Sitamgar Ka Ishq By Aima Mughal New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 28 August 2024

Sitamgar Ka Ishq By Aima Mughal New Complete Romantic Novel

Sitamgar Ka Ishq By Aima Mughal New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sitamgar Ka Ishq By Aima Mughal New Complete Romantic Novel 

Novel Name: Sitamgar Ka Ishq

Writer Name:  Aima Mughal

Category: Complete Novel

پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں ہر طرف سے آ رہیں تھی۔۔۔

صبح کا وقت تھا جب الارم بار بار بج کر بند ہو رہا تھا۔۔۔ بیڈ پہ سویا وجود کوفت میں مبتلا ہوا اور ہاتھ بڑھا کر ایک بار پھر سے بجتے الارم کو بند کیا اور اٹھ کر ٹائم دیکھا تو سات بج کر پندرہ منٹ ہو چکے تھے۔۔۔

او شٹ ۔۔۔۔ اتنا ٹائم ہو گیا۔۔۔

جلدی سے اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا۔۔۔

وہ کالج یونیفارم پہنے آئینے کے سامنے بالکل تیار کھڑا تھا،،، بیگ اٹھاۓ کمرے سے باہر نکلا اور ڈائیننگ ٹیبل پر ناشتہ کرنے جا بیٹھا۔۔۔

احمد نہیں اٹھا ابھی تک مام۔۔۔۔

ناشتہ کرتے کرتے پروین بیگم کو سفیان نے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔۔۔

نہیں،، وہ سو رہا ہے کل رات سے اسے سخت بخار ہے،، دوائی دے کر سلایا ہے، سکول بھی نہیں جاۓ گا وہ آج کہہ رہا ہے۔۔۔

سفیان بے چین ہوا تھا احمد کی طبیعت کا سن کر اسی لیے ناشتے کو ادھورا چھوڑ کر اس کے کمرے کی طرف گیا۔۔۔

احمد میرا بچہ کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔۔

سفیان نے بیڈ پر بیٹھتے اس کی پیشانی کو چھو کر دیکھا تھا جو بخار سے تپ رہی تھی۔۔۔

بھائی میں ٹھیک ہوں۔۔۔

وہ جو غنودگی میں تھا سفیان کی آواز سن کر اٹھ کر اس کی گود میں سر رکھے لیٹ گیا۔۔۔

اوکے میرا بچہ ،،، میں کالج جا رہا ہوں،، واپس آ کر ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔۔ ابھی ریسٹ کرو آپ۔۔۔

پروین بیگم جو سفیان کے پیچھے ہی احمد کے کمرے میں آئیں تھیں دونوں بھائیوں کا پیار دیکھ کر مسکرائیں۔۔۔

سفیان ایسا ہی تھا احمد کے معاملے میں بے حد کانشیس۔۔۔ 

سفیان الحق اسلام آباد کے روپوش علاقے  H 8  میں رہنے والا انسان ہے۔۔۔۔ چھ فٹ سے نکلتا قد ، کالی آنکھیں ، ہلکی بئیرڈ جو اس کی شخصیت کا خاصہ ہے۔۔۔ ایک سلجھا ہوا ، ذمہ دار ، سب کی پرواہ کرنے والا شخص ہے۔۔۔ احمد اس کا چھوٹا بھائی ہے جس میں اس کی جان بستی ہے۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

گھر کے بیسمنٹ میں بنے جم میں روز کی طرح ایکسرسائیز کر کے وہ باہر نکلا اور جوس کا گلاس اٹھا کر پیا جو ابھی ابھی رحمت بی بی رکھ کر گئیں تھیں۔۔۔  

وہ فریش ہو کر تولیے سے بال رگڑتا باہر آیا جب فون کی پھر سے بیل بجی تھی۔۔۔

یس حسن عالم  سپیکنگ۔۔۔۔

ہاۓ ڈارلنگ آج ہمارا بار جانے کا پلان تھا یاد تو ہے نہ تمہیں،،، فون چھوٹتے ہی انشاء کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دی۔۔۔۔

یس بے بی آئی ریممبرڈ۔۔۔۔ 

اوکے ٹائم پہ پہنچ جانا ٹونی بھی آ رہا ہے۔۔۔ 

اوکے، باۓ کہتے اس نے فون بیڈ پر پھینکا اور تیار ہونے لگا۔۔۔

گرے ٹو پیس پہنے بالوں کو سنوارنے کے بجائے ماتھے پہ بکھیرا۔۔۔ یہ اسکا مخصوص سٹائل تھا۔۔۔

بھوری آنکھوں کی چمک ہی الگ تھی۔۔۔

پھر مہنگے برینڈ کا خود پر پرفیوم چھڑکا ، ہاتھ میں واچ پہنی کریڈٹ کارڈ اور وائیلٹ اٹھاتے نیچے آیا اور ڈرائیور کو گاڑی ریڈی کرنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

پھر وہ نوین بیگم کے کمرے میں آیا جو بیڈ پہ بیٹھی کسی کتاب کی ورق گردانی کرنے میں مصروف تھیں۔۔۔

ڈور ناک کر کے وہ اندر داخل ہوا اور عقیدت سے ان کے پاس بیٹھتے ہاتھ پہ بوسہ دیا۔۔۔

رشتوں کے نام پہ بس یہی ایک رشتہ تھا حسن کے پاس۔۔۔

میٹنگ کے لیے جا رہا ہوں مام۔۔۔ رات کو لیٹ آؤں گا تو آپ کھانا کھا کر سو جائیے گا۔۔۔

نوین بیگم نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور جانے کی اجازت دے دی تھی___

حسن عالم ایک بہت ہی بگڑا، رئیس زادہ ، دوسروں کو چیونٹیوں کی طرح مسل کے رکھ دینے والا انسان ہے۔۔۔

محبت نام کی چیز اس کی ڈکشنری میں ہے ہی نہیں۔۔۔

محبت اسے بس ایک ہستی سے ہی ہے اور وہ ہستی اس کی ماں ہے۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عاقب رک جاؤ چھوڑوں گی نہیں میں آج تمہیں۔۔۔

نہیں رکوں گا چڑیل ہمت ہے تو پکڑ کے دیکھاؤ مجھے۔۔۔

عمارہ اور عاقب پورے گھر میں اچھل کود کر رہے تھے۔۔۔

عمارہ صوفے پہ بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی جب عاقب نے نکلی چھپکلی اس کے اوپر پھینک کر اسے ڈرایا تھا۔۔۔

سارا گھر اس کی چیخوں سے گونجا تھا۔۔۔

عاقب جو پاس ہی کھڑا مزے لے رہا تھا اس کے تپ ہی تو چڑھی تھی عمارہ کو۔۔۔

رکو موٹو، سانڈ، باگڑ بلے ابھی بتاتی ہوں میں تجھے۔۔۔

اب عاقب آگے آگے تھا اور عمارہ اس کے پیچھے پیچھے۔۔۔

بھاگتے بھاگتے عاقب کسی سے ٹکرایا تھا۔۔۔

بابا جانی آپ آ گئے۔۔۔۔۔

خوشی سے چہکتی عمارہ بھاگ کر ان کے گلے لگی تھی۔۔۔

ظفر صاحب نے بھی اسے اپنی بانہوں کی آغوش میں چھپایا تھا۔۔۔۔

اٹس ناٹ فیئر ڈیڈ۔۔۔۔

آپ ہر دفعہ اس چھپکلی کی وجہ سے مجھے بھول جاتے ہیں۔۔۔ میں بھی آپ کی سگی اولاد ہی ہوں نہ۔۔۔

عاقب نے منہ بنا کر پوچھا تھا جبکہ عمارہ نے اسے زبان چڑھائی تھی۔۔۔۔

عاقب بھی آ کر ظفر صاحب سے گلے ملا اور ان کے پاس ہی بیٹھ گیا تھا۔۔۔ ہلکی پھلکی گفتگو جاری تھی۔۔۔

راشدہ بیگم جو کیچن میں کھانے کی تیاری کر رہی تھیں سب کی آوازیں سنتے باہر جھانک کر دیکھا تو ظفر اقبال صاحب کو بچوں سے باتوں میں مصروف دیکھ کر پانی کا گلاس لیے ان کے لیے باہر آئیں تھیں۔۔۔

ظفر اقبال اور راشدہ بیگم کے تین بچے تھے 

سمیرا ، عاقب ، عمارہ۔۔۔۔

سمیرا شادی شدہ ہے۔۔۔ عاقب جو کہ جوب ہولڈر ہے اور عمارہ جس نے یونیورسٹی میں ابھی ایڈمیشن لیا تھا اور کلاسسز شروع ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ ڈری سہمی سی اپنی کلاس کے باہر کھڑی تھی اندر جانے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی___

اتنی گہما گہمی دیکھ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔۔۔

 کیونکہ یونی میں اس کا پہلا دن تھا اور وہ کبھی بھی کو-ایجوکیشن میں نہیں پڑھی تھی۔۔۔۔

ایسے میں دور کھڑی رانیہ جو کسی سے بات کر رہی تھی اپنی کلاس کے باہر کھڑی لڑکی کو کب سے نوٹ کر رہی تھی جو اندر جاتے ہوئے ڈر رہی تھی۔۔۔۔

ہاۓ آئی ایم رانیہ۔۔۔

وہ اپنے پاس کسی کی آواز سن کر ڈری تھی دو قدم پیچھے کو لیے تھے۔۔۔

ہیے ، ڈرو نہیں مجھ سے میں تمہاری کلاس فیلو ہی ہوں 

اوکے فرینڈز۔۔۔

رانیہ نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا جسے سہمے سہمے انداز میں اس نے تھام لیا تھا۔۔۔

آ۔۔۔آئی ایم ہانیہ احمد۔۔۔

اوہ۔۔۔ڈیٹس گریٹ  نائس نیم۔۔۔

 رانیہ نے اس کے گلابی گالوں کو زور سے کھینچا تھا۔۔۔

اسے یہ چھوئی موئی سی لڑکی بہت پسند آئی تھی۔۔۔ اسی لیے اس نے فرینڈشپ کی آفر کی تھی ۔۔۔

رانیہ ، ہانیہ کا ہاتھ پکڑے اسے کلاس کے اندر لے آئی اور اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھایا۔۔۔۔

اب سے تم روز میرے ساتھ بیٹھا کرو گی اوکے ، اور آج سے ہم فرینڈز ہیں تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ کوئی بھی مسئلہ ہو کوئی کچھ بھی کہے مجھے بتانا یہ رانیہ اچھے سے اس سے نپٹ لے گی۔۔۔

ہانیہ اب جا کے کچھ ریلیکس ہوئی تھی۔۔۔اور تشکر بھرے انداز میں رانیہ کی طرف دیکھا تھا کہ اسے ایک اچھی دوست مل گئی تھی۔۔۔ 

اتنی کونفیڈنٹ وہ آج تک نہیں بن پائی تھی جتنی رانیہ تھی۔۔۔۔

کلاس لے کر وہ باہر نکلی تھیں جب رانیہ نے ہانیہ کو مخاطب کیا۔۔۔

چلو میں تمہیں گھر ڈراپ کر دوں___

میں چلی جا۔۔۔جاؤں گی رانیہ خود ہی___

سہم کر ہانیہ نے اسے جواب دیا تھا۔۔۔۔

اور وہ اپنے گھر کی جانب چل پڑی جبکہ رانیہ نے اسے دور تک جاتے دیکھا تھا۔۔۔۔

لاہور میں بنے ایک مشہور  بار کے پارکنگ ایریا میں آ کے بلیک رنگ کی پراڈو رکی تھی اور اندر بیٹھا شخص باہر نکلا تھا۔۔۔

بلیک شرٹ کے دو اوپری بٹن کھلے ہوئے تھے ، بالوں کو حسب معمول ماتھے پہ بکھیرے اپنی بھوری آنکھوں کو ارد گرد گھمایا۔۔۔

انشاء اسے دور دور تک نظر نہیں آئی ، موبائل نکال کر نمبر ڈائل کیا اور کان سے لگایا۔۔۔

ہیے، بے بی کدھر ہو۔۔۔

آواز میں مٹھاس تھی جبکہ چہرے پہ بیزاریت سجاۓ وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔

تمہارے دل میں۔۔۔ پیچھے سے آ کے انشاء حسن کے گلے لگی تھی جب حسن نے اسے بازو سے کھینچ کر خود سے دور کیا جیسے وہ کوئی اچھوت ہو اور انگلی اٹھا کر اسے وارن کرنے کے انداز میں بولا۔۔۔

یہ حرکتیں میرے ساتھ مت کیا کرو سمجھی ، اپنی حد میں رہا کرو ۔۔۔۔

انشاء نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

کہ ایسا بھی اس نے کیا کر دیا۔۔۔۔

Hello guyz... I'm here

What's up...

Everything is alright....???

ٹونی نے آ کر انہیں مخاطب کیا تھا۔۔۔

یس ، ایوری تھنگ از آل رائیٹ۔۔۔ لیٹس گو۔

حسن نے ہی ٹونی کو جواب دیا تھا اور اپنے قدم بار کے اندر کی جانب بڑھا دیے۔۔۔۔

انشاء بھی پیر پٹختی اندر کی جانب چل دی اور ٹونی بھی اس کی تقلید میں چل پڑا۔۔۔

اندر کا ماحول بڑا ہی رنگین تھا ہر طرف شراب کی سمیل پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔ لڑکیاں بےہودہ لباس زیب تن کیے ڈانس فلور پہ اپنے اپنے بواۓ فرینڈز کے ساتھ ڈانس کرنے میں مگن تھیں۔۔۔

حسن ، ٹونی اور انشاء بھی ایک ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے_ ٹونی نے ویٹر کو اشارے سے بلا کر ڈرنک سرو کرنے کو کہا  وہ سر ہلاتا چلا گیا۔۔۔

ویٹر نے ڈرنک سرو کی_جسے انشاء اور ٹونی نے تو خوب جی بھر کر پی۔۔۔لیکن حسن نے جوس منگوا کے پیا تھا۔۔۔

وہ لاکھ بگڑا سہی لیکن حرام مشروبات کو وہ چھوتا بھی نہیں تھا۔۔۔

لیٹس سی ڈانس بے بی۔۔۔۔

انشاء نے اپنا ہاتھ حسن کی طرف بڑھایا جسے کچھ سوچتے بلاتردد اس نے تھام بھی لیا۔۔۔

کیا تھا یہ انسان پل میں توشہ پل میں ماشہ۔۔۔

اب انشاء حسن کے کندھوں پہ ہاتھ رکھے اور حسن اس کی کمر پہ ہاتھ رکھے دونوں ڈانس فلور پر ایک دوسرے سے رقص محو تھے___

جب انشاء بولی تھی___

حسن کہیں گھومنے چلتے ہیں نہ ہم دونوں۔۔۔

مری چلتے ہیں___ 

وہ آنکھوں میں چمک لیے بولی___

اوکے بے بی ، کل کی فلائٹ سے چلتے ہیں۔۔۔۔

ابھی وہ باتیں کر رہے تھے جب حسن کا فون رنگ ہوا۔۔۔

گھر سے نوین بیگم کی کال تھی۔۔۔

وہ ٹونی اور انشاء کو وہیں چھوڑتا بار سے باہر نکلا ، گاڑی میں بیٹھتے ہی اگیشن میں چابی گھمائی اور گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان کالج سے ابھی ابھی گھر آیا تھا۔۔۔

نماز ادا کر کے کھانا کھایا تھا جب احمد کا اسے خیال آیا۔۔۔

اسکو دیکھنے کی غرض سے وہ اس کے کمرے میں جانے کا سوچ رہا تھا جب لاؤنج سے آتی آوازوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔۔

چاچو آپ لوگ کب آۓ۔۔۔۔؟؟

سفیان نے سب سے ملتے حیرت کا اظہار کیا تھا۔۔۔

بس آج ہی آۓ برخوردار۔۔۔۔ تم سناؤ کیسی جا رہی پڑھائی۔۔۔ آگے کا کیا ارادہ ہے۔۔؟؟ 

چاچو آپ جانتے ہے صرف ایک ہی خواب ہے میرا اپنے وطن پر جان نثار کرنے کا ۔۔۔

واہ مطلب آرمی جوائن کرنے کا ارادہ ہے تمھارا ۔۔

جی سوچا تو یہی ہے پر دیکھے نصیب کہاں لے جاتا ۔۔۔ سفیان نے چہرے پر دھیمی سی مسکان سجائے کہا ۔۔۔

اور پھر وہ ان سے یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگے لیکن سفیان کو محسوس ہوا کے جیسے وہ مسلسل کسی کی پر تپش نگاہوں کے حصار میں ہے ۔۔۔۔۔ 

اس نے جب نظریں اُٹھا کر دیکھا تو سامنے ہی اریشہ  اسکی چاچا ذاد بیٹی یک ٹک اسے گھورے جا رہی تھی ۔۔۔ سفیان نے اس کے ایسے دیکھنے پر ناگواری سے اسکو گھورا لیکن وہ ڈھٹائی کا مظاہرا کرتی مسلسل اسے دیکھی جا رہی تھی ۔۔۔

 سفیان اسے اگنور کرتا وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگا جب وہ بھی اسکے پیچھے ہی چل دی ۔۔۔ 

ابھی وہ اپنے کمرے میں جانے ہی لگا کہ اریشہ  نے اسکا بازو پکڑا ، لیکن سفیان نے تیزی سے اسکا ہاتھ جکڑ کر اپنی وحشت زدا گرفت میں لیا اور جھٹکا دے کر چھوڑا۔۔۔۔ 

تمہے سمجھ نہیں آتی مجھ سے دور رہا کرو۔۔۔

اور تمہے سمجھ کیوں نہیں آتی کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔۔۔ بنا پلک جھپکاۓ وہ اسے دیکھتی رہی۔۔۔۔

سفیان سر جھٹک کر اسے وہیں چھوڑتا اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ اریشہ بھی پیر پٹختی باہر ہی سب کے ساتھ آ بیٹھی۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عمارہ اٹھ جاؤ میری جان یونی نہیں جانا کیا۔۔۔ راشدہ بیگم نے کمرے میں آ کر کھڑکی سے پردے ہٹاۓ تھے۔۔۔ سورج کی کچھ کرنیں اس کے چہرے پہ پڑیں تھیں جس پہ وہ تھوڑا کسمسائی تھی۔۔۔

راشدہ بیگم کی بات سن کر بھک سے اس کی نیند اڑی تھی۔۔۔ یونی کے پہلے دن ہی وہ لیٹ نہیں ہونا چاہتی تھی اس لیے فوراً اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی۔۔۔

راشدہ بیگم بھی اس کے کھانے کے لیے کچھ بنانے کا سوچتے نیچے چلی آئیں۔۔۔

آف وائٹ کلر کی فراق پہنے ، ساتھ ریڈ کلر کے ڈوپٹے کا حجاب لیے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔

جلدی جلدی پیروں میں چپل اڑستے وہ نیچے آئی۔۔

حسن کو حجاب لازم ہے 

ہر نظر پارسا نہیں ہوتی

ماما ماما عاقب بھائی کہاں ہیں___ انہیں پتہ بھی ہے آج یونی میں میرا پہلا دن ہے مجھے چھوڑنے۔۔۔۔۔

میں ادھر ہوں چھپکلی۔۔۔۔

عاقب نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی پیچھے سے آ کر اس کا حجاب کھینچا تھا۔۔۔

آہہہہہہ۔۔۔۔ جنگلی ، پورے 20 منٹ لگا کر میں حجاب سیٹ کیا ہے۔۔۔ خبردار جو اسے اب چھیڑا۔۔۔۔

عمارہ نے  تنبیہی انداز میں اسے وارن کیا تھا۔۔۔

اب چلو مجھے دیر ہو رہی ہے_ عاقب کا بازو پکڑے وہ باہر کی طرف چلنے لگی جبکہ پیچھے راشدہ بیگم ارے ارے کرتی رہ گئی کہ ناشتہ تو کرتی جاؤ۔۔۔۔۔

ہر وقت یہ لڑکی ہوا کے گھوڑے پہ سوار رہتی ہے پیچھے راشدہ بیگم نے ماتھا پیٹا۔۔۔

فیصل آباد کی  یونیورسٹی،  یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں اس کا آج پہلا دن تھا۔۔۔

 یہاں پڑھنا اس کا خواب تھا۔۔۔ اس نے سرد سانس خارج کرتے اس فضا کو محسوس کیا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ہانیہ کو یونیورسٹی آتے کافی ہفتے گزر گئے تھے اب وہ نارمل بی ہیو کرنے لگ گئی۔۔۔ رانیہ کی سنگت نے اسے کافی حد تک کونفیڈنٹ کر دیا تھا۔۔۔

اب وہ ڈرنے کے بجائے ہر پریشانی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے لگی تھی۔۔۔

ابھی کل کی ہی بات تھی  جب اسے کسی لڑکے نے تنگ کیا تو ہانیہ نے اسے منہ توڑ جواب دیا۔۔۔

رانیہ کا تو مارے صدمے برا حال تھا کہ ہانیہ نے جو اس لڑکے کی درگت بنائی___

ہانیہ۔۔۔

مجھے چٹکی کاٹنا۔۔۔

کیوں؟؟ ہانیہ نے ناک چڑھا کر پوچھا تھا۔۔۔

ارے کاٹو نہ۔۔۔ ہانیہ نے پھر پورے زور سے اسے چٹکی کاٹی تھی۔۔۔

آہہہہہہ۔۔۔۔۔ ظالم لڑکی اتنی زور سے بھی نہیں کہا تھا۔۔۔

میں دیکھ رہی ہوں تم کچھ زیادہ ہی نہیں ہیروئین بن رہی آج کل۔۔۔رانیہ نے آئبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔۔

تمھاری صحبت کا ہی اثر ہے اور دوسری بات اپنے حق کے لئے خود لڑنا چاہئے ۔۔ رانیہ تو اسکی اپنی سمجھداری والی باتیں سن کر عش عش کر اٹھی ۔۔

واہ میری شہزادی چھا گئی اب ایسے ہی اپنے ہر ڈر کا سامنا کرنا ۔۔۔

میں جو اداسی کو جھٹک واپس پلٹ آتی ہوں 

میری ہنسی کا کچھ سبب تو تیری باتیں ہیں 

آٶ یہ سوچ کے ایک تصویر ساتھ بنوا لیتے ہیں 

ہمدم! وقت گزر جاۓ تو باقی فقط یادیں ہیں

ہممم کوشش کروں گی ، چلو کلاس کے لئے لیٹ ہو رہے ہیں ، وہ سڑو سر کہیں لیٹ ہونے کی وجہ سے کلاس سے ہی نہ نکال دیں۔۔۔ ہانیہ نے رانیہ کو اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے کہا اور کلاس روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

ہانیہ نیوی بلیو ڈریس پہنے ، بالوں کو جوڑے کی شکل دیے اور پین ہاتھوں میں پکڑے کتابوں میں سر دیے یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھی تھی جب رانیہ نے اس سے کتاب کھینچی۔۔۔

کیا ہر وقت کتابی کیڑا بنی رہتی ہو یار۔۔۔

چھوڑو نہ میں کیا سوچ رہی تھی گھومنے چلتے ہیں کہیں پھر پیپرز سٹارٹ ہو جائیں گے اور ہم جا نہی سکیں گے۔۔۔

ہانیہ نے ماتھا پیٹا تھا اپنا کہ رانیہ کی منطق ہی الگ ہے ،  لوگ پیپرز سٹارٹ ہونے سے پہلے پڑھتے ہیں اور اسے گھومنے کی پڑی ہے۔۔۔۔

حد ہے رانیہ کچھ پڑھ لو بس دو ہفتے رہ گئے ہیں اور تمہے الگ ہی شوق چڑھے ہوئے۔۔۔ہانیہ نے رانیہ کے ہاتھ سے کتاب کھینچی تھی۔۔۔

رانیہ تو حیرت زدہ سی اسے لیکچر دیتے خود کو دیکھ رہی تھی اور کتاب کھینچنے پر آگ بگولا ہوئی۔۔۔ 

آئبرو اچکا کر ہانیہ کی طرف دیکھا تھا جیسے

میری بلی مجھے ہی میاؤں۔۔۔

ہانیہ سر جھٹک کر پھر سے کتاب پڑھنے میں مگن ہوئی تھی۔۔۔

ہانیہ۔۔۔ پیار بھری آواز میں پکارا تھا رانیہ نے۔۔۔

ہمممممم۔۔۔۔ بغیر رانیہ کی طرف دیکھے جواب دیا۔۔۔

غصہ پھر نئے سرے سے عود آیا کہ وہ اس کی بات کو سیریس لے ہی نہیں رہی۔۔۔

ہانیہ ، اب غصے سے پکارا تھا۔۔۔

سر اٹھا کر اب کی بار ہانیہ نے دیکھا۔۔۔

چلو نہ پلیززز۔۔۔۔

سرد سانس خارج کرتے ہانیہ نے اس کی طرف دیکھا۔۔۔

وہ منتوں پہ اتر آئی تھی جب ہانیہ نے ہار مانتے ہاں میں جواب دے دیا کہ ٹھیک ہے۔۔۔

یاہووووو۔۔۔۔ رانیہ نے نعرہ لگایا تھا۔۔۔

باۓ دا وے جانا کہاں ہے،،، 

ہمممم۔۔۔۔ انگلی کو نچلے لب پہ رکھتے اس نے پر سوچ انداز اپنایا تھا۔۔۔۔

مری۔۔۔مری چلتے ہیں۔۔۔

خوش ہوتے اس نے اپنا ارادہ بتایا تھا۔۔۔

گھر آ کر ماما سے بات کر لینا پھر ان کو منانا تمہارا کام ہے۔۔۔ 

اوکے بوس ۔۔۔۔

تم مان گئی ہو یہی کافی ہے۔۔۔ ان کو منانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے رانیہ کا۔۔۔ 

ہاتھ جھاڑتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

ہانیہ بھی کتابیں سمیٹتی وہاں سے اٹھی اور باۓ بولتی مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

اگلے دن ہی رانیہ نے ہانیہ کے گھر پہنچ کر اس کے والدین کو جیسے تیسے منا کر ہی دم لیا تھا اور کل کی ٹکٹس بھی بک کروا لیں کہ کہیں ہانیہ مکر ہی نہ جائے اپنی بات سے۔۔۔۔

اور اب مزے سے ہانیہ کے پاس بیٹھی چپس کھا رہی تھی اور ساتھ ساتھ کل کا پلان  بھی ترتیب دےلیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ہر سو روشنی نے اپنے جلوے بکھیر رکھے تھے۔۔۔

 ٹمٹماتے ستارے کہیں دور جا سوۓ تھے۔۔۔

نومبر سٹارٹ ہونے کی وجہ سے موسم تھوڑا سرد ہو رہا تھا۔۔۔

ایسے میں وہ شہزادوں سی آن رکھنے والا حسن عالم جاگنگ کر کے واپس لوٹا تھا اور حسب معمول ڈائیننگ ٹیبل پہ پڑے فریش جوس کو اٹھا کر پیا۔۔۔۔

مام اٹھ گئی ہیں کیا۔۔۔۔؟؟

رحمت بی بی پاس ہی کھڑی تھیں جب حسن نے ان سے پوچھا لیکن بغیر جواب سنے اس نے اپنے قدم نوین بیگم کے کمرے کی طرف بڑھا لیے۔۔۔

مام کیسی طبیعت ہے اب آپ کی ، کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے انہیں مخاطب کیا تھا جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ تسبیح ہاتھ میں پکڑے بیٹھی تھیں۔۔۔

حسن ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا اور نوین بیگم نے اس پر کچھ پڑھ کر پھونک ماری تھی۔۔۔ 

اب بہتر ہوں۔۔۔ نوین بیگم نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔

حسن کا یہ روپ بس اپنی ماں کے لیے ہی تھا۔۔۔

باقی دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے فرق نہیں پڑتا تھا اس بگڑے شہزادے کو۔۔۔

مام آج مجھے ایک ضروری میٹنگ کے لیے مری جانا ہے تو دو ، تین دن لگ جائیں گے آپ اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔۔

وہ انہیں آگاہ کرتا اپنے روم میں آیا تھا۔۔۔ 

الماری سے بلیک ٹو پیس نکال کر وہ فریش ہونے چلا گیا۔۔۔

لیکن اس سے پہلے وہ انشاء کو ٹکٹس کنفرم ہونے کا میسج کرنا نہیں بھولا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

انشاء تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔۔

ٹونی نے اسے مخاطب کیا تھا۔۔۔

وہ دونوں اس وقت ایک ہوٹل میں بک کیے ٹیبل پر بیٹھے تھے۔۔

تم سے مطلب۔۔۔ ؟؟

موبائل فون میں کچھ چیک کرتے اس نے جواب دیا۔۔۔

ٹونی کے ماتھے پہ بل پڑے ، کہ وہ اسے اہمیت ہی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔

انشاء ہم ساتھ جاتے ہیں نہ ہر جگہ تو اس دفعہ مجھے تم نے کیوں نہیں بتایا۔۔۔ ٹونی نے دکھی سا ہو کر اس سے پوچھا تھا۔۔۔

وہ اس لیے کیونکہ اس دفعہ بس میں حسن کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا چاہتی ہوں ہم پھر کبھی چلے جائیں گے نہ ساتھ۔۔۔۔ انشاء نے اس کی طرف دیکھتے لاپرواہی سے جواب دیا تھا۔۔۔ 

پھر موبائل فون رکھ کر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔۔۔

تم جانتے ہو نہ ٹونی میں حسن سے بہت محبت کرتی ہوں اور مری جا کر میں اس سے اظہار کرنے والی ہوں۔۔۔

آنکھوں میں چمک لیے وہ ٹونی کو اپنے دل کا حال بتا رہی تھی۔۔۔۔

کاش میں بتا سکتا کہ میں بھی تمہے اتنا ہی چاہتا ہوں۔۔۔

آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلا تھا اور خود پہ قابو پاتے پوچھا۔۔۔

اوکے ، ائیرپورٹ تو چھوڑنے آ سکتا ہوں نہ میں۔۔۔۔؟؟؟

یس شیور واۓ نوٹ۔۔۔۔

مسکرا کر جواب دیا تھا انشاء نے۔۔۔

اتنی دیر میں آرڈر سرو ہو چکا تھا۔۔۔ اب وہ کھانا کھاتے ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف ہو چکے تھے۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

کیا کر رہی ہیں تائی امی ، میں ہیلپ کروا دوں۔۔۔؟

 ارشا نے کیچن میں پروین بیگم کے پاس آتے پوچھا۔۔۔

ہاں ضرور یہ چاۓ سفیان کو اس کے کمرے میں دے آؤ۔۔۔

Exams سٹارٹ ہو چکے تھے ایسے میں سفیان کا ایک ہی کام تھا ہر وقت پڑھائی۔۔۔۔ اب بھی وہ اپنے کمرے میں بیٹھا پیپرز کی تیاری کر رہا تھا جب ڈور ناک ہوا۔۔۔۔

اس نے دروازے کی طرف دیکھا تھا کیونکہ آج تک اس کے کمرے میں احمد یا پروین بیگم میں سے کوئی بھی کبھی بھی دروازہ کھٹکھٹا کر نہیں آیا تھا۔۔۔

سامنے ہی ارشا کو دیکھ اس کے ماتھے پہ بےشمار بل پڑے تھے۔۔۔

اندر آتے ہی چاۓ اس نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔۔۔

 جب سفیان نے دنیا جہان کی بیزاریت دیکھاتے اس سے پوچھا تھا۔۔۔

تم گئی نہیں اپنے گھر واپس۔۔۔؟ 

نہیں۔۔۔ یک لفظی جواب آیا۔۔۔

کیوں۔۔۔۔؟

وہ اس لیے کیونکہ مجھے تمہارے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا ہے۔۔۔

کیا۔۔۔۔؟ سفیان غصے بھری نظروں سے اسے دیکھتے آہستہ آواز میں غرایا تھا۔۔۔

میرا مطلب کہ تائی امی کے پاس رہنا ہے مجھے کچھ دن۔۔۔

اس کی آنکھوں کو لال انگارہ ہوتے دیکھ ارشا نے فوراً اپنا بیان بدلا تھا۔۔۔۔

جاؤ یہاں سے مجھے پڑھنا ہے تمہاری فضول بک بک سننے کا ٹائم نہیں ہے میرے پاس۔۔۔

سفیان نے خود پہ کنٹرول کرتے اسے جانے کو بولا تھا۔۔۔

سفیان مجھے تم سے کچھ کہنا ہے ۔۔۔۔؟ تذبذب کا شکار ہوتے ارشا نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔۔

تو تم ایسے نہیں مانو گی نہ۔۔۔ سفیان نے بیڈ سے اٹھ کر ارشا کو ہاتھ سے پکڑ کر کمرے سے باہر نکالا تھا۔۔۔

اور وہ پیر پٹختی وہاں سے کیچن کی طرف چل دی جہاں پروین بیگم رات کا کھانا بنا رہی تھی۔۔۔

موڈ تو اب خراب ہو چکا تھا تو سفیان نے کتابیں اٹھا کر سائیڈ پر رکھی اور ریلیکس ہونے کے لیے موبائل پہ Fb  اوپن کر لی تھی۔۔۔ اب وہ مصروف سا اپنی پاک آرمی کی لگائی ڈی پی پہ نوٹیفکیشن چیک کرنے میں مصروف ہو گیا اور ساتھ ساتھ چاۓ کی چسکیاں بھر رہا تھا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

پہلے دن کی وجہ سے کلاس میں ہر طرف گہما گہمی تھی۔۔۔ سب ایک دوسرے کو ویلکم کر رہے تھے کچھ تو آپس میں باتوں میں مصروف تھے اور کچھ اکیلے سہمے سہمے سے بیٹھے تھے۔۔۔۔

 عمارہ نے بھی کلاس میں اینٹر ہوتے فرسٹ بینچ پہ جگہ سمنبھالی تھی جب ساتھ بیٹھی لڑکی نے اسے مخاطب کیا۔۔۔۔

Hey , I'm zoya khalid...

And you....??

زویا نے خوشدلی سے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔

I'm Amara Zafar Iqbal...

 عمارہ نے بھی مسکرا کر اس سے ہاتھ ملایا۔۔۔۔ 

اتنے میں سر نعمان کلاس میں داخل ہوئے۔۔۔

پوری کلاس ان کی طرف اب متوجہ ہو چکی تھی۔۔۔

سب کا انٹرو لیا گیا تھا اور انہیں ویلکم کیا گیا۔۔۔

خوشگوار طریقے سے اس کا پہلا دن گزرا تھا۔۔۔

عاقب کے ساتھ وہ گھر پہنچی تھی جب لاؤنج میں داخل   ہوتے اسے سامنے سمیرا بیٹھی نظر آئی ۔۔۔۔۔

آپی آپ کب آئیں۔۔۔؟

 بھاگ کر وہ ان سے گلے ملے تھی۔۔۔۔

 عبداللہ بھی آنی آنی پکارتا عمارہ کی گود میں چڑھ دوڑا تھا۔۔۔

عمارہ نے بھی اسے اٹھا کر خوب پیار کیا تھا۔۔۔ 

میرا بچہ کس کے ساتھ آیا ہے۔۔۔؟

ماما تاتھ (ساتھ)۔۔۔۔ توتلی سی زبان سے جواب دیا تھا اس نے۔۔۔۔

یہ آنی کا چمچہ ضد کر کے بیٹھا تھا آنی سے ملنا ہے تو بس چلی آئی۔۔۔۔

 سمیرا نے عبداللہ کو مصنوعی غصے سے گھورا تھا۔۔۔

چلو آؤ میں اپنے کدو کو چاکلیٹس دیتی ہوں۔۔۔

اسے لیے وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور اسے چاکلیٹس پکڑا کر خود فریش ہونے چلی گئی۔۔۔۔

نیچے آ کر لنچ کیا ، پھر چاۓ کا دور چلا اور سب خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔۔۔

عمارہ بھی سب کے ساتھ بیٹھی سب کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف تھی اور ساتھ موبائل پہ ایف بی سکرولنگ کرتے کرتے وہ ایک جگہ رکی تھی۔۔۔۔

آرمی یونیفارم میں ملبوس ایک بہت ہی پیاری ڈی پی لگی ہوئی تھی اور یہ فیلڈ اور اس سے جڑے لوگ ہمیشہ سے اس کی کمزوری تھے۔۔۔ تبھی اس نے وہاں نائس کا کمنٹ کیا اور پھر سے سکرولنگ سٹارٹ کر دی۔۔۔

عمارہ اور زویا لیکچر لے کر کلاس سے باہر نکل رہی تھی جب عمارہ نے زویا کو مخاطب کیا تھا۔۔۔

میں لائبریری جا رہی ہوں تم چلو گی۔۔۔؟ 

ارے یار مجھے نہیں جانا بورنگ جگہ پر  بلکہ تم بھی میرے ساتھ چلو کچھ کھاتے ہیں اور تھوڑی گپ شپ ہو جائے۔۔۔۔ 

کیا کہتی ہو۔۔۔

زویا نے خوشدلی سے آفر کی تھی۔۔۔

آئیڈیا برا نہیں ہے ویسے۔۔۔

عمارہ نے بھی ہنس کر جواب دیا تھا۔۔۔

کینٹین میں بیٹھتے ساتھ آرڈر کیا ، ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو سٹارٹ کر دی۔۔۔۔

عمارہ تمھیں کیسا ہمسفر چاہیے۔۔۔ زویا کے پوچھنے پر عمارہ نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔

تمھیں کیوں اتنی فکر ہورہی میرے ہمسفر کو لے کر ، عمارہ نے آئی بروز اچکائی " " 

ارے یارررر ویسے ہی پوچھ رہی ہوں ، مطلب ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے نہ میرا ہمسفر ایسا ہوگا ، ویسا ہوگا مطلب سمجھ رہی ہونا ۔۔۔۔ 

ہمممممم۔۔۔۔۔ عمارہ نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔۔۔

میری خواہش ہے میرا ہمسفر آرمی آفیسر ہو ، اپنے ملک سے پیار کرنے والا ،  پختہ مزاج ، نرم دل ، محبت کرنے والا ۔۔۔۔ 

مجھے آرمی فیلڈ بہت پسند ہے۔۔۔۔۔

 چلو میں دعا کرو گی تمہارے لیے کہ الله تمھیں ایک عدد کھڑوس سا آرمی والا دے ۔۔۔۔ زویا نے شرارت سے کہا۔۔۔۔

کھڑوس کیوں۔۔۔۔ ؟ کھڑوس والی بات سن کے عمارہ نے ٹیڑھی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

ارے مزاق کر رہی تھی یاررر۔۔۔۔۔

انہیں باتوں میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

لاہور ائیرپورٹ پر ٹونی انشاء کو چھوڑنے  آیا ہوا تھا۔۔۔

جب انشاء نے نگاہوں کو ادھر ادھر  گھما کر حسن کو ڈھونڈا ، جو دور ویٹنگ ایریے میں بیٹھا مغرور سا شہزادہ لگ رہا تھا۔۔۔۔

حسن کی نظر بیٹھے بیٹھے سامنے اٹھی تھی اور پلٹنا بھول گئی ۔۔۔۔

سامنے ہی دو لڑکیاں آپس میں کسی بات پر ہنس رہی تھیں۔۔۔ پھر کال آنے کی وجہ سے دونوں میں سے ایک اٹھ کر سائیڈ پہ گئی تھی اور حسن کی نظریں بھی ساتھ ہی گھومی تھیں اس طرف ۔۔۔۔

فون سنتے سنتے وہ سیریس ہوئی تھی اور حسن کی نظریں اس کے چہرے کا طواف کرتے اس کے ہونٹ کے پاس بنے تل پہ اٹکی۔۔۔

انشاء جلدی سے اس کے پاس پہنچی تھی۔۔۔ 

ہاۓ ، سویٹ ہارٹ اٹس نوٹ فئیر۔۔۔۔

میں کب سے تمہیں یہاں وہاں ڈھونڈ رہی ہوں اور تم نے مجھے ڈھونڈنے کی بھی زحمت نہیں کی ۔۔۔۔

حسن کے ساتھ چپکتے وہ اس کے قریب اس کی بازو میں بازو ڈالتے بولی۔۔۔۔

انشاء کی آواز سنتے حسن چونکا تھا ، اس کی طرف متوجہ ہوتے اسے خونخوار نظروں سے گھورا تھا۔۔۔۔

خود پہ قابو پاتے پھر سامنے دیکھا تھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔

اس وقت انشاء کی آواز اسے زہر سے کم نہیں لگی تھی۔۔۔

کیا ہوا حسن ، کسے دیکھ رہے ہو انشاء اس کی گھوری کو اگنور کرتے اس کے بازو سے سر ٹکا گئی تھی۔۔۔

 یہ منظر دور کھڑے ٹونی نے دیکھا تھا اور اس کے دل میں کچھ چھن سے ٹوٹا تھا۔۔۔۔

آنکھوں میں آتی نمی کو صاف کر کے دل پہ پتھر رکھ کے وہ وہیں سے واپس مڑ گیا تھا۔۔۔۔

اس دل کا کہا مانو ، اک کام کر دو

کسی دن صبح کو ملو اور شام کر دو

حسن نے آرام سے اس سے اپنا بازو چھڑوایا تھا اس سے پہلے وہ کچھ کہتا فلائٹ کی اناؤسمنٹ سنتے وہ دونوں وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فلائٹ کی جانب چل دیے__

 💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ہانی یار تجھے کس بات کا ڈر لگ رہا ہے ، دیکھو میں ساتھ ہوں نہ تمہارے۔۔۔

ہانیہ کو ناجانے کس بات کا ڈر لگ رہا تھا جو اب ائیرپورٹ پر پہنچ کر واپس جانے کی ضد لگائی بیٹھی تھی۔۔۔

رانیہ بیچاری تو کچھ ہی دیر میں اس سے عاجز آ چکی تھی۔۔۔۔ 

تبھی رانیہ نے اسے ادھر ادھر کی باتوں میں لگا کر اس کا دھیان بٹایا تھا اور ہانیہ نارمل ہوئی تھی۔۔۔

اب وہ دونوں اپنی اپنی پلاننگ ترتیب دے رہی تھی اور ساتھ ہنس رہی تھیں۔۔۔۔

اچانک فون رنگ ہوا تھا جو کہ فوزیا بیگم (ہانیہ کی امی) کا تھا۔۔۔ رانیہ کو ایک منٹ کا کہہ کر اس نے سائیڈ ہو کر فون کان سے لگایا تھا۔۔۔

فون سنتے اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی کے نگاہوں کے حصار میں ہے لیکن پھر اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک دیا کہ یہاں تو سب کوئی نہ کوئی کسی کع دیجھ ہی رہا ہوتا ہے سب کی آنکھیں بند تو نہیں کی جا سکتی نہ۔۔۔۔

یہ اعتماد بھی اسے رانیہ کے ساتھ رہ کر آیا تھا ، کافی حد تک وہ اب پر اعتماد اور سب حالات کا سامنا کرنے لگ گئی تھی۔۔۔۔

فون سنتے ہی اناؤسمنٹ سٹارٹ ہو چکی تھی تبھی جلدی فوزیا بیگم کو اللہ حافظ کہتے فون بند کر کے رانیہ کے پاس پہنچی تھی اور ریسیپشن  پر پہنچی۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

باہر سے تھکا ہارا وہ گھر پہنچ کر اب صوفے پہ گرنے والے انداز میں بیٹھا تھا۔۔۔۔

صوفے کی پشت سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندی اور پروین بیگم کو آواز لگائی۔۔۔۔

مام ایک گلاس پانی پلا دیں پلیز۔۔۔۔۔

بھائی پانی۔۔۔

احمد پانی لے کر جن کے بوتل کی طرح حاضر ہوا۔۔۔۔

سفیان نے سیدھے ہو کر بیٹھتے پانی کا گلاس لیا لیکن حیران تھا کہ یہ اس ٹائم گھر کیسے ، کیونکہ یہ ٹائم اس کی اکیڈمی کا ہوتا تھا۔۔۔۔

اکیڈمی نہیں گئے۔۔۔۔؟

نہیں بھائی وہ۔۔۔۔۔

اتنے میں پروین بیگم بھی چلی آئیں...

نہیں یہ ارشا کو گھر چھوڑنے گیا ہوا تھا۔۔۔

چلی گئی وہ بلا۔۔۔۔

سفیان دل ہی دل میں خوش ہوا تھا کہ شکر ہے بلا ٹلی اور اس کی جان چھوٹی۔۔۔

سفیان نے پروین بیگم کی طرف دیکھا تھا جو اسے ارشا کو بلا کہنے پہ گھور رہی تھیں۔۔۔۔

کیا مام ایسا بھی کچھ نہیں کہہ دیا میں اسے جو آپ مجھے یوں گھور رہی ہیں۔۔۔

ان کی گھوری کو نظر انداز کرتا وہ اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

احمد جو وہاں کھڑا کھی کھی کر رہا تھا پروین بیگم نے اس کے سر پہ چپت لگائی تھی۔۔۔۔

اٹس ناٹ فئیر مام۔۔۔۔

بھائی کا غصہ اب آپ مجھ پہ مت اتاریں۔۔۔۔ منہ بناتے وہ بولا اور باہر کو چل دیا۔۔۔ 

پروین بیگم بھی سر ہلاتی کیچن میں چل دیں۔۔۔۔

سفیان فریش ہو کر باہر نکلا تھا۔۔۔

ارشا کے جانے کی خبر سن کر اس کا موڈ کافی خشگوار تھا تبھی موبائل اٹھاۓ وہ بالکونی میں آ کر کھڑا ہوا اور موبائل پہ ایف بی کھولے نوٹیفکیشن چیک کرنے لگ گیا۔۔۔۔

اپنی ڈی پی پہ نوٹیفکیشن چیک کرتے اسے ایک لڑکی کا کمنٹ نظر آیا تو ماتھے پہ بل پڑے تھے۔۔۔۔

پہلے تو اگنور کرتے وہ آگے بڑھنے لگا تھا لیکن موڈ اچھا ہونے کی وجہ سے اس کے ریپلاۓ میں تھینکس بولا تھا اور نام دیکھنا نہیں بھولا۔۔۔

" املار حیان "

اٹس یونیک نیم۔۔۔ 

سفیان کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔۔۔۔۔

کالی آنکھوں میں چمک ابھری تھی۔۔۔۔

تبھی رزاق ( جو کہ اس کا کالج فرینڈ تھا اور یونی میں بھی ایڈمیشن اسکے ساتھ لے رہا تھا) کی کال آ گئی جسے سننے میں وہ مصروف ہو گیا۔۔۔۔۔

مری کے ایک مشہور ہوٹل "ہیون سٹار" میں ایک ٹیبل کے گرد وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔

معمول سے ہٹ کے آج بالوں کو مخصوص سٹائل میں بنایا ہوا تھا۔۔۔۔

حسن نیوی بلیو پینٹ شرٹ پہنے ٹانگ پہ ٹانگ جماۓ کرسی پہ بیٹھا فون میں کوئی ضروری میل چیک کر رہا تھا جبکہ انشاء برے برے منہ بناتی اس کے کام ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔

حسن کب ختم ہو گا تمہارا کام۔۔۔۔

انشاء نے اکتا کر کہا تھا اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا کہ وہ اس سے بات کرنا چاہتی ہے لیکن وہ جب سے آیا ہے اپنے کام میں مصروف ہے۔۔۔۔

بس دو منٹ بے بی۔۔۔۔ 

حسن نے موبائل سے نظریں ہٹا کر انشاء کی طرف دیکھا جو ماڈرن ڈریس پہنے ، منہ پہ اتنا سارا میک اپ کیے اس کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔۔

حسن نے نوٹ کیا تھا کہ اس کی آج تیاری کچھ ایکسٹرا ہی نظر آ رہی تھی لیکن پھر سر جھٹک دیا کہ شاید اسے ہی ایسا لگ رہا ہے اور پھر سے نظریں موبائل پہ مرکوز کر لی تھیں___

پھر کام ختم کر کے موبائل سائیڈ پہ رکھا اور اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا جس پہ انشاء کی آنکھوں میں چمک بڑھی تھی۔۔۔

کیا کھاؤ گی بتاؤ۔۔۔ 

بلکہ آج میں اپنی پسند کا کچھ آرڈر کرتا ہوں یہ کہتے ہی اس نے ویٹر کو آواز دی تھی__

آرڈر کا ویٹ کرتے ہوئے اس کی نظر پھر ایک جگہ ٹھٹکی اور اسے کسی کا گمان ہوا تھا لیکن انشاء کی آواز اسے پھر سے واپس کھینچ لائی تھی۔۔۔

ہاں کیا کہہ رہی تھی تم۔۔۔

وہ میں تم سے یہ کہنا چاہتی تھی حسن جب سے تم میری زندگی میں آۓ ہو نہ مجھے سب اچھا لگنے لگا ہے میں تم سے۔۔۔۔۔

اس سے پہلے وہ بات پوری کرتی کوئی ان کے پاس آ کے رکا تھا حسن نے نظر اٹھا کر دیکھا تو پلٹنا ہی بھول گیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

وہ دونوں مری پہنچ چکی تھی خوب شوپنگ کی اور ہلہ گلہ کرنے کے بعد اب انہیں بھوک محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔

مال سے باہر نکلتے انہوں نے اوبر کروائی اور ہوٹل پہنچی۔۔۔۔

ہانیہ نے پہلی بار زندگی کو کھل کے جیا تھا محسوس کیا تھا۔۔۔ 

گھر والوں کے تھوڑا سخت رویے کی وجہ سے وہ ایسی جگہوں پہ جانا تھوڑا اوائیڈ کرتی تھی لیکن رانیہ کے ساتھ اب اس نے ہر چیز کو انجواۓ کیا تھا ۔۔۔۔

شام کو انہوں نے واپس جانا تھا اس لیے پہلے ہی ڈھیر ساری شاپنگ کر لی تھی اور اب کھانا کھانے آئی تھی۔۔۔۔

بیٹھتے ساتھ ہی آرڈر کیا دونوں یہاں سے جلدی فری ہو کر  پھر سے نتھیا گلی جانے کا ارادہ کیے بیٹھی تھیں۔۔۔۔

ہانی یار تم کب ڈرنا چھوڑو گی اپنے گھر والوں سے۔۔۔۔

رانیہ نے ائیرپورٹ پہ اسے راشدہ بیگم سے بات کرتے دیکھ اس کی جو حالت تھی اسے دیکھ کر سوال کیا تھا۔۔۔۔

می۔۔۔۔میں کسی سے نہیں ڈرتی۔۔۔۔ میں تو بس۔۔۔۔

منمناتے ہوۓ ہانیہ نے جواب دیا تھا۔۔۔۔

اچھا نہیں ڈرتی اوکے تمہے میں ایک ٹاسک دوں گی پھر اگر وہ پورا کر لو گی تو میں مان جاؤں گی تم کسی سے نہیں ڈرتی۔۔۔۔

رانیہ کے دماغ میں ایک خرافاتی آئیڈیا آیا تھا جس پر وہ سوچتے ہنسی تھی۔۔۔۔

یہ بھی اس نے ہانیہ کو اور مضبوط بنانے کے لیے سوچا کہ وہ ڈرنا چھوڑ دے اور اس میں ہمت پیدا ہو۔۔۔۔۔

کیا۔۔۔۔؟ کیا کروں میں بتاؤ ہانیہ نے غصے میں رانیہ سے پوچھا تھا اسے غصہ آیا تھا پھر سے خود کے لیے ڈرپوک کا لفظ سن کر۔۔۔۔۔

رانیہ نے ہانیہ کے کان میں اسے سب بتایا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے جبکہ رانیہ کی کارستانی سن کر ہانیہ کی آنکھیں باہر کو آئیں تھیں رانیہ کو زبردست گھوری سے نوازا تھا۔۔۔۔

پھر اٹھ کر اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھی تھی اور رانیہ منہ کھولے اسے ہق دق سی دیکھی جا رہی تھی۔۔۔۔۔

آپ میرے شوہر ہو کر اس چھپکلی کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ، مجھ سے بے وفائی کے لیے میں کبھی آپ کو معاف نہیں کروں گی__ وہ کھڑی کھڑی مصنوعی آنسو صاف کر رہی تھی جبکہ ٹیبل پہ بیٹھے دونوں نفوس کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔۔۔

سامنے بیٹھے شخص کی آنکھوں میں حیرانی کے عنصر کے ساتھ ساتھ غصہ بھی امڈ آیا تھا۔۔۔۔

واٹ نون سینس___

یہ کیا بیہودہ مزاق ہے وہ ٹیبل سے اٹھتے ہی غرائی تھی۔۔۔ ایک تو خود کے لیے چھپکلی کا لفظ سنتے اسے صدمہ پہنچا تھا اور اس سے بھی بڑا صدمہ اس کی محبت کو وہ اپنا شوہر بتا رہی تھی۔۔۔ اس کا دل چاہا تھا یہ ٹسوے بہانے والی کا منہ نوچ لے۔۔۔

ایک منٹ۔۔۔۔ 

حسن کا دماغ گھوما تھا۔۔۔ اچھا آئی ایم سوری جان چلو گھر چلتے ہیں یہ شکوے ، ناراضگی گھر جا کر کلئیر کریں گے اوکے۔۔۔۔

حسن  کی بات سن کر اس کا بھک سے رنگ اڑا تھا اور حیران ہونے کی باری اس دفعہ ہانیہ کی تھی وہ  اپنا رونا بھول کر  اسے بڑی بڑی آنکھیں کھولے اب گھور رہی تھی۔۔۔

اسکی گھوری کو نظر انداز کرتے حسن نے اس کی بازو زور سے جکڑی اور لے کر باہر کی جانب چل دیا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

شام کا وقت تھا یونی سے چھٹی ہونے کی بدولت کافی رش لگا ہوا تھا۔۔۔ 

عمارہ کب سے یونی کے گیٹ پہ کھڑی عاقب کا انتظار کر رہی تھی جو آ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔۔

اب تو وہ بھی کھڑی کھڑی تھک چکی تھی یہی سوچ کر کہ بھائی آتا ہی ہو گا اب پیدل چلنا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔

اے سنو بلو رانی اکیلی اکیلی کہاں جا رہی ہو ،، کہو تو ہم چھوڑ آئیں گھر۔۔۔۔

عمارہ چلتے چلتے ایک سنسان جگہ سے گزر رہی تھی جب دو لڑکوں نے اسے اکیلے چلتے دیکھ چھیڑنا ضروری سمجھا تھا اور اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیا۔۔۔

عمارہ نے گھبرا کر اور تیز چلنا شروع کر دیا مبادہ وہ راستہ ہی نہ روک لیں۔۔۔۔

ان دو لڑکوں نے بھی تیز چلنا شروع کر دیا اور ان میں سے ایک اس کے آگے آ کھڑا ہوا۔۔۔۔

سنو تو سہی۔۔۔۔ اتنی جلدی بھی کیا ہے گھر جانے کی ہمیں بھی تھوڑا ٹائم دے لو جان من۔۔۔۔

عمارہ جو ڈری سہمی سی کھڑی اس کی بکواس سن رہی تھی پتہ نہیں کہاں سے اس میں اتنا حوصلہ آیا تھا کہ اس نے بنا کچھ سوچے سمجھے اس اتنی زور سے تھپڑ مارا تھا کہ سامنے والا تو دنگ رہ ہی گیا پیچھے والے کی بھی آنکھیں حیرت سے پھٹی تھیں۔۔۔۔۔

سمجھتے کیا ہو تم لوگ خود کو اکیلی لڑکی دیکھی نہیں کہ ٹھرک پن جھاڑنا شروع کر دیتے ہو تم جیسے لوگوں کی وجہ سے ہمارے ماں باپ ہمیں باہر اکیلے بھیجنے سے ڈرتے ہیں ہم بھی تو آپ کی بہنوں جیسی ہیں۔۔۔۔

عمارہ نے روتے روتے انہیں سنائیں اور وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔

پیچھے وہ دونوں بھی شرمندگی سے سر جھکا گئے۔۔۔۔

تھوڑا آگے جا کر اسے عاقب نظر آیا تھا ،،، بھاگ کر وہ اس کے پاس پہنچی اور گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی____

ہمارے معاشرے کا المیہ بن گیا ہے یہ کہ آج کے دور میں چند ایسے لوگوں کی وجہ سے ایک لڑکی اکیلی گھر سے باہر نکلے تو وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے جبکہ مرد کو تو محافظ بنایا گیا ہے عورت کا سائبان بنایا گیا ہے تو وہ کیوں لٹیرے بنے پھرتے ہیں____

کیا ہو گڑیا کیوں رو رہی ہو تم کسی نے کچھ کہا ہے کیا۔۔۔۔؟ 

عمارہ عاقب کی اتنی فکر پر مسکرا دی تھی اور نم آنکھوں سے بولی۔۔۔

نہیں بھائی وہ آپ لیٹ ہو گئے تھے نہ تو میں ڈر گئی تھی۔۔۔۔ 

عاقب کے گلے لگے اس کے بازوؤں میں اس نے پناہ ڈھونڈی تھی اور خود کو پر سکون کیا تھا۔۔۔۔

اوکے،، رونا بند کرو ہم گھر چل کر بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔

''میں وہ سکوت ہوں جو تیرے کسی کام کا نہیں

تو وہ شور ہے_______ جو میں مچا نہیں سکتا''

حسن ہانیہ کی کلائی زور سے جکڑے ریسٹورنٹ سے باہر نکلا تھا ،،، اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی جیسے بازو کی ہڈیاں چٹخ جائیں گی ،،، تکلیف کی شدت سے ہانیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،،، لیکن یہاں پرواہ کسے تھی_

رانیہ جو اس ساری سیچوئیشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی حسن کو ہانیہ کو باہر لے جاتے دیکھ ان کے پیچھے لپکی تھی___

ہیے مسٹر ،،، کدھر لے کر جا رہے ہو میری دوست کو۔۔۔

رانیہ نے خونخوار نظروں سے گھور کر حسن کو ڈرانے کی کوشش کی تھی جواباََ وہ آئبرو اچکا گیا تھا۔۔۔

ہانیہ کو روتے دیکھ رانیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا مذاق مذاق میں بھی اسے ایسا ڈئیر نہیں دینا چاہیے تھا۔۔۔۔ رانیہ نے اس کا ہاتھ چھڑوانا چاہا تھا جب حسن نے دوسرے بازو سے اسے جھٹکا دے کر ہانیہ سے دور کیا تھا اور رانیہ گرتے گرتے بچی جبکہ ہانیہ کی چیخ نکلی تھی۔۔۔۔

 ریلیکس سویٹ ہارٹ ،،، اب ہمیں کوئی دور نہیں کر سکتا

 سٹاپ کرائنگ۔۔۔۔

حسن نے اسے بازؤں کے گھیرے میں لیا تھا جبکہ وہ سہمی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

د۔۔۔دیکھ۔۔۔۔دیکھیں۔۔۔۔یہ۔۔۔س۔۔۔۔سب۔۔۔م۔۔۔مذ۔۔۔مذاق۔۔۔ت۔۔۔۔تھا۔۔۔۔ہم۔۔۔۔۔ہمیں۔۔۔ج۔۔۔جا۔۔۔۔۔جانے۔۔۔۔دیں۔۔۔۔

جسٹ چل ڈارلنگ۔۔۔۔ میں تو بہت سیریس ہوں اور تمہیں اب میرے ساتھ رہنا ہے۔۔۔ باقی باتیں گھر جا کر کریں گے روندو بے بی۔۔۔۔

حسن نے دنیا جہان کی محبت لہجے میں سموۓ اسے اپنا ارادہ بتایا تھا اور اسے لیکر گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔۔۔

حسن سٹاپ اٹ۔۔۔۔

چھوڑو اس گوار کو اور جانے دو۔۔۔

ہمارا اسپیشل دن سپوئل کر دیا اس ایڈیٹ نے ،،، انشاء ان دونوں کے پاس آ کر پھر سے ہانیہ پہ جھپٹی لیکن حسن کے بروقت ہانیہ کو اپنی طرف کھینچنے پر انشاء تلملا کر رہ گئی تھی۔۔۔۔

گاڑی کا دروازہ کھولے ہانیہ کو سیٹ پر پٹکا تھا اور خود ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا  جب ایک دفعہ پھر انشاء اس کے مقابل آ کر چیخی___

واٹ از دس ،،، حسن تم ایسا کیسے کر سکتے ہو۔۔۔؟

کہاں لے کر جا رہے ہو تم اسے میں بھی ساتھ چلوں گی_

تمہاری ٹکٹ کنفرم کروا دی تھی میں پہلے ہی دو گھنٹے بعد تمہاری فلائیٹ ہے تم جا سکتی ہو بے بی__

اوکے ،،، حسن اس کی گال تھپتھپاتا گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔۔۔ پیچھے انشاء پیر پٹختی ائیرپورٹ کی طرف چل دی۔ جبکہ رانیہ کو بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ کرے کیا اس کے بغیر وہ واپس کیسے جائے ہانیہ کے گھر والوں کو کیا جواب دے گی یہی سب سوچتے وہ پریشان سی ادھر ادھر چکر کاٹنے لگی__

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

''ہے مجھ میں مرکزی کردار ،،، ایک مسافر کا

ہے میری ساری کہانی ،،، تھکن سے لپٹی ہوئی''

سفیان جوگنگ کر کے واپس آیا،،گھر میں داخل ہوتے ہی آج اسے کچھ غیر معمولی سا لگا تھا۔۔ 

کیچن سے کھٹر پٹر کی آوازیں سنتے اپنے قدم اس طرف بڑھاۓ تھے تو دیکھا کہ پروین بیگم کے ساتھ ساتھ آج احمد بھی ایپرن باندھے ماں کی مدد کروانے میں مصروف دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔

یہ سورج آج کدھر سے نکل آیا۔۔۔۔

سفیان نے وہیں دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے دونوں کو مخاطب کیا تھا۔۔۔۔

سورج تو ہمیشہ مشرق سے ہی نکلتا ہے بھائی تو ظاہر سی بات ہے آج بھی وہیں سے نکلا ہے ۔۔۔

انڈا پھینٹتے ہوئے احمد نے اپنے تئیں اسے پتے کی بات بتائی تھی اور وہ معصوم اپنے بھائی کی بات کو سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔۔۔۔

آپ کی یونی کا پہلا دن ہے نہ بہت بزی ہو جائیں گے آپ   تو اس لیے اب سے ماما کی ہیلپ میں کروایا کروں گا۔۔۔۔

احمد نے احسان کرنے والے انداز میں کالر کو اٹھایا تھا۔۔۔

اس کے اس انداز پر پروین بیگم اور سفیان دونوں مسکرا اٹھے تھے۔۔۔۔

جاؤ تم فریش ہو جاؤ یونی کی تیاری کرو میں ناشتہ لگاتی ہوں۔۔۔۔

پروین بیگم کے کہنے پہ سفیان سر ہلاتا اپنے کمرے میں چل دیا۔۔۔۔

تیار ہوتے ساتھ رزاق کو میسج کیا تھا اور اسے وارن کیا کہ کم از کم وہ آج کے دن یونی لیٹ نہ آئے۔۔۔ پھر ایف بی اوپن کر کے اپڈیٹ چیک کرنے لگا تھا جب پھر اسے اس لڑکی کا میسج دکھائی دیا 

"کیا آپ آرمی آفیسر ہیں۔۔۔؟ یا بس شوخی مارنے کے لیے ڈی پی لگائی ہوئی ہے۔۔۔"

آگے چھوٹا سا زبان نکالنے والا ایموجی لگایا ہوا تھا مطلب صاف مذاق اڑایا تھا۔۔۔۔

یہ کمنٹ پڑھ کے سفیان کا پارہ ہائی ہوا تھا۔۔۔

میڈم آپ کو جاننے کا اتنا ہی شوق ہے تو انباکس تشریف لے آئیے بلکہ نمبر دیجیے کال پہ تفصیل سے آپ کے گوش گزار کر دوں گا۔۔۔۔

جلتے بھنتے اس نے جواب دیا تھا پھر موبائل کو سائیڈ پہ رکھتے اپنی تیاری پہ توجہ مرکوز کر لی تھی۔۔۔

بلیک پینٹ شرٹ پہنے ،،، کالی آنکھوں میں وہی مخصوص چمک،،، بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیے ،،، گھڑی ہاتھ میں پہنے نک سک سا تیار ہو کر ناشتے کے ٹیبل پر پہنچا تھا۔۔۔۔

اس کے چئیر پر بیٹھتے ہی احمد ناشتہ لے کر حاضر ہوا۔۔۔۔

جلدی سے کھا کر بتائیں کیسا بنا ہے بھائی۔۔۔۔

احمد نے ایکسائیٹد ہو کر پوچھا تھا۔۔۔۔

آدھ جلا آملیٹ اور یہ کونسا نقشہ بنا تھا یہ بھی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔

سفیان نے پہلا نوالہ ابھی منہ میں ڈالا جب احمد نے پر جوش سا ہو کر پھر سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔

ہمممم بہت اچھا ہے ، پانی دینا پلیز۔۔۔

آملیٹ میں مرچ کم نمک تیز ہونے کی وجہ سے نہ اگلا جا رہا تھا اور نہ کھایا ۔۔۔۔

آملیٹ کو پوری طرح ملیا میٹ کیا گیا تھا۔۔۔۔

احمد نے پانی کا گلاس اسے تھمایا پھر یہ کہہ کر کیچن میں گم ہوا تھا کہ ایک اور بنا کر لاتا ہوں__

اس سے پہلے ایک اور ایسا آملیٹ کھانا پڑے سفیان نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی تھی۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

"مدہم عداوتیں ہیں ،، ہلکی سی رنجشیں

مجھ کو تیری ذات سے پوشیدہ سا عشق ہے"

ایک اپارٹمنٹ کے باہر گاڑی آ کر رکی تھی اور حسن نے ہانیہ کو بازو سے دبوچے گاڑی سے باہر نکالا،،جو ڈری سہمی سی گاڑی کی سیٹ سے چپکی ہوئی باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں تھی۔۔۔۔

حسن نے کمرے میں لا کر اس کا بازو چھوڑا  اور دروازہ لاک کر کے خود باہر لاؤنج میں آ بیٹھا تھا۔۔۔

 ہانیہ دروازہ پیٹتی رہی چیختی چلاتی رہی لیکن اس کے کان میں جوں تک نہ رینگی تھی___

کال ملا کر دو ٹکٹس لاہور کی بک کروائی تھی اور اب سکون سے بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔۔۔

ناجانے اسے ہوا کیا تھا کیوں یہ بات اس کے دل و دماغ پر سوار ہو گئی تھی کہ اس نے خود کو اس کی بیوی بولا اور اسے اپنا شوہر،،، اب وہ جیسے اسی بات کو حقیقت مانتے ہوئے حق جتا رہا تھا۔۔۔

ہانیہ روتے روتے نڈھال ہو کر نیچے بیٹھتی چلی گئی اسے یہ اپنی بہادری دیکھانا مہنگی پڑ چکی تھی۔۔۔ رو رو کر آنکھوں کے پپوٹے سوج چکے تھے اور بھوک سے بھی نڈھال ہو گئی تھی تبھی اسے پتہ نہیں لگا وہ کب وہیں زمین پہ بیٹھی بیٹھی سو گئی____

ٹکٹس کنفرم ہونے کا میسج مل چکا تھا ٹھیک تین گھنٹے بعد کی فلائٹ تھی اب سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ وہ اسے ساتھ لے کے جائے گا کیسے۔۔۔ وہ تو کسی طور اس کے ساتھ جانے کے لیے کہیں راضی نہیں ہو گی اب اس بات پہ بھی حسن نے سوچنا تھا کہ وہ اسے کیسے مناۓ یا کیا ایسا کرے جو وہ بنا شور مچاۓ اس کے ساتھ چل پڑے۔۔۔۔

شور کی آوازیں آنا بند ہو گئی تھی تبھی حسن اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھا ،،، جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے ہی وہ گھٹری بنی فرش پہ دنیا جہان سے بے خبر بیہوش پڑی ہوئی تھی_ حسن بھاگ کر اس کے پاس پہنچا تھا 

ہیے ،،، ہیے یو ،،، باربی ڈول ،،، آئی سیڈ گیٹ اپ

نیچے بیٹھتے حسن نے اس کے چہرے کو تھپتھپانا شروع کیا تھا لیکن بے سود۔۔۔۔

اب سہی معنوں میں حسن کی ہوائیاں اڑی تھیں__

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عاقب عمارہ کو لیے گھر پہنچا جب عمارہ بھاگ کر اپنی ماں کے گلے لگی تھی اور ممتا بھری چھاؤں میں جاے پناہ ڈھونڈی تھی۔۔۔

اسے روتا دیکھ ظفر صاحب کو بھی پریشانی لاحق ہوئی جبھی اٹھ کر وہ اس کے پاس پہنچے تھے۔۔۔۔

کیوں رو رہی میری شہزادی ،،، بھیا نے کچھ کہا ہے تو ابھی بتاؤ میں اس عاقب کے بچے کے کان کھینچتا ہوں ۔۔۔

ظفر صاحب نے اس کے سر پہ پیار دیتے اس سے استفسار کیا تھا۔۔۔۔

میرے بچے کہاں سے آۓ۔۔۔۔؟ ہاں۔۔۔۔

عمارہ تم نے دیکھے کیا میرے بچے۔۔۔۔ 

ہاۓ میرے بچے۔۔۔۔۔ 

عاقب کبھی اپنے آگے پیچھے ،،، کبھی صوفے کے نیچے تو کبھی عمارہ کے پیچھے بچے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔

عمارہ روتے ہوئے ہنس دی تھی۔۔۔ بھائی آپ کی شادی کب ہوئی ہے۔۔۔۔

آ۔۔۔اچھا میں تو بھول ہی گیا تھا۔۔۔

میں فریش ہو کے آتی ہوں عمارہ اٹھ کر اپنے کمرے میں گئی تھی اور سب نے اس کے نارمل ہونے پر سکھ کا سانس لیا تھا۔۔۔۔

کہتے ہیں بہنوں کی جان ہمیشہ بھائیوں میں بستی ہے لیکن عاقب نے بھی اپنی توجہ اور پیار سے ثابت کیا تھا کہ بھائیوں کی جان بھی بہنوں میں بستی ہے۔۔۔۔

اس کی ہر خوشی کا خیال رکھا تھا،،، ہمیشہ اسے سپورٹ کیا تھا،،اس کا ہر ناز نخرہ اٹھایا تھا۔۔۔۔

عمارہ فریش ہو کر بالوں پہ ٹاول لپیٹے باہر نکلی تھی جب زویا کی کال آئی تھی اس نے یس کر کے کان سے لگایا اور اس سے باتوں میں مصروف ہو گئی___

زویا سے بات کر کے اب وہ بالکل اس واقعے کو بھول چکی تھی تبھی اپنے ازلی موڈ میں واپس آئی تھی ،، ایف بی کھولے نوٹیفکیشن چیک کیے اور سفیان کا ریپلاۓ دیکھ اس کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔۔۔

تبھی اسے مزید تپانے کو اوکے کا بول کر میسینجر پہ بھی میسج کر ڈالا اور اس کے تاثرات کا سوچ کے جھرجھری سی بھی لی تھی__

پھر موبائل سائیڈ پہ رکھ کر اپنے بال سلجھائے ،، آئینے میں اپنا عکس دیکھا تھا۔۔۔۔

 سی گرین شرٹ ،، وائٹ کیپری اور وائٹ  ڈوپٹے کو شانوں پہ لٹکاۓ کھلی کھلی سی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔ 

پھر نیچے آ کر راشدہ بیگم کے ساتھ مل کر رات کے کھانے کی تیاری کروانے لگی اور سب نے مل کر خوشگوار ماحول میں ڈنر کیا تھا۔۔۔۔

وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد...

پہلا دن ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی میں نیو سٹوڈنٹس کی بھر مار تھی _جونیئرز بیچارے بوکھلاۓ بوکھلاۓ پھر رہے تھے_سینئرز  جونیئرز کو پکڑ پکڑ کے ریگنگ کرنے میں دکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔

ایسے میں سفیان بھی یونیورسٹی پہنچ کر مین اینٹرس پہ کھڑا رزاق کا انتظار کر رہا تھا جو اتنی تاکید کے بعد بھی جلدی نہیں پہنچا تھا۔ 

سفیان نے فون نکال کر رزاق کا نمبر ملایا تھا ابھی جب وہ سامنے سے اسے آتا دیکھائی دیا۔۔۔

حد ہے کہا بھی تھا جلدی آنا تا کہ سینئرز کی نظروں سے بچ کر جلدی کلاس روم ڈھونڈ کر وہاں بیٹھ جائیں گے لیکن تم کبھی ٹائم پہ پہنچو تب نہ۔۔۔

اچھا ہوتا میں انتظار ہی نہ کرتا تمہارا ڈھیٹ انسان۔۔۔

تپ ہی تو چڑھی تھی سفیان کو جو آگے سے رزاق دانت نکال کر اسے دکھا رہا تھا۔۔۔

اب بتیسی بند کرو اپنی اور چلو۔۔۔

سفیان بیگ کندھوں پہ ڈالے آگے کو چل پڑا اور رزاق بھی اس کی تقلید میں چلتا اس کے ہمراہ ہو گیا۔۔۔۔

تھوڑا آگے جاتے ہی سینئرز نے انہیں بھی دھر لیا۔۔۔

اوۓ ادھر آؤ بات سنو کہاں بھاگے جا رہے ہو۔۔۔؟

سینئرز میں سے ایک بولا تھا اور انہیں چاروناچار ان کے جانا پڑ گیا۔۔۔۔

جی ،،، معصوم اور مسکین سی شکلیں بناتے اب وہ ان کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔۔

تم ہمیں بندروں والا ڈانس کر کے دیکھاؤ ابھی۔۔۔

سفیان نے نظر اٹھا کر اپنے سینئرز کے انگلی سے اشارے کرتے ہاتھ کی طرف دیکھا جو کہ رزاق کی طرف تھا۔۔۔

شکر کا کلمہ پڑھتے دل ہی دل میں رزاق کو بندروں والا ڈانس کرتے دیکھ لا حولا پڑھا تھا۔۔۔۔

اور تم گانا گاؤ گے ،،، اب کی بار اشارہ سفیان کی طرف تھا۔۔۔۔

ایک سینئر نے آ کر اس کے کان میں گانا بتایا تھا۔۔۔

چلو ہو جاؤ شروع اب۔۔۔

وہ سب ایک ٹولی بنا کر بیٹھ گئے جب آس پاس بھی سٹوڈنٹس جمع ہونے شروع ہو گئے۔۔۔

آنکھیں بند کر کے سفیان نے گانا گانا سٹارٹ کیا تھا۔۔۔۔

ناچ میری جان ہو کے مگن تو

چھوڑ دے سارے کنتو پرنتو

رزاق کو بندروں کی طرح اچھلتے دیکھ گراؤنڈ میں سب کے قہقہے گونجے تھے۔۔۔ 

تھوڑی دیر ان کے مزے لینے کے بعد ان کی جان چھوٹی اور وہ کلاس روم ڈھونڈتے وہاں بیٹھے تھے۔۔۔

پھر ٹیچرز باری باری آتے گئے اپنا تعارف دیتے اور نیو سٹوڈنٹس کا لیتے گئے۔ ایسے ہی موج مستی میں پہلا دن گزر گیا تھا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

دروازہ کھولو۔۔۔۔

دروازہ دھڑ دھڑ بج رہا تھا جب عمارہ کی نیند سے ہلکی سی آنکھ کھلی_ سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا تو گیارہ بج کر پچپن  منٹ ہو رہے تھے_ اس وقت کون آ گیا یہی سوچتے وہ ڈوپٹہ اوڑھے چپل پیروں میں اڑیس رہی تھی جب دروازہ زور و شور سے پھر بجنا سٹارٹ ہوا تھا۔۔۔

جلدی جلدی اٹھ کر اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی عاقب پریشان سا کھڑا نظر آیا۔۔۔

کیا ہوا بھائی اس ٹائم خیریت۔۔۔ 

ماما تو ٹھیک ہیں نہ پہلا خیال اسے راشدہ بیگم کا ہی آیا تھا۔تم نیچے چلو جلدی بتاتا ہوں یہ کہہ کر عاقب تیزی سے سیڑھیاں اتر گیا تھا۔۔۔۔

عمارہ بھی دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتے نیچے اتری_ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا عاقب بھی جن کے بوتل کی طرح غائب ہو گیا۔۔۔

بھائی۔۔۔ماما۔۔۔۔کدھر ہیں سب

ہیپی برتھڈے ٹو یو

ہیپی برتھڈے ٹو یو

ہیپی برتھڈے ڈئیر عمارہ 

ہیپی برتھڈے ٹو یو

سب نے بھرپور تالیاں بجاتے اسے برتھڈے وش کیا تھا۔

گھر کے چھوٹے سے لاؤنج  کو پھولوں سے بہت پیارا سجایا گیا تھا۔۔۔۔

سینٹر میں ایک ٹیبل پہ چاکلیٹ کیک رکھا ہوا تھا جس پر بہت خوبصورت انداز میں عمارہ کا نام لکھا گیا اور ارد گرد پھولوں کی پتیوں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔۔۔

ٹیبل کے پاس ہی ظفر صاحب ، راشدہ بیگم ، عاقب اور سمیرا عبداللہ کو اٹھاۓ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔

 عمارہ تو حیرت کے سمندر میں ڈوبتے منہ پہ دونوں ہاتھ رکھ گئی تھی_ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اسے اتنا پیارا سرپرائز ملا۔ سونے پہ سہاگہ سمیرا بھی عبداللہ کو لیے آئی ہوئی تھی اور عبداللہ بھی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے تالیاں بجاتا اپنی اکلوتی خالہ کو برتھڈے وش کر رہا تھا۔۔۔

اب یہیں کھڑی رہو گی یا آ کر کیک بھی کاٹو گی چوہیا۔۔۔ عاقب نے اسے چھیڑا لیکن وہ نظر انداز کر گئی۔۔۔۔

عمارہ نے آ کر کیک کاٹا تھا اور سب نے دوبارہ سے اسے وش کیا تھا پھر باری باری سب کو کیک کھلایا اور ان سے گفٹس لیے۔۔۔

عبداللہ کو گود میں لیتے عمارہ نے اسے بھی کیک کھلایا جب اس نے عمارہ کی گال پر کس کی تھی ،،، عبداللہ کی اس حرکت پہ وہ کھلکھلا کر ہنسی اور چٹا چٹ اسے بھی چوم ڈالا تھا۔۔۔

میرا گفٹ۔۔۔

 اب وہ عاقب کے سامنے ہاتھ پھیلاۓ کھڑی ہوئی جبکہ وہ آئیں بائیں شائیں کرتا رہا۔۔۔ تھوڑا تنگ کرنے کے بعد آخر کار عاقب نے بھی گفٹ دے ہی دیا اور وہ خوش ہوتی پھر سے عبداللہ کو گود میں لیے مستیاں کرنے میں مصروف ہو گئی۔۔۔

عمارہ کی کھلکھلاتی ہنسی سے ہی تو یہ گھر آباد تھا۔۔۔ 

لیکن کون جانے یہ ہنسی کب تک اسکے لبوں پہ تھی۔۔۔۔

کہتے ہیں نہ بیٹیوں کو اڑنے دینا چاہیے ،،، انہیں پھولوں کی مانند کھلنے دینا چاہیے تاکہ جب وہ بڑی ہو کر گلاب کی طرح کھلیں تو اپنی مہک سے ہر طرف کی فضا کو معطر کر دیں ہر طرف اپنی خوشبو بکھیر دیں_

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

''سر طاق جاں نہ چراغ ہے ، پس بام شب نہ سحر کوئی

عجب ایک عرصہ درد ہے ، نہ گماں ہے نہ خبر کوئی''

حسن نے ہانیہ کو اپنے مظبوط بازوؤں میں اٹھا کر بیڈ پہ لٹایا اور اس کے چہرے پہ پانی کے چھینٹے مارے تھے_ ہانیہ نے مندی مندی سی آنکھیں کھولے حسن کو خود پہ جھکے دیکھا تو فوراََ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی_ ادھر ادھر ہاتھ مار کر ڈوپٹے کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جو فرش کی زینت بنا ہوا تھا۔۔۔

بیڈ کی دوسری سائیڈ سے تیزی سے اٹھ کر ڈوپٹے سے خود کو کور کیا تھا۔۔۔

حسن نے دیکھا تو سرخ ڈوروں سے سوجی ہوئی آنکھیں ، چہرے پہ آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان ، ہونٹوں کے پاس تل بھی سوگوار سا لگا ، چند ہی گھڑیوں میں اس کا حسن ماند پڑ گیا تھا۔۔۔

حسن کو کہیں کھوۓ ہوۓ دیکھ کر اس نے وہاں سے کھسکتے ہوۓ بھاگنے کی کوشش کی_ ابھی دروازے سے باہر قدم نکالا ہی تھا جب اس کی کلائی پہ کسی کی گرفت مضبوط ہوئی تھی_ پیچھے مڑ کر دیکھا تو حسن کو اپنے بالکل پیچھے کھڑا دیکھ اس کے اوسان خطا ہوۓ ۔۔۔

حسن نے جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ اس کے سینے سے لگی تھی اور اس کی پناہوں میں آ چھپی تھی_

''قربتیں ہوتے ہوئے بھی ، فاصلوں میں قید ہیں

کتنی آزادی سے ہم ، اپنی حدوں میں قید ہیں''

اتنی تیزی سے ہی ہانیہ نے خود کو حسن سے دور کیا۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔

کمرے میں زور دار تھپڑ کی آواز گونجی تھی_

 جسے آج تک کسی نے چھوا تک نہ تھا آج وہ غیر محرم کے ساتھ اکیلے اس کی پناہوں میں تھی_

 ناجانے اس میں اتنی ہمت کہاں سے آئی جو حسن عالم کو اس نے تھپڑ جڑ دیا۔۔۔

حسن جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا۔۔۔

 اسے اس نازک سی لڑکی سے اتنی بہادری کی امید نہیں تھی_ غصے سے اس نے مٹھیاں بھینچی تھی_

دیکھیں پلیز ہمیں جانے دیں ہماری دوست پریشان ہو گی ہمیں واپس جانا ہے_ وہاں ریسٹورنٹ میں جو کچھ بھی ہوا وہ بس ایک چھوٹا سا مذاق تھا۔ ہانیہ روتے روتے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ گئی_ لیکن وہ بے حس بنا کھڑا اس کی گریاوزاری سنتا رہا وہ جان بوجھ کر پتھر دل بن گیا تھا کہ جیسے اگر یہ آج چلی گئی تو اسے کبھی نہیں ملے گی___

وہ اسے وہیں روتا بلکتا چھوڑ کر باہر نکل گیا اور ہانیہ اپنی قسمت پہ آنسوؤ بہاتی رہ گئی___

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

انشاء واپس لاہور پہنچ گئی تھی اب بھی ٹونی ہی اسے ائیرپورٹ سے پک کرنے آیا تھا اور اس کے تیور دیکھتے ہی اسے اپنے فلیٹ پہ لے آیا تھا اسے ڈر تھا کہ یہ خود کو کچھ کر نہ لے۔۔۔

اب وہ جلے پیر کی بلی بنی ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی جب سے آئی تھی سکون کا سانس نہیں لیا تھا۔۔۔

رہ رہ کر اسے اس لڑکی پہ غصہ آ رہا تھا۔۔۔

اب بیٹھ بھی جاؤ اور مجھے بتاؤ ہوا کیا ،،، کیوں آگ بگولا بنی پھر رہی ہو۔۔۔

 ٹونی نے اسے بازو سے پکڑ کر صوفے پہ بٹھایا۔۔۔۔

حسن نے کچھ کہا کیا۔۔۔؟ 

انکار کر دیا کیا اس نے۔۔۔؟

انشاء نے اسے زبردست گھوری سے نوازا تھا۔۔۔

تم تو چاہتے ہی یہی ہو نہ دفعہ ہو جاؤ مجھے تمہاری کوئی ضرورت ہی نہیں ہے میں جا رہی ہوں_

انشاء نے غصے سے اپنا پرس اٹھاتے پیر پٹختی باہر کو چل دی_ پیچھے ٹونی بیچارا اپنا سا منہ لے کر رہ گیا تھا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

حسن ہانیہ کو جیسے تیسے لے کر لاہور پہنچ چکا تھا اور اس وقت اپنے ایک فلیٹ میں اسے لیے موجود تھا کہ ابھی وہ اسے عالم ولا میں نہیں لے جا سکتا تھا۔۔۔

 اس کی آہیں ، سسکیاں کچھ کام نہ آیا تھا ، اب وہ بالکل خاموش ہو گئی تھی کہ جو بھی ہو اب وہ اس بے حس انسان سے کچھ نہیں کہے گی اور خود ہی اس مصیبت سے نکلے گی___ 

 تھوڑی دیر بعد بیل بجی تھی جب حسن اٹھ کر دروازے پہ گیا اور آرڈر ریسیو کیا۔۔۔

پھر کیچن میں گیا اور کھانا ٹرے میں نکالے پھر اس کے پاس آیا۔۔۔۔

لو کھانا کھا لو ، فلائٹ میں بھی تم نے کچھ نہیں کھایا تھا۔۔۔

 حسن اس کے آگے ٹرے رکھتے بولا۔۔۔

حسن کو ایسے اگر انشاء دیکھتی تو شاید اسے غش پڑ جاتی  کہ ایک ایسا انسان جو سب کو جوتے کی نوک پہ رکھتا ہے کوئی مر بھی جاۓ تو اسے فرق نہیں پڑتا اور وہ ایک انجان لڑکی کے لیے کھانے کی ٹرے اٹھاۓ پھرتا ہے مضاحکہ خیز۔۔۔

مجھے نہیں کھانا ہانیہ نے منہ پھیر کر صاف جواب دیا تھا اور اٹھ کر جو بھی روم کھلا ملا وہاں گم ہو گئی__

حسن سرد سانس بھر کر رہ گیا تھا۔۔۔۔

کھانے کو وہیں ڈھک کر  ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھائی جو اس نے لاہور پہنچتے ہی ڈرائیور کو فون کر کے منگوائی تھی فلیٹ کو لاک کرتے عالم ولا جانے کے لیے نکل گیا۔۔۔۔

حسن آج بھی معمول کے مطابق گھر کی بیسمنٹ میں بنے جم میں موجود تھا۔۔۔

 تولیے کو کندھوں پہ گراۓ وہ بار بار آنے والے پسینے کو صاف کر رہا تھا۔۔۔ 

کسرتی بازو ، چوڑا سینہ ، ماتھے پہ آۓ بالوں کو پیچھے جھٹکا دیتا ،  بھرپور مردانگی کا وہ شاہکار تھا۔۔۔

 بظاہر تو وہ ایکسرسائیز کر رہا تھا لیکن اس کی سوچوں کا محور بس ایک ہی شخصیت تھی وہ لڑکی جو کل سے اس کے ساتھ تھی ، اس کے اپارٹمنٹ میں موجود ، جس کا اسے نام تک معلوم نہ تھا تو وہ کیوں اس کے پاس موجود تھی_کس حق سے وہ اسے یہاں لایا تھا۔۔۔

وہ انہی سوچوں میں مصروف تھا جب رحمت بی بی کی آواز نے اسے سوچوں کے بھنور سے باہر حقیقت کی دنیا میں لا پٹکا تھا۔۔۔

ہ۔۔۔م۔۔۔۔ہممممم۔۔۔۔ ہاں بولو۔۔۔

وہ بیگم صاحبہ آپ کو ناشتے پر بلا رہی ہیں۔۔۔۔ 

رحمت بی بی نے بھی آج اپنے صاحب کو پہلی دفعہ ایسے گڑبڑاتے دیکھا تو حیرت تو ہوئی لیکن پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔۔۔

تم چلو میں آتا ہوں ،، حسن نے اسے جانے کا اشارہ دیا تھا۔۔۔۔

جم سے نکل کر وہ فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔

فریش ہو کر باہر نکلا جب فون کی بیل بجی تھی۔۔۔ موبائل دیکھا تو انشاء کی کال تھی_ کان میں بلیو ٹوتھ ڈیوائس لگاۓ  کال اٹینڈ کی تھی۔۔۔

حسن مجھے ملنا ہے تم سے ابھی اسی وقت مجھے پتہ ہے تم واپس آ چکے ہو اور اس پاگل خبطی لڑکی کو بھی ساتھ لے آۓ ہو کیوں۔۔۔۔؟

وہ چیخی تھی جب حسن کا جواب سن کر اس کا دماغ خراب ہوا تھا۔۔۔

واٹ نون سینس۔۔۔ 

یہ کس لہجے میں مجھ سے بات کر رہی ہو۔۔۔ پاگل وہ نہیں پاگل تم ہو۔۔۔

اور دوسری بات آج میں بہت بزی ہوں نہیں مل سکتا تم سے گوٹ اٹ۔۔۔

حسن تم اس کے لیے مجھے پاگل۔۔۔۔۔

ٹوں۔۔۔۔۔ٹوں۔۔۔۔ٹوں

حسن نے کال کاٹ دی تھی_ اسے انشاء کا اس لڑکی کو پاگل کہنا طیش دلا گیا تھا تبھی اس نے کال کاٹ دی۔۔۔۔

براؤن تھری پیس پہنے وہ حسب معمول تیار ہوا آئینے میں خود کو دیکھا ، کچھ تو تھا بھوری آنکھوں میں آج جو وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہی تھیں یا کوئی سوال تھا جس کا وہ جواب مانگ رہیں تھیں_  حسن نے خود سے نظریں چرائیں تھیں_ 

سر جھٹک کر اپنی تیاری کو فائنل ٹچ دیا اور کچھ ضروری فائلز اٹھاۓ نیچے آ گیا آج اس کی بہت امپورٹنٹ میٹنگ تھی ، آج کا کانٹریکٹ اس کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا دن رات ایک کر دیا تھا اس نے اس پروجیکٹ کے لیے ،،، نیچے آ کر ملازم کو فائلز پکڑائی جنھیں گاڑی میں رکھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

ڈائیننگ ٹیبل پر پہنچ کر  چئیر گھسیٹ کر وہ نوین بیگم کے پاس بیٹھا اور ان کے ماتھے پہ بوسہ دیا پھر ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔۔۔۔

حسن اب تم شادی کر لو میری جان میرے گھر میں بھی رونق آ جاۓ گی کب تک یہ بوڑھی جان اکیلے اس گھر میں رہے گی میں بھی مرنے سے پہلے اپنے پوتے پوتیوں کو گود میں کھلانا چاہتی ہوں_ 

حسن نے کوئی جواب نہیں دیا تھا چپ چاپ ناشتہ کیے جا رہا تھا۔۔۔

تمہے کوئی پسند ہے تو بتا دو لڑکی نہیں تو میں لڑکی ڈھونڈنی شروع کروں_

اب کی بار حسن چونکا تھا۔۔۔۔

پسند۔۔۔۔ 

کیا اسے ہانیہ پسند۔۔۔۔۔

 آنکھوں کے سامنے ہانیہ کی بھیگی ہوئی پلکیں جنبش کرتی لہرائی تھیں اور ہونٹوں کے پاس بنا تل ،،،،، ہاں وہ اس تل میں ہی تو کہیں اٹک کر رہ گیا تھا۔۔۔۔

جیسے آپکی مرضی مام میں آپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں بس____ 

مزید سوالوں سے بچنے کے لیے  اپنا کوٹ اٹھایا جو بیٹھتے وقت ہینگ کیا تھا اور گڈ باۓ بولتا آفس کے لیے نکل گیا۔۔۔۔

آفس میں میٹنگ سے فارغ ہو کر وہ واپس اپنے کیبن میں آیا ابھی کرسی پہ بیٹھا ہی تھا جب کسی خیال کے تحت وہ پھر سے گاڑی کی چابی اٹھاۓ باہر کو بھاگا تھا۔۔۔۔

گاڑی چلاتے اسے اسی کا خیال تھا کہ پتہ نہیں رات سے کچھ اس نے کھایا ہو گا یا نہیں۔۔۔ کہیں خود کو کچھ کر نہ لیا ہو۔۔۔ دل عجیب وسوسوں سے گھر گیا تھا تبھی رش ڈرائیونگ کرتے وہ اپنے اپارٹمنٹ پہنچا تھا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ہانیہ کی بھوک کی شدت سے آنکھ کھلی تھی پیٹ میں چوہوں نے اودھم مچا رکھا تھا_  سارا دن گزر گیا تھا کچھ کھاۓ ہوئے_ اس ظالم شخص نے بھی تو دوبارہ کھانے کا نہیں پوچھا تھا۔ آنکھوں میں نمی پھر سے امڈ آئی تھی_

پھر خود ہی ہمت کر کے دبے پاؤں کمرے سے باہر نکلی پورا اپارٹمنٹ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔

کوئی ہے۔۔۔

حلق تر کرتے اندھیرے میں ہی آواز لگائی تھی لیکن بے سود_ اندھیرے سے تو ہمیشہ ہی اسے خوف آتا تھا۔۔۔

کوئی جواب نہ ملنے پر اسے اور زیادہ رونا آیا۔۔۔ روتے روتے آگے بڑھ کر دیواروں پہ ہاتھ رکھ کر ان کو ٹٹولا تو کچھ دیر بعد ہاتھ بورڈ پہ آیا تھا اور اس نے سارے بٹن آن کر دیے _ پورا لاؤنج روشنی میں نہا گیا تھا۔۔۔

ٹیبل پہ نظر پڑی تو کھانا ہنوز ویسے کا ویسے ہی پڑا تھا۔۔۔ کھانا دیکھ بھوک کا احساس پھر سے جاگا۔۔۔ جلدی سے بیٹھ کر کھانا کھایا تب جا کر جان میں جان آئی تھی_

اب اس نے اٹھ کر ہر کمرہ چیک کیا تھا جب تسلی ہو گئی کہ اس کے علاوہ اپارٹمنٹ میں اور کوئی نہیں ہے تو اس نے وہاں سے بھاگنے کا سوچا۔۔۔

دروازہ چیک کیا تو کوئی ڈیجیٹل لاک ہونے کی وجہ سے وہ کھلا ہی نہیں_ یا پھر اسے کھولنا ہی نہیں آیا۔۔۔

اپنی بے بسی پہ دل مسوس کر رہ گئی تھی_

دروازے کے پاس ہی وہ بازوؤں کو گھٹنوں پہ فولڈ کیے وہیں بیٹھ گئی_

صبح اس کی آنکھ کھلی تو سامنے صوفے پہ بیٹھے وجود کو دیکھ کر وہ خود میں سمٹی تھی جو بغور اس پہ نظریں جماۓ اسے نہارنے میں مصروف تھا۔۔۔۔

''کچھ تو ہی میرے درد کا مفہوم سمجھ لے

 ہنستا ہوا چہرہ تو زمانے کے لیے ہے_____''

ہانیہ خود میں سمٹی تھی اور آہستہ آہستہ اٹھ کر ایک نظر اس بے حس انسان کو دیکھا تھا نظر ملی تھی لیکن جلد ہی  منہ موڑے کھڑی ہو گئی_

نگاہ الفت ، مزاج برہم

یہ سلسلہ بھی عجیب تر ہے

ہزار شکوہ ، ہزار رنجشیں 

وہ شخص پھر بھی قریب تر ہے

بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی_

نہ۔۔۔۔نہی۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔و۔۔۔وہ۔۔۔۔م۔۔۔میں۔۔۔ت۔۔۔تو۔۔۔۔ب۔۔۔۔بس۔۔۔

اپنے گھر کا ایڈریس دو تمہے گھر چھوڑ آؤں_ 

حسن بے تاثر لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔

سچی۔۔۔ وہ یکدم سے خوش ہوتی اس کے پاس صوفے پہ آ بیٹھی اور اس کے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھ گئی_

ہانیہ کے نرم سے سرد ہاتھوں کا لمس اپنے ہاتھوں پہ محسوس کر کے اس کی سانسیں تھم گئی تھیں_

ایسا نہیں تھا کہ کبھی کسی لڑکی نے اس کا ہاتھ نہ پکڑا ہو  انشاء تو ہر وقت اس سے چپکنے کی کوششوں میں رہتی تھی لیکن اس کے چھونے پہ تو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا تھا۔۔۔

ہانیہ کے چھونے پہ دل میں جلترنگ سی بجی تھی دل ایک الگ لے میں دھڑکا تھا۔۔۔۔ کوئی احساس بیدار ہوا تھا لیکن کونسا۔۔۔ وہ ابھی خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا تبھی جلدی سے اس کے ہاتھوں کے نیچے سے اپنے ہاتھ نکالے تھے۔۔۔۔

ہانیہ نے بھی ہڑبڑا کر اپنے ہاتھ پیچھے کھینچے اور وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ 

س۔۔۔سو۔۔۔۔سوری

بس آپ مجھے گھر جانے دیں میں ایسا مذاق اب کبھی نہیں کروں گی۔۔۔

ہمممم۔۔۔۔ اوکے کہہ کر حسن نے کسی کو کال ملائی تھی۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان تھکا ہارا یونیورسٹی سے گھر آیا اور سیدھا اپنے روم میں چلا گیا۔۔۔فریش ہو کر ہلکی سی شرٹ اور  ٹراؤزر زیب تن کیا اور نیچے چلا آیا۔۔۔۔

پروین بیگم کھانا لگانے میں مصروف تھی_ آج اکرام الحق بھی گھر پہ موجود تھے اور احمد کھانا ٹیبل پہ لگانے میں اپنی ماں کی مدد کر رہا تھا۔۔۔ 

سفیان بھی چئیر گھسیٹتا ہوا بیٹھ گیا۔۔۔

کیسا رہا یونیورسٹی کا پہلا دن برخوردار۔۔۔؟

اکرام الحق نے چشمہ اتارے سائیڈ پہ رکھا اور اپنی توجہ اپنے بیٹے کی طرف مرکوز کی_

بہت اچھا بابا ، جب تصور کے پردے میں صبح کا ہوا واقعہ گھوما اور چہرے پہ مسکراہٹ بکھر گئی تھی_ 

اتنی دیر میں کھانا ٹیبل پر لگ چکا تھا سب نے مل کر کھانا کھایا اس دوران ہلکی پھلکی گفتگو بھی چلتی رہی_

کھانے سے فارغ ہو کر اب سب لاؤنج میں بیٹھے تھے پروین بیگم نے چاۓ لا کر سب کو سرو کی اور خود بھی بیٹھ گئی_

سفیان ہم سب تمہارے چچا کے گھر جا رہے ہیں احمد اور تمہارے پاس ہونے کی خوشی میں آج شام کی دعوت رکھی ہے انہوں نے ٹائم پہ تیار ہو جانا۔۔۔۔

ماما میں نہیں جا رہا مجھے دوست سے کچھ کام ہے تو آپ میری طرف سے معزرت کر لیجیے گا۔۔۔ جبکہ اصل میں تو وہ اس ارشا کی حرکتوں کی وجہ سے ٹال گیا تھا۔۔۔۔

کیوں بھئ برخوردار ایسا بھی کیا کام آن پڑا جو ہمارے ساتھ جانے سے انکاری ہو۔۔۔۔

وہ بابا ، ام۔۔۔۔ہ۔۔۔ہاں۔۔۔ یاد آیا سب دوست مل کر آج ہمیں بھی پارٹی دے رہے ہیں نہ تو مجھے وہیں جانا ہے۔۔۔

میں چاچو کی طرف پھر کبھی چلا جاؤں گا۔۔۔

اوکے ،،، جیسے تمہاری مرضی___

بھائی چلو نہ ساتھ کتنا مزہ آۓ گا میں اکیلا بور ہو جاؤں گا۔ دیکھیں میں آپ کی ہر بات مانتا ہوں نہ تو بس پھر آپ بھی ساتھ چل رہے ہیں مجھے نہیں پتہ کچھ بھی_

احمد نے نروٹھے پن سے ضد کی تھی___

میں تمہیں تمہاری فیورٹ آئسکریم کھلانے لے جاؤں گا جب تم کہو گے___ اور جو مانگو گے دلِا دوں گا ابھی ضد نہ کرو میرے پیارے بھائی۔۔

سفیان  نے اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی تھی اور وہ صدا کا معصوم مان بھی گیا تھا۔۔۔

تھوڑی دیر میں سب تیار ہو کر جا چکے تھے اور سفیان اب اپنے کمرے میں بیٹھا آرام سے موبائل استعمال کر رہا تھا۔۔۔

ایف بی اوپن کرتے ہی عمارہ کے مسینجر پہ میسجز آۓ ہوئے تھے_ اب دلچسپی بڑھنے لگی تھی کہ آخر کیا ہے یہ لڑکی_ سفیان نے وہاں آخری میسج دیکھتے ہوئے کال ملائی جو کہ کچھ توقف کے بعد اٹھا لی گئی تھی_

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

اففف ، آج تو بہت لیٹ ہو گئی بھائی جلدی چلائیں نہ یہ اپنی کھٹارا  بائیک۔۔۔۔

زویا مجھے نہیں چھوڑے گی آج۔۔۔

عمارہ اپنی ہی ہانکے جا رہی تھی جب ایک دم سے بائیک رکی_

کیا ہوا اب کیوں رک گئے۔۔۔ پلیز یہ مت کہیے گا اب کے آپ کی یہ کھٹارا بائیک پنکچر ہو گئی ہے۔۔۔

اس سے تو اچھا تھا میں بابا ساتھ چلی جاتی میں نے کیوں_____

اے چوہیا چپ کر میری بائیک کو کھٹارا کیوں بولا عاقب نے مڑ کر اسے زبردست گھورا تھا۔۔۔

اچھا نہیں بولتی اب چلا لیں نہ پلییییییزززز۔۔۔۔

عمارہ دانت پیستے بولی تھی___

اسی کھٹی میٹھی نوک جھونک میں عمارہ کی یونیورسٹی آ گئی تھی___

یونی میں اینٹر ہوئی ہی تھی جب زویا کو گیٹ کے پاس ہی کھڑے اپنا منتظر پایا۔۔۔

کہاں رہ گئی تھی تم یار پہلا لیکچر بھی تمہارے چکر میں مِس کر دیا۔۔۔۔

زویا نے خونخوار لہجے میں اس سے بات کی تھی۔۔۔

جسٹ چل یار۔۔۔ چل آ جا ہم باہر بیٹھ کر انجواۓ کرتے ہیں عمارہ زویا کا بازو پکڑے آگے بڑھ گئی_

وہ دونوں بیٹھی اپنی اسائنمنٹ پہ کام کر رہی تھیں جب اچانک زویا نے کچھ یاد آتے اپنے بیگ کو ٹٹولہ اور عمارہ کو مخاطب کیا تھا۔۔۔ 

ہیپی برتھڈے ڈئیر۔۔۔ اور یہ رہا تمہارا گفٹ 😍

عمارہ نے کھول کر دیکھا تو سلور کلر کا ایک خوبصورت سا ہارٹ شیپ بنا بریسلٹ تھا۔۔۔

تھینکیو سو مچ زویا اتنے پیارے گفٹ کے لیے یہ میں ہمیشہ اپنے پاس سنبھال کے رکھوں گی_

پھر وہ دونوں اٹھ کر کلاس لینے چلی گئیں_ 

دن گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا تھا۔۔۔۔

 عمارہ نے گھر پہنچ کر کھانا کھایا اور سونے کمرے میں چلی گئی تھی_

رات تقریباََ کوئی نو بجے کے قریب اس کی آنکھ کھلی تھی_ اٹھ کر وضو کیا ، ڈوپٹہ حجاب سٹائل میں خود پہ لپیٹا اور خشوع و خضوع کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی تھی رب سے اپنی بہتری کی دعا مانگی تھی_

اب نیند تو آنے سے رہی تبھی بکس اٹھاۓ بیڈ پر آ کر بیٹھی اور پڑھائی کرنے میں مگن ہو گئی__

موبائل کی ٹیون بجی تھی جب اس نے تکیے کے نیچے سے موبائل اٹھاتے میسج چیک کیا سفیان کا تھا۔۔۔

بکس کو سائیڈ پہ رکھتے اس نے ریپلاۓ دیا تھا اور فوراََ  سین بھی ہو گیا تھا تبھی اس طرف سے کال آئی تھی جو عمارہ نے کچھ سوچتے اٹھا لی تھی اور پھر کافی دیر تک ان کی بات ہوتی رہی___

ہانیہ صوفے پہ بیٹھی ہاتھ مروڑنے میں مصروف تھی وہ سب بھلاۓ بس اسی بات پہ مطمئن تھی کہ اب وہ اپنے گھر چلی جائے گی بس ڈر تھا تو احمد صاحب (ہانیہ کے والد) کا کہ وہ کیسا ری ایکٹ کریں گے_ یہی سوچ بس اسے پریشان کیے ہوئی تھی___

حسن وہیں لاؤنج میں کھڑے فون پر بات کر رہا تھا جب ہانیہ کی نظریں بھٹک کر اس پہ پڑی تھیں_

ماتھے پہ بکھرے بال ، کھڑی مغرور ناک ، بھوری آنکھیں ، گورا رنگ ، ہر لحاظ سے پرفیکٹ کسی بھی لڑکی کا دل دھڑکا دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔

بلاشبہ وہ کسی بھی لڑکی کے خوابوں میں آنے والے شہزادوں سی آن رکھتا تھا۔۔۔۔

اسے رشک ہوا تھا اس لڑکی کے نصیب پر جو اس کو پا لے گی_ اس کا مقدر بن جائے گی_ 

بات کرتے کرتے اس نے ہانیہ کی طرف دیکھا تھا جو اسی کو نہارنے میں مصروف تھی ۔۔۔ حسن کے دیکھنے پہ گڑبڑا کر نظروں کا زاویہ بدلا تھا اور ادھر ادھر دیکھ کر لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے لگی_ ہانیہ کی اس حرکت پر حسن کے لب گہری مسکراہٹ میں ڈھلے تھے اور منہ دوسری طرف کر لیا تھا۔۔۔

ہونہہہ۔۔۔۔۔ ہینڈسم کھڑوس 

ہانیہ نے نیا نام دے ڈالا تھا اسے۔۔۔

سنو۔۔۔

حسن نے اسے پکارا۔۔۔

ج۔۔۔۔۔ج۔۔۔۔جی

ہانیہ جو پھر سے اس کا ایکسرا کر رہی تھی حسن کے ایکدم بلانے پر گھبرا گئی۔۔۔۔ 

جس پر اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔

فون بند کر کے اس کی طرف بڑھا اور صوفے پہ اس کے پاس آ بیٹھا کل کی ٹکٹس کروا دی ہیں کل تمہے میں خود چھوڑ آؤں گا اب ایک گلاس پانی تو پلا دو۔۔۔

کل کی ٹکٹس۔۔۔۔ 

مطلب ایک دن اور رہنا پڑے گا مجھے یہاں۔۔۔ 

اگر آپ اس دن مجھے جانے دیتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا  آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھیں_

شکوہ کناں نگاہوں سمیت اسے دیکھا۔۔۔

  پتہ نہیں زویا کہاں ہو گی اس کی فکر بھی اسے کھائی جا رہی تھی_

حسن کو اس کا رونا بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا عجیب سی بے چینی ہوئی دل کو تبھی  فوراً وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

انشاء ریڈ ٹاپ کے ساتھ بلیک جینز پہنے نک سک سا تیار ہو کر حسن کو ملنے کی غرض سے وہ اس کے آفس پہنچی تھی_  اس دن کی ہوئی تلخی کو بھلاۓ وہ پھر خوشگوار موڈ  میں اس سے بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھی_

 ہاۓ ہینڈسم بواۓ۔۔۔۔

تم تو مجھے بھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جیسے ہی انشاء نے اس کےآفس کا دروازہ کھولا  وہاں خالی کیبن اس کو منہ چڑا رہا تھا۔۔۔ فون ملانے پر نمبر بھی بزی جا رہا تھا جو اس کے غصے کو مزید ہوا دے گیا تھا۔۔۔۔ 

پھر وہ  تن فن کرتی اس کے اپارٹمنٹ پہنچی تھی لیکن وہاں ہانیہ کو دیکھ مزید آگ بگولہ ہو گئی تبھی ایک ہی جست میں اس تک پہنچی۔۔۔۔

تم جیسیوں کو میں اچھے سے سمجھتی ہوں جہاں کوئی امیر لڑکا دیکھا نہیں وہیں پھانسنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہیں لیکن یاد رکھنا تم حسن عالم صرف میرا ہے_

 صرف اور صرف میرا ، سمجھی تم۔۔۔

اسے کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا۔۔۔۔

انشاء نے چیختے ہوئے ہانیہ کے بازو کو جھٹکے سے چھوڑا تھا۔۔۔

ہانیہ نا سمجھی کے عالم میں اسے روتے ہوئے دیکھ رہی تھی_ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس نے کب حسن کو پھانسنے کی کوشش کی تھی_

د۔۔۔دیکھیں۔۔۔وہ۔۔۔۔سب۔۔۔۔م۔۔مذاق۔۔۔

مذاق۔۔؟

 ایڈیٹ ،  تو یہاں کیا کر رہی ہو دفعہ ہو جاؤ یہاں سے_ آئندہ میرے اور حسن کے درمیان آنے کی کوشش کی تو حلیہ بگاڑ دوں گی تمہارا سمجھی یو فول____ 

انشاء پھر سے اس پہ جھپٹی_  اس سے پہلے وہ کوئی انتہائی قدم اٹھاتی یا اسے کوئی نقصان پہنچاتی اس کے سامنے حسن آ کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسے ہاتھ لگانے کی۔۔۔۔

حسن نے انشاء کے جبڑے کو زور سے پکڑتے اسے پیچھے لے جاتے دیوار کے ساتھ لگایا۔۔۔ پکڑ اتنی مضبوط تھی کہ جبڑا ہی ٹوٹ جائے۔۔۔

وہ جو چلا گیا تھا اپنا موبائل ادھر ہی بھول گیا جسے لینے کی غرض سے وہ واپس آیا تھا لیکن سامنے ہی انشاء کو ہانیہ کے ساتھ بدتمیزی کرتے دیکھ غم و غصے سے پاگل ہوتے ایک ہی جست میں اس تک پہنچا اور ہانیہ کو اس کے وار سے بچایا تھا۔۔۔۔

چھوڑو مجھے حسن میں نہیں چھوڑوں گی اسے آج تم اس کی خاطر مجھے اگنور کر رہے ہو نہ جو میں بالکل برداشت نہیں کروں گی_

 گھٹی گھٹی آواز میں انشاء پھر چلانے سے باز نہیں آئی تھی_

چٹاخ۔۔۔۔

تبھی حسن نے اسے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پہ مارا تھا۔۔۔ 

انشاء کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں اور ہانیہ بھی چیخ مار کر اپنے دونوں ہاتھ منہ پہ رکھ گئی تھی اس کے رونے میں شدت آ گئی۔۔۔۔۔

ایسا سوچنا بھی مت انشاء ورنہ تمہے میں نہیں چھوڑوں گا دفعہ ہو جاؤ یہاں سے اس سے پہلے میں تمہے دھکے دے کر باہر نکالوں گیٹ آؤٹ فرام ہیر۔۔۔۔

آئی سیڈ گیٹ لاسٹ انشاء۔۔۔۔

حسن نے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پہ مارا تھا وہ اپنے اندر کے اٹھتے اشتعال کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

انشاء ہانیہ کو خونخوار نظروں سے گھورتی وہاں سے پیر پٹختی باہر کو نکلی اور کسی کو فون ملایا۔۔۔۔

ایک ایڈریس سینڈ کر رہی ہوں مجھے آج ہی یہاں رہنے والی لڑکی کل تک زندہ نہیں دکھنی چاہیے سمجھے۔۔۔۔

اگر تم میرے پاس نہیں رہو گے تو میں کسی اور کو بھی تمہارے پاس نہیں رہنے دوں گی۔۔۔۔

انشاء پراسرار سی مسکراہٹ چہرے پہ سجاۓ آگے بڑھ گئی۔۔۔ 

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ارشا کہاں ہو بیٹا ۔۔۔۔

ماما میں یہاں ہوں ۔۔۔

ارشا کی چہکتی سی آواز سنائی دی تھی__

ماشااللہ میری بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی ہے اللہ پاک نظر بد سے بچائے آمین_ 

صفیہ بیگم (ارشا کی ماما ) نے اس کی نظر اتاری تھی اور اس کی ہنسی ہمیشہ قائم رہے دل سے دعا کی_

دیکھا جس کام سے آئی تھی وہی بھول گئی_

انہوں نے ماتھے پہ ہاتھ مارا تھا۔۔۔  

ارشا جلدی سے نیچے آ جاو تمہارے تایا ابو لوگ آ گے ہیں۔۔

جی ماما آپ چلیں میں آتی ہوں۔۔۔

آئینے میں خود کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد نیچے کی طرف بڑھ گئی وہ آج بہت دل سے تیار ہوئی تھی_ 

جلدی جلدی سیڑھیوں سے اتر کر وہ نیچے آ کر سب سے ملی تھی_ نظریں ادھر ادھر کسی کی تلاش میں گھمائیں لیکن ناکام لوٹ آئیں___

بے دلی سے وہ سب کے پاس آ کر بیٹھی جب احمد سے آہستہ آواز میں سفیان کا پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو احمد سدا کا معصوم وہ اسے سب سچ بتا گیا کہ سفیان کیوں نہیں آیا اور لگے ہاتھ اپنی ہوئی ڈیل کا بھی بتا دیا۔۔۔

جسے سن کر ارشا کے تیور بگڑے تھے اور وہ شدت ضبط سے سرخ آنکھیں لیے وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور ساری تیاری کو خود سے نوچ پھینکا تھا اور رو دی۔۔۔۔

نیچے خوشگوار ماحول میں کھانا کھانے کے بعد اب سب مل کر باتیں کر رہے تھے چاۓ کا دور چلا تھا۔۔۔ 

تبھی ارشا خود کو کمپوز کرتی دوبارہ نیچے آئی اور چہرے پہ زبردستی کی مسکراہٹ سجاۓ سب کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئی_

ارے ارشا اتنی پیاری تو لگ رہی تھی بیٹا آپ منہ کیوں دھو آئی ۔۔۔۔ 

پروین بیگم نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلا کر بیٹھاتے  پیار سے پوچھا تھا۔۔۔

وہ بس تائی امی مجھے اڑیٹیشن ہونے لگ گئی تھی۔۔۔

بس جلدی سے بہانہ گھڑ دیا تھا ارشا نے۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان وہاں اپنے چاچو کے گھر دعوت پر تو نہیں گیا لیکن گھر بیٹھے WhatsApp پر وہ عمارہ سے باتیں کرتے مسلسل مسکرا رہا تھا ،، ان دنوں سفیان اور عمارہ میں کافی دوستی بڑھ گئی تھی ،، وہ دونوں اب ویڈیو کال وغیرہ پر بھی بات کرنے لگ گئے تھے ۔۔۔

دونوں ایک دوسرے کے عادی ہو گئے تھے کہ اب جب تک وہ بات نہ کر لیتے نیند آنکھوں سے کوسوں دور رہتی تھی_ ان کی پسند کب محبت میں بدل گئی تھی یہ تو ان دونوں کو بھی پتہ نہیں چلا تھا۔۔۔

سفیان تو خود پہ بھی حیران تھا جو کسی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا آج ایک لڑکی اس کے دل میں ایسی آ بسی تھی کہ اب اسے اس کے بغیر کچھ دیکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔۔۔۔

وہ کہتے ہیں نہ مرد کا عشق عورت کے عشق سے کئی گنا مضبوط ہوتا ہے۔۔۔

 جب مرد عشق کر لے تو وہ کسی صورت اسے کسی اور کے لیے نہیں چھوڑتا۔۔۔

اس کی انا برداشت ہی نہیں کرتی کہ وہ اسے کسی اور کے لیے چھوڑے۔۔۔۔ 

اور ہزاروں میں کوئی ایک مرد ہوتا ہے جسے ایسا عشق ہوتا ہے۔۔۔۔

عشق تو عطا کیا جاتا ، دلوں میں وحی کی طرح نازل ہوتا ہے یہ عشق کرنا ہر کسی کے بس کی بات ہی نہیں۔۔۔

عشق قلندروں کا رقص ہے میاں

یہ لاڈلوں کے بس کی بات ہی نہیں

اب بھی وہ دونوں بات کر رہے تھے جب عمارہ نے اسے اپنے 

یونی کے ٹرپ کے بارے میں بتایا تھا کہ اسلام آباد ان کا ٹرپ جا رہا ہے اور وہ بہت ایکسائیٹد ہے ۔۔۔۔

سفیان نے اس سے ملنے کی خواہش کی تھی جس پر تھوڑا جھجھکتے ، تھوڑی دیر تکرار کے بعد بلآخر وہ مان گئی تھی اور اب انہیں شدت سے اس دن کا انتظار تھا جب وہ ایک دوسرے کو اپنے روبرو دیکھیں گے۔۔۔

بس اپنے آنے والے پلوں اور زندگی کے  سہانے خواب بنتے وہ دونوں کچھ دیر اور بات کرتے کرتے پھر سو گئے۔۔۔۔

رانیہ یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھی بور ہو رہی تھی اور ہانیہ کو بہت مس کر رہی تھی_ اس کی ایک بیوقوفی کی وجہ سے ہانیہ بہت بڑی مصیبت میں پھنس چکی تھی اور اب وہ بیٹھی پچھتا رہی تھی_ ہانیہ کو یاد کر کے اس کی آنکھوں میں نمی پھیلی تھی چہرے کو ہاتھوں میں چھپاۓ وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی تھی_

لیکن وہ محاورہ ہے نہ۔۔۔

اب پچھتاۓ کیا ہوۓ

جب چڑیاں چگ گئی کھیت

ہانیہ نے جس مصیبت میں پھنسنا تھا پھنس گئی تھی _

کون تھا وہ شخص کیوں ایک مذاق کو اتنا سیریس لے گیا ناجانے وہ کہاں ہو گی کس حال میں ہو گی اتنے سارے سوال تھے لیکن جواب اس کے پاس کسی کا نہیں تھا۔۔۔

بیٹھے بیٹھے وہ اس دن کے منظر میں کھو گئی۔۔۔

فلیش بیک۔۔۔

ہانیہ کو لے جانے کے بعد رانیہ وہاں کسی کو جانتی نہیں تھی کس سے مدد لیتی کس کو کہتی۔۔۔ تو مجبوراً اس کو اکیلی واپس آنا پڑا تھا تاکہ وہاں جا کر وہ کچھ کر سکے۔۔۔۔

رانیہ واپس آ کر سب سے پہلے ہانیہ کے گھر گئی تھی اور سب سچ سچ بتایا تھا جا کر جس پر سکینہ بیگم (ہانیہ کی ماں) نے تو خوب رونا دھونا مچایا تھا رانیہ کو برا بھلا بھی بہت کہا تھا کہ تم ہی لے کے گئی تھی میری بچی کو اب کہاں چھوڑ آئی ہو۔۔۔۔ جبکہ احمد صاحب نے سکینہ بیگم کو بھی بہت لتاڑا کہ کیوں جانے دیا تھا اسے مجھ سے پوچھے بغیر ۔۔۔۔

محلے والے اکٹھے ہو کر طرح طرح کی باتیں کرنے لگے تھے۔۔۔ 

کسی کا کہنا تھا کہ بیٹی بھاگ گئی ہے تو اب اس طرح کے ڈرامے لگا کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔

کوئی کچھ کہتا تو کوئی کچھ ۔۔۔۔

سکینہ بیگم یہ باتیں اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے سن کر تو صدمے میں آ گئیں کہ جو اپنے آس پاس کسی وجود کو محسوس کر کے گھبرا جایا کرتی تھی وہ کسی کے ساتھ بھاگ جائے ناقابل یقین سی بات تھی لیکن لوگوں کی زبانوں کو کون پکڑ سکتا ہے۔۔۔۔

احمد صاحب تھانے جا کر رپورٹ بھی لکھوا آۓ تھے لیکن کچھ پتہ نہ چل سکا تھا۔۔۔۔

اب تو سب دعا ہی کر سکتے تھے کہ وہ ٹھیک ہو۔۔۔۔

حال۔۔۔۔

رانیہ کیوں رو رہی ہو کلاس نہیں لینی کیا۔۔۔

دعا جو کہ اس کی کلاس فیلو تھی اسے یوں پارک میں اکیلے منہ نیچے کیے بیٹھا دیکھ اس کے پاس آئی اور اس کے بازوؤں پہ ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

جب رانیہ نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا تو آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں لب سسک رہے تھے ۔۔۔

کچھ نہیں چلو کلاس میں۔۔۔

وہ آنکھیں پونچھتی اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ اسے کچھ بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عمارہ یونیورسٹی سے تھک ہار کر ابھی گھر پہنچی اور سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی تھی_ فریش ہو کر کھانا کھایا اور سفیان کو میسج کیا تھا۔۔۔۔

کیسے ہو۔۔۔۔؟

لیکن میسج ڈیلیور نہیں ہوا تھا جس کا مطلب وہ آف لائن تھا۔۔۔۔

تبھی موبائل سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر وہ نیچے سب کے پاس چلی آئی تھی_ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے جب سمیرا بھی عبداللہ کو لیے چلی آئی____

تھوڑی دیر سب کے پاس بیٹھنے کے بعد عمارہ سمیرا کو کھینچ کر اپنے کمرے میں لائی تھی اور کپڑوں کا ڈھیر اس کے سامنے لگا دیا تھا۔۔۔

کل میری یونی کا ٹرپ اسلام آباد جا رہا ہے تو بتائیں میں کونسے کپڑے پہنوں۔۔۔

عمارہ خوشی سے چہکتی وہیں بیڈ پر سے کپڑے ہٹا کر تھوڑی سی جگہ بنا کر بیٹھی تھی___

سمیرا اسے اتنا خوش دیکھ کر مسکرا دی اور دل سے اسکی خوشیوں کے قائم رہنے کی دعا کی تھی__

تم کچھ بھی پہنو سب اچھا لگتا ہے تم پہ میری جان 

سمیرا نے اسکی گال پہ ہاتھ رکھ کر پیار سے بولا۔۔۔

وہ تو مجھے پتہ ہے آپی لیکن پھر بھی بتائیں نہ۔۔۔

اچھا یہ فیروزی والا پہنوں یا پنک والا۔۔۔

عمارہ نے دونوں ڈریس اٹھا کر شیشے میں اپنا عکس دیکھتے ایک ایک ڈریس اپنے ساتھ لگا کر دکھایا تھا۔۔۔

ہممم۔۔۔۔ یہ پنک والا زیادہ اچھا لگ رہا ہے تم پہ۔۔۔

سمیرا اٹھ کر اس کے پیچھے آ کر کھڑی ہوئی اور بازو اس کے گرد لپیٹے___

اوکے ڈن ، پھر میں یہی پہنوں گی۔۔۔ دونوں کھلکھلا کر ہنس دی تھیں تبھی عبداللہ کے رونے کی آواز آئی تو سمیرا نیچے کی طرف بھاگی جبکہ عمارہ سفیان سے ملنے کے سپنے سجاتی پنک ڈریس کو گلے سے لگائے بیڈ پہ سیدھا گرنے کے انداز میں لیٹی اور سکون سے آنکھیں موند گئی تھی___

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

حسن اپنے اپارٹمنٹ میں سے غصے سے نکلا تھا شام تک وہ خراب  ڈرائیونگ کرتا سڑکوں پہ بلاوجہ گاڑی گھما کر اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا 

بار بار ہانیہ کا ڈرا سہما سا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا تو انشاء پہ غصہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتا۔۔۔

یہ سوچ کر ہی اس کی روح فنا ہو رہی تھی کہ اگر وہ واپس نہ جاتا تو انشاء ہانیہ کا کیا حال کرتی__

حسن نے ایک دم سے گاڑی کو بریک لگائی اور زور سے سٹیرنگ پہ ہاتھ مارا تھا ۔۔۔۔

گاڑی سے باہر نکل کر اس سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔

بالوں میں ہاتھ پھیر کر خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی لیکن وحشت اس کی کسی طور کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی_

''کہاں سے آئی آخر تیری طلب مجھ میں

جب خدا نے مجھے بنایا تو میں اکیلا تھا'' 

تھوڑی دیر ریلیکس ہونے کے بعد وہ واپس گاڑی میں بیٹھا اور گھر کی راہ لی تھی۔۔۔

پورچ میں آ کر گاڑی رکی ۔۔۔۔ باہر نکل کر گاڑی کی چابی چوکیدار کی طرف اچھالی تھی اور خود اندر بڑھ گیا۔۔۔

وہ فوراً سے پہلے کمرے میں بند ہو جانا چاہتا تھا جب لاؤنج میں تیزی سے گزرتے وقت اس کے کانوں میں نوین بیگم کی آواز سنائی دی جب وہ چونک کر مڑا تھا۔۔۔

مام آپ ابھی تک سوئی نہیں ،، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔۔۔

حسن نے ان کو اس وقت لاؤنج میں بیٹھے دیکھ استفسار کیا۔۔۔

جب جوان بیٹا جلدی گھر نہیں آۓ گا تو ماں کو تو فکر ہو گی نہ۔۔۔

اتنی دیر میں حسن ان کی گود میں سر رکھے لیٹ گیا تھا اور نوین بیگم پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ چلا رہی تھیں_

میں نے تمہارے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے ۔۔۔ میں چاہتی ہوں تم بھی اس سے ایک دفعہ مل لو پھر بات آگے بڑھائیں_

نوین بیگم نے تحمل سے اس کی طرف دیکھتے اپنی بات کہی تھی جب حسن نے حیرت سے ایک دم آنکھیں پھیلا کر اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

پھر کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے اٹھتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں بند ہوا تھا۔۔۔

پیچھے نوین بیگم ہق دق سی اسے دیکھتی رہ گئیں اور وہ بھی اٹھ کر حسن سے صبح ناشتے کے ٹیبل پر بات کرنے کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی گئیں_ 

دنیا جہان سے لاپرواہ وہ انسان دو ڈبیاں سگریٹ کی پھونک بیٹھا تھا لیکن اس کی وحشت کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔

کمرے کی ہر چیز تہس نہس کر کے بھی اسے سکون نہیں ملا تو اب کمرے سے باہر نکل کر ٹھنڈی ہوا میں سانس لے کر سکون حاصل کیا تھا۔۔۔۔

اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے کسے عشق کر سکتا ہے جو اس کے سٹینڈرڈ سے میچ نہیں کرتی،،، اگر یہ مشرق ہے تو وہ مغرب۔۔۔۔

جیسے دو ساتھ چلنے والے کنارے کبھی آپس میں مل نہیں سکتے ویسے ہی ان کا ملنا نا ممکن ہے۔۔۔۔۔

اب اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور کچھ بھی ہو جائے وہ کر گزرے گا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

حسن اور انشاء کے جانے کے بعد ہانیہ وہاں کافی دیر تک بیٹھی روتی رہی تھی اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر بیٹھی تھی دل کو تسلی تھی کہ کل وہ یہاں سے آزاد ہو جائے گی چلی جائے گی واپس اپنے گھر ۔۔۔۔

رونے سے فرصت ملی تو بھوک کا احساس جاگا تھا لیکن یہاں کسے کہتی خود ہی اٹھ کر کیچن میں آئی لیکن کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا تبھی صبر کرتی پانی کا گلاس پیا اور جا کر کمرے میں بند ہو گئی تھی۔۔۔

رو رو کر سر میں شدید درد کی وجہ سے نیند تو آنے سے رہی تبھی صرف خود پہ کمفرٹر اوڑھے لیٹ گئی تھی_

سوچوں کا محور کچھ دیر پہلے ہونے والا واقعہ تھا کہ اگر حسن نہیں آتا تو وہ لڑکی اس کے ساتھ کیا کرتی۔۔۔۔

ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی اسے لیٹے ہوئے جب اپارٹمنٹ میں اسے ہلچل سی محسوس ہوئی تھی کافی سارے بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی تھی 

ہانیہ سہم کر فوراً اٹھی اور دروازہ اندر سے لاک کیا تھا اور خود ڈریسنگ روم میں بھاگ کر الماری میں بند ہو گئی تھی _

یا اللہ اب یہ کونسا امتحان ہے ایک ختم ہوا نہیں اب دوسری مصیبت۔۔۔

کہیں چ۔۔۔چو۔۔۔چور تو نہیں آ گئے یہاں۔۔۔

  وہ آنکھیں بند کیے منہ میں کچھ ورد کرتی جارہی تھی اور ساتھ بڑبڑا رہی تھی کہ اب بچ جاؤں اس کے بعد اس کے باپ دادا نانا نانی کی توبہ وہ رانیہ کی بچی کے کہنے پہ کسی سے ایسا مذاق کرے اور ایسی مصیبت میں پھنسے ہانیہ اسے صلاواتیں سنانے میں مصروف تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ دھڑ دھڑ بجا تھا اور وہ کانپ گئی تھی___

اپارٹمنٹ میں گھسنے والے دو ہٹے کٹے مسٹندے تھے ۔۔۔ انہوں نے اپارٹمنٹ کا ہر کمرہ کیچن چیک کیا تھا لیکن وہاں کوئی نہ ملا۔۔۔

تب وہ اس آخری کمرے کی طرف بڑھے تھے جو انہوں نے چیک نہیں کیا تھا۔۔۔۔

دروازے کو ہاتھ لگایا تو کمرہ اندر سے بند تھا وہ سمجھ چکے تھے کہ لڑکی اندر ہی ہے۔۔۔۔

ان میں سے ایک نے دروازے کو زور دار ٹکر مار کر دروازہ کھولا تھا لیکن کمرے میں کوئی نہیں تھا۔۔۔

اوۓ چیک کرو ٹھیک سے یہیں کہیں ہو گی وہ لڑکی چھوڑنا نہیں اسے ورنہ وہ لیڈی باس ہمیں نہیں چھوڑے گی سمجھے نہ تم۔۔۔۔

یس باس۔۔۔

پھر دونوں نے پورا کمرہ چھان مارا تھا لیکن لڑکی انہیں کہیں نظر ہی نہیں آئی۔۔۔۔

وہ واپس جانے ہی لگے تھے جب انہیں الماری میں سے کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی تو وہ رکے تھے۔۔۔

ان میں سے ایک الماری کی طرف بڑھا تھا اور اسے کھولا تھا۔۔۔۔

سفیان کے گھر والے واپس آ چکے تھے۔۔۔

سبھی اس وقت لاؤنج میں بیٹھے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔۔۔

احمد سفیان کے پاس بیٹھا اسے کل کی دعوت کے بارے میں بتا رہا تھا۔۔۔۔

پروین بیگم دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں۔۔۔

اکرام الحق ٹی وی پر نیوز دیکھ رہے تھے  جب چینل سرچ کرتے کرتے وہ ایک جگہ رکے تھے جہاں نیوز اینکر گلہ پھاڑ پھاڑ کر کچھ بتا رہی تھی_

جی ناظرین 

پسند کی شادی پر لڑکی کے گھر والوں نے لڑکے اور لڑکی دونوں کو غیرت کے نام پہ قتل کر دیا۔۔۔

لڑکی کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ لڑکے نے ان کی لڑکی کو بہلا پھسلا کر اسے اپنے گھر والوں کے خلاف جا کر شادی کے لیے آمادہ کیا تھا۔۔۔

جبکہ لڑکے کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ہم عزت سے رشتہ لے کر گئے تھے لیکن انہوں نے ذات کا مسئلہ بنا کر منع کر دیا کہ ہم ذات سے باہر لڑکی کا رشتہ نہیں کرتے_

دونوں بچے بالغ تھے تو انہوں نے کورٹ میں جا کر شادی کر لی جس پہ لڑکی کے گھر والوں نے انا اور غیرت کا مسئلہ بنا کر دونوں کو قتل کر دیا ۔۔۔

ہمیں انصاف چاہیے ہمارا تو ایک ہی بیٹا تھا وہ بھی انہوں نے مار دیا۔۔۔۔

لڑکے کی ماں نیوز اینکر کو بتاتے رو پڑی تھی_

جی تو دیکھا ناظرین آپ نے کہ  کیسے کیسے واقعات ہو رہے ہیں آج کل ہمارے اسلامی ملک میں کہ جہاں سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم)  کو پڑھتے تو سب ہیں لیکن ان پہ عمل کوئی نہیں کرتا۔۔۔

جب کہ سب جانتے ہیں حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہہ ) کا بھی جب رشتہ آیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی ان کی مرضی پوچھی تھی اور ان کے ہاں کہنے کے بعد ہی رشتہ طے ہوا تھا۔۔۔

آج کے دور میں سب جہیز تو بیٹی کو اس کی مرضی کا لے دیتے ہیں لیکن جس کے ساتھ اس نے ساری زندگی گزارنی ہوتی ہے اس کا حق اس سے چھین لیا جاتا ہے۔۔۔

اور اگر وہ اپنا شرعی حق استعمال کر لیتی ہے تو اسے انا اور ذات کا مسئلہ بنا کے غیرت کے نام پہ قتل کر دیا جاتا ہے__

نیوز چلنے کے دوران سب ٹی وی کی جانب متوجہ ہو چکے تھے_ سفیان بھی اٹھ کر اپنے بابا کے پاس آ بیٹھا تھا۔۔۔ اکرام الحق نے بھی چینل چینج کر دیا۔۔۔۔

یہ آج کل کے لوگوں کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ذات پات کے چکروں میں پڑ کے دین اسلام کو تو بالکل فراموش کر چکے ہیں_ جان لینے تک چلے جاتے کیا یہ مسلمان کہلانے کے بھی لائق ہیں جبکہ ہمارے دین اسلام میں فرما دیا گیا ہے کہ کسی بھی صورت قتل کرنا جائز نہیں ہے___ 

اکرام الحق کو افسوس ہوا تھا یہ سب دیکھ کر اور سن کر لیکن کیا کیا جا سکتا ہے۔۔۔

پروین بیگم کھانا لگا چکی تھیں ٹیبل پر تبھی سب کو آواز دی اور وہ تینوں باپ بیٹا اٹھ کر کھانے کے لیے چلے گئے تھے____

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

''کچھ مراسم ہوتے ہیں ازل سے تحریر شدہ

یونہی نہیں ہو جاتی نسبتیں ہمدم______ ''

حسن وائٹ ہائی نیک پر ڈارک براؤن لیدر کی جیکٹ کے ساتھ براؤن ہی جینز پہنے چہرے پر جھنجھلاہٹ کے تاثرات طاری کیے فریش ہو کر نکلا تھا۔۔۔

گیلے بالوں کو ڈرائے کر کے برش کیا اور حسب معمول ماتھے پہ بکھیر کر خود پہ پرفیوم چھڑکا تھا۔۔۔۔

آنکھوں کے سرخ ڈورے رات جگے کی وضاحت کر رہے تھے___

"صدیوں کا رت جگا میری راتوں میں آ گیا

اک حسین شخص میری نگاہوں میں آ گیا"

تیار ہو کر سیڑھیاں اترتا وہ نیچے ڈائیننگ ٹیبل پر آ کر بیٹھا تھا۔۔۔ جب نوین بیگم نے اس کے سامنے کافی کا مگ رکھا۔۔۔

تھینکس مام۔۔۔

تم سوۓ نہیں کیا رات بھر حسن آنکھیں کیسے سرخ ہو رہی ہیں۔۔۔

نوین بیگم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا جہاں آنکھیں لال انگارا بنی ہوئی تھیں___ 

نہیں مام ایسی بات نہیں ہے آپ فکر نہیں کریں میں بالکل ٹھیک ہوں بلکہ آپ کے لیے آج ایک سرپرائز ہے شام تک کا انتظار کر لیں۔۔۔

حسن نے کافی کا مگ ہونٹوں سے لگایا اور مسکرا دیا تھا ، لیکن یہ مسکراہٹ نوین بیگم کو کھٹکی تھی ۔۔۔

کافی کا مگ ختم کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

اوکے باۓ مام ،  میں آفس کے لیے نکل رہا ہوں ایک ضروری میٹنگ ہے اور پھر اس سے بھی زیادہ ضروری کام تو دعا کیجیے گا۔۔۔

حسن نے اپنی ماں کی پیشانی پہ بوسہ دیا تھا پھر آفس کے لیے نکل گیا۔۔۔ پیچھے نوین بیگم کو سوچوں میں گھرا چھوڑ گیا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا تھا کیا کرنے والا تھا وہ۔۔۔

آفس میں بیٹھے اس نے کسی کو کال ملائی اور  شام تک سب انتظامات کرنے کا بول کر کھٹاک سے فون رکھا لیکن آنے والے حالات کیا رخ اختیار کرنے والے تھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔

جب خیالوں میں رخ یار ھوا کرتا ھے

ھر طرف موسم بہار ھوا کرتا ھے 

یہ محبت ھے جو پاگل سا بنا دیتی ھے 

ورنہ ھر شخص سمجھدار ھوا کرتا ھے

تھوڑی دیر بعد اسے اوکے کا میسج موصول ہو چکا تھا۔۔۔ جبھی وہ گاڑی کی کیز اٹھاۓ اپارٹمنٹ جانے کا سوچ کر اٹھا اور نیچے پارکنگ ایریے میں پہنچ کر گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف چل دیا۔۔۔۔

 💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

دونوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر الماری کا ایک پٹ کھولا ہی تھا  جب باہر سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی تھی جس پر دونوں باہر کو لپکے تھے کہ شاید وہ باہر بھاگ رہی ہے_

ڈھونڈو یہیں کہیں ہو گی لڑکی بچ کے جانی نہیں چاہیے وہ۔۔۔۔

ہانیہ شکر کا کلمہ پڑھتے وہاں سے باہر نکلی تھی اور بھاگ کر کمرے کا دروازہ دوبارہ بند کرنے لگی تھی جب اچانک سے ایک آدمی اس کے سامنے آیا تھا دروازے میں پاؤں اڑیس کر بند کرنے سے روکا تھا اور بالوں کو ہاتھ کی مٹھی میں جکڑے اسے اندر لایا تھا۔۔۔

تمہیں کیا لگا تھا بچ جاؤ گی تم۔۔۔۔

زور سے اسے بیڈ پہ پھینکا تھا اتنے میں دوسرا آدمی بھی پہنچ چکا تھا۔۔۔

ہانیہ ڈر کے مارے پیچھے کو سرکتی جا رہی تھی جب سائیڈ ٹیبل پہ رکھے گلدان پر نظر پڑی دماغ نے جلدی سے کام کرنا شروع کیا تھا۔۔۔

اس سے پہلے وہ اس کی طرف لپکتے ہانیہ نے گلدان اٹھا کر پوری قوت سے ان کی طرف اچھالا تھا جس نے سیدھا جا کر ایک کے ماتھے پہ سلامی دی تھی اور وہ کراہ اٹھا تھا۔۔۔ دوسرا بھی اس کی طرف متوجہ ہوا تھا اور اسی موقعہ کا فائدہ اٹھا کر ہانیہ کمرے سے باہر کو بھاگی تھی___

ابے رک سا۔۔۔۔۔ (گالی) تیری تو۔۔۔۔

دوسرا بھی اس کے پیچھے لپکا تھا۔۔۔

لاؤنج میں بھاگتے بھاگتے پیچھے سے اس نے ہانیہ کو جا پکڑا تھا اور بازو کھینچ کر اسے ایک زور دار تھپڑ مارا تھا کہ وہ دور جا کر گری تھی ہونٹ کا کنارہ پھٹا تھا اور خون رسنا شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔

وہ پھر سے اس کی طرف بڑھا تھا جب ہانیہ نے اسے زور سے دھکا دیا تھا اور پاس ہی ٹیبل کے اوپر پڑی فروٹ باسکٹ میں سے چھری اٹھا کر اس کی طرف کی تھی۔۔۔

دیکھو مجھے جانے دو ورنہ میں مار دوں گی۔۔۔

ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ تم گز بھر کی چھوکری مجھے مارو گی سٹرینج۔۔۔

اوکے کمون مارو مجھے وہ آہستہ آہستہ اسے باتوں میں لگاۓ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔

میں کہہ رہی ہوں وہیں رک جاو نہیں تو میں مار دوں گی۔۔۔ ہانیہ نے خود کو کمپوز کرتے کہا تھا حالانکہ وہ کانپ بھی رہی تھی اور دل بھی ڈوب رہا تھا اسکا۔۔۔

اتنی دیر میں وہ اس تک پہنچ چکا تھا۔۔۔

ہانیہ نے آنکھیں بند کرتے بغیر سوچے سمجھے اس پہ وار کیا تھا اور اس کی چیخ نکلی تھی۔۔۔

آہہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔ 

ہانیہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو اس کے بازو پہ وہ چھری گھس چکی تھی۔۔۔۔

چیخ کر وہ پھر باہر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔۔

اور وہ دونوں پھر اس کے پیچھے بھاگے باہر کا داخلی دروازہ کھلا تھا ادھر ادھر دیکھا تھا لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔۔۔۔

جس پر وہ دونوں اسے کوستے زخمی سے وہاں سے چلے گئے یہ سوچ کر کہ اس کو تو بعد میں دیکھ لیں گے۔۔۔۔

 ہانیہ جو لان میں لگے پھولوں کے پودوں کے پیچھے چھپی بیٹھی تھی ان کو جاتے دیکھ سکھ کا سانس لیا تھا اور وہیں بیٹھی اپنی قسمت کو رو دی تھی کہ ابھی بھی کتنا امتحان باقی ہے اس کا۔۔۔۔

حسن اپارٹمنٹ پہنچا تھا مین گیٹ کھلا دیکھ کر اس کی روح فنا ہوئی تھی_

پہلا خیال ہی سوہان روح تھا کہ کہیں وہ خود سے ہی چلی تو نہیں گئی_ بھاگ کر اندر آیا تھا اور پورا اپارٹمنٹ چھان مارا تھا لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آئی__

ہر کمرہ چیک کیا ، کیچن چیک کیا یہاں تک کے واشرومز بھی اس نے چیک کیے لیکن وہ ہوتی تو ملتی نہ۔۔۔

لاؤنج میں وہ سر ہاتھوں میں گراۓ صوفے پہ آ کر بیٹھا تھا۔۔۔۔

شدت ضبط سے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں____

وہ کیا سوچ کر آیا تھا اور کیا ہو گیا تھا۔۔۔۔

نہیں ، نہیں تم مجھ سے دور نہیں جا سکتی نو نیور تم حسن عالم کی محبت ہو ڈیم اٹ۔۔۔

جس سے وہ کسی صورت دستبردار نہیں ہو سکتا ۔۔۔

حسن نے میز پہ پڑے واس کو اٹھا کر فرش پہ پٹکا تھا۔۔۔

وہ اس کے بارے میں اتنا جنونی ہو جائے گا اسے خود بھی نہیں معلوم تھا۔۔۔

ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺁﺷﻨﺎ ﻣﯿﺮﮮ

ﺗﺠﮭﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺧﺒﺮ ﮨﻮ ﮔﯽ

ﻣﺠﮭﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮯ

ﺑﮩﺖ ﺑﺰﺩﻝ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ

ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺍﺱ ﺷﺌﮯ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ

ﺗﺠﮭﮯ ﺟﻮ ﭼﮭﯿﻦ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ

ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ

ﺟﺪﺍﺋﯽ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ

ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ

ﺟﻮ ﺑﻦ ﮐﺮ ﯾﺎﺩ ﺑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ

ﺟﻮ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﺑﭽﮭﮍﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻤﺪﻡ !

ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺻﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ

ﺗﺠﮭﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺧﺒﺮ ﮨﻮ ﮔﯽ

ﻣﺠﮭﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮯ

ﺑﮩﺖ ﺑﺰﺩﻝ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ

ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺁﺷﻨﺎ ﻣﯿﺮﮮ ۔ ۔ ۔!!!

تبھی غم و غصے سے اٹھ کر باہر کو نکلا تھا۔۔۔

گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی ریورس کی جب اس کی سائیڈ مرر سے نظر لان میں لگے پھولوں کے پاس پڑا ڈوپٹہ نظر آیا تبھی فوراً گاڑی کو بریک لگاتے لپک کر جلدی سے باہر نکلا اور وہاں پہنچا تھا۔۔۔۔ 

سامنے ہی وہ ہاتھوں کو گھٹنوں پہ فولڈ کیے سر دیوار سے ٹکاۓ نیند میں تھی_

پھٹا ہونٹ جس پہ خون جما ہوا تھا۔۔۔ منہ پہ پڑنے والے  تھپڑ کے نشان__ اس کی اس حالت نے اسے اور بھی مزید طیش دلایا تھا۔۔۔۔

ہانیہ گیٹ اپ ارلی ۔۔۔۔

حسن نے غصے سے  جھک کر اس کی بازو کو پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی تھی___

نہ۔۔۔۔نہی۔۔۔۔۔نہیں پلیز مجھے چھوڑ دو میں کچھ نہیں کیا۔۔۔ مجھے مت مارو پلیز۔۔۔

ہانیہ بازو پہ گرفت محسوس کر کے چلا اٹھی تھی ، ڈر سے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی___

ہانیہ۔۔۔۔ حسن دھاڑا تھا۔۔۔

ڈیم اٹ ، آنکھیں کھولو دیکھو میں ہوں حسن۔۔۔

ح۔۔۔حس۔۔۔۔حسن ، اس نے زرا سی آنکھیں کھول کر دیکھی تو حسن اس پہ جھکا ہوا تھا۔۔۔

جلدی سے اٹھ کر وہ روتے اس کے گلے لگی تھی۔۔۔

حسن مجھے بچا لیں پلیز۔۔۔ و۔۔۔وہ پھر سے آ جائیں گے م۔۔۔مجھے نہیں رہنا یہاں۔۔۔۔ مجھے میرے گھر چھوڑ آئیں پلیز۔۔۔۔

وہ بلک بلک کر رو دی اور اس کو زور سے پکڑے گلے لگ کر  کھڑی تھی کہ کہیں پھر سے نہ وہ اسے اکیلا چھوڑ جائے۔۔۔۔

دوسری طرف حسن تو اس کے لمس کو محسوس کر کے ایسے کھڑا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔

وہ کیا کیا بولے جا رہی تھی حسن کو سنائی ہی کب دے رہا تھا۔۔۔۔

اس سے پہلے حسن بے خود ہوتا فوراً اسے خود سے کھینچ کر دور کیا اور اس کی کلائی پکڑے اندر کی طرف بڑھا اور کمرے میں لا کر بیڈ پہ بیٹھایا تھا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عمارہ بیڈ پہ سوئی جاگی کیفیت میں لیٹی ہوئی تھی جب اس کا موبائل رنگ ہوا۔۔۔

تکیے کے نیچے سے موبائل نکال کر دیکھا تو سفیان کا تھا۔۔۔

 فون یس کر کے کان کو لگایا۔۔۔

آپ کا مطلوبہ نمبر سو رہا ہے براۓ مہربانی صبح رابطہ کیجیے گا۔۔۔۔

عمارہ شرارت سے بولی تھی ، دوسری طرف سفیان کے لب گہری مسکراہٹ میں ڈھلے تھے___

اس مطلوبہ نمبر کو مجھ سے بات کیے بغیر نیند کیسے آ سکتی ہے۔۔۔

سفیان نے اس کی شرارت سمجھتے ہوئے اسے دوبدو جواب دیا تھا۔۔۔۔

ایسی ہی کھٹی میٹھی باتوں میں رات کب گزر گئی پتہ ہی نہیں چلا تھا۔۔۔۔

محبت دل نہیں مانگتی

البتہ دل کی "مہار" ضرور مانگ لیتی ہے

 محبت اختیار بھی نہیں مانگتی البتہ آپکے اختیار کے اندر چھپا "اعتبار" ضرور مانگ لیتی ہے

 محبت پیار نہیں مانگتی

مگر اس پیار کے پروں کا سوار ضرور مانگ لیتی ہے

 محبت آپ سے نیند کبھی نہیں مانگے گی ، خواب مانگے گی

 محبت سوال نہیں کرتی

ہمیشہ "جواب" مانگے گی

 اور محبت کبھی آپ سے یہ نہیں کہے گی کہ

صرف "میرے" ہو کے رہو۔۔۔ 

مگر محبت  کسی اور کا ہونے بھی نہیں دے گی۔۔۔ ❣

اذان کی آواز کانوں میں پڑی تو دونوں کو ہوش آئی تھی

چلیں اب آپ بھی نماز پڑھ لیں اور میں بھی پڑھ لوں پھر ہمارے لیے دعا کیجیے گا۔۔۔۔

 عمارہ نے خدا حافظ کہہ کر موبائل بند کیا تھا اور اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی تھی۔۔۔

وضو کر کے باہر نکلی ڈوپٹے سے خود کو اچھی طرح کور کر کے نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی____

آج کا دن بہت خاص تھا اس کے لیے ، اس شخص سے ملنے کی خوشی ہی الگ تھی جو اب دھڑکن بن کر دل میں دھڑکنے لگا تھا۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

تم ایک لڑکی کو قابو نہیں کر سکے یو باسٹرڈ ، ایڈیٹ ۔۔۔

کسی کام کے نہیں ہو تم ۔۔۔ وہ کل کی لڑکی تم دو مسٹنڈوں کو چکمہ دے گئی۔۔۔۔

تف ہے تم پر۔۔۔۔

انشاء غم و غصے سے پاگل ہوتی فون پہ ان آدمیوں پہ دھاڑ رہی تھیں__ 

غصے سے فون اٹھا کر ٹیبل پر پٹکا تھا۔۔۔۔

انشاء اس وقت ایک کیفے ٹیریا میں بیٹھی ٹونی کا انتظار کر رہی تھی جس نے اسے ضروری کام سے بلوایا تھا اور خود نا جانے کہاں رہ گیا تھا۔۔۔۔

سوری تھوڑا لیٹ ہو گیا۔۔۔۔

ٹونی جو اس کی گوہر افشانی سن چکا تھا پھر بھی نظر انداز کرتا پورے جوش سے اس کے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔۔

جلدی بولو ٹونی کیا کام ہے تمہے مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔

انشاء نے اس کو ٹھنڈے ٹھار لہجے میں جواب دیا۔۔۔

کچھ کھاؤ گی_ اچھا رکو ایک منٹ۔۔۔

ویٹر ، ٹونی نے ویٹر کو اشارہ کیا تھا۔۔۔

ویٹر کے آنے پر اسے آرڈر لکھوایا اور انشاء کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔

ٹونی نے جیب سے ایک مخملی سی ڈبیا نکالی تھی اور اسے کھول کر انشاء کے سامنے رکھا تھا۔۔۔۔

یہ کیا۔۔۔۔؟ انشاء نے لاپرواہی سے پوچھا تھا۔۔۔

ٹونی نے چئیر سے اٹھ کر رنگ اٹھا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے مخاطب کیا۔۔۔

انشاء آئی لو یو۔۔۔ پلیز ایکسیپٹ ڈیٹ مائی پرپوزل۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔

انشاء نے اٹھ کر اس کے منہ پہ زوردار تھپڑ مارا تھا۔۔۔۔

تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی یہ سب کہنے کی۔۔۔

میں حسن سے پیار کرتی ہوں سمجھے ، خبردار اگر آئندہ میرے آس پاس بھی بھٹکے تم ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔

انشاء نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا تھا اور پیر پٹختی وہاں سے چل دی۔۔۔

پیچھے ٹونی وہیں سن سا کھڑا رہ گیا تھا آنکھوں میں نمی لیے وہ بھی فوراً وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

حسن جا کر کیچن سے پانی لے کر آیا اور لا کر گلاس اس کے لبوں سے لگایا جس پر ہانیہ نے تھوڑا سا پانی پیا۔۔۔ 

پھر ہاتھ سے گلاس پیچھے کو دھکیل دیا ، رونے میں اب بھی کمی نہیں آ رہی تھی__

حسن نے اسے کام ڈاون کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔

اوکے رونا بند کرو اور چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں لیکن پلیز یہ رونا بند کرو مجھے تکلیف ہوتی ہے تمہارے رونے سے ۔۔۔

حسن نے جھنجھلا کر اسے چپ کرنے کو کہا اور آخری بات دل میں بولی تھی۔۔۔

گھر۔۔۔۔ ہاں چلیں گھر۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے __

ہانیہ گھر کا سنتے ہی رونا چھوڑ کر بچوں کی طرح منہ صاف کر کے ڈوپٹے کو سر پہ لیتی منٹوں میں تیار ہوئی تھی۔۔۔

حسن نے اس کی یہ حرکت بھی نوٹ کی تھی جس پر اسے ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔۔

اوکے تیار ہو کر باہر آ جانا میں لاؤنج میں بیٹھا ہوں حسن یہ کہہ کر فوراً کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔۔

لاؤنج میں پہنچ کر اس نے کسی کو کال ملائی اور اس کام سے منع کر دیا تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے سوچا تھا کیونکہ اب اس کا پلان بدل چکا تھا۔۔۔

چلیں۔۔۔ ہانیہ نے باہر آ کر اسے مخاطب کیا۔۔۔

حسن نے دیکھا تھا وہ منہ دھو کر آئی تھی سوگوار سا چہرہ اسے اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہوا تھا۔۔۔۔

اس سے پہلے وہ پھر اپنا ارادہ بدلتا اسے لے کر وہاں سے ائیرپورٹ کے لیے نکلا تھا اور کچھ گھنٹوں کی فلائٹ کے بعد اب وہ مخصوص گھر کے سامنے کھڑے تھے__ 

بیل بجائی تھی_ رک کر تھوڑا انتظار کیا تھا۔۔۔

ہانیہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی لیکن حسن کوئی اس سے پوچھتا کہ وہ کیسا محسوس کر رہا ہے جب اپنی ہی محبت کو اپنے ہی ہاتھوں سے چھوڑ کر جا رہا تھا۔۔۔

احمد صاحب نے دروازہ کھولا تھا جب ہانیہ خوشی سے بابا کہہ کر ان سے گلے ملی تھی_

احمد صاحب تو اسے یوں اپنے سامنے اچانک دیکھ کر حیران رہ گئے تھے_ 

کون آیا ہے۔۔۔۔؟ ہانیہ کی ماں شور سی آواز سن کر باہر نکلی تھی جب ہانیہ اپنے بابا کو چھوڑ کر ماں کی طرف لپکی تھی_ اس دوران وہ حسن کو بالکل فراموش کر چکی تھی___

چلو اندر چلتے ہیں_ سکینہ بیگم ہانیہ کو لے کر اندر جانے لگی تھی جب احمد صاحب کی آواز پر ٹھٹک کر رکے تھے 

رک جاؤ کوئی کہیں نہیں جاۓ گا۔۔۔

جس کے ساتھ آئی ہو اسی کے ساتھ واپس چلی جاؤ۔۔۔

احمد صاحب نے حسن کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ سب سے پہلے ہانیہ بولی تھی_

مجھے کچھ نہیں سننا بس یا تو اسی وقت اس کے ساتھ واپس چلی جاؤ یا پھر۔۔۔۔

پھر کیا بابا۔۔۔

نہیں تو یہ ابھی اور اسی وقت تم سے نکاح کرے گا۔۔۔

احمد صاحب نے حسن کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔

احمد صاحب کی یہ بات سن کر وہاں سب کھڑے نفوس کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔۔۔

بابا یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ایک دفعہ میری بات تو۔۔۔۔

ہانیہ نے آگے بڑھ کر احمد صاحب کا ہاتھ تھامنا چاہا تھا جب انہوں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔۔۔۔

مجھے کچھ نہیں سننا بس میں نے جو کہہ دیا وہ کہہ دیا۔۔۔

مجھے منظور ہے میں نکاح کے لیے تیار ہوں_

تب سے خاموش کھڑا حسن اب پہلی بار بولا تھا۔۔۔

احمد صاحب نے اس کی طرف دیکھا جو ایک شاندار پرسنیلٹی لیے ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔۔ آنکھوں سے گاگلز ہٹا کر ایک دفعہ پھر ہامی بھری تھی اس نے_

اس کی تو بن مانگے جیسے مراد بر آئی تھی_ نہ کوئی دعا ، نہ کوئی حیلہ بہانہ کرنا پڑا ، نہ کسی سے کچھ کہنا پڑا۔۔۔

تقدیر اس پر اِس طرح بھی مہربان ہو سکتی تھی یہ تو اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔

خاموش التجا اس طرح اتنی جلدی سن لی جائے گی اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔۔۔

اب جب سب کچھ اس کو بن کہے مل رہا تھا تو وہ کیوں انکار کرتا۔ کیوں ناشکری کرتا۔۔۔

سکینہ ان کو اندر لے جاؤ میں مولوی صاحب کو بلا کر لاتا ہوں_ احمد صاحب اتنا کہہ کر باہر کو نکل گئے جبکہ سکینہ بیگم ہانیہ کو لیے اندر چلی آئیں جو بالکل خاموش ہو گئی تھی اور حسن کو بھی انہوں نے اندر آنے کا اشارہ کیا جو ان کے ایک اشارے پر ان کی تقلید میں پیچھے چل پڑا تھا۔۔۔۔

حسن کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر وہ ہانیہ کو لیے اس کے کمرے میں آ گئیں_ 

کہاں تھی تم اتنے دنوں سے میری بچی ، کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا ہم نے تمہیں ، تم ٹھیک تو ہو نہ۔۔۔

سکینہ بیگم اسے گلے سے لگاۓ رو پڑیں اور ہانیہ بھی جی بھر کے روئی تھی_

روتے روتے جیسے سکینہ بیگم کو کچھ یاد آیا۔۔۔

ہانیہ یہ کون ہے ؟ کہیں یہ وہی لڑکا تو نہیں ۔۔۔ دیکھو مجھے سب پتا ہے ، سچ سچ بتاؤ مجھے اگر تم یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی تو میں کرتی ہوں احمد صاحب سے بات میں یہ نکاح نہیں ہونے دوں گی۔۔۔

ماما ، بابا نے میری بات بھی نہیں سنی ، ک۔۔۔کیا ان کو اپنی بیٹی پہ بھروسہ نہیں ہے۔۔۔ مجھے یہ نکاح نہیں کرنا ماما پلیز مجھے آپ کے پاس رہنا ہے کہیں نہیں جانا مجھے۔۔۔ ہانیہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی_

کمرے میں داخل ہوتے ہی احمد صاحب سکینہ بیگم سے مخاطب ہوئے ، آدھا گھنٹا ہے مولوی صاحب آتے ہی ہوں گے اسے تیار کر کے نیچے لے آؤ جلدی۔۔۔ 

بابا میری بات سنیں مجھے یہ نکاح نہیں کرنا مجھے آپ کے پاس رہنا ہے میرا یقین کریں م۔۔۔۔

اگر تم نے یہ نکاح نہیں کیا تو میں سمجھ لوں گا میری کوئی بیٹی ہی نہیں ہے ، نہ میں تم سے کوئی تعلق رکھوں گا۔۔۔ 

یہ کہہ کر احمد صاحب رکے نہیں تھے فوراً باہر کو چلے گئے_

ہانیہ منہ پہ ہاتھ رکھتے وہیں نیچے بیٹھ کر زارو و قطار روئی تھی_

سکینہ بیگم نے اسے اٹھا کر بیڈ پہ بیٹھایا تھا اور اس کی الماری میں سے سادہ سا ٹی پنک سوٹ نکال کر اس کے پاس رکھ کر کمرے سے باہر نکل آئیں_

اب وہ کچھ نہیں کریں گی کیونکہ وہ چاہ کر بھی اپنی بیٹی سے لاتعلقی برداشت نہیں کر سکتیں تھیں__

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عمارہ پنک فراک پہنے کھلی کھلی سی فریش ہو کر باہر نکلی تھی ، بالوں کو ٹاول میں لپیٹ رکھا تھا۔۔۔

تبھی اس کا فون رنگ ہوا ، بیڈ پہ پڑا موبائل اٹھا کر دیکھا تو زویا کا تھا۔۔۔

فون یس کر کے سپیکر پہ ڈال کر ڈریسنگ کے اوپر رکھا ۔۔۔

عمارہ تم ریڈی ہو نہ۔۔۔ بس ایک گھنٹہ باقی ہے یونی جلدی پہنچ جانا میں بھی بس نکلنے والی ہوں ،،، زویا پٹر پٹر بول کر اس کی سنے بغیر فون رکھ چکی تھی_

اففف۔۔۔ یہ لڑکی بھی نہ ہر وقت ہوا کے گھوڑے پہ سوار رہتی ہے۔۔۔ عمارہ نے فون کو دیکھ کر گھورا اور تاسف سے سر ہلایا تھا۔۔۔

تولیے سے بالوں کو رگڑ کر صاف کیا پھر ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی ہو کر تیار ہونے لگی تھی___

آنکھوں پہ آئی شیڈو لگا کر لائنر لگایا ، ہلکا سا ہونٹوں پہ  پنک گلوز لگاۓ باربی ڈول لگ رہی تھی_ 

وائٹ سٹولر کا حجاب بنا کر پنک میچنگ ڈوپٹے کو ایک کندھے پہ ڈالے اب وہ بالکل تیار کھڑی تھی___

تیار ہو کر وہ عاقب کے کمرے میں پہنچی  تاکہ اسے لے کر وہ جلد از جلد یونی کے لیے نکلے_

بھائی کہاں ہیں آپ۔۔۔ 

کمرے کا ڈور ناک کر کے وہ اندر داخل ہوئی لیکن خالی کمرہ دیکھ وہ پریشان ہوئی تبھی اسے آواز دی۔۔۔

اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ نیچے آئی ،،، سب لاؤنج میں بیٹھے تھے ظفر صاحب اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے عاقب بھی ان کے پاس بیٹھا تھا اس کی آنکھوں میں نیند کا خمار سا تھا ۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے ذبردستی اٹھا کر بٹھایا گیا ہو۔۔۔۔

جبکہ راشدہ بیگم ناشتہ ٹیبل پہ لگا رہی تھیں کہ اچانک ان کو چکر آیا اور وہ دھڑام سے نیچے گریں_

امی۔۔۔ عمارہ اونچی آواز میں چیختی جلدی سے ان کی طرف بھاگی۔۔۔ اس کی آواز سن کر ظفر صاحب اور عاقب بھی فوراً متوجہ ہوۓ سب چھوڑ چھاڑ کر ان کی طرف بھاگے۔۔۔

امی اٹھیں نہ ، بابا دیکھیں ماما کو کیا ہوا۔۔۔

عمارہ ان کا سر اپنی گود میں رکھ کر رو دی۔۔۔

عاقب جلدی سے بھاگ کر پانی کا گلاس لے کر آیا اور ان کے چہرے پہ پانی چھڑکا لیکن بے سود ۔۔۔

ظفر صاحب نے ایمبولینس کو کال کر کے بلایا ، عاقب اپنی ماں کو گود میں اٹھاۓ باہر کو بھاگا۔۔۔

پندرہ منٹ کے وقفے سے اب وہ ہوسپٹل میں ICU  کے باہر کھڑے تھے۔۔۔ عمارہ نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا۔۔۔

ICU کا دروازہ کھولے ڈاکٹر باہر آئی۔۔

میری ماما کیسی ہیں ڈاکٹر ۔۔۔ وہ ٹھیک تو ہو جائیں گی نہ۔۔۔ عمارہ جو ظفر صاحب کے گلے سے لگ کر رونے کا مشغلہ سر انجام دے رہی تھی جلدی سے ان سے الگ ہو کر ڈاکٹر کے پاس پہنچی___

ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے بس دعا کیجیے گا اور کچھ دوائیاں لکھ کر ظفر صاحب کے ہاتھ میں پکڑائیں۔۔۔

یہ میڈیسن جلدی سے لے آئیں۔

لائیں میں لے کر آتا ہوں ، عاقب وہ پرچی پکڑے باہر نکل گیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

 ماما میں کیا سوچ رہی تھی کیوں نہ میں بھی اسلام آباد کی یونیورسٹی میں پڑھنے چلی جاؤں۔۔۔ وہاں تائی جان کے گھر رہ لوں گی وہ بھی اکیلی ہوتی ہیں تو ان کا بھی دل بہل جائے گا میرے وہاں ہونے سے اور مجھے ایک بیسٹ یونی کی ڈگری بھی مل جائے گی۔۔۔

ارشا جو صفیہ بیگم سے اپنے بالوں میں تیل لگوا رہی تھی ناجانے اسے کیا سوجھی تھی جو بیٹھے بیٹھے اس نے یہ سب سوچ بھی لیا اور اس پر عمل کرنے کا بھی پکا ارادہ کر بیٹھی تھی___

نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے جو بھی پڑھنا ہے یہیں رہ کر پڑھو ۔۔۔۔ صفیہ بیگم نے اس کے بالوں کو فولڈ کرتے اسے جواب دیا۔۔۔

مجھے جانا ہے تو بس جانا ہے_ میں شام کو بابا سے بھی بات کروں گی اس بارے میں اور آپ مجھے نہیں روکیں گی بس۔۔۔۔

ارشا نے ان کی طرف گھوم کر جواب دیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی___

ایسے نہیں تو پھر ایسے ہی سہی_ تم نہیں آؤ گے تو میں خود آ جاؤں گی۔۔۔۔ 

ارشا طنزیہ ہنسی ہنستے اپنے دماغ میں ناجانے کیا کیا تانے بانے بننے لگی تھی_

پھر اٹھ کر شاور لینے چلی گئی_

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ہانیہ خود کو گھسیٹتی واشروم جا کر بند ہوئی تھی منہ پہ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے پھر چینج کر کے باہر آئی_

ٹی پنک سوٹ پہنے ساتھ ہم رنگ ڈوپٹہ لیے وہ سوگوار سی تیار ہو کر بیٹھ گئی_

تھوڑی دیر میں ہی مولوی صاحب اور مسجد کے کچھ معزز لوگ بھی آ کر ڈرائنگ روم میں بیٹھ چکے تھے__

حسن بظاہر تو سنجیدہ سا بیٹھا تھا لیکن نگاہیں چاروں طرف گھما کر اس دشمن جاں کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔

دل  عجیب وسوسوں سے گھرا ہوا تھا کہ وہ پتہ نہیں مجھے قبول کرے گی کہ نہیں،،، کہیں انکار نہ کر دے دل بے چین سا ہو رہا تھا تبھی اب پہلو بدلنے لگا تھا۔۔۔

احمد صاحب نے سکینہ بیگم کو ہانیہ کو لانے کا بولا تبھی وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھی تھیں _

ہانیہ کا رویا چہرہ دیکھ ان کے دل کو کچھ ہوا لیکن اب وہ احمد صاحب کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں_

چلو ہانیہ تمہارے بابا باہر بلا رہے ہیں۔۔۔ 

سکینہ بیگم نے اسے اٹھایا اور لے کر باہر کو چل دیں ،،، ڈرائنگ روم میں لا کر اسے صوفے پہ بٹھایا ، وہ بھی چپ چاپ نظریں جھکاۓ بیٹھ گئی_

حسن نے ایک نظر اسے دیکھا تو اس کی حالت دیکھ دل کٹ کر رہ گیا تھا۔۔۔

تبھی اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ ہمیشہ اسے خوش رکھے گا کبھی اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دے گا۔۔۔

نکاح شروع ہوا تھا۔۔۔

ہانیہ احمد ولد احمد شاہ کیا آپ کو حق مہر ایک کروڑ کے عوض حسن عالم ولد عالم خان اپنے نکاح میں قبول ہے۔۔؟

سب نے ہانیہ کی طرف دیکھا جو سر جھکاۓ خاموش بیٹھی تھی۔۔۔

ہانیہ احمد ولد احمد شاہ کیا آپ کو حق مہر ایک کروڑ کے عوض حسن عالم ولد عالم خان اپنے نکاح میں قبول ہے۔۔؟

ہانیہ کو پھر خاموش پا کر اب مولوی صاحب نے تیسری دفعہ اس سے پوچھا تھا۔۔۔

ہانیہ احمد ولد احمد شاہ کیا آپ کو حق مہر ایک کروڑ کے عوض حسن عالم ولد عالم خان اپنے نکاح میں قبول ہے۔۔؟

سکینہ بیگم نے ہانیہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو چونک کر اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا ، پھر احمد صاحب کی طرف دیکھ کر نظریں جھکا کر بولی۔۔۔

قبول ہے۔۔۔

حسن کی اٹکی سانس بحال ہوئی تھی_ 

پھر مولوی صاحب نے تین دفعہ حسن سے پوچھا جو اس نے دل و جان سے قبول کیا تھا۔۔۔

دونوں سے سائن کروا کر مولوی صاحب اور باقی معزز لوگ  ان کی آنے والی زندگی کے لیے دعائیں دیتے چلے گئے۔۔۔

جبکہ ہانیہ کسی کو بھی دیکھے بغیر وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں بھاگ گئی اور حسن ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان سادہ سا ٹراؤزر شرٹ پہنے فریش سا ہو کر نیچے آیا جہاں پروین بیگم ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھی چاۓ پی رہی تھیں_

اسلام و علیکم ماما۔۔۔

سفیان بھی چئیر گھسیٹ کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔

و علیکم السلام بیٹا۔۔۔

آج یونی نہیں جانا کیا ، تیار نہیں ہوئے طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔۔۔

پروین بیگم نے اس کے ماتھے کو ہاتھ لگا کر چیک کیا تھا۔۔۔

میں بالکل ٹھیک ہوں بس آج ایک ضروری کام سے کہیں جانا ہے مجھے ، آپ مجھے اچھا سا ناشتہ بنا دیں بس۔۔

اوکے میری جان ابھی بنا دیتی ہوں وہ مسکراتی ہوئی کیچن میں چلی گئیں_

سفیان نے شکر کیا تھا کہ کہیں انہوں نے ضروری کام کا پوچھ نہیں لیا۔۔۔

(اگر ان کو پتہ چل جاتا کہ ضروری کام ان کی ہونے والی بہو سے ملنا ہے تو ان کے ری ایکشن کا سوچتے اس نے جھرجھری سی لی تھی_)

پروین بیگم نے اسے ناشتہ دیا ، تب تک احمد بھی کالج کے لیے تیار ہو کر ناشتے کے لیے پہنچ چکا تھا۔۔۔

کیسی جا رہی ہے پڑھائی تمہاری۔۔۔

سفیان نے ناشتہ کرتے کرتے احمد سے پوچھا تھا۔۔۔

بھائی پیدل جا رہی ہے ابھی تو۔۔۔

احمد نے اپنی ہنسی دباتے جواب دیا تھا۔۔۔

سفیان نے رک کر اس کی طرف دیکھا ، احمد کی دبی دبی مسکراہٹ اس سے چھپ نہیں سکی تھی_

کچھ زیادہ ہی جواب دینے نہیں آ گئے تمہے ، کس طرح کے لوگوں میں بیٹھنا شروع کر دیا تم نے۔۔۔

سفیان نے اسے ڈانٹا جس پر وہ منہ بناتے ناشتہ کرنے لگ گیا تھا۔۔۔

ارے یار مذاق کر رہا تھا موڈ خراب نہ کرو۔۔۔ 

 سفیان نے  اس کے برش کیے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بال خراب کیے جس پر وہ چیخ اٹھا تھا۔۔۔

سفیان تیار ہونے اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ احمد کالج کے لیے نکل گیا تھا۔۔۔۔

سبب کیا ہے کبھی سمجھی نہیں میں 

کہ ٹوٹی تو بہت بکھری نہیں میں 

یہ چوٹ اپنے ہی ہاتھوں سے لگی ہے 

کسی کے وار سے زخمی نہیں میں 

کمرے میں آتے ہی اس نے ڈروپٹے کو خود سے نوچ کر پھینکا اور اوندھے منہ بیڈ کے بیچ و بیچ گری تھی_

آنسو تھے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے_

ایک دکھ جو سب پہ حاوی تھا کہ اس کے بابا نے اس کی بات تک نہیں سنی ، اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔۔۔ 

تبھی اس کے کمرے کا دروازہ بجا تھا لیکن اس نے کھولنے کی زحمت نہیں کی_

مجھے کسی سے بات نہیں کرنی ، مجھے اکیلا چھوڑ دیں ، وہ اندر سے ہی چیخی تھی_

ہانیہ بیٹا دروازہ کھولو میں ہوں تمہارا بابا۔۔۔

احمد صاحب نے اسے باہر سے پکارا تھا۔۔۔

ہانیہ نے اٹھ کر فرش کو سلامی دیتا ڈوپٹہ اٹھایا ، سر پہ لے کر روتی منہ بسورتی نے دروازہ کھولا، جا کر بیڈ کے سامنے لگے ٹو سیٹر صوفے پہ بیٹھ گئی_

احمد صاحب اندر داخل ہوئے اور جا کر ہانیہ کے برابر بیٹھ گئے۔۔۔

ناراض ہو اپنے بابا سے۔۔۔؟

احمد صاحب نے بات شروع کر کے دونوں کے درمیان آئی خاموشی کو توڑا۔۔۔

ہانیہ نے آنسوؤں سے لبالب بھری آنکھوں کو اٹھا کر احمد صاحب کی طرف دیکھا جس میں شکوہ واضح دکھائی دے رہا تھا۔۔۔

احمد صاحب نے نظریں جھکا لی تھیں___

میں جانتا ہوں میرے اس فیصلے سے میری بیٹی کا دل دکھا ہے۔۔۔ مجھے تم پہ پورا بھروسہ ہے کہ میری بیٹی نے کچھ غلط نہیں کیا ہو گا۔ لیکن ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں لڑکی ایک رات باہر گزار کے آ جائے تو معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا اسے جینے نہیں دیتا۔۔۔

تم تو پھر بھی دو دن بعد واپس آئی ہو۔۔۔

مجھے لوگوں کی پرواہ نہیں ہے لیکن تمہاری ہے ، تم کس کس کو جواب دو گی ،،، کس کس کو اپنی بے گناہی کا ثبوت دیتی پھرو گی ،،،کون تم سے شادی کرتا۔۔۔

 بس اسی سب سے تمہیں بچانے کے لیے میں نے یہ فیصلہ لیا ہے۔۔۔ 

اتنی زندگی گزارنے کے بعد مجھے لوگوں کو ایک نظر میں پرکھنے کا تجربہ ہے کہ یہ لڑکا تمہے خوش رکھے گا۔۔۔ 

وہ منع بھی کر سکتا تھا لیکن اس نے نہیں کیا۔۔۔ 

احمد صاحب نے اپنے دل کی سب باتیں سناتے سناتے اسے پیار سے اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔۔۔

احمد صاحب رو رہے تھے تو آنکھیں نم ہانیہ کی بھی تھیں اور باہر کھڑی سکینہ بیگم نے بھی سب سنا آنکھیں ان کی بھی بھر آئیں تھیں____

سکینہ بیگم نے اندر آتے ہی ہانیہ کو پیار سے چپ کروایا اور احمد صاحب کی توجہ باہر لاؤنج میں بیٹھے حسن کی طرف دلوائی جو تب سے وہاں اکیلا بیٹھا تھا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان نیوی بلیو کلر کی شرٹ اور جینز پہنے تیار ہو کر گھر سے نکلا تھا اور اپنی مخصوص منزل کی طرف چل دیا۔۔۔ 

دل عجب لے پر ہی دھڑک رہا تھا آج کا دن اس کے لیے بہت ہی خوشی کا باعث تھا کہ اب وہ اسے اپنے سامنے دیکھے گا اور ملے گا جو کب سے اس کی رگوں میں خون کی گردش بن کر دوڑنے لگی تھی اسے خود بھی پتہ نہیں چلا تھا۔۔۔

عمارہ کے بتانے کے عین مطابق اب وہ فیصل مسجد کے باہر کھڑا تھا کیونکہ اس نے وہیں آنا تھا۔۔۔

مسجد کے اندر جاتے ہی اس نے وہاں سے پہلے وضو کیا اور دو رکعت حاجت کے نفل ادا کیے ، دعا مانگ کر وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور جا کر احاطے کے ایک کونے میں جگہ ڈھونڈ کر اکیلا بیٹھ گیا۔۔۔

ہر طرف آنے جانے والوں کا رش دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ 

عمارہ کے آنے میں ابھی ٹائم تھا تو سفیان موبائل نکال کر اس میں ہینڈ فری لگاۓ کچھ سننے لگ گیا۔۔۔۔

کافی ٹائم گزر گیا اب تک تو اسے آ جانا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں آئی نہ کوئی میسج نہ کال اور یہ تو پہلی دفعہ ہوا تھا ایسا ورنہ وہ اپنے پل پل کی خبر اسے دیتی تھی__

سفیان نے اب کال ملائی تھی اسے ۔۔۔۔ پھر ایک نہیں دو نہیں ان گنت کالیں کی تھیں ، میسجز کیے لیکن بے سود ۔۔۔۔

اس نے نہیں آنا تھا نہ وہ آئی۔۔۔۔

سورج ڈھلنے لگا تھا لیکن سفیان وہیں انتظار کی سولی پہ لٹکا بیٹھا رہا۔۔۔

شام ہو چکی تھی ہلکی ہلکی سردی بھی بڑھ گئی سب اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے اب وہ بھی مایوس سا اٹھ کر گھر کو چل دیا۔۔۔

انتظار سب سے تکلیف دہ عمل ہے پھر چاہے وہ تھوڑی دیر کا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔

سفیان نے بھی آج انتظار کا مزہ چکھا تھا۔۔۔

ابھی تو یہ شروعات تھی_

سفیان گھر پہنچا ہی تھا جب واٹس ایپ پہ ویڈیو کال شو ہوئی تو جلدی سے اسے اٹھاتے کمرے میں جا کر بند ہو گیا ۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

راشدہ بیگم کو ICU سے روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔۔ مائنر سا ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔۔۔ ڈاکٹرز نے ان کی جلدی ریکوری کی خوشخبری سنائی تب کہیں جا کے سب کی جان میں جان آئی تھی___

عمارہ تو راشدہ بیگم کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے بیڈ کے پاس ہی رکھی چئیر پہ بیٹھی روۓ جا رہی تھی_ سمیرا بھی اپنی ماں کا سنتے فوراً بھاگی چلی آئی اور اب اسی روم میں تھوڑی دور بیٹھے عبداللہ کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ تھا کے سو ہی نہیں رہا تھا۔۔۔

تبھی اچانک سمیرا کی گود سے زبردستی اتر کر ننھے ننھے قدم اٹھاتا عمارہ کے پاس پہنچ کر آنی آنی کی گردان کر رہا تھا اور چھوٹے چھوٹے ہاتھ اس کی طرف بڑھا کر اسے خود کو اٹھانے کو کہہ رہا تھا۔۔۔

عمارہ نے اس کو اٹھا کر اپنی گود میں بیٹھایا جب وہ ننھے ننھے ہاتھوں سے اپنی آنی کے آنسوؤں کو صاف کر کے اس کے گال پہ اپنے لب رکھ کر کِس کی اور چپ کروانے میں ہلکان ہو رہا تھا۔۔۔

عمارہ روتے ہوئے بھی ہنس دی تھی اور اس نے بھی فٹا فٹ عبداللہ کو چوم ڈالا۔۔۔ 

وہ ننھا فرشتہ اس کا دھیان بٹانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔۔۔

سمیرا بھی اٹھ کر عمارہ کے پاس چلی آئی تبھی عاقب بھی روم میں داخل ہوا ۔۔۔

عمارہ تم بھی صبح سے ادھر ہو تھک گئی ہو گی عاقب کے ساتھ گھر چلی جاؤ ، چینج بھی کر لینا ، میں ادھر ہی ہوں امی کے پاس_

سمیرا عبداللہ کو عمارہ سے لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔

جی آپی ، پھر عمارہ عاقب کے ساتھ گھر چلی آئی۔۔۔

کمرے میں آتے ہی اسے پہلا خیال سفیان کا آیا کہ وہ اسے بتا ہی نہیں سکی کہ وہ نہیں آ رہی___ 

جلدی سے ڈریسنگ پہ پڑا موبائل اٹھایا جس پہ زویا اور سفیان کی ان گنت مسڈ کالز شو ہو رہی تھی اور ڈھیر سارے میسجز بھی_ 

زویا کو ایک میسج میں سب بتا کر اب وہ سفیان کو کال ملا گئی____

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

احمد صاحب نے لاؤنج میں آتے ہی حسن کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے جنہیں اس نے فوراً کھڑے ہو کر تھام لیا تھا۔۔۔

یہ کیا کر رہے ہیں آپ انکل ، ایسے مت کریں__ 

میں وعدہ کرتا ہوں ہانیہ کو بہت خوش رکھوں گا آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

حسن ان کے کہے بغیر ہی ان کے دل کی بات کو سمجھ چکا تھا ان کو کندھوں سے تھام کر حسن نے صوفے پہ بٹھایا اور خود بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔

ہانیہ اب تمہاری امانت ہے تم جب چاہو اسے لے جا سکتے ہو اس پر تمہارا حق زیادہ ہے اب لیکن میں تم سے ایک ریکویسٹ کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی اسے سمجھنے کے لیے سنبھلنے کے لیے وقت چاہیے تو اسے ابھی یہیں چھوڑ دو۔۔۔

احمد صاحب نے آس بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھا تب حسن نے سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا تھا۔۔۔۔

فی الحال تو وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ ہانیہ ادھر ہی رہے 

گھر جا کر وہ نوین بیگم سے بات کر کے اسے دھوم دھام پوری عزت و مان سے لینے آۓ گا۔۔۔

حسن نے کچھ سوچتے احمد صاحب سے ہانیہ کو ملنے کی اجازت مانگی تھی جس پر احمد صاحب نے سر ہلا کر اجازت دے دی کہ اب تو ہانیہ پر اسکا زیادہ حق تھا۔۔۔

کیسے منٹوں میں حق دار بدل جاتے ہیں نہ جب بیٹی کسی اور کو سونپ دی جاتی ہے۔۔۔ ہانیہ کا بھی حق دار بدل چکا تھا اب۔۔۔۔

حسن احمد صاحب سے پوچھ کر ہانیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے گلا کھنکارا تھا تو سکینہ بیگم اسے دیکھ کر کمرے سے باہر نکل آئیں تاکہ دونوں کھل کر بات کر سکیں۔۔۔

حسن نے ہانیہ کی طرف دیکھا جس نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا۔۔۔ روئی روئی آنکھیں ، ڈوپٹہ شانوں سے ڈھلک کر پیروں میں گرا ہوا تھا۔۔۔ سوگوار سا حسن لیے وہ حسن کو دیکھ کر منہ موڑ گئی ، حسن کے دل کو کچھ ہوا تھا اس کو یوں ناراض دیکھ کر۔۔۔

حسن آ کر اس کے سامنے نیچے بیٹھا اس کے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھا ہی تھا جب ہانیہ نے اس کے سیکنڈ سے پہلے ہاتھ جھٹکے اور اٹھ کر اس سے دور ہو کر چیخی تھی_

دور رہیں مجھ سے خبردار جو میرے پاس آنے کی بھی کوشش کی یہی چاہتے تھے نہ آپ ،،، مل گیا سکون میری زندگی برباد کر کے،،، صرف آپ کی وجہ سے میرے بابا نے مجھ پہ یقین نہیں کیا۔۔۔ 

ہانیہ ہذیانی انداز میں چیختی اس کے گریبان تک آ پہنچی تھی ،، آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اس سے جواب طلب تھی جب کہ وہ آنکھیں جھکا گیا تھا۔۔۔

جائیں آپ یہاں سے مجھے شکل بھی نہیں دیکھنی آپ کی ،،، دور ہو جائیں میری نظروں سے___

ہانیہ اسے دھکے مار کر کمرے سے باہر نکال رہی تھی_ 

ہانیہ میری بات ت۔۔۔۔۔۔

اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ہانیہ نے اس کے منہ پہ دروازہ بند کر دیا تھا اور وہ اندر پھوٹ پھوٹ کے رو دی تھی____

حسن بھی بے بسی سے لب بھینچ کر رہ گیا تھا۔۔۔

وہ تو محبت پا کر بھی جیسے خالی ہاتھ رہ گیا تھا۔۔۔

کچھ لوگ محبت کو پا کر بھی نہیں خوش نہیں ہو پاتے ، جھولی پھر بھی ان کی خالی رہ جاتی ہے۔۔۔

یہ کیسی خوش نصیبی تھی اس کی کہ اس کو پا کر بھی نہیں پایا تھا۔۔۔

وہ واپس مڑنے لگا تھا جب سکینہ بیگم سے اس کی نظریں ٹکرائیں تو آنکھیں پھیرتا وہ وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔

شاید محبت کے مل جانے کے بعد بھی اصل امتحان تو اب شروع ہوا تھا اس کا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

انشاء کو جب سے پتہ چلا تھا کہ حسن اس لڑکی کے ساتھ گیا ہوا ہے تب سے وہ انگاروں پہ لوٹ رہی تھی۔۔۔ ٹونی اس دن کے بعد سے انشاء سے نہیں ملا تھا۔۔۔

اس پہ تو جنون سوار ہو چکا تھا حسن کو پانے کا وہ کسی بھی قیمت پر اسے اپنا بنا کر رہے گی یہ اس نے سوچ لیا تھا۔۔۔۔

تبھی اپنا پرس اور موبائل  اٹھاۓ وہ کچھ سوچ کر باہر اپنی گاڑی تک آئی  اور اس میں بیٹھ  کر زن سے بھگا لے گئی_

گاڑی ایک بنگلے کے سامنے کھڑی کی، ہارن پہ  ہاتھ رکھ کر جیسے اٹھانا ہی بھول گئی تھی وہ ۔۔۔۔

چوکیدار نے جلدی سے دروازہ کھولا تھا اور وہ چوکیدار کو گھورتی گاڑی پورچ تک لے گئی___

چوکیدار بھی اس انجان لڑکی کو دیکھ کر کچھ حیران ہوا تھا۔۔۔

انشاء گاڑی سے اتر کر اندر گئی جہاں سامنے ہی نوین بیگم صوفے پہ بیٹھی چاۓ پی رہی تھیں_

کس سے ملنا ہے بیٹا آپ کو اور کون ہو کہاں سے آئی ہو۔۔۔

نوین بیگم نے اس انجان لڑکی کو دیکھ کر پوچھا جو پنک ٹاپ کے ساتھ بلیک جینز پہنے بڑی بے باکی سے ان کے سامنے صوفے پہ خود ہی آ بیٹھی تھی،،، انہیں اسکا حلیا اور انداز دونوں ہی کچھ خاص پسند نہیں آۓ تھے لیکن پھر بھی اخلاقیات نبھانا ضروری سمجھا۔۔۔

آپ حسن کی والدہ ہیں نہ۔۔۔ آپ مجھے نہیں جانتیں لیکن میں آپ کو بہت اچھے سے جانتی ہوں تو یقیناََ آپ بھی مجھے جانا چاہیے گی کہ میں کون ہوں۔۔۔

تو میں خود آپ کو اپنا تعارف کروا دیتی ہوں۔۔۔

انشاء ٹانگ پہ ٹانگ چڑھاۓ بیٹھی لا پرواہی سے ان سے مخاطب تھی۔۔۔

میں اور حسن ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ،،، حسن نے مجھ سے بہت جلد شادی کا وعدہ بھی کر رکھا ہے ۔۔۔ لیکن وہ آپ کو شاید بتانے سے ہچکچا رہا ہے تو میں نے سوچا اس کی مشکل میں خود ہی حل کر آؤں۔۔

اس لیے میں آپ کو بتانے چلی آئی_ 

امید کرتی ہوں آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔۔

تو اب حسن سے آپ خود بات کر کے جلد ہی بارات لے کر آ جائیے گا،،، چلتی ہوں میں اب۔۔۔

انشاء نوین بیگم کے کانوں میں یہ بم پھوڑ کر یہ جا وہ جا۔۔۔ پیچھے نوین بیگم ہکا بکا سی بیٹھی رہ گئیں___

انہیں حسن پہ بے تحاشا غصہ آ رہا تھا۔۔۔ کیا وہ اس سرپرائز کے بارے میں بات کر رہا تھا۔۔۔

اب انہیں حسن کے واپس آنے کا بے صبری سے انتظار تھا۔۔۔ وہ بھی آج کسی موڈ میں اسے بخشنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھیں_

رات کا پہر تھا جب حسن واپس گھر پہنچا تھا۔۔۔ 

محبت مل جانے کی خوشی ایک طرف لیکن اس کا اعتبار جیتنے کا امتحان ابھی باقی تھا۔۔۔

جیسے ہی اس نے لاؤنج میں قدم رکھا تو ٹھٹک کر رکا۔۔۔ نوین بیگم وہیں صوفے پہ براجمان آنکھوں میں غم و غصہ لیے اس کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔۔۔

کہاں سے آ رہے ہو اس وقت۔۔۔؟ یہ کونسا ٹائم ہے گھر آنے کا۔۔۔

آج پہلی بار نوین بیگم نے اس سے یہ سب پوچھا تھا جس پر حسن کو بھی حیرانگی ہوئی_

کہیں نہیں مام بس کچھ کام تھا اس لیے لیٹ ہو گیا۔۔۔

حسن نے تحمل سے جواب دیا۔۔۔

ایک یہی ہستی تو تھی جس کا احترام وہ خود پہ واجب سمجھتا تھا۔۔۔ اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس کی ماں ہی تو تھی جس نے اس پر شفقت کا سایہ کیے رکھا۔۔۔ 

اپنی زندگی انہوں نے حسن کے نام کر دی تھی_ تو اب وہ کیسے ان سے بدتمیزی کر سکتا تھا یا ان کے آگے اونچی آواز میں بات کر سکتا تھا۔۔۔

حسن تم کسی کو پسند کرتے ہو۔۔۔؟

نوین بیگم اٹھ کر اس کے مقابل آ کر کھڑی ہوئی تھیں۔۔

جی ۔۔۔۔ 

یک لفظی جواب تھا۔۔۔

تو تم اسی سے شادی کرو گے۔۔۔

ایک دفعہ پھر نوین بیگم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔۔۔

یس مام۔۔۔ اب وہ ان کو کیا بتاتا کہ نکاح تو وہ کر بھی آیا ہے بس رخصتی باقی ہے۔۔۔

چٹاخ۔۔۔

نوین بیگم نے اسے ایک زبردست تھپڑ سے نوازا تھا۔۔۔

مجھے نہیں پتہ تھا تمہاری پسند اتنی گھٹیا ہو گی ورنہ میں کبھی بھی تمہیں یہ حق نہ دیتی__ 

میں کل ہی تمہارے لیے لڑکی دیکھ رہی ہوں اور تم اسی سے شادی کرو گے یہ میرا حکم ہے۔۔۔

حسن تو ہکا بکا کھڑا رہ گیا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی ماں کبھی اس پہ ہاتھ بھی اٹھاۓ گی_ 

یہ سوچ اس کے دماغ میں الجھ کر رہ گئی کہ انہیں یہ بات بتائی کس نے اور وہ ہانیہ کو دیکھے بغیر کیسے اسے گھٹیا کہہ سکتی ہیں۔۔۔

غصہ سوا نیزے پہ تھا اس کا لیکن برداشت کر گیا۔۔۔

ان کی جگہ کوئی اور یہ کہتا ہانیہ کے بارے میں تو وہ اس کا ایسا حشر کرتا کہ اس کی سات نسلیں بھی یاد رکھتیں۔۔۔۔

مام میری بات تو۔۔۔۔۔

مجھے کچھ نہیں سننا ۔۔۔ 

حسن کی بات پوری سنے بغیر ہی وہ اسے چپ کروا کر اپنے کمرے میں چلی گئیں___

حسن نے غصے سے سامنے پڑے کانچ کے ٹیبل کو لات ماری جس کی وجہ سے شیشہ چکنا چور ہو کر پورے لاؤنج میں دور دور تک بکھر گیا اور حسن بھی اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔

ضبط کھونے کی اذیت کو کہاں سمجھو گے 

چھپ کے رونے کی اذیت کو کہاں سمجھو گے

جس جگہ خواب اگانے تھے ، وہاں آنکھوں میں

درد بونے کی اذیت کو کہاں سمجھو گے

جس کو رعنائی تلک گھر میں رکھا جاتا ہو

اس کھلونے کی اذیت کو کہاں سمجھو گے

گھر کے دالان ! سدا وسعتیں آباد کہ تم

ایک کونے کی اذیت کو کہاں سمجھو گے

سینکڑوں لوگ میسر ہیں رفاقت کے لیے

تم "نہ ہونے" کی اذیت کو کہاں سمجھو گے

پھر حسن کے عتاب سے اس کا خود کا کمرہ بھی نہیں بچا تھا جو اس کے ہاتھ میں آیا اٹھا اٹھا کر پھینکا تھا۔۔۔

سگریٹ اور لائٹر اٹھا کر اب وہ بالکونی میں آ کر کھڑا ہو گیا ساری رات خود کی جان کو سگریٹ کے دھویں میں جھونکتا رہا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سکینہ بیگم ہانیہ کے کمرے میں داخل ہوئیں جب انہوں نے دیکھا کہ ہانیہ نیچے ٹھنڈے فرش پہ بیٹھی یونہی سو رہی تھی۔۔۔

زرد چہرہ ، بکھرے بال ، آنکھیں کے پپوٹے سوجے ہوۓ یہ ان کی ہانیہ تو نہیں تھی_ ان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔

انہوں نے تو کبھی اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیے تھے اس کے ایک دفعہ کہنے پر اس کی ہر حسرت پوری کر دی جاتی تھی۔۔۔

آج یوں ہانیہ کو بکھرے دیکھ ان کی آنکھوں سے سیل رواں ہوا تھا۔۔۔

سچ کہتے ہیں ماں سے زیادہ کوئی اس کی اولاد کو پیار نہیں کر سکتا۔۔۔

سکینہ بیگم نے فرش پر بیٹھتے اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا ،،، اس کے بال سنوارے اور پیار سے اس کو آواز دی۔۔۔

ہانیہ بیٹا اٹھ جاؤ یہاں کہاں سو رہی ہو میری جان ،، کچھ کھایا بھی نہیں ہے تم نے چلو شاباش اٹھ کر بیڈ پہ چلو میں تمہارے لیے کھانا لاتی ہوں وہ کھا لو پھر ریسٹ کرنا۔۔۔

ہانیہ جو اپنی ماں کا لمس محسوس کرتے ہی اٹھ گئی تھی یونہی آنکھیں موندے وہ سکون سے لیٹی ان کی باتیں سن رہی تھی جب تھوڑا سا کسمسا کر اپنے بازو ان کے گرد لپیٹ کر وہیں لیٹی رہی_ 

سکینہ بیگم نے بھی اس کو اپنے حصار میں لے کر اس کا منہ چوما۔۔۔

سکینہ بیگم نے اسے اٹھا کر بیڈ پہ بیٹھایا اور سائیڈ ٹیبل پہ پڑے جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر ہانیہ کو پلایا جسے اس نے بلاتردد پی لیا۔۔۔

میں کھانا لے کر آتی ہوں سکینہ بیگم یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئیں___ 

ہانیہ کے ذہن میں آج کا سارا واقعہ گھوما تھا۔۔۔ ایک دن میں اس کی اتنی زندگی بدل جاۓ گی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔۔۔

میں اس کی زندگی میں ان چاہی محبت بن کے نہیں رہنا چاہتی ،،، وہ اس لڑکی سے محبت کرتا ہو گا جو اس دن اس کے ساتھ تھی،،، ہاں میں اس سے طلاق لے لوں گی ، یہی سہی رہے گا میں اس سے طلاق لے لوں گی ، مجھے نہیں رہنا اس کے ساتھ۔۔۔

ہانیہ نے اب یہی سوچ کر خود کو تسلی دے لی تب تک سکینہ بیگم بھی کھانا گرم کر کے لے آئیں ،،، دو چار نوالے زہر مار کر کے کمفرٹ اوڑھے وہ سو گئی___

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان عمارہ سے بات کر رہا تھا جب احمد اپنی نوٹس بک اور باقی چیزیں اٹھاۓ آ کر دھپ سے اس کے پاس بیڈ پہ  بیٹھا تھا۔۔۔ 

سفیان نے گڑبڑا کر کال بند کی اور احمد کو گھوری سے نوازا جبکہ احمد نے آگے سے بتیسی دکھائی تھی__ 

کیا کام ہے۔۔۔؟ سفیان نے آئبرو اچکاۓ پوچھا۔۔۔

وہ بھائی کل میرا میتھ کا ٹیسٹ ہے تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی کچھ۔۔۔

احمد نے بیچاری سی شکل بنا کر اسے اپنا مسئلہ بیان کیا۔۔۔

سفیان بھی اٹھ کر بیٹھا اور اب موبائل کو سائیڈ پہ رکھے اپنی پوری توجہ نوٹ بک پہ مرکوز کیے اسے سمجھا رہا تھا۔۔۔

احمد بری بری سی شکلیں بناۓ اسے سمجھنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔۔۔

بلآخر اسے سمجھ آ ہی گئی جس پر دونوں نے ہی شکر کا کلمہ پڑھا تھا۔۔۔

کیا۔۔۔۔؟

احمد جو پتہ نہیں پھر سے کچھ یاد کرنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا سفیان نے چڑ کر پوچھا۔۔۔۔

بھائی میں سوچ رہا ہوں آپ شادی کب کریں گے ۔۔۔۔؟

سفیان اس کی سوچ پر عش عش کر اٹھا۔۔۔۔

اور یہ سوچ تمہے آئی کیسے۔۔۔۔ سفیان نے اس کے سر پہ چپت لگائی اور سیدھا لیٹ گیا۔۔۔

بھائی گھر خالی خالی سا لگتا ہے نہ بھابھی آ جائیں گی تو امی کی بھی ہیلپ ہو جاۓ گی اور رونق بھی لگ جاۓ گی۔۔۔

تو آپ نہ ارشا سے شادی کر لیں۔۔۔۔

سفیان جہاں اس کی پہلی بات پہ خوش ہوا لیکن اسی لمحے اس کا ارشا کا نام سن کے حلق تک کڑوا ہو گیا۔۔۔

یہ فضول سوچیں تم اپنے تک رکھو اور نکلو میرے کمرے سے ابھی کے ابھی۔۔۔

سفیان نے اسے جھڑکا۔۔۔

تبھی احمد اسے منہ چڑا کر وہاں سے بھاگ نکلا۔۔۔

سفیان بھی اب سوچ رہا تھا کہ وہ گھر والوں کو بتاۓ گا کیسے۔۔۔۔ اسے پہلے عمارہ سے ملنا تھا لیکن وہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی تبھی اس نے یہ بات عمارہ سے ڈسکس کرنے کا سوچا۔۔۔

سفیان نے دوبارہ کال ملائی لیکن وہ شاید سو چکی تھی تبھی کال پک نہ ہوئی __ 

صبح ہر حال میں وہ یہ بات کرنے کا سوچ کر نیند کی وادی میں اتر گیا تھا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عمارہ سفیان سے بات کر رہی تھی جب اچانک کال بند ہو گئی تھی تو اس نے موبائل کو گھورا جیسے سامنے سفیان ہو ،،، غصے میں موبائل بیڈ پہ پٹکا تھا۔۔۔۔

پھر اسے یاد آیا کہ عشاء کی نماز تو اس نے پڑھی ہی نہیں تبھی جلدی سے اٹھ کر وضو کیا اور جاۓ نماز پہ کھڑی نیت باندھ گئی___

آدھے گھنٹے بعد نماز سے فارغ ہو کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ جب اس شخص کا بھی خیال آیا۔۔۔۔

معلوم نہیں وہ میرے لیے کیا ہے ۔۔۔

اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت

یا پھر قبولیت کی گھڑی میں مانگی گئی کسی دعا کا حاصل

یا پھر ۔۔۔

اس زندگی میں کی گئی کسی نیکی کا صلہ ،،،،

لیکن جو بھی ہے اس کے ہونے کا احساس ہی خوبصورت ہے کیونکہ اس کے ہونے سے میری دنیا خوبصورت ہو گئی ہے۔۔۔

عمارہ نے اس کے حق میں دعا کر کے جاۓ نماز سمیٹی  اور پھر ایک نظر موبائل کو دیکھا لیکن سفیان کی کوئی کال کوئی میسج نہیں تھا۔۔۔

پھر سارا دن کی تھکان سے آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھیں تبھی اسے پتہ ہی نہیں چلا وہ کب سو گئی___

صبح آنکھ کھلی تو ٹائم دیکھا بہت کم وقت بچا تھا یونی کے لیے۔۔۔ جلدی سے اٹھ کر تیار ہوئی تھی ابھی اسے زویا کو بھی منانا تھا جو اس کے ٹرپ پہ ناجانے کی وجہ سے ناراض تھی___

وہ یونی پہنچ کر اپنی کلاس میں آئی جہاں زویا منہ بنا کر بیٹھی تھی_ کلاس شروع ہونے میں ابھی ٹائم تھا تو اس نے سوچا کیوں نہ اب یہ محاز بھی سر انجام دے لیا جائے۔۔۔ 

عمارہ نے زویا کے سامنے آتے کانوں کو ہاتھ لگاتے سوری بولا جس پر اس نے منہ پھلا کر دوسری طرف کر لیا۔۔۔

عمارہ نے زویا کی بازو پکڑے اسے اپنی طرف گھمایا اور نہ آنے کی ساتھ وجہ بھی بتائی ،، بتاتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں تو زویا نے اسے گلے لگا کر تسلی دی اور مان بھی گئی_

تبھی ان کے سر کلاس روم میں داخل ہوئے اور پڑھانا شروع کر دیا۔۔۔

کچھ عرصے بعد۔۔۔

حسن نے نوین بیگم کو ہانیہ کے بارے میں سب بتا دیا اور یہ بھی کہ میں نے نکاح بھی کر لیا کیسے کیا یہ آدھا سچ آدھا جھوٹ بتا کر ان کو مطمئن کیا اور انہیں منا کر ہی دم لیا تھا۔۔۔

نوین بیگم نے اس شرط پہ ناراضگی ختم کی تھی کہ وہ پہلے ہانیہ سے ملیں گی اگر انہیں اچھی لگی ہانیہ تب ہی رخصتی ہو گی__

حسن نے بھی ہامی بھر لی وہ جانتا تھا ہانیہ ان کو ضرور پسند آئے گی_ یہ ٹینشن تو ختم ہو گئی تھی اس کی_ نوین بیگم سے وہ بہت پیار کرتا تھا تبھی ان کی ناراضگی زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔

حسن ان کے پاس سے اٹھتے اب باہر آیا گیٹ پہ چوکیدار کو کھڑے دیکھ اس کی طرف بڑھا۔۔۔

چوکیدار سے معلومات کرنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ گھر پہ انشاء آئی تھی_ تبھی آج اس نے انشاء کو ہوٹل بلایا تھا ملنے کے لیے جبکہ انشاء نے آنے والے طوفان سے بے خبر ہامی بھر لی_ 

وہ اتنے میں ہی خوش ہو گئی کہ اتنے ٹائم بعد حسن نے اسے خود فون کر کے بلایا ہے تبھی چہکتی ہوئی وہ ہوٹل پہنچی کہ آج وہ پھر سے سب غصہ ناراضگی بھلاۓ اس سے اپنی محبت کا اظہار کرے گی___

انشاء ہوٹل میں داخل ہوئی جب سامنے ہی ٹیبل پہ وہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھاۓ سگریٹ منہ میں دباۓ  سفید شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ پہنے مغرور سا شہزادہ لگ رہا تھا۔۔۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اس کے پاس پہنچی ، پرس اپنا ٹیبل پہ رکھا اور حسن کے بالکل سامنے بیٹھ گئی_ حسن نے اس کی طرف دیکھتے سگریٹ منہ سے نکال کر اس کی طرف دھواں اڑا کر سیگریٹ دوبارہ منہ میں دبا لی_ 

حسن میں تمہے بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں آج ، فائنلی تم اس مصیبت کو چھوڑ آۓ ، پتہ نہیں کہاں سے آ گئی تھی ہمارے درمیان وہ منہوس۔۔۔۔

انشاء اپنی ہی ہانکے جا رہی تھی جب حسن کی دھاڑ سے اس کا سانس خشک ہوا تھا۔۔۔

انف۔۔۔ بہت سن لی تمہاری بکواس اب میری بات سنو ۔۔۔

وہ مسز حسن عالم ہے خبردار آئندہ اس کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے گدی سے زبان کھینچ لوں گا میں تمہاری۔۔۔

حسن نے سیگریٹ کو ایش ٹرے میں مسل کر غصے سے اٹھتے دونوں بازؤں کو ٹیبل پہ جماۓ اس کی آنکھوں میں دیکھتے یہ سب بولا جو ضبط کے باوجود سرخ انگارہ بن گئی تھیں_ 

پھر آگے بڑھتے اس نے پیچھے سے اس کے بالوں کو زور سے جکڑا اور اس کا منہ دبوچ کر اپنے بالکل سامنے کیا۔۔۔

آج کے بعد میرے گھر آنے کی کوشش بھی مت کرنا اور میری فیملی میرا سب کچھ ہے ان کے آس پاس بھی نظر آئی تو جان لے لوں گا تمہاری ، شکل مت دیکھانا مجھے اب اپنی اور یہ خوش فہمی اپنے ذہن سے نکال دو کہ میں کبھی تمہارا ہو سکتا ہوں۔۔۔

میں آج بھی ہانیہ کا ہوں اور کل بھی اسی کا رہوں گا کوئی طاقت مجھے اس سے الگ نہیں کر سکتی۔۔۔

سمجھی تم۔۔۔ حسن اسے زور سے پیچھے کو جھٹکا دیتا وہاں سے باہر نکل گیا کیونکہ اگر وہ اب اس کے سامنے دو سیکنڈ بھی رکتا تو ناجانے کیا کر گزرتا۔۔۔۔

انشاء کے تکلیف کی شدت سے آنکھوں میں آنسو بھر آۓ لیکن ہونٹوں پہ زخمی سی مسکراہٹ سجاۓ وہ ہنس دی تھی اور پھر وہ اتنا ہنسی تھی پاگلوں کی طرح کہ پورا ہوٹل اس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ہانیہ اتنے دنوں سے گھر میں بند پڑی تھی دل ہر چیز سے اچاٹ ہوا پڑا تھا نہ ٹھیک سے کچھ کھاتی پیتی اور نہ ہی کسی سے بات کرتی تھی_ سکینہ بیگم تو سمجھا سمجھا تھک گئیں تھیں لیکن انہوں نے بھی اسے اب اس کے حال پہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔

اب بھی وہ ونڈو کے پاس بیٹھی بظاہر تو باہر ہوتی بوندا باندی دیکھ رہی تھی سردی کی پہلی بارش ہو رہی تھی لیکن وہ ہر چیز سے بیزار پتہ نہیں کن خیالوں میں گم تھی کہ اسے سکینہ بیگم کے آنے کا بھی پتہ نہیں چلا۔۔۔

ہانیہ بس کر دو اب کس چیز کا سوگ منا رہی ہو جو ختم نہیں ہو رہا تمہارا کیسے کمرہ بکھرا پڑا ہے یہی قسمت میں لکھا تھا اب اسے قبول کر لو پھر ہی زندگی آسان ہو گی میں تمہاری ماں ہوں تمہے اس حال میں نہیں دیکھ سکتی میں۔۔۔

سکینہ بیگم نے کمرے میں آتے اس کے بیڈ پہ بکھرا سامان سمیٹا اور اس کے پاس آ کر بیٹھی تھیں جب ہانیہ نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔۔۔

چلو اٹھو کمرے سے باہر نکلو تمہیں بارش میں پکوڑے کھانا بہت پسند ہیں نہ میں نے بناۓ ہیں چلو مل کر کھاتے ہیں تمہارے بابا بھی تمہارا پوچھ رہے ہیں_ 

سکینہ بیگم نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور کھینچتی باہر لے کر چل دیں__

لاؤنج میں احمد صاحب بیٹھے چاۓ پی رہے تھے سامنے ٹیبل پہ پکوڑوں سے بھری پلیٹ رکھی ہوئی تھی  سکینہ بیگم نے اسے لا کر صوفے پہ بٹھایا اور پکوڑوں کی پلیٹ اس کے سامنے رکھی_

پکوڑے دیکھ کر اس کا موڈ خوشگوار ہو گیا تھا پھر وہ سب بھولے کھانے میں مصروف ہو گئی چاۓ پی کر وہ اٹھنے لگی تھی جب احمد صاحب کی آواز پر رکی ۔۔۔

ہانیہ صبح تم یونی جا رہی ہو تیار رہنا میں دفتر جاتے ہوئے تمہے چھوڑ دوں گا اب کوئی بہانہ نہیں سنوں گا میں تمہارا۔۔۔

احمد صاحب نے چاۓ کا خالی کپ میز پہ رکھتے ہانیہ کو مخاطب کیا تھا۔۔۔۔

ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور چلی گئی_ 

اگلی صبح وہ تیار ہو کر یونی پہنچ گئی تھی ادھر ادھر نظریں دوڑانے پر بینچ پہ بیٹھی رانیہ اسے نظر آئی تو وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کی طرف بڑھی_ 

ہانیہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی جب رانیہ اسے ایک نظر دیکھ کر چیخ مار کر کھڑی ہوئی اور آنکھیں پٹ پٹا کر اسے دیکھا پھر خوشی سے اس کے گلے لگی تھی_ 

ہانیہ تم کب آئی ، کیسے آئی ، تمہیں میں نے بہت مس کیا مجھے تو لگا تھا تمہے کھو دیا ہے میں نے__ 

رانیہ خوشی  سے چہکتی اس کے گلے لگی اور اس کی آنکھیں بھر آئیں_ 

ہانیہ بھی اتنے دنوں بعد اس سے مل کر اب اچھا محسوس کر رہی تھی_

رانیہ نے اسے اپنے پاس بیٹھایا اور اس سے سب پوچھا۔۔۔

ہانیہ جیسے جیسے بتاتی گئی رانیہ کے تاثرات بھی بدلتے جا رہے تھے۔۔۔ اسے دکھ تھا کہ اس کے ایک مزاق نے اس کی دوست کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔۔۔

پھر اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے رانیہ نے ہلکی پھلکی کسی اور ٹاپک پہ گفتگو سٹارٹ کر دی۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

امی ادھر آئیں بیٹھیں میرے پاس مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ،،، سفیان نے ہچکچاتے ہوئے پروین بیگم کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر بات شروع کی تھی۔۔۔

اس وقت وہ پروین بیگم کے کمرے میں بات کرنے کی غرض سے آ کر بیٹھا ،،، احمد کالج گیا ہوا تھا جبکہ اکرام الحق اپنی ڈیوٹی پہ گئے ہوئے تھے۔۔۔

سفیان اپنی ماں کے ہی زیادہ نزدیک تھا اسی لیے اس نے ان سے بات کرنے کا سوچا تھا۔۔۔ 

کیا بات ہے سفیان پہلے تو تم نے بات کرنے کے لیے کبھی اتنی تہمید نہیں باندھی آج ایسی کونسی بات ہے جو تم سوچ رہے ہو۔۔۔

پروین بیگم نے اس کو گہری نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔

امی مجھے ایک لڑکی پسند ہے بہت اچھی ہے وہ مجھے اسی سے شادی کرنی ہے یقیناََ  آپ کو بھی وہ پسند آۓ گی ،،، ابو سے بات آپ کریں گی۔۔۔ 

سفیان نے ایک ہی سانس میں آنکھیں بند کیے سب کہہ ڈالا تھا پھر آہستہ آہستہ ایک آنکھ کھولے ان کے تاثرات جانچنے چاہے تھے جبکہ پروین بیگم تو ہکا بکا سی اسے دیکھ رہی تھیں انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ بات سفیان کر رہا ہے۔۔۔

انہوں نے ہمیشہ سے یہی دیکھا تھا کہ وہ تو لڑکیوں سے دور بھاگتا ہے ،،، ارشا سے اس کی چڑ سے بھی واقف تھیں انہیں اچھے سے یاد تھا کہ وہ کبھی بھی وہاں نہیں بیٹھتا تھا جہاں اس کی کزنز بیٹھی ہوتی تھیں۔۔۔

پہلے تو انہوں نے سفیان کو گھورا تھا لیکن پھر مسکرا دیں کہ ٹھیک ہے مجھے لڑکی کی تصویر دیکھاؤ پھر میں تمہارے بابا سے بات کروں گی_ 

سفیان کی اٹکی سانس بحال ہوئی تھی اور خوش ہو گیا تھا۔۔۔

امی۔۔۔ ایک بات اور بتانی تھی سفیان نے سر کھجاتے پھر ان کو مخاطب کیا۔۔۔

وہ میں کل عمارہ سے ملنے فیصل آباد جا رہا ہوں آپ پلیز بابا کو سنبھال لیجیے گا اور میرے آنے کے بعد ہی ان سے بات کیجیے گا۔۔۔

پروین بیگم نے اس کے کان کو پکڑ کر مروڑا ، اچھا تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے۔۔۔۔

آہہہہہہہ امی۔۔۔۔ کان تو چھوڑیں میرا ، سفیان نے اپنا کان چھڑوانے کی کوشش کی تھی___ 

اوکے میں زرا مال  جا رہا ہوں آپ کی بہو کے لیے شاپنگ کرنے۔۔۔ سفیان بیڈ سے چھلانگ لگا کر اترا اور کمرے سے باہر بھاگا تھا۔۔۔ پیچھے پروین بیگم اس کی خوشی دیکھ مسکرا دیں___ 

سفیان شاپنگ مال پہنچ کر ایک دوکان پہ رکا جہاں اسے ایک ویلویٹ کی شال جس پہ تلے کا کام ہوا تھا عمارہ کے لیے بہت پسند آئی تھی_ اس نے وہی خریدی_ 

عزتوں والے ہی عزت تحفے میں دیتے ہیں اپنی محبت کا سر ڈھانپتے ہیں ان کے سروں سے چادر کھینچتے نہیں ہیں

 ہر محبت کرنے والا شخص بدکردار نہیں ہوتا کچھ سچی محبت بھی کرتے ہیں اور مرتے دم تک نبھاتے بھی ہیں۔۔

شال خریدنے کے بعد اس نے ایک پنک کلر میں ٹیڈی بئیر خریدا جو اسے بہت کیوٹ لگا بالکل عمارہ کی طرح ، اسے لگا یہ عمارہ کے پاس ہی ہونا چاہیے۔۔۔ پھر ایک واچ خریدی کہ وہ جب جب اپنے ہاتھ پہ بندھی گھڑی میں وقت دیکھے گی اسے ہمارا ساتھ گزرا وقت یاد آئے گا۔۔۔

شاپنگ کرتے کرتے وقت کافی گزر گیا تھا اندھیرا بڑھنے لگا تھا اسے اکرام الحق کے آنے سے پہلے گھر واپس پہنچنا تھا اس لیے جلدی جلدی اب اس نے واپسی کی راہ لی تھی ،،،، گھر پہنچ کر سب سے پہلے کمرے میں ان چیزوں کو چھپا کر سکون کا سانس لیا تھا۔۔۔ 

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ہر طرف شوروغل تھا عجیب سی سمیل پورے بار کلب میں پھیلی ہوئی تھی ڈانس فلور پہ اوباش لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ ناچنے میں مگن تھے اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے بہت الگ تھی ،،، ایسے میں کاؤنٹر کے پاس رکھی چئیر پہ بیٹھی انشاء حرام مشروب کو غٹا غٹ پیے جا رہی تھی۔۔۔۔

ایک اور۔۔۔

اس نے گلاس کاؤنٹر پہ رکھتے ویٹر کو اشارہ کیا تھا۔۔۔۔

اتنی پینے کے بعد بھی وہ کچھ ہوش میں تھی اسے حسن کے بولے گئے الفاظ بھول ہی نہیں رہے تھے۔۔۔

مسز حسن عالم مائی فٹ۔۔۔۔ 

تم صرف میرے ہو کوئی تمہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا کوئی نہیں۔۔۔

انشاء نے گلاس اٹھا کر فرش پہ پھینکا اور بالوں کو زور سے ہاتھوں میں جکڑے چیخی تھی۔۔۔

وہاں سے اٹھ کر وہ باہر نکلی اور لڑکھراتے ہوئے سڑک کے ایک طرف چلنے لگ گئی جب موٹر سائیکل پہ آنے والے دو لڑکوں نے اسے چھیڑا۔۔۔

کہاں چلی میری بلبل ۔۔۔۔ آؤ ہم چھوڑ آئیں جہاں جانا ہے تم نے۔۔۔

ایک لڑکے نے بائیک سے اتر کر اس کے گلے میں ڈالے ہوئے مفلر کو کھینچ کر دور پھینکا اور ساتھ ہی اپنے اپنے دوسرے ساتھی کو آنکھ ونک کی۔۔۔

اس سے پہلے وہ اس کو ٹچ کرتا منہ پہ پڑنے والے مکے سے دور جا گرا تھا۔۔۔ پھر اس کے منہ پہ پڑنے والے پہ در پہ مکے سے وہ نیم جان ہو کر گرا تھا جبکہ دوسرا وہاں سے دم دبا کر بھاگ گیا تھا۔۔۔

مفلر اٹھا کر اس شخص نے انشاء کے گلے میں ڈالا جب انشاء نے جھولتے ہوئے بند ہوتی آنکھوں سے اس شخص کو دیکھنا تھا۔۔۔۔

ٹ۔۔۔ٹو۔۔۔ٹونی تم۔۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ اس کی باہوں میں جھول گئی۔۔۔ ٹونی نے اسے پکڑ کر بازوؤں میں اٹھا لیا۔۔۔

اس کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر گرے تھے۔۔۔

ٹونی بھی بار کلب میں بیٹھا تھا جب اس نے انشاء کو باہر نکلتے دیکھا تو فاصلہ رکھتےاس کے پیچھے آیا تھا۔۔۔ لیکن دو لڑکوں کو اسے تنگ کرتا دیکھ برداشت نہ ہوا تبھی آگے بڑھ کر ان کی درگت بنائی۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عمارہ اور زویا کینٹین میں بیٹھی اپنے دے گئی آرڈر کا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔ عمارہ کو بیٹھے بیٹھے سفیان سے رات کو کی گئی بات یاد آئی جب دونوں نے ملنے کا ڈیسائیڈ کیا تھا۔۔۔

کن خیالوں میں کھو گئی میڈم۔۔۔۔

زویا نے اس کے آگے چٹکی بجا کر اسے ہوش دلائی اور اس کی توجہ سامنے پڑے برگر پہ دلائی۔۔۔

یہ کب آیا۔۔۔؟

عمارہ نے سیدھے ہو کر بیٹھتے زویا سے پوچھا۔۔۔

جب تم اپنے پیا من بھایا میرے جیجا جی کے خیالوں میں گم تھی۔۔۔

زویا شرارت سے بولی۔۔۔۔

عمارہ اس وقت کو پچھتا رہی تھی جب اس نے زویا کو سفیان کے بارے میں بتایا تھا تب سے زویا نے اسے چھیڑ چھیڑ کے جینا حرام کر دیا تھا۔۔۔۔

اچھا بابا معاف کردو اب کچھ نہیں کہتی تمہارے سیاں جی کو ۔۔۔

عمارہ نے اسے آنکھیں دکھائیں جس پر زویا کی معافی مانگتے پھر زبان پھسلی تھی___ 

عمارہ نے غصے میں اپنے آس پاس دیکھا تو اور کچھ تو نظر نہیں آیا اپنا بیگ اٹھا کر اس کی طرف پھینکا جو زویا نے بروقت کیچ کر لیا تھا۔۔۔۔

اوکے اوکے اب کچھ نہیں بولتی۔۔۔

 سوری سوری برگر کھاؤ تم میری انار کلی ورنہ تمہارے شہزادہ سلیم کہیں گے کہ تمہے کچھ کھانے کو نہیں دیتی میں۔۔۔

عمارہ نے نفی میں سر ہلایا تھا کہ اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ ابھی تو شکر اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ سفیان اس سے ملنے آ رہا ہے ورنہ ناجانے زویا اس کا کیا حال کرتی_ تصور کرتے ہی اس نے جھرجھری لی تھی___ 

عمارہ مین گیٹ پہ کب سے کھڑی ہر طرف نظر دوڑا رہی تھی جب تھوڑی دور کھڑے عاقب نے ہاتھ ہلا کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا جو آج رش ہونے کی وجہ سے آگے نہیں آ سکا تھا۔۔۔

عمارہ رش سے گزرتے ہوئے عاقب کی طرف جا رہی تھی جب گاڑی نے اچانک سے آ کر اسے ٹکر ماری تھی___ 

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

احسان الحق ( سفیان کے چچا ) باہر سے آ کر صوفے پر  بیٹھے جب ارشا فوراً پانی لے کر آئی تھی۔۔۔۔

انہوں نے پانی پیا اور گلاس اسے تھما دیا۔۔۔۔

لیکن اسے وہاں سے نہ ہلتے دیکھ انہوں نے ارشا کی طرف دیکھا۔۔۔۔

کوئی بات ہے کیا ، کچھ کہنا ہے۔۔۔؟

احسان الحق نے سیدھے ہو کر بیٹھتے اس سے پوچھا۔۔۔

جی بابا وہ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔

ارشا نے آنکھیں جھکاۓ ان سے کہا تھا۔۔۔۔

کیا مطلب پڑھ تو رہی ہو اور کیسے پڑھنا۔۔۔

احسان الحق کی سمجھ میں نہیں آئی تھی بات تبھی دوبارہ پوچھا۔۔۔۔

وہ بابا میں اسلام آباد کی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتی ہوں ،،، ارشا نے گلاس سامنے ٹیبل پہ رکھ کر ان کے پاس نیچے بیٹھتے کہا۔۔۔۔

اسے امید تھی کہ اس کے بابا اس کی مان لیں گے۔۔۔

احسان الحق کچھ دیر تو خاموش رہے پھر بولے تھے۔۔۔

نہیں ، جو بھی پڑھنا ہے یہیں رہ کر پڑھو۔۔۔ آج کل کے حالات سے تم ناواقف ہو بیٹی ہو تم میری اور تمہارے معاملے میں کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا میں۔۔۔

احسان الحق نے اسے پیار سے سمجھایا تھا۔۔۔

بابا میں تائی جان کے پا۔۔۔۔

بسسس۔۔۔ کچھ نہیں سننا مجھے جو بھی پڑھنا یہیں رہ کر پڑھو گی تم ،،، احسان الحق اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلے گئے جب ارشا بھی غصے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی اور اپنا سارا غصہ کمرے کی بے جان چیزوں پہ نکالا تھا اور اوندھے منہ بیڈ پہ گر کر رو دی۔۔۔

دن چڑھا سورج نے اپنا مکھڑا دیکھایا چڑیوں کی چہکار نے الگ سر بکھیرے تھے رات ہوئی بارش نے موسم کو اچھا خاصا خوشگوار بنا دیا تھا۔۔۔۔

ایسے میں سفیان پروین بیگم کو بتاۓ ساری رات کا سفر کیے صبح صبح عمارہ سے ملنے فیصل آباد پہنچ چکا تھا۔۔۔ اب وہ یونیورسٹی کے باہر بلیو شرٹ بلیک جینز ، ایک ہاتھ میں موبائل پکڑے دوسرا جینز کی جیب میں ہاتھ ڈالے بیگ کندھے پہ لٹکاۓ اس کے انتظار میں کھڑا ایک ایک سیکنڈ گن رہا تھا۔۔۔

انتظار کا ایک ایک پل اس کے لیے کسی صدی سے کم نہیں تھا۔۔۔ 

اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا جب وہ گاؤن پہنے مہرون کلر کے ڈوپٹے کا حجاب بنائے سہج سہج کر چلتی اس کے قریب آ رہی تھی۔۔۔

عمارہ کو ایک نظر میں ہی دیکھتے سفیان کا دل کانوں میں بجا ۔۔۔ عمارہ جیسے جیسے اس کے قریب آ رہی تھی سفیان کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہو گئیں پلکیں جنبش کرنے سے انکاری ہو گئی تھیں وہ ہر چیز بھولے بس اسے نہارنے میں مصروف تھا جب عمارہ نے قریب آتے اس کی بازو پہ چٹکی کاٹی۔۔۔۔

آہہہہہہہ۔۔۔ موٹی 

سفیان کے منہ سے آہ نکلی جب عمارہ منہ پہ ہاتھ رکھے ہنس دی۔۔۔ 

وہاں سے وہ دونوں نکل کر ایک پارک میں آ کر بیٹھے جہاں اتنا شور نہیں تھا ہر طرف سکون کی ایک لہر تھی۔۔

عمارہ تو پھر بھی تھوڑا نارمل بیہیو کر رہی تھی اس کے برعکس سفیان کنفیوز دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔

کیا بات ہے کدو کیوں گھور رہے ہو۔۔۔۔

عمارہ اس کے یک ٹک دیکھنے پر شرارت سے بولی۔۔۔

سفیان نے برا مانتے نظریں گھمائیں جب عمارہ کے دل کو کچھ ہوا تبھی جلدی سے اس کا منہ پکڑ کر اپنی طرف کیا۔۔۔

تمہاری ہی ہوں جتنا مرضی دیکھو مجھے میں تو بس مذاق کر رہی تھی۔۔۔

اس کے نرم و ملائم ہاتھوں کا لمس اپنے چہرے پہ محسوس کر کے دل الگ لے پہ دھڑکا تھا۔۔۔

اور پھر سے تمہارے لمس کی تازگی

میری رگوں میں سرائیت کر رہی ہے

کہاں گم ہو جاتے ہیں آپ جناب۔۔۔

عمارہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔۔۔

کہیں نہیں چھوڑو تم یہ دیکھو۔۔۔

سفیان نے سر جھٹکتے بیگ سے اس کے لیے کی گئی شاپنگ نکالی۔۔۔

اپنی آنکھیں بند کرو جلدی سے۔۔۔

سفیان نے نیا حکم صادر کیا جس پہ عمارہ نے آنکھیں پھیلا کر اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورا۔۔۔۔

ہاۓ۔۔۔ میں تو ڈر گیا۔۔۔ اور آنکھیں بڑی کرنے کو نہیں بند کرنے کو بولا میں نے موٹی۔۔۔۔

میں کہاں سے موٹی لگتی ہوں تمہیں کدو۔۔۔

عمارہ نے مصنوعی گھوری سے نواز کر  ہاتھ کا پنچ بنا کر اس کے کندھے پہ مارا۔۔۔

وہ بعد میں بتاؤں گا چلو شاباش جلدی سے آنکھیں بند کرو اپنی۔۔۔ سفیان نے اس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر انہیں بند کیا۔۔۔

پھر اس نے بلیک ویلویٹ کی شال نکال کر اسے پہنائی تھی۔۔۔ اب اپنی آنکھیں کھولو۔۔۔۔

آج سے تم میری عزت ہو اور میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں ہمیشہ اتنی ہی عزت دوں گا جتنی تم ڈیزرو کرتی ہو۔۔۔

سفیان کی اتنی محبت پر عمارہ کی آنکھیں نم ہوئی تھیں اس نے پیار سے شال پہ ہاتھ پھیرا ،،، اسے بہت پسند آئی تھی شال۔۔۔ 

تھینکیو سو مچ سفیان تم بہت اچھے ہو کدو۔۔۔

عمارہ نے نم آنکھوں سمیت اس کی طرف دیکھا۔۔۔

 پھر سفیان نے عمارہ کو واچ اور ٹیڈی بئیر تھمایا۔۔۔

تمہے پتہ ہے میں نے یہ گھڑی تمہیں کیوں گفٹ کی۔۔۔

سفیان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔۔۔

کیوں۔۔۔۔؟ عمارہ نے فٹ پوچھا۔۔۔

کیونکہ میں چاہتا ہوں تم جب بھی اس گھڑی میں چلتے وقت کو دیکھو تو تمہیں احساس ہو کہ تمہارا ہر وقت ہر لمحہ میرا ہے تم مجھے کبھی بھولو نہیں۔۔۔ یہ ہمارا ساتھ میں گزرا ہر پل یاد کرواۓ گا تمہیں۔۔۔ اور ہاں یہ ٹیڈی بئیر اسے تم سوتے وقت ہمیشہ اپنے پاس رکھنا اسے سفیان سمجھ کے کبھی کبھی باتیں بھی کر لیا کرنا۔۔۔

کبھی کبھی کیوں۔۔۔؟ عمارہ نے ٹیڈی کو ہگ کرتے پوچھا۔۔۔

کیونکہ تم زیادہ تر بات مجھ سے کیا کرو گی نہ پاگل۔۔

جب کبھی میں نہیں ہوں گا تو اس سے کر لیا کرنا سمپل۔۔۔۔ 

سفیان کپڑے جھاڑتا وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور عمارہ کے سامنے ہاتھ پھیلایا جسے تھوڑا جھجکتے ہوئے عمارہ نے تھام لیا۔۔۔

اب کہاں جانا ہے۔۔۔؟

کہو تو سسرال لے چلوں۔۔۔

اب کی بار سفیان شرارت سے بولا۔۔۔

وہ تو جب آپ ڈولی لے کر آئیں گے تب ہی چلوں گی۔۔۔

ہممم۔۔۔ بس یہاں سے گھر جا کر میں اس بارے میں سوچتا ہوں فی الحال کھانا کھانے چلتے ہیں۔۔۔

اس کے بعد دونوں نے ایک اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا یوں دونوں ایک خوبصورت دن ساتھ گزار کر عمارہ اپنے گھر چلی آئی اور سفیان اسلام آباد کے لیے نکل گیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

گزر گۓ ہیں بہت دن، رفاقت شب میں

اک مدت ہوگئ، وہ چہرہ چاند سا دیکھے

تیرے سوا بھی ، کئ خوش رنگ نظر تھے مگر

جو تجھے دیکھ چکا ہو ،وہ اور کیا دیکھے.؟

حسن بستر پہ لیٹا کروٹ پہ کروٹ بدل رہا تھا کتنے دن گزر گئے تھے اس دشمن جاں کو دیکھے بغیر لیکن اب مشکل ہو رہا تھا وقت کا گزرنا۔۔۔

یہ عشق کمبخت چیز ہی ایسی ہے جسے یہ ہو جائے وہ پھر اسی کا ہو کے رہ جاتا ہے_ پھر لاکھ سمجھائیں دل کو لاکھ تسلیاں دیں سب بے معنی ہوتا ہے___

حسن کا بھی اب کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔۔ اتنے دنوں سے اسے دیکھا نہیں تھا اس کی آواز نہیں سنی تھی تو اب دل بہت بے چین سا تھا کسی طور دل بہل نہیں رہا تھا۔۔۔

ایک تو اس کے پاس ہانیہ کا فون نمبر بھی نہیں تھا کہ بات ہی کر لے اس سے تبھی الجھتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا اور سائیڈ ٹیبل پہ پڑی سگریٹ کی ڈبی سے سگریٹ نکال کر منہ میں دبا لی_ 

لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا جب محبوب کا نشہ سر چڑھ کر بولے تو کوئی عام سا نشہ انسان کو کہاں مسرور کرتا ہے۔۔۔۔

سگریٹ منہ سے نکال کر ایش ٹرے میں مسلی اور پھر ہانیہ کو سوچتا سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔۔۔

سچ کہوں تو ۔۔ ان ٹھٹرتی شاموں میں تمھارے نہ ہونے کا احساس میری سانسیں تک منجمند کر دیتا ہے ۔۔۔

مگر، ان جان لیوا فاصلوں کے باوجود بھی۔۔، میں نے کبھی تمھیں خود سے الگ نہیں سمجھا۔۔۔، تمھارا احساس میرے تخیل کو ذندہ رکھتا ہے ،،، مجھے مکمل کرتا ہے_ 

حسن نے اب سوچ لیا تھا وہ کل ہی ہانیہ سے ملنے جائے گا پھر اس سے بات کر کے اس کی مرضی شامل کر کے جلد ہی رخصتی کروا لے گا۔۔۔۔

گزر گۓ ہیں بہت دن، رفاقت شب میں

اک مدت ہوگئ، وہ چہرہ چاند سا دیکھے

تیرے سوا بھی ، کئ خوش رنگ نظر تھے مگر

جو تجھے دیکھ چکا ہو ،وہ اور کیا دیکھے.؟

حسن بستر پہ لیٹا کروٹ پہ کروٹ بدل رہا تھا کتنے دن گزر گئے تھے اس دشمن جاں کو دیکھے بغیر لیکن اب مشکل ہو رہا تھا وقت کا گزرنا۔۔۔

یہ عشق کمبخت چیز ہی ایسی ہے جسے یہ ہو جائے وہ پھر اسی کا ہو کے رہ جاتا ہے_ پھر لاکھ سمجھائیں دل کو لاکھ تسلیاں دیں سب بے معنی ہوتا ہے___

حسن کا بھی اب کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔۔ اتنے دنوں سے اسے دیکھا نہیں تھا اس کی آواز نہیں سنی تھی تو اب دل بہت بے چین سا تھا کسی طور دل بہل نہیں رہا تھا۔۔۔

ایک تو اس کے پاس ہانیہ کا فون نمبر بھی نہیں تھا کہ بات ہی کر لے اس سے تبھی الجھتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا اور سائیڈ ٹیبل پہ پڑی سگریٹ کی ڈبی سے سگریٹ نکال کر منہ میں دبا لی_ 

لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا جب محبوب کا نشہ سر چڑھ کر بولے تو کوئی عام سا نشہ انسان کو کہاں مسرور کرتا ہے۔۔۔۔

سگریٹ منہ سے نکال کر ایش ٹرے میں مسلی اور پھر ہانیہ کو سوچتا سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔۔۔

سچ کہوں تو ۔۔ ان ٹھٹرتی شاموں میں تمھارے نہ ہونے کا احساس میری سانسیں تک منجمند کر دیتا ہے ۔۔

جم سے فارغ ہو کر حسن ڈائیننگ ٹیبل پہ آ بیٹھا جب نوین بیگم نے ترچھی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔

کیونکہ کبھی بھی وہ آفس کے لیے تیار ہوئے بغیر ناشتہ کرنے نہیں بیٹھا لیکن آج پہلی دفعہ ہوا تھا ایسا۔۔۔

آفس جانے کا ارادہ نہیں ہے کیا ۔۔۔؟ نوین بیگم نے بریڈ پہ جیم لگاتے ہوئے حسن سے پوچھا تھا۔۔۔۔ 

نہیں مام آج مجھے ایک ضروری کام سے کہیں باہر جانا ہے   حسن نے جوس گلاس میں انڈیلتے نگاہیں چراتے جواب دیا مبادہ ان کو کہیں شک ہی نہ پڑ جائے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔۔۔۔

نوین بیگم نے سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور مسکرا دیں کیونکہ وہ ماں تھیں جانتی تھیں کہ اسے کونسا ضروری کام ہو سکتا ہے ماں تو بچوں کی رگ رگ سے واقف ہوتی ہیں__ 

نوین بیگم کو مسکراتے دیکھ حسن بھی مسکرا دیا اور جلدی سے وہاں رفوچکر ہونے میں ہی عافیت جانی_

تیار ہو کر اب وہ گھر سے نکل آیا۔۔۔ فلائٹ کی ٹکٹ وہ رات کو ہی بک کروا چکا تھا  اور اب کچھ گھنٹوں کی مسافت کے بعد اپنی منزل پہ پہنچ گیا تھا۔۔۔

آ تو گیا تھا لیکن اب سوچ رہا تھا کہ وہ کہے گا کیا۔۔۔ 

خود میں ہمت مجتمع کرتے اس نے بیل بجا ہی دی تھی اسے خود پہ حیرانگی ہو رہی تھی کہ حسن عالم جو کبھی کسی سے نہیں ڈرا آج اپنے ہی سسرال اپنی ہی بیوی سے ملنے کے لیے آنے کو ڈر رہا تھا مضحکہ خیز۔۔۔

احمد صاحب نے دروازہ کھولا تو اتنے دنوں بعد حسن کو یوں دیکھ کر ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی کیونکہ جب سے وہ گیا تھا تب سے کوئی رابطہ اس نے نہیں کیا ایک دفعہ تو احمد صاحب کو بھی لگا تھا کہ کہیں انہوں نے جلد بازی میں اپنی بیٹی کے لیے کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر ڈالا۔۔۔ لیکن آج حسن کو یہاں دیکھ ان کے سارے شک و شبہات دور ہو گئے تھے۔۔۔

حسن نے ہی آگے بڑھ کر احمد صاحب کو گلے لگایا جس سے وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹے تھے۔۔۔

حسن کو لیے وہ اندر آئے تھے ۔۔۔ 

ہانیہ جو ڈوپٹے کو اپنی کمر کے ارد گرد باندھے لان میں ہی پھولوں کے پودوں کو پانی دے رہی تھی چہرے پہ جا بجا ہلکی ہلکی سی مٹی لگی ہوئی تھی جو شاید پودوں کو ٹھیک کرتے وقت لگی تھی۔۔۔ جیسے ہی گھومی حسن کو اپنے سامنے دیکھ ساکت ہو گئی تھی۔۔۔۔

ح۔۔۔حسن آپ۔۔۔ 

منہ سے ہلکی سی آواز برآمد ہوئی تھی۔۔۔

حسن جو ناجانے کب سے وہاں کھڑا اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کی تشنگی مٹانے کی کوشش میں تھا اب اپنی گلاسسز اتارے اس کی طرف قدم بڑھا گیا۔۔۔

احمد صاحب بھی حسن کو وہیں چھوڑے اندر چلے گئے تھے۔۔۔۔

ہانیہ نے پانی کے پائپ کو غصے سے وہیں پھینک کر اندر کی طرف دوڑ لگا دی اور جا کر اپنے کمرے میں بند ہو گئی اب یہ تو تہہ تھا کہ جب تک وہ یہاں سے جاۓ گا نہیں ہانیہ کمرے سے باہر نہیں نکلے گی۔۔۔

سکینہ بیگم نے خوب آؤ بھگت کی تھی دوپہر سے رات ہو گئی تھی ہانیہ نے باہر دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی سکینہ بیگم بار ہا بار اسے سمجھانے گئی لیکن وہ نہ مانی۔۔۔

اوکے انکل میں پھر چلتا ہوں ۔۔۔

حسن نے کھڑے ہوتے احمد  صاحب سے اجازت چاہی۔۔۔

آج رات یہیں رک جاؤ بیٹا صبح چلے جانا۔۔۔ نہیں انکل میری صبح بہت امپورٹنٹ میٹنگ ہے جس کے لیے جانا ضروری ہے میں پھر آؤں گا اپنی مام کے ساتھ رخصتی کی تاریخ لینے۔۔۔

ٹھیک ہے بیٹا ہانیہ تمہاری امانت ہے جب چاہے آ کر لے جانا ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ احمد صاحب اسے گیٹ تک رخصت کرنے آۓ تھے۔۔۔

ہانیہ دوپہر سے کمرے میں بند رہ رہ کر بور ہو گئی تھی اب تو بھوک بھی اسے ستانے لگی لیکن حسن کا سامنے جانے کا سوچ کر بھی اسے غصہ آ رہا تھا تبھی بھوک برداشت کرتے اس نے آج بھوکے ہی سونے کا ارادہ کر لیا تھا۔۔۔

حسن کو سو صلاواتیں سنانے کے بعد وہ کمفرٹر سر تک تانے لیٹی ہی تھی جب کھڑکی کے زور سے کھلنے کی آواز آئی اور ڈر کے مارے وہ کانپنے لگ گئی۔۔۔

منہ میں آیت الکرسی کا ورد کرتے وہ خود کو خود میں ہی سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ کمفرٹر ہٹا کر ایک دفعہ دیکھ تو لے ہے کون کمرے میں_

اندر آنے والے شخص نے سامنے بیڈ پہ اسے کمفرٹر میں ہی گھٹڑی بنتے دیکھ مبہم سی مسکراہٹ چہرے پہ سجائی تھی۔۔۔

ڈرپوک چوہیا۔۔۔

حسن نے اس کے قریب جاتے ایک ہی جست میں اس سے کمفرٹ کھینچا جب ہانیہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپاۓ زور سے چیخی جس پر حسن نے فوراً اس کے منہ پہ ہاتھ رکھے اسے چپ کروایا کہ کہیں انکل آنٹی اٹھ کر نہ آ جائیں اسے اپنی پرواہ نہیں تھی وہ تو شروع سے ہی بے باک ، آزاد خیال رہا تھا لیکن اسے ہانیہ کی عزت کی پرواہ ضرور تھی_ 

ہیے ، روندو بے بی جسٹ کالم ڈاؤن میں ہوں تمہارا حسین شوہر۔۔۔ رونا بند کرو ڈرپوک چوہیا کیوں چھپ رہی تھی مجھ سے ۔۔۔ 

حسن نے اسے شدت جذبات سے اپنے ساتھ لگا کر اس کے بال سہلاۓ اور اسے ریلیکس کیا۔۔۔ جب وہ کچھ سنبھلی تو غصے سے اس نے حسن کو خود سے دور دھکیلا۔۔۔

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ،،، آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی یو لوفر ، ٹھرکی ، بدتمیز ، جاہل انسان۔۔۔

ہانیہ نے تکیہ اٹھا کر اسے مارا تھا۔۔۔

اس سے پہلے وہ دوسرا مارتی حسن نے اس کی بازو دبوچ کر اسے اپنی طرف کھینچا جس سے وہ اس کے کشادہ سینے سے آ ٹکرائی۔۔۔

یو۔۔۔۔

ہانیہ اسے کچھ سخت سنانے لگی تھی جب دروازہ بجا۔۔۔

ہانیہ۔۔۔ ہانیہ بیٹا دروازہ کھولو تم ٹھیک ہو نہ۔۔۔

چھوڑیں مجھے حسن میں ابھی سب کو بتاتی ہوں آپ زبردستی میرے کمرے میں گھس آۓ ہیں۔۔۔۔

اچھا کیا بتاو گی کہ ایک شوہر اپنی بیوی کے کمرے میں زبردستی گھس آیا ہے سٹرینج نہ۔۔۔۔ 

اوکے جاو بتاو جا کر شاباش میں یہیں بیٹھا ہوں ۔۔۔ حسن بازؤں کو سر کے نیچے فولڈ کیے سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔۔۔

ہانیہ دروازہ کھولو تم ٹھیک ہو کیا ہوا ہے۔۔۔ دروازہ دھڑ دھڑ بجا اور اتنی دیر میں پھر سے سکینہ بیگم کی پریشانی میں ڈوبی آواز آئی تھی۔۔۔

میں ٹ۔۔۔ٹھیک۔۔۔ہوں ماما بس ایک جنگلی بلا کھڑکی سے اندر آ گیا تھا تو ڈر گئی تھی اب وہ چلا گیا ہے آپ بھی جائیں اور سونے دیں مجھے۔۔۔

ہانیہ نے حسن کو گھورتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔۔

چلیں آپ بھی شرافت سے نکلیں یہاں سے ورنہ میں سچ میں شور مچا دوں گی_  

وہ حسن کو بیڈ سے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی جب خود میں ہی الجھتی اس کے اوپر گری حسن نے بھی بے اختیار اسے تھامتے گرنے سے بچایا جس پر ہانیہ بوکھلائی۔۔۔

اب سیچوئیشن یہ تھی ہانیہ کے دونوں ہاتھ حسن کے کندھوں پر تھے اور حسن نے اسے کمر سے پکڑا ہوا تھا۔۔۔

دونوں کی نظریں ملیں تو ہانیہ شرم سے نظریں جھکا گئی۔۔۔ حسن کی نظر اس کے ہونٹوں کے پاس بنے تل پہ پڑی تو بے اختیار ہو کر وہ اس پہ جھکا اور تل پہ اپنے ہونٹ رکھ دیے۔۔۔

ہانیہ کے شرم سے گال لال گلابی ہو گئے دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں خود پہ اپنے محرم کا پہلا لمس محسوس کر کے اسے اپنا آپ معتبر لگا تھا۔۔۔  

حسن کی بھی اسے مزاحمت نہ کرتے دیکھ ہمت بڑھی وہ اس کے ہونٹوں پہ جھکنے لگا جب ہانیہ نے اس کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ کر اسے روکا تب وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ پہ بوسہ دے وہ پیچھے ہٹا۔۔۔

جیب سے سیل فون نکال کر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔۔۔

یہ تمہارے لیے لایا تھا میں کوئی بھی پریشانی ہو کبھی بھی فون کر لینا مجھے میرے روندو بے بی۔۔۔ 

بہت جلد آؤں گا تمہیں اپنی دسترس میں لینے__ اب یہ دوری مزید برداشت نہیں کر سکتا میں سو بی ریڈی فار دس۔۔۔۔

اس کی پیشانی پہ اپنا لمس چھوڑتے وہ جس رستے آیا تھا اسی سے واپس چلا گیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عمارہ بیڈ پہ سب سامان پھیلاۓ بیٹھی شال دوبارہ سے دیکھ رہی تھی اسے حقیقتاً وہ بہت پسند آئی تھی۔۔۔شال کو اپنے اوپر لیتے آئینے میں خود کو دیکھ کر سفیان کا تصور پردے پہ لہرایا اور وہ شرما گئی تھی۔۔۔۔

دھیرے سے اس نے کچھ گن گنایا تھا۔۔۔

بارش ، بادل ،

تم اور میں .

خوشبو ، موسم ،

تم اور میں

کالے بادل ، رم جھم بارش ،

نیلا آنچل

تم اور میں

بہتی ندیاں ، گرتا پانی ،

آنکھیں ، آنْسُو

تم اور میں

پاس کسی دریا کے کوئی

بھیگا جھونپڑ

تم اور میں

دور کہیں کوئل کی کو کو ،

گہرا جنگل

تم اور میں

برکھا رم جھم گیت سنائیں ،

جھرمٹ ڈالیں ،

تم اور میں

دور کہیں پر چھوٹا سا اک ،

کچا سا گھر

تم اور میں

کندھا تیرا اور سر میرا ،

پاگل سی چپ

تم اور میں۔۔!!

پھر ٹیڈی بئیر بھی اسے اتنا کیوٹ لگا کہ جھٹ سے اسے ہگ کر لیا اور واچ وہ ابھی پہن کے دیکھنے ہی لگی کہ

عمارہ ، عمارہ ۔۔۔

عاقب اسے آوازیں دیتا ڈھونڈتا اس کے کمرے میں پہنچا تھا۔۔۔

عمارہ نے جلدی جلدی سب سمیٹ کر الماری میں پٹکا کہ اگر کسی نے دیکھ کے پوچھ لیا کہ یہ کہاں سے آیا ہے تو وہ کیا جواب دے گی۔۔۔

اس نے سوچ رکھا تھا سہی وقت آنے پر وہ اپنی ماں سے اس بارے میں بات کرے گی۔۔۔

ج۔۔جی۔۔۔۔ب۔۔۔بھا۔۔۔۔بھائی

عمارہ نے ہکلاتے جواب دیا تھا۔۔۔

کیا ہوا تمہارا رنگ کیوں پیلا پڑ گیا ہے تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ۔۔۔۔ عاقب نے آگے بڑھتے اس کے ماتھے کو چھوا جہاں پسینے کی چند ننھی ننھی بوندیں جگمگا رہی تھیں۔۔۔ 

میں ٹ۔۔۔ٹھیک ہوں بھائی آپ پریشان مت ہوں آپ بتائیں نہ کیوں ڈھونڈ رہے تھے مجھے کچھ ہوا ہے۔۔۔

اففف۔۔۔۔ چھپکلی تمہارے چکر میں بھول ہی گیا میں میرے پاس ایک گڈ نیوز ہے جو تمہیں سنانی ہے۔۔۔

مجھے ایک بہت اچھی کمپنی میں جاب مل گئی ہے میں بہت خوش ہوں فائنلی اب تمہاری بیکار نوکری سے میری جان چھوٹی چوہیا۔۔۔

عاقب وہیں بیڈ پہ اس کے سامنے اپنی بتیسی دکھاتے اور  پیر پسارے بیٹھ گیا۔۔۔وہیں عمارہ اپنی آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورے جا رہی تھی۔۔۔۔

میں آپ سے کونسی نوکری کروا رہی جھوٹے انسان شرم آنی چاہیے آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے۔۔۔

عمارہ تڑخ  کر بولی۔۔۔

یہ روز یونی لیجانے اور لانے کا کام تمہارے ابا نہیں کرتے بندریا۔۔۔۔مفت کا ڈرائیور ملا ہوا تھا تمہے ہونہہہ۔۔۔ اب خود آیا جایا کرنا میری بلا سے۔۔۔

عاقب نے اسے اچھے سے سنائی جب عمارہ نے بھی بنا لحاظ کیے حساب برابر کیا۔۔۔

کوئی احسان نہیں کرتے تھے آپ بہن ہوں آپ کی یہ میرے سب کام کرنا آپ پہ فرض ہے سمجھے آپ آۓ بڑے احسان جتلانے والے۔۔۔

عمارہ منہ چڑا کر اسے باہر بھاگی تھی۔۔۔

رک چھپکلی تجھے تو میں بتاتا ہوں۔۔۔

عاقب بھی اس کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔۔

ان دونوں کی ہی نوک جھوک سے گھر میں رونق تھی یہ گھر خوشیوں کا گہوارہ تھا لیکن کون جانے یہ خوشیاں کب تک قائم رہنے والی تھیں دور کھڑی زندگی مسکرا دی تھی۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان صبح کے چھ بجے گھر پہنچا تھا۔۔۔ ہر طرف سناٹا گہری خاموشی کا راج تھا گھر میں سب سو رہے تھے جب وہ بھی دبے پاؤں اپنے کمرے میں پہنچا۔۔۔ فریش ہو کر اس نے نماز ادا کی اور ساری رات نہ سونے کی وجہ سے آنکھوں کے ڈورے سرخ ہو رہے تھے تبھی اب کان منہ لپیٹے وہ سونے کے لیے لیٹ گیا۔۔۔۔

صبح وہ بارہ بجے کے قریب اٹھ کر نیچے آیا۔۔۔

اکرام الحق اپنی ڈیوٹی پہ جاچکے تھے اور چھوٹا احمد وہ کالج گیا ہوا تھا۔۔۔۔

پروین بیگم دوپہر کے کھانے میں مصروف تھیں۔۔۔۔

ماما ماما کیا کر رہی ہیں آپ مجھے ناشتہ بنا دیں۔۔۔

سفیان چلتا ہوا کیچن کے دروازے پہ آ کر رک گیا اور ہاتھ باندھے وہیں کھڑا رہا ۔۔۔ آنکھوں میں ابھی بھی نیند کا خمار سا تھا جیسے زبردستی اٹھ کر نیچے آیا ہو۔۔۔۔

یہاں کیوں آ گئے باہر بیٹھو لے کر آتی ہوں ناشتہ تمہارے لیے۔۔۔ پروین بیگم نے چاولوں میں کفگیر چلاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔

سفیان باہر جا کر بیٹھا جب پروین بیگم اس کے لیے ناشتہ لے آئیں۔۔۔ اس سے پہلے وہ جاتیں سفیان بول پڑا۔۔۔

ماما آپ بھی بیٹھیں نہ میرے پاس مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔۔

ماما بابا سے آپ کب بات کریں گی میں چاہتا ہوں آپ جلدی سے میرا رشتہ لے کر وہاں جائیں اور وہ جلد از جلد اس گھر میں بہو بن کے آ جائے۔۔۔

آپ سارا سارا دن اکیلی کام کرتی رہتی ہیں عمارہ آ جائے گی تو آپ کی بھی ہیلپ ہو جایا کرے گی۔۔۔

سفیان نے کان کھجاتے اپنا مدعا بیان کیا۔۔۔

بیٹا جی میری چھوڑو اپنی بات کرو۔۔۔ مجھے تو ایسی کوئی جلدی نہیں ہے میں تو کہتی ہوں ابھی تین چار سال اس بارے میں نہیں سوچتے ،،، تمہاری عمر ہی کتنی ہے ابھی اور وہ بچی بھی پڑھتی ہو گی اس لیے پہلے پڑھ لکھ جاؤ پھر سوچیں گے۔۔۔

پروین بیگم نے سنجیدگی سے اسے جواب دیا تھا۔۔۔

وہ تو کل شام ہی اکرام الحق سے اس بارے میں سرسری سی بات کر کے ان کا ری ایکشن دیکھ چکی تھیں۔۔۔

وہ اچھا خاصا ان پہ بھڑکے تھے کہ اب ان کا بیٹا ایسے گل کھلاۓ گا انہوں نے شکر کیا تھا کہ ان کی بیٹی نہیں کوئی۔۔۔۔

ماما کہاں کھو گئیں آپ اور میں تین چار سال انتظار نہیں کر سکتا پلیززز آپ آج ہی بابا سے بات کریں ورنہ میں خود کر لوں گا۔۔۔ سفیان بضد ہوا تھا۔۔۔

پروین بیگم اپنے بیٹے کو اتنا خوش دیکھ کر ہمت ہی نہیں کر پائیں تھیں کہ اسے کچھ بتاتی ۔۔۔۔

اچھا میں کوشش کروں گی وہ یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر کیچن میں چلی گئیں اور سفیان ناشتہ کرنے میں مگن ہو گیا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

حسن اس وقت آفس میں بیٹھا ایک ضروری میٹنگ میں جانے کے لیے فائل پہ نظر ثانی کر رہا تھا۔۔۔۔ جب اس کے کیبن کا ڈور ناک ہوا ۔۔۔

یس کمنگ۔۔۔

حسن نے فائل پہ ہی نظریں مرکوز کرتے اندر آنے والے کو اجازت دی۔۔۔

لیکن کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب کوئی نہ بولا تو اس نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا۔۔۔

تم۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو منع کیا تھا نہ میں نے تمہیں کہ آئندہ میرے سامنے مت آنا لیکن تم ڈھیٹ پھر یہاں آ گئی ہو۔۔۔

حسن انشاء کو اپنے سامنے دیکھ غصے سے آگ بگولا ہوتا ایک ہی جست میں اٹھ کر اس تک پہنچا اور اس کی گردن دبا گیا۔۔۔۔

حسن چھوڑو مجھے پاگل ہو گئے ہو کیا۔۔۔

انشاء نے اپنا گلہ چھڑوانے کی اس سے بھر پور کوشش کی تھی۔۔۔ جب اس نے جھٹکے سے اسے خود ہی چھوڑ دیا۔۔۔

کیوں آتی ہو تم بار بار میرے سامنے یو ڈیم اٹ۔۔۔۔

اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اس نے زور سے ٹیبل پہ ماری۔۔۔

حسن مجھے معاف کر دو دیکھو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں حسن۔۔۔ میں نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر تم کیوں نہیں سمجھتے۔۔۔

اس دو ٹکے کی لڑکی۔۔۔۔

دو ٹکے کی کیا کہا تم نے اسے دو ٹکے کی۔۔

وہ مسز حسن عالم ہے سنا تم نے مسز حسن عالم۔۔۔

حسن نے بے دردی سے اس کے بالوں کو جکڑ کر اپنے کایبن سے باہر دھکیلا تھا اسے۔۔۔۔

گارڈ گارڈ۔۔۔

وہ چلایا تھا جب گارڈ فوراً حاضر ہوا تھا۔۔۔

اس کو ابھی کے ابھی یہاں سے دفعہ کرو آج کے بعد یہ مجھے یہاں دیکھی تو تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا میں سمجھے۔۔۔۔

انشاء نے حیرانگی سے اس کا اس لڑکی کے لیے پاگل پن اور جنون دیکھا تھا۔۔۔۔

نم آنکھوں سمیت انشاء نے اس کے گریبان تک پہنچنا چاہا۔۔۔

حسن تم بھی ترپو گے اس کے لیے دیکھنا جیسے میں تمہارے لیے تڑپتی ہوں یہ میری بد دعا ہے ۔۔۔۔

حسن عالم اور تڑپے گا کبھی نہیں۔۔۔۔ اس نے قہقہہ لگاتے انشاء کے منہ پہ دروازہ بند کیا تھا۔۔۔

اور گارڈ انشاء کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے جا رہا تھا جو وہاں ہلنے سے بھی انکاری تھی۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ہانیہ یونی سے واپس گھر آئی جب لاؤنج کے دروازے پہ کچھ آوازیں سن کر اس کے قدم ٹھٹک کر رکے تھے۔۔۔

بہن ایسی کونسی آفت آ پڑی جو یوں چپ چاپ لڑکی کا نکاح پڑھوا دیا کسی کو کان و کان خبر تک نہ ہونے دی۔۔۔ 

یوں چھپ چھپا کر نکاح کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑی بہن ، ایسا تو ہم نے نہ کہیں دیکھا نہ سنا۔۔۔

اکلوتی بیٹی ہے تمہاری ہم نے تو سمجھا تھا تم دھوم دھام سے بیٹی کی شادی کرو گے۔۔۔

کہیں لڑکی بھاگنے تو نہیں لگی تھی جو یوں اپنی عزت بچانے کی خاطر اس کا نکاح کر ڈالا۔۔۔۔

دو محلے کی عورتیں سکینہ بیگم کے پاس آ کر بیٹھی تھیں ان میں سے ایک اپنے بیٹے کا رشتہ لائی تھی لیکن جیسے ہی پتہ چلا کہ ہانیہ کا نکاح ہو گیا ہے تو یہ بکواس کرنی شروع کر دی۔۔۔

ہانیہ کی یہیں بس ہو گئی تھی تبھی تن فن کرتی وہ اندر پہنچی۔۔۔

بس کر دیں آنٹی خدا کا خوف کریں کچھ جو منہ آ رہا بولتی چلی جا رہی ہیں۔۔۔ ہمارے گھر جو بھی ہو رہا اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔

اگر میری جگہ آپ کی بیٹی ہوتی تو تب بھی آپ یہی کہتیں کیا۔۔۔۔

ہانیہ کا غصے سے سانس پھولنے لگ گیا تھا۔۔۔

پھر وہ مزید بولی۔۔۔۔

آپ جانتی ہیں کہ 

  "الفاظ" کی اپنی ہی ایک دنیا ہوتی ہے۔ ہر "لفظ" اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے بولنے سے پہلے انسان کو سوچ لینا چاہیے کہ وہ اگلے بندے پہ کیا اثر کریں گے۔۔۔۔

اور ان لفظوں کے ہاتھوں میں "لہجہ" کا اسلحہ تھما دیا جائے، تو یہ وجود کو "چھلنی" کرنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ ۔ ۔

انہیں ادا کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ یہ کسی کے "وجود' کو سمیٹیں گے یا کرچی کرچی بکھیر دیں گے۔ ۔ ۔

کیونکہ یہ "ادائیگی" کے غلام ہوتے ہیں۔ 

 بولتے بولتے اب اس کا سانس پھولنے لگا تھا۔۔۔۔

ارے چلو بہن ہم یہاں بے عزتی کروانے نہیں آۓ اس لڑکی کی تو زبان ہی بہت لمبی ہے ارے ہم تو ترس کھا کر رشتہ لاۓ تھے کہ جو لڑکی دو دن گھر سے باہر رہی ہو اس سے بھلا کون شادی کرے گا لیکن بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔۔۔ اب وہ دونوں وہاں سے اپنے پرس اٹھاتی باہر کو چل دیں۔۔۔

ہانیہ اور سکینہ بیگم کی تو زبان ہی تالو سے چپک گئی تھی ان کی ایسی باتیں سن کر۔۔۔ ہانیہ ان پہ لعنت کے دو حروف بھیجتی اپنے کمرے میں چلی آئی تھی جب صوفے پہ پڑا فون رنگ ہوا۔۔۔ 

بیگ کو زور سے بیڈ پہ پٹکا اور موبائل اٹھا کر اسے ایسے گھورا جیسے کال کرنے والا اس کے بالکل سامنے کھڑا ہو اور وہ اسے نظروں سے ہی کچا چبا لے گی۔۔۔

فون یس کرتے کان سے لگایا ہی تھا کہ وہ پھٹ پڑی۔۔۔

مسٹر حسن عالم مجھے ابھی اور اسی وقت آپ سے طلاق چاہیے۔۔۔ سن رہے ہیں نہ آپ مجھے آپ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں رکھنا۔۔۔

وہ بول کر خاموش ہوئی تھی جب دوسری طرف کی بات پوری سننے سے پہلے ہی فون بند کر کے پھینکا اور غصے سے واشروم میں بند ہوئی تھی۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

حسن اس وقت اپنے کمرے سے منسلک بالکونی میں بیٹھا سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہا تھا۔۔۔ انشاء کی باتیں اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔۔۔  وہ انشاء کے ساتھ ایسا بی ہیو ہر گز نہیں رکھنا چاہتا تھا کیونکہ وہ بہت اچھے دوست بھی رہ چکے تھے لیکن وہ جب جب ہانیہ کے بارے میں کچھ الٹا سیدھا بولتی تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا تھا۔۔۔۔

اب بھی اس کی آنکھوں کے سامنے چھن سے اس کا روتا چہرہ کپکپاتا وجود ذہن کے پردے پہ لہرایا۔۔۔

کاش کہ کبھی ..جذبات کے بھی ایکسرے ہوا کرتے تو تمھیں اپنے دل کے ایکسرے بھجواتا ۔۔ دل میں چھپے سارے جذبات دکھاتا۔۔

تم بن میری صبحیں ۔۔ میری شامیں اور میرے چاروں پہر کس قدر ادھورے نامکمل ہیں تمھیں سب بتاتا

میرے جسم ، میری روح میں تمھارا پیار کس طرح شامل ہے ۔۔ تمھیں سب دکھاتا ۔۔، تمھیں سب بتاتا ۔۔۔۔

دل بے قابو ہو رہا تھا اس نے دل کی خواہش کی تکمیل کرنے کے لیے اسے کال ملاتے وہ کمرے میں چلا آیا اور بے صبری سے اس کے کال اٹھانے کا انتظار کرنے لگا جو تیسری بیل پہ ہی اٹھا لی گئی تھی۔۔۔۔

ہیلو قلب من۔۔۔۔ کیسی ہو میری جان وہ خوشگوار لہجے میں بولا لیکن اس کے اگلے الفاظ سنتے اس کا غصہ سوا نیزے پہ پہنچا تھا۔۔۔ 

تمہارے ہمت کیسے ہوئی یہ الفاظ اپنے منہ سے نکالنے کی۔۔۔۔ تم صرف میری ہو ایک دفعہ پھر انشاء کے کہے الفاظ اس کے ذہن میں گھومے اور وہ دھاڑا تھا۔۔۔۔

میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر تمہے سمجھ کیوں نہیں آ رہی ڈیم اٹ۔۔۔

فون اٹھا کر زور سے دیوار پہ مارا تھا۔۔۔

بالوں کو دونوں ہاتھ میں جکڑے وہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔ 

آج پھر وہ بے انتہا رویا تھا اپنی محبت کے لیے ،،،

اپنے بے انتہا عشق کی خاطر جو اس کی رگ رگ میں اتر کر اپنی جڑیں پکڑ چکا تھا۔۔۔۔

اے خدایا ہمیں ہار سے بچانا

کہ آیا ہے اب امتحان کا زمانہ

کیا صرف لڑکیاں محبت نہ ملنے پر روتی ہیں۔۔۔۔؟؟

نہیں،،، مرد بھی اپنی محبت کے نہ ملنے پر تڑپتا ہے،،،اتنا ہی بے بس ہوتا ہے،، اتنا ہی مجبور ہوتا ہے۔۔۔۔

یہ محبت ہی اسے بے حس بھی بنا دیتا ہے۔۔۔۔

یہ  محبت ہی اسے خود غرض بھی بنا دیتی ہے۔۔۔

آج ایک مرد اپنی محبت اپنے عشق کی خاطر اس سے بھیک مانگ رہا تھا۔۔۔ وہ گھر کا لاڈلا آج کسی کے سامنے فقیر بنا بیٹھا تھا۔۔۔۔

وہ کہتے ہیں نہ کہ مرد اگر بندے کا پتر ہو اور عورت میں بے وفائی کے جراثیم نہ پائے جاتے ہوں تو دوستی ہو یا محبت قبر کی دیواروں تک ساتھ نبھاتی ہے۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان اتنے دن گزر جانے کے بعد آج اکرام الحق کے سامنے خود میں ہمت پیدا کرتے بات کرنے کی غرض سے بیٹھا بار بار اپنی پیشانی مسل رہا تھا۔۔۔

کیا کہنا چاہتے ہو برخوردار۔۔۔ کیا بات پریشان کر رہی ہے تمہیں۔۔۔۔ اکرام الحق نے نیوز پیپر فولڈ کر کے رکھا اور چاۓ کا کپ اٹھایا جو ابھی ابھی پروین بیگم رکھ کر گئی تھیں اور اشارے سے سفیان کو منع کر رہی تھیں۔۔۔۔

بابا وہ میں۔۔۔۔۔ کسی لڑکی کو پسند کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ رشتہ لے کر جائیں وہاں۔۔۔

سفیان نے اپنا مدعا بیان کر کے اکرام الحق کی طرف دیکھا جو غصے سے گھورتے ہوئے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

تمہیں تمہاری ماں نے بتایا نہیں کہ میں منع کر چکا ہوں تم نے سوچ بھی کیسے لیا ایسا۔۔۔۔ ہم نے بچپن میں ہی تمہارا رشتہ ارشا کے ساتھ طے کر دیا تھا۔۔۔تمہاری شادی اسی سے ہو گی بس بات ختم۔۔۔۔

اکرام الحق نے درشتی سے اپنی بات کر کے اس پہ آج یہ نیا انکشاف کر کے سفیان کے پیروں تلے سے زمین کھینچی۔۔۔ وہ جہاں کا تہاں رہ گیا۔۔۔۔

میں ہر گز ارشا سے شادی نہیں کروں گا سن رہے ہیں نہ آپ کبھی نہیں کروں گا۔۔۔ میں عمارہ سے محبت کرتا ہوں اور شادی بھی اسی سے کروں گا آپ پھر چاہے کچھ بھی کر لیں۔۔۔ سفیان نے زور سے مٹھیاں بھینچتے اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو کو قابو کرتے اپنا لہجہ حتی الامکان  دھیما رکھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔بدتمیزی تو وہ کسی صورت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔

لیکن سفیان کے جنونی پن سے تو آج پروین بیگم بھی ڈر گئی تھیں پہلی دفعہ باپ بیٹا مد مقابل تھے۔۔۔۔

لیکن تم جو چاہتے ہو وہ بھی کسی صورت نہیں ہو سکتا میں اپنی زبان سے مکر نہیں سکتا تمہاری شادی بس ارشا سے ہو گی یہ بات ذہن نشین کر لو اپنے سمجھے۔۔۔۔

اکرام الحق اپنا فیصلہ سناتے یہ جا وہ جا جبکہ سفیان نے بھی ٹھان لیا تھا کہ وہ ایسا ہر گز نہیں کرے گا اور ارشا کو تو وہ دیکھ لے گا پاس پڑی کرسی کو وہ بے دردی سے ٹھوکر مارتا باہر کو نکل گیا۔۔۔۔

صبح سے رات ہو گئی تھی وہ گلیوں کی خاک چھانتا اب تھک ہار کر فٹ پات پہ سانس لینے کو بیٹھا تھا۔۔۔

وہ تو ارشا کے بارے میں سوچنا بھی پسند نہیں کرتا تھا  کجاکہ وہ شادی کرتا اس سے۔۔۔۔ عجیب سی وحشت طاری ہوئی تھی اس پہ۔۔۔۔

تبھی اس کے موبائل پہ بپ ہوئی عمارہ کا میسج تھا۔۔۔

کہ ہو کر بھی وہ اکثر ہے ہی نہیں

جسے ہونا چاہیے میسر ہے ہی نہیں

اس سے ہی باتیں کرتا ہوں تصور میں 

اب یہ نہ کہیے کہ اسے خبر ہے ہی نہیں

عمارہ کا میسج پڑھ کر اس کا موڈ قدرے بہتر ہوا تو اٹھ کر اس سء بات کرتا وہ اپنے گھر کو چل دیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ارشا اس دن سے منہ پھلاۓ اپنے کمرے تک محدود ہو گئی  کہ اس کا ساتھ کسی نے بھی نہیں دیا تھا کہ وہ اسلام آباد پڑھنے کے لیے چلی جائے۔۔۔۔

اس نے بھوک ہڑتال بھی کر کے دیکھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔۔ احسان الحق نے اپنی ہی منوائی تھی۔۔۔

یہ پلان تو اس کا بری طرح فلاپ ہو چکا تھا کہ وہ اس طریقے سے سفیان کے قریب رہ کر اس کا دل جیتنے کی کوشش کرے گی۔۔۔ اسے مجبور کر دے گی خود سے پیار کرنے کے لیے لیکن اس کی ایسی سوچ پہ اس کے گھر والوں نے ہی پانی پھیر دیا تھا۔۔۔۔

اب وہ اپنے کمرے میں بیٹھی کچھ اور سوچ رہی تھی  جب صفیہ بیگم کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔۔

ارشا۔۔۔۔اب اس مراقبے سے باہر آ جاو اور میری بات دھیان سے سنو۔۔۔۔ 

صفیہ بیگم نے اسے لتاڑا جس پر اس نے منہ بناتے منہ دوسری طرف کر لیا تھا۔۔۔

کل تم میرے ساتھ بازار جا کر اپنی پسند کا سوٹ لے آنا۔۔۔

 تمہارے بابا نے تمہاری منگنی کرنے کا سوچا ہے اس لیے بنا چوں چرا کیے راضی ہو جانا۔۔۔۔

ارشا تو یہ خبر سنتے ہی اچھلی تھی۔۔۔

کیا۔۔۔۔؟؟؟

یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ماما میں کسی سے بھی ابھی منگنی نہیں کروں گی میں بتا رہی ہوں آپ کو پھر مت کہیے گا کہ میں نے آپ کی نافرمانی کی۔۔۔

آپ بابا کو بتا دیجیے گا میں کسی صورت یہ نہیں کروں گی پتہ نہیں کس سے بابا میری منگنی کر رہے ہیں حد ہو گئی ہے۔۔۔ کسی کو میری پرواہ نہیں ہے۔۔۔

صفیہ بیگم تو اس کی قینچی کی طرح چلتی زبان دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں پہلی دفعہ وہ ارشا کو اتنی بدتمیزی کرتے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔

تمہاری زبان کچھ زیادہ ہی نہیں چل رہی ارشا خبردار اب کسی سے بھی تم نے ایسے بدتمیزی کی اور تمہاری منگنی سفیان سے ہو رہی ہے جسے تم اچھے سے جانتی ہو ۔۔۔ تمہارا اور سفیان کا رشتہ تمہارے مرحوم دادا تم دونوں کے بچپن میں ہی طے کر گئے تھے۔۔۔ خود تو بڈھا مر گیا ہمارے لیے یہ عذاب بنا گیا۔۔۔ میرا کتنا دل تھا تمہاری شادی میں اپنی بہن کے گھر کروں۔۔۔۔

صفیہ بیگم نے بھی جلے دل کے پھپھولے پھوڑے تھے۔۔۔ جبکہ ارشا تو بے یقینی کی کیفیت سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

کیا کہا ابھی آپ نے سفیان۔۔۔سفیان سے میری منگنی ہو رہی ہے آپ سچ کہہ رہی ہیں نہ ماما۔۔۔ 

ارشا نے خوشی کے مارے اپنی ماں کے ہاتھ تھامے اور گول گول گھومنے لگی جب صفیہ بیگم نے غصے سے اس کے ہاتھ جھٹکے۔۔۔

تم پاگل ہو گئی ہو۔۔۔ ابھی رونا ڈالا تھا اور ابھی تمہے خوشی چڑھ گئی ہے۔۔۔ صفیہ بیگم اسے جھڑکتی کمرے سے باہر چلی گئیں۔۔۔

ارشا نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی مراد یوں بر آۓ گی۔۔۔۔ جسے پانے کے لیے وہ اتنی تگ و دو کر رہی تھی وہ پکے پھل کی طرح اس کی جھولی میں بغیر حجت کے آ گرے گا۔۔۔

خوشی سے گول گول گھومتے اب وہ نئے خوابوں کو بنتی کسی اور ہی سفر کی سیر کو چل نکلی تھی۔۔۔۔

تصور میں ہی سفیان اور خود کو ایک ساتھ سوچتے وہ شرما گئی تھی۔۔۔۔

‏ہجر تو اور محبت —–کو بڑھا دیتا ہے

اب محبت میں خسارے تو نہیں ہوتے ناں

 اک شخص ہی— ہوتا ہے متاعِ جاں بھی

دل میں اب لوگ بھی سارے تو نہیں ہوتے 

ارشا نے بھی بچپن سے بس اسی کے خواب دیکھے اسے ہی دل میں بسایا تھا۔۔۔ کسی دوسرے کا تصور بھی اس کے لیے سوہان روح تھا لیکن اب اسے یہ خبر سن کر دل کو سکون ملا تھا جیسے کسی نے ٹھنڈی پھوار اس پہ چھڑک دی ہو۔۔۔

اففف یہ میرا سر درد۔۔۔

انشاء دکھتے سر کے ساتھ انگڑائی لے کر بیدار ہوئی تھی سر کو ہاتھوں سے تھامتے  اپنے ارد گرد نظروں کو گھمایا  کچھ پل تو اسے یہ سمجھنے میں لگے کہ وہ ہے کہاں لیکن کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔

بیڈ سے نیچے اتر کر چپل پیروں میں اڑیستی وہ کمرے سے باہر نکلی سامنے کیچن سے کچھ کھٹر پٹر کی آوازیں آ رہی تھی تو اسی جانب بڑھ گئی۔۔۔

کیچن میں کوئی دوسری جانب منہ کیے کچھ بنانے میں مصروف تھا اسے لگا شاید وہ جو بھی تھا اس کے آنے کا نوٹس نہیں لیا تھا۔۔۔۔

ک۔۔۔کون ہیں آپ۔۔ م۔۔۔میں ی۔۔یہاں ک۔۔۔کیسے۔۔۔

ٹونی نے مڑ کر اسے دیکھا تھا۔۔۔ 

تم۔۔۔۔

تم مجھے یہاں کیوں لے کر آۓ تھے مجھے میرے گھر بھی چھوڑ سکتے تھے۔۔۔  کرسی کھینچتے وہ اس سے تھوڑا دور ہو کر بیٹھی تھی۔۔

انشاء کا ٹونی کو دیکھ کر سانس بحال ہوا تھا جو بھی تھا وہ غیر تو نہیں تھا۔۔۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ اسی کا فلیٹ ہے کیونکہ وہ پہلے کبھی بھی اس کے فلیٹ میں نہیں آئی تھی۔۔۔

مطلب تمہے یاد ہے اس دن  جو کچھ بھی ہوا تھا۔۔۔۔

پہلی بات تمہے میرے علاوہ اور کوئی ہاتھ بھی لگاۓ گا تو میں ہاتھ توڑ دوں گا اس کے اور دوسری بات تمہارے فلیٹ کی کیز میرے پاس تھی نہیں اور تم بتانے کی حالت میں تھی نہیں اسی لیے اپنے فلیٹ میں لے آیا۔۔۔

ٹونی جواب دے کر پھر سے ناشتہ بنانے لگ گیا تھا۔۔۔

تم کچھ کھاؤ گی۔۔۔۔

اس دن کیا مطلب کل کی تو بات ہے۔۔۔۔

انشاء نے آنکھیں پھیلا کر اس سے پوچھا۔۔۔۔

آنکھیں چھوٹی کر لو محترمہ تم نے ڈوز ہیوی لے لی تھی شاید تبھی دو دن میرے فلیٹ میں پڑی رہی ہو۔۔۔

ٹونی کافی کا سپ لیتے اس کے سامنے چئیر پہ بیٹھا۔۔۔

کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟

دو دن۔۔۔۔ انشاء نے گلہ پھاڑ انداز میں کھڑے ہوتے پوچھا۔۔۔

جبکہ ٹونی نے ہنسی دبائی تھی اپنی۔۔۔

ہاں بالکل مسکین سی شکل بنا کر اس نے تصدیق کی تھی۔۔۔

لیکن اس کی مسکراہٹ انشاء کی نظروں سے چھپ نہی سکی۔۔۔ تبھی اب وہ دونوں ہاتھوں کو کمر پہ ٹکاۓ اسے گھور رہی تھی۔۔۔

یو لائیر۔۔۔ جھوٹ بول رہے ہو نہ تم جھوٹے انسان انشاء نے اسے مکا جڑا۔۔۔

اوکے اوکے۔۔۔ سوری مزاق کر رہا تھا۔۔۔ 

ٹونی نے خود کو بچانے کی کوشش کی تھی پھر دونوں ہنس دیے تھے۔۔۔

ہنستے ہنستے انشاء کی آنکھیں چھلکی تھیں۔۔۔

کیسا تھا یہ شخص جسے وہ دو بار دھتکار چکی تھی پھر بھی وہ بار بار اس کے پیچھے چلا آتا تھا۔۔۔۔

او ہیلو۔۔ کہاں کھو گئی میڈم۔۔۔

ٹونی نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی تھی۔۔۔

کہیں نہیں۔۔۔۔

مجھ سے شادی کرو گے۔۔۔؟

انشاء نے کچھ سوچ کر اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا تھا۔۔۔

اب کی دفعہ چونکنے کی باری ٹونی کی تھی۔۔۔ اس کے پھیلے ہاتھ کو دیکھ کر وہ بے ساختہ اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ گیا تھا اور سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا تھا۔۔۔

ٹونی نے اسے کھینچ کر گلے لگایا تھا انشاء سٹپٹائی تھی۔۔۔ 

اسے سمجھ آ گئی تھی کہ حسن ایک سراب ہے جس کے پیچھے وہ بھاگتی بھاگتی تھک جائے گی تو کیوں نہ وہ کسی ایسے کا ہاتھ تھام لے جو اس پہ مرتا ہو جو اس سے پیار کرتا ہو۔۔۔۔

وہ مجھے بھ۔۔۔بھوک لگی ہے۔۔۔

ٹونی کی پر تپش نگاہوں سے بچنے کے لیے اس نے اب خود کو آہستہ سے الگ کیا اور اس کی توجہ ناشتے کی طرف مبذول کرائی۔۔۔۔

جس سے وہ سر ہلاتے اب خوشی خوشی سے ناشتے کی طرف دھیان لگا گیا تھا۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

حسن کی ساری رات رونے میں گزری تھی۔۔۔ جو دوسروں کو رلاتے ہیں وہ خود کہاں خوش رہ پاتے ہیں۔۔۔ اسی کا نام تو مکافات عمل ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔۔۔

اپنی انا اور غرور میں وہ یہ بھول چکا تھا کہ جو وہ دوسروں کے ساتھ کر رہا ہے اس کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے زندگی کی بازی یوں بھی پلٹ سکتی ہے۔۔۔ وہ بھی ہار سکتا ہے۔۔۔

اس کا بکھرا حلیہ ، آنکھوں کے سرخ ڈورے اس کی ہانیہ سے کی گئی سچی محبت  کی گواہی دے رہے تھے ۔۔۔

ہانیہ کے منہ سے طلاق کا لفظ سن کے ایسا لگا جیسے کسی نے اس کی روح قبض کرنے کی بات کی ہو ،،، جیسے کسی نے اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہو۔۔۔

روتے روتے اس کے کانوں میں اذان کی آواز گونجی اور اس کا دھیان اپنے اللہ کی طرف گیا تھا۔۔۔

اس نے اٹھ کر وضو کیا اور آج بہت عرصے بعد وہ اپنے اللہ کے روبرو کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اس سے اپنی محبت مانگنے کا خیال آیا تھا۔۔۔ 

نماز پڑھ کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ تو اس کے کانوں میں ایک تحریر گونجی تھی۔۔۔

اے ابن آدم۔۔۔

ایک تیری چاہت ہے 

ایک میری چاہت ہے

پر ہو گا وہی۔۔۔۔۔۔

جو میری چاہت ہے

اگر تو نے خود کو

سپرد کر دیا اس کے

جو میری چاہت ہے 

تو میں بخش دوں گا

 تجھ کو بھی وہ 

جو تیری چاہت ہے۔۔۔۔۔۔

پر اگر تو نے نافرمانی کی اسکی

جو میری چاہت ہے۔۔۔۔

تو میں تھکا دوں گا اس میں

جو تیری چاہت ہے۔۔۔۔

ہو گا پھر وہی۔۔۔۔

جو میری چاہت ہے۔۔۔

حسن نے بھی اب اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا تھا۔۔۔

دعا مانگ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔ فریش ہو کر وہ جم میں چلا گیا نیند تو اب آنے سے رہی۔۔۔۔ 

جن لوگوں کو عشق کا سانپ ڈس لے ان کو کہاں نیند کا ہوش رہتا ہے۔۔۔

جم سے فارغ ہو کر وہ اب ناشتہ کرنے کے لیے ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھا نوین بیگم سے نظریں چرا رہا تھا کہ کہیں وہ اس کی آنکھوں میں رت جگے کی سرخی نہ دیکھ لیں ،،، اس کی آنکھوں میں چھپی درد کی تحریر نہ پڑھ لیں۔۔۔۔لیکن وہ کیا جانے وہ کس ہستی سے اپنا آپ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔۔

ماں تو بچے کی آواز سے اس کے درد کا اندازہ لگا لیتی ہے۔۔۔ وہ تو ان کہی باتیں بھی بڑے غور سے سن لیتی ہے۔۔۔ وہ تو سو کوہ دور بیٹھے بچے کی تکلیف پہ بھی تڑپ اٹھتی ہے۔۔۔۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس کی ٹوٹی بکھری حالت سے اس کے دل کے اندر مچا کہرام نہ سمجھ پاتی۔۔۔۔ 

حسن مجھے آج ہی ہانیہ سے ملنا ہے اس کے گھر لے چلو میں آج ہی رخصتی کی تاریخ طے کر کے آنا چاہتی ہوں مزید انتظار نہیں کر سکتی میں۔۔۔۔

نوین بیگم نے بھی اس کا بھرم قائم رکھنے کی غرض سے اس کی مشکل ہلکے پھلکے انداز سے دور کرنے کا سوچا ۔۔۔۔

مجھے طلاق چاہیے۔۔۔۔

جبکہ حسن اس کا یہ جملہ یاد کرتے طنزیہ مسکرا اٹھا۔۔۔

شیور مام۔۔۔

اب وہ اپنی ماں کا دل نہیں توڑ سکتا تھا ۔۔۔۔ ان کے چہرے کی خوشی وہ کیسے چھین سکتا ہے تبھی اس نے فیصلہ کیا تھا وہ انہیں ضرور وہاں لے جاۓ گا پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

احمد نے آج کالج سے چھٹی کی تھی کل اس کا بہت امپورٹنٹ ٹیسٹ تھا تو اس نے گھر بیٹھ کے تیاری کرنے کو ترجیح دی تھی اور ساتھ اپنے بھائی سفیان سے مدد لینے کا سوچا۔۔۔۔ لاؤنج میں اب وہ بیٹھا پڑھ رہا تھا ساتھ سفیان کے اٹھنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔

سفیان اٹھ کر نیچے آیا اور آ کر احمد کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔ اکرام الحق بھی ناشتہ کر کے آفس جانے والے تھے سفیان پر نظر پڑتے ہی ٹھٹکے تھے وہ اس کی اجڑی حالت دیکھ کر حیران ہوۓ تھے۔۔۔ سفیان کو کبھی بھی انہوں نے اس حالت میں دیکھا تھا جواں بیٹے کو ایسے دیکھ سینا چیرتا محسوس ہوا لیکن وہ اپنے مرحوم باپ اور بھائی کو زبان دے چکے تھے۔۔۔

تبھی دل پہ پتھر رکھ کر اور خود پہ سختی کا خول چڑھاتے انہوں نے سفیان کو مخاطب کیا۔۔۔۔

شام کو تیار رہنا تمہارے چچا کے گھر جانا ہے کل تمہاری ارشا سے منگنی ہے۔۔۔۔

اکرام الحق اپنا فیصلہ سناتے باہر جانے لگے جب سفیان کی بات سن کر قدم رکے۔۔۔۔

میں کبھی بھی ارشا سے منگنی نہیں کروں گا اور نہ کہیں جاؤں گا یہ بات آپ اچھے سے سمجھ لیں۔۔۔ 

میں صرف عمارہ سے شادی کروں گا۔۔۔

سفیان نے غصے سے ٹیبل پہ پڑا گلاس اٹھا کر فرش پہ دے مارا اور اکرام الحق کی طرف دیکھے بغیر وہاں سے نکل گیا۔۔۔

اکرام الحق بھی حیران تھے کہ سفیان نے کبھی اس لہجے میں ان سے بات نہیں کی تھی وہ تو بہت کول مائنڈڈ بچہ تھا۔۔۔۔ پروین بیگم بھی دونوں باپ بیٹے کو ایسے مد مقابل دیکھ ڈر گئی تھیں۔۔۔

اکرام الحق اس کی بدتمیزی پہ کڑوا گھونٹ بھر کر رہ گئے واپسی پہ بات کرنے کا سوچتے وہ آفس کے لیے نکل گئے۔۔۔

صبح سے شام ہو گئی تھی سفیان اوندھے منہ بیڈ پہ گرا بھوک پیاس سے نڈھال پڑا تھا۔۔۔۔

پروین بیگم دروازہ ناک کرتی اندر داخل ہوئی کھانے کی ٹرے میز پہ رکھی اور سفیان کے پاس بیڈ پہ بیٹھ گئیں۔۔

چلو اٹھو شاباش کھانا کھا لو صبح سے کچھ نہیں کھایا تم نے پھر تمہارے بابا بھی آنے والے ہوں گے ہمیں جانا بھی ہے۔۔۔۔

پروین بیگم نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتے ، بیٹے کی حالت کو نظر انداز کرتے اسے مخاطب کیا تھا۔۔۔ اس کے بالوں کو سہلاتے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا جب سفیان نے بھی کھسک کر ان کی گود میں سر رکھا تھا آنسو آنکھوں سے لڑیوں کی صورت بہہ رہے تھے۔۔۔

آپ کریں نہ بابا کے ساتھ بات مجھے نہیں کرنی یہ منگنی آپ تو سب جانتی ہیں نہ مجھے عمارہ پسند ہے میں اسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں میں مر جاؤں گا اس کے بغیر۔۔۔

پروین بیگم بھی اسے روتے دیکھ خود رو دیں لیکن وہ کر کچھ نہیں سکتی تھیں۔۔۔ دروازے پہ آہٹ پا کر وہ دونوں چونکے اکرام الحق ناجانے کب سے کھڑے ان کی باتیں سن رہے تھے سفیان منہ پھیر کر اٹھا اور آنسو صاف کرتے باہر جانے لگا جب اکرام الحق نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے روکا تو سفیان نے حیرانگی سے آنکھیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔۔۔ 

سفیان کی آنکھوں میں چھپے درد کو دیکھ اکرام الحق کا دل پگھلا اور اسے اپنے سینے میں بھینچ کر گلے لگایا۔۔۔۔

مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے تمہاری پسند پہ میں رشتہ لے جانے کے لیے تیار ہوں۔۔۔

سچ بابا۔۔۔ سفیان نے خود کو ان سے الگ کر کے ان کی طرف دیکھا تو اسے کہیں بھی جھوٹ کا عنصر نظر نہیں آیا تو اکرام الحق نے سر کو جنبش دیتے اسے اس کی زندگی کی نوید سنا دی تھی تبھی سفیان خوشی سے ان سے دوبارہ لپٹ گیا تھا۔۔۔

میں ابھی آیا سفیان یہ کہہ کر باہر کو بھاگ گیا۔۔۔

پروین بیگم نے بھی نم آنکھوں سے اکرام الحق کی طرف دیکھا تھا تشکر بھرا سانس لیا جب اکرام الحق نے آگے بڑھ کر ان کو بھی اپنے حصار میں لیتے تسلی دی تھی۔۔۔

لیکن خود پریشان ہو گئے کہ اب وہ اپنے بھائی کو کیا جواب دیں گے۔۔۔ انہی فکروں میں لاحق وہ اب اپنے اگلے اقدام کے بارے میں سوچنے لگ گئے۔۔۔۔

سفیان نے سب سے پہلے مسجد جا کر اپنے رب کا شکر ادا کیا تھا اور اب وہ جلد از جلد یہ خوشخبری عمارہ کو سنانا چاہتا تھا گھر کے راستے پہ چلتے عمارہ کو کال ملا گیا۔۔۔

عمارہ میری فیملی مان گئی ہے بہت جلد تمہیں لینے آؤں گا اب تم صرف میری ہو صرف کوئی تمہے مجھ سے الگ نہیں کر سکتا۔۔۔

عمارہ کے کال اٹھاتے ہی سفیان نے اسے یہ خوشخبری سنائی  جسے سنتے عمارہ بھی خوش ہو گئی تھی۔۔۔

میں آپ کا انتظار کر۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف سے کال ڈراپ ہو چکی تھی۔۔۔۔

سفیان نے موبائل کو گھورا تھا جیسے کال کٹ جانے میں اسی کا قصور ہو۔۔۔ بعد میں بات کرنے کا سوچتے وہ گھر چل دیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عمارہ ابھی فریش ہو کر باہر نکلی تھی کہ فون کی چنگھاڑتی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔۔۔

سفیان کالنگ لکھا دیکھ اس کے لب مسکراہٹ میں خود بہ خود ڈھلے تھے۔۔۔ آنکھوں میں چمک لیے اس نے فون اٹھایا اور بات کرنے لگی۔۔۔

سفیان کی بات سنتے وہ خوشی سے نہال ہوئی تھی بات کرتے کرتے ابھی وہ مڑی تھی جب اپنے سامنے کھڑے غصے سے گھورتے عاقب کو پایا۔۔۔

ب۔۔بھ۔۔۔ا۔۔۔۔بھائی آپ۔۔۔۔

جلدی سے موبائل آف کر کے ہاتھ میں ڈوپٹے کے پیچھے چھپایا اور عمارہ نے ڈرتے ڈرتے اپنے قدم اس طرف بڑھاۓ۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔

منہ پہ پڑنے والے تھپڑ نے اس کے چودہ طبق روشن کیے تھے۔۔۔۔

اس سے پہلے وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتی عاقب اسے بازو سے دبوچے نیچے لے کر آیا اور دھکا دے کر اسے لاؤنج میں گرایا تھا۔۔۔۔

ظفر صاحب فون پہ اپنے کسی کلائینڈ کے ساتھ بات کر رہے تھے جبکہ راشدہ بیگم کیچن میں دوپہر کا کھانا بنا رہی تھیں۔۔۔ عاقب کو اتنے غصے میں عمارہ کو نیچے لاتے دیکھ وہ بھی باہر آئیں اور ظفر صاحب نے بھی فون رکھ دیا۔۔۔

آپ کو پتہ ہے یہ ہمارے پیار کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔۔۔اس دن کے لیے اسے پڑھا لکھا رہے ہیں کہ یہ ہمارے سروں میں خاک ڈالے۔۔۔ یہ صلہ دے گی اب یہ ہماری پرورش کا۔۔چھپ چھپ کے عاشقیاں معشوقیاں لڑا رہی ہے۔۔۔۔

عمارہ روتے روتے سر نفی میں ہلا رہی تھی۔۔۔ جان سے پیارے بھائی کی آنکھوں میں خود کے لیے بے اعتباری ،، بے اعتنائی دیکھ اس کا دل کیا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔ ظفر صاحب کی آنکھیں بھی شعلہ اگل رہی تھیں جبکہ راشدہ بیگم تو ابھی تک صدمے میں تھیں کہ ان کی بیٹی بھی ایسا کوئی کام کر سکتی ہے۔۔۔

عاقب خونخوار نظروں سے اسے گھورتا اس طرف بڑھا اور اس سے موبائل لے کر فرش پہ زور سے پھینکا۔۔۔ 

یہی ہے سارے فساد کی جڑ ۔۔۔۔

اسی کے ذریعے رابطہ رکھتی ہو نہ تم اس بےغیرت شخص سے۔۔۔۔ آج کے بعد تم نے اس سے بات کرنے کی کوشش بھی کی تو گلہ گھونٹ دوں گا تمہارا۔۔۔۔

اب سے اس کا کالج بھی آنا جانا بند کریں۔۔۔ بہت پڑھ لیا اس نے کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر اس کو چلتا کریں یہاں سے۔۔۔۔

عاقب غصے سے ظفر صاحب کو اپنا فیصلہ سناتا وہاں سے چلا گیا ورنہ ناجانے وہ غصے میں کیا کر بیٹھتا۔۔۔۔

عمارہ نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا اس کا جان سے پیارا بھائی اس کے ساتھ ایسا ناروا سلوک روا رکھ سکتا ہے۔۔۔ اسے تو پوری امید تھی کوئی اس کا ساتھ دے یا نہ دے عاقب ضرور دے گا۔۔۔ لیکن اس کی یہ امید بھی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔

راشدہ بیگم نے بھی اسے خونخوار نظروں سے گھورا اور اسے پکڑ کر کھڑا کرتے ایک زوردار تھپڑ سے نوازا تھا۔۔۔

دفعہ ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے یہ تربیت تو نہیں کی تھی میں نے تمہاری۔۔۔۔

عمارہ کو اب یہاں کھڑے رہنا محال لگ رہا تھا تبھی بھاگتی جا کر وہ کمرے میں بند ہو گئی تھی۔۔۔ اس سے زیادہ وہ نہیں سن سکتی تھی۔۔۔۔

روتی روتی وہ دروازے کے ساتھ نیچے بیٹھتے چلی گئی۔۔۔۔ یہ کیا ہو گیا تھا اس کے ساتھ۔۔۔۔

ظفر صاحب نے بھی راشدہ بیگم کو خوب لتاڑا تھا اب انہوں نے بھی عاقب کے کیے گئے فیصلے پہ نظرثانی کرنے کا سوچا تھا۔۔۔ راشدہ بیگم تو شرمندگی سے نظریں جھکاۓ بیٹھی رہیں تھیں۔۔۔ ان کے مطابق ان کو کچھ بولنے لائق چھوڑا ہی کہاں تھا عمارہ نے تبھی چپ سادھے وہ بھی بیٹھ گئی تھیں۔۔۔۔

آج تو بہت تھک گئے مجھے ابھی اور چیزیں بھی خریدنی تھیں ماما وہ میں کل تایا جان لوگوں کے آنے سے پہلے پہلے خرید لاؤں گی۔۔۔۔

ارشا اپنی ماں کے ساتھ ابھی شاپنگ کر کے گھر واپس لوٹی تھی اور صوفے پہ بیٹھتے ہی اس کی بک بک پھر سے شروع ہو گئی تھی۔۔۔

جبکہ صفیہ بیگم اس کی تیاریوں سے تنگ آ کے سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھیں۔۔۔ 

میں یہ ٹراۓ کر کے دیکھتی ہوں ارشا شاپنگ بیگ اٹھاۓ کمرے میں بھاگ گئی اور اب ایک ایک ڈریس کھول کر شیشے کے سامنے کھڑی خود سے لگائے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

میں نے سوچا بھی نہیں تھا تم اتنی آسانی سے مجھے مل جاؤ گے افففف۔۔۔ بس کل کا دن جلدی سے آ جائے پھر تمہارا اور میرا نام ہمیشہ کے لیے ایک ساتھ جڑ جائے گا۔۔۔ 

آئینے میں ابھرتے سفیان کے عکس کو دیکھ کر وہ پگلی پھر سے کہیں کھو گئی تھی لیکن اس بات سے انجان کہ یہ خوشی محض تھوڑے ٹائم کی ہے۔۔۔

وقت بہت ظالم ہے زندگی میں من چاہا کردار بھی کسی کسی کو ملتا ہے۔۔۔۔

"الفاظوں میں پڑ جائے گی ـــــ جب جان مکمل

         لے آئیں گے ہم بھی ـــــ عشق پر ایمان مکمل

           آجائے میرا نام ـــــــ تیرے نام کے ہمراہ

        ہو جائے کسی روز ــــــ تو پہچان مکمل"

 صبح کا وقت تھا اور وہ ایک جاندار انگڑائی لے کر بیدار ہوئی تھی۔۔۔ آج کا دن اس کے لیے خوشیوں سے بھرا تھا جسے دل میں بسایا تھا آج اسے پا لینے کی خوشی ہی الگ تھی۔۔۔ جلدی سے اٹھ کر وہ فریش ہوئی تھی۔۔۔ 

ریڈ اینڈ بلیک کومبینیشن کی پیروں کو چھوتی فراک پہن  رکھی تھی ابھی وہ چوڑیاں پہن رہی تھی جب صفیہ بیگم اس کے کمرے میں داخل ہوئیں اور اسے تیار ہوتا دیکھ ٹھٹکیں۔۔۔

ماما یہ چوڑیاں پہنا دیں نہ مجھے ورنہ ہمیشہ کی طرح یہ مجھ سے ٹوٹ جائیں گی وہ خوشی سے چہکتے صفیہ بیگم کو اپنے کمرے میں دیکھ چوڑیاں اٹھاۓ ان کی طرف لپکی اور انہیں بیڈ پہ بیٹھا کر چوڑیاں اور اپنا ہاتھ دونو آگے کر گئی۔۔۔

کیوں تیار ہو رہی ہو اتارو یہ سب ابھی کے ابھی سنا تم نے کوئی منگنی نہیں ہو رہی تمہاری سمجھی۔۔۔۔

صفیہ بیگم نے بے دردی سے اس کے ہاتھ جھٹکے تھے اور اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔

یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔ کچھ بھی بول دیتی ہیں مانا کے میری منگنی آپ کے بھانجے سے نہیں ہو سکی اب ایسا تو نہ کریں آپ میری خوشی میں ہی خوش ہو جائیں کم از کم۔۔۔۔

ارشا تو ان کی بات سن کر ہتھے سے ہی اکھڑ گئی تھی اور جو منہ میں آیا بولتی چلی گئی۔۔۔

ارشا میری بات سنو بھائی صاحب کا فون آیا تھا ابھی وہ انکار کر چکے ہیں وہ نہیں آ رہے اس بات کو سمجھ جاؤ اب۔۔۔۔

صفیہ بیگم نے اسے پیار سے سمجھانا چاہا تھا۔۔۔

ارے ایسے کیسے نہیں آ رہے تایا جان انہوں نے ہی تو کہا تھا منگنی کرنے کا اب وہ کیسے مکر سکتے ہیں۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔میں ایسا نہیں ہونے دوں گی میں خود تایا جان سے بات کروں گی۔۔۔۔

وہ ہذیانی انداز میں چیخی۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔

صفیہ بیگم نے اسے رکھ کر ایک تھپڑ جڑا تھا۔۔۔ خبردار اگر تم نے ایسا سوچا بھی۔۔۔ ایسی تربیت تو نہیں کی میں نے تمہاری کہ اب تم بڑوں کے فیصلے میں زبان درازی کرو۔۔۔ سفیان کا خیال اپنے دل سے نکال دو اور اب وہ دوبارہ کہیں گے بھی میں تب بھی اس رشتے پہ راضی نہیں ہوں گی تمہاری شادی اب وہیں ہو گی جہاں میں چاہوں گی۔۔۔

صفیہ بیگم اسے سنا کر جا چکی تھیں ارشا کو اپنا یوں بے مول ہونا خود کا وجود بہت ازراں لگا تھا۔۔۔۔ ساری تیاری خود سے نوچ پھینکی تھی۔۔۔ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے وہ رو دی تھی۔۔۔

نہیں۔۔۔ میں یوں خود کو بے مول نہیں ہونے دوں گی میں سفیان سے خود بات کروں گی ایسا کیسے کر سکتا ہے وہ روتے ہوئے اٹھ کر موبائل ڈھونڈا اور کانپتے ہاتھوں سے وہ سفیان کا نمبر ملا گئی تھی جو کے چوتھی بیل پر ریسیو کر لیا گیا تھا۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان ساری رات عمارہ کا نمبر ٹراۓ کرتا رہا لیکن جواب ندارد۔۔۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اس کی عمارہ سے بات نہیں ہو سکی تبھی وہ بہت بے چین رہا تھا۔۔۔

انتظار کی سولی پہ لٹکے وہ ناجانے کب نیند کی وادی میں چلا گیا اسے پتہ ہی نہ چل سکا۔۔۔

صبح آنکھ کھلتے ہی پھر سے موبائل چیک کیا لیکن وہاں نہ کوئی میسج نہ کوئی کال دیکھ کر وہ مایوس ہوا تھا۔۔۔ بےدلی سے اٹھ کر وہ فریش ہوا اور یونی کے لیے جلدی نکل گیا کیونکہ وہ اکرام الحق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا ابھی کہ یہ نہ ہو وہ بات کرنے کے لیے نمبر مانگیں تو اس کے پاس کوئی جواب نہ ہو۔۔۔۔ 

وہ جلد از جلد عمارہ سے بات کر کے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن بات کرے کیسے اب مسئلہ یہ تھا۔۔۔ انتظار کے علاوہ اب کوئی حل نہیں تھا سو چاروناچار وہ منہ بسور کر رہ گیا تھا۔۔۔۔

جَوان رَنجِش و دَرد تازہ،  اُدھار سانسِیں، جُھلستا آنگن ..

وِیران دَامن ، اُجاڑ پہلو ، وُہ تِیری کَھوجِیں ، تِیرا تَصّور ...

جیسے تیسے یونی میں دن گزار کر وہ گھر آیا اور آتے ساتھ ہی کمرے میں بند ہو گیا۔۔۔۔ پروین بیگم کے کھانے کا پوچھنے پر بھی وہ کچھ کھانے سے انکار کر گیا۔۔۔ ہر چیز سے دل اچاٹ ہوا پڑا تھا۔۔۔

ایک دفعہ پھر موبائل کو دیکھا لیکن بے سود شدت سے دل کیا کہ موبائل کو اٹھا کر پھینک دے لیکن صبر کا کڑوا گھونٹ بھر کر رہ گیا۔۔۔

موبائل کو سائیڈ پہ رکھتے وہ بے بسی سے بالوں کو جکڑے بیٹھا تھا جب موبائل رنگ ہوا۔۔۔

لپک کر اس نے موبائل اٹھایا لیکن کال کرنے والے کا نام دیکھ کر اس کے تن بدن میں آگ لگی تھی۔۔۔

ایک تو پہلے ہی وہ پریشان تھا اس سے اوپر یہ آفت کی پڑیا۔۔۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی کال اٹینڈ کی لیکن مقابل کی باتیں سن اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔۔۔۔

شٹ اپ جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔

کیا میں نے تم سے کہا تھا مجھ سے پیار کرو۔۔۔۔؟؟

 کیا میں نے کبھی بھی تمہاری گھٹیا حرکتوں پہ تمہے بڑھاوا دیا۔۔؟

کوئی تم سے وعدہ وعید کیا۔۔۔۔؟

نہیں نہ تو اپنی بکواس بند کرو اور دفعہ ہو جاؤ اس سے پہلے میں کچھ سخت الفاظ بول جاؤں اپنی حد میں رہو۔۔۔۔

اینڈ ون مور تھنگ۔۔۔ میں نے کبھی بھی تم سے محبت نہیں کی۔۔۔ نہ کبھی تمہے لے کر ایسا ویسا کچھ سوچا تو بہتر ہو گا اپنی سوچوں کو لگام ڈالو اور خود سے بنائی گئی بے ساختہ باتوں کے جال سے باہر آ جاؤ۔۔۔

میں صرف عمارہ سے محبت کرتا ہوں اور شادی بھی اسی سے کروں گا۔۔۔۔

سفیان پھٹ پڑا تھا۔۔۔ سارا غم و غصہ ارشا پہ نکال باہر کیا تھا پھر غصے سے کال کاٹ کر موبائل کو بیڈ پہ پھینکا اور مٹھیاں بھینچے خود کے اشتعال پہ قابو پانے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

حسن نوین بیگم کو لیے ہانیہ کے گھر پہنچ گیا تھا۔۔۔ سکینہ بیگم اور احمد صاحب نے خوب آؤ بھگت کی تھی۔۔۔ 

نوین بیگم نے ادھر ادھر نظریں دوڑا کر ہانیہ کو ڈھونڈنا چاہا جب سکینہ بیگم نے ان کی نظروں کا زاویہ سمجھتے ہوئے خود ہی ان کی مشکل حل کر دی تھی۔۔۔۔

آپ بیٹھیے باتیں کریں میں ہانیہ کو بلا کر لاتی ہوں۔۔۔سکینہ بیگم وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔۔

ہانیہ کو جوں کا توں بیٹھے دیکھ انہوں نے ماتھا پیٹا تھا۔۔۔

ہانیہ تم تیار کیوں نہیں ہوئی ابھی تک وہ لوگ کب سے ویٹ کر رہے ہیں تمہارا۔۔۔۔

سکینہ بیگم نے اسے پھر سے زبردستی بیڈ سے اٹھاتے کپڑے اس کے ہاتھ میں تھماۓ تھے۔۔۔

آپ کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی ماما مجھے کسی سے نہیں ملنا نہ ان سے کوئی رشتہ رکھنا ہے آپ کیوں زبردستی کر رہی ہیں میرے ساتھ۔۔۔۔

ہانیہ ڈریس کو نیچے پھینکتی پھر سے ضدی ہوئی تھی جبکہ سکینہ بیگم اس کی ایک ہی تکرار سے تنگ آ چکی تھیں۔۔۔

تبھی دروازہ پہ ہلکی سی دستک نے دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔ دروازے کے بیچ و بیچ کھڑے حسن کو دیکھ کر سکینہ بیگم ہانیہ کو گھورتی باہر چلی گئیں اور ہانیہ رخ موڑے وہیں کھڑی تھی۔۔۔

حسن نے اندر آتے ہی دروازہ بند کیا تھا اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ سیدھا اس کے کشادہ سینے سے آ ٹکرائی دونوں کی آنکھیں ملیں ایک کی آنکھوں میں محبتوں کا جہان آباد تھا جبکہ دوسرے کی آنکھوں میں غم و غصہ تھا لیکن نفرت نہیں تھی۔۔۔

چھوڑیں مجھے۔۔۔۔

ہانیہ نے اس کے سینے پہ دونوں ہاتھ رکھتے پیچھے کو دھکا دیا تھا لیکن حسن نے ایک ہی جست میں اسے پھر سے اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔

سمجھتی کیا ہو خود کو تم ہاں۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے اتنی آسانی سے تم مجھ سے جان چھڑوا لو گی اپنی۔۔۔۔

نو نیور بے بی ڈارلنگ ۔۔۔۔ تم صرف میری ہو حسن عالم کی ملکیت ہو اور میں اپنی ملکیت کو حاصل کرنا اچھے سے جانتا ہوں یہ تو تم بھول ہی جاؤ کہ کبھی مجھ سے نجات حاصل کر سکو گی۔۔۔۔

حسن جو اسے کچھ سخت سنانے والا تھا اس کے ہونٹوں کے پاس بنے تل پہ نظر پڑتے ہی پھر اٹک گیا تھا۔۔۔ جو اس کے ہونٹوں کی کپکپاہٹ سے تھرتھرا رہا تھا۔۔۔

بے خود سا ہوتے وہ اس پہ جھکنے لگا تھا جب ہانیہ پھر سے اپنا رخ موڑ گئی تھی۔۔۔

حسن نے ایک ہاتھ سے اس کی گردن پیچھے سے پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے اس کا جبڑا دبوچتے اپنے ہونٹوں سے اس تل کو چھوا تھا۔۔۔ ہانیہ کی روح فنا ہوئی تھی۔۔۔ 

اس پہ میرا حق ہے دوبارہ ایسی گستاخی کی مجھ سے دور جانے کی تو بہت برا پیش آؤں گا سمجھی۔۔۔

کان میں سرگوشی کرتے حسن جھٹکے سے اسے چھوڑتا پیچھے ہوا تھا۔۔۔

چپ چاپ تیار ہو کر باہر آ جاؤ ورنہ اپنے طریقے سے لے جاؤں گا روندو بے بی۔۔۔۔

اس کے گال تھپتھپاتا وہ باہر نکل گیا پیچھے ہانیہ اسے ہزار صلاواتیں سناتی پیر پٹخ کر چینج کرنے چلی گئی۔۔۔۔

تھوڑی ہی دیر میں ہانیہ تیار ہو کر ڈرائنگ روم میں آئی جہاں سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔ 

اندر آتے ہی اس نے نوین بیگم کو سلام کیا تھا۔۔۔۔

نوین بیگم کو ہانیہ بہت پسند آئی تھی دل ہی دل میں بیٹے کی چوائس کو داد دی تھی۔۔۔

ادھر آؤ بیٹا میرے پاس بیٹھو۔۔۔ نوین بیگم نے اپنے ساتھ ہی اسے صوفے پہ جگہ دی جب وہ سر ہلا کر ان کے پاس بیٹھ گئی تھی۔۔۔

پھر تھوڑی دیر سب کے ساتھ بیٹھتے  ہانیہ اٹھ کر چلی گئی حسن اور نوین بیگم بھی اگلے ہفتے ہی شادی کی ڈیٹ فکس کر کے چلے گئے تھے۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

عمارہ دوپہر سے خود کو کمرے میں قید کیے دروازے سے ٹیک لگا کر دونوں گھٹنوں پر سر ٹکاۓ بس روتے ہوۓ یہ سوچ رہی تھی کیا غلطی تھی اسکی یہی کہ اس نے محبت کرلی۔۔۔

 ارے ہاں ہاں وہی محبت جو پاکیزہ ہوتی ہے وہ محبت جو اپنی منزل نکاح مانگتی ہے پر آہہہہہ!یہاں اسکی محبت کو گالی دی گئ جان سے پیارے بھائی نے بھروسہ کرنے کے بجائے الزام لگایا۔۔۔

کیا محبت کرنا اتنا بڑا گناہ ہے۔۔۔۔؟؟

نہیں،،، نکاح سے پہلے ہونے والی محبت گناہ تو نہیں۔۔۔ کیونکہ حضرت خدیجہ کو بھی تو نکاح سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پسند آۓ تھے۔۔۔

زلیخا کو بھی تو نکاح سے پہلے ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) سے محبت ہوئی تھی۔۔۔۔

یہ تو ایک فطری جذبہ ہے ہر انسان نے محبت کا مزہ چکھا ہے۔۔۔ یہ جذبہ ہر جذبے پہ حاوی ہو جاتا ہے کوئی انسان محبت کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا پھر چاہے وہ مجازی ہو یا حقیقی۔۔۔۔

ساری رات اس کی روتے ہوئے گزری تھی نہ اس نے کچھ کھایا نہ اسے کسی نے پوچھا ناجانے کونسے پہر جا کر اس کی آنکھ لگی اور وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔۔

صبح الارم کی آواز پہ اس کی آنکھ کھلی جو اس نے یونی جانے سے پہلے اٹھنے کے لیے لگایا ہوا تھا۔۔۔

آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہوۓ تھے سر درد سے بھاری ہو رہا تھا جب وہ بمشکل اٹھ کر بیٹھی ،،، خود کو زبردستی گھسیٹتے وہ فریش ہو کر یونی کے لیے تیار ہو کر نیچے آئی جہاں عاقب اپنے موبائل میں مصروف بیٹھا تھا ظفر صاحب آفس جا چکے تھے اور راشدہ بیگم کیچن کے کاموں میں لگی تھیں۔۔۔۔

تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔ 

عاقب اسے تیار دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہوا۔۔۔ موبائل سائیڈ پہ پٹکتے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔

ی۔۔۔یونی جانا ہے مجھے آج بہت امپورٹنٹ کلاس ہے میری۔۔۔

عمارہ نے ڈرتے سہمتے جواب دیا۔۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔

تمہیں ابھی بھی یونی جانا ہے۔۔۔۔ ہماری عزت خاک میں ملا کر ابھی بھی سکون نہیں آیا تمہے کوئی اور گل کھلانا باقی رہ گیا ہے کیا۔۔۔ دفعہ ہو جاؤ اپنے کمرے میں واپس اور آئندہ شکل مت دیکھانا مجھے ورنہ زندہ زمین میں گاڑ دوں گا سمجھی۔۔۔

عاقب نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا اور جاہلوں کی طرح اس پہ دھاڑا ۔۔۔۔

عمارہ نے بے یقینی سے تھپڑ پڑنے والے گال پہ اپنا ہاتھ رکھا آنکھیں فٹ نمکین پانی سے بھر گئیں۔۔۔۔ کچھ کہنا چاہا تھا لیکن زبان جیسے تالو سے چپک کر رہ گئی۔۔۔

الٹے پاؤں بھاگتے وہ جا کر کمرے میں بند ہوئی بیگ کو صوفے پہ پھینکتے خود بھی بیڈ پہ اوندھے منہ گری تھی۔۔۔۔

راشدہ بیگم بھی شور کی آواز سن کر کیچن سے باہر نکلی لیکن سامنے دونوں بہن بھائیوں کو مد مقابل دیکھ بولی کچھ نہیں تھی۔۔۔ خاموشی سے کڑوا گھونٹ بھر کے رہ گئیں اور تاسف سے سر ہلاتے واپس کیچن میں چلی گئیں۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

دن پر لگا کر اڑ چکے تھے یہ ایک ہفتہ کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا وقت کبھی کسی کے لیے نہیں رکتا جیسا بھی ہو اچھا برا گزر جاتا ہے۔۔۔

ٹونی نے حسن کو اپنے اور انشاء کے بارے میں سب بتا دیا تھا اور یہ بھی کہ وہ اپنے کیے پہ بہت شرمندہ ہے تبھی حسن نے ان دونوں کو اپنی شادی میں بلایا تھا۔۔۔

انشاء کی خفت مٹانے کو حسن نے اس سے ہلکی پھلکی گفتگو شروع کر دی تھی۔۔۔۔

حسن بلیک شیروانی پہنے کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا۔۔۔۔ انشاء کی نظریں ابھی بھی اس کا طواف کر رہی تھیں جو نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔۔

پھر سر جھٹک کر  اپنے آنسو پیتے اس کی دائمی خوشیوں کی دعا کی تھی 

ابھی وہ سٹیج پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب رانیہ ہانیہ کو لیے چلی آ رہی تھی۔۔۔۔

سکن اور ڈیپ ریڈ کلر کے امتزاج کا لہنگا پہنے وہ پور پور سجی آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی۔۔۔

حسن نے آگے بڑھ کر اس کے سامنے اپنی چوڑی ہتھیلی پھیلائی جسے ہانیہ نے گھورتے ہوئے تھام لیا اور وہ دونوں صوفے پہ ایک دوسرے کے برابر براجمان ہو گئے۔۔۔۔

کیا بات ہے میڈم۔۔۔ آج مجھے چاروں شانے چت کرنے کا پروگرام ہے۔۔۔۔

ویسے یہ بندہ ناچیز تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر سکتا ہے۔۔۔۔

حسن نے بیٹھتے ہی اسے چھیڑا تھا لیکن ہانیہ نے کوئی جواب نہیں دیا جس پر حسن کے ماتھے پہ بل پڑے تھے ۔۔۔۔

گھر جا کر اس کی عقل ٹھکانے لگانے کا سوچ کر وہ بھی ادھر ادھر متوجہ ہو گیا۔۔۔۔

کچھ رسموں کے بعد رخصتی کا شور اٹھا تو وہ سب کچھ پیچھے چھوڑے اس کے سنگ زندگی کے نئے سفر پر چل پڑی۔۔۔۔

گھر پہنچتے ہی اسے حسن کے کمرے میں لا کر بیٹھایا گیا۔۔۔۔

نوین بیگم نے تو خوب لاڈ اٹھائے تھے آج ان کے برسوں کے خواب کی تکمیل جو ہو گئی تھی کیسے نہ خوش ہوتیں وہ۔۔۔۔

ہانیہ بھی نہ چاہتے ہوئے سکینہ بیگم کے سمجھانے پر وہ آج دلہن بنی حسن کے کمرے میں براجمان تھی۔۔۔

ایک تو وہ پہلے ہی اس رخصتی کے حق میں نہیں تھی دوسرا انشاء اور حسن کو ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہنستے دیکھ پارہ ہائی ہوا تھا۔۔۔۔

اس نے بھی اب سوچ رکھا تھا حسن کو ناکوں چنے نہ چبوائے تو اس کا نام بھی ہانیہ احمد نہیں۔۔۔۔

تبھی ذہن میں آئے خرافات آئیڈیے پر عمل کرنے کا سوچتے وہ اپنے پلان پر عمل کرنے لگ گئی۔۔۔۔

حسن فارغ ہو کر اپنے کمرے میں آیا تھا لیکن بیڈ پہ نظر پڑتے ہی اس نے سرد سانس خارج کی تھی۔۔۔۔

ہانیہ بیڈ کے بیچ و بیچ تکیوں سے دیوار بنائے چینج کر کے خود ایک سائیڈ ہو کر کمفرٹر لیے سوئی ہوئی تھی 

حسن تھوڑا سا آگے بڑا تھا تو ایک تکیے کے اوپر نوٹ لکھا پڑا ملا۔۔۔

ہاتھ بڑھا کر اٹھایا اور اس پر لکھی تحریر پڑھ کے اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ ماتھا پیٹے یا کیا کرے۔۔۔۔

تحریر کچھ یوں تھی۔۔۔

اس دیوار کو پھلانگنے کی کوشش مت کیجیے گا ذیادہ ٹینشن ہو تو صوفے پہ سو جائیے گا اور میری منہ دیکھائی کا تحفہ ڈریسنگ پر رکھ دیجیے گا۔۔۔۔

مجھے جگانے کی کوشش تو بالکل مت کیجیے گا۔۔۔

حسن نے وہ نوٹ پھاڑ کر ہوا میں اچھالا تھا اور چینج کر کے سیگریٹ کی ڈبیہ اٹھائے بالکونی کی طرف بڑھ گیا 

آدھی رات سیگریٹ پھونکتے گزر گئی تھی لیکن دل کو سکون میسر نہیں آ رہا تھا۔۔۔ جب محبوب بھی پاس ہو محرم بھی ہو پورا حق رکھتے ہوئے بھی دور رہنا پڑے تو بہت مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔۔

واپس آ کر اس نے تکیوں کو اٹھا کر نیچے پھینکا اور ہانیہ کو اپنی طرف کھینچ کر بانہوں کے گھیرے میں لیا اور اس کے ماتھے پہ بوسہ دے کر سکون سے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

زویا لیکچر لے کر فری ہوئی تھی جب بیزار سی شکل لیے وہ اٹھ کر کلاس روم سے باہر نکل آئی ۔۔۔۔

عمارہ کے بغیر اس کا بالکل دل نہیں لگ رہا تھا۔۔۔رہ رہ کر اس پہ غصہ بھی آ رہا تھا جو یونی بھی نہیں آ رہی تھی اور فون بھی بند کر رکھا تھا۔۔۔

چلتی چلتی وہ گراؤنڈ میں لگے ایک بینچ پر آ بیٹھی تھی جب اسے خیال آیا کہ وہ عمارہ کے گھر جا کر بھی تو پتہ کر سکتی ہے نہ کہ وہ کیوں نہیں آ رہی تبھی خود کو ہی سر پہ ایک چپت لگا کر اٹھ کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔

وہ لڑکی شاید پاگل تھی

کیا صبر تھا اس دیوانی کا

کیا ضبط محبت کرتی تھی

آنکھوں میں نیم نشہ سا تھا

باتوں سے دیوانی لگتی تھی

ہمراز نہ تھا اس کا کوئی

بس رب سے باتیں کرتی تھی

دن رات ہی گم صم رہتی تھی

کچھ شرم وحیا کا پیکر تھی

کچھ نرم مزاج وہ رکھتی تھی

اک شام کے آنچل میں اکثر

جذبات چھپائے رکھتی تھی

ڈرتی تھی جدا ہونے سے

یا پیار سے شاید ڈرتی تھی

ہے رشک مجھے اس پاگل پہ

کیا خوب محبت کرتی تھی

ہمراز نہ تھا اس کا کوئی

بس رب سے باتیں کرتی تھی

ایک ہفتہ گزر چکا تھا نہ اسے کھانے کی ہوش تھی

 نہ پینے کی۔۔۔ کچھ ہی دنوں میں وہ صدیوں سی بیمار لگنے لگ گئی تھی۔۔۔۔

عمارہ نے کمرے سے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا جبکہ گھر والوں نے بھی اس بات کا نوٹس نہیں لیا تھا۔۔۔۔

سمیرا کو بھی جب پتہ چلا تو وہ بھی آ کر اسے خوب سنا کر گئی تھی۔۔۔۔

اب بھی وہ نڈھال سی بیڈ پہ پڑی تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔

اس نے بھی اٹھ کر بیٹھنے کی زحمت نہیں کی تھی وہ پھر سمجھی کہ صفیہ بیگم اسے سمجھانے آئی ہوں گی۔۔۔۔

لو جی ہماری نیندیں اڑا کر یہ میڈم خود آرام فرما رہی ہیں۔۔۔۔

زویا کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تو فوراً اٹھ کر بیٹھی ۔۔۔۔

لیکن زویا کی جیسے ہی نظر عمارہ کے چہرے پہ پڑی وہ بھی دنگ رہ گئی۔۔۔۔

بے ڈھنگا سا حلیہ،، آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے،، پثرمردہ وجود لیے وہ بیڈ پہ نڈھال سی بیٹھی تھی۔۔۔۔۔

یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا ۔۔۔۔۔

زویا نے بیڈ پہ بیٹھتے ہی اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔ جس پر عمارہ ضبط کھوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی ہچکیاں لیتے اسے پوری بات بتائی ۔۔۔۔ زویا کو بھی مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہو چکا تھا اسی لیے وہ بھی متفکر نظر آ رہی تھی۔۔۔۔۔

اب کیا ہو گا۔۔۔؟ عاقب بھائی کو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔ ا چھا رو مت تم کہو تو میں تمہارے گھر والوں سے بات کروں ۔۔۔۔

جس پر عمارہ نے زور سے نفی میں سر ہلایا ۔۔

عمارہ نے اٹھ کر کمرے کا دروازہ بند کیا اور زویا سے اس کا موبائل مانگ کر جلدی سے سفیان کا نمبر ڈائل کیا لیکن بیل جا جا کر فون بند ہو گیا عمارہ نے دوبارہ نمبر ملایا اور دل سے دعا کی تھی کہ وہ اٹھا لے۔۔۔۔

آخر کار تیسری دفعہ کال ملانے پر کال اٹھا لی گئی۔۔۔ ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی بات کرتے جب کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی اندر آیا تھا۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

سفیان کی حالت بھی غیر ہوتی جا رہی تھی ایک ہفتہ گزر چکا تھا اس کی آواز سنے اس سے بات کیے۔۔۔۔ کوئی ہزار بار نمبر ملایا اس کا لیکن ہر دفعہ کی طرح جواب ندارد۔۔۔۔

پیپرز کے دن نزدیک آ چکے تھے لیکن دل ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا۔۔۔۔ نہ پڑھنے کو دل کرتا تھا نہ کچھ اور کرنے کو۔۔۔

اکرام الحق نے بھی عمارہ کے گھر والوں سے بات کرنے کے لیے نمبر مانگا جسے وہ بہانہ بنا کر فی الحال کے لیے ٹال گیا تھا۔۔۔

اب بھی وہ بیزار سا کتابیں کھولے پڑھنے کی ناکام سی کوشش کر رہا تھا جب موبائل رنگ ہوا تھا۔۔۔ ان نون نمبر دیکھ کر اس نے اگنور کر دیا ابھی وہ کسی سے بات نہیں کرنا  چاہتا تھا۔۔۔

لیکن بار بار بجتی بیل نے جب دماغ خراب کیا تو اس نے غصے سے فون اٹھایا ابھی وہ غصہ نکالتا لیکن عمارہ کی آواز سن کر وہ حیرت زدہ ہوا۔۔۔

عمارہ کہاں تھی تم یارر۔۔۔ تم ٹھیک ہو ،، فون کیوں بند جا رہا ہے تمہارا ،، تم رو کیوں رہی ہو ڈیم اٹ،، مجھے کچھ بتاؤ گی بھی کہ نہیں۔۔۔

سفیان نے زور سے مٹھیاں بھینچی تھیں۔۔

بیچینی حد سے سوا ہوئی تھی۔۔۔

عمارہ کی باتیں سنتے اس کے ماتھے پہ ابھرتی رگوں نے اس کے ضبط کی انتہا دکھائی تھی۔۔۔

چھوڑوں گا نہیں میں کسی ایک کو بھی ایک ایک کو دیکھ لوں گا جس نے بھی تمہے رلایا ہے۔۔۔

نمبر دو مجھے اپنے باپ کا آج ہی بابا سے بات کروا کے رشتہ بھیجتا ہوں فکر مت کرو تم صرف میری ہو اور میری ہی رہو گی۔۔۔

سفیان نے عمارہ کو تسلی دیتے ماتھے کو دو انگلیوں اور انگوٹھے کے ساتھ مسلا۔۔۔

پریشانی میں وہ اکثر ایسا کیا کرتا تھا۔۔۔

ابھی وہ بات کر رہے تھے جب اچانک سے کال بند ہو گئی۔۔۔

سفیان چلتا ہوا اکرام الحق کے پاس آیا تھا جو لاؤنج در میں بیٹھے چائے پی رہے تھے آج دفتر سے ان کو چھٹی تھی۔۔۔۔

مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے ۔۔۔۔

یہ عمارہ کے بابا کا نمبر ہے میں چاہتا ہوں آپ آج ہی ان سے بات کریں میرے اور عمارہ کے بارے میں۔۔۔

سفیان کی آنکھوں میں ابھی بھی غم و غصہ دیکھائی دے رہا تھا ضبط کے باوجود اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کچھ کر بیٹھے گا تبھی وہاں سے فوراً باہر نکل گیا۔۔۔۔۔

ہانیہ نے صبح کسمساتے ہوئے آنکھوں کو کھول کر انگڑائی لینی چاہی لیکن ہل بھی نہیں سکی۔۔۔

بڑی مشکل سے بند ہوتی آنکھوں کو کھولا تو دیکھا حسن اس کو بازؤوں کے گھیرے میں لیے پر سکون نیند سو رہا تھا۔۔۔

اس کے چہرے کے پہ پھیلے سکون کو دیکھ کر اس نے خود کو ہلنے سے باز رکھا اور حسن کے چہرے کو بڑے غور سے دیکھنے لگی۔۔۔

وہ سویا ہوا کسی معصوم شہزادے کی طرح لگ رہا تھا جو اپنی قیمتی چیز کے مل جانے پر پر سکون نیند میں تھا۔۔۔۔

ہانیہ نے ہاتھ بڑھا کر اسے محسوس کرنا چاہا جب دل کی خواہش پر عمل کرتے اس نے اپنا نازک ہاتھ اس کی گال پر رکھا ۔۔۔

دل ہی دل میں اسے اپنی اس حرکت پہ حیرت  بھی ہو رہی تھی ۔۔۔

میرا ستمگر ۔۔۔۔

ہانیہ سب کچھ بھولے بس اسے دیکھنے میں محو تھی جب حسن نے انگڑائی لیتے جھٹ سے اسے اپنے قبضے میں لیا تھا۔۔۔۔

ہانیہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے شرمندہ سی ہوئی تھی اپنی حرکت پہ تبھی خود کو چھڑوانے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

میں جانتا ہوں تم مجھ سے نفرت نہیں کرتی ، پیار کرتی ہو اظہار نہیں کرتی ، میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو لیکن مانتی نہیں ہو۔۔۔۔

دیکھو میں تم سے اپنے کیے ہر عمل پر معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔۔۔

کیا تم مجھے معاف کر کے میرے ساتھ ایک نئی زندگی کی شروعات کرو گی۔۔۔۔

حسن نے اسے بانہوں میں بھرے ہی اس کے کانوں میں سرگوشی کی اور اس کی کان کی لو کو اپنے ہونٹوں سے ہلکا سا چھوا تھا ۔۔۔۔

ہانیہ جو بغیر ہلے اس کی آواز کے سحر میں جکڑی تھی اس کی حرکت پہ کرنٹ کھا کر رہ گئی۔۔۔۔

رات کے بنائے سارے منصوبوں پہ اسے پانی پھرتا نظر آ رہا تھا تبھی خود کو چھڑوا کر اسے گھوری سے نوازتے جا کر ڈریسنگ روم میں بند ہوئی تھی ۔۔۔۔

حسن بھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔

ہانیہ ریڈ اینڈ بلیک کلر کے کامبینیشن  کی فراک پہنے ، نک سک سی تیار ہو کر ڈریسنگ کے پاس کھڑی ہاتھ مروڑ رہی تھی۔۔۔۔

وہ نیچے جانا چاہتی تھی اور اکیلے جانے سے ڈر بھی رہی تھی جبکہ حسن بیڈ پہ بیٹھا دنیا جہان کی لاپرواہی دکھاتے ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑ رہا ہو ۔۔۔۔

ہانیہ کو اب غصہ آ رہا تھا جو وہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا تبھی غصے سے اب ڈریسنگ پہ رکھی چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگی تھی۔۔۔۔

حسن بیڈ سے اٹھ کر اس کے پاس آیا اور پیچھے سے اسے اپنے گھیرے میں لیتے اس کو روکا تھا۔۔۔۔

مجھے آنکھیں پسند ہیں میری

کیونکہ یہ تمہیں بہت محبت سے 

دیکھتی ہیں

مجھے عشق ہے اپنی سماعت سے

کہ 

یہ تمہاری آواز سے میری روح کو 

روشن کرتی ہے

مجھے میرے ہونٹ کسی 

نعمت سے کم نہیں لگتے

کیونکہ

یہ لمحہ لمحہ 

تمہارا نام پکارتے ہیں

میرا دل میرا جنوں ہے کہ 

میری دھڑکنیں تمہارے ذکر پہ 

رقصاں ہیں 

میں اپنے ہاتھوں کو محبت سے 

چوم لیتا ہوں 

کہ تمہارے لئے تمہارے نام پہ محبت کو 

تحریر کرتے ہیں

مجھے میرے قدموں کی آہٹ 

تمہارے ساتھ ہونے کا احساس دلاتی ہے  

ہاں مجھے خود سے محبت ہے

ہاں میں پسند ہوں خود کو

کہ میرا روم روم تمہاری محبت پہ محو رقص ہے

میرے خون میں تمہاری محبت کی تاثیر ہے

میرے خمیر میں تم بسی ہو

ہاں یہی انداز ہے میری محبت کا

ہاں مجھے محبت ہے تم سے

بے شمار بے پناہ بے لوث 

بہت پیاری لگ رہی ہو جان لینے کا ارادہ ہے کیا۔۔۔۔

حسن نے اسکا رخ اپنی طرف موڑتے اس کی پیشانی پہ محبت و عقیدت سے بوسہ دیا تھا۔۔۔

ہانیہ نے اس لمس کو محسوس کرتے جھینپتے ہوئے پلکیں جھکائیں تھیں ۔۔۔۔

چھوڑیں مجھے نیچے جانا ہے ۔۔۔۔۔

ہانیہ نے خفت مٹانے کو اسے گھورا تھا اور اپنا آپ چھڑوا کر نیچے کو بھاگی ۔۔۔۔

حسن بھی کچھ ہی ٹائم میں تیار ہو کر نیچے پہنچ گیا تھا۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

اکرام الحق نے آج ظفر صاحب کو کال ملائی تھی تا کہ وہ اس مسئلے کا حل نکال سکیں ۔۔۔ 

سفیان انہیں بے حد عزیز تھا تبھی اس کی خوشی کی خاطر اجنبیوں سے بھی رشتہ جوڑنے چلے تھے ۔۔۔۔

بیل جا رہی تھی جو پہلی بیل پہ ہی کال ریسیو ہو گئی۔۔۔۔

اکرام الحق نے اپنا تعارف کروایا تھا ابھی وہ بات شروع ہی کرنے والے تھے جب ظفر صاحب نے درشت لہجے میں ان کی بات کاٹی تھی۔۔۔۔

مجھے یہ جاننے میں بالکل دلچسپی نہیں ہے آپ کون ہیں اور کیا ہیں ۔۔۔۔

ہم ذات سے باہر شادی نہیں کرتے تو بہتر ہے آپ اپنے لڑکے کو سمجھا دیں کہ وہ بھول جائے ہماری بیٹی کو اور رابطہ کرنے کی کوشش نہ کرے دوبارہ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔

ظفر صاحب نے بنا لحاظ کیے اکرام الحق کو اچھی خاصی سنا دیں تھیں۔۔۔

اکرام الحق کو اندازہ تھا مسئلے کی سنگینی کا تبھی انہوں نے سب برداشت کرتے ایک دفعہ پھر صلح جو لہجہ اختیار کرتے ان سے بات کا آغاز کیا تھا ۔۔۔۔

میں آپ کی بات سمجھتا ہوں ۔۔۔ 

لیکن یہ زندگی بچوں کی ہے وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اسلام بھی اس چیز کی اجازت دیتا ہے

تو مجھے لگتا ہے ہمیں مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے ۔۔۔ اگر آ پ اجازت دیں تو میں اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔

آپ کو آنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی مجھے دین سکھانے کی ۔۔۔ مجھے اچھے سے پتہ ہے میری بیٹی کے لیے کیا ٹھیک ہے اور کیا نہیں ۔۔۔۔ 

اپنے بیٹے کو سمجھا لیجیے گا ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔

ظفر صاحب ایک دفعہ پھر سے بھڑک اٹھے تھے ۔۔ اکرام الحق کو سختی سے منع کرتے فون کھٹاک سے بند کیا تھا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے سفیان اور عمارہ کی بات نہ ہونے کے برابر تھی۔۔۔۔۔

عمارہ کے ساتھ بھی سب کا رویہ اچھا  نہیں تھا۔۔۔۔ جس گھر میں ہر وقت خوشیوں کی چہکار تھی اب وہاں سب لیے دیے سے انداز میں رہ رہے تھے۔۔۔۔

عمارہ نے بہت کوشش کی کہ سب ٹھیک ہو سکے لیکن اس کی بات کوئی سننے کو تیار ہی نہیں تھا تبھی اس نے بس خود کو کمرے تک محدود کر کے اللہ سے دل لگا لیا تھا۔۔۔۔

ابھی وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی جب راشدہ بیگم اس کے کمرے میں آئیں اور بیٹی کا آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھ ان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔۔

اسے بازوؤں سے پکڑ کر بیڈ پہ بیٹھایا خود بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں۔۔۔۔

لیکن عمارہ اپنا سر ان کی گود میں رکھے لیٹ گئی۔۔۔۔

کتنے دنوں بعد ممتا کی آغوش ملی تھی راشدہ بیگم نے بھی اس کے بال سنوارے پیار سے سر پہ بوسا دیا تھا۔۔۔

عمارہ تم چاہتی ہو نہ سب ٹھیک ہو جائے۔۔۔

راشدہ بیگم نے بات کا آغاز کیا تھا ۔۔۔

جی مما۔۔ میں تو چاہتی ہوں سب ٹھیک ہو جائے مجھ سے بابا کی نفرت ،،بھائی کی بے اعتنائی ،، آپی کی ناراضگی کچھ بھی تو برداشت نہیں ہو رہا نہ ۔۔۔ 

آپ ان سب سے کہیں نہ مجھے معاف کر دیں میں اب بھی وہی عمارہ ہوں ان کی وہی بیٹی  جسے آپ سب کی عزت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔

عمارہ نے اٹھ کر ان کے دونوں ہاتھ تھامتے التجائی نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔

تو پھر شادی کر لو جہاں تمھارے بابا اور بھائی چاہتے ہیں پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔

راشدہ بیگم نے اس کے سر پہ بم پھوڑا تھا۔۔۔۔

عمارہ نے بے یقینی کی کیفیت سے اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

نہیں ماما۔۔۔ یہ مجھ سے نہیں ہو گا میں کسی اور سے شادی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔

آپ تو ماں ہیں آپ تو سمجھیں مجھے میں مر جاؤں گی اس کے بغیر۔۔۔

بابا کو کہیں مجھ سے اتنی بڑی قربانی نہ مانگیں جو میں نہ دے سکوں۔۔۔

عمارہ روتی ہوئی بھاگ کر  واشروم میں جا کر بند ہوئی تھی۔۔

کیوں ہر دفعہ بیٹیوں کو ہی باپ بھائی کی پگڑیوں کا واسطہ دے کر ان سے ان کا سب کچھ چھین لیا جاتا ہے۔۔۔۔

کیوں حق کے ہوتے ہوئے بھی ان کو پسندیدگی کا حق استعمال کرنے نہیں دیا جاتا۔۔۔

کیوں ہر دفعہ بیٹیوں کو ہی عزتوں کا واسطہ دے کر ان کو چپ کروا دیا جاتا ہے۔۔۔

کب تک یہ سب ان کی خوشیوں کے آڑے آتا رہے گا۔۔۔

کبھی ذات کو نشانہ بنا کر ان کی خوشیوں کو روند دیا جاتا ہے ۔۔۔

دو دن گزر چکے تھے عمارہ کو سخت بخار تھا راشدہ بیگم زاروقطار رونے کے ساتھ ساتھ اس کے ماتھے پہ ٹھنڈیاں پٹیاں رکھ رہی تھیں  ایک طرف ظفر صاحب کھڑے بھی سخت پریشان تھے  عمارہ میں تو سب کی جان بستی تھی لیکن جو حالات گزر رہے تھے اس وجہ سے سب نے خود پہ سختی کا خول چڑھا رکھا تھا۔۔۔

سمیرا بھی آئی ہوئی تھی وہ سوپ بنانے گئی تھی اور عبداللہ بھی اپنی آنی کے پاس اداس سا بیٹھا اسے جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

پروین بیگم اور اکرام الحق لاؤنج میں بیٹھے تھے سفیان کی دن بہ دن چڑچڑاتی طبیعت سے وہ کافی پریشان ہو رہے تھے۔۔۔

احمد کو بھی گھر کے ڈیپریسڈ ماحول کے باعث ہاسٹل میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ آسانی سے پیپرز کی تیاری کر سکے ۔۔۔۔

سفیان ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا اس نے سیدھا کمرے کا رخ کیا جب اکرام الحق نے آواز دے کر اسے اپنے پاس بلایا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔

یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اپنی وہ دنیا کی آخری لڑکی تو نہیں ہے جس کی خاطر تم نے جوگ لے رکھا ہے

اکرام الحق نے اس کے حلیے پہ نظر ڈالتے اسے جھڑکا تھا۔۔۔۔

میں اس سے دستبردار نہیں ہو سکتا بابا مجھے وہ چاہیے کسی بھی حالت میں کسی بھی قیمت پر ۔۔۔۔

پھر چاہے مجھے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے حاصل تو میں اسے کر کے رہوں گا وہ میری محبت ہے اور ایک غیرت مند مرد کبھی بھی اپنی محبت کو دوسروں کے لیے نہیں چھوڑتا۔۔۔۔

ہمارا دین بھی تو یہی کہتا ہے نہ جسے پسند کرتے ہو اس سے نکاح کر لو تو میں ہر حال میں اسی سے شادی کروں گا کسی دوسرے کے لیے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔

میرے جیتے جی ایسا نہیں ہو سکتا اور اگر ایسا ہوا تو میں بھی زندگی نہیں رہوں گا۔۔۔

سفیان طیش کے عالم میں اٹھتا کرسی کو ٹھوکر مارتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

پروین بیگم اور اکرام الحق دونوں ہکا بکا بس اسے جاتا ہوا دیکھتے رہ گئے ۔۔۔۔

سفیان ایسا تو نہ تھا کبھی  وہ تو سب سے بہت محبت کرنے والا سب کی فکر کرنے والا تھا۔۔۔۔

اکرام الحق نے پھر سے سنجیدہ ہوتے  اس پہ سوچنا شروع کیا تھا کہ وہ کس طرح اب اس معاملے کو ہینڈل کر سکتے ہیں جس میں ان کے بیٹے کا دل بھی نہ ٹوٹے اور سب کے لیے کوئی بات پریشانی کا بھی باعث نہ بنے۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

ہانیہ اور حسن اگلے دن احمد صاحب اور سکینہ بیگم سے ملنے آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔

سب نے مل کر کھانا کھایا اور اب لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔۔۔

ہانیہ کو کچھ چیزیں چاہیے تھیں تبھی اس نے اپنے کمرے کا رخ کیا  اور سکینہ بیگم بھی اس کے پیچھے ہی چلی آئیں ۔۔۔

ہانیہ تم خوش تو ہو نہ میری جان  ۔۔۔۔

ماں باپ اپنی اولاد کا برا نہیں چاہتے ہوتے تم ہمیں بہت عزیز ہو ہم ہمیشہ تمہے خوش دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ اسی صورت ممکن ہو گا جب تم سب کچھ بھول کر اپنی زندگی کا ایک نئے سرے سے آغاز کرو گی۔۔

سکینہ بیگم نے اسے صوفے پہ بٹھاتے سمجھایا تھا جو تھوڑی سی ناراض شکل بنائے ہوئے تھی۔۔۔

ماما ایک بات پوچھوں ۔۔۔۔

ہر طرح سے سمجھوتا صرف لڑکی کو ہی کیوں کیا جاتا ہے ،، اسے ہی سب برداشت کرنے کو اور بھولنے کو کیوں کہا جاتا ہے۔۔۔۔

وہ اس لیے میری جان کیونکہ اللہ پاک نے یہ سب برداشت کرنے کی ہمت اور حوصلہ بھی تو عورت کو ہی دیا ہے نہ۔۔۔

مرد سے زیادہ مضبوط بھی تو عورت کو بنایا ہے۔۔۔۔۔

سکینہ بیگم نے پیار سے اسے سمجھاتے گلے سے لگایا تھا ۔۔۔

میں کوشش کروں گی کہ آپ کو کبھی بھی شکایت کا موقع نہ دوں۔۔۔

ارے یہ ماں بیٹی کا میلو درانی پھر سے شروع ہو گیا ۔۔۔۔

احمد صاحب جو ہانیہ کو بلانے آئے تھے ان کو روتے دیکھ نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔

چلو بیٹا حسن آپ کا باہر انتظار کر رہا ہے احمد صاحب اسے سر پہ پیار دیتے دعائیں دیتے واپس چلے گئے اور ہانیہ بھی سکینہ بیگم کے ساتھ ہی باہر آ گئیں ۔۔۔ سب سے ملتے ان دونوں نے واپسی کی راہ لی تھی۔۔۔۔

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sitamgar Ka Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Sitamgar Ka Ishq written by Aima Mughal . Sitamgar Ka Ishq by Aima Mughal is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages