Dil Man Raft By Fari Islam New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading..
Dil Man Raft By Fari Islam New Complete Romantic Novel |
Novel Name: Dil Man Raft
Writer Name: Fari Islam
Category: Complete Novel
برقی قمقموں سے سجے اس خوبصورت ہال میں چاروں اور خوشیاں بکھری ہوئی تھیں۔
بارات کا شاندار طریقے سے استقبال کیا گیا تھا۔
ہوتا بھی کیوں نا آخر کو خاندان کی اکلوتی بیٹی کی شادی تھی۔
نکاح ہوتے ہی دولہن کو اسٹیج پر لایا گیا۔
گھونگھٹ میں چھپا وہ نازک وجود۔۔
جسے دولہا کے پاس لا کر بیٹھایا گیا تو وہ خود میں سمٹی تھی۔
کچھ ہی دیر بعد دولہا اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔
اور جب وہ واپس آیا تو اسکی آنکھیں غصے سے سرخ تھیں۔
"اپنی بدکردار پوتی کا نکاح کرتے آپ کو شرم نہیں آئی ابو بکر یوسفزئی صاحب ؟"
پھولوں کا ہار نوچ کر پھینکتے وہ غرایا تو دولہن بنی اس نے یہ الفاظ سنے تو پتھرا سی گئی تھی
"یہ کیا بکواس کر رہے ہو؟"
غصے سے چیختے اس کے بھائی نے دولہا کا گریبان پکڑا تھا
"چیخوں مت اپنی بہن سے پوچھو جس کی بدکرداری کے چرچے زبان زد عام ہیں اور ایسی بے حیا اور بدکردار لڑکی سے رشتہ تو میں مر کر بھی نہیں جوڑ سکتا۔۔"
نفرت بھری نظروں سے اسے دیکھتے اس نے زہر اگلا تو تڑپ کر دولہن بنی وہ اسکے قدموں میں گری تھی۔۔
"ایسا مت کریں خدا کے لئے مجھے طلاق مت دیں یہ داغ میرے دامن پر مت لگائیں"خوف سے اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا
"گل۔۔"اسکا بھائی تڑپا تھا۔۔
"مجھے طلاق مت دینا ورنہ میں مر جاؤں گی میں پاؤں پکڑتی ہوں"
اسکے پاؤں پکڑتے وہ رو رہی تھی
"بہت ہوگیا یہ ناٹک میں تمہیں پورے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں"
وہ تین لفظ نہیں تھے وہ اسکی موت تھی۔
پتھرائی نظروں سے اس نے اپنی کچھ لمحے پہلے بنے شوہر کو دیکھا تھا جو لمحے میں اسکی دنیا اجاڑ گیا تھا اسکے دامن پر داغ لگا گیا تھا
اس کا دل بند ہونے لگا تھا
بند ہوتے دل کے ساتھ وہ ایک طرف گری تھی۔۔
وہیں دوسری طرف اندھیرے کمرے میں سیگریٹ پھونکتے وجود نے آسمان کو تک رہا تھا جب کوئی کمرے میں آیا تھا
"مبارک ہو تمہارا بدلہ پورا ہوا مر گئی تمہارے دشمن کی بیٹی۔۔"
ان لفظوں نے اس شخص کے سینے سے دل نکال کر رکھ دیا تھا۔۔
____________
پہاڑوں سے گھری اس حسین وادی میں موسم بھی بلا کا حسین تھا رات ہوئی بارش نے فضا میں خنکی کا اضافہ کیا تھا۔
اور یہی موسم آج یوسفزئی مینشن والوں کے لئے مشکل کا باعث بنا تھا۔
لکڑی سے بنے اس حسین مینشن کے چاروں اطراف درخت ایک قطار میں لگے اس مینشن کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے ۔۔
اندر داخل ہوتے حسین لان خوبصورت پھولوں سے سجا ہر کسی کی توجہ کا باعث بنتا تھا۔
"انا بی سوپ کا پیالہ تیار کریں دیکھیں میری بچی پھر بیمار ہوگئی ہے"
امو جان کی پکار پر انا بی نے یخنی کا پیالہ تیار کیا تھا۔۔
"بٹیا پھر بیمار ہوگئیں ؟" سوپ باؤل میں ڈالتے انہوں نے انڈے چھیلتی امو جان سے پوچھا جو سر اثبات میں ہلا گئیں۔
"جانتی تو ہیں آپ ایسا موسم فوراً سے اس پر اثر انداز ہوجاتا ہے"
"اللہ ہماری بچی پر رحم کرے" دعا دیتے ان کے لہجے میں زمانوں کا دکھ سمٹ آیا تھا
"آمین" ان کے ہاتھ سے ٹرے لیتے وہ سیڑھیاں چڑھتیں اوپر آئی تھیں اسکے دروازے کے سامنے رک انہوں نے گھیرا سانس بھرا تھا۔۔
"ماہے" اندر داخل ہوتے خالی بیڈ دیکھ انہیں حیرت ہوئی تھی جبھی اسے پکارتے انہوں نے بالکونی کے کھلے دروازے کو دیکھا تو ان کا دل دکھ سے بھر گیا۔
ٹرے ٹیبل پر رکھتے آہستہ سے قدم اٹھاتے وہ بالکونی میں آئیں تو اسے ریلنگ کے پاس کھڑا پایا۔
سیاہ لباس میں شال اپنے گرد لپیٹے۔۔
کندھوں تک آتے بال ہوا میں بکھر رہے تھے۔
بھوری آنکھوں پر سجی گھنیری پلکیں نم تھیں۔۔
"ماہے ایسے کیوں کھڑی ہو گڑیا بیمار ہو جاؤ گی"
امو جان کی آواز پر اپنی سوچوں میں کھوئی وہ بری طرح چونکی تھی۔۔
"آپ کب آئیں امو جان؟"
گہرا سانس بھرتے اس کے مسکرانے کی کوشش کی تھی
"بس ابھی آئی آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں پہلے ہی طبعیت نہیں ٹھیک اور نا بیمار ہو جائیں آپ"اسکے ماتھے پر ہاتھ اسکا بخار چیک کیا تو وہ ان کا ہاتھ تھام گئی ۔
"طبعیت ٹھیک ہے اب امو جان آپ پریشان مت ہوا کریں میرے لئے" ان کے ہاتھ تھامتے وہ ہولے سے کہتے انہیں لئے اندر کمرے میں آئی تھی ۔
"جلدی سے یہ سوپ پیو پھر فریش ہو جاؤ میں نے وصی کو کال کی ہے وہ تمہیں ڈاکٹر کے لے جائے گا"
"امو جان" ان کی بات پر اس نے شکوہ کناں نظروں سے انہیں دیکھا تھا
"اچھا پہلے یہ سوپ پیو پھر بات کرتے ہیں اسکے آگے ٹرے رکھتے انہوں نے کہا تو وہ خاموشی سے سوپ پینے لگی۔۔
"امو جان وصی کو منع کردیں پلیز"
اس نے ایک آخری بار التجا کی تھی
"ماہے میری جان کب تک خود کو اس جرم کی سزا دینگی جو آپ نے کیا ہی نہیں وصی اچھا لڑکا ہے آپ کے آغا جان کو بھی بے حد پسند ہے آبان کا بیسٹ فرینڈ ہے"
"مگر وہ غیر شادی شدہ ہے اور میں ۔۔۔"اسے سے پہلے وہ جملہ مکمل کرتی وہ اسے وہیں روک گئیں۔۔
"ماہے نہیں ایسا نہیں کہتے"
"امو جان ہر لڑکی کی زندگی میں میرے باپ جیسا انسان نہیں آتا میں نے اسے اپنا نصیب سمجھ کر قبول کرلیا ہے پلیز آپ سب بھی یہ حقیقت تسلیم کرلیں کے ماہے نور یشم یوسفزئی کی لاڈلی بیٹی ایک طلاق یافتہ ہے آنکھیں بند کرلینے سے حقیقت نہیں بدل جائے گی خدارا میری ذات کا تماشہ نا بنائیں امو جان۔۔۔" بے دردی سے گال پر بہتے آنسوؤں کو صاف کرتی وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں بند ہوئی تو ان کے دل کو کچھ ہوا تھا
______________
سفید سنگ مرمر سے بنی عالیشان حویلی میں آج ایک خاص قسم کی رونق لگی ہوئی تھی۔
"عامرہ بچے جلدی سے جا کر اوپر والا کمرہ دیکھ آؤ میرا شہزادہ اتنے سالوں بعد آرہا ہے کوئی کمی نہیں رہنی چاہئے"
کوثر جہاں کی آواز پر عامرہ سر ہلاتی اوپر کی جانب بڑھی تھی وہیں وہ اپنے تخت پر براجمان ہوتی صدقے میں دئیے جانے والے سامان کو دیکھنے لگیں۔
"اماں وہ اتنے سالوں بعد واپس آرہا ہے آپ کوئی پرانی بات نا نکالنا رازق نے بہت مشکل سے راضی کیا ہے اسے واپس پاکستان آنے سے"
اسمارہ کی بات پر ان کا سر اثبات میں ہلا تھا
"بے فکر رہ بچے اب اپنے بچے کو خود سے دور نہیں جانے دونگی وہ جیسا کہے گا ویسا ہی ہوگا بس ایک بار وہ واپس آجائے"
"اتنے سالوں سے ہم سے جدا ہے اب بس واپس آجائے دیکھنا کیسے پورے گاؤں میں میٹھائی بنواتی ہوں میں"
ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اسمارہ انہیں اتنا خوش دیکھ مسکرا دیں۔۔
_______
ائیرپورٹ کے باہر لوگوں کا رش لگا ہوا تھا۔۔
کوئی اپنے پیاروں کو ریسو کرنے آیا تھا تو کوئی انہیں الوداع کہنے۔۔
انہیں لوگوں میں ایک شخص وہ بھی تھا بار بار گھڑی دیکھتے وہ بار بار اندر سے آنے والے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔
جب سامنے سے اسے وہ آتا دیکھائی دیا جسے دیکھ وہ لمحے کو اسے پہچان نہیں سکا تھا۔۔
اونچا قد چوڑے شانے۔۔ بڑھی ہوئی شیو، گردن تک آتے بال جنہیں چھوٹی پونی میں باندھا ہوا تھا کشادہ پیشانی پر پڑے بل۔۔ سرمئی رنگ آنکھوں میں ویرانی۔۔۔
"ابتہاج۔۔۔۔"بارز اسے دیکھتے فوراً سے اسکی طرف بڑھا
"فائنلی تو آگیا" ابتہاج کے گلے لگتے وہ ایموشنل ہو رہا تھا۔
"ہمم۔۔۔"اپنا بیگ اسے دیتے وہ آگے بڑھا تو بارز نے اسکے ساتھ قدم آگے بڑھائے تھے۔
"حویلی میں سب بہت خوش ہیں دیکھنا تیرے پہنچنے پر"
"تو نے ہوٹل میں روم بک کروایا؟" بارز کی بات کاٹتے اس نے سوال کیا تو بارز اسکی شکل دیکھ کر رہ گیا۔
"ابتہاج"
"مجھے کوئی ایشو نہیں چاہیے بارز "
"حویلی میں شادی ہے تاج تو ایسے کرے گا تو سب اداس ہو جائیں گے خاص کر میں اور پشمینہ "
"مجھے ایک میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے اور دو سیمنارز ہیں میں شادی سے پہلے آجاؤں گا فکر مت کر"
"گھر میں کیا بولوں گا؟" ابتہاج نے اسے بڑی مشکل میں ڈال دیا تھا
"میں جانتا ہوں تو سنبھال لے گا کسی ہوٹل چل میں بہت تھک گیا ہوں" بارز کو کہتے اس نے سیگریٹ سلگایا اور باہر دیکھنے لگا۔
آخرکار وہ آگیا تھا مگر جس کی خواہش پر آیا تھا وہ تو کہیں نہیں تھی۔۔۔
________
فریش ہوکر وہ نیچے آئی تو آغا جان اور طاہر انکل لان میں شطرنج کی بساط لگائے بیٹھے تھے۔
"ارے دیکھو ہماری بیٹی بھی آگئی آجاؤ بچے"
"کیسے ہیں دادو؟"طاہر صاحب کے سامنے جھک کر ان سے پیار لیتے وہ آغا جان کی طرف بڑھی تھی۔
"ہم تو خوش آپ بتاؤ"
"آپ دونوں کو خوش دیکھ کر میں خوش"ان کے لئے قہوہ پیالیوں میں ڈالتے وہ ہولے سے مسکرائی تھی اور ایسا بہت کم ہی ہوتا تھا جب وہ مسکرائے
"عاقب اور آنسہ کی شادی میں اسے لازمی لانا ہے ابو بکر".
"بھئی یہ میری بچی تمہارے سامنے ہے بول دو اسے ہماری تو سنتی ہی نہیں"
"ایسا تو نہیں ہے اب آغا جان ٫"ان کے شکوہ کرنے پر خوامخواہ ہی شرمندہ ہوگئی تھی۔
"ماہے آنسہ باضد ہے تمہارے بغیر نکاح نہیں کرے گی اس بوڑھے دادو کی خاطر آجانا"
ان کا انداز ایسا تھا کہ وہ شرم سے ڈوب مرنے کو تیار ہوگئی۔۔
"میں آؤ گی دادو "
"تم ایک کام کرنا وصی کے ساتھ اسپتال جاؤ گی تو واپسی پر اسکے ساتھ ہی حویلی آجانا"وہ ساری تیاری کر کے بیٹھے تھے۔
ماہے نے بے بسی سے آغا جان کو دیکھا جن کا سارا دھیان چیس بورڈ پر تھا یا تو پھر وہ جان کر اسے نظر انداز کر رہے تھے۔۔
گہرا سانس بھرتے وہ وہاں سے اٹھ کر اوپر کمرے میں آگئی۔۔
آنکھوں میں ویرانی نے ڈیرہ جما لیا تھا
کتنی محنت لگتی تھی خود کو سمیٹنے میں اور اس بکھرنے میں لمحہ بھی نہیں لگتا تھا۔
تلخ ماضی کی اذیتیں آج بھی اسکے دل پر رقم تھیں۔
دیوار گیر اپنے ماں باپ کی تصویر دیکھتے وہ کہیں ماضی میں کھوتی چلے گئی۔۔
_________
ماضی۔۔۔
پہاڑوں سے ڈھکی وہ حسین وادی۔۔ اسکی پسندیدہ تھی۔
بالکونی میں کھڑی وہ گہری سوچ میں تھی کمر سے نیچے آتے لمبے آبشار جیسے بال ۔
کاجل لگی لائٹ براؤن آنکھیں جن پر گھنیری پلکیں سایہ افگن تھیں۔
گال پہ پڑھتا گڑھا اور وہیں ہونٹوں کے پاس موجود تل۔۔
وہ شہزادیوں کی سی آن بان رکھنی والی تھی
"نور اندر آجاؤ بیمار ہو جاؤ گی" بنفشے کی آواز پر وہ چونکی تھی اور پھر گردن موڑ کر کمرے میں دیکھا جہاں وہ کافی کا مگ ٹیبل پر رکھ رہی تھیں
"مما آپ نے بات کی بابا سے؟" شال کو اچھے سے اپنے گرد لپیٹتے وہ کمرے میں آئی تو بنفشے نے سر اٹھا کر اسکی سرخ ہوتی ناک کو دیکھا۔
"کتنی بار کہا ہے ٹھنڈ میں یوں نا کھڑا ہوا کرو پتا نہیں سنتی کیوں نہیں ہو "
ہیٹر آن کرتے وہ اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے اسے گرمائش پہنچانے لگی
"مما پلیز نا بابا سے بات کریں وہاں سب ہیں ماموں خالہ میرب" بنفشے کے کندھے سے کہنی ٹکاتے وہ لاڈ سے بولی بنفشے نے بے بسی سے اسے دیکھا۔
"تمہارے بابا کبھی نہیں مانیں گے ضد مت کرو نور"
"انہیں ماننا پڑے گا آپ بات نہیں کرینگی تو میں لالہ سے بات کروں گی وہ اچھے سے جانتے ہیں بابا کو منانا" گرما گرم کافی کا سپ لیتے وہ منہ بناتے ان کے پاس بیٹھی تو بنفشے اسے دیکھ کر رہ گئیں ۔
"نا کرو نور ایسا ہمیشہ مجھے تنگ کرنا لازمی ہے؟"
"جی بالکل"
بنفشے کا گال چومتے وہ کھلکھلا اٹھی۔ بنفشے نے گھور کر اسے دیکھا تھا
"کرتی ہوں بات تمہارے بابا سے مگر صرف چھ مہینے کی "
"آپ اجازت لے دیں باقی سب ماموں سنبھال لینگے" خوشی سے چہکتے وہ اپنے جگہ سے اٹھی تھی
"کہاں جارہی ہو؟"
اسے کمرے سے نکلتے دیکھ وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکی۔
"لالہ کے پاس بہت دیکھ لئے انہوں نے خواب اب انہیں جگانے کا وقت ہوگیا ہے"شرارت سے کہتی وہ چھپاک سے کمرے سے غائب ہوئی تو بنفشے نے سر پکڑا تھا
"اس لڑکی کا بچپنا ناجانے کب ختم ہوگا"
"کبھی نہیں" اس نے وہیں سے جواب دیا تو وہ ہنس پڑیں
اپنی سوچوں سے اسے کسی آہٹ نے نکالا تھا۔
"میرا نا بدلنا مجھے برباد کر گیا مما میری ضد میرا بچپنا مجھے لے ڈوبا دیکھیں آج آپ کی بیٹی زندگی کے اس دوراہے پر کھڑی ہے جس پر آپ کبھی اسے نہیں دیکھنا چاہتی تھیں ٹوٹی بکھری۔۔۔
سرمئی چادر سے خود کو کور کئے وہ کب سے بالکونی میں بیٹھا تھا۔
بلیک شرٹ کی آستین عادتاً فولڈ کی ہوئی تھیں۔
وہ اس وقت رف سے حلیے میں تھا۔
تھوڑی دیر پہلے ہی بارز یہاں سے گیا تھا۔۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس نے زبردستی اسے وہاں سے بھیجا تھا۔
کچھ لمحے وہ تنہا رہنا چاہتا تھا۔
آسمان پر نظریں ٹکائے وہ ناجانے کسے کھوج رہا تھا۔
بڑھی ہوئی شیو بڑھے بال ۔ خود سے بے نیاز وہ آسمان کو تکنے میں مصروف تھا جب ماحول پر چھائی وحشتناک خاموشی کو فون کی آواز نے توڑا تھا۔
سرد نظروں سے موبائل کو دیکھتے اس نے کال ریسو کرتے اسپیکر پر ڈالی تھی۔
"تاج۔۔۔ کیسا ہے پاکستان پہنچ گیا ؟"
"ہمم۔۔۔" ایک لفظی مبہم سا جواب۔۔
"تو حویلی میں ہے کیا سب سے ملا؟"
"نہیں" وہ بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا وہ سمجھ گیا تھا۔۔
"تاج کچھ تو بول۔۔۔"
"اگلے ہفتے اسکی برسی ہے عاقب" وہ بولا بھی تو کیا دوسری طرف ایک دم سے خاموشی چھائی تھی۔
"جانتا ہوں "
"میں اسکی قبر پر جانا چاہتا ہوں میں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔۔۔"
"اتنے سال گزر گئے تاج بھول کیوں نہیں جاتا؟"
"بھول جاؤ کسے بھول جاؤ ؟ اسے جو جاتے جاتے مجھ سے میرا آپ چھین گئی ہے میں اب خود میں کہیں نہیں ہوں اگر ہے تو وہ بس وہی وہ ہے"
وہ کسی ہارے جواری کی طرح سر جھکائے بول رہا تھا۔۔
"تو اس لئے پاکستان آیا ہے؟"عاقب کو اب اس پر غصہ آنے لگا تھا۔
"اس نے کہا تھا نا جب مجھے لگے میں اس سے عشق کی منزلیں طے کرنے لگا ہوں تو میں واپس پاکستان آجاؤں اور دیکھ مجھے لگتا ہے میں عشق سے بہت آگے جاچکا ہوں ہاں میں اس کے لئے یہاں آیا ہوں"۔
بہت عرصے بعد وہ یوں طویل بات کر رہا تھا۔۔
بہت ٹہرے لہجے میں وہ ایسا تو کبھی نہیں تھا۔۔
"تاج وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے کیوں خود کو اور اسے اذیت دے رہا ہے؟"
عاقب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ اس سرپھرے کو کیسے سمجھائے ۔۔
ہاں وہ سرپھیرا ہی تو تھا کہ جب محبت اسکی جھولی میں تھی اس نے دامن جھٹک دیا اور اب جب وہ دور بہت دور چلے گئی تھی تو اسکی محبت نے اس دیوانے کے پیر جکڑ لئے تھے۔۔
"ہیلو۔۔ ہیلو۔۔۔ تاج"
عاقب نے اسے پکارا مگر وہ فون رکھ چکا تھا وہ اس سے زیادہ نہیں سنا کرتا تھا۔۔
گہرا سانس بھرتے اس نے سیاہ آسمان کو دیکھا تھا۔
اپنی تئیں وہ جس کہانی کو ختم کر چکے تھے وہ کہانی تو آج بھی زندہ تھی فرق صرف یہ تھا کہانی کا ایک کردار مر چکا تھا اور دوسرا زندہ رہ کر بھی زندہ نہیں تھا۔۔
________
افق پر آج پھر سرمئی بادلوں کا راج تھا رات بھر برستی بارش نے موسم میں ایک بار پھر خنکی بھر دی تھی۔
ساری رات بخار میں تپتے وجود کے ساتھ وہ بستر میں دبکی رہی۔۔
اس نے لوگوں کو مدد کے لئے بلانا چھوڑ دیا تھا اب اپنا آپ بوجھ سا لگنے لگا تھا۔۔
سیاہ مخملی کرتی میں سیاہ ہی شال اوڑھے اس نے کندھوں تک آتے بالوں کو چھوٹی پونی میں قید کیا ہوا تھا۔
ناک سردی کی شدت سے سرخ ہو رہی تھی۔۔
"ماہے "
"آرہی ہوں امو جان" امو جان کی آواز پر جلدی سے وہ باہر بڑھی تھی انہیں کہیں سے نہیں لگنا چاہیے تھا کہ وہ بیمار ہے۔۔
سیڑھیاں اترتے وہ نیچے آئی مگر سامنے بیٹھے وصی معراج کو دیکھتے اس کے قدم تھمے تھے۔
بہت خفگی بھری نظروں سے انہیں دیکھا تو وہ فوراً سے نظریں چرا گئیں۔
"اسلام وعلیکم" خود پر ضبط کرتے اس نے بہت مشکل سے یہ دو لفظ کہے تھے۔
"وعلیکم السلام کیسی ہو ماہے؟"
اسے دیکھ وہ فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔
سفید رنگت کالی آنکھیں ہلکی بڑھی شیو۔۔۔ وہ اچھا خاصا وجہہ شخص تھا۔
"دادو بتا رہے تھے تمہاری طبعیت نہیں ٹھیک "
"میں ٹھیک ہوں وصی اب۔۔ آپ بیٹھیں میں چائے بھیجواتی ہوں "وہ بداخلاق نہیں تھی مگر یہاں آکر وہ ہو جاتی تھی بد اخلاق ۔۔۔
"اسے میرا آنا اچھا نہیں لگا نا امو جان ؟"
"ایسا نہیں ہے بچے بس طبعیت کی وجہ سے چڑچڑی ہوجاتی ہے پتا تو ہے تمہیں بچپن سے کتنی ضدی رہی ہے ڈاکٹر کے جانے کا بولا تو بس خفا ہوگئی"
"آپ وضاحتیں مت دیا کریں میں جانتا ہوں وہ مجھ سے خفا ہے مجھے ہماری دوستی کو غلط رنگ نہیں دینا چاہیے تھا "
وہ جیسے خود سے خفا ہوا تھا۔۔
امو جان نے افسوس سے اس پیارے انسان کو دیکھا تھا جو بچپن سے انہیں آبان اور ماہے کی طرح ہی عزیز تھا۔۔
"لو وصی میاں ٹھنڈے موسم میں کچھ گرم پیو" چائے اور ڈرائے فروٹس ٹیبل پر رکھتے انا بی محبت سے بولی تھیں۔
ایک عرصے سے ایک دوسرے کے پڑوسی رہے تھے تعلق اتنا ہی مضبوط تھا جتنا سگے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔۔
"میں گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں آپ ماہے کو بول دیں وہ آجائیں گی ۔"
"وصی"اسکے بڑھتے قدموں کو امو جان جی جان کی آواز نے روکا تھا۔
"امو جان میں سمجھتا ہوں اسے آپ پریشان مت ہوں میں سب سنبھال لوں گا" ان کے دونوں ہاتھ تھامتے وہ انہیں بے فکر کرگیا تھا۔۔
_______
وہ گاڑی میں اسکا انتظار کر رہا تھا گھڑی میں نظر ڈالتے اس نے اندر کی طرف دیکھا تو وہ اسے قریب آتی نظر آئی۔۔
سیاہ لباس پر سیاہ شال اپنے گرد لپیٹے۔۔۔ میک اپ سے پاک چہرہ۔۔
وہ خاموشی سے آکر گاڑی میں بیٹھی تو وہ ہوش میں آیا تھا۔
وصی نے ایک بار پھر اسے دیکھا جو سیٹ بیلٹ باندھ رہی تھی۔
"چلیں ؟" اس کے پوچھنے پر اس نے سر ہلایا تھا بولنے سے وہ اب بھی گریزاں تھیں۔
وصی کو شدت سے اپنی پرانی دوست یاد آئی تھی جسے چپ کروانے کے لئے انہیں منت کرنا پڑتی تھیں۔۔
گاڑی ان کے علاقے سے نکلتے اب مین روڈ پر آگئی تھی۔
"تم نے اپنا سامان پیک کرلیا آغا جان کہہ رہے تھے کہ تم اس بار میرے ساتھ ہی گھر چلو گی آنسہ بھی بہت مس کر رہی ہے تمہیں"گاڑی میں چھائی خاموشی کو توڑتے وصی نے بات کا آغاز کیا تو وہ سر ہلا گئی۔
"کیا ہم کل چلیں ؟" کھڑکی سے باہر دیکھتے اس نے جیسے وصی سے درخواست کی تھی۔۔
"ہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے ویسے بھی عاقب ابھی تک نہیں آیا ہے پاکستان اسکے آنے پر ہی رسموں کا آغاز ہوگا" اس کے لئے یہی بہت تھا کہ وہ راضی ہوگئی ہے اور اسے چاہیے بھی کیا تھا۔۔
اس کا ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کے بعد وصی اسے لیے شاپنگ مال آیا تھا۔۔
"امو جان نے کہا تھا کہ تمہیں کچھ شاپنگ کروا دوں ظاہر ہے شادی کا گھر ہے تم سادہ کپڑے تو پہنو گی نہیں نا"اس کی نظروں میں چھپے سوار کو دیکھتے اس نے خود ہی جواب دیا تھا جس پر وہ ہونے سے سر ہلا گئی وہ بہت کم بولنے لگی تھی۔۔۔
گاڑی سے نکل کر وہ اس کی طرف آیا تھا اور گاڑی کا دروازہ کھول اسے باہر آنے کے لیے کہا۔
اب ان دونوں کا رخ شاپنگ مال کی طرف تھا۔
________
"میں کہیں نہیں جا رہا ہوں بارز میرا دماغ خراب مت کرو" بارز کو صبح ارجنٹلی حویلی جانا پڑا تھا اور اس چکر میں وہ کچھ ضروری چیزیں خریدنا ہی بھول گیا تھا اور اب وہ مسلسل اسے فون کر رہا تھا کہ وہ جا کر شاپنگ مال سے وہ سامان خرید لے جس پر ابتہاج راضی نہیں تھا۔۔۔
"یار شادی ہے میری ایک تو پہلے ہی سارے کام مجھے ہی کرنے پڑے ہیں کیا تم میرے لیے اتنا سا نہیں کر سکتا بھائی دیکھ میں جانتا ہوں تو اس مقصد کے لیے پاکستان نہیں آیا ٹھیک ہے صحیح ہے لیکن میری مجبوری ہے اب میں اتنی دور آ گیا ہوں کیا اب میں واپس آؤں پھر شاپنگ کروں پھر واپس جاؤں بہت س کام ہے جو میرے ذمے ہیں تو بھی نہیں آرہا ہے یہاں پر اتنا تو تو کر ہی سکتا ہے نا میرے لیے آخر کو بھائی ہوں میں"وہ اپ اسے ایموشنل بلیک میل کر رہا تھا گہرا سانس لیتے ابتہاج نے اپنا ماتھا مسلا تھا ۔۔
فون رکھتے وہ اپنی جیکٹ اٹھاتے باہر کی جانب بڑھا تھا۔
کیب کے زریعے وہ شاپنگ مال آیا تھا کیب کو ویٹ کرنے کا کہتا وہ اندر بڑھا تھا جب اچانک اسکے دل میں درد سے ٹیس سی اٹھی تھی ۔
دل پر ہاتھ رکھتے اس نے دوسرے ہاتھ سے دیوار کا سہارا لیا تھا۔۔
یہ درد اب اکثر سی اسے ہوجاتا تھا۔۔
گہرے سانس لیتے اس میں خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا۔۔
خود کو ریلیکس کرتے وہ اگے بڑھا تھا جب اچانک اس کے قدم رکے تھے۔
اس نے قدم واپس لئے تھے وہ اس وقت ایک لیڈیز ڈریس کی شاپ کے سامنے کھڑا تھا۔۔
کیوں؟ وہ خود نہیں جان سکا تھا کچھ تھا جو اسے یہاں لایا تھا۔۔
اس کے بالکل سامنے کئی حسین رنگ موجود تھے جنہیں دیکھ اسے آج وہ پھر شدت سے یاد آئی تھی مٹھیاں بھینچتے اس نے ان یادوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا تھا مگر یہ ممکن کہا تھا۔۔
اس سے وہاں مزید کھڑا نہیں ہوا گیا۔
خود کو سنبھالتے وہ آگے بڑھا تھا تبھی اس شاپ سے ماہے گل اور وصی نکلے تھے۔۔
ماہے نے گردن پر موڑ کر اس جگہ کو دیکھا تھا اسے لگا وہاں کوئی ہے مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔۔
"کیا ہوا کچھ اور لینا ہے" اسے رکے دیکھ وصی اسکے پاس واپس آیا تھا۔
"نہیں کچھ نہیں" سر نا میں ہلاتے وہ وصی کے ساتھ آگے بڑھی تھی مگر دل ایک دم سے خالی ہوگیا تھا کیوں وہ سمجھ نہیں سکی۔۔
جبکہ دوسری طرف وہ سامان لیتے شاپ سے نکلا تھا جب اسے لگا اسنے کسی اپنے کو دیکھا ہے۔۔
مگر یہ ناممکن تھا۔۔
اسے اب یہاں آنے پر پچھتاوا ہونے لگا تھا۔۔
_________
اپنے کمرے میں آتے ہی وہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹا تھا سر بری طرح سے دکھ رہا تھا یہ ماضی اسکی جان کیوں نہیں چھوڑتا تھا یا شاید وہ اس ماضی سے جان چھڑانا ہی نہیں چاہتا تھا۔۔
اس شخص کی یادیں آج بھی اس کے دل و دماغ پر قابض تھیں۔۔
ماضی کی یادیں ستانے لگیں تو وہ خود سے تنگ آتا وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔
اپنی جگہ سے اٹھتے وہ باہر کی جانب بڑھا تھا دل کی تڑپ بڑھتی جارہی تھی اور اس تڑپ کو اسکا دیدار ہی ختم کرسکتا تھا بنا کچھ بھی سوچے وہ وہاں سے اس سے ملنے کے لئے نکلا تھا۔۔
_____________
ہاتھوں میں ڈھیروں گلاب کا ڈھیر لئے اس نے قدم گیلی مٹی پر رکھے تھے۔
سرمئی آسمان سے برستا پانی اسے آہستہ آہستہ بھگو رہا تھا ۔
شکستہ قدموں سے وہ اس قبر کے سامنے آکر رکا تھا۔۔
اتنے سال بعد بھی وہ قبر پھولوں سے سجی تھی کیونکہ اسکے اپنے اسے بھولے نہیں تھے جیسے وہ نہیں بھولا تھا۔
"میں مر جاؤں گی تو آپ کیا کرینگے ؟"
تھوڑی پر ہاتھ ٹکائے وہ آسمان کو تکتے کیسا سوال کر گئی تھی اس سے؟"
"انسان بن جاؤ " وہ خفا ہوا تھا۔
"اونہوں منہ کیوں بنا رہے مرنا تو ہے نا اور "
"چپ" وہ بھڑک اٹھا تھا۔۔
"میں چاہتی ہوں کہ جب میں مروں نا تو آپ میری قبر پر ڈھیروں پھول ڈالیں لاٹھی لئے آپ لڑکھڑاتے قدموں سے میری قبر پر آیا کریں تاکہ سب ہماری محبت کی مثالیں دیں " اسکے ساتھ میں کوئی کتاب تھی وہ سمجھ گیا تھا۔
خفگی بھری نظر اس پر ڈالتے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
ایک آنسو ٹوٹ کر اسکی داڑھی میں گم ہوا تھا۔
سرمئی آنکھوں میں ٹوٹے دل کی کرچیاں تھیں۔
قبر پر پھول ڈالتے وہ مضبوط شخص کئی بار ٹوٹا تھا۔
اس نے کہا تھا وہ اس سے بچھڑی تو مر جائے گی اور وہ مر گئی تھی۔۔۔۔
آنسوؤں تواتر سے اسکے چہرے پر بکھرتے اسکی داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔۔
اسکے انتقام کی آگ نے سب کو جلا کر رکھ کر دیا تھا اور اس سب میں سب سے بڑا نقصان اسکا خود کا ہی ہوا تھا۔
"میں مر رہا ہوں مجھے ایک لمحے کو سکون نہیں ہے ایک بار ایک بار میرے خواب میں آجاؤ ایک بار مجھ پر رحم کھا لو۔۔"
"قبر کی مٹی کو چھونے کی خواہش ہے مگر میں اس قابل نہیں ہو سکے تو مجھے معاف کرینا "چہرہ گھٹنوں میں چھپائے وہ مضبوط مرد پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا۔۔۔
صبحِ سے شروع ہوئی بارش ابھی تک رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔
"آج تو بارش نے حد ہی کر دی ہے زرا سا سکون تو لے" کھڑکی میں کھڑی عائشہ خود سے کہتیں کھڑکی بند کرتے میرب کے پاس آئی تھیں۔۔
"میرب تم چھٹیاں کب لو گی ہمیں پاکستان جانا ہے "
لیپ ٹاپ پر کام کرتی میرب کے ہاتھ پاکستان کے نام پر تھمے تھے۔۔
"یشم بھائی بھی پہنچنے والے ہیں پاکستان ہمیں بھی وقت پر پہنچنا ہے پلیز تم جلدی چھٹیاں لو"
"بابا کو چھٹی مل گئی ؟" وہ اب زین کے متعلق پوچھ رہی تھی۔۔
"ہاں عزیر کو نہیں ملیں تو وہ بعد میں جائے گا"
"مما کیا میں یہاں رک جاؤں آپ لوگ پاکستان ہو آؤ "
"میرب آبان کو اچھا نہیں لگے گا آخر کو تم نے وہاں ہی رہنا ہے ہمیشہ ۔۔۔" اسکا ہاتھ تھامے انہوں نے نرمی سے کہا تو ہولے سے سر ہلا گئی۔
"تم یہ کام رکھو اور سو جاؤ" اسے کہتے وہ نیچے چلے گئیں اور ان کے جاتے ہی وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس آئی تھی۔۔
"میں کس منہ سے سامنا کروں گی اسکا مما۔۔۔ میری وجہ سے وہ اس حال میں ہے اور اگر آبان کو بتا چلا کہ ماہے کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کے پیچھے میں ہوں تو کیا وہ مجھے اپنائے گا؟"
برستے آسمان پر نظریں ٹکائے وہ خود سے سوال کر رہی تھی۔۔۔
یادوں کے دھاگے ماضی میں الجھے تو الماری سے ڈائری نکالتے وہ واپس کھڑکی کے پاس آکر بیٹھی تھی۔۔
یہ ڈائری ناجانے کب سے الماری میں رکھی تھی اور آج وہ اسے پڑھنے والی تھی وہ ماضی کو ایک بار پھر دہرانے والی تھی۔۔ماضی کے اوراق پلٹتے وہ ماضی میں ہی پہنچ گئی تھی۔۔
________
ماضی۔۔
آج مری میں کا موسم باقی دنوں کی نسبت کم سرد تھا آسمان بھی صاف تھا ایسے میں سڑک کنارے بنے اس خوبصورت مینشن میں خاصی رونق تھی۔۔
یشم یوسفزئی اور بنفشے کا وہ چھوٹا سا محل جسے ان دونوں نے بہت محبت سے بنایا تھا۔
ابو بکر یوسفزئی اور ہانیہ بیگم حالانکہ حویلی میں رہتے آئے تھے مگر ماہے گل اور آبان کی وجہ سے وہ لوگ بھی اکثر یہی پائے جاتے تھے۔۔
اور آج ایک بار پھر وہ سب یہاں موجود تھے اور وجہ بہت خاص تھی۔۔
آج دو سال بعد بالآخر یشم یوسفزئی کے لاڈلے آبان یوسفزئی اپنی چھٹیوں میں واپس آیا تھا۔
"آغا جان اس بار لالہ آئیں ہیں نا تو ہم بھی ان کے ساتھ جائنگے پہلے ہی بتا رہے ہیں ہم آپ کو"
"کوئی ضرورت نہیں ہے بابا میں ایک بار آبان کو بھیج چکی ہوں اب ماہے کو بالکل بھی نہیں بھیجوں گی"
آغا جان کے آگے کافی کا مگ رکھتے بنفشے دو ٹوک انداز میں بولی تو ماہے نے منی منہ بسور کر امو جان اور آغا جان کو دیکھا تھا۔
"بیا جانے دو نا اسے چھ مہینے کی تو بات ہے اور وہاں زین ہے عائشہ ہے پھر میرب اور عارب بھی ہیں نا اچھے ہے بچی کا دل لگ جائے گا "
امو جان نے اسکی حمایت کی تو اسکی بانچھیں
تھیں۔
"امو جان بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں مما اور ویسے بھی میں آف ڈے میں چکر لگا لیا کروں گا۔۔"
آبان ان کے پاس آکر بیٹھا تو ماہے نے مسکراتی نظروں سے اپنے بھائی کو دیکھا۔
کائی رنگ آنکھیں سرخ و سفید وہ بالکل یشم جیسا تھا۔۔
"امو جان لالہ بابا جیسے لگ رہے ہیں نا؟" اسکے پاس آکر بیٹھتے اس نے ہانیہ بیگم کو مخاطب کیا تھا جبکہ آبان نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔
"تم کیوں جانا چاہتی ہو وہاں گل ؟"
"لالہ مجھے میرب سے ملنا ہے اتنا وقت ہوگیا نا آپ بات کریں نا بابا سے صبح بھی مما نے منع کردیا " اسکے چہرے پر اداسی دیکھ آبان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
"اچھا سیڈ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں بات کروں گا بابا سے" اسکی ناک دباتے وہ ہنسا تو اسکے ساتھ وہ بھی کھلکھلائی تھی۔۔
"سچ میں لالہ"
"ہاں سچ میں " اسکی خوشی کو دیکھ وہ مسکرایا تھا۔
"بس میں ابھی جا کر میرب کو بتا رہی ہوں دیکھئے گا سب سے زیادہ وہ خوش ہوگی"
فوراً سے اٹھتے وہ اوپر بھاگی تو آبان ہنسا تھا
"ہاں بگاڑ دو اسے"
"اففف میری پیاری مما یار کیوں ناراض ہوتی ہیں کچھ وقت کی تو بات ہے اور میں نہیں چاہتا میری بہن کی کوئی بھی خواہش ادھوری رہے۔۔"
آبان کی بات پر دل سے خوش ہونے کے باجود بنفشے نے ظاہر نہیں کیا تھا۔
"چلیں میں زرا جاتا ہوں بابا کے پاس بات کرتا ہوں ورنہ آپ کی بیٹی نے میری جان کھا لینی ہے" شرارت سے کہتا وہ گاڑی کی چابی لئے وہاں سے نکلا تھا۔
_______
کمرے میں آتے اس نے سب سے پہلے میرب کو کال ملائی تھی۔
میرب۔۔اسکی خالہ زاد زین اور عائشہ کی بیٹی۔۔
دو بیل کے بعد ہی سکرین پر میرب کا چہرہ نظر آیا تھا۔۔
"میرب گیس کرو میرے پاس کیا خبر ہے؟"
"کیا خبر ہے؟"
"تم بتاؤ نا" اسکی خوشی اسکے چہرے سے ہی جھلک رہی تھی۔
"آبان بھائی مان گئے؟"
"یس اور ابھی وہ بابا سے بھی بات کرینگے اور گاڈ یار میں تمہارے پاس آؤ گی"
"اللّٰہ کرے انکل مان جائیں "
"لالہ بات کریں اور بابا نا مانیں ناممکن۔۔۔"وہ اترائی تھی اسے اپنے بھائی پر سب سے زیادہ یقین تھا۔
"جلدی سے آجاؤ مجھے تو اب صبر نہیں آرہا" میرب اس سے زیادہ خوش تھی۔۔
"تو آجا ماہے بس کیسے بھی آ جا "
مختصر بات کے بعد اس نے فون بند کیا اور کھڑکی پر آکر کھڑی ہوئی تھی۔
بہت جلد وہ اپنے خوابوں کے شہر میں ہوگی ۔۔
وہ جگہ جہاں دیکھنے کے خواب وہ جاگتی آنکھوں سے دیکھتی تھی۔۔ اسے یقین تھا اسکا بھائی اسکا یہ خواب ضرور پورا کرے گا۔۔
مانچسٹر میں آرہی ہوں بہت جلد "
لیپ ٹاپ پر لگی مانچسٹر کی تصاویر دیکھ وہ کھل کر مسکرائی تھی۔
اور پھر اسکا خواب سچ ہوگیا تھا وہ واقعی مانچسٹر جارہی تھی ۔۔۔
بنفشے اسکی خوشی کے آگے ہار مان چکی تھی اور یشم اسکے لئے اپنی بیٹی کی خوشی سے زیادہ کچھ اہم نہیں تھا۔۔
سب سے الوداع لیتے وہ آبان کے ساتھ ایک نئے سفر پر نکل پڑی تھی یہ جانے بغیر کے آگے اسکے لئے کیا کیا ہے۔۔۔
_________
مانچسٹر۔۔۔
"اووو گاڈ خالہ آپ کا گھر تو پکس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے" میرب نے اسے پورا گھر دیکھایا تھا اور اسے گھر کا ہر حصہ ہی بہت زیادہ اچھا لگا تھا۔۔
"شہر کا آپ کا پسند کا ہے تو میڈم آپ کو یہاں کی ہر چیز پسند آئے گی"
آبان کی بات پر اسنے اتفاق کیا تھا۔۔
میرب کی بات پر عائشہ نے اتفاق کیا تھا۔
ابان کچھ دیر پہلے ہی واپس چلا گیا تھا
خالہ اب فائنلی میں کل یونی جاؤں گی او گاڈ میرا ایک اور خواب پورا ہونے والا ہے"
اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی میرب نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔۔
وہ اسکی دوست تھی اسکی بیسٹ فرینڈ دور کر بھی وہ دونوں ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے۔۔
_______
ماہے جلدی سے تیار ہو جاؤ یونی کے لیے لیٹ ہو رہا ہے۔میرب کی آواز پر اس نے ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھا تھا مسٹرڈ کلر کی فراک پہنیں بالوں کو آگے سے فرینچ اسٹائل میں باندھے جبکہ باقی بالوں کو اس نے پیچھے کھولا چھوڑا ہوا تھا۔۔
وہ جانے کے لیے بالکل تیار تھی اپنی تیاری دیکھ وہ مطمئن ہوتی مسکرائی تو گال میں پڑنے والے ڈمپل نمایاں ہوئے تھے اپنا بیگ اٹھاتے وہ فوراً سے نیچے آئی تھی جہاں عائشہ اور میرب اس کی منتظر تھیں۔۔
چلو چلو جلدی چلو لیٹ ہو رہا ہے جلدی سے بریک فاسٹ کرتے ہی وہ اٹھی اور میرب کا ہاتھ تھامے عائشہ سے دعائیں لیتی وہ گھر سے باہر آئی تھی۔۔
مانچسٹر کی سڑکوں پر لوگوں کا رش نہ ہونے کے برابر تھا کھلی فضا ہر طرف لگے بڑے بڑے درخت جن کی چھاؤں میں چلتے وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی محسوس کر رہی تھی۔۔
تمہیں پتہ ہے میرب میں اس دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی ہوں جس نے جو چاہا اسے وہ مل گیا۔اس کی بات پر میرب مسکرائی
شٹل بس میں سوار وہ یونیورسٹی کے پاس اتری تھی میرب نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما تھا۔
ہمارے ڈیپارٹمنٹس الگ ہیں تو کوئی بھی مسئلہ ہو مجھے کال کر دینا ٹھیک ہے چھٹی میں میں گیٹ کے پاس ملوں گی۔میرب اسے بڑی بہنوں کی طرح سمجھا رہی تھی جسے سن کر اس نے سر ہلایا تھا۔
اوکے باس جیسا آپ کا حکم۔۔۔
میرب کو بائے کہتے وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھی تھی ۔
ویسے تو وہ کافی کانفیڈنٹ تھی مگر اب اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا نیا شہر نئی جگہ اپنے لوگ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں آئی تو وہاں عجیب ماحول تھا سارے لڑکے لڑکی جگہ جگہ کھڑے تھے اور بیچ میں وہ تین لوگ تھے اور تینوں انگریز تھے جو نئے اسٹوڈنٹس کی ریگنگ کر رہے تھے ۔۔
یار یہ کیا مصیبت ہے میرب نے تو اس سب کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں تھا خود سے کہتے اس نے وہاں سے کھسکنا چاہا تھا جب اس کی کمر کسی مضبوط چیز سے ٹکرائی ۔
ایک جھٹکے سے مڑ کر اس نے دیکھا تو کوئی انگریز لڑکی تھی بھورے بال نیلی آنکھیں وہ قد میں اس سے کافی بڑی تھی۔۔
کہاں جانے کا ارادہ ہے ڈارلنگ۔۔ ماہے کے بال پیچھے کرتے وہ اسے خوف میں مبتلا کر گئی تھی ۔۔
دیکھو مجھ سے دور رہو آئی سمجھ تمہارے میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں۔۔۔۔
اس لڑکی کو پیچھے ہٹاتی وہ آگے بڑھی تھی جب اس لڑکی نے اس کا ہاتھ کھینچ اسے اپنے سامنے کیا اور پانی کی بوتل اس پہ اچھالی تھی خوف سے اسنے سختی سے آنکھیں بند کی مگر یہ کیا۔۔۔
کچھ دیر بعد جب اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول کر سر اٹھایا تو اس کے سامنے وہ کھڑا تھا دیوار بنے۔۔
سرمئی آنکھیں ہلکی بڑی شیو لمبا چوڑا گلے میں سلور کی چین پہنے وہ بالکل اس کے سامنے کھڑا تھا لمحے کو اس کا دل دھڑکنا بھول گیا۔۔
"تم ٹھیک ہو؟" سحر انگیز آواز وہ لمحے کو اپنا آپ بھول گئی تھی غور کرنے پر اسے اندازہ ہوا کہ وہاں کھڑے تمام لوگ ہی اس شخص کو گھور کر دیکھ رہے تھے ان کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔۔
"میں ٹھیک ہوں۔"وہ محض اتنا ہی کہہ سکی تھی۔
اس کی بات سن وہ اب باقی سب کی جانب مڑا تھا۔
"آئندہ اگر ذرا سی بھی غلطی ہوئی نا تو یاد رکھنا تم سب" ڈھکے چھپے الفاظ میں وہ انہیں دھمکی دے رہا تھا وہ سمجھ نہیں سکی کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے مگر اس کے لیے یہی بہت بڑی بات تھی کہ اس اجنبی شخص نے اسے ان لوگوں سے بچایا تھا جو اس کا آج کا دن برباد کرنے پر تلے تھے۔۔
اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا وہ آگے بڑھا تو وہ بھی فوراً سے اس کے پیچھے بڑھی تھی جب وہ ایک کمرے میں آیا یہ ایک بہت بڑا کلاس روم تھا جو اس وقت خالی پڑا تھا۔۔
اگر بینچ پر بیٹھا اور اسے اپنے قریب انے کا اشارہ کیا۔
اچھا لگا تم نے بہادری دکھائی لیکن پتہ ہے نا یہاں جونیئرز اگر زیادہ بولیں تو سینیئر ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں اپ تو میں نے تمہیں بچا لیا لیکن اگے کی گارنٹی نہیں دے سکتا اس لیے اگر تم ان لوگوں سے بچنا چاہتی ہو تو تمہیں میرے ساتھ ہی رہنا پڑے گا۔۔
مطلب میں سمجھی نہیں؟سمجھی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے.
مطلب بہت صاف ہے کوئی بھی مشکل ہو کوئی بھی پرابلم ہو تو میرا جھجک میرے پاس ا سکتی ہو ان لوگوں کی نظروں میں تو میری دوست ہو اور یہ لوگ میرے دوستوں کو کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں کر سکتے سمجھ میں آرہی ہے نا تو میں لٹل گرل۔۔۔۔
اس کی بات پر حیران ہوتے اس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا تھا اسے نہیں پتہ تھا بڑی جگہوں پر ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں لیکن یہ بہت بڑے غنیمت تھی کہ سامنے بیٹا شخص اس کا ساتھ دے رہا تھا۔
چلو اب تو اپنی کلاس میں جاؤ لیٹ ہو رہا ہے۔جانے کا اشارہ کرتے اس شخص نے سگریٹ نکال کر لبوں سے لگائی تو ماہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
دیکھ رہی ہو کبھی کوئی لڑکا نہیں؟عجیب مزاج کا لڑکا تھا پل میں تولہ پل میں ماشہ۔۔
"آپ کا نام تو مجھے پتہ ہی نہیں ہے.
"عالم تم مجھے عالم کہو گی۔۔۔ اس کا نام سن وہ سر ہلاتی وہاں سے خاموشی سے نکل گئی جب عالم نے سرمئی آنکھیں اٹھا کر اسے جاتے دیکھا تھا چہرے پراسرار سی مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔
**************
کھڑکی کے پاس کھڑے وہ کب سے آسمان کو تکنے میں مصروف تھی۔
بار بار وہ سرمئی آنکھیں اسے بے چین کر رہی تھیں۔
"کیا سوچ رہی ہو ماہے ؟" میرب روم میں آئی تو اسے یوں کھڑکی کے پاس کھڑے دیکھا تو پوچھے بنا نہیں رہ سکی۔۔
"تم نے مجھے بتایا نہیں کہ یونی میں ریگنگ بھی ہوتی ہے"
چئیر پر بیٹھتے اس نے میرب کو دیکھا تو اس نے بے اختیار سر پر ہاتھ مارا تھا۔۔
"شٹ تمہیں کسی نے کچھ کہا ماہے تمہاری ریگنگ ہوئی ہے؟"
"نہیں میں بچ گئی" عالم کا سوچ وہ مسکرائی تھی۔
"یونی میں کچھ ہوا ہے ماہے؟" میرب نے جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھا تو وہ فوراً سے سنبھلتی نا میں سر ہلا گئی۔۔
"نہیں نہیں کیا ہونا ہے دراصل وہاں لوگ دوسرے اسٹوڈنٹس کے ساتھ الٹی سیدھی حرکتیں کر رہے تھے نا تو جبھی میں نے پوچھا۔۔"
"اوو شکر ہے میں تمہیں بتانا ہی بھول گئی تھی۔۔ مگر اب تم احتیاط کرنا "
"لیکن اب وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے" وہ اترائی تھی۔
"کیوں تمہاری ڈیل ہوئی ہے کیا ان سے؟"
"نہیں وہ کیے رشتے دار تھوڑی ہیں جو میرے ساتھ ڈیل کرینگے میں اتنی بہادر ہوں کہ وہ لوگ ڈر گئے مجھ سے " اسکے شرارت سے کہنے کر میرب ہنسی تھی۔۔
"جی جی آپ بہت بہادر ہی اس لئے اب آپ اپنی بہادری کے قصے کل سنانا ابھی چلو مما نیچے ویٹ کر رہی ہیں" اسے نیچے انے کا کہتے وہ روم سے چلے گئی۔
اسکے جاتے ہی وہ واپس سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔۔
چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ تھی۔۔ وہ پہلی نظر کی محبت کا شکار ہوئی تھی اور اس بات سے وہ ابھی خود بھی انجام تھی۔۔
________
کلب میں اس وقت تیز میوزک آن تھا۔۔ ڈانس فلور پر لڑکے لڑکیاں میوزک کے ساتھ ساتھ ڈانس کر رہے تھے جب اس لڑکے نے ہاتھ کے اشارے سے سائیڈ پر بیٹھے عالم کو آنے کا اشارہ کیا تھا۔۔
بلیک لیدر جیکٹ گلے میں پہنی سلور چین بڑھے بکھرے بال۔۔ جو ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔۔
سیگریٹ کا کش لیتے اس نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر موبائل کو جہاں ایک میسج اسکی ساری توجہ کھینچ گیا تھا۔۔
کھڑکی میں کھڑی آسمان کو تکتی وہ معصوم سی لڑکی۔۔۔
تصویر کو دیکھتے وہ مسکرایا تھا۔۔ دلفریب مسکراہٹ اسکے مسکرانے پر گال میں پڑتا ڈمپل اپنی جھلک دیکھا کر واپس گم ہوا تھا۔
وہ بہت کم مسکراتا تھا۔۔
لڑکیاں اسکی ایک نظر کے لئے مرتی تھیں مگر اسکے لئے ان لڑکیوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔۔
چین کو منہ میں لیتے اس نے میسج ٹائپ کیا اور پھر ریپلائے کا انتظار کرنے لگا۔۔
کچھ دیر بعد ہی اسکا موبائل رنگ ہوا تھا۔
دوسری جانب سے اسکے سوال کا جواب دیا تھا۔۔
جسے پڑھ اس نے ہاتھ میں موجود گھڑی میں ٹائم دیکھا۔
گھڑی رات کے دس بجا رہی تھی۔
رات زیادہ گہری نہیں تھی۔۔
اپنا موبائل جیب میں ڈالتے وہ اٹھ کر وہ باہر کی جانب بڑھا تھا جب جیک کی آواز نے اسکے قدم روکے تھے۔
"اے وئیر آر یو گوئنگ ؟"
"بور ہو رہا ہوں کچھ نیا ہو تو بلانا مجھے نیکسٹ ٹائم" اسکے ناگواری سے کہنے پر جیک نے سر کھجایا تھا۔
"ابھی میں ایک پرنسس کو ملنے جا رہا ہوں" اسکے جواب پر جیک کی آنکھیں پھیلی تھیں۔۔
"واٹ آر یو سیریس مین؟"
"افکورس آئی ایم سیریس ڈوڈ" جیک کے کندھے پر ہاتھ مارتے وہ آنکھ مار کر کہتا وہاں رکا نہیں تھا۔۔
باہر کھڑی اپنی ہیوی بائیک کے پاس آتے اس نے ہیلمٹ پہنا اور بائیک پر بیٹھتے اس نے جیک کو جانے کا اشارہ کیا۔۔
بائیک کو جہاز سمجھتے وہ تیزی سے وہاں سے نکلا تھا۔۔
________
"مما میں اور ماہے باہر واک پر جارہے ہیں "
"ٹھیک ہے جاؤ مگر زیادہ دور مت جانا " ان دونوں کو شوز پہنتے دیکھ عائشہ نے ہدایت دی تو میرب نے آنکھیں گھمائی تھیں۔
"کم آن مما یہ آپ کا پاکستان نہیں ہے"
"یہ پاکستان ہو بھی نہیں سکتا پاکستان بیسٹ ہے۔۔۔ ہیں نا خالہ؟" میرب کو جواب دیتے اس نے عائشہ کی تائید چاہی جو فوراً سے ہاں میں سر ہلا گئیں۔۔
"ہاں جبھی تم دیوانی ہو رہی تھیں یہاں آنے کے لئے"
"اچھا اب بحث مت کرو چلو باہر چلو دیکھو کتنا حسین موسم ہو رہا ہے چاندنی رات ۔۔ اففف آج سے پہلے مجھے واک پر جانے کی کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی" اسکی ایکسائمنٹ دیکھ وہ دونوں مسکرا اٹھی تھیں ۔۔
میرب کا ہاتھ تھامے وہ گھر سے باہر آگئی۔۔
آج پورے چاند نے اس حیسن شہر پر سایہ کیا ہوا تھا۔
چاندنی رات میں وہ سڑک پر چلتی جارہی تھی۔
میرب نے خود سے آگے چلتی ماہے نور کو دیکھا۔
سفید فراک۔۔ کمر کو چھوتے بال۔۔ چہرے پر موجود تل اور مسکراتے ہوئے گال میں پڑتے ڈمپل۔۔
وہ آسمان سے اتری کوئی پری لگی تھی اسے۔۔
"میرب چلو نا"
میرب کو ایک ہی جگہ رکے دیکھ وہ اس نے مڑ کر اسے پکارا تھا۔۔
"ماہے میں پانی پی کر آتی ہوں پلیز تم کہیں مت جانا "
"افف اچھا جاؤ جلدی آنا میں یہی ہوں " سائیڈ پر رکھی بینچ پر بیٹھتے اس نے میرب کو جانے کی اجازت دی تھی۔
"اللّٰہ پاک آپ نے یہ دنیا واقعی بہت خوبصورت بنائی ہے " آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھتے اس نے بے اختیار کہا تھا جب اچانک اسے لگا کوئی اسکے پیروں میں آکر بیٹھا ہے۔۔
فوراً سے اس نے نیچے دیکھا تھا جہاں ایک چھوٹا سا وائٹ پپی اسکے پیروں میں بیٹھا ہوا تھا۔
"اووو چھوٹو بے بی آپ یہاں کیا کر رہے؟"
اس چھوٹے سے پپی کو دیکھ اسکے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی وہ ایک پیٹ لورر تھی اسکی بڑی خواہش تھی کہ گھر میں ایک پیٹ ہو مگر بنفشے اس بات کے سخت خلاف تھیں۔
"اوو میرے بے بی کو بھوک لگی ہے ؟" پپی کے بھاؤ بھاؤ کرنے پر اس نے جھک کر اسے اٹھا کر اپنی گود میں بیٹھایا۔۔
"آپ کے پاپا کہاں ہیں بے بی آپ کیوں ایسے باہر گھوم رہے"؟
اسکی کمر سہلاتے وہ اس سے ایسے باتیں کر رہی تھی جیسے وہ واقعی اسکے سوالوں کے جواب دے گا۔۔
"بے بی آپ کو پتا ہے آج یونی میں کچھ لوگوں نے مجھے تنگ کرنا چاہا مگر پھر ایک ہیرو کی انٹری ہوئی اور انہوں نے مجھے بچا لیا"وہ اسے اب اپنی باتیں بتا رہی تھی جب اچانک ہی وہ پپی اسکی گود سے نکل کر بھاگا تھا۔
"ارے کہاں بھاگ رہے ہو گم ہو جاؤ گے واپس آؤ" وہ اس پپی کے پیچھے بھاگی تھی جس کی اسپیڈ بہت تیز تھی۔
وہ بنا پیچھے دیکھے اس پپی کے پیچھے آئی تھی کہ اچانک کسی نے اسکا بازو تھام اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔
کٹی ڈال کی طرح وہ ایک کشادہ سینے سے ٹکرائی تھی۔
اسکے ہٹتے ہی ایک تیز رفتار کار وہاں سے گزرتی چلے گئی۔
خوف سے اسکے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا ایک پ
ذجھٹکے سے اس نے سر اٹھا کر خود کو بچانے والے کو دیکھا تو ساکت ہوئی تھی۔
"اپنا خیال خود رکھتے ہیں ہر بار میں بچانے کے لئے نہیں آؤ گا" وہ مخصوص ٹہرا ہوا لہجہ۔۔
"عالم" اس نے زیر لب اسکا نام پکارا تھا۔۔
وہ اب جھک کر اس پپی کو اٹھا رہا تھا۔
"اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو؟"
اہنی سرمئی نگاہیں اٹھائے اس نے ماہے کو دیکھا تھا۔
چاند کی روشنی ان دونوں پر پڑ رہی تھی ۔
"وہ میں اس پپی کے پیچھے۔۔ کیا یہ آپ کا ہے؟"
"ہاں میرا ہے مگر وفادار نہیں ہے ہر وقت مجھ سے دور بھاگ جاتا ہے" پپی کے گلے میں پٹا ڈالتے وہ سنجیدگی سے بولا۔
ماہے نے دھڑکتے دل کے ساتھ زمین پر پنجوں کے بل بیٹھے عالم کو دیکھا تھا۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو کچھ غلط بولا کیا؟"
اسکی نظروں کی تپش محسوس کرتے اس نے سو کیا تو ماہے بری طرح شرمندہ ہوئی تھی۔۔
"میں تو آپ کو نہیں دیکھ رہی"
"جھوٹ مت بولو تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا"اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ وہ بولے بنا نہیں رہ سکا ۔
"چلو تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں "
"میں چلی جاؤں گی زیادہ دور نہیں ہے میرا گھر" پیچھے مڑتے وہ فوراً سے بولی مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ واقعی راستہ بھول گئی تھی۔
"میں نے کہا نا جھوٹ مت بولا کرو تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا آجاؤ میرے پیچھے"
"آپ کو میرا گھر پتا ہے؟" اس کے ہمقدم ہوتے اس نے حیرت سے عالم سے پوچھا تھا۔
"یہ جو میرا کتا ہے نے اس کے پاؤں میں جو بیلٹ ہے اس میں ٹریکر فٹ ہے کیونکہ یہ چھوٹا پلا یونہی بھاگ جاتا ہے۔۔"
"آپ اسے پلا تو نہیں بولیں یہ تو کتنا کیوٹ ہے" عالم کا اس معصوم سے جانور کو پلا کہنا اسے زرا بھی اچھا نہیں لگا تھا۔
"کتے کو کتا نہیں بولوں تو کیا بولوں ؟"
آئی برو آچکا کر اسے دیکھتے عالم نے سوال پوچھا تھا جس پر اس نے ان دونوں کے ساتھ ساتھ چلتے معصوم سے پپی کو دیکھا تھا۔
"یہ آپ کا ہے اور آپ نے اسکا ابھی تک کوئی نام نہیں رکھا؟"
اسکی آنکھوں میں حیرت دیکھ وہ لمحے کو رکا تھا۔
بڑی بڑی آنکھیں جن پر گھنیری پلکیں سایہ افگن تھیں۔۔
"کیا ہوا ؟" اسے خود کو تکتا پاتے اس نے پوچھا تو وہ سنبھل کر آگے بڑھا تھا۔
"نہیں میں نے اسکا کوئی نام نہیں رکھا"
"کیا میں اسکا نام رکھوں اگر آپ کو برا نا لگے تو؟"
وہ پھر سے اسکے ہمقدم ہوئی تھی وہ بہت تیز تیز چل رہا تھا اسکے مقابلے میں آتے اسکا سانس پھولنے لگا تھا۔
"رکھ لو نام " وہ بہت بے نیازی سے چل رہا تھا۔
اور اسکا ساتھ ماہے نور کو بہت اچھا لگ رہا تھا
"ٹوفی۔۔ اسکا نام ٹوفی رکھ دوں؟"
"ٹوفی؟؟ کچھ عجیب سا نام نہیں ہے؟"
آئی برو اچکاتے عالم نے اسکے معصوم چہرے کو دیکھا تو اس نے نا میں سر ہلایا
" نہیں یہ اتنا سوئیٹ ہے اسکا نام ٹوفی ہی ہونا چاہیے یا پھر کینڈی"
"تم جو چاہے اسے کہہ لو اور وہ رہا تمہارا گھر جاؤ "
اسٹریٹ کے کارنر پر رکتے عالم نے کہا تو وہ چونکی۔۔
اور مڑ کر سامنے دیکھا جہاں دور سے ان کی اسٹریٹ نظر آرہی تھی۔۔
"تھینک یو عالم آپ نے آج دو دفعہ میری ہیلپ کی"
"نو پرابلم " اسے جواب دے کر وہ رکا نہیں تھا۔
اسکے جاتے ہی ماہے کو لگا جیسے روشنی چلے گئی ہو۔۔
دل میں ویرانی سی چھائی تھی اور ایسا اسکے ساتھ پہلی بار ہوا تھا۔۔
"ماہے کہاں تھیں میں کب سے ڈھونڈ رہی تھی تمہیں یار"
میرب اسے دیکھتے ہی فوراً سے اسکے پاس آئی تھی۔
"یار میں یہی تھی بس واک کرتے آگے چلے گئی تھی "ناجانے کیوں وہ میرب کو عالم کے بارے میں کچھ بتا ہی نہیں سکی۔
"اچھا اب چلو گھر چلیں سردی بڑھ رہی ہے مما ویٹ کر رہی ہونگی", اسکا ہاتھ تھامے میرب آگے بڑھی تو ماہے نے مڑ کر اس جگہ کو دیکھا تھا جہاں کچھ دیر پہلے وہ دونوں کھڑے تھے۔
حسین مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں کو چھوا تھا۔
_______
"ہوگئی بات ماہے سے؟"
روم میں آتے یشم نے بیڈ پر بیٹھی بنفشے سے پوچھا تو جس پر بنفشے نے منہ پھلا کر یشم کو دیکھا۔
"آپ بات مت کریں مجھ سے یشم میں نے آپ کو کہا تھا کہ پرمیشن نہیں دینی مگر آپ نے تو ایک نہیں سنی میری اور بھیج دیا اسے اتنی دور ہم سے اسکی ہر ضد پوری کرکے ہم نے اسے ضدی بنا دیا ہے"
"ارے بھئی بیا اتنا غصہ؟" بنفشے کے غصے بھرے انداز پر یشم نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔۔
"وہ وہاں کون سا گھومنے گئی ہے پڑھنے گئی واپس آجائے گی"
"ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا اسے گئے کیسے گزریں گے یہ دن یشم میں تو آبان کے جانے کے خلاف تھی آپ نے نور کو بھی بھیج دیا"
"یہ بھی ہے اب مجھے اپنی غلطی کا بری طرح احساس ہو رہا ہے" یشم کے افسوس بھرے انداز پر بنفشے نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"کیسی غلطی ؟"
"دو کی جگہ چار بچے ہونے چاہئے تھے تاکہ آپ کا دل لگا رہتا"
"یشم۔۔۔" یشم کی شرارت سمجھتے وہ شرم سے لال ہوئی تو یشم کا قہقہ بے ساختہ تھا۔۔
"ریلکس کرو چھ مہینے کی بات ہے اور ویسے بھی یہ سب ضروری تھا نا "
"ہمم۔" سر ہلاتے اس نے یشم کے کندھے پر سر ٹکایا تھا۔۔
سرمئی آسمان کی چادر نے پورے مانچسٹر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا کلاس میں ونڈو کے پاس بیٹھی وہ کام کرنے میں مصروف تھی جب باہر ایک دم سے شور اٹھا اس نے سر اٹھا کر باہر کی جانب دیکھا جہاں اب بارش ہولے ہولے برسنے لگی تھی۔
"یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں تانیہ؟"
"فٹ بال گراؤنڈ"تانیہ نے موبائل پر سے نظر اٹھا کر جواب دیا۔
"بارش ہو رہی ہے اور فٹ بال ؟"اس نے حیرت سے پوچھا تھا۔
"بارش ہو اور فٹبال میچ نہ ہو ایسا پاسیبل ہے؟"
"اتنی بارش میں فٹبال میچ گر گئے تو چوٹ لگ گئی تو؟"اس کی بات پر تانیہ کا چھت پھاڑ قہقہ گونجا تھا وہ خواہ مخواہ ہی شرمندہ ہو گئی۔۔
"ریلیکس نہیں گریں گے وہ کیوٹ گرل" اس کے گال کھینچتے وہ ہنسی تو ماہے جھینپی تھی۔۔
"تم سے ایک بات پوچھوں کیا تم عالم کو جانتی ہو؟"
"عالم کو کون نہیں جانتا ہماری یونیورسٹی کا بیڈ بوائے ہے عالم دی گریٹ"
"وہ بیڈ بوائے ہیں؟"اس اسے حیرت ہوئی تھی۔
"ہاں لیکن اس ایک بیڈ بوائے کی عادت بہت اچھی ہے کہ وہ لڑکیوں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا اور اگر کوئی لڑکی اس سے بات کرے تو اتنی بری طرح سے بےعزتئ کرتا ہے کہ وہ بیچارے لڑکی دوبارہ بات کرنے سے ڈرتی ہے"
تانیہ مزے سے اسے بتا رہی تھی اور وہ منہ کھولے حیرت سے اسے سن رہی تھی ہاں یہ ٹھیک تھا کہ وہ حلیے سے بیڈ بوائے لگتا تھا مگر اس نے ہمیشہ اس سے ٹھیک سے بات کی تھی۔۔
"تو جب وہ لڑکیوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تو لڑکیاں نہ کیا کریں بات"
اس کی بات پر تانیہ ہنسی تھی۔
"کن سی بات ہے یار خیر ابھی دیکھو عالم کا میچ ہو رہا ہے اور تم دیکھنا وہاں ساری لڑکیوں سے سپورٹ کر رہی ہیں"
"عالم کا میچ مطلب"؟
"عالم اور اس کی ٹیم کا میچ کیا تم دیکھو گی چلو اؤ اج میں تمہیں فٹ بال میچ دکھاتی ہوں تمہیں سچ میں مزہ انے والا ہے بہت اپنا بیگ کندھے پر ڈالتے اس نے ماہے کو کہا تو بھی اس کے پیچھے بڑھی تھی..
_____
فٹ بال گراؤنڈ میں ایک طوفان بدتمیزی برپا تھا۔۔
دونوں ٹیموں کے سپورٹرز شور مچا مچا کر کھلاڑیوں کے حوصلے بلند کر رہے تھے۔۔
یہ سب اسکے لئے بالکل نیا تھا۔۔
آسمان سے برستی بارش اور بارش میں کھیلتے وہ سب۔
سب سے ہوتی اسکی نظریں ایک منظر پر آکر رکی تھیں۔
ٹیم یونیفارم پہنے وہ عالم تھا۔۔ اسکے بال پچھلی رو ملاقاتوں کی طرح پونی میں بندھے تھے۔
وہ پوری طرح بارش میں بھیگ چکا تھا۔۔
"عالم۔۔۔۔ عالم۔۔۔"ہجوم میں موجود لڑکیاں اسکے سامنے آتے ہی چلائی تھیں۔
ماہے نے ناگواری سے انہیں چیختے دیکھا۔
"انہیں کوئی کہے ہم بہرے نہیں ہیں" کان پر ہاتھ رکھتے اس نے منہ بنایا تو تانیہ کو ہنسی آئی تھی۔
"ان میں زرا سی بھی شرم نہیں ہے کیسے چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کر کھڑی ہیں" ان کا چیخ چیخ کر عالم کو پکارنا اسے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔
"یہ سب عالم کے لئے تو یہاں کھڑی ہیں مگر مجھے نہیں لگتا وہ ان میں سے کسی کو بھی دیکھے گا"
تانیہ کی بات پر وہ تھوڑا ریلکس ہوئی تھی ۔
"تمہیں عالم کیسا لگا ماہے ؟"
"ولن جیسے" وہ بے ساختہ بولی تھی اور پھر فوراً سے دانتوں تلے زبان دبائی۔۔
"ولن؟۔ مجھے تو عالم ہیرو لگتا تھوڑا روڈ غصیل ہیرو ایسے ہی ہوتے ہیں نا لڑکیوں سے دور بھاگنے والے ؟"
"ہاں ایسے تو پھر تمہیں میرے لالہ مطلب میرے بھائی بھی ہیرو لگیں گے وہ بھی ایسے ہی ہیں لڑکیوں سے دور رہنے والے مگر وہ روڈ اور بدتمیز نہیں ہیں "
عالم کو ایک لڑکی کی طرف پانی کی بوتل اچھالتے دیکھ اسکے ماتھے پر بل آئے تھے۔۔
"تم نے تو کہا تھا عالم لڑکیوں سے دور بھاگتے ہیں ؟"
اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھ تانیہ نے سر ہلایا تھا۔
"ان لڑکیوں سے جو فضول میں چپکتی ہیں یا پتا نہیں میں عالم کے بارے میں اتنا ہی جانتی ہوں جتنی یونی کی باقی لڑکیاں"کندھے اچکا کر کہتے وہ ماہے کو لاجواب کر گئی۔۔
میچ اب اپنے سنسنی خیز موڑ پر آگیا تھا۔
کراؤڈ اب بڑھتا جا رہا تھا اور ان کا شور بھی۔۔۔لگتا تھا پوری یونیورسٹی ہی یہاں آگئی ہے۔۔
عالم بال کے تعاقب میں تیزی سے بھاگا تھا بال اب اسکے پاس تھی جب اچانک ہی وہ دوسری ٹیم ہے کھلاڑی سے بری طرح سے ٹکرا کر زمین پر گھسیٹتا چلا گیا۔۔
سامنے کا منظر ایسا تھا کہ ماہے لمحے کو سانس لینا بھول گئی۔۔
گراؤنڈ میں ایک دم سے سناٹا چھایا اور پھر ایک بار پھر شور اٹھا تھا۔۔
عالم اپنی جگہ سے اٹھتے واپس سے پوزیشن سنبھال چکا تھا۔۔
"ماہے آر یو اوکے؟" اسے دم سادھے دیکھ تانیہ نے اسے ہوش دلایا تھا۔۔
"یس۔۔۔ آئی ایم فائن"
گہرا سانس بھرتے وہ بمشکل مسکرائی تھی۔۔
میچ اب ختم ہونے کے قریب تھا۔۔
اسکا ارادہ پورا میچ دیکھنے کا تھا مگر آبان کی کال دیکھ وہ وہاں سے نکل کر باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
________
تیز برستی بارش سے بچنے کے لئے وہ اس خالی کلاس روم میں آگئی تھی۔۔
"لالہ ڈونٹ وری میں ٹھیک ہوں"
"آئی نو ٹھیک ہو مگر تمہیں اپنا خیال رکھنا کے مانچسٹر میں اتنی تیز بارش ہے تم گھر کیوں نہیں گئیں ماہے ؟"
وہ اسکے لئے بہت پریشان تھا۔
"لالہ میری کلاس تھی اور دوسرا میرب کا ڈپارٹمنٹ یہاں سے دور ہے اس تک جاتے جاتے میں پوری بھیگ جاتی اس لئے بارش رکے گی تو میں پہلی فرصت میں یہاں سے نکل جاؤں گی"۔
وہ اسے مطمئن کرنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔
"میرے بچے تم میری زمہ داری پر یہاں ہوں پلیز اپنا خیال رکھنا"
"میرے پیارے بان میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں میں آپ کو پریشان نہیں ہونے دونگی آئی پرامس میں اپنا خیال رکھوں گی آپ ٹینشن مت لیں نا " اسکے لاڈ جتانے پر آبان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی
"اچھا بس اتنا پیار نا دیکھاؤ"
"ہاؤ مین" وہ فوراً سے منہ پھلا گئی تو آبان کا قہقہ گونجا تھا۔
"چلو اب میں کلاس لینے جارہا ہوں تم اپنا خیال رکھنا۔
"بان آئی لو یو"
"آئی لو یو ٹو گڑیا بائے"
فون رکھتے وہ جیسے ہی مڑی بے ساختہ اسکی چیخ نکلی تھی۔
اپنے پیچھے عالم کو کھڑے دیکھ اسکی جان نکلی تھی۔
وہ کب آیا اسے پتا کیوں نہیں چل سکا۔
اسے یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ وہ بری طرح سے خوفزدہ ہوئی تھی۔
جو بارش کی میں مکمل بھیگا کھڑا تھا۔
"حد کرتی ہو لڑکی ایسے چیخی ہو مجھے ابھی ہارٹ اٹیک آجاتا"
دونوں ہاتھوں سے بال پیچھے کرتے وہ ناگواری سے بولا تو ماہے نے گھور کر اسے دیکھا۔
"ہارٹ اٹیک آپ کو نہیں مسٹر مجھے آجاتا ایسے کوئی آکر کھڑا ہوتا ہے بنا آہٹ کے؟"
"ہاں جنہیں آنا ہوتا ہے وہ بہت چپکے سے بنا آہٹ ہے آجاتے ہیں سامنے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی کب کوئی بنا آہٹ ان کے دل میں آیا اور پھر ان کی زندگی بن گیا۔۔" اسکی نگاہیں ماہے کے حسین چہرے پر جمی تھیں۔
"ایسا آپ کو لگتا ہے مجھے نہیں فضول میں ڈرا دیا مجھے" غصے سے بڑبڑاتے وہ کلاس سے باہر آئی تھی مگر بارش مزید تیز ہوتی جارہی تھی۔
دروازے سے ٹیک لگاتے عالم نے سینے پر ہاتھ باندھے اور اپنا سر دیوار سے ٹکایا تھا۔
وہ بہت فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
"بارش تیز ہو رہی ہے بھیگ گئیں تو بیمار ہونا لازم ہے"
"میں نے آپ سے نہیں پوچھا کچھ" غصے سے جواب دیتے اس نے موبائل نکال میرب کا نمبر ملایا تھا ۔
دوسری طرف سے بیل تو جارہی تھی مگر کال کوئی ریسو نہیں کر رہا تھا۔۔
ماہے کو سخت کوفت ہوئی تھی۔
"برستی بارش میں اپنے پیارے لوگوں سے دوری بہت غصہ دلاتی ہے نا؟"
"غصے کا تو پتا نہیں مگر آپ کی موجودگی مجھے اب اریٹیٹ کر رہی ہے"
"تمہیں میرا اس لڑکی سے بات کرنا اچھا نہیں لگا نا ؟"
اسکے اتنے صحیح اندازے کال ملاتا اسکا ہاتھ ساکت ہوا تھا اس نے مڑ کر دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی ورنہ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر اپنی بات کے صحیح ہونے کی تصدیق کر لیتا۔۔
"لگتا ہے چوٹ زیادہ زور سے لگ گئی ہے دماغ ہل گیا ہے آپ کا مسٹر "
"چچ۔۔ چچ میں نے دو دفعہ تمہاری جان بچائی اور اپنے محسن سے ایسے روڈلی بات کر رہی ہو"
"میں نے کب روڈلی بات کی؟"
"بالکل ابھی ابھی "
"تو اچھا ہے آپ کو جو بھی لگے مجھے کیا "
"ہاں یہ بھی ہے آپ کو کیا آپ کی وجہ سے چوٹ تو مجھے لگی ہے نا"اس کی بات پر ماہے نے گردن موڑ کر اسے آنکھیں چھوٹی کر کے ایسے گھورا تھا جیسے اسکی چوٹ دیکھنا چاہتی ہو۔
عالم نے بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔
"کچھ مت بولیں آپ مسٹر عالم مانا کہ آپ نے رو دفعہ مجھے بچایا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اب کچھ بھی بولنے لگیں"
"اچھا واقعی تم نے نہیں کہا تھا کہ میں تمہیں ولن جیسا لگتا ہوں میں سن کر شاکڈ ہوا تھا جبھی میرا دھیان بھٹکا اور میں گر گیا" وہ فل بیچارگی چہرے پر سجائے کہتا اسکے چھکے چھڑا گیا تھا۔۔
ان دونوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا وہ کیسے اس کی بات سن سکتا تھا۔
"میرے کان بہت تیز ہیں میں دور ہے فاصلے کی بات بھی سن سکتا ہوں"
"انہیں کیسے پتا چلا" دل میں کہتے اس نے بغور عالم کو دیکھا.
"میں نے کہا نا میری آنکھیں اور کان تیز ہیں
چہرہ پڑھ لیتا ہوں "
اب کی بار ماہے کو واقعی اس سے خوف آیا تھا۔
"کہیں یہ بھوت تو نہیں ؟" خوفزدہ سی اسکا چہرہ دیکھتے اس نے دل میں سوچا تھا جب عالم کا قہقہ سناٹے کو چیرتے گونجا تو خوفزدہ ہوتے وہ دو قدم پیچھے ہوئی۔
"نہیں ماہے بی بی میں جن بھی نہیں ہوں" شرارت سے کہتا وہ اسکے اوسان خطا کرگیا تھا۔۔
بنا کچھ بھی سوچے وہ تیزی سے باہر کی جانب بھاگی تھی۔
کہ ایک دم اسکا ہاتھ عالم کی گرفت میں آیا تھا وہ اسے کھینچتے پیچھے ہوا تھا۔
اسکا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔
آنکھیں میچیں وہ اسکے قریب کھڑی تھی۔۔
"تم پاگل ہو ابھی بھیگ جاتیں"اسکا بازو تھام کر اسے اپنے روبرو کرتے وہ جیسے اس سے خفا ہوا تھا۔
"آپ بھوت" آنکھوں میں آنسو بھرے اس نے عالم کو دیکھا تو اسکا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لے۔۔
"آپ جتنی باآواز بلند سوچتی ہیں نا آپ کی سوچیں پڑوسی بھی پڑھ لیں بیوقوف لڑکی"
اسکے ماتھے پر دو انگلیاں مارتے وہ اسے سے دو قدم دور ہوا تھا۔
"میں بیوقوف نہیں ہوں " بیوقوف کہے جانے پر اس نے تڑپ کر کہا تو عالم نے ایسے سر ہلایا جیسے اسے اسکی بات پر یقین نا ہو ۔
"مجھے گھر جانا ہے آپ اچھے نہیں ہیں" منہ بسور کر کہتی وہ کونے پر رکھی بینچ پر بیٹھ کر میرب کو کال کرنے لگی۔۔
"ہیلو میرب کہا ہو یار میں کب سے کال کر رہی ہوں" غصے سے اسکا چہرہ لال ہو رہا تھا ۔
عالم نے اشتیاق سے اسکے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھا۔
"یار سوری ماہے بارش اتنی تھی موبائل بند ہوگیا تھا میرا ابھی میں نے آن کیا ہے تم کہا ہو اس وقت ؟"
"میں فٹ بال گراؤنڈ کے پاس والی کلاس میں ہوں یار۔۔"
"ماہے اتنا دور میں وہاں تک آتے آتے پوری بھیگ جاؤں گی تم ایک کام کرو تم وہاں سے میرے ڈپارٹمنٹ تک آجاؤ میں ویٹ کر رہی ہوں تمہارا دھیان سے آنا بھیگنا مت"
"کیا ہوا ؟" اسکا لٹکا منہ دیکھ وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکا۔
"مجھے اسکے ڈپارٹمنٹ تک جانا ہوگا"
"اوکے چلو میں تمہیں چھوڑ دوں ؟"
"نہیں آپ نہیں آپ کے چوٹ لگی ہے بارش سے اور تکلیف ہوگی"
"اوو تو فائنلی آپ کو احساس ہوگیا کہ میرے لگی ہوئی ہے"
"اگر آپ مجھے شرمندہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی بھول ہے میں شرمندہ نہیں ہوتی"
اپنی جگہ سے وہ اٹھ کر اس کے آئی تھی اور اسکے نکالے ہوئے باکس سے ائنٹمنٹ نکال کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا.
"بیٹھو نا"
"اچھا بابا غصہ کیوں ہو رہی ہو" منہ بسورتے وہ ڈیسک پر چڑھ کر بیٹھا تو ماہے نے سب سے پہلے اسکا زخم صاف کیا اور پھر وہ مرہم اسکی چوٹ پر لگایا تھا۔۔
وہ بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"اسے کور کریں تاکہ پانی نا پڑے"
ٹشو سے صاف کرتے اس نے سر اٹھا کر عالم کو دیکھا تو وہ سٹپٹایا تھا
"چلو اب ایک کام کرو تم میرا جیکٹ پہنو اس سے تم بھیگو گی نہیں"
اسکا کوٹ ماہے کے پیروں تک آتا تھا۔
"اور آپ کیا پہنیں گے؟"
"میں اپنی حفاظت کرنا جانتا ہوں ماہے بی بی"
اسے اپنا کوٹ پہننے کا اشارہ کرتا وہ اپنا سارا سامان بیگ میں رکھنے لگا جب ماہے نے اس کے آگے مٹھی کی تھی۔
"یہ کیا ہے؟"
"پین کلر ہے اسے کھا کر آپ کو درد نہیں ہوگا نا فیور ہوگا میں یہ ساتھ رکھتی ہوں آج آپ کے کام آ گئی" اسکی ہتھیلی پر میڈیسن رکھتے وہ ساتھ میں وضاحت بھی دے گئی تھی۔
ماہے کی دی میڈیسن کھاتے وہ اپنا بیگ پہنتے اسنے ماہے کو باہر آنے کا اشارہ کیا تھا۔
جو اسکا کوٹ پہنے سر پر ہڈی کا کیپ پہنے بالکل چھوٹی سی لگ رہی تھی۔
"ہاتھ پکڑو میرا چھوڑنا نہیں" اسکے آگے اپنا ہاتھ بڑھاتے وہ راستہ دیکھ رہا تھا۔
ماہے نے ہچکچاتے اسکا پھیلا ہاتھ دیکھا۔
"چلو ماہے بارش تیز ہو جائے گی مزید میں نہیں چاہتا تم بیمار پڑو"
اسے اسٹل کھڑے دیکھ اس نے ایک بار پھر ماہے کو پکارا تھا۔
ماہے نے جھجھکتے اپنا نازک ہاتھ اسکے ہاتھ میں دیا تھا جسے مضبوطی سے تھامتے وہ ایک ہاتھ سے جیکٹ اپنے اور ماہے کے اوپر کرتے اس نے ایک سرا ماہے کو پکڑایا۔۔
"چھوڑنا مت میرا ہاتھ نا یہ سرا۔۔۔"اسے ہدایت دیتا وہ تیز برستی بارش میں باہر نکلا تھا۔
وہ دونوں بارش سے خود کو بچاتے تیزی سے بھاگ رہے تھے۔
ماہے نے سر اٹھا کر اپنے ساتھ بھاگتے عالم کو دیکھا تھا کو اسے بارش سے بچانے کی خاطر خود کو اسکا سایہ بن گیا تھا۔
آج ایک بار پھر وہ اسکی مدد کر رہا تھا اسے بچا رہا تھا۔
اور ہر بار ایسا ہی کیوں ہوتا تھا کہ جب جب ماہے نور مشکل میں ہوتی تھی اسے بچانے عالم آجاتا تھا۔۔
_________
روم میں اس وقت ہیٹر فل اسپیڈ سے آن تھا۔
"میں ٹھیک ہوں میرب "الماری سے بلینکٹ نکالتی میرب کو اس نے بے بسی سے کہا تھا۔
"چپ ہو جاؤ اور مجھے کام کرنے دو اگر تم بیمار ہو گئیں تو مما نے مجھے بہت ڈانٹنا ہے"
"افف خدایا نہیں کہتیں خالہ کچھ تمہیں۔۔ ٹھیک ہوں میں بیمار تو تب پڑتی نا جب بارش میں بھیگتی میں تو بارش میں زرا نہیں بھیگی"
"میں کیسے مان لوں تم اتنی دور سے میرے پاس آئیں اور وہ بھی بنا بارش میں بھیگے "
میرب کی بات پر وہ خاموش ہوئی تھی۔
"میرب وہاں اتنے لوگ تھے ان میں ایک لڑکی کے پاس چھتری تھی اس نے ہی میری مدد کی ہے۔۔"
ناجانے کیوں وہ میرب کو عالم کے بارے میں بتا نہیں سکی۔۔
"شکر ہے خدا کا ورنہ وہاں آبان اور پاکستان میں خالہ اور انکل پریشان ہوتے"
اس کے پاس بیٹھتے میرب نے ہاٹ چاکلیٹ کا گلاس اسکے آگے کیا جسے اس نے مسکراتے ہوئے تھاما تھا۔
جب سے وہ دونوں یونیورسٹی سے آئے تھے وہ مسلسل اسکے لئے پریشان تھی۔
"ابھی تک ریسٹ کرو میں سوپ لے کر آتی ہوں تمہارے"
"میرب " اسکے منہ بنانے پر میرب نے اسے گھوری سے نوازہ تھا۔
"احتیاط علاج سے بہت بہتر ہے میری جان۔۔"
میرب کے جاتے ہی ماہے نے بیڈ پر پڑا اپنا بیگ اٹھایا تھا۔۔
جیسے ہی اس نے زپ اوپن کی سامنے رکھے سامان نے اسے چونکایا تھا۔
سامنے ہی چاکلیٹس رکھی تھیں اور اسکے ساتھ ہی ایک چٹ تھی۔
وہ چٹ اٹھاتے وہ الجھن میں تھی مگر جیسے جیسے وہ چٹ پڑھتی گئی اسکے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلتے چلے گئے۔۔
"بیمار مت ہونا یہ چاکلیٹ کھانا اور بس ہیٹر کے آگے بیٹھ جانا۔۔۔"
"کیا بات ہے کیوں مسکرایا جارہا ہے ؟"
میرب کی آوازن پر ایک سے اس نے وی چٹ بیگ میں پھینکی تھی اور موبائل نکالا۔۔
"کچھ نہیں بس ویسے ہی "
"ماہے کچھ ہے کیا جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو؟"
"پاگل ہو کیا میں کیا تم سے چھپاؤں گی بس مما کی بات یاد آگئی تھی اب مما کو بھی کال کرنی ہے وہ میری کال کا ویٹ کر رہی ہونگی۔ تم نے خالہ کا دیا کام کر دیا؟"
سوپ کا سپ لیتے وہ میرب کا دھیان فوراً دوسری طرف کر گئی تھی..
"اپس یار میں تو بھول ہی گئی سچ میں ابھی کرتی ہوں تم یہ پلیز جلدی سے ختم کرلو"میرب کی بات پر سر ہلاتے اس نے اپنا سارا دھیان سوپ پینے پر لگایا تھا مگر دھیان کے دھاگے اس ایک شخص میں الجھے ہوئے تھے۔۔
____________
کمرے میں چھایا ملگجا اندھیرا بھی آہستہ آہستہ گہرے اندھیرے میں تبدیل ہو رہا تھا۔
باہر مسلسل برستی بارش نے موسم مزید سرد کر دیا تھا۔۔
آتشدان میں جلتی لکڑیاں کمرے کو گرمائش پہنچا رہی تھیں۔
ہلکی آواز میں چلتا عربی گیت کمرے کے ماحول کو مزید خوابناک بنا رہا تھا۔۔
"بڑا رومانوی سا ماحول بنا کر بیٹھا ہوا سب خیریت ہے نا؟"
وہ جو آنکھیں موندے بیڈ پر لیٹا تھا عاقب کی آواز پر زرا سی آنکھیں کھول اس نے عاقب کو دیکھا اور واپس سے آنکھیں موند لیں۔
"تو ٹھیک ہے نا بخار تو نہیں ہے ؟"
اسکی خاموشی پر عاقب نے فوراً سے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو چونکا وہ بخار میں تپ رہا تھا۔
"بخار میں تپ رہا ہے مگر ایک کال نہیں کی گئی نا مجھے ؟"
"میں ٹھیک ہوں "بھاری آواز پر عاقب نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔
"کیا ضرورت تھی اتنی تیز بارش میں بھیگنے کی"
"دل کر رہا تھا"
"آپکا دل و دماغ دونوں کھسک گئے ہیں محترم اس لڑکی کو بارش سے بچانے کے لئے خود بھیگ گیا اگر کوئی دیکھ لیتا تو اس لڑکی کی زندگی یہاں تو حرام ہونا کنفرم تھی"
" ابھی کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو میرے ہوتے ہوئے اسے تکلیف دے سکے "
"ہاں بالکل کیونکہ اس بات کا حق صرف آپ کو ہے نا مسٹر عالم "عاقب کے طنزیہ انداز پر وہ مبہم سے انداز میں مسکرایا تھا۔۔
"طنز اچھا کرتے ہیں آپ مگر ایسا کچھ نہیں ہے اس لئے پلیز فضول مت سوچیں اور مجھے دوا دیں"
"تیرے دماغ میں کیا چل رہا ہے کچھ بتائے گا بھی یا نہیں ؟"
دوا اسکے ہاتھ میں دیتے وہ خود بھی بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھا۔۔
"مجھے فلحال سونا ہے برائے مہربانی یہاں سے تشریف لے جائیں"
عاقب کو جانے کا کہتے اس نے آنکھیں موندیں تو ایک نازک سا سراپا اسکی آنکھوں کے پردے پر لہرایا تھا۔۔
__________
سورج نے آج بہت دونوں بعد ایسی شدت دیکھائی تھی۔۔
سنہری کرنیں چاروں اور پھیلی ہوئی تھیں سردی کی شدت میں بھی کمی آئی تھی۔
"کیا سوچ رہے ہیں یشم ؟" وہ جب سے ایک ہی زاویے میں بیٹھا ناجانے کن سوچوں میں گم تھا جب بنفشے کی آواز نے اسے سوچوں کے گرداب سے باہر نکالا تھا۔۔
"ہوں۔۔۔ہاں کیا ہوا؟"
"یشم آپ کب سے ایک ہی جگہ لگ بیٹھے ہیں میں کب سے آپ کو بلا کر گئی ہوں آپ باہر ہی نہیں آئے کیا سوچ رہے ہیں ؟"
"نہیں کچھ خاص نہیں تم بتاؤ کیوں بلا رہی تھیں "
"یشم آپ جھوٹ بولتے ہوئے بالکل بھی اچھے نہیں لگتے نا ہی آپ کو جھوٹ بولنا آتا ہے تو بتائیں کیا بات پریشان کر رہی ہے آپ کو؟" یشم کا ہاتھ تھام بنفشے اسکے پاس ہی بیٹھی تو یشم نے گہرا سانس بھر بنفشے کو دیکھا تھا۔
"مجھے بہت ڈر لگتا ہے کبھی کبھی بنفشے "
"کس بات کا ڈر"
"جو کچھ ہوا اسکے بعد میں خوفزدہ ہوگیا ہوں میری وجہ سے "
"اگر آپ ماضی کی بات کر رہے ہیں تو یہ بات آپ میں اور سب جانتے ہیں جو ہوا اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں تھا "وہ اسے پوری بات کہنے سے روک گئی تھی۔
"لیکن بنفشے کہیں نا کہیں میں قصوروار تھا اگر وہ سب نا ہوتا " اسکی آنکھوں میں سرخی تھی بنفشے کا دل دکھ سے بھر گیا۔
"یشم موت پر بھی بھلا کسی کا اختیار ہے آپ کیوں خود کو زمہ دار ٹہرا رہے ہیں آپ کو تو سرے سے کچھ پتا ہی نہیں تھا نا۔۔۔؟ "
"مگر "
"یشم یہ سب پہلے لکھا تھا اس چیز کو ایسے ہی ہونا تھا آپ اور میں اسے نہیں روک سکتے تھے میرے ساتھ جو کچھ ہوا کیا اس میں میرا قصور تھا ؟ نہیں نا یہ بات مجھے سیکھانے والے آپ تھے۔۔ "
"جانتا ہوں میں سب جانتا ہوں مگر مجھے ماہے کے نصیب سے بہت ڈر لگتا ہے بنفشے وہ معصوم ہے چھوٹی ہے میں اسکے نصیب سے ڈرتا ہوں"
"ہر باپ ڈرتا ہے یشم لیکن اگر ہمارے بیٹی کے نصیب میں آزمائش آنا لکھی ہوگی تو وہ آئے گی میں یا آپ اسے نہیں روک سکتے یہی حقیقت ہے"
بنفشے کی باتوں پر یشم نے بغور اسے دیکھا جو سب سے زیادہ اپنی بیٹی کے نصیب کو لے کر ڈرتی تھی مگر آج وہ اسے سمجھا رہی تھی۔
"آپ جانتے ہیں نا میں بالکل بھی حق میں نہیں تھی کہ وہ باہر جائے مگر پھر آپ سب کی ضد دیکھ میں نے سوچا کہ اسے جانے دیا جائے اس طرح اسکے حوصلے بلند ہونگے وہ میرے بغیر رہنا سیکھ لے گی۔۔"
"ابھی ایسی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے "
"ہاں تو آپ کو بھی اداس ہونے کی نیڈ نہیں میں کافی بنا رہی ہوں جلدی سے آجائیں بہت ہوگیا سوچنا اور اداس ہونا" یشم کا ہاتھ زبردستی تھامے وہ اسے لئے نیچے بڑھی تھیں۔
_________
"خالہ تقی جب واپس آئے گا؟" بریڈ کھاتے اس نے کچن میں کام کرتی عائشہ سے پوچھا تھا۔۔
"اسے بھول جاؤ وہ سال سے پہلے واپس نہیں آئے گا اس کی روٹین بہت حد ٹف ہے"
میرب کے جواب نے اسے سخت بدمزہ کیا تھا۔۔
"یار میں یہاں سب کے ساتھ رہنے آئی تھی مگر یہاں تو ماموں اور تقی آنے کا نام ہی نہیں لے رہے"
"بابا تو آجائیں گے ایک دو مہینے میں ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں گئے ہیں ہاں تقی کا کوئی پتا نہیں لیکن تم کیوں اداس ہو رہی ہو میرب ہے نا وہ تمہیں ہر جگہ دیکھائے گی" اسکے گال سہلاتے عائشہ نے نرمی سے کہا۔۔
"مما ویسے آج کیا بنایا ہے بہت بھوک لگ رہی ہے ؟"
"آج میں نے سب کچھ ماہے کی پسند کا بنایا ہے"
"کبھی میری پسند کا بھی بنا لیا کریں بول کر بنوانا پڑتا ہے"
میرب کے شکوہ کرنے پر ماہے بے اختیار ہنسی تھی۔۔
"میں تم سے چھوٹی ہوں اس لئے خالہ مجھ سے زیادہ پیار کرتی ہیں میرو تم جیلس مت ہو"
ماہے اترائی تھی۔
میرب نے نظر بھر کر اسکے مسکراتے چہرے کو دیکھا۔
"ٹیبل لگ جائے بلا لینا میرے سر میں درد ہو رہا ہے" اسے کہتے وہ رکی نہیں تھی۔۔
"عائشہ خالہ کیا وہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہے؟"
میرب کے ایسے جانے ماہے نے پریشانی سے عائشہ سے پوچھا تھا۔
٫"نہیں وہ کیوں ناراض ہوگی اب چھوڑو اسے اور یہ بسکٹس کھاؤ میں نے اسپیشلی تمہارے لئے بیک کئے ہیں"
"واؤ ۔۔۔ خالہ یو آر گریٹ"
ماہے کے انداز پر وہ ہنس پڑیں وہیں سیڑھیوں پر کھڑی میرب نے خاموشی سے یہ منظر دیکھا تھا۔
بے دردی سے لب کچلتے وہ اپنی جیکٹ لیتے گھر سے نکلتی چلے گئی۔۔۔
_______
گھر سے نکل کر وہ باہر آگئی تھی مگر دل میں چبھی پھانس حد سے زیادہ تکلیف دے رہی تھی۔۔۔
ناجانے کتنی دیر وہ یونہی باہر ٹہلتی رہی اور پھر گھڑی میں ٹائم دیکھتے وہ شٹل میں سوار ہوئی تھی۔
اپنے مطلوبہ اسٹاپ پر اترتے اس نے سب سے پہلے تازہ پھولوں کا گلدستہ لیا تھا۔
تیزی سے چلتے وہ اندر داخل ہوتی مطلوبہ جگہ پر آئی تھی۔
جہاں سامنے دیکھ اسکے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔
"کیسی ہیں ؟ ناراض تو نہیں ہیں نا مجھ سے؟"پھول سائیڈ پر رکھتے وہ اپنے لئے جگہ بناتی وہیں بیٹھ گئی۔۔
"پاکستان سے ماہے آئی ہے اور میں بہت خوش ہوں فائنلی اتنے وقت کے انتظار کے بعد وہ آگئی۔۔انتظار طویل تھا مگر رائیگاں نہیں گیا مجھے امید ہے اب سب ٹھیک ہو جائے گا"
اپنی بات کہتے وہ ہولے سے مسکرائی ۔۔
"آپ کو پتا ہے نا آپ کا مجھ پر بہت احسان ہے میں آپ کا ہر احسان چکانا چاہتی ہوں اور مجھے یقین ہے ایک دن آپ مجھ پر فخر محسوس کرینگی۔۔ "
"اچھا اب میں چلتی ہوں رات ہونے والی ہے آپ ایک پرسکون نیند لیں میں پھر آؤ گی آپ اپنا خیال رکھئے گا میں ہوں یہاں سب سنبھالنے کے لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں بائے بائے "
آسمان پر سیاہی مائل بادل اپنا ڈیرہ جمانے لگے تھے۔
گہرا سانس بھرتے وہ اٹھ کر باہر آگئی بوجھل دل ایک دم سے پرسکون ہوگیا تھا۔
پرسکون سانس فضا میں خارج کرتے وہ پورے دل سے مسکرائی تھی۔۔
___________
ہر روز ہی طرح ایک بار پھر وہ افراتفری میں تیار ہو رہی تھی۔
اسکی جلد بازیاں دیکھتے عائشہ مسکراتے اس کا بریک فاسٹ ریڈی کرنے لگیں۔۔
"خالہ آپ میرو کو بھی کچھ سیکھا دیں اکیلے اکیلے سب کرتے رہتی ہیں"
"کرلیا تمہاری میرو کے یہ سب کام جان نا نکل جائے ان محترمہ کی "
عائشہ کے جلے انداز پر ماہے کا قہقہ گونجا وہی میرب کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا تھا۔۔
"خالہ اب ایسی بات بھی نہیں"میرب کی بدلی رنگت دیکھتے وہ فوراً سے بولی تھی مگر تب تک میرب اٹھ چکی تھی۔
"ماہے مجھے لیٹ ہو رہا ہے تم آجانا میں جارہی ہوں"
اپنا بیگ اٹھاتے وہ ماہے کو کہتی بنا اسے کچھ بھی بولنے کا موقع دئیے گھر سے نکلتی چلے گئی ماہے نے بے بسی کے عالم میں اسے جاتے دیکھا تھا۔
"میرب کا کہا گئی ؟"
"اسکا ٹیسٹ تھا خالہ میں بھی جارہی ہوں " ان کے ہاتھ سے سینڈوچ لے کر بیگ میں رکھتے وہ بھاگ کر میرب کے پیچھے گئی تھی۔
تیزی سے بھاگتے وہ بس اسٹاپ تک آئی تھی مگر بس جا چکی تھی۔۔
" اسے کیا ہوگیا ہے اچانک" خود سے کہتے وہ وہی بس اسٹاپ پر بیٹھ دوسری بس کا انتظار کرنے لگی۔۔
یہ جانے بغیر کے کوئی ہے جو ایک کونے میں کھڑا اسے بغور دیکھ رہا ہے"
_________
حال۔۔۔۔
الارم کی آواز پر بری طرح چونکتے اس نے گھڑی کو دیکھا آنکھیں میں حیرت در آئی تھی۔۔
صبح کے چھ بج رہے تھے وہ پوری رات نہیں سو سکی تھی۔
اسکے ہاتھ میں ڈائری تھی ساری رات وہ ڈائری پڑھتے گزری تھی دل کا بوجھل پن مزید بڑھ گیا تھا۔
گہرا سانس بھرتے اس نے خود کو ریلکس کیا اور ڈائری واپس سے پیک کرتے اس نے بیڈ کے نیچے رکھے باکس میں رکھ کر اسے تالا لگاتے بیڈ کے نیچے چھپائی تھی۔۔
جب تک یہ ڈائری محفوظ تھی اسکا ماضی کا ایک ایک لمحہ چھپا ہوا تھا سچ اگر سامنے آیا تو ایک طوفان تھا جو ان سب کی زندگی تباہ کردے گا۔۔ اور وہ کبھی ایسا ہونے نہیں دے سکتی تھی۔
کل اسے یہ کہانی یہی سے شروع کرنی تھی جہاں سے اس نے چھوڑی تھی۔۔
حال۔۔۔
"ماہے ساری پیکنگ ہوگئی ہے دیکھ لو کچھ رہ تو نہیں گیا؟" انا بی کے پوچھنے پر نفی میں سر ہلاتے کھڑکی سے ہٹتے وہ بیڈ پر آ بیٹھی۔
"میرا بالکل بھی دل نہیں کر رہا انا بی"
"ایسے برے دل سے جائینگی تو کیسے چلے گا گڑیا آنسہ بٹیا اتنی خوش ہیں کہ آپ وہاں جارہی ہیں اگر ایسے کرینگی تو اچھی بات تو نہیں ہوگی نا"
ان کی بات پر وہ چپ رہ گئی۔۔
"ماہے گڑیا چلو آجاؤ وصی انتظار کر رہا ہے " آغا جان کی پکار پر شال اوڑھتے وہ نیچے آئی تو وصی آغا جان کے ساتھ بیٹھا تھا اسے دیکھ فوراً سے اٹھ کر اسکے پاس آکر اسکا بیگ اس سے لیا تھا۔۔
"آپ دونوں جلدی آجائیں گا پلیز " امو جان کا ہاتھ تھامے وہ ان سے جلدی آنے کا وعدہ لے رہی تھی۔
"ہاں ہم جلدی آجائیں گے۔۔ انا بی ہماری بچی کا خیال رکھئے گا"
انا بی ان دونوں کے ساتھ جارہی تھیں۔۔
"یہ بھی کوئی بولنے کی بات ہے ہم اپنی بٹیا کا بہت اچھے سے خیال رکھیں گے "
"امو جان آغا جان آپ بے فکر رہیں وہاں سب ماہے کا خیال رکھیں گے اور آپ لوگ اپنا خیال رکھئے گا اور جلدی آجائیے گا"
سب سے مل کر وہ لوگ وہاں سے نکلے تھے۔
وصی ڈرائیونگ کر رہا تھا جبکہ وہ اسکے ساتھ آگے بیٹھی تھی۔۔۔
انا بی سفر شروع ہوتے ہی سو گئی تھیں۔۔
وصی نے ڈرائیونگ کرتے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔
سیاہ لباس میں سیاہ شال اوڑھے وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی کندھے تک آتے بال کیچر میں مقید تھے۔
میک اپ سے پاک چہرہ۔۔
گاڑی میں خاموشی کا راج تھا وہ اتنی کم گو تھی کہ سوائے چند ایک جملے کے اس نے ایک لفظ نہیں کہا تھا۔
"ماہے ہمیں پہنچنے میں دو گھنٹے لگ جائیں گے آگے ٹریفک ہے تم سوجاؤ"
"ہمم۔۔" وصی کی بات پر سر ہلاتے وہ سیٹ سے سر ٹکاتے کھڑکی کی جانب رخ موڑ گئی ۔۔
کئی یادیں ایک بار پھر یادوں کے پردے پر ابھرتی آنکھوں میں نمی بھر گئی تھیں۔۔
دل میں درد سا اٹھا مگر وہ چاہتی تھی یہ درد اتنا بڑھ جائے کہ موت آکر اسے خود گلے لگا لے۔۔
____________
ماضی۔۔۔
یونیورسٹی کی طویل سڑک پر چلتے اس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا دل میں اداسی نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا۔۔
"کیا سوچ رہی ہو ؟"
آواز پر چونک کر اس نے اپنے ساتھ ساتھ چلتی تانیہ کو دیکھا۔
"کچھ نہیں بس ویسے ہی آج کا موسم کتنا عجیب ہو رہا ہے اداس اداس سا۔۔"
"ہاں ہو تو رہا ہے ایک کام کرتے ہیں یہاں پاس میں ایک بہت زبردست نوڈلز اسٹال ہے وہاں کے نوڈلز بہت زبردست ہوتے ہیں "
"نہیں تانیہ میرا موڈ نہیں تم جاؤ میں تھوڑی دیر واک کروں "
"آر یو شیور کہ تم نہیں آرہی ہو ؟"
"یس۔۔۔۔ تم جاؤ " وہ ہولے سے مسکرائی تھی۔۔
تانیہ اسے خیال رکھنے کا کہتی جا چکی تھی۔
ٹھنڈی ہوا سے بچتے اس نے کوٹ کی جیب میں ہاتھوں کو چھپایا اور خود پاس موجود بینچ پر بیٹھ گئی اپنی اداسی کی وجہ اسکی سمجھ سے باہر تھی۔
"تم ٹھیک ہو لٹل گرل؟"
آواز پر اس نے سر اٹھایا تو سامنے عالم کو کھڑا پایا۔
اپنی سرمئی آنکھیں اسکے چہرے پر مرکوز کئے بغور اسے دیکھتے اس نے سوال کیا تھا۔۔
"ماہے آر یو اوکے ؟"
اسکے یک ٹک دیکھنے پر عالم نے اسکے آگے چٹکی بجائی۔
ہوش میں آتے وہ شرمندہ سی سر جھکا گئی۔۔
"طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی تمہاری ؟"
"میں ٹھیک ہوں۔۔" اسے اپنے پاس بینچ پر بیٹھتے دیکھ اس نے گہرا سانس بھر خود کو اداسی سے نکالنا چاہا تھا۔۔
"لگ نہیں رہی ٹھیک اگر کوئی پرابلم ہے تو مجھ سے شئیر کر سکتی ہو"
"آپ کی طبعیت ٹھیک ہے ؟ میں نے سنا تھا کہ آپ بیمار ہیں آئی ایم سوری آپ میری وجہ سے بیمار"
"چچ۔۔ افسوس ہوا مجھے بہت ؟"
اسکی بات کاٹتے وہ اپنی بات کہتا تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔
"میں نے کیا کیا؟"
وہ حیران ہوئی تھی۔
"میں نے تمہیں بارش میں بھیگنے سے بچایا خود بیمار پڑ گیا اور تمہیں یہ پتا تھا مگر پھر بھی میری عیادت کے لئے نہیں آئیں ؟"
"اوو۔۔۔۔" اس کی بات پر وہ شرمندگی سر جھکا گئی واقعی اسے جانا چاہیے تھا۔
"آئی ایم سوری عالم مجھے لگا شاید آپ کو اچھا نا لگے میرا آنا"
"تم آتیں تو مجھے اچھا لگتا ماہے "اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہتے عالم نے چاکلیٹ اسکی طرف بڑھائی وہ جو اسکی بات پر ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی خاموشی سے چاکلیٹ تھام گئی۔
"چاکلیٹ کھانے سے سردی بھی نہیں لگتی اور موڈ بھی اچھا ہوجاتا ہے "
"تھینک یو سو مچ "
"بار بار تھینک یو مت کہو ایسا لگ رہا میں نے کوئی بہت بڑا احسان کردیا ہو تم پر"
"احسان تو نہیں مگر آپ نے میری بہت مدد کی ہے "
"اگر ایسا ہے تو تھینک کے بجائے تم میری ہیلپ کر کے سارے احسان چکا سکتی ہو"
"وہ کیسے؟"وہ فوراً سے راضی ہوگئی۔
"میرے سامنے آئندہ تھینکس نا بول کر یہ مجھے اریٹیٹ کرتا ہے"شرارت سے کہتے وہ اسے کھکھلانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔
"اوکے "
"اب بتاؤ کیوں اپ سٹ تھیں؟"
دوبارہ اسی سوال پر اس نے گہرا سانس بھر کر عالم کو دیکھا تھا۔
"کچھ نہیں بس ویسے ہی گھر والوں سے اتنا دور ہوں میری آنٹی اور انکل دونوں گھر میں نہیں ہیں آج اور میری کزن کا موڈ خراب ہے تو وہ نا کال ریسو کر رہی ہے نا مجھے پتا ہے کہ وہ کہاں ہیں میں بہت اکیلا فیل کر رہی ہوں اس ایک ہفتے میں میرا ایک بھی بیسٹ فرینڈ نہیں بنا ۔۔" منہ بسور کر کہتی وہ عالم کو کوئی چھوٹی سی بچی لگی تھی جو اس سے شکایت کر رہی تھی۔
"کیا میں تمہارا دوست بن سکتا ہوں؟"
"آپ ؟"حیرت سے اس نے عالم کو دیکھا تھا۔
"ہاں میں کیا میں تمہارا دوست بننے کے قابل نہیں ہوں؟"
"نہیں نہیں ایسا میں نے کب کہا "وہ فوراً سے بوکھلائی۔
"تو پھر "
"آپ کی ساری فین گرلز مجھے مار دینگی" رازدارانہ انداز میں کہتی وہ اسکے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی تھی ۔۔
"اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے"
"مجھے سب پتا ہے"
"اچھا کیا پتا ہے؟" اس نے بڑی دلچسپی سے ماہے کو دیکھا تھا۔
"چھوڑیں آپ کو بتاؤں گی تو رونے لگ جائیں گے" دانتوں تلے لب دباتے وہ شرارت سے کہتے اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔
"ویری فنی"
اسکے پیچھے آتے وہ منہ بنا کر کہتا اسے ہنسنے پر مجبور کرگیا تھا۔۔
آنکھیں بند کرکے ہنستی وہ عالم کو مسمرائز کر گئی تھی۔
گلابی گالوں پر پڑتا ڈمپل۔۔۔
"ایسے ہنستی ہوئی بالکل خرگوش لگ رہی ہو۔۔"
"ہونہہ ہوتے رہیں جیلس۔۔۔"دانتوں کی نمائش کرتے اس نے عالم کو چڑایا تھا۔۔ موڈ ایکدم ہی اچھا ہوگیا تھا۔۔
"چلو تمہیں وہاں سے آئسکریم کھلاتا ہوں اب تو دوستی ہوگئی ہے نا"
"اوکے ڈن ڈن۔۔ وہاں تک ریس لگاتے ہیں جو ہارا وہ آئسکریم کھلائے گا وہ بھی ڈبل۔۔۔"کہتے ساتھ ہی وہ فوراً سے بھاگی تھی۔۔
"چیٹر ۔۔۔۔ " بیگ کندھے پر ڈالتے وہ اسکے پیچھے بھاگا تھا۔۔
________
وہ انہماک سے لیپ ٹاپ اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھی مسلسل مسکرائے جارہی تھی۔
"کس بات پر اتنا مسکرا رہی ہو؟"
میرب ہی آواز پر فوراً سے لیپ ٹاپ بند کرتے وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تھی۔
میرب نے اسکے مشکوک انداز پر آئی برو آچکا کر اسے دیکھا تھا ۔۔
"کیا ہوا ایسے کیوں ڈر گئی ہوں ماہے؟"
"میرو تم آگئیں"
"بات مت گھماؤ تم ایسا کیا دیکھ رہی تھیں لیپ ٹاپ پر ؟"
اسکا لیپ ٹاپ تقریباً چھینتے میرب نے اپنے سامنے کیا تھا۔
اپنا لیپ ٹاپ میرب کے ہاتھ میں دیکھتے اسکے چہرے پر ہوائیاں اڑی تھیں۔۔
"تم اتنی گھبرا کیوں رہی ہو ماہے؟"
"میرو پلیز میرا لیپ ٹاپ مجھے واپس کردو"
اسے لیپ ٹاپ کھولتے دیکھ اسکی جان نکل رہی تھی اور پھر میرب نے اسے حیرت سے دیکھا تھا۔۔
"آئی ایم سوری پلیز کسی کو مت بتانا"
"تم چھپ چھپ کر ڈرامے دیکھتی ہو ماہے ؟"
اسکے لہجے میں بے یقینی تھی۔
"میرو آئی ایم سوری "
"اوو گاڈ مما مجھے تمہاری مثال دیتی ہیں کہ دیکھو زرا ماہے کو مجال ہے جو کوئی ڈرامہ"
اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتی ماہے کے گالوں پر پھسلنے والے آنسوؤں نے اسکی قینچی کی طرح چلتی زبان کو بریک لگائے تھے۔۔
"ماہے رو کیوں رہی ہو یار۔۔۔ میں مذاق کر رہی تھی یار۔۔۔ ماہے"
آنسو تواتر سے اسکے گالوں پر بہتے جارہے تھے میرب کی جان پر بن آئی تھی۔
"مائے جانو آئی ایم سوری نا میں سچ میں تمہیں تنگ کر رہی تھی"
اسکے خود سے لگاتے میرب نے جلدی سے اسکے آنسو صاف کئے تھے زرا سی دیر میں ہی اسکی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔۔
"میری جان نکال دی میرو مجھے لگا مجھے اب ڈانٹ پڑنے والی ہے"
"کم آن یہ میرا فیورٹ ڈرامہ ہے اب ہم مل کر مما سے چھپ کر دیکھیں گے۔۔ ویسے ماہے اگر تیری لائف میں بھی ایسے ڈرامے جیسا ہیرو آگیا تو کیا کرے گی؟"
"ڈرامے جیسا ہیرو کیسے میری لائف میں آئے گا؟"
"آ بھی تو سکتا ہے نا۔۔۔"
"میری بات سن ماہے اگر ایسا لگے نا کوئی اچھا لگ رہا ہے تو پیچھے مت ہٹ جانا محبت نصیب والوں کو ملتی ہے"
"کیا کچھ بھی بول رہی میرب میں یہاں پڑھنے آئی ہوں محبت کرنے نہیں "
"اففف ایک تو یہ سوچ۔۔ ادھر دیکھ ڈراموں میں کیا ہوگا ہے ہیروئن پڑھتی بھی ہے اور محبت بھی کرتی ہے محبت ایک بہت خوبصورت احساس ہے ایک ایسا شخص ہو آپکی زندگی میں جو ہر قدم پر آپ کے ساتھ رہے آپ کی حفاظت کرے اور آپ کے لئے "
"بسس۔۔۔۔" میرب کے منہ پر ہاتھ رکھتے اس نے میرب کو چپ کروایا تھا۔
"افف تم تو ایسے کر رہی ہو جیسے تمہیں کبھی شادی ہی نہیں کرنی انکل اور خالہ کی بھی تو لو میرج ہے نا دیکھوں کتنے ہیپی ہیں"
"میرو بس نا۔۔۔ "
"اچھا ٹھیک ہے میں کچھ کھانے کو لے کر آتی ہوں پھر ساتھ میں کچھ دیکھیں گے مگر میری بات پر سوچنا ضرور "
اسے کہتی وہ رکی نہیں تھی۔
میرب کے جاتے ہی وہ بستر پر ڈھے سی گئی تھی۔
میرب کی باتیں یاد کر ایک چہرہ اسکے سامنے آیا تھا جسے دیکھ وہ بوکھلاتے اٹھ بیٹھی تھی۔
"نہیں میں اتنی اسٹوپڈ نہیں ہوں"
خود کو سرزنش کرتے وہ واپس سے لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئی۔۔
_________
کلاس ختم ہوتے ہی وہ باہر آئی تھی جب اچانک کسی نے اسکی کلائی مضبوطی سے پکڑ کر اسے سائیڈ کیا تھا۔
اپنے سامنے پہلے دن والی لڑکی کو دیکھ اسکے چہرے پر ہوائیاں اڑی مگر خود کو مضبوط ظاہر کرتے اپنا ہاتھ اسکی سخت گرفت سے نکالنے کی کوشش کرتی وہ سامنے کھڑکی لڑکی کو مزید غصہ دلا گئی تھی۔۔
"ہاتھ چھوڑو میرا آئی سمجھ ۔۔۔"غصے سے سرخ ہوتی وہ مسلسل اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی کو اسکا ہاتھ چھوڑنے کے بجائے اسے زبردستی اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھی تھی۔
وہ طاقت میں اس سے ڈبل تھی ماہے کی ساری کوششیں بیکار گئی اسے زبردستی گھسیٹتے اسے تقریباً ایک ویران گوشے میں لے کر آئی تھی۔
"ہاتھ چھوڑو میرا مجھے درد ہو رہا ہے"
روہانسی ہوتے وہ رو دینے کو تھی ساری بہادری لمحے میں ہوا ہوئی تھی۔۔
"کیا ہوا اب ڈر لگ رہا ہے کہاں گئی بہادری ؟"
ماہے کا منہ دبوچتے وہ غصے سے اسکے منہ پر غرائی تھی۔
"دیکھو پلیز"
"یو ***۔۔ اس دن تمہاری وجہ سے میری اتنی انسلٹ ہوئی وہ بھی سب کے سامنے کیا لگا تھا اس عالم کی آڑ میں ہم سے بچ جاؤ گی؟" گالی دیتے اس نے ماہے کو زور سے زمین پر دھکا دیا تھا۔۔
بیگ سے کیمرہ نکالتے اس نے شیطانی نظروں سے زمین پر پڑی ماہے کو دیکھا تھا۔
"رو گڑگڑا اور بول تو ایک ڈرپوک لڑکی ہے تاکہ ساری یونی کو پتا چلے "
اس سے پہلے وہ مزید کچھ کرتی اچانک اسکا کیمرہ اچھل کر دور جا گرا تھا۔
"آہ ۔۔" ہاتھ پر لگنے والی چوٹ بہت شدید تھی۔۔
ماہے نور نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا اور پھر سامنے کھڑے شخص کو۔۔
جس کی آنکھیں لہو چھلکا رہی تھیں۔
"یو۔۔ " اس لڑکی کی جانب انگلی کرتا وہ غرایا جس پر سامنے کھڑکی لڑکی کا رنگ فق ہوا تھا۔
"عالم۔۔۔۔ آئی"
"ریوینج؟ رائٹ آئ ول شو یو مس سمانتھا رچرڈ" ایک ایک لفظ چبا کر کہتے وہ ماہے تک پہنچا اور اسی بازو سے تھام کر اپنے روبرو کیا تھا جس کا پورا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔۔
ضبط سے اس نے مٹھیاں بھینچی تھیں۔
"ان آنکھوں سے گرے ایک ایک آنسو کا جواب تمہیں دینا ہوگا مس رچرڈ" اپنے لفظوں سے اسے وارن کرتا وہ اسکا ہاتھ تھامے اسے لئے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔
سمانتھا نے خوف سے اسے جاتے دیکھا تھا کیونکہ وہ عالم تھا جو کہتا تھا وہ کئے بغیر وہ سکون سے نہیں بیٹھتا تھا۔۔
*************
"ماہے اسٹاپ کرائنگ"
اسکے مسلسل رونے پر وہ جھنجھلایا تو اسکے رونے کی اسپیڈ مزید تیز ہوئی۔
عالم نے گہرا سانس بھر سامنے سر جھکائے بیٹھی ماہے کو دیکھا جو کب سے بس روئے جا رہی تھی
"ماہے پلیز اسٹاپ کرائنگ" اسکے قدموں میں بیٹھتے بے بسی سے کہتے وہ اسے چپ کروانے کی کوشش میں میں ہلکان ہو رہا تھا۔۔
"وہ مجھے مارنے والی تھی اس نے اتنی زور سے میرا ہاتھ پکڑا میرے بابا نے کبھی مجھے نہیں مارا عالم۔۔ اس نے بہت زور سے مارا " ہچکیوں سے روتے وہ اس سے شکایتیں کر رہی تھی۔
"رونا تو بند کرو ماہے ایسے کون بچوں کی طرح روتا ہے"
اسے پانی کی بوتل زبردستی تھماتے وہ خود اس کے پاس بیٹھا تھا۔
وہ دونوں اس وقت یونیورسٹی کے نسبتاً کم رش والے حصے میں تھے عالم نہیں چاہتا تھا وہ کسی کی نظروں میں آئے۔۔
"تم چاہتی ہو اس لڑکی کو سزا ملے؟" اسکے ہاتھ سے بوتل لیتے اس نے بہت سنجیدگی سے ماہے نور کو دیکھا۔
"نہیں۔۔ "
"کیوں؟" استہفامیہ نظروں سے اسے دیکھتے اس نے سوال کیا۔
"کیونکہ وہ پھر اور غصہ ہوجائے گی اور آپ کو بھی نقصان پہنچا دے گی" سوں سوں کرتے اس نے اپنی بات مکمل کی۔
جس پر عالم کا قہقہ بے ساختہ تھا۔
"تم مجھے ولن کہتی ہو اور تمہیں یہ بھی لگتا ہے کہ وہ ایک لڑکی مجھے نقصان پہنچا سکتی ہے؟"
وہ جیسے محفوظ ہوا تھا اسکی بات سے ۔
"اتنا بھی ہنسنے کی ضرورت نہیں تھی اور ویسے بھی ولن دیکھنے میں اور ولن اصل لائف میں ہونے میں فرق ہے "اسکے ہنسنے کا وہ برا منا گئے تھی۔
"لٹل ریبٹ تم مجھے ہلکے میں لے رہی ہو میں بہت اسٹرانگ ہوں"
"کاش میں بھی آپ جتنی اسٹرانگ ہوتی" منہ بسورتے شکوہ کرتے اس نے معصوم سی شکل بنا کر اسے دیکھا تھا۔
"تم بن سکتی ہو اسٹرانگ بس رول نمبر ون ڈرنا چھوڑ دو کیونکہ جو ڈر گیا وہ کرگیا کھلاس۔۔۔"
"آپ مجھے اپنے جیسا اسٹرانگ بنا دیں نا "
"اچھا ٹھیک ہے مگر پھر تم نے میری ناک نہیں کٹوانی ہے "
"ڈن ڈن۔۔۔۔"
"چلو اب تمہیں ڈپارٹمنٹ تک چھوڑ دوں "
اسکا بیگ اٹھاتے وہ آگے بڑھا خوشی سے چہکتے وہ اسکے پیچھے بڑھی تھی۔
آج ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب ایک قدم مزید بڑھایا تھا۔
______
"ماہے اس نے تمہیں ہراس کیا اور تم نے مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا"
"شش۔۔ میرب پلیز چپ خالہ سن لینگی"
دروازے کی طرف دیکھتے اس نے میرب کو چپ کروانا چاہا تھا
"سو واٹ؟ یہ وہی ہے نا جو پہلے دن تمہیں تنگ کر رہی تھی ؟"
"میرب کچھ نہیں ہوا میں ٹھیک ہوں نا" اس کے منمنانے پر میرب نے کینہ توز نظروں سے اسے گھورا۔
"ماہے تم یہاں ہماری زمہ داری ہو جو بات تمہیں مجھے بتانے چاہیے وہ مجھے دوسری لڑکی سے پتا چل رہی ہے اٹس ناٹ گڈ اوکے ؟"
"افف میری میرو آئی ایم رئیلی سوری۔۔ آئندہ سے ایسا کچھ بھی ہوا تو میں سب سے پہلے تمہیں بتاؤں گی"
"پرامس؟"
"پکا پرامس "
"ویسے کس نے ہیلپ کی تمہاری ؟"
"ایک سینئر نے " نظریں چراتے مختصر سا جواب دیتے اس نے میرب کو مطمئن کرنا چاہا تھا مگر سامنے بھی میرب زین تھی۔
"ڈونٹ ٹیل می تم مجھ سے باتیں چھپانے لگی ہو ماہے میں اس یونی میں ایک سال سے ہوں تمہیں کوئی مل گیا ہے رائٹ؟"
"توبہ کرو ایسا کچھ نہیں ہے ہم بس دوست ہیں"
اپنی بات کہتے اس کے دانتوں تلے لب دبایا تھا۔
"رئیلی کون ہے کیسا دیکھتا ہے ہینڈسم ہے یا نہیں ماہے ٹیل میں ایوری تھنگ"۔
میرب نے سوالوں کی بوچھاڑ کی تھی اس پر ۔
"میرب ایسا کچھ نہیں ہے یار وہ بس میرے دوست ہیں"
"اور تم نے مجھے بتایا نہیں کیوں؟"
"ایسا کچھ تھا ہی نہیں بتانے کو "
"ماہے"
"میرب میں سچ بول رہی ہوں ہماری دوستی بھی ابھی ہوئی ہے وہ انہوں نے کئی دفعہ میری ہیلپ کی ہے بس اتنی بات ہے"
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا جیسے میرب کو سمجھائے ۔
"افف اچھا مجھے یہ بتاؤ وہ دیکھنے میں کیسا ہے ؟" میرب نے اشتیاق سے پوچھا۔۔
وہ بالکل بھی اچھا نہیں تم اسے دیکھو گی تو تمہیں اچھا نہیں لگے گا۔"
"کیوں کیسا دیکھتا ہے"
میرب کے سوال پر عالم کا سوچتے وہ مسکرائی میرب نے حیرت سے میرب کے چہرے پر سجی مسکراہٹ دیکھی تھی۔
"تم اسکے ذکر پر مسکرا رہی ہو اور تم کہہ رہیں کہ وہ بس دوست ہے؟"
"افف مطلب میں حلیہ یاد کر کے مسکرائی نا لمبے بال ہیں لمبا قد ہے سرمئی آنکھیں ہیں ہلکی سی شیو ہے گلے میں سلور چین"
"ماہے یہ کوئی بدمعاش ٹائپ لڑکا لگ رہا مجھے تو" میرب کے متفکرانہ انداز پر وہ ہنسی تھی۔
"میں نے کہا تو تھا تمہیں نہیں اچھا لگے گا مگر وہ بہت اچھے ہیں اپنے حلیے سے بالکل اپوزٹ "
"اور آپ کے مسٹر ولن کا نام کیا ہے ؟"
چاکلیٹ کا پیکٹ اوپن کرتے وہ مزے سے پوچھ رہی تھی۔
ماہے نے لمحے کو سوچا تھا۔۔
"عالم"
اسکے نام پر منہ تک جاتا ہاتھ ہوا میں معلق رہ گیا تھا۔۔
میرب نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"عالم شاہ؟"
وہ بے یقین تھی یہ آخری چیز ہوتی تب بھی وہ توقع نہیں کر سکتی اس نام کی۔۔
"شاہ ؟؟ مجھے سر نیم نہیں پتا میرب"
میرب کے تاثرات اتنے عجیب تھے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آگے کیا بولے..
"میرب کیا ہوا؟"
اسکے چہرے پر پریشانی دیکھ میرب فوراً سے سیدھی ہوکر بیٹھی تھی۔
"کچھ نہیں ہوا میں تو اس بات پر حیران ہو رہی ہوں یونیورسٹی کا وہ لڑکا کو لڑکیوں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا تمہارا دوست بن گیا اور تمہاری ہیلپ گی ان بیلیویبل"
"ایسا ہی ہے میں کیوں جھوٹ بولوں گی وہ واقعی میرے دوست بنے ہیں "
"ایمپریسو ماہے نور آپ نے یونیورسٹی کے سب سے فیمس لڑکے سے دوستی کرلی کیا بات ہے"
میرب اسے سراہا رہی تھی اسکا انداز ایسا تھا ماہے کھلھلا کر ہنس پڑی۔۔
_______
یونیورسٹی میں کرسمس بریک ہونے والا تھا روٹین ایک دم سے ٹف ہوگئی تھی کر کوئی اپنا سارا کام چھٹیوں سے پہلے کرنا چاہتا تھا۔
"یار ایک کام کرتے ہیں ہم ٹرپ پر چلتے ہیں کیمپنگ کرینگے",
تانیہ سب سے زیادہ ایکسائٹڈ تھی۔
موبائل میں مصروف ماہے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جہاں عالم کی تصویر اسکے سامنے تھی۔۔
دن گزرنے کے ساتھ ان کی دوستی مضبوط ہوتی جارہی تھی ۔
باتیں طویل ہونے لگی تھیں۔
میرب کہتی تھی یہ صرف دوستی نہیں تھی اس کی طرف تو بالکل بھی نہیں۔
"ماہے کن سوچوں میں گم ہو ؟"
"کہیں نہیں وہ۔۔۔"
"تمہیں پتا ہے زی کے واپس آگیا ہے"
"کون زی کے؟"
"اس یونیورسٹی کا غنڈہ لاسٹ ٹائم اسکی فائٹ کی وجہ سے اسے سسپینڈ کردیا تھا فرسٹ ڈے جن لوگوں کا گروپ تمہاری ریگنگ کر رہا تھا وہ اسکا لیڈر ہے "
"یونیورسٹی میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں؟"
ماہے نے تعجب سے پوچھا
"ہاں بدقسمتی سے۔۔ دو گروپ بہت اسٹرانگ ہیں ایک عالم کا اور ایک زی کے کا۔۔ مگر زی کے حیوان ہے وہ خون خرابہ کرنے سے بھی اب گریز نہیں کرتا میں نے تو سنا ہے باہر رہ کر اس نے کوئی ٹیم جوائن کی ہے"
"اٹس ٹو مچ اسکیری میری مما کو پتا ہوتا کبھی آنے کا دیتیں" ماہے نے جھرجھری لی تھی۔
"چلو تم لوگ باتیں کرو میں لائبریری جا رہی مجھے کچھ کام ہے"
"اوکے پھر کل ملتے ہیں"
لائبریری کی طرف جاتے اس نے موبائل نکال کر چیک کیا تھا مگر وہاں کوئی میسج نہیں تھا۔
اور ایسا اتنے وقت میں پہلی بار ہوا تھا۔
"عالم پتا نہیں آج کہاں مصروف ہیں خیر مجھے کیا"
موبائل بیگ میں ڈالتے وہ سیدھا لائبریری میں آگئی موڈ آف ہوچکا تھا مگر خود کو چئیر اپ کرتے وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔۔
_______
"شٹ موبائل کو بھی ابھی بند ہونا تھا" وہ آفس میں بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا آج اسے لسٹ فائنل کرنی تھی۔
لیپ ٹاپ بند کرتے اس نے سیگریٹ سلگائی۔
"ہاں پھونکتا رہے یہ زہر تو"
کیمپ میں داخل ہوتے عاقب نے اسے دیکھا تو بولے بغیر نہیں رہ سکا۔
"میرا موبائل بند ہوگیا ہے لسٹ فائنل کرنی ہے"
"تو کیا گیم کھیل رہا ہے عالم تو اس لڑکی کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے؟"
"میں اسکے ساتھ کیا کر رہا ہوں عاقب؟"
"یہ بات تو مجھ سے پوچھ رہا ہے ہماری بات بس بدلے کی ہوئی تھی تو اس کے ساتھ اتنا اچھا کیوں بن رہا ہے؟"
وہ غصے سے بھرا ہوا تھا عالم نے ناگواری سے اسے دیکھتے دوسری سیگریٹ سلگائی تھی۔
"یہ میرے پلین کا حصہ ہے"
"تجھے اس سے محبت تو نہیں ہوگئی عالم دیکھ"
"شٹ اپ۔۔۔ محبت اور عالم یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں عالم کی زندگی میں اس لفظ کی کوئی جگہ نہیں ہے" سیگریٹ پیروں تلے مسلتے اس نے تیسرا سیگریٹ نکالا تھا۔۔
"تو نے سمانتھا کو دھمکایا ہے؟ کیوں اس لڑکی کے لئے تو ان لوگوں سے پنگا کیوں لے کر بیٹھ گیا ہے اگر تجھے اس سے محبت نہیں ہے؟"
"ہاں پھونک ایک کام کرنا ساری سیگریٹ ایک بار ہی پی لے تاکہ تیرے اندر لگی آگ اور بڑھے"
اسے مسلسل تیسرا سیگریٹ نکالتے دیکھ وہ پھڑکا عالم نے ناگواری سے اسکا غصہ ہونا دیکھا تھا ۔۔
"کیوں دماغ خراب کر رہا ہے اپنا ؟" ٹیبل پر پیر رکھتے وہ وہ ریلکس انداز میں بیٹھتے سینے پر ہاتھ باندھ گیا۔
اسکے انداز پر عاقب نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔
"تجھے نہیں پتا باہر کیا ہو رہا ہے؟"
"کیا؟"
"وہ لوگ ماہے کو ٹارگٹ بنا رہے ہیں سمانتھا نے زی کے کو اسکی ساری ڈیٹیلز دے دی ہیں"
اسکی بات پر وہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟"
"ان کا کیا پلین ہے مجھے نہیں پتا مگر وہ ماہے کا ذکر کر رہے تھے سمانتھا نے بیر باندھ لیا ہے اس سے"
"شٹ " غصے سے کہتے وہ فوراً سے پہلا وہاں سے نکلا تھا عاقب نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا۔
"اور یہ کہتا ہے اسے محبت نہیں ہے ماہے نور سے"
سر جھٹکتے وہ اپنے باقی ساتھیوں کو بلانے لگ گیا۔
____________
وہ گروپ کی صورت بیٹھے تھے اور ان کے سامنے انکا گروپ لیڈر زی کے۔۔۔
سنہرے بالوں والی فرنگی۔۔ کندھے تک آتے لمبے بال گہری نیلی آنکھیں گردن اور ہاتھ پر لاتعداد ٹیٹوز گلے میں سلور اور گولڈ کی موٹی کئی چین پہنے وہ آنکھوں میں غصہ لئے سمانتھا کو دیکھ رہا تھا۔۔
"زی کے "
"تم سے ایک لڑکی قابو میں نہیں ہو رہی اور تم خود کو میری ٹیم ممبر کہتی ہو؟" اسکے لہجے میں ناگواری تھی۔۔
"میں اسے قابو کرلیتی مگر وہاں عالم آگیا اس نے مجھے دھمکایا ۔۔"
سمانتھا لاچاری سے بولی۔
"چلو پھر ملتے ہیں عالم سے "
خباثت سے کہتا وہ اٹھا تو اسکے پیچھے باقی سب بھی آگے بڑھے تھے تبھی سامنے سے عالم آتا نظر آیا تھا۔
"ہم تمہارے پاس ہی آرہے تھے اور تم خود چل کر آگئے "
"مجھے تم سے بات کرنی ہے"
"بات تو مجھے بھی کرنی ہے میں زرا یہاں سے غائب کیا ہوا تم سب نے میری پارٹی کے لوگوں کو چیونٹی سمجھ کر کچلنا ہی شروع کردیا؟"
"زی کے "
"کیا نام ہے اس لڑکی کا۔۔۔ ہممم۔۔۔ ما۔۔۔ ہاں ماہے سنا ہے بڑی خوبصورت ہے جس نے عالم جیسے پتھر دل انسان کو بھی پگھلا دیا"
اسکی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔
خود پر ضبط کرتے عالم نے مٹھیاں بھینچی تھیں۔
"مانا کہ تم ہم سے کئی گنا زیادہ قابل ہو مگر ایک لڑکی کے لئے دوسری لڑکی کو دھمکا رہے کچھ تو گڑبڑ لگ رہی ہے مجھے"
"یار برو عالم کچھ بول کیوں نہیں رہا سن کیوں رہا ہے ؟" سیم کو عالم کا چپ رہنا بالکل بھی ہضم نہیں ہو رہا تھا۔۔
"ہم بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں؟"
"بیٹھ کر کیا بات کرنی بات کرنا تو بیکار ہے تم نے میری بندی کو ہرٹ کیا اور اب میں"
اس نے دانستہ بات ادھوری چھوڑی۔
عالم نے ناگواری سے اسے دیکھا جتنا وہ ضبط کر رہا تھا سامنے کھڑا شخص اسکا اتنا ہی صبر آزما رہا تھا۔
"مجھے لگتا ہے یہ آج عالم سے اپنی دو سے تین ہڈیاں تڑوائے گا"سیم کو اچھے سے اندازہ تھا اگر ایک بار عالم کا دماغ گھوم گیا تو کیا ہوگا وہ شخص اپنا غصہ دبا کر رکھتا تھا کیونکہ جب اسے غصہ آتا تھا تو کوئی اسے قابو نہیں کر سکتا تھا۔۔
"کیا کریں اگر ان کے درمیان فائٹ ہوئی تو زی کے مر جائے گا۔۔"
عاقب کو الگ ہی فکر کھائے جارہی تھی اس کی نظریں عالم کے ہاتھ پر تھیں جن پر سکوں سے سلور کی چین لپیٹ رہا تھا۔۔
"کیا بول رہے تھے پورا بولو نا"
وہ مبہم سا مسکرایا تھا کچھ جتاتا ہوا لہجہ۔۔
ماتھے کی رگیں ابھری ہوئی تھیں۔۔
"کم آن یار ایک لڑکی کے لئے ہم لوگوں کے بیچ کیوں لڑائی ہو اس جیسی لڑکیاں تو تمہیں" وہ ناجانے اور بھی کچھ غلیظ کہہ رہا تھا۔۔
"اس جیسی ** لڑکی کے لئے" وہ اپنی بات مکمل نہیں کر پایا تھا عالم کا ہاتھ اٹھا تھا اور ایک ہی مکے میں زی کے زمین پر گرا تھا۔۔
"گالی دے رہا کسے اسے؟" خونخوار نظریں زمین پر گرے زی کے پر ڈالتے اس نے اپنا پیر اسکے سینے پر رکھا تھا۔
"میں تجھے بتاؤں گالی کون ہے یہاں؟", جھک کر اسکا گریبان پکڑتے وہ بہت ٹہرے لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
سب کے چہروں پر خوف سمٹ آیا تھا۔
"میں بتاتا ہوں کون ہے گالی"
ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہتے اس نے ایک ضرب اسکے سینے پر لگاتے زی کے بالوں کو مٹھی میں لیتے اسکا سر اونچا کیا تھا۔۔
"یو۔۔ باسٹرڈ" زی کے چلایا تھا مگر وہ اپنے ایک اور تیز مکے سے اسکا منہ بند کرگیا۔۔
لائبریری کے ایک کونے میں بیٹھی وہ پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ دھیان کے سبھی دھاگے موبائل پر اٹکے ہوئے تھے۔
آج صبح سے نا وہ اسے دیکھا تھا نا اس سے کوئی رابطہ ہوا یہی بات اسے پریشان کر رہی تھی۔۔
"افف ماہے دھیان دو پڑھائی پر"
خود کو سرزنش کرتے اس نے اپنا سارا دھیان واپس سے بک پر لگایا تھا جب اچانک باہر سے آتے شور نے اسکی ساری توجہ اپنی جانب کھینچی تھی۔۔
اچنبھے سے اس نے لوگوں کو کوریڈور سے بھاگتے دیکھا۔
"یا اللّٰہ خیر کیا ہوگیا ہے" جلدی جلدی اپنا سامان بیگ میں ڈالتے وہ فوراً سے لائبریری سے نکلی۔
سامنے سے تانیہ بھاگتی اسکی طرف آرہی تھی اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
"ماہے چلو جلدی سے یہاں سے نکلنا ہے"
"کیا ہوا ہے تانیہ سب بھاگ کیوں رہے ہیں؟" تانیہ کے ساتھ تیزی سے سیڑھیاں اترتے وہ وجہ پوچھ رہی تھی۔"
"عالم اور زی کے کی بہت بری لڑائی ہو رہی ہے اس سے پہلے یونیورسٹی میں مسئلہ ہو ہمیں نکلنا چاہئے "
اسکا ہاتھ تھامے تانیہ نے آگے بڑھنا چاہا تھا جس کے قدم اس ایک نام پر جیسے زمین پر گڑ گئے تھے۔
"ماہے کیا ہوا ہے رک کیوں گئیں چلو ۔۔"
"تم نے کیا نام لیا ابھی کس کی لڑائی ہو رہی ہے؟"
"عالم اور زی کے کی اور وہ بھی بہت خطرناک شاید عالم زخمی بھی ہوا ہے" اپنی بے دھیانی میں کہتے وہ سامنے کھڑی نازک لڑکی کا دل چیر گئی تھی۔
تانیہ سے ہاتھ چھڑاتے اس نے پیچھے قدم لئے ۔
"ماہے کہاں جارہی ہو؟"
"تم جاؤ میں بعد میں آتی ہوں" بنا کوئی جواب دئیے وہ پوری اسپیڈ سے بھاگی تھی۔
اسے کیسے بھی کرکے عالم تک پہنچنا تھا۔
"ماہے کہاں جارہی ہوں وہاں لڑائی ہو رہی ہے"
تانیہ اسکے پیچھے آئی تھی مگر وہ پاگلوں کی طرح بھاگ رہی تھی ناجانے کتنی بار اسے ٹھوکر لگی تھی نا جانے کتنی بار وہ گرتے گرتے بچی تھی اسے پرواہ نہیں تھی۔
_________
تمام اسٹوڈنٹس خوفزدہ سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے جو ایک کے بعد ایک وار ایک دوسرے پر کرتے اپس میں گتھم گتھا تھے۔
عالم کے مکوں نے زی کے کا پورا منہ سوجا دیا تھا۔
سب کی آنکھوں میں خوف تھا کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اگے بڑھ کر اس بپھرے شیر کو قابو کرسکیں۔۔
"عالم کو روکو وہ مار دے گا اسے"
سیم کی بات پر عاقب نے تاسف سے اس جنونی انسان کو دیکھا تھا۔
وہ دونوں بھی بے بس تھے۔
"وہ کسی کے قابو میں نہیں آئے گا جب تک اسکا غصہ کم نہیں ہوگا"
_______
تیزی سے بھاگتے وہ اس جگہ آئی تھی یہاں اسٹوڈنٹس کا رش لگا ہوا تھا۔
"عالم۔۔۔"
اس رش کو چیر کر جگہ بناتے وہ بمشکل آگے آئی مگر رش حد سے زیادہ تھا۔
"عالم۔۔۔ "وہ اسے زور سے پکار رہی تھی لوگ اسے پیچھے دھکیل رہے تھے کوئی وڈیو بنا رہا تھا کوئی خوفزدہ تھا مگر کوئی ایک بھی ان کے بیچ نہیں آیا تھا۔۔
"عالم۔۔۔۔ رک جائیں عالم" وہ اسے آواز دے رہی تھی روک رہی تھی مگر اسکی آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح تھی۔۔
اپنے لئے جگہ بناتی وہ آگے بڑھتی جارہی تھی اسے بس اتنا پتا تھا کہ اسے کیسے بھی کر کے سامنے لڑتے شخص کو روکنا ہے۔۔۔
جو آج آتش فشاں بنا سب جلانے کے در پر تھا۔
زی کے کو دھکا دیتے اس نے اپنا ہاتھ اسے مارنے کے لئے اٹھایا تھا مگر وہ اسے مار نہیں سکا۔۔
اسکا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا تھا۔
وہ اچانک ہی ان دونوں کے درمیان آئی تھی۔۔
"عالم کیا کر رہے ہیں بس کریں"
"سامنے سے ہٹو آج میں اسے بتاؤ گا گالی کون ہے"
"نو پلیز اسٹاپ۔۔۔ عالم اسٹاپ۔۔۔"اسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھے اس نے عالم کو پیچھے دھکیلا تھا۔
"لے کر جاؤ اسے۔۔۔" سمانتھا پر چلاتے اس نے غصے سے پاگل ہوتے عالم کا ہاتھ تھاما۔
"ہٹو سامنے سے " وہ غصے سے دھاڑا تو ماہے نے بے اختیار اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا تھا ۔
"عالم۔۔۔ ڈونٹ ڈو دس۔۔۔ عالم سنیں میری ڈونٹ ڈو دس"
"عالم ادھر دیکھیں " وہ رو رہی تھی۔۔
عالم نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
آنکھیں ان بھوری آنکھوں سے ٹکرائی تو جیسے وہ ہوش میں آیا تھا۔۔
اسکی آنکھیں رونے سے سرخ ہو رہی تھیں۔۔
"مت لڑیں عالم پلیز۔۔۔ چلیں میرے ساتھ"
"مجھے کہیں نہیں جانا ہاتھ چھوڑو میرا" وہ اب غصہ نہیں کر رہا تھا مگر وہ سامنے پڑے شخص کو چھوڑنا ہر گز نہیں چاہتا تھا۔
"پلیز عالم" وہ اردو میں بات کر رہی تھی کوئی اسکی زبان نہیں سمجھ پارہا تھا مگر ایک حیرت تھی سب کے چہروں پر۔۔
اس نے عالم کی ایک نہیں سنی اسکا ہاتھ تھامے ہجوم کو چیرتے وہ اسے اپنے ساتھ لئے آگے بڑھتی جارہی تھی۔
عالم کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے اسے بس یہاں سے نکلنا تھا وہاں موجود ہر شخص کی نظریں اس پر گڑی تھیں مگر اسے پرواہ تھی تو صرف ایک شخص کی۔۔۔
اور وہ شخص۔۔
حیرت سے اپنے آگے چلتی اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس کے نازک ہاتھ میں اسکا ہاتھ قید تھا مگر گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ چاہ کر بھی اپنا ہاتھ اس سے چھڑا نہیں پایا۔۔
اور اسکا غصہ۔۔۔ وہ تو ناجانے کب کا ختم ہوچکا تھا شاید تب جب اس نے ان آنکھوں میں دیکھا تھا یا تب جب وہ رو کر اس سے درخواست کر رہی تھی۔۔
وہ بس اسکے ساتھ آگے بڑھتا جارہا تھا اسکے پیچھے پیچھے ۔
وہ غصہ تھی رو رہی تھی مگر وہ اسے زبردستی اتنے لوگوں کے بیچ میں سے نکال لائی تھی۔
ناجانے کیوں مگر وہ مسکرایا تھا۔۔۔
_________
وہ خاموشی سے چئیر پر بیٹھا تھا جب کے سیم اس کے چہرے اور ہاتھوں پر لگے زخم صاف کرتے ایک چور نظر اس پر اور پھر سامنے غصے سے عالم کو گھورتی ماہے پر ڈال لیتا۔۔
عالم کا غصہ جسے سنبھلنے میں دو دو دن نکل جاتے تھے ماہے کے سامنے ایک منٹ میں جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا جس پر وہ حیران تھا تو وہیں خوش بھی۔۔
"تو کیوں مسکرا رہا ہے چوٹ صاف کر " سیم کو مسکراتے دیکھ اس نے تپ کر اسے لتاڑا وہیں اسکے انداز پر ماہے کے ماتھے پر بل پڑے ۔۔
"ہاں ایک کام کریں نا اسے بھی ماریں چین چاہے یا ہتھوڑا لا کر دوں بتائیں مجھے ایک کام کرتی ہوں نا گن لاتی ہوں مار دیں ایک ہی باری میں"
بنا اسکا لحاظ کئے وہ اسے سنا رہی تھی سیم کے لئے اپنی مسکراہٹ چھپانا مشکل ہو رہا تھا مسکراتا تو سامنے بیٹھا جلاد اسکی جان لے لیتا ۔
"ماہے۔۔"
"ٹھیک کہتے ہیں سب ولن ہو آپ مگر میں بیوقوف تھی مجھے لگتا تھا سب حلیہ ایسا ہے مگر نہیں اصل والے ولن ہو ادھیڑ کر رکھ دیا اسے۔۔۔
اور تم کیا کچھوے بنے ہوئے ہو کام کرو یا جاؤ یہاں سے "
عالم کے ساتھ ساتھ وہ سیم پر بھڑکی جو بیچارہ اسکی ڈانٹ پر فوراً سے کام میں لگا تھا۔
اس کے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ اس نے بمشکل دانتوں تلے لب دباتے اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی۔۔
"عالم۔۔ ڈین نے بلایا ہے فوراً سے آفس میں پہنچو"
اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی جیک کی آواز نے اسکے لفظوں کا گلا گھونٹا تھا شکوہ کناں نظروں سے عالم کو دیکھتے وہ رخ موڑ گئی۔
"تو جا آتا ہوں میں"
سیم اور جیک کو جانے کا اشارہ کرتے وہ اس کے پاس آیا تھا۔
"ناراض کیوں ہو رہی ہو تم مجھ سے"
"میں آپ سے ناراض نہیں ہوں آپ جائیں ڈین نے بلایا ہے" بے رخی سے کہتے اپنا بیگ اٹھاتے وہ وہاں رکی نہیں تھی گہرا سانس بھرتے اس نے اپنے بالوں میں انگلیاں چلاتے وہ دین کے آفس کی طرف بڑھا تھا۔۔
__________
"تم پاگل ہوگئی ہو ماہے کیا ضرورت تھی تمہیں ان کی لڑائی کے بیچ میں آنے کی اگر تمہیں کوئی نقصان ہوجاتا تو کیا جواب دیتی میں سب کو"
وہ سر جھکائے بیٹھی تھی جبکہ میرب مسلسل اسے ڈانٹ رہی تھی۔۔
کلاس کے بعد وہ اسے لینے آئی تھی مگر یہاں الگ ہی تماشا لگا ہوا تھا۔
"وہ میرے دوست ہیں میرب "
"شٹ اپ۔۔۔ خود سے جھوٹ بولنا بند کرو کوئی بھی اپنے دوست کے لئے اس طرح خود کو خطرے میں نہیں ڈالتا ایک آدھا مکا پڑتا نا تمہارا دن میں تارے نظر آجاتے"
میرب کا غصے سے برا حال تھا۔
اس نے بےبسی سے میرب کو دیکھا ایک تو وہ پہلے ہی عالم کی وجہ سے پریشان تھی اور اب میرب اسے بنا رہی تھی۔۔
"میرب ریلکس تم اسے بعد میں ڈانٹ لینا کیونکہ ابھی اسے ڈین بلا رہے ہیں"
تانیہ کی بات پر اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا۔"
"کیوں ماہے کو کیوں بلا رہے ہیں اس نے کیا کیا ہے ؟"
"پتا نہیں یہ تو وہاں جائے گی تو پتا چلے گا ماہے تم جاؤ " آنکھوں سے اسے پرسکون رہنے کا اشارہ کرتے تانیہ نے اسے وہاں سے جانے کو کہا جس پر سر my ہلاتے وہ خاموشی سے اٹھتی ڈین کے آفس کی طرف بڑھی تھی۔۔
"تم اتنا غصہ مت کرو اس کی غلطی نہیں ہے یار"
تانیہ نے میرب کو ریلکس کرنا چاہا تھا جس کا دماغ عجیب سی الجھن میں پھنس کر رہ گیا تھا۔
________
وہ دونوں سر جھکائے ڈین کے بالکل سامنے کھڑے تھے۔۔
زی کے زخموں سے چور وجود لئے تکلیف دو تاثرات لئے بار بار نظر اٹھاتے سامنے کھڑے جلاد کو دیکھ رہا تھا جس نے منٹوں میں اسکا سارا بھرم اور اکڑ مٹی میں ملا دی تھی۔۔
جبکہ دوسری طرف وہ بہت مطمئن انداز میں کھڑا تھا جیسے اپنے کئے پر فخر ہو۔۔
"شرم آنی چاہیے تم دونوں کو کیا یہ یونیورسٹی کوئی ریسلنگ ونگ ہے جہاں تم دونوں کو لڑنے پر ٹرافی دی جائے گی؟"
ڈین غصے سے لال چہرہ لئے ان دونوں کو سنا رہے تھے ۔
"ساری غلطی اسکی تھی سر" وہ ڈھیٹ بنا سارا الزام ہی زی کے پر تھوپ گیا تھا۔
"وہ میں دیکھ رہا ہوں مسٹر عالم۔۔ "ابھی وہ مزید کچھ کہتے جب دروازہ ناک ہوا تھا آنے والے کو اجازت دیتے انہوں نے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا۔
"سر آپ کے بلایا؟"
مدہم سی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی جس پر پلٹ کر اس نے اندر آنے والی کو دیکھا تھا ماہے کو دیکھ لب بھینچتے اس نے خونخوار نظروں سے زی کے کو دیکھا جو سٹپٹاتے نگاہیں جھکا گیا۔۔
"مس ماہے نور آپ کی وجہ سے یہ جھگڑا ہوا کیا آپ انہیں جانتی ہیں"ڈین کے زی کے کی طرف دیکھا اور پھر عالم کو۔۔۔
"نو سر آئی ڈونٹ نو ہیم" نظریں ہنوز عالم کے چہرے پر مرکوز تھیں۔۔
"بٹ عالم کے مطابق اس شخص نے آپ کو گالی۔۔"
"سر میں اس انسان کو نہیں جانتی مگر۔۔" ان کی بات کاٹتے اس نے ڈین کو دیکھا۔۔
",زی کے کی ٹیم کے لوگ مجھے ہراس کر رہے تھے مجھے فالو کر رہے تھے مجھے ٹارچر کر رہے تھے.
His team member abuse me because alam protect me"
"زی کے عالم کے سامنے مجھے گالیاں دے رہا تھا اور۔۔ "
وہ لمحے کو رکی۔۔
"کوئی بھی عزت دار آدمی ایسی گندی بات سن کر چپ نہیں رہ سکتا۔۔ "
ڈین نے بہت تحمل سے اس کی بات سنی تھی اس سے پہلے وہ دوسرے اسٹوڈنٹس سے بھی معلوم کر چکے تھے۔۔
"اوکے یو مت گو ناؤ" ان کی اجازت ملتے ہی وہ فوراً سے وہاں سے نکلی تھی۔
اور اسکے جانے کے بعد وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے۔
"زیرک کل تمھارے پیرنٹس یہاں چاہیے اور مسٹر عالم نیکسٹ ٹائم نو مسٹیک "
ان کے لفظوں کے پیچھے چھپی وارننگ وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا جبھی سر ہلاتے وہ ان سے اجازت لیتا فوراً سے باہر آگیا تھا اسے ماہے سے بات کرنی تھی۔
_________
تیز تیز چلتے وہ بس یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی جب پیچھے سے اپنے نام کی پکار پر اسکے قدموں کی رفتار تیز ہوئی تھی۔
"ماہے لیسن۔۔۔ ماہے اسٹاپ"
وہ تقریباً بھاگتے اسے پکار رہا تھا جو آج تو کسی قیمت اس سے بات نہیں کرنے والی تھی۔
"آئی سیڈ اسٹاپ ماہے" ایک دم سے اسکا بازو تھامتے وہ اسے وہی روک گیا۔
دونوں کا سانس بری طرح پھول رہا تھا۔۔
"سنتی کیوں نہیں ہو تم".
"مجھے نہیں سننا آپ کو ہاتھ چھوڑیں میرا" غصے سے کہتے وہ مسلسل اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔
"نہیں چھوڑو گا میری بات سنو"
"مجھے نہیں سننا نا مجھے آپ سے کوئی بات کرنی ہے"
"وہ "
"ہاں مجھے پتا ہے وہ مجھے گالی دے رہا تھا تو اسکا مطلب آپ اپنی جان مشکل میں ڈال لینگے؟ اگر مار دیتا وہ آپ کو پھر کیا کرتے یا وہ مر جاتا تو؟"
"تو مر جاتا میں کسی کو یہ حق نہیں دونگا کہ وہ تمہارے میں بارے میں بکواس کرے آئی سمجھ "
اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے وہ اسے ساکت کر گیا۔۔
"ٹھیک ہے پھر آپ کو جو کرنا ہے کریں مگر آج سے ہماری دوستی ختم۔۔۔ "
"ماہے" اس نے بےیقینی سے اسکا نام پکارا۔
"اگر میری دوستی آپ کو تکلیف دے گی تو مجھے نہیں کرنی آپ سے دوستی اگر اس سے آپ کو نقصان پہنچتا ہے تو۔۔"
آنسوؤں کا گولہ گلے میں پھنس سا گیا تھا۔
"مجھ سے دور رہئے گا"
"اوکے فائن از یو وش" اسکے چہرے پر نظریں مرکوز کئے سنجیدگی سے کہتا وہ رکا نہیں تھا۔۔
ماہے نے ایک نظر اس خود سے جاتے دیکھا۔
تو کیا بس یہی تک تھا ان کا تعلق؟"
___________
موسم کے تیور بدلنے لگے تھے اسی ہفتے کے آخر میں برف باری ہونے کے امکانات تھے کرسمس کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔
یونیورسٹی کا آف ہونے والا تھا مگر پچھلے دو دن سے وہ گھر میں بند تھی۔۔
کھڑکی کے پاس بیٹھی وہ بجھے دل سے باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی مگر دل کا موسم خراب تھا تو کیسے باہر کا کچھ بھی اسے اچھا لگتا۔۔
"ماہے یہ لو کافی"
ٹیبل پر کافی کا مگ رکھتے میرب اسکے پاس بیٹھتے اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔
جو ایسے مرجھا گیا تھا جیسے کوئی پھول ۔
"جب اتنا اداس ہو تو بات کرلو جا کر اس سے"
"میں اداس نہیں ہوں " میرب کی بات فوراً سے سیدھی ہو کر بیٹھتے وہ تڑخ کر بولی میرب نے تاسف سے اسے دیکھا۔
"یہ بات اسے جا کر بولو جو تمہیں جانتا نا ہو"
"جو بھی کہو مگر میں اداس نہیں ہوں "
"تو پھر یونیورسٹی کیوں نہیں جا رہی ہو ایک دوستی ہی تو ختم ہوئی ہے جہاں لوگ شادیاں اتنے آرام سے ختم کرکے موو آن کر جاتے ہیں
اور تم ۔۔"
"میں ان لوگوں کی طرح نہیں ہوں "
"ہاں کیونکہ آپ میرے رشتوں کے معاملے میں بیگ جنونی شدت پسند ہیں آپ کی محبت جتنی شدید ہوتی ہے اس سے زیادہ آپ کی ناراضگی شدید ہوتی ہے سب پتا ہے مجھے"
اسے بولنے کو منہ کھولتا دیکھ میرب نے خود ہی اسکے ہمیشہ کے کہنے والے جملے دہرائے جس پر منہ بناتے اس نے کھینچ کر کشن اسے مارا تھا۔
"تم اسے مس کر رہی ہو نا ماہے؟"
میرب کے ایک دم سنجیدہ ہونے پر اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اٹھ کر اپنی جیکٹ پہننے لگی۔
"میں کسی کو مس نہیں کر رہی ہوں میں بس ایسے ہی گھر میں بیٹھی ہوں میں یہاں زندگی جینے آئی ہوں اور ابھی میں یونیورسٹی جا رہی ہوں بائے "
ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہتی اپنا بیگ اٹھاتے وہ کمرے سے نکل گئی۔
اسکے جاتے ہی مسکراتے میرب بھی اپنا بیگ اٹھائے اسکے پیچھے بھاگی۔
فائنلی وہ اسے نارمل کر پائی تھی۔۔
"ارے ماہے کہاں جارہی ہو بیٹا ؟"
" یونی" مختصر جواب دیتے وہ شوز پہنتے باہر نکل گئی جب کے اس کے میرب تیزی سے نیچے آئی تھی۔
"یہ تم دونوں ہوا کے گھوڑے پر کیوں سوار ہو آج تو آف کرنے والے تھے نا تم لوگ ؟"
"یس بٹ آج کلاس ہے اٹینڈ نہیں کی تو مسئلہ ہو جائے گا ماہے کو بھی نوٹس لینے ہیں کیونکہ پھر چھٹیاں ہو جائیں گی اس کے بعد پڑھائی ٹف " انہیں تفصیلی جواب دیتے وہ گھر سے باہر نکل آئی مگر ماہے کہیں نہیں تھی وہ جا چکی تھی۔
گہرا سانس بھرتے موبائل نکال کر وہ تانیہ کو اسکے آنے کی اطلاع دینے لگی۔
ماہے تو جا چکی تھی اس لئے سلو اسپیڈ سے وہ بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوئی تھی۔۔
"کاش تمہیں اپنی محبت کا احساس ہو جائے ماہے مجھے اس دن کا بے صبری سے انتظار ہے جب تمہیں فائنلی اپنی محبت کا احساس ہوگا "
___________
ٹیم آفس روم میں وہ ٹیبل پر سر ٹکائے گہری سوچ میں گم تھا۔
عاقب سیم اور جیک نے ایک پہلے اسے پھر ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
"تم دونوں جاؤ میں لاتا ہوں اسے میٹنگ میں" کچھ دیر بعد ان کی یونین میٹنگ تھی اور عالم صاحب کا کوئی موڈ نظر نہیں آرہا تھا وہاں جانے کا۔۔۔
"کیوں رومیو بنا بیٹھا ہے یار میٹنگ اسٹارٹ ہونے والی ہے"
"تو اٹینڈ کرلے میرا موڈ نہیں" بیزاریت سے کہتا وہ واپس چہرہ ہاتھوں میں چھپا گیا۔
"عالم کیا مسئلہ ہے کیوں اس طرح کر رہا ہے ایک نا ایک دن یہ ہونا تھا"
"شٹ اپ"
"کہیں تجھے اس سے محبت تو نہیں ہوگئی عالم دیکھ میرے بھائی تو اس کے قریب گیا کیونکہ تجھے بدلہ"
"جسٹ شٹ اپ عاقب"وہ دھاڑا تھا۔
"تیرے چیخنے سے سچ بدل نہیں جائے گا حالت دیکھ جب وہ ناراض ہوئی ہے نا تو کسی کام میں مدد کر رہا نا کوئی دوسرا کام کر رہا رومیو کی طرح ایک جگہ ہے بیٹھتے سیگریٹ پر سیگریٹ پھونک رہا ہے"
"ہاں پھونک رہا ہوں کیونکہ میرا مقصد پورا نہیں ہوا میرا مقصد یشم یوسفزئی کو برباد کرنا ہے جیسے اس نے میرا گھر تباہ کیا مجھ سے سب کچھ چھین لیا اور اپنے دشمن کی بیٹی کے ذریعے میں اسے برباد کرنا چاہتا ہوں آیا تجھے سمجھ ؟"
"مجھے اس سے محبت نہیں ہے میں بس اس سے بدلہ لینا چاہتا ہوں"
وہ سامنے کھڑے عاقب سے زیادہ خود کو یقین دلا رہا تھا۔۔
"اگر ایسا ہے تو کیوں تو نے اسے سمانتھا
سے بچایا کیوں تو اس کے لئے اپنی جان مشکل میں ڈالتے زی کے سے لڑا؟"
عاقب کو اس انسان پر غصہ آرہا تھا۔
"تجھے جو سوچنا ہے تو سوچ کیونکہ تیرے کچھ بھی فضول سوچنے سے سچ نہیں بدل جائے گا آئی سمجھ " اسے پیچھے دھکیلتا وہ وہاں سے باہر آگیا۔
گھٹن سے اسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔
"محبت مائی فٹ" چہرے پر ہاتھ پھیرتے وہ ایک بار پھر سیگریٹ سلگا گیا ۔
دل پر عجیب سا بوجھ آگیا تھا۔۔
خود ک ریلکس کرتے وہ واک کرنے لگا
واک کرتے کرتے اس کے قدم یونہی بے ارادہ ایک طرف بڑھے تھے۔
ہوش تو تب آیا جب خود کو اسکے بلاک کے سامنے کھڑا پایا۔۔
وہ بری طرح چونکا تھا۔
"میں یہاں کیوں آیا ہوں؟ دماغ چل گیا ہے میرا"
خود کو سرزنش کرتے وہ مڑا تھا جب اسکی نظر بےاختیار سامنے اٹھی تھیں اور پھر پلٹنا بھول گئی۔
ہاں وہ وہی تھی۔۔۔
ماہے۔۔۔ وہ اسے پورے ڈھائی دن بعد دیکھ رہا تھا دل کا سارا بوجھ لمحوں میں ہوا تھا۔۔
پنک فراک پر بلیک اوور کوٹ پہنے بیگ کاندھے پر لٹکائے وہ سر جھکائے اس کی طرف آرہی تھی۔
نظروں کی تپش محسوس کر اس نے الجھتے سر اٹھایا تھا۔
نگاہوں کا تصادم ہوا تو دونوں ہی اپنی جگہ ساکت ہوئے تھے۔
دو دل ایک وقت پر ایک ہی لے پر دھڑکے تھے۔۔
وقت جیسے ان دونوں کے لئے ٹہر گیا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا ناجانے کتنے دنوں بعد وہ یوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
تیری دید کی طلب ایسی ہے
جتنا دیکھوں اتنا کم لگتا ہے۔۔
بہت مشکل سے اپنی نگاہوں کا رخ اس سے ہٹاتے اس نے ایک دم ہی قدم پیچھے لئے تھے۔۔
بنا اسکی جانب دیکھے وہ ایسے اس کے پاس سے گزرتا چلے گیا جیسے جانتا نا ہو پہچانتا نا ہو۔۔
اسکی بے رخی پر ایک آنسو پلکوں کی باڑ پھلانگتے گال پر بہتا چلا گیا۔۔
________
"ماہے کیا ہوا آئیز کیوں ریڈ ہو رہی ییں؟" تانیہ نے بغور اسکی سرخ آنکھیں اور چہرہ دیکھا.
"کچھ نہیں باہر سردی بہت ہو رہی ہے نا تو اسی وجہ سے تم نوٹس دے دو "
"نوٹس تو میں دے دوں گی مگر سب سے پہلے میری بات سنو میری برتھ ڈے کل میں نے اپنے سارے دوستوں کو انوائیٹ کیا ہے میرب کو بھی کیا ہے اور تمہیں لازمی آنا ہے"
"تانیہ میں "
"ماہے کوئی بہانہ نہیں سنوں گی میں یار کچھ وقت کی بات ہے اور ہمارا کورس ختم ہو جائے گا ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہو جائیں گے یہ میری پہلی برتھ ڈے ہے تمہارے ساتھ تو تمہیں لازمی آنا ہے میرب بھی تو آئے گی نا"
تانیہ کا اصرار بڑھتا جارہا تھا اسے مانتے ہی بنی۔
"اچھا ٹھیک ہے میں آجاؤ گی سب نوٹس تو دے دو مجھے گھر بھی جانا ہے"
اسے بس یہاں سے جانا تھا دل ہمک ہمک کر اس ستمگر کی ایک جھلک اور دیکھنے کے لئے تڑپ رہا تھا مگر دل پر پہرہ بیٹھائے وہ سخت جھنجھلاہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔
"افف یار رکو میں لاتی ہوں شاید لائبریری میں ہی رکھ کر آگئی ہوں"
"تم رہنے دو جاؤ گی پھر آؤ گی ٹائم لگے گا میں خود لے آتی ہوں"
تانیہ کو منع کرتے وہ لائبریری کی طرف آگئی اسکا بڑھتا ہر قدم اس دن کی یاد دلا رہا تھا۔
"اوکے فائن۔۔ تو بس یہ یہی تک تھا سب میں ہی پاگل تھی جو وقتی دوستی کو محبت سمجھنے لگی تھی ہی نیور لو می" ان راستوں سے گزرتے وہ ایک بار پھر اداس ہو گئی تھی ۔
لائبریری سے اپنے نوٹس لیتے وہ فوراً سے وہاں سے نکلی تھی جب ایک دم اسکے قدم رکے اور واپس پلٹے تھے۔
اور اوپری منزل پر تھی جہاں سے نیچے کا منظر صاف تھا۔
سامنے ایک شخص بیٹھا تھا جس کے ہاتھ پر چوٹ تھی شاید وہ اپنا زخم صاف کر رہا تھا۔۔
گرے ہڈی گلے میں سلور چین۔۔۔
وہ عالم تھا اسکا دل دھک سے رہ گیا۔
وہ زخمی تھا۔۔
بے چینی سے اس نے تھوڑا آگے ہو کر اسے دیکھنا چاہا۔
"نہیں ماہے تو اپنا دل مضبوط کر جب انہیں تیرے ہونے یا نا ہونے سے فرق نہیں پڑتا تو تجھے بھی نہیں پڑنا چاہیے", وہ خود کو سرزنش کر رہی تھی مگر نظریں ہنوز اس شخص پر تھیں۔
وہ ناجانے کتنی دیر یونہی اسے دیکھتی رہی دل تھا کہ ہٹنے سے انکاری تھی مگر اپنے دل کو سمجھاتے وہاں سے ہٹتے وہ یونی سے کی باہر آگئی۔۔
_______
وہ بہت مصروف تھا اپنے زخموں پر مرہم لگا رہا تھا مگر خود پر پڑتی عاقب کی نظریں وہ اچھے سے محسوس کر رہا تھا۔۔
"تو نے کہا تھا تجھے اس سے نفرت ہے تو اس سے بدلہ لینا چاہتا ہے"
"تو؟" اسے عاقب کی بات کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔۔
"کل جب وہ اپنے روم کی کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی تو آپ کیوں وہاں موجود تھے ؟"
عاقب کی بات پر وہ چونکا ضرور تھا مگر اپنے تاثرات بالکل نارمل رکھے۔۔
"لگتا ہے نشہ کرنے لگا ہے تو "
پٹی باندھتے اب وہ ہاتھ صاف کر رہا تھا۔۔
"مسٹر عالم۔۔۔۔ " دانت کچکچاتے اس نے عالم کا نام پکارا جس پر اس نے بیزاری سے عاقب کو دیکھا۔
"کیا ہوا ہے ؟"
"اپنا حال دیکھ بار بار اسکے گھر کے باہر جانا اسکو دیکھنا اس پر نظر رکھنا تو دوسروں کو بیوقوف بنا سکتا ہے مجھے نہیں مان لے تجھے اس سے محبت ہوگئی ہے"
"چل مان لیا ہوگئی ہے مجھے اس سے محبت اب آگے ؟" وہ بہت سنجیدگی سے سوال کر رہا تھا
"آگے کیا؟"عاقب کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا پوچھنا چاہتا ہے۔۔
"آگے کیا کروں گا میں نفرت یا محبت ؟"
"یہ تو اپنے دل سے پوچھ کہ وہ کیا چاہتا ہے اپنا کورس کمپلیٹ کر کے چلی جائے گی وہ واپس اس جگہ جہاں سے وہ آئی ہے اسکے گھر والے کسی اور سے اسکی شادی کردینگے۔۔۔۔وہاں نا تیرا بدلہ کام آئے گا نا نفرت"
ایک ایک لفظ پر زور دیتے وہ اسے بری طرح چونکنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔
"کیا مطلب ہے وہ واپس جائے گی؟"
"یہ اسکا گھر نہیں ہے اسے ایک نا ایک دن واپس جانا ہے"عاقب کو اسکی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا۔
اتنی بڑی بات وہ کیسے مس کرگیا۔۔
"اب کیا سوچنے لگ گیا ہے ؟"
"اسے گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ عاقب نے اسکا کندھا ہلایا ۔۔
"کیا سوچ رہا ہے؟"
"ہمم کچھ نہیں ٫"
نفی میں سر ہلاتے وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اب اسکا رخ باہر کی جانب تھا ۔۔۔
________
"یار ماہے آ بھی جاؤ ہم لیٹ ہو رہے ہیں" میرب کب سے تیار اسکا ویٹ کر رہی تھی۔
آج وہ دونوں تانیہ کی تھیم برتھ ڈے پارٹی میں جا رہے تھے۔
میرب نے پرپل فراک پر پرنسس لک میں تیار اب ماہے کا ویٹ کا کر رہی تھی۔۔
"یار مما جلدی کریں گے نا"
بے صبری سے گھڑی دیکھتے وہ بار بار انہیں پکار رہی تھی۔۔جب تھوڑی دیر بعد وہ دونوں اتر کر نیچے آئی تھیں۔
اسے دیکھ میرب کا منہ کھلا تھا۔
"نظر مت لگاؤ میری بچی کو"
اسکا منہ بند کرتے عائشہ ہنسی تو وہ ان کے ساتھ ہنسی تھی۔۔
"ٹائم پر آجانا تم دونوں",
عائشہ کو الوداع کہتے وہ تانیہ کی بھیجی ہوئی گاڑی میں سوار ہوئی تھیں۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ اس گھر کے باہر تھیں جہاں پارٹی رکھی گئی تھی۔۔
"میں بہت نروس ہو رہی ہوں یار میں نے ایسی پارٹیز کبھی اٹینڈ نہیں کیں"
"میں نے چھپ کر کی ہیں مگر آج پہلی بار تمہاری وجہ سے مجھے پرمیشن ملی ہے چلو جلدی اس سے پہلے پارٹی ختم ہو"
ماہے کا ہاتھ تھامے وہ گاڑی سے اتر کر اندر کی طرف بڑھی تھیں۔۔
'________
تانیہ کے گھر کا لان تھیم کے حساب سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ایسا لگتا تھا جیسے کوئی محل کا حصہ ہو۔۔۔
لائٹنگ اور مصنوعی آبشار نے اسکی خوبصورتی میں اضافہ کیا تھا۔۔
سوئنگ پول کے اطراف خوبصورت لائٹنگ کی گئی تھی۔
ایسا لگتا تھا سب پرانے دور کے بادشاہوں کے قزمانے میں آگئے ہیں۔۔
ہر کوئی تھیم کے حساب سے تیار ہوا تھا عالم بھی۔۔
وائٹ ہائی نیک پر کرسٹل گرے اوور کوٹ پینٹ۔۔
بال ہمیشہ کی طرح پونی میں قید کیپ سے چھپے ہوئے تھے۔۔
اسے دیکھنے پر کسی پرانے زمانے جیسے شہزادے کا گمان ہوتا تھا۔
ایک کونے میں بیٹھا وہ موبائل میں مصروف تھا میسج سینڈ کرتے اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور واپس سر جھکانا بھول گیا۔۔
وائٹ لانگ فراک پر کورٹ پہنے بالوں کو فرنچ اسٹائل میں باندھے پیچھے سے کرل لئے وہ اسکے سامنے تھی۔۔
کسی شہزادی کی طرح۔۔
وہ مہبوت سا بس اسے دیکھے گیا۔۔
سارے منظر دھندلا گئے سوائے ایک منظر کے۔۔
دل کی دنیا نے لمحوں میں پانسہ پلٹا تھا۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور ان کے درمیان بہتا فاؤنٹین۔۔۔
نظروں کے تصادم پر ان دونوں نے بے اختیار ایک دوسرے سے نظریں چرائی تھیں۔۔
انکار کے باوجود ان کا دل چیخ چیخ کر محبت کا اقرار کر رہا تھا۔
دل کی پکار پر کان دھرتے وہ دونوں ہی رخ پھیر گئے۔۔
ستاروں بھری رات میں چاروں طرف خوشیاں بکھری ہوئی تھیں۔۔
تانیہ کی برتھ ڈے پارٹی اپنے عروج پر تھی وہ کبھی ایسی محفلوں کا حصہ نہیں رہی تھی جبھی اس کے لئے یہ سب بالکل نیا تھا۔
"میرب گھر چلتے ہیں میں بور ہو رہی ہوں"
"تم پاگل ہو ماہے آدھی یونی یہاں آئی ہوئی ہے اور تم بور ہو رہی ہو"
اسکے منمنانے پر میرب نے اسے لتاڑا
"مجھے کیا پتا تھا تانیہ اور اسکے بہن بھائی اتنے لوگوں کو بلا لیں گے"
"تمہاری بات کامطلب اچھے سے سمجھ رہی ہوں میں عالم کی وجہ سے اگر تم یہاں سے جانا چاہتی ہو تو سمجھ لو تمہیں اس سے محبت ہے"
"میرب کیا مسئلہ ہے یار ہر بار یہ محبت کہاں سے آجاتی ہے یار۔۔؟"
"محبت آجاتی نہیں ہے وہ ہے جسے تم مان نہیں رہیں مان لو اور خوشی کو اپنے قریب آنے سے مت روکو بیوقوف لڑکی "
"مجھے واپس گھر جانا ہے مما بابا نے مجھے اس لئے یہاں نہیں بھیجا "
وہ چٹخی تھی میرب کو اب اسکا گریز اور پریشانی سمجھ آئی تھی۔
"اففف اگر تم خالہ اور انکل کو لے کر پریشان ہو تو پلیز یار۔۔ ان دونوں کی بھی لو میرج ہے بلکہ ہم سے زیادہ تو تم ان کے بارے میں جانتی ہو دوسرا میں ہوں نا میں آبان اور مما سے بات کروں گی وہ ضرور تمہاری فیور کرینگے"
"تم مجھے غلط بات مت سکھاؤ میں جا رہی ہوں آنا ہو تو آجانا "
اس موڈ بری طرح سے خراب تھا۔
میرب کی کوئی بھی بات سنے بغیر وہ تیز تیز قدم لیتے باہر کی جانب بڑھی تھی جب بہت اچانک اسکا پیر زمین پر پڑے تاروں میں الجھا تھا۔۔
پیر کو تاروں سے آزاد کروانے کی کوشش میں وہ پیچھے ہوئی تھی مگر پیچھے سے آتے ویٹر سے ٹکراتی وہ سیدھا سوئمنگ پول میں جا کر گری تھی۔۔
"میرب۔۔۔۔۔"
"اووو گاڈ" اسے پانی میں گرتے دیکھ سبھی اسکے گرد جمع ہوئے تھے مگر ان میں سے کوئی ایسا نہیں تھا کو اسکی مدد کرے۔۔
مارے شرمندگی کے اسکا برا حال تھا۔
"او گاڈ ماہے تم جیسے گر گئیں"وہ سب اسکے کلاس فیلو تھے جو در پردہ اسکا مذاق اڑا رہے تھے۔
تبھی کوئی ان لوگوں کو ہٹاتا آگے آیا اور ماہے کا ہاتھ پکڑ اسے پول سے باہر کھینچا تھا۔۔
"اندر رہ کر بیمار پڑنے سے اچھا ہے لوگوں کا سامنا کیا جائے"
غصے بھری آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی تھی۔
اپنا کورٹ اتارتے وہ اب اپنا کورٹ اسے پہنا رہا تھا۔۔
"ماہے کیا ہوا ہے تم ٹھیک ہو"
میرب بھاگتی اس کے پاس آئی مگر اسکے پاس کھڑے عالم کو دیکھ اسکے قدم تھمے ۔۔
"پیچھے آؤ میرے " سب پر ایک نظر ڈالتے میرب کو کہتے ماہے کا ہاتھ تھام آگے بڑھا تھا۔
ہوش میں آتے میرب فوراً سے اسکے پیچھے بھاگی۔
_______
وہ بہت تیز تیز چل رہا تھا ماہے ایک نظر اسکے ہاتھ میں دبے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔۔
وہ مسلسل اسے لئے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
سردی سے اسکا برا حال تھا۔
اسٹریٹ کارنر پر آکر وہ رکا تھا سامنے اسکی اسپورٹس کار کھڑی تھی۔۔
"بیٹھو گاڑی میں"
بے تاثر لہجہ ۔۔ ماہے نے اسے پھر اپنے گیلے کپڑوں اور ہائی ہیل کو دیکھا تھا۔
اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے گہرا سانس بھرتے عالم جھکا اور اسکے پیروں کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا۔
"یہ آپ کیا ؟"
"اتارو اسے"ترش لہجے میں کہتا وہ خود ہی اسکی ہیل اتار گیا۔۔
"عالم میں"
"میرے شوز پہنو" اپنے شوز اتار کر اسے دیتے وہ گاڑی کی طرف مڑا تھا وہ ناجانے کیا کر رہا تھا مگر ماہے کو اسکی بے رخی پر شدت سے رونا آیا وہ پرواہ بھی کر رہا تھا تو اتنی بے رخی جتا کر۔۔
"بیمار ہونے کا ارادہ ہے کیا جلدی پہنو اور گاڑی میں بیٹھو ہیٹر آن کردیا ہے میں نے"
اسے اسٹل آنکھوں میں آنسو لئے کھڑا دیکھ گہرا سانس بھرتے عالم نے گہرا سانس لیا اور اسکے قدموں میں بیٹھتے اسے شوز پہنانے لگا۔۔
"سر جھکائے وہ اسکے جھکے سر کر دیکھ رہی تھی۔
"چلو بیٹھو گاڑی میں" اسکا ہاتھ تھام کر کہتے اس نے گاڑی کا دروازہ اس کے لئے کھولا۔
وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔
تبھی سامنے سے میرب تقریباً بھاگتی ان کی طرف آئی تھی عالم کے اشارے پر وہ فوراً سے پیچھے بیٹھی اسکے بیٹھتے ہی عالم نے گاڑی اسٹارٹ کی تھی۔۔
"یہ چاکلیٹ کھاؤ " ڈیش بورڈ سے چاکلیٹ نکال کر اسے دیتے اس نے ماہے کا ہاتھ تھام ہیٹر کے قریب کیا۔۔
"گرمائش دو خود کو ورنہ بیمار ہوجاؤ گی"
وہ اسکی فکر کر رہا تھا۔۔
آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر آنے کو مچلنے لگے تھے۔۔
یہ کیسا ادراک تھا جو اسے اس لمحے ہوا تھا۔۔
بے بسی سے ڈرائیونگ کرتے ستمگر کر دیکھتے وہ رخ پھیر گئی۔۔
گاڑی ان کے گھر سے تھوڑا دور رکی تھی۔
"گھر جا کر اسے ہاٹ چاکلیٹ دینا اور میڈیسن دے دینا تاکہ بخار نا ہو" وہ اس سے نہیں میرب سے مخاطب تھا وہ اس سے کیوں ناراض ہوگیا تھا۔۔
وہ بے چین ہوئی تھی۔
"یہ کوٹ"
"مجھے لیٹ ہو رہا ہے بائے" بنا اسکی بات سنے میرب سے کہتے وہ واپس گاڑی میں بیٹھا تھا ۔
"آپ کے شوز "
اس سے پہلے وہ بات پوری کرتی وہ بنا سنے وہاں سے گاڑی بھگاتا چلا گیا۔
"چلو ماہے اس سے پہلے بیمار ہوجاؤ "
میرب اسکا ہاتھ تھامے گھر کی جانب بڑھی تھی ماہے نے ایک نظر مڑ کر اس جگہ کو دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا رات ایک دم سے پھیکی پھیکی لگی تھی اپنے ساتھ وہ اس چاندنی رات کی ساری رونقیں بھی لے گیا تھا۔۔
__________
"شکر ہے مما سو رہی تھیں ورنہ وہ تمہیں ایسی دیکھتیں تو سو سوال کرتیں" میڈیسن اس کے ہاتھ میں رکھتے میرب نے پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھایا تھا جو اس وقت آرام دہ گرم لباس میں بلینکٹ اوڑھے بیٹھی تھی۔۔
"کیا ہوگیا ہے چپ کیوں بیٹھی ہو کچھ بولو بھی"
"مجھے لگتا ہے تم کہتی ہوں میرو" گلاس اسے تھماتے وہ پرسوچ انداز میں اس سے کہہ رہی تھی۔۔
"ظاہر ہے مما تو مجھے"
"مجھے عالم سے محبت ہوگئی ہے "
اس نے میرب کی بات نہیں سنی تھی مگر میرب نے اسکی بات سنی تھی اور پھر وہ کچھ بول نہیں سکی۔۔ اسکی نظریں ماہے کے چہرے پر تھیں۔۔
"میں انکاری تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا میں کبھی اپنے لئے ٹھیک فیصلہ نہیں لے سکتی مگر میرب میں دیکھا آج دیکھا وہ میرے لئے بالکل ایسے ہی پروٹیکٹو ہیں جیسے بابا اور آبان لالہ۔۔ ناراضگی کے باوجود انہوں نے میری مدد کی انہیں احساس تھا میرا۔۔ میرب میں مزید اپنی فیلنگز سے منہ نہیں موڑ سکتی ہاں میں ان سے محبت کرنی لگی ہوں پتا نہیں کب سے پہلے میں نہیں سمجھتی تھی کہ آخر کیوں میرا دل اس ایک شخص کو دیکھ کر دھڑکنے لگتا ہے آج سمجھ آگیا میرب "
میرب کا ہاتھ تھامے وہ اپنا دل کھول کر اسکے سامنے رکھ چکی تھی ۔
"میں نے انہیں ناراض کر دیا انہوں نے میری وجہ سے زی کے سے لڑائی کی زخمی ہوئے اور میں۔۔۔ میں نے انہیں ہرٹ کردیا میرب میں کیا کروں میرب میں کیسے انہیں مناؤ ؟" وہ ایک دم سے پینک ہوگئی تھی۔۔
"ریلکس ماہے ریلکس۔۔۔ کیا ہوگیا ہے کیوں پریشان ہو رہی ہو "
"میرب میں نے کیا کر دیا "
"کچھ غلط نہیں کیا تم نے تمہاری جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی یہی کرتی خود کو مت تھکاؤ "
"ہمم "
مبہم سا جواب میرب نے گھیرا سانس بھر کر اسے دیکھا جو بیک وقت ضدی بھی تو اور جذباتی بھی۔
"ہمم مت کرو میڈیسن لی ہے اب سوجاؤ تاکہ کل تک طبعیت ٹھیک رہے میں زرا مما کو دیکھ لوں"
________
ماہے کو آرام کا کہہ کر وہ سیدھا نیچے آئی تھی۔
عائشہ کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی یعنی وہ سو نہیں رہی تھیں۔
وہ کبھی ایسے کمرے میں بند نہیں ہوتی تھی۔
میرب کو پریشانی نے گھیرا جبھی وہ ناک کرتے کمرے میں داخل ہوئی تو عائشہ کو سامنے بیڈ پر بیٹھا پایا۔۔
"مما آپ جاگ رہی ہیں؟"
"میرب کی آواز پر وہ بے اختیار چونکیں۔۔
"تم لوگ آگئے ماہے کہاں ہے؟"
"ہم تو کب کے آگئے ہمیں لگا آپ سو گئیں اس لئے ماہے کو بھی سلا کر آرہی ہوں میں ابھی"
"نہیں بس نیند نہیں آئی "
" بابا سے بات ہوئی کب آرہے ہیں؟"اسکے سوال پر عائشہ کے چہرے پر اداسی نے ڈیرہ جمایا تھا۔
"مما کیا ہوا ہے کوئی پرابلم ہے؟"
"تمہارے بابا اس بار نہیں آرہے گھر "
"کیوں مما بابا کیوں نہیں آرہے اتنے دن ہوگئے انہیں گئے ہوئے "
"بیٹا وہ ایک اہم پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں دوسرا ان کی طبعیت بھی ٹھیک نہیں ڈاکٹر نے ٹریول کرنے سے منع کردیا ہے وہ آنا چاہ رہے تھے مگر ایسے ان کا درد بڑھ سکتا تھا اس لئے میں نے منع کردیا تقی بھی چھٹیوں پر دوستوں کے ساتھ جا رہا "
"مما آپ کیوں اتنا سیڈ ہو رہی ہیں اگر بابا نہیں آرہے تو آپ بابا کے پاس چلی جائیں " میرب نے آسان سا حل پیش کیا۔
"میں کیسے جا سکتی ہوں تم اور ماہے یہاں اکیلی کیسے رہو گی اپیا نے میری زمے داری پر ماہے کو یہاں بھیجا ہے "
"افف مما۔۔ ہم دونوں کو کوئی بچے نہیں ہیں ویسے بھی ہماری چھٹیاں ہیں ہم گھر میں رہیں گے"
"اگر چھٹیاں ہیں تو تم دونوں بھی میرے ساتھ چلو"
عائشہ نے فوراً سے پلان بنایا جس پر میرب نے بغور اپنی ماں کو دیکھا۔
"مما چھٹیوں کے بعد ہمارے ٹیسٹ ہیں ہم جائیں گے اتنی دور پھر واپس آئیں گے تو تیاری کب کرینگے آپ جائیں بابا کے پاس وہ بھی آپ کو اتنا مس کر رہے ہونگے آپ کو دیکھیں گے تو بہت خوش ہوجائیں گے ہم دونوں یہاں رہ لینگے"
"مگر میں کیسے بیٹا؟"
وہ تذبذب کا شکار تھی۔
"اچھا اگر ماہے کہے گی تو آپ اسکی سن لینگی نا ؟"
ماہے کی آواز پر ان دونوں نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں وہ بلینکٹ اپنے گرد لپیٹے کھڑی تھی۔
"ماہے"
"دیکھیں خالہ سردی میں بھی آپ کے پاس آگئی میں اس لئے آپ میری بات سنیں اور اپنی پیکنگ اسٹارٹ کریں کل آپ جارہی ہوں زین ماما کے پاس"
زین اسکا ماموں بھی تھا اور خالو بھی اسکا جو دل کرتا تھا وہ ویسے اسے پکارتی تھی۔
"مگر۔۔"
"خالہ پلیز اگر آپ میری وجہ سے انکار کر رہی ہیں تو مت کریں میں اور میرب ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے آئی پرامس دیکھیں آپ کل ہی جارہی ہیں"
"ہاں کیونکہ بعد میں ٹکٹس کا مسئلہ ہوگا اب ہوگیا فائنل آپ جارہی ہیں اب آپ پیکنگ کریں میں ٹکٹ بک کرتی ہوں" میرب کی پھرتیاں عروج پر تھیں۔
ماہے نے جلدی سے عائشہ کا وارڈروب چیک کیا تھا۔
عائشہ ان دونوں کی پھرتیاں دیکھ سر پکڑ کر رہ گئی۔۔
_____________
"تیرا کوٹ کہاں ہے عالم ؟"
وہ جو ابھی گھر آیا تھا آواز پر اس نے سر اٹھا کر صوفے پر بیٹھے عاقب کو دیکھا۔
"تو یہاں کیا کر رہا ہے؟"
"تیرا انتظار"
مزے سے کہتے اس نے ٹیبل پر دونوں پاؤں پھیلائے۔
"واہ لگتا ہے نیا ٹرینڈ آیا ہے بنا جوتے کے باہر گھومنا۔۔"
"شٹ اپ"
شرٹ کے اوپری بٹن کھولتے وہ اس نے آستین کے کف کہنیوں تک موڑے تھے۔۔
"اتنی سردی میں بنا کوٹ اور جوتوں کے گھومنا پاگلوں کا کام ہے اور مجھے لگتا ہے تو پاگل ہوگیا ہے"
سیگریٹ سلگاتے اس نے بنا کچھ بھی کہے سر صوفے کی پشت سے ٹکایا۔
"ہاں کرلے اگنور جتنا کرنا ہے کرلے مگر میری بات سے تو منہ نہیں موڑ سکتا نا ہی تیرے اس طرح کرنے سے حقیقت بدل سکتی ہے۔۔
نفرت کرنے کے چکر میں عالم صاحب کو محبت نے جکڑ لیا ہے"۔
"اپنی بکواس بند کر اور وہ رہا دروازہ وہاں سے بالکل سیدھے سیدھے نکل جا اس سے پہلے میں تجھے دھکے دے کر نکالوں"
ایک ایک لفظ چبا کر کہتے اس نے دروازے کی جانب اشارہ کیا عاقب نے تاسف سے اس پتھر دل کو دیکھا۔
"کیا؟"
"خود سے جنگ لڑنا بند کر دے عالم۔۔ جو ہوا اس میں ماہے کا کوئی قصور نہیں اگر بدلہ لینا ہے تو دوسرے طریقے سے لے اپنی محبت کو جانے مت دے میرے بھائی محبت بہت مشکلوں سے ملتی ہے اگر ایک بار چھین جائے تو پھر کبھی ملتی بھی نہیں ہے"
"تو کب سے لو گرو بن گیا ہے ؟"
عالم نے اسکا مذاق اڑایا عاقب نے دانت کچکچاتے اسے گھورا تھا۔
"مت مان میری بات لیکن جب بات میں پچھتائے گا نا پھر مجھ سے مت کہنا یہ نفرت بہت بری چیز ہے یہ ایک ایسی آگ ہے جو تم دونوں کو جلا کر راکھ کر دے گی۔۔ یا تو اسے اپنا لے یا اس سے دور چلا گیا۔۔ مگر کھیل مت کھیل"
"مجھے نیند آرہی ہے میں سونے جارہا ہوں جاتے ہوئے دروازہ بند کرکے جانا"
اسکی باتوں کو نظر انداز کرتے وہ سیگریٹ بجھاتا اپنے کمرے میں آگیا۔۔
بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹتے اس نے سکون سے آنکھیں موندیں تھیں
مگر آنکھیں موندے وہ نازک سا سراپا ایک بار پھر نظروں کے سامنے آیا تھا۔
"عاقب ٹھیک کہتا ہے میں تم سے دور نہیں رہ سکتا" ہولے سے کہتے وہ مسکرایا تھا۔۔۔
________________
عائشہ جا چکی تھی ان دونوں کی ضد کے باوجود وہ ان دونوں کو ساتھ لے کر نہیں گئی تھیں ورنہ ان دونوں کا ارادہ عائشہ کو سی آف کرنے کا تھا۔۔
"ماہے کافی پیو گی؟"
میرب کے پوچھنے پر کتابوں پر جھکی اس نے نا میں سر ہلایا۔۔
"اچھا بتاؤ پھر تم نے کیا سوچا؟"
میرب ایک دم ہی اسکے پاس آکر بیٹھی تو ماہے نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"کس بارے میں؟"
"اففف لڑکی عالم اور اپنے بارے میں تم نے کچھ سوچا ہے کیسے اظہار کرو گی؟"
میرب کی بات پر وہ جو کوشش کر کے بمشکل کل والی بات بھولی تھی ایک بار پھر دماغ کے پردوں پر چلنے لگا۔۔
"خدا کے لئے اب یہ مت کہنا کہ تم کچھ نہیں کرنے والی ہو" میرب کو اس سے اب کسی اچھی چیز کی امید نہیں تھی۔۔
"میرب"
"ماہے بس بہت ہوگیا اگر تم نے اظہار نہیں کیا تو میں خود جا کر عالم سے بات کروں گی"
"میرب وہ مجھ سے خفا ہیں میں کیسے ان سے بات کر سکتی ہوں "
بے بسی ہی بے بسی تھی میرب کا دل کا رکھ کر اسے ایک لگائے۔۔
"میری بات سنو اسے تم نے ناراض کیا ہے اور اب منانا بھی تم نے ہی ہے اسے میں یہ لو اسٹوری آگے بڑھتے دیکھنا چاہتی ہیں ماہے عالم کا نام لوگوں کی زبانوں پر ہونا چاہیے"
وہ اپنا ہی راگ الاپ رہی تھی ماہے نے کشن کھینچ کر اسے مارا۔
"یہ کوئی فلم نہیں ہے ماہے عالم۔۔۔ جاؤ کافی بناؤ میرا دماغ نا کھاؤ"
میرب نے گھور کر اسے دیکھا اور غصے سے واک آؤٹ کر گئی۔۔
"ماہے عالم" اسکے جاتے ہی اپنا اور عالم کا نام دہراتے وہ کھل کر مسکرائی تھی
___________
صبح سے شروع ہوئی برف باری کچھ دیر پہلے ہی رکی تھی۔
"ماہے پلیز یار یہ بستر چھوڑ نا باہر چلتے ہیں اتنا مزہ آئے گا"
میرب کوئی تیسری بار اس کی منت کر رہی تھی۔
"شام میں چلیں گے نا تب ڈیکوریشن میں بھی دیکھ کر آئینگے ابھی سوجاؤ اور سونے دو"
میرب نے منہ بسور کر اس دیکھا۔
دوپہر کے تین بج رہے تھے اور ماہے میڈم اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔
"دیکھ تجھے نہیں پتا اسنو فال میں مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے ایسا یہاں کے لوگ کہتے ہیں "
"سچ بول رہی ہو؟"
ماہے نے چہرہ بلینکٹ سے نکال کھوجتی نظروں سے اسے دیکھا کہ کہیں وہ جھٹ تو نہیں بول رہی۔۔
"سچ میں اور ایک بات کچھ دنوں سے سب سے زیادہ تو ایکسائٹڈ تھی اسنو فال کے لئے اب یہ بستر سے ہی نہیں نکل رہی۔۔"
میرب کی بات پر اسکے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا تھا۔۔
،"ماہے تم عالم کی وجہ سے ایسے اداس رہو گی تو کیسے چلے گا ؟"
"میں اداس نہیں ہوں "
"ہاں لیکن تم محبت کی ماری ہو اس لئے شرافت سے اٹھو فریش ہو میں تب تک گرما گرم پاستہ پاپ کورن اور اسنیکس لاتی ہوں مل کر ایک مزے دار سی مووی دیکھیں گے اور پھر ہم باہر جائنگے گھومیں گے اور دس بجے تک گھر"
اسکا بلینکٹ کھینچ میرب نے اسے زبردستی بیڈ سے کھڑا کیا۔
"خبردار جو واپس بیڈ پر گئیں آرہی ہوں میں بس جلدی سے فریش ہو اور مووی سلیکٹ کر کے رکھو۔۔
اسکا بالکل بھی دل نہیں تھا مگر میرب کا موڈ اپنی وجہ سے وہ کبھی خراب نہیں کر سکتی تھی اس لئے خاموشی سے کپڑے اٹھائے وہ واشروم میں بند ہوگئی۔۔
______________
مہرون اوور کوٹ پہنے میچنگ کا مفلر اپنی گردن کے گرد لپیٹے وہ جانے کے جانے کے لئے تیار تھی۔۔
"چلو چلو مزہ آنے والا ہے"
باہر برف باری ایک بار پھر شروع ہوچکی تھی۔
"ماہے تم بیمار نا پڑ جاؤ "
میرب کو اسکی ٹینشن ہوئی تھی کو فوراً سے بیمار پڑ جاتی تھی۔
"اب اتنی بھی نازک نہیں ہوں اچھے سے کور کیا ہوا ہے میں نے خود کو اس لئے ٹینشن مت لو اور چلو میرے ساتھ" شوز پہنتے وہ اسے کہتے خود گھر سے باہر نکل گئی ۔
مانچسٹر شہر برف سے ڈھکا ہوا تھا جابجا کرسمس ٹری اور خوبصورت لائٹنگ۔۔
ایک خوابناک سا منظر اسکے سامنے تھا۔
"ماہے تم یہی رکو مما کی کال آرہی ہے میں ان سے بات کر کے آتی ہوں یہاں بات کروں گی تو وہ غصہ ہوجائیں گیں۔۔"
میرب اسے کہتے واپس مڑی تھی جبکہ وہ سجاوٹ دیکھتی ایک جگہ آکر ٹہر گئی۔
وہ گفٹ شاپ تھی جس کی انٹرنس پر بڑا سا کرسمس ٹری آویزی تھا مگر اسکی توجہ ایک چیز نے کھینچی تھی وہ چھوٹا سا ڈیکوریشن پیس ۔ ڈانس کرتا مٹی کا وہ چھوٹا سا کپل۔۔
مہبوت سی وہ اسے دیکھ رہی اس لمحے اس اب ایک شخص یاد آیا تھا۔۔
دل اداس ہوا تو ہر شے بے معنی لگنے لگی۔۔
رش موڑ کر وہ شیلٹر کے نیچے کھڑی آسمان کو دیکھنے لگی روئی کے چھوٹے چھوٹے ذرے آسمان سے گرنے لگے تھے۔
"کاش ہم ساتھ ہوتے"اس کے دل نے خواہش کی تھی۔
پیروں سے برف پر لکیریں بناتے اس نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا اور دیکھتی رہ گئیں۔
دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں اس نے سوچا نہیں تھا۔
اسکے بالکل سامنے وہ کھڑا تھا۔۔
ہاں وہ عالم ہی تھا۔۔
بلیک کوٹ پہنے اس نے اپنے گرد مفلر لپیٹا ہوا تھا لمبے بال تراش کر چھوٹے ہو چکے تھے یہ بالکل نیا لک تھا اسکا۔۔
ایسا لگتا تھا جیسے کسی فیری ٹیل کا شہزادہ اسکی دنیا میں آگیا ہوں ۔
وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔۔
تبھی مقابل نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا چہرے پر حیرانگی بھرا تاثر ابھرا مگر پھر وہی ازلی سنجیدگی جو اسکی شخصیت کا خاصا تھی۔
اب وہ آہستہ سے قدم اٹھاتے اسکی طرف آرہا تھا۔۔
کیا یہ اسکا وہم تھا کیونکہ وہ صرف اسے ہی سوچ رہی تھی مگر نہیں۔۔ وہ واقعی عالم تھا اسکے سامنے۔۔
"ماہے تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
اسکی محویت کو عالم کی آواز نے توڑا وہ ایکدم ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی۔۔
"میں ۔۔ وہ"
"آر یو آل رائٹ ؟"
"یس آئی ایم وہ میرب کال سننے گئی ہے تو میں یہاں آگئی۔۔"
"ہمم" وہ محض اتنا ہی بول سکا۔
دونوں کے درمیان خاموشی کا دورانیہ طویل ہونے لگا جسے ماہے نے اپنے سوال سے توڑا۔۔
"کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں عالم؟" بے دردی سے لب کچلتے آخر اس نے پوچھ ہی لیا۔۔
"میں کہاں ناراض تھا ؟ ناراض تو تم تھیں مجھے خود سے دور رہنے کے لئے بھی تم نے ہی تو کہا تھا"
اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے اس نے بغور ماہے کا چہرہ دیکھا۔
وہ پری تھی جو غلطی سے اسکی دنیا میں آگئی تھی۔۔
"آئی ایم سوری عالم میں اس دن بہت ڈر گئی تھی مجھے لگا میری وجہ سے وہ آپ کو نقصان"
"ماہے" اسکے مضطرب انداز پر وہ بے اختیار اسے پکار اٹھا اس پکار میں ایک ایسی تاثیر تھی کہ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھے گئی۔۔
آسمان سے سفید نرم روئی آہستہ آہستہ ان کے چاروں اور بکھر رہی تھی۔۔
عالم نے بہت نرمی سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔
"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا میری زندگی میں یہ وقت بھی آئے گا کہ مجھے کسی سے اظہار کرنا پڑے گا لفظوں کے انتخاب میں بھلے میں بہت پیچھے ہو مگر اتنا جانتا ہوں میری دل کی دنیا بدلنے والی صرف تم ہو کیا تم میری زندگی کے اندھیروں کو اپنی روشنی سے بھرو گی؟"
سادہ لفظوں میں محبت کی چاشنی گھلی تھی ان چند سادہ جملوں میں وہ اسکے دل کی دنیا تہہ و بالا کر گیا تھا۔۔
وہ اظہار کر رہا تھا اظہار محبت۔۔۔۔
"کیا تم عالم کی زندگی میں آنا پسند کرو گی؟ میں بدل لونگا خود کو " وہ جیسے التجا کر رہا تھا۔۔
ماہے نے ایک نظر اسکے ہاتھ میں دبے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔۔
"میں نہیں جانتی کب کیسے کیوں مگر میرے دل کی مستند پر بیٹھنے والے پہلے شخص آپ ہیں اور آخری بھی۔۔ مجھے آپ کی اچھائیاں برائیاں دونوں قبول ہیں بس شرط یہ ہے کہ آپ کبھی مجھ سے محبت کرنا مت چھوڑنا عالم" نرم روئی اسکے گال پر آکر ٹہر گئی تھی جیسے سامنے والے کا جواب سننا چاہتی ہو ۔
اسکے اظہار پر وہ مسکرایا ۔۔ مسکرانے سے گال میں پڑنے گڑھے واضح ہوئے ماہے نے بیت اشتیاق سے اسے دیکھا تھا۔۔
کیا محبت میں ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا وہ اس شخص کے لئے اتنا پاگل تھی؟
"میں وہ تین لفظ نہیں کہوں گا تم سے مجھے بڑے کھوکھلے سے لگتے ہیں بے معنی سے مگر ایک بات کہوں تمہیں۔۔۔؟"
یہ نرم روئی کے گالے۔۔
جب تمہارے عارض پر ٹہرے تو احساس ہوا کہ
اس سے بڑھ کر بھی کیا نظارہ ہوگا کوئی۔۔
گھنیری پلکوں میں چھپی یہ آنکھیں
کیا ان میں ہمارا عکس ہوگا کبھی ؟
تیری ہنسی کی کھلکھلاہٹیں
میری صبح روشنی کریں گی کیا کبھی ؟
(فری شا)
اسکے کان کے پاس جھکے وہ سرگوشی میں اس سے کہہ رہا تھا۔۔
آس پاس سے بیگانہ لوگوں کے ہجوم سے دور ایک کونے میں کھڑے وہ دو نفوس محبت بھری ساعتیں ایک دوسرے کی نظر کر رہے تھے۔۔
بادلوں نے جھک کر ان دو دیوانوں کو دیکھا اور شرما کر اپنا رخ پھیر لیا۔۔۔
_____________
اسکا ہاتھ عالم کی گرفت میں تھا ۔
برف باری تیز ہوتی جارہی تھی۔۔
اپنا ہاتھ عالم کے ہاتھ میں دیکھ اسکا سرخ چہرہ مزید سرخ ہوا تھا۔
"کیا ہوا ٹھنڈ لگ رہی ہے؟" پریشانی سے پوچھتے اس نے ماہے کا ہاتھ اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال گیا مگر اپنی گرفت مضبوط ہی رکھی ۔
شرم سے اسکے عارض قندھاری رنگ کی ڈھل گئے۔
اور اس حسین نظارے کو دیکھ وہ دلفریب انداز میں مسکرایا۔۔
"عالم "
"جی جہان عالم"
اسکا دل دھڑکا تھا اس طرز تخاطب پر۔۔۔
ماہے نے فوراً سے میرب کو دیکھا۔
وہ دونوں سڑک کے کنارے چل رہے تھے جبکہ میرب ان سے فاصلے پر تھی۔۔۔
"کاش یہ وقت یونہی تھم جائے اور ہم ایسے ہی ساتھ رہیں"
دل کی خواہش وہ زبان پر لے آئی جس پر وہ مسکرایا تھا۔
"ابھی تو بہت چیزیں باقی نہیں ابھی وقت تھمنے کا وقت نہیں آیا ماہے نور"
اسکی بھوری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا وہ اسکا ہاتھ تھامے آگے چلنے لگا۔۔
ماہے نے ناسمجھی سے اسے دیکھا وہ اسکی بات کا مطلب نہیں سمجھتی تھی۔
گھر آچکا تھا۔۔
"ماہے عالم کو سی آف کر کے آجاؤ میں جا رہی ہوں"
دور سے ہی میرب نے اسے کہا اور گھر کے اندر بڑھ گئی۔۔
"تمہاری کزن بہت سمجھدار ہے"۔
"اب آپ جائیں برف باری تیز ہونے لگی ہے"
"تم میری فکر کر رہی ہو؟ اس دن تو مجھے زخمی چھوڑ کر چلے گئی تھیں"
اسکی بات پر وہ ایک دم شرمندہ ہوئی۔
"ہے ماہے آئی ایم جوکنگ۔۔۔ یار ایسے کروں گی تو میں کچھ نہیں کہوں گا" اسکی اتری صورت پر وہ فوراً پریشان ہو اٹھا۔۔
"عالم۔۔۔"
"ماہے بھول جاؤ سب بس یہ یاد رکھو اب ہم ساتھ ہیں عالم ماہے کا ہے اور ماہے عالم کی"۔اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرے وہ اسے یقین دلا رہا تھا۔
یہ احساس ہی کتنا خوش کن تھا جسے آپ چاہتے ہیں وہ بدلے میں آپ کو آپ سے زیادہ چاہتا ہے۔۔۔
"ماہے کیا تم میرے ساتھ جھیل پر چلو گی؟"
"جھیل پر؟"
"ہاں جھیل پر وہاں آسمان ستاروں سے بھرا ہوتا ہے میں وہ جگہ تمہارے ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں"
"عالم رات میں خالہ ؟"
وہ تذبذب کا شکار ہوگئی وہ پہلی بار ہی اس سے کچھ مانگ رہا تھا اور وہ اسے انکار کر رہی تھی۔۔
وہ جانتی تھی عائشہ کبھی اسے ایسے نہیں جانیں دینگی۔۔۔۔
"اے۔۔ خود کو ریلکس کرو ابھی نہیں جا رہے موسم ٹھیک ہو جائے پھر چلیں گے "
" میں چلوں گی آپ کے ساتھ جب آپ بولیں گے"
وہ اسے انکار نہیں کر سکی۔۔
"چلو جاؤ اندر بیمار ہو جاؤ گی "
"گڈ نائٹ" اسے الوداع کہتی وہ گھر میں آگئی۔۔
اس نے سوچ لیا تھا وہ کچھ بھی جھوٹ بول دے گی میرب تو ویسے بھی اسکے ساتھ ہی۔۔
چھپی محبت کے راستوں کی پہلی سیڑھی جھوٹ ہوتا ہے کاش وہ سمجھ سکتی۔۔ ایسی سیڑھی جو ہر قدم پر ڈگمگاتے آپ کو گرانے کی کوشش کرتی ہے مگر آپ کے جھوٹ بڑھتے جاتے ہیں۔۔
"یشم یوسفزئی تمہاری بربادی کا وقت اب شروع ہوتا ہے۔۔۔"
اسکے گھر کو دیکھ وہ خود سے بولتے آگے بڑھ گیا۔
کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سیٹی بجاتا۔۔۔
وہ دشمن تھا اسکے باپ کا جس سے وہ محبت کر بیٹھی تھی مگر آخر کونسا دشمن؟"
اسپتال کے یخ بستہ کاریڈور میں وہ دونوں اس وقت مضطرب سے بیٹھے تھے۔۔
وہ ابھی ابھی نماز پڑھ کر آیا تھا۔۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے وہ یہاں تھا۔۔
"یشم تم گھر جاؤ بھابھی پریشان ہو رہی ہونگی"
واصف کے کہنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
"وہ آج اس مقام پر میری وجہ سے ہے واصف میں کیسے اسے اکیلا چھوڑ دوں؟"
سیٹ سے اٹھ کر وہ آپریشن تھیٹر تک آیا تھا۔۔
اسکے دل اسکے بھائی کی آج یہ حالت تھی وہ کیسے اسے اکیلا چھوڑ جاتا۔۔۔
"یشم۔۔ ایسے یہاں رہو گے تو بیمار پڑ جاؤ گے اور یہ بات واثق کو بالکل اچھی نہیں لگے گی۔۔
گھر جاؤ فریش ہو پھر آجانا میں ابھی ہوں نا یہاں پھر رزاق بھائی بھی آنے والے ہیں"
وہ وہاں سے آنا نہیں چاہتا تھا مگر واصف کے اصرار اور بنفشے کا سوچتے وہ راضی ہوگیا ۔
پورے راستے اسکا دھیان ہاسپٹل کی طرف رہا تھا۔
گھر پہنچ کر سب سے پہلے وہ فریش ہوا تھا۔
"یشم کافی"وہ گہری سوچ میں بیٹھا ہوا تھا جب بنفشے اسکے پاس آکر بیٹھی۔
"واثق بھائی کیسے ہیں اب؟"
"ویسا ہی جیسا اتنے سالوں سے ہے دعا کرو بنفشے اسکا آپریشن کامیاب ہوجائے۔۔"
"آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں یشم وہ ٹھیک ہو جائیں گے مجھے پورا یقین ہے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے " یشم کے دونوں ہاتھ تھامے وہ اسے سمجھا رہی تھی۔
"بنفشے مجھے لگا تھا وہ بدل گئی ہے اسکے ساتھ اتنا برا ہوا ہے اب وہ کبھی پرانی راہ پر نہیں جائے گی مگر۔۔۔۔"
"یشم۔۔" بنفشے نے اسے روکا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ یشم ماضی کو یاد کرے۔۔۔
"وہ میرے دوست سے اسکا سب کچھ چھین گئی بنفشے اسکی اولاد اسکی آنکھوں کی چمک۔۔۔
کیا ہوگیا ہے میرا دوست میں جب جب اسے دیکھتا ہوں میرا دل پھٹ جاتا ہے کاش وہ ہماری زندگیوں میں نا آتی کاش ۔۔"
"یشم۔۔ وہ میرے بھی تو بھائی تھے نا مجھے بھی اتنی ہی تکلیف ہے پلیز آپ خود کو قصوروار مت ٹکرائیں یشم پلیز۔۔
"کافی پیئے اور تھوڑا ریسٹ کریں پھر ہم دونوں ہاسپٹل جائینگے"
روم میں اندھیرا کرتے اس نے یشم کا سر اپنی گود میں رکھا تھا۔
اسے ذہنی سکون کی ضرورت تھی۔
یشم کے بالوں میں انگلیاں چلاتے وہ کہیں ماضی میں نکل گئی تھی۔
وہ وقت جب ان کی زندگیوں میں صرف اور صرف خوشیاں تھیں۔۔۔
لیکن پھر وہ وقت آیا جو ان سے سب کچھ چھین کر لے گیا۔۔۔
________
ماضی۔۔
زندگی خوشیوں سے بھری تھی۔۔
زین اپنی جاب کے سلسلے میں مانچسٹر میں تھا جبکہ عائشہ میرب اور تقی چھٹیاں گزارنے آئے تھے اور سب بنفشے کے پاس رہ رہے تھے۔۔
واثق اور آرزو دبئی میں تھے۔۔
زندگی میں ایک سکون تھا خوشیاں تھیں۔۔
"واثق اور آرزو واپس پاکستان آرہے ہیں"
بنفشے آبان کو تیار کر رہی تھی جب یشم نے اسے اطلاع دی۔۔
"کیا واقعی ؟"
"ہاں ابھی اسکی کال آئی تھی کہہ رہا تھا اگلے ہفتے تک وہ پاکستان میں ہوگا۔۔"
"تو کیا وہ ڈائیریکٹ یہی آئیں گے؟"
"ہاں آرزو کو ابھی تک اسکی فیملی نے قبول نہیں کیا ہے مگر اب اسے یقین ہے ابتہاج کو دیکھ وہ ضرور اپنا دل نرم کرلیں گے"
"بابا تاج آرہا ہے؟"
آبان خوشی سے چہکا وہیں بنفشے نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
"آبان کتنی بار کہا ہے بھائی بولا کرو وہ بڑے ہیں آپ سے "
"اونہوں میرے شہزادے کو ڈانٹے کی ضرورت نہیں ہے ابھی چھوٹا ہے سیکھ جائے گا۔۔ آپ جاؤ بیٹا میرب کب سے ویٹ کر رہی "
"کیوں ٹینشن لیتی ہیں آپ اتنی مسزز۔۔" آبان کے جاتے ہی یشم نے اسے اپنے حصار میں قید کیا تھا۔۔
"بچہ ہے سیکھ جائے گا ابھی سے اتنی سختی کرینگی تو کیسے کام ہوگا" وہ بہت نرمی سے اسکے گال چھوتے اسے سمجھا رہا تھا۔
وہ ایسا ہی تھا مہربان محبت کرنے والا۔
__________
آج گھر میں رونق کا سا سماں تھے واثق اور آرزو آگئے تھے۔۔
واپس اپنوں میں آکر واثق کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
آرزو اس سے بہت اچھے سے ملی تھی مگر ناجانے کیا ہوا کہ اچانک وہ ہنستے ہنستے چپ ہوگئی۔۔
اور پھر رات تک اسکا موڈ ایسے ہی رہا ۔
واثق شرمندہ تھا مگر یشم نے اسے ریلکس رہنے کا اشارہ کیا۔
"اپیا میں میرب اور آبان کو سلانے لے جاتی ہوں آپ لوگ باتیں کریں زین کی بھی کال آنے والی ہے"
"میں بھی تمہارے ساتھ چلوں عائشہ ابتہاج کی بھی نیند کا ٹائم ہے"
"ہاں ضرور کیوں نہیں "
عائشہ خوش دلی سے کہتی اسے اپنے ساتھ لئے اوپر چلے گئی۔
"واثق کیا ہوا ہے؟ کیوں پریشان ہے" واثق کو پریشان دیکھ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
"مجھے نہیں پتا یشم مگر آرزو کا رویہ یہاں آنے سے پہلے بالکل ٹھیک تھا اسکا علاج چل رہا ہے ڈاکٹر کے کہا ہے وہ کس فیز سے گزری ہے وقت لگتا ہے مگر اب تو اتنے سال ہوگئے ہیں مجھے ڈر ہے اسکا یہ رویہ ابتہاج پر برا اثر نا ڈال دے۔۔"
"ایسا نہیں ہوگا وہ ٹھیک ہو جائے گی تیری محبت نے اس اتنا بدل دیا ہے پھر اسکی میڈیسن بھی تو چل رہی ہے نا؟"
"ہمم بس میں نہیں چاہتا یشم میرا گھر ٹوٹے میں اس سے محبت کرتا ہوں وہ میری بیوی ہے میرے بیٹے کی ماں ہے شروع شروع میں تو وہ ابتہاج کو بھی قبول نہیں کرتی تھی میں نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے",
"آئی ایم سوری واثق میری وجہ سے "
"شٹ اپ یشم "
"کاش میں تجھے آرزو سے شادی کا نا کہتا"
"تو پاگل ہے فضول باتیں چھوڑ یہ بتا تجھے ہمارا وعدہ یاد ہے نا؟"
"ہاں بالکل یاد ہے تو میرا سمدھی ہے "
"گڈ بس میں اپنا وعدہ یاد دلوانے آیا ہوں٫" وہ واثق تھا موڈ ٹھیک کرنا اچھے سے جانتا تھا.
"کل میں حویلی جارہا ہوں دعا کرنا اماں کا موڈ ٹھیک ہو۔۔"
"تو عامرہ بھابی سے بات کر رزاق بھائی سے"
"میں نے کی ہے وہ دونوں میرے ساتھ ہیں مگر اماں کا تو تجھے پتا ہے نا"
"خیر ہے انشاء اللہ سب ٹھیک ہوگا اگر نہیں مانیں تو بابا اور مما دونوں ہیں نا یہاں تیرے ساتھ تو ٹینشن مت کے"
یشم نے اسے مطمئن کرنا چاہا تھا اور وہ ہو بھی گیا تھا۔۔
______
"عائشہ تم زین سے بہت محبت کرتی ہو نا؟"
آبان کو سلاتے عائشہ نے چونک کر آرزو کو دیکھا جو کھڑکی کے پاس کھڑی تھی جبکہ ابتہاج اور آبان دونوں سو چکے تھے۔۔
"وہ مجھ سے زیادہ کرتے ہیں ۔۔"
یہ بات کہتے اسکے چہرے پر حیا کے رنگ بکھرے تھے آرزو نے بغور اسکے چہرے پر بکھرے رنگوں کو دیکھا۔
"تم ابھی تک اس کے ذکر پر شرماتی ہو"
وہ ہنسی تھی مذاق اڑانے والی ہنسی۔۔
"تمہارا بیٹا نظر نہیں آرہا کہاں ہے؟"
"تقی ؟ آج صبح عزیر آیا تھا تو اس کے ساتھ ضد کر کے چلا گیا عزیز سے بہت اٹیچ ہے وہ"
"ہمم عزیر تمہارا بھائی"
"ہاں "
"صحیح۔ ویسے ایک بات پوچھوں اگر تمہیں برا نا لگے ؟"
"ہاں پوچھو نا" ناجانے کیوں عائشہ کو اسکا رویہ عجیب سا لگا تھا اسکی نظریں جسم میں چبھتی سی۔
"وہاج نے جو کچھ میرے ساتھ کیا اسکے بعد بھی تم نے زین سے شادی کی کیوں ؟"
کیسا بے تکا سوال تھا۔
"وہاج اور زین کا کیا تعلق ؟ وہ دونوں کزن تھے وہاج نے جو کیا اسے اسکی سزا مل چکی ہے"
"ہاں اس نے بہت برا کیا تھا میرے ساتھ بہت برا۔۔۔ جانتی ہوں میرا دل کرتا ہے کبھی کبھی وہ میرے سامنے آئے اور میں اسکا دل چیر کر رکھ دوں"
اسکی آنکھوں میں نفرت تھی۔ عائشہ کو اس سے خوف محسوس ہوا۔
"تم مجھ سے ڈر رہی ہو عائشہ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گی" وہ مسکرائی تھی پراسرار سی مسکراہٹ۔۔
عائشہ کو اپنا سانس گھٹتا محسوس ہوا تھا۔۔
اس سے پہلے آرزو مزید کچھ کہتی بنفشے کمرے میں آگئی۔۔
آرزو واثق بھائی تمہیں بلا رہے ہیں "
"اوکے تو میں چلتی ہوں گڈ نائٹ" عائشہ کو گہری نظروں سے دیکھتے وہ مسکراتے ہوئے کمرے سے نکلتی چلے گئئ۔۔
"عائشہ تم ٹھیک ہو؟" بنفشے سب سن چکی تھی جبھی وہ فوراً سے کمرے میں آگئی۔
"ہاں اپیا۔۔۔ ماہے سو گئی"
"نہیں بابا کے پاس ہے " دومہینے پہلے ہی اسکے گھر ماہے ہوئی تھی۔۔ یہ نام اسکے دادا نے رکھا تھا۔
"اپیا آرزو کی دماغی حالت"
",ٹھیک نہیں ہے ابھی میری واثق بھائی سے بات ہوئی ہے وہ ماضی کو بار بار یاد کر رہی ہے"
"اللّٰہ پاک اسے صحت دے۔۔"
"آمین تم جاؤ سوجاؤ"
"جی زین کا میسج آیا تھا وہ بزی ہیں تو کل ہی بات کروں گی "
اسے کہتے عائشہ اپنے کمرے میں چلے گئی مگر بنفشے گہری سوچ میں تھی۔
_______
آنے والے کئی دن ان کے لئے خوش آئند ثابت ہوئے تھے۔۔
عائشہ واپس جارہی تھی۔۔
واثق اور آرزو حویلی میں تھے واثق نے ٹھیک کہا تھا اماں بیگم نے عالم کی خاطر آرزو کو قبول کرلیا تھا۔۔
زندگی مخصوص رفتار سے گزرنے لگی تھی۔۔
یشم اور بنفشے عائشہ اور تقی کو چھوڑنے ائیرپورٹ آئے تھے عزیر اسے چھوڑنے جارہا تھا۔۔
وہ دونوں اندر جا چکے تھے۔
ان دونوں کا ارادہ واپسی پر لنچ کرنے کا تھا مگر واثق کی کال نے ان کا ارادہ ملتوی کردیا وہ پریشان تھا ان دونوں کو فوراً حویلی پہنچنے کا کہہ رہا تھا اس لئے وہ دونوں بنا وقت ضائع کئے فوراً حویلی کے لئے نکلے۔۔۔
مگر وہاں جو صورتحال انہیں دیکھنے کو ملی اس کی توقع ان دونوں میں سے کوئی نہیں کر رہا تھا۔۔
"واثق یہ سب کیا ہے"
"آرزو کو مجھ سے طلاق چاہیے یشم۔۔۔ وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی یشم وہ ابتہاج کو مجھ سے دور لے جانا چاہتی ہے"
وہ پریشان تھا حد سے زیادہ ۔۔
"میں بات کرتی ہوں آرزو سے آپ ٹینشن میں مت لیں "
واثق کو تسلی دیتے وہ آرزو کے پاس آئی تھی جو بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔
"تو تمہیں وکیل بنا کر بھیجا ہے واثق نے"
"آرزو "
" بنفشے تم کچھ مت کہنا کیونکہ تمہاری بہن نے مجھ سے میری محبت چھین لی وہ لوگ خوش ہیں تم خوش ہو مگر میں ۔۔۔ میں تکلیف میں ہوں زندگی نے دیکھو میرے ساتھ کیا کیا ہے "
وہ ابھی تک زین سے محبت کرتی تھی بنفشے کو جھٹکا لگا تھا۔
"آرزو زین "
"واثق سمجھتا ہے میں پاگل ہوں مگر نہیں میں چاہتی تھی وہ مجھے چھوڑ دے اس نے نہین چھوڑا مجھے گھٹن ہوتی ہے اس سب سے میں اچھی نہیں ہوں بنفشے میں زین کو نہیں بھول سکتی آئی ایم سوری اگر تم اور یشم نا ہوتے بیچ میں تو زین آج میرا ہوتا"
"ٹھیک ہے اگر ایسا ہے تو میں بات کروں گی واثق بھائی سے مگر ابھی تم طلاق مت لو ابتہاج کا سوچو"
بنفشے نرمی سے اسے سمجھا رہی تھی۔۔
"ٹھیک ہے سوچتی ہوں آئی ایم سوری میں نے تمہیں تنگ گیا" وہ فوراً سے اسکی بات مان گئی بنفشے نے سکھ کا سانس لیا تھا۔۔
واثق کو تسلی دیتے وہ گھر آگئے یہ جانے بغیر کے ایک طوفان ہے جو آنا باقی ہے۔۔۔
_________
رات گہری ہوچکی تھی۔۔
وہ دونوں ہی گہری نیند میں تھے جب آرزو کی آنکھ کھلی۔
اس نے ساتھ سوئے واثق کو ایک نظر دیکھا ۔
وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا مگر آرزو ۔۔
وہ چاہ کر بھی اس کی محبت قبول نہیں کر سکی۔۔
وہ زین کو دل سے نکال ہی نہیں سکی ۔
دل بھر کر واثق کو دیکھتے اس نے پانچ سالہ ابتہاج کو گود میں بھرا ۔۔۔
"آئی ایم سوری واثق مجھے تمہارا ساتھ نہیں چاہیے"
واثق کو کہتے وہ اپنا بیگ نکالتے کمرے سے نکل گئی۔۔
________
یشم کی آنکھ بجتے موبائل کی وجہ سے کھلی تھی
گھڑی صبح کے چھ بجا رہی تھی اس وقت واثق کی کال ۔۔
اس نے پہلی فرصت میں کال ریسیو کی تھی اور جو بات اس نے سنی اس نے یشم کی نیند بھک سے اڑائی تھی۔۔
بنا وقت ضائع کئے وہ گھر سے نکلا تھا۔
واثق کی آنکھ کھلی تو کمرہ خالی تھا آرزو کو ڈھونڈتے اس نے پورا گھر چھان مارا مگر وہ کہیں ہوتی تو ملتی ۔
واثق نے اسکا نمبر ڈائل کیا بیل ہو رہی تھی مگر وہ ریسو نہیں کر رہی تھی۔
اس سے پہلے وہ کچھ بھی سوچتا اسکے موبائل پر میسج آیا تھا۔
"میں جارہی ہوں اپنے بیٹے کو لے کر کبھی پیچھے مت آنا واثق تم وہ اذیت محسوس کرو جو مجھے ہوتی ہے جب میں اپنی محبت کو خود سے دور دیکھتی ہوں۔۔ یشم اور بنفشے نے میرے ساتھ ٹھیک نہیں کیا میں تم سب کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔"
میسج ملتے ہی اس نے سب سے پہلے یشم کو کال کی تھی اور خود تیزی سے گھر سے نکلا تھا۔۔
وہ اسکی اولاد کو اس سے چھین کر لے جا رہی تھی۔۔۔۔
بنا کچھ بھی سوچے وہ رش ڈرائیو کرتے وہ بس ائیرپورٹ جانا چاہتا تھا۔
اسکی اسپیڈ بہت تیز تھی وہ جلدی میں تھا اتنی جلدی میں کہ وہ سامنے سے آتے ٹرک کو دیکھ نہیں سکا۔
دونوں کا تصادم ہوا تھا۔۔
سب تباہ ہوگیا تھا سب کچھ ۔۔
زخمی وجود کی آنکھوں میں بے بسی تھی۔۔
اسے اسٹریچر پر لٹایا گیا ۔
لوگوں کا شور چیخ۔۔۔ اس نے آنکھیں بند ہونے سے پہلے یشم کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تھا وہ رو رہا تھا۔۔ اور پھر سب اندھیرا ۔۔۔
وہیں دوسری طرف ابتہاج کو سینے سے لگائے وہ کمرے کے کونے میں بیٹھی رو رہی تھی۔۔
"تمہارے بابا مر گئے بیٹا اور یہ سب اس لڑکی کی وجہ سے ہوا ہے یشم یوسفزئی کی وجہ سے ہوا ہے۔۔"
پانچ سالہ بچے کو سینے سے لگائے وہ رو رہی تھی سسک رہی تھی۔
اور وہ بچہ حیرانگی سے اپنی ماں کو روتے سسکتے دیکھ رہا تھا۔
"مجھ سے وعدہ کرو میرے بچے اس انسان کی اولاد کی زندگی برباد کردو گے وہ بھی ایسے تڑپیں گے جیسے میں تڑپ رہی ہوں وعدہ کرو مجھ سے "اپنا ہاتھ اس معصوم کے آگے پھیلائے وہ اسے غلط راہ کی طرف لے جارہی تھی
اپنی ماں کی حالت دیکھ اس نے اپنا چھوٹا سا ہاتھ اپنی ماں کے ہاتھ میں رکھا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ برباد کردے گا یشم یوسفزئی کو ۔۔
آج اور کھیل کی ابتدا ہونے کو تھی۔۔۔۔۔
______________
گھنٹے دن ہفتے مہینے سال میں بدلنے لگے تھے۔۔
وقت بھلا کب کسی کے لئے رکا ہے جو ان کے لئے رکتا۔۔
ان کے بچے بڑے ہورہے تھے زندگی نے ایک آزمائش کے بعد اب انہیں سکون دیا تھا۔
ناجانے کتنے سال گزر گئے تھے انہوں نے حساب بھی رکھنا چھوڑ دیا تھا۔۔
وہ اس حادثے کو یاد نہیں کرنا چاہتے تھے۔
"یشم آپ جارہے ہیں نا؟"
بنفشے کی آواز پر سر ہلاتے یشم نے اپنی تیاری مکمل کی تھی۔
بچے بھی تیار تھے۔۔
سب تیار ہوکر گاڑی میں بیٹھے ان کا رخ حویلی کی جانب تھا۔۔
ہر بار وہاں جاتے سوچتا تھا اپنا آپ قصور وار لگتا تھا۔۔
گاڑی حویلی کے احاطے میں داخل ہوئی تھی تو وہ اسے وہیں نظر آیا ہمیشہ کی طرح ۔
لان میں بیٹھا ان کا منتظر۔۔
،"واثق چاچو"
ماہے اور آبان دوڑ کر اس کے پاس گئے بھاگے تھے جو باہر بیٹھا ان کا منتظر تھا۔۔
"کیسے ہو؟" یشم نے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔
"ٹھیک ہوں بس ماضی یاد کرنا چاہتا ہوں یاد ہی نہیں آتا" وہ پھیکا سا مسکرایا تھا۔
اس ایک حادثے نے اس نے بہت کچھ چھین لیا تھا۔
ڈاکٹرز نے بہت مشکل سے اسے بچایا تھا مگر وہ اپنی یاداشت کا ایک بڑا حصہ کھو چکا تھا۔۔
اس یاداشت میں نا آرزو تھی نا ابتہاج۔۔۔
اسے بس یشم یاد تھا اپنے گھر والے یاد تھے۔۔
زندگی نے اس پر ترس کھایا تھا وہ اپنا دردناک ماضی بھول گیا تھا۔۔۔
کوثر جہاں واثق کی ماں تھیں۔
ان کے دو ہی تو بیٹے تھے رازق اور واثق۔
اسمارہ ان کی بڑی بہو تھی۔۔ بارز اور آسیہ دو بچے۔۔۔
ان کی خواہش تھی واثق کی شادی کی وہ مشکل سے مانا تھا کیونکہ جانتا تھا وہ بیمار ہے نارمل نہیں ہے۔
مگر عامرہ نے گزرتے وقت میں ثابت کردیا تھا ہمسفر مخلص ہو تو مشکل زندگی میں پھولوں سے بھری لگتی ہے۔
ان دونوں کی بیٹی پشمینہ یشم کی لاڈلی تھی۔۔
وہ ٹھیک تھا ہر چیز ٹھیک تھی مگر اس حادثے نے اسے بڑی تکلیفیں دی تھیں۔
رزاق بھائی نے بہت مشکل سے ابتہاج کا معلوم کیا تھا اتنے سالوں میں سب بدل گیا تھا
سال گزرے بچے بڑے ہوتے چلے گئے کہ ایک دن اچانک واثق کے دل میں تکلیف سے اٹھی۔
ایکسیڈنٹ کے وقت کئی کانچ اسکے جسم میں گھس گئے تھے جو آج تک اندر تھے۔۔
اور اب اسکا آپریشن تھا۔۔۔
_________________
ماضی کی تلخ یادیں وہ کبھی نہیں بھول سکے تھے ۔بنفشے کو یقین تھا کہ ایک نا ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔
اس نے ایک نظر یشم کو دیکھا جو اسکی گود میں سر رکھے گہری نیند میں تھا۔
یہ وہ شخص تھا جس نے اسے اندھیروں سے نکالا تھا۔
وہ سب کے لئے خود کو قربان کرتا آیا تھا۔
آرزو اور واثق کی کہانی میں اسکا کردار بس اتنا تھا کہ اس نے آرزو کو واثق کے حوالے کردیا۔۔
وہ دونوں اسکے دوست تھے مگر آرزو۔۔
اس نے ناجانے کیوں ہر چیز کا زمہ دار یشم کو ٹہرایا۔۔۔
لوگ ٹھیک کہتے ہیں محبت سنوار دیتی ہے تو بگاڑ بھی دیتی ہے۔۔
آرزو کی زین کے لئے محبت ایک ایسی آگ تھی جس نے سب کچھ جلا دیا تھا۔۔
آرزو نے اس سے کہا تھا کہ اسے اسکی محبت نہیں ملی عائشہ نے اس سے سب چھین لی اسکی بیٹی کو بھی محبت نہیں ملے گی۔۔
قصور نا ہوتے ہوئے بھی وہ ڈر گئی تھی اپنی بیٹی کے لئے میرب کے لئے مگر نصیب میں جو لکھا ہے وہ ہر حال میں ہو کر رہتا ہے۔۔۔
ان سب باتوں کو اٹھارہ سال گزر گئے تھے۔۔
بچے بڑے ہوگئے تھے۔۔۔
آرزو کہاں تھی کوئی نہیں جانتا تھا ابتہاج کی یاد واثق کے دل میں گڑ سی گئی تھی مگر وہ ایسے غائب ہوئے تھے کہ ڈھونڈنے سے بھی ان کا نشان نہیں مل رہا تھا۔۔
"بنفشے اتنا لیٹ ہوگیا مجھے اٹھایا کیوں نہیں؟"
یشم اٹھ چکا تھا بنفشے نے حیرت سے گھڑی میں وقت میں دیکھا۔
"مجھے اندازہ نہیں ہوا یشم آپ فریش ہو جائیں پھر ہم ساتھ ہاسپٹل چلیں گے"
یشم کو کہتے وہ اٹھ گئی۔۔
اسکے جاتے ہی یشم نے واصف کو کال کی تھی۔۔
"واصف واثق کیسا ہے؟"
"یشم خطرے کی کوئی بات نہیں آپریشن ہوگیا ہے واثق ابھی بھی آپریشن روم میں ہی ہے تم پریشان مت ہونا"
"تھینک یو واصف میں بس اسے ہوں کچھ دیر میں۔۔
فون رکھتے وہ فوراً سے فریش ہوا تھا اور پھر بنفشے کے ساتھ اسپتال پہنچا ۔
واثق ٹھیک تھا۔۔ ان کی دعائیں رنگ لے آئی تھیں۔
__________
حال۔۔۔
(مانچسٹر)
The place is full of smiles and it's beauty
Delusions about you grow freely
Warm winter sun
Like your white teeth
I've been waiting for you to bother me all day
Like a gentle breeze to come
The scent of flowers in May and June
I don't dare to hug
Even talking was stammered
Time is too fast
Group photo holding sunflowers
I can't stand too serious observations
Welcome to my world, come to my beauty
I prepared a good attitude that I am not good at for you
I also welcome you
To come to my deserted island
Although only fish and birds come to my island
Maybe I'm too clumsy and too used to running away
I'm tired of all the problems
I just want to hide you
If I come to your city
That's a little ridiculous
My childish ways
Snow falling from the sky
Although I can guess the plot
However, I still can't avoid falling in love with you
I have finally arrived in your world
Welcome your beauty
Your goofy cuteness is like a rare treasure to me
You welcome me too
To visit your island
Although no one knows how to get to the island
Maybe you think too much and are too used to running away
I'm tired of all the problems
I just want to hide you
Welcome to my world, take my beauty
The moon in the sky is a secret code that I miss you
We make suits for each other
Even though the wind and storm hit
We can still give each other warm hugs
There's so much I want to discuss with you about happiness
I'm tired of all the problems
I just want to hide you۔
"اففف اب تو یہ محبت کے گیت ہی سنیں جائینگے؟"
ماہے کب سے ایک ہی سانگ رپیٹ پر سن رہی تھی میرب نے تنگ آکر اسکا موبائل اس سے چھینا۔۔۔
"میرو۔۔"
"سونگ چھوڑو نا مجھے بتاؤ عالم نے اور کیا کہا ؟"
"وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں مگر میرب میں کیسے ان کے ساتھ جاؤ خالہ کبھی ایسے جانے نہیں دینگی "
"تم جانا چاہتی ہو؟"
میرب نے اسکا اداس چہرہ دیکھا
"عالم جانا چاہتے ہیں" بے بسی سے لب کچلتے اس نے میرب کو دیکھا۔
"میری بات سنو کوئی مشکل نہیں ہے ابھی نیو ائیر ہے بعد پڑھائی ٹف ہوجاتی ہے بہت سے لڑکیاں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رکتی ہیں میں مما سے بات کرلوں گی ہم دونوں وہاں رہ لینگے"
میرب نے اسکی مشکل کا حل فوراً سے پیش کیا تھا۔
"میرو وہ نیو ائیر میرے ساتھ "
"افف۔۔۔ " اسکے آدھے جملے پر میرب کا ری ایکشن ایسا تھا وہ بے بسی سے اسے دیکھنے لگی۔
"اس میں ٹینشن کی کیا بات ہے نیو ائیر کل ہے اور مما پرسوں آئینگی تم آرام سے جا سکتی ہو بس بارہ سے پہلے گھر آجانا کیونکہ مما وڈیو کال کرتی ہیں"
میرب نے اسکی ساری مشکل ہی آسان کردی تھی۔۔
"پکا کوئی پرابلم تو نہیں ہوگئی نا میرب ؟"
وہ ابھی بھی ڈر رہی تھی میرب نے اپنا ماتھا پیٹا۔۔
"تمہیں مجھ پر یقین ہے یا نہیں ماہے؟"
"مجھے یقین ہے تم پر۔۔۔"
"تو بس تم ابھی عالم کو میسج کرو اور اسے کہو تم اسکے ساتھ کل جاؤ گی"
"میرب"
"اب تم ڈرتی رہو تاکہ عالم کو کوئی اور لڑکی لے جائے"
"اللّٰہ نا کرے کیسے باتیں کر رہی ہو تم" اس کے دل کو کچھ ہوا تھا کہ سن کر ہی۔۔
"میرب ایسی باتیں تو مت کرو یہ سوچ کر ہی میرا دل عجیب سا ہوگیا میں ان سے دور جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔"
"تو بس جتنا کہا ہے اتنا کرو کچھ نہیں ہوگا میرا یقین کرو۔۔۔ آئی پرامس میں سب سنبھال لونگی"
ماہے کا ہاتھ تھامے وہ اسے یقین دلا رہی تھی اور اس نے یقین کرلیا تھا۔۔
"مجھے یقین نہیں آتا میں کسی سے اتنی محبت بھی کر سکتی ہوں "
"لیکن مجھے یقین آگیا ہے کیونکہ تم ہمیشہ سے ایسی تو ہو ماہے جن سے تم محبت کرتی ہو پھر تم ان پر کسی دوسرے شخص کا سایہ بھی برداشت نہیں کرتیں ۔۔ تمہیں یاد ہے ایک بار خالہ مجھے مارکیٹ لے گئی تھیں تو تم کتنا روئیں تھیں تم نے مجھے مارا بھی تھا۔۔"
میرب اسے بچپن کا حوالہ دیے رہی تھی ناجانے کیوں وہ شرمندہ ہوگئی۔
"آئی ایم سوری وہ بچپن تھا نا۔۔"
"نہیں تم اب بھی ایسی ہو میں نے دیکھی ہے تمہاری آنکھوں میں عالم کے لئے ویسی ہی محبت کیا ہوگا ماہے اگر عالم تمہیں چھوڑ گیا ؟"
"اللّٰہ نا کرے کہ ایسا کبھی کوئی دن آئے تم ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو میرب "
"اچھا سوری۔۔ اب اٹھو ڈریس ڈیسائیڈ کرو کل کیا پہنو کی آفٹر آل کل تمہاری پہلی ڈیٹ ہے"
میرب نے اسے چھیڑا تھا۔۔
چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ اب کل کا سوچ رہی تھی۔۔
____________
ستاروں سے سجے آسمان پر جگمگاتے چاند کی چاندنی جھیل کے بہتے پانی پر پڑتی چاند کا عکس بنا کر مٹا رہی تھی ۔۔
"یہ منظر کتنا خوبصورت ہے نا ؟"
جھیل کنارے ٹھنڈی گھانس پر بیٹھے اس نے سر اٹھا کر چاند کو تکتے سوال کیا تو مقابل نے روشنی میں نہائے اسکے دلکش و حسین چہرے پر نظریں مرکوز کی تھیں۔
"یہ منظر واقعی بہت دلفریب ہے"
"آپ کو چاندنی رات میں سب سے اچھا کیا لگتا ہے؟"
"تم۔۔۔" اسکا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتے وہ دلفریب انداز میں کہتا اسکے چہرے پر حیا کے کئی رنگ بکھیر گیا۔۔
"ہمیں چلنا چاہیے" اسکی نظروں کی تپش سے گھبراتے وہ اٹھی تھی مگر ہاتھ ہنوز اس شخص کی گرفت میں تھا جو رفتہ رفتہ اس پر اپنا سحر پھونکتے اسے اپنا اسیر کر رہا تھا۔۔
"بارہ بجنے والے ہیں عالم"بہت بے بسی سے اس نے اجازت طلب کی تھی۔۔
"سنڈریلا" اسکے مقابل کھڑے ہوتے اس نے اپنی پری کو ایک نیا نام دیا تھا۔۔
"عالم۔۔۔"
وہ اسکی ہتھیلی پر اپنی انگلی سے کچھ لکھ رہا تھا۔۔
"مجھے اس وقت کا بے صبری سے انتظار ہے جب یہ سنڈریلا مکمل میری دسترس میں ہوگی تب یہ گھڑیاں ہمیں الگ نہیں کر سکیں گیں۔۔۔" محبت پاش نظروں سے اسے تکتا وہ سامنے کھڑی سنڈریلا کو لمحوں میں دنیا کی سب سے بڑی خوشی دے گیا تھا ۔۔
یہ لمحے اس کے لئے بے حد قیمتی تھے اتنے قیمتی کے وہ ساری زندگی ان کے لمحوں کے سہارے گزار سکتی تھی۔۔
اس نے جس شخص کو چاہا وہ اسے اس سے بھی زیادہ چاہتا تھا۔
وہ خود کو اس دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی تصور کر رہی تھی۔۔
"چلو چلیں"وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔
ماہے کا ہاتھ اب بھی اسکے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں تھا۔۔
"تھینک یو میرے ساتھ آنے کے لئے"
اسکی روشن آنکھوں میں جھانکتے وہ بس اسے دیکھ رہا تھا جیسے اس سے زیادہ کوئی ضروری کام نا ہو۔۔
"عالم۔۔۔۔ "
"میرے پاس کچھ ہے آپ کے لئے کیا میں آپ کو دوں ؟"وہ تذبذب کا شکار تھی
"ہمم دو"
اجازت ملنے پر اس نے اپنے بیگ سے ایک باکس نکالا تھا چھوٹا سا رنگ باکس۔
"یہ میں نے ایک اسٹال پر دیکھا تھا اسے دیکھتے ہی مجھے آپ کا خیال آیا کیا آپ یہ چھوٹا سا گفٹ لینگے مجھ سے"
وہ اتنی معصومیت سے پوچھ رہی تھی وہ بھلا کیسے انکار کرتا۔
"خود پہنا دو"
اپنا ہاتھ آگے کرتے اس نے اشارہ کیا تو ماہے نے جلدی سے وہ رنگ اسے پہنائی تھی۔
"اب سے آپ کنفرم میرے ہیں"
"تھینک یو سو مچ میں "
"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا میں کبھی محبت جیسے جذبے کو محسوس بھی کروں گا میرے اردگرد صرف نفرت ہی نفرت تھی شروع سے آخر تک تم وہ روشنی ہو جس کے سہارے چلتا میں اندھیروں کی دنیا سے نکل آیا ہوں"
وہ افسانوی باتیں کرتا تھا دل موہ لینے والی۔۔۔
اس کی دنیا حسین ہوگئی تھی۔
یونی میں پورا وقت وہ اسکی نظروں کے حصار میں رہتی تھی۔
جو ہر قدم اسے اپنی محبت کا احساس دلاتا تھا۔
نئے سال کا آغاز تھا اسکا کورس اپنے اختتام کے قریب تھا۔
"عالم مجھ سے نہیں پڑھا جا رہا " وہ دونوں اس وقت یونیورسٹی کے سب سے کم رش والے حصے میں تھے۔
بڑے سے ستون سے ٹیک لگائے اس نے ایک نظر کتاب کو اور پھر ظالم بنے اس شخص کو دیکھا تھا۔
جو پچھلے ہفتے سے اسے پڑھانے کی زمہ داری اپنے سر لے چکا تھا۔
"بہت بری بات ہے ماہے پچھلے آدھے گھنٹے سے یہ ٹاپک پڑھ رہی ہو مجھے یہ آج کی ڈیٹ میں کمپلیٹ چاہیے"
اسکے سر پر ہولے سے پین مارتا وہ موبائل کی طرف متوجہ ہوگیا
ماہے نے بیت غور سے اس دیکھا۔
وہ چھوٹے بالوں میں اور بھی زیادہ پیارا لگتا تھا۔
"عالم ایک بات کہوں"
"ہمم کہو"
"آپ اتنے ہینڈسم کیوں ہیں میرا دل نہیں کرتا کتاب کی طرف دھیان دینے کا سب غلطی آپ کی ہے"
دانتوں تلے لب دبائے وہ شرارت سے کہتی اسے
مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔
"ابھی میں تعریف کروں گا تو تم نے لال سرخ ہو کر کہنا ہے واللہ واللہ عالم آپ کیوں ایسے کہتے ہیں"
"بھئی عالم"
"ماہے بی بی آپ مجھے باتوں میں مت الجھائے اپنی تعریف کرنے کے لئے میں آپ کو الگ سے وقت دونگا فلحال پڑھائی کریں کیونکہ آپ کا کورس کمپلیٹ ہوگا تبھی میں آپ کو یونی ٹرپ پر جانے دوں گا ورنہ کوئی ضرورت نہیں"
یونیورسٹی کی طرف سے پکنک پلین کیا گیا تھا پیپرز سے پہلے اور وہ بہت ایکسائٹڈ تھی عائشہ کی طرف سے اسے پرمیشن مل گئی تھی مگر عالم کی شرط تھی کہ وہ پہلے اپنا سلیبس کمپلیٹ کرے۔۔۔
"بہت برے ہیں آپ "
منہ بسورے اس نے کتاب کھولی مگر دھیان کے سارے دھاگے اس شخص پر تھے۔
"یار آپ جائیں یہاں سے آپ کی موجودگی میں کچھ بھی نہیں پڑھا جائے گا مجھ سے "
غصے سے بک بند کرتے اس نے منہ پھلایا۔۔
عالم نے حیرت سے اسکا یہ انداز دیکھا تھا۔
"ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں جب پیپرز ختم ہو جائیں تو میسج کردینا " اسے کہتے وہ اپنا موبائل جیب میں رکھتے بیگ اٹھانے لگا مگر اس سے پہلے ہی ماہے نے پھرتی سے اسکا بیگ اٹھاتے اپنی کمر کے پیچھے کیا۔۔
"میرا بیگ واپس کرو"
"پہلے آپ بولیں آپ ناراض نہیں ہیں مجھ سے "
"ماہے بیگ دو مجھے اور بھی کام ہیں"
تیز لہجے میں کہتے اس نے اپنا بیگ اس سے لیا اور سیڑھیاں اترا تھا مگر اسکے قدم تھمے۔
گردن موڑ کر عالم نے اسے دیکھا۔۔
سر جھکائے بیٹھی وہ انگلیاں مروڑ رہی تھی۔
چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
گہرا سانس بھرتے واپس آتے وہ اسکے قدموں میں بیٹھا تھا۔
"ماہے"نرمی سے پکارا گیا تھا مگر اس نے سر نہیں اٹھایا۔
"ماہے سر اٹھاؤ"
اسکی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے اس نے ماہے کا چہرہ بلند کیا مگر اسکا چہرہ دیکھ وہ ساکت رہ گیا۔
اسکا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔۔
"ماہے رو کیوں رہی ہو؟"
وہ ایک دم ہی پریشان ہو اٹھا۔
"آپ نے کہا آپ مجھ سے بات نہیں کرینگے پیپرز ہونے تک میں کیسے رہوں گی آپ کے بغیر عالم آپ بہت برے ہیں آپ نے ایک بار بھی میرا نہیں سوچا بس غصہ ہوگئے ", سسکیوں سے روتے وہ مسلسل اس سے اسی کی شکاتیں کر رہی تھی۔
عالم اسے دیکھتے رہ گیا۔۔
وہ اتنی سی بات پر اتنا رو رہی تھی۔۔
"ماہے رونا بند کرو" اسکے لہجے میں ایکدم ہی سختی آئی تھی۔
"ان آنکھوں میں آج کے بعد میں آنسو نا دیکھوں ورنہ "
"آئی ایم سوری"
سر جھکائے وہ اتنا ہولے بولی تھی کہ عالم بمشکل ہی سن پایا۔۔
"ماہے اتنا چھوٹا دل نہیں رکھتے آگے پوری زندگی پڑی ہے اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو گی تو کیسے چلے گا؟"
"آگے کی مجھے پرواہ نہیں ہے کیونکہ ساری زندگی آپ میرے ساتھ ہوںگے آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی پرابلم نہیں ہوگی میں جانتی ہوں " اسکے لہجے میں ایک یقین تھا مان تھا۔
عالم نے سختی سے اپنے ہونے بھینچے تھے۔
وہ اب اسے کیا بتاتا کہ اسے سب سے زیادہ تکلیف اسی سے ملنے والی تھی۔۔۔
لاونج میں اس وقت مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا۔
اس نے بے بسی سے عائشہ اور پھر میرب جو دیکھا۔
"ان دونوں کو مت دیکھو ماہے تم پیپرز کے بعد فوراً پاکستان واپس آرہی ہو یہ میرا آخری فیصلہ ہے"
"پر مما۔۔۔"
"کوئی پر ور نہیں ماہے مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرو"
وہ بنفشے سے وڈیو کال پر بات کر رہی تھی جو ناجانے آج کیوں اتنا غصہ تھی۔
بنفشے کی ضد تھی کہ وہ پیپرز کے فوراً بعد پاکستان واپس آئے۔
واپس تو اسے جانا تھا مگر آخر اتنی جلدی کیا تھی وہ اسے سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
"ماہے میرب تم دونوں جاؤ میں بات کرلوں اب اپیا سے"
میرب کو اشارے سے ماہے کو لے جانے کا کہتے عائشہ نے اپنا فون اٹھایا اور اپنے کمرے میں آگئی۔
"اپیا کیا ہوگیا ہے ایسے اچانک آپ نے تو کہا تھا رزلٹ تک وہ رک سکتی ہے"
"عائشہ میں نے ایک فیصلہ کیا ہے ماہے کے لئے " بنفشے بہت سنجیدہ تھی۔
عائشہ کو کچھ کھٹکا تھا۔۔
"کیا ؟"
"میں ماہے کا نکاح کرنا چاہتی ہوں۔۔ میری دوست ہے نا عائلہ اسکا بیٹا ہے اس نے مجھ سے ماہے کے لئے بات کی ہے ہر چیز پرفیکٹ ہے انکار کرنا میری نظر میں فضول ہے"
"اپیا کیا ہوگیا ہے ماہے کی ابھی ایج ہی کیا ہے"
"عائشہ اسکی اتنی ایج ہے کہ اسکی شادی ہوسکے ویسے بھی ابھی بس نکاح ہونا ہے "
"یشم بھائی کو کچھ پتا بھی ہے یا آپ خود ہی سب کچھ طے کر کے بیٹھی ہیں"
"انہیں منانا میرا کام ہے مگر ماہے تو پاکستان آئے عائلہ کا بیٹا بہت اچھا ہے عائشہ وہ ہماری ماہے کو خوش رکھے گا۔۔ اور اچھا ہی ہے بیٹیاں جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں اتنا ہی اچھا ہے۔۔"
"ٹھیک ہے میں آپ کی بات سمجھتی ہوں مگر آپ ایک بار ماہے سے تو پوچھ لیں "
"مجھے یقین ہے اپنی بیٹی پر وہ مجھے انکار نہیں کرے گی بس وہ پاکستان تو آئے میں اسے سمجھا لوں گی"
وہ ناجانے کیوں اتنی جلد بازی کر رہی تھی عائشہ کو بالکل بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔
"اچھا ٹھیک ہے پیپرز ہونے دیں اس کے پھر میں خود اسے پاکستان چھوڑنے آؤ گی زین کی بھی کہہ رہے تھے آنے کا"
"ہاں بس اب یہ تمہاری زمہ داری ہے عائشہ",
"اپیا"
وہ جو فون رکھنے لگی تھی عائشہ کی پکار پر رکی۔۔
"کیا کچھ ایسا ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہو؟"
"ایسا کچھ نہیں ہے عائشہ میں کیا چھپاؤں گی ؟"
"میری زین سے شادی نے آپ کو سب سے زیادہ تکلیف دی ہے نا؟"
"عائشہ فضول باتیں مت کیا کرو ہزار بار کہا ہے ماضی تھا گزر گیا "
بنفشے نے فوراً سے اسے جھڑکا ۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے کچھ الٹا مت سوچو میں واقعی چاہتی ہوں کہ ماہے اپنے گھر کی ہو جائے اب تم زیادہ کے سوچنا یشم کے آنے کا ٹائم ہوگیا ہے میں کال بند کر رہی ہوں اپنا خیال رکھنا میں انتظار کروں گی تم لوگوں کا"
مختصر سی بات کر وہ فون رکھ گئی۔
فون رکھتے ہی بنفشے کے ماتھے پر سوچ کی لکیریں ابھری تھیں۔۔
____________
"ماہے یار ایسے کیوں اداس ہو رہی ہو"میرب نے اسے دیکھا جو بیڈ پر تکیے میں منہ دئیے پڑی تھی۔۔
"میرو مجھے پتا ہے مجھے واپس گھر جانا ہے مگر مما کیوں اتنا غصہ ہو رہی ہیں "
"خالہ اکیلی ہیں وہاں اس لئے تمہیں بہت مس کر رہی ہیں "
"تم نے عالم کو بتایا تھا واپس جانے کا؟"
"نہیں مگر اب میں کیسے بتاؤں انہیں میرب ؟"
"ایک تو لڑکی تمہیں ٹینشن فوراً ہوجاتی ہے ابھی تم ٹرپ پر جانے کی تیاری کرو واپس آکر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے"
"میرا دل اچانک سے بہت پریشان ہوگیا ہے میرب سمجھ ہی نہیں آرہا کیا ہو رہا ہے"
"میری جان کچھ نہیں ہوا تم بہت زیادہ سوچ رہی ہو " اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھامے بہت نرمی سے میرب نے اسے سمجھایا۔
وہ سمجھی تھی یا نہیں مگر اس نے اثبات میں سر ضرور ہلایا تھا۔
"اچھا اب تم چلو پیکنگ کرلو کل صبح نکلنا ہے ہمیں"
"میرب "
"ماہے میں عالم سے شکایت کر دوں گی اگر اسے پتا چلا کہ اسکی پرنسس اداس ہے تو وہ تم سے خفا ہو جائے گا"
"اچھا نا دھمکی تو مت دو نہیں ہوں میں اداس "
عالم کو اس کے چہرے پر اداسی بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔
اور اسکا بات کا اظہار تو بہت دفعہ کر چکا تھا کہ وہ اسے بس ہنستی اچھی لگتی تھی۔۔۔
"اداس مینا اب آپ اٹھ رہی ہیں نا یا کروں میں عالم کو کال؟"
"افف بھئی اٹھ رہی ہوں نا میں تم دھمکی مت دو ",
میرب کو گھورتے وہ اپنی تیاری میں لگی تھی۔
وہ اس وقت سب بھول جانا چاہتی تھی اسے یاد رکھنا تھا تو بس اتنا کہ کل کا پورا دن وہ عالم کے ساتھ گزارنے والی تھی
__________
اگلا دن طلوع ہوا تو وہیں ان دونوں کے شور نے گھر کو سر پر اٹھا لیا تھا۔
"تم دونوں ایک دن کے لئے جارہی ہو اور تیاری دیکھو زرا"
عائشہ نے سر پکڑ لیا تھا۔
"افف خالہ آپ نہیں سمجھیں گی میرو جلدی کرو لیٹ نہیں ہو جائیں ہم۔۔"
شوز پہنتے وہ چلائی تھی میرب کی تیاری ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔
بڑی مشکل سے اس کی تیاری مکمل ہوئی تو وہ نیچے آئی عائشہ سے دعائیں لیتے وہ دونوں گھر سے نکلی تھیں۔۔
"عالم یہاں کیا کر رہا ہے؟"
ان دونوں کا ارادہ شٹل سے جانے کا مگر روڈ پر عالم کو کھڑے دیکھ میرب رکی وہیں ماہے نے حیرانگی سے اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے عالم کو دیکھا۔
ہڈی اور ٹراؤزر پہنے وہ گلاسس لگائے بہت عام سے حلیے میں بھی اسے بہت پیارا لگا۔
"چلیں محترمہ سواری حاضر ہے"اسکے پکارنے پر ہوش میں آتی وہ اسکی طرف بڑھی۔
"عالم تمہیں دیکھ کر یہ ایسے ہی بے ہوش ہو جاتی ہے"
میرب کے شرارتی انداز پر جہاں وہ مبہم سا مسکرایا وہیں اس نے میرب کے کہنی ماری۔۔
"اپنا منہ بند کرلو زیادہ مت بولو۔۔"
ان کے بیٹھتے ہی گاڑی اسٹارٹ ہوئی تھی۔
وہ ان لوگوں کے ساتھ ہی جا رہا تھا۔
یونیورسٹی کے باہر گاڑیاں کھڑی تھیں۔
"آپ الگ گاڑی میں ہونگے عالم؟"
اتنی ساری گاڑیاں دیکھ اس نے چونک کر اسے دیکھا جو جیبوں میں ہاتھ ڈالے اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
"بالکل نہیں مجھے یہ سفر اپنی لیڈی کے ساتھ کرنا ہے "
"پکا نا دھوکہ تو نہیں دینگے نا؟" اس نے اپنی تسلی کرنی چاہی مگر اسکی بات پر وہ بغور اسے دیکھنے لگا۔
"دھوکہ کیسے دے سکتا ہوں میں تمہیں ؟"
"ہاں آپ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتے اگر آپ دھوکہ دینے کا سوچیں گے بھی نا اسی دن جان لے لوں گی اپنی"
"ماہے"
"اچھا سوری چلیں اب میں جا رہی ہوں سب ویٹ کر رہے ہیں"
اسے کہتے وہ اپنے دوستوں کی جانب بڑھی تھی اور پھر کچھ دیر بعد ان کا قافلہ وہاں سے اپنی منزل کی جانب بڑھا تھا۔
عالم اسکے ساتھ اسکی بس میں۔
گاہے بگاہے وہ اس پر نظر ڈال کر مسکرا دیتا۔۔
لڑکیاں اسکی ایک نظر کے لئے تڑپ رہی تھی۔۔
اس لمحے وہ اترائی تھی۔۔
مقررہ وقت پر وہ اپنی ڈیسٹینیشں پر پہنچ چکے تھے۔۔
وہ ایک بہت خوبصورت جگہ تھی شفاف بہتا جھرنا۔۔۔ ایک بہترین پکنک اسپاٹ۔۔
عالم کے ساتھ اسکا یہ پہلا ٹرپ تھا۔۔
وہ ایک ایک لمحے کو جینا چاہتی تھی۔
"تم میرے ساتھ جھیل پر چلو گی ماہے؟"
اسکا ہاتھ تھامے وہ درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔۔
"تمہیں ایک جگہ ریکھاؤں ماہے؟"
"کون سی جگہ؟"
"یہاں آگے ایک بہت خوبصورت جگہ ہے میری فیورٹ میں وہاں تمہارے ساتھ آنا چاہتا تھا اور اب جب موقع ملا ہے تو کیا تم میرے ساتھ وہاں چلو گی؟"
"ہاں کیوں نہیں رکیں میں میرب کو بلاتی ہوں "
اسے کہتے وہ اٹھنے لگی مگر تبھی اسکا ہاتھ عالم کے ہاتھ کی گرفت میں آیا ۔
"کیا ہوا عالم ؟"
"میں وہاں صرف تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہوں میرب کو کیوں بلا رہیں؟"
خفگی سے کہتے اس نے منہ پھلایا ماہے کو اس اس پر بے اختیار پیار آیا۔
"اچھا اسے بتا تو دوں تاکہ کوئی پوچھے تو وہ بتا سکے"
"ہمم جلدی جاؤ میں ویٹ کر رہا ہوں"
اجازت ملتے ہی وہ بھاگ کر میرب کے پاس گئی تھی۔
"آج میں اپنا مقصد پورا کر کے ہی رہوں گا"
خود سے کہتے اس نے بلاوجہ ہی گھانس پر لکیریں کھینچی تھیں۔۔
"چلیں ؟" وہ آگئی تھی۔
عالم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا سورج کی سنہری کرنیں اسکے چہرے پر پڑ رہی تھیں وہ بھی ان کرنوں کا حصہ لگی تھی اسے۔۔
مسٹرڈ کلر کا پیروں کو چھوتا فراک پہنے اسنے بالوں کو آگے سے فریچ اسٹائل میں باندھا ہوا تھا جبکہ گھنیرے بال اسکی کمر کو ڈھانپے ہوئے تھے ۔
"چلو۔۔" اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ اسکے مقابل آیا اور ماہے کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیا ان کا رخ اب اپنی منزل کی جانب تھا۔۔
__________
گھنیرے درختوں کی چھاؤں تلے بیٹھے اس نے سامنے بہتے شفاف پانی میں تیرتی مچھلیوں کو بڑے اشتیاق سے دیکھا تھا۔
"مجھے یہ منظر بہت حسین لگ رہا عالم"ہوا کے دوش پر اڑتے بالوں کو سمیٹتے وہ ایک جذب سے بولتی ایک دم رکی وجہ اپنے ہاتھ پر مقابل کی گرفت تھی۔
"اور مجھے یہ منظر بے حد حسین لگ رہا ہے" اس کے بالوں کو آزاد کرتے اس نے ایک پھر انہوں ہوا کے حوالے کیا تو گلابی عارض پر حیا سے مزید سرخی پھیلی تھی۔
"مجھے یہ منظر بھی پیارا لگا" اسکی طرف قدرے جھک کر شرارت سے کہتے اس نے بغور اسکے دلکش چہرے کو دیکھا۔۔
"مجھے تمہارے بال بہت پسند ہیں"
"سچی ؟" حیرانگی سے اسنے آنکھیں بڑی کیں تو وہ ان حسین آنکھوں میں ڈوب کر ابھرا تھا۔۔
"ہمم۔۔ تمہیں نہیں پسند اپنے بال؟"
"مجھے۔۔۔۔؟"اس نے سوالیہ نظروں سے اپنی طرف اشارہ کیا تھا۔
"مجھے عشق ہے اپنے بالوں سے اگر کوئی پوچھے کہ میرا دوسرا عشق کون ہے تو میں کہوں گی میرے بال" وہ اپنی بات پر خود ہی کھلکھلائی تھی۔
"اور پہلا عشق؟" وہ یک ٹک اسکے چہرے کا طواف کر رہا تھا ناجانے کیا کھوجنا چاہتا تھا
"آپ۔۔ " دانتوں تلے لب دباتے اس نے نظریں جھکا کر اٹھائیں تو گھنیری پلکوں کے اس طرح اٹھنے پر وہ ٹہر سا گیا
"آپ میرا پہلا عشق ہیں"
بہت آہستگی سے کہتے اس نے اپنا اظہار ہوا کے گوش گزار کیا تو اس میٹھی سرگوشی پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا۔
"اور کبھی میں نا رہا تمہارے پاس تو یہ تمہارا پہلا عشق بن جاینگے ؟؟"
"نہیں بالکل بھی نہیں "
"کیوں ؟"اس کے اتنے قطعی انداز پر اس نے پوچھا۔۔
"آپ نے ابھی کہا نا آپ کو میرے بال بڑے پیارے لگتے ہیں جب آپ ہی نہیں ہونگے تو ان بالوں کا کیا کرونگی میں ؟"
"اگر کل میں یہ کہوں کہ مجھے تمہاری جان بہت پیاری ہے تو؟"
"تو جس زندگی میں آپ نہیں ہونگے ایسی جان و زندگی کا کیا کرونگی میں ؟ مر جاؤں گی ۔۔"
لاپرواہی سے کہتے اس نے کندھے اچکائے تو وہ اس دیوانی کو بس دیکھ کر رہ گیا۔
"تم ہر وقت مرنے کی باتیں کیوں کرتی ہو؟"
"کیونکہ مجھے لگتا ہے میری ساری خوشیاں آپ سے ہیں آپ نہیں تو کیا کروں گی زندہ رہ کر۔۔۔"
"فضول بات بالکل"
"آپ کو میری محبت فضول لگتی ہے عالم ؟" اسکی بات پر اسے صدمہ لگا۔
"ایسا کچھ نہیں کہا میں"
"آپ نے ایسا ہی کہا ہے ٹھیک ہے فضول ہے نا جب میں واپس چلی جاؤ گی نا پاکستان تب آپ کو میری قدر ہوگی" خفا خفا سا انداز
"تم پاکستان جا رہی ہو؟"
عالم نے جھٹکے سے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔
"یس پیپرز کے فوراً بعد مما بہت ضد کر رہی ہیں مجھے بلا رہی ہیں"
"اور یہ بات تم مجھے اب بتا رہی ہو ماہے؟"
وہ ایک دم ہی غصہ آیا تھا۔ ماحول کا سارا گاؤں ہوا کی۔ تحلیل ہوا تھا۔
"عالم میں بتانے والی تھی "
"کب؟؟؟ جب چلی جاتیں تب آخر اتنی بڑی بات تم مجھ سے کیسے چھپا سکتی ہو ماہے نور؟"
وہ اس پر غصہ ہو رہا تھا۔
ماہے کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔
"رونا بند کرو کیا ہر وقت رونا رونا ؟"
"آپ بہت برے ہیں بہت زیادہ" سسک کر کہتی وہ فوراً وہاں سے اٹھ کر بھاگی تھی۔۔
"ماہے رکو میری بات سنو" عالم نے اسے روکنا چاہا تھا مگر وہ جا چکی تھی۔
گہرا سانس بھرتے اس نے خود کو کمپوز کیا۔۔
اسے سب پتا تھا مگر ناجانے کیوں اس کے بتانے پر وہ اس طرح ری ایکٹ کرگیا۔
اپنا ماتھا بری طرح مسلتے اس نے اپنا ہاتھ زمیں پر مارا۔
وہ اسے ناراض کر چکا تھا اسکی آنکھوں میں عالم کی وجہ سے آنسو آئے تھے سینے میں دھڑکتے دل نے اسے سو بار جھڑکا تھا۔۔
بے بسی سے لب کچلتے وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر وہیں گھانس پر لیٹ گیا۔۔
ہر چیز اسکے پلین کے خلاف جا رہی تھی ۔۔
اور سب سے زیادہ بغاوت اسکے دل و دماغ کر رہے تھے۔۔
__________
"ماہے ماہے" وہ گھٹنوں میں سر دئیے بالکل چھپ کر درخت کی آڑ میں چھپی ہوئی تھی جب اپنے نام کی پکار پر اس نے سر اٹھایا۔۔
اسکا بالکل بھی دل نہیں تھا کسی بات کرنے کا۔۔
مگر کوئی اسے مسلسل پکار رہا تھا۔۔
شاید میرب یا تانیہ۔۔
"مجھے نہیں کرنی کسی سے بات جا کیوں نہیں رہے یہ لوگ"
اسکی آنکھیں سرخ تھیں گال پر آنسوؤں کے نشان۔۔
آواز مسلسل قریب آتی جارہی تھی۔
تھک کر اس نے اپنے آنسو صاف کئے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ان لوگوں کی طرف بڑھی۔
"یہ لو وہ رہی ماہے"
سب سے پہلے تانیہ کی اس پر نظر پڑی ۔۔
"کہاں تھیں ہم کب سے ڈھونڈ رہے ہیں عالم بھی ہے یہاں نہیں ہو تو تم ہی نہیں ہو" اسکا ہاتھ تھامے میرب اس پر غصہ کرنے لگی۔
"یہی تھی میں مجھے کہاں جانا ہے"
اپنا ہاتھ میرب کی گرفت سے آزاد کرواتے وہ تانیہ کی جانب بڑھ گئی۔
میرب نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا۔۔
"ماہے میری بات سنو زرا"
وہ بھاگ کر اس کے پاس آئی اور اسکا ہاتھ پکڑ اسے آگے جانے سے روکا۔
"تم روئی ہو؟"
بغور اسکا چہرہ دیکھے میرب نے اس سے پوچھا جو جھٹ سے نا میں سر ہلا گئی۔
"پاگل ہو میں کیوں روؤں گی بھلا "
"پھر تمہاری آنکھیں کیوں اتنی ریڈ ہو رہی ہیں ؟" تفشیشی بھرے انداز میں میرب نے اسکا چہرہ دیکھا۔
"اففف میرب کچھ نہیں ہوا بس کچھ چلا گیا تھا آنکھ میں فوراً سے پریشان ہوجاتی ہو چلو ابھی وہاں سب انتظار کر رہے ہونگے "
"پلیز گائز بار بی کیو اسٹارٹ ہوگیا ہے آجاؤ "
"لو دیکھو" تانیہ کو آنے کا اشارہ کرتے وہ جلدی سے اسکی طرف بڑھی۔
"چلو میرب"
میرب کو ایک ہی جگہ جمے دیکھ ماہے نے دور سے اسے پکارا۔
جو گہری سوچ میں تھی۔
ماہے اس سے جھوٹ بول رہی تھی اتنا اسے پتا تھا۔
سب کے بلانے پر وہ ان سب کے پاس آگئی اس نے تانیہ کے پاس بیٹھی ماہے کو دیکھا گم صُم بالکل چپ۔۔
اہنی جگہ سے اٹھتی وہ اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔
"کیا ہوا ہے ماہے عالم سے لڑائی ہوئی ہے جھوٹ مت بولنا ورنہ میں ناراض ہوجاؤ گی"
"میرب " اس نے بے بسی سے اسے دیکھا جتنا وہ اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی اتنا ہی میرب اسے یاد دلا رہی تھی وہ یہاں رو کر سب کے سامنے اپنا تماشہ ہر گز نہیں بنوانا چاہتی تھی۔
"ہم اس بارے میں گھر جا کر بات کریں پلیز"
"اچھا ٹھیک ہے مگر اپنا منہ ٹھیک کرو ایسا لگ رہا ناجانے کونسا غم مل گیا ہے تمہیں" اسکے اداس چہرے پر چوٹ کرتے میرب وہاں سے اٹھ گئی۔
"تم کبھی نہیں سمجھ سکتی میرب اس وقت میرے دل پر کیا گزر رہی ہے میں کیوں اتنی بے بس ہوگئی ہوں مجھے نہیں سمجھ آرہا" خود سے کہتے وہ اپنا دھیان باقی سب پر لگا گئی۔
ہر طرف خوشیاں تھیں قہقے تھے مگر وہ اسے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا اسکا دل ایکدم ہی خالی ہوگیا تھا۔۔
رات ہوتے ہی وہ لوگ اپنے اپنے روم میں آگئے تھے ان کا ایک رات کا اسٹے تھے صبح ہوتے ہی انہیں یہاں سے نکلنا تھا۔
ڈنر کے دوران عالم بالکل اسکے سامنے تھا مگر نا تو ماہے نے اسکی طرف دیکھا نا بات کی۔۔
وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے ناراض تھے۔
اسکے روم میں صرف وہی تھی۔
میرب اور باقی لڑکیاں باہر چاندنی رات دیکھنے گئی تھیں۔
عائشہ سے ان دونوں کی بات ہو چکی تھی۔
اسکا ارادہ سونے کا تھا وہ کھڑکی بند کرتے اپنے بستر پر آکر لیٹی ہی تھی جب اچانک باہر شور اٹھا تھا ۔
"یہ کیسا شور ہے؟"
پاؤں میں سلیپر پہنتے وہ شال اپنے گرد لپیٹتے باہر آگئی۔
ہر کوئی اس طرف جا رہا تھا جہاں بوائز کا اسٹے تھا۔
"یا اللہ آخر یہ لوگ سکون سے کیوں نہیں بیٹھتے"
غصے سے بڑبڑاتے وہ واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی مگر اسکے قدم میرب کی آواز نے روکے۔
"ماہے۔۔ ماہے"
وہ بھاگ کر اسکی جانب آرہی تھی ماہے کا دل انجانے خوف سے لرزا۔۔
"کیا ہوا ہے میرب سب ٹھیک ہے نا؟"
"ماہے بوائز کاٹیج میں آگ لگ گئی ہے اور عالم اندر ہی ہے ماہے"
میرب نے اسکے سر پر دھماکہ کیا۔۔
"عالم۔۔۔۔"
اسکا دل دھڑکنا بھولا تھا میرب کو ایک طرف کئے وہ باہر کی جانب بھاگی تھی۔۔
اسے کچھ ہوا تو وہ کیا کرے گی۔۔
"ماہے رکو کہاں جا رہی ہو"
اسے یوں اندھا دھند بھاگتے دیکھ میرب اسکے پیچھے بھاگی تھی مگر ماہے کی اسپیڈ بہت تیز تھی وہ اسکا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
________
کاٹیج کے باہر تمام اسٹوڈنٹس جمع تھے یہ چھوٹا سا کاٹیج تھا یہاں ایسے ہی کئی کاٹیج تھے جو آنے والے کے اسٹے کے لئے بنائے گئے۔ اور اب اس ایک کاٹیج سے دھواں اٹھ رہا تھا۔۔
"سیم عالم کہاں ہے؟" اس کی سب سے پہلی نظر عالم کے دوست پر پڑی تھی کو اندر جانے کے لئے لوگوں سے لڑ رہا تھا۔
"ماہے وہ اندر ہے وہ جلدی اندر چلا گیا تھا یہ لوگ ہمیں اندر نہیں جانے دے رہے عالم مر جائے گا "
وہ رو رہا تھا۔ ماہے کو لگا اسکا دل بند ہوگیا ہے وہ کیسے اس سے دور جاسکتا ہے۔۔
"نہیں ہوگا کچھ عالم کو سمجھ آئی بکواس مت کرو تم" غصے سے چیختے وہ بھاگی تھی۔
سیم اسکے پیچھے آیا تھا۔
وہ نہیں جانتی تھی کیسے مگر اسے عالم کو بچانا تھا اسے وہاں سے نکالنا تھا۔
سامنے کے رستے سے وہ کبھی اندر نہیں جا سکتی تھی۔
اس پر اس وقت جنون سوار تھا ایک ضد تھی ۔۔
بنا اپنی جان کی پرواہ کئے وہ پیچھلے حصے کی جانب آئی۔۔
وہاں بھی آگ لگی تھی مگر اتنی نہیں۔۔
"مجھے اندر جانا ہے کچھ بھی ہو جائے میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دونگی عالم"پاس رکھی لوہے کی راڈ سے آگ والا حصہ ہٹا کر جگہ بنا رہی تھی اپنی جان کی پرواہ کئے۔۔سیم
مسلسل کوشش سے وہ کامیاب ہوئی تھی بنا وقت ضائع کئے اس نے کاٹیج میں قدم رکھا تھا پورے کاٹیج میں دھواں بھرا ہوا تھا۔۔
آگ دوسرے حصے میں لگی تھی اسے باہر کھڑے لوگوں پر غصہ آیا تھا وہ کیوں اندر نہیں آئے وہ آسکتے تھے۔
"عالم۔ عالم۔۔۔ عالم کہاں ہیں آپ عالم مجھے آواز دیں"
وہ چیخ چیخ کر اسکا نام پکار رہی تھی۔
تبھی اسے اچانک ایسا لگا کسی نے اسکا نام پکارا ہو۔۔۔
"عالم کہاں ہے آپ" اسکا ہاتھ آگ کی تپش سے جل رہا تھا وہ مر بھی جاتی تو اسے پرواہ نہیں تھی اس وقت اسے بس ایک شخص کی پرواہ تھی۔۔
بہت مشکل سے وہ اس تک پہنچی تھی۔
"عالم" وہ زمین پر گرا ہوا تھا بند ہوتی آنکھوں سے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔
"عالم میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دونگی" عالم کا سر اپنی گود میں رکھتے وہ اسے اٹھا رہی تھی اسکا نام پکار رہی تھی۔
"عالم اٹھیں آپ کو خدا کا واسطہ ہے مجھے اتنی بڑی سزا مت دیں", اسے زبردستی اٹھا کر بیٹھاتے اس نے آس پاس دیکھا۔۔
آگ نے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا تھا۔۔
اسے فوراً سے پہلے یہاں سے نکلنا تھا۔۔
"عالم پلیز آنکھیں کھولیں دیکھیں ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا" اسے آنکھیں کھولتے دیکھ وہ سسکیوں کے درمیان بولی تھی۔
سر کو جنبش دیتے وہ اٹھا کئی بار لڑکھڑاتے وہ گرتے گرتے بچا تھا۔
عالم کا سارا بوجھ اس نازک وجود کے اوپر تھا۔
خود گھسیٹتے وہ باہر آئی تھی۔
تبھی اسے سیم آتا نظر آیا۔
اسکے ساتھ دو لڑکے اور بھی تھے۔
وہ انہیں بچانے آئے تھے۔
_____________
"تمہارا دماغ خراب تھا ماہے تم جانتی بھی کیا کچھ ہوسکتا تھا تم مر سکتی تھیں آخر ایسی بھی کیا محبت جو تم نے اپنی جان مصیبت میں ڈال دی تمہیں کچھ ہوجاتا تو کیا جواب دیتی میں مما کو ۔۔ خالہ کو کیسے بتاتے ہم"
"میرب بس کردو " تانیہ اسکے زخم پر مرہم لگا رہی تھی جبکہ میرب مسلسل اسے سنائے جارہی تھی اور وہ سر جھکائے چپ چاپ اسے سن رہی تھی۔
بالآخر تانیہ کو ہی اسے ٹوکنا پڑا۔۔
عالم کو بچانے کے چکر میں وہ اپنا بازو جلا بیٹھی تھی۔
وہ لڑکی جو زرا سی کھروچ پر پورا گھر سر پر اٹھا لیتی تھی اتنی بڑی چوٹ پر بالکل چپ تھی اسکے چہرے پر سکون تھا۔
"تانیہ تم نہیں سمجھو گی یہ ہماری زمہ داری پر یہاں ہے اگر مجھے پتا ہوتا اسکا دماغ اتنا خراب ہے تو میں کبھی مما سے یہاں آنے کی اجازت نہیں لیتی اب کیا جواب دونگی میں مما کو اس زخم پر۔۔"
میرب کو رہ رہ کر عائشہ کی فکر ستا رہی تھی کیونکہ انہوں نے ماہے کو تو کچھ نہیں کہنا تھا ساری باتیں اسے سننے کو ملنی تھی۔
"میرب آئی ایم سوری پلیز میں خالہ سے بول دونگی وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گی پلیز معاف کردو"
میرب کا ہاتھ تھامے وہ بچوں کی طرح منہ بسور کر بولی تو میرب بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔
کیا بولتی اب کچھ بچا ہی نہیں تھا بولنے کو ۔
لیکن وہ ڈر گئی تھی عالم کے اسکی محبت دیکھ کر اس نے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی تھی ۔
آنے والے وقت نے اسے خوفزدہ کردیا تھا۔۔
__________
اسپتال کے باہر وہ دونوں کھڑے تھے جبکہ عالم اندر تھا۔
عاقب ابھی ابھی آیا تھا سیم اور جیک اسے لینے نیچے آئے تو اس نے دونوں کو گھوری سے نوازہ۔
"ٹھیک ہے عالم اب انتظار کر رہا ہے چلو" اسکی گھوری کو نظر انداز کرتے سیم اسے کہتا اوپر کی جانب بڑھا تو عاقب نے اسکی پیروی کی۔۔
وہ تینوں ایک ایک ساتھ عالم کے روم میں آئے تھے جو اس وقت بیڈ پر پڑا تھا۔
"شکر ہے آپ زندہ ہیں ورنہ آج ہمیں آپ کے لئے رونا پڑتا"
عاقب کے طنز پر اس کے نقاہت زدہ چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی اسے کچھ دیر پہلے ہی ہوش آیا تھا۔
"ٹھیک ہوں میں یار"
"ہاں باس اب ٹھیک ہیں اور اب آپ کو ٹھیک ہوتے ہی ماہے کا شکریہ ادا کرنا ہے"
"ماہے کا کیوں؟" عاقب نے تعجب سے سیم کو اور پھر عالم کو دیکھا جو اسکے دیکھنے پر نگاہیں چرا گیا۔۔
"یار برو کیا لڑکی ہے وہ اپنی جان مشکل میں ڈال وہ اپنے باس کو بچانے آگ میں کود گئی اس نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی نا لوگوں کی نا اپنی جان کی۔۔
اگر وہ نا ہوتی تو ناجانے کیا ہو جاتا" سیم کی بات پر عاقب کو جھٹکا لگا تھا۔
اس نے حیرت سے عالم کے جھکے سر کر دیکھا۔
سیم ناجانے اور بھی کچھ بول رہا تھا مگر اسکی نظریں عالم کے چہرے پر گڑی تھیں۔
"سیم اور جیک تم دونوں جاؤ میں ہوں اب یہاں تمہارے عالم باس کے پاس" ایک ایک لفظ چبا کر کہتے اس نے ان دونوں کو جانے کا کہا۔۔
وہ دونوں ہی نہیں جانا چاہتے تھے مگر عاقب نے ضد کر کے انہیں وہاں سے بھیج دیا۔
"تم بھی جاؤ عاقب مجھے سونا ہے" اسکے سوالوں سے بچنے کی خاطر اپنا سر تکیے پر رکھتے وہ آنکھیں موند گیا۔
"عالم مت کر ایسے۔۔ "
"میں کچھ نہیں کر رہا ہوں عاقب میری طبیعت نہیں ٹھیک میں سونا چاہتا ہوں"
"تجھے اس پر زرا سا بھی ترس نہیں آتا عالم کیا اتنے وقت میں تجھے اس سے زرا سی بھی انسیت نہیں ہوئی ؟"
عاقب اس سے سوال کر رہا تھا ایسے سوال جن کا جواب اسکے اپنے پاس بھی نہیں تھا تو پھر وہ کیسے عاقب کو جواب دیتا۔۔
اسکے دل و دماغ میں ایک جنگ جھڑی ہوئی تھی۔۔
"عاقب مجھے سونا ہے اپنے سوال تو بعد میں کرلینا پلیز"
"ٹھیک ہے نہیں کہتا کچھ مگر ایک بات یاد رکھنا اگر اسے کچھ بھی ہوا نا عالم تو زمہ دار صرف تو ہوگا صرف اور صرف تو۔۔۔ جو لڑکی تیرے لئے آگ میں کود سکتی ہے تو اسے برباد کرے گا تو یقین مان بھائی وہ اسی دن برباد ہوگئی تھی جس دن تو اسکی زندگی میں آیا تھا۔۔
جسے وہ محبت سمجھ رہی ہے نا دراصل وہ اسکی بربادی ہے یہ محبت اسکی جھولی میں کوئی سکھ نہیں ڈالے گی اور یہ بات اسے سمجھنی ہوگی جلد از جلد اس سے پہلے تیری نفرت اس کے اندر بھی زہر اور کڑواہٹ بھر دے"۔
اپنی بات کہہ کر وہ رکا نہیں تھا کمرے سے نکلتا چلا گیا ۔
عاقب کے جاتے ہی عالم نے آنکھیں کھولی تھیں۔
ایک آنسوں اسکی آنکھ سے نکلتے اسکے بالوں میں جذب ہوا تھا۔
"میں جانتا ہوں میری محبت اسکے لئے زہر ہے مگر میں اپنی ماں سے کیا وعدہ کیسے توڑ دوں عاقب میں نے ان سے وعدہ کیا تھا میں برباد کردوں گا ان کی زندگی برباد کرنے والوں کو میں بے بس ہوں میرے ہاتھ میں کچھ نہیں" دروازے کی جانب دیکھ کر کہتے وہ آنکھیں موندے اپنا ہاتھ آنکھوں پر رخ کیا وہ سیاہی میں رہنا والا شخص تھا اسے روشنیاں راس نہیں آتی تھیں۔
دن بوجھل اور راتیں طویل ہونے لگی تھیں۔۔
پکنک کے بعد گھر واپس آنے پر عائشہ نے ان دونوں کو بری طرح ڈانٹا تھا۔
میرب نے بمشکل بات سنبھالی تھی۔۔ وہ اسے بہت نارمل ہونے کا کہہ رہی تھی لیکن ناجانے کیوں اسکے دل پر اداسی نے ڈیرہ جما لیا تھا۔۔
وہ مسلسل عالم سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھی اسے کال کر رہی تھی مگر اسکا نمبر بند جارہا تھا۔
پیپرز کی وجہ سے کلاسس بھی آف تھیں ۔
نا پڑھائی میں دل لگ رہا تھا نا دوسرے کاموں میں ایسا لگتا تھا اسکے وجود سے ایک بڑا حصہ کہیں کھو گیا ہو۔
اسی اپنی اس شدت پسندی سے چڑ ہونے لگی تھی وہ ایسی تھی۔۔
ابھی بھی کتاب کھولے وہ بیڈ پر بیٹھی تھی مگر سوچ کے تنابیں کہیں اور پہنچی ہوئی تھیں۔
میرب کسی کام سے کمرے میں آئی تو اسے گم صُم بیٹھ دیکھ اس کے قدم تھمے۔
بغور اسکا چہرہ دیکھتے میرب نے گہرا سانس بھرا۔
"ماہے"
"ہوں؟"
اس نے خالی خالی نظروں سے میرب کو دیکھا۔
اسے دیکھ میرب کو دکھ نے آن گھیرا کتنی بیمار لگ رہی تھی وہ کیسا روگ تھی یہ محبت۔۔
"میں آج مما کے ساتھ مارکیٹ گئی تھی وہاں مجھے عالم کی پارٹی میمبر ملی"
"تم نے اس سے پوچھا عالم کا میرب کیسے ہیں ان کا فون کیوں بند ہیں وہ ٹھیک ہیں نا اس دن انہیں زیادہ چوٹ تو نہیں لگی تھی " ایک ہی سانس میں اس نے ناجانے کتنے سوال کر ڈالے۔
"ماہے ایک منٹ سن تو لو۔۔"
"ہمم بولو" اسکی حالت سے صاف ظاہر تھا اس سے صبر نہیں ہو رہا"
"عالم بالکل ٹھیک ہے اسکا فون جس دن آگ لگی تھی خراب ہوگیا تھا اور ابھی وہ یہاں نہیں ہے وہ کہیں گیا ہے پیپرز کے بعد ہی آئے گا اور وہ کس جگہ گیا ہے وہاں سنگلز بھی نہیں آتے اس لئے وہ کسی سے بھی کانٹیکٹ میں نہیں ہے جانے سے پہلے وہ تمہارے لئے میسج دے کر گیا ہے آل دی بیسٹ کا"
"کیا واقعی تم سچ کہہ رہی ہو میرب ؟" لمحے میں اسکا مرجھایا چہرہ کھل کر گلاب ہوا تھا۔
"میں جھوٹ کیوں بولوں گی ماہے وہ آجائے گا اس نے کہا ہے تم بس اب پیپرز پر دھیان دو اس کے پاکستان بھی تو جانا ہے نا"
"میرب وہ مجھ سے ناراض ہیں میں نے انہیں بہت لیٹ بتایا جانے کا"
"مان جائے گا وہ ٹینشن مت لو بس سوچو اس نے تمہیں پڑھایا ہے فیل ہوگئیں تو اسے برا لگے گا اچھے سے پڑھو اور اپنا سرٹیفیکیٹ لو۔۔"
"ہمم میں اب اچھے سے پڑھو گی تھینک یو سو مچ میرو" اسکے دونوں ہاتھ تھامے وہ شکریہ ادا کر رہی تھی۔
میرب نے حیرت سے اس دیوانی کو دیکھا کو زرا سا عالم کے ذکر پر کھل اٹھی تھی۔۔
دل میں کچھ چبھا تھا بہت زور سے مگر سر جھٹک وہ اپنی اپنی سوچ جھٹک گئی۔۔
اسے بس اب لاسٹ ڈے کا انتظار تھا جب پیپرز ختم ہونے والے تھے ۔۔
________
ان کے پیپرز شروع ہوئے تو روٹین ایک دم سے ٹف ہوگئی ان دونوں کو ہی سر اٹھانے کی فرصت نہیں تھی۔
ماہے پورے دھیان سے پڑھ رہی تھی اسے اچھے نمبر لانے تھے وہ ہمیشہ سے لائق اسٹوڈنٹ رہی تھی پوزیشن ہولڈر اس نے آگے پڑھنا تھا وہ یہاں اپنے کورس کے لئے آئی تھی کو آگے اسکے کام آسکتا تھا۔۔
وہ اپنے فیوچر کو لے کر بہت ایکسائٹڈ تھی اور اب عالم اسکے ساتھ تھا اسے اور کیا چاہیے تھا۔
فرصت کے لمحات میں وہ اکثر اسکی غیر موجودگی پر اداس ہوجاتی تھی مگر لیکن پھر وہ خود سمجھا لیتی۔۔
وقت گزرتا جارہا تھا ان کے پیپرز بھی ختم ہونے والے تھے ۔
اسے بے صبری سے عالم کے واپس آنے کا انتظار تھا۔۔
آج آخری پیپر تھا۔
اختتام کی شروعات۔۔ ایسا اسے لگ رہا تھا۔
دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے پرچہ دیا۔ دو دن بعد زین آنے والا تھا اور پھر وہ سب واپس پاکستان چلے جاتے، اس سب سے پہلے اسے عالم سے ملنا تھا۔
وہ پیپر دے کر باہر آئی اور موبائل آن کیا۔۔
تھوڑی دیر بعد اسکے موبائل پیغام موصول ہونے کی اطلاع آئی۔ دیکھا تو وہاں وہ نام جگمگا رہا تھا جو دل پر درج تھا، روح پر رقم تھا۔
وہ ملنا چاہتا تھا کچھ دیر میں۔۔
خزاں چہرے پر بہار آئی تھی۔
بجھی آنکھوں کی جوت جل اٹھی۔۔
دھڑکن کی رفتار کچھ اور بڑھی بالآخر پورے ایک ماہ بعد وہ دید کو میسر ہوگا۔
میرب کو میسج پر اطلاع کرتے وہ جلدی سے اپنا حلیہ درست کرتی یونیورسٹی سے باہر آگئی ۔
قدم تیز تھے اور اسکا رخ اس کیفے کی جانب تھا جہاں وہ اکثر ملتے تھے۔
بادلوں نے اسے دیکھ اچانک ہی رخ بدلا تھا ان کا آج شاید برسنے کا ارادہ تھا۔۔
اب بوندا باندی بھی شروع ہوگئی تھی جو آہستہ آہستہ اسے بھگونے لگی۔
آج یہ بھگوتا موسم اس پر گراں نہیں گزرا
آج وہ خوش تھی بے حد خوش۔
کیفے آگیا تھا ۔قدموں کی رفتار کچھ اور بڑھی ۔ وہ عجلت میں کیفے میں داخل ہوئی اور اپنی مخصوص نشست سنبھالی ۔
ہاں وہ ہمیشہ یہاں ہی تو بیٹھتے تھے گلاس وال کے پاس۔۔
یہ اسکا پسندیدہ اسپاٹ تھا کیونکہ یہاں سے اسے عالم کا عکس شیشے پر دیکھتا تھا اپنے قریب بے حد قریب۔۔ وہ آبگینہ اسے اپنے دل سا لگتا تھا۔۔ ہاں بس یہ فرق تھا کہ اسکے دل پر ابھرتا وہ عکس عارضی نہیں تھا، اسکی موجودگی کا محتاج نہیں تھا۔
وہ اسکے لئے کیا تھا شاید وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اس سے مماثل اہمیت مسکن دل میں کسی اور کو حاصل نہیں۔
وہ بے چین تھی خوش تھی آج شاید دنیا کے سارے جذبے وہ اپنی شریانوں میں دوڑتے محسوس کر رہی تھی۔
آج وہ اسے اتنے دنوں بعد دیکھنے والی تھی اسکی آنکھیں اس ایک من پسند منظر کی کمیابی کے عذاب جھیلتے اب تھک رہی تھیں۔
تبھی وہ اسے سامنے سے آتا دیکھائی دیا۔۔
بلیک ہڈی سے چہرہ چھپائے وہ سر پا پیر سیاہ لباس میں ملبوس تھا۔۔
بارش اسے بھگو رہی تھی اسکے قدموں کی رفتار تیز تھی بہت تیز جیسے اسے اس تک آنے کی جلدی ہو۔۔
اور پھر وہ آگیا تھا۔
وہ اب کیفے میں داخل ہو رہا تھا۔
اس نے سرمئی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
آنکھوں میں ڈھیروں خوشیوں کے رنگ لئے وہ اسے دیکھ رہی تھی ہاں آخرکار وہ اسکے سامنے تھا۔قدم بہ قدم چلتے وہ اس تک آیا اور اسکے مقابل نشست سنبھالی۔
وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔۔
"عالم۔۔۔" اس نے بے چینی سے اسکا نام پکارا۔۔ جیسے یقین کرنا چاہا کہ ہاں وہ اتنے قریب ہے کہ اسکے مخاطب کرنے پر اسے سن سکے۔
اپنے نام کی پکار پر اس نے سر اٹھا کر اس شاہ زادی کو دیکھا۔
اسکے من پسند رنگ میں خود کو ڈھالے، اسکے لیے انمول جذبے دل میں سنبھالے وہ اسے سامنے پاکر بھی جیسے اسکی منتظر تھی۔
" آپ جانتے ہیں میں نے آپ کو کتنا مس کیا؟ مجھے بتانے دیں۔۔" اسنے اسکے انتظار میں اسکے تخیل سے مخاطب ہوتے کتنے لفظ جوڑے توڑے تھے اسے یہ بتانے کے لیے کہ اسنے کیسا ہجر کاٹا تھا۔
" اگر میں گننے بیٹھو تو یہ وقت کم پڑ جائے گا میں نے ایک ایک لمحہ گنا ہے روز میں اس امید پر کھڑکی میں جاتی تھی شاید آپ آجائیں، میں نے راتیں جاگ کر گزاریں کہ اگر آپ کو سگنلز ملیں اور آپ آدھی رات کال کریں تو میں مسں نا کردوں۔۔۔ اوو عالم میں نے آپ کو بہت مس کیا بہت بہت زیادہ " وہ اسے اپنے گزرے دنوں کا احوال سنا رہی تھی۔
"اسکے علاؤہ کیا کیا ہے ماہے؟"
بہت دیر بعد وہ گویا ہوا۔
"آپ کو یاد۔۔صرف آپ کو یاد۔۔مجھ سے تو پیپر بھی یاد نہیں ہو رہا تھا مگر پھر میں نے آپ کو سوچا اور بس سب ہوتا چلا گیا۔۔"
اس کی ہر بات پر اسکا ذکر تھا صرف اسکا۔۔۔
"تم نے اپنا قیمتی وقت مجھے یاد کرنے میں ضائع کردیا؟" وہ ناخوش ہوا تھا اسے محسوس ہوا۔
"ضائع تو نہیں کیا جو وقت فالتوں کاموں میں لگاؤں تو ضائع کہلائے گا میری زندگی میں آپ سے زیادہ ضروری کچھ ہے ہی نہیں" وہ جتا نہیں رہی تھی وہ بس بتانے رہی تھی، اپنی کیفیات، اپنے محسوسات۔۔جس میں صرف وہ تھا اسکا عالم ۔۔
"آئندہ سے مجھے یاد مت کرنا "
"آئندہ سے آپ اتنا دور مت جانا مجھ سے تو پھر میں یاد بھی نہیں کروں گی"
"ماہے مجھے کچھ بات کرنی ہے٫" اسکا لہجہ سرد اور چہرہ کسی بھی قسم کے تاثرات سے عاری تھا۔
٫"اوپس میں تو آپ کو بولنے ہی نہیں دے رہی سوری آپ بولیں نا"
وہ فوراً سے شرمندہ ہوتی معذرت کر گئی۔ دھیان کا ہر دھاگا مقابل کہ ہر جنبش پر مبذول ہونے کے باوجود وہ اسکے گرد چھایا سرد کہرا محسوس نہیں کر پائی۔ اسکے دید کی گرمائش نے اسکی شخصیت پر چھائی ٹھنڈک ماہے تک پہنچنے ہی نہ دی۔
عالم نے بے تاثر نظروں سے اسکا سرخ چہرہ دیکھا اسکے لباس کا رنگ بھی یہی تھا گل اناری۔۔ اسکا من پسند۔۔
وہ سر تاپا اسکی پسند کے رنگ میں ڈھلی ہوئی تھی۔
"عالم کہیں نا کیا کہنا ہے" اسکی مسلسل چپ نے ماہے کو پہلی بار الجھایا، نجانے خوف میں مبتلا کیا تھا وہ کچھ بول کیوں نہیں رہا تھا۔ کہیں وہ پھر کہیں جانے کا تو نہیں کہنے والا تھا؟ اس سے آگے وہ سوچ ہی نہیں پائی۔
اور پھر عالم نے اپنا ہاتھ بلند کیا تھا وہ اسکی دی ہوئی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا۔ماہے کے ہونٹوں پر تبسم بکھرا ۔۔ ہر فکر ہوا ہوئی پر صرف اس ایک لمحے کے لیے۔
عالم نے دوسرے ہاتھ کی مدد سے وہ انگوٹھی اتار کر ٹیبل پر اسکے سامنے رکھی۔۔
"عالم آپ۔۔"
ٹیبل پر رکھی انگوٹھی کو دیکھتے وہ خوفزدہ ہوئی تھی
"میں مزید یہ نہیں کرپاوں گا۔۔میں تنگ آگیا ہوں تم سے اور اس تعلق سے، میں اسے ختم کرنا چاہتا ہوں" سرد مہری سے کہتے وہ اسکی جان نکال گیا۔ اسے یقین نہ آیا مقابل اس سے یہ سب کہہ گیا ہے۔۔
"ایسے کیوں کہہ رہے ہیں آپ؟ کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے؟کیا میں نے آپ کو پریشان کیا ہے؟ کہیں نا۔۔آپ مجھے بتائیں میں معافی مانگ لوں گی، خود کو بدل لوں گی۔۔ آپ کیوں مجھے چھوڑ رہے ہیں؟"اسے کچھ نہیں سمجھ آرہا تھا وہ اس سے اپنی غلطی پوچھ رہی تھی۔۔ حرکت قلب ساکت ہوئی جاتی تھی۔
"غلطی تو مجھ سے ہوئی ہے اور اب اس غلطی کا طوق گلے میں باندھے میں مزید اسے نہیں کھینچ سکتا۔
میں اب تم سے محبت نہیں کرتا، شاید کبھی بھی نہیں کرتا تھا، ہم ساتھ نہیں چل سکتے۔۔ آئندہ کبھی میرے راستے میں مت آنا "
وہ اپنی بات کہہ کر وہاں لمحہ بھر بھی نہیں رکا۔
باہر بادل زور سے گرجے اور برسنے کی رفتار شدید کر لی۔۔ جیسے پانی نہیں خود میں اسکے آنسو جذب کیے ہوئے ہوں۔
"یوں مت کریں میں مر جاؤں گی خدا کے لئے ایسا تو نا کہیں مجھے میری غلطی تو بتائیں عالم" ہوش آتے ہی وہ اسکے پیچھے بھاگی تھی۔۔ جیسے کوئی قریب المرگ زندگی کے پیچھے بھاگتا ہے۔
"عالم میں مر جاؤں گی مجھے کیوں اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں" وہ کیفے سے باہر نکل آئی تھی۔
بارش اب بڑھتی جارہی تھی۔
اس نے آگے بڑھ کر اس سرد مہر شخص کا بازو تھاما جو سڑک پار کرنے کے لیے اشارے کا منتظر کھڑا تھا جسے وہ بری طرح سے جھٹک گیا۔۔
"میں نے کہا نا نہیں رکھنا چاہتا کوئی تعلق تم سے دور رہو مجھ سے" انداز میں اس قدر حقارت تھی، اس قدر بیزاری تھی، وہ منجمد ہوئی اور وہ آگے بڑھ گیا۔
"عالم۔۔۔۔" وہ اس جاتے ہوئے شخص کو دیکھ کر چلائی۔
مانچسٹر کی سڑک پر تنہا کھڑی وہ بارش میں بھیگ رہی تھی مگر مقابل نے ایک بار بھی پلٹ کر اسے نہیں دیکھا تھا۔۔ شاعر کہتا تھا تم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو کوئی بات نہیں۔۔ کوئی بات کیسے نہیں تھی؟ کوئی اس سے پوچھتا کہ کوئی بات کیسے نہیں تھی؟
"عالم ایک بار مڑ کر دیکھ لیں مجھے بتا دیں میں بدل لونگی خود کو ۔۔ عالم"وہ اسکے پیچھے بھاگ رہی تھی۔۔
"عالم ایک بار۔۔ "
وہ کئی بار لڑکھڑائی تھی۔۔ اسکی سانسیں بھی۔
"میں مر جاؤں گی " اسکا تنفس بگڑنے لگا تھا۔
"آپ میرا سب کچھ ہیں "اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اسکا سب کچھ دور جا رہا تھا۔
"میں سب چھوڑ دوں گی، سب کو چھوڑ دوں گی" اسکا دماغ پھٹنے کے قریب تھا۔
"میری بات تو۔۔ " اس سے اب بولا نہیں جا رہا تھا مگر وہ اپنی آواز اس تک پہنچانا چاہتی تھی یہ سمجھے بغیر کہ وہ اب سننا نہیں چاہتا۔
اسکے پیچھے بھاگتے وہ گر کر اٹھی تھی۔ دل جیسی خراشیں ہتھیلیوں پر آئیں اور روح جیسے زخم کہنیوں پر۔۔
محبت ہاتھوں میں سے ریت کی طرح پھسل رہی تھی۔
"عالم", وہ پورے طاقت سے چلائی تھی جتنی بھی اس کے پاس باقی بچی تھی، جتنی وہ اپنے لفظوں سے اس کے جسم سے کشید کر کے اپنے ساتھ نہیں لے گیا تھا۔
اسکے ہونٹوں کے اوپر سرخ رنگ کی لکیر تھی۔
وہ اس سے دور جا رہا تھا۔۔
بھاگتے بھاگتے اسکے قدم لڑکھڑائے تھے۔۔
سنبھالنے والے ہاتھ اسکے پاس نہیں تھے وہ منہ کے بل گری تھی اپنی محبت کی طرح۔۔
بارش کے پانی میں سرخ سیال نے اپنی جگہ بنائی وہیں لوگوں کا ہجوم اب اسکے گرد جمع ہو رہا تھا۔۔
بند ہوتی آنکھوں نے جو آخری منظر دیکھا تھا وہ اسکے دور جانے کا تھا۔۔
_____________
تپتے صحرا میں وہ ننگے پیر کھڑی تھی اسکے اردگرد ناجانے کتنے لوگ تھے جو اسکی حالت زار پر قہقہ لگاتے اسے اسکی شکست کا احساس دلاتے رونے پر مجبور کر رہے تھے۔۔
پرتپش صحرا جس کی ریت آگ سے زیادہ گرم تھی اسکے پیروں پر ابلے پڑنے لگے تھے۔ ان انجان چہروں میں اس نے ایک شناسا چہرہ تلاش کرنا چاہا اور پھر اسے وہ دیکھا۔۔
ہاں کئی لوگوں ہجوم میں وہ بھی تھا۔۔
چہرے پر سرد تاثرات آنکھوں میں سرخ لکیریں۔۔
"عالم مجھے بچا لیں عالم میرا ہاتھ تھام لیں" وہ اسے پکار کر رہی تھی۔
اسکے گرد ایک آگ کا دائرہ بن رہا تھا جس کے درمیان وہ کھڑی تھی۔
یہ آگ اسے نگلنے کو تیار تھی۔۔
"مجھے بچائیں عالم"
اسے آگے بڑھتے دیکھ وہ چیخی۔۔ مگر دوسری طرف وہ اسے سن ہی نہیں رہا تھا بلکہ وہ اس آگ کے پاس سے گزرتے آگے بڑھ گیا۔۔
اسکا وجود آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔
وہ چلا رہی تھی بری تھی وہ اس سے مدد مانگ رہی تھی وہ اسے ایک بار پھر چھوڑ کر جا رہا تھا۔
زمین پر گھنٹوں کے بل گرتے اسکا وجود بے جان ہوا تھا۔
اسے لگا جیسے کوئی اسے پکار رہا ہے اسکا اپنا۔۔ امید کی ڈوری تھامے ایک جھٹکے سے اس نے آنکھیں کھولیں تھیں مگر۔۔۔
یہ کوئی صحرا تو نہیں تھا دوائیوں کی اسمیل اسکے گرد پھیلی ہوئی تھی۔
"ماہے " اپنے نام کی پکار پر اس نے نگاہیں اٹھائیں۔
"میری بچی ماہے میری جان" اس پر جھکی عائشہ اسکا ماتھا چوم رہی تھی۔
تو کیا وہ سب خواب تھا؟"
بے تاثر نظروں سے اس نے اپنے اردگرد دیکھا وہ اسپتال کے کمرے میں تھی۔
اسکے اردگرد زین عائشہ اور میرب کھڑے تھے ان کے چہروں پر اسکے لئے تفکر کے سائے تھے۔
"میں یہاں"
اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تھی تبھی زین نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔
"ماموں"
"ماموں کی جان"
"میں یہاں کیا کر رہی ہوں؟"
اسکے دل نے خواہش کی تھی وہ کہہ دیں کہ بیمار تھی وہ کبھی اس جگہ گئی ہی نہیں جہاں سے اس شخص کا ساتھ چھوٹا تھا ۔
"تم کیفے کے طرف بے ہوش ہو کر گر گئی تھیں"
میرب کے بتانے پر ایک بار سارا منظر اسکی نگاہوں کے سامنے آیا۔۔
"میری ڈاکٹر سے بات ہوگئی ہے آج وہ تمہیں ڈسچارج کردینگے اور پھر رات پانچ بجے ہماری پاکستان کی فلائٹ ہے"
ایک ایک بعد ایک جھٹکا۔۔
"عائشہ یہ ساری باتیں گھر جا کر کریں گے ابھی تم سب سامان سمیٹ لو میں ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں"
عائشہ کو اشارہ کرتے زین کمرے سے نکل گیا۔
ماہے کو لگ رہا تھا اسکا دماغ مفلوج ہو چکا ہے وہ کچھ بھی سوچ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
عائشہ اور میرب کے ساتھ وہ گھر واپس آگئی۔
"میرب ماموں جلدی کیوں آگئے ؟"
اسکے سوال پر چیزیں سمیٹتے میرب کے ہاتھ تھمے ۔
"تمہیں پتا ہے ہمارا لاسٹ پیپر کب تھا ماہے؟"
"منگل کو" اس نے الجھ کر میرب کو دیکھا۔
"آج جمعرات ہے تم جانتی ہو ان دو دنوں میں میرے ماں باپ کا کیا حال ہوا ہے تمہاری وجہ سے تم ہوش میں نہیں آرہی تھیں ایسا کیا ہوا ہے ماہے کو تم اچانک اتنی بیمار پڑ گئیں ؟"
اسکے پاس بیٹھتے میرب نے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔
"میرب مجھے عالم سے بات کرنی ہے میرا فون کہاں ہے؟"
"تمہارا فون خراب ہوچکا ہے۔"
"یار میرب عالم مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہونگے میں کیا کروں اب "
"ماہے میں نے اسے کال کی تھی اسکا نمبر بند ہے اور "
"مجھے ان سے ملنا ہے میرب پلیز "
میرب کی بات کاٹتے وہ اٹھ بیٹھی تھی۔
"ماہے تم پاگل ہوگئی ہو اپنی حالت دیکھو۔۔۔ رات ہماری پاکستان کی فلائٹ ہے بابا مما سب گھر پر ہیں تم عالم سے نہیں مل سکتیں "
"میرب میری بات سنو وہ مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں بہت برا وہ میری کوئی بات نہیں سن رہے انہوں نے مجھ سے کہا ہے وہ مجھ سے محبت نہیں کرتے میں انہیں منانا چاہتی ہوں دیکھو میں خالہ کو تنگ نہیں کررہی میں جاؤ گی پاکستان مگر ایک بار مجھے ان سے بات کرنے دوں ملنے دو میں سمجھا دوں گی انہیں پلیز "
وہ باقاعدہ اسکے ہاتھ جوڑ گئی تھی۔
میرب نے ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"اچھا رکو میں مما بابا سے بات کرتی ہوں مگر پلیز تم رونا بند کرو" اسکے آنسو صاف کرتے وہ اٹھی تھی وہ آج ایک آخری بار اسکی مدد کرنے والے تھی۔۔
________
"تم پاگل ہوگئی ہو میرب اس کی حالت دیکھی ہے جو تمہیں اب اسے باہر لے کر جانا ہے" عائشہ کا کیا اپنی کو ایک تھپڑ ماریں۔۔
پچھلے دو دن ان سب کے کس ازیت میں گزرے تھے یہ سب وہی جانتی تھیں۔
دو دن اسپتال میں اسکے وجود کو دیکھ ان کا دل خون کے آنسو رویا تھا وہ یہاں امانت تھی ان کے پاس اور جب انہیں خبر ملی تو ایسا جیسے کسی نے پیروں سے زمین کھینچ لی ہو۔۔
"بابا یہ ماہے کی خواہش ہے وہ پاکستان جانے سے پہلے سب سے ملنا چاہتی ہے اور اب وہ ٹھیک ہے"
"عائشہ اگر ماہے جانا چاہتی ہے تو جانے دو وہ جلد واپس آجائے گی میرب بھی ساتھ ہے اور میں خود ڈراپ کرنے جاؤ گا"
زین کے سمجھانے پر بمشکل عائشہ راضی ہوئی تو اس نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
وہ فوراً سے اوپر آئی اور ماہے کو چلنے کا کہا۔۔
جانے کا سنتے ہی اسکے نحیف وجود میں جان آئی تھی۔
"تھینک یو میرو"
میرب کا ہاتھ تھامے وہ دل سے اسکی شکر گزار تھی آج ایک بار پھر وہ اس سے ملنے والی تھی اسکے آگے محبت کی بھیک مانگنے والی تھی۔
وہ جانتی تھی کہ وہ ناراض ہے مان جائے گا۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ وہ میرب کا ہاتھ تھامے اپنے گھر سے نکلی تھی اس انسان کو منانے جس سے محبت کرنا سیکھا تھا اس نے اور وہ اپنی محبت کو ایسے تو نہیں چھوڑ سکتی تھی۔۔
__________
کمرے میں گھپ اندھیرا تھا اتنا اندھیرا کے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔
بمشکل زمین پر بکھری چیزوں سے بچتے عاقب نے لائٹس آن کی تو اندھیرے میں ڈوبا کمرہ روشنیوں میں نہا گیا۔۔۔۔
عاقب نے بیڈ پر اوندھے منہ لیٹے عالم کو دیکھا۔۔
"زندگی میں اندھیرے کیا کم ہیں جو کمرے میں بھی اب اندھیرا کر کے بیٹھ گیا ہے"
کھڑکیوں سے پردے سمیٹتے وہ تپ کر بولا ۔
"عالم میں تجھ سے بات کر رہا ہوں تجھے سنائی نہیں دے رہا کیا ؟"
اسکے چہرے پر سے تکیہ ہٹاتے وہ غصے بولا تھا اس شخص نے قسم کھائی ہوئی تھی اسکا دل جلانے کی۔۔
"اٹھ "
اس سے پہلے عاقب اپنی بات مکمل کرتا ڈور بیل بجی تھی۔
تاسف بھری نظروں سے عالم کو دیکھ وہ باہر گیا تھا مگر اگلے ہی لمحے وہ تیزی واپس کمرے میں آیا۔۔
"عالم ماہے۔۔ عالم باہر ماہے آئی ہے", اس نے عالم کے سر پر دھماکہ کیا تھا۔۔
"عالم پلیز میری بات سنیں دروازہ کھولیں عالم"
ماہے کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی وہ رو رہی تھی۔
اس نے سختی سے اپنی مٹھیوں کو بھینچا۔۔
"اسے اندر بلاؤ عاقب"
"کبھی نہیں عالم اب بس بہت ہوگیا "
"ٹھیک ہے اب باہر مت آنا ،"
اسے وارننگ دیتے وہ شرٹ پہنتے باہر آیا اور دروازہ کھول دیا۔۔
وہ اسکے سامنے تھی۔۔
اس دن کے بعد وہ اسے اب دیکھ رہا تھا۔
زرد چہرہ نقاہت زدہ وجود۔۔ یہ وہ ماہے تو نہیں تھی جس سے وہ ملا تھا۔۔
"عالم "
اس نے زیر لب اسکا نام پکارا تل تل مرتا دل ایک بار پھر جی اٹھا ۔
"کیوں آئی ہو یہاں؟" اسکے لہجے میں بلا کی سرد مہری تھی ماہے کو ڈھونڈنے سے بھی اسکے چہرے پر شناسائی کا تاثر نہیں ملا۔۔
"عالم "
"شٹ اپ نام مت لو میری زبان سے اپنا تم جیسی ڈھیٹ لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی اس دن کہہ تو دیا تھا جان چھوڑو اب یہاں کیوں آئی ہو؟"
وہ یکلخت ہی اس پر چیخا تھا۔۔
وہ لفظ نہیں زہر میں بجھے تیز تھے جو سیدھا اسکے دل پر پیوست ہوئے تھے۔
"مجھے میری غلطی تو بتا دیں" ٹھیک کہتا تھا وہ۔۔ ڈھیٹ تو وہ واقعی ہوگئی تھی ۔
"سچ سننا چاہتی ہو نا؟" اسکے زرد پڑتے چہرے پر نگاہیں جمائے آج وہ بے رحمی کی ہر حد پار کرنے والا تھا ۔
"کیا کہتی ہو تم محبت کرتی ہو مجھ سے ہے؟"
"کرتی ہوں عالم بہت کرتی ہوں" آنسو تواتر سے اسکے عارض پر بکھرتے جارہے تھے۔
"میں نہیں کرتا جانتی ہوں کیوں کیونکہ مجھے تم جیسی لڑکیوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جو ماں باپ کو دھوکہ دے کر لڑکوں سے تعلقات رکھتی ہیں نفرت ہے مجھے ان لڑکیوں سے آئی سمجھ۔۔۔ اور تم بھی ان ہی لڑکیوں میں سے ایک ہو۔ غلطی ہوگئی مجھ سے جو تمہارے ساتھ ہنس کر بات کرلی تم تو ہار گلے ہی پڑ گئی ہو میرے زرا بھی اب شرم باقی ہے نا تو میرا پیچھا چھوڑو اور جاؤ اپنے ماں باپ کی عزت رکھو کیونکہ یہاں سے تمہیں کچھ نہیں ملنے والا۔۔۔"
"نکلو میرے گھر سے اور اگر اپنے باپ کی عزت کا زرا بھی خیال ہوا نا تو واپس یہاں مت آنا میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا" اسے بازو سے پکڑ گھر سے باہر نکالتے عالم نے اسکے فق پڑتے چہرے کو دیکھا اور اسکے منہ پر دروازہ بند کرگیا۔۔
دروازے سے ٹیک لگائے وہ گہرے سانس بھر رہا تھا باہر وہ اسکا دروازہ پیٹتی رو رہی تھی وہ اب بھی باز نہیں آرہی تھی آخر کیوں وہ اسکی زندگی سے نہیں جا رہی تھی۔۔
اسکی آوازوں سے جان چھڑاتے عالم نے سختی سے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے تھے۔۔
"چلی جاؤ ماہے چلی جاؤ یہاں سے میری زندگی سے بہت دور" وہ پوری طاقت سے چلاتے وہ اپنے کمرے میں بند ہوا تھا۔
عاقب نے بے بسی سے ان دو دروازوں کو دیکھا تھا ایک شخص محبت کے دور جانے جانے کر تڑپ رہا تھا تو دوسرا محبت ہو جانے کی وجہ سے۔۔۔
__________
سیاہ آسمان گرہن لگا چاند عجیب زرد سا رنگ چاروں اطراف بکھیر رہا تھا اور اسی گرہن زرہ چاندی میں وہ خالی ہاتھ اور خالی دل لئے اس اجڑے درخت کے نیچے بیٹھی تھی خالی ویران درخت اسکی ذات کی طرح ۔۔
"ماہے اٹھو گھر چلو سب انتظار کر رہے ہونگے"
"میں بدکردار ہوں میرب؟"
خالی نگاہوں سے اس نے میرب کو دیکھا ایسی ویران آنکھیں۔۔
"فضول مت سوچو ماہے سب انتظار کر رہے ہیں خود کو سنبھالوں اور اٹھو بہت ہوگیا ہے یہ تماشہ"
اسکا ہاتھ زبردستی تھامے میرب نے اسے اٹھایا۔۔
"میری بات سنو گھر والوں کو اگر لگا تو سب تباہ ہوجائے گا تمہارا کچھ نہیں جائے گا مگر میری ماں مجھے چھوڑیں گی اب بس کرو ہزاروں لوگوں کے بریک اپ ہوتے ہیں تم انوکھی نہیں ہو"
وہ بے رحمی سے کہتی اسکا دل چیر گئی۔۔
زبردستی اسکا ہاتھ تھامے وہ آگے بڑھی تھی اور وہ میرب کے ساتھ گھیسٹتی جارہی تھی بنا کچھ بولے۔۔
گھر میں آتے ہی وہ اسے اوپر لائی تھی شکر تھا کہ زین اور عائشہ لاونج میں نہیں تھے۔
پیکنگ ہوچکی تھی اگلے ایک گھنٹے میں ان لوگوں نے وہاں سے نکلنا تھا۔
میرب نے ایک نظر ماہے کو دیکھا جو بے سدھ بیڈ پر پڑی تھی اور پھر ٹیبل پر رکھی اسکی ڈائری کو۔۔
بہت آہستگی سے اس نے وہ ڈائری اٹھا کر اپنے بیگ میں ڈالی تھی۔
"مجھے معاف کردینا ماہے۔۔"
اس کی آنکھوں میں پچھتاوا تھا ناجانے کس بات کا۔۔
_________
اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ ۔۔۔
وقت 10:30am
فلائٹ اپنے مقررہ وقت پر لینڈ کرچکی تھی۔۔
سب باری باری اب باہر آرہے تھے۔
یشم نے ایک نظر گھڑی کو اور پھر اس رستے کو دیکھا جہاں سے وہ لوگ آنے والے تھے۔
اپنی بیٹی کو دیکھنے کی تڑپ بڑھتی جارہی تھی تبھی اسے سامنے سے زین آتا نظر آیا۔۔
اسکے ساتھ عائشہ تھی میرب تھی اور۔۔
چادر میں چھپا ایک وجود۔۔
وہ ماہے تھی اسکا دل انجانے خوف سے دھڑکا۔۔
"زین ماہے؟"
"ریلکس یشم بھائی ماہے ٹھیک ہے بس بخار ہے" زین اس سے نظریں نہیں ملا پایا تھا۔
یشم نے آگے بڑھ کر اپنی لاڈلی کو اپنے حصار میں لیا۔
مگر اسکا وجود جیسے پتھر ہوچکا تھا ہر احساس سے عاری۔۔۔
اپنے باپ کے سینے سے لگے اس نے سارا سفر طے کیا تھا۔
حویلی میں ہر کوئی اسے ایسے دیکھ تڑپ اٹھا تھا وہ بخار میں تپ رہی تھی فوراً سے ڈاکٹرز کو بلایا گیا۔۔
"یا اللّٰہ ہماری ماہے کو کیا ہوگیا ہے",
اسکے سرہانے بیٹھی امو جان بار بار اس پر دم کر رہی تھیں۔
ویران آنکھوں سے اس نے ان سب کو دیکھا اسکی ماں کی آنکھیں نم تھیں بات کے ماتھے پر فکروں کا جال۔۔ اسکے آغا جان بار بار اسے دیکھ رہے تھے دعا کر رہے تھے سب اسکے لئے پریشان تھے۔۔
"ماں باپ سے جھوٹ بولا ۔ میں بری بیٹی ہوں"
نہیں وہ انہیں تکلیف نہیں دے سکتی تھی۔
"مما"
مردہ دل کو سنبھالے اس نے اپنی ماں کو پکارا ۔۔
"بولو مما کی جان "
"میں ٹھیک ہوں آپ سب کیوں پریشان ہو رہے ہیں میں بالکل ٹھیک ہوں" ان کا ہاتھ لبوں سے لگاتے وہ بہت آہستہ سے بولی تھی اور ان سب کے لئے اتنا ہی بہت تھا۔۔
دن گزرنے لگے تھے ہر کوئی اسکی فکر میں تھا وہ کچھ نہیں بھول سکی تھی مگر اس نے ایک خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا تھا ماں باپ کا بھروسہ وہ توڑ چکی تھی اب مزید کیوں انہیں تکلیف دیتی۔
مزید دن سرکے تھے جب ایک دن بنفشے نے اسے جو کہا اس بات نے ماہے نور کو ایک بار پھر اس ستمگر کی یاد دلائی تھی لیکن اب وہ انکار نہیں کر سکتی تھی اسکے پاس وہ مان تھا ہی نہیں اپنے ماں باپ کا مان اس نے توڑ دیا تھا۔۔ذ
مگر اب مزید نہیں۔۔
وہ راضی ہوگئی تھی ایک ان چاہے رشتے میں بندھنے کے لئے نکاح کے لئے۔۔
شاید یہ سزا تھی جو وہ خود کو دینا چاہتی تھی
مانچسٹر کی سڑکیں آج پھر بھیگی ہوئی تھیں آج پھر یہاں بادل کھل کے برسے تھے۔۔
اسی برستی بارش میں وہ سیاہ لباس میں مقید شخص ۔۔
ہاتھوں میں سفید پھولوں کا گلدستہ تھامے سڑک کنارے چلتا چلا رہا تھا۔
دوسرا ہاتھ سیاہ اوور کوٹ میں تھا۔
بال گردن کو چھوتے اب بڑھنے لگے تھے۔
بارش آہستہ آہستہ پھر برسنے کو تیار اسے بھگو رہی تھی۔
اس نے خود کو بارش سے بچانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
طویل سڑک پر چلتے بالآخر وہ اپنی منزل تک پہنچ گیا تھا۔
اندر ناجانے کتنے لوگ محو آرام تھے۔
سرخ آنکھوں سے اس نے آسمان کی جانب دیکھا اور پھر اس کے قدم ایک سمت بڑھے تھے اور پھر وہ رکا تھا۔
گلدستہ سامنے رکھتے وہ وہیں بیٹھ گیا۔۔
"کیا آپ ناراض ہیں مجھ سے میں اتنے دن آپ سے مل نہیں سکا ۔۔ آپ کے پاس نا آنے کی ایک وجہ ہے جانتی ہیں کیوں؟ کیونکہ میں شرمندہ تھا خود سے آپ سے ۔۔۔۔
میں کیسے نظریں ملاتا آپ سے جب میں خود سے نظریں نہیں ملا پارہا۔۔ میں آپ سے کیا وعدہ پورا نہیں ہوا میں کر ہی نہیں پایا ایسا نہیں کہ میں نے کوشش نہیں کی ۔۔ میں نے کوشش کی بار بار کی مگر اسکی معصومیت نے میرے قدم ڈگمگا دئیے۔۔
میں جب جب اسے دیکھتا تھا مجھے یہ بات دہرانی پڑتی تھی کہ وہ میرے دشمن کی بیٹی ہے اور وہ ہر بار میرا دل پلٹ دیتی تھی۔
آپ جانتی ہیں اس نے میرے لئے وہ کیا جو آج تک کسی نے نہیں کیا آپ نے بھی نہیں۔۔
وہ میرے لئے لوگوں سے لڑتی تھی میری تکلیف پر وہ پاگل ہو جاتی تھی۔۔"
وہ ہولے سے ہنس پڑا پرانے منظر یاد آنے لگے تھے۔
"آپ نے کہا تھا دنیا شاطر ہے لوگ برے ہیں مگر وہ نہیں تھی میں جب جب اسکی آنکھوں میں دیکھتا تھا نا مجھے سکون ملتا تھا۔۔ آپ کو پتا ہے جب زی کے مجھے مارنے آیا تو وہ اچانک سامنے آگئی مجھے بچانے میرا غصہ۔۔ " وہ پھر ہنسا تھا تکلیف دہ ہنسی۔۔
"آپ کہتی تھیں میں ایک آتش فشاں ہوں جو کبھی ٹھنڈا نہیں پڑتا لیکن جب اس نے میرا چہرہ تھاما نا میں بالکل خاموش ہوگیا میرے وجود کی ساری تلخیاں وہ خود میں سمیٹ گئی۔
میں نے اسکی آنکھوں میں درد دیکھا ویسا درد جیسے کسے اپنے کے چوٹ لگنے پر آپ محسوس کرتے ہیں۔۔
اس دن میں نے سوچا تھا مجھے جلد از جلد اسے برباد کرنا ہے تاکہ وہ مجھ پر حاوی نا ہوسکے لیکن۔ جب وہ مجھ سے دور ہوئی نا تو ایسا لگا میرے اردگرد اندھیرا ہوگیا ہو اور اس اندھیرے میں کوئی میرے گلے میں انجانا سا طوق ڈالے مجھے گھسیٹ کر وحشت کے انہیں راستوں پر لے جارہا ہے جہاں میں رہا کرتا تھا۔۔ ایک سرد کہرے نے میرے گرد ڈیرہ جما لیا تھا۔
میں ایک پتھر دل شخص تھا آپ تو جانتی ہیں نا اور پھر میں نے اسے دیکھا وہ رات جب برف آسمان سے گرتی چلی جارہی تھی۔
ایک کونے میں کھڑی وہ آسمان کی جانب دیکھ رہی تھی مجھے اس پر کسی پری کا گمان ہوا تھا وہ پری کو جادو سے میرے سارے اندھیرے ختم کر دے گی۔۔
ہاں میں اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ لیکن میں نے اپنے دل مار دیا مجھے آپ سے کیا وعدہ نبھانا تھا ہر حال میں۔
میں اسے تباہ کرنے والا تھا لیکن میں کر ہی نہیں سکا وہ میرے لئے مرنے کو تیار تھی افسانوی باتیں ہر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے "
اس نے دانتوں تلے لب دبایا تھا تکلیف سے۔۔ آنسو ضبط کرنے کی ایک کوشش۔۔
"لیکن وہ میرے لئے آگ میں کود گئی وہ واقعی الگ تھی میں ڈر گیا مما میں بہت ڈر گیا میں نہیں کرسکا اسے تباہ۔۔ آپ ٹھیک کہتی تھیں میں آپ پر نہیں گیا میں اپنے باپ کی طرح ہوں بذدل۔۔
میں اسے اپنانا چاہتا تھا لیکن پھر "
وہ لحظہ بھر کو رکا ۔
جیسے یہ بات کہنے کے لئے ہمت جمع کر رہا ہو۔۔
"آپ کی دوست مجھے ملیں ۔۔ "ضبط سے اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا آنکھوں کے کناروں پر نمی کا راج تھا جو چھلک پڑنے کو بےتاب تھی۔۔
"کیا تھی میر زندگی ایک تماشہ میں اپنے زندہ باپ کا سوگ منایا آپ نے کیوں میری ذات کا تماشہ بنایا مما کیوں اپنی محرومیوں کا بدلہ مجھ سے لیا؟ اس لئے کہ میں اس شخص کا بیٹا تھا اس نے آپ کو اندھیروں سے نکالا؟ میں تو اسے اپنانے والا تھا لیکن۔۔۔
سب تباہ ہوگیا۔۔ میں نے اسے دیکھا وہ مجھے دیکھ کر خوش تھی اتنا خوش کہ میں شاید لفظوں میں بتا بھی نہیں سکتا لیکن میں نے اسکا دل توڑ دیا میں نے اسے اذیت دی وہ رو رہی تھی مجھے پکار رہی تھی۔
میری قدم من من کے بھاری تھے میں اسکے پاس جانا چاہتا تھا اسے سینے سے لگانا چاہتا تھا لیکن میں ایسا نہیں کرسکا۔۔
وہ میرے گھر تک آئی تھی۔
آنسو اسکی آنکھوں سے پھلستے اسکی داڑھی میں جذب ہوتے تھے۔۔
اسے پل کی خوشی دے کر میں اسے ساری زندگی کی اذیت نہیں دے سکتا تھا۔۔ میں برا ہوں ہاں میں برا کیونکہ میں آپ کا بیٹا ہوں جس نے اپنی انا اپنے غرور میں سب تباہ کردیا اپنے بیٹے تک کو۔۔ آپ نے محبت کی ایسی محبت جو کسی کو سکھ نہیں دے سکی اور آپ کی نفرت آپ کو قبر میں اتار گئ۔۔
"میں یہ شہر چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک آخری بار آپ سے ملنے آیا ہوں تاکہ آپ کے بتا سکوں کہ آپ ٹھیک کہتی تھیں میں واقعی اپنے باپ پر گیا ہو میں دل میں نفرتیں نہیں رکھ سکا مجھے معاف کر دیجئے گا۔" ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے اس نے ایک نظر سامنے دیکھا۔
سامنے سفید کتبہ تھا جس پر آرزو لکھا تھا۔
"آپ ابتہاج عالم شاہ کی ماں تھیں ہیں اور رہیں گی مگر وہ آپ کا ایک بھی رنگ نہیں لے سکا ہوسکے تو مجھے معاف کردیجیے گا۔۔"
وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اس نے اپنا دل خالی کردیا تھا۔۔
شکستہ قدموں سے چلتا وہ باہر آگیا گردن موڑ کر اس نے اندر سوئی اپنی ماں کو دیکھا۔۔
وہ ماں جس نے اسے یہاں آتے ہی ایک ہوسٹل میں داخل کروا دیا۔۔
وہ جب ملتی اسے نفرت کرنا سیکھاتی۔۔۔ آرزو کی نفرت دیکھتے بڑھا ہوا تھا۔۔
وہ ایک دماغی مریض تھی خود سے لڑتے لڑتے وہ مر گئی۔۔
لیکن ابتہاج عالم کے دل میں وہ نفرتوں کا بیج بو گئی تھی۔ لیکن شاید قسمت میں کچھ اور تھا تبھی ابتہاج عالم کو آرزو کی دوست نے سب بتا دیا شروع سے آخر تک۔۔
اور تب اسے احساس کہ سارے خسارے اسکے حصے میں آئے ہیں۔۔
بارش میں بھیگتے وہ گھر آیا اور کمرے میں بند ہوگیا۔۔
عاقب نے اسے دیکھا اس سے پہلے وہ اس تک جاتا اسکا فون بجنے لگا تھا۔
کال ریسو کی اور جو کچھ اسے سننے کا ملا۔۔
جسے سن اسکے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر گرا تھا۔۔
_______________
برقی قمقموں سے سجے اس خوبصورت ہال میں چاروں اور خوشیاں بکھری ہوئی تھیں۔
بارات کا شاندار طریقے سے استقبال کیا گیا تھا۔
ہوتا بھی کیوں نا آخر کو خاندان کی اکلوتی بیٹی کی شادی تھی۔
نکاح ہوتے ہی دولہن کو اسٹیج پر لایا گیا۔
گھونگھٹ میں چھپا وہ نازک وجود۔۔
جسے دولہا کے پاس لا کر بیٹھایا گیا تو وہ خود میں سمٹی تھی۔
کچھ ہی دیر بعد دولہا اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔
اور جب وہ واپس آیا تو اسکی آنکھیں غصے سے سرخ تھیں۔
"اپنی بدکردار پوتی کا نکاح کرتے آپ کو شرم نہیں آئی ابو بکر یوسفزئی صاحب ؟"
پھولوں کا ہار نوچ کر پھینکتے وہ غرایا تو دولہن بنی اس نے یہ الفاظ سنے تو پتھرا سی گئی تھی
"یہ کیا بکواس کر رہے ہو؟"
غصے سے چیختے اس کے بھائی نے دولہا کا گریبان پکڑا تھا
"چیخوں مت اپنی بہن سے پوچھو جس کی بدکرداری کے چرچے زبان زد عام ہیں اور ایسی بے حیا اور بدکردار لڑکی سے رشتہ تو میں مر کر بھی نہیں جوڑ سکتا۔۔"
نفرت بھری نظروں سے اسے دیکھتے اس نے زہر اگلا تو تڑپ کر دولہن بنی وہ اسکے قدموں میں گری تھی۔۔
"ایسا مت کریں خدا کے لئے مجھے طلاق مت دیں یہ داغ میرے دامن پر مت لگائیں"خوف سے اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا
"گل۔۔"اسکا بھائی تڑپا تھا۔۔
"مجھے طلاق مت دینا ورنہ میں مر جاؤں گی میں پاؤں پکڑتی ہوں"
اسکے پاؤں پکڑتے وہ رو رہی تھی
"بہت ہوگیا یہ ناٹک میں تمہیں پورے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں"
وہ تین لفظ نہیں تھے وہ اسکی موت تھی۔
پتھرائی نظروں سے اس نے اپنی کچھ لمحے پہلے بنے شوہر کو دیکھا تھا جو لمحے میں اسکی دنیا اجاڑ گیا تھا اسکے دامن پر داغ لگا گیا تھا
اس کا دل بند ہونے لگا تھا
بند ہوتے دل کے ساتھ وہ ایک طرف گری تھی۔۔
وہیں دوسری طرف اندھیرے کمرے میں سیگریٹ پھونکتے وجود نے آسمان کو تک رہا تھا جب کوئی کمرے میں آیا تھا
"مبارک ہو تمہارا بدلہ پورا ہوا مر گئی تمہارے دشمن کی بیٹی۔۔"
ان لفظوں نے اس شخص کے سینے سے دل نکال کر رکھ دیا تھا۔۔
وہ منہ کے بل گرا تھا ۔۔۔
سب ختم ہوگیا تھا سب کچھ۔۔
اسکی خوشبو اس کی چاہت وہ ایک آس اسے دیکھنے کی۔۔
ہم نے کی ایسی بے وفائی کے وہ ہم سے انہیں پکارنے کا حق بھی چھین گئے۔۔۔
وہیں دوسری طرف اسپتال کے کوریڈور میں سسکتی بنفشے یشم یوسفزئی کے سینے سے لگی ہوئی تھیں اندر ان کی بیٹی زندگی اور موت کی کشمکشِ میں تھی۔۔
کوئی کہیں جانتا تھا آخر ایسا کیا ہوا تھا جو اس شخص نے طلاق دے دی۔ وہ بنا وجہ بتائے ہی جاچکا تھا۔
"میرے نصیب کی سیاہی میری بچی تک پہنچ گئی یشم وہ مر جائے گی۔۔"
"بنفشے فضول بات مت کریں کچھ نہیں ہوگا ہماری ماہے کو سمجھ آرہی ہے نا ؟"
"یشم سب میری غلطی ہے کاش میں اسکے نکاحِ کی جلدی نا کرتی میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کو تباہ کردیا میں کیسے اس کا سامنا کروں گی وہ تو یہ نکاح کرنا ہی نہیں چاہتی تھی مگر میری ضد کے آگے اس نے سر جھکا دیا اور دیکھیں کیا ہوگیا اس کے ساتھ"
بنفشے کو کسی پل سکون نہیں مل رہا تھا۔۔
یشم کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے وہ اسے سمجھائے۔۔
طویل تکلیف دہ انتظار کے بعد ڈاکٹر نے اسکے ٹھیک ہونے کی خبر سنائی۔۔
ٹھیک ہونے کے باوجود وہ ٹھیک نہیں تھی اسکا دماغ بری طرح متاثر ہوا تھا۔
ان کی چہکتی چڑیا بالکل چپ ہوگئی تھی۔
بنفشے اور یشم اسے کراچی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔
لیکن اس نے منع کردیا وہ اکیلے رہنا چاہتی تھی اپنے امو جان اور آغا جان کے ساتھ۔۔
بنفشے خود کا اسکا قصوروار سمجھنے لگی تھی۔
"بنفشے اسے اسپیس دو۔۔ امو جان اسے سنبھال لینگی" یشم نے بہت بھاری دل کے ساتھ بنفشے کو سمجھایا تھا ۔
وہ مانی تھی یا نہیں مگر چپ ہوگئی تھی ۔
تبھی ایک رات یشم نے ماہے کو بالکونی میں کھڑے دیکھا۔
"اتنی رات کو یہاں کیوں کھڑے ہو بچے"؟ اپنی شال اپنی بیٹی کے گرد اوڑھاتے یشم نے اسکے گرد اپنا حصار باندھا ۔
"بابا آپ میری وجہ سے تکلیف میں ہیں نا؟ "
"بالکل بھی نہیں میری جان"
"بابا میں مما کا سامنا نہیں کرنا چاہتی میں نے مما کا مان ٹوڑ دیا میری وجہ سے آپ سب کا سر جھکا دیا ہو سکے تو آپ سب مجھے معاف کریں۔۔"
یشم کے آگے ہاتھ جوڑے وہ سسکی تھی۔۔
"ماہے ایسے مت کہو میرے بچے", وہ تڑپا تھا
"میں یہاں رہنا چاہتی ہوں سب سے چھپ کر بابا میں آپ لوگوں کے ساتھ واپس نہیں جانا چاہتی آپ مما کو لے کر چلے جائیں پلیز میں ان کا سامنا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ جب جب مجھے دیکھیں گی انہیں تکلیف ہوگی"
وہ اس سے درخواست کر رہی تھی۔۔
یشم کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔۔
وہ بس ایک چیز مانگ رہی تھی وہ یشم نے اسے وہ دے دی تھی۔
وہ دونوں واپس کراچی چلے گئے تھے اور ماہے۔۔
وہ یہاں اپنے امو جان اور آغا جان کے ساتھ تھی۔۔
__________
حال۔۔۔۔۔۔
"ماہے۔۔ ماہے۔۔۔ آر یو اوکے"
اپنے نام کی پکار پر اس نے آنکھیں کھولیں انجانا سا منظر تھا۔۔
دھندلی آنکھوں سے اس نے خود پر جھکے وصی کو دیکھا۔۔
نیند بھک سے اڑی تھی ایک جھٹکے سے وہ سیدھی ہوئی اس وقت وہ وصی کی گاڑی میں تھی۔
"کیا ہوا ہے؟"
اسکا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔
"تم ٹھیک ہو ماہے ؟ تم رو کیوں رہی تھیں ؟" وہ الجھا ہوا تھا ۔
کیا وہ سب خواب تھا۔۔ ہاں وہ خواب دیکھ رہی تھی ماضی کی یادیں اس پر حاوی ہوگئی تھیں۔۔
اپنے بھیگے چہرے کو صاف کرتے وہ سیدھی ہوئی اور وصی کے ہاتھ سے بوتل لے کر لبوں سے لگائی۔۔۔
"آئی ایم سوری میں شاید خواب دیکھ رہی تھی کیا ہم پہنچ گئے ؟"
"ہاں بس پہنچنے والے ہیں۔۔ انا بی کی نیند کافی گہری ہے وہ ابھی تک ایک بار پھر نہیں اٹھیں" اسکی خفت کم کرنے کو وہ بات کا موضوع ہی تبدیل کرگیا۔۔
"ہمم انا بی کی نیند واقعی بہت گہری ہوتی ہے امو جان بہت چڑتی ہیں "
ہولے سے کہتے وہ باہر دیکھنے لگی۔۔
گاڑی گاؤں کی حدود میں داخل ہو چکی تھی جلد وہ حویلی پہنچنے والے تھے گہرا سانس بھرتے اس نے خود کو ریلکس کیا۔۔
ماضی کی یادیں یونہی اسے تکلیف دیتی تھیں وہ الگ بات تھی کہ وہ ظاہر نہیں کرتی تھی اپنوں کو تکلیف دینے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔
اس نے ایک نظر وصی کو دیکھا تھا۔۔
دل ایک بار پھر دکھ سے بھر گیا تھا وہ مجبور تھی وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی اسکے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا کچھ بھی نہیں۔۔۔
____________
اسلام آباد کا موسم ایک بار پھر ابر آلود تھا۔۔
گاڑی میں سامان رکھتے ابتہاج عالم نے کوفت سے آسمان کو دیکھا۔
اب یہ بارشیں اسے اچھی نہیں لگتی تھیں۔۔ کیونکہ جس کا یہ موسم پسندیدہ تھا وہ اب اسکے ساتھ نہیں تھی۔
دل میں ہوک سے اٹھی تھی جسے دباتے وہ سارا سامان گاڑی میں رکھنے لگا۔
وہ پاکستان پہلی بار آیا تھا اسے یہاں کے راستوں کا علم نہیں تھا اس لئے گاؤں جانے کے لئے اس نے کیب بک کی تھی۔۔
گاڑی میں بیٹھتے اس نے بائیں ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھا۔
دن کے چار بج رہے تھے ۔۔
"ہم کب تک سید پور پہنچ جائیں گے؟"
"صاحب کم از کم آدھا گھنٹہ یا چالیس منٹ ورنہ اگر ٹریفک ملا تو گھنٹہ لگ سکتا ہے۔۔٫"
ڈرائیو عادت کے مطابق جلدی جلدی اسے سب بتا رہا تھا جس پر جھٹکے سے اس نے ڈرائیور کو دیکھا۔
"کیا واقعی اتنا وقت لگے گا؟"
"ہاں صاحب"
"اوکے" بارز نے اسے کہا تھا سید پور دور ہے وہ شاپنگ کرلے۔۔
اسکا دل کیا بارز سامنے آئے اور وہ رکھ کر دو اسے مارے۔۔
ماتھا مسلتے اس نے سائیڈ پر رکھے بیگ سے اپنا لیپ ٹاپ نکال لیا۔۔
اتنے وقت میں وہ اپنا مختصر سا کام تو کر ہی سکتا تھا۔۔
"صاحب آپ پہلی بار پاکستان آئے ہو کیا ؟"
"ہمم" اسکی انگلیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں ڈرائیور کے سوال پر اس نے مبہم سا جواب دیا۔۔
",تو پھر آپ باہر کے نظارے دیکھیں ہمارا پاکستان بہت خوبصورت ہے"
ڈرائیور کی بات پر اسکا ٹائپنگ کرتا ہاتھ رکا تھا۔۔
"میرا پاکستان بہت خوبصورت ہے عالم یہ مانچسٹر تو کچھ نہیں " وہ ہمیشہ اس ذکر پر اتراتی تھی۔
"اچھا ہوگا مجھے کیا"
"یا اللّٰہ کیسے بول رہے۔ وہ آپ کا بھی پاکستان ہے "
کمر پر ہاتھ رکھے وہ لڑنے کو تیار تھی۔
"مجھے صرف ایک چیز کا پتا ہے جو خوبصورت بھی ہے اور میری بھی ہے"
"اور وہ کیا؟" وہ فوراً سے متجسس ہوئی تھی ایسا کیا تھا عالم کے پاس۔۔
"ہے ایک پاگل "
"پاگل؟"اسکی آنکھیں بڑی ہوئیں۔
"ہاں اسکی آنکھیں بہت بڑی بڑی ہیں بھوری بلی جیسی اسکے گال میں ڈمپل پڑتا ہے مگر وہ بالکل پاگل ہے"
دانتوں تلے لب دباتے وہ شرارت سے کہہ رہا تھا پہلے تو وہ سمجھی نہیں جب سمجھ آیا تو اس نے گھور کر عالم کو دیکھا۔
"عالم۔۔۔", اسکا قہقہ بلند ہوا تھا۔
عالم نے خود کو مارتے اسکے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے تھاما تھا۔
"نہیں ہو تم خوبصورت اور میری ؟"
"آپ نے پاگل بھی تو بولا نا" ناک سکڑتے اس نے منہ پھلایا۔
"ہاں لیکن جیسی بھی ہو میری ہو پاگل ہو تو کیا ہوا؟"
وہ اب بھی باز نہیں آیا تھا۔۔
"صاحب ۔۔"
"ہوں", وہ بری طرح سے چونکا۔۔
ماضی کی یادیں یونہی ہر وقت ستائے رکھتی تھیں آج پانچ سال بعد بھی وہ ایک ہی مقام پر ٹہرا ہوا تھا۔۔
"صاحب آپ وہ دیکھیں مارگلہ کی پہاڑیاں ۔۔" ڈرائیور نے ایک طرف اشارہ کیا۔
اس نے گردن موڑ کر باہر نظر آتے مناظر کو دیکھا۔
وہاں اسے کچھ بھی دلچسپ نہیں لگا۔۔
وہاں سے نظریں ہٹاتے وہ واپس لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوگیا۔۔
_______
گاڑی حویلی کی حدود میں داخل ہوئی تو اسے دالان میں موجود تبسم آرا ان کی منتظر تھیں۔
"دیکھو زرا میری چھوٹی شہزادی آئی ہے"
اس کے قریب آتے انہوں نے اسے سینے سے لگایا۔۔
"کیسی ہیں دادی ؟"
"ارے میں بالکل ٹھیک تو " ان کے پرجوش سے انداز پر وہ مسکرا اٹھی۔۔
انا بھی اس کے ساتھ ہی سب سے ملی تھیں۔۔
تبسم آرا اور طاہر اشرفی ابو بکر یوسفزئی کے پڑوسی ہوا کرتے تھے۔ وقت گزرا جگہیں تبدیل ہوئیں مگر ان کی دوستی آج بھی مثالی تھی۔۔
وصی اور آنسہ ان کے پوتے تھے۔۔
طاہر اشرفی کے دو بیٹے تھے۔
قربان اور صابر۔۔
قربان اور جمیلہ اور ان کے بچے عاقب، جاوید اور زہرہ ان کے دونوں بڑے بچے شادی شدہ تھے جبکہ عاقب عرصہ سے ملک سے باہر تھا۔
جبکہ صابر اور ظل ہما کے بچے وصی اور آنسہ تھے۔
آنسہ اور عاقب کی شادی تھی جس کے سلسلے میں وہ یہاں موجود تھی۔۔
"اماں کیا ساری باتیں یہی کرینگی بچی تھکی ہوئی آئی ہے سفر سے اندر آنے دیں۔۔
ہما بیگم نے اس سے ملتے دادی بیگم کو کہا۔۔
سب کے ساتھ وہ اندر بڑھے تھے۔
"آنسہ کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی میں نے ابھی اسے تیار ہونے کے لئے بھیجا ہے"
"بس امی رستے میں ٹریفک اتنا تھا اتنا وقت تو اس میں ہی لگ جاتا ہے " جواب وصی کی جانب سے آیا تھا۔
"جاؤ بانو ماہے کو اسکا روم دیکھاؤ انا بی آپ کا کمرہ "
"ہاں ہمیشہ کی طرح ہمارا کمرہ وہی ہے جو تمہاری ساس کا ہے"
ان کا انداز ایسا تھا کہ سب نا چاہتے ہوئے بھی مسکرا دئیے تبسم آرا کی انا بی سے بڑی دوستی ذتھی اور یہ بات تو سبھی جانتے تھے۔
ان سب کو باتیں کرتے چھوڑ وہ بانو کے ساتھ اوپر اپنے کمرے میں اگئی۔۔
"آنسہ باجی نے کہا ہے آپ ان کے ساتھ ہی رہیں گی لیکن پھر بھی آپ کا یہ کمرہ ہے " بانو اسے تفصیل سے بتا رہی تھی جس پر سر ہلاتے وہ خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔
"آگئیں تم میرا دل انتظار کی سولی پر لٹکا پر میری جان", اچانک ہی کسی نے اسے پیچھے سے اپنی گرفت میں لیا۔
"ہائے میری جانو تم نے بڑا میرا صبر آزمایا"
"کیسی ہو؟"اس کے ہاتھ تھام کر اسے اپنے برابر بیٹھاتے وہ ماہے نے مسکرا کر اس سے پوچھا تھا۔
سامنے بیٹھی لڑکی وہ تھی جو اسے ان اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائی تھی۔
"ہمیشہ کی طرح حسین اور پیاری"
"وہ تو تم ہو"
"میں نے کہا تھا شادی سے ایک مہینے پہلے سے آجانا مگر تم چار ہفتوں کی جگہ چار دن پہلے آئی ہو لڑکی"
"سوری میں نہیں آ سکی۔۔"
"سوری سے کام نہیں چلے گا اس بار"
"پھر ؟" وہ لمحوں میں پریشان ہوئی تھی۔
"سزا ملے گی سزا"
"سزا۔۔۔؟"
"دیکھ میری بڑی بہن تو اپنے بچوں میں لگی رہتی ہیں اور مجھے ایک بہن کی بہت ضرورت ہے جو خوب اچھے سے میری شادی میں میرے ساتھ رہے تو تمہاری سزا یہ ہے کہ بہنوں والی ساری رسمیں تم کرو گی"
اس کی سزا بھی اسی کی طرح تھی انوکھی۔۔۔
"اوکے میں اس سزا کے لئے تیار ہوں"
"یہ ہوئی نا بات اور ایک بات اور ۔۔"
"بس آنسہ کتنی بار کہا ہے کم بولا کرو مگر نہیں بچی ابھی آئی ہے اسے آرام تو کرنے دو ۔۔",
"اٹس اوکے چچی میں آئی ہی آنسہ کے لئے ہوں اور رہی آرام کی بات ابھی پورے راستے آرام ہی کرتی آئی ہوں ۔۔"
"پھر میں کچھ کھانے کے لئے بھیجتی ہوں بس آج کا دن ہی ہے آرام کا کل سے سارے فنکشنز شروع ہو جائیں گے تو بالکل آرام کا وقت نہیں ملے گا آج شام دعوت ہم سب کو جانا ہے بارز کے گھر اس لئے ابھی آرام کرلو۔۔"
ان دونوں ہدایت دیتیں وہ باہر کی جانب بڑھ گئیں۔
"امی مجھے کہتی ہیں کہ میں زیادہ بولتی ہوں کوئی انہیں بتائے میں نے ان سے ہی یہ عادت لی ہے"
"بری بات ہے"
"چلو نا میں تمہیں اپنا سامان دیکھاتی ہوں " اسکی گھوری کو نظر انداز کرتے آنسہ اسے اپنے ساتھ لئے کمرے سے نکلی تھی۔۔
__________
"لو صاحب آگئی آپ کی منزل سید پور"
ڈرائیور نے اسے اطلاع دی جس پر اس نے سر ہلاتے اپنا لیپ ٹاپ بیگ میں ڈالا۔۔
باہر نکلتے اس نے ایک نظر سامنے کھڑی اس بلند و بالا عالیشان حویلی کو دیکھا۔۔
وہ پانچ سال کی عمر میں یہاں آیا تھا اور اب اتنے سال بعد وہ یہاں تھا۔۔
"تاج میرب بھائی"
بارز کی آواز پر اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
"فائنلی تو آگیا میرے بھائی"
وہ خوشی سے اسکے گلے لگا تھا ایسے جیسے وہ دونوں سالوں بعد مل رہے ہوں"
"ہم ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ملے تھے بارز۔۔ نہیں ؟"
"ارے تو بھائی کو گلے لگانے میں پیسہ خرچ ہوتا ہے کیا ویسے بھی تجھے یہاں دیکھ میں بتا نہیں سکتا میں کتنا خوش ہوں"
"چل جلدی سے سب اندر منتظر ہیں" اسکا سامان اٹھائے وہ خود اندر بڑھا تو عالم کو اسکے پیچھے جانا پڑا۔۔
اندر اسے دیکھ مانو ان سب کی عید ہوگئی تھی
خاص کر بی جان کی۔۔ اپنے پوتوں کے اتنے سالوں بعد اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ ان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔۔
ان کا پوتا ان کے واثق کا بیٹا ۔
اسکے سینے سے لگے وہ بس روتی رہیں۔۔
ابتہاج عالم نے بے بسی سے بارز کو دیکھا۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا ری ایکٹ کرے.
"افف بی جان آپ تو ایسے رو رہی ہیں لگتا ہے یہاں تالاب بنانے کا ارادہ ہو وہ اتنی دور سے آیا ہے زرا سانس تو لینے دیں اسے"
"تو تو چپ کر بس فضول بات کروالو "
بارز کی بات پر انہوں نے فوراً سے اسے جھڑکا۔۔
"آجا میرا بچے آجا تھک گیا ہوگا نا یہاں بیٹھ صائمہ جا میرے بچے کے لئے کمرہ کھول۔۔
اور تو کیا یہاں بیٹھی ہے جا بھائی کے لئے پانی لا" ملازمہ کو کمرہ کھولنے کا کہتی اب انہوں نے صبور کو کہا تھا ان کے بھائی کی پوتی جو کچھ عرصے سے ان کے ساتھ ہی رہتی تھی۔۔
"اپ بیٹھ جائیں میں ٹھیک ہوں" انہیں خود کے لئے مسلسل پریشان دیکھ وہ خوامخواہ ہی شرمندہ ہوا تھا۔
"بی جان اس طرح کرینگی تو وہ ایک دن میں ہی بھاگ جائے گا" بارز کی سرگوشی پر انہوں نے گھور کر اسے دیکھا جو ایسے بن گیا جیسے کچھ کہا ہی نا ہو۔۔
"بارز کیا تم مجھے میرے روم میں لے جاسکتے ہو؟"
"ہاں ہاں کیوں نہیں جا میرا بچہ آرام کر کچھ بھی چاہیے ہو بس ایک آواز لگا دینا ".
٫"جی" ہولے سے سر کو جنبش دیتے وہ بارز کے ساتھ اوپر اپنے کمرے میں آگیا۔
ایک نظر میں ہی وہ بتا سکتا تھا کہ یہاں اسکی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے شاید بارز نے انہیں سب بتایا تھا کیونکہ وہی اس سے کافی عرصے سے رابطے میں تھا اور ملنے آتا تھا۔
"بالکل ٹھیک سوچ رہے ہو میں نے سب بتایا ہے اس لئے اب تم اچھے بھائیوں کی طرح میری پوری شادی اٹینڈ کرنا باس"
وہ اسکی سوچ پڑھ کر فوراً سے بولا ت ابتہاج عالم نے نا میں سر ہلایا۔
"کیا؟"
"میں ایک دو دن سے زیادہ یہاں نہیں رہ سکتا بارز "
"کیوں میری شادی ہے عاقب کی بھی ہے"
"ہاں جانتا ہوں"
سپاٹ لہجے میں کہتا وہ بیڈ پر بیٹھ گیا تو بارز نے بغور اسے دیکھا۔
"مسٹر ابتہاج عالم اگر آپ کو یہاں کوئی ایسی لڑکی مل گئی جو آپ کو پسند آگئی تو کیا آپ رک جائنگے ؟"
"مجھے کوئی لڑکی پسند نہیں آئے گی " وہ اسکی بات پر چونکا نہیں تھا۔
"میری دعا ہے تجھے یہاں کسی سے محبت ہو جائے تاکہ تو واپس نا جائے"
بارز نے دل سے دعا کی تھی۔
"مجھے کبھی کسی سے محبت نہیں ہوگی آئی سمجھ اور اب یہ فضول ٹاپک آئندہ میرے سامنے مت لانا ورنہ میں اسی وقت یہاں سے چلا جاؤں گا"
غصے سے کہتے وہ ڈریسنگ روم میں بند ہوا تھا۔
بارز اسے اس طرح کے رویے کا عادی تھا اسے برا نہیں لگا تھا۔
جب وہ پہلی بار عالم سے ملا تھا تب وہ اس سے زیادہ روڈ تھا لیکن اپنی ڈھیٹ فطرت کی بدولت وہ اسکے قریب ہوگیا تھا۔
چار سال لگے تھے اسے ابتہاج عالم کو منانے میں۔۔
اور اب اس نے خود سے وعدہ کیا تھا چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ اسے کبھی واپس پاکستان جانے نہیں دے گا کبھی بھی نہیں۔۔
__________
اس وقت طاہر ولا میں ہر طرف ہلچل تھی۔
ان سبھی کو آج دعوت میں جانا تھا۔۔
"یہ کونسی رسم ہے آنسہ ؟" آنسہ اسکے کپڑے نکال رہی تھی اور وہ اسکے سامنے بے بس سے بیٹھی تھی یہ لڑکی اس کی ایک نہیں سنتی تھی۔
"بارز کے کزن آئے ہیں باہر ملک سے پتا نہیں کتنے سالوں بعد ۔۔ تو ان کے آنے کی خوشی میں ایک چھوٹا سا ڈنر ارینج کیا ہے ان سب نے۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس بار میں بھی انوائیٹڈ ہوں"
وہ اترائی تھی۔
اسمارہ بیگم کی شدید خواہش تھی کہ اس فیملی ڈنر میں وہ بھی شریک ہو۔۔ عاقب کو آج ہی کسی کام سے اچانک کراچی جانا پڑا تھا اس لئے وہ نہیں شریک ہو رہا تھا لیکن آنسہ کے ناجانے پر ان لوگوں کے برا مان جانے کا امکان نا ہوتا تو ظل ہما کبھی اسے لے کر نا جاتیں۔
"یار قسم سے اتنی کوئی ماڈرن ساس ہے نا میری۔۔"
"یار قسم سے ماہے کیسے عجیب کلر ہیں تمہارے پاس بلیک وائٹ گرے۔۔۔ کوئی ڈھنگ کا کلر نہیں ہے رکو میں لاتی ہوں "
اسے کہتے وہ اپنی واڈروب سے اسکے لئے گل اناری رنگ کا خوبصورت سا ڈریس لائی تھی سادہ فراک جس کی آستین پر ستاروں کی لیس لگی تھی۔
اس رنگ کو دیکھ ماہے کو وحشت ہوئی تھی لمحے میں اسکے چہرے کا رنگ متغیر ہوا۔۔
"آنسہ میں یہ نہیں پہنو گی" بمشکل آنسوؤں کو پیچھے دھکیلتے اس نے کہا تو آنسو نے اسکے وحشت زدہ چہرے پر نگاہیں ٹکائیں۔
"تم یہی ڈریس پہنو گی ماہے "
"آنسہ نہیں۔۔۔"
"مت کرو رنگوں سے نفرت ماہے مت کرو نفرت یہ پھول یہ رنگ نفرت کے قابل نہیں ہیں" اسکا ہاتھ تھامے وہ بہت نرمی سے اسے سمجھا رہی تھی۔
ماہے کو سمجھ نہیں آیا وہ کیسے اسے بتائے اس رنگ کے ساتھ کتنی بدنما یاد جڑی ہے۔۔
وہ کچھ نہیں بولی بس آنسو اسکے دل کا حال آنسہ تک پہنچا گئے تھے۔
گہرا سانس بھرتے اس نے وہ سوٹ واپس الماری میں پھینکا۔
"ٹھیک ہے مت پہنو وہ رنگ۔۔ بس تم رونا بند کرو "
"آئی ایم سوری"
اس سے معذرت کرتی وہ بھاگ کر واشروم میں بند ہوئی تھی۔
"میری دعا ہے خدا تمہارا دل آباد کردے ماہے"
آنسہ کے صدق دل سے اسکے لئے دعا کی تھی۔
کچھ دیر بعد وہ باہر آئی تو اسکی آنکھیں گلابی ہو رہی تھیں۔
یقیناً وہ روئی تھی۔
بنا کوئی سوال کئے آنسہ نے گرے اور وائٹ۔ کنٹراسٹ کا ڈریس اسے تھمایا جس کے دامن اور آستینوں پر کالے رنگ کے موتی جگمگا رہے تھے۔
"بس لائٹ لپ اسٹک لگا لو میرے لئے" آنسہ نے اتنی عاجزی سے کہا کہ وہ چاہ کر بھی اسے منع نہیں کرسکی۔۔ وہ اسکی خوشی میں شامل ہونے آئی تھی وہ اپنی نحوست کے سائے اس تک منتقل کبھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
لپ اسٹک لگائے اس نے آنسہ کو دیکھا جو اب کھل کر مسکرا رہی تھی۔
"چلو اب چلیں"چادر لیتے وہ دونوں باہر کی جانب بڑھی تھیں۔
ایک ایسی منزل کی جانب جو اسے ہلا کر رکھ دینا والی تھی۔۔
"یار میری کچھ سمجھ نہیں آرہا میں کیا کروں کیا پہنوں ؟"
بارز مضطرب سا اسکے اسکے سامنے کھڑا اپنی پریشانی اسے بتا رہا تھا جو بنا اس پر دھیان دئیے لیپ ٹاپ پر نگاہیں جمائے مصروف تھا۔۔
"مسٹر ابتہاج عالم میں آپ سے بات کر رہا ہوں"
"کچھ بھی پہن لو بارز کیا فرق پڑتا ہے"
"فرق پڑتا ہے یار فرق پڑتا ہے پہلی بار تمہاری ہونے والی بھابھی یہاں حویلی آرہی ہے اب ایسے سڑے ہوئے حلیے میں تو نہیں جا سکتا نا میں ان کے سامنے"
وہ وائٹ کلر پہن لو اچھا ہے وہ"
"پکا میں اچھا لگوں گا نا؟"
"تم نے پوچھا میں نے بتا دیا اب پہننا نا پہننا تمہاری مرضی "
"اچھا نا پہن لیتا ہوں ویسے تم کیا واقعی نیچے نہیں آؤ گے؟"
"نہیں ", دو ٹوک انداز
"یار تاج ۔۔ یہ دعوت تمہارے آنے کی خوشی میں دی گئی ہے تم نہیں آؤ گے تو اچھا نہیں لگے گا نا"اسکا انداز خوشامدی تھا۔
"آئی نو تجھے لوگوں سے زیادہ ملنا پسند نہیں لیکن بس آنا سلام کرنا اور بس ویسے بھی کونسا لیڈیز ہونگی وہاں "
"اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ تیار ہوجاؤ "
وہ مان گیا تھا۔۔ بارز کے لئے وہی بہت تھا۔۔
اسکے خوشی سے چمکتے دیکھ عالم کو خود پر غصہ آیا تھا جب وہ یہاں آ گیا تھا تو کیوں ایسے کر رہا تھا ۔۔
یا شاید اسے اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں ٹائم لگنے والا تھا۔
اس نے سوچ لیا تھا وہ سلام کے بعد اپنے روم میں آجائے گا عاقب ہوتا تو شاید وہ رک جاتا مگر اب اسکا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
مہمانوں کی آمد ہوئی تو وہ بارز کے ساتھ ہی مردان خانے میں داخل ہوا تھا۔
طاہر ولا کے سبھی مکین اس سے بہت خوش دلی سے ملے تھے۔
ان سب کے ساتھ اس نے اپنے دادا کو دیکھا تھا۔
ابرار شاہ۔۔ ان کی بارعب شخصیت سے وہ متاثر ہوا تھا یا نہیں مگر اس نے احتراماً ان کے آگے جھک کر سلام ضرور کیا تھا۔۔
انہوں نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔
اسکے بعد وہ وہاں مزید نہیں رکا تھا کچھ ہی دیر بعد وہ معذرت کرتا واپس اپنے کمرے میں آگیا۔
ایک عرصہ اس نے ان سب سے نفرت کرتے گزارا تھا اب ان سب کی اتنی محبتیں اسے شرمندہ کر رہی تھیں۔۔
بہت دیر تک وہ یونہی کمرے میں بیٹھا اپنا کام کرتا رہا۔
پانی کی طلب ہوئی تو اسنے سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ کی طرف ہاتھ بڑھایا جو خالی تھا۔۔
باہر جانے کا سوچ کر ہی وہ کوفت کا شکار ہوا تھا مگر پانی بھی پینا تھا اس لئے جگ اٹھاتے وہ باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔
________
وہ دونوں ایک کونے میں بیٹھی تھیں جبکہ ساری خواتین خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔
"یار میں تو بور ہو رہی ہوں"
پشمینہ اور صبور دونوں کچن میں تھیں ان کے جانے کے بعد آنسہ پر بوریت چھائی تھی ماہے تو ویسے بھی بولتی ہی نہیں تھی اتنا۔۔
اور یہاں وہ خود سے بول کر اپنی ماں سے ڈانٹ نہیں کھا سکتی تھی۔
"آنسہ چچی کو بولو یہاں سے چلیں اب", اسکے دل پر اچانک ہی بوجھ سا آگیا تھا۔
"کیا ہوا ہے طبعیت خراب ہو رہی ہے کیا؟ کس نے بولا تھا رونے کو"
"آپ دونوں یہاں اکیلے کیوں بور ہو رہی ہیں آجائیں ہمارے ساتھ"
اس سے پہلے ماہے کوئی جواب دیتی صبور کے بلانے پر سر ہلاتے وہ اسکے ساتھ ڈرائنگ روم سے باہر آگئے۔
باہر سے یہ حویلی جتنی شاندار تھی اندر سے اس سے کئی گنا زیادہ خوبصورت۔۔
"آپ سے مل کر مجھے بہت اچھا لگا ماہے میں نے اکثر بھابھی سے آپ کا ذکر سنا ہے" پشمینہ کی بات پر وہ ہولے سے مسکرائی اسے دیکھ کر ناجانے کیوں اس ستمگر کی یاد آئی تھی۔۔
"آپ لوگ یہاں ریلکس ہو کر بیٹھے سارے بڑے مردان خانے میں ہیں تو یہاں کوئی نہیں آئے گا"
ماہے کا ریزور انداز دیکھ صبور نے اسے ریلکس کرنا چاہا۔
"بھابی بھائی آپ کے آنے پر جتنا خوش تھے نا اب مردان خانے میں بیٹھ کر اتنا ہی اپنا دل جلا رہے ہونگے"
صبور کی بات پر جہاں وہ پشمینہ اور وہ مسکرائیں تھی وہیں آنسہ نے شرم سے سر جھکایا۔
ماہے نے پہلی بار اسکا یہ انداز دیکھا تھا۔
واقعی محبت سب کو بدل دیتی ہے۔۔
کسی کو راز آجاتی ہے اور کسی کو اسکی طرح کردیتی ہے۔۔
"ماہے آپ بہت پیاری ہیں ماشاء اللہ" صبور خود کو اسکی تعریف کرنے سے روک نہیں سکی تھی ۔
"ابھی صورت کا کیا فائدہ جب آپ کا نصیب ہی سیاہ ہو"
اسکے لفظوں میں ڈھونڈنے سے بھی تلخی بھرا تاثر نہیں ملا تھا وہ بہت عام سے انداز میں بولی تھی۔
"کیا میں کچن سے پانی لے لوں؟"
"ارے میں لا دیتی ہوں "پشمینہ فوراً سے اٹھی تھی۔
"دولہنیں آرام کریں تو اچھا ہے میں لے آؤ گی۔۔" اسے منع کرتی وہ کمرے سے نکل کر کچن کی طرف بڑھ گئئ۔۔
___________
سیڑھیاں اترتے وہ نیچے آ تو گیا تھا مگر اب سمجھ نہیں آرہا تھا پانی کے لئے کسے کہے۔۔ اس وسیع حویلی میں کچن کہاں ہوگا یہ تو اسے پتا ہی نہیں تھا۔
"تاج تو یہاں میں ابھی تیرے پاس ہی آرہا تھا"
بارز کی آواز پر اسنے پلٹ کر اسے دیکھا۔
"ہاں وہ پانی چاہیے تھا"
"اچھا وہ رہا کچن " بارز کے اشارے میں پر اس نے اس جگہ کو دیکھا۔
"پلیز تم"
"ارے یار میں کام سے آیا تھا تم جاؤ پانی کو میں آتا ہو"
اسکا ارادہ بھانپتے وہ فوراً سے رفو چکر ہوا تھا۔۔۔گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتے اس نے اپنے قدم کچن کی جانب بڑھائے تھے۔۔
اسکا ارادہ ابھی آگے کچن میں جانے کا تھا تبھی اسے لگا کچن میں کوئی ہے۔
سرمئی آنچل دیکھ اس نے اپنے قدم پیچھے لئے ۔۔
اتنا تو اسے پتا تھا کہ گھر میں مہمان خواتین ہیں۔
اندر جانے کا ارادہ ملتوی کرتے اس نے واپس قدم بڑھائے تھے۔
وہیں دوسری طرف وہ پانی پیتی ٹھٹکی تھی۔
دل تیزی سے دھڑکا یہ خوشبو۔۔
گلاس پر اسکی گرفت مضبوط ہوئی تھی۔
"نہیں ماہے "اس نے خود کو کمزور پڑنے سے روکا تھا۔
گلاس وہیں رکھتے وہ تیزی سے اندر کی جانب بڑھی تھی۔
عالم جو جاتے جاتے پلٹا تھا اچانک کوئی تیزی سے اسکے سامنے سے گزرا تھا وہ مکمل چہرہ نہیں دیکھ سکا مگر اسکے قدم پتھر ہوئے تھے۔
"ماہے۔۔ " اسکے لبوں نے بے آواز ایک نام پکارا تھا۔
وہ تیزی سے کچن میں آیا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
"نہیں یہ میرا وہم نہیں تھا میں نے اسے دیکھا کیا میں پاگل ہوگیا ہوں" وہ بری طرح مضطرب ہوا تھا۔۔
"آپ کو کچھ چاہیے تھا؟"ملازمہ کی آواز پر وہ چونکا تھا۔
"نہیں" سپاٹ لہجے میں کہتے وہ واپس اپنے کمرے میں آگیا۔
وہ مضطرب تھا عجیب سے احساس نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا تھا وہ اسے یاد کرتا تھا اسکے لئے تڑپتا تھا لیکن وہ یوں کبھی اسکے سامنے نہیں آئی لیکن آج ہاں وہ وہی تھی وہ کیسے اسے نہیں پہچانتا۔۔
"کیا میں نے واقعی ماہے کو دیکھا ؟" اس نے خود سے سوال کیا۔۔
دروازہ ناک ہونے پر وہ اس نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں صائمہ کھڑی تھی۔
"وہ بارز ادا نے آپ کے لئے پانی بھجوایا ہے"
"ہمم رکھ دو" اجازت ملتے ہی صائمہ نے جلدی سے سائیڈ ٹیبل پر پانی کا جگ رکھا۔
"سنو۔" وہ جو جلدی سے باہر کی جانب بڑھی تھی اسے رکنا پڑا۔۔
پتا نہیں کیا سوچتے عالم نے اسے پکارا۔۔
"جی ؟"
"نیچے کون کون ہے "
"جی سب ہیں" صائمہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔
"مطلب مہمانوں میں کون ہے نیچے ؟"
"جی وہ بارز بھیا کی دولہن اور ان کی امی تائی دادی۔۔۔"
"بس یا اور کوئی بھی ہے؟"
اسکا دل اپنی مرضی کا سننے کا تمنائی تھا۔
"اور ۔۔۔" صائمہ نے لمحے کو سوچا۔۔
اس لمحے کے انتظار نے اسے بے چین کیا تھا۔
"ہاں وہ دولہن کی بہن بھی ہیں بہت پیاری سی"
"کون نام کیا ہے اسکا؟"
اسکے اتنے سوالوں پر صائمہ نے اسے ایسے حیرانگی سے دیکھا۔۔
"جی نام تو ہمیں نہیں بتا"
"اوکے ٹھیک ہے جاؤ تم"
اسے جانے کا کہتے وہ خود اٹھ کر کھڑکی تک آگیا۔
"وہ ماہے کیسے ہوسکتی۔ہے؟"
"ہاں میں خود اسکی قبر پر گیا ہوں"
اسکے دل میں درد سے ٹیس سی اٹھی۔
دل کے مقام پر ہاتھ رکھتے وہ جھکا تھا۔۔
"وہ ماہے جیسی ہوسکتی ہے مگر ماہے نہیں" دماغ اسے سمجھا رہا تھا۔
"ایک بار دیکھنے میں کیا حرج ہے معجزے اسی دنیا میں ہوتے ہیں" دل نے دماغ چپ چرایا تھا۔۔
دل و دماغ کی جنگ میں اسکا دماغ جیتا تھا۔
وہ خود کو جھوٹی آس نہیں دے سکا۔۔ امید ٹوٹنے کا ڈر ایسا تھا کہ وہ آگے کچھ نہیں سوچ سکا۔۔
سر جھٹکتے اس نے اپنا سارا دھیان کام کر لگایا تھا۔
"میری ڈرائیو کہاں گئی" بیڈ پر بکھرے سامان کو الٹتے اس نے اپنی ڈرائیو ڈھونڈنی چاہی مگر وہ وہاں کہیں نہیں تھی اسے اچھے سے یاد تھا اس کے پاس اسکی وہ ڈرائیو تھی۔
اس نے اپنی جیب چیک کی مگر وہاں بھی نہیں تھا۔
"شاید باہر گر گئی ہو"
خود سے کہتے وہ اٹھا اور باہر کی جانب بڑھا تھا۔
__________
وہ اپنی ڈرائیو ڈھونڈتے نیچے آیا تو وہ اسے وہیں پلر کے پاس پڑی نظر آئی۔
اس جگہ تک آتے وہ ڈرائیو اٹھانے کے لئے جھکا ہی تھا جب کوئی اندر آیا تھا۔۔
زرا سا گردن ترچھی کر اس نے پلر کی اوٹ سے نظر آتی اس لڑکی کو دیکھا۔۔
سرمئی رنگ۔۔ وہ چونکا اور پھر زرا سا آگے ہوتے عالم نے اس لڑکی کا چہرہ دیکھنا چاہا۔۔
اسکا چہرہ جھکا ہوا تھا اور پھر اچانک اس نے اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا تھا۔۔
وہیں آنکھیں وہیں چہرہ۔۔۔
وہ منجمد ہوچکا تھا پتھر کا مجسمہ بنے وہ بس اسے دیکھ رہا تھا جو بالکل اسکے سامنے تھی۔۔
پانچ سال جس کی موت کا غم سینے سے لگائے رکھا وہ زندہ سلامت اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔
وہ آگے نہیں بڑھا تھا بس وہیں ایک جگہ کھڑے اسے دیکھتا رہا۔۔
وہ اب واپس جا رہی تھی اس نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔
وہ بدل گئی تھی بہت۔۔۔ اسکی آنکھوں میں ویرانی تھی
عالم کو لگا وہ سانس نہیں لے سکے گا۔۔
اسکا آگے بڑھتا ایک ایک قدم اسکے دل پر پڑ رہا تھا۔
بے اختیار اس نے اپنا ہاتھ دل پر رکھا تھا درد اچانک ہی بڑھنے لگا تھا گھٹن کا احساس اس قدر تھا کہ وہ سانس بھی نہیں پا رہا تھا۔۔
تکلیف حد سے بڑھ رہی تھی کہ اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل لگ رہا تھا۔
اچانک ہی وہ گھنٹوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا۔۔
اسکے چہرے کی رنگت متغیر ہوتی جا رہی تھی۔
بہت آہستہ سے اس نے آنکھیں بند کی تھیں۔
__________
"بہت اچھا لگا آپ سب آئے "اسمارہ ان سب کا شکریہ ادا کر رہی تھیں۔
"ماہے اب آتی رہنا تمہارے چاچو آنے والے ہیں کل"
عامرہ نے محبت سے اسے ساتھ لگایا۔
"جی" وہ محض اتنا ہی کہہ سکی۔۔۔
ان سب سے ملتے وہ باہر بڑھے تھے۔
"یار میرا موبائل اپنے بیگ میں رکھ لو ماہے" آنسہ نے اسے اپنا موبائل تھمایا جسے رکھنے کے لئے اس نے اپنا بیگ کھولا۔
"آنسہ میرا موبائل"
"کیا ہوا؟"
"آنسہ میرا موبائل بیگ میں نہیں ہے میں شاید اندر ہی بھول کر آگئی"
وہ فوراً سے پریشان ہوئی تھی۔
"تو جاؤ لے کر آجاؤ جلدی سے"
"میں۔۔٫"
"مما ماہے کا موبائل اندر رہ گیا ہے وہ بس لے کر آتی ہے"
ہما بیگم کو کہتے اس نے ماہے کو اشارہ۔
"ہاں جاؤ بیٹا دیکھو وہیں ہوگا" اسمارہ نے نرمی سے اسے کہا تو وہ جلدی سے اندر گئی تھی۔
اسکا موبائل کمرے میں نہیں تھا اسے یاد آیا جب وہ لوگ باہر بیٹھے تھے آبان کی کال آئی تھی اس نے تبھی موبائل نکالا تھا۔
خود کو سناتے وہ اس حصے میں گئی وہیں اسے موبائل نظر آیا۔۔
اسکی رکی سانسیں بحال ہوئی تھیں۔۔
یہ موبائل کھو جاتا تو وہ کیا کرتی۔۔
اس نے موبائل کو ایسے سینے سے لگایا تھا جیسے ناجانے کتنا قیمتی خزانہ ہو۔۔
آنسہ کی پکار پر وہ جلدی سے باہر نکلی تھی اگر وہ پلٹ کر دیکھتی تو ضرور پتھر کی ہوجاتی۔۔
ان سب سے مل کر وہ واپس گھر کی جانب بڑھے تھے۔۔
__________
"عالم میرے بھائی تو ٹھیک ہے؟"
آنکھیں کھولتے ہی بارز کی آواز پر اسکے کانوں سے ٹکرائی۔
بےتاثر نگاہوں سے اس نے آس پاس دیکھا وہ اپنے کمرے میں اپنے بستر پر تھا۔۔
"کیا ہوا تھا مجھے ؟"
"تو بے ہوش ہوگیا تھا ہم سب باہر تھے وہ تو شکر صائمہ نے تجھے دیکھ لیا "
"ہمم۔۔"
وہ کچھ بھی سوچ سمجھ نہیں پارہا تھا اسکا دماغ بالکل ماؤف ہوچکا تھا ۔
"شوگر بالکل لو تھی تیری ہم سب کی تو جان ہی نکل گئی تھی "
اسے پانی کا گلاس تھماتے بارز وہیں اسکے پاس بیٹھ گیا۔
وہ اسکے لئے فکرمند تھا۔۔
وہ سب اسکی وجہ سے پریشان ہوگئے تھے ۔۔
"میں اب ٹھیک ہوں بارز۔۔۔" اسے جواب دیتے وہ رکا تھا۔۔ سب کچھ فلیش بیک میں چلنے لگا تھا اسکا نیچے جانا اور پھر اسکا ماہے کو دیکھنا۔۔۔
ایک جھٹکے سے وہ اٹھ بیٹھا۔
"کیا ہوا ؟"
"مہمان چلے گئے بارز؟" اسکے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔۔
"ہاں کب کے"
"مجھے عاقب سے ملنا ہے بارز"
"ہاں ٹھیک ہے مل لینا ابھی آرام کرو "
"مجھے ابھی اس سے ملنا ہے بارز" تیزی سے بیڈ سے اترتے اسکا سر چکرایا تھا مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔۔
اسے عاقب سے ملنا تھا آج وہ اسکا گریبان پکڑ کر پوچھنے والا تھا ایک ایک سوال۔۔
"ابتہاج عالم تم نہیں نہیں جاؤ گے آئی سمجھ حالت دیکھی ہے اپنی جان نکال کر رکھ دی تھی ہماری اور ویسے بھی عاقب یہاں سید پور میں نہیں ہے کراچی میں ہے جب آئے گا مل لینا اس لئے بیٹھو شرافت سے یہاں"
اسے بیڈ پر بیٹھاتے بارز کا بس نہیں چل رہا تھا اسے باندھ کر رکھ دے۔۔
"کچھ ہوا ہے کیا ؟"
"کچھ نہیں ہوا ", وہ سخت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا تھا۔۔
"عاقب کل صبح آجائے گا واثق چاچو کے ساتھ۔۔"
"ہمم" اسکا اب مزید کچھ بھی سننے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔۔
اس لئے بنا مزید کچھ کہے وہ بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند گیا۔۔
بارز نے دکھ سے اسے دیکھا۔۔
ناجانے کون کون سے دکھ وہ خود میں چھپائے گھوم رہا تھا۔۔
__________
لاونج میں اس وقت عجیب سی خاموشی تھی۔
سب کی نظریں ساکت کھڑے ابتہاج عالم پر تھیں۔۔
اور اسکے سامنے کھڑا وہ شخص۔۔ ۔۔
آج اٹھائیس سال بعد اپنے بیٹے کو اپنے روبرو دیکھ رہا تھا۔
ہاں اٹھائیس سال سے وہ تڑپ رہا تھا اسکی ایک جھلک کے لئے اور آج طویل ہجر کاٹنے کے بعد آج وہ اسکے پاس تھا۔۔
"ابتہاج میرے بچے"
آنسو ٹوٹ کر واثق کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔
اس زندہ دل انسان نے سب سے زیادہ تکلیف برداشت کی تھی۔
بنا کچھ بھی کہے وہ آگے بڑھا اور واثق کے سینے سے لگا۔
ہاں یہ پہل اسے ہی کرنی تھی۔۔۔
"مجھے معاف کردینا میں نہیں کچھ بھی کرسکا۔۔۔
"اسکے سینے سے لگے واثق مسلسل رو رہا تھا۔
"آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا بابا۔۔ جس کا قصور تھا وہ اب اس دنیا میں نہیں جو ہوا ہم اسے بدل تو نہیں سکتے لیکن اگے بڑھنے کی ایک کوشش تو کر ہی سکتے ہیں نا؟"
اسکی بات پر بارز نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر ابتہاج عالم کو دیکھا تھا۔۔
کل تو وہ یہاں آنے پر پچھتا رہا تھا۔۔اور اب۔۔
"بالکل ہم اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے" عالم کا چہرہ تھامے واثق نے مسکرا کر کہا تھا۔
"بابا آپ آرام کریں اب آپ کو آرام کی ضرورت ہے"
"آرام تو تمہیں دیکھ کر رہی آگیا " اسے دیکھ دل میں سکون سا اترا تھا
"پھر بھی آپ کو آرام کرنا چاہیے بابا۔۔"
"ابتہاج بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے واثق آرام کرو پھر شادی کے فنکشنز شروع ہونے ہے آج بارز کے سسرال پہلی ڈھولکی ہے تم بیٹی کے باپ ہو شادی کر رہے ہو بیٹی ہو تمہارا ٹھیک ہونا ضروری ہے اس لئے جاؤ جا کر آرام کرو"
"بابا میں بھی جاؤں ڈھولکی پر؟" مدہم سی نسوانی آواز پر عالم نے حیرت سے واثق کے پیچھے چھپی اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا ۔۔
"پلوشے وہاں کہاں چھپی ہو بھائی سے ملو بیٹا" عامرہ کی آواز پر وہ بیگ میں اپنا چاکلیٹ کا پیکٹ چھپاتے باہر آئی۔
"اسلام وعلیکم بھیا۔۔"
اپنا نازک سا ہاتھ عالم کے آگے کرتے اس نے سلام کیا تھا۔
وہ اسکی چھوٹی بہن تھی۔
بارز نے بتایا تھا اسے مگر اس نے آخر دھیان ہی کب دیا تھا۔۔
"وعلیکم السلام"
"نائس ٹو میٹ یو برادر" وہ کھل کر مسکرائی تھی اور اسکی مسکراہٹ بالکل عالم کی طرح تھی۔
وہ سترہ اٹھارہ سال سے زیادہ کی نہیں تھی۔
"سیم ہئیر"
عالم ہولے سے مسکرایا۔۔
ان پانچ سالوں میں پہلی بار دل سے۔۔
شاید اس لئے کہ آج دل کا موسم خوش گوار تھا۔
"بابا میں عاقب سے ملنے جا رہا ہوں آپ ریسٹ کریں".
"اوکے خیال سے جاؤ بارز تم جاؤ بھائی کے ساتھ"
"اس کی ضرورت نہیں میں خود ڈرائیو کرلوں گا میرے پاس لوکیشن ہے"
انہیں کہتے وہ جلدی سے باہر آیا تھا ڈرائیور سے چابیاں لیتے وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
چہرے کے تاثرات ایک دم ہی سرد ہوئے تھے۔
"آج تمہیں میرے سارے سوالوں کے جواب دینے ہونگے عاقب"
خود سے کہتے وہ وہاں سے عاقب سے ملنے کے لئے نکلا تھا ۔۔
________
"فائنلی تو ملا مجھے" عالم کے گلے لگتے عاقب خوشدلی سے بولا۔۔
وہ دونوں اس وقت عاقب کے اسٹوڈیو میں تھے جو اس نے یہاں اپنے کام کے لئے بنوایا تھا۔
"عاقب مجھے تمہاری حویلی دیکھنے ہے کیا تم مجھے اپنی حویلی دیکھاؤ گے؟"
بغور عاقب کے چہرے کی جانب دیکھتے اس نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی تھی۔
"ہاں کیوں نہیں شادی کے بعد میں تجھے لے کر چلوں گا نا ابھی وہاں مہمان ہیں تو تو کمفرٹیبل فیل نہیں کرے گا"
ناجانے کیوں عاقب کو الجھن سی ہوئی تھی اسکی نظروں سے ۔۔
"نہیں میں ان کمفرٹیبل نہیں ہونگا چلتے ہیں نا کل میں ٹھیک سے کسی سے مل نہیں سکا اسپیشلی تیری مام اور چچی سے"
"یار کیوں نہیں مما مل کر بہت خوش ہونگی لیکن آج کیا ہے نا آنسہ کی ڈھولکی ہے تو وہ بزی ہونگی"
"ہمم ٹھیک ہے پھر آج میں یشم یوسفزئی سے ملنے ان کے گھر جا رہا ہوں"
اس نے عاقب کے سر پر دھماکہ کیا تھا۔
"کیوں تو وہاں کیوں جانا چاہتا ہے؟"
"میں نے جو کچھ کیا اس کی معافی مانگنے اور ماہے۔۔" وہ رکا تھا۔
"تعزیت بھی تو کرنی ہے نا"؟
اس کی بات پر عاقب کے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا۔
"عالم کیا ضرورت ہے وہاں جانے کی ماضی کو اب واپس سے یاد کرنا فضول ہے سب آگے بڑھ گئے ہی"
"لیکن نہیں بڑھ سکا عاقب مجھے آج بھی سب یاد ہے میں اسے جس روز یاد نہیں کروں نا مجھے سانس نہیں آتی ہے۔۔ جب تک وہ مجھے معاف نہیں کرینگی مجھے سکون نہیں آئے گا اس لئے میں اسکے ماں باپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں"
وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔
"عالم میری بات سن وہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے میرے بھائی ۔۔", عاقب ایک دم ہی اسکے سامنے آیا تھا
"کیوں؟ وجہ؟"
"وجہ؟"
"ہاں مجھے ایک وجہ دے جسے سن میں وہاں نا جاؤں کوئی تو وجہ ہوگی نا ؟"
"یار میں اس لئے منع کر رہا ہوں کیونکہ"
"کیونکہ" عالم نے اسکی بات کاٹی تھی اور قدم بڑھاتا اسکے سامنے آیا۔
اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
"کیونکہ ماہے تو زندہ ہے اور زندہ لوگوں کی تعزیت نہیں کی جاتی ہیں نا؟"
ایک ایک لفظ پر زور دیتے وہ عاقب کے سر پر دھماکہ کرگیا تھا۔
اسکے چہرے کا رنگ متغیر ہوا تھا۔
"کیوں عاقب کیوں ؟ تو دوست تھا نا میرا کیوں کیا میرے ساتھ ایسا بتا کیوں کیا؟" وہ اسکا گریبان پکڑے چیخا..
"عالم میری بات سن۔۔"
"کیا سنو عاقب کیا سنو وہ زندہ تھی اور میں اسکا ماتم کرتا رہا میں۔۔۔ میں مر رہا تھا عاقب ہر لمحہ پر وقت میرا دم گھوٹنے لگا تھا میرا دل کرتا تھا مر جاؤ میں کیوں عاقب کیوں کیا تو نے ایسا"
وہ رو رہا تھا تڑپ رہا تھا۔۔
عاقب نے دکھ سے اسے دیکھا۔
"میں تجھے مزید تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا عالم میں ۔۔۔ وہ ٹھیک نہیں تھی عالم اسے تیرا ساتھ چاہیے تھا جو تو نہیں دے سکتا تھا "
عاقب کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے ۔۔
وہ ماہے کی حالت دیکھ ڈر گیا تھا اور اسے پتا ہوتا کہ عالم نے بدلہ نہیں لینا تو وہ کبھی اتنا بڑا جھوٹ نہیں بولتا۔۔
جھوٹ بولا تھا اس نے اور پھر وہ سچ نہیں بول سکا۔۔ جھوٹی قبر بنا کر وہ اسے یقین دلا گیا تھا مگر اب سب ضائع تھا۔
"وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے نا عاقب کیا اس کی زندگی میں کوئی اور آگیا ہے؟"
انجانے خوف سے اسکا دل دھڑک رہا تھا۔
"وہ طلاق یافتہ ہے عالم۔۔۔ اسکی طلاق اسکے نکاح والے دن ہی ہوگئی تھی۔۔
"طلاق۔۔۔ نکاح۔۔"
وہ پتھر کا ہوا تھا۔
"تم جو نہیں کرسکے وہ میں کروں گی " کسی کے کہے الفاظ یاد آئے تھے۔
"عالم"
اسے جامد دیکھ عاقب نے اسے پکارا۔
"مجھے اس سے شادی کرنی ہے عاقب مجھے ماہے چاہیے ہر حال میں"
اب کے حیران ہونے کی باری عاقب کی تھی۔
"عالم"
"تو میری مدد کرے گا عاقب مجھے وہ چاہیے میری زندگی میں وہ میری ہے اسے میرے پاس ہی آنا ہے بھلے وہ ساری زندگی مجھ سے نفرت کرے مگر اسے رہنا میرے ساتھ ہے "
وہ اپنا فیصلہ کر چکا تھا اور عاقب جانتا تھا وہ اپنی بات کا کتنا پکا ہے۔۔
_______
طاہر ولا اس وقت روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔
گھر کا ایک ایک کونہ خوبصورت پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔
آج آنسہ اور عاقب کی ڈھولکی تھی۔
یشم باقی گھر والوں کے ساتھ یہاں کبھی بھی پہنچنے والے تھے۔۔
"ماہے جلدی سے تیار ہوجاؤ بیٹا"
ہما بیگم نے اسے کہا جو بیڈ پر بیٹھی ناجانے کیا سوچ رہی تھی۔
"جی میں تیار ہوتی ہوں"
ان کے جانے کے بعد وہ خاموشی سے تیار ہوئی۔
میک اپ کے نام پر لائٹ پنک لپ گلوس کے علاؤہ اس نے کچھ نہیں لگایا تھا۔
سب مہمان آ چکے تھے۔۔
ڈھولکی کا آغاز ہوا تھا۔
بارز کے گھر سے تمام خواتین شادی کا جوڑا لے کر آئی تھیں۔۔
ڈھولک کی تھاپ پر آنسہ کی دوستیں اسکی کزنز گانے گا رہی تھیں۔۔
یہ سب ایک دفعہ پہلے بھی تو ہوا تھا۔۔
"ماہے میری جان کیا ہوا؟"
بنفشے نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھاما۔
"کچھ نہیں مما"
وہ آنسہ کے لئے خوش تھی۔۔
آج کا فنکشن اپنے عروج پر تھا۔۔
ہر طرف خوشیاں بکھری ہوئی تھیں ایسے میں وہ اپنی وجہ سے کسی کا بھی موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
ہجوم سے نکلتے وہ نسبتاً ویران حصے میں آگئی جہاں اسے کوئی دیکھ نا سکے۔۔
آسمان پر جگمگاتے ستارے بھی ان اسکی توجہ اپنی جانب کرنے میں ناکام تھے۔
وہ سر جھکائے بغور اپنی خالی ہتھیلیوں کو دیکھ رہی تھی یہ جانے بغیر کے کوئی ہے جو بڑی فرصت سے اسے دیکھ رہا ہے بنا پلک جھپکے۔۔
"ماہے یہاں کیوں بیٹھی ہو؟"
وصی کی آواز پر وہ چونکی اور اسے دیکھا۔
"کچھ نہیں بس اندر گھبراہٹ ہو رہی تھی تو یہاں کھلی فضا میں آگئی۔۔
"عاقب سے ملی تم ؟"
اس کے پوچھنے پر اس نے ہاں میں سر ہلایا۔۔
حیران کن بات تھی لیکن وہ عاقب کو پہچانی نہیں تھی۔
شاید اس نے عاقب کو عالم کے قریب دیکھا ہی نہیں تھا۔۔
"یہاں اکیلی مت بیٹھو وہاں آجاؤ سب کے ساتھ بیٹھو گی تو دل لگے گا"
وہ اسکے لئے فکرمند تھا اب وہ اسے کیا بتاتی کہ یہ دل ہی تو نہیں لگانا چاہتی ہو۔۔
"وصی میں تھوڑی دیر بعد آؤ ؟ مجھے شور اچھا نہیں لگ رہا"
اس کی بات پر سر ہلاتے وہ وہیں اسکے برابر آکر بیٹھ گیا۔
"کیا ہوا تم نہیں جارہے اندر؟"
"نہیں میں یہاں بیٹھ کر تمہیں کمپنی دونگا جانتا ہوں تمہیں ضرورت نہیں لیکن مجھے اچھا لگے گا"
اسے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتے دیکھ وہ فوراً سے کہہ اٹھا۔
"ماہے خوش رہا کرو زندگی ناجانے کتنی ہے ایسے بے رنگ زندگی گزار کر کیا فائدہ؟"
وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔
"وصی میری زندگی میں کوئی رنگ نہیں ہے اور نا مجھے رنگوں کی ضرورت ہے جن کے دل مر چکے ہوں ان پر کوئی رنگ نہیں جچتا۔۔ "
وصی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ بہت سکون سے بولی تھی جیسے اسے اپنا فیصلہ بتانا چاہتی ہو۔۔
"میں منتظر ہوں ماہے کب یہ خزاں کا موسم اترے گا اور تمہاری زندگی میں بہار آئے گی"
"وصی پلیز "
وہ ایک دم سے اسے ٹوک گئی۔۔
"اوکے ٹھیک ہے نہیں بولتا کچھ لیکن اب یہاں سے بھگانا مت "
منہ پر انگلی رکھتے وہ آسمان کو دیکھنے لگا۔
ماہے نے اس انسان کو دیکھا جو اسکی زندگی میں رنگ بھرنا چاہتا تھا۔
_________
"کیا ہوگیا ہے عالم ایسے کیوں اوپر لایا ہے"
عالم اسے زبردستی نیچے سے اوپر لایا تھا۔
"وہ دیکھو تمہارا بھائی وہ کیوں وہاں ماہے کے ساتھ بیٹھا ہے اسے کہو وہاں سے ہٹے"
اسکے بے چین انداز پر عاقب نے تعجب بھرے انداز میں اسے دیکھا۔
"مسٹر ابتہاج عالم"
"ہاں میں مانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا ہے میں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں لیکن عاقب میں اسکے گرد کسی کو برداشت نہیں کرونگا ۔۔"
"ایسا کچھ نہیں جیسا تو سوچ رہا ہے"
"ایسا کبھی ہوگا بھی نہیں بے فکر رہ۔۔ میں ایسا کچھ ہونے ہی نہیں دونگا "
"کیوں کیا کرنے والا ہے تو؟"
عاقب نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"وہ جس کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا"
"عالم تو ماہے کے سامنے نہیں جائے گا وہ پینک کرے گی"
"تو اسے مجھ سے زیادہ جانتا ہے عاقب ؟"
"نہیں لیکن"
"اپنے بھائی کو بول اس سے دور رہے ورنہ اچھا نہیں ہوگا کیونکہ ماہے صرف عالم کی ہے"
وہ مسکرایا تھا وہی دلفریب سی مسکراہٹ جسے عاقب نے پچھلے پانچ سالوں سے نہیں دیکھا تھا۔
_________
ڈھولکی رات گئے ختم ہوئی تھی لیکن وہ جلد سے وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آگئی تھی۔
نیند تو کیا ہی آنی تھی عجیب سی بے چینی نے اسے گھیرے رکھا تھا۔
کل ان سب کو نکاح کے لیے بڑی حویلی حویلی جانا تھا ساتھ ہی مہندی کی رسم بھی تھی۔۔
اس نے ایک نظر برابر سوئی آنسہ کو دیکھا۔
اسے دیکھ ماہے کو اپنا آپ یاد آتا تھا وہ بھی تو ایسی ہی تھی نا بے فکر آزاد من موجی زندگی جینے والی اور پھر ایسی ٹھوکر لگی کہ وہ اٹھ ہی نہیں سکی۔۔
اگلا دن طلوع پوری شان سے طلوع ہوا تھا۔۔
آج عاقب کا نکاح تھا ۔۔
تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔
شام ہوتے ہی سب تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔
آنسہ آج یہی گھر میں رہنے والی تھی اس لئے اس نے بھی سوچ لیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہی گھر یہاں رکے گی۔۔
مگر آنسہ کی ضد تھی کہ وہ جائے اور اسکے لئے پکس لے کر آئے۔۔
اسکی ضد پر ماہے اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکی۔۔
اسے اب رہ رہ کر یہاں آنے پر پچھتاوا ہو رہا تھا لوگوں کے درمیان خوامخواہ ہی اپنا آپ عجیب سا لگ رہا تھا اسے۔۔
مقررہ وقت پر وہ سب نکاح کے لئے نکلے تھے۔۔
امو جان آنسہ کے پاس رکی تھیں۔۔
ان سب کے جاتے ہی آنسہ نے ایک میسج سینڈ کیا تھا۔
اور فوراً ہی اسے جواب موصول ہوا تھا۔۔
"تھینک یو"
"دوست کے لئے کچھ بھی"
___________
وہ سب اس وقت پشمینہ کے پاس موجود تھے۔
نکاح کی رسم ادا ہو چکی تھی۔
اور مہندی کی رسم شروع ہوئی تھی۔۔
ایک کونے میں بیٹھے وہ سب کو دیکھ رہی تھی۔
بنفشے اسٹیج پر رسم کر رہی تھیں۔
اس کی وجہ سے اسکی ماں کے چہرے کی رونق بھی ماند پڑ گئی تھی۔۔
"ماہے اپیا کیا آپ اندر سے مٹھائی والا تھال لا دینگی میں یہاں مصروف ہوں کچن کا تو آپ کو پتا ہی ہے نا ٫"
صبور نے اتنی عاجزی سے درخواست کی تھی کہ وہ منع نہیں کرسکی۔۔
سر ہلاتے وہ اندر بڑھی۔
اندر آتے اس نے کچن میں قدم ہی رکھا تھا جب اچانک پورا گھر اندھیروں میں ڈوبا تھا۔۔
"صبور۔۔۔ آنٹی۔۔۔۔ "
خوف سے اس نے ان دونوں کو پکارا تھا جب اسے لگا کوئی اندر آیا ہے ۔
"صبور کیا تم ہو؟"
آہستہ سے قدم آگے بڑھاتے اس نے صبور کو پکارا تھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
"کیا یہاں کوئی ہے؟"
مردانہ آواز پر ایک جھٹکے سے وہ مڑی تھی۔
وہ جو کوئی بھی تھا اس سے چند قدم کی دوری پر کھڑا اب کینڈل جلا رہا تھا
کینڈل جلاتے وہ مڑا تھا دونوں کے درمیان چند قدموں کا فاصلہ ایک قدم رہ گیا تھا۔
ماہے نے سر اٹھا کر اس شخص کو دیکھا تھا
اور پھر۔۔
ہر چیز جیسے ساکت ہوئی تھی۔
وہ دونوں پانچ سال بعد ایک بار پھر آمنے سامنے تھے۔۔
ایک کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی تو دوسرے کی آنکھوں میں بے یقینی۔۔
گھر کی تمام لائٹس روشن ہو چکی تھیں۔
"ماہے"
اس نے زیر لب اسکا نام پکارا۔۔
کیا یہ خواب تھا ۔۔ ہاں وہ یہ خواب ناجانے کتنی بار دیکھ چکی تھی ۔
موم اسکے ہاتھ پر گری تھی۔
تکلیف دہ تاثرات عالم کے چہرے پر آئے۔
"ماہے کچھ کہو گی نہیں؟"
وہ خواب نہیں تھا وہ حقیقت تھا۔۔
وہ اسکا نام پکار رہا تھا اسے کچھ کہہ رہا تھا مگر وہ جو پتھر ہو چکی تھی ایکدم سے ہوش میں آتے اس نے اپنے قدم پیچھے لئے تھے۔۔
نفی میں سر ہلاتے وہ تیزی سے وہاں سے بھاگی تھی۔۔
جسے بھولنے لگے تھے وہ
یوں آگیا سامنے ایسے کہ
ہم اگلی سانس بھی نا لے سکے۔۔
"مما مجھے گھر جانا ہے"
وہ وہاں سے سیدھا بنفشے کے پاس آئی تھی۔
"ماہے کیا ہوا ہے بیٹا؟"
"مما پلیز میری طبعیت عجیب سی ہو رہی ہے "
اس سے بولا نہیں جا رہا تھا دل کر رہا تھا بس روئے اور روتی رہے۔۔
"اچھا ٹھیک ہے میں تمہارے بابا کو بولتی ہوں"
"نہیں آپ بس ڈرائیور بابا کو بول دیں میں خود چلی جاؤں گی وہاں آنسہ بھی تو اکیلی ہے نا"
خود پر قابو پانے کی کوشش میں وہ ہلکان ہو رہی تھی۔
"اچھا ٹھیک ہے"
بنفشے جانتی تھیں وہ ہجوم میں۔ گھبرا جاتی ہے اس لئے ڈرائیور کے ساتھ اسے واپس گھر بھیج دیا۔۔۔
گھر واپس آتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں آئی دروازہ لاک کرتے وہ بیڈ پر گری تھی۔
کب سے رکے آنسو ایک ایک کر عارض پر بہنے لگے تھے۔۔
زندگی کیوں اس کے ساتھ ایسے کھیل کھیل رہی تھی اسے اتنی بڑی سزا ملی تھی محبت کرنے کی وہ جب سب بھول جانے کی خواہش کر رہی تھی آگے بڑھنا چاہ رہی تھی وہ محبت ایک بار پھر اسکے سامنے آگئی۔
آج پانچ سال بعد اس ستمگر کو سامنے دیکھ اسکا دل بالکل ویسے ہی دھڑکا تھا جیسے پہلی بار اسے دیکھ کر دھڑکا تھا۔
اس نے جب محبت کی تھی تو نفرت نام کے لفظ کو زندگی سے نکال دیا تھا اور آج اسے احساس ہوا کہ اس نے غلط کیا تھا۔۔
وہ چاہ کر بھی عالم سے نفرت نہیں کر سکی تھی اسکے کہے ایک ایک لفظ اسے آج بھی یاد تھے لیکن پھر بھی وہ اسے کبھی برا کہہ ہی نہیں سکی۔۔
وجہ۔۔۔ وجہ سمجھنے سے وہ قاصر تھی۔۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے یہاں سے واپس گھر جائے۔۔
وہ اس شخص اس گھر میں تھا آخر کیوں کس حیثیت سے۔۔۔"
انہیں سوچوں میں گم وہ بس روئے جارہی تھی۔
آنسہ کی آواز پر ماہے نے پھرتی سے اپنا چہرہ صاف کیا۔
"لڑکی آگئی اور مجھے بتایا بھی نہیں ابھی آنٹی کی کال آئی تو میں تمہیں دیکھنے آئی ہوں"
"سوری میں بس تھک گئی تھی اور مجھے لگا تم سو گئی ہو"
"نہیں یار میں نے کہاں سے سونا ۔۔۔ خیر طبعیت ٹھیک ہے اب؟"
"ہاں اب ٹھیک ہے تم"
"ماہے کچھ پریشان لگ رہی ہو؟"اسکے پاس بیٹھتے آنسہ نے اسکے چہرے پر جیسے کچھ کھوجنا چاہا۔
"نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے"
"اچھا ایک بات بتاؤ تم عالم سے ملیں"؟
عالم کا نام آنسہ کے منہ سے سن اسے ایک اور جھٹکا لگا تھا۔۔
"عالم؟".
"ہاں عالم بارز کے بیسٹ فرینڈ ابھی شادی کے لئے باہر ملک سے آئے ہیں"
"وہ بارز کے فرینڈ ہیں؟"
"ہاں تو اور کیا بارز شادی اٹینڈ کرکے وہ واپس چلے جائیں گے ".
"ہمم٫"
وہ اس حویلی کا حصہ نہیں تھا یہ جان کر کہیں نا کہیں اسکے سکون ملا تھا۔۔۔۔
"تم نے دیکھا تھا انہیں ؟"
"نہیں"
وہ صاف انکار کرگئی تھی۔۔
اسے پلٹ کر نہیں دیکھنا وہ سوچ چکی تھی اور یہ سوچ ہی اسے مطمئن کرنے کے لئے کافی تھی۔۔۔
__________
اگلا دن ایک بار پھر حویلی میں رونقیں سمیٹے ہوئے تھا۔
ایک آنسہ کا نکاح اور مہندی کی رسم تھی ۔
مہمان سارے آ چکے تھے۔
وہ بھی لائٹ گرین فراک پہنے سب کے ساتھ بیٹھی تھی۔
سب کے درمیان میں بھی وہ سب سے الگ تھی۔
کندھے تک آتے بالوں کو اسریٹ کر کھلا چھوڑا ہوا تھا۔۔
میک اپ کے نام پر لپ گلوس لگائے وہ سادگی میں بھی ناجانے کتنے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکی تھی۔۔
کئی عورتیں اسکے بارے میں بنفشے سے بات کر چکی تھیں ۔۔
سب کی نظریں خود پر محسوس کر وہ الجھن کا شکار ہوئی تھی۔
نظروں کی تپش خود پر پڑتے محسوس کر اس نے زرا سا سر اٹھا کر سامنے دیکھا اور دیکھتی رہ گئی۔۔
بالکل سامنے عاقب کے ساتھ بیٹھا وہ عالم تھا جس کی نظریں ماہے کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔
ماہے کے دیکھنے کے باوجود اس نے نگاہیں نہین ہٹائی بلکہ ڈھیٹ بنا اسے دیکھتا رہا۔۔
"مما میں آتی ہوں"
بنفشے کو کہتے وہ فوراً سے وہاں سے ہٹی تھی۔۔
آنسہ کا نکاح ہوچکا تھا وہ اسکے پاس اس وقت نہیں جا سکتی تھی اور یہ شخص۔۔ ناجانے کیوں اسے دیکھ رہا تھا جب نفرت سے دھتکار دیا تھا تو اب کیا جواز بنتا تھا اسکا یہاں آنے کا۔۔
غصے سے کھولتے وہ اپنے کمرے میں آگئی۔
"نہیں ماہے کمزور نہیں پڑنا ہے ایک بار بیوقوف بن چکی ہے بار بار نہیں "
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ دروازہ کھلا ہے اور کوئی اندر کمرے میں آیا ہے۔۔
"تھک جاؤ گی ماہے بیٹھ جاؤ".وہ جو خود میں مگن تھی آواز پر بری طرح چونک کر مڑی۔
سامنے ہی وہ بیڈ پر سکون سے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔
"آپ۔۔ آپ کیوں آئے ہیں یہاں نکلیں اس روم سے"
"بال کیوں کٹوائے ؟ میں مر گیا تھا اس لئے ؟"
اسکے چہرے کے تاثرات عجیب سے تھے۔۔
"ایک بدکردار لڑکی کے پاس کیا کرنے آئے ہیں کیا چاہتے ہیں مسٹر عالم آپ ؟" وہ چیخی نہیں تھی اس ڈر تھا۔
اسکے لفظوں پر عالم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا تھا۔
"ماہے نور" وہ ایک ایک قدم اٹھاتا اس کے قریب ہوا تھا وہ بے اختیار پیچھے ہوئی مگر وہ رکا نہیں تھا۔
اسکے بڑھتے قدموں کے ساتھ وہ بھی مسلسل پیچھے ہوتی رکی تھی۔
اسکی پشت دیوار سے لگی مزید پیچھے ہونے کا راستہ نہیں تھا۔۔
"سادگی میں اچھی لگتی ہو لیکن مجھے رنگوں سے محبت کرنے والی ماہے زیادہ پسند ہے۔۔ "
اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ بہت دھیمے سے بولا تھا۔
"جائیں یہاں سے مجھے آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنی" بمشکل اپنے دھڑکتے دل کو سنبھالے اپنے آنسوؤں پر بند باندھے وہ گویا ہوئی تو وہ مسکرایا تھا۔
"جتنی نفرت کرنی ہے کرنا میں رکوں گا نہیں لیکن یہ شکل تو تمہیں اب روز دیکھنی پڑے گی اور یہ جو سونا روپ ہے نا یہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا تمہارا ہر سنگھار اب سے میرے لئے ہوگا "سرد لہجہ۔۔ اس نے سختی سے آنکھیں میچی تھیں۔۔
"پیچھے ہوں آپ کو سمجھ نہیں آرہی ہے کیوں آئے ہیں آپ یہاں کس حق سے آپ مجھ سے یہ بس باتیں کر رہے ہیں ہاں۔۔ چھوڑ دیا تھا نا آپ تو کیا اب میرا مذاق بنانے آئے ہیں دیکھ لیں کیسی ہے ماہے نور کیا ہوگئی ہے۔"
اسکے سینے پر ہاتھ رکھ اسے پیچھے دھکیلتے وہ چلائی تھی۔۔
عالم نے بہت سکون سے اسے دیکھا تھا اسے اس وقت کچھ برا نہیں لگ رہا تھا۔۔
وہ یہی تو چاہتا تھا وہ چپ نا رہے کچھ دل میں نا رکھے سب کہہ دے اسے سنائے چیخے بس دل کا غبار باہر نکال دے۔۔۔
"باہر آجاؤ اور ہاں تیار رہنا تمہیں اپنے ساتھ لے کر ہی جاؤں گا اپنی مسزز بنا کر"
اسے سر تا پیر دیکھتے وہ اپنی بات کہتا وہاں رکا نہیں تھا۔۔
"میں کبھی یہ نہیں ہونے دونگی آئی سمجھ" وہ غصے سے چلائی تھی۔۔
ان پانچ سالوں میں پہلی بار۔۔۔ وہ اپنا غصہ ظاہر کر رہی تھی۔۔
غصے کی زیادتی سے اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔
بہت مشکل سے خود پر ضبط کرتے وہ نیچے آئی تھی باقی کا فنکشن اس نے خون کے گھونٹ پیتے گزرا تھا۔
خود پر پڑتی عالم کی نظروں نے اسے پورے ٹائم مضطرب رکھا تھا۔
جنہیں نظر انداز کرتے وہ آنسہ کے ساتھ مصروف ہوگئی۔۔
___________
آنے والے دن اس کی زندگی کے سب سے مشکل دن تھے۔
عالم کی موجودگی اسے ان کمفرٹیبل کر رہی تھی اور وہ ڈھیٹ انسان بالکل باز نہیں آرہا تھا۔
اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی ۔
اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا وہ ماہے سے شادی کرے گا۔۔
اسے اب ڈر لگنے لگا تھا کہیں وہ کچھ الٹا سیدھا نا کردے۔۔
اللّٰہ اللّٰہ کر کے شادی ختم ہوئی تھی۔
ولیمہ ہوتے ہی وہ فوراً سے یشم اور آغا جان کے ساتھ صبح صبح ہی گھر آگئی تھی۔
امو جان اور بنفشے نے شام میں آنا تھا۔
اپنے گھر آکر اس نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
فریش ہو کر وہ باہر آئی تو اسکا موبائل رنگ ہوا تھا۔۔
ان نان نمبر سے میسج تھا اس نے جیسے ہی میسج اوپن کیا اسکے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا۔۔
"مجھ سے بھاگ کر کہاں جانا ہے ماہے ؟ سارے راستے مجھ تک آتے ہیں تمہارے جلد تمہارے بابا سے بات کرنے والا ہوں میں اور ایک بات یاد رکھنا انکار کی بعد بھی تمہیں میرا ہی ہونا ہے"
میسج پڑھ کر اس نے موبائل کو ایسے پھینکا تھا جیسے وہ سچ میں موبائل سے باہر نکل کر آ جائے گا۔۔
یہ شخص اب اس کے دل ودماغ پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا تھا۔
"کچھ بھی ہو جائے مسٹر عالم میں کبھی آپ سے شادی نہیں کروں گی".
اس نے خود سے کہا تھا۔
اسے عالم پر یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی نا اسکی زندگی میں عالم کی کوئی جگہ ہے۔۔
انسان کی فطرت کا یہ بڑا دلچسپ پہلو ہوتا ہے کہ اگر وہ محبت کرتا ہے تو شدید اور نفرت کرتا ہے تو وہ بھی شدت سے کرتا ہے۔۔
لیکن یہاں اسکے معاملے میں ناجانے کیا ہوا تھا کہ وہ اس قدر شدت سے محبت کر بیٹھی تھی کہ اب چاہ کر بھی وہ اس شخص سے نفرت نہیں کر پا رہی تھی۔۔ یا شاید اسکے دل میں سوائے محبت کے کوئی اور جذبہ کبھی آیا ہی نہیں تھا۔
اپنی سوچوں سے الجھتے وہ دروازہ نوک ہونے کی آواز پر چونکی۔۔
سامنے بنفشے اور یشم کھڑے تھے۔۔
"بات ہو سکتی ہے ماہے؟"
"مما بابا آئیں نا پلیز"
وہ فوراً سے اٹھ کھڑی ہوئئ۔۔
"ہمیں ایک ضروری بات کرنی تھی ماہے"
ناجانے کیوں اسے یشم کشمکشِ کا شکار لگے۔۔
"بابا آپ کہیں نا کیا بات ہے؟"
"بچے میں نہیں چاہتا میری اس بات سے تم یہ سوچو کہ تم اب اپنے بابا پر بوجھ بن گئی میری گڑیا کبھی اپنے بابا پر بوجھ نہیں بن سکتی"
ان کی باتیں۔۔ اس عالم کا میسج یاد آیا کیا وہ اسکے بابا سے بات کرچکا تھا۔۔
"بابا "
"تمہارے لئے دو پروپوزل ہیں "
"آپ چاہتے ہیں مما بابا کہ میں شادی کرلوں؟"
"ہم بس تمہیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں میری جان"
"دو لوگوں نے ہم سے تمہیں مانگا ہے اور وہ دونوں ہی لوگ ہمیں بے حد عزیز ہیں لیکن فیصلہ تمہارا ہے کوئی زبردستی نہیں ہے۔۔"
وہ اب اسکے سامنے وہ دو رشتے رکھ کر اپنی بات کر رہے تھے۔
اس نے ایک لمحے ان دونوں کو دیکھا۔
اسکے ماں باپ اسکے کئے متفکر تھے اس نے سوچ لیا تھا اسے کیا کرنا ہے۔۔
وہ آگے بڑھنا چاہتی تھی اسے عالم پر یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ اسکے بغیر بھی ٹھیک ہے۔
"میں راضی ہوں بابا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں جس سے چاہے میری شادی کردیں"
اسکے فیصلے سے ان دونوں کو جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی تھی ۔
بنفشے نے فوراً سے اسکا ماتھا چوما تھا۔۔
"اللّٰہ تمہیں اس دنیا کی ساری خوشیاں دے آمین"
ان پانچ سالوں میں اس نے پہلی بار اپنے ماں باپ کے چہرے پر وہی خوشی دیکھی تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی اسے دکھ ہوا تھا کہ اسکی وجہ سے سب کی خوشیاں چھین گئی۔۔
"بس فیصلہ ہوگیا شادی کراچی میں ہوگی میں ابھی جا کر سب کو خوشخبری سناتی ہوں" بنفشے پرجوش سی سب کو بتانے گئی تھیں وہیں بنفشے کی جلد بازی پر یشم ہنسا تھا۔۔
ایک فیصلہ اس نے خود کیا تھا اور برباد ہوئی تھی اور ایک فیصلہ وہ اپنے ماں باپ کا ماننا چاہتی تھی۔۔
انہیں خوش دیکھ وہ آسودگی سے مسکرا دی۔۔
___________
"یار یہ کیا بات ہوتی ہے بھائی"
عالم کو سامان پیک کرتے دیکھ بارز چڑا تھا۔۔
"ضروری کام نہیں ہوتا تو یوں واپس نہیں جاتا "یہاں رہ کر بھی کام ہوسکتا ہے نا اور تم نے کہا تھا تم واپس نہیں جاؤ گے"
بارز کو رہ رہ کر غصہ آرہا تھا۔
"میں جلد واپس آجاؤ گا بارز "
"بات یہ نہیں ہے کہ تم واپس آجاؤ گے بات یہ ہے کہ آخر تم اپنا کام کسی اور سے بھی تو کروا سکتے ہو نا"
٫"اگر ایسا ہوتا تو میں کبھی نہیں جاتا میں وعدہ کر رہا ہوں میں واپس آؤ گا مجھے واپس آنا ہی ہے " وہ بارز کا ڈر سمجھ رہا تھا اس لئے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے اس نے بارز پر بہت کچھ واضح کیا تھا۔۔
"میں انتظار کروں گا کہ تم جلدی واپس آجاؤ"
عالم نے اسے دیکھا جو ہمیشہ اسکی خوشیوں کے لئے کوشش کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا تھا۔
بے اختیار ہی عالم نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا تھا۔۔
"اپنا خیال رکھنا بھائی اور جلدی واپس آجانا"
"ہمم جلد آؤ گا"
بارز سے مل وہ نیچے آیا تھا سب اسکے منتظر تھے۔۔
سب سے ملتا وہ واثق کے ساتھ باہر تک آیا۔
"میں انتظار کروں گا تمہارا میرے بیٹے"
"میں جلد آؤ گا بابا جانے کا دل نہیں لیکن کچھ کام نمٹانے ہیں میں کل پر اب کچھ بھی نہیں چھوڑ سکتا"
اسکی بات پر واثق نے سمجھ کر سر ہلایا..
گاڑی آ چکی تھی۔
واثق سے ملتے وہ گاڑی میں بیٹھا تھا۔
وہ واپس جارہا تھا کچھ وقت کے لئے یہ جانے بغیر کہ اسکی غیر موجودگی میں کیا ہونے والا تھا۔۔جہاز پرواز کر چکا تھا۔
ونڈو سے اس نے نظر آتے اسلام آباد کو دیکھا۔
"میں جلد واپس آؤ گا تمہیں اپنا بنانے کے لئے"
اس نے جیسے خود سے وعدہ کیا تھا۔۔
وہیں دوسری طرف سر پر دوپٹہ جمائے وہ ان لوگوں کے درمیان بیٹھی تھی ۔۔
اسکے پہلو میں اسکی ماں اور اسکی ہونے والی ساس بیٹھی تھیں۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور پھر اسکی ساس نے ایک اجنبی کے نام کی انگوٹھی اسکی انگلی میں پہنائی تھی۔
آنسو روکنے کی سعی کرتی اس نے اپنا سر جھکایا تھا۔۔
محبت ہار گئی تھی۔۔۔ اس نے اپنی محبت کو آج ہارنے دیا تھا۔۔
کہانی ختم ہونے والی تھی یا شروع اسے اندازہ نہیں تھا۔۔
---- **-*********
گاڑی سے اترتے اس نے سامنے اس گھر کو دیکھا تھا۔۔
ناجانے کتنے سالوں بعد وہ یہاں واپس آئی تھی۔
اسکے نانا نانی یہی کراچی میں تو رہتے تھے جن سے اسے بے انتہا محبت تھی۔
ان دونوں کے چلے جانے کے بعد وہ کبھی کراچی نہین تھی لیکن آج وہ یہاں آئی تھی۔
اپنی نئی زندگی کی شروعات کرنے۔۔
آج شام اسے سادگی سے مایوں بیٹھنا تھا اور پھر کل نکاح کے ساتھ ہی رخصتی۔۔
سب بڑے یہاں موجود تھے۔
عائشہ بھی آج کسی بھی وقت یہاں آنے والی تھیں۔
آبان کل ہی واپس آیا تھا۔
گھر میں شام کے لئے تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔
اسکی خواہش ک مطابق ہر چیز بہت سادگی سے کی جا رہی تھی۔۔
سید پور سے سارے مہمان آ چکے تھے۔۔
آنسہ اسکے ساتھ ہی تھی۔
اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے پلک جھپکتے ہی سب بدل رہا ہو۔
بہت مختصر سی تقریب میں اسے مایوں بیٹھایا گیا تھا۔۔
مایوں کا پہلا جوڑا پہنے وہ سوگوار سی کھڑکی سے نظر آتے چاند کو تک رہی تھی جتنا خوبصورت تھا اتنا ہی پہنچ سے دور۔۔۔
اس نے چوڑیوں سے سجی کلائی کو ایک نظر دیکھا تھا
"تمہارا ہر سنگھار اب سے میرے لئے ہوگا "سرد لہجہ۔۔ اس نے سختی سے آنکھیں میچی تھیں۔۔
وہ اس کے آس پاس نا ہو کر بھی اس پر حاوی تھا۔۔
اگر اسے پتا چل جاتا کہ وہ شادی کر رہی ہے۔۔ اس سوچ نے ہی اسے ڈھا دیا تھا۔
وہ جو اس پر کسی دوسرے کی نظریں برداشت نہیں کرتا تھا اسکے اتنے بڑے قدم کا سنتے ہی پاگل ہو جائے گا۔۔
تھک کر اس نے کھڑکی سے سر ٹکایا تھا۔
دوسری طرف وہ غصے سے کھولتا پہلی فلائٹ سے کراچی کے لئے نکلا تھا۔
"لٹل پرنسس اب تمہیں میری دسترس میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا" مٹھیاں بھینچے وہ اسکے عکس سے مخاطب تھا۔۔
____________
"ماشااللہ" آنسہ نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔
پشمینہ آنسہ دونوں اسے تیار کرنے آئی تھیں۔۔
وائٹ گولڈ کے خوبصورت فراک پہنے وہ ہلکے میک اپ کے ساتھ بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی۔۔
"پریشان ہو ماہے ؟"
اسکا ہاتھ تھامے آنسہ نے بہت نرمی سے پوچھا تھا۔
"نہیں "
"آنسہ میں نکاح سے پہلے ایک بار وصی سے بات کرنا چاہتی ہوں"
"ماہے"
"آنسہ میں ایک نیا رشتہ شروع کرنے جا رہی ہوں اور اس سے پہلے میرا وصی سے بات کرنا ضروری ہے کیا تم میری مدد کرو گی؟"
وہ ایک آس سے اسے پوچھ رہی تھی آنسہ اسے منع نہیں کر سکی۔۔
"ٹھیک ہے میں بھائی کو بلاتی ہوں "
اسے تسلی دیتے وہ باہر بڑھی تھی۔۔
وصی سے اس کی بات ہوئی تھی وہ مطمئن تھی اپنے فیصلے پر ۔۔
وصی کے جانے کے بعد ہی کوئی کمرے میں داخل ہوا تھا۔
"ماشااللہ ماہے بہت پیاری لگ رہیں دولہن بن کر ؟"
میرب کی آواز پر ماہے نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
"میرب ؟"
"حیران مت ہو مجھے تو آنا ہی تھا آخر کو میری بیسٹ فرینڈ کی شادی ہے"
اسکے پاس بیٹھتے میرب نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔
"کیسی ہو؟"
"میں تو ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیسی ہو میں نے سوچا نہیں تھا تم دوبارہ شادی کا فیصلہ کرو گی"
"یہ فیصلہ بابا کا ہے میرب میں نے بس سر جھکایا ہے "
اسکی بات پر میرب مسکرائی۔۔
"ڈر لگ رہا ہے؟"
"کس بات سے؟"
"کہیں پھر سے وہ سب نا ہوجائے تمہارے ساتھ"
میرب کی بات پر اسکے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا تھا۔
"ماہے مولوی صاحب اور باقی سب نکاح کے لئے آرہے ہیں "
ماہے کو کہتے آنسہ نے گھونگھٹ اس کے چہرے پر ڈالا تھا۔
میرب نے ایک نظر دولہن بنی ماہے کو دیکھا۔۔
یشم آبان مولوی صاحب کے ہمراہ اسکے کمرے میں آئے تھے۔
سب اسکے اردگرد جمع تھے۔
ایک بار پھر وہی منظر۔۔
میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"
سالوں پہلے کہے الفاظ اسکے اردگرد گونجنے لگی تھی۔
مولوی صاحب ان اس سے رضامندی لے رہے تھے۔۔
بنفشے نے سختی سے اسکا ہاتھ تھام رکھا تھا۔۔
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"
آنسو اسکا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔
اپنے سر پر اپنے باپ اور بھائی کا ہاتھ محسوس کرتے اس نے گہرا سانس لیا۔۔
"قبول ہے"
"قبول ہے قبول ہے"
کپکپاتے ہاتھوں سے دستخط کرتے اس نے ماضی کو الوادع کہا تھا۔۔
وہ اس شخص کے ساتھ مخلص رہنا چاہتی تھی جو اسے اسکا ماضی جاننے کے باجود اپنا رہا تھا۔۔
ایک نئی زندگی کا آغاز ہونے والا تھا۔
اپنے ماں باپ کے چہروں پر سکون دیکھ اسکے دل کا بوجھ کم ہوا تھا لیکن محبت چھوٹنے کا غم اس نے ابھی منانا تھا۔۔۔
________
"میرب تم یہاں کب سے کمرے میں ہو ماہے کے دولہے سے نہیں ملو گی؟"
آنسہ کی بات پر موبائل پر مصروف میرب نے سر اٹھایا تھا.
"ہاں میں بس آ ہی رہی تھی"
"ماہے کہاں ہے؟"
"اپنے روم میں ہے میں بس اسے ہی لینے جارہی ہوں کچھ دیر بعد رخصتی ہے تم بھی آجاؤ اپنے بہنوئی سے مل لو"
"کیسا ہے ماہے کا دولہا ؟"
"بہت ہینڈسم "
"تمہارا تو بھائی ہے تم تو یہی کہو گی"
میرب کی بات پر آنسہ چونکی تھی۔۔
"میرا بھائی۔۔۔ ہاں میرا بھائی ہی تو ہے"
اس بار وہ کھل کر مسکرائی تھی ۔
"میرا وہ بھائی جو ماہے سے بے انتہا محبت کرتا ہے کو اسے ہر سرد و گرم سے بچا کر رکھے گا "
آنسہ نے عام سے انداز میں کہا تھا مگر میرب کو لگا وہ اسے جتا رہی ہو ۔
"ہمم تم جاؤ میں آتی ہوں"
آنسہ کو جانے کا کہتی وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور ایک بار پھر موبائل دیکھا تھا۔۔
اسکا بھیجا گیا میسج سین ہو چکا تھا لیکن ابھی تک دوسری طرف سے کوئی رسپانس نہیں تھا۔۔
"افف۔ کیا مصیبت ہے" غصے سے موبائل بیڈ پر پھینکتے اس نے خود کو آئینے میں دیکھا۔۔
چہرے پر مسکراہٹ سجائے اس نے خود کو نارمل کیا۔۔
"اس بار نہیں تو اگلی بار سہی۔۔۔"
خود سے کہتے وہ باہر کی جانب بڑھی تھی جہاں ایک بڑا جھٹکا اسکا منتظر تھا۔۔۔
__________
اندھیرے کونے میں کھڑا وہ خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے ہوئے تھا۔۔
آج اسکے ہاتھوں سے کیسے سب چلا گیا تھا لیکن وہ خوش تھا اس کے لئے۔۔
"بھائی"
آنسہ کی آواز پر اس نے نم ہوتی آنکھیں مسلتے خود کو نارمل ظاہر کیا تھا مگر وہ بہن تھی اس سے بھلا کچھ چھپ سکتا تھا۔۔
"آئی ایم سوری۔۔ "
"پاگل ہو مجھے سوری کیوں بول رہی ہو؟"
"آپ اچھے سے جانتے ہیں بھائی۔۔"
"میں خوش ہوں اسکے لئے آنسہ اس سے بات کر کے مجھے واقعی سمجھ آگیا ہے کہ وہ ٹھیک تھی"
اسے کچھ وقت پہلے کا منظر یاد آیا جب ماہے نے اسے بلایا تھا۔
وہ اندر کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی وہ دولہن بنی بیٹھی تھی ۔۔
ماہے کے اشارے پر وہ اسکے سامنے بیٹھا تو اس نے اپنی بات کا آغاز کیا ۔
ماہے نے اس سے کچھ نہیں چھپایا تھا۔۔
"میں تمہارے خلوص کی بہت قدر کرتی ہوں وصی لیکن میں تمہیں ہاں نہیں کر سکی۔۔
جب بابا نے میرے سامنے دو آپشن رکھے تو میں نے بنا سوچے اس ایک شخص کا نام لیا جسے میں نے آج تک دیکھا نہیں۔۔
بابا حیران ہوئے لیکن میں انہیں کچھ نہیں کہہ سکی پر تمہیں بتانا چاہتی ہوں۔"
وہ بہت ٹہر ٹہر کر بول رہی تھی۔
"تم ایک بہت اچھے انسان ہو وصی میں بہت بری ہوں میں تم سے شادی کر بھی لیتی تو شاید میں تمہیں وہ مقام نہیں دے پاتی جو تم ڈیزرو کرتے ہو۔۔ دل میں کسی اور کو بسائے میں تمہارے ساتھ وفا نہیں کر پاتی۔۔ جب بابا نے مجھے اس شخص کا ماضی بتایا کہ وہ بھی کسی کی محبت میں گرفتار ہوگیا تھا مگر پھر سب ختم ہوگیا۔۔ اس کا ماضی سن مجھے لگا کہ وہ میرے جیسا ہے ہم دونوں کے دلوں میں کوئی اور ہے ہمارا گزرا ہوسکتا ہے۔۔"
"ماہے"
"جانتی ہوں بہت عجیب سی باتیں کر رہی ہوں بودی دلیل پیش کر رہی ہوں مگر یہی میری سوچ ہے تم ایک خالص دل ڈیزرو کرتے ہو جس کی ساری محبت تمہارے لئے ہوگی۔۔ "
"اور میرے دل کا کیا ؟ اس لڑکی کے ساتھ کیا میرا دل مخلص ہوگا؟"
اس کی بات پر وہ ہولے سے مسکرائی۔
"ہاں۔۔ کیونکہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے وصی۔۔ تمہیں بس مجھ سے ہمدردی ہے تم اپنے دل سے پوچھو کیا تم میرے ساتھ رہ سکتے ہو۔ بشرطیکہ میرے دل میں کوئی اور ہو؟ میرے دامن پر ایک داغ ہے وصی۔۔ سب بھلے مجھ سے کتنا بھی محبت کرتے ہوں مگر تمہارے لئے انہیں ایک مکمل لڑکی چاہیے میری طرح ادھوری نہیں۔۔
اس لئے میں نے اپنی زندگی ایک ٹوٹے انسان کے حوالے کی ہے ابتہاج شاہ کے ماضی کا ایک پہلو میرے سامنے ہے جبکہ دوسرا پہلو اسکا میری طرح ہی خالی ہے دکھ سے بھرا۔۔"
"میں دعا کروں گا ماہے نور تم خوش رہو تم ٹھیک کہتی ہو واقعی کسی کا دل اتنا وسیع نہیں ہوتا۔۔"
وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
جاتے جاتے وہ ایک بار پلٹا۔۔
"میں تمہارے لئے بہت خوش ہوں زندگی میں اگر کبھی میری ضرورت پڑے تو بلاجھجک پکار لینا۔۔"
"میں دعا کروں گی کہ تمہیں اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ملے جو تم سے خالص محبت کرے "
اسکے دعا دینے پر وہ مسکرایا اور پھر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔
اور پھر تب سے وہ یہاں کھڑا اپنے دل سے پوچھ رہا تھا اور جواب وہی آیا جو ماہے نے اسے کہا تھا۔
اسے ایسی بیوی نہیں چاہیے تھی جس کے دل میں کوئی اور ہو ۔۔
وہ خود سے شرمندہ تھا۔۔ اسے ماہے اچھی لگتی تھی یہ سچ تھا مگر۔۔
آج اسکا ماضی جان وہ کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
کیونکہ ہر ایک کا دل وسیع نہیں ہوتا۔۔
___________
"مبارک ہو ابتہاج عالم فائنلی آپ نے آپ کی محبت کو حاصل کرلیا۔۔"
عالم کے سینے سے لگا عاقب اسکے لئے بے انتہا خوش تھا۔۔
"تیری مدد کے بغیر یہ ناممکن تھا اگر تو آنسہ سے بات نا کرتا تو۔۔"
"تیرے لئے کچھ بھی میرے یار ویسے مجھے پتا نہیں تھا انکل نے ماہے کو اپنی بہو مانا ہوا ہے پہلے سے"
عاقب کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔
اسکا ارادہ تھا واثق سے بات کرنے کا مگر اس کے بات کرنے سے پہلے ہی واثق نے عالم کو اپنے پاس بلایا اور اس سے ماہے کے بارے میں بات کی۔۔
ان کی بات سن وہ جامد ہوگیا۔۔
دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں اس نے سوچا نہیں تھا۔۔
ان کی بات پر اس نے لمحے کو سوچا اور پھر اس نے واثق کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔
شروع سے آخر تک اس نے واثق سے کچھ نہیں چھپایا تھا۔
واثق شاکڈ کی کیفیت میں تھے۔۔
آرزو نے یہ کیسا زہر اپنے بیٹے کی زندگی میں گھولا تھا۔۔
"بابا میں شرمندہ ہوں میں نے جو کیا اسے خود سے بچانے کے لئے کیا وہ میرے پاس رہتی تو میں اسے نقصان پہنچا دیتا۔۔ میں اپنے کئے کی صفائیاں نہیں دے رہا کیونکہ میں نے جو کیا غلط کیا لیکن اس میں ایک سچ یہ بھی ہے بابا کہ میں اس سے بے انتہا محبت کرتا ہوں اور وہ مجھ سے خفا ہے اسے ہونا بھی چاہیے"
"بابا میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں بابا مجھے وہ چاہیے اس کے بغیر مجھے سانس نہیں آتی بابا میرے دل میں درد ہوتا ہے بابا "
واثق ہے گھٹنوں میں بیٹھا وہ کسی بچے کی طرح اس سے ضد کر رہا تھا۔۔
"میں بات کروں گا یشم سے اور میں اس سے کچھ نہیں چھپاؤں گا ابتہاج عالم آگے اسکا فیصلہ وہ اپنی بیٹی تمہیں دیتا ہے یا نہیں"
وہ اسکا دل نہیں توڑنا چاہتے تھے مگر جھوٹ کے سہارے رشتے بنانا واثق شاہ کو کم از کم پسند نہیں تھا۔
واثق نے یشم سے بات کی تھی اور اس سے کچھ نہیں چھپایا تھا۔۔
ساری حقیقت سن یشم یوسفزئی کو گہرا صدمہ لگا تھا۔
انہیں اپنی لاڈلی پر ترس آیا جو اکیلے اتنا کچھ برداشت کرتی رہی اور ایک لفظ نہیں کہا۔۔
یشم یوسفزئی سے بدلے کی خاطر آرزو نے اسکی بیٹی کے ساتھ کھیل کھیلا۔۔
"آئی ایم سوری۔۔۔ میں ماہے سے بھی معافی مانگ لوں گا جو کچھ ہوا میری وجہ سے ہوا لیکن میں اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا میں سچ کہہ رہا ہوں"
یشم کے آگے ہاتھ جوڑے وہ اپنی محبت کے لئے لڑ رہا تھا۔۔
وہ شخص جس کے لئے اپنی انا اپنا غرور سب کچھ تھا آج ایک لڑکی کے لئے وہ سب بھولا گیا تھا اسے یاد تھا تو فقط یہ کہ اس نے ایک لڑکی کے ساتھ غلط کیا ہے اور سزا اسے ملنی ہی چاہیے ۔۔
یشم نے بس اسے دیکھا۔
وہ بھی تو ایسے ہی تڑپا تھا اپنی محبت کے لئے۔۔
بنفشے ٹھیک کہتی تھی جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہ لازمی ہونا ہوتا ہے ان دونوں کی زندگیوں میں یہ ہونا تھا دونوں غلط راہ کے مسافر تھے دونوں کو ٹھوکر لگی تھی دونوں نے اپنی اپنی جگہ تکلیفیں اٹھائیں کسی نے زیادہ تو کسی نے کم۔۔۔
اگر زندگی اسے ایک موقع دینا چاہتی تھی تو وہ کیوں نا اسکا ساتھ دیتا۔۔
ہاں وہ یشم یوسفزئی تھا جس نے ہمیشہ عام لوگوں سے ہٹ کر سوچا اور کیا۔۔
اور اس بار بھی اسکے فیصلے نے سب کو حیران کیا تھا ۔۔
اسکا فیصلہ ابتہاج عالم کے حق میں ہوا تھا۔۔
لیکن ایک شرط پر۔۔
ابتہاج عالم جان دینے کو تیار تھا تو یہ شرط کیا چیز تھی۔۔
وہ واپس گیا تھا اس جگہ جہاں سے وہ آیا تھا اپنا استعفیٰ دے کر اس نے پرانی زندگی کو الوداع کہا۔
یشم کی شرط تھی وہ پاکستان رہے۔۔
اور وہ رہنے کو تیار تھا۔
ماہے مان گئی تھی۔
وہ جو وہاں اپنے کام نبٹا رہا تھا آنسہ کے ایک میسج نے اسکا دماغ کھولایا تھا۔
بنا وقت ضائع کئے وہ پہلی فلائٹ سے پاکستان آیا تھا۔
حسب توقع وہی ہوا جو اس نے سوچا تھا لیکن اس بار وہ ماہے کے ساتھ تھا۔۔
نکاح نامے پر دستخط کرتے اسکا دل اور ہاتھ کانپے تھے۔
وہ اسکی ہوگئی تھی وہ بے یقین تھا۔
لیکن اب اسے ماہے کے ایک ایکشن کا انتظار تھا لیکن وہ تیار تھا۔ اسکی ہر سزا کے لئے۔۔
آنسہ اور پشمینے کا ہاتھ تھامے وہ سہج سہج قدم اٹھاتے اس جانب بڑھی تھی جہاں اس کا ہمسفر اسکا منتظر تھا۔۔
دل تھا کہ ہتھیلیوں میں دھڑک رہا تھا۔
سیڑھیاں اترتے وہ نیچے آئی تو یشم نے آگے بڑھ کر اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔۔
اسے اپنے حصار میں لئے وہ ڈرائنگ روم کی جانب بڑھے تھے جہاں سب موجود تھے۔
"انکل مجھے بھی ماہے کے ہسبینڈ سے ملنا ہے۔۔"
میرب فوراً سے اسکے برابر ہوئی جس پر یشم کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔۔
"ضرور کیوں نہیں"
ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول اب وہ لوگ اندر داخل ہو رہی تھے۔
عالم کی پشت ان لوگوں کی طرف تھی۔
"لیجئے واثق صاحب آپ کی بہو آگئی۔۔
یشم کی بات پر میرب نے جھٹکے سے سر اٹھا کر یشم کو دیکھا۔
"ابتہاج عالم یہ لیں آپ کی امانت"
یشم کے پکارنے پر وہ اٹھا اور اپنا رخ یشم کی جانب کیا۔
مسکراتی نظروں سے اس نے اپنی دولہن کو دیکھا اور پھر جس کے برابر کھڑی میرب کو۔۔
ان دونوں کے چہرے کے تاثرات بالکل ایک جیسے تھے شاکڈ۔۔ بے یقین۔
آگے بڑھتے عالم نے ماہے کے آگے ہاتھ پھیلایا۔۔
وہ بت بنی اسے دیکھے جا رہی تھی۔
"بچے ابتہاج عالم منتظر ہے"
اسکے گرد اپنا حصار مضبوط کرتے یشم نے اسے اپنے ہونے کا احساس دلایا تھا۔
ماہے نے بہت ضبط سے اسکے مسکراتے چہرے کی جانب دیکھا تھا اسکی آنکھوں میں فتح کی چمک تھی۔
اس نے جو کہا تھا وہ کر دیکھایا۔
سب کی نظریں اس پر تھیں آہستہ سے اس نے اپنا ہاتھ ابتہاج کے ہاتھ میں دیا تھا۔۔
جسے اس نے بہت مضبوطی سے تھام لیا کبھی نا چھوڑنے کے لئے ۔۔
"بھائی میرب سے تو ملیں ماہے کی کزن"
آنسہ نے بت بنی میرب کو آگے دھکیلا اب سمجھ آیا تھا اسے کیوں دوسری جانب سے خاموشی تھی۔۔
بمشکل خود کو سنبھالتے وہ مسکرائی۔
زبردستی کی مسکراہٹ۔۔
"بھئی یشم اب ہمیں اجازتِ دو ہم اپنی بیٹی کو لے کر جارہے ہیں"
رخصتی کا وقت آن پہنچا تھا۔
آنسہ اور عامرہ نے اسے گاڑی میں بیٹھایا۔
چھلکتی آنکھوں کے ساتھ اس نے اپنے گھر کو الوادع کہا تھا۔
________
مضطرب بے چین سی وہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔
آنسہ اسے چھوڑ کر جا چکی تھی اور اسکے جاتے ہی اس نے سب سے پہلے اپنا ڈریس ڈھونڈا تھا تاکہ چینج کر سکے مگر اسکی قسمت کہ اسے کچھ نہیں مل سکا۔۔
غصے سے کھولتے اس نے بیڈ پر بکھرے پھولوں کو چادر سمیت زمین پر پھینکا تھا۔۔
وہ اس وقت ہوٹل روم میں تھی۔
اس چالاک انسان کی چالاکی پر اسکا بس نہیں چل رہا تھا کیا کر جائے۔
اس نے غصے میں اچھے بھلے کمرے کی حالت تہس نہس کر دی تھی۔۔
اسکا بس چلتا تو اس کمرے کو خود سمیت آگ لگا لیتی۔
یہ صرف وہی جانتی تھی کہ کتنے صبر کے ساتھ اس نے اس شخص کو دیکھا تھا اپنے شوہر کے روپ میں وہ تو نفرت کرتا تھا نا تو اب کیوں آگیا ہے واپس۔۔
وہ انہیں سوچوں میں تھی جب کلک کی آواز پر اسکی ساری حساسیات الرٹ ہوئیں۔
اسکے ہاتھ تیزی سے کشن کی جانب بڑھے تھے۔۔
جیسے ہی دروازہ کھلا ایک تیز اڑتے کشن نے ابتہاج عالم کا استقبال کیا تھا۔
پھرتی سے نیچے ہوتے اس نے خود کو اس ہوائی کشن سے بچایا مگر صرف ایک کشن سے۔
اسکے کھڑے ہوتے ہی دوسرا کشن اس کا منتظر تھا۔
"ماہے کیا کر رہی ہو"
کشن مارنے سے اسکا دل نہیں بھرا تھا اس لئے وہ کمرے کی ایک ایک چیز اسے اٹھا کر مار رہی تھی۔
"کیوں کیا میرے ساتھ ایسا کیوں عالم۔۔
ارے نہیں آپ تو ابتہاج ہیں نا ایک بار مجھے بیوقوف بنا کر میرا مذاق بنا کر آپ کا دل نہیں بھرا تھا۔۔"
"ماہے ایک بار میری بات سنو"
"خبردار ابتہاج عالم جو میرے قریب بھی آئے میں آپ کو جان سے مار دوں گی "
"مار دینا کب منع کیا ہے تمہارے لئے تو جان بھی حاضر ہے"
"چیپ بالکل چیپ اپنے بکواس ڈائلاگ اپنے پاس رکھیں کچھ نہیں بھولی میں کیا کہا تھا بدکردار ہوں نا میں ہاں ٹھیک کہا تھا آپ نے ہوں میں بدکردار ایک آوارہ " اس سے پہلے وہ مزید ایک لفظ کہتی پھرتی سے اس تک پہنچتے عالم نے ایک جھٹکے سے اسے تھام کر دیوار کے سہارے کھڑا کیا تھا۔
"چپ بالکل چپ ایک لفظ نہیں "
اسکے گرد دونوں ہاتھ رکھتے وہ اسے دیکھنے لگا جس کا چہرہ غصے کی زیادتی سے سرخ تھا یا اسکی قربت سے وہ سمجھ نہیں سکا۔۔
"مجھے جتنا برا کہنا ہے کہو مجھے مارنا ہے نا مار لو لیکن اپنے لئے ایک لفظ نہیں"
اسکا ہاتھ اپنے گال پر رکھتے ابتہاج عالم نے اسے دیکھا۔
"مارو جتنا مارنا ہے وہ لو۔۔ افف کروں تو کہنا"
"نہیں کرنا مجھے کچھ آئی سمجھ دور ہٹیں مجھ سے" اپنا ہاتھ اسکے گال سے ہٹاتے اس نے عالم کو پیچھے دھکیلنا چاہا تھا مگر اس چکر میں وہ مزید اسکے قریب ہوئی۔
"دور ہونا تو اب ناممکن ہے ہاں سزا کے لئے میں تیار ہوں"
آج وہ اسے جان سے بھی مار دیتی تو وہ افف تک نا کرتا۔
"سزا چاہیے نا تو آپ کی سزا یہ ہے کہ میری جان چھوڑ کر چلے جائیں یہاں سے "
اسے دھکا دیتے وہ اسکے پہلو سے نکلی تبھی اسکا بازو عالم کی سخت گرفت میں آیا تھا۔
اسے کھینچتے وہ واپس سے اسے دیوار سے پن کر گیا تھا۔۔
"میں سزا کی بات کی تو آپ نے تو سیدھا سزائے موت ہی سنا دی۔"
اسکے بکھرے بالوں کو سمیٹتے اس نے ان آنکھوں میں دیکھا جن میں آنسو لانے کی وجہ بنا تھا وہ۔۔
"ہاتھ مت لگائیں مجھے۔۔۔"
اسکا ہاتھ جھٹکتے وہ غرائی۔۔
"بالکل جنگلی بلی لگ رہی ہو "
"ہاں پہلے آوارہ لگتی اب جانور"
"ماہے"وہ اتنی سے چلایا تھا کہ اسکی بات کہیں بیچ میں رہ گئی ۔
"سمجھ نہیں آرہی کیا کہا ہے میں آئندہ خود کو یہ لفظ مت کہنا "
"کہوں گی ہزار بار کہوں گی کیونکہ یہ لفظ آپ نے مجھے دیا ہے کہ میں بدکردار "
"ماہے" وہ اتنی زور سے چلایا کہ ماہے کی قینچی کی طرح چلتی زبان کو بریک لگے تھے۔
"میں نے دی تھی نا گالی اپنی زبان سے تمہیں تو ٹھیک ہے نا میں رہوں گا نا یہ زبان"
غصے سے کھولتے وہ اس دور ہوا تھا اور تیزی سے ٹیبل پر رکھی فروٹ باسکٹ سے چھری نکالی تھی۔
وہ جو ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی اسکے ہاتھ میں چھری دیکھ اسکی آنکھیں پھیلیں ۔۔
"کیا کر رہے ہیں آپ۔۔ رکھیں اسے"
"نہیں آج میں اس سے اپنی زبان ہی کاٹ دیتا ہوں کیونکہ اس زبان سے نکلے لفظوں نے پانچ سال تمہیں اذیت میں رکھا ہے مجھے بھی اتنی ہی اذیت ملنی چاہیے"
"عالم آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے رکھیں اسے یہ کوئی کھلونا نہیں ہے"
وہ واقعی ڈر گئی تھی وہ سرپھرا انسان تھا اس سے وہ کسی چیز کی توقع نہیں رکھتی تھی۔۔
"کھلونا نہیں ہے لیکن یہ وہ چیز ہے جس نے تمہیں اذیت دی۔۔ تم نے جتنی بار یہ لفظ کہا ہے نا اتنی بار میرا دل ٹکڑوں میں بٹا ہے"
"عالم پلیز اسے رکھ دیں آپ کے لگ جائے گی"
"میں بہت برا ہوں نا ماہے میں نے تمہیں بہت تکلیف دی ہے تھوڑی تکلیف مجھے بھی ملنی چاہیے "
وہ عجیب ضدی ہوگیا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے اسے سمجھائے۔
"عالم میں نہیں کہوں گی خود کو وہ الفاظ رکھیں اسے۔۔"
"وعدہ کرو " وہ مان گیا تھا اس نے شکر کا سانس لیا۔
"آئی پرامس میں اب خود کو وہ گالی نہیں دو گی رکھیں اسے"
اس کے کہے پر اچانک اس نے اپنے ہاتھ سے چھری پھینکی۔۔
ماہے نے جلدی سے اگر بڑھ کر اس بھری کو اٹھا کر دور پھینکا۔۔
"ماہے"
"بات مت کرنا مجھ سے عالم نہیں دیکھنی آپ کی شکل" غرا کر کہتے وہ ڈریسنگ روم میں بند ہوئی تھی۔
ڈریسنگ روم کے بند دروازے کو دیکھ اس نے گہرا سانس بھرتے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور آکر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
یہ تو ہونا تھا اتنا تو اسے پتا تھا مگر اس ایک لفظ نے اسکا دماغ خراب ہوا تھا اور جو چیز اس نے کی اسکے بعد اتنا تو اسے پتا چل گیا تھا کہ وہ اب بھی اس سے محبت کرتی ہے اور اسی سوچ نے اسے مزید ہمت دی تھی۔
ایک نظر اس ڈریسنگ روم کے بند دروازے کو دیکھا اور پھر انٹرکام کرتے اس نے ماہے کے لئے ڈریس منگوائے ۔۔
"ماہے باہر آجاؤ "
وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اندر بند تھی جو اسے اضطراب میں مبتلا کر رہی تھی ۔۔
"نہیں آؤ گی مجھے نہیں بات کرنی آپ سے نا آپ کی شکل دیکھنی ہے۔
"تم رو رہی ہو نا اندر ؟"
اسکی بھاری ہوتی آواز پر اس نے دروازہ زور سے بجایا۔۔
"ماہے باہر آؤ ورنہ میں یہ دروازہ توڑ کر اندر آجاؤ گا اور تم جانتی ہو میں یہ کر گزروں گا"
اسکی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی تھی۔۔
ڈریسنگ روم کا دروازہ کھلا تھا اور اسکا متورم چہرہ عالم کے سامنے تھے۔
اسکی بکھری حالت پر اس نے بے اختیار اپنے لب بھینچ اپنے اشتعال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی۔
"ڈریسز منگوائے ہیں آجائیں تو چینج کرلینا"
بنا اسکی جانب دیکھے وہ اسے کہتے بالکونی کا دروازہ کھول باہر آگیا۔
گھٹن کا احساس ایک بار دل میں تکلیف کا باعث بن رہا تھا لیکن اپنی یہ تکلیف وہ اسے سامنے ہر گز ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔
سینے پر ہاتھ رکھے وہ ایسے ہی بالکونی کی گرل سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
گہرے گہرے سانس لیتے وہ اس درد کو برداشت کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا لیکن درد تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔
یونہی درد سے کرہاتے اس نے آنکھیں موند کر اپنا سر بالکونی سے ٹکایا تھا۔
ایک آنسو اسکے آنکھ سے ہوتا اسکی داڑھی میں جذب ہوا تھا۔۔
__________
فریش ہو کر اس نے سب سے پہلے چینج کیا تھا۔۔
کمرے میں سوائے اس کے کوئی نہیں تھا۔
عالم کب سے بالکونی میں تھا۔
اسکا دل کیا ایک بار جائے اور اسے دیکھے مگر وہ اس سے سخت خفا تھی۔
"میری بلا سے ساری رات وہاں گزاریں"
غصے سے کہتے وہ بیڈ پر آ بیٹھی۔
آج وہ اتنا زیادہ بول لی تھی جتنا اس نے پانچ سالوں میں نہیں کہا تھا ۔۔
لائٹس آف کرتے وہ آنکھیں موند گئی مگر دھیان کے سارے دھاگے بالکونی میں موجود شخص میں الجھے ہوئے تھے۔
آدھے گھنٹے تک تم وہی کروٹ پر کروٹ بدلتی رہی مگر نیند کو نا آنا تھا نا وہ آئی۔۔
جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے وہ اٹھ بیٹھی۔
دل عجیب سی بے چینی میں گھر گیا تھا۔۔
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ بالکونی تک آئی تو بالکل سامنے ہی بیٹھا تھا بالکونی سے ٹیک لگائے ۔۔
وہ بس یک ٹک اسے دیکھے گئی۔۔
سالوں بعد بھی جب میں نے اسے دیکھا تو۔۔
مجھے لگا وقت اس پر ٹہرا ہو جیسے ۔
اسکی آنکھیں میری پسندیدہ تھیں جب وہ مجھے
ان نظروں سے دیکھتا تھا تو اسکی آنکھوں میں اپنا عکس پاتے مجھے دنیا کا کوئی منظر یاد نہیں رہتا تھا۔
اس کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں جب جب اپنے ہاتھ پر محسوس کرتی تو ایک تحفظ کا احساس میرے گرد دائرہ سا بنا لیتا ۔۔
اسکے قدم بہ قدم چلتے میں خود کو بڑا خوش قسمت تصور کیا کرتی تھی لیکن ایک دن۔
میری بہار زندگی میں خزاں اتر آئی۔
اسکا ہاتھ چھوٹا تو میرے آنگن میں لگے وہ خوشیوں کے گلاب مرجھا گئے۔۔
میری ویران آنکھیں اس بہار کی منتظر تھیں جب وہ اپنے ساتھ اس ستمگر کو واپس میری دنیا میں لے آتیں اور خزاں کا موسم ہمیشہ کے لئے رخ پھیر لیتا۔۔۔
وہ اسکی زندگی میں بہار بن کر آیا تھا اور پھر جب گیا تو خزاں کا موسم دائمی ٹہرا۔۔
ایک جامد سکوت نے اسے اپنے حصار میں گھیر لیا تھا ایک برف کی تہہ نے اسکے دل کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا اور پھر اتنے سال بعد وہ واپس آگیا۔
اسے دیکھ دل پر لگی وہ برف کی تہہ پگھلنے لگی تھی ۔۔
ہاں وہ مانتی تھی اگر سامنے بیٹھا شخص اگر اسکی جان بھی لے لیتا تب بھی وہ اس سے نفرت نہیں کرسکتی۔۔
سامنے موجود شخص کے لئے اس دل نے صرف ایک جذبہ محسوس کیا تھا محبت کا جذبہ اور اس ایک جذبے کو دوسرے کسے جذبے سے شناسائی نہیں تھی۔
بیڈ پر رکھا کمفرٹر اٹھاتے وہ سہج سہج قدم اٹھاتی اسکے پاس آئی جو آنکھیں موندیں بیٹھا تھا۔
بال عادتاً چھوٹی سی پونی میں قید تھے بڑھی ہوئی شیو۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے۔۔
اگر اس نے ہجر کاٹا تھا تو تکلیف مقابل کے حصے میں برابر کی آئی تھی۔
وہ یونہی اسکے برابر بیٹھ گئی۔
پانچ سال بعد وہ اس چہرے کو اپنے اتنے قریب دیکھ رہی تھی۔۔
"عالم"بے آواز اس نے عالم کا نام پکارا ۔۔
"شٹ اپ نام مت لو میری زبان سے اپنا تم جیسی ڈھیٹ لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔۔
ماضی کہیں اچانک سے اسکے سامنے آگیا تھا۔۔
"میں آپ سے محبت کرتی ہوں"
وہ اس کے سامنے بیٹھی بے آواز اقرار کر رہی تھی۔۔"
"میں نہیں کرتا جانتی ہوں کیوں کیونکہ مجھے تم جیسی لڑکیوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جو ماں باپ کو دھوکہ دے کر لڑکوں سے تعلقات رکھتی ہیں نفرت ہے مجھے ان لڑکیوں سے آئی سمجھ۔۔۔ اور تم بھی ان ہی لڑکیوں میں سے ایک ہو۔ غلطی ہوگئی مجھ سے جو تمہارے ساتھ ہنس کر بات کرلی تم تو یار گلے ہی پڑ گئی ہو میرے زرا بھی اب شرم باقی ہے نا تو میرا پیچھا چھوڑو اور جاؤ اپنے ماں باپ کی عزت رکھو کیونکہ یہاں سے تمہیں کچھ نہیں ملنے والا۔۔۔"
"نکلو میرے گھر سے اور اگر اپنے باپ کی عزت کا زرا بھی خیال ہوا نا تو واپس یہاں مت آنا میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا"
عالم کا کہا ایک ایک لفظ ایک بار پھر اسکے دل کو نئے سرے سے لہو لہان کر گیا تھا۔۔
"میں آپ سے محبت کرنا نہیں چھوڑ سکتی کیونکہ یہ میرے بس میں نہیں ہے لیکن میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی"
ہاتھ کی پشت سے آنسو بے دردی سے صاف کرتی وہ اٹھ گئی۔
اسکے جاتے ہی فضا ایک دم بوجھل ہوگئی تھی۔
عالم نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں تھیں۔
اسکی آنکھیں نم تھیں۔
کچھ کھونے کا احساس شدت سے ہوا تھا۔۔
وہ اپنی پرانی ماہے کو کھو چکا تھا۔۔
جسے اسے کیسے بھی کر کے واپس لانا تھا کیسے بھی کر کے۔۔
****--*********
تیزی سے کمرے میں آتے اس نے دروازہ بند کیا تھا۔
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے میرے ساتھ نہیں ہر گز نہیں ایک بار پھر نہیں"
غصے سے پاگل ہوتے اس نے بیڈ سے ہر چیز اٹھا کر زمین پر پھینکی تھی۔
"تم کیسے آخر اپنی ماں کی تکلیف بھول سکتے ہو عالم شاہ کیسے".
اپنے بال مٹھی میں لئے وہ چلائی تھی۔۔
"کیا کچھ نہیں کیا تھا میں نے اور تم نے سب کچھ برباد کردیا۔۔ کیا تم بھول گئے عالم"
میرب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کر جائے۔۔
"میرب کیا ہوا ہے تم ٹھیک ہو نا؟"
عائشہ کی پریشان سی آواز پر اس نے نفرت سے دروازے کی جانب دیکھا۔
"ٹھیک ہوں میں سو رہی ہوں مجھے کوئی ڈسٹرب نا کرے"
بمشکل اپنے جذبات پر قابو پاتے اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپایا تھا۔
ایک راز وہ تھا جو عالم نے سب کو بتایا تھا لیکن اگر اس کے بارے میں عالم نے کسی کو بتا دیا تو کیا ہوگا۔۔۔
یہ سوچ ہی اسکی جان نکال رہی تھی۔
"نہیں ابتہاج عالم میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دونگی "
اسکے دل میں خوف ابھر آیا تھا جو کچھ اس نے کیا تھا اگر وہ سب کے سامنے آجاتا تو وہ کیا ہوگا۔۔
بے چینی سے پہلو بدلتے وہ آگے کا سوچنے لگی تھی۔۔ط
__________
صبح اسکی آنکھ بوجھل دل کے ساتھ ہوئی تھی۔
رات وہ روتے روتے کب سوئی اسے بالکل بھی احساس نہیں ہوا تھا
اس نے اٹھ کر بالکونی کی جانب دیکھا مگر وہ خالی تھی بالکونی کیا پورا کمرہ خالی تھا عالم کہیں نہیں تھا۔۔
بیڈ پر اسکا ڈریس رکھا تھا ۔
سر جھٹکتے وہ اپنا ڈریس لے کر واشروم میں بند ہوگئی۔۔
فریش ہوکر وہ باہر آئی تو آنسہ اسکی منتظر تھی ۔
"اسلام وعلیکم بھابھی صاحبہ"
"آنسہ"
"بھئی اب رشتہ بدلا ہے تو اسی انداز سے پکاروں گی نا میں تمہیں۔۔"
"ہمم"
"کیا ہوا موڈ خراب ہے ؟"
اسکے بجھے چہرے کو دیکھ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے بس سر میں درد ہو رہا ہے"
"اوو ایک کام کرتے ہیں نیچے چل کر پہلے بریک فاسٹ کرتے ہیں اسکے بعد تم میڈیسن لے لینا نہیں تو سفر مشکل ہو جائے گا"
"سفر؟"
"ہاں نا اب ہم یہاں کراچی میں تھوڑی رہ سکتے ہیں حویلی واپس جانا ہے آج دوپہر میں نکلیں گے"
یہ بات تو اسکے ذہن سے بالکل نکل گئی تھی۔
آنسہ کے ساتھ وہ نیچے آئی اور بریک فاسٹ کمپلیٹ کیا تھوڑی دیر بعد بارز ان دونوں کو لینے آیا تھا۔۔
عالم کہاں تھا وہ نہیں جانتی تھی نا اس نے پوچھنے کی کوشش کی۔۔
اچھا ہی تھا جو وہ سامنے نہیں آیا ورنہ غصہ ایک بار پھر اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔۔
گھر آکر وہ سب سے ملی تھیں۔
اس پورے دوران عالم کہاں تھا وہ نہیں جانتی تھی۔
لنچ کے بعد سب سے الوداع لیتے وہ گاڑی میں آ بیٹھی تھی۔
بائے ائیر اسلام آباد اور پھر وہاں سے سید پور۔ ۔
"اپنا خیال رکھنا اور اپنے دل وسیع کر ابتہاج عالم کو معاف کرنے کی کوشش کرنا"
ماہے کے سر پر ہاتھ رکھتے یشم نے اسے سمجھایا تو اس نے حیرت سے اپنے بابا کو دیکھا۔۔
کیا وہ سب جان گئے تھے۔۔
"محبت کرنا غلط نہیں ہوتا ماہے محبت کرنے سے کوئی بدکردار نہیں ہوجاتا۔۔ بات نیت کی ہوتی ہے"
بہت آہستگی سے وہ اسے سمجھا رہے تھے اور وہ دم سادھے ان کی بات سن رہی تھی ۔
اور پھر بالآخر وہ ایک نئی زندگی کی شروعات کرنے ایک نئے سفر کی جانب بڑھی تھی۔
________
وہ صبح کی فلائٹ سے واپس حویلی آ چکا تھا۔
رات اسکی طبعیت حد سے زیادہ خراب تھی وہ کسی کو بھی اپنے حوالے سے پریشان نہیں کر سکتا تھا۔۔
اس لئے اپنی مجبوری بتاتے وہ اسلام آباد اگیا اور پھر وہاں سے سیدھا حویلی۔۔
شام تک وہ حویلی آنے والی تھی ۔
اس کے کمرے کو نئے سرے سے تیار کیا گیا تھا۔۔
اپنا بیگ ان پیک کرتے اس کی نظر ماہے کی تصویر پر پڑی۔۔
یہ تصویر عالم نے تب لی تھی جب وہ شیلٹر کے نیچے کھڑے آسمان سے گرتی برف کو دیکھ رہی تھی۔
تصویر کے ساتھ اس نے اپنے احساسات بھی لکھے تھے۔۔
میں اس احساس کو کیسے بیان کروں ؟
جس لمحے میں نے تمہیں دیکھا۔
یہ اس طرح کی محبت ہے ،
جو آسمان سے اتاری جاتی ہے
میرے پاس چھپانے کے لئے کچھ نہیں
میرے دماغ میں صرف تمہاری سوچیں ہیں
میں چھپانے کی کوشش کرتا ہوں۔
وہ محبت جو وقت کے اندر کہیں چھپ جاتی ہے
تمہاری مسکراہٹ سردیوں میں نرم گرم سا وہ سکون ہے جو میری سرد انگلیوں کو چھوتی ہے
دنیا برف میں ڈھکی ہوئی ہے
اور میں بغیر ہچکچاہٹ تم پر انحصار کرنے لگا ہوں
میرا سب پیار تمہارے لئے ہے
یہ لمحہ کرسٹل کی طرح شفاف و واضح ہے
وقت اور لوگوں کے سمندر میں
تم جانتی ہو یہ ہونا ہے
روشنی کے ساتھ میرا تمہاری طرف بڑھنا
ستارے میرے ساتھ محو سفر ہیں
اسی شفا محبت کے سنگ
ماضی حال اور میرا مستقبل
میری خواہش صرف تم ہو۔۔۔
(فری اسلام)
تصویر واپس سے بیگ میں رکھتے وہ کھڑکی میں آکر کھڑا ہوا ۔
وہ لوگ کبھی بھی یہاں آنے والے تھے یہ سوچ ہی اسکے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی۔۔
________
گاڑی سید پور کی حدود میں داخل ہو چکی تھی۔
ہر کوئی ان کے استقبال کے لئے وہاں پہلے سے موجود تھا ۔
گاڑی حویلی کی حدود میں جیسے ہی داخل ہوئی چاروں طرف سے پھول ان کی گاڑی نچھاور کئے جانے لگے۔
"ایسا استقبال تو میرا بھی نہیں ہوا تھا"
آنسہ کی سرگوشی پر ماہے نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔
وہ ان لوگوں کے ساتھ حویلی کے دروازے پر کھڑا تھا۔
ڈارک براؤن شلوار قمیض پر اس نے کریم کلر کی شال اوڑھی ہوئی تھی۔
بال ہمیشہ کی طرح سیٹ تھے۔
ماہے کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔۔
"اہم اہم سیاں سے نظریں ہی نہیں ہٹ رہی ہیں میڈم کی"
آنسہ کی آواز پر وہ ایک سے ہوش میں آئی تھی۔
اپنی بے اختیاری پر دل کیا دو رکھ کر اپنے دل کو لگائے ۔۔
سب کے ساتھ اندر داخل ہوتے وہ اچانک ہی اسکے برابر آیا تھا۔
پستئی رنگ کا فراک پہنے وہ بالکل سادہ سی تھی۔
مختصر سی رسموں کے بعد بالآخر سب کو اس پر ترس آیا تھا۔۔
جبھی آنسہ اور پشمینہ اسے لئے اوپر عالم کے کمرے میں ائیں۔۔
"چلو دولہن اب ہمارے جانے کا وقت ہو رہا ہے "
آنسہ اسے تنگ کرنے سے بالکل بھی باز نہیں آرہی تھی۔
وہ محض سر ہلا گئی۔۔
کمرہ بہت نفاست سے سجا تھا۔
بیڈ کے بالکل سامنے بڑے سے فریم میں ابتہاج عالم کی تصویر آویزاں تھی۔
وہ بے اختیار اس تصویر کو دیکھے گئی۔۔
"شوہر پاس ہے لیکن اس سے رخ موڑ اسکی تصویر کو دیکھنا یہ غلط بات نہیں ہے مسزز ابتہاج عالم"
اسکی اچانک آمد پر وہ چونک کر پلٹی۔
"طریقہ نہیں آتا آپ کو روم میں آنے کا؟ کسی کے روم میں آنے سے پہلے نوک کیا جاتا ہے" وہ فوراً سے چٹخی ۔
"لیکن اپنے کمرے میں آتے ہوئے کون نوک کرتا ہے؟"
بیڈ پر اسکے سامنے بیٹھتے وہ معصوم سے انداز میں کہتا اسے سخت زہر لگا تھا۔۔
"اچھا یہ بتاو میں کیسا لگ رہا ہوں اس تصویر میں سب تو بہت تعریف کر رہے تھے"
"سچ بتاؤ کیسے لگ رہے ؟"
عالم کے چہرے کو دیکھتے اس نے سنجیدگی سے پوچھا جس پر اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔
"بالکل ویسے ہی لگ رہے ہیں جیسے اس دن لگے تھے بے رحم سفاک۔۔۔ بے حس۔۔"
اس نے اپنے کہے ایک ایک لفظ پر زور دیا تھا۔۔
"ہممم ٹھیک کہا تو ایک کام کرتے ہیں نا"
بیڈ سے اٹھتے اس نے آہستہ سے اپنے قدم ماہے کی جانب بڑھائے جس پر اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
اسکے قریب آتے عالم نے بے اختیار ہی اسکی کمر میں ہاتھ ڈال اسے اپنی جانب کھینچا تھا ماہے نے اپنے ہاتھ ایکدم ہی اسکے سینے پر رکھے۔
"یہ کیا بے ہودگی ہے عالم چھوڑیں"
اپنی کمر پر اسکی گرفت مضبوط پاتے وہ مسلسل مزاحمت کر رہی تھی۔
"شش۔۔ اسٹے اسٹل ماہے"
اسکی سرگوشی پر وہ ٹہری تھی۔
"اب دیکھو میری طرف کیسا لگ رہا ہوں میں؟"
اسکا چہرہ اپنی طرف کرتے وہ بیگ سنجیدگی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔
"مجھے نہیں پتا چھوڑیں مجھے"
"ماہے" عالم نے اسے مزید اپنے قریب کیا اتنا قریب کے ماہے کی سانسیں تھمی تھیں۔۔
"کیا اس چہرے پر تمہیں افسوس ،شرم پچھتاوا تکلیف کچھ نظر نہیں آرہا ؟"
سرمئی آنکھیں اسکے چہرے پر گاڑے وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر اس نے پوچھا تھا۔
"میرا ہاتھ چھوڑ دیں"
اسکی باتوں کو نظر انداز کرتے اس نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا تھا مگر مقابل کی گرفت مضبوط تھی۔
"نا میں پہلے تمہارے قابل تھا نا اب ہوں چھوڑنا چاہو تو چھوڑ کر چلی جانا لیکن میری موت کے بعد کیونکہ اب یہ زندگی ابتہاج عالم پر مہربان نہیں ہے"
ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑتے وہ اس کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
اور وہ۔۔
اسکے لفظوں میں الجھتی پتھر ہوگئی تھی۔
__________
وہ رات گئے حویلی میں داخل ہوا تو پوری حویلی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔
ماہے کی آنکھوں میں اپنے لئے بے رخی دیکھتے وہ تل تل تڑپا تھا۔۔
ناجانے کب یہ دوریاں ختم ہونگی۔۔
اسکا دل اسکا ساتھ چھوڑنے لگا تھا۔
وہ اوپر سیدھا اپنے کمرے کی جانب آیا تھا اسکے کمرے کی لائٹس آن تھیں۔
اسے حیرت ہوئی گھڑی رات کے تین بجا رہی تھی۔
کچھ سوچتے اس نے دروازے سے تھوڑا دور کھڑے ہوتے کھٹکا گیا تھا ۔
کھٹکا کرتے ہی اسکے کمرے کی لائٹس آف ہوئی تھیں۔
آگے بڑھتے وہ کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں گہرا اندھیرا تھا اور ماہے بیڈ پر گہری نیند میں گم تھی۔
بے اختیار ہی اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی۔
دل پر چھائی بیزاری منٹوں میں ہوا ہوئی تھی۔۔
فریش ہو کر چینج کرتے وہ بیڈ پر ماہے کے برابر میں لیٹا تھا
وہ جو آنکھیں بند کئے سونے کا ناٹک کر رہی تھی عالم کے اتنے قریب ہونے پر اسکی جان ہوا ہوئی تھی۔۔
"اتنی جلدی سوگئیں ماہے ۔۔؟ آج تو ہماری ویڈنگ نائٹ تھی نا" دانتوں تلے دباتے عالم نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی۔
اپنا تکیہ مزید اسکے قریب کرتے وہ سکون سے لیٹا تھا۔
آج پانچ سالوں میں پہلی بار وہ اتنا پر سکون ہوا تھا۔
محبوب پہلو میں تھا اسکے علاؤہ اسے اور کیا چاہیے تھا۔
اس دوبارہ سے ایک نظر ماہے پر ڈالی اور پھر بہت آہستہ سے اپنے ہاتھ کی مدد سے اسکا سر اٹھاتے اپنا بازو اسکے سر کے نیچے سے گزارا تھا۔
اب ماہے کا سر اسکے ہاتھ پر تھا۔
اسے مزید اپنے قریب کرتے وہ اسے اپنے حصار میں لیتا آنکھیں موند گیا۔
اور وہ۔۔
آنکھیں موندے عالم کی سانسوں کی تپش اپنی پیشانی پر محسوس کر رہی تھی۔
عالم کے ایسے اچانک جانے پر وہ پریشان ہوگئی تھی اس کے انتظار میں جاگتی وہ مضطرب و بے چین تھی اور پھر وہ آگیا تھا۔
وہ نہیں چاہتی تھیں کہ عالم کو پتا لگے کہ وہ اسکے لئے جاگ رہی تھی اس لئے سوتی بن گئی اور یہ کھیل اس پر ہی بھاری پڑا تھا۔
اسکے حصار میں قید وہ آنکھیں موندے لیٹی گہری نیند میں کب گئی اسے احساس تک نہیں ہوا۔۔۔
__________
وہ گہری نیند میں تھی جب اچانک کسی کھٹکے کی آواز نے اسکی نیند میں بری طرح خلل ڈالا تھا۔۔
مندی آنکھوں کھول اس نے سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ آخر ہوا کیا ہے گھڑی پر نظر پڑی تو ایک جھٹکا لگا تھا اسے۔۔
گھڑی صبح کے دس بجا رہی تھی۔۔
گھڑی سے نظر ہٹاتے اس نے اپنے پہلو میں دیکھا تو عالم کو بے خبر سوئے پایا ۔
"یا اللّٰہ میں کیسے اتنا دیر سو گئی"
عالم کا ہاتھ خود پر سے ہٹاتی وہ تیزی سے اٹھی تھی۔۔
سسرال میں پہلا دن تھا اور وہ پہلے ہی دن لیٹ ہوگئی۔۔
"الماری سے ڈریس نکال وہ جلدی سے واشروم میں بند ہوئی تھی۔
شور کی آواز پر عالم نے سڑے منہ کے ساتھ آنکھیں کھول کر موبائل دیکھا اور اسے بھی ماہے کی طرح جھٹکا لگا تھا۔۔
وہ کیسے اتنی دیر سوگیا اسے حیرت ہوئی تھی۔
واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی اسکا مطلب تھا ماہے اندر تھی ۔۔
ایک سکون سا اسکے دل میں سرائیت کر گیا ۔
اٹھ کر وہ الماری تک آیا تھا اور اپنے کپڑے نکالنے لگا تبھی ماہے نہا کر باہر آئی تھی۔
پیچ کلر کے جارجٹ کی فراک پہنے وہ کافی کھلی کھلی لگ رہی تھی۔
عالم اسے بس دیکھتا رہ گیا۔۔
اس کی نظروں سے کنفیوز ہوتی وہ ڈریسنگ تک آئی تھی۔
اس سے پہلے وہ ماہے کی جانب بڑھتا دروازے پر ہونے والی دستک پر وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
"ماہے عالم بھیا جلدی سے نیچے آ جائیں سب ویٹ کر رہے ہیں"
ماہے نے جلدی سے دروازہ کھولو تو وہاں پلوشے کھڑی تھی۔
اپنا دوپٹہ سر پر جماتے وہ پلوشے کہ ساتھ ہی نیچے چلی گئی۔
اور اسکے جانے پر عالم نے دانت پیسے تھے۔۔
تیرے ہونے سے ہے عالم میں ثبات میرے
تو نہیں تو یہ دنیا بنجر لگتی ہے مجھے ۔۔
"ایک بار بس ایک بار مجھے معاف کردو ماہے پھر ہمیشہ تمہیں خود میں چھپا کر رکھوں گا"
خود سے کہتے وہ کپڑے لئے واشروم میں بند ہوا تھا۔۔۔
آج ان دونوں کے ولیمے کی تقریب تھی۔
گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا۔
اسٹیج پر بیٹھی ماہے سب لڑکیوں میں گھری ہوئی تھی۔
میرب نے اسے دیکھا اور پھر اندر جاتے عالم کو۔
اسے عالم سے بات کرنی تھی۔
سب کی نظروں سے بچتے وہ اندر آئی تھی۔
سیڑھیاں چڑھتے وہ سیدھا عالم کے کمرے میں داخل ہوئی۔
وہ جو کسی کام سے اوپر آیا تھا اپنے کمرے میں میرب کو دیکھ اسے جھٹکا لگا۔۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو میرے کمرے میں؟"
"گھبرا کیوں رہے ہو عالم کسی نے نہیں دیکھا مجھے"
"یہاں سے جاؤ میرب "
"کیوں تمہیں ڈر لگ رہا ہے؟"
وہ استہزایہ مسکرائی۔
عالم نے اسے دیکھا وہ بالکل بھی نہیں بدلی تھی۔۔
"تم یہاں مجھے دھمکی دینے آئی ہو ؟"
"بالکل بھی نہیں میں بس یہ کہنے آئی ہوں جو تم نے کیا وہ ٹھیک نہیں تھا تم نے ہمارا سارا پلین چوپٹ کر دیا ۔"
"میرب "
"میری ماں جیسی تھیں وہ عالم میری سگی ماں سے زیادہ انہوں نے مجھے پیار دیا تھا تم کیسے ان کے ساتھ دھوکہ کر سکتے ہو تم نے ان کے دشمنوں کو معاف کردیا؟"
"جن لوگوں کو تم دشمن کہہ رہی ہو وہ تو تمہارے سگے ہیں"
"سگے؟"
وہ ہنسی تھی کھوکھلی ہنسی۔۔
"ایک گود لی ہوئی لڑکی کا کوئی سگا نہیں ہوتا۔۔ میں بس یہ کہنے آئی تھی تم اسے مجھ سے نہیں بچا سکتے جیسے ان سب نے آرزو مما کی زندگی برباد کی میں ان سب کی کر دوں گی خاص کر تمہاری ماہے گی"
"اگر اسکے زرا سی بھی تکلیف ہوئی نا میرب اس دن میں خود تمہیں اپنے ہاتھوں سے مارو گا میں بھول جاؤں گا کہ کبھی تم میری دوست ہوا کرتی تھیں۔۔"
"یہ بات تو تم بھول ہی چکے ہو جب سے وہ ماہے تمہاری زندگی میں آئی ہے اس نے ہمیشہ یہی تو کیا ہے جو جو میرے قریب ہوتا تھا اسے مجھ سے دور کر دیتی تھی۔
وہ ماہے سے حد سے زیادہ بدگمان تھی۔
اسکے اندر سوائے زہر کے اور کچھ نہیں تھا۔
"نفرت میں اتنا مت گرو کہ میری طرح پچھتانا پڑے"
"تم ایک بیوقوف آدمی ہو لیکن میں نہیں ہوں۔۔ اگر تم چاہتے ہو نا میں ماہے کو کچھ نا کہو تو تمہیں یشم یوسفزئی کو برباد کرنے میں میرا ساتھ دینا ہوگا عالم "
بالآخر اس نے کہہ دیا تھا۔۔
"مجھے افسوس ہے کہ تم بھی اسی گڑھے میں گری ہو جس میں کبھی میں گرا تھا لیکن ایک بات یاد رکھنا میں تو نکل آیا ہوں نقصان اٹھایا مگر بچ گیا۔۔
ابھی وقت ہے خود کو بچا لو یہ نا ہو ایک اور آرزو پیدا ہو جو اسکی طرح سب برباد کر دے۔۔
"ابتہاج عالم تمہاری ہمت کیسے ہوئی ان کے بارے میں بکواس کرنے کی"
اسنے غصے سے عالم کا گریبان پکڑا۔
"کیونکہ وہ میری ماں تھی تمہاری نہیں ۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے تمہیں ان سے بہت محبت ہے نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے تمہیں ان سے محبت نہیں تھی نا انہیں کبھی تم سے محبت تھی یہی حقیقت ہے تم مانو یا نہیں "
"اپنی بکواس بند کرو آئی سمجھ "
وہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی عالم نے افسوس سے اسے دیکھا۔
"آئندہ میرے سامنے مت آنا میرب ورنہ میں سب کے سامنے تمہاری اصلیت بتا دوں گا یہ جو اچھے انسان کا نقاب ہے نا یہ اترا تو بڑا پچھتاؤ گی تم"
اہنا گریبان اسکی گرفت سے چھڑاتے وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔
اور وہ وہیں بت بنی کھڑی رہ گئی۔
_______
آج کا فنکشن نہایت خوش اسلوبی سے انجام پایا تھا۔۔
وہ سب اس وقت لاؤنج میں بیٹھے تھے۔
"عالم کن سوچوں میں گم ہو بیٹا ؟"
واثق کے پوچھنے پر وہ چونک کر ہوش میں آیا تھا۔
ماہے کافی دیر سے اسکا یہ انداز نوٹ کر رہی تھی۔
کچھ تھا جو اسے تنگ کر رہا تھا مگر کیا۔۔
"کچھ نہیں بابا بس تھک گیا ہوں"
"ہاں تو جاؤ تم لوگ آرام کرو "
واثق کو شب بخیر کہتے وہ اوپر کمرے میں آگیا۔
میرب کے ردعمل نے اسے ڈرا کر رکھ دیا تھا۔
وہ بھی اسکی آگ میں جل رہی تھی جس میں کبھی وہ جلا تھا اگر اب یہ آگ دوبارہ اٹھی تو سب کو جلا کر راکھ کر دے گی۔۔
اور اس بار ماہے کے ساتھ ساتھ آبان کی زندگی بھی برباد ہوگی۔۔
گہرا سانس بھرتے اس نے اپنے اندر کے اضطراب کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
ڈریسنگ پر بیٹھی ماہے شیشے سے مسلسل اسکا یہ پریشان انداز نوٹ کر رہی تھی۔
پورا فنکشن وہ اسی طرح پریشان رہا تھا۔
اسکا دل کیا جائے اور پوچھے مگر انا آڑے آرہی تھی۔۔
"مجھے دیکھنے کے پیسے نہیں لگتے چھپ چھپ کر دیکھنا بند کرو "
عالم کی آواز پر بری طرح شرمندہ ہوتے وہ بوکھلائی۔۔۔
"اتنے کوئی ہیرو نہیں ہیں جو آپ کو چھپ کر دیکھو۔۔۔" ناک سکیڑ کر کہتے وہ آکر بیڈ پر بیٹھی جبکہ وہ اب کھڑکی پر کھڑا تھا۔
"ماہے تمہیں پتا ہے میں نے تمہیں کتنا مس کیا ان پانچ سالوں میں"
خاموشی کو توڑتی عالم کی آواز نے اسے منجمد کیا تھا ۔
"مجھے نہیں پتا نا میں جاننا چاہتی ہوں"
تلخی سے جواب دیتے وہ آنکھیں موند گئی۔
کاش وہ اسے بتا سکتی کہ ان پانچ سالوں میں اس نے ایک لمحہ ایسا نہیں گزرا تھا جس میں عالم نا ہو۔۔
عالم نے ایک نظر اسکے وجود کو دیکھا۔۔
"سو مت ماہے پیکنگ کرو ہمیں کل صبح نکلنا ہے؟"
اس نے دھماکہ کیا تھا۔۔
"کہاں جانا ہے " جھٹکے سے وہ بیڈ سے اٹھ بیٹھی۔۔
"ہنی مون"
"عالم میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جا رہی ہوں"
"ٹھیک ہے تم آنسہ کے ساتھ بیٹھ جانا۔۔"
مزے سے کہتے وہ اب اپنا بیگ اتار اس میں کپڑے رکھنے لگا۔۔
"آپ دیکھیں"
"میری جان میں آپ کو دیکھوں گا تو کام کیسے کروں گا ؟"
وہ بے ساختہ ہی بولا تھا۔
"بے ہودہ بات مت کریں"
کشن کھینچ کر اس نے عالم کو مارا۔۔
"میں پورا کا پورا بے ہودہ انسان ہوں۔۔"
"وہ میں بہت اچھے سے جانتی ہوں بتانے کی ضرورت نہیں ہے سو رہی ہوں میں "
اسے پیکنگ کرتے چھوڑ وہ خود منہ پر تکیہ رکھتے آنکھیں موند گئی ۔۔
_________
"ماہے اٹھو۔۔ ماہے اٹھو ہمیں نکلنا ہے"
آنسہ کی آواز اسکے کانوں میں پڑ رہی تھی جسے خواب سمجھ اس نے نظر انداز کرتے مزید تکیے میں منہ چھپایا تھا۔
آنسہ نے بے بسی سے عالم کو دیکھا۔
"یہ پہلے اتنی ڈھیٹ نہیں تھی آپ سے شادی کے بعد یہ رنگ دیکھا رہی ہے عالم بھائی"
آنسہ کے شکوے پر وہ بے ساختہ مسکرایا۔۔
"ماہے کون سی مشقت کرکے سوئی ہو اٹھ بھی جاؤ یار "
اسے ہلاتے آنسہ بے حال ہوگئی تھی جو سب کچھ بیچ کر سوئی پڑی تھی۔
"ماہے عالم بھائی کے لئے کوئی انگریز لڑکی آئی ہے کہہ رہی ہے وہ عالم بھائی کی بیوی ہے"
آنسہ کی بے پر کی بات پر جہاں عالم نے اسے گھورا تھا وہیں ماہے ایک جھٹکے سے اٹھی تھی۔
"کون آیا ہے؟"
نیند سے بوجھل آواز ۔۔
"تمہاری سوتن۔۔"
"مجھے پہلے ہی پتا تھا ضرور وہاں کوئی انگریز"
پٹر پٹر چلتی زبان پر عالم کو دیکھ بریک لگا تھا۔
فوراً سے دانتوں تلے زبان دبائے اس نے گھور کر آنسہ کو دیکھا۔
"اٹھ جاؤ یار جانا بھی ہے"
"میری تو پیکنگ ہی نہیں ہوئی"
"وہ تو کب کی ہوگئی ہے فریش ہو کر فوراً سے نیچے آؤ عالم بھائی آپ زرا بارز کے پاس جائیں نا جب تک میں آپ کی بیوی کو تیار کرتی ہوں۔
آنسہ کی ریکوسیٹ پر وہ سر ہلاتے باہر چلا گیا
"آنسہ کیا بدتمیزی ہے یار بتا تو دیتی وہ کمرے میں ہیں".
اسے اپنی اس زبان پر غصہ آرہا تھا۔
"ایک بات کہوں ماہے؟"
"ہاں"
"یار تو نا بدل گئی ہے بہت "
"وہ کیسے ؟"
وہ الجھی تھی۔
"پہلے میں جب بھی تجھے دیکھتی تھی نا ان آنکھوں میں ویرانی ہوتی تھی چہرے پر دکھ کی پرچھائیاں ۔۔ ایسے لگتا تھا ایک زندہ لاش ۔۔ مگر اب میں تجھے دیکھتی ہوں تو تیری آنکھوں میں مجھے چمک نظر آتی ہے چہرے پر گلال رنگ۔۔ اور تیرا یہ بدلاؤ بہت خوبصورت ہے۔۔"
"میں کوئی چینج نہیں ہوئی غلط لگ رہا ہے۔ اب دیر نہیں ہو رہی چلو نیچے "
سر جھٹکتے وہ اپنی شال لئے نیچے بڑھ گئی جہاں سب اسکے منتظر تھے۔۔
ایک خوبصورت سفر کا آغاز ہوا تھا۔۔
پلوشہ اور عامرہ بیگم کو یوسفزئی مینشن چھوڑ وہ اپنے آگے کا سفر شروع کیا تھا۔۔
_______
"بہت اچھا ہوا عامرہ تم آگئیں گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا اب کچھ رونق ہوگی"
امو جان نے عامرہ سے ملتے پلوشے کو گلے لگاتے بولے تھیں۔
پلوشہ کے کالج کے لئے انہوں نے اسلام آباد میں اپلائی کرنا تھا مگر امو جان اور بنفشے کی وجہ سے وہ مری میں اسکا ایڈمیشن کرنے پر راضی ہوئے تھے۔
امو جان کے مطابق ایک بیٹی گئی تھی اب دوسری کو ان کے گھر میں رہنے دیں۔۔
یشم کام کے سلسلے میں اکثر کراچی ہوتا تھا ایسے میں پلوشہ کے ساتھ ان کا اچھا وقت گزرے گا۔۔
امو جان کو وہ معصوم سی گڑیا بہت پیاری لگی تھی۔۔
عامرہ نے ایک ہفتہ یہاں رہنا تھا اور پھر عالم اور بارز واپسی پر انہیں لے کر جانے والے تھے ۔۔
"اسلام وعلیکم عامرہ آنٹی"
آبان کے سلام کرنے پر پلوشہ کے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا جہاں وہ سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔۔
سفید رنگ کا کرتا شلوار پہنے ماتھے پر بکھرے بال۔۔ کھڑے نقش۔
وہ یشم یوسفزئی سے بھی زیادہ ہینڈسم تھا۔۔
وہ اسے بس دیکھ کر رہ گئی۔
"ہیلو لٹل گرل۔۔۔"
آبان کے مخاطب کرنے پر وہ خوش میں آئی ۔۔
"ہیلو۔۔"
"آبان یہ دیکھو پلوشہ میرے پاس رہنے آئی ہے اب تمہاری زمہ داری ہے بچی کی پڑھائی کا سب دیکھنا۔"
"جو حکم مام۔۔ ویسے عامرہ آنٹی ایک بات بتائیں یہ کالج جاتے ہوئے ویسے تو نہیں روئے گی جیسے بچپن میں اسکول جاتے ہوئے روتی تھی۔"
"جی نہیں میں کبھی نہیں روتی تھی ہیں نا مما"
اسکے شرارتی انداز پر وہ نروٹھے انداز میں بولی جس پر وہ ہنس پڑا ۔
"جی جی وہ تو ہمیں پتا ہے پورا اسکول جمع ہوجاتا تھا کہ آخر بچی پر کونسا ظلم ہو رہا ہے"
وہ اب بھی باز نہیں تھا۔
پلوشہ پشمینہ کا بچپن تو آبان کے سامنے گزرا تھا۔
اسے وہ دونوں اتنی ہی عزیز تھیں جتنی ماہے۔۔
"امو جان آپ انہیں سمجھائیں نا "
"آبان بری بات ہے"
امو جان کے آنکھیں دیکھانے پر وہ ہنس کر ان پاس بیٹھا تھا۔
"میرب اور عائشہ کہاں ہے بنفشے ؟"عامرہ کو اچانک ہی میرب کا خیال آیا تھا۔
"عائشہ یہاں اپنی دوست کے گھر گئی تھی کل کہہ رہی تھی ایک دن رکے گی اور میرب سو رہی ہے"
"چلو اچھا ہے ورنہ پردیس میں اپنوں سے دور بڑا مشکل ہوتا ہے ۔"
"بس زین کی جاب ہی ایسی ہے لیکن اسکا ارادہ ہے ایک دو سال میں مستقل پاکستان آنے کا۔۔٫"
"بس پھر یہ طے کرو کہ تم لوگ سید پور والے اپنے گھر میں شفٹ ہوجاؤ گے آبان کی شادی کے بعد"
"بس دعا کرو بچے ۔۔"
امو جان ہولے سے مسکرائی تھیں۔۔
زندگی نارمل ڈگر پر چل نکلی تھی۔
___________
"اٹھ گئیں آپ میڈم" وہ اپنی بالکونی میں کھڑی کافی پی رہی تھی آبان کی آواز پر اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"ہاں بس کچھ دیر پہلے ہی اٹھی ہوں"
"تو نیچے آ جاتیں "
"میں سوچا تھا مگر نیچے خالہ کے گیسٹ آئے ہوئے ہیں"
"گیسٹ,؟ گیسٹ تو کوئی نہیں آیا ہاں عامرہ آنٹی پلوشہ کو چھوڑنے آئی ہیں"
"چھوڑنے مطلب؟"
"مما اور امو جان کو پلوشے بہت عزیز ہیں ان کی خواہش پر پلوشہ کا یہاں ایڈمیشن ہوا ہے تو وہ روز ٹریول تو نہیں کرسکتی اس لئے یہاں رہے گی "
مزید سوالوں سے بچنے کے لئے وہ ایک ہی بار میں ساری تفصیل اسے بتا گیا جس پر وہ بس سر ہلا کر رہ گئی۔۔
"اوو اچھا ۔۔"
"ہاں اس لئے تم کافی کمپلیٹ کر کے نیچے آجاؤ میں جاتا ہوں"
اسے کہتا وہ وہاں سے چلا گیا اور اسکے جاتے ہی میرب کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے۔۔
"دشمن کی اولاد کو برداشت کرنا کتنا مشکل ہے یہ مجھے آج سمجھ آیا پہلے ماہے اور اب یہ پلوشہ ۔۔
آرزو مما آپ نے ٹھیک نہیں کیا جا کر اب ہر چیز مجھے اکیلے کرنی پڑے گی کیونکہ آپ کا بیٹا تو آپ سے بے وفائی کر چکا ہے اس کے لئے ماں سے زیادہ وہ لڑکی عزیز ہے لیکن میں آپ سے پرامس کرتی ہوں بہت جلد میں ان لوگوں کو ان کے اصل مقام پر پہنچا کر رہوں گی".
آسمان کی جانب دیکھتے اس نے جیسے آرزو جو مخاطب کیا تھا۔۔
__________
وہ لوگ مقررہ وقت سے پہلے ہی اپنی ہوٹل پہنچ چکے تھے۔۔
عالم یہاں پہلی بار آریا تھا اس لئے بارز اسے پورے راستے گائیڈ کرتا رہا تھا۔
جبکہ ماہے وہ ایسے بیٹھی تھی جیسے اس سب سے اسکا کوئی لینا دینا نا ہو۔
"چلو ماہے آجاؤ "
ماہے کو کھڑے دیکھ آنسہ نے اسے پکارا تو وہ اسکی طرف بڑھی تھی بنا ایک نظر عالم کر ڈالے۔۔
اسے لگتا تھا جتنا وہ اس شخص کو دیکھے گی اتنا ہی دل اس کے لئے تڑپے گا ۔۔
عالم نے فوراً سے اس تک آتے اسکا ہاتھ سختی سے اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔
"لڑائی کمرے تک رہنے دو پلیز"
اسکے کان میں سرگوشی کرتے وہ اسے ساتھ لئے آگے بڑھ گیا ۔
************
بالکنی میں کھڑا وہ اس وادی کے حسین نظاروں کو دیکھ رہا تھا۔
"تم ٹھیک کہتی تھیں تمہارا پاکستان بہت خوبصورت ہے"
ماہے کو بالکونی میں داخل ہوتے دیکھ وہ مسکرایا تھا وہیں اسکے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"اتنا سا تو ماتھا ہے اس پر بھی اتنے بل۔۔ تمہیں رحم نہیں آتا مجھ پر لڑکی؟"
وہ اب پورا کا پورا اسکی جانب متوجہ تھا۔
"آپ کو آیا تھا؟"
"آیا تھا جبھی تو چھوڑ دیا ورنہ آگے جو میں کرتا وہ اس سے زیادہ خطرناک تھا"
آواز قدرے آہستہ کرتے وہ رازدارانہ انداز میں کہتا اسے الجھن میں مبتلا کر گیا۔۔
"کیا مطلب ؟"
"مطلب وغیرہ کچھ نہیں تم جاؤ فریش ہوجاؤ ورنہ آجانا تمہاری دوست نے "
اسکے گال سہلاتے وہ کمرے میں چلا گیا۔
ماہے نے دانت پیس کر اس دیکھا۔
٫"یہ انسان اب میرا ایسے ہی خون جلائیں گے"
بڑبڑاتی وہ بھی باہر آئی تھی۔
چینج کر وہ فریش ہوئی اور پھر بنا عالم کا انتظار کئے سیدھا باہر آئی تھی۔
یہ جگہ اس کے لئے نئی تو ہر گز نہیں تھی۔
"بھائی کہاں ہیں ماہے تم انہیں لے کر نہیں آئیں"؟
"فریش ہو رہے ہیں آجائیں گے"
روکھے سے انداز میں کہتی وہ اسکے پاس صوبے پر بیٹھ گئی۔
آنسہ کے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"تو اب آپ کو ناراضگی جتانا بھی آگیا ہے واہ ابتہاج بھائی واہ۔۔ ہماری لڑکی کے سارے ایموشن باہر لا رہے ایک ایک کر کے۔۔"
"آنسہ بھئی"
"اچھا بابا نہیں تنگ کرتی یہ بتاؤ جانا کہاں ہے؟"
"بھئی ہم نے تو ہر جگہ دیکھی ہوئی عالم بھائی کو دیکھانا ہے سب تو ہر اس جگہ جائینگے جہاں ہمیں جانا چاہیے "
"جب ان کو دیکھانا تھا تو مجھے کیوں لائیں ؟"
"واللہ واللہ ماہے زبان دیکھو زرا۔۔ کیا کھایا تھا تم نے ؟"
"کڑوا کریلا"
جواب ماہے کے بجائے عالم کی طرف سے آیا تھا۔
"اوو ہو عالم بھائی آپ نے تو لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تیاری میں"
"اور آپ کا اپنے شوہر نامدار کے بارے میں کیا خیال ہے ؟"
"انہیں تو بیوٹی کانٹیسٹ میں جانا ہے نا"
آنسہ کے انداز پر وہ ہنس پڑا۔۔
"میں دیکھتی ہوں انہیں آپ لوگ آرڈر کریں"
ان دونوں کو کہتی وہ بارز کو بلانے چلے گئی۔
"پہلے کوئی میری تعریفیں کرتے نہیں تھکتا تھا اور اب میری برائیاں کرتے نہیں تھکتا افسوس کی بات ہے"
عالم کی بات پر اس نے کچھ نہیں کہا۔۔
اسکا دل ہی نہیں تھا کچھ بھی کہنے کا۔۔
"چلو چلو جلدی چلو "
بارز نے آتے ہی خاموشی کو توڑا۔۔
"چلو بتاؤ کہاں جانا ہے کیا دیکھا رہے آج تم لوگ مجھے ؟"
"سب سے پہلے واٹر فال دیکھیں گے وہ سب سے خوبصورت ہے یہاں"
آنسہ بارز کو کہتے جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔
ان سب کے گاڑی میں بیٹھتے ہی ایک خوبصورت سفر کا آغاز ہوا تھا۔۔
_______
"کیا پڑھ رہی ہوں پلوشہ ؟"
وہ انہماک سے کتاب کر جھکی ہوئی تھی جب آبان کی آواز نے اسے بری طرح چونکایا۔۔
"افف آپ نے تو ڈرا ہی دیا "
"لیکن تم نے شیشہ تو بالکل بھی نہیں دیکھا تھا ڈری کیوں؟"
دانتوں تلے لب دبائے وہ شرارت سے کہتا اسکے پاس ہی بیٹھ گیا۔
پلوشہ نے گھور کر اسے دیکھا۔
"میرے بابا کے فیورٹ نا ہوتے آپ تو میں جواب دیتی ۔۔"
ناک سکیڑ کر کہتی وہ واپس سے کتاب کر جھکی تھی ۔
"تم پڑھ کیا رہی ہو یہ تو بتاؤ ؟"
وہ اس طرح کتاب پر چھائی ہوئی تھی کہ وہ بالکل بھی دیکھ نہیں پا رہا تھا ۔
"آپ کو بتاؤ گی تو آپ میری مما سے میری شکایت لگا دینگے اور ایسا میں بالکل بھی نہیں چاہتی اس لیے آپ مجھ سے دور رہیں"
"چچ چچ کتنی بری بات ہے بچپن میں ہمیشہ تمہیں مار سے بچایا اور یہ صلہ دے رہی مجھے؟"
آبان نے معصوم سا فیس بنایا جس پر پلوشہ نے آنکھیں چھوٹی کر اسے دیکھا ۔
"آپ کو یاد دلا دوں ہمیشہ آپ کی وجہ سے ہی ڈانٹ پڑتی تھی۔۔"
بک بند کر بیگ میں رکھتے اب وہ پوری طرح سے اسکی جانب متوجہ تھی۔۔
کیونکہ کتاب پڑھنا اب تقریباً ناممکن ہی تھا۔
"آبان لالہ آئسکریم تو کھلا دیں کل سے یہاں آئی ہوئی مگر آپ نے ایک بار بھی نہیں پوچھا مجھ سے"
"آئسکریم کھلاؤں گا مگر پہلے ایک بات بتاؤ کیا پڑھ رہی تھیں۔۔"
اسکا سارا دھیان اب بھی کتاب پر تھا۔
پلوشہ نے ترچھی نظروں سے اس میسنے انسان کو گھورا۔
"فریج میں آئسکریم ہے بیا مما مجھے بتا چکی ہیں بائے بائے"
وہ اس سے کئی گنا زیادہ میسنی تھی۔
"کوئی ضرورت نہیں آئسکریم کھانے کی موسم دیکھا ہے کتنا خراب ہے"
عامرہ کی آواز پر جو جی بھر کر بد مزہ ہوئی تھی۔۔
"مما "
"آبان اسے چھوڑو تم بتاؤ بیٹا کالج کا کیا ہوا؟"
"سب سیٹ ہے بس کل پلوشہ میرے ساتھ چلیں یونیفارم اور بکس کے لئے ۔۔۔
"آئسکریم بھی پلیز" عامرہ سے نظریں بچاتے اس نے آبان کو آہستہ سے کہا۔
"پہلے بک دیکھاؤ"
اسکی سوئی ابھی تک بک پر اٹکی تھی پلوشہ نے دانت پیس کر اسے دیکھا اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔
سیڑھیاں چڑھتے وہ اوپر آئی تو بالکل سامنے میرب کو کھڑے دیکھ اس نے اپنے قدموں پر بریک لگائے ورنہ بری طرح میرب سے ٹکرا جاتی۔۔
"اوو میرب اپیا آپ ابھی میں آپ کو نہیں دیکھتی تو گر جاتی"
"اپیا میں تمہاری اپیا کب سے ہونے لگی ؟"
"جی؟" پلوشہ نے حیرت سے اسکا یہ انداز دیکھا۔
"کیا فارسی بولی ہے میں نے ؟ مجھے لگتا ہے میں نے اردو ہی بولی ہے اب تمہیں سمجھنے میں مسئلہ ہے تو علاج کرواؤ"
روکھے کہنے میں کہتی سیڑھیاں اترتے نیچے بڑھ گئی ۔۔
پلوشہ نے حیرت سے اسکا یہ انداز دیکھا اسے بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا مگر کچھ بھی کہ کر وہ اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی منڈے سے کالج اسٹارٹ تھے اسے وہاں فوکس کرنا تھا فضول باتوں پر نہیں۔۔
__________
پورا دن مختلف مقامات پر گھومنے کے بعد رات وہ تھک ہار کر ہوٹل واپس پہنچے تھے آج کا دن ہر لحاظ سے بہت اچھا تھا۔
اس پورے وقت ماہے آنسہ کے ساتھ لگی رہی عالم جانتا تھا وہ اس سے دور رہنا چاہتی ہے اس لئے وہ خود اس سے دور ہوگیا۔
رات وہ کمرے میں آیا تو ماہے کو گہری نیند میں سوئے پایا۔۔
اچھا تھا وہ سو رہی تھی ورنہ اسے دیکھ خوامخواہ ہی ماہے کا موڈ خراب ہوجاتا۔۔
چینج کر کے وہ واپس اپنی جگہ پر آکر لیٹ گیا۔۔
نیند اس پر کب مہربان ہوئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔۔
اگلا دن ایک بار پھر پوری شان سے طلوع ہوا تھا صبح ہی وہ لوگ ہوٹل سے نکل گئے تھے ان کا ارادہ باہر بریک فاسٹ کرنے کا تھا اور پھر آگے کا سفر شروع ہونے والا تھا۔
برف باری کا سیزن شروع ہونے والا تھا آنسہ سب سے زیادہ پرجوش تھی۔۔
طویل سفر کے بعد بالآخر وہ اپنی منزل پر پہنچے تھے۔۔
تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد انہوں جھیل پر جانا تھا۔
"ماہے "
وہ بیڈ پر بیٹھی اپنا موبائل چیک کر رہی تھی جب عالم کی آواز پر اس نے سر اٹھایا۔
"کچھ نہیں"
فقط اتنا کہتے وہ کھڑکی پر آکر کھڑا ہو گیا۔
انہیں یہاں آئے ہوئے ہفتہ ہونے والا تھا لیکن ماہے نور کا رویہ اب تک اسکے ساتھ ویسا ہی تھا۔
وہ حق بجانب تھی لیکن اسکا دل تکلیف میں تھا
اسے لگتا تھا وہ اسکی ناراضگی سہتے اس دنیا سے چلا جائے گا ہمیشہ کے لئے۔
وہ اسے منانا چاہتا تھا۔۔
سینے پر بوجھ بڑھا تو وہ بالکونی میں آگیا۔
وہ ڈاکٹر کے بھی نہیں جا رہا تھا اسے لگتا تھا ڈاکٹر اسے کوئی روح فرسا خبر سنا دینگے۔
پرانی یادوں میں کھوتا وہ کہیں پانچ سال پیچھے چلا گیا تھا جس دن عاقب نے اسے وہ خبر دی تھی۔
اسکی ماہے چلے گئی تھی۔
یہ سن اس نے بس ایک نظر عاقب کو دیکھا تھا اور وہ پاکستان جانا چاہتا مگر اگلے لمحے وہ اس اندھیروں کی دنیا میں چلا گیا تھا۔
وہ نہیں جانتا وہ کتنے وقت اسپتال میں رہا اسے جب ہوش آیا تو سب کچھ بدل چکا تھا۔۔
وہ کومہ میں تھا۔۔
وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکا تھا تو کیا وہ اتنا کمزور تھا ؟
اس نے خود سے پوچھا تھا۔
ڈاکٹرز کے مطابق اسکا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا اسکی ول پاور بالکل ختم تھی بہت مشکل سے اسے بچایا گیا تھا۔۔
وہ گھر واپس آگیا تھا۔
مگر اپنے ساتھ وہ ایک تکلیف لایا تھا۔۔
جب جب وہ ماہے کو یاد کرتا اسکے دل پر دباؤ بڑھنے لگتا۔۔
اس سے سانس لینا مشکل ہوجاتا وہ ایک پچھتاووں سے بھری زندگی گزار رہا تھا۔۔
ڈاکٹرز کے مطابق اسکے ذہنی دباؤ کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے وہ میڈیسن نہیں لیتا تھا وہ مر جانا چاہتا تھا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا وہ پاکستان آیا اور اسے جینے کی وجہ مل گئی ۔
ماہے کے لفظ اسے درد دیتے تھے مگر وہ خوشی خوشی یہ درد سہنے کو تیار تھا۔۔
گہری سوچوں سے وہ موبائل کی آواز پر باہر آیا ۔۔
بارز کی کال تھی وہ اسے نیچے بلا رہا تھا۔
طبعیت میں بوجھل پن تھا وہ بالکل بھی نہیں جانا چاہتا تھا۔۔ لیکن اسکی وجہ سے سب کا پلین خراب ہوتا وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا اس لئے خود کو ریلکس کرتے وہ جیکٹ پہنتا نیچے کی طرف بڑھا جہاں سب اسکے منتظر تھے۔۔
وہ لوگ راستے میں ہی تھے کہ بارش شروع ہونے لگے آگے جانا بیکار تھا مگر ماہے کی ضد تھی کہ وہ آگے جائے۔
"اسٹاپ دس بیمار ہوجاؤ گی ہم بعد میں چلیں گے"
وہ اسکے لئے فکر مند تھا۔
"گاڑی واپس ہوٹل کی طرف کرلو"
عالم کے بولنے پر وہ لوگ ایسے ہی واپس ہوٹل آگئے۔
پارکنگ سے اندر آنے تک وہ چاروں بری طرح بھیگ چکے تھے۔۔
وہ روم میں آیا تو وہ ایسے ہی بیڈ پر بیٹھی تھی۔
"ماہے چینج کرلو "
اسکی بات سنی ان سنی کرتے وہ ایسے ہی بیٹھی رہی۔۔
"ماہے چینج کرلو بیمار ہوجاؤ گی"
"نہیں کرنا چینج سمجھ آئی جائیں اپنا کام کریں"
وہ حد سے زیادہ بدتمیز ہو گئی تھی۔
"تو تم نہیں چینج کرو گی؟"
"نہیں "
دو ٹوک انداز ۔
عالم نے ایک نظر اسے دیکھا اور بنا اسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دئیے اسے بازوؤں میں اٹھایا۔
"چھوڑیں یہ کیا بدتمیزی ہے"
وہ چیخی تھی مگر بنا اسکی سنے عالم نے اسے ڈریسنگ ٹیبل پر بٹھایا تھا اور دونوں طرف سے راستے بند کئے۔۔
وہ بے بس سی اسکے حصار میں قید تھی جو اب دراز سے ڈرائیر نکال کر اسکا پلگ لگا رہا تھا۔
"ہمت کیسے ہوئی آپ کی میرے ساتھ یہ حرکت کرنے کی؟"
اسکے سینے پر ہاتھ مارتے وہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔۔
"ایک کہنا مان لیتیں تو مجھے یہ سب نہیں کرنا پڑتا لیکن شاید تم یہی چاہتی ہو"
ایک ہاتھ سے اسکے دونوں ہاتھوں کو قابو کرتا وہ دوسرے ہاتھ کی مدد سے اسکے بال کھول گیا۔۔
کندھے تک آتے بال۔۔
کبھی اسکے بال کمر سے بھی نیچے ہوا کرتے تھے۔
ہونٹ بھینچتے اس نے ڈرائیر اٹھایا وہ اب اسکے بال سکھا رہا تھا۔
ماہے نے غصے سے لال ہوتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھا۔
"اب چینج کرلو یا وہ بھی میں کرواؤں ؟" اسکے بالوں کو ٹھیک کرتا وہ اسے آزاد کر گیا۔۔
"آئی ہیٹ یو عالم آئی ہیٹ یو"
اسے دھکا دے کر ڈریسنگ روم سے نکالتی وہ دروازہ بند کرتے زمین پر بیٹھتی چلے گئی۔
وہ کیوں اتنا اچھا بن کر آیا تھا کیوں وہ اس کے دل پر ایک بار پھر اپنی حکومت کرنا چاہتا تھا آخر کیوں۔۔
"نہیں میں اس بار غلطی نہیں کروں گی میں آپ کو اپنے دل کے رسائی نہیں دوں گی کبھی نہیں۔۔۔"
بے دردی سے گال رگڑتے وہ خود سے عہد کر رہی وہ عہد جسے بہت جلد ٹوٹ جانا تھا
___________
حسین وادی اور یہاں کی سب سے خوبصورت جھیل۔۔۔
وہ چاروں ایک جگہ بیٹھے اس حسین نظارے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔
"آپ لوگ یہاں بیٹھو میں اوپر جا رہی "
ماہے نے اوپر کی جانب اشارہ کیا جہاں سے برف میں ڈھلے پہاڑوں کا منظر بے انتہا خوبصورت لگتا تھا۔
سورج اب ڈھلنے کے قریب تھا اور وہ یہ نظارہ دیکھنا چاہتی تھی۔
آنسہ اور بارز اتنا تھک گئے تھے کہ وہ بس واپس جا کر سونا چاہتے تھے اس لئے بنا عالم سے پوچھے وہ اوپر کی جانب چلے گئی۔
"عالم بھیا آپ کب تک گلٹ میں رہیں گے جائیں اور بات کریں اس سے میں چاہتی ہوں جب ہم لوگ یہاں سے جائیں تو آپ اور ماہے خوش ہوں ایک ساتھ۔۔"
آنسہ نے اسے سمجھایا تھا۔
"میں بعد میں"
"بعد میں نہیں ابھی "
"اوکے ٹھیک ہے"
ان دونوں کی ضد پر وہ اس جانب بڑھا جہاں کچھ دیر پہلے ماہے گئی تھی۔
سیڑھیاں چڑھتے اسکا سانس بھول رہا تھا۔۔
وہ ایک کونے میں کھڑی تھی اسکے سامنے دیوہیکل برف سے ڈھکے پہاڑ تھے۔
وہ جو خاموشی سے ان نظاروں کو دیکھ رہی تھی اپنی کمر پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرتے پلٹی تو سامنے اسے پایا۔۔
اسکے ماتھے پر بل نمودار ہوئے تھے۔
"ماہے٫"
"کہیں تو مجھے سکون لینے دیں ابتہاج عالم شاہ۔۔
آپ سے دور ہونے کے لئے میں یہاں آئی اور آپ میرے پیچھے آگئے آپ کو سمجھ کیوں نہیں آتا مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا"
"میں تم سے معافی "
وہ کچھ کہنے لگا تھا جب ہاتھ اٹھاتے وہ اسے کچھ بھی کہنے سے روک گئی۔۔
"میں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں ماہے"
اسکے روکنے پر بھی وہ نہیں رکا تھا۔۔
"معافی کس چیز کی معافی ابتہاج عالم کس کس چیز کی معافی مانگیں گے آپ ؟"
وہ آج رحم کھانے کے موڈ میں نہیں تھی۔
"جانتے ہیں ان پانچ سالوں میں آپ کی وجہ سے میں نے کیسا وقت گزارا ہے ہر وقت لگتا تھا جیسے میں واقعی ایک بدکردار لڑکی ہوں میں خوشیاں ڈیزرو نہیں کرتی ہر خوشی سے منہ موڑ لیا تھا میں صرف اور صرف آپ کی وجہ سے۔۔ میرے ماں باپ میری وجہ سے اتنا پریشان ہوئے۔۔
میری طلاق ہوگئی میں بسنے سے پہلے ہی اجڑ گئی کس کس چیز کی معافی دوں میں آپ کو عالم بتائیں مجھے".
"میں شرمندہ ہوں ماہے میں غلط تھا جو چاہے سزا دو مگر "
وہ اب اسکے آگے گڑگڑا رہا تھا ہاں وہ ابتہاج عالم شاہ جس نے کبھی سر نہیں جھکایا تھا آج وہ اپنے سے چھوٹی لڑکی سے معافی مانگ رہا تھا محبت کی بھیک مانگ رہا تھا گڑگڑا رہا تھا۔۔
اس نے اپنی انا کو محبت پر ترجیح نہیں دی تھی مگر سامنے کھڑی لڑکی خود سے جنگ لڑتے لڑتے تھک گئی تھی۔
وہ پھر سے محبت نہیں کر سکتی تھی۔۔
"شرمندہ کیوں ہیں آپ ہاں۔۔ ٹھیک کہا تھا آپ نے جو جو اس رات کہا تھا ٹھیک کہا تھا ۔۔ ماں باپ کو دھوکہ دینے والی لڑکیاں کسی کی نہیں ہوتیں یا انہیں کوئی اپناتا ہی نہیں ہے بالکل ٹھیک کہا تھا ۔۔ جب مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا تو کیوں آئے واپس ؟"
وہ رو رہی تھی آنسو اسکے گال بھگو رہے تھے اور یہی حال مقابل کا تھا اسکا چہرہ انتہا کی حد تک سرخ تھا۔
اسکی سانسیں ناہموار تھیں۔
"جواب دیں کیوں آئے واپس؟"
"ماہے۔۔۔ مج۔۔مجھے مع۔۔ا۔۔معاف کردو تم جو کہو گی۔۔ میں۔۔۔ میں کرو نگا" اسکی زبان لڑکھڑا رہی تھی بولنے کی ہمت بالکل ختم تھی۔
دل میں درد سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں جنہیں دبائے وہ اس کے سامنے کھڑا تھا وہ آج اسے بولنے دینا چاہتا تھا سالوں کا غبار تھا اسکے اندر نکل جاتا تو شاید وہ اسے معاف کردیتی۔۔
اس ایک آس کے تحت اپنی تکلیف بھلائے وہ اسکے سامنے تھا۔۔
"جو بولوں گی آپ کرینگے عالم" اس نے سوال پوچھنے میں تھوڑا وقت لیا مگر عالم نے جواب دینے میں دیر نہیں کی تھی۔
اسکا سر فوراً سے اثبات میں ہلا گیا۔۔
"مجھے طلاق دے دیں ۔۔ "
پہاڑوں میں اسکے لفظوں کی بازگشت سنائی دینے لگی تھی۔
بے یقین نظروں سے عالم نے اسکے لفظوں کو سنا تھا دل پر ان لفظوں نے کاری وار کیا تھا۔۔
"طلاق دے دیں مجھے میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی مجھے گھٹن ہوتی ہے آپ کے ساتھ" اسکی حالت سے بے نیاز وہ اپنے لفظوں سے اسکا دل چیر کر رکھ رہی تھی۔
ہاں وہ خود غرض ہو کر اسے ویسی ہی تکلیف دینا چاہتی تھی جیسے عالم نے اسے دی تھی ۔
اسکی پشت عالم کی طرف تھی۔
"ماہے" دل پر ہاتھ رکھے اس نے بہت دقت سے یہ نام لیا تھا۔
"میں کردونگی معاف اگر آپ مجھے چھوڑ دینگے"
وہ یہ لفظ سہہ نہیں پایا تھا گھنٹوں کے بل وہ زمین پر گرا تھا۔
ایک جھٹکے سے وہ مڑی تھی۔
"عالم"
"مجھے معاف کردینا"
دل پر ہاتھ رکھتے وہ بمشکل کہہ سکا۔۔
"عالم۔۔۔ عالم کیا ہوا ہے آپ کو خدا کے لئے عالم یہ مت کریں میرے ساتھ۔۔"
اسکا سر اپنی گود میں رکھے وہ اسے پکار رہی تھی۔
جو بند ہوتی آنکھوں سے اسکے صبیح چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔
"معاف کر" بولنے کی کوشش میں دل کا درد بڑھتا جارہا تھا
"عالم آنکھیں کھولیں کیا ہو رہا ہے آپ کو عالم۔۔۔ میری بات سنیں عالم۔۔"
وہ بدحواس سی اسے پکار رہی تھی جو آنکھیں موندے اسکی گود میں پڑا تھا۔
"بارز بھائی۔۔۔۔۔۔ آنسہ۔۔۔ کوئی مدد کرے"
وہ زور سے چیخی تھی عالم کو یہاں اکیلے چھوڑنے کا حوصلہ ہی نہیں تھا۔
"عالم اٹھیں خدا کے لئے میرے ساتھ ایسا مت کریں میں ۔۔۔ عالم اٹھ جائیں" مدد کے لئے چیختے وہ پاگلوں کی طرح اسے پکار رہی تھی جب کچھ لوگ اسکی طرف آئے تھے۔
اور عالم کو دیکھ بنا وقت ضائع کئے انہوں نے اسے اٹھایا تھا۔
ان لوگوں کے ساتھ وہ تیز سے نیچے آئی۔
"بارز۔۔ آنسہ عالم"
اس نے پیچھے کی جانب اشارہ کیا۔
بارز فوراً سے پہلے عالم کے پاس پہنچا تھا۔۔
________
اسپتال کے کوریڈور میں وہ ایک کونے میں بیٹھی سسک رہی تھی۔
بارز اور آنسہ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اسے۔۔
بارز کے اشارے پر آنسہ آہستہ سے اسکے پاس آکر بیٹھی جس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
"ماہے سنبھالو خود کو سب ٹھیک ہو جائے گا بھیا ٹھیک ہونگے"اسکے سسکتے وجود کو آنسہ نے اپنے ساتھ لگایا۔۔
اسکے رونے کی رفتار میں تیزی آئی تھی وہ بس روئے جارہی تھی بنا کچھ بھی کہے ۔۔
"آنسہ وہ میرے ہاتھوں میں"
آنسہ انہیں کہو نا میرا اور امتحان نا لیں "
وہ بےبسی کی انتہا پر تھی کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ۔
بارز نے گھر پر کسی کو نہیں بتایا تھا وہ کسی کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ایسے وقت میں وہ اکیلا نہیں رہ سکتا تھا اس لئے عاقب کو اس نے بتایا جو فوراً سے وہاں سے نکلا تھا۔۔
ناجانے کتنی صبر آزما گھڑی کے بعد ڈاکٹر باہر آئے تھے۔
"ڈاکٹر کیا ہوا ہے میرے بھائی کو ؟"
"دیکھیں ابھی فلحال ہم کچھ نہیں کہہ سکتے آپ بتائیں کیا ان کی کوئی میڈیکل ہسٹری ہے؟"
"میڈیکل ہسٹری ؟" بارز ماہے کو دیکھا۔
مگر وہ لاعلم تھی۔
"ہم نے ٹیسٹ کئے ہیں آپ بس دعا کریں"
انہیں کہتا ڈاکٹر واپس اندر چلا گیا۔۔
ڈاکٹرز اندر تھے عالم اندر تھا اور اسکے لئے تڑپتی ماہے باہر۔۔
آج پانچ سال بعد اسے پھر ایسا لگا کہ اس نے عالم کو کھو دیا۔۔
"ماہے پلیز مت رو تمہاری طبعیت خراب ہو جائے گی"
"مجھے عالم چاہئے آنسہ انہیں کہو میرے پاس آئیں میں رو رہی ہوں مجھے ان کی ضرورت ہے" آنسہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ بس ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھی۔
"بارز۔۔۔" عاقب کی آواز پر بارز کے چہرے پر تھوڑا سکون آیا تھا۔
"کیا ہوا ہے عالم کو بتاؤ مجھے ؟"
"کچھ نہیں پتا ہمیں وہ وہاں گر کر بیہوش ہوگئے اور اب انہیں ہوش نہیں آرہا " آنسہ کے جواب پر عاقب نے ایک نظر سسکتی ماہے کو دیکھا۔
"ڈاکٹر پوچھ رہے ہیں کیا ان کی کوئی میڈیکل ہسٹری ہے؟"
بارز ہی بات پر عاقب کو چپ لگی تھی۔
پھر سے وہی کہانی دہرائی جا رہی تھی کاش وہ پاکستان نا آتا۔۔
ڈاکٹر ایک بار پھر باہر آئے تو سب سے پہلے عاقب آگے بڑھا تھا ڈاکٹر نے بارز کو کچھ لانے کے لئے کہا تھا۔۔
"آنسہ بیٹا اسکے ساتھ جاؤ وہ ٹھیک نہیں ہے" عاقب نے جان کر اسے وہاں سے بھیجا تھا۔
"ڈاکٹر کیسا ہے عالم؟"
"دیکھیں ان کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے وہ ریسپانس نہیں دے رہے"
"کیا مطلب آپ کا رسپانس نہیں دے رہے کیسے ڈاکٹر ہیں آپ ٹھیک کریں نا انہیں " ڈاکٹر کی بات پر وہ بپھری شیرنی کی طرح آگے آئی تھی۔
"ماہے ریلکس کچھ نہیں ہوا عالم کو"
"ڈاکٹر عالم کی میڈیکل ہسٹری ہے وہ پانچ سال پہلے کومہ میں گیا تھا اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی۔۔"
عاقب کے لفظوں نے ماہے کو پتھر کا کیا تھا وہ پھٹی آنکھوں سے عاقب کو دیکھ رہی تھی۔
"کیا کچھ ایسا ہوا جس کا انہیں صدمہ ہوا ہو؟" ڈاکٹر اب ماہے سے پوچھ رہے تھے۔۔
", مجھے طلاق دے دیں" اپنے ہی کہے جملے سانپ کی طرح اسے ڈس رہے تھے۔
"ماہے کچھ ہوا تھا ایسا ؟"
"میں نہیں.." اس سے سانس نہیں لیا جا رہا تھا اس نے اپنے عالم کو مار دیا تھا۔
"میں نے کیا کر دیا میں نے عالم کے ساتھ کیا کر دیا" بڑبڑاتے اس نے اپنے قدم پیچھے لئے تھے۔۔
"ڈاکٹر میں آپ کو عالم کی میڈیکل رپورٹ دیکھاتا ہوں"
عاقب نے جلدی اپنے بیگ سے عالم کی رپورٹس ڈاکٹر کو دی تھیں عالم اپنی رپورٹس اپنے ساتھ رکھتا نہیں تھا وہ ہمیشہ سے عاقب کے پاس رہی تھی۔
ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ ماہے کی جانب پلٹا تھا۔
"ماہے کیا ہوا تھا مجھے سچ سچ بتاؤ ماہے"
"میں نے مار دیا اپنے عالم کو۔۔"
"ماہے بس کرو بتاؤ مجھے کیا ہوا تھا" وہ اس پر چیخا ۔
اسکے چیخنے پر ہوش میں آتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔
"بتاؤ مجھے ماہے ورنہ عالم مر جائے گا"
عاقب کی بات پر اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سب اسے بتاتی چلے گئی۔
شروع سے آخر تک۔۔
اسکی بات پر عاقب نے بے اختیار پر اپنے ماتھے کو مسلا تھا۔
"تم جانتی ہو پانچ سال پہلے جب اس نے تمہیں چھوڑا تھا تب بھی اسکی یہی حالت ہوئی تھی۔۔ اتنے وقت وہ کومہ میں رہا بستر پر پڑا رہا اسکی زندگی ختم ہوگئی تھی ماہے سب برباد ہوگیا تھا۔
میں نے اس سے کہا تھا تم نہیں رہیں اس دنیا میں مر گئی ہو وہ پاگل ہوگیا تھا اس نے خود پر زندگی کی ہر خوشی حرام کرلی تھی۔
میں نے دیکھا ہے اسے تڑپتے ۔۔ مجھے اس وقت احساس ہوا میں نے جھوٹ بول کر کتنی بڑی غلطی کر دی وہ موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔۔
وہ غلطی پر تھا مگر وہ تمہیں چھوڑ کر تمہیں اس اذیت سے بچانا چاہتا تھا جو اسکے ساتھ رہتے تمہیں ملتی اور جب اسے پتا چلا تم زندہ ہو میں نے اسے زندگی کی طرف لوٹتے دیکھے وہ خوش رہنے لگا تھا مسکرانے لگا تھا لیکن آج وہ تمہاری وجہ سے اس حال کو پہنچ گیا ماہے ایک بار پھر وہ موت کی دہلیز پر پہنچ گیا کاش وہ واپس نا آتا کاش وہ تم سے نا ملتا کاش۔۔۔٫"
اسکی بات پر وہ پتھر بنی اسے دیکھ رہی تھی۔
اب کیا اور بھی کوئی راز تھا جس سے وہ انجان تھی۔
"تم دعا کرو اسے کچھ نا ہو ماہے تمہاری وجہ سے وہ زندہ ہے"
عاقب کے لفظوں پر وہ تڑپی تھی کسی نے اسکے دل پر وار کیا تھا۔
بے بسی سے روتی وہ زمین پر بیٹھتی چلے گئئ۔
عاقب نے اس بے بس وجود کو دیکھا۔
کیسی محبت تھی ان کی جو دونوں کو اس مقام تک لے آئی تھی کہ نا وہ ایک دوسرے سے دور جا پارہے تھے نا قریب آرہے تھے ۔
____________
چھت کی منڈیر سے ٹیک لگائے وہ شفاف آسمان کو دیکھ رہی تھی۔
ہر چیز بہت خوبصورت تھی اسکی زندگی کی طرح۔
"بھاؤ"
وہ جو گم تھی اچانک آواز کر اسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔۔
دل پر ہاتھ رکھے وہ پلٹی تو آبان کو اپنے پیچھے کھڑے دیکھ اس کی جان میں جان آئی۔
"بان ایسے کوئی ڈراتا ہے؟"
"ایسے کوئی ڈرتا ہے؟"
"یس میں ڈرتی ہوں میرا دل چھوٹا سا ہے نا"
آنکھیں پٹپٹا کر کہتی وہ اسے معصوم سی گڑیا لگی وہ بے اختیار ہی مسکرا اٹھا۔
"یہاں کیون کھڑی ہو ٹھنڈ لگ جائے گی"
"یہاں کا ویو بہت پیارا ہے اب روز ان راستوں پر جانا ہے میں بہت خوش ہوں"
اسکے چہرے سے وہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ بہت خوش ہے۔
"اسی بات پر نیچے چلو آئسکریم لایا ہوں میں تمہارے لئے لٹل ریبٹ"
"بان اٹس ناٹ فئیر "
خود کو خرگوش کہے جانے پر اس نے منہ بنایا تھا مگر پھر آئسکریم کا سوچ وہ جلدی سے آبان کو پیچھے چھوڑ بھاگتی نیچے کی جانب بڑھی تھی۔۔
"اوو گاڈ میرا فیورٹ فلیور"
"میرب آجاؤ تم بھی آئسکریم لایا ہے آبان"
"نہیں خالہ میں نہیں کھاتی"
عائشہ نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔
اس کے انداز یہاں آکر عجیب سے ہوگئے تھے عائشہ نے سوچ لیا تھا کہ وہ میرب سے بات کرے گی۔۔
اور پھر انہیں موقع مل گیا۔
بنفشے اور آبان پلوشہ کے ساتھ گئے تھے امو جان سو رہی تھیں۔
وہ سیدھا اسکے کمرے میں آئی جو بیڈ پر آڑی ترچھی لیٹی موبائل یوز کرنے میں مگن تھی۔
"میرب ؟"
عائشہ کی پکار پر اسکے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔
"بات کرنی ہے مجھے تم سے"
"تو کریں مما کس نے منع کیا ہے".
اسکے تو رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے عائشہ کو حیرت ہوئی تھی یہ اسکی بیٹی تو نہیں تھی۔
"بولیں بھی ضروری کام کرنا ہے مجھے پھر"
"یہ کونسا طریقہ ہے میرب مجھ سے بات کرنے کا ماں ہوں میں تمہاری اور آخر تمہیں یہاں آ کر ہو کیا گیا ہے "
وہ بے انتہا غصے میں تھی۔
",آپ کو مجھ پر کبھی پیار آیا ہے ؟ ہر وقت غصہ غصہ غصہ۔۔ یہاں تو چھوڑ دیں "
"کیا فضول بول رہی ہو"
"ٹھیک تو بول رہی ہوں یہاں آکر مجھے لگتا ہے میرا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے نا پہلے بس ماہے ماہے ماہے ماہے۔۔۔ اور اب پلوشہ یہ پلوشہ وہ۔۔ اسکی پسند یہ اسکی پسند وہ۔۔۔ "
"میرب"
"مما مجھے میری زندگی سکون سے جینے دیں خدا کا واسطہ ہے آپ کو"
اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے تھے۔
یہ ان کی میرب تو نہیں تھی اس کے انداز میں کسی اور کا رنگ نمایاں تھا اور جو نام عائشہ کے زہن میں آیا تھا اس نے عائشہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
"آرام کرو بیٹا میں فضول میں غصہ کر گئی"
عائشہ نے بہت نرمی سے اسکا گال سہلاتے کہا جس پر میرب کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔
عائشہ نے سوچ لیا تھا وہ اس بارے میں زین سے بات کر کے رہے گی چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔۔۔
*************
وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔
وہ چاروں ہاسپٹل میں پریشان سے بیٹھے تھے۔۔
یشم اور واثق دونوں کراچی میں تھے انہیں یہاں آنے میں بھی وقت لگتا۔
"بارز تم آنسہ اور ماہے کو لے کر ہوٹل جاؤ میں ہوں یہاں"
"ہر گز نہیں میں نہیں جاؤں گی بالکل بھی نہیں جاؤں گی"
ماہے ایک دم بپھری ۔۔
"ٹھیک ہے ماہے ریلکس۔۔تم یہی رکو۔۔"بارز اور آنسہ جانا ہی نہیں چاہتے تھے لیکن عاقب کے زور دینے پر وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔۔
"ماہے تم یہاں رہو میں کچھ کھانے کو لاتا ہوں"
"مجھے کچھ نہیں کھانا مجھے بس میرے ایک سوال کا جواب دے دیں "
"کون سا سوال ؟"
"ماضی میں ایسا کیا ہوا تھا جس کا سب کو پتا سوائے میرے"
اسکا سوال غیر متوقع تھا۔
"یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے ماہے"
"یہ وقت انہیں باتوں کا ہے یہ میری زندگی کا سوال ہے عاقب بھائی میرے اور عالم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ عام بات نہیں تھی ہم دونوں کی زندگیاں برباد ہوگئی ہیں مجھے سچ جاننا ہے خدا کے لئے مجھے سچ بتا دیں عاقب بھائی "
اس نے عاقب کے آگے ہاتھ جوڑے۔
"ماہے "
"آپ کو عالم کی قسم۔۔۔"
عاقب نے لب بھینچے تھے لیکن اب شاید وقت آگیا تھا ماضی کو ایک بار ہی سامنے لانے کا۔۔
_______
باہر رات کی سیاہی نے اپنا ڈیرہ جمایا تو وہیں ہلکی بارش نے فضا میں خنکی سی بھر دی تھی ۔۔
یوسفزئی مینشن میں اس وقت گہرا سناٹا تھا ہر کوئی گہری نیند میں گم تھا۔
ایسے میں نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔
اپنا بیگ کھولے وہ سارا سامان دیکھنے لگی تبھی کونے میں اسے اپنی ڈائری نظر آئی۔
یہ ڈائری اسے جان سے زیادہ عزیز تھی کیونکہ یہ ڈائری اسے اسکی آرزو مما نے دی تھی۔
ہاں آرزو اس کے لئے اسکی ماں تھی۔
دھیان ہے دھاگے ماضی میں الجھے تھے۔
جب وہ مانچسٹر شفٹ ہوئے وہ بہت چھوٹی تھی وقت گزرتا گیا اور وہ بڑی ہوتی گئی اسکول میں اسکا ایڈمیشن ہوگیا ۔۔
اس معصوم دل میں سوائے محبتوں اور خوشیوں کے کچھ نہیں تھا۔
وہ ففتھ اسٹینڈرڈ میں تھی جب ایک دن ایک ٹیچر ان کی کلاس میں آئیں۔۔ آرزو ۔۔۔ ہاں وہ ٹیچر آرزو تھی لل
میرب کو لگا اس نے انہیں کہیں دیکھا ہے مگر کہاں اسے نہیں سمجھ آیا۔
وقت گزرتا جا رہا تھا اور وہ آرزو کے قریب ہوتی جا رہی تھی۔
آرزو اسے اپنی بیٹی کی طرح ٹریٹ کرنے لگی اس کے لئے میرب سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا لیکن آرزو نے میرب سے ایک پرامس لیا تھا کہ وہ کبھی اسکا ذکر اپنے گھر پر نہیں کرے گی اور میرب وہ آرزو کی اتنی دیوانی کہ وہ اسکی ہر بات ماننے کو تیار تھی۔۔
روز وہ دونوں اچھا وقت ساتھ گزارتیں۔۔
ایک دن وہ آرزو کے پاس اسکے آفس روم میں آئی مگر وہ کہیں نہیں تھی لیکن جس چیز نے میرب کی توجہ کھینچی وہ آرزو کی ٹیبل پر رکھی تصویر تھی۔۔
وہ بری طرح چونکی تھی کیونکہ اس تصویر میں آرزو کے ساتھ ایک بچہ تھا۔
وہ بچہ اس نے کہیں دیکھا تھا آہستہ سے قدم بڑھاتے وہ اس تصویر کے پاس آئی تو ایک اور جھٹکا اسکا منتظر تھا وہ اس کی بچپن کی تصویر تھی۔
جس میں آرزو اسے گود میں لئے بیٹھی مسکرا رہی تھی۔
وہ ٹین ایجر تھی ڈراموں کی شوقین اپنی بچپن کی تصویر اور خود کو آرزو کے ساتھ دیکھنے نے اسے چونکا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو میرب؟"
"میم یہ میں ہوں نا آپ کے ساتھ؟" میرب کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا وہ اس سے پوچھ رہی تھی آرزو نے چند لمحے سوچا تھا بس۔۔
"میں تمہیں سب سچ بتا دوں مگر تمہارے ایگزیم کے بعد"
میرب راضی نہیں تھی مگر وہ آرزو کی بات نہیں ٹال سکتی تھی۔
وہیں دوسری طرف ماہے کو ملنے والی اہمیت میرب کو حسد میں مبتلا کرنے لگی تھی۔۔
وہ آرزو سے اپنی ہی ماں کی شکایتیں کرنے لگی۔
ماہے اس سے چھوٹی تھی وہ گھر کی سب سے چھوٹی بچی تھی سب کی لاڈلی اور میرب اسے لگنے لگا تھا ماہے کی وجہ سے اسے ڈی گریڈ کیا جاتا ہے ۔
حسد جلن اس چھوٹی بچی کے دماغ میں اپنی جگہ بنانے لگے تھے جنہیں آرزو نے بڑھاوا دے کر مزید مضبوط کر دیا تھا اور پھر وہ دن آیا جب آرزو نے میرب کو اپنے گھر بلایا۔
زندگی میں پہلی بار اپنے ماں باپ سے جھوٹ بول رہی آرزو سے ملنے آئی تھی اسکا گھر اسکول کے بالکل پاس تھا۔
اس گھر میں اپنی تصویریں دیکھ میرب کی آنکھیں پھٹی۔
ان تصویروں میں اس کے ساتھ زین تھا کہیں آرزو اور زین دونوں تھے مگر کیوں؟"
"آپ کون ہیں میری ؟"
میرب کو لگا اسکی زبان اسکا ساتھ نہیں دے رہی۔۔
"میں جانتی ہوں سچ تمہیں برداشت نہیں ہوگا لیکن۔۔"
"لیکن کیا؟"
میرب کا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔
"تمہارے بابا اور میں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے بہت محبت۔۔ لیکن عائشہ نے سب بگاڑ دیا یشم یوسفزئی اور بنفشے نے تمہارے بابا کو مجھ سے چھین لیا۔۔
"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں"
"تم میری بیٹی ہو میرب تم عائشہ کی بیٹی نہیں ہو تم میری اور زین کی بیٹی ہو وہ لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ زین نے عائشہ کے بجائے مجھے چنا تھا تمہارے بابا مجھ سے بہت محبت کرتے تھے دیکھو مگر ان لوگوں نے زبردستی میری شادی واثق سے کردی۔۔ وہ مجھے مارتا تھا بہت برا انسان تھا وہ میرب ۔۔۔
"میں آپ کی بیٹی کیسے ہوسکتی ہوں کیونکہ تقی میرا بھائی ہے سگا بھائی۔۔ وہ مجھ سے بڑا ہے مطلب مما کی شادی پہلے بابا سے ہوئی تھی نا"
اسکے سوال پر آرزو نے پہلو بدلہ ۔ اضطراب اسکے ہر انداز سے بیاں تھا۔
بے چینی سے اپنی انگلیاں مروڑتے وہ ہونٹ کاٹنے لگی جیسے اب کوئی نئی کہانی گھڑ رہی ہو۔۔
"بتائیں نا٫"
"تم عائشہ کی بیٹی نہیں ہو میرب تمہیں کیوں یقین نہیں آرہا اگر یہ تصویریں جھوٹی لگ رہی تو چلو ڈی این اے کروالو"
وہ بنا جواب دئیے کچھ اور ہی بول رہی تھی
میرب کو سمجھ نہیں آرہا تھا کچھ بھی نہ کیا کرے۔
"ٹھیک ہے مت کرو مجھ پر یقین گھر جاؤ اور اپنی ماں کے سامنے میرا نام لینا اگر میری بات سچ ہوگی تو وہ میرا نام سن کر ہی تمہیں ڈانٹ دے گی تب تمہیں پتا چل جائے گا کہ میں ہی تمہاری اصل ماں ہوں اور ان سب نے تمہیں مجھ سے چھین لیا۔۔
آرزو کی ساری باتیں اسکے سر پر سے گزر گئی تھیں وہ اتنی بڑی ہر گز نہیں تھی کہ ان باتوں کو سمجھتی ۔۔
گھر آکر بھی اسکا دماغ آرزو کی باتوں میں الجھا رہا ۔
"کیا سوچ رہی ہو میرب"
"مما یہ آرزو کون ہیں"؟
آرزو کے نام پر عائشہ کا رنگ فق ہوا تھا۔
"کون آرزو ؟"
"مما وہی آرزو واثق انکل "
"میرب جاؤ اٹھو اور اپنا ہوم ورک کرو اور آئندہ اس نام کو یہاں لینے کی ضرورت نہیں" عائشہ کا لہجہ ایک دم ہی تیز ہوا تھا۔
میرب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے بھاگ کر وہ اپنے کمرے میں بند ہوئی۔
تو یعنی جو آرزو نے کہا وہ ٹھیک تھا وہ عائشہ کی بیٹی نہیں ہے جبھی وہ ماہے سے زیادہ پیار کرتیں ہیں۔
اسکا دل بدگمانیوں سے بھر گیا تھا اور پھر آرزو نے باقی کسر پوری کر دی۔۔
اس نے پوری طرح میرب کو اپنے قابو میں کرلیا تھا۔
میرب کے دل میں اپنوں کے لئے صرف اور صرف زہر بھر دیا تھا۔
جھوٹی سچی باتوں کی ملاوٹ کر وہ میرب کو اپنی طرح بنا گئی تھی۔۔
حاسد۔۔۔ اور پھر اس نے میرب کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شروع کردیا۔۔
جتنا زہر میرب کے دل میں اپنے سگے رشتوں کے لئے تھا اسے دیکھ آرزو خوشی سے پاگل ہو جاتی تھی
اس نے عالم اور میرب دونوں کے دلوں میں اپنوں کے خلاف زہر بھر دیا تھا وہ آخر کار کامیاب ہوگئی تھی جو وہ نہیں کر سکی اس نے ان بچوں سے کروایا تھا۔
ایک کو محبت نے بچا لیا تھا لیکن دوسری کو محبت ہی نہیں ہوئی اسکے دل میں نفرت کا رنگ اس قدر پکا ہوگیا تھا کہ محبت کا رنگ اس پر چڑھتا ہی نہیں تھا۔۔
ماہے کو روتے تڑپتے دیکھ اس کا دل سکون سے بھر جاتا تھا اس نے عالم کے ساتھ مل کر اسے برباد کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر عالم نے بیچ راستے سب برباد کردیا۔
غصے سے اسکا برا حال تھا اور پھر وہ پاکستان آگئی۔
ماہے کی شادی تھی وہ کیسے خوش رہ سکتی تھی اسکی ماں کو برباد کر یشم کی اولاد خوش رہنے کا حق رکھتی ہی نہیں تھی۔
تبھی نکاح ہوتے ہی اس نے ماہے کے شوہر کو اسکی اور عالم کی تصاویر بھیج دی۔۔
جیسے ہی اس شخص نے وہ تصاویر دیکھیں میرب نے بنا وقت ضائع کئے انہیں ڈیلیٹ کردیا۔۔
اسکا کام ہوچکا تھا۔
اس دن ماہے یوسفزئی اصل معنوں میں برباد ہوئی تھی ایک سکون سا اسکے دل میں اترتا چلا گیا تھا۔۔
اور اب پانچ سال بعد اسے پھر عالم کے ساتھ دیکھ اسکے سینے پر سانپ لوٹے تھے۔۔
اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی وہ خوش تھی اسے اسکی محبت مل گئی تھی اور میرب اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی اس کے ہاتھ خالی تھی۔
دل میں ان سب کے لئے بھری کدورت میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
عالم نے اسے آرزو کا اصل روپ دیکھانے کی لاکھ کوشش کی مگر وہ ماننے کو تیار نہیں تھی۔
ایک وقت سے پہلے سنبھال گیا تھا مگر اسکا کیا ہونا تھا اسکی حسد اور جلن اسے کہاں لے کر جانے والی تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا
___________
وہ بت بنی عاقب کے سامنے بیٹھی تھی۔
اس پورے لمحے اسے ایک بار بھی عالم سے نفرت محسوس نہیں ہوئی نا خود سے ہمدردی ۔
"وہ اتنا کچھ اکیلے برداشت کرتے رہے"
اسکا دل عالم کی تکلیف کا سن ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا ۔
"اسے سنبھال لو ماہے وہ ٹوٹا بکھرا شخص ہے تم اسے چھوڑ دو گی تو وہ اور بکھر جائے گا اور اب اگر وہ بکھرا اور ٹوٹا تو نا کبھی سنبھل سکے گا نا جڑ سکے گا"
عاقب کی بات پر اس نے محض سر ہلایا تھا۔
اسے وہاں بیٹھنے کا کہتا وہ ڈاکٹر کے آفس چلا گیا۔
عاقب کے جانے پر وہ اتنی تھی اور دروازے کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔
ڈور پر لگی وہ چھوٹی سے گلاس ۔۔
اس گلاس سے اسے عالم نظر آرہا تھا آکسیجن ماسک اسکے چہرے پر لگا تھا ہاتھوں میں ڈرپ لگی تھیں۔
اسے اپنا وقت یاد آگیا۔
"اب ہمارا حساب برابر ہوگیا ہے اب ہم نئی کہانی شروع کرینگے عالم"
وہ زیر لب اس سے مخاطب ہوئی تھی جو گہری نیند میں تھا۔
پورے ایک دن بعد ڈاکٹر نے اسکے ٹھیک ہونے کی خبر سنائی تھی۔
وہ ٹھیک تھا۔
اسے ہوش آگیا تھا۔
سب اس سے ملے تھے عاقب نے گھر بتانا چاہا مگر وہ اسے روک گیا۔۔
"عالم ماہے کل سے یہاں ہے کیا تو اس نے ملنا چاہتا ہے؟"
عاقب کی آواز پر اسکے کا رواں رواں جواب کا منتظر تھا
"نہیں"
اور جواب پر وہ کچھ نا کرسکی۔۔
خاموشی سے ایک طرف جا کر بیٹھ گئی ۔
"ماہے وہ "
"میں تھک گئی ہوں ہوٹل جانا چاہتی ہوں "
عاقب نے اسکا چہرہ دیکھا جس کے سارے رنگ ناجانے کہاں چلے گئے تھے۔
وہ جا چکی تھی عاقب نے افسوس سے ان دونوں کو دیکھا دونوں ہی آگے بڑھنے کو راضی نہیں تھے ایک بڑھتا تو دوسرا پیچھے قدم لے لیتا۔۔
ناجانے اب ان دونوں کا کیا ہونا تھا۔۔
_________
پلوشہ کا کالج اسٹارٹ ہوگیا تھا آبان بھی یہاں اپنا بزنس سیٹ کرنے میں لگا ہوا تھا یہاں وہ ایک ریسٹورنٹ بنانا چاہتا تھا جس کے انٹیریئر کے لئے وہ سب سے زیادہ پرجوش تھا ۔
وہ اس ریسٹورنٹ کو جدید اور قدیم دو رخ دینا چاہتا تھا۔
اور اب بھی وہ اپنے سامنے پیپر پھیلائے اپنا پلان تیار کر رہا تھا ۔ جب سیڑھیاں اترتے پلوشہ نے اسے دیکھا اور پھر بس دیکھتی رہ گئی۔
براؤن شال سے خود کو کور کئے وہ انہماک سے فائل پر جھکا ہوا تھا ۔
براؤن بال ماتھے پر بکھرے پڑے تھے کھڑی ستواں ناک چہرے پر موجود شیو۔۔
اسے لگا کہانی کا کوئی کردار کتاب سے نکل کر اسکے سامنے آگیا ہوں۔۔
خالی دل پر ایک دستک ہوئی تھی جیسے کوئی دل کا در کھول کر اندر آنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔
نظروں کی تپش کر آبان نے سیڑھیوں کی جانب دیکھا جہاں وہ اسٹل کھڑی تھی آبان کے دیکھنے کر بری طرح سٹپٹاتے اس نے اپنی نظروں کا رخ پھیرا۔۔
"وہاں کیوں کھڑی ہو پلوشہ ؟"
"وہ میں۔۔ پانی لینے آئی تھی" اپنے ہاتھ میں خالی جگ دیکھ اسنے جواب دیتے ساتھ کچن کی طرف دوڑ لگائی تھی ۔
اسکے عجیب سے رویہ پر آبان نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر سر جھٹکتے واپس فائل پر جھک گیا۔۔
کچن کے دروازے کے پیچھے کھڑی پلوشہ نے زرا سا آگے بڑھ کر اسے دیکھا چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ کھلی تھی۔۔
گاڑی حویلی کی حدود میں داخل ہوئی تو ماہے نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے عالم کو دیکھا۔
ہاسپٹل سے وہ لوگ سیدھا حویلی آئے تھے اس تمام عرصے میں نا عالم نے اسکی جانب دیکھا نا اس سے بات کی۔۔
"کیا وہ ایک بار پھر اس سے ناراض ہوگیا تھا۔
اس سوچ کے آتے ہی اسکا دل رونے کو تیار ہوا تھا سب سے مل کر وہی ان کے پاس بیٹھ گئی گھر میں کسی کو کچھ نہیں پتا تھا ورنہ یہاں اس وقت سب عالم کو گھیرے بیٹھے ہوتے۔
وہ اوپر روم میں تھا جبکہ وہ خود سب کے ساتھ نیچے موجود تھی دل ہمک ہمک کر اوپر جانے کی ضد کر رہا تھا مگر وہ ابھی اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اسکی وجہ سے وہ موت کے منہ میں جا کر واپس آیا تھا۔
"ابھی بھی سوچ رہی ہو ماہے؟"
"کیا آنسہ ؟"
"ایک قدم انہوں نے بڑھایا تھا اب ایک قدم تم بڑھا لو ماہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے"
انسہ نے اسکا ہاتھ اس سے التجا کی تھی۔
"وہ مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں آنسہ ؟"
"نہیں وہ کبھی تم سے ناراض نہیں۔ ہو سکتے وہ بس ڈر گئے ہیں ماہے "
"کس بات سے؟"
"کہ اب تم ان سے الگ ہونے کی بات نا کرلو"
آنسہ کی بات پر وہ شرمندہ ہوگئی تھی۔
"میں اب ایسا کچھ نہیں بولوں گی کبھی بھی"
"تو جاؤ اوپر اور بات کرو ان سے بہت ہوگیا یہ سب اب۔۔"
آنسہ نے اسے سختی سے سمجھایا۔
"آنسہ مگر "
"ماہے لسن۔۔۔ جب آپ محبت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں نا تو معذرت کرنے کی بھی ہمت ہونی چاہیے "
آنسہ نے اسے سمجھایا اب وہ سمجھی تھی یا نہیں بس ہاں میں سر ضرور ہلا دیا۔۔
اوپر بڑھتے اس کے قدم من من کے بھاری تھے۔
دل کانوں میں دھڑک رہا تھا۔۔
اس نے کمرے میں قدم رکھا تو سامنے ہی وہ بیڈ پر آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹا تھا۔
بہت آہستہ سے چلتی وہ اسکے پاس آکر بیٹھی مگر وہ ہنوز ایسے ہی لیٹا رہا ۔
"عالم لنچ ٹائم ہوگیا"
بہت آہستہ سے کہتے وہ اسکے جواب کا انتظار کرنے لگی۔
دل تھا کہ باہر آنے کو تیار تھا ۔
"میں نے ابھی چائے پی ہے بھوک نہیں"
اسکے جواب پر وہ سر ہلا گئی۔
"طبعیت ٹھیک ہے اب ؟"
"ہمم"
"عالم؟"
"ماہے مجھے نیند آرہی ہے جانے سے پہلے دروازہ بند کردیا پلیز"
"آپ مجھے اپنے کمرے سے نکل جانے کا کہہ رہے ہیں آپ مجھے کمرے سے نکال رہے ہیں عالم ؟" بے یقینی سے اس نے عالم کو دیکھا آنسو عارض پر بہنے لگے تھے۔
اسکی روہانسی آواز پر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔
ماہے کا آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھتے عالم کے ہاتھ پیر پھولے۔۔
"نہیں ماہے میں نے ایسا۔۔۔"
"آپ مجھ سے اب محبت بھی نہیں کرتے اور مجھے کمرے سے بھی نکال رہے ہیں میں کہاں جاؤں گی اب"؟؟
ہچکیوں سے روتے وہ اس سے سوال کر رہی تھی عالم نے آگے بڑھتے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔
"بس ماہے بس۔۔"
وہ اسکے رونے پر بوکھلا گیا۔
"آج کمرے سے نکال رہے کل زندگی سے نکال دینگے میں اسی قابل ہوں"
"ہے ماہے شش۔۔ ڈونٹ سے پلیز میں نہیں نکال رہا تھا بلیو می۔۔"
اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرے وہ اسکے آنسوؤں صاف کرتے اسے یقین دلا رہا تھا۔۔
"آپ مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں نا میں نے آپ کو ہرٹ کیا؟"
"نہیں بالکل بھی نہیں میں کبھی اپنی ماہے سے نفرت نہیں کر سکتا میرے دل میں صرف محبت ہے صرف اور صرف محبت تم مار بھی دو تو میں افف نہیں کروں گا"
"ڈائلاگ مت کہیں " اسکی شرٹ سے چہرہ صاف کرتے وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی۔
"سیدھی بات تم مان ہی نہیں رہیں نا"
"آپ مجھے کمرے سے نہیں نکال رہے تھے؟"
"بالکل بھی نہیں یہ کمرہ تمہارا ہے تم مجھے یہاں سے نکال سکتی ہو میری کیا مجال کہ اس کمرے کی مالکن کو اسے کہ کمرے سے نکالوں"
"تو ایسے کیوں کہا کہ دروازہ بند کر کے جانا؟"
"مجھے لگا تم جانے والی ہو "۔ بیچارگی سے کہتے اس نے ماہے کو دیکھا۔
"مجھے بھوک لگ رہی ہے عالم"
"کھانا کیوں نہیں کھایا ابھی تک ؟"
"ماہے ڈونٹ سے کہ میری وجہ سے تم نے کھانا نہیں کھایا۔۔"
"اتنے اچھے نہیں ہیں آپ زیادہ خوش فہم مت ہوں اٹھیں اور نیچے چلیں کھانا کھانا ہے پھر واک کریں گے۔۔"
اسکا ہاتھ تھام کر اسے بیڈ سے اٹھاتی وہ بنا اسکی سنے اسے اپنے ساتھ لئے نیچے لے آئی اور وہ ہولے سے مسکراتا اسکے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔۔
اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکھ۔۔
مجھے اس لمحے احساس ہوا نفرتوں کے بادل اب چھٹنے لگے ہیں ۔۔
محبت آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے لگی ہے۔
اگر مجھے پتا ہوتا میری بیماری اسے میرے قریب کردے گی تو ، تمہاری توجہ کے لئے میں روز بیمار پڑ جاتا۔
ہیں نا عجیب سی بات۔۔ مگر یہی سچ ہے تمہارے ساتھ کے لئے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں کچھ بھی مطلب کچھ بھی ۔
________
"عائشہ میں ایک بات سوچ رہی تھی"
وہ دونوں بہنیں لاونج میں بیٹھی تھیں جب بنفشے نے عائشہ کو مخاطب کیا۔
"وہ کیا؟"
"میں چاہتی ہوں میرب اور آبان کی شادی کردیں اب ماشا اللہ سے میری ماہے خوش ہے ساری پریشانیاں ختم ہوگئیں ہیں"
"کیا واقعی اپیا؟"
"ہاں بس تم زین سے بات کرو اور پھر مجھے بتاؤ میری طرف سے ساری تیاری ہے اب تم اپنا بتانا مجھے "
"کیوں نہیں اپیا زین کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا آپ دیکھئے گا میں بات کرلوں گی "
وہ دونوں اب شادی کی پلینگ کرنے لگی تھیں۔
کمرے کے باہر کھڑی میرب نے سنا تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی عجیب سی مسکراہٹ ۔۔
"دوسروں کے زریعے تمہیں برباد نہیں کرسکی مگر تمہارے بھائی کو تو کر ہی سکتی ہوں"
اسکا دماغ کیا سوچ رہا تھا وہ اسکے سوا کوئی نہین جانتا تھا لیکن اتنا ضرور کنفرم تھا وہ جو کچھ بھی کرنے والی تھی اس سے ایک بار پھر طوفان آنے والا تھا ۔۔
____________
آبان نے گھر میں۔ قدم رکھا تو پلوشہ کو لاؤنج میں کتابیں بکھرائے دیکھ وہیں ٹہر گیا۔
"تم ابھی تک جاگ رہی ہو؟"
صوفے پر بیٹھتے اس نے پوچھا تو کتاب کر جھکی پلوشہ کے نیند سے بوجھل آنکھیں اٹھا کر آبان کو دیکھا۔
اور بنا کچھ کہے اٹھ کر اس کے لئے پانی لے آئی۔
"بہت شکریہ"
"کچھ کھائیں گے بیا مما نے بہت مزے کا پلاؤ بنایا تھا"
"نہیں میں کھا کر آیا ہوں تم یہاں کیوں بیٹھ کر پڑھ رہی ہو ؟"
"میں بس ویسے ہی یہاں آگئی تھی "
وہ اسے کہہ نا سکے اسکی غیر موجودگی اسے عجیب سے احساس سے دوچار کرنے لگی تھی۔
وہ حقیقت جانتی تھی آبان یوسفزئی کے لئے وہ ایک چھوٹی سی بچی تھی جو اس سے دس سال چھوٹی تھی۔
لیکن وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو ایک نظر میں اس سے دغا کر گیا تھا۔
"اوو اچھا۔۔"
"مجھے بھوک لگ رہی ہے میں پلاؤ گرم کروں اپنے لئے آپ کھائیں گے تو میں آپ کے لئے بھی لیتی آؤ گی"
"اچھا ٹھیک ہے لے آنا میں فریش ہوجاؤ تب تک "
اسے جواب دیتے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
اسکے جاتے ہی وہ جلدی سے کھانا گرم کر کے لے آئی تبھی کوئی نیچے آیا تھا
اس نے گردن موڑ کر آنے والے کو دیکھا مگر وہاں آبان کی جگہ میرب جو دیکھ اسکی مسکراہٹ سمٹی۔۔
"کیا ہوا مجھے دیکھ کر اچھا نہیں لگا نہیں ؟"
"نہیں ایسا تو نہیں ہے "
"اچھا پھر کیسا ہے ؟"
"آپ کیا سوچ رہی ہیں مجھے نہیں پتا"
"تمہیں نہیں پتا تو میں بتا دیتی ہوں تمہیں آبان میرا منگیتر ہے بہت جلد ہماری شادی ہونے والی ہے اس لئے اس سے جتنا دور رہو گی اتنا اچھا ہوگا پلوشہ۔۔۔"
"آپ کہنا کیا چاہتیں ہیں ؟"
"میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میرے منگیتر سے دور رہو آئی سمجھ آبان میرا ہے جتنا تم اس سے دور رہو گی اتنا اچھا ہوگا "
",میرب " آبان کی آواز پر میرب نے اسے دیکھا اور پھر ایک نظر پلوشہ کو دیکھتی وہ آبان کے برابر سے گذرتی چلے گئی۔
آبان پلوشہ کو وہیں چھوڑے تیزی سے اوپر اسکے کمرے میں آیا تھا۔
"کیا کچھ فضول بولا ہے اسکی وضاحت دو گی مجھے ؟"
"میں نے ایسا کچھ نہیں بولا جس کی مجھے وضاحت دینی پڑے "
"میرب"
"تمہیں کیوں اتنا برا لگ رہا ہے آبان ؟ تم اور میں نکاح میں بندھنے والے ہیں اور تم مجھ سے ایک غیر لڑکی کے لئے سوال جواب کر رہے ہو ؟"
"میں صرف یہ کہہ رہا ہوں جو کچھ بھی تم نے ابھی پلوشہ سے کہا وہ ٹھیک نہیں تھا وہ مجھ سے چھوٹی ہے تم سوچ بھی کیسے سکتی ہو اہسا؟"
آبان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر کیا کہے۔۔
"مجھے جو ٹھیک لگا میں نے کیا تمہیں غلط لگا تو جاؤ اپنی چہیتی کے پاس کہیں بیٹھ کر رو رہی ہوگی"
اسے کہتے وہ ڈریسنگ روم میں بند ہوگئی آبان نے لب بھینچ کر خود کو ریلکس کیا۔۔
میرب حد پار کرنے لگی تھی اسکا رویہ آبان کو اب پریشان کر رہا تھا اسے بالکل سمجھ نہین آرہا تھا کہ کیا کرے کس سے بات کرے ۔۔
سر جھٹکتے وہ نیچے پلوشہ کے پاس آگیا تھا اسے یقین تھا کہ وہ رو رہی ہوگی اور ہوا بھی یہی تھا۔۔
_________
وہ دونوں اس وقت بالکنی میں کھڑے تھے چاند کی چاندنی نے ان دونوں پر اپنا سایہ کیا تھا۔
"معافی مل گئی مجھے یا نہیں ؟"
عالم نے ایک امید سے اسے دیکھا کو آسمان کی جانب سر اٹھائے چاند کو تک رہی تھی۔
"میں آپ کو معاف کردو گی اگر"
"اگر؟"
عالم نے پریشانی سے اسے دیکھا۔۔
"اگر آپ خود کا خیال رکھیں گے "
اسکی بات پر ہولے سے مسکرا دیا۔۔
"تم رکھو گی نا میرا خیال اور میں تمہارا یہی وعدہ کیا تھا نا ہم نے"
اسکا ہاتھ تھامے وہ اسکے چہرے پر نگاہیں مرکوز کرتے سرگوشی کرتے اس کے چہرے پر مسکراہٹ لے ایا۔۔
"یہ وعدے اور دعوے تو اب پرانے ہوگئے جب کم بدل گئے ہیں تو ان وعدوں کو بھی بدلنا چاہیے نا"
"ٹھیک ہے پھر ایک نئے سرے سے شروعات کرتے ہیں ہر چیز کی"
"ہمم کیوں نہیں " اپنا ہاتھ عالم کی گرفت میں دیکھ وہ مسکرائی کبھی ان سب کے خواب دیکھے تھے اس نے۔۔
"ماہے آئندہ اپنے بال مت کٹوانا" اسکے بڑھتے بالوں کو مٹھی میں تھامے وہ انہیں دیکھ رہا تھا۔
"کیوں؟"
"کیونکہ مجھے یہ پسند ہیں اور مجھے تم سے عشق ہے تو پھر تم سے جڑی ہر شے سے محبت کرنا مجھ پر فرض ہوگیا ہے"
اسکی بھوری آنکھوں پر انگلیاں پھیرے وہ اسکے عارض پر بہتے آنسوں کو اپنی پوروں پر چن گیا۔۔۔
"ماضی اچھا بھی تھا اور دردناک بھی۔۔"
"لیکن مستقبل روشن بھی ہوگا اور ہمارا ساتھ یونہی رہے گا اب موت ہی ہمیں الگ کر سکے گی"
"عالم" موت کی بات پر اس نے خفگی سے عالم دکھا۔
جو اسکے پھولے گالوں کو دیکھتا اسے اپنے ساتھ لگا گیا۔۔
بہار ان کے آنگن میں اتر آئی تھی تلخیوں کے موسم چھٹے اور سب ان کے اردگرد محبت رقصاں تھی۔
طویل مسافت کے بعد ان دونوں نے ماضی کو چھوڑ دیا تھا ایک دوسرے کو معاف کرتے وہ آگے بڑھے تھے ماضی انہوں نے کہیں پیچھے ہی چھوڑ دیا تھا۔ اب بس انہیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا تھا۔۔
___________
"عالم برو آجائیں گی بھابی کیوں اتنی بے چینی ہے" عالم کے بار بار گھڑی دیکھنے پر بارز نے اسے شرارت سے کہا جس پر وہ اسے آنکھیں دیکھا گیا۔۔
ماہے گھر گئی تھی اور آج اسے آنا تھا وہ اسے لینے جانے والا تھا مگر ماہے نے اسے صاف انکار کردیا وہ پلوشہ اور آبان کے ساتھ واپس آرہی تھی۔
انتظار کی طویل گھڑیوں بعد وہ بالآخر آگئی تھی پلوشہ اسکے ساتھ تھی ناجانے کیوں عالم کو وہ بجھی بجھی سی لگی۔۔
"پلوشہ کیا ہوا ہے؟"اسے سینے سے لگائے وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا جس پر وہ نفی میں سر ہلا گئی مگر وہ بھائی تھا کیسے مطمئن ہوتا۔
وہ تو چاہتا بھی نہیں تھا پلوشہ اتنی دور جائے مگر بنفشے کی وجہ سے وہ کچھ نہیں کہہ سکا ۔
آبان کے جانے کے بعد وہ کمرے میں آیا تو ماہے سارا سامان بیڈ پر بکھرے بیٹھی تھی۔
"یااللہ ماہے"
"جی عالم"
"اتنے کپڑے کہاں جائنگے"
"الماری میں اور آپ کے کپڑے باہر"
شرارت سے کہتے اس نے ناک چڑائی ۔
"ٹھیک ہے بھئی غریب شوہر کی تو کوئی عزت ہی نہیں ہے نا"
"بالکل ہے کیوں نہیں ہے"
"لگتا نہیں ہے" آنکھیں گھماتا وہ اسے کھکھلانے ہر مجبور کرگیا۔۔
اسے ہنستے دیکھ ایک سکون سا اسکے دل میں اترا تھا ۔
______
"پلوشہ؟"
اپنے نام کی پکار پر اس نے سر اٹھا کر عالم کو دیکھا۔
"کیا ہوا ہے کچھ پریشان ہو؟"
اسکے پاس بیٹھتے وہ نرمی سے اس سے پوچھ رہا تھا پلوشہ نے ایک نظر اپنے بھائی کو دیکھا اور پھر نا میں سر ہلا دیا۔۔
"کچھ نہیں بھیا "
"پھر اتنی خاموش کیوں لگ رہی ہو؟"
"بس سفر کی تھکن ہے "
"تو آرام کرو یہاں کیوں بیٹھی ہو؟"
وہ اسکے لئے متفکر تھا پلوشہ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔
کتنی خواہش تھی اسکی کہ اسکا بھائی اسکے پاس آئے اس سے پیار کرے اور آج دعا قبول ہوگئی تھی۔
"سوجاؤ اور اگر کوئی بات کرے تو بلاجھجک میرے پاس آجانا تمہارا بھائی تمہیں جج نہیں کرے گا"
"بھیا۔۔"
دروازے تک جاتا وہ پلوشہ کی پکار پر رکا تھا۔
"میں ایک اچھی لڑکی ہوں نا"؟
"بالکل ", وہ جانتا تھا کچھ ایسا ہے جو اسے پریشان کر رہا ہے مگر کیا وہ سمجھنے سے قاصر تھا
"میرب کہتی ہے میں اچھی لڑکی نہیں ہوں اس نے ایسا کیوں کہا؟"
پلوشہ کی بات پر اسکا دماغ بھک سے اڑا۔
میرب کا نشانہ اسکی معصوم بہن تھی۔
"وہ کچھ بھی بولتی ہے اسکی باتوں پر دھیان مت دینا کبھی تم شہزادی ہو میری اور ہمیشہ رہو گی"
"وہ آبان کو ڈیزور نہیں کرتی آپ بھابھی کو بتائیے گا وہ آبان سے محبت بھی نہیں کرتی"
"میں سب سنبھال لونگا"
اسکے سر پر ہاتھ رکھتا وہ باہر آگیا وقت آگیا تھا ماہے کو سب سچ بتانے کا۔۔۔
************
32
سیاہ آسمان نے پورے آسمان پر اپنا ڈیرہ جمایا گیا ہوا تھا۔
وہ متفکر سی کبھی آسمان کی جانب دیکھتی تو کبھی گھڑی کی جانب۔۔
عالم کسی کام سے باہر نکلا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔
دل میں ہزاروں وسوسے لئے وہ بالآخر کمرے سے باہر نکلی تھی اسکا رخ بارز کے کمرے کی جانب تھا مگر سیڑھیوں پر بیٹھی پلوشہ کو دیکھ ماہے کے قدم رکے تھے ۔۔
"پلوشہ ؟"
اپنے نام کی پکار پر آنسو صاف کرتے وہ سیدھی ہو کر بیٹھی۔
"کیا ہوا ہے پلوشہ رو رہی ہو تم؟"
"نہیں تو بھابی ایسا تو کچھ نہیں "
چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے وہ ماہے کو اپنا عکس لگی۔۔
"پلوشہ مجھ سے شئیر کر سکتی ہو تم"
"بھابھی میں بری نہیں ہوں نا پلیز آپ سب کو بتائیں گی یہ بات ؟"
اسکی بات پر ماہے الجھی ۔۔
"کیا مطلب ؟"
"مطلب کچھ نہیں بس آپ وعدہ کریں اگر کوئی اکر کہے میں بدکردار ہوں تو آپ میرا ساتھ دینگی نا,,؟"
"کس نے کی ہے یہ بکواس تمہارے ساتھ مجھے بتاؤں پلوشہ "
"مجھ سے کسی نے کچھ "
"تم چاہتی ہوں میں عالم کو بلاؤں ؟"
"نہیں پلیز نہیں "
"تو بتاؤ مجھے" ماہے کی ضد پر اس نے اپنی میرب کے ساتھ ہونے والی ساری بات ماہے کے گوش گزار کر دی۔۔
اس رات وہ آبان سے ٹیوشن لے کر فارغ ہوئی تھی۔
آبان کی وڈیو کال پر میٹنگ تھی اسی وجہ سے وہ اسٹڈی میں تھا۔
اس لئے وہ اپنے کمرے میں آگئی تبھی میرب وہاں آئی۔
"آپ یہاں ؟"
"بڑی بدکردار ہو بھئی شرم نام کی چیز ہی نہیں میں نے کہا تھا نا آبان سے دور رہو تمہیں سمجھ نہیں آئی تھی؟"
"آخر آپ کیوں مجھ سے ایسے بات کر رہی ہیں؟"
"اس لئے کیونکہ تم جیسی ڈھیٹ لڑکیاں انسانوں کی زبان سمجھتی نہیں ہیں اب تمہیں اپنے طریقے سے ہینڈل کروں گی میں دفع ہو جاؤ اس گھر سے ورنہ ایسا بدنام کروں گی نا کسی کو منہ دیکھانے لائق نہیں۔ رہو گی" اسکا منہ مٹھی میں دبوچے وہ غرائی تھی۔۔
"بس بہت ہوگیا آپ کا اگر میں آپ کو کچھ کہہ نہیں رہی ہوں تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کچھ بھی کرتی جائیں اور کچھ بھی بولتی جائیں آج میں آپ کی ساری باتیں سب کو بتاؤں گی پھر میں دیکھتی ہوں کیا ہوتا ہے".
اپنا آپ میرب سے چھڑاتے وہ باہر کی جانب بڑھی تھی مگر تبھی اسکا بازو میرب کی سخت گرفت میں آیا۔۔
"سب کو بتانے سے پہلے جو میرے پاس ہے وہ نہیں دیکھنا چاہوں گی؟"
میرب کی آنکھوں میں شیطانی چمک تھی۔
پلوشہ کی ریڈھ کی ہڈی میں سرد مہر دوڑی ۔۔
"کیا ہے آپ کے پاس؟"
اسکی ہمت کی داد دیتے میرب نے اپنا موبائل نکال کر اسکے سامنے لہرایا جسے دیکھ پلوشہ کی آنکھیں پھٹی تھیں۔۔
اسکی آبان اور کی تصاویر۔۔ جنہیں بہت برے اینگل سے لیا گیا تھا۔
"جاؤ تم شور کرو میں بھی یہ سب کو دیکھا دوں گی کہ تم اور آبان میرے پیٹھ پیچھے مجھے دھوکہ دے رہے تھے اور جب نے تمہیں رکنے کا کہا تو تم نے شور مچانا شروع کردیا۔۔"
وہ پوری تیاری سے بیٹھی تھی۔
پلوشہ کے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا
"ویسے تمہارا آنا میرے لئے فائدہ مند ہی ثابت ہوا ہے خیر باتیں تو ہوتی رہیں گی فلحال تو آبان سے دور رہنا کیونکہ وہ میرا منگیتر ہے ہاں میں جب اسے چھوڑ دوں تو اپنا لینا اسے۔۔
ویسے بھی تم دونوں بہن بھائیوں کی عادت ہے دوسروں کا جھوٹا کھانے کی۔۔ ارے نہیں نہیں صرف بہن بھائی نہیں تمہاری تو ماں بھی دوسرے کا جھوٹا۔۔۔"
"میرب " وہ ایک دم چلائی جس پر میرب کا قہقہ گونجا تھا۔
"کل آرہی ہے نا تمہاری طلاق یافتہ بھابھی چلی جانا اسکے ساتھ اگر اپنی عزت بچانا چاہتی ہو"
اسے دھمکی دیتے وہ وہاں رکی نہین۔
اسے کسی چیز کا خوف نہیں تھا وہ نڈر ہو چکی تھی اسے انجام کی اب پرواہ نہیں رہی تھی ۔۔
________
ماہے منہ کھولے حیرت سے پلوشہ کی باتیں سن رہی تھی۔
کیا تھا یہ سب کیا جو اس نے کہا وہ سچ تھا۔
اسے اتنا اندازہ تھا کہ میرب کا رویہ اسکے ساتھ تبدیل ہوا ہے وہ اسے نیچا دیکھانے لگی ہے مگر یہ سب سننے کے بعد وہ بری طرح ڈسٹرب ہو گئی تھی ۔۔
پلوشہ کو تسلی دیتے وہ اپنے کمرے میں آگئی۔۔
دل میں ایک خوف نے ڈیرہ جما لیا تھا۔
"ماہے آئی ایم سوری میں لیٹ ہوگیا"
عالم نے قریب آتے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا ۔
ماہے نے ویران آنکھوں سے اسے دیکھا۔
اسکی سرخ آنکھیں دیکھ عالم کا دل دھڑکا ۔۔
"کیا ہوا ہے ماہے آر یو اوکے ؟" اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا۔
"عالم کیا اب بھی ایسا کچھ ہے جو میں نہیں جانتی؟"
اس کی بات پر چونکتے عالم نے ماہے کو دیکھا۔
کیا اسے کچھ پتا چلا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔
"کیا میرب کا بھی کوئی سچ ہے عالم؟"
ماہے کی اگلی بات پر اسکی رکی سانس بحال ہوئی تھی۔
"عالم مجھے ایک ہی بار سارے جھٹکے دے دیں پلیز"
اسکا ہاتھ تھامے وہ رو دینے کو تھی۔
"اچھا رونا تو بند کرو" اسکے قدموں میں بیٹھتے وہ بے بسی سے بولا۔
"میں سب بتاؤ گا مگر شرط صرف یہ کہ رونا نہیں ہے اپنی طبیعت خراب نہیں کرنی"
عالم کی بات پر وہ محض سر ہلا گئی بولنے سے گریز کیا تھا۔
مشکل لمحہ تھا مگر شاید اسے ایسے ہی آنا تھا۔۔
عالم نے پھر اس سے کچھ نہیں چھپایا تھا وہ راز وہ ماہے کے حوالے کر گیا تھا۔۔
وہ نہیں جانتا تھا ماہے کو کیا پتا چلا ہے مگر جس طرح وہ ری ایکٹ کر رہی تھی اس نے کچھ بھی چھپانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔۔
________
"مما یہ آپ کو ایسے اچانک نکاح کی کیوں پر گئی ہے؟" آبان خفا خفا سا بنفشے کے سامنے بیٹھا تھا۔
"اچانک تو نہیں ہوا کوئی فیصلہ یہ بات تو پہلے سے طے تھی نا۔۔ اور ویسے بھی بچے کب تک میرب کو تمہارے نام پر بیٹھائیں بے خیر سے ماہے بھی اپنے گھر کی ہوگئی ہے"
"اس سے فرق نہیں پڑتا مما۔۔ آپ نے سب کا سوچ لیا مگر کیا آپ نے ایک بار میرب سے پوچھنے کی کوشش کی کہ وہ مجھے پسند کرتی بھی ہے یا نہیں آپ نے تو مجھ سے بھی نہیں پوچھا۔۔
"آبان کیا ہوگیا ہے بیٹا؟"
"مما میں راضی تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا اس طرح سارے رشتے جڑے رہیں گے مگر میرب کو دیکھ کر مجھے نہیں لگتا کہ وہ خوش ہے مما میں خوش نا سہی پر رکھی بھی نہیں ہوں کسی نا کسی سے مجھے شادی کرنی تھی میرب سے ہو جائے گی تو اور اچھی بات مگر وہ کیا چاہتی ہے خالہ نے کبھی اس سے پوچھا ؟"
وہ تذبذب کا شکار تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے اپنے جذبات کا اظہار کرے۔
"آبان کیا ہوا ہے میرب نے تم سے کچھ کہا ہے ؟"
"نہیں مما کچھ نہیں ہوا اس نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا "
"تو کیا بات تمہیں تنگ کر رہی ہے مجھے وہ بتاؤ "
"کیا آپ نے نوٹ نہین کیا مما جب سے میرب واپس آئی ہے کھینچی کھینچی سے رہتی ہے بات کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے"
اس کی بات پر بنفشے مسکرا اٹھی۔
"بس اتنی سی بات ارے بھئی وہ پہلے اپنی خالہ کے گھر آتی تھی اور اب یہ اسکا سسرال ہے۔۔"
بنفشے نے اسکی پریشانی ختم کرنی چاہی تھی مگر وہ مطمئن نہیں تھا۔
کچھ کہنا خود کو مشکوک ثابت کرنا تھا اس لئے چپ چاپ وہ کمرے سے ہی نکل گیا۔
اپنے کمرے میں جاتے اسکی نظر خالی لاونج پر پڑی تو جھٹ سے وہ چھوٹی خرگوش یاد آئی۔
وہ جانتا تھا میرب کے رویہ نے اسے تکلیف دی تھی اس لئے وہ واپس چلے گئی ہے ۔
مگر وہ یہ بات کسی کو کہہ نہیں سکتا تھا۔۔
_____________
وہ بت بنی عالم کے سامنے بیٹھی تھی۔
جیسے ان باتوں کر یقین کرنا چاہتی ہو جو عالم نے اسے بتائی تھیں۔۔
"ماہے"
"عالم اتنا بڑا دھوکہ وہ تو بہن تھی میری اس نے میرے ساتھ ۔ مجھے تو کتنا مان تھا اس پر۔۔ میری میرو میری بہن۔۔ اور میری بربادی کے پیچھے وہی نکلی"
"ماہے "
"رونے دیں مجھے عالم۔۔ میں کیوں ایسی تھی میر بچپنے میں کی گئی غلطیوں نے اسے اتنا برا بنا دیا"
"بالکل بھی نہیں تم نے کچھ نہیں کیا ہے۔۔ جن کے دل میں ایک بار کینہ آ جائے پھر انہیں وجہوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہے"
"مگر وہ میری بہن میرے بھائی کی منگیتر ۔۔۔۔"
وہ ایک دم رکی ۔
"کیا ہوا ماہے؟"
"عالم لالہ اور میرب کا نکاح ہے۔۔عالم وہ میرے لالہ کو تکلیف دینا چاہتی ہے عالم اگر اس نے میرے بھائی کو تکلیف دی تو وہ ٹوٹ کر بکھر جائے گا وہ کامیاب ہو جائے اسکی ایک ہی ضد ہے نا میرے بابا کی بربادی تو کیسے بھی کر کے انہیں تکلیف دے سکتی ہے"
وہ پینک کر رہی تھی
"ماہے پلیز ریلکس میں ہوں نا کچھ نہیں ہوگا ماہے سنبھالو خود کو ۔۔"
اسے اپنے ساتھ لگائے وہ مسلسل اسے اپنے ساتھ کا یقین دلا رہا تھا۔۔
"عالم میرے لالہ معصوم ہیں "
"ماہے میری بات سنو ۔۔ رونے سے کچھ ٹھیک نہیں۔ ہوگا اور اگر ہم یہ سب جا کر بتائیں گے تو کوئی یقین نہیں کرے گا ہمیں کر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا میری بات سمجھ آرہی ہے نا؟"
"مگر کیسے عالم وہ میرے گھر کو برباد کرنے والی ہے"
"ایسا تب ہوگا جب ہم اسے ایسا کرنے دینگے وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگی میرا یقین کرو ۔۔۔"
"ہم کیا کریں گے عالم؟"
"وہ سب مجھ پر چھوڑ دو "
اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ ماہے کو اپنے ساتھ لگا گیا۔
"مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے عالم"
"کیا؟"
اس کے پوچھنے پر جو کچھ ماہے نے اسے کہا اس بات کو سن وہ پتھر کا ہوگیا تھا۔۔
______________
بہت سکون سے وہ بیڈ پر لیٹی تھی۔
آنکھوں میں فتح کی چمک تھی۔
پلوشہ کا یہاں سے جانا اسے اسکی فتح لگا تھا۔
"چچ چچ بیچارے واصف صاحب۔۔ اب تمہاری بیٹی بھی محبت نا ملنے پر تڑپے گی جیسے میری ماں تڑپی تھی۔۔۔
لیکن کیا ہے نا میری ماں رحم دل تھی اس نے سب بھلا کر نئی شروعات کی تھی لیکن تم کہاں میری ماں کے قابل تھے اور قابل تو میری سوتیلی ماں بھی نہیں لیکن اب اس نے مجھے پالا ہے بڑا کیا ہے اس لئے اسکے ساتھ زیادہ برا نہیں کر سکتی لیکن میں آرزو کی بیٹی ہوں اسکا سایہ اسکے جیسی مگر میں اپنا نصیب خود لکھوں گی۔۔
تم سب کے ہاتھوں برباد ہونے سے پہلے میں ایک ایک کر تم سب کو برباد کردونگی "
اسکی آنکھوں میں بالکل الگ چمک تھی اسکا چہرہ بدل سا گیا۔
"مجھے بالکل بھی دکھ نہیں ہوگا جب میں تمہاری بیٹی پلوشہ کو سب کے سامنے رسوا کروں گی۔۔ اور وہ دھوکہ باز عالم وہ اپنوں کی تکلیف پر تڑپے گا جھوٹا انسان۔۔
مجھے کہتا ہے آرزو مما غلط تھیں جھوٹا مکار میری ماں کو جھوٹا کہتا ہے "
وہ ایک غرائی۔۔
وقت آنے والا ہے تم سب کی بربادی کا"
اپنی بات کہہ کر وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑی۔۔
_________
"عالم میں وہاں سب سے کیا کہوں گی؟"
عالم نے اسے جو کہا تھا وہ کرنے کے لئے وہ واپس گھر تو جا رہی تھی مگر دل تھا باہر آنے کو بیتاب ہو رہا تھا۔
عالم نے مضبوطی سے اسکے دونوں ہاتھوں کو تھاما۔
"ہمیں یہ کرنا ہوگا ماہے"
"عالم میں سب سے کہوں گی اسے معاف کردیں ۔۔ سب اسے معاف کردیں گے"
"بالکل بھی نہیں"
"مگر کیوں؟"
عالم کو سامنے کھڑی لڑکی پر حیرت ہوئی۔
لیکن ہاں وہ معاف کرسکتی تھی وہ یشم یوسفزئی اور بنفشے کی بیٹی تھی۔۔
"عالم جب ہم سب کو سب کچھ بتا دیں گے تو سب اس سے خفا ہو جائیں گے وہ بالکل اکیلی ہوجائے گی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا عالم ؟"
وہ پینک ہو رہی تھی۔
عالم نے گہرا سانس بھرتے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔
"اگر تم نہیں کرنا چاہتیں تو ٹھیک ہے مت کرو کوئی زبردستی نہیں ہے نکاح میں ابھی ایک ہفتہ ہے اچھے سے سوچ لو ماہے کیا تم ماضی میں ہوئی غلطی دوبارہ کرنا چاہتی ہو ؟"
اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھامے وہ اسکی انکھوں میں آنکھیں ڈال استفسار کر رہا تھا۔
ماہے کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
اس نے پڑھا تھا ۔۔ مومن ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔۔
ان لوگوں نے آرزو کے اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود اسے موقع دیا مگر اس نے ان سب کو ایسا ڈسا کہ سالوں لگ گئے اس زہر کا اثر زائل ہونے میں ۔۔
وہ اب مر گئی تھی لیکن اپنا زہر وہ میرب میں منتقل کر گئی تھی۔
وہ جو پہلے ہی حسد و جلن کا شکار تھی اس زہر کے ساتھ اسکے اندر کی کڑواہٹ مزید بڑھ گئی تھی ۔۔
"عالم کیا آپ میرا ساتھ دینگے؟"
"میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں کبھی خود کو اکیلا مت سمجھنا یہ جنگ ہماری ہے اسے ہم نے ہی لڑنا ہے اور جیت کے دیکھانا ہے"
وہ ہرعزم تھا
مائے محض سر ہلا کر رہ گئی۔۔
اسے کچھ کرنا تھا کچھ ایسا جس سے تکلیف کم سے کم ہو۔۔
وہ جو اب بھی میرب کا بھلا سوچ رہی تھی جانتی ہی نہیں گی دوسرے شخص کے لئے اگر کچھ ضروری تھا تو وہ ماہے یشم یوسفزئی کی بربادی تھی۔۔
گھر میں آبان اور میرب کے نکاح کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔
ماہے آج شام تک آنے والی تھی نکاح میں بہت کم وقت رہ گیا تھا۔
یشم اور باقی سب بھی شام تک آنے والے تھے۔۔
ریلنگ کے ساتھ کھڑی میرب نیچے ہونے والی تیاریاں دیکھ رہی تھی۔
"میرو بچے نیچے آجاؤ دیکھو کونسی جیولری اچھی لگ رہی تمہیں"
بنفشے کے پکارنے پر اس نے سر ہلایا اور نیچے کی جانب بڑھی ۔
"ساری زندگی اپنی مرضی چلائی اور سب جیولری میری پسند کی یونہہ دوغلے لوگ" منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہ آکر بنفشے کے پاس بیٹھ گئی۔۔
"تم خوش ہونا میرب ؟"
بنفشے کے پوچھنے اس نے بنفشے کو دیکھا عجیب سے انداز میں۔۔
"خالہ قربانی کے لئے جانور کے گلے کر چھ۔۔ری رک کر پوچھ رہی زبح ہونے پر خوش ہو کے نہیں؟"
وہ ہنسی تھی اس کی بات پر بنفشے کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا۔
"مذاق کر رہی ہوں ریلکیس میں خوش ہوں"
بنفشے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔
سامنے والے کو تکلیف دے کر ایسی خوشی ملتی تھی جس کا کوئی متبادل نہیں تھا ۔
بہت جلد یہ کھیل ختم ہونے والا تھا ۔۔
_______
اپنے کمرے میں وہ سکون سے بستر کر دراز تھی جب دروازہ ناک ہوا۔
"یس۔۔"
اجازت ملنے پر ماہے نے کمرے میں قدم رکھا۔
میرب ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔
"ماہے تم کب آئیں ؟"
"ابھی آئی ہوں سیدھا تمہارے پاس ہی آگئی "
"خیریت آج کیسے میری یاد آگئی ؟"
"کچھ ضروری بات کرنی تھی تم سے میرب "
"ہاں کہو سن رہی ہوں میں؟"
وہ اب بھی سکون سے بیٹھی ہوئی تھی ماہے نے اسے دیکھا۔
"کھیل مت کھیلو ہمارے ساتھ میرب بہت مشکل سے ماضی سے نکلیں ہیں اب بس کرو"
ماہے کی بات پر اسے جھٹکا لگا تھا۔۔ مگر بنا ظاہر کئے وہ چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ لے آئی۔۔
"کیا کہنا چاہ رہی ہو ماہے کس کھیل کی بات کر رہی ہو"
"اس کھیل کی بات کر رہی ہوں میں میرب"ماہے اچانک ہی ایک ریکارڈنگ اسے سنائی جس میں اسکے اور عالم کے درمیان ہونے والی باتیں ریکارڈ تھیں۔۔
میرب کی آنکھیں پھٹی تھیں۔
آگے بڑھ کر اس نے موبائل جھپٹنا چاہا مگر ماہے فوراً سے ہاتھ پیچھے کر گئی۔
"کیوں کر رہی ہو ایسے میرب مت کرو"
"تو تم سب کچھ جان گئی ہو ؟"
میرب نے اسکا چہرہ تکا۔۔
"پھر تو ہر ایک چیز سے واقف بھی ہوگئی ہونگی تو اس بات کا کیا مقصد ہے "
"میرب تم مجھے برباد کرنا چاہتی تھیں نا تو ہو گئی تھی میں برباد خدا کے لئے میرب اپنی آنکھوں پر بندھی اس پٹی کو ہٹا دو سچ کو دیکھو"
،"میری ماں کے ساتھ جو ہوا اسکے بعد میں معاف کردو۔ تم لوگوں کبھی نہیں ۔۔ اور تم برباد کہاں ہوئی ماہے برباد تو اب تم سب ہونگے "
"میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دونگی "
"روک سکتی ہو تو روک لو ماہے "
"میں یہ نکاح روک دوں گی اور تمہیں کیا لگتا ہے میں ایسا نہیں کر سکتی؟"
"بالکل کر سکتی ہو ارے جو لڑکی ماں باپ سے چھپ کر ایک لڑکے سے تعلق رکھ سکتی ہے وہ کچھ بھی کر سکتی ہے"
میرب نے سیدھا اسکے دل پر وار کیا تھا۔۔
"جاؤ بتاؤ سب کو میرا اور میں تمہارے باپ کا عزت دار بت پاش پاش کردوں گی۔۔
یہ جو تمہاری ماں بڑی عزت والی بنتی ہے نا بیٹی کے کرتوت جان کر اسے وقت مر جائے گی اور یہی تو وہ بربادی ہے جو میں سب کی دیکھنا چاہتی ہوں"
وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑی۔۔
عالم ٹھیک کہتا تھا وہ کبھی نہیں بدل سکتی۔۔
"جو کرنا ہے کرلو میرب میں اپنے بھائی کی زندگی برباد نہیں ہونے دونگی یہ نکاح اب نہیں ہوگا اور یہ ایک بہن کا وعدہ ہے تم سے،"
ماہے کی بات پر وہ ایک بار پھر قہقہ لگا کر ہنس پڑی ۔
"اوو گاڈ کیا ناٹک باز ہو تم ماہے مگر ابھی تم نے میرا ناٹک نہیں دیکھا۔۔
ماہے اس کی بات پر الجھی مگر اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھتی میرب ایک دم چلائی تھی ۔
"ماہے کیا کر رہی ہو خدا کے لئے ماہے "
ماہے نے ہونقوں کی طرح اسکی شکل دیکھی۔
"کیا ہوا ہے میرب ماہے ؟" میرب کی چیخ پر بنفشے گھبرا کر اوپر آئی تھیں۔۔
"کچھ نہیں خالہ کچھ بھی نہیں ہوا" وہ ایکدم ہی معصوم بن گئی۔
ماہے نے بس ایک آخری بار اسے دیکھا اور پھر بنا بنفشے کی پرواہ کئے اس نے میرب کا بازو سختی سے دبوچا تھا۔۔
"تمہیں شوق ہے نا ڈرامے کرنا کا میرب آج ایک ڈرامہ مجھے کرنے دوں"
ایک ایک لفظ پر زور دیتے اسے اپنے ساتھ لئے نیچے بڑھی ۔
"ماہے کیا کر رہی ہاتھ چھوڑو میرا" اسکی گرفت سے نکلنے کو مچلتے وہ دبا دبا سا غرائی۔
بنفشے کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا آخر ہو کیا رہا ہے ۔۔
نیچے لاونج میں سب بیٹھے تھے ۔۔
"ماہے رک جاؤ بیٹا کیا ہوا ہے" بنفشے ان دونوں کے پیچھے نیچے آئی تھیں۔
ان دونوں کو ایسے دیکھ سب اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔
ماہے نے ایک جھٹکے سے میرب کا ہاتھ چھوڑا کہ وہ لڑکھڑائئ تھی۔
"ماہے یہ کیا طریقہ ہے کیا ہوا ہے ؟"
بنفشے نے آگے بڑھ کر میرب کو سنبھالا۔
"مت سنبھالیں مما۔۔ اسے مت سنبھالیں کیونکہ یہ آپ کے ساتھ بھی وہی سب کرے گی جو اس نے میرے ساتھ کیا۔۔"
سب ناسمجھی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔
"ماہے کیا بول رہی ہوں بیٹا؟" یشم کو کچھ نہیں سمجھ آرہا تھا۔۔
"بابا آپ سب جاننا چاہتے تھے نا کہ آخر کیوں مجھے طلاق ہوئی کیوں وہ شخص بدکرداری کا داغ لگاتے مجھے طلاق دے کر گیا ؟"
ماہے کی بات پر عائشہ کا دل دھک سے رہ گیا اس نے خوفزدہ نظروں سے زین اور پھر میرب کو دیکھا۔۔
"بابا میں نے خود پر ہر چیز برداشت کی مگر اب نہیں میں اپنے بھائی کی زندگی نہیں برباد ہونے دونگی یہ نکاح نہیں ہوسکتا"
"دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا کیا بول رہی ماہے ہوش میں تو ہو" بنفشے نے اسے جھڑکا۔۔
"ماہے کیا ہوا ہے ایسے کیوں بول رہی ہو "زین کو سمجھ نہیں آیا کیسے ری ایکٹ کرے۔۔"
"میں جانتی ہوں آپ کو میرے لفظوں سے تکلیف ہوگی مگر یہ تکلیف اس تکلیف سے بہت کم ہے جو میرب ہمیں دینے والی تھی۔۔
"بس کرو یہ ناٹک ماہے بس کرو۔۔ ثبوت دو سب کو کیا ثبوت ہے تمہارے پاس میرے خلاف اس ایک جھوٹی ریکارڈنگ کے علاؤہ جو تم نے اور تمہارے اس جھوٹے شوہر نے مجھے نیچا دیکھانے کے لئے بنائی تھی"
میرب نے خود کو ہر طرح سے کلئیر کرنے کی کوشش کی۔۔
"نہیں میرب صرف وہ ریکارڈنگ ثبوت کے لئے کافی نہیں ہوگی ٹھیک کہہ رہی ہو"
اب کے بار الجھنے کی باری میرب کی تھی۔
"بابا آرزو آپ کی دوست عالم کی مام۔۔۔ "
اس کے منہ سے آرزو کا نام سن وہاں موجود سبھی نفوس بری طرح سے چونک اٹھے۔۔
"میرب ان کا بدلہ لینے ہماری زندگی میں آئی تھی۔۔
"اوو کم آن ماہے میں اس نام کی کسی عورت کو نہیں جانتی تم کیسے مجھ پر جھوٹا الزام لگا سکتی ہو"
وہ استہزایہ ہنسی تھی۔
"کیا واقعی تم اسے نہیں جانتیں ؟"
ماہے دو قدم آگے بڑھ اسکے روبرو آئی تھی۔
عالم نے فخر سے اپنی شیرنی کو دیکھا۔
اپنوں کو پروٹیکٹ کرنے والی اسکی شیرنی۔۔
آگے جو ہونے والا تھا وہ تکلیف دہ تھا اس لئے وہ وہاں رکا نہیں تھا۔۔
ماہے کو اشارہ کرتے وہ باہر نکل گیا۔۔
"نہیں میں نہیں جانتی"
"چلو میں بتا دیتی ہوں کون تھی آرزو".
"آرزو ایک سائیکو عورت تھی بدقسمتی سے وہ میرے بابا اور واثق انکل کی دوست بھی تھی ایک سائیکو عورت جو بدلہ لینے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ یو نو ایک نفسیاتی عورت"
ماہے نے میرب کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھا۔
"ایک ابنارمل"
"ماہے بس کرو" بنفشے اور یشم نے اسے روکنا چایا مگر وہ ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک گئی۔
"مجھے بتانے دیں بابا مما کے آرزو کون تھی تاکہ میرب کو پتا چلے ۔۔"
"اس عورت نے میرے ماموں سے بدلہ لینا چاہا۔۔ جانتی ہو کیوں ؟"
"کیونکہ میرے ماموں کو اس سائیکو عورت میں دلچسپی نہیں تھی اس نے وہاج نامی شخص کے ساتھ مل کر میری مما کو بدنام کرنا چاہا کیونکہ اسے لگا وہ زین ماموں کی سگی بہن ہیں ۔۔
اس وہاج نے میری ماں کو طلاق دے دی۔۔ صرف اس زہر سے بھری عورت کی خاطر ۔۔"
"زبان کو لگام دو ماہے"
وہ دبی آواز میں غرائی تھی۔۔
"لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکی اسکا مقصد عائشہ خالہ کو برباد کرنا تھا کیونکہ زین نے ایک سچی عورت کو چنا تھا ایک جھوٹی کے اوپر۔۔ میرے ماں باپ نے اسے اس وقت سنبھالا جب وہ برباد ہو چکی تھی۔۔ میرے واثق انکل نے اس سائیکو عورت کو اپنا نام دیا مگر کیا ہے نا اسے عزت راس نہیں آئی ".
"بکواس بند کرو اپنی " وہ ایک دم اس پر غرائی تھی۔
عائشہ کا ہاتھ بے اختیار منہ تک گیا۔۔
"کیا ہوا سچ سننا نہیں چاہو گی ابھی تو بہت کچھ باقی ہے"
"منہ بند رکھو ماہے میں تمہارا قتل کردوں گی"
"سنو تو آگے کیا ہوا۔۔ وہ عورت اپنی حسد و جلن میں اتنا آگے آگئی تھی کہ اس نے اپنی ہی اولاد کو اپنا نشانہ بنایا اور پھر اس نے تمہیں بیوقوف بنایا۔۔
مجھ سے تمہیں اتنی نفرت تھی کہ جو وہ عورت کہتی گئی تم وہ کرتی چلے گئیں بنا اپنی ماں کا سوچے"
ماہے کی بات پر وہ استہزایہ انداز میں ہنس پڑی۔ قہقہ لگا کر۔۔
،"کون ماں ماہے کس ماں کی بات کر رہی ہو یہ عائشہ بی بی ان کی؟"
اس نے عائشہ کی حقارت سے اشارہ کیا۔
اس کے انداز پر عائشہ کا دل کٹ کر رہ گیا .
"آرزو تمہاری ماں نہیں ہے میرب یہی سچ ہے"
"منہ بند رکھو ماہے یوسفزئی ۔۔۔ منہ بند کرو میری صرف ایک ہی ماں تھی اور وہ تھی آرزو ۔۔۔۔ سمجھ آئی تمہارے " وہ پوری قوت سے چلائی۔۔
"یہ سچ نہیں ہے میرب میں ہوں تمہاری ماں خدا کے لئے ایسے مت کرو" اسکی بات پر عائشہ تڑپ کر آگے بڑھی مگر میرب ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک گئی ۔۔
"بس ناٹک نہیں بالکل ناٹک نہیں " نا میں اشارہ کرتے اس نے نفرت بھری نظر سب پر ڈالی۔
راز کھل چکا تھا اب کچھ چھپانے کی گنجائش تھی ہی نہیں ۔
"میرب میری بچی"
"ارے بس نا۔۔۔ کہا تو ہے ناٹک نہیں تم جیسی جھوٹی عورت کے منہ سے یہ محبت بھرے لفظ اچھے نہیں لگتے"
"میرب زبان سنبھال کر بات کرو" زین غصے سے آگے بڑھا مگر یشم آگے آکر اسے فوراً سے روک گیا۔۔
"زین یہ وقت غصہ میں آنے کا نہیں ہے تحمل کا مظاہرہ کرو پلیز".
"ہاہاہاہا سوتیلی سے تمیز سے بات کروں اور جو میری سگی ماں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا تب خیال نہیں آیا تھا"
"کس نے یہ خرافات تمہارے دماغ میں ڈالی ہے تم ہماری بیٹی ہو میری اور عائشہ کی"
"جھوٹ پھر جھوٹ کتنے جھوٹے ہو تم سب۔۔ اور یہ بی بی ۔۔ میری ماں بننے کی کوشش ضرور کی انہوں نے مگر اپنے دوغلے پن سے باز نہیں آئیں۔۔
ساری زندگی ماہے نے یہ کیا ماہے نے وہ کیا ماہے اتنی پیاری ہے۔۔ ساری زندگی مجھے احساس کمتری میں مبتلا رکھا۔۔ اگر میری آرزو مما میری زندگی میں نا آتیں مجھے سچ نا بتاتیں تو میں ساری زندگی گھٹ گھٹ کر مر جاتی ۔۔ کیوں کیا بابا میرے ساتھ کیوں میری آرزو مما کو مجھ سے دور کردیا؟"
وہ اب زین کے آگے دست سوال تھی۔۔
"میرب آرزو تمہاری ماں نہیں ہے ۔۔ میرب آرزو اور میرا کوئی تعلق نہیں تھا میری اور اسکی کبھی شادی نہیں ہوئی تو تم کیسے اسکی بیٹی ہوسکتی ہو"
زین بےبسی کی انتہا پر تھا۔۔
"ارے بس کتنا جھوٹ بولو گے بابا کتنا جھوٹ مر گئی میری ماں آپ کا انتظار کرتے کرتے مگر آپ جیسا سنگدل انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔
ارے اس جادوگرنی نے ایسا کیا جادو کر دیا کہ "
"میرب "
اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی زین کا ہاتھ اٹھا اور اسکا گال سرخ کر گیا۔۔
"زین مت کرو یہ،"یشم نے اسے کھینچ کر پیچھے کیا۔۔
"جانتی بھی ہو کیا بکواس کر رہی ہو ایسا کونسا زہر گھول دیا ہے اس نے عورت نے تمہارے اندر کے تمہیں سچ جھوٹ سمجھ نہیں آرہا ایک غیر عورت کے لئے اپنی سگی ماں کو ایسے بول رہی ہو" زین نے تڑپ کر عائشہ کو دیکھا جو ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
اپنی ہی اولاد جب ایسے پرایا کر دے تو دل پھٹنے لگتا ہے۔۔۔
"نہیں ہے میری کوئی ماں سمجھ آیا آپ سب کو میری ایک ہی ماں تھی اور وہ مر گئی ہے اور مجھے اسکی موت کا بدلہ لینا تھا تم سب سے۔۔۔ یشم یوسفزئی سے ۔۔ اس بنفشے سے ۔۔ سب سے"
وہ حلق کے بل چلائی۔
اپنی نفرت میں وہ ہر رشتے کا لحاظ بھول گئی تھی۔
ماہے کو وہ کوئی نفسیاتی مریض لگی۔۔
**************
"نفرت کرتی ہوں میں تم سب سے سن لو تم عائشہ بی بی ماں نہیں ہو تم میری ۔۔۔ ناگن ہو تم ایک ناگن"وہ واس اٹھائے عائشہ کی جانب بڑھی مگر اسے رکنا پڑا۔۔
"بس میرب بس بہت ہوگیا "
عالم ناجانے کہاں سے ان کے بیچ آیا تھا۔
سب دم سادھ گئے تھے ۔۔
ان کی وجہ سے ہماری ماں مر گئی عالم تم کیوں نہیں سمجھتے جب یہ پٹی تمہاری آنکھوں سے اترے گی دیکھ آرزو مما وہ کھڑی رو رہی ہیں "
اس نے دروازے کی جانب اشارہ کیا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔۔
"اس آبان سے جو نکاح والی رات دھچکا دینے والی تھی میں مگر اس ماہے نے سب برباد کردیا عالم۔۔ تم تو بھائی ہو نا میرے کیوں میرا ساتھ نہیں دے رہے مار دیتے ہیں ان سب کو اپنی مما کا بدلہ لیتے ہیں" وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی چلا رہی تھی۔
عالم کے لئے اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا۔۔
"میرب ہوش میں آؤ میں بس بہت ہوگیا "
وہ ایک دم چلایا۔۔ میرب نے ویران آنکھوں سے اسے دیکھا۔
"تم آرزو کی بیٹی نہیں ہو تمہارا آرزو سے کوئی رشتہ نہیں ہے یہ بات میں نے پہلے بھی کہی ہے اور اب پھر کہہ رہا ہوں وہ میری ماں تھی اسکی کوئی دوسری اولاد نہیں ہے "
"جھوٹ مت بولو تم ہمشیہ جھوٹ بول کر مجھے پیچھے ہٹانا چاہتے ہو جھوٹی ڈی این اے رپورٹس لاتے ہو مجھے نہیں یقین تم پر"
"مجھ پر یقین نہیں ہے نا مگر آرزو پر تو ہے نا چلو میرے ساتھ اس جگہ جہاں تمہاری آرزو مما کا علاج ہوا تھا وہ ایک دماغی مریض تھیں میرب ۔۔۔۔"
"نہیں جھوٹ ہے سب"
"یہی سچ ہے یہ دیکھو" عالم نے ایک تصویر اسکے سامنے کی ۔ جسے دیکھ میرب کی آنکھیں پھٹی تھیں۔
ان کی فیملی فوٹو۔ جس میں سب تھے آرزو زین میرب عالم واثق ۔
عالم نے ڈھونڈ کر یہ تصاویریں نکالی تھیں جو بیسمنٹ کے اندر کہیں چھپی رہ گئی تھیں۔
"جھوٹ ہے نا یہ سب ؟"
وہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں تھی۔
ان سب کو اس کی حالت پر رحم آیا تھا۔
ان تصویروں کو عالم کے ہاتھ سے چھینتے وہ زمین پر بیٹھتی چلے گئی۔۔
"یہ سارے جھوٹے ہیں میرب تم میرا یقین کرو" آرزو کہیں سے اسکے کان میں بولی۔۔
"یہ سب ناٹک کر رہے یہ آبان کو تم سے چھین کر تمہارے دشمن کی بیٹی کو دے دینگے مار دو اسے "
آرزو ایک بار پھر اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولی۔
میرب نے نظریں اٹھا کر سامنے ڈری سہمی کھڑی پلوشہ کو دیکھا اور پھر پراسرار سا مسکرائی۔۔
اسکی نظریں ٹیبل پر رکھی قینچی کی طرف تھی۔۔
"میں سچ میں آپ کی بیٹی ہوں ؟" آنکھوں میں آنسو بھرے اس نے عائشہ کو دیکھا۔
"مما آئی ایم سوری"
وہ معافی مانگ رہی تھی سب کے تنگ اعصاب ڈھیلے پڑے تھے ۔
آہستہ سے چلتی وہ عائشہ کی جانب آئی۔۔
ٹیبل تک پہنچتے وہ لڑکھڑائی ۔۔
پاس کھڑی عائشہ نے اسے سنبھالا تھا مگر اس نے عائشہ کو تیزی سے جھٹکتے خود سے دور کیا ۔
پلوشہ کا بازو پکڑ اس نے بہت اچانک ہی قینچی اسکی گردن پر رکھی تھی۔
"پلوشہ۔۔۔
"میرب نہیں یہ مت کرنا"
وہ سب بوکھلا گئے ۔
"میرب تم چھوڑو اسے۔۔ یہ ہٹاؤ میرب اسکی گردن پر سے"
آبان چلایا مگر اس کی پرواہ نہیں
ان سب کی حالت پر میرب کا قہقہ بلند ہوا۔۔
"ابھی جب اس بی بی کے شوہر نے مجھے مارا تب تو کوئی نہیں تڑپا اب اس پلوشہ کے لئے اتنی تڑپ۔۔۔"
آبان کو دیکھتے وہ زخمی سا مسکرائی۔۔
"کہیں تم بھی تو اپنی بہن کی طرح نہیں کہ محبت کسی اور سے نکاح کسی اور سے اور پھر طلاق ۔۔۔۔۔" وہ ہنسی تھی مذاق اڑانے والی ہنسی ۔۔۔
ماہے نے عالم کو دیکھا جس نے مضبوطی سے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔۔
"بکواس بند کرو میرب چھوڑو اسے" آبان نے اسکا دھیان اپنی طرف کیا تھا جبکہ عالم پیچھے سے اس کی جانب بڑھا۔۔
"نہیں چھوڑوں گی مار دوںگی میں ۔۔ آرزو واقعی پاگل تھی جو تم سب کو ایک موقع دیا۔۔۔ نہیں نفرتوں میں موقع نہیں دئیے جاتے بس نفرت کی جاتی ہے ۔۔ ابھی معاف کردو اور بعد میں پھر نفرت ہوگئی تو۔۔ نا۔ میں ایسا رسک نہیں لیتی۔۔"
یہ کہتے اس نے پلوشہ کی گردن پر قینچی سے دباؤ بڑھایا۔
"نہیں پلیز مجھے نہیں مارو۔۔۔ " تکلیف کی شدت اتنی تھی۔
پلوشہ بلک بلک کر رو رہی تھی اسکا ایک ایک آنسو میرب کے دل کو پرسکون کر رہا تھا۔۔
"اے وہیں دور دور" عالم کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ وہ ایک دم چلائی۔
"وہیں رہ ورنہ بہن مر جائے گی"
"میرب مت کرو ایسے" عائشہ نے اسکے آگے ہاتھ جوڑے۔۔
"میرب بس کرو بہت ہوگیا ہے بس کردو چھوڑ دو اسے۔۔"
ماہے نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔۔
"ہاہاہاہاہاہا جانتے ہو میری ماں کو اتنا سکون مل رہا ہوگا وہ تم لوگوں کو ایسے ہی تڑپتے سسکتے دیکھنا چاہتی تھی آج مجھے لگ رہا میں نے اپنی ماں کا خواب پورا کردیا۔۔"
"میرب چھوڑ دو اسے"
اپنی بہن کی آنکھوں میں آنسو دیکھ وہ تڑپا۔۔
"چھوڑ دوں گی پہلے ماہے کو طلاق دو"
اس نے ایک اور دھماکہ کیا تھا۔
ماہے نے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا اور پھر عالم کو۔۔
"نہیں بھائی ۔۔۔۔ نہیں آپ ایسا کچھ نہیں گے"پلوشہ چلائی وہیں میرب نے زور سے اسکے بال مٹھی میں بھینچے۔۔
"چپ کر پاگل چپ کر چلا مت"
وہ پوری طرح پاگل ہوچکی تھی ۔
"منہ بند کر ورنہ منہ توڑ دونگی " پلوشہ کو مارنے کے اس نے جیسے ہی ہاتھ اٹھایا۔۔ عالم نے پھرتی سے اسکا ہاتھ دبوچتے دوسرے ہاتھ سے قینچی چھینتے وہ اسے بری طرح بے بس کرتا پلوشہ کو اس کی گرفت سے نکال گیا۔۔۔
"چھوڑو مجھے مار دوںگی میں سب کو سب کو ختم کردوں گی"
وہ آپے سے باہر ہو رہی تھی۔
آنکھیں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ اور پھر وہ ایسے ہی آنکھیں بند کرتی زمین پر بیٹھتی چلے گئی۔۔
_________
"آئی ایم سوری عالم آئی ایم رئیلی سوری"
"کس بات کی سوری ؟ ماہے"
"میں نے آپ کی مما کے بارے میں" بات ادھوری چھوڑ اس نے عالم کے سینے میں منہ چھپایا۔۔
"میرب کے دل میں چھپا غبار باہر نکالنے کے لئے یہ ضروری تھا "
"سب بہت ہرٹ ہوگئے ہیں عالم خاص کر عائشہ خالہ میرب نے انہیں بہت برا برا کہا ہے"
"وہ ٹھیک ہو جائینگی ٹرسٹ می"
اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرے وہ نرمی سے کہتے اس کے ماتھے پر لب رکھ گیا۔
میرب ہاسپٹل میں تھی۔
ہوش میں آتی تو بار بار چیخنے چلانے لگتی اس لئے ڈاکٹرز نے اسے نیند کا انجیکشن دے رہے تھے۔
وہ دماغی طور سے ٹھیک نہیں تھی۔
وہ ایک نارمل انسان نہیں رہی تھی۔
یہ سننے کے بعد عائشہ کو سکتہ ہوگیا تھا
اس کی بیٹی اتنی بری حالت میں تھی اور اسے اندازہ تک نہیں ہوا۔۔
خوشیاں ماتم میں بدل گئی تھیں۔۔
آرزو کا دئیے زہر نے میرب کو ختم کر دیا تھا ۔
"میں کیا کرو اپیا میری بیٹی کے ساتھ یہ سب کیوں ہوگیا میں ایک اچھی ماں نہیں ہوں اسکا مستقبل تاریک ہوگیا "
عائشہ سسک سسک کر رو رہی تھی
"بالکل تاریک نہیں ہوا ایک بار میرب ہے ٹھیک ہوتے ہی ہم اسکا نکاح آبان سے کرینگے وہ ٹھیک ہو جائے گی"
بنفشے کی بات پر پاس کھڑی ماہے نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا۔
اور یہی چیز عائشہ نے بھی کی اور ساتھ نفی میں سر ہلایا۔
"ہر گز نہیں اپیا کبھی نہیں ہوگا یہ۔۔ وہ آرزو سے زیادہ نفرت کرتی ہے ہم سے وہ ٹھیک نہیں ہوگی کبھی ٹھیک نہیں ہوگی آپ نے سنا نہیں ڈاکٹر نے کیا کہا ہے وہ ایک نفسیاتی مریض ہے اس سے لوگوں کی جان جو خطرہ ہے "
"عائشہ "
"نہیں اپیا خدا کے لئے مت کہیں دوبارہ "
بنفشے سے التجا کرتی وہ اٹھ کر وہاں سے چلے گئیں۔
بنفشے نے دکھ سے اپنی لاڈلی بہن کو دیکھا۔۔
"مما خالہ ٹھیک کہہ رہی ہیں پلیز انہیں اس بات کے لئے فورس مت کریں" ماہے ان کے پاس آکر بیٹھی۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا ایک نا ایک دن مجھے یقین ہے..
اس کی بات پر وہ مزید کچھ نا کہہ سکیں۔۔
___________
گرم شال اپنے گرد لپیٹے میں کھڑکی سے سر ٹکائے آسمان کی جانب دیکھ رہی تھی جو سرمئی رنگ اوڑھنے لگا تھا اور یہ رنگ تو اب ان کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔
"کیا سوچ رہی ہو؟" پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیتے عالم نے اسکے کندھے پر ٹھوڑی ٹکائی جس پر وہ سوچوں کے گرداب سے نکلی ۔
"کچھ نہیں بس ایسے ہی"
"کیا چیز پریشان کر رہی ہے مجھے نہیں بتاؤ گی؟"
اسکا رخ اپنے جانب موڑے عالم نے اسے اپنے قریب کیا۔
"یہ سب ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا عالم۔ کیا ہم اتنے برے ہیں؟".
"بالکل بھی نہیں " اسکا چہرہ تھامے وہ نرمی سے کہتے اسکے گال سہلاتے بولا جس پر ماہے کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔
"ماہے۔۔ رونا نہیں ہے میں ان آنکھوں میں آنسو بالکل برداشت نہیں کروں گا" اسکے گال پر پھسلتے آنسوؤں کو انگلی کی پوروں پر چنتے وہ اسے اپنے سینے سے لگایا گیا ۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا "
ماہے کی کمر سہلاتے وہ اسے یقین دلا رہا تھا۔
"عالم کیا میں نے میرب کا سچ سب کو بتا دے کر غلط کیا؟"
چہرہ اٹھائے اس نے عالم کو دیکھا ۔
"بالکل بھی نہیں میری جان ۔۔۔ بعد میں جو ہوتا وہ زیادہ تکلیف دہ ہوتا "
"کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں عالم ؟"
ناجانے کیوں وہ یہ سوال کر بیٹھی۔۔
عالم نے اسکے سوال پر اسکا چہرہ دیکھا۔
اسکے چہرے پر آئے بال سنوارے وہ اسکی حسین آنکھوں میں دیکھتے ان میں ڈوب کر ابھرا تھا۔۔
"یہ آنکھیں مجھے اپنا دیوانہ کردیتی ہیں"
اسکی آنکھوں میں جھانکتے وہ مسکرا کر کہتا اسے جھنپنے پر مجبور کرگیا۔
"عالم"
اسکے شکایتی انداز پر اسکے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔
"تم تو پوچھا تھا کہ کیا میں تم سے محبت کرتا ہوں"
"تو آپ جواب۔۔ بھئی"
اسکی شرارتی نظروں سے خائف ہوتی وہ اسکے سینے پر مکا مارتے عالم سے الگ ہونے کی کوشش میں ہلکان ہوئی مگر دوسری طرف مقابل کی گرفت مضبوط تھی ۔۔
"آپ مجھے اب تنگ کر رہے ہیں"
"میں آپ کو بس پیار کر رہا ہوں"
اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکائے اس نے دوبدو جواب دیا.
"مجھے آپ کو آسانی سے معاف کرنا ہی نہیں چاہیے تھا گرین فلیگس کے چکر میں اپنا نقصان کرلیا میں نے"ماہے نے منہ بسورا۔۔
"اچھا واقعی "
"جی ہاں ایک چلتے پھرتے ریڈ فلیگ کو اتنی آسانی سے معاف نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہ آپ کے جیسے بدتمیز ہو جاتے "
ناک سکیڑ کر کہتی وہ عالم کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی ۔۔
"مجھ جیسا معصوم انسان چراغ لے کر ڈھونڈوں گی تب بھی نہیں ملے گا "
"عالم اتنی خوش فہمیاں نہیں رکھنی چاہیے انسان جو اللہ میری توبہ"
دونوں کونوں کو ہاتھ لگاتے وہ عالم کو قہقہ لگانے پر مجبور کر گئی ۔
"اتنا کوئی کیوٹ کیسے ہو سکتا ہے" اسکے دونوں گالوں کو نوچتے وہ ایک بار پھر شرارت پر آمادہ تھا۔
"عالم مجھ سے بات مت کیجئے گا"
غصے سے کہتے وہ اس سے دور ہوئی مگر وہ اسے واپس سے اپنے حصار میں قید کرگیا۔۔
"آپ سے بات نہیں کرونگا تو کہاں جاؤ گا؟"
اسکے گال سے ناک مس کرتے وہ اسے زچ کر رہا تھا۔
"آپ ایک نمبر کے ٹھرکی انسان ہیں ہٹیں پیچھے"
"اب تو بہت آگے آگیا ہوں اب پیچھے ہٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"
ماہے کی آنکھوں میں جھانکتے وہ جذب سے کہتے اسکا دل دھڑکا گیا۔۔
___________
تاحد نگاہ آسمان کا رنگ سرمئی تھا۔
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے درختوں کو جیسے جھولا دے رہے تھے۔۔
چھت کی منڈیر کے پاس وہ خاموشی سے کھڑا تھا۔
بارش کسی بھی وقت ہو سکتی تھی۔۔
مگر وہ بے نیاز سا تھا ہر چیز سے۔۔
"بان۔ کافی"
آواز پر آبان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا جو گلابی آنچل سر پر اوڑھے اسکے پاس کھڑی تھی۔
اسکے ہاتھ میں کافی کا مگ تھا۔
"تھینکس پلوشہ"
مگ تھامتے آبان نے اسکا شکریہ ادا کیا تھا۔
"کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟"
اب کی بار وہ چونکا اور ایک بار پھر اسکا چہرہ دیکھا جو اسکے دوپٹے کے جیسے گلابی ہو رہا تھا۔
"نہیں"
ایک لفظی جواب۔
وہ ابھی اکیلے رہنا چاہتا تھا۔۔
لب کچلتے وہ اسے دیکھنے لگی۔
جو کچھ ان دونوں ہوا تھا اس نے سب کو ہی تکلیف دی تھی مگر آبان کا دکھ بھی کم نہیں تھا۔
"آئی ایم سوری میری وجہ سے میرب"
"پلوشہ پلیز" وہ اسے مزید کچھ کہنے سے روک گیا۔۔
"جو ہوگیا ہے اسے رپیٹ مت کرو اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔۔ میں کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتا ہوں "اسکا انداز ایسا تھا کہ پلوشہ کچھ دیر کے لئے چپ سی ہوگئی۔
اپنا وجود غیر ضروری سا محسوس ہوا تو اس نے واپس نیچے کی جانب قدم بڑھائے تھے ۔
وہ پیپرز کی وجہ سے واپس آئی تھی لیکن آبان کو دیکھ اسے بہت برا لگ رہا تھا وہ کسی سے بات ہی نہیں کر رہا تھا ۔
لاکھ لاپرواہ بننے کی کوشش وہ کر رہی تھی لیکن اپنے دل کا کیا کرتی۔۔
گہرا سانس بھرتے وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی ۔
اسکا بس چلتا تو اس جہاں کی ساری خوشیاں آبان یوسفزئی کے آگے ڈھیر کر دیتی۔۔
"میں آپ کو ایسے نہیں دیکھ سکتی آپ اتنی تکلیف ڈیزرو نہیں کرتے آبان۔۔۔"
خود سے کہتے وہ واپس اوپر کی جانب بڑھی تھی۔
دروازے پر کھڑی بنفشے نے اسکا ایک ایک لفظ سنا تھا۔۔
اسپتال کے بستر پر پڑی وہ آج پورے ہفتے بعد ہوش کی دنیا میں لوٹی تھی۔
اپنے آس پاس سب کو دیکھ اس نے نفرت سے منہ پھیر لیا۔۔
یہ لمحہ سب سے زیادہ عائشہ اور زین کے لئے مشکل تھا۔
وہ کیوں کچھ نہیں سمجھ رہی تھی آخر کیوں ؟"
ڈاکٹر اس پر بھرپور توجہ دے رہے تھے اسکا خیال رکھا جا رہا تھا لیکن سب کچھ ویسے کا ویسے ہی تھا۔۔
"ڈاکٹر میرب کی حالت میں کوئی بہتری کیوں نہیں آرہی ؟"
زین ڈاکٹر کے سامنے بیٹھا ایک لاچار باپ کی طرح اپنی اولاد کے لئے فکر مند تھا۔
"زین اتنے سالوں سے وہ اس سب سے گزر رہی ہے اتنا آسان نہیں ہے ڈاکٹر خرم سے بات ہوگئی ہے وہ آج خود میرب کا سیشن کرینگے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں"
ڈاکٹر نے ان دونوں کو خوب تسلی دی تھی۔۔
وہ مطمئن نہیں ہوئے تھے لیکن انہی۔ ڈاکٹر کر یقین کرنا ہی تھا اسکے علاؤہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہر گز نہیں تھا۔۔
_________
اسپتال کے اس ایک کمرے کے بستر پر پڑی وہ بالکل خاموش تھی ایسے خاموشی جو طوفان کے چلے جانے کے بعد ہوتی ہے موت کے سوگ جیسی خاموشی۔۔
چھت کو گھورتی وہ ناجانے کون سی دنیا میں نکل گئی تھی۔
جب ڈور اوپن کیا ہوا تھا اور کوئی شخص اندر داخل ہوا۔
میرب نے زرا سی گردن موڑ اندر آنے والے کو دیکھا۔
وہ تیس پینتیس سال کا ہوگا سانولی رنگت بھوری آنکھیں۔۔
"کیسی ہیں میرب ؟"
اسکے سوال پر میرب کے ماتھے پر بل آئے ۔
"تمہیں اس سے کیا ؟"
اسکے انداز پر وہ مبہم سا مسکرایا۔۔
"آئی ایم ڈاکٹر خرم۔۔ "
اسنے مسکراتے اپنا تعارف کروایا مگر دوسری طرف سے وہی سرد مہری۔۔
خرم نے اسے دیکھا وہ زرا نرمی دیکھانے کے موڈ میں نہیں تھی۔
"پتا ہے میرب باز اوقات کوئی ہمیں سمجھتا ہی نہیں ہے پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے ہر بار سب کو لگتا ہم ہی غلط ہیں "
اس کی بات پر میرب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جس نے اپنی بات آگے بڑھائی۔
"جب میں چھوٹا تھا نا تو ماما بابا میرا مقابلہ بھائیوں سے کرتے تھے کہ تمہارا بھائی اے گریڈ لایا اس نے ایسا کام کیا تم نے نہیں کیا۔۔
لیکن وہ کبھی یہ نہیں دیکھ سکے میرے اندر کس چیز کی کیپاسٹی ہے میں کن چیزوں میں اپنے بھائیوں سے آگے ہوں ۔۔ وہ کبھی میری کامیابیوں کو کاؤنٹ ہی نہیں کرتے تھے اینڈ اٹس ہرٹنگ ہیں نا؟"
وہ اب اس سے سوال کرتا سائیڈ ٹیبل پر رکھے پھولوں کے گلدستے کو اٹھا رہا تھا۔
"میں بہت رویا کرتا تھا مجھے لگتا تھا اس دنیا میں کوئی مجھ سے محبت نہیں کرتا ایک خالی خالی پن اس واس کی طرح"
اس نے خالی واس کی جانب اشارہ کیا۔۔
وہ اسے دیکھ رہی تھی بنا پلک جھپکے۔
"مجھے بھی اپنا آپ ایسے ہی لگتا میں ایک ایسی اندھیری زندگی کی طرف جا رہا تھا جس کی منزل کیا تھی مجھے زرا اندازہ نہیں تھا۔۔۔ بس سفر سفر سفر اور پھر ایک دن میں نے ایک کتاب پڑھی۔ غیرارادی طور پر مجھے وہ پڑھنی نہیں تھی۔۔"
وہ اب خالی واس میں پانی پھر رہا تھا۔
"اس کتاب کو پڑھتے مجھے لگا جیسے مجھ میں کچھ انڈیلا جا رہا ہے کیا میں نہیں جانتا لیکن میں نے اس کتاب میں ایک بات پڑھی۔۔۔ جانتی ہو کیا؟"
وہ اب اس سے سوال کر رہا تھا میرب کا سر خود بخود نفی میں ہلا۔
وہ مسکرایا مبہم سا۔۔۔
"ایک انسان خود کو تباہ بھی کر سکتا ہے اور آباد بھی۔۔ اس کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے ۔۔ اب یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرتا ہے "
وہ سب ایک گلاب کی کلی اس واس میں لگا رہا تھا۔
کھڑکی سے آتی سورج کی سنہری روشنی اسکے چہرے کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔
کمرے میں پرسکون سا سناٹا تھا اور وہ بس اسے سن رہی تھی۔۔۔
"اس دن میں نے جانا خود کو برباد کرنا اور آباد کرنا میرے ہاتھ میں ہے ، میں دنیا کو یہ اختیار کیسے دے سکتا ہوں کہ وہ مجھے برباد کریں۔۔ اس دن کے بعد سے میں خود پر کام کیا"
"خود پر کام وہ کیسے؟" اس تمام عرصے میں اس نے پہلی سوال کیا ڈاکٹر خرم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
"میں اس دن کے بعد دوسروں سے اپنا موازنہ کرنا بند کردیا۔ پتا ہے میرب جتنا ہم خود کو دوسروں سے کمپئیر کرتے ہیں نا ہماری زندگی اتنی بدتر ہو جاتی ہے ہم پھر اس ریس میں لگ جاتے ہیں جسکا اختتام ہمیشہ تھکا دینے والا ہوتا ہے"
"لیکن ماں باپ بھی تو آپ کو کمپیئر کرتے ہیں نا دوسروں سے "
"ہاں کیونکہ انہیں لگتا ان کا بچہ ٹھیک نہیں کر رہا وہ پیچھے رہ گیا ہے حالانکہ وہ پیچھے نہیں رہتا وہ بس اپنی کیپاسٹی کے لحاظ سے آگے بڑھتا ہے کہیں وہ تھوڑا لاپرواہی برتتا ہے ماں باپ ہمیشہ اولاد کو سب سے آگے دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے وہ اسے پش کرتے ہیں "
"لیکن ان کی باتوں سے دوسرا تو ہرٹ ہوتا ہے نا بہت برے طریقے سے آپ کو ہوتا تھا ہیں نا؟"
"ہاں بالکل ہوتا ہے" وہ اب اسکے پاس رکھی چئیر پر بیٹھا تھا۔
"اور سچ کہوں تو میرا دل کرتا تھا میں اپنے بھائی کو ماروں" وہ ہنسا تھا خود پر اپنے ماضی پر"
"پھر آپ نے مارا؟"
"نہیں بالکل بھی نہیں ۔۔ میں نے اسے مارا نہیں لیکن میں نے پھر اس پر دھیان دینا شروع کردیا۔۔ جب بابا بولتے بھائی سے کچھ سیکھو تو میں نے اس سے حسد کرنے کے بجائے اس سے سیکھنا شروع کیا ۔۔۔ میں دیکھتا میرا بھائی کیا کرتا ہے کیسے سب مینج کرتا ہے مجھے وقت لگا "
"پھر آپ نے اپنے بھائی کو ہرایا ؟" وہ متجسس تھی جاننے کے لئے۔
"اگر ہم اپنے ہی بھائی کی ہار پر خوش ہوں تو فائدہ؟ میں نے اسے ہرایا نہیں تھا میں اس کے جیسا بن گیا تھا جیسے دو بھائیوں کو ہونا چاہے دو انگلیوں جیسا۔۔ دیکھنے میں ایک جیسی کام بھی ایک جیسا لیکن پہچان دونوں کی الگ دونوں کے نام بھی الگ اور ان دونوں میں سے بیکار ایک بھی نہیں۔۔"
"میں نے تو بس حسد ہی کی ماہے کو گرانے کی کوشش کی اس سے کبھی آگے نکلنے کا سوچا ہی نہیں ہاں وہ پیچھے رہ جائے اس کے لئے میں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا"
وہ ہر بات سے ریلیٹ کر رہی تھی۔۔
"یہ بھی ایک ہیومن نیچر ہے لیکن غلط ہے ایسی کوششیں آپ کو ایک ناختم ہونے والا ٹراما دے دیتی ہیں زندگی پھر وہیں اس ایک انسان کو گرانے میں اٹک جاتی ہے ہیں نا؟"
"جیسے میری اٹک گئی ؟"
وہ ایکدم سے سمٹ کر بیٹھی۔
احساس ضیاع شدت سے ہوا تھا۔
"لیکن اس کے بابا نے میری آرزو مما کے ساتھ میں ان سب کے قتل کرنا چاہتی ہوں ،"
"میرب "
اس نے بہت نرمی سے اسے پکارا۔۔
میرب سے سر اٹھا کر اسے دیکھا نگاہوں کا تصادم ہوا تو وہ ٹہری کچھ تھا ایسا جو اسے چونکا رہا تھا۔۔
اسے احساس دلا رہا تھا کہ وہ غلط ہے..
"میں نے کچھ غلط نہیں کیا"
وہ ایک دم اپنی سوچ جھٹک گئی۔
ڈاکٹر خرم کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔
"میں کل پھر آؤ گا بات کرینگی نا مجھ سے؟"
وہ اب جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
وہ کیوں جا رہا تھا اسے سننا کتنا اچھا لگ رہا تھا۔۔
"بات کرینگی نا مجھ سے کل میرب ؟ آج میری سنی کل اپنی سنائیں گی نا؟"
وہ پھر سے اپنا سوال دہرا رہا تھا میرب کا سر خودبخود ہاں میں ہلا۔۔
اور پھر وہ چلا گیا لیکن اسے سوچنے کے لئے بہت کچھ دے کر۔۔
__________
"عالم کیا ہوا ہے وہاں کیوں کھڑے ہیں ؟"
ماہے کب سے اسے باہر کھڑا دیکھ رہی تھی پتا نہیں وہ اندر کیوں نہیں آرہا تھا۔
"اندر آجائیں عالم ٹھنڈ لگ جائے گی " وہ اسکے متفکر تھی۔
وہ اندر داخل ہوا۔
ماہے نے پانی کا گلاس اسے تھمایا وہ مضطرب تھا کچھ الجھا ہوا سا۔۔
"میں کھانا لگواتی ہوں"
اسے کہتے وہ باہر جانے لگی مگر جا نہیں سکی اسکا ہاتھ عالم کی گرفت میں آیا تھا۔
"آئی نیڈ یو " وہ محض یہ تین لفظ ہی بول سکا۔۔
اسکے لفظوں کا مفہوم سمجھتے وہ سر ہلاتی اس کے قریب بیٹھی بہت قریب۔۔
"کیا بات پریشان کر رہی ہے آپ کو عالم ؟"
وہ عالم کی ماہے تھی سامنے بیٹھا شخص اسکی زندگی تھا۔
"تم نے مجھے معاف کیوں کردیا ماہے اتنی آسانی سے؟"
اسکے سوال پر وہ چونک اٹھی یہ بھلا کیسا سوال تھا۔۔
"کیا مطلب عالم ؟"
"مطلب یہ ماہے کہ میں اور میرب ایک ہی راہ کے مسافر تھے تو مجھے کیوں سزا نہیں ملی میرب کو دیکھو اس کے ساتھ کیا ہوگیا میں بھی تو ایسی سزا ڈیزرو کرتا تھا نا مجھے کیا ابھی سزا ملنا باقی ہے؟"
وہ ٹھیک نہیں تھا ماہے کو یہی لگا۔
وہ کچھ دیر پہلے ہی تو وہ ہاسپٹل سے آیا تھا۔۔
عالم کو سزا کیوں ملے گی؟"
اسکے ماتھے پر بکھرے بال سنوارتے اس نے پوچھا۔
عالم نے سر جھکایا۔
وہ ایسے تو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا اسے۔۔
"عالم سر اٹھائیں جھکا سر اچھا نہیں لگتا مجھے "تھوڑی تلے ہاتھ رکھ اس نے عالم کا جھکا سر اونچا کیا اور ان سرمئی آنکھوں میں نمی دیکھ ماہے کا دل کٹ کر رہ گیا۔
"عالم"
"مجھے میں سزا نہیں ملی ماہے کیوں تم نے آسانی سے معاف کردیا بتاؤ نا؟"
وہ جاننا چاہتا تھا۔
ماہے نے لمحے کو سوچا اور پھر اسکا ہاتھ اٹھائے اس نے اس ہاتھ پر عقیدت سے بوسہ دیا۔
اسکی حرکت پر وہ بھونچکا رہ گیا۔۔
"عالم میرے لئے بہت معتبر ہیں۔۔۔ اس لئے میں نے انہیں معاف کردیا۔۔ جانتے ہیں آپ کیوں میرے لئے اتنے معتبر ہیں؟"
"کیوں آپ کو ہدایت دی گئی آپ کے دل میں رحم ڈالا گیا اور آپ نے اسے محسوس کیا اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور پھر آپ نے واپس اس زندگی کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ آپ بیٹے
تھے ان کے چاہتے تو ان کے جھوٹ پر ان کا ساتھ دے دیتے آپ سے کوئی سوال نہیں کرتا وہ آپ کا حق تھا اپنی ماں کے ساتھ کھڑے رہنے کا۔۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا آپ چاہتے تو بہت کچھ کرسکتے تھے میرے ساتھ عالم میں تو آپ کی محبت میں ڈوبی ہوئی تھی " وہ ہنسی تھی جیسے پیچھے کہیں ماضی میں پہنچ گئی ہو۔۔
آپ نے تکلیف اٹھائی ۔۔۔
آپ مجھ سے پوچھتے ہیں نا کہ آپ میں اور میرب میں کیا فرق ہے تو میں آپ کو بتاتی ہوں۔۔
یہ کہانی جب شروع ہوئی تو آپ دونوں ظالم تھے۔۔
دونوں کا مقصد ایک تھا لیکن پھر آپ کا دل پلٹ گیا۔۔
میرب کا نہیں پلٹ سکا ۔
آپ کو نا ماں کی محبت ملی نا باپ کی میرب کو سب کچھ ملا ماں باپ بھائی کزنز سب کا پیار مگر اس نے سب اپنے ہاتھوں سے گنوایا۔۔
عالم حاسد نہیں تھا میرب تھی عالم غاضب نہیں تھا میرب تھی۔۔ عالم کے دل میں جلن نہیں تھی میرب کے دل میں روز اول سے تھی۔۔
عالم کے دل میں اللہ نے رحم ڈالا میرب کو موقع ملا اس نے اس رحم کو چھوڑ حسد جلن اور نفرت کو چنا۔۔
عالم اور میرب ایک جیسے نہیں۔۔ عالم کو احساس ہوا وہ پیچھے ہٹ گیا اسے پتا تھا یہ غلط ہو رہا ہے وہ آگے نہیں بڑھا۔۔
میرب نے دیکھا عالم پیچھے ہٹ گیا اس نے دوسرے طریقے ڈھونڈے ۔
وہ اپنی ہی بہن کو مارنے کے در پر ہوگئی۔
سو سیمپل سی بات ہے جس نے ہدایت پائی وہ جیت گیا اور جس نے ہدایت کی روشنی کو خود پر پڑنے نہیں دیا وہ آج اندھیروں میں ہے جیسے میں تھی۔
میں نے جانا ہے عالم خدا سے دوری کتنی بری چیز ہے۔۔ میں نے آپ کو دیکھا ہے سجدوں میں روتے ہوئے خدا کے آگے جھکتے ہوئے معافی طلب کرتے ہوئے۔۔ میں میرب سے کبھی ناراض نہیں ہوئی تو آپ سے کیسے ہوسکتی ہوں؟"
اسکی بات پر عالم کا جھکا سر اٹھا تھا۔
ان سرمئی آنکھوں میں آنسو اب پھسل کر گال پر بہتے اسکی داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔۔
"کیوں ان آنکھوں پر ظلم کر رہے ہیں کیا آپ جانتے نہیں یہ کتنی عزیز ہیں مجھے" آگے بڑھ کر اسکے ماتھے پر بوسہ دیتے وہ اسکے آنسو اپنی پوروں پر چن گئی۔۔
اسکی بات پر وہ اسکے کندھے پر سر ٹکائے رو دیا۔۔
کسی بچے کی طرح بلک بلک کر۔۔۔
"عالم ایسے مت کریں نا"
"کاش میں ایک اچھا انسان ہوتا ماہے ہماری کہانی میں وہ وقت نا آتا کاش میں اس وقت کو ہمارے درمیان سے نکال پھینکنے کی طاقت رکھتا۔"
"کاش میں مر جاتا اس وقت ماہے جس وقت میں نے تمہیں چھوڑا تھا کاش ۔۔"
"عالم بس۔۔۔ ادھر دیکھیں" اسکا چہرہ اوپر اٹھائے اس نے اپنے ہاتھوں میں بھرا تھا۔۔
"مر کیوں نہیں گیا میں ماہے؟"
"کیونکہ کسی نے دعاؤں میں ہر وقت آپ کی سلامتی مانگی تھی ان پانچ سالوں میں کوئی دعا ایک شخص کے ذکر سے خالی نہیں گئی تو خدا کیسے اسے نقصان پہنچاتے؟"
جھک کر عالم کی آنکھوں کو چھوتے وہ اسے احساس دلا گئی تھی کہ سامنے بیٹھی اس لڑکی کے لئے وہ کتنا ضروری ہے۔۔
عالم نے سکون سے اسکی گود میں سر رکھا ایسا لگا جیسے دل ایک بڑا بوجھ سرکا ہو۔۔
"بڑا بے سکون رہا ہوں میں پانچ سال اور اب ایسا لگتا سکون صرف اسی ایک قربت میں ہے ۔ایسا لگتا ہے ایک بھٹکا مسافر اپنی منزل تک آگیا ہوں تپتے صحرا میں سایہ میسر ہو جائے"
اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے یہ اسکا طریقہ تھا اظہار محبت کا ۔
ماہے کے چہرے پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا۔۔
عالم کے بالوں میں انگلیاں چلاتے وہ اسے سکون پہنچا رہی تھی۔
اوو وہ دل میں سکون سا اترتے محسوس کر آنکھیں موند گیا۔۔۔
******---+++******
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، گیلی گھانس۔۔ جن پر چلتے ایک سکون سا اسکے دل و دماغ کو ملا تھا۔
ناجانے کتنے دنوں بعد وہ ایسے باہر کھلی فضا میں سانس لے رہی تھی۔
گردن موڑ کر اس نے سامنے راہداری کی جانب نظریں ٹکائیں۔۔
سامنے سے اسے وہ ڈاکٹر کھڑے نظر آئے۔
وہ کسی سے بات کر رہے تھے۔۔
آج انہوں نے اسے یہاں بلایا تھا اسپتال کے اس
خوبصورت حصے کی جانب۔۔
وہ آہستہ سے چلتی بینچ پر جا بیٹھی۔
"کیسی ہیں میرب ؟"
وہ اسکے برابر آکر بیٹھا۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
"آج آپ مجھے اپنی کہانی بتانے والی تھیں نا؟"
"میری کوئی کہانی نہیں ہے ڈاکٹر ۔۔ "
"کچھ تو ہوگی ؟"
"میں ایک نفرتوں میں ڈوبی لڑکی ہوں انتقام کی آگ میں جلتی۔۔۔
حسد و جلن کی تپش مجھے ہر وقت سلگائے رکھتی ہے۔۔"
"یہ انسانی فطرت ہے"
"ہر انسان ایسا نہیں ہوتا۔۔ ہر کوئی میری طرح نہیں ہوتا ۔۔ مجھے لگتا ہے میں اس دنیا کی سب سے بدقسمت لڑکی ہوں۔۔ پتا ہے ڈاکٹر کل آپ کی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا۔۔ آپ نے کبھی اپنے بھائی سے نفرت نہیں کی۔۔۔ آپ نے اپنے ماں باپ کو حقارت سے نہیں پکارا۔ میں نے پکارا۔۔ میں نے اپنی ماں کو اس دنیا کا ہر برا لفظ کہا اور وہ روتی رہی تڑپتی رہی اور ان کا ایک ایک آنسو میرے دل پر پڑے زخموں پر مرہم کا کام کرنے لگا کیا ایسی بیٹی دیکھی ہوگی کبھی ؟"
وہ بول رہی تھی اور ڈاکٹر خرم چپ تھے آج وہ اس سننا چاہتے تھے ۔۔
"میں نے دیکھا ہے محبت میں بڑی طاقت ہوتی ہے اچھے اچھوں کو بدل دیتی ہے لیکن میں نہیں بدلی جانتے ہیں کیوں؟"
اس نے لمحہ بھر توقف کیا۔۔
"کیونکہ میں محبت کرنا نہیں سیکھی میں نے کبھی محبت کی ہی نہیں۔۔ محبت کے بغیر انسان خالی ہوتا ہے محبت ایک واحد جذبہ ہے نا جو ہر طرح کے جذبوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔۔
کاش میرے پاس یہ محبت ہوتی"
اسکے لہجے میں خود ترسی تھی۔۔
"لوگ کہتے ہیں محبت ہر کسی کو نہیں ملتی لیکن محبت کر انسان کو ملتی ہے ماں باپ کی محبت کی صورت تو کبھی بہن بھائی دوستوں کی صورت ۔۔ کہیں نا کہیں محبت ہوتی ہے لیکن میرے حصے میں صرف نفرت آئی۔۔
میرے پاس دو راستے تھے سب بھول کر اگے بڑھ جاتی سب کو معاف کردیتی سب سے معافی مانگ لیتی اور پھر سب ٹھیک۔۔
لیکن میں نے وہیں کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا میں نے خود کو کبھی آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔۔ مجھے لگتا تھا میں آگے بڑھوں گی تو ساری نفرت کہیں دور چلے جائے گی اور میں کبھی اپنا بدلہ نہیں کے سکوں گی۔۔ "
"بدلہ لینا اتنا ضروری تھا؟"
"بہت وہ عورت جس نے کہا تھا وہ میری ماں ہے اسکے علاؤہ میں نے اپنے دل میں کسی کے لیے محبت محسوس کی ہی نہیں اور ان کی محبت میرے دل کو زہر سے بھر گئی۔"
وہ ہنسی تھی پچھتاؤں سے بھری ہنسی۔۔
ڈاکٹر خرم کو اس لڑکی پر ترس آیا تھا۔۔
"میرا دل کرتا تھا میں سب کو مار دوں سب نے ایک معصوم عورت کے ساتھ کیا کیا تھا۔۔ کاش ۔ میں اتنی سمجھ دار ہوتی کہ سچ جھوٹ سمجھ سکتی۔۔۔ "
ایک آنسو ٹوٹ کر اسکے گال پر بہا ۔
"عالم ان کا سگا بیٹا تھا مگر وہ پیچھے قدم لے گیا میں نے اسے بولا ایسے مت کرو کیوں کر رہے ایسے۔۔۔ وہ سب صرف قابل نفرت ہیں مگر اس نے عجیب سی بات کہی۔۔"
ہاتھ کی پشت سے اس نے اپنا گال رگڑے۔۔
"اس نے کہا ماں ماں ہوتی ہے اس سے نفرت نہیں کر سکتا مگر۔۔ میں اس جھوٹے انتقام کو آگے نہیں بڑھا سکتا میں ساری زندگی ان کی مغفرت کی دعا کروں گا مگر میں ان کی آخری خواہش کبھی پوری نہیں کروں گا۔۔ میرا ایک ایک عمل۔۔ ان کی اذیت میں اضافہ کرے گا۔۔ وہ بہانہ بنا رہا مجھے ایسا لگا ۔۔۔ اس نے کہا مت برباد کرو خود کو میرب مت بڑھو اتنا آگے کہ واپس آنا چاہوں تو راستہ بھٹک جاؤ پیچھے مڑ کر دیکھو تو کوئی اپنا نا ملے۔۔ "
اس نے اپنی ہتھیلیاں خرم کے آگے پھیلائیں۔۔
"یہ دیکھ رہے ہیں میرے ہاتھ۔۔ ان میں جتنی لکیریں ہیں سب بے معنی ہیں ساری لکیریں میں نے اپنے ہاتھوں سے مٹا دیں ۔۔
میں آبان سے محبت نہیں کرتی میرے لئے وہ میرے انتقام کا ایک ذریعہ تھا لیکن جب میں نے دیکھا وہ چھوٹی لڑکی ۔۔ ہاں وہ بہت معصوم سی دیکھتی ہے گڑیا جیسی۔
میں نے اس آنکھوں میں آبان کا عکس دیکھا اور آبان وہ اسکا اتنا خیال رکھ رہا تھا مجھے اپنا آپ آرزو لگا جس کے حصے میں کچھ نہیں آیا میرے دل نے کہا اسے مار دو۔۔ جو میرا نہیں وہ کسی کا بھی نہیں اور میں نے"
وہ ہنسی اور پھر ہنستی چلے گئی ۔۔
سر پر ہاتھ مارتے وہ ہنس رہی تھی تو کبھی رو رہی تھی۔۔
"میں نے اسے مارنے کی کوشش کی۔۔۔ ان ہاتھوں سے۔۔۔،"
اپنے کپکپاتے ہاتھ خرم کے آگے کئے وہ ایک بار پھر کہیں ماضی میں پہنچ گئی تھی۔۔
"میرب۔۔ ادھر میری طرف دیکھیں "
وہ پینک کررہی تھی اس نے نفی میں سر ہلاتے ڈاکٹر خرم کو دیکھا بے بسی سے اذیت سے ۔۔
"ہر چیز کی تلافی ہو سکتی ہے اگر دل و دماغ میں احساس ہو کہ آپ غلط ہو۔۔"
"کوئی مجھے معاف نہیں کرے گا"
"مانگنے کے بعد یہ بات کہیں گے"
"نہیں میں نہیں جاؤں گی کہیں مجھ سے سب نفرت کرتے ہیں بہت نفرت "
نا میں سر ہلاتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔
خرم نے اسے بھاگتے دیکھا۔
وقت لگنا تھا ناجانے کتنا لیکن اسے یقین تھا وہ ٹھیک ہو جائے گی ۔۔۔۔
__________
وہ مینشن کے پچھلے حصے میں اس خوبصورت باغ کے ایک کونے میں بیٹھا مسلسل سیگریٹ نوشی کر رہا تھا۔
وہ کوئی چین اسموکر نہیں تھا لیکن آج کل بن گیا تھا۔
اپنے اندر کی وحشت کو کم کرنے کی خاطر وہ مسلسل سیگریٹ پھونک رہا تھا۔
اس نے پچھلے بیس منٹ میں یہ تیسری سیگریٹ سلگا کر لبوں سے لگائی ۔
لیکن وہ اسے پی نہیں سکا۔۔ کسی نے اچانک ہی اسکے لبوں سے سیگریٹ کھینچ زمین پر پھینک اسے پیروں تلے مسلا۔
آبان نے جیسے ہی گردن موڑ کر دیکھا سامنے پلوشہ کو کھڑے دیکھ اسکے ماتھے پر پڑے بلوں میں اضافہ ہوا تھا۔
"یہ کیا حرکت ہے؟"
"آپ کو شاید اپنی حرکات سمجھنے میں بھی دقت ہو رہی ہے تو میں بتاتی چلوں آپ سیگریٹ پی پی کر اپنے پھپھڑے کالے کررہے تھے اور میں نے آپ کو یہ کام کرنے سے روکا ہے"
اسکے تڑخ کر جواب دینے کر اس چھوٹی لڑکی کو دیکھا ۔
"پلوشہ"
"آپ کو مجھے ڈانٹنے کی یا مجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے میری ساری فیلنگز یک طرفہ ہیں میں جانتی ہیں اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کی زندگی میں میرے لئے کوئی جگہ نہیں ۔۔ لیکن میں آپ سے کچھ مانگ بھی نہیں رہی آپ کو ایسے نہیں دیکھ سکتی تو "
"آپ کے لئے فیلنگز رکھتی ہوں میں آبان "
"دماغ خراب ہے تمہارا پلوشہ کیا بکواس کر رہی ہو ہاں عمر دیکھی ہے اپنی جو یہ فضول کی باتیں دماغ میں آگئی ہیں؟"
وہ ایک دم ہی اس پر بھڑکا تھا۔۔
"کیا عمر کیا دیکھنی کیا میں کوئی فیڈر پیتی بچی نظر آتی ہوں یا میں آپ کو واکر پر گھومتی نظر آتی ہوں ؟"
"شٹ اپ پلوشہ جائیں جہاں سے اس سے پہلے میں "
"اس سے پہلے کیا؟ آپ یہاں سے خود کو چلے جائیں گے یا پھر بیا مما سے شکایت لگائیں تو میں آپ کو پہلے بتا دوں میں ان کو بتا چکی ہوں کہ یس آئی لائک آبان یوسفزئی "
وہ بے خوف و خطر برملا اس کے سامنے کھڑی اس سے اظہار محبت کر رہی تھی۔
"جانتی ہوں آپ میری ہمت سے متاثر ہو رہے ہونگے اور،"
"بس۔۔۔ پلوشہ بس بہت ہوگیا متاثر ہوا اور آخر ہے کیا اس میں متاثر ہونے والا۔۔ یوں اپنی عمر سے بڑے لڑکے کے سامنے جا کر اظہار کر دینا یہ کوئی اچھی بات ہوتی ہے آپ کو ایوارڈ دوں میں بہادری کا یا کوئی میڈل آپ کے گلے میں پہناؤں ؟"
وہ غصے کی انتہا پر تھا غصے سے اسکا چہرہ لال سرخ ہو رہا تھا۔
"میڈل گولڈ دینگے یا سیلور؟"
آنکھوں میں آنسو بھرے وہ اپنے سوال سے آبان یوسفزئی کا دماغ خراب کر گئی۔۔
آبان کو سمجھ نہیں آیا وہ اب کیا بولے۔
"آپ سے بدلے میں محبت نہیں مانگ رہی بس میں یہ چاہتی ہوں کسی کی غلطی کی سزا خود کو تکلیف دے کر مت کریں جو ہوا اس میں سب کا قصور ہو سکتا ہے سوائے آپ کے"
اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس نے اپنی بات کہی اور پھر واپس جاتے جاتے وہ پلٹی تھی۔
"میں آپ سے چھوٹی ضرور ہوں آبان مگر آپ کے لئے میری فیلنگز بہت بڑی ہیں میری عمر سے میری محبت کا اندازہ مت لگائیے گا۔۔ "
اسے کہتی وہ رکی نہیں تھی ۔
آبان نے اسے جاتے دیکھا ۔
گہرا سانس بھرتے اس نے ہاتھ موجود لائٹر اور سیگریٹ کا پیکٹ زمین کر پھینکا تھا۔۔
زندگی نئے نئے کھیل کھیل رہی تھی اس کے ساتھ۔۔
"تمہیں تو میں دیکھ لوں گا لٹل ریبٹ" ڈانٹ کچکچاتے وہ غصے سے اندر کی جانب بڑھا تھا اب ناجانے کون سا طوفان آنے والا تھا۔۔
________
"ماہے۔۔۔ ماہے"
اپنے نام کی پکار پر کچن میں کام کرتی وہ چونکی اور جلدی سے سامان کیبنٹ میں چھپایا تھا۔
"عالم میں یہاں ہوں"
"یہاں کیا کر ہی ہو؟ " اسکے آٹے میں سنے ہاتھ دیکھ اس کے ماتھے پر شنکیں پڑیں۔
اسکا ہاتھ تھام اسے سنک کے پاس کھڑے کر وہ خود اسکے ہاتھ دھونے لگا۔
"ایسے کیا کر رہے ہیں کام ہی تو کر رہی ہوں".
اس نے منہ بسور مگر مقابل پر زرا فرق نہیں پڑا تھا۔
"عالم مجھے کام کرنے دیں نا"
وہ اسے مکمل اپنے حصار میں لئے اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں تھامے صاف کر رہا تھا ۔
"تمہیں کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بس ہیں نا یہاں کام کرنے کے لئے ،"
اسکے فکرمند انداز پر وہ مسکرا اٹھی۔۔
"آپ اتنی فکر کیوں کرتے ہیں میری"
"مجھے کچن میں کام کرنے والوں کی زیادہ فکر ہے بیچاروں کو ڈبل محنت کرنی پڑتی ہے"
دانتوں تلے لب دبائے وہ سنجیدگی سے کہتا پیچھے ہوا
جبکہ اسکی بات پر منہ کھولے اس نے حیرت سے عالم کو دیکھا۔
"ہاؤ مین عالم ۔ ایک تو میں"
کچھ کہتے کہتے اس نے دانتوں تلے زبان دباتے خود کو بات مکمل کرنے سے روکا تھا۔۔
"کہتے رہیں جو کہنا ہے میں اپنی مرضی کروں گی" ناک سکیڑے اس نے عالم کو انگوٹھا دیکھایا ۔
اسکے شرارتی انداز پر وہ ہنس پڑا ۔۔
"نا کام کرو جاناں تھک جاؤ گی،"
"آپ جائیں اوپر کام کریں اپنا پلیز نا عالم"نیچلا ہونٹ باہر نکالے اس نے معصوم بننے کی بھرپور ایکٹنگ کی تھی۔
عالم کو اس پر رج کے پیار آیا تھا اسکا چہرہ تھامے وہ باری باری اسکے گالوں پر پیار کرتے اسکے چہرے کو سرخ کر گیا۔
"ایک نمبر کے۔۔ اففف جائیں نا آپ"
شرم سے دھری ہوتے اسنے عالم جو زبردستی کچن سے باہر دھکیلا تھا ۔
"اللہ اللہ یہ آدمی" اپنے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھے وہ اپنی دھڑکنوں کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"نہیں ماہے آج تو یہ کام کرنا ہی ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے"
خود سے کہتے وہ ایک اگر پھر اپنے کام پر لگی تھی۔۔
_________
اسکی نظریں بار بار گھڑی کی جانب جا رہی تھیں۔
بارہ بجنے والے تھے اسکے ہاتھ تیزی سے کام کر رہے تھے پکڑنے جانے کا خوف الگ۔۔
بارہ بجنے سے پہلے اس نے ایک نظر ساری تیاری کو دیکھا اور پھر خود کو ۔۔ سب پرفیکٹ تھا جیسا اسے چاہیے تھا اب بس اسے ایک شخص کا انتظار تھا جس کے لئے اس نے یہ سارے انتظامات کئے تھے۔۔
لائٹس آف کرتے وہ اپنا ڈریس اٹھاتے ڈریسنگ روم میں بند ہوئی تھی۔۔۔
_____
"تم لوگ کیا چھپا رہے ہو ؟"
عالم کب سے آنسہ اور بارز کے چنگل میں پھنسا تھا۔
وہ سب اس وقت مری والے فارم ہاؤس میں تھے
برف باری نے مری کی سڑکوں کو ڈھانپ رکھا تھا ایسے میں ماہے کی ضد پر وہ اسے یہاں لے آیا تھا مگر یہ لوگ اسے ماہے کے پاس جانے ہی نہیں دے رہے تھے ان لوگوں کی باتوں سے وہ اب اکتا گیا تھا
"اچھا بھئی نہیں کرتے آپ کو تنگ جائیں آپ ہم بھی جا رہے سونے"
بالآخر انہوں نے اسکی جان بخشی۔۔
"ہونہہ احسان نہیں کررہے کوئی؟"
منہ بنا کر کہتا وہ اپنے جیکٹ کندھے کر ڈالتے اوپر کی جانب بڑھا تھا جہاں اسکا کمرہ تھا۔
باہر برف باری ایک بار پھر شروع ہو چکی تھی۔
کتنے سال بعد وہ ایک بار اسکے ساتھ برف باری دیکھے گا۔۔
یہ سوچتے ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ نے ڈیرا جمایا۔۔
وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا لیکن وہاں ماہے کہیں نہیں تھی۔۔
"ماہے۔۔۔ ماہے؟" وہ اسے پکارتے آگے بڑھا جب اسے لگا ٹیرس پر کوئی ہے۔۔
،"ماہے وئیر آر یو بے بی ؟"
اسے پکارتے عالم نے اندھیرے میں ڈوبے ٹیرس پر قدم رکھا تھا کہ اچانک ساری لائٹیں ایک ساتھ روشن ہوتی چاروں اور روشنی بکھیر گئیں۔
پوری ٹیرس کو فیری لائٹس سے سجایا گیا تھا۔۔
حتی کے وہ درخت بھی جس کا ایک بڑا حصہ ٹیرس پر چھایا رہتا تھا۔
وہ درخت اب برف میں چھپنے لگا تھا۔
Happy birthday to you....
Happy birthday to you
Happy birthday dear Alam...
Happy birthday to you...
May you have many more..
May you have many many..
اسکی سماعتوں میں ماہے کی آواز ٹکرائی۔
اپنا ہاتھ پیچھے لے جاتے وہ پیچھے کھڑی ماہے کو اپنے مقابل لایا ۔۔
جس کے چہرے پر خوشی رقصاں تھیں۔۔
"ہیپی برتھ ڈے عالم"
ایڑی کے بل اٹھتے اس نے عالم کے ماتھے پر لب رکھے ۔
"تھینک یو۔۔"
وہ اسے تھوڑا فاصلے پر ہوئی تھی اور پھر اس نے عالم کو دیکھا۔
"آج کچھ کہنا ہے آپ سے کیا اجازت ہے ؟"
اس کے اجازت مانگنے پر اس نے مسکراتے سر ہلایا۔۔
"تو بات کچھ ایسی ہے ایک دن ملا وہ ہمیں
وہ شخص جو بالکل انجان سا تھا جس سے ملنے وقت مجھے یہ نہیں لگا تھا کہ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔
اسکی سرمئی آنکھیں ، ان حسین آنکھوں میں ایک انوکھی سی چمک تھی جو میرے دل کو روشن کر گئی۔
کوشش کی تھی کہ محبت نہیں کروں میں میرے بس کا روگ ہی نہیں تھا لیکن۔
وہ ایک ساحر تھا جو آہستہ آہستہ اپنا سحر مجھ طاری کرتے مجھے اپنا اسیر کرگیا۔
ایسا اسیر کے میری دل میں اسکی محبت اتنی بھر گئی کہ کسی دوسرے جذبے کے لئے میرے دل میں جگہ ہی نہیں بچی۔
وہ جب بچھڑا تو مجھے لگا میں مر جاؤں گی
لیکن نہیں۔۔۔ میں زندہ رہی کیونکہ مجھے ساری زندگی اس کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھنا چاہتا اسکے بانہوں کے حصار میں رہتے خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی کہنا تھا۔۔
وہ کہتا ہے مجھ سے کہ وہ میرے قابل نہین ہے لیکن وہ مجھ سے پوچھتا ہی نہیں کبھی کہ میرے دل میں اسکا کیا مقام ہے۔۔
میں اسے یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں ساری زندگی اسے دیکھ کر گزار سکتی ہوں ۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مسکراتے ہوئی اپنی آنکھیں چھوٹی کر لیتا ہے۔۔
باتوں کے درمیان وہ ایسے بھی دانتوں تلے لب دباتے اپنی غلطی پر ہنس پڑتا ہے۔۔
اسکی ہنسی اتنی خوبصورت ہے کہ ساری صدیاں کم پڑ جائیں مگر میری آنکھیں اسے تکتے نا تھکیں۔۔
اسکے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیکھ مجھے خود پر ناز ہوتا ہے کہ میرے لئے اس شخص کو چنا گیا ہے کو اپنی غلطی ماننا جانتا ہے جو گرنے والے کو سنبھالنا جانتا تھا۔
وہ کہتا ہے وہ ایک اچھا انسان کبھی نہیں رہا لیکن میں کہتی ہوں اسکے سوا مجھے کبھی کوئی اچھا نہیں لگا۔۔
اس نے ایک بار مجھ سے پوچھا تھا کہ کتنی محبت کرتی ہوں میں اس سے۔۔
تب میں نے کہا تھا میں جان دے سکتی ہوں اسکے لئے "
وہ ہنسی تھی اور اسکی ہنسی کی جلترنگ فضا میں گونجتی چلے گئی۔۔
"آج میں کہتی ہوں مجھے اس سے اتنی محبت ہے کہ میں اپنے حصے کی ساری خوشیاں اسکے قدموں میں ڈھیر کردینا چاہتی ہوں۔
میں چاہتی ہوں وہ کبھی نا روئے وہ میری خوشی کی وجہ بنا ہے میں اسکے سکون کی وجہ بننا چاہتی ہوں ۔
ایک شخص ہے ابتہاج عالم
میں اسکی متاعِ جاں بننا چاہتی ہوں۔۔
میں اس سے بے انتہا محبت کرتی ہوں اور میں اسے صرف خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔۔
عالم آنکھیں نم ہوئی۔
"میری حیات ۔۔۔ میری آنکھوں کا نور ہو تم۔۔۔ " آگے بڑھ عالم نے اسے خود میں بھینچا تھا۔
"میری آتی جاتی دھڑکنوں کی امین ہو تم تمہارے بغیر یہ ساکن ہو جاتی ہیں۔۔
اسکے ماتھے پر لب رکھے وہ اپنے ماتھے سے اسکا ماتھا ٹکا گیا۔
ماہے نے نرمی سے اسکے گال پر بہتے آنسو صاف کئے تھے۔
یہ آنسو تشکر کے آنسو تھے۔
اسکا ہاتھ تھامے وہ ٹیبل تک آئی تھی جہاں موجود کیک ان دونوں کے نام سے جگمگا رہا تھا۔
ماہے کے عالم کو سالگرہ مبارک ۔۔۔"
وہ مسکرایا تھا ۔
وہ ساری زندگی ماہے کا عالم بن کر گزارنا چاہتا تھا اسکی پہچان ایسے ہو کہ وہ ماہے کا عالم ہے۔۔
لیک کاٹتے اس نے ان شفاف نگینوں جیسی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
"میرے ساتھ ڈانس کرینگے عالم؟"
آسمان سے گرتی برف کو دیکھتے وہ اپنا ہاتھ اسکی جانب بڑھا گئی جسے تھامنے میں اس نے لمحہ نہیں لگایا تھا۔۔
کھلے آسمان تلے عالم کا ہاتھ تھامے وہ اس لمحے کو کھل کر جینا چاہتی تھی۔
اسے کمر سے تھام عالم نے اسے اپنے قریب کیا تو وہ اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ گئی۔
You're just too good to be true
Can't take my eyes off of you
You'd be like Heaven to touch
I wanna hold you so much
At long last, love has arrived
And I thank God I'm alive
ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اب آگے پیچھے اسٹیپ لے رہے تھے۔
There's nothin' else to compare
The sight of you leaves me weak
There are no words left to speak
But if you feel like I feel
Please let me know that it's real
You're just too good to be true
Can't take my eyes off of you
I love you, baby
اسکا ہاتھ تھامے عالم نے اسے گول گھمایا تھا۔۔
برف اب ان کے بالوں پر گرتی جا رہی تھی۔
ماہے نے اسکے گلے میں بانہیں ڈالے اسکے گال سے اپنا گال مسں کیا تھا۔۔
And if it's quite alright
I need you, baby
To warm the lonely night
I love you, baby
Trust in me when I say
Oh, pretty baby
Don't bring me down, I pray
Oh, pretty baby
Now that I've found you, stay
And let me love you, baby
Let me love you
You're just too good to be true
Can't take my eyes off of you
اپنے بانہوں کا حصار اسکے گرد مضبوط کرتے وہ اسکے کان کے قریب جھکا ۔۔
"دل من رفت"
ان لفظوں پر وہ دلنشین سا مسکرائی
"مجھے یہ سننا ہے وہ بھی آپ کی آواز میں"ایک اور فرمائش۔
"جو حکم میرے آقا " سر کو خم دیتے وہ حکم بجا لایا۔۔
کھلکھلا کر ہنستے اس نے اپنا سر عالم کے سینے پر ٹکاتے خود کو اس کے حوالے کیا تھا۔۔
___________
"مما یہ آپ کیا بول رہی ہیں؟"
بنفشے کی بات پر وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔
"ایسا بھی کچھ نہیں بولا ہے میں نے جو ایسے ری ایکٹ کر رہے ہو تم"
"ایسا آپ کو لگتا ہے مما ۔۔ "
"اس میں ایسی کوئی برائی بھی نہیں ہے آبان "
ان کی بات پر اس نے اپنا ماتھا مسلا۔۔
"مما یہ بات آپ کے زہن میں کس نے ڈالی ہے؟"
"کیا مطلب کس نے ڈالی ہے تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میری اپنی کوئی سوچ نہیں اور میں دوسروں کے اشاروں پر چلتی ہوں ؟"
بنفشے کو برا لگا تھا۔
"مما ۔۔۔ بالکل بھی یار کیا ہوگیا یے؟"بنفشے کے قدموں میں بیٹھتے وہ بے بس ہوا تھا ۔۔
"آبان پلوشہ اچھی لڑکی ہے"
"لڑکی کا تو پتا نہیں لیکن میرے لئے وہ چھوٹی بچی ہے"
"بس کردو انیس سال کی لڑکی کو بچی کہتے ہو شرم کرو کچھ ۔۔۔"
"بالکل بھی شرم نہیں کرنے والا میں"
"جب اسکے ماں باپ اور اسے اعتراض نہیں تو تم کیوں اعتراض کر رہے ہو؟"
ان کی بات پر اس نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
"بات بڑوں تک پہنچ گئی ہے اور آپ مجھے اب بتا رہی ہیں؟"
"ہاں تو؟"
"مما۔۔۔ "
"آبان کیا ضروری ہے ماضی کے پیچھے حال خراب کیا جائے ،؟"
وہ اسکی ماں تھیں کو کس حوالے سے مضطرب تھا اس سے بہتر کون جان سکتا تھا۔۔
"میرب ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ آبان تمہارا اس سب میں کوئی قصور نہیں میرے بیٹے"
اس کے سر پر ہاتھ رکھتے بنفشے نے نرمی سے اسے سمجھایا تھا۔
"پلوشہ چھوٹی ضرور ہے لیکن وہ سمجھ دار ہے اور سب سے بڑھ کر تم سے محبت کرتی ہے تمہاری عزت کرتی ہے۔۔ اگر رشتے میں یہ دنوں چیزیں ہوں تو زندگی سنور جاتی ہے آبان آگے فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے کوئی زبردستی نہیں ہے"
اسکا ہاتھ تھپکتے وہ اسے گہری سوچوں میں گم چھوڑ خود چلے گئی تھی ۔۔
_________
چھ مہینے بعد ۔۔۔۔
حویلی کے لان کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔
برقی قمقموں سے دولہن کی طرح سجی حویلی دیکھنے والے کو مہبوت کر رہی تھی۔
آج ان کی زندگی میں خوشیوں بھرا دن طلوع ہوا تھا۔
وائٹ گولڈ کامدار شرٹ اور غرارے میں ملبوس ماہے عالم کا چین و سکون برباد کر گئی تھی۔۔
"کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے؟"
اسکے پاس آتے اس نے زرا جھک کر سرگوشی کی۔
ماہے نے ایک نظر اسے دیکھا ۔
"کوئی اتنا بے شرم کیسے ہو سکتا ہے؟"
"چہ مسزز عالم چہ۔۔ ایک تو بندہ آپ کی تعریف کر رہا اور آپ ۔۔۔"
اس نے دانستہ بات ادھوری چھوڑی ۔۔
"بندہ جو ہر دوسرے منٹ آکر بنا کسی کی موجودگی کا لحاظ کرے اظہار کرتا پھر رہا اسے میں اور کیا کہوں مسٹر عالم ؟"
اس نے دانتوں تلے لب دبایا۔۔
"اسے جوروں کا غلام کہیں بے شرم کہنا تو بنتا ہی نہیں نا۔۔ آپ کا یہ عاشق آپ کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوبا "
"بس۔۔۔ عالم" وہ جانتی تھی وہ اسے ایسے ہی تنگ کر رہا ہے۔۔
"سب کیا سوچ رہے ہونگے اتنا بڑا آدمی کیسے فلرٹ کر رہا "
"کیوں کہیں گے فضول میں بیوی سے فلرٹ نہیں کروں گا تو کیا پڑوسن "
"سوچئے گا بھی ورنہ"ماہے کی تنبیہ پر اس نے دونوں ہاتھ کھڑے کئے ۔۔
"میری مجال میں ایسا کچھ سوچوں نا بابا نا" اس کے انداز پر ماہے کھلھلا کر ہنس دی۔۔
ان دونوں کو ایسے دیکھ بنفشے نے صدق دل سے ان دونوں کی دائمی خوشیوں کی دعا کی تھی۔۔
"آپ جائیں لالہ کے پاس میں اور میں لاتی ہوں اپنے لالہ کی دولہن کو"
"مجھے اپنی دولہن کو تو ٹھیک سے دیکھنے دو "
اس کے منہ بسورنے پر ماہے نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔
"جاتا ہوں نا"
خفگی سے کہتے وہ وہاں سے آبان کو لینے بڑا تھا جبکہ وہ مسکراتے اوپر پلوشہ کے پاس آئی تھی۔
جو اس وقت پسٹل کلر فراک پر نکاح کا دوپٹہ اوڑھے نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی۔
"ماشاءاللہ" ماہے نے بے اختیار کہا تھا۔
"آج تو آبان لالہ گئے کام سے ہیں نا ماہے؟"
آنسہ ہے شرارتی انداز پر جہاں وہ دونوں ہنسی تھیں وہیں پلوشہ نے شرم سے سر جھکایا تھا۔۔
دل میں ایک ڈر بھی تھا جب سے نکاح کی بات ہوئی تھی اسکا ایک بار بھی آبان سے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا اور اب جب وہ اپنے تمام حقوق اسکے نام کرنے والی تھی دل خوف سے سمٹا جا رہا تھا۔۔
آنے والے وقت کا سوچ اسکی ہتھیلیاں بھیگی تھی۔
کچھ دیر بعد ہی مولوی صاحب کے آنے کا شور اٹھا تھا۔
عالم اور واثق اس کے دائیں بائیں بیٹھے تھے ۔
سب کی موجوگی میں ایجاب و قبول کے مراحل طے ہوئے تھے اور وہ ہمیشہ کے لئے اس شخص کی ہوگئی تھی جس نے اس کے دل پر پہلی دستک دی تھی۔۔۔
_________
پھولوں کی حسین چادر تلے اپنے بھائیوں کے ہمراہ سیڑھیاں اترتے اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔
دور شادی کے گیت اسکے کانوں سے ٹکراتے اسکے حسین چہرے پر مسکراہٹ لانے کا سبب بنے تھے۔۔
لال جوڑا پہنے آنا ۔۔
آبان اسے دیکھ کھڑا ہوا تھا۔
ہاتھ مہندی والے لانا۔۔۔۔
رچائیں گے سنگ مل کے۔۔۔۔
ابان کا ہاتھ اسکی جانب بڑھا تھا
ساتھ کنگن لے کے آنا ،وہ بندھن لے کے آنا
نبھائیں گے سنگ مل کے۔۔۔
آبان نے اسکے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی۔
پلوشہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
نگاہوں کا تصادم ہوا تو دو دل ایک لے پر دھڑکے تھے ۔۔۔
"آبان یوسفزئی کی زندگی میں خوش آمدید مسزز آبان یوسفزئی"
وہ مسکرایا تھا اور پلوشہ کو لگا اسکے گرد بہار کا موسم اتر آیا ہو۔۔۔
انہیں خوش دیکھ ماہے نے عالم کے بازو کر سر ٹکایا تھا۔۔
سب کچھ مکمل ہوگیا تھا طویل مسافت کے بعد۔۔
خوشی سے جھومتی تتلیاں ان کے گرد رقصاں تھیں۔۔
بہار کا موسم اب دائمی رہنے والا تھا۔۔
کھڑکی میں کھڑی میرب نے حسرت سے ان سب کو دیکھا تھا۔۔
وہ کل ہی واپس آئی تھی اپنے دامن میں ڈھیروں پچھتاوے لئے۔۔
معافی مل گئی تھی لیکن دامن اب بھی اسکا خالی تھا آنکھوں میں ویرانی تھی۔
اس نے اپنے ہاتھوں سے خود کو برباد کیا تھا کسی سے شکوہ کرنا بنتا ہی نہیں تھا۔۔
اسکا علاج جاری تھا۔
ڈاکٹر خرم کی بدولت وہ بہت بہتر ہوگئی تھی لیکن ابھی بھی مکمل ٹھیک ہونا باقی تھا۔
معافی مل گئی تھی یہاں سب کے دل وسیع تھے لیکن وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو خود کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔
"میرب آجاؤ نا باہر؟"
ماہے کی آواز پر وہ کھڑکی سے ہٹتے اس نے نا میں سر ہلایا۔۔
"میں کیسے سب سے نظریں ملاؤں گی ماہے ؟"
"بھول جاؤ جو ہوا آگے بڑھو میری جان"ماہے نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھاما۔۔
"میرا دل کبھی اتنا بڑا نہیں رہا ماہے مجھے خود کو معاف کرنے میں وقت لگے گا اور جس دن میں نے خود کو معاف کردیا میں سب سے نظریں ملانے کے قابل سمجھوں گی۔۔۔ میرے لئے اتنا ہی بہت ہے کہ میرا انجام آرزو جیسا نہیں ہوا۔۔۔٫"
"تم بہت اچھی ہو میرو۔۔ خود کو کبھی اکیلا مت سمجھنا "
ماہے نے اسے یقین دلایا۔
وہ مسکرا دی۔۔
"تم جاؤ" اسکی ضد پر ماہے چلے گئی ۔۔
اسکے جاتے ہی وہ واپس کھڑکی کے پاس آئی تھی۔
اس نے نیچے آبان اور پلوشہ کو دیکھا تھا آبان اسکے کان میں سرگوشی کر رہا تھا جس پر خوشی کے ناجانے کتنے رنگوں نے اسکے چہرے پر بسیرا کیا تھا۔۔
"میری یہی سزا ہے ماہے کہ میں کبھی کسی سے نظریں نا ملا سکوں۔۔ لوگ مجھے ترحم بھری نظروں سے دیکھیں میں نے سب کو برباد کرنے کی خاطر خود کو برباد کرلیا۔۔ "
خود سے کہتے اس نے ایک بار پھر ماہے کو دیکھا جو عالم کے گال سہلاتے بہت توجہ سے اسکی بات سن رہی تھی اور پھر اسکے گال سرخ ہوئے تھے۔
عالم نے شرارتی نظروں سے دیکھا اور وہ خفگی سے رخ موڑ گئی۔۔
ان کو دیکھ وہ مسکرائی تھی۔۔
"دیکھنا ایک دم ایسی بہاریں میری بیٹی کی زندگی میں بھی اتریں گی اور وہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت دولہن بنے گی"
زین کی آواز پر اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔۔
عائشہ نے آگے بڑھ کر اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔
ماں باپ کے دل کتنے وسیع ہوتے ہیں وہ جان گئی تھی ۔۔
آنکھوں میں نمکین سیال بھرنے لگا تھا۔
"میں ایک اچھی بیٹی بننا چاہتی ہوں بابا" زین کے سینے سے لگے وہ نم آواز میں کہتی ان دونوں کا دل چیر گئی۔۔
"میری بیٹی بہت اچھی ہے بس غلط رستوں پر بھٹک گئی تھی لیکن اب واپس آگئی ہے۔۔۔ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے" اسے کے ماتھے پر پیار کرتے زین نے اسے اپنے حصار میں قید کیا اور اپنے ساتھ لئے نیچے آئے تھے۔
عالم اور ماہے نے مسکراتی نظروں سے ان سب کو دیکھا تھا۔۔
محبت جیت گئی اور نفرت ہار گئی تھی۔۔۔
"آپ میرا دل لے گئی ہیں ماہے عالم"
عالم کی سرگوشی پر وہ ایک بار مسکرائی تھی۔
عالم کے ہاتھ پر اسکی گرفت مزید مضبوط ہوئی تھی۔۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Dil Man Raft Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil Man Raft written by Fari Islam . Dil Man Raft by Fari Islam is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment