Shiddaten ishq ki meraj hua karti hen novel online reading by Zzish Noor Complete - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 11 August 2024

Shiddaten ishq ki meraj hua karti hen novel online reading by Zzish Noor Complete

Shiddaten ishq ki meraj hua karti hen novel by Zzish Noor Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Shiddaten Ishq Ki Meraj Hua Karti Hen By Zzish Noor Complete Romantic Novel 

Novel Name: Shiddaten Ishq Ki Meraj Hua Karti Hen

Writer Name: Zzish Noor

Category: Complete Novel

 را ت  کا دوسرا پہر شروع  ھو چکا تھا تین  لڑکے موٹرسائیکل سے اتر کر ددروازے کی طرف بڑھے لیکن پھر کچھ سوچ کر دیوار کی جانب گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دیوار پہ چھڑ گئے اور ایک ایک کر کے نیچے اترنے لگے تینوں نےمنہ ماسک سے ڈھک لیا اب اندکی جانب گئے اور رات کا دوسرا پہرشروع ھو چکا تھا تین لڑکے موٹرسائیکل سے اتر کر ددروازے کی طرف بڑھے لیکن پھر کچھ سوچ کر دیوار کی جانب گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دیوار پہ چھڑ گئے اور ایک ایک کر کے نیچے اترنے لگے تینوں نےمنہ ماسک سے ڈھک لیا اب اندکی جانب گئے اور احد کو گھوڑے گدھے بیچ کر سوتے دیکھا تو تینوں نے ایک دوسرے کو شرارتی نگاہوں سے دیکھا اور اس کےاوپر چھلانگ لگائی لیکن کوئی آواز نہ آنے پہ کمبل اٹھا کے دیکھا تو تکیوں کےاوپر دیا کمبل ان کا مزاق اڑا رہا ھو اپنےپیچے انہیں ہسنے کی آواز آئی مڑکےدیکھا تو احد کھڑا ھوا تھا سب کے منہ بن گئے یار تو نجومی ہیں کیا جوتجھے پتا چل جاتاہےھم آرہےہیں احد تیمور کے معصومانہ انداز پہ مسکراتے ھوئے سب سے ملااحد اسفندیار ھو میں جگر سب پتا ھوتا مجھے تیمور کوآ نکھ مار کر کہا جب تیمور کو  سب سمجھ آیا تو پاس کھڑے ھادی  کی گردن پکڑ لی اور مارنےلگا غدارمیں تجھے چھڑوں گا نی پیچھے کھڑا شاہ ہنستے ھوئے کھڑا ھوا اور احد کو اشارہ کیا اور خد بھی ان دونوں کے اوپر گر گئے اور پھر سب کے کہکہے گونجنے لگے پورے گھر میں شکر موم ڈیڈ گھر نہيں تھے احد ھادی دونوں بھائی تھے جبکہ تیمور کزن اورشاہ دوست تھا انکا  احد اور شاہ میں جان تھی ایک دوسرے کی ھادی اور تیمور  انکو لیلیٰ اور مجنوں کہتے تھے جس پہ کھبی ھنس دیتے اور کبھی انکو چڑا دیتے۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰مارخ علی صاحبہ آپ خود اٹھنا پسند کریں گی یا میں اٹھاؤ غزب خدا کاجب دیکھو سوئی رہتی ہے اموجان کو بتاتی ھو نہی اٹھ رہی تم سوئی رھو ابھی آدھی بات ہی   فاتحہ کے  منہ نسے نکلی تو ماہی تیر کی طرح بستر سے اتریاسے یادآیااسےآج امو کے ساتھ اسے بنک جا نا تھا لیکن رات کو دیر سے سؤئی تو آنکھ دیر سے کھلی جلدی سے شاور لیا اور نیچے آگئی جہاں امو غصے سے چکر لگا رہی تھی اسے دیکھ کر غصّے کا گراف پھر بڑھ کیالڑکی مجھے بتا دو کب سدھرو گی قد دیکھا ہیں اپنا اونٹ کی طرح بڑھا کر لیا بس عقل نام کو بھی نہیں ہے تم میں ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ شروع ھوئی تو ماہی خود کو کوسنے لگی کیا ضرورت تھی دیر سے اٹھنے کی اسی وقت چچی  گھر میں آئیں تو اس نے شکر ادا کیا چچی کو دیکھ کر اموa نے سارا واقع کہ،سنایا تو چچی  نے اسے مزید ڈانٹ سے بچانے  کے لیئے اسے کہا بیٹا نور آپ کو بلا رہی ہے آپ جاؤ اس نے چچی  کی طرف مسکراہٹ اچھالی اور جلدی سے باگی کہی امو روک ہی نہ دیں امو کو اسے بھاگتے دیکھ اور بھی غصہ  ایادیکھا اس کو اس جتنی لڑکیاں پورا پورا گھر سنبھال رہی ہے اور اس کو اچھل کود سے فرصت  نہیں  بھابھی   ابھی  بچی  ہے وہ سیکھ جائے گئی س ب ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

فاتح اورمارخ دو بہنیں ہیں   والد کا انتقالِ بچپن میں ہی ہو گیا تھا ساتھ والا گھران کے چچا  کا گھرتھا سارہ نور اور عمر  انکے بچے ہیں نور اور ما ہی کا کچھ دن پہلے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا  جبکہ فاتی فرسٹ ائیر میں اور عمر میٹرک میں تھا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

اگلی صبح جب سب نا شتہ کر کے گاڑی لے کر نکلے سب ایک دوسرے کی ٹانگ کھیچنے میں مصروف تھے  تو ھادی احد کو گاڑی  روکنے کا کہنے لگا اؤے کیا ھوا  ہے کیوں روکو احد نے کہا اسی ٹائم تیمور نے جب باہرکامنظر دیکھا تو اس کی انکھیں کھل گئ شاہ جو تیمور کو کچھ بتا رہا تھا اس نے جب ممحسوس کیا کہ تیمور  کا دیہان کہئ اور ہے شاہ نے جب اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو وہ بھی حیران اسی وقت 

احد  نے بھی دیکھ لیا منظر کچھ یو تھا کہ ایک لڑکی جس نے پٹیالہ شلوار اور گھٹنوں تک اتی قمیص پہنی ھوئی  تھی بالوں میں پراندا اور آنکھوں میں بھر بھر کے سرمہ لگایا ھوا تھا بیچ سڑک میں ایک لڑکے کو پکڑ کر مار رہی تھیلڑکا سوٹ  بوٹ پہن ھوئے ھوا تھا جس کی حالت لڑکی نے مار مار پتلی  کی ھوئی تھی سب سے پہلے ھادی کو حوش آیا اور بولا واہ کیا لڑکی ہیں کیامارتی ہیں یار تیمور نے اس کے کندھے پر زور سے مارا اور بولا کیا خیال ہے دو چار لگوا دواس کے ہاتھ سے کبھی تو اپنی بک بک بند کر لیا کرو شاہ نے  ڈانٹا احد اور شاہ لڑکی کو روکنے گئے تو لڑکی نے جب    لڑکے کو مارنے کے لیے ہاتھ اوپر کیا تو شاہ نے اسے مارنے سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ  پکڑا ہی تھا کے لڑکی نے دوسرے ہاتھ سے  کھینچ کے چانٹا شاہ کو مار دیا شاہ جو ابھی حیرانگی سے کھڑا دیکھ رہا تھا اس نے   ابھی تک لڑکی کا ہاتھ پکڑا ھوا تھا لڑکی نے ایک اور چانٹا شاہ کو مرا اور غصے سے پاوں اسکے پاوں پر مارا تواس نے اچانک ہاتھ چھوڑ دیا اورغصے سے لڑکی کی طرح دیکھا 

تیمور اورھادی نے جب شاہ کو لڑکی سے الجتے ھوئے دیکھا تو تیمور نے کہا اج شاہ پیٹے گا تو تو جب بھی بولے گا بکواس ہی کرے گا شاہ کو جیسے تو جانتا نہ ھو اسے پچھلے سال جو ھوا تھا بھول  گیا ھو تو ابھی وہ دونوں اپنی بحث میں الجھے ھوئے تھے تو لڑکی نے شاہ کو مارا وھاں کھڑے سب لوگ سناٹے میں آگئے ھادی نے کہا لڑکی گئی کام سے شاہ نہيں چھوڑے گا اسے دوسری طرف شاہ بھی ھوش میں آیا اور ایک دم لڑکی کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ  ڈالا اس وقت  اس پہ خون سوار ھوا ھوا تھا اس  کی انکھیں غصے سے سرخ ھو گئ تھی تمھاری ہمت کیسے ھوئی  شاہ مراد پہ ہاتھ اٹھاؤں وہ دہاڑ کر بولا اک پل لڑکی کو  ڈر لگا لیکن اگلے ہی پل وہ اس سے زیادہ اونچی آواز میں بولی تمھاری ہمت کیسے ھوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی لوفر انسان میرے بس چلے تو تمہارے ہاتھ توڑ دوں جو میں نے ابھی کیا وہ کچھ بھی نہیں ہے اب کسی بھی لڑکی کو ہاتھ لگانے سے پہلے تمھیں یہ دھپڑ ضرور  یاد آئے گا یہ کہہ کر تو اس نے شاہ کے غصے کو اور ہوا دی وہ ابھی کچھ کرنے والا تھا کہ ھادی اور تیمور شاہ کو زبردستی لے گئے ان کی لڑائی دیکھ کر لڑکا آہستہ سے گاڑی لے کر نکل گیا احد لڑکی  کے پاس آیا اور کہا محترمہ اس نے آپ کا ہاتھ اس لیے پکڑا کہ آپ اس لڑکے کو مار   رہی تھی نہ کہ کسی اور مقصد سے ہاں  تو کیا وہ لڑکا اس کی پھو پھی کا بیٹا تھا جو اس کے پیٹ میں مروڑ پڑ رہے تھے ابھی احد کچھ کہنے لگا کہ اس تیز گام نے ہاتھ اٹھا کے بولنے سے منع کر دیا اور کہا ہیرو بننے کا اتنا ہی شوق ہے تو فلموں میں کام کرلے اور زمین سے اپنا بیگ اور سامان اٹھا کر بجلی کی سپیڈ سے گئی احد منہ کھولے کھڑا تھا عجیب چیز ہے مس تیز گام اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راستے پورے ماہی کا موڈ خراب رہا اور راستے اس لڑکے کو غا ئبانہ صلواتیں سناتی رہی غصے سے اسکا برا حال تھا گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے ڈوبتے سے منہ ڈھکا اور آگئے پیچھے دیکھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرح با گھی شکر امو نے نہيں دیکھا اگر امو دیکھ لیتی تو آج اس کا آخری دن ھوتا کمرے میں جیسے ہی گئ دیکھا فاتی اور نور fashion  magzeine لے کے بیٹھی  ھوئی تھی جیسے ہی ان کی نظر ماہی پر پڑی پہلے تو وہ  حیران ہو کر اس کو عجیب و غریب حالت میں دیکھتی رہی اور اچانک ان کی ہنسی چھوٹی اور لوٹ پوٹ ھونے لگی ماہی جو پہلے غصّے میں تھی اور ذیادہ  ھو گئی  اور چیزیں اٹھا اٹھا کر مارنے لگی نکلوں میرے کمرے سے بہت ہنسی آتی ہیں نہ اب میں بتاتی ھوں وہ دونوں ارے ارے کرتی رہ گئی لیکن ان کو نکال باہر کیا اور دروازے کو بند کیا جب آئینہ میں خود کو دیکھا تو اس کی بھی ہنسی نکل گئی اور کپڑے نکال کر شاور لیا اور سو گئی شام کو جب وہ سو کر اٹھی سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کے ٹائم دیکھا تو چار بج گئے تھے وہ اٹھ کے باہر آئی تو امو کچن  میں چائے بنا رہی تھی اس کا موڈ بہت اچھا تھا وہ چپکے سے کچن میں گئی اور امو کی انکھوں میں ہاتھ رکھ لیا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی لیکن وہ فوراََ چھپا گئی اور کہا ابھی سوئی رہتی اتنی جلدی کیا تھی میرا بچہ ابھی تو صرف چار ہوئے ہیں انہوں نے صرف پہ زور دے کر کہا امو آپ طنز تو نہیں کر رہی نہ اور میں محسوس بھی نہیں کر رہی امو نہیں نہيں میں نے تو تمھاری تعریف کی ہے اچھا امو بعد میں کر لیجیئے گا چائے  کے ساتھ کیا بنا رہی ہیں امو نے کہا میں  پکوڑے بنا رہی ہوں جاؤ نور کے گھر سے فاتی نور اور چچی کو بلا لاؤ اچھا ابھی بلا کے لائی اور باگتے ھوئے دروازے کی طرف گئی امو آوازیں دیتی رہ گئی آہستہ جاؤ لیکن اس طوفان کو روک سکا کوئی??????جب  وہ چچی کی طرف گئی چچی نور اور فاتی بیٹھی باتیں کر رہی تھی لان میں  ا س نے زور سے سلام کیا اور چچی کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور فاتی کے سر پر مارا اور کہا امو سںب کو چاہے پہ بلا رہی  تو سب جانے لگے وہ نور اور فاتی سے بات کرے تو وہ اگنور کرے اس نے پہلا سوچا کہ انہوں نے سنا نہ ہو گا لیکن دوسری بار بھی یہی ھوا تو اس  کو غصّہ آنےلگا چچی امو کے پاس گئی تو وہ باہر لان میں ہی بیٹھ گئيں فاتی نور مسئلہ کیا ہے تم دونوں کو اگنور کیوں کر رہی ہوں تو نور تڑخ کر بولی مارخ علی صاحبہ ہم تمھیں  نہیں جانتے تم کون ہو اور فاتی بولی دوبارہ ہم سے بات کرنے کی کوشش نہ کرنا دن کو تو دھکے دے کر نکال دیا اور اب کہ رہی مجھے اگنور کیوں کر رہی ہوں صدقے جاؤں اس معصومیت کے وہ پھاڑ کھانے والےلہجہے میں بولی وہ جو ان کے ناراض ھونے کی وجہ سوچ رہی تھی  دن کا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تو ایک خود ساختہ مسکراہٹ اس کے چہرے پہ آگئی جو اس نے جلدی سے چھپا لی اگر وہ دونوں اس کو مسکراتا دیکھ لیتی تو اور ناراض  ہو جاتی اس نے اپنے چہرے پہ معصومیت لائ اور بولی سوری پلیز نہ ائندہ نہيں کروں گی پہلے تو وہ دونوں اسے گھورنے لگی تو اس نےجھٹ سے کان پکڑ لیے تو اک دم تینوں ہنسنے لگی وہ ایسی تھی کوئی بھی اس سے ناراض ھو جاتا تو اسے سکون نہ آتا وہ تھی ہی اتنی پیاری معصوم سی تھی  کوئی اس سے ناراض رہ ہی نہیں سکتا اس کی جان تھی گھر والوں میں وہ جتنی بےپرواہ تھی گھر والوں کے لیے وہ اتنی ہی حساس تھی بابا کی وفات جب وہ تین سال کی تھی تب ھو گئی تھی جب وہ بڑی ھوئی امو کو اکثر روتے دیکھتی تو سوچتی وہ کیسے امو کو چپ کرائے وہ بچپن سے ماں کا سایہ بن گئی ان سے لڑتی جھگڑتی ان کو اداس  نہیں ہونے نہيں دیتی

عشق جب عینِ ذات ہو جائے

خالقِ معجزات ہو جائے

عُمر بھر چُپ رہو تو ممکن ہے

کُن کہو کائنات ہو جائے

سجدۂ عشق میں فرشتہ بھی

عقل برتے تو مات ہو جائے

عقل کا زَن مرید عشق بنے !

کس قَدَر واہیات ہو جائے

دِل کی پاتال سے اَگر پھُوٹے

اَشک آبِ حیات ہو جائے

عشق جو شرط کے بغیر کرے

ساقی ء شَش جِہات ہو جائے

حادِثوں پر ہُوں راضی رَبِ کریم

وَسوسوں سے نجات ہو جائے

جھیل آنکھوں میں ڈُوبنے نکلوں

نیم رَستے میں رات ہو جائے

حُسن کو مامتا نہ نرم کرے

لات ، عُزّیٰ ، مَنات ہو جائے

ریت پر گر نہ لکھے مجنوں نام

قِلّتِ کاغذات ہو جائے

قیسؔ پر ہنسنے والوں رَب نہ کرے !

آپ کے ساتھ ہاتھ ہو جائے

آج بھی وہ کالج  کے پاس گاڑی میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ  کہ آنے کا نام ہی نہيں لے رہی تھی باہر باہر کبھی گھڑی کو دیکھتا کبھی اس راستے کو جہاں سے اس نے گزرنا تھا وقت تھا کہ گزر ہی نہيں رہا تھا وہ ایک گھنٹے سے زیادہ ٹائم ھوگیا تھا کھڑا تھا یہاں تک کہ کالج کا دروازہ بھی بند ہو گیا تھا عجیب عجیب سے خیالات اسکے دماغ میں آ  رہے تھے اس کا دل بے بسی کی انتہا پہ تھا شاید محبت میں ایسی ہی بے چینی ھوتی ہے لیکن اس کو اس سے محبت کب تھی اسے تو عشق تھا اسے آج بھی وہ دن یاد تھا جب اس نے اسکو دیکھا تھا 

اس دن بارش ھو رہی تھی اسے یہ مو سم کبھی پسند نہ آیا تھا اس دن بھی سر نے اسے ایک کام کے سلسلے میں بھیجا تھا ایک تو مو سم اتنا بکواس اور اوپر سے جانا بھی شہر سے باہر تھا سر کو منع بھی کیا لیکن نہ مانے

اسی غصے میں  اس نے  گاڑی تیزی  سے باہر نکالی تو سامنے ایک لڑکی گاڑی سے ٹکرائی تھی  

جی۔ایچ۔کیوکے ساتھ ہی کالج تھا اور یہ وقت انکی چھٹی کا تھا وہ بھو ل گیا تھا ورنہ وہ آہستہ چلاتا 

ایک تو پہلے سے چرچڑا ھوا ہوا تھا اوپر سے یہ سیاپہ وہ دروازہ کھول کے باہر نکلا تو وہ لڑکی اٹھ کر کھڑی ہو چکی تھی وہ نظرے جھکائے کھڑی تھی جیسے وہ کوئی مجرم ھوں 

اس کی نظر لڑکی پہ پڑی تو دیکھا اسکے ہاتھ پر شیشہ لگا ھوا تھا جو شاید زمیں پہ گرا ھوع تھا 

اسنے لڑکی کو کہا وہ اس کے ساتھ اندر چلے وہ اسکی ڈریسنگ کردے گا لڑکی نے جب اسے دیکھا تو اس کے چہرے پہ ایک نور پاکیزگی اور معصومیت تھی دھنک کے ساتھ رنگ جیسے فضا میں بکھر  گئے ہو پھول  اپنی خو شبو بکھیر رہی ہو  اس سے خوبصورت منظر اس کی آنکھوں نے پہلے  جیسے کبھی نہ دیکھا ھو وہ دن اور آج کا دن وہ اسے روز دیکھنے صبح آجاتا 

لیکن بات کرنے کی کبھی کوشش نہيں  کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ کل سے گاؤں آیا ھوا تھا احد اس کے ساتھ آیا ھوا تھا اس وقت داجی زاوی شاہ احد کے ساتھ تائی امی اور امی بھی ساتھ بیٹھی ہو ئی تھی گپ شپ ھو رہی تھی زائیشہ اور زرلش کھانا بنا رہی تھی کھا نا زری بنا رہی تھی جبکہ زشی کو بس بندہ باتیں کر والے کام کے نام سے جان جاتی ہیں 

داجی نے شاہ سے کہا برخودار پڑھائی کب تک مکمل ہو رہی ہیں تمھاری 

داجی بس یہی سال۔ہیں پھر اپنا بزنس شروع کروگا داجی

احد داجی میں اور شاہ دونوں  اکھٹا شروع کرے  گئے اسکا پرٹنر میں ھوگا شاہ نے اسے 

گھورا تو ا س نے آنکھ ماری 

زاوی نے داجی سے کہاداجی آپ کو پتا آپ بو ڑھے ھو گئے ہیں داجی تو جلال میں آگئے شامین دیکھو اپنی اولاد کو بوڑھا بنا دیا مجھے داجی نے اپنی بڑی بہو سے کہا سب ان کے اس طرح کہنے پہ ہنس دیے 

زاوی اب بھی اپنی بات پہ اڑا رہا داجی کل سے بھائی آئے ھوئے ہیں نہ کوئی میچ نہ کوئی بیڈمنٹن ویسے داجی آپ سے نہيں ھوگا آپ بوڑھے ھوگئے ہیں 

داجی بولے نا حلف اولاد بوڑھا ھوگا تیرا با پ اس وقت جزلان اور مشارق صاحب اندر آئے اور ہنسنے لگے 

کیا ھوا بابا جان اتنے غصے میں کیوں ہیں تو انہوں نے کہا تمھاری اولاد مجھے بوڑھا سمجھتی ہیں 

ںاں جی تو کس نے بابا جان کو بوڑھا کہا زاوی بولا بابا دیکھے نہ بوڑھاپا آرام کی نشانی ہیں شاہ بولا داجی آپ اسے دکھا دے نہ اپنے جلوے اوئے میں تمھیں کیا لگتا ھوں  اس وقت زشی آئی اور کہا کھانا لگ گیا کھا لے 

سب  کھا نا کھانے گئے تو احد کی نظریں زری کو ڈھونڈنے لگی

اتنی دیر میں زری آئی تو احد نے دیکھا اسی وقت دونوں کی نظر ملی زری نظریں جھکا گئی اور وہ مسکرا کر کھانا کھانے لگا 

زری کو غصہ آگیا اس پہ اسکی نظروں سے الجھن ھو رہی تھی  اسے۔ہمیشہ ایسے ہی ھوتا 

تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد کے پر رونق شہر میں اس وقت ایک آفس میں دو لڑکے ایک لڑکی بیٹھی ھوئی تھی 

اور اپنے لیڈر کا انتظار کر رہے ہیں اسی وقت دروازہ کھلا اور لیڈر داخل ھوا ساتھ کے ہی انکے سر بھی  تھے لڑکی نے جب لیڈر کو دیکھا ایک پل چو نکی اور اگلے پل کو نارمل ھو گئی اب سب  کا تعارف کروایا لیڈر سے کروایا سب نے  اسے  خوش آمدید کہا اور پھر سر نے انکو انکے مشن کے بارے میں مین انسٹراکشن دی اور ڈٹیل میں  ان کے نئے لیڈر نے دی سب اس سے متا ثر ھو گئے   اس نے لڑکی کو کہا وہ اس کے ساتھ ھو گئی اور دونوں لڑکے دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں ھو گئے اور کوئی اپنے پرائیویٹ نمبر سے ایک دوسرے کو کال نہیں کرےگا نہ ہی ملے گا ایسے ظاہر کرنا جیسے جانتے ہی نہ ھو اور مجھے  کچھ لوگوں پہ شک ہیں ان کے بارے میں مجھے ساری ڈٹیل چاہیے یہ کہ کر وہ بیٹھ گیا

اور سر نے سب کو best of luck  کہا اور میٹنگ کا احتتام ھوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج شاہ لوگوں کو شہر آنا تھا اس وقت ساری نوجوان پارٹی اور داجی میں بحث جاری تھی داجی آپ دو بار آؤٹ ھو چکے ہیں لیکن داءجی تھے کہ من ہی نہيں رہے تھے شاہ پتر یہ جان کے نو بال کر وا رہا ہے میں آؤٹ ھو جاؤں اور اسکی۔ باری آجائے لیکن آج میں اس کی کسی بات میں نہيں آؤں گا اب دیکھنا اس کا میں اس کے کیسے چھکے چھڑاتا ھوں اس کے داجی آپ چیٹینگ کر رہے ہیں اؤے کھو تے دے پتر تو مجھے چیٹر کہہ رہا ہیں شرم نہيں آئی تجھے یہ کہتے ھوئے تیرے تو دیدوں کا پانی مر گیا ہے آنے دے تیرےباپ کو بتاؤں گا اس دن کے لیے تجھے بڑھا کیا تھا 

داءجی کی اہ اوزاری پلس لعن ترانیاں جاری و ساری تھی شاہ نے زاوی کو کہا معا فی مانگوں داءجی سے شاہ کے غصے کو دیکھتے ہوئے اس نے داءجی سے معافی مانگی ہی تو داء جی نے کہا چل بتا میں چیٹر ھو کیا نہیں داء جی وہ تو میں نو بالز کروا رہا تھا بلکل میں بھی تو یہی کہہ رہا تھا چلو شاباش اب پھر کرواؤں بال میں آؤٹ نہيں ھوا سب کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"آجا میں ہواؤں میں اڑا کے لے چلوں تو ہی تو میری دوست ہے

پھر اڑا کے زور سے گرادوں تو ہی تو میری دوست ہے "

ماہی جو مزے سے گانے کا ستیاناس کر رہی تھی کسی نے زور دار تھپڑ سے اسکی خاطر تواضع کی تو وہ درد سے بلبلا ااٹھی

پیچھےمڑ کے دیکھا تو محترمہ ہانیہ صاحبہ کھڑی تھی 

ہانی کی بچی اپنے ہاتھوں کو کنٹرول میں رکھو اچھی خاصی خوش تھی میں تم نہیں تھی لیکن تم سے میرا سکون کہا برداشت ہوتا ہے 

وہ تو شکر ہے نہیں تو اپنے بارے میں تمھارے نادر خیلات مجھ تک کیسے پہنچتے مجھے گرانے کی پلیننگ کر رہی تھی اسکا ڈرامہ اور لمبا ہوتا اس سے پہلے ماہی اس کو اندر لے آئی آج تو ہانیہ بیٹی آئی ہے جی آنٹی کیسی ہے آپ میں نے آپکو بہت مس کیا امو جھوٹی ہیں یہ اس نے اپکو نہيں آپکے کھانے کو مس کیا ہیں اسی وقت فاتی بھی آتے ہی ہانی کے گلے لگ گئی ہا نی آپی کب آئی آپ میری جان صبح آئی ھو کل سے یونی جو شروع ہیں جانا ہیں اس لیے ماہی اور نور سے پوچھنے آئی ہو ان دونوں کے کیا ارادے ہے جائے گئی یا نہیں ۔۔

_____________

" غالب " نظر کے سامنے حسن و جمال تھا

" محسن " وہ بشر خود میں سراپا کمال تھا

ہم نے " فراز " ایسا کوئی دیکھا نہیں تھا

ایسا لگا " وصی " کہ وہ گڈری میں لعل تھا

اب " میر " کیا بیان کریں اس کی نزاکت

ہم " فیض " اسے چھو نہ سکے یہ ملال تھا

اس کو " قمر " جو دیکھا تو حیران رہ گئے

اے " داغ " تیری غزل تھا وہ بیمثال تھا

" اقبال " تیری شاعری ہے جیسے باکمال

وہ بھی " جگر " کے لفظوں کا پر کیف جال تھا

بلکل تمہارے گیتوں کے جیسا تھا وہ " قتیل "

یعنی " رضا " یہ سچ ہے کہ وہ لازوال تھا

آج بھی وہ اس کا انتظار کر رہا تھا لیکن نہ آئی پچھلے دو دنوں سے وہ مسلسل آرہاتھا وہ صبح بھی چھ سے آٹھ بجے تک کالج کے سامنے کھڑا ھوتا تھا اور چھٹی ھونے سے پندرہ منٹ پھر کھڑا ھو جاتا لیکن نہ وہ آئی نہ اس نے آنا تھا دو دن سے نہ اسے کھانے کا ہوش تھا نہ کام کا اسکی یہ تبدیلی ہر ایک نے محسوس کی آفس سے بھی جلدی چلا جاتا تھا اور پھر رات دیر تک آوارہ گردی کرتا کسی چیز کا اسے ہوش نہیں تھا اسے تو بس اسکی ایک جھلک دیکھنی تھی اس سے ذیادہ کی اسے تمنا نہ تھی محبت نے اسے کہی کا نہ چھوڑا تھا وہ شخص جسے ایک شکن تک برداشت نہیں ھوتی تھی کیا محبت ایسے ہی انسان کو ذلیل و خوار کر دیتی ہے اسے اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا اسکا ایک ماتحت تھا جو ساری بات جانتا تھا وہ ہمیشہ اسکے ساتھ ھوتا تھا اس نے جب اپنے سر کی یہ حالت دیکھی تو سر سے کہا سر اپ کو اس لڑکی میں کیا بات ایسی لگتی ہیں جو آپکو اس کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں اتا 

تو اس نے کہا فضل دین تم نے کبھی محبت کی ہے 

فضل دین نے کہا سر نہيں کی نہ میں کرنا چا ہتا ھوں 

کیوں فضل دین کیوں نہیں کر نا چاہتے محبت 

سر محبت خوار کر دیتی ہیں کہی کا نہیں رہنے دیتی سر یہ ہر ایک کو نہيں ملتی یہ ہر ایک پہ مہربان نہيں ھوتی یہ کر فضل دین خاموش ھو گیا

نہیں فضل دین محبت وحی کی صورت نازل ھوتی اس کا الہام خاص دلوں کو ھوتا ہیں یہ ہر ایک کی چوکھٹ پہ نہیں جاتی یہ خدا کی طرف سے دیا گیا تحفہ ہے کسی کسی کو ہی ملتا ہے ہر ایک پہ مہرباں نہيں ھوتا دھوپ میں بھی ٹھنڈک کا احساس ھوتا ہے انسان اکیلا ھو کے بھی اکیلا نہيں  ھوتا اسکے دل میں محبوب کے علاوہ کسی چیز کی تمنا نہيں ھوتی محبت دھنک کے رنگوں کی طرح ھوتی ہے خوشنما خوش رنگ دیکھنے والے کو مبہوت کر دے تم کیا جانوں فضل دین عشق کیوں ھوتا ہے عشق میں شدّت معنی رکھتی ہیں جو انسان کو انسانیت کے معراج تک لے جاتی ہیں عشق خدا سے ھو یا بندے سب  دونوں میں شدت اور۔واحدانیت لازم ہیں یہ صرف پاکیزہ دلوں میں پرورش پاتی ہے عاجزی او انکساری اس کے پسندیدہ وصف ہے جہاں تکبر غرور اور میں ہوں یہ وہاں سے دور بھاگتی ہے عشق میں "میں " کا لفظ نہيں ہوتا وہ وہ نہيں رہتا بلکہ جس طرح محبوب چاہتا تھا اس طرح بن جاتا وہ دور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا فضل دین کو اس کی دیوانگی سے خوف آرہا تھا وہ دعا کرنے لگا اے الله اسے دے دے جو یہ چاہتا ہے۔ لیکن جب خدا کسی کے دل میں عشق  ڈالتا ہے تو پہلے اسے جلا کے کندھن بنا تا ہے اسے توڑ کے پھر جوڑتا ہے جیسے کمانڈو بننے کے لیے ان کی ایک ایک ہڈی کو توڑ کے پھر جوڑا جاتا ہے تا کہ وہ پرفیکٹ بنے اسی طرح اللّٰہ  بھی  اس طرح اپنے بندے کو پرفیکٹ بنانے کے لیے اسے  بٹھی میں جلا  کے سونا بنا تا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہی نے گلابی قمیص کے ساتھ سکن پینٹ پہنی ھوئی تھی سر پہ گلابی سکارف کیا ھوا تھا آس سے اس کی رنگت اور کھل گئ تھی سمجھ نہیں آرہا تھا کپڑے ذیادہ گلابی ہے یا اس کا چہرہ وہ تیار ھو کے نیچے آئی تو امو اس کا کے لیے ناشتا لینے چلی گئی انہیں پتا تھا کے بھوک کی وہ بہت کچی ہے اس لیے انہوں  نے آملیٹ پراٹھا اس کے سامنے رکھا امو چائے میرے رنگ جیسی ھو نور جو اس وقت اندر آ رہی تھی تھی  جل کے بولی اؤئے میڈم 

یہاں براؤن چائے مل سکتی ہیں  اس ٹائم گلابی نہيں جلدی سے ٹھوسو دیر ھو رہی ہیں اور اوپر سے تمہاری body guard انتظار کر رہی ہیں دماغ کھا گئی ہیں میرا امو جو ان کی باتیں  سن رہی تھی  اٹھی اور اس کےپاس آئی اور اس کو ایک انویلوپ دیا امو یہ کیا ہے میری گڑیا کی pocket money ہیں اور اس کے ماتھے میں پیار کیا 

جب وہ بہت لاڈ میں ھوتی تو اسے ماہ یا گڑیا کہتی تھی وہ مسکرانے لگی جتنی مرضی ان بن ھوتی ایک دوسرے میں ان کی جان تھی 

وہ دونوں جلدی سے گھر سے نکلی ماہی نے گاڑی نکالی اور جلدی سے چلانےلگی اس نے ٹائم دیکھا تو کلاس شروع ھونے میں  30 منٹ تھے  پھر اس نے آؤں دیکھا نہ تاؤں وہ گاڑی چلائی کہ خدا یاد آگیا دو دفعہ ان کا اکسیڈنٹ ھوتے ھوتے بچا نور چلا چلا کے آہستہ چلاؤ پر نہ جی ماہی ہی کیا جو کسی کی بات سن لے 30منٹ کا راستہ 10منٹ میں طے کیا اس نے گاڑی روکی تو نور جلدی سے نکلی اور اس کی بات سنے بغیر چلی گئی 

ماہی نے آواز دی لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا وہ گاڑی پارک کرنے گئی اور پھر یونی کی طرف بڑھ گئی 

اسے گیٹ کے پاس ہی ہانی مل گئی اس کو دیکھتے ہی اس کے پاس آئی اتنی دیر سے کیوں آئی ھو کب سے انتظار کر رہی ھو اور نور کو کیا ھوا بہت غصے میں تھی چھوڑوں اسے کب غصہ نہيں  آتا تو ہانی نے کہا اچھا ھوا اس کے سبجیکٹ ہم سے علیحدہ ھے دو سال اسے برداشت کرنا دل گردے کا کام ہیں باتيں کرنے کے ساتھ ساتھ وہ کلاس ڈھونڈنے لگی 

سارہ جو غصے میں جا رہی تھی۔اسنے دیکھا نہیں سامنے کون آرہا ہے اس کی ٹکر شاہ سے ہو گئی سارہ ابھی اسے کچھ کہنے ہی والی تھی اس کو دیکھ کر ٹرانس کی کیفیت میں آگئی 

شاہ نے اسے دیکھا تو اس کو لگا کہی دیکھا تو یاد آیا یہ تو اس مس مینٹل کے ساتھ تھی لڑکی کیا مس مینٹل بھی یہی ہے اوف مجھے کیا وہ کہی بھی ہو میری طرف جائے بھاڑ میں  پھر سارہ کی۔طرف متوجہ ہوا اور سوری کر کے جانے لگا تو سارہ نے اس سے کہا میں یہاں نیو ھوں کیا آپ کلاس ڈھونڈنے میں میری مدد کرے گئے???? پہلے تو اس نے نو کہا پھر کچھ سوچ کر اس کو اس کی کلاس کی طرف لے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فون کی گھنٹی بجی تو اس کے چہرے پہ ناگوار تاثرات ظاہر ھوئے اس کو اپنے کام کے دوران کسی کی دخل اندازی پسند نہ تھی اس نے کال اٹھائی تو اس کے گروپ کے ممبر کی کال تھی سر آپ کو سلام کہتے ہیں اس نے کہا سر کو کہنا چائے اچھی ہے سر نے کہا آپ پڑھنا شروع کر دے سر سے کہو میں پڑھا دوں گا اس نے اس سے کوڈ ورڈنگ میں بات کی کہ کوئی سمجھ نہ سکے اسنے کہا سر آپ سے ملنا چاہتے ہیں اس نے کہا کل شام کو چائے پہ آؤں گا وہ سمجھ گیا تھا اس کی نئی اسائنمنٹ کسی تدریسی ادارے میں تھی اس کو بطور شاگرد جاناہے اس نے کہا نہیں وہ بطور ٹیچر جائے گا اب باقی کی باتیں کل اسے سر بتائے گئے

یہ قدم قدم پہ بشارتیں، یہ نظر نظر میں زیارتیں!!!

یہ بصارتیں، یہ بجھارتیں، مرے شہر دل کو دکھا پیا!!!

یہ جو میرے من میں ہے روشنی، یہی زندگی، یہی بندگی!!!

مری فکر میں ترے ذکر میں جو چراغ ہیں وہ جلا 

 پیا!!! 

آج دو ہفتے ھو گئے تھے اسے دیکھے اس کی حالت بری ھوئی ھوئی تھی اسکو کیا پتا تھا کہ ایسا بھی ھوگا اس کے ساتھ تو وہ کبھی گاڑی سے ہی نہ نکلتا نہ اسے دیکھتا نہ یہ حالت ھوتی آج بھی وہ صبح نماز  پڑھنے کے بعد کالج کے سامنے جا کے کھڑا ھو گیا دو گھنٹے کھڑے ھونے کے بعد وہ مایوسی سے جانے لگا تو اسے اس کی پرنسس نظر آئی نام اسکو اسکا پتا نہ تھا اس لیےاسنے اس کا نام پرنسس رکھ دیا 

اس کو دیکھ کر اس کی آنکھیں مڑنے سے انکاری ھو گئی اسے خواب لگ رہا تھا اسے لگا اگر اس نے سانس بھی لیا تو وہ چلی جائے گئی واپس نہیں آئےگی لڑکی نے جب اسے دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جن کو وہ چھپا گئی اور اندر کی طرف جانے لگی وہ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے تاب ھو گیا تھا وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن کیسے کرے یہ بات اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی اگر وہ اسے کہی باہر ملنے کا کہتا تو اس نے ماننا نہيں تھا کرے تو کیا کرے پھر کچھ سوڑکر مسکرایا اور آفس آگیا اس نے آفس کے۔کچھ معملات دیکھے۔اس نے فضل دین سے کہا سر جب آئے تو اسے بتانا کچھ دیر کے بعد 

فضل دین  نے بتایا کے۔سر آگئے ھیں تو وہ تیزی سے ان کے کمرے کی بڑھ گیا اجازت  لینے کے بعد جب وہ اندر گیا تو سر نے کہآ جوان کہوں کیا کہنا ہے 

اس نے سر سے کہا ساتھ والے گرلز کال کوئی گڑبڑ ہے میں جا کر دیکھنا چاہتا ہوں سر کو فضل دین سب بتا چکا تھا 

تمھیں کیسے پتا چلا کوئی گڑ بڑ ہےسر سمجھا کریں نہ سر پلیز 

نوجوان کیا تمھاری دو ہفتے مجنوں والی حالت کی وجہ وہ کالج والی گڑبڑ تو نہیں 

سر میں  کہو ہاں تو میری طرف سے صاف نہ ہیں 

سر آخری دفعہ یہ فیور دے دے 

آئندہ کوئی فیور نہيں  مانگو گا 

نوجوان تم ہمارے پیار کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ھوں  سر پلیز میری زندگی کا سوال ہے اگر وہ نہ ملی تو مر جاؤں گا

سر نے اسے دیکھا تو انہوں نے کسی کو کال کی کیپٹن جلدی سے اندر آؤں "yes sir"تھوڑی دیر میں وہ اندر آیا نوجوان تمہیں کیپٹن خان کے ساتھ فضل دین کو لے جا کے ریڈ کرو اگر کچھ پوچھے تو انہیں اپنے کارڈ دکھا دینا 

خان تمھارے پاس 30منٹ ہے یو مے گو ناؤ سر لیکن جا نا کہا ہے

کیپٹن یہ تم خان سے پوچھوں

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نور شاہ کے ساتھ جا رہی تھی 

تو اس نے اس سے پوچھا آپ کا نام کیا ہے تو اس نے کہا شاہ مراد کہتے ہیں واو آپ کا نام وڈیروں والا ہے آپ خود بھی کوئی وڈیرا لگتے ہیں آپکو دیکھ کر لگتا ھو اپالو واپس آ گیا ھوں  آپکی آنکھیں  بہت پیاری ہیں اس نے مڑ کے اسے دیکھا اور کہا مس آپ جو بھی ہے سن لے اپالو دل پھینک قسم کا بندہ تھا اور آپکو میں ایسا لگتا ھوں ابھی کچھ جواب میں سارہ کچھ کہتی کہ آپ لگتے نہيں بلکہ ہے پیچھے سے ماہی کی آواز آئی وہ ہانی کے ساتھ کلاس ڈھونڈ رہی تھی سارہ کو اس کے ساتھ دیکھ کر اس کی طرف آگئی اسکے۔قریب آنے پہ اس نے جیسے شاہ کی آواز سنی تو اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا شاہ نے اسے دیکھا تو کہا

مس مینٹل جہاں جاتا ہوں میرے پیچھے آجاتی ھوں 

میرے بغیر تمھیں چین نہيں آتا کہی پیار تو نہيں ھو گیا 

اس کا تو منہ کھل گیاتم گھٹیا آدمی تمھاری سوچ ہی گھٹیا سوچنا بھی نہ تم سے اور پیار جنگلی بلی میں ابھی گھٹیا بنا ہی کہا ھوں جب بنا تو دیکھتی رہ جاؤں گی کہ کر چلا گیا 

پیچھے سے اسے آواز آئی مینٹل ھا سپٹل سے بھاگئے ھوئے آدمی دوبارہ نظر نہ آنا مجھے 

وہ اس کی بات پہ سر جہٹک گیا 

کالی جنگلی بلی پھر کہا نہيں سفید جنگلی بلی اسکے ذہن میں اسکا چہرہ آیا اف یہ کہا سے۔آگئی وہ زرلش اور زا ئیشہ کو کلاس میں چھوڑ کر آ رہا تھا کہ اس کو وہ لڑکی مل گئی اس نے سوچ لیا تھا 2سال اسکا سکون تباہ ھو گا دیکھتی جائے اپنی بربادی کو خود اس نے دعوت  دی ہے وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا کہ آگئے سے ہادی آگیا اس نے شاہ کو بڑبڑاتے ھوئے دیکھا تو اس کے پاس آیا اوئے کدھر ھو تم تیمور اور احد کب سے دیکھ رہا ھوں اور تم کیا منہ ہی منہ میں بڑ بڑا رہے ھو وہ جو اپنے خیال میں تھا کہ اس نے  کہا  کالی بلی   مل گئی تھی

ہادی  نے اسے جھنجھوڑا تو آس نے کہا شاہ ہوش میں  آؤں کون کالی بلی کوئی نہيں  یار یونی میں  بلی دیکھی ہے

.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے دروازہ ناک کیا تو سر نے کہا کم انگ وہ اندر گیا تو سر اسے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے سر آپ نے بلایا ہاں بہت ضروری بات تھی میں نے سب کے بارے میں پتا کر لیا ہے یہ بہت خطرناک لوگ ہیں  وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے گینگ میں شامل کر رہے ہیں اس میں روس انکا ساتھ دے رہی ہیں ان کی جو ایجنسی موساد کے کچھ لوگ ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں  اس بار ان کا مقصد دارلحکومت کو تباہ کرنا اور خارجہ پالیسی میں بھی دخل دینا ہے یہ خبر روس کے دارلحکومت ماسکو میں میرے بندے نے بتایا ہے اگر یہ جو سوچ رہے ہے یہ ھوگیا تو ہمارا ملک سب سے پیچھے رہ جائے گا اور بہت تباہی پھیلے گئی اور ہماری معیشت گر جائے گی  اس سب کو روکنے کے لیے تمھیں  جامعہ اسلامیہ یونیورسٹی بیجھا جارہاہے اور سنا تم بطور معلم جانا چاہتے ہو 

جی سر میں اس بار as a teacher جانا چاہتا ھوں اس سے مجھے ان پہ نظر رکھنے میں آسانی ھوگئ

اوکے ٹھیک ہے میں وہاں کے پرنسپل سے بات کرتا ھو تم کل سے وھاں جاؤں گئے

اوکے سر اور جولی بھی تمھارے ساتھ ھوگئی ہمارے پاس ٹائم نہيں ہے تمھیں  جلد ہی سارا کام کرنا ہے نہيں  تو سب ہاتھ سے نکل جائے گا 

سر آپ بلکل بے فکر رہے میرے ملک پہ نظر رکھنے والوں کی آنکھیں  نکال لوں گا جلد ہی آپ کو اچھی خبر ملے گئی اب میں جاتا ھوں کل کے لیے تیاری کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داجی یار بھائی کیا گئے ہیں گھر کی رونک بھی لے گئے ہیں مجھے  آپی اور زاشی۔بہت یاد آ رہے ہیں 

زاوی یار یہ تو ہے میں بہی بہت یا د کر رہا ھوں داجی کیا ہم ان کے ساتھ نہيں  رہ سکتے اؤئے کھوتے دے پتر تم چاہتے ھوں میں  اپنے آباؤاجداد پرکھوں کا گھر چھوڑ دوں داء جی خدا کے لیے آپ اتنی گہری اردو نہ بولا کرے سمجھ نہيں  آتی مجھے  آپ کے زمانے کی اردو میرے زمانے والی بوکا کرو لیٹس 

تم نے مجھے بوڑھا کہا ٹھرو تم تمھارا مطلب میں  بوڑھا ہو داء جی مطکب والی کیابات ھے آپ سچ میں بوڑھے ہیں 

داء جی جلال میں  آگئے اور اپنی چھڑی اٹھا لی رک میں  بتاتا ہو کون بوڑھا ہوا ہے  زاشی کی امی رامین بیگم  جو کچن سے نکل رہی تھی زاوی کی آواز سن کر باہر آگئی دیکھا تو داجی کی چھڑی زاوی کی گردن کے گرد تھی اور وہ چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھاداجی میرے پیارے راجی آپ تو میرے بابا سے بھی چھوٹے ہے اب تو چھوڑ دے مجھے کیا کہا تم نے داجی میں کہ رہا تھا آپ بہت ینگ اور سمارٹ لگ رہے ہیں گل سن میں لگ نہيں  رہا ھوں وی داجی میں بھی وہی کہ رہا تھا ۔۔

نور تم اس کے ساتھ کیا کر رہی تھی اور تمھیں کہا ملا یہ دور رھو اس سے بہت بدتمیز انسان ہے یہ اف چپ کروں ماہی میں بچی نہيں ہوں سمجھی مجھے اپنے اچھے برے کے بارے میں پتا ہے بدتمیز وہ نہيں  تم ہوں سمجھی شکر ہے میرا ڈیپارٹمینٹ تم سے الگ ہے 

اور آئندہ مجھے تمھارے ساتھ نہيں  آنا 

ماہی نے حیرانگی سے اسے دیکھا نور اسے یہ کہ رہی ہے اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا 

ہانی جو اس کی باتیں سن رہی تھی تڑخ کر بولی میں تو دو نوافل پڑھو گئی تم سے جان چھوٹنے پہ تم اس قابل ہی نہيں  جو تمھیں  عزت دی جائے ہم سے چیٹینگ کر کر کے پاس ھونے والی اب ہمیں  بتائے گئی ہم نہ ھوتے تو ابھی بہی کالج میں ہی بیٹھی رہتی

shut up just shut up 

تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے یہ سب کہنے کی نور بولی 

آواز آہستہ رکھو سچ ہمیشہ کڑوا ھوتا ہے ابھی وہ کچھ اور بھی کہتی ماہی اس کا ہاتھ پکڑکر لےگئی اور نور اونہو کہ کر آگئے بڑھ گئی ماہی کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ یہی سما جائے اتنی ذلت اس نے اسے ہمیشہ فا تی کی طرح سمجھا اور اسنے کیا کیا اس کا سانس رکنے لگا اس کی آنکھیں  بھر آئی ہانی اس کے لیے پانی لینے گئی تھی وہ گھر جانے کے لیے اٹھنے لگی آنسو خود بہ خود بہنے لگے اس نے آنسو صاف کرنے چاہے تو کوئی اس کے سامنے آیا اور ٹشو دیے اور کہا رونے سے مسائل حل نہيں  ہوتے strongبنے 

اور آپ نیو ہے یونی میں اسے اس سے الجھن ہو رہی تھی وہ بہت پر کشش شخصیت کا مالک تھا ہلکی ہلکی داڑھی اس پہ بہت پیاری لگ رہی تھی آنکھوں کا رنگ ہیزل گرین تھا

آنکھوں  پہ خوبصورت سا نظر کا چشمہ لگایا ھواتھا بلیک کلر کی قمیص شلوار پہنی ھوئی تھی بازو فولڈ کیے ھوئے بہت ڈیسنٹ لگ رہے تھے وہ ابھی ان کا جائزہ لے رہی تھی انہوں نے چٹکی بجائی تو وہ ہوش میں آئی جی جی کیا کہ رہے تھے اپ اتنی دیر میں ہانی۔بہی آگئی 

اس نے پانی کی بوٹل ماہی کو پکڑاہی اور سامنے کھڑے انسان سے اپنا تعارف کروایا مجھے ہانیہ کہتے ہیں اور آپ وہ دلکشی سے مسکرایہ جو آپ کا دل کرے کہ سکتی ہیں ویسے ناچیز کو مصطفی کہتےہیں اس کو نام بتا کہ وہ ماہی کی طرف مڑا آپ نے بتایا نہيں  آپ نیو ہیں کیا????

جی ہم نیو ہیں  اوہ تو اپکے سبجیکٹس کیا ہے اکنامکس میتھس اور کمپیوٹر  ہے ماہی نے کہا اس نے گھڑی دیکھی اور کہا آپ کی غالبن پہلی کلاس ختمِ ہونے میں 5منٹ رہتے ہیں آپ باہر کیا کر رہی ہیں ہمیں  کلاسز کا نہيں  پتا وہی ڈھونڈ رہے ہیں بانی نے کہا

یہاں سے لیفٹ لے کے رائٹ لے سامنے جو ڈیپارٹمنٹ ہیں وہ میتھس والو ں کا ہے دونوں نے اسکا شکریہ ادا کیا اور چلی گئی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کلاس میں بہت شور تھا ہر طرف ہا ھوں کا شور تھا کوئی ایک دوسرے سے تعارف حاصل کر رہے تھے کچھ نیو فرینڈز بن رہے کچھ یونی آنے کے مقصد بتا رہے ماہی اور ہانی سکینڈ لائن میںکلاس میں بہت شور تھا ہر طرف ہا ھوں کا شور تھا کوئی ایک دوسرے سے تعارف حاصل کر رہے تھے کچھ نیو فرینڈز بن رہے کچھ یونی آنے کے مقصد بتا رہے ماہی اور ہانی سکینڈ لائن میں بیٹھ گئی ان کے سات ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی اس نے

ماہی اور ہانی کو مسکرا کر دیکھا اور ان سے کہا 

Hay! i am sana can i ask your beautiful names ??????

yeah i am haniya and meet my besti she is Marukh Ali  

nice to meet you Haniya and marukh.

would you like to friendship with me ?????

ماہی کو الجھن ہو رہی تھی کیا پہلی بار میں کوئی دوست کیسے بن جاتا ثناء نے ماہی کے چہرے پہ الجھن کے آثار دیکھے تو اس نے کہا دراصل میرا کوئی دوست نہيں  ہے میں اکیلی ہوں تو اگر آپ کو پسند نہیں تو کوئی بات نہیں  اس کے اس طرح سے بولنے سے ماہی کو شرمندگی ہوئی ننہیں ایسی بات نہیں آپ ہمارے گروپ  میں  آسکتی ہوں جب ماہی نے اسے کہا تو ہانی کو بھی کوئی اوبجیکشن نظر نہ ایا تو اس نے بھی اسے wwelcome کہا ابھی بعت ہو ہی رہی تھی  کہ کلاس  میں  سر کے آنے کا شور مچ گیا 

سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے جب سر کلاس میں  داخل ہوئے تو ہانی نے اسے کہنی ماری ماہی یہ تو وہی ہے ماہی نے بھی دیکھا تو حیراں ہوئی سر ڈائس کی طرف بڑھے اور کہا

 اسلام علیکُم !

آپ سب کو خوشآمدید کہتا ہوں کلاس میں  آج ہم پڑھتے نہیں ہے پہلے ایک دوسرے کو جان لیتے ہیں اور آپ سب مجھے اپنا گول بتائے گئے کون کیا ایچیو کرنے آیا ہے چلے تو اس نیک کام کا آغاز ہم رائٹ سائڈ سے کرتے ہیں 

سر میرا نام ارہان ہیں  سر ہر بار کہتا ہوں  اب نہيں  پڑھوں  گا لیکن کیسے  نمبر آجاتے ہیں  اتنے اچھے کہ سر میرے  ڈیڈ میرا ایڈمیشن کروا دیتے ہیں سر والدين  اتنا بلیک میل کیو کرتے ہیں ساری۔کلاس ہنسنے لگی 

تو سر نے نیکسٹ کہا

میرا نام سسی ہے اور مجھے آئی ٹی میں  اپنا نام پیدا کرنا ہے پیچھے سے کسی من چلے کی آواز آئی سسی تمہارے پنوں کہا ہے 

تو سر نے کہا بدتمیزی آلاؤ نہیں  ہے اسی طرح سب نے تعارف کروایا 

کلاس میں  دو غیر ملکی لڑکیاں بھی تھی ایک سما نتا اور دوسری انتا لیہ دونوں  سکالرشپ پہ آئی تھی انہیں پاکستان دیکھنے کا شوق  تھا ملا تو آگئی 

نیکسٹ سر نے کہا

میں  امے ہانیہ ھو میں نے اپنی دوست کی وجہ سے یہاں آئی ھوں میں اس کے بغیر نہيں  رہ سکتی 

نیکسٹ 

مجھے مارخ علی کہتے اور میرا گول ساری دنیا کو ہلانے کا ہے ویسے جھٹکے میں وقتاً فوقتاً دیتی رہتی ھوں تو ساری کلاس ہنسنے لگی اور اس طرح  کلاس کا احتتام ھوا سارا دن پروفیسر آتے رہے اور تعارف کرواتے رہے کل سے پڑھائی کا آغاز ہونا تھا۔۔

دل یوں دھڑکا کہ پریشان ہوا ہو جیسے.

کوئی بے دھیانی میں نقصان ہوا ہو جیسے.

رخ بدلتا ہوں تو شہ رگ میں چبھن ہوتی ہے

عشق بھی جنگ کا میدان ہوا ہو جیسے.

جسم یوں لمس رفاقت کے اثر سے نکلا

دوسرے دور کا سامان ہوا ہو جیسے.

دل نے یوں پھر میرے سینے میں فقیری رکھ دی

ٹوٹ کر خد ہی پشیمان ہوا ہو جیسے.

تھام کر ہاتھ میرا ایسے وہ رویا محسن

کوئی کافر سے مسلمان ہوا ہو جیسے.

محسن نقوی

خان بتاؤں بھی کہا جا نا ہے میں بتا تا ھوں ساری بات تومیرے ساتھ تو چل وہ باہر نکلے تو فضل دین گاڑی نکالے کھڑا تھا وہ گاڑی میں بیٹھے تو پھر کیپٹن کو مسلہ ہونے لگا اؤے بتاؤں نا خان کہا جآ رہے بات کیا ہے

کیپٹن اب کچھ اور بولے تو باہر پھینک دوں گا گاڑی سے سمجھ آئی کہا نہ بتاؤں گا تو صبر ہے یہ نہيں  

ایک اس کو اس کی پرنسس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی یاد آ رہی تھی  اور اوپر سے کیپٹن کی باتیں وہ چڑنے لگا 

اور اسکو ڈانٹ دیا 

گاڑی جا کے گرلز کالج کے سامنے رکی وہ سب گاڑی سے اترے 

اور فضل دین نے سکیورٹی گارڈ کو بتا یا وہ کالج کی چیکنگ کے لیے آئے ہیں 

پہلے تو سکیورٹی  گارڈ کچھ کہنے والا تھا  لیکن کیپٹن خان اور اس کے ساتھ ایک اور یونیفارم میں ملبوس جوان کو دیکھ کر رک گیا اور دروازہ کھول  دیا اور اندر جا کے پرنسپل کو بتایا 

خان یہاں تک آ تو گیا لیکن اسے سمجھ نہيں آرہی تھی کہے کیا وہ سخت الجھن میں تھا کرے کیا کچھ سوچ  کر اس نے کیپٹن  کو سب بتا دیا 

پہلے تو اسے گھورنے لگا اتنی دیر میں  پرنسپل آگئی اور ان کو بیٹھنے کو کہا

بتائیے ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ 

پرنسپل نے کہا 

خان کچھ بولتا اس سے پہلے کیپٹن  بول پڑا ہمیں  شک ہے کے اس کالج  میں  کچھ غیر قانوناً کام ہو رہے ہیں ہم چیکنگ کے لیے آئے ہیں 

کیپٹن  نے یہ کہا تو خا ن نے اسے گھورا 

نہيں  آپ کو ضرور کچھ غلط فہمی ھوئی ہے یہاں کوئی ایسا کام نہيں  ہوتا پرنسپل  سخت گھبرائی ہوئی  تھی اس کی اسی گھبراہٹ کا فائدہ اٹھایا اس کو اور ڈرایا اگر آپ نے نہ ہمیں  چیکنگ  نہ کرنے دی تو آپ پر قیس ہوگا ٹرائلز پہ ٹرائلز ہو گئے اور آپ کو 7سال قید بہ مشقت ہو گئی اور آپ کے کالج کی ساخ بھی خراب ہو گی اب آپ پہ ہے آپ ہمیں چیکنگ کرنے دے یا پھر جیل۔

پرنسپل یہ سن کر اور خوف ذدہ ہو گئی اس نے ان کو چیکنگ کی اجازت دے دی 

کیپٹن لیکن مجھے نہيں  پتا وہ کون سے ایئر میں ہے کیسے ڈھونڈوں گا میں اسےاس نے خان کے ساتھ چلتے ہوئے آہستہ سے گا تف ہے تیری محبت پہ تجھے یہ ہی نہیں پتا اس کے تو سر پہ لگی پاوں پہ بجھی خبیث انسان تجھے میں کیا کہو اب ایک ہی طریقہ ہے ساری کلاسوں کو چیک کرے 

انہوں نے چیکنگ  کرنا شروع  کردی خان ایک ایک لڑکی کو غور سے ددیکھنے لگا لڑکیاں  تو آرمی والوں کو دیکھ دیکھ کر پاگل ہو رہی تھی  لیکن وہ تو بس ایک کے لیے پاگل تھا 

کافی کلاسے دیکھنے کے بعد بلآخر اسے وہ مل ہی گئی اس کو دیکھ کر وہ رک گیا اور نظریں جھکا لی اور کیپٹن کو کان میں  کچھ کہا تو اس نے پرنسپل سے کہا ہم اس بلیک سکا رف والی لڑکی سے بات کرنا چاہتے ہیں اس کو شاید کچھ پتا ھوں تو پرنسپل  نے کہا آپ بات کر سکتے ہیں  پرنسپل  نے اسے کہا حرم فاطمہ آپ میرے ساتھ آئیں 

وہ اس کو دیکھ کے پریشان ہو گئی تھی اور جب پرنسپل نے اس کو بلایا تو اس کی جان نکلنے لگی وہ پرنسپل  کے ساتھ کمرے سے باہر نکلی تو کیپٹن  نے کہا خان تم اس سے پوچھ گچھ کرو میں  پرنسپل کے ساتھ سارا کالج دیکھ کے آیا ابھی پرنسپل نے کچھ بولنا چاہا تو کیپٹن  نے کہا آئے میرے ساتھ نہيں  تو جیل بھی ہو سکتی  وہ پھر ڈر گئی اور اس کے ساتھ چلی گئی اور حرم خان کے ساتھ پرنسپل آفس آگئی

وہ سخت گھبرائی ہوئی تھی 

اس کی ٹانگوں میں  سانس ہی نہیں تھی ٹانگیں چلنے سے انکاری تھی پسینے چھوٹ رہے تھے اور دل ہی دل میں  درودِ پاک کا ورد کرنے لگی اس کا دل کر رہا تھا وہ بھاگ جائے وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی 

خان کی کیفیت عجیب تھی

تیری آنکھیں بھی کیا مصیبت ہیں 

میں کوئی بات کرنے آیا تھا__!!!

جون ایلیاء

اسے بھی سمجھ نہيں آرہا تھا کیا کہے وہ تو اس پری وش کا چہرہ دیکھ کے ہی سب کچھ بھول جاتا تھا اسے اس کی آنکھیں دیوانہ کردیتی تھی اس نے سوچ لیا وہ اس کی آنکھوں کو نہيں دیکھ کر بات کرے گا نہيں تو وہ کچھ کہہ نہیں پائے گا اس کی زبان تو آس کو دیکھ کر ہی کنگ ہو جاتی جیسے منہ میں زبان ہی نہ ہو

وہ اپنے ہی خیالوں میں چلتا جا رہا تھا جب وہ پرنسپل کے آفس کے سامنے رکا تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بہت آہستہ چل رہی تھی جیسے کسی گہری سوچ میں ہوں وہ اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا وہ خود بھی اسی کیفیت کا شکار تھا 

اتنی دیر میں وہ بھی اس کے پاس آگئی تو وہ اسے اندر  آنے کا اشارہ کرکے اندر چلا گیا اور پرنسپل  کی چیئر پہ خود بیٹھ گیااور  اسے بیٹھنے کا کہا لیکن وہ اس وقت متضاد کیفیت کا شکار تھا وہ دونوں  کافی ریر خاموش بیٹھے رہے 

پھر کچھ سوچ  کے اس نے اس سے بات شروع  کی

اسلام علیکم !

مجھے  پتا ہے آپ مجھے یہاں دیکھ کر حیران ہو رہی ھوگئی ہے دراصل میں  آپ کی وجہ سے بہت  پریشان تھا آپ اتنے دن کہا تھی سب ٹھیک ہے نہ اور آپ آج رو کیوں رہی تھی مجھے پتہ آپ سوچ رہی ہو گی میں کون اور کس حق سے پوچھ رہا ہوں لیکن میں کیا کروں آپ کے معملے مے میں  خود کو بے بس پاتا ہوں روز میں  پا نچ بجے ہی کالج کے سامنے آ بیٹھتا چھٹی ٹائم بھی آتا آپ کی آیک جھلک دیکھنے مجھے نہيں  پتا میں  ایسا کیوں کرتا ہوں میرا دل مجھے چین نہيں لینے دیتا میں سکون کی نیند ننہیں سو سکا اتنے دن بتائے نہ میں کیا کروں آپ کے آنسو مجھے صبح سے نہيں  چین لینے دے رہے بہت بے بس ھو کر آیا ہوں آپ سوچ  رہی ہو گی کے آپ کو کلاس سے آپ کو یوں لے آنے پہ سب آپ کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے میں  آپ کو بدنام کر رہا تو ایسا نہيں  ہے میں آپ کو باہر بھی مل سکتا تھا  مجھے پتا تھا آپ نہيں  مانے گی اور اپنی عزت کو میں  کیسے ہوٹلوں کی زینت بنا دوں آپ میرے  لیے رب کی طرف سے دیا گیا تحفہ ہو انمول چیزیں ہمیشہ چھپی ہوئی اچھی لگتی ہے آپ میرے لیے انمول  ہوں میری  ماں نے مجھے ہمیشہ عزت دینا سکھایا ہے پہلے میرے لیے میری ماں تھی اسکے بعد آپ ہے جسے میں  نے چاہا آپ کو میں  دیوانہ لگ رہا ہوں گا نہ تو  میں ہوں پاگل آپکی ایک جھلک دیکھنے کے کیے آپ کو نہيں  پتا کیا کیا کرتا ہوں میں جو کھبی صبح اٹھتا تھا نمازیں کبھی پوری نہيں  پڑھی تھی اب پڑھتا ہوں اب تو تہجد بھی پڑھتا ہوں با خدا میں نے آپ کی ایک نظر کے علاوا کبھی دوسری بار نہيں  دیکھا کہی میری ہی نظر نہ لگ جائے میری اس ایک نظر میں بھی عزت واحترام ھوتا ہے 

اس کی نظریں جھکی ہوئی تھی وہ اس کو دیکھ نہیں  رہا تھا وہ ایک ٹرانس میں بول رہا تھا اگر دیکھ لیتا تو جان لیتا جتنا دیوانہ وہ تھا اس کے سامنے جو بیٹھی تھی اس سے بڑی پاگل تھی

وہ سانس روکے اس کی بات سن رہی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اسے پتا ہی نہيں  تھا وہ تو بس اس کو سن رہی تھی وہ اپنی خوشقسمتی پہ نازہ تھی کوئی کسی کو اتنا بھی چاہتا ہے۔ وہ اور بھی کچھ بول رہا تھا لیکن سن کون رہا تھا اس کی نظریں اس کے ایک ایک نقش کو چھو رہی تھی 

اس نے کہا میں آپ کو اپنی عزت بنانا چاہتا ہوں آپ مجھے اپنا ایڈریس دے دے پلیز 

اسکی حالت دیکھ کر اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا کتنا کمزور ہو گیا تھا 

وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا تو اس نے اوپر دیکھا اور وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ایک نظر دیکھنے کے بعد وہ نظر جھکا گیا 

وہ آج بہی اسے نظر بھر کر نہ دیکھ سکا اس کے آنسو دیکھ کر اس کا  دل کیا اسے خود میں چھپا لے اس کے یہ آنسو  ہی تو اسے کچھ کرنے ہی نہيں  دیتے تھے 

اس نے ٹیشو باکس سے اسے ٹیشو پکڑائے پلیز آپ رویا نہ کرے مجھے اپ کے آنسو کسی کام کا نہيں رہنے دیتے ہیں 

اس نے ٹیشو لے کے آنسو صاف کیے اور کہا ہم شاہ ہے ہما رے رشتے خاندان سے باہر نہيں دیئے جاتے مجھے پتا ہے میرے بابا نہيں مانے گئے پلیز آپ بھول جائیں مجھے آپکو تو مجھ سے بہی ذیادہ اچھی لڑکی مل جائے گی آپ اپنے آپ کو یوں مت ستائے آپ کو ایسے دیکھ کر مجھے خود سے نفرت ہو رہی ہیں میں  اپ کے لیے بے سکونی کا باعث ہو میں آپ کے لیے کچھ نہيں  کر پا رہی آپ واپس لوٹ جا ئیں خود پہ یہ ظلم مت کریں آپ کے نصیب میں نہيں ہو میں وہ سسک اٹھی اسے اس طرح دیکھ کر اس کی آنکھو میں بھی آنسو آگئے میں اپنے بابا کا مان نہيں  توڑ سکتی بیٹیاں خود ٹوٹ جاتی ہیں اپنے باپ کا جھا ہو سر نہيں دیکھ سکتی 

جو میں تجھ کو پکاروں تو , میرا پھر جھومنا بہتر

جو تو مجھکو پکار اُٹھے تو مجھ پہ رقص واجب ہے

خان اٹھا اور پاس پڑی بوتل سے پانی کے کر اسے دیا اور کہا حرم میں  ایک دفعہ آپ کے بابا سے بات کرنا چاہوں گا اس کے بعد آپ کو کبھی نظر نہیں آؤں گا صرف ایک بار پلیز  اس کی حالت دیکھ کر وہ منع نہ کر سکی اور ایڈریس لکھ دیا وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ وہ ایک بار اس کے ماما بابا سے با ت کرے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آکے بھی اس کا موڈ ٹھیک نہيں تھا امو پوچھ پوچھ کے تھک گئی تھی  لیکن بتایا نہيں فاتی اس کے پاس کمرے میں آئی تو تب بھی ااس نے کچھ نہيں کہ کے ٹال دیا 

اب انہيں  کیا بتا تی کہ کیا ہوا وہ وجہ ڈھونڈنے لگی آخر ایسا کیا کہہ دیا تھا اس نے جو وہ اتنا کچھ کہہ گئی لیکن سمجھ نہ آئی حلانکے اکثر وہ روڈ ہو جاتی تھی لیکن اس حد تک تو وہ کبھی نہيں ہوئی 

ابھی وہ نور کے رویے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ موبائل پہ کال آنے لگی دیکھا تو ہانی کی تھی اس نے گہری سانس لے کر خود کو نارمل کیا اور کال پک کی 

ماہی وے محبتاں سچیاں نے کہا ہو اؤے جیسے ہی اس نے کال اٹھائی تو ہانی شروع ہوگئی 

اس کے چہرے پہ بے ساختہ مسکراہٹ ابھری 

کوئی بریک ہوتی ہے کوئی  وقفہ ہوتا ہے اب تمہیں  کیا پتا کیا ہوتا ہے ماہی نہيں  کہا

پہلی بات میں مکینک نہيں ہو جو مجھے بریک کا پتا ہو اور دوسری بات کہ وقفہ کون سا ہے اس کا پتا ہونا چاہئے اب یہ وقفہ  4 2والا  ہے یا سیریل والا ہے یا وقفہ لازم ہے 

ماہی نے بہت سکون سے اس کی بکواس سنی اور کہا ختم ہو گی تمھاری بکواس تو بولو کس لیے فون کیا ہے نہ دن میں چین نہ رات میں سکون لڑکی کبھی ٹک بھی جایا کرو 

اوں ہاں یاد آیا میں نے تعزیت کرنے کے لیے فون  کیا ہے شمالی افریقہ کے لوگوں پہ عذاب آنے والا ہے 

ہانی کیا فضول بول رہی ہو ہوا کیا ہے سیدھی طرح بتاؤں 

یار سہی کہہ رہی ھوں ٹرمپ ڈرم افریقہ کا دورہ کے گا اگلے ہفتے وہ جہاں بھی جاتا ہے تباہی ہی آتی ہے سوچا پہلے ہی تعزیت کر لوں بعد میں ٹائم ملے ہی نہ 

پہلے اسے سمجھ ہی نہيں آئی بات کی جب سجھ آئی ہنسس ہنس کے برا حال ہو گیا اللّٰہ پوچھے تمھیں ہانی کی بچی اس بچارے نے تمھارا کیا بگاڑا ہے جو اس کے پیچھے پڑ گئی ہو اوؤے میرے نہ ہوئے بچوں کو بیچ میں نہ لایا کروں ان کا کیا قصور ہے اور وہ بچارا واہ واہ ماہی میڈم اس خبیث نے ساری دنیا کو تنگ کر رکھا ہے ایک قتل معاف ہوتا تو اس کا کرتی

اف ماہی بھلا  ہی دیا مجھے میں مارکیٹ جا رہی جاؤی گئی ویسے میں پوچھ کیوں رہی ہو بلکہ یہ میرا آدیش ہے لڑکی خدا کے لیے کم انڈین سیریل دیکھا کروں چلوں پھر جلدی آؤں میں امو سے پوچھ لوں ماہی نے کہا

نہيں  تم رہنے دو میں نے اجازت لے لی ہے

وہ ہانی سے بات کر کے اب ریلیکس ہو گئی تھی اور پھر اپنے من موجی سٹائل میں پھر سے آ گئی نیچے آئی تو امو کے گلے میں باہیں ڈال کے لاڈ کرنے لگی پھر فاتی کے بالوں کو چھیڑنے لگی امو نے شکر ادا کیا کہ وہ واپس اپنے موڈ میں آئی ہانیہ کو کال کرکے اس کے موڈ خراب ہونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتا دی نور کی با توں پہ انہیں  بہت حیرت ہوئی  کہ کیسے وہ یہ کر سکتی 

انہیں اپنی بیٹی کا پتہ تھا بہت نرم دل تھی وہ بتائے گئی نہيں  انہیں  کبھی پریشان نہيں کیا  اپنے دل میں چھپا لیتی تھی انہیں پتا تھا کہ وہ  بہت دکھی ہے اولاد کو پریشان دیکھنا سب سے مشکل کام تھا اس لیے انہوں نے ہانی کو بلا لیا اسے باہر لے جائے تکے اس کا موڈ اچھا ہو 

اور تھوڑی دیر بعد اس کو مسکراہتا دیکھ کے وہ مطمئن ہو گئی

امو ہانی نے آپ کو کال کی میں جاؤں اس کے ساتھ ہاں چلی جانا فاتی کو بہی لے جاؤں اسے بھی چیزیں لینی ہے اس کا کالج میں فن فیئر ہے ڈریس لینا ہے امو یار آپ بھی ساتھ چلوں نہ پلیز کافی ٹائم سے ہم باہر نہيں  گئے نہ

میں  کیا کروں گئی تم لوگ جاؤں  میں کھانا بناتی ہو 

امو یار پلیز باہر سے کھائے گئے نہ فاتی بہی کہنے لگی تو امو مان گئی

امو چائے پلا دے اتنی دیر میں ہانی آتی ہے تو چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ھاں نوجوان کیا خبر ہے سر خبر خیر کی نہيں ہے صرف یہ لوگ ہی نہيں ان کے ساتھ کچھ کمپنیز بھی ملی ھوئی ہے اسلحے کی تر سیل انہیں  کے زریعے ہوتی ہے ملک میں کچھ بہت بڑا ہونے لگا ہے سر مجھے لگتا ہے businesses ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ اس میں انولو ہے لیکن کنفرم نہین  ہے سر اور یہ لوگ بہت تیز ہے سر بہت محتاط ہے ان میں اپنے کسی ساتھی کو شامل کرنا ہو گا اس طرح ہمیں ان کے پلینز کا پتا چلے گا اور ہم کوئی ایکشن لے سکے گئے 

سر آپ وزیر خارجہ سے بات کرے اور انہیں اس خطرے سے آگاہ کرے 

ان کے گروپ میں کچھ ایسے لوگ ھے جو ان کے سات ملے ھوئے ہیں 

سر عمر گروپ آف انڈسٹری کے چیئرپرسن بھی اس میں  انولو ھے سر آپ اپنے قابلِ بھروسہ آدمی کو ڈال دے  اور باقی ساتھ ساتھ میں پتا چلاتا رہتا ہوں

را اور موساد اس سب میں پیش پیش ہے اور اس سب میں قادیانی ان کا بھرپور ساتھ دےرہے ہے اور لوگوں  کو گمراہ کرکے ان کو اپنے مزہب میں شامل کر کے غیر قانونی کام کر رہے ہے لیکن سر مجھے لگتا ہے اس سب کے علاوہ بھی کچھ ہے جو ہم دیکھ نہيں  پا رہے سر میں ان شاء اللّٰہ پتا کروا لوں گا ان سب کو انکے ناپاک عزائم میں کامیاب نہيں  ہونے دوں گا 

ان شاء اللّٰہ سر نے کہا 

ویسے نوجوان تمھارے پرسنل کام کا کیا بنا سر وہ تو سیکسیس فل رہا اب بس اسے بتانا ہے سر میں  یے مشن مکمل کر لوں تو اسے سب بتا دوں گا تب تک کے لیے سر خود پہ کنٹرول کرنا ہوگا پہلے اسے اپنے اعتماد میں لینا ھو گا سر ویسے ان خوبصورت  تیتلیوں میں سے کسی کو چرا لوں عمر دیکھے شادی کی ہو گئی ہے اور کسی کو پرواہ نہيں  سر خود تو شادی کی نہيں  مجھے تو کرنے دے میرے چھوٹے چھوٹے بچے دعائیں دے گئے 

اس کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا وہ سیکرٹ ایجنٹ  ھے ایک پل میں تولا ایک پل میں ماشا اس کی سمجھ نہيں آتی تھی

دوست کے لیے دوست اور دشمنوں  کے لیے سانپ سے بھی زیادہ زہریلا تھا

اب ہو گئی تمھاری مسخری تو جاؤں مجھے اور بھی کام ہے اس نے سلام کیا اور باہر نکلگیا۔۔۔

ﻣﺤﺒﺖ ﻋﮑﺲ ﮨﮯ ﺭﺏ ﮐﺎ !

ﺳﻨﻮ ! ﻗﺴﻤﺖ ﺳﮯ ﻟﮍﻧﮯ ﮐﯽ

ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ...

ﻣﻘﺪﺭ ﺟﺐ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﻮ ...

ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺑﮯ ﺍﺛﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ...

ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﮐﯽ

جیسے ہی اس نے ایڈریس دیا اس نے کیپٹن کو اوکے کا میسج سینڈ کیا اور باہر آگیا اور اس کو بھی آنے کا اشارہ دیا وہ اس کو دیکھ نہيں  رہا تھا اسے ساتھ کے اس کو اس کی کلاس کے سامنے آیا اور اس کی طرف دیکھے بغیر کہا میں جلد آؤں گاآپ میرا انتظار کریے گا وہ کلاس میں گئی تو وہ کیپٹن کی طرف آگیا جو پرنسپل  کو کہہ رہا تھا ابھی تو وہ جارہے ہیں لیکن پھر آئے گئے اور جو بھی گربڑھ ہو وہ ضرور انہیں  اطلاع کرے اور ان سے ہر قسم کا تعاون کرے 

پرنسپل  کو خدا حافظ کہنے کے بعد وہ کالج سے باہر آگئے فضل دین سکیورٹی گارڈ کے پاس کھڑا کیا ہوا تھا کہ کہی وہ کسی کو کال نہ کر دے 

فضل دین ان دونوں کے پاس آ گیا خان نے اسے اشارہ کیا کے گاڑی نکا لوں وہ بھی اس کےساتھ ہی نکلے اور گاڑی میں بیٹھ گئے خان اور کیپٹن بیک سیٹس پر بیٹھے اور فضل دین نے گاڑی چلائی 

کافی دیر خاموشی رہی اس کے بعد کیپٹن نے ہی اس خاموشی کو توڑا خان تمھاری بات ہوئی اس نے کیا کہا خان جو کب سے اس پری وش کے خیا لوں میں کھویا ہوا تھا ایک دم چونک کر اسے دیکھنے لگا اور بھرپور انداز میں  مسکرایا اس کی مسکراہٹ اور اس کی آنکھوں کی چمک بلکل ویسی تھی جیسے کسی بچے کی شرارت کرنے کے بعد چمک اٹھتی ہے اس کی انکھیں بہت روشن لگ رہی تھی دیکھنے والے کو مبہوت کر رہی تھی پچھلے کچھ دنوں سےوہ ہنسنا بھول ہی چکا تھا اس کو اس طرح دیکھ کر کیپٹن کو اطمنان ہواکے سب ٹھیک ہے 

اس نے دوبارہ خان سے یہی بات کی تو اس نے کیپٹن کو کہا تمھیں پتا صرف میں نہيں  وہ بہی مجھے چاہتی ہیں  اج اس کی آنکھوں میں میں نے اپنے آپ کو دیکھا بے شک میں  نے کچھ سکینڈ ہی دیکھا لیکن مجھے پتا چل گیا میں ہی اس کے دل میں 

کیپٹین میں نے اسے بتا دیا جو میرے دل میں تھا کیپٹن میں نے اسکو کبھی نظر بھر کر نہيں  دیکھا اس کو کہی میری ہی نظر نہ لگ جا ئے وہ روئی آج میرے سامنےکیپٹن مجھے اپنا آپ بہت بے بس لگا آج میں  اس کو چپ نہيں  کرواسکتا تھا ابھی میں اس کے لیے محرم نہيں  ھو میں کیسے  ا س کی پا کیزگی پہ آنچ آنے دے سکتا 

وہ خواب میں بول رہا ہوں  کیپٹن حیران تھا کے اس بندے کو کیا سے کیا بنا دیا محبت نے کیا محبت اس قدر پا کیزہ ہوتی ہے ?????

آج کل کی محبتوں  کو وہ جانتا تھا  محبت نی ٹائم پا س اور حوس تھی وہ سلام  کر رہا تھا ایسی  محبت کو کہ وہ شخص اسکو نظر بھر کر نہيں  دیکھا کہی وہ اپنی پکیزگی نہ کھو دے 

خان نے کہا وہ کہتی میں اسے بھول جاوں اس کے با با خاندان سے باہر شادی کر نے کے حق میں نہیں ہے ایک پل اس کی۔آنکھوں میں کرچیاں دیکھی بکھرے خوابوں کی وحشت نظر آئی لیکن اگلے پل پھر اس کی آنکھوں میں روشنیاں سی بھر گئی 

لیکن کیپٹن میں نے اسے کہا کے 

میں اس کے پاپا کو منا لوں گا وہ مان جائے گئے میں کھو نہيں  سکتا اسے وہ مجھے نظر نہيں  آتی نہ تو میری سانسیں رکنے لگتی ہیں میں اس کے بابا کو منا لوں گا نہ اس نے بہت امید سے کیپٹن کو دیکھتے ہوئے کہا کیپٹن اس کے چہرے پہ بکھرے ہوئے رنگوں کو کم نہيں  کرنا  چا ہ رہا تھا اس نے ہنس کر کہا تمھیں میرے یار کوئی ریجیکٹ کر ہی نہیں سکتا تم جیسا داماد ان کو ملے گا خوش نصیب ہیں وہ تم میں کون سی کمی ہے جوبصورت خوش اخلاق پڑھا لکھا جوان اور سب سے بڑھ کر ان کی بیٹی کا دیوانہ وہ تو دیکھتے ہی ہاں کر دے گئے میرے شہزادے کو اس نے اس کا حوصلہ بڑھایا تو وہ مسکرا کے اس کے گلے لگ گیا

اؤئے سائیڈ پہ ہو کمینے میں وہ نہيں  ہو جو میرے گلے لگ رہا ہے اب تو تم سے دور ہی رہنا ھوگا

خان نے اسے کھینچ کے ایک۔لگائی بک بک نہ کر اور تو وہ ہو ہی نہيں سکتا وہ جنت کی حور ہے اور کہا تو بندر 

ابھی  وہ آئی نہيں  اور تو مجھے یہ کہ رہے ہو وہ آگئی تو تو تو مجھے بھو ل ہی جائے گا

اس کی دہائیاں جاری تھی گاڑی آفس کے پاس آ رکی اور وہ اندر گئے سر افس میں ہی تھے وہ ان کے کمرے میں چلے گئے سر نے جب اس کو مسکراہتے دیکھا تو اس کی ٹانگ کھینچی 

ہاں جی جوان کون سا کارون کا خزانہ مل گیا ھے جو دانت اندر ہی نہيں جارہے 

سر نے اس کے مسکراہنے پہ چوٹ کی 

سر قارون کے خزانے سے مجھے کیا لینا دینا میں تو جنت کی حور سے مل کر آرہا ہوں اس نے بڑی ترنگ میں جواب دیا 

میاں جنت کی حوریں آزمائشوں سے ملتی ہیں

اور قسمتوں سے 

سر جیسے بھی ملی میں

 اس کو اس طریقے سے لے آؤں گا لیکن سر مجھے آپکی مددد کی۔ضرورت ہے آپ میرے ساتھ جائے گئے نہ رشتہ لینے 

سر نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو وہاں   التجا تھی 

انہوں نے اسے کہا نوجوان لگتا تمھارے ریٹائرمنٹ کے دن آگئے ہے تم ایک لڑکی کی محبت میں پاگل ہو گئے ہو یاد ہے نہ آدمی جوائن کرتے ہوئے تم سے کیا وعدہ لیا گیا تھا تمھیں ہر چیز سے بڑھ کر وطن عزیز ہونا چاہیے حتیٰ تمھاری جان سے بھی بڑھ کر تم اپنا مقصد بھولتے جا رہے ھو کمزور لوگوں کے لیے آرمی میں کوئی جکہ نہیں ہے

سر نے آج سے پہلے اسے کبھی کچھ نہيں کہا تھا سر کے بہت قریب تھا دونوں دوستوں کی طرح تھے کیپٹن جو کب سے کھڑا ان کی با تیں سن رہا تھا حیران ہو گیا  

خان چپ کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا وہ سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے وہ مسکرا رہا تھا کیپٹن کو اسکی ذہنی حالت پہ شبہ ھو رہا تھا اس کو ایک تو ڈانٹ پڑ رہی اور وہ مسکرا رہا 

جاں نے سر کو کہا سر مجھے میرا مقصد اور وعدہ یاد ہے میرا آج بہی پہلا عشق میرا جنوں پاکستان ھے

سر اس کے جواب سے مطمئین ھو گئے تھے  اس بیجھ کر وہ کیپٹن کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے ساری روداد سنی اور سوچنے لگے انہیں کیا کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانی کے آنے کے بعد سب شاپنگ پہ چلےگئے سب سے پہلے وہ مال آئے وہاں سے وہ   فاتی کے لیے ڈریس دیکھنے لگے لیکن فاتی کبھی یہ نہيں لینا کبھی اگلی شاپ پہ ماہی تنگ آگئی تھی 

اس لیے وہ خود اس کی طرف آئی امو بھی کہہ کہہ کے تھک گئی جلدی کرو لیکن اس کو کچھ پسند آئے تو تب نہ جب امواسے جلدی کہتی تو ان کو ایک ہی جواب دیتی 

امو آپکی پرنسسز کو پرنسس بننا ہے کا لج میں اس کے لیے مجھے ان سب سے اچھا تیار ہونا ہے اور سب سے پیارا لگنا ہے اس کے لیے مجھے سب سے پیارا لگنا ہے 

آخر کار 2 گھنٹے کے بعد ایک شاپ پہ آئے تو ماہی نے اسے ٹوک دیا اب جو وہ پسند کرے گی وہی آسے وہی لینا تھا کافی دیر بعد اسے ایک فراک پسند آیا اس کی فر سکائے کلر کی اور اس کے اوپر سفید کلر کی واسکٹ بنی ہوئی تھی اس کے اوپر ست رنگی کڑھائی ہوئی ہوئی تھی اور فراک کے ساتھ اٹیچ تھی ماہی نے جب سب کے سامنے کیا تو سب کو بہت پسند اانہوں نے وہ پیک کروایا ٹائم  دیکھا تو آٹھ ہو رہے تھے ابھی اس نے میچنگ جوتے اور جیولری لینی تھی ہانی نے بھی فاتی کے چکر میں  کچھ نہ لیا تھا فاتی کو امو کے ساتھ بیجھا اور خود وہ اور ہانی اپنی شاپنگ کرنے لگے شاپنگ کے دوران بار بار اسے لگ رہا تھا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے لیکن سمجھ نہيں  آرہا تھا وہ کون ہے پھر اس نے اپنا وہم سمجھ کر جھٹک دیا ہانی امو کے کیے سوٹ لینا ہے ہیلپ کر دے زرا 

ہانی اور اس نے مل کے دو سوٹ پسند کیے امو کے لیے اور دو چار شرٹس ہانی نے لی لیکن اس نے اپنے کے لیے کچھ نہ لیا وہ اور ہانی وہاں سے نکلے اور شاپ کیپر کو پیک کرنے کو کہہ کر امو کے پاس آئی ان کو ہانی کے ساتھ گاڑی تک بیجھا خود اسی شاپ میں جا کے شاپنگ بیگ لیے اور جانے لگی وہ ابھی دو قدم چلی تھی کہ وہ لڑکھڑائی تو کسی نے اسے سنبھالا اس کی گری ہوئی چیزیں پکڑائی اور اس کی طرف دیکھے بنا چلا گیا اس نے تھینکس کہا لیکن اس نے سنا ان سنا کر دیا 

کتنا عجیب آدمی ہے بات سنے بغیر ہی چلا گیا وہ سر جھٹکتے ہوئے  کار تک آئی اور چلانے لگی 

امو نے اسے کہا کے وہ کے ایف سی سے فاسٹ فوڈ لے آئے وہ لوگ گھر جائے گئے پہلے بہت دیر ہو گئی ہے اس نے گاڑی روکی وہ اور ہانی جا کے برگر کولڈ ڈرینکس اور نگٹس لے آئی سب نے راستے میں  ہی کھائے ہانی کو اس کے دروازے کے سامنے اتارا اور اس کو ایک شاپنگ بیگ پکڑایا اور کہا یہ آنٹی کے لیے لیا میں نے انہیں  دینا اور وہ کوگ گھر آگئے اس نے جب گھر آکے دیکھا تو  فراک کے ساتھ بہت خوبصورت کالے رنگ کا لباس تھا اس پہ  ملٹی کلر کی کڑھائی ہوئی ہوئی تھی گھنٹوں سے تھوڑا نیچے تھا اس کے ساتھ کیپری تھی اسے لگا کہ فاتی نے لیا ہوگا اس نے جب فاتی کو دکھایا تو وہ بولی آپی بہت خوبصورت لگے گا آپ پے 

یہ تم نے نہيں  لیا کیا امو جو اسے دیکھ رہی تھی بولی ہانی کا رہ گیا ہوگا صبح دے دنا اس نے ڈریس اٹھایا اور ہانی کو کال کی کہ تمھارا ڈریس یہاں رہ گیا ہے صبح لے لینا 

اس نے کہانہیں میں نے کوئی ڈریس نہيں  لیا میں نے تو شرٹس لی ہے اس نے کہا شاید امو نے اس کےلیئے لیا ہو بتا نہ رہی ہوں یہ خیال آتے ہی وہ مسکرانے لگی ایسا اکثر ہوتا تھا کہ وہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ لاتی رہتی لیکن اسے بتاتی نہيں تھی وہ اس کا اس طرح خیال رکھ کے اپنا پیار جتاتی تھی اسے امو پہ بہت  پیار آیا اور سونے لگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کالج میں  بہت ٹیف روٹین تھی آج سے پڑھائی کا باقائدہ آغاز ہوا تھا  میتھس کی کلاس میں  سر آئے تو انہوں  نے آتے ہی کلاس کو سمجھانا شروع  کر دیا لڑکیاں ان کی پرسنیلٹی  سے بہت امپریس تھی

جب سر لیکچر دے چکے تو مسکرا کر پوچھا 

any question?????

تو انتالیہ کھڑی ہو گئی سر آپ۔نے اپنا نام تو بتایا نہيں  تو وہ مسکرا اٹھے ان کی نظر ماہی پہ گئی تو اس کو دیکھ کر ان کی مسکراہٹ  گہری ہو گئی ماہی بلکل بچوں  کی طرح گال پہ ہاتھ  رکھے انہیں  دیکھ رہی تھی 

ویسے یہ بات سب سے پہلے پوچھنے کی تھی کل تو میں  بتا نہیں سکا دراصل میری یاداشت بہت کمزور ہے بوڑھا ہو رہا ہوں 

یہاں تو میرے شاگرد مجھ سے بھی ذیادہ بھلکڑ ہے 

انتالیہ میرا نام مارخ بتائے گئی میں بھی دیکھو انہیں  یاد بہی ہو یا نہيں  وہ جو دم سادھے انہیں  دیکھ رہی تھی  اپنا نام سن کر ہڑبڑھا اٹھی اور کھڑی ہو گئی سر میں  کیسے آپ خود بتا دے نہ

Don't tell me marukh 

آپ کو میرا نام نہيں یاد 

انکے اس طرح کہنے پہ اس نے کہا سر آپ کا نام مصطفی ہے 

سر کی مسکراہٹ دیکھ کر اس کو اپنی جلد بازی۔کا احساس ہوا 

ساری کلاس ہنسنے لگی لیکن ان میں کوئی ایسا بھی تھا جسے یہ سب پسند نہيں  آرہا تھا 

سو گائز مجھے مصطفی ہمدانی کہتے ہیں اور مس انتالیہ شکریہ اتنے اہم سوال کا اس کے بعد کلاس اوور ہوئی اور سب باہر نکل گئے آخر میں  ہانی ماہی اور سر رہ گئے تھے انہوں  نے رک کر ماہی کو کہا مس مارخ لیکچر تو آپ نے سنا نہيں  اگر سمجھنے کا موڈ ہو تو آپ مجھ سے سمجھ سکتی ہیں  ان کی اس بات پہ ماہی پانی پانی ہو گئی

_______________

میر و غالب کیا کہ بن پائے نہیں فیض و فراق

زعم یہ تھا رومی و عطار بن جائیں گے ہم

دیکھنے میں شاخِ گل لگتے ہیں لیکن دیکھنا

دستِ گلچیں کے لئے تلوار بن جائیں گے ہم

ہم چراغوں کو تو تاریکی سے لڑنا ہے فراز

گل ہوئے پر صبح کے آثار بن جائیں گے ہم

حرم جب کلاس میں آئی تو ہر کوئی جاننے کو بے تاب تھا اس ہینڈسم سے آفیسر نے اسے کیا کہا خیر ہینڈسم تو رونوں تھے لیکن خان کی آنکھوں کا رنگ اسے سب سے ممتاز بناتا تھا اس کی کلاس جو ہی ختم ہوئی اسے پرنسپل  کا بلاوہ آگیا

مےآئی کم انگ میم ??

اس نے پرنسپل سے اجازت لی اور کمرے میں آگئی 

پرنسپل نے اسے بیٹھنے کو کہا اور اس سے پوچھا کیا آپ اس آفیسر کو جانتی ہوں 

نہيں میم میں نہيں جانتی اسے پتا تھا کہ اگر اس نے ہاں کہا تووہ اس سے جس پیار سے پوچھ رہی ہیں اتنے غصے میں آجائے گئيں اس لیے اس نے وہی کہا جو اسے خان نے سمجھایا تھا 

اچھا بیٹے آپ بتائے انہوں نے آپ سے کیا کہا

میم وہ مجھ سے جنرل کوئسچنز ہی کرتے رہیں ہیں 

جنرل کوئسچنز کیسے ??میم نے پوچھا 

یہی یہاں کوئی غیر اخلاقی حرکت تو نہيں ہو رہی آجکل میم ڈرگز کالجز میں دی جا رہی ہیں اور کالجز وغیرہ میں اسلحہ بھی چھپایا جا رہا ہے کیوں کے تدریسی اداروں میں ایسے گھنونے کام ہو رہے لوگوں کا اس طرف دھیان نہيں ہوتا ہے اس لیے وہ مختلف کالجز میں چیکنگ ہو رہی ہیں اس نے تفصیلاً جواب دیا 

پہلے تو وہ اسے جانچتی نظروں سے دیکھتی رہی 

لیکن وہ جب اس کے چہرے سے کچھ اخذ نہ کر پائی تو انہوں نے اسے بیجھ دیا 

اس نے شکر ادا کیا بچ گئی

اس پرنسپل کی خصلت کا پتا تھا کہ۔زرا سی بھنک بھی اسے پڑھ گئی تو وہ گئی کام سے اس نے جھرجھری لی اور کلاس کی طرف آنے لگی اس کے قدم آج بہکے ہوئے تھے اور خوشی چھپانے سے بھی نہيں چھپ رہی تھی اسے اپنا آپ بہت معتبر لگ رہا تھا کہ کوئی اسے اس حد تک چاہتا ہے اس بات کا احساس ہی الگ ہوتا ہے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہواؤں کے ساتھ رقص کر رہی ہو خوشی کے مارے اس کا دل کر رہا تھا وہ چلا چلا کے بتائے خان میرا ہے صرف میرا وہ دیوانی ہو چلی تھی اس نے بمشکل اپنے آپ کو نارمل کیا اور اپنی جگہ پہ جا کے بیٹھ گئی ساری لڑکیاں اسے دیکھ رہی تھی کچھ حسد سے کچھ رشک سے وہ ہمیشہ ان سے ہر ںات میں سبقت لے جاتی تھی  ایک بہت ذہین طالبہ تھی ہر چیز میں آگئے تھی چاہے وہ کوئی تقریری مقابلہ ہو یا کوئی کھیل اس کے بولنے کا انداز اتنا دل موہ لینے والا تھا کہ بس بندہ سنتا ہی جائے

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

انتہا ہو گئی انتظار کی 

ائی نہ کچھ خبر میرےیار کی 

ہے مجھے یہ یقین بے وفا وہ نہیں 

پھر وجہ کیا ہوئی انتظار کی..

ہادی کینٹین میں بیٹھ کر تیمور کا انتظار کر رہا تھا  اور مسلسل ساتھ ساتھ گنگنا رہا تھا اسکو گنگنا کم اور ٹارچر کرنا ذیادہ کہا جا سکتا تھا

سنا ماہی اور ہا نی جو اس کے پیچھے پڑے ٹیبل پہ بیٹھی تھیں تنگ ہو گئی تھی  آخر کار تنگ آ کے اس نے اسکو سنانے کا فیصلہ کیا اتنی دیر میں  تیمور کہی سے آگیا اور اس کو آتے دیکھ کر پھر لہک لہک کر گانے لگا

 اتنی بے سری آواز توبہ کسی 

کو ٹارچر کرنا ہوں تو بندہ اس کے پاس چھوڑ جائے ڈفر کو مآہی نے تپ کر سنا اور ہانی کو کہا 

تیمور نے آتے ہی اس کے منہ پہ اپنا ہاتھ مظبوطی سے رکھ کر اسے خاموش ہونے کو کہا لیکن اس پہ کوئی اثر نہيں  ہو رہا تھا  اس نے ٹیبل پہ دیکھا کے دو ڈیو کے کین اور چار سینڈوچز میں سے دو کھا ںھی چکا تھا اس نے ہادی سے کہا ہادی اگر تو ایک منٹ میں چپ نہ ہوا تو ان سب کا بل تو دے گا چل بچے تو چلا اب زور سے چلا اس کے اس طرح کے کہنے پہ وہ چپ ہو گیا تیمور کو پتا تھا یہ کنجوس انسان مر کر بھی ایک پھوٹی کوڑی نہيں  نکالے گا یہی طریقہ تھا اسے چپ کروانے کا اور یہ طریقہ کارگر بھی ثابت ہو ا

ماہی لوگوں نے شکر ادا کیا اس بے سرے راگ کے ختم ہونے  پہ 

اتنی دیر میں  ماہی کو سارہ ایک پیاری سی لڑکی آتی دکھائی دی نازک سی تھی سر پہ سکارف کیے سفید  رنگت گلابیاں کھلی ہوئی تھی مناسب قدوقامت کی وہ دونوں ہادی اور تیمور کی طرف چلی آئی لڑکی اب نہ جانے سارہ سے کیا کہہ رہی تھی اور اب سب مل کر باتیں کرنے لگے شاہ اور احد جو کینٹین آئے تھے ہادی تیمور اور زری کے ساتھ لڑکی کو دیکھ کر چونک پڑے شاہ منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگا اف یہ کہا سے آ گئی چپکو کہی کی کل سے جہاں جاتا یہ لڑکی پہنچ جاتی اور چپکنے کی کوشش کرتی

اس کو ایسی لڑکیاں زہر لگتی تھی وہ لوگ  بھی ان کے پاس چلے گئے سارہ تو اسے دیکھ کر بہت  خوش  ہوئی اور اسے دیکھ کر کہا اوہو آپ جناب  کیسے ہیں کل سے نظر نہيں  آرہے کیا آپ یونی میں  نئے آنے والوں کے ساتھ یہ کیا جاتا ہے میں آپ سے ناراض ہو وہ اسے دیکھ کے بڑی لگاوٹ سے بولی تو وہ غش کھانے والا ہو گیا بلا ان کی کہا اتنی دوستی ہوئی ہے جو وہ یہ کہہ رہی زرلش نے بھائی کو دیکھا آج سے پہلے تو انہوں نے کبھی نہيں  بتایاان کی کوئی لڑکی دوست ہو گی  اس نے دیکھا سب اس کی طرف ہی متوجہ تھے ایک تو اس چپکو کو میں  کیا کہو لیکن جب بولا تو کہا سوری کلاسسز تھی نہ اس لیے نہيں  مل پایا نیکسٹ ٹائم نہيں  ہوگا آپ سے ذیادہ فروری کام ہو سکتا کیا نور کے تو خوشی کے مارے زمین پہ ہی نہ پاوں ٹکے زری خوش  تھی کہ اس کے بھائی کو بھی کوئی لڑکی پسند آئی اور اس کی بیسٹ  فرینڈ بھی پاس رہے گئی احد نے اس کے پاؤں پہ پاؤں مارا اور آہستہ سے کہا کیا بکواس کر رہا ہے ہوش کے ناخن لے داجی تجھے قتل کر دے گئے اس کا لباس ہی دیکھ لے کتنا واحیات ہے اور اس زرش میڈم کو یہی ملی تھی دوستی کے لیے ابھی اس کی لعن طعن جاری وساری تھی تو اس نے احد کو کہا پیچھے دیکھ اس نے نا سمجھی سے سر ہلایا اود دیکھا تو اس کا قہقہہ چھوٹ گیا تو اس لیے اتنا فلرٹی بن رہا تھا ویسے وہ جوالا مکھی بنی بیٹھی  ہے اس کے سامنے نہ جانا نہيں  تو پکا مرے گا

ماہی نے سب سن لیا تھا سب کی نیکسٹ  کلاس تھی ماہی کی فری تھی وہ کینٹین میں  ہی بیٹھی رہی ہانی اور اس کا ایک سبجیکٹ چینچ تھا اور ثنا کسی کام کا کہہ کر نکلی ہوئی تھی وہ بور بیٹھی تھی اتنی دیر میں  اس کے پاس کوئی آکر بیٹھا اس کؤ پتا ہی نہیں چلا وہ اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی  تو شاہ نے ٹیبل بجا کر کہا میری جان اتنا نہ سوچا کرو مجھے کے اردگرد کی بھی خبر نہ ہو 

ماہی ایک دم۔خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور اسے دیکھ کر چونکی اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی شاہ اس کا جائزہ کے رہا تھا اد نے جینس کے اوپر گھٹنوں سے تھوڑا نیچے تک فراق پہنا ھوا تھا جو کھلا تھا اس کے اوپر ہم رنگ ٹیپنک کلر کا سٹول۔لیا ھوا اور اس ساتھ کندھوں پہ ایک شال لی ہوئی تھی ساتھ نازک سے گلاس شوزتھے چہرے پہ معصومیت کا پہرہ تھا کوئی بیوٹی پراڈکٹ استعمال نہیں کی گئی تھی

اس کے دل کے تار کو ہلا گئی اس نے گہری نظروں سے اسے دیکھا اس نے اپنی مسکراہٹ کو چھپایا سامنے ماہی جنگلی بلی اسے دیکھ رہی تھی 

وہ اس کی۔نظروں سے تنگ اکر ماہی نے بیگ اٹھا کر جانے لگی تو  اس نے اسکا بیگ پکڑ لیا ماہی کے برداشت نے جواب دے دیا اس نے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اوپر کیا تو شاہ نے پکڑ لیا ایک ہاتھ پہلے ہی اس کے قبضے میں تھا دوسرا بھی پکڑ لیا وہ مسکرا رہا تھا ماہی نے اس کو ایک نظر دیکھا اسے اور زور سے اس کے پاؤں پہ مارا اس نے ہاتھ چھوڑا تو اس نے بلیک پیپر کی بوتل کھول کر اس کی۔آنکھوں  میں پھینکا یہ سب اتنی جلدی میں  ہوا کے شاہ کچھ سمجھ ہی نہ سکا اس کے ساتھ ہوا کیا ہے وہ میز پہ۔ہاتھ مار کر پانی ڈھونڈنے لگا احد جو اسے دیکھ رہا تھا اس کے پاس آیا پانی اس کے ہاتھ میں  ڈالا کے آنکھیں دھو سکے مارخ جو یہ دیکھ رہی تھی اس نے احد کو کہا اپنے دوست کو سمجھا دینا دوبارہ میرے راستے میں  نہ آئے اور مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی بلکل نہ کرے ٹریلر تو دکھا ہی چکی میں  کہو تو کسی دن مووی دکھا دوں اسکو سمجھ نہيں  آرہی ہلانکہ کہی بار سمجھا چکی ہو تم سمجھدار لگتے ہو سمجھا دینا 

ڈفر ایڈیٹ کہی کا 

شاہ جو چپ چاپ کر کے منہ  دھو رہا تھا اس کے آخری الفاظ نے تو اسے آگ لگا دی 

منہ دھونا چھوڑ کے اس کے سامنے آیا اس کی آنکھیں  بہت سرخ ہو رہی تھی اوپر سے غصے میں اور بھی جوالہ مکھی بنا ہوا تھا اس کو خود ہی اپنی مثال یہ ہنسی آئی اور کھلکھلا کے ہنس دی اس کی ہنسی بہت  خوبصورت تھی  اس کی ہنسی کی جلترنگ سے سماں کو مہکانے لگی جو اسے کچھ کہنے لگا تھا اس کی ہنسی میں  کھو گیا تھا احد اور ماہی دیر بحث کرنے میں لگے ہوئے تھے لیکن وہ تو اب تک اسکی ہنسی  کے حصار میں قید تھا وہ جتنا اس سے دور ہونے اور نفرت کرنے کی کوشش کرتا اتنا ہی اس کو اپنی طرف کھینچتی تھی اس کی ہنسی کو دیکھ کر بے اختیار منہ سے نکلا

"ہنسدے او تے دل کھسدے او"

احد نے اس کے پاؤں پہ مارا تو ہوش میں آیا شرارتی بلی کو دیکھا تو وہ اسے دیکھ رہی تہی اس نے اس کو دیکھتے احد سے کہا اپنے دوست  کو کہنا دوبارہ میرے سامنے ائے تو پوری تیاری سے آئے مجھے بزدل لوگوں سے نفرت ہے 

ابھی جو دل میں محبت کی کونپل پھوٹ رہی تھی یک دم اس کا خاتمہ ہوا اور یھر اپنے پرانے سر پھرے سٹائل میں آگیا

اوئے نکلو یہاں سے عورت ذات ہو اس لیے آرام سے بات کر رہا ہوں مرد جتنا بھی کمزور ہو عورت سے طاقت ور ہوتا ہے 

پانچ منٹ نہيں  لگتے مجھے اپنی طاقت دکھاتے اس نے چبا چبا کے کہا 

ماہی نے اس کے قریب ہو کے کہا تم مرد ہو نہيں  اور مظبوط  اور تم نہيں  تم جو مجھے کہ رہے نہ میں بچین سے دیکھتی آ رہی میری ماں نے مجھے  بیٹے کی طرح پالا ہے شاہ مراد لعنت ہے تم پہ نامرد ہو تم مردانگی اسے نہيں  کہتے  تم کیا دھمکیاں  دیتے ہو کرو جو کرنا میں سامنے ہو کرو ماہی اس وقت ہوش میں نہيں  تھی اس نے شاہ کو پکڑ کر جھہنجھوڑ ڈالا وہ اس کو سکون سے دیکھتا رہا احد جو ماہی کو شاہ سے دور کرنے لگا تھا اس نے منہ کر دیا 

اور نرمی سے اسکے ہاتھ سے پکڑ کر الگ کیا اور کہا اب نظر نہ آنا مجھے نہيں  تو جان لے لوں گا 

اور کون جانے یہ سچ ہونے والا تھا

ہم  خاک نشیں تو شاہ پیا!

!!ہمیں تیری دید کی چاہ پیا

اک شام پلٹ کر دیکھ ہمیں

ہم بیٹھ گئے تری راہ پیا!!...

ہم اشک بہائیں مجلس میں

مسجد مسجد ، درگاہ پیا !

. پڑھ شعر ہمارے! داد بھی دے!

چل "" آہ "" نہ کر! کر وااہ پیا !

خان بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا خیالوں کی دنیا میں پرواز کر رہا تھا بے خیالی میں اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل میں جگہ جگہ حرم لکھ رہا تھا اور اسے اس بات کا اندازہ بھی نہيں تھا 

اس کو یہ فائل اس کے سر یعنی کرنل صاحب نے اس کو پڑھنے کے لیے دی تھی کہ آج وہ پڑھ لے اسے رات کو صبح اس پہ وہ ڈسکشن کرے گئے اور اگلا لائحہ عمل تشکیل دے گئے اور اس کے بارے میں اس کو کچھ معلومات حاصل ہو وہ بھی اس میں شامل کر دے

  اس لیے جب وہ رات کو سونے لگا تو اس کو اس فائل کا خیال آیا بیڈ سے اترا اور سامنے ٹیبل سے فائل اور اس کے ساتھ پڑا ہوا پین اٹھا لایا 

اس کا کمرہ بہت سادہ اور خوبصورت تھا دروازے سے جو ہی داخل ہو تو اس کے دائیں جانب بیڈ پڑا اس کے ساتھ ہی ڈریسنگ ٹیبل رکھا ہوا سامنے لارج سائز کی تصویر تھی جس میں خان اسکے بابا اور ماما تھے اور سب کے چہروں پہ ایک خوبصورت سی مسکان تھی اس کے ماما بابا کی وفات دو سال پہلے جہاز کے کریش ہو نے کی صورت میں ہوئی تھی اس حادثے نے اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھآ اسیے میں اسے کرنل سر نے بہت سہارہ دیا

کمرے کی ایک طرف دیوار گیر الماری کے ساتھ ایک میز رکھا ہوا تھا اس پہ کچھ کتابیں اور فائل پڑی ہوئی تھی والدین کی وفات کے بعد اس نے اپنے گھر پر تالا لگا دیا

اور اپنے رہنے کے لیے چھوٹا سا ایک اپارٹمنٹ لے لیا جہاں وہ رہتا تھا دو کمرے لاؤنچ اور اوپن کچن تھا دونوں کمروں کے ساتھ اٹیچ باتھ تھے جو نہایت خوبصورتی سے سجایا کیا تھا کیپٹن  اور وہ ساتھ رہتے تھے لیکن آج کیپٹن کی نائٹ ڈیوٹی تھی وہ گھر نہيں  تھا

جب وہ اس کے ساتھ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلا تو 

اس کی نظر فائل پہ پڑی تو ایک دم ہڑبڑا بیٹھا اور اور اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دے دیا اور بے بسی سے خود سے کہنے لگا حرم دیکھے آپ نے کیا کروادیا 

آگئے سر آج کل مجھے طنعے دیتے رہتے ہیں اور آج تو ان کو موقع مل جائے گا ربا کروں تو کیا کروں 

کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے اس پیج کو نکالا لیپ ٹاپ اون کیا

دوبارہ ٹائپ کیا اور اس کو یو ایس پی میں سیف کیا کہ صبح اس کی کاپی نکلوالے گا اور اس کے بعد فائل کو پڑھا اس کے ضروری پوائنٹس نوٹ کیے اور یھر سونے لگا 

ٹائم دیکھا تو دو بج رہے تھے اس نے آنکھیں  بند کی جیسے ہی وہ پری اس کے خیالوں میں اتر آئی اس کو سوچتے ہوئے وہ  سو گیا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

ماہی آج دو دن بعد یونی آئی تھی بخار اور فلو کی وجہ سے امو نے اسے کالج نہيں آنے دیا تھا 

وہ کالج آئی تو ہانی اور ثنا کو اپنا منتظر پایا دونوں اس کو دیکھتے ہی اس کی طرف لپکی بے چینی ان دونوں کے انداز سے ظاہر ہو رہی تھی 

ںانی تو سیدھا اس  کے گلے لگ گئی ااور ایک آنسو اس کی انکھوں سے نکلا اور ماہی کے سکارف میں جزب ہو گیا 

ماہی حیران تھی ہا نی اس کو بہت چاہتی تھی اس کو پتا تھا لیکن اس اس سے اس قدر جزباتیت کی امید نہيں تھی اس نے بہت پیار سے اس کے بال سہلائے اور خود سے بہت نرمی سے الگ کیا اور اس کے چہرے کو دیکھا تو وہ رونے والی ہو ئی ہوئی تھی ماہی نے اسے آنکھ کے اشارے سے رونے سے روکا 

اتنی دیر سے ثناء انہیں  دیکھ رہی تھی شور مچانے لگی 

ہانی ہٹ بھی جاؤں مجھے بھی ملنے دو تم دونوں کا میلوں ڈرامہ ختم ہی نہيں  ہو رہا 

دونوں ہاتھ کمر پہ ٹکائے بڑے سٹائل سے بول رہی تھی تو دونوں  کی ہنسی چھوٹ گئی 

دونوں کو ہنستا دیکھ کر وہ بھی ان کے گلے لگ گئی 

کسی نے اس منظر کو بہت دلچسپی سے دیکھا 

اتنے دنوں بعد دیکھ کر اس کی اضطرابی کیفیت کو سکوں ملا 

اس دن لڑنے کے بعد سے اس کو سکوں نہيں  آرہاتھا گھر آ کے بھی وہ اس کے بارے میں سوچتا رہا جانے کیا بات تھی اس لڑکی میں جو اس کی طرف کھینچتا تھا اس نے سوچا  کہ جو بھی ہے اس کی بھی غلطی تھی وہ بس بات ہی کرنے گیا تھا کیا ضرورت تھی اتنا اوور ریکٹ کرنے کی پر نہ مس تیزگام نہ کچھ سوچتی ہے نہ دیکھتی ہے اور پھینک دیتی ہیں

لیکن اگلے دن وہ جانے انجانے میں اس کا ہی منتظر رہا اس کو دیکھنے کے چکر میں کتنی دفعہ اس کے اپارٹمنٹ میں آیا لیکن اسے وہ نظر آئی دو دن وہ بے بسی کی حالت میں رہا اج دو دنوں بعد اس کو نظر آئی تو اس کا دل سکون سے بھر گیا

کلاس میں آئی تو سب نے ماہی سے اس کی طبیعت کا پوچھا تو وہ حیران ہوئی اس کو اندازہ نہ تھا سب اس کو مس کرے گئے ماہی شرارتی تھی اس نے اپنی اپنے پروفیسرز کو بہی نہیں چھوڑا تھا 

اس کے میتھس کے ٹیچر آئے تو سر جو اٹینڈس لیے رہے تھے انہوں نے مارخ علی کہا تو اس نے 

یس سر کہا 

تو سر نے اپنی آنکھیں رجسٹر سے  اٹھا کے اسے دیکھا اور بہت شگفتگی سے بولے

مارخ بیٹا 

تھوڑے دن اور چھٹی کر لیتی سب بہت سکون میں تھے  

تو پوری کلاس ہنسنے لگی

سر نے اس کے شرارتی انداز پہ خوبصورت سا طنز کیا 

تو ماہی بھی ہنسنے لگی 

کیا ہے نہ سر سکون میں ہونا بڑھاپے کی علامت ہے اور میں بوڑھی نہيں ہو سر متحرک ہونا زندگی اور جوانی کی علامت ہے اس کا مطلب سر آپ بوڑھے ہو گئے ہیں اور باقی سب بھی 

ویری بیڈ سر اس نے تاسف سے سر ہلایا تو 

سر کی ہنسی چھوٹ گئی 

ویسے کہنا پڑے گا بچے آپ کا سینس آف ہیومر بہت اچھا ہے

ان کی کلاس کے بعد سر مصطفی کی کلاس تھی ماہی کو بھوک لگی ہو ئی تھی جیسے ہی میتھس کے سر گئے ماہی کلاس سے نکلی ثناء اور ہانی کو کلاس میں ہی رکنے کا کہ کہہ کر کینٹین آگئی وہ تیز تیز چل رہی تھی کے سامنے سے آتے شاہ مراد کے ہاتھ میں موجود سموسے بمعہ چٹنی ماہی کے اوپر گر گئے ماہی کی تو آنکھوں کے سامنے سات آ سمان گھوم گئے سر چکرا نے لگا ایسا لگ رہا تھا جیسے سر کسی پتھر سے ٹکرایا ہو

اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں اٹھا کر جب دیکھا تو سامنے کھڑے انسان کو دیکھ کر اس کے منہ میں کرواہٹ گھل گئی دل تو کیا گلا دبا دے اسکا لیکن وہ اس سے بحث کرنا نہيں چاہتی تھی کیوں کے دس منٹ کے بعد سر مصطفی کی کلاس تھی اس سے اگر لڑنے لگ جاتی تو کلاس تو گئ اور وہ کسی صورت کلاس نہيں مس کر سکتی تھی پہلے ہی دو دن نہ آنے 

کی وجہ سے اسکی کلاس مس ہو گئی تھی

ماہی جو کترا کے نکلنے لگی تھی اور سوچ رہی تھی   اس کا بدلہ تو لے کے رہے گئی لیکن  ابھی نہيں  شاہ کو اس کا اس طرح کترا کے نکل جانا غصہ دلا گیا اور بازو سے پکڑ کر کھینچا وہ جو اس سب کے لیے تیار نہيں تھی اس کے سینے سے لگنے لگی تھی کہ اس نے اپنا ہاتھ اس کے سینے پہ رکھ کے اپنے درمیان فاصلہ قائم کیا 

شاہ پوری طرح اس لمحے کی گرفت میں تھا

ماہی جو کترا کے نکلنے لگی تھی اور سوچ رہی تھی   اس کا بدلہ تو لے کے رہے گئی لیکن  ابھی نہيں  شاہ کو اس کا اس طرح کترا کے نکل جانا غصہ دلا گیا اور بازو سے پکڑ کر کھینچا وہ جو اس سب کے لیے تیار نہيں تھی اس کے سینے سے لگنے لگی تھی کہ اس نے اپنا ہاتھ اس کے سینے پہ رکھ کے اپنے درمیان فاصلہ قائم کیا 

شاہ پوری طرح اس لمحے کی گرفت میں تھا

ماہی نے جو اسے اس طرح اپنی طرف دیکھتے پایا تو اس کا غصہ سوا نیزے پہ پہنچ گیا اس نے آس پاس دیکھا کچھ نہ ملا جس سے اس کی عقل ٹھکانے لائی جائے 

لیکن ہائے رے قسمت 

اس کو غصے میں کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے پاؤں اچک کر دونوں ہاتھوں سے اس کے بال کھینچ ڈالے شاہ نے ایک دم اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اس کے پیچھے کر کے کمر کے ساتھ باندھ دیے 

ہاں اب بولوں کرو گئی اب یا  نہيں  ہاں بولو

لیکن وہ بھی ماہی تھی ڈھیٹ تھی کیسے مان جاتی

لیکن وہ نہ بولی اس نے اس کے پاوں پہ پاوں رکھا لیکن کوئی اثر نہ ہوا اسے درد ہو رہا تھا اس نے ظاہر نہ کیا 

اب کروں کی بد تمیزی ہاں بولو شاہ مراد نے کہا

وہ اس سے پوچھ رہا تھا 

اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی اس نے ایک دم زور سےکہا

سر آپ یہاں ماہی کے کہنے کی دیر تھی ایک دم شاہ نے اس کے ہاتھ چھوڑے اس نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور وہاں سے نکلی 

شاہ نے دیکھا کہ وہاں کوئی نہيں تھا تو وہ اس کی چالاکی پر دانت پیس کر رہ گیا اور وہ اسے زبان چڑا کر بھاگی اور کینٹین کی طرف گئی 

احد جو پرنسپل آفس جا رہا تھا  یہ دیکھ کر اس کے کہکے چھوٹ گئے 

شاہ نے اس دیکھ کر مکا دکھا یا تو احد نے کہا ایک لڑکی تو سنبھالی نہيں جاتی بس میں ہی ملا ہوں روب جھاڑںے کے لیے 

چل اچھا ہے کوئی تو تجھے جواب دے سکتا ہے اب آئے ہو نہ لائن پہ شاہ صاحب  بھابی ہے بہت کمال کی تجھے ایسی لڑکی ہی سوٹ کرے گی 

اوئے یہ عزاب کب سے بھابی ھو گئی ہے تیری کمینے اس کو جھیلنے کا مجھ میں حوصلہ نہيں 

ماہی جوس اور لیز لے کے کلاس کی طرف آئی تو دیکھا سر کلاس میں موجود تھے اگر اس نے اجازت مانگی تو اس کی بہت عزت ہو گی اس نے سائیڈ پہ کھڑے ہو کے ہانی اور  ثناء کو اشارے کیے وہ بدتمیز بھی دیکھے نہ اس نے کینٹین سے جو سکے بچے اس کی ٹافیاں لے لی اس نے وہ ٹافی ہانی کو مارا اور جا کے اس کے پیچھے بیٹھے ارہان کو لگی اس نے آگئے پیچھے دیکھا تو اسے ماہی کھڑی نظر آئی ماہی نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں  میں کچھ کہا تو ارہان نے اپنا سر اثبات میں ہلایا 

وہ اٹھ کر جا کے سر کے پاس اپنی اسائمنٹ لے گیا اور اس طرف جا کے کھڑا ہو ا  کہ سر کی پشت ماہی کی جانب تھی اسنے سر کے سامنے کھڑے ہو کے اس کو اشارے سے اندر انے کا کہا 

ماہی آواز پیدا کیے بنا اندر آئی لیکن اس کے ہاتھ سے چیزیں گر گئی اور اس آواز سے سر نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ارہان نے سر پر ہاتھ مارا اور کہا اب تو گئی یہ 

ماہی وہی چپ کر کے کھڑی ہو گئی اس نے آنکھیں بند کی ہوئی تھی اور انتظار میں تھی سر اب ڈانٹے گئے اور اب لیکن جب انکھ کھول کے دیکھا سر اسے ہی دیکھ رہے تھے 

وہ سر جھکا گئی 

مس مارخ آپ وہی کھڑے کھڑے کون سے مراکبے میں گم ہیں چیزیں اٹھائے اور اپنی جگہ پہ جائیں یہ 

لاسٹ وارنگ ہے آپ کے کے لیے

💞💞💞💞💞💞💞💞

ماہی گھر آئی تو اس نے دیکھا امو کہی نہيں  تھی وہ جب امو کے کمرے کے باہر تھی تو اسے امو کی آواز آئی وکیل صاحب آپ ماہی کو کچھ مت بتانا نہيں  تو وہ شور مچا دے گئی میں  خود اسے بتاؤں گئی اپ ان لوگوں  کو نو ٹس بجھوا دیں میں مزید اس معاملے کو لٹکانے کے حق میں نہيں  ہو اور مجھے فیکٹری کے حا لات بتائے  کیسی پروگریس ہے اس کی اس بار پہلے سے کم رقم بینک میں ڈپوزٹ ہوئی  ہے ماہی

 کی امی نے کہا 

میڈم مجھے لگ رہا ہے کچھ غلط ن ہو اب آپک کو مارخ بٹیا کو سب بتا دے اور ان کو کہے پڑھائی کے علاوہ فیکٹری کی طرف بھی دیہان دے کون جانے کب کس کی نیت بدل جائے وکیل نے کہا 

آپ ٹھیک کہہ رہے ہے وکیل صاحب کب کس کی نیت کب بدل جائے کچھ کہہ نہيں  سکتے میں  مارخ سے بات کروں گی کے اب وہ اپنی زمہ داریاں سنبھالے کب تک سب ملازموں پہ چھوڑے رکھے گئے

______________

شاہ مراد اور احد دونوں بہت اچھے دوست ہیں ہادی احد کا بھای اور  تیمور کا کزن ہیں

شاہ کی ملاقات ایک دن غیر متوقع طور پہ ماہی سے ھوتی ہیں اور ماہی اسکوا تھپڑ مارتی ہے تب سے ان دونوں کی دشمنی کا اغاز ہو گیا

اور ایک ہی یونیورسٹی میں ایک دوسرے کا سامنا ھونے پہ کو۶ی دنگل نہ ہو ھو نہیں سکتا

دوسری طرف خان حرم کو اپنی پسندیدگی کا بتاتا ہے پہلے تو وہ اسے انکار کر دیتی پھر خان کے محبت کی شددت دیکھتے ہوئے وہ اسکو اپنے گھر آنے کی اجازت دے دیتی ہیں 

ایجنٹ سر سے اجازت لے کر یونی میں پڑھانا شروع کر دیتا ہے اور وہاں کمپیوٹر سیکشن کے انچارج اسے دہشتگردوں سے ملے ہوئے لگتے ہیں اور جب مزید اس بارے میں تحقیق کرتا ہے تو اسے اور بہت سے لوگوں کا پتا چلتا ہے جو اس میں ملوث ہیں  

مارخ علی بہت پیاری لڑکی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے  لڑکا ہی ہے باپ کی وفات کے بعد اسکی امی اور چھوٹی  بہن ہی اس کی دنیا تھی اس کی اکلوتی  دوست ہانی تھی ان کے گھر کے ساتھ اس کے چچا کا گھر تھا ان کی ببیٹی سارہ اور ایک بیٹا عمر تھا سارہ بہت  خود غرض لڑکی ہے

شاہ کی فیملی میں  اس کے دادا اسکے باںا چاچو چچی امی اسکی بہن اور بھائی اور کزن تھی پھوپھو  بھی تھی جو ایبروڈ رہتی تھی ان کا ایک بیٹا اور بیٹی تھی  

یہ تھا ریویو اب آگئے پڑھیے

_______________

حرم اس وقت لان میں اپنے ماما بابا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی بابا بار بار ماما کو تنگ کرہے تھے حرم بیٹا آپ کی ماما بوڑھی ہو گئی ہیں آج صبح سے ماما گھنٹوں کو پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھی اب جب وہ چائے  لے کر آئی اور کرسی پہ بیٹھٹے ہوئے  ان کے منہ سے کراہ نکلی تو باںا نے انہیں  شرارتی نظروں سے سنجیدہ لہجے سے کہا تو پہلے تو ان کو دیکھتی رہیں اور ان کی انکھوں سے جھلکتی شرارت محسوس  کر کے خود بھی ان کو تنگ کرنے لگی 

ہاں جی !میں بوڑھی ہو گئی ہو تو اپ کونسا سولہ سال کے لڑکے ہیں  آپ سے پانچ سال چھوٹی ہو آپ کو تو کوئی ساتھ دیکھے تو میرا شوہر ہی نہ مانے 

تو اس کے بابا برخستہ بولے میں  ہوں ہی اتنا ہینڈسم  اور کہا آپ یہ تو ہونا ہے  ایک ہینڈسم  کی بیوی  اس سے بڑی لگتی ھے تو وہ کیسے شوہر لگے گئے 

حرم جو کب سے ان کی باتیں  سن رہی تھی کھلکھلا اٹھی 

باںا بس کر دے میری ماما جیسا کوئی نہیں  ہے شی از آ گریٹ ومن 

آئی لویو ماما آئی لویو بابا 

آپ دونوں  میری زندگی  ہے 

ابھی وہ یہ کہ ہی رہے تھے کے دروازے یہ بیل ھوئی باںا اٹھے کے دروازہ کھولے 

جب دروازہ کھولا تو سامنے ایک جوان لڑکا اور اس کے ساتھ ایک  بڑی عمر کا  مرد اور عورت تھی جو اس لڑکے کے ماں باپ تھے انہوں  نے دروازے پہ آنے والوں کو دیکھا  ان کو پہچاننے  کی کوشش کر رہے تھے 

تو دروازے پہ موجود  شخص نے ان کو کہا اندر نہيں  آنے دیں گئے ان کو اندر آنے کا کہ کر وہ دروازے سے ہٹ گئے وہ اندر آئے تو ان کو دیکھ کر حرم چونک اٹھی اور سامنے خان کو دیکھا وہ سفید قمیص شلوار میں  بہت ڈیسنٹ لگ رہے تھے ان کے ساتھ جو عورت  تھی اانہوں نے نیوی بلیو کلر کی قمیص شلوار میں  تھی اور ساتھ  ہم رنگ ڈوبتا اور سکن کلر کی شال کاندھوں پہ ڈال رکھی تھی ان کے ساتھ جو آدمی تھے انہوں نے بھی سفید کلر کا قمیض شلوار پہن رکھی تھی ساری فیملی ہی بہت ڈیسنٹ لگ رہی تھی دیکھنے سے ہی ان کے سلجھے ہوئے مزاج کا پتا چلتا تھا

حرم آنکھیں  کھولے پاگلوں کی طرح خان کو دیکھے جا رہی تھی حرم کے بابا ان سب کو لے کے اندر جا رہے تھے پاس سے گزررتے خان نے کھانسی شروع کردی تو اس کو ہوش آیا اور نظریں جھکالی اس وقت بلکل گھریلو حلیے میں تھی کالی پٹیالہ شلوار گلابی قمیض اور کالا ڈوبتا کیے ہوئے  بہت پیاری لگ رہی تھی اوپر سے اس کا شرمانا اس کو اور خوبصورت بنائے دے رہا تھا ڈھلتی شام نے جیسے اس پہ اپنا رنگ چھوڑ دیا تھا وہ اس خوبصورت شام کا ہی ایک خوبصورت حصہ لگ رہی تھی 

سب اندر جا چکے تھے وہ آخر میں  آئی سب سامنے ڑرائنگ روم میں بیٹھے تھے سامنے کے صوفے پہ خان اور ان کے ساتھ آئے ہوئے انکل آنٹی بیٹھے ہوئے تھے اور اس کے ساتھ ڈبل سیڑر پہ اسکے پاپا اور ساتھ سنگل صوفے پہ ماما بیٹھی تھی سب خاموش  تھے اس نے اندر آکے سلام کیا تو آنٹی نے آگئے بڑھ کے اسکو والہانہ انداز میں  ملی انکل اٹھے انہوں نے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرا اسکی نظر ساتھ بیٹھے وجود پہ پڑی تو وہ سر جھکائے بیٹھا تھا اس کو اس ہنسی آگئی اور اس نے چھپالی

آنٹی نے اسے ساتھ بٹھا لیا اور اس سے چھوٹے چھوٹے سوال پوچھنے لگی اور وہ آئستہ سےجواب دینے لگی 

خان کے انکل کی بابا سے بہت  بن گئی وہ لوگ باتوں میں لگے ہوئے تھے اور خان اس کے ڈرائنگ روم کا جائزہ لینے لگا سامنے والی دیوار پہ ایل ای ڈی لگی ہوئی تھی اس کے ساتھ سامنے لارج سائز کی تصویر تھی جس میں حرم اور اس کے ماما با با تھے اور درمیان میں حرم تھی جو کھلکھلا رہی تھی کسی بات پہ  اسکی ساتھ والی دیوار پہ ایک الماری بنی ہوئی تھی جس میں کچھ شیلڈز تھی کچھ دیکوریشن پیسز تھے دیواروں پہ پنکش ریشم وال لگی ہوئی تھی اور چھت پہ سکن کلر کا رنگ ہوا ہوا تھا 

دو ڈبل سیڑر صوفے تھے اور دو سنگل درمیاں میں ایک ٹیبل تھا شیشے کا جس پہ گلدان پڑا تھا اس پہ تازہ گلاب پڑے تھے بہت  خوبصورتی سے سجا ہوا تھا

______________

فاتی فاتی ماہی نے گھر میں گھستے ہی اس فاتی کو اوآزیں دینا شروع کر دی لیکن یوں لگ رہا تھا جیسے بہری ہوگئی ہو ماہی نے اپنے روم کا دروازہ بہت زور سے کولا تو فاتی ہڑبڑا کے سیدھی ہوئی اس کے کانوں میں ہیڈ فونز لگے ہوئے تھے وہ اپنے فیورٹ آرجے کو سن رہی تھی اس لیے فاتی کو اس کے آنے کا پتا نہيں چلا لیکن جب فاتی نے ماہی کو دیکھا تو اس کے تاثرات نے فاتی کو کسی گڑھ بڑھ کا احساس دلایا 

غصے سے اس کی مٹھیاں بھینچی ہوئی تھی وہ اپنے اشتعال پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی 

ماہی نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈھیلا اور ایک ہی سانس میں پی گئی 

فاتی کو کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہو رہا تھا 

پانی پینے کے بعد وہ فاتی کے پاس بیڈ پر بیٹھی اور اپنے اشتعال پہ قابو پا کے بہت پیار سے بو لی فاتی تم سارہ کی طرف گئی تھی??????

فاتی کے چہرے کے تاثرات بدلے اور اس کارنگ زرد ہونے لگا اور اس کا جواب ماہی کو مل گیا 

وہ آ۔۔پی۔۔میں  فاتی بے ربط جملے بولنے لگی 

ماہی نے کھینچ کے چانٹا اس کے منہ پہ مارا اور ایک دم آوٹ آف کنٹرول ہوگئی اور چیخنے لگی 

منع کیا تھا نہ جا نا کیوں گئی ہاں کیوں گئی تمھیں پتا اس نے میرے کردار پہ انگلی اٹھائی اس نے میرے ماں باپ پر انگلی اٹھائی اس نے میری خوداری میری ذات کو نشانہ بنایا وہ بھی سب کے سامنے فرف تمھاری وجہ سے فرف تمھاری وجہ سے وہ کہتی ہے ہم اس کے باپ کے ٹکروں پہ پل رہے ہیں  ہم احسان فراموش ہیں ہمیں مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں ہم فقیر ہے میرےباپ کا پوچھ رہی تھی وہ میں کس کی اولاد ہوں اس نے مجھے کسی کے سامنے سر نہيں  اٹھانے دیا وہ جو روتے روتے کارپٹ پہ بیٹھ گئی تھی ایک دم کھڑی ہوگئی اور گلاس اٹھا کے زمین پہ مارا اور ہر طرف  کانچ کانچ ہو گئے اس نے ڈیکوریشن پیسز لے کے دیواروں پہ مارے ہر طرف کانچ ہی کانچ ہو گئے وہ ایک قدم ہی چلی کےاس کے پاؤں میں کانچ لگ گیا اور وہ کراہی تو اس کی امو جو باہر کھڑی سب سن رہی تھی اور بے اواز رو رہی تھی اس کی آواز سن کر امو اور فاتی اس کے پاس آئی اتنی دیر میں وہ بے ہوش ہوگئ تھی امو اور فاتی نے اسے بیڈ پہ سلایا اور ڈاکٹر کو فاتی کو کانچ اکھٹا کرنے کا کہا

فاتی کو اپنے پہ غصہ آنے لگا وہ کیوں گئی   سارہ کے پاس 

اسکو یاد آیا کے کہ کل اسکی بے رخی کی وجہ پوچنے گئی تھی اور اس نے فاتی کو بے نقط سنائی فاتی نے بھی حساب برابر کیا اور آگئی اس کو کیا پتا تھا یہ ہو جائے گا اسطرح    یہ بات ماہی کو پتا چلے گی وہ ماہی کے ری ایکشن بہت خو فزدہ ہو گئی تھی اسی وقت ڈاکٹر آئے امو ان کو ماہی کے پاس لے آئی انہوں  نے ماہی کا چیک اپ کیا اور کچھ دوائیاں لکھ کر دی منگوا لیں ما ہی کے پاؤں سے خون بہت نکل رہا تھا کانچ بہت اندر تک چلا گیا تھا  کانچ نکال کر ڈریسنگ کی گئی ڈاکٹر کو خدشہ تھا کے اس کے پاؤں میں سٹیجز آسکتے ہیں بہر حال انہوں  نے ڈریسنگ کردی ھے اور اسکو ایک سکون آور انجیکشن لگایا اور ڈرپ لگائی ماہی کا خیال رکھنے کی تکید اور دوائیوں کا طریقہ کار بتایا اور پاس کھڑی روتی ھوئی فاتی کا سر تھپتھایا اور باہر نکل گئے امو انکو باہر تک چھوڑنے گئی 

فاتی اس کے قریب آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی اور بار بار چومتے ہوئے ہاتھ کو کہنے لگی ماہی ٹھیک ہو جاوں جیسا کہو گئی ویسا کروں گی تم کہو گی نہ سارہ سے نہ ملوں نہیں ملوں گئی تم جو کہو گئی کروں گئی ماہی اٹھ جاؤں دیکھو مجھے ڈر لگ رہا ہے ماہی تم مجھے گلے سے لگاؤں نہ مجھے ہمیشہ پاس سلاتی ہو تمھیں پتا نہ میں اکیلے میں ڈرتی ہو ماہی اٹھو مجھے ڈانٹو ماروں پر خدا کے لیے ایسے نہ کروں اٹھ جاؤں ماہی میں اف تک نہيں  کروں گئی امو کمرے میں آئی تو فاتی کی آواز ان کا کلیجہ چیرنے لگی تھی وہ آگئے بڑھی اور فاتی کو گلے لگا لیا اور اس کو چپ کروانے لگی ماہی نے کبھی بہی کسی چیز کو سوار نہيں  کیا تھا وہ تو بیمار بھی کبھی ھو جائے تو بھی وہ اندر باہر ہوتی رہتی تھی آرام نہيں کرتی تھی آج آس کو ایسے دیکھ کر ان کو لگا ان کا کلیجہ پھٹ جائے گا ان کی ماہی تھی بے شک اس کو ڈانٹتی پیار بھی اسی سے کرتی تھی اس میں ان کی زندگی تھی 

فاتی کو چپ کرواتے کرواتے خود بھی رونے لگی انہوں نے کبھی سوچا بھی نہيں ماہی کا یہ حال ہوگا 

فاتی کو چپ کروانے کے بعد اس کو پانی پلا کے اور ماہی کے پاس بیٹھنے کی تاکید کر کے خود کمرے میں جا کر دو رقعت حا جت کی پڑھی اور دعا کی اور ایک فیصلہ کر کے متمئن ہو گی

_______________

جب سے شاہ یونیورسٹی سے آیا تب سے اسکا دل بے چین تھا رہ رہ کر اسے خود پہ غصہ آرہاتھا 

دل کر رہا تھا ہر شہ کو آگ لگا دے آخر اسے ضرورت ہی کیا تھی اسے چھیڑنے کی وہ بھی سارہ کے سامنے بات اس حد تک بڑھ جائے گئی اسے اندازہ نہ تھا  

آج یونی میں وہ کینٹین میں بیٹھے ہوئے تھے سارہ اور وہ اتنے میں ماہی ہانیہ اور ثناء آگئی انہوں نے ان دونوں کو دیکھا نہيں تھا وہ لوگ آپس میں گپ شپ میں لگ گئی 

شاہ سارہ سے ایکسکیوز کر کے ماہی لوگوں کی ٹیبل پہ آگیا 

ہائے گرلز ثناء اور ہانی نے جواباً ہائے کہا لیکن ماہی اٹھ گئی اور ہانی اور ثناء کو کہہ کر کے وہ کچھ کھانے کو لاتی ہے اس نے شاہ کی طرف دیکھا تک نہيں اور اسے اگنور کیا  

شاہ اس کا یہ انداز دیکھ کر مسکراہے بنا نہ دہ سکا جینز کے ساتھ گلابی گھٹنوں تک آتے فراک اور ساتھ گلابی شال میں بہت پیاری لگ رہی تھی آنکھوں میں غصہ تھا چھوٹی سی ناک سرخ ہوئی ہوئی تھی 

ابھی جانے لگی تھی کہ شاہ نے کہا میرے لیے بھی لے آئیے گا میں نے کچھ کھایا نہيں

ماہی جو جا رہی تھی یک دم مڑی اور کہا یہاں زہر نہيں ملتا نہیں تو لے آتی 

سارہ جو شاہ کے پاس آرہی تھی اسنے اسکا جملہ سن لیا اور ایک تمسخرانہ مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی 

شاہ چلوں چلے ایسے بدتمیز لوگوں کے منہ لگنے کا فائدہ نہیں ہیں احسان فراموش ہیں یہ لڑکی سارہ نے کہا 

شاہ نے کہا واقع ہی ایسا ہے سارہ مجھے پہلے نہيں پتا تھا 

ہانی اس سے پہلے کچھ کہتی ماہی نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے خاموش رہنے کہا اور سارہ کو کہا ہاں سارہ بولو اور کیا کیا ہوں میں تا کہ مجھے تمھاری اصلیحت پتا چل جائے 

سارہ اس بات پہ اور غصے میں اپنی واقع ہی اصلیحت دیکھا دی تم کیامیری اصلیحت دیکھنا چاہتی ہو تمھاری اصلیحت کیا ہے ہاں میرے باپ کے ٹکروں پہ پلنے والی اب مجھے اصلیحت دکھاؤں گئی احسان فراموش  ہو تم میرے با پ نے سانپ پالے انہیں کیا پتا تھا تمھیں اس قابل میرے باپ نے بنایا ورنہ تم لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تمھاری شناخت ہی کیا ہے باپ کے مرنے کے بعد تھا ہی کیا تمھارے پاس ہم نے دیا اپنے برابر لائے اور آج تم اس قابل ہی کب تھی اور تمھاری بہن آئی تھی  کل میرے پاس بھیک مانگنے اسکو بتا دینا دوبارہ نہ آئے 

اس نے شاہ کا بازو پکڑا اور چل دی شاہ سارہ کی باتوں سے شاک میں تھا کوئی اتنا کیسے گر سکتا اسکی آنی

آنکھوں کے سامنے ماہی کا چہرہ آرہاتھا وہ بلکل سپاٹ تھا پر اس کی آنکھيں بتا رہی تھی اس وقت اس کیا گزر رہی ہیں  اسکی آنکھوں میں شکوہ تھا کچھ ٹو ٹنےکا ڈر تھا لیکن وہ خود کو سنبھالنے ہوئے تھی 

رات کے دس ہو گئے تھے دروازے پہ دستک ہوئی زری اور زشی اندر آئیں بھیا چلے نہ کھانہ کھائے آپ نے دن کو بھی نہيں کھا یا 

شاہ نے ایک نظر ان دونوں کے چہرے پہ ڈالی جہاں انہیں اپنے لیے فکر اور پریشانی نظر آئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس دیا اور ان کے سر پر ہلکی سی چت لگا کے کھانے کی ٹیبل پہ آگئے کھانا برائے نام ہی کھایا

اور تھوڑی دیر بعد کمرے میں آگیا ان کے سامنے تو وہ ہنستا بولتا رہا لیکن وہ آس واقعے سے باہر نہيں نکل پا رہا تھا  اس نے الماری کھولی وہاں سے سگریٹ کی ڈبی اور لائٹر نکلا اور پھر شب کے آخری پہر تک سگریٹ اسکے لبوں سے جدا نہ ہوا 

جتنا اس کو اپنے ذہن کے دریچوں سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا اتنا ہی وہ اپنے قدم جما رہی تھی آخر کار تنگ آکر صبح آذانوں کے وقت اسے نیند آئی

_____________

ماہی کو رات کو ہوش آیا اور پاس بیٹھی فاتی نظر آئی جس کے چہرے پہ رونے کے نشان بہت واضح تھے وہ اس کے ساتھ بیڈ پہ بیٹھی بیٹھی سو گئی تھی اسکو اس وقت بہت معصوم لگ رہی تھی اس کو پیار سے دیکھنے لگی اسی وقت امو آئی اور اسکو جاگتا پاکے اس کے پاس آکے اسکا ماتھا چوما اور اسکا سر گودھ میں رکھ کر انگلیاں چلانے لگی اس کے آنسو بہنے لگے امو نے پیار سے صاف کیے اور رونے سے منع کیا اتنی دیر فاتی بھی اٹھ گئی اور ماھی کو جاگتا پا کے اس سے معافی مانگنے لگی ماہی جو کہو گی کروں گی آئندہ ایسے مت کرنا ائی لو یو ماہی 

ماہی کو دن میں سب یاد آیا تو اسے بہت دکھ ہوا ناحق اتنے پیارے رشتوں کو تنگ کیا سارہ کا تو اسے پتا تھا وہ تھی ہی ایسی اس نے بیٹھ کر فاتی کو گلے لگایا اور امو کو بھی اور ہنسنے لگی 

امو بھوک لگی ہیں کیا پکایا ہے ????

جلدی سے لے آئے امو ایک بار پھر اسکو پیار کر کے نکل گئی اور وہ دونوں باتوں میں مشغول ہوگئی 

تھوڑی دیر بعد امو ٹرے میں کباب بریانی اور سلاد لے آئی دن کو بریانی بنائی تھی ماہی کے پسند کی پر کھائی کسی نے نی تو امو وہ ہی گرم کر لائی ساتھ کباب فرائی کیے سلاد بنایا اور اب سب کھانے لگے کھانے کے بعد ماہی کو دوائی دی اور سب سونے لگے امو اپنے کمرے میں آگئی الماری میں موجود خفیہ خانے کو کھول کے کاغذات نکالے اور ان کو دیکھ کر تسلی کی اور وکیل صاحب کا انتظار تھا آج جو ہوا اس کے بعد آج وہ ایک منطقی فیصلے پر پہنچ گئی 

وہ فیصلہ ان سے کئی دنوں سے نہیں ہو پا رہا تھا  آج کے اس حادثے کی وجہ سے اس لمحے میں ہوگیا

خان اور اسکے گھر والے چائے پینے کے بعد کے بعد گھر چلے گئے تھے 

ماما کے ساتھ چائے بنانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی اسے نہيں پتا ان کے درمیاں کیا بات ہوئی 

ایک توں خان کا نمبر بھی نہيں تھا کے اس سے ہی پوچھ لیتی 

نیچے بھی جب ماما بابا کے پاس گئی وہ بھی اسے دیکھتے خاموش ہو گئے تھے ان کے پاس تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد واپس آگئی اور یہی بات اس کی جھنجھلا ہٹ کی وجہ بن رہی تھی 

بے چینی اس کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی 

کمرے میں مسلسل چلنے سے تھکنے لگ گئی تھی 

اس وقت اس کے موبائل کی بیل ہونے لگی دیکھا تو کوئی انجانا نمبر تھا اس نے کال کاٹ دی لیکن کرنے والا بھی بہت ڈھیٹ تھا مسلسل کیے جا رہا تھا اس نے موبائل ہی آف کر دیا ایک پہلے اسکو پریشانی تھی کے بات کیاہوئی اور اوپر سے اس انجانے بندے نے اسے اور چڑا کے رکھ دیا تھا 

اس ٹائم رات کے آٹھ بج رہے تھے تھوڑی دیر بعد ماما اسے کھانا کھانے کے بلانے آئی تو وہ نیچے آئی کھانا بہت خاموشی سے کھا یا گیا  

اسکے بابا کو کھاتے ہوئے بات کرنا اچھا نہيں لگتا تھا 

اس لیے کھانا ہمیشہ کی طرح خاموشی  سے کھایا گیا کھانا کھانے کے بعد وہ چائے بنانے لگی تو بابا نے اسے روک دیا  اور کہا انہیں اس سے ایک ضروری بات کرنی ہے 

وہ اپنی کرسی پہ بیٹھ  گئی دل کی دھک دھک اسے کانوں میں سنائی دینے لگی اس کی رنگت دل کو سنبھالنے میں سرخ ہو چکی تھی وہ سر جھا کے بیٹھی ہوئی تھی 

بیٹا ابھی جو میں بات کرنے لگا اس کو غور سے سننا اور ہمیں جواب دینا

بابا نے تمہید باندھی 

آج شام کو جو لوگ آئے تھے وہ تمہارے رشتے کے لیے آئے تھے 

لڑکا کیپٹن ہے اور اس کے ماں باپ انتقال کرچکے ہیں بہن بھائی ںھی نہیں ہیں اکیلا رہتا ہے 

اسکے ساتھ  اسکے انکل آنٹی آئے تھے رشتہ تو اچھا لگا ہمیں  لڑکا دیکھنے میں اچھا ہے 

مجھے اور تمھاری ماں کو تو ٹھیک لگا 

اب آپ بتاؤں ںیٹا آپ کیا کہتی ہو اس بارے میں 

میں نے ابھی تک جواب نہيں دیا انہیں  ان سے کچھ وقت مانگا ہے 

اپ کی رائے جاننا میرے لیے بہت اہم ہیں 

بابا بول کے خاموش ہو گئے اور اس کے جواب کا انتظار کرنے لگے 

بیٹیاں کب ماں باپ کا مان توڑتی ہے اس نے بھی ان پہ ڈال دیا سب جیسا آپ کو بہتر  لگے 

اسنے بابا کا چہرہ دیکھا تو وہ مسکرا رہے تھے اور ساتھ ماما بھی 

بابا نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا جیتی رہو میری گڑیا

اس کے بعد اس نے چائے بنائی یہ اسکا روز کا معمول تھا وہ کھا نے کے بعد چائے پیتے تھے 

بابا اور حرم نے چائے پی جبکہ ماما نے طبیعت خرابی کے باعث پہلے کمرے میں چلی گئی تھی اس نے ماما کے لیے دودھ گرم کیا اور دوائی کھلائی اور کمرے میں آکے کافی دیر کھڑکی کے پاس اکر چاند کو دیکھنے  لگی تھی اور سوچ رہی تھی کے بابا اتنی جلدی کیسے مان گئے وہ تو غیر خاندان میں شادی نہیں کرتے تھے تو کیسے کافی دیر کھڑکی بند کر کے وہ بیڈ کی طرف آئی اور سونے لگی اس نے موبائل کو ٹائم دیکھنے کے لیے اٹھایا تو اسے یاد ایا اس نے تو اسے بند کیا ہوا تھا اس نے اسے ان کیا تو بہت سارے میسجز تھے شاعری لکھی ہوئی تھی اور  غذب کی تھی ایک کے بعد ایک اعلیٰ شاعری تھی اسے یہ چند لائنز بہت پسند آآئی

ربتِ الفت کہوں یا عِشق کی مِراجِ کہوں

اپنے ساۓ پہ بھی اب تیرا گمان ہوتا ھے.

ابھی وہ ان لائنوں میں کھوئی ہوئی تھی کے ایک بار پھر کال آنے لگی 

کچھ سوچ کر اس نے کال اٹھا لی 

اور چپ ہو گی 

دوسری طرف سے کوئی بہت پیار سے حرم بولا 

اور اس کو ایک پل لگا جاننے میں دوسری طرف کون ہیں اس کا انگ انگ سماعت بن چکا تھا 

اسکے دل کی دھڈکن تیز ہو گئی جیسے سینے سے نکل کر باہر آجائے گا 

اس نے آرام سے جی کہا تو دوسری طرف اسکی کیفیت بھی حرم سے کم نہ تھی 

حرم کیسی ہے آپ خان نے کہا

میں ٹھیک  اور آپ کیسے ہیں وہ اپنے چہرے پہ آئے ہوئے  پسینے کو صاف کیا اس کی ہتھیلیاں بھی گیلی ہوئی ہوئی تھی 

آپ کے بغیر ادھورا ہو حرم میری تکميل کر دے دوسری طرف بہت  گھمبیر لہجے میں  جواب آیا جو اسے نروس کرنے کے لیے بہت تھا 

وہ چپ ہو گئی کیا جواب دے  

وہ خاموش رہی 

حرم بولے نہ خان نے کہا

کیا بولوں وہ انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کرتے ہوئے بولیخان کو انداہ تھا اس نازک سی لڑکی کی کیا حالت ہو رہی ہو گی اس لیے اس نے اس سے دوستانہ انداز میں  بات کرنے لگا اس کی پسند نہ پسند پوچھنے لگا تا کہ وہ ریلیکس فیل کرے

________________

ماہی کی طبیعت تو ٹھیک تھی لیکن پاؤں پہ کانچ لگنے کی وجہ سے وہ یونی نہيں گئی  

فاتی نے بھی چھٹی کر لی تھی وہ پورا دن ماہی کے ساتھ رہی ماما اور فاتی کھانا بنا رہی تھی ساتھ ساتھ وہ آپس میں مزاق کر رہے تھے

تو ماہی نے کہا فاتی جو کر لوں  امو مجھ سےزیادہ پیار کرتی ہیں 

اس کی بات پہ امو نے بہت پیار سے اسے دیکھا 

بس بس ماہی خوشفہمیوں میں رہنا چھوڑ دو امو مجھ سے ذیادہ پیار کرتی ہیں 

تمھارے لاڈ اس لیے اٹھاتی ہیں تم رونا نہ شروع کر دوں 

تم اتنا بے سرہ روتی ہے کہ تمھیں چپ کروانے کے لیے امو کو کرنا پڑتا ہے ہینا امو فاتی نے امو کے گلے میں  لاڈ سے بانہیں ڈال دی 

ماہی جو اسکی بات سن رہی تھی کھلکھلا کے ہنسی 

دونوں نے اس کی نظر اتاری 

ملکہ ترنم نور جہاں اپنی آواز کے بارے میں کیا خیال ہیں 

تمھاری آواز تو پھٹے ڈھول کی طرح ہیں 

جس کو نہ بندا بجا سکتا نا روک سکتا 

ماہی خدا کے لیے مشالیں تو ٹھیک دیا کروں محاورہ کا ستیاناس کر دیا ہے 

اردو دانوں کو قبر میں بھی تڑپا کے رکھ دیا ھوگا  فاتی نے کہا 

او مرزا غالب کی چچی تمہیں ہی مبارک ہو یہ محاورے میں  ایسے ہی ٹھیک ہوں 

ماہی نے چڑ کر کہا تھا 

فاتی اور امو کو پتا تھا بچپن ہی سے اسے چڑ ہوتی تھی  محاوروں اور شاعری سے رٹے مار مار کے تشریحات یاد کی جاتی تھی

ابھی وہ اسی بحث میں الجھی تھی کہ ماہی اور ثناء اندر آتی دکھائی  دی ان کا اوپن ایئر کچن تھا جہا امو اور فاتی تھی اور وہ سامنے کی طرف صوفے پہ بیٹھے ہوئی تھی 

فاتی نے اس دیکھ کر ہا نی

آپی کا نعرہ لگایا اور اس کے گلے لگ گئی اور ہانی بہت پیار سے اسے ملی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیری ہانی بھی اسے بلکل ماہی کی طرح ٹریٹ کرتی تھی  اس سے الگ ہوئی  اور اس کے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھ کر خفت کا شکار ہوئی 

اس نے ثنا کو سلام کیا تو اس نے اسے گلے لگا لیا 

ہانی انٹی سے ملی اور انہوں نے ساتھ کھڑی لڑکی کو پیار کیا تو تو ہانی نے انہیں بتایا یہ ثناء ہے ماہی کی اور اسکی دوست یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتی ہے 

آج ماہی نہيں  آئی تو اس کا پتا کرنے ائی ہیں  

ماشااللہ بہت پیاری بچی ہی امو نے کہا 

ماہی جو کب کی انتظار کر رہی تھی ان کے پاس آنے کا ان کو التفات میں پڑتا دیکھ کر اس سے مزید صبر نہ ہوا تو بول پڑی 

ظالموں میں بھی یہاں ہوں مجھ سے بھی مل لوں 

اس کی فریاد پہ سب کے چہروں پہ مسکراہٹ آگئی 

ہانی بے اسکی طرف دیکھ کر کہا کیوں تمھارے پاؤں میں  مہندی لگی ہے کیا 

اور روز چھٹی  تمھارے ڈرامے کب ختم ہو گئے 

اس کے پاس آنے پہ اس نے ماہی کا پاؤں دیکھا تو اس نے ماہی کی طرف دیکھا ماہی جو اسی کی طرف دیکھ رہی تھی  اس کی نظریں  اپنے پاؤں پہ پڑے دیکھ چکی تھی 

اسکی نظروں کا مطالبہ وہ جان چکی تھی

کانچ لگ گیا تھا یار اس لیے نہیں  آئی اس نے آئستگی سے کہا ثناء کے قریب آنے یہ ہانی خاموش ہو گی  لیکن اسے پتا تھا بات کچھ اور ہے لیکن اس نے کریدا نہیں 

______________

آج تین دن کے بعد وہ یونی جارہے تھی اس کے یونی جانے کے بعد ماہی کی امو سارہ کے گھر گئی اس دن کے حوالے سے بات کرنے اس واقع نے انہیں بہت کچھ سمجھا دیا تھا 

انہوں نےوکیل صاحب کو بھی بلا لیا تھا صبح کے نو بج چکے تھے جب وہ ان کے دروازے پہ کھڑے تھے بیل بجانے پہ دروازہ کھولا گیا اور وہ لوگ اندر گئے 

سارہ یونی اور عمر سکول چلا گیا تھا اس وقت سارہ کے امی ابو ہی تھے ان کے گھر 

وہ وکیل صاحب کے ساتھ جب اندر گئی تو وہ چونک گئے 

انہیں گڑ بڑ کا احساس ہوا انہوں  نے وکیل صاحب اور مسز علی کو مسکرا کر ویلکم کہا 

اور انہیں  بیٹھنے کا کہا 

سارہ کے ابو نے ہی بات شروع کی 

آئیں بھابی کیسے آنا ہوا اور وکیل صاحب آپ خو کیسے ہماری یاد آئی 

تو ماہی کی امی نے انہیں ساری بات بتا دی جو ماھی اور سارہ کے مابین ہوئی تھی 

یہ سب سن کر سارہ کے امی ابو نے ان سے معزرت کی کے سارہ کو وہ سمجھائے گئے ایسا نہیں  ہوگا دونوں  بہت شرمندہ ہو رہے تھے 

تو ماہی کی امو نے کہا شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں اب میں  چاہتی ہو ماہی اپنا آفس سنبھالے اب وہ اس قابل ہو چکی ہیں  اور آپ نے بہت  ساتھ دیا ہمارہ میں  شکرگزار ہو پر میں  نہیں  چاہتی کے میری بیٹی کو یہ سب دوبارہ سہنا پڑے 

وکیل صاحب خاموشی  سے سب کے چہروں کا اتار چڑھاوں نوٹ  کر رہے تھے سارہ کے بابا کے چہرے پہ ایک تنگ آئے اور ایک جائے 

انہوں نے جب کہا تو ان کے ٹاثرات کے برعکس بات نکلی 

بھابی آپ کی بات ٹھیک ہیں  لیکن ابھی ماہ رخ کی یونی جتم ہو جائے تب اس پہ زماداریوں کا بوجھ  ڈالے نہیں  تو وہ اپنا دھیہان یڑھائی پہ نہيں  دے سکی لیکن وہ اپنے مطالبے سے ایک انچ بھی نہ ہلی اور آخر کار انہوں  نے اینا اصلی چہرہ دکھا دیا کے وہ ان کی فیکٹری میں  40 فیصد  کے حصے دار ہیں  ان کے پاس کاغزات بھی ہیں  

لیکن ان کے شور نے تو ایسا کچھ نہيں  کہا تھا نہ ان کے وکیل کو اس بارے میں  پتا تھا اس وقت تو وہ چپ کر کے آگئی وکیل صاحب کو بھی منع کیا اشارے سے اور آگئی

گھر آکر وکیل صاحب سے انہوں نے اس بارے میں پوچھا تو انہوں  نے کہا کے وہ جھوٹ  بول رہے ہیں  سارے پیپرز میرے پاس ہیں  میں  نے اس لیے انہیں  نہیں  بتایا کے وہ آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اس کا انداز بہت بدلا ہوا تھا 

پیسے کے لیے کچھ بھی کر سکتا اس لیے آپ پہلے اپنے لیے کوئی مظبوط  ٹھکانا ڈھونڈنے  خود کو محفوظ  کرے اور اپنی بیٹیوں  کا مستقبل محفوظ کرے اس کے بعد ان کے خلاف کانونی چارہ جوئی کرے 

اگر ابھی آپ نے کوئی قرم اٹھایا توں کچھ بھی ہو سکتا آپ میری بات سمجھ گئی ہو گئی 

وکیل نے انہیں  ہر طرح کے خطرے سے آگاہ کر دیا 

وہ کانپ گئی انہون ںے وکیل صاحب کی بات مان لی اور خاموشی  اختیار کر لی اور مارخ کو آفس سنبھالنے کے لیے تیار کرنا تھا 

_____________

آج پہلا پیریڈ میتھس کا تھا سر نے اس کے نہ آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے پاؤں کی انجری کا بتایا  تو انہوں  نے گیٹ ویل سون کہا اور پڑھانے لگے اس کے بعد سر مصطفی  کا پیریڈ  تھاوہ آئے اور اٹینڈس لی انہوں نے مارخ کہا اس نے  پریسنٹ کہا انہوں  نے ایک نظر اس کو دیکھا اور اگلے نام لینے لگے

آج ان کا سر پرائس ٹیسٹ تھا 

انہوں  نے سب کو پیجز نکالنے کا کہا اور خود وائٹ  بورڈ پہ لکھنے لگے ماہی کو پریشانی ہونے لگی کیسے دے گئی وہ اس کی تو تیاری بھی نہیں تھی اس نے ساتھ بیٹھی ہانی کی پسلیوں  میں  کہنی ماری کب سے بلا رہی تھی سن ہی نہيں  رہی  تھی ہانی جو لکھنے میں  مگن تھی کہنی لگنے پہ اسکی آواز اونچی ہو گی  ماہی اب مجھے مارا تو دیکھنا ہاتھ ہے کے ہتھوڑے  وہ بولی تو سب اسکی طرف متوجہ ہو گئی تھی ثناء نے ہانی کو چپ کروایا سر لکھنا چھوڑ کے ہانی کی طرف  آئے مس ہانیہ  آپ باہر جانا پسند کرے گئی یا میری کلاس میں  پڑھنا آج بتا ہی دے آپ کے گروپ کی وجہ سے روز میرا ٹائم ضایع ہوتا ہے مجھے بتا دے آپ لوگ کون سی زبان سمجھتی ہیں  انہوں  نے ساتھ بیٹھی ماہی کو بہی سخت نظروں سے گھورا تو وہ نظریں جھکا گئی

مس ہانیہ  اب چپ کیوں کھڑی ہیں  بتائے آج کس وجہ سے ڈسٹربنس کریٹ ہوئی ہمیں  بھی بتائیں ہمیں بھی زرا ہنسنے کا موقع دے 

انہوں نے سخت نظروں  سے گھورا وہ سر ماہی کو ٹیسٹ نہيں  آتا تھا تو وہ اتنا بول کے چھپ ہو گئی 

سر ماہی کی طرف مڑے اور اسکو کہا مارخ آپکو ٹیسٹ نہیں  آتا تو آپ مجھے بتا دیتی اور آئندہ آپ لوگوں  کی وجہ سے ڈسٹربنس نہ ھو سر نے اسے آرام سے کہا وہ جو آنکھيں  بند کیے ہوئے  ڈانٹ سننے کی منتظر تھی اتنے آرام سے بات کرنے پہ وہ حیران ہو گئی انہوں نے اسے کتاب لے کے آنے کا کہا اور باقیوں  کو ٹیسٹ  کرنے کو کہا 

اور ماہی کو پچھلے دو دنوں کے لیکچر کو سمجھانے لگے 

جانے کیو ں آج ماہی کو کچھ نہی کہ سکا ہلانکے اس کے دو دن نہ آنے پہ بہت غصہ تھا پر اسکو دیکھ کر اتر گیا تھا اس کے آنکھیں  بند کرنے پہ دل کیا اس کو سب سے چھپا لے لیکن اس نے خود پہ کنڑول  کیا اور چپ ہو گیا 

____________

آج دادا کو آنا تھا شہر ساتھ زاوی بھی تھا انہوں  نے بیایا میرال اور طغرل آ رہے ہیں  ایک ماہ یہی رہے گئے شاہ کو حیرانگی ہو رہی تھی 

اتنے دن وہ تو ایک ہفتہ بھی نہیں  رکتے تھے داجی بتا رہے تھے اس بار کسی خاص مقصد کے تحت آرہے ہیں  اس نے داجی سے پوچھا بھی لیکن ںہیں بتایا وہ یونی سے چھٹی نہيں  کرنا چاہتا تھا تیمور سلگرہ تھی اور انہوں  نے اسے سر پرائز دینا تھا 

چھٹی نہیں  کر سکتا تھا ورنہ ناراض ہو جاتے سب اس نے فیصلہ  کیا کے وہ بس دو گھنٹے  کے بعد واپس آجائے گا زری اور زشی گھر ہی تھی وہ انکو دو گھنٹے تک آنے کا کہ کر چلا گیا 

یونی پہنچ کر اس نے احد کو ڈھو نڈ رہا تھا کے سارہ کی نظر پڑھ گئی اور وہ اسکی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا اس کی طرف  آنے لگی اسکے چہرے پہ سنجیدگی چھا گئی ابھی وہ اسے دور ہی تھی کے شاہ کو ماہی نظر آئی وہ اس کو دیکھے گیا اسکی نظریں ماہی پہ تھی یہ سارہ بھی دیکھ چکی تھی 

اس کی آنکھوں  میں  نفرت صاف دکھائی دی اسکی آنکھوں سے شعلے لپکنے لگے اسکا دل کیا ماہی کو مار دے ہر جکہ ماہی کو پیار کیا جاتا اسکی بات مانی جاتی ہر دفعہ وہ ماہی سے پیچھے رہی لیکن اس بار نہيں  شاہ کو وہ کسی صورت  اسکا نہيں  ہونے دے گ

________________

حرم اور خان کا رشتہ تہہ ہو گیا تھا  ہوا بہت اچانک تھا کیوں  کے حرم کے بابا کی طبیعت اکثر خراب رہتی تھی اس لیے وہ اس کی جلد شادی کرنا چاہ رھے تھے وہ 

خان کو تو یقین ہی نہیں  آرہا تھا کے اتنی آسانی سے سب ہو جائے گا ہواؤں میں  اڑتا ہوا محسوس  کررہا تھا خود کو 

خان خود نیچے آؤں گئے یا کھینچ کر اتاروں  کیپٹن نے کہا 

خان جو خیالوں  میں  کھویا ہوا تھا اس مہ جبیں کے چونک کر اٹھا 

خبیث انسان کبھی کوئی کام بھی کر لیا کر میری جاسوسی تجھ پہ لگتا فرض کی گئی ہیں  کبھی جو تنخواہ ملتی اسکو حلال کر لیا کرو 

میری جاسوسی کے لیے نہیں  ملتی

خان حرم کے ساتھ دور کہی خیالوں کی اڑان بھر رہا تھا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک خوبصورت جزیرے پہ جہاں بس وہ اور اسکی پری تھے اس کو اپنے خیال میں  کیپٹن  کا دخل دینا بری طرح آگ لگا گیا 

اس لیے اس نے اسے جھڑک دیا 

کیپٹن کو 

پر کیپٹن بھی اس کی رگ رگ سے واقف تھا اس کی باتوں کا خاص نوٹس نہ لیا

اوئے گدھے کب سے یہاں بیٹھا تیرے ہوش میں  آنے کا انتظار کر رہا ہوں  لیکن نہیں  اور میں  بہی یہی کہنے آیا ہوں تنخواہ تمھیں  تہھاری پیاری حرم صاحبہ کے خیالوں کے لیے نہیں  ملتی کام کے لیے ملتی ھے 

کیپٹن نے کہا اوئے بکواس  بند کر دے توں نے پہلےکیوں نہیں  بتایا سر بلا رہے ہیں  وہ پہلے ہی مجھے سناتے نہيں تھکتے اب تو وجہ بھی ہے 

وہ دونوں  سر کے پاس آئے تو سر ایک فائل کھولے کچھ دیکھ رہے تھے اور بہت سنجیدہ نظر آرہے تھے انہوں نے دونوں کو بیٹھنے کو کہا اور خود پھر فائل میں سر دے لیے 

خان سمجھ گیا کوئی نہ کوئی بہت  اہم بات ہے جو سر بہت سنجیدہ لگ رہے

خان پوچھ تو لیتا اس کے بعد جو عزت ہوتی وہ الاماں 

تھوڑی  دیر بعد سر نے فائل سے سر اٹھایا 

دونوں  سر ہی کی طرف متوجہ تھے سر نے دونوں  کے لیے نیو اسائنمنٹ آگئی ہے اسی سلسلے میں  ددونوں کو بلایا ہے 

تین دن پہلے خو چھاؤنی پہ حملہ ھو اس کے ماخذ کا پتا چل چکا ہے اور اسی سلسلے میں  تم لوگوں  کو انڈیا جانا ہو گا 

اس کے پیچھے بلکے اس سے پہلے لاتعداد حملوں کے پیچھے ایک ایجنٹ ھے را کا کٹر ہندو ہے 

اسکےجو آدمی ہے جس جگہ بھی وردات کرتے ہیں  ایک سرح رنگ کا کادڈ چھوڑ جاتے ہیں جس پہ ایک دائرہ ہوتا ہے 

اس کے علاوہ ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اس سب کا پتا لگانے کے لیے تمھیں  جانا ہوگا یہ ہمارے لیے بہت  اہم ہیں  نہ جانے کتنے لوگوں کو بے گھر کر چکا ہے 

نہ جانے کتنے بچوں  کے سر سے ان کے باپ کا سایہ چھین چکا ہے نہ جانے کتنی ماؤں سے ان کے لخت جگر ان کے کلیجوں سے علیحدہ کر چکا ہے کتنی بہنوں  کا مان چھین چکا ہے 

اب اس کے احتساب کا دور شروع  ہو گا اب اسے مزید اپنے نوجوانوں بچوں  اور بزرگوں  کے خون سے ہولی نہيں کھیلنے دوگا تم لوگوں  کے پاس صرف ایک ہفتہ ہے اس کے بعد تم لوگوں کو روانہ ہونا ہے 

اور خان شام کو جا کے تمھاری منگنی کی تا ریخ تہہ کرنے جائے گئے اسی ہفتے کے اندر اندر ہو گئی اور شادی مشن مکمل کرنے کے بعد اب تم لوگ جاؤں شام کو ملتے ہیں  اس فائل کو لے لو اور اس کو پڑھ لینا جو چیز نہ سمجھآئے مجھ سے پو چھ لینا 

دونوں  نے سلیوٹ  کیا اور باہر نکل آئے

_________________

مارخ ہمیں تم سے بات کرنی ہے شام کو وہ جب سو کے اٹھی تو امو نے کہا 

جی امو کہیے وہ امو کے پاس بیٹھ گئی امو نے ایک نظر اس کے حلیے پہ ڈالی 

وہ ابھی سو کر اٹھی تھی اس نے سفید قمیض کے ساتھ براؤن کیپری پہنی ہوئی تھی بال سارے بکھرے ہوئے تھے آنکھوں  میں  نیند کا خمار تھا

اس بکھرے ہوئے  حلیے میں  بھی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی 

انہوں نے اس کے بال سنوارے انگلیوں  سے اسے پیار کیا 

انہیں  یاد آیا کے وہ یونی سے آنے کے بعد سو گئی تھی کھانہ نہيں کھایا تھا

انہوں  نے بات بعد میں  کرنے کا سوچا کیوں  کے وہ چاھتی تھی کے وہ زہنی طور پر تیار کر کے بعد میں  یہ خبر سنائے 

ماہی اٹھو بالوں کو باندھ کے منہ دھو کے نیچے آوں میں  کھانا لگاتی ہو 

امو آپ تو کوئی بات کرنے آئی تھی نہ 

ماہی نے کہا 

پہلے کھانا کھا لوں  پھر بات بھی ہو جائے گئی جلدی آؤں 

امو نے کہا

امو میں  چائے کے ساتھ سینڈوچ لوں گی کھانا  اب رات کو ہی ماہی نے کےکہا

امو نے سینڈوچ  کے ساتھ پکوڑے بنا دیے 

اتنی دیر میں  فاتی بھی اکیڈمی سے آگئی  امو نے چائے ٹیبل پہ لگائی اور سب نے چائے پی 

امو نے چیزے سمیٹی اور ان دونوں  کو لے کے کمرے میں  چلی گئی

ماہی فاتی میری بات غور سے سنا میں  جو میں بتانے لگی ھو

امو آرام آرام سے بولنے لگی 

ماہی حیران ہو رہی تھی

دیکھو سارہ کے ابو تمھارے ابو کی فیکٹری میں کام کرتے تھے مینیجر تھے میں  نے تم لوگوں  کو کبھی نہيں  بتایا یہ سب لیکن آج بتا رہی ہوں  تم لوگ اب بڑی ہو گی  ہو تم لوگوں  کو سب پتا ہونا چاہیے 

تمھارے ابو کی وفات کے بعد تمھاری دادی تم دونوں  کو بھی مارنا چاہتی تھی تمھارے ابو نے اپنے کسی دوست کے ساتھ مل کر فیکٹری  کو شروع  کیا آدھے آدھے کی بنیاد پہ لیکن انہوں  نے گھر والوں  کو نہيں  بتایا وہ چاہتے تھے کے جب فیکٹری ترقی کرے گئی تو بتائے گئے لیکن اس سے پہلے ہی یہ سب ہو گیا اسکے بعد میں  تم لوگوں  کو چھا کے لے آئی ورنہ تمھیں  مار دیتے ان کی وفات کے بعد تمھارے  ابو کے دوست جب باہر کے ملک جانے لگے تو وہ آدھی فیکٹری  بھی میں  نے خرید لی تمھآرے ابو وقتاً فوقتاً مجھے جو تحفے دیتے تھے وہ ذیادہ تر سونے یا ہیرے کے ہوتے تھے حق مہر کی رقم بھی مجھے شادی کی پہلی رات مل گئی تھی اور بھی ہر مہینے  خرچہ میرے اکاونٹ میں  جمع ہوتی تھی میں  نے کبھی استعمال  ہی نہیں  کی اس لیے روپے پیسے کی ضرورت نہيں  ہوتی تھی تمھارے بابا جاگیرانہ نظام سے تعلق رکھتے تھے اس لیے روپے پیسے کی ریل پیل تھی

سارہ کے بابا مینیجر  تھے میں  نے ان پہ بھروسہ  کیا کبھی کبھی میں  بھی فیکٹری  جاتی سب ٹھیک تھا اس کے بعد پچھلے کچھ سال سے بی پی اور شوگر کی وجہ سے جوہی عدم توجہ ہوئی  وہ اپنی اصلیحت پہ آ گئے اور چالیس فیصد انہوں  نے اپنے نام کر لیے ہیں  وہ سارے اپنے نام نہ کر لے اب ماہی روز فیکٹری  جآیا کرے گئی ماہی ہمیں  ہمت دکھانا ہو گی اور وکیل صاحب سے بات ہوئی  ہے انہوں  نے بھی خاموشی  اختیار کرنے کا کہا ہے اس لیے مجھے ان سے کسی بھلائی کی امید  نہیں  رہی ہیں  تو اب ہمیں  احتیاط  سے رہنا ہوگا اور میں  چوکیدار  کا انتظام کرواتی ہو تم لوگ بھی احتیاط برتنا 

یہ سب سن کر ماہی حیران رہ گئی  کے انسانیت  ختم ہو گی  ہے آج کے دور میں  ان کے سکوں  نے انکو مارنا چآہا

________________

میرال اور طغرل شاہ ولا پہنچ چکے تھے شاہ ولا میں  اس وقت بہار اتری ہوئی تھی 

ہر طرف چہل پہل تھی سب بہت  عرصے بعد اکھٹے ہوئے تھے ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ میں  لگے ہوئے تھے 

لیکن گھر کا سب سے بڑا بیٹا غائب تھا اسے کب سے داجی کال کر رہے تھے لیکن اسکا نمبر بند جا رہا تھا 

سب جیسا ان دونوں  بہن بھائی کو سمجھ رہے تھے ایسا کچھ نہيں  تھا نخرے کی پڑیا کہنا چاہئے تھا داجی جس کو کب سے گڑیا کہہ رہے تھے 

بات ایسے کر رہی جیسے احسان کر رہی ہو سب کو وہ کچھ خاص پسند نہيں  آئی ہاں طغرل سے انکی بہت  بن چکی تھی ہنسا ہنسا کے سب کو پاگل کیا ہوا تھا   

کھانا ابھی ٹیبل پہ لگایا ہی گیا کے گاڑی پورچ میں  آکے رکی 

دیکھتے دیکھتے شاہ احد ہادی اور تیمور اترے 

ان سب کو دیکھ کے زاوی چہکنے لگا داجی بھی سب سے ملے ما جی اور چچی ملی سب سے اور سب کو کھانے کے لیے زائشہ آگئی چٹائی  پہہ کھانا لگایا گیا

داجی  کو ٹیبل پہ کھانہ پسند نہ تھا کںھی کبھی تو چل جاتا لیکن ویسے  وہ نیچے بیٹھ کے کھاتے تھے 

سارے جب کھانے بیٹھے تو زری نظر آئی احد کے لب مسکرا اٹھے 

تیمور جو ساتھ بیٹھا تھا اس کو کہنی مار کے ہوش میں لایا

وہ اس کو گھورنے لگا 

وہ نیچے دیکھنے لگا احد نے ایک بار پھر اسکو دیکھنے کی کوشش کی تو احد کو زرلش صاحبہ کی گھوری پڑی تو وہ اسکو چڑا کے دوسرے لوگوں  کی طرف  متوجہ  ہو گیا 

مراد آجکل کیا کر رہے ھو آجکل میرال نے کہا 

مراد کو اسکی اتنی بے تکلفی پسند نہ آئی 

لیکن مہمان تھی تو وہ اسے کچھ کہہ نہيں  پایا 

جب کے ہادی کو کھانسی شروع ہو گئی زاوی نے اسے پانی دیا جبکہ تیمور جو ساتھ بیٹھا تھا کھانسی روکنے کے بہانے پیٹھ پہ اپنے لوہے جیسے ہاتھوں  سے وہ لگائی کے ایک دم کھانسی رکی 

ہادی نے اسے گھورا اور آہستہ سے چھبا کے بولا منہوس انسان

ہاتھ  ہے کے ہتھوڑا  کوئی ایسے بھی مارتا ہے اور تو صبر کر تیرا علاج کرتا ہوں ادھار رکھنے کا کائل میں بلکل نہيں 

تیمور  بھائی کھانہ کھائے نہ زائشہ نے کہا 

ایک تو یہ لڑکی مجھے ماموں  بنا کے چھوڑے گئی بھائی کی بچی 

اچھے خاصے موڈ کا ستیاناس کر دیا تھا 

زری ڈش  پکڑانا پلاؤ کی طغرل بار بار کچھ نہ کچھ اس سے مانگ رہا تھا اور یہاں احد جل بھن رہا تھا 

زری بھی اسکے ساتھ بہت  پیار سے بات کر رہی تھی

یہ لے پکڑے ویسے پھو پھو آجاتی تو اچھا تھا 

زری نے تیسری دفعہ کہا تو احد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا 

پھوپھو بھی آجائے گی زرلش اور آپ کھانا کھا چکی ہو تو چائے بنا دے گی

_______________

آج تین دن بعد سر مصطفی آئے تھے لیکن آ کے بھی کلاس نہ لی موسم بارش ہونے والا تھا اتنے حسین موسم میں  کس کا دل کرتا کلاس لینے کا 

سارے اس وقت گراؤنڈ میں تھے

سمانتا اور انتالیہ ماہی کے ساتھ بیٹھی اسائمنٹ بنا رہی تھی جبکہ ہانی اور ثناء ارہان کے  ساتھ اسائنمنٹ مکمل کرنے کے چکروں  میں تھی

ارہان کا مو بائل  بجا تو وہ زرا دور ہو کے بات کرنے لگا 

سمانتا نے ماہی کو کینٹین چلنے کا کہا تو اس نے انکار کر دیا کے اسائنمنٹ بنا کے ہی سب جائے گئے تو ارہان نے  بھی اس کا ساتھ دیا

اسائنمنٹ جب بن چکی تو اس ؤقت سب کینٹین  چلے گئے

ہاں تو ارہان چلوں  جاؤں کچھ کھانے کو لاؤ مابدولت کو بھوک ستا رہی ہیں تو آپ کچھ کھانے کو لے آنا ہانی نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا 

ارہان نے جھک کر کورنش بجا لایا 

کافی دیر کے بعد بھی اس نے ہاتھ آگئے سے نہ ہٹایا تو تو ہانی نے کہا کیا ہے ارہان جآؤں بھی 

ملکہ عالیہ  پتوں  سے نہیں  پیسوں  سے ملے گا کچھ نوش فرمانے کو 

کینٹین  والا نہ تو میری پھو پھو کا دختر نیک اختر ہے نہ میرے مامے کا 

سب کے کہکے چھوٹ گئے  تو ارہان نے اچنبے سے سب کو دیکھا جیسے سارے پاگل ہو گئے ہو 

تم لوگوں  نے کون سا لطیفہ دیکھ لیا ہے جو ہنس رہے ھوسب

ایڈیٹ ڈفر لطیفہ سنا جا تا یا سنایا چاہتا  ہے گدھے کہی کے یہ دیکھا کب جاتا ہے 

اور دخترِ نیک اختر لڑکی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے 

تم نے اردو کو فوت کرنے میں  کوئی کثر نہيں  چھوڑی 

غالب کی روح کو تڑپا کے رکھ دیا ہے شاہ جو ساتھ ٹیبل پہ بیٹھا تھا ان کی باتیں  سن کر 

بے اختیار بول اٹھا  

ہاہا ہا شاہ تو کدھر کمینے یہاں ارہان اس کے گلے ملا 

آجا ہم لوگ موسم انجوائے کر ہے ہیں  تو وی آجا 

ماہی دعائیں کرنے لگی نہ کر دے پر وہ بھی اس کے چہرے پہ چھائی بے رخی کے تاثر دیکھ چکا تھآ اس کو اور مزہ آیا اسے چڑانے میں  ہلانکہ وہ جانے لگا تھا پر موسم سہانا ہو اوراوپر سے دل کاموسم بھی زبردست تھا جس کا اثر اس کے چہرے پہ بھی نظر آرہا تھا 

چلو ہانی ماہی ثناء انتالیہ سمانتا کچھ لاوں میری جیب کھالی ہے 

ہاں دوں چندہ سارے اسے 

کنجوسی کی حد تم پہ ختم ہے ارہان 

سب نے اسے سنائی

پر وہ ںھی ڈھیٹ ابن ڈھیٹ تھا چل شاہ اپنے اور میرے پیسے دے میں  بہت  غریب ہو 

بھائی میرے میرے پیسے تو ماہی دے گی 

کیا ماہی کا منہ کھل گیا ایک دم کھڑی ہو گئی 

مسٹر مجھے مارخ علی کہتے ہیں  

ماہی مجھے صرف میرے قریبی لوگ کہتے  باقی سب کے لیے مارخ ہو 

میں  بھی آپ کے اپنوں  میں شامل ہونا چاہتا ہوں اسکی آآنکھوں میں  دیکھ کر بولا 

کیا تم خوش فہمیوں   سے نکل آوں 

تمھیں مجھ سے سو میٹر کے فاصلے پہ بات کرنے کی اجازت نہ دوں 

واقع نہ دینا نزدیک سے تو دوں گی نہ تم سے دور رہآ نہ جائے 

سب ہنس ہنس  کے بے حال ہو رہے تھے شاہ کی مزاح کی حس سے ارہان واقف تھا اس لیے سب ہنسنے لگے اور ان سب کو ہنستا دیکھ کر ماہی غصے سے واک آؤٹ ہو گئی

حرم اور خان کی آج منگنی تھی  

حرم کو گھر میں  ہی تیار کیا گیا بے بی پنک کلر کی کام والی شرٹ تھی اور اس کے نیچے غرارا تھا نازک سی حرم پہ ایک الوہی روپ آیا ہوا تھا

ایک نور سا تھا اس کے چہرے پے مسکراہٹ  چہرے سے الگ ہی نہیں ہو پا رہی تھی 

ہلکے سے میک اپ سے اس کے نقوش اور نکھر کر سامنے آ گئے تھے 

میرے یار کی شادی ہے

 میرے یار کی شادی ہے 

صبح سے کیپٹن اپنی پھٹے ہوئے ڈھول جیسی  آواز سے گا رہا تھا 

یہ خالص خان کی رائے تھی 

باقی اس سے اتفاقِ رائے نہيں  رکھتے تھے

ابے گامڑ شادی نہيں صرف منگنی ہو رہی ہے کتنی بار بتاوں 

عقل کے دشمن تیری ناقص عقل میں  یہ بات کب سما ئے گئی 

میرا یار بنا ہے دلہا پھول کھلے ہیں دل کے 

میری بھی شادی ہو دعا کروں سب مل کے

آمین سر جو کمرے کی طرف آرہے انہوں نے کہا 

وہ شرمندہ ہو گیا 

سر وہ میں 

وہ سر جھکا گیا 

بچوں  بہت جلدی ہے کیا خیال ہے تمھارے ماں باپ سے بات کروں 

سر میں  تو ویسے ہی کہ رہا تھا 

ویسے سر اگر آپ نیکیاں کمانا چاہتے تو سر یہ نیکی بھی کما لے کیپٹن کہ کر سر کھجانے لگا

سر اس کا کندھا تھپک کر چلے گئے آگئے خان کمرے سے نکل رہا تھا اس کی آنکھوں میں  تو جیسے بلب جل رہے ہو ہر طرف روشنیاں بکھیر رہی ہو رہی تھی 

گلابی رنگ کا کرتا اور اسی رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی اور ہم رنگ واسکٹ پہنی ہوئی تھی بازو اوپر کیے ہوئے  تھے دونوں  اور دائیں ہاتھ پہ گھڑی رولیکس کی باندھی ھوئی تھی بالوں کو بہت اچھے سے بنایا گیا تھا 

سر نے اس کو سر تا پیر دیکھا 

نوجوان پیارے لگ رہے ہو 

دو چار راستے میں نہ لڑھک جائے سر میری مانے تو برکھا پہنا کے لے جائے 

کیپٹن نے کہا 

سر نے مڑ کر اسے گھورا تو زبان تالو سے لگ گئی 

بس کرے گھورنا بچے کو آج آپ آفس میں  نہيں ہے یہ گھر ہے چلے اب بہت دیر ہو رہی ہیں  سر کی بیوی نے کہا 

سب آگئے پیچھے باہر نکلے دو گاڑیاں رواں دواں ہوئی 

ایک میں سر انکی بیوی  اور کچھ خان کے کولیگ اور دوسری میں خان کیپٹن اور ساتھ انکی کلیگ تھی یہ لوگ سب جب حرم کے گھر پہنچے تو وہاں انکا پرتپاک استقبال ہوا دونوں کو 

ہال میں  لا کے بٹھایا گیا 

حرم لوگوں کی طرف بھی کچھ لوگ ہی مدعو تھے 

حرم کو جب خاں کے برابر بٹھایا  گیا 

وہ حرم سے کچھ کہنا چاہتا تھا جیسے ہی بولنے لگتا کیپٹن اس کو خاموش  کروا دیتا دلہے بولتے نہيں  

اب جب اس نے تیسری دفعہ پھر یہ کہا تو خان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا

اوئے دفعہ ہو جا کون سی دشمنی نکال رہا ہے اب کچھ کہا نہ تو دوسو چھ ہڈیوں سے چھ  سو اٹھارہ بنا دوں گا 

نکل اب بات کرنے دے 

ساتھ بیٹھی حرم کا کہکہے لگانے کا دل کرے خان کی حالت دیکھ کر 

اتنے میں  سر بھی آگئے اور انگھو ٹیاں پہنائی اور حرم کا صدقہ دیا سر نے اس کے بعد کھانے کا دور چلا اور کھانے کے فورا بعد نکل گئے اور خان کو بات کرنے کا موقع بھی نہيں  مل سکا 

آج یونی میں  فیرول پارٹی تھی پہچھلے دنوں آفس میں  بزی تھی اس لیے اس نے ابھی تک شاپنگ نہیں  کی تھی اب الماری کھولے کھڑی تھی کے کیا پہنے لیکن کچھ سمجھ نہیں سمجھ آ رہی تھی

تم وہ بلیک سوٹ کیوں نہیں  پہنتی وہ جو آپ کبھی لائی تھی ایک بار بھی نہیں پہنا

اوہ یاں یاد آیا اس نے الماری کے نیچے والی سائیڈ سے پیکٹ نکالا اور تیار ہونے لگی شال لی گاڑی کی چابی لے کر نیچے آئی اور امو اور فاتی نے جب دیکھا تو انکی آنکھوں میں ستائش آگئی 

اس نےامو سے پیار لیا اور فاتی سے۔مل کر ہانیہ کی طرف آگئی 

وہاں سے اسے لیا یونی آگئی ثناء  نے دونوں کو دیکھا تو آنکھ ماری دور سے دونوں  ہنس  دی ماہی پہ بلیک فراک اس کے گورے رنگ پہ جج رہا تھا 

اور اوپر سے لائٹ میک اوور میں  گڑیا لگ رہی تھی 

ہانی نے فیروزی شرٹ اور ساتھ کیپری پہنی ہوئی تھی 

اور ثنا نے جینز اور شرٹ ویر کی ہوئی تھی

ارہان اس کو دیکھ کر ہونٹ سیٹی کی طرح  کیےہائے اوئے 

آج چاند دن میں  بھی نظر آرہا خیر ہے نہ 

اور یہ تارے کیوں  پروانے بنے ہوئے  ہیں 

اس نے ساتھ ہی ثناء اور ہانی کو چھیڑا 

وہ دونوں کچھ کہتی اس سے پہلے 

ارہان نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا اوئے ماھی یارا ایک پروبلم ہو گئی ہیں  یار جس نے کمپیرنگ کرنی تھی وہ لڑکی نہیں  آئی پلیز تم کر لوں مہربانی ہوگی پلیز انکار نہيں  کرنا 

اس کا چہرہ دیکھ کر وہ اسے منع نہ کر سکی اور مان گئی

وہ اس کے ساتھ سٹیج کی بیک پہ آگئی وہاں تیمور  مسلسل ڑٹے کے انداز میں  سپیچ پریکٹس کر رہا تھا 

مسلسل ایک لائن پڑھ رہا تھا اور وہ بھی بہت ہی بو نڈے انداز میں  

"ہاں میں  نے لہو اپنا زمیں کو دیا ہے"

ماہی کی ہنسی چھوٹ گئی پھر کچھ سوچ  کر مسکرانے لگی 

مے آئی ہیلپ یو مسٹر 

اس نے اسکو گھورا پھر کچھ سوچ کر 

یس کہ دیا 

یہ ایسے نہیں  آپ کو یاد ہوگا اس کو بوجھ سمجھ کے نہیں  بلکہ اس کو سکون  سے پڑھے 

اس نے پڑھ کر سنایا 

تو سب تالیہ بجانے لگے 

آپ نے تو کمال کر دیا ہے 

آپ کا نام کیا ہے مس

مارخ علی میرے اپنے مجھے ماہی کہتے ہیں 

اب میں  بھی آپکو ماہی کہو گا سس

تو ا

ماہی مسکرا دی۔اس کے سس کہنے پہ

شاہ نے بلیک ڈنر سوٹ پہن رکھا تھا وہ ابھی آیا تھا باقی سارے ہال میں  گئے اور تھے بیک سٹیج کی ساری زمہ داریاں اس کے گروپ  پہ تھی احد اور زری پہ ساؤنڈ سسٹم کی تھی زائشہ سارہ کے ساتھ تھی اس نے جینز اور سلیو لیس شرٹ پہنی ہوئی تھی 

اس کو غصہ آ رہا تھا کہ کیا دیکھ کر زری نے اس سے دوستی کی ہے 

شاہ شاہ ادھر آؤں تمھیں  اپنی سس سے ملواؤں 

تیمور اسے چیخ چیخ کے بلانے لگا جب وہ اس کے پاس گیا ماہی کو دیکھ کر اس کو خوشگوار احساس ہوا دونوں  بلیک بلیک واؤ تیمور نے کہا 

یہ میری سس ہے ماہی اور ماہی یہ میرا بھائی جگر شاہ ہے

میں   جانتا ہوں  اسے تیمور  یہ

مس  تیزگام ہے F-16

ہائے کیسی ہے آپ مس 

اور تم کیا ہو کھڑوس بغیر تار کے  جلے  ہوئے  چارجر 

چپکو کہی کے چپکنے کے علاوہ کچھ آتا ہے کیا 

تم کیا ہو چھپکلی کہی کی زہر ہی اگلتی رہتی ہو ہمیشہ پیار کی زباں تمھیں سمجھ نہيں آتی 

یار تمھارا دماغ ہے یا  سرداروں کا دماغ ہے جو ایک بات سمجھ نہیں  آتی 

اوئے بس کروں جب ملتے ہو لڑتے ہی ہو 

میاں بیوی کی طرح بس کروں احد جو پاس ہی تھا دونوں  کو ڈانٹا 

تیمور  شاک میں  تھا دونوں  کی گز بر کی زبانیں دیکھ کر

_________________

کوئی کام آپ سے ڈھنگ سے نہیں  ہوتا زر کب سے کہہ رہا ہے اکسٹینشن کو لیپ ٹاپ کے ساتھ کنیکٹ کرے لیکن کوئی بات سن لو 

وہ پتا نہیں کون سا دن ہوگا 

احد نے زرلش سے کہا

مسٹر اسفند مجھے آپ کے ساتھ کام کرنے کا قطعی شوق نہیں 

آپ خود کرے میں  آپ کے ساتھ مزید اپنا مغز نہيں  مار سکتی 

وہ جانے لگی تو احد ایک دم آگئے آگیا اور اسے رکنا پڑا 

میرے ساتھ بات کرنے میں آپ کی جان جاتی ہے اور اس امیریکن سونڈی سے بات کرتے ہوئے  دانت اندر نہیں جا رہے تھے 

احد نے تپ کے کہا 

وہ جو اس کی بات سن رہی تھی اس کی بات کے اخر میں  کھلکھلا اٹھی امریکن سنڈی ہا ہا مسٹر اسفند آپ اتنے جیلس کیوں  ہو رہے ہیں  میرے کزن میرا چہرہ میری ہنسی میرا منہ آپ چا چے لگتے ہو اعتراض کرنے والے بات کرتے کرتے اس کا انداز طنزیہ ہو گیا 

مس زر اس امیریکن سنڈی کے ساتھ آپ کے دانت بھی یقینن ٹوٹ جائے گئے اور اسکی تو ٹانگیں بھی ٹوٹے گی جو آئندہ آپ مجھے اس کے ساتھ دانت نکالتے نظر آئی تو 

اس سے پہلے وہ کچھ کہتی احد نے اسے مزید کچھ کہنے سے منع کیا

زر یار بعد میں  باقی باتیں  سنا لینا پلیز میری ہیلپ  کر دو دیر ہو رہی پروگرام  شروع  ہونے واکا ہے آپ ساونڈ سسٹم دیکھو میں  مائیک دیکھ لوں 

اس نے بھی کچھ نہ کہا اور اس کے ساتھ کام پہ لگ گئی 

پسند تو وہ بھی اسے تھا لیکن کبھی اظہار نہیں  کیا 

کہی اسکی حالت اس پہ آشکار نہ ہو جائے اس لیے جب بھی وہ کوئی  بات کرتا اس کو الٹا ہی جواب ملتا اپنے آپ کو چھپا نے لے لیے اس سے بہت  لڑتی تھی

_______________

مصطفی کمپیوٹر سیکشن میں  آگیا سب کو مصروف  دیکھ کر اس جلدی سے یو ایس پی لیپ ٹاپ لگائی جلدی سے ڈیٹا کاپی کیا اور ابھی نکلنے لگا کے کمرے کے۔اندر داخل ہوئے دو لوگ مصطفی جلدی سے پردوں  کی کے پیچھے دیوار کی اوٹ میں ہو گیا اور ان کے نکلنے کا انتظار کرنے لگا

میر صاحب پھر کب ڈلیوری دینی ہے 

ہم پہ اوپر کی طرف سے بہت  زور ہیں جس کی وجہ سے ہم چاہتے ہیں کہ اب یہ معاملہ جلد سے جلد نمٹ جائے 

کمپیوٹر سیکشن کے انچارج کی آواز ابھری جو مصطفی پہچان گیا تھا 

ابھی بہت  مشکل ہیں  وہ لڑکی ہمارے کام میں  بہت  بڑی رکاوٹ ہیں  اور میں  جب تک اس کا حل نکالتا ہوں  تب تک کے لیے تھوڑا حوصلہ کیجیے میں نہیں چاہتا کہ ہمارا کام اور نام دونوں خراب ہو 

اس کو کسی شخص کی آواز آئی 

لڑکی بڑے کام کی ہے کاظم صاحب ویسے اگر وہ قابو میں  آجائے تو وارے نیارے ہو جائے 

اس کی خو ںصورتی کو استعمال کرکے بڑے بڑے کام ہو سکتے ہیں 

اگر نہیں  مانی تو اسکو میرے حوالے کر دینا میں تو ہو ہی وہ مکروہ ہنسی سے ہنسا 

مصطفی نے ہونٹ بھینچے ہوئے  تھے اس کا بس نہيں  چل رہا تھا ان گھٹیا لوگوں کا سر قلم کر دے جو حوا کی بیٹوں کو کھلونا سمجھے ہوئے ہیں 

کیا انہوں  نے کسی عورت کے جسم سے جنم نہيں لیا کیا کوئی  عورت ان کی بہن بیٹی نہيں تھی 

اتنی غلیظ سوچ  

شیطان دنیا میں یقیناً ان ناپاک غلیظ گھٹیا لوگوں کی صورت میں موجود  ہے 

جانوروں سے بھی بدتر ہیں 

اس کا دل کرے چھ کی چھ گولیاں ان کے سینےمیں اتار دے 

لیکن ابھی وہ ان کے نیٹ ورک کے بارے میں پوری طرح پتا چلانا چاہتا تھا 

وہ مزید ان کو اور ڈھیل نہیں دینا چاہتا تھا وہ جلد سے جلد یہ کام مکمل کرنا چاہتا تھا 

حوا کی بیٹوں کا تحفظ اس کا اولین مقصد تھا 

انکے ناپاک ارادے سننے کے بعد تو اور بھی وہ یہ سب جلدی کرنا چاہتا تھا اس لیے اب اسے اس لڑکی کا پتا چلانا تھا کون تھی وہ اور اس کے زریعے وہ اپنا کام کیسے نکال سکتا اور اسکو کیسے بچا سکتا پر اس سے سے پہلے اسے اس آدمی کا پتا چلانا تھا جسے میر صاحب ناظم صاحب کہہ رہے تھے جیسے  ہی وہ لوگ  لیب سے باہر نکلے مصطفی ان کے پیچھا نکلتاہی کے دراوزے کو لاک لگانے کی آواز آئی 

اوہ شٹ اب کیا کروں  

مصطفی نے کچھ سوچا اور موبائل  جیب سے نکال کے کسی کو کال کی اور لاک کھولنے کو کہا لیکن اسی وقت اسے دروازے کے کھلنے کی آواز آئی وہ پھر دیوار کی اوٹ میں  ہوا اس نے دیکھا کوئی اندر داخل ہوا اور آرام۔سے دروازے کو لاک کیا اور پھر کچھ تلاش کرنے لگا بلآخر وہ الماری کے سامنے کھڑا ہو اور کھٹ پٹ کرنے لگا مصطفی  ارام سے آواز پیدا کیے بغیر اس کے پیچھے گیا اور اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا تا کے شور نہ کر سکے 

اسکے سر یہ بندھا ہوا نقاب نیچے گرا اور دوسری طرف مصطفی بھرپور طریقے سے چونکا اس نکاب پوش کو دیکھ کر خیر چونکا تو کوئی اور بھی تھا

______________

حرم حرم کب سے بیٹا موبائل بج رہا ہے اٹھا لوں اسے اف توبا لگتا کانوں  میں  روئی گھسائی ہوئی ہو جیسے  لڑکی کو کوئی ہوش ہی نہیں 

مسز ماہنور کے بولنے کی آواز جب حرم کے کانوں  میں  پڑی تو۔چونکی اور یک 

دم  موبائل کی طرف لپکی 

وہ کل ہونے والی تقریب کے بارے میں سوچ رہی تھی بار بار اسکی نگاہ اس کے ہاتھ کی طرف اٹھ رہی تھی وہ جتنا بھی اپنے پروردگار کا  شکر کرتی کم تھا 

اتنی جلدی ہو جائے گا سب اس کے وہموں گمان میں بھی نہیں  تھا سب بہت دلکش دلنشیں تھا وہ جو اب تک اپنی دوستوں سے ان کے منگیتر وں کے قصے سنتی تھی اور اپنے راج کمار کے بارے میں  سوچتی تھی کہ وے آئے گا اور آکر کے جائے گا خوابوں  کی دنیا میں رہتی تھی 

ویسے وہ بہت میچور تھی لیکن 

لڑکیاں جتنی بھی میچور ہو جائے لیکن ان دماغ میں   اپنے جیون ساتھی کے  لیے ایک خاص ہی تصویر ہوتی ہے 

اس سے خوابوں  کا شہزارہ مل گیا تھا اسکی آنکھیں بال ناک جسامت قابل دید تھی اور کچھ لوگوں  کے لیے قابل رشک اور حسد بھی تھی

وہ یک دم خیالوں  کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں  پلٹی تو اس نے موبائل میں  آتے نام کو دیکھ کر روشنیوں نے جیسے اس کے چہرے کا احاطہ کر لیا ہو اس نے یس کا بٹن دبایا اور موبائل کو کان کے ساتھ لگا دیا 

تھوڑی دیر دونوں  طرف خاموشی کے بعد 

اسلام علیکم کہاگیا دوسری طرف سے 

وعلیکم اسلام حرم نے کہا وہ جواب دیتے اپنے کمرے کی جانب رواں ہو گئی 

کیسی ہیں آپ دوسری طرف سے پوچھا گیا 

سوال تو بہت  عام سا تھا لیکن اس میں جزبوں کی شدت تھی اس کے گمبھیر لہجے میں پوچھے گیا عام سوال بھی اسے بہت خاص لگا 

میں  ٹھیک آپ کیسے  ہیں  حرم نے کہا 

خان نے ایک گہری سانس لی میں اگر کہوں میں ٹھیک نہیں ہو تو ?????

اس کے شدتوں سے چور لہجے کو وہ محسوس  کر گئی تھی 

وہ بلش کر نے لگی اس کے رحسار ٹمٹما اٹھے

تو آپ ڈاکٹر کے پاس جائے نا اس نے معصومیت سے کہا 

جی میں نے اپنے ڈاکٹر سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے کے لیے ہی کال کی ہے تاکہ میں  ٹھیک ہو جاوں

تو کیا آپ اپنے بیمار کو شفا دینے کے لیے  تیار ہےحرم

خان کی بات سن کر اسے ایسا لگا جیسے تتلیاں اس کے گرد گھیرے کی صورت میں رقص کر رہی ہو اور وہ پھول ہو جیسے 

حرم میں  جانے سے پہلے ایک بار ملنا چاہتا ہو

پلیز انکار مت کیجیے گا

اس نے بڑی آس و امید سے پوچھا تھا وہ اس کو انکار نہیں  کر سکی

______________

فنکشن ان کی امید  سے بھی اچھا رہا 

سب نے بہت  انجوائے کیا تھا 

وہ سب کلاس لینے کے بعد باہر نکلے ہی تھے کے انہیں سامنے سے تیمور آتا نظر آیا 

لو جی آگیا بہن کا بھائی ہانی نے اونچی آواز میں  ماہی کو بتایا 

ماہی نے اس کی آواز پہ سامنے دیکھا تو اس نے تیمور کو اپنی طرف آتا دیکھا ساتھ اس کے ایک اور لڑکا بھی تھا

آج ثناء چھٹی پہ تھی اور اتفاقاً ارہان بھی چھٹی پہ تھا سو ان کے گروپ  کے تقریباً دو لوگ ہی آئے تھے 

ہائے ماہی ہائے  ہانیہ تیمور   نے  ان کے قریب آ کے کہا

ہائے تیمور  دونوں نے کہا 

کیسی ہیں آپ دونوں ?????

ان سے ملے یہ ہے میرا کزن میرا دوست میرا جگر بعض لوگ اسے میری گرل فرینڈ بھی کہتے ہیں نام عبدالھادی ہیں ہم اسے ہادی کہتے ہیں  

اور ہادی یہ مارخ ہیں  اور ان کے اپنے انہیں  ماہی کہتے ہیں  

اور یہ ان کی دوست  ہانیہ ہیں 

تیمور  نے تعارف کی رسم نبھائی

ہادی بہت  غور سے اسے دیکھ رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے اس نے کہی دیکھا ہیں  لیکن اسے یاد نہیں آرہا تھا

اس نے فضول  خیالات کو اپنےدماغ سے جھٹکا اور اسکو ہائے کہا او تو آپ ماہی ہیں  کل سے اس نے دماغ کھا لیا تھا ماہی ماہی کر کے تو آج میں  پہلی فرست میں  ملنے چلا آیا 

کہ میرے علاوہ وہ کون عظیم ہستی ہیں جس نے اس کو متاثر کیا 

ہادی نے شرارت سے کہا تو وہ دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑی 

صیح کہتے ہیں انسان کی پہچان اس کی زبان سے ہوتی ہیں 

دیکھنے میں  آپ بہت مصصوم لگ رہے تھے آپ کی زبان نے آپ کے تاثر کو ضائع کر دیا ہے آپ تو تیمور  سے بھی ذیادہ چول نکلے ماہی نے ہنستے ہوئے ہادی کی کھنچائی کی 

تو سارے ہنسنے لگے

ماہی آپ اتنی جلدی پہچان گئی اسے تیمور  نے کہا 

ہاہاہا ماہی آپ کا سینس آف ہیومر بہت اچھا ہیں  آپ کی تیمور صحیح تعریف کر رہا تھا میں بھی آپ کو سس بلا سکتا کیا ہادی نے کہا 

تو ماہی نے اجازت دے دی ماہی کو بھی وہ سلجھا ہوا تھوڑا شرارتی سا لگا

ماہی میری کوئی بہن ہوتی تو آپ جیسی ہوتی آپ کو دیکھ کر نہ جانے کیوں  اپنے پن کا احساس ہوتا ہیں  

ہادی نے کہا 

سو سویٹ میں بہن ہی ھو تمھاری 

چلوں آؤں  اس خوشی میں سب کو ٹریٹ دیتی ہو ماہی نے کہا تو وہ چاروں کینٹین کی جانب چلے گئے

________________

سارہ رکو تمھارےبابا کو تم سے بات کرنی ہیں 

سارہ اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی تو اسے اپنے پیچھے سے آواز سنائی دی

مام پلیز ابھی میں تھک چکی ہوں ریسٹ کرنا چاہتی ہو 

شام میں بات ہو گی  

سارہ نے بے زاری سے جواب دیا اور سڑھیوں کی طرف بڑھ گئی

سارہ کوئی بہت زور سے دھاڑا 

سارہ مڑی تو دیکھا اس کے بابا غیض وغضب لیے اسے پکار رہے 

جلدی نیچے آوں اور بات سنو میری 

اس دن کے لیے پیدا کیا تھا تمہیں یہ دن بھی دیکھنے تھے ہمیں غصے سے ان کا چہرہ تپنے لگا 

سارہ نے اپنے باپ کو کبھی اتنے غصے میں دیکھا نہیں تھا اس لیے ان کے اس لہجے سے ڈر گئی لیکن انہیں محسوس نہیں ہونے دیا  

او گوڈ بابا آپ کس طرح دیہاتوں میں رہنے والوں لوگوں کی طرح چلا رہے ہیں  آپ میڈل کلاس مینٹیلٹی چھوڑ دے 

سارہ تم حد سے بڑھ رہی ہو اپنے باپ سے بات کر رہی ہو تم بھولو مت 

موم پلیز میں  بہت  تھک چکی ہو آپ لوگ بھاشن دینا بند کرے اور کام کی بات کریں ایک تو آئے دن کوئی نہ کوئی ڈرامہ کریٹ کیا ہوتا ہے اس نے موم کی بات کاٹ کر بہت بدتمیزی سے بات کی تو 

اسکے باپ نے اسکا بغور جائزہ لیا اور اس کے اس قدر بدتمیز اور منہ پھٹ ہونے کی وجہ دریافت کرںے لگے لیکن اس کے چہرے پہ سوائے بے زاری کے کچھ اخذ نہ کر سکے

سارہ بیٹھوں یہاں مجھے تم سے چند اہم باتیں  کرنی ہے انہوں  نے نرمی سے اسے مخاطب کیا اس کو ساتھ کیے ڈرائنگ روم میں  آئے اور اسے بیٹھنے کا کہا 

تمھاری ما رخ سے کیا بات ہوئی  تھی اس دن 

بابا کب میری کب ماہی سے بات ہوئی اسنے الجھن برے لہجے میں پوچھا 

سارہ ایک ہفتے پہلے کی بات ہے شاید آپ مجھے بتانا پسند کرے گئی انہوں  نے سرد لہجے میں معملہ دریافت کیا 

ڈیڈ کچھ خاص نہیں وہ ہمیشہ مجھے سب کے سامنے یونیورسٹی میں بھی ڈی گریڈ کر تی ہے میری زندگی میرا کیریئر خراب کرنا چاہتی ہے یہ لڑکی اور میں ایسا ہونے نہیں دوں گی اس نے جارحانہ طریقے سے کہا اس کی آنکھوں سے شعلے لپکنے لگے 

ڈیڈ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا ہمارے ٹکرے پہ پلنے والے اور ہمارے آگئے ہی زبان چلائے

ڈیڈ آپ کو نہیں پتا سانپ پال رکھے ہیں  آپ نے وہ پھنکاری

قید کر لیا سانپوں کو یہ  کہہ کر   سپیرے نے 

کہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہیں 🐉🐉

سارہ میری جان فیکٹری میں 60% ان کا بھی حصہ ہے اور اب تم اس سے مت الجھنا اس کا بنوبست میں کر لوں گا آئندہ میری بیٹی کو کچھ کہ کر دکھائے آپ بس اس سے الجھنا مت 

اسکی ماں اور اس کے بہت پر نکل آئے ہیں جلد ہی ان کا بندوبست کرتا ہوں 

اب جاؤں میری گڑیا آرام کرو اور عمر کو اٹھا دینا  کو چنگ جائے

ماہی  وکیل صاحب سے ملنے کے بعد ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس گئی وہ اپنے امو فاتی کے لیے محفوظ پناہ ڈھونڈ  رہی تھی برے وقت کا کوئی پتا نہيں  ہوتا  اور آج جو کچھ وکیل صاحب نےکہا اس سے اسے اس خطرے کی نوعیت کو اندازہ ہو گیا تھا اس لیے وہ اب تک تین جگہ جا کے فلیٹ دیکھ آئی تھی وہ کسی گنجان جگہ کا انتخاب کرنا چاہتی تھی جو پیسے تھے اسکو بہت سوچ سمجھ کے خر چ کر نے تھے

بعد کے حالات کا کچھ پتا نہ تھا وہ اپنا رخ کس کروٹ بدلتے ہیں 

ماہی سارہ کے بابا کے گھٹیا عزائم۔سے واقف ہو چکی تھی 

اس بات پر باربار اپنے رب کا شکر ادا کر رہی تھی 

کہ بروقت اسے پتا چل گیا 

اس کا دل کرے دھاڑے مار مار کے روئے اس کے سر پہ بھی بھائی باپ کا سائبان  ہوتا تھا وہ دیکھتی کسی کی کوئی جرات انہیں کچھ کہ پاتا کوئی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ پاتا 

اس کو مردوں کی گندی نظروں سے خوف آرہا تھا جہاں جاتی حوس بھری نظروں کا سامنا کرنا پڑتا لوگوں کی للچائی ہوئی نظروں سے اسے گھن آرہی تھی 

لیکن اگر کچھ کہتی بھی تو خود ہی بدنام ہوتی کیوں کے یہ دنیا تو ہیں ہی مردوں کی مرد کتنا بھی دلال ہو کمینہ ہو اسکو لوگ پھر بھی عزت سے دیکھتے اور مرد پک ہو کے بھی بے غیرت کہلائی جاتی ہیں 

جہاں قرآن میں عورتوں کے لیے پردے کے احکام ہیں 

وہی مرد کے لیے بھی پردے کے احکام ہیں مرد کے پردے کا مطلب عورت کی طرح منہ چھپانہ نہیں بلکہ اپنی نگاہ کی حفاظت کرنا یعنی اپنی نگاہ کو جھکانے کے احکام ہیں 

مرد کو یہ تو پتا چار شادیاں جائز ہے یہ قرآن میں ہیں سنت ہیں فلاں فلاں اس معاملے میں انکے پاس ایک سے بڑھ کر دلیل موجود ہوتی ہے اور اس پر عمل کرنے سے بھی دریغ نہیں  کرتے 

لیکن اس کو اور احکامات کا پتا نہیں اپنے فرائض سے غافل ہیں ہاں مگر اپنے حقوق بہت اچھے سے ازبر ہیں 

نماز کا کہوں تو یہ سنیوں کی مسجد یہ شیوں کی ہے یہ وہابی کی ہے تو نماز نہیں پڑھتا میں 

یہ مہز نماز نہ پڑھنے کے بہانے 

لوگوں الله تمہاری نیتوں کو جانچے گا نہ کے مسجد

ارشاد نبوی :-

"نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے "

ہمارے ہاں نماز کا اہتمام   رمضان  جمعہ اور بس عید پہ ہی ہوتا ھے تو کیسے ہم بے حیائی اور برائی کے کاموں سے بچے

اور صرف مرد ہی نہیں  عورتیں بھی مردوں  کو اپنی طرف راغب کرتی ہے واہیات کپڑے پہن کے اور خو بصورت بنا کے خود کو دعوت نظارہ دیتی ہے یہ اس کے باپ بھائی اور شوہر پہ ہوتا کے اسے کیسے لوگوں کے سامنے لائے ایک لڑکی اپنے بھائی کا مان باپ کا غرور ہوتی ہے اس پہ لازم ہیں کہ وہ ان کے مان غرور لو ٹوٹنے نہ دے ان کی عزت قائم رکھے 

یہ باپ بھائی اور شوہر پہ ہے وہ اسے اپنے لیے باعث فخر بنانا چاہتے ہیں یا باعث زلت 

اگر کبھی کسی وجہ سے انکے لیے ذلت کا باعث بن جائے تو غیرت کے نام پہ قتل کر دی جاتی ہے 

یہ سب مکافات عمل ہیں دوسرے کے ساتھ جو کروں گئے وہی تمھاری بہن بیٹی کے ساتھ ہوگا کل 

وہ ان خیالوں میں بری طرح الجھی ہوئی تھی جب اسکے پاس کسی گاڑی آکے رکی اور وہ یک دم اچھلی اود خیالوں کی دنیا سے باہر آئی

ماہی آپ یہاں کیا کر رہی ہیں  تیمور  نے سائیڈ پہ گاڑی کھڑی کی اور باہر نکل کر آگیا 

اس نے بغور ماہی کا جائزہ لیا 

عام سے حلیے میں تھی 

فیروزی قمیض شلوار میں ملبوس تھی اسنے بلیک شال کاندھے پہ ڈالی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پہ درد کی ایک داستان رقم تھی اس کی آنکھیں اس کا حال بیاں کر رہی تھی اسکی ایک طویل مسافت کی داستان سنا رہی تھی 

ماہی نے ایک نظر تیمور کو دیکھا پھر ایک گہری سانس لے کر خود کو معمول پہ لایا

اور چہرے پہ مسکراہٹ سجا کے درد کو چھپالیا ہمیشہ کی طرح 

تیمور  تم یہاں کیا کر رہے ہو 

کدھر آوارہ گردی ہو رہی ہیں 

ماہی نے اسے چھیڑ 

محترمہ میرا تو کام ہی کبھی سڑکوں تو کبھی گلیوں کی خاک چھاننا آپ بتائے آپ یہاں کیسے

ایک پل سوچا بتا دے 

لیکن اسے اپنی خوداری بہت عزیز تھی جسے وہ کسی صورت نہیں گنوانا چاہتی تھی 

کچھ نہیں ایک کام تھا بس وہی کرنے آئی تھی تیمی 

کیا میرے کام کی نوعیت جان سکتا ہوں 

اف تیمی تھا نہ ایک کام 

اچھا چلے میں آپ کو گھر چھوڑ دوں بائی دہ وے ماہی تمھاری گاڑی کہاں ہیں 

تیمور نے کہا

وہ ورک شا پ پہ خراب ہوگئ تھی 

وہ تیمور  کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئی تھی راستے میں ایک دوسرے کو چھیڑتے رہے اس نےماہی کو گیٹ کے سامنے اتارا ماہی نے اسے بہت اندر آنے اور چائے کے لیے کہا 

لیکن نہيں مانا اور گاڑی کو زن بھاگا کے  لے  گیا 

چوکیدار نے دروازہ کھولا ماہی اندر چلی گئی

______________

وہ سٹیریو پہ لگے    عاطف اسلم کے گانے میں  بری طرح کھویا ھوا تھا اس کا موبائل بجنے لگا 

افف پتا نہيں کون ہیں  اس کا اپنا اس طرح ڈسٹرب کیے جانا بہت برا لگا 

اس نے اسی برے موڈ کے ساتھ نمبر دیکھے بنا کال ریسیور کی 

شاہ مراد اسپیکنگ 

اس نے بے زاری سے کہا 

دوسری طرف موجود تیمور سمجھ گیا تھا وہ ڈسٹرب ہوا ہیں لیکن یہ بات ہی کچھ ایسی تھی وہ صبر نہ کر سکا

تیمور بول رہا ہوں شاہ 

کہاں ہو اس وقت مجھے تم سے ملنا ہے بات بہت ضروری ہیں  تم جتنی جلدی ہو صدر والے فلیٹ پہ پہنچو ابھی میں  بھی پہنچ رہا ہوں دوسری طرف بات جواب سنے بغیر ہی کال کاٹ دی گئی 

شاہ موبا ئل کو ہاتھ میں  لے کر سوچنے لگا ایسی بھی کیا بات ہوئی جو اتنا اچانک  بلایا ہے

اس کے زہن میں عجیب عجیب وسوسے آ رہے تھے

اس نے اپنا حلیہ دیکھا 

ٹراوزر بلیک اور مسٹرڈ کلر کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی 

حلیہ ٹھیک تھا اس نے چینچ کرنے کو  چھوڑا اور موبائل اور گاڑی کی چابی لے کر نکل گیا

زری میں  تھوڑی دیر تک آتا ہوں 

بھائی داجی لوگ آنے ہی والے ہو گئے آپ کہا جا رہے ہیں  زاشی نی پوچھا وہ بھی وہاں آگئی 

گڑیا میں تھوڑی دیر تک آ جاؤں گا اس نے عجلت بھرے انداز میں کہا اور نکل گیا 

ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ تیمور کے فلیٹ کے باہر تھا 

تیمور بیل کی آواز سن کے دروازے کی طرف آیا اور اسے کھولا 

شاہ کو اندر آنے کا رآستہ دیا اور اسے ڈرائنگ روم میں  جانے کا کہ کر دو کپ چائے کے رکھ کر ڈرائنگ روم کی طرف آگیا

تیمور کیا ھوا ہیں  اتنی ایمرجنسی میں کیوں  بلوایا ہے سب ٹھیک ہیں 

تیمور کچھ دیر چپ رہا پھر اسنے ماہی اور اپنا ملنے کا بتایا اور گھر چھوڑنے تک کا سب بتایا

شاہ راستے میں  میں نے دیکھا کہ کوئی میری گاڑی کو فولو کر رہا ہیں  پہلے مجھے لگا وہم ہیں  یھر گاڑی کو ماہی نے بھی نوٹس کیا وہ کچھ گھبرا گئی تھی خوف زدہ تھی وہ میں  نے یوچھا بتایا نہیں  اور ان کا اس علاقے میں  موجود ہونا 

کچھ گڑ بڑ ہیں  معاملہ کچھ اور ہیں 

افففف تیمور کے بچے تم نے مجھے اس چڑیل کے لیے بلایا ہے پورا سیاپا ہے اسے کیا کوئی مصیبت ہوگئی وہ خود ایک مصیبت ہیں 

مجھے کوئی شوق نہیں اس کی مدد کدنے کا اور مدد ٹریسا بننے گا تمھیں  ہی مبارک ہو 

ایک مدد کروں اور پھر گالیاں بھی کھاؤ نہ بھائی نہ میں تو اس شہد کی۔مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا کاٹے جانے کا حاشہ ہے سانپ کے زہر سے بندہ بچ جاتا ہے اس کے زہر سے نہیں وہ سانپ سے بھی ذیادہ زہلریلی ہے

وہ ماہی کے خلاف گوہر افشانیاں کرنے میں لگا ہوا تھا اور تیمور  منہ کھولے کھڑا بے یقین  نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا کے یہ کہہ کیا رہا ے 

جب شاہ نے اپنی بات ختم کر کے تیمور  کو دیکھا تو اسکو سمجھ اگئی وہ کیا کہ گیا ہے اسکے سامنے 

اچھا پتہ کروادوں  گا معاملہ کیا ہے یار پریشان نہ ھو

شاہ نے تیمور کو کہا 

لیکن ابہی جو کچھ کہا تم۔نے وہ کیا تھا 

یار وہ تو ڈرامے بازی تھی نہ ڈرامے کر رہا تھا 

داجی لوگ آرہے چلے گا گھر آ جا 

اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھوں کے مصادق وہ بھی جٹ پٹ تیار ہو اور وہ گیا شاہ کے ساتھ 

______________

مارخ آپکی اسائنمنٹ کہاں ہیں جب میں نے کہا تھا سب نے بنانی ہیں تو میرا خیال ہیں آپ بھی سب میں  آتی ہے 

سر مصطفی جب اس کے پاس اسائمنٹ لینے بڑھے تو سب نے دے دی اور وہ کھڑی ہوگئی اور سر جھکا کر بے عزتی سن رہی تھی یونیورسٹی آفس اور اس کے ساتھ گھر ڈھونڈنے کی مہم اور لوگوں کی غلیظ نظروں نے اسے بری طرح تھکا ڈالا تھا وہ کسی طرف ٹھیک نہیں دے پا رہی تھی 

اس اب میں  اسے سر مصطفی کی اسائمنٹ بنانی یاد نہایت رہی اور نتیجتاً وہ سر جھکا کے خاموشی سے ڈانٹ کھا رہی تھی

ساتھ بیٹھی ہانی کے دل کو کچھ ہوا سر جھکائے کھڑی وہ اپنے آنسو پی رہی تھی یقینناً ورنہ وہ تو اپنی غلطی پہ بھی خاموش رہنے والوں میں سے نہیں تھی 

سر اسکی اسائنمنٹ میرے پاس تھی جو میں نے آپ کو دی آپ کی ڈانٹ کے خیال سے میں اندر نہیں آرہی تھی کلاس کے تو اس نے مجھے دے دی غلطی میری ہیں اسکی نہیں  

ہانی کا یہ کہنا تھا سر مصطفی کے غصے کو اور جلا بخشی گئی اور وہ بنا مٹی کے تیل گیس اور بنا تیلی کے آگ بن گئے 

مس ہانیہ غلطی آپ کی نہیں انکی ہے اتنی لاپرواہی یعنی میری بات ان کے لیے معنی نہيں رکھتی اتنا مہان بننا تھا نہ تو اور پیریڈ بھی بہت ہے ماہی 

یہ امید نہیں تھی یعنی آپ کی نظر میں میرے لیے عزت نہیں  

اگر ہانیہ نے نہی بنائی تو مجھے بتا دیتی میں  کیا مار دیتا اسے 

گیٹ آوٹ فرام مائے کلاس 

اب آپ تب ہی کلاس میں  آئے گی جب تک پرنسپل آپ سے بات نہيں کر لیتے 

میں بہت نظر انداز کر چکا ہو آپ کی بدتمیزیاں اب اور نہیں  

وہ جیسے ہی چپ ہوئے ماہی نے چہرہ اوپر اٹھایا

تو دو بیگھی آنکھوں میرے شکوہ نظر آیا اسے اور اس کی آنکھوں میں کاٹ دار تاثرات رقم بند تھے 

وہ کچھ  کہے بغیر بیگ اٹھا کے نکل آئی اور گراونڈ میں  آگئی اور رونے لگی گراؤنڈ اس وقت کلاسس ہونے کے باعث بلکل خالی تھا اکا دکا لوگ تھے 

وہ جیسے ہی رو دھو کے فارغ ہوئی  اسکو بھوک  ستانے لگی وہ کنٹین گئی اور برگر اور کو ک لے کر کھانے لگی اس وقت کوئی اس کے سامنے آکر بیٹھا اس نے اوپر دیکھا تو سامنے شاہ بیٹھا ھوا تھا 

اس کی روئی روئی آنکھوں میں  جھانکا

کیا ہو ہے یہ بنا بادل برسات کب ہوئی وہ چپ رہی وہ آگے کا لائحہِ عمل سوچ رہی تھی اسکی موجودگی اسے ڈسٹرب کر رہی تھی 

وہ جلد از جلد اسے وہاں سے اٹھانا چاہتی تھی پر مقابل کے ایسے کوئی ارادے نہ تھے

کیا ہوا رقیب شاہ کی طبیعت ناساز لگ رہی خریت ہے آج گولا باری نہيں ہو رہی 

زبان بھی ہتھیاروں سے لیس نہیں  

کہی کٹ وٹ تو نہيں گئی منہ کھولو زبان دیکھو ں 

مانا کے آپ کو بھوک بہت لگتی ہے

زبان کھا جاؤں گئی پتا نہیں  تھا اففف کتنی بھوکھی ہو 

ماہی نے اسے گھورا ایک پل اسکی چلتی ہوئی زبان کو بریک لگی اور پھر اسی فراٹے سے چلنے لگی

اب کیا مجھے بھی کھاؤں گئی بھوکی زبان تو آل ریڈی کھا کی ہے مجھ معصوم پہ

 رحم کر لوں کچھ؟ 

_______________

حرم اپنی ماما کو بتا دیتی ہے خان نے اس کو لنچ

 کروانا چاہتا ہے اس کے بعد وہ انڈیا جائے گا 

تو نہ جانے کب آئے اس لیے ملنا چاہتا ہے 

بیٹا جلدی آ جانا تمھارے بابا کو نہیں پسند یہ سب میں جانتی ہو ہماری بیٹی بہت سمجھدار  ہے ہماری عزت پہ آنچ نہیں آنے دے گی جب دو لوگ تنہا ہوتے تو تیسرا شیطان ہوتا ہے 

بیٹا یہ آخری اور پہلی دفعہ ہے یا میں  آپ اس سے کہے گھر آ کر مل لے جو بات کرنی کر لے میں آپ کو باہر جانے کی اجازت نہیں  دے سکتی خاص کر اس بات کی جس بات پہ میرا دل مطمئن نہ ھو

ماما نے اسکی پیشانی چو می اور کہا آپ کو بیٹا ابھی میری باتیں غلط لگ رہی ہو گی پر اسی میں  آپ کی بھلائی ہے

ایک ماں کبھی اپنے بچوں  کو چور راستے نہیں سکھاتی میری جان 

اور کچن سے باہر نکل گئی

ماما کی باتیں سن کر وہ سن رہ گئی 

ماما ٹھیک کہتی ہے وہ میرا محرم نہیں  ہے میں کیسے بھول گئی میں  کیسے آپنے ماں باپ کی عزت کو داؤ پہ لگانے کو تیار ہو گئی اس کے فمیر اے آواز آئی

آس کا دل اور دماغ اس سے متفق نہ ھو رہے تھے 

نہیں یہ غلط ہے وہ تم سے محبت کرتا ہے شادی کرنے والا ہے تو کیسے وہ نا محرم ہوا 

تم کیسے اس کے ساتھ ایسا کر سکتی 

ماما تو پرانے وقتوں کی ہے انہیں  کیا پتا محبت کیا ہے بس بلیک میل کر رہی 

دل نے اسے اک اور راہ سجھائی 

دل دماغ اور ضمیر کی اس جنگ میں  وہ بری طرح الجھ گئی تھی 

اس نے ایک فیصلہ کیا کے وہ وہ اس سے نہیں  ملے گی جو کہنا فون پہ کہے میں اپنے ماں باپ کی تربیت  پہ داغ نہیں  لگا سکتی

وہ پرسکون ہو گئی اس فیصلے۔سے اور کافی کا مگ لے کر کمرے میں  آگئی اور کچھ سوچ کر خان کا نمبر ملایا

 ایک دو تین بیل جائے اور آگئے سے کوئی اٹھائے نہ  وہ پر یشان ہو گئی اللّٰہ خیر کیوں نہیں کال اٹھ رہا کہی مصروف  نہ ہو لیکن یہ وقت کون سا ہے کام کا گیارہ بجے چھٹی ہو گئی ہو گئی 

وہ من ہی من میں  خود ہی سوال و جواب کرتی رہی 

آخرکار پندرہ منٹ بعد خان کی کال آ گئی

اسلام علیکم کال ریسیو کر کے حرم نے کہا 

وعلیکم اسلام 

دوسری طرف سے بھی سلامتی بھیجی گئی

کیسی ہیں آپ خان نے پو چھا 

میں  ٹھیک ہو اور مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے آپ مجھے غلط مت سمجھیے گا اس نے سنجیدگی سے دو ٹوک بات کرنے کی ٹھانی 

مس پاکستان اپنے مریض کی حالت تو پو چھ لے پہلے نہ کوئی حال احوال نہ کوئی چال اور آپ کو کچھ کہنے کی پڑی ہے ناٹ فیر حرم 

دوسری طرف شو خی و محبت سے لبریز آواز آئی 

اسکی یہی ادا اسکو چپ لگا دیتی تھی 

وہ ہونٹ کاٹنے لگی 

حرم ہو نٹ کاٹنا بند کرے ان سے کیا دشمنی ہے انہیں کیوں سزا دے رہی ہے حرم نے یک دم اپنی یہ سرگرمی ختم کی اور بے اختیاری میں  ادھر ادھر بے وقوفوں  کی طرح دیکھنے لگی 

حرم اپنی آنکھوں  کو نہ تکلیف دے میں  وہاں کہی نہیں  ہو میں آپ کے دل میں  ہو

اس نے اپنے تنے اعصاب کو جھٹکا اور بے ساختہ ہنس دی 

اس کے ہنسنے کی آواز سپیکر کی بدولت خان تک بھی پہنچ گئی اور وہ سوچنے لگا ہنسی کیسے لگ رہی ہو گئی گال گلال ہو گئے ہو گئے انکھیں نم ہو گئی ہو گئی 

لیکن اس نے یہ سب حرم کو نہیں  بتایا وہ چاہتا تھا کے شادی کے بعد وہ اسے اپنی بے قراریاں اور بے تا بیاں بتائے گا اپنے دل کی داستان سنائے گا 

ابھی اس سب کے لیے یہ وقت موضوع نہیں  تھا اس نے خود خو سنبھال لیا

حرم میں  دو دن بعد جا رہا میں  آپ سے نہیں  مل پاؤ گا مجھے آج رات کو ایک بجے کراچی جانا ہے وہاں سے کام نبٹھا کے انڈیا جانا ہے ہو سکتا واپس آؤں نہ آؤں حرم میری زندگی کا کوئی نہیں  پتا نہ جانے کس پل کیا ہو جائے حرم آپ میرا انتظار کرنا نہ لوٹ سکا تو شادی کر لینا مجھے پتا میری باتیں تمھیں اذیت دے رہی ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے ہم چاہ کر بھی جھٹلا نہیں  سکتے

میں تمھیں کھونا نہیں  چاہتا حرم لیکن زندگی نے مہلت ہی نہ دی تو 

اتنا کہہ کر خان خاموش ہو گیا 

حرم کی آنکھوں سے آنسو روا تھے

اسکی۔آواز میں  اسکے آنسوؤں کی۔آمیزش شامل تھی 

آپ کیوں  ایسا کہہ رہے الله آپ کو لمبی عمر دے میں کیسے رہو گئی آپکو احساس ہے آپ پہلے ہیں جس کے ہونے سے میری سانسیں چلتی وہ یہ سب سوچ  رہی تھی 

لیکن جب بولی  تو اتنا کے آپ کو اللّٰہ کی اماں میں دیا میں  انتظار کروں  گی 

خان اس کا اداس ہونا محسوس  کر چکا تھا 

آپ دیکھنا میں  جلدی آوں کا ان شاء الله 

اوکے مجھے دیر ہو رہی اپنا خیال رکھنا میرے لیے اور کھانا ٹائم پہ کھانا 

خان نے کہا 

آپ بہی اپنا خیال رکھنا کھانا وقت پہ کھا نا اور پسٹل ساتھ رکھنا ہر جگہ احتیاط  سے حرم نے کہا 

اوکے مادام آپ کا غلام ان ہدایات پہ عمل کرے گا 

اب اجازت درکار ہے 

اللہ حافظ کہہ کر اس نے کال کاث دی اور موبائل کو دیکھا اس سے جو بات کرنی کر نہ سکی اب کیا کروں اسنے موبائل رکھا اور بیڈ پہ لیٹ گئی 

_____________

پتا ہی نہیں چلا کب چھ ماہ گزرے اور پیپر شروع  ہو گئے پہلے سیمسٹر کے آج پہلا پیپر تھا ہر طرف گہما گہمی تھی ہر کوئی کتابوں میں سر گسائے ہوئے تھا یہ دن بھی بہت یادگار ہوتے ہیں  رات رات بھر جاگ کر پڑھنا کھانے پینے کا حوش نہ ہونا بہت خوشگوار دن ہوتے ہیں جو ساری زندگی یاد رہتے ہیں  بے فکری سے بھر پور دن اس کے بعد جانے زندگی کا کون سا رخ دیکھنے کو ملے

سارہ زرلش کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی زرلش کتابوں میں سر دیئے ہوئے تھی جبکہ سارہ مسلسل موبائل اور اپنی بیوٹی کو سنوارنے میں لگی ہوئی تھی 

زرلش اس کو دیکھ دیکھ کے بے زار ہو رہی۔تھی خود بھی وہ پڑھاکو نہیں  تھی لیکن پیپروں کے نزدیک وہ بھی پڑھنے لگتی لیکن سارہ کو پرواہ ہی نہيں  

پہلے اس کو بہت اچھی لگتی تھی بہت سادہ سی لیکن آئستہ آئستہ اس کو جاننا شروع کیا اس کی بہت  سی باتیں اسکو ناگوار گزرتی تھی لیکن وہ کچھ کر نہیں پاتی تھی دوست بہرحال وہ اس کی تھی 

اسکو کچھ کہہ نہیں پاتی 

کہی بار احد نے بھی کہی 

لیکن اس نے اسکو ہی الٹا سنا دیا اس کو سوچتے ہی ایک خو بصورت سی مسکان نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا 

لمحوں کا کھیل تھا لیکن یہ لمحے کسی کی نگاہوں میں سما چکے تھے 

مجھے سوچتے ہوئے اتنی پیاری لگتی ہو یا کریموں کا کمال ہے کسی نے اس کے نزدیک ہو کر سرگوشی کی پہلے اسکی بات سن کر اس کے لبوں پہ دھیمی مسکراہٹ رکسا تھی 

لیکن جملے کے احتتام میں اس کا منہ جوالہ مکھی بن گیا تھا 

اس نے اسکی طرف دیکھا احد مسکرا رہا تھا 

اسکی ہنسی کو دیکھ کر وہ شعلہ بن گئی لیکن سارہ کا خیال کر کے وہ آہستہ آواز میں غرغراہی 

احد تم یہاں سے جا رہے یا میں  تمھارہ سر پھاڑو 

احد جو اس کے پاس بیٹھا تھا 

اور اس کے مکھڑے کو اپنی نظروں کے حسار میں  رکھے ہوئے تھا 

سر کو جھکا کے آہستہ سے سرگوشی کی 

"سرے تسلیم خم جو مزاج یار میں  آئے"

سارہ کو اپنے حسن کے نوک پلک سنوارنے سے فرصت ملی تو سر اٹھایا تو دیکھا احد بیٹھا ہوا تھا 

ہائے احد کب آئے شاہ کہا ہے

احد کے چہرے کے زاویے بگھڑے

ہائے سارہ 

احد نے اکتائے ہوئے لہجے میں  کہا خیر وہ اس سے جتنا بھی چڑتا تھا نہ پسند کرتا تھا 

اسکی تر بیت اسے یہ اجازت نہیں دیتی کے وہ کسی لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کرے

محترمہ شاہ کا آپ زر سے بھی پوچھ سکتی ہے اسکا

 بھائی اسکو بہتر پتا ہوگا

________________

ماہی کو گھر مل گیا تھا اس نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی پیپروں کی وجہ سے آفس سے چھٹی کی اس نے 

اور اب وہ شیئرز بیچنے کے چکروں میں تھی وہ نہیں چاہتی تھی کے جائیداد کے چکر میں  سب کی زندگی خطرے میں ڈالے 

سارہ کے باپ کو بتائے بغیر یہ سب کر نا اس کے لیے خطرے سے خالی نہ تھا 

لیکن اسکو کرنا پڑ رہا تھا 

اب اس کو احساس ہو رہا تھا کہ مرد کے بغیر اک قدم بھی چلنا بھی مشکل تھا

لیکن جو بھی اسے مل رہا تھا وہ بہت کم قیمت لگا رہے تھے

بہت سوچ بچار کے بعد اس نے تیمور کو بتانے کا سوچا

لیکن وہ اس کو کسی مصیبت میں نہيں ڈالنا چاہتی تھی 

آج ایک اہم میٹنگ تھی جس میں اس کا ہونا بہت  ضروری تھا 

وہ تیار ہوئی امو کو بتا کے نکل آئی

ٹی پنک قمیض شلوار پہ سفید سکارف لیا ہوا تھا اس نے شانوں پہ ہم رنگ ڈوبٹا ڈالے 

سفید بند سینڈل پہنے

اور شٹائلش گوگلز اور بیگ لیے چہرے پہ متانت تھی

وہ جب آفس پہنچی گیارہ ہو گئے تھے سب میٹنگ روم میں جمع تھے وہ میٹنگ روم میں  گئی تو سب اسکی تعظیم میں کھڑے ہو گئے تھے اس نے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی نشست سنبھالی

میں نے پہچھلے کچھ سالوں 

سے کمپنی کی آمدن لگان خرچ اور معیار کا مطا لعہ کیا اس میں کوئی بھی قابل ذکر کارنامہ درج نہیں 

اس کا معیار بھی ٹھیک نہ ہونے کی بنا پہ کئی کمپنیوں نہ اس کا بائیکاٹ بھی کیا اور آمدنی میں ایک واضع قسم کی کمی ہوئی ہے اور اخراجات بڑھ رہے ہے 

اور بچت بلکل نہیں  ہے کمپنی مسلسل نیچے کی طرف جا رہی اوپر کی جانب رواں ہونے کے کیا کوئی مجھے اس کے اسباب بتائے گا

وہ بیٹا وہ ایسا ہے کہ 

سارہ کے بابا اس سے پہلے اپنی صفائی میں کہتے اس نے ان کو خاموش  کر وا دیا

انکل میں یہ سب ان کے منہ سے سننا چاہوں گی

وہ ہو نٹ بینچ گئے دل تو تھا اس چھٹانک بھر کی چھوکری کو قتل کر دے جو ان کی راہ میں  رورے اٹکا رہی تھی لیکن ذیادہ دیر یہ سب نہیں  چلنے والا جس دن اس کی جائیداد اس کے نام ہو گئی اس کا آخری دن ہو گا 

انہوں نے ایک مکرو ہنسی لبوں پہ سجائی اور کہا کیوں نہیں  بیٹا ضرور پوچھے 

ہاں تو مینیجر صاحب آپ بتائے

میڈم ہمارے پاس پیسے کی کمی تھی بہت  اور معیار آئندہ بہتر ہوگا آپ کو کوئی شکایت نہیں  ہو گی۔انہوں نے فقط دو جملوں میں ساری بات لپیٹ دی اس نے گہرا سانس لیا اور پھر سب کو ان کا کام بتایا اور پہچھلے چند سالوں میں جو ہوا اس کی چیدہ چپدہ ڈٹیل اسے چاہیے 

اور جعفر صاحب آپ ٹینڈر بھر دیجیے گا جو کل فام آیا پریزنٹیشن میں خود دوں گئی کسی بھی قیمت میں  وہ ٹینڈر ہمیں چاہیے کسی قسم کا ایکسکیوز نہیں  چلے گا 

اس نے مختصر لفظوں  کا چناؤ کر کے۔اس نے موئثر انداز میں اپنا مدعا بیان کیا 

آدھے گھنٹے کی مختصر دوراہے میں  سب اس کے روعب اور دبدے میں  آگئے اور جی میڈم جی میڈم کرنے چلے

ماہی آفس سے جیسے نکلی شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے اور ہر طرف اندھیرے کا راج تھا سارہ کے با با کے خلاف ثبوت اکھٹے کر نے میں  لگی ہوئی  تھی

جس سے ان کے خلاف گھیرے کو مزید تنگ کیا جا سکے 

اس سے اچھا موقع پھر اسے نہیں  ملنا تھا وہ سارہ کے بابا صدیقی صاحب کے خلاف ثبوت اکھٹے کر ر نے ان کے کمرے میں موجود تھی کمرے کی ڈپلیکیٹ چابی وہ تیمور کے توسط سے پہلے ہی حاصل کر چکی تھی

اب اسے بس بابا کی پراپرٹی کے کاغذات چاہئے تھے جس سے ان کے خلاف کیس کر سکتی اس نے کافی سوچ بچار کے بعد تیمور کو سب بتا کے مدد مانگی 

اور وہ فٹ سے تیار ہو گیا مدد کرنے کو 

اس نے ٹیبل کے نیچے موجود دراز کھولی لیکن کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ھوئی اس کی مطلوبہ چیزیں اس کے خیال میں  سامنے کبڑ میں  تھی 

اس نے کبڑ کا دروازہ وا کیا اور ابھی وہ ایک فائل دیکھ رہی کہہ اسے کسی کے آنے کا شبہ ھوا وہ وہی فائل لے کے باہر نکلی اور لوک کیا روم 

وہ اپنے آفس میں  جیسے آئی 

مینیجر اور اس کی سیکٹری آپہنچے 

میڈم ٹائم اوور ہو گیا ہے ہم لوگ ہی رہ گئے ہے آفس میں  چلنا چاہیے 

جی جعفر آپ لوگ جائیں میں بھی آتی ہو اس نے ان کے جانے کے بعد یو ایس پی نکالی لیپ ٹاپ کو لوگ آوٹ کیا لیپ ٹاپ کو اسکے کور میں  ڈالا بیگ میں  فائل اور یو ایس بی رکھی موبائل ہاتھ میں  لیا سکارف ٹھیک ہی تھا شال کو ٹھیک کر کے کیا گیا بیک کو کندھوں  پہ ڈالا لیپ ٹاپ ہاتھ میں  پکڑے وہ باہر آئی ا

دیکھا سب نکل چلے ساری کمپنی سائیں سائیں کر رہی تھی صرف سکیورٹی گارڈ تھا وہ بھی اس کے جانے کا انتظار کر رہا تھا کب جائے اور وہ بھی گھر جائے 

کمپنی روڈ پہ نہیں  تھی وہ مین سڑک سے دس منٹ کے فاصلے پہ تھی

اسکو اپنی بے وقوفی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کے اس وقت اسکو اکیلے نہيں  نکلنا چاہئے تھا کے جبکہ گاڑی بھی اس کے پاس بہ تھی 

وہ مسلسل درودپاک کا ورد کر رہی تھی اسکو خوف محسوس  ہو رہا تھا

ابھی اس نے تھوڑی سی ہی مسافت طے کی تھی 

اسکو گڑ بڑ کا احساس ہونے لگا 

سڑک پر بندہ نہ بندے کی ذات نہ کوئی گاڑی 

اسکو یہ سب اور خوف زدہ کیے ہوئے تھا 

اس کو جتنی دعائیں یاد تھی اس نے سب پڑھ کے پھو نک لی

اچانک اسے اپنی پشت پہ کوئی چیز چبی اور خوف کے مارے اسکی آنکھیں بند ہو گی 

کا ۔۔۔کا۔۔۔کون ۔۔ہوتم؟؟؟

ماہی کی کانپتی آواز کی سرسراہٹ ہوئی

لیکن اس نے اس سے پہلے کچھ اور پوچھتی اور ہاتھ پاؤں چلاتی اس کی ناک پہ رومال رکھا 

اور اس کا بے جان وجود اسکی بانہوں میں  تھا اس نے احتیاط سے اٹھا یا گاڑی کی پچھلی نشست میں اسے ڈالا اور گاڑی ایک انجان سفر کی جانب رواں ہو گئی

_______________

قبول ہے۔۔۔ قبول ہے۔۔۔۔۔قبول ہے

اس کے نکاہ نامے پہ دستک کیے اور 

اسکی آنکھوں سے اشک رواں تھے (اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو بلکل غلط ہے )

ماہ رخ علی تو مزے سے بیڈ کے کراؤن سے سر ٹکائے بیٹھی تھی اور اپنی آنے والی زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے میں  مشغول  تھی 

نکاح تو کر کیا تم نے زبر دستی تم دیکھو تمھارا کیا ہوگا اب 

وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی 

اسی وقت دولہا صاحب تشریف لائیں اور اپنی دائیں آبرو کو اچکایا اور حیران کن انداز میں  اسے دیکھنے لگا 

وہ تو یہ سوچ کر اندر آیا تھا چیزیں پھیکنے اور اشک رواں دواں ہو گئے لیکن اسے ہنستے دیکھ کر جہاں حیران ہوا وہاں سکون بھی ہوا نہیں  تو اس شیرنی کا کوئی بھروسہ بھی نہیں  تھا 

کب بھوکے شیر کی طرح اس پہ لپکے اور اس کا کام تمام

وہ جو اس کو نگاہوں کے حصار میں لیے اسکے مطلق سوچ رہا تھا 

کے ایک گرجتی ہوئی آواز اس کی سماعت سے ٹکراہی 

اب کیا گدھوں کی طرح کھڑے دیکھ رہے ہو میرا پوسٹ مارٹم کر لیا ہو تو اب گھر چھوڑ  کے آؤں مجھے رات کے گیارہ بج رہے ہے امو پریشان ہو رہی ہو گئی

اب چلو اس نے تندھی لہجے میں  کہا

وہ اس کے بات کرنے کا انداز دیھ کر عش عش کر اٹھا

یعنی میں  گدھا اوکے میں  گدھا تو تم بھی گدھی ہوئی مسز 

مسٹر شاہ مراد عزت راس نہیں  آنی آپ کو یہ تو طے ہیں 

اور مسٹر تم گدھے تمھارے بچے گدھے

اور تمھارا سارا خاندان گدھا سمجھے 

اس کی ناک غصے کے باعث سرخ ہو رہی تھی اس کا  دل کیا اس کو چوم لے

لیکن سامنے کھڑی چڑیل اسے خود پہ کنڑول کرنے پہ مجبور  کر رہی تھی 

وہ اس کو سائیڈ پہ ہٹا کے بیڈ پہ آڑا ترچھا سو گیا 

مسز باپ اگر گدھا بچے بھی گدھے ہو گئے نہ اس نے زو معنی لہجا اختیار کیا

دیکھو اس وقت میرا گھر جانا بہت  فروری ہے تم  سمجھ نہیں  رہے میری ماں بہن مشکل میں ہے اس نے مصلحت پسندانہ لہجے میں بات کی

اس وقت دروازے پہ دستک ہوئی اور دوسرے ہی پل ساتھ ہی گیٹ وا ہو اور تیمور نے اندر آنے کی اجازت مانگی

اندر تم آ چکے ہو تیمی ماہی نے آرام سے کہا ماہی کی حالت دیکھ کر وہ بھی چونکا

اتنے سکون سے بات کر رہی چہرے پہ غصے تک کا شا ئبہ نہ تھا

تیمور مجھے گھر چھوڑ  کر آؤں تمھیں  تو پتا نہ سب وہ گھٹیا آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے

ماہی سب ٹھیک ہے انہیں میں  اپنے فلیٹ پر چھوڑ آیا ہو 

کھانے پینے کا سامان اور گھر سے اہم چیزیں زیور کاغزات سب کیوں کے آج انہوں  نے تمھارے گھر والوں کو مارنے کا تہیہ کیا ہو تھا 

شاہ پچھلے کچھ دنوں  سے اسی چکر میں  لگا ھوا تھا ہمارے خاص بندے نے ہمیں یہ سب بیتا یا آج تمھا را اغواء کر کے تمھیں موت کے    گاٹ اتار دیا۔جاتا اگر ہم بر وقت تمھیں نہ بجاتے تو 

ماہی اس کو جانچتی نگاہ سے دیکھ رہی تھی آیا یہ سچ ہےیا جھوٹ 

لیکن اس کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی نے اس مسلئے کی گھمبیر تا کے بارے میں  مطلع کر دیا تھا ساتھ اطمینان  بھی تھا اسکی ماں بہن سلامت  ہیں 

دیکھے ماہی نکاح اس لیے آپ کا کیا گیا اس سے آپ کا قیس مظبوط ہو گا ایسا کرنا بہت  ضروری تھا اگر خدا نا خواستہ آپ کبھی اس کے پھر ہاتھ لگی تو وہ آپ کا زبردستی نکاح کر دے گا 

آج آپ کا نکاح کسی اور سے وہ کر دتا بروقت آپ کو ہم محفوظ  نہ کرتے 

دیکھے ماہی میری کوئی بہن نہیں ہے آپ میری بہن  ہے اور میں  کوئی غلط فیصلہ نہیں  کروں گا جو کچھ ہوا آپ کو محفوظ کرنے کے لیے کیا گیا ہے 

اس مسئلے کے حل ہونے کے بعد جو آپ چاہے گئی ہمیں  منظور  ہوگا 

شاہ جو تیمور  کی بات خاموشی سے سن رہا تھا اس کے احتتام پہ اس کے ہونٹ بھینچ گئے

________________

امو سے بات ہونے کے بعد اسے کچھ سکون ہوا وہ خیریت سے ہے اور انکو سارہ کے بابا صدیقی صاحب کے گھناؤنی سازش کا بتایا تو وہ پریشان  ہو گئی پر شاہ نے انہیں  پیار سے بات کر کے یقین دلایا کے وہ اب محفوظ  ہاتھوں  میں  وہ اسکے لہجے میں  مٹھاس اور شیرینی تھی کے بندہ دل ہار جائے

لیکن  کوئی اور ہوتی تو تب بات تھی وہ بھی ماہی شاہ تھی 

کیسے مان لیتی اس کو تو دھوکے باز اور فریبی ہی لگتا تھا 

شاہ آنٹی سے بات ختم کر کے ماہی کی طرف متوجہ ہوا تو اسکو گہری سوچ میں پایا

اس نے اس کے قریب آکے چٹکی بجائی تو 

وہ چونکی اور سامنے نا پسندیدہ شخصیت کو پا کے اس کی زبان میں کرواہٹ گھل گئی

کیا تکلیف ہے کب تک سر پہ سوار رہنے کا ارادہ ہے گھر جاؤں اپنے اب جو تم کر چکے ہو اس کا بدلہ تو لے کے رہو گئی 

اور یہ پیپر میرج ہے صرف ذیادہ شوخے ہونے کی ضرورت نہیں 

مسز شاہ اس نے قریب آ کے اس کے منہ پہ آئے بال پیچھے کرنے کی کوشش کی تو ایک زور کی کک لگی 

آہ ربا وہ کراہیا 

کوئی اپنے مزاجی خدا کے ساتھ بھی ایسا کرتا ہے تمھارا تعلق  فرور القائدہ سے ہے تشدد پسند 

شاہ نے اس کو چڑایا 

کس نے کہا تھا ایسی واہیات حرکت کروں آج کک لگی ہے کل کلاں ہڈیاں نہ تڑوا لینا 

بلیک بیلٹ ہو یاد رکھنا مجھے دوسری لڑکیوں کی طرح کمزور نہ سمجھنا منہ کی کھانی پڑے گئی سمجھ آئی میرے سو کا لڈ ہبی

شاہ اسکو دیکھتا رہا با زوں سینے یہ باندھے ھوئے 

پھر ایک دم اچانک ہی اس کے دونوں  بازو پکڑ کر اپنے لب اسکے ماتھے پہ ثبت کر دیے

یہ اس قدر اچانک ہوا وہ کچھ کر نہ سکی

سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو گئی وہ اس کی جرات پر ششدر رہ گئی

وہ ہٹ کے پیچھے ہوا 

اور اس کی۔آنکھوں  میں آنکھیں  ڈال کر کہا مسز شاہ مجھے دوبارہ چیلنج نہ کرنا نہیں تو۔۔۔۔ 

اس کی کلائی زرا سی موڑ کر چھوڑ دی 

اف جنگلی کہی کے

اسی وقت احد اور تیمور  نے دروازے پہ دستک دی اور اندر آگئے

تیمور کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں  چار کپ چائے تھی 

اس نے سنٹرل ٹیبل میں  رکھی 

اسلام علیکُم بھابھی 

احد نے کہا 

وعلیکم اسلام بھائی آپ مجھے بہن کہے تو اچھا ہو گا 

شاہ کی اس عزت افزائی یہ دونوں کا کہکہ برخستہ تھا 

شاہ نے دونوں کو گھورا

تو دونوں نے ہنسی دبا لی 

ماہی دیکھے ابھی آپ کو منظر سے نہيں  ہٹنا آپ کو جیسے روز جاتی ہے ویسے ہی جانا ہو گا 

احد کو آپ ایز آ گارڈ آپ کو پرو ٹیکٹ کرے گا 

آپ اس کو اپنا سیکٹری اپائنٹ کرے گی 

اور آپ کے گھر والوں کے بارے میں  پوچھے تو آپ انہیں کہیے گا آپ کی چھوٹی سس کی دوست  کی شادی ہے وہ ایک ہفتے بعد آئے گی اور آپ اپنی فرینڈ کے گھر رہے گئی اتنے دن جب تک واپس نہیں آتی وہ دونوں 

جتنا بھی آپ کو اپنے ساتھ رکنے کو کہے آپ نے نہیں  رکنا اور کل جو پروجیکٹ ہے آپ کو ہی ملے گا وہ اسفند اینڈسڑیز احد کے بابا کی ہے ان سے میں بات کر لوں گا 

اس طرح کام کے بہانے آپ کی کمپنی میں  آتا جاتا رہوں  گا ان کے ارادے بھی جان جائے گے ہم 

آپ کے موبائل میں  چپ لگا دی جائے گئی جس سے ہم آپ کی لو کیشن بھی ٹریس کر سکے گئے یہ سب بہت رسکی ہے اسک تو لینا ہی پڑے گا

آپ لوگ اب آرام کرے میں  اور احد جا کے انکل سے بات کرے گئے اور اگلا لائحہ عمل آپ کے گوش گزارے گئے 

آج آپ شاہ کے ساتھ یہی رکے کل یہ آپ 

کو اپنے گھر لے جائے گا 

ہاں نکاح کو خفیہ ہی رکھیے گا 

اور کل جو آپ نے پریزنٹیشن دینی میں  شاہ کو میل کر فوں گا آپ دیکھ لیجیے گا گھبرانے کی ضرورت نہيں  آپ ہمیں  اپنے ساتھ کھڑا پائے گئی دونوں  نے اس کے سر پر ہا تھ رکھ کر اسے تسلی دی تو اس کی آنکھیں بھیگ گئی اگر اس کا کوئی بھائی ہوتا تو بلکل ان دونوں  جیسا ہوتا

_______________

چشم نم کی دھاروں سے وضو کر کے

میں نے پڑھا ہے اک شخص کو آیت کی طرح ❤

آج خان کو گئے ایک ماہ ہو گیا تھا اسکی کوئی خیر خبر نہ تھی 

حرم بہت پریشان تھی اور اس کے خیر خریت سے لوٹ کے آنے کے لیے دعا گو تھی 

اس نے جاتے ہوئے جو نمبر دیا تھا وہ بھی مسلسل بند جا رہا تھا 

آج صبح سے ہی ایک عجیب سی بے چینی گھیرا ڈالے ہوئے تھی

آسمان پہ بادل چھائے ہوئے تھے پورا آسمان بادلوں  سے اٹا ہوا تھا اور وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ بھی شروع  ہوا ہوا تھا 

اسکا دل اس کو کسی انہونی کا احساس دلا رہا تھا 

او پر سے ماما بابا بھی گھر نہیں تھے 

طرح طرح کے وسوسے اسے گھیرے ہوئے تھے 

اس نے دو بار فون بھی کیا انہیں  وہ بس ایک گھنٹے تک آنے والے تھے

اس کو یہ موسم کبھی بہت پیارا لگتا تھا

آج وہی اسے برا لگ رہا تھا 

شام کے گہرے سائے دن کی سفیدی کو نگل رہے تھے

آسمان پہ اپنا تسلط قا ئم کیے ہوئے تھے 

اسے وحشت ہو رہی اس اںدھیرے سے 

ایسے لگ رہا تھا یہ اندھیرا اس کی زندگی میں یوں ہی قائم رہے گا

بے سکونی تھی کے حد کے سوا تھی 

ایک پل کا قرار میسر نہیں  تھا 

وہ بو لائی بو لائی 

گھوم  رہی تھی پورے گھر میں 

گیٹ پہ لگی گھنٹی نے اس اپنے ہو نے کا احساس دلایا 

وہ دروازے کے جانب گئی 

جلدی سے کے ماما بابا آ گئے 

لیکن جب دروازہ کھولا تو 

سامنے ایک شخص یو نیفارم میں  کھڑا تھا فوجیوں  کے اس 

آپ حرم ہیں  سامنے والے نے پو چھا 

جی میں  حرم اور آپ 

میں  کچھ چیزیں آپکی خدمت میں  لایا تھا یہ کیپٹن خان نے آپ کو دینے کا کہا ہے

کیپٹن  کے نام پہ وہ چونک گئی

کیپٹن کہاں ہے خود کیوں نہیں آئے کب آئے گئے اس نے بے قراری سے پوچھا 

سامنے کھڑے لڑکے نے سر جھکا لیا 

حرم خو کچھ بہت کچھ غلط ہونے کا احساس بڑی شدت سے ہوا 

آپ کچھ بولتے کیوں نہیں ہے

لڑکے نے جھکا ہو سر اٹھایا 

ایک نظر اسے دیکھ کر پھر نظر جھکا لی 

کیپٹن خان ایک ماہ سے لا پتا ہے ہماری آخری اطلاعات کے مطابق وہ پکڑے گئے تھے اس کے بعد کا کچھ نہيں  پتا کیا پتا وہ۔۔۔۔۔

اس نے بات ادھوری چھوڑی اور حرم کو لگا کوئی بم اس کے سر پہ پھوڑ دیا گیا ہو وہ بے یقینی کی کیفیت میں ساکت کھڑی اسے دیکھ رہی تھی 

وہ ایک قدم پیچھے ہوئی گرنے ہی لگی تھی جب اس لڑکے نے اسے گرنے سے بچایا 

حرم نے اس سے اپنا ہاتھ چھڑوایا

وہ چونکا اور اس سے معزرت کر کے چیزیں دے کے چلا گیا 

حرم وہی بیٹھ کر رونے لگی اسکو اپنا ہوش بھی نہیں  تھا اسی وقت اس کے ماں باپ جیسے ہی دروازے کے پاس آئے دروازہ کھلا دیکھ کر چونک گئے

سامنے بیٹھی پاگلوں کی طرح حرم کو روتا دیکھ کر بھاگ کر اس پاس آئے

حرم حرم کیا ہوا ماما بھاگ کر اس کے پاس آئی

اس نے تو جیسے ہی ماما کو دیکھا ان کے ساتھ لگ کر بلک بلک کر رو دی

کیا ہوا میرا بچہ میری جان کچھ تو بتاوں 

ںابا وہ۔۔وہ۔ خان بابا مجھے وہ لا کر دے مجھے وہ چاہئیے ماما آپ کہے نہ بابا کو اس نے ماں کے چہرے کو پکڑ کر کہا اور بے ہوش ہو گئی

_________________

شاہ بال بنا رہا تھا جب ماہی کی آنکھ کھلی 

پہلے تو اس نے نا سمجھی سے اردگرد دیکھا 

اور یھر سامنے کھڑے بال بناتے شاہ کو دیکھا تو اس کو یاد آیا رات کو کیا کیا ہو چکا ہے

اس کی حیثیت بدل گئی

اس نے برے برے منہ کے بال سمیٹے ارد گرد نظریں دھوڑائی

اور سائیڈ ٹیبل پہ پڑے دوبٹے کو اٹھا کے شانوں پہ ڈوبٹہ ڈالا اور نیچے دیکھ کر جوتے ڈھونڈنے لگی

لیکن جوتے نادارد 

شاہ جو پچھلے پانچ منٹ سے اس کی کاروائی کا ملاحظہ کر رہا تھا 

اپنی ہنسی دبا گیا 

میرے جوتے پہن لوں مسسز آپ کی شاپنگ آج کرے گئے 

تب تک جو میسر ہے اس پہ گزارا کرے

شاہ ایسے بات کر  رہا تھا جیسے ان کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہو

مسٹر شاہ 

آپ اپنی چیزیں اپنے پاس رکھے ذیادہ میرے شوہر بننے کی ضروری نہیں یہ رشتہ بس ایک مجبوری کے تحت ہوا ہے ذیادہ اکڑنے کی ضرورت نہیں 

ماھی نے اس کی طبیعت صاف کی اور اس کی ہی چپل پہن کے واش روم میں  گھس گئی شاہ اش اش کر اٹھا

اس کو ہی سنا کے اور اس کی ہی چیزیں استعمال کی دل تو کیا اس کی ویڈیو بنا کے تیمور کو بتائے

جو کہتا تھا اس کی بہن بہت معصوم  ہے 

دیکھائے اسے اس کی معصومیت

پانچ منٹ بعد وہ واش روم سے نکلی تو شاہ نے اسے دیکھا پانی کے قطرے چہرے پہ آب وتاب کی طرح چمک رہے تھے

وہ بلکل ساکت اسے تک رہا تھا

ایسے کیا دیکھ رہے ہو نیچے کروں انکھیں ماہی نے کہا 

تمھاری آنکھیں ہیں کیا جو نیچے  کروں بڑی آئی 

شاہ نے کہا

دیکھو شاہ اس نے انگلی اٹھا کر وارن کیا 

دیکھ ہی تو رہا ہوں شاہ نے جملہ اچکا

ذیادہ فضول نہ بولو دانت ٹوڑ دوں گئ تمھارے 

اپنے دانتوں کی فکر کروں کہی ہاتھ میں  نہ آجائے 

شرم حیا تمھیں چھو کے بھی نہیں گزری پہلے دن کی دلہن اور گز بھر کی زبان تو ملا حظہ کروں 

شاہ نے ماہی کو لتاڑا 

کان کھول کے سن لوں میں منکوحہ ہو صرف تمھاری 

اور تم کر لوں شرم میری  جگہ 

روب کسی اور پہ جھاڑنا

اف اچھا سنو بعد میں  لڑ لینا 

کچھ بنا لاوں نہ بھوک لگ رہی ہے ٹائم دیکھوں نو ہو گئے ہے اس نے مصلحت اختیار کی 

لیکن آگئے بھی ماہی تھی

 دیکھو مجھے کچھ بنانے ونانے نہیں آتا باہر سے کے آوں ماہی نے کہا

اب تو شاہ نے صحیح کر کے 

اپنا ماتھا پیٹا 

تم کچھ بنانا سیکھ لوں دیکھو مجھے باہر کے کھانا کھانے کی عادت نہيں 

سن لوں میں نے پوری زندگی نہیں  تمھارے ساتھ رہنا یہ حکم کسی اور پہ چلانا

اور جاوں کچھ لے اوں کل سے کچھ نہیں  کھایا 

پر نہیں  تمھیں بحث کرنی آتی ہے بے حس آدمی تمھیں کیا پرواہ کوئی جیے مرے 

اب ذیادہ ایموشنل نا ہو جا رہا ہوں شاہ نے چابی اٹھائی اور باہر نکل آیا

______________

احد مجھے لگتا ہے کے ماہی کو ہمیں  اپنے گھر رکھنا چاہیے 

ماہی کا  شاہ کے گھر رہنا ٹھیک نہیں  ہے 

مجھے بھی تیموری یہی ٹھیک لگ رہا ہے بابا بھی  یہی کہہ رہے ہے 

تو پھر تھوڑی دیر میں  نکلتے ہے یہاں سے شاہ کو بھی بتا دینا کہی سوئے ہی نہ ہوئے ہو تیمور  نے کہا

اور میرے پاس ایک اور پلین بھی ہے پرا پرٹی ماہی کو دلوانے کا 

وہ کیا احد نے کہا 

تیمور  نے جب پلین اسے بتایا تو وہ چونکا اور خوش ہو کر بولا اس سے اچھا آئیڈیا نہیں  ہے بس شاہ آجائے تو اسے بتا تے ہیں 

ماہی کو نہیں  بتا نا نہیں  تو شاہ کو کچا چبا جائے گئی

احد نے کہا تو دونوں ہنسنے لگے

شاہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں  بریڈ انڈے اور دودھ تھا 

ماہی کو تو دیکھ کے ہی آگ لگ گئی 

تم ناشتا لینے گئے تھے تو یہ سب کیوں اٹھا لائے ہو 

ماہی نے غصے سے کہا

تو اور کیا لاوں مجھے نہیں سمجھ آئی کیا لاوں مینے آج تک  

خود کچھ نہيں لایا تیمور  اور احد ہی گروسری لاتے ہیں یہ میرے سرونٹ جو ہے وہ 

خیر اب تم آ گئی ہو خود لے آیا کرنا

بات کے آخر میں شاہ شوخا ہوا

زیادہ بکو نہیں  

سوچنا بھی نہ ایسا 

دروازے کب سے بج رہا ہے تمھیں ہوش ہے کھولو بس باتیں کر والوں 

ماہی دروازے تک جانے لگی تھی 

شاہ نے منع کر دیا اور خود دروازے تک گیا

دروازہ کھولا تو  احد کی امی اور تیمور کھڑا تھا 

شاہ نے احد کی امی کے آگئے سر جھکا دیا انہوں  نے شفقت سے اس کے شانے پہ ہاتھ پھیرا

کیسے ہو بچے 

میں  ٹھیک ہو آنٹی اور آپ کیسی ہے 

اللہ کا کر م ہے بیٹا 

اب یہی کھڑے رکھو گئے یا اندر بھی آنے دوں گئے

احد نے مسکرا کر کہا 

تو وہ سامنے سے ہٹ گیا 

سارے اندر آگئے 

کیسی ہو سسٹر احد نے پوچھا 

ہمیشہ کی طرح حسین تیمور  نے جواب دیا

تو بہن  کب سے بنی اوئے کہی تو ۔۔۔۔۔ 

احد نے بات ادھوری  چھوڑی 

تیمور  کی بات جب سمجھ آئی تو غصے سے گھورااحد آنٹی ساتھ ہے اس نے تنبیہہ کی اسے 

یہ ہے میری بہو احد امی نے ماہی کا ما تھا چوم کے کہا 

جی ممی یہی ہے آپکی بہو شاہ کی بیوی 

احد نے کہا ماشااللہ بہت پیاری ھے

شاہ جو مسکرا کر ماہی کو دیکھ رہا تھا 

اس کے پاوں پہ پاس کھڑے تیمور نے پاوں مارا 

شاہ نے گھور کر اسے دیکھا 

خبیث انسان کیا تکلیف ہے مارا کیوں  ہے 

تو میری بہن کو گھورنا بند کر  شرم نہیں  آ رہی بھائی کے سامنے اسے گھور رہا ہے

اوہ یاد آیا یہ لے بھا بھی ناشتا 

آپ لوگوں  نے ناشتا کر تو نہیں  لیا کہی احد نے کہا 

شکر ہے ناشتا لے آیا نہیں  تو آج بھوک  ہڑتال تھی 

ماہی نے شاہ کو گھورا اور کچن کی راہ ہو لی

حرم آج دو دن کے بعد ہوش میں  آئی تھی آنکھیں  کھلنے پہ سامنے کا جو منظر تھا کچھ اس طرح تھا

اس کے پاس ہی کرسی پہ ایک لڑکا نظر آیا جو سو رہا تھا اس نے ادھر ادھر نگاہ دھوڑائی تو کوئی ذی روح اسے نظر نہ آیا وہ 

سب کچھ بھولی ہوئی تھی کیا ہوا تھا اس کے ساتھ جو اس کی یہ حالت ہوئی

وہ بیڈ سے اتر رہی تھی اس کا پاوں لڑکھڑایا اس سے پہلے وہ گرتی اس لڑکے نے ایک دم اس کو گرنے سے بچالیا

حرم ایک دم ڈر کر پیچھے کو ہوئی 

میرے گھر والے کہا ہے اس نے لڑکے سے پوچھا

آپ کے امی ابو دو دن سے یہی تھے ابھی انہیں  تھوڑی دیر ریسٹ کرنے کے لیے گھر بیجھا ہے بیٹا 

جواب اس لڑکے کی جگہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتی ایک عورت نے دیا

حرم نے جب ان کو دیکھا تو وہ خان کی آنٹی تھی 

جو منگنی والے دن ان کے ساتھ تھی

اس پہ جیسے ہی آگاہی کے در واہ ہوئے 

اس کو سب یاد آیا 

اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئ

آنکھوں سے آنسو رواں تھے 

بیٹا کیا ہو کیوں رو رہی ہیں آپ 

وہ خاتون  حرم کو چپ کروانے لگی 

حرم اور سسک اٹھی اور اشک آنکھوں سے رواں تھے اور ان کے اس طرح چپ کروانے  یہ اس کے اشک جوق در جوک گرنے لگے 

اس کے رونے میں  شدت آگئی تھی

آنٹی اس کو سنبھالنے کی کوشش  کر رہی تھی لیکن وہ اپنے ہوش میں تھی ہی کب 

مسلسل مجھے خان کے پاس جانا کی رٹ لگائی ہوئی تھی وہ اسے دلاسے دے رہی تھی اور وہ چپ ہی نہ ہو بال سارے منہ پہ آئے ہوئے تھے

پھر اچانک خاموشی  چھا گئی 

آنٹی نے اس کے بال آس کے چہرے سے ہٹا کر اسے تھپتھپایا 

لیکن کوئی اسپانس نہ ملا 

لڑکا کمرے سے نکل کے ڈاکٹر کو بلا لایا

ڈاکٹر نے آ کے اسے سکون آور انجیکشن لگایا

اور انہیں  اس پرسکون  رکھنے کی تلقین  کی اور چلے گگئے

میم آپ رو کیوں  رہی ہے

بچے مجھ سے اس بچے کی حالت نہیں  دیکھی جا رہی 

خان کہا ہوگا میرا دل پھٹ جائے گا میں نے ہمیشہ  آپنی سگی اولاد سمجھا اور اس نے مجھے سگی ماں

وہ زندہ ہے بچے میرا دل کہتا ہے 

اس کو کچھ ہوا میں کیسے رہوگئی

مجھے خان بہت  یاد آتا ہے اس معصوم لڑکی کا کیا قصور  اس کے ساتھ کیوں  ہوا 

اس بچی کا رونا دیکھا نہیں  جا رہا کیا کروں  میں  مجھے سمجھ نہیں  آ رہی

میم کچھ نہیں  ہوگا میں اسے واپس لاوں گا اعتبار ہے نہ آپ کو مجھ پہ اپکا ایک بیٹا نہیں دوسرا تو ہے نہ اب نہ رویے گا 

سب ٹھیک ہو جائے گا بس دعا کیجیے گا 

لڑکے نے ان کے آنسو پونچھے 

اور ان کے ماتھے پہ بوسا دیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا

_______________

ماہی تیمور اور احد کی امی کے ساتھ احد کے گھر آئی جبکہ احد اور شاہ کسی کام سے گئے تھے ایک گھنٹے تک واپسی تھی 

ماہی صوفے پہ بیٹھے لونچ میں  پاوں اوپر کیے بڑے پرسکون  ماحول میں اےسی آن کیے گود 

میں رکھے ہوئے باول میں سے دانہ دانہ کر کے انگور منہ میں ڈالنے میں مشغول  تھی اور ساتھ ہی میوزک چینل آن کیے عاطف اسلم کے گانے پہ سر دھن رہی تھی

جیسے اسی گھر میں  پیدا ہوئی  ہو اور ابھی اس کو آئے بس پندرہ منٹ ہوئے تھے

اگر ماہی کو شاہ دیکھ اٹھتا تو اش اش کر اٹھتا 

ہادی جو ابھی مارکیٹ سے آیا تھا 

گانے کی آواز سن کر لاونچ میں  آیا اور وہ ماہی کو براجمان دیکھ کر

اس نے زور دار آواز میں  سلام کیا 

ماہی نے ڈر کر چیخ ماری جو باورچی خانے میں  کام کرتی احد کی ماما نے بھی سنی وہ دھوڑ کر لاونچ میں  آئی

کیا ہوا مارخ بیٹا ٹھیک ہو آپ

جی آنٹی ٹھیک ہو بس ہادی نے ڈرا دیا تھا ماہی نے کہا 

ماما یہ یہاں کیسے اور آپ کہاں صبح سے غائب ہیں 

ماما کی جان یہ میری دوست کی بیٹی ہے اس کی مام اپنے بھائیوں کے ساتھ گئی ہے

اور دو تین منتھ تک آئے گئے تب تک یہ ہمارے ساتھ رہے گئی

یاہو ماہی آپی یہاں ہو گی مزہ آئے گا

چلو بچے تم لوگ باتیں کروں  میں کھانا بنا لو اور ایسا کروں  کے تم ماہ رخ کو جو ہمارے بیڈروم  کے ساتھ کمرہ ہے وہاں لے جاوں چینچ کر لے فریش ہو جائے ہادی بہن  کا سامان بھی کے جاوں  کمرے میں تب تک میرے  کھانا بنا لوں 

شاہ اور تیمور  دونوں  ماہی کی امو سے ملنے گئے

گھنٹی بجا رہے تھے 

لیکن کوئی دروازہ  نہ کھولے شاہ پریشان ہو گیا کہی کچھ ہو نہ گیا ہو 

اوہ شٹ یار میں  بھول  گیا تھا 

تیمور  نے بالوں  میں  ہاتھ پھیر کر کہا 

شاہ جو آگئے ہی چڑچڑا ہوا تھا غصے سے بو لا 

بکو اب کیا بھول گئے ہو 

وہ غرغرایا

یار وہ میں نے ہی فاتی کو بولا 

تھا کے جب تک میں  فون نہ کروں  دروازہ نہ کھولے اس لیے وہ نہیں  کھول رہی تیمور نے دھیمی آواز میں  کہا 

تیری تو کمینے انسان دماغ کس کو دے کے آیا ہے تو مر جا تو 

کر فون  اسے 

آدھے گھنٹے  سے کھڑے گھنٹی بجا بجا کے اپنا گھنٹہ بج چکا اور تو 

شاہ کا غصہ قابو میں  ہی نہیں  آ رہا تھا دل تو کر رہا تھا اسے اٹھا کے زور کا زمین  پہ دے مارے پر ہائے رے افسوس  اسے 

اپنی اس خواہش  پہ قابو پانہ پڑا کیوں  کے دروازہ کھل چکا تھا 

اور تیمور  صاحب خوش اخلاقی بگھارنے میں  مگن تھے 

اس نے گہری سانس لے کے خود کو ہشاش بشاش کی

اسلام علیکُم اس نے سلام کیا تو 

فاتی نے شرمندہ آواز میں  

وعلیکم اسلام کہا

وہ تیمور  کے ساتھ باتوں  میں  لگی ہوئی تھی اسے یاد ہی نہیں رہا کوئی ساتھ بھی ہے

سوری بھائی  وہ ۔۔۔

کوئی بات نہیں  کیسی ہوآپ 

میں  ٹھیک ہو بھائی آپ کیسے ہے 

اپیا نہیں  آئی 

فاتی نے پوچھا

بیٹا وہ جلد آئے گئی

بس ابھی اس کا آپ لوگوں  سے دور رہنا ہی بہتر  ہے اسکی نگرانی کروائی جا رہی ہے ایسے میں ہم کوئی رسک نہیں  لے سکتے گڑیا شاہ نے کہا

باتیں کرتے کرتے وہ لوگ اندر کی جانب بڑھے

اسلام علیکم آنئی 

شاہ نے کہا وعلیکم اسلآم میرے  بچے جیتے رہو انہوں  نے باری باری دونوں  کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی بیٹھو بیٹا 

انہوں  نے دونوں  کو صوفے پہ بیٹھنے کو کہا 

اور فاتی کو اٹھنے کا اشارہ کیا کے کچھ لے آئے کھانے کو 

آنئی کیسی ہے آپ???

شاہ نے ہی بات کا آغآز کیا 

میں  ٹھیک ہو بیٹا مارخ کیسی ہے???

سب ٹھیک ہے نہ اسے کوئی خطرہ تو نہیں ???

انہوں نے تابڑ توڑ سوالات  کا سلسلہ جاری کیا تو شاہ ان کے ساتھ آکے صوفے پہ بیٹھ گیا

اور ان کے گرد بازوں  کا حصار کھینچا 

ماہی ںلکل ٹھیک ہے اسے کوئی خطرہ نہیں  ہے بلکل محفوظ  ہے 

تیمور  کے گھر ہے فل حال جب تک مسلہ حل نہیں  ہو جاتا اس کے بعد میں  آپ تینوں  کو گھر لے جاوں گا امی 

بات کے احتتام پہ جو الفاظ شاہ نے کہے 

اس سے تو ان کی آنکھوں  سے بہہ نکلے جسے بہت  نرمی سے شاہ نے صاف کیے 

اتنی دیر میں  فاتی شیک لے آئی تھی جسے شاہ نے بہت اسرار کر کے انہیں  پلایا

فاتی تیمور  اور آنٹی اب ان کا ٹارگٹ ماہی ہو گی وہ لوگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گئے بس دھمکیاں  دے گئے

آپ اور فاتی دیھان رکھنے آپ لوگ ان کی نظر میں  نہیں  آئیے گا نہیں  تو مسئلہ بن سکتا 

موبائل آن رکھیے گا کوئی بھی بات ہو آپ فون  کر دیجیے گا اور گھر کے بعد دو بندے ہر وقت ہو گئے یونیفارم  کے بغیر  ڈرنے کی کوئی بات نھیں  بیٹے پہ یقین رکھیے گا امی 

اور دروازہ جو بھی ہو نہیں  کھولنا جب تک میری  یا شاہ کی کال نہ آئے

تیمور نے کہا 

بیٹا تم دونوں  میرے لیے میری دعاؤں  کا پھل ہو دونوں  میں  بہت  شکر گزار ہو اپنے رب کی جس نے اس عمر میں  دو جوان بیٹے دے دیے

ماہی کی امی نے کہا 

آچھا آنٹی ہم چلتے ہے ہمیں  آفس بھی جانا ہے اور ساری صورتحال کا جائزہ لینا ہے اب ہم دونوں  نہيں  آئے گئے یہاں کیا پتا ہماری بھی نگرانی  ہو رہی ہو

تو میرا کزن ہادی آتا رہے گا خبر گیری کرنے اب چلتے ہیں 

اللّٰہ نگہبان 

اللہ حافظ بیٹا

____________

وہ دونوں  ماہی کی امی کے گھر کے بعد سیدھا احد کے گھر آئے جہاں کھانا لگ چکا تھا اور سارے بیٹھے  کھانا شروع  ہی کرنے والےتھے

اسلام علیکم دونوں  نے کورس میں اور بآوازِ بلند کہا 

ماہی جو پانی پی رہی تھی اس کے گلے میں پھندا لگ گیا اور اس کو 

زور کی کھانسی شروع  ہو گئی

آنکھوں  سے پانی نکلنے لگا احد کی امی جلدی سے اٹھی 

اور اس کی کمر پہ ہاتھ سے تھپکی دینے لگی کہ وہ ٹھیک ہو 

سب پریشان ہو گئے تھے 

ہادی نے ماہی کی یہ حالت دیکھی تو چڑ دھوڑا 

تم لوگ انسانوں  کی طرح نہیں بول سکتے کیا 

کیا ضرورت  تھی 

اتنا اونچا سلام کرنے کی کان کے پردے سلامت ہے میرے آرام سے بھی بول  سکتے تھے

پا۔۔ پپانی

ماہی نے کہا تو شاہ تڑپ کے آگئے بڑھا اور گلاس اس کے لبوں سے لگایا 

اس نے دو گھونٹ پیے گلاس کو لبوں  سے جدا کیا 

شاہ نے نیچے رکھا گلاس 

آر یو اوکے 

ماہی نے سر اثبات میں  ہلایا

بیٹا آپ نے ڈرا ہی دیا تھا 

پیار سے احد کی امی نے کہا 

اور اس کے سر پہ بھوسا دیا اور اپنی کرسی کی جانب بڑھ گئی

شاہ ماہی کے سامنے بیٹھا تھا جب کے دائیں  جانب آنٹی اور بائیں جانب تیمور تھا شاہ اور ہادی سامنے بیٹھ کے کھانا نوش فرما رہے تھے

شاہ نے اپنی ٹانگ لمبی کی ٹیبل کے نیچے جو ماہی کے پاوں  کو چھوئے 

پہلے تو برداشت  کرتی رہی 

پھر تنگ آ کے اس نے دونوں  ٹانگیں کرسی پہ رکھ لی 

وہ سب کھانا کھانے میں  ایسے مشغول  تھے

جیسے آج کے بعد کبھی کھانہ ملے گا ہی نھيں 

ماہی نے کھانا جلدی ختم کیا اور اٹھ کھڑی ہوئی 

آنٹی میں  کچھ دیر آرام کروں  گی دو بجے اٹھا دیجیے گا 

اس وقت دن کے 12 ہوئے تھے 

دو گھنٹے آفس جانا تھا 

اچھا بیٹے آپ جاوں 2بجے تک اٹھا دوں گی

شاہ اس کو گھور رہا تھا جب وہ آنٹی سے بات کرکے پلٹنے لگی تو اس نے ٹکا کے شاہ کو گھوری سے نوازا اسی وقت تیمور  نے بھی گردن گھما کے دیکھا تھا اک زبردست سی مسکراہٹ نے تیمور  کے چہرے کا احاطہ کیا وہ سر جھکا کے کھانے میں  لگ گیا 

شاہ بھی دو منٹ بعد اٹھ گیا اور ماہی کے پیچھے لپکا

______________

سارہ سارہ کہا ہو 

ممی روم میں  ہو گی آپی اور دوستوں  سے لمبی لمبی کالز کے سلسلے جاری ہو نگئے

عمر نے ٹی وی دیکھتے ہوئے بے زاری سے کہا

بری بات ہے یہ بہن ہے تمھاری ایسے نہیں  کہتے

اوہ ممی بس کرے بہن بہن کی رٹ کو 

i just say that mummy 

give respect take respect

this is the basic rule of   my life

وہ جب آپ کو با با کو کچھ نہيں گردانتی اپنے سامنے تو میں  کیوں  کروں  

ممی اور ایک بات انکو بس اپنی پڑی ہوتی ہے کسی کی نھيں  کیا 

ملتا ہے آپ کو پیار کے بدلے میں  مما آپی پھر بھی آپ سے بدتمیزی کرتی Why mummy

i can't understand  ?????

تم میرے خلاف بھڑکانا بند کروں  ممی کو سارہ نے چیخ کر کہا

لو آگئی آپکی بیٹی

آپیا بڑکا نہیں  رہا بس آپ کی خصوصیات بتا رہا ہوں

تم ہوتے کون ہو ہاں تم جلتے ہو ممی پاپا میرا تم سے زیادہ خیال رکھتے ہے مجھے ذیادہ پیار کرتے ہیں سارہ نے کہا

ہاں جلتا ہے میں نہیں میرا دل جلتا ہے جب آپ ممی سے بدتمیزی  کرتی ہیں آپ 

ہاں کرتے ہے آپ سے ذیادہ پیار یہ دونوں  آپ کیا دیوارڈ دے رہی ہے سبکا ہاں 

عمر نے بھی آج حساب بے باق کرنے کا سوچا 

تم یو ایڈیٹ تم اتنے بڑے ہو گئے ہو تم مجھے اتنا کچھ سناوں تمھاری یہ جرأت تم مجھ سے اس لھجے میں بات کروں دیکھا ممی آپ نے آپ کے سامنے مجھے کیا کہہ رہا اور آپ چپ ہے گریٹ ممی 

آپ کی تربیت کو سلام ہے

سارہ نے بدتمیزی  کی انتہا ہی کر دی 

خاموش  ہو جاوں سارہ یہ مت بھولو تمھاری تربیت  بھی میں  نے ہی کی ہے تم غور کروں اپنے ہی لہجے کو تم اپنی ماں سے بات کر رہی ہو اپنی کسی دوست سے ننہيں

میں اپنی حد میں  ہی ہو آپ بھی حد میں  رہے ماں ہے ماں ہی رہے 

بدتمیزی  سے کہتی ہوئی سارہ اپنے کمرے میں  چلی گئی 

عمر نے ماں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں  سے آنسو  رواں تھے کے کتنے دکھ جھیلے کتنی راتیں  وہ جاگی اس کے لیے اور آج وہ کیا کہہ رہی 

عمر ممی کے آنسو  صاف کرنے لگا تو انہوں  نے اس کے ہاتھ جھٹک دیے اور کمرے میں  آگئی

عمر کو افسوس  ہونے لگا اس نے یہ بات چھیڑی ہی کیوں  ممی کو ہرٹ کر دیا

ایک سال گررنے کو تھا لیکن خان کا کوئی اتا پتا نہ تھا

آخری اطلاعات کے مطابق

خان کو پکڑ لیا گیا تھا ہو سکتا ہے کہ۔۔

اس سے آگئے کسی میں  سوچنے کی ہمت نہ تھی 

حرم اس واقعے کے بعد بہت  خاموش  ہو گئی تھی 

پچھلے کچھ دنوں  سے بابا کی طبیعت بہت خراب تھی 

اسے سمجھ نہیں  آ رہی تھی کہ مصیبتوں  نے ان کے در کی راہ دیکھ لی ہے 

آئی سی یو سے باہر بیٹھے وہ بے آواز رو رہی تھی 

اسے سمجھ نہیں  آرہی تھی کرے رات کو بابا کی طبیعت  خراب ہو گئی تو اس نے خان کے دوست کیپٹن کو کال کی اور وہ اس کی مدد کے لیے پہنچ گیا تھا 

ابھی بھی وہ میڈسن لینے گیا تھا پچھلے ایک سال میں 

کیپٹن ہی ان کے سارے کام کرتا تھا

خود ایک اس کی ایسی کنڈیشن تھی نہيں کچھ کر پاتی 

اور بابا کی طبیعت آئے دن خراب رہتی 

امی بھی ان دونوں  کی فکر میں  گھل گھل کر آدھی رہ گئی تھی

 رات میں  خان کے انکل آنٹی بھی یہی تھے تھوڑی  دیر پہلے ہی اس نے امی کو بھی ان کے ساتھ ضد کر کے بھیجا 

ائی سی یو کا دروازہ  کھلا ڈاکٹر باہر نکلے اسی وقت کیپٹن 

بھی میڈیسن لے آیا 

ڈاکٹر صاحب ابو ٹھیک ہو جائے گئے نہ حرم نے بہت آس سے پوچھا 

ڈاکٹر نے ایک نظر دو نوں کو دیکھا اور انہیں  آپنے ساتھ اپنے کیبن میں  آنے کا کہا وہ دونوں  ان کے ساتھ روم میں  پہنچے تو ڈاکٹر نے اپنی نشست سنبھالنے کے ساتھ ان کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا

دیکھے بیٹے آپ کے والد کا ہارٹ بہت  کمزور  ہو چکا ہے 

پہلے ہی 25%کام کر رہا تھا پتا نہیں  کس چیز کی اتنی ٹینشن لی ہے کہ اب ہارٹ شرنک ہو چکا ہے ان کی کنڈیشن بہت کیٹیکل ہے اور رات سے جتنے ٹیسٹ ہم نے کیے ہےوہ سارے کے سارے نیگیٹو آئے ہے 

یہ سب سن کر حرم کی آنکھوں  سے آنسو رواں ہو گئے

بیٹا حوصلہ رکھے ابھی سے ہار جاوں گئی تو بابا کا کیا ہو گا آپکے آپکو مظبوط  رہنا ہے 

کیپٹن اس کے آنسو دیکھ کر اٹھا اور پانی لا کے اسکو دیا 

ڈاکٹر اگر ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرے تو 

ہو سکتا ہے پر بہت  اسکی ہے

100% out of 5%

اور ہارٹ میچ کرنا بھی بہت  مشکل ہے اور کروڑوں  کا خرچا ہے بیٹے 

انہوں نے کسی بھی لگی لپٹی کے بغیر سب کہہ دیا 

اب مجھے پیشنٹ  دیکھنے ہے 

حوصلہ  رکھیے آپ ایک الودعی مسکراہٹ کے ساتھ باہر نکل گئے

حرم پھوٹ پھوٹ  کے ہچکیاں لے لے کے روئے جائے کیپٹن کے ساتھ یہ پہلی دفعہ ہوا اسے صنف نازک کو چپ کروانے کا طریقہ نہ تھا 

حرم جب کافی دیر اپنے دل کی بھڑاس نکال کر چپ ہو ئی تو کیپٹن نے اسے پانی کا گلاس دیا جسے ایک ہی گھونٹ میں  پی گئی تھی 

حرم اور خان نکل کر باہر آئے دونوں  کا رخ آئی سی یو کی جانب تھا 

حرم نے چہرے کو صاف کیا اور اندر کی جانب بڑھ گئی 

لیکن پھر بابا کی کنڈیشن دیکھ کے اسکی آنکھوں  سے بھر آئی ان کو آکسیجن لگی ہوئی تھی

اور چہرے پہ تکلیف دے تاثرات تھے

انہوں  نے اشارے سے حرم اور کیپٹن  کو پاس بلایا اور آکسیجن ماسک اتارا 

بابا نہ۔۔۔۔حرم بولنے لگی تو انہوں  نے اشارے سے منع کر دیا 

حرم میں اور ذیادہ دن اب نہیں رہو گا تم لوگوں  کے درمیان بیٹا تم میری بیٹی سے شادی کر لو تا کے میں  سکون  سے مر سکوں 

کیپٹن نے بے اختیار حرم کی طرف دیکھا لیکن وہ شاک کی کیفیت میں  انہیں  دیکھ رہی تھی لیکن بابا اس سے پہلے کچھ کہتی بابا نے ان دونوں کے آگئے ہاتھ چھوڑ دیے میر۔ی۔۔۔آخری خوا۔۔ہش ہے انکار۔۔۔نہ کرنا 

انہوں  نے اٹک اٹک کر بات مکمل کی

کیپٹین ان کی حالت  دیکھ کے ان کو ہاں کر کے باہر نکل آیا اور 

سر کو فون کیا انہیں  ساری بات بتائی 

کچھ دیر بعد میم حرم اور سر نکاح خواں کے ساتھ آچکے تھے 

حرم کے سر پہ سرخ دوبٹہ اسکی امی نے دیا وہ شکوہ کناں نگاہوں  سے ان کی جانب دیکھ رہی تھی انہوں  نے نگاہیں چرالی 

مولوی  صاحب نکاح شروع  کرے

مزاحم علی شاہ ولدحشمت  شاہ آپکو حرم فاطمہ ولد نوروز زمان قبول  ہے 

ایک منٹ اس کا دل کیا بھاگ جائے لیکن جب اس کی نظر حرم کے والد پہ پڑی تو ان کے چہرے پہ تازگی دیکھ کے اس نے اپنا فیصلہ بدل دیا 

برجودار بولے

نکاح خواں نے کہا

وہ اپنے خیالوں سے واپس آیا اور سب کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے 

جی قبول ہے 

اس نے تین مرتبہ دہرایا

حرم فاطمہ ولد نوروز زمان آپکو بغور حق مہر پانچ لاکھ مزاحم علی شاہ ولد حشمت شاہ قبول  ہے 

جی قبول  ہے 

احجاب وقبول کے بعد سب نے دعا کی اور گلے ملے سر نے سب میں  چوہارے بانٹے 

_______________

آجکل یو نیورسٹی سے چھٹیوں کی وجہ سے سب فارغ تھے

آج بہت دنوں کے بعد ان کو سر نے کال کر کے بلایا تھا 

اور ارجنٹ آنے کا کہا تھا 

وہ سارے اس وقت حال میں  بیٹھے سر کا انتظار کر رہے تھے

اور ان کو جو جو کام ان کے سپرد کیے گئے تھے 

ان کی ڈیٹیل بھی ڈسکس کر نی تھی اور پھر کوئی اگلا پلین تشکیل دینا تھا 

پانچ منٹ کے بعد کانفرنس روم کا دروازہ کھلا اور سر تشریف لائے

جتنے بھی لوگ تھے کانفرنس روم میں  موجود سب کھڑے ہو گئے

سر نے سب کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا 

اسلام علیکم نو جوانوں 

آپ سب مجھے جو جو کام آپ کے سپرد کیے گے تھے ان کی ڈیٹیل دے

اس کام کو جلد ہی ہمیں  احتتام تک پہنچانا ہو گا ہمارے پاس وقت بہت کم ہے ہمیں  اس سب کے خلاف کوئی فائنل ڈیسین لینا ہو گا لیکن اس سے پہلے ہمیں  ان کے خلاف ثبوت  چاہیے  ہو گئے 

امید  ہے آپ میری بات سمجھ گئے ہو گئے 

مصطفی 

تم ہمیں  بتاو تمھیں  کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی تمھارے پاس ان کے خلاف کیا کیا ثبوت  ہیں 

سر : یو نیورسئی میں  موجود کمیپوٹر ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ غیر ملکی ہے انڈین ہے اور انہوں  نے پیسے دے کے یہاں کی نیشنلیٹی حاصل کی ہے را کا ایجنٹ ہے اور اس کا ساتھ عمر انڈسٹریز  کے مالک بھی شامل ہیں  

سر اسلحہ  ان ہی کے زریعے سوات شمالی وزیرستان  کے علاقوں  میں آتا ہے 

اور ان کے نیٹ ورک میں  پڑھے لکھے لوگوں  کی بہت بڑی جماعت شامل ہیں  

سر دو روسی لڑکیاں بھی اس گینک کا حصہ ہے 

سر لڑکیاں سمگلنگ کا کام کرتی ہے 

اور ان سب کی مدد قادیانی کر رہے ہے سر وہ پاکستان کو کمزور کر نا چاہتے ہیں  اور سر سب سے بڑی بات تو یہ ہے یہ کوئی عام لوگ نہیں  ہیں بلکہ سر یہ نیشنل اسمبلی میں  بھی ہے 

اور اثرورسوخ والے ہیں  

اور اسی وجہ سے کوئی ان کے خلاف کوئی بھی کاروائی  کر نہیں  پاتے 

سر میرے پاس ان کے خلاف ثبوت  تو بہت  ہیں لیکن سر انہیں  رنگے ہاتھوں  پکڑ نا بہتر  رہے گا نہيں  تو سر یہ اپنے اثرورسوخ کا استعمال  کر کے بچ جائے گئے 

میڈیا کو انوالو کیا جائے سر تو یہ بچ نہیں  سکے گئے

مصطفیٰ  نے بہت  ڈیٹیل سے ایک ایک بات بتائی 

ایجنٹ 4 

تمھاری طرف سے کیا خبر ہے 

سر سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ میں بھابی والا ہو گیا ہو اس نے شرارت سے کہا

سر چونکے کیا کہہ رہے ہو تم 

سر جو بھی کہا ہے ایک ایک لفظ سچ ہے 

سر نے مصطفیٰ کی جانب دیکھا 

میں کیا سن رہا ہو جوان 

سر یہ سچ ہے میں  آپ کو میٹنگ  کے بعد بتانے والا تھا پر اس نے بتا دیا 

اس نے سر جھکا لیا 

جوان کون ہے وہ پھر جس سے ہمیں  بتائے بغیر  نکاح کر لیا ہمیں  بلا لیتے مٹھائی  ہم بھی کھا لیتے 

سر نے مسکرا کے کہا 

سر ویسے آپ بھی شادی کر لیں اب 48 سال کوئی اتنی زیادہ نہیں  ہوتی 

نوجوان  تم خا موش رہو تم سے ہم بعد میں  نپٹتے ہیں  

ہاں ایجنٹ 4 تم بولو 

سر چمن بادڈد کے ساتھ کچھ خانہ بدوش  دیکھے گئے ہے انکو اریسٹ کر لیا گیا تھا 

اور اس کے بعد اسے اٹک جیل میں  بیجھ دیا گیا تھا 

سر تین دن پہلے مجھے 

و ہاں کے جیلر سے پتہ چلا ہے کے ان کی تفتیش  کی گئی جب اور اس کا ڈیٹا چیک کیا گیا دونوں انڈین نکلے اور ان کے دماغ کے اندر ایک جدید چپ کی نشاندہی  کی گئی ہے 

اور ان کے پاس جدید قسم کے وائرلیس  بھی برامد کیے گئے ہے ان کی شکل بلیوٹوتھ جیسی ہے 

اور وہ یہاں اٹک ریفائنری پہ حملہ کرنے آئے ہیں  باقی گینگ لا پتہ ہے اور سر مجھے لگ رہا ہے 

اس کے پیچھے بھی یہی لوگ ہیں مزیز جو معلومات  ملی آپ کو بتاتا رہوں گا

ایجنٹ 8اور 5آپ دونوں  کو جو اسائمنٹ دی اسکاکیا ہوا سر اس کی ڈیٹیل اس فائل میں  ہیں  

سر خو کچھ ایجنٹ 4 نے بتایا بلکل ٹھیک ہے اور سر مصطفیٰ نے جس لڑکی سے شادی کی ہیں  سر ان  کی مدر بہت  مدد کر سکتی ہے ہماری سر میں  چاہتا  ہوں آپ ان سے ملے اور سر ان کے شوہر آرمی میں  تھے اور ایک ایجنٹ بھی 

سر عمر انڈسٹریز

ان کے شو ہر کی تھی 

لیکن اس پہ قبضہ ہو چکا ہے 

سر جب اس کمپنی کی کنسڑکشن کا کام ہوا تھا وہ وہ بھی ساتھ تھی سر وہ ہمیں  اس کے کونے کونے کے بارے میں بتا سکتی ہے سر اور جہاں تک اسلحہ اور بلیک منی اور سر باقی جو لین دین ہوتی ہے وہ سب بھی وہی ہوتی ہیں 

سر مجھے لگتا ہے ہمیں  ریڈ مارنی چاہیے ایک بار لیکن اس کے لیے ہمیں  ان مادام سے ملنا ہوگا ایجنٹ8 نے  انہیں  ساری بات بتائی اور ایجنٹ 5 نے فائل آگئے بڑھائی جس میں  کافی ثبوت  تھے 

ایجنٹ 4 تمھاری پارٹنر نہیں آئی رپورٹ دیں 

سر میری پارٹنر ایک مشن پہ یہاں سے جانے کے بعد میں  بھی جاوں گا اگر دونوں  آ جاتے تو سر ہم ایک اہم ثبوت  اس قیس کے خلاف گنوا بیٹھتے 

ایجنٹ 4 نے محتصر اور مودب ہو کے جواب دیا 

 سر نے اپنے سر کو اثبات میں  ہلایا

اوکے تو آگئے کی پلیننگ سنو 

مصطفی تم کل جا کے اس آدمی سے ملوں  گئے جیل میں  جس کا ایجنٹ 4نے بتایا اور کسی بھی طرح اسکو لے کر فرار ہونا ہے جو کچھ ایجنٹ 4 نے کہا سچ نکلا تو دشمن جلد ہی اسے فرار کرنے یا مارنے کی کوشش کریں گئے 

یہ سب رات کے تیسرے پہر ہوگا 

میرا آدمی تم لوگوں  کو جیل کا نقشہ شام تک دیں دےگا اور اسسٹ کرو گئے مجھے تم سب مجھے

اور سنو کوئی غلطی نہیں  ہونی چا ہیے سرے میک اورر میں  ہو گئے لک بلکل الگ ہو سبکی

"over and all now go to back your work we will be meet tomorrow night 11pm best of luck " 

سر نے کہا

ok sir 

سب نے کہا اور سلوٹ کر کے باہر نکل گئے

_______________

ماہی جب اٹھی تو جی یہ کیا پانچ بج گئے تھے 

اس نے جوتا پہنا بال سمیٹے باہر آئی تو شاہ تیمی احد ارہان بیٹھے میز پہ کچھ کھولے بیٹھے تھے اسے اپنی طرف آتا دیکھ کے انہوں  نے فٹافٹ سب سمیٹھا

تیمی مجھے اٹھایا کیوں  نہیں  آفس جانا تھا پتا نہیں  کتنی امپورٹنٹ میٹنگ تھی 

ماہی نے شاہ کو غصے سے گھورتے ہوئے بولی 

شاہ بھی یو پوز کر رہا تھا جیسے وہ یہاں ہو ہی نہیں  

بہنا کول ڈاون میٹنگ کینسل ہو گئی تھی صبح نو بجے ہو گی 

اس لیے اٹھایا نہیں 

ہم بھی کھڑے ہے آپکی راہوں میں آپکی نگاہوں کے منتظر ارہان نے اس کے اسے نظر انداز کرنے پہ دہائی دی

اوہ آپ بھی اسی دنیا میں  پائے جاتے ہیں ماہی نے طنز کیا 

جی بلکل پائے جاتے ہیں میڈم کیوں  میں  مریخ سے نہیں  آیا نہ ہی کوئی پرا ہوں 

تم پرا نہیں  جن ہو 

کہاں تھے نمبر کیوں  اف تھا تم اور ثناء دونوں  بے وفا ہوں 

نمبر ایک کا بھی نہیں  ملتا 

ماہی نے کلاس لی 

وہ یارا اس کا مجھے نہیں  پتا 

وہ میرا موبائل چھین گیا تھا تو اس لیے سم بھی سات گئی تو پھر نکلوائی ہی  نہيں 

وہ دونوں  آپس میں  لگے ہوئے تھے جب شاہ بولا میں  بازار جا رہا ہوں تھوڑی دیر تک آجاوں گا وہ جانے لگا تو ماہی نے آواز دی

رکو مجھے بھی کچھ لینا ہے میں  بھی سات چلوں  گی

سب مسکرانے لگے احد تو باقاعدہ ہنسنے لگ گیا 

شاہ نے نظر انداز کیا سبکو 

اس حلیے میں?????  شاہ نے کہا 

کیوں کیا ہوا ہے میرے حلیے کو 

ماہی نے اپنی گھٹنوں  تک آتی شرٹ ساتھ اپنی پٹیالہ شلوار کو دیکھا ڈوبٹہ بھی لیا ہوا تھا 

پھر اس نے ایسا کیوں  کہا 

ماہی آپ ساتھ چادر لے لو اسکا نکاب کر لوں اور  گگلز بھی پہن لو میں  نہیں چاہتا کوئی ہمیں  دیکھے 

ماہی نے سر اثبات میں  ہلایا اور تیار ہو کے پانچ منٹ میں  آگئی 

بلیک شال میں اس کی رنگت اور چمک رہی تھی 

شاہ جو گاڑی کے پاس کھڑا تھا اسے آتے دیکھ کر ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا

ماہی نے یہ دیکھا تو اس کا پارہ ہائی ہونے لگا وہ بھی غصے سے دروازہ کھول  کے اندر بیٹھ گئی

دروازے کو زور سے دے مارا 

شاہ پھر بھی خاموش  رہا جیسے نہ بولنے کی قسم کھائی ہو 

ماہی کو کوفت ہونے لگی تنگ آ کے اس نے موبائل نکالا اور اس کو سپیکرز سے کنیکٹ کر کے اپنا پسندیدہ عابدہ پروین کا کلام لگا ددیا

یار   کو  ہم نے جا بجا دیکھا 

اور اس پہ سر دھنے لگی وہ مکمل طور پہ کلام میں  مگن نظر آئی شاہ نے ایک نظر اسے دیکھا تو دیکھتا رہا وہ سیٹ سے ٹیک لگائے لپسنگ کر رہی تھی

اس کا نکاب ایک جانب سے ڈھلک چکا تھا جسے اس کے ہونٹ کے کونے نظر رہا تھا 

اچانک اسے کیا ہوا اس نے ہاتھ بڑھا کے اس کی چادر کو اس کے منہ پہ کیا

ماہی نے بے اختیار آنکھیں  کھول کے اسے دیکھ

کیا کر رہے ہو اس نے گھبرا کے کہا 

شاہ نے موبائل سے پن نکال کے اسے پکڑایا

تمھیں  مینے کیا کہا تھا چہرے کو اچھی طرح کور کرنا تمھیں  کو ئی ہوش تھا تمھیں  پتا بھی ہے تمھاری جان کو خطرہ ہے پھر بھی اتنی لا پرواہی بچی نہیں  ہو تم تمھیں  سب بتانا پڑے 

شاہ اس پہ بری طرح برس اٹھا وہ ہکا بکا رہ گئی اس کے اس روپ پہ سہم سی گئی 

اس نے اسکی جانب دیکھا جہاں تفکرات  کی گہری لکیر چھائی ہوئی تھی 

اس نے موبائل اٹھایا کسی کو میسج بھیجا پانچ منٹ بعد وہ ایک مشہور  مال میں آچکے تھے جہاں ہر وقت ہی رش ہوتا تھا 

شاہ نے گاڑی پارکنگ کی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے مال میں لے گیا اور ایک شاپ میں  گھس گیا اور وہاں سے ایک ڈریس اسکو پکڑایا اور چینج کر نے کو کہا تھوڑی  دیر بعد نکلی تو وہ ڈوبٹہ لیے ہوئے تھی 

شاہ نے پہ منٹ کی اور دونوں  نکل آئے ایک شاپ پہ جا کے شاہ نے  اس کے لیے سندھی چادر لی  اس نے وہ اوڑ لی اور شاہ نے بھی اپنا حلیہ بدل لیا کہی سے بھی دونوں  وہ ماہی شاہ نہیں  لگ رہے تھے کے کو ئی انہیں  پہچان پاتا

____________

بیٹا تم حرم کو گھر لے جاوں ہم آج یہی رہے گئے

سر نے کیپٹن سے کہا

نہيں  نہیں  انکل میں بابا کے پاس رہو گی حرم نے سنا تو بولی

نہیں بیٹے ابھی آپ لوگ گھر جاوں 

میں آپکی آنٹی اور ممی یہی ہیں 

صبح آ جا ئیے گا آپ کو ابھی بھر پور نیند کی ضرورت  ہے صبح فریش ہو کے آئیے گا تو رہ لیجیے گا 

حرم نے ماما کی طرف دیکھا تو انہوں نے بھی سر اثبات میں  ہلا کہ جانے کی اجازت دی

اسے ناچار اٹھنا پڑا 

وہ حب دونوں  سب سے مل کے باہر آئے تو دونوں نے مڑ کر اک نظر ہسپتال کو دیکھا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئے انہیں نہیں پتا تھا ان کی زندگی میں  ایک اور حادثہ لکھا ہیں 

جیسے ہی وہ لوگ گھر پہنچے تو کچھ دیر بعد کال آئی کیپٹن کو ہسپتال میں بلاسٹ جس میں کوئی زندہ نہیں  بچا تھا حرم کو اس نے کچھ نھیں  بتایا لیکن جب وہاں پہنچے تو حرم وہی زمین پہ بیٹھتی چلی گئی ساکت سی کیپٹن کی آنکھیں خون رنگ ہو چکی تھی

آنسوؤں روکنے کے چکر میں  کچھ موتی پھر بھی اپنی چھب دکھلا گئے ہر طرف دل دہلا دینے والے مناظر تھے 

آہوں سسکیوں لوگ اپنے پیاروں کو نہ پا کے پاگل پھر رہے تھے

ہر طرف خون ہی خون تھا

ہر طرف افراتفری تھی 

حرم جو سکتے میں بیٹھی تھی

اک دم پاگلوں کی طرح اٹھی اور ماما بابا چلاتے ہوئے 

ہوئے آگئے بڑھی اس کو ہوش نہیں  تھا اس کا ڈوبٹا کہا ہے بس اس کو ماما بابا چاہیے 

تھے کیپٹن نے اس کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اس کو اپنے بازوں  کے حصار میں  لیے لیکن وہ مچھلی کی طرف تڑپتی اسکے حصار سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی ماما بابا ماما بابا وہ چلا رہی تھی تڑپ رہی تھی

کیپٹن نے اس کے اوپر اپنے بازوؤں کی گرفت اور سخت کر دی کچھ لمحے ایسے ہی گزرے پھر اس نے زمین پر گری ہوئی چادر اٹھا کے اس کے سر پہ کی پھر اس کو بازوکے گھیرے میں  لیے وہ ایک انسپکٹر کے پاس پہنچا اور اسے اپنا کارڈ دکھایا تو اس نے اندر جانے سے نہیں روکا

سر آپ جا سکتے ہیں  اس ملبے کے پاس لیکن سر میم کو نہیں  اجازت دے سکتے جو وہاں حالت ہیں سر یہ برداشت نہیں کر سکیں گی

اسکی حالت دیکھ کر خان نے اس کو گاڑی میں بٹھا کر 

شیشے چڑھا کر گاڑی کو لاک کر دیا باہر نہ نکل سک

ےہر طرف آہ وبقا چیخوپکار تھی

میڈیا رینجرز کی بہت بڑی تعداد  پہنچ چکی تھی ریسکیو ٹیمیں لوگوں کو ریسکیو کر رہے تھے

آس پاس کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ چکے تھے سڑک پہ رواں دواں گاڑیاں جو دھماکے کی زد میں آئی تھی ان میں  موجود  زخمیوں کو ریسکیو کر رہے تھے 

کیپٹن کا دل کرے یہی دھاڑے مار مار کر رونا شروع  کر دے 

خود پہ ضبط کرتا آگئے بڑھ رہا تھا لیکن یہاں سوائے ملبے کے کچھ نہیں  تھا وہ رینجرز کے ساتھ وہ بھی ملبہ ہٹانے لگا جب اسے سر کی گھڑی ملی اور اس کا شک یقین میں  بدل گیا 

اس کی آنکھوں  سے آنسو نکل گئے

آج وہ دوسری بار رویا تھا آپنی زندگی میں  پہلی بار تب رویا تھا جب وہ بارہ    سال    کا تھا اور اسکی ماں مر گئی تھی باپ نے دو شادیاں کر رکھی تھی 

دوسری بیوی کے بھی دو بیٹے تھے اسی کے ہم عمر تھے اور

 ایک بیٹی تھی جو تینوں سے چھوٹی تھی

بھائیوں کا آپس میں  بہت  پیار تھا 

امی کے فوت ہونے کے بعد جب اس پہ آگاہی کے در واہ ہوئے تو اسے پتا چلا اس کے پاس ایک ہی  مخلص رشتہ تھا جو گنوا چکا ہے 

پھر جب وہ آرمی میں  گیا تو سر خان اور انکی وائف اسکی فیملی تھی خان اور وہ بھائیوں جیسے تھے خان کے لاپتہ ہونے پہ وہ بلکل بکھر چکا تھا اور آج اسے لگ رہا تھا سب کچھ کھو چکا ہے اس کی حالت گھڑی کو دیکھ کر پاگلوں  والی تھی

وہ بھول ہی چکا تھا کے کسی اور نے بھی تو اپنا سب کچھ کھویا ہے کوئی اب اس سے جڑ چکا ہے اکیلا نہیں  رہا 

اس وقت وہ ایک لٹا ہوا مسافر لگ رہا تھا

________________

ماہی کا روپ بلکل بدل چکا تھا لیکن پھر بھی رسک نہیں  لینا چاہتا تھا 

وہ مال سے نکلنے کا سوچ رہا تھاتو سامنے سے وہی آدمی اسے آتا ہوا نظر آیا اس نے ایک دم ماہی کا بازو پکڑ کر اسکو ایک کونے کی جانب کھینچا اور اس کو اپنے ساتھ بلکل لگا لیا ماہی کچھ بولنے ہی لگی تھی اس کی اس بدتمیزی پہ تو اس نے اپنی انگلی اسکے لبوں پہ رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا

اس کی بڑی بڑی آنکھیں حیرت کے مارے کھلی ہوئی تھی وہ اس منظر میں  کھویا ہوا تھا کے 

اس کا موبائل وائبریٹ کر نے لگا اس نے اس کے لبوں سے احتیاط سے انگلی اٹھائی اور اسے کو بازو کے گھیرے میں  لیے ہوئے ہی کال اٹینڈ کی اب وہ آدمی وہاں نہیں  تھا آگئے جاتا ہوا دکھائی دیا 

کال اٹینڈ کی تو تیمور نے اسے کچھ کہا اور اس نے اوکے کہہ کر کال کاٹ دی 

ماہی تم یہی رکو میں بس دومنٹ میں  آیا 

اس نے ماہی کے گال کو تھپتھپا کر نکل گیا

ماہی جو ان لمحوں  کی گرفت میں  تھی اس کے جاتے ہی باہر نکلی کیا ضرورت تھی اتنا کنفیوز ہونے کی اس نے خود کو سر زنش کی 

اپنی ہی سوچوں  کے درمیان اسے پتا ہی نہیں  چلا کب وہ اس آدمی کے قریب آ گئی

جو دوسری طرف منہ کیے کال سن رہا تھا 

وہ مڑا ہی تھا کے شاہ کہی سے آیا ایک دم اس کو اپنے سینے سے لگا لیا جس سے ماہی پوری کی پوری چھپ گئی تھی 

اس نے یہ منظر دیکھا لیکن پھر اس آدمی کو کچھ نظر آیا اس کے پیچھے لپکا 

ماہی جو کب سے اس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی نکل نہیں  پا رہی تھی شاہ نے اسے خود سے الگ کیا 

کیا بدتمیزی  تھی یہ اپنا چپک کیوں رہے ہو دور رہو یہ پبلک پلیس ہے کوئی تمھارا بیڈروم نہیں  جو اس طرح کی بدتمیزیاں کر رہے ہو ماہی نے آواز آئستہ رکھتے ہوئے اسے غصہ کر رہی تھی اس کی گلابی رنگت اب سرخ ہو رہی تھی 

مادام مجھے کوئی شوق نہیں  چپکنے کا تمھیں  جب کہا تھا کہ وہاں سے ہلنا نہیں  تو کیوں  یہاں آئی ہو تمھارے پاس دماغ نامی چیز ہے یہاں تم سیو نہیں  ہو تمھیں پتا نہیں  چل رہا 

تمھاری مثال ایسی ہے کہ آبیل مجھے مار 

اور تمھارا مطلب بیڈروم  میں جو مرضی کر سکتا ہوں غصہ کرتے ہوئے آخر میں  شوخ ہو گیا 

ماہی نے غصے سے گھورا تو مسکراہٹ دانتوں    تلے دبا گیا 

چلے مادام اب شاپنگ کر لے شاہ نے  کہا 

ماہی نے بھی سر اثبات میں  ہلایا 

اچانک ماہی بولی شاپر کہا ہے کپڑوں والا 

چھوڑوں  کپڑوں کو اور جیسے زبان چلتی ہے اس سے زیادہ ہاتھ اور دماغ چلانا آدھا گھنٹہ ہے پاس تمھارے 

_______________

زرلش میں  بہت  بور ہو رہی ہو یار میرال نے کہا 

میں تمھیں  جوکر لگتی ہو میرال زری نے کہا 

خیر اب ایسا بھی نہيں کہا میں نے تمھارا بھائی کب آئے گا چھٹیاں ہو چکی ہے پھر بھی نہیں  آیا نظر رکھنا کہی ساتھ کوئی دم چھلا نہ لے آئے 

میرال آپیا بھائی کے بارے میں فکر نہ کرے آپ اپنے بھائی پہ دیہان رکھے جو آجکل کا فی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث لگ رہے ہیں راتوں کو غائب رہنا اچھی بات نہیں  کہی وہ ہی نہ آپ کی امیدوں پہ پورا نہ اتر آئے میرال نے اس کو کچا چبانے والی نظروں سے گھورا 

اس کی زبان جو ایک منٹ کے لیے رکی پھر فراٹے بھرنے لگی 

میرا مطلب تھا کہی وہ ہی نہ کوئی دم چھلا لگا کے ساتھ لے آئے بھیا کے بارے میں سوچنے سے اچھا ہے آپ زرا طغرل بھائی پہ دیھان دے 

زائیشہ نے کہا

زری اپنی ہنسی کنٹرول کرنے لگی ہوئی تھی 

تم سن لوں کان کھول لوں میں  نہیں  کسی کی اپیا ہو اتنی بچی بھی نہیں  ہو تم میرال  ہی کہوں مجھے 

وہ دراصل نہ اپیا آپ مجھ سے تین سال بڑی ہیں اور مجھے یہ سکھایا گیا ہے کہہ اگر کوئی ایک دن بھی بڑا ہو تو اسکی عزت کرنی چاہیے بے شک دا جی سے پوچھ لیں بلاوں دا جی کو 

اس نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کے کہا تو میرال جھٹکے سے اٹھی اور باہر نکل گئی 

زاشی بری بات مہمان ہے وہ ہمادی زری نے ہنستے ہوئےکہا 

زری اس نے دوبارہ بھیا کے بارے میں  کچھ کہا تو اس سے بھی برا ہوگا سمجھا دینا

اوہ ہاں یاد آیا بھیا کو کال کرنی تھی داجی نے کہا ہے تم رکو میں آئی

______________

کمرے کے وسط میں صوفے پہ بیٹھا آدمی سگا سلگائے ہوئے ٹانگ پہ ٹانگ جمائے بیٹھا تھا 

اس کی عمر لگ بھگ 55 سال لگ رہا تھا 

دیکھنے میں وہ ایک سفید رنگت آدمی میں  صحت مند تھا 

لیکن اس کے چہرے پہ چھائی مکروہ ہنسی اس وقت اس کی خباثت کا پتا دے رہی تھی 

کچھ سوچ کر وہ صوفے سے اٹھا اور الماری کھول کر جدید قسم کا وائرلیس نکالا اور فریکوئنسی ایڈجسٹ کی 

تھوڑی دیر بعد ایک آواز برآمد ہوئی 

شیر شکار کے لیے تیار ہے

اسے کہو چوہا بل میں ہے

دونوں  طرف سے کوڈ کے تبادلے کے  بعد 

ہاں ٹونی بولو کیا خبر ہے

سر رات کو ہم نے حملہ کر دے گئے کام ہو جائے گا اور وہ بندہ کوئی بیان نہیں  دے پائے گا چیف 

ٹونی سنو کوئی بھی غلطی نہیں ہونی چاہیے آئی آیس آئی اس کام میں  پڑ چکی ہے کل انکا اجلاس بھی تھا 

اور ہو سکتا وہ اس کو کہی اور لے جائے اس لیے تمھیں ان کے ایکشن سے پہلے اسے مارنا 

ہوگا  اس سب کے لیے تمھیں میرے بیٹے سے رابتا کرنا ہوگا وہ تمھیں آئی ایس آئی کے سب ایجنٹس کی تصاویر بیجھ دے گا 

ان سب کی نگرانی تمہیں کرنی ہو گئی اطلاعات کے مطابق 

وہ سب جان چکے ہیں اور اب جب تک وہ مارے نہ گئے تو تب تک چین سے بیٹھے گئے

ان کو شاید آج سے 22 سال پہلے جو ہوا بھول چکا ہے جو پھر میرے پیچھے 

اس نے خباثت سے بھرپور کہکہ لگایا

دوسری طرف مکروہ ہنسی گونجی سر آپ فکر نہ کرے ٹونی کے ہا تھوں کوئی نہیں  بچ سکتا 

اتنے اوور کونفیڈنس نہ ہو وہ پاک آرمی کے جوان ہے انہیں  زرا سی بھی بنکھ پڑی تو جان سے جاوں گئے اب جو کہا ہے کرو 

جی چیف اوور 

اوور اینڈ آل

ماہی شاہ کو احد کے گھر چھوڑ  کر خود سپورٹ بائیک لے کر نکل گیا اس نے ٹرانسمیٹر کو بلیوٹوتھ کے سات کنیکٹ کیا اور ہیلمٹ کو سر پہ چڑھا کے نکل گیا 

وہ بائیک کو اڑاتے ہوئے تیمور  کی بتائی ہوئی جگہ پہ پہنچا لیکن وہاں اس آدمی کے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے جن میں  ایک لڑکی اور باقی دو لڑکے تھے

اس ٹائم سب ان کی حراست میں  تھے اور سب کے سب بندھے ہوئے تھے 

اس کے اپنے بندوں  نے ماسک چڑھائے ہوئے تھے تیمور  اور آس کے ساتھ موجود  لڑکی دونوں  نے میک اوود کیا ہوا تھا اس لیے اگر دونوں  ماسک میک اوور والا اتار دے تو کوئی نہ پہچان سکے

ہوا کچھ یوں تھا کہ شاہ کو جیسے ہی احساس ہوا اس کا پیچھا کیا جا رہا ہے اس نے تیمور  کو میسج کر دیا اور گاڑی سے نکلتے ہوئے وہ ماسک نکال لایا تھا اس کو لگانے سے پتہ ہی نہیں  چلتا تھا کہ یہ ماسک ہے یا اوورجنل سکن ہے 

پھر مال میں انہوں  نے اور کپڑے لیے اور جو پہنے ہوئے تھے ان کو ایک شاپر میں  ڈال کے شاہ نے ہاتھ میں  پکڑ لیا

شاہ نے وہ شاپر تیمور  کو دیا 

وہاں تیمور اور انکی ایک ایجنٹ تھی دونوں  نے وہ کپڑے پہنے اور ماہی شاہ بن کے جان کے اس آدمی کے سامنے سے گزرے جو انہیں ٹریک کرنے کی کوشش کر رہا تھا حالانکہ یہ غلط تھا وہ خود ہی خود کو ٹریک کر روا رہی تھے

اور پھر اپجنٹ 4 8 نے انکا پیچھا کیا اور اب وہ پکڑے جا چکے تھے

انہوں  نے کچھ بتایا شاہ نے تیمور  سے پو چھا 

شا ۔۔۔

ایجنٹ 5   مصطفی  ہو میں  اس نے تیمور  کو ڈپٹا

کچھ نہیں بتا رہا بہت  ڈھیٹ ہے

اس کا تو باپ بھی بتائے گا 

اس نے پاس پڑی کرسی کو اٹھایا اور لڑکی کے سامنے بیٹھ گیا اور چاقو نکال کر ایجنٹ ایس کو پکڑا دیا

جس سوال کا جواب اس نے نہ دیا یا غلط دیا تم اس کے ہاتھ کی انگلیاں کاٹتی جانا

شاہ نے سرد آواز میں ایجنٹ ایس کو کہا 

یس سر 

سامنے بیٹھی لڑکی کے اس کے اس سرد لہجے پر اوسان خطا ہونے لگے 

ہاں بولوں تمھارا نام کیا ہے

ٹینا 

ہاں تو ٹینا تم کرتی کیا ہو 

سر میں  ایک ڈیٹیکٹو ہو اور یہ میرے  بندے ہمیں  آپکے خلاف ہائر کیا گیا تھا ہمیں آپکی جبریں اور آپ کی ہر ایک کاروائی پہ نظر رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے

سنو لڑکی اس میں  سے کچھ بھی جھوٹ  نکلا تو تمھاری گردن مروڑ دو گا 

یاد رکھنا 

سر میں  سچ کہہ رہی ہو میرے آفس سے پوچھ لے اور یہ میرے بندےہے یہ کچھ نہیں  جانتے ہیں 

اچھا پھر ایک ڈیل کرتے ہیں  اس طرح تمھاری جان بھی بچ جائے گئی اور ہمارا کام بھی ہو جآئے گا کیا خیال ہیں 

شاہ نے ٹینا سے کہا 

کیسی ڈیل ٹینا نے اچھنبے سے پوچھا 

شاہ نے اپنی پرسوچ نگاہیں اس پہ ٹکا دی اور تھوڑا سا آگئے ہوادیکھو بات بلکل سیدھی ہےکچھ دو اور کچھ لوں کی دنیا ہے اگر تم تینوں کو موت نہیں  زندگی چاہیے تو جو خبریں تم ان لوگوں  کو دیتی تھی اور جو ہم پہ۔نظر رکھو گی اور ان کی سرگرمیوں یہ نظر رکھو گی تو ہی آزادی کا پروانہ ملے گا سوچ لوں 

میں  تیار ہو اسے چند ثانیے کے بعد کہا 

______________

داجی بھائی کو کہے نہ اب واپس آجائے 

زاویار داجی کے گھٹنے سے لگا کہہ رہا تھا 

یہ کیا ںبیویوں کی طرح میرے گھٹنے سے لگ کے بیٹھا ہے چل جلدی جا آپنی ماں کو ناشتا دے

بوڑھا ہو گیا ہو اس لیے کوئی پوچھتا نہيں ہے داجی نے غصے سے منہ بناتے ہوئے کہا

زاویار پہلے تو غور سے انکا جائزہ لیتا رہا لیکن جب پھر بھی بات کا سراغ نہ ملا تو دا جی سے پوچھ بیٹھا 

داجی ہوا کیا ہے سب ٹھیک ہے نہ کچھ ہوا تو نہیں ہے ؟؟؟؟؟

اچھا تو تم چاہتے ہو مجھے کچھ ہو جائے واہ واہ یہ دن بھی آنے تھے

بوجھ ہو گیا ہے اب دادا پہلے غصے سے کہتے کہتے آخر میں دھیمے ہو گئے 

داجی کیا ہوا ہے آپ ہم پہ بوجھ کبھی نہیں  ہو سکتے سب آپ سے بہت  پیار کرتے ہیں آپکی بہت  ضرورت ہے سبکو ابھی 

اب بات کیا ہوئی ہے وہ بتائے زاویار نے داجی کو دونوں  بازوؤں سے تھام کے پیار سے کہا 

کل تمھاری پھوپھو آ رہی ہے 

داجی نے کہا 

زاویار نے انکو اچھنبے سے دیکھا 

داجی آپ کو تو اس خبر پہ خوش ہونا چاہیے آپکی بیٹی آرہی ہے پھر آپ کے چہرے پہ یہ اداسی کا پہرا کیوں  ہے 

وہ چاہتی ہے کہ میں  شاہ کارشتہ میرال اور زرلش کا طغرل سے کر دوں 

لیکن وہ دونوں  مغربی تہذیب کے دلدادہ ہے کیسے میں یہ کروں 

شاہ میرال کو کبھی نہیں  اپنائے گا اور زرلش کے لیے ہم نے پہلے ہی کچھ سوچ رکھا ہے 

میرے منع کرنے کے باوجود وہ آرہی ہے اور اس نے مشارق سے بات بھی کی اب پر یشرائز کر کے بات منوائے گئی بے شک وہ میری بیٹی لیکن اس کے با وجود  میں  نہیں  چاہتا یہ سب ہو 

داجی نے اسے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی تو تھوڑی دیر وہ بھی سناٹے میں آگیا 

تھوڑی دیر بعد جب وہ اس شاک سے نکلا تو بے اختیار بولے 

اب کیا ہو گا 

سب ٹھیک ہی ہو گا بھاگ جا اب شرم کر کب تک بو ڑھے داجی کا 

دماغ کھاؤں گئے اب ناشتہ لے آوں لیکن نہ کوئی میری  سنتا ہی کب ہے 

اچھا اچھا لا رہا ہو داجی اب اتنا 

ایموشنل بھی نہ کریں گلیسرین بھی ختم ہو گئی ہے نہیں  تو میں  وہ ہی لگا کے دو چار آنسوبہا لیتا 

زاویار نے کہا

کھوتے داپتر میرا مزاق اڑائے گا تو اب تیری یر مجال اس سے پہلے وہ جوتا اٹھاتے زاویار جلدی سے وہاں سے رفو چکر ہوا کہی گردن پکڑی ہی نہ جائے

_______________

ان سب کے چالیسویں کے بعد کیپٹن حرم کو ساتھ لے کے شاہ ولا آگیا 

چونکہ آپنے ابو کو وہ سب بتا چکا تھا اور انہوں  نے سبکو بتا دیا تھا تو انکو ہاتھوں  ہاتھ لیا گیا 

لیکن کچھ دن بعد جب کیپٹن دوبارہ ڈیوٹی پہ چلا گیا 

پہلے پہل تو حرم کو سب اچھے لگے

لیکن آئستہ آئستہ ہر نکاب سب کے چہروں  سے اترتا گیا 

تب اسے اس بات کا ادراک ہوا کہ لوگوں  پہ بے شمار تہیں ہوتی ہے 

جو ساس کیپٹن  کے سامنے صدقے واری جاتی تھی اب یو اپنا رنگ چال ڈھال بدلے کے گرگٹ بھی شرما جائے 

اور بھابھیوں  کا بھی یہی حال تھا 

ایک سسر تھے جو ہمیشہ اسے بیٹی سمجھتے تھے

اس کی زندگی جن مسائل سےگزز رہی تھی یہ کچھ بھی نہیں  لگتا تھا ماں باپ ہو تو سب اپنے ہوتے ہے وہ تایا چچا خالہ میری بیٹی میری بیٹی کرتے تھے جب مشکل وقت آیا انہوں  نے بھی آنکھیں ماتھے پہ رکھ لی 

اس چیز سے وہ اتنی دلبرداشتہ ہوئی کہ اسکو اب کسی پہ اعتبار نہیں  رہا 

یہاں اسے ایک جانور سے ذیادہ کوئی اہمیت نہیں  تھی بس اس کا کام تھا   کولہوں بیل کی طرح کام کروانا اور اف تک نہ کرنا 

وہ حرم جس نے کبھی کام نہ کیا تھا اب اس کے ہاتھوں  بازوں پہ جلنے کے نشان بنے ہوئے تھے 

_______________

رات کا آخری دوسرا پہر اپنے اوائل لمحات میں  داخل ہو چکا تھا اور چونکہ چاند کی شروع  کی تاریخے تھی اس لیے چاند ستاروں کے جھرمٹ میں کہی چھپ چکا تھا جب کہ تارے اپنی آب وتاب پہ تھی

اندھیری نگری تھی چاند نہ ہونے کے باعث 

ابھی کچھ دیر ہی گزری کے جیل سے دس منٹ کے فاصلے پہ گاڑی روک دی گئی اور ڈرائیور کو چند ہدایات دینے کے بعد پانچ لوگوں  نے اپنی مشین گنز اٹھائی اور جیل کی جانب رواں ہو گئے

جیل کے پاس پہنچ کے اس کے بڑے دروازے کو دیکھا گیا اور اس کی دیواروں کو دیکھا وہ انہیں  دیوار چین ہی دکھائی دی بہر حال انہیں  کسی بھی طرح اس  دیوار کو عبور  کر نا تھا 

لیکن۔دیوار پہ لگے کا نچ انہیں یہ کرنے کی اجازت نہیں  دے رہے تھے 

کافی سوچ بچار کے بعد دروازے پہ چڑھ کے اندر جانے کو بہتر  جانا 

لیکن جیسے ہی انہوں  نے دروازے یہ چڑھنے کی کوشش کی انہیں  زور کا کرنٹ لگا اور جھٹکا کھا کے پیچھے ہوئے 

سر یار یہ کیا ہے اتنی سختی کب سے ہونا شروع  ہو گئی ہے 

اب کیسے اندر جائے گئے 

ایجنٹ 4 نے کہا 

سر یہ اس قابل تھا کے آپ اس اسے آئی ایس آئی میں  لائے اس سے ذیادہ گٹس ایک سپاہی میں  ہوتے ہے ڈفر کہی کا 

مصطفی نے کہا

تو تم اگر خدکو بڑا عقل کل سمجھتے ہو تو بتاوں راستہ پھر ایجنٹ  4 نے کہا 

مصطفی نے ایک سخت نظر اس پہ ڈالی اور پھر سر کی طرف مڑ کر کہا اجازت ہے

تو سر کو خم دیا 

اوکے میرے  پیچھے آئیں 

سب اس کے پیچھے چل پڑے وہ لوگ چلتے چلتے 

جیل کی بیک یہ اس سے آدھا کلومیٹر دور آئے اور مصطفیٰ نے ان سب کو کھدائی کا کہا چونکہ وہ کھدائی  کا سارا سامان یہاں پہلے ہی چھپا کے رکھ گیا تھا اس لیے انہوں  نے 5منٹ میں  زمیں کو اتنا کھود ڈالا کے نیچے سے کسی لوہے کی آواز آنے لگی مصطفیٰ آگئے بڑھا اس جگہ سے مٹی ہٹھائی تو یہ ڈھکن سا بنا ہوا تھا 

مصطفی نے جب ڈھکن اٹھایا تو اس کے اندر گھپ اندھیرا تھا کچھ نظر نہیں  آرہا تھا 

سب اپنی ہیڈلائٹس آن کر لے گائز اپنڈ موو ہری اپ یہاں ہر پندرہ منٹ  بعد پہرے دار پہرا دیتا ہے ہم اسے نظر نہیں  آنے چاہیے  اور ایجنٹ  5 ہم جب اندر جائے گئے تو فوراََ ڈھکن رکھ کے اسکے اویر مٹی ٹھیک کر کے باہر ہی ہمارا انتظار کرے گئے اور اگر 1 گھنٹے تک ہم نہ آئے تو پھر  تم کوئی بھی ایکشن لے سکتے ہو سر نے کہا اور سب اندر اتر گئے

وہ لوگ آگئے بڑھ رہے تھے نیچے پانی تھا جو ان کے ٹخنوں تک آرہا تھا

انہوں  نے آئستہ آئستہ قدم بڑھائے کیوں  کے ان کے پاؤں کی دھمک سے کہی کسی کو پتا نہ چل جائے سب ایک دوسرے سے کافی فاصلے پہ چل رہے تھے

تقریباً 15  منٹ چلنے کے بعد 

مصطفیٰ نے انکو رکنے کا اشارہ کیا اور خود اوپر لگے ہوئے

ڈھکن کو دیکھ کر اسے کھولنے کی کوشش کرنے لگا 

اس نے اپنے بیگ سے رینچ نکالا اور آئستہ آئستہ اسکے پیچ کھولنے کے ساتھ ساتھ 

اوپر سب کے آنے جانے کی موومنٹ کو بھی سن رہا تھا 

دو منٹ بعد ڈھکن اس نے تھوڑا سا اوپر کیا تو وہ ایک جیل کا کمرہ تھا جہان ایک شخص بے حال سا پڑا تھا ایک زرد بلب روشن ہوا ہوا تھا جسکی روشنی کمرے کے لیے ناکافی تھی اور ان کے حق میں  بہتر  بھی تھی 

اس نے آہستگی سے ڈھکن اٹھایا اور دوسروں  کو وہی رکنے کا اشارہ کر کے وہ اور سر اوپر آئے 

ڈھکن ٹھیک کرنے کے بعد سر اور مصطفیٰ دیوار کی اوٹ میں ہو گئے 

پہرے دار وہاں سے چکر لگا کر گیا 

مصطفیٰ نے جب پوری کال کوٹھڑی کا جائزہ لیا تو اسے پتا چل گیا جس جگہ وہ دن کو آیا تھا وہی جگہ ہے سر کو رکنے کا اشارہ کر کے اس نے رومال اس شخص کے منہ پہ رکھ کے اسے بے ہوش کیا اور اسکو کاندھے پہ لاد کے ڈھکن اٹھا کے اس آدمی کو نیچے کی جانب گیا اور آگئے سے پکڑ کیا گیا وہ لوگ بھی نیچے آگئے ویسے ہی ڈھکن رکھا اور ایجنٹ 5  کو اپنے باہر آنے کا بتایا اور باہر کی صورتحال کا پوچھا 

سر آپ لوگ جتنی جلدی نکل سکتے نکل آئے سر مینے ابھی ایک کیری ڈبا دیکھا ہے جیل کی جانب سر مجھے لگ رہا ہے وہ لوگ بھی اسی شخص کی تلاش میں آئے ہیں جتنی جلدی نکل سکے نکلے 

ایجنٹ 5  نے کہا 

ہم بس پہنچ گئے ہے ڈھکن کھولوں  جلدی سے اوور 

مصطفیٰ نے کہا 

اگلے دس منٹ میں وہ جیل کی حدود سے نکل چکے تھے

لیکن جیسے ہی وہ یو ٹرن لینے لگے انکی گاڑی پہ اندھا دھند فائرنگ ہونے لگی 

موو موو مصطفیٰ  چلایا

لیکن گاڑی کے ٹائرز کو نشانہ بنایا جا رہا تھا گاڑی کو آگ لگ چکی تھی 

مصطفیٰ  نے اس آدمی کو کندھے پہ رکھا اور باقی سب فائرنگ کر کے اس نکلنے کا راستہ دینے لگے فائرنگ دونوں  طرف سے جاری تھی مصطفی  نے اس آدمی کو پاس کھڑی جھاڑیوں میں لٹایا اور 

اپنی پسٹل لے کے نشانے لینے لگا اتنی دیر میں پولیس کی وین کا سائرن بجنے لگا تو سب غائب ہونے لگے لیکن اس افراتفری میں  ایک گولی سر کے بازو کو لگ گئی 

وہ جلدی سے سر کولے کے جھاڑیوں کی طرف گئے 

ان کی وین جل گئی تھی بری طرح اس لیے وہ مطمئن تھے

  انکے بارے میں  کسی کو نہیں  پتا چلے گا  دس منٹ تکے پولیس  اور ان۔لوگوں  کے درمیان مقابلہ رہا اور آس عرصے میں انہیں فرار ہونے کا راستہ مل گیا 

مصطفیٰ نے فون کر کے گاڑی منگوالی تھی 

سر کو وہ ہسپتال لے کے نہیں  جاسکتے تھے 

کیوں کے دشمن اور پولیس  دونوں خون دیکھ چکے تھے 

اس لیے بہت رسکی تھا 

______________

غصے سے اس کے جبڑے بینچے ہوئے تھے اور بار بار ہاتھ کی انگلیوں  کو

 آپس میں  جھکڑ رہا تھا 

کیسے ہو سکتا ہے کیسے کوئی اور اس کو جیل سے نکال سکتا ہے کسی کو کیسے خبر ہوئی 

کرمو کرمو وہ چلایا 

جی صاحب بولے وہ بوکھلا کر بولا 

کہاں ہے سب حرام خور 

بلواوں سبکو 

بس کھانے پینے کے لیے بابا نے پالے ہوئے ہے 

لے کے آؤں سب حرام خوروں کو 

آج ٹھیک کرتا ہوں سب کو وہ دھاڑ کر بولا

وہ ابھی بول ہی رہا تھا ایک آدمی اندر آیا سر کوئی لڑکی آئی ہے آپ سے ملنا چاہتی ہے 

اس نے گھور کر ایک نظر ملازم کو دیکھا اور کہا بلوا لاوں اور چائے بھی لے آنا ساتھ

جی سر 

ملازم نے مودب ہو کے جواب دیا اور چلا گیا

اور تم کیا میری شکل دیکھ رہے ہو جاوں یہاں سے تم سب حرام خوروں کو تو میں  بعد میں  پوچھتا ہوں 

اسی وقت ایک ماڈرن سی دوشیزہ اندر داخل ہوئی 

جینز کے اوپر کالے چست    شرٹ پہنے بالوں کو کھلا چھوڑے جو کندھوں  تک آ رہے تھے 

بالوں کو براون رنگ کیے ہوئے 

کالے ہی رنگ کی ہیل میں 

کوئی حسین بلا لگ رہی تھی اور اوپر سے سرخ رنگ کی لپسٹک سونے پہ سہاگا تھی 

اسکو دیکھ کر کسی کی رال بھی ٹپکنے لگ جائے تو یہ کیا چیز ہے 

ویلکم جی موسٹ ویلکم 

وہ اس خوبصورت  تباہی کے سامنے بھچا جا رہا تھا  

ٹینا کہاں تھی مس کر رہا تھا تمھیں 

ہائے ڈیئر میں  بھی مس کر رہی تھی بس مصروف  تھی کچھ 

اس نے نزاکت سے اپنے یاقولی لبوں  کو ہلایا 

ہائے آپ ہمیں بتایا کرے نا اپنی مصروفیات ہم آپ کے کام کر دیا کرے گئے 

بدلے میں آپ ہمیں اپنا وقت عنایت کر دے 

دیکھیے طغرل صاحب ہمارا کام ہی کچھ ایسا ہے اس میں  آپ جیسے لوگوں کی پشت پناہی بہت ضروری ہوتی ہے 

ٹینا جی ہم آپ کے غلام آپ اشارہ کرے اور ہم وہ کام نہ کرے ہو نہیں  سکتا 

بڑے دلبرانہ انداز میں سر کو اس کے قریب لا کے کہا 

چلے پھر ایسی بات ہے تو ہم آپ کو آزمانہ چاہے گئے 

اچھا وہ جو جیل سے آدمی فرار کروانا تھا ہوا 

نہیں وہ نہیں  پکڑا گیا حرام خوروں  سے وہاں کچھ اور لوگ آگئے تھے کل بابا آئے گے تو ان سب کو دیکھے گئے بے بی تم بھی کن چکروں میں پڑھ گئی ہو 

بتاوں پھر کب فری ہو تمھیں  اپنا فارم ہاوس دکھاوں گا 

ڈیئر اب میں  چلتی ہو پھر کبھی چلے گئے 

ابھی آئی ہو رکوں تو 

نہیں پھر کبھی ابھی ایک کام سے جانا ہے پھر ملتے ہے

سنو ایجنٹ 5 اور میں یہاں قریب ایجنٹ 5 کا فلیٹ ہے ہم وہاں جارہے ہےسرکی حالت بہت  سیریس ہے اور دشمن بھی پیچھے پڑے ہے ان کو چکما دینا ہے اس کے لیے با قی جلدی سے گاڑی کے نکلو وہ تمھارے پیچھے آئے گئے اور فالو کرنے کی کوشش کرے گئے 

تو تم انہیں گھیر لینا میں  اور ایجنٹ 5 سر کو پچھلی سڑک سے لے کے نکلتے ہے تم لوگ فوراً نکلو 

مصطفیٰ نے سب کو ہدایات دینے کے ساتھ سر کو کاندھے پہ اٹھایا اور ایجنٹ 5 نے سر کے بازوں سے لپیٹا کپڑا ٹائٹ کر کے پکڑا 

خون نہ ذیادہ نکلے 5 منٹ پیدل چلنے کے بعد مصطفیٰ نے کسی کو فون کیا 

اور یس کا جواب پا کے وہ لوگ آگئے آئے یہ ایک کالونی  تھی 

صرف گارڈر جاگ رہے تھے 

ان کے ساتھیوں نے انہیں  بے ہوش کر دیا وہ بہت  تیزی میں لفٹ کی جانب بڑھے اور سیکنڈ فلور پہ پہنچ کے ابھی دروازے پہ ہاتھ رکھا دروازہ ایک جھٹکے سے کھل گیا 

وہ جلدی سے سر کو اندر کمرے کی طرف لے گئے 

تیمور  جلدی سے ریسکیو  بوکس لاو 

مصطفی چلایا

بھائی یہ کیا فاتی منہ پہ ہاتھ رکھے شاک تھی 

اتنی دیر تیمور  بھی آگیا 

اسنے ریسکیو بوکس سے ایک 

رسی نکالی اور اس کو گولی والے حصے سے 2 انج اوپر باندھا 

فاتی گھر میں ٹیوزر ہوگا کیا 

بھیا ہاں میں  ابھی لائی 

مصطفیٰ  نے جلدی سے ایک بلکل چھوٹے  سائز کا چاقو نکالا 

فاتی کا لائی ہوئی چمٹی اور چاقو کو گرم کیا 

اور تیمور  نے ان کے ہاتھ کو مظبوطی  سے پکڑا ہوا تھا 

فاتی تم جاوں بیٹا اور دعا کرنا 

اس نے فاتی کو با ہر بھیجا کیوں  کے وہ دیکھ نہ سکتی یہ سب انہیں  تو عادت تھی یہ سب دیکھنے کی 

مصطفیٰ نے پہلے گولی والی جگہ پہ چاقو سے کراس کی شکل میں  گہرا کٹ لگایا 

جس سے سر کے کراہنے کی آواز ہوئی انہوں  نے انہیں نارکوٹکس کا پودا پیس کے کھلایا تھا درد کم ہو کیوں  کے ان کے پاس اس وقت پینا ڈول کے علاوہ کوئی میڈسن نہ تھی 

مصطفیٰ  نے بہت  احتیاط سے چمٹی اور چاقو کی مدد سے گولی نکالی اور بینڈیج کر دی یہ سب انہیں ان کی ٹرینگ کے دوران سکھایا جاتا تھا 

لیکن ابھی بھی خطرہ ٹلا نہ تھا انفیکشن  ہونے کے چانسسز تھے 

اتنی دیر میں  امو بھی اٹھ گئی تھی دروازے پہ دستک ہوئی مصطفیٰ  نے دروازہ کھولا تو سامنے ماہی کی مما کھڑی تھی 

بیٹا۔کیا ہوا ہے فاتی بتا رہی تھی کسی کو گولی لگی ہے آپ ٹھیک ہو بیٹا

آنٹی ہمارا کام ہی ایسا ہے آپ کو پتا ہے 

ساری باتیں بعد میں  بتاتا ہو ابھی آپ ہلدی والا دودھ دے 

یہ لو بندہ میڈسن لے آیا ہے جو کہی تھی 

تیمور  نے مصطفیٰ  کو میڈیسن پکڑائی 

اتنی دیر میں  دودھ لے آئی امو پر جب سامنے موجود دجود پہ نظر پڑی تو ان کے ہاتھ کانپنے لگے آنکھوں  سے آنسو رواں ہو گئے 

مصطفی نے جلدی سے ان کے ہاتھ سے دودھ لیا 

آپ ٹھیک ہے نہ ماں کیا ہوا ہے سر ٹھیک ہے 

فاتی نے بھی ماں کے کندھوں  کے گرد اپنی بانھیں پھیلا دی لیکن انہیں  تو کچھ سنائی ہی نہ دے اتنے عرصے بعد دیکھا اور وہ بھی اس حالت میں 

سامنے موجود وجود اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھا 

ان کے لبوں  سے آہستگی سے خان نکلا اور پھر وہ باہر نکل آئی 

اس شخص کو جسے سب سے زیادہ چاہا تھا اس کو اس حالت میں  دیکھ نہیں  سکی ذیادہ دیر 

اللّٰہ اس شخص سے میں  بہت محبت کرتی ہے اسے ہمیشہ تیرے حفظوں امان میں  دیا ہے

اللّٰہ اسکی سارے درد ختم کر دے اس کو صحتیاب کر دے میں  اسے اس حالت میں  نہیں  دیکھ سکتی 

وہ دل ہی دل میں  اس کی سلامتی کی دعائیں کر رہی تھی

_____________

صبح کے نو بج چکے ہے اور یہ آدمی ابھی تک نہیں  آیا 

ماہی بار ںار آپنی نگاہ ہاتھ میں  باندھی ہوئی گھڑی کی طرف جارہی ہی جتنی بار وہ گھڑی کی جانب نگاہ کرتی غصے کا گراف بڑھتا ہی جا رہا تھا 

بار بار کال ملا رہی تھی وہ تھا کے اٹھانے کا نام نہ لے تیمور  بھی غائب تھا کس سے پوچھتی 

وہ تیار ہوئی شاہ کا انتظار کرتے ہوئے صوفے پہ بیٹھی تو وہی اسکی آنکھ لگ گئی 

شاہ جو ساڑھے نو بجے پہچا تھا سارا راستہ ڈرتے آیا جنگلی بلی غصے میں  ہو گئی 

پر یہاں اسے نک سک سے تیار سوتے دیکھ کر سکون ہوا 

گرے شرٹ اور پنک کیپری میں ہم رنگ ڈوبٹہ لیے سیدھا دل پہ لگ رہی تھی 

اس نے کبھی کسی لڑ کی پہ گرے کلر اتنا پیارا لگتے نہیں  دیکھا بالوں کی چھٹیا کیے اور ہلکے ہلکے میک اپ میں  ایک نازک سی گڑیا لگتی ہے یہ آفت

شاہ نے ماہی کو دیکھ کر سوچا 

اگر اسے میرے خیالات کا پتا چل گیا نہ یہی میرے موت کے فرشتے کو بلا لے گی 

شاہ نے اپنا سر جھٹکا اور 

اس کو اٹھا نے لگا

وہ اس کو اٹھانے کا سوچنے لگا کیسے اٹھائے جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کے زور کا جھٹکا دیا

ماہی کے منہ سے ایک چیخ برآمد ہوئی

شاہ نے ایک دم اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا کہی کوئی سن نہ لے 

ماہی نے شاہ کو گھورا اور اسے ہاتھ کے اشارے سے ہاتھ اٹھا نے کا کہا

لیکن وہ بھی ڈھیٹوں کی طرح 

اسکے اشاروں کو نظر انداز کرتا رہا

ویسے تم کتنی پیاری لگ رہی ہو 

ویسے مجھے تو جب دیکھو پہلے سے بڑھ کر پیاری لگتی ہو 

پھر تمھیں بتانا اور بھینس کو رستہ دیکھانا ایک ہی بات ہے 

ویسے تم جب چپ ہو تو اتنی پیاری لگتی ہو کے دل کرتا ہے کہ ۔۔۔۔

شاہ جو اپنی رو میں  بول رہا تھا جیسے ہی ماہی پہ اس کی نظر پڑی تو گڑبڑا گیا 

اس کے ماتھے کے بل بآسانی گنے جا سکتے تھے 

وہ اس کی تیور دیکھ کر گڑ بڑا گیا 

پھر سنبھل کر بولا

اتنی بھی کوئی پیاری نہیں  لگتی ہے پوری پوری کی چڑیل لگتی ہو 

اور تمھارے ناخن بھی بلکل ان جیسے ہی ہے 

لیکن ایک تم ایک حسین بلا۔۔۔ہو ہو اور اس کے منہ کو اور اس کے ہاتھوں  کو اپنے ہاتھوں  سے آزاد کیا اور فٹ سے چھلانگ لگاتا 

بیڈ کی دوسری طرف پہنچ گیا 

آخر کو وہ شیرنی کو چھیڑ بیٹھا تھا 

جیسے ہی ماہی کا منہ شاہ کے ہاتھ سے آزاد ہوا

وہ بیڈ کی جانب بڑھی سائیڈ ٹیبل پہ پڑا کانچ کا گلاس مارا 

جسے دوسری طرف سے مہارت سے پکڑ لیا گیا

تمھیں میں  بتاتی ہو چڑیل کسے کہتے ہیں رکو زرا 

تمھیں میں  اچھا سمجھنے لگ گئی تھی پر وہ ایک دم خاموش  ہوئی 

شاہ بیڈ کی دوسری طرف سے نکل کے اس کے پاس آیا 

اور آنکھوں میں  اشتیاق برھ کر پوچھنے لگا 

تمھیں  میں  اچھا لگتا ہو شاہ نے پوچھا 

ماہی کو اس کی جھگمگا تی آنکھوں میں  اپنا آپ صاف نظر آرہا تھا وہ مسمرائز ہو گئی 

شاہ مسکرانے لگا 

جیسے ہی ماہی کو اس بات کا احساس ہوا ایک دم پیچھے ہوئی اور شال لے کے باہر نکلنے لگی تو دروازے کے پاس رک کر پیچھے مڑی 

جلدی کرو دیر ہو رہی ہے اور نکل گئی 

شاہ جیسے ہی ہاتھ بالوں پہ پھیرنے لگا تو ہاتھ پہ اسکے ماہی کے لبوں  کے نشان بنے ہوئے تھے 

شاہ کی مسکراہٹ بہت  گہری ہو گئی 

اور ہاتھ کو اپنے لبوں  تک لے گیا اور پھر ٹشو کے صاف کیا اور نیچے آگیا

_____________

آفس جیسے ہی ماہی پہنچی کاظم صاحب پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے 

شاہ علیحدہ آیا تھا بائیک پہ ماہی نے اندر آکے جب کاظم صاحب کو بیٹھے دیکھا ایک نظر ٹھنکی پھر سلام کا جواب دیتی آپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئی

آئیے ماہ رخ بیٹا 

کیسی ہے آپ فاتی بٹیا اور آپکی امی کہاں ہے آئی۔نہیں اور آپ بھی گھر نہیں آ رہی ہے سب ٹھیک ہے میں  اور تمھاری آنٹی سارہ سب بہت پریشان ہے 

کاظم صاحب نے بڑی مہارت سے بات بنائی  کے ماہی بھی اش اش کر اٹھی

سب ٹھیک ہے انکل میں  بابا کے فرینڈ کے گھر رہ رہی ہو انہوں  نے بہت  انسسٹ کیا رکنے کو تو رک گئی امواور فاتی 

ابھی تک نہیں  آئی ہے کیا پتا مزید ایک ہفتہ لگ جائے ماہی نے کہا

دیکھو ماہ رخ بیٹا مجھے تم۔سے ایک بات کرنی ہے مان جاؤں تو بہتر  ہے نہیں  تو 

کیا مطلب انکل میں  سمجھی نہیں 

دیکھو ماہ رخ میں  چاہتا  ہوں کے تم یہ کمپنی مجھے بیچ دوں میں  تمھیں  مناسب رقم دوں گا 

مجھے ہر حال میں  چاہیے  یہ اگر کہوں  تو میں تمھیں اسکی جگہ کہی بھی سیٹل کر دوں گا مان جاوں تو ورنہ انہوں نے پسٹل ٹیبل پہ رکھی 

او تو آپ مجھے یہاں ڈرانے آئے ہے پسٹل دکھانے آئے ہیں 

کیا آپ کو لگتا میں  اس سے ڈر سکتی ہو 

ماہی نے تمسخر بھرے انداز میں  انکی طرف دیکھا 

تو سنے کاظم صاحب آپ مجھے اس پسٹل سے ڈرا رہے ہیں 

موت خدا کے ہاتھ میں  میں نہیں  ڈرتی 

اٹھائیں اور مارے 

اس سے پہلے کاظم صاحب کچھ کرتے 

شاہ ایک دم اندر داخل ہوا تو کاظم صاحب نے جلدی سے پسٹل جیب میں  ڈالی پر شاہ دیکھ چکا تھا 

وہ میڈم آپ نے یہ فائل لانے کا کہا تھا میں  دینے آیا ہو اور دیکھ لے کچھ رہ گیا ہو تو بتا دے میں  کر دوں 

شاہ یو ں بات کر رہا تھا جیسے بس اسے اپنے کام سے کام ہو 

جب کاظم صاحب نے دیکھا شاہ نہیں  جائے گا کام کیے بغیر تو انہوں  نے ماہی کی طرف دیکھا اور کہا ابھی چلتا ہوں لیکن میری بات پر غور کیجیے گا 

انہوں  نے دھمکی آمیز لہجے میں  کہا اور نکل گئے 

ان۔کے جاتے ہی شاہ نے فائل پھینکی 

اسکا تو کچھ کرنا پڑے گا اس کی ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو یہ سب کہنے کی اسے میں چھوڑوں  گا نہیں  

اور تم۔کیا شیرنی بن جاتی ہو ہر جگہ کچھ کر دیتا گولی چلا دیتا تو تمھیں احساس ہے اس بات کا 

پر تمھیں  کسی کی پرواہ نہیں  ہے میری  بھی نہیں  کچھ خیال تو کیا ھوتا 

بس کہہ دیا چلا دوں 

شاہ نے اس کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر جھنجوڑ دیا 

شاہ کو غصے میں کچھ سمجھ ہی نہیں  آارہا تھا 

اس کے سینے میں  آگ لگی ہوئی تھی سب کچھ جیسے آج تہس نہس کر دے گا

ماہی نےاس کے ہاتھ ہٹانا چاہے تو اسنے اور مظبوطی  سے بازوؤں  کو پکڑ لیا سنو آج کے بعد ایسی بہادری دکھائی نہ تو میں اپنے ہاتھوں   سے تمھیں مار دوں گا تمھیں  اندازا ہے کتنا ڈر گیا تھا میں  تمھیں کچھ ہو جاتا توں 

ماہی اسکو دیکھتی رہ گئی اتنی پرواہ اتنا خیال ۔

___________

احد اس وقت سر کے پاس بیٹھا 

ان کو ڈدپ لگا رہا تھا 

جب احد نے آواز لگائی فاتی ٹیپ لانا

فاتی جب کافی دیر تک نہیں آئی تو احد نے دوبارہ آواز لگائی 

تو امو ٹیپ لیے اندر آئیں 

خان جو احد کو منع کر رہا تھا وہ ٹھیک ہے لیکن وہ سر کی کوئی بات نہیں  سن رہا تھا 

حرم کو دیکھ کر وہ بلکل ساکت ہوگیا

وہ سوچ بھی نہیں  سکتا تھا اس طرح وہ اس کے سامنے آئے گئی جسے وہ کتنے سالوں سے کھو چکا تھا 

جس کے ملنے کی امید بھی نہیں  رہی تھی 

وہ اس طرح 

حر م بھی ٹرانس کی کیفیت میں  تھی کچھ دیر تو بلکل ساکت رہی پھر اچانک باہر نکل گئی 

احد جو ڈرپ لگا رہا تھا اس کو یتا بھی نہ چلا کے دو منٹ میں  کیا قیامت گزر چکی ہے 

سر احد نے بلایا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا 

سر اس بار وہ پہلے سے ذیادہ اونچی آواز میں بولا

تو وہ چونکے 

سر کیا ہوا آپ ٹھیک ہے احد نے پوچھا 

جی میں  ٹھیک ہو 

یہ جو ابھی آئی تھی کون تھی سر نے گہری سانس لے کر پوچھا وہ اپنا تنفس بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے دل نے تو حد ہی کر دی دھڑکنے کی 

کون سر کس کی بات کر رہے ہیں 

احد چیزیں سنھبال کر رکھ رہا تھا ریسکیو  باکس میں  

احد ابھی جو ٹیپ دینے آئی تھی

اوہ اچھا سر یہ ہمارے مصطفی مطلب شاہ کی ساس ہے 

آپ کو بتایا تھا نہ ان کو مارنے کی دھمکیاں دی۔جا رہی ہے تو ہم ا نھیں یہاں لے آئے ہیں  ان کا پتا نہیں ہے ان کا ہی تو کہا تھا کہ یہ عمر کمپنی کی اونر ہے اور جب بنی تھی تو نقشے کی ایک کاپی انکو بھی دی گئی تھی 

اس لیے اب ہم ان کی مدد سے ہی اس کمپنی پہ ریڈ کر سکے گئے

احد ان کو اپنی ہی سنائی جا رہا تھا 

اور وہ ابھی تک حرم کو ہی سوچے جا رہا تھا 

_____________

شاہ ولا میں  اس وقت سب چٹائی بچھا ئے ناشتا کر رہے تھے جب گاڑی کے ہارن کی آواز آئی

دا جی جو زاوی کے ساتھ کسی بات پہ الجھ رہے تھے یک دم خاموش  ہوئے 

اب کون آ گیا صبح صبح لوگوں کو سکون نہیں  ہو تا 

زائشہ نے کہا 

اور کون ہو نا ہے وہی ناہنجار ہو گا ساری رات گھر آتا نہیں  اور صبح ہوتے ہی کسی ناگہانی آفت کی طرح ٹپک پڑتا ہے 

داجی نے منہ کے زاویے بگھاڑ کر کہا 

اسکی ماں کو کہا ہے میں نے میرے گھر میں  رہنا ہے تو انسان بن کے رہے نہیں  تو اپنا بوریا بستر باندھ لے میرے گھر میں  ایسے لوگوں  کے لیے کوئی ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے داجی اپنا جملہ مکمل کرتے اسی وقت لاونچ کا دروازہ کھلا سامنے طغرل کھڑا تھا اس کے سآتھ اس کے ماں اور باپ بھی تھے 

داجی سکتے میں  آگئے ہو جیسے 

پھر ایک دم کھڑے ہوئے اور ان کی طرف بڑ ھے بیٹی کو اتنے عرصے کے بعد دیکھ کر ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں 

لیکن دوسری طرف یہ جزبہ مفقود تھا 

بیٹی اور داماد کے انداز میں  واضح ناگواری دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گئے بھائیوں نے بھی بس سر پہ ہاتھ رکھا اور ہٹ گئے 

اور ساری نوجوان پارٹی جو پھوپھو  کو بس ویڈیو کالز میں  دیکھتے تھے آج جب پھو پھو سے ملنے لگے تو یہ کہہ کر منع کر دےدیا اف گرمی لگ رہی ہے تھکاوٹ ہو گئی ہے شاور لے لوں ہٹنا زرا آگئے سے یہ سن کے تو 

سب کے دلوں کو ٹھیس پہنچی اور سارے آگئے پیچھے ہو گئے اور سنائے کیسے گز رہے دن 

مشارق صاحب نے کہا اب وہ دوسروں  کی طرح اٹھ کے جا نہیں  سکتے تھے اور کچھ بہن کی وجہ سے مجبور بھی تھے تو انہوں  نے آداب مہمان نوازی نبھاتے ہوئے حال چال پوچھا 

سب ٹھیک ہے کیا ہونا ہے ٹھیک ہی ہے تو آئے ہے یہاں 

اس قدر اور روکھے پیکھے رویہ کی امید نہ تھی پر یہ آدمی نہ پہلے بدلا تھا نہ آج ہے 

وہ اس کا خشک رویہ صرف بہن کی وجہ سے سہے جا رہے تھے 

بیٹا بتایا نہیں تم آ رھی ہو ابھی پرسوں تو بات ہوئی تھی 

داجی نے کہا 

یاد نہیں  رہا ہوگا پھر جو نہیں  بتایا اب آگئے ہے تو اچھے نہیں  لگ رہے کیا 

اور بھا بیاں کہا ہے 

 میں  کب سے ائی ہو ملنے بھی نہیں  آئی اب اتنی اہميت بھی نہیں  رہی میری کیا 

اس نے پہلے اکتائے ہوئے میں  کہا پھر کچھ یاد آنے پہ ان کے لہجے میں  نرمی اور ان۔کے چہرے پہ ایک لمحہ مکروہ  مسکراہٹ آئی جسے فوراً چھیالیا

____________

تیمور اب اور نہیں  تم بات کروں سر سے اور آس معاملے کو نبٹنا ئے میں  اور نہی اسے باہر برداشت کر سکتا وہ میری بیوی کو دھمکا رہا تھا 

وہ تو ماہی نے بلیو ٹوتھ لگایا ہوا تھا تو انہیں  پتا نہیں  چل سکا 

کہ کوئی بات ان کی سن رہا ہے 

اور وہ تیری بہن اسے کوئی پرواہ ہی نہيں کہتی مار دوں

شاہ نے غصے سے کہا 

اچھا اچھا بھائی بات تو سن 

میں  کچھ کرتا ہوں اسکا 

تو اور باقی بے شک میری بہن ہے 

پر تیری بیوی  بھی ہے تو جان اور وہ میں  کیا کروں کوئی سنتا کب ہے میری 

اوئے تیرا موبائل بج رہا ہے اٹھا لے اب کیوں  میرا اور دماغ خراب کرتا ہے شاہ نے غصے سے تیمور  کو کہا 

تیمور  نے ایک نظر شاہ کو گھورا اور موبائل اٹھایا اور سلائیڈ کو انگلی سے دوسری طرف کر کے کال موصول کی 

اسلام علیکُم تیمور  نے کہا 

وعلیکم اسلام تیمور  وہ ماھی کہی چلی گئی ہے شام سے مل نہیں  رہی اب رات ہو رہی ہے لیکن ان کا نام و نشان نہیں  مل رہا 

دوسری طرف سے ہادی کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی 

کیوں کے سپیکر آن تھا فون کا 

تو یہ ہادی کی آواز با آسانی شاہ کی سماعت سے ٹکرائی 

ایک دم

شاہ نے اس سے فون کھینچ لیا 

ہادی کس وقت گئی ہے وہ شاہ نے پریشانی سے پیشانی پہ ہاتھ پھیرا

شاہ وہ دن میں  آئیں تھی 

اور کچھ دیر بعد کھائے پیے بغیر نکل گئی ہے اور اس کےبعد رات کے نو ہو رہے ہیں ابھی تک نہیں آئی ملازمہ میں آیا تو ملازمہ نے بتایا

شاہ نے کچھ سنے بغیر ہی موبائل تیمور کو پکڑایا اور بائیک سٹارٹ کی تیمور  بھی اس کے پیچھے بیٹھ گیا 

وہ اڑا رہا تھا بائیک کو اس کے دماغ میں  ایک ہی بات چل رہی تھی ماہی کو کچھ ہو گیا تو کیسے معاف کرے گا خود کو کیسے جیوں گا

مجھے اسے ڈانٹنا نہیں  چاہیے تھا 

وہ لوگ پانچ منٹ میں  اس کے گھر پہنچ گئے لیکن سامنے لگا تالا انکا منہ چڑا رہا تھا 

تیمور جلدی سے پچھلی طرف سے تم سارہ کے گھر کا ایک ایک کونا چھان ماروں اور میں ٹینا کی طرف جا رہا ہوں لازمی وہ میری مدد کرے گی اسے پتا ہوگا

______________

ٹینا جو طغرل کی مسلسل نگرانی پہ معمور تھی 

اس وقت وہ گاڑی کے پیچھے چھپی ہوئی طغرل پہ نظر رکھے ہوئے تھی اس نے دیکھا کہ ایک گاڑی طغرل کے قریب آ رکی اور وہ اس میں  ان لوگوں  کے ساتھ 

ہو لیا اسی وقت اس کی پاکٹ میں  موبائل وائبر یٹ کرنے کی آواز آئی

اس نے موبائل نکا لا تو مصطفی کی کال دیکھ کر وہ چو کنی ہو گئی اور فوراً کال موصول کی 

یس سر اس نے مودب ہو کر کہا

ٹینا تمھیں میں  نے کہا تھا جس نے تمھیں میرے خلاف ہائر کیا تھا مجھے اس کے بارے میں  ساری معلومات تفصیلاً دوں اور وہ اب کس جگہ موجود  ہے اس ٹھکانے کا پتا بھی دوں تمھارے پاس بس دو منٹ ہے ہری اپ 

سر میں  اسکا پیچھا کر رہی تھی تو ایک گاڑی آئی اس میں بیٹھا اور چلا گیا 

میں  پیچھے جانے والی تھی آپ کی کال آئی تو رک گئی 

دوسری طرف مصطفیٰ نے غصے سے مکا بائیک کے ہینڈل پہ مارا

سنو ٹینا مجھے  ہر حال میں  اسکا پتہ چاہیے ہر حال میں  دو منٹ میں  

سر ہوا کیا ہے 

ٹینا یہ وقت باتوں کا نہیں  جو کہا کروں 

سر میں  آپ کو میں  بتاتی ہو اس کے لیے مجھے پندرہ منٹ چاہیے کیوں  کے سر میرے آفس میں ڈیوائس موجود ہے جسے کنیکٹ کر کے میں اسے کال کروں  گی اور اس کی لوکیشن سامنے آجائے گی

ٹینا میں  بھی وہی آرہا ہوں جلدی پہنچنا 

یس سر کے ساتھ ہی اس نے گاڑی نکا لی اور اگلے پانچ منٹ میں  آفس میں پہنچی 

مصطفیٰ وہاں پہلے سے موجود  تھا 

ٹینا نے چابیوں کا ایک گچھا اپنے پرس سے برآمد کیا اور آفس کا دروازے کھول کر وہ دونوں ایک کمرے کی طرف چل دیے

جہاں جدید مشینری پڑی ہوئی تھی

اندر آتے ہی ٹینا نے کال ڈیوائس سے کنیکٹ کی اور سپیکر آن کر دیا 

مصطفیٰ کا برا حال تھا اس کے دماغ میں  برے خیالات حملہ آور تھے وہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن کر نہیں پا رہا تھا 

وہ کال نہیں  اٹھا رہا 

ٹینا نے دو بار کال کی 

ٹینا بار بار کرتی رہو جب تک نہیں  اٹھاتا وہ مصطفیٰ نے اونچی آواز میں  کہا اور پیشانی مسلنے لگا 

مصطفیٰ  کے موبائل کی گھنٹی بجی 

مصطفی نے فوراً کال موصول  کی 

مصطفیٰ ماہی کے اغوا کاظم صاحب نے کیا ہے دوسری طرف سے تیمور  نے کہا 

مصطفی کو لگا اس کی جان نکل جائے گی آج 

تیمور  اس وقت کہا ہے وہ پتا چلا 

نہیں پتا چلا کاظم صاحب گھر نہیں  ہے اور میں نے اور احد نے سارہ اور اسکی ممی کی باتیں سن لی تھی 

ان سے پوچھ گھچ کی تو بھی کچھ سامنے نہیں  آرہا 

سر سر کال اٹھا لی گئی ہے 

ٹینا نے کہا

تیمور رکی ایک منٹ 

کیسی ہو ٹینا 

میں تو ٹھیک ہو آ پ کے مزاج نہیں  مل رہے ہیں آجکل

ٹینا نے لگا وٹ سے کہا 

ٹینا میں  ایک کام میں  مصروف  ہو جیسے ہی فارغ ہوتا ہو تمھیں  کال کرتا ہوں 

دوسری طرف سے مصروف سی آواز آئی 

مصطفیٰ نے ٹینا کو اشارہ کیا ابھی کال نہ بند کرنے دے اسے

سنیں تو ہم سے ذیادہ بھی کیا مصروفیت ہے آپکی میں بتانا چاہ رہی تھی کے کل میں  فارغ ہو فارم ہاوس چلے پھر ٹینا

 اسے باتوں میں مصروف کر چکی تھی 

تیمور  کو لوکیشن بتا کے ااس نے ٹینا کو اشارہ کیا کال بند کرنے کا کہا اور جانے کا اشارہ کیا

مصطفیٰ میں نے سر کو بتا دیا ہے سب کچھ سر نے اپنے سیو ہاوس میں  بلایا ہے سب کو آج جو ہوگا وہ فائنل ہوگا 

تیمور  میری بیوی  ہے انکے پاس مجھے اسکو بچانا ہے 

مصطفیٰ  نے چلاتے ہوئے کہا 

شاہ بیوی  سے پہلے ملک ہے یہی قسم کھائی تھی نہ آئی ایس آئی میں کھائی تھی نہ 

تو ہوش میں آوں 

تیمور  نے سختی سے کہا تو وہ سیف ہاوس کی طرف روانہ ہوا ٹینا بھی ساتھ تھا

_____________

ماہ رخ آفس سے نکل کے ہادی کے گھر گئی اور اس کے بعد وہ اپنے گھر آگئی تھی اس نے تالآ کھولا جیسے ہی اندر داخل ہوئی اسے بدلا بدلا سب لگا 

اسے گڑ بڑھ کا احساس ہوا اسے نے اسے اینا وہم سمجھا اور دروازہ لاک کیا

آج جو کچھ ہو اور اس کے بعدشاہ کا ریکشن اسے بہت کچھ سمجھا گیا تھا وہ جو سمجھتی رہی کے وہ اس کے سر پہ ایک مصیبت کی طرح لاد دی گئی ہے جبکہ ایسا نہیں  تھا 

نکاح کے بعد اس کے دل میں  شاہ کے لیے جگہ بن چکی تھی محبت اسے بھی ہو چکی تھی لیکن وہ جتا نہیں  سکی کبھی شاہ بھی تو ہمیشہ لڑتا رہتا ہے اگر ایسی کوئی بات ہے تو کہتا کیوں  نہیں

لیکن کیا میں نے اسے کبھی موقع دیا ہمیشہ ہی برا بھلا کہا ہے اسے نے اپنا احاطہ کیا تو بہت سی غلطیاں اسے بھی اپنی نظر آئی

بس یہ مسئلہ حل ہو جائے نہ تو میں  اسے بتا دوں گئی وہ میرے لیے کیا ہے

یہ سوچ کے اس کے لبوں پہ ایک مسکراہٹ آگئی 

اوہ میں  کس کام کے لیے آئی ہو اور اس شاہ کے بچے کو یاد کر نے لگ گئی 

اوہ نہیں  بچے شاہ کے تھوڑے ہو گئے میرے بھی تو ہوگئے 

اف ربا کچھ دیر اسے کہے میرا پیچھا چھوڑے تو میں  کوئی کام کر لوں جس کے لیے آئی ہو 

وہ اندر کی طرف بڑھی امو کے روم کے لاک پہ ہاتھ رکھا تو اسے اندد سے بولنے کی آوازیں آرہی تھی اس نے دروازے کو آہستہ سے دھکیلا تو اندر دو لوگ لاک کھولے بیٹھے تھے اور ساری چیزیں بکھری ہوئی تھی 

ماہی تو شاک میں  آگئی 

وہ جلدی سے ہٹی اور صوفے کے پیچھے ہو گئی 

وہ لوگ باہر نکلے اور وہی کھڑے ہو کے باتیں کرنے لگے 

ماہی جو چھپی بیٹھی تھی اچانک وہاں سے چوہا نکلا اور ماہی کی چیخیں نکل گئی جس سے انہیں  پتا چل گیا یہاں لڑکی ہے 

ماہی ایک دم کھڑی ہوئی دونوں شخص چونکہ نکاب پوش تھے اسلیے انکی صرف آنکھیں  نظر آرہی تھی اسی وقت ان کے موبائل کی گھنٹی بجی 

یس باس ان میں  سے ایک نے موبائل کان سے لگاتے ہوئے کہا 

کچھ ملا

نہیں بوس بس ایک لڑکی ملی ہے 

لڑکی کون وہاں تو کوئی نہیں  ہے تو کیسے ملی 

دوسری طرف سے آواز آئی 

سر جب ہم نکل رہے تھے تو ہمیں چیخ کی آواز آئی ہم نے مڑ کر دیکھا تو سامنے لڑکی کھڑی تھی 

اوکے اسے بے ہوش کر کے ایک پتا بتاتا ہوں وہاں لے آؤں 

لڑکی کو کچھ بھی ہوا زندہ نہیں  بچو گئے یاد رکھنا

یس بوس جو کہا ویسا ہی ہوگا اور کال کاٹ دی گئی دوسری طرف سے

ہاں کیا کہہ رہے تھے بوس 

وہ کہہ رہے تھے اڈے پہ لے آؤں لڑکی کو فون اٹھانے والے نے دوسرے کو بتایا

ویسے مال بہت اچھا ہے ہمیں  مل جاتا تو دونوں  خباثت سے ہنسنے لگے 

ماہی دعائیں مانگنے لگی یا اللّٰہ شاہ کو کہی سے بھیج دے آئندہ کہی بھی اکیلی نہیں جاوں گئی اتنی شدت تھی اسکی دعاوں میں اس کی آنکھ سے آنسو نکل پڑا

وہ جیسے ہی سیف ہاوس پہنچے تو جس بندے کو انہوں نے جیل سے اغواء کیا تھا 

اس سے پوچھ گچھ جاری تھی

احد سر ابھی تک نہیں  پہنچے

شاہ نہیں  پہنچے 

احد میں آن ڈیوٹی ہو اور آن ڈیوٹی میں مصطفیٰ ہوتا ہو گوٹ اٹ

وہ ابھی بول ہی رہے تھے سر بھی آگئے 

ہاں جوانوں  کچھ بتایا یا نہیں اس نے 

سر ابھی تک نہیں  بہت سخت جان ہے بتا نہیں  رہا

جیسے ہی وہ اس کمرے میں  داخل ہوئے سامنے موجود بندے کو دیکھ کر  خان تڑپ کر آگئے ہوا شایان لالہ شایان لالہ آنکھیں کھولے دیکھے میں  آپ کا خان لالہ انکھیں کھولے

خان بار بار ایک ہی بات کیے جا رہا تھا سب حیران تھے یہ سب ہو کیا رہا ہے

خان نے پانی کی بوتل جو پاس پڑی تھی اسےہی اس کے منہ سے لگایا اور ایک ہاتھ میں  پانی ڈال کے ان کے منہ پہ چھینٹے مارے 

تیمور  ریسکیو باکس لاؤں جلدی سے

خان خان تم زندہ ہو پانی پینکھنے سے لالہ کو

 ہوش آیا لالہ اور خان بغل گیر ہو گئے اور دونوں  کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے

لالہ آپ اس حالت میں  کیسے آگئے لالہ میں نے بہت تلاش کیا آپ نہ ملے

    تیمور  جلدی سے لے کے آیا خان نے سارے زخم صاف کیے اور ٹینچر لگایا

خان نے لالہ کو ان کے جیل ہونے اور ان کو اغوا کر کے لانے اور ماہی کے قید کا بتا چکے سب تو وہ بولے 

خان میں جب تمھارے مارے جانے کی خبر دی تو میں تمھاری جگہ مشن پہ بھیجا گیا اور میں نے بہت  محنت کر کے ان کے درمیان خاص مقام حاصل کر لیا اس سب میں  مجھے اس گروہ کے ماسٹر مائنڈ تک پہنچتے دس سال کا طویل عرصہ لگ گیا

اور وہ پاکستانی تھا

اور جب آئستہ آئستہ میں نے اس کے بارے میں  پتا کر وایا تو خان وہ کیپٹین کا قاتل نکلا خان کیپٹن اور حرم کی شادی ہو گئی تھی تمھارے جانے کے دو سال بعد اور جس دن نکاح ہوا تو سر اور انکی بیوی حرم بھابھی کی امی اور ابو بھی سب ہاسپٹل میں تھے اور اسکو بم سے اڑا دیا گیا 

اور سب چل بسے

خان ہچکیاں لے لے کے رونے لگا جیسے ان کا انتقال آج ہوا ہو سب کی آنکھوں سے اشک رواں تھے

لالہ کی ہچکیاں بھی بندھ گئی تھی 

احد نے پانی پلایا سب کو تو پھر سے لالہ نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا 

اس وقت میں  دہلی میں تھا

نہیں آسکا 

اوراس کے تقریبا پانچ سال کے بعد وزیرستان میں کیپٹن کو باقاعدہ پلیننگ سے مارا گیا 

مجھے جس دن اس بارے میں  پتا چلا میں نے کنٹیکٹ کرنے کی کوشش  کی لیکن نہیں  ہو سکا اور اسی شام۔اس کے مرنے کی خوشی میں جشن منایا گیا 

اور خان یہ سب کیپٹن علی کے بہنوئی ان کی سوتیلی بہن کے شوہر نے کروایا اور اس گروپ کا ماسٹر مائنڈ بھی وہی تھا 

اور پھر ایک سال پہلے اسے پتا چلا کے اس کے سب نقصانات کے پیچھے میں ہو تو اس نے مجھے مارنا چاہا اور میں  بچ نکلا 

اور میرا پتا یہاں کے ایس ایچ او کو پتا چلا تو مجھے اندر کر دیا تم لوگ مجھے نہ فرار کرواتے تو اس رات مجھے مار دیا گیا ہوتا

لالہ آپ مجھے بتا سکتے ہے اانکے گینگ میں  کتنے لوگ ہیں 

خان نے پوچھا 

خان یہ تین لوگ آپس میں ملے ہوئے ہیں اگر ان کا خاتمہ کر دیا گیا تو یہ گینگ ختم ہو جائے گا 

لالہ وہ کون کون ہیں 

آپ بتا سکتے ہیں۔ 

خان ان میں ایک کیپٹن کا بہنوئی جسے دنیا 

بی جے کے نام سے جانتی ہے 

لیکن بی جے کو تو کوئی نہیں  جانتا بی جے ہی نے پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی مچائی ہوئی ہے وہ یہ ہے 

خان نے کہا 

خان اس کے علاوہ کیپٹن کا سب سے وفادار ملازم کاظم اور میر نامی شخص شامل ہیں جو پچھلے تین سال پہلے افغانستان میں رہائش پزیر تھا وہاں دہشت گردی کا گینگ چلا رہا تھا 

اور یہاں بم دھماکے کا کام کاظم کے کے حوالے تھا 

اور ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں یوں تو یہ ایک صاف ستھرہ کام کرنے کا سب کو بتاتے ہیں اتنے ہی گھنونے کاموں میں ملوث پائے گئے ہیں

سر  کیپٹین علی کون ہیں شاہ نے اچھنبے سے پوچھا جانے کیوں اسے یہ نام کھٹک رہا تھا 

مصطفیٰ کیپٹن علی تمھارے چچا کیپٹن مزاحم علی شاہ ہیں 

مصطفیٰ کے دماغ میں  دھماکے ہونے لگے کیسے ہو سکتا اور اگر کیپٹن علی چچا تو مطلب پھوپھا یہ سب کروا رہے ہیں 

اس کا دماغ چکرانے لگا سر اب فوری ایکشن لینا چاہیے  اگر انہوں نے ماہی کو کچھ کر دیا توں اسے سے آگئے سوچنے پہ اسکا دماغ ماؤف ہونے لگا

مصطفی تم اور تیمور اور ساتھ میں نے فوج کے نوجوانوں کو بلایا ہے اور میں  ماہ رخ بیٹا کو بچانے جائے گئے احد اور میں نے ارہان کو فون کیا ساتھ ہے اور فورسز کو لے کر عمر کمپنی پہ ریڈ کرے گئے اور کمپنی کا نقشہ بھی مل چکا ہے احد کو اور باقی ثناء اور کیپٹن ارنش وہ دونوں کاظم صاحب کی تلاشی لے گئی اور جو مشن جتنی جلدی کمپلیٹ کرے گا دوسرے کی مدد کو پہنچ جائے گا گوٹ اٹ خان نے کہا 

یس سر سب نے یک زبان ہو کر کہا 

خان میں  احد کے ساتھ جانا چاہوں گا اس کمپنی کا کونا کونا مجھے پتا ہے

لیکن۔آپکی چوٹیں خان نے کہا 

ٹھیک ہے مجھے خوشی ہو گی کے میں اپنے ملک کے کام آسکوں 

لالہ ایک بات پوچھنی تھی یہ بی جے اس وقت کہا ہوگا 

پاکستان میں ہیں اور شاہ ولا میں جواب مصطفیٰ کی طرف سے آیا 

تمھیں کیسے پتا لالہ نے کہا 

سر آج گھر بات ہوئی تو انہوں  نے بتایا وہ لوگ آچکے ہیں 

سر یہ لالہ کون ہے تیمور نے پوچھا تیمور  یہ ہماری ٹیم میں ہوتا تھا یہ میجر تھا پھٹان تھا اس لیے ہم سب اسے لالہ کہتے تھے

اوکے بوائز ہری اپ وی ہیو نو مور ٹائم ٹو ویسٹ

______________

وہ سب اپنے اپنے مشن کے لیے تیار ہو کے نکلے اور سب ایک دوسرے سے رابطے میں  تھے 

احد نے باںا کو اپنے ساری صورتحال بتا کے ریڈ کرنے کے سرچ وارنٹ حاصل کر لیے تھے

اب وہ ارہان اور لالہ اور فورسز اب کمپنی پہ اٹیک کر رہے تھے

سکیورٹی گارڈ نے بہت منع کیا 

لیکن سرچ وارنٹ دکھا کے خاموش کروادیا بابا کے ساتھ ہونے سے انہیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا 

دوسری طرف وہ لوگ کال سے جو لوکیشن ٹریس ہوئی تھی اس جگہ پہنچ ہو گئے تھے یہ شہر سے دور ایک ویران سی جگہ تھی جہاں سکیورٹی کا  سخت نظام تھا 

وہ سب منہ پہ کالک لگائے اس اند ھیری رات کا ایک حصہ معلوم ہو رہے تھے 

دیکھو سب میری بات سنو 

میں اور میرے ساتھ دس لوگ پیچھے کی طرف سے۔اندر داخل ہو گئے جبکہ تیمور  تم لوگ اگلی سائیڈ سے داخل ہو گئے 

اور مصطفیٰ تم اس دوران 

ماہ رخ بٹیا کو ڈھونڈنا 

اور جیسے ہی وہ ملے گی ہمیں اطلاع دینا تو میں ڈائنامايٹ لگا دوں گا اور جیسے ہی اس جگہ سے سب نکلے گئے میں بٹن دبا دوں گا 

انڈرسٹینڈ سر خان نے کہا 

ناؤ موو 

سب اپنی اپنی جگہ کا تعین کر کے نشانہ لینے لگے جبکہ شاہ دیوار

سے ہوتا ہوا آگئے بڑھ رہا تھا 

وہ ایک ایک کمرہ چیک کر رہا تھا 

لیکن ماہی کہی نہیں تھی اسکی سانس اٹکی ہوئی تھی جب وہ ایک ہال نما کمرے میں داخل ہوا تو وہاں کا دروازہ اچانک بند ہوا 

مصطفیٰ نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا اسے شدت سے خطرے کا احساس ہوا 

اور پھر ہال میں موجود ایک دروازہ وا ہوا اور کچھ لوگ اسے نظر آئے 

ایک شاندرار مرد سوٹ بوٹ پہنے ایک مہنگا سگار سلگائے سامنے پڑے صوفے پہ بیٹھ گیا

تو تم آہی گئے مجھے لگا بہت وقت لوں گئے پر جلدی آگئے 

اس بندے نے کہا ویسے پہچان تو ہو گئے میں ہو بی جے 

بلال جبران انڈرورلڈ کا ڈون 

اوہ نہیں بچے تمھارا اور میرا گہرا رشتہ بھی ہے انکل اور بھانجے کا 

ماہ رخ کہا ہے مصطفیٰ نے اسکی طرف دیہان نہیں دیا 

سامنے موجود کاظم اور میر صاحب سے پوچھا 

دیکھوں  ہماری تم سے اور سے کوئی دشمنی نہیں ہے اپنے آدمیوں کو کہوں عمر انڈسٹریز کی تلاشی لیے بغیر چلے جائے تو ہم تم دونوں  کو جانے دے گئے 

اگر نہیں تو لڑکی تو مرے گی مرے گی تم بھی جان سے جاوں گئے 

آپ پہلے ماہ رخ کو لائے اس کے بعد میں  انہیں منع کر دوں گا پر پہلے ماہ رخ کو میرے حوالے کرے 

اس شخص نے بٹن دبایا تو دو منٹ بعد ایک شخص ماہی کو لیے اندر داخل ہوا ماہی کی حالت دیکھ کر شاہ کے گردن کی گلٹی ابھر کر مدہوم ہوئی غصے سے اس کی پیشانی کی رگیں تن گئی ہونٹ بھینچ گئے 

اور دونوں ہاتھوں کے مکے بن کے کھل گئے 

ماہی کے بال بکھرے ہوئے تھے شال اس نے سختی سے اردگرد لپیٹی ہوئی تھی 

اور اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ اور سوجی ہوئی تھی 

اب کی اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے 

وہ جو دشمنِ جان صبح اس کو تڑیاں لگا رہی تھی دھمکاں رہی تھی اب اسکی یہ حالت دیکھ کر اس کا سینے میں درد ہونے لگا

اب فون کروں اور منع کروں نہیں تو لڑکی گئی اور باہر اپنے ساتھیوں کو بھی منع کروں نہیں تو یہ لڑکی گئی ماہی کا ایک شخص نے    باقاعدہ نشانہ لیا ہوا تھا مصطفیٰ لڑکی کو ادھر میرے پاس آنے دوپہلے پھر منع کر دوں گا 

ہم کیسے مان لیں منع کر دوں گئے لڑکی پاس آئی تو دیکھو کوئی گیم مت کھیلنا میرے ساتھ نہیں تو دونوں  مارے جاوں گئے جو ہاہر ہے وہ بھی 

لڑکی کو جانے دوں اسکے پاس اس شخص نے کہا 

ماہی جلدی سے بھاگنے کے انداز میں اس کے پاس آئی تو مصطفیٰ نے اس کو اپنے ایک بازوں کو اس کے گرد پھیلا لیا وہ بہت ڈری ہوئی تھی 

مصطفیٰ نے بہت مظبوطی سے اسے پکڑا ہوا تھا کے پھر نہ کوئی اسے اس سے جدا کر دے

مصطفیٰ نے دونوں  طرف فون کر کے منع کر دیا تھا

ویسے یہ زن بھی  نہ اچھے اچھوں کا دماغ خراب کر دیتی ہیں میر صاحب نے کہا 

ویسے پروفیسر مصطفیٰ تمھیں کیا لگا تمھیں پہچان نہ پاوں گا تم کون ہو 

اور یہ لڑکی تیرے باپ کو بھی ہم نے مارا ہیں اور تم بھی ہمارے ہاتھوں مرو گئی ویسے ہو بہت  پیاری ہو تمھیں مارنے کا دل نہيں کرتا تمھیں تو وہ خباثت سے ہنسا 

میر ایک لفظ بھی کہا تو زندہ نہیں رہو گئے

مصطفیٰ نے غصے سے کہا

ماہی نے اپنا  ہاتھ اس کے بازوں پہ رکھا شاہ نے اسکی طرف دیکھا 

تو اس نے نفی میں سر ہلایا تو وہ سمجھ کر ہونٹ بھینچ گیا

میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتی ہو جواب دیں گئے کیا ماہی نے ہمت کر کے کہا 

یوچھو لڑکی کیا پوچھنا ہے مرنے سے پہلے آخری خواہش میں ضرور پوری کرتا ہوں 

آپ نے مجھے کیوں قید کیا میرے باپ کو کیوں مارا

سب قہقے لگانے لگے 

تمھارے باپ نے میری پوری فیملی کو مار ڈالا تھا وہ بچا سکتا تھا لیکن نہیں بچایا اس نے اس نے درندہ بننے پہ مجبور  کیا میں اسے کہتا رہا مار ڈالیں گئے وہ درندے میرے گھر والوں کو انہیں مت گھسیٹو 

میرے باپ اور اس نے کوئی بات نہ مانی اور جس دن گواہی دینے جا رہے تھے میرے گھر والے کورٹ انہیں راستے میں ہی گولیوں سے چھلنی کر دیا

اس کے بعد میں برے لوگوں میں رہنے لگا وہاں مجھے باچا خان ملا جو دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک تھا اور اس کے مرنے کے بعد میں ڈون بنا پھر میرا مقصد پاکستانی فوج کو تباہ کر نا تھا میں نے خان کو پکڑوایا میں نے ہسپتال میں بلاسٹ کروایا سب مارے گئے جنہیں کیپٹن علی چاہتا تھا اسکی بہن میں اسکی جان تھی دور کر دیا میں نے اسکو بھی اب اسکی بیٹی مرے گئی 

اس شخص نے سفاکی سے کہا

تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا تو ایک لڑکی ایک لڑکے کے ہاتھ باندھے اندر داخل ہوئی اس

  کے  ساتھ دو اور اسلحہ بردار بھی تھے 

ہینڈزاپ لڑکی نے کڑک انداز میں کہا 

پاپا لڑکے نے اندر داخل ہو کے کہا 

سامنے بیٹھا شخص اچھل کر کھڑا ہوا چھوڑ دوں اسے لڑکی 

سب کو کہو اپنے پسٹل اور بندوقیں پھینکو نہیں تو بیٹے کو  مار دوں گی

سب

 رکھو اسلحہ وہ چیخنے لگا سب نے اسلحہ جیسے ہی رکھا 

اس کے ساتھ موجود لوگوں نے سارا اسلحہ اکھٹا کیا 

مصطفی نے بھی گن اٹھائی اور اپنی گھڑی کا بٹن دبایا اور باہر تڑ تڑ گولیوں کی آوازیں آنے لگی ہری اپ سب کے ہاتھ باندھ دو ان سب کے اس سے پہلے پانچ منٹ میں سارے باندھے گئے اور ساری فورس بھی تب تک اندر آگئی اور ان سب کو ہتھکڑیاں لگا کے وین میں ڈال دیا گیا 

سب ہال سے نکل چکے تھے 

شاہ اور ماہی ہی بچے تھے 

ماہی باہر نکلنے ہی لگی تھی کے شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اسے سختی سے سینے میں بھینچ لیا اس کی گرفت سخت سے سخت ہوتی جارہی تھی

ماہی اس کے سینے سے لگی آنسو  بہا رہی تھی  شاہ نے اسکو اپنے سے الگ کیا 

ششش چپ رونا بند کروں 

کچھ نہیں  ہوا سب ٹھیک ہیں 

اس نے اسکے آنسو اپنی انگلی کے پوروں سے محسوس کیے 

اور اس کی دونوں آنکھوں کو چوما 

وہ شرم کے مارے پلکھیں جھکا گئی 

اے اوپر دیکھو میری طرف دیکھو نہ 

اس نے اوپر کی طرف دیکھا جہاں چاہتوں کا ایک جہاں آباد تھا 

وہ بھر نظریں جھکا گئی 

شاہ نے اس سے پہلے اتنا خوبصورت منظر جیسے اچانک بارش ہو رہی ہو آسمان یہ سورج نکل آئے ہر طرف روشنی پھیل جائے 

شاہ نے اسے ایک پھر سینے میں  بھینچ لیا اور رب کا شکر ادا کیا ماہی ٹھیک تھی تھوڑی سی دیر میں وہ اس قدد ٹینشن لے چکا تھا کے دماغ بلکل ماؤف ہو چکا تھا 

اس نے آرام سے ماہی کو خود سے الگ کیا 

اور ہاتھ تھام لیا 

ماہی کبھی چھوڑ کر مت جانا مجھے تم نہ ملتی مجھے تو میں زندہ کیسے رہتا 

اور آئندہ کہی بھی اکیلے گئی جان لے لوں گا تمھاری 

مجھے نہیں پتا کیسے کب تم ڈھڑکنوں کے لیے ضروری  ہوئی 

میں  تمھیں کھو نہیں  سکتا 

اب کہی مت جانا نہیں  جاؤں گئی نہ شاہ نے ماہی کی آنکھوں میں جھانکا 

تو اس نے نفی میں  سر ہلایا

اس سے پہلے شاہ کوئی اور گستاخی کرتا 

تیمور اندر آگیا 

تم دونوں کا رومینٹک سین ختم ہو گیا ہے تو اب جائیں خدا کے بندے صبح کے تین ہو رہے ہیں  اور تجھے بیوی کیا ملی سب کچھ بھول گیا تو یہاں اکیلا نہیں ہے 

شاہ نے اسے گھورا پھر مسکرا کر ماہی کا ہاتھ پکڑا اور باہر کی راہ ہو لیا

پورے فارم ہاوس میں ٹائم بم لگائے جا چکے تھے جنہوں نے ٹھیک پانچ منٹ بعد پھٹ جانا تھا

ان سب نے گاڑیوں میں  ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ

خوفناک آوازیں آنے لگی ماہی جو شاہ کے ساتھ بیٹھی کانوں  میں انگلیاں ٹھونسے بیٹھی تھی 

شاہ نے اسے اپنا حصار میں  لے لیا اور اسکے منہ کو اپنے سینے میں چھپا لیا 

گڑ گڑ ۔۔گڑ ۔۔کی بہت خوفناک آواز تھی جیسے آسماں زمین کے اوپر گر گیا ہو اور زمین پھٹ گئی ہو 

آگ کے شرارے اس قدد بلند تھے کے دیکھنے والا وہ منظر دیکھ کر کانپ اٹھے 

لیکن سامنے بھی شیر دل سپاہی تھے چٹانوں  کا حوصلہ رکھنے والے

اس سب کے برعکس وہ اپنے رب کے شکر گزار تھے 

انہوں  نے ظالموں کا  قلعہ قمع

کر دیا 

اب ان کا ملک پہلے کی طرح ترقی کر ے گا اور جب تک جان رہے گئی وہ ایسے ہی اپنے گھر سے دشمن عناصر کو نیست و نابود کرتے رہیں گئے 

کسی کی جرات نہیں  کہ اس کی طرح دیکھے بھی نقصان تو دور کی بات ہیں 

ان مجاہدوں  کی آنکھوں  میں 

سرشاری شکر اور نہ جانے کتنے احساسات رقصاں تھے 

مسکراہٹ لبوں کو چھو رہی تھی 

کچھ دیر بعد آواز بند ہوئی تو شاہ نے ماہی کو خود سے الگ کیا لیکن وہ ابھی بھی ڈری ہوئی تھی 

ماہی سب ٹھیک ہیں ریلکیس ہو جاوں اور ساتھ ہی گاڑی میں  موجود  پانی کی بوتل اسے پکڑائی  

تیمور  تم مجھے یہی اتاروں میں یہاں سے احد کی طرف جاوں گا اور تم ماہی کو احد کےگھر چھوڑ  کر جلدی آنا

شاہ تیمور  سے مخاطب ہوا 

ما ہی نے ایک دم شاہ کا ہاتھ پکڑا اور نفی میں سر ہلایا

شاہ نے اس کے ہاتھ کو دبایا 

مسز شاہ مظبوط ہونا سیکھوں 

ہم ہر روز کفن باندھ کر گھر سے نکلتے ہیں یہ سوچ کر کے آج آخری دن ہوگا 

اور جب تک اللّٰہ نہ چاہے پتہ تک نہیں  ہلتا 

اور موت برحق ہیں یہاں لڑتے ہوئے آئے یا گھر

ماہی نے سمجھ کر سر ہلایا اور 

شاہ اس کے ہاتھ کو دبا کے باہر نکل آیا 

ماہی جو اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں  میں  آنسو آگئے 

شاہ ںے مڑ کر دیکھا تو مسکرا کے 

ہاتھ کا اشارہ اپنی آنکھوں  کی طرف کر کے اسے منع کیا رونے سے اور چل دیا 

اب شاہ دوسری گاڑی جو رکی ہوئی تھی اس میں بیٹھا اور اسے فوری جانے کا حکم۔دیا اب اس کی آنکھوں  میں  موجود نرمی کی جگہ سختی نے لے لی 

اس کی آنکھوں میں غصے غیص و غضب کے جزبات کے ہلکورے لے ر ہیں تھے 

اگلے دس منٹ بعد وہ شاہ انڈسٹریز کے باہر تھے

اور دونوں  طرف سے فائرنگ کا زبر دست تباہ ہو رہا تھا 

تین گاڑیاں رکی اور اس میں  سے اٹھارہ لوگ نکلے 

مصطفی نے پہلے ہی سب کو ہدایت دے دی تھی کے دشمنوں  پہ پیچھے سے قابو پانا 

سارے جیسے ہی اترے اپنی اپنی پوزیشن لی اور شروع  ہو گئے ان میں  زیادہ سنائپرز تھے 

جن کے نشانے بہت  اچھے تھے اگلے دس مننٹ میں  سارا کھیل ختم ہو  چکا تھا اور سارے لوگ مارے جا چکے تھے 

اور ان کے ساتھ ان کا ایک دوست بھی تھا جو جرنلسٹ تھا 

اور اس نے اندر موجود  ہر چیز کو اپنے کیمرے میں      بند کیا 

اب یہ سب صبح سات بجے کے خبر نامے میں  نشر ہونا تھا 

جیسے ہی مشن مکمل ہوا سب ایک دوسرے کے گلے لگ گئے 

اور سجدہ ریز ہوئے کے اللّٰہ نے ایک اور بڑی کامیابی سے نوازا 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

وہ لوگ جب احد کی طرف جارہے تھے تو شاہ نے ارہان سے پوچھا 

ثناء سے پوچھا کہاں تک پہنچا آور تلاشی لی یہ نہیں  

میری بات ہوئی ہے سارہ کو جیل بھیجھ دیا گیا 

میں نے تمھیں بتایا تھا نہ کوئی یونی کے ہوسٹل میں  جو نشے کی سپلائی ہوتی رہی ہیں وہ اس کے زریعے ہی ہو تی رہی ہے 

بڑے پیمانے پہ چرس ان کے گھر سے ملی ہے عمر کو ثناء ساتھ لے گئی ہے 

اور اس کی امی کو اٹیک ہوا ہے وہ داخل ہے ہوسپٹل میں 

میں نے ثناء اور کیپٹن ارنش کو بھی احد کے گھر بلایا ہے 

وہ لوگ احد کے گھر پہنچ تو وہاں فاتی امو احد کی امی ثناء ارنش سب بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھی اور امو اور آنٹی تسبیح لیے آیت الکرسی کا ورد کر رہی تھی 

وہ لوگ جیسے ہی اندر گئے سب لوگ ان۔کے قریب آگئے اور ان کو صحیح سلامت دیکھ کر شکر ادا کیا 

وہ سب بیٹھے ہی تھے کے احد نے کہا ما ما بھوک  لگی ہے کھانا کھانا ہے 

میرے شہزادے مجھے پتا ہے تم بھوک  کے بہت  کچے ہو لگ رہا ہے کھانا

ویسے آنٹی شکر ہے یہ مشن کے دوران نہیں  انہیں کہتا بھائی ایک منٹ رکو میں  کچھ کھا لوں پھر لڑتے ہیں 

شاہ نے جل کے کہا تو محفل کشت زعفران بن گئی سب کے کہکے چھوٹ گئے

ویسے شاہ بیٹے بات تو ٹھیک کی ہے احد کے بابا نے بھی اسے چھیڑا 

شاہ کب سے بے چینی محسوس  کر رہا تھا سب تھے ماہی کہی نظر نہیں آرہی تھی جس کا اسے شدت سے انتظار تھا 

اب انتظار کی جگہ غصے نے لے لی 

کھانا لگ گیا ہے سب آجائے ہادی نے کہا تو احد سب سے پہلے نعرہ لگاتے ہوئے بھاگا 

جیو میرے بھائی 

وہ لوگ ڈائنگ روم میں  گئے تو ماہی کھانا رکھ رہی تھی شاہ کے اندر تک سکون پھیل گیا 

لیکن اسے ںظرانداز کر کے بیٹھ گیا 

کھانا کھایا گیا اور سب دودھ پی کے کمرے میں چلے گئے 

شاہ کچھ سوچ کر کمرے میں  گیا تو وہاں امو بیٹھی ہوئی ہوئی تھی

آو بیٹا آؤں بیٹھو انہوں نے بیڈ ہی جگہ بناتے ہوئے کہا 

چچی میں مزاحم علی شاہ کا بھتیجا      ہوں 

شاہ کو سمجھ نہیں  آرہا تھا کیا کہے کیسے شروعات کرے 

تو اس نے سیدھے سیدھے دل۔میں  جو بات تھی کہہ دی 

پہلے تو وہ اسے دیکھتی رہی پھر مسکرادی مجھے پتا ہے 

چچی آپ کو کیسے پتا چلا 

میری کل تمھارے سر سےبات ہوئی تھی بیٹا میں نے انہے سب بتا دیا تھا اور سر تمھارے چاچو کے جگری یار تھے بھائی تھے دونوں  

تو انہوں  نے مجھے سب بتا دیا 

چچی ایک بات پوچھو آگر آپ برا نہ مانے تو اس نے جھجھک کر پوچھا 

بیٹا پوچھ لو اس میں  پوچھنے کی کیا بات ہے انہوں  نے شفقت سے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا 

چچی آپ نے گھر کیوں چھوڑا اتنا عرصہ ملی کیوں  نہیں سب سے آپ کو اور ماہی کو دادا بہت  یاد کرتے ہیں  کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا آپ کو 

ایک پل حرم کے چہرے پہ تاریک  سایہ لہرایا لیکن دوسرے ہی پل کچھ سوچ کر اسے سب بتانے کا تہیہ کیا 

بیٹا تمھاری دادو مجھے پسند نہیں  کرتی تھی یہ بات سب کو پتا تھی 

مجھے روز مارا جاتا کولہوں بیل کام کروایا جاتا تھا ایک تمھارے گھر میں  ابآ جی تھے جو مجھ سے بہت  پیار کرتے تھے 

دو سال بعد جب ماہی ہوئی تمھاری دادی اس کو دودھ نہیں  دیتی تھی نہ مجھے کھانے کو کچھ ایسے میں  تمھارے چچا تھے جو کھانے پینے کی چیزیں وغیرہ لا کے رکھ دیتے تھے کمرے میں  

یھر جب مشارق اور جزلان بھائی کی شادی ہوئی تو یہ ظلم و ستم مزید بڑھ گئے مجھے پہ طرح طرح کے الزام لگائے جاتے رہے جب علی کو وزیرستان جانآ تھا تو انہوں  نے مجھے سارے کاغزات دیے مجھے کچھ بھی ہوا تم چلی جانا یہاں سے

ان دنوں فاتی آٹھ ماہ کی تھی اور ماہی چار سال کی 

اور ٹھیک دس دن بعد اطلاع ملی کے کہ خان کا انتقال ہو چکا ہے 

میں  وہاں سے جانا نہیں  جاتی تھی لیکن ایک رات انہوں  نے اپنی دونوں  بھانجیوں کے ساتھ مجھے اور میری بچیوں  کو مارنے کی بات کی 

تو میں  اس رات بچیوں  کے ساتھ نکل لی اور اس کے بعد تو تمھیں پتا ہے 

اس نی بات ختم کی تو سر اور ماہی دروازے پہ کھڑی تھی اور فاتی اس کے پیچھے کھڑی تھی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے 

وہ دنوں  بھاگتی ہوئی حرم کی بانہوں میں سماں گئیں اور سب کی آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے 💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

اگلی صبح بہت  ہنگامہ خیز تھی شاہ ولا میں شاہ نے زاوی کو کال کی اور اسے لاونچ میں  لگی ایل ای ڈی لگانے کا کہا 

اور ساتھ ہی اسے ایک نیوز چینل کا نام بھی بتا دیا

جب سارے ناشتا کرنے لگے تو اس نے ایل۔ای ڈی لگا دیا ساتھ چینل ہی 

جہان نیوز  اینکر رات میں  ہونے والے آرمی سرچ آپریشن کے بارے میں  زورو شور سے بتا رہی تھی اور رات میں  بنائی ویڈیو بھی چلائی جا رہی تھی 

تو ناظرین یہ وہ کھناونے چہرے جن کے لیے ہی کہا گیا ہے 

شکل مومنہ کرتوت کافرہ 

جی ہاں شرافت کا لبادہ اوڑھے گھناونے چہرے

جو شہر بھر میں  سب سے شریف جانے جاتے تھے اور عمر انڈسٹریز کے مالک کاظم

ہاں جی ناظرین جیسے کہ آپ۔کو بتایا گیا ہے

شہر کی سب سے جانی مانی ہستی 

اور دوسرے نمبر میں  میر صاحب جو افغانستان کی دہشت گردی میں  ملوث تھے آجکل ایک تدریسی مدارس میں شعبہ کمپیوٹر سے وابستہ ہیں کون جان سکتا کہ یہ سب یہ کر سکتےہیں 

اور ناظرین یہ ہے بی جے ڈان جسے کسی نے نہیں دیکھا کبھی اور اس کے پیچھے کئی ممالک لگے ہیں اور یہ لندن میں ایک مشہور بزنس مین اور سوشل ورکر کے نام سے جانے جاتےہیں وہی سب سے بڑے دہشت گرد نکلے 

ان سب کو رات و رات اٹک جیل منتقل کر دیا گیا ہے 

نیوز اینکر مزید سنسی  پھیلا رہی تھی آیا کے انہیں پھانسی ہو گی یا عمر بھر جیل ان کے ساتھ اور لوگ جو پکڑے گئے ہیں ان کی تصاویر اور نام ہماری سکرین پہ چل رہیں ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ 

جیسے ہی نیوز اینکر نے کہا میرال کا سکتہ ٹوٹا

نہیں  میرے بابا ایسا نہیں  کر سکتے نہیں  میرا بھائی نہیں مام 

مام میرا بھائی مام بابا وہ ماں کو جھنجھوڑ رہی تھی اس کی آنکھوں  سے آنسوؤں  کی لڑی بہہ رہی تھی 

نانا میرے بابا وہ رو رہی تھی گڑ گڑا رہی تھی وہ روتے روتے زمین پہ بیٹھ گئی سب اسے ترحم بھری نظروں  دیکھ رہی تھے ترس تھا ہمدری تھی سب سے پہلے زائیشہ اور زرلش آگئے بڑھی 

اور میرال کو بانہوں میں بھرا داجی نے بیٹی  کو بانہوں  میں  بھرا تو وہ ان۔کے سینے سے لگ گئی بابا میں نے منع کیا تھا انہیں  نہیں  ہوئے 

بیٹی کی اس با ت سے انہیں  سب سمجھ آگیا 

کہ سب سچ ہیں 

انہوں  نے اشارے سے بہوؤں کو ان۔کو کمرے میں  لے جانے کا کہا 

انہوں نے زاوی کو اشارہ کر کے باہر آنے کا کہا 

وہ باہر آیا تو انہوں  نے اسے شاہ کو فون کر نے کو کہا 

زاوی نے فون ملایا 

تھوڑی دیر بعد ریسیور سے شاہ کی آواز ابھری 

زاوی سب ٹھیک ہے گھر میں  نیوز دیکھی 

شاہ نے چھوٹتے ہی پوچھا 

اچھا تو اس سب کے پیچھے تم ہو مجھے بتایا کیوں  نہیں  

داجی نے کہا 

تو شاہ کچھ ثانیے خاموش رہا 

داجی آپ کو پتا آپ کے بیٹے کا قاتل کون ہیں یہی سب ہیں 

آپ کیپٹن خان کو جانتے ہیں جو چا چو کے دوست تھے ان کو بھی انہوں  ہی نے سازش سے قید کروایا

اور چچی کے ماں باپ اور لاکھوں  لوگوں  کو بھی انہوں  نے مروایا ہے 

اور داجی میرا باپ بھی یہ کرتا تو خدا کی قسم انکو بھی نہ چھوڑتا اس نے سخت لہجے میں  کہا 

مجھے فخر ہے تم میرے پوتے ہو 

تم نے جو بھی کیا ٹھیک کیا 

اس ملک پہ اب اور دہشت گردی نہیں  ہو گئ اب یہاں سویرا ہوگا اجالا ہوگا 

داجی ایک اچھی خبر دوں اس نے آہستہ سے کہا

داجی نے اپنی آنکھ میں آئے ہوئے آنسو کو پونچھا 

ہاں بولوں 

حرم چچی اور ان کی بیٹیاں مل گئی ہے داجی 

کیا کہا شاہ کب ملی کیسے کہاں ہیں ٹھیک ہیں نہ وہ اب تو دونوں  بڑی ہو گئی ہو گئی نہ داجی نے بچوں کی طرح سے اشتیاق سے پوچھا 

داجی ٹھیک ہیں ملواؤں گا بھی 

آپ کب آئیں گئے یہاں 

میں  آج ہی آؤں گا داجی نے کہا اور بہو کیسی ہے انہوں نے پوچھا 

داجی آپ کو پتا میرا نکاح علی چچا کی بیٹی سے ہوا ہے 

داجی کی آنکھوں میں تشکر کے مارے اشک رواں ہو گئے

تم۔۔۔تم سچ کہہ رہے ہو؟؟؟؟

ان۔کی آواز کپکپائی 

داجی سچ کہہ رہا ہوں 

تم فون رکھو ہم اج ہی شہر آئیں گئے💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞 💞

 صبح سارے ناشتے کے بعد باہر صحن میں  بیٹھے ہوئے تھے 

ماہی سب کو مکمل طور پہ نظر انداز کیے ہوئے تھی 

شاہ تیمور کو اشارے کرے ماہی سے بات کرے اور تیمور اسکو آنکھیں دکھائے کافی دیر بعد شاہ نے اشارے کہنیوں سے تیمور  کو منا ہی لیا ہادی کو ابھی تک ان کے نکاح کا علم نہیں  تھا اس لیے وہ حیرت سے انہیں  دیکھ رہا تھا 

جبکہ ارہان اور احد چاے کے مگ منہ سے لگائے ہنسی کنٹرول کر رہے تھے 

ثناء اور ارنش سےہی بات جیت جاری تھی ماہی بقایا سے مکمل لا تعلقی اختیار کی ہوئی تھی 

ماہی بہنا میں  سوچ رہا جب سب ٹھیک ہو چکا ہے کیوں نہ کہی آؤ ٹنگ کے لیے جائے 

تیمور  بھائی آپ سب چلے جائیے گا

ارے تمھارے بنا ہم کیسے جائے گئے 

کیوں بھائی اتنا کچھ آپ لو گ چھپا سکتے ہیں اکیلے کر سکتے ہیں۔ تو اب کیوں نہیں 

ماہی نے غصے سے کہا

ماہی یار ہمارے کام کا حصہ ہیں ہمیں سب چھپا کے رکھنا پڑتا ہیں 

ارہان نے کہا

تم تو منہ بند ہی رکھو اور یہ میسنی ثناء مجال ہیں کہ اس نے بھی ہوا لگنے دی ہو مطلب میں  ہی ملی ہو تم لوگوں کو الو بنانے کو

اب بنے بنائے کو کیا الو بنانا 

شاہ نے آہستہ سے کہا 

لیکن بدقسمتی سے ماہی کے کانوں میں یہ جملہ پڑ چکا تھا 

کیا کہا مسڑ شاہ مراد بلکہ مصطفیٰ ویسے تم ہی بتا دوں تمھیں کیا کہوں اور الو ہو میں اور بھی مسٹر الو     ہی ہو 

ویسے بات تو ٹھیک ہے تم مسز الو ہو تو مجھے مسٹر الو بننے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ویسے الو کی بیوی کو کیا کہتے ہیں 

مسز الو شاہ نے طنزیہ مسکراہٹ سے اسے جلایا 

سب کھی کھی کر کے ہنسنے لگے

شاہ بھائی 

ویسے بات تو آپکی ٹھیک ہے الو کی بیوی کو کیا کہتےہیں 

مجھے بھی جاننا ہے 

ثناء نے کہا 

ماہی جو آگئے ہی جلی ہوئی تھی اس کی بات پہ تو تپ کر آگ ہو گئی 

ثناء تم منہ بند رکھو یہ نہ ہو جان سے چلی جاوں بڑی آئی بھائی کی چمچی جیسا نکما بھائی ویسی نکمی بہن ماہی نہ بدلہ پورا کیا

نہ نہ ماہی ایسا نہیں  کرنا نہیں  تو میں بیوہ ہو جاؤں گا ارہان نے دہائی دی 

اوئے کمینے بیوہ لڑکیاں ہوتی ہیں پتہ نی کس گھامڑ نے تجھے ائی ایس ائی میں بھرتی کیا ہے احد نے کہا 

ارہان نے شاہ کو دیکھا اور احد نے اسکی سید میں جہاں شاہ کھڑا اسے گھور رہا تھا 

ماہی کی ہنسی ہی نہ رکے اس کی ہنسی نے شاہ کو تپا ڈالا کیوث کے ارہان کا سلیکشن شاہ اور سر نے کیا تھا 

احد بھائی آپ نے صحیح کہا پتا نہیں  کس گھامڑ الو نے کیا

مجھے تو لگتا خود بھی کوئی اس جیسا ہی نکما ہوگا 

سب کی دبی دبی ہنسی سنائی دے رہی تھی 

شاہ کی وجہ سے کوئی اونچا نہیں ہنس رہا تھا 

شاہ نے سب پہ ایک غصے کی نظر ڈالی اور نکل گیا 

سب کھلکھلا کے ہنس پڑے 

ماہی ایسا نہیں  کہنا چاہیے تھا تمھیں  ناراض ہوگیا ہے وہ جاوں  منا کے لاوں تیمور نے کہا

بھائی میں ماہی نےاٹکتے ہوئے کہا

ماہی تم۔نے ناراض کیا جاوں مناکے لاوں جلدی 

اچھا بھائی جاتی ہو ماہی مرے ہوئے قدم۔اٹھاتے ہوئے بولی

ماہی اسکو پورے گھر میں ڈھونڈتی رہی کہی نہ ملا 

جب وہ اپنے کمرے میں  آئی کے بال کو کنگا کر لوں گئی 

وہ کمرے کے باہر سے ہی بالوں پہ لگا کیچر اتار چکی تھی جس سے اسکے بال پوری کمر کو گھیر چکے تھے 

جیسے ہی کمرے میں آئی 

شاہ اس کے بیڈ پہ بڑے مزے سے ہاتھ سر کےنیچے تکیا بنائے ہوئے لیٹا ہوا اسے دیکھ رہا تھا 

تم یہاں ہو اور میں  کب سے تمھیں ڈھونڈ رہی ہوں 

ماہی نے کہا 

کیوں مجھے کیوں ڈھونڈ رہی تھی میں تو تمھیں اچھا ہی نہیں لگتا نہ 

روٹھا روٹھا اتنا اچھا لگ رہا تھا کے ماہی۔نے دل ہی دل میں  ماشاءاللہ کہا 

ماہی بیڈ کے قریب ہوئی اور اس کے پاوں والی طرف بیٹھ گئی 

ہاں کیا ہے نہ تم بہت بدتمیز ضدی اکڑو ہو حد درجہ کڑوے کسیلے ہو جھوٹے ہو پر مجھ سے بہت  پیار کرتے ہو اور میرے شوہر ہو تو مجھے قبول ہو اب تم مجھے اچھے نہیں  لگتے تو کوئی بات نہیں  میں  پھر بھی   تمھارے ساتھ رہنے پہ تیار ہو 

کیا کیا میں اکڑو ضدی اور برا ہو کڑوا ہو کریلا ہو پر  کیا ہے نہ تمھارا ہو اب ایسے ڈائیلاگز ہر گز نہیں بول سکتا یہ لفافی باتیں مجھے نہیں آتے ہیں 

شاہ نے شرارت سے کہا ماہی جو سوچ رہی یہ اس کے لیے کہہ رہا ہے لیکن آخری بات اس حلق تک کڑوا کر گئی 

تم ہو ہی بدتمیز مجھے نہیں کرنی تم سے بات جا رہی ہو 

وہ کھڑی ہوئی شاہ نے اس کو روکنے کے لیے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کیا وہ اس کے سینے سے آن لگی

ماہی ایک دم جھٹکے سےالگ ہو گئی اس کا چہرہ جیسے انار ہو 

ماہی بات سنوں نہ شاہ نے اس کا چہرہ اپنی طرف موڑا

میں بہت برا ہوں ماہی پر میں تم سے کبھی دسبتدار نہیں ہو سکتا 

کچھ بھی ہو جائے مجھے تم سے محبت نہیں ہے عشق ہو گیا ہے اور جو کچھ ہوا مجھے خود بھی نہیں پتا تھا اس دن جب تم اغواء ہوئی تو سر نے بتایا پھر بھی تمھیں لگتا میری غلطی ہے تو معافی مانگتا ہوں 

ماہی نے آسودگی سے شاہ کو دیکھا اور اپنا سر اس کے سینے میں چھپا گئی 

شاہ نے اس کے گرد اپنے بازوں پھیلا دیے 

لیکن داجی اور آپ کےگھر میں  سب قبول  کر لے گئے کیا 

ماہی نے اس سے پوچھا اس کے آنکھوں میں وسوسے اور خدشے تھے

میری جان سب ٹھیک ہو جائے گا میں ہو نا اج داجی آئیں گئے سب کے ساتھ تو سب ٹھیک ہو جائے گا جلد ہی تم اس گھر میں میرے ساتھ ہو گی

ایک بات کہوں  شاہ ماہی نے اس سے الگ ہوتے ہوئے کہا 

اونہو ایسے بھی بات ہو سکتی ہے شاہ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے کہا 

اچھا سنیں تو 

جی جی بیگم سنائیے 

شاہ ماہی نے غصے سے کہا 

اچھا اچھا بولوں 

میں چاہتی ہو جب تک ان سب کو سزا نہ ہو جائے میری رخصتی نہ ہو 

اس نے شاہ کو دیکھ کر کہا 

لیکن کیوں ماہی 

شاہ میں  چاہتی ہم سکون سے اپنی زندگی کا آغاز کریں یوں نہیں نہ 

ماہی میں کیسے رہوں گا 

شاہ آخری بار مان جائے نہ

ماہی نے بہت مان سے کہا 

اچھا ٹھیک ہیں جیسے تم کہوں 

شاہ بہت اچھے ہو آپ اس نے خوشی سے کہا 

لڑکی کبھی کہتی ہو اچھا کبھی کہتی ہو برا ایک بار ہی سوچ لوں کیا ہو میں 

میرے ہو اور کیا ماہی نے اکڑ کر کہا شاہ بس دیکھتآ رہ گیا💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

آج تین ماہ بعد قیس کی آخری سماعت تھی سب اس وقت کمرہ عدالت میں  تھے 

تمام ثبوتوں اور گواہان کے بیانات کو دیکھتے ہوئے 

سب کو سزائے موت کی سزا دی جاتی ہیں جبکہ سارہ ولد کاظم کو عمر بھر قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہیں 

سب اپنے کیف کردار تک پہنچ چکے تھے

سارہ کی والدہ پاگل ہو چکی تھی عمر کو بورڈنگ بھیج دیا گیا تھا اس کی سر پرستی کا ذمہ شاہ کے سر تھا 

میرال پہلے سے بہتر  ہو چکی تھی اور اس کی امی نے سب سے معافی مانگ لی تھی 

ماہی فاتی اور اس کی امو سے سب نے معافی مانگی معاف کر دیا گیا سب کو آج فیصلے کے 

 ٹھیک ایک ہفتے کے بعد شادی طے تھی

حرم اب شاہ ولا میں  ہی رہائش پذیر تھی 

آج مہندی تھی ہر طرف رنگ و نور کا سیلاب آیا ہوا ہوا تھا رنگ بھرنگی تتلیاں اردگرد اڑتی پھر رہی تھی 

اور ان کے گرد بھونپو منڈلا رہے تھے یہ خالصتن احد کا خیال تھا جو وہ تیمور  اور ارہان کو لڑکیوں کو دیکھنے پہ سننے کو مل رہا تھا 

لڑکیاں بھی کچھ کم نہ تھی مسکرا مسکرا کر انہیں لفٹ کروا رہی تھی 

تو کیوں  جل رہا ہیں تجھے کوئی دیکھ نہیں  رہی تو اس میں  ہمارا کیا قصور

اوئے لڑکیاں کیا مجھے نہیں دیکھ رہی میں  خود نہیں  انہیں لفٹ کروا رہا احد نے کہا

میرے لیے تو حور آئی ہے آسماں سے اس نے بڑی ترنگ سے جواب دیا 

او بھائی جسے تو حور کہہ رہا نہ اسے کے ساتھ دو فرشتے بھی 

فرشتے بھی ایسے کے تیری ہڈی پسلی نہ سلامت رہے ہادی نے کہا

احد تو جل کر کباب ہو گیا

فرشتے نہیں شیطان کہ خود تو دلہا بننے جا رہا دوست کی پرواہ ہی نہیں یہ ہے دوستی اسکی کیا  تھا میری منگنی ہی کروا دیتا اپنی بہن سے نہیں اسے تو اپنی پڑی ہے احد جو بڑے مزے سے دہائی دے رہا تھا وہ دیکھ نہیں سکا شاہ اس کے پیچھے ہی کھڑا ہیں 

بولتے بولتے جیسے ہی پیچھے مڑا شاہ کھڑا اسے خطرناک تیوروں سے اسے گھور رہا تھا 

وہ۔۔وہ۔۔میں وہ ہکلانے لگا

باقی سب اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کرنے میں لگے تھے 

کیا وہ میں وہ میں لگا رکھی ہے 

بولوں اب جو   بول رہے تھے ابھی بھی شاہ کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہ آیا تھا اور سینے پہ بازوں باندھے احد کی طرف متوجہ تھا 

بول بھی اب تیمور نے کہا 

تو چپ کر شاہ نے اسکو غصے سے کہا 

ہاں بولوں احد 

چہرے پہ کوئی نرمی لاوں تو بولو نہ جلاد بنے کھڑے ہو اب بات جو سچ ہے وہی سچ ہے تیری بہن سے نکاح کرنا چاہتا ہوں سیدھی سی بات ہیں 

پہلے تھوڑا ڈرتے پھر بعد میں بہت  سنجیدگی سےکہا 

اب جو کر نا ہے کر لے اپنی شادی تو ہو رہی یہ نہیں میری بھی کروادے 

شاہ کچھ دیر تو چپ رہا پھر ہاتھ بڑھا کے منہ پہ ماراکمینے انسان منہ سے بکتا نہ رشتہ بھیجتا تو بھی تھا کروا دیتا شادی 

اب تو کیا چاہتا ہے بغیرت آدمی میں اپنے منہ سے کہتا میری بہن سے شادی کر لوں بہت بھاری ہے مجھ پہ ساتھ ساتھ اسکو مارتے کہا جا رہا تھا شاہ

کیا ہو رہا ہیں یہ ایک دبنگ آواز ان کے پیچھے سے آئی 

رشتہ طے ہادی کی زبان پھسلی 

کیا مطلب انہوں نے گھورا 

مطلب ابو وہ احد نہ شادی کرنا چاہتا ہے 

ایسے جنگلیوں کی طرح لڑ کے برخوردار شادی کی پلیننگ کی جا تی ہیں کیا

باںا وہ میں وہ احد چپ کر کے سر جھکا گیا کیسے بتاتا باپ کو 

ہادی تم بتاوں 

بابا نہ بھائی زرلش اپیا سے شادی کرنا چاہتے ہیں 

کیا میں یہ صحیح سن رہا ہوں 

انہوں نے احد سے پو چھا جو سر جھکائے کھڑا تھا اور ساتھ کھڑا شاہ مسکرا رہا تھاجی بابا سچ ہے

کیوں برخودار تمھیں منظور ہیں اپنی لڑکی کے لیے ہمارے لڑکے کا رشتہ قبول ہیں احد کے ابو نے شاہ کو کہا 

بلکل قبول ہے ایک آواز ان کے پاس سے آئی سب نے مڑ کر دیکھا تو زاوی داجی اور مشارق صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے 

تو کب آئے پھر ہم اپنی لڑکی لینے انہوں نے کہا 

جب آجاوں ویسے یہ باتیں اندر چل کر کرتے ہیں کیوں ابا جی مشارق شاہ نے کہا 

بلکل چلتےہیں اور سب اندر کی طرف بڑھ گئے

_______________

ماہی ہاتھ نیچے کروں اپنا ہر کام میں ہاتھ گھسایا ہوا ہیں بیوٹیشن کوپتا ہے کیسے تیار کرنا ہیں یہ نہیں کروں وہ۔نہیں کروں دس بار زاویار بلانے آچکا ہیں تمھارے ڈرامے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں ہیں 

ماہی جو کب سے بیوٹیشن کے کام میں مین میخ نکال رہی تھی 

ہانیہ سے برداشت نہ ہوا تو بول پڑی اس کے بولنے کا یہ فائدہ ہوا اب وہ خاموشی سے تیار ہو رہی تھی 

بیوٹیشن نے ایک تشکر بھری نظر اس یہ ڈالی اور اپنا کام کرنے لگی 

کسی نے میرا گولڈی کلر کا جوتا دیکھا ہیں مل نہیں رہا کہی 

زرلش پوچھ رہی تھی سب سے 

وہ اس نے سکن کلر کا فراق پہنا ہوا تھا ساتھ جس کے سرخ ڈوبٹا تھا بلکل سادہ چاروں اطراف گوٹا لگا ہوا تھا 

اور فراق کے دامن اور بازوں پہ نگوں کا کام کیا گیا تھا ہلکا پھلکا تیار ہوئی  بہت  پیاری لگ رہی تھی 

زری میری پہن لوں گولڈن جوتی 

ماہی نے اسے آفر کی 

وہی والی ہی تو نہیں مل رہی زرلش نے کہا

کیا ماہی کی   آنکھیں    باہر کی طرف ابلنے لگی 

وہ نہ۔ماہی تم دے نہیں رہی تھی اور ویسے مجھے ملے نہیں تو چرانے پڑے 

اس نے اطمینان سے کہا 

تم نند گلی کا گند اس کابل ہی نہیں ہو تم سے ہمدری کی جائے مائی کو نیا نیا صدمہ یہنچا تھا 

زری یہ رے جوتے لو اور بتاوں سب تیار ہوئی یہ نہیں اگر ہو گئی ہو تو باہر چلے آنٹی زاویار کو بہت بار بھیج چکی ہیں ہانیہ نے کہا 

ہعں سب تیار ہیں سب ادھر ہی آرہی ہیں 

آکیا رہی آگئی ہیں بلکہ مابدولت فاتی بولتی اندر آئی۔باقی سب اس کے پیچھے تھی 

میرال زائیشہ ثناء  اور کیپٹن ارنش 

واو اپیا چاند کا ٹکرا لگ رہیں ہو بہت  پیاری لگ  رہی ہو میری شہزادی فاتی نے ماہی کو دیکھ کر کہا اور ماتھا چوما سبز سرخ اور پیلے امتزاج میں بنے فراک۔میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی 

وہ سب ماہی کو لیے جیسے ہی صحن میں  آئی ہر طرف ہا ہو کا شور بلند ہو رہا تھا اور اور جواد احمد کا گانا آئے مہندی کی یہ رات بیک گراؤنڈ میں لگا تھا دولہا پہلے ہی سے جولہے پہ براجمان تھا 

ماہی کو اس کے ساتھ لا کر بھٹا دیا گیا 

سب کے موبائل حرکت میں  آچکے تھے لیکن شآہ نے کوئی بھی تصویر لینے سے منع کر دیا تھا

شاہ مسلسل سب کو جواب دےرہا تھا ماہی چپ تھی 

منہ کھولنا جیسے ہی ان۔کے یاس سے دش کم۔ہوا تو کہا 

کیوں ماہی نے ہونقوں  کی  طرح اسے دیکھنے لگی 

کیا کہا وہ میں  دیکھنا چآہ رہا تھا مسز کہی زبان تو نہیں  کٹ گئی جو اتنی چپ ہو

ماہی  نے غصے سے اسے دیکھا اور سامنے دیکھ کر کہا بہت  برے ہو شاہ

شاہ نےجھک کر سرگوشی کی 

شاہ کی بلبل جو اچھی ہیں میں برا ہی چل جاوں گا ہینا 

اس نے ماہی کے ہاتھ کے اوپر ہاتھ رکھ کر کہا تو سر جھکا گئی 

رات گئے تک مہندی کی رسم۔ہوتی رہی

_______________

تیمور جو کب سے شیمپو ڈھونڈ رہا تھا ملنے پہ نہیں آرہا تھا 

اف یہی تو رکھا تھا یہی کہی ہوگا 

لیکن پورا کمرہ پلٹ دیا شیمپو کا نام و  نشان تک نہیں تھا 

زائیشہ جو شاہ کو  بلانے آئی تھی پورے کمرے کی حالت دیکھ کر اسکا جی چاہا سر پیٹ لے

    کیا کیا آپ نے یہ

 شیمپو ڈھونڈ رہا تھا مل نہیں  رہا 

کیا شیمپو آپکو لگتا بیڈ اور صوفے کے کوروں میں ہوگا یا الماری کے کپڑوں میں دیکھے کتنا گند پھیلایا ہے اب اسے سمیٹے کی آپ کی بیوی آکے 

زائیشہ نے تیوری چڑھا کر کہا

اس کو  غصہ آرہا تھا 

ایک تو اتنا تھک چکی تھی اوپر سے یہ سب 

ہاں تو بیوی ہی سمیٹے گی نہ تیمور نے مزے سے صوفے پہ بیٹھ گیا

تو بلائے بیوی کو اور کرے میں  تو جا رہی ہو اور جانے کو مڑی 

رکو تو زشی 

مسڑ میں زائیشہ ہو زشی بس گھر والوں اور اپنوں کے لیے ہو 

وہ اس کے پاس آکے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا 

سنو میں تمھارے اپنوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں کیا ساتھ دوں گی مرا  

کیا مطلب زائیشہ نے کہا 

اف کیسی لڑکی ہو میرا کیا بنے گا مطلب اب بھی میں یہ بتاوں لڑکیوں کو تو اپنی طرف اٹھنے والی ہر نظر کا احساس ہوتا ہے اور تمہیں تو کچھ پتا ہی نہیں چلتا پچھلے دو سال سے تمھاری 

محبت میں  خوار ہو رہا ہوں اور تمھیں احساس ہی نہیں پتا نہیں کس بے حس لڑکی سے میرا پالا پڑا ہے 

ہاں تو اب کوئی حس والی لڑکی لے آوں اظہار محبت کر رہے ہو یا پھتر مار رہیں ہو بڑے آئیں مجھے پتا جو محبت ہے لڑکیاں ہی تاڑتے رہتے ہو

اس نے جل کر کہا 

او ہو یعنی یہاں بھی آگ برابر لگی ہوئی ہیں میں ہاں سمجھو

زیادہ شوخے نہ ہو جو گھر والوں کا فیصلہ ہوا وہ میرا ہوگا 

وہ سب تو ہاں کر چکے ہیں تیمور نے جلدی سے کہا 

تو میری طرف سے بھی ہاں ہیں 

اور بھاگ گئی

_________________

ماہی اب یہ کیا ڈرامہ ہیں تم اس عمر میں  مجھے خوار کروں گی 

نکاح سے پہلے ماہی نے سب کے سامنے ایک شرط رکھی باقی سب تو مان گئے لیکن امو نہیں مان رہی تھی 

اب وہ مختلف ہتھکنڈوں سے۔انہیں  منانے کی کوشش کر رہی تھی 

ماہی خدا کے لیے کیوں اس عمر میں  مجھے ذلیل کر وآ رہی ہو لوگ کیا کہے گئے اس عمر میں نہیں 

شاہ تم سے میں شادی نہیں  کروں گئی جا کے بتا دوں سب کو شاہ چپ کرے دونوں کی بات سن رہا تھا ماہی کی بات پہ اسکو غصیلی نظروں سے دیکھنے لگا 

مان جائے نہ آنٹی سر آپ کو بہت  خوش رکھے گئے ماہی فاتی دونوں اپنے گھروں کو چلی جائے گئی آپ اکیلی رہ جائے گئی مان جائے لوگوں کا کیا وہ تو باتیں کرتے رہتے ہیں

شاہ امو کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ساتھ ہی ماہی بیٹھ گئ 

امو مان جائے فاتی کے لیے بھی اچھا ہو گا 

اس نے ابو کو نہیں دیکھا تھا اس باپ کے پیار کا نہیں  پتا 

امو اب جں اسے اس کا باپ لوٹا دیں کر لیں شادی میرا میکہ ہوگا میں آیا کروں گئی اور جب یہ مجھ سے لڑا کرے گا میں بابا کو شکایت کروں گئی یہ ٹھیک رہے گا 

بات کرتے کرتے ماہی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور ساتھ ایک عجیب سی چمک تھی 

اور وہ ہار گئی اس کے آنسو سے اور انہوں نے اثبات میں سر ہلایا

اور دونوں ان کے گھٹنوں پہ سر رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے _______________

ماہی اور شاہ کا دوبارہ نکاح کروایا گیا ان کے نکاح سے پہلے خان اور حرم کا نکاح ہوا تھا زرلش کی اور احد کی منگنی بھی تھی ہر طرف گماگہمی تھی 

شاہ اور ماہی کو جب سٹیج پہ لایا گیا تو ہادی نے کیمرہ آن کر لیا اور ان کی تصویریں کھینچنے لگا ماہی نے سرخ کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا جس پہ سلور کام ہوا ہوا تھا اور شاہ نے نیوی بلیو شیروانی پہنی ہو ئی تھی گرے کلر کا کالر پر کام ہوا ہوا تھا 

ساتھ سفید شلوار زیب تن کی تھی 

تھوڑی دیر بعد زرلش کو سب لے کر آئیں 

احد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اوپر سٹیج پہ لایا 

ہر طرف ہاؤ ہا کا شور تھا ہوٹنگ ہو رہی تھی 

رنگز کے تبادلے کے بعد 

کھانے کا دور شروع تھا جب خان نے حرم کو دیکھا تو اس کے پاس چلا آیا 

حرم جو مگن سی سامنے جوڑوں کو ہنسے ہوئے دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ سورتیں پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھی نظر نہ لگے 

مجھ پہ بھی پڑھ کر پھونک دو کچھ مجھے بھی نظر لگ جاتی ہیں 

خان نے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو حرم نے جھجک کا سر جھکا دیا 

حرم تم۔بلکل نہیں بدلی اب بھی ویسے ہی شرماتی ہو جیسے پہلے تھی 

حرم نے سر اٹھا کر دیکھا خان اسے ہی دیکھ رہا تھا 

وقت کا آپ پہ بھی کچھ اثر نہیں ہوا آپ پہلے سے ذیادہ سوبر ہوگئےہیں حرم نے سامنے دیکھ کر کہا

ویسے تم موٹی ہو گئی ہو تھوڑی سی حرم پر کہنا پڑے گا پہلے سے ذیادہ پیاری ہو گئی ہو 

خان نے اس کی۔طرف جھک کر شریر لہجے میں  کہا تو شرما گئی 

خان ایک بات کہوں حرم نے سامنے دیکھ کر کہا 

مجھے پتا ہیں حرم تم کیا کہنا چاہتی ہو 

آپکو کیسے پتا نجومی ہو کیا 

حرم تمھارے معاملے میں میرا دل نجومی ہی ثابت ہوا ہے نجومی بھی وہ کہ جیسے میرے دل میں وحی اتار دی جاتی ہیں جو غلط ہو ہی نہیں سکتی

حرم اسکو دیکھنے لگی 

کیا دیکھ رہی ہو میں اب بھی ویسا ہی ہو تمھارے معاملے میں 

تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے 

اور ہادی انکو بلانے لگا تصویریں کھینچوا نے کو وہ دونوں سامنے چل دیے

______________

شاہ اتنی رسموں کے بعد تھکا ہوا کمرے کی جانب آیا تو آگئے زرلش زائیشہ ثناء فاتی ہادی اور زاوی کھڑے تھے 

اب تم لوگ کیوں خدائی فوجدار کی طرح سر پہ منڈلا رہیں ہو جاؤں اب اپنے اپنے گھروں کو جان چھوڑوں 

جان بھی چھوڑ دے گئے پہلے نیگ تو دے 

اب بھی نیگ شاہ کی آنکھیں جو نیند سے۔بند ہو رہی تھی 

ایک دم کھل گئی 

اس نے بندے گنے اور نوٹ تو کم تھے

اور جان چھوڑانی مشکل لگ رہی تھی اس نے ایک دم پینترا بدلہ 

میری پیاری بہنوں کل لے لینا ابھی میرے پاس کچھ نہیں ہے رحم کی اپیل ہیں سب سے

ڈرامہ بازی نہ کروں پیسے نکالوں جلدی نہیں تو جب پیسے ہو تب آجانا 

ہادی نے لڑکیوں کی طرح ہاتھ نچا کر کہا 

مجھے تجھ پہ شک تھا تو لڑکی ہے آج ثابت بھی کر دیا شاہ نے اسے لتاڑا 

بکواس نہ کر مجھے کیوں نھيں ںتایا تھا نکاح کا بھگت 

شاہ نے موبائل نکالا 

اور احد کو کال کیا اوئے کدھر ہو سارے خدا کے لیے اپنی والیوں کو لے جاؤں 

دو منٹ بعد سب حاضر تھے 

احد اس زرلش کو لے جا اور ارہان تو ثناء کو باقیوں کو میں پورا پارا کرتا ہوں 

تیمور تو ہادی کو لے جا لاحولہ ولا قوت 

اسکو لے۔جانے سے بہتر ہیں میں چھلانگ لگا لوں چھت سے تیمور نے جل کے کہا

میں تو جیسے بھنگڑے ڈالوں گا تجھے تو میں اپنے ھاتھوں سے مار ڈالوں اگر تیرے جیسی مجھے بیوی ملے ہادی نے تیمور کآ گلا پکڑ لیا سب ان کی طرف مشغول تھے تو احد نے شاہ کو اشارہ کیا اندر چلا جائے 

زرلش جو سب دیکھ رہی تھی وہ کچھ بولتی اس سے پہلے ہی شاہ نے دروازہ بند کر دیا 

یہ چیٹینگ ہیں باہر سے شاہ کو آوازیں آنے لگی دروازہ بجنے لگا 

ویسے جو بھی ہیں بہت اچھا ہیں اب سونے دوں صبح بات ہوگی گڈنائٹ 

کچھ دیر تو دروازہ بجتا رہا پھر سب چلے گئے 

ماہی جو گھونگھٹ ڈالے بیٹھی تھی کہ شاہ اٹھائے گا 

لیکن وہ کبھی الماری کھولے کبھی دراز بند کرتا رہا کچھ دیر تو ماہی دیکھتی رہی پھر تنگ آکر بول پڑی 

کیا ڈھونڈ رہیں ہو

شاہ اس کے قریب آکے بیٹھا اور بولا یار منہ دکھائی نہیں مل رہی معصوم سی صورت بنا کر کہا

کیا منہ دکھائی 

تم جیسا لاپرواہ انسان کبھی نہیں دیکھا تم منہ دکھائی بھول گئے ہو ماہی تو بیڈ پہ ہی کھڑے ہو کر اسے کمر پہ ہاتھ ٹکائے گھورنے لگی 

اف لڑکی تمھاری شادی ہوئی ہیں اور میں تمھارا شوہر ہو لگ تو نہیں رہا ہماری نئی شادی ھوئی ہیں شاہ نے جھنجھلا کے کہا

ماہی کو بھی خیال آیا تو وہ چپ کر کے بیٹھ گئی 

ماہی یہ ہیں تہھارا حق مہر اور یہ رہی تہھاری منہ دکھائی 

شاہ نے جیب سے دو لفافے  نکال کے دیے 

پہلے میں حق مہر کی رقم اور دوسرا دیکھ کر اس کی انکھیں تشکر کے اظہار کے لے بہنے لگی اور مسکراہٹ تھی 

شاہ یہ ہمارے لیے نہ تم نے مجھے سب سے اچھی منہ دکھائی دی ہے تمھیں یاد رہی بات میری وہ عمرے کے ٹکٹ پکڑے ہوئے کہہ رہی تھی 

اور شاہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اسے اپنا سینے سے لگا لیا پتا ماہی تم کہتی ہو نہ مجھے تم سے محبت ہے تم غلط ہو بلکہ میں جب تمھیں دیکھتا ہو نہ مجھے ہر بار تم سے پہلے سے زیادہ عشق ہوتا ہیں میرے عشق کی شدت پہلے سے ذیادہ ہوتی ہیں 

آپ کو پتا کیوں شدت پہلے سے ذیادہ ہوتی ہیں  شاہ 

کیوں کہ کیوں کہ شدتیں عشق کی معراج ہوا کرتی ہیں 

وہ عشق ہی کیا جس میں شدت ہی نہ ہو یہ عشق ہی تو ہیں جو ہمیں اللّٰہ سے ملواتا ہیں 

عشق ہی تو تھا جس نے حق پہ کھڑے ہو کر پیاس کی حالت میں گردن کٹوا دی جھکنے نہ دی عشق ہی تو جس نے انا الحق کا نعرہ لگایا یہ عشق ہی تو ہے جس کی وجہ سے سرحد پہ کھڑے سپاہی جان کا نزرانہ دیتے ہیں اور عشق کی تو تھا جس وجہ سے کائنات وجود میں  آئی ماہی نے کہا 

بے شک شاہ نے کہا 

آؤں ہم اپنی نئی زندگی کا آغاز دو نوافل ادا کر کے کریں 

تو ماہی نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں  اٹھنے لگے ۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Shiddaten ishq ki meraj hua karti hen Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Shiddaten ishq ki meraj hua karti hen written by Zzish Noor.Shiddaten ishq ki meraj hua karti hen by Zzish Noor is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages