Pages

Tuesday 27 August 2024

Kaif E Junoon By Harram Shah New Complete Romantic Novel

Kaif E Junoon  By Harram Shah New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Kaif E Junoon  By Harram Shah New Complete Romantic Novel 


Novel Name: Kaif E Junoon 

Writer Name: Harram Shah

Category: Complete Novel

(ماضی)


"یہ کیا کہہ رہے ہو تم حیدر میں بیوی ہوں تمہاری اور تم۔۔۔۔"


وردہ نم پلکوں سے اپنے شوہر کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے کہہ رہی تھی جبکہ اسکے شوہر کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔


کتنے دن ہو گئے تھے اسے اپنے گھر اپنے شوہر کا انتظار کرتے ہوئے۔ جب وہ گھر نہیں آیا تو خود ہی اس نے اس کے آفس آنے کا سوچ لیا تھا لیکن یہاں پہنچ کر جب حیدر نے یہ پوچھا کہ وہ کس حق سے یہاں آئی ہے تو وہ حیران رہ گئی۔


"ہوں بیوی؟تم جیسی لڑکی میری بیوی کیسے ہو سکتی ہے اس سب کو سیریس مت لو مس وردہ وہ تو بس ایک پل کی اٹریکشن تھی جو اب ختم ہو گئی۔"


حیدر کی بات پر وردہ نے حیرت سے اسے دیکھا اور آگے بڑھ کر اس کا گریبان اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔


"تم کہنا چاہ رہے ہو کہ ہمارا نکاح مزاق تھا،میرا تمہارے لیے اپنا گھر چھوڑ کر آنا اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آنا وہ سب مذاق تھا؟تمہاری وہ محبت بھی ایک مزاق تھی کیا؟"


وردہ روتے ہوئے چلا رہی تھی اور حیدر کے ماتھے پر بل پڑھ چکے تھے۔اس نے اپنے ہاتھ سختی سے وردہ کے ہاتھوں پر رکھے اور اپنا گریبان اس کی پکڑ سے چھڑوا لیا۔


"اپنی حد میں رہو خوب جانتا ہوں تم جیسی لڑکیوں کو یونیورسٹی میں آتی ہی ہم جیسے امیر لڑکوں کو پھنسانے کے لیے ہیں تاکہ ہماری دولت پر عیش کر سکیں۔غلطی ہوگئی تھی مجھ سے تم سے نکاح کر کے اب بھول جاؤ تم وہ غلطی اور نکلو یہاں سے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر حیدر نے جھٹکے سے اس کے ہاتھ چھوڑے اور اسے باہر کے دروازے کی جانب جانے کا اشارہ کیا۔


"نہیں حیدر بلکہ تم جیسے لڑکے ہم جیسی بے وقوف لڑکیوں کو پھانستے ہیں تاکہ ہمیں استعمال کرنے کے بعد کسی ٹشو پیپر کی طرح پھینک سکیں اور ہم بےوقوف لڑکیاں تمہارے دھوکے کو تمہاری محبت سمجھ بیٹھتی ہیں۔۔۔۔"


وردہ نے غصے سے کہا اور اپنے آنسو پونچھ کر لال آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"لیکن دیکھنا میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی کیس کروں گی تم پر یہ ثابت کروں گی کہ تم نے دھوکے سے مجھ سے نکاح کیا۔۔۔۔"


وردہ جو حیدر کو دھمکی دے رہی تھی اس کے قہقہ لگا کر ہنسنے پر حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔


"نکاح۔۔۔۔کیسے ثابت کرو گی تم اس نکاح کو؟ نکاح نامہ ہے تمہارے پاس؟ یا رجسٹرار کے آفس سے جا کر نکاح نامہ نکلواو گی۔۔۔۔چچچ وردہ جانم وہ نکاح نامہ تمہیں وہاں سے بھی نہیں ملے گا کیونکہ میں نے اسے رجسٹر ہی نہیں کروایا تھا اور نکاح نامے کی ہر کاپی میرے پاس ہے تو کیسے ثابت کرو گے تم ہمارے اس نکاح کو تم تو نکاح پر آنے والے گواہوں کو بھی نہیں جانتی۔۔۔۔۔"


حیدر نے خباثت سے کہا اور اس کی یہ کمینگی دیکھ کر وردہ کو اپنی بیوقوفی پر افسوس ہونے لگا کیسے اس نے اس جیسے شخص سے اتنی محبت کی؟اس پر اعتبار کر کے جان چھڑکنے والے ماں باپ اور بھائی کو رسوا کر دیا۔


"اگر پھر بھی تمہیں میری بیوی ہونے کا بھرم ہے ناں تو فکر مت کرو میں ابھی وہ بھرم بھی توڑ دیتا ہوں وردہ شیخ میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔ "


ساتوں آسمان ایک ساتھ وردہ پر گرے اور وہ بت بنے بس اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس نے اس کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کے وعدے کیے تھے۔جس کی خاطر اس نے سب کو چھوڑ دیا تھا آج وہی اس سے اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد اپنی زندگی سے نکال کر پھینک چکا تھا۔


"اب نکلو یہاں سے اور ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمہاری حیثیت اتنی نہیں کہ حیدر بیگ کی بیوی بن سکو رہی اس نکاح کی بات تو وہ مجھے تمہیں پانے کے لیے کرنا پڑا تم ایسے میرے ہاتھ میں جو نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔"


حیدر نے اسکو سر سے لے کر پیر تک دیکھتے ہوئے کہا۔


"نکلو یہاں سے۔۔۔۔"


حیدر کے چلانے پر وردہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور آنسوؤں سے تر نگاہیں اٹھا کر حیدر کو دیکھا۔


"میری بد دعا ہے حیدر بیگ کہ ایک دن تم بھی اسی طرح برباد ہو جاؤ گے جس طرح تم نے مجھے برباد کیا۔اپنی اس دولت کی وجہ سے دوسروں کی زندگی کو کھلونا سمجھ رکھا ہے ناں تم نے ایک دن تم خود حالات کا کھلونا بن کر رہ جاؤ گے۔آج جس قدر میں بے بس ہوں ایک دن تم بھی اتنے ہی بے بس ہو گے۔۔۔۔۔"


وردہ اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی اور اپنی دولت کے غرور میں ڈوبا حیدر مسکرا دیا کیونکہ اسے کسی کی بدعا کی کوئی پرواہ نہیں تھی وہ اپنا نصیب خود لکھنا جانتا تھا مگر شائید وہ بھول چکا تھا کہ کوئی ایسی طاقت ہے جس کے آگے وہ بہت ادنی ہے۔

💞💞💞💞

رات کا وقت ہو رہا تھا اور مارگلا سے دور ان پہاڑیوں پر بہت سے لوگ جمع تھے۔دو لڑکے اپنی مہنگی موٹر سائیکلوں کے ساتھ ان لوگوں کے وسط میں کھڑے تھے اور اردگرد جمع لوگ ان کے نام کے نعرے لگانے اور ہوٹنگ کرنے میں مصروف تھے لیکن سب لوگوں کی زبان پر بس ایک ہی نام تھا۔


فرزام خانزادہ۔۔۔۔۔


جینز پر سفید شرٹ اور کالی لیدر کی جیکٹ پہنے سفید رنگت اور تیکھے مغرور سے نقوش والا فرزام حد سے زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔سٹائلش سے بال جیل سے سیٹ کیے گئے تھے اور مغرور عنابی ہونٹوں کے درمیان ایک سگریٹ قید تھا۔


"فرزام۔۔۔۔!!!آئی لو یو مائے ہیرو۔۔۔۔"


ایک لڑکی اونچی آواز میں چلائی تو فرزام نے نگاہیں گھما کر اسکو دیکھا۔دائیں گال پر ایک ڈمپل نمودار ہوا اور ایک ادا سے فرزام نے اپنی بائیں آنکھ دبائی جسے دیکھ کر وہ لڑکی اپنا ہاتھ دل پر رکھ چکی تھی۔


"آپ جانتے ہیں کہ خرم نے اپنے فرزام کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اسے ریس میں ہرا سکتا ہے تو چلیں ریس شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ خرم ہمارے لیجنڈ کو ہرانے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔۔۔۔۔"


ایک آدمی نے آگے ہو کر کہا اور بائیک کے پاس کھڑا خرم ہیلمٹ پہننے لگا۔فرزام نے بھی سگریٹ کا آخری کش لے کر اسے زمین پر پھینک کر مہنگے بوٹ تلے کچل دیا اور ہیلمٹ پہن کر اپنی ہیوی بائیک پر سوار ہو گیا۔


"تھری ٹو ون گو۔۔۔ "


آدمی کے چلاتے ہی دونوں بائیکس گولی کی رفتار سے آگے بڑھ گئیں۔یوں پہاڑوں پر بائیک چلانا بہت زیادہ خطرناک اور غیر قانونی کام تھا لیکن وہ منچلے پولیس سے چھپ چھپا کر یہ کام اسلام آباد کے پہاڑوں پر بنی سڑکوں پر کر ہی لیتے تھے۔


فرزام کی بائیک کافی زیادہ تیز تھی اس لیے کچھ پلوں میں ہی وہ خرم سے آگے نکل گیا لیکن کچھ دیر بعد ہی خرم اپنی نئی ماڈل کی بائیک رفتار سے بھگاتا فرزام سے آگے چلا گیا اور یہ بات فرزام خانزادہ کو کہاں گوارا تھی۔


خوبصورت پیشانی پر بل آئے تھے۔ایک جھٹکے سے فرزام نے اپنا ہیلمٹ اتار کر سائیڈ پر پھینکا اور بائیک کی ون ویلنگ کرواتا پوری رفتار سے آگے بڑھنے لگا۔


خرم کی بائیک ایک خطرناک موڑ پر آنے کی وجہ سے تھوڑا سلو ہو گئی کیونکہ موڑ کے ایک طرف پہاڑ تھا تو دوسری طرف گہری کھائی۔


لیکن تبھی فرزام کی بائیک بہت زیادہ رفتار سے اس کھائی کے کنارے سے گزرتی ہوئی خرم کی بائیک سے آگے گزر گئی۔فرزام کی اس جرات کو دیکھ کر خرم بھی حیران رہ گیا۔


اور اسی طرح سب سے پہلے اپنی بائیک کو فنشنگ لائن پر واپس لا کر فرزام وہ ریس جیت چکا تھا جس کے بعد لوگوں کا شور پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔


فرزام نے دو انگلیاں اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگا کر وہاں کھڑی لڑکیوں کی طرف کر دیں تو لڑکیاں مزید اونچی اسکا نام چلانے لگیں۔یہ دیکھ کر فرزام مزید مسکرا دیا۔


"تم نے چیٹنگ کی فرزام ون ویلنگ کرنا الاؤڈ نہیں تھا اور تم اسی سے اپنی رفتار بڑھا کر مجھ سے آگے گزرے ورنہ میری بائیک تمہاری اس کھٹارہ سے کہیں زیادہ اچھی ہے۔۔۔ "


خرم نے آگے بڑھ کر فرزام کی بائیک کو ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔فرزام نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا اور پھر پوری طاقت سے اپنی بائیک کو ٹانگ مار دی۔بائیک کھائی کے کنارے پر کھڑے ہونے کی وجہ سے کھائی میں جا گری۔


سب فرزام کی اس حرکت پر حیرت سے خاموش ہو گئے کیونکہ ہر کوئی جانتا تھا کہ وہ فرزام کی فیورٹ بائیک تھی۔


"تمہارے چھونے کے بعد یہ میرے قابل نہیں رہی ۔۔۔"


فرزام نے نفرت سے کہا اور آگے بڑھ کر خرم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔


"اور میری بائیک کو میرے ہی قابل نہ چھوڑنے کی سزا بھگتو اب۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام نے اسکی انگلیوں کو بری طرح سے مروڑ کر توڑ دیا۔ان پہاڑوں میں خرم کی چیخیں گونج اٹھیں لیکن فرزام اسے زمین پر پھینک کر اپنی جیب سے سگریٹ نکال کر سلگا چکا تھا۔


تبھی اسکی نظر ایک گاڑی پر پڑی جس کے ساتھ سرمئی پینٹ کوٹ میں ملبوس آدمی ٹیک لگا کر سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔فرزام نے گہرا سانس لیا اور سگریٹ کا گہرا کش لیتے اس آدمی کی جانب بڑھ گیا جو کافی غصے میں نظر آ رہا تھا۔


"سوری بگ بی پرامس کیا تھا ریس نہیں کروں گا لیکن کیا کروں اوہ بگ بی میں ہوں عادت سے مجبور۔۔۔۔۔"


فرزام نے شرارت سے کہا لیکن مقابل کے چہرے کی سختی ابھی بھی ویسی ہی تھی۔


"اچھا سوری برو پرامس کرتا ہوں نیکسٹ ٹائم نہیں کروں گا ایسا۔۔۔۔"


"اور یہ پرامس تم کتنی مرتبہ کر چکے ہو فرزام۔۔۔۔؟شائید چھبیس۔۔۔"


اس آدمی نے سختی سے کہا تو فرزام مسکرا دیا۔


"نو بگ بی بتیس۔۔۔۔"


اپنے بھائی کو اب باقاعدہ اپنے دانت کچکچاتا دیکھ کر فرزام قہقہ لگا کر ہنس دیا۔


"مجھے جانتے تو ہو تم بہرام ایسا ہی ہوں اپنی زندگی فارغ رہ کر تو نہیں گزار سکتا ناں میں۔۔۔۔"


فرزام نے اسکی طرح کار سے ٹیک لگا کر کہا۔دونوں کو دیکھ کر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ دونوں جڑواں تھے۔قد و قامت کے لحاظ سے وہ ایک جیسے تھے لیکن جڑواں کی طرح چہرہ ایک جیسا نہیں تھا۔


"تو آفس میں اپنا کام سنبھالو۔یہ کمپنی جتنی میری ہے اتنی تمہاری بھی ہے۔اپنی زندگی کو ان فالتو کاموں میں برباد کرنے کی بجائے اس کمپنی کو وہاں لے جانے میں میری مدد کرو جہاں بابا اسے دیکھنا چاہتے تھے۔"


اپنے بھائی کی بات پر فرزام شان سے مسکرایا اور سگریٹ کا گہرا کش لیا۔ماں باپ تو انکے تھے نہیں بس دونوں بھائی ہی ایک دوسرے کا سب کچھ تھے۔


"یہ آفس آفس تم ہی کھیلو بھائی مجھے یہ بہت بورنگ لگتا ہے میں تو وہ کرنا چاہتا ہوں جس میں مجھے مزہ آئے۔"


بہرام نے گہرا سانس لیا۔


"زندگی کو لے کر سیریس ہو جاؤ فرزام۔یہ کوئی کھلونا نہیں ہے۔۔۔۔"


"سیریس ہونے کے لیے تمہیں جو رکھا ہے میں نے میرے بھائی۔یہ میرے گال پر ڈمپل ہے ناں جس پر لڑکیاں مرتی ہیں ایسا تمہاری گال پر بھی ہے لیکن مجال ہے جو آج تک کسی نے اسے دیکھا ہو۔۔۔۔"


فرزام نے شرارت سے کہا اور بہرام نے بے زاری سے اسے دیکھا۔


"اپنی زندگی یوں فالتو میں برباد مت کرو فرزام اگر تمہیں آفس ورک پسند نہیں تو کچھ اور کر لو لیکن یہ بائیک ریسنگ اور پارٹیز سے آگے بڑھو اب بچے نہیں رہے تم۔۔۔۔۔"


فرزام بہرام کی بات پر مسکراتے ہوئے کار سے دور ہوا۔


"تمہارے ہوتے ہوئے بچہ ہی رہوں گا بھائی یاد نہیں پورے پانچ منٹ بڑے ہو تم مجھ سے اور اس لحاظ سے چھوٹے بھائی کے لاڈ اٹھانا فرض ہے تمہارا بگ بی تو پورا کرو اسے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام بہرام کی گاڑی کی جانب بڑھ گیا اور ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔


"اب صبح ہی ملاقات ہو گی بگ بی ابھی زرا پارٹی میں جا کر لڑکیوں کے دلوں پر بجلیاں گرا لوں ۔۔۔۔۔"


فرزام نے اپنے سٹائلش بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ادا سے کہا اور بہرام کی گاڑی بھگاتا وہاں سے چلا گیا۔بہرام کو اسکی یہ آزادی اور بے فکری اچھی لگتی اگر یہ سب اصلی ہوتا لیکن یہ سب فرزام خانزادہ کا نقاب تھا جو اس نے اپنے اندر پلتے غصے اور کرب کو چھپانے کے لیے اوڑھا تھا بالکل جیسے بہرام نے اپنے غصے اور کرب کو چھپانے کے لیے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔

💞💞💞💞

سکینہ ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھیں اور اپنی بیٹی کے لیے کھانا بنانے لگیں جو کسی بھی وقت کالج سے آنے والی تھی۔ویسے بھی اس دنیا میں ان کی بیٹی کے سوا ان کا کوئی نہیں تھا۔


انکی بیٹی صرف پانچ سال کی تھی جب انکا شوہر اس دنیا سے چلا گیا۔آج بھی وہ سب یاد کر کے وہ دکھی ہو جاتی تھیں۔


دروازہ کھٹکنے کی آواز پر وہ مسکرا کر دروازے کی جانب چل دیں لیکن دروازہ کھولنے پر انکی نظر چاہت کے سوجے ہوئے منہ پر پڑی تو پریشانی سے اسکی جانب بڑھیں۔


"چاہت کیا ہوا میرا بچہ منہ کیوں بنا رکھا ہے تم نے؟"


انہوں نے اسے کمرے میں لا کر اپنے پاس بیٹھاتے ہوئے پوچھا۔چاہت نے غصے سے اپنی چادر اتار کر دور اچھالی۔


"اماں ایک لڑکا ہے کالج میں روز مجھے تنگ کرتا ہے میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی پھر بھی فالتو میں فری ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔۔۔"


چاہت کی بات پر سکینہ نے پریشان ہو کر اسے دیکھا۔


"ارے کیوں سمجھتا کیا ہے خود کو تم پریشان مت ہو میں بہرام بیٹے کو کہوں گی وہ پوچھ لے گا اسے۔۔۔۔"


بہرام کے ذکر پر کی چاہت کا دل بہت زور سے دھڑکا،رخسار گلابی ہو گئے اور اس نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں آپ خان جی کو کچھ مت بتائے گا ایسا نہ ہو کہ غصے میں اگر میرا کالج ہی چینج کروا دیں اتنی اچھی سہیلیاں ہیں میری کالج میں ان سے دور نہیں جا سکتی۔۔۔۔۔"


چاہت نے بہانہ بنایا حالانکہ سچ تو یہ تھا کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ بہرام کو اس کے بارے میں کچھ بھی برا پتہ چلے۔


سکینہ نے مسکرا کر اپنی اکلوتی بیٹی کو دیکھا بچپن سے ہی چاہت بہرام کو خان جی بلاتی تھی۔


"تو پھر میں فرزام بیٹے کو بتا دیتی ہوں وہ۔۔۔۔"


"فرزام بھائی تو خود وہاں لڑنے پہنچ جائیں گے اور کوئی پتہ نہیں اس لڑکے کو مار ہی نہ دیں۔۔۔"


چاہت نے سکینہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔


"تو پھر میں کیا کر سکتی ہوں میری جان ان دونوں کے علاوہ کون ہے ہمیں پوچھنے والا۔۔۔۔"


سکینہ نے پریشانی سے کہا پھر کچھ سوچ کر ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی۔


"ماشاءاللہ اتنے اچھے بچے ہیں دونوں بھلا کون ہوتا ہے جو اپنے باپ کے ہاں کام کرنے والے ملازم کے گھر والوں کا اتنا خیال رکھے۔تمہارے باپ کے جانے کے بعد بھی انہوں نے کبھی ہمیں کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔یہ گھر دیا،ہمارے گھر کا اور تمہاری پڑھائی کا سب خرچہ اٹھا رہے ہیں بہرام صاحب پھر ہماری زندگی میں کچھ ہو تو ان کا جاننے کا حق بنتا ہے ناں۔۔۔۔"


سکینہ نے پیار سے چاہت کا خوبصورت چہرہ تھام کر کہا۔


"لیکن آپ خان جی کو کچھ نہیں بتائیں گی اماں وعدہ کریں۔۔۔"


""کیا نہیں بتانا مجھے۔۔۔۔"


بہرام کی آواز پر دونوں نے گھبرا کر دروازے میں دیکھا جہاں بہرام ملازم کے ساتھ کھڑا تھا جبکہ ملازم نے بہت سے شاپر ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے۔بہرام نے ملازم کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ سارے شاپر وہاں رکھ کر چلا گیا۔


"بتائیں کیا بات ہے؟اور باہر کا دروازہ کیوں کھلا تھا میری طرح کوئی بھی اندر آ سکتا تھا۔"


بہرام نے سنجیدگی سے کہا۔


"ارے بہرام بیٹا آپ بیٹھو تو سہی ۔۔۔۔"


بہرام خاموشی سے بیٹھ گیا اور ایک نظر چاہت کو دیکھا جو سر جھکا کر بے چینی سے اپنے ہاتھ مسل رہی تھی۔

"تو بتائیں کیا بتانے سے منع کر رہی تھی چاہت؟"

بہرام نے چاہت کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا جس کی گھبراہٹ مزید بڑھ چکی تھی۔

"وہ کہہ رہی تھی کہ اسکے کالج میں۔۔۔۔"

"ہمارا فنکشن ہے جس میں میں نے پارٹیسیپیٹ کیا ہے۔۔۔ 

چاہت جلدی سے سکینہ کی بات کاٹ کر بولی اور پھر مسکرا کر بہرام کو دیکھا۔

"ایک سکیٹ ہے خان جی جس میں مجھے ہیر بنا ہے تو بس اسکی شاپنگ کرنی ہے ۔۔۔۔"


چاہت نے کامیابی سے جھوٹ بولنے پر خود کو مبارکباد دی۔


"تو اس میں کیا بڑا مسلہ ہے میرے ساتھ چلو اور جو چاہیے لے لینا۔۔۔"


بہرام کی بات پر سکینہ بیگم نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں بیٹا اسکی کوئی ضرورت نہیں تم پہلے ہی اتنا کرتے ہو ہمارے لیے میں خود ہی اسے بازار لے جاؤں گی۔۔۔۔"


سکینہ نے مزاحمت کرنا چاہی وہ نہیں چاہتی تھیں کہ بہرام مزید ان کے لیے کچھ کرے کیونکہ وہ اور فرزام پہلے ہی ان کا بہت بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔


"آپ کہاں اسے لے کر جاتی رہیں گی اماں جی آپ فکر مت کریں میں اسے سب لے دوں گا۔۔۔۔"


بہرام نے سنجیدگی سے سکینہ کو کہا اور چاہت کی جانب مڑا۔


"میں باہر گاڑی میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں چادر لے کر آ جاؤ اور آئندہ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتانے میں ہچکچانا مت۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام اٹھ کھڑا ہوا تو سکینہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔


"رکو بیٹا تم نے تو کچھ لیا بھی نہیں میں تمہارے لیے چائے بنا لیتی ہوں۔۔۔۔"


بہرام نے انکار میں سر ہلایا۔


"تکلف کی کوئی ضرورت نہیں اماں جی دیر ہو رہی ہے اب چاہت کو بھیج دیجئے گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام دروازے سے باہر چلا گیا اور بھاگنے کے انداز میں شیشے کے پاس گئی اور جلدی سے اپنی کمر تک آتی چوٹی کو کھول کر لمبے بالوں کو کیچر میں مقید کر لیا اور ہلکی سی لپسٹک ہونٹوں پر سجانے کے بعد آنکھوں میں گہرا کاجل ڈال لیا۔


اس کے لیے تو یہی کافی تھا کہ وہ بہرام کے ساتھ باہر جا رہی تھی۔


"چاہت بیٹا اچھی بیٹیاں بازار سج دھج کر نہیں جاتیں۔۔۔"


سکینہ نے چاہت کو جلدی سے تیار ہوتا دیکھ کر ٹوکا اور اسکی کالی چادر اسکی جانب بڑھائی۔


"جب ان کے ساتھ حفاظت کے لیے خان جی جیسا انسان ہو تو کس بات کا ڈر اماں۔۔۔"


چاہت نے پر جوش ہو کر کہا۔بہرام کے ساتھ جانے کی خوشی اسکے معصوم چہرے سے چھلک رہی تھی جو سکینہ کی جہان دیدہ آنکھوں سے چھپی نہیں رہی تھی۔


"اپنا دل مت لگانا چاہت وہ ہم سے بہت زیادہ بڑھے ہیں۔۔۔"


اپنی کلائی میں سفید چوڑیاں چڑھاتے چاہت کے نازک ہاتھ وہیں رک گئے۔


دل تو کب کا لگ چکا ہے اماں جی اب تو بات روح تک جا پہنچی ہے۔

"آپ بھی ناں پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہیں۔۔۔زیادہ مت سوچا کریں بال سفید ہو جائیں گے۔۔۔۔"

چاہت نے شرارت سے کہا اور انکا گال چوم کر چادر اوڑھتے ہوئے باہر چلی گئی جہاں بہرام گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔

"میری معصوم بچی کے دل کی حفاظت کرنا میرے مولا۔بہت معصوم ہے وہ اسے ہر طرح کی تکلیف سے محفوظ رکھنا۔۔۔"

سکینہ نے دعا کی لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ اب یہ دعا کرنے کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی۔محبت کا روگ تو معصوم دل پر بہت پہلے سے بجلیاں گرا چکا تھا۔

💞💞💞💞

"ہمم یہ کافی اچھا ہے بھابی اس ڈریس کو آرڈر کرتے ہیں۔۔۔۔"


شیزہ بیگم نے اپنی بھاوج انجم سے کہا جو ان کے ساتھ آئی پیڈ پر آن لائن ڈریسسز دیکھنے میں مصروف تھیں۔


"تم کیا کہتی ہو مناہل اچھا ہے ناں یہ۔۔۔۔"


انجم بیگم نے مناہل کو پکارا جو انکے قریب تب سے بت بنی بیٹھی تھی۔


"مناہل ۔۔۔۔"


انجم بیگم نے مناہل کی ٹانگ پر اپنا ہاتھ رکھا تو وہ خوف سے اچھل کر ان سے دور ہوئی۔اسکی اس حرکت پر انجم بیگم کے چہرے پر ناگواری آئی۔مناہل کبھی کسی کو خود کو چھونے نہیں دیتی تھی۔


"بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی کیا۔۔؟"


انجم بیگم کے چہرے پر سختی دیکھ کر مناہل نے گھبراتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔


"نن۔۔۔۔نہیں تائی امی آپ بتائیں کوئی کام تھا کیا؟"


اسکے پوچھنے پر انجم بیگم کے ساتھ ساتھ شیزہ بیگم نے بھی گہرا سانس لیا۔


"کوئی پہاڑ نہیں توڑوانے تم سے بس کچھ پوچھنا تھا لیکن چھوڑو لگتا ہے تمہارے ہوش قائم نہیں۔۔۔۔"


انجم بیگم نے نفرت سے کہا تو مناہل اپنا سر جھکا گئی۔


"چھوڑیں بھابی اسکے ہوش کبھی قائم بھی رہے ہیں کیا؟یہ تو ہے ہی ایسی اپنی ہی دنیا میں مگن اور ایک بات بتاؤ مناہل کیا ہمارے چھونے سے تمہارا گورا بدن گندا ہو جائے گا جو ایسے ری ایکٹ کرتی ہو تم ہمارے ہاتھ لگانے پر۔۔۔۔"


شیزہ بیگم کی بات پر مناہل نے نم آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھا۔


"نہیں ایسی بات نہیں ہے پھپھو میں تو بس۔۔۔۔"


"کیا ہو رہا ہے بھئی یہاں میرے بنا ہی محفل سجا لی؟"


حبہ کی آواز پر انجم بیگم نے مسکرا کر اپنی بیٹی کو دیکھا جو جینز ٹاپ میں ملبوس گھر داخل ہوئی تھی۔


"لو آ گئی میری پیاری بیٹی یہی ہیلپ کرے گی ہماری مناہل سے تو کوئی امید نہیں ہمیں۔۔۔۔"


انجم بیگم نے ناگواری سے مناہل کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"کیسی ہیلپ چاہیے آپ کو؟"


حبہ نے انکے قریب آتے ہوئے پوچھا تو وہ دونوں اسے بھی ٹیب پر ڈریسز دیکھانے لگیں جبکہ مناہل کو اپنا آپ ہمیشہ کی طرح فالتو ہی لگ رہا تھا۔


"اچھا مما یہ بیسٹ ہے آپ یہ لے لیں اور پھپھو آپ پر یہ سوٹ کرے گا میں زرا ریسٹ کر لوں لنچ میرے روم میں ہی بھجوا دینا۔۔"


حبہ اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔شیزہ بیگم نے مسکرا کر مناہل کو دیکھا جو ابھی بھی خاموشی سے انکے پاس بیٹھی تھی۔


"ویسے اپنی حبہ کو دیکھیں کتنی اچھی اور لائق بچی ہے۔اتنا کانفیڈینس ہے کہ یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے ورنہ کچھ لوگ تو بس منہ بنا کر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور نالائقوں کی طرح پرائیویٹ تعلیم لے کر گزارہ کرتے ہیں۔۔۔۔"


شیزہ کی بات پر مناہل بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔


"جی کہتی ہے کہ لوگوں میں جانے سے ڈر لگتا ہے جیسے لوگ تو کھا جائیں گے ناں اسے۔۔۔۔مت پوچھو شیزہ کتنی بے عزتی ہوتی ہے ہماری لوگوں کو لگتا ہے کہ اسکے ماں باپ نہیں ہیں تو ہم اس پر کنجوسی کر رہے ہیں اب انہیں کیا پتہ میڈم میں گٹس ہی نہیں یونیورسٹی جانے کے۔۔۔۔"


انجم بیگم نے نفرت سے کہا اور اپنی تزلیل کو برداشت کرتی مناہل خاموشی سے اپنے آنسو پینے لگی۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا اب تک تو اسے یوں آنسو پینے کی عادت ہو چکی تھی۔


چھے سال کی تھی وہ جب اس کے ماں باپ ایک ایکسیڈنٹ میں مارے گئے۔جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا بس اپنے تایا الطاف بیگ،تائی انجم بیگ اور انکی اکلوتی بیٹی حبہ کو ہی اپنے ارد گرد دیکھا تھا۔اسکے دو ماموں بھی تھے جو کینیڈا رہتے تھے اور مناہل کے ہونے یا نہ ہونے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔


مناہل کے بابا شہاب کے بس ایک بڑھے بھائی الطاف بیگ اور ایک بہن شیزہ تھیں جن کی اپنی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔


شیزہ بیگم کی بیٹیاں بھی انکے جیسی تھیں مناہل کو تو کچھ سمجھتی ہی نہیں تھیں جبکہ ان کے بیٹے کی نظروں سے ہی مناہل کو الجھن ہوتی تھی جبکہ اسکے تایا الطاف کی اکلوتی بیٹی حبہ پھر بھی اس سے نرمی سے پیش آ جایا کرتی تھی لیکن زیادہ وقت وہ اپنی دوستوں کے ساتھ گزارنا پسند کرتی تھی۔


مناہل نے حسرت سے آپس میں باتیں کرتی شیزہ اور انجم بیگم کو دیکھا۔رشتوں کے قریب ہوتے ہوئے بھی ان کی محبت سے محروم تھی کیونکہ اسے وہ محبت دلانے والے اس کے ماں باپ اس دنیا میں موجود نہیں تھے۔


اپنے خالی پن کو محسوس کرتے بہت سے آنسو مناہل کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔تبھی موبائل بجنے کی آواز پر مناہل نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ دیے۔


"ارے فیض کا فون ہے۔۔۔۔"


شیزہ بیگم نے چہکتے ہوئے کہا جبکہ اپنے پھوپھا کے ذکر پر ہی مناہل کا سانس اسکے سینے میں اٹک چکا تھا۔نازک وجود خوف کی شدت سے تھر تھر کانپنے لگا۔


"کیسے ہیں آپ فیض۔۔۔؟"


شیزہ بیگم فون اٹھا کر چہکتے ہوئے پوچھ رہی تھیں اور مناہل وہاں بیٹھی سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی جو ہمیشہ اسکے خوف میں مبتلا ہونے پر رک جایا کرتا تھا۔


"میں تو بس مناہل اور بھابھی کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔"


اس شخص کے سامنے اپنا ذکر کیے جانے پر مناہل جلدی سے اٹھی اور وہاں سے بھاگ گئی جیسے وہ فون میں سے نکل کر اسے پکڑ لے گا۔


وہ جلدی سے اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ لاک کرنے کے بعد اسکے ساتھ ٹیک لگا کر زور زور سے سانس لیتے ہوئے اپنا سانس بحال کرنے لگی۔


نم سہمی پلکوں نے کمرے میں موجود بیڈ کو دیکھا تو سات سال پہلے کا ہر منظر اسکی نظروں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا۔مناہل نے فوراً اپنا چہرہ گھٹنوں میں چھپایا اور بازو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی لیکن اس کے اس کرب میں اس کا سہارا بننے والا کوئی نہیں تھا کوئی بھی نہیں۔۔۔۔

(ماضی)

وہ مردہ حالت میں سڑک پر چل رہی تھی۔ذہن میں ابھی بھی اپنے بھائیوں کی باتیں گونج رہی تھیں۔جس کے لیے اس نے اپنے ماں باپ کو رسوا کیا تھا اس سے برباد ہونے کے بعد وہ اپنے ماں باپ کے پاس گئی تھی۔اس امید پر کہ ماں باپ سے زیادہ بچوں کو کوئی نہیں چاہتا اور وہ اپنی اولاد کی ہر غلطی معاف کر دیتے ہیں لیکن یہ اس کا خواب ہی تھا۔


اپنے گھر پہنچ کر اس سے پتہ چلا کہ اس کے ماں باپ تو اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور بھائیوں نے تو اسے دروازے پر ہی کہہ دیا تھا کہ اب اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔


وہ جو ایک آخری امید کے ساتھ وہاں گئی تھی اب وہ امید بھی ختم ہو چکی تھی۔وردہ خود نہیں جانتی تھی کہ اب وہ کہاں جا رہی تھی۔چلتے چلتے اسے یہ اندازہ بھی نہیں ہوا کہ وہ سڑک کے درمیان میں آ چکی ہے۔


اچانک ہی ایک گاڑی سے ٹکرانے کی وجہ سے وہ بہت زور سے زمین پر جا لگی اور ساتھ ہی ہوش کی دنیا سے بے گانہ ہو گئی۔


ہوش آیا تو وہ ہاسپٹل میں تھی اور ایک آدمی پریشانی سے اسکے قریب کرسی پر بیٹھا تھا۔


"شکر ہے خدا کا آپ کو ہوش آ گیا آپ ٹھیک تو ہیں ناں؟"


وردہ نے حیرت سے اس شفیق صورت والے آدمی کو دیکھا پھر ایک گھائل مسکراہٹ اسکے چہرے پر آئی۔


"اسی بات کا تو افسوس ہے کہ میں ٹھیک ہوں کاش مر جاتی تو بہتر ہوتا۔۔۔۔"


اس شخص نے حیرت سے وردہ کی طرف دیکھا۔


"دیکھیے مس اگر آپ کو سوسائڈ کرنے کے فیٹش ہیں تو کسی اور کی گاڑی کے سامنے آجاتیں یوں ہی شریف بندے نے آپ کی وجہ سے جیل میں چلے جانا تھا۔"


اس شخص کی بات پر وردہ نے غصے سے اپنے دانت کچکچائے۔


"تو چلے جائیں آپ یہاں سے اس کے بعد چین سے مر جاؤں گی میں۔۔۔۔"


وردہ غرائی تو اس شخص کے چہرے سے شرارتی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔


"اچھا سوری مس میں مزاق کر رہا تھا آپ برا مت مانیں۔۔۔"


وردہ نے کرب سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔


"پلیز چلے جائیں یہاں سے۔۔۔۔۔"


"کیوں تا کہ آپ آرام سے سوسائیڈ کر سکیں؟"


وردہ نے لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"میں مروں یا جیوں اس سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟"


اس شخص نے گہرا سانس لیا۔


"مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن آپ کو پڑھنا چاہیے کیونکہ آپ کے ساتھ کسی اور کی بھی زندگی جڑی ہے۔۔۔۔"

وردہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"یو آر پریگننٹ مس اور آپ کی خود کشی کا گناہ تو شائید اللہ تعالیٰ معاف کر دیں لیکن اس معصوم کو مارنے کا گناہ بہت بڑا ہے۔۔۔۔"

اسکی بات پر وردہ کا سانس تک اس کے سینے میں اٹک چکا تھا۔بے ساختہ اس نے اپنے ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"پلیز آپ روئیں مت۔۔۔۔"


"تو کیا کروں میں کچھ نہیں بچا میرے پاس سب برباد ہو گیا۔۔۔۔۔ سب ختم ہو گیا۔۔۔۔۔"


وردہ نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا۔


"مجھے بتائیں کیا ہوا ہے دکھ بانٹنے سے کم ہوتا ہے۔۔۔۔"


وردہ نے حیرت سے اس انجان شخص کو دیکھا۔


"میں ایک انجان شخص کو کچھ کیوں بتاؤں۔۔۔؟"


اس بات پر وہ شخص مسکرا دیا۔


"یہی بات تو اچھی ہے کہ ہم انجان ہیں آپ کو ڈر نہیں ہو گا کہ میں آپ کا راز کسی کے سامنے کھول دوں گا۔۔۔۔"


وردہ پہلے تو خاموش رہی پھر روتے ہوئے اسے ہر بات بتاتی چلی گئی جبکہ وہ شخص خاموشی سے اسکی ہر بات سنتا رہا تھا۔


"آپ کو جا کر اسے بچے کے بارے میں بتانا چاہیے۔۔۔۔"


پوری بات سن کر اس نے کہا تو وردہ نے انکار میں سر ہلا دیا۔


"آپ اسے نہیں جانتے وہ بہت برا انسان ہے اسے اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ میرے بچے کو نقصان پہنچا دے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر وردہ پھر سے رونے لگی۔


"تو آپ اپنے والدین کو بتا دیجیے۔۔۔۔"


وردہ آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔


"پہلے ہی انہیں دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا اگر ایک بچے کے ساتھ جاؤں گی تو ان کی عزت کا کیا ہو گا؟"


وردہ کی بات سن کر وہ شخص بھی کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔


"تو پھر زندگی میں آگے بڑھ جائیں۔بات کرنے کے انداز سے آپ پڑھی لکھی لگتی ہیں اس لئے جاب کریں اور اپنے بچے کی پرورش کریں۔زندگی کی خوبصورتی یہی ہے کہ ہم اسے امتحانوں میں بھی آگے بڑھاتے رہیں اسے ختم کر دینا حل نہیں ہوتا۔۔۔۔"


وردہ حیرت سے اس مہربان صورت والے آدمی کو دیکھنے لگی۔


"لیکن میں کہاں جاب کروں گی اور کیسے۔۔۔۔؟"


اس بات پر اس شخص نے اپنا کارڈ نکال کر اسکے سامنے رکھا۔


"چھوٹا موٹا بزنس مین ہے یہ نا چیز آپ کو اپنی کمپنی میں جاب کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ فلیٹ اور تھوڑی بہت سہولیات آفر کر سکتا ہوں۔اب یہ آپ پر ہے کہ آپ ایک انجان شخص پر بھروسہ کرتی ہیں یا نہیں۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر وہ شخص وہاں سے اٹھ گیا۔

"اگر کرتی ہیں تو باہر اپنی گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں جو میں اگلے ایک گھنٹے تک کرتا رہوں گا آپ اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لیں۔۔۔۔"

اس کے بعد وہ شخص وہاں سے چلا گیا اور وردہ کتنی ہی دیر وہاں بیٹھ کر آنسو بہاتی رہی۔ہاتھ مسلسل اپنے پیٹ پر تھے جہاں اسکے شوہر الطاف حیدر بیگ کی اولاد پل رہی تھی ۔

اس نے ہاتھ میں پکڑے کارڈ کو دیکھا جس پر سلیمان خانزادہ کا نام لکھا ہوا تھا۔آخر کار اس نے اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور آنسو پونچھ کر اپنی نئی زندگی کی طرف چل دی۔

💞💞💞💞

چاہت حیرت سے اپنے اردگرد لوگوں کے ہجوم اور رونق کو دیکھ رہی تھی۔بہرام اسے شاپنگ کروانے کے لیے سینٹارس مال لے کر آیا تھا۔چاہت اسلام آباد ضرور رہتی تھی لیکن اسکا محلہ اتنا بھی خوشحال نہیں تھا۔


یوں پہلی مرتبہ اتنے بڑے مال میں آ کر وہ کسی کھوئے ہوئے بچے کی طرح حیرت سے منہ کھولے اردگرد دیکھ رہی تھی۔کبھی کھڑے ہوکر نظارے دیکھنے کی وجہ سے وہ پیچھے رہ جاتی تو بھاگ کر پھر سے بہرام کے ساتھ چلنے لگتی۔


"تو کیا چاہیے تمہیں؟"


بہرام کے پوچھنے پر چاہت نے اس چکاچوند سے دھیان ہٹایا۔


"شلوار قمیض۔۔۔۔ہیر جیسی پنجابی سٹائل کی۔۔۔۔"


بہرام نے سنجیدگی سے اثبات میں سر ہلایا اور اسے گارمنٹس ڈیپارٹمنٹ کی جانب لے جانے لگا۔


"ویسے خان جی اتنے بڑے مال میں آنے کی کیا ضرورت تھی آپ مجھے بازار لے جاتے وہاں سے اتنے پیارے کپڑے مل جانے تھے۔۔۔۔"


چاہت نے اردگرد مہنگے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔اگر وہ زیادہ مہنگے کپڑے لے کر جاتی تو خامخواہ اماں سے ڈانٹ پڑتی۔


"کیوں تمہیں یہاں سے کچھ پسند نہیں آ رہا کیا؟"


"نہیں سب بہت اچھا ہے لیکن اتنی مہنگی چیزیں لوں گی تو اماں ڈانٹیں گی کہ آپ کا اتنا خرچہ کروا دیا۔"


چاہت نے کاجل سے سجی بڑی سی معصوم نگاہیں اٹھا کر کہا تو بہرام بے ساختہ اپنی نظریں پھیر گیا۔


"تم اسکی فکر مت کرو وہ لو جو تمہیں پسند ہے۔۔۔۔"


چاہت مسکرا دی اور بہت محنت کے بعد اسے ایک ملٹی قمیض پسند آئی جس کے ساتھ گلابی پٹیالہ شلوار اور دوپٹہ بہت زیادہ جچ رہا تھا۔


پھر بہرام اسے جوتوں کی دکان پر لے گیا جہاں سے اس نے چاہت کو میچنگ کھسہ لے کر دیا۔


"اب اور کچھ بھی چاہیے۔۔۔؟"


بہرام کے پوچھنے پر چاہت نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔


"جی اس کے ساتھ جھمکے بھی تو پہنوں گی ناں۔۔۔۔"


بہرام نے گہرا سانس لیا تو چاہت فوراً گھبرا گئی۔


"اگر آپ تھک گئے ہیں تو کوئی بات نہیں خان جی میں گھر سے پہن لوں گی۔۔۔"


"نہیں کوئی بات نہیں چلو۔۔۔ "

بہرام اسے جیولری شاپ کی طرف لے جانے لگا تو چاہت بے ساختہ مسکرا دی۔بہت سی جیولری دیکھنے کے بعد اسے سلور کلر کے جھمکے پسند آئے جو سوٹ کی کڑھائی سے میچ ہو رہے تھے۔

"یہ چاہیے مجھے خان جی کتنے پیارے ہیں ناں یہ۔۔۔۔ بھائی کتنے کے ہیں ۔۔؟"

چاہت نے مسکراتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے جھمکے آگے کر کے پوچھا۔

"جسٹ ایٹی تھاوزنڈ میم۔۔۔ "

قیمت سن کر چاہت کی خوبصورت آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"اتنے مہنگے ایسا کیا لگا ہے ان کو بھائی خدا کا خوف کرو بازار سے ایسے ڈیڑھ سو میں آرام سے مل جائیں۔۔۔"


"چاہت خاموش۔۔۔"


بہرام نے اسے ٹوکا اور اپنا کریڈٹ کارڈ دکاندار کی جانب بڑھایا۔


"نہیں خان جی اچھے سے جانتی ہوں ایسے لوگوں کو اونچی بلڈنگ میں دکان بنا لی تو کیا چار چار ہاتھوں سے لوٹیں گے لوگوں کو شرافت سے بتا رہی ہوں پانچ سو میں دینے ہیں تو دو ورنہ نہیں لینے ہم نے۔۔۔۔"


چاہت کی بات پر اکاؤنٹ بھی ہلکا سا ہنس دیا۔


"یہ ٹیگ پرائس ہے میم اپ بارگن نہیں کر سکتیں ویسے بھی جھمکے وائٹ گولڈ میں ہیں اس لیے مہنگے ہیں۔۔۔۔"


چاہت اب باقاعدہ اپنا ہاتھ کمر پر رکھ چکی تھی۔


"تو ٹھیک ہے رکھو اپنے پاس کل ایسے ہی جھمکے دو سو میں لا کر نہ دیکھائے تمہیں تو کہنا۔چلیں خان جی ہم نہیں لیں گے اتنی مہنگی چیزیں دکان میں لفٹس کیا لگا لیں لوٹنے لگ جائیں گے کیا لوگوں کو میں تو کہتی ہوں۔۔۔۔"


"چاہت بس۔۔۔۔"


چاہت جو اپنی ہی دھن میں بولتی چلی جا رہی تھی بہرام کے سختی سے کہنے پر خاموش ہو گئی۔


"تم یہ جھمکے پیک کر دو۔۔۔۔"


بہرام نے اپنا کارڈ اسکی طرف سنجیدگی سے بڑھاتے ہوئے کہا۔


"لیکن خان جی یہ ۔۔۔۔۔"


چاہت نے مزاحمت کرنا چاہی جو بہرام کی گھوری پر بند ہو گئی۔


"اب آواز نہ آئے تمہاری۔۔۔"


بہرام نے سختی سے کہا تو چاہت نے کس کے منہ بند کر لیا۔بہرام نے اس آدمی سے بیگ پکڑا اور چاہت کو اپنے ساتھ لے آیا جو اب منہ بسورے ہوئے تھی۔وہ خاموشی سے آ کر گاڑی میں بیٹھا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی اسے اندازہ ہوا کہ اسکے قریب بیٹھا وجود رو رہا تھا۔


"کیا ہوا تمہیں؟"


بہرام نے سنجیدگی سے پوچھا تو چاہت نے اپنی قمیض کے بازوں سے آنسو پونچھ دیے۔اسکے ہاتھ ہلانے سے چوڑیوں کی کھنک خاموش گاڑی میں گونج اٹھی۔


"آپ نے ڈانٹا مجھے خان جی اس لیے رو رہی ہوں۔۔۔۔"


چاہت نے منہ پھیرتے ہوئے کہا۔اس وقت وہ ناراض سی اتنی کیوٹ لگ رہی تھی کہ بہرام کی جگہ کوئی اورہوتا تو ضرور مسکرا دیتا۔

"تو جب میں نے تمہیں خاموش ہونے کا کہا تو تم کیوں نہیں ہوئی۔۔۔؟"

چاہت فوراً آنسو پونچھ کر اسکی جانب پلٹی ۔

"وہ اتنے مہنگے جھمکے تھے خان جی اور آپ ۔۔۔۔"

"کوئی مہنگے نہیں تھے چاہت تمہاری پسند کی کوئی قیمت نہیں اگر وہ لاکھوں کے ہوتے تو بھی تمہاری پسند کے آگے یہ کوئی قیمت نہیں تھی۔"

بہرام کی بات پر چاہت کی آنکھیں حیرت سے مزید پھیل گئیں جبکہ خوبصورت گال گلابی ہو چکے تھے۔


"سب لے لیا یا کچھ اور بھی رہتا ہے؟"


بہرام کی بات پر چاہت نے پھر سے ہاں میں سر ہلایا۔


"پراندہ۔۔۔۔"


بہرام نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"تم نے پراندہ کیا کرنا ہے تمہارے بال تو پہلے سے ہی لمبے ہیں۔"


چاہت یہ جان کر مسکرا دی کہ بہرام اس پر غور کرتا تھا۔


"لیکن ہیر پہنتی تھی ناں پراندہ اس لیے چاہیے۔"


بہرام نے گہرا سانس لیا۔


"تو واپس چلیں کیا؟"


"نہیں خان جی دھاگے کا پراندہ دے کر کہیں نکالو لاکھ روپیہ۔۔۔۔"


چاہت نے منہ بنا کر کہا۔


"آپ میرے ساتھ بازار چلیں وہاں سے لے لیں گے پراندہ اور۔۔۔۔"


"اور؟"


بہرام نے دلچسپی سے پوچھا۔


"میں نے کالج سے آکر کھانا نہیں کھایا تھا تو بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔کیوں نہ مل کر گول گپے کھائیں۔۔۔۔"


چاہت نے مسکراتے ہوئے معصومیت سے کہا۔


"گول گپے؟"


"جی خان جی کھا کر تو دیکھیں آپ اپنے ہوٹلوں کا کھانا بھول جائیں گے۔۔۔۔۔"


چاہت نے مسکرا کر کہا جبکہ بہرام گہرا سانس لے کر رہ گیا لیکن کچھ ہی دیر میں وہ اسے بازار سے پراندہ بھی دلوا چکا تھا اور اسکے ساتھ گول گپے بھی کھا چکا تھا۔اس سب کے بعد اس نے چاہت کو گھر واپس چھوڑ دیا۔


"آپ اندر نہیں آئیں گے؟"


بہرام کو گاڑی میں بیٹھا دیکھ چاہت نے پوچھا ۔


"نہیں مجھے دیر ہو رہی ہے پھر کبھی آؤں گا۔۔۔"

بہرام نے موبائل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

"تو پھر آپ میرے فنکشن پر آئیں گے ناں؟"

بہرام نے آبرو اچکا کر اسے دیکھا۔

"دیکھیں خان جی سب کے گھر میں سے کوئی نہ کوئی آتا ہے۔۔۔میں نے بھی اماں کو کہا تھا ساتھ چلنے کو لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ وہاں جا کر کیا کریں گی تو پلیز آپ آ جانا۔۔۔"

"چاہت میں۔۔۔"


"پلیز خان جی۔۔۔"


بہرام اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس دن اس کی بہت زیادہ ضروری میٹنگ ہے لیکن اسکے چہرے پر وہ امید دیکھ کر منع نہیں کر پایا۔وہ جس کو فرزام کے علاوہ کسی کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا تھا اس چھوٹی سی لڑکی کے سامنے ہمیشہ بے بس ہو جاتا۔


"ٹھیک ہے میں آ جاؤں گا۔۔ "


چاہت کھل کر مسکرائی اور پھر اپنا ہاتھ ہلاتے گھر کی جانب چل دی اور اسکے گھر میں داخل ہونے کے بعد بہرام بھی اپنی منزل کی جانب چل دیا۔

💞💞💞💞

فرزام کی آنکھ دوپہر کے دو بجے کھلی تو اس نے اپنے آپ کو ایک نئی جگہ پر پایا۔اسکا سر بری طرح سے چکرا رہا تھا۔اسے کل رات کا ہر پل یاد آیا کہ کیسے جیت کی خوشی میں اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شراب پی تھی۔


وہ شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا کیوں کہ اس کے بابا کو اس سے بہت زیادہ نفرت تھی لیکن نہ جانے کل رات ایسا کیا ہوگیا کہ وہ خود سے بنایا اصول ہی توڑ چکا تھا۔


"ہیے بے بی اٹھ گئے تم؟"


فرزام نے حیرت سے ایک لڑکی کو دیکھا جو تولیے سے اپنے گیلے بال رگڑتی ابھی واش روم سی نکلی تھی۔


"کیا ہوا تھا کل رات؟"


فرزام کے سوال پر اس لڑکی کے ہونٹوں پر شاطیرانہ مسکراہٹ آئی۔


"تمہیں یاد نہیں؟"


فرزام نے دانت کچکچا کر انکار میں سر ہلایا۔


"کوئی بات نہیں بے بی تم نشے میں بہکے ہوئے تھے اسی لئے ہمارا ہر حسین پل تمہیں یاد ہی نہیں۔۔۔۔"


اس لڑکی نے فرزام کے قریب آ کر اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔اچانک ہی فرزام نے اسکی گردن کو اپنے ہاتھ میں دبوچا اور اسے بیڈ سے لگا کر لال انگارہ آنکھوں سے اسے گھورنے لگا۔


"کہہ دو یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔"


فرزام بولنے سے زیادہ غرایا تھا اور اسکا یہ روپ دیکھ کر لڑکی سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔


"فرزام۔۔۔۔کیا کر رہا ہے تو چھوڑ اسے۔۔۔۔"


فرزام کے دوست گلریز نے فرزام کو پکڑ کر اس لڑکی سے دور کرنا چاہا لیکن اس لڑکی کی گردن پر فرزام کی پکڑ مظبوط تھی۔


"نہیں اسے میرے قریب آنے کی سزا ضرور ملے گی۔۔۔۔"


"نہیں فرزام وہ میرے ساتھ تھی قسم سے تم تو یہاں آتے ہی سو گئے تھے۔۔۔۔"

فرزام نے گہری نگاہوں سے گلریز کو دیکھا اور اس لڑکی کی گردن چھوڑ کر سیدھا ہو گیا۔

"اس سے کہہ دو کہ ایسا خیال اپنے دماغ میں بھی لایا ناں تو اچھا نہیں ہو گا اس کے لیے۔۔۔"

فرزام نے فرش پر پڑی اپنی جیکٹ کندھے پر ڈالی اور جیب سے سگریٹ نکال کر منہ میں لینے کے بعد وہاں سے باہر نکل گیا۔گلریز اسکے پیچھے آیا۔

"ویسے تو اتنا ڈیشنگ ہے یار کہ جس لڑکی کو کہے گا وہ تیرے سامنے بچھ جائے گی تو کیوں تو خود کو اس سب سے دور رکھتا ہے؟"


گلریز کے سوال پر فرزام سگریٹ کا گہرا کش لے کر اسکی جانب مڑا۔


"فرزام کا یہ وجود فالتو نہیں کہ کوئی بھی اسکے قریب آ جائے یہ صرف اسکی امانت ہے جس پر اسکا حق ہو گا بالکل جیسے اسکا وجود میری امانت ہے۔۔۔۔"


فرزام کے فخر سے کہنے پر گلریز نے سی ٹی بجائی۔


"واہ یار تو کون ہے وہ خوش نصیب جو ہماری بھابھی بنے گی۔۔۔۔"


فرزام کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی سگریٹ نے پھر سے مغرور عنابی لبوں کو چھوا۔


"وہ خوش نصیب وہ ہو گی جو اپنی پہلی نگاہ سے ہی دل میں اتر جائے گی پھر وہ خود کی بھی نہیں رہے گی ایسے چھپا لوں گا اسے سب سے میں۔۔۔ "


"اف اتنا جنون۔۔۔ کیا بنے گا اس معصوم لڑکی کا۔۔۔ "


فرزام نے نگاہیں گھما کر اسے دیکھا۔


"فکر مت کر کبھی نہیں جان پائے گا تو کیونکہ جب وہ ملے گی تو چھپا لوں گا اسے سب سے صرف اپنے لیے۔۔۔۔۔۔"

اتنا کہہ فرزام وہاں سے چلا گیا اور گلریز اس لڑکی کی قسمت پر ماتم کرتا رہ گیا جس نے فرزام خانزادہ کا جنون بننا تھا۔

💞💞💞💞

مناہل ابھی اپنے کمرے سے باہر آئی تھی۔ گھر میں کوئی بھی اس سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا اس لیے وہ زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتی تھی لیکن ابھی اپنے دکھتے سر کی وجہ سے اسے کافی کی شدید طلب ہو رہی تھی۔

اسی لیے وہ کمرے سے نکل کر کچن کی جانب جا رہی تھی جب اچانک سے کوئی اسکے سامنے آ گیا۔مناہل سہم کر کھڑی ہو گئی اور نگاہیں اٹھا کر اس آدمی کو دیکھنا چاہا جو اسکا راستہ یوں روک چکا تھا لیکن اس شخص پر نظر پڑتے ہی مناہل کا سانس اسکے سینے میں اٹک چکا تھا۔


وہ اس بھاری بھرکم وجود اور سخت نقوش والے شخص کو کیسے بھول سکتی تھی۔اس وقت اسکے سامنے موجود شخص کوئی اور نہیں فیض ملک تھا۔


"کیسی ہو مناہل سب ملے مجھ سے لیکن تم مجھے کہیں نظر ہی نہیں آئی۔۔۔۔"


فیض نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ مناہل تو بس خوف سے کانپتی اس سے دور ہوتی جا رہی تھی لیکن فیض بھی اپنے قدم اسکی جانب بڑھاتا اسکے قریب آتا جا رہا تھا۔حتی کہ مناہل ہال کی دیوار سے جا لگی لیکن فیض اسکے قریب آ کر اپنا ہاتھ اسکے سر کے پاس رکھ کر اسکا راستہ روک چکا تھا۔


"جانتی ہو اتنے سال سپین میں رہ کر کتنا یاد کیا میں نے تمہیں۔۔۔۔کتنا یاد کیا میں نے اس رات کو۔۔۔۔۔"


فیض نے ہاتھ بڑھا کر اسکے حسین چہرے پر آتی لٹ کو چھوا تو مناہل کے ہونٹوں سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔فیض نے فوراً اپنا بھاری ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیا۔


"ششش۔۔۔مناہل جانتی ہو ناں چلانے سے سزا ملتی ہے۔۔۔۔"


اسکی بات پر مناہل نے زور سے اپنی نم پلکیں بند کر لیں اور اپنی نجات کے لیے دعا کرنے لگی۔

"کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔۔"

شیزہ کی آواز پر فیض فوراً مناہل سے دور ہوا اور گھبرا کر اپنی بیوی کو دیکھا۔

"کچھ نہیں وہ بس مناہل بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اسکا حال پوچھ رہا تھا۔۔۔۔"

فیض نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن شیزہ دونوں کو گہری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

"اپنے روم میں جاؤ مناہل۔۔۔"

مناہل نے ہاں میں سر ہلایا اور بھاگنے کے انداز سے وہاں سے چلی گئی۔اسکے جاتے ہی شیزہ فیض کے قریب آئی۔


"مناہل میری بھتیجی ہے فیض اور اس لحاظ سے ہماری بیٹی کی طرح ہے۔۔۔ "


فیض نے گہرا سانس لے کر اپنا ہاتھ شیزہ کے کندھے پر رکھا۔


"جانتا ہوں میں یہ بات شیزہ۔۔۔۔"


"تو بہتر ہو گا اس بات کو یاد رکھیں آپ۔۔۔ "


شیزہ نے سختی سے کہا۔


"کیا ہو گیا سب ٹھیک ہے ناں؟"


الطاف کی آواز پر وہ دونوں اس کی طرف مڑے۔اپنے بھائی کو دیکھ کر شیزہ بوکھلا گئی۔


"جی بھائی سب ٹھیک کے بس کافی عرصے کے بعد آئے ہیں ناں فیض سپین سے تو ان کے ساتھ کچھ معاملات طے کر رہی تھی۔"


الطاف نے سنجیدگی سے ہاں میں سر ہلایا۔


"فیض تم میرے پاس آ کر زرا میری بات سنو گے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر الطاف اپنے کمرے کی جانب چل دیا اور فیض بھی اسکے پیچھے چلا آیا۔فیض اپنا چھوٹا سا بزنس بہت پہلے ہی الطاف کے بزنس کے ساتھ جوڑ چکا تھا اور کافی سالوں سے اسی کے سلسلے میں سپین رہ رہا تھا۔


"تمہیں کہا تھا یہاں آنے سے پہلے بہرام خانزادہ سے مل کر بات کرنا کیا تم نے کی اس سے بات؟"


کمرے میں آ کر الطاف نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔


"جی بھائی صاحب میں نے کی تھی بات۔۔۔۔"


"تو کیا جواب دیا اس نے؟"


فیض نے اپنی نگاہیں گھمائیں۔


"کہتا ہے اسے کسی کے ساتھ جڑنے کی ضرورت نہیں اور اگر آپ کا کوئی ارادہ ہے تو خود آ کر بات کریں۔۔۔۔"


الطاف نے ابرو اچکا کر اپنے بہنوئی کو دیکھا۔


"کچھ زیادہ ہی ہوا میں نہیں اڑ رہا بچہ؟"


"اڑے گا ہی بھائی صاحب پاکستان کے ساتھ ساتھ کئی ملکوں میں پھیلا ہے اس کا بزنس۔عروج کے دور میں کس کے پیر زمین پر لگتے ہیں لیکن اگر ہم نے جلد ہی کسی بڑی کمپنی کے ساتھ اپنا نام نہ جوڑا تو ہمارا زوال ضرور شروع ہو جائے گا۔۔۔۔۔"


الطاف نے گہرا سانس لیا۔وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ان کا بزنس آج کل لاس میں جا رہا تھا اور انہیں ایک بڑی کمپنی کے ساتھ پارٹنرشپ کرنے کی سخت ضرورت تھی۔


"کتنا اچھا ہوتا ناں یہ دونوں بھائی بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ جل کر مر جاتے۔۔۔"


"کہنا کیا چاہتے ہو؟"


الطاف نے بھوئیں اچکا کر پوچھا۔


"ارے یاد نہیں بھائی صاحب کیسے سلیمان خانزادہ کے گھر آگ لگ گئی تھی جس میں وہ اور اس کی بیوی جھلس کر مر گئیں لیکن دونوں بچے بچ گئے۔اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج انکی کمپنی ہماری کمپنی سے اوپر ہو کر ہمارے پروڈکٹ بکنے سے نہ روک رہی ہوتی۔۔۔۔"


پہلے تو فیض کی بات پر الطاف خاموش رہا پھر کچھ سوچ کر ایک شاطیرانہ مسکراہٹ اسکے چہرے پر آ گئی۔


"ان کا زندہ ہونا بھی ہمارے لیے فائدے مند ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔۔"


الطاف نے مسکرا کر کہا اور پھر اپنے دونوں ہاتھ میز پر رکھے۔


"بہرام خانزادہ ملنا چاہتا ہے ناں مجھ سے کل ہی میں اس سے اسلام آباد ملنے جاؤں گا۔۔۔۔"


فیض نے گہری نگاہوں سے الطاف کے چہرے پر شیطانی دیکھی۔


"کیا سوچ رکھا ہے آپ نے بھائی صاحب؟"


الطاف کے چہرے کی مسکان گہری ہو گئی۔


"وقت آنے پر بتاؤں گا فیض فکر مت کرو میرا یہ چالاک دماغ بہت کچھ کر سکتا ہے۔۔۔۔"


الطاف نے فیض کو باہر جانے کا اشارہ کیا تو وہ خاموشی سے باہر آ گیا لیکن دھیان ابھی بھی الطاف کی باتوں پر ہی تھا۔وہ جاننے کے لیے مرا جا رہا تھا کہ اسکے سالے کے شیطانی دماغ میں کونسا منصوبہ چل رہا تھا۔

چاہت نے تیار ہو کر خود کو آئینے میں دیکھا تو ایک شرمیلی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر آئی۔بہرام کے دلوائے جوڑے اور جھمکوں میں ہلکے سے میک اپ کے ساتھ وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔


لمبے بالوں میں ملٹی کلر کر پراندہ ڈال کر چوٹی بنائی گئی تھی جو چاہت کے بائیں کندھے پر تھی۔سکینہ اسکی چادر لے کر اسکے پیچھے آئیں۔


"چاہت بیٹا دیر ہو رہی ہے کب تیار۔۔۔۔۔"


سکینہ کی نظر چاہت پر پڑی تو الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔بے ساختہ وہ اپنی بچی کے پاس آئیں اور محبت سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا ۔


"ماشاءاللہ بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو۔کسی کی نظر نہ لگ جائے میری چندا کو۔۔۔۔"


سکینہ نے کچھ پیسے نکال کر اس کا صدقہ نکالتے ہوئے کہا۔


"اماں خان جی نے جانا تھا ناں میرے ساتھ وہ کب آئیں گے۔۔۔۔؟"


سکینہ چادر پکڑ کر اسکے سر پر دینے لگیں۔


"آتا ہی ہوگا لیکن تم نے اسے خواہ مخواہ کیوں پریشان کیا پتہ نہیں اپنے کتنے کام پیچھے ڈال کر آرہا ہوگا وہ۔۔۔۔"


چاہت نے مسکراتے ہوئے سکینہ کے گال کھینچے۔


"فکر مت کریں اماں اپنی خوشی سے آرہے ہیں وہ۔۔۔۔"


تبھی دروازہ کھٹکنے کی آواز پر سکینہ مسکرا کر دروازے کی طرف چل دیں۔


"ارے آؤ بہرام بیٹا۔۔۔۔"


چاہت بہرام کا نام سن کر مسکرا دی اور خود پر آخری نگاہ ڈالنے کے بعد چادر لے کر کمرے سے باہر آ گئی۔


"چاہت تیار ہے تم بیٹھ کر چائے وغیرہ پی لو۔۔۔۔"


بہرام نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں اماں جی ابھی دیر ہو رہی ہے آپ چاہت کو بھیج دیں اسے واپس گھر چھوڑ کر مجھے کسی ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔۔"


بہرام نے سنجیدگی سے کہا۔


"تم اپنا کوئی ضروری کام تو چھوڑ کر نہیں آئے۔۔۔۔میں نے کہا بھی تھا چاہت کو کہ تمہیں پریشان نہیں کرے لیکن بچی ہے ناں۔۔۔۔"


"نہیں آپ پریشان مت ہوں میں کوئی ضروری کام چھوڑ کر نہیں آیا۔۔۔"


بہرام نے صاف جھوٹ بولا حالانکہ سچ تو یہ تھا کہ یہاں آنے کیلئے اسے اپنی میٹنگ چھوڑنی پڑی تھی جس کی وجہ سے اس کی کمپنی کو بیٹھے بٹھائے کروڑوں کا نقصان ہو چکا تھا۔


"چاہت اگر تیار نہیں تو میں بعد میں۔۔۔ "


"نہیں میں تیار ہوں کب سے چلیں۔۔۔ "


بہرام کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی چاہت بھاگ کر باہر آئی اور اپنی چادر سنبھال کر چہکتے ہوئے کہنے لگی۔بہرام خاموشی سے آگے بڑھ گیا اور چاہت سکینہ سے مل کر اس کے پیچھے چل دی۔تقریبا دس منٹ کے سفر کے بعد ہی وہ دونوں چاہت کے کالج کے باہر موجود تھے۔


"تم چلو میں دس منٹ میں آتا ہوں۔۔۔۔"


چاہت نے فورا اپنا منہ بسور لیا۔


"سچ میں آئیں گے ناں دس منٹ کا کہہ کر غائب تو نہیں ہو جائیں گے۔۔۔۔"


بہرام نے گہرا سانس لیتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔


"ٹھیک ہے میں آپ کا انتظار کروں گی۔۔۔"


اتنا کہہ کر چاہت گاڑی سے نکل کر اپنے کالج میں داخل ہو گئی جہاں اسکی سہیلیاں اسکا انتظار کر رہی تھیں۔


"اف چاہت کتنی پیاری لگ رہی ہو تم۔۔۔۔"


اپنی ایک سہیلی کی بات پر چاہت نے اتراتے ہوئے اسے دیکھا۔


"پیاری تو لگوں گی ناں یہ سب کچھ خان جی نے مجھے سینٹارس مال سے لے کر دیا ہے سوائے پراندے کے وہ بازار کا ہے۔۔۔۔۔"


چاہت کی بات پر اسکی سہیلیاں ہنس دیں۔


"شکر ہے پرنسپل صاحب نے کہا لڑکے اور لڑکیوں کا فنکشن علیحدہ ہو گا ورنہ وہ سیفی آج پھر تمہیں پریشان کرتا۔"


سیفی کے ذکر پر ہی چاہت کا موڈ بری طرح سے آف ہوا تھا۔


"تم اس کی شکایت اپنے خان جی کو کیوں نہیں لگا دیتی۔۔۔۔؟"


"کیونکہ پھر خان جی میرا کالج بدلوا دیں گے بدھو۔۔۔ویسے بھی وہ جو بھی کرتا پھرے مجھے فرق نہیں پڑتا بھاڑ میں جائے میری بلا سے۔۔۔"


چاہت نے اپنا پراندہ کمر کی جانب پھینکتے ہوئے کہا۔


"اف سچ میں کچھ بھی کر لوں تمہیں کوئی اعتراض نہیں؟"


سیفی کی آواز پر چاہت گھبرا کر پلٹی اور اس آوارہ سے لڑکے کو دیکھا جو آوارگی کے لیے پورے کالج میں مشہور تھا۔


"تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔؟"


چاہت نے اسکے پاس آ کر غصے سے پوچھا۔


"دیدار عشقم کرنے آیا تھا اب پرنسپل صاحب نے تو یہاں آنے سے منع کیا ہے لیکن حسن کے دیدار کے لیے اتنا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔۔۔۔"


سیفی نے خباثت سے ببل چباتے ہوئے کہا۔


"سیفی میں تمہیں کہہ رہی ہوں چلے جاؤ یہاں سے اگر خان جی آ گئے ناں تو۔۔۔۔۔چلے جاؤ پلیز۔۔۔ "


سیفی اسکی بے چینی دیکھ کر مسکرا دیا۔


"ٹھیک ہے چلا جاؤں گا لیکن بدلے میں مجھے کیا ملے گا۔۔۔۔"


"دو سو جوتے وہ بھی تمہارے سر پر۔۔۔۔دفع ہو جاؤ یہاں سے شرافت سے کہہ رہی ہوں۔۔۔۔۔"


چاہت نے اب اسے دھکا دیا لیکن سیفی نے اپنا ہاتھ وہاں رکھ کر آنکھیں موند لیں جہاں چاہت نے اسے دھکا دینے کے لیے چھوا تھا۔


"اف دل کو قرار آیا

تجھ پہ ہے پیار آیا

پہلی پہلی بار آیا

او یارا۔۔۔ "


سیفی کے گنگنانے پر چاہت نے دانت پیسے اور خود ہی اپنی سہیلیوں کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔کچھ ہی دیر میں چاہت کا سکیٹ شروع ہونے والا تھا اور چاہت وہ سب بہرام کو دیکھانے کے لیے بہت بے چین تھی جو اسے اس کی ٹیچر نے سیکھایا تھا۔


وہ تو شکر تھا کہ فیملی میمبرز کو فنکشن دیکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔جیسے ہی چاہت کا نام اناؤنس ہوا تو وہ سٹیج پر گئی اور جاتے ہی اس کی نظریں بے چینی سے بہرام کو تلاش کرنے لگیں۔


بہرام کو دوسری قطار میں بیٹھا دیکھ چاہت مسکرا دی اور گھٹنوں کے بل سٹیج پر بیٹھ گئی۔


"وہ جو کہتا تھا عشق میں کیا رکھا ہے

اک ہیر نے اسے رانجھا بنا رکھا ہے۔۔۔"


اس کے بعد کچھ لڑکیاں ایک جیسے کپڑے پہنے سٹیج پر آئیں تو چاہت بھی اٹھ کر ان لڑکیوں کے سامنے کھڑی ہو گئی۔تبھی ہال میں گانے کی آواز گونجنے لگی۔


"ہیر آکھدی جوگیا وے جھوٹ بولیں

کون وچھڑے یار مناودا اے

وے کوئی ایسا نہ ملیا وے میں ٹونڈھ تھکی

جیڑا گیاں نوں موڑ لیاوندا اے۔۔۔۔"


چاہت نے مسکرا کر ساتھ موجود لڑکیوں کی طرح ہلکے ہلکے سٹیپ لینے شروع کئیے اور نظریں اٹھا کر بہرام کو دیکھا لیکن اسے دیکھتے ہی چاہت کے پیر زمین پر جم گئے کیونکہ بہرام کی آنکھوں میں غصہ تھا،،،،بہت زیادہ غصہ۔۔۔ اور پھر وہ ہوا جو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔


بہرام اپنی سیٹ سے اٹھ کر اسٹیج پر آیا اور چاہت کو بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ گھسیٹتا وہاں سے لے گیا۔یہ دیکھ کر سب لوگ حیران رہ گئے۔


"خخ۔۔۔۔خان جی کیا ہوا۔۔۔۔"


"تم نے کہا تھا کہ ایک سکیٹ میں حصہ لیا ہے تم نے یہ سکیٹ تھا؟کس کی اجازت سے تم ان لوگوں کے سامنے ناچنے گئی تھی؟"


بہرام کا غصہ دیکھ کر چاہت خوف سے کانپ اٹھی۔


"خخ۔۔۔۔خان جی میں تو بس وہ۔۔۔۔"


" تم نے سوچا بھی کیسے کہ میں یہ برداشت کروں گا کہ تم لوگوں کے سامنے یوں خود کی نمائش کرو۔۔۔۔"


چاہت نے سہم کر اسے دیکھا تبھی چاہت کی ٹیچر گھبراتے ہوئے وہاں آ گئیں۔


"کیا ہوا سر سب ٹھیک ہے ناں ؟"


بہرام نے ٹیچر کو بھی غصے سے دیکھا۔


"نہیں سب ٹھیک نہیں ہے کس کی اجازت سے آپ چاہت کو سٹیج پر ڈانس کروا رہی تھیں؟"


ٹیچر بہرام کی سختی اور غصہ دیکھ کر مزید گھبرا گئی جبکہ چاہت سے تو خوف کے مارے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔


"سر وہ تو بس کلچرل پرفارمینس۔۔۔۔"


"کلچر؟ہمارا کونسا کلچر ہے جو بچیوں کو لوگوں کے سامنے ناچنا سیکھاتا ہے؟سٹیج پر جا کر بات کرنا یا کسی چیز کو ریپریزینٹ کرنا اور بات ہے لیکن جو آپ کروا رہے ہیں وہ ہمارا کلچر بالکل نہیں بس کالج کی جانب اٹریکشن دلانے کا ذریعہ ہے جس کے لیے آپ عزت دار بچیوں کو استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔۔"


بہرام کے غصے سے کہنے پر ٹیچر نے اپنا سر جھکا لیا۔


"آج کے بعد چاہت ایسے کسی پروگرام میں حصہ نہیں لے گی اور اگر پھر کبھی ایسا ہوا تو یقین جانیں اس کالج کا نام و نشان مٹا دوں گا۔۔۔"


بہرام نے انتہائی غصے سے کہا اور پھر چاہت کو دیکھا جو سر جھکائے وہاں کھڑی کانپتی جا رہی تھی۔


"چلو چاہت تم اسی وقت گھر واپس جارہی ہو۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام وہاں سے چلا گیا تو چاہت بھی گھبراتے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑی۔گاڑی میں بیٹھ کر اس نے گھبراتے ہوئے بہرام کو دیکھا جسکی رگیں ابھی بھی غصے سے تنی ہوئی تھیں۔


"سس۔۔۔۔سوری خان جی میں تو ۔۔۔۔"


"چب چاہت بالکل چپ۔۔۔"


بہرام کے انتہائی رعب سے کہنے پر چاہت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اس نے تو سوچا تھا کہ اسے اس روپ میں دیکھ کر بہرام کو اچھا لگے گا۔سیفی کی طرح بہرام کو بھی وہ خوبصورت لگے گی لیکن بہرام کا یہ غصہ اب اسے بہت زیادہ ڈرا رہا تھا۔


گھر پہنچنے تک نہ تو بہرام نے اسے کچھ کہا تھا اور نہ ہی اس کی کوئی بات سنی تھی بس اسے گھر کے دروازے پر چھوڑ کر خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔


اسے یوں غصے سے جاتا دیکھ چاہت کی پلکیں روانی سے بہنے لگیں۔اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سکینہ نے کچھ ہی پل میں دروازہ کھول دیا۔


"چاہت تم اتنی جلدی آ گئی؟"


سکینہ نے حیرت سے پوچھا لیکن اگلے ہی لمحے چاہت ان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔سکینہ نے گھبرا کر دروازہ بند کیا اور چاہت کو خود سے دور کر کے پریشانی سے اسے دیکھنے لگیں۔


"کیا ہوا ہے چاہت بتاؤ مجھے؟"


سکینہ کا دل اسکی حالت دیکھ کر بہت بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔


"خان جی ناراض ہو گئے ہیں اماں۔۔۔بہت زیادہ ناراض ہو گئے ہیں۔۔۔۔"


سکینہ نے حیرت سے اسے دیکھا تو چاہت نے روتے ہوئے ہر بات انہیں بتا دی۔


"غلطی بھی تو تمہاری ہے ناں چاہت میں نے ایسی پرورش کی ہے کیا تمہاری؟"


سکینہ کے سوال پر چاہت اپنا سر شرمندگی سے جھکا گئی۔


"معاف کر دیں اماں غلطی ہو گئی۔۔۔۔"


سکینہ نے مسکرا کر اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔


"لیکن خان جی کو کیسے مناؤں گی اماں وہ تو بہت زیادہ ناراض ہیں مجھ سے۔۔۔۔"


بہرام کی ناراضگی کا سوچ کر ہی چاہت پھر سے رونے لگی۔


"معافی مانگنا اس سے بھی مان جائے گا۔۔۔۔"


"وعدہ؟"


چاہت نے بہت امید سے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو انہوں نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا اور اپنی ماں کے وعدہ کرنے پر چاہت بھی آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔

💞💞💞💞

بہرام غصے سے اپنے آفس میں آیا۔وہ خود حیران تھا کہ اسے اچانک اس قدر غصہ کیوں آگیا وہ تو ایک سرد مہر سا انسان تھا جو اپنے جذبات اور غصے کو قابو میں رکھتا تھا۔یوں بے قابو ہو کر کچھ بھی کر گزرنا تو فرزام کی عادت تھی۔


"سر۔۔۔۔؟"


اپنی سیکریٹری کی آواز بہرام نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔


"سر آپ سے مسٹر الطاف حیدر بیگ ملنے آئے ہیں کافی دیر سے ویٹ کر رہے ہیں لیکن آپ آفس میں نہیں تھے۔۔۔۔۔"


سیکریٹری کی بات پر بہرام حیران ہوا کہ آخر الطاف بیگ اس سے کیوں ملنے آیا تھا۔


"اندر بھیج دو انہیں۔۔۔۔"


سیکریٹری یس سر بول کر وہاں سے چلی گئی اور کچھ دیر بعد ہی الطاف حیدر بیگ بہرام کے آفس میں داخل ہوا۔اسے دیکھ کر بہرام خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔


"کیسے ہو برخوردار؟"


بہرام نے بس سنجیدگی سے اثبات میں سر ہلایا اور الطاف کو اپنے سامنے موجود کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


"اب بتائیے مسٹر بیگ کیسے آنا ہوا یہاں آپ کا؟"


الطاف ہلکا سا مسکرایا۔


"سوچا اس شخص سے ملنا چاہیے جس کی کمپنی کا برانڈ میری کمپنی کے برانڈ کی اہمیت بہت کم کر چکا ہے۔"


بہرام نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔


"تو پھر آپ کو مجھ سے ملنے کی بجائے اپنی کمپنی کی برانڈ پر فوکس کرنا چاہیے تاکہ اسکی کوالٹی اتنی اچھی ہو کہ لوگوں کو پسند آ سکے۔۔۔۔۔"


بہرام کا غرور دیکھ کر الطاف نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں لیکن چہرے پر مسکراہٹ ابھی بھی قائم تھی۔


"میرے بہنوئی نے آپ سے کچھ بات کی تھی۔۔۔۔"


"جی کی تھی اور میں انہیں انکار کر چکا ہوں شاید آپ وہ انکار اپنے کانوں سے سننے یہاں آئے ہیں۔"


بہرام نے لیپ ٹاپ پر نظریں جماتے ہوئے کہا جبکہ الطاف اس کی ہٹ دھرمی پر اپنے دانت کچکچا کر رہ گیا۔


"نہیں بلکہ میں یہاں کچھ اور بات کرنے آیا ہوں۔۔۔۔"


الطاف نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا۔


"کیسی بات؟"


الطاف نے زرا سا آگے ہوا اور اپنے دونوں ہاتھ میز پر رکھ دیے۔


"شاید آپ کو یاد نہیں لیکن کبھی آپ کے والد اور میں پارٹنرز ہوا کرتے تھے پھر اچانک ہی آپ کے والد نے بزنس کو علیحدہ کرنے کا سوچ لیا لیکن اس کے بعد ہم دونوں کی کمپنی نے وہ عروج نہیں دیکھا جو ہمارے اکٹھے ہونے سے تھا۔۔۔۔۔"


بہرام نے طائرانہ نظروں سے الطاف کو دیکھا۔


"وہ عروج ہماری کمپنی پھر سے دیکھ سکتی ہے اگر ہم دونوں ایک مضبوط پارٹنرشپ کر لیں۔۔۔۔"


بہرام نے پھر سے اپنا دھیان لیپ ٹاپ کی جانب کر لیا۔


"میں آپ پر بھروسا کیوں کروں اگر میرے بابا نے آپ سے پارٹنرشپ توڑی تھی تو اس کی ضرور کوئی وجہ ہوگی۔۔۔"


"بالکل وجہ تھی اور وجہ یہ تھی کیا آپ کے بابا کو اپنا بزنس میرے بزنس بہتر لگنے لگا تھا۔۔۔۔۔"


بہرام الطاف کے چہرے پر حقارت کے آثار بخوبی دیکھ سکتا تھا۔


"خیر ماضی میں جو بھی ہوا اب ہمیں اس سے آگے بڑھ جانا چاہیے اور ایک ساتھ مل کر کامیابی کی منزل تک پہنچنا چاہیے۔۔۔۔۔"


بہرام کچھ دیر خاموشی سے اس شخص کو دیکھتا رہا۔


"پھر سے وہی سوال میں آپ پر بھروسہ کیوں کروں؟"


الطاف کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ گئی۔


"اور اگر ہم دونوں کے درمیان کوئی رشتہ قائم ہوجائے تو بھروسہ کریں گے ؟"


الطاف بہرام کے چہرے پر نا سمجھی کے آثار دیکھ سکتا تھا۔


"کہنا کیا چاہتے ہیں آپ؟"


"یہی کہ ہم ایک مظبوط رشتے میں بندھ جاتے ہیں جس کے بعد ہمارے لئے ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا آسان ہو جائے گا۔"


الطاف زرا سا مسکرایا۔


"میرے چھوٹے بھائی شہاب کی ایک بیٹی ہے مناہل جسے اس کے باپ کی موت کے بعد سے میں نے اپنی بیٹیوں کی طرح پالا ہے۔میں اس کی شادی آپ سے یا آپ کے بھائی سے کر دوں گا اور اس طرح ہم دونوں کے خاندانوں کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم ہو جائے گا۔۔۔۔۔"


بہرام خاموشی سے اسکی بات سنتا رہا۔


"ویسے بھی ہمارے درمیان تعلق قائم ہونے سے بزنس کی دنیا میں ہم بہت مضبوط ہو جائیں گے۔۔۔۔۔"


الطاف کے چہرے پر ایک فاتح مسکراہٹ تھی جیسے وہ پہلے سے ہی جانتا ہوں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا ہے۔


"میں سوچ کر جواب دوں گا۔۔۔۔"


الطاف کے چہرے کی مسکان گہری ہو گئی۔


"ضرور مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔۔۔۔"


الطاف نے اپنا ہاتھ آگے کیا جسے بہرام نے سنجیدگی سے تھام لیا۔الطاف تو کچھ دیر کے بعد وہاں سے جا چکا تھا لیکن بہرام ابھی بھی اس کی باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

💞💞💞💞

رات کے دس بج رہے تھے اور فرزام اس وقت اپنے گھر کی جم میں پش اپس کرنے میں مصروف تھا۔کالے ٹراؤزر پر کالی ہی بنیان پہنے وہ اور بھی زیادہ دلکش لگنے لگا تھا۔


اتنی سردی میں بھی اسکے ماتھے پر پش اپس کرنے کی وجہ سے پسینہ نمودار ہو رہا تھا۔اچانک ہی فرزام کو اپنے سامنے کسی کے جوتے نظر آئے تو مسکرا کر اٹھ گیا اور تولیا پکڑ کر اپنا پسینہ صاف کرنے لگا۔


"آج تم گھر ہی ہو کہیں گئے نہیں؟"


بہرام نے ٹریڈ مل کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا۔


"موڈ نہیں تھا۔۔۔۔"


فرزام نے کندھے اچکا کر کہا اور تولیا اپنے کندھوں پر رکھ لیا۔


"آج الطاف بیگ مجھ سے ملنے آیا تھا۔۔۔۔"


الطاف بیگ کے ذکر پر ہی فرزام اپنی مظبوط مٹھیاں بھینچ گیا۔


"کیا چاہتا ہے وہ؟"


بہرام فرزام کی آواز میں چھپا غصہ محسوس کر سکتا تھا۔پوری دنیا میں اگر وہ دونوں بھائی کسی سے سب سے زیادہ نفرت کرتے تھے تو وہ صرف الطاف حیدر بیگ تھا۔


"ہم سے رشتہ جوڑنا چاہتا ہے۔۔۔اپنی بھتیجی کا نکاح ہم دونوں میں سے کسی سے کر کے۔۔۔۔"


"تو پھر اسکی بھتیجی سے نکاح میں کروں گا اور اگلے دن ہی اسے طلاق دے کر الطاف بیگ کو بتاؤں گا کہ زندگیوں سے کھیلنا کسے کہتے ہیں۔۔۔ "


فرزام کے غصے پر بہرام نے گہرا سانس لیا۔


"نہیں فرزام اس سے الطاف کو کوئی نقصان نہیں ہو گا بس ایک لڑکی کی زندگی تباہ ہو گی۔ہم اس سے رشتہ قائم کرنے کے بعد اسکے درمیان رہ کر اسے برباد کریں گے۔۔۔۔"


فرزام بہرام کی جانب مڑا۔


"ٹھیک ہے تم اسے ہاں بول دو میں کروں گا اسکی بھتیجی سے نکاح۔۔۔۔"


بہرام نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"تم اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتے فرزام اور تمہارا یہ غصہ سب برباد کر دے گا اس لئے اس سے نکاح تم نہیں بلکہ میں کروں گا۔۔۔۔"


فرزام نے حیرت سے اپنے بھائی کو دیکھا۔


" تم؟"


"ہاں میں کیونکہ میرے اندر ایسے کوئی جزبات نہیں جو الطاف کو برباد کرنے میں میری رکاوٹ بنیں۔۔۔۔"


فرزام اب کی بار ٹریڈ مل پر چڑھ گیا۔


"چاہتے کیا ہو تم؟"


"اس کی بھتیجی سے شادی کر کے اسکے خاندان کا حصہ بنوں گا اور پھر اس سے وہ سب چھین لوں گا جس کا اسے غرور ہے۔۔۔۔"


فرزام اسکی بات پر پہلے تو خاموش رہا پھر کچھ سوچ کر بولا۔


"لیکن پھر چاہت کا کیا؟"


بہرام نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"اس سب سے چاہت کا کیا تعلق ہے؟"


فرزام اسکی لا تعلقی پر مسکرا دیا۔


"شی ہیز آ کرش آن یو۔۔۔۔"


بہرام نے گہرا سانس لیا۔


"اس عمر میں لڑکیوں کو ایسے کرش ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔"


"لیکن مجھے لگتا ہے چاہت کے جذبات کرش سے بڑھ کر ہیں۔۔۔"


بہرام کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔


"چاہت جیسی لڑکی مجھ جیسے انسان کے لیے نہیں ہے فرزام ایک تو وہ مجھ سے بہت زیادہ چھوٹی ہے اور اس میں بہت بچپنا ہے۔۔۔۔دل میں محبت کرنے اور پانے کی خواہش چھپی ہوئی ہے اور میں اس زمین پر وہ آخری مرد ہوں جو اسے محبت دے سکے گا۔۔۔۔"


فرزام بھی اب سنجیدگی سے بہرام کو دیکھ رہا تھا۔


"جب وہ بڑی ہو جائے گی اسکے لیے میں ایسا شخص ڈھونڈوں گا جو محبت کرنے کے قابل ہو۔۔۔۔لیکن فی الحال میرا بس ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے الطاف حیدر بیگ کی بربادی۔۔۔۔"


کچھ سوچ کر فرزام نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔


"اور اس مقصد میں میں ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔"


بہرام نے فرزام کو دیکھا جسکے چہرے پر خطرناک مسکراہٹ اسکے گال پر موجود گھڑے کو نمایاں کر رہی تھی۔الطاف حیدر نے ان سے رشتہ داری کو نہیں بلکہ اپنی بربادی کو دعوت دی تھی۔

💞💞💞💞

"مناہل۔۔۔۔"


مناہل جو اپنے کمرے میں کتاب اپنے گھٹنوں پر رکھے بیٹھی تھی انجم کی آواز پر سہم کر دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔


"جی تائی امی۔۔۔۔"


اسکے یوں سہم جانے پر انجم بیگم نے اپنے دانت کچکچائے۔


"تمھارے تایا ابو تمہیں بلا رہے ہیں۔۔۔ "


مناہل کی حسین آنکھوں میں حیرت اتری کیونکہ آج تک کبھی اس کے تایا ابو نے اس سے کوئی بات کرنے کے لیے اپنے پاس نہیں بلایا تھا۔اگر کوئی بات ہوتی بھی تو وہ انجم بیگم کو پیغام دے دیا کرتے۔


"جی میں آتی ہوں۔۔۔۔"


مناہل نے آہستہ سے کہا اور ٹھیک سے دوپٹہ لے کر اپنے تایا کے کمرے کی طرف چل دی۔دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے ہلکا سا دروازہ کھٹکھٹایا اور اجازت ملنے پر کمرے میں داخل ہو گئی۔


"آپ نے بلایا تایا ابو؟"


"ہممم بیٹھو ۔۔۔"


الطاف نے سامنے موجود کرسی کی طرف اشارہ کیا تو مناہل خاموشی سے وہاں بیٹھ کر اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔نہ جانے ایسی کونسی بات تھی جس کے لیے اس کے تایا ابو نے اسے یہاں بلایا تھا۔


"میں نے تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے۔۔۔۔۔"


مناہل نے فورا ہی حیرت بھری آنکھیں اٹھا کر اپنے تایا کو دیکھا۔


"مم ۔۔۔میرا رشتہ۔۔۔۔؟"


"ہاں۔۔۔۔اگلے ہفتے بہرام خانزادہ منگنی کے لیے یہاں آئے گا تو بہتر ہے کہ تم اس کے لیے تیار رہو اور کوئی بھی بے وقوفی مت کرنا۔۔۔۔۔"


پوری بات سن کر مناہل کا سانس سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔


"لل۔۔۔۔لیکن میں شش۔۔۔۔شادی نہیں کرنا چاہتی تایا ابو مم۔۔۔۔میں۔۔۔۔"


"کیا بکواس کی ہے تم نے؟"


مناہل نے فوراً اپنا سر جھکا لیا۔گلے میں بندھی آنسوؤں کی گھٹری اب اسے تکلیف دے رہی تھی۔


"تمہارے ماں باپ کے جانے کے بعد تمہیں بیٹیوں کی طرح پالا اس کا یہ صلہ دے رہی ہو تم؟میرا ایک حکم بھی نہیں مان سکتی؟"


مناہل اس سے پوچھنا چاہتی تھی کب اس نے مناہل کو بیٹی سمجھا تھا۔حبہ اور اس کی طرز زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔


"پلیز تایا ابو آپ میری شادی مت کریں ۔۔۔۔میں۔۔۔۔"


"بس مناہل تم میرا حکم مانو گی تمہارے پاس کوئی اور چارہ نہیں خود کو بہرام کی بیوی بنانے کے لیے تیار رہو۔۔۔۔"


"لیکن تایا ابو۔۔۔۔"


"بس مناہل۔۔۔۔تم اب یہاں سے جا سکتی ہو۔۔۔ "


مناہل کی پلکیں آنسوؤں کی شدت سے نم ہو گئیں۔وہ خاموشی سے اٹھی اور وہاں سے چلی گئی۔اپنے کمرے میں آتے ہی دروازہ بند کرنے کے بعد وہیں زمین پر بیٹھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


نظریں پھر سے بستر کی جانب اٹھیں تو سات سال پہلے کا ہر منظر اسکی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا۔


اسے یاد آیا کہ کیسے باہر بجلی کڑکنے کی آواز سے بارہ سالہ مناہل ڈرتے ہوئے بستر میں دبک رہی تھی۔اسے بادل اور بجلی سے ہمیشہ ڈر لگتا تھا لیکن اس ڈر میں اسکے ساتھ اسے دلاسہ دینے والا کوئی نہیں تھا۔


اچانک ہی اسکا دروازہ کھلا تو مناہل نے حیرت سے دروازے کو دیکھا جہاں اسکے پھوپھا فیض کھڑے تھے۔


"کیا ہوا فیض انکل کچھ چاہیے آپ کو؟"


فیض نے مسکرا کر مناہل کو دیکھا اور دروازہ لاک کر کے کمرے میں داخل ہو گیا۔


"ہاں مناہل بہت کچھ چاہیے۔۔۔۔"


فیض مناہل کی پھپھو کا شوہر تھا اس لیے وہ اسے اپنے تایا جیسا سمجھتی تھی لیکن نا جانے کیوں اس وقت مناہل کو اس سے بہت خوف آ رہا تھا۔


"آآآ۔۔۔۔۔آپ چلے جائیں یہاں سے انکل مم ۔۔۔۔مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔۔"


مناہل اب باقاعدہ خوف سے کانپ رہی تھی لیکن فیض اب اسکے بیڈ کے پیندوں تک پہنچ چکا تھا۔


"اور تم نے جو میری نیند اڑائی ہے اسکا کیا مناہل ۔۔۔۔۔"


اچانک ہی فیض نے مناہل کو پیر سے پکڑ کر اپنے قریب کھینچ لیا۔مناہل نے چیخ مارنا چاہی لیکن وہ مناہل کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسکی چیخ کا گلہ گھونٹ گیا۔


"بہت خوبصورت ہو تم مناہل بہت۔۔۔۔اور آج میں تمہیں اتنا خوبصورت ہونے کی سزا دوں گا۔۔۔۔"


مناہل کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ شخص اس سے کیا چاہتا ہے۔وہ ایسا کیوں کر رہا تھا۔وہ تو بس اس سے دور ہونا چاہتی تھی اسکا مقابلہ کرنا چاہتی تھی لیکن وہ معصوم اسکی طاقت کے مقابلے میں بہت کمزور ثابت ہوئی تھی۔


اسکی عزت اس سے نوچنے کے بعد وہ درندہ اس سے دور ہو گیا اور اپنی ہاتھ اسکے منہ سے ہٹایا جو مناہل کی چیخیں روکنے کے لیے تب سے اسکے منہ پر ہی تھا۔


مناہل اسکے دور ہوتے ہی بھاگ کر کمرے کے کونے میں چلی گئی اور اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں کے گرد لپیٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


"جو بھی یہاں ہوا اسکے بارے میں کسی کو مت بتانا۔۔۔۔"


فیض جس پر اب گناہ کا خوف حاوی ہو رہا تھا مناہل کو دھمکانے لگا۔


"ویسے بھی تمہارے ماں باپ تو ہیں نہیں جو تم پر یقین کریں گے ہر کوئی تمہیں ہی برا سمجھے گا اس لیے اپنا منہ بند رکھنا ۔۔۔۔۔اگر تم نے کسی کو کچھ بھی بتایا تو بہت برا ہو گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر وہ تو وہاں سے چلا گیا لیکن مناہل پوری رات اسی کونے میں بیٹھ کر روتی رہی تھی لیکن اسکی سسکیاں سننے والا اس دن بھی کوئی نہیں تھا اور آج بھی کوئی نہیں تھا۔


اس کے بعد وہ پھر کبھی مناہل کے قریب نہیں آیا لیکن اس ایک رات کا کرب یاد کر کے مناہل پھر سے ہزار موت مری تھی۔اگر بہرام خانزادہ کو پتہ چلتا کہ اسکے ساتھ کیا ہوا ہے تو کیا وہ اسے قبول کرتا؟


"اس کے بارے میں کسی کو مت بتانا لڑکی کیونکہ ہر کوئی عورت کو ہی قصور وار سمجھتا ہے مرد تو ہمیشہ سے دودھ کا دھلا ہے تھوڑی سی سزا کے بعد آزاد ہو جائے گا لیکن تم برباد ہو جاؤ گی۔ہر کوئی تمہیں ہی برا کہے گا تمہاری کبھی شادی نہیں ہو گی اور اگر ہو بھی گئی تو تمہارا شوہر سچ جان کر تمہیں چھوڑ دے گا اس لیے اس رات کی کوئی بھی بات تمہاری زبان پر نہ آئے۔"


خود سے کہی بات یاد کر کے مناہل نے اپنے بال ہاتھوں میں پکڑ لیے اور چیخ چیخ کر رونے لگی۔


"ایک بات یاد رکھنا اب تم کسی مرد کے قابل نہیں رہی۔۔۔۔"


مناہل کے ذہن میں کسی کے کہے الفاظ گونجے تو اسکے رونے میں روانی آ گئی۔وہ تب بھی نہیں جانتی تھی کہ اسکا کیا قصور تھا اور یہ بات وہ آج تک نہیں جان پائی تھی۔

(ماضی)

وردہ کی آنکھ کھلی تو وہ ہاسپٹل میں تھی۔اسے یاد آیا کہ کیسے اچانک اس کی طبیعت خراب ہوگئی تو سلیمان اسے ہاسپٹل لے کر آیا تھا۔


یہ نو ماہ سلیمان نے ہر پل اس کا خیال رکھا تھا۔اسے نا صرف نوکری بلکہ ایک فلیٹ اور ملازمہ دی تھی جو اس کا ہر وقت خیال رکھتی تھی۔جب وردہ پر مشکل وقت آیا تو اس کا تھوڑا سا جو کام تھا وہ بھی سلیمان نے گھر ٹرانسفر کر دیا۔


وردہ نے ہاسپٹل کے اس کمرے میں نظریں گھمائیں تو اسکی نظر سلیمان پر پڑی جس کی باہوں میں ایک ننھا سا وجود تھا۔خود پر کسی کی نظریں محسوس کرکے سلیمان نے مسکراتے ہوئے وردہ کو دیکھا۔


"مبارک ہو بہت بہت دیکھو خدا نے تمہیں ایک نہیں بلکہ دو محافظوں سے نوازا ہے۔"


سلیمان نے مسکراتے ہوئے باہوں میں اٹھائے بچے کو وردہ کے پاس لٹا دیا اور خود دوسرے بچے کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔وردہ نم آنکھوں سے اپنے بیٹے کا معصوم چہرہ دیکھ رہی تھی۔


"ارے تم رو کیوں رہی ہو اب تو تمہیں خوش ہونا چاہیے ناں کہ خدا نے تمہیں کسی کا سہارا دیا ہے۔۔۔۔"


سلیمان نے محبت سے اپنی باہوں میں موجود بچے کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"یہ ابھی میرا سہارا بننے کے لئے بہت چھوٹے ہیں سلیمان۔ابھی تو انہیں بڑا ہونا ہے اس دنیا کی تلخی کو برداشت کرنا ہے تب تک ان کا سہارا کون بنے گا؟"


سلیمان نے حیرت سے وردہ کو دیکھا۔


"میں اپنے اور حیدر کے نکاح کو ثابت بھی نہیں کر سکتی تو انہیں اس کا نام کیسے دوں گی۔۔۔۔جب دنیا ان سے پوچھے گی کہ ان کے باپ کا کیا نام ہے تو کیا جواب دیں گے یہ دنیا کو۔۔۔۔"


وردہ نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھ دیے۔اب جب اس کے بیٹے اس دنیا میں آ چکے تھے تو وہ نکاح کا رشتہ بھی دونوں کے درمیان ختم ہو گیا تھا۔


"میں ابھی بھی تم سے یہی کہوں گا وردہ کہ تم اپنے شوہر کو اس کی اولاد کے بارے میں بتا دو۔۔۔"


وردہ نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں وہ بہت زیادہ بے حس انسان ہے سلیمان بہت زیادہ۔انہیں نقصان پہنچاتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچے گا کہ یہ اس کی اپنی اولاد ہے ۔۔۔۔"


سلیمان نے گہرا سانس لیا۔


"تو پھر پریشان ہونا چھوڑ دو اور ہر معاملہ اللہ تعالی پر ڈال دو ان شاءاللہ وہ سب ٹھیک کر دیں گے۔"


سلیمان نے مسکرا کر کہا اور اپنی باہوں میں اٹھائے بچے کو محبت سے دیکھنے لگا۔تبھی ایک نرس مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔


"آپ دونوں کو بچوں کی پیدائش پر بہت بہت مبارک ہو۔۔۔۔آپ جب بے ہوش تھیں تو آپ کے ہزبینڈ نے خوشی سے پورے ہاسپٹل میں میٹھائی بنٹوائی ۔۔۔"


نرس نے مسکراتے ہوئے کہا اور وردہ نے حیرت سے سلیمان کو دیکھا۔وہ نرس کو بتانا چاہتی تھی کہ یہ اس کا شوہر نہیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی سلیمان بول اٹھا۔


"آپ کو کچھ کام تھا سسٹر؟"


نرس نے اثبات میں سر ہلایا۔


"جی سر, میں پوچھنے آئی تھی کہ اگر آپ نے بچوں کے نام سوچ لیے ہیں تو مجھے بتا دیں ہاسپٹل کے ریکارڈ میں درج کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے نام رجسٹر بھی کروا دوں گی پھر آپ کو زیادہ مسئلہ نہیں ہوگا۔۔۔"


سلیمان نے اثبات میں سر ہلا کر وردہ کی جانب دیکھا۔


"ایک بچے کا نام تم رکھو پھر دوسرے بچے کا نام میں اس سے ملتا جلتا رکھوں گا۔۔۔۔"


وردہ نے تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ساتھ لیٹے بیٹے کو باہوں میں اٹھا لیا اور کتنی ہی دیر اسکا معصوم چہرہ دیکھتی رہی۔


٫"بہرام۔۔۔۔میں اسکا نام بہرام رکھوں گی۔۔۔۔"


سلیمان کے چہرے کو ایک مسکراہٹ نے چھوا۔


"ہمم ٹف چیلنج دیا ہے بھئی۔"


سلیمان بہت دیر اپنی باہوں میں موجود بچے جو دیکھتا رہا پھر اس نے وردہ کو دیکھا اور بولا۔


"فرزام۔۔۔جو اپنے بھائی کا سب سے بہترین ساتھی ہو گا۔۔۔۔"


نرس نے مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا جو اب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔


"اور ان کے باپ کا نام؟"


نرس کے سوال پر وردہ کا رنگ زرد پڑھ گیا۔اب وہ نرس کو کیا جواب دیتی کہ ان کے باپ نے انہیں اپنا نام دینے کا ہر حق ان سے چھین لیا تھا۔ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کے کردار کو مکمل طور پر ختم کردیا تھا۔


وردہ کی آنکھیں بہت روانی سے بہنے لگیں۔اس سے پہلے کہ وہ نرس کو کوئی جواب دیتی سلیمان کی آواز نے سکوت توڑا۔


"خانزادہ۔۔۔۔سلیمان خانزادہ۔۔۔۔"


وردہ نے حیرت سے آنکھیں کھول کر سلیمان کو دیکھا جو اپنی باہوں میں موجود بچے کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔نرس تو نام لکھ کر وہاں سے جا چکی تھی لیکن وردہ بس حیرت سے سلیمان کو دیکھ رہی تھی۔


"تم انہیں اپنا نام کیسے دے سکتے ہو سلیمان؟"


سلیمان نے فرزام سے دھیان ہٹا کر وردہ کو دیکھا۔


"کیوں نہیں دے سکتا؟"


"یہ تمہارے بیٹے نہیں ہیں۔۔۔۔"


سلیمان ہلکا سا مسکرا کر اپنی جگہ سے اٹھا اور وردہ کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔


"اور اگر میں انہیں اپنا بیٹا بنانا چاہوں ؟ انکی اور تمہاری زندگی کی کمی کو پورا کرنا چاہوں تو تمہارا کیا جواب ہو گا وردہ؟"


وردہ حیرت سے اس شفیق چہرے والے آدمی کو دیکھنے لگی جس نے اسے نئی زندگی دی تھی۔


"سلیمان میں۔۔۔۔۔۔"


وردہ نے اپنا سر جھکا لیا اور دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر بہرام کے چہرے پر گرے۔


"میرے لیے بھروسہ کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے سلیمان بہت۔"


سلیمان نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ دیا۔


"آخری بار بھروسہ کر کے دیکھ لو۔۔۔۔"


وردہ نے نم پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"میں دو بچوں کی ماں ہوں سلیمان اس کے باوجود تم مجھے قبول کرنے کو تیار ہو؟"


سلیمان نے مسکرا کر اپنی باہوں میں موجود فرزام کو دیکھا۔آنکھوں سے بے پناہ محبت چھلک رہی تھی۔


"ہاں۔۔۔اور اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں انہیں باپ کا پیار نہیں دے سکوں گا یا پھر کل کو جب میرے اپنی اولاد ہوگی تو میری محبت میں فرق آ جائے گا۔۔۔۔تو میں وعدہ کرتا ہوں وردہ،ہمارے صرف دو ہی بچے ہوں گے فرزام

اور بہرام اور یہ دونوں ہی ہمارا کل جہان ہوں گے۔۔۔"


سلیمان کو دیکھتے ہوئے وردہ کی آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھیں۔


"جانتا ہوں تم ابھی فیصلہ نہیں کر پاؤ گی اس لیے تمہیں سوچنے کا وقت دیتا ہوں لیکن پلیز زیادہ وقت نہ لگا دینا وہ کیا ہے ناں انتظار کرنا مجھے بہت مشکل لگتا ہے۔۔۔۔"


سلیمان نے مسکرا کر کہا اور فرزام کو بھی وردہ کے قریب لیٹا کر کمرے سے باہر چلا گیا۔وردہ اپنے دونوں بیٹوں کو نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے سوچنے لگی کہ وہ کیا فیصلہ کرے۔


دل و دماغ میں ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی۔دل اسے پھر سے بھروسہ کرنے کے لئے اکسا رہا تھا لیکن دماغ کو تو الطاف حیدر بیگ نے کبھی بھروسہ کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا۔


"میری مدد کریں یا اللہ پاک مجھے راستہ دیکھائیں کہ میں کیا کروں۔۔۔"


وردہ نے روتے ہوئے التجا کی اور پھر کتنی ہی دیر اپنے معصوم بچوں کو روتے ہوئے دیکھتی رہی لیکن آخر کار اسکا دل دماغ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر چکا تھا۔

💞💞💞💞

(حال)


الطاف رات کے دس بجے اپنے بیڈ پر نیم دراز لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب انجم بیگم کمرے میں آئیں اور غصے سے الطاف کے قریب بیٹھ گئیں۔


"مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ نے مناہل کا رشتہ بہرام خانزادہ سے طے کیا ہے۔"


الطاف نے نظریں اٹھا کر اپنی بیوی کو دیکھا۔


"ہاں کیا ہے تو؟"


انجم بیگم نے اپنے دانت کچکچائے۔انہیں برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ مناہل کا رشتہ اتنے اونچے خاندان میں طے کیا گیا تھا۔


"کیا ہوگیا ہے آپ کو الطاف مناہل کا اتنا اچھا رشتہ کرتے ہوئے آپ کو اپنی بیٹی نظر نہیں آئی۔۔۔۔مناہل کی جگہ اگر آپ حبہ کا رشتہ بہرام سے کرتے تو کل کو وہ شیزہ کی بیٹی کا رشتہ اپنے دیور سے کروا لیتی۔۔۔۔"


الطاف کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی۔


"بہت چھوٹی سوچ ہے تمہاری لیکن میں تم سے بہت آگے کا سوچتا ہوں اور جو کر رہا ہوں بہت سوچ سمجھ کر رہا ہوں اس لیے میرے کام میں ٹانگ اڑانے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔"


الطاف اتنا کہہ کر پھر سے اپنا کام کرنے لگا۔


"لیکن الطاف آپ ایک مرتبہ اسکے بارے میں سوچیں۔۔۔"


"اپنی بکواس بند کرو انجم تمہیں سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔کچھ دنوں تک بہرام خانزادہ یہاں مناہل سے منگنی کرنے کے لئے آئے گا اور میرا تو ارادہ ہے کہ تب ہی دونوں کا نکاح بھی کر دوں۔۔۔۔"


انجم بیگم غصے سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔


"میں ایسا کچھ نہیں ہونے دوں گی اس شان و شوکت پر میری بیٹی کا حق بنتا ہے مناہل کا نہیں۔۔۔۔"


الطاف نے مسکرا کر اپنی بے وقوف بیوی کو دیکھا۔


"روک کر بتاؤ مجھے۔۔۔۔"


انجم نے غصے سے اپنا پیر پٹخا اور کمرے سے باہر چلی گئیں جبکہ الطاف کے چہرے پر ابھی بھی ایک شاطیرانہ مسکراہٹ تھی۔


" جہاں تمہاری سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے میری سوچ شروع ہوتی ہے۔کل کو جب خانزادہ بھائیوں کی پوری دولت میری ہوگی تب تم دعائیں دوں گی مجھے انجم بی بی۔۔۔"


الطاف کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔اس نے جو پلین بنایا تھا وہ بہت آسانی سے کامیاب ہونے والا تھا اور اسکے کامیاب ہونے پر سب سے زیادہ فائدہ الطاف حیدر بیگ کا ہی ہونا تھا۔

💞💞💞💞

"مجھے پتہ چلا تمہاری منگنی بہرام خانزادہ سے ہو رہی۔۔۔۔"


مناہل جو گود میں کتاب رکھے اپنی ہی سوچوں میں مشغول تھی اپنی تایا زاد حبہ کی آواز پر خوف سے اچھل پڑی۔


"خوش قسمت ہو پھر تو تم جانتی ہو کتنا بڑا بزنس مین ہے وہ اور کافی ڈیشنگ بھی۔۔۔۔"


حبہ نے مناہل کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا اور اس کے سامنے پڑے ڈرائے فروٹس میں سے بادام کھانے لگی۔


"میں ان کے بارے میں اگر کچھ جانتی ہوں تو صرف اتنا کہ میری ان سے شادی کی جا رہی ہے اس کے علاوہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔۔۔"


حبہ نے حیرت سے مناہل کو دیکھا جس نے سر جھکا کر عام سے انداز میں یہ بات کہی تھی۔


"تو اس میں کیا مشکل ہے میں ابھی اس کے بارے میں تمہیں سب بتاتی ہوں۔"


حبہ نے فورا اپنا موبائل نکالا اور اس میں بہرام کا بائیو ڈیٹا سرچ کرنے کے بعد مناہل کے آگے کردیا۔


"کافی کامیاب بزنس مین ہے تمہارا ہونے والا شوہر اپنے باپ کے لاکھوں کے بزنس کو کروڑوں میں بدل دیا اس نے۔"


حبہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہی تھی لیکن مناہل بس مردہ حالت میں اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھ رہی تھی جو واقعی بہت زیادہ شاندار پرسنیلٹی کا مالک تھا لیکن اس کے چہرے سے ہی سرد مہری چھلک رہی تھی۔


کیا وہ سرد مہر سا شخص اس کے غم کو سمجھ پاتا؟کیا وہ اس کے دکھوں کا مداوا کر سکتا تھا؟بلکہ سب سے اہم سوال تو یہ تھا کہ کیا وہ اسے قبول بھی کرتا؟


"تھوڑا اکھڑو مزاج کا ہے لیکن تمہارے ساتھ سوٹ کرے گا کیونکہ تم بھی تو اس کی طرح ہی سنجیدہ سی ہو۔۔۔۔"


مناہل نے اپنا سر جھکا لیا اور اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔اچانک ہی اسکی نظر بہرام کی تصویر پر پڑی لیکن اس مرتبہ اسکے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔جو دیکھنے میں کافی حد تک اس کی طرح لگتا تھا لیکن بہرام کے برعکس اس کے گال پر ایک شرارتی سا گھڑا نمایا ہو رہا تھا۔


"یہ کون ہے؟"


مناہل کہ پوچھنے پر حبہ کے ہونٹوں پر بھی ایک مسکراہٹ آئی۔


"یہ وہ ہے جو ہزاروں دلوں کی دھڑکن ہے۔۔۔۔"


مناہل نے نا سمجھی سے اپنی تایا زاد کو دیکھا۔


"بہرام خانزادہ کا جڑواں بھائی فرزام خانزادہ۔انسٹاگرام سٹار ہے یہ تقریباً تیس میلین سے زیادہ فالورز ہیں اس کے۔کتنی ہی غیر ملکی اور ملکی لڑکیاں مرتی ہیں اس پر۔۔۔۔رکو میں تمہیں دیکھاتی ہوں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر حبہ نے انسٹاگرام کھولا اور فرزام کی پروفائل مناہل کو دیکھانے لگی جس میں فرزام کی مختلف تصویریں تھیں جو ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔


" دونوں بھائی تیس سال کے ہیں لیکن فرزام کی پرسنلٹی سے بالکل نہیں لگتا۔اف اتنا کمال بندہ ہے کہ کیا کہوں۔۔۔۔۔ایک مرتبہ اپنے کالج کی سپورٹس میں فرسٹ آیا تھا لیکن اسکی ٹرافی کو اس سے پہلے کسی اور نے چھو لیا۔"


"پھر۔۔۔۔"


حبہ کے خاموش ہونے پر مناہل نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔


"فرزام نے اس ٹرافی کو سب کے سامنے پھینک کر توڑ دیا کیونکہ اسکی چیز کو پہلے کسی اور نے چھوا تھا اور فرزام خانزادہ اپنی چیزوں کے لیے بہت زیادہ پوزیسسو ہے۔"


حبہ کی بات سن کر مناہل کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹک گیا۔شکر تھا کہ وہ بہرام کی بیوی بننے والی تھی اگر اسکی جگہ اسکے لیے فرزام کو چنا جاتا تو شائید مناہل کی ناپاکی پر اسکی جان ہی لے لیتا۔


"اس گھر میں جا کر فرزام کو تو میرے لئے بک رکھنا ناں تم"


حبہ نے شرارت سے آنکھ دباتے ہوئے کہا لیکن سب سننے کے بعد مناہل مزید گھبرا چکی تھی۔


"اور بہرام۔۔۔۔کیا وہ بھی اپنی چیزوں کے لیے بہت زیادہ پوزیسسو ہیں؟"


مناہل نے گھبراتے ہوئے پوچھا تو حبہ سوچ میں ڈوب گئی۔


"پتہ نہیں یار اسکے بارے میں کوئی کچھ زیادہ نہیں جانتا لوگ تو اسے سٹون مین کہتے ہیں جس میں کوئی جزبات ہی نہیں۔۔۔۔"


مناہل کا اضطراب حبہ کی باتوں سے بڑھتا جا رہا تھا۔


"خیر تم کیوں ٹیشن لے رہی ہو بے بی تمہارا ریکارڈ بالکل کلیر ہے بوائے فرینڈ ہونا تو دور تم تو گھر سے باہر ہی نہیں نکلی کبھی۔۔۔۔"


حبہ نے شرارت سے کہا لیکن یہ بس مناہل ہی جانتی تھی کہ سچ کیا تھا اور وہ بس یہ دعا کر سکتی تھی کہ بہرام کو کبھی سچ پتہ نہ لگے اور اگر اسے سچ پتہ لگ جاتا تو۔۔۔۔اس سے آگے مناہل نے کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔

💞💞💞💞

چاہت رکشے سے باہر نکلی اور رکشے والے کو پیسے پکڑائے۔رکشے والے کے وہاں سے جاتے ہی اس نے گھبرا کر خانزادہ مینشن کو دیکھا۔دو دن ہو گئے تھے اسے ہر وقت رو کر گزارتے ہوئے۔بہرام کی ناراضگی کے خیال نے ہی اسکی زندگی کی ہر خوشی اس سے چھین لی تھی۔


سکینہ نے بہرام کو فون کرکے کہا تھا کہ چاہت اس سے ملنا چاہتی ہے لیکن زندگی میں پہلی بار وہ سکینہ کے بلانے پر بھی نہیں آیا۔اس لیے اب چاہت نے خود اس کے پاس جا کر اس سے معافی مانگنے کا سوچ لیا تھا۔


اپنے کالج سے وہ سیدھا خانزادہ مینشن آئی تاکہ بہرام سے مل کر اس سے اپنے کیے کی معافی مانگ سکے۔


"اسلام و علیکم چچا۔۔۔"


چاہت کی آواز پر دروازے میں موجود چوکیدار نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"ارے چاہت بیٹا آپ یہاں اکیلے؟سب ٹھیک تو ہے ناں سکینہ باجی تو ٹھیک ہیں؟"


چاہت نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔


"جی بس میں خان جی سے ملنے آئی تھی گھر ہی ہیں ناں وہ؟"


چوکیدار نے ہاں میں سر ہلایا اور دروازہ کھول دیا۔چاہت گھبراتے ہوئے اس عالی شان بنگلے میں داخل ہوئی جہاں وہ کئی مرتبہ آ چکی تھی لیکن آج پہلی مرتبہ وہ یہاں آتے ہوئے اتنا زیادہ ڈر رہی تھی۔


"نہ جانے خان جی کا غصہ ابھی بھی اترا ہوگا یا نہیں۔۔۔۔ پتہ نہیں مجھے اور کتنا ڈانٹیں گے وہ۔۔۔"


چاہت نے منہ بناتے ہوئے خود کلامی کی اور چلتے ہوئے بڑے سے ہال میں پہنچ گئی۔


"جتنا مرضی ڈانٹ لیں غلطی تو کی ہے ناں میں نے۔۔۔میں بھی انہیں منا کر ہی جاؤں گی۔۔۔۔"


چاہت نے پر عزم ہو کر کہا اور جلدی سے بہرام کے کمرے کی جانب چل دی لیکن اچانک ہی کسی سے ٹکرا کر دو قدم دور ہو گئی۔


"اف فرزام بھائی دیکھ کر نہیں چلا جاتا آپ سے۔۔۔۔"


چاہت کو دیکھ کر فرزام کے ہونٹوں پر بھی ایک مسکراہٹ آ گئی۔


"مجھے کیا پتہ تھا کہ ایک کوچنی راستے میں آ جائے گی جو مجھ سے ٹکرا کر پتے کی طرح اڑ ہی جائے گی۔۔۔ "


کوچنی پشتو میں چھوٹی کو کہتے تھے اور چاہت کو فرزام کے دیے گئے اس نام سے سخت چڑ تھی۔


"بالکل اپنے بھائی کی طرح برے ہیں آپ ۔۔۔۔"


چاہت کے رو کر کہنے پر فرزام حیران رہ گیا۔


"کیا کر دیا میرے معصوم بھائی نے؟"


چاہت نے روتے ہوئے اسے دیکھا۔


"ناراض ہیں مجھ سے اور بات بھی نہیں کر رہے نہ ہی ہمارے گھر آ رہے ہیں۔۔۔"


فرزام ہلکا سا مسکرایا۔


"تو اب تم اسے یہاں منانے آئی ہو ؟"


چاہت نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔


"کس کے ساتھ؟"


"اکیلی رکشے پر آئی ہوں۔۔۔"


چاہت نے اپنی شرٹ کے بازو سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا لیکن اسکی بات سن کر فرزام کا پارہ ہائی ہو چکا تھا۔


"چاہت تم اکیلی رکشے پر آئی؟پاگل ہو کیا اگر یہاں آنا ہی تھا تو مجھے فون کر دیتی میں تمہیں لینے آ جاتا لیکن اکیلے رکشے پر آنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔"


چاہت نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔


"جس طرح آپ گاڑی چلاتے ہیں ناں اس سے ہزار گناہ زیادہ محفوظ ہے رکشہ۔۔۔آپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر تو بس انسان یہی دعا کرتا ہے کہ یا اللہ ایک بار صحیح سلامت پہنچا دے پھر ایسی غلطی نہیں ہو گی۔۔"


فرزام اسکی شرارت پر مسکرایا اور ایک چت اسکے سر پر لگائی۔


"آئندہ تم اکیلے نہیں آؤ گی سمجھی۔۔۔اگر کہیں بھی جانا ہے تو مجھے یا بہرام کو ضرور بتانا۔۔۔۔"


فرزام نے بڑے بھائیوں والا رعب دکھاتے ہوئے کہا تو چاہت اپنی ناک سکیڑ کر اسے دیکھنے لگی۔


"ٹھیک ہے جس دن اڑ کر مرنے کا ارادہ ہو گا آپ کو ضرور بتاؤں گی۔۔۔"


فرزام اس بات پر ہنس دیا۔


"خان جی کہاں ہیں؟"


چاہت کے گھبرا کر پوچھنے پر فرزام نے بہرام کے کمرے کی جانب اشارہ کیا تو وہ اپنا تھوک نگل کر اس طرف چل دی۔پہلے تو کافی دیر دروازے کے باہر کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ ملتی رہی پھر ہمت کرکے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔


"آجاؤ۔۔۔۔"


بہرام کی سنجیدہ سی آواز پر اس نے گہرا سانس لیا اور کمرے میں داخل ہو گئی۔بہرام ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کچھ کر رہا تھا۔


"اسلام و علیکم جان جی۔۔۔"


چاہت کی آواز پر جہاں بہرام نے اپنے کام سے دھیان ہٹا کر اسے دیکھا وہیں اپنے الفاظ پر غور کر کے چاہت کی بڑی سی کاجل لگی آنکھیں پھیل گئیں اور پھر خوبصورت رخسار گلابی ہو گئے۔


"خخخخ۔۔۔۔خان جی۔۔۔خان جی کہا میں نے۔۔۔"


بہرام نے گہرا سانس لیا اور پھر سے لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگا۔


"کیوں آئی ہو تم یہاں چاہت؟"


چاہت اسکے سوال پر گھبرا کر اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔


"آ ۔۔۔۔آپ سے معافی مانگنے مجھے اس پرفارمینس میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا۔۔۔"


بہرام نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا تو چاہت نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کان پکڑ لیے۔


"سوری خان جی۔۔۔"


یوں کالج یونیفارم میں ملبوس بچوں کی طرح کان پکڑے وہ کسی کے بھی دل کی دنیا ہلانے کے لیے کافی تھی لیکن سامنے بھی بہرام خانزادہ تھا جس کے جزبات اتنے کمزور نہیں تھے۔


"ٹھیک ہے معاف کیا۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام اپنا کام کرنے لگا اور چاہت مسکرا کر اسکے پاس کرسی پر بیٹھ گئی۔


"ویسے خان جی میں اس دن لگ کیسی رہی تھی؟سب تو کہہ رہی تھی کہ بہت پیاری لگ رہی ہوں آپ کو پیاری لگ رہی تھی کیا؟"


چاہت نے بہت امید سے پوچھا لیکن بہرام کی آنکھوں میں غصہ اترتا دیکھ خاموش ہو گئی۔


"آپ کے گھر میں مہمان کو کھانا پوچھنے کا رواج نہیں ہے کیا پتہ ہے اتنی بھوک لگی ہے مجھے پھر سے گول گپے کھانے لے کر جائیں گے آپ؟"


چاہت اپنا ہاتھ ٹھوڈی کے نیچے رکھ کر دلچسپی سے بہرام کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔اس سے پہلے کہ بہرام اسے کچھ کہتا اس کا فون بجے لگا۔


اپنی سیکریٹری کا نمبر دیکھ کر بہرام نے کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا۔


"ہاں کہو سعدیہ؟"


بہرام کچھ دیر اسکی بات سن کر ہوں ہاں کرتا رہا پھر اسکا دھیان چاہت ہر گیا جو ٹائم پاس کے لیے اپنی لمبی چوٹی کے بالوں سے کھیل رہی تھی۔کبھی اسے ہوا میں لہراتی تو کبھی انگلیوں سے بالوں کو سہلانے لگتی۔


پھر اس نے چوٹی کے بال اپنی ناک کے نیچے رکھ کر مونچھیں بنا لیں اور بہرام کی طرف دیکھا جو مسلسل اسے دیکھ رہا تھا۔اپنے سیکریٹری کی ایک بھی بات اس نے نہیں سنی تھی۔


چاہت نے جیسے ہی بہرام کو خود کو دیکھتا پایا تو اپنے بال اپنی ناک کے نیچے سے ہٹائے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئی۔تبھی بہرام کی بس ہوئی تھی۔


"میری لاہور کی ٹکٹس کنفرم ہو گئیں؟"


سعدیہ جو اسے بزنس کے مسائل کے بارے میں بتا رہی تھی اس کے علیحدہ ہی سوال پوچھنے پر حیران رہ گئی۔


"جی سر ہو گئی ہیں ٹھیک کمنگ منڈے کی۔"


"ٹھیک ہے۔"


بہرام نے سنجیدگی سے کہا اور فون بند کردیا۔


"آپ لاہور جا رہے ہیں خان جی؟"


بہرام نے خاموشی سے ہاں میں سر ہلا دیا۔


"کیوں۔۔۔مم۔۔ میرا مطلب ہے سب ٹھیک ہے ناں ؟"


اسکے سوال پر بہرام کچھ دیر خاموش رہا پھر کچھ سوچ کر بولا۔


"میری منگنی ہے میرے بزنس پارٹنر کی بھتیجی سے ۔۔۔ "


بہرام کی بات پر چاہت کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹک گیا۔رنگ بالکل زرد پڑھ چکا تھا پھر اس نے مسکرا کر انکار میں سر ہلایا۔


"آ۔۔۔۔آپ مزاق کر رہے ہیں ناں۔۔۔"


بہرام نے ایک نظر اس کانچ سی لڑکی کو دیکھا۔وہ جانتا تھا کہ وہ ایک معصوم دل توڑنے والا تھا لیکن جو غم وہ ابھی چاہت کو دینے والا تھا وہ اس سے بہت چھوٹا تھا جو اسے بہرام خانزادہ کی ہو کر ملتا۔


"نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں اس سوموار کو میری منگنی ہے میرے بزنس پارٹنر کی بھتیجی مناہل بیگ سے ۔۔۔"


چاہت کی خوبصورت آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔


"کیا آپ ان سے شادی کر لیں گے ؟"


اس کے نم آواز میں پوچھنے پر بہرام نے گہرا سانس لیا۔


"صاف ظاہر ہے انسان منگنی شادی کرنے کے لیے ہی کرتا ہے۔۔۔"


چاہت کو لگا کہ کوئی اس سے اسکی روح چھین کر لے جا رہا ہو۔


"لل۔۔۔۔لیکن آپ کسی اور سے شادی کیسے کر سکتے ہیں؟ممم۔۔۔۔میں آپ سے پیار کرتی ہوں تو آپ کی شادی مجھ سے ہی ہو گی ناں۔۔۔ ہر ڈرامے میں ایسا ہی ہوتا ہے خان جی۔۔۔ "


چاہت نے بہت امید سے کہا لیکن بہرام اب اسے غصے سے گھور رہا تھا۔


"پاگل ہو گئی ہو چاہت یہ پیار والی بات کہاں سے آئی تمہارے ذہن میں۔۔۔۔عمر دیکھی ہے اپنی صرف سترہ سال کی ہو اور ایسی بات کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آ رہی۔۔۔"


بہرام نے اتنی سختی سے کہا کہ چاہت سہم کی اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔


"ننن۔۔۔۔نہیں آتی شرم آپ سے پیار کرتی ہوں تو بتاؤں گی ناں۔۔۔۔آپ کو شرم نہیں آتی کسی اور سے شادی کرتے ہوئے خان جی آپ تو میرے ہیں ناں ۔۔۔۔۔"


بہرام اپنی جگہ سے اٹھا اور اسکے سامنے کھڑا ہو گیا۔بہرام کے قامتی جسم کے سامنے وہ نازک وجود چھپ سا گیا تھا۔


"بس چاہت بس۔۔۔۔اب ایک لفظ نہیں سنوں گا میں۔کان کھول کر سن لو میں کسی اور سے شادی کرنے والا ہوں اور تم یہ فضول باتیں اپنے ذہن سے نکال کر پڑھائی پر دھیان دو۔۔۔۔یہ سب کرنے کی عمر نہیں تمہاری۔۔۔ "


چاہت نے خوبصورت لال آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں خان جی پلیز آپ کسی اور سے شادی نہ کریں۔۔۔۔"


بہرام نے سختی سے اسے بازوں سے پکڑ لیا۔


"تمہیں سمجھ نہیں آ رہا چاہت کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔۔"


چاہت نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں آ رہا سمجھ جب میں آپ سے پیار کرتی ہوں تو کیوں آپ کسی اور سے شادی کر رہے ہیں خان جی۔۔۔۔"


اسکی ضد پر بہرام نے بے بسی سے اپنے دانت کچکچائے اور پھر اسکا معصوم دل چکنا چور کر کے اسے خود سے دور کرنے کا فیصلہ کر لیا۔


"کیونکہ تم میرے قابل نہیں۔۔۔۔خود کو دیکھو اور مجھے دیکھو زمین آسمان کا فرق ہے ہم میں۔۔۔میں اسی سے شادی کروں گا جو میری طرح امیر خاندان کی ہو جسے اپنی بیوی بتاتے مجھے شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۔۔۔"


یہ بات کہہ کر بہرام اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا۔وہ چاہت کو اسکی ہی نظروں میں گرانے اور اسکے دل سے اپنا مقام گرانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔


چاہت نے اسکی گرفت سے اپنے بازو چھڑوائے اور اس دور ہو گئی۔


"ٹھیک ہے خان جی آج کے بعد آپ کو اس غریب سی لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھنا پڑے گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر چاہت وہاں سے چلی گئی اور بہرام نے غصے سے سائیڈ ٹیبل پر پڑا واز اٹھا کر دیوار میں مارا تھا۔وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا تھا چاہت اس سے نفرت کرنے لگی تھی لیکن پھر بھی یہ نفرت اس نفرت سے بہت کم تھی جو کل کو اسکی بیوی بننے کے بعد اسکا سچ جان کر چاہت اس سے کرتی۔

(ماضی)

سلیمان آفس سے گھر آیا تو سامنے ہی وردہ اسے ڈائنگ ٹیبل پر کھانا لگاتے نظر آئی۔یہ مکمل سا منظر سلیمان کے دل میں اترا تھا۔

سلیمان کے ماں باپ بچپن میں ہی چلے گئے تھے اور اس نے کبھی کوئی قریبی رشتہ نہیں دیکھا تھا اب اسکی جان سے پیاری فیملی ہی اسکا سب کچھ تھی۔بارہ سال سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا ان کی شادی کو لیکن آج بھی سلیمان کو یقین نہیں ہوتا تھا کہ اسکی محبت یوں اسکی زندگی کا ہر پل حسین بنا رہی تھی اور اسکے بچے۔۔۔۔


بچوں کا سوچ کر ہی سلیمان نے یہاں وہاں دیکھا لیکن اسے اسکے شرارتی بچے کہیں نظر نہیں آئے تو مسکرا کر وردہ کے قریب آیا اور اسے پیچھے سے اپنی گرفت میں لے لیا۔


"سلیمان کیا کر رہے ہو شرم کرو۔۔۔۔"


وردہ نے خود کو چھڑوانا چاہا لیکن سلیمان اب اپنا چہرہ اسکے بالوں میں چھپا چکا تھا۔


"میں کونسا نوکرانی کے ساتھ رومینس کر رہا ہوں جو شرم کروں بھئی اپنی پرائیوٹ بیوی ہے میری تو کیسی شرم۔۔۔"


وردہ اسکی جانب پلٹ کر اسے گھورنے لگی۔جتنی محبت کا سلیمان نے اس سے وعدہ کیا تھا ،ان بارہ سالوں میں اس سے کئی گناہ زیادہ محبت اس نے اس سے اور بچوں سے کی تھی۔


"بیوی تو تمہاری اپنی ہے لیکن یہ تمہارا بیڈ روم نہیں ہے خواہ مخواہ میرے معصوم بچوں کو خراب کرو گے تم ۔۔۔"


وردہ نے خود کو چھڑایا اور ٹیبل سیٹ کرنے لگی۔


"معصوم۔۔۔۔بہرام کے لیے یہ لفظ اچھا لگتا ہے لیکن فرزاااااامممم۔۔۔۔"


سلیمان نے فرزام کا نام کھینچا تو وردہ اسے گھورنے لگی۔جہاں بہرام سلیمان کا لاڈلا تھا وہیں فرزام وردہ کی جان تھا۔


"کیا کہتا ہے میرا معصوم بچہ تمہیں۔۔۔؟"


"ماما بہرام نے میری کار توڑ دی اس لیے میں نے اسکا سپائیڈر مین توڑ دیا جو بابا تھائی لینڈ سے لائے تھے۔۔۔"


بارہ سالہ فرزام نے وہاں آ کر فخر سے بتایا تو سلیمان ہنس دیا۔


"سن لو اپنے لعل کی معصومیت کے قصے۔۔۔"


سلیمان نے اپنی باہیں پھیلا کر کہا تو فرزام بھاگ کر اسکے سینے سے لگ گیا جبکہ وردہ گہرا سانس لے کر رہ گئی۔


"بابا یہ جھوٹ بول رہا ہے اسی نے اپنی کار خود توڑی ہے اور میرا سپائیڈر مین بھی۔۔۔۔کیونکہ میں نے اسکی کار کو ٹچ کیا تھا تو اس نے کہا کہ مجھے پنش کرے گا۔"


بہرام نے غصے سے وہاں آتے ہوئے کہا۔


"افف کتنا لڑتے ہو تم دونوں اتنی خوش تھی میں کہ میرے ٹونز ہیں تو پیار سے رہیں گے لیکن تم دونوں کا تو جھکڑا ہی ختم نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔"


وردہ نے سب کو ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


"ہاں تو اس سے کہیں ناں کہ میری چیزوں کو ٹچ نہیں کیا کرے تو میں اچھا بچہ بن کے رہوں گا پرامس۔۔۔۔"


فرزام نے وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ کتنا سچا تھا یہ اس کے ماں باپ دونوں جانتے تھے۔


"چلو ابھی خاموشی سے کھانا کھاؤ پھر کل تم دونوں کو مال لے جاؤں گا جو دل کرے لے لینا۔۔۔۔"


سلیمان کی بات پر دونوں نے خوشی سے پاپا از دا بیسٹ کا نعرہ لگایا اور کھانا کھانے لگے۔کچھ دیر کے بعد ہی سلیمان کا کافی پرانا اور قریبی گارڈ عباس ہانپتے ہوئے وہاں پر آیا۔


"ارے عباس تم یہاں اس وقت سب ٹھیک تو ہے ناں؟"


سلیمان نے گھبرا کر پوچھا۔


"جی مالک سب ٹھیک ہے بلکہ میں بہت زیادہ خوش ہوں اللہ نے میری دعا سن لی اور مجھے ایک انتہائی خوبصورت بیٹی سے نوازا ہے۔۔۔۔"


عباس کی خوشی اسکے چہرے سے چھلک رہی تھی۔سلیمان نے اٹھ کر اسے اپنے گلے سے لگایا ۔


"بہت زیادہ مبارک ہو اللہ تمہاری بیٹی کے نصیب اچھے کرے۔۔۔۔"


عباس نے مسکرا کر وردہ کو دیکھا جو خود بھی مسکرا رہی تھی۔


"آپ دونوں آئیں گے میری بیٹی کو دیکھنے؟"


عباس نے بہت امید سے پوچھا۔


"ہاں کیوں نہیں بلکہ ابھی چلتے ہیں تمہارے گھر۔۔۔۔"


سلیمان کی بات پر عباس کی خوشی مزید بڑھ گئی۔


"جی جی مالک ضرور۔۔۔"


سلیمان نے وردہ کو اشارہ کیا تو اس نے فرزام اور بہرام کو تیار ہونے کا کہا اور خود بھی کچھ ہی دیر میں تیار ہو کر سلیمان کے ساتھ عباس کے گھر میں آئے۔


عباس نے سلیمان کو تو اپنے چھوٹے سے گھر کی بیٹھک میں بیٹھایا لیکن وردہ اور بچوں کو اپنی بیوی سکینہ کے پاس بھیج دیا جس کی باہوں میں چھوٹی سی گڑیا تھی۔


"ماشاءاللہ بہت زیادہ پیاری ہے یہ بہت مبارک ہو آپ کو بہن۔۔۔"


سکینہ مسکرا دی۔سلیمان اور اس کی بیوی کے یہاں آنے سے وہ حیران نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے شوہر کا مالک بہت زیادہ رحم دل انسان تھا وہ امیر اور غریب میں فرق کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔


"نام کیا رکھا ہے اسکا۔۔۔؟"


وردہ نے اس چھوٹی سی گڑیا کو اپنی باہوں میں لیتے ہوئے پوچھا۔


"چاہت عباس ۔۔۔۔۔اسکے بابا نے رکھا ہے کیونکہ انہیں بیٹی کی بہت زیادہ چاہت تھی۔۔۔"


وردہ مسکرا دی اور چھوٹی سی چاہت کو بہرام اور فرزام کے سامنے کیا۔


"تم دونوں کی زمہ داری ہے یہ سمجھے بڑے بھائیوں کی طرح خیال رکھنا اس کا۔۔۔"


وردہ نے انہیں سمجھایا۔


"کیا میں اسے اٹھا لوں مما؟"


بہرام کے پوچھنے پر وردہ نے ہاں میں سر ہلایا لیکن اس سے پہلے کہ بہرام اسے اٹھاتا فرزام نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔


"سنا نہیں تم نے مما نے کہا میری بہن ہے یہ تمہاری نہیں تم اپنے لیے جہاں سے مرضی لاؤ۔۔"


فرزام نے بہرام کو چڑایا اور بہرام بس دانت کچکچا کر رہ گیا۔تبھی سلیمان اور عباس بھی اس کمرے میں آئے اور سلیمان نے چاہت کو اپنی باہوں میں لے کر ہزار کے کئی نوٹ اسکے ننھے ہاتھ میں پکڑا دیے۔


"مالک یہ ۔۔۔۔"


"بیٹی کو پیار دیا ہے عباس زیادہ کچھ نہیں۔۔۔کبھی بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور بتانا۔۔۔۔"


عباس نے ہاں میں سر ہلایا تو سلیمان نے چاہت کو اسے تھما دیا اور وردہ کو چلنے کا اشارہ کیا۔انکے جاتے ہی عباس سکینہ کی جانب مڑا۔


"بہت اچھے ہیں ناں سلیمان صاحب اللہ انکی خوشیوں کو ہمیشہ قائم رکھے۔۔۔"


سکینہ مسکرا دی اور آہستہ سے آمین کہا لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ سلیمان خانزادہ اور اسکے گھر والوں کی خوشیاں تو بس چند پل کی مہمان تھیں کیونکہ قسمت اپنی اوٹ میں بہت سے وار چھپا کر بیٹھی تھی۔

💞💞💞💞

(حال)

فرزام نے مٹھیاں بھینچ کر اپنے سامنے موجود بیگ ولا کو دیکھا۔وہ آج وہاں تھا جہاں وہ کبھی بھی آنا نہیں چاہتا تھا۔وہ الطاف حیدر بیگ کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔بہرام نے اسے یہاں اپنے ساتھ آنے کے لئے کس طرح منایا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔


"صرف تمہاری خاطر بہرام۔۔۔"


فرزام نے اسے پھر سے یاد دلایا اور خود کے غصے پر قابو رکھتے ہوئے اس گھر میں داخل ہو گیا جہاں سب ان کا انتظار کر رہے تھے۔


"بہت دیر لگا دی آپ دونوں نے آنے میں۔۔۔۔میں تو کافی دیر سے آپ دونوں کا انتظار کر رہا تھا۔"


استقبال کے بعد الطاف نے بہرام کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور مسکرا کر فرزام کی جانب دیکھا۔


"امید ہے سفر اچھا گزرا ہو گا آپ کا؟"


الطاف کے پوچھنے پر فرزام مسکرا دیا۔


"سفر تو اچھا گزرا ہے لیکن منزل کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔۔۔۔"


فرزام کے جواب پر بہرام نے اسے گھورا لیکن وہ فرزام ہی کیا جو کسی کی سنتا۔الطاف نے خاطر تواضع کے دوران انہیں سب گھر والوں سے ملوایا۔فرزام سب سے ہی یوں ملا تھا جیسے ان پر بہت بڑا احسان کر رہا ہو۔


"چلیے آپ دونوں تھوڑا آرام کر لیں ویسے بھی منگنی کا نائٹ فنکشن ہے۔۔۔۔"


انہوں نے بہرام اور فرزام کو ان کا کمرہ دیکھایا۔کمرے میں آتے ہی بہرام فرزام کی جانب مڑا۔


"فرزام ایسے رویے کی وجہ؟"


بہرام کے سوال پر فرزام نے مسکرا کر ایک سگریٹ جیب سے نکالا اور اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔


"جسکا جو مقام ہوتا ہے اسکو وہیں رکھنا عادت ہے فرزام خانزادہ کی۔۔۔"


"میرا مقصد بھی اسے اس کے اصل مقام پر لانا ہے فرزام میں نہیں چاہوں گا کہ تمہارا رویہ میری راہ میں مشکل بنے اس پلیز کچھ عرصہ تمہیں یہ سب برداشت کرنا ہو گا۔۔۔۔"


فرزام کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔


"اب ہر ایک کی برداشت تمہارے جیسی نہیں ہوتی۔تم تو صبر کا مجسمہ ہو ناں تبھی تو چاہت کو چاہنے کے باوجود اسکا دل توڑ کر یہاں کسی اور کے ہونے آ گئے۔۔۔۔"


چاہت کے ذکر پر بہرام نے پلٹ کر اپنے بھائی کو دیکھا۔


"یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟"


"سچ۔۔۔"


فرزام نے عام سے انداز میں کہا۔بہرام اپنی مظبوط مٹھیاں بھینچ چکا تھا۔


"ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔"


ایک طنزیہ مسکراہٹ فرزام کے ہونٹوں پر آئی۔


"کس سے جھوٹ بول رہے ہو مجھ سے یا خود سے۔۔۔۔شاید تم خود سے جھوٹ بول سکتے ہو میرے بھائی لیکن مجھ سے نہیں بول سکتے بکاز آئی ایم یور بیٹر ہاف۔"


فرزام نے شان سے کہا تو بہرام اپنی آنکھیں زور سے میچ گیا۔


"میں نے چاہت کو اس وجہ سے نہیں ٹھکرایا فرزام تم جانتے ہو میں اس کا گناہگار ہوں کیا وہ اسی قابل ہے کہ اسکی بیوی بنے جس نے اسکے باپ کو۔۔۔۔۔"


بہرام اپنی بات کہتے کہتے خاموشی ہو گیا۔فرزام نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا۔


"اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں تھی بہرام؟"


بہرام نے سرد مہری سے اسے دیکھا۔


"کس سے جھوٹ بول رہے ہو مجھ سے یا خود سے ؟"


فرزام اسکی بات پر خاموش ہو گیا۔


"وہ سب بھول جاؤ فرزام اب ہمارا بس ایک ہی مقصد ہے الطاف بیگ کی بربادی اور تمہارے ساتھ کے بغیر میں کچھ نہیں بکاز یو آر مائے بیٹر ہاف ۔۔۔۔۔"


فرزام نے سنجیدگی سے بہرام کو دیکھا اور پھر ہاں میں سر ہلایا۔


"فی الحال میں باہر جا رہا ہوں شام تک واپس آ جاؤں گا۔۔۔۔"


بہرام نے ہاں میں سر ہلایا تو فرزام خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔وہ بس کچھ پل کے لیے الطاف بیگ کے سائے سے بھی دور جانا چاہتا تھا تا کہ اپنے اندر ابلتے غصے کو کم کر سکے۔

💞💞💞💞

"واو مناہل جسٹ لک ایٹ یو کتنی زیادہ پیاری لگ رہی ہو تم؟"


حبہ کی آواز پر مناہل نے خود کو آئینے میں دیکھا۔ہلکے گلابی رنگ کے فراک میں ملبوس مناسب سے میک اپ اور ہلکی وائٹ جیولری کے ساتھ وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔


مناہل کبھی تیار نہیں ہوئی تھی اس لیے اب زرا سی تیاری بھی اسے کوئی حسین پری بنانے کے لیے کافی تھی۔


"تم تو کسی کی بھی چاہت بن جاؤ۔۔۔۔بہرام خانزادہ تو گیا کام سے۔۔۔۔"


حبہ نے شرارت سے کہا۔


"تم کسی کی چاہت نہیں ہو سکتی لڑکی تم پر لگا داغ تمہیں کسی کے قابل نہیں رہنے دے گا۔ہر کوئی تمہیں برا سمجھے گا۔۔۔۔"


مناہل کے ذہن میں کسی کے الفاظ گونجے تو وہ کرب سے اپنی آنکھیں میچ گئی۔آنسو نکلنے کو بے تاب ہو رہے تھے۔


"سب تیاری ہو گئی؟"


شیزہ کی آواز پر حبہ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


"جی پھوپھو اور دیکھیں مناہل کتنی پیاری لگ رہی ہے۔۔۔ "


شیزہ نے مناہل کو سر سے کے کر پیر تک دیکھا۔


"ہمم۔۔۔۔ٹھیک ہے تم جاؤ حبہ میں مناہل کے پاس ہی ہوں۔۔۔۔"


حبہ نے ہاں میں سر ہلا کر خود کو آخری بار آئنے میں دیکھا اور اپنے بال سنوار کر وہاں سے چلی گئی۔شیزہ اسکے جاتے ہی مناہل کے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی۔


"یہ رشتہ ہمارے خاندان اور بزنس کی بقا کے لیے بہت زیادہ اہم ہے امید ہے تم اسے کسی بیوقوفی کی وجہ سے برباد نہیں کرو گی۔۔۔۔۔"


مناہل نے آئینے میں ایک نظر اپنی پھپھو کو دیکھا اور آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا۔


"کچھ پریشانی ہے؟"


مناہل نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔شیزہ نے اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔


"اگر تم کچھ چھپا رہی ہو تو یہ جان لو کہ راز رکھنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے بس یہ یاد رکھنا کہ سامنے والا تمہارے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اگر تم اسے نہیں بتاؤ گی تو اسے بتانے والا کوئی بھی نہیں۔۔۔"


مناہل نے پھر سے ہاں میں سر ہلا دیا۔اس وقت اسے اپنا آپ صرف ایک زندہ لاش لگ رہا تھا۔شیزہ نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ خود کو تنہا پاتے ہی بہت سے آنسو مناہل کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔


خود کو یہ ہفتہ اس سب کے لیے اس نے کیسے تیار کیا تھا یہ وہی جانتی تھی۔یہ بات اپنے شوہر سے چھپانا اسے اسکی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف لگ رہا تھا۔ویسے بھی شادی کے بعد اگر وہ مناہل کی قربت چاہتا تو وہ اپنے اس خوف پر کیسے قابو پاتی۔


وہ تو کسی کا لمس بھی برداشت نہیں کر پاتی تھی تو کیسے سمجھاتی وہ اپنے شوہر کہ وہ کیوں اس سے اس قدر ڈرتی ہے۔۔۔۔یا پھر وہ اس ڈر کو کیسے چھپاتی۔


مناہل اپنی ہی سوچوں میں گھری تھی جب اچانک سے لائٹ چلی گئی۔ہر طرف مکمل اندھیرا چھا جانے پر مناہل گھبرا گئی اور باہر کے دروازے کی جانب جانے لگی جب اسکے کانوں میں ملازم کی آواز پڑی۔


"شائید کوئی مسلہ ہو گیا ہے لائٹ میں ہم دیکھتے ہیں سر۔۔۔۔"


یہ سن کر مناہل اپنی جگہ پر رک گئی اور لائٹ آنے کا انتظار کرنے لگی۔اسے اندھیرے سے بہت زیادہ ڈر لگتا تھا لیکن پھر بھی وہ باہر سب کے سامنے نہیں جانا چاہ رہی تھی۔


اچانک کہیں سے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی۔اسے ایسا لگا کہ کہ اس کے علاوہ کمرے میں کوئی اور بھی داخل ہوا تھا۔وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ کمرے میں کون تھا لیکن خوف سے اسکی آواز گلے میں دب چکی تھی۔


تبھی لائٹر کی ہلکی سی روشنی اسکے قریب نمودار ہوئی اور اس کا سامنا دو سیاہ آنکھوں سے ہوا۔


فرزام جو ابھی یہاں واپس آیا تھا تیار ہونے کے لیے اپنے کمرے کی جانب جا رہا تھا۔پریشانی کی بات تو یہ تھی کہ تب غصے میں ہونے کی وجہ سے اس نے جگہ کو غور سے نہیں دیکھا تھا اس لیے اب اپنے کمرے کا رستہ بھول چکا تھا۔


پہلے اس نے سوچا کہ کسی سے پوچھ لے لیکن پھر ایک دروازہ دیکھ کر اسکی جانب بڑھ گیا کیونکہ وہ دروازہ اسے جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔


اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھولتا سب لائٹیں بند ہو گئیں اور ملازم نے بتایا کہ شائید کوئی مسلہ ہو گیا ہے۔وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا لیکن اندھیرے میں کچھ دور جانے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ وہاں کوئی اور بھی تھا۔


فرزام نے جیب سے لائٹر نکال کر جلایا تو ہلکی سی روشنی میں اسکی پہلی نظر دو آنسوؤں سے تر سہمی نگاہوں پر پڑی اور پھر نظر بھٹکتے ہوئے معصوم چہرے کے ان نازک ہونٹوں پر پڑی جو خوف کے مارے ہلکے ہلکے پھڑپھڑا رہے تھے۔


وہ جو کوئی بھی تھی اس وقت ایک معصوم پری کی ماند فرزام کے سامنے کھڑی تھی اور فرزام پلک جھپکنا تک بھول چکا تھا۔اسے لگا کہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس نے پلکیں بند کیں تو یہ پری اسکے سامنے سے غائب ہو جائے گی۔


تبھی تمام لائٹیں پھر سے چل گئیں اور فرزام کی نظر ٹھیک سے اس معصوم حسن پر پڑی جو اسکی موجودگی میں خوف سے کانپ رہی تھی۔


"کون ہو تم؟"


فرزام کے پوچھنے پر وہ مزید گھبرا گئی اور سہم کر دو قدم پیچھے ہو گئی۔مناہل ایک پل میں اس شخص کو پہچان چکی تھی وہ اسکے ہونے والے منگیتر کا جڑواں بھائی تھا لیکن اس سے بات کرنے کی ہمت وہ چاہ کر بھی اکٹھی نہیں کر پا رہی تھی۔


"مناہل۔۔۔"


حبہ کی آواز پر مناہل نے گھبرا کر اسے دیکھا اور بھاگنے والے انداز میں اسکے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی جیسے کہ خود کو چھپانا چاہ رہی ہو۔


"ارے مسٹر فرزام آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"


حبہ نے ایک دلکش مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجا کر کہا لیکن فرزام کی نظر ابھی بھی مناہل پر تھی جسکا یوں اس سے چھپنا اسے بہت ناگوار گزرا تھا۔


" آئی تھاٹ اٹ واز مائی روم۔۔۔"


فرزام بات تو حبہ سے کر رہا تھا لیکن نظریں مناہل پر تھیں۔


"نہیں یہ آپ کا روم نہیں مناہل کا ہے پر اچھا ہے آپ یہاں آ گئے میں آپ کو انٹروڈیوس کروا دیتی ہوں۔"


حبہ مناہل کی جانب مڑی جو سہم کر اسکے پیچھے کھڑی تھی۔


"مناہل یہ فرزام خانزادہ ہیں بہرام خانزادہ کے جڑواں بھائی اور فرزام یہ مناہل ہے بہرام کی ہونے والی فیانسی۔۔۔"


فرزام نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور اسکو اس طرح سے دیکھنے پر خود پر ہزار بار لعنت بھیجی۔


"میں تو یہاں مناہل کو لینے آئی تھی لیکن آپ کہتے ہیں تو آپ کو آپ کا روم دکھا دیتی ہوں۔۔۔۔"


حبہ نے ایک ادا سے بال اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔اس کے ہر انداز سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ فرزام کے ساتھ فلرٹ کر رہی تھی۔فرزام گہرا سانس لے کر رہ گیا۔


"بس یہی رہ گیا تھا تمہاری قسمت میں فرزام خانزادہ ۔۔۔۔"


فرزام نے آہستہ سے کہا اور بہرام والی سختی اپنے چہرے پر سجا کر حبہ کو دیکھا۔


"نو تھینکس اپنا راستہ خود ڈھونڈ لوں گا۔"


اتنا کہہ کر فرزام کمرے سے نکل آیا اور ملازم سے پوچھ کر سیدھا اپنے کمرے کی جانب آ گیا۔کمرے میں آتے ہی اس نے غصے سے ایک ٹانگ پاس پڑی کرسی کو ماری۔


وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اسے اس قدر غصہ کیوں آرہا تھا۔اس بات میں حبہ کا تو کوئی قصور نہیں تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ فرزام اس کا بھا۔۔۔


فرزام نے اپنی سوچوں کا تسلسل توڑا اور جلدی سے تیار ہو کر مین ہال میں آگیا جہاں سب منگنی کے فنکشن کے لیے موجود تھے۔


فرزام ایک کونے میں کھڑا ہو گیا اور سگریٹ نکال کر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے بہرام کے ساتھ بیٹھی مناہل کو دیکھنے لگا جو ایسے لگ رہا تھا کہ بس وہاں سے غائب ہونا چاہتی ہے۔


"چلیں دیر کیے بغیر منگنی شروع کرتے ہیں۔۔۔"


الطاف نے مسکرا کر کہا تو بہرام نے ایک انگوٹھی اپنی جیب سے نکالی اور اپنا ہاتھ مناہل کے سامنے کر دیا۔مناہل نے اپنا کپکپاتا ہاتھ بہرام کو پکڑا دیا تو بہرام نے خاموشی سے وہ انگوٹھی اسے پہنا دی۔


جبکہ مناہل کا نازک ہاتھ بہرام کے ہاتھ میں دیکھ کر آج پہلی مرتبہ فرزام کو اپنے بھائی سے نفرت ہوئی تھی اور یہ وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ ایسا کیوں ہوا تھا۔جبکہ فرزام کی طرح کوئی اور بھی نفرت سے بہرام کو دیکھ رہا تھا۔


منگنی ہونے کے بعد ہر طرف مبارکباد کا شور مچ گیا۔اس سب میں اگر کوئی خوش نظر آ رہا تھا تو وہ صرف الطاف بیگ تھا جو اب بہرام کے قریب سے اٹھ کر مہمانوں کی جانب مڑا تھا۔


"میری طرف سے بہرام اور میری جان سے پیاری بھتیجی کو منگنی کی بہت زیادہ مبارک ہو۔۔۔۔لیکن ایک خوشخبری ہے جو کافی دیر سے آپ لوگوں سے بانٹنے کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔"


سب نے الطاف کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"میں نے اور بہرام نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔"


الطاف نے ایک نظر بہرام کو دیکھا جس نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔


"ہم نے سوچا ہے کہ منگنی کوئی اتنا بھی مضبوط رشتہ نہیں جس کی بنا پر ہم کافی عرصہ انتظار کر سکیں اس لیے کل شام بہرام اور مناہل کا نکاح ہوگا۔۔۔۔"


فرزام نے حیرت سے بہرام کو دیکھا جس نے نظروں سے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا جبکہ یہ بات سن کر بہرام کے پہلو میں بیٹھی مناہل کا سانس سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔


"لیکن بھائی اتنی جلدی یہ سب ؟"


فیض نے بہت مشکل سے اپنی نفرت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔


"یہ میرا اور بہرام دونوں کا فیصلہ ہے امید کرتا ہوں کہ کسی کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔۔۔"


فیض الطاف کی آواز میں چھپی وارننگ محسوس کر سکتا تھا اس لئے خاموش ہو گیا لیکن فرزام پھر سے وہاں سے ہٹا اور گھر سے باہر نکل گیا۔وہ بعد میں بہرام سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اس نے اس سے پوچھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا ۔

💞💞💞💞

چاہت لائٹ بند کیے اپنے کمرے میں لیٹی تھی۔اتنے دن ہو گئے تھے اسے یہاں اسی حال میں رہتے ہوئے ۔پہلے کی طرح ہنسنا اور چہچہانا تو دور کی بات وہ نہ تو کسی سے بات کرتی تھی اور نہ ہی اتنے دنوں سے کالج گئی تھی بس خاموشی سے اپنے کمرے میں لیٹی رہتی۔


اسے بچپن سے اب تک کا ہر لمحہ یاد آنے لگا۔کیسے بہرام کا اپنے گھر آنا یا چاہت کا اس کے گھر جانا عید کے مترادف ہوتا تھا۔اس معصوم نے تو محبت لفظ کا مطلب سمجھنے سے پہلے بہرام خانزادہ کو چاہا تھا۔


وہ بہرام خانزادہ جو سے ایک بچے کی طرح ٹریٹ کرتا تھا۔اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔اسے تحفظ کا احساس دلاتا تھا چاہے جانے کا احساس دلاتا تھا لیکن وہی بہرام خانزادہ ایک پل میں اس کا ہر احساس ختم کر چکا تھا۔


"چاہت میری جان اٹھو کھانا کھا لو۔۔۔"


سکینہ نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو چاہت خاموشی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔اس دن بہرام کے گھر سے آنے کے بعد چاہت کتنی ہی دیر سکینہ کی گود میں سر رکھ کر روتی رہی تھی۔


سکینہ سے اپنی لاڈلی کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔لیکن وہ بھی کیا کر سکتی تھیں۔چاہت خاموشی سے بیٹھ گئی تو سکینہ خود نوالے توڑ کر اس کے منہ میں ڈالنے لگیں۔


"بس۔۔۔"


تھوڑا سا کھا کر چاہت نے سکینہ کا ہاتھ روک دیا اور سکینہ کہ لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اس نے کچھ کھایا تو تھا۔وہ اٹھ کر برتن لے جانے لگیں جب انکے کانوں میں چاہت کی آواز پڑی۔


"خان جی سے بات ہوئی آپ کی؟"


سکینہ نے بے بسی سے اپنی بیٹی کو دیکھا پھر اس معاملے کو ختم کرنے کا سوچا۔


"ہاں ہوئی تھی۔۔۔"


"منگنی ہو گئی ان کی۔۔۔۔؟"


چاہت کی آواز میں بہت زیادہ کرب تھا،بہت زیادہ دکھ۔


"ہاں ہو گئی۔۔۔۔"


چاہت نے لال آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھا۔انکھوں میں آنسو لیکن ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ تھی۔


"مبارک دے دینا ان کو۔۔۔"


چاہت نے آنکھیں میچ لیں تو آنسو اسکے گال پر بہنے لگے۔


"کل نکاح ہے اس کا۔۔۔ "


چاہت نے حیرت سے سکینہ کو دیکھا۔


"اس نے سوچا کہ بات پکی ہو جائے گی۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر سکینہ وہاں سے چلی گئی لیکن چاہت سانس تک لینا بھی بھول چکی تھی۔سکینہ اس کے ساتھ آ کر لیٹ گئیں لیکن چاہت اپنے بستر پر مردہ حالت میں بیٹھی رہی تھی۔

پھر کچھ سوچ کر اس نے آنسو پونچھے اور اٹھ کر الماری میں سے اپنی چادر نکال کر کچھ پیسے پکڑ لیے۔ایک نگاہ اپنی سوئی ماں پر ڈالی اور خاموشی سے گھر سے نکل کر گئی۔

کچھ دور آ کر اس نے ایک ٹیکسی لی اور اسے پتہ بتا کر ایک اپارٹمنٹ کے باہر آئی جس کے بارے میں اسے اس کی دوست نے بتایا تھا۔پہلے تو وہ کھڑی ہو کر سوچتی رہی پھر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک لڑکا باہر آیا۔

"جی۔۔۔۔؟"

"مجھے سیفی سے ملنا ہے۔۔۔"

اس لڑکے نے چاہت کو سر سے لے کر پیر تک دیکھا پھر ہاں میں سر ہلا کر اندر چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد ہی سیفی باہر آیا۔

"چاہت تم یہاں؟"

سیفی چاہت کو دیکھ کر اس قدر حیران ہوا کہ اسے ہمیشہ کی طرح چاہت کو چھیڑنے کا دھیان ہی نہیں رہا۔

"تم سے کام تھا۔۔۔۔"

چاہت نے سپاٹ سے انداز میں کہا۔سیفی کو اسکی حالت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔

"ٹھیک ہے اندر چلو۔۔۔"

چاہت نے انکار میں سر ہلایا پھر کچھ سوچ کر نگاہیں اٹھائیں اور آنسوؤں سے تر آنکھوں سے سیفی کو دیکھا۔

"کیا میں تمہیں اچھی لگتی ہوں؟"

سیفی اس کے سوال پر مزید حیران ہو گیا۔وہ لڑکی جسے وہ کالج میں اس کی خوبصورتی اور معصومیت کی وجہ سے تنگ کرتا تھا آج اس کے سامنے کھڑے ہوکر اسے پوچھ رہی تھی کہ کیا وہ اسے پسند کرتا ہے۔

"ہاں کرتا ہوں کوئی اندھا ہی ہوگا جو تم جیسی بلا کو پسند نہ کرے۔۔۔"

سیفی نے اسے سر سے لے کر پیر تک خباثت سے دیکھتے ہوئے کہا۔اس کے دیکھنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ چاہت کو چادر میں بھی اپنا آپ بے لباس لگ رہا تھا۔

"تو کیا تم مجھ سے شادی کرو گے؟کل ہی ؟"

سیفی کی آنکھیں اسکے سوال پر ابل کر باہر آنے کو تیار تھیں۔کیا یہ وہی لڑکی کہہ رہی تھی جو اسکے سائے سے بھی نفرت کرتی تھی۔

نکاح کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں امید ہے شام تک آپ اور آپ کے بھائی بھی تیار ہونگے۔۔۔۔"

الطاف جو اس وقت بہرام کے ساتھ اپنے گھر کے لاونج میں بیٹھا تھا اسے تمام تیاری سے آگاہ کرنے لگا۔


"جی ہم تیار ہوں گے آپ فکر مت کریں۔"


بہرام نے سرد مہری سے کہا۔الطاف اسکی بات پر زرا سا مسکرا دیا۔


"اوہ تو پھر جو پارٹنرشپ ہمارے درمیان ہونی تھی اسکا پراسیس۔۔۔"


"اتنی بھی کیا جلدی ہے بیگ صاحب نکاح کے بعد اس سب کی طرف ہی جائیں گے ہم۔۔۔۔"


الطاف نے ہاں میں سر ہلایا۔


"مجھے ہمارے پھر سے ایک ہونے پر بہت زیادہ خوشی ہے یقین جانیں سلیمان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا تھا میرا۔۔۔"


بہرام نے اسکی بات پر صرف اثبات میں سر ہلایا۔


"اور ہمارا وقت اس سے بھی زیادہ اچھا گزرے گا۔۔۔۔"


الطاف کی مسکراہٹ اسکی بات پر گہری ہو گئی۔


"ضرور۔۔۔اچھا اب میں زرا باقی کے انتظامات دیکھ لوں آپ تب تک آرام کر لیں۔۔۔"


الطاف نے گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا اور مسکرا کر وہاں سے چلا گیا اسکے جاتے ہی بہرام کی آنکھوں میں بے پناہ نفرت اتری تھی۔


"تمہاری اس خوشی کو بہت جلد تمہاری بربادی بنا دوں گا۔۔۔۔"


بہرام نے آہستہ سے خود سے کہا۔


"تیار رہنا الطاف بیگ بیت جلد تم سڑک پر آنے والے ہو۔۔۔"


اچانک ہی بہرام کی جیب میں موجود اسکا موبائل بجنے لگا۔اس نے موبائل نکال کر دیکھا تو اس میں سکینہ کا نمبر دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔


"اسلام و علیکم اماں جی۔۔۔۔"


بہرام نے موبائل کان سے لگاتے ہی کہا لیکن سکینہ کے رونے کی آواز نے اسے بہت زیادہ بے چین کر دیا۔


"اماں جی کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے ناں؟"


بہرام نے بہت زیادہ پریشانی سے پوچھا جبکہ سکینہ مسلسل رو رہی تھیں۔


"سب ٹھیک نہیں ہے بیٹا۔۔۔۔۔چاہت۔۔۔"


چاہت کے ذکر پر بہرام کا دھڑکتا دل ایک پل کو رک گیا۔


"کیا ہوا چاہت کو وہ ٹھیک تو ہے ناں؟"


بہرام نے بے چینی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔


"نہیں ٹھیک وہ بیٹا پاگل ہو گئی ہے۔۔۔اپنے کالج کے لڑکے سے نکاح کرنے جا رہی ہے اور وہ بھی وہ لڑکا جو انتہائی آوارہ ہے اور اسے کالج میں چھڑا کرتا تھا۔۔۔۔۔"


یہ بات سن کر بہرام کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔


"لیکن چاہت کیسے اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے وہ صرف سترہ سال کی ہے قانون اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔"


اس بات پر سکینہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئیں۔


"تین دن پہلے اسکی سالگرہ تھی بیٹا اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے وہ۔۔۔"


بہرام کو خود پر بے تحاشا افسوس ہوا اپنی پریشانی میں وہ پہلی مرتبہ چاہت کا برتھ ڈے بھول گیا تھا۔


"اب وہ میری ایک نہیں سن رہی بہرام،میں نے پیار سے،غصے سے ہر طرح سے کہہ کر دیکھا ہے لیکن وہ کہتی ہے میں نے اسے روکا تو اپنی جان لے لے گی۔۔۔۔"


اماں جی روتے ہوئے کہہ رہی تھیں اور ان کی باتیں سن کر بہرام کا دل کر رہا تھا کہ کسی کی جان لے لے۔


"آپ فکر مت کریں میں وہاں آ رہا ہوں اسے ایسی بیوقوفی نہیں کرنے دوں گا لیکن آپ پلیز پریشان مت ہوں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام نے فون بند کر دیا اور سیدھا اپنے کمرے میں جاکر ضروری چیزیں پیک کرنے لگا۔


"آپ نے بلایا تھا سر۔۔۔۔"


بہرام کے گارڈ نے کمرے میں آکر پوچھا جسے بہرام نے ایک ملازم کے ہاتھ پیغام بھجوایا تھا۔


"ہاں رشید میری ایک ارجینٹ اسلام آباد کی ٹکٹ کنفرم کرواؤ۔۔۔۔"


رشید نے حیرت سے اپنے مالک کو دیکھا جو اپنے نکاح والے دن اچانک اسلام آباد جانے کی بات کر رہا تھا۔پھر اس نے موبائل نکالا اور ایک ایجنٹ کو کال کرکے ٹکٹ بک کروائی۔


"ایک گھنٹے میں اسلام آباد کی پہلی فلائٹ جا رہی ہے سر۔۔۔۔"


بہرام نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنا سامان پکڑ کر ملازم کی جانب مڑا۔


"میں شام تک واپس آنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم یہیں رکو۔"


رشید مزاحمت کرنا چاہتا تھا لیکن بہرام نے اسے بولنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔


"فرزام کو میں فون کر رہا ہوں لیکن وہ اٹھا نہیں رہا نہ جانے صبح سے کہاں آوارہ گردی کرنے چلا گیا ہے۔۔۔۔"


بہرام نے زرا غصے سے کہا۔


"تم یہیں رکو اور جیسے ہی وہ گھر واپس آئے تو اسے بتانا کہ مجھے ایک ضروری کام سے اسلام آباد جانا پڑ گیا ہے اور شام تک واپس آ جاؤں گا۔۔۔۔"


رشید کے اثبات میں سر ہلانے پر بہرام دروازے کی جانب بڑھ گیا پھر کچھ سوچ کر واپس رشید کی طرف مڑا۔


"فرزام کا خیال رکھنا اس کی ذمہ داری تم پر ہے۔۔۔۔"


رشید نے پھر سے عاجزی سے اثبات میں سر ہلا اور بہرام اس خاموشی سے گھر سے نکل گیا کہ کسی کو بھی اس کے جانے کی خبر نہیں ہوئی۔اسے بس جلد از جلد اسلام آباد پہنچ کر چاہت کو یہ بیوقوفی کرنے سے روکنا تھا۔

💞💞💞💞

چاہت تیار ہوکر خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی۔سفید رنگ کی جالی دار فراک پہنے وہ نازک سی پری سادگی میں بھی بہت زیادہ دلکش لگ رہی تھی لیکن چہرے پر بے تحاشہ افسردگی اس کے دل کا ہر حال بیان کر رہی تھی۔


"چاہت میں کہہ رہی ہوں ایسا مت کرو تمہیں میری قسم۔۔۔۔"


سکینہ نے ایک مرتبہ پھر سے کوشش کی۔صبح جب چاہت نے اپنے نکاح کی بات کرکے ان پر بم گرایا تھا تب سے اب تک وہ کتنی ہی بار چاہت کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کر چکی تھیں۔


"میں تیار ہوں آپ بھی تیار ہو جائیں سیفی کسی بھی وقت ہمیں یہاں لینے پہنچتا ہوگا۔۔۔"


چاہت نے سنجیدگی سے کہا اور اپنی کالی چادر اٹھا کر اپنے گرد لپیٹ لپیٹ لی۔


"تم اس لڑکے سے کیسے شادی کر سکتی ہو چاہت جو تمہیں کالج میں پریشان کیا کرتا تھا میں کیسے اپنی اکلوتی بیٹی کو ایک آوارہ کے پلّے بندھتا دیکھ لوں میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گی۔۔۔"


چاہت نے گھائل نظروں سے اپنی ماں کو دیکھا۔


"تو ٹھیک ہے آپ گھر رہیں میں اکیلی چلی جاؤں گی۔۔۔۔"


سکینہ حد سے زیادہ بے بس ہو چکی تھیں۔


"میری چھوٹی سی گڑیا آج اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ میری مرضی کے بغیر اپنے فیصلے لینے لگ گئی۔۔۔"


سکینہ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا چاہت ان کے پاس آئی اور ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔


"آپ کی اس چھوٹی سی گڑیا کو کسی نے بہت بے دردی سے توڑ دیا اماں اب میں وہ گڑیا نہیں رہی۔۔۔"


سکینہ نے لا چارگی سے چاہت کو دیکھا وہ اسے سمجھانا چاہتی تھیں یہ بیوقوفی کرنے سے روکنا چاہتی تھیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں دروازہ کھٹکنے کی آواز پر چاہت نے دروازے کی جانب دیکھا۔


"لگتا ہے سیفی آ گیا۔۔۔"


چاہت نے اپنے گرد چادر ٹھیک کی۔


"میں باہر اس کے ساتھ آپ کا انتظار کروں گی اگر اب دس منٹ میں باہر آ گئیں تو میں سمجھ جاؤں گی کہ آپ کو بہرام خانزادہ سے زیادہ اپنی بیٹی پیاری ہے۔۔۔۔"


چاہت نے اتنا کہا اور باہر چلی گئی۔سکینہ بہت دیر بے بسی سے آنسو بہاتی رہیں پھر انہوں نے بھی اپنی چادر پکڑ کر سر پر لی اور چاہت کے ساتھ باہر آ گئیں جہاں ایک لڑکا چاہت کے قریب کھڑا تھا۔


اس کی آنکھوں سے ہی چاہت کے لیے ہوس صاف ٹپک رہی تھی اگر وہ یہ نکاح کر رہا تھا تو صرف اپنا مطلب پورا کرنے کے لیے۔


"یا اللہ میری بیوقوف بیٹی کو ہدایت دینا اسے اچھے برے کا نہیں پتہ میرے مولا اسکی حفاظت کرنا۔۔۔۔"


سکینہ نے دعا کی اور خاموشی سے چاہت کے ساتھ ٹیکسی کے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔سیفی نے ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر اسے نادرا آفس جانے کا کہا کیونکہ انہیں پہلے چاہت کا شناختی کارڈ لینا تھا۔


سکینہ بس دعائیں کر رہی تھیں کہ کسی طرح یہ نکاح ہونے سے پہلے بہرام یہاں آ جائے اور چاہت کو ایسا کرنے سے روک لے۔انہوں نے نادرا سے شناختی کارڈ لیا اور پھر رجسٹرار کے آفس کی جانب چل دیے۔


"نکاح کے پیپرز میں نے صبح ہی تیار کروا لیے تھے بس جلدی سے کام ختم کرنا ہے اب۔۔۔۔"


سیفی کی آواز ٹیکسی میں گونجی۔


"میں نے اپنے گھر والوں کو تو ابھی نکاح کے بارے میں نہیں بتایا وہ کیا ہے ناں میرے ابا گاؤں میں چوہدری ہیں انہیں پتہ لگا تو برا مان جائیں گے خیر تم آج میرے ساتھ چلنا ہم کچھ وقت ساتھ گزاریں گے اور پھر جا کر میرے گھر والوں کو بھی سب بتا دیں گے۔۔۔۔"


سیفی نے کار کے فرنٹ مرر سے چاہت کو دیکھتے ہوئے کہا جس نے جواب میں بس ہاں میں سر ہلا دیا جبکہ سکینہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنی بچی کو اسکی غلیظ نظروں سے کہیں چھپا لیں۔


رجسٹرار کے آفس پہنچ کر سیفی دفتر چلا گیا تا کہ پوچھ سکے کہ سب تیار ہے یا نہیں۔


"آخری بار سوچ لے چاہت یہ پوری زندگی کا معاملہ ہے میرا بچہ اپنی زندگی یوں برباد مت کرو۔۔۔"


ایک گھائل مسکراہٹ چاہت کے ہونٹوں پر آئی۔


"جو پہلے ہی برباد ہو وہ خود کو کیا برباد کرے گا۔۔۔"


تبھی سیفی مسکراتے ہوئے وہاں آیا اور کار کا دروازہ کھولا۔


"چلیں بھئی سب تیاری مکمل ہے۔آپ بھی آ جاؤ اماں جی آپکی گواہی ڈلے گی۔۔۔"


سیفی کی بات پر چاہت نے کرب سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔اس نے ہمیشہ سے خود کو بس بہرام کے لیے سوچا تھا اور ابھی کسی اور کا ہونا اسکے لیے کس قدر اذیت ناک تھا یہ وہی جانتی تھی۔


لیکن وہ چاہتی تھی کہ بہرام جب نکاح کرکے واپس آئے تو اسے پتہ چلے کہ کیسے چاہت نے خود کو اسکی وجہ سے برباد کر لیا تھا۔


"ہم چلو۔۔۔"


چاہت نے آہستہ سے کہا اور گاڑی سے باہر نکل آئی۔سکینہ بھی باہر نکل کر بے بسی سے اسکے ساتھ چل دیں۔وہ سب رجسٹرار کے آفس کی جانب چل دیے لیکن آفس کے راستے میں ایک گاڑی کھڑی دیکھ کر سیفی حیران ہو گیا۔


"ہیے مسٹر اپنی گاڑی ہٹاؤ یہاں سے۔۔۔"


سیفی نے کار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے آدمی سے کہا جو اسے ایسے گھور رہا تھا جیسے اسے یہیں زندہ درگو کر دے گا۔


"اپنا منہ بند رکھو ورنہ گاڑی کا تو پتہ نہیں البتہ تمہیں ضرور راستے سے ہٹا دوں گا۔"


اس گھمبیر آواز پر چاہت نے حیرت سے نگاہیں اٹھا کر بہرام خانزادہ کو دیکھا جس کی آنکھوں سے غضبناک شرارے نکل رہے تھے۔سکینہ نے تو بہرام کو دیکھ کر ہی خدا کا شکر ادا کیا تھا۔


"خان جی آپ یہاں؟"


چاہت کے حیرت سے پوچھنے پر بہرام اپنی کار کے پاس سے ہٹا اور چاہت کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔


"گاڑی میں بیٹھو تم ابھی اور اسی وقت گھر واپس جا رہی ہو۔۔۔"


چاہت بے یقینی سے اس سنگ دل آدمی کو دیکھنے لگی جو کتنے حق سے یہ بات کہہ رہا تھا۔


"نہیں میرا نکاح ہے اور نکاح ہونے کے بعد میں اپنے گھر جاؤں گی۔۔۔"


چاہت نے بہادری سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سیفی کا ہاتھ پکڑ لیا جبکہ بہرام نے دانت کچکچا کر اسکا وہ نازک ہاتھ اس لڑکے کے ہاتھ میں دیکھا۔


"تم نے سنا نہیں چاہت کہ میں نے کیا کہا تم گھر جا رہی ہو۔۔۔کوئی نکاح نہیں ہو رہا یہاں۔اپنی اس بے وقوفی کو ختم کرو اب۔۔۔"


بہرام نے سختی سے کہا اور آگے بڑھ کر چاہت کا ہاتھ پکڑ کر سیفی کے ہاتھ سے چھڑوا دیا۔


"کس حق سے روک رہے ہیں آپ مجھے ہاں؟آپ کا کوئی حق نہیں بنتا مجھ پر جائیں اور اپنی اس بیوی پر حق جتائیں آپ۔"


بہرام نے اب کی بار اسکا بازو سختی سے اپنی گرفت میں لے لیا۔اسکے لمس میں اتنی سختی تھی کہ چاہت نے بہت مشکل سے اپنی سسکی کو روکا۔


"شٹ اپ چاہت ۔۔۔۔اپنی اس بیوقوفی کو فوراً ختم کرو اور شرافت سے گھر واپس چلو تم۔۔۔۔"


چاہت نے بھی سختی سے اپنا بازو چھڑوا لیا۔


"نہیں جاؤں گی میں یہاں سے۔۔۔۔آپ نے کہا تھا کہ میں آپ کے قابل نہیں تو میں نے اپنی اوقات کے مطابق شوہر ڈھونڈ لیا ہے اب مجھے یہ شادی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔"


چاہت بہرام سے دور ہو کر سیفی کے پاس جانے لگی لیکن بہرام نے پھر سے اسکا بازو پکڑ کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔


"تم یہ نکاح نہیں کر رہی چاہت سنا تم نے۔۔۔۔"


بہرام اتنے غصے سے چلایا کہ اردگرد موجود ہر شخص حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔


"کیوں نہیں؟جب آپ اس سے نکاح کر سکتے ہیں تو میری مرضی میں جس سے چاہے شادی کروں آپ کے پاس مجھے روکنے کا کوئی حق نہیں ۔۔۔۔ "


چاہت نے بھی بغیر ڈرے غصے سے کہا اور آگے بڑھ کر سیفی کا ہاتھ پکڑ لیا۔


"چلو سیفی ہمیں وقت نہیں ضائع کرنا۔۔۔۔"


چاہت نے بہرام کو دیکھتے ہوئے کہا اور رجسٹرار کے دفتر کی جانب چل دی۔ابھی وہ کچھ قدم ہی چلے تھے جب بہرام آگے بڑھا اور سیفی کو گریبان سے جکڑ لیا۔


"چلے جاؤ یہاں سے یہی بہتر ہو گا تمہارے حق میں۔۔۔"


اسکی آنکھوں میں یہ غصہ دیکھ کر سیفی گھبرا گیا مگر چاہت نے سیفی کا گریبان بہرام کے ہاتھوں سے چھڑایا اور خود اسکے سامنے ہو گئی۔


"نہیں جائے گا وہ یہاں سے۔۔۔۔اگر آپ کو یہ نکاح اتنا ہی برا لگ رہا ہے تو آپ چلے جائیں بہرام خانزادہ اور جا کر اس سے نکاح کر لیں جو آپ کے قابل ہے کیونکہ میں غریب اپنی اوقات کے مطابق شوہر ڈھونڈ چکی ہوں۔۔۔۔"


بہرام نے آنکھیں چھوٹی کر کے چاہت کو دیکھا۔انکھوں میں غصے کے شرارے دوڑ رہے تھے لیکن وہ بھی چاہت کو ڈرانے کے لیے نا کافی تھے۔اچانک ہی بہرام نے انتہائی سختی سے چاہت کو دونوں کندھوں سے پکڑ لیا۔


"ٹھیک ہے تمہیں نکاح کرنے کی اتنی ہی بے چینی ہے ناں تو تمہارا نکاح اسی وقت ہو گا لیکن اس سے نہیں بہرام خانزادہ سے۔۔۔۔"


بہرام کی بات پر چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔وہ بت بن کر بس اسے تکنے لگی۔


"بہت شوق تھا ناں تمہیں میری ہونے کا تو مبارک ہو چاہت عباس آج تم بہرام خانزادہ کی ہو جاؤ گی لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔۔"


بہرام ایک پل کو رکا اور اپنے دائیں ہاتھ میں اسکا خوبصورت چہرہ دبوچ لیا۔


"اپنی اس ضد کی وجہ سے زندگی کا ہر پل پچھتاؤ گی تم۔۔۔۔"


بہرام نے انتہائی زیادہ غصے سے کہا اور اسے بازو سے کھینچتا رجسٹرار کے آفس کی جانب چل دیا۔چاہت اسکی بے خودی پر حیران تھی لیکن اندر ہی اندر سے خوش بھی ۔اسکے لیے تو یہی کافی تھا کہ جسے وہ جی جان سے چاہتی تھی وہ اسکی ہونے جا رہی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکا یہ بچپنا اسے کس قدر مہنگا پڑنے والا تھا۔

💞💞💞💞

فرزام بیگ ولا واپس آیا تو بہرام کے گارڈ نے اسے ہر بات بتا دی۔اسکی بات سن کر فرزام کافی زیادہ پریشان ہو چکا تھا۔اس نے بہرام کو کوئی مرتبہ فون کرنا چاہا لیکن وہ شائید اس نے فلائٹ پر ہونے کی وجہ سے ائیر پلین موڈ پر لگایا تھا۔


"فرزام صاحب آپ کو الطاف صاحب بلا رہے ہیں۔۔۔۔"


فرزام نے ملازم کی بات پر دانت کچکچائے۔کل سے وہ جس قدر ہو سکتا تھا اس گھر اور گھر والوں سے دور ہی رہ رہا تھا لیکن اب ایک نئی مصیبت سر پر آن پڑی تھی۔


"تم چلو میں آ رہا ہوں۔۔۔"


ملازم نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔فرزام نے ایک آخری مرتبہ بہرام کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن اسکا نمبر ابھی بھی نہیں لگ رہا تھا۔


گہرا سانس کے کر وہ کمرے سے باہر نکلا اور ہال میں آ گیا جہاں الطاف فیض،شیزہ اور انجم بیگم کے ساتھ اسکا انتظار کر رہا تھا۔


"مجھے چوکیدار نے بتایا کہ بہرام صاحب صبح سے کہیں گئے ہیں اور اب تک واپس نہیں آئے کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔۔۔"


فرزام الطاف کی آواز میں چھپا غصہ محسوس کر سکتا تھا لیکن اسے اس غصے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔


"میں نہیں جانتا لیکن بہرام سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جیسے ہی مجھے کچھ پتہ چلتا ہے آپ کو ضرور بتاؤں گا۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام وہاں سے جانے لگا۔


"مسٹر فرزام باہر سب مہمان آ چکے ہیں مناہل بالکل تیار ہے اب میں سب کو کیا جواب دوں کہ دلہے صاحب آخری موقع پر نہ جانے کہاں غائب ہو چکے ہیں۔۔۔"


الطاف کے غصے سے کہنے پر فرزام اسکی جانب مڑا۔


"یہ میرا مسئلہ نہیں ہے وہ آپ کے رشتہ دار ہیں جو مرضی جواب دیں آپ انہیں۔۔۔میرا بہرام سے جیسے ہی رابطہ ہوگا میں آپ کو بتا دوں گا۔"


فرزام اتنا کہہ کر پھر سے وہاں سے جانے لگا اور الطاف اس لڑکے کی ہٹ دھرمی پر مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔تبھی فرزام کی جیب میں موجود موبائل بجنے لگا۔


فرزام نے موبائل نکال کر دیکھا تو بہرام کا نمبر دیکھ کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔


"ہیلو بہرام وئیر دا ہیل آر یو مین ۔۔۔؟"


فرزام نے پریشانی سے پوچھا جبکہ اسکے سوال پر کچھ دیر دوسری طرف خاموشی چھائی رہی۔پھر بہرام نے گہرا سانس لے کر ساری بات فرزام کو بتا دی جسے فرزام اطمینان سے سنتا رہا۔


"ابھی کہاں ہو تم؟"


فرزام کے سوال پر بہرام نے اپنی گاڑی کو دیکھا جس میں چاہت اور سکینہ بیٹھی ہوئی تھیں جبکہ وہ خود گاڑی سے باہر تھا۔


"ابھی میرج رجسٹرار کے آفس ہی ہوں۔۔۔"


فرزام کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔


"تو کیا تم نے چاہت سے؟"


بہرام نے ایک گہرا سانس لیا۔


"ہاں ہمارا نکاح ہو چکا ہے لیکن مجھے پریشانی اس بات کی ہے کہ ہم الطاف بیگ کو کیا جواب دیں گے؟"


فرزام کے گال کا گھڑا مزید گہرا ہو گیا۔


"فکر مت کرو میں سب سنبھال لوں گا تم چاہت اور اماں جی کو گھر لے کر جاؤ۔۔۔"


"لیکن فرزام۔۔۔"


"ٹرسٹ می بگ بی میں سب ہینڈل کر لوں گا۔۔۔۔۔"


کچھ دیر سوچنے کے بعد بہرام نے گہرا سانس لیا اور ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر دیا۔فرزام بھی فون بند کر کے الطاف کی طرف مڑا۔


"کیا کہا بہرام نے کہاں ہے وہ؟"


فرزام نے دلچسپی سے سب کے چہرے پر موجود اس پریشانی کو دیکھا۔


"ایک مجبوری کی وجہ سے اسے اسلام آباد جانا پڑا بہرام یہ نکاح نہیں کر سکتا۔۔۔"


فرزام نے سب پر بم گرایا۔


"یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم؟"


فیض کے غصے سے چلانے پر فرزام کے ماتھے پر بل آ گئے۔


"سچ۔۔۔کیوں پسند نہیں آیا؟"


فیض نے اپنے دانت کچکچائے اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ کہتا الطاف نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش رہنے کا کہا اور خود فرزام کے قریب ہو گیا۔


"یہ کوئی مزاق نہیں ہے بچے ہمارے خاندان کی عزت کا معاملہ ہے اگر آج یہ نکاح نہیں ہوا ناں تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔"


الطاف کا لہجہ دھمکی آمیز تھا۔


"اچھا کیا ہو گا پھر؟زرا ڈیٹل سے بتا دیں۔۔۔"


فرزام نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا انکے چہرے پر پریشانی اور بے بسی دیکھ کر فرزام کو بہت زیادہ مزہ آ رہا تھا۔


"تم بیگ خاندان سے دشمنی مول لینا نہیں چاہو گے۔۔۔"


فرزام کی آنکھیں بڑی ہو گئیں اور اس نے اپنا منہ واؤ شیپ میں کر لیا۔


"میں تو ڈر گیا۔۔۔دیکھیں ہاتھ کانپ رہے ہیں میرے۔۔۔"


فرزام نے ہاتھ سامنے کر کے انہیں ہلاتے ہوئے کہا۔اب کی بار الطاف نے بھی دانت کچکچا کر اسے دیکھا۔

"تمہیں ہمارے خاندان کی عزت کوئی مزاق لگ رہی ہے۔ہمارے سب رشتہ دار اور دوست باہر لان میں نکاح شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اگر آج یہ نکاح نہیں ہوا تو جانتے ہو کتنی بدنامی ہو گی ہماری۔۔۔۔"

فرزام یہی چاہتا تھا کہ ان کی بدنامی ہو لیکن یہ بدنامی ان گناہوں کی بہت چھوٹی سی سزا تھی جو الطاف بیگ نے کیے تھے۔بہت سوچنے کے بعد فرزام نے ایک فیصلہ لیا۔

"میرے پاس ایک حل ہے۔۔۔"

"کیسا حل؟"

فیض نے بے چینی سے پوچھا تو فرزام مسکرا دیا۔


"بہرام کی جگہ میں آپ کی بھتیجی سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔"


سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔سب سے زیادہ حیرت تو انجم کو ہوئی جنہوں نے اپنی حبہ کے لیے فرزام کو سوچ رکھا تھا اس لیے فوراً بول اٹھیں۔


"ایسا کیسے ہو سکتا ہے نکاح بہرام سے ہونا تھا۔۔۔۔"


فرزام نے دلکشی سے مسکرا کر انہیں دیکھا۔


"کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔ جہاں تک مجھے یاد ہے آپ نے یہ نکاح دونوں خاندانوں کے درمیان تعلق قائم کرنے کے لیے کرنا تھا تاکہ ہمارے بزنس ریلیشن اچھے ہو جائیں۔۔۔۔"


فرزام نے انجم بیگم سے دھیان ہٹا کر الطاف کو دیکھا۔


"آپ کو یہ نکاح ایک خانزادہ سے کرنا تھا پھر وہ بہرام ہو یا فرزام کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔؟"


اس بات پر الطاف بھی گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر کافی سوچنے کے بعد اس نے فرزام کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"فرزام ٹھیک کہہ رہا ہے ہمیں رشتہ خانزادہ خاندان سے جوڑنا ہے۔۔۔جا کر مناہل کو بتا دو کہ اسکی شادی فرزام سے ہو رہی ہے اور اسے لے کر باہر آؤ۔۔۔"


فرزام کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔


"لیکن میری ایک شرط ہے۔"


الطاف نے آنکھیں چھوٹی کر کے فرزام کو دیکھا۔


"بہرام سے صرف نکاح کی بات ہوئی تھی لیکن مجھے ساتھ رخصتی بھی چاہیے تو آپ نکاح کے فوراً بعد اسے میرے ساتھ رخصت کر دیں گے۔۔۔۔"


فیض نے فرزام کی مانگ پر اپنے دانت کچکچائے۔الطاف کچھ دیر فرزام کو دیکھتا رہا پھر اس نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ٹھیک ہے لیکن ابھی کافی رات ہو گئی ہے تو تم دونوں آج رات یہیں رک جانا پھر صبح ہوتے ہی تم مناہل کو اپنے ساتھ لے جا سکو گے ۔کچھ عرصے بعد ہم ولیمہ کر کے سب کو اپنی پارٹنرشپ سے آگاہ کریں گے۔۔۔"


سب کے چہروں سے نظر آ رہا تھا کہ انہیں الطاف کا یہ فیصلہ کچھ خاص اچھا نہیں لگا تھا لیکن کسی نے بھی اس فیصلے پر سوال اٹھانے کی ہمت نہیں تھی۔اس لئے فرزام کے حامی بھرتے ہی سب خاموشی سے وہاں سے چلے گئے۔


بہت بڑی غلطی کر دی تم نے الطاف بیگ میں بہرام نہیں ہوں جو تمہیں برباد کرنے کا انتظار کرے گا میں فرزام ہوں۔۔۔یہ نکاح نہ ہونے سے جو تمہارے خاندان کی بدنامی ہونی تھی وہ بہت تھوڑی تھی اصل بدنامی تو تب ہو گی جب اس نکاح کے بعد ایک ہی رات میں تمہاری بھتیجی کو اپنا دیوانا بنانے کے بعد سب کے سامنے اسے طلاق دوں گا ۔۔۔۔


تیار رہنا الطاف بیگ صبح تمہیں پتہ چلے گا کہ بدنامی کسے کہتے ہیں۔۔۔


فرزام نے مسکرا کر سوچا اور تیار ہونے چلا گیا اسے الطاف بیگ کو برباد جو کرنا تھا لیکن وہ خود نہیں جانتا تھا کہ قسمت نے اسکے لیے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔

💞💞💞💞

مناہل تب سے خاموشی سے آئنے کے سامنے بیٹھی خود کو دیکھ رہی تھی۔لال رنگ کے کرتی اور شرارے میں مناسب میک اپ کے ساتھ سجی وہ چاند کا ٹکڑا لگ رہی تھی لیکن چہرے پر اضطراب واضح تھا۔


کل جب اسے یہ خبر ملی کہ اسکا نکاح ہو رہا ہے تو وہ بہت زیادہ ڈر گئی۔اس نے جیسے تیسے خود کو منگنی کے لیے تیار کیا تھا لیکن نکاح کے لیے وہ ابھی تیار نہیں تھی۔


اب اس کا خوف اس پر بہت زیادہ حاوی ہو رہا تھا۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسکا ہر وسوسہ اسکے دل میں مزید پھندے گاڑھ چکا تھا۔دروازہ کھلنے کی آواز پر مناہل سہم کر اٹھ کھڑی ہوئی اور شیزہ اور انجم کو دیکھا جن کی آنکھوں میں بہت زیادہ نفرت تھی۔

مناہل آج تک اس نفرت کی وجہ نہیں سمجھ پائی تھی اس نے کبھی انہیں نفرت کرنے کی کوئی وجہ نہیں دی تھی۔

"چلو تمہارے نکاح کا وقت ہو چکا ہے۔۔۔"

یہ سن کر مناہل مزید گھبرا گئی۔اس نے بہت مشکل سے خود کو اس نکاح کے لیے تیار کیا تھا کیونکہ اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

"جج۔۔۔۔جی پھپھو۔۔۔"

انجم نے دانت کچکچا کر اس لڑکی کو دیکھا اور دل ہی دل میں اسکی قسمت پر جلنے لگیں۔

"تمہارا نکاح بہرام سے نہیں ہو رہا۔۔۔"

مناہل کی خوبصورت آنکھوں میں حیرت اتری۔۔۔۔

"بہرام کو کسی مجبوری کی وجہ سے جانا پڑا اس لیے اب وہ یہ نکاح نہیں کر سکتا۔۔۔"

شیزہ کے کہنے پر مناہل گھبرا کر ان دونوں کو دیکھنے لگی۔

"اس لیے اب تمہارا نکاح فرزام خانزادہ سے ہو رہا ہے۔۔۔"

ساتوں آسمان ایک ساتھ مناہل پر گرے۔ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔

"یہ آپ ککک۔۔۔کیا کہہ رہی ہیں پھپھو میں فف۔۔فرزام سے نہیں مجھے ان سے نکاح نہیں کرنا پلیز آپ تایا ابو کو منع۔۔۔۔"

"بکواس بند کرو مناہل یہ اتنی بھی بڑی بات نہیں ہے فرزام بہرام کا بھائی ہی ہے ویسے بھی جو تم سے کہا جا رہا ہے وہ کرو۔۔۔"

انجم نے آگے بڑھ کر کہا اور مناہل کا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگیں۔

"پلیز تائی امی میری شادی ان سے مت کریں۔۔۔"

مناہل اب روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

"بس اب یہ آنسو نہ آئیں تمہاری آنکھوں میں اور شرافت سے ساتھ چلو ورنہ اپنے تایا کے غصے سے بخوبی واقف ہو تم۔۔۔"

مناہل انکے پیر پڑ کر بھیک مانگنا چاہتی تھی کہ وہ ایسا نہ کریں لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ جتنا بھی گڑگڑاتی کسی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔اس لیے اس نے اپنے آپ کو مارا اور مردہ حالت میں ان کے ساتھ چل دی۔

فرزام نے اس ٹرافی کو سب کے سامنے پھینک کر توڑ دیا کیونکہ اسکی چیز کو پہلے کسی اور نے چھوا تھا اور فرزام خانزادہ اپنی چیزوں کے لیے بہت زیادہ پوزیسسو ہے۔

مناہل کو حبہ کی بات یاد آئی تو وہ خوف سے کانپ اٹھی۔اب وہ بس یہ دعا ہی کر سکتی تھی کہ فرزام خانزادہ اسکے بے آبرو ہونے کی وجہ سے اسکی جان نہ لے لے۔۔۔

"مناہل بیگ ولد شہاب بیگ آپ کا نکاح فرزام خانزادہ ولد سلیمان خانزادہ کے ساتھ حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"

خود سے پوچھے جانے سوال پر مناہل کی آنکھوں میں کئی آنسو آ گئے۔وہ اس سوال کا کیا جواب دیتی۔وہ رشتہ جس کی بنیاد ہی سچ اور بھروسہ ہوتا ہے وہ اس کی شروعات ہی اپنے شوہر سے اتنا بڑا سچ چھپا کر کرنے جا رہی تھی۔شوہر بھی وہ شخص جو اپنی چیز کسی کے چھونے پر برباد کر دیتا تھا وہ بھلا کیسے مناہل کو اسکی ناپاکی کے باوجود قبول کرتا۔


"جواب دو مناہل۔۔۔۔"


اپنی تائی امی کی آواز پر مناہل نے بے بسی سے انہیں دیکھا جو اس کی پہلے سے برباد زندگی کو مزید تباہ کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔لیکن مناہل بھی کیا کرتی ہے وہ مجبور تھی اور اسی مجبوری کے تحت اس نے وہ جواب دیا جو وہ بالکل بھی دینا نہیں چاہتی تھی۔


"قبول ہے

قبول ہے

قبول ہے۔۔۔"


نکاح خواں نے مناہل سے نکاح نامے پر دستخط کروائے اور وہاں سے چلا گیا۔نہ جانے کون کون مناہل کو اپنے گلے سے لگا کر مبارکباد دے رہا تھا اور مناہل ہر شے سے بے خبر اپنے ہی خوف اور وسوسوں میں مبتلا تھی۔


کچھ دیر کے بعد ہی اسے باہر لان میں لاکر فرزام کے عقب میں بٹھا دیا گیا۔مناہل کا دل کر رہا تھا کہ وہ بس وہاں سے غائب ہو جائے اور پھر کسی کو نہ ملے۔فرزام نے اپنی نئی نویلی بیوی کے کپکپاتے ہاتھ دیکھے تو مسکرا دیا۔


"ابھی سے ڈر رہی ہو میرا جنون ابھی تو بہت سے امتحان باقی ہیں۔۔۔"


میرا جنون؟مناہل کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ آئی۔وہ جنون جو اسکی سچائی جان کر ہی ختم ہو جانے والا تھا۔


"تم کسی کو سچ نہیں بتاؤ گی تو اسے پتہ کیسے چلے گا؟بس تم راز رکھنا سیکھو۔۔۔"


کسی کے الفاظ مناہل کے ذہن میں گردش کرنے لگے۔ہاں وہ ایسا ہی کرے گی وہ فرزام کو سچ نہیں بتائے گی اور ایسا کر کے وہ ہمیشہ کے لیے دغا باز بن جائے گی۔


"ما شاءاللہ چاند اور سورج کی جوڑی ہے بہت زیادہ اچھے لگ رہے ہیں دونوں ساتھ میں۔۔۔"


ایک عورت نے مسکراتے ہوئے کہا۔مناہل نے آنکھیں اٹھا کر حبہ کو دیکھا جو سینے پر ہاتھ باندھے اسے حسد سے دیکھ رہی تھی۔


ایک حبہ ہی تو تھی جو باقیوں کی طرح مناہل سے بلا وجہ کی نفرت نہیں کرتی تھی لیکن لگتا تھا آج وہ ایک رشتہ بھی مناہل نے کھو دیا۔سب آپس میں ہنسی خوشی باتیں کر رہے تھے اور جسکی وہ خوشی تھی اسے خوف اندر ہی اندر ختم کر رہا تھا۔


"میرے خیال سے اب مناہل تھک گئی ہو گی اسے اسکے روم میں لے جانا چاہیے۔۔۔۔"


شیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو مناہل نے شکر ادا کیا کہ کچھ پل کے لیے ہی سہی وہ فرزام کے سائے سے دور تو جائے گی جسکی نظریں اسے نہ جانے کب سے دیکھے جا رہی تھیں۔شیزہ اور انجم مناہل کے قریب ہوئے اور اسے پکڑ کر کھڑا کیا۔


"روم میں تو من جائے گی لیکن اپنے نہیں میرے۔۔۔۔"


فرزام کی بات پر جہاں مناہل کا دھڑکتا دل بند ہوا تھا وہیں سب نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"شائید بھول گئے ہیں آپ کہ میں نے نکاح کے ساتھ رخصتی کی بھی بات کی تھی اب اس وقت تو آپ ہمیں جانے نہیں دیں گے اس لیے مناہل کو میرے روم میں لے جائیں۔۔۔"


فرزام کے نئے شوشے پر الطاف کا ضبط جواب دے گیا اور اسکو دانت کچکچاتا دیکھ فرزام اٹھ کر مسکراتے ہوئے اسکے سامنے گیا۔


"وہ کیا ہے ناں اپنی پیاری بیوی کہ بغیر ایک پل نہیں گزارنا چاہتا میں۔۔۔۔آئی ہوپ آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔۔ "


الطاف فرزام کی آنکھوں میں چیلنج دیکھ سکتا تھا جیسا کہ آنکھوں سے کہنا چاہ رہا ہو کہ مجھے روک کر بتاؤ۔الطاف نے گہرا سانس لے کر اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور انجم کی جانب دیکھا۔


"مناہل کو فرزام کے روم میں چھوڑ آؤ۔۔۔"


مناہل نے پر خوف نگاہیں اٹھا کر اپنے تایا کو نظروں میں ہی التجا کی لیکن انہیں مناہل کے ہونے یا نہ ہونے سے کبھی کوئی فرق پڑا تھا جو اب پڑتا۔


انجم بیگم نے اثبات میں سر ہلایا اور مناہل کو لے کر اس کمرے میں آ گئیں جہاں فرزام ٹھہرا ہوا تھا۔مناہل کو وہاں چھوڑ کر انجم بیگم تو خاموشی سے وہاں سے چلی گئیں لیکن مناہل نے شیزہ کا ہاتھ تھام لیا اور نم پلکوں سے اس کو دیکھا۔


"پھوپھو۔۔۔پلیز مجھے یہاں چھوڑ کر مت جائیں۔۔۔"


شیزہ نے اپنا ہاتھ مناہل کے ہاتھ پر رکھا اور اپنا ہاتھ چھڑوا لیا۔


"ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں مناہل۔۔۔۔اپنے خوف کو چھپانا سیکھو۔۔۔"


بچپن سے لے کر اب تک مناہل یہی تو کرتی آ رہی تھی لیکن کب تک؟ اس کی ہمت اب جواب دے چکی تھی۔


کتنی دیر ہی وہ اسی جگہ پر کھڑی اپنے شوہر کا انتظار کرتی رہی۔جسم کا روم روم خوف سے کانپ رہا تھا۔خانزادہ خاندان سے تعلقات بڑھانے کے لیے اسکی شادی فرزام خانزادہ سے کی گئی تھی لیکن وہ اسکے بارے میں سچ نہیں جانتا تھا اگر جانتا تو۔۔۔۔یہ سوچ کر ہی مناہل کی روح کانپ گئی تھی۔


"کتنے حسین لوگ تھے جو ایک بار ہی

آنکھوں میں اتر گئے دل میں سما گئے"


ایک شوخ سی آواز پر مناہل نے سہم کر اپنے شوہر کو دیکھا جو اسکے حسین سراپے کو پر شوق نگاہوں سے دیکھتا اسکے قریب آ رہا تھا جبکہ انتہائی دلکش چہرے پر موجود ڈمپل فرزام کی شان کو چار چاند لگا رہا تھا۔


"لگا تھا کہ وہ لڑکی پیدا ہی نہیں ہوئی جو فرزام خانزادہ کے دل میں اتر سکے لیکن تم تو صرف سانس لے کر ہی دل گھائل کر رہی ہو میرا جنون۔۔۔۔۔"


اس سے پہلے کہ مناہل کو کچھ سمجھ آتا فرزام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے بے انتہا قریب کھینچ لیا۔اپنے چہرے پر اسکی سانسوں کی مہک محسوس کرتے مناہل کا نازک وجود سوکھے پتے کی مانند تھرتھرانے لگا۔


"اف میرے جنون یہ رات بہت بھاری گزرے گی تماری نازک جان پر۔۔۔۔۔"


فرزام نے اس کے کپکپاتے ہونٹوں کو پر تپش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا لیکن تبھی اسکی نگاہ اپنے سینے پر رکھے مناہل کے حنائی ہاتھ پر پڑی جس میں اسکے بھائی کی پہنائی گئی انگوٹھی تھی۔فرزام اس دنیا میں سب سے زیادہ اپنے بھائی کو چاہتا تھا لیکن اپنی ملکیت پر کسی اور کی چھاپ دیکھنا اسے گوارا نہیں تھا پھر وہ چاہے اسکا بھائی ہی کیوں نہ ہوتا۔


فرزام نے نفرت سے وہ انگوٹھی اسکی انگلی سے نکال کر پھینک دی اور اسے گردن کے پیچھے سے جکڑ کر اپنے ہونٹوں کے قریب کر لیا۔


"تمہاری منگنی بہرام سے ضرور ہوئی تھی لیکن اب تم میری ہو سنا تم نے صرف اور صرف فرزام خانزادہ کی ملکیت ہو تم من۔۔۔۔۔اور آج تم پر اپنا ہر حق جتا کر یہ ثابت کر دوں گا میں کہ تم صرف میری ہو ۔۔۔۔۔"


فرزام اپنی دلہن کے حسین سراپے پر گرفت مظبوط کرتا شدت سے کہہ رہا تھا۔الفاظ سے جنون کی انتہا چھلک رہی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ ان کپکپاتے ہونٹوں پر اپنی مہر لگاتا اسے اندازہ ہوا کہ اسکی گرفت میں موجود وجود خوفزدہ تھا۔اس قدر خوفزدہ کہ وہ سانس بھی نہیں لے رہی تھی۔


"من؟ کیا ہوا میرے جنون؟"


فرزام نے نرمی سے اسکا گال پکڑ کر پوچھا لیکن اسکی بیوی خوف سے اچھل کر اس سے دور ہو گئی۔


"نہیں مت چھوؤ مجھے مت ہاتھ لگاؤ۔۔۔۔نہیں پلیز دور رہو۔۔۔۔"


وہ دیوار سے لگی خوف سے روتے ہوئے چلا رہی تھی اور فرزام اب حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔یہ ہر لڑکی جیسا انجان جزبات کا خوف نہیں تھا۔یہ خوف اس سے بڑھ کر تھا۔


"من۔۔۔"


فرزام اسکے قریب ہونے لگا تو مناہل نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور بری طرح سے سسکنے لگی اس کے بے تحاشا خوف کو سمجھ کر فرزام مٹھیاں بھینچتے ہوئے اسکے قریب ہوا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔


"کیا ہوا تھا؟ بتاؤ مجھے کیا ہوا تھا تمہارے ساتھ؟"


مناہل اسکی سختی دیکھ کر مزید ڈر گئی پہلے تو اس نے سوچا کہ جھوٹ بول دے لیکن وہ اس کا شوہر تھا بھلا اس سے سچ چھپ سکتا تھا۔ یہ سوچ کر ہی مناہل کا نازک دل خوف سے بند ہوا کہ سچ جان کر وہ کیا کر گزرے گا۔


"مم ۔۔۔۔۔میں بارہ سال کی تھی۔۔۔۔۔انہوں نے میرے ساتھ۔۔۔فیض انکل نے مجھے میرے ہی روم میں بند کر دیا اور۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں بہت لڑی بہت چلائی لیکن۔۔۔۔میں کمزور ثابت ہوئی بہت کمزور۔۔۔۔"


اس سے آگے مناہل سے کچھ نہیں بولا گیا تھا بس وہ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی جبکہ اسکی بات کو سمجھ کر فرزام نے اپنا ہاتھ انتہائی زیادہ زور سے دیوار میں مارا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔


مناہل کا ہر انکشاف سچ ثابت ہوا تھا۔ضدی سا فرزام خانزادہ جو اپنی سب سے پسندیدہ چیز کسی کے چھونے پر توڑ کر برباد کر دیتا تھا کسی اور کی چھوڑی ہوئی عورت کو کیسے قبول کرتا؟ وہ مناہل کی بربادی کا جان کر ہی اسے چھوڑ کر جا چکا تھا۔

🌺🌺🌺

"مبارک ہو بھائی صاحب بہت بہت آخر کار آپ کا منصوبہ کامیاب ہو ہی گیا۔۔۔"


سب مہمان جا چکے تھے اور الطاف اس وقت فیض کے ساتھ لان میں بیٹھا تھا جب فیض کی بات پر اس نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔


"ارے اب ایسے مت دیکھیں بھائی صاحب جانتا ہوں کہ خانزادہ سے آپ نے تعلق ضرور کچھ سوچ کر ہی جوڑا ہے خاص طور پر مناہل کے ذریعے جس کے نام شہاب کے حصے کی ساری جائیداد ہے اس لحاظ سے وہ آپ کے بزنس کی پچاس فیصد مالک ہے۔۔۔"


الطاف کی آنکھوں میں غصہ اترنے لگا۔


"میرے کام میں دخل اندازی مت کرو فیض میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔"


فیض دلچسپی سے مسکراتے ہوئے الطاف کے قریب ہوا۔


"آپ تو جانتے ہیں زرا مجھے بھی بتا دیں۔۔۔آخر آپ کا راز دار ہوں میں بہت سے راز جانتا ہوں آپ کے اتنا تو حق بنتا ہے ناں میرا۔۔۔"


الطاف نے بھوئیں اچکا کر اسے دیکھا۔


"کیا تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟"


فیض ہلکا سا ہنس دیا۔


"ارے میری اتنی اوقات کہاں بھائی صاحب میں تو بس آپ کو یاد کروا رہا تھا کہ کہیں آپ بھول تو نہیں گئے کہ جو آپ نے کیا وہ سب میں بھی جانتا ہوں اب آپ کو یہ دھمکی لگی ہے تو آپ کی مرضی۔۔۔۔"


فیض نے عام سے انداز میں کہا تو الطاف کافی دیر اپنے بہنوئی کو دیکھتا رہا اور پھر گہرا سانس لے کر آہستہ سے بولا۔


"فرزام اور بہرام کا اس دنیا میں ایک دوسرے کے سوا کوئی بھی نہیں۔۔۔"


الطاف کے بات شروع کرنے پر فیض دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا۔


"اس لیے اگر دونوں میں سے کسی ایک کی بھی شادی اور بچہ ہو جائے تو کل کو ان کی جائیداد اس عورت اور بچے کی ہو گی ناں۔۔۔"


الطاف کی چالاکی پر فیض عش عش کر اٹھا۔


"اور اگر کل کو انہیں کچھ ہو جائے تو وہ جائیداد مناہل اور اسکی اولاد کی ہو گی اور جتنی مناہل معصوم ہے تم یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ جائیداد ہماری ہو گی۔۔۔۔۔"


الطاف نے چلاکی سے مسکراتے ہوئے کہا۔


"ویسے بھی شہاب کی وصیت کے مطابق مناہل کو جائیداد پر اختیار تب ہی ملے گا جب اس کی شادی گی۔۔۔۔اس لیے سمجھ لو ایک تیر سے دو نشانے لگاؤں گا۔بس ایک بار مناہل کی اولاد اس دنیا میں آ جائے پھر ان دونوں بھائیوں سے بھی پیچھا چھڑوا لونگا اور شہاب کی جائیداد کے ساتھ ساتھ خانزادہ خاندان کے جائیداد بھی صرف میری ہوگی۔"


الطاف نے مسکراتے ہوئے کہا اور فیض بھی اسکے ساتھ مسکرا دیا۔


" کیا بات ہے بھائی صاحب ماننا پڑے گا بہت ہی شیطانی دماغ ہے آپ کا اپنے ماضی کے کارنامے آج تک کسی کو پتہ نہیں چلنے دیے اور اب یہ۔۔۔۔۔بہت ہی آگے جائیں گے آپ۔۔۔"


الطاف نے سامنے پڑا گلاس مسکراتے ہوئے ہونٹوں سے لگایا۔طاقت کا نشا اسکی انسانیت تک کو ختم کر چکا تھا۔


"ارے آپ دونوں یہاں بیٹھ کر کیا باتیں کر رہے ہیں؟"


شیزہ ان کے پاس بیٹھ کر مسکراتے ہوئے پوچھنے لگی۔فیض نے مسکرا کر اپنی بیوی کو دیکھا۔


"کچھ خاص نہیں بس کچھ ماضی کی یادیں تازہ کر رہے تھے اور کچھ مستقبل کا سوچ رہے تھے۔۔۔"


شیزہ کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔


"یوں ہی ساتھ رہیں گے تو مستقبل بھی روشن ہو گا آپ کا۔۔۔"


"ضرور۔۔۔"


الطاف نے مسکرا کر شان سے کہا اس بات سے بے خبر کے گناہوں کی بھی ایک مدت ہوتی ہے جو اب ختم ہونے والی تھی۔

💞💞💞💞

فرزام کا دل کر رہا تھا کہ یہ دنیا جلا دے ہر چیز ختم کر دے۔اس وقت فرزام کو یہ دنیا جتنی بری لگ رہی تھی اتنی اسے کبھی نہیں لگی تھی تب بھی نہیں جب اس نے اپنے ماں باپ کو آنکھوں کے سامنے جلتے دیکھا تھا۔


اس نے سوچا تھا کہ اس کی جس دلکشی پر ہر لڑکی فدا ہو جاتی ہے اسی کا جادو مناہل پر چلا کر صبح کو اسے ٹوٹا بکھرا الطاف بیگ کے قدموں میں پھینک جائے گا لیکن جسے اس نے برباد کرنے کے لیے چنا تھا وہ تو پہلے ہی تباہ تھی۔فرزام اسے کیا توڑتا جسکے وجود اور انا کو اسکے اپنوں نے ہی کرچی کرچی کر دیا تھا۔


فیض سے زیادہ غصہ تو فرزام کو بیگ ولا کے مکینو پر آ رہا تھا۔انکی چھت کے نیچے ایک معصوم پر قیام ٹوٹ پڑی اور انہیں خبر ہی نہیں ہوئی۔اگر انہیں پتہ بھی تھا تو وہ شخص سانس کیوں لے رہا تھا۔


فیض اور اسکے گناہ کا سوچ کر ہی فرزام نے اپنی مظبوط مٹھیاں بھینچ لیں اور سیدھا باہر لان میں آیا جہاں فیض ہنس ہنس کر الطاف اور شیزہ سے باتیں کر رہا تھا۔مہمان شائید گھروں کو واپس جا چکے تھے کیونکہ پوری جگہ پر ان تینوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔


فیض کو دیکھ کر ہی فرزام کو اس ستم کا احساس ہوا جو اس نے ایک بارہ سال کی بچی پر ڈھایا تھا۔فرزام انتہائی غصے سے آگے بڑھا تو اسکو وہاں دیکھ کر الطاف کافی حیران ہوا۔


"فرزام تم یہاں؟کیا ہوا سب ٹھیک ۔۔۔۔"


الطاف کو نظر انداز کرتے ہوئے فرزام نے فیض کو گریبان سے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا۔اسکی اس حرکت پر الطاف اور شیزہ حیرت سے اسکی طرف لپکے۔


"فرزام خانزادہ یہ کیا کر رہے ہو چھوڑو اسے۔۔۔"


الطاف نے غصے سے کہا لیکن فرزام ہر کسی کو نظر انداز کرتا جھپٹتے ہوئے فیض کو اپنے ساتھ کھینچ کر لے جا رہا تھا جبکہ الطاف اور شیزہ پریشانی کے عالم میں اسکے پیچھے جا رہے تھے۔


اپنے کمرے میں آ کر فرزام نے دروازہ کھولا اور جھٹکے سے فیض کو مناہل کے قدموں میں پھینکا جو فیض کو دیکھ کر ہی سہم کر دیوار سے لگ چکی تھی۔


"فرزام کیا ہے یہ سب؟"


الطاف غصے سے چلایا تو اسکا چلانا سن کر انجم بیگم بھی بھاگتے ہوئے وہاں آ گئیں۔


"یہ آپ کو آپ کا بہنوئی ہی بتائے گا کہ میں کیوں اسے یہاں لایا ہوں۔۔۔۔"


فرزام نے فیض کو بری طرح سے گھورتے ہوئے کہا جبکہ فیض تو فرزام کی نظروں میں غصے کے شرارے دیکھ کر ڈر چکا تھا۔


"کیا ہوا ہے فیض بتاؤ مجھے۔۔۔۔"


الطاف نے اپنا دھیان فیض کی طرف کیا۔


"مم۔۔۔میں نہیں جانتا بھائی صاحب یہ پاگل ہو گیا ہے مجھے سچ میں کچھ نہیں پتہ۔۔۔۔"


فرزام نے اپنی آنکھیں چھوٹی کیں۔


"لگتا ہے تمہاری یاداشت کمزور ہو گئی ہے۔کوئی بات نہیں ابھی سب یاد آ جائے گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام مناہل کے پاس آیا جو پر خوف نگاہوں سے زمین پر بیٹھے فیض کو دیکھ رہی تھی۔فرزام نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما تو مناہل خوف سے اچھل پڑی اور نم آنکھوں سے فرزام کو دیکھنے لگی۔


"بتاؤ انہیں من جو تم نے مجھے بتایا۔۔۔۔سب کو بتاؤ کہ یہ لوگ کس قدر بے حس اور لا پرواہ ہیں۔۔۔۔"


مناہل اپنے شوہر کی آنکھوں میں بے پناہ غصہ دیکھ سکتی تھی لیکن وہ غصہ مناہل کے لیے نہیں تھا اور اسی بات پر مناہل حیران تھی کہ جو اپنی چیز پر کسی کا لمس برداشت نہیں کرتا وہ اسے سب کے سامنے طلاق کیوں نہیں دے رہا تھا۔


مناہل کی آنکھیں مزید روانی سے بہنے لگیں اور اس نے انکار میں سر ہلایا۔فرزام نے انتہائی نرمی سے اسکے آنسو پونچھ دیے۔


"ڈرو مت من،،، میں تمہارے ساتھ ہوں میرے ہوتے ہوئے کوئی بھی تمہیں چھو نہیں سکتا بس تمہیں ہمت کر کے سب بتانا ہے اس جانور کا اصلی چہرہ سب کو دیکھانا ہے۔۔۔۔"


نہ جانے فرزام کے نرمی سے بولے گئے ان الفاظ اور اسکے مناہل کا گال سہلاتے لمس میں ایسا کیا جادو تھا جو مناہل کی طاقت بن رہا تھا۔


"بتاؤ من اب چپ مت رہو سب کو بتا دو۔۔۔۔اس کا گناہ چھپانے کے قابل نہیں بتا دو سب کو کیا کیا اس نے۔۔۔"


فرزام کے الفاظ مناہل کی ہمت بنے تھے۔اس نے ایک نظر زمین پر بیٹھے فیض کو دیکھا پھر ہمت کرتے ہوئے بولی۔


"مم۔۔۔میں بارہ سال کی تھی۔۔۔۔یہ آدھی رات کو میرے روم میں آئے۔۔۔اور انہوں نے۔۔۔۔"


مناہل خوف سے کانپنے لگی تو فرزام نے اسکا چہرہ اپنی جانب کر لیا اور اپنی نظروں سے اسکی ہمت بڑھانے لگا۔


"انہوں نے مجھے۔۔۔۔زبردستی۔۔۔"


مناہل اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی اور کمرے میں موجود ہر شخص پتھر ہو چکا تھا۔


"میں نے کہا کہ میں سب کو بتا دوں گی۔۔۔۔تت۔۔۔۔ تو انہوں نے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ اگر میں نے کک۔۔۔۔کسی کو کچھ بتایا تو مجھے مار دیں گے۔۔۔"


مناہل اب اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔فرزام مناہل سے دور ہوا اور فیض کے سامنے کھڑا ہو گیا۔


"کچھ یاد آیا ۔۔۔۔؟"


فیض کا رنگ اب زرد پڑھ چکا تھا اس نے کمرے میں کھڑے ہر شخص کو ڈرتے ہوئے دیکھا۔


"یہ جھوٹ بول رہی ہے بھائی صاحب ایسا کچھ۔۔۔۔"


اس سے پہلے کہ فیض اپنی بات مکمل کرتا فرزام نے اسے گریبان سے پکڑ کر اپنے مقابل کیا اور ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔اس سے پہلے کہ فیض اس تھپڑ کے اثر سے سنبھلتا فرزام اسے مکوں سے بری طرح مارنے لگا۔شیزہ نے روتے ہوئے آگے بڑھنا چاہا۔


"دور رہو۔۔۔۔"


فرزام کی آواز کمرے میں گونجی تو شیزہ سہم کر اپنی ہی جگہ پر رک گئی۔


"ورنہ یہ سب تمہارے ساتھ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچوں گا کہ تم عورت ہو۔۔۔۔۔"


فرزام کا غصہ دیکھ کر شیزہ کی روح تک کانپ گئی۔فرزام نے اب فیض کو زمین پر پھینکا اور اسے پیروں سے مارنے لگا۔سب کی طرح مناہل بھی حیرت سے فرزام کو دیکھ رہی تھی۔


"نہیں بس۔۔۔۔وہ سچ کہہ رہی ہے سب سچ کہہ رہی ہے میں نے سات سال پہلے مناہل سے زیادتی کی تھی۔۔۔۔پلیز مجھے مت مارو۔۔۔۔مت مارو۔۔۔معاف کر دو مجھے۔۔۔۔معاف کر دو ۔۔۔"


فیض روتے ہوئے چلایا اور اس کی بات پر جہاں ہر کوئی سکتے میں چلا گیا تھا وہیں فرزام نے نفرت سے اپنی ٹانگ فیض کی پیٹ میں ماری جس کی وجہ سے وہ کراہ اٹھا۔۔


"معافی مانگنی ہے ناں تو اس سے مانگ جس پر ظلم کرتے ہوئے تو نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ تیری بیٹیوں جیسی ہے۔۔۔۔میری من سے معافی مانگ۔۔۔"


سب سچ جاننے کے بعد بھی فرزام کے میری من کہنے پر مناہل نے حیرت سے اسے دیکھا کیونکہ وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر رہا تھا جیسا مناہل نے سوچا تھا۔


"مانگ معافی۔۔۔"


فرزام نے ایک زور دار لات اسکے پیٹ میں مار کر کہا تو فیض رینگتے ہوئے مناہل کے پاس گیا اور اسکے پیر پکڑ لیے۔مناہل ڈر کر اس سے دور ہونے لگی۔


"پلیز مجھے معاف کر دو مناہل۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔۔"


فیض نے روتے ہوئے کہا اور مناہل نم آنکھوں سے اپنے گناہ گار کو دیکھنے لگی۔کبھی مناہل بھی تو اس کے سامنے یوں ہی روئی تھی یوں ہی گڑگڑائی تھی لیکن اس نے مناہل کی ایک نہیں سنی تھی اور آج وہ بھی مناہل کے قدموں میں گرا بھیک مانگ رہا تھا لیکن مناہل کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں تھا معافی بھی نہیں۔


"کیا تم اسے معاف کرنا چاہتی ہو من؟"


فرزام کی آواز پر مناہل نے ایک نظر اپنے شوہر کو دیکھا پھر خود کو مضبوط کرتے ہوئے انکار میں سر ہلا دیا۔نہیں کرنا چاہتی تھی وہ اس درندے کو معاف،نہیں تھا وہ معافی کے قابل۔۔۔


اسکے جواب پر ایک خطرناک مسکراہٹ نے فرزام کے ہونٹوں کو چھوا۔فرزام نے آگے بڑھ کر فیض کو پیچھے گردن سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اپنی کمر کے پاس سے ایک ریوالور نکال کر فیض کی کنپٹی پر رکھ دیا۔ایک چیخ شیزہ کے ہونٹوں سے نکلی اور اس نے آگے ہونا چاہا۔


"دور رہو میڈم ورنہ جو گولی ایک منٹ بعد مارنی ہے اسے چلتے سیکنڈ نہیں لگے گا۔


مناہل کے ساتھ ساتھ کمرے میں موجود ہر شخص کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔مناہل کو تو لگا تھا کہ وہ اسے پولیس کو دے دے گا لیکن فرزام کے ہاتھ میں وہ ریوالور دیکھ کر مناہل خوف سے کانپنے لگی۔


"چھوڑو اسے فرزام۔۔۔"


الطاف کے حکم دینے پر فرزام نے نظریں گھما کر اسے دیکھا لیکن پکڑ ابھی بھی فیض پر مظبوط تھی جو اپنے زخموں اور گردن پر دباؤ کی وجہ سے مزاحمت بھی نہیں کر پا رہا تھا۔


"سب جاننے کے بعد بھی آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اسے چھوڑ دوں؟"


فرزام نے کافی دلچسپی سے پوچھا۔


"یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے فرزام خانزادہ ہم خود دیکھ لیں گے۔۔۔"


فرزام کے گال پر موجود ڈمپل نمایا ہوا۔


"غلط الطاف حیدر بیگ یہ میری بیوی کا معاملہ ہے اور وہ اسے معاف نہیں کرنا چاہتی۔۔۔"


فرزام نے خوف سے کانپتی مناہل کو بہت زیادہ حق سے دیکھتے ہوئے کہا۔اسکے الفاظ میں وحشت لیکن آنکھوں میں بے پناہ جنون تھا۔


"اگر تم نے اسے کچھ کیا تو ہمارے تعلق اور دوستی کو بھول جانا تم،پھر ہمارے درمیان بس ایک ہی تعلق رہ جائے گا جسے دشمنی کہتے ہیں اور یقین کرو فرزام خانزادہ تم الطاف بیگ سے دشمنی مول لینا نہیں چاہو گے۔۔۔"


الطاف نے فرزام کو دھمکا کر ڈرانا چاہا لیکن اسکا الٹا ہی اثر ہوا ڈرنے کی بجائے فرزام کے چہرے کی مسکان گہری ہو چکی تھی جیسے کہ اسے الطاف کا چیلنج پسند آیا ہو۔


"تمہاری دشمنی۔۔۔"


فرزام ایک پل کو رکا اور اپنی گرفت میں روتے ہوئے فیض کو دیکھا۔


"قبول ہے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام نے گولی چلا دی اور فیض کا بے جان وجود جھٹکے سے زمین پر گر گیا۔سر کے پاس سے خون پانی کی طرح فرش پر بہہ رہا تھا۔


"فیض۔۔۔۔"


شیزہ چلا کی فیض کے پاس گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جبکہ مناہل تو خوف سے ہی پتھر بنی فیض کے مردہ موجود کو اپنے قدموں میں پڑا دیکھ رہی تھی۔


اسے یہ سب ڈراؤنا خواب لگ رہا تھا کیا سچ میں اسکے شوہر نے اسکی وجہ سے کسی کی جان لی تھی؟


اچانک ہی فرزام آگے بڑھا اور مناہل کا ہاتھ تھام لیا۔مناہل نے سہم کر اسے دیکھا اور اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا۔مناہل کی اس حرکت پر فرزام کی پکڑ میں مظبوطی اور آنکھوں میں سختی اتر آئی جیسے مناہل کی یہ حرکت خاص پسند نہ آئی ہو۔


"چلو من میرے ساتھ وہاں جہاں تمہیں تکلیف دینا تو دور کوئی تمہارے سائے کو بھی فرزام خانزادہ کی اجازت کے بغیر نہیں چھو سکے گا میرے ساتھ میری دنیا میں چلو میرے جنون۔۔۔"


مناہل نے سہم کر اس شخص کو دیکھا جو اس کا شوہر تھا۔


"آپ نے مار دیا انہیں۔۔۔"


مناہل نے ڈرتے ہوئے کہا فرزام نے نرمی سے اسکے آنسو اپنے پوروں پر چن لیے۔

"میں نے صرف وہی کیا جو بہت پہلے کر دینا چاہیے تھا۔۔۔۔"

مناہل حیرت سے اس دیوانے کو دیکھنے لگی۔

"مجھے آپ سے ڈر لگتا ہے میں آپ کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔۔۔۔"

مناہل کی بات پر شریر کالی نگاہوں میں وحشت اتری تھی۔

"معاملہ اب تمہاری چاہت کا نہیں رہا میرے جنون اب تم بس میری ہو خود کی بھی نہیں رہی تم مناہل خانزادہ تم پر صرف میرا حق ہے ہمیشہ یاد رکھنا یہ۔۔۔۔"

فرزام بہت زیادہ شدت سے کہہ رہا تھا اور اسکی یہ شدت پسندی مناہل کو ڈرا رہی تھی۔وہ اسکے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی لیکن وہ جو بھی کر لیتی اسکا سفر فرزام خانزادہ سے شروع ہوتا تھا اور منزل اسی پر ختم ہو جاتی تھی۔

"چلو من ورنہ قسم کھاتا ہوں تمہیں اٹھا کر لے جاؤں گا اور مجھے روکنے کی کسی نے کوشش بھی کی ناں تو اسکی جان لے لوں گا۔۔۔"

مناہل نے حیرت سے اسے دیکھا۔فرزام کی آنکھوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔اس سے پہلے کہ جو اس نے کہا تھا وہ کر دیکھاتا مناہل نے ڈرتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا۔

فرزام نے ایک آخری نگاہ فیض پر ڈالی جس کے بے جان وجود سے شیزہ لپٹی رو رہی تھی اور مناہل کا ہاتھ مظبوطی سے تھام کر اسے وہاں سے لے جانے لگا۔

"رک جاؤ فرزام تم مناہل کو نہیں لے جا سکتے۔۔۔۔"

الطاف نے غصے سے کہا لیکن فرزام تو ایسے تھا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔وہ بس مناہل کو اپنے ساتھ کھینچتا ہال تک آ چکا تھا۔الطاف اسکے پیچھے آیا اور مناہل کا ہاتھ پکڑ لیا۔

"تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا تم مناہل کو نہیں لے جا سکتے میں یہ رشتہ اسی وقت توڑتا ہوں۔۔۔"

مناہل کا ہاتھ الطاف کے ہاتھ میں دیکھ کر فرزام نے اپنی بندوق نکال کر الطاف کے ماتھے پر رکھ دی۔

"ایک سیکنڈ لگے گا تمہیں تمہارے بہنوئی کے پاس پہنچانے میں اس لیے آج کے بعد میری من کو غلطی سے بھی مت چھونا۔۔۔"

الطاف نے سہم کر مناہل کا ہاتھ چھوڑ دیا تو فرزام نے بندوق واپس اپنی کمر کے پاس رکھی اور خوف سے کانپتی مناہل کو اپنے ساتھ لے جانے لگا۔

"تمہیں یہ دشمنی بہت مہنگی پڑے گی فرزام خانزادہ۔۔۔"

"اچھا ہے سستی چیزیں میں استمعال بھی نہیں کرتا۔۔۔"

الطاف بس غصے سے دانت کچکچا کر رہ گیا۔وہ بس مناہل کو فرزام کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھ سکتا تھا لیکن فرزام وہ آگ تھا جس کی سامنے الطاف بیگ بھی بے بس ہو چکا تھا۔

(ماضی)

وردہ نے مسکراتے ہوئے خود کو آئینے میں دیکھا۔لال ساڑی میں وہ بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔گزرتے سالوں میں سلیمان کی محبت نے اسکے حسن کو مزید نکھارا ہی تھا۔

 وہ سلیمان کے ساتھ اُس کے ایک بزنس ایونٹ پر جارہی تھی اسی لیے وہ کافی دیر سے تیار ہو کر اسکا انتظار کر رہی تھی۔اپنے پیچھے سے سیٹی کی آواز سن کر وردہ نے پیچھے دیکھا تو نظر بارہ سالہ فرزام پر پڑی جو سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔


"آج تو لگتا ہے میرے بابا جان سے جائیں گے۔۔۔۔"


وردہ نے اسے گھورا لیکن فرزام نے کہاں کبھی کسی بات کی فکر کی تھی۔


"شرم کرو زرا سی تم ماں سے کوئی ایسی بات کرتا ہے۔۔۔"


فرزام وردہ کے قریب آیا اور لاڈ سے اس سے لپٹ گیا۔


"اب آپ لگ ہی اتنی پیاری رہی ہیں تو میں سچ ہی کہوں گا ناں۔۔۔"


وردہ نے محبت سے اپنے شرارتی بیٹے کی ناک دبائی۔


"ماما بابا بلا رہے ہیں آپ کو کہہ رہے ہیں جلدی کریں دیر ہو رہی ہے۔۔۔"


بہرام کی آواز پر وردہ نے اپنی ساڑی کا پلو ٹھیک کیا اور باہر آ گئی۔فرزام بھی اسکے پیچھے آیا تھا۔سلیمان جو اس وقت گاڑی کے ساتھ کھڑا تھا اس نے وردہ کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔


"بولا تھا ناں کہ بابا لٹ جائیں گے۔۔۔"


فرزام کے شرارت سے کہنے پر سلیمان ہلکا سا ہنس دیا اور گاڑی کا دروازہ کھولا تو وردہ فرزام کے سر پر چت لگاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی۔سلیمان گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اپنے بچوں کی جانب مڑا۔


"پتہ ہے گھر کا خیال رکھوں گا،اپنا خیال رکھوں گا اور بہرام کو کوئی شرارت نہیں کرنے دوں گا۔۔۔۔"


فرزام سلیمان سے پہلے ہی بولا تو سلیمان اس کی بات پر ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ابھی وہ دونوں گھر سے کچھ دور ہی گئے تھے جب اس کی مسلسل خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے وردہ بول اٹھی۔


"کیسی لگ رہی ہوں؟"


ایک مسکراہٹ سلیمان کے ہونٹوں پر آئی۔


"یہ بتانے بیٹھا ناں میرے جہان تو پارٹی کی بجائے واپس روم میں جانا پڑے گا۔۔۔۔"


سلیمان کی معنی خیز بات پر وردہ پاؤں کے ناخن تک سرخ ہوئی تھی۔


"بہت بے حیا ہوتے جا رہے ہو۔۔۔۔"


"کیونکہ تم مزید حسین ہوتی جا رہی ہو۔۔۔"


سلیمان نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا لیکن پھر وردہ کے گھورنے پر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔یوں ہی اپنی خوشیوں میں کھوئے وہ دونوں اپنی منزل تک پہنچے۔


سلیمان وردہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے اس شاندار محفل میں داخل ہوا اور اسکا اپنے جاننے والوں سے تعارف کروانے لگا۔


"سلیمان میں فریش ہو کر آتی ہوں۔۔۔"


سلیمان نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تو وردہ واش روم کی جانب چل دی۔ابھی وہ کچھ دور ہی گئی تھی جب اچانک اسکی ٹکر سامنے سے آنے والے ایک آدمی سے ہوئی۔


"آئی ایم سو سوری۔۔۔"


وردہ نے نگاہیں اٹھا کر اس آدمی کو دیکھا تو الفاظ منہ میں ہی اٹک گئے۔اس وقت جو شخص اس کے سامنے تھا وہ کوئی اور نہیں اس کا سابقہ شوہر الطاف حیدر بیگ تھا۔اسکے بچوں کا اصلی باپ۔


"حیدر۔۔۔۔"


وردہ نے ہلکے سے کہا اور اسے وہاں دیکھ کر الطاف کی آنکھوں میں بھی حیرت اتری تھی۔اس نے بے ساختہ وردہ کو سر سے لے کر پیر تک دیکھا جو اتنے سالوں میں پہلے سے بھی زیادہ حسین ہو چکی تھی۔


"وردہ۔۔۔۔"


سلیمان کی آواز پر وردہ کا اٹکا سانس بحال ہوا اور وہ الطاف سے دھیان ہٹا کر سلیمان کو دیکھنے لگی جو اسکے قریب آ رہا تھا۔


"کیا ہوا ڈارلنگ از ایوری تھنگ آل رائٹ؟"


سلیمان نے وردہ کی کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے پوچھا اور وردہ نے بمشکل ہاں میں سر ہلایا۔سلیمان کی نظر الطاف پر پڑی تو مسکرا کر اس نے اپنا ہاتھ الطاف کے سامنے کر دیا۔


"کیسے ہو دوست؟"


الطاف نے بھی اپنا ہاتھ سلیمان کے ہاتھ میں دیا لیکن نظریں مسلسل وردہ پر تھیں۔


"وردہ یہ میرے دوست اور بزنس پارٹنر ہیں الطاف حیدر بیگ اور الطاف یہ میری پیاری سی بیوی وردہ خانزادہ۔۔۔۔"


سلیمان کی آنکھوں میں اس محبت کو الطاف نے چبھتی نگاہوں سے دیکھا۔


"بہت خوبصورت ہیں۔۔۔۔"


سلیمان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔


"شی از مور دین بیوٹیفل شی از مائی لائف۔۔۔۔"


الطاف اب اپنی مٹھیاں بھینچ چکا تھا اور وردہ بس اس شخص کی نظروں کے سامنے سے غائب ہونا چاہتی تھی۔


"تم فریش ہونے جا رہی تھی ناں،فریش ہو جاؤ میں بس دو منٹ میں آتا ہوں۔۔۔۔"


سلیمان نے مسکرا کر کہا اور وردہ کے ہاں میں سر ہلانے پر اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا۔وردہ نے ایک نظر الطاف کو دیکھا اور وہاں سے جانے لگی۔


"سچ کہتے ہیں عورت حسین ہو تو کیا نہیں کر سکتی اب دیکھو ناں میرے ٹھکرانے کے بعد تم نے ایک اور امیر و کبیر آدمی اپنے حسن کے جال میں پھنسا لیا۔"


الطاف کی بات پر وردہ نے نفرت سے اسے دیکھا۔


"جو جیسا ہوتا ہے ناں اسے سب ویسے ہی دیکھتے ہیں۔۔۔"


وردہ مڑنے لگی تو الطاف نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔


"کیا وہ جانتا ہے تم پہلے میرے ساتھ۔۔۔۔"


الطاف نے وردہ کو سر سے لے کر پیر تک دیکھا۔


"یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے اور اگر تمہیں سلیمان کو بتانے کا اتنا ہی دل کر رہا ہے ناں تو جا کر بتا دو پھر تمہیں جواب میں نہیں سلیمان خود دے گا۔"


اتنا کہہ کر وردہ نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور واپس سلیمان کے پاس آگئی۔ ابھی بھی وہ الطاف کی نظریں خود پر گڑھی ہوئی محسوس کر سکتی تھی۔


"سلیمان پلیز گھر چلیں؟آئی ایم ناٹ فیلینگ ویری ویل۔۔۔"


وردہ کی بات پر سلیمان نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلا کر اپنے ساتھیوں کو الوداع کہتا باہر کی طرف چل دیا۔


"کیا ہوا وردہ تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہے تو ہاسپٹل چلیں؟"


سلیمان ڈرائیونگ کرتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگا لیکن وردہ نے انکار میں سر ہلا دیا۔


"تم ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے بتاؤ کیا پریشانی ہے؟"


سلیمان سچ میں کافی زیادہ پریشان ہو رہا تھا۔وردہ نے ایک گہرا سانس لے کر اسے دیکھا۔


"سلیمان وہ تمہارا بزنس پارٹنر الطاف حیدر بیگ۔۔۔"


"ہاں کیا ہوا اسے؟"


سلیمان نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ وردہ کافی اضطراب میں لگ رہی تھی۔


"وہ کوئی اور نہیں میرا پہلا شوہر حیدر ہے۔۔۔"


اچانک ہی سلیمان نے گاڑی کو بریک لگایا اور اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔


"اس سے پارٹنرشپ مت کرو سلیمان وہ بالکل اچھا انسان نہیں ہے دھوکے سے پیٹھ میں وار کرنا اس کا پرانا شوق ہے۔۔۔"


وردہ نے کرب سے ہم نے آنکھیں موندتے ہوئے کہا دو آنسو اس کے گالوں پر بہے تھے۔سلیمان نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا۔


"تم فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں وہ اب تمہاری زندگی میں کسی پریشانی کا باعث نہیں بنے گا یہ وعدہ ہے میرا۔۔۔۔"


وردہ نے آنسو پونچھ کر مسکراتے ہوئے اپنے شوہر کو دیکھا جو اس کے لئے خدا کا دیا تحفہ تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ بہت جلد یہ تحفہ اس سے چھن جانے والا تھا۔

💞💞💞💞

(حال)

چاہت سہمی سی اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی۔اپنے غم و غصے میں وہ اتنا بڑا قدم تو اٹھا چکی تھی لیکن اب اپنی حرکت کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے خود پر غصہ آ رہا تھا۔


بہرام نے اسے اپنا تو لیا تھا لیکن کیا عزت رہ گئی تھی اس کی بہرام کی نظر میں۔چاہت نے نم پلکوں سے کمرے سے باہر جھانکا تو نظر بہرام اور سکینہ پر پڑی۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ سکینہ کے گھر آئے تھے۔


سکینہ جو بہرام کے پاس کھڑی تھیں اچانک ہی انہوں نے اپنے ہاتھ بہرام کے سامنے جوڑ دیے جنہیں بہرام نے فوراً اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔


"یہ آپ کیا کر رہی ہیں اماں جی؟"


بہرام کے سوال پر سکینہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔


"اپنی چاہت کی طرف سے تم سے معافی مانگ رہی ہوں بیٹا۔جانتی ہوں جو اس نے کیا وہ بہت غلط تھا لیکن وہ بہت زیادہ نادان ہے خدارا اسے معاف کر دینا۔۔۔۔"


بہرام نے بے یقینی سے سکینہ کو دیکھا۔


"آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں اماں جی پلیز مجھے شرمندہ مت کریں۔۔۔"


بہرام نے ان کے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے کہا۔


"میں جانتی ہوں بہرام بیٹا کہ تم چاہت سے شادی نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے اپنی ضد سے تمہارے سامنے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا۔۔۔۔اسے اس کی بیوقوفی کی سزا مت دینا۔۔۔۔"


بہرام نے انکار میں سر ہلایا۔چاہت دروازے کے پیچھے چھپی خاموشی سے روتے ہوئے ان کی باتیں سن رہی تھی۔


"آپ ایسا مت کہیں اماں جی اور فکر مت کریں میں کبھی بھی چاہت کو کوئی تکلیف نہیں دوں گا اسے ہر سکھ،ہر آرام دوں گا یہ میرا وعدہ ہے آپ سے۔۔۔"


بہرام نے ایک نظر اس دروازے کو دیکھا جس کے پیچھے چاہت چھپی تھی۔


"لیکن اسے کبھی وہ محبت نہیں مل سکے گی جو ایک بیوی کو شوہر سے ملتی ہے کیونکہ جسے اس نے چنا ہے وہ محبت کرنے کے قابل ہی نہیں۔۔۔۔"


بہرام کی بات پر چاہت کو لگا کہ اس کی دھڑکنیں رک جائیں گی۔


"میں باہر گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں آپ چاہت کو لے کر آ جائیں۔۔۔۔"


بہرام اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور چاہت اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹنے لگی۔پھر اسکی نظر سکینہ پر پڑی جو کمرے میں آئی تھیں لیکن چاہت کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکا ضروری سامان ایک بیگ میں رکھنے لگیں۔


"اماں۔۔۔"


چاہت نے روتے ہوئے سکینہ کو پکارا لیکن سکینہ نے اسے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور اپنی ماں کی یہ بے رخی چاہت کو کہاں گوارا تھی اسی لیے روتے ہوئے سکینہ کے قدموں میں بیٹھ گئی۔


"مجھ سے ناراض مت ہوں اماں چاہے تو میری جان لے لیں لیکن مجھ سے ناراض مت ہوں آپ کی ناراضگی نہیں دیکھ سکتی میں۔۔۔۔"


چاہت پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور سکینہ بھی نم آنکھوں سے اپنی جان سے پیاری اکلوتی بیٹی کو دیکھنے لگیں پھر انہوں نے جھک کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔


"میں تم سے ناراض کیسے ہو سکتی ہوں چاہت میں تو ماں ہوں اور ماں کبھی بھی اپنی اولاد سے ناراض نہیں ہوتی۔۔۔۔"


سکینہ نے چاہت کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔


"لیکن اپنی ضد کے نتیجے میں تم نے جس قدر بہرام کو مجبور کیا ہے ناں تمہیں اب اپنی زندگی سنوارنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔"


چاہت نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا دیا۔


"رشتے مذاق نہیں ہوتے بیٹا اور اپنی ضد میں تم نے بہرام خود سے بدگمان کر دیا ہے اب تمہیں بہت صبر سے چلنا ہو گا۔۔۔"


چاہت نے اثبات میں سر ہلایا۔


"میں تمہارے لئے ہر وقت دعا کروں گی کہ جو کانٹے تم نے اپنی راہ میں بچھائے ہیں اللہ تمہیں ان پر چل کر اپنی منزل تک پہنچنے کی ہمت دے۔۔۔۔"


سکینہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا اور پھر سے اس کا سامان پیک کرنے لگیں۔سامان پیک کرنے کے بعد انہوں نے ایک چادر چاہت پر اوڑھا دی۔


"تمہاری رخصتی کے بہت خواب دیکھے تھے میں نے لیکن شاید قسمت کو میرے خوابوں کا پورا ہونا منظور نہیں تھا۔۔۔"


چاہت بہتی آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھنے لگی۔


"لیکن اب جس زندگی کو تم نے قسمت سے لڑ کر چنا ہے اس میں خوش رہ کر میرا دوسرا خواب زرور پورا کر دینا۔۔۔اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو...."


سکینہ کے ایسا کہنے پر چاہت ان کے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔سکینہ نے بھی اپنے آنسوؤں پر ضبط کرتے ہوئے چاہت کو اپنے ساتھ لگایا اور اس کا سامان پکڑ کر اسے باہر لے آئیں جہاں بہرام ان کا انتظار کر رہا تھا۔


"یہ چاہت کا سامان ہے بیٹا۔مجھے معاف کر دینا جو کچھ میں نے سوچا تھا وہ اپنی بیٹی کو نہیں دے سکی۔۔۔"


بہرام نے فوراً انکار میں سر ہلایا اور وہ بیگ ان کے ہاتھ سے لے لیا۔


"آپ ایسا کہہ کر مجھے شرمندہ مت کریں اماں جی اور سامان صرف چاہت کا ہی کیوں ہے؟آپ بھی میرے ساتھ چل رہی ہیں۔۔۔"


سکینہ نے مسکرا کر انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں میرا بچہ میں اپنی بیٹی کے سسرال نہیں رہ سکتی تم میری فکر مت کرو۔۔۔"


"نہیں اماں جی میں آپ کو اکیلے نہیں چھوڑنے والا۔۔۔"


چاہت نے بھی اپنی ماں کو دیکھا۔


"چلیں ناں اماں۔۔۔"


سکینہ نے دونوں کو محبت سے دیکھا۔


"نہیں بیٹا کچھ بھی ہو جائے اپنی بیٹی کے سسرال میں نہیں رہوں گی۔تم اپنے گھر میں خوش رہو میرے لئے یہی کافی ہے۔۔۔"


"کیا آپ مجھے پرایا سمجھتی ہیں ؟"


بہرام کے سوال پر سکینہ نے افسوس سے اسے دیکھا۔


"نہیں بیٹا بس میرے کچھ اصول ہیں انہیں توڑ کر خوش نہیں رہوں گی بس مجھے مجبور مت کرو۔۔۔"


بہرام ان کے ایسا کہنے پر بے بس ہو گیا۔


"تو ٹھیک ہے کل ایک ملازمہ آپ کے پاس رہنے آئے گی جو آپ کے ساتھ ہی رہے گی اور آپ اعتراض نہیں کریں گی۔۔۔"


بہرام نے گویا حتمی فیصلہ سنایا سکینہ نے بھی مجبور ہوکر ہاں میں سر ہلا دیا۔بہرام نے اپنا سر آگے کر کے ان سے پیار لیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔چاہت ایک بار پھر سے اپنی ماں کے گلے لگ کر رونے لگی۔


"خدا تمہارے لیے آسانیاں پیدا کرے میرا بچہ۔۔۔اور اب بڑی ہو جاؤ بیوقوفیاں مت کرنا اب۔۔۔"


چاہت نے ان سے دور ہو کر ہاں میں سر ہلایا اور بہرام کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔اسکے بیٹھتے ہی بہرام نے گاڑی سٹارٹ کر دی اور خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔


چاہت سہمی سی بہرام کے ساتھ بیٹھی تھی۔ان کے درمیان بدلا رشتہ نا جانے کیوں اسے کترانے پر مجبور کر رہا تھا۔


خانزادہ مینشن پہنچ کر بہرام نے گاڑی روکی اور گاڑی سے نکل کر ملازم کو چاہت کا سامان لانے کا کہہ کر اندر چلا گیا۔چاہت گھبراتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔


"خالہ خالہ ۔۔۔۔۔"


بہرام نے ہال میں داخل ہوتے ہی ملازمہ کو آوازیں دیں جو بھاگتے ہوئے وہاں پر آئی۔


"جی بیٹا۔۔۔"


"اوپر جو روم خالی ہے اسے چاہت کے لیے سیٹ کر دیں اور اسے ڈنر کروا کر روم دیکھا دینا۔۔۔"


چاہت نے بے یقینی سے اپنے شوہر کو دیکھا۔کیا وہ اسے علیحدہ کمرے میں رکھنے والا تھا۔


"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔"


بہرام خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گیا اور خالہ نے چاہت کو کھانے کی ٹیبل پر بیٹھا کر کھانا دیا جو چاہت نے بے دلی سے بس دو نوالے کھایا۔


"آپ کا کمرہ تیار ہے چاہت بیٹا آؤ میں آپ کو دیکھا دوں۔۔۔"


چاہت نے ہاں میں سر ہلایا اور ان کے ساتھ چل دی۔وہ یہاں کتنی ہی بارہ آ چکی تھی اس لئے سب ملازم بھی اسے جانتے تھے۔


"تم کیا یہاں رہنے آئی ہو سب ٹھیک تو ہے؟سکینہ باجی تو ٹھیک ہیں؟"


ملازمہ کے سوال پر چاہت گھبرا گئی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ انہیں کیا جواب دے۔


"سب ٹھیک ہے ۔۔۔میں تھک گئی ہوں۔۔۔"


خالہ نے ہاں میں سر ہلایا اور کمرے کی جانب اشارہ کیا۔


"کچھ چاہیے ہو تو مجھے بلا لینا۔۔۔"


اسے کمرہ دیکھانے کے بعد خالہ نے کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔ان کے جاتے ہی چاہت کمرے میں آئی جو کافی بڑا اور نفیس تھا۔اس محل کا وہ کمرہ بہت خوبصورت تھا لیکن چاہت کو بہت برا لگ رہا تھا کیونکہ وہاں اسکا شوہر جو نہیں تھا۔


"خان جی نے مجھے یہاں کیوں بھیجا شادی کے بعد تو بیوی اپنے شوہر کے کمرے میں رہتی ہے ناں ہر ناول میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔"


چاہت اپنے ہاتھ ملتے ہوئے خود میں ہی بڑبڑانے لگی۔


"ہاں تو وہ مجھ سے ناراض ہیں ناں اسی لیے شاید انہوں نے ایسا کیا۔۔۔"


چاہت نے پریشانی سے کہا تھا اور پھر بیڈ پر بیٹھ کر رونے لگی۔


"وہ تو پہلے کبھی مجھ سے ناراض نہیں ہوئے مجھے تو پتا ہی نہیں کہ انہیں کیسے مناؤں گی۔۔۔۔"


چاہت نے بے بسی سے کہا پھر کچھ سوچ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔


"تمہارے شوہر ہیں اب وہ چاہت پیار سے مناؤ گی تو مان جائیں گے اب یہاں بیٹھنے سے تو ماننے سے رہے۔۔۔"


چاہت نے جلدی سے آئینے کے سامنے جا کر خود کو دیکھا اور اپنی بگڑی حالت دیکھ کر جلدی سے منہ دھونے چلی گئی۔منہ دھو کر اس نے تولیے سے خشک کیا اور سر پر اچھی طرح سے دوپٹہ لے کر کمرے سے باہر آ گئی۔


رات کافی ہو چکی تھی اسی لیے خالی گھر میں کوئی ملازم بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔کتنی ہی دیر وہ بہرام کے کمرے کے باہر کھڑی رہی پھر ہمت کر کے اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔


خالی کمرہ دیکھ کر چاہت پہلے حیران ہوئی لیکن پھر اچانک ہی واش روم کا دروازہ کھلا اور بہرام اپنے گیلے بال تولیے سے رگڑتا واش روم سے باہر آیا۔


ٹراؤزر اور شرٹ پہنے وہ بکھرے سے بالوں کے ساتھ بہت زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔بہرام نے تولیہ صوفے پر رکھا تو اس کی نظر چاہت پر پڑی جو دروازے کے پاس کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔


"تم یہاں کیا کر رہی ہو چاہت؟"


بہرام کی آواز میں بہت زیادہ سرد مہری تھی۔


"آپ سے معافی مانگنے آئی تھی خان جی مجھے۔۔۔۔"


"اکیلا چھوڑ دو مجھے اس وقت۔۔۔"


بہرام نے بے رخی سے اسکی بات کاٹ کر کہا اور اس کی بے رخی پر دو معصوم آنکھیں پھر سے آنسوؤں سے تر ہو گئی گئیں۔چاہت بہرام کے قریب ہوئی اور اپنے ہاتھ کانوں پر رکھ لیے۔


"جانتی ہوں آپ بہت زیادہ غصہ ہیں پھر بھی معاف کر دیں ناں خان جی۔۔۔"


بہرام نے چاہت کو دیکھ کر گہرا سانس لیا جو کان پکڑے بڑی کالی آنکھوں سے معافی مانگتی حد سے زیادہ معصوم لگ رہی تھی۔


"چاہت پلیز چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔"


اب کی بار چاہت نے اپنا منہ بسور لیا۔


"کیوں جاؤں میں یہاں سے میرا کمرہ ہے یہ بیوی ہوں میں آپ کی اور شادی کے بعد بیوی شوہر کے کمرے میں ہی رہتی ہے۔۔۔"


چاہت نے حق سے کہا۔


"چاہت۔۔۔"


"میں نہیں جاؤں گی یہاں سے خاں جی میرا حق بنتا ہے یہاں رہنا اور آپ مجھے۔۔۔"


ابھی الفاظ چاہے کے منہ میں ہی تھے جب اچانک بہرام نے اسے کندھوں سے پکڑا اور کمرے کے دروازے سے لگا دیا۔وہ چاہت کے اتنا قریب تھا کہ چاہت اسکی سانسوں کی مہک اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی۔


"حق کے لین دین کے قابل ہو تم ابھی جو اسکی بات کر رہی ہو؟"


نہ جانے بہرام کے انداز میں ایسا کیا تھا کہ چاہت کا روم روم کانپ اٹھا۔بہرام کی یہ قربت اسکی سانسیں تک اسکے سینے میں روک چکی تھی۔


"اس کمرے میں رہنا تمہارا حق نہیں چاہت خانزادہ فرض ہے لیکن تم اپنا فرض نبھانے کے قابل نہیں۔۔۔"


بہرام اسکے مزید قریب ہوا۔اسکی باہوں میں ایک نازک سا وجود اور اس کی دلنشین خوشبو بہرام کو بے خود کر رہی تھی۔اسی بے خودی کے تحت بہرام نے اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپایا۔چاہت نے سہم کر اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں آج پہلی بار اسے اپنے خان جی سے ڈر لگ رہا تھا۔


"چلی جاؤ یہاں سے چاہت اس سے پہلے کہ کچھ ایسا کر گزروں جس کے بعد ہم دونوں کو پچھتاوا ہو۔۔۔جسٹ گو۔۔۔۔"


بہرام نے اسکے کان کے قریب سر گوشی کی اور اچانک ہی اس سے دور ہوا تو چاہت زور زور سے سانس لے کر اسے دیکھنے لگی۔گھبراہٹ سے نازک وجود کانپنے لگا تھا۔


"تو کیا آپ نے مجھے معاف کر دیا۔۔۔؟"


چاہت نے اسکی کمر کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔


"تمہیں سب دے سکتا ہوں چاہت معافی،تحفظ،سہولت۔۔۔۔نہیں دے سکتا تو محبت ہی نہیں دے سکتا اس لیے اس کے بغیر جینے کی عادت ڈال لو۔۔۔۔"


بہرام نے بغیر پلٹے کہا اور اسی لیے چاہت کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکا۔


"تمہاری سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی تھی میری بیوی بن کر۔۔۔اب جب تمہیں میری محبت نہیں ملے گی تب تمہیں اندازہ ہو گا کہ خود پر کیا ظلم کر بیٹھی ہو۔۔۔کیونکہ بہرام خان زادہ محبت کرنے کے قابل ہی نہیں۔۔۔"


اچانک ہی بہرام اس کی طرف مڑا اور اسے گہری نظروں سے دیکھا۔


"لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا تم اب صرف میری ہو نہ تم پر کسی کی نگاہ برداشت کروں گا اور نہ تمہاری نگاہ کسی اور پر۔۔۔"


بہرام نے بہت زیادہ جنون سے کہا۔


"اب ساری زندگی ایک سمجھوتے کے تحت گزار دو۔۔۔بالکل جیسے میں گزارنے والا ہوں۔۔۔"


چاہت مسلسل روتے ہوئے اسکی بات سن رہی تھی وہ اس سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن بہرام نے اسے بولنے کا موقع ہی کہاں دیا تھا۔


"چلی جاؤں یہاں سے چاہت۔۔۔"


بہرام نے اسے حکم دیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی چاہت کمرے سے باہر آ گئی۔اپنے کمرے میں واپس آکر وہ کتنی ہی دیر بیڈ کے پاس بیٹھ کر روتی رہی تھی لیکن اس نے خود سے ایک وعدہ کیا کہ وہ اپنے شوہر کو خود کو چاہنے پر مجبور کر دے گی پھر چاہے اس کے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔۔۔

💞💞💞💞

فرزام کی نظریں مسلسل مناہل پر تھیں جو اسکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ کے ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھی۔چہرے پر خوف عیاں تھا۔وہ اس وقت ایک سہمی ہوئی بلی کی مانند لگ رہی تھی جو ہاتھ لگانے سے بھی چیخ اٹھتی۔فرزام کتنی دیر سے اس کا یہ خوف برداشت کر رہا تھا لیکن اب اس کی بس ہو چکی تھی۔


"من ۔۔۔۔"


فرزام کے پکارنے پر مناہل نے سہمی نگاہوں سے اسے دیکھا اور تھوڑا اور دروازے کی جانب ہو گئی۔


"یہاں آؤ میرے پاس۔۔۔"


مناہل نے انکار میں سر ہلایا فرزام نے ایک نظر رشید کو دیکھا جو اپنے دھیان ڈرائیو کر رہا تھا۔ایک مسکراہٹ کے ساتھ فرزام نے مناہل کا ہاتھ پکڑ کر اسے قریب کیا اور اسکا سر اپنے سینے پر رکھ دیا۔مناہل ہمیشہ کی طرح کسی کے یوں چھونے پر ڈرتے ہوئے مزاحمت کرنے لگی۔


"ششش۔۔۔۔میرا جنون اتنا ڈر کیوں رہی ہو کھا تو نہیں جاؤں گا تمہیں۔۔۔۔"


فرزام نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی اور اسکی سانسوں کی حرارت اتنے قریب سے محسوس کر کے مناہل کانپ کر رہ گئی۔


"مجھے آپ سے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔"


"کیوں؟"


فرزام نے عام سے انداز میں پوچھا۔


"آپ نے انہیں۔۔۔۔ ااا۔۔۔۔انہیں مار دیا۔۔۔۔"


فرزام کے ہونٹ مسکرا دیے۔اسکی معصوم سی جان اپنے گناہگار کی موت سے بھی خوفزدہ تھی۔


"اور اگر ایسا کر سکتا تو اسے روز زندہ کر کے روز مارتا۔۔۔"


مناہل نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"کیونکہ انہوں نے آپ کے حق پر ڈاکہ ڈالا۔۔۔۔"


مناہل کی آواز بہت زیادہ ہلکی تھی جیسے کہ وہ سوال کرنے سے ڈر رہی ہو۔۔۔۔


"نہیں میرا جنون کیونکہ اسنے تمہیں تکلیف دی،تمہاری زندگی کو تمہارے لیے ایک سزا بنا دیا اس لیے جو سزا میں نے اسے دی وہ بہت کم تھی بہت کم ۔۔۔۔"


دو آنسو مناہل کی آنکھوں سے ٹوٹ کر فرزام کی شرٹ میں جذب ہوئے۔اسے نہیں یاد تھا کہ آخری بار کب کسی نے اسکے بارے میں سوچا تھا۔


"مجھے پھر بھی آپ سے ڈر لگتا ہے۔۔۔"


مناہل نے ہلکی سی سرگوشی کی۔اسکے بالوں میں چلتی فرزام کی انگلیاں اور اسکی گرمائش آہستہ آہستہ مناہل کا خوف مٹا رہی تھی۔


"میں اس ڈر کو مٹا دوں گا میرا جنون خود کو اس طرح سے تم سے ملا دوں گا کہ تمہیں صرف میرے قریب رہ کر سکون ملے گا تم سے تمہیں چرا کر تم میں بس خود کو رچا دوں گا۔۔۔۔"


مناہل اسکے جنونی انداز پر خوف سے کانپ گئی اور نم پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"میں مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہوں،بکھر چکی ہوں۔۔۔"


"میں سمیٹ لوں گا۔۔۔"

فرزام نے مسکراتے ہوئے کہا۔مناہل کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی لیکن فرزام نے اپنی انگلی اسکے ہونٹوں پر رکھ دی۔

"اب بس من ابھی تھوڑا آرام کر لو۔۔۔"

مناہل نہیں جانتی تھی کہ کیوں اس نے فوراً اسکا حکم مانتے ہوئے آنکھیں میچ لی تھیں۔کتنے ہی سوال مناہل کے ذہن میں گردش کر رہے تھے لیکن ان سب کو پس پشت ڈالتی وہ سکون سے فرزام کے سینے پر سر رکھے سو چکی تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ کیوں اس سر پھرے شخص کے قریب زندگی میں پہلی بار اسے تحفظ کا احساس ہو رہا تھا۔وہ بس اتنا جانتی تھی کہ فرزام کے ہوتے ہوئے کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا تھا۔

مناہل کو نیند میں محسوس ہوا کہ وہ کسی کی باہوں میں ہے تو اس نے سہم کر اپنی آنکھیں کھول دیں اور فرزام کو دیکھا جو اسے اٹھائے اپنے کمرے تک پہنچ چکا تھا اور اب نرمی سے بیڈ پر لیٹا رہا تھا۔

"آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟میری ناپاکی کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرنے کی بجائے اتنا پیار کیسے دے سکتے ہیں آپ؟"

فرزام اس کی آنکھوں میں ابھی بھی گہری نیند کا خمار دیکھ سکتا تھا۔

"کس نے کہا کہ تم نا پاک ہو من۔۔۔؟نا پاک تو وہ تھا جس نے گناہ کیا تم بہت پاکیزہ اور معصوم ہو میرا جنون۔۔۔"

فرزام کی بات مناہل کو مزید حیران کر چکی تھی۔

"آپ تو اپنی چیزوں پر کسی کا لمس برداشت نہیں کرتے ناں۔۔۔کوئی انہیں چھوئے تو آپ انہیں توڑ دیتے ہیں تو کیا مجھے بھی توڑ دیں گے؟"

مناہل کی آواز میں وہ کرب فرزام کے دل پر لگا تھا۔اس نے اپنا ہاتھ نرمی سے مناہل کے چہرے پر رکھا۔

"تم کوئی چیز نہیں ہو مناہل خانزادہ تم میرا جنون ہو وہ جنون جس نے اپنا غم سنا کر مجھے ہی میرا نہیں رہنے دیا۔۔۔"

مناہل نے مزید کچھ کہنے کے لیے اپنے ہونٹ کھولے۔۔

"ششش ابھی سو جاؤ من۔۔۔۔۔بعد میں تمہارے ہر سوال کا جواب دوں گا۔۔۔"

فرزام نے مناہل کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے کہا اور کچھ ہی دیر میں مناہل پھر سے نیند کی وادیوں میں کھو گئی اور فرزام اسکے معصوم چہرے میں۔

فرزام حیرت سے اس حسین چہرے کو دیکھ رہا تھا جو سیدھا فرزام کے دل میں اتر رہا تھا ۔وہ ابھی بھی اپنے عروسی جوڑے میں ہی ملبوس تھی لیکن اسکی جیولری فرزام راستے میں ہی اتار چکا تھا۔یوں سادا سی اس دلہن کے جوڑے میں،خود سے ہی بے نیاز وہ فرزام کے دل کو مزید اس سے چراتی جا رہی تھی۔

کیا تھی وہ لڑکی؟فرزام نے تو اسکو تباہ کرنے کا سوچا تھا لیکن مناہل کے ان آنسوؤں نے فرزام خانزادہ کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔

فرزام خود حیران تھا کہ وہ جسے کوئی لڑکی اچھی نہیں لگی تھی مناہل کتنی آسانی سے اسے جنونی بنا گئی تھی۔اب اس کیفِ جنون میں فرزام نے جانے کس حد تک گزر جانا تھا۔

(ماضی)

"یہ میں کیا سن رہا ہوں سلیمان تم ہمارے درمیان ہر طرح کی پارٹنرشپ کو ختم کر رہے ہو؟"

الطاف کو کچھ دیر پہلے ہی یہ خبر ملی تھی کہ سلیمان نے اپنا بزنس اس سے علیحدہ کر لیا تھا اسی لیے وہ سلیمان سے یہ بات پوچھنے اس کے آفس آیا۔


"ٹھیک سنا ہے تم نے۔۔۔"


سلیمان نے سنجیدگی سے اپنا کام کرتے ہوئے کہا۔


"لیکن کیوں؟"


الطاف کے چہرے پر پریشانی واضح تھی۔سلیمان کے ساتھ جڑ کر اسے بہت فائدہ حاصل ہونے والا تھا۔


"کیونکہ تم جیسا دغا باز شخص کسی بھی قسم کا تعلق قائم کرنے کے قابل نہیں۔۔۔۔"


الطاف نے حیرت سے سلیمان کو دیکھا۔


"ایسے کیا دیکھ رہے ہو تمہیں کیا لگا کہ میری وردہ مجھے اپنے ماضی کے بارے میں نہیں بتائے گی؟۔۔۔۔"


سلیمان ہلکا سا ہنسا۔


"اس نے مجھے تمہارا یہ مکرہ چہرہ کب کا دیکھا دیا اس لیے گیٹ آؤٹ آف مائے آفس۔۔۔۔"


سلیمان نے سنجیدگی سے کہا پھر کچھ یاد آنے پر الطاف کی جانب دیکھا۔


"اور ہاں زرا اب جیل اور عدالت کی ہوا کھانے کے لیے تیار رہنا۔وہ کیا ہے ناں کہ میں تم پر ایک لڑکی کے ساتھ نکاح کے بعد فراڈ کا کیس کرنے والا تھا پھر جب تمہیں جانا تو تمہارے کتنے ہی فراڈ سامنے آ گئے جو تم نے بزنس کو اوپر لے جانے کے لیے کیے ہیں۔۔۔۔"


الطاف نے دانت پیس کر سلیمان کو دیکھا۔


"آگ سے مت کھیلو سلیمان خانزادہ جل جاؤ گے ۔۔۔۔"


سلیمان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔


"آگ سے کھیلنا ایک خانزادہ کا شوق ہوتا ہے اور وہ اس سے جلتا نہیں دوسروں کو جلا دیتا ہے۔۔۔۔"


سلیمان اٹھ کر آفس کے دروازے کے پاس آیا اور اسے کھول کر الطاف کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔


"اب عدالت میں ملاقات ہو گی۔۔۔"


الطاف اپنے غصے کو قابو میں کرتا وہاں سے چلا تو گیا لیکن دل ہی دل میں وہ سلیمان خانزادہ کو سزا دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

💞💞💞💞

(حال)

فرزام صبح حسب معمول گھر میں بنی جم میں آیا تو اسکی نظر بہرام پر پڑی جو پہلے سے ہی وہاں پش اپس کر رہا تھا۔فرزام کو دیکھ کر بہرام کی آنکھوں میں بھی حیرت اتری اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔


"تم واپس کب آئے؟"


"صبح چار بجے۔۔۔"


فرزام نے ٹریڈ مل پر چڑتے ہوئے کہا وہ یہی سوچ رہا تھا کہ بہرام کو فیض کی موت کے بارے میں کیسے بتائے گا۔


"ہمم۔۔۔۔زیادہ مسلہ تو نہیں ہوا تھا کل وہاں؟"


بہرام نے اسکے قریب دیوار سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا تو فرزام ہنسنے لگا۔


"نہیں کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہوا تھا بس وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ تمہیں بلا لوں ورنہ بندوقیں لے کر تمہیں مارنے نکل پڑیں گے۔۔۔"


بہرام نے اپنی آنکھیں گھمائیں۔


"پھر کیا کیا تم نے۔۔۔"


فرزام اپنے کمرے میں سوئی مناہل کو یاد کر کے مسکرا دیا۔


"میں نے انہیں کہا کہ انہیں ایک خانزادہ سے ہی رشتہ جوڑنا ہے پھر میں ہوں یا بہرام کیا فرق پڑتا ہے۔اس طرح میں نے من کو ان سے چرا لیا۔"


بہرام نے حیرت سے اپنے بھائی کو دیکھا۔


"تم نے مناہل سے نکاح کر لیا۔۔۔۔؟"


فرزام نے اسے شریر نگاہوں سے دیکھا۔


"اب تم تو اپنی چاہت کی چاہت پوری کرنے پہنچ گئے تھے کسی نہ کسی کو تو سیچویشن سنبھالنی تھی۔"


بہرام نے اسکی بات کا مطلب سمجھ کر ہاں میں سر ہلایا لیکن فرزام کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔


"میں نے سوچا کہ من کو اپنا کر صبح اسے طلاق دینےکے بعد الطاف کو ذلیل کر دوں گا۔۔۔"


بہرام نے غصے سے فرزام کو دیکھا۔


"میں نے تم سے کہا تھا کہ ہم اپنے بدلے میں ایک معصوم کی زندگی تباہ نہیں۔۔۔"


"لیکن جب اس کے قریب گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو پہلے سے ہی ٹوٹ چکی ہے اور اسے توڑنے والا وہ فیض تھا جس نے اسکا بارہ سال کی عمر میں۔۔۔۔"


فرزام کے ہاتھ ٹریڈ مل کے ہینڈل پر سخت ہو گئے اور چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا جبکہ بہرام اسکی بات سن کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔


"اور بیگ ولا کے سب بھیڑیے اس بات سے بے خبر تھے کہ ان ہی میں سے ایک جانور اس معصوم کی زندگی اجاڑ گیا تھا۔۔۔"


فرزام اپنی ہی دھن چہرے پر سختی سے سجائے بولتا جا رہا تھا۔


" کیا کیا تم نے فرزام؟"


فرزام کے ہونٹوں پر خطرناک مسکراہٹ آئی۔


"فیض حسن کو مار دیا ان کی آنکھوں کے سامنے۔۔۔"


اس کی بات پر بہرام نے اپنی آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا۔


"یہ کیا کر دیا تم نے؟"


فرزام کے ماتھے پر بل آ گئے۔


"تو کیا کرتا اسے گلے لگا کر شاباشی دیتا؟"


"میں نے ایسا نہیں کہا۔۔۔"


فرزام کا غصہ دیکھ کر بہرام نے سنجیدگی سے کہا۔


"تو تم بتاؤ بہرام اگر تم وہاں میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے اس درندے کو چھوڑ دیتے جس نے ایک بارہ سال کی بچی پر ظلم کیا اور وہ بھی وہ بچی جو اسکی بیٹی کی جگہ تھی۔۔۔"


فرزام ٹریڈ مل سے اتر کر بہرام کے سامنے آیا اور غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے پوچھنے لگا۔


"ہاں چھوڑ دیتا اسے لیکن صرف تب کے لیے اور بعد میں اسے ایسی سزا دیتا کہ ایسا کام کرنے والے کی روح کانپ جاتی لیکن یوں سب کے سامنے آ کر دشمنی مول نہیں لیتا۔۔۔"


فرزام نے مسکرا کر اپنے بھائی کو دیکھا جس کے چہرے پر یہ بات کہتے ہوئے کسی قسم کا تاثر نہیں تھا۔


"تمہارا یہ سٹائل ہو گا لیکن فرزام خانزادہ دشمن کی آنکھوں میں جھانک کر اسے للکارنا پسند کرتا ہے۔۔۔۔"


فرزام اس سے دور ہوا اور ایک ڈمبل اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔


"رہی الطاف حیدر کو برباد کرنے کی بات تو تم مجھے ایک موقع دے کر تو دیکھو اسکی زندگی اس قدر اذیت ناک بنا دوں گا کہ موت کی بھیک مانگے گا تو بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔"


فرزام کے لہجے میں بہت زیادہ نفرت تھی۔


"تمہیں کیا لگتا ہے میں ایسا نہیں کر سکتا؟لیکن میرا مقصد اسے جسمانی اذیت دینا نہیں اس کے اس دولت اور طاقت کے غرور کو ختم کرنا ہے جس کے سامنے اسے ہر کوئی حقیر لگتا ہے۔۔۔۔جس دن وہ خود حقیر ہو گا اس دن میرا مقصد پورا ہو گا۔۔۔۔"


فرزام بہرام کی آواز میں چھپی وحشت پر مسکرا دیا۔


"اور ایسا ضرور ہو گا۔۔۔۔"


بہرام نے اثبات میں سر ہلایا۔


"فیض اسکے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا ابھی اس کے جانے سے وہ آدھا ختم ہو چکا ہے اور ضرور ہمارے خلاف کچھ کرنے کی سوچے گا اس لیے تم محتاط رہنا۔۔۔۔"


فرزام قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔


"تم میری فکر مت کرو بھائی مجھ سے بھڑے گا تو منہ کی کھائے گا۔"


بہرام اپنے بھائی کی لاپرواہی پر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔


"جو دل میں آئے کرو بس ایک بات یاد رکھنا کہ تمہارے ساتھ کسی اور کی زندگی بھی جڑی ہے۔"


بہرام اتنا کہہ کر جم سے باہر نکل گیا اور اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔ابھی وہ کچھ دور ہی گیا تھا جب کچن سے آنے والی آواز پر اس کے قدم خود بخود رک گئے۔


"چاہت بیٹا آپ مت کرو بہرام صاحب کو پتہ لگا تو ڈانٹیں گے۔۔۔۔"


خالہ پریشانی سے کہہ رہی تھیں جبکہ چاہت چولہے کے سامنے کھڑی نہ جانے کیا کر رہی تھی۔


"وہ ڈانٹیں گے تو میں کہوں گی کہ میں اپنی مرضی سے کر رہی ہوں آپ انکی فکر مت کریں اور جا کر کچھ اور کام کر لیں۔۔۔۔"


"لیکن چاہت بیٹا۔۔۔۔"


"اف او خالہ جائیں ناں۔۔۔۔"


خالہ نے گہرا سانس لیا اور دوسرے دروازے سے کچن سے نکل گئیں۔چاہت نے جلدی سے پراٹھا توے سے اتار کر پلیٹ میں رکھا پھر منہ بنا کر اسکا جائزہ لینے لگی۔جبکہ بہرام دروازے میں کھڑا اسکی ہر حرکت دیکھ رہا تھا۔


"اماں جیسا بن ہی گیا ہے تھوڑا تھوڑا۔۔۔بس گول کی بجائے پاکستان کا نقشہ لگ رہا ہے اور تھوڑا جل بھی گیا ہے۔۔۔۔"


چاہت نے خود سے کہا اور پھر پراٹھے کا جلا ہوا حصہ نکال کر پھینک دیا۔


"اب ٹھیک ہے کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ جل گیا۔۔۔"


چاہت نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا اور پھر چائے کے لیے پانی چولہے پر رکھنے لگی جب بہرام اسکے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔


"کیا کر رہی ہو تم؟"


بہرام کی آواز پر چاہت چیخ مار کر مڑی اور ہاتھ میں پکڑی ساری پتی بہرام کے چہرے کے ساتھ شرٹ پر گر گئی۔یہ دیکھ کر چاہت بری طرح سے بوکھلا گئی اور اپنے دوپٹے سے بہرام کا چہرہ اور شرٹ صاف کرنے لگی۔


"سوری جان جی غلطی سے ہو گیا۔۔۔۔"


اسکی بات پر بہرام نے جہاں اسے گھورا وہیں چاہت کی آنکھیں مزید بڑی ہو گئیں۔


"خان جی بولا قسم سے خان جی بولا ۔۔۔"


بہرام نے ضبط سے اپنی کن پٹی کو سہلایا۔


"تم یہاں کیا کر رہی ہو چاہت؟"


بہرام نے ایک نظر اسکے حسین سراپے پر ڈالی۔گلابی سوٹ میں دوپٹہ کندھوں پر پھیلائے اور لمبے بالوں کو چوٹی میں باندھے وہ کوئی نازک سی گڑیا ہی تو لگ رہی تھی۔


"آپ کے لیے ناشتہ بنا رہی ہوں۔۔۔۔"


بہرام نے اسے زرا غصے سے دیکھا۔


"یہ تمہارا کام نہیں۔۔۔"


"کیوں میرا کام نہیں آپ کا ہر کام کرنا میرا حق ہے اور آپ مجھے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتے۔۔۔"


چاہت بہرام کی آنکھوں میں موجود سختی کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی۔


"اگر ایک بار بھی تم نے حق کی بات کی ناں چاہت تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔اور تمہیں یہ سب کرنے کی بجائے اپنی پڑھائی پر دھیان دینا ہے۔۔۔"


چاہت کی حسین آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"پڑھائی۔۔۔۔؟اس سب میں پڑھائی کہاں سے آ گئی خان جی بھلا شادی کے بعد بھی کوئی لڑکی پڑھتی ہے سب کو بے وقوف لگوں گی۔۔۔۔"


"کوئی بے وقوف نہیں لگو گی اور میں تمہیں گھر بیٹھ کر یہ سب نہیں کرنے دوں گا تمہاری پڑھائی کی عمر ہے ابھی اسی پر دھیان دو۔۔۔"


چاہت کا منہ بن چکا تھا۔


"جاؤ تیار ہو میں آفس جانے سے پہلے تمہیں کالج چھوڑ دوں گا۔۔۔۔"


"لیکن خان جی۔۔۔"


"تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا چاہت۔۔۔"


بہرام کے رعب سے کہنے پر چاہت خوف سے اچھل پڑی اور اپنے دوپٹے کا کونا ٹٹولنے لگی۔


"میرے پاس کتابیں نہیں وہ تو میرے گھر پر رہ گئی تھیں۔۔۔"


چاہت نے بہانہ بنانے کی کوشش کی۔


"ٹھیک ہے ہم کالج جانے سے پہلے اماں جی کے پاس جائیں گے اس طرح تم وہاں سے اپنی کتابیں لے لینا اور ان سے مل بھی لینا۔۔۔۔"


چاہت نے برا سا منہ بنا کر اثبات میں سر ہلایا۔بہرام وہاں سے چلا گیا تو چاہت نے غصے سے اپنا پیر پٹخا۔


"ہیں کیا یہ،گوریلا،کنگ کانگ،گوڈزیلا،ڈائناسور سب کی ملی جلی فارم ہیں۔۔۔۔"


چاہت بڑبڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں آئی اور اپنا یونیفارم نکالنے لگی۔


"اوپر سے میری قسمت دیکھو ان کے شوہر ہونے کی وجہ سے کسی کو کوس بھی نہیں سکتی اپنا ہی کارنامہ ہیں یہ۔۔۔۔"


چاہت نے یونیفارم کو دیکھتے ہوئے کہا پھر کچھ سوچ کر ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ آ گئی۔


"لیکن دنیا کے سب سے پیارے کنگ کانگ ہیں۔۔۔"


چاہت اپنی بات پر خود ہی ہنس دی اور یونیفارم چینج کرنے چلی گئی۔کیونکہ اس نے سوچ لیا تھا کہ بہرام کے دل میں اترنے کے لیے بالکل ویسا بنے گی جیسا وہ چاہتا ہے۔ایک بات ماننے والی اچھی بیوی۔۔۔

💞💞💞💞

فرزام جم سے اپنے کمرے میں آیا تو نظر بیڈ پر سوئی مناہل پر پڑی جو کسی بچے کی مانند پر سکون نیند سو رہی تھی۔اسے دیکھ کر ہی فرزام کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ اور دل میں سکون کی لہر اٹھی تھی۔


وہ مسکراتے ہوئے مناہل کے قریب آیا لیکن تبھی مناہل کا سکون اضطراب میں بدلا تھا۔پہلے تو چہرے پر بہت زیادہ خوف آیا اور پھر وہ نیند میں ہی سسکنے لگی۔


"من اٹھو میرا جنون۔۔۔کیا ہوا؟"


فرزام نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کے ایسا کرتے ہی مناہل کی سسکیاں چیخوں میں بدل گئیں۔۔۔۔


"نہیں پلیز نہیں۔۔۔۔"


مناہل چیختے ہوئے فرزام سے دور ہوئی تو فرزام کی آنکھوں میں وحشت اتری۔دل کر رہا تھا کہ کاش فیض زندہ ہوتا تو اسے پھر سے مار دیتا۔


"من میرا جنون یہ میں ہوں یہاں آؤ میرے پاس۔۔۔۔"


فرزام نے اسے اپنے قریب بلایا تو مناہل سہم کر مزید دور ہو گئی اور یہ فرزام کو کہاں گوارا تھا اسی لیے وہ بیڈ کی دوسری طرف آیا اور اسے ہاتھ سے کھینچ کر کھڑا کرتے ہوئے اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔


ایک مظبوط وجود کو خود کو جکڑتا محسوس کر مناہل بری طرح سے مزاحمت کرنے لگی۔


"شش۔۔۔۔۔من مت ڈرو میرے جنون۔۔۔۔مت کتراو تم یہاں محفوظ ہو میرے قریب کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔۔۔"


فرزام نے مناہل کی کان میں سرگوشی کی تو کچھ ہی دیر میں مناہل کا جسم کانپنا بند ہو گیا اور وہ فرزام کی پناہ میں بالکل ساکت ہو گئی۔فرزام کو یہ کچھ ٹھیک نہیں لگا اس نے مناہل کو چہرہ سر سے تھام کر اپنے سینے سے نکالا تو اسے پتہ چلا کہ مناہل سانس تک نہیں لے رہی تھی۔


"من سانس لو۔۔۔۔"


فرزام نے اسے حکم دیا جبکہ مناہل تو ایسا لگ رہا تھا کہ اسکی بات سن ہی نہیں رہی تھی۔فرزام اچانک ہی اسکے بہت قریب ہوا تو مناہل مزید سہم گئی۔


"سانس لو من ورنہ تمہیں اپنی سانسیں دے دوں گا اور یہ تم سے برداشت نہیں ہو گا۔۔۔۔"


فرزام کی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی مناہل خود سے زبردستی کرتے ہوئے کھینچ کھینچ کر سانس لینے لگی۔فرزام مسکرایا اور اپنے ہونٹ نرمی سے اسکے ماتھے پر رکھ کر اس سے دور ہو گیا۔


"اف قسمت یار بیوی تو سائے سے بھی ڈرتی ہے اپنے لگتا ہے شادی شدہ ہو کر بھی کنوارہ ہی مروں گا۔۔۔"


فرزام نے آئنے کے سامنے جا کر اپنے بال سنوارتے ہوئے کہا اور مناہل نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔


"تم مجھ سے اتنا کیوں ڈرتی ہو من؟"


فرزام نے اسے آئینے میں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"میں سب سے ڈرتی ہوں۔۔۔"


مناہل نے عام سے انداز میں کہا جیسے یہ اس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہو۔


"آج کہ بات تم میرے ہوتے ہوئے کسی سے نہیں ڈرو گی اور مجھ سے تو بالکل نہیں۔۔۔"


مناہل نے حیرت سے اس عجیب سے شخص کو دیکھا جسے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔


"آپ مجھے نہ ڈرنے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟"


اسکے سوال پر فرزام قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔


"تم نے اپنے شوہر کو جانا ہی کہاں ہے میرا جنون،میں وہ سب کر سکتا ہوں جو تم نے خواب میں بھی نہ سوچا ہو۔۔۔"


مناہل اسکی معنی خیز بات پر کانپ کر رہ گئی۔اچانک ہی فرزام نے اپنی ٹی شرٹ اتار کر صوفے پر اچھال دی تو اسکے چوڑے سینے اور مظبوط باہوں کو دیکھ کر مناہل نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اور دیوار کے ساتھ جا لگی۔

فرزام اسکی یہ حالت دیکھ کر مسکراتے ہوئے اسکے قریب آیا اور اپنا ایک ہاتھ اسکے سر کے ساتھ دیوار پر رکھا۔

اپنی آنکھیں کھولو من۔۔۔"


مناہل نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"آنکھیں کھولو ورنہ تمہاری بند آنکھوں کا فائدہ اٹھا لیا تو پھر سے سانس لینا بھول جاؤ گی۔۔۔۔"


مناہل نے فوراً اپنی سہمی نم آنکھیں کھول دیں تو فرزام نے اسکا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر اپنے مظبوط بازو پر رکھ دیا۔


"ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا من میری یہ طاقت تمہاری حفاظت کے لیے ہے کیونکہ میرے رب نے مرد کو طاقت ہی عورت کی حفاظت کے لیے دی ہے۔۔۔"


فرزام کی بات پر مناہل کی آنکھیں روانی سے بہنے لگیں۔


"پھر مرد ہی اس طاقت کو ہمارے خلاف استعمال کر کے ہمیں تکلیف کیوں دیتا ہے؟"


مناہل کے سوال پر فرزام نے اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے ٹکا دیا۔


""یقین جانو من ایسا مرد مرد کہلانے کے قابل ہی نہیں جو اپنی طاقت سے کمزور کو تکلیف دے۔۔۔"


مناہل نے اپنی پلکیں اٹھا کر فرزام کو دیکھا۔


"آپ وعدہ کرتے ہیں کہ مجھے کبھی تکلیف نہیں دیں گے؟"


مناہل کے سوال پر فرزام اس سے دور ہوا اور دراز میں سے ایک بلیڈ نکال کر اپنے ہاتھ پر کٹ لگا دیا۔یہ دیکھ کر مناہل کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔


"اپنے اس بہتے خون کی قسم کھا کر کہتا ہوں مناہل خانزادہ کہ فرزام خانزادہ اپنی آخری سانس تک اپنی طاقت کو صرف تمہاری حفاظت کے لیے استعمال کرے گا۔"


فرزام کے اس انداز پر مناہل حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔اچانک ہی فرزام نے اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلا دیا۔


"تم بھی وعدہ کرو من کہ مجھ پر بھروسہ کرو گی اور مجھ سے کبھی نہیں ڈرو گی۔۔۔"


مناہل کتنی ہی دیر فرزام کے ہاتھ کو دیکھتی رہی پھر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں تھما دیا۔


"کوشش کروں گی۔۔۔"


فرزام کے دائیں گال پر ڈمپل نمایاں ہوا۔


"یہ بھی کافی ہے۔۔۔"


فرزام نے ٹشو سے اپنے اور مناہل کے ہاتھ سے خون صاف کیا اور وارڈ روب سے کپڑے نکالنے لگا تو ایک خیال کے تحت مناہل کی جانب مڑا۔


"تمہارے پاس کپڑے نہیں ہیں ناں؟"


مناہل نے بھی اپنے جسم پر موجود سرخ عروسی لباس کو دیکھا اور انکار میں سر ہلا دیا۔


"اوکے پھر ناشتے کے بعد شاپنگ پر چلتے ہیں۔۔۔"


مناہل نے سہم کر انکار میں سر ہلایا۔


"مجھے لوگوں میں جانے سے ڈر لگتا ہے۔۔۔"


فرزام نے مسکرا کر اسے دیکھا اور ایک تولیہ اپنے کندھوں پر ڈالا۔


"یہ سمجھو کہ تمہارے مجھ پر بھروسے کا پہلا امتحان ہے یہ۔۔۔"


فرزام اسکی قریب آیا اور اسے یوں شرٹ لیس دیکھ کر مناہل کتراتے ہوئے اس سے دور ہوئی۔

"اور یقین کرو مال میں جا کر تم سوچو گی کہ جتنا لڑکیاں تمہارے شوہر کو دیکھتی ہیں اپنی بجائے اس کے لیے برقع لینا پڑے گا۔۔۔"

فرزام نے اسکی ناک دبا کر شرارت سے کہا اور واش روم میں چلا گیا جبکہ مناہل اپنی جگہ پر کھڑی یہ سوچتی رہ گئی تھی کہ آخر وہ کیسے کسی مرد پر بھروسہ کر سکتی تھی؟فیض نے تو اسے اس قابل ہی نہیں چھوڑا تھا لیکن وہ ابھی نکاح کے دو بول کی طاقت سے واقف نہیں تھی۔

💞💞💞💞

فیض کی تدفین کے بعد الطاف اپنے کمرے میں آیا۔فرزام خانزادہ ایک ہی پل میں اس کی بہن کی دنیا اُجاڑنے کے ساتھ ساتھ الطاف کی آدھی طاقت کم کر چکا تھا۔اگر الطاف کا بس چلتا تو وہ فرزام کو ایک ہی دن میں مروا دیتا لیکن مناہل اب فرزام کی بیوی تھی اور الطاف کو کسی بھی طرح اپنے پلین کے پورے ہونے کا انتظار کرنا تھا کیونکہ اسے خانزادہ خاندان کی دولت چاہیے تھی اور اسے اس کے لیے ابھی انتظار کرنا تھا۔

اچانک ہی کمرے کا دروازا کھلا اور شیزہ روتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔

"بھائی میں اسے نہیں چھوڑوں گی۔۔۔آپ پولیس کو فون کریں۔۔۔۔مجھے اس شخص کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا ہے ۔۔۔۔"

الطاف نے اپنی بہن کی جلد بازی پر گہرا سانس لیا۔

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم اسے جیل میں ڈلوا دو گی اور وہ وہیں پر رہے گا؟بہرام خانزادہ کا بھائی ہے وہ ایک گھنٹے کے لئے بھی بہرام اسے جیل میں نہیں رہنے دے گا۔"

الطاف کی بات پر شیزہ روتے ہوئے اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔۔

"تو مجھے بتائیں بھائی میں کیا کروں اتنی بے رحمی سے اس نے ہماری آنکھوں کے سامنے میرے شوہر کو مار دیا۔۔۔وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے سے نہیں جا رہا۔۔۔میں کیا کروں بھائی میں کیا کروں۔۔۔۔؟"

الطاف نے اپنی روتی ہوئی بہن کے سر پر ہاتھ رکھا۔

"صبر کرو شیزہ۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں ایک دن اسے اس کی اتنی بڑی سزا دوں گا کہ بیگ خاندان کی طرف آنکھ اٹھانے والے کی روح خوف سے کانپ جائے گی لیکن ابھی تمہیں صبر کرنا ہوگا۔۔۔۔"

شیزہ نے بے بسی سے ہاں میں سر ہلایا اور خاموشی سے آنسو بہانے لگی جب کہ اسے یوں روتے دیکھ الطاف نے خانزادہ بھائیوں کو تباہ و برباد کرنے کی قسم کھائی تھی۔

تم دونوں اس دن کو کوسو گے جس دن تم الطاف بیگ سے بھڑنے کا سوچا۔۔۔۔

الطاف نے اپنے ذہن میں سوچا اور ایک مکروہ مسکراہٹ اسکے چہرے پر آئی۔اس نے بہرام اور فرزام کو برباد کرنے کی قسم کھالی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے خلاف کچھ کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا۔الطاف کو بس کوئی ایسا ذریعہ ڈھونڈنا تھا جس کے وار سے وہ بچ نہ سکتے اور وہ اس زریعے کو جلد از جلد ڈھونڈنا چاہتا تھا۔

چاہت چھٹی کے بعد کالج سے باہر آئی تو سامنے ہی بہرام کا سب سے بھروسہ مند آدمی رشید بڑی سی پراڈو کے پاس کھڑا اسکا انتظار کر رہا تھا۔


چاہت کا دن اس کی توقع سے زیادہ اچھا گزرا تھا پہلے تو وہ کالج آنے سے پہلے بہرام کے ساتھ سکینہ سے ملنے گئی تھی پھر کالج آنے کے بعد اسے پتہ چلا کہ سیفی کو کالج سے نکال دیا گیا تھا۔چاہت جانتی تھی کہ اس سب کے پیچھے بہرام کا ہی ہاتھ تھا۔


ابھی بھی وہ خوشی سے مسکراتے رشید کے پاس گئی اور اسے سلام کیا۔


"و علیکم السلام۔۔۔"


رشید نے عقیدت سے کہا اور گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔بہرام اپنے ہر ملازم کو چاہت کے مقام سے آگاہ کر چکا تھا اس لیے رشید چاہت کی اتنی ہی عزت کرنا چاہتا تھا جتنی وہ بہرام کی کرتا تھا۔


"رشید بھائی ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔؟"


چاہت نے آگے ہو کر ڈرائیو کرتے رشید سے پوچھا۔


"گھر چاہت بی بی۔۔۔۔"


"کیا خان جی بھی گھر ہی ہیں؟"


چاہت کے دلچسپی سے پوچھنے پر رشید نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں وہ اپنے آفس میں ہیں۔"


چاہت کچھ دیر کے لئے سوچ میں پڑ گئی پھر مسکراتے ہوئے بولی۔


"آپ مجھے ان کے پاس آفس لے جائیں۔۔۔"


رشید نے حیرت سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔


"لیکن بہرام صاحب نے آپ کو گھر لے جانے کا کہا تھا۔۔۔"


"تو اب میں کہہ رہی ہوں ناں کہ آپ مجھے ان کے پاس آفس لے جائیں۔ویسے بھی میں کہیں اور نہیں بلکہ خان جی کے پاس ہی جانے کا کہہ رہی ہوں اور اگر آپ نے میری بات نہیں مانی ناں تو میں خان جی کو شکایت لگا دوں گی۔"


رشید اس کی دھمکی پر گھبرا گیا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔آخرکار اس نے مجبو ر ہوکر گاڑی بہرام کے آفس کی طرف موڑ دی۔


"اگر بہرام صاحب نے مجھے آپ کی وجہ سے ڈانٹا تو؟"


آفس کے باہر گاڑی روک کر رشید نے پریشانی سے چاہت کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"فکر مت کریں خود ڈانٹ کھا لوں گی لیکن آپ کو نہیں پڑنے دیتی۔"


اتنا کہہ کر چاہت گاڑی سے نکلی اور آفس میں داخل ہو گئی۔وہ جانتی تھی کہ بہرام کا آفس دسویں منزل پر تھا اسی لیے لوگوں کو نظر انداز کرتی سیدھا وہاں چلی گئی۔


دروازے کے باہر کھڑے ہو کر چاہت نے اپنی چادر اور کپڑے ٹھیک کیے اور بھر پور کانفیڈینس سے دروازہ کھول کر آفس میں داخل ہو گئی۔


آفس کے ماربل کے فرش پر قدم رکھتے ہی چاہت کا پاؤں بری طرح سے پھسلا اور وہ زمین پر جا گری۔اس نے بوکھلا کر جلدی سے بہرام کو دیکھا لیکن بہرام کے ساتھ ساتھ دو آدمیوں کو خود کو دیکھتا پا کر چاہت شرم سے اپنی ہی جگہ پر جم گئی۔


"ہم یہ سب بعد میں کریں گے ابھی آپ لوگ جا سکتے ہیں۔۔۔۔"


بہرام کے ایسا کہتے ہی وہ دونوں اٹھ کر آفس سے باہر نکل گئے۔بہرام اپنی جگہ سے اٹھا اور چاہت کے پاس آ کر اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔


"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"


بہرام نے چاہت سے پوچھا لیکن چاہت تو بس اسے دیکھنے میں مصروف تھی جو براؤن پینٹ کوٹ میں حد سے زیادہ ڈیشنگ لگ رہا تھا۔


"وہ آپ میرے سے ملنے آئی تھی۔۔۔"


بہرام کے ماتھے پر بل آتا دیکھ چاہت کو اندازہ ہوا کہ وہ کچھ اور ہی بول چکی ہے۔


"میں آپ سے ملنے آئی تھی۔۔۔۔میں گھر اکیلی بور ہو جاتی، اس لیے سوچا آپ کے پاس آ جاؤں۔۔۔۔"


چاہت نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن اسکی مسکراہٹ بہرام کو مسکرانے پر مجبور نہیں کر پائی تھی۔


"میں یہاں کام کر رہا ہوں چاہت۔۔۔۔"


"تو کریں ناں۔۔۔میں آپ کو تنگ نہیں کروں گی بس خاموشی سے وہاں بیٹھی رہوں گی پکا والا وعدہ۔۔۔۔"


بہرام نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا اور اپنی جگہ پر واپس چلا گیا جبکہ اسکی رضامندی پر چاہت کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔


وہ ایک کونے میں پڑے صوفے پر بیٹھ گئی اور خاموشی سے اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرتے بہرام کو دیکھنے لگی۔کتنی ہی دیر بہرام اسکی نظریں خود پر محسوس کرتا رہا پھر اکتا کر چاہت کو دیکھا جو ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ کوئی ٹی وی ہو۔۔۔۔


"اگر مجھے بس گھورنا ہی ہے تو گھر جا کر یہ کام میری تصویر پکڑ کر کر لو لیکن مجھے ڈسٹرب نہیں کرو۔۔۔"


بہرام کے سختی سے کہنے پر چاہت کا منہ بن گیا۔وہ بس اسے خاموشی سے دیکھ ہی تو رہی تھی۔


"ٹھیک ہے اب آپ کو نہیں گھوروں گی۔"


چاہت نے منہ بنا کر کہا اود اپنے بیگ سے ایک میگزین نکال کر اسے دیکھنے لگی۔بہرام جانتا تھا کہ وہ میگزین بس چاہت کے سامنے تھا کیونکہ وہ ابھی بھی نظریں چرا کر میگزین کے پیچھے سے اسے دیکھ رہی تھی۔


بہرام نے گہرا سانس لیا اور اسے نظر انداز کرتا اپنا کام کرنے لگا۔ابھی کچھ پل ہی گزرے تھے جب اسکا دروازہ ناک ہوا۔


"کم ان۔۔۔"


بہرام کے کہنے پر اسکا پی اے کمرے میں داخل ہوا اور ایک فائل اسکے سامنے کی۔


"سر یہ لسٹ فائنلائز ہو گئی ہے۔۔۔"


بہرام نے ہاں میں سر ہلا کر فائنل کو ہاتھ میں پکڑا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔جب اسے کوئی غلطی نظر آئی تو اپنے پی اے کی جانب دیکھا جو کھڑا تو بہرام کے سامنے تھا لیکن نظریں مسلسل صوفے پر بیٹھی چاہت پر تھیں۔


یوں اپنی ملکیت پر کسی اور کی نظریں دیکھ کر بہرام کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا تھا۔


"شیراز ۔۔"


بہرام کے پکارنے پر پی اے نے اسے دیکھا۔


"اگر زندگی میں کچھ اور دیکھنا چاہتے ہو تو اپنی نظروں کو قابو میں رکھو۔۔۔۔"


بہرام کے آہستہ سے غرانے پر شیراز نے گھبرا کر ہاں میں سر ہلایا اور سوری سر کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔بہرام نے چاہت کو دیکھا جو ہر چیز سے بے نیاز صوفے پر بیٹھی میگزین دیکھ رہی تھی جبکہ چادر کب کی ڈھلک کر ایک کندھے پر آ چکی تھی۔


بہرام غصے سے اٹھا اور اسکے قریب آ کر اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔چاہت جو اس حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی بوکھلا کر بہرام کو دیکھنے لگی۔


"کیا ہوا خان جی؟"


"میں نے تمہیں بتایا تھا کہ تم صرف میری ہو چاہت خانزادہ نہ تمہاری نظریں کسی پر برداشت کروں گا نہ تم پر کسی کی نظریں ۔۔۔۔"


بہرام کا غصہ دیکھ کر چاہت بہت زیادہ گھبرا چکی تھی لیکن اسے اس غصے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔بہرام نے صوفے سے اسکی چادر پکڑی اور اسکے سر پر ڈال دی۔


"گھر سے باہر پھر کبھی یہ تمہارے سر سے اتری تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔"


چاہت نے فوراً ہاں میں سر ہلایا وہ بس بہرام کا غصہ ختم کرنا چاہتی تھی۔


"رشید کے ساتھ گھر واپس جاؤ۔۔۔"


"لیکن مجھے آپ کے ساتھ گھر واپس جانا ہے۔۔۔"


چاہت نے منہ بسور لیا اور بہرام نے اپنی آنکھیں موند کر غصے پر قابو کیا۔


"جو کہا ہے وہ کرو چاہت۔۔۔"


چاہت نے ہاں میں سر ہلایا اور اچھی طرح سے چادر لیتی باہر آ گئی جہاں رشید اسکا انتظار کر رہا تھا۔پورا راستہ چاہت بہرام کے غصے کی وجہ سے سمجھنے کی کوشش کرتی رہی تھی لیکن بہت سوچنے کے باوجود اسے وہ وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔

💞💞💞💞

مناہل گھر کے لان میں بیٹھی خوبصورت پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔کچھ دیر پہلے ہی وہ فرزام کے ساتھ شاپنگ کر کے واپس آئی تھی۔مال میں فرزام نے ایک پل کے لیے بھی اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا جیسے کہ وہ کوئی چھوٹی بچی ہو جو بہت آسانی سے کھو جائے گی۔


مناہل نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کسی کے لیے اس قدر اہم ہو گی۔فرزام تو گھر واپس آتے ہی اپنے دوست سے ملنے چلا گیا تھا اور مناہل فرزام کے دلائے کپڑے پہن کر لان میں بیٹھی اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔


جب ایک بڑی سی گاڑی پورچ میں داخل ہوئی اور سفید یونیفارم اور کالی چادر میں ملبوس لڑکی اس گاڑی سے باہر نکلی۔مناہل کو یاد آیا کہ فرزام نے اسے بہرام کے شادی سے جانے کی وجہ ایک لڑکی بتائی تھی تو کیا یہ وہی لڑکی تھی لیکن وہ تو دیکھنے میں مناہل سے بھی چھوٹی لگ رہی تھی۔


"یہ کون ہے رشید بھائی؟"


چاہت نے مناہل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا جو لان میں موجود کرسی پر بیٹھی تھی۔


"یہ مناہل بی بی ہیں فرزام صاحب کی بیوی۔"


چاہت نے آنکھیں بڑی کر کے رشید کو دیکھا۔


"فرزام بھائی کی شادی ہو گئی؟"


رشید نے اثبات میں سر ہلایا۔


"یہ وہی ہیں جن سے بہرام صاحب کی شادی ہونی تھی لیکن ان کے وہاں نہ ہونے کی وجہ سے فرزام صاحب کو ان سے شادی کرنی پڑی۔۔۔"


یہ بات جان کر چاہت کو وہ پیاری سی لڑکی فوراً بری لگنے لگی تھی۔


"ٹھیک ہے آپ جائیں۔۔۔۔"


رشید فوراً وہاں سے چلا گیا اور چاہت کمرے میں جانے کی بجائے مناہل کے پاس آئی جو اسے اپنے قریب آتا دیکھ کر گھبرانے لگی۔


"ہ۔۔۔۔ہائے۔۔۔"


مناہل نے گھبراتے ہوئے کہا تو چاہت اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھنے لگی۔


"تو تم ہو وہ جو میرے خان جی کو مجھ سے چھیننا چاہتی تھی۔۔۔"


چاہت کے سوال پر مناہل گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔اسکا دل کر رہا تھا کہ فرزام کہیں سے بھی اس کے پاس آ جائے۔


"نن۔۔۔۔نہیں میں انہیں کیوں۔۔۔میرا نکاح تو فرزام سے ہوا ہے۔۔۔۔"


چاہت نے مناہل کو سر سے لے کر پیر تک دیکھا۔


"فرزام بھائی کی بیوی ہو اس لیے کچھ نہیں کہہ رہی کہیں تمہیں ہاتھ لگانے پر ہاتھ ہی نہ توڑ دیں میرا۔۔۔"


چاہت نے شرارت سے کہا اور مناہل کے پاس بیٹھ گئی۔


"ویسے اب خیر ہے اب تو تم خان جی کی بھابھی بن گئی ہو ناں تو تم انہیں مجھ سے نہیں چھینو گی۔۔۔"


چاہت نے یہ بات کہی تھی لیکن اسکا انداز ایسا تھا جیسے سوال پوچھ رہی ہو۔مناہل کو اس لڑکی پر رحم آیا جو بس اپنی محبت کو سب سے بچانا چاہ رہی تھی۔


"ہماری منگنی میرے گھر والوں کی مرضی سے ہوئی تھی میں نے بہرام کے لیے تب بھی ایسا کچھ نہیں سوچا اور اب تو بالکل ہی ایسا نہیں سوچتی۔۔۔"


چاہت کے چہرے پر یہ بات جان کر اطمینان آیا تھا۔


"تو پھر تم بھی انہیں بہرام بھائی بلایا کرو ناں جیسے میں فرزام بھائی کو بھائی بلاتی ہوں۔۔۔"


چاہت کی معصوم بات پر مناہل ہنس دی۔


"کیا؟ لطیفہ تو نہیں سنایا میں نے بھئی بس ایک بار بھائی بلا لو مجھے سکون ہو جائے گا۔۔۔"


مناہل نے حسرت سے اس لڑکی کے چہرے پر اطمینان دیکھا۔اس کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اسے بہت لاڈوں سے پالا گیا ہے اور اگر مناہل کے ماں باپ زندہ ہوتے تو شائید مناہل بھی اسکے جیسی ہوتی۔


"ٹھیک ہے میں انہیں بہرام بھائی بلا لیا کروں گی ۔۔۔ "

چاہت اب کھل کر مسکرائی۔

"شکریہ۔۔۔۔؟؟

"مناہل۔۔۔"

چاہت کے اٹکنے پر مناہل نے اپنا نام بتایا۔


"اوہ،میرا نام چاہت ہے۔اگر تم خان جی کو بھائی بلاتی رہو گی تو ہم دوست بن جائیں گی آخر کار تمہاری جیٹھانی ہوں میں تو کیا ہوا میرے خان جی فرزام بھائی سے بس پانچ منٹ بڑے ہیں لیکن بڑے تو ہیں ناں۔۔۔"


چاہت نے اپنا ہاتھ مناہل کے سامنے کرتے ہوئے فرضی رعب سے کہا تو مناہل ہنس دی۔وہ باتونی سی لڑکی اسے بہت پسند آئی تھی۔


"بہت پیارا نام ہے تمہارا۔۔۔۔"


"ہے ناں،،،، میرے بابا نے رکھا تھا تمہارا نام بھی پیارا ہے لیکن کیا میں تمہیں من کہہ کر بلا لیا کروں بڑا پیارا لگے گا مناہل سے من۔۔۔"


مناہل نے اسے بتانا چاہا کہ فرزام پہلے سے ہی اسے من بلاتا ہے لیکن تبھی اسکے کانوں میں ایک گھمبیر آواز پڑی۔


"نہیں،تم اسے مناہل ہی بلا سکتی ہو من وہ صرف میرے لیے ہے۔۔۔"


فرزام کی آواز پر چاہت نے اسے دیکھا۔


"لو آگئے بھئی اٹھ جاتی ہوں میں شرافت سے ورنہ کہیں گے کہ میری بیوی کے پاس ہی کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔۔"


چاہت نے منہ بسور کر کہا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔


"نہیں کہوں گا اگر تمہاری وجہ سے میری من کے چہرے پر ایسے ہی مسکراہٹ رہے گی تو۔۔۔"


فرزام کی بات پر مناہل کو اندازہ ہوا کہ وہ کب سے چاہت کی باتوں پر مسکرا رہی تھی تو اپنا سر جھکا گئی۔


"اچھا پھر چینج کر کے آتی ہوں تینوں بیٹھ کر زیادہ سی باتیں کریں گے۔۔۔"


چاہت اتنا کہہ کر بھاگنے والے انداز میں وہاں سے چلی گئی تو فرزام مسکراتے ہوئے مناہل کے قریب بیٹھ گیا۔


"چاہت بہت پیاری ہے ۔۔۔"


فرزام اسکے انکشاف پر مسکرایا۔


"ابھی لگ رہی ہے زرا صبر کرو کانوں میں روئی ٹھونسنے پر مجبور کر دے گی۔۔۔"


مناہل اسکی بات پر پھر سے ہنس دی۔وہ یوں کھل کر مسکراتی فرزام کو بہت اچھی لگ رہی تھی۔کچھ دیر کے بعد چاہت ایک نیلا سوٹ پہن کر وہاں آئی۔


"لیں آ گئی میں۔۔۔"


چاہت نے مناہل کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔کتنی ہی دیر مناہل فرزام اور چاہت کی باتیں سنتی رہی تھی۔وہ دونوں بالکل ٹوم اور جیری کی طرح لڑتے تھے۔فرزام چاہت کو چڑاتا اور چاہت بہت آسانی سے چڑ جاتی۔


تبھی فرزام کا موبائل بجنے لگا تو وہ بہرام کا نمبر دیکھ کر وہاں سے اٹھ کر تھوڑا دور آ گیا۔


"تو تمہیں اسلام آباد کیسا لگا؟"


چاہت نے مناہل سے پوچھا۔


"بہت اچھا ہے سر سبز سا۔۔۔اور پہاڑ تو مجھے ہمیشہ سے دیکھنے کا شوق تھا لیکن کبھی گھر سے نہیں نکلی۔۔۔"


آخری بات مناہل نے تھوڑا افسردگی سے کہی اور فرزام کا پورا دھیان بہرام کی باتوں کی بجائے مناہل پر تھا۔


"ہاں تو فرزام بھائی سے کہو ناں کہ تمہیں مونال لے کر جائیں یا پھر دامن کوہ بہت پیارے پہاڑ ہیں وہاں۔۔۔۔"


"کیا وہاں برف باری بھی ہوتی ہے؟"


مناہل کے سوال پر چاہت قہقہہ لگا کر ہنس دی اور فرزام نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کو دبایا۔


"نہیں اس کے لیے مری جانا پڑے گا کیا تمہیں برف باری پسند ہے؟"


مناہل اس سوال پر سوچ میں پڑ گئی۔


"کبھی دیکھی تو نہیں لیکن شوق بہت ہے۔۔۔"


فرزام اسکی بات پر مسکرا دیا۔وہ جان گیا تھا کہ اسے آگے کیا کرنا ہے۔


"ہیلو فرزام تم میری بات سن بھی رہے ہو کیا؟"


بہرام کے پوچھنے پر فرزام کا دھیان مناہل سے ہٹا۔


"ہاں سن رہا ہوں۔۔۔"


فرزام نے جھوٹ بولا۔


"رہنے دو جانتا ہوں ایک لفظ نہیں سنا تم نے میں خود سب دیکھ لوں گا۔۔۔"


بہرام نے کہا اور فون بند کر گیا۔فرزام ابھی بھی وہیں کھڑا مناہل کو دیکھ رہا تھا جو چاہت سے باتیں کرتے کوئی اور ہی لڑکی لگ رہی تھی۔


وہ لڑکی جو ہر پل ڈرنے کی بجائے مسکرا کر جینا پسند کرتی تھی۔فرزام سمجھ گیا کہ مناہل کے اندر ابھی بھی خوش رہنے کی چاہ باقی تھی فرزام کو بس اس چاہ کو بند خول سے باہر نکالنا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اسے یہ کیسے کرنا ہے ۔

💞💞💞💞

چاہت رات کے کھانے کے بعد کتنی ہی دیر تک بہرام کا انتظار کرتی رہی تھی لیکن وہ نہ جانے کہاں مصروف تھا جو ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔اخر کار جب اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو فون پکڑ کر اسے کال کرنے لگی۔


"ہیلو۔۔۔"


دوسری بیل پر ہی بہرام نے فون اٹھا کر کہا۔اسکی آواز پر چاہت کا معصوم دل بہت زور سے دھڑکا۔


"آپ گھر کب آئیں گے خان جی؟"


بہرام کچھ دیر خاموش رہا پھر آہستہ سے بولا۔


"آج نہیں آ سکوں گا کام کے سلسلے میں ایک کلائنٹ سے ملنا ہے۔۔۔۔"


یہ جان کر چاہت کا منہ بن گیا۔


"لیکن میں نے آپ کے انتظار میں کھانا بھی نہیں کھایا سوچا تھا آپ آئیں گے تو ساتھ۔۔۔"


"بس چاہت،،،اپنا یہ بچپنا ختم کرو اب بہت برداشت کر لیا میں نے۔۔۔تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری غلطی بھولا کر اتنی آسانی سے تمہیں معاف کر دوں گا تو غلط سوچ رہی ہو۔تم نے مجھے وہ کرنے پر مجبور کیا جو میں چاہ کر بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔اب اسکی سزا اتنی آسانی سے ختم نہیں ہونے والی۔۔۔"


بہرام کے بری طرح سے ڈپٹنے پر چاہت کی آنکھوں میں آنسو آ چکے تھے۔


"آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں خان جی کہ آپ مجھے اتنا ڈانٹیں۔۔۔میں آپ سے پیار کرتی ہوں کیا میں اس قابل نہیں کہ آپ بھی مجھ سے پیار کریں۔۔۔؟"


چاہت نے روتے ہوئے پوچھا اور اس کے رونے کی آواز پر بہرام نے اپنا موبائل اتنی زور سے پکڑا کہ وہ موبائل بمشکل ہی چکنا چور ہونے سے بچا۔


"نہیں چاہت خانزادہ میں ہی اس قابل نہیں کہ مجھے پیار کیا جائے۔۔۔۔"


اس کی بات پر بہت سے آنسو چاہت کی آنکھوں سے نکلے۔


"تمہیں پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی یہی کہوں گا تم نے ایک غلط شخص کو اپنے لیے چنا ہے اب اپنے اس غلط فیصلے کو برداشت کرنا سیکھ لو۔۔۔ "


اتنا کہہ کر بہرام نے فون بند کر دیا اور چاہت لاونج کے صوفے پر سمٹتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔وہ تو بس بہرام کی محبت چاہتی تھی۔اسے لگا تھا کہ اپنے پیار سے اسے بھی پیار کرنے پر مجبور کر دے گی لیکن اب اسکی ہمت آہستہ آہستہ سے ختم ہو رہی تھی۔


تقریباً بارہ بجے وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دی لیکن راستے میں بہرام کا کمرہ دیکھ کر وہ وہاں رکی۔وہ بہرام کا احساس اپنے قریب چاہتی تھی اسکا پیار چاہتی تھی۔


چاہت نے اسکے کمرے کا دروازہ کھولا اور کمرے میں آ کر اسکے بیڈ پر لیٹ گئی۔بہرام نے تو کل صبح واپس آنا تھا چاہت نے سوچا کہ وہ اس کے آنے سے پہلے یہاں سے چلی جائے گی۔


اسے تکیے اور کمبل سے بہرام کی خوشبو آ رہی تھی اور اس خوشبو کو خود میں سماتی وہ آنسو بہانے لگی۔یوں ہی بہرام کی خوشبو کو محسوس کرتی وہ کب آنسو بہاتی سو گئی اسکا اندازہ تو اسے بھی نہیں ہوا تھا۔


تقریباً فجر کے وقت بہرام گھر واپس آیا۔کمرے میں آتے ہی اسکی نظر چاہت پر پڑی جو اسکے بستر میں سمٹی سوئی ہوئی تھی۔


خود بخود بہرام کے قدم چاہت کی جانب اٹھے۔چاہت کے چہرے پر موجود نشانوں اور سوجی ہوئی آنکھوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بہت دیر تک روتی رہی تھی۔


بہرام اسکے پاس بیٹھ گیا اور انتہائی نرمی سے اسکے گال کو چھوا۔چاہت ہلکا سا کسمسائی لیکن اٹھی نہیں۔


"میں تم سے محبت نہیں کر سکتا چاہت،،،تو کیا ہوا تمہیں چاہنا میری سب سے بڑی خواہش ہے۔۔۔۔"


بہرام نے اب کے بار اسکی آنکھوں کو چھوا۔


"سوچتا ہوں جب تمہیں سچ پتہ چلے گا تو تمہاری آنکھوں میں میرے لیے جو نفرت ہو گی اسے کیسے سہوں گا۔۔۔؟"


بہرام نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں۔اس وقت وہ سرد مہر سا بہرام نہیں لگ رہا تھا۔اس وقت تو وہ ایک انتہائی بکھرا ہوا شخص لگ رہا تھا۔


"اور اگر تمہیں ٹوٹ کر چاہنے لگا تو تمہاری وہ نفرت تو مجھے مار ڈالے گی چاہت۔۔۔"


ایک آنسو بہرام کی انکھ سے بہہ کر چاہت کے گال پر گرا۔


"مجھے محبت کے لیے مجبور مت کرو چاہت۔۔۔۔"


بہرام چاہت کے ساتھ نیم دراز ہوا اور اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپا لیا۔اپنی گردن پر بہرام کی داڑھی کی چبھن محسوس کرتی چاہت ہلکا سا کسمسائی لیکن اپنی گہری نیند کی وجہ سے سوئی رہی۔


"اپنے ماں باپ کو جان سے زیادہ چاہا تھا میں نے۔۔۔"


بہرام کے آنسو چاہت کی گردن میں جذب ہو رہے تھے۔


"انہیں کھو کر تو زندہ ہوں چاہت لیکن تمہیں چاہنے کے بعد کھو نہیں پاؤں گا۔۔۔"


بہرام نے اسکے نازک وجود کو اپنی مظبوط آغوش میں بھر لیا جیسے کہ اسے خود میں چھپانا چاہ رہا ہو۔


"تمہاری محبت وہ کر جائے گی چاہت جو کوئی نہیں کر پایا۔۔۔۔بہرام خانزادہ کو فنا کر دے گی۔۔۔"


بہرام نے کرب سے کہا اور اپنی چاہت کو خود کے قریب محسوس کرتا سکون سے اپنی آنکھیں موند گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ سکون بس پل بھر کا تھا۔صبح ہوتے ہی اسے چاہت کے لیے پھر سے وہی سرد مہر سا بہرام بن جانا تھا۔

💞💞💞💞

مناہل گھبراتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی تھی۔فرزام نہ جانے کہاں گیا تھا جو ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔آدھی رات ہو چکی تھی اور مناہل کو ایک پل کے لیے بھی نیند نہیں آئی تھی۔


وہ خود کو سمجھ نہیں پا رہی تھی فرزام قریب ہوتا تھا تو اس کی معنی خیز باتوں اور اسکی بولتی آنکھوں سے ڈر لگتا تھا۔اب جب وہ دور تھا تو ایک انجانا خوف اس پر حاوی ہو رہا تھا۔کیا تھا یہ فرزام خانزادہ جو پل بھر میں اسکے لیے نئی پریشانی بن گیا تھا۔


دروازہ کھلنے کی آواز پر مناہل گھبرا کر اٹھ بیٹھی لیکن فرزام کو وہاں دیکھ اس نے سکھ کا سانس لیا۔


"کہاں تھے آپ اتنی دیر تک؟"


مناہل کے سوال پر فرزام مسکرا دیا اور اسکے قریب آیا۔


"کیا ہوا مجھے مس کررہی تھی؟"


فرزام اسکے پاس بیٹھا تو مناہل گھبرا کر خود میں سمٹی اور کمبل کو مٹھی میں جکڑ لیا۔


"مم۔۔۔ مجھے اکیلے ڈر لگ رہا تھا بس۔۔۔ "


مناہل نے گھبراتے ہوئے کہا۔فرزام کو مزید خود کے قریب ہوتا دیکھ مناہل کی پکڑ کمبل پر مزید سخت ہو گئی۔


"کیا چاہتی ہو تم من؟میں پاس ہوتا ہوں تو مجھ سے ڈرتی ہو دور ہوتا ہوں تو تنہائی سے۔۔۔کیا حل ہے تمہارے اس ڈر کا۔۔۔؟"


مناہل نے گھبرا کر فرزام کو دیکھا جو شریر نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔


"کیا آپ دور رہتے ہوئے پاس نہیں رہ سکتے؟"


مناہل کے سوال پر فرزام ہنس دیا اور اچانک اپنے دونوں ہاتھ مناہل کے گرد بیڈ پر رکھ کر مناہل کے اس قدر قریب ہو گیا کہ مناہل اسکی سانسوں کی گرمائش اپنے چہرے پر محسوس کرنے لگی۔


"یعنی تم چاہتی ہو کہ صدیوں کا پیاسا بس کوئیں کو دیکھتا رہے اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جائے۔۔۔"


مناہل نے گھبرا کر اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اور اسکا سانس پھر سے سینے میں ہی اٹک گیا۔


"فف۔۔۔فرزام پلیز۔۔۔ممم۔۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔"


فرزام نے ایک نظر اسکے کپکپاتے گلابی ہونٹوں کو دیکھا۔دل تو کہہ رہا تھا کہ بس اپنا حق استعمال کرتے ہوئے دل کھول کر ان نازک لبوں سے محبت کا جام پیے لیکن اپنی من کے ڈر اور رکی سانسوں کا خیال کرتا اس سے دور ہو گیا۔


اسکے دور ہوتے ہی مناہل زور زور سے گہرے سانس بھرنے لگی۔


"میں بہرام کے ساتھ تھا اسکی ایک میٹنگ میں ہیلپ کر رہا تھا تا کہ وہ بعد میں مجھے ڈسٹرب نہ کرے۔۔"


فرزام کی بات پر مناہل نے آنکھیں کھول کر حیرت سے اسے دیکھا۔


"آپ کہیں جا رہے ہیں کیا؟"


فرزام کے گال پر ڈمپل نمایاں ہوا۔


"جا تو رہا ہوں لیکن میں ہی نہیں تم بھی۔۔۔"


مناہل نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔


"ہم دونوں کل ایک ہفتے کے لیے مری جا رہے ہیں۔۔۔"


مناہل کا سانس ایک بار پھر سے سینے میں ہی اٹک گیا۔


"کک۔۔۔۔کیوں؟"


"کیوں نہیں میرا جنون شادی کے بعد سب کپلز ہنی مون پر جاتے ہیں۔میرا پلین تو سوئٹزرلینڈ کا تھا لیکن بہرام صاحب کا حکم ہے کہ زیادہ دور مت جاؤں۔۔۔۔"


مناہل کی گھبراہٹ میں اضافہ ہو گیا اب وہ بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی تھی۔

"ممم۔۔۔۔میں نہیں جانا چاہتی۔۔۔"

"کیوں؟"

فرزام نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"مم۔۔ مجھے آپ کے ساتھ اکیلے کہیں نہیں جانا۔۔۔"

سٹائلش مونچھوں تلے عنابی ہونٹ پھر سے مسکرا دیے۔فرزام نے ایک سگریٹ سلگا کر ہونٹوں میں لیا اور مناہل کے قریب آ کر اسے ایک جھٹکے سے ہاتھ سے کھینچ کر اپنی باہوں میں لے لیا۔

"تمہیں کیا لگتا ہے میرا جنون اگر میں تمہارے قریب آنا چاہوں تو یہاں تم مجھے روک لو گی؟"

فرزام کی سانسوں کی حرارت کے ساتھ سگریٹ کی مہک اپنے بہت قریب محسوس کر کے مناہل سوکھے پتے کی مانند کانپ گئی۔

"بولو اگر ابھی اپنا حق لینا چاہوں تو روک لو گی مجھے۔۔۔"

فرزام نے گہرا کش لے کر دھواں اسکی نازک گردن پر چھوڑا تو مناہل کا رواں رواں کانپ اٹھا۔

"نننن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں آپ کے مقابلے بہت کمزور ہوں۔۔۔۔"

مناہل نے اٹکے سانس سے کہا اور یہ بات کہتے اسکی پلکیں نم ہو گئی تھیں۔فرزام نے اسکا ایک آنسو اپنے ہونٹوں پر چنا۔

"ایک بات یاد رکھنا من میں کبھی تم سے زبردستی نہیں کروں گا۔۔۔تمہارے قریب تب ہی آؤں گا جب تم مجھے بلاؤ گی لیکن اسکا مطلب نہیں کہ میری گستاخیوں سے بچی رہو گی تم۔۔۔"

فرزام اسکے ہونٹوں کے اتنا قریب ہو گیا کہ مناہل کو اسکی مونچھیں اپنے ہونٹوں پر محسوس ہونے لگیں۔

"اس لیے اب خود کو مظبوط کرنا شروع کر لو میرا جنون۔۔۔اور اس ڈر سے لڑنا سیکھو کیونکہ تمہارا شوہر بہت بے صبر ہے۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر فرزام نے اسے چھوڑا تو مناہل جلدی سے اس سے دور ہوئی اور اپنے آپ کو کمبل کے پیچھے چھپا لیا۔اسکی اس معصوم حرکت پر فرزام نے مسکراتے ہوئے سگریٹ کا گہرا کش لیا۔

"یہ کمبل اتنا مظبوط نہیں من کہ تمہیں بچا لے۔۔۔۔تیار رہنا کل ہم مری جا رہے ہیں۔۔۔"

اتنا کہہ کر فرزام اپنے کپڑے پکڑ کر واش روم میں بند ہو گیا اور مناہل اپنا جب سے اٹکا سانس بحال کرنے لگی۔فرزام کی حرکتیں اسے ڈراتی تھی لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں وہ اسکی قربت میں ہی محفوظ محسوس کرتی تھی۔مناہل کو لگنے لگا تھا کا یہ شخص اسے پاگل کر کے رکھ دے گا۔

(ماضی)


"سلیمان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"


وردہ نے حیرت سے اپنے شوہر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔وہ کیوں انکی خوشحال زندگی میں مصیبت لانے کا سوچ بیٹھا تھا۔


"ٹھیک کہہ رہا ہوں وردہ میں الطاف حیدر پر کیس کرنے والا ہوں تا کہ پھر کبھی کسی لڑکی کے ساتھ ایسا کرنے سے پہلے وہ ہزار دفعہ سوچے۔"


"لیکن آپ اس کو جانتے نہیں اگر اس نے ہمارے یا ہمارے بچوں کے ساتھ غلط کر دیا تو سلیمان پلیز آپ اس معاملے کو ختم کر دیں میں نہیں چاہتی کہ وہ شخص پھر سے میری خوشحال زندگی کو اجاڑ کر رکھ دے۔"


وردہ نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا تو سلیمان نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔


"مجھ پر بھروسہ کرو وردہ میں تم سب کی حفاظت کروں گا لیکن اس کو گناہ کرنے کے لیے آزاد نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ اس نے صرف تمہاری نہیں اور لڑکیوں کی زندگی سے بھی کھیلا ہے مزید اسے ایسا کچھ نہیں کرنے دے سکتا۔۔۔"


وردہ نے فوراً اپنے ہاتھ سلیمان کے سامنے جوڑ دیے۔


"میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں سلیمان ایسا مت کریں۔۔۔"


سلیمان نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔


"ہمت کرو وردہ اور اللہ تعالی پر بھروسہ رکھو ہار ہمیشہ برائی کی ہوتی ہے۔۔۔"


وردہ اب حد سے زیادہ بے بس ہو چکی تھی کیونکہ سلیمان اس کی ایک بھی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔


"میں نے ایک اور فیصلہ کیا ہے؟"


ورنہ نے سلیمان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"میں بہرام اور فرزام کو ہر بات سچ سچ بتا رہا ہوں کیونکہ وہ بڑے ہو چکے ہیں اور ان کا سچ جاننے کا حق بنتا ہے۔"


وردہ نے بے رخی سے اپنے آنسو پونچھے۔


"آپ کے دل میں جو آتا ہے کریں سلیمان لیکن اگر اس شخص کی وجہ سے میرے بچوں یا آپ پر ایک خراش بھی آئی ناں تو آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر وردہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور سلیمان نے اضطراب سے اپنا ماتھا سہلایا۔اچانک ہی کسی نے اپنا چھوٹا سا ہاتھ اس کے سر پر رکھا۔سلیمان نے چوک کر بہرام کو دیکھا جو اسکا سر دبا رہا تھا۔


"آپ ماما سے لڑ رہے تھے؟"


بہرام نے پریشانی سے پوچھا۔آج زندگی میں پہلی بار اس نے سلیمان اور وردہ کے درمیان ان بن دیکھی تو پریشان ہو گیا۔سلیمان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے سامنے کیا۔


"فرزام کہاں ہے؟"


"آپ کے پیچھے۔۔۔"


فرزام کی خفا سی آواز پر سلیمان نے مسکرا کر اپنا دوسرا ہاتھ فرزام کے سامنے کیا۔جسے فرزام نے تھام لیا۔


"آپ اور ماما لڑتے ہوئے بالکل اچھے نہیں لگتے آپ بس پیار سے رہا کریں۔۔۔"


فرزام کے آگاہ کرنے پر سلیمان نے مسکراتے ہوئے ان دونوں کو اپنے پاس بیٹھایا۔


"بابا جی جان تم تینوں ہی تو میری کل کائنات ہو۔۔۔"


سلیمان نے دونوں کا ماتھا چوم کر کہا۔


"بہرام فرزام میری بات بہت دھیان سے سننا آج میں آپ کو کچھ بہت ضروری بات بتانا چاہتا ہوں۔میں نہیں چاہتا کہ کل کو اگر آپ کو یہ بات کہیں اور سے پتہ چلے تو آپ مجھ سے بدگمان ہو جائیں اس لیے آج ہر بات میں آپ کو بتا دوں گا اس لیے میری بات بہت دھیان سے سننا۔"


دونوں کے ہاں میں سر ہلانے پر سلیمان نے اتنا بڑا سچ بتانے کے لیے اپنے اندر ہمت پیدا کی اور باردہ سال پہلے کا ہر واقعہ انہیں بتا دیا کہ کیسے وردہ کا نکاح الطاف حیدر بیگ سے ہوا تھا اور کیسے اسکے دغا دینے کے بعد وہ سلیمان کو ملی تھی۔


"اس کا مطلب آپ ہمارے اصلی بابا نہیں ہیں؟"


پوری بات سن کر فرزام نے پوچھا تو سلیمان نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں اور انکار میں سر ہلا دیا۔


"نہیں بیٹا آپ دونوں کے اصلی بابا الطاف حیدر بیگ ہیں۔۔۔"


"نہیں آپ ہمارے بابا ہیں اور کوئی نہیں۔۔۔نہیں مانتا میں انہیں اپنا بابا۔۔۔"


فرزام نے بہت غصے سے کہا تو سلیمان اسے حیرت سے دیکھنے لگا لیکن دوسرے ہی پل بہرام سلیمان کے سینے سے لگ گیا۔


"مجھے فرق نہیں پڑتا بابا کہ ماما کی شادی پہلے ان سے ہوئی تھی اور آپ سے بعد میں میرے بابا ہمیشہ سے آپ تھے اور ہمیشہ آپ ہی رہیں گے۔۔۔"


اپنے بچوں کی یہ بے لوث محبت دیکھ کر سلیمان کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔اس نے بے ساختہ ان دونوں کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔


"جانتا ہوں میرا بچہ تم میں چاہے اسکا خون ہو لیکن تم میری اولاد ہو اور ہمیشہ رہو گے۔۔۔"


سلیمان ان دونوں کو اپنے سینے سے لگائے سکون سے آنکھیں موند گیا۔کاش وہ جانتا کہ یہ سکون بس دو پل کا ہی رہ گیا تھا۔

💞💞💞💞

(حال)

مناہل کار کی کھڑکی سے لگی اپنی آنکھیں حیرت سے کھولے ان برفیلے پہاڑوں کو دیکھ رہی تھی۔اسے لگا کہ اس دو گھنٹے کے سفر میں فرزام اسے ایک نئی دنیا میں کے آیا تھا۔


"اگر ان نظاروں کو دیکھ کر تم مجھے اس طرح سے اگنور کرنے والی ہو تو ہم ابھی واپس جا رہے ہیں۔۔۔"


فرزام کی آواز پر مناہل نے گھبرا کر ڈرائیو کرتے فرزام کو دیکھا کہ کہیں اسے سچ میں ہی واپس نہ لے جائے۔


"ننن۔۔۔نہیں میں آپ کو اگنور نہیں کر رہی تھی ۔۔۔۔ببب۔۔۔۔بس یہ جگہ بہت پیاری ہے۔۔۔"


مناہل کے یوں گھبرا جانے پر فرزام نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


"کتنی آسانی سے ڈر جاتی ہو تم میرا جنون تمہیں تو ڈرا کر کوئی بھی بات منوائی جا سکتی ہے۔۔۔۔"


مناہل نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔


"سوری ۔۔۔"


فرزام نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا تو مناہل نے گھبرا کر اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا لیکن اس کے ایسا کرنے سے پہلے ہی فرزام اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام چکا تھا۔


"مجھے ایک بات بتاؤ من کیا تم اپنی پوری زندگی یوں ڈر کر گزرنا چاہتی ہو یا اس دنیا کی خوبصورتی میں کھو کر خوشی سے گزارنا چاہتی ہو؟"


فرزام کے سوال پر مناہل اضطراب سے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔


"بتاؤ من اپنی خواہش کیسے زندگی گزارنا چاہتی ہو تم؟"


فرزام کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ جواب جانے بغیر وہ اس کی جان نہیں چھوڑنے والا۔


"خوشی خوشی۔۔۔"


"تو خوش رہنے کے لیے تمہیں یہ ڈر بھگانا ہو گا۔۔۔"


مناہل کی آنکھیں اپنی بے بسی کو محسوس کرتے نم ہو چکی تھیں۔


"یہ میرے بس میں نہیں۔۔۔۔"


فرزام نے اپنی گہری نگاہوں سے اسے دیکھا۔


"لیکن کوشش تو کرسکتی ہو ناں۔۔۔"


مناہل نے لاچارگی سے اسے دیکھا۔


"کیسے کروں کوشش؟"


"اف تمہاری قسمت فرزام خانزادہ ایسی بیوی ملی ہے جسے شروع سے ایجوکیٹ کرنا پڑے گا۔۔۔۔"


فرزام نے ایک نظر برفیلی سڑک کو دیکھا۔


"پہلا سٹیپ مجھ پر بھروسہ کرو اور یقین رکھو کے میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا۔۔۔کر سکتی ہو یہ؟"


فرزام کے سوال پر مناہل سوچ میں پڑ گئی۔کیا وہ ہر سکتی تھی اس شخص پر بھروسہ؟ہاں کر سکتی تھی کیونکہ کسی نے اسے زندگی میں اتنی اہمیت نہیں دی تھی جتنی فرزام خانزادہ اسے چند دنوں میں دے گیا تھا۔


"جی ۔۔۔۔"


فرزام کے گال پر ڈمپل نمایاں ہوا اور وہ خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔


"دوسرا سٹیپ کیا ہے؟"


اس کو مسلسل خاموش دیکھ کر مناہل نے پوچھا۔


"دوسرا سٹیپ؟دوسرا سٹیپ ہے ہی نہیں تم صرف مجھ پر بھروسہ کر کے مجھ سے ڈرنا اور کترانا چھوڑ دو باقی سٹیپس کو میں خود پورا کر لوں گا۔۔۔"


فرزام کی آنکھوں میں شرارت دیکھ کر مناہل اپنا سر جھکا گئی۔


"مم ۔۔۔۔میں کوشش کروں گی۔۔۔۔آپ جو کہیں گے میں وہی کروں گی ۔۔۔"


مناہل نے ایک اچھی بیوی کی طرح کہا۔


"اوہ اچھا کیا سچ میں میری ہر بات مانو گی؟"


مناہل نے ہاں میں سر ہلایا تو فرزام نے اچانک ہی سڑک کے کنارے پر کار روک دی اور اسکی جانب مڑا۔مناہل نے اسکی حرکت پر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"دین کس می۔۔۔"


فرزام کی ڈیمانڈ پر مناہل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"ججج۔۔۔۔جی؟"


"سنا تو ہے تم نے میرا جنون مجھے کس کرو۔۔۔"


مناہل کا روم روم کانپنے لگا اور وہ گھبرا کر کھڑکی کے ساتھ جا لگی اور انکار میں سر ہلانے لگی۔اسکی حرکت پر فرزام کی آنکھوں میں جنون اترا اور اس نے مناہل کو کھینچ کر اپنے قریب کر لیا۔


مناہل نے سہم کر اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔


"وعدہ کرو میرا جنون جسے میں پورا کرنے کی تمہارے نازک وجود میں طاقت ہو۔۔۔"


فرزام نے اپنے ہونٹ اسکی ناک پر رکھے اور اس سے دور ہو کر کار پھر سے سٹارٹ کر دی۔جبکہ مناہل اپنی سیٹ پر کانپتے ہوئے سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی۔


کچھ ہی دیر میں وہ دونوں کشمیری کونٹینینٹل ہوٹل پہنچے جہاں فرزام نے ان کے لیے روم بک کروایا تھا۔کمرے میں آ کر فرزام سامان رکھنے لگا اور مناہل کے قدم خود بخود کھڑکی کی جانب چل دیے جہاں سے برفیلے پہاڑوں کا منظر نظر آ رہا تھا۔


جب کھڑکی سے بھی وہ منظر دیکھ کر دل نہ بھرا تو اس نے بالکنی کا دروازا کھولا اور باہر آ کر ہر طرف دیکھنے لگی۔اس نے آج تک کچھ بھی اتنا حسین نہیں دیکھا تھا۔


سردی کی شدت سے مناہل نے کانپتے ہوئے اپنے ہاتھ اپنے گرد لپیٹے لیکن تب ہی کسی نے ایک گرم شال اس کے گرد لپیٹ دی اور جھک کر اسکے کان کے قریب ہوا۔


"بہت سردی ہے ناں یہاں۔۔۔شکر ہے ہم دونوں ساتھ آئیں ہیں ایک دوسرے کی باہوں میں چھپ کر سردی سے بچ جائیں گے۔۔۔۔"


فرزام کی سرگوشی پر مناہل کا رواں رواں کانپ گیا اور اس میں سردی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔


"ننن۔۔۔۔نہیں سردی لگے تو اچھا لگتا ہے مجھے۔۔۔"


مناہل کی معصومیت پر فرزام قہقہ لگا کر ہنس دیا اور اپنے ہونٹ اسکے بالوں پر رکھے۔


"آج آرام کر لو کل گھومنے چلیں گے۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام واپس کمرے میں چلا گیا اور مناہل نے ہلکا سا مسکرا کر اپنے سامنے اس منظر کو دیکھتے ہوئے خود سے وعدہ کیا کہ وہ اب اس ڈر کے زیر اثر نہیں رہے گی۔


اسکے خدا نے فرزام جیسے آدمی کو اسے نعمت کے طور پر دیا تھا وہ بھی اپنا ہر خوف مٹانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔

💞💞💞💞

چاہت کالج سے آئی تو اسے پتہ چلا کہ فرزام اور مناہل گھومنے کے لیے مری گئے ہیں۔یہ جان کر ہی چاہت کا موڈ سخت آف ہوا تھا۔وہ پہلے ہی بہرام کے ڈانٹنے کی وجہ سے اس سے خفا تھی لیکن اسے اپنی ناراضگی دیکھا بھی تو نہیں سکتی تھی کیونکہ اسے تو بہرام کی نظر میں اچھا بننا تھا اور ایسا وہ ناراضگیاں دیکھا کر تو نہیں کر سکتی تھی۔


"بندہ اپنے بھائی سے ہی کچھ سیکھ لیتا ہے کتنے اچھے ہیں فرزام بھائی اتنا پیار کرتے ہیں مناہل سے اور ایک طرف خان جی ہیں آفس کی جان ہی نہیں چھوڑتے مجھے تو لگتا ہے انکا بزنس میری سوتن ہے۔۔۔"


خالہ جنہوں نے چاہت کو فرزام اور مناہل کے جانے کی خبر دی تھی اسکی بات پر ہنس دیں ۔


"ویسے خالہ ایسا کیا کیا جائے جو خان جی جیسے آدمی کو خوش کر دے۔۔۔۔؟"


چاہت کے دلچسپی سے پوچھنے پر خالہ سوچ میں پڑ گئیں۔


"بہرام صاحب جیسا کام سے کام رکھنے والا آدمی تو اچھا کام دیکھ کر ہی خوش ہوتا ہے۔۔۔۔"


چاہت نے ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھ کر سوچتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔


"تو کیا کروں ان کا روم صاف کر دوں؟یا کپڑے دھو دوں؟"


اس بچی کی معصومیت پر خالہ مسکرا دیں اور اس کے سامنے دوپہر کا کھانا رکھا۔


"یہ سب کام کرنے کے لیے انہوں نے بہت سے ملازم رکھے ہیں اگر اپنی بیوی کو کرتے دیکھیں گے تو غصہ ہوں گے۔۔۔"


چاہت کو انکی بات میں حکمت نظر آئی۔


"تو کھانا بنا لیتی ہوں کھانا تو ہر بیوی بناتی ہے اپنے شوہر کے لیے۔۔۔"


"ہاں یہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔"


چاہت خوشی سے اچھل کر کرسی سے اتری۔


"تو چھوڑیں یہ کھانا وانا میری ہیلپ کریں آج خان جی کی پسند کا کھانا بنائیں گے۔۔۔۔"


"لیکن چاہت بیٹا آپ کا کھانا۔۔۔۔"


"چھوڑیں خالہ خان جی کو اپنے ہاتھ کا بنا کھانا کھلاؤں گی تو خود ہی پیٹ بھر جائے گا۔۔۔"


چاہت نے دلچسپی سے کہا اور خالہ کے ساتھ مل کر تین گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ بہرام کی پسند کا کھانا بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔


"اب میں بھی جلدی جلدی تیار ہو جاتی ہوں۔۔۔"


ہر چیز کو میز پر اچھی طرح سے سجانے کے بعد چاہت نے مسکرا کر کہا اور کمرے میں تیار ہونے چلی گئی۔


اس نے ایک کالے رنگ کا فراک نکالا جو اسکے پیروں تک آتا تھا۔اس فراک کا گھیر تو کافی کھلا تھا لیکن اوپر سے وہ کافی فٹنگ میں تھا جس کی وجہ سے وہ پہن کر چاہت کا حسن مزید بڑھ گیا۔


چاہت نے میچنگ کالا دوپٹہ اپنے گلے میں ڈالا اور لال رنگ کی گرم شال اپنے بازؤں پر ڈال لی۔بالوں میں ہلکا سا کیچر لگا کر انہیں کمر پر بکھیر دیا اور حسب معمول آنکھوں میں گہرا کاجل اور ہونٹوں کو گلابی گلوز سے سجا کر وہ مسکراتے ہوئے ڈائنگ ہال میں آ گئی جہاں خالہ کھانا گرم کر کے رکھ رہی تھیں۔


"اب آپ جا کر آرام کر لیں خالہ میں سب کر لوں گی۔۔۔"


خالہ نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئیں۔چاہت مسکراتے ہوئے ٹیبل پر بیٹھ کر بہرام کا انتظار کرنے لگی۔تقریبا دس منٹ بعد بہرام ہال میں داخل ہوا تو نظر چاہت پر پڑی جو ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے گھڑی کو دیکھ رہی تھی۔


اسکے سر سے دوپٹہ اترا دیکھ کر بہرام نے فورا اپنے پیچھے آتے ملازم کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔


"اسلام و علیکم۔۔۔"


بہرام کی آواز پر چاہت جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔


"و علیکم السلام خان جی اتنی دیر کر دی آپ نے میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی تھی۔"


چاہت مسکراتے ہوئے اسکے پاس آئی اور اسکے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی۔بہرام نے سر گھما کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"آپ کا کوٹ۔۔۔یہاں ہیٹر چل رہا ہے تو سوچا کوٹ اتارنے میں آپ کی ہیلپ کر دوں۔۔۔"


بہرام نے سوچا کہ اس سے کہے کہ وہ اپنا کام خود کر سکتا ہے لیکن اسکے چہرے پر امید دیکھ کر اس نے ہاں میں سر ہلایا۔چاہت انتہائی خوشی سے آگے ہوئی اور اسکا کوٹ اتار کر صوفے پر رکھ دیا۔


"چلیں کھانا کھاتے ہیں۔۔۔"


بہرام اپنی شرٹ کے بازو فولڈ کرتا ٹیبل تک آیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔چاہت نے فوراً اسکے سامنے پڑی پلیٹ میں بریانی ڈالی اور اسکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔


"کیسی بنی ہے؟میں نے پہلی بار بنائی ہے۔۔۔"


بہرام کے پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی چاہت نے بہت امید سے پوچھا۔


"اچھی بنی ہے۔۔۔"


اتنی سی بات پر چاہت کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔


"تو باقی چیزیں بھی ٹرائے کریں سب میں نے بنایا ہے۔۔۔ویسے خالہ نے بھی ہیلپ کی لیکن بنایا میں نے ہے۔۔۔"


چاہت نے کباب کی پلیٹ سامنے کرتے ہوئے کہا تو بہرام کی نظر اسکی کلائی پر پڑی جہاں ایک سرخ نشان تھا۔بہرام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اس سے پلیٹ لے کر سائیڈ پر رکھ دی۔


"یہ کیا ہوا؟"


"وہ کباب فرائی کر رہی تھی تو تھوڑا سا جل گیا۔۔۔"


وہ زخم دیکھ کر بہرام کی آنکھوں میں غصہ اترا۔


"آج کے بعد تم کچن میں نہیں جاؤ گی جب تک تم ٹھیک سے کام کرنا نہیں سیکھ لیتی۔۔۔"


"لیکن خان جی۔۔۔"


"میں نے کیا کہا ہے چاہت؟آگے سے آرگیو مت کیا کرو۔۔۔"


چاہت نے اپنا سر جھکا کر ہاں میں سر ہلایا تو بہرام نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور اسے کھانا کھانے کا اشارہ کیا۔چاہت خاموشی سے کھانا کھانے لگی لیکن بہرام کی فکر مندی کا سوچ کر وہ دل ہی دل میں مسکرائی تھی اور اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ اس کی اسی فکر مندی کو آزمائے گی کیونکہ شائید اس فکرمندی کے پیچھے وہ محبت چھپی تھی جسے چاہت تلاش کرنا چاہ رہی تھی۔

💞💞💞💞

مناہل کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو کسی کی آغوش میں پایا۔پہلے تو مناہل کا سانس گھبراہٹ کے مارے رک گیا۔اسے یاد آیا کہ رات کو تھکاوٹ کی وجہ سے وہ کھانا کھاتے ہی سو گئی تھی لیکن سوتے ہوئے تو اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔


مناہل نے اپنی پلکیں اٹھائیں تو نظر فرزام ہر پڑی جو اسے آغوش میں بھر کر پر سکون نیند سویا ہوا تھا۔اسکے ماتھے پر بکھرے بال اور چہرے پر وہ سکون اسے مزید دلکش بنانے کے لیے کافی تھا۔


مناہل کو تو ابھی تک اپنی قسمت پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ خوبرو سا شخص اس کا تھا جسے کبھی نا پاک ہونے کا کہا گیا تھا۔اسے اس وجہ سے غلیظ کہا گیا جس میں اسکا کوئی قصور ہی نہیں تھا۔


"ان آنکھوں کی گستاخیوں کو کنٹرول کر میرا جنون مجھے گستاخی پر مجبور کر رہی ہیں یہ۔۔۔"


فرزام کی نیند سے بوجھل آواز پر مناہل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور خوبصورت گال گلابی ہو گئے۔


"آ۔۔۔۔آپ جاگ رہے ہیں؟"


"ایسے نہار کر دیکھو گی تو کس کمبخت کو نیند آئے گی۔۔۔"


مناہل نے اپنا سر جھکا لیا اور اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی۔


"ممم۔۔۔۔مجھے واش روم جانا ہے۔۔۔"


"اور اگر میں نہ جانے دوں تو؟"


فرزام نے اسے مزید اپنے قریب کرتے ہوئے چیلنج کیا۔


"پلیز فرزام۔۔۔۔۔"


مناہل نے آنکھیں میچ کر کہا تو فرزام نے فوراً اسے چھوڑ دیا۔


"اتنے پیار سے کہو گی تو کون نہیں مانے گا۔۔۔"


مناہل فوراً اٹھ کر واش روم میں بند ہو گئی۔


"جلدی تیار ہو جاؤ میرا جنون پھر تمہیں مری کی خوبصورتی دیکھاتا ہوں۔۔۔"


فرزام کی آواز پر مناہل نے اپنا ہاتھ تیزی سے دھڑکتے دل پر رکھا۔کیا تھا وہ شخص جو اسکے قریب ہو کر اسکی سانسوں کو بھی روک دیتا تھا پھر بھی صرف وہ ایک ہی تھا جس کا لمس مناہل برداشت کر پاتی تھی۔


مناہل فریش ہو کر باہر آئی تو فرزام واش روم میں چلا گیا۔مناہل نے شکر کا سانس لیا اور جلدی سے چینج کرکے فرزام کا انتظار کرنے لگی۔


فرزام باہر آیا تو مناہل سفید شلوار قمیض پر کالی گرم چادر اوڑھے اسکا انتظار کر رہی تھی۔


"تمہارے حسن کے سامنے ماند پڑ گیا ہر رنگ

بے رنگ کو بھی تم نے خود پر ناز کرنا سیکھا دیا۔۔۔۔"


فرزام کی آواز پر مناہل خود میں ہی سمٹ گئی تو فرزام مسکرایا اور اسے لے کر ہوٹل کے ڈائینگ ایریا میں آ گیا۔ناشتے کے بعد فرزام نے اسے کافی گرم جیکٹ،ٹوپی اور گلوز پہنائے اور اپنے ساتھ گاڑی میں لے آیا۔


نہ جانے وہ اسے کہاں لے جا رہا تھا لیکن پورا راستہ وہ مناہل سے باتیں کرتا رہا تھا۔مناہل کو لگا تھا جیسے وہ اسکے لیے سب سے زیادہ قیمتی ہو اور یہ احساس مناہل کو ایک نئی زندگی دے گیا تھا۔


سب سے پہلے فرزام اسے پتریاٹہ لے کر گیا جہاں اس نے مناہل کو کیبل کار سے خوبصورت پہاڑوں کے نظارے کروائے۔اس سفید موتیوں جیسی خوبصورتی کو دیکھ کر مناہل کھو سی گئی تھی۔ایسے لگتا تھا جیسے بادل زمین پر آ گئے ہوں۔


پھر وہ اسے کشمیر پوائنٹ لایا جہاں کی اونچائی سے پورا مری دیکھا جا سکتا تھا۔ابھی بھی مناہل فرزام کے ساتھ ریلنگ کے پاس کھڑی اس حسین نظارے کو دیکھ رہی تھی جب چند لڑکیاں ان دونوں کے پاس آئیں۔


"آپ فرزام خانزادہ ہیں ناں؟"


ایک لڑکی کی آواز پر مناہل اور فرزام نے ان چار لڑکیوں کو دیکھا جو پینٹ شرٹ پر جیکٹ پہنے کھلے بالوں کے ساتھ کافی سٹائلش لگ رہی تھیں ۔


"میں آپ کو انسٹا ہر فالو کرتی ہوں اور آپکی ہر پکچر کو لائک کرتی ہوں ہو آر جسٹ ٹو مچ گارجس ۔۔"


ایک لڑکی نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا اور اسکی وہ مسکراہٹ مناہل کو بالکل اچھی نہیں لگی تھی اسکا دل کیا کہ فرزام کو ان سے بہت دور لے جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ فرزام کو اس سے چھین لیں۔


"کین آئی ٹیک آ سیلفی ود یو؟"


ایک لڑکی نے پوچھا تو فرزام نے ہاں میں سر ہلایا اور ان کے ساتھ تصویریں لینے لگا۔مناہل پہلے تو انہیں چبھتی نگاہوں سے دیکھنے لگی پھر اپنے آنسوؤں پر ضبط کرتی وہاں سے چلی گئی۔


ان لڑکیوں کے جانے پر فرزام نے مڑ کر مناہل کی طرف دیکھا لیکن اسے وہاں نہ پا کر اسکا دل ایک دم گھبرایا۔


"من؟"


فرزام نے بھاگتے ہوئے یہاں وہاں دیکھا لیکن اسے مناہل کہیں نظر نہیں آئی تو اسکی بے چینی مزید بڑھ گئی۔اس سب پر مناہل کے پاس موبائل بھی نہیں تھا اور اب فرزام کو اسے موبائل نہ دلوانے پر حد سے زیادہ غصہ آ رہا تھا۔


فرزام پاگلوں کی طرح اسے یہاں وہاں ڈھونڈتا رہا۔دل تھا کہ اسکی پل بھر کی دوری میں بند ہونے کو چلا تھا۔فرزام نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی لڑکی اس کے لیے اس قدر اہم ہو جائے گی۔


تبھی اناونسمنٹ ہونے لگی کہ کچھ دیر میں ہیوی سنو فال شروع ہو رہا ہے تو سب اپنے ہوٹلز میں واپس چلے جائیں۔


یہ اناؤنسمینٹ فرزام کی پریشانی مزید بڑھا گئی۔اس سے پہلے کہ وہ مناہل کا نام پاگلوں کی طرح چلانا شروع کر دیتا اسے مناہل ایک برفیلے درخت کے نیچے کھڑی نظر آئی تو غصے سے اسکی جانب گیا اور اسکا رخ اپنی طرف کر کے سختی سے اسے بازوں سے پکڑا۔


"کیوں گئی تم مجھ سے دور من؟بولو ہمت کیسے ہوئی تمہاری مجھ سے دور جانے کی؟"


فرزام کے غصے اور اپنے بازؤں پر اسکی سختی محسوس کر کے مناہل بہت زیادہ ڈر گئی۔تب سے بہتے آنسو خوف کے مارے آنکھوں میں ہی جم گئے۔


"بولو۔۔۔۔"


فرزام کے چلانے پر مناہل خوف سے اچھل پڑی اور تھر تھر کانپتے ہوئے بولی۔


"آ ۔۔۔۔آپ ان لڑکیوں کے ساتھ تھے تو مجھے لگا کہ آپ کو میری ضرورت نہیں۔۔۔ممم۔۔۔۔۔میں ویسے بھی تو آپ کے قابل نہیں ناں آپ کے لیے تو ان جیسی کوئی لڑکی۔۔۔"


اچانک ہی فرزام نے مناہل کو سختی سے اپنے سینے میں بھینچ لیا تو مناہل کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اسکا سانس بھی حلق میں اٹک گیا۔


"وعدہ کرتا ہوں من بات کرنا تو دور آج کے بعد یہ نظریں بھی کسی اور کی جانب نہیں اٹھیں گی۔۔۔"


مناہل کی آنکھوں سے آنسو پھر سے بہنے لگے۔وہ بس ایک بت بنی فرزام کی باہوں میں کھڑی تھی۔


"اور ایسا کبھی مت سوچنا کہ تم میرے قابل نہیں اگر اس دنیا میں فرزام کے لیے کوئی اہمیت رکھتا ہے تو صرف اور صرف اسکی من۔۔۔"


فرزام نے انتہائی جنون سے کہا اور اسکا گھیرا مناہل کے گرد مزید تنگ ہو گیا۔


"ہائے یار کاش کوئی میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا جو اس ٹھنڈ میں ایسے ہی آغوش میں لے کر سردی بھگا دیتا۔۔۔۔"


ایک لڑکی نے ان دونوں کر دیکھ کر کہا تو اس کے ساتھ موجود باقی لڑکیاں ہوٹنگ کرنے لگیں۔جبکہ انکی بات پر مناہل کو اپنی کیفیت کا اندازہ ہوا تو شرم سے گلابی ہوتا چہرہ فرزام کے سینے میں چھپا گئی۔


"فرزام واپس چلیں پلیز ۔۔۔۔؟"


فرزام نے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھے اور اسے اپنے ساتھ لگاتا ہوا وہاں سے جانے لگا تا کہ وہاں موجود پر لڑکی کو اندازہ ہو جائے کہ وہ صرف اپنی من کا تھا بالکل جیسے مناہل صرف اسکی تھی۔

💞💞💞💞

الطاف آج اپنے آفس واپس آیا تھا۔اتنے دنوں سے اپنی بہن کے آنسوؤں نے اسکے اندر پلتے غصے اور نفرت کو ہوا دی تھی اور وہ اب بس فرزام خانزادہ کو برباد کرنا چاہتا تھا۔


بالکل جیسے فرزام نے اس سے اسکی آدھی طاقت فیض کو چھینا تھا وہ فرزام سے اسکی آدھی طاقت،اسکے بھائی بہرام کو چھیننا چاہتا تھا ۔


لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں تھا۔بہرام پر ہاتھ ڈالنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا دوسری طرف وہ کچھ ایسا بھی نہیں کر سکتا تھا جس سے فرزام کی جان کو خطرہ ہوتا کیونکہ ایسا کر کے اسکا ہر پلین فیل ہو جاتا۔


اچانک ہی فون بجنے کی آواز پر الطاف کا دھیان میز پڑے فون پر گیا۔اس نے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔


"ہیلو الطاف صاحب میں گلفام بات کر رہا ہوں ۔۔۔"


الطاف کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔گلفام کو الطاف نے بہرام کی جاسوسی پر لگایا تھا جو کچھ دنوں سے بہرام کا ایک گارڈ بن کر اس پر نظر رکھ رہا تھا۔


"ہاں کہو کیا خبر ہے؟"


"خبر اچھی نہیں ہے صاحب مجھے پتہ لگا ہے کہ۔۔۔"


گلفام رک گیا تو الطاف کو بے چینی ہونے لگی۔


"بکو بھی۔۔۔"

"بہرام خانزادہ نے شادی کر لی ہے وہ بھی اسی دن جس دن اس کا نکاح آپ کی بھتیجی سے ہونا تھا۔۔۔۔"

یہ سن کر الطاف کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔یعنی اس دن اس لیے بہرام خانزادہ وہ نکاح چھوڑ کر گیا تھا۔

"کون ہے وہ لڑکی؟"

"سلیمان خانزادہ کے ایک باڈی گارڈ عباس کی بیٹی چاہت عباس۔"

چاہت کا نام سن کر ایک زہریلی مسکراہٹ الطاف کے ہونٹوں پر آئی۔اسے اپنی جیت اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگی تھی۔

"اب بتائیں صاحب آگے کیا کرنا ہے؟"

الطاف کے دماغ میں کئی شیطانی منصوبے چلنے لگے۔

"کچھ زیادہ نہیں بس مجھے چاہت عباس بلکہ چاہت خانزادہ سے ملنا ہے ایسا کچھ ہے جو اسے بتانا بہت ضروری ہے۔۔۔"

الطاف نے اپنے سامنے موجود پیپر ویٹ کو گھماتے ہوئے کہا۔

"لیکن یہ نا ممکن ہے صاحب بہرام اسے ایک پل کے لیے اکیلا نہیں چھوڑتا یا تو وہ بہرام کے ساتھ ہوتی ہے یا اسکے وفادار رشید کے ساتھ اور ایسے میں اس پر ہاتھ ڈالنا موت کو گلے لگانا ہے۔۔۔۔۔"

الطاف کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی یعنی کے چاہت بہرام کے لیے بہت زیادہ خاص تھی تب تو چاہت کی نفرت بہرام کے لیے بہت تکلیف دہ ہونی تھی۔

"تو ٹھیک ہے فلحال صبر کرو بہرام خانزادہ کو دو پل زندگی کے جی لینے دو کیونکہ بعد میں جو اسکے ساتھ ہو گا اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔۔۔"

الطاف کے چہرے پر انتہائی زیادہ خطرناک مسکراہٹ تھی۔

"تب تک میں کیا کروں صاحب؟"

گلفام نے پوچھا۔

"چاہت پر نظر رکھو اور پتہ لگاؤ کہ کس طرح اس سے ملاقات ہو سکتی ہے کہ اس ملاقات کی خبر بہرام کو نہ ہو۔۔۔"

گلفام جی صاحب کہہ کر فون بند کر گیا۔

"دیکھنا فرزام خانزادہ ایسی مار ماروں گا تمہارے بھائی کو کہ تم میرے خلاف کچھ کرنا تو دور مجھ پر شک بھی نہیں کر پاؤ گے۔ پھر ایک مرتبہ تمہاری اور مناہل کی اولاد ہو گئی تو تمہارا پتہ بھی صاف کر دوں گا تب تک جی لو جتنا جینا ہے۔۔۔"

الطاف نے دانت پیس کر کہا اور اپنے شیطانی منصبوں پر مسکرانے لگا۔ایک مرتبہ پھر سے وہ کسی کی زندگی ایسے اجاڑنے والا تھا کہ اس پر کوئی الزام بھی نہیں آتا۔

"میں ٹھیک ہوں اماں آپ تو ٹھیک ہیں ناں وہ ملازمہ جو بھیجی ہے خان جی نے ،حفضہ ،وہ آپ کا خیال تو رکھتی ہے ناں اور آپ زیادہ کام تو نہیں کرتیں،کہیں آپ کے گھٹنے میں درد۔۔۔"


"بس کر دو چاہت مجھے بھی تو بولنے دو ۔۔۔۔"


چاہت نے کچھ دیر پہلے ہی سکینہ کو فون کیا تھا اور ان کے فون اٹھا کر حال پوچھتے ہی چاہت نے سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔


"تم تو ٹھیک ہو ناں بہرام خیال تو رکھتا ہے تمہارا؟"


سکینہ کے بہت محبت سے پوچھنے پر چاہت کی پلکیں بھیگ گئیں اور اسے اندازہ ہوا کہ وہ اپنی ماں کے بغیر کس قدر اداس ہو چکی تھی۔


"جی خیال تو بہت رکھتے ہیں مگر۔۔۔"


چاہت کچھ سوچ کر اٹک گئی۔


"مگر؟"


چاہت کی آنکھوں سے آنسو اب روانی سے بہنے لگے۔


"مگر محبت نہیں کرتے۔۔۔"


سکینہ اپنی بیٹی کی آواز میں چھپا غم محسوس کر سکتی تھیں۔


"تم جانتی تو ہو چاہت کہ تم نے کس طرح ضد کرکے اسے حاصل کیا اب اس کی محبت پانا اتنا آسان تو نہیں ہو گا تمہیں بہت صبر اور ہمت سے کام لینا پڑے گا۔۔۔۔"


چاہت انکی بات پر اپنا سر جھکا گئی۔


"اگر محبت نہیں کرتے وہ اماں تو اتنی فکر کیوں ہے انہیں میری پتہ ہے کل میرا تھوڑا سا جلا ہاتھ دیکھ کر اتنے زیادہ پریشان ہو گئے تھے۔۔۔"


چاہت نے اپنی کلائی کو دیکھا جو ابھی بھی زرا سی لال تھی۔


"کس نے کہا کہ وہ محبت نہیں کرتا تم سے؟بیٹا انسان فکر اسی کی کرتا ہے جسے وہ بہت چاہتا ہو۔۔۔بہرام بس اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتا تم اسکی اس فکر کو ہی اسکی محبت سمجھ جاؤ۔۔۔"


سکینہ نے اسے سمجھایا لیکن چاہت اسکی محبت کا اقرار چاہتی تھی بالکل جیسے اس نے کیا تھا وہ خود سے اپنے دل میں بہرام کی محبت کی خوش فہمی نہیں پالنا چاہتی تھی۔


"اچھا اماں میں بعد میں بات کروں گی ابھی خان جی آنے والے ہیں۔۔۔"


"ٹھیک ہے بیٹا اپنا بہت زیادہ خیال رکھنا۔۔۔"


سکینہ نے محبت سے کہا تو چاہت مسکرا دی۔


"آپ بھی اماں۔۔۔"


اتنا کہہ کر چاہت نے فون بند کر دیا اور سکینہ کی باتوں کے بارے میں سوچنے لگی۔


کیا سچ میں بہرام کی محبت اس کی فکر مندی کی آڑ میں چھپی تھی؟اگر ایسا تھا تو چاہت اس فکر مندی کے بھیس میں چھپی محبت کو باہر لانا چاہتی تھی اور وہ جانتی تھی کہ ایسا کیسے کرنا ہے۔

💞💞💞💞

فرزام مناہل کو ایک وادی گھمانے لایا تھا جہاں چاروں طرف پھیلی سفید برف اور درختوں پر چھائی سفیدی اس جگہ کو کوئی اور ہی دنیا بنا رہی تھی۔


مناہل وہاں بنے ایک ہٹ کے نیچے مسکراتے ہوئے سارے منظر کو دیکھ رہی تھی جب فرزام اسکے پیچھے آیا اور ہاتھ میں پکڑا کافی کا مگ اسے پکڑایا۔


"میں نے ہمیشہ سنا تھا کہ مری بہت زیادہ پیارا ہے لیکن کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ سچ میں اس قدر خوبصورت ہو گا۔۔۔۔"


فرزام اسکی بات پر مسکرایا۔


"ابھی تو تم نے سوئزرلینڈ نہیں دیکھا وہ تو اس سے بھی زیادہ پیارا ہے۔۔۔"


مناہل نے خفگی سے منہ بسور کر فرزام کو دیکھا۔


"نہیں جی ہمارے ملک سے زیادہ خوبصورت کچھ نہیں۔۔۔"


اس کے اس انداز پر فرزام نے ایک ابرو اچکایا۔


"واہ من تم تو میری مخالفت کرنا بھی سیکھ گئی ہو۔۔۔"


فرزام کی بات پر مناہل نے گھبرا کر اسے دیکھا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ فرزام اس سے ناراض ہو جائے۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ اگر فرزام اس سے ناراض ہو گیا تو وہ کیا کرے گی۔


"میں نے مخالفت نہیں کی ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔مجھے لگتا ہے اپنا وطن سب سے پیارا ہوتا ہے۔۔۔"


اسکی گھبراہٹ پر فرزام ہنس دیا اور پاس سے برف اپنی انگلی پر پکڑ کر مناہل کی تیکھی ناک پر رکھی۔


"مزاق کر رہا تھا میرا جنون تم تو جان بھی لے لو تو چلے گا۔۔۔"


مناہل نے اپنی ناک کو چھوا جو برف کی وجہ سے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔


"کیا سچ میں؟"


مناہل کے پوچھنے پر فرزام نے اثبات میں سر ہلایا تو مناہل نے کافی کا مگ سائیڈ پر رکھ کر ہاتھ میں تھوڑی سی برف پکڑی اور اسے فرزام کے سینے پر دے مارا۔فرزام نے حیرت سے ایک نظر اپنے سینے کو دیکھا اور پھر مناہل کو۔


"مم۔۔۔مزاق کر رہی تھی۔۔۔"


فرزام نے آنکھیں چھوٹی کیں اور جھک کر زیادہ سی برف اپنے ہاتھ میں پکڑ لی۔


"نن۔۔۔۔۔نہیں فرزام سردی لگ جائے گی۔۔۔"


فرزام نے اسے شریر نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ اٹھایا تو مناہل نے ایک چیخ ماری اور وہاں سے بھاگنے لگی لیکن اس کے کچھ دور جانے سے پہلے ہی برف کا گولا کی کمر میں لگا ۔


"زیادہ سردی تو نہیں لگی ناں؟"


فرزام کی شرارت پر مناہل نے منہ بسورا اور مٹھی میں برف پکڑ کر فرزام کے چہرے کا نشانہ لے کر دے ماری۔


"اتنی سردی لگی۔۔"


فرزام نے چیلنج سے اسے دیکھا اور اسکے پیچھے بھاگنا چاہا لیکن مناہل ہنستے ہوئے اسکے سامنے بھاگنے لگی۔یہ دیکھ کر فرزام پریشان ہوا اور جلدی سے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا۔


"کیا کر رہی ہو من گر جاتی تو ؟"


فرزام کا غصہ دیکھ کر مناہل کی مسکراہٹ گل ہو گئی اور اس نے گھبرا کر فرزام کر اپنا ایک ہاتھ فرزام کے گال پر رکھا۔


"سوری۔۔۔"


اس کے انداز پر فرزام کی آنکھوں میں حرارت اتری اس نے ایک ہاتھ مناہل کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے قریب کھینچ لیا۔


"کیوں میرا امتحان لے رہی ہو من؟"


مناہل نے حیرت سے اسے دیکھا۔وہ ہمیشہ کی طرح فرزام کی قربت پر گھبرا رہی تھی۔


"مم۔۔۔میں نے کیا کیا؟"


جواب میں فرزام اس کے کان کے قریب جھک گیا۔اپنے کان پر فرزام کی سانسوں کی تپش محسوس کر مناہل کی نازک جان کانپ گئی۔


"اب مجھ سے ڈر نہیں لگ رہا۔۔۔؟"


فرزام کی سرگوشی پر مناہل نے کانپتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔


"میں سمجھ گئی ہوں کہ آپ فیض انکل جیسے نہیں آپ اچھے ہیں میرا خیال رکھنا چاہتے ہیں۔۔ "


فرزام نے اسکے کان کی لو پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تو مناہل کا روم روم کانپ گیا۔


"تو پھر آج رات ہوٹل واپس جا کر معلوم ہو جائے گا کہ کتنا بھروسہ کرنے لگی ہو مجھ۔۔۔"


فرزام نے یہ جان لیوا سرگوشی کی اور اس سے دور ہو کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔


"چلو فلحال شاپنگ کرنے چلتے ہیں کیونکہ مجھے تمہیں بہت کچھ دلانا ہے اور میری بھابھی جی نے کل رات کال کر بہت سی ڈیمانڈز کر لیں جنہیں پورا نہ کیا تو اسکی پٹر پٹر برداشت کرنی پڑے گی۔۔۔۔"


مناہل خاموشی سے اسکے پیچھے چلنے لگی۔فرزام کی کہی بات اور آنے والی رات کا سوچ کر مناہل اضطراب میں آ چکی تھی۔اب وہ فرزام کو کیسے بتاتی کہ وہ اس سے تو ڈرنا چھوڑ چکی تھی لیکن ابھی بھی اسے اپنا آپ اس کے قابل نہیں لگتا تھا۔

💞💞💞💞

آفس کا کام ختم کرنے کے بعد بہرام تقریباً رات کے دس بجے گھر واپس آیا تھا۔اس نے چاہت کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ اسے آنے میں دیر ہو جائے گی اس لیے کھانا کھا کر سو جائے اور بہرام اسی امید کے ساتھ گھر داخل ہوا کہ چاہت اب تک کھانا کھا کر سو چکی ہوگی۔


مگر پورچ میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر پورچ کے ساتھ اٹیچ اس شیشے کے کمرے میں پڑی جہاں پر سویمنگ پول تھا۔بہرام نے جب چاہت کو سویمنگ پول کے پاس بیٹھے دیکھا تو ماتھے پر بل آ گئے۔بہرام وہ شیشے کا دروازہ کھول کر وہاں داخل ہوا۔


"تم یہاں کیا کر رہی ہو چاہت؟"


بہرام کی آواز پر چاہت نے فوراً پلٹ کر اسے دیکھا اور مسکرا دی۔اس وقت وہ گلابی رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی،دوپٹہ کندھوں پر پڑا تھا اور لمبے بال کمر پر پھیلے تھے جو شائید اس نے سکھانے کے لیے کھلے چھوڑے تھے۔


"کچھ نہیں بس پانی دیکھ رہی تھی۔۔۔"


چاہت نے عام سے انداز میں کندھے اچکا کر کہا۔


"یہ کوئی وقت ہے پانی دیکھنے کا وہ بھی اتنی سردی میں سویٹر کے بغیر۔۔۔بیمار ہو جاؤ گی تم۔"


بہرام کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے زبردستی وہاں سے اٹھا کر لے جاتا۔


"تو ہو جاؤں گی بیمار کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔"


بہرام نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا اور اسکے قریب آ کر کھڑا ہو جائے گا۔


"پاگل تو نہیں ہو گئی تم؟"


چاہت نے انکار میں سر ہلایا اور شفاف نیلے پانی کو دیکھنے لگی۔


"نہیں خان جی سچ کہہ رہی ہوں مجھے کچھ ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے کسی کو میرے خیال سے مر بھی جاؤں گی ناں تو۔۔۔"


ابھی الفاظ چاہت کے منہ میں ہی تھے جب بہرام نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور غصے سے لال ہوتی آنکھوں سے اسے گھورنے لگا۔


"آج کے بعد کبھی مرنے کی بات بھی کی ناں تو قسم کھاتا ہوں چاہت تمہیں ایسی سزا دوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھو گی۔۔۔۔"


بہرام نے انتہائی غصے سے کہا لیکن چاہت اپنی کاجل لگی بڑی آنکھوں سے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔


"کیوں دیں گے سزا کیا اہمیت ہے میری جو مجھے کچھ ہونے سے آپ کو فرق پڑتا ہے پیار تو کرتے نہیں آپ مجھ سے۔۔۔"


اسکی بات پر بہرام نے ضبط سے ہے اپنی آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا اور اسے چھوڑ کر وہاں سے جانے کے لیے مڑا۔


"کمرے میں جاؤ اور جا کر آرام کرو۔۔۔۔"


"ٹھیک ہے تو اپنے ساتھ لے کر جا۔۔۔۔۔آہہہ۔۔۔۔"


چاہت کی چیخ پر بہرام مڑا لیکن تب تک چاہت اپنا پاؤں پھسلنے کی وجہ سے پول کے پانی میں جا گری تھی۔بہرام نے پریشانی سے پانی کو دیکھا جہاں چاہت گری تھی۔وہ پول اتنا گہرا تو نہیں تھا کہ بہرام جتنا انسان اس میں ڈوب سکتا لیکن چاہت کے لیے وہ گہرا تھا۔


پریشانی کے عالم میں بہرام نے جلدی سے اپنا کوٹ اتارا اور پول کے پانی میں چھلانگ لگا دی۔کچھ ہی دیر میں چاہت کو پانی سے نکال چکا تھا لیکن چاہت کی بند پلکیں دیکھ کر بہرام کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹک گیا۔


"چاہت۔۔۔۔چاہت کیا ہوا ہے اٹھو۔۔۔۔"


بہرام نے اسکے سینے پر دباؤ ڈالا اور پھر ناک کو دبا کر نازک ہونٹوں پر جھکتے ہوئے اسے اپنی سانسیں دینے لگا۔اس کے دوبارہ یہ عمل دہراتے ہی چاہت سانس لینے لگی تھی لیکن سردی کی شدت سے اسکا وجود بہت زیادہ کانپ رہا تھا۔


بہرام نے فورا اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور اپنے کمرے کی جانب بھاگنے لگا۔راستے میں اسے خالہ نظر آئیں جو چاہت کو یوں دیکھ کر پریشانی سے بہرام کی طرف بڑھیں۔


"ڈاکٹر کو فون کریں خالہ اور چاہت کے کپڑے لے کر جلدی سے میرے کمرے میں آئیں۔۔۔"


بہرام کے حکم دیتے ہی خالہ نے اثبات میں سر ہلایا اور فون کی جانب لپکیں۔کمرے میں آکر بہرام نے چاہت کو صوفے پر لٹایا اور پریشانی سے اسکے پاس بیٹھ گیا۔


"چاہت آنکھیں کھولو میری جان۔۔۔"


بہرام پریشانی سے اسکے ہاتھ سہلا رہا تھا جو سردی کی شدت سے نیلے پڑ رہے تھے۔


"چاہت پلیز آنکھیں کھولو۔۔۔۔"


بہرام کی یہ پریشانی اگر کوئی دیکھ لیتا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹ جاتیں۔آج وہ سرد مہر سا شخص اس چھوٹی سی لڑکی کی پریشانی میں مکمل طور پر بکھر چکا تھا۔


"بہرام بیٹا چاہت کے کپڑے لے آئی ہوں اور ڈاکٹرنی صاحبہ پانچ منٹ میں یہاں پہنچ جائیں گی۔"


بہرام نے ہاں میں سر ہلایا اور کمرے سے باہر چلا گیا تاکہ خالہ چاہت کے گیلے کپڑے بدلوا سکیں۔کمرے کے باہر وہ کبھی بے چینی سے ٹہلتا تو کبھی اپنے بال نوچنے لگتا۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اندر لیٹی لڑکی کو اگر کچھ ہو گیا تو وہ بھی جی نہیں پائے گا۔


تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر وہاں پر آئیں اور چاہت کا چیک اپ کرنے کے بعد کمرے سے نکلیں تو بہرام پریشانی سے ان کی جانب بڑھا ۔


"وہ ٹھیک ہیں مسٹر بہرام کوئی پرابلم تو نظر نہیں آ رہی شاید پانی میں گرنے کہ خوف کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے ہیں آپ فکر مت کریں صبح تک انہیں ہوش آجائے گا۔۔۔"


ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔بہرام کمرے میں داخل ہوا تو چاہت بیڈ پر کمبل میں لپٹی نظر آئی۔


"آپ جائیں خالہ کچھ چاہیے ہو گا تو میں بلا لوں گا۔۔۔"


خالہ نے ہاں میں سر ہلایا اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔اسے صحیح سلامت دیکھ کر بہرام کو اپنے گلے کپڑوں کا اندازہ ہوا تو کپڑے بدل کر چاہت کے پاس آیا اور اسے اپنی باہوں میں لے کر کمفرٹر اچھی طرح سے دونوں کے گرد لپیٹ لیا۔


"چاہت۔۔۔۔آنکھیں کھولو میری جان۔۔۔۔"


بہرام نے اسکا گال تھام کر بہت زیادہ محبت سے کہا تھا۔اگر یہ محبت چاہت دیکھ لیتی تو شائید خوشی سے پاگل ہو جاتی۔


"بہت تڑپاتی ہو تم مجھے چاہت خانزادہ اس کے علاوہ تم نے کبھی کچھ نہیں کیا۔۔۔"


بہرام نے خفگی سے کہا اور اسے مزید سختی سے اپنے اندر سما لیا۔


"کبھی اپنی معصوم شرارتوں سے اور کبھی ایسے۔۔۔۔بس مجھے بے چین کرنا ہی سیکھا ہے تم نے کیا؟"


بہرام نے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


"جی خان جی۔۔۔"


چاہت کی آواز پر بہرام نے حیرت سے سر جھکا کر اسکی آنکھوں کو دیکھا جو شرارت سے بھری ہوئی تھیں۔


"اب بولیں کیوں ہے آپ کو میری اتنی پرواہ کہ مجھے بیمار دیکھ کر یوں تڑپ اٹھے۔۔۔۔یہ پریشانی محبت نہیں تو کیا ہے خان جی؟"


چاہت نے مسکرا کر پوچھا جبکہ اسکی اس حرکت پر بہرام کی آنکھوں میں غصہ اتر چکا تھا۔اچانک ہی وہ چاہت کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسکے اوپر ہوا اور بری طرح سے اسکے نازک وجود پر حاوی ہو گیا۔


"یہ کیا حرکت تھی؟"


بہرام کو اپنے اتنے قریب اتنے غصے میں دیکھ کر چاہت کا سانس اس کے سینے میں اٹک گیا۔


"وو۔۔۔۔وہ آپ نے کہا تھا کہ آپ پیار نہیں کرتے مجھ سے تو میں دیکھنا چاہتی تھی کہ آپ کو میری کتنی پرواہ ہے۔۔۔۔"


بہرام نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھ میں دبوچ لیا۔


"تمہیں یہ سب مزاق لگتا ہے چاہت خانزادہ؟"


چاہت کی پلکیں اسکے سوال پر نم ہو گئیں اور اس نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں خان جی مزاق تو آپ کو میرا پیار لگتا ہے جو آپ بار بار میرا دل توڑتے ہیں جب پیار کرتے ہیں مجھ سے تو مان کیوں نہیں لیتے۔۔۔"


بہرام ضبط سے اپنی آنکھیں میچ گیا۔


"چاہت خاموش ہو جاؤ۔۔۔"


"نہیں ہوں گی میں خاموش خان جی مانا مجھ سے غلطی ہوئی تھی لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اتنی زیادہ بے رخی دیکھائیں مجھے۔ آپ کے اس پیار پر حق بنتا ہے میرا آپ کیسے میری حق تلفی کر سکتے ہیں؟"


چاہت کے سوال پر بہرام کی آنکھوں میں جنون اترا۔


"تمہیں میری محبت چاہیے ناں تو اب اسے محبت کو برداشت کرنے کی ہمت بھی پیدا کر لو اپنی نازک جان میں۔۔۔"


بہرام کی بات پر چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اس سے پہلے کہ وہ اسکی بات کا مطلب سمجھتی بہرام اس پر جھکا اور بہت شدت سے اسکے پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔


چاہت کا سانس اسکے سینے میں اٹکا جبکہ ان ہونٹوں کی نازکی محسوس کرتے ہی بہرام پر ایک سرور تاری ہوا ۔


وہ تو کب سے اسکے جزبات کا امتحان لے رہی تھی اور آج بس اسکے ایک لمس پر ہی بہرام مکمل طور پر مدہوش ہوتا خود پر باندھا ہر پہرہ توڑ گیا۔


اسکے عمل میں اس قدر شدت تھی کہ چاہت کو لگا کہ وہ اسکا سانس ہی روک دے گا۔پھر اسے بہرام کا ہاتھ اپنی کمر پر رینگتا محسوس ہوا اور اپنی شرٹ کی زپ کھلتی محسوس کر چاہت کی جان ہوا ہوئی۔


اس نے بہرام کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر پوری طاقت سے اسے خود سے دور کرنا چاہا تو بہرام اس سے دور ہو کر اسے گھورنے لگا۔


"اب کیا ہوا کرنے دو مجھے پیار۔۔۔"


بہرام کی آواز میں ایک ایسا جنون تھا جسے محسوس کر چاہت کانپ کر رہ گئی۔


"خخخ۔۔۔۔خان جی۔۔۔"


"بہت تڑپتی ہو ناں تم میری محبت دیکھنے کے لیے چاہت خانزادہ تو آج پوری رات تمہیں اس محبت کی شدت دیکھاؤں گا اور بتاؤں گا کہ تمہاری یہ محبت مجھے کتنا تڑپاتی ہے۔۔۔۔"


بہرام نے اسکے کندھے سے شرٹ سرکائی تو چاہت کی روح تک کانپ گئی۔اسے لگا تھا کہ بہرام بس اپنی محبت کا اظہار کرے گا لیکن اسکا یہ عملی مظاہرہ تو چاہت کی جان لینے کے در پہ تھا۔


"پلیز۔۔۔خان جی۔۔۔"


اپنی گردن پر بہرام کے ہونٹوں کے ساتھ ساتھ اسکی مونچھوں کی چبھن محسوس کر چاہت نے پکارا تو بہرام نے اسکی گردن سے چہرہ نکالا اور اسکی لرزتی پلکوں اور کپکپاتے ہونٹوں کو جنون سے دیکھنے لگا۔


"اب میری محبت کے اس کیفِ جنون کو برداشت کرو چاہت جسے تم نے اسکی قید سے آزاد کر دیا ہے۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا تو چاہت زور سے اپنی آنکھیں میچ گئی۔بہرام نے شرٹ اتار کر دور اچھالی اور پھر سے اسے اپنی گرفت میں لیتا مدہوش ہونے لگا۔


چاہت بھی اپنی مزاحمت ترک کرتی خود سپردگی کا اعلان کر چکی تھی۔بہرام نے اسے کمر سے بھینچ کر خود کے بہت قریب کر لیا۔اس سے پہلے کہ وہ ہر پردہ گراتا ایک پرانا منظر اسکی آنکھوں کے سامنے آیا۔


خون میں سنا ایک وجود فرش پر گرا تھا اور سترہ سالہ بہرام کے ہاتھوں میں وہ بندوق تھی جس سے اس وجود کی جان گئی تھی۔وہ منظر یاد کرتے ہی بہرام ہوش میں آیا اور جھٹکے سے چاہت سے دور ہو گیا۔


یوں اچانک بہرام کے دور ہو جانے پر چاہت نے گھبرا کر کمفرٹر کو بھینچا اور اپنا لباس کندھوں سے ٹھیک کرنے لگی۔


چاہت کو اس حال میں شرم میں ڈوبا دیکھ کر بہرام کا دل کیا کہ اپنی جان لے لے۔اس نے اپنی شرٹ اٹھائی اور چاہت کو دیکھے بغیر کمرے سے نکل گیا۔اسکے یوں چلے جانے پر چاہت پہلے تو حیران ہوئی پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔آخر ایسی کیا بات تھی جو بہرام کو چاہت کا نہیں ہونے دے رہی تھی۔ایسا کون سا راز تھا جو ان کے رشتے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔

💞💞💞💞


(ماضی)

نہ جانے رات کا کون سا پہر تھا جب سلیمان کو کچھ عجیب محسوس ہوا تھا جیسے اس کے گرد بہت گرمی اور عجیب سا شور ہو اور اسکا دم بری طرح سے گھٹ رہا تھا۔


اسے یاد آیا کہ وردہ کے ناراض ہو کر کمرے میں جانے کے بعد وہ وہیں ہال میں صوفے پر لیٹ گیا تھا لیکن نہ جانے کب اتنی گہری نیند میں چلا گیا اسے اندازہ ہی نہیں ہوا۔


درد سے پھٹتے سر کو نظر انداز کر کے اس نے آنکھیں کھولیں تو ارد گرد کا منظر دیکھ کر اسکی روح فنا ہو گئی۔اسکا گھر چاروں طرف سے آگ کی لپٹوں میں تھا۔ہر چیز جل رہی تھی اور اگر وہ وقت پر نہ اٹھتا تو جلد وہ بھی جلنے والا تھا۔


"وردہ۔۔۔"


سلیمان اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔اسے اپنی محبت کی پرواہ ہو رہی تھی جو شائید ابھی بھی کمرے میں تھی۔ابھی اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا جب اسے بہرام اور فرزام کا خیال آیا جو نچلے فلور پر اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔


وہ جلدی سے انکے کمرے کی جانب آیا اور جلتے دروازے کو زور سے تین سے چار بار ٹانگ مار کر توڑ دیا۔سامنے ہی بیڈ پر فرزام اور بہرام سو رہے تھے۔


سلیمان حیران تھا کہ اتنی بڑی آفت کے باوجود وہ سب سو کیوں رہے تھے؟سلیمان جلدی سے ان دونوں کے پاس آیا اور انہیں جھنجھوڑ کر اٹھانے لگا۔


پہلے بہرام اٹھا جس نے اٹھتے ہی اپنا دکھتا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور پھر سہم کر ارد گرد لگی آگ کو دیکھنے لگا۔


"بابا۔۔۔"


فرزام جو اب جاگ چکا تھا سہم کر سلیمان کے ساتھ لگا۔


"چلو میرے بچو ہمیں جلدی سے یہاں سے جانا ہے۔۔۔"


سلیمان نے ان دونوں کو اپنے ساتھ لگایا اور ایک کمبل ان کے گرد لپیٹ کر انہیں باہر کی جانب لے جانے لگا لیکن ہال کا دروازہ بری طرح جل رہا تھا اور وہ دروازہ بہت مظبوط تھا۔اسے توڑنا اتنا آسان نہیں تھا۔


سلیمان نے پریشانی سے اردگرد دیکھا اور لوہے کی ایک کرسی پکڑ کر اسے شیشے کی کھڑکی میں مار کر کھڑکی توڑ دی۔سلیمان کھڑی پھلانگ کر باہر نکلا اور پہلے بہرام کو آگ سے بچاتے ہوئے کھڑکی سے باہر نکالا اور پھر فرزام کو لیکن ایسا کرتے ہوئے اسکے اپنے بازؤں پر آگ لگ چکی تھی جسے اس نے ہاتھ مار کر بھجایا اور پھر سے کھڑکی کی جانب لپکا لیکن فرزام فوراً اس سے لپٹ گیا۔


"بابا۔۔۔۔مت جائیں۔۔۔"


سلیمان نے بے بسی سے اپنے دونوں بیٹوں کو دیکھا اور انکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے۔


"مجھے تمہاری مما کو بھی نکالنا ہے تم دونوں رکو میں ابھی اسے لے کر آتا ہوں۔۔۔"


سلیمان نے ان سے دور ہونا چاہا۔


"میں بھی ساتھ جاؤں گا بابا۔۔۔"


بہرام نے کہا لیکن سلیمان نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"بہرام فرزام کچھ بھی ہو جائے تم اندر نہیں آؤ گے میں ابھی وردہ کو لے کر آتا ہوں۔۔۔۔"


سلیمان اتنا کہہ کر ان سے دور ہوا اور حیرت سے اردگرد دیکھا۔ان پر اتنی بڑی مصیبت آن پڑی تھی اور سب ملازمین اور گارڈز نہ جانے کہاں غائب تھے۔نہ جانے کسی نے فائر بریگیڈ کو بھی بلایا تھا یا نہیں۔


فلحال یہ سب سوچنے کا وقت نہیں سلیمان وردہ ابھی بھی مصیبت میں ہے۔


سلیمان نے سوچا اور بہرام فرزام پر آخری نگاہ ڈالتا واپس اسی کھڑکی سے گھر میں داخل ہو گیا۔اب تک آگ بھڑک کر پہلے سے دوگنا ہو چکی تھی۔سلیمان نے خود کو دھوئیں سے بچانے کے لیے اپنا آدھا جلا سویٹر اتار کر اپنے منہ پر رکھا اور جلدی سے سیڑھیوں کی طرف بھاگا جو بری طرح سے جل رہی تھیں لیکن وہ خود کو آگ سے بچاتا جلدی سے اپنے کمرے کی جانب جانے لگا۔

اپنے کمرے کا دروازہ توڑنے کے بعد وہ کمرے میں آیا تو اس نے دیکھا کہ آگ اب پھیل کر اس بیڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی جس پر وردہ ایسے سو رہی تھی جیسے کہ بے ہوش ہو۔

سلیمان کو لگا کہ کچھ تو صیح نہیں تھا آخر وہ سب اتنی گہری نیند میں کیسے جا سکتے تھے۔سلیمان جلدی سے بیڈ کے پاس آیا اور وردہ کو کھینچ کر بیڈ سے اتارا۔

سلیمان کے کھینچنے پر وردہ سسک اٹھی اور اسکی آنکھیں ہلکی سی کھل گئیں لیکن اردگرد کا منظر دیکھ کر وہ آنکھیں خوف سے پھ

"سس۔۔۔سلیمان یہ۔۔۔"

"شش۔۔۔گھبراؤ مت میری جان کچھ نہیں ہو گا ہمیں یہاں سے نکلنا ہے چلو۔۔۔"

سلیمان نے وردہ کے دوپٹے کو اسکی ناک پر رکھتے ہوئے کہا اور اسے لے کر کمرے سے نکل گیا لیکن سیڑھیوں پر آگ بری طرح سے پھیل چکی

"سسس۔۔۔۔۔سلیمان۔۔۔۔"

وردہ اب رونے لگی تھی۔ سلیمان نے جیسے تیسے آگ سے بچ کر وردہ کو سیڑھیوں سے اتارا اور ہال میں آ گیا۔اب وہاں ہر آگ کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا بس ہر طرف آگ تھی۔

سلیمان نے کھڑکی میں سے اپنے بچوں کی سہمی نم آنکھوں کو دیکھا۔ان کے پیچھے کچھ لوگ کھڑے تھے جو شائید ان کے ہمسائے تھے جو اب وہاں آ کر پریشانی سے ہر منظر دیکھ رہے تھے۔

"چلو وردہ۔۔۔"

سلیمان نے اسے لے کر کھڑکی کی جانب جانا چاہا مگر تبھی اسکی نگاہ ہال کے ایک کونے میں پڑے سیلنڈر پر پڑی جو وہاں تو نہیں ہونا چاہیے تھا پھر وہ وہاں کیسے آیا۔

اس سے پہلے کہ سلیمان کچھ سوچتا وہ سیلنڈر بری طرح سے ہلنے لگا اور اس پر آگ لگ گئی۔سلیمان نے فوراً وردہ کو خود میں بھینچا اور اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔

تبھی وہ سیلنڈر پھٹا اور ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کے بعد آگ کے سوا کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔بس وہاں وردہ کی ہولناک چیخیں گونج اٹھی تھیں۔

"ماما۔۔۔۔بابا۔۔۔۔"

فرزام نے روتے ہوئے اس جلتے گھر کی جانب جانا چاہا لیکن ایک آدمی نے آگے بڑھ کر اسے اپنی پکڑ میں لے لیا۔

"نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔بابا۔۔۔۔"

فرزام چیختے ہوئے رو رہا تھا اور اپنے آپ کو چھڑوا کر اس گھر میں اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ بہرام تو ایک زندہ لاش بنا وہاں کھڑا تھا بس دو آنسو تھے جو اسکی آنکھوں سے بہے تھے۔ایک ہی پل میں انکا ہنستا بستا جہاں جل کر تباہ ہو گیا تھا۔

مناہل گھبراتے ہوئے کمرے میں ٹہل رہی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔فرزام رات کا کھانا کھانے کے بعد کسی کام سے گیا تھا اور دوپہر میں اسکی کہی باتوں کو یاد کر کے مناہل بری طرح سے گھبرا رہی تھی۔


وہ فرزام کو کیسے بتاتی کہ وہ ابھی اسکی قربت کے لیے تیار نہیں تھی اور شائید کبھی ہو بھی نہیں پاتی۔خود کے غلیظ اور کمتر ہونے کا جو خیال اسکے ذہن میں بیٹھایا گیا تھا وہ مناہل کو اسکی ہی نظروں میں گرا رہا تھا۔


دروازے کا لاک کھلتا دیکھ کر مناہل کو اندازہ ہوا کہ فرزام واپس آ چکا ہے اس لیے اس سے چھپنے کے لیے فوراً واش روم میں بند ہو گئی۔


خالی کمرہ دے کر فرزام کے ماتھے پر بل آئے۔


"من کہاں ہو تم؟"


فرزام نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"ممم۔۔۔۔میں نہا رہی ہوں۔۔۔"


واش روم سے آنے والی مناہل کی گھبرائی سی آواز پر فرزام کے لب مسکرا دیے۔


"ٹھیک ہے جلدی آ جاؤ میں انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔"


مناہل کا دل بہت زور سے دھڑکا اور وہ مجبوراً شاور لینے لگی۔تبھی واش روم کا دروازہ ناک ہوا۔


"نہا تو رہی ہو تو یہ ڈریس چینج کر لینا تمہارے لیے یہی لینے گیا تھا۔فرزام کی آواز پر مناہل نے ہلکا سا دروازہ کھولا تو فرزام نے ایک شاپنگ بیگ اسے تھمایا تو مناہل نے فوراً دروازہ بند کر دیا۔


مناہل نے وہ ڈریس پہن کر دیکھا تو مزید گھبرا گئی۔کیونکہ وہ نیلے رنگ کی میکسی ویسے تو پیروں تک تھی لیکن بازوں کے نام پر صوفے دو سٹریپس تھیں جن پر سلور کام ہوا تھا۔مناہل نے اسے پہن کر اپنا دوپٹہ اچھی طرح سے اپنے گرد لپیٹ لیا۔


تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد وہ بالوں کو تولیے میں لپیٹ کر روم سے باہر آئی اور کمرے میں چلتے ہیٹر کے باوجود ٹھنڈ سے بری طرح کانپنے لگی۔


تبھی کسی نے پیچھے سے اسے اپنی گرم آغوش میں لیا اور اپنے ہونٹوں سے اسکی گردن پر آتا پانی کا قطرہ چن لیا۔


"ففف۔۔۔۔فرزام۔۔۔۔"


"جی فرزام کے جنون۔۔۔۔"


فرزام نے انتہائی محبت سے کہا اور اسکا رخ اپنی جانب کر کے اسکے بال سے تولیا ہٹا دیا اور دوپٹہ ہٹانا چاہا لیکن مناہل نے مظبوطی سے اس دوپٹے کو تھام لیا۔


"فرزام پلیز۔۔۔۔مت کریں مم۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔"


"مجھ سے؟"


فرزام نے محبت سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر پوچھا۔


"ننن۔۔۔۔نہیں آپ سے نہیں۔۔۔۔بس ڈر لگتا ہے۔۔۔۔"


مناہل نے بے بسی سے کہا پلکوں پر آنسو ٹھہر چکے تھے۔فرزام نے اپنے ہونٹ اسکی بھیگی پلکوں پر رکھے۔


"اور میں بھی سمجھ چکا ہوں یہ ڈر تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک میں اسے ختم نہیں کروں گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام نے مناہل کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا تو خوف کے باعث مناہل کا سانس اٹک گیا۔اس رات کا ہر ایک پل مناہل کی آنکھوں کے سامنے آیا۔وہ تب بھی تو کمزور ہی تھی،بہت زیادہ بے بس تو کیا وہ آج بھی کمزور ہی رہے گی،کیا وہ ہمیشہ کمزور ہی رہے گی۔


"من سانس لو۔۔۔"


فرزام نے اسکا اٹکا سانس دیکھا تو سختی سے کہا لیکن مناہل تو اپنے ہی خوف میں ڈوب چکی تھی۔


"من میں نے کہا سانس لو۔۔۔"


فرزام نے سختی سے کہا ساتھ ہی اسکے ہاتھ مناہل کی کمر پر سخت ہوئے لیکن پھر بھی مناہل نے سانس نہیں لیا تو فرزام اسکے ہونٹوں پر جھک گیا اور اپنی سانسیں اسکو سونپنے لگا۔


مناہل کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں اور اس نے گھبرا کر گہرا سانس کھینچا اور یہی موقع دیکھتے فرزام ان نازک ہونٹوں کو اپنی شدت سے آگاہ کروانے لگا۔


مناہل اسکے جنون پر کانپ کر رہ گئی۔فرزام اسے یونہی اپنی باہوں میں اٹھائے بیڈ تک لے آیا اور اسے بیڈ پر لیٹا کر اپنے ہونٹ اسکی گردن تک لے گیا۔


فرزام کی اس بے خودی پر مناہل کی جان خوف سے لرز رہی تھی لیکن فرزام کو اسکا اندازہ ہی کہاں تھا وہ تو مدہوش ہوا اسے اپنی محبت سے باور کروا رہا تھا۔


اس نے مناہل کا دوپٹہ اسکے گرد سے ہٹایا اور کندھے میکسی کی سٹریپ ہٹا کر وہاں اپنے ہونٹ رکھے تو مناہل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔یہ دیکھ کر فرزام اس سے دور ہوا اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔


"من۔۔۔۔؟"


"پلیز ایسا مت کریں۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں کچھ بھی کر لوں میرے ذہن سے اس کالی رات کا عکس نہیں جاتا۔۔۔۔اپنا آپ بہت بے بس لگنے لگ جاتا ہے بہت حقیر۔۔۔۔"


مناہل نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا تو فرزام اٹھ کر بیٹھا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔


"شششش ۔۔۔۔رو مت میرا جنون کچھ نہیں کر رہا میں۔۔۔"


فرزام نے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


"ممم۔۔۔۔۔میں آپ کے قابل نہیں فرزام آپ دوسری شش۔۔۔شادی کر لیں۔۔۔۔"


مناہل کی بات پر فرزام نے اپنا ہاتھ اسکے بالوں میں پھنسایا اور اسکا چہرہ اوپر کر کے لال ہوتی انگارہ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔


"یہ بکواس آج تو کر لی آئندہ برداشت نہیں کروں گا میں من۔۔۔۔میں پہلے بھی تمہیں کہہ چکا ہوں کہ تم پاکیزہ اور معصوم ہو غلیظ وہ تھا جسے میں نے مار دیا۔۔۔۔اب خود کو کبھی کم تر مت سمجھنا۔۔۔۔"


مناہل نے انکار میں سر ہلایا اور فرزام سے دور ہو کر بیڈ سے اتر گئی۔


"نہیں ممم۔۔۔میں گھٹیا ہوں۔۔۔مم۔۔۔میں اتنی بری ہوں کہ اپنے ہی پھوپھا کو ادائیں دیکھا کر اپنی طرف مائل کیا اور جب وہ بہک گئے تو ان پر الزام لگا دیا۔۔۔۔جو انہوں نے میرے ساتھ کیا میں اسی قابل ہوں۔۔۔۔میں گھٹیا ہوں۔۔۔میں بری ہوں۔۔۔۔"


مناہل اب اپنا چہرہ نوچتے ہوئے رو رو کر کہہ رہی تھی اور اسکی بات پر فرزام مٹھیاں بھینچتا اسکے پاس آیا۔


"کس نے کہا تم سے یہ سب من بتاؤ مجھے کس نے یہ باتیں ڈالیں تمہارے معصوم ذہن میں۔۔۔۔"


مناہل نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور بس سسکتے ہوئے رونے لگی۔


"میں کسی مرد کے قابل نہیں۔۔۔۔جو عورت اپنی لاج کی حفاظت نہ کر پائے اس کو تو مر ہی جانا چاہیے۔۔۔۔"


مناہل نے پھر سے کہا۔۔۔اس وقت وہ اپنے حواس میں نہیں لگ رہی تھی۔


"بس کرو من بس کرو۔۔۔۔"


فرزام اسے کندھوں سے پکڑ کر چلایا۔


"میری جگہ اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرتی اور میں اتنی بے حیا ہوں کہ چیخ چیخ کر دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ میرے پھوپھا نے مجھے۔۔۔"


فرزام کا ہاتھ اٹھا اور زور سے مناہل کے گال پر پڑا تو مناہل کی بات اسکے منہ میں ہی رہ گئی اور وہ حیرت سے نم آنکھیں کھولے فرزام کو دیکھنے لگی۔


"اب بس۔۔۔۔بہت سن لیا میں نے من تم اب بس مجھے یہ بتاؤ گی کہ یہ باتیں تم سے کس نے کہیں؟"


مناہل نے اپنے گال سے ہاتھ ہٹایا اور نظریں چرانے لگی۔


"بتاؤ من کس نے کہا تھا یہ سب تم سے۔۔۔"


فرزام نے اسے کندھوں سے تھام کر سختی سے پوچھا تو مناہل اسکے سینے سے لگ گئی اور زارو قطار رونے لگی۔فرزام کو اب اپنی حرکت پر بے انتہا افسوس ہوا کہ اس نے کیا سوچ کر اس نازک جان پر ہاتھ اٹھایا جو پہلے ہی بکھری ہوئی تھی۔


"ج۔۔۔۔جس رات انہوں نے وہ سس۔۔۔سب کیا میں پوری رر۔۔۔۔رات ایک کونے میں بیٹھ کر روتی رہی۔۔۔"


فرزام نے کرب سے اپنی آنکھوں موند لیں۔


"صبح میں ملازمہ کو اسی کونے میں بے ہوش پڑی ملی تو انہوں نے میری پھپھو کو بتایا کیونکہ اس وقت گھر پر وہی تھیں۔۔۔"


مناہل ایک پل کو خاموش ہوئی اور فرزام کے مزید قریب ہو گئی جیسے کہ اس میں چھپنا چاہ رہی ہو۔


"وہ مجھے ہاسپٹل لے کر گئیں تو ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔انہوں نے میرے سامنے ہی اپنے کانوں سے ڈائمنڈ کے ٹاپس نکال کر ڈاکٹر کو دیے اور اس سے کہا کہ یہ بات کسی کو نہ بتائے۔۔۔"


فرزام نے اسکی کمر کو سہلایا۔


"انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ سب کس نے کیا۔۔۔؟"


اتنا بول کر مناہل کے گلے میں آنسوؤں کا ایک پھندہ بن گیا۔


"میں نے انہیں بتایا کہ یہ سب فیض انکل نے کیا تو انہوں نے کہا کہ میں یہ بات کسی کو نہ بتاؤں۔۔۔کسی کو بھی نہیں بلکہ بھول جاؤں کہ ایسا کچھ ہوا تھا۔۔۔"


مناہل اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی تو فرزام اس سے دور ہوا اور محبت سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیا۔


"پھر۔۔۔؟"


مناہل نے آنکھوں میں آنسو آنے پر آنکھیں موند لیں۔


"میں نے انہیں کہا کہ میں تایا ابو کو بتا دوں گی پھر وہ فیض انکل کو ماریں گے۔۔۔"


مناہل اب کی بار سسک اٹھی اور اس کو اس حال میں دیکھ کر فرزام کا دل کر رہا تھا کہ بیگ ولا کے ہر فرد کو زندہ درگو کر دے۔


"تو پھپھو نے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور مجھے اس چھوٹی سی عمر میں ہی یہ سب باتیں مجھے کہہ کر اس بات سے باور کروا دیا کہ میں کس قدر گھٹیا ہوں۔۔۔۔"


مناہل نے شکوہ کناں آنکھوں سے فرزام کو دیکھا۔


"جانتے ہیں اپنی زندگی کے یہ سات سال ہر لمحہ میں یہ سوچتی رہی کہ ایک بارہ سالہ بچی جو خود کو سجانا بھی نہیں جانتی وہ بھلا کیسے کسی کو اپنی طرف مائل کر سکتی تھی۔۔۔۔"


مناہل نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں۔


"میں نہیں سمجھ پائی فرزام کہ اتنی چھوٹی عمر میں میں اس طاقتور آدمی کا مقابلہ نہیں کر پائی تو اس میں میرا کیا قصور۔۔۔۔"


اب کی بار فرزام نے بھی ضبط سے اپنی آنکھیں موند لیں جو تب سے روکے جانے والے آنسوؤں کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں۔


"میں نہیں سمجھ پائی کہ گناہ اس کا تھا تو گھٹیا میں کیوں ہوں۔۔۔؟"


مناہل نے اپنا ایک ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھا اور پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اسے لگا فرزام اسے اپنی باہوں میں لے کر دلاسا دے گا لیکن فرزام کو خود سے دور ہوتا دیکھ مناہل نے سہم کر اپنی آنکھیں کھولیں اور فرزام کو دیکھا جو اپنی جیکٹ کے ساتھ ساتھ کار کی چابیاں پکڑ کر باہر کے دروازے کی جانب جا رہا تھا۔


مناہل کو لگا کے وہ بھی اسے چھوڑ کر جانے والا ہے تو بند ہوتے دل کے ساتھ اسکی جانب بھاگی۔


"کہاں جا رہے ہیں آپ؟"


مناہل کو لگ رہا تھا اس کا دل بند ہو جائے گا کیونکہ اس وقت فرزام بہت زیادہ غصے میں تھا۔


"اس گھٹیا عورت کو اسکے شوہر کے پاس پہنچانے۔۔۔"


فرزام کا جواب سن کر مناہل مزید ڈر گئی اور بھاگ کر پیچھے سے اس لپٹ گئی۔


"پلیز مت جائیں فرزام۔۔۔۔"


"کیوں؟"


فرزام نے پلٹے بغیر پوچھا آواز میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔


"میں نہیں چاہتی آپ میری وجہ سے کسی اور کی جان لیں۔۔۔"


فرزام اس کی جانب پلٹا۔


"مناہل ایک بارہ سالہ بچی کی ہمت توڑنے ان سے اسی کی نظروں میں گرا دینے کی یہی سزا ہے۔۔۔۔۔ہمارے معاشرے میں رہنے والے ہر اس فرد کی یہی سزا ہونی چاہیے جو مرد کو تو دودھ کا دھلا کرار دیتا ہے اور عورت کا سب کچھ لٹ جانے کے باوجود اسی کو قصوروار کہتا ہے ۔۔۔۔۔میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔"


فرزام اتنا کہہ کر وہ اسے جانے لگا تو مناہل فوراً اس کے سامنے آئی اور اپنے ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیے۔


"پلیز مت جائیں فرزام۔۔۔۔اگر تایا ابو نے آپ کو کچھ کر دیا تو۔۔۔۔"


ایسا سوچ کر یہ مناہل کا دل بند ہوا تھا کہ وہ اس کو کھو دے گی۔


"پلیز مت جائیں۔۔۔۔"


فرزام کافی دیر وہیں کھڑا اسے گہری نگاہوں سے دیکھتا رہا۔


"ٹھیک ہے روک لو مجھے۔۔۔"


مناہل نے حیرت سے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"مجھے یہاں روک لو من تو تو آج اس کی جان بچ جائے گی لیکن اگر یہاں سے چلا گیا ناں تو وعدہ کرتا ہوں اسکی وہ زبان ہی باقی نہیں رہے گی جس سے اس نے یہ سب باتیں کیں۔"


مناہل اضطراب سے اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔


"میں کیسے روکوں آپ کو؟"


"کچھ ایسا کرو کہ میں یہاں سے جانا ہی نہ چاہوں۔۔۔۔کچھ ایسا من کہ میرا غصہ پل بھر میں غائب ہو جائے۔۔۔۔"


مناہل نے سہم کر فرزام کو دیکھا اور فرزام بھی جانتا تھا کہ وہ اسکی نازک جان کو مشکل میں ڈال چکا تھا لیکن آگے جو مناہل نے کیا وہ فرزام نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔


مناہل نے اسکے قریب ہو کر اپنے ہاتھ اسکے سینے پر رکھے اور جھک کر اپنے کپکپاتے ہونٹ فرزام کے سینے پر رکھ دیے۔


ان ہونٹوں کی نرمی محسوس کر فرزام نے سکون سے اپنی آنکھیں موند لیں۔س


مناہل نے اپنے ہونٹ اسکی ٹھوڈی ہر رکھے تو فرزام نے اسکی کمر پر اپنے ہاتھ رکھ دیے اور اسے اپنے قریب کھینچا۔مناہل اس کی اس حرکت پر سہم گئی لیکن پھر بھی ہمت کرتے ہوئے اپنے ہونٹ فرزام کی گردن پر رکھے اور اپنے ہاتھ اسکے گرد گرد لپیٹ کر اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔


"پلیز مت جائیں فرزام۔۔۔۔۔"


مناہل نے اتنی محبت سے کہا کہ فرزام اپنا تمام غصہ بھلا کر مسکرا دیا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔


"اتنے پیار سے روکو گی تو کون کمبخت تم سے دور جا پائے گا۔۔۔"


فرزام نے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


"ایک بات یاد رکھنا مناہل جو باتیں تم سے کہی گئیں وہ سب اس معاشرے کے لوگوں کی جاہلانہ سوچ ہے جو کبھی نہیں بدلے گی۔۔۔ "


فرزام نے اسے بہت زیادہ محبت سے دیکھا۔


"تم بہت پاکیزہ ہو جانتی ہو کیوں؟کیونکہ تمہارا یہ دل پاکیزہ ہے تمہاری طرح ہی معصوم یہ جسم تو بس مٹی ہے من یہ بھلا کسی کو کیسے پاکیزہ یا نا پاک بنائے گا یہ کام بس ہمارا دل کر سکتا ہے یا ہمارے اعمال۔۔۔۔"


مناہل نے آنکھوں میں محبت سمو کر اپنے شوہر کو دیکھا۔


"آپ کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ آپ اتنے اچھے ہیں۔۔۔۔"


فرزام نے اسکی بات پر قہقہ لگایا۔


"بس میں ناں زرا سی ہٹ کر پرسنیلٹی ہوں لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے مجھے۔۔۔"


فرزام نے کالر جھاڑ کر کہا اور مناہل کو لے کر پھر سے بیڈ کی جانب چل دیا۔


"گھبراؤ مت کچھ نہیں کروں گا تمہارے ساتھ تب تک جب تک تم خود مجھے اپنے پاس نہیں بلاؤ گی۔۔۔"


فرزام نے مناہل کو پھر سے گھبراتے دیکھا تو اسکا سر اپنے سینے پر رکھ کر دونوں کے گرد کمبل دیتے ہوئے کہا۔


"میں بھلا کیسے۔۔۔۔؟"


مناہل ایسا سوچ کر ہی سرخ ہو گئی۔


"جانتا ہوں میرا جنون اتنی ہمت نہیں تم میں کہ میری جانب پیش قدمی کرو اس لیے جس دن تمہیں میرے حال پر رحم آ جائے تو یہی ڈریس پہن لینا میں سمجھ جاؤں گا کہ میرا امتحان ختم ہوا۔۔۔۔"


فرزام نے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ کر کہا تو مناہل سکون سے اپنی آنکھیں موند گئی۔فرزام کی باتوں نے اس کے دل سے وہ بوجھ ہلکا کر دیا تھا جو وہ نازک جان سات سال سے برداشت کر رہی تھی۔

💞💞💞💞

اس وقت چاہت لان میں تنہا بیٹھی حد سے زیادہ بور ہو رہی تھی۔سنڈے ہونے کی وجہ سے وہ گھر پر ہی تھی۔مناہل اور فرزام بھی تو یہاں نہیں تھے جو وہ ان کے ساتھ باتیں کر لیتی۔چاہت گہرا سانس لیتے ہوئے وہاں سے اٹھی اور بہرام کے کمرے میں آ گئی۔


کل رات بہرام کے کمرے سے چلے جانے کے بعد سے اس نے بہرام کو نہیں دیکھا تھا۔نہ جانے وہ تب سے کہاں چلا گیا تھا ویسے بھی وہ بہرام کا سامنا کرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ابھی بھی اس کمرے میں آ کر رات کا منظر یاد کرتے ہوئے چاہت کے گال شرم سے سرخ ہو گئے۔


پہلے تو وہ ارد گرد کا جائزہ لیتی رہی پھر بہرام کی وارڈروب کھول کر دیکھنے لگی۔بہرام کپڑوں پر نظر پڑتے ہی اس نے شرارت سے ایک سوٹ پکڑا اور اسے لے کر واش روم میں گھس گئی۔


وہ بہرام کا پیٹ کوٹ پہن کر باہر آئی جو اسکے لیے بہت زیادہ بڑا تھا لیکن پھر بھی وہ اس میں حد سے زیادہ کیوٹ لگ رہی تھی۔کمرے میں بنے بڑے سے شیشے کو دیکھ کر چاہت اسکے سامنے آئی اور شرٹ کا کالر ٹھیک کرنے لگی۔پھر اس نے برا سا منہ بنایا اور خود کو شیشے میں دیکھنے لگی۔


"تمہیں سمجھ نہیں آتا چاہت میں نے کیا کہا ہے بات کیوں نہیں سنتی تم؟"


اپنی آواز بھاری کر کے چاہت نے بہرام کی نقل اتاری اور پھر خود کو شیشے میں دیکھ کر ہنس دی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ جس شیشے کے سامنے وہ کھڑی تھی وہ دراصل ایک دروازہ تھا جو بہرام کے سیکرٹ آفس کا تھا جہاں وہ اکثر ہی گھر بیٹھ کر آفس کا کام کیا کرتا تھا۔


اور اس وقت بھی وہ وہیں بیٹھا تھا جب چاہت کی آواز پر اسکا دھیان اس شیشے کے دروازے کی جانب گیا۔اس دروازے کی خاصیت یہ تھی کہ باہر موجود شخص کو تو اپنا آپ اس میں دیکھائی دیتا تھا لیکن اندر بیٹھا شخص باہر ہر چیز دیکھ سکتا تھا۔


"تم نے ابھی بہرام خانزادہ کو جانا نہیں چاہت خانزادہ۔اس دنیا کا سب سے بڑا سڑیل ہوں میں اتنا کہ ہٹلر بھی مجھ سے آ کر ٹیوشن لیتا تھا۔"


چاہت نے پھر سے آواز بھاری کر کے کہا اور پھر قہقہ لگا کر ہنس دی۔بہرام کے قدم خود بخود اس دروازے کی جانب چل دیے جہاں چاہت کھڑی تھی۔


بہرام نے اپنا ہاتھ اس شیشے کے دروازے پر رکھا اور گہری نگاہوں سے چاہت کو دیکھنے لگا جو پھر سے اپنی پاگل حرکتوں سے اس کے لیے سراپا امتحان بنی ہوئی تھی اور شائید یہ معصوم حرکتیں کافی نہیں تھیں اسی لیے چاہت نے اسکے کمرے میں موجود ہوم تھئیٹر پر گانا لگایا اور شیشے کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔


پہلے تو وہ خالی میوزک پر کھڑی رہی پھر گانے کے بول شروع ہوتے ہی اس نے اپنی کمر پر ہاتھ دونوں ہاتھ رکھے اور ہلکے ہلکے ڈانس سٹیپ لینے لگی۔


"میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو

آئی رت مستانی کب آئے گی تو

بیتی جائے زندگانی کب آئے گی تو

چلی آ تو چلی آ۔۔۔"


چاہت آئنے میں اپنے ہی عکس کو لڑکا بن کر کہہ رہی تھی اور گانے کے بول کے متابق حرکتیں بھی کر رہی تھی۔


"پھولوں سی کھل کے پاس آ دل کے

دور سے مل کے چین نہ آئے

اور کب تک مجھے تڑپائے گی تو

میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو۔۔۔"


چاہت نے آئنے پر ہاتھ رکھ کر آئنے کے قریب ہو کر اپنے لمبے بالوں کو جھٹکا دیا اور رہی سہی کسر تو تب پوری ہوئی جب اس نے آخر میں آنکھیں میچ کر اپنے ہونٹ آئنے پر رکھنے چاہے لیکن تبھی بہرام نے دروازہ کھول دیا اور چاہت کے ہونٹ سیدھا اس کے سینے سے جا لگے۔


چاہت نے بوکھلا کر آنکھیں کھولیں اور حیرت سے سر اٹھا کر بہرام کو دیکھا جو اسے گھور رہا تھا۔بہرام کو وہاں دیکھ کر اپنی حرکتیں یاد کرتے ہوئے چاہت کے رخسار گلال ہو گئے اور اس نے وہاں سے بھاگنا چاہا لیکن بہرام نے اسکی نازک کلائی پکڑ کر اسے وہاں سے جانے سے روکا۔


"یہ کیا کر رہی تھی تم ؟"


بہرام کے سوال پر چاہت بری طرح سے ہڑبڑا گئی۔


"ک۔۔۔۔کچھ نہیں خان جی۔۔۔۔وہ میں بور ہو رہی تھی اس لیے۔۔۔۔۔۔ممم۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ گھر پر ہیں۔۔۔"


چاہت نے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑانا چاہا لیکن بہرام کی پکڑ بہت مضبوط تھی۔اچانک ہی بہرام نے اسکے اپنے آفس میں کھینچ لیا اور دروازہ بند کر کے چاہت کو اس دروازے کے ساتھ لگا دیا۔


"آخر چاہتی کیا ہو تم چاہت کیوں ہر پل میرے لیے امتحان بنی رہتی ہو۔۔"


بہرام اسکے قریب ہوتے ہوئے پوچھنے لگا تو اسکے سوال پر چاہت کی پلکیں بھیگ گئیں کیا وہ اتنی بری لگتی تھی بہرام کو۔


"سس۔۔۔۔سوری مم۔۔۔میں آپ کو بری لگتی ہوں ناں اب آپ کے سامنے نہیں آؤں گی۔۔۔"


بہرام نے اسکا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اوپر کیا۔


"کس نے کہا تم مجھے بری لگتی ہو؟"


بہرام گہری نگاہوں سے اسکی گھنی پلکوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔


"بری لگتی ہوں اسی لیے کل رات مجھے چھوڑ کر نہ جانے۔۔۔"


چاہت نے اپنی بات پر غور کیا تو پاؤں کے ناخن تک سرخ ہوئی اور فوراً خود کو بہرام کی نظروں سے چھپانے کے لیے اسی کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔


"تم مجھے بری نہیں لگتی چاہت۔۔۔"


بہرام کے گھمبیر آواز میں کہنے پر چاہت نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"تم میری چاہت ہو،میرا جنون ہو جسے دیکھ کر ہی مجھے سکون ملتا ہے۔۔۔"


بہرام اچانک سے چاہت کے ہونٹوں کے قریب ہوا تو وہ سانس تک لینا بھول گئی۔


"اگر مجھے اس دنیا میں کوئی اچھا لگتا ہے تو صرف تم اور یہی سب سے بڑی مشکل ہے۔۔۔۔"


چاہت نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"میں آپ کو سمجھ نہیں پا رہی خان جی۔۔۔ کیوں آپ مجھے چاہتے ہوئے بھی دھتکار رہے ہیں۔۔۔"


بہرام نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں اور اپنا ماتھا چاہت کے کندھے سے ٹکا دیا۔


"چلی جاؤ یہاں سے چاہت اور آج کے بعد میرے سامنے مت آنا۔"


بہرام کے اتنی بے رخی سے کہنے پر چاہت نے روتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی۔وہ یونہی روتے ہوئے سیدھا اپنے کمرے میں آئی۔بہرام کی آواز بار بار اس کے کانوں میں گونج رہی تھی جو سے کہہ رہی تھی کہ وہ اس کے سامنے کبھی مت آئے۔


وہ آواز چاہت کا ہر حوصلہ بری طرح سے توڑ چکی تھی۔بہرام کا اسے بار بار دھتکارنا چاہت کے معصوم دل کو بہت بری طرح سے توڑ چکا تھا۔کچھ سوچ کر چاہت نے اٹھ کر کپڑے چینج کیے اور اپنے بیگ میں ضروری سامان ڈال کر باہر پورچ میں آ گئی۔

"چاہت بی بی آپ کو کہیں جانا ہے کیا؟"

چاہت کو دیکھتے ہیں رشید اس کے پاس آیا اور کمر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر پوچھنے لگا۔

"جی مجھے اماں کے پاس جانا ہے۔۔۔۔"

چاہت نے اپنی آنسو سے تر آواز پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

"رکیں میں بہرام صاحب سے پوچھ۔۔۔۔"

"آپ مجھے چھوڑ کر آ رہے ہیں یا میں خود چلی جاؤں؟"

چاہت نے سختی سے رشید کی بات کاٹی تو رشید حیرت سے اسے دیکھنے لگا ۔

"لیکن بی بی میں بہرام صاحب سے پوچھے بغیر آپ کو کیسے چھوڑ کر آ سکتا ہوں؟"

"ٹھیک ہے تو آپ جا کر ان سے پوچھ لیں میں خود چلی جاؤں گی ۔۔۔۔"

چاہت دروازے کی جانب بڑھ گئی تو رشید بھاگ کر اسکے پیچھے آیا۔

"آپ کو اکیلے نہیں جانے دے سکتا چاہت بی بی۔۔۔۔"

چاہت نے گھائل آنکھوں سے اسے دیکھا۔

"تو پھر خاموشی سے مجھے میری اماں کے پاس چھوڑ آئیں ورنہ آپ تو کیا کوئی بھی مجھے یہاں سے جانے سے نہیں روک سکے گا۔۔۔"

چاہت نے بہرام کے کمرے کی کھڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔رشید پریشانی سے کبھی گاڑی کو دیکھتا تو کبھی خانزادہ مینشن کو۔پھر وہ گہرا سانس لے کر گاڑی میں بیٹھا اور چاہت کو اسکے گھر لے جانے لگا یہ جانے بغیر کے وہ کتنی بڑی غلطی کر بیٹھا تھا۔

💞💞💞💞

بہرام نے سارا دن اپنے کمرے کے بنے آفس میں ہی گزارا تھا۔چاہت کے وہ آنسو اس کے دل پر گرے تھے اور ان آنسوؤں کی تکلیف وہ ابھی تک محسوس کر سکتا تھا پھر بھی اس میں اتنی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ چاہت کے پیچھے جا کر اسے منا سکتا۔

دروازہ کھٹکھانے کی آواز پر بہرام اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آیا اور اپنے آفس سے نکل کر کمرے کے دروازے کی جانب چل دیا۔

"بہرام بیٹا کھانا تیار ہے یہاں کھائیں گے یا ڈائننگ ٹیبل پر لگا دوں؟"

بہرام کہ دروازہ کھولتے ہی سامنے کھڑی خالہ نے عقیدت سے پوچھا۔بہرام کو فوراً چاہت کا خیال آیا نہ جانے اس نے غصے میں کھانا بھی کھایا تھا یا نہیں۔

"ڈائننگ ٹیبل پر ہی لگا دیں۔۔۔"

خالہ نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئیں۔بہرام بھی فریش ہوا اور کپڑے تبدیل کر کے نیچے ڈائننگ ہال میں آگیا۔چاہت کو وہاں نہ پا کر بہرام بے چین ہوا اور خالہ کو دیکھا

"چاہت کا بلا لائیں خالہ وہ میرے ساتھ ہی کھانا کھائے گی۔۔۔"

بہرام کی بات پر خالہ نے ہاں میں سر ہلایا اور چاہت کے کمرے کی جانب چل دیں۔بہرام کرسی پر بیٹھ کر چاہت کا انتظار کرنے لگا۔تقریبا دس منٹ کے بعد خالہ کافی پریشانی کے عالم میں بہرام کے پاس آئیں۔

"بہرام بیٹا چاہت اپنے کمرے میں نہیں ہے بلکہ میں نے سارا گھر دیکھ لیا ہے مجھے کہیں بھی نہیں مل رہی۔۔۔ "

خالہ کی بات پر بہرام کو لگا کہ اس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔

"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ کہاں ہے میری چاہت؟"

بہرام نے غصے سے پوچھا تو خالہ مزید گھبرا گئیں۔

"ممم۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ بیٹا اسے ناشتے کے وقت تو دیکھا تھا پھر اس کے بعد نظر نہیں آئی مجھے لگا اپنے کمرے میں ہو گی لیکن اب وہاں بھی نہیں ہے۔۔۔۔"

بہرام فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور اسے پاگلوں کی طرح پورے گھر میں تلاش کرنے لگا۔جب وہ اڈے کہیں نہیں ملی تو دروازے کے پاس کھڑے گارڈز کے پاس آیا۔

"چاہت کہاں ہے؟"

بہرام کے غصے کو دیکھ کر گارڈ نے ہڑبڑا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔

"ہمیں نہیں پتہ سر وہ گھر سے باہر نہیں نکلیں۔۔۔"

"کیا مطلب نہیں پتہ؟کس بات کی ڈیوٹی کر رہے ہو تم لوگ؟"

بہرام کے غصے سے چلانے پر دونوں گارڈز نے اپنا سر جھکالیا۔

"اسے ڈھونڈو اسی وقت اگر وہ مجھے نہیں ملی ناں تو کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔"

رشید جو ابھی گھر میں داخل ہوا تھا بہرام کو یوں غصے میں دیکھ کر پریشانی سے اسکی جانب آیا۔

"کیا ہوا سر سب ٹھیک ہے؟"

بہرام نے لال انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔

"نہیں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے چاہت گھر سے غائب ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔۔۔"

بہرام کو پہلی مرتبہ اتنے زیادہ غصے میں دیکھ کر رشید نے اپنا تھوک نگلا۔

"وہ اپنی اماں کے پاس گئیں ہیں بہرام صاحب میں خود انہیں چھوڑ کر آیا تھا۔۔۔"

بہرام نے حیرت سے اسے دیکھا اور اسکے قریب آ کر اسکا گریبان اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔

"کس کی اجازت سے؟"

رشید اب بہت زیادہ گھبرا گیا تھا۔

"وہ۔۔۔۔وہ چاہت بی بی نے کہا تھا کہ وہ وہاں جانا چاہتی ہیں۔۔۔۔"

رشید کے سر جھکا کر کہنے پر بہرام نے اپنے دانت کچکچائے۔

"اور تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا خود کو سمجھ کیا رکھا ہے تم نے؟"

بہرام اتنے غصے سے چلایا کہ اس کا ہر ملازم کانپ کر رہ گیا۔

"سس۔۔۔۔سوری سر۔۔۔آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔"

بہرام نے اسے جھٹکے سے چھوڑا اور گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔اسے اسی وقت اپنی چاہت کو واپس اپنے پاس لانا تھا اسکے بعد شائید وہ ٹھیک سے سانس لے سکتا۔

کچھ بھی کرتی تم لیکن مجھے سے دور جا کر تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور تمہیں یہ غلطی بہت مہنگی پڑے گی چاہت۔۔۔

بہرام دل میں ہی چاہت سے مخاطب ہوا اور گاڑی بھگاتا سکینہ کے گھر کی جانب جانے لگا جبکہ اسے یوں غصے سے جاتا دیکھ پر ملازم یہ سوچنے لگا کہ چھوٹی سی چاہت اس غصے کا مقابلہ کیسے کرے گی۔

چاہت سکینہ کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی اور سکینہ محبت سے اسکے بالوں میں ہاتھ چلا رہی تھیں۔


"دیکھو چاہت تمہارا اکیلے آنا مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا بہرام تو تمہیں اکیلے نہیں بھیج سکتا کہیں تم لڑ کے تو نہیں آئی۔۔۔؟"


سکینہ کے محبت سے پوچھنے پر چاہت نے انکار میں سر ہلایا۔


"آپ ایسا کیوں سوچ رہی ہیں کیا اب میں آپ کے پاس رہنے بھی نہیں آ سکتی؟"


چاہت نے منہ بسور کر پوچھا۔


"میں نے ایسا کب کہا چلو چھوڑو یہ سب تم بتاؤ کھانا لگاؤں تمہارے لیے تم نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔"


چاہت نے آنکھیں موند کر انکار میں سر ہلایا۔


"مجھے بس آپ کے پاس رہنا ہے اماں آپ کی گود میں ایسا لگتا ہے جیسے دنیا میں کوئی غم ہی نہیں۔۔۔"


سکینہ اسکی بات پر مسکرا دیں اور اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔تبھی باہر کا دروازہ کھٹکنے پر سکینہ چاہت کے پاس سے اٹھیں اور باہر دیکھنے چلی گئیں۔دروازہ کھولتے ہی ان کی نظر بہرام پر پڑی۔


"اسلام و علیکم اماں جی۔۔۔"


بہرام نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اپنا سر ان کے سامنے کیا۔


"و علیکم السلام۔۔۔بیٹا تم اس وقت یہاں سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔؟"


سکینہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا۔


"جی سب ٹھیک ہے میں بس چاہت کو لینے آیا ہوں آپ اسے بلا دیں۔۔۔"


اسکی بات پر سکینہ مسکرا دیں۔


"تمہاری ہی ہے وہ بیٹا جب چاہے لے جانا۔۔۔فی الحال اندر تو آؤ میں چائے بناتی ہوں تمہارے لیے۔۔۔۔ "


بہرام نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں اماں جی ابھی بہت دیر ہو گئی ہے آپ آرام کریں میں چاہت کو لینے آیا ہوں آپ اسے بھیج دیں۔۔۔۔"


سکینہ نے اثبات میں سر ہلایا اور کمرے میں آ گئیں جہاں چاہت خاموشی سے بیٹھی تھی۔


"بہرام تمہیں لینے آئے چاہت باہر گاڑی میں تمہارا انتظار کر رہا ہے۔"


بہرام کے ذکر پر ہی چاہت کا دل بہت زور سے دھڑکا۔


"مم۔۔۔مجھے نہیں جانا آپ کے پاس رہنا ہے ۔۔۔"


چاہت نے سر جھکا کر اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے کہا۔


"نہیں بری بات ہے بیٹا شوہر مجازی خدا ہوتا ہے اسے انکار نہیں کرتے۔ابھی گھر جاؤ پھر کبھی اس کی اجازت سے مجھ سے ملنے آ جانا ۔۔۔۔"


چاہت نے شکوہ کناں نگاہیں اٹھا کر انہیں دیکھا۔


"ہاں سب فرض بیوی کے ہی ہیں مجازی خدا تو جو دل میں آئے کرتا رہے۔۔۔"


چاہت نے روتے ہوئے کہا اور غصے سے اپنی چادر پکڑ کر باہر آ گئی۔سکینہ نے اسے گلے سے لگا کر الوداع کیا تو چاہت خاموشی سے بہرام کے ساتھ پیسنجر سیٹ پر بیٹھ گئی۔اس کے بیٹھتے ہی بہرام نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔


پورا راستہ بہرام نے اس سے کچھ نہیں کہا لیکن وہ سٹیرنگ ویل پر اسکی انگلیوں کی سختی دیکھ کر اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ بہت زیادہ غصے میں ہیں۔اسکے غصے کا سوچ کر چاہت گھبرا گئی تھی۔


ہاں تو رہیں غصے میں اس کے علاوہ کرنا کیا آتا ہے انہیں۔۔۔


چاہت نے دل میں کہا اور خاموشی سے اسکے بغل میں بیٹھی رہی۔گھر پہنچ کر بہرام نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور گاڑی سے باہر نکل کر چاہت کی طرف آیا جو گاڑی سے نکل کر باہر کھڑی تھی۔


بہرام نے اسکا ہاتھ سختی سے پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھینچتا اپنے کمرے میں لے آیا۔کمرے میں لا کر بہرام نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور دروازہ لاک کر کے اسکی جانب مڑا۔


"کس کی اجازت سے گئی تھی تم گھر سے باہر؟"


بہرام کی آواز میں اتنا غصہ تھا کہ چاہت کا سارا کانفیڈینس جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور وہ سہم کر اسے دیکھنے لگی۔


"آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ یہاں سے چلی جاؤں۔۔۔"


چاہت کی بات پر بہرام نے دانت کچکچائے اور اسکے قریب ہو کر اسکا چہرہ اپنی مٹھی میں دبوچ لیا۔


"تم سچ میں اتنی زیادہ بیوقوف ہو یا بننے کا دیکھاوا کرتی ہو۔۔۔؟"


"خخخ۔۔۔خان جی۔۔۔"


چاہت بہت زیادہ گھبرا گئی اور اپنا چہرہ اسکی پکڑ سے چھڑوانا چاہا۔


"میں نے تمہیں بتایا تھا چاہت کہ تم میری ہو۔۔۔کچھ بھی گوارا کر سکتا ہوں میں لیکن تمہاری دوری نہیں آج کے بعد تم میری اجازت کے بغیر کہیں گئی تو قسم کھاتا ہوں ٹانگیں توڑ دوں گا تمہاری۔۔۔۔"


بہرام نے جھٹکے سے اس کا چہرہ چھوڑا تو چاہت سہم کر اس سے دور ہوئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


"چاہتے کیا ہیں آپ۔۔۔۔۔ نہ پاس آنے دیتے ہیں نہ ہی دور جانے دیتے ہیں۔۔۔۔۔کبھی کہتے ہیں میرے بغیر رہ نہیں سکتے اور کبھی کہتے ہیں کہ مجھ سے پیار نہیں کرتے ۔۔۔۔مسلہ کیا ہے آپ کے ساتھ خان جی۔۔۔"


بہرام جو پہلے ہی غصے میں تھا اسکی بات پر اسے کندھوں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگا کر گھورنے لگا۔


"پاس رہنا چاہتی ہو میرے تو ٹھیک ہے آج سے تم اسی کمرے میں رہو گی میرے پاس کیونکہ یہ تم نے ٹھیک کہا کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔"


چاہت نے اپنی کالی نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"تو کیا آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟"


چاہت کے سوال پر بہرام نے اپنی آنکھیں موند لیں اور گہرا سانس لیا۔


"آج کے بعد ایسا پھر کبھی نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام نے وہی شیشے کا بنا دروازہ کھولا اور اپنے آفس میں چلا گیا جبکہ اسکے پھر سے محبت کا اقرار نہ کرنے پر چاہت وہیں زمین پر بیٹھ کر رونے لگی۔


اس نے تو سوچا تھا کہ اپنی محبت سے وہ بہت زیادہ آسانی سے بہرام کا پیار حاصل کر لے گی لیکن اب اسے معلوم ہوا تھا کہ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں تھا۔


وہ بہرام خانزادہ کا جنون اور اس کی ضرورت تو ہو سکتی تھی لیکن اسکی محبت نہیں اور یہی تو چاہت کی سب سے بڑی خواہش تھی۔

💞💞💞💞

فرزام مناہل کو لے کر واپس اسلام آباد آ چکا تھا۔وہاں واپس آ کر مناہل ایک نئی ہی لڑکی بنتی جا رہی تھی فرزام کی محبت اور توجہ اسے نئی زندگی بخش چکی تھی۔


ابھی بھی مناہل لان کی دھوپ میں بیٹھی فرزام کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔کیا تھا وہ جنونی سا شخص جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا مناہل کو اپنا سب کچھ کہتا تھا۔پر وقت اسکے لیے اپنی چاہت کا اظہار کر کے اسے بتاتا کہ وہ کتنی قیمتی ہے۔مناہل وہاں تنہا بیٹھی اسے یاد کر کے مسکرا دی تو اپنے پاس سے کسی کی ہنسی سنائی دی۔


"لگتا ہے آپ کو تو فرزام بھائی نے اپنا دیوانہ بنالیا ہے دیورانی جی جو یہاں اکیلے بیٹھ کر انہیں سوچتے ہوئے مسکرا رہی ہیں۔۔۔"


چاہت کے شرارت سے کہنے پر مناہل کے رخسار گلاب کی ماند ہو گئے اور اس نے اپنا سر جھکا لیا۔


"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے تم بہرام کی دیوانی نہ ہو۔۔۔بہرام بھائی۔۔۔"


چاہت کی بات یاد کر کے مناہل نے آخر میں شرارت سے کہا لیکن بہرام کے ذکر پر چاہت کا منہ بن گیا۔


"میں ناراض ہوں ان سے چار دن ہو گئے ہیں ان سے بات بھی نہیں کرتی۔کمرے میں آتے ہیں تو جان بوجھ کر سو جاتی ہوں اور تب اٹھتی ہوں جب وہ چلے جاتے ہیں۔۔۔۔"


مناہل نے حیرت سے چاہت کو دیکھا۔


"کیوں ناراض ہو؟"


"پتہ نہیں خود کو سمجھتے کیا ہیں وہ سڑیل کہیں کے پتہ ہے بس انہیں حکم چلانا آتا ہے۔۔۔چاہت یہاں آؤ،چاہت دور چلی جاؤ،چاہت یہ چاہت وہ۔۔۔"


چاہت نے آخر میں آواز بھاری کرکے کہا تو مناہل ہنس دی۔


"اتنے خطرناک ہیں ناں وہ شکر کرو مناہل جان بچا لی میں نے تمہاری۔۔۔"


مناہل نے اسکی بات پر اپنا سر جھکا لیا۔جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہی ہوتا ہے۔بہرام جیسا سنجیدہ مزاج شخص شاید اس کے جذبات کو ویسے نہیں سمجھ پاتا جیسے فرزام نے سمجھا تھا۔


"لیکن کیا کروں میرا دل اتنا گیا گزرا ہے ناں پھر بھی انہیں پر مرتا ہے۔۔ "


چاہت نے بے بسی سے کہا۔مناہل نے اسے سمجھانا چاہا کہ محبت ایسا جذبہ ہے جس کے معاملے میں انسان بالکل بے بس ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے ہی ایک ملازمہ مناہل کے پاس آئی اور ہاتھ میں پکڑا فون مناہل کے سامنے کیا۔


"آپ کا فون ہے بی بی جی۔۔۔"


مناہل نے حیرت سے اسے دیکھا بھلا کون مناہل سے بات کرنا چاہتا تھا۔مناہل نے فون پکڑ کر کان سے لگا لیا۔چاہت نے یہ دیکھا تو اسے پرائیویسی دینے کے لیے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔


"ہیلو؟"


مناہل نے گھبراتے ہوئے ہلکی سی آواز میں کہا۔


"میری زندگی اجاڑ کر عیاشی کر رہی ہو۔۔۔ شوہر کے ساتھ گھوم رہی ہو واہ مناہل بی بی بے شرمی کی انتہا ہے ویسے۔۔۔"


شیزہ کی آواز پر مناہل مزید گھبرا گئی۔


"پھ۔۔۔۔پھپھو یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟"


"وہی جو سچ ہے اپنے شوہر کو نہ جانے کیا پٹیاں پڑھائیں کہ اس نے مجھ سے میرا شوہر چھین لیا۔"


اتنا کہہ کر شیزہ رونے لگی اور مناہل کے ہاتھ گھبراہٹ سے کانپنے لگے۔


"تمہیں کیا لگتا ہے میری زندگی میں آگ لگا کر خوش رہو گی۔۔۔ہوں تمہاری قسمت میں بہت پہلے سے برباد ہونا لکھا ہے مناہل بی بی۔۔۔تم تو ایسی منہوس ہو کہ میرے بھائی کو بھی نگل گئی دیکھنا تمہاری یہ نحوست تمہیں برباد کر دے گی۔۔۔۔۔"


انکی بات پر مناہل کی آنکھوں سے آنسو روانی سے بہنے لگے۔


"کتنی بیوقوف ہو ناں تم جو سمجھتی ہو کہ فرزام خانزادہ تمہاری محبت میں پڑ کے تمہیں ساتھ لے گیا ہے۔یہاں کوئی بھی کسی مطلب کے بغیر کچھ نہیں کرتا دیکھنا فرزام کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہو گا اور جس دن وہ مطلب پورا ہو جائے گا اس دن وہ تمہیں پلٹ کر بھی نہیں دیکھےگا۔۔۔۔"


انکی بات نے مناہل کے دل میں ایک پھانس گاڑ دی۔کیا سچ میں فرزام کی چاہت کسی مطلب کے تحت تھی۔یہ سوچ کر ہی مناہل پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور اسے یوں روتا دیکھ چاہت گھبرا کر اسکے پاس آئی۔


"کیا ہوا مناہل۔۔۔؟"


چاہت نے پوچھا لیکن مناہل تو بس روتی جا رہی تھی چاہت نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسکے کان کے ساتھ لگے فون کو دیکھا اور وہ فون پکڑ کر اپنے کان کے ساتھ لگا لیا۔


"کون ؟"


چاہت نے کافی سختی سے پوچھا اور مناہل کو اپنے ساتھ لگا لیا۔


"کیا کہا ہے تم نے مناہل کو؟"


چاہت نے اب غصے سے پوچھا جبکہ شیزہ نہیں جانتی تھی کہ یہ لڑکی کون ہے لیکن اسکا یوں مناہل کا سہارا بننا شیزہ کو اچھا نہیں لگا۔


"وہی کہا ہے جو سچ ہے بس تمہاری مناہل سے برداشت نہیں ہوا۔۔۔۔"


اسکے لہجے پر چاہت نے اپنا منہ بنا لیا اور فون کو کندھے اور کان کے درمیان پکڑ کر دونوں ہاتھ مناہل کے کانوں پر رکھ دیے۔


"سچ میں تجھے بتاتی ہوں چڑیل،بھوتنی،کنچنا،منچنا۔۔۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ کہ کیا کہا ہے تم نے مناہل کو فسادن میسنی کہیں کی لیکن فرزام بھائی کو بتایا ناں تو تیری زبان کھینچ کر زرافے سے بھی زیادہ لمبی کر دیں گے۔۔۔اور فرزام بھائی تک کیوں جانا تجھ جیسی ڈائن کے لیے میں ہی کافی ہوں آج کے بعد فون کیا ناں تو ایسی گالیاں نکالوں گی کہ تیری سات نسلوں نے نہیں سنی ہوں گی تو جانتی نہیں تو چاہت بہرام خانزادہ کو۔۔۔"


اتنا کہہ کر چاہت نے فون بند کر دیا جبکہ اپنی اس قدر بے عزتی پر شیزہ کی تو آواز بھی نہیں نکلی تھی۔


"شش۔۔۔۔چپ کر جاؤ مناہل تم فکر مت کرو اس چڑیل نے جو بھی تمہیں کہا ہے ناں اس سے زیادہ ہی باتیں سنائی ہیں میں نے اسے۔۔۔"


چاہت نے اسے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے کہا لیکن مناہل کو کیسے دلاسہ ملتا۔ایک نیا خوف اس پر حاوی ہو چلا تھا کہ کہیں فرزام کسی مطلب کے تحت تو یہ سب نہیں کر رہا تھا۔

💞💞💞💞

بہرام اس وقت اپنے آفس میں بیٹھا چاہت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔کتنے ہی دن گزر گئے تھے اس واقعے کو جب وہ اسے سکینہ کے پاس سے لے کر آیا تھا۔اس دن کے بعد سے چاہت نے بہرام سے بات تک نہیں کی تھی۔


وہ اب اسکے حکم کے مطابق اسکے کمرے میں ہی رہتی تھی۔اسکا ہر حکم بھی مانتی تھی لیکن اپنی جھلی سی چاہت کو تو وہ کھو ہی چکا تھا۔


روز کمرے میں چاہت کو بیڈ پر سویا دیکھ کر وہ سمجھ جاتا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے اور بس سونے کا دیکھاوا کر رہی ہے لیکن پھر بھی بہرام میں اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اسے اٹھا کر حکم دے کہ وہ پہلے جیسی ہو جائے۔ہر وقت اسے پریشان کر کے اسکا سکون برباد کرنے والی چاہت۔


بہرام اپنی سوچ میں اس قدر مگن تھا کہ اسے فرزام کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوا۔


"کہاں کھوئے ہو بگ بی؟چاہت کی یاد آ رہی ہے کیا؟"


بہرام فرزام کی آواز پر سیدھا ہو کر بیٹھا اور سنجیدگی سے انکار میں سر ہلایا۔


"اگر اتنا ہی دل کر رہا ہے اسکے پاس جانے کا تو جاؤ اور بتاؤ اسے کہ کیسے اسکی محبت میں تم آفس میں رومیو بن کر بیٹھے ہوتے ہو اگر تم میں ہمت نہیں تو میں بتا دیتا ہوں۔۔۔"


بہرام نے بری طرح سے فرزام کو گھورا۔


"ایسا کچھ نہیں ہے،تم یہ بات جانتے ہو۔۔۔"


بہرام کی بات کا مطلب سمجھ کر فرزام کے چہرے سے شرارتی مسکان غائب ہوئی اور اس نے سنجیدگی سے بہرام کو دیکھا۔


"اس سب میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا بہرام تم یہ بات سمجھتے کیوں نہیں؟"


"میں سمجھتا ہوں لیکن وہ نہیں سمجھے گی۔۔۔"


بہرام نے لیپ ٹاپ کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"تم اسے سب سچ بتا دو تو شائید وہ سمجھ جائے۔۔۔۔"


"اور سچ بتا کر کیا کروں فرزام وہ اپنی ہی نظروں میں گر جائے گی کبھی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رہے گی وہ اور میں اسکے ساتھ ایسا نہیں ہونے دے سکتا۔۔۔۔"


فرزام نے گہرا سانس لیا وہ بھی جانتا تھا کہ بہرام سچ کہہ رہا ہے۔


"تو پھر سب بھول کر زندگی کی شروعات کرو میرے بھائی،بغیر کسی خوف کے آخر کون ہے جو چاہت کر وہ سچ بتائے گا۔۔۔"


بہرام نے سرد مہری سے فرزام کو دیکھا۔


"سچ کی خاصیت پتہ ہے؟وہ کبھی چھپا نہیں رہتا آج نہیں تو کل سامنے آ ہی جاتا ہے۔۔۔کتنے سال سچ چھپاؤں گا اس سے دو سال یا بیس سال کسی نہ کسی دن اسے پتہ لگ ہی جائے گا فرزام اور اس دن وہ مجھے چھوڑ دے گی اور شائید اسکے چھوڑنے سے میں تو مر جاؤں گا لیکن اسے اپنی محبت میں مزید ڈال کر اسکا یہ حال نہیں کروں گا کہ مجھ سے دور جانے پر وہ بھی مٹ جائے۔۔۔۔"


فرزام اسکی بات سن کر بے بس ہو گیا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بہرام کو کیا کہے۔


"تم کسی کام سے آئے تھے یہاں؟"


بہرام نے بات بدلتے ہوئے پوچھا تو فرزام نے بھی اپنے آنے کا مقصد یاد کیا۔


"الطاف کو برباد کرنے کا جو پلین فیض کو مارنے کی وجہ سے ناکام ہوا تھا اسے پھر سے سر انجام دینے کا ایک طریقہ ہے میرے پاس۔۔۔"


بہرام نے اپنے بھائی کو گہری نگاہوں سے دیکھا۔


"کیا مطلب کیسا طریقہ؟"


فرزام نے کچھ پیپرز نکال کر بہرام کے سامنے رکھے اور اسے اپنا پلین بتانے لگا جسے سن کر بہرام نے انکار میں سر ہلایا۔


"تمہیں نہیں لگتا یہ مناہل کے ساتھ زیادتی ہوگی؟"


فرزام کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔


"تمہیں کیا لگتا ہے اس کے بعد میں نااہل کو چھوڑ دوں گا؟یہ بس میرے لئے ایک ذریعہ ہے بہرام ورنہ وہ مناہل کی امانت ہے اور اسی کی رہے گی۔"


بہرام ابھی بھی اسکی بات پر مطمئن نہیں ہوا۔


"اور اگر مناہل نے تم پر اتنا بھروسہ نہیں کیا ہر اس وجہ سے تمہارے رشتے میں مسلئے پیدا ہو گئے تو؟"


فرزام مسکرا دیا یہ خدشات اس کے دل میں بھی اٹھے تھے لیکن ان سے اپنی محبت اور مناہل پر پورا بھروسہ تھا۔


"ایسا نہیں ہوگا میں جانتا ہوں میری من مجھ پر بھروسہ کرے گی۔۔۔۔"


بہرام نے ہاں میں سر ہلایا۔


"ٹھیک ہے کوشش کر کیوں کہ اگر ایسا ہوگیا تو الطاف ایک جھٹکے میں آدھا ختم ہو جائے گا اور آدھ مرے انسان کو پورا مارنا بہت آسان ہو گا ہمارے لیے۔۔۔۔"


بہرام کی بات پر فرزام کی آنکھوں میں چمک آئی۔ان کے سب سے بڑے دشمن کی بربادی ان دونوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھی ۔

💞💞💞💞

مناہل بیڈ پر اپنے ہاتھ گھٹنوں کے گرد لپیٹے بیٹھی تھی۔دوپہر کو جو باتیں شیزہ بیگم نے کہیں تھیں وہ ابھی تک اسکے ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔وہ جانتی تھی کہ فرزام سچ میں بہت اچھا انسان ہے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں اس کا دل اور وسوسوں کا شکار ہو چکا تھا۔


دروازہ کھلنے کی آواز پر مناہل نے فورا اپنی نگاہیں اٹھا کر دروازے میں دیکھا جہاں سے فرزام کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر چکا تھا۔


مناہل کو دیکھ کر ہی فرزام کی آنکھوں میں محبت اتری اور اس نے مناہل کے پاس آ کر اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


"کیسی ہو میری جان؟"


فرزام کی چاہت پر مناہل خود میں ہی سمٹ سی گئی۔


"ٹھیک ہوں۔۔۔۔"


اسکے روکھے سے انداز پر فرزام نے نگاہیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔


"سب ٹھیک ہے ناں؟"


فرزام کے پوچھنے پر مناہل کا دل کیا کہ اسے ہر بات بتا دے لیکن پھر ایک ڈر اس کے دل میں بیٹھ گیا کہ کہیں فرزام اسے شکی مزاج ہی نہ سمجھنے لگ جائے۔


لیکن وہ تو مناہل کا شوہر تھا اپنی ہر پریشانی اسے بتانا میں مناہل کا حق بھی تھا اور فرض بھی۔


"فرزام وہ۔۔۔"


"مناہل مجھے۔۔۔"


دونوں نے ایک ساتھ کہا تو فرزام مسکرا دیا اور اپنا ہاتھ اسکے گال پر رکھا۔


"کہو تمہیں کیا کہنا ہے؟"


فرزام نے نرمی سے پوچھا لیکن مناہل نے انکار میں سر ہلا دیا۔


"پہلے آپ بتائیں کیا بات ہے پھر میں بتاتی ہوں"


فرزام نے اپنا ہاتھ اسکے گال سے ہٹایا اور اپنی گود میں پڑے پیپرز کو دیکھنے لگا۔پھر کافی سوچنے کے بعد بولا۔


"تم مجھ پر بھروسہ کرتی ہو من؟"


مناہل نے فوراً اپنا سر ہاں میں ہلایا۔


"کتنا بھروسہ کرتی ہو؟"


فرزام کے عجیب سے سوال پر مناہل حیران ہوئی پھر اس نے اپنے نازک ہاتھوں میں فرزام کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گال پر رکھ دیا۔


"اتنا بھروسہ کرتی ہوں کو آپ کے چھونے پر مجھے خود سے نفرت نہیں ہوتی بلکہ اپنا آپ معتبر لگنے لگتا ہے اور یقین کریں فرزام دنیا میں کسی اور کا لمس یہ نہیں کر سکتا۔۔۔۔"


اسکی بات پر فرزام نے اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔


"تو وعدہ کرو من تم مجھے غلط نہیں سمجھو گی اور اپنے بھروسے کو ایسے ہی قائم رکھو گی۔۔۔"


مناہل نے اپنا سر ہاں میں ہلایا اور پھر نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"کیا آپ نے یہی پوچھنا تھا؟"


فرزام نے گہرا سانس لے کر انکار میں سر ہلایا اور گود میں پکڑی فائل مناہل کے سامنے کی۔


"مجھے اس پر تمہارے سائین چاہیں من۔۔۔"


مناہل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔


"یہ کیا ہے فرزام؟"


فرزام کچھ پل کے لیے تو خاموش رہا پھر طویل خاموشی کے بعد بولا۔


"تمہارے بابا شہاب اور تمہارے تایا الطاف دونوں بیگ گروپ آف انڈسٹریز کے ففٹی پرسینٹ کے مالک تھے اور تمہارے بابا کی موت کے بعد انکی اکلوتی وارث تم ہو اس لیے بیگ انڈسٹریز کے ففٹی پرسینٹ شئیرز تمہاری ملکیت ہیں۔۔۔۔"


مناہل کی آنکھیں فرزام کی بات پر حیرت سے پھیل گئیں۔اہنی زندگی کے انیس سالوں میں اسے یہ بات کبھی کسی نے نہیں بتائی تھی۔


"لل۔۔۔۔لیکن مجھے تو یہ کسی نے نہیں بتایا۔۔۔"


فرزام نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔


"اور وہ تمہیں یہ بات بھی بتانے بھی نہیں والے تھے۔۔۔۔"


مناہل نے افسوس سے اپنا سر جھکا لیا اور ہاتھ میں پکڑی فائل کو دیکھا۔


"تو کیا یہ اس پراپرٹی کے پیپرز ہیں؟"


فرزام نے ہاں میں سر ہلایا۔


"ان پر میرے سگنیچر کیوں چاہیں؟"


فرزام نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔


"ان پیپرز پر لکھا ہے کہ تم اپنی مرضی سے وہ سارے شئیرز میرے نام کر رہی ہو۔۔۔۔"


مناہل کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں اور آنسو پلکوں پر ٹھہر سے گئی۔کیا سچ میں فرزام نے اس جیسی لٹی ہوئی لڑکی کو مطلب کے لیے اپنایا تھا ؟کیا یہی وہ مطلب تھا؟


مناہل کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھ کر فرزام نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔


"مجھ پر بھروسہ کرو من یہ ساری جائیداد میرے پاس تمہاری امانت ہو گی جیسے ہی میرا مقصد پورا ہو جائے گا میں اسے تمہیں لوٹا دوں گا اور اگر تم کہتی ہو تو بدلے میں میں اپنا سب کچھ تمہارے نام کر دیتا ہوں۔۔۔"


فرزام اسے سمجھا رہا تھا لیکن مناہل کی تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہو چکی تھی۔شیزہ کی کہی باتیں اسکے کانوں میں گونجنے لگیں۔


"کیا آپ نے اسی لیے مجھے شادی کی تھی فرزام کیا آپ کو یہ جائیداد چاہیے تھی؟"


مناہل کی آواز شکوے اور غم سے تر ہو چکی تھی جبکہ آنکھوں سے مسلسل اشک بہہ رہے تھے۔


"نہیں من میں تو یہ بات جانتا بھی نہیں تھا کہ شہاب صاحب کی جائیداد تمہارے نام ہے۔۔۔"


"تو آپ نے مجھ سے کسی مطلب کے لیے شادی نہیں کی تھی؟"


مناہل کے سوال پر فرزام خاموش ہو گیا۔وہ اسے کیا بتاتا کہ اس نے تو بدلہ لینے کے لیے مناہل سے شادی کی تھی لیکن پہلی ہی رات مناہل کے آنسوؤں نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔


مناہل نے فرزام کا ہاتھ پکڑا اور اپنے سر پر رکھ دیا۔


"میری قسم کھا کر کہیں فرزام کہ آپ نے مجھ سے شادی کسی مقصد کے تحت نہیں کی تھی۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں ابھی ان کاغزات پر سائین کر کے سب آپ کو سونپ دوں گی۔۔۔۔"


فرزام نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں۔مناہل کے وہ آنسو اس کے دل پر تیزاب جیسے گر رہے تھے۔فرزام کا ہاتھ اپنے سر سے اٹھتا دیکھ مناہل کے اندر بہت کچھ ٹوٹ گیا۔


یعنی شیزہ کی کہی ہر بات سچ تھی فرزام نے اسے اپنے مطلب کے لیے ہی اپنایا تھا۔


"سب جھوٹ تھا ناں آپ کی وہ باتیں وہ وعدے سب جھوٹ تھا میں نے جیسا خود کو سمجھا تھا میں اسی قابل ہوں۔۔۔ "


فرزام نے فوراً مناہل کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔


"نہیں من وہ سچ تھا میری جان سب سچ تھا میرا یقین کرو من میں مانتا ہوں کہ میں نے تم سے شادی مطلبی ہو کر کی تھی لیکن تم نے مجھے بدل دیا من تم نے اس خود غرض سے فرزام خانزادہ کو پل بھر میں بدل دیا۔۔۔۔"


فرزام نے بہت محبت سے کہا لیکن پھر بھی مناہل کی آنکھوں میں موجود بے یقینی نہیں مٹا سکا۔


"مجھے اکیلا چھوڑ دیں فرزام پلیز آپ کو اللہ کا واسطہ۔۔۔"


مناہل اس سے دور ہوئی اور اپنا چہرہ تکیے میں چھپا کر بے آواز رونے لگی۔


"من۔۔۔"


"چلے جائیں یہاں سے فرزام پلیز۔۔۔۔چلے جائیں۔۔۔"


مناہل نے اسے دیکھے بغیر کہا۔فرزام نے کرب سے اپنا ہاتھ ساتھ موجود شیشے کی میز پر مارا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔وہ جانتا تھا ابھی وہ کچھ بھی کہہ لیتا مناہل اس پر بھروسہ نہیں کرنے والی تھی۔

💞💞💞💞

(ماضی)

سلیمان خانزادہ کی موت کے بعد گورنمنٹ نے انکی جائیداد کو اپنی کسٹڈی میں لے لیا کیونکہ انکے بیٹوں کے سوا ان کا کوئی اور نہیں تھا اور ان کے بیٹے ابھی اتنا بڑا بزنس سنبھالنے کے لیے بہت چھوٹے تھے۔


اس لیے فرزام اور بہرام کو ایک یتیم خانے میں بھیج دیا گیا اور ان کی کمپنی گورنمنٹ نے اپنے پاس امانت کے تور پر رکھ لی۔


اپنے ماں باپ کے جانے کے بعد وہ دونوں سے بلکل ویسے نہیں رہی تھی جیسے ہوا کرتے تھے۔بہرام تو مکمل طور پر سنجیدہ ہو چکا تھا اور فرزام خود غرض جسے اپنے سوا کسی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔


پانچ سال تک تو دونوں بچے اس یتیم خانے میں رہے اور پھر انہیں ایف ایس سی کے بعد یونیورسٹی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔تاکہ ان کی تعلیم مکمل ہونے پر ان کی امانت انہیں لوٹائی جاسکتے۔

ان پانچ سالوں میں جو ان کے سب سے قریب رہا تھا وہ سکینہ اور چاہت تھیں۔سکینہ اکثر ہی چاہت کو اپنے ساتھ لے کر فرزام اور بہرام سے ملنے جایا کرتی تھیں حالانکہ سکینہ کا شوہر عباس اسے ایسا کرنے سے منع کرتا تھا اور اس کی وجہ سے نہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

سلیمان کے زندہ ہونے تک تو عباس ان کی بہت قدر کرتا تھا اب ایسا کیا ہو گیا تھا جو وہ اسے بہرام اور فرزام سے دور رہنے کا کہتا۔ان پانچ سالوں میں سکینہ اور عباس کے حالات بھی بہت بدل گئے تھے۔

اب وہ پہلے کی طرح کرایے کے مکان میں نہیں رہتے تھے بلکہ عباس نے نہ صرف ایک بارہ مرلے کا بہت اچھا مکان خریدہ تھا بلکہ اپنا کاروبار بھی شروع کر لیا تھا سکینہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کرنے کے لیے عباس کے پاس پیسے کہاں سے آئے تھے۔

پھر یہ راز بھی ایک دن کھل گیا جب سکینہ بہرام اور فرزام سے مل کر گھر واپس آئی تو اسے گھر کی بیٹھک سے کسی کی آوازیں آئیں۔اسے لگا کہ شائید کوئی مہمان ہے اسی لیے پانی لے کر وہاں گئی۔

اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھٹکھٹاتی اسکے کانوں میں عباس کی آواز پڑی۔

"آپ فکر مت کریں الطاف بیگ صاحب کام ہو جائے گا اور کسی کو خبر بھی نہیں ہو گی۔"

سکینہ عباس کے لہجے پر حیران ہوئی۔

"سوچ لو کام ایسے کرنا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو میرے بھائی شہاب اور اسکی بیوی کی موت ایکسیڈنٹ ثابت ہونی چاہیے۔۔۔"

اس آدمی کی بات پر سکینہ کا دل خوف سے حلق میں آیا مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ شخص کون تھا۔

"ایسا ہی ہو گا الطاف صاحب اب دیکھیں ناں پانچ سال ہو گئے ہیں اس بات کو لیکن آج بھی سب یہی سمجھتے ہیں کہ سلیمان خانزادہ کے گھر آگ حادثاتی طور پر لگی تھی یہ کوئی نہیں جان پایا کہ وہ آگ آپ کے کہنے پر میں نے لگائی تھی۔۔۔۔"

سکینہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اسکا شوہر ایسا تو نہیں تھا کیا دولت کی حرص انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔

"ہمم اب بھی اتنی ہی صفائی سے کام ہونا چاہیے۔ایک غلطی سلیمان خانزادہ نے کی تھی میرے خلاف کھڑے ہونے کی اور یہی غلطی میرے بھائی نے کی ہے اب اسکا انجام اسے بھگتنا ہو گا۔۔۔"

اس سے آگے سکینہ سے کچھ سنا نہیں گیا وہ صحن میں کھیلتی چاہت کو باہوں میں اٹھا کر اپنے کمرے میں چلیں گئی اور کتنی ہی دیر اسے سینے سے لگا کر روتی رہی۔اپنے شوہر کا یہ شیطانی روپ اسے مکمل طور پر توڑ گیا تھا۔

بہرام آفس سے واپس گھر آیا اور کھانا کھائے بغیر ہی اپنے کمرے میں آ گیا۔صبح سے ہی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن ہمیشہ کی طرح وہ اسے نظر انداز کرتا اپنا کام کرتا رہا جس کا نتیجہ اب یہ نکلا تھا کہ اس کا سر بری طرح سے چکرا رہا تھا۔


کمرے میں آتے ہی اس نے کوٹ اتار کر صوفے پر رکھا اور آ کر بیڈ پر کمبل لے کر لیٹ گیا۔چاہت واش روم سے باہر آئی تو نظر بہرام پر پڑی جو اپنی آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا تھا۔


خان جی آتے ہی سو کیوں گئے کھانا کھا کر آئے ہیں کیا؟


چاہت نے پریشانی سے سوچا۔ایک پل کے لیے تو دل میں خیال آیا کہ اس سے اٹھا کر پوچھے کہ اس نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں لیکن اپنی ناراضگی کی وجہ سے اسے نظر انداز کرتی لائٹ بند کر کے اسکے پاس جا کر لیٹ گئی۔


ویسے تو وہ بہرام سے کافی فاصلے پر تھی لیکن اتنے فاصلے پر بھی اسے محسوس ہوا کہ بہرام کانپ رہا تھا۔چاہت پریشانی سے اٹھی اور لیمپ آن کر کے بہرام کو دیکھا۔


"خان جی۔۔۔ "


چاہت نے اسکے بازو پر ہاتھ رکھا تو اس کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا کیونکہ اس وقت بہرام کا جسم بری طرح سے تپ رہا تھا۔


"خخ۔۔۔خان جی اٹھیں کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔؟"


چاہت نے پریشانی سے اسکے چہرے سے اسکا بازو ہٹا کر اسکا گال اپنے ہاتھ سے چھوا اور جلدی سے اٹھ کر دوپٹہ لیتے ہوئے باہر آئی۔وہ سیدھا فرزام کے کمرے کی جانب گئی لیکن اسے فرزام ہال کے صوفے پر بیٹھا اپنا سر مسلتا نظر آیا تو اس کے پاس آ گئی۔


"فرزام بھائی۔۔۔"


چاہت کے رو کر پکارنے پر فرزام نے پریشانی سے اسے دیکھا۔


"کیا ہو چاہت رو کیوں رہی ہو؟بہرام نے کچھ کہا ہے کیا؟"


چاہت نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"خان جی کو بہت تیز بخار ہے وہ اٹھ بھی نہیں رہے بس کانپتے جا رہے ہیں۔۔۔"


چاہت اتنا کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو فرزام نے اٹھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


"ارے پریشان مت ہو اسے جب بھی بخار ہوتا ہے وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے۔۔۔"


چاہت نے اپنے آنسو پونچھے اور غصے سے فرزام کو دیکھا۔


"آپ ڈاکٹر کو بلا لیں گے تو کچھ چلا جائے گا آپ کا؟"


اسکی پریشانی پر فرزام مسکرایا اور جیب سے موبائل نکال کر ڈاکٹر کو فون کرنے لگا۔کچھ دیر بعد ہی ڈاکٹر آیا جس نے بہرام کا چیک اپ کر کے اسے انجیکشن لگایا اور بہرام کے پاس پریشانی سے بیٹھی چاہت کو مسکرا کر دیکھا۔


"فکر مت کریں بیٹا ٹھیک ہیں وہ بس آپ انہیں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ٹھنڈی پٹیاں کر دینا ان شاءاللہ صبح تک ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔"


چاہت نے اثبات میں سر ہلایا تو ڈاکٹر فرزام کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔چاہت فوراً اٹھی اور کچن سے پانی کا بول لا کر اس میں ایک کپڑا بھگویا اور اسے بہرام کے ماتھے پر رکھ دیا۔


بہرام کی پلکوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی تو دو آنسو چاہت کی آنکھوں سے بہہ کر اسکے چہرے پر گرے جنہیں محسوس کر کے بہرام نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔


"بہت ستاتے ہیں آپ مجھے۔۔۔۔"


چاہت نے منہ بنا کر شکوہ کیا تو بہرام نے ہاتھ بڑھا کے اسکے معصوم چہرے کو چھوا۔


"وہ تو تم کرتی ہو۔۔۔"


بہرام نے آہستہ سے کہا تو چاہت کا منہ بن گیا۔


"بہت پیاری ہو تم چاہت،بہت معصوم۔۔۔۔میں تمہارے قابل نہیں میری جان ۔۔۔۔"


بہرام نے آہستہ سے کہا تو چاہت اسکے پاس لیٹ گئی اور اپنا سر اسکے سینے پر رکھا۔


"آپ بھی بہت اچھے ہیں بس تھوڑے سے سڑیل ہیں تو کیا ہوا جیسے بھی ہیں آپ میرے ہیں۔۔۔"


چاہت نے اسکے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا۔


"پتہ ہے خان جی میری سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟"


بہرام نے نظریں جھکا کر اسے دیکھا۔


"میرے منہ سے یہ سننا کہ میں تمہیں کتنا زیادہ پیار کرتا ہوں،کیسے تم میری ہر سانس میں بستی ہو اس قدر قیمتی ہو تم میرے لیے کہ تمہارے بنا ایک پل بھی جی نہیں پاؤں گا چاہت۔۔۔۔"


چاہت نے حیرت سے بہرام کو دیکھا۔وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ بہرام اس سے پوچھ رہا ہے یا اسے بتا رہا ہے۔


"یہ میری دوسری سب سے بڑی خواہش ہے۔۔۔ایک خواہش اس سے بھی زیادہ بڑی ہے۔۔۔۔"


چاہت نے مسکراتے ہوئے کہا۔بہرام نے بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا جو انجکشن ڈاکٹر نے اسے لگایا تھا اس کی وجہ سے بہرام کو بہت زیادہ نیند آ رہی تھی لیکن پھر بھی وہ سونے کی بجائے اپنی چاہت کے ساتھ یہ پل گزارنا چاہتا تھا۔وہ پل جس میں وہ اپنا کڑوا ماضی بھول چکا تھا۔


"آپ کے گال پر ویسا ڈمپل دیکھنا جیسا فرزام بھائی کے گال پر پڑتا ہے۔۔۔۔"


چاہت نے اوپر ہو کر اسکے دائیں گال پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔


"اماں نے بتایا تھا کہ آپ کے گال پر بھی فرزام بھائی جیسا ڈمپل پڑتا ہے لیکن کبھی کسی نے اسے نہیں دیکھا کیونکہ آپ مسکراتے ہی نہیں۔۔۔۔"


چاہت نے سنجیدگی سے کہا پھر اسکی بند ہوتی پلکوں کو دیکھ کر مسکرا دی۔


"میں چاہتی ہوں کہ وہ ڈمپل جسے کبھی کسی نے نہیں دیکھا وہ صرف میرے لیے ہو اور کسی کے لیے نہیں۔۔۔۔اگر آپ مسکرائیں تو صرف میرے لیے ۔۔۔۔بس میرا ہو آپ کا وہ ڈمپل۔۔۔۔"


چاہت نے آنکھیں چھوٹی کر کے جنون سے کہا جیسے اسے جتانا چاہ رہی ہو کہ وہ صرف اس کا ہے۔


"بہرام خانزادہ سر سے لے کر پیر تک صرف اپنی چاہت کا ہے۔۔۔ "


بہرام کی بات پر چاہت مسکرا دی اور اپنے نرم ہونٹ اسکے گال پر رکھے۔تبھی بہرام نے اسے اپنی پکڑ میں لے کر اپنے نیچے کیا اور اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپا کر سکون سے آنکھیں موند گیا۔


"خخ۔۔۔۔خان جی۔۔۔"


چاہت نے اسے گھبرا کر پکارا۔۔۔


"نہ جانے کیا چاہتی ہو تم چاہت مجھ سے۔۔۔میرا پیار بھی مانگتی ہو اور میرے قریب آتے ہی گھبراہٹ سے تمہاری سانسیں رک جاتی ہیں۔۔۔کیسا امتحان ہو تم چاہت خانزادہ۔۔۔"


بہرام کے سوال پر چاہت مسکرا دی اور اپنے ہاتھ اسکی مظبوط کمر پر رکھ کر اسے اپنے قریب کر لیا۔آج بہرام کی باتوں سے اسے اپنا آپ بہت قیمتی لگنے لگا تھا۔


"سو جائیں خان جی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔ "


چاہت ایک ہاتھ اسکے سر کے پیچھے رکھ کر اسکے بال سہلانے لگی تو بہرام بھی سکون سے آنکھیں بند کر کے سو گیا۔اس وقت وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ اسکا سکون،اسکی چاہت اسکے بہت پاس تھی اور اس سے زیادہ حسین احساس اسکے لیے اور کوئی نہیں تھا۔۔۔

💞💞💞💞

فرزام آدھی رات تک باہر ہال میں بیٹھ کر سگریٹ پیتا رہا تھا۔وہ جانتا تھا کہ مناہل ابھی بھی رو رہی ہو گی لیکن اس میں مناہل کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔آدھی رات کے بعد آخر کار وہ اٹھ کر کمرے میں آیا تو مناہل کو بیڈ پر الٹے لیٹے دیکھا۔


اس کے قریب آکر فرزام کو اندازہ ہوا کہ وہ سو رہی تھی لیکن سوجی ہوئی آنکھیں اور بھیگی پلکیں اس کے رونے کی گواہ تھیں۔


فرزام نے اسکے پاس لیٹ کر اسے اپنی باہوں میں لے لیا تو مناہل کی آنکھیں فوراً کھل گئیں اور اس نے شکوہ کناں نگاہوں سے فرزام کو دیکھا۔


"اپنی تاریک زندگی میں روشنی کی ایک جھلک سمجھا تھا میں نے آپ کو فرزام اگر اب آپ نے ہی اس میں اندھیرا بھر دیا تو مر جاؤں گی میں۔۔۔"


فرزام نے فوراً اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا۔


"نہیں میرا جنون میرا یقین کرو میں مانتا ہوں کہ یہ نکاح میں نے کسی مقصد کے تحت کیا تھا لیکن خدا نے تمہیں ہی میرا مقصد بنا دیا اور اس بات کو ماننا ہی میری سچائی کا ثبوت ہے۔۔۔"


فرزام ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا اگر وہ چاہتا تو وہ مناہل سے جھوٹ بھی بول سکتا تھا۔


"کیا مقصد تھا آپ کا فرزام؟"


مناہل کے سوال پر فرزام خاموش ہو گیا۔


"‏پلیز فرزام بتائیں مجھے کیوں کی آپ نے مجھ سے شادی؟"


فرزام نے گہرا سانس لیا اور اس کی پکڑ مناہل پر مضبوط ہوگئی جیسے کہ اس کا جواب سن کر مناہل اس چھوڑ جاتی۔


"میں تمہارے ذریعے الطاف بیگ کو برباد کرنا چاہتا تھا۔"


مناہل نے اسکا چہرہ دیکھنا چاہا لیکن فرزام کی پکڑ اس پر بہت مظبوط تھی۔


"سوچا تھا تمہیں اپنا کر صبح تمہیں طلاق دوں گا تو الطاف کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔۔۔۔"


فرزام کی بات پر مناہل نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ اسے اپنے اندر بہت کچھ ٹوٹتا محسوس ہوا۔


"لیکن یقین کرو من اس رات تمہارے آنسوؤں اور تم پر بیتے ستم نے میرے جینے کا مقصد بدل دیا۔میں ایک ہی پل میں اپنا نہیں رہا من جینے کی وجہ بس تمہارے چہرے کی ایک مسکان بن گئی۔"


مناہل کے آنسو فرزام کے سینے میں جذب ہونے لگے۔


"اگر نہیں یقین تو چاہے جان لے لو میری من اف تک نہیں کروں گا لیکن پلیز مجھے غلط مت سمجھنا۔۔۔"


مناہل نے اسکے سینے سے سر اٹھا کر اپنی لال آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"کیسے یقین کروں فرزام؟ میرے لیے یقین کرنا پہلے ہی بہت مشکل تھا اور یہ جاننے کے بعد تو یہ کام ناممکن ہوچکا ہے۔۔۔۔کیسے یقین کر لوں آپ پر؟"


فرزام نے اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے ٹکا دیا اور مناہل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل کے مقام پر رکھا۔


"تمہارے سامنے اپنی رگوں میں دوڑتے اس خون کی قسم کھائی تھی میں نے من کہ ہمیشہ تمہاری حفاظت کروں گا پھر تم کیسے سوچ سکتی ہو کہ میں تمہیں استمعال کر کے چھوڑ دوں گا۔۔۔کوئی انسان ہے جو اپنا دل نکال کر زندہ رہ سکے؟"


مناہل نے اپنی آنکھیں موند لیں اور بہت سے آنسو اسکے گال پر بہنے لگے۔


"مجھے بتائیں فرزام کیا دشمنی ہے آپ کی میرے تایا سے ۔۔۔۔۔؟"


مناہل کے سوال پر فرزام کچھ پل کے لیے تو خاموش رہا پھر خود پر ضبط کرتے ہوئے اسے ہر ایک بات بتا دی جسے سن کر مناہل پتھر کی ہو چکی تھی۔وہ تو جانتی بھی نہیں تھی کہ اپنی ساری زندگی اس نے کن بھیڑیوں کے درمیان گزاری تھی۔


"میرے بابا ایسے نہیں تھے فرزام وہ بہت اچھے انسان تھے۔۔۔"


فرزام نے مسکرا کر اسے دیکھا۔


"جانتا ہوں من اور شائید اپنی اچھائی کی وجہ سے وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔۔۔"


اپنی محرومیاں یاد کر کے مناہل کی آنکھیں رانی سے بہنے لگیں اور اس نے اپنا چہرہ فرزام کے سینے میں چھپا لیا۔


"میں نے تمہیں اپنا وہ سچ بتایا ہے من جو آج تک میں نے اور بہرام نے کسی کو نہیں بتایا۔اس دنیا کے لئے ہم دونوں سلیمان خانزادہ کی اولاد ہیں۔۔۔"


فرزام نے ٹھوڈی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا۔


"کیا میرا ہر راز جان کر بھی تم مجھ پر یقین نہیں کرو گی؟"


مناہل کی پلکیں فرزام کی بات پر جھک گئیں۔


"مجھے دھوکا مت دینا فرزام چاہے تو میری جان لے لینا لیکن پلیز مجھے دھوکا مت دینا۔۔ "


فرزام نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور اپنے ہونٹ اس کی بھیگی پلکوں پر رکھے۔


"اس سے پہلے فرزام خانزادہ مرنا پسند کرے گا۔۔۔"


اس کے جواب پر مناہل نے اپنا سر اس کی سینے پر رکھ دیا اور آنکھیں موند کر لیٹ گئی۔پوری رات نہ تو وہ سوئی تھی اور نہ ہی فرزام۔بس دونوں ایک دوسرے کے قریب ایک دوسرے کی پریشانی کو محسوس کرتے رہے۔


شاید فجر کے قریب فرزام کی آنکھ لگی تھی جب اس نے اٹھ کر دیکھا تو دن کے دس بج رہے تھے اور مناہل اس کے پاس نہیں تھی۔فرزام نے اٹھنا چاہا تو اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑی جس پر وہی پراپرٹی کے پیپرز پڑے تھے۔


فرزام نے ان کے اوپر پڑے ایک کاغذ کو اٹھایا جس پر کچھ لکھا تھا۔


"میری چلتی ہر سانس آپ کی امانت ہے فرزام یہ دولت کیا چیز ہے۔۔۔؟ میں نے ان پر سائین کر کے اپنے یقین کا ثبوت دیا ہے اب آپ کے یقین کا امتحان ہے فرزام مجھے کبھی تنہا مت چھوڑیے گا۔۔۔


صرف آپ کی من۔۔ "


فرزام نے وہ خط پڑا تو دو آنسو اس کی پلکوں پر اٹک گئے۔اس نے بے یقینی سے ان پراپرٹی کے پیپرز کو دیکھا جن پر سائن کر کے مناہل اپنا سب کچھ اس کے نام کر چکی تھی۔


"میری من نے ان کاغزات پر نہیں تمہاری بربادی کے پروانے پر دستخط کیے ہیں الطاف حیدر بیگ اب تمہاری دولت کا غرور بہت جلد ہی ٹوٹنے والا ہے۔۔۔"


فرزام نے اپنے ذہن میں نفرت سے الطاف بیگ کو کہا جس کی بربادی اب شروع ہو چکی تھی۔

💞💞💞💞

(ماضی)

عباس گھر واپس آیا اور اپنی گھبراہٹ مٹانے کے لیے سیدھا کچن میں جا کر پانی پینے لگا۔وہ ابھی اس گاڑی والے کو مل کر آیا تھا جس نے شہاب بیگ اور اسکی بیوی کو اپنے ٹرک سے اڑا دیا تھا۔


الطاف بیگ نے جیسے اس سے کہا تھا ویسا ہی ہوا تھا۔وہ شہاب بیگ اور اسکی بیوی کو ایکسیڈینٹ میں مروا چکا تھا اب بس اسے الطاف سے انعام میں ملنے والی رقم کا انتظار تھا۔


کچن سے باہر آنے پر اسکی نظر کمرے میں پڑی جہاں سکینہ بیڈ پر بیٹھے چاہت کو اپنی گود میں بیٹھائے کھانا کھلا رہی تھی۔عباس مسکرا کر دونوں کے پاس آیا۔


"کیسی ہے بابا کی جان۔۔۔؟"


چاہت فوراً لاڈ سے عباس سے لپٹ گئی تو عباس نے محبت سے اپنے ہونٹ اسکے سر پر رکھے اور حیرت سے سکینہ کی آنکھوں میں پریشانی کو دیکھنے لگا۔


"کیا بات ہے سکینہ کچھ پریشان لگ رہی ہو؟"


عباس کی بات پر سکینہ نے افسوس سے اسے دیکھا۔


"ہر وہ بیوی پریشان ہی ہوگی ناں جس کا حلال کمانے والا شوہر اچانک ہی دولت کے انبار کھڑے کر دے۔وہ تو یہی سوچے گی کہ یہ دولت کہاں سے آئی۔"


عباس نے چاہت کو اپنی گود سے اتارا اور غصے سے کھڑا ہو گیا۔


"کتنی بار تم سے کہا ہے کہ پیسے کے بارے میں مت سوچا کرو۔ اتنے عرصے سے ہم غریب تھے اب خدا نے ہماری سن لی ہے تو تمہیں اس سے کیا مسئلہ ہے؟"


سکینہ بھی فوراً کھڑی ہو کر اسکے سامنے آئی۔


"مجھے کوئی مسئلہ نہیں بس ایک بار مجھے یہ بتا دیں کہ آپ نے یہ پیسہ کیسے حاصل کیا ہے؟"


"میں تمہیں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔۔۔"


عباس اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔


"اس کا مطلب آپ نے سلیمان صاحب کے گھر میں آگ لگانے کے لیے ان کے دشمن سے پیسے نہیں لیے تھے؟"


اب اس کے چلتے قدم خوف سے رک گئے اور اس نے مڑ کر حیرت سے سکینہ کو دیکھا۔


"بولیں اور کہیں جھوٹ ہے یہ۔۔۔"


سکینہ زارو قطار روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور اپنی ماں کو روتے دیکھ کر چاہت خوف سے اس کی ٹانگوں سے چمٹ گئی۔


"کس نے کہی تم سے یہ بات؟"


"کسی نے کہیں ہوتی تو کبھی بھی اس کا یقین نہیں کرتی لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اپنے گناہگار کانوں سے آپ کو ہی یہ کہتے سنا ہے۔۔۔۔۔"


عباس نے اضطراب سے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔


" تت۔۔۔تمہیں کوئی غلط فہمی ہو رہی ہے ایسا کچھ نہیں۔۔۔۔"


سکینہ نے افسوس سے اپنے شوہر کو دیکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چاہت کے سر پر رکھ دیا۔


"یہی بات اپنی بچی کے سر کی قسم کھا کر کہیں آپ۔۔۔۔"


عباس نے بے یقینی سے سکینہ کو دیکھا اور اپنا کانپتا ہاتھ چاہت کے سر سے ہٹا دیا۔


"تو کیا کرتا میں۔۔۔۔غربت کی زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔۔۔۔میری اور تمہاری تو خیر تھی لیکن اپنی بچی کو ہر دوسری چیز کے لئے ترستے نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔اس دنیا میں انصاف نہیں ہے سکینہ حلال کمانے والا بس ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے۔۔۔"


سکینہ نے فورا چاہت کو اس سے دور کر کے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔


"اعتراف کرنے کا شکریہ۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر سکینہ نے دروازے کی جانب دیکھا۔


"تم دونوں کو یقین نہیں ہو رہا تھا ناں کہ تمہارے عباس چچا ایسا کر سکتے ہیں لو ثبوت تمہارے سامنے ہے۔۔۔۔"


عباس نے سہم کر دروازے کی جانب دیکھا تو اس کی نظر فرزام اور بہرام پر پڑی جو اسے بے انتہا نفرت سے دیکھ رہے تھے۔


"اس شخص سے نہ تو میرا کوئی تعلق ہے نہ ہی چاہت کا۔۔۔۔ یہ صرف تمہارا گنہگار ہے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر سکینہ چاہت کو لے کر وہاں سے چلی گئی اور عباس خوف سے دونوں بھائیوں کو دیکھنے لگا۔


"بب۔۔۔۔بہرام صاحب مم۔۔۔میری بات۔۔۔۔"


عباس نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی فرزام آگے بڑھا اور ایک زوردار مکہ اس کے منہ پر مارا۔


"ک۔۔۔۔کیوں کیا تم نے ایسا بولو۔۔۔۔پیسے کے لیے؟۔۔۔۔صرف پیسے کے لیے ہمارا پورا جہان اجاڑ دیا۔۔۔۔"


فرزام نفرت سے کہتے ہوئے عباس کو بری طرح سے مار رہا تھا جبکہ بہرام بس خاموشی سے کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔


"مم۔۔۔مجھے معاف کر دیں فرزام صاحب۔۔۔میں۔۔۔لالچ میں آ گیا مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔"


عباس نے روتے ہوئے فرزام کے آگے ہاتھ جوڑے لیکن فرزام کو خود کو مارنے سے نہیں روک سکا۔فرزام ایک سترہ سال کا بچہ ضرور تھا لیکن وہ اتنا کمزور نہیں تھا کہ عباس سے زیر ہو جاتا۔


"فرزام بس۔۔۔۔"


بہرام کی آواز پر فرزام نے نفرت سے ایک ٹانگ عباس کے پیٹ میں ماری اور اس سے دور ہو گیا۔بہرام زمین پر پڑے عباس کے پاس آیا اور گھٹنوں کے بل اس کے پاس بیٹھ گیا۔


"کس کے کہنے پر کیا تم نے ایسا؟"


عباس نے سہم کر ان دونوں بھائیوں کو دیکھا۔


"اااا۔۔۔۔الطاف حیدر بیگ۔۔۔۔"


اس نام پر فرزام نے نفرت سے اپنا ہاتھ دیوار میں مارا۔یعنی ان کی دنیا اجاڑ نے والا اور کوئی نہیں ان کا سگا باپ تھا۔سکینہ نے انہیں یہ تو بتایا تھا کہ عباس نے کسی سے پیسے لے کر یہ کام کیا تھا لیکن اسے اس شخص کا نام یاد نہیں تھا۔عباس کی زبان پر الطاف کا نام ان کے دل میں اپنے باپ کے لئے بہت گہری نفرت چھوڑ گیا۔


"ا۔۔۔الطاف نے مجھے اپنے پاس بلایا ااا۔۔۔۔اور مجھے کافی سارے پیسے دے کر کہا کہ آپ کے گھر میں آگ لگانی ہے۔۔۔۔"


عباس نے روتے ہوئے بتانا شروع کیا۔


"پہلے میں نہیں مانا لیکن ۔۔۔۔۔لیکن اس نے میرے سامنے ایک بڑا سا بیگ پیسوں کا رکھا تو میرے دل میں لالچ آگیا۔۔۔"

اتنا کہہ کر عباس پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

"اس رات میں نے چھپکے سے آپ سب کے کھانے میں نیند کی دوائی ملا دی تاکہ کوئی جاگ کر آگ سے بچ نہ جائے۔۔۔۔"

فرزام اب غصے سے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا اگر بہرام نے اسے روکا نہ ہوتا تو وہ عباس کی جان لے لیتا۔

"پھر میں نے سب ملازموں کو جھوٹ بولا کہ صاحب نے انہیں گھر جانے کا کہا ہے اور آدھی رات ہوتے ہی میں نے ہر جگہ پیٹرول ڈال کر آگ لگا دی اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔"

عباس نے اپنا چہرہ زخمی ہاتھوں میں چھپا لیا اور رونے لگا۔

"الطاف صاحب نے مجھے اس کام کے دس لاکھ روپے دیے۔۔۔"

عباس نے سر اٹھا کر بہرام کو دیکھا جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا اور اسکی یہ سرد مہری عباس کو مزید ڈرا رہی تھی۔

"مم۔۔۔۔مجھے معاف کر دیں بہرام صاحب۔۔۔۔ممم ۔۔۔۔مجھ سے غلطی۔۔۔"

عباس نے ہاتھ جوڑ کر کہا لیکن بہرام نے ایک بندوق نکال کر عباس کے ماتھے پر رکھ دی تو عباس کے ساتھ ساتھ فرزام کی آنکھیں بھی حیرت سے پھیل گئیں۔

"ہم سے ہمارا جہان چھین کر معافی مانگ رہے ہو کیا لگتا ہے تمہیں معاف کر دوں گا میں۔۔۔۔"

بہرام کے سوال پر عباس خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔جبکہ بہرام اب بندوق اسکے سینے پر رکھ چکا تھا۔

"سلیمان خانزادہ کی تربیت ایسا کرنے سے روکتی ہے مجھے۔۔۔۔"

فرزام نے بہرام کو دیکھا جس کے بے تاثر چہرے پر زرا سی بھی شکن نہیں تھی۔

"لیکن کیا کروں رگوں میں الطاف بیگ کا گھٹیا خون دوڑ رہا ہے۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر بہرام نے عباس کو مزید بولنے کا موقع دیے بغیر گولی چلا دی اور ساتھ ہی عباس کا وجود زمین بوس ہو گیا۔بہرام نے اٹھ کر وہ بندوق واپس چھپا لی اور باہر جانے لگا۔

"بہرام یہ گن۔۔۔؟"

بہرام نے فرزام کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے باہر آ گیا۔باہر آتے ہی اسکی نظر سکینہ پر پڑی جو چھوٹی سی چاہت کو اپنے سینے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں جبکہ چاہت سہم کر بہرام کو دیکھ رہی تھی۔

اس چھوٹی سی جان کو دیکھ بہرام کو اندازہ ہوا کہ وہ اپنے غصے میں کیا کر گزرا تھا۔اس نے چاہت کے ساتھ وہی کیا تھا جو عباس نے ان دونوں کے ساتھ کیا تھا۔

بچپن میں ہی اس سے اس کا سب سے پیارا رشتہ چھین لیا تھا۔چاہت کو دیکھ کر پچھتاوا بہرام پر بری طرح سے حاوی ہونے لگا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا وہ کچھ بھی کر لیتا اس سچائی کو نہیں بدل سکتا تھا کہ وہ چاہت عباس کا گنہگار تھا۔

چاہت کی آنکھ کھلی تو بہرام ابھی بھی اسے اپنی آغوش میں لیے چہرہ اسکی گردن میں چھپا کر سو رہا تھا۔ایک ہلکی سی مسکراہٹ چاہت کے ہونٹوں پر آئی۔کل رات چاہے اس نے محبت کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی چاہت کو یہ احساس دلا چکا تھا کہ وہ دل ہی دل میں اسے کتنا چاہتا ہے۔


شائید اسکا شوہر ایسا تھا ہی نہیں جو زبان سے اقرار کرتا بلکہ وہ تو اپنے جزبات کو کسی سے بیان کرنے کا عادی نہیں تھا اور چاہت نے سوچ لیا تھا کہ جب تک وہ دل سے ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو جاتا وہ اسے مجبور نہیں کرے گی۔


چاہت کی سوچوں کا تسلسل بہرام کی انگڑائی سے ٹوٹا اور ساتھ ہی بہرام نے اس سے دور ہو کر آنکھیں کھول دیں تو چاہت شرمیلی سی مسکان کے ساتھ اسے دیکھنے لگی۔


"اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟"


چاہت نے اسے بیٹھتے دیکھا تو جلدی سے اٹھ کر پوچھنے لگی۔


"ٹھیک ہوں۔۔۔"


بہرام سنجیدگی سے اتنا کہہ کر اٹھنے لگا تو چاہت نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔


"آپ کہاں جا رہے ہیں؟"


بہرام نے ایک نظر اپنا ہاتھ اسکے نازک سے ہاتھ میں دیکھا۔


"آفس۔۔۔"


بہرام کی بات پر چاہت کا منہ بن گیا۔


"بالکل نہیں جا رہے آپ آفس اتنی طبیعت خراب تھی آپ کی پوری رات بخار رہا ہے آپ کو۔۔۔"


بہرام نے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔اب وہ دوبارہ سے سرد مہر سا بہرام بن چکا تھا۔


"تنگ نہیں کرو چاہت مجھے بہت کام ہے۔۔۔"


بہرام نے اٹھ کر الماری سے اپنے کپڑے پکڑے تو چاہت اسکے پاس آئی اور اسکے ہاتھ سے کپڑے چھین لیے۔


"جب میں نے کہا ہے کہ آپ نہیں جا رہے تو نہیں جا رہے سمجھے آپ اور اگر اب آپ نے ضد کی ناں تو۔۔۔۔"


"تو کیا کرو گی؟"


بہرام نے سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔پہلے تو چاہت نے اپنے دانت کچکچائے پھر آگے بڑھ کر اپنا سر بہرام کے سینے پر رکھا اور اپنے ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹ دیے۔


"پلیز مت جائیں ناں خان جی میری خاطر آج مت جائیں۔۔۔۔"


بہرام نے حیرت سے اسکی اس پیش قدمی کو دیکھا اور پھر ٹھوڈی سے پکڑ کر اسکا چہرہ اوپر کیا۔


"میں تو تم پر ظلم کرتا ہوں ناں بہت برا ہوں میں پھر کیوں ہے تمہیں میری پرواہ میں جیوں یا مروں کیا فرق۔۔۔"


بہرام کے سوال پر چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور اس نے فوراً اپنا ہاتھ بہرام کے منہ پر رکھا۔


"ایسا مت کہیں خان جی اللہ آپ کو میری عمر بھی لگا دیں۔۔۔۔"


بہرام کتنی ہی دیر اسے اپنے قریب کھڑا دیکھتا رہا پھر اسکا ہاتھ تھام کر اسے خود سے دور کیا۔


"ٹھیک ہے نہیں جاتا آفس۔۔۔۔"


بہرام کی بات پر چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔آج زندگی میں پہلی بار وہ بہرام خانزادہ کو زیر کر کے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوئی تھی۔


"جاؤ کھانا لگاؤ میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔۔"


چاہت نے ہاں میں سر ہلایا اور خوشی سے نیچے جانے لگی تا کہ خالہ کو کھانا لگانے کا کہہ سکے۔


"سنو چاہت۔۔۔۔"


بہرام کی آواز پر چاہت کے قدم جم گئے۔


"پھر کبھی مجھ سے بات کرنا بند مت کرنا۔اپنی ناراضگی میں کچھ بھی کرو مجھے پرواہ نہیں لیکن تمہاری جسمانی یا ذہنی دوری برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام واش روم میں چلا گیا اور چاہت مسکراتے ہوئے کچن میں آ کر کھانا لگوانے لگی۔کھانے کے وقت تک وہاں بہرام کے ساتھ ساتھ مناہل اور فرزام بھی آ چکے تھے۔


"میں کچھ عرصے کے لیے مناہل کو لے کر لاہور شفٹ ہو رہا ہوں بہرام۔"


کھانا کھانے کے دوران فرزام کے بتانے پر بہرام نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا لیکن وہ فرزام کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ مناہل نے اس پر بھروسہ کر کے فرزام کے منصوبے کو کامیاب کر دیا تھا۔


"ٹھیک ہے لیکن تم اکیلے وہاں نہیں رہو گے میرے سب سے بھروسے مند ساتھی تمہارے ساتھ رہیں گے۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ تم کسی قسم کی مصیبت میں پڑو۔۔۔"


بہرام کی بات پر مناہل نے سہم کر فرزام کو دیکھا۔


"فکر مت کرو بگ بی کسی میں اتنا دم نہیں کہ وہ فرزام خانزادہ کو نقصان پہنچا سکے۔۔۔۔"


فرزام نے لاپرواہی سے کہا اور اسکی اسی لاپرواہی سے تو بہرام کو چڑ تھی۔


"لیکن آپ علیحدہ گھر کیوں لے رہے ہیں فرزام بھائی یہاں ہمارے ساتھ رہیں ناں آپ دونوں۔۔۔"


چاہت کے افسردگی سے کہنے پر فرزام مسکرایا۔


"کیونکہ تم میری معصوم سی بیوی پر ظلم کر رہی ہو خود جیٹھانی بن کر آرام کرتی ہو اور اس سے سارا کام کرواتی ہو۔۔۔"


فرزام کی بات پر چاہت کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہو گئیں۔


"اللہ توبہ، خان جی جھوٹ بول رہے ہیں یہ۔۔۔"


چاہت نے بہرام سے کہا لیکن بہرام کا سارا دھیان فرزام پر تھا۔


"مناہل کو مت لے کر جاؤ فرزام وہ یہاں محفوظ رہے گی۔بہتر یہی ہو گا کہ تم وہاں اکیلے جاؤ۔۔۔۔"


فرزام سے دوری کے خیال سے ہی مناہل کا دل بہت زور سے دھڑکا۔


"تمہیں میری من کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے میرے بھائی اس کے لیے میں ہوں اور جو کر رہا ہوں سوچ سمجھ کر کر رہا ہوں تم اس کی فکر مت کرو۔۔۔"


بہرام فرزام کی آنکھوں میں جنون کی آگ دیکھ سکتا تھا شائید اسے بہرام کا مناہل کے بارے میں سوچنا تک گراں گزرا تھا۔


"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی لیکن رشید اور میرے باقی گارڈز تمہارے ساتھ جائیں گے۔۔۔۔"


بہرام اتنا کہہ کر اٹھ گیا تو چاہت نے جلدی سے چائے ٹرے میں رکھی اور اس کے پیچھے چلی گئی۔فرزام نے مسکرا کر مناہل کو دیکھا جو سہمی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔


"مجھے وہاں جاتے ڈر لگ رہا ہے فرزام۔۔۔"


فرزام کے ہونٹ مسکرا دیے۔


"تو یہاں رہ لو۔۔۔"


مناہل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔


"خود سے دور کرنا چاہتے ہیں مجھے؟"


فرزام مسکرا کر اسکی جانب پلٹا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کھینچا۔یوں ڈائننگ ہال میں اسکی اس جرات پر مناہل کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹک گیا۔


"تم سے ایک انچ کی دوری گوارا نہیں میرا جنون اتنے فاصلے کو کیسے برداشت کروں گا۔تمہیں تو خواب میں بھی خود سے دور نہ جانے دوں۔۔۔۔"


فرزام نے اسکے ہاتھ پر اپنے ہونٹ رکھے تو مناہل گھبرا کر اس سے دور ہو گئی۔


"تیار رہنا من ایک گھنٹے میں نکلنا ہے ہمیں وہاں فرنشڈ گھر کا ارینج پہلے سے کر چکا ہوں۔۔۔"


مناہل نے ہاں میں سر ہلا دیا اور خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی کسی بات پر فرزام پھر سے یہیں ہال میں اسے اپنی قربت دیکھانے لگتا۔

💞💞💞💞

چاہت نے آج سارا دن بہرام کے ساتھ گزارا تھا۔پورا دن وہ نہ جانے اس سے یہاں وہاں کی کتنی ہی باتیں کرتی رہی تھی اور پھر بہرام بھی حیران تھا کہ وہ اتنی باتیں کہاں سے لاتی تھی۔


ابھی بھی بہرام بیڈ پر بیٹھے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا اور چاہت اسکے پاس بیٹھی سیب کاٹ کر اسے دے رہی تھی اور ساتھ ہی مسلسل باتیں کرتی جا رہی تھی۔


"ایک بتا بتاؤ چاہت سیب چھری سے کاٹ رہی ہو یا زبان سے ہی کام چلا رہی ہو؟"


آخر کار بہرام نے گہرا سانس لیتے ہوئے اس سے پوچھا تو پہلے تو چاہت نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا پھر اس کی بات کا مطلب سمجھ کر چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور اس نے منہ بنا کر ہاتھ میں پکڑی چھری پلیٹ میں رکھ دی۔


"ٹھیک ہے نہیں کرتی اب باتیں بالکل چپ ہو جاتی ہوں۔۔۔"


بہرام نے ایک نظر اٹھا کر اسکے سوجے ہوئے منہ کو دیکھا۔


"مزاق کر رہا تھا میں۔۔۔"


بہرام سنجیدگی سے کہتے ہوئے پھر سے اپنا کام کرنے لگا۔


"مذاق ناں ہنس کر کیا جاتا ہے اب آپ جیسے منہ بنا کر بات کرتے ہیں اگلے کو تو لگے گا کہ بس طعنے مار رہے ہیں۔۔۔۔"


چاہت نے منہ پھلا کر کہا اور سیب کا ٹکڑا کاٹ کر بہرام کے سامنے کیا۔


"اب بس بھی کر دو کتنا کھلاؤ گی صبح سے بس کھلاتی جا رہی ہو مجھے۔۔۔"


بہرام نے اکتا کر کہا۔


"ہاں تو آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں طاقت کے لیے کھانا تو پڑے گا ناں۔۔۔۔۔ابھی تو گرم دودھ لے کر آتی ہوں وہ پی کر سوئیں گے آپ ۔۔۔"


چاہت اٹھنے لگی تو بہرام نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا ۔


"کھانے اور ٹھونسنے میں فرق ہوتا ہے اور دودھ کا تو سوچنا بھی مت۔۔۔۔"


"لیکن خان جی۔۔۔۔"


"تمہیں سمجھ نہیں آیا چاہت کیا کہا میں نے۔۔۔۔"


چاہت منہ بسور کر اٹھی اور پلیٹ کچن میں چھوڑ کر آنے کے بعد آ کر خاموشی سے بہرام کے ساتھ لیٹ گئی لیکن زیادہ دیر اس سے خاموش نہیں رہا گیا تو سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر بہرام کو دیکھنے لگی۔


"فرزام بھائی اور مناہل پہنچ گئے ہیں لاہور؟"


"ہممم کافی دیر سے پہنچ چکے ہیں اور اپنے نئے گھر میں سیٹ بھی ہو گئے ہیں ۔۔۔۔"


چاہت نے ہاں میں سر ہلایا۔


"آپ کا کتنا کام رہتا ہے؟"


بہرام نے بھویں اچکا کر اسکے دیکھا۔


"تم کیوں پوچھ رہی ہو؟"


"مجھے نیند آئی ہے ناں تو کام ختم کر کے سو جاتے ہیں۔۔۔۔"


چاہت نے مدعا بیان کیا۔


"تو تم سو جاؤ ۔۔۔۔"


چاہت منہ بسورتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔


"اچھی بیویاں شوہر کے کھانے کے بعد کھاتی ہیں اس کے سونے کے بعد سوتی ہیں اور اس کے جاگنے سے پہلے اٹھ جاتی ہیں۔۔۔۔"


بہرام نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا۔


"یہ سب ہمارے معاشرے کی باتیں ہیں چاہت ہمارا دین ایسا حکم بالکل نہیں دیتا۔دین کے مطابق میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں وہ دونوں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔بیوی شوہر کی ملکہ ہے اسکی غلام نہیں جو یہ سب کرے۔۔۔ "


بہرام نے اتنا کہہ کر اپنا لیپ ٹاپ بند کیا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر لیٹ گیا۔


"تو پھر میری دوست کیوں کہتی ہے کہ اسکی اماں نے اسے بتایا تھا کہ بیوی شوہر کے سونے کے بعد سویا کرے نہیں تو فرشتے پوری رات اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔۔۔"


بہرام نے گہرا سانس لیا اور ہاتھ بڑھا کر لیمپ بند کر دیا۔


"ایسا کچھ نہیں ہے چاہت ویسے بھی وہ میاں بیوی اور ہوتے ہیں ہم ویسے نہیں۔۔۔ "


چاہت اسکی بات پر حیران ہوئی۔


"کیوں وہ ایسا کیا کرتے ہیں جو وہ ہم سے انوکھے ہیں۔۔۔"


چاہت کی اس بات پر بہرام کا دل کیا کہ اسکا گلا دبا دے آخر وہ کس حد تک بیوقوف ہو سکتی تھی۔


"سو جاؤ چاہت۔۔۔۔"


بہرام نے اسے وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔


"نہیں پہلے بتائیں ناں خان جی کہ باقی میاں بیوی ہم سے علیحدہ کیوں ہیں ہمیں بھی ان کے جیسا بننا چاہیے ناں اور ہر کام ویسا ہی کرنا چاہیے جیسا وہ کرتے ہیں میں نہیں چاہتی کہ فرشتے پوری رات مجھ پر لعنت بھیجیں۔۔۔"


"چاہت میں کہہ رہا ہوں سو جاؤ۔۔۔"


بہرام نے اسے پھر سے وارننگ دی۔


"میں ناں کل اماں کو فون کر کے ان سے یہ بات پوچھوں گی اب آپ تو بتاتے نہیں لیکن انہیں تو پتہ ہو گا ناں کہ باقی میاں بیوی ہم سے کیوں علیحد۔۔۔۔"


اچانک ہی بہرام اسے اپنی گرفت میں لے کر اس پر حاوی ہوا تو چاہت کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹک گیا۔نائٹ بلب کی روشنی میں وہ بہرام کی آنکھوں میں جنون دیکھ کر کانپ سی گئی۔


"وہ میاں بیوی ہم سے الگ اس لیے ہیں چاہت کہ ہر شوہر اپنی بیوی سے وہ حق لیتا ہے جو میں تم سے نہیں لے رہا اب بھی بات کو سمجھی ہو یا پریکٹیکل کر کے بتاؤں۔۔۔۔"


بہرام کی ٹون پر چاہت کا روم روم کپکپا اٹھا۔


"نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔"


"میرے خیال سے تمہیں ایک ڈیمو دیکھانا چاہیے تا کہ پھر ایسے بے تکے سوال کرنا چھوڑ دو تم۔۔۔ "


اتنا کہہ کر بہرام نے اسکا چہرہ بالوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور بہت شدت سے اسکے ہونٹوں پر اپنی مہر لگانے لگا۔چاہت کا چھوٹا سا کپکپاتا وجود اسکے قامتی جسم کے نیچے چھپ سا گیا تھا۔


وہ بہرام کی اس شدت پر گھبرا کر خود میں ہی سمٹتی چلی جا رہی تھی اور بہرام اسکی قربت کے نشے میں مد ہوش ہوا کتنی کی دیر ان نازک لبوں پر اپنی شدتیں لٹاتا رہا۔


چاہت نے اسکی شرٹ اپنی مٹھی میں دوبوچ لی اور اپنی رکتی سانسوں کی پرواہ کیے بغیر خود کو اسکے سپرد کر دیا۔


جب بہرام کو احساس ہوا کہ اسکی نازک جان کا سانس تک اسکے سینے میں اٹک چکا ہے تو اس سے دور ہوا اور اسے خود سے لگا کر اسکا سر اپنے سینے پر رکھ دیا۔


"صرف اتنی سی گستاخی پر سانسیں رک جاتیں ہیں تمہاری چاہت محبتوں کے اس جنون کو کیسے سہو گی جسے تم ہر لمحہ بھڑکاتی ہو۔۔۔۔"


بہرام کے سوال پر چاہت کا روم روم کانپ اٹھا۔


"سو جاؤ چاہت اس سے پہلے کہ تمہیں پوری طرح سے بتا دوں کہ بیوی کو کیوں شوہر کے سونے کے بعد سونا چاہیے۔۔۔"


بہرام کی بات پر چاہت نے فوراً اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔اسکی معصومیت پر اسے خود میں بھرتا بہرام بھی سکون سے آنکھیں موند گیا۔اس نے چاہت سے دور رہنے کا جو فیصلہ کیا تھا اب اس فیصلے پر قائم رہنا اس کے بس سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔

💞💞💞💞

الطاف آفس میں داخل ہوا تو اسکی سیکرٹری اسے پریشانی سے دیکھنے لگی۔یہ دیکھ کر الطاف بھی حیران رہ گیا۔


"کیا بات ہے کنول ؟کوئی پریشانی ہے؟"


الطاف کے سوال پر کنول نے پریشانی سے الطاف کے آفس کی جانب دیکھا۔


"سر وہ آپ کے روم میں وہ۔۔۔۔؟"


الطاف کے ماتھے پر بل آئے اور وہ اپنے آفس کی جانب چل دیا۔دروازہ کھولتے ہی اسکی نظر کسی پر پڑی جو شان سے اسکی کرسی پر بیٹھا میز پر ٹانگیں رکھے ہاتھ میں پکڑی فائل کو دیکھ رہا تھا۔


"ہو دا ہیل آر یو؟اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں بیٹھنے کی۔۔۔۔"


الطاف کے غصے پر اس شخص نے اپنے چہرے کے سامنے سے فائل ہٹائی تو الطاف کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا کیوں کہ اس وقت وہاں بیٹھا وہ شخص اور کوئی نہیں فرزام خانزادہ تھا۔


"تم یہاں کیسے آئے اور میری کرسی پر کس کی اجازت سے بیٹھے ہو؟"


الطاف غصے سے چلایا تو فرزام نے برا سا منہ بنایا اور ہاتھ اپنے کان پر رکھا جیسے کہ الطاف کی آواز اسکے کان میں چبھی ہو۔


"آہستہ بہرا نہیں ہوں میں سنائی دیتا ہے مجھے۔۔۔"


الطاف اسکی ہمیشہ والی ہٹ دھرمی پر اپنی مٹھیاں بھینچنے لگا۔


"اور رہی بات اس کرسی پر بیٹھنے کی تو وہ کیا ہے ناں اس پر جتنا حق تمہارا ہے اتنا ہی میرا بھی ہے تو ایز آ باس میں یہاں جب چاہے آ کر بیٹھ سکتا ہوں۔۔۔۔"


الطاف نے حیرت سے اس جوان لڑکے کو دیکھا۔


"کیا مطلب۔۔۔؟"


فرزام کے ہونٹوں پر پھر سے مسکراہٹ آئی اور اس نے ایک فائل الطاف کے سامنے کی۔


"مطلب یہ۔۔۔"


الطاف نے فوراً اس فائل کو پکڑا اور سب صفحے جلدی جلدی سے پلٹ کر حیرت سے پھٹی آنکھوں سے اس فائل کو دیکھنے لگا۔


"تمہاری اس کمپنی کے ففٹی پرسینٹ شئیرز مناہل کے نام پر تھے جنہیں میری من اب میرے نام کر چکی ہے یعنی میں تمہارے اس بزنس کا ففٹی پرسینٹ پارٹنر بن چکا ہوں۔۔۔"


الطاف حیرت سے پھٹی آنکھوں سے ان کاغزات کو دیکھ رہا تھا جو فرزام کی بات کا ثبوت تھے۔


"ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔"


"بہت افسوس سے تمہارا یہ حسین خواب توڑ کر کہوں گا کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔"


فرزام نے کرسی کو دائیں بائیں گھماتے ہوئے اپنی ناخن کو دیکھ کر کہا۔


"تو میں نے یہ سوچا ہے کہ جلد از جلد اپنے حصے کے شئیرز سے علیحدہ بزنس سٹارٹ کر لوں یا انہیں سٹوکس میں لگا دیتا ہوں زیادہ فائدہ ہو جائے گا۔۔۔"


الطاف کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے سامنے موجود لڑکے کی جان لے لے۔


"ایسا سوچنا بھی مت۔۔۔۔۔"


فرزام قہقہہ لگا کر ہنسا اور اٹھ کر الطاف کے سامنے آ کر سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھنے لگا۔


"تم سوچنے تک ہی رہنا میں تو بہت کچھ کر گزرا ہوں۔۔۔"


الطاف نے آگے ہو کر اسکا گریبان پکڑنا چاہا۔


"نہ نہ نہ۔۔۔۔ایسا غلطی سے بھی مت کرنا۔۔۔۔۔"


فرزام کی بات پر الطاف بس اپنی مٹھیاں بھینچتا رہ گیا۔


"تمہیں تمہاری یہ حرکت بہت مہنگی پڑے گی فرزام خانزادہ۔۔۔۔"


الطاف کی دھمکی پر فرزام کے ہونٹ مسکرائے اور اس نے ایک سگریٹ سلگا کر ہونٹوں کے درمیان دبا لیا۔


"پہلے بھی تمہیں بتایا تھا سستی چیز کا شوق نہیں ہے مجھے خیر یہیں لاہور میں رہ رہا ہوں۔جو کر سکتے ہو کرلو میں بھی تو دیکھوں صرف گرجنا ہی سیکھا ہے یا برسنے کی بھی ہمت رکھتے ہو۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام وہاں سے چلا گیا اور اس کے جاتے ہی الطاف نے غصے سے اپنی میز پر ہاتھ مارا۔


"میری آدھی دولت پر قبضہ کرکے تم بھی جانتے ہو کہ نقصان پہنچانا تو دور میں تمہیں چھو بھی نہیں سکتا۔۔۔۔"


الطاف نے انتہائی زیادہ غصہ کے عالم میں اپنے دانت پیس کر کہا۔


"لیکن دیکھنا فرزام خانزادہ تمہیں ایسی مار ماروں گا جو تم نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔"


الطاف نے میز پر پڑا فون اٹھایا اور کان سے لگا لیا۔


"جی سر۔۔۔؟"


سامنے والے شخص نے فون اٹھاتے ہی پوچھا۔


"ہم کل لاہور جا رہے ہیں تیار رہنا اب چاہت خانزادہ سے ملاقات کا وقت ہو چکا ہے۔۔۔"


ایسا کہتے ہوئے اس کے چہرے پر بہت زیادہ وحشت تھی۔


"اوکے سر۔۔۔"


اس آدمی کے ایسا کہتے ہی الطاف نے فون بند کر دیا اور ایک شاطرانہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی۔


اب تمہیں پتہ چلے گا فرزام خانزادہ کہ تم نے کس سے بھڑنے کی غلطی کی ہے ۔۔۔۔

💞💞💞💞

بہرام آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی ٹائی باندھ رہا تھا جبکہ نظریں مسلسل آئینے میں سے نظر آتی چاہت پر تھیں جو یونیفارم پہنے اپنے لمبے بالوں کی چوٹی بنا رہی تھی۔پھر وہ اپنا کام مکمل کر کے بہرام کے پاس آنے لگی تو بہرام اس سے دھیان ہٹا کر پرفیوم خود پر سپرے کرنے لگا۔


"خان جی وہ۔۔۔"


چاہت نے سر جھکا کر ہچکچاتے ہوئے کہا تو بہرام اسکی جانب پلٹا اور اپنے والٹ میں سے پیسے نکال کر اس کے سامنے کیے۔


"پیسے نہیں چاہیں مجھے پہلے ہی بہت ہیں میرے پاس۔۔۔"


چاہت نے پیسوں کو ہاتھ لگائے بغیر کہا۔


"تو کیا چاہیے؟"


چاہت نے اپنی کالی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"م۔۔۔۔میں نے اپنی دوستوں کو بتایا تھا کہ میری شادی آپ سے ہوئی ہے لیکن وہ مانتی ہی نہیں۔۔۔تو۔۔۔۔تو کیا آج آپ مجھے ڈرائیور کے ساتھ بھیجنے کی بجائے خود کالج چھوڑ آئیں گے تا کہ وہ دیکھ لیں کہ آپ سچی میں میرے شوہر ہیں۔۔۔۔"


چاہت کی آنکھوں میں امید کی ایک کرن تھی۔


"چاہت مجھے دیر ۔۔۔۔"


"پلیز بس مجھے کالج کے باہر چھوڑ کر چلے جانا لیکن آپ چھوڑ آئیں۔۔۔۔"


بہرام نے گہرا سانس لیا اور ہاں میں سر ہلا کر اسے پیچھے آنے کا اشارہ کیا تو چاہت نے خوشی سے چہکتے ہوئے اپنا بیگ پکڑا اور اس کے پیچھے آ گئی۔


"کالج سے واپسی پر میں آپ کے پاس آ جاؤں گی پھر اماں سے ملنے چلیں گے اتنی زیادہ دیر ہو گئی ہے ان سے ملے بہت اداس ہوں میں ان کے بغیر۔۔۔۔"


چاہت نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا تو بہرام نے ہاں میں سر ہلایا اور اسکا یوں چاہت کی ہر بات ماننا چاہت کو کتنی خوشی دے رہا تھا اسکا اندازہ بہرام کو بھی نہیں تھا۔


"آپ بہت زیادہ اچھے ہیں خان جی اس دنیا کے سب سے اچھے شوہر ہیں۔۔۔"


بہرام اسے کوئی جواب دیئے بغیر ڈرائیور کرنے لگا اور چاہت سارا راستہ اس سے کوئی نہ کوئی بات کرتی رہی۔کالج پہنچ کر چاہت گاڑی سے نکلی تو بہرام بھی گاڑی سے نکل کر اس کے پاس آیا۔


"مجھے کالج چھوڑنے کا بہت شکریہ خان جی۔۔۔۔"


چاہت نے مسکرا کر کہا اور مڑ کر اپنی سہیلیوں کو دیکھا جو دروازے کے پاس کھڑی اسکا انتظار کر رہی تھیں۔یہ چاہت کی تمام سہیلیوں کی عادت تھی جب تک ان کی ہر دوست کالج نہیں آ جاتی تھی وہ دروازے سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرتی تھیں۔


بہرام نے جب چاہت کی نظروں کا زاویہ دیکھا تو اس نے اپنا ایک ہاتھ چاہت کے گال پر رکھا اور نرمی سے اپنے ہونٹ چاہت کے ماتھے پر رکھ کر اس سے دور ہو گیا۔ بہرام کی اس حرکت پر چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔


"اب انھیں اس بات میں کوئی شک نہیں رہے گا کہ تم میری بیوی ہو۔۔۔۔"اور نہ ہی تمہارے ساتھ پڑھنے والے لڑکوں کو۔


آخری بات بہرام نے اپنے دل میں کہی جبکہ اس کی بات پر چاہت گلابی چہرہ لیے کالج میں داخل ہوگئی اور بہرام اس کے نظروں سے اوجھل ہونے تک وہیں رہا پھر وہ بھی اپنے کام کی جانب چل دیا۔


"کیا بات ہے چاہت ایک تو اتنا ڈیشنگ ہزبینڈ ہے تمہارا اور کیسے تمہیں کس کر کے بھیجا۔۔۔۔ہائے یار میرا تو دل لٹ گیا تھا وہ منظر دیکھ کر۔۔۔۔"


چاہت اور اسکی سہیلیاں کلاس میں بیٹھی تھیں جب اسکی ایک دوست نے کہا تو چاہت پھر سے گلابی ہو گئی۔


"اب ہماری چاہت ہے ہی اتنی پیاری بہرام بھائی خود پر قابو کریں بھی تو کیسے۔۔۔۔"

ایک سہیلی کی بات پر ساری سہیلیاں ہنس دیں تو چاہت شرم سے چور ہوتی اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔تبھی دروازہ ناک ہونے کی آواز پر وہ سب سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں کہ شاید ان کی ٹیچر آئی ہے لیکن سامنے کالج کی آیا کو دیکھ کر سب پھر سے ریلیکس ہو گئیں۔

"چاہت بیٹا آپ کو پرنسپل میم بلا رہی ہیں۔۔۔۔

آیا کی بات پر چاہت نے گھبرا کر اپنی دوستوں کو دیکھا۔

"جاؤ میرے خیال میں جو منظر تمہارے شوہر نے صبح پورے کالج کو دکھایا ہے ناں اسی کے بارے میں پوچھنا ہوگا۔"

اپنی دوست کی بات پر چاہت نے تھوک نگلا اور اٹھ کر آیا کے ساتھ پرنسپل آفس کی جانب چل دی۔چاہت اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوئی تو اسکی نظر ایک آدمی پر پڑی جو پرنسپل کے سامنے بیٹھا تھا۔

"دیکھیں مسٹر بیگ میں ایسا کرکے بہت بڑا رسک لے رہی ہوں اگر بہرام سر کو پتہ لگ گیا تو ایک جھٹکے میں میرا کالج بند کروا دیں گے۔۔۔۔"

"ڈونٹ وری مس ایسا کچھ نہیں ہو گا۔۔۔"

اس آدمی نے کہا تو پرنسپل نے چاہت کی جانب دیکھا اور مسکرا دیں۔

"چاہت بیٹا یہ آپ کے بابا کے دوست ہیں اور آپ سے ملنے آئے ہیں۔"

چاہت نے حیرت سے اس آدمی کو دیکھا جسے وہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہی تھی۔

"لیکن میں انہیں نہیں جانتی میم۔۔ "

اس بات پر وہ آدمی اٹھ کر چاہت کے پاس آیا۔

"لیکن میں تمہیں جانتا ہوں چاہت بیٹا۔۔۔۔تمہیں بھی تمہارے شوہر بہرام کو بھی۔۔۔۔۔"

چاہت نے حیرت سے اس انجان آدمی کو دیکھا۔

"تو ٹھیک ہے آپ اپنا نام بتا دیں میں خان جی سے پوچھ کر آپ سے بات کروں گی۔۔۔۔"

الطاف نے اسکی بات پر اپنی مٹھیاں بھینچ لیں لیکن چہرے کی مسکراہٹ جوں کی توں رہی تھی۔

"اور اگر میں بہرام کے بارے میں تم سے بات کرنا چاہوں تو؟"

چاہت نے پریشانی سے پہلے پرنسپل اور پھر اس آدمی کو دیکھا۔

"خان۔۔۔خان جی کے بارے میں۔۔۔۔"

"ہاں بیٹا تمہارے خان جی اور تمہارے بابا کے بارے میں کچھ ایسا ہے جو مجھے لگتا ہے کہ تمہیں بتانا بہت ضروری ہے۔میرے ساتھ چلو میں تمہیں ہر بات بتاتا ہوں۔۔۔"

اتنا کہہ کر وہ آدمی وہاں سے چلا گیا تو چاہت بھی اضطراب سے اپنے ہاتھ ملتی اسکے پیچھے چلی گئی۔وہ جاننا چاہتی تھی ایسی کونسی بات تھی جو یہ شخص اسے اس کے بابا اور بہرام کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔


وہ آدمی کالج میں ہی کھڑی ایک بلیک گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا تو چاہت بھی اسکے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔


"میرا نام الطاف حیدر بیگ ہے اور میں تمہارے بابا عباس کا بہت پرانا دوست ہوں۔۔۔"


"آپ مجھے کیا بتانا چاہتے ہیں؟"


چاہت نے بے چینی سے پوچھا وہ بس جلد از جلد اس کی بات جان کر یہاں سے جانا چاہتی تھی۔


"کیا تم جانتی ہو کہ تمھارے بابا کی موت کیسے ہوئی تھی؟"


چاہت نے فورا ہاں میں سر ہلا دیا۔


"اماں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ مجھے لے کر باہر گئی تھیں جب واپس آئیں تو ہمارے گھر میں کچھ چور آئے تھے جنہوں نے میرے بابا کو مار دیا تھا۔۔۔"


الطاف اسکی بتائی کہانی پر مسکرا دیا۔۔


"تمہاری معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کتنی صفائی سے جھوٹ بولا گیا ہے تم سے۔۔۔"


چاہت نے حیرت سے اسے دیکھا نہ جانے کیوں اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔

"کک۔۔۔کیا مطلب۔۔۔؟"

"مطلب یہ کہ تمہارے بابا کو کسی چور نے نہیں بلکہ تمہارے ہی شوہر بہرام خانزادہ نے مارا تھا۔۔۔۔۔"

اس آدمی کی بات پر ساتوں آسمان ایک ساتھ ٹوٹ کر چاہت پر گرے پہلے تو چاہت کو لگا کہ اس کا دل بند ہو جائے گا لیکن پھر خود پر قابو کرتے چاہت نے اپنے دانت کچکچائے اور گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔

"آپ کی عمر کا لحاظ کر کے آپ کو کچھ نہیں کہہ رہی ورنہ ایسی گھٹیا بات کرنے والے کا منہ توڑ دیتی میں ۔۔۔۔۔"

الطاف نے اس پاگل لڑکی کو افسوس سے دیکھا۔

"تمہیں لگتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں؟"

"مجھے ایسا لگتا نہیں بلکہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں آپ کو کیا لگتا ہے کوئی بھی انجان آدمی آ کر مجھے کوئی بات کہے گا اور میں مان لوں گی۔۔۔؟"

چاہت کے غصے پر الطاف نے گہرا سانس لیا۔

"ٹھیک ہے بیٹا میں تو جھوٹ بول رہا ہوں لیکن تمہاری ماں تو ہمیشہ سچ بولتی ہے ناں اگر مجھ پر نہیں یقین تو جا کر اس سے پوچھ لینا اور اگر پھر بھی وہ یہی کہانی سنائے تو اسے کہنا کہ یہی بات تمہارے سر پر ہاتھ رکھ کر کہے پھر ساری سچائی اپنے آپ تمہارے سامنے آجائے گی۔۔۔۔"

چاہت ابھی بھی بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی جب کہ آنکھیں اب آنسوؤں سے لبریز ہو چکی تھیں۔الطاف نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا۔

"دیکھو بیٹا میری تم سے کوئی دشمنی نہیں ،بس عباس میرا بہت اچھا دوست تھا اس لئے میں نہیں چاہتا کہ اس کی بیٹی خود سے بولے گئے جھوٹ کی وجہ سے اسی کے قاتل کے ساتھ اپنی ساری زندگی گزار دے۔۔۔۔۔"

چاہت نے انکار میں سر ہلانا چاہا۔

"جانتا ہوں تمہیں میری بات پر یقین نہیں ہے لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ ماں باپ سے بڑھ کر کسی کا درجہ نہیں ہوتا اور اگر اولاد اپنے ماں باپ سے ہوئی زیادتی کا انتقام بھی نہ لے سکے تو ایسی اولاد سے روز قیامت ماں باپ بھی منہ موڑ لیں گے۔۔۔"

چاہت اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

"مجھے امید ہے کہ سچائی جاننے پر تم بیٹی ہونے کا حق ضرور ادا کرو گی۔۔۔۔"

چاہت نے آنسو پونچھ کر الطاف کو دیکھا۔

"ایسا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔۔میرے خان جی ایسا نہیں کر سکتے کبھی بھی نہیں کر سکتے۔۔۔۔وہ بھلا کیوں کریں گے ایسا"

الطاف کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی۔

"کیونکہ تمہارے بابا بہرام کے بابا کے ہاں ملازم تھے اور جب بہرام کے گھر آگ لگی تھی تو عباس اس کے ماں باپ کو بچانے میں ناکام رہا تھا۔ بس بڑے ہوتے ہی بہرام نے اس خطا کی سزا دی اسے کہ وہ اس کے باپ کا ایک وفادار ملازم تھا۔۔۔۔اب وہ بیچارہ ان کو بچانے میں اپنی زندگی تو داؤ پر نہیں لگا سکتا تھا ناں لیکن بہرام جیسا خود غرض انسان یہ بات کیسے سمجھتا۔۔۔۔"

الطاف نے چاہت کو دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسو ابھی بھی روانی سے بہہ رہے تھے۔

"اور یہ بات تمہاری ماں نے تم سے چھپائی کیونکہ بہرام اور فرزام نے اپنی دولت سے تم دونوں کو سہارا دے کر اس کے ہونٹ سی دیے۔۔۔۔"

الطاف نے بے چارگی سے چاہت کو دیکھا۔

"لیکن مجھے پوری امید ہے اب جب تم اس سے جواب مانگوں گی تو وہ مزید جھوٹ نہیں بول پائے گی۔۔۔ "

چاہت نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دل پر رکھے جو ایسے لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت بند ہو جائے گا۔

"مم۔۔۔میں اماں سے پوچھوں گی اور اگر یہ بات جھوٹ ہوئی ناں تو تمہیں میرے خان جی کے غصے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔۔۔"

اتنا کہہ کر چاہت اس کی گاڑی سے باہر نکل آئی اور کلاس روم میں آ کر اپنا بیگ پکڑ کر واپس گیٹ کی جانب آ گئی۔

گیٹ کیپر نے اسے کالج سے نکلنے سے روکنا چاہا لیکن چاہت اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتی باہر نکل آئی۔کالج کے باہر سے ایک ٹیکسی لے کر چاہت سیدھا سکینہ کے گھر جانے لگی۔اسے اسی وقت اپنی ماں سے سچ جان کر یہ ثابت کرنا تھا کہ الطاف جھوٹ بول رہا تھا۔

دروازہ کھٹکنے کی آواز پر سکینہ دروازے کے پاس گئیں لیکن دروازہ کھول کر انکی نظر روتی ہوئی چاہت پر پڑی تو گھبراہٹ سے انکا دل بند ہونے لگا۔


"کیا ہوا ہے چاہت تم ایسے یہاں۔۔۔"


سکینہ نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے پوچھا چاہت کی یہ حالت انہیں بہت زیادہ پریشان کر چکی تھی۔


"بولو تم کچھ بول کیوں نہیں رہی بہرام تو ٹھیک ہے ناں؟"


سکینہ نے اسے اندر لاتے ہوئے کہا جبکہ بہرام کے ذکر پر چاہت نے شکوہ کناں نگاہوں سے انہیں دیکھا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھ لیا۔


"میری قسم کھا کر کہیں اماں جو بھی میں آپ سے پوچھوں گی آپ مجھے سب سچ سچ بتائیں گی۔۔۔"


سکینہ فوراً اسے اندر لے کر آئیں اور دروازہ بند کر کے حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔


"بات کیا ہے چاہت؟"


سکینہ نے بے چینی سے پوچھا لیکن جواب میں چاہت نے انکا ہاتھ پھر سے اپنے سر پر رکھ دیا۔


"بولیں اماں میری قسم کھا کر کہیں گی کہ آپ مجھے ہر بات سچ سچ بتائیں گی۔۔۔۔؟"


چاہت کے سوال پر سکینہ بہت زیادہ بے چین ہو چکی تھیں ۔


"پوچھو میرا بچہ سچ بولنے کے لیے قسم اٹھانا کوئی شرط نہیں۔۔۔"


سکینہ نے اپنا ہاتھ اسکے سر سے ہٹاتے ہوئے کہا۔چاہت نے اپنے آنسو پونچھ کر انہیں بے چینی سے دیکھا۔


"اماں میرے بابا کو خان جی نے نہیں مارا ناں۔۔۔۔یہ جھوٹ ہے ناں اماں۔۔۔؟"


چاہت کے سوال پر سکینہ پتھر کی ہو چکی تھیں آج تک انہوں نے یہ سچ اس سے چھپایا تھا لیکن آخر سچ کب تک چھپ سکتا تھا۔


"بولیں ناں اماں میری قسم کھا کر کہہ دیں کہ یہ جھوٹ ہے۔۔۔"


چاہت اب سکینہ کا ہاتھ پکڑ کر زارو قطار رونے لگی تھی خوف سے اس کا دل بند ہو رہا تھا جبکہ پتھر بنی سکینہ نے اسے سچ بتانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اس کی وجہ سے چاہت اور بہرام کے رشتے میں اختلافات پیدا ہوں۔


"نہیں چاہت یہ سچ ہے۔۔۔"


چاہت کے آنسو اس کی آنکھوں میں ہی اٹک گئے۔وہ بے یقینی سے سکینہ کو دیکھنے لگی۔


"کک۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔"


چاہت نے ان سے دور ہوتے ہوئے پوچھا۔


"چاہت میری پوری بات سنو۔۔۔۔"


"کیوں چھپائی یہ بات مجھ سے اماں آج تک کیوں نہیں بتایا مجھے کہ جس کو میں اتنا عظیم مقام دیتی رہی وہ میرے باپ کا قاتل تھا کیوں نہیں بتایا مجھے۔۔ "


چاہت سکینہ کی بات کاٹ کر روتے ہوئے چلائی تو سکینہ نے اسکے قریب ہونا چاہا۔


"چاہت اطمینان سے بیٹھ کر میری بات تو سنو۔۔۔"


"کیا سنوں میں اماں اب کیا بچا ہے سننے کو اس سچ کے آگے اب مزید جاننے کو کچھ نہیں بچا اماں کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔"


سکینہ نے انکار میں سر ہلایا اور چاہت کو کندھوں سے پکڑا۔


"چاہت ابھی تم بہت غصے میں ہو پہلے میری بات سن لو تمہارے باپ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا۔۔۔"


"وہ بہرام خانزادہ کے باپ کا ملازم ہونے کی سزا تھی یہی ناں۔۔۔ "


چاہت اپنے آپ کو چھڑوا کر سکینہ کی بات کاٹتے ہوئے چلائی۔


"اور آپ کو کیوں لگتا ہے اماں کہ میں آپ پر یقین کروں گی آج میرا ہر چیز سے بھروسہ اٹھ گیا اماں اس دنیا سے ہی بھروسہ اٹھ گیا۔۔۔"


اپنی بیٹی کی یہ بکھری حالت دیکھ کر سکینہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔وہ جلد از جلد چاہت کے ذہن سے یہ غلط فہمی نکالنا چاہ رہی تھیں جو اسے اندر ہی اندر نگل رہی تھی لیکن چاہت انکی بات سنتی تو ناں۔۔۔


"مجھے آپ سے کوئی جواب نہیں چاہیے اماں۔۔۔"


اچانک ہی چاہت نے آنسو پونچھ کر کہا اور اپنا دوپٹہ ٹھیک سے سر پر لینے لگی۔


"جواب تو میں اس سے لوں گی جس کا یہ گناہ ہے اسے مجھے بتانا ہو گا کہ آخر کیا قصور تھا میرے بابا کا ۔۔۔۔ہاں اسے بتانا ہو گا۔۔۔۔"


چاہت اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی جبکہ سکینہ اسے پکارتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگیں لیکن چاہت انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتی ٹیکسی میں بیٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔


سکینہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں نہ جانے اپنی غلط فہمی میں چاہت بہرام کو کیا کچھ کہنے والی تھی۔بہرام کا خیال آنے پر سکینہ جلدی سے کمرے میں گئیں اور موبائل پکڑ بہرام کو فون کرنے لگیں۔


"اسلام و علیکم اماں جی۔۔۔"


بہرام نے فون اٹھاتے ہی عقیدت سے کہا لیکن سامنے سے اماں جی کے رونے کی آواز نے بہرام کو بے چین کر دیا۔


"کیا ہوا اماں جی آپ ٹھیک تو ہیں؟"


بہرام کے بے چینی سے پوچھنے پر سکینہ نے خود پر قابو پایا۔


"بہرام بیٹا وہ چاہت۔۔۔اسے نہ جانے کہاں سے معلوم ہو گیا ہے کہ اسکے ابا کی جان تم نے لی ہے۔۔۔۔"


بہرام کو لگا کہ اسکا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔جس چیز سے وہ ڈرتا تھا آج وہی ہوا تھا۔


"میں نے اسے سمجھانا چاہا لیکن وہ سنتی ہی نہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر سکینہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں اور بہرام تو بس پتھر کا ہو چکا تھا۔چاہت کا ایک عکس اسکی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا جو اسے بے انتہا نفرت سے دیکھ رہا تھا۔


"وہ بہت زیادہ غصے سے یہاں سے گئی ہے بیٹا تم اسے پیار سے سب سچ بتا دینا۔۔۔وہ نادان اور جلد باز ہے پیار سے سمجھاؤ گے تو سمجھ جائے گی۔۔۔۔"


سکینہ نے بہرام کو بتایا لیکن وہ انہیں کوئی بھی جواب دیے بغیر فون بند کر چکا تھا۔بہرام کرسی پر بیٹھا اور اپنے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا لیا۔آج اس کا سب سے ڈراؤنا خواب سچ ہو چکا تھا۔وہ کش مکش میں بیٹھا صرف یہ سوچ رہا تھا کہ اس کے پاس اب دو ہی راستے تھے کہ وہ چاہت سے سچ چھپا کر خود کو اس کی نظروں میں گرا دے یا پھر اسے سچ بتا کر چاہت کو ہی اسکی نظروں میں گرا دے کیونکہ اپنے باپ کا سچ جاننے کے بعد وہ بہرام کے سامنے سر اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہتی اور یہی تو وہ نہیں چاہتا تھا۔


بہرام نے کرسی کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا لی اور آنکھیں موند گیا۔بہت سوچنے کے باوجود وہ اپنا راستہ تلاش نہیں کر پا رہا تھا۔آج وہ خود کو اتنا ہی بے بس محسوس کر رہا تھا جتنا اس نے اپنے ماں باپ کی موت پر خود کو کیا تھا۔

💞💞💞💞

فرزام کل رات دیر سے واپس آیا تھا اور آتے ہی پہلے سے سوئی مناہل کو اپنی پناہوں میں لے کر سو گیا۔آنکھ کھلتے ہی اس نے ٹائم دیکھا تو دن کے بارہ بج رہے تھے۔یہ دیکھ کر فرزام جلدی سے اٹھ کر فریش ہوا اور باہر آیا جہاں مناہل ٹیبل پر کھانا لگا رہی تھی۔


"تم نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں من؟"


فرزام کی آواز پر مناہل نے سہم کر اسے دیکھا۔اپنے جس خول سے وہ باہر آئی تھی اس دن فرزام کے کیے اس مطالبے پر پھر سے اس خول میں واپس جا چکی تھی۔فرزام جانتا تھا کہ وہ ہر لمحہ اسی خوف میں گزارتی تھی کہ اگر فرزام نے اسے چھوڑ دیا تو وہ کیا کرے گی۔


"وہ آپ رات کو دیر سے واپس آئے تھے اس لیے مجھے لگا کہ آپ تھکے ہوں گے۔۔۔"


مناہل نے سر جھکا کر اعتراف کیا۔فرزام مسکرا کر اسکے پاس آیا اور اپنے ہاتھ اسکی کمر کے گرد باندھ کر ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


"کتنا خیال رکھتی ہو تم میرا من بس میرے جزبات کا ہی خیال نہیں تمہیں اسی لیے ابھی بھی کتراتی ہو مجھ سے ۔۔۔۔"


اپنے کان کے قریب فرزام کی سرگوشی پر مناہل کانپ کر رہ گئی۔


"ککک۔۔۔کھانا کھا لیں فرزام ٹھنڈا ہو جائے۔۔۔۔"


فرزام اب اپنے ہونٹ اسکی گردن اور کندھے کے جوڑ پر رکھ گیا تو وہ دہکتا لمس محسوس کر کے مناہل کی بات کے ساتھ ساتھ اسکا سانس بھی سینے میں اٹک گیا۔


"تمہیں ہی نہ کھا جاؤں من۔۔۔۔؟"


فرزام نے شوخی سے کہتے ہوئے اسکے کان کی لو کو دانتوں کے درمیان دبایا تو مناہل کا روم روم کانپ اٹھا لیکن وہ کوئی بھی مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔


"وہ پل میری زندگی کا سب سے حسین پل ہو گا من جب تم اپنا روم روم مجھے سونپ کر میری ہو جاؤ گی۔۔۔۔تمہارے اس وجود پر صرف میری مہر ہو گی صرف فرزام خانزادہ کی۔۔۔۔"


فرزام نے مدہوشی کے عالم میں اسکی نازک گردن کو دانتوں کے درمیان لے کر کاٹا تو ایک سسکی مناہل کے ہونٹوں سے نکلی۔فرزام نے فوراً اس سے دور ہو کر اسکی آنکھوں میں موجود آنسوؤں کو دیکھا۔


"من۔۔۔میرا جنون۔۔۔"


فرزام نے مناہل کا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیا لیکن مناہل جھٹکے سے اس سے دور ہوئی۔


"کیا چاہتے ہیں آپ۔۔۔۔؟ کیوں ہر پل میرا جینا مشکل کرتے ہیں۔۔۔۔کیا فرق ہے آپ میں اور اس میں آپ بھی تو بس اسکی طرح مجھے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔"


مناہل کے رو کر چلانے پر فرزام کا پارہ ہائی ہو گیا۔اس نے مناہل کو غصے سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ کر اسے باہوں میں اٹھایا اور اپنے کمرے کی جانب چل دیا جبکہ اسکی اس حرکت پر مناہل حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔


"ففف۔۔۔فرزام۔۔۔ "


کمرے میں آ کر فرزام نے مناہل کو بیڈ پر پھینکا اور اس سے دور ہو کر اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔یہ دیکھ کر مناہل مزید ڈرتے ہوئے بیڈ کی ٹیک سے جا لگی۔


"یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔؟"


فرزام نے اسے کوئی بھی جواب دیے بغیر شرٹ دور اچھالی اور اسے پیر سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا۔


ایک چیخ مناہل کے ہونٹوں سے نکلی اور وہ بری طرح سے مزاحمت کرنے لگی لیکن فرزام زبردستی اسکے ہاتھ پکڑ کر بیڈ سے لگاتا اس پر مکمل طور پر قابض ہو گیا۔


اسکے ہونٹ مناہل کی گردن اور کندھوں پر گردش کرنے لگے اور مناہل روتے ہوئے اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی۔


"نن۔۔۔نہیں۔۔۔پلیز مت کرو ایسا۔۔۔"


فرزام اسکے الفاظ جنون سے اپنے ہونٹوں پر چن گیا۔اسکے عمل میں اس قدر شدت تھی کہ کچھ ہی دیر میں وہ مناہل کے ہونٹوں کو بری طرح سے زخمی کر چکا تھا۔


اس کے ہونٹوں سے ہٹ کر اب وہ اسکی گردن تک آیا اور وہاں بھی اپنے جنون کی داستان رقم کرنے لگا ۔مناہل ہر طرح کی مزاحمت ترک کرتی مردہ حالت میں وہاں پڑی تھی۔فرزام نے اسکا چہرہ اپنے ایک ہاتھ میں پکڑ کر لال آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"کون ہوں میں۔۔۔؟"


فرزام کے اچانک پوچھنے پر مناہل کو ہوش آیا اور وہ سہم کر اسے دیکھنے لگی۔


"ففف۔۔۔۔فرزام۔۔۔"


"کیا رشتہ ہے میرا تم سے۔۔۔؟"


فرزام نے فوراً ہی سختی سے پوچھا تو مناہل کی پلکیں بھیگ گئیں۔


"ش۔۔۔۔شوہر ہیں آپ میرے۔۔۔ "


فرزام اپنا انگوٹھا اسکے نچلے ہونٹ پر رکھ کر اسے سہلانے لگا۔


"کیا فرق ہے اس میں اور مجھ میں من۔۔۔۔؟"


فرزام کے سوال پر مناہل خاموش رہی تو فرزام کی آنکھوں سختی اتری اور وہ پھر سے اسکے ہونٹوں پر جھکنے لگا۔


"آپ۔۔۔۔حق رکھتے ہیں مجھ پر۔۔۔۔وہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔"


مناہل نے نم آنکھوں سے کہا تو فرزام کے ہونٹ اس سے ایک انچ کی دوری پر رک گئے۔


"ٹھیک کہا میرا جنون میرا حق تمہارے اس نازک وجود کے ایک ایک بال پر ہے۔۔۔ "


فرزام نے بہت شدت سے کہتے ہوئے گلے پر اپنے دانت رکھے تو مناہل پھر سے سانس لینا بھول گئی۔


"مگر جو بات مجھے اس سے مختلف بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اسکا مقصد تمہیں چھو کر تمہیں تکلیف پہنچانا اور برباد کرنا تھا لیکن میرا مقصد تمہارے اس وجود کو اپنی محبت سے صندل کرنا ہے تا کہ تم یہ بات جان جاؤ کہ میں اتنا ہی تمہارا ہوں جتنی تم میری۔۔۔۔"


فرزام اس سے دور ہوا اور اسے بیڈ سے اٹھا کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔


"اب یہ بات کبھی مت بھولنا من کہ تم سے زیادہ قیمتی میرے لیے کچھ نہیں اور میں تمہارا رکھوالا ہوں لٹیرا نہیں۔۔۔"


فرزام نے اسے اپنے سینے سے لگا کر کہا تو مناہل کے آنسو اس کے برہنہ سینے پر گرے۔مگر اب وہ یہ بات ٹھیک سے سمجھ چکی تھی کہ فرزام کہ لیے وہ اہمیت رکھتی تھی۔وہ اسے استعمال کر کے پھینکنا نہیں چاہتا بلکہ اپنی محبت دیکھا کر اسے اپنا بنانا چاہتا ہے۔


جو بات فرزام نہیں سمجھتا تھا وہ یہ تھی کہ مناہل اس کا جنون سہنے کے لیے بہت زیادہ کمزور اور بزدل تھی۔

💞💞💞💞

چاہت جب سے سکینہ کے پاس سے آئی تھی کمرے میں بیٹھی روتی جا رہی تھی۔اس شخص کی کہی باتیں چاہت کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں اور جو دھوکا اسے ملا تھا وہ چاہت کو مکمل طور پر توڑ کر رکھ گیا تھا۔


"کیوں کیا آپ نے ایسا خان جی کیوں چھپایا اپنا گناہ مجھ سے۔۔۔۔"


چاہت گھٹنوں میں سر دے کر سسکتے ہوئے کہنے لگی تبھی اسے احساس ہوا کہ کوئی اس کے پاس ہے تو فوراً سر اٹھا دیا۔اپنے سامنے بہرام کو بیٹھا دیکھ کر چاہت فوراً اس سے دور ہوئی اور چاہت کی آنکھوں میں وہ نفرت بہرام کو آدھا ختم کر چکی تھی۔


"چاہت میری بات۔۔۔"


"کیا سنوں میں۔۔۔یہ بتانے آئے ہیں کہ آپ نے میرے بابا کو کیسے مارا۔۔۔۔؟کیسے مجھے چھوٹی سی عمر میں یتیم کیا آپ نے۔۔۔۔؟"


بہرام کرب سے اپنی آنکھیں میچ گیا۔


"یا ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول کر اپنا گناہ پھر سے چھپانے آئے ہیں۔۔۔"


اچانک ہی چاہت بہرام کے قریب آئی اور اس کا گریبان ہاتھوں میں پکڑ لیا۔


"بولیں خان جی کیا کرتے ہیں آپ اپنے گناہ کا اعتراف۔۔۔؟"


چاہت کے سوال پر بہرام نے اپنی آنکھیں کھولیں جو اس وقت سرخ ہو رہی تھیں اور پھر گھائل نظروں سے چاہت کو دیکھا۔


"ہاں۔۔۔کرتا ہوں میں اعتراف چاہت میں نے ہی مارا ہے تمہارے بابا کو۔۔۔"


اسکے منہ سے یہ بات سن کر جو تھوڑا سا بھی شبہ چاہت کے دل میں تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔بہرام کا گریبان چاہت کے ہاتھوں سے چھوٹا اور وہ مردہ آنکھوں سے بہرام کو دیکھنے لگی۔


"کیوں۔۔۔۔؟"


اسکے سوال پر بہرام نے ایک گہرا سانس لیا۔


"وہ میں تمہیں نہیں بتا سکتا چاہت بس اتنا کہوں گا کہ مجھ پر بھروسہ کرو کیونکہ میں نے اتنا بڑا قدم یونہی نہیں اٹھایا تھا۔۔۔۔"


بہرام نے بات کو بدلنا چاہا۔


"بھروسہ۔۔۔۔!!!میرے اعتماد کا مکمل طور پر قتل کر کے آپ چاہتے ہیں پر بھروسہ کر لوں۔۔۔۔!!!کیسے خان جی کیسے۔۔۔۔"


بہرام نے اپنا ماتھا سہلایا۔


"ویسے ہی جیسے آج تک کرتی آئی ہو چاہت مجھے جانتی ہو تم تو کیا تم مجھ پر یقین نہیں کر سکتی کہ میں نے کسی قسم کی زیادتی نہیں کی تمہارے بابا کے ساتھ وہی کیا جو ٹھیک تھا۔۔۔ "


بہرام نے سنجیدگی سے کہا۔چاہت کو اس شخص کی کہی بات یاد آئی کہ بہرام چاہت کے بابا کو اپنے ماں باپ کی موت کا زمہ دار سمجھتا تھا کیونکہ وہ اس کے ماں باپ کو بچا نہیں سکا۔


"جی جانتی ہوں کہ آپ کو کیا ٹھیک لگا اور اب میں بھی وہی کروں گی جو مجھے ٹھیک لگے گا۔۔۔"


چاہت کی بات پر بہرام کے ماتھے پر بل آئے۔


"کیا کرو گی تم؟"


چاہت کے ہونٹوں پر ایک گھائل مسکراہٹ آئی۔


"آپ جیسے شخص کے ساتھ ایک پل کے لیے بھی نہیں رہوں گی اور اماں کے پاس جا کر آپ سے خلع۔۔۔"


"چاہت۔۔۔!!"


بہرام کا ہاتھ ہوا میں اٹھا اور اتنی زور سے چاہت کے گال پر پڑا کے وہ بستر پر گر کر حیرت سے بہرام کو دیکھنے لگی۔


"تم یہاں سے کہیں نہیں جا رہی اور مجھ سے تعلق توڑنا تو بھول ہی جاؤ تم۔۔۔میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ مجھ سے تعلق مت جوڑو اب تم نے اپنی ضد میں یہ تعلق جوڑا ہے تو اسے اپنی آخری سانس تک نبھانا ہے تمہیں۔۔۔"


بہرام نے حتمی فیصلہ سنایا اور وہاں سے چلا گیا۔ اسکے جانے کے بعد چاہت وہیں بستر پر پڑی پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی تھی۔الطاف کی باتیں اسکے ذہن میں زہر گھول رہی تھیں۔اسے اپنے بیٹی ہونے کا حق ادا کرنا تھا تا کہ روز قیامت اپنے بابا کو منہ دیکھا سکے۔


اسے اس وقت بہرام سے سخت نفرت ہو رہی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ بہرام اسے خود سے نفرت کروا گیا تھا تا کہ وہ اپنے باپ کے کیے گناہ کی وجہ سے اپنے آپ سے نفرت کرنے سے بچ جائے۔

💞💞💞💞

بہرام مردہ آنکھوں سے اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جس پر لگے کٹ کی وجہ سے مسلسل خوں بہہ رہا تھا۔یہ سزا اس نے چاہت کو تکلیف دینے کے لیے اپنے ہاتھ کو دی تھی۔


چاہت کی وہ نفرت اور اسکے آنسو بہرام کو مکمل طور پر توڑ گئے تھے لیکن وہ بھی کیا کرتا ؟اسے سب کچھ سچ سچ بتا کر اپنے آپ سے ہی نفرت کرنے پر مجبور کر دیتا؟اگر اپنے باپ کا کیا گناہ جان کر وہ خود کو نقصان پہنچا دیتی تو بہرام کیا کرتا۔


بہرام جانتا تھا کہ وہ بہت نادان ہے لیکن صاف دل کی مالک ہے۔وقت اور محبت سے بہرام اسے خود پر بھروسا کرنے پر قائل کر سکتا تھا۔


اسی سوچ کے ساتھ بہرام نے ایک رومال ہاتھ پر لپیٹا اور اٹھ کر کمرے میں آیا تو اسے چاہت بیڈ پر لیٹی نظر آئی۔وہ شائید کچھ دیر پہلے ہی سوئی تھی کیونکہ آنسو ابھی بھی اسکی پلکوں پر تھے۔بہرام کی نظر اسکے گال پر پڑی جہاں اسکے بھاری بھرکم ہاتھ کا نشان تھا۔


بہرام نے انتہائی نرمی سے اس نشان کو چھوا اور نرمی سے اپنے ہونٹ اسکے گال پر رکھے تو چاہت کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ شکوہ کناں نگاہوں سے بہرام کو دیکھنے لگی۔بہرام محبت سے اس کا گال سہلانے لگا۔


"مجھے معاف کر دو چاہت میری ہر خطا کے لیے معاف کر دو۔۔۔"


چاہت کی آنکھوں سے پھر سے آنسو بہہ نکلے۔


"مجھ پر بھروسہ کرو چاہت اس وقت جو بھی ہوا وہ ایک بیٹا ہونے کے ناطے میرا فرض تھا۔اس سے زیادہ میں کچھ نہیں تمہیں بتا سکتا پلیز تم مجھ پر بھروسہ کرو ۔۔۔۔"


چاہت نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ کر اپنے چہرے سے ہٹایا۔


"کیسے بھروسہ کروں خان جی۔۔۔۔؟"


چاہت کی آنکھوں میں موجود آنسو بہرام نے اپنے پوروں پر چنے اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل کے مقام پر رکھ دیا۔


"اپنے دل کی مانو چاہت جس نے ہمیشہ مجھ سے محبت کی ہے اس دل سے پوچھو کہ کیا وہ مجھ پر بھروسہ نہیں کرتا۔۔۔؟"


چاہت نے اپنا ہاتھ اسکی پکڑ سے چھڑوا لیا۔


"یہ دل اپنے بابا کو بھی بہت چاہتا تھا خان جی۔۔۔ہر عید پر انہیں یاد کیا ہر لمحہ جب دوسرے بچوں کو انکے باپ کے ساتھ دیکھا تو اپنے بابا کو یاد کیا جنہیں مجھ سے چھیننے والے آپ تھے۔۔۔پھر بھی آپ پر بھروسہ کروں۔۔۔۔۔؟"


چاہت کے سوال پر بہرام گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر طویل خاموشی کے بعد بولا۔


"پھر بھی مجھ پر بھروسہ کرو۔۔۔"


چاہت کتنی ہی دیر حیرت سے اسے دیکھتی رہی پھر اس نے ہاں میں سر ہلایا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔


"ٹھیک ہے کیا آپ پر بھروسہ۔۔۔"


اسکی بات پر بہرام کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور اس نے چاہت کو کھینچ کر خود میں بھینچ لیا۔


"بہت شکریہ چاہت میں وعدہ کرتا ہوں۔۔۔"


"میرا سر درد کر رہا ہے اپنے لیے چائے بنانے جا رہی ہوں آپ پئیں گے؟"


چاہت نے بہرام سے دور ہو کر پوچھا اور اسکی یہ بے رخی بہرام کے دل کو کاٹ گئی۔


"میں خالہ سے کہہ کر منگوا لیتا ہوں۔۔۔"


چاہت نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں میں خود بنانا چاہتی ہوں آپ کے لیے بھی بنا لوں؟"


بہرام نے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے اور اثبات میں سر ہلا دیا تو چاہت وہاں سے اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔بہرام وہیں بیڈ پر بیٹھا اس کے بارے میں سوچتا رہا۔وہ جانتا تھا کہ وقت کے ساتھ ہی سہی لیکن چاہت اپنی محبت کی وجہ سے اس پر بھروسہ کرنے لگے گی۔


چاہت چائے کے دو کپ لے کر کچن میں داخل ہوئی اور ایک کپ پکڑ کر بہرام کے سامنے کیا۔


"تم نہیں پیو گی؟"


بہرام کے پوچھنے پر چاہت نے کانپتے ہاتھوں سے دوسرا کپ پکڑ لیا اور مردہ آنکھوں سے بہرام کو دیکھنے لگی۔


"مجھ پر بھروسہ کرنے کے لیے شکریہ چاہت۔۔۔"


بہرام نے اتنا کہہ کر وہ کپ اپنے ہونٹوں سے لگانا چاہا۔


"خان جی۔۔۔"


چاہت نے سہم کر بہرام کو پکارا اور اسکے کانپتے ہاتھوں میں پکڑا کپ چھوٹ کر زمین پر گر کر ٹوٹ گیا۔بہرام حیرت سے اسکے چہرے پر خوف اور آنسوؤں کو دیکھنے لگا۔

اس نے چاہت کے زرد ہوتے رنگ سے نظریں ہٹا کر ہاتھ میں پکڑی چائے کو دیکھا اور پل بھر میں بات کو سمجھ گیا۔پھر چاہت کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی اور ایک ڈمپل بہرام کے دائیں گال پر نمائیاں ہوا۔

"تمہاری ہر خواہش سر آنکھوں پر ۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر بہرام نے وہ کپ اپنے ہونٹوں سے لگایا اور ایک ہی گھونٹ میں ساری چائے کو خود میں انڈیل گیا۔چاہت ابھی بھی وہیں کھڑی مردہ آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

بہرام اسکے قریب آیا اور اسے اپنے سینے سے لگا کر اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپا لیا۔

"تمہیں کیا لگتا تھا چاہت کہ محبت صرف تمہیں تھی؟"

چاہت کی مردہ آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔

"اپنی زندگی کا ہر لمحہ تمہیں ٹوٹ کر چاہا ہے چاہت اتنا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی شائید تم سے بھی بے پناہ زیادہ۔۔۔"

بہرام نے اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رکھے پھر اس سے دور ہو کر اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔

"یہ زندگی کیا ہے چاہت میرے پاس ہزار زندگیاں ہوتیں تو وہ بھی تم پر قربان کر دیتا۔"

چاہت نے سہم کر بہرام کو دیکھا جس کی ناک سے خون نکلنے لگا تھا۔بہرام نے وہ خون انگوٹھے سے پونچھا اور ہلکا سا مسکرا دیا۔

"آخری بار اس ڈمپل کو دیکھ کر اپنی سب سے بڑی خواہش پوری کر لو۔۔۔۔۔"

بہرام کی بات پر چاہت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور بہرام چکراتے سر کی وجہ سے لڑکھڑا کر زمین پر گرا تو چاہت نے چیخ کر اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے اپنا ہاتھ اسکے سینے پر رکھا۔بہرام نے کانپتے ہاتھ میں اسکا چہرہ تھام کر اسکے آنسو پونچھنے چاہے ۔۔۔۔

"ششش۔۔۔۔۔میری جان رو مت ۔۔۔۔"

اس بات پر چاہت مزید روانی سے رونے لگی۔

"تت۔۔۔۔تم نے جو کیا ٹھیک کیا تم نے بیٹی۔۔۔۔ہونے کا حق ادا کیا۔۔۔۔بس۔۔۔۔بس میری طرح اپنی پر سانس کے ساتھ پچھتانا مت چاہت۔۔۔۔"

چاہت کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا وہ بس اسکا سر اپنی گود میں رکھی روتی جا رہی تھی۔

"مجھے کوئی ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھول جانا میری جان۔۔۔۔بھول جانا۔۔۔۔"

اس سے آگے بہرام سے کچھ نہیں کہا گیا۔وہ بری طرح سے کھانا جس کی وجہ سے بہت سا خون اسکے منہ سے نکلا اور اسکا وجود ساکت ہو گیا۔یہ دیکھ کر ایک چیخ چاہت کے ہونٹوں سے نکلی۔وہ اپنا بیٹی ہونے کا فرض پورا کر چکی تھی اس نے اپنے باپ کا بدلا لے لیا تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ خود کو مکمل طور پر برباد کر چکی تھی۔

چاہت کی چیخ سنتے ہی خالہ بھاگ کر بہرام کے کمرے میں آئی تھیں۔وہاں پہنچ کر جب انہوں نے بہرام کے بے جان وجود کو زمین پر پڑے دیکھا تو جلدی سے ملازموں کو بلا لائیں۔


وہ مردہ حالت میں بہرام کے پاس بیٹھی چاہت سے بہرام کو ہاسپٹل لے گئے اور خالہ نے فوراً فرزام کو فون کیا جو پہلی فلائٹ سے اسلام آباد واپس آیا تھا اور سیدھا ہاسپٹل گیا۔


ہاسپٹل پہنچ کر فرزام بے چینی سے بھاگتے ہوئے بہرام کا کمرہ تلاش کرنے لگا جبکہ اسے یوں پریشان دیکھ کر مناہل بھی مسلسل رو رہی تھی۔


فرزام کو پتہ چلا کہ بہرام ایمرجنسی میں ہے تو جلدی سے وہاں آ گیا۔مناہل بھی اسکے پیچھے آئی اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسہ دینا چاہا۔کچھ دیر کے بعد ہی ڈاکٹر کمرے سے باہر آیا تو فرزام بے چینی سے اسکی جانب بڑا۔


"کیسا ہے میرا بھائی؟"


ڈاکٹر نے پریشانی سے فرزام کو دیکھا۔


"انہیں ذہر دیا گیا ہے مسٹر خانزادہ جو ان کی باڈی میں بری طرح سے پھیل گیا ہے۔۔۔ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں آپ دعا کریں۔۔۔"


ڈاکٹر اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور فرزام سکتے کے عالم میں بینچ پر بیٹھتا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔


"فرزام۔۔۔"


مناہل نے روتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


"میرا بھائی میرا سب کچھ ہے من اسے نہیں کھو سکتا۔۔۔۔نہیں کھو سکتا۔۔۔۔"


فرزام نے روتے ہوئے کہا اور اسے یوں بکھرا دیکھ مناہل کی آنکھوں سے کتنے ہی آنسو نکل گئے۔


"مسٹر خانزادہ ۔۔۔۔"


ایک آدمی کی آواز پر فرزام نے سر اٹھا کر ان پولیس والوں کو دیکھا۔


"آپکے بھائی کو زہر ضرور کسی ملازم یا قریبی نے دیا ہو گا اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم انویسٹیگیشن سٹارٹ کریں۔۔۔"


پولیس والوں کی بات پر فرزام کی لال آنکھوں میں غصہ اترا۔جس نے بھی بہرام کے ساتھ یہ سب کیا تھا فرزام اسے زندہ نہیں چھوڑنے والا تھا۔


"ابھی نہیں فلحال میں خود دیکھ لوں گا اگر آپ کی ضرورت ہوئی تو بتاؤں گا۔۔۔"


انسپکٹر نے ہاں میں سر ہلایا۔وہ بھی جانتا تھا کہ سامنے بیٹھا شخص کون ہے اور انہیں سب فرزام کی مرضی سے ہی کرنا تھا۔


فرزام نے مناہل کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ ہاسپٹل کے باہر لے آیا۔گاڑی میں بیٹھ کر وہ دونوں سیدھا خانزادہ مینشن گئے اور وہاں پہنچتے ہی فرزام نے سب ملازمین کو ہال میں جمع ہونے کا حکم دیا۔


اسکے حکم کے مطابق کچھ ہی دیر میں سب ملازمین ہال میں سر جھکائے کھڑے تھے۔


"آج کسی غدار نے بہرام کی جان لینے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔شرافت سے مجھے بتا دو کہ وہ کون ہے کیونکہ اگر میں نے اسے ڈھونڈا تو اسکا انجام بہت زیادہ بدتر ہو گا ۔۔۔۔۔"


فرزام کی بات پر سب ملازمین سہم کر ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔


"قسم لے لیں صاحب ہم میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ہمیں تو بہرام صاحب چاہت بی بی کے ساتھ اسی حال میں اپنے کمرے میں ملے تھے ہم نہیں جانتے یہ سب کیسے ہوا۔۔۔"


ایک ملازم کے کہنے پر فرزام نے سب کو گہری نگاہوں سے دیکھا۔


" تم سب بے گناہ ہونے کا اقرار کرتے ہو؟"


فرزام کے پوچھنے پر سب نے اثبات میں سر ہلایا۔


"ٹھیک ہے اگر بعد میں تم میں سے کسی نے یہ سب کیا ہوا ناں تو یہ دنیا کی اسکے لیے جہنم سے بھی بدتر بنا دوں گا۔۔۔۔"


فرزام کی بات پر سب ملازمین کی روح خوف سے کانپ گئی جبکہ چاہت کا خیال آنے پر فرزام سیدھا اسکے کمرے کی جانب چل دیا۔نہ جانے بہرام کی اس حالت پر چاہت کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔


فرزام چاہت کے کمرے میں پہنچا تو اسے چاہت دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھی نظر آئی۔سکینہ اسکے پاس بیٹھی مسلسل اس سے کچھ پوچھ رہی تھیں جبکہ چاہت تو مردہ حالت میں وہاں بیٹھی تھی جیسے کہ اس کی جگہ اسکا کوئی بت ہو۔


مناہل چاہت کی یہ حالت دیکھ کر مزید روانی سے رونے لگی۔کتنا ہی چاہتی تھی وہ بہرام کو۔مناہل تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اگر چاہت کی جگہ وہ اور بہرام کی جگہ فرزام ہوتا تو اسکی کیا حالت ہوتی۔فرزام چاہت کے پاس آیا اور اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں پر رکھے۔


"چاہت میری گڑیا مجھے بتاؤ کیسے ہوا یہ سب۔۔۔؟"


فرزام نے اس سے بہت زیادہ محبت سے پوچھا لیکن چاہت بس بے جان حالت میں وہاں بیٹھی تھی۔انکھوں سے بہنے والے آنسو ہی بس اسے زندہ ثابت کر رہے تھے۔


"چاہت پلیز کچھ تو بولو۔۔۔۔"


اسکی حالت پر فرزام کی پلکیں پھر سے بھیگ گئیں اس نے بے بسی سے پاس بیٹھی سکینہ کو دیکھا۔


"اماں جی۔۔۔؟"


"میں بھی بہت دیر سے اس سے یہی پوچھ رہی ہوں فرزام بیٹا لیکن یہ کوئی جواب نہیں دے رہی۔۔۔۔"


فرزام نے افسردگی سے اپنا سر جھکا لیا پھر آنسو پونچھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔


"میں جانتا ہوں یہ کسی ملازم کا ہی کام ہے۔جس نے بھی یہ کیا ہے ناں میں جلد از جلد اسے ڈھونڈ لوں گا پھر اسے ایسی سزا دوں گا کہ سب کی روح کانپ جائے گی۔۔۔ "


فرزام وحشت سے کہتا وہاں سے جانے لگا ابھی وہ دروازے کے پاس ہی پہنچا تھا جب اسکے کانوں میں چاہت کی آواز پڑی۔


"خان جی کو زہر میں نے دیا ہے۔۔۔۔۔"


الفاظ تھے یا انگارے جو فرزام اور سکینہ پر گرے تھے۔فرزام نے مڑ کر حیرت سے چاہت کو دیکھا جبکہ اس بات پر مناہل بھی بے یقینی سے چاہت کو دیکھ رہی تھی۔


"یہ کیا کہہ رہی ہو چاہت۔۔۔؟"


"وہی جو سچ ہے۔۔۔۔"


فرزام لمبے لمبے ڈنگ بھرتا چاہت کے پاس آیا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔سکینہ بھی کھڑے ہو کر بے یقینی سے اپنی بیٹی کو دیکھنے لگیں۔وہ مان ہی نہیں سکتی تھیں کہ ان کی چاہت اس حد تک گر سکتی ہے۔


"کیوں جھوٹ بول رہی ہو گڑیا مجھے بتاؤ سچ کیا ہے۔۔۔۔؟"


فرزام نے بہت پیار سے پوچھا تو چاہت نے مردہ آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"یہی سچ ہے فرزام بھائی میں نے خان جی کو زہر دیا ہے۔۔۔ "


"کیوں۔۔۔۔؟"


فرزام غصے سے چلایا وہ ابھی بھی نہیں مان سکتا تھا کہ وہ معصوم سی گڑیا جسے وہ اپنی بہن مانتا تھا وہ ایسا کچھ کر سکتی ہے۔


"کیونکہ انہوں نے میرے بابا کو مارا تھا اس لیے میں نے انہیں مار کر اپنے بابا کا بدلہ لے لیا۔۔۔۔"


چاہت کی بات پر پہلے تو فرزام کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں پھر ان آنکھوں میں بے انتہا غصہ اترا اور اس نے چاہت کی نازک گردن کو اپنے ہاتھ میں دبوچ لیا۔


"فرزام۔۔۔۔"


مناہل سہم کر فرزام کے پاس آئی اور اسکے مظبوط بازو کو کھینچ کر چاہت کی گردن چھڑوانے لگی لیکن فرزام کی طاقت کا مقابلہ وہ نازک جان بھلا کیسے کر سکتی تھی۔


چاہت کا چہرہ سانس گھٹنے کی وجہ سے لال ہو چکا تھا پھر بھی وہ کوئی مزاحمت نہیں کر رہی تھی بس مردہ حالت میں فرزام کی گرفت میں کھڑی تھی جیسے اپنی سزا اسے قبول ہو۔


"تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا میں پاگل عورت۔۔۔۔"


فرزام غصے سے چلایا اور چاہت کو دیوار سے لگا کر اسکی گردن پر دباؤ بڑھا دیا۔اب چاہت کا چہرہ نیلا پڑنے لگا تھا۔


فرزام کی نظر چاہت سے ہٹ کر سکینہ پر پڑی جو اپنی آنکھیں زور سے میچے روتے جا رہی تھیں لیکن انہوں نے فرزام کو روکا نہیں تھا۔ایسا انہوں نے تیرہ سال پہلے بھی تو کیا تھا اپنے شوہر کی بجائے انصاف کا ساتھ دے کر اپنی دنیا اجاڑ دی اور آج بھی اپنی بیٹی کو بچانے کی بجائے بس خاموشی سے وہاں کھڑی تھیں۔


اس عورت کی عظمت کا سوچ کر فرزام نے جھٹکے سے چاہت کو چھوڑا تو وہ گہرے گہرے سانس بھرنے لگی اور حیرت سے فرزام کو دیکھا۔


"اگر تم زندہ ہو ناں تو صرف اماں جی کی وجہ سے۔۔۔۔لیکن یاد رکھنا چاہت اگر میرے بھائی کو کچھ بھی ہوا ناں تو تمہاری یہ زندگی موت سے بھی بدتر بنا دوں گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام وہاں سے چلا گیا اور مناہل بھی جلدی سے اسکے پیچھے چلی گئی۔چاہت نے ایک ہاتھ اپنی گردن پر رکھا اور سانسیں اپنے اندر بھرتے نگاہیں اٹھا کر سکینہ کو دیکھا جو اسے نفرت سے دیکھ رہی تھیں۔


چاہت لڑکھڑاتے قدموں پر اٹھ کر سکینہ کے پاس آئی۔


"اماں۔۔ "


چٹاخ۔۔۔۔۔ایک انتہائی زور دار تھپڑ چاہت کے منہ پر پڑا تھا اور چاہت حیرت سے اپنی اس ماں کو دیکھنے لگی جس نے آج تک اس سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی تھی۔


اس سے پہلے کہ چاہت اس تھپڑ کے اثر سے سنبھلتی سکینہ نے دو اور تھپڑ اتنی ہی طاقت سے اسکے منہ پر مارے۔


"ثابت کر دیا ناں تم نے کہ اپنے گھٹیا باپ کا گھٹیا خون ہو تم۔۔۔"


چاہت اپنے گال پر ہاتھ رکھے حیرت سے سکینہ کو دیکھنے لگی۔


"اپنے جس باپ کی موت کا بلا لینے کے لیے تم نے یہ کیا جانتی ہو کیا تھا وہ جانور۔۔۔۔"


چاہت سہمی نگاہوں سے اپنی ماں کو دیکھنے لگی۔


"جس آگ میں بہرام کے ماں باپ جل کر مرے تھے وہ آگ تمہارے اس باپ نے دس لاکھ روپے کے عوض ان کے گھر میں لگائی تھی۔۔۔۔"


ساتوں آسمان ایک ساتھ چاہت پر گرے۔


"اور ایسا کرتے ہوئے اس نے بہرام اور فرزام کا بھی نہیں سوچا جو اس وقت صرف بارہ سال کے بچے تھے۔۔۔۔"


چاہت مردہ حالت میں دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی سانسیں اس کے سینے میں ہی تھم جائیں گی۔


"جاننا چاہتی تھی کہ میں نے تمہیں سچ کیوں نہیں بتایا۔۔۔۔؟"


سکینہ نے اسکے قریب آ کر نفرت سے پوچھا۔


"میں تو کب کا تمہارے باپ کا یہ روپ تمہیں دیکھا چکی ہوتی لیکن مجھے ایسا کرنے سے بہرام نے منع کیا۔۔۔۔"


چاہت سکینہ کی ہر بات مردہ حالت میں سنتی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔


"وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے باپ کی سچائی جان کر تم کبھی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ رہو۔۔۔۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اپنے باپ کا سچ جان کر تم اس سے نظریں تک نہیں ملا پاؤ گی۔۔۔۔"


چاہت اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی ۔


"وہ نہیں چاہتا تھا چاہت کہ تم ساری زندگی اس کرب ناک احساس کے ساتھ گزار دو کہ تم ایک قاتل کی بیٹی ہو۔۔۔۔۔۔"


اب کی بار سکینہ بھی رونے لگیں جبکہ چاہت تو زندہ ہی نہیں تھی سکینہ کی باتیں اسے اندر ہی اندر ختم کر چکی تھیں۔


"افسوس ہوتا ہے مجھے کہ تم میری اولاد ہو۔۔۔۔سوچا تھا تمہاری اچھی تربیت کروں گی تو اپنے باپ جیسی نہیں بنو گی تم۔۔۔۔۔لیکن میں بھول گئی تھی کہ خون اپنا اثر ضرور چھوڑتا ہے سانپ کی اولاد نے بھی تو ناگن ہی ہونا تھا ناں۔۔۔ "


سکینہ نے نفرت سے چاہت کو دیکھتے ہوئے کہا لیکن وہ نفرت اس نفرت کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی جو چاہت کو خود سے ہو رہی تھی۔


"اچھا ہوتا وہ بیچارا اٹھارہ سال پہلے اس آگ میں جھلس کر مر جاتا۔۔۔۔آج تمہارے دیے اس دھوکے سے تو بچ جاتا وہ۔۔۔۔"


سکینہ نے زارو قطار روتے ہوئے کہا اور چاہت کے پاس آ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں۔


"اس دنیا کی سب سے بد قسمت لڑکی ہو تم چاہت جس نے قسمت سے لڑ کر ایک ہیرا حاصل کیا اور پھر اس ہیرے کو تپتی بھٹی میں ڈال دیا۔۔۔۔"


سکینہ نے افسوس سے اسے دیکھا۔


"تم تو اپنے باپ سے بھی زیادہ بد تر ہو چاہت اس نے تو کسی کے گھر میں آگ لگائی تھی تم نے تو اپنی زندگی میں ہی آگ لگا لی۔۔۔"


اتنا کہہ کر سکینہ وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔


"زہر تم نے بہرام کے جسم میں نہیں اپنی زندگی میں گھولا ہے اب اپنی آخری سانس تک سسک سسک کر مرنا تم۔۔۔۔"


سکینہ یہ بات کہہ کر وہاں سے چلی گئیں اور انکے جاتے ہی چاہت چیخیں مار مار کر رونے لگی۔اس کا دل کر رہا تھا کہ خود کی جان لے لے۔اپنے اس گھٹیا وجود کو جلا کر خاک کر دے جو اپنے شوہر سے وفا نہیں کر سکا اس پر بھروسہ نہیں کر سکا۔


چاہت کو یاد آیا کہ کیسے بہرام نے اسے خود پر بھروسہ کرنے کا کہا تھا لیکن اپنی نادانی میں چاہت اسے ہی غلط سمجھتی رہی اور جلد بازی میں اس سے انتقام لینے کا بھی سوچ لیا۔


اب سب سچ جان کر چاہت کو اپنے روم روم سے نفرت ہو رہی تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اگر بہرام کو کچھ ہو گیا تو وہ کیا کرے گی لیکن اب جو بھی ہوتا وہ اسکی نادانی اور جلد بازی کی سزا تھی۔اب یہ زندگی ہی چاہت کے لیے ایک سزا تھی۔


کتنی ہی دیر چاہت اسی جگہ پر بیٹھ کر روتی رہی تھی پھر اس کے وجود سے ساری طاقت ختم ہو گئی اور وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی۔بے ہوش ہونے سے پہلے بس ایک ہی دعا اس کے دل میں تھی کہ کاش وہ مر جائے اور اسکی زندگی بہرام کو لگ جائے۔۔۔۔کاش۔۔۔

💞💞💞💞

صبح سے شام ہو چکی تھی اور سکینہ پریشانی سے ڈاکٹر کی جانب دیکھ رہی تھیں جو کہ بیڈ پر بے ہوش پڑی چاہت کا چیک اپ کر رہی تھی۔خالہ چاہت کو شام کا کھانا دینے آئیں لیکن وہاں چاہت کو بے ہوش پڑا دیکھ کر انہوں نے سکینہ کو بتایا اور پھر ڈاکٹر کو بلا لیا۔


"انکا بی پی بہت زیادہ کو ہو چکا ہے اور اتنی چھوٹی سی ایج میں اتنا بی پی لو ہونا اچھی بات نہیں پلیز انکا خیال رکھیں ورنہ ساری زندگی کے لیے پرابلم بن جائے گی۔"


ڈاکٹر نے سکینہ کو بتایا جنہوں نے ہاں بس میں سر ہلایا تھا۔


"میں نے انہیں انجیکشن دے دیا ہے جس کی وجہ سے یہ صبح تک نیند میں رہیں گی اور جب ہوش میں آئیں تو آپ انہیں یہ ٹیبلٹس دے دیجیے گا۔۔۔ "


ڈاکٹر سکینہ کو دوائی تھما کر وہاں سے چلی گئی اور سکینہ مردہ آنکھوں سے اپنی بے ہوش پڑی بیٹی کو دیکھا جو اتنا بڑا صدمہ سہنے کے لیے بہت نازک تھی لیکن یہ آگ بھی تو اسکی اپنی ہی لگائی تھی۔


"دیکھا چاہت میں ہمیشہ تم سے کہتی تھی ناں کہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا کرو جلدی کا کام شیطان کا کام ہوتا ہے اور جلد بازی میں انسان ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے۔۔۔۔"


سکینہ اب کی بار رحم سے چاہت کو دیکھ رہی تھیں۔وہ کچھ بھی کر لیتی تھی تو سکینہ کی اکلوتی اولاد ہی ناں۔


"اب دیکھو تم نے بھی اپنا اتنا بڑا نقصان کر دیا کہ ساری زندگی اس کی بھرپائی نہیں کر پاؤ گی۔۔۔۔"


چاہت کا انجام سوچ کر ہی سکینہ کی پلکیں نم ہو گئیں۔


"اگر بہرام کو کچھ ہو گیا تو تم بھی پچھتاتے پچھتاتے مر جاؤ گی اور اگر وہ بچ گیا تو بھی تمہیں معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔چھوڑ دے گا وہ تمہیں چاہت چھوڑ دے گا۔۔۔۔"


دو آنسو سکینہ کی آنکھوں سے نکلے۔


",سب برباد کر دیا تم نے میری بچی اپنی پوری دنیا ایک غلط فہمی میں اجاڑ دی۔۔۔۔"


سکینہ نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں اور آنسو پونچھ کر دروازے میں کھڑی خالہ کو دیکھا جو ان کے لیے کھانا لے کر آئی تھیں۔


"آپ کسی ملازم سے کہیں کہ مجھے اور چاہت کو میرے گھر چھوڑ آئیں۔۔۔۔"


خالہ نے حیرت سے سکینہ کو دیکھا۔


"لیکن سکینہ بہن چاہت کا گھر یہ ہے۔۔۔۔"


سکینہ نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ چاہت کو دیکھا۔


"اب نہیں رہا۔۔۔۔"


خالہ انکی بات پر حیران ہوتی وہاں سے چلی گئیں تا کہ ملازم کو بھیج سکیں اور سکینہ چاہت کو دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھیں کہ چاہت کے حق میں یہی بہتر تھا کہ وہ اب بہرام کے سائے سے بھی دور رہے کیونکہ وہ بہرام جیسے انسان کے قابل نہیں تھی۔ویسے بھی چاہت کی یہی سزا تھی کہ بہرام سے دور اپنی زندگی پچھتاوے کی تپتی دھوپ میں گزارے۔

💞💞💞💞

فرزام ابھی بھی پریشانی کے عالم میں ایمرجنسی وارڈ کے باہر بیٹھا تو مناہل اسکی پریشانی میں پریشان اسکے ساتھ چپکی بیٹھی تھی۔اسکا بس چلتا تو ایک پل میں فرزام کے چہرے سے یہ پریشانی دور کر دیتی لیکن وہ اس معاملے میں بے بس تھی۔


ڈاکٹر کو وارڈ سے باہر آتا دیکھ فرزام بے چینی سے ڈاکٹر کے پاس گیا۔


"ڈونٹ وری مسٹر خانزادہ ہی از فائن ناؤ۔۔۔۔ الحمدللہ اللہ تعالیٰ نے آپکے بھائی کو ایک نئی زندگی دی ہے۔۔۔۔"


ڈاکٹر کی بات پر کتنے ہی آنسو فرزام کی آنکھوں سے نکلے اور اس نے بے ساختہ الحمدللہ کہا۔مناہل بھی فرزام کے چہرے پر وہ اطمینان دیکھ کر مسکرا دی۔


"کیا میں اس سے مل سکتا ہوں؟"


"ابھی تو وہ بے ہوش ہیں امید ہے کل صبح تک ہوش میں آ جائیں گے لیکن آپ انہیں کچھ دیر کے لیے دیکھ سکتے ہیں۔۔۔"


فرزام مسکرایا تو ڈاکٹر نے اس سے ہاتھ ملایا اور وہاں سے چلا گیا۔اسکے جاتے ہی فرزام ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا اور نم آنکھوں سے بہرام کو دیکھا جو مشینوں میں لپٹا بیڈ پر بے جان پڑا تھا۔


فرزام اسکے پاس آیا اور اسکی حالت دیکھ کر منہ بنا لیا۔


"مجھے کہتے رہے اپنا خیال رکھوں وہاں۔ لیکن خود کا ہی خیال نہیں رکھ پائے تم۔۔۔"


فرزام نے شکوہ کیا۔پل بھر میں بہرام اسکی جان نکال چکا تھا۔


"یہاں سے اٹھو پھر تمہیں بتاؤں گا۔۔۔زیادہ ہی بڑے بنتے ہو تم دو پڑیں گی مجھ سے تو ادھر جاؤ گے ۔۔۔۔"


فرزام نے آنسو پونچھ کر شرارت سے کہا اور بہرام کا ہاتھ چھوا تو بہرام کی پلکوں نے ایک جنبش لی اور آکسیجن ماسک میں چھپے ہونٹوں نے ہلکے سے کچھ کہا۔


"کیا چاہیے میرے پیارے بھائی۔۔۔؟"


فرزام نے پوچھا تو بہرام کے ہونٹ پھر سے ہلے لیکن آواز بہت زیادہ ہلکی تھی۔فرزام نے اپنا کان اسکے منہ کے پاس کیا تو ہلکی سی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔


"چچ۔۔۔چاہت۔۔۔"


بہرام کو یوں تکلیف میں بھی اس بے وفا کا نام لیتا دیکھ فرزام اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔


"اب وہ تمہاری زندگی میں پھر کبھی شامل نہیں ہو گی بہرام میں اسے نہیں ہونے دوں گا۔۔۔نہ تو وہ تمہیں ڈیزرو کرتی ہے ناں ہی تمہاری محبت کو۔۔۔"


فرزام نے چاہت کا وجود ذہن میں لا کر نفرت سے کہا اور اس کمرے سے باہر آ گیا۔اسکے باہر آتے ہی مناہل اسکے پاس آئی۔فرزام نے جیب سے موبائل نکالا اور سکینہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔


"اسلام و علیکم اماں جی۔۔۔"


سکینہ کے فون اٹھاتے ہی فرزام نے سنجیدگی سے کہا۔


"و علیکم السلام بیٹا بہرام نے ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔؟


فرزام ان کی آواز میں چھپی پریشانی محسوس کر سکتا تھا۔


"جی ہاں بالکل ٹھیک ہے آپ پریشان مت ہوں۔۔۔"


فرزام نے ایک نظر مناہل کو دیکھا پھر سنجیدگی سے بولا۔


"معاف کریے گا اماں جی لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اس عہد کو اپنے ساتھ واپس لے جائیں اسے ایک پل کے لئے بھی اپنے اور بہرام کے گھر برداشت نہیں کر سکتا میں۔۔۔"


فرزام کی بات پر سکینہ کا دل کر رہا ہے گیا لیکن وہ بھی کیا کر سکتی تھیں یہ سب چاہت کا اپنا ہی قصور تھا۔


"تم فکر مت کرو بیٹا میں اسے پہلے ہی وہاں سے لے جا چکی ہوں اور جب تک بہرام اسے معاف نہیں کرتا میں اس سے واپس نہیں آنے دوں گی۔۔۔۔"


فرزام نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور مردہ آنکھوں سے سامنے موجود آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔


"وہ چاہت کو کبھی معاف نہیں کرے گا کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام نے فون بند کر دیا۔مناہل نے سہمی نگاہوں سے موبائل کے گرد اس کی مضبوط پکڑ کو دیکھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ موبائل ابھی اس کی مٹھی میں چکنا چور ہو جائے گا۔


کچھ دیر سوچنے کے بعد فرزام نے ایک اور نمبر ڈائل کیا اور موبائل اپنے کان سے لگا دیا۔


"ایڈوکیٹ طارق۔۔۔مجھے ایک کام ہے آپ سے۔۔۔۔"


فرزام نے اپنے وکیل سے کہا تو مناہل حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔


"جی حکم کریں سر۔۔۔۔"


طارق نے فوراً جواب دیا۔


"مجھے طلاق کے کاغذات تیار کروانے ہیں..."


فرزام کی بات اور اس کی آنکھوں میں وحشت دیکھ کر مناہل کا ننھا سا دل خوف سے بند ہونے لگا کیا فرزام اسے چھوڑنے والا تھا۔۔۔؟"


"بہرام خانزادہ اور چاہت بہرام خانزادہ کے نام سے۔۔۔یہ پیپرز مجھے کل ہی مل جانے چاہیں۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام نے فون بند کر دیا اور مناہل کے دل میں جہاں سکون آیا تھا وہی ایک نئی پریشانی نے بھی جنم لیا۔


"فرزام چچ۔۔۔۔چاہت بہت چھوٹی ہے پلیز ایسا

۔۔۔۔"


فرزام کی گھوری پر مناہل کے الفاظ منہ میں ہی اٹک گئے۔


"اور جو اس نے میرے بھائی کے ساتھ کیا۔۔۔۔؟وہ اسی قابل ہے مناہل۔۔۔۔میں اس کے نام کے ساتھ بھی بہرام کا نام نہیں رہنے دوں گا۔۔۔"aa

اس وقت فرزام کی آنکھوں میں چاہت کے لئے بے تحاشا نفرت تھی۔مناہل اسے سمجھانا چاہتی تھی کہ یہ فیصلہ اس کا نہیں بہرام کا تھا لیکن اس کا غصہ دیکھ کر خاموش رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ابھی وہ اس کی کوئی بات نہیں سنے گا۔

💞💞💞💞

الطاف نے میز پر بجتے فون کو اٹھایا اور کان سے لگا لیا۔

"اسلام و علیکم سر۔۔۔۔"

اپنے آدمی کی آواز پر الطاف کے ہونٹ مسکرائے۔

"ہاں کہو کیا بات ہے۔۔۔۔؟"

الطاف نے ہاتھ میں پکڑا سگریٹ ہونٹوں سے لگایا۔

"بات تو بہت بڑی ہے سر۔۔۔۔بہرام خانزادہ کو کل رات کسی نے ذہر دے دیا اب وہ ہاسپٹل میں پڑا زندگی اور موت سے لڑ رہا ہے۔۔۔۔"

اس کی بات پر الطاف کی آنکھوں میں ایک چمک آئی۔یعنی اس کا پلین کامیاب ثابت ہوا تھا۔وہ بے وقوف لڑکی اسکی باتوں میں آ چکی تھی۔

"واہ بہت اچھی خبر سنائی تم نے میرے ایک نشانے سے دو شکار ہو جائیں گے ۔۔۔۔"

الطاف کی بات پر مقابل آدمی حیران ہوا۔

"کیا مطلب سر۔۔۔۔؟"

الطاف نے ایک گہرا کش بھرا اور شان سے مسکرا دیا۔

"مطلب بہرام خانزادہ جائے گا اوپر اور اسکی وہ بیوی اسکے قتل کے جرم میں جیل میں۔۔۔پھر جیسا میں نے سوچا تھا سب ویسا ہو گا

۔۔۔۔۔"

الطاف نے اتنا کہہ کر فون بند کر دیا اور خود می ہی مسکرانے لگا۔

"اب جلد ہی ساری دولت ہو گی صرف اور صرف فرزام کی اور فرزام کے بعد اسکے اکلوتے رشتے مناہل اور اس کے بچے کی۔۔۔۔بس تھوڑا سا انتظار اور جتنا فرزام نے مجھ سے چھینا ہے ناں اس سے چار گناہ زیادہ اس سے لوں گا۔۔۔۔"

الطاف طاقت کے نشے اور دولت کی حرص میں ڈوبا کہہ رہا تھا اس بات سے بے خبر کہ ایک وجود دروازے کے باہر کھڑا اسکی ہر بات سن رہا تھا اور اپنے باپ کے اس روپ پر اسے بے تحاشا نفرت سے دیکھ رہا تھا۔

بہرام کو پورے تین دن کے بعد ہوش آیا تھا اور آنکھیں کھولتے ہیں اس کی پہلی نظر فرزام پر پڑی جو اس کے پاس بیٹھا اسے غصے سے گھور رہا تھا۔


"ایک مرتبہ ٹھیک ہو جاؤ بس پھر دیکھنا ہاتھ پیر توڑ کر واپس یہیں ڈال دوں گا۔۔۔۔"


فرزام کی آواز پر بہرام نے مردہ آنکھوں سے اسے دیکھا پھر نظریں گھما کر پورے کمرے کو۔


"کسے ڈھونڈ رہے ہو۔۔۔۔؟"


فرزام اٹھ کر اسکے پاس آیا اور اسکا ہاتھ تھام کر پوچھنے لگا۔بہرام کو لگ رہا تھا جیسے کہ اسکے حلق میں کانٹے اگ آئے ہوں اسے سانس لینے سے بھی تکلیف ہو رہی تھی۔


"چاہت۔۔۔۔وہ کہاں ہے۔۔۔؟"


بہرام کی زبان پر چاہت کا نام سن کر ہی فرزام کا پارہ ہائی ہو چکا تھا۔


"اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی تمہیں اس کی فکر ہے شاید تم جانتے نہیں بہرام لیکن تمہیں زہر دینے والا کوئی اور نہیں چاہت ہی تھی۔۔۔۔"


بہرام نے اپنی آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا اور جسم میں اٹھتی تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔


"جانتا ہوں۔۔۔"


فرزام نے حیرت سے بہرام کو دیکھا۔


"وہ کہاں ہے فرزام ۔۔۔۔تم نے اسے کچھ کہا تو نہیں۔۔۔ ؟"


بہرام کے سوال پر فرزام غصے سے اٹھا اور ٹانگ پاس پڑے سٹول کو ماری۔


"وہ با حفاظت اماں جی کے پاس ہے۔۔۔۔صرف تمہاری وجہ سے میں نے اسے کچھ نہیں کہا بہرام ورنہ میرا بس چلتا تو اس پاگل لڑکی کی جان لے لیتا۔۔۔۔۔"


بہرام نے گہرا سانس لیا۔


"خیر سزا تو اسکی بنتی ہے۔۔۔اب جب تم ہوش میں آ گئے ہو تو یہ کام کر دو میں نہیں چاہتا کہ اس میں زیادہ دیر ہو۔۔۔۔"


بہرام نے سوالیہ نظروں سے فرزام کو دیکھا تو فرزام نے ایک میز پر پڑے پیپرز اٹھا کر بہرام کے سامنے کیے۔


"ان پر سائن کرو اور قصہ یہیں ختم کرو۔۔۔۔۔"


بہرام نے ایک آنکھیں سکیڑ کر فرزام کو دیکھا اور وہ پیپرز کانپتے ہاتھ میں تھام کر دیکھا۔چاہت کے نام وہ طلاق کے کاغذات دیکھ کر بہرام کی پکڑ ان پیپرز کے گرد حد سے زیادہ مظبوط ہو گئی۔


"یہ فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو فرزام خانزادہ۔۔۔تم نے سوچا بھی کیسے کہ میں چاہت کو چھوڑ دونگا ۔۔۔۔"


بہرام نے وحشت سے بھری تکلیف دہ آواز میں کہا اور ان پیپرز کو پھاڑ کر فرش پر پھینک دیا۔


"بہرام وہ اسی قابل۔۔۔"


"اگر اسکی جگہ مناہل اور میری جگہ تم ہوتے تو کیا چھوڑ پاتے اسے۔۔۔۔۔"


بہرام نے فرزام کی بات کاٹ کر کہا۔اتنی سی بات کرنے سے ہی بہرام کا سانس بری طرح سے پھول چکا تھا۔


"میری من اتنی بیوقوف نہیں ہے تو اس بات کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔۔۔۔"


فرزام نے سنجیدگی سے کہا اور بہرام کے پاس آ کر اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


"میں بس اتنا جانتا ہوں میرے بھائی جو اس نے تمہارے ساتھ کیا میں اسے اس کے لئے کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔"


بہرام نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔


"وہ تمہاری مرضی ہے۔۔۔۔لیکن تم اسے سزا دینے کا حق نہیں رکھتے۔۔۔اسے جو بھی سزا دینی ہے میں خود دے لوں گا۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام پھر سے اپنی آنکھیں موند گیا اور ڈاکٹر کو کمرے میں آتا دیکھ فرزام بھی خاموش ہو گیا۔بہرام صحیح کہہ رہا تھا چاہت اس کی مجرم تھی اور اس کو سزا دینے کا حق صرف بہرام کو حاصل تھا۔

💞💞💞💞

سکینہ ٹرے میں کھانا لے کر کمرے میں آئی تو چاہت ہمیشہ کی طرح بیڈ پر گم سم سی گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھی تھی۔ایک ہفتہ ہو چکا تھا چاہت کو یہاں آئے اور اس ہفتے میں وہ نہ تو کچھ بولتی تھی اور نہ ہی اسے دنیا جہان کی کوئی پروا تھی۔


بس ایک جگہ پر یوں ہی گم سم بیٹھی رہتی۔اگر سکینہ اسے کھانا کھلا دیتیں تو وہ کھا لیتی ورنہ خود تو اسے اس کی بھی کوئی پروا نہیں تھی۔پہلے پہل تو سکینہ اس سے کوئی بات بھی نہیں کرتی تھیں لیکن کب تک اپنی اولاد کی یہ حالت دیکھ کر اس ماں کا دل پھٹنے کو ہوتا تھا۔سکینہ چاہت کے پاس آئیں اور کھانا اس کے سامنے رکھا۔


"چاہت چلو کھانا کھاؤ۔۔۔۔"


سکینہ ایک نوالا توڑ کر اسکے منہ کے پاس لے گئیں لیکن اب تو چاہت نے کھانا کھانے کے لیے منہ بھی نہیں کھولا تھا۔


"چاہت تنگ نہیں کرو کھانا کھا لو۔۔۔"


سکینہ نے مصنوعی سختی سے کہا لیکن پھر اسکی اس حالت پر اسے اپنے گلے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔


"بس کرو چاہت بس کر دو مزید ستم نہ ڈھاؤ خود پر۔۔۔۔"


سکینہ نے روتے ہوئے کہا لیکن چاہت ابھی بھی مردہ حالت میں انکے گلے لگی تھی۔سکینہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں پھر کچھ سوچ کر انہوں نے چاہت کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور اسکی مردہ آنکھوں میں جھانکا۔


"وہ ٹھیک ہے چاہت۔۔۔۔بالکل ٹھیک ہے ابھی فرزام سے بات ہوئی میری کچھ دنوں میں وہ ڈسچارج ہو جائے گا۔۔۔۔"


سکینہ کی بات پر چاہت نے بے یقینی سے انہیں دیکھا جیسے کہ انکی بات پر یقین نہ ہو۔


"قسم کھا کر کہتی ہوں چاہت وہ بالکل ٹھیک ہے۔۔۔"


اب کی بار دو آنسو چاہت کی آنکھوں سے بہے اور اس نے اپنا سر سکینہ کی گود میں رکھا اور سسک سسک کر رونے لگی۔اسے اتنی زیادہ تکلیف سے روتا دیکھ سکینہ کا دل دہل گیا۔


"چاہت بس کر دو۔۔۔۔"


سکینہ نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا لیکن چاہت تو شائید اپنے دل کا ہر غبار رو کر نکال دینا چاہتی تھی۔


"کاش میں مر جاؤں اماں۔۔۔۔کاش میں مر جاؤں۔۔۔ "


چاہت کی بات پر سکینہ نے روتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔


"یہ زندگی بہت دردناک لگ رہی ہے اماں۔۔۔میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔آپ دعا کریں میں مر جاؤں۔۔۔کاش میں مر جاؤں۔۔۔"


سکینہ نے اسکا سر اپنی گود سے ہٹایا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔


"بس کر دو چاہت۔۔۔یوں مرنے کی دعائیں کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔۔۔۔"


سکینہ نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔


"تو کیا کروں میں اماں۔۔۔۔یہ بوجھ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔۔۔۔"


چاہت انکے سینے میں چہرہ چھپا کر سسک اٹھی۔


"تو اپنے سکون کے لیے دعا کرو۔۔۔۔اپنا اطمینان مانگو رب سے وہ بخشنے والا مہربان ہے۔۔۔۔"


چاہت نے سکینہ کے سینے سے سر نکالا اور آنسوؤں سے تر آنکھوں سے سکینہ کو دیکھنے لگی۔


"آپ کو کیا لگتا ہے جو میں نے کیا اس کے بعد اللہ تعالٰی مجھے معاف کر دیں گے۔۔۔۔؟"


سکینہ نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھ میں تھاما۔


"میں تمہیں معاف کر سکتی ہوں ناں کیونکہ میں ماں ہوں مجھ سے زیادہ تمہیں کوئی محبت نہیں کر سکتا مگر وہ تو ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے پھر کیوں معاف نہیں کرے گا تمہیں۔۔۔۔"


چاہت نے اپنی نظریں جھکائیں بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ نکلے۔


"لیکن میرا مجازی خدا ہی مجھ سے ناراض ہے اماں جو ان کے ساتھ میں نے کیا اس کے بعد تو خدا بھی مجھے معاف نہیں کرے گا اماں کبھی نہیں کرے گا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر چاہت نے اپنا چہرہ اپنے گھٹنوں میں چھپا لیا اور سسک سسک کر رونے لگی۔سکینہ اس کے پاس بیٹھی اسے بے بسی سے دیکھ رہی تھیں وہ چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھیں یہ آگ چاہت کی خود کی لگائی تھی اور اب اسے ساری عمر اس میں جلنا تھا۔

💞💞💞💞

مزید دو دنوں کے بعد بہرام کو ڈسچارج کر دیا گیا اور فرزام اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا۔یہ سارا وقت ہاسپٹل میں رہ کر بہرام مزید خاموش ہو چکا تھا۔ضرورت سے زیادہ وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا اور فرزام اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ جو چاہت نے اس کے ساتھ کیا وہ بہرام کو مکمل طور پر گھائل کر چکا تھا۔


اسکے جسم کے زخم تو شائید بھر جاتے لیکن تکلیف دہ تو دل پر لگے زخم تھے جو چاہت کی بے وفائی سے لگے تھے۔


"تم بتاؤ کچھ چاہیے؟"


فرزام نے ایک تکیہ بہرام کے پیچھے رکھتے ہوئے پوچھا تو بہرام نے انکار میں سر ہلایا۔


"بس مجھے کوئی ڈسٹرب مت کرے اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"


فرزام نے گہرا سانس لے کر اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔بہرام نے اپنی آنکھیں موند لیں اور کرب سے وہ پل یاد کرنے لگا جب چاہت اسکے لیے وہ چائے لے کر آئی تھی۔


اسے یہ بھولنے میں شائید ساری زندگی لگ جاتی کہ اسکی چاہت نے اسکی جان لینا چاہی تھی۔اسے لگا تھا کہ سچ جان کر چاہت اس سے نفرت کرے گی لیکن اس نے نہیں سوچا تھا کہ وہ نفرت اس قدر زیادہ ہو گی۔


دو آنسو بہرام کی پلکوں پر ٹھہر سے گئے۔پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور الماری کے پاس آیا۔اسکی الماری میں ابھی بھی چاہت کے کپڑے ویسے ہی پڑے تھے۔


انہیں چھوتے ہوئے بہرام کو شدت سے چاہت کی یاد آئی۔دل کہہ رہا تھا کہ ابھی سکینہ کے پاس جائے اور اسے یہاں کے آئے لیکن وہ تو بہرام سے نفرت کرتی تھی۔


بے تحاشا نفرت۔


بہرام نے اس الماری کو بند کیا اور خاموشی سے آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔اس کمرے سے جڑی چاہت کی ہر یاد بہرام کے دل کو کرب میں مبتلا کر رہی تھی۔


بہت سوچنے کے بعد اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا اپنا فون اٹھایا اور سکینہ کا نمبر ڈائل کیا۔


"اسلام و علیکم بہرام بیٹا۔۔۔"


سکینہ نے بہت زیادہ محبت سے کہا۔


"و علیکم السلام۔۔۔۔"


بہرام نے سنجیدگی سے جواب دیا جبکہ دل بہت زیادہ بے چین ہو رہا تھا۔


"کیسے ہو بیٹا؟"


سکینہ بیگم کی آواز میں شرمندگی صاف چھلک رہی تھی۔


"میں ٹھیک اماں جو وہ۔۔۔۔"


بہرام جو بے چینی سے چاہت کے بارے میں پوچھنا چاہ رہا تھا پوری بات کہے بغیر اٹک گیا۔


"کیا بات ہے بیٹا سب ٹھیک ہے ناں؟"


بہرام نے آنکھیں موند کر کے خود پر قابو کیا۔


"جی سب ٹھیک ہے بس پوچھنا چاہ رہا تھا آپ ٹھیک تو ہیں ناں۔۔۔"


بہرام جانتا تھا کہ اب تک وہ اسکی بات کا مقصد سمجھ چکی ہوں گی۔


"بیٹا فکر مت کرو سب ٹھیک ہے۔۔۔۔"


بہرام نے ٹھیک ہے کہہ کر فون بند کر دیا اور اپنا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیا۔زہر اس کے جسم سے زیادہ اسکی زندگی میں گھل چکا تھا۔چاہت کی بے تحاشا نفرت بہرام کو اس زہر سے زیادہ تیزی سے ختم کر رہی تھی۔

💞💞💞💞


فرزام ہال میں آیا تو اس کا دھیان کچن میں ہونے والی کھٹ پٹ نے اپنی جانب کھینچا۔کچن میں داخل ہونے پر اسکا دھیان مناہل پر گیا جو شائید کچھ بنا رہی تھی۔


"کیا کر رہی ہو من۔۔۔۔؟"


فرزام کے پوچھنے پر مناہل اسکی جانب مڑی اور ہلکا سا مسکرائی۔


"بہرام بھائی کے لیے سوپ بنا رہی ہوں بن جائے تو آپ انہیں دے آنا۔۔۔"


فرزام اسکی بات پر مسکرایا۔اسے احساس ہوا کہ یہ سارا عرصہ اپنی پریشانی میں فرزام نے مناہل کی طرف تو دھیان ہی نہیں دیا تھا۔فرزام نے اپنے ہاتھ اسکی کمر پر رکھتے ہوئے ٹھوڈی اسکے کندھے سے ٹکا دی تو مناہل پل بھر میں گھبرا گئی۔


"فرزام۔۔۔۔"


"ایک بات بتاؤ کبھی میں بیمار ہوا تو میرا بھی اتنا ہی خیال رکھو گی کیا۔۔۔۔؟"


فرزام کی بات پر مناہل فوراً اسکی جانب پلٹتے ہوئے خفگی سے اسے دیکھنے لگی۔


"اللہ نہ کرے آپ کبھی بیمار ہوں۔۔۔"


فرزام نے اسکی فکر مندی پر مسکراتے ہوئے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھ دیے۔


"بس تمہاری یہی ادائیں ہیں میرا جنون جو بہکاتی ہیں اور پھر میری حرکتوں پر تم کترا جاتی ہو یہ کہاں کا انصاف ہوا۔۔۔"


اسکی آنکھوں میں حرارت دیکھ کر مناہل خود میں سمٹ سی گئی۔


"فرزام کام کرنے دیں ناں تنگ نہیں کریں۔۔۔"


مناہل نے فوراً اپنا رخ پلٹا اور سوپ میں چمچ ہلانے لگی۔


"ابھی تنگ کیا ہی کہاں ہے رات کو روم میں آنا پھر بتاؤں گا تنگ کرنا کسے کہتے ہیں۔۔۔"


فرزام نے اسکے ملائم گال پر اپنی داڑھی رب کی اور وہاں سے چلا گیا اور مناہل سرخ ہوتی اپنا کام کرنے لگی۔جب خالہ اسکے پاس آئیں۔


"بیٹا تمہارے لیے فون ہے۔۔۔"


مناہل نے پہلے حیرت سے انہیں دیکھا پھر گھبرا کر انکے ہاتھ میں موجود فون کو دیکھنے لگی۔


"کون ہے؟"


مناہل نے گھبراتے ہوئے پوچھا وہ پھر سے شیزہ سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔


"پتہ نہیں بس آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔۔۔"


مناہل نے ان کے ہاتھ سے فون لے کر ہاں میں سر ہلایا تو خالہ وہاں سے چلی گئیں۔


"ہیلو۔۔۔"

مناہل نے فون کان سے لگاتے ہوئے کہا۔

"ہیلو مناہل کیسی ہو۔۔۔؟"

اپنی تایا زاد حبہ کی آواز پر مناہل نے سکھ کا سانس لیا۔

"میں ٹھیک ہوں حبہ آپی آپ کیسی ہیں۔۔۔؟"

"میں ٹھیک ہوں مناہل مجھے تم سے کچھ بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔"

حبہ کی آواز میں پریشانی محسوس کر کے مناہل گھبرا گئی۔

"کیا ہوا حبہ آپی سب ٹھیک تو ہے ناں؟"

حبہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔

"فون پر نہیں بتا سکتی مناہل مجھے تم سے ملنا ہے۔۔۔۔"

مناہل اسکی بات پر گھبرا گئی۔

"کل میں اسلام آباد آؤں گی تم مجھے ہینگ آؤٹ کیفے ملنا اور پلیز اکیلے آنا اپنے شوہر کو اس کے بارے میں مت بتانا۔"

مناہل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"لیکن میں اکیلی کیسے۔۔۔اور میں فرزام سے کچھ نہیں چھپاتی۔۔۔"

مناہل نے اسے بتایا وہ سچ میں فرزام سے کچھ بھی نہیں چھپانا چاہتی تھی ۔

"دیکھو مناہل مجھے فرزام کے بارے میں ہی تم سے بات کرنی ہے اور میں نہیں چاہتی کہ تم سے بات کیے بغیر کسی اور کو اس کی خبر ہو۔۔۔۔اس لیے کل میں اس کیفے میں صبح کے دس بجے تمہارا انتظار کروں گی امید ہے تم ضرور آؤ گی۔۔۔"

اتنا کہہ کر حبہ نے فون بند کر دیا لیکن مناہل اب کشمکش میں مبتلا ہو چکی تھی۔وہ بھلا کیسے فرزام سے کچھ چھپاتی لیکن حبہ نے فرزام کے بارے میں کچھ کہنا تھا۔

مناہل اب بہت زیادہ پریشان ہو چکی تھی اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ایک طرف اسے یہ تجسس تھا کہ حبہ اس سے کیا کہنا چاہتی تھی اور دوسری طرف فرزام کا بھروسہ تھا۔

ایک پل کے لیے تو اس نے سوچا کہ فرزام کو سب بتا دے لیکن پھر حبہ کی بات یاد آئی کہ وہ اس کے بارے میں کسی کو نہ بتائے۔مناہل بے چینی سے وہاں کھڑی اپنے ہاتھ مسلتی پل بھر میں بہت زیادہ اضطراب میں آ چکی تھی۔

حبہ تقریباً آدھے گھنٹے سے اس کیفے میں بیٹھی انتظار کر رہی تھی اور اب تو اسے لگنے لگا تھا کہ مناہل نہیں آئے گی لیکن تبھی داخلی دروازے سے اسے چادر میں لپٹی مناہل گھبراہٹ کے مارے یہاں وہاں جھانکتے نظر آئی۔


حبہ نے اسے دیکھ کر سکھ کا سانس لیا اور اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا تو اسے دیکھتے ہی مناہل اسکے پاس آئی۔


"کیسی ہو مناہل؟"


حبہ نے اٹھ کر اسے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔


"میں ٹھیک ہوں آپی۔۔۔"


مناہل نے گھبراتے ہوئے کہا اور پھر خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔حبہ کو وہ کافی گھبرائی سی لگ رہی تھی۔


"تم نے یہاں آنے کے بارے میں کسی کو بتایا تو نہیں ناں؟"


مناہل نے کچھ سوچ کر انکار میں سر ہلایا تو حبہ تھوڑا پر سکون ہوئی۔


"آپ نے کیوں بلایا مجھے؟"


مناہل کے سوال پر حبہ کچھ دیر کے لیے خاموش رہی پھر گہرا سانس لے کر بولی۔


"اس لیے کہ میں تمہیں یہ بتا سکوں کہ بہرام خانزادہ کو زہر کس نے دلوایا ہے اور تو اور اسی نے تمہارے ماں باپ کا ایکسیڈنٹ بھی کروایا تھا۔"


مناہل نے حیرت سے حبہ کی جانب دیکھا۔دل خوف کے باعث اور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔یعنی اسکے ماں باپ کی موت حادثہ نہیں تھی انہیں مناہل سے چھینا گیا تھا۔


"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ آپی۔۔۔۔"


حبہ نے اپنا ہاتھ مناہل کے ہاتھوں پر رکھا جو ایسا لگ رہا تھا ابھی بے ہوش ہو جائے گی۔


"دیکھو مناہل میں جانتی ہوں جو بات میں تمہیں بتانے والی ہوں شائید تمہیں اس پر یقین نہ ہو۔اپنے کانوں سے سننے کے بعد بھی مجھے یقین نہیں ہوا تھا لیکن پھر میں نے جانچ کی تو پتہ چلا کہ سچ تو میری سوچ سے زیادہ وحشت ناک ہے۔"


مناہل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔


"مناہل یہ سب کرنے والا کوئی اور نہیں میرے بابا ہیں۔۔۔۔"


یہ بات کہتے ہوئے دو آنسو حبہ کی آنکھوں پر ٹھہر گئے جبکہ مناہل تو بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔


"بابا نے ہی چچا اور چچی کا ایکسیڈینٹ کروایا تھا تا کہ وہ انکی پراپرٹی پر قبضہ کر سکیں اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔"


حبہ ایک پل کو رکی اور بے دردی سے اپنے آنسو پونچھے جب کہ اتنا بڑا سچ جان کر مناہل ایک بار پھر سے بری طرح سے بکھری تھی ۔


"انہوں نے تمہاری شادی خانزادہ خاندان میں اس لیے کی تا کہ وہ بہرام اور فرزام کو مروا دیں پھر ساری جائیداد تمہاری ہو جائے اور پھر وہ اس جائیداد کو تم سے چھین لیں۔۔۔۔"


مناہل کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔


"یقین نہیں آ رہا ناں جس انسان کو ساری زندگی جانا پل بھر میں وہ شیطان سے بدتر بن گیا۔۔۔۔۔"


حبہ کی مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں۔


"ت۔۔۔تایا ابو ایسے ہو سکتے ہیں میں نے کبھی نہیں سوچا تھا حبہ آپی۔۔۔۔"


حبہ نے لاچارگی سے مناہل کو دیکھا۔


"میں نے بھی۔۔۔۔"


حبہ نے اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں پر رکھے۔


"مناہل میں چاہتی ہوں تم اپنے شوہر اور بہرام کو یہ سب باتیں بتا دو تا کہ وہ محتاط ہو جائیں لیکن ۔۔۔۔"


"میم آپ کا ارڈر؟"


ایک ویٹر کی آواز پر حبہ کا دھیان مناہل سے ہٹ کر ویٹر پر گیا۔


"دو کیپچینو۔۔۔"


ویٹر وہاں سے چلا گیا تو حبہ کی نظر سامنے موجود ٹیبل پر گئی پہلے تو اس نے بس ایک جھلک وہاں بیٹھے آدمی کو دیکھا لیکن پھر دوبارہ اس پر نظر آئی تو غصے سے مناہل کو دیکھنے لگی۔


"تم نے کہا تھا کہ تم نے اس ملاقات کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔۔۔۔"


مناہل گھبرا کر پیچھے مڑی اور ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھے فرزام کو دیکھا۔


"سس۔۔۔۔سوری آپی میں ان سے جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔۔۔۔"


حبہ کو باقاعدہ اپنے دانت کچکچاتا دیکھ فرزام اپنی جگہ سے اٹھ کر ان دونوں کے پاس آیا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔


"کیوں بلایا تم نے میری بیوی کو یہاں؟"


فرزام کی جانچتی آنکھوں میں شک تھا جیسے کہ وہ حبہ پر بھروسہ نہ کرتا ہو۔


"میں مناہل کو جو بتانا چاہتی تھی بتا چکی ہوں آپ اس سے پوچھ لینا۔۔۔"


حبہ غصے سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی تو فوراً فرزام نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔حبہ کے ساتھ ساتھ مناہل نے بھی حیرت سے فرزام کی جانب دیکھا۔مناہل کا دل کر رہا تھا کہ فرزام کا ہاتھ کھینچ کر حبہ کے ہاتھ سے دور کر دے۔


"بیٹھو اور بتاؤ مجھے۔۔۔"


فرزام کی آواز میں چھپی وارننگ محسوس کر کے حبہ نے گہرا سانس لیا اور ان کے پاس بیٹھ کر ہر بات فرزام کو بتا دی جسے سن کر فرزام اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔


"دیکھیں مسٹر فرزام میں نہیں چاہتی تھی کہ اس سب میں میرا نام آئے اسی لیے میں نے مناہل کو ہر بات بتانا چاہتی تھی تا کہ وہ میرا نام لیے بغیر سب آپ کو بتا دے۔۔۔۔"


فرزام نے حبہ کو گہری نگاہوں سے دیکھا۔


"تم ایسا کیوں کر رہی ہو؟اپنے ہی باپ کے خلاف کیوں جا رہی ہو؟"


فرزام کے سوال پر حبہ کے چہرے پر افسردگی آئی اور وہ دوسری جانب دیکھنے لگی۔


"کیونکہ مجھ میں انسانیت باقی ہے لیکن وہ اپنی انسانیت کھو چکے ہیں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر حبہ اٹھ کھڑی ہوئی۔


"میرا کام بس آپ کو آگاہ کرنا تھا تا کہ آپ محتاط رہیں باقی آپ کو جو کرنا ہے کریں۔۔۔"


اب کی بار حبہ دروازے کے پاس پہنچی تو فرزام بھی اٹھ کر اسکے پیچھے آ گیا۔


"سنو۔۔۔ "


حبہ نے مڑ کر فرزام کو دیکھا۔


"میں تم پر بھروسہ کیوں کروں تم اپنے باپ کی کسی سازش میں اسکا ساتھ بھی تو دے رہی ہو سکتی ہو۔۔۔۔"


اس بات پر حبہ نے بھی غصے سے فرزام کو دیکھا۔


"لگتا ہے عقل کی کافی کمی ہے آپ میں مسٹر فرزام اگر میرا ارادہ آپ کو پھنسانے کا ہوتا تو آپ کو کچھ کرنے کا مشورہ دیتی نہ کہ سچائی بتا کر چلی جاتی اگر آپ کو مجھ پر نہیں یقین تو یہ آپ کا مسلہ ہے میں اپنا فرض پورا کر چکی ہوں۔۔۔"


فرزام اسکے انداز پر مسکرا دیا آخر حبہ کی رگوں میں بھی تو وہی خون تھا جو فرزام کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔


"ایک راز ہے جس سے تم بھی واقف نہیں۔۔۔۔"


حبہ نے حیرت سے فرزام کی جانب دیکھا۔


"کیسا راز؟"


فرزام نے اسکے پاس جا کر اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔جبکہ اپنی کرسی پر بیٹھ مناہل نے چبھتی نگاہوں سے وہ منظر دیکھا۔آنکھوں سے آنسو اب روانی سے بہنے لگے تھے۔


"میرے ساتھ گھر چلو میں اور بہرام مل کر تمہیں ہر بات بتا دیں گے۔۔۔۔"


حبہ کی حیرت میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔


"لیکن مجھے واپس جانا ہے اگر بابا کو پتہ چلا کہ میں یہاں آئی ہوں تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"


فرزام کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔


"یہاں بھی تو کوئی جھوٹ بول کر ہی آئی ہو ناں مزید جھوٹ بول لینا لیکن ابھی میرے ساتھ چلو۔۔۔"


حبہ نے ایک نظر مناہل کو دیکھا پھر سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔


"ٹھیک ہے میں ان سے جھوٹ بول دوں گی کہ میں اپنی دوست کے گھر رکی ہوں لیکن مجھے صبح ہر حال میں واپس جانا ہوگا۔۔۔"


فرزام نے ہاں میں سر ہلایا۔


"تم گاڑی کے پاس ویٹ کرو میں من کو لے کر آتا ہوں۔


اتنا کہہ کر فرزام مناہل کے پاس آ کر اسکا ہاتھ تھاما تو مناہل نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑوا لیا۔


"ممم۔۔۔۔میں چلی جاؤں گی۔۔۔"


فرزام نے حیرت سے مناہل کی بے رخی کو دیکھا۔وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ مناہل کو اچانک کیا ہوا۔حالانکہ کل رات اس نے خود فرزام کو حبہ کے فون کے بارے میں بتایا تھا تو اب ایسا کیا ہوا کہ وہ فرزام سے خفا لگ رہی تھی۔


فرزام اسکی بے رخی کے بارے میں سوچتا اسکے پیچھے چلنے لگا لیکن شائید وہ بھول چکا تھا کہ اسکی من کس قدر حساس ہے وہ اسکے کسی لڑکی سے مسکرا کر بات کرنے پر دکھی ہو جاتی تھی تو آج تو فرزام نے اسکے سامنے کسی اور کو یوں حق سے چھوا تھا تو اسکے دل پر اس وقت کتنی بجلیاں گر رہی تھیں یہ صرف مناہل ہی جانتی تھی۔

💞💞💞💞

"یا اللہ آپ رحمن ہیں،رحیم ہیں،اپنے بندے سے بے تحاشا محبت کرنے والے ہیں۔اپنی اس محبت کے صدقے مجھے بخش دے میرے مولا۔۔۔ جانتی ہوں میں نے جو گناہ کیا اس کی کوئی معافی نہیں لیکن تجھے تیرے رحمن ہونے کا واسطہ مجھے بخش دے میرے رب۔۔۔بخش دے۔۔۔۔"


سکینہ دروازے میں کھڑی چاہت کو دیکھ رہی تھیں جو جائے نماز پر بیٹھی رو رو کر دعائیں مانگ رہی تھی۔انہیں یاد تھا کہ وہ چاہت کو بہت مشکل سے فجر کے لیے اٹھاتی تھیں پھر بھی چاہت کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے سو جاتی لیکن اب وہ خود ہی تہجد کے لیے اٹھ جاتی تھی اور پھر دعا مانگتے ہوئے کمرے میں اسکی سسکیاں سنائی دیتیں۔


یہی تو اللہ تعالیٰ سے انسان کے تعلق کی خوبصورتی ہے کہ انسان جتنا بھی اپنے رب سے غافل ہونے کی کوشش کر لے مصیبت میں اللہ کے سوا اس کا کوئی سہارا نہیں ہوتا۔اللہ کے سوا نہ تو کوئی اسکی پریشانی مٹا سکتا ہے اور نہ ہی سکون دے سکتا ہے۔


یہ بھی تو اس عظیم ہستی کی شان ہے کہ وہ اپنے غافل بندوں سے منہ نہیں پھیرتا بلکہ انکے گڑگڑا کر مانگنے پر انکا ہر گناہ بھلا کر انہیں اپنی رحمت کے سائے میں چھپا لیتا ہے۔


سکینہ نم آنکھوں سے چاہت کو دیکھتے ہوئے اسکے پاس آئیں اور اپنا ہاتھ اسکے سر پر رکھا۔چاہت نے اپنا ہاتھ چہرے پر پھیرا اور نم آنکھوں سے سکینہ کی جانب دیکھا۔


"اماں اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دیں گے ناں؟"


سکینہ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور پیار سے اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔


"لیکن خان جی معاف نہیں کریں گے اماں کبھی معاف نہیں کریں گے۔۔۔۔"


چاہت نے کرب کی انتہا سے کہا۔کئی آنسو لڑیوں کی طرح چہرے پر بہنے لگے۔سکینہ نے بے بسی سے اپنی بیٹی کو دیکھا کیونکہ اس بات کا ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا۔


"تمہیں پتا ہے چاہت دل سے مانگی ہوئی دعا اللہ تعالیٰ ضرور قبول کرتے ہیں پھر چاہے وہ نصیب بدلنے کی دعا ہو یا کسی کا دل۔دلوں میں محبت اور رحم ڈالنے والی وہ ذات ہے۔اس کے بس میں کیا نہیں ہے مانگ کر تو دیکھو وہ ہر وقت عطا کرنے کو تیار ہے۔۔۔۔۔"


چاہت نے آنکھیں موند لیں۔


"وہ مجھے معاف کر بھی دیں تو بھی میں ان کے قابل نہیں،ان کی محبت کے قابل نہیں بس نفرت کے قابل ہوں میں بالکل اپنے باپ کی طرح۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر چاہت نے جائے نماز طے کیا اور کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ سکینہ بے بسی سے وہاں کھڑی رہ گئیں۔


"یا اللہ میرے بیٹی کی خطاؤں کو معاف فرما کر اس کے مقدر میں خوشیاں لکھ دینا بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔"


سکینہ نے نم آنکھوں سے دعا کی اور ماں کی دعا بھی بھلا کبھی رد ہوئی تھی؟

💞💞💞💞

بہرام اکیلا کمرے میں بیٹھا تھا۔نظریں سامنے دیوار پر تھیں اور سوچوں کا مرکز بس اسکی چاہت تھی۔اسکی وہ معصومیت،اسکی نادانیاں یاد کر کے بہرام کا دل بری طرح سے بغاوت پر اترا ہوا تھا جو اسے اسی وقت چاہت کو اپنے پاس لانے کا کہہ رہا تھا لیکن بہرام ایسا کیسے کر سکتا تھا وہ تو بہرام سے اتنی نفرت کرتی تھی کہ اسکی جان لینا چاہتی تھی۔


"بہرام۔۔۔"


فرزام کی آواز پر بہرام نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔


"مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔۔۔۔۔"


فرزام بہرام کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور اسے ہر وہ بات بتا دی جو حبہ نے اسے بتائی تھی۔یعنی چاہت نے اتنا بڑا قدم اس لیے اٹھایا تھا کہ الطاف نے اسکے ذہن میں زہر گھولا تھا۔۔۔لیکن کیا پتہ وہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہو اور اپنے باپ کی کسی سازش میں اس کا حصہ ہو۔


"تم اس پر یقین کر سکتے ہو؟"


بہرام کے سوال پر فرزام گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر کچھ دیر کے بعد بولا۔


"کر سکتا ہوں۔۔۔۔"


بہرام نے اثبات میں سر ہلایا لیکن کچھ بولا نہیں۔


"بہرام میں چاہتا ہوں اسے ہر بات سچ بتا دیں تا کہ اسے خبر ہو کہ ہم اسکے بھائی ہیں۔"


بہرام نے مردہ آنکھوں سے فرزام کو دیکھا۔


"اور اگر یہ اسکی کوئی سازش ہوئی تو۔۔۔"


"اگر یہ اسکی کوئی سازش ہے تو الطاف ضرور یہ سوچ رہا ہو گا کہ ہم اسکی بیٹی پر اعتماد نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہمیں جانتا ہے لیکن ہم اس پر یقین کر کے اسی کے منصوبے کو الٹا گھما دیں گے۔۔۔"


بہرام نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔


"ٹھیک ہے وہ کرو جو تمہارا دل کرے۔۔۔"


فرزام نے زرا غصے سے بہرام کو دیکھا۔اج کل وہ ایسا ہی ہو گیا تھا۔اسے کسی چیز سے فرق نہیں پڑتا تھا یہاں تک کہ اتنی محنت سے آسمان کی بلندیوں تک لے جانے والے بزنس سے بھی۔


"میں اسے یہیں بلا رہا ہوں۔۔۔"


فرزام نے ایک ملازم کو آواز دی اور اسے حبہ کو بلانے کا کہا۔کچھ دیر کے بعد ہی حبہ ملازم کے ساتھ اس کمرے میں آئی۔


"اسلام و علیکم۔۔۔"


حبہ نے بہرام کو کہا جس نے ہاں میں سر ہلا کر جواب دیا۔فرزام کے اشارہ کرنے پر حبہ سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔


"آپ کے ساتھ جو بھی ہوا مسٹر بہرام میں اس کے لیے بہت شرمندہ ہوں۔"


حبہ کی بات کا بہرام نے کوئی جواب نہیں دیا تو حبہ پریشانی سے فرزام کو دیکھنے لگی۔


"ایک راز تم نے ہمیں بتایا حبہ اور ایک راز ہم تمہیں بتانا چاہتے ہیں۔ہو سکتا ہے تم بھی ہماری طرح میری باتوں یقین نہ کرو لیکن جو میں تمہیں بتاؤں گا وہ سب سچ ہے۔۔۔۔"


فرزام نے بات شروع کی اور ایک نظر بہرام کو دیکھ کر وردہ اور الطاف کے نکاح سے لے کر اس کے دھوکے تک ہر بات حبہ کو بتا دی جس کے بعد حبہ ان دونوں کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔


"ااا۔۔۔۔۔اس کا مطلب آپ دونوں میرے بھائی ہیں؟"


حبہ نے نم آنکھوں سے دونوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"ہاں حبہ دنیا کہ لیے ہم سلیمان خانزادہ کی اولاد ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہماری رگوں میں الطاف بیگ کا خون دوڑ رہا ہے۔۔۔۔"


حبہ اب اپنا سر ہاتھوں میں تھام چکی تھی۔


"ہم الطاف بیگ کا خون ضرور ہوں گے لیکن اولاد ہم سلیمان خانزادہ کی ہی ہیں۔اگر میرے بس میں ہوتا تو اپنی رگوں میں دوڑتا یہ زہریلا خون بہا کر خود کو ختم کر دیتا۔"


بہرام کی بات پر فرزام پریشان ہو گیا۔اسکا بھائی جو پہلے سے ہی سنجیدہ تھا اب زندگی سے مکمل طور پر نفرت کرنے لگا تھا۔


"کیسی بات ہے ناں۔۔۔۔"


حبہ نے نم آنکھوں کے ساتھ ان بھائیوں کو دیکھا۔


"بابا نے کبھی مجھ سے پیار نہیں کیا کیونکہ وہ ایک بیٹا چاہتے تھے جو ان کا وارث بن کر انکی دولت سنبھال سکے لیکن بہت کوشش کے باوجود خدا نے میرے بعد انہیں کوئی اولاد نہیں دی۔۔۔۔"


حبہ کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔


"اور جو بیٹے اس دنیا میں ہیں وہ ان کی ہی جان لینا چاہتے ہیں تا کہ ان کی دولت حاصل کر سکیں۔۔۔۔"


حبہ اب باقاعدہ اپنی مٹھیاں بھینچ چکی تھی۔


"دولت کی حرص کیا سے کیا بنا دیتی ہے انسان کو۔۔۔۔"


حبہ نے نفرت سے کہا جبکہ آنکھیں روانی سے بہنے لگی تھیں یہ دیکھ کر فرزام اسکے پاس آیا اور اپنا بازو اسکے گرد لپیٹ کر اسکا سر اپنے سینے پر رکھ لیا۔


"تم فکر مت کرو حبہ۔ہم دونوں تمہارا سہارا ہیں۔تم چاہو تو ہمارے پاس آ کر رہ سکتی ہو کوشش کریں گے کہ بھائی ہونے کا ہر فرض پورا کریں۔۔۔"


حبہ نے مسکرا کر محبت سے ایک نظر فرزام اور بہرام کو دیکھا۔کتنا پیارا رشتہ تھا ناں یہ پل بھر میں اسے اپنا آپ محفوظ لگنے لگا تھا۔


"شکریہ فرزام۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔"


حبہ کے ایسا کہنے پر فرزام نے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھ دیے اور تبھی بہرام کے لیے سوپ لاتی مناہل نے یہ منظر دیکھا تو اسکے قدم زمین میں ہی جم گئے۔آنکھوں سے آنسو بہہ کر زمین بوس ہو گئے اور ہاتھ میں پکڑی ٹرے خود بخود اسکے ہاتھوں سے چھوٹ کر گر گئی۔


کچھ ٹوٹنے کی آواز پر سب نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں مناہل مردہ آنکھوں سے فرزام کو دیکھ رہی تھی۔


"من۔۔۔"


فرزام کے پکارنے پر مناہل نے واپس مڑنا چاہا تو اسکا پاؤں ٹوٹے ہوئے کانچ کے بول سے ٹکرایا اور زخمی ہو گیا یہ دیکھ کر فرزام فوراً اسکے پاس آیا اور نیچے بیٹھ کر پریشانی سے اسکے پاؤں سے نکلتا خون دیکھنے لگا۔


"یہ کیا کر دیا تم نے من؟"


فرزام جو اسکے زخم کی بات کر رہا تھا مناہل کو لگا کہ ان ٹوٹے برتنوں کے بارے میں کہہ رہا ہے اسی لیے سوری بول کر وہ کانچ کے ٹکڑے ہاتھ سے اٹھانے لگی۔


"چھوڑو اسے ملازمہ صاف کر دے گی پہلے جو پاؤں پر چوٹ لگی ہے اس سے خوش نہیں ہو کیا۔"


فرزام نے اسکے ہاتھ کانچ کا ٹکڑا لے کر واپس فرش پر رکھا اور اسے اپنی باہوں میں اٹھا کر وہاں سے چلا گیا۔فرزام کی یہ محبت دیکھ کر حبہ مسکرا دی۔


"شکر ہے مناہل کا کوئی سہارا بنا ورنہ وہاں تو ہر دوسرا شخص اس معصوم کا دشمن بنا بیٹھا تھا۔"


حبہ نے بہرام کو بتایا جو اسے تیکھی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔


"آپ مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے ناں۔۔۔۔"


حبہ کے پوچھنے پر بہرام نے انکار میں سر ہلایا۔جانے کیوں یہ جواب جان کر حبہ کو افسوس ہوا۔


"آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ بھی بھروسہ نہیں کرتا۔جو کچھ میرے بابا نے آپ دونوں کے ساتھ کیا اس کے بعد آپ دونوں کی مجھ سے نفرت جائز ہے۔۔۔۔۔"


حبہ نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔بہرام اکثر ہی جھوٹ بولنے والے انسان کو سمجھ جاتا تھا لیکن حبہ کے چہرے پر وہ افسوس اور شرمندگی کوئی دیکھاوا نہیں تھا۔


"کیا مجھے زہر تمہارے باپ نے دلوایا؟"


بہرام کے اچانک سوال پر پہلے تو حبہ چوک گئی پھر اس نے ہاں میں سر ہلایا۔


"میں نے انہیں کسی سے بات کرتے سنا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ ایک لڑکی نے ان کی بات مان کر آپ کو زہر دیا۔۔۔۔"


بہرام کی آنکھوں میں خون اتر چکا تھا۔


"وہ لڑکی میری بیوی ہے۔۔۔"


اس بات پر حبہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ بہرام کو کیا کہے۔


"مجھے اکیلا چھوڑ دو اس وقت۔۔۔ "


بہرام کے ایسا کہنے پر حبہ وہاں سے چلی گئی اور بہرام کرب سے اپنی آنکھیں موندتا چاہت کی بیوفائی یاد کرنے لگا۔اتنا تو وہ سمجھ چکا تھا کہ الطاف نے اس کے ذہن میں بہت زیادہ زہر گھولا ہوگا جس نے چاہت کی محبت کو ختم کر دیا لیکن پھر بھی بہرام کا دل مطمئن نہیں ہوا۔چاہت کا اس پر بھروسہ نہ کرنا بہرام کے لیے سب سے زیادہ کربناک تھا۔

💞💞💞💞

فرزام مناہل کو اپنے کمرے میں لے کر آیا اور اسے بیڈ پر بیٹھا کر الماری سے فرسٹ ایڈ باکس لینے چلا گیا۔مناہل مردہ آنکھوں سے اسکی ہر حرکت کو دیکھ رہی تھی۔فرزام نے پایوڈین کاٹن پر لگا کر اسکے زخم پر رکھی اور نرمی سے وہ زخم صاف کرنے لگا۔


"نہ جانے دھیان کہاں ہوتا ہے تمہارا۔۔۔۔؟"


فرزام نے اسکے زخم پر ایک پھونک ماری اور پھر نظریں اٹھا کر مناہل کو دیکھنے لگا۔


"کیا ہوا من؟"


مناہل کی آنکھوں سے کئی آنسو بہہ نکلے۔


"آپ مجھ سے اکتا گئے ہیں ناں فرزام اب میں آپ کو اپنے قابل نہیں لگ رہی۔۔۔"


فرزام نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"یہ کیا کہہ رہی ہو من؟"


"وہی جو سچ ہے اسی لیے تو آپ حبہ آپی کو و ۔۔۔۔ویسے حق سے چھو رہے تھے کیا وہ آپ کو اچھی لگنے لگیں ہیں؟"


مناہل کے سوال پر فرزام کا پارہ ہائی ہو گیا۔


"پاگل ہو گئی ہو کیا من جانتی بھی ہو کیا کہہ رہی ہو۔۔۔؟"


فرزام کے اس قدر غصے سے چلانے پر مناہل سہم کر اسے دیکھنے لگی۔


"میں نے اس رات اپنی زندگی کی ہر سچائی تمہیں بتائی تھی پھر بھی تم یہ بے تکا سوال کیسے کر سکتی ہو؟الطاف بیگ میرا باپ ہے من اور حبہ کا بھی اس لحاظ سے وہ میری بہن لگتی ہے اور تم ہو کہ۔۔۔۔"


فرزام کی بات پر مناہل کا دل کیا کہ شرم سے ڈوب مرے آخر اس نے تب یہ کیوں نہیں سوچا کہ اس رات فرزام نے اسے وردہ اور الطاف کے نکاح کی ہر بات بتائی تھی اور اس لحاظ سے وہ دونوں حبہ کے بھائی ہوئے۔


مناہل کے احساس کمتری کے احساس نے اسکی عقل کو مکمل طور پر ختم کر دیا تھا جو وہ اتنی عام سی بات سوچ نہیں سکی۔


"ففف۔۔۔۔فرزام۔۔۔۔"


"کتنی بار میں نے تمہیں بتایا ہے من کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں جو تمہارے ساتھ ہوا مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ تمہارا قصور نہیں تھا۔"


مناہل اب اپنا سر شرمندگی سے جھکا کر رونے لگی تھی۔


"اپنے ہر عمل سے تمہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ تم میرے لیے کس قدر قیمتی ہو لیکن تمہیں ابھی بھی نا تو مجھ پر یقین ہوا اور نہ ہی میری محبت پر۔۔۔۔"


مناہل اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اپنے ہاتھ فرزام کے سامنے جوڑ دیے۔


"آئی ایم سوری فرزام میں ۔۔۔۔"


"نہیں من اب بہت ہو گیا۔۔۔۔میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔۔"


مناہل نے سہم کر فرزام کو دیکھا۔


"مجھے لگا تھا کہ تم چاہت جیسی نہیں ہو۔مجھ پر بھروسہ کرتی ہو لیکن آج تم نے مجھے غلط ثابت کر دیا۔۔۔"


فرزام اتنا کہہ کر اس کے پاس سے اٹھا تو مناہل نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔


"شاید میری محبت میں ہی کوئی کمی ہوگی جو تمہیں خود پر یقین نہیں کروا پایا۔۔۔۔"


فرزام نے اپنا ہاتھ اسکے نازک ہاتھ سے چھڑوا لیا۔


"لیکن اب تب ہی تمہارے سامنے آؤں گا جب اس کمتری احساس کو ختم کرکے تم میری من کو تلاش کر لو گی وہ من جو مجھ پر بھروسہ کرتی ہے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام کمرے سے چلا گیا اور مناہل بس اسے آواز دیتی رہ گئی لیکن وہ رکا نہیں۔مناہل کا دل کیا کہ اپنی جان لے لے آخر وہ اتنی بڑی بیوقوفی کیسے کر گئی۔یہی تو ہوتا ہے جب انسان جذبات کو خود پر حاوی ہونے دیتا ہے۔وہ جذبات اس کی عقل کو زائل کر دیتے ہیں۔

💞💞💞💞

الطاف اپنے کمرے میں آیا اور انجم بیگم کو دیکھا جو شیشے کے سامنے تیار کھڑی پریشانی سے کسی کو فون کر رہی تھیں۔


"ہیلو حبہ کہاں ہو تم؟"


انجم بیگم کی پریشان آواز کمرے میں گونجی۔


"کیا مطلب دوست کے گھر ہو تمہیں واپس آ جانا چاہیے تھا ناں۔۔۔۔"

الطاف نے اپنے دانت کچکچا کر انہیں دیکھا۔

"اچھا کوئی بات نہیں وہ بیمار ہے تو اس کے پاس ہی رک جاؤ لیکن صبح ہوتے ہی واپس آ جانا۔۔۔۔"

انجم بیگم نے اللہ حافظ کہہ کر فون بند کر دیا اور پیچھے مڑیں تو وہاں الطاف کو دیکھ کر مزید گھبرا گئیں۔

"الطاف وہ حبہ کی دوست بیمار ہے تو وہ اسکے پاس ہی رک گئی۔۔۔۔"

الطاف نے غصے سے انہیں دیکھا۔

"مجھے فرق نہیں پڑتا۔جو دل میں آتا ہے کرتے پھرو تم ماں بیٹی۔۔۔۔"

الطاف اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔اج کل اسکا رویہ سب سے مزید روکھا ہو چکا تھا کیونکہ اسکا بہرام کو مارنے کا پلین بری طرح سے فیل ہو گیا تھا۔

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ دونوں بھائی کون سی قسمت لے کر پیدا ہوئے تھے جو ہمیشہ اس کے وار سے بچ جاتے۔

الطاف گاڑی میں بیٹھا انجم بیگم کا انتظار کرنے لگا اور کچھ ہی دیر میں انجم بیگم آکر اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔

"اور دیر لگا دیتی تا کہ بزنس پارٹی پر دیر سے پہنچنے کی وجہ سے خوب بے عزتی ہو جانتی میری۔۔۔"

"الطاف۔۔۔۔"

انجم بیگم نے پریشانی سے اسے دیکھا تو وہ غصے سے ڈرائیو کرنے لگا۔

"کیا ہو گیا ہے الطاف آج کل آپ کو اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کیوں آتا ہے؟"

"چھوٹی چھوٹی باتیں؟تم ہو جسے اپنے تیار ہونے سے فرصت نہیں۔۔۔۔نا تو میری کوئی فکر ہے اور نہ ہی بیٹی کی۔۔۔۔اور بیٹی صاحبہ جہاں دل کرتا ہے وہاں آوارہ گردی کرتی پھر رہی ہے دیکھا بہت جلد ہماری عزت پامال کر دے گی یہ لڑکی۔۔۔۔"

الطاف کی اس قدر سختی پر انجم بیگ نے حیرت سے انہیں دیکھا۔

"الطاف آپ ۔۔۔۔"

"ابھی میرا دماغ خراب مت کرو انجم میں پہلے ہی۔۔۔"

اچانک ہی الطاف نے انجم سے دھیان ہٹا کر سڑک کو دیکھا تو خوف سے اسکی روح فنا ہو گئی کیونکہ سامنے سے آتا تیز رفتار ٹرک اب انکے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔

"الطاف۔۔۔۔"

انجم بیگم کی چیخ گاڑی میں گونجی لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔چاہ کر بھی الطاف اس گاڑی کو کنٹرول نہیں کر پایا اور وہ گاڑی بری طرح سے اس ٹرک سے ٹکرا گئی۔

مناہل فرزام کے جانے کے بعد سے بیڈ پر لیٹی روتی چلی جا رہی تھی۔اپنی بیوقوفی پر ماتم کرنے کے سوا اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔اسے فرزام پر،اسکی محبت ہر بھروسہ کرنے چاہیے تھا اور وہ۔۔۔۔


اپنی کہی بات یاد کرکے مناہل مزید رونے لگی۔اچانک ہی دروازہ کھٹکنے کی آواز پر مناہل نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے اور دروازے کی جانب دیکھا۔


اگر فرزام ہوتا تو وہ دروازہ ناک نہیں کرتا لیکن اس کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا۔


"کک۔۔۔کون۔۔۔؟"


مناہل نے سہم کر پوچھا۔


"میں ہوں مناہل۔۔۔"


حبہ کی آواز پر مناہل نے سکون کا سانس لیا اور دروازے کے پاس آ کر دروازہ کھول دیا لیکن حبہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔


"حبہ آپی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟"


مناہل نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔


"مناہل فرزام بھائی کہاں ہے۔۔؟"


"وہ تو۔۔۔۔"


مناہل زرا سا ہچکچائی۔اب وہ حبہ کو کیا بتاتی کہ فرزام کو اپنی بیوقوفی سے ناراض کر بیٹھی تھی۔


"آپ مجھے بتائیں تو سہی کیا ہوا ہے۔۔۔۔"


حبہ نے اپنے آنسو پونچھے اور مناہل کی جانب دیکھا۔


"ماما اور بابا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے مناہل۔۔۔۔ممم۔۔۔۔مجھے ابھی لاہور جانا ہے۔۔۔۔۔"


یہ بات سن کر مناہل بھی گھبرا گئی اس سے پہلے کے وہ حبہ کو کچھ کہتی پیچھے سے آتے فرزام نے ان دونوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


"فرزام۔۔۔۔تایا ابو اور تائی امی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔۔"


مناہل نے روتے ہوئے کہا دل خوف سے بند ہو رہا تھا۔فرزام نے ایک نظر اسکے آنسوؤں کو دیکھا اور اپنا ہاتھ حبہ کے کندھے پر رکھا۔


"تم پریشان مت ہو ہم ابھی لاہور کے لیے نکلتے ہیں۔۔۔میں بہرام کو بتا کر آتا ہوں۔۔۔"


حبہ نے ہاں میں سر ہلایا اور اس کمرے کی جانب چلی گئی جہاں وہ رکی تھی۔فرزام نے کمرے میں جا کر اپنا موبائل اور کار کی چابیاں پکڑیں۔


"فرزام مجھے بھی ساتھ جانا ہے۔۔۔۔"


مناہل نے اسکے پیچھے آ کر کہا۔


"نہیں میں نہیں چاہتا کہ تم وہاں جاؤ۔۔۔۔"


فرزام کی آواز میں ہمیشہ والی محبت اور نرمی کی بجاۓ بے تحاشا سنجیدگی تھی۔


"پلیز مجھے ساتھ لے جائیں۔۔۔"


فرزام غصے سے اسکی جانب مڑا اور اسے کندھوں سے دبوچ لیا۔


"کہا ہے ناں مناہل تم ان لوگوں کے درمیان واپس نہیں جا رہی۔۔۔۔میں نہیں چاہتا ان میں سے کوئی تمہیں پھر سے تکلیف دے۔۔۔ "


فرزام کا غصہ دیکھ کر مناہل سہم گئی لیکن پھر ہمت کرتے ہوئے بولی۔


"پلیز فرزام مجھے جانا ہے۔۔۔"


اب کی بار فرزام کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا تھا۔


"اس شخص نے تم سے تمہارے ماں باپ کو چھینا۔۔۔تمہیں چھوٹی سی عمر میں بے سہارا کر دیا۔۔۔۔تم سے اس قدر لاپروا رہا کہ ایک جانور تمہیں چھلنی کر گیا اور اسے خبر تک نہ ہوئی یہاں تک کہ جب پتہ چلا تو اسے بچانے کی کوشش کی پھر بھی تم اس کی پریشانی میں وہاں جانا چاہتی ہو۔۔۔۔"


فرزام کے سوال پر مناہل کی نظریں شرمندگی سے جھک گئیں۔


"مناتی ہوں وہ میرے گناہ گار ہیں لیکن مصیبت میں کوئی دوست یا دشمن نہیں ہوتا فرزام سب انسان ہوتے ہیں۔۔۔۔"


فرزام حیرت سے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے جھٹکے سے مناہل کو چھوڑ دیا۔


"دس منٹ میں باہر آ جانا میں ویٹ کر رہا ہوں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام کمرے سے باہر نکل گیا اور غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچتا بہرام کے کمرے کی جانب چل دیا۔اسے اپنی من کی پاکیزگی پر تعجب ہو رہا تھا کہ کیسے وہ اس شخص کی تکلیف پر یہ بھی فراموش کر گئی تھی کہ وہ اس کا گناہ گار تھا۔


فرزام نے بہرام کے کمرے کا دروازہ کھولا تو اسے بہرام اپنی آنکھوں پر بازو رکھ کر لیٹا نظر آیا۔ہلکی سی آہٹ پر بہرام نے اپنا بازو آنکھوں پر سے ہٹایا جس کا مطلب صاف تھا کہ رات کے اس پہر بھی وہ سو نہیں رہا تھا۔


"الطاف بیگ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔۔"


بہرام نے حیرت سے فرزام کی طرف دیکھا پھر اسکی آنکھوں میں نفرت اتری۔


"وہ اتنی آسانی سے نہیں مر سکتا فرزام موت اس کے گناہوں کی بہت چھوٹی سزا ہے۔۔۔۔"


فرزام نے اثبات میں سر ہلایا۔


"میں حبہ اور مناہل کو لے کر لاہور جا رہا ہوں۔۔۔۔"


بہرام نے گہرا سانس لیا اور اپنی آنکھیں موند گیا۔


"دعا کرنا فرزام کے وہ مرے نہیں ورنہ۔۔۔۔"


"ورنہ۔۔۔۔؟"


بہرام کے رک جانے پر فرزام نے پوچھا۔


"اگر وہ مر گیا تو میری زندگی کا آخری مقصد بھی ختم ہو جائے گا،الطاف کے دولت اور طاقت کا غرور ٹوٹتے ہوئے دیکھنا۔۔۔۔اور بغیر مقصد کے زندگی سے بڑا عزاب کچھ نہیں۔۔۔۔"


فرزام نے فکر مندی سے بہرام کی جانب دیکھا جو مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا۔اسے چاہت پر مزید غصہ آنے لگا کیونکہ وہی تو بہرام کی اس حالت کی ذمہ دار تھی۔


"بہرام تم۔۔۔"


"جاؤ اب۔۔۔۔مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔۔"


بہرام نے پھر سے اپنی آنکھوں پر بازو رکھ لیا تو فرزام آخری نگاہ اپنے بھائی کو دیکھتا کمرے سے باہر آ گیا۔وہ ہال میں آیا تو حبہ اور مناہل پہلے سے ہی وہاں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔


فرزام نے ان دونوں کو ساتھ لیا اور بائے روڈ لاہور کے لیے نکل پڑا۔وہ جتنی تیز ہو سکتا تھا گاڑی چلا رہا تھا پھر بھی انہیں پہنچنے میں چار گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔


لاہور پہنچ کر وہ سیدھا اس ہاسپٹل میں گئے جہاں الطاف اور انجم بیگم کو لایا گیا تھا۔ہاسپٹل پہنچتے ہی حبہ بے چینی سے ان دونوں کے بارے میں پوچھنے لگی۔فرزام بھی مناہل کا ہاتھ تھام کر حبہ کے ساتھ چلتا رہا۔


انہیں پتہ چلا کہ الطاف بیگ آپریشن تھیٹر میں ہے تو وہ تینوں سیدھا آپریشن تھیٹر کے باہر آ گئے۔کچھ دیر بعد ایک ڈاکٹر آپریشن تھیٹر کے باہر آیا۔حبہ بے چینی سے ڈاکٹر کے سامنے گئی۔


"میرے بابا کیسے ہیں اب۔۔۔۔ااا۔۔۔اور میری ماما۔۔۔۔وہ کہاں ہیں۔۔۔؟"


ڈاکٹر نے پہلے تو گھبرا کر ساتھ موجود نرس کو دیکھا پھر ہمت کرتے ہوئے بولا۔


"دیکھیں مس۔۔۔۔آپ پلیز ہمت سے کام لیں۔۔۔۔"


"میری ماما کیسی ہیں آپ بتائیں مجھے۔۔۔۔؟"


حبہ کے پھر سے پوچھنے پر ڈاکٹر گہرا سانس لیتے ہوئے بولا۔


"مسز بیگ از نو مور۔۔۔۔جب وہ یہاں پہنچیں تب ہی وہ دم توڑ چکی تھیں۔۔۔"


حبہ نے صدمے سے ڈاکٹر کی جانب دیکھا۔اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل لگ رہا تھا۔مناہل نے روتے ہوئے آگے ہو کر حبہ کو اپنے ساتھ لگا لیا۔


"اا۔۔۔۔۔اور میرے بابا۔۔۔؟"


آنسو حبہ کی آنکھوں میں اٹک چکے تھے ڈاکٹر کو بے ساختہ اس لڑکی پر رحم آیا۔


"ان کی حالت کافی کرٹیکل ہے۔انکی ٹانگوں کی ہڈیاں بری طرح سے چکنا چور ہو گئیں تھیں جس کی وجہ سے اگر وہ بچ بھی جائیں تو کبھی چل نہیں پائیں گے لیکن فی الحال یہ اتنی بڑی پرابلم نہیں۔۔۔۔"


فرزام نے آنکھیں چھوٹی کر کے ڈاکٹر کو دیکھا۔


"کیا مطلب۔۔۔۔؟"


"ان کا بلڈ لاسٹ بہت زیادہ ہوا ہے اور ان کا بلڈ گروپ بھی او نیگیٹو ہے جو بہت ڈھونڈنے کے باوجود ہمیں ناکافی ملا۔۔۔۔لیکن آپ ان کی بیٹی ہیں تو ہو سکتا ہے آپ کا بلڈ گروپ ان سے میچ کر جائے۔۔۔۔۔نرس آپ ان کا بلڈ ٹیسٹ کریں۔۔۔۔"


حبہ نے فوراً ہاں میں سر ہلایا اور نرس کے ساتھ چلی گئی۔ابھی وہ مکمل طور پر یہ بات بھول چکی تھی کہ اس کا باپ کیسا انسان تھا۔ابھی اسے کچھ یاد تھا تو صرف یہ کہ موت سے لڑتا وہ شخص کا باپ تھا۔


کچھ ہی دیر میں نرس حبہ کا بلڈ ٹیسٹ کر کے رپورٹ ڈاکٹر تک پہنچا چکی تھی اور اب حبہ فرزام اور مناہل کے ساتھ پریشانی کے عالم میں ڈاکٹر کے سامنے کھڑی تھی۔


"سوری مس لیکن آپ کا بلڈ گروپ اے بی پازیٹیو ہے جو آپکی ماں کا تھا۔۔۔۔"


حبہ یہ جان کر مزید پریشان ہو گئی۔


"اب کیا ہو گا؟"


ڈاکٹر بھی اب مایوس نظر آ رہا تھا۔


"ہم ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں آپ دعا کریں جلد ہی بندوبست ہو جائے ۔۔۔۔"


ڈاکٹر اتنا کہہ کر اس وارڈ سے باہر نکل گیا اور حبہ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


"حبہ آپی۔۔۔ "


مناہل نے اسے اپنے سینے سے لگایا۔اسکی آنسو سے بھی آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔


"وہ جیسے بھی ہیں مناہل میرے بابا ہیں۔۔۔۔ماما کو تو کھو دیا ہے انہیں کھونا نہیں چاہتی۔۔۔۔"


مناہل اسکی بات پر خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور فرزام سنجیدگی سے وہاں کھڑا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔


اگر وہ مر گیا تو میری زندگی کا آخری مقصد بھی ختم ہو جائے گا اور بغیر مقصد کے زندگی سے بڑا عزاب کچھ نہیں۔


فرزام کے ذہن میں بہرام کے الفاظ گونجے اور اسی کے ساتھ وہ فیصلہ کرتا اس وارڈ سے باہر آ گیا۔

💞💞💞💞

چاہت خاموشی سے دروازے میں کھڑی سکینہ کو دیکھ رہی تھی جو چادر کو اچھی طرح لیتے کہیں جانے کی تیاری کر رہی تھیں اور چاہت بھی جانتی تھی کہ وہ کہاں جارہی ہیں ابھی کل رات ہی تو انہوں نے چاہت کو یہ بات بتائی تھی۔


"کیا ہوا چاہت ایسے وہاں کیوں کھڑی ہو کچھ چاہیے کیا؟"


سکینہ کے سوال پر چاہت نے ہاں میں سر ہلایا اور گھبراتے ہوئے ان کے قریب آئی۔


"کیا بات ہے چاہت؟"


چاہت کا سر شرمندگی سے جھکا دیکھ سکینہ نے نرمی سے پوچھا۔


"آپ خان جی سے ملنے جا رہی ہیں ناں۔۔۔۔؟"


سکینہ نے کچھ دیر اسے دیکھا پھر ہاں میں سر ہلایا۔


"اسے ہسپتال سے گھر آئے کافی عرصہ ہو چکا ہے پہلے تو میرے میں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن اب خود میں ہمت جمع کر ہی لی ہے۔۔۔۔"


سکینہ نے نرمی سے کہا تو چاہت کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر زمین پر گرے۔


"تم بتاؤ تمہیں کوئی کام ہے کیا؟"


چاہت نے ہاں میں سر ہلایا اور دوپٹے میں سے ایک کانپتا ہاتھ نکال کر سکینہ کے سامنے کیا۔


"آپ یہ خان جی کو دے دینا۔۔۔۔"


سکینہ نے حیرت سے اسکے ہاتھ میں موجود اس کاغذ کو دیکھا۔ پہلے تو دل میں آیا کہ اس سے پوچھیں یہ کیا ہے پھر اپنی بیٹی کی بکھری حالت کا سوچ کر خاموشی سے وہ کاغذ پکڑ لیا۔


"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔"


سکینہ نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور گھر سے باہر آ گئیں۔انہوں نے ایک ٹیکسی لی اور خانزادہ مینشن پہنچ گئیں۔بہرام کا سامنا کرنے کی ہمت ان میں نہیں تھی لیکن جیسے تیسے انہوں نے اب خود میں یہ ہمت پیدا کی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ چاہت چاہ کر بھی ایسا کبھی نہیں کر پاتی۔سکینہ کو دیکھ کر ملازم بہرام کو خبر دینے چلے گئے۔


"کون آیا ہے۔۔۔۔؟"


ملازم کے بتانے کے باوجود بہرام نے دوبارہ پوچھا۔


"سکینہ اماں۔۔۔"


نہ جانے کیوں ان کے یہاں آنے کا جان کر ہی بہرام کو بے چینی سی ہوئی۔


"اکیلے آئی ہیں وہ؟"


"جی سر۔۔۔"


ملازم نے فوراً عقیدت سے جواب دیا تو بہرام کو اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔


"ٹھیک ہے اندر بھیجو انہیں۔۔۔۔"


ملازم ہاں میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد ہی سکینہ اس کمرے میں آئیں۔


"اسلام و علیکم بیٹا۔۔۔"


سکینہ نے بہرام کے پاس آ کر ہمیشہ والی محبت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔


"و علیکم السلام۔۔۔"


بہرام کے سنجیدگی سے جواب دینے پر وہ ہلکا سا مسکرا کر اسکے بیڈ کے پاس پڑے دیوان پر بیٹھ گئیں۔


"اب کیسی طبعیت ہے تمہاری ؟"


سکینہ کی آواز میں چھپی شرمندگی بہرام محسوس کر سکتا تھا۔


"ٹھیک ہوں۔۔۔۔آپ شرمندہ مت ہوں جو ہوا اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔۔۔۔"


بہرام کی بات پر سکینہ کا سر مزید جھک گیا۔


"سب میرا ہی قصور ہے بیٹا۔۔۔اگر میں چاہت سے سب نہ چھپاتی تو وہ ایسا نہیں کرتی۔۔۔"


سکینہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بہرام اپنی آنکھیں موند گیا۔


"اور آپ کو ایسا کرنے سے میں نے منع کیا تھا اگر کسی کا قصور ہے تو صرف میرا میں آپ کو یا چاہت کو قصوروار نہیں سمجھتا اماں جی نہ ہی آپ دونوں سے نفرت کرتا ہوں۔۔۔۔بلکہ قصوروار بھی خود کو ہی سمجھتا ہوں اور خود سے نفرت تو ہمیشہ سے ہے مجھے۔۔۔۔"


سکینہ نے بہرام کو رحم سے دیکھا۔کیا تھی اس کی قسمت۔اس نے تو بچپن سے خوشیوں کا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا۔سکینہ کو لگا تھا کہ چاہت اپنی معصومیت اور شرارتوں سے اسکی زندگی کی خوشیاں لوٹا دے گی لیکن وہ تو بہرام کی زندگی مزید ویران کر چکی تھی۔


"چاہت تمہاری گناہگار ہے بیٹا تم اسے جو سزا دو گے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔۔۔"


ایک گھائل سی مسکان بہرام کے ہونٹوں پر آئی۔


"سزا وہ دیا کرتے ہیں اماں جی جو اس قابل ہوں جیسے چاہت نے مجھے میرے گناہ کی سزا دی۔۔۔۔"


سکینہ نے حیرت سے بہرام کو دیکھا۔


"جو اس نے کیا وہ کوئی گناہ نہیں بلکہ وہ تو اس کا حق تھا۔۔۔۔آپ اسے قصوروار مت ٹھہرائیں۔۔۔۔"


اماں جی نے اپنے آنسو پونچھے اور مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔


"تم بہت اچھے ہو بیٹا یہ چاہت کی بد بختی ہے کہ وہ تم جیسے ہیرے کی قدر نہیں کر پائی۔۔۔ "


وہ بہرام کے پاس آئیں اور چادر کے نیچے سے ایک کاغذ نکال کر بہرام کے سامنے کیا۔


"یہ چاہت نے تمہیں دینے کا کہا تھا۔۔۔۔"


بہرام کا دل چاہت کے ذکر پر بہت زور سے دھڑکا لیکن اس نے گھبراتے ہوئے اس کاغذ کو دیکھا۔بہرام نے وہ کاغذ پکڑ لیا تو سکینہ نے اس کے سر پر پیار دیا اور وہاں سے چلی گئیں۔بہرام کتنی دیر مردہ آنکھوں سے اس کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھتا رہا۔


کیا تھا اس کاغذ میں کہیں خلع تو نہیں۔۔۔بہرام کا دل کیا کہ اس کاغذ کے ٹکڑے کو پھاڑ کر پھینک دے۔چاہے کچھ بھی ہو جاتا وہ چاہت کو چھوڑنے والا نہیں تھا۔


اگر چاہت کو اس رشتے سے آزادی چاہیے تو اسے اس مرتبہ سچ میں بہرام کی جان لے کر بیوہ ہونا ہو گا کیونکہ اس کے علاوہ وہ اس رشتے سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتی تھی۔


بہرام نے ہمت کر کے اس کاغذ کو کھولا لیکن وہ کوئی خلع نامہ نہیں تھا۔۔۔نہیں بلکہ اس میں تو کچھ لکھا ہوا تھا اور بہرام جانتا تھا کہ وہ چاہت کی رائٹنگ ہے ۔بہرام نے مردہ آنکھوں سے اس خط کو پڑھنا شروع کیا۔


"خان جی۔۔۔۔


میں نہیں جانتی کہ اپنی بات کہاں سے شروع کروں۔زندگی میں پہلی بار باتونی سی چاہت کے پاس کہنے کو کوئی الفاظ ہی نہیں۔بس اتنا سمجھ لیجئے کہ جو اس میں لکھا ہے وہ الفاظ نہیں میرے احساسات ہیں۔


جب اس شخص نے ا کر مجھے بتایا کہ آپ نے میرے بابا کی جان لی کیونکہ میرے بابا آپ کے ماں باپ کو اس آگ میں جلنے سے نہیں بچا پائے تو مجھے لگا کہ جیسے کسی نے میری خوشیوں کو جلتی بھٹی میں جھونک دیا ہو لیکن میں نے اس کا یقین نہیں کیا خان جی۔کیسے کرتی؟کیسے مان لیتی کہ میرے خان جی جنہیں تب سے محبت کی ہے جب اس احساس سے بھی واقف نہیں تھی وہ ایسا کر سکتے ہیں۔کیسے مان لیتی کہ وہ شخص جو مجھے پوری دنیا میں سب سے اچھا لگتا ہے وہ کسی سے ایسی زیادتی کر سکتا ہے ۔۔۔۔میں یہ بات نہیں مان سکتی تھی اسی لیے اماں سے وجہ جاننے کی بجائے میں نے آپ سے پوچھا۔


میں چاہتی تھی آپ مجھے سب بتا دیں مجھے جھوٹا ثابت کر دیں اور سب ٹھیک ہو جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔۔آپ کا مجھ سے سچ چھپانا میرے دل میں پلتے اس شک کو یقین میں بدل گیا اور میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا گناہ کر دیا۔آپ پر یقین نہیں کر پائی۔


کیوں کیا آپ نے ایسا خان جی سچ جان کر میں شائید بکھر جاتی،شائید خود سے نفرت کرنے لگ جاتی لیکن آپ کی محبت مجھے سمیٹ لیتی خان جی،آپ کی محبت مجھے پھر سے خود کو چاہنے پر مجبور کر دیتی لیکن اب ۔۔۔


اب جو نفرت خود سے کرنے لگی ہوں وہ کبھی ختم نہیں ہو پائے گی۔اب جیسے بکھری ہوں پھر کبھی خود کو سمیٹ نہیں پاؤں گی۔جو میں نے آپ کے ساتھ کیا اس سے آپ کی چاہت مکمل طور پر مٹ گئی ہے خان جی اب بس ایک وجود باقی ہے اور وہ وجود آپ کی سزا کا مستحق ہے۔


آپ چاہیں تو مجھے طلاق دے دیں یا میری جان لے لیں مجھے ہر سزا قبول ہو گی خان جی بس ایک خواہش پوری کر دینا۔۔۔۔ ایسا کرنے سے پہلے بس اتنا کہہ دینا کہ آپ نے مجھے معاف کیا تا کہ میں یہ جان کر سکون سے مر جاؤں کہ اگلے جہان میری بخشش ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ اس جہان میں آپ کو مجھے دے دیں گے ہمیشہ کے لیے۔


جانتی ہوں میں خواہش کرنے کے قابل نہیں پھر بھی میری یہ خواہش پوری کر دیں گے تو میرے لیے بہت بڑا احسان ہو گا۔


فقط آپ کی چاہت۔"


خط میں لکھے الفاظ پڑھ کر کتنے ہی آنسو بہرام کی آنکھوں سے ٹوٹ کر ان صفحوں پر گرے تھے۔وہ جو یہ اتنے دنوں سے اس آگ میں جل رہا تھا کہ اسکی محبت اس سے نفرت کرتی ہے کتنا بے خبر تھا کہ اسکی محبت اس سے بھی زیادہ شدت سے اسی آگ میں جل رہی تھی۔


بہرام نے وہ تین صفحے اپنے سینے دل کے مقام پر رکھے اور پھر وہ تیس سالہ شخص اٹھارہ سال کے بعد آج پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

💞💞💞💞

الطاف کی آنکھ کھلی تو پہلی نگاہ ڈاکٹر پر پڑی جو اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔


"نئی زندگی مبارک ہو مسٹر بیگ۔۔۔۔۔"


الطاف نے بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا اور اسکی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔


"مم۔۔۔میں کہاں۔۔۔"


ڈاکٹر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


"آپ کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا لیکن اب آپ بالکل ٹھیک ہیں ۔۔۔۔"


ڈاکٹر کی بات پر الطاف کو اپنی کار کا ٹرک سے ٹکرانا یاد آیا اور ساتھ ہی اپنے جسم میں اٹھتی تکلیفوں کا اندازہ بھی ہوا۔


"آپ کا بلڈ گروپ رئیر ہونے کی وجہ سے ہمیں کافی مشکل درپیش آئی لیکن وہ تو شکر ہے کہ وقت پر آپ کا بیٹا یہاں آگیا ورنہ ہم آپ کو بچا نہیں سکتے۔۔۔۔"


ڈاکٹر کی بات پر الطاف کی آنکھوں میں حیرت اتری۔


"بب۔۔۔بیٹا للل۔۔۔۔لیکن میری بیٹی۔۔۔"


"جی جانتا ہوں آپ کی بیٹی ہے لیکن ان کا بلڈ گروپ آپ سے میچ نہیں ہوا تھا۔میں آپ کے بیٹے فرزام کی بات کر رہا ہوں ہوں۔۔۔۔"


الطاف کو لگا کہ اس نے کچھ غلط سنا ہو یا شائید وہ پاگل ہو چکا تھا۔


"تھینک یو ڈاکٹر آپ جا سکتے ہیں مجھے ان سے بات کرنی ہے۔۔۔"


فرزام کی آواز پر ڈاکٹر نے اسکی جانب دیکھا اور ہاں میں سر ہلا کر وارڈ سے باہر نکل گیا۔


"یی۔۔۔۔یہ ڈاکٹر کیا کہہ رہا تھا۔۔۔۔"


الطاف کے پوچھنے پر فرزام اس کے پاس آیا اور سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے دیکھنے لگا۔


"وہی جو سچ ہے۔۔۔"


فرزام کی بات الطاف کی بے چینی میں مزید اضافہ کر چکی تھی۔


"کککک۔۔۔۔کیا مطلب ۔۔۔۔کہنا کیا چاہتے ہو تم۔۔۔۔؟"


ایک طنزیہ مسکراہٹ نے فرزام کے ہونٹوں کا احاطہ کیا۔


"یہی کہ فرزام خانزادہ اور بہرام خانزادہ تمہاری کی سگی اولاد ہیں۔۔۔کیوں یقین نہیں ہو رہا ناں۔۔۔ "


الطاف کی آنکھوں میں حیرت اترتے دیکھ فرزام نے نفرت سے کہا۔


"جب تم نے ہماری ماں کو چھوڑا تھا تب ہی وہ تمہیں اولاد دینے والی تھی لیکن دولت کے غرور میں ڈوبے شخص کو اس بات کی پرواہ کہاں سے ہوتی۔۔۔۔"


الطاف کو لگا اس کی سانسیں سینے میں ہی اٹک جائیں گی۔


"لیکن کوئی خوش فہمی پیدا مت کر لینا الطاف بیگ ہم دونوں سلیمان خانزادہ کی اولاد ہیں اور اسی کی اولاد رہیں گے کیونکہ اس نے ہماری ماں کو کوئی چیز سمجھنے کی بجائے نہ صرف اسے مقام دیا بلکہ ہم دونوں کو اپنا نام بھی دیا ورنہ تمہاری وجہ سے تو ہم جائز ہوتے ہوئے بھی نا جائز کہلاتے۔۔۔ "


"تتت۔۔۔۔تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔۔"


الطاف کے ایسا کہنے پر فرزام قہقہ لگا کر ہنس دیا۔


"یہ کہہ کر دل کو بہلاتے رہو۔۔۔۔۔"


فرزام نے اسکے پیروں کے پاس موجود ٹیبل سے کچھ پیپرز اٹھا کر اس پر پھینکے۔


"یہ رہی وہ ڈی این اے ریپورٹ جو میرا اور تمہارا تعلق ثابت کرتی ہے پھر بھی یقین نہیں تو یہ تمہارا مسلہ ہے۔۔۔ "


الطاف نے حیرت سے فرزام کو دیکھا اسے وہ ریپورٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی فرزام کی آنکھوں میں موجود سچائی وہ دیکھ سکتا تھا۔


ساری زندگی وہ بیٹے کے لیے ترستا رہا تھا اور آج اسے پتہ چلا تھا اسکے ایک نہیں بلکہ دو بیٹے تھے۔


"دل میں کوئی خوش فہمی نہ پال لینا کہ میں نے تمہیں اپنا خون دے کر اس لیے بچایا کہ تم میرے باپ ہو۔۔۔۔میں نے تمہیں صرف اس لئے بچایا ہے کہ موت تمہارے لئے بہت چھوٹی سزا ہے تمہیں تو اس سزا کو جینا ہے الطاف بیگ جیسے زندگی کہتے ہیں۔۔۔۔جس دن تمہارا یہ دولت اور طاقت کا غرور ٹوٹ کر چکنا چور ہو گا اس دن میرے بابا سلیمان خانزادہ کو انصاف ملے گا۔۔۔ "


اتنا کہہ کر فرزام کمرے سے باہر نکل گیا۔اس نے الطاف کی کوئی بات بھی نہیں سنی تھی اور الطاف ہر چیز کو سمجھتا پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔اسے وہ پل یاد آیا جب وردہ اسکے پیروں میں گڑگڑا کر روئی تھی کہ وہ اسے نہ چھوڑے ورنہ وہ برباد ہو جائے گی۔


اور الطاف اس جیسی غریب لڑکی کو اپنا کھلونا سمجھتا اسے برباد کر گیا لیکن وہ تو برباد نہیں ہوئی تھی قدرت نے اسے سلیمان جیسے انسان کا ساتھ دیا تھا برباد تو الطاف ہوا تھا جو دو وارث ہونے کے باوجود ان سے انجان رہا تھا۔برباد تو وہ آج ہوا تھا۔

💞💞💞💞

وہ سب بیگ ولا آئے تھے جہاں انجم بیگم کی آخری رسومات ادا کر کے انہیں سپرد خاک کر دیا گیا تھا۔فرزام تو بس لاچارگی سے حبہ کو دیکھ رہا تھا جو اپنی ماں کو کھونے پر بہت زیادہ افسردہ تھی لیکن اسے صبر تو وقت کے ساتھ ہی آنا تھا۔

"مناہل۔۔۔"

فرزام کے پکارنے پر مہمانوں اور حبہ کے ساتھ بیٹھی مناہل اٹھ کر فرزام کے سامنے آئی۔

"جی۔۔۔"

"تیاری کرو ہم واپس جا رہے ہیں۔۔۔"

فرزام کی بات پر مناہل نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"لیکن فرزام رات کے گیارہ بج رہے ہیں ابھی۔۔۔"

"تو۔۔۔رات کا سفر بھی کیا جا سکتا ہے۔۔۔تم جاؤ اور اپنا سامان لے آؤ میں ایک اور پھول یہاں نہیں گزارنا چاہتا ۔۔۔۔"

فرزام کے ذرا سختی سے کہنے پر مناہل نے ہاں میں سر ہلایا اور حبہ کے کمرے کی جانب چلی گئی جہاں اس کا سامان پڑا تھا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنا بیگ پکڑا اور واپس جانے کے لیے مڑی تو دروازے میں کھڑی شیزہ بیگم کو دیکھ کر اسکا سانس خوف سے سینے میں ہی اٹک گیا۔

"پپ۔۔۔۔پھپھو آپ؟"

شیزہ کی آنکھوں میں نفرت کی آگ دیکھ کر مناہل مزید ڈر گئی اس نے وہاں سے جانا چاہا لیکن شیزہ نے اسے پکڑ کر دیوار سے لگایا اور اپنے ہاتھ میں اسکی نازک گردن دبوچ لی۔

"تمہاری وجہ سے میں نے اپنے شوہر کو کھویا تمہیں کیا لگتا ہے میری زندگی برباد کر کے تم خوش رہو گی۔۔۔۔میں تمہیں بھی زندہ نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔مار دوں گی میں۔۔۔"

مناہل نے شیزہ سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن شیزہ کی پکڑ بہت زیادہ مظبوط تھی۔کچھ ہی دیر میں مناہل کو اپنا سانس اکھڑتا ہوا محسوس ہوا تو مزید مقابلہ کرنے لگی۔

"آج میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی مناہل میں تمہیں اس سے چھین لوں گی بالکل جیسے اس نے فیض کو مجھ سے چھینا۔۔۔۔"

بہت سے آنسو مناہل کی آنکھوں میں آئے۔وہ چلانا چاہ رہی تھی لیکن گردن پر موجود دباؤ کی وجہ سے اس کی آواز حلق سے نہیں نکل رہی تھی۔

مسلسل سانس نہ آنے کی وجہ سے اب مناہل کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔اسے اپنی موت اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی تھی۔

فرزام

مناہل کے لبوں نے خاموش سرگوشی کی اور پھر اسکا وجود مزاحمت کرنا بند ہو گیا۔اڈے یوں ساکت ہوتا دیکھ شیزہ کی آنکھوں میں چمک آئی وہ فرزام خانزادہ سے انتقام لے چکی تھی۔

مناہل کے جسم کو یوں بے جان ہوتا دیکھ شیزہ مسکرانے لگی لیکن تبھی کسی نے اسکی کلائی کو اپنے مظبوط ہاتھ میں پکڑ کر مناہل کی گردن سے دور کیا تو مناہل فوراً کھانستے ہوئے گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔


مناہل کی نازک گردن پر انگلیوں کے لال نشان دیکھ کر ان آنکھوں میں خون اتر آیا۔اس نے ایک نگاہ شیزہ کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھ کو جھٹکا دے کر اسکی کلائی توڑ دی۔


شیزہ کی درد ناک چیخ اس کمرے میں گونج اٹھی۔فرزام نے اسے جھٹکے سے زمین پر پھینکا اور مناہل کے پاس آیا جو ابھی بھی اپنا سانس بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔


فرزام کار کے پاس مناہل کا انتظار کر رہا تھا لیکن جب مناہل نے ضرورت سے زیادہ ہی وقت لگا دیا تو اس کا دل بری طرح سے گھبرانے لگا اور اسی لیے وہ خود کمرے میں مناہل کو لینے آیا لیکن یہاں کا منظر دیکھ کر فرزام غصے سے پاگل ہو چکا تھا۔


"میری من کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کسی میں اور تم نے اسے نقصان پہنچانا چاہا میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا پاگل عورت۔۔۔۔"


فرزام نے اگے بڑھنا چاہا تو مناہل اس سے چپک گئی اور روتے ہوئے انکار میں سر ہلانے لگی۔


"نن۔۔۔۔نہیں فرزام پلیز چلیں ۔۔۔۔۔پلیز مجھے یہاں سے لے جائیں۔۔۔"


اسکی آنکھوں میں آج وہی خوف تھا جو فرزام نے پہلی ملاقات میں دیکھا تھا۔دل تو کر رہا تھا کہ اس عورت کو اسکے انجام تک پہنچا کر یہاں سے جائے لیکن کچھ سوچ کر اس نے مناہل کا ہاتھ پکڑا اور اسے لا کر گاڑی میں بیٹھا دیا۔


مناہل کے گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے اپنا ہاتھ انتہائی زور سے گاڑی کی چھت پر مارا۔وہ مناہل کو ایک پل کے لئے بھی تنہا چھوڑنے کی بھول کیسے کر سکتا تھا اگر وہ وقت پر وہاں نہیں پہنچتا تو۔۔۔۔


یہ سوچ کر ہی فرازم کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کا دل مٹھی میں دبوچ لیا ہو۔وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھا اور ڈرائیو کرنے لگا۔مناہل سہم کر اسکے چہرے پر موجود غصے کو دیکھنے لگی۔


"فف۔۔۔۔فرزام۔۔۔۔"


"ایک لفظ بھی نہ نکلے تمہارے منہ سے اس وقت مناہل ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔"


مناہل اسکے اتنے زیادہ غصے سے کہنے پر سہم کو دروازے سے لگ گئی اور پھر آنکھیں موند کر رونے لگی۔


"آئی۔۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔۔"


"کیا سوری مناہل۔۔۔۔جب میں نے کہا تھا کہ تم ان لوگوں میں واپس نہیں آؤ گی تو تمہیں اپنی انسانیت یاد آ گئی۔۔۔۔قابل ہیں یہ لوگ انسانیت کے ؟"


مناہل نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔فرزام نے ایک نظر اسے یوں روتے دیکھا تو گاڑی کو سائیڈ پر لگا کر اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیا۔


"دیکھو مناہل میں جانتا ہوں تم بہت صاف دل کی مالک ہو نفرت کرنا نہیں جانتی لیکن اپنی اس نرمی اور محبت کو انہیں لوگوں تک محدود رکھو جو اس قابل ہیں۔جو شخص زیادہ میٹھا ہوتا ہے یہ دنیا اسے نگل لیتی ہے مناہل ایسے لوگوں کے لیے اپنے اندر کڑواہٹ پیدا کرو ۔۔۔۔"


اسکے یوں پیار سے سمجھانے پر مناہل نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ کر کچھ کہنا چاہا لیکن فرزام نے اسکے بولنے سے پہلے ہی اپنے ہاتھ اسکے چہرے سے ہٹا دیے اور گاڑی چلانے لگا۔


"یہ بالکل مت سمجھنا کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ناراضگی قائم ہے میری اور تب تک رہے گی جب تک تم مجھے منانے میں کامیاب نہیں ہو جاتی۔اب تمہاری آواز بھی نہ نکلے تمہاری۔۔۔۔"


مناہل نے حیرت سے فرزام کو دیکھا۔اس کے ناراضگی کے خیال سے ہی وہ ننھی سی جان مشکل میں آ چکی تھی۔اب بھلا وہ اپنے ڈمپل والے ناراض سے شہزادے کو کیسے مناتی؟

💞💞💞💞

چاہت کو بہرام کو وہ خط بھیجے ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا لیکن بہرام نے ابھی تک اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔وہ سمجھتی تھی کہ وہ خط پڑھتے ہی بہرام اسے طلاق بھجوا دے گا۔اسی لیے ہر نماز کے بعد اسکی بس ایک ہی دعا ہوتی تھی کہ اسے طلاق دینے کی بجائے بہرام اسکی جان لے لے۔


ابھی بھی وہ عشا کی نماز کے بعد ہمیشہ والی دعا کر کے اٹھی اور سکینہ کی جانب دیکھا جو ابھی بھی جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھیں۔


"میں کمرے میں سونے جا رہی ہوں اماں۔۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔"


سکینہ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا تو چاہت انکے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آ گئی۔اس نے اندھیرے میں سوچ پر ہاتھ رکھ کر لائٹ آن کرنا چاہی لیکن بٹن دبانے کے باوجود لائٹ آن نہ ہونے پر وہ حیران ہو گئی۔


لگتا ہے لائٹ خراب ہو گئی ہے۔


چاہت نے سوچا اور اندھیرے میں اندازے سے ہی بیڈ تک گئی اور اپنا دوپٹہ اتار کر سائیڈ پر رکھنے کے بعد بالوں کو کیچر سے آزاد کر کے لوز سا جوڑا بنایا اور بستر میں لیٹ گئی۔


اچانک ہی اسے احساس ہوا کہ وہ اکیلی نہیں ہے بلکہ کوئی اور بھی اسکے ساتھ موجود ہے۔چاہت نے سہم کر اپنے ساتھ دیکھنا چاہا لیکن اتنے اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہیں آیا۔پھر ایک دم ہی ایک مظبوط بازو اسکی کمر کے گرد لپٹا اور ایک بھاری وجود اس پر حاوی ہو گیا۔


چاہت نے چیخنے کے لیے منہ کھولا لیکن اس سے پہلے ہی ایک مظبوط اسکے منہ پر آ کر اسکی چیخ کا گلا گھونٹ چکا تھا۔


"ششش۔۔۔۔۔آواز بھی نہ نکلے تمہاری ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔"


اپنے کان کے پاس اس سرگوشی کو محسوس کر کے چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔وہ بھلا کیسے اس آواز کو نہ پہچانتی یہ آواز تو اسکے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھی۔


"خخخ۔۔۔۔خان جی۔۔۔۔"


چاہت نے اپنے ہونٹوں سے اسکا ہاتھ ہٹا کر گھبراتے ہوئے اسے پکارا۔


"ہاں چاہت تمہارا خان آج تمہارے جرم کا حساب کرنے آیا ہے تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا دینے آیا ہے۔۔۔۔"


بہرام کی آواز نے جہاں چاہت کے دل کو ایک سکون دیا تھا وہیں اسکی بات چاہت کو بے چین کر چکی تھی۔کہیں وہ اسے طلاق تو نہیں دینے آیا تھا۔یہ سوچ کر چاہت کا جسم کپکپانے لگا اور اس نے بہرام کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گردن پر رکھ دیا۔


"میری جان لے لیں خان جی میں اف تک نہیں کروں گی لیکن مجھے طلاق مت دیجیے گا۔۔۔۔خدا کے لیے مجھے یہ سزا مت دیجیے گا۔۔۔۔"


چاہت کی بات پر حیران ہوتے بہرام نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ کے ساتھ موجود لیمپ آن کیا اور اسکی آنکھوں میں موجود خوف کو دیکھنے لگا۔اتنے سے عرصے میں اس نازک گڑیا نے اپنی کیا حالت بنا لی تھی۔


آنکھوں کے نیچے ہلکے سے سیاہ حلقے نمایاں ہو رہی تھی اور سوجے ہوئے پپوٹے اس کے بے تحاشا رونے کی داستان بیان کر رہے تھے۔بہرام کو بے ساختہ اپنی نازک سی جان پر رحم آیا وہ تو اتنے غم کے لیے بہت زیادہ نازک تھی نہ جانے ابھی تک کیسے اس غم کا بوجھ اٹھا پائی تھی وہ۔


"میں تمہیں طلاق دینے نہیں آیا چاہت۔۔۔۔"


بہرام کی بات پر چاہت نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر اتنے عرصے کے بعد اسے دیکھنے پر بس دیکھتی ہی رہ گئی۔بہرام کا وہاں ہونا ہی اسکے دل پر ٹھنڈی پھوار کے مترادف تھا لیکن پھر اپنا گناہ یاد کر کے چاہت نے شرمندگی سے نگاہیں جھکا لیں۔


"تو میری جان لے لیں خان جی اور پھر کسی اور سے شادی کر لینا۔۔۔ وہ جو آپ کے قابل ہو۔۔۔۔"


یہ بات کہتے ہوئے چاہت کی بھیگی آواز میں بہت زیادہ کرب تھا۔


"لیکن مجھے تو میری نادان سی چاہت ہی چاہئے۔کیا کروں اسکی طرح اور کوئی اس دل پر چڑتی ہی نہیں۔۔۔"


چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور اسکی یہ حیرانگی دیکھ کر بہرام مسکرا دیا۔


"یہ۔۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔؟"


"وہی جو سچ ہے میری جان مجھے اس جہان میں ہی نہیں بلکہ اس اگلے جہان میں بھی بس میری چاہت چاہیے کیونکہ بہرام اسکے علاوہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔"


بہرام کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے چاہت کی حیرت میں اضافہ کی ہوا تھا اور پھر اسکے یوں اتنی آسانی سے معاف کر دینے پر چاہت نے اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپایا اور سسک سسک کر رونے لگی۔اسے یوں اتنے کرب سے روتا دیکھ بہرام کا دل بے چین ہوا۔


"چاہت۔۔۔۔"


"آپ بہت زیادہ عظیم انسان ہیں خان جی۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں آپ کے قابل نہیں۔۔۔بالکل بھی آپ کے قابل نہیں۔۔۔آپ تو مجھے معاف کر سکتی ہیں لیکن میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی کبھی نہیں۔۔۔۔۔"


اسے یوں بکھرا ہوا دیکھ بہرام کی پلکیں بھی نم ہو جائیں گئی تھیں۔


"ضرور کر پاؤ گی چاہت۔۔۔۔جب میری تمہاری محبت میرے احساس گناہ کو مٹا کر مجھے زندگی سے محبت کرنا سکھا سکتی ہے تم میری محبت بھی تمہیں پھر سے خود کو چاہنے پر مجبور کر دے گی۔۔۔۔۔"


بہرام کی بات پر چاہت کے آنسو مزید روانی سے بہنے لگے۔


"تمہاری محبت مجھ سے مجھ جیسے بکھرے ہوئے شخص کو سمیٹ سکتی ہے تو تمہیں سمجھنا تو بہت آسان ہے میری جان کیونکہ تم محبت اور الفت سے بھری پڑی ہو بالکل اپنے نام کی طرح۔۔۔۔ "


چاہت نے اسکے ایک نظر دیکھا اور پھر کرب سے اپنی آنکھیں موند گئی۔


"اگر آپ کو کچھ ہو جاتا خان جی تو میں بھی مر جاتی۔۔۔۔"


بہرام نے اسے پھر سے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔


"خدا نے ہمیں ملایا ہے چاہت پھر وہ ایسا کیوں ہونے دیتا۔۔۔۔"


چاہت ابھی بھی سسک سسک کر رو رہی تھی۔


"آئی ایم سوری خان جی۔۔۔۔پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔۔"


بہرام جانتا تھا کہ وہ بار بار معافی مانگ کر اپنے دل کا بوجھ کم کر رہی ہے۔اس نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے محبت سے بولا۔


"میں نے تمہیں معاف کیا چاہت دل سے معاف کیا۔۔۔۔"


چاہت روتے ہوئے مسکرا دی اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر پہلے اپنے ہونٹ بہرام کی دونوں آنکھوں پر رکھے اور پھر اسکے ایک ایک نقش کو چوم لیا۔


"تھینک یو سو مچ۔۔۔۔"


چاہت تو جزبات میں آ کر یہ بے اختیاری کر چکی تھی لیکن وہ اس بات سے انجان تھی کہ اس کی یہ حرکت بہرام کے جزبات کو کس قدر بھڑکا چکی ہے۔


بہرام نے اپنا ہاتھ اسکی نازک کمر میں لپیٹ کر اسے اپنے قریب کیا اور پر تپش نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔


"معاف کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ تمہیں سزا نہیں ملے گی۔سزا تو میں تمہیں ضرور دوں گا۔۔۔۔۔"


چاہت بہرام کی آنکھوں میں چھپا پیغام پڑھ نہیں پائی تھی۔


"آپ جو بھی سزا دیں گے مجھے منظور ہو گی۔۔۔۔"


چاہت نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر بہرام کا گھیرا اسکے گرد مزید تنگ ہو گیا۔


"سوچ لو ہو سکتا ہے وہ سزا تمہاری نازک جان سہہ نہ پائے ۔۔۔ "


چاہت نے ایک پل کو گھبرا کر بہرام کو دیکھا۔کیا وہ اسے اتنی بری سزا دینے والا تھا لیکن وہ جو بھی سزا ہوتی چاہت اسے برداشت کر کے اپنے خان جی منانے والی تھی۔


"میں سہہ لوں گی آپ دیں مجھے سزا۔۔۔ "


اتنا کہہ کر چاہت نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اور بہرام کی نظر ان گلابی ہونٹوں پر ٹھہر گئی جو خوف سے کپکپا رہے تھے۔مزید کچھ سوچے سمجھے بغیر بہرام شدت سے ان ہونٹوں پر جھکا اور ان پر اپنی محبت،جنون چاہت سب نچھاور کرنے لگا۔


جبکہ بہرام کی اس حرکت پر چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل چکی تھیں۔وہ تو اسے سزا دینے والا تھا ناں تو کیا یہی اسکی سزا تھی۔


چاہت پل بھر میں سرخ گلاب کی مانند ہوتی اپنے آپ کو بہرام کے رحم و کرم پر چھوڑ گئی اور بہرام تو آج شائید فرصت سے محبت کا جام پینا چاہتا تھا اسی لیے تو چاہت کے کوئی مزاحمت نہ کرنے پر کتنی ہی دیر اس کی رکی سانسوں کو نظر انداز کرتا اسکے ہونٹوں پر اپنی شدت لٹاتا رہا۔


دل تھا کہ تپتے صحرا کی ماند ہو چلا تھا جس کی پیاس بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی پھر خود ہی اسکا احساس کر کے دور ہوا اور اس کا گل نار چہرہ دیکھنے لگا۔


"تو میری ہر سزا منظور ہے تمہیں۔۔۔۔"


بہرام نے اسکی جھکی پلکوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ ہاتھ اسکے کندھے سے شرٹ نیچے کھسکا رہا تھا۔


"خان جی۔۔۔"


چاہت گھبرا کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی تو بہرام کے عنابی لبوں کو ایک مسکان نے چھوا۔


"بولو چاہت دوں تمہیں سزا؟"


بہرام نے اسکے کان کے پاس سرگوشی کی۔چاہت نے گھبرا کر اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا لیا اور اسکے خود سپردگی کے انداز پر بہرام نے اسے شدت سے اپنی گرفت میں لیا۔


چاہت مشکل سے اسکی باہوں میں سمٹی اسکے ہونٹوں کی گستاخیوں کو برداشت کر رہی تھی جو کبھی اس کی گردن کو چومتے تو کبھی کندھوں کو۔


پھر بہرام نے اسکے کان کی لو کو دانتوں میں دبایا تو چاہت سسک کر اسکی پناہوں میں چھپنے لگی۔


"خان جی پلیز۔۔۔"


بہرام نے جنون سے لبریز نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا جس کا روم روم اسکی قربت کے باعث کانپ رہا تھا۔


"تم میرا سب کچھ ہو چاہت خانزادہ ہمیشہ یاد رکھنا یہ بات کہ تمہارا بہرام تمہارے پیار اور بھروسے کے بغیر کچھ نہیں۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام اسکے وجود پر اپنی گرفت مظبوط کرتا ہر پردہ گرا گیا اور چاہت کسی بھی طرح کی مزاحمت کیے بغیر خود کو اسے سونپ گئی۔اگر اس سزا سے چاہت کو بہرام مل رہا تھا تو اسے یہ سزا دل سے قبول تھی۔

💞💞💞💞

فرزام اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب مناہل کافی کا کپ تھام کر اسکے پاس آئی اور وہ کافی کا مگ اس کے سامنے کیا۔


"میں نے کافی نہیں مانگی تھی۔۔۔"


فرزام نے ایک نظر مناہل کو دیکھ کر کہا اور پھر سے کام کرنے لگا جبکہ مناہل اب رونے والی ہو چکی تھی۔اس نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ فرزام کی ناراضگی اس قدر لمبی چلے گی۔


اسے تو اپنے فرزام کی نرمی اور اس کے پیار کی عادت تھی وہ اسکی بے رخی کیسے برداشت کر رہی تھی یہ وہی جانتی تھی۔


"ہاں لیکن میں نے بنا لی ناں تو پی لیں۔۔۔۔"


فرزام نے خاموشی سے وہ مگ پکڑا اور میز پر رکھ کر اپنا کام کرنے لگا۔مناہل منہ بنا کر اسکے سامنے بیٹھ گئی اور اسے دیکھنے لگی۔


"فرزام بس کر دیں ناں اب نیند آ رہی ہے۔۔۔۔"


فرزام نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا وہ تو جانتی بھی نہیں تھی اسکی اس بات سے فرزام کتنے معنی نکال چکا تھا۔


"تو سو جاؤ میں نے تمہیں منع کیا ہے کیا؟"


مناہل کا منہ مزید پھول گیا۔


"اکیلے نیند نہیں آتی آپ بھی ساتھ چلیں پھر سوتے ہیں۔۔۔۔"


فرزام گہرا سانس لے کر لیپ ٹاپ کو دیکھنے لگا۔


"مجھے کام ہے مناہل۔۔۔۔"


مناہل کی اب بس ہوئی تھی اسی لیے اٹھ کر اسکے پاس آئی اور لیپ ٹاپ بند کر کے اسے گھورنے لگی۔


"مجھے آپ کے علاوہ کوئی اور من کہہ کر بلاتا ہے تو مجھے بہت برا لگتا ہے اور اس سے بھی زیادہ برا تب لگتا ہے جب آپ مجھے مناہل کہہ کر بلاتے ہیں میں آپ کی من ہوں فرزام۔۔۔۔"


مناہل زرا سا جھک کر اسکے سینے پر ہاتھ رکھے کہہ رہی تھی اور فرزام اسے جنون سے دیکھتا اپنے ہاتھ اسکی نازک کلائیوں پر رکھ چکا تھا۔اس نے مناہل کو ہلکا سا جھٹکا دیا تو وہ فرزام کی آغوش میں گر گئی۔


"تم میری من نہیں۔۔۔۔میری من میری بات مانتی ہے اور مجھ پر بھروسہ کرتی ہے تم تو یہ دونوں کام نہیں کرتی مناہل۔۔۔۔"


فرزام نے مناہل پر زور دیتے ہوئے کہا تو مناہل کی پلکیں بھیگ گئیں ۔


"اب معاف بھی کر دیں ناں فرزام۔۔۔۔"


فرزام نے اسکے چہرے سے بال ہٹا کر اسکی معصومیت کو دیکھا۔


"اتنی آسانی سے معاف نہیں کروں گا میں فرزام ہوں بہرام نہیں۔۔۔۔"


مناہل نے لاچارگی سے اسے دیکھا۔


"تو بتائیں ناں آپ کیسے مانیں گے میں آپ کو ویسے منا لوں گی۔۔۔۔۔"


فرزام نے پر تپش نگاہوں سے اس کے حسین چہرے کا دیدار کیا۔


"میں کیا بتاؤں تم ہی کرو اب کچھ۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر فرزام نے اسے چھوڑا اور اٹھ کر واش روم میں بند ہو گیا جبکہ اتنی سی دیر میں اسے منانے کا سوچ سوچ کر وہ چھوٹی سی جان ہلکان ہو چکی تھی۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی کر کے وہ اپنے فرزام کو منا لے گی وہ پھر سے اسکی من بن کر رہے گی۔

💞💞💞💞

"خان جی اب سونے دیں ناں۔۔۔"


چاہت نے لاڈ سے اسکے سینے میں چہرہ چھپاتے ہوئے کہا۔گزری رات کے ہر پہر میں بہرام نے اسے اپنی بے تحاشا محبت سے باور کروایا تھا اور چاہت اسکی محبت میں پور پور ڈوبی اسکی باہوں میں پناہ تلاش کر رہی تھی لیکن بہرام تو جیسے اسے ایک پل کے لیے بھی خود سے دور نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔وہ تو اسے سونے بھی نہیں دے رہا تھا۔


"کیا کرنا ہے تم نے سو کر چپ چاپ میری ناراضگی ختم کرو۔۔۔"


بہرام نے اسکی گردن میں چہرہ چھپاتے ہوئے کہا۔اسکی نظر چاہت کی نازک گردن پر پڑے لال نشان پر پڑی تو اسے چوم گیا۔


"اب بھی آپ کی ناراضگی ختم نہیں ہوئی کیا؟"


چاہت کے صدمے سے پوچھنے پر بہرام ہلکا سا ہنس دیا۔


"تمہیں کیا لگا تھا اتنی آسان ہو گی تمہاری سزا۔۔۔۔یہ سزا تو اب تمہیں روز ملا کرے گی میری جان۔۔۔۔"


بہرام نے اسکے ہونٹوں کے قریب ہوتے ہوئے کہا تو چاہت گھبرا کر خود میں ہی سمٹ گئی۔


"تو پھر ہم سویا کب کریں گے خان جی۔۔۔۔"


چاہت کے معصومیت سے پوچھنے پر بہرام پھر سے ہنس دیا اور اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


"تم زندگی سے زیادہ عزیز ہو مجھے چاہت خانزادہ۔۔۔۔"


بہرام کی محبت پر شرمائی سی چاہت کی پلکیں پھر سے نم ہو گئیں اور بہرام نے نرمی سے وہ آنسو ہونٹوں پر چن لیے۔وہ جانتا تھا کہ چاہت کا پچھتاوا ختم ہونے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔


"اب تم پھر سے اموشنل ہو رہی لگتا ہے تمہارے یہ آنسو ختم کرنے کے لیے رات والی ٹون میں آنا پڑے گا مجھے۔۔۔"


بہرام کے ایسا کہنے پر چاہت پھر سے گھبرا کر نظریں جھکا گئی لیکن نظر بہرام کے برہنہ سینے پر پڑی تو پاؤں کے ناخن تک شرم سے سرخ ہو گئی۔


"چاہت اٹھ جا بیٹا فجر کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔ "


سکینہ کی آواز پر چاہت کا سانس اسکے حلق میں ہی اٹک گیا اور وہ سہم کر بہرام کو دیکھنے لگیں۔


"چھوڑیں خان جی ورنہ اماں یہاں آ جائیں گی۔۔۔۔"


اسکی اس گھبراہٹ پر بہرام مسکراتے ہوئے اسے مزید خود میں سمیٹ گیا۔


"اور اگر میں نہ چھوڑوں تو۔۔۔۔؟"


چاہت مزید ہڑبڑا گئی۔وہ تو پہلے ہی اس سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی اور اب اس حالت میں سکینہ کا یہاں آنے کا خوف۔چاہت بہت زیادہ مشکل میں آ چکی تھی۔


"پلیز چھوڑ دیں ناں جان جی۔۔۔"


چاہت نے بہت پیار سے کہا تھا لیکن جب اسے سمجھ آیا کہ وہ پھر سے اسے جان جی کہہ کر بلا چکی تو آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھنے لگی۔


"خان جی بولا میں نے۔۔۔۔"


اب کی بار بہرام ہنسنا شروع ہوا تو ہنستا ہی چلا گیا اور چاہت کھوئی سی اسکے گال میں موجود ڈمپل کو دیکھتی جا رہی تھی جس میں اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔


"یہ بس میرا ہے ناں؟"


چاہت نے اسکے ڈمپل کو اپنی انگلی سے چھوتے ہوئے پوچھا تو بہرام نے مسکرا کر اپنی باہوں میں موجود اس نازک سی گڑیا کو دیکھا جو اسکی رات بھر کی شدتوں سے چور بکھری بکھری سی اسکے دل میں اتر رہی تھی۔


"صرف تمہارا ہے یہ میری جان،صرف میری چاہت کا۔۔۔ "


چاہت نے مسکراتے ہوئے اسکے ڈمپل پر اپنے ہونٹ رکھے اور ایسا کر کے وہ پھر سے بہرام کے جزبات کو بھڑکا چکی تھی۔


"ایسی حرکتیں کر کے کہتی ہو چھوڑ دوں تمہیں یہ ظلم نہیں تو کیا ہے۔۔۔۔"


بہرام پھر سے اسکے ہونٹوں کے قریب ہو کر پوچھنے لگا تو چاہت کا سانس سینے میں ہی اٹک گیا۔


"چاہت بیٹا نماز قضا ہو جائے گی اٹھ جاؤ۔۔۔ "


اب کی بار سکینہ نے دروازہ کھٹکھٹا کر کہا تو چاہت نے بمشکل جی اماں کہا اور بہرام کو لاچارگی سے دیکھنے لگی۔


"پلیز خان جی جانے دیں ناں۔۔۔۔"


چاہت کے اتنی محبت سے کہنے پر بہرام نے اسکے ماتھے کو چوما اور اسے چھوڑ دیا۔


"جاؤ۔۔۔۔"


چاہت نے سکھ کا سانس لیا اور جلدی سے اٹھ کر واش روم میں بند ہو گئی۔بہرام اسے یوں جاتا دیکھ مسکرا دیا چاہت کی قربت نے اس میں نئی زندگی ڈال دی تھی۔سچ ہی تو تھا سکون صرف محبت میں ہی تو ہے۔


چاہت نہانے کے بعد ٹھیک سے دوپٹہ لیتی سکینہ کے پاس نماز پڑھنے چلی گئی اور بہرام نے بھی فریش ہو کر نماز پڑھنے کا فیصلہ کیا۔اپنی زندگی کی تمام رنجشیں ختم ہو جانے پر وہ بھی خدا کا شکر ادا کرنا چاہتا تھا۔


چاہت کمرے سے باہر آئی اور سکینہ کے ساتھ جائے نماز بچھا کر نماز ادا کرنے لگی۔آج دعا مانگتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی نہیں تھی بلکہ اسکی آنکھوں میں خوشی اور شکرانے کے آنسو تھے۔


"چاہت تم کس سے باتیں کر رہی تھی؟"


نماز پڑھنے کے بعد سکینہ نے چاہت سے پوچھا تو چاہت گھبرا کر انہیں دیکھنے لگی۔


"بب۔۔۔۔باتیں۔۔۔؟"


"ہاں میں نے تمہیں کسی سے بات کرتے سنا۔۔۔ کس سے بات کر رہی تھی۔۔۔۔"


سکینہ کے پھر سے پوچھنے پر چاہت کا حجاب میں لپٹا چہرہ گلال ہو گیا اور وہ اپنا سر جھکا گئی۔


"وہ اماں خان جی آئے تھے رات کو میں ان سے بات کر رہی تھی۔۔۔۔"


چاہت کی بات پر سکینہ مسکرا دیں اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔چاہت کا وہ بھیگا سا روپ اور اسکا شرمانا ہی بہت کچھ بیان کر رہا تھا۔


"ہمیشہ خوش رہو۔۔۔"


سکینہ نے اسے دعا دی اور چاہت ناشتہ بنانے میں انکی مدد کرنے لگی۔سکینہ نے آج بہرام کی وجہ سے ناشتے میں خاص احتمام کیا تھا۔


"جاؤ چاہت بہرام کو بلا کر لاؤ ناشتے کے لیے۔۔۔"


سکینہ کی بات پر چاہت کے ہاتھ کپکپانے لگے۔۔


"اماں۔۔۔مم۔۔ میں برتن لگاتی ہوں ناں آپ بلا لائیں۔۔۔"


سکینہ نے زرا غصے سے اسے دیکھا۔


"وہ تمہارا شوہر ہے چاہت جاؤ اور اسے بلا کر لاؤ۔۔۔"


چاہت انکی بات مانتی اپنے کمرے کی جانب چل دی لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ بہرام کا سامنا کیسے کرے گی۔آخر کار وہ ہمت کر کے کمرے میں آئی اور بہرام کو دیکھا جو آئنے کے سامنے کھڑا اپنی شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا۔


"خخ۔۔۔خان جی ناشتہ کر لیں۔۔۔"


بہرام نے آئنے میں سے اسے دیکھا جو سلیقے سے سر پر دوپٹہ سجائے شرمائی سی وہاں کھڑی تھی۔اسکا روم روم بہرام کی محبت کی گواہی دے رہا جس میں وہ رات بھر بھیگی تھی۔


"ٹھیک ہے کرواؤ ۔۔۔۔۔"


چاہت نے حیرت سے اسے دیکھا اور اسکی معنی خیز آنکھوں کا مطلب سمجھتے خفگی سے منہ بسور گئی۔


"باہر آ کر کھانا کھائیں۔۔۔سچی بہت خراب ہیں آپ۔۔۔ "


چاہت سرخ چہرے کے ساتھ کہتی کمرے سے باہر نکل گئی اور بہرام اپنی مسکراہٹ دباتا اسکے پیچھے آیا۔سکینہ نے یوں ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر ڈھیروں دعائیں دی تھیں۔


"اماں جی آپ اپنا سامان پیک کریں اب کی بار میں آپ کو بھی اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔۔۔"


ناشتہ کرتے ہوئے بہرام نے کہا تو سکینہ نے انکار میں سر ہلایا۔


"نہیں بیٹا میں اپنی بیٹی کے سسرال کیسے رہ سکتی ہوں تم دونوں اپنی زندگی میں خوش رہو میرے لئے یہی کافی ہے۔"


بہرام اٹھ کر انکے پاس آیا اور ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔


"میں آپ کو اماں جی کہتا ہی نہیں اپنی ماں سمجھتا ہوں اور ماں اپنے بیٹے کے پاس رہتے ہوئے ہچکچاتی نہیں کیونکہ یہ اسکا حق ہوتا ہے۔۔۔۔"


سکینہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن بہرام کا سر انکار میں ہلتا دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔


"اگر ابھی بھی آپ انکار کر دیں گی تو میں یہی سمجھوں گا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا نہیں مانتیں۔۔۔۔"


بہرام نے شرارت سے چاہت کی جانب دیکھا جو بظاہر تو ناشتہ کر رہی تھی لیکن بار بار نظریں چرا کر بہرام کو دیکھ رہی تھی۔


"ویسے بھی آپکی بیٹی زرا سی پاگل ہے اسے عقل دینے کے آپ ہر وقت اسکے پاس رہیں تو بہتر ہے۔۔۔۔"


سکینہ بہرام کی بات پر ہلکا سا ہنس دیں جبکہ چاہت اب منہ بسور کر اسے دیکھ رہی تھی۔


"بس آپ تیار ہوں ہم تینوں ساتھ ہی اپنے گھر چلیں گے جو کسی بزرگ کے سائے کے بغیر سونا ہے اماں جی اور آپ ہی ہمارے گھر کو مکمل کر سکتی ہیں۔۔۔۔"


بہرام کی محبت پر سکینہ کی پلکیں بھیگ گئیں اور انہوں نے بہرام کے سر پر ہاتھ رکھ کر ہاں میں سر ہلایا۔بہرام نے چاہت کی طرف دیکھا جو نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔سکینہ اسے صحیح تو کہتی تھیں بہرام ایک ہیرا تھا اور چاہت اسے پانے کے لیے خدا کا جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا جبکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکی محبت بہرام کے لیے سب سے قیمتی تحفہ تھا۔

💞💞💞💞

الطاف کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔اسے جب سے یہ پتہ چلا تھا کہ وہ کبھی چل نہیں سکے گا تو وہ مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا۔

ابھی بھی اپنے تاریک کمرے میں تنہا بیٹھا وہ سوچ رہا تھا کہ جس دولت کے لیے اس نے اپنے بھائی کو مارا۔۔۔جس دولت کے غرور میں اس نے سلیمان اور وردہ کی زندگی کو کھلونا سمجھا اب وہ دولت اس کے کس کام آئی تھی۔

یہ عارضی دولت تو اس کے پاس تھی لیکن زندگی کی سب سے قیمتی دولت جسے پیار اور سکون کہتے ہیں الطاف اس سے ہی عاری تھا۔

وہ دولت جسے الطاف نے ہمیشہ پوجا تھا آج اس کے ہوتے ہوئے بھی وہ ایک فقیر سے بھی بد تر تھا۔

اپنے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز پر الطاف نے حبہ کو دیکھا جو کچھ پیپرز کے کر اسکے پاس آئی تھی۔

"میں بزنس کو ٹیک اور کرنے لگیں ہوں بابا اس کے لیے ان پیپرز پر آپ کے سائن چاہیں۔۔۔۔"

الطاف نے اپنے سامنے پڑے ان کاغزات کو دیکھا اور پھر حبہ کو دیکھا۔

"میں بہت اکیلا ہوں بیٹا تم بھی مجھ سے ملنے نہیں آتی۔۔۔۔اور اب میرے پاس آئی ہو تو کیا بس اس بزنس کے لیے۔۔۔۔

حبہ نے گھائل نظروں سے الطاف کو دیکھا۔

"آپ تنہا خود کی وجہ سے ہیں بابا کیونکہ آپ کسی بھی رشتے کی قدر نہیں کر پائے تو اب رشتے آپ کی قدر کہاں سے کریں گے۔۔۔۔"

حبہ کی بات پر الطاف کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

"میں ابھی ان پر سائن کر دیتا ہوں بس تم میری ایک خواہش پوری کر دو۔۔۔۔"

حبا نے سوالیہ نظروں سے اپنے باپ کو دیکھا۔

"بہرام اور فرزام سے کہو کہ وہ ایک بار مجھ سے مل لیں مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہئے۔۔۔۔"

حبہ کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی۔

"آپ کو لگتا ہے کہ جو آپ نے ان کے ساتھ کیا اس کے بعد وہ آپ کو دیکھنا بھی گوارا کریں گے۔۔۔۔نہیں بابا ایک مظلوم لڑکی کو کھلونا سمجھنے کی سزا یہی ہے کے دو بیٹے ہوتے ہوئے بھی اب انہیں اپنا بیٹا نہیں کہہ سکتے۔۔۔۔اور اب آپ چاہیں یا نہ چاہیں آپ کو یہ سزا بھگتنی ہے۔۔۔۔"

اتنا کہہ کر حبا بھی وہاں سے چلی گئی اور الطاف اپنی محرومیوں پر چیخ چیخ کر رو دیا لیکن اب رونے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ یہ محرومیاں اس کے اپنے گناہوں کی سزا تھیں۔

اپنے گھر میں واپس آ کر چاہت کو دنیا کی سب سے قیمتی خوشی ملی تھی۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اسے پورا جہان مل گیا ہو لیکن دل میں فرزام کا ڈر بھی تھا کیونکہ ابھی تک وہ فرزام کا غصہ نہیں بھولی تھی۔


اور سونے پر سہاگا یہ تھا کہ گھر میں داخل ہوتے ہی اس کا سامنا فرزام سے ہوا تھا جو پینٹ کوٹ میں ملبوس شائید آفس جانے کی تیاری میں تھا۔بہرام کے ساتھ سکینہ اور چاہت کو دیکھ کر فرزام سکینہ کے پاس آیا اور عقیدت سے اپنا سر ان کے سامنے کیا جبکہ چاہت تو اسے دیکھ کر ہی بہرام کے پیچھے دبک چکی تھی۔


"وہ تمہیں بہن مانتا ہے چاہت اور کچھ بھی ہو جائے بھائی چھوٹی بہن کو معاف ضرور کر دیتے ہیں۔۔۔۔"


بہرام نے چاہت سے آہستہ سے کہا جو سہمی نگاہوں سے سکینہ سے بات کرتے فرزام کو دیکھ رہی تھی۔


"اور اگر نہ کیا تو۔۔۔؟"


چاہت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔وہ ایک بار پھر سے فرزام کی نفرت جھیلنے کے قابل نہیں تھی۔


"کر دے گا اپنے بھائی کی رگ رگ سے واقف ہوں میں۔۔۔۔"


بہرام کے ہمت بڑھانے پر چاہت ہمت کرتے ہوئے فرزام کے سامنے گئی۔


"ااا۔۔۔۔اسلام و علیکم فرزام بھائی۔۔۔"


چاہت کی آواز پر فرزام نے ایک نظر اسے دیکھا اور ہلکا سا و علیکم السلام کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔


"فرزام بھائی ۔۔۔"


چاہت نے بے چینی سے اسے پکارا اور پھر اسکے سامنے آ کر اپنے کانپتے ہاتھ اپنے کانوں پر رکھے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔فرزام نے ایک نظر بہرام کو دیکھا جس نے نظروں سے ہی اسے نرم رہنے کا اشارہ کیا تھا۔


"معافی چاہتی ہو؟"


چاہت نے کان چھوڑے بغیر ہاں میں سر ہلایا۔


"پھر میرے ایک سوال کا جواب دو۔۔۔"


چاہت نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔


"اگر اب تمہیں کوئی ا کر کہے کہ بہرام قصوروار ہے تو کیا کرو گی۔۔۔؟"


چاہت نے اس سوال پر منہ بنا کر اسے دیکھا۔


"اس کا منہ توڑ دوں گی۔۔۔"


چاہت کے رو کر کہنے پر فرزام مسکرایا اور اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"میرے لیے میرا بھائی بہت قیمتی ہے چاہت سب برداشت کر سکتا ہوں لیکن اسکی تکلیف نہیں اور اس دنیا میں صرف تم ہی ہو جو اسے تکلیف دے سکتی ہو۔۔۔پھر ایسا مت کرنا۔۔۔"


چاہت نے ہاں میں سر ہلایا تو فرزام مسکرا دیا اور اسکے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا۔


"خوش رہو۔۔۔"


چاہت بھی اسکی بات پر اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔اج انہیں لگ رہا تھا کہ ان کی خوشیاں لوٹا آئی ہوں۔فرزام سب کو خدا حافظ بول کر باہر گاڑی میں آیا اس نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا تو نظر پیسنجر سیٹ پر پڑی جہاں مناہل بیٹھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔


"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"


فرزام نے حیرت سے پوچھا۔


"مجھے آپ کے ساتھ شاپنگ پر جانا ہے۔۔۔"


مناہل نے اپنا مدعا بیان کیا جبکہ اسکے اچانک شاپنگ کے پلین نے فرزام کو حیران کر دیا۔


"مناہل مجھے آفس جانا ہے۔۔۔۔"


"ہاں تو پہلے مجھے شاپنگ لر لے کر جائیں پھر مجھے گھر چھوڑ کر آفس چلے جانا۔۔۔"


فرزام اسکے اتنی بہادری اور حق سے یہ بات کہنے پر دل میں بے انتہا خوش ہوا تھا لیکن چہرے پر سنجیدگی جوں کی توں تھی۔


"ہم پھر کبھی چلے جائیں گے شاپنگ پر ابھی مجھے کام ہے۔۔۔۔"


مناہل نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔


"یا تو آپ مجھے شاپنگ پر لے کر جائیں یا میں اکیلے چلی جاؤں گی لیکن مجھے ابھی جانا ہے شاپنگ پر۔۔۔۔"


فرزام نے مناہل کی ضد پر گہرا سانس لیتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کر دی۔اب کچھ بھی ہو جاتا وہ مناہل کا اکیلے کہیں جانا برداشت نہیں کر سکتا تھا۔وہ تھوڑی دیر کی ڈرائیو کے بعد اسے سینٹارس مال لے آیا۔


"کیا چاہیے تمہیں؟"


فرزام نے مال میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔


"سینڈل۔۔۔۔"


مناہل کی بات پر فرزام نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔


"صرف ایک سینڈل کے لیے تم نے اتنی ضد کی۔۔۔"


مناہل کے ہونٹوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔


"ہاں تو میرا حق بنتا ہے ضد کرنا اور اسے پورا کرنا آپ کا فرض۔۔۔۔"


فرزام نے ابرو اچکا کر اسکے چہرے پر اس نئے کانفیڈینس کو دیکھا۔


"اسی طرح تمہارا کچھ فرض بھی بنتا ہے مناہل خانزادہ جو میرا حق ہے لیکن اسکی پرواہ کبھی کی ہے تم نے؟"


مناہل کے گال اسکی بات پر گلابی ہو گئے لیکن وہ اسکے سوال کو نظر انداز کرتی جوتوں کے ایریا کی جانب چل دی۔بہت دیکھنے کے بعد اسے ایک نیلے رنگ کا جوتا پسند آیا جو ہائی ہیلز کے ساتھ موتیوں سے بھرا بہت زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔


"مجھے یہ دیکھنا ہے۔۔۔۔"


مناہل نے فرزام سے کہا تو وہ سیلز بوائے کو اشارہ کرتا فون سننے تھوڑا فاصلے پر چلا گیا۔


"میم آپ کا سائیز۔۔۔؟"


مناہل نے اسے اپنا سائیز بتایا تو سیلز بوائے نے اسے صوفے کی جانب اشارہ کیا۔


"آپ بیٹھیں میں لے کر آتا ہوں۔۔۔"


کچھ دیر میں ہی وہ سیلز بوائے وہ نیلا جوتا لے کر آیا اور ایک فٹ سٹینڈ مناہل کے سامنے رکھا۔


"اس پر اپنا پیر رکھیں میم۔۔۔۔"


مناہل نے اپنا پیر اس سٹیڈ پر رکھا تو سیلز بوائے جوتا لے کر زمین پر بیٹھا اور مناہل کا پیر تھامنا چاہا جو مناہل نے گھبرا کر فوراً واپس کھینچ لیا۔


"یی۔۔۔یہ آپ کیا۔۔۔"


"اٹس اوکے میم صرف آپ کو شوز ٹرائے کروا رہا ہوں۔۔۔"


اس نے ہاتھ بڑھا کر پھر سے مناہل کا سفید پاؤں تھامنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی ایک ہاتھ اس سیلز بوائے کی کلائی تھام کر اسے روک چکا تھا۔مناہل نے گھبرا کر فرزام کو دیکھا جو ایسا لگ رہا تھا کہ اس لڑکے کی جان ہی لے لے گا۔


"ایسا سوچنا بھی مت۔۔۔"


فرزام نے جھٹکے سے اس لڑکے کا ہاتھ چھوڑا اور اسکے ہاتھ سے جوتا لے کر خود مناہل کے سامنے بیٹھ گیا اور اسکا پیر پکڑ کر اپنے گھٹنے پر رکھتے ہوئے اسے جوتا پہنانے لگا۔


"واہ پرنس چارمنگ اپنی سنڈریلا کو سینڈل پہنا رہا ہے۔۔۔ہائے کاش میرے پاس بھی ایسا پرنس ہوتا۔"


ایک لڑکی نے ان دونوں کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔


"اس کے لیے خود کو سنڈریلا جیسا تو بنا لو۔۔۔۔"


ایک لڑکے کی بات پر اس لڑکی کی سہلیاں ہنس دیں جبکہ مناہل شرما کر فرزام کو دیکھ رہی تھی جو ناراضگی کے باوجود اسکے لیے اس حد تک پوزیسسو تھا۔


"یہی چاہیے یا کچھ اور بھی لینا ہے؟"


فرزام کے پوچھنے پر مناہل نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔


"جیولری بھی چاہیے۔۔۔۔"


فرزام نے گہرا سانس لے کر اسکے پیروں سے وک سینڈل اتارے اور انہیں پیک کروا کر اسے جیولری شاپ پر لے گیا۔


"اس شاپ پر مناہل کو تو ہر دوسری شے پسند آ رہی تھی لیکن فرزام کا سر ہر چیز پر انکار میں ہلتا دیکھ اس نے منہ بنا لیا۔


"آخر آپ کو پسند کیا آئے گا؟"


"وہ جو میری من کے قابل ہو۔۔۔۔"


فرزام نے سنجیدگی سے کہا اور پھر آخر کار اسے ایک ڈائمنڈ کا ہلکا اور انتہائی نفیس سا پینڈنٹ اور ٹاپس فرزام کو پسند آئے تو انہیں پیک کرواتا مناہل کو لے کر واپس خانزادہ مینشن جانے لگا۔


"ویسے تمہیں یہ سب اتنا ارجینٹ کیوں چاہیے تھا۔"


فرزام نے ڈرائیو کرتے ہوئے پوچھا۔


"بس یونہی دیکھنا چاہتی تھی کہ میرا شوہر کنجوس تو نہیں۔۔۔۔"


مناہل کی بات پر پل بھر کے لیے فرزام کا ڈمپل نمایاں ہوا اور پھر غائب ہو گیا۔فرزام نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور آگے ہو کر مناہل کی جانب کا دروازہ کھول دیا۔


"آپ آج جلدی واپس آ جائیں گے؟"


مناہل نے اتنی چاہت سے پوچھا کہ فرزام کا دل کیا کہ وہ جائے ہی نہ۔


"کیوں کوئی خاص کام ہے؟"


مناہل کے رخسار اس عام سی بات ہر ایسے گلابی ہوئے جیسے کہ فرزام نے کوئی رومینٹک بات کر دی ہو۔


"نہیں لیکن پلیز جلدی آ جانا۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر مناہل گاڑی سے نکل گئی اور اسکے نظروں سے اوجھل ہونے تک فرزام وہیں رکا اسے دیکھتا رہا تھا۔


"تم کیا جانو میرے جنون کہ تم سے ناراض رہنا کس قدر مشکل کام ہے۔۔۔"


فرزام کے گال پر ایک ڈمپل نمایاں ہوا اور پھر وہ گاڑی کو بھگاتا اپنے کام کی جانب چلا گیا۔

💞💞💞💞

"آپ کو کچھ چاہیے تو نہیں؟آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟کہیں درد تو نہیں ہو رہا؟"


صبح سے چاہت نہ جانے کتنی ہی بار بہرام سے یہ باتیں پوچھ چکی تھی۔حالانکہ بہرام اسے کتنی ہی بار یہ بتا چکا تھا کہ وہ ٹھیک ہے لیکن چاہت کو تو جیسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ابھی بھی سب کے اپنے کمروں میں جانے کے بعد چاہت اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھتے ہی یہ پوچھنے بیٹھ گئی۔


"اب اپنا میڈیکل کروا کر ریپورٹس دیکھاؤں تو یقین آئے گا کیا کہ میں ٹھیک ہوں؟"


بہرام نے اکتا کر پوچھا لیکن چاہت کو ہاں میں سر ہلاتا دیکھ قہقہ لگا کر ہنس دیا۔


"تمہاری فکر مجھے اچھی لگتی ہے میری جان لیکن مجھے میری بے فکری سی چاہت زیادہ پسند ہے۔۔۔"


اس کے بعد پر نہ جانے کیوں چاہت کے ہونٹوں کی مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔


"وہ چاہت اچھی نہیں تھی۔۔۔۔"


بہرام نے اچانک ہی اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا تو وہ کٹی پتنگ کی طرح اسکے سینے سے آ لگی۔


"خبردار جو تم نے میری چاہت کے بارے میں کوئی بات کی وہ جان ہے میری۔۔۔۔"


چاہت نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"آپ اتنے اچھے کیسے ہیں خان جی۔۔۔؟"


بہرام اسکی بات پر مسکرایا۔


"وہ تو میں ہوں۔۔۔۔"


چاہت اسکی بات پر ہنس دی۔بہرام نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اسکے انسو پونچھ دیے۔


"اب مجھے میری پرانی چاہت واپس کرو جو ہر وقت الٹی سیدھی شرارتیں کر کے میرا سکون برباد کرے کیونکہ اس بار میں سکون سے تمہاری شرارتیں برداشت نہیں کروں گا بلکہ۔۔۔"


"بلکہ۔۔۔۔؟"


بہرام کے خاموش ہوجانے پر چاہت نے گھبرا کر پوچھا۔


"بلکہ وہ کروں گا جو تمہاری شرارتیں دیکھ کر اور تمہاری اوٹ پٹانگ باتیں سن کر میرا کرنے کا دل کرتا تھا۔"


"کیا دل کرتا تھا۔۔۔۔؟"


چاہت نے اسکی گال پر موجود ڈمپل کو چھوتے ہوئے پوچھا جو بہرام کے کہنے کے مطابق صرف اسکی موجودگی میں نمایاں ہوتا تھا۔


"یہ۔۔۔"


بہرام اتنا کہہ کر اسکے ہونٹوں پر جھکا اور اس اچانک حملے پر چاہت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اس نے اپنے آپ کو بہرام کی پکڑ سے چھڑوانا چاہا لیکن بہرام اپنی من مانی کرتا اسے مکمل طور پر بے بس کر گیا تھا۔


آخر کار اپنا دل بھر جانے پر بہرام اس سے دور ہوا تو چاہت اسکے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی جو گلاب کی ماند سرخ ہو رہا تھا۔


"اگر آپ ایسا کریں گے تو میں کبھی بولوں گی بھی نہیں اور شرارتیں بھی نہیں کروں گی۔ایویں اپنے شوہر کو بے شرم بنانے کا گناہ چڑھ جائے گا میرے سر۔۔۔۔"


بہرام اسکی بات پر قہقہ لگا کر ہنس دیا اور اسے سختی سے خود میں بھینچا۔زندگی پل بھر میں ہی کتنی حسین لگنے لگی تھی۔


"وہ تو تم کچھ بھی کر لو میری جان شوہر کو بے شرم کرنے کا گناہ تو تمہارے سر چڑھنا ہی ہے۔۔۔۔"


اتنا کہہ کر بہرام اسے مزید بولنے کا موقع دیے بغیر اپنی پناہوں میں چھپا گیا اور ایک بار پھر سے چاہت بخوشی اپنے آپ کو اسکی محبتوں کے سپرد کر گئی۔وہ ہی تو اسکے جسم و جان کا مالک تھا، چاہت کا رواں رواں اسکی امانت تھا تو اس سے کیسا کترانا۔

💞💞💞💞


فرزام چاہ کر بھی جلدی واپس نہیں آ سکا تھا کیونکہ جو کام سنبھالنا بہرام کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا فرزام اس میں زرا اناڑی تھا اسی لیے بہت کوشش کرنے کے باوجود اسے واپس آتے آتے رات کے گیارہ بج گئے تھے۔


اپنے کمرے کی جانب واپس آتے اسے مناہل کی جلدی آنے کی درخواست یاد آئی۔اب تک تو وہ شائید سو بھی چکی ہو گی۔


فرزام نے گہرا سانس لے کر سوچا اور کمرے میں داخل ہو گیا۔کمرے میں گھپ اندھیرا دیکھ اسے اندازہ ہوا کہ مناہل واقعی میں سو چکی ہے۔


وہ اندھیرے میں ہی بیڈ کے پاس جانے لگا تا کہ اسے ڈسٹرب کیے بغیر اسے محسوس کر کے اپنے دل کو سکون دے سکے لیکن تبھی کمرے کی لائٹ آن ہوئی۔


فرزام نے مڑ کر دروازے کے پاس کھڑی مناہل کو دیکھا تو اسے لگا تو سانس تک لینا بھول گیا۔


اس وقت مناہل نیلے رنگ کی میکسی پہنے وہاں کھڑی تھی اور وہ وہی میکسی تھی جو فرزام نے اسے مری میں دی تھی۔سلیو لیس بازوؤں کو چھپانے کے لیے مناہل نے اپنے گھنے بال کندھوں پر پھیلائے تھے لیکن اس نے اسکی خوبصورتی میں اضافہ ہی کیا تھا۔


فرزام خواب کی سی کیفیت میں اسکے قریب ہوا تو اسے وہ پینڈنٹ مناہل کی گردن میں نظر آیا جو اس نے صبح اسے دلایا تھا۔اسکو مسلسل خاموشی سے خود کو دیکھتا پا کر مناہل کنفیوز ہوتی اپنا سر جھکا گئی۔


"کک۔۔۔۔کیسی لگ رہی ہوں۔۔۔۔؟"


مناہل کی گھبرائی سی آواز پر فرزام مسکراتے ہوئے اسکے پاس آیا اور ٹھوڈی سے پکڑ کر اسکا حسین چہرہ اوپر کیا۔


"میری من لگ رہی ہو۔۔۔"


فرزام کی بات پر مناہل کے چہرے کی خوشی دیکھنے والی تھی۔


"تو کیا آپ نے مجھے معاف کر دیا؟"


مناہل نے بہت امید سے پوچھا اور فرزام نے اسکا چہرہ ہاتھ میں تھام لیا۔


"تمہیں یاد ہے جب پہلے تم نے یہ ڈریس پہنا تھا تو میں نے کیا کہا تھا؟"


فرزام کے اپنا ہی سوال پوچھنے پر مناہل فوراً اپنا سر جھکا گئی۔اسے فرزام کی نظروں سے اب بہت زیادہ گھبراہٹ ہو رہی تھی۔


"میں نے کہا تھا کہ اس کا مطلب ہو گا کہ تم مجھے اپنی مرضی سے اپنے قریب بلا رہی ہو۔مجھے یہ حق دے رہی ہو کہ تمہیں مکمل طور پر اپنا بنا لوں۔۔۔۔"


فرزام کی گھمبیر آواز پر مناہل کی نازک جان کانپ سی گئی۔


"فف۔۔۔فرزام۔۔۔۔"


"تو بولو اسی لیے پہنا ہے کیا تم نے یہ ڈریس۔۔۔؟"


مناہل اب سر جھکا کر اپن انگلیاں چٹخانے لگی۔


"مم ۔۔۔مجھے لگا آپ کو یہ اچھا لگے گا تو آپ مجھے معاف کر دیں گے ۔۔۔۔۔"


فرزام کے ماتھے پر یہ بات سن کر بل آئے تھے۔


"یعنی تم نے یہ ڈریس اس لیے نہیں پہنا کہ تم مجھے اپنے قریب بلانا چاہ رہی تھی؟"


مناہل نے گھبرا کر اسے دیکھا۔وہ چاہ کر بھی یہ بات فرزام سے نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس کی بولڈنیس تو مکمل طور پر اس ڈریس کے پہننے تک ہی محدود تھی لیکن اسکی خاموشی کو دیکھ کر فرزام کے ماتھے پر بل آئے اور وہ وہاں سے جانے لگا۔


اسے خود سے دور جاتا دیکھ مناہل بہت زیادہ ڈر گئی۔وہ بس اتنا جانتی تھی کہ اسے اپنے شوہر کو منانا تھا بغیر سوچے سمجھے وہ بھاگ کر فرزام کے پاس گئی اور پیچھے سے اسے اپنی باہوں میں لے کر اپنا چہرہ اسکی کمر پر رکھ دیا۔


"پلیز مجھے چھوڑ کر مت جائیں فرزام۔۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔۔"


اسکی بے چینی پر فرزام کے ہونٹ مسکرائے اور اس نے مناہل کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے سامنے کیا۔


"سوچ لو من یہاں تک گیا تو تمہاری جان خوامخواہ عزاب میں آ جائے گی کیونکہ آج تم بہت کامیابی سے بہکا رہی ہو مجھے۔۔۔۔"


مناہل کا روم روم اسکی بات پر کانپ اٹھا پھر بھی اس نے ہمت کرتے ہوئے اپنا سر اسکے سینے پر رکھا اور اپنے ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹ دیے۔


"مت جائیں۔۔۔"


اب فرزام کی بس ہو چکی تھی اسی لیے اس نے مناہل کا چہرہ بالوں سے پکڑ کر اونچا کیا اور اپنے جنون کی مانتا اسکے نازک ہونٹوں کو اپنی گرفت میں کے لیا۔


اسکے لمس میں شدت کے ساتھ ساتھ بے تحاشا تڑپ بھی تھی جیسے کہ اسے ساری زندگی تڑپنے کے بعد جزا ملی ہو۔


مناہل کی نازک جان تو بس اتنی سی شدت پر ہی ہلکان ہو چکی تھی لیکن اس نے پھر بھی کوئی مزاحمت نہیں کی کیونکہ وہ فرزام کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔


فرزام نے یونہی اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لے گیا اس نے مناہل کو لیٹا کر اسکے کندھوں سے بال ہٹائے اور وہاں بھی اپنی محبت کے پھول کھلانے لگا۔


اور مناہل رکے سانس کے ساتھ بیڈ سیٹ کو اپنی مٹھیوں میں دبوچتی اسکے جنون کو برداشت کر رہی تھی۔اسے کے دانت اپنی گردن میں گڑھتے محسوس ہوئے تو نہ چاہتے ہوئے بھی دو آنسو پلکوں پر ٹھہر سے گئے۔


فرزام نے اس سے دور ہو کر اپنی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کیے لیکن مناہل کی پلکوں پر وہ آنسو دیکھ کر اسکے ہاتھ رک گئے۔


"من۔۔۔۔"


فرزام کے محبت سے پکارنے پر مناہل نے سہم کر اسے دیکھا۔اسکے یوں دیکھنے پر فرزام کو احساس ہوا کہ وہ تو اسے پانے کے جنون میں یہ بھی بھول چکا تھا کہ اس باہوں میں موجود پھول کی پتی پتی کو کسی نے بہت بے رحمی سے توڑا تھا اب فرزام کو اپنی محبت سے ان پتیوں کو پھر سے جوڑنا تھا نہ کہ اپنے جنون میں اسے خود سے ڈرانا تھا۔


فرزام نے نرمی سے اسے اپنی باہوں میں لے کر اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


"میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا من کبھی نہیں۔۔۔۔اس سے پہلے فرزام خانزادہ اپنی کھال ادھیڑ دینا پسند کرے گا۔۔۔۔"


مناہل اسی بات پر نم آنکھوں سے مسکرائی اور اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپا لیا۔


"جانتی ہوں فرزام۔۔۔"


اسکے اس بھروسے پر فرزام نے مسکراتے ہوئے نرمی سے اسے اپنی آغوش میں بھرا اور بہت نرمی اور محبت سے اسے اپنے پیار سے آگاہ کرنے لگا۔وہ اسے ایسے چھو رہا تھا جسے کہ وہ کوئی کانچ کی گڑیا ہو جو زرا سا زور سے چھونے پر ٹوٹ جاتی۔


اور اسکی محبت میں خود کو قیمتی محسوس کرتی مناہل اپنا ہر زخم ہمیشہ کے لے سی گئی تھی۔یہ محبت ہی تو تھی جو ہر زخم کا مرہم تھی۔محبت کے بغیر تو دنیا کی ہر دوا بے اثر تھی۔

💞💞💞💞

فرزام مسکراتے ہوئے اپنی باہوں میں سوتی مناہل کو دیکھ رہا تھا جو اسکی محبت کے تحفظ میں ہر برے خواب اور خوف سے بے خبر پر سکون نیند سو رہی تھی اور فرزام مسکراتے ہوئے اسکے ایک ایک نقش کو اپنی نظروں سے چھو رہا تھا۔


کیا تھی وہ نازک سی گڑیا جو ایک خود پرست انسان کو پل بھر میں بدل کر کسی اور کے لیے جینا سیکھا گئی تھی۔وہ جو بھی تھی فرزام کے لیے سب سے زیادہ قیمتی تھی۔


فرزام نے اپنے ہونٹ اسکی آنکھوں پر رکھے تو مناہل کے چہرے کو شرمگیں مسکراہٹ نے چھوا اور وہ اپنا چہرہ فرزام کے سینے میں چھپا گئی۔


"تو تم سو نہیں رہی بس مجھ سے جان چھڑوانے کے لیے سونے کا دیکھاوا کر رہی تھی۔۔۔۔؟"


فرزام نے اسکا چہرہ سینے سے نکال کر پوچھا اور مسکراتے ہوئے مناہل کی پلکوں کی جنبش کو دیکھنے لگا۔


"نن۔۔۔۔نہیں میں سو رہی تھی۔۔۔۔"


فرزام کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔


"اوہ اچھا تو ٹھیک ہے پھر ابھی بھی سوتی رہو تا کہ میں اپنا کام آسانی سے کر لوں۔۔۔"


فرزام نے اسکی ناک کو دانتوں میں دبا کر کہا تو مناہل کا سانس اسکے سینے میں ہر اٹک گیا۔


"فرزام تنگ نہیں کریں ناں۔۔۔"


"ابھی تو تنگ کیا ہی نہیں میرا جنون جب تنگ کرنے پر آیا تو مجھ سے نظریں تک نہیں ملا پاؤ گی۔جو رات تمہیں دیکھایا وہ تو بس میرا پیار تھا کیفِ جنون کو چکھنا تو ابھی باقی ہے۔۔۔۔"


فرزام نے اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے کہا تو مناہل خود میں سمٹتی چلی گئی۔


"آپ کے اس جنون کے لیے بہت کمزور ہوں میں فرزام۔۔۔۔"


فرزام نے اسکی گردن سے چہرہ نکالا اور مسکرا کر اسے دیکھنے لگا۔اڈے دیکھ کر مناہل ایک بار پھر اپنی قسمت پر رشک کرنے لگی تھی۔


"کوئی بات نہیں میں ہوں ناں تمہیں مظبوط بجا دوں گا۔۔۔"


فرزام ایک بار پھر سے اسے اپنی محبتوں بھری پناہوں میں چھپا گیا اور ان پناہوں میں مناہل کو اپنا آپ معتبر لگنے لگا تھا۔


آج وہ یہ بات سمجھ گئی تھی کہ عورت کے ساتھ کی گئی زیادتی اسے ناپاک یا حقیر نہیں بناتی۔یہ تو بس انسانی دماغ کا فتور تھا ورنہ انسان کو ناپاک تو بس اس کے گناہ ناپاک بناتے ہیں نا کہ دوسروں کا گناہ۔


مناہل پاکیزہ تھی اور محبتوں کے قابل تھی۔اس کی طرح ہر وہ لڑکی محبتوں کے قابل ہے جسے ایک درندہ نوچ کر یہ سوچتا ہے کہ اس نے اسے ناپاک کر دیا۔وہ پاک ہے، کیونکہ اسے نہ تو دین نا پاک سمجھتا ہے نہ ہی ہمارا خدا بس نہ جانے وہ وقت کب آئے گا جب لوگ بھی اسے پاک سمجھنا شروع دیں۔

وقت کو تو شائید بنایا ہی پر لگا کر اڑنے کے لیے گیا ہے۔اچھے دن کیسے گزر جاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔یہی معاملہ ان سب کے ساتھ بھی ہوا تھا۔خوشیوں میں ڈوبے کیسے ایک مہینہ گزر گیا انہیں اندازہ بھی نہیں ہوا تھا۔


آج بہرام اتنے عرصے کے بعد دوبارہ اپنے آفس جا رہا تھا۔وہ تو بہت پہلے ہی ایسا کرنا چاہتا تھا لیکن فرزام نے اسے خوب آرام کر کے ٹھیک ہونے کا حکم دیا تھا۔


بہرام کے آفس میں داخل ہوتے ہی سب اسے دیکھ کر کافی خوش ہوئے تھے۔بہرام سب سے مل کر اپنے آفس میں آیا تو کچھ دیر کے بعد ہی اسکی سیکریٹری کمرے میں داخل ہوئی۔


"سر مس حبہ بیگ آپ سے ملنے آئی ہیں۔۔۔۔"


بہرام نے اس بات پر آبرو اچکا کر سیکریٹری کو دیکھا۔بھلا اس کے بہرام کے پاس آنے کا کیا مقصد ہو سکتا تھا۔


"بھیجو انہیں۔۔۔"


سیکریٹری یس سر کہہ کر وہاں سے چلی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد ہی حبہ کمرے میں آئی اور بہرام کو سلام کیا۔بہرام نے ہاں میں سر ہلا کر اسے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


اتنا تو فرزام اسے پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ حبہ کے ساتھ مل کر بیگ گروپ آف انڈسٹریز کو سنبھال رہا ہے لیکن بہرام اس کے جیسا نہیں تھا۔وہ الطاف کی وجہ سے حبہ سے کوئی تعلق جوڑنا نہیں چاہتا تھا پھر چاہے ان کے درمیان خون کا تعلق ہی کیوں نہیں تھا۔


"وہ مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔"


حبہ نے زرا سا ہچکچا کر کہا۔


"کہو۔۔۔"


بہرام سرد مہری سے کہتے ہوئے سامنے پڑی فائلز کو دیکھنے لگا جبکہ حبہ اپنے اضطراب پر قابو پاتی ہمت کرنے کی کوشش کرنے لگی۔


"میرے بابا آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔"


بہرام نے فوراً سخت نظروں سے اسے دیکھا۔


"وہ روزانہ رو کر مجھ سے ایک ہی بات کہتے ہیں کہ آپ ان سے مل لیں۔میں بہت دیر سے یہ نظر انداز کر رہی ہوں لیکن اب ان کا یوں رونا مجھ سے دیکھا نہیں جاتا آپ پلیز بس ایک بار۔۔۔"


"نہیں۔۔۔۔"


بہرام نے اسکی بات کاٹ کر کہا اور غصے سے سامنے پڑے پیپرز کو دیکھنے لگا۔


"دیکھیں میں جانتی ہوں جو انہوں نے کیا وہ بہت بڑا ظلم تھا لیکن آپ جتنا مرضی اس بات کو جھٹلا لیں سچ یہی ہے کہ وہ آپ کے باپ ہیں اور آپ کو ان کے حقوق کا جواب دینا ہے۔۔۔۔"


بہرام نے اب کی بار دانت کچکچا کر حبہ کو دیکھا۔


"کیسا حق؟وہ باپ جس نے پیدا ہونے سے پہلے ہی ہمارے سر سے اپنا سایہ ہٹا لیا اس کے لیے کیسا فرض ہمارا کوئی فرض نہیں بنتا۔۔۔ "


بہرام کی سختی پر حبہ کی پلکیں نم ہو گئیں۔بہت ہمت کر کے اس نے بہرام کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔


"پلیز صرف ایک بار ان سے مل لیں تو شائید ان کو سکون آ جائے آپ جانتے بھی نہیں وہ کتنا تڑپتے ہیں بس ایک بار مل لیں۔۔۔۔"


بہرام خاموشی سے اسکی باتوں کو سنتا گہرا سانس لے کر رہ گیا۔وہ اس شخص کے لیے سکون کا باعث نہیں بننا چاہتا تھا۔


"پلیز بہرام۔۔۔۔بھائی۔۔۔"


حبہ کے اسے بھائی پکارنے پر نہ جانے کیوں بہرام کے دل میں ایک ہلچل سی ہوئی تھی۔


"ٹھیک ہے میں سوچوں گا اس بارے میں۔۔۔"


حبہ اسکی بات پر مسکرا دی اور اپنے آنسو پونچھنے لگی۔


"آپ بھی فرزام بھائی کی طرح بہت اچھے ہیں اور میں جانتی ہوں آپ کی بات مان کر وہ بھی بابا سے ملنے ضرور آئیں گے۔۔۔"


حبہ اتنا کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی پھر اچانک کچھ یاد آنے پر مڑ کر بہرام کو دیکھنے لگی۔


"میں شکر گزار ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ جیسے بھائی دیے ہیں۔۔۔۔اب یہ زندگی بہت آسان لگتی ہے۔۔۔"


اتنا کہہ کر حبہ وہاں سے چلی گئی اور بہرام کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اسے روک لے اور اسے گلے سے لگا کر اسکا ہر دکھ کم کر دے لیکن پھر بھی وہ اسے روک نہیں پایا تھا۔


موبائل بجنے کی آواز پر بہرام نے اپنا موبائل جیب سے نکالا اور سکینہ کا نمبر دیکھ کر پریشانی سے موبائل کان سے لگا لیا۔


"جی اماں جی سب ٹھیک ہے ناں؟"


بہرام نے بے چینی سے پوچھا سب سے پہلے اسے چاہت کا خیال آیا تھا کہ وہ ٹھیک تو ہے کیونکہ صبح بھی وہ طبیعت خرابی کا بہانہ کر کے کالج نہیں گئی تھی۔


"بیٹا وہ۔۔۔۔چاہت کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی تو اسے ہسپتال لے کر آئی ہوں۔۔۔۔تم بھی آ جاؤ یہاں۔۔۔۔"


بہرام کا دل یہ جان کر بہت زور سے دھڑکنے لگا۔وہ فوراً اپنی کار کی چابیاں پکڑتا کھڑا ہو چکا تھا۔


"کونسے ہاسپٹل میں۔۔۔؟"


سکینہ کے بتاتے ہی بہرام جلدی سے گاڑی کے پاس گیا اور گاڑی میں بیٹھ کر تیز رفتاری سے گاڑی چلانے لگا وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اسے جلد از جلد اپنی چاہت کے پاس پہنچنا ہے کہیں اسے کچھ ہو ۔۔۔۔


اس سے آگے بہرام کچھ سوچ ہی نہیں پایا۔وہ گاڑی کو مزید تیزی سے بھگاتا ہاسپٹل پہنچا اور وہاں سے چاہت کا پوچھ کر سیدھا اس وارڈ میں گیا جہاں چاہت کو رکھا تھا۔


بہرام جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا بیڈ پر لیٹی چاہت اسے دیکھتے ہی ہاتھوں میں چہرہ چھپا گئی۔بہرام پریشانی سے اسکے پاس آیا اور اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹانے چاہے لیکن چاہت تو جیسے اسے چہرہ دیکھانا ہی نہیں چاہتی تھی۔


"کیا ہوا ہے میری جان بتاؤ تو سہی۔۔۔۔"


اپنی پریشانی میں بہرام کا دھیان سکینہ اور ڈاکٹر پر گیا ہی نہیں جو اس کی فکر مندی پر مسکرا رہے تھے۔


"ڈونٹ وری مسٹر خانزادہ شی از فائن۔۔۔۔"


بہرام نے غصے سے ڈاکٹر کو دیکھا۔


"وٹ ڈو یو مین شہ از فائن۔ہو سکتا ہے اسے ایسا کچھ ہوا ہو جسکا آپ کو نہیں پتہ آپ اس کا ہر ایک ٹیسٹ کروائیں تا کہ پتہ چلے کہ اسکی طبیعت کیوں نہیں ٹھیک۔۔۔۔"


بہرام کی پریشانی پر ڈاکٹر کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔اسے اس چھوٹی سی گڑیا کی قسمت پر رشک ہوا جسے اتنا پیار کرنے والا شوہر ملا تھا۔


"شی از ایکسپیکٹنگ مسٹر خانزادہ اور اس حال میں یہ سب چلتا رہتا ہے۔۔۔۔۔"


ڈاکٹر کی بات پر بہرام کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور وہ ہکا بکا سا چاہت کو دیکھنے لگا جو ابھی بھی ہاتھوں میں چہرہ چھپائے ہوئے تھی۔


"آئیے ڈاکٹر صاحبہ آپ مجھے بتا دیں کہ چاہت کو کونسی دوائیاں دینی ہیں میں اسے سب سمجھا دوں گی۔۔۔۔"


سکینہ نے ڈاکٹر کو وہاں سے لے جانے کے لیے کہا اور انہیں وہاں سے لے جا کر ان دونوں کو اکیلے رہنے کا موقع دیا۔


ان کے جانے کے بعد چاہت نے ایک آنکھ سے ہاتھ ہٹا کر بہرام کو دیکھا لیکن اسکے چہرے پر پریشانی دیکھ کر چاہت کی ساری حیا گل ہوئی۔


"کیا ہوا خان جی آپ کو خوشی نہیں ہوئی؟"


چاہت ھے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر گھبراتے ہوئے پوچھا اور بہرام نے اسکے پاس بیٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔


"خوشی چاہت؟مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مجھے پورا جہان مل گیا ہو زندگی میں جو ایک کمی تھی آج وہ بھی پوری ہو گئی ہو میرے احساسات خوشی سے بہت زیادہ بڑھ کر ہیں۔۔۔۔"


چاہت مسکرائی اور اسکا ہاتھ اپنے قریب کر کے اپنے نرم ہونٹ اس پر رکھے۔


"تو پریشان کیوں ہیں؟"


بہرام نے محبت سے سے دیکھا اور جھک کر اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔


"کیونکہ چھوٹی سی عمر میں تم پر اتنی بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے چاہت نہ جانے تم کیسے نبھا پاؤ گی۔۔۔؟"


چاہت نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔


"میں اکیلی تھوڑی سنبھالوں گی جتنی میری اولاد ہے اتنی آپ کی بھی ہے ناں تو آپ بھی سنبھالیں گے اسے۔۔۔۔"


بہرام اسکی بات پر مسکرایا۔


"او اچھا۔۔۔"


"جی،آپ اسکا ڈائپر بدلا کریں گے اور اسے فیڈر بھی آپ ہی پلائیں گے جب رات کو اٹھ کر روئے تو آپ ہی چپ کروائیں گے اور اسے نہلایا بھی کریں گے۔۔۔۔"


چاہت کی اتنی لمبی لسٹ پر بہرام نے حیرت سے اسے دیکھا۔


"تو تم کیا کرو گی؟"


"میں اسے کھلایا کروں گی چھوٹی ہوں ناں ابھی۔۔۔۔"


چاہت کی شرارت کو سمجھ کر بہرام قہقہ لگا کر ہنس دیا اور چاہت بھی اسے دیکھ کر مسکرا دی۔


"یہ ہماری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے خان جی اس کے لیے میری جان بھی حاضر ہے۔۔۔۔۔"


بہرام نے آنکھوں میں محبتوں کا جہان سمو کر اسے دیکھا۔


"اور تم دونوں کے لیے میرا پورا جہان حاضر ہے ۔۔۔۔۔"


بہرام نے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھ کر کہا تو چاہت آنکھیں موند کر مسکرا دی اور انکی خوشیوں کو دیکھ کر قسمت بھی مسکرا دی۔

💞💞💞💞

چاہت کی جانب سے خوشخبری نے پورے خانزادہ مینشن کی خوشیوں میں چار چاند لگا دیے تھے۔ابھی بہرام نے سب کو لاونج میں بلا کر یہ خوشخبری سنائی تھی۔فرزام تو چچا بننے کی خوشی میں پاگل ہو رہا تھا جبکہ مناہل خوشی سے جگمگاتی شرمائی سی چاہت کو اپنے ساتھ لگائے بیٹھی تھی۔


"اب تم دونوں بھی جلد ہی یہ خوشخبری سنا دو تا کہ نانی کے ساتھ ساتھ دادی بھی بن جاؤں میں۔۔۔۔"


سکینہ نے فرزام سے کہا تو مناہل شرم سے گلابی ہوتی فوراً اپنا سر جھکا گئی۔


"سوچتا ہوں اماں جی اب آج تک ہر کام بہرام کے ساتھ کیا ہے میں نے تو اب پیچھے کیسے رہ جاؤں۔۔۔"


فرزام کی آنکھوں میں جنون دیکھ کر مناہل خود میں سمٹ سی گئی۔اسے تو اب اس جنون سے ڈر لگتا تھا جو اسے ہر روز سہنا ہوتا تھا۔


اسے لگا تھا کہ فرزام کی محبت ہمیشہ نرمی سے بھرپور ہو گی لیکن یہ اسکی خوش فہمی جلد ہی ختم ہو گئی تھی۔فرزام اپنی شدت اور جنون سے اسے بہت جلد آگاہ کروا گیا تھا۔


لیکن اسکی محبت تھی جو اسکے جنون پر بھی حاوی ہوتی تھی۔چند دن پہلے ہی وہ مناہل کی ساری پراپرٹی واپس اسکے نام کر کے اسے کاغزات دے چکا تھا لیکن مناہل نے یہی کہا تھا کہ اسکا سب کچھ فرزام کا تھا کیونکہ وہ خود بھی تو اسی کی تھی۔اور اسکے ایسا کہنے پر فرزام کا وہ جون یاد کر کے وہ پھر سے شرما گئی تھی۔


"اللہ تعالیٰ تم دونوں کو بھی اولاد کی نعمت سے نوازیں اور ڈھیروں خوشیاں دیں آمین۔۔۔۔"


سکینہ نے محبت سے دعا دی تو فرزام مسکرا دیا۔


"آمین۔۔۔۔"


مناہل نے آہستہ کہا اور نگاہیں اٹھا کر شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ فرزام کو دیکھا جو مناہل کے پاس بیٹھ کر اپنا ہاتھ چاہت کے سر پر رکھ چکا تھا۔


"صدا خوش رہو میری پیاری سی چھٹکی اور بچہ میرے جیسا پیارا سا،شریف سا،ہنس مکھ سا ہو ورنہ ایک اور بہرام جیسا آ گیا تو گئی بھینس پانی میں۔"


فرزام کی بات پر جہاں سب ہنسنے لگے تھے وہیں صوفے کے ساتھ کھڑا بہرام اسے گھورنے لگا تھا۔


"تم میں تو شرافت کچھ زیادہ ہی ہے ناں۔۔۔۔"


فرزام نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔


"میرا تو اوڑھنا بچھونا شرافت ہے۔۔۔"


اچانک ہی فرزام ہلکا سا جھک کر مناہل کے قریب ہوا۔


"کیوں ہوں ناں میں شریف؟"


اسکے گھمبیر لہجے ہر مناہل پاؤں کے ناخن تک سرخ ہوئی تھی۔


"تیار رہنا اب کی بار ہنی مون پر سویٹزر لینڈ جانے کا ہی سوچ رہا ہوں میں۔۔۔۔"


فرزام ہلکی سی سرگوشی کر کے اس سے دور ہوا جبکہ مناہل کا دل کر رہا تھا کہ یہاں سے غائب ہو جائے۔اچانک ہی چاہت نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لیے۔


"میں نے کچھ نہیں سنا۔۔۔اور سویٹزر لینڈ جانے کے بارے میں تو بالکل نہیں سنا۔۔۔۔"

اض

چاہت کی بات پر سب کے ہنسنے کے ساتھ بہرام بھی مسکرا دیا۔اسکے دل سے بے ساختہ دعا نکلی کہ انکے خوشیوں میں ڈوبے جہان کو کسی کی نظر نہ لگے۔

💞💞💞💞

الطاف اندھیرے میں اکیلا اپنی ویل چیئر پر بیٹھا تھا۔تنہائی،معزوری اور بے بسی اسے مکمل طور پر ختم کر چکے تھے۔حبہ تو جب اسکے پاس آئی تھی الطاف نے رو کر بس ایک التجا کی تھی کہ بہرام اور فرزام سے کہو اس سے ایک بار مل لیں۔


اب تو حبہ بھی اسے یہ بتاتے بتاتے تھک چکی تھی کہ وہ دونوں اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتے شائید اسی لیے اب وہ اس کے سامنے ہی نہیں آتی تھی۔


اپنی زندگی کی محرومیوں پر الطاف چیخ چیخ کر رونے لگا۔کس فائدے آئی تھی اسکی یہ بے تحاشا دولت آج دولت کے ہوتے ہوئے بھی وہ خود کو سب سے زیادہ تباہ حال محسوس کرتا تھا۔


"یا اللہ مجھے معاف کر دے۔۔۔۔معاف کر دے میرے مولا۔۔۔۔"


الطاف کے رونے کی آواز خالی کمرے میں گونج رہی تھی لیکن آج اسکی تنہائی میں اسکا کوئ ساتھی نہیں تھا۔


"مجھے معاف کر دینا وردہ۔۔۔۔"


الطاف اتنا کہہ کر کتنی ہی دیر روتا رہا اور پھر دل میں اٹھتے درد کی وجہ سے بے ہوش ہو کر زمین پر ڈھے گیا۔آخری خوف اسکے دل میں تنہائی میں مر جانے کا تھا۔

💞💞💞💞

آدھی رات کو فرزام کی آنکھ موبائل بجنے کی آواز سے کھلی تھی۔کال پک کرتے ہی اسے حبہ کے رونے کی آواز سنائی دی جس نے انہیں الطاف کے بارے میں بتایا جو ایمرجنسی میں تھا اور بس ایک بار ان سے ملنا چاہتا تھا۔


فرزام وہاں جانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن حبہ نے اسے بھائی ہونے کا واسطہ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ بے بس ہوتا اب بہرام کے سامنے کھڑا تھا۔


بہرام چاہت کی نیند ڈسٹرب ہونے کے خیال سے فرزام کی بات سننے باہر ہال میں آیا تھا لیکن جو بات اسے پتہ چلی تھی اسکے بعد وہ بالکل خاموشی سے اسکے سامنے کھڑا تھا۔


"ہمیں جانا چاہیے بہرام اس نے جو بھی کیا ہے تو وہ ہمارا باپ ہی ناں ہمارا اتنا فرض تو بنتا ہی ہے۔۔۔۔"


بہرام نے مردہ آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"وہ آگ تم بھول گئے ہو کیا فرزام؟ کیونکہ میں نہیں بھولا اور نہ ہی کبھی بھولوں گا۔۔۔۔"


فرزام نے آگے ہو کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔


"میں تمہیں اسے معاف کرنے کو نہیں کہہ رہا بس اتنا کہہ رہا ہوں کو جو انتقام ہم اس سے لینا چاہتے تھے وہ قدرت نے لے لیا ہے۔اس کا غرور اب مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے بہرام وہ مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے۔۔۔۔"


بہرام نے مردہ آنکھوں سے اسے دیکھا۔


"میں یہ بس حبہ کی خاطر کر رہا ہوں بہرام کیونکہ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن وہ ہماری بہن ہے اور ہمیں بھائی ہونے کے ناطے اسے اس مشکل گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔۔۔۔"


کچھ سوچ کر بہرام نے ہاں میں سر ہلایا تو فرزام مسکرا دیا۔وہ دونوں پہلی فلائٹ سے لاہور کے اس ہاسپٹل میں آئے جہاں الطاف ایڈمٹ تھا۔


ان دونوں کو دیکھ کر ہی حبہ ہو ایک حوصلہ ملا تھا کہ وہ اس دنیا میں اکیلی نہیں ہے۔فرزام نے اسکے پاس آ کر اسے حوصلہ دیا جبکہ بہرام خاموشی سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔


ڈاکٹر کے باہر آتے ہی حبہ نے بے چینی سے ڈاکٹر کی جانب دیکھا۔


"سوری مس بیگ لیکن ان کے ہارٹ کے تمام والز تقریباً بند ہو چکے ہیں۔ہم انہیں بچا نہیں پائیں گے۔۔۔۔"


یہ بات سن کر حبہ سسک کر رو دی۔جبکہ فرزام اور بہرام کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں آیا تھا۔


"آپ ان سے مل لیں ان کے پاس زیادہ وقت نہیں۔۔۔۔"


ڈاکٹر اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور حبہ نے آنکھوں میں امید کے ساتھ بہرام اور فرزام کو دیکھا۔


" پلیز ایک بار ان سے مل لیں۔ایک مرتے شخص کی آخری خواہش سمجھ کر۔۔۔۔"


بہرام نے فرزام کو دیکھا جس نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔وہ دونوں حبہ کے ساتھ الطاف کے پاس گئے جو مشینوں میں لپٹا بے جان سا پڑا تھا۔


"بابا۔۔۔۔بابا آنکھیں کھولیں دیکھیں آپ سے ملنے کون آیا ہے۔۔۔۔"


حبہ کی آواز پر الطاف نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں اور بہرام اور فرزام کو دیکھا۔ان کو دیکھ کر ہی الطاف کی پلکیں بھیگ گئیں اور اس نے ہونٹ ہلائے لیکن کوئی بھی آواز نہیں آئی۔


حبہ نے اپنا کان اسکے منہ کے پاس کیا۔


"اااا۔۔۔۔۔ان سے کہو مممم۔۔۔۔مجھے معاف کر دیں۔۔۔بس مجھے مممم۔۔۔۔معاف کر دیں۔۔۔۔"


حبہ اس بات پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور الطاف حسرت سے بہرام اور فرزام کو دیکھنے لگا۔خدا نے درست انصاف کیا۔دنیا میں اسکے بیٹے ہوتے ہوئے بھی وہ انہیں اپنا نام نہیں دے سکتا تھا اور آخرت میں بھی وہ جانتا تھا کہ اسے رسوائی ہی ملے گی اور شائید یہ غم الطاف کے لیے بہت زیادہ تھا۔


کیونکہ اس کی سانسیں بری طرح سے اکھڑنے لگیں۔بہرام نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا جس نے الطاف کا معائنہ کر کے مایوسی سے انہیں دیکھا۔


"سوری ہی از نو مور۔۔۔۔"


ڈاکٹر کے الفاظ سن کر حبہ فرزام سے دور ہو کر الطاف کے پاس گئی اور اسکے سینے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔آج وہ خود کو مکمل تنہا محسوس کر رہی تھی۔


یہ دیکھ نہ چاہتے ہوئے بھی دو آنسو فرزام کی پلکوں پر ٹھہر گئے لیکن حیرت تو اسے تب ہوئی جب بہرام حبہ کے پاس گیا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے گلے سے لگا لیا۔


,"ششش۔۔۔۔تم اکیلی نہیں ہو حبہ ہم دونوں تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔۔تمہارے بھائی تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔۔"


بہرام کی بات پر حبہ اسکے سینے میں چہرہ چھپا کر سسک کر رونے لگی اور اسے خود سے لگاتے بہرام کی پلکیں بھی بھیگ گئی۔بہن کے پیار کا احساس آج اسے مکمل طور پر ہوا تھا کہ یہ رشتہ کس قدر پیارا تھا۔

💞💞💞💞

(ایک سال بعد)

"چاہت مجھے لگتا ہے تم نے جو کہا تھا وہ سچ ہی کہا تھا اسے سنبھالنا صرف میری ہی ذمہ داری ہے۔۔۔۔"


بہرام نے اپنی باہوں میں موجود سلیمان کو سنبھالتے ہوئے کہا جس کا نخرہ ہی علیحدہ تھا۔موڈ کے لحاظ سے وہ کسی کے پاس جاتا تھا اور ابھی تو اسکا بہرام کے پاس رہنے کا کوئی موڈ نہیں تھا اسی لیے برے برے منہ بنا کر رو رہا تھا۔


"کیا بات ہے خان جی میں ہی تو سنبھالتی ہوں اسے دو منٹ ہوئے ہیں آپ کو اٹھائے اور آپ میرے بٹو کے پیچھے پڑھ گئے۔۔۔۔"


چاہت نے سلیمان کو باہوں میں اٹھا کر نرمی سے اپنے ہونٹ اسکے گال پر رکھے تو وہ فوراً چپ ہو گیا۔


"دیکھا آپ تو اسے سنبھالنا بھی نہیں آتا۔۔۔۔"


بہرام نے زرا سا گھور کر اپنے بیٹے تین ماہ کو دیکھا جو چاہت کی گردن میں موجود چین کو ہاتھ میں پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔


"بدعا لگ گئی ہے فرزام کی بالکل اپنے چچا پر چلا گیا ہے یہ باپ جیسا تو کچھ ہے ہی نہیں اس میں۔۔۔۔"


بہرام نے اسکے گال پر ہلکی سی چٹکی کاٹی تو وہ گلا پھاڑ کر روتے ہوئے چاہت کو اسکی شکائیت لگانے لگا۔


یہ دیکھ کر چاہت نے خفگی سے بہرام کو دیکھا اور پھر کسی طرح سے اسے بہلا کر سلا دیا۔ابھی اسے نرمی سے بستر پر لیٹا کر وہ مڑی ہی تھی جب زور سے پیچھے کھڑے بہرام کے سینے سے ٹکرائی اور بہرام نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔


"ویسے جب سے تمہارا بیٹا آیا ہے مجھ پر تو دھیان دینا بھول ہی گئی ہو تم۔۔۔۔"


بہرام نے جتلاتے ہوئے اسکی نازک سفید گردن میں موجود چین کو چھڑا۔


"آپ بچے ہیں جو آپ پر دھیان دوں میں اپنا خیال خود رکھنا سیکھیں دو دو بچے نہیں پالے جاتے مجھ سے ۔۔۔"


بہرام اسکی بات پر آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا۔


"بس اتنی جلدی تھک گئی تم میں تو کوئی دس بچوں کے بارے میں سوچ رہا تھا انہیں کون سنبھالے گا۔۔۔۔؟"


"کیا دس؟"


چاہت نے صدمے سے پوچھا تو بہرام اپنی ہنسی دباتا اسکے چہرے پر موجود حیرت کو دیکھنے لگا۔


"کیوں کم ہیں کیا؟"


"نہیں بہت زیادہ ہیں۔۔۔۔اتنے کسی کے نہیں ہوتے۔۔۔۔"


بہرام نے اسکی ناک پر اپنے ہونٹ رکھے۔


"ہمارے ہوں گے ناں تم موقع تو دو۔۔۔"


چاہت نے فوراً اپنا آپ اسکی باہوں سے چھڑوا لیا۔


"نہ کوئی موقع نہیں بس ہماری ایک اور بیٹی ہو گی انہیں پر گزارہ کریں۔۔۔۔"


چاہت کے حتمی فیصلہ سنانے پر بہرام کو شرارت سوجھی۔


"یعنی باقی آٹھ بچوں کے لیے مجھے دوسری شادی کرنی پڑے گی۔۔۔"


چاہت فوراً واپس اسکے پاس آئی اور کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورنے لگی۔


"کر کے تو دیکھیں آپ بال نوچ دوں گی اس چڑیل کے کچا چبا جاؤں گی اسے اس دن کو کوسے گی جس۔۔۔۔"


اسے یوں بولتا دیکھ بہرام نے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کھینچا اور اپنے ہونٹوں کو اسکے ہونٹوں پر رکھتا اسکی بولتی بند کر گیا۔


"بولا تھا اب جب بھی زیادہ بولو گی تو یہی کروں گا۔۔۔۔"


بہرام نے اسکے ہونٹوں سے ہٹتے ہوئے کہا تو چاہت لہو چھلکاتا چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی۔بہرام نے بھی اسے باہوں لیتے ہوئے سکون سے آنکھیں موند لیں۔


"خان جی؟"


"ہممم۔۔۔۔"


چاہت کے پکارنے پر بہرام نے آہستہ سے کہا۔


"میں دس بچے پال لوں گی لیکن آپ دوسری شادی مت کرنا۔۔۔۔"


اس بات پر بہرام ہنسنا شروع ہوا تو ہنستا ہی چلا گیا۔


"ٹھیک ہے میری جان بعد میں مکرنا مت۔۔۔۔"


بہرام نے اسکا ماتھا چوم کر کہا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔زندگی اتنی حسین ہو چکی تھی کہ اب اس پر خود ہی رشک ہونے لگا تھا۔

💞💞💞💞

"مناہل یہ کیا کر رہی ہو تم؟"


فرزام کی آواز پر بیڈ شیٹ ٹھیک کرتی مناہل نے سہم کر اسے دیکھا۔


"کیا ہوا؟"


فرزام فوراً اسکے پاس آیا اور اسے کندھوں سے تھام کر بیڈ پر بیٹھا دیا۔


"ڈاکٹر نے منع کیا ہے ناں کام کرنے سے تو کیوں کرتی ہو؟"


فرزام کا غصہ دیکھ کر مناہل نے گہرا سانس لیا۔جب سے مناہل کے پیر بھاری ہوئے تھے فرزام تو اسکی جان کا وبال بن چکا تھا۔ہر وقت اسکے پیچھے پڑا رہتا تھا۔


انکی زندگی خوشیوں سے بھرپور ہو چکی تھی۔فرزام اور بہرام اپنی بیویوں کو جان سے زیادہ چاہتے تھے اور حبہ کی شادی بھی انہوں نے اپنے ایک دوست سے کر دی تھی اور وہ بھی اس کے ساتھ کینیڈا میں خوشحال زندگی گزرا رہی تھی۔


"بیڈ شیٹ ٹھیک کرنا کوئی کام نہیں فرزام کیا ہو گیا ہے؟"


مناہل کی بات پر فرزام نے غصے سے اسے دیکھا اور اسکے پیر بیڈ پر رکھ کر اسکے پاس بیٹھ گیا۔


"اب میری اجازت کے بغیر یہاں سے اترو گی نہیں تم۔۔۔۔"

مناہل نے اکتا کر اسے دیکھا۔

"فرزام آپ چاہتے کیا ہیں مجھے کچھ کرنے نہیں دیتے کسی سے بات نہیں کرنے دیتے تا کہ بے بی کسی اور پر نہ چلا جائے۔۔۔۔میں کروں تو کروں کیا؟"

فرزام نے محبت سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیا۔

"بس مجھے دیکھو اور مجھ سے پیار کرو اور کسی سے نہیں۔۔۔۔"

فرزام کے جنون سے کہنے پر مناہل نے سہم کر اسے دیکھا۔

"آپ کے علاوہ کل کو اپنے بچے سے بھی تو پیار کرنا پڑے گا ناں تو کیا آپ اس سے بھی جیلس ہوں گے؟"

اسکی معصومیت پر فرزام نے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔

"وہ تو میرا حصہ ہو گا ناں اسے تمہارے قریب برداشت کر لوں گا میں۔۔۔"

یہ جان کر ایک بوجھ مناہل پر سے کم ہوا اور وہ مسکراتے ہوئے فرزام کے قریب ہوئی ۔

"فرزام ہماری بیٹی ہو گی ناں تو ہم اس کا نام دلکش رکھیں گے مجھے بہت پسند ہے اور ہم ہر وقت اس کے ساتھ رہا کریں گے اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔اسکے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دیں گے۔۔۔"

آخری بات کہتے ہوئے مناہل کی آنکھوں میں ایک کرب اور خوف تھا۔فرزام نے اسے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔

"فرزام خانزادہ کی بیٹی کی جانب کسی کی آنکھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہو گی من۔میں اپنے جی جان سے اسکی اور تمہاری حفاظت کروں گا۔۔۔۔"

خود کے اور اپنی اولاد کے گرد فرزام کا تحفظ محسوس کر کے مناہل مسکرا دی۔ہاں ان کے پاس ان کا فرزام انکی حفاظت کے لیے ہر وقت موجود تھا۔

"اس کے تو شوہر کو بھی اسے دیکھنے کے لیے مجھ سے اجازت مانگنی ہو گی۔۔۔"

فرزام کی اگلی بات پر مناہل نے اسکے سینے سے سر اٹھایا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

"نہیں اب اتنی بھی حفاظت مت کیجیے گا۔۔۔"

مناہل کی بات پر فرزام قہقہ لگا کر ہنس دیا اور اسے اپنے سینے سے لگاتا سکون سے آنکھیں موند گیا۔بے شک اگر زندگی میں دل۔ اور مشکل ہے تو اس کے بعد خوشیاں اور آسانی بھی ہو گی۔بس انسان صبر اور برداشت کا دامن تھامے تو خدا اسکا صلہ ضرور دیتا ہے۔

💞💞💞💞

ختم شد۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

Kaif E Junoon Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Kaif E Junoon written by Harram Shah . Kaif E Junoon by  Harram Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather link from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment