہجے میں نمی صاف واضح تھی۔۔

شوہر کتنی ہی محبت کرنے والا کیوں نہ ہو مگر جب اسکا بھروسہ ٹوٹتا ہے نہ تو نفرت بھی وہ ہی سب سے زیادہ کرتا ہے۔۔

وجاہت نے کسی مرد کی الفاظ سنے۔۔

ویسے میں تمہارے شوہر سے ملنا چاہو گا آخر اسے بھی تو پتہ چلنا چاہیئے اپنی موجودہ بیوی کا ماضی۔۔

یہ سن کے وجاہت کے جبڑے بھینچ گئے دماغ کی رگیں کنپٹی پر واضح ہونے لگی 

میں نے اپنے شوہر سے کچھ نہیں چھپایا سب کچھ جانتے ہیں وہ جھوٹ نہیں بولتی میں ۔۔

وجاہت نے دیکھا ہانیہ نے زور سے کہا اور دروازہ بند کرنے لگی جب اس شخص نے دروازے کو پکڑ لیا۔۔

اب وجاہت کو اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہوگیا۔۔

اس نے اس آدمی کو گردن سے دبوچا اور ایک زور دار مکا اسکے چہرے پر مارا۔۔

اس کی ہمت کیسے ہوئی اسکی بیوی پر نظر بھی اٹھانے کی 

آج وہ اسے جان سے بھی مار دیتا تو کوئی غم نہ تھا مگر یہ کیا

اسے کسی نے روکا وجاہت جو جلال کے عالم میں دوبارہ معظم کو گریبان سے پکڑ کر اٹھا رہا تھا 

کسی نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے روکا 

روکنے والی اسکی زندگی تھی جو آنسو لئے اسے روک رہی تھی پھر اس نے جھوٹ بھی کہا۔۔

وجاہت نے خود ساری باتیں سنی تھی مگر ہانیہ نے جھوٹ کہا۔۔

ایک جھٹکے سے اس آدمی کو وجاہت نے پھینکا جو کہ بے ہوش تھا 

وجاہت کے ایک ہاتھ کی مار سے ہی وہ ہوش کھو بیٹھا تھا۔۔

وجاہت نے سرخ ہوتی آنکھوں سے ہانیہ کو دیکھا جو وجاہت کے اس جلالی روپ کو دیکھ کے تھر تھر کانپ رہی تھی 

سب سے خطرناک ہانیہ کو وجاہت کی لہو کی مانند آنکھیں لگیں۔۔

وجاہت نے بغیر ہانیہ کے ڈر کی فکر کئے اسکی کلائی کو پکڑا اور اپنے ساتھ لے جانے لگا۔۔

بغیر کسی کو بتائے وہ ہانیہ کو لئے ہوٹل سے گھر لے گیا۔۔

وجاہت ہانیہ کو لئے ہوٹل سے نکلا اور اسے گاڑی میں بٹھا کر گھر کیلئے روانہ ہوگیا۔۔

راستے میں ہانیہ نے وجاہت کو دیکھا جو ایک نظر بھی ہانیہ کو نہیں دیکھ رہا تھا۔۔

چہرا اسکا ایک دم سپاٹ تھا جسے سامنے والا دیکھ کے اندازہ نہ لگا پائے کہ اسکے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے۔۔

دوسری طرف سبھی گھر والے وجاہت اور ہانیہ کو ہوٹل میں نہ پاکر پریشان ہورہے تھے 

وجاہت کا موبائل اسی روم میں تھا جو اسنے ہانیہ کیلئے لیا تھا۔۔

اور ہانیہ کا موبائل نیلم کے پرس میں تھا۔۔

پھر ریسیپشن سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وجاہت عالم اپنی وائف کا ہاتھ پکڑے باہر لے کر گئے تھے۔۔

سب نے جیسے تیسے کر کے مہمانوں کو الوداع کیا اور پھر وہ لوگ بھی گھر کیلئے روانہ ہوئے۔۔

چونکہ وجاہت اور ہانیہ سے کوئی رابطہ نہیں تھا تو سبھی ان کے لئے پریشان تھے۔۔

کہ کہیں ہانیہ کی سچ میں طبیعت خراب نہ ہوگئی ہو کیونکہ وجاہت نے اپنی مام سے کہا تھا کہ اسے ہانیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔

اس طرف ہانیہ کا وجاہت کو دیکھ دیکھ کے دل گھبرا رہا تھا کیونکہ ایک تو وہ خاموش تھا دوسرا وہ گاڑی گھر کے راستے کے بجائے نہ جانے کن راستوں پر لے جارہا تھا۔۔

ہم کہاں جارہے ہیں۔۔؟؟

کوئی تیسری بار ہانیہ نے وجاہت سے سوال کیا مگر وجاہت نے کوئی جواب نہ دیا۔۔

گاڑی کی رفتار کافی تیز تھی اور راستہ کافی سنسان تھا روڈ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔۔

پلیز بتائیں نہ وجاہت ہم کہاں جارہے ہیں 

ہانیہ نے اب کے بار وجاہت کو کندھا پکڑ کے اسے کہا۔۔

تم جان کر کیا کروگی؟؟

سپاٹ لہجے میں جواب آیا۔۔

مجھے جاننا ہے اتنی رات کو آپ مجھے وہاں سے لے آئے اور اب ہم کہاں جارہے ہیں۔۔

ہانیہ نے سنسان علاقے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

ڈر لگ رہا ہے؟

وجاہت نے ایک نظر ہانیہ کو دیکھ کے کہا تو ہانیہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔

اسی وقت ایک طنزیہ مسکراہٹ وجاہت کے لبوں پر آئی۔۔

بھروسہ نہیں ہے مجھ پہ؟

ایک اور سوال کر کے وجاہت نے ہانیہ کو بغور دیکھا 

آپ پر خود سے زیادہ بھروسہ ہے خود پر نہیں ہے۔۔

ہانیہ نے اپنی غیر ہوتی حالت محسوس کر کے کہا۔۔

بے فکر رہو کچھ نہیں کرونگا تمہارے ساتھ بلکہ میں تو۔۔۔۔

اتنے میں وجاہت کچھ اور کہتا اس سے پہلے ہی ایک کار تیزی سے سامنے سے آئی جسکی ہیڈ لائٹ کی روشنی سے وجاہت اور ہانیہ کی نظریں ایک دم چھندھیاں گئیں۔۔

وجاہت نے بر وقت اسٹئیرنگ سیدھے ہاتھ کی طرف موڑا مگر گاڑی بروقت اپنا راستہ نہیں بدل پائی اور سامنے والی گاڑی سے جا ٹکرائی۔۔

وجاہت!!!!  ایک نسوانی چیخ تھی جو اس جگہ گونجی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

آخر گئے کہاں یہ لوگ ہادی مسلسل موبائل پر مصروف کسی نہ کسی سے بات کر رہا تھا۔۔

گھر وہ لوگ آچکے تھے مگر وجاہت اور ہانیہ گھر پر نہیں تھے۔۔

پھر ہادی نے ہٹ کے کئیر ٹیکر کریم سے پوچھا تو وہ لوگ ہٹ بھی نہیں گئے تھے 

ہادی نے اپنے فارم ہاؤس کے بارے میں پتہ کیا تو گارڈ نے بتایا کہ وہاں بھی انکی فیملی سے کوئی نہیں گیا تھا۔۔

اب تو سب لوگوں کو واقعی وجاہت اور ہانیہ کی فکر ہورہی تھی۔۔

ہادی اور شان صاحب اپنے اپنے طور پر وجاہت اور ہانیہ کا پتہ کروا رہے تھے۔۔

نیلم کو حور کو لئے اسکے کمرے میں بھیج دیا تھا اب عالیہ بیگم اور دادو دل ہی دل میں اپنے بچوں کیلئے دعاگو تھے۔۔

اب تو انہیں گئے تقریباً چار گھنٹے ہونے کو تھے مگر ان لوگوں کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔۔

رات کے تین بجے بھی سب گھر والے لاؤنج میں بیٹھے تھے۔۔

پولیس کو اطلاع کردی گئی تھی وہ وجاہت اور ہانیہ کی تلاش جاری تھی۔۔

وجاہت پہلے بھی ایسے قدم اٹھا چکا تھا کہ ہانیہ کو بغیر کسی سے پوچھے ہی کہیں لے گیا۔۔

مگر ایسی غیر ذمیداری آج تک نہیں نبھائی تھی اس نے وہ جہاں جاتا تھا بتا کے جاتا تھا اور اپنا فون وہ کبھی بند نہیں کرتا تھا۔۔

اب تو سرے سے ہی اس کے پاس فون نہیں تھا۔۔

سب اسی ٹینشن میں تھے کہ گھر کے لینڈ لائن پر رنگ ہوئی۔۔

ہادی نے فوراً میں فون اٹھایا۔۔

جی کہیئے۔۔ ہاں یہ عالم ولا ہی ہے۔۔

جی ہاں ۔۔ جی جی ۔۔۔ کیا!!!! 

کب ۔۔ کیسے ۔۔ کہاں۔۔ کونسے ہاسپٹل میں ۔۔

ٹھیک ہے 

ہادی فون پر بات کر رہا تھا اور سب کا دل خوف کے مارے لرز رہا تھا ہاسپٹل کا سن کر۔۔

کیا ہوا کون تھا۔۔ شان صاحب نے ہادی کا اڑا ہوا رنگ دیکھ کے پوچھا۔۔

ہاسپٹل سے کال تھی وجی کی کار کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔۔

ہادی نے کس تکلیف سے وہ الفاظ ادا کئے وہ ہی جانتا تھا۔۔

کیا!!  کہاں ہیں میرے بچے عالیہ بیگم تڑپ کر ہادی سے پوچھنے لگی۔۔

ہمیں چلنا چاہئے۔۔

ہادی نے کوئی جواب نہ دیا اور گھر سے باہر چل دیا 

جبکہ شان صاحب اور عالیہ بیگم بھی اس کے ساتھ ہی گھر سے باہر کی طرف بڑھے۔۔

نیلم اور دادو وہیں گھر پر ہی رہے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

مسٹر ہادی وجاہت عالم اور انکی وائف کو کچھ گھنٹے پہلے یہاں لایا گیا تھا

وجاہت عالم چونکہ ایک ملٹی میلنیئر ہیں تو کون انہیں نہیں جانتا ہاں البتہ ان کے ساتھ ان کی وائف اور جس کی کار کے ساتھ انکا ایکسیڈینٹ ہوا  وہ آدمی بھی یہیں موجود ہے۔۔

کیا وجاہت اور اسکی وائف ٹھیک ہے۔۔؟؟

ہادی نے ڈاکٹر سے سوال کیا۔۔

وہ لوگ ابھی ہاسپٹل پہنچے تھے تو ہادی نے آئی سی یو سے نکلتی ہوی  ڈاکٹر سے سوال کئے۔۔

مسٹر وجاہت کو تھوڑے زخم آئے ہیں وہ انڈر آبزرویشن ہیں۔۔ اور مسز وجاہت کو زیادہ چوٹ ان کے سر پر آئی ہے

سیٹ بیلٹ کی وجہ سے انہیں زیادہ چوٹیں نہیں آئی ہاں سر گاڑی کے شیشے سے ٹکرایا ہے جسکی وجہ سے سر سے کافی خون بہا ہے۔۔

انہیں ڈاکٹرز چیک کر رہے ہیں ابھی کوئی ریپورٹ ان کے حوالے سے سامنے نہیں آئی ہے۔۔

ڈاکٹر نے تفصیل سے سب بتایا۔۔

ڈاکٹر میری بہو ایکسپیکٹ کر رہی ہے کیا اسکا ہونے والا بچہ ٹھیک ہے۔۔

عالیہ بیگم نے روتے ہوئے سوال کیا۔۔

دیکھیں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ڈاکٹرز ابھی انکا معائنہ کر رہی ہیں جیسے ہی مجھے کوئی ریپورٹ ملے گی میں آپ کو انفارم کردوں گی۔۔

ڈاکٹر کہہ کر رکی نہیں 

ہادی نے عالیہ بیگم کو سمبھالا جنکے آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے

دوسری طرف شان صاحب بھی اپنا سر تھامے آئی سی یو کے باہر رکھی بینچ پر بیٹھ گئے

تھوڑی دیر بعد وہی ڈاکٹر آئیں 

مسٹر وجاہت کو ہوش آگیا ہے ہم انہیں روم میں شفٹ کر رہے ہیں۔۔

اور میری بہو عالیہ بیگم نے ہانیہ کے متعلق سوال کیا۔۔

وہ ٹھیک ہیں انکا بچہ بھی ٹھیک ہے پر ابھی وہ بے ہوش ہیں جب تک انہیں ہوش نہیں آجاتا وہ انڈر آبزرویشن رہیں گی اور تب تک کوئی ان سے مل نہیں سکتا۔۔

ڈاکٹر سے بات کرنے کے بعد وہ لوگ وجاہت کے روم میں گئے 

وجاہت کو روم میں منتقل کر دیا گیا تو ہادی شان صاحب اور عالیہ بیگم اس سے ملنے گئے۔۔

وجاہت اس وقف نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔۔

کیسے ہو بیٹا ۔۔ عالیہ بیگم اور شان صاحب نے وجاہت سے سوال کیا۔۔

میں ٹھیک ہوں مگر میں یہاں میں تو ہانیہ کے ساتھ ۔۔۔۔

سوچتے ہی وجاہت کو ہانیہ کا خیال آیا۔۔

ڈیڈ ہانیہ کہاں ہے۔۔ مام۔۔

وجاہت نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے اپنے مام ڈیڈ سے سوال کیا۔۔

بیٹا وہ ٹھیک ہے تم آرام کرو۔۔ عالیہ بیگم نے اپنی سی تسلی دی تھی وجاہت کو۔۔

اور میرا بے بی ۔۔ بولتے ہوئے وجاہت کے چہرے پر الگ ہی ڈر کا تاثر تھا۔۔

وہ بھی ٹھیک ہے ۔۔ عالیہ بیگم کے الفاظ سنتے ہی وجاہت کو ایسا لگا جیسے اسکی اٹکی ہوئی سانس واپس چلنے لگی ہو۔۔

وجاہت اور ہانیہ کی آنکھوں پر اچانک سے تیز روشنی پڑی تھی۔۔

سامنے سے آتی کار جو کہ بہت تیزی سے آرہی تھی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔

وجاہت نے بروقت اپنی کار موڑی مگر کار کی پچھلی سمٹ سامنے سے آتی کار نے ان کی کار کو ٹکر ماری۔۔

کاروں کی اسپیڈ تیز تھی تو جھٹکا بھی تیز ہی لگا وجاہت نے اپنی پرواہ کئے بغیر ہانیہ کو پکڑنا چاہا مگر اسکا سر بری طرح سے کار کے شیشے سے ٹکرایا تھا 

شیشہ ٹوٹا تھا اور ہانیہ نے سر سے خون بہہ رہا تھا۔۔

زخم وجاہت کو بھی کئی آئے تھے مگر آخری نظر اسنے ہانیہ کو ہی دیکھا تھا جو ہوش و خرو سے بیگانہ ہوچکی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

مام مجھے ہانیہ سے ملنا ہے کہاں ہے وہ۔۔؟

وجاہت نے کینولا اپنے ہاتھ سے کھینچ کر نکالا عالیہ بیگم حیرت اور بے یقینی سے وجاہت کو دیکھ رہی تھیں۔۔

نہیں وجاہت وہ ڈاکٹر کی آبزرویشن میں ہے کسی کو بھی اس سے ملنے کی فلحال اجازت نہیں۔۔

عالیہ بیگم نے وجاہت کے ہاتھ کو دیکھ کے کہا جہاں سے خون نکل رہا تھا۔۔

مجھے کچھ نہیں پتہ میں ابھی اس کے پاس جاؤنگا۔۔

بولتے ہوئے وجاہت اٹھا اور اپنے روم سے باہر نکلا۔۔

آئی سی یو کے باہر اس نے ایک نرس کو دیکھ کے پوچھا ہانیہ کے بارے میں۔۔

دیکھیں آپ کی مسز ٹھیک ہیں مگر ابھی کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہے جب تک انہیں ہوش نہیں آجاتا۔۔

وجاہت نے نرس کو گھورا جیسے کہہ رہا ہو تمہاری ہی تو سنو گا۔۔

اور پھر وہ بغیر نرس کی آوازوں کی پرواہ کئے آئی سی یو میں گھس گیا 

ہانیہ بے ہوشی کی حالت میں آس پاس سے انجان بیڈ پر لیٹی تھی۔۔

وجاہت اسکے پاس گیا اور اسکے سر پر ہاتھ رکھا جس پر بینڈیج باندھی گئی تھی۔۔۔

سن شائن اٹھ جاؤ یار کتنا آرام کروگی 

وجاہت نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔۔

نرس ڈاکٹر کو بلا لائی تھی مگر اندر آکر جب ڈاکٹر نے وجاہت کو دیکھا تو نرس کو خاموش رہنے کا کہا۔۔

وجاہت ہانیہ کا ہاتھ تھامے اسکا چہرا غور سے دیکھ رہا تھا۔۔

ڈاکٹر نے وجاہت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔

ینگ مین تمہارے وائف ٹھیک ہے بس انجیکشن کے زیر اثر سورہی ہے جیسے ہی اسے ہوش آئے گا ہم تمہیں اس سے ملنے دیں گے 

وجاہت نے بے بسی سے ڈاکٹر کو دیکھا۔۔

ابھی کیلئے تمہیں بھی آرام کرنا کرنا چاہئیے اور اپنی وائف کو بھی ریسٹ کرنے دو۔۔

ڈاکٹر کی بات پر وجاہت ہار مانتے ہوئے اٹھا اور ایک بار ہانیہ کو دیکھ کر چل دیا

ڈاکٹر نے نرس کو وجاہت کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا 

اپنے روم میں آکر وجاہت اپنے بیڈ پر تھکے ہوئے انداز میں بیٹھ گیا

عالیہ بیگم نے اسے کچھ نہیں کہا خاموشی سے صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھی رہیں۔۔

نرس وجاہت کو پھر سے ڈرپ لگا کر چلی گئی مگر وجاہت جیسے کسی گہری سوچ میں تھا۔۔

ہانیہ کے الفاظ اس نے سنے تھے کاریڈور میں وہ تو اس آدمی کو الٹا سنا رہی تھی 

آخری بات جو اس نے کہی تھی وہ یہ تھی کہ اسنے اپنے شوہر سے کچھ نہیں چھپایا 

سچ ہی تو کہہ رہی تھی وہ آج تک اس نے کچھ نہیں چھپایا تھا وجاہت سے 

وجاہت کیلئے ہانیہ کی زندگی ایک کھلی کتاب ہی تو تھی 

پھر کیوں میں نے ایسے ری ایکٹ کیا 

اپنے روم کی کھڑکی سے نظر آتے چاند پر وجاہت کی نظریں ٹکی تھیں۔۔

ہاں سن شائن نے اسے روکا تھا وہ بھی جھوٹ بول کر وہ اس آدمی کو بچانا چاہ رہی تھی مگر کیوں۔۔

کون تھا وہ شخص اور ہانیہ کو کیوں وہ سب کہہ رہا تھا۔۔

وجاہت کو اسی بات کا جواب چاہیے تھا اسی لئے وہ ہانیہ کو غصے سے وہاں سے لے کر گیا 

وہ اسے لئے پتہ نہیں کن راستوں پر گاڑی چلائے جارہا تھا

اپنے اضطراب کی حالت میں وہ ہانیہ سے بات نہیں کر سکتا تھا

اپنے غصے کو وہ اچھے سے جانتا تھا سوچا کہ جب دماغ تھوڑا ٹھنڈا ہوگا تو کسی اچھی سی جگہ پر ہانیہ سے بات کرے گا 

مگر اس جگہ کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا

چاند سے نظر ہٹا کے اس نے ایک نظر ہاسپٹل کے اس روم کو دیکھا۔۔

اگر اسکی سن شائن کو کچھ ہوجاتا یا پھر ان کے بچے کو یہ سوچ آتے ہی وجاہت نے زور سے اپنی آنکھیں میچ لیں 

عالیہ بیگم بہت غور سے اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہی تھیں۔۔

مام،

وجاہت نے اپنی ماں کو آواز دی تو عالیہ بیگم اٹھ کر اسکے پاس والی چئیر پر بیٹھ گئیں۔۔

بولو۔۔ عالیہ بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔

حور کہاں ہے؟ اگلا خیال وجاہت کو اپنی بیٹی کو آیا پتہ نہیں کیوں وہ ہانیہ کے معاملے میں اتنا ایکسٹریم ہوتا جارہا تھا کہ گھر والوں کے ساتھ ساتھ وہ حور کو بھی نظر انداز کردیا کرتا تھا

اپنی اسی بیٹی کو جس کی وجہ سے ہانیہ اسکی زندگی میں آئی تھی 

حور ٹھیک ہے نیلم اسے سنبھال لے گی تم ٹینشن مت لو اسکی۔۔

عالیہ بیگم وجاہت سے تھوڑا ناراض تھیں مگر اسکی حالت دیکھ کر اسکے لئے فکرمند بھی تھیں اسی لئے اسے مختصر جواب دے رہی تھیں۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

نیلم حور کو ناشتہ کروا رہی تھی مگر حور کے آج کچھ زیادہ ہی نخرے ہورہے تھے۔۔

حور چندا جلدی سے یہ کھاؤ نیلم نے سیریل سے بھرا اسپون حور کی طرف بڑھایا مگر حور نے اپنا منہ پھیر لیا۔۔

نی ماما۔۔ وہ کب سے ایک ہی بات کی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ اسے ماما چاہئے۔۔

نیلم نے کافی کوشش کی مگر حور نے ایک نوالہ بھی منہ میں نہیں لیا۔۔

تھک ہار کر نیلم اپنا سر ہاتھوں میں لئے وہیں فلور کشن پر ہی بیٹھ گئی 

حور اپنے ارد گرد ڈھیر سارے کھلونوں کو الٹ پلٹ کر رہی تھی۔۔

وہ ضد نہیں کرتی تھی مگر تھی تو بچی جس نے ان تین دنوں میں اپنی ماما کو دیکھا تک نہیں تھا۔۔

تم سے ایک بچی سنبھالی نہیں جارہی ہمارے 4 بچوں کو کیسے سنبھالو گی۔۔

ہادی نے شرارت سے کہا وہ بھی صرف نیلم کا دیہان بھٹکانے کیلئے ۔۔

کوئی اور وقت ہوتا تو ہادی کی اس بات پر نیلم سرخ ہوچکی ہوتی مگر اس وقت اسنے بس خالی نظروں سے ہادی کو دیکھا۔۔

کیا ہوگیا پرنسس ؟ ہادی نے اسکے اداس چہرے کو دیکھ کے کہا۔۔

ہادی کیا میرے بھائی کو خوشیاں راز نہیں ہیں وہ جب جب خوش ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی غم انکی خوشی مانند کردیتا ہے۔۔

ایسا کیوں کہہ رہی ہو سب کچھ ٹھیک ہے ہانیہ بھی ٹھیک ہے اور اسکا بے بی بھی ہادی نے نیلم کا گال تھام کے کہا۔۔

مگر برو ٹھیک نہیں ہیں ہادی تم نے دیکھا تین دن سے وہ ہانی بھابھی کے ساتھ ہیں مگر کچھ بولتے ہی نہیں ہیں۔۔

وجی پریشان ہے پرنسس بس ہانی بھابھی آج شام تک گھر آجائیں گی دیکھنا کچھ ہی دن میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔

ہادی نے اسے پیار سے سمجھایا۔۔ وعدہ کرو۔۔

نیلم نے ہادی کا ہاتھ جو اسکے گالوں پر تھا اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا۔۔

وعدہ کرتا ہوں۔۔ ہادی نے نیلم کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔۔

اب ہٹو زرا میں تمہیں اپنا ٹیلنٹ دکھاتا ہوں 

ہادی نے اپنے ہاتھ نیلم کی گرفت سے چھڑوا کر حور کو اپنے سامنے بٹھایا اور اسے کھیل میں اور باتوں میں لگا کر واقعی اس نے اسے کھانا کھلا دیا۔۔

نیلم حیرت سے بس دیکھتی ہی رہ گئی۔۔

یہ کیسے کیا۔۔ نیلم کا حیرت زرہ چہرہ دیکھ کے ہادی شرارت سے مسکرا دیا۔۔

کیا کروں اپنے چار بچوں کو سنبھالنا ہے تو اتنا تو ابھی سے سیکھ ہی چکا ہوں تم بے فکر رہو تم آرام کرنا بس میں اپنے بچوں کو سنبھال لونگا۔۔

ہادی کی باتوں کو سن کے نیلم نے اپنا رخ موڑ لیا جیسے اسنے کچھ سنا ہی نہ ہو اور ہادی بس اسے دیکھے گیا۔۔

محبت سے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

یہ سب کیا ہے معظم یہ چوٹیں کیسے آئی تمہیں۔۔

معظم گھر میں داخل ہی ہوا تھا کہ فرزانہ نے اسے دیکھ کر سوالات شروع کردئے۔۔

کچھ نہیں ہوا اماں بس کسی سے جھگڑا ہوگیا تھا۔۔

بولتے ہوئے وہ بغیر اپنی ماں کی اگلی بات سنے اپنے روم میں گیا اور دروازہ اندر سے بند کرلیا۔۔

نظروں کے سامنے بار بار ہانیہ کا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ آرہا تھا۔۔

اور پھر اسنے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا اسکے گال پر آنکھوں سے زرا نیچے نیل پڑا ہوا تھا 

جیسے ہی اسنے اس نیل کو چھوا کراہ کر ہاتھ دوبارہ نیچے کرلیا۔۔

اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اسکے گال کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو ۔۔

یہ تم نے اچھا نہیں کیا ہانیہ تمہیں اس کا حساب دینا ہوگا 

بہت اکڑ سے کہہ رہی تھی نہ کہ میرا شوہر مجھ سے محبت کرتا ہے تو اسی محبت کو تم سے چھین لونگا میں۔۔

معظم نے آئینے میں خود کو دیکھ کے کہا اب اسے بس ہانیہ کے اس شوہر سے ملنا ہے جس نے اسے یہ زخم دیا۔۔

بدلے میں اسے بھی تو الفاظوں کے زخم دینے ہیں جو کہ ہاتھ کے زخم سے کئی زیادہ خطرناک اور دیرپا اثر کرنے والے ہوتے ہیں۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

تم ٹھیک ہو۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے کہا 

ہانیہ نے ایک نظر وجاہت کو دیکھا پھر رخ موڑ کر صرف ہمم کہا۔۔

ناراض ہو مجھ سے۔۔

وجاہت نے اب کے اسکا چہرا تھام کے اسکا رخ اپنی طرف کرکے کہا۔۔

کتنی محبت کرنے والا تھا یہ شخص جو کہ خود بھی زخمی ہونے کے با وجود تین دن سے ہانیہ کے پاس سے ہلا بھی نہیں تھا۔۔

ایکسیڈنٹ کے 32 گھنٹے بعد کہیں جاکر ہانیہ کو ہوش آیا تھا ڈاکٹر نے اسے سب سے پہلی بات یہی بتائی تھی کہ اسکا ہسبینڈ اسکے کیلئے کتنا پریشان رہا ہے۔۔

وجاہت کو یوں اسے تکتا ہوا پاکر ہانیہ نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھا۔۔

جب اتنی محبت ہے مجھ سے تو پھر اعتبار بھی تو کرتے 

ہانیہ نے وجاہت کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

سن شائن میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا نہ کچھ پوچھا نہ کوئی سوال کیا۔۔

وجاہت نے بے یقینی سے ہانیہ کا ناراض چہرا دیکھ کے کہا۔۔

اگر آپ کے غصے کی وجہ سے ہمارے بچے کو کچھ ہوجاتا تو۔۔

ہانیہ کی آنکھیں نم ہونے لگی وجاہت نے بھی ہانیہ سے نظریں چرا کے گہرا سانس لیا۔۔

مجھے بلکل احساس نہیں تھا ایسا سب ہوجائے گا معاف کردو مجھے 

بولتے ہوئے وجاہت ہانیہ نے پاس سے اٹھنے لگا مگر ہانیہ نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔

وجاہت ایک نظر اپنے ہاتھ کو دیکھا جسے ہانیہ نے تھاما ہوا تھا پھر اپنے ہاتھ کو چھڑانے لگا۔۔

تم سکون سے آرام کرو میں بس ابھی آیا۔۔ وجاہت نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر ہانیہ نے دوسرے ہاتھ سے بھی وجاہت کا ہاتھ تھام لیا۔۔

میرا سکون تو آپ ہیں آپ کے بغیر کیسا سکون کیسا آرام ۔۔

ہانیہ نے بھرائی آواز میں کہا۔۔

وجاہت نے واپس اسکے پاس بیٹھ کر اسکے ہاتھوں کو لبوں سے لگا لیا۔۔

آئی ایم رئیلی سوری۔۔ مجھے نہیں پتہ میں کیوں ایسا ہوتا جارہا ہوں 

تمہاری محبت میں میں الگ ہی انسان بنتا جارہا ہوں اتنا ایکسٹریم میں کبھی نہیں تھا مگر تمہارے معاملے میں میں بے بس ہوجاتا ہوں۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے ہاتھوں پر نظریں جمائے کہا۔۔

ہانیہ کچھ کہتی اس سے پہلے ہی شان صاحب نے دروازہ ناک کیا۔۔

پھر دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئے۔۔

وجاہت ہانیہ کے ڈسچارج پیپرز ریڈی ہیں تم ایک بار ڈاکٹر سے ہانی کا چیک اپ کروا لو پھر اسے گھر لے کر چلتے ہیں۔۔

شان صاحب نے وجاہت سے کہا اور ہانیہ کے سر پر ہاتھ پھیر کر شفقت سے اس سے اسکی خیریت دریافت کی 

کیسی ہو بیٹا۔۔

میں ٹھیک ہوں ڈیڈ۔۔ ہانیہ نے مسکرا کے شان صاحب کو جواب دیا۔۔

تو شان صاحب مسکرا کے کمرے سے چلے گئے۔۔

میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتا ہوں وجاہت بھی بولتے ہوئے کمرے سے باہر گیا۔۔

ڈاکٹر آئیں ہانیہ کا چیک اپ کیا پھر وجاہت کے ساتھ وہ اپنے آفس میں آئیں اور اس سے ہانیہ کے متعق بات کرنے لگیں۔۔

مسٹر وجاہت آپکی وائف اب بلکل ٹھیک ہیں آپ انہیں گھر لے جاسکتے ہیں مگر ایک بات کا خیال رکھیئے گا انہیں کسی بھی طرح کا انٹرنل پین ہو آپ انہیں فوراً ہاسپٹل لے کر آئیں گے۔۔

انہیں دو دن ایکسٹرا یہاں رکھنے کا مقصد یہی تھا کہ بظاہر تو کوئی انکی باڈی پر انجری نہیں ہے مگر انٹرنل کوئی پرابلم نہ ہو۔۔

 ان کے سارے ٹیسٹ کلئیر ہیں مگر میں پھر بھی کہوں گی کہ آپ محتاط رہئے گا کبھی کبھی مائنر سی پرابلم بھی انسان کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔۔

ڈاکٹر نے وجاہت سے صاف گوئی سے بات کی 

ٹھیک ہے ڈاکٹر میں خیال رکھوں گا۔۔

وجاہت ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرتا انکے آفس سے نکلا 

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت ہانیہ کو لئے عالم ولا میں داخل ہوا تو گھر میں اپنی ماں کو دیکھتے ہی حور جلدی سے ہانیہ کے پیر سے لپٹ گئی۔۔

ہانیہ نے حور کو نم آنکھوں سے دیکھا۔۔

وہ اسے اٹھانے کیلئے جھکنے لگی کہ دادو نے اسے روک دیا۔۔

ہانی میری جان جھکو نہیں پھر دادو نے وجاہت کو اشارہ کیا کہ وہ حور کو گود میں لے لے۔۔

وجاہت نے حور کو گود میں لے کر اسے پیار کیا اور اسے پکڑے ہی ہانیہ کی طرف بڑھایا۔۔

ہانیہ نے اپنی جان کو سینے سے لگا لیا حور بھی ہانیہ سے چپک گئی۔۔

وجاہت نے حور کو پکڑا ہوا تھا تو اسنے حور کو ہانیہ سے الگ کیا اور عالیہ بیگم نے ہانیہ کو اندر آنے کا کہا۔۔

وجاہت حور اور ہانیہ کو لئے اپنے روم میں آگیا 

ہانیہ بیڈ پر بیٹھی تو حور وجاہت کی گود سے اتر کر ہانیہ کے پاس چلی گئی

ماما ماما بولتے ہوئے وہ ایک بار پھر ہانیہ سے لپٹ گئی۔۔

وجاہت نے مسکرا کر حور کو دیکھا 

ہانیہ نے حور کو پیار سے دیکھا۔۔ 

میری جان ماما کو مس کر رہی تھیں آپ۔۔

ہانیہ نے حور کو دیکھ کے کہا تو حور نے سر اثبات میں ہلا دیا۔۔

اسکے زور زور سے سر ہلانے پر ہانیہ اور وجاہت دونوں ہنسنے لگے۔۔

ہانیہ کو آرام کرنے تاکید کر کے وجاہت روم سے نکلا ابھی اسے بہت سے کام تھے سب سے پہلا اس ذلیل شخص کا پتہ کرنا تھا جسکی وجہ سے اس نے ہانیہ کو اتنی تکلیف میں دیکھا۔۔

وجاہت اپنے آفس میں بیٹھا اسی سوچ میں تھا کہ وہ کون شخص تھا اور کیا چاہتا تھا ہانیہ سے۔۔

اسکی سن شائن کی آنکھوں میں اس ذلیل شخص کی وجہ سے آنسو آئے تھے اتنی آسانی سے اسے چھوڑا نہیں جاسکتا۔۔

سوچتے سوچتے ہی وجاہت کا ایول موڈ آن ہوچکا تھا آنکھیں سرخ ہوچکی تھی۔۔

کچھ بھی کر کے مجھے اس شخص کا پتہ لگانا پڑے گا۔۔

وجاہت نے اپنی سوچ پر حتمی فیصلہ لیا اور فون اٹھا کر کسی کو کال کرنے لگا۔۔

وعلیکم السلام۔۔ ہاں اصغر ایک آدمی کے بارے میں پتہ کرنا ہے کہاں رہتا ہے کیا کرتا ہے اور اس وقت کہاں ہے تم مجھے سب بتاؤ گے 

وجاہت نے اس آدمی کے متعلق اپنے خاص آدمی اصغر کو بتایا اور اپنی سوچ کا مرکز اب اسنے اپنے کام کو بنایا۔۔

کچھ گھنٹے کام میں مصروف رہنے کے باوجود وہ ہر گھنٹے گھر پر فون کرتا رہا تھا 

کام کتنا بھی کیوں نہ ہو اسکی سن شائن سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔۔

وہ ہر گھنٹے اسکی خیریت گھر کے کسی نہ کسی فرد سے لے رہا تھا۔۔

پھر جب شام کے 6 بجے تو اسنے گھر جانے کیلئے اپنی فائلوں کو سمیٹا جنہیں وہ گھر لے جانا چاہتا تھا

آفس سے نکلنے ہی لگا تھا کہ انٹرکام پر کسی کے آنے کی اطلاع ملی 

وہ جو کوئی بھی شخص تھا اسکا کہنا تھا کہ وجاہت اسے جانتا ہے۔۔

وجاہت نے اس آدمی کو  آفس میں بھیجنے کا کہہ کر وہ ایک بار پھر اپنی چئیر پر بیٹھ گیا۔۔

کچھ ہی منٹوں بعد اسے وہی آدمی نظر آیا جو ہانیہ کو ہوٹل میں تنگ کر رہا تھا۔۔

اس کو دیکھ کے وجاہت کا پارہ ایک دم ہائی ہوگیا۔۔

کیا تم جانتے ہو یہاں آکر تم نے اپنی موت کو دعوت دی وجاہت نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو معظم نے اپنی ہمت جما کر کے وجاہت کے سامنے معزرت خواہانہ انداز میں بولنے لگا۔۔

مجھے معاف کردیں سر مگر اس دھوکے باز لڑکی کو دیکھ کر مجھ سے اپنا غصہ کنٹرول نہیں ہوا ۔۔

معظم اپنے طور پر اپنا لہجے میں بے چارگی لئے بولنے لگا۔۔

وجاہت نے غور سے اسکے چہرے کو دیکھا جہاں لہجے میں تو بے چارگی تھی مگر چہرے پر اس بیچارگی کے اثرات بلکل بھی نہیں تھے۔۔

لگتا تھا کہ وہ ایک اناڑی ہے جسے ٹھیک سے اپنی بات کا یقین تک دلانا نہ آتا ہو۔۔

وجاہت نے طنزیہ مسکراہٹ لئے اسے دیکھا پھر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔

اگر سامنے کوئی وجاہت کا جاننے والا ہوتا تو کبھی اسکے یوں بٹھانے پر نہیں بیٹھتا۔۔

کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔۔ وجاہت نے ایسے کہا جیسے فرصت سے اسکی بات سننے کیلئے ہی بیٹھا ہو۔۔

سر جو لڑکی آپکی بیوی ہے اصل میں وہ ایک دھوکے باز لڑکی ہے آپ سے شادی کرنے سے پہلے اسنے مجھ سے شادی کی تھی۔۔

مجھ سے شادی کرنے کی وجہ اس وقت میری جاب بہت اچھی تھی اپنا گھر تھا ایسا سمجھیں کہ میں ویل سیٹیل لگتا تھا اسکو اور اس بات کا ذکر وہ کئی بار کرتی تھی۔۔

میری ماں نے اسے میرے لئے پسند کیا تھا تو میں نے بھی اس کو اپنایا تھا۔۔

مگر شادی کے کچھ عرصے بعد ہی مجھے پتہ چلا کہ وہ کئی کئی لڑکوں سے تعلقات رکھ چکی تھی۔۔

اور یہ سب اسکے سابقہ عاشقوں نے مجھے بتایا کہ اس ناگن سے دور رہنا۔۔

مگر میں اپنی ماں کی پسند کی لاج رکھ کے خاموش رہا پھر کچھ وقت بعد اسے مجھ سے بہت سے اختلافات ہونے لگے۔۔

میں اسکی ہر بات خاموشی سے سنتا تھا حتیٰ کہ کوشش کرتا تھا اسکی تمام خواہشات کو پوری کرنے کا۔۔

مگر وہ میرے ساتھ خوش نہیں تھی گھنٹوں فون پر نہ جانے کس سے لگی رہتی تھی مگر میں پھر بھی خاموش رہا یہ سوچ کر کہ اب وہ میری عزت ہے۔۔

ایک سال کے بعد میرے گھر والوں نے ہمارے بچوں کی خواہش ظاہر کی تو ہانیہ نے ایک دم دو ٹکہ سا سب کو جواب دیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ اسے بچے نہیں چاہئے۔۔

اماں نے زور دیا تو وہ مجھ سے جھگڑا کرنے لگی۔۔

یہاں بھی جب اسکا دل نہیں بھرا تو اس نے اپنے اور میرے ٹیسٹ کروائے صرف گھر والوں کو خاموش کروانے کیلئے۔۔

اور جب مجھے پتہ چلا تھا کہ ہانیہ کبھی ماں نہیں بن سکتی تو میرے گھر والوں نے مجھے حوصلہ دیا کہ صبر کرو۔۔

مگر ہانیہ پھر بھی نہ بدلی۔۔ ضدی، ڈھیٹ بدزبان اور بدتمیز تو وہ ہمیشہ سے ہی تھی۔۔

مگر اس واقعے کے بعد وہ بدلحاظ بھی ہوگئی تھی۔۔

میں نے بہت کوشش کی تھی اپنے رشتے کو بچانے مگر جیسے ہی میری جاب گئی اس نے مجھ سے طلاق کے بابت مطالبہ کردیا۔۔

بہت سمجھایا اسے مگر وہ نہ مانی گھر کا سکون جب برباد ہونے لگا تو میں نے ہار مان لی اور ہانیہ کو طلاق دے دی

مگر اس دن وہ مجھے دکھی میری زندگی برباد کرکے اب وہ آپ کے پیچھے پڑ گئی ہے میں نے اس سے بس یہی سوال کیا تھا کہ اب کس کی زندگی برباد کرنے کا سوچا ہے تو وہ مجھے ہی الٹا سنانے لگی۔۔

میں نے اسے سمجھایا مگر وہ میرے منہ پر دروازہ بند کرنے لگی 

میں اس سے بات کرنا چاہتا تھا اسی لئے اسکا دروازہ پکڑا تھا۔۔

معظم نہایت افسوس سے نظریں جھکائے بول رہا تھا۔۔

وجاہت ایول اسمائل لئے خاموشی سے سب سن رہا تھا۔۔

معظم کو زرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ وجاہت نے اس دن ہوٹل میں ہانیہ اور معظم کے بیچ ہونے والی تمام باتیں سنی تھیں۔۔

تم کیا چاہتے ہو اب؟؟

وجاہت نے سپاٹ چہرا لئے معظم سے سوال کیا۔۔

خبردار کرنا چاہتا ہوں بس آپ کو کہ اس لالچی لڑکی سے دور رہیں ورنہ آپ کو بھی وہ برباد کر دے گی۔۔

ٹھیک کہتے ہو اس لالچی لڑکی( بولتے ہوئے وجاہت نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں) کا کچھ تو کرنا ہوگا۔۔

بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ معظم وجاہت کے اتنی آسانی سے مان جانے پر مسکرا دیا

اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ کتنا ہی اچھا ہوگیا یہ سب ایک تیر سے دو نشانے لگ گئے۔۔

پہلے تو ہانیہ ایک بار پھر رسوا ہو کر رہ جائے گی طلاق یافتہ کے طور پر دوسری طرف یہ وجاہت عالم جو پاگل ہوا جارہا ہے ہانیہ کے پیچھے وہ بھی اکیلا رہ جائے گا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

لیڈیز کیا چل رہا ہے آج ۔۔ ہادی نے گھر میں داخل ہوا تو ہانیہ نیلم کو ہال میں بیٹھے ہوئے باتوں میں مگن دیکھ کے بولا۔۔

کیا کریں گے فارغ ہیں بلکل ٹی وی پر مووی بھی دیکھ لی شام میں لان میں واک بھی کرلی کھانا ملازم بنا چکے ہیں تو اب ہم ہمیشہ کی طرح فارغ ہوکر بور ہورہے ہیں۔۔

نیلم نے ہلکی مسکراہٹ لئے کہا ہادی سر نفی میں ہلا کے رہ گیا۔۔

تو اتنا ہی بور ہورہی ہو تو گھر کی صفائی کرلو۔۔

ہادی نیلم کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔

میں اور گھر کی صفائی کروں مسٹر کیا آپ بھول گئے ہیں کہ میں صرف نام کی ہی نہیں بلکہ گھر بھر کی پرنسس ہوں کوئی مجھے کبھی کسی کام کا نہیں کہتا ۔۔

نیلم نے گردن اکڑا کے کہا۔۔

ہانیہ نیلم کو دیکھ کے مسکرا دی۔۔

نیلم کا شاداب چہرا دیکھ کے ہادی کی تو مانو دن بھر کی تھکن ہی اتر گئی۔۔

بلیو جینس کے اوپر وائٹ ٹاپ پہنے گلے میں بلیو اسٹرالر پہنے وہ بہت فریش فریش سی لگی۔۔

ٹھیک ہے کرلو یہاں آرام مگر شادی کے بعد گھر بھر کا کام تمہیں ہی کرنا ہوگا جب جب ہم ملک سے باہر جائیں گے 

پتہ ہے نہ باہر ممالک میں کتنے مہنگے ہوتے ہیں سرونٹس 

ہادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

اگر یہ بات آپ نے برو کے سامنے کہی نہ تو وہ میری شادی آپ سے کبھی نہیں کریں گے۔۔

نیلم نے اترا کے کہا تو ہانیہ زور سے ہنس دی نیلم کی بات پر نہیں ہادی کے تاثرات پر شاید ہانیہ کی ہی طرح وہ بھی آج نیلم کو پہلی بار یوں ہر بات کا جواب دیتے سن رہا تھا۔۔

اور اب ہادی کو سمجھ آیا کہ جو مسکراہٹ پہ وہ خوش ہورہا تھا اصل میں تو وہ طنزیہ مسکراہٹ تھی۔۔

ہانیہ ان دونوں کی نوک جھوک کو انجوائے کر رہی تھی۔۔

آج کافی دن بعد وہ کھل کے مسکرا رہی تھی۔۔

ایسے کیسے وہ اکڑو شہزادہ منا کرے گا شادی سے۔۔ احترام کے طور پر ایک بار پوچھ چکا ہوں میں اس سے۔۔ ایک سال بڑا جو ہے وہ مجھ سے 

اب اگر اس نے منع کیا نہ تو اٹھا کے لے جاؤنگا تمہیں اور بھگا کے شادی کرونگا

ویسے بھی بڑی خواہش ہے میری ایسے شادی کرنے کی اگر میں شرافت دکھا رہا ہوں تو تم بھی شرفاء بنی رہو۔۔

ہادی اپنی شرٹ کی آستین بازو تک فولڈ کرتا ہوا بولا جیسے لڑکے کیلئے تیار ہورہا ہو۔۔

میرے برو کے سامنے تو آپ کی آواز نہیں نکلتی بھگا کے کیا لے جائیں گے مجھے۔۔

نیلم نے اپنے ناخنوں کو پھونک مار کے کہا انداز ایسا تھا جیسے ہادی کی بات کا کوئی اثر نہ لیا ہو۔۔

ہانیہ کیلئے تو نیلم کا یہ انداز کافی شاکنگ تھا۔۔

یار میں تو سمجھا تھا کہ تم اللہ میاں کی گائے ہو مگر تم بھی لڑاکا ہو ۔۔

ہادی نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔۔

میری گڑیا کو ایسا بولنے سے پہلے سوچ لو ہادی اگر وہ لڑنا جانتی ہے تو پیٹنا بھی جانتی ہوگی۔۔

وجاہت نے ہال میں قدم رکھا اور ان تینوں کے پاس ہی چلا آیا ہانیہ کو ہنستے ہوئے دیکھ کے اسکا موڈ بھی خوشگوار ہوگیا۔۔

ہانیہ کے برابر میں بیٹھ کے وجاہت نے اسکی طبیعت کے بارے میں پوچھا 

کیسی ہو سن شائن ۔۔ ہانیہ نے مسکرا کے وجاہت کو دیکھا جو محبت پاش نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

ٹھیک ہوں میں بلکل آپ کیلئے پانی لاتی ہوں۔۔

ہانیہ بول کے اٹھنے لگی تو وجاہت نے اسے روکنا چاہا مگر وہ پھر بھی چلی گئی اور دو گلاس پانی کے لے آئی ایک وجاہت کو دیا تو دوسرا ہادی کو۔۔

دیکھو سیکھو زرا ہانی سے کیسے اپنے شوہر کے آتے ہی اسکی فکر لگ گئی انہیں ۔۔

ہادی نے پانی پیتے ہوئے نیلم سے کہا 

ہاں تو برو شوہر ہیں ان کے۔۔ نیلم نے ہادی کو گھورتے ہوئے کہا۔۔

ہاں تو میں بھی تو تمہارا ہونے والا مجازی خدا ہوں۔۔

ہادی نے اکڑ سے کہا۔۔

تم کچھ زیادہ ہی نہیں بول رہے۔۔ وجاہت نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔۔

غصے میں ہوں میں ہادی نے وجاہت کو دیکھ کے کہا۔۔

اس سے پہلے میں غصے میں آجاؤ آئندہ ہانیہ کو ہانی مت کہنا۔۔

وجاہت نے گھٹنوں پر اپنے بازو رکھ کے کہا۔۔

میں تو کہونگا ہانی جب انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے تو تمہیں کیا مسئلہ ہے۔۔

ہادی نے ناک پر سے مکھی اڑانے کے سے انداز میں کہا۔۔

کچن سے عالیہ بیگم اپنے بچوں کو خوش گپیاں کرتے دیکھ مسکرا رہی تھی۔۔

ٹھیک ہے جمشید انکل کب آرہے ہیں پاکستان۔۔؟؟ وجاہت نے طنزیہ مسکراہٹ لئے کہا۔۔

پاپا کا اس بات میں کیا ذکر۔۔ ہادی نے جانچتی نظر سے وجاہت کو دیکھ کے کہا۔۔

زیادہ کچھ نہیں بس اتنا کہونگا ان سے کہ شادی اگلے مہینے نہین بلکے اگلے سال ہے وہ کیا ہے نہ اس سال میری دوسرا بے بی دنیا میں آجائے تاکہ وہ بھی تمہاری شادی کا حصہ بنے اب اس کے لئے تو ایک سال شادی آگے بڑھانی پڑے گی۔۔

وجاہت نے مسکراتے ہوئے کہا مگر ہادی خاموشی سے اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔

نیلم اور ہانیہ کا قہقہہ چھوٹ گیا ہادی کو دیکھ کے۔۔

جبکہ وجاہت ہادی کو حیران کر کے محفوظ سا مسکرا رہا تھا۔۔

ایسا کچھ نہیں ہوگا ہاں اپنے بھتیجے کی خوشی کیلئے میں دوبارہ شادی کرلوں گا مگر ابھی شادی اگلے مہینے ہی ہوگی 

ہادی نے تیزی سے کہا اور بغیر کسی کا جواب سنے ہی وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔۔

نیلم بھی اس کے جانے کے بعد وہاں سے اٹھ کے چلی گئی۔۔

اب وجاہت نے ہانیہ کو دیکھا جو آج بہت خوش لگ رہی تھی۔۔

وجاہت یہ آج نیلم کو کیا ہوا ہے میں نے کبھی اسے اتنا بولتے ہوئے نہیں دیکھا۔۔

میری گڑیا اتنا صرف ہادی کے سامنے ہی بول سکتی ہے وہ بھی جب وہ اس سے ناراض ہو ویسے وہ ناراض ہوتی نہیں ہے مگر ہوئی ہوگی کوئی بات 

تم ٹینشن نہ لو ہادی اسے بچپن سے جانتا ہے اور اسے منانا بھی جانتا ہے جبھی تو روٹھتی ہے وہ اس سے 

وجاہت نے پیار سے کہا تو ہانیہ نے مسکرا کے کہا۔۔

ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ انسان اس سے ہی روٹھتا ہے جس سے امید ہو کہ وہ اسے منائے گا۔۔

اچھا اگر ایسا ہے تو تمہیں امید نہیں ہے کیا کہ میں تمہیں مناؤگا نہیں۔۔

ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ ہانیہ وجاہت کی شرارت سمجھے بغیر بولی۔۔

کیونکہ تم کبھی مجھ سے روٹھتی ہی نہیں ہو۔۔

وجاہت نے ہنستے ہوئے کہا۔۔

آپ نے ہی کہا تھا کہ آپ کو منانا نہیں آتا اسی لئے میں روٹھ کے کرونگی بھی کیا۔

ہانیہ نے وجاہت کی طرف دیکھے بغیر کہا۔۔

روٹھ کر دیکھو بہت اچھے سے منانا آگیا ہے مجھے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے کان میں کہا تو ہانیہ اس سے دور ہوئی اور سرگوشی نما آواز میں کہا کہ ہم اس وقت اپنے روم میں نہیں بلکہ ہال میں بیٹھے ہیں۔۔

تو چلو نہ روم میں ۔۔ وجاہت نے معصومیت سے کہا تو ہانیہ شرمانے لگی۔۔

سدھر جائیں آپ۔۔ ہنس کر بولتے ہوئے وہ اٹھنے لگی تو وجاہت بھی اس کے پیچھے چل دیا

کمرے میں آکر وہ حور کے کمرے میں گئی حور کو دیکھا جو ابھی تک سور رہی تھی۔۔

یہ اس وقت کیوں سورہی ہے۔۔

وجاہت نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو ساڑھے سات بج رہے تھے۔۔

محترمہ دن بھر کھیلتی رہیں اور شام میں تھک کر نیچے ہال میں ہی سوگئیں۔۔

نیلم ہی اسے یہاں لٹا کر گئی تھی۔۔ ہانیہ نے وجاہت کو بتاتے ہوئے اسے دیکھا۔۔

وجاہت میں اپنی بیٹی کو گود میں نہیں لے پاتی وہ میری گود میں آنا چاہتی ہے مگر مما مجھے منع کرتی ہیں۔۔

ہانیہ نے بجھے دل سے کہا۔۔ 

سن شائن ڈاکٹر نے منع کیا ہے تمہیں زرا بھی وزن اٹھانے سے کچھ مہینوں کی ہی بات ہے ویسے بھی ہماری جان اب بہت جلد بغیر سہارے کے چلنے لگے گی تو دیکھنا وہ کبھی کسی کی گود میں نہیں آئے گی 

بڑی آپی جو بننے والی ہے۔۔ وجاہت نے محبت سے حور کے سر پر ہاتھ پھیر کے کہا۔۔

تو ہانیہ نے پیار سے وجاہت کے کندھے پر سر رکھ لیا۔۔

وجاہت اسے حور کے روم سے باہر لایا اور بیڈ پر بٹھا دیا۔۔

دوائیاں کھائی تم نے۔۔ سائڈ ٹیبل پر رکھے میڈیکل باکس کو چیک کرتے ہوئے وجاہت نے کہا۔۔

جی ہاں کھالیں ساری ۔۔ ہانیہ نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔

میڈیکل باکس واپس رکھ کے وجاہت ہانیہ کی طرف متوجہ ہوا۔۔

کچھ کھانے کا من ہے کیا۔۔ جو کہو گی وہ کھلاؤگا۔۔

 ہانیہ نے وجاہت کو حیرت سے دیکھ کے کہا۔۔

خیریت تو ہے نہ یہ آپ ہی ہیں جو ہر وقت مجھے باہر کے کھانے پر ٹوکتے ہیں آج خود مجھے کہہ رہے ہیں کہ کیا کھاؤگی۔۔

اب میں نے یہ کب کہا کہ باہر کا کھانا کھلاؤ گا۔۔

وجاہت نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

پھر فائدہ۔۔ ہانیہ نے پھر سے منہ لٹکا کے کہا۔۔

ارے یار میرا مطلب تھا جو کھانا ہے بتاؤ میں گھر میں بنوا دونگا۔۔

گھر میں وہ بات نہیں آتی جو باہر بیٹھ کر کھانے میں ہے۔۔ ہانیہ نے للچاتے ہوئے کہا۔۔

سن شائن معزرت مگر ایسا کبھی نہیں ہوگا میں نے پہلے کبھی تمہیں کھانے نہیں دیا تو اب تو تمہاری صحت کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنا ہے۔۔

وجاہت نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو ہانیہ منہ پھیر کے بیٹھ گئی۔۔

دیکھ رہے ہو بے بی تمہارے پاپا پہلے تو خود پوچھتے ہیں کہ کیا کھاؤگی پھر کچھ کھلاتے بھی نہیں ہیں۔۔

ہانیہ نے رخ موڈ کے کہا تو وجاہت کو اسکے اسطرح اپنے بے بی سے بات کرنے پر بہت پیار آیا۔۔

ٹھیک ہے کہو کیا کھانا ہے مگر جگہ میں پسند کرونگا اور اگر تمہاری طبیعت زرا بھی خراب ہوئی باہر کا کھانا کھانے سے تو تمہیں سزا ملے گی۔۔

وجاہت نے آخری جملہ مسکراتے ہوئے کہا 

کیا بات ہے آج آپ کا موڈ کافی اچھا ہے ویسے۔۔

ہانیہ کے بولنے پر وجاہت ہلکا سا مسکرا دیا۔۔

تمہارا ساتھ ہی مجھے اتنی خوشی دیتا ہے جب جب تمہارا مسکراتا ہوا چہرا دیکھتا ہوں تو دل اپنے آپ خوش ہوجاتا ہے۔۔

ہانیہ وجاہت کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگی۔۔

ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔ وجاہت نے ہانیہ کو اسے تکتا ہوا دیکھ کے بولا۔۔

سوچ رہی ہوں کہ کس نیکی کا صلاح ہیں آپ ۔۔

ہانیہ بولتے ہوئے اٹھ کر ڈریسنگ روم میں گئی اور وارڈروب سے کپڑے نکالنے لگی وجاہت کے 

پھر بلیک ٹراؤزر کے ساتھ گرے شرٹ وجاہت کو دے کر وہ کمرے میں جانے لگی تو وجاہت نے اسے خود کے قریب کیا۔۔

مجھے نہیں پتہ کہ میں کسی نیکی کا صلاح ہوں یا نہیں مگر آج جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں صرف تمہاری وجہ سے ہوں

ورنہ دیکھا تھا نہ مجھے تم نے کیسا تھا میں زندگی سے بیزار صرف سانس لیتا تھا جینا تم نے سکھایا

پھر سے مسکرانا بھی تم نے سکھایا تمہارے ساتھ نے مجھے سکون بخشا میری زندگی ہو تم عزت ہو تم تمہاری طرف اٹھنے والی ہر آنکھ کو میں نوچ لونگا تباہ کردونگا اسے مگر تمہارے خلاف کبھی کچھ نہیں کرنے دونگا کسی کو۔۔

کیوں کہ نہ صرف عزت ہو تم میری بلکہ میرے بچوں کی ماں ہو میری خوشی ہو میری زندگی ہو میرا سب کچھ ہو 

کسی کے بھی چند الفاظ میرے دل سے تمہاری محبت نہیں نکال سکتے 

لوگوں سے زیادہ مجھے تم پر بھروسہ ہے تمہارے کردار پر بھروسہ ہے۔۔

وجاہت کے محبت سے چور لہجے پر ہانیہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔۔

وہ سمجھی نہیں وجاہت اسے یہ سب کیوں کہہ رہا ہے مگر اسے ہمیشہ وجاہت کے اظہارِ محبت پر خوشی ملتی تھی

اور ایسا اظہار وہ تقریباً ہر دن کرتا تھا اپنی محبت کا یقین وہ ہر روز اسے دلاتا تھا

اسی لئے تو انکی محبت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ ہی رہی تھی 

معظم کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک اندھیرے کمرے میں پایا۔۔

میں تو وجاہت عالم سے ملنے گیا تھا یہ میں کہاں آگیا۔۔ آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے معظم نے سوچا مگر اگلے ہی پل خوف سے اسکی سانسیں رکنے لگی کیونکہ وہ جہاں بھی تھا اس وقت کسی کی قید میں تھا جسکا ثبوت یہ تھا کہ اسکے ہاتھ پیر کرسی کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیئے گئے تھے۔۔

یہ سب کیا ہے کوئی ہے یہاں۔۔ مجھے کیوں باندھا ہے یہاں پر۔۔۔

پلیز کوئی میری مدد کرو۔۔ زور زور سے چلانے پر بھی کسی نے نہ سنا تو معظم نے افسوس سے سر جھکا لیا کانوں میں وجاہت عالم کے الفاظ گونجنے لگے۔۔

کیا تم جانتے ہو یہاں آکر تم نے اپنی موت کو دعوت دی ہے۔۔۔

سوچ کے ہی معظم کو اب اپنی غلطی کا اندازہ ہورہا تھا۔۔

مگر وہاں کوئی ہوتا تو اسکی سنتا۔۔

وجاہت نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اسکا کرنا کیا ہے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

چلو تم میرے ساتھ ہمیں ابھی کہیں جانا ہے۔۔

ڈنر کے بعد نیلم لان میں آگئی تو ہادی اسکے سر پر سوار ہوگیا۔۔

مجھے کہی نہیں جانا نیلم نے کہہ کر اپنا رخ دوسری طرف کیا اور چلنے لگی۔۔

میں آخری بار پوچھ رہا ہوں چل رہی ہو یا نہیں۔۔

ہادی نے نیلم کا بازو پکڑ کے اسکا رخ اپنی طرف کرکے کہا۔۔

نہیں مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا۔۔ نیلم نے اپنا بازو چھڑایا اور گھر کے اندر جانے لگی۔۔

جیسے ہی نیلم نے گھر کی طرف قدم بڑھائے ہادی نے گہرا سانس لیا اور اسے کندھوں پر اٹھا لیا۔۔

اس اچانک عمل پر نیلم چیخ مارتے مارتے رکی کیونکہ اگر چیختی تو پورا گھر یہیں جما ہوجاتا اور پتہ نہیں سب کیا سمجھتے ہادی کو۔۔

مگر ہادی کو ایسی کوئی فکر نہیں تھی وہ دادو اور عالیہ بیگم کو بتا کے آیا تھا کہ وہ نیلم کے ساتھ باہر جارہا تھا پھر ایئرپورٹ سے اپنے پاپا کو پک کرکے وہ تینوں گھر آجائیں گے ۔۔

کندھے پر اٹھائے ہی ہادی نیلم کو ڈرائیو وے تک لے گیا اپنی کار کا دروازہ کھول کر اسے بٹھایا اور زن سے گاڑی بھگا لے گیا بغیر کسی کی کسی بھی مزاحمت کی پرواہ کئے۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

تم تو کہہ رہی تھی کہ تمہیں آج باہر کھانا کھانا ہے۔۔

وجاہت حور کو لئے بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا جو کہ اپنے پاپا کی گھڑی کی جانچ پڑتال کر رہی تھی۔۔

ہانیہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے چئیر پر بیٹھی اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی۔۔

ہاں گھر میں مما نے میرے لئے میری فیورٹ کری بنوائی تھی تو میں باہر کیوں جاتی۔۔

ہانیہ نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔۔ اصل میں تو وہ اس لئے باہر نہیں گئی کہ اگر باہر کا کچھ کھانے سے طبیعت زرا بھی خراب ہوئی تو وجاہت غصہ تو کرتے ہی کرتے ساتھ میں سزا بھی دیتے اور اتنے مہینوں میں وہ اچھے سے سمجھ گئی تھی وجاہت کی سزاؤں کو۔۔

وجاہت ہانیہ کو دیکھ کے مسکرا دیا۔۔ سن شائن یہ کہو نہ کہ میری سزا سے ڈر گئی۔۔

وجاہت کو بلکل سہی تکا لگاتے دیکھ ہانیہ بے اختیار ہی مڑ کے وجاہت کو دیکھنے لگی۔۔

وجاہت نے حور کو اسکا ٹوئی دیا پھر بیڈ سے اٹھ کر ہانیہ کے پاس آیا اور اسکے ہاتھ سے لے کر ہئیر برش رکھا ۔۔ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی اولیو آئل کی بوتل آٹھائی اور ہانیہ نے سر میں ہلکا ہلکا مساج کرنے لگا۔۔

دھیرے دھیرے وجاہت کی انگلیاں سر میں چلنے لگیں تو ہانیہ کو ڈھیروں سکون نے آن گھیرا آنکھیں موندیں وہ وہیں بیٹھی رہی۔۔

وجاہت کے چہرے پر اسکی بند آنکھوں کو دیکھ کے مسکان ابھری۔۔

ویسے یہ ہیڈ مساج کس خوشی میں۔۔ ہانیہ نے ایک آنکھ کھول کے وجاہت کو دیکھ کے کہا۔۔

وجاہت کی اسکی اس حرکت پر مسکان گہری ہوتی چلی گئی۔۔

تم نے آج صبح کہا تھا جب میں تمہیں جگا رہا تھا کہ تمہارا سر بھاری بھاری رہتا ہے۔۔

تو میں نے انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو رات کو سونے سے پہلے کسی بھی آئل سے بالوں میں مساج کیا جائے تو نیند بھی اچھی آتی ہے اور صبح سر بھاری بھی نہیں ہوتا۔۔

وجاہت نے مساج کرتے ہوئے ہانیہ کا عکس آئینے میں دیکھ کے کہا۔۔

شکریہ۔۔ ہانیہ نے وجاہت کے ہاتھ بالوں سے نکال کے اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا۔۔

شکریہ کس لئے۔۔ وجاہت نے ہانیہ کو دیکھ کے کہا۔۔

پتا نہیں کس کس بات پر شکریہ کہو دل کیا تو کہہ دیا میں نے۔۔

ہانیہ نے بالوں کی ڈھیلی سی چٹیا بناتے ہوئے کہا۔۔

تم آرام کرو میں حور کو اسکے کمرے میں لے جاتا ہوں جب وہ سوجائے گی تو آجاؤ گا۔۔

ہانیہ کو بیڈ پر لٹا کر وجاہت بولا اور حور کو لئے اسکے کمرے میں چلا گیا پھر واپس آکر اسنے اسکے ٹوائز اٹھائے اور ہانیہ کے ماتھے پر محبت کی مہر ثبت کی پھر لیمپ آف کرکے اور چلا گیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

کہاں لے کر جارہے ہیں آپ مجھے ہادی۔۔

نیلم نے حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات لئے کہا۔۔

ہم شادی کرنے جارہے ہیں۔۔

ہادی نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے عام سے انداز میں کہا۔۔

کیا کہہ رہے ہیں آپ ہادی ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔ نیلم نے ہادی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

بہت کہہ رہی تھی نہ کہ میرے برو یہ کردیں وہ کریں گے تو تمہیں کیا لگا میں مزاق کر رہا تھا۔۔

میں اب تم سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ دنیا کی فکر اب میرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی ۔۔

اور ویسے بھی ابھی ہماری شادی ہوجائے گی اس کے بعد ہم ائرپورٹ جائیں گے پھر سیدھے ملک سے باہر ایک سال کیلئے۔۔

پھر جب خوب گھوم پھر کے واپس آئیں گے تو تب تک وجاہت کا بے بی اور میرا بھتیجا اس دنیا میں آچکا ہوگا تو ہم دوبارہ شادی کر لیں گے۔۔

ہادی کا لہجہ بہت عام سا تھا شرارت اس میں کہیں بھی نہیں جھلک رہی تھی۔۔

نیلم کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔۔

وہ اتنا گھبرا گئی کہ منہ سے اور ایک لفظ بھی نہ بول سکی۔۔

دوسری طرف ہادی اسکی اس حالت سے خوب محفوظ ہورہا تھا۔۔

مزید دس منٹ کے بعد اس نے گاڑی ایک جگہ روکی سمندر کا شور ہادی اور نیلم بہت صاف سن سکتے تھے۔۔

نیلم نے سہما ہوا چہرا لئے ہادی کو دیکھا مگر ہادی نے بغیر اسکی طرف دیکھے کار کا انجن آف کیا اور گاڑی سے اتر گیا

پھر دوسری طرف آکر اسنے نیلم کا دروازہ کھولا اور اسے باہر آنے کیلئے کہا۔۔

نیلم نے اسے پہلے بیچارگی سے دیکھا مگر ہادی نے جب اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور نیلم نے کچھ سوچتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام لیا اور اسکے ساتھ چلنے لگی۔۔

تھوڑا چلنے کے بعد ہی نیلم نے چھوٹی چھوٹی ایل ای ڈی لائٹ سے سجی وہ جگی دیکھی۔۔

چار پلر سے اسے ایک ہٹ نما اسٹائل دیا گیا تھا اور اس پر پنک کلر کا نیٹ کا کپڑا کینوپی کا کام کر رہا تھا۔۔

پنک روزز سے پوری جگہ کو سجایا گیا تھا اور اوپر کی سائڈ پر چھوٹے چھوٹے چائینیز پیپر لیمپس لٹکے ہوئے تھے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر۔۔

لیمپ اور ایل ای ڈی لائٹس سے وہ جگہ کافی روشن ہورہی تھی۔۔

بیچ میں ایک ٹیبل اور دو چئیرز رکھی تھی جسے خوبصورتی سے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔

نیلم وہ خواب ناک منظر دیکھ کے بغیر پلکے چھپکائے دم بخود سی دیکھنے لگی۔۔

ہادی نے نیلم کے چہرے پر ستائش دیکھ کے ہنس دیا

یہ سب میں نے حور کے برتھ ڈے والے دن کیلئے پلان کیا تھا کیونکہ اسی دن ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی مگر برتھ پارٹی کے بعد جو کچھ ہوا میں تمہیں یہ سرپرائز دے نہیں پایا۔۔

لیکن چلو اچھا ہی ہوا تمہیں روٹھا ہوا دیکھ کے تمہارا ایک نیا انداز بھی دیکھ لیا اسی بہانے اور سچ کہوں تو پھر سے محبت ہوگئی ہے تم سے۔۔

ہادی نے سرگوشی نما آواز میں نیلم کے کان میں کہا۔۔

نیلم دھڑکتے دل کے ساتھ ہادی کو دیکھنے لگی۔۔

ہادی نے پاکٹ سے ایک باکس نکالا اس میں سے اس نے ایک نفیس سا بریسلیٹ نکالا اور اسے پہنانے کے لیے ہادی نے نیلم کے آگے اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔

نیلم نے اسے اپنا ہاتھ تھمایا تو ہادی نے اسکے ہاتھوں میں خوبصورت سا بریسلیٹ پہنایا جو کہ اسکی سفید دودھیا کلائی پر بہت جچ رہا تھا

بے اختیار ہی ہادی نے نیلم کے ہاتھوں کو چوم لیا پھر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دئیے۔۔

نیلم نے بھی آج آنکھیں بند کئے اسکے لمس کو محسوس کیا۔۔

محبت کی یہ مہر میں تمہارا محرم بن کر تمہیں سونپنا چاہتا تھا مگر دل باغی دل کا کیا کروں 

ہادی نے مسکراتے ہوئے اپنے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔۔

نیلم نے خاموشی سے بس اپنی نظریں جھکا دیں ۔۔

چلو آؤ تھوڑی دیر یہاں بیٹھتے ہیں پھر ائیرپورٹ جانا ہے پاپا آرہے ہیں آج۔۔

ہادی نیلم کو چئیر پر بٹھا کے اپنی چئیر پر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔

تو آپ نے جھوٹ کہا تھا مجھ سے۔۔ نیلم نے کہنیاں ٹیبل پر رکھ کے کہا۔۔

مذاق کر رہا تھا یار تمہیں تنگ کر رہا تھا۔۔

ہادی نے خوبصورت مسکراہٹ لئے کہا۔۔ اور میں امید کرتا ہوں شادی کے بعد ہمارا کبھی جھگڑا نہ ہو کیونکہ آج تمہارا نیا روپ دیکھ کے میں تھوڑا ڈر گیا ہوں۔۔ ہادی نے شرارت سے کہا تو نیلم بھی ہنس دی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

حرا مہرو یہ معظم کہاں رہ گیا ہے بیٹا صبح کا گیا میرا بچہ ابھی تک واپس نہیں آیا۔۔

فرزانہ نظریں دروازے پر جمائے بیٹھی تھیں۔۔

جب سے نوکری گئی تھی معظم صرف انٹرویو دینے جاتا تھا اور دوپہر تک گھر واپس مگر آج تو آدھی رات ہوگئی تھی مگر اسکا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔۔

اے میرے پروردگار میرے بچے کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔۔

فرزانہ نے دل سے دعا کی 

اماں بھائی کا موبائل آف ہے کیسے پتہ کریں۔۔

مہرو نے فکر مندی سے کہا۔۔

کیا ہوگیا ہے آپ دونوں کو بھائی بچے تھوڑی ہیں آجائیں گے لیٹ جائیں آپ لوگ میں جاگ رہی ہوں کھول دونگی دروازہ۔۔

بظاہر تو عام سے لہجے میں بول کے حرا نے اپنا پہلو بدلہ اصل میں دل میں وہ خود اپنے بھائی کیلئے پریشان تھی۔۔

ارے ہانی بیٹا تم آج اتنی صبح کیوں جاگ گئی۔۔

دادو نے آج ہانیہ کو صبح صبح اپنے کمرے میں دیکھا تو بولیں۔۔

کچھ نہیں دادو بس آنکھ کھل گئی نماز پڑھ کر نیند نہیں آئی تو آپ کے پاس آگئی آپ بھی تو نہیں سوتیں نہ فجر کے بعد۔۔

ہانیہ دادو کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی۔۔

چلو اچھا کیا ۔۔ وجاہت تو سورہا ہوگا ابھی۔۔

دادو نے اپنی تسبیح سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔۔

جی دادو وجاہت دیر سے سوئے تھے کل حور سونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی تو وجاہت اسے اسکے کمرے میں لے گئے تھے۔۔

پتہ نہیں وہ لوگ کب سوئے ہونگیں۔۔

ہانیہ نے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔

ہانیہ کا اترا چہرا دیکھ کے دادو نے اس سے سوال کیا۔۔

ہانی میری جان کیا ہوا ہے کوئی پریشانی ہے کیا؟ دادو نے فکرمندی سے پوچھا۔۔

پریشانی تو نہیں ہے دادو بس میری وجہ سے وجاہت کا کام بہت بڑھ گیا ہے۔۔ 

وہ پہلے آفس کے کاموں کو دیکھتے ہیں پھر مجھے اور حور کو میں نہیں دیکھتی وجاہت ایک گھنٹے بھی آرام کرتے ہوں 

جب دیکھو کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے ہیں 

دن میں ہمیں ٹائم دیتے ہیں تو رات کو جاگ کر اپنے آفس کا کام کرتے ہیں پھر نیلم کی شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں وہ بھی وجاہت خود دیکھ رہے ہیں۔۔

مجھے ڈر ہے دادو وجاہت بیمار نہ پڑ جائیں 

آپ کو پتہ ہے مجھے اپنا آپ ایک بوجھ سا لگنے لگا ہے وجاہت کے لئے۔۔

وہ میرا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ میں سمجھ ہی نہیں پاتی کہ کیسے انکا شکریہ کروں۔۔

میرا فرض ہے انکی خدمت کرنا مگر وہ مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دیتے فارغ رہ رہ کر بھی میں کبھی اکتا جاتی ہوں ۔۔

ہانیہ روہانسے لہجے میں بولی تو دادو ہنس دیں۔۔

آپ ہنس کیوں رہی ہیں دادو ۔۔ ہانیہ کو لگا دادو اس پر ہنس رہی ہیں۔۔

میری جان یہی دن ہوتے ہیں شوہر سے خدمت کروانے کے اور اگر وہ تھوڑی بہت خدمت کر بھی رہے ہیں تو کیا ہوا بیوی بھی تو اپنی جان پر کھیل کہ انہیں انکا وارث دیتی ہے۔۔

نو مہینے ایک جان کو اپنے اندر پالنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے چلنے پھرنے میں تکلیف ۔۔ بیٹھنے اٹھنے میں تکلیف یہ کتنا مشکل مرحلہ ہے ۔۔

اور میں یہ بھی کہوں گی کہ وہ بہت ہی خاص مرد ہوتے ہیں جو اپنی بیوی کا اس دوران بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔۔

ہانی میری جان یہ تو بس کچھ مہینوں کی بات ہے پھر ساری زندگی اپنے شوہر کی خدمت کرنا ابھی مزے کرو۔۔

دادو نے اتنے پیار سے سمجھایا کہ ہانیہ مسکرا دی ۔۔ 

آپ ٹھیک کہتی ہیں دادو بس میں وجاہت کیلئے فکرمند ہوں ۔۔

میرا پوتا بہت ہمت والا ہے ہانی وہ کسی کیلئے کچھ نہیں کرتا جب تک وہ دل سے کچھ کرنا نہ چاہے 

اگر وہ تمہارے لئے کچھ کر رہا ہے تو تمہیں اندازہ ہونا چاہئے کہ اسکے دل میں تمہارا کیا مقام ہے۔۔

دادو مجھے ہمیشہ آپ سے بات کر کے بہت اچھا محسوس ہوتا ہے پلیز آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہنا اور مجھ سے ایسے ہی پیار کرنا۔۔

ہانیہ بچوں جیسے دادو کے ساتھ لگتے ہوئے بولی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت کی آنکھ کھلی تو دیکھا ہانیہ بیڈ پر نہیں تھی ۔۔ گھڑی میں ٹائم دیکھا جو کہ صبح کے چھ بجا رہی تھی۔۔

سن شائن!!!  وجاہت نے ہانیہ کو آواز دی مگر کوئی جواب نہ آیا

اب تو وجاہت کی آنکھوں سے نیند ایسے غائب ہوئی جیسے وہ کبھی سویا ہی نہ ہو۔۔

اٹھ کر پہلے اسنے واشروم چیک کیا اور پھر حور کے کمرے کو مگر ہانیہ کہیں نہیں تھی۔۔

پھر اسنے کمرے سے باہر آکر لان میں دیکھا کیونکہ اکثر ہانیہ صبح کے وقت لان میں آجایا کرتی تھی چہل قدمی کیلئے۔۔

اب وجاہت کو ہانیہ کی فکر ہونے لگی وہ واپس اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا کہ دیکھا دادو کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا جب تھوڑا قریب جا کر دیکھا تو ہانیہ دادو کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھی۔۔

وجاہت کمرے کے اندر داخل نہیں ہوا وہ سننا چاہتا تھا کہ ہانیہ جو آج کل اتنا چپ چپ رہنے لگی ہے اس کی وجہ کیا ہے 

جب وجاہت نے ہانیہ کے پریشانی کا سبب سنا تو مسکرا دیا مگر پھر جب اسنے دادو کی باتیں سنی تو اس سے اپنا قہقہہ روکنا مشکل ہوگیا 

یہ تو طے ہوگیا تھا کہ دادو ہانیہ کے آگے اسکی کبھی سائڈ نہیں لیں گی مگر انکا کہنا بھی ٹھیک تھا مرد اگر تھوڑی فکر کرتا ہے بیوی کی تو کونسا وہ کوئی احسان کر رہا ہے اسکی بیوی بھی تو اسے وارث دے رہی ہوتی ہے۔۔

وجاہت نے ان دونوں کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا تو وہ اپنے کمرے میں چلا آیا وارڈروب سے کپڑے لئے اور واشروم کی طرف چل دیا۔۔

پھر فریش ہوکر تیار ہوا اور ملازم سے کہہ کر اپنا دادو اور ہانیہ کا ناشتہ دادو کے کمرے میں ہی منگوا لیا اور ایک ملازمہ کو حور کے پاس رہنے کی ہدایت دی کیونکہ حور سورہی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

اور جمشید تمہارا سویڈن کا ٹرپ کیسا رہا ۔۔

شان صاحب نے ناشتہ کرتے وقت جمشید صاحب سے بات کا آغاز کیا۔۔

ڈائیننگ ٹیبل پر اس وقت شان صاحب عالیہ بیگم، نیلم ، ہادی اور جمشید صاحب بیٹھے تھے وجاہت ہانیہ اور دادو ناشتہ کر چکے تھے۔۔

بہت اچھا رہا ٹرپ میں نے تو کہا تھا ساتھ چلو وہاں کا سیمینار بہت اچھا تھا۔۔

جمشید صاحب نے آملیٹ کا پیس کھاتے ہوئے کہا۔۔

ہاں میں چلتا مگر یہاں کچھ کام تھا۔۔

شان صاحب نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔۔

آپ لوگ ناشتہ کرلیں پھر آرام سے بیٹھ کر باتیں کر لیجیے گا۔۔

عالیہ بیگم جو ناشتہ کر چکی تھی انہیں کام کے متعلق بات کرتا دیکھ بولنے لگیں۔۔

ارے بھابھی بعد میں کہاں وقت ملے گا مجھے تو بہت سے کام ہیں شادی کی تیاری کرنی ہے اور آج ہی ہم اپنے فلیٹ میں شفٹ ہوجائیں گے۔۔

جمشید صاحب کے بولنے پر ہادی نے انہیں دیکھا پھر نیلم کو جو مزے سے ناشتہ کر رہی تھی۔۔

مگر پاپا شادی میں تو ابھی دو ہفتے ہیں۔۔ ہادی نے اپنے پاپا کو دیکھ کے کہا۔۔

اسی لئے تو کہہ رہا ہوں آج شفٹ ہونا ہے ہمیں پھر کل سے تیاری شروع کرنی ہے۔۔

جمشید صاحب نے مسکرا کے ہادی کو دیکھ کے کہا۔۔

ٹھیک ہے جیسا آپ لوگوں کو ٹھیک لگے۔۔

ہادی نے ہار مانتے ہوئے کہا

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

کیا ہوا آج آپ آفس نہیں جارہے۔۔؟؟ وجاہت کو صبح کے 10 بجے تک گھر میں دیکھا تو ہانیہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔۔

آج دل نہیں چاہ رہا ویسے بھی کوئی ضروری کام نہیں ہے آفس میں جبکہ آفس سے باہر مجھے ایک آدمی سے ملنا ہے جو کہ بہت ضروری ہے۔۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے کہا۔۔

ہمم۔۔ ٹھیک ہے جو آپ کو ٹھیک لگے۔۔

ہانیہ بیٹھ گئی وجاہت کے ساتھ مگر وہ کسی سوچ میں گم لگی وجاہت کو۔۔

کیا سوچتی رہتی ہو سن شائن۔۔ وجاہت نے ہانیہ کا ہاتھ تھام کے کہا۔۔

کچھ بتانا تھا آپ کو۔۔

ہانیہ نے اب کے وجاہت کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

ہاں بولو کیا کہنا چاہتی ہو۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔۔

اس دن ہوٹل میں جو آدمی میرے روم کے باہر کھڑا تھا وہ معظم تھے۔۔

ہانیہ نے ڈرتے ہوئے بتایا۔۔ وہ کوئی ویٹر کے طور پر آرڈر لینے نہیں آئے تھے بلکہ مجھے تنگ کر رہے تھے کہہ رہے تھے کہ میں نے انہیں چھوڑ کر آپ کو پھسا لیا۔۔

 ہانیہ کے چہرے پر ایک درد تھا بولتے ہوئے وجاہت نے اسے دیکھتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کردی۔۔

انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ آپ کو میرے بارے آپ کو سب کچھ بتائیں گے میں نے کہا بھی کہ میں نے آپ سے کچھ نہیں چھپایا مگر۔۔

ہانیہ بولتے ہوئے رونے لگی تو وجاہت نے اسے چپ کروادیا۔۔

بس خاموش میں نے سنا تھا اس دن سب کچھ اسی لئے اسے پیٹا تھا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔

جب آپ نے سب سنا تھا تو اتنے غصے میں کہاں لے کر جارہے تھے آپ مجھے میری بات بھی نہیں سن رہے تھے 

مجھے لگا تھا میں نے آپ کو کھو دیا اس دن۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو حیرت سے دیکھ کے کہا۔۔

مجھے غصہ اس دن اس لئے آیا کیونکہ تم نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا اور روکا تھا مجھے ورنہ میں اسے اسی دن اسے جان سے مار دیتا۔۔ وجاہت کوشش کے باوجود اپنے لہجے کو سخت ہونے سے روک نہیں پارہا تھا..

تمہیں رولانے والے کو میں اگلی سانس بھی لینے نہ دوں اور تم نے اس ذلیل انسان کو بچانے کیلئے مجھ سے جھوٹ کہا تھا۔۔

وجاہت نے سخت لہجے میں کہا۔۔

میں نے انہیں بچانے کیلئے جھوٹ نہیں کہا تھا۔۔ آپ اس وقت اتنے غصے میں تھے مجھے اندازہ تھا اگر میں آپ کو نہ روکتی تو آپ کچھ غلط کر دیتے اور میں نہیں چاہتی کہ آپ جیسا اچھا انسان کچھ بھی غلط کرے۔۔

ہانیہ نے وجاہت کا چہرا ہاتھوں کے پیالے میں لے کر کہا کیونکہ وہ غصے میں آچکا تھا اور ہانیہ کو اسے کچھ بھی کر کے اسکا غصہ ٹھنڈا کرنا تھا۔۔

آپ اچھے انسان ہیں وجاہت میں نہیں چاہتی آپ کبھی بھی کچھ غلط کریں کسی کے ساتھ بھی میری زندگی میں جو بھی ہوا وہ میری قسمت تھی 

اور آپ یہ سوچیں نہ کہ اگر میرے ساتھ وہ  سب کچھ نہیں ہوتا تو میں آپ کی زندگی میں کیسے آتی نہ معظم مجھے طلاق دیتے نہ لوگ میری دنیا تنگ کرتے مجھ پہ نہ مجھ میں حوصلہ آتا نہ میں نوکری کی تلاش میں آپ سے ملتی تو نہ میں آپکی زندگی میں ہوتی ۔۔

یہ کیوں نہیں سوچتے آپ کہ جو کچھ ہوتا ہے ہمارے بھلے کیلئے ہی ہوتا ہے ۔۔ ہانیہ نے بہت پیار سے نرم لہجے میں وجاہت کو سمجھایا۔۔

تو میں نے کب اسے کچھ کہا تھا یا اس کے ساتھ کچھ کیا تھا وہ خود ہماری زندگی میں واپس آیا ہے ہانیہ اور یہ اسکی غلطی تھی کہ وہ ہماری دنیا کو برباد کردے گا برباد تو میں کرونگا اسے اور اس طرح سے کرونگا کہ وہ دوبارہ ہماری زندگی میں جھانکنے کے بارے میں خواب میں بھی نہیں سوچے گا۔۔

وجاہت نے غصے میں کہا ہانیہ کیلئے اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا اسے اندازہ تھا جب بھی وہ وجاہت کو معظم کے بارے میں بتائے گی تو وہ ایسے ہی غصہ کرے گا۔۔

مگر اس کی سوچ سے زیادہ اس وقت وجاہت غصے میں تھا وہ ہانیہ کو تو کچھ نہیں کہہ رہا تھا مگر غصہ وہ کہیں نہ کہیں تو نکالتا اسی لئے ہانیہ کوشش کر رہی تھی کہ وہ اپنا غصہ یہیں ختم کردے۔۔

وجاہت کمرے سے جانے لگا تو ہانیہ نے اسکا ہاتھ تھام لیا وجاہت ہانیہ کے روکنے سے رک گیا تو ہانیہ نے اسے گلے لگا لیا۔۔

پلیز ایسے نہ جاؤ ۔۔ التجا تھی ہانیہ کے لہجے میں کہ وجاہت چاہ کر بھی باہر نہیں جاسکا۔۔

پلیز آپ مجھ سے وعدہ کرو آپ کچھ بھی کسی کے ساتھ بھی غلط نہیں کروگے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاؤ گے۔۔

ہانیہ نے التجائیہ انداز میں کہا ۔۔

وجاہت نے اسے دیکھا مگر کہا کچھ نہیں۔۔ تم نے کچھ کھایا۔۔؟؟

وجاہت نے گہری سانس لے کر کہا۔۔ 

ہانیہ نے بے چارگی سے وجاہت کو دیکھا کہ کیسے اسکے وعدہ کرنے والی بات کو وہ پلٹ گیا۔۔

میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔ وجاہت نے ہانیہ کو کوئی جواب نہ دیتے دیکھا تو کہا۔۔

مجھے بھوک نہیں ہے ہانیہ نے وجاہت سے الگ ہوکر کہا۔۔

وجاہت نے اسے پھر سے اپنی گرفت میں لے کر دیکھا 

میں وعدہ نہیں کر سکتا مگر کوشش کروں گا۔۔ اور تمہارے لئے فروٹس بھجوا رہا ہوں وہ کھا لینا اور ہاں ہر گھنٹے بعد جوس یاد سے پینا ورنہ ملازموں کی کلاس تو میں لونگا ہی تمہیں بھی بہت ڈانٹوں گا۔۔

ہانیہ کا چہرا ٹھوڑی سے تھام کے وجاہت نے کہا تو ہانیہ نے سر اثبات میں ہلا دیا۔۔

دیٹس مائی گرل۔۔ ہانیہ کا گال چوم کے وجاہت نے مسکرا کے اسکا روٹھا چہرا دیکھا۔۔

خیال رکھنا اپنا۔۔ کہہ کر وجاہت کمرے سے باہر چلا گیا۔۔

وعدہ پورا کرنا ہے یا نہیں یہ سوچنے وہ معظم کے پاس چل دیا۔۔

امی خدارا کچھ تو کھالیں آپ۔۔ مہرو کب سے اپنی امی کو کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی مگر کوشش بے ضرر تھی وہ تو بس ہاتھوں میں تسبیح لئے جائے نماز پر بیٹھی تھی اپنے بیٹے کیلئے دعا مانگ رہی تھیں جو کہ کل گھر سے جو نکلا تھا وہ ایک دن بعد بھی گھر نہیں پہنچا تھا۔۔

فرزانہ معظم کے لاپتہ ہونے پر حد سے زیادہ پریشان تھیں۔۔

حرا میرے بیٹے کا کچھ پتہ چلا ۔۔ حرا کو گھر میں آتا دیکھ فرزانہ اسکی طرف بڑھی۔۔

نہیں اماں بھائی کے دوستوں سے پوچھ لیا وہ پرسوں سے کسی سے نہیں ملے محلے داروں سے بھی پوچھا مگر کسی کو کچھ نہیں پتہ بھائی کے دوستوں کو کہا ہے کہ پولیس سے مدد لیں ۔۔

حرا صوفے پر بیٹھ کر اپنی شال طے کرتے ہوئے بولی۔۔

آپ فکر نہ کریں امی بھائی کی تو عادت ہے یوں کئی کئی دنوں تک گھر سے باہر رہنے کی ہانیہ بھابھی کے سامنے بھی تو وہ کئی کئی دن گھر نہیں آتے تھے پھر سے پرانا شوق چڑ گیا ہوگا۔۔

حرا نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور پانی گلاس میں نکال کر پینے کے بعد بولی۔۔

مگر وہ مجھے تو بتاتا تھا حرا مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا میرا دل کہہ رہا ہے کہ میرا بیٹا ضرور کسی مصیبت میں ہے میں ماں ہوں ۔۔ ماں کا دل جھوٹ نہیں بولتا۔۔

فرزانہ حرا سے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولیں۔۔

تو اماں ڈھونڈ تو آئی ہوں میں بھائی کے دوستوں سے کہا تو ہے کہ پولیس کے پاس جائیں اب آپ کیا چاہتی ہیں میں اور مہرو گلی گلی بھائی کو ڈھونڈیں۔۔

حرا چڑ کر بولی وقت کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں معظم کی عزت ختم ہوتی جارہی تھی اسکے کارنامے سن سن کے اب اسے اپنے بھائی سے چڑ ہونے لگی تھی۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

ہاں بولو اصغر میں نے تمہیں ایک کام دیا تھا کیا ہوا اس کام کا۔۔

وجاہت اپنے آفس میں بیٹھا سامنے بیٹھے اصغر کو دیکھ کے بولا۔۔

وجاہت صاحب جس آدمی کی اپنے معلومات اکھٹی کرنے کا کہا تھا وہ کام ہوگیا ہے۔۔

اصغر وجاہت کے سوال کرنے پر مودبانہ انداز میں بیٹھ کر اسے سب بتانے لگا۔۔

سر معظم نامی یہ شخص کراچی کے ایک چھوٹے سے علاقے کا مکین ہے 

گھر میں ایک ماں اور دو کنواری بہن ہے اور یہ اس گھر کا واحد مرد ہے

باپ کا انتقال کافی سالوں پہلے ہوچکا ہے

کچھ سالوں پہلے اسکی شادی اسکی کسی دور پلہ کی رشتہ دار سے ہوئی تھی مگر اس نے اسے طلاق دیدی ۔۔ طلاق کی وجہ معلام نہ ہوسکی۔۔

چھوڑو اس بات کو آگے بتاؤ۔۔ اصغر بول ہی رہا تھا کہ وجاہت نے اسے ٹوک دیا۔۔

سر پھر یہ کسی لڑکی کے عشق میں پاگل ہوگیا کہتے ہیں وہ اسکی یونیورسٹی کی دوست تھی۔۔

مگر جب اسکی نوکری گئی تو اس لڑکی نے اسے چھوڑ کر کسی امیر بوڑھے بزنس مین سے شادی کرلی 

اس کے کچھ قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس لڑکی کے پیچھے ہی اسنے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اپنی بیٹیوں کی شادی کیلئے جو پیسہ اسکے باپ نے چھوڑا تھا وہ بھی اس نے اس لڑکی پر خرچ کردیا۔۔

آج کل بے روزگار ہے یہ وقت پر شادی نہ کر سکا تو اسکی ایک بہن کی شادی ٹوٹ گئی تھی اور اب چھوٹی بہن کی شادی قریب ہے مگر یہ کمائے گا تو شادی کرے گا نہ اسکی ایک بہن آج کل ایک مال میں ملازمت کرتی ہے اور ماں گھر میں سلائی کرتی ہے۔۔

مگر سر ایک بات ہے اسکی ماں بہنیں بہت پریشان ہیں ایک بہن تو نہ جانے کہاں کہاں ڈھونڈ چکی ہے اسکے دوستوں سے بھی پوچھا ہے اسنے 

اصغر نے وجاہت کو ساری تفصیلات سے اگاہ کیا۔۔

ٹھیک ہے جس سے یہ سب معلومات لی ہیں وہ منہ تو نہیں کھولے گا نہ۔۔

نہیں سر میں نے اسکا منہ پیسوں سے بند کردیا ہے اور کسی کو بھی آپ کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تو بے فکر رہیں آپ۔۔ 

ہمم ٹھیک ہے یہ لو اپنا انعام جاسکتے ہو تم ۔۔

وجاہت نے ایک کاغذ کا پیکٹ اصغر کی طرف بڑھایا جسے اسکے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔۔

شکریہ وجاہت صاحب جب بھی کوئی کام ہو تو یاد کیجیئے گا۔۔

سر جھکا کر بولتے ہوئے اصغر وجاہت کے آفس سے باہر چلا گیا۔۔

وجاہت یہی سوچ رہا تھا کہ معظم کے ساتھ کیا کرے کیونکہ اب بات اسکے گھر والوں کی بھی تھی دو چھوٹی کنواری بہنیں تھی اسکی جس میں سے ایک کی شادی ٹوٹ چکی تھی اور دوسری کی قریب تھی 

اگر اسے کچھ ہوتا ہے تو اس کے گھر والوں کی زندگی بہت مشکل ہوجائے گی 

پھر ہانیہ کی باتیں بھی ذہن میں آنے لگی جو وہ اس سے کہہ رہی تھی اور پھر آخر میں اسکا دیا ہوا اسکا وعدہ وجاہت اپنے انگھوٹے سے اپنی کنپٹی مسلتے ہوئے سوچنے لگا۔۔

پھر اٹھ کر اپنے فارم ہاؤس چل دیا جہاں اس نے معظم کو رکھا ہوا تھا۔۔

فارم ہاؤس پہنچ کر اسنے اپنے آدمی کو فون پر کچھ ہدایات دیں اور ہانیہ کو کال بھی کی اور اسے ڈرائیور کے ساتھ فارم ہاؤس آنے کیلئے کہا

قریب ڈیڑھ گھنٹے میں ہی اسکا آدمی اور ہانیہ دونوں ہی فارم ہاؤس پہنچ چکے تھے۔۔

وجاہت اپنے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے۔۔ ہانیہ کو وجاہت کا اس طرح سے اچانک فارم ہاؤس بلانا سمجھ نہ آیا۔۔

کسی سے ملوانا ہے تمہیں۔۔ وجاہت نے اپنی پینٹ کی جیب سے ہاتھ نکالا اور اپنا ہاتھ ہانیہ کے بازوؤں کے گرد پھیلا کر اسے ساتھ لے جانے لگا۔۔

ایک کمرے میں جاکر وجاہت نے لائٹس آن کری تو ہانیہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی حیرت سے کیونکہ سامنے ہی معظم کو کرسی پر رسی سے باندھا ہوا تھا۔۔

یہ سب کیا ہے وجاہت۔۔ خوف سے وہ وجاہت کو دیکھنے لگی۔۔

کمرے میں ایک دم سے روشنی ہونے پر معظم نے اپنی آنکھیں کھولیں تو سامنے وجاہت کے ساتھ ہانیہ کو دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو کوئی جواب نہ دیا اسے کمرے میں رکھے صوفے تک لے گیا اسے بٹھا کر وجاہت نے معظم کو آزاد کیا۔۔

کچھ کہہ رہے تھے کل تم میری بیوی کے بارے میں دوبارہ بولنا چاہوگے۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔۔ ہانیہ کبھی وجاہت کا غصے سے بھرا چہرا دیکھنے لگی تو کبھی معظم کا شرمندگی سے جھکا ہوا چہرا

جلدی بولو وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔

وجاہت نے اب کی بار آواز کو زرا اونچا کر کے کہا تو ہانیہ ذرا سہم سی گئی۔۔

وجاہت نے اسکے کندھے پر ذرا دباؤ دیا جس سے وہ تھوڑی پرسکون ہوئی۔۔

میں معافی چاہتا ہوں جو کچھ میں نے کہا تھا وہ سب جھوٹ تھا ہانیہ نے اپنی زندگی میں کچھ غلط نہیں کیا بلکہ غلط تو میں نے کیا تھا اس کے ساتھ سارے خاندان میں میں نے اسے رسوا کیا تھا اسے طلاق دے کر مگر میرا یقین کریں میں نے یہ سب صرف اپنی محبت کو پانے کیلئے کیا تھا 

ہانیہ مجھے معاف کردو میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا تھا تو دیکھو میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا سونیا مجھے چھوڑ کر چلی گئی اور حرا کی شادی ٹوٹ گئی میری نوکری بھی چلی گئی ۔۔

معظم ہانیہ نے معافی مانگنے لگا۔۔

تم کو کیا لگا تم میری بیوی کے بارے میں کچھ بھی کہو گے اور میں تمہاری باتوں پر یقین کرونگا اپنی بیوی کو میں مہینوں سے جانتا ہوں اور تم سے میں پہلی بار ملا تھا کیا لگا تھا تمہیں کہ میں تمہاری بناوٹی کہانی پر یقین کرونگا۔۔

چوٹ تم نے بلکل سہی جگہ لگانے کی کوشش کی تھی مگر میرا یقین تمہاری تچی سی سوچ سے کہیں زیادہ ہے اپنی بیوی پر ۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے تم ابھی تک زندہ کیوں ہو۔۔؟ وجاہت نے شعلہ برساتی آنکھوں سے معظم کے آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

میں نہیں جانتا ۔۔ وجاہت کی نظروں میں دیکھنے کی معظم میں ہمت نہیں تھی تو وہ نظریں جھکا کر بولا۔۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ میری بیوی نے مجھ سے وعدہ لیا ہے کہ میں کوئی غلط کام نہیں کرونگا 

دوسری یہ کہ کہیں نہ کہیں تم وجہ ہو ہانیہ کو میری زندگی میں بھیجنے کے 

اور آخری وجہ تمہارے گھر میں بیٹھی بیوہ ماں اور دو چھوٹی بہنیں ہیں ۔۔

میں بھی ایک بہن کا بھائی ہوں بہنوں کی تڑپ سمجھ سکتا ہوں اسی لئے تمہیں آزاد کر رہا ہوں باہر تمہیں ایک آدمی ملے گا اس کے پاس ایک بیگ ہے 

وہ تم اس سے لیتے ہوئے جانا میرا آدمی تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دے گا اس بیگ میں اتنا پیسہ ہے کہ تم آگے کی اپنی زندگی آرام سے گزار سکتے ہو اپنی بہنوں کی شادی کرو اور اپنی ماں کو لیکر اس شہر سے اور میری دنیا سے بہت دور چلے جاؤ اور اگر آئیندہ تم نے دوبارہ میری دنیا میں آنے کی کوشش کری تو اس پل کے بعد تم سانس نہیں لوگے۔۔

صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے وجاہت نے کہا۔۔

اپنی محبت کے صدقے میں تمہیں تمہاری جان دے رہا ہوں میں معافی مانگو اس سے اور دفع ہوجاؤ۔۔

وجاہت نے معظم کو دیکھ کے کہا۔۔

معظم نے بھی فوراً ہی اپنے ہاتھ ہانیہ کے آگے جوڑ لئے احساس ندامت سے اسکا سر جھکا ہوا تھا۔۔

ہانیہ مجھے معاف کر دو جو کچھ بھی میں نے تمہارے ساتھ کیا اس سب کیلئے ۔۔

میں نے تو آپ کو کب کا معاف کردیا تھا معظم جب وجاہت سے محبت ہوئی اسی دن آپ کو معاف کردیا تھا میں نے 

بلکہ شکر گزار ہوں میں آپکی کہ آپ کی وجہ سے ہی مجھے ایک سچا پیار کرنے والا اور عزت دینے والا شوہر ملا۔۔

ہانیہ نے نظریں وجاہت پر مرکوز کئے معظم کو کہا وہ اس شخص کو دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی 

وجاہت کی نظریں بھی اسی پر تھی معظم ہانیہ کے الفاظ سن کر کمرے سے نکلتا چلا گیا

مجھے یقین تھا آپ کبھی کسی کے ساتھ کچھ غلط نہیں کریں گے۔۔

ہانیہ نے مسکرا کے وجاہت کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

جو کچھ بھی اس نے مجھے کہا تھا سن شائن دل تو کیا تھا کہ اسے اسی وقت سبق سیکھاؤ مگر پتہ نہیں کیوں رک گیا میں پھر پہلے آج تمہاری باتیں ذہن میں چلنے لگیں اور بعد میں اس آدمی کے گھر والوں کے بارے میں پتہ چلا تو میں رک گیا۔۔

جو کچھ اب اس کو دیا وہ صرف اسکی ماں اور بہنوں کیلئے کیونکہ ایک وقت میں انہوں نے تمہارا خیال رکھا بس انسانیت کی خاطر یہ سب کیا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا چہرا ہاتھ کی پشت سے سہلاتے ہوئے کہا۔۔

ہانیہ بس مسکرا دی آج اسکے دل میں وجاہت کی عزت اور بھی بڑھ گئی محبت تو پہلے ہی اپنی جگہ بنا چکی تھی اسکے دل میں۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

دیکھتے دیکھتے وہ دن بھی آگیا جب عالم ولا کو دلہن کی طرح سجایا گیا۔۔

وجاہت تو چاہتا تھا اسکی گڑیا کی شادی بہت شاندار طریقے سے کسی ریزورٹ میں ہو مگر ہانیہ کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے اسنے مہندی کی رسم گھر کے لان میں ہی رکھی۔۔

سورج کے ڈوبتے ہی عالم ولا اپنی شان و شوکت سے جھلملانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ 

 زرد رنگ کے پھولوں اور سفیداور دھانی رنگ کے پردوں اور فینسی لائٹوں سے لان کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔۔۔۔ 

مایوں کی رسم میں ہادی اور نیلم کیلئے جھولے کو خوبصورتی سے گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا نیلم کو لانے کیلئے ایک راستہ بنایا گیا جسے خوبصورتی سے گیندے کے پھول کی پتیوں سے بھر دیا گیا۔۔

عالیہ بیگم نے ہلدی رنگ کا خوبصورت سوٹ پہلنا تھا۔۔

شان صاحب اور جمشید صاحب نے سفید کاٹن کا سوٹ پہنا تھا جس کے اوپر دونوں کے ہی مہندیا رنگ کی واسکٹ پہن رکھی تھی۔۔

مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم ولا کے لان میں لوگ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ۔۔

لڑکیوں اور لڑکوں کی ہنسی قہقہہ لان میں گونجنے لگا جو کہ ماحول کو اور بھی حسین بنا رہے تھے۔۔

دادو اپنے مہمانوں کے ساتھ لان میں ہی بیٹھی تھی سب لوگ ہی ان سے احترام سے مل رہے تھے

ہانیہ اور نیلم ابھی گھر میں ہی موجود تھی جنہیں پارلر والی تیار کرکے جاچکی تھی۔۔ 

نیلم اپنے کمرے میں بیٹھی ہلدی اور ہلکے گلابی رنگ کے لہنگے میں بھاری دوپٹا جس پر سونے کی ستاروں سے خوبصورتی سے کام کیا گیا تھا سر پر اچھے سے سیٹ کئے گلابی رنگ کے آدھ کھلے گلاب کے  پھولوں کے زیور میں پارلر والی کی ہاتھوں کے مہارت نے نیلم کو کوئی سچ مچ کی شہزادی ہی بنادیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالیہ بیگم نے اپنی نازوں پلی بیٹی کو دلہن کے روپ میں دیکھا تو ان کی آنکھیں چھلکنے لگی ۔۔

ماشاءاللہ اللہ نظر بد سے بچائے عالیہ بیگم نے نیلم کو پیار کرکے دل سے دعا دی۔۔

ہانیہ بھی اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رہی تھی اسے عالیہ بیگم اور دادو نے منع کیا تھا کسی بھی طرح کے پھولوں کے زیور پہننے سے۔۔

اورنج اور دھانی رنگ سے خوبصورت لہنگا چولی میں ملبوس ہلدی رنگ کے ڈوپٹے کو ایک کندھے پر سیٹ کئے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی 

سنہری رنگ کے زیورات پہنے وہ بھی کسی دلہن سے کم نہیں لگ رہی تھی 

کمر پر سنہری رنگ کا کمر بند باندھا ہوا تھا جو کہ ڈوپٹہ کے اوپر تھا ۔۔ ڈوپٹہ ایسے مکمل طور پر سیٹ کیا ہوا تھا جس سے ہانیہ کو چلنے پھرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔۔

بیوٹیشن کے کئے گئے میک اپ مین آج اسکا سنہری روپ الگ ہی خوبصورتی پیش کر رہا تھا۔۔

آج بالوں کو بھی اسنے سائڈ بریڈ کے سے اسٹائل میں بنوایا تھا۔۔

وجاہت سے بہت ضد کر کے اس نے بیوٹیشن سے میک اوور کروایا تھا ورنہ تو وجاہت نے کہا تھا کہ بلکل سادگی میں رہنا مگر پھر وہ مان گیا کیونکہ انکی شادی کی تو کوئی رسمیں ہوئی نہیں تھی تو اسی لئے وجاہت چاہتا تھا کہ نیلم کی شادی کو ہانیہ دل سے انجوائے کرے جیسے بھی وہ چاہتی ہے۔۔

یار سن شائین دیکھو زرا اس نے اپنے بالوں سے ہئیر کیچ کھینچا تو مجھے اب اس کے بال کچھ اچھے نہیں لگ رہے زرا اسے ٹھیک کردو۔۔

وجاہت حور کو گود میں لئے کمرے میں داخل ہوا اور اپنی ہی دھن میں بولتا چلا گیا ۔۔ ہانیہ بیڈ پر اسکی مخالف سمت بیٹھی چوڑیاں پہن چکی تھی وجاہت کی آواز پر وہ اٹھی اور اپنا رخ وجاہت کی طرف کیا۔۔

ہانیہ کو دیکھ کے وجاہت جو شاید آگے بھی کچھ کہتا مگر اب تو جیسے اسکے ہونٹ سل گئے تھے۔۔

ہانیہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ وجاہت نے اپنی پلکیں بھی نہ جھپکائیں اسکی نظر تو جیسے تھم سی گئی اپنی سن شائن پر جو کہ آج سچ مچ میں اپنے سنہری روپ سے وجاہت کی آنکھوں میں جگمگا رہی تھی۔۔

حور وجاہت کی گود سے اترنے کیلئے کسمسائی تو وجاہت ایک دم چونک کر حال میں واپس آیا۔۔

کیسی لگ رہی ہوں میں۔۔ ہانیہ نے خوبصورت مسکان لبوں پر سجائے وجاہت سے پوچھا۔۔

یار اتنی خوبصورت نہ لگو کہ میں بے حس ہو کر تمہیں اس کمرے میں بند ہی نہ کردوں۔۔  اتنی حسین نہ لگو کہ میں تم پر سے نظریں ہی نہ ہٹا سکوں۔۔۔ سچ کہوں تو آج ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سنہری پری کو مجھے دنیا سے چھپا کے رکھنا چاہئیے۔۔

وجاہت کے بے خودی سے بولنے پر ہانیہ کا چہرا اتر گیا۔۔ مطلب آج بھی آپ مجھے تیار ہوکر باہر جانے نہیں دینگے۔۔

ہانیہ نے بجھے دل سے سوال کیا تو وجاہت کو ایک دم سنبھلنا پڑا دوسری طرف حور اپنے ہاتھ پیر چلانے لگی وجاہت کی گرفت میں ۔۔

وجاہت نے اسے نیچے اتارا اور ہانیہ کے قریب آیا۔۔

نہیں آج کچھ نہیں کہوں گا گڑیا کی شادی میں تمہارا جو دل کرے وہ تم کرو میں نہیں روکوں گا بس اپنا خیال رکھنا زیادہ چہل قدمی مت کرنا اور جو بھی دادو اور مام کہیں انکی سننا۔۔

وجاہت نے اسکے ماتھے پر سجی نازک سی بندیا پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔

وجاہت کے لمس کو محسوس کرکے ہانیہ پھر سے مسکرانے لگی۔۔

پھر اسنے حور کو دیکھا جو اپنے بال پورے بگاڑ چکی تھی 

ہانیہ کے جیسے ہی اورنج دھانی اور ہلدی رنگ کے چھوٹے سے لہنگے میں حور بہت ہیاری لگ رہی تھی۔۔

اس کے ہئیر کیچ میں ستاروں کا کام تھا جو کہ شاید اسے چبھ رہا تھا تو اسنے اپنے سر سے اتار دیا۔۔

جسکی وجہ سے اسکے بال خراب ہوگئے اور وجاہت اپنی بیٹی کے بال ٹھیک کروانے کیلئے ہانیہ کے پاس لایا۔۔

ہانیہ نے حور کے گال پر پیار کیا اور پھر اسکے بال بنانے کے بجائے حور کے کپڑوں کے ساتھ آئے چھوٹے سے ڈوپٹے کو لیا جوکہ اسے پہنایا نہیں تھا اب ہانیہ نے اسے کھول کر اسکے سر پر رکھا اور اسکی گردن کے پیچھے کر کے اسنے پن لگا دی جیسے کشمیری عورتیں اپنی گردن کے پچھلے حصے پر اسکارف باندھتی ہیں وجاہت اپنی چھوٹی سی پری کو دیکھ کے مسکرا دیا۔۔

وجاہت نے اس وقت سفید شیروانی پہن رکھی تھی جس پر اسنے دھانی رنگ کی شال مفلر کی طرح لی ہوئی تھی بھورے بالوں کو نفاست سے سیٹ کیا ہوا تھا ۔۔ بھورے آنکھوں میں آج سنجیدگی کے بجائے آج نرمی تھی ۔۔ گھنی موچھوں تلے ہونٹ مسکرا رہے تھے اپنی چھوٹی سی پری کو دیکھ کے ۔۔

ہانیہ نے بے اختیار ہی اپنی ہارٹ بیٹ مس کی یہ مغرور شہزادہ ہانیہ کو ایک محبت کرنے والے شوہر اور نرم لہجے والے باپ کی صورت میں ہمیشہ بہت اچھا لگتا تھا۔۔

چلیں سن شائن ۔۔ میری گڑیا کی فرمائش ہے کہ ہم دونوں اسے اسٹیج تک لے کر جائیں۔۔ 

وجاہت نے حور کو پھر سے گود میں لیا اور ہانیہ کی طرف ہاتھ بڑھا کے کہا۔۔ ہانیہ نے مسکراتے ہوئے وجاہت کا ہاتھ تھام لیا۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وجاہت حور اور ہانیہ نیلم کے کمرے میں داخل ہوئے تو عالیہ بیگم نے محبت سے ان تینوں کو دیکھا دل ہی دل میں ان تینوں کی خوب بلائیں لی۔۔

نیلم نے بھی اپنے بھائی اور بھابھی کو دیکھا تو دل ہی دل میں ان کی خوشیوں کیلئے ڈھیروں دعائیں کی۔۔

ماشاءاللہ نیلم میری جان اتنی حسین لگ رہی ہو۔۔ ہانیہ نے نیلم کو دیکھ کے محبت بھرے لہجے میں کہا۔۔

شکریہ بھابھی مگر ایک بات کہوں گی بھائی پلیز بھابھی سے دوبارہ شادی کرلیں قسم سے بھابھی آپ کسی ریاست کی شہزادی لگ رہی ہیں اتنی خوبصورت کے کیا بتاؤں۔۔ نیلم نے اپنے نرم لہجے میں دل سے ہانیہ کی تعریف کی جسے سن کمرے میں موجود سبھی مسکرا دیئے۔۔

وجاہت نے پیار سے نیلم کو گلے لگایا اور اسکے ماتھے پر پیار کیا ۔۔ ماشاءاللہ میری گڑیا اتنی پیاری لگ رہی ہے پتہ ہی نہیں چلا تم کب بڑی ہوگئی نیلم۔۔ 

وجاہت نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔

عالیہ بیگم اور ہانیہ کی آنکھیں نم ہوگئیں بھائی بہن کو ساتھ لگے دیکھ کے۔۔

چلو تم دونوں نیلم کو باہر لے کر آؤ میں حور کو ساتھ لے جاتی ہوں۔۔

عالیہ بیگم بول کے حور کو لئے کمرے سے چلی گئیں۔۔

وجاہت اور ہانیہ اسے لئے چل دئیے لان میں اسٹیج تک جانے والے راستے پر نیلم نے ہانیہ اور وجاہت کا ہاتھ تھام لیا اور ان کے ساتھ اسٹیج کی طرف جانے لگی۔۔

اسٹیج پر ہادی کریم کلر کی شیروانی کے اوپر ہلدی رنگ کی شال کو مفلر کی طرح لئے کسی شہزادے کی طرح اپنی شہزادی کا انتظار کر رہا تھا۔۔

وجاہت اور ہانیہ نیلم کو اسٹیج تک لے کر گئے پھر اسے ہادی کے ساتھ ہی پھولوں سے سجائے گئے جھولے پر بٹھا دیا۔۔

پرنسس بہت حسین لگ رہی ہو آج دل کر رہا ہے آج ہی چرا کے لے جاؤ مگر یہ کمبخت رسم و رواج میرے پیروں میں بیڑیوں کا کام کر رہی ہیں۔۔

نیلم کی طرف چہرا کئے ہادی سرگوشی نما آواز میں بولا تو نیلم کا جھکا سر شرم سے اور جھک گیا جسے دیکھ کے ہادی کے چہرے پر بھی خوبصورت مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔

کچھ ہی دیر میں ہلدی کی رسم شروع ہوئی تو عالیہ بیگم نے نیلم کو ہلدی لگائی جبکہ شان صاحب نے ہادی کو ہلدی لگائی۔۔

ہانیہ اور وجاہت نے بھی نیلم اور ہادی کی ہلدی کی رسم کی۔۔

جمشید صاحب نے بھی اپنے بیٹے اور بہو کی رسم کی آج انہیں اپنی شریک حیات کی کمی بہت زیادہ محسوس ہورہی تھی۔۔

اپنے خوبرو بیٹے کو گلے لگا کر انہوں نے اسے اسکی آگے کی زندگی کیلئے ڈھیروں دعائیں دیں۔۔

باری باری سب مہمان بھی رسم کے مطابق دلہا دلہن کو ہلدی لگاتے گئے ساتھ میں ہادی کے کچھ دوست اور نیلم کی کچھ کزنز مسلسل انہیں اپنی باتوں سے ہادی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے جس کا جواب ہادی بہت مزے لے لے کر دے رہا تھا اور نیلم سر جھکائے بس مسکرائے جارہی تھی۔۔

ہانیہ گھر کی بہو ہونے کے ناطے سب مہمانوں سے مل رہی تھی ہر کوئی اس سے محبت سے مل رہا تھا اور ڈھیروں دعائیں دے رہا تھا۔۔

کچھ لڑکے لڑکیوں نے شور کیا کہ ہادی نیلم کو ہلدی لگائے تو ہادی نے اپنے ہاتھوں پر ہلدی لے تو لی مگر لگانے سے پہلے اسنے وجاہت کو دیکھا جو مصنوعی غصے سے اسے ہی گھور رہا تھا۔۔

ہادی نے ایک چڑانے والی مسکراہٹ وجاہت کو پاس کی اور ساتھ بیٹھی نیلم کے گالوں پر ہلدی لگائی 

وجاہت رخ موڑ کر مسکرانے لگا یہ سوچ کر کہ ہادی کبھی نہیں سدھر سکتا ہر موقع پر وہ وجاہت کو زچ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے کہاں دیتا تھا۔۔

پھر اسنے اپنی سن شائن کو دیکھا جو کسی لڑکی سے بات کرتے ہوئے مسکرا رہی تھی وجاہت کو ایک دم خیال آیا کہ اتنی دیر سے اسنے کچھ کھایا پیا نہیں تو پہنچ گیا اس کے پاس اور اسے لئے ایک ٹیبل پر گیا اور ویٹر سے کچھ اسنیکس منگوائے اور اسے خود اپنے ہاتھ سے کھلانے لگا۔۔

کئی لوگوں نے انہیں دیکھ کر دل ہی دل میں دعائیں دیں۔۔۔

مایوں خیر سے نمٹ گئی سبھی مہمان بھی اپنے اپنے گھر کو چل دئیے گھر کے بڑے بھی اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے تھے۔۔

لان میں بس اس وقت ہادی نیلم ہانیہ اور وجاہت بیٹھے تھے۔۔

حور کو عالیہ بیگم کے پاس سلا دیا تھا وجاہت نے۔۔

بھئی آج مزا بہت آیا مگر کسی نے بھی ڈانس کیوں نہیں کیا۔۔

ہانیہ نے ٹیبل پر کہنی رکھ کے اپنا چہرا اپنی ہتھیلی پر ٹکا کے کہا۔۔

تم کر لیتی ڈانس ویسے بھی ہمارے ہاں ڈانس وغیرہ نہیں ہوتا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا تھکا ہوا چہرا دیکھ کے مذاق میں کہا۔۔

میں کونسا ویسے والا ڈانس کہہ رہی ہوں لڈیاں تو ڈالی جاسکتی تھیں نہ یا پھر لڑکیاں ڈانڈیاں ہی کھیلتی ۔۔

ہانیہ نے افسوس سے کہا۔۔ کیا ہوگیا بھابھی آپ کو تو ایسے افسوس ہورہا ہے جیسے ساری ڈانس پریکٹس کرلی ہو اور اینڈ ٹائم پر سب نے منع کردیا ہو۔۔

نہیں ایسا کچھ نہیں ہے میں تو بس ایسے ہی کہہ رہی ہوں۔۔ ہانیہ نے مسکرا کے نیلم سے کہا۔۔

ویسے زرا سوچو مسٹر اکڑو لڈیاں ڈالتے ہوئے کیسا لگتا۔۔ ہادی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو وجاہت اسے گھورنے لگا۔۔

تم دولہے ہو اسی لئے بخش دیا ورنہ رسموں کے دوران جو تم مجھے چڑانے والی اسمائل پاس کر رہے تھے ہر تھوڑی دیر بعد دل تو کر رہا تھا اس وقت اسٹیج سے اٹھا کر پھینک دوں میں ایسا کر بھی جاتا اگر میری گڑیا تمہارے ساتھ نہ بیٹھی ہوتی۔۔

وجاہت نے غصے سے کہا تو ہانیہ اور ہادی دونوں نے نفی میں سر ہلا دیا کہ کیا ہو جو یہ آدمی مزاق کا جواب ہنس کر دے دے مگر نہیں غصہ کرنا تو اولین فرض ہے وجاہت صاحب کا۔۔

ویسے بھابھی اور برو کا ڈانس ہوتا تو لوگ انہیں دیکھتے ہی پاگل ہوجاتے کتنے خوبصورت لگتے آپ لوگ۔۔

نیلم نے بات کا رخ چینج کیا تو وجاہت نیلم کو گھورنے لگا۔۔ تم بھی کیا کہہ رہی ہو پرنسس وجی اور ہانی کے ساتھ ڈانس کبھی نہیں سچ کہوں تو میں خود حیران ہوں کہ اس نے ہانی کو اتنے آرام سے پورے فنکشن میں گھومنے کیسے دیا۔۔

مجھے تو لگا تھا ہر پانچ منٹ بعد وجی ہانی کو کہے گا کہ گھونگھٹ کرو اس طرف نہ جاؤ اتنا مت چلو یہ کھاؤ وہ نہ کھاؤ مگر آج تو کمال ہی ہوگیا وجی خیر تو ہے نہ۔۔

ہادی نے ہنستے ہوئے وجاہت کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔۔

تم ضائع ہوجاؤگے مجھ سے ہادی سوچ لو ابھی نکاح نہیں ہوا میری گڑیا سے تمہارا ۔۔

وجاہت نے طنزیہ مسکرا کے کہا تو نیلم حیرت سے وجاہت کو تکنے لگی۔۔

مجھے نیند آرہی ہے وجاہت اندر چلیں ۔۔ ہنسی مذاق کا رخ سیریس باتوں کی طرف ہوتا نظر آیا تو ہانیہ نے وجاہت کو لے کر اندر جانا ہی مناسب سمجھا ۔۔ ایک تو پتہ نہیں وجاہت کو کب کس بات پر غصہ آجاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا کہ مذاق کر رہے ہیں یا غصہ۔۔

ہاں چلو چلتے ہیں ۔۔ ہانیہ کو اٹھتا دیکھ وجاہت بھی اپنی جگہ سے اٹھا نیلم کو بھی اپنے ساتھ چلنے کا کہا اور ہادی کو اپنے گھر جانے کا کہا۔۔

جب تک ہادی گھر سے نکل نہیں گیا وجاہت نیلم اور ہانیہ کو لے کر گھر کے اندر داخل نہیں ہوا۔۔

پھر نیلم کو اسکے کمرے میں بھیج کر وہ ہانیہ کو لئے اپنے کمرے میں گیا۔۔

بیڈ پر ہانیہ بیٹھ کر اپنے سینڈل کے اسٹیپس کھولنے لگی تو وجاہت نے اسے روکا اور اپنی شیروانی اتار کر ہانیہ کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھا اور اسکی سینڈل کے اسٹیپس کھولنے لگا مگر یہ دیکھ کے ہی وہ حیران رہ گیا کیونکہ ہانیہ کے دونوں پیر سوج چکے تھے اور باقائدہ اسکے پیروں پر اسٹیپس کے نشان بن چکے تھے۔۔

یہ کیا ہے تمہارے پیر سوج کیوں گئے ہیں ہانیہ تم چل کیسے رہی تھی اتنی ٹائم سے درد نہیں ہورہا تھا تمہیں ۔۔ وجاہت نے ہانیہ کے پیروں کو دیکھتے ہوئے فکر سے کہا۔۔

کچھ نہیں ہوا مام سے پوچھا تھا میں نے تو انہوں نے کہا تھا کہ پیروں پر زیادہ چلنے پھرنے کی وجہ سے سوائلنگ آجاتی ہے۔۔

تھوڑا آرام کروگی تو ٹھیک ہوجائے گا۔۔ ہانیہ نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا اور پیر بیڈ پر پھیلا لئے۔۔

تھک گئی نہ آج ۔۔ وجاہت نے اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے اسکا چہرا اپنے ہاتھ سے سہلاتے ہوئے کہا۔۔

ہاں تھوڑا سا مگر آج بہت اچھا لگا بس پاپا اور امی بھائی یہ سب نہیں آسکے انہیں مس کیا بہت۔۔

ہاں فاخر کی کال میرے پاس بھی آئی تھی کہہ رہا تھا پاپا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے  بارات میں شرکت کریں گے سب لوگ۔۔

ویسے ایک بات کہوں ۔۔ وجاہت نے محبت سے ہانیہ کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔

جی ۔۔ آج بہت خوبصورت لگ رہی تھی نیلم ٹھیک کہہ رہی تھی تم سے آج پھر سے شادی کرنی چاہئے تھی مجھے۔۔ 

بول کے وجاہت دلفریب انداز میں مسکرا دیا۔۔

کچھ بھی ہاں۔۔ ہانیہ وجاہت کی دوبارہ شادی والی بات پر مسکرا دی ۔۔۔ اچھا چلیں سامنے سے ہٹیں میں زرا یہ زیور اتار کر کپڑے چینج کرلو اب زرا گرمی لگ رہی ہے اس بھاری لہنگے میں۔۔

ہانیہ اٹھنے لگی تو وجاہت نے اسے اسکے بازو سے پکڑ کر دوبارہ پہلے والی پوزیشن میں بٹھا کر کہا۔۔

تمہارے پیر سوج رہے ہیں تھوڑی دیر آرام کرو یہ زیورات تو میں بھی اتار سکتا ہوں نہ۔۔ وجاہت بولتے ہوئے ہی ہانیہ کے ہاتھ سے چوڑیاں اتارنے لگا۔۔

ٹھیک ہے مگر یہ بندیا اور ائررنگ تب تک نہیں اترے گے جب تک میرے بال نہیں کھلیں گے اور یہ آپ سے نہیں ہوگا۔۔

ہانیہ نے وجاہت کو چوڑیاں اتارتے دیکھ کے کہا۔۔

تم فکر نہ کرو دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں ہے جو وجاہت عالم نہیں کر سکتا۔۔

وجاہت نے مسکراتے ہوئے کہا دیہان سے اسکی چوڑیاں سائڈ ٹیبل پر رکھی پھر اسکے بالوں سے پنیں نکالنے لگا وہ اتنے آرام اور دیہان سے کام کر رہا تھا کہ ہانیہ کو محسوس ہی نہ ہوا اور وہ اسکے بال بیک کامبنگ اور بریڈ سے آزاد کر چکا تھا۔۔

پھر آہستہ سے اسکے ماتھے سے بندیا ہٹائی اور ماتھے پر اپنے لب رکھ دئیے کانوں سے بندے اتارے تو وجاہت نے اسکے کان کی لو کو باری باری لبوں سے چھوا ہانیہ کی سانسیں اتھل پتھل ہونے لگی۔۔

گلے سے وجاہت نے اسکے نیکلیس نکالا تو جیسے ہی وہ زرا آگے بڑا ہانیہ نے بیڈ سے کشن اٹھا کر وجاہت کے چہرے پر رکھا اور زور سے قہقہہ لگانے لگی۔۔

یہ چیٹنگ ہے یار سن شائن۔۔ چیٹنگ۔۔ بات صرف جیولری اتارنے کی ہوئی تھی رومانس کرنے کی نہیں ۔۔

اچھا ٹھیک ہے تم جیتی ہاتھ نیچے کرو اور جاؤ کپڑے چینج کرلو اور اگر میری خدمت پیش آئے تو بس ہلکی سی آواز دے دینا۔۔ چھوٹی سے شرارت کرکے وجاہت نے ہانیہ کو جانے دیا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

اگلے دن شام کے وقت مہندی والی آئی تو نیلم کے ہاتھوں پیروں پر دو لڑکیاں مہندی لگانے لگی اور دو لڑکیاں ہانیہ کے ہاتھوں کو رنگنے لگیں۔۔

وجاہت ہانیہ کے چہرے کے بگڑے تاثرات دیکھ کے بے چین ہورہا تھا ۔۔ ہانیہ کو مہندی کی خوشبو سے ابکائی آرہی تھی مگر وہ پھر بھی مہندی لگوا رہی تھی۔۔

اسے یاد نہیں آرہا تھا کہ اسنے آخری بار مہندی کب لگوائی تھی مگر اسکی خوشبو کا کیا کیا جائے۔۔

اوپر ریلنگ تھامے کھڑا وجاہت بس ہانیہ کا چہرا ہی دیکھ رہا تھا اسنے اسی وقت انٹرنیٹ پر کچھ سرچ کیا اور پھر اسے ایک  ادرک کا ایک ٹکڑا دیا جسکی خوشبو سے اسے تھوڑا بہتر محسوس ہوا تو عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے وہ ادرک کا پیس ہانیہ کے گلے کے پاس ہی رکھ دیا تاکہ اسکی خوشبو اس تک پہنچ سکے ویسے بھی وہ ایزی چئیر پر بیٹھ کر مہندی لگوا رہی تھی 

نیلم کی مہندی مکمل ہوئی تو اسنے تلوؤں پر مہندی لگانے سے پہلے اپنے کمرے میں جانا چاہا تو عالیہ بیگم نے کچھ لڑکیوں کے ساتھ اسے اسکے کمرے میں بھیج دیا۔۔

پتہ نہیں یہ لڑکیاں کتنا تھک گئی ہونگی مہندی لگا لگا کر میرا تو لگوا کر ہی برس حال ہوگیا ۔

بیڈ پر لیٹتے ہی نیلم نے دل میں سوچا۔۔ 

مہندی والی مہندی پوری کر کے چلی گئیں تو نیلم نے ایک ہاتھ سے جسکی مہندی کافی سوکھ چکی تھی ہادی کو کال کرنے لگی۔۔

تیسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا ۔۔ اسلام و علیکم ہادی۔۔ نیلم نے دھیمی مسکراتی آواز میں سلام کیا ۔۔ 

وعلیکم السلام جانے ہادی کیا کر رہی ہیں آپ۔۔ ہادی نے محبت سے جواب دیا تو نیلم کے چہرے پر بھی دلفریب مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔

کچھ نہیں مہندی لگوا کر بیٹھی ہوں تھک گئی بہت مگر مہندی بہت پیاری لگی ہے میری۔۔ نیلم نے بتاتے ہوئے اپنے دوسرے ہاتھ کی مہندی دیکھتے ہوئے کہا۔۔

کیا واقعی تو پھر رکو میں ویڈیو کال کرتا ہوں میں بھی تو دیکھو اپنی جان کے مہندی والے ہاتھ ۔۔ ہادی نے پیار سے کہا تو نیلم نے اسے روک دیا۔۔ نہیں آپ ویڈیو کال نہ کریں اگر آپ ابھی مہندی دیکھ لینگے تو اسکا رنگ پھیکا پڑجائے گا۔۔ 

یہ سب کیا کہہ رہی ہو میں نے تو سنا ہے شوہر جتنی محبت کرتا ہے اتنا ہی مہندی کا رنگ گہرا ہوتا ہے ۔۔ ہادی نے سوچتے ہوئے کہا۔۔ ہاں مگر میں نے یہ بھی سنا ہے تو آپ کل تک کا انتظار کریں ۔۔ 

نیلم نے مسکرا کے کہا اور لائن کاٹ دی۔۔

موبائل رکھ کر اسنے آنکھیں موندی ہی تھی کہ پھر سے کال آنے لگی مگر نیلم نے کال نہیں اٹھائی جانتی تھی کس کی کال ہوگی ۔۔

تیسری بار کال آکر بھی بند ہوگئی اب کسی کا میسج آیا تو نیلم نے موبائل پر میسج پڑھا ۔۔

میسج ہادی نے کیا تھا کہ۔۔ جان ہادی کال نہ اٹھانے کا اور مہندی نہ دکھانے کا پورا پورا حساب کل لیا جائے گا تیار رہنا۔۔

میسج پڑھتے ہوئے نیلم کا چہرا شرم و حیا سے لال ہونے لگا۔۔

اور اپنی آنے والی زندگی کے خواب دیکھتے ہوئے وہ نیند کی وادیوں میں کھوگئی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

بارات کا انتظام شہر کے سب سے بڑے ہال میں شاندار طریقے سے کیا ہوا تھا۔۔

ہر چیز اپنی اعلا معیار کا منہ بولتا ثبوت تھی ۔۔ میڈیا کو گھر کے اندر رکھے فنکشن میں آنے کی تو اجازت نہیں تھی مگر آج بارات کے دن ایک انٹرنیشنل بزنس ٹائیکون کی شادی تھی تو دوسری طرف دوسرے بزنس ٹائیکون کی اکلوتی بہن کی شادی تھی۔۔

میڈیا کو مکمل طور پر اجازت دی گئی تھی شادی میں آنے کی مگر صرف ایک حد تک وجاہت کو گوارہ نہ تھا کہ ساری دنیا اسکی پرسنل لائف میں جھانکے اب سب سمجھ تو گئے ہونگے وہ پرسنل کون ہے۔۔

فل بلیک شیروانی پہنے ہوئے وجاہت عالم اپنا سحر سب پر طاری کر رہا تھا اور آج ستائش ہانیہ کے چہرے پر تھی کیونکہ جو نظر وجاہت پر اٹھ رہی تھی  وہ مڑنے کا نام نہ لے رہی تھی۔۔

ریڈ کلر کی میکسی پہنے جس پر بھاری کاپر نگینوں کا کام ہوا تھا نیٹ کا کاپر رنگ کا ڈوپٹہ نفاست سے سر پر سجائے سرخ نگینوں سے جڑی قیمتی جیولری پہنے ہوئے تھی سر پر خوبصورت سی کندن اور موتیوں سے بنی ماتھا پٹی پہنے اور بیوٹیشن کے مہارت سے کئے گئے میک اپ میں وہ کسی حور سے کم نہ لگ رہی تھی رہ رہ کر وجاہت کی نظر اس پر ٹہر رہی تھی خاص کر کے اسکے ہونٹوں پر جس پہ ڈیپ ریڈ کلر کی لپ اسٹک لگی ہوئی تھی ۔۔ مگر آج وہ اپنے آپ کو بھلائے وجاہت کو تکنے میں ہی مصروف تھی لگ رہا تھا جیسے دونوں میاں بیوی کی روح بدل گئی تھی کیونکہ آج ہانیہ کا دل کر رہا تھا کہ وجاہت سے کہے کہ یہ خوبصورت شیروانی اتار کر کوئی سادہ سی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہن لے مگر شادی بھی تو اسکی بہن کی تھی ۔۔

یہ سوچتے ہوئے ہانیہ خود ہی اپنی سوچ پر مسکرا دی اور آج احساس بھی ہوا کہ وجاہت کیوں اسے ہر چیز پر ٹوکتا تھا۔۔

ہانیہ کو مسکراتا دیکھ وجاہت اسکے پاس آیا اور ویٹر سے اورنج جوس لے کر اسے تھمایا۔۔

سن شائن جلدی سے یہ پی لو اور جب تک بارات نہ آجائے تم نیلم کے ساتھ ہی بیٹھی رہو آج زیادہ چلنے پھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

بولتے ہوئے وجاہت نے اسکا گال تھپتھپاتے ہوئے چلا گیا۔۔ مصروف جو تھا بہت بارات آنے والی تھی جبکہ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا مگر اس سب میں بھی وہ اپنی سن شائن کو بھلا کر بھی نہ بھول پا رہا تھا۔۔

تھوڑی دیر بعد بارات کے آنے کا شور ہوا تو ہانیہ وجاہت اور گھر والے ہادی کے استقبال کیلئے گیٹ تک گئے۔۔

جمشید صاحب اور شان صاحب آپس میں بگل گیر ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارک بار دی۔۔

بلیک اور گولڈن شیروانی میں اپنے چوڑے سینے درازقد کے ساتھ  ہادی ہر کسی کی آنکھوں میں چمک  رہا تھا۔۔ اسکے لبوں پر مسکان غضب ڈھا رہی تھی ۔۔۔

وجاہت نے مسکراتے ہوئے اسے گلے لگایا ہادی بھی خوشی سے اس سے ملا۔۔ چلو جی سالے صاحب آج آپ آفیشلی میرے سالے بن جاؤگے۔۔ ہادی نے شرارت سے کہا تو سبھی مسکرا دیئے۔۔

ہاں ٹھیک کہا اس کا جواب میں دوں یا ہم اندر چلیں ۔۔ وجاہت نے بھی مسکرا کے کہا تو ہادی قہقہہ لگانے لگا۔۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے دس بارہ سال بعد جواب دینا۔۔

عالیہ بیگم نے ہانیہ سے کہا کہ وہ ہادی کی دودھ پلائی کی رسم کرے تو ہانیہ نے جیسے ہی گلاس ہادی کی طرف بڑھایا تو ہادی نے وجاہت کو دیکھ کر شرارت سے کہا۔۔ اجازت ہو تو پی لو۔۔ وجاہت نے دانت پیستے ہوئے سر اثبات میں ہلایا ۔۔

دودھ پلائی کی رسم تک میڈیا والوں کو دور رکھا گیا پھر عالیہ بیگم اور ہانیہ کے وہاں سے جاتے ہی میڈیا والوں کو تصویریں لینے کی اجازت دی گئی تو کیمرے کھٹا کھٹ سب کی تصویریں لینے لگے۔۔

مہمانوں کی  ہنسی  شور اور کھلکھلاہٹیں خوشی بھرے قہقہے ماحول کو بہت ہی خوبصورت بنا رہے تھے۔۔

جیسے جیسے ہادی ہال میں داخل ہونے لگا اس پر گلاب کے پھولوں کی پتیوں سے بارش کی گئی اور وہ دلفریبی سے مسکراتا دادو کی طرف بڑھا۔۔

دادو نے اسکے ماتھے پر بوسہ دے کر اسے ڈھیروں دعائیں دیں۔۔

اسٹیج پر بیٹھ کر اسنے وجاہت سے سوال کیا۔۔ ویسے یار وجی میرے بھائی یہ تو بتا شادی کا لڑو پہلے میٹھا ہوتا ہے یا بعد میں وہ کیا ہے نہ میں نے سنا ہے جو بھی یہ میٹھا لڑو کھاتا ہے وہ پچھتاتا ضرور ہے۔۔ تو شادی شدہ ہے تو سوچا اپنی آزادی کے آخری پلوں میں تجھ سے پوچھ لوں کہ تو کتنا پچھتایا شادی کے بعد ۔۔ اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے ہادی نے کہا تو وجاہت اسے گھورنے لگا۔۔ 

کبھی دانت ٹوٹا دلہا دیکھا ہے۔۔ وجاہت نے طنزیہ ہنس کے سوال کیا ۔۔ نہیں تو ہادی نے ناسمجھی سے جواب دیا۔۔ 

کہے تو آج دنیا کو دکھا دوں۔۔ وجاہت نے مسکرا کے کہا تو ہادی مصنوعی ڈر دکھانے لگا ۔۔ معاف کردے بھائی تو تو میرا بھائی ہے نہ بھائی کے ساتھ ایسا کرے گا۔۔ ہادی نے بیچارگی سے کہا تو وجاہت مسکرا دیا۔۔

خاموش رہ پھر۔۔ وجاہت نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔ پھر میں نکاح کے وقت قبول ہے کیسے کہوں گا اگر خاموش رہوں گا تو۔۔

ہادی نے معصومیت سے کہا تو وجاہت سر نفی میں ہلاتا ہوا اسٹیج سے اتر گیا۔۔

نکاح خواں آیا نکاح ہوا اور نیلم نکاح کے بعد نیلم عالم سے نیلم ہادی ہوگئی۔۔

نکاح نامے پر سائن کرتے وقت وہ بہت روئی وجاہت کے گلے لگ کر مگر ہانیہ اور وجاہت نے اسے سنبھالا۔۔ عالیہ بیگم اور شان صاحب نیلم سے نکاح ہونے کے بعد ملے تاکہ وہ ان کے آنسو نہ دیکھ سکیں بیٹی پرائی جو ہوئی تھی بھلے سے وہ انکے ساتھ ہی رہتی مگر ہادی کونسا گھر پر رہتا تھا سال کے 8 سے 10 مہینے وہ دنیا کے الگ الگ شہروں میں رہتا تھا بزنس کے سلسلے میں۔۔

کچھ ہی دیر گذری تو دلہن کے آنے کا شور ہوا۔۔

ہانیہ کے ساتھ آج ایشا تھی جو کہ نیلم کو لئے اسٹیج تک گئی ۔۔

ہادی کے چہرے پر تبسم پھیل گیا اپنی پرنسس کو دیکھ کر جو کہ ایک کوئین کی طرح آرہی تھی اس کے پاس اسکی بن کر۔۔ 

سرخ نگینوں کے کام سے بھرا ڈیپ ریڈ بھاری لہنگا اپنے نازک سے بدل پر سجائے خوبصورت ہیوی جیولری پہنے تیکھی ناک میں خوبصورت سی نتھ پہنے وہ ہادی کی دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کر گئی۔۔  پارلر کے خوبصورت مہارت سے کیے گئے میک اپ نے اسکے غیر معمولی حسن کو قیامت خیز بنادیا تھا ۔۔

جو کوئی دیکھتا پلکیں جھپکانا بھول جاتا۔۔ 

ہانیہ اور ایشا کے ساتھ چلتی ہوئی وہ اسٹیج تک گئی تو ہادی نے اپنی جگہ سے اٹھ کر آگے بڑھا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا نیلم نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنا نازک زیوروں سے سجا حنائی ہاتھ ہادی کی مضبوط ہاتھ میں تھمایا۔۔ ایک پل کو تو نیلم کانپ سی گئی مگر ہادی نے محبت سے اسکا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ بٹھایا۔۔ 

مہمانوں کی نظریں ٹکی ہوئی تھی ان دونوں پر ہر کوئی رشک سے اس خوبصورت جوڑے کو دیکھ رہا تھا اور ڈھیروں دعائیں دے رہا تھا۔۔

عالیہ بیگم اور دادو نے اپنے بچوں کی خوشیوں کیلئے دل میں کئی دعائیں مانگیں۔۔

اس حسین منظر کو کئی کیمروں نے قید کیا۔۔ سبھی لوگ کسی سحر میں جکڑے انہیں دیکھ کر سہراہ رہے تھے۔۔ 

ہادی نے محبت سے ایک نظر نیلم کے جھکے سر کو دیکھ کر اسکا ہاتھ پھر سے تھام لیا بقول دنیا کے وہ تھا ہی بے شرم کو اسے کسی کی کیا پرواہ۔۔

نکاح مبارک ہو جان ہادی ۔۔ محبت سے چور لہجے میں ہادی نے سرگوشی نما آواز میں کہا جسے صرف برابر میں بیٹھی نیلم ہی سن سکتی تھی۔۔

دل کر رہا ہے ابھی اسی وقت تمہیں لے کر بھاگ جاؤں مگر تمہارا اکڑو بھائی سامنے ہی کھڑا ہے۔۔ نیلم ہادی کی بات پر سر جھکائے ہی مسکرا دی۔۔

آہستہ آہستہ سب آکر انہیں مبارک باد دینے لگے جنہیں وہ خوش دلی سے وصولتے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وجاہت مہمانوں سے ملتا ہوا بار بار اپنی نظروں سے اپنی سن شائن کو ڈھونڈ رہا تھا جو کہ کہیں دکھ نہیں رہی تھی کچھ پل تو اسنے ادھر اُدھر دیکھا پھر مہمانوں سے معزرت کر کے ہانیہ کے دیکھنے لگا تو وہ ایک ٹیبل پر بیٹھی حور کو کچھ کہہ رہی تھی۔۔

یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔ وجاہت نے ہانیہ کے پاس جا کر کہا ۔۔

کچھ نہیں وہ مما نے کہا کہ تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ فوٹو سیشن ہوجائے گا تو پھر رسمیں شروع کریں گے 

ہانیہ نے حور کے بال ہاتھ سے سہی کرتے ہوئے کہا۔۔ ٹھیک ہے تم نے کچھ کھایا۔۔ وجاہت نے اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔

نہیں اور مجھے بھوک بھی نہیں لگی ہے اور آپ ضد نہیں کریں گے ویسے ہی کچھ نہ کچھ کھلا ہی رہے ہیں آپ ہر تھوڑی دیر بعد اب میرا پیٹ پوری طرح سے بھر چکا ہے۔۔

ہانیہ نے معصومیت سے ٹیبل پر کہنیاں رکھ کے کہا۔۔

تمہیں نہ سہی میرے بیٹے کو بھوک لگی ہوگی اسے کیوں بھوکا رکھ رہی ہو۔۔

وجاہت کچھ اور کہتا مگر اتنے میں ہی کسی نے اسے آواز دی تو وہ وہاں سے اٹھا مگر جاتے ہوئے وہ ویٹر سے کچھ کہہ رہا تھا جس سے ہانیہ سمجھ گئی کہ وہ ضرور اسکے لئے کھانے کیلئے کچھ بجھوائے گا لازمی۔۔

کچھ وقت کےبعد جوتا چھپائی کی رسم کا شور ہوا تو ہانیہ نیلم کی ایک کزن کے ساتھ رسم کرنے لگی جوتے تو ہادی نے بہت آرام سے اتار کر دے دئیے۔۔

چلو بھئی ہادی نکالو نوٹ جلدی سے۔۔ ہانیہ نے ہادی کے ساتھ ہی بیٹھتے ہوئے کہا ہادی کے دوسری طرف نیلم بھی ہانیہ کو دیکھنے لگی۔۔

نوٹ دینے کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے بھابھی (وجاہت ابھی سامنے نہ تھا تو ہادی بھابھی بول رہا تھا ) میں اپنی دلہن کو بغیر جوتوں کے بھی لے جاؤنگا آپ لوگ جوتے ہی رکھ لیں۔۔

ہادی نے بے نیازی سے کہا۔۔

نہیں ہم اپنی دلہن کو بغیر جوتوں والے دلہا کے ساتھ رخصت نہیں کریں گے۔۔ ہانیہ نے ہٹ شرارت سے کہا۔۔

بھئی بھابھی میرا مطلب ہے ہانی (وجاہت اب ہادی کے سامنے ہی کھڑا تھا) میں نئے جوتے منگوا لونگا مگر اپنی جیب ڈھیلی نہیں کرونگا۔۔ 

سب لوگ ہادی کی ہٹ دھرمی پر ہنس رہے تھے۔۔

ٹھیک ہے بیٹھو پھر بغیر جوتوں کے جتنی دیر تم لگاؤگے پیسے دینے میں اتنی ہی دیر سے رخصتی ہوگی۔۔

کسی کزن نے کہا تو ہادی تھوڑی دیر سوچنے لگا ۔۔ چلو کیا یاد کروگے آپ سب بولتے ہوئے ہادی نے جیب سے اپنا والٹ نکالا اور ہانیہ کے ہاتھ پہ رکھتے ہوئے کہا۔۔ کہ کتنا اچھا بہنوئی ملا ہے سب کو۔۔

ہادی کے اکڑ کے بولنے پر سب لڑکے لڑکیوں نے خوب ہوٹنگ کی ۔۔

ہانیہ نے بھی مسکرا کر ایک لڑکی کو اشارہ کیا وہ جوتے لے کر آئی اور ہادی کے سامنے رکھ دئیے۔۔

ہادی نے جوتے پہنے پھر ہانیہ کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔۔

چلیں بھابھی اب رخصتی کروا بھی دیں قسم سے بیٹھے بیٹھے کمر اکڑ گئی ہے میری اور نیلم بھی تھک گئی ہوگی۔۔

ہادی کے کہنے پر ہانیہ زور سے ہنسی سامنے کھڑے وجاہت نے آنکھیں سکیڑ کے ہادی کو دیکھا۔۔

تمہاری ہی برائی کر رہا تھا ہانی کو ٹپس دے رہا تھا کہ شوہر کو تنگ کیسے کیا جاتا ہے۔۔

ہادی نے زور سے کہا تو سب نے قہقہہ لگایا۔۔ ہانیہ کو چھوڑو ہادی یہ مت بھولو اب تمہاری بھی ایک بیوی ہے اور تنگ کرنا وہ بھی جانتی ہے کیوں گڑیا۔۔ وجاہت کے ہادی کے سامنے کھڑے ہو کر پھر نیلم کو دیکھتے ہوئے کہا تو نیلم صرف مسکرا دی۔۔

آج وہ خالصتاً مشرقی دلہن بنی ہوئی تھی سر جھکائے بیٹھی تھی کوئی کچھ کہتا تو صرف مسکرا کے جواب دیتی۔۔

اور کچھ فطری گھبراہٹ بھی تھی جو کہ اسے کچھ بولنے ہی نہ دے رہی تھی ویسے بھی اسکے بدلے کا ہادی بول تو رہا تھا۔۔

کچھ دیر اور ایسے ہی ہنسی اٹھکیلیاں کرتے گزرا تو جمشید صاحب نے چلنے کی اجازت چاہی سب سے۔۔

رخصت ہو کر آج نیلم کو ہادی کے فلیٹ جانا تھا۔۔

رخصتی کے وقت نیلم سب کے گلے لگ کر خوب روئی اپنے ماں باپ سے الگ ہونے کا غم بھائی سے جدائی اور بہن جیسی بھابھی سے الگ ہونا بہت مشکل تھا۔۔

رخصتی کے وقت اپنی عادتوں کے برعکس ہادی ایک دم خاموش اور سنجیدہ تھا وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس وقت نیلم اور اسکے گھر والوں پر کیا گزر رہی تھی۔۔

سب سے مل کر آخر کار نیلم ہادی کے ساتھ اپنی نئی زندگی کے سفر کیلئے روانہ ہوگئی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

حور سوگئی۔۔ وجاہت بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ہانیہ کو حور کے روم سے نکلتے ہوئے دیکھ کے پوچھا۔۔

ہاں سوگئی ہے تھک جو گئی تھی۔۔ ہانیہ بیڈ کے دوسری طرف بیٹھتے ہوئے بولی۔۔

سوجاؤ تم بھی تھک گئی ہوگی ۔۔ طبیعت ٹھیک ہے نہ۔۔ وجاہت نے گردن ہانیہ کی طرف موڑ کے کہا۔۔

طبیعت ٹھیک ہے میری آپ کیوں ابھی تک جاگ رہے ہیں۔۔

ہانیہ نے وجاہت کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔۔

نیند ہی نہیں آرہی میری گڑیا اس گھر سے آج چلی گئی سن شائن میں خوش ہوں اس کے لئے مگر دل اداس ہورہا ہے۔۔

وجاہت نے بھی اپنا سر ہانیہ کے سر پر رکھتے ہوئے کہا۔۔

نیلم بہت خوش تھی آج ۔۔ آپ بھی خوش رہیں ہادی بہت اچھے انسان ہیں وہ ہماری نیلم کو ہمیشہ خوش رکھیں گے اسکا خیال رکھیں گے اور ہمیشہ اس سے محبت کریں گے۔۔

ہانیہ نے اپنا سر اٹھا کر وجاہت کا گال چومتے ہوئے کہا۔۔

ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ وجاہت نے مسکرا کے کہا۔۔ تمہارے پیر ٹھیک ہیں آج تو سوج نہیں رہے۔۔ کہتے ہوئے وجاہت نے ہانیہ کے پیر دیکھے جو آج بھی سوجے ہوئے تھے۔۔

یہ کیا ہے یار کیوں ہورہے ہیں یہ ایسے۔۔ وجاہت نے فکرمندی سے کہا ۔۔ 

بتایا تو تھا آپ کو پریشان کیوں ہورہے ہیں۔۔

ہانیہ نے اپنے پیر پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔

اب ولیمے میں تمہیں ادھر سے ادھر گھومتا ہوا نہ دیکھوں میں۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو سمجھاتے ہوئے کہا اسے لٹایا اور کمفرٹر اسے اچھے سے اوڑھا کر وہ اسٹڈی میں آگیا 

ہانیہ کے سمجھانے کے باوجود بھی وجاہت کا دل تھوڑا اداس ہورہا تھا۔۔ 

رہ رہ کر اسکی آنکھوں کے سامنے چھوٹی سے نیلم گھر کے لان میں سائیکل چلاتی ہوئی نظر آرہی تھی تو کہیں پہلی بار اسکول جانے کیلئے تیار ہوتے ہوئے۔۔

اسکول میں جب اسنے ٹاپ کیا تھا تو گھر میں ایک شور کرتے ہوئے داخل ہوئی تھی وجاہت نیک کے بارے میں سوچتے ہوئے مسکرا رہا تھا جبکہ آنکھیں اسکی نم تھیں۔۔

دنیا کی یہ کیسی ریت تھی ساری زندگی جو بہن ساتھ رہی وہ ایک پل میں ہی پرائی ہوگئی۔۔ 

یہ تو شکر تھا کہ وجاہت نے شرط رکھی تھی کہ ہادی اور نیلم جب بھی پاکستان میں رہیں گے انہیں کے گھر میں رہیں گے مگر ہادی کہاں رہتا تھا پاکستان میں ۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ہادی کے گھر میں تو اس وقت کوئی تھا ہی نہیں جو رستہ رکائی کی رسم کرتا تو وہ اس رسم سے بچتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔

پورے کمرے کو گلاب کے پھول اور لیلیز سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔

ہر طرف سینٹڈ کینڈلز تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جل رہی تھیں۔۔

بیڈ کے چاروں طرف سرخ رنگ کے نیٹ کے پردے تھے اور ان کے اوپر گلاب اور موتیے کے پھولوں کی لڑیاں تھی 

ہادی نے ماڈرن انداز اپنانے کے بجائے پرانے زمانے کی طرح پھولوں کی لڑیوں سے کمرہ سجوایا تھا۔۔

فرش پر بھی ہر جگہ پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔۔

پورا کمرہ ہی ایک خواب ناک منظر پیش کر رہا تھا 

بیڈ کے درمیان میں ہادی کی پرنسس سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔

اسے دیکھ کر ہادی کے لبوں پر تبسم بکھر گیا۔۔ اسلام و علیکم ۔۔ ہادی نے نیلم کے سامنے بیٹھتے ہوئے سلام کیا نیلم نے بس سر ہلا کر جواب دیا۔۔

تم ٹھیک ہو میرا مطلب ہے کمفرٹیبل تو ہو نہ۔۔ ہادی کو کچھ نہ سوجھا کہ کیا بات کرے تو یہی پوچھنے لگا۔۔

ہر وقت بولنے والا ہادی بھی آج زرا خاموش تھا۔۔

پھر کچھ یاد آنے پر بیڈ سے اٹھا اور سائڈ ٹیبل کی دراز سے ایک  مخملین کیس نکالا۔۔

پھر اپنا ہاتھ اسنے آگے بڑھایا نیلم کا ہاتھ تھامنے کیلئے نیلم نے جھجکتے ہوئے اپنا ہاتھ ہادی کے ہاتھ میں دیا۔۔

ہادی نے ڈائمنڈ کی خوبصورت سی رنگ نیلم کی مخروطی انگلی میں پہنا کر اس پر اپنے لب رکھ دیئے۔۔

خوش ہو تم ۔۔ ہادی نے نیلم کی جھکی آنکھوں کو دیکھ کے کہا تو نیلم نے سر اہستہ سے اثبات میں ہلا دیا۔۔

میں بھی بہت خوش ہوں یہ سوچ کر کہ جس سے محبت کی اسے ہی اپنا ہمسفر بنایا۔۔ میرا رب جانتا ہے نیلم کہ میری زندگی میں تم ہی ہمیشہ سے ایک اہم مقام رکھتی تھی مگر کبھی بھی کسی غلط نظر سے نہ دیکھا تھا تمہیں مگر جب مجھے پتہ چلا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور بے تحاشہ محبت کرتی ہو تو میرے دل نے بھی تمہارے لئے دھڑکنا شروع کیا۔۔

جھوٹ نہیں بولوں گا تھوڑا امتحان بھی لیا تھا تمہارا یہ جاننے کیلئے کہ تمہاری محبت سچی ہے یا یہ صرف ایک وقتی جزبہ ہے مگر مجھے خود پتہ نہیں چلا کہ کب تم اس دل پر راج کرنے لگی۔۔

میں آج تم سے وعدہ کرتا ہوں پرنسس ہمیشہ تم سے ایسے ہی محبت کرونگا اور جتنی محبت کرونگا اتنی ہی تمہاری عزت کرونگا اور تم سے بھی یہی کہوں گا کہ ہمیشہ مجھ سے ایسے ہی محبت کرنا یہ رشتہ ہم دونوں کیلئے بہت اہم ہے اور سب سے بڑھ کر میرے لئے تم۔۔ 

ہادی نیلم کا ہاتھ تھامے بول رہا تھا اور نیلم کسی سحر میں جکڑی ہوئی اسکی بات سن رہی تھی۔۔

بولو دوگی میرا ساتھ چلو گی میرے ساتھ زندگی کے اس خوبصورت سفر پر۔۔

ہادی نے محبت سے اسکا چہرا اسکی ٹھوڑی سے پکڑ کر اونچا کرکے اسکی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

تو نیلم نے مسکرا کے ہاں کہا۔۔

موسم بدلا ساتھ میں رشتے بدلے ہادی اور نیلم کی محبت دن بہ دن بڑھتی گئی۔۔

ولیمہ کے اگلے ہی دن وہ رومانیہ چلے گئے تھے اپنے ہنی مون کیلئے کیونکہ وہ نیلم کی پسندیدہ جگہ تھی اور ہادی سب کچھ ہی نیلم کی پسند کا کرتا آیا تھا۔۔

پھر اسکے بعد وہ لوگ استنبول چلے گئے 4 ماہ کیلئے ہادی کا وہاں کوئی پراجیکٹ چل رہا تھا اور کچھ دن پہلے ہی وہ لوگ واپس پاکستان آئے تھے۔۔

سب گھر والے ان سے بہت پرجوش ہوکر ملے۔۔ 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

پھر وجاہت اور ہانیہ کی زندگی میں بھی وہ دن آیا جب انکی دوسری اولاد اس دنیا میں آنے لگی۔۔

وجاہت لیبر روم کے باہر کھڑا اپنی سن شائن اور اپنے ہونے والے بچے کیلئے دل ہی دل میں دعائیں کر رہا تھا۔۔

پچھلے 4 گھنٹوں سے ہانیہ لیبر روم میں تھی اور اب تک کوئی خبر نہیں آئی تھی۔۔

آپریشن سے ہانیہ نے صاف منع کر دیا تھا۔۔

وجاہت کے ساتھ اس وقت اسکی مام اور نیلم تھیں ہادی تھوڑا دور کھڑا تھا اور گھر پر شان صاحب اور دادو بھی ہانیہ کیلئے دعاگو تھے 

حور کو شان صاحب سنبھال رہے تھے ویسے بھی اب وہ ڈیڑھ سال کی تھی اور دوسرے بچوں سے کافی سمجھدار تھی۔۔

اپنی پرانی عادتوں کے مطابق آج بھی وہ کسی کو تنگ نہیں کرتی تھی بس اپنے کھیل میں لگی رہتی تھی بھوک لگتی تھی تو کبھی رو جایا کرتی تھی ورنہ تو اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں ہی سب کو اپنی طرف متوجہ رکھتی تھی۔۔

ڈاکٹر باہر آئیں تو وجاہت انکی طرف بڑھا ۔۔ ڈاکٹر میری وائف ٹھیک ہیں نہ۔۔ ایک انجانا ڈر تھا وجاہت کے دل میں جسے وہ نہ کسی کو بتا پارہا تھا نہ چھپا پارہا تھا۔۔

جی وہ مبارک ہو اللہ نے آپکو نعمت سے نوازا ہے بیٹا ہوا ہے اور وہ بھی صحت مند اللہ کے کرم سے۔۔

سب لوگ یہ سنتے ہی خوش ہوگئے مگر وجاہت کے چہرے پر اب بھی پریشانی تھی۔۔

ڈاکٹر میں نے اپنی وائف کا پوچھا ہے وہ ٹھیک ہے نہ۔۔

دیکھیں وجاہت صاحب آپ کی وائف بہت ویک تھیں اسی لئے ہم نے انہیں آپریشن پریفر کیا تھا مگر ان کی ضد تھی کہ وہ آپریشن نہیں کروائیں گی تو۔۔

ڈاکٹر نے بولتے ہوئے تو پر سانس لیا تو وجاہت کو ایسا لگا جیسے اسکا سانس بند ہونے لگا ہے۔۔

تو کیا۔۔ وجاہت کی آواز کافی تیش بھری اور بلند تھی۔۔

تو یہ کہ وجاہت صاحب آپکی وائف تھوڑی کریٹیکل ہیں مگر ڈاکٹرز انکے پاس ہیں وہ جلد ہی ٹھیک ہوجائیں گی۔۔

ڈاکٹر نے ہڑبڑاتے ہوئے بات ختم کی وہ وجاہت کو کئی مہینوں سے جانتی تھیں وہ ڈاکٹر ناز کی اسسٹنٹ تھی اور ہمیشہ انہوں نے وجاہت کا دھیما نیچر ہی دیکھا تھا۔۔

ڈاکٹر ناز کہاں ہیں مجھے ان سے ملنا ہے۔۔ وجاہت نے ضبط سے کہا اور آواز بھی تھوڑی نیچی رکھی مگر اسکے لہجے میں سختی تھی جسے وہ کنٹرول نہیں کر پارہا تھا۔۔

ڈاکٹر شکر مناتے ہوئے منظر سے فوری غائب ہوئی چند منٹ بعد ڈاکٹر ناز بے بی کو ہاتھوں میں لئے باہر آئیں تو سب سے پہلے انہوں نے اسے وجاہت کو تھمایا۔۔

وجاہت نے اس ننھی سی جان کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پیار کیا تو دیکھا اسکا بیٹا اسے ہی دیکھ رہا ہے۔۔

اسی پل وجاہت کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کے گرا تو دوسری طرف ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔۔

مگر ہانیہ کے بارے میں سوچ کر اسنے اپنا بیٹا اپنی مام کو دیا اور ڈاکٹر ناز کی طرف متوجہ ہوا 

بے بی کو دیکھ کر نیلم اور ہادی بہت خوش تھے ہادی نے گھر پر فون کر کے خوش خبری دی۔۔

ڈاکٹر۔۔ ہانیہ؟؟ میری ہانیہ۔۔؟؟

وجاہت نے ڈاکٹر ناز سے پوچھا۔۔ دیکھو وجاہت بیٹا ہانیہ ٹھیک ہے مگر اسے ہم انڈر آبزرویشن رکھیں گے فکر نہ کرو اور اللہ سے دعا کرو کہ سب ٹھیک ہوجائے۔۔ تھوڑی دیر میں ہم اسے روم میں شفٹ کر دیں گے تو اس سے مل لینا مگر ڈسچارج ہم اسے تب ہی کریں گے جب میں اسکی طبیعت کے حوالے سے مطمئن ہوجاؤ گی۔۔

ڈاکٹر نے وجاہت کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔

نہ جانے کیوں مگر وجاہت مطمئن نہیں تھا ایسی ہی تسلی بھرے جملے اسنے ڈیڑھ سال پہلے بھی سنے تھے مگر پھر۔۔

نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میری سن شائن کو کچھ نہیں ہوگا وہ سن شائن ہے میری میں زندگی کا اجالہ میری محبت میری زندگی میری ہر سانس میں بستی ہے وہ جب میں سانس لے رہا ہوں تو وہ بھی لے گی۔۔

وجاہت بڑبڑاتے ہوئے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا پچھلے کئی گھنٹوں سے وہ بیٹھا نہیں مگر ابھی بھی بیٹھنا نہیں چاہتا تھا بس ہانیہ کو دیکھنا چاہتا تھا۔۔

مبارک ہو میرے بھائی بیٹا بہت خوبصورت ہے۔۔ ہادی نے وجاہت کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو وجاہت ہلکے سے مسکرا دیا کیونکہ سامنے نیلم کھڑی تھی جو کہ مسلسل وجاہت کے بجھے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔

کیا ہوگیا وجی ۔۔ ہادی نے اسکی پھیکی سی مسکراہٹ دیکھ کے کہا۔۔

کچھ نہیں یار بس ہانیہ سے مل لو ایک بار ۔۔ وجاہت نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔۔

فکر مت کر بھابھی کو کچھ نہیں ہوگا ڈاکٹر نے کہا ہے نہ کہ کچھ دیر میں اسے روم میں شفٹ کر دینگے پھر مل لینا۔۔

ہادی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وجاہت نے دیکھا اسکی مام وہاں نہیں تھیں اور بے بی کو نیلم نے اپنی گود میں لیا ہوا تھا۔۔

مام کہاں ہیں۔۔ وجاہت نے ادھر ادھر دیکھ کے ہادی سے پوچھا۔۔

مام شکرانے کے نفل ادا کرنے گئی ہیں ۔۔ ہادی نے بے بی کا گال سہلاتے ہوئے مسکراہٹ بھری آواز سے کہا۔۔

ہاں مجھے بھی پڑھنے ہیں اور دعا بھی کرنی ہے۔۔ خود سے بولتے ہوئے ہی وجاہت وہاں سے چلا گیا۔۔

یہ کتنا پیارا ہے نہ ہادی۔۔

نیلم نے بے بی کو دیکھ کے ستائش سے کہا۔۔

ہاں بہت پیارا ہے دیکھنا ہمارا بے بی بھی بہت پیارا ہوگا۔۔

ہادی نے پیار سے نیلم کے کان میں کہا۔۔

ہیں ہمارا بے بی کہاں سے آگیا۔۔ نیلم نے ایک دم ہادی کو دیکھ کے کہا۔۔ ایک نہ ایک دن تو ہوگا نہ اسی لئے کہہ رہا ہوں۔۔ ہادی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔

ویسے ہادی کیا ہمیں بے بی پلان کرنا چاہئے نیلم نے جھجکتے ہوئے کہا۔۔

یہ کیوں کہہ رہی ہو تم؟ ابھی ہماری شادی کو وقت ہی کتنا ہوا ہے ہاں اگر اللہ نے چاہا تو سب سے زیادہ خوش میں ہی ہونگا تب تک مجھے کوئی جلدی نہیں ہے ۔۔

ہادی نے سنجیدگی سے کہا۔۔

نیلم اسکی بات پر مسکرا دی۔۔ ٹھیک ہے جیسی اللہ کی مرضی۔۔

وہ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے اتنے میں ایک نرس نے آکر بتایا کہ ہانیہ کو روم میں شفٹ کردیا گیا ہے تو نیلم اور ہادی بے بی کو لیکر اسکے پاس چلے گئے تھوڑی دیر بعد عالیہ بیگم بھی ہانیہ کے پاس آگئیں۔۔

تمہارا بہت شکریہ بیٹا اتنا خوبصورت تحفہ دینے کیلئے۔۔ عالیہ بیگم نے محبت سے ہانیہ کو پیار کرتے ہوئے کہا۔۔

وجاہت کہاں ہیں مما۔۔ ہانیہ نے عالیہ بیگم سے پوچھا کیونکہ وہاں وجاہت دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔

بیٹا وہ آتا ہی ہوگا وہ بول ہی رہی تھیں کہ وجاہت کو آتا دیکھا تو مسکرا کے بولیں۔۔

لو آگیا میرا بیٹا۔۔ وجاہت نے ہانیہ کو مسکراتے دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اسکی زندگی اسکی اٹکی سانسیں بحال کردی ہوں۔۔

کیسی ہو تم ۔۔ ہانیہ کے پاس بیٹھتے ہوئے وجاہت نے کہا۔۔

ٹھیک ہوں میں کہاں تھے آپ۔۔ ہانیہ نے مسکرا کے جواب دیا۔۔

عالیہ بیگم نے مسکرا کے ہادی اور نیلم کو اشارہ کیا کہ ان دونوں کو اکیلا چھوڑا جائے ۔۔

نیلم بے بی کو وجاہت کی گود میں دے کر باہر چلی گئی ۔۔

تم نے ہمارا بیٹا دیکھا۔۔ وجاہت نے اپنے بیٹے کے ماتھے پر اپنے لب رکھ کے کہا۔۔

کہاں کسی نے دکھایا ہی نہیں ۔۔ ہانیہ نے اپنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کے ساتھ بیٹھ کر اپنا بیٹا اسکی گود میں دیا۔۔

اپنی اولاد کو گود میں لے کر ہانیہ کے دل کو ڈھیروں سکون ملا۔۔ اور ساتھ میں آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔۔

وجاہت نے پیار سے اسکی کنپٹی کو چوما۔۔ نام رکھو اسکا۔۔ وجاہت نے پیار سے ہانیہ کو کہا۔۔

نہیں میں چاہتی ہوں دادو اسکا نام رکھیں کیونکہ آپ کا نام بھی دادو نے رکھا تھا میں چاہتی ہوں میرا بیٹا بلکل آپ کے جیسا بنے اسی لئے اسکا نام دادو ہی رکھیں گی۔۔

ہانیہ نے اپنے بیٹے کا ہاتھ اپنی انگلی سے پکڑ کے اسے چوم کے کہا۔۔

ٹھیک ہے۔۔ وجاہت نے ہانیہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

3 دن کے بعد ہانیہ کو ڈسچارج کیا گیا تو وجاہت اسے اور اپنے بیٹے کو لے کر عالم ولا میں داخل ہوئے۔۔

گھر میں پہلے سے ہی ہانیہ کے گھر والے موجود تھے۔۔

سب لوگ ان سے بہت پیار سے ملے انکا بیٹا وجاہت کی گود میں تھا تو ہانیہ جیسے ہی لاؤنج میں آئی حور اسے دیکھ کے لپٹ گئی مما کہتے ہوئے اسکی ٹانگ سے ۔۔

نیلم نے ہانیہ کو صوفے پر بٹھایا اور حور کو بھی اسکے ساتھ بٹھا دیا۔۔

میری جان کیسی ہو آپ۔۔ ہانیہ نے حور کو پیار کرتے ہوئے کہا۔۔ تو حور مسکرا دی۔۔ 

وجاہت نے اپنا بیٹا دادو کی گود میں دیا۔۔ دادو میں اور ہانیہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بیٹے کا نام آپ ہی رکھیں ۔۔

وجاہت نے نرم لہجے میں کہا تو دادو سرشار سی شان صاحب اور عالیہ بیگم کو دیکھنے لگیں۔۔

انکی آنکھیں نم ہوگئیں اپنے پر پوتے کو دیکھ کے۔۔

میں اسکا نام ماہیر رکھتی ہوں۔۔

دادو کے بولنے پر سبھی لوگ مسکرا دیئے ۔۔

ہانیہ اور وجاہت کو اپنے بیٹے کا نام بہت پسند آیا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

25 سال بعد۔۔

کہاں ہو نور میں کب سے آوازیں دے رہی تھیں۔۔

حور ہانپتے ہوئے نور اور اپنے مشترکہ کمرے میں آئی۔۔

اپیا میں تیار ہورہی تھی مما نے کہا تھا کہ وقت پر سب ریڈی رہنا باہر کا کام سارا ہوگیا ہے تو میں نے سوچا کہ تیار ہوجاؤ۔۔

نور نے دھیمے لہجے میں مگر لاپرواہی سے کہا۔۔

حور اسکی بات پر مسکرا دی اور اسکی تیاری دیکھنے لگی۔۔

چلو اچھا کیا تیار ہوگئی میں مما کے ساتھ تھیں کھانے کی تیاریاں دیکھ رہی تھیں۔۔ حور نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔

اپیا آپ بھی تیار ہوجائیں پارٹی شروع ہوجائے گی اور پھوپھو جان بھی آنے والی ہونگی اور دیکھنا اس بار ہادیہ بھی آئے گی پھوپھو جان اور مسٹر ہینڈسم کے ساتھ ورنہ تو ہمیشہ ہی وہ سڑا ہوا نہال ہی آتا ہے ہمشہ۔۔ نور جہاں ہادیہ کی بات پر خوش تھی وہیں نہال کے بارے میں سوچ کے ہی وہ چڑ گئی۔۔

تم نہال سے اتنا چڑتی کیوں ہو نور۔۔

حور نے اپنا ڈریس ہاتھ میں لے کر کہا جو وہ ابھی پارٹی میں پہننے والی تھی۔۔

اپیا آپ کو نہیں لگتا مسٹر ہینڈسم جتنے ہیپیننگ ہیں ہادیہ جتنی ایکسائٹنگ ہے نیلم پھوپھو جان کتنی سوئٹ ہیں وہ نہال کسی پر نہیں گیا بلکل سڑو ٹائپ بندا ہے ۔۔ نور نے اپنے کانوں میں ائررنگ پہنتے ہوئے کہا۔۔

ہاہاہا۔۔ وہ سڑو نہیں ہے بس خاموش مزاج کا ہے اور سب کہتے ہیں وہ بلکل ہمارے پاپا پر گیا ہے۔۔

بس رہنے دیں اپیا پاپا سے زیادہ زندہ دل انسان کوئی نہیں ہے۔۔

نور تو جیسے نہال کا اپنے پاپا کے جیسا ہونے پر ایک بار پھر چڑ گئی۔۔

پاپا بھی ایسے ہی تھے تب تک جب تک ہماری مما انکی زندگی میں نہیں آئیں تھیں۔۔

دیکھنا نہال بھی بدل جائے گا تم بدل دینا اسے۔۔

حور اپنا سامان لے کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھتے ہوئے بولی اور چلی گئی اسنے نور کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھے تھے۔۔

ہیں کیا واقعی میں نہال کو بدل سکتی ہوں ۔۔

نور سوچتے ہوئے وہیں بیڈ پر بیٹھ گئی اور اپنا ٹیڈی بئیر جو کہ اسکے پاپا نے اسے دیا تھا جسے وہ رات میں ساتھ لے کر سوتی تھی اسے زور سے بھینچے سوچنے لگی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

ماہیر کے پیدا ہونے کے 4 سال بعد اللہ نے وجاہت اور ہانیہ کو ایک اور بیٹی سے نوازا۔۔

ہانیہ جانتی تھی وجاہت اپنی دوست نور کو بھولنا نہیں چاہتا تو اپنی بیٹی کا نام اسنے نور ہی رکھا گھر والوں نے تھوڑا اعتراض کیا مگر وجاہت ہانیہ کی سوچ جان کر بہت خوش ہوا۔۔

اب جہاں اسکا ایک سمجھدار اور سلجھا ہوا بیٹا تھا اب وہیں اسکی دو پریاں تھیں جن میں وجاہت کی جان بستی تھی۔۔

وقت کے ساتھ ساتھ وجاہت نے اپنے آپ کو بدلہ اپنے بچوں کیلئے اور اپنی سن شائن کیلئے۔۔

اپنا غصہ تیش وہ کافی حد تک ختم کرچکا تھا مگر آج بھی جہاں بات اسکی سن شائن یا اسکے گھر والوں کی آئے تو اسے ایول بننے میں وقت نہیں لگتا تھا۔۔

تیار ہوگئے آپ۔۔ ہانیہ کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا وجاہت ڈریسنگ مرر کے سامنے خود پر پرفیوم اسپرے کر رہا تھا۔۔

کہاں تھیں تم۔۔ وجاہت نے ایک نظر ہانیہ کو دیکھ کے کہا۔۔۔

مجھے کہاں جانا ہے یہیں تھیں تیاریاں دیکھ رہی تھی ہانیہ وجاہت کے قریب آکر اسکے کوٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔

میں ایک گھنٹے سے تمہارا کمرے میں انتظار کر رہا تھا کہا بھی ہے کہ اتنی دیر میری نظروں سے اوجھل مت ہوا کرو۔۔

ہانیہ بس وجاہت کی بات پر مسکرا دی ایسے باتوں کا وہ جواب صرف مسکرا کر ہی دیتی تھی کیونکہ جتنے جواب دو وجاہت اتنے ہی سوال کرتا تھا۔۔

ویسے میری پریاں کہاں ہیں۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔

آپ کی پریاں اپنے روم میں ہیں نور کو میں نے زرا سا کہا تھا کہ وقت پر تیار ہوجانا وہ تو ایسے بھاگی سارے کام چھوڑ کر کہ کیا بتاو بیچاری میری حور ہی میرے ساتھ لگی رہتی ہے۔۔ پتہ نہیں یہ نور کس پر چلی گئی ایک نمبر کی موڈی ہے اور آپ نے بھی اسے کچھ زیادہ ہی سر چڑھایا ہوا ہے چھوٹی ہے تو کیا ہوا میری حور اور ماہیر بھی تو ہیں مجال ہے کبھی تنگ کیا ہو مجھے۔۔

ہانیہ بولنے پہ آئی تو بولتی گئی۔۔ وجاہت محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر جھک کر اسکی بولتی بند کردی۔۔

یہ کیا ہے۔۔ وجاہت کو دور کرکے ہانیہ نے اسے غصے سے دیکھا۔۔

تم ایسے بولتے ہوئے بہت پیاری لگتی ہو۔۔ وجاہت نے گہری نظروں سے اپنی زندگی کو دیکھا۔۔

آپ شاید بھول رہے ہیں کہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور کوئی دیکھ لیتا تو۔۔ ہانیہ نے ناراضگی سے کہا۔۔

دیکھ لیتا تو دیکھ لینے دو میں نے اپنی بیوی کو پیار کیا ہے کسی غیر کو تو نہیں۔۔ وجاہت نے مسکرا کے کہا۔۔

شرم کریں تھوڑی اپنی عمر دیکھیں اور حرکتیں دیکھیں۔۔ ہانیہ نے بے نام سی کوشش کی وجاہت کو شرم دلانے کی مگر وجاہت کو کہاں شرم آنی تھی۔۔

تم مجھے اپنے قریب آنے سے نہیں روک سکتی سن شائن تم میری ہو میں تمہارا بس یہ سمجھ لو اور یوں شرمانا بھی چھوڑ دو ہمارے بچے جوان ہوگئے تو کیا ہم ایک دوسرے سے محبت کرنا چھوڑ دیں۔۔

وجاہت نے اب کے تھوڑا سنجیدگی سے کہا تو ہانیہ اسے دیکھے گئی۔۔

وجاہت ابھی فیفٹیز میں تھا مگر دیکھنے میں وہ آج بھی جوان ہی لگتا تھا ۔۔ کسرتی جسم سرخ و سفید رنگت بھورے بال اور بھوری گہری ڈاڑھی جو کہ ہمیشہ سے ہی وجاہت کے چہرے کی زینت تھیں۔۔ مگر اب زرا چاندی چمکنے لگی تھی اسکے بالوں میں جو کہ وجاہت کی شخصیت کو اور خوبصورت بنا رہی تھی۔۔

آج ماہیر اور وجاہت نے ایک جیسا ہی تھری پیس سوٹ پہنا تھا سیاہ رنگ کا۔۔

ماہیر بلکل وجاہت کی ڈٹو کاپی تھا تو کوئی بھی وجاہت کو ماہیر کا پاپا نہیں مانتا تھا بلکہ سب اسے اسکا بڑا بھائی سمجھتے تھے۔۔

میں آج ساڑھی پہنو گی میرے بیٹے نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے میرا جو دل کرے گا وہ پہنو گی۔۔

ہانیہ نے وارڈراب سے اپنی ساڑھی نکالی تو وجاہت اسے گھورنے لگا۔۔

وجاہت آج بھی ہانیہ کو ساڑھی پہننے سے منع کرتا تھا۔۔ نہیں کچھ اور پہن لو۔۔ وجاہت نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔

ہانیہ کچھ کہتی کہ اتنے میں دروازہ ناک ہوا۔۔

وجاہت نے اندر آنے کی اجازت دی تو ماہیر اندر داخل ہوا۔۔

سیاہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس جو کہ اسکے لمبے چوڑے کسرتی جسامت پر بہت جچ رہا تھا وجاہت کی ہی طرح اسکے بھورے بال تھے اور بھوری ہی اسٹبل اسنے بس وجاہت کی طرح داڑھی نہیں رکھی تھی بلکہ اپنے چہرے پر اسنے گہری اسٹبل رکھی تھی سرخ و سفید رنگت والا وجاہت کی ہی طرح اسکی بھوری آنکھیں تھی جن میں زیادہ تر سنجیدگی رہتی تھی مگر صرف غیروں کیلئے اپنوں کیلئے تو ان آنکھوں میں نمی ہی رہتی تھی۔۔

وہ پورا ہی تو وجاہت کا عکس تھا۔۔

تم یہاں کیا کر رہے ہو ماہیر تمہیں پارٹی میں سب سے پہلے جانا چاہئے ۔۔ وجاہت نے اسے دیکھ کے کہا۔۔

کیوں آپ لوگوں کا رومانس خراب کردیا کیا۔۔ ماہیر شرارت سے کہتا ہوا ہانیہ کے کندھوں پر اپنے دونوں بازو رکھ کے بولا۔۔

بدتمیز ایسے بات کرتے ہیں پاپا سے ۔۔ ہانیہ نے اسے مصنوعی غصے سے کہا جبکہ وجاہت ماہیر کی بات پر مسکرا رہا تھا۔۔

ارے سن شائن آپ کیوں ناراض ہورہی ہیں۔۔ ماہیر نے ہانیہ کے گال پر پیار کرکے کہا۔۔

بات سنو تم میری میری بیوی سے دور رہا کرو سمجھے اور اسے سن شائن صرف میں کہہ سکتا ہوں۔۔

وجاہت نے مصنوعی غصے سے ماہیر کو جھڑکا کیونکہ ماہیر بھی وجاہت کی طرح ہانیہ کو سن شائن کہتا تھا مما وہ صرف کبھی کبھی ہی بولتا تھا ۔۔

اور وجاہت اسے ہمیشہ ٹوکتا تھا ۔۔ پاپا آپ انہیں سن شائن کیوں کہتے ہیں۔۔ ماہیر نے وجاہت کے ساتھ بیٹھ کے کہا۔۔

ہانیہ مسکراتے ہوئے دونوں باپ بیٹوں کو چھوڑ کے ڈریس چینج کرنے چلی گئی۔۔

کیونکہ وہ روشنی لائی تھی میری اندھیری زندگی میں ۔۔ وجاہت نے مسکراتے ہوئے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا۔۔

بس تو پھر وہ میری بھی تو زندگی کی روشنی ہیں آپ کو جیسا بھی لگے پاپا مگر وہ میری بھی سن شائن ہیں۔۔

 ماہیر بول کے رکا نہیں بلکے کمرے سے بھاگ گیا۔۔

مگر جاتے جاتے وہ وجاہت کو آگ لگا گیا۔۔

اور ہاں سن شائن جو چاہیں انہیں پہننے دیں وہ ہر ڈریس میں ہی حسین لگتی ہیں 

وجاہت اٹھا تھا اپنی جگہ سے مگر تب تک ماہیر جا چکا تھا۔۔

ہانیہ نیوی بلیو ساڑھی پہن کر اسی وقت کمرے میں داخل ہوئی۔۔

کہہ تو ٹھیک رہا ہے میرا شیر تم ہر ڈریس میں خوبصورت لگتی ہو۔۔

وجاہت نے ہانیہ کو اپنے حصار میں لے کر کہا تو ہانیہ مسکرا دی۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

مہمان آنا شروع ہوئے تو ہال میں نور بھی آگئی۔۔ جامنی اور کاہیا رنگ کی پیروں کو چھوٹی فراک پہنے جو کہ اسکے نازک سے سراپے پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔

ہانیہ کے جیسی ہی سنہری چمکتی ہوئی رنگت کی حامل نور واقعی وجاہت کی آنکھوں کا نور تھی ۔۔

گھنگھرالے بالوں کا اسنے میسی جوڑا بنایا ہوا تھا اور کچھ لٹیں اسکے چہرے کے گرد منڈلا رہی تھی۔۔

وہ بلکل ہانیہ پر گئی تھی اسکے جیسی نرم مزاج معصوم سی مگر وجاہت کے لاڈ نے اسے حد سے زیادہ موڈی بنا دیا تھا مگر ہانیہ کی تربیت نے نور کے دل کو معصوم ہی رکھا۔۔

تو دوسری طرف حور تھی جو کہ گلابی رنگت کی حامل بہت خوبصورت اور شائستہ لہجے کی حامل تھی ۔۔ اسنے سفید رنگ کی پیروں کو چھوتی فراک پہنی تھی جو کہ اسکے سرخ و سفید رنگ پر بہت جچ رہی تھی۔۔

شہدیا رنگ کے بالوں کو اسنے سائڈ فرینچ بریڈ کے اسٹائل میں بنایا ہوا تھا اور لبوں پر ہلکی گلابی لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی ۔۔

ہانیہ اور وجاہت کی دونوں بیٹیاں خوبصورت تھیں دیکھنے والے انہیں چاند اور سورج کہتے تھے۔۔

چاند جیسی خوبصورت حور تو سورج کی روشنی کی مانند سنہری رنگت والی نور۔۔

جتنی وہ وجاہت کی لاڈلی تھیں اتنی ہی وہ اپنے بھائی کی آنکھوں کا تارا تھیں۔۔

ہانیہ اور وجاہت نے انہیں دیکھ کے دل ہی دل میں ڈھیروں دعائیں دیں۔۔

کہاں رہ گئی تھیں تم دونوں ۔۔ ان دونوں کو پاس بلا کر ہانیہ نے سوال کیا۔۔

مما میں بلکل تیار ہوگئی تھی مگر نور کی تیاری ہی پوری نہیں ہورہی تھی ۔۔

حور نے ہانیہ سے کہا تو نور آنکھیں بڑی کر کے حود کو دیکھنے لگی۔۔

اپیا آپ لیٹ تیار ہوئی تھیں جب آپ کمرے میں آئی تھی تب تک میں ریڈی ہوچکی تھی۔۔ نور نے اپنے دفاع میں کہا تو حور اسے گھورنے لگی۔۔

اچھا بچو اور ابھی دو منٹ پہلے تک جیولری کون ڈیسائڈ کر رہا تھا۔۔

حور نے مسکراتے ہوئے کہا تو نور بھی مسکرا دی ۔۔ ہاں وہ الگ بات ہے۔۔ نور کے کہنے پر دونوں بہنیں مسکرا دیں ۔۔ دونوں بہنوں میں حد سے زیادہ محبت تھی۔۔

اچھا ٹھیک ہے نیلم اور ہادی آتے ہونگے تم لوگ زرا مہمانوں کا خیال رکھنا بھائی زرا اپنے مہمانوں کے ساتھ مصروف ہے میں اسے دیکھ لو۔۔

ہانیہ بولتے ہوئے ماہیر کی طرف چل دی۔۔

یہ پارٹی ماہیر کے بزنس میں اعلا کامیابی کی خوشی میں دی گئی تھی۔۔

اور آج کئی سالوں بعد ہادی اور نیلم بھی پاکستان آرہے تھے۔۔

عالیہ بیگم کے اس دنیا کے جانے کے بعد ہادی نے ہی پاکستان سے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔

وہ لوگ ایمسٹرڈیم میں جمشید صاحب کے ساتھ رہتے تھے۔۔

اور وجاہت یہاں شان صاحب اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی رہتا تھا۔۔

دادو بھی ماہیر کے پیدائش کے دو سال بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

نیلم اور ہادی عالم ولا میں داخل ہوئے تو وجاہت اور ہانیہ ان سے بہت محبت سے ملے 

پھر ان دونوں سے حور ماہیر اور نور بھی ملیں۔۔ بھئی وجی تیرا بیٹا تو بلکل تیری ڈٹو کاپی بن گیا ہے۔۔

ہادی ماہیر کے گلے لگ کر کہنے لگا۔۔ 

ہاں تو باپ کی طرح ہی ہینڈسم اور ایک کامیاب بزنس مین ہے۔۔ وجاہت نے فخر سے کہا تو ہادی نے اسکی تائید میں سر ہلایا۔۔

بلکل اتنی کم عمر میں پورا بزنس سنبھال لیا ہے ماہیر نے ۔۔ ہادی نے خوشی سے ماہیر کو دیکھ کے کہا۔۔

مسٹر ہینڈسم ہم بھی لائین میں ہیں ہم سے بھی مل لیں۔۔

نور نے مسکراتے ہوئے کہا وہ ہادی کو مسٹر ہینڈسم کہتی تھی ۔۔ پورے خاندان میں اسے ہادی سب سے زیادہ پسند تھا خوش مزاج ہمیشہ ہنسنے والا اور دوسروں کو ہنسانے والا پتہ نہیں انکا بیٹا کس پر چلا گیا ۔۔

ارے کیوں نہیں میں اپنی گڑیا سے ضرور ملوں گا۔۔

ہادی محبت سے نور سے ملا تو نور نے دیکھا پیچھے سے ہادیہ کے ساتھ نہال بھی گھر میں داخل ہوا۔۔

لمبی چوڑی جسامت والا نہال بلیک جینز پر وائٹ ٹی شرٹ پہنے اسکے اوپر بلیک ہی پارٹی کوٹ پہنے وہ خوبصورت نوجوان اپنی سنجیدہ شخصیت لئے گھر میں داخل ہوا۔۔

ایک پل تو نور اسے دیکھے گئی مگر اگلے ہی پل اس نے اپنی نظریں پھیر لیں۔۔ سڑیل کہیں کا۔۔ یہ بول کر نور ہادیہ سے ملنے لگی جو کہ حور کے گلے لگی ہوئی تھی۔۔

ہادی اور نیلم کو خدا نے شادی کے دوسرے ہی سال بیٹے جیسی نعمت سے نوازا تھا جسکا نام عالیہ بیگم نے نہال رکھا تھا۔۔

پھر نہال کے 5 سال بعد ہادیہ اس دنیا میں آئی ۔۔ ہادیہ شکل و صورت میں تو اپنی ماں پر تھی بہت حسین مگر حرکتوں میں وہ بلکل اپنے باپ پر تھیں حد سے زیادہ چلبلی اور شوخ چنچل 

اسی لئے وہ نور کو بہت پسند تھی۔۔ نور اس سے مسلسل رابطے میں رہتی تھی مگر اپنی پڑھائی کی وجہ سے وہ پاکستان نہیں آپاتی تھی۔۔

سبھی بڑے گھر کے اندر چلے گئے تو ہادیہ نور اور حور سے مل کر ماہیر سے بات کرنے لگی۔۔

ہیلو میں ہادیہ ہوں آپ کی ہی کزن ہوں تو آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں اور بات بھی کر سکتے ہیں میں برا نہیں مانو گی۔۔ نہال سب کے ساتھ اندر گیا تو ماہیر بھی جانے لگا مگر ہادیہ نے اسکا راستہ روک کے اس سے بات کرنے لگی۔۔

میں جانتا ہوں تم میری کزن ہو مگر میں لوگوں سے زیادہ بات نہیں کرتا تو بہتر ہے اپنی دوست نور سے ہی بات کرو میرے کچھ دوست آئے ہوئے ہیں مجھے ان کے پاس جانا ہے۔۔

ماہیر نے نرم مگر سنجیدہ لہجے میں کہا اسے زرا اچھا نہیں لگا تھا ہادیہ کا یوں اسکا راستہ روکنا مگر ایک تو وہ اسکی کزن تھی دوسرا بہت سالوں بعد پاکستان آئی تھی تو ماہیر نے اپنا لہجا نرم ہی رکھا۔۔

  لو یہ کہا بات ہوئی نور سے تو میں تقریباً روز ہی بات کرتی ہوں مگر آپ سے سالوں بعد ملی ہوں سنا ہے آپ بھی نہال بھائی کی طرح تھوڑے سڑو ہیں تو سوچا آپ سے مل لوں دیکھوں ایک اور سڑو کو مگر آپ مجھے کافی اچھے لگے سچ کہوں تو بہت ہینڈسم ہیں آپ اگر میں اپنی دوستوں سے یہ کہوں کہ آپ میرے بوائے فرینڈ ہیں تو وہ تو جل جل کے ہی مر جائیں گی۔۔

ہادیہ نے خود ہی کہہ کر خود ہی قہقہہ لگایا۔۔ جبکہ ماہیر بس اس چھوٹی سی لڑکی کو گھور کے رہ گیا۔۔

مجھے لگتا ہے مجھے جانا چاہیئے۔۔ بولتے ہوئے ماہیر واقعی وہاں سے چلا گیا۔۔

اور ہادیہ ارے سنو تو بولتے ہوئے رہ گئی۔۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

اچھی لگ رہی ہو مگر یہ کیا بالوں کو باندھا کیوں ہے۔۔ نہال نور کے سامنے کھڑا ہوکر بولنے لگا۔۔

تم سے مطلب تم ہوتے کون ہو مجھ سے سوال کرنے والے۔۔

نور نے چڑتے ہوئے جواب دیا اسے سخت نہ پسند تھا نہال کا یوں اس سے سوالات کرنا۔۔

تمہاری گردن اور پیچھے کا گلا صاف دکھ رہا ہے اسے ڈھکو ابھی۔۔ نہال نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔

 تمہاری پرابلم کیا ہے کس حق سے کہہ رہے ہو تم میرے پاپا نے مجھے کچھ نہیں کہا تم ہوتے کون ہو مجھے حکم دینے والے۔۔

نور نے دبے دبے غصے سے کہا اور ہنہ کہہ کر وہاں سے جانے لگی تو نہال نے اسکا بازو پکڑ لیا۔۔

کوئی حق ہے نہیں تو بنا لونگا مگر یاد رکھنا تم پر صرف میرا حق ہے اور بچی نہیں ہو تم جانتی ہوگی کہ ہمارا رشتہ ہمارے بڑوں نے بچپن میں ہی طے کردیا تھا نانوں کے کہنے پر ۔۔

نہال کے بولنے پر نور اپنا بازو چھڑانے لگی۔۔ میں پاپا سے کہوں گی کہ مجھے اس سڑو سے کبھی شادی نہیں کرنی نم آنکھوں سے بولتے ہوئے نور اپنا بازو چھڑا کر وہاں سے بھاگ گئی۔۔

کہاں تک بھاگو گی ایک نہ ایک دن تمہیں میرے پاس ہی آنا ہے۔۔ 

ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ نہال نے نور کو جاتے ہوئے دیکھ کے کہا۔۔

عالیہ بیگم نے ہی نور اور نہال کا رشتہ طے کیا تھا بڑوں نے انکی خوشی جان کر اس رشتے کو قبول بھی کیا تھا اور یہ بات اپنے بچوں سے بھی نہیں چھپائی تھی۔۔

نہال بھی بچپن سے ہی نور کو پسند کرتا تھا پھر جب اسے یہ پتہ چلا کہ نور اور اسکے رشتے کے بارے میں تو یہ پسند محبت میں تبدیل ہوگئی۔۔

مگر نور اس سے چڑتی تھی حالانکہ وہ صرف اگر ٹوکتا تھا تو اسکے بھلے کیلئے مگر خیر ہے اپنی زندگی میں لاکر وہ نور کو اپنی محبت سے بدل دے گا۔۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

پارٹی ختم ہوئی تو سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے ہادی بھی اپنی فیملی کے ساتھ عالم ولا میں ہی رک گیا 

وہ اور نیلم سال میں ایک چکر ضرور لگاتے تھے پاکستان کا بس نہال ہی پاکستان آتا جاتا رہتا تھا۔۔

وہ بزنس کی پڑھائی کر رہا تھا اور وجاہت اور ماہیر کے بہت قریب تھا اسی لئے اسے جب موقع ملتا پاکستان آجاتا تھا۔۔

ہادیہ البتہ پاکستان کئی سال بعد آئی تھی اسے پاکستان کچھ خاصہ پسند نہیں تھا تو وہ اپنے دادا کے پاس ہی رہ جایا کرتی تھی۔۔

ہانیہ کمرے میں آئی تو دیکھا وجاہت ٹیرس پر ریلنگ تھامے کھڑا تھا۔۔

یہاں کیا کر رہے ہیں آپ وجاہت سوئے نہیں ابھی تک۔۔

ہانیہ نے وجاہت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔۔

دیکھ آئی ہمارے بچوں کو وجاہت نے پیار سے ہانیہ کا ہاتھ کندھے سے ہٹا کے چوم کے کہا۔۔

ہاں جب تم انہیں نہ دیکھ لوں نیند ہی نہیں آتی پتہ نہیں میری بیٹیاں جب اس گھر سے رخصت ہونگی تو میں کیسے رہوں گی۔۔ ہانیہ نے وجاہت کے کندھے پر سر رکھ کے کہا۔۔

یہ کیوں کہا تم نے میری پریاں کہیں نہیں جائیں گی میں انہیں ہمیشہ ساتھ رکھوں گا ہادی سے بات کی ہے میں نے کہ اب وہ پاکستان ہی سیٹیل ہوجائے تو اسنے کہا ہے کہ سوچتا ہوں مگر میں جانتا ہوں وہ بھی اب پاکستان ہم سب کے ساتھ رہنا چاہتا ہے بس مجھے چڑانے کیلئے بہانے بناتا ہے۔۔ وجاہت نے مسکرا کے کہا۔۔

چلو اس طرح تو نور ہمارے ساتھ رہے گی مگر حور ۔۔ ہانیہ نے وجاہت کو دیکھ کے کہا۔

حور مانتا ہوں ساتھ نہیں مگر ہمارے قریب ہی رہے گی۔۔

آج بھی مسٹر آفندی نے کہا ہے اپنے بیٹے عارض کیلئے ۔۔ وجاہت نے ہانیہ کو اپنے سامنے کرکے کہا۔۔

عارض اچھا لڑکا ہے آرمی میں میجر ہے بہت سلجھا ہوا اور پیارا بچہ ہے ۔۔ ہانیہ نے مسکرا کے کہا۔۔ ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر میں حور کی مرضی سے سب کچھ کرنا چاہتا ہوں نور سے تو پوچھنے کا موقع نہ ملا کیونکہ مام نے کہا تھا مگر حور کو میں یہ حق دونگا۔۔

وجاہت نے ہانیہ کا گال ہاتھ کی پشت سے سہلاتے ہوئے کہا۔۔

ہمم ٹھیک جیسا آپ کو ٹھیک لگے۔۔ ہانیہ نے سر اثبات میں ہلا کے کہا۔۔

ویسے آج بہت حسین لگ رہی تھی ۔۔ وجاہت کا موڈ ایک دم ہی چینج ہوتا دیکھ ہانیہ مسکرا دی۔۔

آپ کو میں کس دن حسین نہیں لگتی۔۔ ہانیہ نے محبت سے وجاہت کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔

تم مجھے ہر دن ہر پل حسین لگتی ہو میری روح میں شامل ہو تم میری نظروں کا نور ہو۔۔

میرے تین بیش قیمتی بچوں کی ماں ہو تم میرا مان ہو تم میری زندگی کا اجالا ہو تم میری دل کی دھڑکن ہو تم تو کیوں نہ لگو گی تم مجھے حسین 

بلکہ مجھے لگتا ہے ہر گھڑی وقت کے ساتھ ساتھ تم اور حسین ترین ہوتی جارہی ہو اور میری دیوانگی بھی وقت کے ساتھ ساتھ تمہارے لئے بڑھتی جارہی ہے ۔۔

وجاہت کے لفظ ہمیشہ ہانیہ ہو میسمرائز کردیا کرتے تھے۔۔

آج تک وجاہت ہر روز ہانیہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا اسکا ماننا تھا کہ محبت جتنی محسوس کرنی چاہئے اتنی ہی لفظوں میں بیان کرنی چاہئے۔۔

کس نیکی کا بدلہ ہیں آپ۔۔ ہانیہ نے کئی ہزار بار اپنا دہرایا ہوا جملہ کہا مگر آج تک اسے خود بھی سمجھ نہیں آیا کہ وجاہت واقعی اسکی کس نیکی کا صلاح ہے۔۔

وہ خوبصورت نہ تھی پہلے عام سی شکل و صورت کی حامل تھی مگر وجاہت نے اپنی محبت سے اسے حسین بنا دیا تھا 

یوں روز اپنی شوہر کے منہ سے اپنے لئے محبت بھرے الفاظ اسے ایک نئے طریقے سے حسن بخشتے تھے۔۔

خدا سے جتنا شکر ادا کرتی اسے کم لگتا تھا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ وجاہت کی محبت کو اسنے بڑھتے ہوئے ہی دیکھا تھا تو جیسے جیسے اسکی محبت بڑھی ویسے ہی ہانیہ خدا کی اور بھی زیادہ شکر گزار بن گئی۔۔

🌹🌹🌹ختم شد۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mily Tum Kuch Is Tarah Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Mily Tum Kuch Is Tarah written by Pareeshy Gull . Mily Tum Kuch Is Tarah by  Pareeshy Gull is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment